Khutbat-eTahir Vol 6 1987

Khutbat-eTahir Vol 6 1987

خطبات طاہر (جلد 6۔ 1987ء)

Author: Hazrat Mirza Tahir Ahmad

Language: UR

UR
Miscellaneous

Book Content

Page 1

نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر ۶ حضرت مرزا طا ہراحمد خلیفتہ امسح الرابع رحمہ اللہ

Page 2

نمبر شمار خطبه فرموده 1 ۳ と 3 ۶ ۷ ง > ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ فهرست خطبات عنوان 2 جنوری 1987ء نئے سال کی مبارکباد، مالی قربانی اور وقف جدید کے نئے سال کا اعلان 9 جنوری 1987ء وقت کی تعریف، اپنے وقت کی قدر کریں 16 جنوری 1987ء سیرت رسول کا مطالعہ اور اس پر عمل کی تلقین نیز لجنہ ہال کے لئے مالی تحریک 23 جنوری 1987ء صد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کا جائزہ اور قربانی کی تحریک 30 جنوری 1987 ء صد سالہ جو بلی کے جشن کے لئے دعوت الی اللہ کے میدان میں تیزی پیدا کریں 6 فروری 1987ء جماعت احمدیہ کے سوسال پورے ہونے پر جماعت کو بعض تیاریوں کی تلقین 13 فروری 1987 ء آخرت پر یقین کی لطیف تفسیر فتح دین پر یقین کامل رکھتے ہوئے دعوت الی اللہ تیز کریں 20 فروری 1987 ء پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم ، اصحاب کہف کی تاریخ دہرائی جارہی ہے 27 فروری 1987 ء | جماعت احمدیہ کے خلاف کارروائیاں ، جہلم میں ہونے والی شہادت 6/ مارچ 1987ء منافقین کی تعریف، علماء کو مقابلے کا چیلنج، حضرت مسیح موعود کا عشق رسول 13 / مارچ 1987ء اپنے اور اولاد کے تقویٰ کی فکر کریں 20 / مارچ 1987ء تقویٰ اور محبت الہی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تقوی آنحضور سے سیکھیں 27 / مارچ 1987ء محبت الہی ہے تو آنحضور علیہ کی پیروی کریں یہ محبت میں بڑھا دے گی 3 اپریل 1987ء محبت الہی و محبت رسول کا مضمون نیز عظیم الشان تحریک وقف نو کا اعلان صفح مبر 1 ۲۱ ۳۷ ۴۷ 4 ۸۳ 1+1 ۱۱۵ ۱۳۷ ۱۴۹ ۱۷۳ ۱۹۱ 1 ۲۱۱ ۲۳۱ ۱۵ 10 اپریل 1987 ء مبارک دوشنبہ اور فرائیڈے دی ٹیلتھ کے تناظر میں تاریخی اہمیت کی حامل خوشخبریاں ۲۵۱ ۱۶ 17 را پریل 1987 ء جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پرمحبت الہی اور تقوی کی لطیف تفسیر ، بہترین زادراہ تقوی ہے 12 24 اپریل 1987 ء | روزے حصول تقومی اور حصول لقائے باری تعالیٰ کا ذریعہ ہیں ۱۸ یکم مئی 1987ء اللہ کی محبت کی خاطر مشکلات پر صبر کریں ۲۵۹ ۲۸۳ ۲۹۵

Page 3

نمبر شمار خطبہ جمعہ عنوان صفحہ نمبر ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ 8 رمئی 1987ء صاحب برکت لوگوں سے وفا کریں ، حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات پر ذکر خیر ۳۱۳ 15 مئی 1987 ء بزرگوں کی نیکیوں کو زندہ رکھیں نیز رمضان کی نیکیوں کو دوام بخشیں 22 رمئی 1987 ء جھوٹ کے خلاف جہاداور لین دین کے معاملات درست کرنے کی تلقین 29 رمئی 1987ء عید کے دن جمعہ کا مسئلہ نیز رمضان کے بعد تعلق باللہ میں اضافہ کی تلقین 5 جون 1987ء مالی قربانی تزکیہ نفس کا باعث ہے ہر شخص بلا استثناء مالی قربانی میں حصہ لے 12 / جوان 1987 ء یورپ کو اپنی خوبیاں دیں اور ان کی خوبیاں لیں نیز دعا میں وسعت پیدا کریں 19 جون 1987ء پاکستان میں احمدیوں پر ہونیوالے مظالم احمدی مظلومین کے بارے میں حضور کی رؤیا 26 جون 1987 ابتلاء کا فلسفہ 3 جولائی 1987ء مالی سال کی کامیاب کارکردگی اور چندہ صد سالہ جو بلی کی طرف توجہ کی تحریک ۳۲۷ ۳۴۵ ۳۷۵ ۳۸۷ ۴۰۵ ۴۲۳ ۴۴۱ 10 / جولائی 1987 ء وقف نو بچوں کے دل میں خدا کی محبت بھر دیں تا کہ یہ دوسرے بچوں سے مختلف نظر آئیں ۴۴۹ 1987/179 E ۳۱ ۳۲ E ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ 17 / جولائی 1987 ء مالی قربانی کے جاری مضمون کا مزید بیان نیز کارکنان جلسہ کو ضروری ہدایات 24 جولائی 1987 ء اللہ تعالی کی رسی کو مضبوطی سے تھا میں.امراء انکساری اور وحدت پیدا کریں 31 جولائی 1987ء پاکستانی احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر اور ان کے لئے دعا کی تحریک 7 اگست 1987 ء پاکیزگی اختیار کریں ، بیوت الذکر، گھروں اور گلیوں کو صاف اور مزین کرنے کی تلقین کو 14 اگست 1987 ء | عہدیداران کمزور اور خاموش بیٹھ رہنے والوں کو خدمت دین میں لگائیں 21 اگست 1987ء بیت الذکر ہالینڈ کو آگ لگانے کی کوشش پر وسیع بیت الذکر کی تعمیر کا اعلان 28 اگست 1987 ء سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری دعوت الی اللہ ہے.عہد یداران کو دعوت الی اللہ کی تلقین 11 ستمبر 1987ء دورہ یورپ کے حالات مختلف اقوام میں دعوت الی اللہ تیز کرنے کی نصیحت 18 ستمبر 1987 ء | بنگلہ دیش میں مخالفانہ کاروائیاں، بیوت الحمد اور تحریک شدھی کے لئے مالی تحریک 25 ستمبر 1987ء افواہ، حسد اور غیبت کی بیماری سے بچنے کے لئے اہل ربوہ کو خصوصا تلقین ۴۸۵ ۵۰۳ ۵۱۹ ۵۳۵ ۵۵۱ ۵۶۱ ۵۷۵ ۵۹۱ ۶۰۷

Page 4

نمر شمار خطبه جمعه ۳۹ ۴۰ ام ۴۲ ۴۳ ३ ۴۴ ۴۵ { ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ عنوان 2 اکتوبر 1987 ء - امریکی احمدیوں کو نصائح.اپنا سب کچھ اللہ کے سپر د کر کے اسکی حفاظت میں آجائیں.9 را کتوبر 1987 ء دنیا کی نجات کا واحد رستہ سیرۃ النبی کی پیروی ہے.امریکہ کو دین کا قلعہ بنادیں صفحہ نمبر ۶۲۵ ۶۴۳ ۶۵۹ 16 اکتوبر 1987 ء اپنے اندر عظمت کردار پیدا کریں.سفید وسیاہ فام کی تفریق احمدیت میں نہیں 23 اکتوبر 1987 ء اپنی ذات کے خلاؤں کو نیکیوں سے پر کر دیں.مغربی معاشرہ آپ پر اثر انداز نہیں ہوگا ۶۸۳ 30 اکتوبر 1987 ء | تحریک جدید کے سال نو کا اعلان نیز دفتر اول کے کھاتوں کو زندہ کرنے کی تلقین 6 نومبر 1987ء دورہ کینیڈا.الزراع کی لطیف تشریح اور دعوت الی اللہ کی تلقین ۷۰۵ ۷۳۱ 13 نومبر 1987ء دین حق کا عالمی مزاج قائم کریں اور حبل اللہ یعنی خلافت کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ۷۴۷ ۷۶۷ 20 رنومبر 1987ء | دورہ امریکہ کے ایمان افروز حالات اور جماعت کو داعی الی اللہ بننے کی تلقین 27 نومبر 1987 ء جماعت میں جو شخص اپنے منصب سے ہٹ کر معاملہ کرتا ہے اس سے فساد پیدا ہوتا ہے ۷۸۳ 4 /دسمبر 1987ء 11 / دسمبر 1987ء شفاعت کے مضمون کی لطیف تشریح غلبہ دین کے ذرائع صبر،استغفار اور انکسار 18 دسمبر 1987 ء ناقابل تسخیر بننے کے لئے موحد بننا ضروری ہے ، عبادت سے شرک کی بیخ کنی کریں 25 دسمبر 1987ء وقف جدید کے سالِ نو کا اعلان نوٹ : مؤرخہ 4 ستمبر 1987ء کو بوجہ سفر نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی.۸۰۱ ۸۱۵

Page 5

خطبات طاہر جلد ۶ 1 خطبہ جمعہ ۲/ جنوری ۱۹۸۷ء نئے سال کی مبارکباد، مالی قربانی اور وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۲ / جنوری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَالَّذِينَ تَبَوَّةُ الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى اَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ پھر فرمایا:.(الحشر: ۱۰) اس آیت میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا آج کے خطبہ سے ایک گہرا تعلق ہے لیکن اس سے پہلے کہ میں خطبہ کے اس مرکزی حصے کی طرف آؤں ابتدائی چند باتیں آج کے وقت سے تعلق رکھنے والی آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وقت تو ایک گزرتی ہوئی قدر ہے جس پہ کہیں ہاتھ نہیں رکھا جاسکتا کہیں انگلی اس پر کائی نہیں جاسکتی.ماضی حال میں اور حال مستقبل میں مسلسل اس طرح بدلتے چلے جارہے ہیں کہ ان کے وقت کا کوئی حصہ بھی کسی لمحے کسی لمحے کے کروڑویں حصے پہ بھی معین نہیں کیا جاسکتا کیونکہ پیشتر اس سے کہ

Page 6

خطبات طاہر جلد ۶ 2 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء آپ اسے کہیں معین کریں وہ وقت یا ماضی بن چکا ہوگا یا ابھی آیا ہی نہیں ہوگا ، آپ کو انتظار کرنا پڑے گا اور جب آئے گا تو پیشتر اس کے کہ آپ کا ذہن اس کا تصور بھی کر سکے وہ ماضی میں گزر جاتا ہے اور ہم ہر اس چیز کو گزرتے ہوئے وقت کو حال سمجھ رہے ہیں کیونکہ نہ ماضی سے ہمارا تعلق ہے درحقیقت، وہ ما ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے نہ مستقبل سے کوئی تعلق ہے کیونکہ اس کا ایک مہم انتظار ہے اور جو ہے وہ ہمیں حال دکھائی دیتا ہے جو ہے ہی نہیں دراصل.عجیب خدا تعالیٰ نے اس کائنات کو ہمارے لئے بظاہر نہایت ہی زیادہ ٹھوس بھی بنایا اور سوچنے والوں کے لئے یہ پیغام بھی رکھ دیا کہ اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں.صرف وقت کا مالک ہے جس کے نزدیک ماضی بھی ہے، حال بھی ہے، مستقبل بھی ہے اور اس کے سوا کوئی بھی مالک نہیں ہے لیکن اس کے باوجود انسان کچھ پیمانے گھڑ لیتا ہے اور وہ پیمانے بھی درحقیقت یہ کہنا چاہئے کہ اس کے اپنے گھڑے ہوئے نہیں ہیں.قدرت نے اس کی ذہنی سوچوں کو آسان کرنے کے لئے حوالے دینے کے لئے اپنے زندگی کے لائحہ عمل کو مرتب کرنے کے لئے ، وقت کو مختلف ادوار سے باندھ رکھا ہے اور ان ادوار کے حوالے سے انسان وقت کا ایک تصور قائم کر لیتا ہے.ساری کائنات میں ایک وقت نہیں ہے.ہر وقت کا تصور اللہ تعالیٰ نے کسی دور سے باندھ رکھا ہے.جسے ہم چوبیس گھنٹے کا دن کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ زمین گردش کر کے خاص اس مقام پر واپس آجائے جہاں سے کسی لمحے چلی تھی اور اس مقام کی تعیین کرنا چاہیں تو آپ نہیں کر سکتے کیونکہ وہ ایک مسلسل گزرتا ہوا وقت ہے لیکن جائزہ کے بعد یہ اندازہ ہو گیا کہ 23 گھنٹے کچھ منٹ یعنی 24 کے لگ بھگ چند سیکنڈ کم میں یہ زمین لازماً پھر وہاں پہنچے گی اس نسبت سے ہر وقت جب یہ زمین چکر لگاتی ہے تو ہمارا وقت کا پیمانہ 24 گھنٹے منتقل ہو جاتا ہے کم بیش اور جب سال کا چکر لگاتی ہے تو تین سو پینسٹھ دن میں سے چند سیکنڈ کم یہ چکر بنتا ہے ایک سال کا.اپنی ذات میں اس کی کچھ بھی قیمت نہیں.ہزار دفعہ زمین گردش کر جائے اس سے انسان کو کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک گردش کے بعد دوسری گردش کیوں بہتر ہو پہلی سے، اس کا جغرافیہ سے کوئی تعلق نہیں.انسان ہے جس کو خدا تعالیٰ موقع دیتا ہے کہ ہر گردش میں اپنی حالت بدلے اور اپنے وقت کا اس دوران میں جو وقت اس کو ملا ہے اس کا ایسا استعمال کرے کہ جب دوبارہ اس کا سر وہاں ابھرے جہاں ڈوبا تھا، جہاں وہ نشان لگا چکا ہے کہ اس وقت میرا ایک دور پورا ہو گا تو

Page 7

خطبات طاہر جلد ۶ 3 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء پہلے سے بہتر حالت میں اُبھرے.اس کے سوا اس دورانی گردش کا اور کوئی بھی مفہوم نہیں.پس جو کچھ بدلتا ہے وہ انسان یا اس کا گرد و پیش ہے.وقت ایک بظاہر گھومتی ہوئی چیز ہے لیکن کچھ بھی نہیں ہے.محض ایک تصور ہے.جو چیز گھوم رہی ہے ، جو چیز حرکت میں ہے، وہ اس پیمانے کے اندر پڑی ہوئی کوئی چیز ہے جو ڈھل رہی ہے مختلف شکلوں میں.اگر وہ بہتر نہ ہو تو محض وقت کے گزرنے کا کچھ بھی پیغام نہیں کوئی بھی اس کا معنی نہیں.لیکن انسان عجیب خود فراموش چیز ہے کہ حقیقت کو تو فراموش کر دیتا ہے جو اصلیت ہے اور وقت کے ظاہری پیمانے کو پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے اور اس کے ساتھ اپنی خوشیاں وابستہ کر لیتا ہے.چنانچہ اب یہ جمعہ اس نئے سال کا جمعہ ہے جس میں ہم داخل ہو چکے ہیں.اس سے پہلے مغرب نے اپنی خوشیاں اس نئے سال کے دور سے اس طرح وابستہ کیں کہ اتنی شراب پی ، اتنا غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا کہ سارے یورپین اور مغربی دوسرے ممالک میں پولیس کو کبھی بھی اتنا مصروف نہیں ہونا پڑا جتنا اس نئے سال کے آغاز میں مصروف ہونا پڑا.مصیبت پڑی ہوئی تھی کس طرح ان لوگوں کو سنبھالیں اور اظہار یہ ہے کہ نیا سال چڑھا ہے خوشیوں کا وقت ہے ،اس لئے ان خوشیوں کا اظہار گناہوں کے ذریعے کیا جائے، غیر ذمہ داری کے ذریعے کیا جائے.اور کروڑہا کروڑ روپیہ، ڈالرز اور پاؤنڈز کی شکل میں ایک دوسرے کو مبارکباد کے پیغام دینے پر خرچ ہوا.سوال یہ ہے کس چیز کی مبارک باد ہے؟ وقت کے پہیہ گھومنے میں تو تمہارا ایک ذرے کا بھی دخل نہیں.کس کوشش کس محنت سے یہ پھنسا ہوا پہیہ تم نے نکالا تھا کہ اب اسے دوبارہ چلانے کی خوشی میں تم ایک دو سرے کو مبارکبادیں دے رہے ہو.کیا واقعہ گزرا ہے جس کے نتیجے میں مبارکباد کا انسان مستحق ہوا ہے.اس لئے اس سے پہلو سے اگر آپ اس رسم کا جائزہ لیں تو بالکل بے معنی اور کھوکھلی رسم ہے اس میں کچھ بھی حقیقت نہیں.لیکن مومن کے اوپر بھی یہ دور آتا ہے مومن بھی ہر دفعہ اس دور کے ایک خاص مقام پر سے گزرتا ہے جہاں وقت کے لحاظ سے اس نے ایک نشان لگا رکھا ہے کہ یہ 1946ء کا نشان ہے یہ 47ء کا یہ 48ء کا یہ 49ء کا یہ 50 ء کا اور اس طرح یہ نشان آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں.اس کے

Page 8

خطبات طاہر جلد ۶ 4 خطبہ جمعہ ۲ / جنوری ۱۹۸۷ء دل میں بھی خیال آتا ہے کہ میں بھی مبارک بادروں ، وہ بھی خوشیوں کا اظہار کرتا ہے.لیکن اگر وہ حقیقی طور پر عارف ہے تو اس خوشی کے اظہار کی اس کو قیمت دینی پڑے گی اور بے قیمت اور بے مقصد اور بے وجہ اس کی خوشی کا اظہار اس پر پھبتا نہیں ، اس کے لئے جائز نہیں کیونکہ ایک مومن کا رد عمل ایک کافر کے رد عمل سے بالکل مختلف ہونا چاہئے معنی خیز ہونا چاہئے ، کوئی زندگی کا اس کا حصہ لغو میں شمار نہیں ہونا چاہئے.تو مبارک باد تو دینے کا مومن کا بھی دل چاہتا ہے، اس کا حق بھی ہے بلکہ اگر غور کریں تو صرف اسی کا حق ہے.لیکن اس مبارکباد کی کچھ اس کو قیمت دینی ہوگی.مبارک بادان معنوں میں وہ دے سکتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے میرے ذمے جو دنیا کے حالات بدلنے کی اہم ذمہ داری ڈالی ہے، میں مبارک باد تمہیں دیتا ہوں اے میرے بھائیوں ! میری بہنو! میری بیویو! میرے بچو! میرے بڑو اور میرے چھوٹو اے مسلمانو ! اور غیر مسلمو! میں تمہیں مبارکباد دیتا ہوں کہ میں ایک نئے عزم کے ساتھ اس سال میں داخل ہورہا ہوں کہ مجھ سے تم تک بھلائی پہلے سے زیادہ قوت اور شدت کے ساتھ پھوٹے گی ، پھوٹ کر پہنچے گی اور میں بالا رادہ کوشش یہ کروں گا کہ میرا فیض نسبتا زیادہ عام ہو، اس میں پہلے سے زیادہ قوت ہو اور اس میں کم تعصبات پائے جائیں.میں پہلے سے بڑھ کر کوشش کروں گا کہ سب سے بڑا فیض رسان وجود یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ کا فیض جس طرح ہر خاص و عام کے لئے عام تھا، ہر شرق و غرب میں بسنے والے کے لئے عام تھا ، انسانوں کے لئے بھی تھا اور جانوروں کے لئے بھی تھا، جانداروں کے لئے بھی تھا اور بے جانوں کے لئے بھی تھا.اسی طرح میں بھی اپنے فیض کو ہر اس سمت میں آگے بڑھانے کی کوشش کروں گا جس سمت میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا فیض موجیں مارتا ہوا بڑھتا رہا.یہ عہد لے کر جب ایک مومن ایک وقت کے نئے دور میں داخل ہوتا ہے تو اس کا حق ہے کہ وہ دوسروں کو مبارک باد دے اور وہ مستحق ہے کہ اسے مبارکباددی جائے کیونکہ اس کے اوپر قرآن کریم کی اس آیت کا بھی اطلاق ہو گا:.وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَّكَ مِنَ الأولى (الضعي: ۵) خدا اس سے مخاطب کر کے، اس کی تقدیر اس کو

Page 9

خطبات طاہر جلد ۶ 5 خطبہ جمعہ ۲ /جنوری ۱۹۸۷ء مخاطب کر کے کہے گی کہ تم نے میرے اس بندے کی متابعت کی ہے، میرے اس بندے کی پیروی کی ہے، جس کے متعلق میرا یہ اعلان ہے وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولیٰ کہ تیرا ہر آنے والا لمحہ ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جائے گا.پس اسی کی پیروی کے صدقے ہم تجھ سے بھی وعدہ کرتے ہیں کہ تیرا بھی ہر آنے وال لمحہ تیرے ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جائے گا.پس ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں پر بھروسہ کرتے ہوئے اور یہ امید رکھتے ہوئے کہ وہ میرے نیک ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی مجھے توفیق بخشے گا اور آپ کے نیک ارادوں کو عمل میں ڈھالنے کی آپ کو توفیق بخشے گا.میں آپ کو یعنی ساری جماعت احمد یہ عالمگیر کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں اور تمام جماعت احمد یہ عالمگیر کی نمائندگی میں تمام بنی نوع انسان کو نئے سال کی مبارکباد پیش کرتا ہوں ، اس یقین دہانی کے ساتھ کہ ہم ہر ممکن کوشش کریں گے کہ ہمارا فیض تم تک پہلے سے زیادہ سمتوں سے، زیادہ بھر پور طور پر پہنچتا رہے.اللہ کرے ہمیں اس عہد کو نبھانے کی توفیق ملے اور ہمارا یہ سال اس طرح ختم ہو کہ گزرتا ہوا وقت ہمیں مبارکباد دے رہا ہو کہ تم نے اپنے مبارک عہد کو خوب نبھایا.دوسرا حصہ اس مضمون کا اس آیت کریمہ سے تعلق رکھتا ہے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی تھی.اس میں مومنوں کی بعض صفات بیان کی گئیں ہیں اور جہاں تک مفسرین کا تعلق ہے وہ اس ضمن میں ایک مدینہ میں ہونے والے واقعہ کا ذکر کرتے ہیں کہ اس آیت کی شان نزول وہ واقعہ ہے.وہ واقعہ بہت خوبصورت، بڑا دلکش ہے، بہت اثر پذیر ہے.لیکن قرآن کریم کی کسی آیت کا تعلق ماضی کے کسی واقعہ سے اس طرح باندھا نہیں جاسکتا کہ یہ آیت ماضی کی ہو کر رہ جائے.یہ بھی وقت کی طرح ایسا جاری مضمون ہے قرآن کریم کا کہ ہمیشہ کسی ایک لمحہ بھی ، ایک لمحے کے کروڑو میں حصہ میں بھی اس کے کسی مضمون کو اس طرح قرار نہیں آتا کہ وہاں ٹھہر جائے.وقت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کا مضمون ہر جہت میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے اور ہر نئی صورت حال پر نئے رنگ میں اثر انداز بھی ہوتا جاتا ہے اور اس پر اطلاق بھی پاتا چلا جاتا ہے.اس لئے جب بھی شان نزول کا کوئی واقعہ بیان کیا جائے تو اس سے یہ مراد نہیں لینی چاہئے کہ صرف اس واقعہ کی خاطر یہ آیت نازل ہوئی تھی بلکہ مراد یہ

Page 10

خطبات طاہر جلد ۶ 6 خطبہ جمعہ ۲ / جنوری ۱۹۸۷ء ہے کہ قرآن کریم نے نازل ہونا تھا بہر حال، اس کے نزول میں بھی ایک عجیب شان ہے کہ برحل نزول ہوا ہے.قرآن کریم کے دور میں جب بھی کوئی ایسا واقعہ نمودار ہوا جس کے ساتھ کوئی آیت قریب تر تعلق رکھتی تھی تو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا نزول اس وقت کے لئے اٹھارکھا جب وہ واقعہ رونما ہو اور اس کے ساتھ اس کا تعلق باندھ دیا تا کہ اس کے نزول کے ساتھ ساتھ اس کی تفہیم بھی ہوتی رہے کہ کس قسم کے مضامین ہیں جن کا ان آیات سے تعلق ہے.پس شان نزول سے صرف اتنی مراد ہے.وہ جو واقعہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک دفعہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے پاس ایسے مہمان پہنچے جن کو ٹھہرانے کے لئے آنحضور ﷺ کے پاس کوئی خاص جگہ نہیں تھی.آپ نے اس پر اعلان فرمایا کہ کوئی ہے جو میرے مہمانوں کو اپنے گھر لے جائے.وہ بڑی غربت کا دور تھا اور اس آیت کریمہ سے بھی پتا چلتا ہے کہ وہ دن خصوصیت کے ساتھ مسلمانوں پر انتہائی غربت کے تھے.اس وقت انصار میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میں حاضر ہوں.آپ کا مہمان میرا مہمان ہے، میں اپنے گھر لے جاؤں گا.چنانچہ آپ نے اس کو اس بات کی اجازت دی.لیکن اس واقعہ کو بقیہ حصہ بیان کرنے سے پہلے مجھے یاد آیا کہ اس آیت کا ترجمہ کردینا چاہئے کیونکہ ہمارے بہت سے نوجوان ایسے ہوں گے جن کو اس کا ترجمہ نہ آتا ہو گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.وَالَّذِيْنَ تَبَوَّةُ الدَّارَ وَالْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ یعنی انصار جو مدینے کے بسنے والے ہیں یہ مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی ان گھروں میں بستے تھے ، مدینہ کو آباد رکھے ہوئے تھے اور ان کے پہنچنے سے پہلے ہی یہ ایمان بھی قبول کر چکے تھے چنانچہ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ جو لوگ بھی ہجرت کر کے ان کی طرف آتے تھے ان سے گھبراتے نہیں تھے بلکہ بہت محبت کرتے تھے.ان کے گھر تھے جن کو باہر سے آنے والوں نے آباد ان معنوں میں کرنا تھا کہ ان کے گھر سے حصہ پانا تھا ان کے اموال میں شریک ہونا تھا.ان کے او پر دنیا کے لحاظ سے، دنیا کی زبان میں ایک بوجھ بننا تھا مگر یہ ایسے عجیب لوگ ہیں کہ ان کے آنے سے ان کے دل میں تنگی محسوس نہیں ہوئی بلکہ آنے والوں سے بہت ہی محبت کرتے تھے

Page 11

خطبات طاہر جلد ۶ 7 خطبہ جمعہ ۲/ جنوری ۱۹۸۷ء وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا اور اللہ اور اس کے رسول جو کچھ بھی ان آنے والے کو دیتے تھے خدا تعالیٰ کی طرف سے دیئے ہوئے اموال میں سے، اس پران کے دل میں ذرا بھی تنگی محسوس نہیں ہوتی تھی کہ ہم خرچ کر رہے ہیں ، ہم قربانیاں کر رہے ہیں ، جب اللہ تعالیٰ غنیمت کا مال عطا کرتا ہے تو یہ مہاجرین کو دے دیتے ہیں اور انصار جن پر ان کا بے حد قرضہ ہو چکا ہے، جو اپنے اموال میں شریک کر کے ان کے سارے بوجھ اُٹھائے ہوئے ہیں ان کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے.اس قسم کا کوئی خیال، کوئی وہمہ بھی ان کے دل میں نہیں آتا تھا بلکہ وہ خوشی محسوس کرتے تھے کہ ہمارے محبوبوں کو خدا تعالیٰ کچھ اور عطا فرمارہا ہے.اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جب ان کو کچھ دیا جاتا تھا تو اس کے لئے کچھ حاجت محسوس نہیں کرتے تھے، یعنی ان کی نظر میں کوئی حرص نہیں تھی، کوئی لالچ نہیں تھی.یہ نہیں تھا کہ اپنے جذبے دبا کے بیٹھے ہوئے ہیں.منہ سے تو نہیں مانگتے لیکن دل میں بے قرار تمنا ہے کہ کسی طرح ہمیں بھی کچھ مل جائے بلکہ ملتا تھا بھی تب بھی اپنے آپ میں کوئی ایسی رغبت محسوس نہیں کرتے تھے کہ گویا تمنا کے بعد کوئی چیز ملی ہے.مگر انکار بھی نہیں کرتے تھے کیونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھوں سے ایک تنکا بھی کسی کو ملتا تھا تو وہ اپنی عزت افزائی سمجھتا تھا.پھر فرماتا ہے وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ یہ عجب لوگ ہیں کہ جن کے اندر یہ ایثار کی حسین عادتیں، یہ دلکش اطوار اس لئے نہیں ہیں کہ یہ بہت امیر ہیں.امارت کی وجہ سے، اموال کی کثرت کی وجہ سے ان کو ضرورت ، فرق کوئی نہیں پڑتا.فرمایا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ یہ اپنے نفسوں پر اللہ کی راہ میں آنے والوں کو، اور دوسروں کی ضروریات کو اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کو اپنے نفسوں پر ترجیح دیتے ہیں باوجود اس کے خود سخت تنگی میں مبتلا ہوتے ہیں.یعنی ان میں ایسے بھی ہیں جو خود شدید غربت کا شکار ہیں لیکن اس کے باوجود اپنے اوپر اسلام کی ضرورتوں کو ترجیح دے رہے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں لذت پا رہے ہیں وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ

Page 12

خطبات طاہر جلد ۶ 8 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ شخص یا وہ لوگ جن کو دل کے بخل سے بچالیا گیا ہے، جن کے دل کو خدا نے کشادگی عطا فرما دی ہے فَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں.اب یہ واقعہ ہے جو میں بیان کر رہا تھا، بیان کیا جاتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد اس واقعہ کی تحسین میں اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا نزول فرمایا.وہ انصاری جو مہمان کو گھر لے گئے ، اس آیت کے مضمون سے اندازہ ہوتا ہے اگر چہ روایت میں درج نہیں کہ کوئی نئے مہاجر آ ئیں ہو نگے کیونکہ اس کا انصار اور مہاجر سے خاص تعلق ہے.بہر حال جو بھی وہ تھے مہمان، آنحضور ﷺ نے ان کو اپنے ایک نہایت ہی عاشق غلام کے سپر د کر دیا.انہوں نے گھر جا کر اپنی بیوی سے کہا کہ کھانا تو صرف اتنا ہی ہے جتنا تمہارے لئے اور میرے لئے اور بچوں کے لئے مشکل سے پورا آسکتا ہے بلکہ اتنا بھی نہیں ہے.ہم تو گزارہ کر لیتے مگر میں ایک بہت ہی معزز مہمان لے کے آیا ہوں جو اللہ اور رسول کا مہمان ہے.اس لئے میں تمہیں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح بھی ہو سکے بچوں کولوریاں دے کر سلا دو اور جب ہم کھانے پر بیٹھیں تو تم پلا مار کے دیا بجھا دینا پھر ہم منہ سے ایسی آوازیں نکالیں گے کہ جس طرح کوئی کھا رہا ہوتا ہے اور مہمان اس اطمینان سے کہ میرے میزبان بھی ساتھ کھارہے ہیں خوب پیٹ بھر کے کھانا کھائے گا اور صرف اسی کو کافی ہوگا.چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا.جس وقت یہ واقعہ گزر رہا تھا اس وقت حضرت اقدس محمد ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر دی اور یہ آیت کریمہ اس واقعہ کی شان میں نازل فرمائی.صبح نماز کے وقت آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان کیا کہ رات اس مدینہ میں ایک ایسا حسین واقعہ گزرا ہے ، ایک ایسا دلکش واقعہ گزرا ہے کہ آسمان پر خدا ہنس رہا تھا اس واقعہ کو دیکھ کر اور خدا لذت پارہا تھا اس واقعہ سے.(بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر: ۳۵۱۴) عجیب واقعہ ہے کہ وہ کھانا کہ جس کی لذت سے وہ محروم تھے جو کھانا پیش کر رہے تھے، اس کی لذت آسمان پر خدا محسوس کر رہا تھا.وہ روحانی لذت جو انکو محسوس ہوئی یہ اسی لذت کی طرف اشارہ ہے.ایسا ہی انہوں نے کیا اور مہمان نے خوب پیٹ بھر کر کھانا کھایا اور اپنی طرف سے، اس اندھیرے میں جس میں مہمان بھی ان کو نہیں دیکھ رہا تھا، وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ ہم پوری طرح دنیا کی ہر دوسری چیز کی نظر سے غائب ہیں ، اوجھل ہیں اور اللہ تعالیٰ اس چیز کو دیکھ بھی رہا تھا، اس چیز سے لطف

Page 13

خطبات طاہر جلد ۶ 9 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء بھی اٹھارہا تھا.یہ دیکھ رہا تھا اس چیز سے لطف اُٹھا رہا تھا کہ میرے بندے محمد ﷺ نے ان عربوں کو کس قعر مذلت سے اُٹھا کر کس شان کے آسمان تک بلند کر دیا ہے، کہاں پہنچا دیا ہے ان کو پھر اس واقعہ کی خبر بھی وہ دے رہا تھا.تو ستاری کا معاملہ بھی خدا کا عجیب ہے.اپنے پیاروں کی ان کی کمزوریوں اور گناہوں میں ستاری فرماتا ہے اور جس چیز کو وہ چھپا رہے ہیں، جن نیکیوں کو وہ ڈھانپ رہے ہیں کہ دنیا کی نظر میں نہ آجائیں بعض دفعہ خود ان کی تشہیر فرما دیتا ہے، خود ساری دنیا کو ان سے مطلع کر دیتا ہے.جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج جس دور سے گزر رہی ہے اس پر بھی قرآن کریم کی اس آیت کریمہ کا عجیب شان سے اطلاق ہورہا ہے.انتہائی تکلیفوں کے دور میں بھی ، انتہائی مشکلات کے دور میں بھی ، خدا کی راہ میں قربانی دینے میں اس جماعت کا قدم نہ صرف یہ کہ آگے بڑھ رہا ہے بلکہ پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے.نہ صرف یہ کہ ان علاقوں میں آگے بڑھ رہا ہے جہاں مصائب اور مشکلات نہیں ہیں بلکہ ان علاقوں میں آگے بڑھ رہا ہے جہاں حد سے زیادہ مصائب اور مشکلات ہیں.کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں ہے خدا کی راہ میں قربانی کرنے کا جس میں پاکستان کی جماعتیں ایک لمحہ کے لئے بھی پیچھے ہٹی ہوں.ہر نیکی کے میدان میں خدا کے فضل سے وہ آگے بڑھتی چلی جارہی ہیں.آج میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.اس سال میں بھی خدا کے فضل سے ساری جماعت کو ، ساری عالمگیر جماعت کو جہاں دیگر مالی اور جسمانی اور روحانی قربانیوں میں آگے قدم بڑھانے کی توفیق ملی وہاں وقف جدید میں بھی خدا کے فضل سے ہر پہلو سے ہر جہت سے جماعت نے اللہ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی ترقی کی ہے اور وقف جدید کی جو اجتماعی رپورٹ ناظم صاحب وقف جدید مکرم اللہ بخش صاحب صادق نے بھجوائی ہے اس کی رُو سے گزشتہ سال سارے سال کی کل وصولی چودہ لاکھ ستاسی ہزار روپے تھی اور امسال تاریخ رپورٹ تک جس کے بعد بھی لاکھوں روپیہ وصول ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اٹھارہ لاکھ ستر ہزار روپے وصولی ہو چکی تھی یعنی گزشتہ سال کے مقابلے پر تین لاکھ تر اسی ہزار روپے.اور اس میں جوخوش کن پہلو ہے جو میں نے تفصیلی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد معلوم کیا وہ یہ تھا کہ بعض ایسے علاقے جہاں جماعت احمدیہ

Page 14

خطبات طاہر جلد ۶ 10 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء کو خاص طور پر انتہائی تکلیفوں اور مصیبتوں کا نشانہ بنایا گیا وہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف گزشتہ سال کی نسبت ہر چندے میں ترقی ہوئی اور وقف جدید کے چندے میں بھی بلکہ بعض ایسی جگہوں میں باقی سب جماعتوں سے زیادہ ترقی ہوئی.مثلاً کوئٹہ ہے.کوئٹہ گزشتہ سال بڑے بھاری ابتلاء میں سے گزرا ہے اور اس کی مسجد بھی منہدم کر دی گئی اور ہر طرح سے جماعت کو وہاں تکلیفیں پہنچائی گئیں اور ابھی بھی وہ سردیوں میں بڑی مشکل کے ساتھ کہیں اجتماع کرتے ہیں جمعہ کا.اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اسی کے انعام کے طور پر، اس ابتلاء کے فیض کے طور پر اللہ تعالیٰ نے کوئٹہ کو گزشتہ سال سے کئی گنا زیادہ مالی قربانی میں آگے قدم بڑھانے کی توفیق بخشی.اسی طرح دیگر جماعتیں ہیں جن کی تفصیل لمبی ہے ان پر میں نے نشان لگائے ہیں دیکھنے کے لئے کہ جہاں جہاں ابتلاء آئے ہیں وہاں کیا حال ہے.تو میں یہ دیکھ کر حیران ہوا کہ خدا کے فضل کے ساتھ جہاں جہاں ابتلاء آئے ہیں وہاں اللہ کے فضل سے نہ صرف قدم آگے بڑھا ہے بلکہ بعض جگہ کئی گنا آگے بڑھا ہے.کوئٹہ کی میں نے مثال آپ کے سامنے رکھی ہے.ساہیوال کی اب رکھتا ہوں.ساہیوال میں وقف جدید کا چندہ تین ہزار آٹھ سو پچھتر روپے تھا سارے سال کا اس سے پچھلے سال اور ابتلاء کے بعد دس ہزار ایک سو نناوے ہو گیا اور اسی طرح اطفال میں بھی خدا کے فضل کے سے یہاں نمایاں ترقی ہوئی ہے.کوئٹہ میں تیرہ (۱۳) ہزار سے بڑھ کر تمھیں (۲۳) ہزار ہو گیا یعنی تقریبا دگنا اور باقی سب لمبی تفصیل ہے لیکن اگر دگنا نہیں ہوا تو بہر حال پہلے سے بڑھا ہے خاص طور پر ایسے علاقوں میں جہاں مالی تنگی بھی بہت دی گئی.جہاں تجارتوں کو نقصان پہنچا اور بظاہر یہ خطرہ تھا کہ ان سب جگہوں میں مجبور ہو کر احمدی اپنے چندوں میں کمی کریں گے لیکن حیرت کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان کے اندر جو خدا کی راہ میں قربانی کرنے کا جذبہ تھاوہ پہلے سے کئی گنا زیادہ قوت پکڑ گیا اور ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس قربانی کے پیچھے انہوں نے اپنی کیا کیا ذاتی ضروریات نظر انداز کی ہیں.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ انہوں نے اپنے بچوں پر خرچ کرنے میں کیا تنگی کی ، اپنے گھر پر خرچ کرنے میں کیا تنگی کی ، اپنے رہن سہن کے معیار کو کس حد تک گرا یا مگر عمومی نظر سے یہ معلوم ہوتا ہے، کیونکہ بہت سی جماعتوں کے حالات میں جانتا ہوں، اس ایک دو سال کے اندر ان کے مالی ذرائع غیر معمولی طور پر آگے نہیں

Page 15

خطبات طاہر جلد ۶ 11 خطبہ جمعہ ۲ جنوری ۱۹۸۷ء بڑھے اور جو تجارت پیشہ احمدی ہیں ان کی اطلاعات سے یہی پتا چلتا ہے کہ ان جگہوں میں سے بہت سی جگہوں پر بڑی کثرت کے ساتھ منظم طریق پر ان کے بائیکاٹ بھی کئے گئے ہیں اور وہاں سے جو دعاؤں کے خط آئے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اچھے ہونہار طالب علموں کو بھی یعنی جنہوں نے تعلیم سے فراغت حاصل کی ہے بڑی نمایاں کامیابی کے ساتھ ، ان کو بھی نوکریوں سے محروم کیا گیا ان جگہوں میں.بعض لوگ جو اچھی ملازمتوں پر تھے ان کو فارغ کیا گیا، جن کو ترقیات ملنی چاہئے تھیں ترقیات دینے کی بجائے ان کی تنزلی کی گئی ان کو نیچے اُتار دیا گیا پہلے مقام سے بھی.کئی قسم کی مصیبتیں، مشکلات ایسی ہیں جن کا براہِ راست اقتصادی اثر پڑا ہے ان جماعتوں پر.اس لئے میں نے جب یہ جائزہ لیا تو خصوصیت سے اسی خیال سے جائزہ لیا کہ ان کے چندے کم ہوئے ہوں گے، ان میں کچھ کمزوری کے آثار ایسے ظاہر ہوں گے.نظر پڑے گی تو ان کے لئے دعا کی توفیق ملے گی کہ اے خدا! ان کی مجبوریاں دور فرما دے تاکہ کھل کر تیری راہ میں یہ آگے بڑھ کر قدم اُٹھا ئیں اور آگے سے زیادہ قربانیاں دیں لیکن میرے دل کا عجیب حال ہوا جب میں نے دیکھا کہ قربانیوں کے معاملے میں یہ تو میری دعاؤں کے محتاج نہیں.ان کی قربانیاں دعائیں اور رنگ میں مانگ رہی ہیں، تحسین کے رنگ میں شکر کے رنگ میں ، خدا کی حمد بیان کرنے کی طرف توجہ دلا رہی ہیں اور یہ کہہ رہی ہیں تم پر حق ہے یہ ان کا ، خوب ان کے لئے دعائیں کرو، یہ خدا کے وہ بندے ہیں جن کو محمد مصطفی امیے کے سوا دنیا کا کوئی سردار نہیں تیار کر سکتا تھا.انہوں نے اپنے اخلاق سے، اپنے اطوار سے، اپنی قربانیوں سے ثابت کر دیا ہے کہ محمد اللہ کے سوا کسی کو یہ آقا نہیں مانتے اسی کے غلام ہے، اسی کے گھڑے ہوئے یہ جو ہر ہیں جو خدا کے فضل سے دن بدن اور زیادہ صیقل ہوتے جارہے ہیں.پس اس لحاظ سے جہاں میرے دل میں ان کے لئے دعاؤں کی تحریک پیدا ہوئی وہاں میں باقی دنیا کی جماعتوں سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ بھی اپنے ان پیارے مظلوم بھائیوں کو بہت دعاؤں میں یادرکھیں.بڑے بہادر جوان ہیں، خدا کی راہ کے شیر ہیں.انتہائی خوفناک مظالم کا شکار ہونے کے باوجود ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں آئی بلکہ ان کا عزم اور زیادہ سر بلند ہوا ہے اور زیادہ مستقل مزاجی کے ساتھ گہرے عزم کے ساتھ ، پختہ ارادوں کے ساتھ یہ خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے ہوئے آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.

Page 16

خطبات طاہر جلد ۶ 12 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء اس لئے آپ جو نسبتا آسان زندگی گزار رہے ہیں یعنی باہر بسنے والے احمدی، ان پر فرض ہے کہ ان کو خاص طور پر اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور محبت بھری دعاؤں میں یاد رکھیں، دل کی گہرائیوں سے اُٹھنے والی دعاؤں میں یاد رکھیں.جہاں تک باقی دنیا کی جماعت کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں بھی یہی منظر دکھائی دے رہا ہے اور کوئی بھی ایسی دنیا کی جماعت نہیں ہے جہاں کسی بھی چندے کے لحاظ سے کسی قسم کی کمزوری آئی ہو بلکہ بعض جگہ چند سالوں کے اندر مجموعی چندہ کئی گنا بڑھ چکا ہے.جب سے میں انگلستان آیا ہوں یہاں بھی اللہ تعالیٰ نے انگلستان کی جماعت کو انصار کے بعض رنگ دکھانے کی توفیق بخشی ہے اور وہ اگر آپ چھپ کے بھی کر رہے ہوں خدمات، رات کے اندھیروں میں بھی کر رہے ہوں ، تو جس خدا نے اس گھر میں ہونے والے واقعہ پر نظر فرمائی تھی ، اسکی نظر سے آپ کی نیکیاں بھی اوجھل نہیں اور وہ ان انصار کی نیکیوں کو بھی بڑی محبت اور پیار کی نظر سے نواز تا چلا جا رہا ہے اور اس کے کئی نیک اثرات اپنے گردو پیش میں اپنے ماحول میں، اپنے گھروں میں ، اپنے بچوں کی نیکیوں میں، ان کے دل میں زیادہ سے زیادہ دین کی محبت پیدا ہونے کے نتیجے میں آپ کو نظر آرہے ہوں گے.جہاں تک مالی قربانی کا پیمانہ ہے اس پیمانے کے ذریعے اگر جانچا جائے تو جماعت انگلستان اللہ تعالیٰ کے فضل سے کسی دوسری جماعت سے دنیا میں پیچھے نہیں ہے بلکہ بہت سی چیزوں میں خدا کے فضل سے ساری دنیا کے لئے نمونہ بن رہی ہے.وقت کی مسلسل قربانی کے لحاظ سے بھی اور اموال کی قربانی میں بھی آگے قدم بڑھانے کے لحاظ سے ماشاء اللہ انگلستان کو غیر معمولی توفیق مل رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ صرف روحانی نہیں بلکہ دنیاوی فضل بھی آپ پر بہت فرمائے گا.تحریک جدید کا جو گزشتہ سال کا وعدہ تھا اس سے خدا تعالیٰ کے فضل سے آگے بڑھ کر جماعت کو توفیق ملی.پچھلے سال میں نے وقف جدید کو بھی عالمگیر تحریک کر دیا تھا اور خدا تعالیٰ نے اس کا بہت ہی جماعت کو فائدہ پہنچایا بلکہ معلوم ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلط تھا دل پر جس کے نتیجے میں اس تحریک کو عالمگیر کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ ضرورت سے بڑھ کر ایک دل میں ایک خواہش اٹھی بڑی زور سے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اسے عالمگیر کیا جائے کیونکہ اس کے

Page 17

خطبات طاہر جلد ۶ 13 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء بعد جب میری نظر پڑی ہندوستان کے حالات پر تو ٹھنڈھی کی وجہ سے جماعت کو وہاں بہت روپے کی ضرورت تھی اور ہندوستان کی جماعتوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر وہاں ھڑھی کی طرف توجہ کر سکیں اور اس کے علاوہ بھی تبلیغ کے جو میدان کھل رہے ہیں ہندوستان میں وہ غیر معمولی ہیں.نئی نئی قوموں میں، نئے نئے علاقوں میں بڑے بڑے دروازے کھل رہے ہیں خدا کے فضل سے ترقیات کے اور جو سوئی ہوئی جماعتیں تھیں وہ جاگ اٹھی ہیں، ان کے اندر نئے ارادے پیدا ہور ہے ہیں.اس پہلو سے ہندوستان ذہن میں تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ اتنی شدت سے ٹھڈھی کے سلسلے میں ضرورت پڑے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر کی جماعتوں کو نمایاں طور پر وقف جدید میں حصہ لینے کا موقع ملا اور انگلستان کی جماعت نے بھی ماشاء اللہ دس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا جس میں سے اس وقت تک چھ ہزار سات سو وصول ہو چکا ہے باقی امید ہے انشاء اللہ آئندہ مہینے کے اندر اندر یعنی اسی ماہ کے اندر اندر وصول ہو جائے گا اور آئندہ سال کے لئے امیر صاحب انگلستان نے اس وعدے کو بڑھا کر گیارہ ہزار پاؤنڈ کر دیا ہے.یہ انگلستان کے پہلے سال کا وعدہ ہی اتنا ہے جو وقف جدید کے آغاز کے وقت دو تین سال تک نہیں ہو سکا تھا یعنی پاکستانی روپوں میں اگر اس کو تبدیل کریں تو دولاکھ پچاس ہزار کے قریب وعدہ بنتا ہے اور وقف جدید میں پہلے سال سے پہلے دن سے ہی میں منسلک رہا ہوں اس لئے مجھے پتا ہے کہ شروع کے دو تین سال تک ہم دولا کھ سے اوپر نہیں پہنچے تھے.تو اللہ تعالیٰ ضرورتیں بڑھا رہا ہے وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی طاقتیں بھی بڑھا تا چلا جارہا ہے، اس کا ظرف بڑھاتا چلا جا رہا ہے، اس کے دل کھولتا چلا جا رہا ہے اور کسی مقام پر بھی ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خطرہ محسوس نہیں ہوا کہ کام آپڑا ہے اور روپیہ نہیں ہے.ایسی والہانہ محبت کے ساتھ خدا کی راہ میں جماعت خرچ کرتی ہے کہ بے مثل ہے اس وقت یہ، کوئی شک نہیں ہے اس میں، کوئی دنیا میں جماعت ایسی نہیں ہے جو پاسنگ کو بھی پہنچ سکے جماعت احمدیہ کے خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے میں اور اس کے لئے حضرت مصلح موعودؓ نے بڑے لمبے عرصے تک محنت کی ہے اس محنت کو بھی بھلا نا نہیں چاہئے.آج ہمارے دل کھلے ہیں، آج ہمارے ہاتھ آزاد ہوئے ہیں اپنے بندشوں سے اور کھل کر بڑی قوت کے ساتھ اپنی جیبیں خالی کرتے ہیں خدا کی راہ میں جوش کے ساتھ.تو یہ چیز اچانک پیدا نہیں ہوئی.ایک لمبے عرصے باون سال تک حضرت مصلح موعودؓ نے اس معاملے میں

Page 18

خطبات طاہر جلد ۶ 14 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء جماعت پر محنت کی ہے، بے انتہاء ایسے خطبات دیئے ، ایسی تقاریر کیں ، ایسے نقطے قرآن کریم کے بیان فرمائے ، ایسی ذاتی مثالیں قائم کیں قربانیوں کی کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے فضل کے ساتھ آہستہ آہستہ جماعت کو ایک بہت ہی بلند مقام عطا فرما دیا ہے.اللہ تعالیٰ اس مقام پر جماعت کو قائم رکھے لمبے عرصے تک اور اس روپے کی حفاظت کرنے والے متقی فرمانبردار کارکن عطا کرتا رہے مجھے تو یہ فکر لگی رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو یہی فکر تھی.آپ کو اللہ تعالیٰ نے جب کشفی نظاروں میں بتایا کہ بے انتہاء اموال ہیں جو خدا تعالیٰ جماعت کے قدموں میں ڈالے گا.تو آپ کو یہ فکر لگی ہوئی تھی کہ کاش! ان اموال کو سنبھالنے والے متقی ، نیک دل لوگ مالوں سے مستغنی خدا کی راہ میں خود بڑھ کر قربانی کرنے والے انکے امین مجھے ساتھ ملیں جو ان اموال کی حفاظت کریں.(رساله الوصیت ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه: ۳۱۹) تو اب تو یہ دور آ رہا ہے خدا کے فضل سے ان وعدوں کے پورا ہونے کا اور پھر امانت کے لئے دعا کرنے کا، تقویٰ کے لئے دعا کرنے کا.تقویٰ سے ہی روپیہ پھوٹتا ہے اس میں کوئی شک نہیں، لیکن جب پھوٹتا ہے تو بعض لوگوں کے تقویٰ کو ڈگمگا بھی دیتا ہے، ان کے لئے ابتلاء بھی بن جاتا ہے مگر خدا نہ کرے ایسے کسی دور میں جماعت داخل ہو.ہم امید کرتے ہیں کہ نہیں ہو گی لیکن دعا ضرور کرنی چاہئے.آج ہی سے دعا شروع کرنی چاہئے ، آج کے لئے بھی، کل کے لئے بھی اور پرسوں کے لئے بھی کہ اللہ تعالیٰ نے جہاں دل اتنے کھول دیئے ہیں، ظرف بڑھا دیئے ہیں، برکتیں دے رہا ہے اموال میں ، ضرورتیں پوری فرما رہا ہے تو وہاں پھر اپنے فضل اور رحم کے ساتھ امین، خدا کا تقویٰ رکھنے والے، خدا کی راہ میں پیسہ پیسہ مناسب جگہوں پر خرچ کرنے والے متقی خادم دین بھی عطا فر ما تار ہے.وقف جدید کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثرت سے ایسے خادم دین میسر ہیں جو نہایت قربانی کے ساتھ ، بے نفسی کے ساتھ ، بڑے مشکل حالات میں جماعت کی خدمت کر رہے ہیں اور سارے پاکستان میں بڑی غریبانہ زندگی بسر کرتے ہوئے، بغیر شکوہ زبان پر لائے ہوئے دیہاتی جماعتوں کی حالت سدھارنے میں مصروف ہیں.اسی طرح ہندوؤں کے علاقے میں انہوں نے بہت اچھا کام کیا ہے.اس سال کی جور پورٹ ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ جب فاقہ کشی تھی اس علاقے میں تو جماعت کی طرف سے بہت خدمت کی گئی ہے ہندوؤں کی بھی اور نو مسلموں کی خاص طور پر مگر

Page 19

خطبات طاہر جلد ۶ 15 خطبہ جمعہ ۲ / جنوری ۱۹۸۷ء غربت کے بعض ایسے دور وہاں آئے ہیں قحط کے کہ جن میں پھر جماعت نے فرق نہیں کیا کبھی ہندو اور مسلمان میں.خدا کے بندوں کو ایسے موقعوں پر پھر ایک ہی نظر سے دیکھنا پڑتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کو یہ توفیق ملی کہ ان کی بھوک کی شدت کو کم کیا، ان کو زندہ رکھنے کے لئے کم سے کم زندگی کا گزارہ مہیا کیا.اگر چہ پوری طرح پیٹ بھرنے کی استطاعت ہی نہیں تھی جماعت میں لیکن ان کی مدد کی ان کو وقت کے اوپر وقف جدید کے کارکنان نے ایسی جماعتوں میں پہنچا دیا سندھ کے آباد علاقوں میں، جہاں خدا کے فضل سے ان کے لئے دیکھنے والے، ان کا خوردونوش کا انتظام کرنے والے بھی اور ذریعہ روزگار مہیا کرنے والے لوگ بھی موجود تھے اور جماعتوں نے وقت پران کو سنبھالا یہ بھی بڑی خدمت ہے.اس دفعہ کی رپورٹوں سے پتا چلتا ہے کہ جماعت احمدیہ کی نقالی میں جماعت مودودی بھی اس میدان میں کو دی ہے اور ظاہر بات ہے ان کو روپیہ کہیں سے ملا ہوگا تو انہوں نے اس میدان میں قدم رکھا ہے ورنہ بغیر روپیہ ٹپکے ہوئے تو وہ اس میدان میں نہیں ٹپکا کرتے اور جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے یہ روپیہ عموما امریکہ کا ہوتا ہے.پہلے ایک دفعہ سکیم PL80 چلی تھی پاکستان میں کہ امریکہ پاکستان کو گندم کی امداد دے گا اور اس کی آمد امریکہ باہر نہیں لے کر جائے گا بلکہ پاکستان میں خرچ کرے گا.ان دنوں میں انہوں نے عیسائیوں کے ذریعے ، عیسائی مشنریز کے ذریعے ان ہی علاقوں میں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں بہت رو پی تقسیم کرایا تھا ، بہت خوراک پھینکی تھی اور اس ذریعے سے ان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی تھی.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کو خدا نے یہ توفیق بخشی کہ ان کی ساری تحریک کو بالکل ناکام بنا کر رکھ دیا اور ایک آنہ بھی خیرات کا ان کو نہیں دیا، یعنی بغیر پیسے کے پیسے والوں سے مقابلہ کیا اور ان کے ایمان کو بچایا، عیسائی ہونے کی بجائے ان کو مسلمان بننے کی توفیق خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی اور وقف جدید کو اس خدمت کا موقع دیا.تو اب وہاں غالبا وہی روپیہ، میں یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن جو حالات نظر آ رہے ہیں، امریکہ جس طرح ان جگہوں پر روپیہ خرچ کرتا ہے ہمیشہ سے وہ مودودی جماعت کے ذریعے تقسیم ہوا ہوگا اگر امریکہ نے نہیں دیا تو زکوۃ میں سے کچھ ملا ہو گا ان کو.بہر حال جو بھی ہے انفرادی مالی قربانی کا اس میں دخل نہیں ہے.کہیں سے روپیہ آتا ہے وہ خرچ کرنے کے لئے ایسے لوگ آمادہ ہوتے ہیں جن کو اس میں حصہ بھی ملتا ہے،

Page 20

خطبات طاہر جلد ۶ 16 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء جس میں ان کو کئی قسم کی سہولتیں مہیا ہوتی ہیں.بہر حال وقف جدید کی رپورٹ تھی کہ وہ بھی میدان میں کو دے ہیں اور انہوں نے بھی اس دفعہ قحط کے زمانے میں خرچ کیا ہے.جہاں تک اس بات کی فی ذاتہ نیکی کا تعلق ہے اس میں جماعت احمدیہ کو ان سے کوئی حسد نہیں ہے.اگر جماعت احمدیہ کی شدید ترین دشمن جماعتیں بھی بنی نوع انسان کی ہمدردی میں کوئی نیک کام کریں تو بڑی اچھی بات ہے اور نیک کام ان کو کرنا چاہئے.جو ہمیں توفیق نہیں ہے وہ ان کو مل جاتی ہے خدا کے بندوں کے دکھ دور ہونے چاہئے یہی ہمارا مقصد حیات ہے.لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ اس ذریعہ سے وہ صداقت کو نقصان پہنچائیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیغام کو نقصان پہنچائیں اور یہ کوشش کریں کہ لوگوں کے دل احمدیت سے ہٹ جائیں اور وہ پھریا واپس ہندو ہونا شروع ہو جائیں یا کم از کم احمدیت سے ارتداد اختیار کر کے کوئی اور فرقہ قبول کر لیں.اگر یہ ان کی نیت ہے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں اس میں وہ یقیناً ناکام رہیں گے.پہلے بھی ایسی کوششیں ہو چکی ہیں پہلے بھی وہ ناکام رہے ہیں.جن لوگوں کو ہم نے لالچ دے کر بنایا ہی نہیں وہ لالچ سے ان کے ہاتھ آنے والے بھی نہیں ہیں.اگر پیسہ دے کر بنایا ہوتا تو پیسہ ان کو کھینچ کر لے جاتا لیکن ان کو تو ہم نے اس طرح مسلمان بنایا ہے کہ اسلام کی محبت ان کے دل میں پیدا کی ہے.خدائے واحد و یگانہ کا ایمان اور یقین ان کے دلوں میں پیدا کیا ہے.ان کے اوپر بھی اس رنگ میں اس آیت کا اطلاق پاتا ہے کہ انتہائی غریب لوگ ہونے کے باوجود ہم نے ان کو چندوں پر آمادہ کیا اور انہوں نے چندوں میں شامل ہونا شروع کر دیا.میں نے خود بھی اس علاقے کا دورہ کیا اور ان کو میں نے یہ پیغام دیا کہ دیکھو ہم تمہیں انسان بنانے کے لئے آئے ہیں، انسان سے جانور بنانے کے لئے نہیں آئے.تمہارے اندر بعض خوبیاں پائی جاتی ہیں ہم ان کو تباہ کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ خوبیوں کو مزید چمکانے کے لئے آئے ہیں.اس لئے روٹی اگر تم نے مانگنی ہے تو بے شک امریکہ سے مانگومگر اخلاق حسنہ ہم تمہیں دیں گے.خدا کی راہ میں ایثار کے آداب اور طریق ہم تمہیں سکھائیں گے.اس لئے جماعت احمد یہ تو بجائے تمہیں دینے کے یہ کہنے آئی ہے کہ خدا کی راہ میں تم بھی چندے دینا شروع کرو تم میں بھی اپنے اندر ایک عزت کا احساس پیدا ہو گا.چنانچہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سے نومسلموں

Page 21

خطبات طاہر جلد ۶ 17 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء نے چندے دینے شروع کئے اگر چہ تھوڑے سے اپنی غربت کے حالات کے مطابق لیکن دینے ضرور شروع کئے.وقف جدید کو میں اس سال اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ان کی ضرورتیں پورا کرنے کے لئے خواہ لاکھوں بھی خرچ کرنا پڑے ان کو خرچ کرنا چاہئے ، جائز ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اور جس طرح پہلے ہم کرتے تھے ، قرض دیتے تھے تا کہ بھیک مانگنے کی عادت نہ پڑے.عمومی طور پر قرض کا طریق ہی رکھیں ، سہولت دیں کہ جب خدا ان کو توفیق دے وہ اس کو واپس کریں.لیکن جہاں انفرادی ضرورت ہے ایک احتیاج کی جس طرح کے دوسرے علاقوں میں قرض کی بجائے صدقات اور زکوۃ میں سے دیا جاتا ہے ان کا اپنا حق ہے ان کو ملنا چاہئے.لیکن ساتھ ہی اس بنیادی نقطے کو نہیں بھولنا چاہئے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ان کو ضرور ڈالنی ہے.اس کے بغیر ان کا ایمان مکمل نہیں ہوسکتا ، اس کے بغیر اسلام کا پورا وجود بنتا نہیں ہے.جیسے ایک ٹانگ کے بغیر بھی انسان کہلا سکتا ہے مگر پورا وجود نہیں بنتا.اسی طرح خدا کی راہ میں مالی قربانی کئے بغیر مومن کا وجود پورا بنتا ہی نہیں.اس لئے ان پر رحم کریں اور حتی المقدور کوشش کریں کہ جتنے نومسلم پہلے آئے تھے وہ بھی اور جتنے نئے شامل ہیں وہ ضرور خدا کی راہ میں کچھ نہ کچھ دیں.جب وقت آئے گا ان کی امداد بھی ہوگی لیکن امداد کے وقت بھی ان کو ایسا چسکا ڈال دینا چاہئے قربانی کا کہ اس امداد میں سے بھی وہ کچھ خدا کی راہ میں پیش کرنے کی کوشش کرتے رہیں.قادیان میں ایسے بڑے بڑے خوبصورت واقعات رونما ہوتے رہے ہیں کہ ایک غریب مہاجر جو خالصہ جماعت کے عطا کردہ چندے پر پل رہا تھا جب تحریکات کرتے تھے حضرت مصلح موعودؓ تو اسی چندے سے بچا کہ دیا کرتا تھا اسی عطیہ سے بچا کر دیا کرتا تھا.ایک خاتون سے متعلق واقعہ پہلے بھی سنا چکا ہوں.اس نے دو آنے پیش کئے ھدھی کی تحریک کے وقت ، اس حالت میں کہ آنسو جاری تھے آنکھ سے اور کہہ رہی تھی کہ یہ شلوار بھی جماعت کی ہے، یتیمیض بھی جماعت کی ہے، یہ دو پٹہ بھی جماعت کا ہے، میر اسب کچھ جماعت کا ہے یعنی جماعت نے مجھے دیا ہے اور یہ دو آنے جو میں پیش کر رہی ہوں یہ بھی جماعت نے مجھے دیئے تھے.اس رنگ میں اس نے یہ قربانی کی کہ حضرت مصلح موعودؓ کے دل پر اس طرح ثبت ہو گیا اس کا یہ حسن کہ بار ہا اس

Page 22

خطبات طاہر جلد ۶ 18 خطبہ جمعہ ۲/ جنوری ۱۹۸۷ء کو بیان فرماتے رہے کہ کتنا عظیم الشان واقعہ رونما ہوا تھا اس وقت.بعض لوگ شاید غور نہیں کرتے اس بات پہ کہ یہ واقعہ جو ہے یہ عملاً ہم سب کی زندگی میں روزانہ رونما ہوتا ہے.جب ہم خدا کو دیتے ہیں تو یہ سمجھ کے دینا چاہئے ، اگر یہ سمجھ کے دیں گے تو ہم میں سے ہر ایک کی ہر قربانی حسین ہو جائے گی کہ اے خدا! یہ جو میں تیرے حضور پیش کر رہا ہوں یہ آپ ہی کا ہے آپ ہی نے تو دیا تھا، میرا تو سارا وجود آپ کا ہے، میرا گھر، میرے بچے ، میرے اہل و عیال، میرے رشتہ دار، میری تمام وہ چیزیں جن سے میں فائدہ اٹھاتا ہوں ، جن سے زندگی کا لطف لیتا ہوں، سب کچھ تو نے دیا ہے.مجھے شرم آتی ہے یہ کہتے ہوئے کہ میں تیرے حضور کچھ پیش کر رہا ہوں مگر دل کی تمنا ہے، میں مجبور ہوں اس لئے اسے قبول فرما.روزانہ ہم یہی کرتے ہیں لیکن خیال نہیں آتا اور اکثر لوگ یہ بھول کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم دے رہے ہیں خدا کو کچھ.خدا کو کون دے سکتا ہے؟ ہماری مثال تو اس غریب پٹھان مہاجر عورت سے بھی کئی گنا آگے ہے اس جہت میں.اس کو تو جو کچھ جماعت نے دیا تھا اس کے علاوہ وہ شاید سوت کات کے کچھ خود بھی کما لیتی.مگر انسان اور خدا کی نسبت جو ہے اس میں تو کچھ بھی نہیں ہے جو خدا کے سوا کسی اور طرف سے ہمیں ملتا، جو ہم کماتے ہیں وہ بھی اس کے فضل سے ہی کماتے ہیں.تو اگر اس پہلو سے آپ وقف جدید کی قربانیوں میں یا دوسری قربانیوں میں آگے حصہ لیں تو پھر آپ دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کتنا پیار کا سلوک فرماتا ہے.مصلح موعودؓ کے دل پر وہ واقعہ ثبت ہو گیا ، ہمیشہ کے لئے ایک نقش جمیل بن گیا.تو مومن کی ہر ادا خدا کے اس قلب صافی پر، میں قلب صافی کا لفظ محاورے کے طور پر استعمال کر رہا ہوں ورنہ خدا کا تو کوئی قلب نہیں لیکن عرش ہے ایک، وہ اس کا بھی ظاہری وجود نہیں ، پس ان معنوں میں کہ بندہ مجبور ہے ، خدا کے لئے وہ لفظ استعمال کرنے پر مجبور ہے جو خدا کی ذات پر استعمال ہو نہیں سکتے مگر ان کے سوا ملتے بھی کچھ نہیں.تو اس طرح جماعت احمد یہ عالمگیر اس عورت کی قربانی کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، اس کی ادا کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ اس نے وقت کے امام کے دل پر گہرا اثر کیا تھا، اپنے خدا کے حضور قربانیاں پیش کرتی رہے کہ خدا کے قلب صافی پر جماعت کی قربانیوں کے حسین نقش جمتے رہیں اور جس طرح اس اندھیرے میں ہونے والے مچاکوں کا مزہ آسمان پر خدا اٹھارہا تھا اس طرح ہمارے

Page 23

خطبات طاہر جلد ۶ 19 خطبہ جمعہ ۲/جنوری ۱۹۸۷ء سب کے دل میں گزرنے والے جذبات کا مزہ آسمان پر عرش پر خدا اٹھانے لگے.اور وہ کہے اے میرے بندو! میری تم پر تحسین اور پیار کی نظر ہے جو کچھ تم دے رہے ہو میں سب قبول کرتا ہوں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.کچھ نماز جنازہ غائب کے اعلانات ہیں سب سے پہلے تو یہ خبر جماعت کو میں افسوس سے سناتا ہوں ہمارے ایک بہت ہی مخلص خادم دین سالکین صاحب جو جماعت احمد یہ سنگا پور کے امیر تھے وہ وفات پاگئے ہیں کل صبح.دل کے مریض تھے اس کے باوجود جماعت کا کام کرتے رہے، تو دل کا ہی دورہ ہوا دوبارہ یعنی دل کی حالت بڑی دیر سے زخمی حالت تھی اور کسی وقت بھی ان کو خطرہ تھا لیکن وہ کام سے نہیں رکے کبھی.ایک دفعہ ان کی بچی کار بوہ میں خط آیا تھا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کا حال کیا ہے اور کئی دفعہ ہم سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کام ذرا تھوڑا کر لیں اگر چھوڑ نہیں سکتے.انہوں نے لکھا ہے کسی قیمت پہ تیار ہی نہیں ہوتے ، وہ کہتے ہیں جماعت کا کام میں نہیں چھوڑ سکتا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ توفیق دی جس مسجد بنانے کی انکی تمنا تھی بڑی دیر سے، وہ مکمل ہوئی اور بڑی خوبصورت مسجد تیار ہوئی ، پھر اس کو دیکھا، استعمال کیا ، اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اور برکتیں دیں جماعت کو تبلیغ کا سلسلہ شروع ہو گیا جو بڑی دیر سے رکا ہوا تھا.تو ایک کامیاب زندگی گزار کہ وہ رخصت ہوئے ہیں لیکن اتنی عمر نہیں تھی کہ جس پر انسان سمجھے کے رخصت ہونے کی عمر آ گئی تھی.اگر یہ دل کی بیماری نہ ہوتی یا اللہ کی تقدیر جو بھی ہے کیا کہنا چاہئے ، بہر حال وہ جدا ہوئے ہیں ہمارے دل کو حزیں بنا کے ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.اور ان کے ساتھ مکرم فقیر محمد صاحب جو موصی تھے گنری سندھ کے رہنے والے یہ وہ دوست ہیں جن کا میں نے ذکر کیا تھا کہ بہت لمبی عمران کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی تھی.جب پہلی دفعہ میں ان سے ملا ہوں اس وقت بیان کیا جاتا تھا کہ ایک سو پندرہ سال کی عمر ہے لیکن اگر وہ اتنی نہ بھی ہوتی تو یہ تو پتا لگتا تھا کہ سوسال سے اوپر ہیں بہر حال اور اس واقعہ کو بھی پندرہ بیس سال ہو چکے ہیں.ان کا خدا تعالیٰ نے دماغ صاف رکھا تھا بالکل.جو رپورٹ آئی ہے اس میں بھی لکھا ہوا ہے کہ آخری وقت تک دماغ بالکل صاف تھا اور پوچھتے تھے میرا کہ وہ کب واپس آئے گا.ان کے دل کی بڑی تمنا تھی کہ میں ان کی نماز جنازہ پڑھاؤں.دوسرے ان میں ایک خاص دلچسپ ادا یہ تھی کہ اپنا کفن بنوا کے اور بعض

Page 24

خطبات طاہر جلد ۶ 20 20 خطبہ جمعہ ۲ / جنوری ۱۹۸۷ء دفعہ آب زم زم میں ڈبو کر اس کو اور اسی طرح اپنا تابوت بنوا کر رکھا کرتے تھے اور اتنی دیر ہو جاتی تھی تابوت اور کفن کو پڑے پڑے کہ کئی دوسرے فوت ہو جاتے تھے اور یہ زندہ رہتے تھے.تو بعض دفعہ اچانک ضرورت کے وقت ان کے عزیزان کا بنایا ہوا تابوت اور کفن دوسروں کو دے دیا کرتے تھے.ایک دفعہ مجھ سے شکایت کی ، ویسے تو سب بڑے خدمت گزار ہیں بچے ، یعنی عزیز تھے ان کے اپنے بچے تو نہیں تھے، کوئی شکوہ نہیں لیکن ایک شکایت ہے ان کو ذرا سمجھا ئیں یہ میرا کفن لوگوں کو دے دیتے ہیں.میں نے کہا یہ کفن آپ کا کس طرح دے دیتے ہیں کیا مطلب ہے آپکا؟ پھر انہوں نے بتایا واقعہ کہ اس طرح میں کفن بنواتا ہوں اور تابوت بنواتا ہوں اور یہ لوگوں کو دے دیتے ہیں اور کہیں یہ نہ ہو میری موت آئے تو اس وقت کچھ بھی نہ تیار ہو.تو کئی کفن ان کے گزرے کئی تابوت بنے بالآخر اللہ کی تقدیر آئی اور ان کو لے گئی، اللہ ان کو اعلیٰ جنت میں جگہ دے انکی نماز جنازہ بھی ابھی ہوگی.حبیب بھگیلو صاحب ہیں ماریشس کے ان کے متعلق بھی جماعت کے دوستوں نے درخواست کی ہے.مکرمہ کریم بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری چراغ دین صاحب، یہ ہمارے چوہدری عبدالغفور صاحب صدر حلقہ ہیمنگٹن سپا Liamington Spa) کی والدہ محترمہ تھیں.محمد بی بی صاحبہ موصیبہ تھیں مکرم چوہدری وحید سلیم صاحب آف لاہور کی والدہ تھیں.چوہدری وحید سلیم صاحب کو خدا تعالیٰ ما شاء اللہ اچھی جماعت کی خدمت کی توفیق عطا فرماتا ہے، بہت اچھے وکیل ہیں اور یہ ہمارے ہادی علی صاحب کے والد ، لکھا ہوا ہے، فرزند علی صاحب کی ہمشیرہ تھیں یعنی ہادی علی کی پھوپھی.تو ان سب کی نماز جنازہ انشاء اللہ نماز عصر کے بعد ہوگی.

Page 25

پھر فرمایا: خطبات طاہر جلد ۶ 21 21 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء وقت کی تعریف، اپنے وقت کی قدر کریں ( خطبه جمعه فرموده ۹ جنوری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: اِنَّ فِى خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا ۚ سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران : ۱۹۱ ۱۹۲) آج جب میں نے اذان کے لئے اجازت دینی تھی کہ اذان دے دیں تو اس وقت میرے منہ سے اذان کی بجائے یہ فقرہ نکلا کہ وقت دے دیں.وجہ اس کی یہ ہے کہ آج کے خطبہ کے لئے میں نے وقت کا موضوع چنا ہوا تھا اور وقت میرے ذہن میں اس طرح گردش کھا رہا تھا کہ بے اختیار خود بخود زبان سے اذان کی بجائے وقت دے دیں کا لفظ نکل گیا.اگر ایک مضمون ذہن پر غالب آجائے بہت زیادہ تو بعض دفعہ انسان کی زبان پر بھی اس کا قبضہ ہو جاتا ہے،اس کے افعال پر بھی اس کا قبضہ ہو جاتا ہے.تبھی سوتے میں جب اٹھ کے بچے چلتے ہیں ان کو پتا نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہے ہیں.لیکن ان کے افعال پر بھی ذہن میں جو خیالات گھوم رہے ہیں ان کا قبضہ ہوا ہوتا ہے.تو بہر حال

Page 26

خطبات طاہر جلد ۶ 22 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء وقتی طور پر تو وقت نے قبضہ کیا لیکن مضمون آج کا میرا یہ ہے کہ آپ وقت پر قبضہ کریں، وقت کو اپنے او پر قبضہ نہ کرنے دیں.یہ آیات کریمہ جو میں نے چنی ہیں آج کے لئے ، اس میں وقت کے مضمون پر بڑی گہری روشنی ڈالی گئی ہے.وہ امور جن میں اللہ تعالیٰ کے صاحب عقل و فہم بندوں کے لئے نشانات ہیں ان میں سے ایک یہ امر بیان فرمایا گیا ہے وَ اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ کہ رات اور دن کے بدلنے میں جہاں تک عمومی طور پر اس آیت کے ترجے کا تعلق ہے یہی ترجمہ پڑھایا بھی جاتا ہے اور عام طور پرلوگوں کے ذہن میں آتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ صبح کے رات ہو جانے اور رات کے صبح ہو جانے میں حالانکہ اختلاف کا لفظ صرف اس طرف متوجہ نہیں کرتا بلکہ رات کے اندر جو اختلافی حالتیں پائی جاتیں ہیں اس طرف بھی اشارہ ہے اور دن کے اندر جو اختلافی حالتیں پائی جاتی ہیں اس طرف بھی اشارہ ہے.اندرونی طور پر بھی اختلافات ہو رہے ہیں رات کے اندر اور اندرونی طور پر بھی اختلافات ہورہے ہیں دن کے اندر اور یہ ایک بالکل الگ مضمون ہے جس پر غور کریں تو خدا تعالیٰ کی صاحب فہم قوموں کے لئے اس میں بڑے نشانات ہیں.کس طرح راتیں دنوں میں تبدیل ہوا کرتی ہیں.کس طرح دن راتوں میں بدل جاتے ہیں؟ وہ کیا محرکات ہیں کیا موجبات ہیں ؟ اور ان کی طرف اگر غور کریں صاحب فہم لوگ تو وہ معلوم کریں گے کہ یہ سارا کھیل عبث نہیں ، باطل نہیں اور ہم اس بات میں خدا کے ہاں جوابدہ ہیں کہ ہم نے اپنی راتوں کو کس طرح دنوں میں تبدیل کیا اور کس طرح ہم نے اپنے دنوں کو راتوں میں بدلا مگر یہ بہر حال ایک بہت ہی دلچسپ اور تفصیلی مضمون ہے جو آج کے موضوع سے براہ راست متعلق نہیں، ہے تو سہی مگر اس حصے پر میں نے توجہ نہیں دینی آج، ایک اور حصے کے لئے آپ سے آج میں مخاطب ہوں.دوسرا اس میں دن اور رات کے چھوٹے اور بڑے ہونے کا مضمون بھی ہے.کبھی دن چھوٹے ہو جاتے ہیں، کبھی راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں اور جہاں تک وقت کا تعلق ہے وقت کو انسان ان دو ہی پیمانوں سے ناپتا ہے.دن کے رات ہونے کے نتیجے میں اس کو وقت کا احساس ہوتا ہے، اس کی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے.رات کے دن ہونے کے نتیجے میں اس کو وقت کی تبدیلی کا احساس ہوتا ہے اور پھر دورانی طور پر وقت کا ہر پیمانہ بدل رہا ہوتا ہے.کبھی رات چھوٹی ہو رہی ہے تو چھوٹی

Page 27

خطبات طاہر جلد ۶ 23 23 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء ہوتی چلی جارہی ہے.کبھی دن چھوٹا ہوتا ہے تو چھوٹا ہوتا چلا جارہا ہے اور بہت ہی کم ایسی جگہیں ہیں جہاں دن اور رات حسابی طور پر برابر قرار دیئے جاسکیں.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ حسابی طور پر سو فیصدی ان کو بھی برابر نہیں کہا جاسکتا اور ان کے برابر ہونے میں بھی پھر کچھ نشانات ہیں.تو ایک اور مضمون اس میں داخل ہو گیا.جہاں برابر ہوں گے دن اور رات وہاں بھی کچھ حکمتیں اس کے پیش نظر ہیں ان پر غور کرو.تو ہمارا وقت دن اور رات کی حیثیت سے بھی گھوم رہا ہے اور سال کی حیثیت سے بھی گھوم رہا ہے.اس میں جو بہت سے نشانات ہیں اولوالالباب کے لئے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے کہ اس کا فلسفہ کیا ہے.اور وقت کو ہم کیسے سمجھیں ، ان اشاروں کے نتیجے میں جو قرآن کریم نے ہمارے لئے اس موقع پر واضح فرمائے ہیں.ایک بچے کو آپ ایک پہیہ پر گھومتے دیکھتے ہیں ، نمائشوں میں، پاکستان میں ، ہندوستان وغیرہ میں ، افریقہ کے ممالک میں بھی ، چھوٹے چھوٹے میلوں میں اور چیزیں ہوں نہ ہوں یہ پہیہ ضرور آپ کو نظر آئے گا.اتنا شوق ہوتا ہے بچوں کو پہیہ پر گھومنے کا.کبھی اس کی حرکت عمودی ہوتی ہے، کبھی زمین سے متوازی ہوتی ہے، یعنی یوں گھومتا ہے، بہر حال پہیہ پر بیٹھنے کا بڑا شوق ہوتا ہے اور جتنی اس کی رفتار تیز ہوا تنا زیادہ بچہ Excite ہوتا ہے.جتنا ست رفتار ہو جائے پہیہ اتنا وہ بور ہوتا چلا جاتا ہے، یہاں تک کہ جب اس کو کھڑا ہوا محسوس ہو تو وہ فورا اس پہیہ سے اتر جائے گا.ہماری زمین کی جو حرکت ہے وہ ایک پہیہ کی طرح ہے اور اس پہیہ کی حرکت میں اور اس بچے کے پہیہ کی حرکت میں کیا چیزیں ملتی جلتی ہیں، کیا فرق ہیں ان پر اگر آپ غور کریں تو وقت کے متعلق کچھ نئے نئے مضامین بھی آپ کے سامنے آتے چلے جائیں گے.بچے کو Excitement یعنی اس کے اندر جو طبیعت میں ہیجان پیدا ہوتا ہے اس کا تعلق رفتار کے حساب سے ہے اور اگر اس کو رفتار کا احساس نہ رہے تو وہ ہیجان پیدا نہیں ہوگا.چنانچہ زمین اس سے بہت زیادہ تیز رفتاری سے گھوم رہی ہے جس تیز رفتاری سے وہ پہیہ گھومتا ہے یا گھوم سکتا ہے.زیادہ سے زیادہ تیز رفتار جس پر ایک دفعہ میں بھی بیٹھا تھا.پہیہ تو نہیں ہے وہ ایک Space Ride کہتے ہیں امریکہ میں ، وہ تین سومیل فی گھنٹہ کی رفتار سے وہ چیز حرکت کر رہی تھی وہ سو فیصدی بیضوی نہیں تھی، لیکن اس میں بڑی Excitement تھی.تو زمین جو خدا تعالیٰ نے

Page 28

خطبات طاہر جلد ۶ 24 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء بنائی ہے اس کی حرکت ایک ہزار میل سے کچھ اوپر ہے یعنی کیونکہ ہر جگہ برابر نہیں لیکن جو زیادہ سے زیادہ حرکت ہے چوبیس گھنٹے میں چونکہ پوری ہوتی ہے اور زیادہ سے زیادہ اس کا گھیر پچیس ہزار میل کے لگ بھگ ہے تو اس لئے ایک گھنٹے میں ایک ہزار میل سے کچھ اوپر رفتار سے ہم حرکت کر رہے ہیں اور پہیہ کی طرح بعینہ بظاہر و ہیں نکل آتے ہیں جہاں سے چلے تھے اور اس کے باوجود اس کی وجہ سے کوئیExcitement نہیں.حرکت کا احساس نہیں ہے لیکن اس کے باوجود اگر آپ متوجہ ہوں اور وقت کو سمجھیں زیادہ تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے Excitement اور بیجان کے کیا پیمانے رکھے ہیں.ایک بات تو قطعی ہے یہ دورانی سفر اگر ہیجان کے بغیر ہوتو یہ بے معنی اور بور زندگی بن جاتی ہے.چونکہ ہمیں رفتار کا احساس نہیں ہورہا جو بچے کو ہوتا ہے چھوٹے پہیہ پہ بیٹھ کے اس لئے ہمارے نزدیک زمین کھڑی ہے.حرکت کا احساس کیسے ہو؟ اس کے اوپر جب آپ غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بچوں کے کھیل کا پہیہ تو بعینہ و ہیں نکلتا ہے جہاں سے وہ چلتا ہے اور ہر حرکت مکمل کر کے وہیں جانکلتا ہے پھر لیکن زمین کا پہیہ وہاں نہیں نکل رہا بلکہ ہر حالت اس کے اندراس کثرت سے تبدیل ہورہی ہے کہ جب وہ ایک چکر پورا کرتا ہے تو اس وقت کی زمین بدل چکی ہوتی ہے اس کا نقشہ بدل چکا ہوتا ہے.حالانکہ پہیہ اس شکل میں رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہورہی ہوتی لیکن زمین میں ہر وقت تبدیلی ہو رہی ہے.اس لئے چوبیس گھنٹے کے بعد آپ کی زمین میں بے انتہا ایسی تبدیلیاں ہو چکی ہیں جن کو آپ گن بھی نہیں سکتے.ارب ہا ارب تبدیلیاں ہورہی ہیں.ہر جانور تبدیل ہو رہا ہے یہاں تک کہ بعض جانوروں کے اندر جو خدا تعالیٰ نے ان کی زندگی کا چکر رکھا ہے وہ ایک چوبیس گھنٹے کے اندر کئی بار پورا ہو چکا ہوتا ہے.بیکٹیریا جو ہمارے جسم کے اندر خوفناک بیماریاں بن کے بعض دفعہ داخل ہوتے ہیں ان کی زندگی کا پورا چکر بعض دفعہ ایک دو چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں ہوتا اور بعض دفعہ اس سے بھی بہت کم یہاں تک کہ تیز رفتاری سے یہ پیدا ہوتے ، جوان ہوتے اس عرصے میں نشو ونما پاتے اور مر جاتے ہیں تو ان کی نشو و نما کی رفتار چکر چھوٹے ہونے کی وجہ سے غیر معمولی طور پر تیز ہو جاتی ہے.اسی وجہ سے انسانی جسم پہ قبضہ کرتے ہیں.تو ہر حرکت کے اندر، ہر دن کے اندر کچھ اور حرکتیں ہورہی ہیں، ہمارے طبع کے اندر جن کا

Page 29

خطبات طاہر جلد ۶ 25 25 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء مزاج داخل ہو چکا ہے اور ان سے ہم الگ نہیں ہو سکتے جس طرح زمین کے پہیہ کی حرکت پر ہم مجبور ہیں کہ اسی رفتار سے گھومتے رہیں اسی طرح خدا تعالیٰ نے ہر زندگی اور غیر زندہ چیزوں میں بھی کچھ دور مقرر کر دیئے ہیں اور وہ اندرونی طور پر حرکتیں کر رہے ہیں.اس لئے جب بھی زمین چکر لگا کر ایک مقام پر دوبارہ نکلتی ہے تو وہ زمین نہیں ہوتی جو وہاں سے چلی تھی اور جتنا زیادہ انسان کو ان تبدیلیوں میں دخل ہو اتنا زیادہ انسان اپنے آپ کو ایک ہیجان کی حالت میں پاتا ہے.جتنا زیادہ یہ تبدیلیاں انسان پر اثر انداز ہوں اتنازیادہ انسان کے اندر ہیجان پیدا ہوتا ہے یا اس کا فقدان ہوتا ہے.لیکن اس کے سوا ایک اور بھی تبدیلی ہو رہی ہے وہ ہے سال کی تبدیلی یعنی زمین پورے سال میں سورج کے گرد چکر لگا رہی ہے.اس کے نتیجے میں ایک اور طرح بھی فرق پڑتا چلا جاتا ہے کہ آج ہم اس وقت جس مقام پر کھڑے ہیں اگر ساری زمین کی تمام اندرونی حرکتیں بند ہو جائیں اور ساکت اور منجمد ہو جائیں زمانہ زمین کے لحاظ سے تب بھی چونکہ یہ سورج کے گرد گھوم رہی ہے اس لئے کل اس وقت یہ زمین وہاں نہیں ہوگی جہاں آج اس وقت ہے اور اس کے دن اور رات میں پھر بھی تبدیلی آجائے گی اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ کا مضمون اسی طرح جاری رہے گا کہ اس میں ایک دورانی تبدیلی بھی پیدا ہو رہی ہے.تو اگر آپ غور کریں تو وقت ایک حرکت کرتی ہوئی چیز کا نام ہے یا حرکت ہی کا نام ہے.سکون موت ہے اور حرکت وقت ہے اور حرکت ہی دراصل وہ چیز ہے جس سے Excitement پیدا ہوسکتی ہے.اگر حرکت کا احساس ہو تب یا حرکت میں آپ متحرک ہو جائیں اپنی ذات میں ان معنوں میں کہ تبدیلیوں میں آپ کا حصہ پیدا ہو جائے یا تبدیلیوں سے آپ کا تعلق پیدا ہو جائے.یہ دو باتیں ہیں جو وقت کے گزرنے کا احساس پیدا کر کے آپ کے اندر لذت پیدا کرتی ہیں.ان کا جو فقدان ہے اسی کا نام موت ہے، اسی کا نام انجما داور سکوت ہے.پس جب ہم وقت کو اس نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو سیدھی حرکت کرنے والی چیز کوئی نہیں ہے دنیا میں.Spiral Movement کا نام وقت ہے یعنی زمین اپنے گرد گھومتی ہے اگر یہ کھڑی ہوتی ایک ہی جگہ تو یہ صرف محوری گردش تھی چونکہ اور بھی حرکت کرتی جا رہی اس لئے Spiral Movement ہو گئی ہے اس کی.جس طرح بیچ میں آپ بیچ کے ساتھ انگلی گھمائیں تو پورا چکر

Page 30

خطبات طاہر جلد ۶ 26 26 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء کھانے کے باوجود بھی انگلی وہاں نہیں نکلے گی جہاں پہلے تھی.ہر چکر کے ساتھ انگلی آگے بڑھتی چلی جائے گی لیکن چکر میں بڑھ رہی ہے اور سورج سمیت یہ نظام شمسی پھر گھوم رہا ہے اور نظام شمسی کا وقت اس طرح بنتا چلا جا رہا ہے ایک اور طریق پر اور یہ جو گلیکسی (Galaxy) جس کا ہم حصہ ہیں یہ گلیکسی اپنے گرد بھی گھوم رہی ہے اور اس کے علاوہ ایک اور گردش کر رہی ہے اور یہ ساری کائنات جس میں ان گنت گلیکسیز ہیں یہ خود ساری کائنات بھی حرکت میں ہے اور ہر چیز ایک دوسرے سے الگ ہوتی جارہی ہے اور فاصلے بڑھ رہے ہیں وہ اِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات: ۴۸) کا نقشہ ہے حیرت انگیز اور جس طرف سے ، جس زاویے سے بھی آپ دیکھیں وہاں وقت کے پیمانے بدل جائیں گے.ہم فی الحال اپنے وقت کے پیمانے میں محدود ہیں اور جو وقت خدا نے ہمیں دیا ہے اس کا خلاصہ وہی ہے جو قرآن کریم نے بیان کر دیا.اور جو دوسرے اوقات ہیں ان کی طرف ایک اور آیت میں اشارہ فرمایا كُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (الانبیاء: ۳۴) کہ صرف تم ہی نہیں ہو جومحوری گردش میں مبتلا ہو اور دورانی گردش میں مبتلا ہو ہر چیز ایک بیضوی شکل میں گھوم رہی ہے.بیضوی شکل کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کے گولائی ہو، خواہ نسبتا انڈے کی طرز پہ ہو یا جس شکل میں بھی ہو وہ حرکت ، واپس آنے والی ہے یعنی اس میں ایک قسم کی واپسی بھی ہے.یہ ہے مضمون قرآن کریم نے جو وقت کا ہمارے سامنے رکھا ہے.اب سوال یہ ہے اس مضمون کے پیش نظر ہمارے لئے اس میں کیا نشانات ہیں.آیت کا آخری حصہ اس طرف انگلی اٹھا رہا ہے.خلاصہ اس غور کا وہ مومن جو خدا کو یار رکھتے ہیں، یہ نکالتے ہیں که رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کہ اے خدا ! تو نے اس سارے نظام کائنات کو باطل پیدا نہیں کیا.بے مقصد اور لغو پیدا نہیں کیا سُبحنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ اس لئے اگر ہماری حرکت باطل کی طرف ہوگی تو چونکہ ہم مقصد کا ئنات کے خلاف حرکت کر رہے ہوں گے اس لئے لازماً ہم پکڑے جائیں گے، ہمیں نقصان پہنچے گا.اس لئے تو ہمیں آگ کے عذاب سے بچا.ہماری حرکت اس طرف ہو جو باطل کے خلاف ہو.اب سوال یہ ہے وقت کا ہر لحہ اگر آپ غور کریں چونکہ یہ حرکت کا نام ہے اس لئے حرکت تبھی ہوگی اگر وقت کو بھرا جائے.اگر وقت کا لمحہ خالی ہو، اس کو کسی چیز سے نہ بھریں وہ تو متحرک ہے ہی نہیں ، وہ وقت ہی نہیں ہے.تو ایک بات تو یہ ہمارے سامنے آئی اس آیت پر غور کرنے سے کہ ہمارے وقت کا پیمانہ ہمارے اپنے اعمال

Page 31

خطبات طاہر جلد ۶ 27 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء ہیں.جتنا ہم تیز رفتاری کے ساتھ اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں یا زمانے کو بدل رہے ہیں یا زمانے پر اثر انداز ہورہے ہیں، اتنی تیز رفتاری سے ہمارا وقت گھوم رہا ہے.اس پہلو سے اگر آپ غور کریں تو پتا چلے گا کہ ہم میں سے ایک بڑی بھاری تعداد ایسی ہے جو وقت کا ایک بہت بڑا حصہ ان معنوں میں ضائع کر دیتی ہیں کہ وقت بنتا ہی نہیں وہ.قرآن کریم نے جو وقت کا نقشہ کھینچا ہے وہ آگے بڑھنے والا وقت ہے جو کوٹ کوٹ کر تبدیلیوں سے بھرا ہوا ہے.ایک لمحے کا کروڑواں در کروڑواں در کروڑواں حصہ بھی ایسا نہیں جس میں کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی شکل کی تبدیلیاں نہیں ہو رہیں.اس لئے کچھ تبدیلیاں تو ہمارے اندر ہوں گی بہر حال کیونکہ قدرت نے ہمیں مجبور کیا ہوا ہے.جس وقت کے ہم جوابدہ ہیں فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ کا مطلب یہ ہے اس دعا کا کہ ہم اپنے وقت کے جوابدہ ہیں، ہمیں یہ سمجھ آگئی ہے.جس وقت کے ہم جوابدہ ہیں وہ وہ وقت ہے جس کا ہماری ذات کی تبدیلیوں سے تعلق ہے.ہمارے اندر جو ہم تبدیلیاں خود کر رہے ہیں اپنے اندر یا اپنے ماحول اور گردو پیش میں جو تبدیلیاں کر رہے ہیں، ان کا نام وقت ہے.اگر ہم فعال نہ رہیں تو ہمارا وقت اس حد تک ضائع ہو گیا یا وقت چلا ہی نہیں.اس لئے بظاہر بعض لوگ ساٹھ سال ،ستر سال ،سو سال زندہ رہتے ہیں لیکن ان کا عملی وقت اگر آپ دیکھیں قرآن کریم کی تعریف کی رو سے تو اس میں سے بہت سارا حصہ خلا ہے، وقت ہے ہی نہیں.عمر کو اگر اعمال کے پیمانے سے جانچا جائے تو بہت ہی تھوڑا وقت ملے گا جس میں انسان زندہ رہا ہے.جو مادہ پرست قومیں ہیں ان میں نسبتاً زیادہ وقت کی قدر ہے لیکن رخ باطل کی طرف ہو گیا ہے اس لئے وہ اس پہلو سے جوابدہ ہوں گی لیکن میں اس وقت یہ بات نہیں کر رہا.میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہم بہت سارے وقت کو وقت سمجھ رہے ہیں جو وقت نہیں ہے.چنانچہ کسی نے خوب لکھا تھا کہ وقت گھڑی کی سوئی کی حرکت سے یا سیکنڈ کی ٹک ٹک سے نہیں بلکہ دل کی دھڑکن سے ناپا جاتا ہے.جتنا زیادہ ہیجان پیدا ہوا ہے اسی قدر تیز رفتاری سے وقت گزرا ہے.اس پہلو سے جب آپ غور کریں تو قرآن کریم کی آیت کا مضمون ایک اور شان سے سامنے آتا ہے اور وہ لیلۃ القدر سے متعلق ہے.فرمایا: وَمَا أَدْرَيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍة (القدر:٤٠٣)

Page 32

خطبات طاہر جلد ۶ 28 88 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے اور لیلۃ القدر سے ایک مراد آنحضور ﷺ کی راتیں ہیں.جن کی قدر تھی.آپ جن کی قدر کرتے تھے راتوں کی اور ان کو صحیح مصرف کرتے تھے.اللہ تعالیٰ جن راتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا.تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ایک رات بظاہر اتنے وقت میں گزری ہے جتنے وقت میں زمانے کی اس جگہ کے بسنے والوں کی رات تھی.تو فرمایا ایک اور تئیں ہزار کی نسبت اس رات میں اور اس رات میں ہے.ایک ایک لمحہ استعمال فرما رہے ہیں آنحضرت علی اس لئے آپ کی راتوں کی قدر خدا کے نزدیک بڑھ گئی.اس پہلو سے میں نے غور کیا تو بہت سے اور مضامین بھی خدا تعالیٰ نے سمجھائے اور حیرت انگیز طور پر عمر دنیا سے اس مضمون کا تعلق دکھائی دیا.بہر حال ہم جس کے غلام ہیں اس کا پیمانہ ہمیں بتا دیا گیا، اس کے وقت کا پیمانہ اور ہمیں متوجہ کیا گیا کہ تم بھی اپنے وقت کو بھرنے کی کوشش کرو.جتنے لمحے تمہارے بھر پور ہوتے چلے جائیں گے، اتنا تیز رفتاری سے تمہارا وقت گزرے گا اور تمہارے غیروں کے مقابل پر تمہارے وقت کی قیمت خدا کے نزدیک اسی پیمانے کے مطابق جانچی جانی چاہئے.محمد مصطفی ﷺ کا وقت اگر دوسرے کے وقت سے ایک اور تمیں ہزار کی نسبت رکھتا تھا تو آپ کے غلاموں کا وقت بھی دوسرے انبیاء کے غلاموں سے مقابلہ اتنا ہی زیادہ کارآمد اور مصروف ہونا چاہئے.حرکت کے لحاظ سے معنوں کے لحاظ سے.پس جب ہم اپنے وقت کو پہچانتے ہی نہیں، ہمیں پتا ہی نہیں ہے کہ وقت گزر بھی رہا ہے کہ نہیں تو ہم کس طرح خدا تعالیٰ کے سامنے جواب دیں گے کہ اے خدا! تو نے تو باطل نہیں پیدا کیا تھا مگر ہم نے باطل کر کے دکھا دیا.اس لئے وقت خود اپنی ذات میں ایک جواب طلبی کا ذریعہ ہے.یہ کہنا کہ جی میرا وقت ہے تمہیں کیا فرق پڑتا ہے میں جس طرح گزار دوں.یہ غلط بات ہے اس کو دماغ سے نکال دیں.آپ کا وقت نہیں ہے خدا کا وقت ہے اور وہ وقت کا بھی مالک ہے اور ان معنوں میں آپ کا وقت ہے کہ آپ کو امانتا دیا گیا ہے.اس وقت کے متعلق جواب طلبی ہوگی اور یہ جواب آپ کو دینا پڑے گا کہ ہم نے اس وقت کی حرکت کو باطل میں تبدیل کیا تھا یا حق میں تبدیل کیا تھا.یہ مضمون اگر آپ ذہن میں رکھیں تو وہ وقت جو ہم ضائع نہیں کرتے جو گزررہا ہے کسی حرکت میں، اس پر نظر ڈالیں تو وہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم ہوتا نظر آتا ہے.وقت یا باطل کی

Page 33

خطبات طاہر جلد ۶ 29 29 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء طرف جارہا ہے یا حق کی طرف جارہا ہے یا اندھیرے کی طرف جارہا ہے یا روشنی کی طرف جارہا ہے، تیسری کوئی حالت نہیں ہے اور آپ جس کو آرام کہتے ہیں یعنی تھکاوٹ دور کرنا ، اس کا بھی اس سے تعلق ہے.جس کا دن نیکیوں میں گزرے اس کا آرام بھی نیکیوں میں ہوتا ہے ، جس کا دن بدیوں میں گزرے اس کا آرام بھی بدیوں میں ہوتا ہے اور اس فلسفے کو خدا تعالیٰ نے نہایت ہی عظیم الشان طریق پر حضرت رسول اکرم ﷺ کی سنت کے مضمون کے تعلق میں ہمیں پھر سمجھایا:.فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبَّكَ فَارْغَبْ (الم نشرح: ۸-۹) تھکا ہوا آدمی لذت چاہتا ہے اس سے خدا تعالیٰ انکار ہی نہیں کرتا.لذت کو وقت کا ضیاع نہیں فر ما تا مگر یہ فرماتا ہے لذت باطل کے ذریعے بھی ہو سکتی ہے اور حق کے ذریعے بھی ہوسکتی ہے.جس کے وقت کا لمحہ لحہ بے انتہا قیمتی تھا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ.آپ کی لذت خدا تعالیٰ کی ذات میں تھی.اس لئے جب آپ فارغ ہوتے تھے تو تب بھی آپ کی لذت خدا تعالیٰ کی یاد میں ہوتی تھی.کام بھی خدا اور آرام بھی خدا.یہ توحید کامل پیدا ہو جاتی ہے موحد کامل میں.صلى الله اس پہلو سے اگر آپ وقت کا حساب لگائیں تو ایک اور بڑی دلچسب بات سامنے آتی ہے حضرت رسول اکرم ﷺ اور اپنے درمیان فاصلہ جانچنے کا ایک بہت ہی عمدہ پیمانہ خدا نے ہمیں پکڑا دیا.ہم اپنے آرام کے تصور اور تھکنے کے بعد ہم کیا چاہتے ہیں ، اس تصور کا آنحضرت ﷺ کے آرام کے تصور اور تھکنے کے بعد آپ کیا چاہتے تھے ، اس کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ یہ فاصلے کتنے زیادہ ہیں.اتنا فاصلہ ہے ایک عام انسان میں خواہ وہ متقی بھی ہو اور حضرت رسول اکرم ﷺ کے اعلیٰ اور ارفع مقام میں کہ اس پیمانے سے جب آپ اپنے آپ دیکھیں تو ہر متقی اپنے آپ کو گناہ گار سمجھنے لگ جائے گا.اس کے بے شمار آرام کے مواقع جو وہ تلاش کرتا ہے یا حاصل کرتا ہے ان پر جب وہ نظر ڈالتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اِلى رَبِّكَ فَارْغَبُ کے پیمانے پر وہ پورے نہیں اترتے.کچھ نہ کچھ رب سے ہٹ کر ان کا مقام ہے اگر چہ بڑا فرق ہے اس میں بھی جو غیر متقی ہے وہ خالصۂ باطل میں جا کر اپنی آرام طلبی کا اظہار کرتا ہے، اپنی لذت یا بی کو کلیۂ باطل میں ڈھونڈتا ہے.مومنوں میں سے ایک بڑا حصہ ہے جو No Man's Land میں رہتا ہے، نہ باطل میں نہ

Page 34

خطبات طاہر جلد ۶ 30 50 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء حق میں اس کی لذت زیادہ سے زیادہ یہ ہوگی کے سو جائے گا یا کسی جگہ آرام سے ٹک کر کہیں غور شروع کر دے گا.ضروری نہیں کہ خدا کی حالت پر غور کرے.آنحضرت ﷺ کی لذت اس کے مقابل پریا تو Active عبادت میں تھی ، باشعور عبادت میں اور یا ایسی نیند میں جس میں آپ خود فرماتے ہیں کہ میری نیند اور تمہاری نیند میں فرق ہے تنام عینی ولا ينام قلبی ( بخاری کتاب المناقب حدیث نمبر ۲۳۰۴۰) که میری آنکھ تو سو جاتی ہے مگر میرا دل نہیں سوتا اور یہاں دل کی بھی آپ نے ایک تعریف فرما دی جس سے آج کل جو جھگڑا ہے کہ قرآن کریم جب دل کہتا ہے تو کیا مراد ہے.Sub-Conscious Mind مراد ہے.قلب سے مراد یہاں ہے کہ میرے اندرونی دل میں جو ہے ہر وقت ذکر الہی گھوم رہا ہے.اس لئے نیند کی حالت میں بھی جو لذت ہے، جو سکون ہے، اس کی بنیادی وجہ آنحضرت ﷺ کے لئے یہ تھی کہ نیند کی حالت میں بھی اللہ تعالیٰ کا ذکر ذہن میں گھوم رہا ہوتا تھا اور آپکو بھی یہ تجربہ ہوگا کہ اگر دن برا گزرا ہو، خطرات میں گزرا ہو تو رات بے چین نیند آتی ہے یا کل کے خطرات ہوں.اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا ذہن بھی اس وقت کام کر رہا ہے لیکن غلط رستوں پر کام کر رہا ہے.سکون دینے کی بجائے آپ کو خراب کر رہا ہے، بے چین کر رہا ہے اور طرح طرح کے خوف دلا رہا ہے.ایک آدمی جو گناہوں کے متعلق سوچتا ر ہے ہر وقت اس کے ذہن میں جو نیند کے وقت حالتیں ہیں وہ بھی گناہ کی حالتیں گزرتی ہیں.تو آنحضرت ﷺ کا وقت نہ صرف یہ کہ مصروف تھا اورلمحہ لمحہ مصروف تھا بلکہ اس وقت کا کام بھی خدا تعالیٰ کے لئے تھا اور اس وقت کا آرام بھی خدا تعالیٰ کے لئے تھا.ہر لمحہ اور لمحے کا ہر حصہ اس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کا مصروف چلا ہے اور بھر پور چلا ہے کہ آپ نے بعض ایسی راتیں گزاریں ہیں کہ ایک ایک رات ان میں سے عام انسان کی تمہیں تمہیں ہزار راتوں سے زیادہ بھر پور تھی اور معنی خیز تھی.تو جماعت احمدیہ کو اپنے وقت کی قیمت کا احساس ان پیمانوں کو پیش نظر رکھ کر کرنا چاہئے.ہمارے سپر د جو کام ہیں وہ بہت زیادہ ہیں.اتنے زیادہ ہیں کہ اگر آپ جائزہ لیں کہ انگلستان کی حالت تبدیل کرنے کے لئے ہمیں کتنے سال چاہئے؟ تو اگر کوئی باشعور انسان ہو اور حساس ہو اور دین کی محبت رکھتا ہو اور اس بات میں صرف یہی فکر ہر وقت اس کو دامن گیر ہو تو اس کو اپنی صحت کی فکر کرنی چاہئے.بظاہر ایک ناممکن کام نظر آتا ہے.کتنے سال سے جماعت نے محنت کی ہے اور اس کے بعد

Page 35

خطبات طاہر جلد ۶ 31 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء اب تک جو تبدیلیاں پیدا ہم کرسکیں ہیں اگر چہ ہر تبدیلی پر دل شکر سے بھرتا ہے لیکن ذمہ داری کا جہاں تک احساس ہے اس پہلو سے اگر آپ دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہم وقت سے بہت ہی پیچھے رہ گئے ہیں.ساری دنیا کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنا اور حق کے رستے پہ چلا دینا اتنا بھاری ، اتنا بڑا کام ہے کہ جہاں تک ہماری جماعت کی تعداد کا تعلق ہے، استطاعت کا تعلق ہے بالکل ناممکن نظر آتا ہے لیکن جہاں تک وقت کے اس پیمانے کا تعلق ہے جو قرآن کریم نے ہمارے سامنے رکھا ہے اور اس پیمانے کو آنحضرت ﷺ نے کس طرح استعمال فرمایا تھا اس بات کی طرف جب قرآن کریم ہمیں متوجہ کرتا ہے تو ناممکن بات ممکن ہوتی دکھائی دیتی ہے.اب میں اس فلسفے کی روشنی میں چند منٹ واقعاتی تجزیہ کر کے آپ کو بتاتا ہوں کہ انگلستان کی مثال دی تھی.انگلستان کی جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسی جماعت ہے جو مصروف ہے اور عام طور پر جو موازنہ کیا جاتا ہے اس کے لحاظ سے اسے صف اول کی جماعتوں میں شمار کرنا چاہئے.لیکن اس کے باوجود جب آپ قریب کے نظر سے جائزہ لیں تو اتنے خلا آپ کو نظر آئیں گے کہ ہوش اڑنے لگتے ہیں ان کو دیکھ کے.ہر جماعت میں نزدیک کی نظر سے ڈوب کر دیکھیں تو آپ کو جگہ جگہ خلا اور جگہ جگہ وقت کا ضیاع اس کثرت سے دکھائی دے گا کہ حواس باختہ ہو جاتا ہے آدمی کہ اتنا بڑا ہمارا قیمتی وقت ، اتنے بڑے کام والی جماعت کا اور اتنا ضائع ہو رہا ہے اور اس طرح ضائع ہو رہا ہے.بے مصرف جس کو میں وقت کہتا ہی نہیں کیونکہ خدا کی تعریف کے مطابق تو جو بے مصرف لمحات ہیں وہ وقت نہیں ہیں.سکوت ، جمود، موت اس کا نام رکھ دیں وقت نہیں رکھ سکتے.تو یہ موت کا حصہ ہی اتنا بڑا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ اتنا قیمتی وقت رکھنے والی جماعت جو مستعد جماعتوں میں سے ایک جماعت ہے اس کے افراد میں سے اکثر کا وقت بہت حد تک اس طرح ضائع ہوتا ہے کہ کوئی بھی عمل اس سے پیدا نہیں ہو رہا اور پھر جب آپ اس وقت کو لیتے ہیں جو مصروف ہے جو حقیقت میں وقت کہلانے کا مستحق ہے، اس میں سے بھاری حصہ ایسا ہے جو اِلی رَبِّكَ فَارْغَبُ کے مطابق نہیں ہے وہ باطل کی طرف حرکت کر رہا ہے یا بے معنی ہے.جہاں تک دنیا کے علوم کا حصول اور اس کی کوششوں کا تعلق ہے اس کو میں ضائع نہیں کہتا، اس کو میں باطل نہیں کہتا.میری مراد یہ ہے کہ اس وقت کے اندربھی آپ کے ذہن کی گردش ایک ہی

Page 36

خطبات طاہر جلد ۶ 32 32 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء وقت میں خدا کی طرف بھی حرکت کر سکتی ہے اور خدا کے بغیر بھی حرکت کر سکتی ہے.قرآن کریم نے یہ تفریق ہی نہیں کی دنیا کے کام کی یا دوسرے کام کی.قرآن کریم کہتا ہے سارا کام دنیا کا ہے تم دنیا کے اندر رہو گے.دنیا کے جو حالات ہیں تم پر گزریں گے.تم دنیا میں تبدیلیاں پیدا کر رہے ہو گے اس طرح خَلْقِ السَّمواتِ وَالْأَرْضِ اور وقت کو اکٹھا کر دیا ہے Space اور Time کو ایک جگہ باندھ دیا ہے.یہ ہے خلاصہ زندگی کا.فرمایا ایسی حالت میں تم ہر کام کر سکتے ہو کہ يَذْكُرُونَ الله قيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ تمہارا قیام ،تمہارے اٹھنا، تمہارے بیٹھنا، تمہارا لیٹنا تمہارا سب کچھ ذکر الہی سے معطر ہو جائے گا.ایک Scientist جب کام کر رہا ہے تو اس کے ذہن کو بار بار اپنے رب کی طرف منتقل ہوتے رہنا چاہئے اور اِلى رَبِّكَ فَارْغَبْ کا ایک یہ مضمون بھی ہے، ایک یہ مفہوم بھی ہے.جو چیزیں وہDiscover کرتا ہے جس چیز کا جائزہ لے رہا ہے، اس کا دماغ ہمیشہ مستقلاً چونکہ خدا کے تصور میں ڈوبا ہوا ہے اس لئے اس کو ہر جگہ خدا کا جلوہ دکھائی دے دے رہا ہوتا ہے.ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو چاند کو دیکھ کر نظم فرمائی اس میں یہی مضمون - ایسا شخص جب سیر کے لئے بھی جاتا ہے تو بظاہر وہ اِلی رَبَّكَ فَارْغَبُ کا مضمون نہیں ہے.لیکن جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ہم پڑھتے ہیں کہ آپ ڈلہوزی جا رہے تھے تو خوبصورت نظاروں پر کھڑے ہو کر بعض دفعہ ذکر الہی میں اس طرح ڈوبے اور بعض دفعہ وہاں نوافل پڑھے خاص طور پر اللہ کی یاد میں تو پھر یہ مضمون کھل جاتا ہے کہ دنیا قرآن کریم کے تصور کے مطابق اس طرح نہیں بانٹی جارہی کہ کچھ وقت غیر کا ہے کچھ خدا کا ہے.وقت ہے ہی خدا کا.وقت ہمارا ہے ہی نہیں.جو خدا کا وقت خدا کو لوٹاتے ہیں جس حد تک لوٹاتے رہتے ہیں، وہ امین بندے ہیں خدا کے اور ہر حالت میں وہ خدا کو لوٹا رہے ہوتے ہیں.بیوی سے محبت کرتے ہیں تب بھی وہ وقت کو خدا کو لوٹا رہے ہوتے ہیں.آنحضور ﷺ نے فرمایا جو اس وجہ سے اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے کہ خدا نے فرمایا ہے کہ حسن سلوک کرو اور پیار کا اظہار کرو تو یہ بھی اس کی عبادت ہے.( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر : ۵۶) تو دیکھیں جو قرآن نے وقت کی تعریف کی ہے اس کی رو سے اب یہ جھگڑا ختم ہو گیا کہ کتنا وقت ہم خدا کو دیں اور کتنا غیر اللہ کودیں اور یہ بحث غائب ہوگئی کہ کونسا وقت ہم غیر اللہ کو دینے پر مجبور

Page 37

33 33 خطبہ جمعہ ۹/ جنوری ۱۹۸۷ء خطبات طاہر جلد ۶ ہیں، آخر ہم نے دنیا کمانی ہے، ہم نے کھانا ہے، ہم نے آرام کرنا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے تمہیں عملاً یہ کر کے دکھا دیا ہے.وہ بھی آرام کرتے ہیں لیکن ان کے آرام پر بھی خدا اس طرح چھا گیا کہ اِلى رَبِّكَ فَارْغَبُ کا مضمون تمہیں ہر جگہ نظر آئے گا.سیر میں بھی ، اٹھنے بیٹھنے میں بھی ، دنیا کی تحقیق میں بھی ، گفتگو میں بھی.اس پہلو سے جب ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں تو جہاں وقت ضائع کرنے والوں کا میں نے ذکر کیا تھا، جو لوگ وقت ضائع نہیں کر رہے، ان کے وقت کا بھی ایک بڑا حصہ ضائع ہو رہا ہے اور تب انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی حقیقی شان اور حقیقی مقام کتنا ہے اور ان تک پہنچنے کے لئے کتنی عمریں درکار ہیں.ایک پہلو سے ایک سال اور تمیں ہزار سال کی نسبت بھی قرار دی جاسکتی ہے اگر اس کو قدر کی رات کے پیمانے سے جانچا جائے.مگر ہم اس بات کے تو بہر حال جوابدہ ہیں کہ ہماری حرکت اس طرف تھی یا اس سے برعکس طرف تھی؟ کیا ہم کوشش یہ کر رہے تھے کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مطابق ، آپ کے نمونے کے مطابق اپنے وقت کو وقت بنائیں یا اس کے برعکس سمت میں ہم رواں تھے.اس پہلو سے بھی آپ غور کر کے دیکھیں تو ہمارا بہت سا وقت ضائع ہوتا نظر آرہا ہے بلکہ ہماری اولا د کا وقت ہم سے بھی زیادہ ضائع ہوتا نظر آ رہا ہے اور یہ خطرہ سامنے آجاتا ہے کہ ہم نے اگر اپنے وقت کی کوئی قیمت حاصل بھی کر لی تو ہم ایسی اولاد پیچھے چھوڑ کر جارہے ہیں جن کا وقت باطل کی طرف متحرک ہے.وہ جو سائنس پڑھیں گے تو دنیا دار کی طرح سائنس پڑھیں گے.ان کو سائنس میں خدا نظر نہیں آرہا ہو گا.وہ جب دنیا میں بڑے بڑے مقامات حاصل کریں گے تو دنیا دار کی طرح باطل کے مقامات حاصل کر رہے ہوں گے.جبکہ آج کی نسل میں وہی مقامات پہ فائز آدمی ، ایک متقی بھی ہو ہے، مخلص بھی ہو سکتا ہے.جس کے وقت کی توجہ ہر وقت خدا کی طرف ہے.سکتا ہے تو اتنا کام ہونے والا ہو جس جماعت کے لئے اندرونی طور پر اور پھر بیرونی طور پر جو دنیا کو تبدیل کرنا ہے.یہ ساری باتیں اگر آپ غور کریں تو تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ کتنا بھاری ذمہ داری کا کام ہے، کتنا بوجھ ہے.اور جو لوگ جوابدہ ہیں وہ خدا کے سامنے کس طرح اپنے لمحات کا حساب پیش کریں گے.ہم میں سے ہر ایک جوابدہ ہے.اس لئے جماعت کا وقت اگر پہلے سے بہتر نہیں ہوتا تو میں جوابدہ ہوں.اس تصور سے بھی میرے ہوش اڑتے ہیں اور جان کا نپتی ہے کہ کیا میں خدا کو منہ

Page 38

خطبات طاہر جلد ۶ 34 34 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء دکھاؤں گا کہ تمہارے وقت کے ساتھ جماعت کا وقت باندھا تھا اور تم نے پرواہ نہیں کی کہ اس جماعت کا وقت پہلے سے زیادہ بہتر ہوتا چلا جائے اور آپ میں سے ہر ایک جوابدہ ہے اپنے وقت کے لئے اور اپنے ماحول کے لئے جوابدہ اور ہر امیر جوابدہ ہے اپنی جماعت کے لئے اور ہر عہدے دار جوابدہ ہے اپنی جماعت کے وقت کے لئے جہاں تک اس کے شعبے سے تعلق ہے.کئی لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ کئی علاقوں میں مثلاً بعض علاقائی جماعتیں ہیں، بعض شہری جماعتیں ہیں، وہاں سے یہ اعتراض ملتے رہتے ہیں کہ جی امیر نے تو دس چار آدمیوں کے ساتھ ایک عاملہ بنائی ہوئی ہے اور سب کچھ ان کے ہی ہاتھ میں ہے اور باقی جماعت کی پرواہ ہی نہیں کرتے.اگر جماعت کے وقت کی پوری قیمت لی جائے تو کہیں یہ اعتراض پیدا ہی نہیں ہوسکتا.اتنا زیادہ کام ہے ہر شعبے کا کہ یہ بحث تو چل سکتی ہے جیسے انگلستان میں چلتی ہے اکثر دیکھا گیا ہے کہ جی فلاں آدمی مجھے چاہئے وہ لیکر جا رہا ہے.فلاں آدمی مجھے چاہئے وہ فلاں لیکر جا رہا ہے.آدمیوں کی تلاش میں پھر رہے ہیں لوگ کیونکہ کام زیادہ ہے اور جو آدمی مہیا ہیں وہ پورا نہیں آسکتے.یہ اعتراض کس طرح پیدا ہو گیا کہ کام کے لئے صرف چند آدمی ڈھونڈے ہوئے ہیں اور باقیوں سے کام نہیں لیا جارہا.عہدہ اور چیز ہے کام اور چیز ہے یہ تو ناممکن ہے کہ امیر اپنے وقت کا خیال کر رہا ہو اور اپنے وقت کی قیمت پہچانتا ہو اور یہ احساس بھی رکھتا ہو کہ اب صرف میرا وقت میرا نہیں رہا بلکہ میری ساری جماعت کا وقت میرا بن گیا ہے.اس کے اس احساس کے بعد یہ اعتراض اس پر ہورہا ہو، بعض لوگ کہہ رہے ہوں کہ جی ہم سے کام نہیں لیا جاتا ، چند آدمی ہیں جو آپس میں بانٹ لیتے ہیں ،سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ایک اشاعت کا کام مثلا لے لیجئے.مثال کے طور پر سمجھاتا ہوں کے کتنا زیادہ ذمہ داری ہے ہماری اشاعت میں.دنیا کی تمام بڑی بڑی زبانوں میں لٹریچر شائع ہو رہا ہے اور جو اس وقت سکیم ہے اس کے مطابق انشاء اللہ تعالیٰ اگلے چند مہینوں کے اندر اس کثرت سے دنیا کی بڑی بڑی زبانوں میں بنیادی لٹریچر شائع ہونے والا ہے کہ میں فکر مند ہوں کہ اس کو سنبھالیں گے کس طرح اور اگر اس کا نکاس کرنا ہو تو جماعت میں جو سیکرٹری ہے اس کام کے لئے ، اشاعت کے لئے ، اگر وہ فعال ہو اور پوری طرح اپنی ذمہ داری ادا کرنے والا ہو تو وہ تو لوگوں کی منتیں کرتا پھرے گا جگہ جگہ کہ آؤ اور مجھے

Page 39

خطبات طاہر جلد ۶ 35 55 خطبہ جمعہ ۹ / جنوری ۱۹۸۷ء وقت دو کیونکہ مجھ سے یہ کام سنبھالا نہیں جا رہا Arabic زبان کے لٹریچر کے لئے عربوں سے رابطہ کرنا پڑے گا.روسی زبان کے لٹریچر کے لئے روسیوں سے رابطہ کرنا پڑے گا.اٹالین زبان کے لٹریچر کے لئے اٹالین سے رابطہ کرنا پڑے گا.سپینش زبان کے لٹریچر کے لئے سپینش سے رابطہ کرنا پڑے گا.سو سے زیادہ زبانوں میں ہم اگلے دو تین سالوں کے اندر قرآن کریم یا مکمل شائع کرنے والے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ یا کم سے کم ایک پارے سے زائد آیات قرآن کریم شائع کرنے والے ہیں.قریباً55 زبانیں ایسی ہیں جن میں پورا قرآن کریم شائع ہو گا اور 55 کے لگ بھگ ہی ایسی زبانیں ہیں جن میں قرآن کریم کا ایک حصہ جو نمائندہ آیات پر مشتمل ہوگا ، وہ شائع ہو گا.اب سو زبانوں میں جو قرآن کریم ہے وہ اگر چھپ کر ہمارے پاس یہاں پڑا رہے گا ، اس کو تو سنبھالنا ہی ممکن نہیں.دس، دس ہزار کی تعداد میں آپ اندازہ لگائیں کہ کتنی بڑی تعداد ہوگی اس کو کیا کریں گے ہم؟ اس کے چھپنے سے پہلے سیکرٹری اشاعت کا کام ہے کہ وہ رابطے کرے اور اپنی جماعت کو مستعد کرے ایسے آدمی مقرر کرے جو Specialize کریں Russians کے متعلق کہ ان کو ہم نے ڈھونڈنا ہے کہاں کہاں ہیں، کس طرح ان سے رابطہ کرنا ہے، کس طرح ان کے اندر ابتدائی طور پر اسلام میں دلچسپی پیدا کرنی ہے تا کہ جب لٹریچر آئے تو وہ اور اس کے ساتھی جس کا کام صرف روسیوں سے تعلق رکھنا ہے وہ تیزی کے ساتھ اس لٹریچر کو آگے چلا دیں.گجراتی زبان میں لٹریچر ہے ، گجراتیوں کو تلاش کرنا پڑے گا.Spanish زبان میں لٹریچر ہے Spanish کو تلاش کرنا پڑے گا.اٹالین زبان میں قرآن کریم چھپ چکا ہے اور اس کا نکاس نہیں ہو رہا.اس لئے کہ جماعت میں بہت حد تک اس طرف توجہ نہیں ہے.تو صرف ایک سیکرٹری اگر اپنے کام کو مؤثر طریق پر آگے بڑھائے تو اس کی پھر آگے دو شاخیں بن جائیں گی.ایک لٹریچر ہے قابل فروخت اس کے لئے بہت زیادہ حکمت سے چھان بین کر کے رابطے بڑھانے پڑیں گے.پریس سے رابطہ کرنا پڑے گا ، ان لوگوں سے رابطہ کرنا پڑے گا ، اس کا تعارف کروانا پڑے گا، پبلسٹی (Publicity) کے ذریعے ڈھونڈ نے پڑیں گے اور ایک ہے فری لٹریچر کی تقسیم، مفت اشاعت جسے ہم چاہتے ہیں چاہے ہمیں کوئی آنہ بھی نہ دے ہم اس تک کتاب کو پہنچائیں.اس سلسلے میں ذاتی تعلقات بنانے پڑیں گے کیونکہ ڈاک کے ذریعے لٹریچر بھیجنا بعض دفعہ وقتی طور پر تو مفید ہوتا ہے ایک اشتہار بازی کے لئے توجہ دلانے کے لئے ،مگر اگر اس کو

Page 40

خطبات طاہر جلد ۶ 36 56 خطبہ جمعہ ۹ جنوری ۱۹۸۷ء مستقل اپنا طریقہ بنالیں تو بھاری حصہ اس کا ضائع چلا جاتا ہے.اور جماعت کے پاس تو اتنے پیسے نہیں ہیں زائد کہ اس طرح کثرت سے اپنا روپیہ ضائع کرے اور اپنا وقت ضائع کرے.تو انفرادی تبلیغ کے ذریعے ہی یہ کام ہوسکتا ہے.اب اگر داعی الی اللہ بنانے والا سیکرٹری مستعد نہ ہو ساتھ تو یہ گاڑی چل ہی نہیں سکتی.صرف ایک پہیہ ہو گا اشاعت والا اور دوسرا پہیہ ساتھ چل ہی نہ رہا ہو تو کس طرح کام آگے بڑھ سکتا ہے اور داعی الی اللہ کے پہلو سے اگر آپ دیکھیں تو اتنے بڑے خلا نظر آئیں گے مستعد جماعتوں میں بھی کہ آج بھی انگلستان کے نوے فیصدی احمدی یقیناً ایسے ہیں جو داعی الی اللہ نہیں بنے.مجھے پتہ ہے میں تفصیل سے جائزہ لیتا رہتا ہوں، مجھ سے خط و کتابت ہوتی ہے داعیین الی اللہ کی رپورٹوں میں ان کے نام ملتے ہیں.تو یہ بلا مبالغہ ہے کہ نوے فیصدی اس جماعت میں ایسے دوست ہیں جو ابھی تک داعی الی اللہ نہیں بن سکے.تو جو جماعتیں پیچھے ہیں وہاں بعض دفعہ بناوے فیصدی ایسے ہیں جو نہیں بنے.انقلاب تو بڑا آنے والا ہے اور خدا تعالیٰ نے آپ کو اس لئے چنا ہے.مگر انقلاب تب آئے گا جب آپ کا وقت حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وقت کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائے گا.قدم بہ قدم اس آقا کے وقت کے پیچھے آپ کا وقت غلاموں کی طرح پیروی کرے گا، تب یہ انقلاب ضرور آئے گا دنیا میں.اتنا بھر پور پھل ملے گا پھر آپ کو کہ واقعہ جس طرح کہتے ہیں سنبھالا نہیں جاتا، اس طرح کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ آپ کے وقت کو مثمر ثمرات حسنہ فرمائے گا.بہترین، شیریں ، دائی پھل اس کو لگنے شروع ہو جائیں گے اور کتنی شاخیں ہیں جن کا وقت اس طرح مثمر ہو چکا ہے کتنی ایسی شاخیں ہیں جو صرف موت کی حالت میں موت ہی کا انتظار کر رہی ہیں.کوئی بھی مقصد نہیں.اس پہلو سے چونکہ سال کا آغاز ہے میں ساری دنیا کی جماعتوں کو متوجہ کرتا ہوں کہ وقت کے مضمون پر غور کریں اور قرآن کریم کی اصطلاحوں میں غور کریں اور بھر پور کوشش کریں امراء اور مبلغین و مربیان که خود ان کا وقت بھر پور ہو اور ساری جماعت کا وقت بھر پور ہو اور باطل کی سمت میں حرکت کرنے والا نہ ہو بلکہ حق کی سمت میں حرکت کرنے والا ہو.مشکل کام ضرور ہے مگر توجہ ہو ، محنت ہو، دعائیں ہوں تو دن بدن اللہ تعالیٰ کے فضل سے آئندہ آنے والا وقت ہمارے گزرے ہوئے وقت سے بہتر ہوتا چلا جائے گا.اللہ تعالی ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 41

خطبات طاہر جلد ۶ الله 37 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء سیرت رسول کا مطالعہ اور اس پر عمل کی تلقین نیز لجنہ ہال کے لئے مالی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۶ ارجنوری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ چند روز سے سارے یورپ میں سردی کی شدید لہر دوڑ رہی ہے جس کی وجہ سے بہت سے کاروبار بند ہیں.بچوں کو بھی معمولی سردی اور برف باری کی وجہ سے Sunday اتوار یعنی پیر تک رخصتیں دے دی گئی ہیں.چونکہ جماعت کا ایک حصہ باہر نماز پڑھا کرتا تھا اور ان کے لئے اب مار کی کا انتظام کیا گیا ہے مگر بہر حال مار کی میں بھی اس وقت سردی کی شدت ہو گی بہر حال یہاں کی نسبت تو لا زما وہاں تکلیف دہ صورت حال ہوگی اس لئے آج انشاء اللہ حتی المقدور مختصر خطبہ دیا جائے گا.دنیا کے الگ الگ حالات الگ الگ تقاضے ہوتے ہیں.ربوہ میں گرمی کی شدت کی وجہ سے بعض دفعہ خطبے چھوٹے دینے پڑتے تھے اور یہاں سردی کی شدت کی وجہ سے اور جہاں تک روحانی گرمی کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی موزوں ہے، برمحل بات ہے.ان علاقوں میں شدید روحانی سردی ہے.بعض جگہ تو انجماد کی کیفیت ہے بعض جگہ تو سب زیر ٹمپریچر مستقل ہی رہتا ہے تقریباً اور ان علاقوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے روحانی جوش و خروش ہے اور ایک ولولہ ہے طبیعتوں میں.اگر دین کا عالم اس جوش و خروش سے سہی فائدہ اُٹھائے اور صحیح سمت میں ان دلی جذبات کو اور اس کے ساتھ جو دل کی دھڑکنیں ہیں ان کے رخ کو پھیر دے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت عظیم الشان اور پاک تبدیلیاں پیدا ہو سکتی ہیں.

Page 42

خطبات طاہر جلد ۶ 38 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء اب پاکستان میں جو دردناک حالات ہیں، انتہائی طور پر ظالمانہ اور سفا کا نہ مظالم ایک پاکستانی دوسرے پاکستانی پر کر رہا ہے، ایک گروہ دوسرے گروہ پر کر رہا ہے اور اتنی خوفناک حالت ہے ایسی بہیمانہ مظالم ہیں کہ ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ حالت ناممکن ہے کہ ایک مسلمان کی ہو سکے اگر اس کے دل میں اسلام کی تعلیم کا کوئی بھی اثر ہو اور علماء دیکھ رہے ہیں، جان رہے ہیں کہ اسلام کی Negation ، اس کی نفی ہے ان حرکات میں لیکن ان کو اس سے کوئی اثر نہیں ، کوئی فرق نہیں پڑرہا.حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بنیادی طور پر جو مذہب کے ساتھ لگاؤ ہے جو جذ بہ ہے جو خون کو گرم رکھتا ہے وہ موجود ہے.چنانچہ انہیں لوگوں کو اگر علماء چاہیں مزید ہلاکت خیزیوں کی طرف منتقل کرنے کی ، خدا کے نام پر خدا کے بندوں پر ظلم کرنے کی تلقین کریں تو گرمی خون کی اتنی ہے کہ وہ فور أخدا کے نام پر خدا کے بندوں کے خون پر بھی آمادہ ہو جائیں گے.ان کاموں کے لئے تو علماء ہمہ وقت تیار رہتے ہیں لیکن جو نیکی کے کام ہیں جو مقاصد ہیں مذاہب کے اور سارے مذاہب کے یہی مقاصد ہیں.ان میں سب سے زیادہ شدت کے ساتھ اور غیر معمولی وسعت کے ساتھ نیکی کی تعلیم قرآن کریم نے عطا فرمائی اور آنحضرت نے سب انبیاء سے زیادہ نیکی کے ہر میدان میں آگے بڑھ کر ایسا نمونہ قائم فرما دیا کہ اب کسی کے صلى الله لئے یہ کہنا بھی باقی نہیں رہا کہ انسان ہیں ہم ، ہم میں اتنی طاقت کہاں کہ اتنا آگے بڑھ سکیں.بشر کا اعلان دراصل اسی وجہ سے کیا گیا ہے قرآن کریم میں.بعض بے وقوف سمجھتے ہیں کہ مقام کو گھٹانے کے لئے کیا گیا ہے.مقام کو بڑھانے کے لئے بشر کا اعلان ہے.یہی بات نہ سمجھنے کے نتیجے میں دیو بندی اور وہابی لوگ آنحضرت ﷺ کی گستاخی تک پہنچ گئے.اور ایسے ایسے خوفناک جملے کسیں ہیں بشریت پر اور ایسی ایسی ذلیل مثالیں دی ہیں کہ ان کو سن کر رسول اکرم ﷺ کی محبت کی غیرت سے خون کھولنے لگتا ہے لیکن ہمیں صبر کی تعلیم ہے.جن کو نہیں ہے ان سے پھر ایسی حرکتیں بھی ہو جاتی ہیں جس سے لازما جذبات کا اظہار ہوتا ہے.مگر حماقت ہے بہت بڑی کہ آنحضرت ﷺ کی بشریت کے ذکر کا مفہوم نہیں سمجھ سکے.بشر اس لئے فرمایا جارہا تھا کہ اتنا عظیم الشان ہونے کے باوجود بشر ہے تمہیں خوشخبری ہو اس بات کی کہ تم میں خدا تعالیٰ نے کتنی صلاحیتیں رکھی ہیں اور کوئی کام بھی انسان کے لئے ناممکن نہیں ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے بشر ہوتے ہوئے ممکن کر کے دکھا دیا.یہ خوشخبریوں کا دروازہ کھولا جارہا تھا اُسے فتنوں اور جھگڑوں کا دروازہ سمجھ کر اس میں قتل وغارت کے لئے داخل ہو رہے ہیں، نفرتیں پھیلانے کے

Page 43

خطبات طاہر جلد ۶ 39 39 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء الله لئے داخل ہورہے ہیں.جو آنحضرت ﷺ کی عظمت کا دروازہ کھولا جار ہا تھا اُسے آنحضرت ﷺ کے اندر نعوذ بالله من ذالک بشری نقائص اور آپ کے روحانی مدارج کی حدیں قائم کی جارہی ہیں اس کو دکھا کر کہ دراصل آپ کی حدود کی تعیین مقررتھی کہ آپ کی اتنی معمولی حدود ہیں کہ نعوذ بالله بعض صورتوں میں الله جانور بھی بڑھ جاتا ہے.فقرے ایسے ظالمانہ ہیں، ایسے خطرناک ہیں کہ انہیں کوئی آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے والا شدید تکلیف کے بغیر دہرا نہیں سکتا.اگر دُہرانا پڑے تو انتہائی تکلیف ہوتی ہے جن کو کہہ دیا جاتا ہے کہ نقل کفر، کفر نا باشد، کفر کی نقل کرنا یعنی اُسے دہرانا ایک خاص مقصد کے لئے ، بتانے کے لئے کفر نہیں ہے، جیسا کہ قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ پر نہایت بھیانک الزامات کوڈ ہرایا ہے.مفتری کہا گیا قرآن کریم نے بتایا کہ ہاں مفتری کہتے ہیں.مراد یہ ہے کہ کفر بکنے والا جو ہے وہ ذمہ دار ہے اگر کسی مقصد کی خاطر اُسے دہرایا جائے اور اس کی طرف منسوب کر کے دہرایا جائے تو وہ گناہ نہیں ہے ، غلط نہیں ہے مگر محبت کے جذبات کا الگ قانون ہے اور دہراتے وقت تکلیف ہوتی ہے.جب بھی قرآن کریم کی ان آیات سے آپ گزریں گے اگر آنحضرت ﷺ سے آپ کو پیار ہوگا ہر دفعہ اس طرح گزریں گے جس طرح چمن میں چلتے چلتے کوئی کانٹا چھ جاتا ہے اور اس آیت پر سے گزرتے ہوئے دل کو تکلیف محسوس ہوتی ہے.یہاں یہ جو تکلیف ہے بشر کے معاملے میں دو گروہوں کے مباحث کی یہ ہر خدا اور رسول سے محبت کرنے والے کے دل کو ضرور پہنچتی ہے.میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ آنحضرت ﷺ نے بشر کی حیثیت سے اتنا عظیم الشان پیغام دیا ہے بنی نوع انسان کو کہ کبھی کسی نبی نے اس شان کا پیغام نہیں دیا.بشریت کے ہر میدان میں میں نے قدم بڑھایا اور بشریت کے ہر میدان کو نور کا میدان بنادیا کوئی فرق نہیں رہنے دیا.اس لئے تم بھی اگر میری پیروی کرو، میرے پیچھے چلو تو تمہاری بشریت مسلسل نور میں تبدیل ہوتی چلی جائے گی اور ایک مقام ایسا پہنچے گا، جس طرح خدا نے میرے متعلق کہا مَثَلُ نُورِ ٩ ( النور : ۳۶) اس طرح تمہارے متعلق بھی اللہ تعالیٰ یہی فرمائے گا اور میرے تابع وہ مثالیں تمہارے او پر بھی صادق آنے لگیں گی.اسی لئے قرآن کریم کی اسی آیت نے آخر تک پہنچتے پہنچتے یہ بیان فرما دیا کہ یہ نور جو محمد مصطفی ﷺ سے شروع ہوا تھا وہ مومنوں کے سینوں میں گھر گھر میں

Page 44

خطبات طاہر جلد ۶ جلنے لگا، گھر گھر میں اس نور کی شمعیں روشن ہو گئیں.40 40 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء آپ کو میرا پیغام یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی عظمت کو قرآن کریم سے سمجھیں اور آنحضرت کی عظمت کو اس طرح سمجھیں کہ وہ عظمتیں آپ کو پیغام دے رہی ہیں ، آپ کو بلا رہی ہیں.اس طرح نہ سمجھیں جیسے بعض عظمتیں روک رہی ہوتی ہیں آگے بڑھنے سے.بعض دفعہ ہمالہ کی چوٹی کی طرف نگاہ کریں تو ایسی ایسی خوفناک صورتیں حائل ہوتی ہیں، کہیں چٹانیں ہیں بھیا نک کہیں برف کی سلیں ہیں، کہیں غیر معمولی خوفناک کھڑے ہیں.یہ وہ منظر جس نے قریب سے دیکھا ہو اور مجھے کئی دفعہ موقع ملا پہاڑوں پر جانے کا شوق تھا پیدل پھرنے کا بھی شوق تھا کہ بعض چوٹیوں کو قریب سے جا کران کے دامن کے پاس سے جا کر دیکھا ہے.بہت ہی پر عظمت نظارہ ہوتا ہے لیکن پر ہیبت بھی.وہ آنے کی دعوت ایک رنگ میں تو دیتی ہیں وہ چوٹیاں کہ ہر انسان میں ترقی کی بلندی کی خواہش ہے لیکن ان کا رستہ اتنا بھیا نک ہوتا ہے کہ انسان کو مایوس کر دیتا ہے، ناممکن بنادیتا ہے اس خواہش کو کہ میں بھی چڑھوں اور اس چوٹی کے اوپر پہنچوں.تو عظمتوں کی مختلف شکلیں ہوتی ہیں.بعض عظمتیں اپنے ساتھ خوف کا پہلو رکھتی ہیں، ڈراتی ہیں ، آگے قدم بڑھانے سے روکتی ہیں.بعض عظمتیں اس کے برعکس ہمیشہ پیچھے چلے آنے کا اشارہ کرتی ہیں اور سوسو طرح سے اشارے کرتی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سنت کا ہر پہلو پیار اور عشق کے ساتھ آپ کو اپنی طرف بلا رہا ہے، اشارے کر رہا ہے، آپ کے لئے رستے آسان کر رہا ہے.فرماتا ہے میرے پیچھے چلو اور خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ تمہارے لئے رستے آسان کر دوں.اس شان کی عظمت جس کے ساتھ عشق اور محبت اس طرح گوندھے جائیں ،عظمت اور عشق اور محبت ایک ہی چیز کے نام بن جائیں.اس حیثیت سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کا مطالعہ کریں اور آپ کے پیچھے چلنے کے لئے ہر میدان میں کوشش کریں.یہ سال ہمارے لئے بہت ہی اہمیت کا سال ہے.گزشتہ سال بھی اہمیت کا سال تھا اور سال کے اختتام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ جماعت کے اتنے کام بنائے ہیں اتنے نئے رستے ترقی کے کھولے ہیں کہ جب وقت آئے گا میں آپ کو ان کی باتیں سناؤں گا کچھ بتا بھی دی ہیں کچھ باقی رہتی ہیں.اس وقت آپ کا دل خدا تعالیٰ کی حمد میں سجدہ ریز ہو جائے گا.ویسے تو مومن کا دل ہمیشہ ہی سجدہ ریز

Page 45

خطبات طاہر جلد ۶ 41 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء رہنا چاہئے ، رکوع و سجود کی حالت رہنی چاہئے مگر بعض اوقات غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ کی عظمت ظاہر ہوتی ہے اور بے ساختہ انسان سارے وجود کے ساتھ سجدے میں گر جاتا ہے.ایسی برکتیں لے کر آیا تھا گزشتہ سال اور اتنی برکتیں چھوڑ گیا ہمارے لئے پیچھے کہ ان کا ذکر بہت وسیع ہے فی الوقت اس مضمون کو تو میں نہیں چھیڑنا چاہتا، مگر میں یہ بتانا چاہتا ہوں کے آنحضرت ﷺ کی عظمتوں کی پیروی کریں، وہ ایک لامتناہی سفر ہے.آپ کا اگلا سال اس سے بلند تر چوٹیوں کی طرف لے جائے گا.آپ ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ وہ سفر ختم ہو گیا اور برکتوں کے انتہا تک آپ پہنچ گئے.اتنی بلندیوں تک پہنچیں گے کہ پچھلا سال اس کے مقابل پر پستی دکھائی دے گا.گہری کھڈ جس طرح دکھائی دیتی ہے اوپر چڑھ کے، یوں معلوم ہوگا کہ ہم نے تو ترقی کی نہیں تھی اور آنحضرت ﷺ کی پیروی اگر آپ اگلے سال اس سے بھی زیادہ شدت اور پیار سے کریں گے تو اس سال جو کچھ بھی آپ نے پایا ہوگا وہ آئندہ سال کے حصول کے مقابل پر بالکل پیچ اور بے معنی دکھائی دینے لگے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے فضل کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی حسین اور دلر با اور حقیقی واقعاتی سنت پر ہر پہلو سے پہلے سے بڑھ کر عمل درآمد کرنے کی توفیق عطا فرمائے.ایک پہلو ایسا ہے مختصراً اس کا بیان بھی ضروری ہے کیونکہ لجنہ اماء اللہ کی صدر محترمہ کی طرف سے بار بار مجھے اس بارے میں یاد دہانی ہو رہی ہے.صدر لجنہ اماءاللہ نے کچھ سال پہلے لجنہ کے دفاتر کی تعمیر نو کے لئے اجازت لی تھی اور ایک وسیع ہال بنانے کی اجازت لی تھی.پرانی عمارت اتنی بوسیدہ ہو چکی تھی کہ وہ جگہ جگہ سے بعض دفعہ چھت سے بھی اینٹیں ٹوٹ کے گرتی تھیں اور جلسہ سالانہ کے دنوں میں جب ہم وہاں بعض مہمان خواتین کو ٹھہرایا کرتے تھے تو قناتیں لگا کر ساری جگہ تو پھر بھی چھوڑی نہیں جا سکتی تھی کیونکہ مہمانوں کا رش بہت ہوا کرتا تھا.بعض دفعہ قناتیں لگا کر بعض خطرناک حصوں کو الگ کر دیا جا تا تھا تا کہ وہاں بچہ یا کوئی عورت وہاں نہ پہنچے اور اس طرح گزارہ چلتا رہا.بالآخر انجینئرز نے مشورہ دیا کہ یہ عمارت اتنی بوسیدہ ہو چکی ہے کہ اب ہرگز لائق نہیں کہ اسے مزید آگے چلایا جائے.چنانچہ دوحصوں میں ان کی عمارت کی تعمیر نو کا پروگرام بنا، ایک دفتر اور ایک ہال.دفتر تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مکمل ہو گیا ہے اور اس پر جو دس لاکھ کی رقم خرچ آئی ہے اس میں سے دس لاکھ ان کو میں نے قرضہ دلوا دیا تھا، چار لاکھ لجنہ اپنی روزمرہ کی بچت میں سے پورا کر چکی ہے واپس دے چکی ہے.چھ لاکھ کا یہ قرض لجنہ پر ہے.اس کے علاوہ ہال کے لئے ان کو بیس لاکھ چاہئے.اگر یہ نہیں لاکھ

Page 46

خطبات طاہر جلد ۶ 42 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء قرض انکو دیا جائے تو چھبیس لاکھ کی رقم ہے جو انہوں نے دو سال میں واپس کرنی ہے کیونکہ اگر چہ ان کی طرف سے تو یہی مطالبہ ہے کہ ہمیں صد سالہ جو بلی سے پانچ سال کا قرض دے دیا جائے.صد سالہ جو بلی تو آنے میں اب دو سال رہ گئے ہیں باقی اس میں سے پانچ سال کا قرض دینے کا مطلب ہی کو ئی نہیں اور یہ ہال بھی صد سالہ جو بلی سے پہلے مکمل ہونا ضروری ہے بہر حال.اس لئے میں نے سوچا ہے کہ دو سال کے لئے ان کو قرض دیا جائے اور ان کی طرف سے عالمی لجنات کو تحریک کی جائے کہ حسب توفیق جتنا بھی وہ بوجھ اُٹھا سکتی ہیں وہ اس چندے میں حصہ لیں.گزشتہ دوسال میں جماعت میں بار بارایسی تحریکات کی گئیں کہ اس کے نتیجے میں غیر معمولی مالی قربانی دی ہے جماعت نے.اتنی غیر معمولی ہے کہ یہ دو تین سال بہت ہی ممتاز دکھائی دیتے ہیں مالی قربانی کے لحاظ سے.مجھے یقین ہے کہ ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ جماعت کی جیبیں بھی بھرتا چلا جاتا ہے، استطاعت بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے لیکن جہاں تک ظاہری فوری طور پر جائزے کا تعلق ہے جو حالات ان پر گزر رہے ہیں ان پر جو میں نے سرسری نگاہ ڈالی ہے میرا خیال ہے کہ خواتین پر اس وقت اتنا بڑا بوجھ ڈالنا مناسب نہیں ہوگا کیونکہ پچھلی تحریکات میں مالی قربانی میں عورتوں نے خصوصیت کے ساتھ اتنا بھر پور حصہ لیا ہے کہ فوری طور پر ان قربانیوں کے معا بعد اتنی بڑی تحریک کر دینا کہ خواتین خودا اپنی طاقت سے یہ بوجھ اٹھا ئیں، یہ مناسب معلوم نہیں ہوتا.ایک یہ وجہ ہے جس کی وجہ سے میں چاہتا ہوں کہ مرد بھی ان کے ہال میں چندے دے کر اس نیکی میں، اس قربانی میں شامل ہوں.دوسری وجہ یہ ہے کہ خواتین تو ہر تحریک میں حصہ لیتی ہیں خواہ مردوں کی ہو خواہ عورتوں کی ہو اور صرف خدام الاحمدیہ کی ایسی تحریک ہے جس میں وہ حصہ نہیں لیتیں لیکن دنیا یہ کہتی ہے کہ اسلام نے عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا ان کے متعلق اچھی تعلیم نہیں دی.اس لئے ہمیں خاص طور پر یہ بھی دکھانا چاہئے کہ عورتوں سے نہ صرف یہ کہ ہم برابری کا سلوک کرتے ہیں یا اسلام برابری کے حقوق دیتا ہے بلکہ ہم ان کے خاص جذبات کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے جو ان کو بعض پہلوؤں سے بعض لطافتیں عطا کیں ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے آگے بڑھ کر ان کی خدمت میں ان جگہوں میں بھی ہم مدد کے خواہاں ہیں جو خالصہ ان کے اپنے دائرے سے تعلق رکھنے والے امور ہیں یعنی لجنہ اماءاللہ.یہ وہ دائرہ ہے جس کا لجنہ سے ہی تعلق ہے اور مردوں کے اس قسم کے دائروں سے لجنہ کا تعلق نہیں لجنہ کا ان

Page 47

خطبات طاہر جلد ۶ 43 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء سے تعلق نہیں.اگر ہم یہ مثال قائم کریں اس دفعہ کہ جن اماءاللہ کی تعمیر میں مرد بھی حصہ لیں تو ایک اچھا خوبصورت منظر ہو گا کہ مرد اپنی مستورات کا اس حد تک خیال رکھتے ہیں.اس کے علاوہ میں نے سوچا کہ چونکہ مردوں پر بھی بہت بوجھ ہیں اس لئے اس موقع پر انجمنیں بھی کچھ نہ کچھ حصہ لیں اور ذیلی تنظیمیں بھی کچھ نہ کچھ حصہ لیں اس لئے تعیین تو میں نہیں کرتا لیکن اگر صد را انجمن احمد یہ اپنے حالات کا جائزہ لے کر کوئی تحفہ لجنہ کو پیش کرے اور تحریک جدید انجمن بھی کوئی تحفہ پیش کرے اور وقف جدید انجمن بھی کوئی تحفہ پیش کرے اور خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ بھی حسب توفیق ، تو مجھے امید ہے انشاء اللہ ہماری بہنوں کا بوجھ بہت حد تک ہلکا ہو جائے گا اور یہ بوجھ ہلکا کرنے سے خواتین کی عظمت کا احساس بھی جماعت میں پیدا ہوگا اور بالعموم جو مرد اور عورت کی ویسے دوری ہے مقابلے کی اس میں کمی آئے گی ، ایک دوسرے پر اعتماد بڑھے گا اور ایک اچھی مثال قائم ہوگی.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ وہ اپنے طور پر تحریک کریں لیکن طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالیں.خواتین کے معاملے میں میں بہت احتیاط اس لئے کر رہا ہوں کہ میرا یہ تجربہ ہے کہ جب ان کو مخاطب کر کے کسی قربانی کی طرف بلایا جائے تو بالعموم وہ اپنی جان پر ظلم پر بھی آمادہ ہو جاتی ہیں لیکن آواز پر لبیک ضرور کہتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدی خاتون میں اتنا قربانی کا مادہ ہے کہ مجھے ڈر ہے کہ اگر طاقت سے بڑھ کر تحریک کروں گا تو وہ اپنی جان توڑ دیں گی لیکن اس تحریک میں ضرور حصہ لیں گی یہ وجہ تھی جو میں یہ ساری باتیں سوچنے لگا اور میں نے احتیاطیں کیں اور یہی وجہ تھی کہ اب تک میں ٹالتا بھی رہا مجھے پتا تھا کہ اور بہت سے بوجھ ہیں اس لئے اب اس وقت ان کے اوپر خصوصی تحریک کا بوجھ نہیں ڈالنا چاہئے.انہیں شرائط کے ساتھ میرا دل رضامند ہو گیا ہے کہ میں اس تحریک کو عام کروں کہ جس حد تک توفیق ہے عالمی لجنہ اس چندے میں حصے لے اور غیر معمولی طور پر اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالے باقی جتنی رقم ہوگی انشاء اللہ وہ کچھ مردطوعی طور پر پورا کریں اور کچھ انجمنیں پورا کر دیں اور دوسال کے اندر اندر یہ قرضہ جو بلی کو بہر حال واپس ہو جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری بہنوں کی جو ضرورت ہے دیرینہ وہ جلد پوری ہو.اگر چہ اس ہال کا نقشہ اس وقت تو یہ سمجھ کر بنایا گیا تھا کہ کافی بڑا ہے لیکن جس تیزی سے جماعت ترقی کر رہی ہے اس کے پیش نظر یہ ہال بھی زیادہ دیر تک بڑا دکھائی دینے والا نہیں ہے بلکہ ہو سکتا ہے تکمیل تک ہی چھوٹا ہو چکا ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ

Page 48

خطبات طاہر جلد ۶ 44 خطبہ جمعہ ۱۶ جنوری ۱۹۸۷ء فضل کرے گا تو ایسی تحریکیں بعد میں آتی رہیں گی لیکن حالات میں بھی خدا فراخی بخشتار ہے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج چھ احمدی خواتین اور مردوں کی نماز جنازہ غائب ہوگی.پہلے مکرم الحاج عبد العزیز صاحب ابیولہ کے متعلق نائجیریا سے یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ وفات پاگئے ہیں.یہ بہت ہی مخلص فدائی احمدی تھے جو جماعت احمد یہ نائجیریا کے نیشنل پریزیڈنٹ تھے.بہت بزرگ، نیک مزاج،سعید فطرت ، احمد یہ نظام کو سمجھنے والے اور اطاعت میں صف اول میں.بہت نیک اثر تھا ان کا بہت سے لوگوں پر کئی دفعہ بعض فتنے اٹھانے کی کوشش کی جاتی رہی ہے ان کے نیک اثر کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ کوششیں ناکام رہیں.ان کا وصال سارے نائجیریا کی جماعت کے لیے بڑا ہی اندوہناک واقعہ ہے اور اس پہ ہم ساری جماعت ان سے تعزیت کرتی ہے.اللہ تعالیٰ ایک سے ایک بڑھ کر سعید فطرت رہنما ان کو عطا کرتا چلا جائے.جو اسلام کے ہر رنگ میں فدائی اور شیدائی ہوں.دوسرا جنازہ ہے مکرم فیض رسول صاحب کا.ان کو انگلستان کی جماعت جانتی ہے.یہ مغربی بنگال کے رہنے والے تھے اور بڑی عمر میں چند سال پہلے انگلستان میں انہوں نے بیعت کی اور سلسلہ عالیہ احمد یہ میں داخل ہوئے.ان کا بیعت کا واقعہ بڑا دلچسپ ہے.لائبریری میں کتب تلاش کرتے ہوئے ان کو تذکرہ نظر آیا یعنی انگریزی کاVersion اور تذکرہ پڑھتے پڑھتے ہی ان کے دل کے سارے تالے کھل گئے اور انہوں نے سوچا یہ تو لا ز ما سچا ہے.جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کا یہ سلوک اور یہ الہامات ہیں.اور تذکرہ پڑھتے ہی احمدی ہونے کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے لیسٹر کے علماء کو اور بعض دیگر علماء کو خطوط لکھے کہ میں احمدی ہونے پر آمادہ ہو گیا ہوں لیکن تمہیں موقع دینا چاہتا ہوں.اس لئے احمدیت کے خلاف جتنے بھیا نک اور گندے اور خوفناک اعتراضات ہیں وہ سارے مجھے بھجوا دو تا کہ میں ان کا مطالعہ کروں.چنانچہ انہوں نے ان کا مطالعہ کیا اور انہوں نے کہا کہ اس میں تو کچھ (ربوہ وقف جدید میں تھا ان دنوں مطالعہ کے لئے اور میں بہت متاثر ہوا بڑی اچھی کتاب تھی.بھی نہیں صرف لچر اور لغو باتیں ہیں اور کہاں تذکرہ کا جو اثر تھا میرے دل پر اور کہاں وہ گندے اعتراضات اور لغو اور بے معنی باتیں.میں نے ان کے لکھ دیا کہ کوئی اثر بھی مجھ پر تمہارے اعتراضات کا نہیں ہے.اگر تم مناظرہ مجھ سے کرنا چاہتے ہو ( انہوں نے بتایا تھا یہ واقعہ مجھے ) تو مناظرہ آ کر لو اور چیلنج دیا، مختلف جگہ لکھا اور زبانی بھی دیا لیکن کوئی ان کے مقابلے پر آیا نہیں.پھر انہوں

Page 49

خطبات طاہر جلد ۶ 55 45 خطبہ جمعہ ۱۶/جنوری ۱۹۸۷ء نے ایک بہت اچھی کتاب Common sense about Ahmadiyyat لکھی اور جب یہ کتاب لکھی تو مجھے بھی وہاں بجھوائی.بہر حال یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد آپ کو ایک اور دلچسپ واقعہ سناتا ہوں ان کے متعلق.اس کتاب کے ملنے سے ایک سال پہلے کی غالباً بات ہے کہ مجھے کسی احمدی دوست نے لائبریری سے کتابیں دیکھتے دیکھتے ایک کتاب بھجوائی جوکسی بنگالی نوجوان نے لکھی تھی.کلکتہ سے لے کر انگلستان تک کے سفر کے واقعات تھے اور وہ بچہ وہ تھا جو بھاگا ہوا، ماں باپ سے ، سکول سے ،سوسائٹی سے.آوارہ مزاج ہو کے تلاش میں کہ کہاں میں جاؤں؟ کہاں میں جا کہ ٹکوں ؟ اس مزاج کا بچہ نکلا اور اپنے سارے سفر کے واقعات لکھتا رہا.دتی بھی آیا.دتی کے واقعات اس نے جو لکھے اس میں یہ لکھا ان دنوں میں دتی میں جماعت احمدیہ کے کچھ لوگ رہتے تھے.ایک ان میں چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب، ایک چوہدری بشیر احمد صاحب کاہلوں مرحوم ، ایک شیخ اعجاز احمد صاحب اور اس طرح بعض اور وں کا ذکر کیا اور مجھے بھی دلچسپی تھی نئی نئی چیزیں دیکھنے کی تو میں تو دنیا دیکھنے کے لئے نکلا ہوا تھا.تو میں نے ان سے رابطہ کیا اور انہوں نے مجھ سے بڑا حسن سلوک کیا اور کہا کہ ہمارا جلسہ سالانہ ہورہا ہے قادیان تم بھی ہمارے ساتھ چلو.وہ لڑکا لکھتا ہے، Author اس کا ، مصنف کتاب کا کہ میں چلا گیا اور یہ یہ کچھ دیکھا وہاں.بعد میں ان کے خلیفہ سے ملاقات ہوئی.جو میرے ساتھی تھے وہ کچھ کچھ نذرانہ پیش کر رہے تھے جنہیں وہ ایک طرف پھینک رہے تھے اور جب مجھ سے مصافحہ کیا تو میرے ہاتھ میں نذرانہ کوئی نہ تھا، تو چنا نچہ انہوں نے میرا ہاتھ دبایا جس کا مطلب یہ تھا کہ تم بھی کچھ نذرانہ پیش کرو اور اس کے بعد بات ختم ہوگئی.وہ جب کتاب میں نے پڑھی تو میرے دل میں سخت اس بات کی کرید لگ گئی کہ کاش اس مصنف سے میرا رابطہ ہو جائے اور میں اس کو سمجھاؤں کہ وہ تو محبت سے احمدیت کی طرف کھینچنا چاہتے تھے تم بالکل غلط سمجھے ہوان کا پیغام ، ان کو تمہارے نذرانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تھی.بس دل میں ایک خواہش پیدا ہوئی.انگلستان جب میں اب آیا تو یہ فیض رسول صاحب مجھے ملنے آئے اور اپنا تعارف شروع کروایا میں کون ہوں، کس طرح احمدی ہوا.میں نے ان سے کہا کہ ایک کتاب لکھی تھی ایک نوجوان بنگالی نے.آپ جانتے ہیں وہ کون ہے؟ انہوں نے کہا وہ میں ہی ہوں.اس میں جو دلچسپ واقعہ ہے ایمان افروز خاص پہلو، وہ یہ ہے کہ انہوں نے وفات سے پہلے اپنا سب کچھ جماعت کو دے دیا ہے.وہ بچہ جس نے خلیفہ وقت پہ بدظنی کی تھی اور ایک روپیہ دینے کا

Page 50

خطبات طاہر جلد ۶ 46 خطبہ جمعہ ۱۶ جنوری ۱۹۸۷ء ذکر کر کے کہ میں نے نہیں دیا، اپنی چالاکی کا اظہار کر رہا تھا کہ میں نے روک لیا.خدا نے اس حالت میں اس کو وفات دی کہ اپنا سب کچھ جماعت کو دے کے مرا ہے، ایک پیسہ بھی کسی اور کو نہیں دیا.یہ ہے اللہ تعالیٰ کی شان ، ایک چھوٹا سا واقعہ گزرتا ہے اور خدا تعالی کی یادداشت تو کبھی مٹا نہیں کرتی اور وہ ایک فیصلہ فرمالیتا ہے خدا اس کے اوپر اور اُسے پورا کرتا ہے.اور مجھے جو بیچ میں داخل کیا گیا، ایک خلیفہ کو بیچ میں گواہ ٹہرایا گیا ہے کہ دیکھو یا درکھنا میں اس طرح سلوک کیا کرتا ہوں.وہ کتاب کا ملنا بھی اتفاقی تھا بظاہر اور پھر ان سے یہاں ملاقات ہو کر یہ ذکر چھیڑنا بھی بظاہر اتفاقی تھا مگر جو خدا تعالیٰ سے تعلق کے مضامین کو جانتے ہیں ان کو پتا ہے کہ یہ اتفاقات نہیں ہیں.یہ سب اللہ تعالیٰ کی تقدیریں چلتی ہیں حیرت انگیز طور پر یہ تقدیر جاری ہوتی ہے اور ہمارے ایمان کو ایک نیا ولولہ ایک نیا جوش دے کر خدا کے اور بھی قریب کر جاتی ہے.اس لحاظ سے مجھے ان سے گہرا ذاتی تعلق بھی پیدا ہوا.ان کا علاج بھی میں کرتا رہا ہوں ہومیو پیتھک اس سے خدا کے فضل سے فائدہ بھی پہنچا تھا ان کو گر بہر حال کلکتہ میں سفر کے دوران ان کی وفات ہوئی ہے.سید بشیر احمد صاحب پٹنہ کے ہیں.صوبائی تبلیغی منصوبہ بندی کمیٹی کے سیکرٹری ہیں.ان کے والد سیدعبدالجبار صاحب کا وصال ہو گیا ہے اس لئے ان کی طرف سے درخواست ہے نماز جنازہ غائب کی.محمود احمد صاحب چیمہ مبلغ سلسلہ انڈونیشیا کی والدہ محترمہ بھی وفات پاگئیں ہیں.وہ چونکہ جہاد کی حالت میں تھے اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان کی والدہ حق دار ہیں ، ان کیلئے دعا کی جائے.ایک ہمارے مخلص احمدی دوست ہیں مکرم عبدالحمید صاحب قادیان کے ماسٹر چراغ دین صاحب مرحوم کے بیٹے ان کی اہلیہ کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.اسی طرح شاہد کلیم احمد صاحب دار النصر غربی سے لکھتے ہیں کہ ان کے والد ماجد صو بیدار محمدمجید احمد صاحب وفات پاگئے ہیں.یہ جہلم میں فیکٹری جو تھی صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کی اس میں کام کیا کرتے تھے.ان کے بیٹے کو 1974ء میں بہت ہی غیر معمولی بہادری کے ساتھ احمدیت کے لئے مارکھانے کی توفیق ملی اور غیر معمولی طور پر ان کو زدو کوب کیا گیا یہاں تک کہ بعضوں کا خیال تھا کہ شاید بچ نہ سکیں.لیکن کوئی ذرا بھی شکوہ نہ ان کی زبان پر آیا نہ ان کے والد پر بلکہ غیر معمولی بشاشت تھی اس واقعہ کی وجہ سے.اس لئے بھی صوبیدار صاحب خاص طور پر دعاؤں کے مستحق ہیں.

Page 51

خطبات طاہر جلد ۶ 47 خطبه جمعه ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء مد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کا جائزہ اور قربانی کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ) (الف ) پھر فرمایا: قرآن کریم میں متعدد جگہ اسلام کے عالمی غلبہ کی پیشگوئی کی گئی ہے اور یہ آیت جس کی صلى الله میں نے تلاوت کی ہے.اس میں بھی اس پیشگوئی کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غلبہ کے طور پر ظاہر فرمایا گیا ہے: هُوَ الَّذِی اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ کلام یہاں ضمیر آنحضرت ﷺ کی طرف پھیری گئی ہے اور دین کی طرف بھی پھیری گئی ہے.عموماً اس آیت کا ترجمہ آپ کو تراجم میں یہی ملے گا کہ وہ خدا جس نے اس رسول یعنی محمد مصطفی ﷺ کو دین حق کے ساتھ بھیجا تا کہ وہ دین حق کا غلبہ تمام دیگر ادیان پر فرمائے.لیکن یہ قرآن کریم کا ایک عجیب اسلوب ہے کہ جہاں جہاں آنحضرت ﷺ یا آپ کے بعد کتاب یا دین کا ذکر ملتا ہے وہاں ضمیر کو اس طرح کھلا چھوڑ دیا گیا کہ دونوں طرف ضمیر لگتی ہے اور قرآن کریم کی دوسری آیات اس بات کو تقویت دیتی ہیں کہ مضمیر کا دونوں طرف پھیرنا جائز ہے بلکہ مفہوم میں داخل ہے.پس اس

Page 52

خطبات طاہر جلد ۶ 48 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء پہلو سے میں سمجھتا ہوں اور کامل یقین رکھتا ہوں کہ یہاں جس غلبہ کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے، وہ صرف دین کا غلبہ نہیں بلکہ محمد مصطفی ﷺ کا غلبہ ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ دین بے رسول کے بے حقیقت اور بے معنی چیز ہے.وہی دین آج بھی ہے لیکن رسول نہ ہونے کی وجہ سے اس کی مختلف شکلیں بنادی گئی مختلف جہتوں سے اسکو دیکھا گیا اور ہر جہت سے وہ مختلف نظر آنے لگا.وہ ظاہر موجود ہے لیکن اس کی روح اٹھ گئی ہے.اس لئے دین کے ساتھ رسول کا ایک بہت ہی گہرا تعلق ہوتا ہے اور رسالت کے بغیر حقیقی دین دنیا میں نافذ ہو ہی نہیں سکتا اور جب دین بگڑے تبھی رسالت کے اعادہ کی ضرورت پیش آتی ہے.پس جب ہم کہتے ہیں کہ اس آیت میں اسلام کے غلبہ کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے تو مراد محض اسلام نام کے غلبہ سے نہیں بلکہ اس اسلام کی پیشگوئی فرمائی گئی ہے جس کے مظہر اتم اور مظہر کامل اصلى الله حضرت اقدس محمد مصطفی اے تھے ، جن کے غلبہ کے بغیر محض دین کا غلبہ کو ئی بھی حقیقت اور کوئی بھی معنی نہیں رکھتا.دین اسلام کا غلبہ اگرمحمد مصطفیٰ کا غلبہ ہے یعنی آپ کی سنت کا غلبہ ہے ، اس دین کا غلبہ ہے جسے آپ نے سمجھا، اور جسے آپ نے نافذ فرمایا تو پھر اس غلبہ کی قیمت خدا کی نظر میں ہے ورنہ اس غلبہ کی کوئی بھی حقیقت نہیں.جماعت احمدیہ کا یہ دعویٰ ہے اور سچا ہے کہ اس عظیم الشان غلبہ کی جو پیشگوئی فرمائی گئی ہے اس کے لئے ہم غلامان محمد مصطفی ﷺ کو چنا گیا ہے کہ ہم اس غلبہ کو دنیا میں جاری کر کے دکھا ئیں گے اور اپنی زندگی کے وجود کا ہر حصہ اس غلبہ کی راہ میں لٹا دیں گے، اس غلبہ کی خاطر اپنی ساری طاقتیں صرف کریں گے اور جہاں تک ہم سے ممکن ہوگا انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی اس غلبہ کے دن نزدیک تر لانے کی کوشش کرتے رہیں گے.اس پہلو سے ہماری غلبہ اسلام کی تیاری کی پہلی صدی تقریباً دوسال تک مکمل ہونے والی ہے اور بہت تھوڑے دن رہ گئے ہیں اس تیاری کے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے بعض بہت ہی خوبصورت اصطلاحوں کا اضافہ کیا.ان میں سے ایک اصطلاح یہ تھی کہ پہلی صدی احمدیت کی غلبہ اسلام کی تیاری کی صدی ہے اور اس سے بعد میں آنے والی صدی انشاء اللہ تعالیٰ غلبہ کی صدی ہوگی اور پھر آخری صدی اس غلبہ کی تعمیل کی صدی ہوگی.اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ان باقی دوسالوں میں ہمارے لئے تیاری کے کام اتنے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ ہوش اڑانے والے ہیں.اتنا کام باقی ہے تیاری کا کہ جب اس

Page 53

خطبات طاہر جلد ۶ 49 49 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء پر نظر پڑتی ہے ہر جہت سے تو اس وقت انسان کا وجود سکڑتے سکڑتے ایک ذرہ بے محض رہ جاتا ہے جس کی طاقت میں کچھ بھی نہ ہو کیونکہ جب کام زیادہ ہوں تو اس کی نسبت سے اپنا وجود چھوٹا دکھائی دینے لگتا ہے اور زیادہ کام ہوں تو اپنا وجود اور چھوٹا دکھائی دینے لگتا ہے.یہاں تک کہ جب میں کاموں پر غور کرتا ہوں تو ساری جماعت احمد یہ جو اس وقت کل عالم میں پھیلی پڑی ہے وہ سمٹتے سمٹتے میرے وجود سمیت ایک نقطہ لاشئی دکھائی دیتی ہے جسے اللہ تعالیٰ کے براہ راست تسلط اور تقدیر کے بغیر دنیا میں وہ کام کرنے کی توفیق نہیں مل سکتی جس کا ارادہ لے کے ہم اٹھیں ہیں.اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمارا وجود لاشئی تک پہنچ کر نظر سے غائب ہونے لگتا ہے اور جب ایک اور پہلو سے دیکھتے ہیں تو اسی وجود کا کل عالم پر محیط ہو جانا ایک تقدیر مبرم دکھائی دیتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ جس ذرہ لاشئی کو چن لیتا ہے کہ وہ غالب آئے اور وہ پھیلے تو اس کا کل عالم پر محیط ہونا ایک ایسی تقدیر ہے جو دنیا کی کسی قوت میں ، طاقت میں نہیں ہے کہ وہ اسے بدل سکے یا اس کی راہ میں روک ڈال سکے.پس جہاں یہ خور ہمیں انکسار سکھاتا ہے وہاں اس انکسار کو مزید غور ایک عظیم اور نئی طاقت بھی بخشتا ہے اور وہ طاقت ہمارے وجود کی طاقت نہیں بلکہ خدا کے وجود کی طاقت ہے اور اسی میں ہماری ساری ترقی کا راز ہے.اس موازنے میں ہی وہ ہماری زندگی کا فلسفہ اور ہمارے غلبہ کا فلسفہ ہے.جب تک احمدی اپنے وجود کو انکسار کی حالت میں دیکھتے ہوئے لاشئی نہ سمجھنے لگے اور اس خلا کو جو اس کے وجود کے غائب ہونے سے پیدا ہوا ہے اسے خدا کی طاقت سے نہ بھر لے اس وقت تک وہ غلبہ جو ہمارے ذریعے مقدر ہے وہ منصہ شہود پر ابھر نہیں سکتا.وہ خواب کی دنیا میں رہے گا وہ حقیقت نہیں بن سکتا.انفرادی طور پر بھی یہ ضروری ہے اور اجتماعی کوششوں میں بھی یہ ضروری ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں کچی دعا پیدا ہوتی ہے.جب ایک انسان اپنے آپ کو لاشئی سمجھتا ہے اور جس مقصد کی خاطر اس نے کام کرنا ہے وہ سارا خدا کا مقصد ہے تو خدا اس کے وجود کو اپنے وجود سے بھرتا ہے.اس کے سب ارادوں میں خدا داخل ہونے لگ جاتا ہے.اس کی ہر کوشش میں خدا شامل ہو جاتا ہے اور پھر اس انکساری کے نتیجے میں دعا پیدا ہوتی ہے اور دعا بھی ایسی کہ جس میں سب کچھ خدا پر چھوڑ دیا جاتا ہے.اگر انسان اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہومثلاً کچھ لوگ موٹر کو دھکا لگا رہے ہیں وہ نکل نہیں رہی تو وہ سمجھتے تو یہی ہیں کہ تھوڑے سے زور کی اور ضرورت ہے ایک مسافر ایک راہ گیرا گر شامل ہو جائے تو وہ تھوڑا سا زور

Page 54

خطبات طاہر جلد ۶ 50 60 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء زائد مل جائے گا.تو وہ مطالبہ وہی کرے گا جس زور کی اس کو ضرورت ہے.ایک ہاتھ کی طاقت چاہئے تو ایک ہاتھ کو بلائے گا دو ہاتھوں کی طاقت چاہئے تو دو ہاتھوں کو بلائے گالیکن اگر ایک وجود ایسا ہو جو اپنے کو کلیۂ لاشئی اور بے طاقت سمجھتا ہو اس کی دعا سب کچھ کے لئے ہوگی.اس کی التجا یہ ہوگی کہ مجھے ساری طاقت دو میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.تو طاقت میں جو قوت اور عظمت پیدا ہوتی ہے وہ انکسار کامل سے پیدا ہوتی ہے.اس لئے غلبہ اسلام کی صدی کی تیاری کے لئے میرا سب سے پہلا پیغام یہ ہے کہ ان معنوں میں اپنے اندر انکسار پیدا کریں اور ان معنوں میں اپنی دعاؤں کا معیار اونچا کرتے چلے جائیں اور دعاؤں کا دائرہ وسیع کرتے چلے جائیں اپنے لئے بھی اور جماعت کے لئے بھی.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ سے کامل عرفان کے ساتھ یہ بات عرض کرتے رہیں کہ ہم حقیقت میں کچھ بھی نہیں اور سب کچھ تجھے دینا ہو گا ہر توفیق تجھ سے ہم نے لینی ہے اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:۵) کے مفہوم کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ دعا کریں جو ایک معراج کی دعا ہے اور اس دعا کو لازمہ بنا لیں.جو گزشتہ ہم سے کوتاہیاں ہوتی رہی ہیں اور جو آئندہ ہوسکتی ہیں ان سب کے لئے استغفار کی بھی ساتھ ضرورت ہے.اس پہلو سے ہم جب مختلف جہتوں میں جائزہ لیتے ہیں تو بہت ہی وسیع کام ہے جس کی یاددہانی کی جماعت کو ضرورت پڑتی ہے اور ایک خطبہ میں وہ ساری یاددہانی نہیں ہو سکتی.آج کے لئے میں نے ایک دو باتیں چینی ہیں جس میں سے اول بات اس وعدے کی یاددہانی ہے جو آپ نے سوسالہ جلسہ سالانہ یا سو سالہ جشن منانے کے لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کی وساطت سے اپنے مولا کے حضور پیش کیا تھا.بظاہر تو آپ خلفاء کے سامنے وعدے کرتے ہیں مگر حقیقت میں تو اللہ سے وعدہ ہے خلیفہ کی ذات تو اس وعدے کے درمیان میں محض ایک وسیلے کا رنگ رکھتی ہے جہاں مرکزی نقطہ اختیار کر جاتے ہیں جماعت کے وعدے اور ایک اجتماعیت کی شکل میں پھر خدا کے حضور پیش ہوتے ہیں.ورنہ ہر وعدہ ہما را خواہ چھوٹا ہو خواہ بڑا ہو براہ راست اللہ کے حضور پیش ہور ہا ہوتا ہے.اس پہلو سے اس وعدے کی یاد دہانی کروانے کی ضرورت پیش آئی ہے کیونکہ جیسا کہ میں مختصراً بیان کروں گا جو کام شروع کئے جاچکے ہیں بہت ہی وسیع کام ہیں اور اب تک ان کے اوپر جو خرچ ہو چکا ہے اس کے بعد مزید اخراجات کی ضرورت ہے وہ اس سے بہت زیادہ ہے اور جب سال جوبلی منانے کا آئے گا انشاء اللہ تعالیٰ تو ساری دنیا

Page 55

خطبات طاہر جلد ۶ 51 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء میں کم سے کم ایک سوممالک میں جماعت ایک عظیم الشان عالمگیر جشن منا رہی ہوگی.اس جشن کے لئے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس سال میں کتنے اخرجات کی ضرورت ہوگی اور جس رنگ میں ہم نے وہ ، اسلامی رنگ میں اس جشن کو منانا ہے اس کے لئے بہت سی تیاریاں ابھی سے شروع ہیں جن پر اخراجات اٹھ رہے ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہ مطالبے زیادہ ہونے والے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ آپ کو اب صد سالہ جو بلی کی طرف خصوصی توجہ دینے کی طرف یاددہانی کروائی جائے.جہاں تک بیرون پاکستان کے وعدہ جات کا تعلق ہے لیکن اس سے پہلے میں پاکستان کے وعدوں کا ذکر کروں عام طور پر ہمیشہ سے یہی ترتیب چلی آئی ہے.پہلے پاکستان کے وعدوں کا ذکر ہوتا ہے پھر بیرون پاکستان.پاکستان کی طرف سے کل وعدہ پانچ کروڑ چار لاکھ اناسی ہزار آٹھ سو ستر روپے کا تھا.اس میں سے اب تک گزشتہ بارہ سال میں کل چودہ سال کے اوپر یہ وعدہ پھیلا ہوا تھا چودہ سال کے اندر یہ وعدہ کیا جانا تھا یعنی وعدے کو پورا کرنا تھا.اس تدریجی نسبت کے ساتھ وعدوں کی ادائیگی ہوتی تو بہت معمولی رقم باقی رہ جاتی مگر اب تک دو کروڑ چوراسی لاکھ انتیس ہزار آٹھ سو چھیاسی کی رقم پاکستان سے موصول ہوئی ہے.گویا کہ وعدہ 56.32 فیصد وصول ہوا اور سال صرف دو باقی ہیں بلکہ واقعہ اگر دیکھا جائے تو سال دو نہیں بلکہ ایک باقی ہے.کیونکہ اس سال اگر وعدہ پوری طرح نہ ملے تو اگلے سال پھر تاخیر ہو چکی ہوگی اور جس سال جشن منایا جا رہا ہو گا اس سال یہ تو نہیں کیا جا سکتا کہ ساتھ اخراجات ہورہے ہوں ساتھ فکر کی جارہی ہو کہ فلاں نے وعدہ پورا کیا یا نہیں کیا.اس سے پہلے پہلے کلیہ وعدے موصول ہو جانے چاہئیں.اس سال کو اگر ہم مطمح نظر بنائیں کہ اس سال کے آخر تک اپنا وعدہ پورا کریں گے تو کچھ جیسا کہ عموماً دستور ہے کچھ حصہ جماعت کا مجبور پیچھے بھی رہ جائے گا اور وہ ہوسکتا ہے اگلے سال کے شروع کے چند مہینوں میں اپنا وعدوں کے ایفاء سے فارغ ہو جائے.لیکن اگر اگلے سال کو بنایا گیا مطمح نظر کہ اگلے سال وعدے پورے کئے جائیں تو پھر مجھے خطرہ ہے کہ بہت ہی زیادہ تاخیر ہو جائے گی.جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے، وعدہ 37,14,585 ڈالرز کا تھا یعنی جو بھی رقم بنی مختلف وقتوں میں مختلف جگہوں میں ان کو ہم نے ایک کرنسی میں اکٹھا کر کے آپ کے سامنے رکھا ہے تا کہ آسانی ہو جائے ورنہ پھر بکھرے ہوئے وعدوں کو جو مختلف Currencies میں ہوں ان کو ایک جگہ جمع کیا ہی نہیں جاسکتا.تو اگر ہم فرض کریں کہ سب وعدے ڈالرز میں تھے تو 37,14,585

Page 56

خطبات طاہر جلد ۶ 52 59 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء کا وعدہ تھا.اس میں سے اب تک وصولی 199, 23, 19 کی ہے یعنی پاکستان کے مقابل پر یہ کم ہے 51.77 فیصد وصولی ہے.اس وصولی میں میرا خیال ہے کہ ایک رقم داخل نہیں کی گئی اگر وہ داخل کر لی جائے تو یہ وصولی بھی کم و بیش پاکستان کی وصولی کے برابر ہو جاتی ہے یعنی نسبت کے لحاظ سے اور اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ کون پیچھے رہ گیا اور کون آگے بڑھ گیا.جہاں تک جماعت برطانیہ کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت برطانیہ سب دنیا کی جماعتوں میں نسبتی یا تناسب کی قربانی کے لحاظ سے آگے ہے یعنی کل وعدہ 37,14,585 میں سے دس لاکھ کا وعدہ صرف جماعت برطانیہ کا تھا، دس لاکھ پاؤنڈ کا جس کا مطلب یہ ہے کہ ڈالر کے لحاظ سے وہ نسبت ایک اور تین کی تقریبا بن جائے گی یعنی بیرون پاکستان ساری دنیا نے جو مالی قربانی پیش کی صد سالہ جو بلی میں اس میں انگلستان کی جماعت کا حصہ %33 سے بھی کچھ زائد بنتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی زیادہ، بڑی عظیم سعادت ہے ایک جو ایک تاریخی سعادت جماعت انگلستان کو نصیب ہوئی ہے.لیکن اس سعادت میں سب سے زیادہ حصہ پانے والا شخص حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مرحوم و مغفور تھے رضی اللہ تعالی عنہ.ساری جماعت انگلستان وعده 5,75,000 پاؤنڈ تھا اور صرف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کا وعدہ 4,25,000 پاؤنڈ تھا اور اس طرح یہ دس لاکھ کا وعدہ بنا.ساری جماعت انگلستان میں اپنے وعدے میں سے اب تک صرف 50.5 فیصد وصولی پیش کی ہے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے اکیلے سو فیصد وصولی پیش کر دی ہے یعنی وعدہ کل سو فیصد ادا فرما دیا اور یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عجیب معجزانہ رنگ میں ظہور ہوا.جس سے پتہ چلتا ہے کہ مالی قربانی پیش کرنے والے کے اخلاص کا بہت گہرا تعلق ہے اس توفیق سے جو اسے ادا ئیگی کی شکل میں ملتی ہے.جتنازیادہ خالص ہو انسان کا ارادہ، خدا کے حضور ایک چیز پیش کرنے کی تمنا جتنی زیادہ تقویٰ پر بنی ہو اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیبی مدد وعدے کو پورا کرنے میں حاصل ہوتی ہے.چوہدری صاحب کا وعدہ چار لاکھ پچیس ہزار کا تھا لیکن بیماری تک کیفیت یہ تھی کہ اس میں سے اڑھائی لاکھ سے زائد رقم قابل ادا تھی اور جو ذرائع تھے وہ سارے ختم ہو چکے تھے تقریبا کیونکہ بہت بڑی رقم چوہدری صاحب کی انگلستان ہی کی ایک فرم ہضم کر چکی تھی اور جس کے ملنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی تھی چنانچہ جب مجھے معلوم ہوا، میں پہلے بھی واقعہ بیان کر چکا ہوں بڑا دلچسپ واقعہ ہے.تو ایک خواب کی بناء پر میرے دل

Page 57

خطبات طاہر جلد ۶ 53 53 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء میں یہ امید پیدا ہوئی کہ یہ انشاء اللہ خدا تعالیٰ ان کی ایفائے عہد کی صورت پوری کرے گا.پاکستان میں ایک موقع پر غالبا فروری 1984ء کی بات ہے جب میں کراچی میں تھا تو چوہدری صاحب کی علالت کی بہت ہی خطرناک اطلاع ملی کہ بظاہر ڈاکٹر ز یہ کہتے ہیں کہ اب کوئی بچنے کی صورت باقی نہیں رہی اور خاص طور پر دعا کی جائے.میں مجلس سوال وجواب میں بیٹھا ہوا تھا کہ رقعہ ملا مجھے بڑا گھبرایا ہوا غالبا چوہدری حمید صاحب کا پیغام تھا بڑی سخت پریشانی کا کہ یہ شکل ہے اور فوری طور پر مجھے مطلع کیا جائے چنانچہ انہوں نے مجھے مطلع کیا.اس رات خاص طور پر چوہدری صاحب کے لئے دعا کی توفیق ملی اور اس وعدے کو مد نظر رکھتے ہوئے خاص طور پر میں نے دعا کی کہ ان کو سرخر و فرما اور زندگی بھی بخش اور ایفائے عہد کی بھی توفیق بخش کیونکہ ساری عمر چوہدری صاحب کے اوپر یہ داغ کوئی نہیں لگا سکتا تھا کہ کوئی وعدہ کیا ہو اور پورا نہ کیا ہو.لین دین کے معاملے میں انتہائی صاف کردار، بالکل بے داغ اور عظیم الشان نمونے کا کردار تھا.تو جس کا بندوں سے یہ معاملہ ہو خدا سے لین دین کے معاملے میں آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا کیا حال ہوگا اور مجھے پتہ تھا کہ یہ فکر تھی ان کو جو لاحق تھی.چنانچہ اس رات اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ خوشخبری دکھائی گویا ایک خط ہے جو میں پڑھ رہا ہوں اس میں ایک فقرہ ہے عربی میں جس کا مفہوم یہ تھا کہ اللہ سے زندہ کرے گا یا خدا کی طرف سے ہم اسے زندہ کریں گے اور مہیا کریں گے.اب یہ عجیب بات ہے کہ خواب میں بھی میرے ذہن میں یہ بات واضح ہے کہ حی“ کا لفظ جو زندگی سے تعلق رکھتا ہے، وہ ” حلوے والی جس کو کہتے ہیں اس ”ح“ سے ہے اور جو مہیا کرنا وہ شعشہ والی ہے.لیکن خواب میں جب میں وہ خط کی عبارت پڑھتا ہوں گویا خدا کا خط ہے اور اس میں ایک خوشخبری دی گئی ہے وہ پڑھ رہا ہوں بڑی ” بھی جس کو ہم اُردو میں کہتے ہیں اور ترجمہ اس کا ساتھ یہ بھی کر رہا ہوں کہ ہم اسے زندگی بخشیں گے اور مہیا کریں گے.تو بعد میں جب میں نے تحقیق کی تو پتہ چلا کہ حی" کے معنی بہت وسیع ہیں جیسے میں نے گزشتہ درس کے دوران بیان کیا تھا، اس میں مہیا کرنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں، وسعت عطا کرنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.بہر حال ”جی“ کے لفظ میں خدا تعالیٰ نے مجھے خوشخبری دی کہ اللہ تعالیٰ ان کو بچا بھی لے گا اس خطرناک حالت سے اور وہ جو فکر لگی ہوئی ہے کہ ان کا وعدہ پورا نہ ہو وہ بھی دور فرمادے گا.چنانچہ میں نے فون کے ذریعے اطلاع کروائی لاہور کہ فکر نہ کریں مجھے اللہ تعالیٰ نے تو خوشخبری

Page 58

خطبات طاہر جلد ۶ 54 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء دی ہے انشاء اللہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ جائیں گے.چنانچہ بچ گئے اور یہاں آ کر خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی کہ اس معاملے کی پیروی کروں اور جسے تمام واقف کار لوگ کلیۂ کھوئی ہوئی رقم قرار دے چکے تھے کہ واپس آ ہی نہیں سکتی.وکلاء بھی اور مالی امور کے واقف لوگ کے کوئی دباؤ نہیں ہے اس شخص پر ہمارا سب کچھ اپنے ہاتھ سے چوہدری صاحب لکھ کر اس کے سپر د اس طرح کر بیٹھے ہیں کہ کوئی دنیا کی قانونی طاقت اس سے اب نکلو انہیں سکتی مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے چونکہ یہ خوشخبری تھی میں نے کہا نہیں کوشش کرتے رہو.گزشتہ ایک موقع پر میں نے بتایا کہ مجھے یاد یہ تھا کہ چوہدری صاحب کا وعدہ جو باقی ہے دولاکھ اسی ہزار ہے اور یہی میرے ذہن میں تھا اور میں نے جماعت کو خوشخبری دی کہ الحمد للہ کہ اس فرم نے جو مکان ہمیں دیا اس کے بدلے میں وہ دولاکھ کا تھا اس وقت تک وہ مکان نہیں بکا جب تک دو لا کھ اسی ہزار کا نہ ہو گیا.بعد میں مجھے پتہ چلا دو لاکھ اسی کا وعدہ نہیں تھا ، دولاکھ ساٹھ ہزار کا تھا میں تو جماعت کو بتا چکا تھا کہ اس میں اعجازی نشان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بعینہ اتنی رقم مہیا فرمائی جتنی ضرورت تھی.اس وقت مجھے تعجب ہوا کہ یہ پھر میں کا فرق کیوں پڑا.چند دن کے بعد اللہ تعالیٰ نے سمجھا دیا کہ یہ فرق کیوں پڑا کیونکہ اس کے بعد چند دن کے بعد وکلاء کی طرف سے چٹھی ملی کہ ہماری میں ہزار فیس دینی نہ بھولیں.پانچ ہزار پہلے ادا ہوئی تھی، پندرہ ہزار بعد میں، اس کے لگ بھگ رقم جو فیس اور واجب الادا چندہ ملا کر بعینہ وہی رقم بنتی تھی جو ادا کرنی تھی.بڑے نشان ہیں ان باتوں میں خدا کی طرف سے.جماعت کے لئے حوصلہ افزائی ہے کہ دیکھو خدا کس طرح اپنی جماعت کے ایک ایک بندے کے دل پر نظر رکھتا ہے.اجتماعی طور پر اس جماعت کی کیا قیمت ہوگی خدا کے نزدیک اندازہ تو کریں بلکہ اندازہ نہیں کر سکتے.آپ کے لئے خوشخبری یہ بھی ہے کہ آپ اگر اپنے خلوص کے معیار کو بڑھا ئیں تو ان فکروں سے خدا آپ کو نجات بخشے گا کہ کس طرح ادا ئیگی ہوئی ہے.اس لئے اگر پہلے وہ معیار نہیں بھی تھا تو اب یہ معیار لے کر دوبارہ نئے ارادے سے خدا کے حضور اپنے وعدوں کی تجدید کریں کہ اے خدا! ہم سے جو غفلت ہوئی سابقہ اب تک ہم نے ان وعدوں کی ادائیگی سے کوتاہی کی ہے یا غفلت کی ہے، پوری اہمیت نہیں دی تو ہمیں اس کی معافی عطا فرما اور آئندہ ہمیں توفیق بخش کہ ہم تیری رضا کے مطابق اس وعدے کو اس سال کے اندر اندر ادا کر دیں.غیب سے خدا سامان پیدا فرماتا ہے اور غیب پر ایمان لانے کی تعلیم سورۃ بقرہ کی

Page 59

خطبات طاہر جلد ۶ 55 59 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء آیت میں ہے الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ ( البقرہ:۴) آغاز میں ہی ہے.یہاں اس غیب کا بہت وسیع مفہوم ہے ایک یہ بھی ہے کہ مومن اس لئے غیب پر ایمان لاتے ہیں کہ ان کے سامنے غیب ہمیشہ حقیقت بنتا رہتا ہے.جو غیروں کے لئے غیب رہتا ہے یعنی جو سامان نہیں مہیا ہو سکتا وہ نہیں مہیا ہوسکتا.مومن اس لئے ایمان لاتے ہیں کہ خدا اس غیب کو حاضر میں تبدیل فرماتا رہتا ہے ان کے لئے اور وہ کامل ایمان رکھتے ہیں کہ مستقبل کے خدا کے وعدے اسی طرح غیب سے حاضر میں تبدیل ہوتے رہیں گے.جو چیز دنیا کو نظر نہیں آرہی وہ مومن کی یقین اور ایمان کی آنکھ دیکھ رہی ہوتی ہے کہ ہے اور لازماً ہو گی.اس یقین کے ساتھ جب آپ دعا بھی کریں گے اور اپنے ارادوں میں ایک تجدید پیدا کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے وعدے ضرور پورے ہوں گے.صد سالہ جوبلی کے سیکرٹری کی طرف سے بڑی پریشانی کی رپورٹیں ملتی رہی ہیں کہ دیر ہو رہی ہے اور جو سیکرٹریان ہیں مختلف جماعتوں میں وہ بھی پریشانی کی اطلاعیں دے رہے ہیں.لیکن مجھے تو کامل یقین ہے کہ جو خدا یہ نمونے دکھا چکا ہے اس پہ بدظنی کا تو کوئی حق ہی نہیں بنتا بلکہ گناہ کبیرہ ہے بدظنی اپنے نفس پر بھی حسن ظن کریں اور خدا پر تو حسن ظن مومن کا ہوتا ہی ہے اور بظاہر جو بات مشکل دکھائی دیتی ہے ارادہ کریں کہ ہم نے اس کو پورا کر کے دکھانا ہے تو اس طرح اگر اس سال کے آخر تک بقیہ رقمیں پوری ہو جا ئیں تو امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ پھر باقی جو کام ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ خود بخود چلتے رہیں گے کیونکہ فکر میں کام کے معاملے میں اتنی زیادہ ہیں کہ وصولی کو اجازت نہیں ہونی چاہئے کہ یہ بھی فکر بن کر ساتھ ساتھ انسان کو پریشان کرتی رہے.جو کام ہونے والے ہیں وہ ہی بہت زیادہ ہیں.اتنا وقت ہی نہیں ملنا توجہ دینے کا کہ اب یہ بھی فکر کریں کہ وصولی کہاں سے ہوگی.اس لئے جماعت کو خصوصیت سے اس طرف متوجہ کرتا ہوں.اس ضمن میں ایک اور ضروری بات بھی بتانے والی ہے کہ ہر قسم کے لوگ اپنے کاموں میں، اپنے کاموں کو پورا کر کے دکھانے میں مختلف چالا کیاں کرتے رہتے ہیں.ان کو ہم بددیانتیاں نہیں کہہ سکتے ، ہوشیار یاں ہیں اور بعض جماعتوں کے سیکرٹری بھی یہ ہوشیاریاں کرتے رہتے ہیں.مثلاً وعدہ اگر دس لاکھ کا ہے تو جن لوگوں نے دس لاکھ کا وعدہ کیا تھا انہوں نے اگر سات لاکھ ہی ادا کیا ہو اور اس عرصے میں تین لاکھ کے وعدہ کرنے والے اور پورا کرنے والے مزید پیدا ہو چکے ہوں تو واقعہ ان کو

Page 60

خطبات طاہر جلد ۶ 56 56 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء یہ بتانا چاہئے کہ ہمارا دس لاکھ کا وعدہ پورا نہیں ہوا، سات لاکھ اس میں سے ادا شدہ ہے اور بقیہ ہمارے ذمہ ہے اور یہ تین لاکھ اللہ تعالیٰ نے زائد عطا فرمایا ہے لیکن وہ چالا کی یہ کرتے ہیں کہ جب دس لاکھ کی رقم پوری ہوئی کہہ دیا کہ وعدہ پورا ہو گیا حالانکہ نہیں ہوا.وعدہ ان لوگوں کا ہے جنہوں نے کیا تھا.اس کے مجموعے کا نام ہے وہ وعدہ جو پہلے آیا ہے.بعد میں خدا تعالیٰ دو طریقے سے اس وعدے کو بڑھاتا رہتا ہے اور ان کو یہ اطلاع کرنی چاہئے تھی شروع میں کہ اب ہمارا وعدہ دس نہیں رہا، گیارہ ہو گیا، بارہ ہو گیا ، تیرہ ہو گیا.چونکہ خدا وعدوں کو بڑھاتا رہتا ہے اور وہ بڑھائے ہوئے وعدے یہ سیکرٹری جان بوجھ کے شمار نہیں کرتے تاکہ مشکل نہ پڑ جائے بعد میں.اس لئے بظاہر وعدے پورے ہور ہے ہوتے ہیں لیکن عملاً نہیں ہو رہے ہوتے.ہر جگہ لوگوں کی یہی عادت ہے.ہمیں پتہ ہے زمیندارے کا کہ وہاں مثال کے طور پر اگر سوا یک فصل کاشت ہوئی ہے اور بجٹ میں اسی تھی کہ اسی ایکٹر کاشت ہوگی تو مینیجر صاحبان حتی المقدور کوشش کرتے ہیں کہ بقیہ میں کا پتہ نہ چلے تا کہ وہ جو Average اوسط پیداوار انہوں نے بتائی ہے کہ ہم نے کرنی ہے اس دفعہ وہ پوری ہو جائے.یعنی اگر دس من فی ایکٹر انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دکھائیں گے، فی ایکڑ دس من پیدوار کریں گے تو اسی ایکٹر پر دس من فی ایکڑ پیداور کے نتیجے میں آٹھ سو من پیدا ہو گی.لیکن اگر میں ایکڑ بڑھا دیئے گئے تو آٹھ سو نہیں بلکہ ہزار من ہونی چاہئے لیکن چونکہ وہ ہزار من پیدا نہیں ہوتی سوا سیکٹر میں سے کم پیدا ہوتی ہے.آٹھ من فی ایکڑ اوسط پیدا ہو جاتی ہے مثلاً تو کل اوسط آٹھ سو من کل مقدار زمیندارہ پروڈکشن کی خواہ وہ گندم ہو خواہ وہ کپاس ہو آٹھ سومن بن جائے گی، آٹھ من فی ایکڑ کے حساب سے سوا میکر لگا ہوا ہو تو آٹھ سومن بن جاتی ہے.اور اگر مالک کو یہ پتہ نہ ہو کہ اسی ایکڑ نہیں بلکہ سوا یکٹر کاشت کی گئی تھی تو یہی سمجھے گا اور بہت خوش ہو گا کہ اس منیجر صاحب نے اپنا وعدہ پورا کر دیا اور دس من فی ایکٹر کی کاشت پوری کر کے دکھا دی.بعض دفعہ ان کی چالا کی کام آجاتی ہے بعض دفعہ نہیں آتی مگر آپ کی چالا کی کام نہیں آنی اگر آپ کریں گے کیونکہ مالک میں نہیں ہوں مالک اللہ ہے.اس کو پتہ ہے کہ کتنی ایکٹر کاشت ہوئی ہے اور اس کو پتہ ہے کہ اوسط کیا نکل رہی ہے.اس لئے خدا سے جو چالا کی کرنے والا ہے اگر وہ شرارت سے کرتا ہے تو اُس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوْا وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ

Page 61

خطبات طاہر جلد ۶ وَمَا يَشْعُرُونَ 57 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء (البقره: ۱۰) بیوقوفوں کو پتہ ہی نہیں کہ خدا سے چالاکیاں ہو نہیں سکتیں اور اگر وہ مومن ہیں تو ایسے سخت لفظ میں اللہ نہیں فرما تا لیکن تقدیر اس پر ہنستی اور مسکراتی ضرور ہوگی کہ کس کو غلط خبریں دے رہا ہے.جس کو پیش کر رہا ہے وہ خلیفہ تو نہیں ہے وہ تو خدا ہے اور خدا سے کچھ چھپا ہوا ہی نہیں ہے.اس لئے یہ چالا کیاں ہیں ہی بے کار، بے معنی ہیں.اگر اس بات کو محوظ رکھتے ہوئے آپ کوشش کریں گے تو لازماً کل وعدے سے زیادہ رقم آنی چاہئے اور ضرورت بھی زیادہ کی ہے.اس لئے اگر جماعت انگلستان کا وعدہ دس لاکھ کا تھا جس میں سے تقریبا نصف چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پورا فرما بھی چکے ہیں تو بقیہ آپ کی جماعت میں ایسے نوجوان ہیں جو بعد میں آکر برسر روزگار ہوئے.گزشتہ بارہ سال میں نئی نسلوں میں سے بہت سے نو جوان ہیں جو اس تحریک کے آغاز کے بعد برسر روزگار ہوئے اور غلطی سے وہ اس وعدے میں شامل نہیں ہو سکے، لاعلمی کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.بہت سے ایسے ہیں جو پہلے اخلاص کے معیار میں کمزور تھے اور اب خدا کے فضل سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں.وہ سابقہ اخلاص کے معیار کی کمزوری کی وجہ سے شامل نہیں ہو سکے.بہت سے نئے احمدی ہوئے ہیں اور ان کو مالی قربانی میں فورا شامل کرنا ان کی زندگی کیلئے ، ان کی بقا کیلئے ضروری ہے.ان کی طرف توجہ دینا ضروری ہے ان کو بتانا چاہئے کہ اتنی عظیم الشان تحریک جو سو سالہ جشن سے تعلق رکھتی ہے اور گزشتہ سو سال کی تاریخ میں آپ کی قربانی شامل ہو جائے گی.احمدیت کے آغاز کے پہلے دن سے لے کر اس جشن کے سال تک خدا تعالیٰ آپ کی قربانی کو سارے سالوں پر پھیلا دے گا کیونکہ آپ کی نیت Back Dated قربانی کی بھی ہے ماضی سے تعلق رکھنے والی قربانی بھی.تواتنی عظیم الشان قربانی کا وقت ہو اور آپ ان بے چاروں کومحروم رکھیں جو نئے خدا تعالیٰ کے فضل سے سلسلہ عالیہ احمدیہ میں داخل ہوئے ہیں، یہ بھی ناجائز بات ہے، یہ ظلم ہے ان لوگوں پر.اس لحاظ سے جب ہم دیکھیں تو وعدہ بڑھانے والی بہت سے شکلیں دکھائی دیتی ہیں.اس کے مقابل پر ایک وعدہ کم ہونے والی شکل بھی ہے.بعض لوگ اس چودہ سال کے عرصے میں وعدہ کر کے فوت ہو گئے اور وہ ابھی وعدہ پورا نہیں کر سکے یا جماعتیں چھوڑ کر کسی اور جماعت میں چلے گئے.ان دو شکلوں پر اگر غور کیا جائے تو جو لوگ فوت ہو چکے ہیں ان سے بہت زیادہ یہ نئے آنے والے

Page 62

خطبات طاہر جلد ۶ 58 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء ہیں.لیکن جو فوت ہو چکے ہیں ان سے بھی وصول کرنا چاہئے اس رنگ میں کہ ان کی اولا د کو توجہ دلائی جائے اور بالعموم احمدیوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ جب اولا د کو بتایا جائے کہ آپ کے والدین ایک نیک ارادہ لے کر اٹھے تھے وہ وفات پاگئے اور توفیق نہیں پاسکے کہ اس وعدے کو پورا کریں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ میں جو والدین سے تعلق ہے بچوں کو اور اطاعت اور محبت کا جذبہ پایا جاتا ہے اور ویسے نیکی کی روح پائی جاتی ہے اکثر صورتوں میں آپ دیکھیں گے کہ وہ وعدے پورے ہو جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے وعدہ پورا کرنے کے سلسلے میں بھی اولا د نے بڑا تعاون کیا یہ تفصیل یہاں بتانے کا موقع نہیں.لیکن پوری اطاعت کی روح دکھائی ہے اور پورا جذ بہ دکھایا ہے کہ جس طرح بھی ہو یہ وعدہ بہر حال پورا ہو.اور انہوں نے کہا اگر کوئی ہمارا حق بنتا ہے اس روپے میں ہم چھوڑ دیتے ہیں کلیہ ، ہرگز ہمیں ایک آنہ بھی نہ دیا جائے بلکہ چوہدری صاحب کا وعدہ پورا ہونا چاہئے.تو یہی روح اللہ کے فضل سے جماعت میں پھیلی ہوئی ہے.پھر جو جماعت چھوڑ کر کہیں اور جاتے ہیں اس کی بجائے خدا اور باہر سے بھیج دیتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں زیادہ بھیج دیتا ہے.چنانچہ اب پچھلے دنوں پاکستان میں جو احمدیت پر مظالم توڑے گئے اس کے نتیجے میں بہت سے نوجوان ایسے ہیں، بعض صورتوں میں بڑی عمر کے دوست بھی جن سے زیادہ تکلیفیں برداشت نہیں ہوئیں اور وہ غیر ملکوں میں آگئے ہیں.انگلستان میں کم لیکن بہت سے دوسر ے ملکوں میں زیادہ تعداد میں پہنچے ہیں.تو وہ بھی ایک مزید ہے اضافے کا موجب کیونکہ اکثر ان میں وہ ہیں جن کو پاکستان میں اس چندے میں شامل ہونے کی توفیق نہیں ملی تھی اور اگر ملتی بھی تو بہت کم ملتی کیونکہ ان کی مالی حالات ایسے غیر معمولی نہیں تھے کہ کوئی بہت بڑھ چڑھ کر چندہ دے سکیں.جن ملکوں میں آکر وہ اب خدمت سرانجام دیتے ہیں وہاں کا اقتصادی معیار بلند ہے.اس لئے ان کا جو چندہ ہے وہ مستزاد ہے پچھلے چندے کا جس کا میں پیچھے ذکر کر چکا ہوں.اس لئے کسی پہلو سے بھی آپ دیکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کے چندے میں کمی کی کوئی شکل نہیں آنی چاہئے ، کمی کا کوئی احتمال نہیں نظر آتا.لازما یہ چندہ وعدے کی نسبت بہت بڑھ کر وصول ہوگا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور اسکی تو فیق سے.اس لئے کمر ہمت باندھیں اور پورے زور سے اس کی طرف جس طرح War Footing

Page 63

خطبات طاہر جلد ۶ 59 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء کہتے ہیں جہاد کی روح کے ساتھ ساری دنیا میں عظیم الشان تحریک چلائیں کہ سب احمدی اللہ کے فضل کے ساتھ اس سے دعائیں مانگتے ہوئے اس طرح وعدے پورے کریں کہ خدا کی نصرت کا ہاتھ ان کو دکھائی دے.خدا کا پیار وہ اپنے دل میں محسوس کریں اور وعدے پوری کرنے کی ایسی شکل ہو کہ وعدے کا جو لطف آئے گا وہ تو آئے گا، وہ خدا کی نصرت کو اس طرح دیکھیں اپنے تائید میں ظاہر ہوتے ہوئے کہ اللہ کی محبت میں بھی وہ پہلے سے بڑھ جائیں.اور یہ جو صورتیں ہیں یہ بہت ہیں کثرت سے جماعت میں.تقریباً ہر روز ہی یا کم و بیش ہر روز ایسے خطوط مجھے ملتے ہیں جن میں ایک وعدہ دہندہ جو بڑے اخلاص سے وعدہ کر چکا تھا مجھے مطلع کرتا ہے کہ کس طرح غائبانہ رنگ میں خدا تعالیٰ نے وہ وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشی.غیبی ہاتھ اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک دو کو نظر نہیں آتا.لاکھوں ہیں جماعت میں جن کو خدا کا غیبی ہاتھ دکھائی دے چکا ہے اور ان کا غیب پر ایمان لانا بالکل مختلف مضمون بن گیا ہے اس غیب پر ایمان لانے سے جو ایک عام آدمی قرآن کا ترجمہ پڑھتے ہوئے غیب سمجھتا ہے.وہ اس طرح کا غیب سمجھتا ہے کہ اس کا مضمون ہی اس کے لئے غائب رہتا ہے ہمیشہ.سب کچھ غائب ہی ہے لیکن اس پر ایمان لانے کا فائدہ کیا ہے جو غائب ہی رہے ہمیشہ.خدا قرآن کریم میں جس غیب پر ایمان لانے کی تاکید فرماتا ہے، وہ غیب وہ ہے جس کو ہم دیکھ رہے ہیں اللہ کے فضل سے.ہر غیب کو خدا اپنی تقدیر سے حقیقت میں تبدیل فرماتا رہتا ہے.اس رنگ میں یہ بھی دعا کریں خدا آپ کو اس رنگ میں وعدہ پورا کرنے کی توفیق بخشے کہ آپ خدا کا غیبی ہاتھ دیکھیں اور اُسے چومیں اس ہاتھ کو ، اس پہ اپنی روح فدا کریں، نچھاور کریں اپنی جان کہ اے خدا! تو ہی ہے جو وعدوں کو پورا فرمانے والا ہے اور پھر اس آیت کا ایک نیا مفہوم آپ پر ظاہر ہوگا إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ (آل عمران: ۱۹۵) کہ ہم کہاں سے وعدہ پورا کرنے والے ہیں تو ہے جو وعدہ خلافی نہیں کیا کرتا اور تیری اس صفت کی وجہ سے کہ تو وعدہ خلافی نہیں کرتا جو تجھ پر ایمان لانے والے ہیں ان کو بھی عکس کے طور پر تیرے کل کے طور پر ہمیں یہ تو فیق مل گئی ہے کہ ہم بھی اپنے وعدے کو پورا کرنے والے ہیں مگر تیری طاقت سے نہ کہ اپنی طاقت.اس کا جو دوسرا حصہ ہے وہ میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا کیونکہ ابھی ایک دو مواز نے اور پیش کرنے والے ہیں.اس میں صرف وعدے پورے کرنا ہمارا کام نہیں ہے.بہت ہی

Page 64

خطبات طاہر جلد ۶ 60 60 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء عظیم الشان کام ہے جس میں جماعت کے ہر فرد کو حصہ لینا ہوگا اور اس کے بغیر یہ عظیم الشان کام ہوہی نہیں سکتا.جوصد سالہ جو بلی کی تیاری ہے وہ جشن کی تیاری نہیں ہے حقیقت میں بلکہ وہ آئندہ صدی میں اسلام کے غلبہ نو کی نئی مہم جاری کرنے کی تیاری ہے.اس لئے تشکر کا ہر ذریعہ اپنی ذات میں اسلام کی فتح کے دن کو قریب لانے کا ایک ذریعہ ہے.اس کی تفاصیل تو ایک خطبہ کا تو سوال نہیں کئی خطبوں میں پھیلانی پڑے گی لیکن میں سوچ رہا ہوں کہ خلاصہ بعض اہم امور کی طرف آپ کو انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں متوجہ کروں کہ مالی قربانی کے ساتھ نفوس کی قربانی آپ نے کس طرح پیش کرنی ہے اور کیا کیا آپ سے تقاضے ہیں.کچھ ڈھانچہ آپ کو بتایا جائے کہ کیا ہونے والا ہے.آپ کے دل میں بھی تا کہ ایک گرم خون دوڑے اور آپ کو Excitement ہو، بہیجان آجائے آپ کے دل میں کہ اوہو! اتنا بڑا عظیم الشان سال اتنا قریب پہنچ گیا ہے ہمیں تو تیز دوڑ نا چاہئے.اس لئے اس خیال سے انشاء اللہ کچھاپنی فکروں میں آپ کو بھی شامل کیا جائے گا.مگر آئندہ خطبہ میں اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے.جہاں تک انگلستان کی مجموعی قربانی کا تعلق ہے میں نے بیان کیا ہے.چوہدری صاحب رض کی قربانی شامل کر لی جائے تو پچاس فیصدی سے بہت بڑھ جاتا ہے تناسب ادا ئیگی کا.مغربی جرمنی خدا کے فضل سے ان ملکوں میں سے ہے جو مالی قربانی میں پیش پیش ہے ہر پہلو سے اور باوجود اس کے کہ کوئی خاص وہاں تحریک نہیں چلائی گئی وہ نو جوان ہمارے جو ویسے تو اکثر اُن میں سے مزدور پیشہ ہیں، بہت معمولی معمولی کام ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کے پاس کچھ بھی کام نہیں لیکن جذ بہ بہت ہے.اب تک وہ 68.82 فیصد ادائیگی کر چکے ہیں اور یہاں بھی آپ کو وہی شکل نظر آئے گی کہ بہت سارے ایسے ہوں گے جو نئے آنے والے ہیں جن کے وعدے ابھی باقی ہیں.اگر اس پہلو سے دیکھا جائے تو ابھی بہت بڑی رقم جرمنی سے قابل وصولی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے ان نوجوانوں کی اس روح کو زندہ رکھے.ڈنمارک چھوٹا ملک ہے اور قربانی کے لحاظ سے درمیانہ.کچھ نو جوان آپس میں کچھ الجھے ہوئے ، کچھ کئی قسم کی کمزوریاں بھی ہیں لیکن اللہ فضل فرمائے بالعموم معیار اتنا برا نہیں ہے.لیکن پچاسی فیصد جو وصولی ظاہر ہو رہی ہے یہ وعدے کے لحاظ سے تو بہت اچھی بات ہے لیکن جو گنجائش ہے اس کے لحاظ سے یہ مناسب نہیں ہے.

Page 65

خطبات طاہر جلد ۶ 61 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء بعض ملکوں میں آپ کو فیصد وصولی بہت دکھائی دے گی.لیکن جو حالات کو جانتے ہیں جب وہ تفصیلی نظر سے مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وعدہ معیار سے چھوٹا تھا.اس لئے وصولی زیادہ دکھائی دے رہی ہے.اگر وعدہ معیار کے مطابق ہو پوری طاقت کے مطابق پھر وصولی زیادہ ہوتو وہ ہے اصل شان ہے.تو انگلستان کا وعدہ ہے مثلاً دس لاکھ وہ واقعہ چھتیس لاکھ میں سے دس لاکھ ایک بڑا وعدہ ہے خدا کے فضل کے ساتھ.وہاں وصولی جو ہے وہ واقعی ایک معنی رکھتی ہے.سویڈن بہت سے پہلوؤں سے ڈنمارک سے گرا ہوا ہے اور اس مالی قربانی میں دونوں پہلوؤں سے گرا ہوا ہے یعنی وعدے میں بھی کمزور اور وصولی میں اور بھی زیادہ کمزور.صرف 41 فیصد یعنی ڈنمارک سے آدھا فیصد ہے ان کی قربانی اور دعا کریں اللہ ان ممالک کو توفیق بخشے کہ وہ اپنا حال درست کریں.جس طرح ساری دنیا میں بیداری پیدا ہو رہی ہے، نیا عزم آ رہا ہے اور متحد ہو رہی ہے جماعت خدا تعالیٰ ان کو بھی توفیق بخشے.یہ نہ سمجھا جائے کہ گویا سکینڈے نیوین Scandinavian ممالک کی یہی حالت ہے.ناروے اللہ کے فضل سے بالکل مختلف ہے.بیداری کے لحاظ سے بھی مختلف، دعوت الی اللہ کے لحاظ سے جو خصوصیت کے ساتھ ، بہت ہی توجہ ہے اللہ کے فضل سے اور اس گزشتہ سال عربوں میں کامیاب تبلیغ کے لحاظ سے ناروے کا نمبر بڑا ہی نمایاں تھا.اور اس سال کا آغاز بھی ان کا اسی طرح ہوا ہے خدا کے فضل سے.تین بیعتیں مجھے موصول ہوئیں، تین میں سے دوعر بوں کی تھیں، چند دن پہلے تو چونکہ وہاں عربوں کے ساتھ خصوصیت سے رابطہ کیا جاتا ہے اور بڑی مؤثر تبلیغ ہو رہی ہے اور بعض نوجوان خدا کے فضل سے بہت ہی پیش پیش ہیں.اس لئے مجھے خیال آیا کہ مبارک باد کے لئے فون کروں ان کو تا کہ حوصلہ افزائی ہو.تعداد تو دو ہی ہے بظاہر لیکن اللہ کے فضل جب نازل ہوتے ہیں تو بعض دفعہ ایک ایک کے اوپر دل شکر سے بھرتا ہے.خدا کا ایسا عجیب کام ہے بعض دفعہ کہ اگر خالص اس کی خاطر ایک کام کیا جائے تو وہ اس کی جزا د ینے میں دیر نہیں فرماتا.میں نے فون کیا.میں نے کہا مبارک ہو آپ کی تین بیعتیں موصول ہوئیں ان میں سے دوعربوں کی ہیں.انہوں نے کہا دوا بھی ہوئیں ہیں آج ، وہ اس کے علاوہ ہیں.تو جو شکر کرتا ہے لَا زِيدَنَّكُمُ (ابراہیم: ۸) کا وعدہ فورا پورا ہوتے بھی دیکھتا ہے.لے نوٹ:.یہ دو عرب نہیں بلکہ سیرالیونیز تھے.حضور نے خطبہ جمعہ ۳۰ جنوری ۱۹۸۷ء میں اس کی تصحیح فرمائی تھی.

Page 66

خطبات طاہر جلد ۶ 62 خطبہ جمعہ ۲۳ جنوری ۱۹۸۷ء ناروے کا وصولی کا بھی ماشاء اللہ بہت اعلی معیار ہے،ستاسی فیصد سے زائد وصولی ہوچکی ہے اور وہاں بھی جو دوست بعد میں گئے ہیں امید ہے جو خاندان گئے ہیں انشاء اللہ جہاں تک میراعلم ہے جو خبریں آرہی ہیں وہ سارے خدا کے فضل سے اخلاص میں جماعت سے وابستگی میں اچھے معیار کے ہیں تو امید ہے یہ وعدہ بھی بڑھے گا اور بقیہ وصولی تو خیر بہت معمولی سی رہ گئی ہے.سپین کی چھوٹی سی جماعت ہے لیکن ما شاء اللہ بڑی قربانی کرنے والی اور صف اول کی جماعت ہے.وہاں بھی بیاسی فیصد وصولی ہو چکی.ہے.فرانس کی جماعت بڑی تیزی سے ترقی کر رہی ہے.مجھے تعجب ہے کہ اس میں 8.35 صرف وصولی لکھی ہوئی ہے.حالانکہ جو مالی رپورٹیں ہیں دوسری ان سے مجھے پتہ ہے کہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے معلوم ہوتا ہے بس یہ کوئی نظر سے اوجھل ہو گئی ہے بات.اور اکثر جماعت تو بنی بعد میں ہے.جب وعدے لئے گئے تھے اس وقت تو ایک آدھ آدمی تھا وہاں.اب تو خدا کے فضل سے اچھی مضبوط جماعت بن گئی ہے.وہاں ان کو فوری توجہ کرنی چاہئے.وعدوں کی تجدید بھی کی جائے پھر جو وعدے ہو چکے ہیں ان کی وصولی کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہوگا.بیلجیئم بھی بعد میں بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے.اس لئے ان کی جو غفلت ہے وہ بھی قابل اعتناء ہے، معافی کے لائق ہے.امریکہ پیچھے ہے ابھی.44.93 وعدہ امریکہ کے لئے کوئی بہت قابل فخر بات نہیں ایفائے وعدہ اور تعجب ہے کینیڈا بھی اس میں بہت پیچھے رہ گیا ہے.لیکن میرا خیال ہے یہ پرانے وقتوں کی بات ہے یا تو یہ رپورٹ پرانی ہے یا باقی چیزوں کی طرف توجہ رہی ہے، مسجد وغیرہ بنانے اور دیگر چندوں کی طرف تو دو تین سال جو جماعت بیدار ہوئی ہے اس میں اس طرف نظر نہیں پڑی.اس لئے ان کی پردہ پوشی کی جائے تو اچھا ہے.باقی بہت ساری جماعتیں ہیں جو پردہ پوشی کی مستحق ہیں اور کچھ اس وجہ سے پیچھے رہ گئی ہیں کہ وہاں ہمارے مبلغ یا مضبوط نظام جماعت کا قیام نہیں ہے.اب توجہ ہو رہی ہے کہ سب جگہ جماعتی نظام کو مزید تقویت دی جائے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ صرف اس خطبہ کا وہاں پہنچ جانا ہی کافی ہوگا اور وہ اپنی گزشتہ کوتاہیوں کو دور کرنے کی کوشش کریں گے.

Page 67

خطبات طاہر جلد ۶ 63 63 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جو خاص طور پر ساری دنیا میں سب سے آگے بڑھنے والی جماعت ہے وہ کون سی ہے اور وہ غانا ہے ماشاء اللہ.غانا میں 93.63 فیصد وصولی ہوئی ہے جو دنیا کی اور کسی جماعت میں نہیں ہوئی اور خاص خوبی کی بات یہ ہے کہ جتنی غربت گزشتہ دو تین سال میں غانا نے دیکھی ہے، جتنی فاقہ کشی غانا میں پڑی ہے بہت کم ملکوں میں ایسا واقعہ ہوا ہو گا.بعض دفعہ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ ہمارا مبلغ دروازہ کھٹکنے پر باہر گیا تو جو دروازہ کھٹکانے والا تھا وہ اس کے پہنچتے پہنچتے بھوک سے بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑا تھا اور بڑی مشکل کے ساتھ مبلغین کو ایسے دردناک حالات میں گزارہ کرنا پڑا ہے کہ بڑا حوصلہ ہے ان کا.خود بھی بہت کم ملتا تھا ان کو اس کے باوجود پھر غریبوں کے ساتھ جو کچھ خدا نے ان کو دیا ہے اسے بانٹ کر کھانا بڑی ہمت کی بات ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے اخلاص میں ایسی برکت ڈالی ہے، ان کو ایسی شجاعت عطا فرمائی ہے کہ ہر سال مالی قربانی میں وہ آگے بڑھتے ہیں پہلے سے اور پتہ نہیں کہاں سے لے کے آتے ہیں، کس طرح خدا ان کو توفیق بخشتا ہے، یہ اسی کے راز ہیں.مگر بہر حال جو ملک اقتصادی لحاظ سے دنیا میں سب سے پیچھے رہنے والے ملکوں میں سے تھا.جس کے متعلق خطرہ ہوسکتا تھا کہ یہاں چار پانچ فیصد وصولی ہوگی وہ دنیا میں سب سے آگے بڑھ گیا ہے اور اس میں آپ کے لئے ایک تقویت کا مزید پیغام ہے کہ اللہ کی توفیق سے ہی ہوتا ہے جو ہوتا ہے.امریکہ جو اقتصادی لحاظ سے سب سے آگے ہے اس کی وصولی 44 فیصد ہے اور غانا جو سب سے پیچھے ہے احمدی ممالک میں اس کی وصولی 93.63 فیصد تو ایں سعادت بزور بازو نیست.اللہ کی طرف سے توفیق ملتی ہے تو انسان سرخرو ہوتا ہے نیک کاموں میں اور اپنے وعدوں میں توفیق نہ ملے تو کچھ بھی نہیں ہوتا.اس لئے میں اسی پر اس بات کو ختم کرتا ہوں لیکن ایک اور چھوٹی سی بات کہنے والی ہے، اسی ضمن میں مالی امور سے تعلق رکھنے والی کہ جو فہرست اس وقت میرے سامنے ہے اس کے بعد بہت سے نئے ممالک میں احمدیت پھیلی ہے اور بہت سے ایسے ممالک ہیں جہاں مبلغ نہیں ہیں مگر احمدیت موجود ہے.1989ء سے پہلے جو ہمارا جو بلی کا سال ہو گا انشاء اللہ اس سے پہلے کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ہمارے وعدہ دہند ممالک سو ہو جائیں یعنی صرف یہ نہیں کہ وعدہ ہو بلکہ سوممالک کی طرف سے وعدہ ہو.اس لئے جہاں جہاں خلا رہ گئے ہیں انشاء اللہ ہم بڑی محنت کر کے تلاش کریں گے ان کو

Page 68

خطبات طاہر جلد ۶ 19 64 خطبہ جمعہ ۲۳ / جنوری ۱۹۸۷ء اور کوشش کریں گے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے اب تک اللہ کے فضل سے سو سے زیادہ ممالک میں احمدی موجود ہیں بعض جگہ منظم نہیں بھی ہیں مگر ہو سکتے ہیں بڑی جلدی.اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ یہ بات پوری ہو جائے گی.مثلاً اٹلی ہے.اٹلی ان ممالک میں سے ہے جس کا ذکر کوئی نہیں حالانکہ وہاں خدا کے فضل سے ایسے احمدی موجود ہیں جو وہاں جا کر اٹلی کے باشندے بن گئے اور بعض اٹلی سے باہر احمدیت قبول کر کے احمدیت میں داخل ہوئے وہ خواہ ان ممالک میں بھی ہوں مگر اٹلی کے اندر بھی باہر سے جا کر اٹالین بننے والے موجود ہیں تو اٹلی کا وعدہ تو ہونا چاہئے تھا بہر حال.تو یہ کچھ کوتاہی ہوئی ہے اللہ تعالیٰ بہت مغفرت فرمائے ان کی ، ہم سب کی جن سے کوتاہی ہوئی.تو تیزی کے ساتھ مال کے شعبے کوملحوظ رکھنا چاہئے اب کہ جائزہ لے کر نہ صرف یہ سوچیں کہ ایک بھی ملک ایسا نہ رہے جس سے وعدے کے لئے وہ انتظام کرنے کی کوشش نہ کریں.بلکہ کس طرح کرنا ہے یہ بھی سوچ کر بعض ممالک کے سپر د کریں.بہت سے ممالک ہیں جن کے سپر د دوسرے ممالک میں تبلیغ ہے اور اس طرح ساری دنیا کے حصے بانٹے ہوئے ہیں.تو تحریک جدید کے شعبہ کا کام یہ ہے کہ وہ صرف یہ خط نہ لکھ دے کہ جی آپ نے کرنا ہے بلکہ بتائے کہ کس طرح کرنا ہے اور ان کی مدد کرے.مثلاً شمالی افریقہ میں چند ممالک ہیں جہاں پہلے احمدیت کا با قاعدہ پودا نہیں لگا تھا اب لگ چکا ہے.اس لئے مال کے شعبہ کو تبشیر سے رابطہ کرنا پڑے گا پوچھنا پڑے گا کہ بتائیے وہ کون لوگ ہیں کہ جو نئے احمدی ہوئے ہیں؟ کیا ان کے پتے ہیں؟ کس طرح ان سے بات کرنی ہے؟ اور اگر ذراسی بھی محنت کریں تو انشاء اللہ تعالیٰ ان کو کھلا کھلا رستہ دکھائی دینے لگ جائے گا کہ کس طرح ان ممالک کو شامل کرنا ہے.تو واقعاتی طور پر کام کو آگے بڑھا ئیں صرف فرضی طور پر نہ بڑھا ئیں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور ہمیں توفیق دے کہ جماعت احمدیہ کے پہلے سو سال کا جو جشن ہم نے منانا ہے وہ اس کی رضا کے مطابق منانے والے ہوں.اس جشن سے پہلے ہم اپنے وعدوں کو پورا کرنے والے ہوں اور خدا تعالیٰ کی اس شان کی گواہی دینے والے ہوں کہ اِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَا خدا ! جس طرح تو اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا ، ان کو لازماً پورا کرتا ہے ہم تیرے ادنی اور غلام بندے بھی تجھ سے یہ فن سیکھے ہیں اور تیری شان کو دنیا میں ظاہر کرنے والے ہیں کہ ہم بھی تیری طرف منسوب ہو کر جو وعدے کرتے ہیں ان کو لازماً پورا کرتے ہیں.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.

Page 69

خطبات طاہر جلد ۶ 55 65 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء صد سالہ جو بلی کے جشن کے لئے دعوت الی اللہ کے میدان میں ہر احمدی سال میں ایک احمدی بنانے کا عہد دوبارہ کرے ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ /جنوری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَمَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا اِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ وَلَا أَكْبَرَ إِلَّا فِي كِتَبٍ مُّبِينٍ أَلَا إِنَّ اَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ امَنُوْا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (یونس: ۶۲ -۶۶) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے، جو پہلی آیت ہے وہ

Page 70

خطبات طاہر جلد ۶ 99 66 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء رسول اکرم ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے آپ کے غلاموں کو اسی خطاب میں شامل فرمالیتی ہے اور اچانک جس طرح ایک چشمہ پھوٹتا ہے اور وہ وسیع ہو جاتا ہے اس طرح حضرت محمد مصطفی اللہ کے ذکر سے جو چشمہ پھوٹتا ہے اس میں رفتہ رفتہ ان غلاموں کو بھی شامل فرمالیا جاتا ہے جو آپ کے تابع ویسے ہی کام کرتے ہیں، ایک بڑا خوبصورت انداز ہے.فرمایا:.وَمَا تَكُونُ فِي شَأْنٍ وَ مَا تَتْلُوْا مِنْهُ مِنْ قُرآنِ کہ اے محمد! تو جس شان میں بھی ہوتا ہے وَ مَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُران اور جو تو اپنے رب کی طرف سے قرآن کی تلاوت کرتا ہے.وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا اور اے محمد مصطفی کے غلامو! تم کوئی عمل بھی ایسا نہیں کرتے جسے ہم دیکھ نہیں رہے ہوتے اِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ جب تم سب لوگ خوب ڈوب کر نیک کاموں میں تمام دل و جان کے ساتھ ان کو ادا کر رہے ہوتے ہو.یہاں شان کا معنی بالعموم کام کیا جاتا ہے اور یہ درست ہے.شان کا معنی کام بھی ہے.لیکن شان کا معنی کام کے علاوہ ایک جلوہ نمائی بھی ہے.انہی معنوں میں اُردو میں شان کا لفظ مستعمل ہے اور انہی معنوں میں قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کے متعلق آتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمان : ۳۰) ہر لحظہ وہ ایک الگ جلوہ نمائی کر رہا ہوتا ہے، ایک نئی شان دکھا رہا ہوتا ہے.تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق جب شان کا لفظ آیا ہے یہاں تو اس سے مراد یہ ہے کہ تو ہر حال میں ایک حسین جلوہ نمائی کر رہا ہے.تیری سیرت کا ہر پہلو ، ہر لحظہ ایک شان دکھا رہا ہے اور دوسرا یہ معنی ہے کہ تیری زندگی کا کوئی لحہ بھی غیر مصروف نہیں ہے.ہر وقت کاموں میں منہمک ہے.پس جب بھی میں تجھے دیکھتا ہوں یعنی خدا کہتا ہے، میں تجھے کسی نہ کسی کام میں منہمک پاتا ہوں.تیری زندگی کا ذرہ ذرہ مصروف ہے.جاگنا بھی اور سونا بھی وَمَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرآن اور ہر وقت خدا تعالیٰ نے جو کلام تجھ پر نازل کیا ہے اس کی تلاوت کرتا رہتا ہے.یعنی اس کی تلاوت خواہ لفظاً ہو یا عملاً ہو یا تفسیر ہو نیند کی حالت میں جو ذکر جاری ہے اس پر بھی یہ آیت حاوی ہو جائے گی اور اس کے بعد فرمایا وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا اب یہاں سے آگے تمام مسلمانوں کو جو آنحضرت ﷺ کی سنت پر چلنے والے ہیں ان کو شامل کر کے فرمایا وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ، یہاں شان کا لفظ نہیں بلکہ عمل کا لفظ بولا ہے.تم جن کاموں میں بھی مصروف ہوتے

Page 71

خطبات طاہر جلد ۶ 67 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء ہو کوئی بھی ان میں سے ایسا نہیں جو خدا کی نگاہ کے سامنے نہ ہو.وَمَا يَعْزُبُ عَنْ رَّبِّكَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ اور یا درکھو کہ اللہ کی نظر سے ، اللہ کی نگاہ سے ایک ذرے کے برابر وزن کی چیز بھی غائب نہیں ہوتی خواہ وہ زمین میں ہو خواہ وہ آسمان میں ہو اور ذرے سے چھوٹی بھی جتنی چیزیں ہیں وہ سب اس کی نظر میں ہیں اور اس سے بڑی جتنی چیزیں ہیں وہ سب اس کی نظر میں ہیں.یہاں مِثْقَالِ ذَرَّةٍ سے چھوٹی چیز کا جو تصور پایا جاتا ہے وہ ہر زمانے میں بدلتا ہے.گزشتہ زمانوں میں مِثْقَالِ ذَرَّةٍ میں جو ذہن میں تصور ابھرا کرتا تھا اس ذکر سے وہ ایک ہلکے سے غبار کا تصور تھا لیکن آنکھ سے اوجھل کسی چیز کا تصور نہیں تھا.ان کو جب یہ آیت مخاطب ہوتی ہے تو ان کے ذہن میں یہ بات ابھرتی ہوگی کہ جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں اس کے نیچے بھی کوئی چیز ہے اور اُن کے لئے یہ پیغام مکمل تھا.آج کا انسان وہ چیزیں بھی معلوم کر چکا ہے جسے آنکھ نہیں دیکھتی.مثلاً ایٹم ہے.مثلاً اس سے چھوٹے ذرات ہیں جن پر ایٹم بنا ہوا ہے.پروٹونز(Protons) ہیں، نیوٹرانز (Neutrons) ہیں،الیکٹرانز(Electrons) ہیں وغیرہ وغیرہ.ان میں سے ہر ذرہ جس پر اس کی نظر پڑی، تاریخی سفر میں جس میں اس نے علمی جستجو کی ہر مقام پر یہی سمجھا کہ یہ آخری ذرہ ہے اس سے چھوٹا ذرہ ممکن نہیں اور قرآن کریم کی یہ آیت مسلسل اعلان کرتی چلی گئی وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذلِكَ کہ جسے تم چھوٹے سے چھوٹا سمجھ رہے ہو اس سے بھی چھوٹی کوئی چیز ہے اور وہ بھی خدا کی نظر میں ہے اور اب جب سائنسدانوں نے مزید غور کیا تو Sub-particles نکلے.Sub-particle پھر آگے جس چیز سے بنے ہوئے ہیں وہاں تک علم کو رسائی ہوئی اور ہر مقام پر یہ سمجھا گیا کہ اب ہم چھوٹے سے چھوٹے کے تصور کو اپنے درجہ کمال تک پہنچا چکے ہیں اور ہر غور کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کا یہ اعلان سچا نکلا وَلَا أَصْغَرَ مِنْ ذَلِكَ کہ جو بھی چھوٹے سے چھوٹا ہے اس سے بھی چھوٹا کچھ ایسا ہے جس کا تمہیں علم نہیں مگر خدا کو اس کا علم ہے.اور جوں جوں تم علم میں سفر کرتے چلے جاؤ گے اللہ تعالیٰ کی منشاء کے مطابق تم پہ اور چھوٹوں کا علم بھی کھلتا چلا جائے گا ، ان کا علم تم پر روشن ہوتا چلا جائے گا.یہی کیفیت اکبر کی ہے.انسان کا جو کائنات کا تصور ہے وہ بھی پھیلتا چلا جارہا ہے اور جسے وہ اکبر سمجھا تھا کچھ عرصے بعد پتہ چلا کہ اس سے بھی بڑی چیزیں ہیں.پھر جنہیں وہ اس سے بھی بڑی چیزیں سمجھا تھا کچھ عرصے کے بعد علم ہوا کہ اس

Page 72

خطبات طاہر جلد ۶ سے بھی بڑی چیزیں ہیں.89 68 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء تو نہ باریک تر کا کوئی منتہا ہے نہ عظمت اور وسعت کی کوئی انتہاء ہے.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم باریک تر پہ بھی نظر کئے ہوئے ہیں اور بڑی سے بڑی چیز پہ بھی.اس آیت میں اس ذکر میں جو خاص معنی پیدا ہوتے ہیں وہ یہ ہیں کہ مومنوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے بڑے کاموں کی توفیق ملتی ہے اور ملتی رہے گی.اور وہ کام لوگوں کے سامنے آ جاتے ہیں.بڑی چیزوں کو عام لوگ دیکھ لیتے ہیں لیکن بہت سے چھوٹے چھوٹے ایسے کام ہیں جو خدا کے مومن بندے اپنی توفیق کے مطابق کرتے چلے جاتے ہیں اور چونکہ وہ چھوٹے ہوتے ہیں اس لئے دنیا کی ان پر نظر نہیں پڑتی.اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہ خوشخبری دے رہا ہے کہ تمہاری چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی میری نظر کے سامنے ہے.میری آنکھوں کے سامنے رہتے ہو تم اور تمہارے دل میں جو ایک بہت ہی باریک تر پیار کا خیال آتا ہے اللہ کے لئے وہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میری نظر کے سامنے ہے.کوئی ذرہ زندگی کا ایسا نہیں ، کوئی اس کی حرکت نہیں، کوئی اس کا سکون نہیں ہے جس میں کوئی واقعہ پیدا ہوا ور وہ خدا کی نظر سے اوجھل ہو.ان آیات کا انتخاب، میں آگے بھی ترجمہ کروں گا ، اس لئے میں نے کیا ہے کہ جن نیک کاموں کے لئے خصوصیت سے میں نے گزشتہ جمعہ میں بھی آپ کو توجہ دلائی تھی اور اس جمعہ میں بھی اب کچھ توجہ دلاؤں گا.ان کے متعلق میں آپ کو بتانا چاہتاہوں کہ خواہ وہ کام دنیا میں کسی کی نظر میں آئیں یا نہ آئیں، خواہ جماعت کا نظام ان سے واقف ہو یا نہ ہو، خواہ آپ کے گھر والے بھی ان سے واقف ہوں یا نہ ہوں، خواہ وہ اتنے مخفی ہوں کہ بائیں ہاتھ کے کام کی دائیں کو خبر نہ ہو ، دائیں ہاتھ کے کام کی بائیں کو خبر بھی نہ ہو تب بھی جس تک وہ اطلاع پہنچنی چاہئے اس کو پتا چل رہا ہے اور یہ آیت مدح کے مقام پر ہے، یہ انتباہ کے مقام پر نہیں ہے.اس سے ملتی جلتی دوسری آیات ہیں جن کا مضمون دونوں طرف کھلا رہتا ہے یعنی اچھے کام بھی خدا کی نظر میں ہیں برے کام بھی خدا کی نظر میں ہیں ایک انتباہ کا رنگ رکھتی ہیں وہ آیات اور خوشخبری کا بھی.لیکن یہاں چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ذکر سے آغاز ہوا ہے اور درجہ بدرجہ آپ کے غلاموں کو شامل کیا گیا ہے اس لئے خالصہ یہ آیت مقام مدح میں ہے.پس اس جماعت کا ذکر بھی ہے اس میں جو آخرین میں سے پیدا ہوئی تھی اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں جس نے اچھے کام کرنے

Page 73

خطبات طاہر جلد ۶ 69 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء تھے.ان کو ریا کاری سے بچانے کے لئے اور ریا کاری سے مستغنی کرنے کے لئے خدا نے یہ پیغام دیا ہے کہ تم اس بات سے آزاد ہو جاؤ گے اگر یہ سوچو گے کہ ہر وقت خدا کی نظر ہمارے اوپر ہے کہ کسی اور کی نظر ہے یا نہیں ہے کیونکہ تمہارا لمحہ لمحہ اس کی نظر کے نیچے ہے جس کی خاطر تم یہ کام کر رہے ہو.اسی لئے اس کے معا بعد فرمایا:.أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ ) کہ خبردار ! اللہ کے ولی ہوتے ہیں کچھ اور جو خدا کے ولی بن جاتے ہیں ان پر نہ کوئی خوف آتا ہے نہ وہ کسی بات کا غم کرتے ہیں.یہ انہی کا نقشہ کھینچا گیا ہے پہلے انہی کو اولیاء اللہ فرمایا گیا ہے جن کا ذکر پہلی آیت میں چلا ہے.الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ وہ لوگ جو ایمان لائے اور پھر تقویٰ سے اپنے ایمان کو سچا کر دکھایا لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ ان کے لئے تو اس دنیا میں بھی خوشخبری ہی خوشخبری ہے اور آخرت میں بھی خوشخبری ہی ہے لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَت اللہ یہ جو تقدیر ہے محمد مصطفی ﷺ اور اس کے غلاموں کی کوئی دنیا کی طاقت اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی.جتنا چاہیں زور لگا لیں کتنی بڑی دنیا کی طاقت ہو، کتنی بڑی بڑی طاقتوں کا مجموعہ ہو.یہ تقدیر ہے خدا کی.فرماتا ہے لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللہ اس کو بدل کر دکھاؤ تم لا زما نا کام ونامرادر ہو گے.خدا کی اس تقدیر حسنہ کو تم تبدیل نہیں کر سکتے.ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ اور یہی وہ عظیم کامیابی ہے جس کی طرف قرآن تمہیں بلا رہا ہے وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ یہ جو چیلنج کا مفہوم ہے یہی مفہوم ہے یہاں.چنانچہ اس سے اگلی آیت میں واضح کر دیا وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ یہ جو لوگ باتیں کرتے ہیں، ہم ناکام کر دیں گے ، ہم نا مراد کر دیں گے، ہم ان کے کاموں میں رخنہ ڈال دیں گے، ہم ان کو اکھیڑ پھینکیں گے زمینوں سے اور نیست و نابود کر کے رکھ دیں گے.یہ سب جھوٹی تعلی کی باتیں ہیں ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں لَا يَحْزُنُكَ قَولُهُمْ اے محمد ! ان کی باتوں کی ادنیٰ بھی پرواہ نہ کر، کوئی غم نہ کر ان کی باتوں سے.اِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا کلیہ ہر قسم کی عزت خدا کے ہاتھ میں ہے.هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ اور وہ سننے والا بھی ہے اور وہ جاننے والا بھی ہے.پس خدا کے نام پر ، خدا کی خاطر، اس کے دین کی عظمت کے لئے اور حضرت محمد مصطفی ہے

Page 74

خطبات طاہر جلد ۶ 70 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء کی سنت کے غلبہ کی خاطر جماعت احمدیہ نے جو کام سنبھالے ہیں اور جن کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو توجہ دلاتا رہا ہوں اور اس خطبہ میں ایک خاص نقطہ نگاہ سے مزید توجہ دلاؤں گا ان کے متعلق سب سے عظیم الشان خوشخبری تو یہی ہے کہ وہ اللہ کی نظر میں ہیں اور دوسرے یہ کہ ان کاموں کو کوئی دنیا کی طاقت نا کام نہیں بنا سکے گی اور تیسرا یہ کہ ان کا پھل صرف آخرت میں نہیں ملے گا، اس دنیا میں بھی لا زما ملے گا.یہ وہ کلمات اللہ ہیں جن کو کوئی دنیا میں تبدیل نہیں کر سکتا.صد سالہ جو بلی کے متعلق میں نے بتایا تھا کہ صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں اور صد سالہ جو بلی دراصل ہمارے دشمنوں کا اس وقت وہ خاص نشانہ بنی ہوئی ہے.ان کی نفرتوں کا ، ان کے حسد کا اور وہ ہر طرح سے پورا زور لگا رہے ہیں کہ صد سالہ جو بلی کے جشن کو ناکام بنا دینا ہے.ربوہ کے خلاف جو سازشیں ہوئیں، جماعت احمدیہ کے خلاف جو پاکستان میں سازشیں ہوئیں، جن کا سب سے بڑا نقطہ ربوہ پہ جا کے ختم ہوتا تھا کہ ربوہ کی مرکزی حیثیت کو ختم کیا جائے ، ربوہ کی شان لوٹ لی جائے ، ربوہ میں ہر قسم کے جلسے بند کر دیئے جائیں کیونکہ بالآخر بڑی تیزی کے ساتھ جماعت صد سالہ جوبلی کے جشن کی طرف بڑھ رہی ہے اور اس مقام نے وہ ساری دنیا کا مرکز اور صح نظر بن جانا ہے.یہاں اگر کوئی شاندار سطح پر سو سالہ جشن منایا گیا تو اس کے نتیجے میں سارے پاکستان میں نہیں ساری دنیا میں یہ بات لا ز ما مستحکم ہو جائے گی کہ اب اس جماعت کو دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا.اس درجہ کمال کو پہنچ چکی ہے، اس بڑے مرتے کو پہنچ چکی ہے، اتنی قوت حاصل کر چکی ہے کہ اب اس جماعت کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا.یہ وہ خطرہ تھا جس کے پیش نظر ساری سازشوں نے جنم لیا اور اسی لئے کھیلیں بند کیں پہلے، درجہ بدرجہ دشمن نے اپنی سکیم کو کھولا ہے کھیلیں بند کیں، چھوٹے چھوٹے اجتماعات بند کئے ، لاؤڈ اسپیکر کا استعمال بند کیا، پھر گاڑیاں جو چلا کرتی تھیں خاص وقت میں ان کی سہولت کھینچ لی.ہر طرح سے رخ بالآخر جلسے کی طرف ہی تھا اور جلسہ سالانہ بند کر کے انہوں نے اپنی طرف سے جو بلی کے جلسے کی راہ میں وہ دیوار کھڑی کر دی جو وہ سمجھتے ہیں کہ ٹوٹ نہیں سکتی لیکن ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے یہ تو یقینی ہے کہ اس کے بدلے میں جو دشمن ہم سے کر رہا ہے خدا تعالیٰ بہت بڑی عظمتیں دینے والا ہے.جس شان کا تصور کر کے انہوں نے نقصان پہنچانے کی کوشش کی تھی ان کے ذہن سے یہ

Page 75

خطبات طاہر جلد ۶ 71 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء بات نکل گئی کہ ہم جس کے غلام ہیں وہ تو لح لحہ نئی شان دکھانے والا آقا ہے اور جس خدا نے اس کو پیدا کیا وہ تو كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ کا مقام رکھتا ہے اس سے ہرشان پھوٹتی ہے.تو جومحمد مصطفی ﷺ کا غلام ہو اور اللہ کا غلام ہو اس کی شان کیسے کوئی نوچ کے چھین سکتا ہے، ناممکن کام ہے یہ ان کے لئے.اگر خدانخواستہ ربوہ میں حالات ایسے نہ ہوئے کہ وہاں جشن اس طرح منایا جائے جیسا کہ جماعت نے منانا تھا تو دنیا کے کونے کونے میں اس شان اور اس قوت کے ساتھ یہ جشن منایا جائے گا کہ دشمنوں کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں گے اس کے ولولے سے اور ان کے دبدبے سے.جس شوکت سے نعرہ تکبیر بلند ہوں گے دنیا میں وہ ان کے دلوں کو دہلا دینے والی شوکت ہوگی.اس لئے کہاں ان کی طاقت ، کہاں ان کی مجال کہ محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کی شان کھینچ سکیں، شان نوچ سکیں ، یہ نہیں نوچ سکتے.یہ ملک جہاں میں اس وقت مخاطب ہو رہا ہوں آپ سے یہ ملک بھی نئی اور دو بالا شان کے ساتھ اسلام کا حسن دنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوگا.اور آپ ہوں گے جو اس حسن کو دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہوں گے.افریقہ بھی ایک نئی شان کے ساتھ نئے ولولے کے ساتھ پیش کر رہا ہوگا.نئے روپ کے ساتھ یہ شان ایشیاء کے سارے ممالک میں دکھائی جائے گی، نئے روپ کے ساتھ یہ شان دنیا کے ہر بر اعظم میں دکھائی جائے گی.اس کے لئے ، اس کی تیاری کے لئے وقت تھوڑا رہ گیا ہے اس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ صرف مالی قربانی کافی نہیں ہے.آپ نے خدا سے ایک عہد باندھا ہے، خدا نے آپ سے ایک عہد باندھا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنی جانیں بھی ہم تیرے حضور پیش کر دیتے ہیں ، ہماری نہیں رہیں، پہلے بھی تیری تھیں مگر ہم ایک اور رنگ میں اب تجھے واپس کرتے ہیں جس رنگ میں ہمارا غیر واپس نہیں کرتا تجھے.یہ طوعاً کا مضمون ہے کرھا کا مضمون نہیں اور دوسرے ہمارے اموال بھی تیرے ہی تھے اب بھی تیرے ہیں مگر ہم طوعاً تجھے واپس کرتے ہیں جبکہ باقی دنیا سے تو کرھ واپس لیتا ہے.یہ وہ مضمون ہے عہد کا جس کو زندگی کے ہر پہلو میں، زندگی کے ہر عمل میں دخل ہے.اور زندگی کا جو پہلو، جو عمل بھی اس سے متاثر ہوتا ہے اس پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے.یہ مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.اس لئے اپنی زندگی کے ہر پہلو کو اللہ تعالیٰ کے پیار کا مرکز بنا دیں.ہر عمل کو ایسا حسین بنانے کی کوشش کریں کہ خدا کی محبت اور پیار اور رضا کی آنکھ اسے اس طرح دیکھ رہی ہو جیسے.

Page 76

خطبات طاہر جلد ۶ 72 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء آپ اپنے بچوں اور اپنے پیاروں کی پیاری حرکتوں کو دیکھ رہے ہوتے ہیں.اس سلسلے میں جیسا کہ میں نے پہلے بھی گزارش کی ہے کئی مرتبہ محسوس یہ ہو رہا ہے کہ اتنے زیادہ کام پڑے ہوئے ہیں کہ ہم میں استطاعت نہیں ہے وہ کام کرنے کی.اس لئے ایک ہی حل ہے اس صورت حال کا کہ اپنا جو کچھ ہے وہ خدا کے سپر د کر دیں، جو کچھ کر سکتے ہیں وہ سب کچھ کریں.باقی خانے جتنے بھی خالی رہ جائیں گے وہ خدا خود بھرے گا.یہ اس کا وعدہ ہے.اس لئے اپنی طرف سے کسی قسم کی کمی نہ آنے دیں.صد سالہ جشن میں مختلف رنگ میں جو ہم نے خدا کے حضور اپنے عاجزانہ، فقیرانہ ہدیے پیش کرنے ہیں التحیات للہ کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان میں بہت سی باتیں ہیں جو صد سالہ جو بلی کے پیش نظر اس سے پہلے بیان کی جاچکی ہیں اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جن پر مسلسل غور ہو رہا ہے اور وہ لوگ جن کے کام ہیں وہ مصروف ہیں دن رات ان باتوں کو مزید نکھارنے اور سنوارنے پر اور کس طرح ان کو عمل کی شکل میں ڈھالا جائے گا، کون کیا کام کرے گا.یہ تمام کام ایسے ہیں جن پر مسلسل کام ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس کی تمام دنیا کی جماعتوں کو حصہ رسدی اطلاعیں دی جا رہی ہیں.بالعموم جماعت کو جو میں اس ضمن میں خاص توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ صد سالہ جو بلی کے دوران میرے دل کی تمنا یہ ہے کہ بہت سے ایسے ممالک جہاں مقامی طور پر چند خاندان ابھی تک اسلام میں داخل ہوئے ہیں وہاں کم سے کم سو خاندانوں کو ہم اسلام میں داخل کر لیں.اور جہاں جماعت نافذ ہو چکی ہے وہاں ہم یہ کہ سکیں کہ ہر سال کے لئے ہم یہ حقیر اور عاجزانہ تحفہ پیش کرتے ہیں کہ ہم نے مقامی طور پر ایک خاندان کو داخل کر لیا ہے.بعض ممالک میں تو خدا کے فضل سے ہزاروں خاندان داخل ہو چکے ہیں.لیکن آپ جس ملک میں رہتے ہیں اور یورپ کے اور بہت سے ممالک ان میں بدقسمتی سے مقامی احمدیوں نے یعنی وہ لوگ جو باہر سے آکر مقامی بنے انہوں نے تبلیغ کی طرف پوری توجہ نہیں کی اور جو کام ان کو بیس پچیس سال پہلے سے شروع کرنا چاہئے تھا اسے شروع کرنے میں بہت دیر کر دی.نتیجہ یہ نکلا کہ جس رنگ میں یہاں داعی الی اللہ بننے چاہیئے تھے اور جو یہاں کے لوگ استطاعت رکھتے ہیں اس کا عشر عشیر بھی ہم نتیجہ حاصل نہیں کر

Page 77

خطبات طاہر جلد ۶ 73 الله خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء سکے اور یہ صورت حال صرف انگلستان پر ہی صادق نہیں آرہی بلکہ دنیا کے اور بہت سے ممالک ہیں، یورپ کے بھی اور بعض اور جگہوں پر بھی جہاں یہی کیفیت ہے اور وقت اتنا تھوڑا رہ گیا ہے کہ صرف دو سال رہ گئے ہیں.اس لئے اب اس کام کو غیر معمولی طور پر اہمیت دے کر دوبارہ اپنے ہاتھ میں لیں.جولوگ داعی الی اللہ بن چکے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بے حد مبارک فرمائے لیکن جو نہیں بنے ابھی تک ان کو فوراً توجہ کرنی چاہئے اور جو بن چکے ہیں ان کو اپنے کاموں کا جائزہ لینا چاہئے کہ آیا ان کی کوششیں پھل پیدا کر بھی رہی ہیں کہ نہیں.بعض ایسے نوجوان ہیں یا بڑی عمر کے بھی جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پورے خلوص اور تقویٰ کے ساتھ اللہ کی طرف دعوت دینے کے پروگرام میں شامل ہوئے اور ان کو ہر سال اللہ تعالیٰ پھل دے رہا ہے.انہی جگہوں پر دے رہا ہے جنہیں آپ بے پھل کی جگہیں سمجھتے ہیں.انہی زمینوں پر پھل دے رہا ہے جنہیں آپ سنگلاخ سمجھتے ہیں.اس لئے یہ بہانہ تو خدا تعالیٰ کے ہاں قبول نہیں ہوگا کہ ہم ایسے ملک میں رہتے تھے جہاں دنیا ترستی تھی ، دنیا داری میں لوگ اتنا بڑھ گئے تھے کہ بات نہیں سنتے تھے.بات سنانے کا ڈھنگ سیکھنا پڑے گا.اور بات سنانے کے ڈھنگ میں خدا تعالیٰ نے یہ ہمیں بتایا ہے کہ تقویٰ کا مضمون داخل ہے.جتنا زیادہ تقویٰ ہوا تناہی بات میں زیادہ اثر ہوتا چلا جاتا ہے، ورنہ خالی چالا کی کام نہیں آتی ، خالی علم کام نہیں آتا.اس لئے بات میں وزن پیدا کرنے کے لئے اندرونی تقویٰ کا معیار بلند کرنا ہو گا.اور صرف یہ نہ سوچیں کہ فلاں میں نقص تھا اس لئے بات نہیں سنی گئی یہ بھی غور کریں کہ کہیں کہنے والے میں تو نقص نہیں ہے.یہی بات ایک اور شخص کہتا ہے تو اثر رکھتی ہے، یہی بات ایک اور شخص کہہ رہا ہے تو اثر کھو دیتی ہے.اس لئے بات کا قصور نہیں.ہوسکتا ہے سننے والے کا قصور ہولیکن بعید نہیں کے سننے والے کا بھی قصور نہ ہو بلکہ سنانے والے کا قصور ہو.اس لئے اپنا جائزہ پورا کر لیں اور دیکھ لیں کہ کیا کمی رہ گئی ہے بات میں، اس کے انداز میں یا سنت کے مطابق تھی بھی کہ نہیں آپ کی تبلیغ اور اس کو درست کریں.اس کے نوک پلک درست کریں، اسے خوبصورت بنائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دعوت الی اللہ کے ساتھ حسن قول کا ذکر فرمایا ہے اور پھر حسن عمل کا ذکر فرمایا ہے.قول بھی حسین کریں اور وہ عمل جو اس حسین قول کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رکھتا ہے جس کے بغیر قول حسین بنتا نہیں وہ حسین عمل بھی پیدا کریں اور پھر دعا کریں تا کہ

Page 78

خطبات طاہر جلد ۶ 74 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء آپ کی باتوں میں غیر معمولی برکت ہو، اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص اثر پیدا ہو.اگر یہ شرائط آپ پوری کر دیں تو ناممکن ہے کہ آپ کی تبلیغ بے شمر رہ جائے اس سے کوئی نتیجہ پیدا نہ ہو ، یہ نہیں ہوسکتا لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمت اللہ میں ایک یہ بھی مضمون داخل ہے.جس کام کو جس طرح حضرت محمد مصطفی امتی نے کامیابی کے ساتھ کر کے دکھا دیا اگر آپ اسی کام کو اسی طرح کریں گے تو لا ز ما اس جیسے نتیجے نکلنے شروع ہو جائیں گے.اس حقیقت میں بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی.علوم اس لئے ساری دنیا کے داعی الی اللہ اس مضمون کو پیش نظر رکھ کہ ایک نیا عہد باندھیں.دو سال کا وقفہ بہت ہی تھوڑا وقفہ ہے.داعی الی اللہ بننے کے لئے شروع میں کچھ محنت کرنی پڑتی ہے.بعض درختوں کو آپ نے دیکھا ہے کہ وہ چند سال کے بعد پھل لاتے ہیں بعض درخت ہیں جو جلدی پھل لے آتے ہیں.اس لئے آپ وہ درخت بننے کی کوشش کریں جو جلدی پھل لاتا ہو اور انسان ایک ایسی چیز ہے جو ہر قسم کا درخت بنے کا مادہ رکھتا ہے.تمام کائنات کا خلاصہ ہے یہ.اس لئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ میں وہ درخت ہوں جس کو بارہ سال کے بعد پھل لگے گا کیونکہ خدا تعالیٰ نے آپ کے اندر یہ لچک رکھی ہے اور صرف انسان میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ اس کے اندر اپنی کیفیات بدلانے کی طاقت ہے.اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی طاقت ہے انہیں کم کرنے کی بھی طاقت ہے.اگر صلاحیتیں بڑھائے تو أَجْرُ غَيْرُ مَمْنُونِ (التین: ٧) کی طرف حرکت کرتا ہے اور اگر صلاحیتیں گھٹانی شروع کرے تو اَسْفَلَ سَفِلینَ (التین : ۶) کی طرف حرکت کرتا ہے.اس لئے آپ اپنی صلاحیتوں کو بڑھانے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ آپ کو یہ توفیق عطا فرما سکتا ہے کہ آپ جلد پھل دینے والے درخت بن جائیں اور بار بار پھل دینے والے درخت بن جائیں اور یہی ہے مثال جو قرآن کریم نے مومن کی دی ہے اور اس کے متعلق فرمایا: تُؤْتِ أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبَّهَا (ابراہیم ۲۶) یہ ایسا درخت ہے مومن کا طیبہ درخت جو اللہ کے اذن کے ساتھ ہرلمحہ پھل دیتا ہے.سال میں ایک دفعہ والا نہیں، سال میں دو دفعہ والا بھی نہیں، یہ تو ہمیشہ پھلوں سے لدا ہی رہتا ہے.تو اس لئے خدا تعالیٰ نے تو آپ کی استطاعت کی انتہاء یہ بیان فرمائی اور اس پر خدانظر رکھ رہا ہے کہ ایسے مومن بندے بنیں.تو آپ کی کوششوں کو پھل تو لازما لگتے ہیں.ضروری نہیں کہ ہر دفعہ تبلیغ ہی کا پھل لگے.كُلَّ حِينِ سے مراد جس قسم کے پھل ہیں وہ مومن دیکھتارہتا ہے، اسے کئی طرح کے پھل اللہ تعالیٰ

Page 79

خطبات طاہر جلد ۶ 75 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء کی طرف سے نصیب ہوتے رہتے ہیں کہیں دعائیں قبول ہور ہیں ہیں، کہیں خدا مشکلات سے نجات بخش رہا ہے، کہیں ویسے اپنے پیار کا اظہار کر رہا ہے کئی طریق سے.تو ان پھلوں میں ایک یہ بھی پھل داخل کر لیں تو ہر گز بعید نہیں کہ سال میں ایک دفعہ نہیں ، سال میں کئی مرتبہ آپ کی تبلیغ کو بھی میٹھے پھل لگنا شروع ہو جائیں.ایسے داعی الی اللہ ہیں اللہ کے فضل سے جنہوں نے گزشتہ ایک دو سال میں پچاس سے زائد بیعتیں کرائی ہیں اور بڑی مخلص بیعتیں کرائی ہیں.بڑی معنی رکھنے والی ، وزن رکھنے والی بیعتیں کروائی ہیں.نئی جگہوں پہ احمدیت کے پودے لگائے ہیں.مثلاً افتخار ایاز صاحب ہیں.ایک جزیرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل نیا جزیرہ انہوں نے احمدیت اور اسلام کے لئے فتح کیا اور اس ایک جزیرے میں ہی پچاس سے زائد بیعتیں اب تک ہو چکی ہیں.پھر ایک ساتھ کے جزیرے میں بھی ایک خاندان کو اللہ تعالیٰ نے ان کی کوششوں سے تو فیق عطا فرمائی اور یہ کوئی جماعت کے با قاعدہ مبلغ تو ہیں نہیں اپنا کام کرتے ہیں.تو وہ لوگ جو کہتے ہیں ہمیں کام کے بعد وقت نہیں ملتا ان کے لئے ایک نمونہ ہے یہ.تو ہر شخص کے لئے خدا تعالیٰ نے ایک توفیق رکھی ہوئی ہے.آئندہ دو سال کے لئے ہر احمدی کو دوبارہ یہ عہد کرنا چاہئے کہ سال میں ایک دفعہ، ایک احمدی بنانے کا جو میں عہد کرتا رہا ہوں، یا سنتا رہا ہوں کہ مجھے عہد کرنا چاہئے.اب آخری دوسال رہ گئے ہیں سو سالہ جشن میں ان دو سالوں میں میں اپنا نام بھی خدا تعالیٰ کی اس فہرست میں لکھوا لوں جس کا ذکر قرآن کریم کی ان آیات میں ملتا ہے کہ میری نظر پڑتی ہے جب تم اچھے کام میری خاطر کرتے ہو.یہ نہ ہو کہ سو سال کا عرصہ گزر جائے اور پہلے سوسال میں میرا شمار ہی نہ ہو کہیں اور یہ بہت ہی اہم فریضہ ہے جو ہم نے ادا کرنا ہے.اگلے سوسال کی تیاری کے لئے جب تک ہماری تعداداتنی نہ ہو جو اتنا عظیم کام سنبھال سکے اس کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکے.اس مختصر تعداد کے ساتھ جو اس وقت ہم رکھتے ہیں اگلی صدی میں دندناتے ہوئے داخل ہونا بظاہر ایک غیر حقیقی بات نظر آتی ہے.خدا کے فضل سے ہوگا تو یہی لیکن دیانت داری اور تقویٰ کے ساتھ اتنی تعداد تو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو ساری دنیا کو معنی خیز چیلنج کر سکے.اس لئے آئندہ دوسال کے اندر نہ صرف یہ عہد کرے ہر احمدی بلکہ اس عہد کے پیچھے پڑ جائے دن رات اسے حرز جان بنالے اور چین

Page 80

خطبات طاہر جلد ۶ 76 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء نہ پائے جب تک اس کی کوششوں کو پھل نہ لگنے شروع ہو جا ئیں اور جب میں ایک احمدی کہتا ہوں تو خاندان کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ایک خاندان ایک اور خاندان بنائے اور جہاں جہاں اب تک مقامی طور پر احمدی حاصل نہیں ہوئے یعنی مقامی طور پر پودے جو د ہیں کی آب و ہوا کے پودے ہیں وہ حاصل نہیں ہوئے وہاں کوشش کریں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ کم سے کم ایک سو خاندان تو پیش کر سکیں ہم کہ ہر سال کا ایک خاندان ہم تیرے حضور پیش کرتے ہیں.اگر سارے احمدی اس عہد کو چھٹ جائیں ، حرز جان بنالیں ، دن رات دعائیں کریں اپنے لئے اور ایک لگن کے ساتھ محنت کرنی شروع کر دیں تو جتنے خاندان احمدی یہاں موجود ہیں اتنے ہی اور خاندان آپ کو عطا ہو سکتے ہیں لیکن سو میں نے اس لئے کہا کہ ضروری نہیں کہ ہر شخص کو انگریز پھل ہی ملے.ہوسکتا ہے کسی کو یہاں سے جاپانی پھل مل جائے ، ہوسکتا ہے کسی کو چینی پھل مل جائے ، کسی کو ہندوستانی کسی کو پاکستانی.تو سو خاندان جب میں کہتا ہوں تو یہ مراد نہیں کے باقی سارے کام نہ بھی کریں تو سوتو مل جائیں.میں توقع رکھتا ہوں کے سارے کام کریں.ہر شخص ہر خاندان اللہ تعالیٰ کے حضور ایک نیا شخص یا ایک نیا خاندان ضرور پیش کر رہا ہو اور ان میں سے کم از کم سو خاندان تو انگریز ہوں اور اگر جرمنی میں کام کر رہا ہے داعی الی اللہ تو کم از کم سو خاندان جرمن ہوں.اسی طرح یہ پیغام آگے پھیلتا چلا جائے گا.لیکن اس میں بھی امر واقعہ یہ ہے کہ جب میں کہتا ہوں کہ دو، آئندہ دو سال میں تو در حقیقت یہ دو بھی کافی نہیں ہیں.یہ کم سے کم عہد ہونا چاہئے ایک احمدی کا.اب وقت یہ نہیں ہے کہ ہم ایک اور دو میں باتیں کر رہے ہوں.بہت بڑے کام ہیں جو کرنے والے ہیں.ہمارے مقابل پر دنیا کی طاقت اتنی زیادہ ہے کہ ایک ملک پہ بھی ہم اپنی ساری طاقت کو مرکوز کر دیں، تب بھی بے انتہاء محنت کرنی پڑے گی اس ملک کو فتح کرنے کے لئے یعنی اسلام کے لئے اور اللہ کے لئے.تو اس لئے جب میں یہ کہتا ہوں تو جتنا بھی زور دوں آپ پوری طرح سمجھ نہیں رہے میری بات کو، کتناز ور دینے کی ضرورت ہے.جتنا بھی تصور آپ کا پہنچتا ہے اس تصور کو وہاں تک پہنچائیں تب بھی آپ پوری بات نہیں سمجھیں ہوں گے.بہت زیادہ اہم بات ہے کہ ہم جلد از جلد اپنی تعداد کو غیر معمولی طور پر آگے بڑھا ئیں.یہ دو کے ذکر سے مجھے ایک لطیفہ یاد آ گیا.اس سے پہلے بھی ایک

Page 81

خطبات طاہر جلد ۶ 77 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء بار میں نے اپنے گزشتہ کسی جلسہ سالانہ کی کسی تقریر میں یعنی دس پندرہ سال پہلے یہ بیان کیا تھا ایک موقع پر اور وہ اس مضمون سے ایک مطابقت ضرور رکھتا ہے.کہتے ہیں ایک میراثی تھا جو ہر موقع پر گاؤں کے چوہدری کو اپنی حاضر جوابی کی وجہ سے شرمندہ کر دیا کرتا تھا اور اس فن میں میراثی بہت مشہور ہیں پنجاب میں.کتنا ہی کوئی تیز ہوانسان کہتے ہیں جو میراثی ہو یا میراثی زادہ ہو، وہ ضرور ہرا دیتا ہے Repertory میں ، حاضر جوابی میں اور لطیفہ گوئی میں.اس میراثی بے چارے کی داڑھی نہیں تھی ، بس ایک اس میں کمزوری تھی اور کھودا جسے کہتے ہیں ہم صرف دو بال تھے داڑھی کے بے چارے کے.اس نے وہی دوسنبھالے ہوئے تھے.ایک موقع پر جبکہ چوہدری اور میراثی اکٹھے کشتی میں سوار تھے تو دریا میں طغیانی آگئی اور سارے مسافر گھبرا گئے.تو جیسا کے ہمارے ملک میں رواج ہے کشتی کے ملاح نے یہ اعلان کیا کہ چونکہ طوفان آ رہا ہے اور خطرہ پیدا ہو گیا ہے اس لئے خواجہ خضر کی خیرات کچھ نہ کچھ سب دریا میں پھینک دیں.اُس وقت چوہدری کو خیال آیا اب وقت آگیا ہے میرا بدلہ لینے کا.تو چوہدری نے کہا کہ ضروری نہیں ہر ایک کے پاس پیسے ہوں ہم یہ کرتے ہیں کہ سارے اپنے داڑھی کے دو دو بال اکھیڑ کر تو دریا میں پھینک دیتے ہیں.میراثی سمجھ گیا کہ میرے تو ہیں ہی دو بال یہ تو مجھ پر حملہ ہو گیا ہے.تو اس نے فوراً جواب دیا کہ چوہدری جی ! اے دو آں دا ویلہ ہے؟ کہ اے چوہدری ! یہ دو کا وقت ہے؟ کون بد بخت ہے جو ساری داڑھی اکھیڑ کر نہ پھینک دے.تو میں آپ کو بتاتا ہوں ہے تو یہ لطیفہ کہ یہ دو کا وقت نہیں رہا کون بد بخت ہو گا جو اپنی ساری طاقتیں خدا کی راہ میں اب خرچ نہیں کر دیتا اور پوری کوشش نہیں کرتا کہ زیادہ سے زیادہ اللہ کے لئے غلام محمد مصطفی نے جیتنے لگے اس دنیا میں.پس دو کی باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے.لیکن کمزوروں پر جب نظر کی جاتی ہے، وہ جو جن کے پاس ہیں ہی دو، یعنی جن کی طاقت ہی دو تک پہنچتی ہے تو ان کو بھی ساتھ لے کہ چلنا پڑتا ہے لیکن یہ مراد نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک دو کی تمنا لے کر آگے بڑھے، یا دو کا عزم لے کر آگے بڑھے.آپ ہزاروں کا عزم لے کر آگے بڑھیں اور دعا کریں اور کوشش کریں اور دعا کے ذریعے اپنی توفیق بڑھاتے چلے جائیں پھر دیکھیں کہ کس شان کے ساتھ آپ اگلی صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے.کتنا لطف آئے گا، کتنا اطمینان ہو گا آپ کو کہ ان دوسالوں کے اندر

Page 82

خطبات طاہر جلد ۶ 78 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء آپ کے پیچھے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو روحانی فرزند کے طور پر نئی صدی میں داخل ہورہے ہوں گے.نئے خاندان آپ کے پیچھے پیچھے آپ کو امام بنا کر نئی صدی میں داخل ہو رہے ہوں گے.واجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) میں بھی یہ مضمون شامل ہے کہ اے خدا ہمیں امام بنا.یہ مراد نہیں کہ اولاد ہو صرف.اولاد تو ہر کس و ناکس کی کافر اور مشرک کی بھی ہوتی ہے.یہاں بالخصوص وہ لوگ مراد ہیں جو آپ کی روحانی اولاد ہیں اور آپ کی تبلیغ کے نتیجے میں جو روحانی ذریت خدا آپ کو عطا فرماتا ہے یہ دعا سکھائی ہے کہ یہ دعا کرو کہ وہ سارے متقی ہوں.نام کے احمدی یا نام کے مسلمان نہ ہوں.تو بہت ہی بڑا ایک شاندار گیٹ سجا ہوا آپ کے سامنے آنے والا ہے.اس عظیم الشان گیٹ سے جو حمد و ثناء سے سجا ہوا ہے، جو درود سے سجا ہوا ہے اس میں سے آپ نے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہونا ہے اگلی صدی میں.یہی ہمارا جشن ہے.تو اس شان سے داخل ہوں کہ آپ کے ساتھ ایک ذریت طیبہ ہو، ایک عظیم الشان روحانی اولاد ہو متقیوں کی جو آپ کے ساتھ ساتھ ایک اجتماع بناتے ہوئے، ایک جلوس بناتے ہوئے اس گیٹ سے گزررہی ہو.اس کے لئے بہت ہی محنت کی ضرورت ہے اور سب سے بڑی اور اول ضرورت یہ ہے کہ احساس دل میں اتنا جاگزیں ہو جائے ، اس قوت کے ساتھ جانشین ہو جائے کہ آپ اس احساس کو کسی طرح بھلا نہ سکیں.صبح بھی یہ احساس لے کر اٹھیں اور شام کو بھی ، رات کو بھی یہ احساس لے کر سوئیں اور سارا دن آپ کا دل کرید تا ر ہے یہ احساس کہ میں نے کتنے بنائے ہیں، میں نے کتنے بنائے ہیں.سنتا ہوں کہ فلاں نے اتنے بنالئے مجھے کتنی توفق ملی ہے.اس لئے ساری دنیا کے احمدی سب سے پہلے اس احساس کو پیدا کرنے کی طرف متوجہ ہوں اور جیسا کہ میں نے ذکر کیا ہے پھر جب دعائیں کریں گے تقویٰ کے ساتھ قول حسن اور فعلِ حسن کے ساتھ تبلیغ شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ لازما آپ کو پھل عطا فرمائے گا.یہ خدا کی سنت ہے جسے وہ تبدیل نہیں کیا کرتا.جہاں تک دشمنوں کی باتوں کا تعلق ہے دشمن بھی تیز تر ہوگا اپنی کوششوں میں، یہ نہ سمجھیں کہ وہ بیٹھا رہے گا.آپ میں سے اکثر کے احساس کے بیدار ہونے سے پہلے دشمن بیدار ہو چکا ہے.

Page 83

خطبات طاہر جلد ۶ 79 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء آپ نے ابھی اپنے اعمال کو اس قوت اور شان کے ساتھ ظاہر بھی نہیں کیا تھا کہ دشمن بھانپ گیا تھا کہ آپ کیا کرنے والے ہیں اور وہ آپ سے بہت زیادہ پہلے ان باتوں میں سرگرم عمل ہو چکا ہے جو کام آپ نے کرنے ہیں ان کے خلاف منصوبے پہلے بنا چکا ہے.اس لئے لازما یہ خیال رکھنا ہوگا کہ یہ کام آپ کے لئے اس رنگ میں آسان نہیں ہے کہ آپ اکیلے کام کر رہے ہیں اور کوئی مخالفانہ کوشش نہیں ہورہی.ہر جگہ جہاں جہاں آپ جائیں گے، جہاں جہاں آپ کوشش کریں گے وہاں دشمن آپ کا تعاقب کرنے کی کوشش کرے گا اور آپ کے نیک کاموں کو ضائع کرنے کی کوشش کرے گا.ہر درخت کے ساتھ بعض بیماریاں لگی ہوتی ہیں بعض جانور لگے ہوتے ہیں جو زمیندار کو اس کی محنت کے پھل سے محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کچھ اندرونی کیڑے ہوتے ہیں، کچھ بیرونی کیڑے ہوتے ہیں.پس جہاں آپ اندرونی کیڑوں، ان کیڑوں کی تلفی کی کوشش کریں جو آپ کی جڑوں میں ہو سکتے ہیں یعنی تقویٰ کی کمی اور ان مصلحتوں کی کمی جن کی طرف قرآن کریم توجہ دلا رہا ہے وہاں بیرونی نظر کو بھی بیدار کریں اور ہوشیاری کے ساتھ دشمن کے کاموں اور اس کی تدبیروں سے بھی واقف رہیں اور اس رنگ میں محنت کریں کے آپ کے محنت کو جانور نہ کھا جائیں، آپ کی محنت کو لٹیرے نہ لے اڑیں.تبلیغ کے ساتھ اس مضمون کا ایک گہرا تعلق ہے اور اسی لئے اس خوشخبری کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے فرمایا أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمُوَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ که خبر دار ! حزن اور خوف کا مقام ضرور پیدا ہوگا محمد مصطفی ہے اور اس کے غلاموں کے لئے.لیکن خدا یہ بتاتا ہے کہ اگر تم ولی اللہ بن جاؤ گے اگر اللہ سے دوستی کر کے یہ کام آگے بڑھاؤ گے تو پھر تمہارے لئے کسی قسم کا حزن اور کسی قسم کا خوف نہیں پھر تو لا زما دشمن نے ہارنا ہی ہارنا ہے یوں ہی باتیں ہوں گی ،شور ہوگا اور عملاً میں کوئی نقصان بھی تمہیں نہیں پہنچا سکیں گے.صلى الله تو اس مسئلے کا حل بھی ساتھ رکھ دیا بلکہ حمل پہلے رکھا اور مسئلہ بعد میں بیان فرمایا.یہ ہے خدا کے پیار کا اظہار.اولیاء اللہ سے بات شروع کی اور حزن اور خوف کا بعد میں ذکر فرمایا ، حزن اور خوف کی بعد میں نفی فرمائی.اگر حزن اور خوف کا پہلے ذکر ہوتا تو شاید ایک لمحے کا کچھ حصہ مومن کا دل کانپتا کہ پتا نہیں مجھے سے کیا ہونے والا ہے.میں کیا باتیں کر رہا ہوں، کس رستے پر چل پڑا ہوں، آگے تو بڑے بڑے خطرات بھی ہیں.اس لئے خدا نے اس کا حل پہلے بیان فرما دیا أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ

Page 84

خطبات طاہر جلد ۶ 80 80 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء تم کیا خوف کرو گے تم تو اولیاء اللہ ہو.خوف تم سے بھاگے گا اور تم سے خوف کرے گا.حزن تمہارے مقدر میں نہیں ہے کہ تم اولیاء اللہ ہو.پس اولیاء اللہ کا مضمون پہلے بیان کر کے آنے والے خطرات کا تدارک پہلے ہی فرما دیا.پس وہ لوگ جو یہ زعم لے کر اٹھے ہیں اور منصوبے بنارہے ہیں کہ آپ کو کسی قسم کا نقصان پہنچائیں گے، ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہاں ذکر فرما کر اس کا علاج بھی فرمایا اور پھر وضاحت فرمائی لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ یہ اتنے کوتاہ دست لوگ ہیں ان کی طاقتوں کا پول اس طرح کھل جاتا ہے کہ اس دنیا کے ہوتے ہوئے اس دنیا پر بھی ان کی کوئی طاقت کام نہیں کرے گی، ان کی کوئی تدبیر کام نہیں کرے گی.تمہیں دنیا کی خوشیوں سے بھی محروم نہیں کر سکیں لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ آخرت تو ہے ہی مومنوں کی مگر فرمایا یہ دنیا بھی تمہاری نہیں چھین سکیں گے ہم تمہیں یہ ابھی بتا دیتے ہیں لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ خدا کے کلمات میں ، خدا کی تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں ہے.پھر دوباره تکرار فرمائی وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمُ اِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِيعًا اب یہاں دیکھیں پہلے اولیاء اللہ کہہ کر خطرے بیان کرنے سے پہلے دل کو تسلی دے دی تھی اب چونکہ دل کو تسلی دے چکا ہے اللہ تعالیٰ اب یہاں حزن کا مضمون پہلے بیان ہوا ہے اور اُس کو دور کرنے کے متعلق خوشخبری بعد میں دی جا رہی ہے جو نارمل طریقہ ہے.لَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمُ اے محمدمصطفی سے تجھے ان کی باتیں بھی کسی قسم کا غم نہ پہنچائیں.اس سے پہلے جو حزن تھا اس سے مراد یہ تھی کہ یہ جو شرارتیں کر رہے ہیں تیرے خلاف جھوٹی تدبیریں کر رہے ہیں ، مکر سے کام لے رہے ہیں اس کا عملاً کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا ، اس لئے کوئی حزن نہیں.یہاں اس مضمون کو آگے بڑھا کہ فرمایا وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ جب تجھے پتا چل چکا ہے کہ خدا تیرے ساتھ ہے اور خدا کی تقدیر تیری حفاظت فرمائے گی اور تیرے غلاموں کی حفاظت فرمائے گی اور وہ لازما کامیاب ہوں گے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تو پھر ان کے قول سے بھی غم نہ کر.اس وقت جماعت جس دور سے گزررہی ہے وہاں اس آیت کا یہ حصہ بہت ہی تفصیل کے ساتھ صادق آ رہا ہے.اکثر احمدی پاکستان سے خط لکھتے ہیں کہ ان کی تدبیروں کا ہمیں کوئی خوف نہیں ہے.جو قربانی خدا کے رستے میں ہمیں دینی پڑی ہم شوق سے اور سعادت سمجھتے ہوئے دیں گے

Page 85

خطبات طاہر جلد ۶ 81 خطبہ جمعہ ۳۰/جنوری ۱۹۸۷ء اور دے رہے ہیں.ہاں ان کا قول دکھ پہنچا رہا ہے.یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف، جماعت کے خلاف بہتان تراشیاں کرتے ہیں اور چر کے لگاتے ہیں ہمارے دلوں کو ہم تو اس عذاب میں سے گزررہے ہیں یہ ہماری تکلیف ہے ساری.کیسا عظیم الشان نفسیاتی کلام ہے، کلام حکیم کہ کسی پہلو کونظر انداز نہیں کرتا.سارا مومن کا جو سفر ہے دعوت الی اللہ کا اس کی تفصیل کس شان کے ساتھ محفوظ فرمائی ہے یہاں اور کس باریکی کے ساتھ بیان کی ہے.فرماتا ہے وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ عملاً تو کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گے، عملاً تو کامیابی ہے ہی تمہاری، ہاں قول کے ذریعے یہ ضرور دکھ پہنچاتے رہیں گے.فرمایا قول بھی تجھے دکھ نہ د اِنَّ الْعِزَّةَ لِلّهِ جَمِيعًا یقیناً ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ تم اور تمہارے کام عزت کے ساتھ یاد کئے جائیں گے اور یہ دکھ پہنچانے والے، گندہ کلام کرنے والے، لا ز ما ذلیل ورسوا ہوں گے.هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِیمُ لیکن شرط یہ ہے کہ دعائیں کرتے رہو ، وہ سننے والا ہے اور جاننے والا ہے.تمہارے دلوں کی کیفیت سے باخبر ہے پھر بھی تمہیں دعاؤں کی طرف متوجہ کر رہا ہے.سمیع کو علیم کے ساتھ جوڑنے کا یہ مفہوم ہے کہ ویسے تو خدا سب کچھ جانتا ہی ہے ہر بات اس کے علم میں ہے.فرمایا اس کے باوجود جو پکار ہے وہ اپنا اثر رکھتی ہے.ایک بچہ بیمار ہو، ماں کے علم میں ہوتا ہے کہ بیمار ہے.لیکن درد سے پکارنے والا بچہ ماں کے دل میں اور کیفیت پیدا کر دیتا ہے.یہ پیار کے مضمون ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے حال سے باخبر ہوں لیکن پھر بھی مجھے پکارو.میں تمہاری بات سنوں گا اور جواب دوں گا اور میرے جواب سے تم لذت پاؤ گے.جب میں کہوں ہاں میں قریب ہوں، میں آرہا ہوں تمہاری مدد کے لئے ، اس کا لطف ہی اور ہے.اس لئے آخر پہ قرآن کریم نے اس مضمون کی طرف توجہ دلائی کہ ساری تقدیر خدا کی تمہارے لئے تقدیر خیر ہے اس میں کوئی شر کا پہلو نہیں ہو گا.اتنی کامل کامیابی ہے تمہارے مقدر میں کہ دنیا میں بھی تم کامیاب رہو گے اور آخرت میں بھی تم کامیاب رہو گے.بشریٰ ہی بشری ہے تمہارے لئے لیکن اس کے باوجود دعاؤں سے غافل نہ رہنا کیونکہ دعا ئیں تقدیر کے عمل کو تیزی سے آگے بڑھاتی ہیں، اور دعائیں ہی ہیں جو ہر کوشش میں پھل پیدا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 86

خطبات طاہر جلد ۶ 82 88 خطبہ جمعہ ۳۰ / جنوری ۱۹۸۷ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے ناروے کا ذکر بھی کیا تھا کہ وہاں ان کو بعض بیعتوں کی خوشخبری دینے کے لئے میں نے فون کیا تو انہوں نے اس پر خوشخبری دی کہ دو اور اللہ کے فضل کے ساتھ پھل لگے ہیں ابھی.اس میں میں نے غلطی سے یہ بتایا تھا کہ جو بیعتیں تھیں ان میں دوعرب تھے.وہ سیرالیونیز (Seralionies) سے تھے دو ، عرب نہیں تھے.کیونکہ بعد میں جمعہ کے بعد دوسرے دن جب میں نے رپورٹ تفصیل سے پڑھی تو وہاں لکھا ہوا تھا کہ یہ دوسیرالیونیز تھے.چونکہ ایک غلطی سے ایک ایسی بات کہی گئی جو درست نہیں تھی اس لئے ضروری ہے کہ خطبہ میں اس کو ریکارڈ کیا جائے کہ اصل صورتحال یہ تھی.ویسے تو عرب وہاں خدا کے فضل سے ہوتے رہتے ہیں.اس لحاظ سے ناروے کا کام بہت نمایاں ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.مگر یہ دو جو بیعتیں تھیں، تین میں سے دو عرب نہیں تھے بلکہ سیرالیو نیز تھے.ایک دو جنازے ایسے تھے جو میں سمجھتا تھا جمعہ کے ساتھ ہی ہو جاتے.مگر بہر حال وہ انشاء اللہ رات کو درس کے بعد عشاء کے بعد ہو جائیں گے.نمازیں جمع کرنے کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آجکل عصر کا وقت جب شروع ہوتا ہے خطبہ اس کے بعد ختم ہوتا ہے.اس لئے جن علاقوں میں شمالی علاقوں میں یہ غیر معمولی دن اور رات کے اوقات ہیں ان میں اس وقت تک ہم نماز جمع کر سکتے ہیں جب خدا کے کاموں میں مصروف ہوتے ہوئے پہلی نماز دوسرے نماز کے وقت میں داخل ہو چکی ہو.تو اس پر ہماری نظر ہے.اسے خواہ مخواہ کوئی لا علمی میں اس کو رسم نہ بنالے کہ شاید اپنی مرضی سے جب چاہو جمع کر لو جب چاہو نہ کرو.اس وجہ سے میں یہ کھول رہا ہوں مضمون کہ ہم بالعموم پونے تین تک یا بعض دفعہ اڑھائی بجے تک خطبہ ختم کرتے ہیں آج کل تو اس سے پہلے عصر کا نماز کا وقت شروع ہو چکا ہوتا ہے دن چھوٹے ہونے کی وجہ سے.جب ایسا وقت آئے گا کہ عصر کی نمازا الگ پڑھی جاسکتی ہو تو اس وقت انشاء اللہ تعالیٰ پھر یہ سلسلہ بند کر دیا جائے گا.

Page 87

خطبات طاہر جلد ۶ 83 88 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء جماعت احمدیہ کے سو سال پورے ہونے پر جماعت کو بعض تیاریوں کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۶ فروری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.گزشتہ خطبہ میں میں نے احباب جماعت کو ان بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی تھی جو صد سالہ جوبلی کے قریب تر آنے کے نتیجے میں ہم پر عائد ہوتی ہیں.جلسہ سالانہ جو قادیان اور پھر ربوہ میں منایا جا تارہا اس کی تیاریاں تو قریبا ایک مہینہ دو مہینے پہلے منظر عام پر ابھر آیا کرتیں تھیں اور جو خفی تیاریاں ہیں بنیادی وہ تو شروع سال سے ہی چلا کرتیں تھیں تو اگر سالانہ جلسے کے لئے اتنی ذمہ داریاں ہیں جنہیں ادا کرنا ہوتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہیں جن کے لئے جلسے کی تیاریاں ختم ہی نہیں ہوتیں.افسر جلسہ اور ان کے بعض مستقل ساتھی وہ جلسہ ختم ہوتے ہی پھر یہ جائزے لیا کرتے تھے کہ کیا کمزوریاں رہ گئیں پچھلے جلسہ میں اور کیا ایسی مشکلات تھیں جن کا ازالہ آئندہ ہمیں لازما کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ہی پھر چیزوں کی خرید و فروخت، آئندہ روٹی پکانے کی مشینوں کی تیاری، انتظامی ڈھانچہ تجویز کرنا اور ان کی ذمہ داریاں ان کو تقسیم کرنا، بہت سے ایسے کام تھے جو مسلسل جاری رہتے تھے.بیر کس کی تعمیر ہے ، نئی جگہیں چاہیں ہر سال جماعت بڑھتی جاتی ہے اور اس کی وجہ سے وسعت پذیر ہے جلسے کا کام.تو سو سالہ جشن کی تیاری کے لئے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی زیادہ محنت اور توجہ اور انہماک کی ضرورت ہے اور جو تیاریاں مخفی چل رہیں ہیں وہ تو میں نے بیان کیا تھا کہ بہت لمبے

Page 88

خطبات طاہر جلد ۶ 84 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء عرصے سے جاری ہیں لیکن اب وقت آ گیا ہے کہ یہ منظر عام پر اُبھرنے والی تیاریاں بھی شروع ہو جائیں اور اس میں ساری جماعت کو حصہ لینا ہوگا.تمام ملکوں میں اس وقت سو سالہ جشن منانے والی منصوبے کی کمیٹیاں قائم کی جاچکی ہیں اور ان ملکوں میں سے پھر کچھ گروہ بنا کر تین تین، چار چار پانچ پانچ ملکوں کے ایسے گروہ بنا دیئے گئے ہیں جن میں علاقائی کمیٹیاں قائم کر دی گئیں ہیں.پھر علاقائی سطح کے علاوہ مشرق اور مغرب کی تقسیم کے لحاظ سے، Continents کی تقسیم کے لحاظ سے مختلف اس سے بالا کمیٹیاں بھی قائم ہیں اور دو مرکزی کمیٹیاں ہیں، ایک جو شروع سے ہی ربوہ میں کام کر رہی ہے اور ابھی بھی جاری ہے اور ایک جو بیرون ربوہ کے ممالک میں خصوصی ہدایات دینے اور ان کے کاموں کو مرتب کرنے اور ایک دوسرے سے باہم رابطہ پیدا کرنے کے لئے قائم کی گئی ہے، وہ بھی گزشتہ سال سے بڑے انہماک سے کام کر رہی ہے.تو اب ضرورت یہ ہے کہ احباب جماعت اپنی اپنی صلاحیتیں اور اپنی قابلیتیں اپنے اپنے امراء ا کی وساطت سے ان کمیٹیوں کو پیش کریں کیونکہ ہر علم کے ہر شعبہ زندگی کے ماہرین کی شدید ضرورت ہے.مردوں کی بھی ضرورت ہے خواتین کی بھی، بوڑھوں کی بھی ، بچوں تک کی بھی ضرورت ہے کہ وہ اپنے اپنے رنگ میں اپنے اپنے دائرہ کار میں اس صد سالہ جشن کو کامیاب بنانے کے لئے کیا محنت کریں گے کیا خدمات سرانجام دیں گے اس کی وہ وضاحت کریں گے تو کمیٹیوں کی بھی رہنمائی ہوگی.منصوبے کے متعلق ایک تو مرکزی منصوبہ ہے جو ساری دنیا کی رہنمائی کے لئے مکمل ہو چکا ہے کئی حصے اس کے تنفیذ کے عمل میں ہیں یعنی ان پر عمل درآمد ہورہا ہے یا کچھ حصہ پر ہو چکا ہے.کچھ علاقائی کمیٹیاں اس وقت ان منصوبوں کی روشنی میں خود غور کر رہی ہیں لیکن ہر ملک کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہو کر اپنا مقامی منصوبہ بھی بنانا چاہئے اور اس کے لئے یہ انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ مرکز کی طرف سے کب ہدایات آتی ہیں کب ان کی طرف سے بنا بنایا منصوبہ ملتا ہے کیونکہ ہر ملک کی اپنی ضروریات ہیں ، ہر ملک کی اپنے مسائل ہیں، ہر ملک کی جماعت کی قوت مختلف ہے، ہر ملک میں جماعت کے تعلقات حکومت والوں سے مختلف ہیں.مخالفتوں کا مقام بھی مختلف ہے درجہ بدرجہ کہیں زیادہ مخالفت کہیں کم.ہر ملک میں انسانی آزادی کا معیار مختلف ہے.غرضیکہ اتنے اختلاف کی باتیں موجود ہیں کہ ایک مرکزی منصوبہ ہر ملک میں سو فیصدی چسپاں ہو ہی نہیں سکتا.شکلیں الگ الگ ہوں تو ہر

Page 89

خطبات طاہر جلد ۶ 85 59 خطبه جمعه ۶ فروری ۱۹۸۷ء دوسرے کی مختلف شکل کی چیز کا بسا اوقات ایک دوسری شکل کی چیز میں فٹ بیٹھنا بڑا مشکل ہو جاتا ہے اور پھر یہ کہ جو منصوبہ بنیاد سے اُٹھے وہ بہت زیادہ حقیقی ہوتا ہے جو باہر سے آتا ہے اس میں کچھ نظریاتی باتیں کچھ غیر حقیقی سوچیں شامل ہو جاتی ہے.اس لئے میں نے مرکزی کمیٹی کو بھی ہدایت کی ہے کہ وہ بنیاد سے منصوبے اُٹھوا کر اپنی طرف ان کو حرکت دیں اور منگوانے شروع کریں اور ان کی روشنی میں کچھ ان کو عمومی عالمی منصوبوں میں بھی بہتر نقوش کا اضافہ کرنے کی توفیق ملے گی اور جو عالمی منصو بہ مقامات تک پہنچے گا، ملکوں تک پہنچے گا اس کی روشنی میں وہ اپنی خامیاں دور کرنے کے قابل ہو سکیں گے.اس لئے اب تمام ملک اپنے اپنے ہاں فوری طور پر اپنی طاقتوں اور ملکی حالات جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، ان کا اندازہ لگا کر یہ سوچنا شروع کریں کہ وہ کس طرح یہ جشن منائیں گے اور اس کے خد و خال کو معین کر کے امیر کی وساطت سے اپنی علاقائی کمیٹی کو بھجوائیں اور علاقائی کمیٹیاں اس کو نظر ثانی کرنے کے بعد پھر وہ مرکزی کمیٹیوں کی طرف بھجوائیں.اس کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے کام ہیں جو فوری طور پر جاری ہونے والے ہیں مثلاً تمام دنیا میں اس جشن کے لئے بعض نئی تعمیرات کی ضرورت پیش آئے گی.اس کے متعلق ہمیں کیا کیا ضرورتیں ہیں یہ تقریباً طے کر لی گئیں ہیں اور نقشہ بنانے کے لئے بعض آرکیٹیکٹ سے کہا گیا ہے کہ ان عمومی ضروریات کو مد نظر رکھ کر نقشہ بنا ئیں.ضروری نہیں کہ ہر ملک میں ایک ہی معیار کی عمارت ہو گر نقشہ کم و بیش وہی ہوگا کیونکہ بعض نمائشوں کے لئے ، بعض کتابوں کو سجانے کے لئے بعض دوسرے کاموں کے لئے خاص قسم کے کمروں کی ، خاص شکل کے کمروں کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ عمومی نقشہ بھی تمام دنیا میں عنقریب بھجوادیا جائے گا جہاں تک ممکن ہو مقامی ذرائع سے ان عمارتوں کو بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اور وقار عمل کا اس میں بہت دخل ہونا چاہئے اور ایسا انتظام ہونا چاہئے کہ جماعت کا ہر طبقہ اس وقار عمل میں کسی نہ کسی طرح شامل ہو جائے اور بوڑھے بھی ، بچے بھی عورتیں ،مرد سب کو خدا تعالیٰ کے فضل سے توفیق ملے کہ اس مرکزی نمائندہ عمارت میں ہم نے اپنی محنت کا بھی کچھ حصہ ڈال دیا ہے.جہاں تک ضروریات کی مقامی توفیق کا تعلق ہے ہر ملک اپنی توفیق کو دیکھ کر عمارت کا معیار بنائے اگر کہیں شاندار عمارت نہیں بنائی جاسکتی تو بانسوں کی تعمیر بھی ہوسکتی ہے.گھاس پھوس کے ساتھ اس کی خلاؤں کو بند کیا جاسکتا ہے ہمٹی کی چھتیں بنائی جاسکتی ہیں ان کو لیپا پوتا جاسکتا ہے.

Page 90

خطبات طاہر جلد ۶ 98 86 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء تو یہ تصور نہ باندھ لیں کہ یہ عمارت کوئی غیر معمولی قیمتی عمارت ہو، عمارت ضرورت کو پورا کرنے والی ہونی چاہئے اور توفیق کے مطابق ہونی چاہئے اس کے بعد اس کو جس حد تک بھی ممکن ہو اگر انسان کا ذہن حسین تخیل رکھتا ہو تو غربت میں بھی وہ حسن پیدا کر لیتا ہے.بہت سے ممالک ہیں ایک ہی معیار کے ہیں اقتصادی لحاظ سے مگر بعض ممالک کے لوگ حسین تخیل رکھتے ہیں وہ انہیں ذرائع سے ایک خوبصورت چیز پیش کرتے ہیں اور بعض ممالک ان سے بڑھ کر ذرائع رکھنے کے باوجود نہایت بھڈے منظر کی عمارتیں بناتے ہیں، نہایت ان کا رہن سہن بھڑ ا ہے اور ان میں ایسا تخیل ہی نہیں کہ جو ان کے عمل کو خوبصورت کر کے دکھائے.تو جماعت احمدیہ کا تخیل بھی حسین ہونا چاہئے غربت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غربت کے نتیجے میں بد ہی پیدا ہو بھدی چیز بنائی جائے.اس لئے ان دونوں شرطوں کو ٹوظ رکھ کے عمارتیں بنی چاہئیں کہ غربت میں حسن پیدا کریں حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بعض جو نئے محاورے ایجاد کئے ان میں ایک یہ بھی بڑا خوبصورت محاورہ تھا کہ ربوہ کو ایک غریب دلہن کی طرح سجاؤ.دلہن تو بہر حال بجتی ہے چاہے غریب ہو چاہے امیر ہو اس لئے سجاوٹ آپ نے بہر حال کرنی ہے.مگر غریب ہیں تو غریب دلہن کی طرح تھیں اور امیر ہیں تو امیر دلہن کی طرح سجیں اور سجائیں.دوسرا ایک پہلو جیسا کہ میں نے بیان کیا اس میں مختلف طاقتوں کی ضرورت ہے مختلف صلاحیتوں کی ضرورت ہے اور دوستوں کو اپنے کوائف مکمل طور پر جو شوق رکھتے ہیں کہ ان کو بھر پور حصہ ملنے کا موقع ملے ان کو چاہئے کہ اپنے کوائف مکمل اس طرح بھیجیں جس طرح نوکریوں کے لئے بھیجا کرتے ہیں اور کمیٹیوں کے سپرد یا امیر کے سپر د کریں کہ یہ یہ ہم کر سکتے ہیں اور اس طرف ہمارا ذہن کا بھی رجحان ہے اور اس قسم کا وقت ہم آسانی سے دے سکیں گے اور کتنا زیادہ سے زیادہ دے سکیں گے اس کی بھی تعیین کی جائے یعنی کس قسم کے وقت سے مراد یہ ہے کہ رات کا وقت ، صبح کا وقت ، دن کا وقت، ہمہ وقت جس نوعیت کی بھی کسی کو توفیق ہو وہ واضح کرے اور پھر مدت معین کر دے.تو اس طرح ہمارے پاس مجموعی طور پر کام کرنے والے جتنے ہاتھ اور جتنے گھنٹے اور جتنے دماغ اور جتنی صلاحیتیں ہوں گی وہ یکجائی شکل میں جب کمیٹی کو نظر آئیں گی تو ان کا منصوبہ حقیقی بنے گا پھر اور ان صلاحیتوں کے نتیجے میں ان کے ذہن اور ان کی سوچ میں بھی ایک چمک پیدا ہو گی بعض چیزوں کی

Page 91

خطبات طاہر جلد ۶ 87 خطبه جمعه ۶ / فروری ۱۹۸۷ء طرف خیال ہی نہیں جائے گا جب ایک لکھنے والا بتائے گا کہ مجھ میں خدا کے فضل سے یہ صلاحیتیں موجود ہیں تو اچانک اس کے منتظموں کے ذہن میں یہ خیال پیدا ہو گا کہ اچھا یہ بھی ایک چیز تھی اس سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے.تو Grass Roots جس کو کہتے ہیں یعنی وہ گھاس کی جڑیں وہاں سے منصوبہ اٹھے تو عظیم الشان منصو بہ ہوتا ہے وہ سر کی طرف حرکت کرتا ہے اور پھر سر سے صیقل ہو کر اور مزید نقش و نگار کی درستی کے بعد واپس پہنچتا ہے اور پھر ہر ہر جگہ جہاں جہاں اس منصوبے کو عمل میں لانا ہے وہاں کے اعضاء اس میں کام شروع کر دیتے ہیں.جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے میں نے یہ کہا تھا کہ ہر احمدی کو کم سے کم اب دوسال کے لئے دو احمدی تو پیش کرنے چاہئیں.گزشتہ محرومیوں کا اب ماضی میں جا کہ تو ازالہ نہیں ہوسکتا لیکن مستقبل کی طرف بڑھتے بڑھتے تو ازالہ ہوسکتا ہے بہت حد تک تو دو کو تو آپ کم سے کم معیار سمجھیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح پہلے ہم مالی تحریکوں میں چند آنوں سے شروع کر کے پھر بڑھاتے رہے یعنی خدا تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق اور کیا وہ وقت تھا کہ دو دو پیسے کا ریکارڈ بھی کتابوں میں چھپ گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مبارک ہاتھوں سے کہ یہ دو پیسے چندہ دیا ہے کسی نے.یہ درست ہے کہ وہ دو پیسے کروڑوں سے بڑھ کر مقدس تھے کروڑوں سے بڑھ کر خدا کے ہاں زیادہ مقبولیت پاگئے کیونکہ وقت کے امام کی نظر میں آگئے اور اللہ کی تقدیر نے ان سے لکھوا دیا کہ فلاں شخص نے یہ اتنے پیسے دیئے ہیں.لیکن اس کے بعد خدا کا فضل ایک دوسرے رنگ میں بھی نازل ہوا.دو پیسے، دو پیسے نہیں رہے بلکہ اسی اخلاص کے معیار کے لوگوں کو خدا نے مالی وسعتیں عطا کیں اور عملاً یہی بات ہے جو ہمیشہ ہمارے پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ وہی دو پیسے ہیں جو بڑھ رہے ہیں، یہ وہی چار آنے ہیں جو بڑھ رہے ہیں ، یہ وہی چند روپے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اخلاص اور محبت سے پیش کئے گئے جو برکت پارہے ہیں.آج ہمارے ہاتھوں سے جب یہ نکلتے ہیں.تو ہزاروں لاکھوں بعض دفعہ کروڑوں بن کر نکلتے ہیں تو خدا کے فضل نے پیمانے مختلف کر دیے مگر سر چشمہ وہی ہے ، وہی خلوص اور تقویٰ کا سر چشمہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں اور محنتوں کے نتیجے میں پیدا ہوا.پس اسی نہج پر ہمیں اب تبلیغ میں بھی چندوں کا رنگ پیدا کر دینا چاہئے.پہلے اتفاق سے

Page 92

خطبات طاہر جلد ۶ 88 88 خطبہ جمعہ ۶ / فروری ۱۹۸۷ء مربیوں اور مبلغوں کے علاوہ جب کبھی کوئی داعی الی اللہ اپنا تبلیغ کا پھل پیش کیا کرتا تھا تو بہت نمایاں دکھائی دیتا تھا.میں تمہیں چالیس چالیس ایسے دوست شروع میں پیدا ہونے شروع ہوئے جب ہم نے انصاراللہ اور خدام الاحمدیہ میں محنتیں کیں اس معاملے میں اور بہت تھوڑے نتیجے تھے لیکن اس کے باوجود بہت دکھائی دیتے تھے.اب ایک ایسا وقت آیا ہے کہ بعض دائمین الی اللہ کے ذریعے بیسیوں کی تعداد میں ایک ایک آدمی کے ذریعے بیعتیں ہو رہی ہیں نئے گاؤں بن رہے ہیں.افریقہ سے جور پورٹیں ملتی ہیں ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اب داعیین الی اللہ کی کوششوں کا زیادہ دخل ہو گیا ہے بنسبت براہ راست مبلغین کی کوششوں کے اور اسی طرح ہونا بھی چاہئے.مبلغ کا کام تو بالعموم تعلیم و تربیت اور تبلیغ کے معاملے میں جماعت کو مستعد کرنا ہے.براہِ راست جتنا وقت ملے وہ بے شک تبلیغ کرے لیکن مبلغ تیار کرنا اس کا کام ہے اور اگر وہ یہ سمجھے کہ میں نے اگر اپنے نام ڈالے دس یا ہیں آدمی تو میرا وقار بڑھے گا اور اگر میں نے یہ لکھ دیا کہ دوسروں نے بنائے ہیں تو شاید میرا وقار کم ہوا گر کوئی ایسا سوچتا ہے تو بہت ہی بے وقوف انسان ہے.مبلغ تو سب اجتماعی کوششوں کے پھل کا ذمہ دار ہے اور اس کا ثواب اس کو ملے گا اور مرکز کی نظر میں بھی وہ مبلغ زیادہ کامیاب ہے جس کے ماتحت عام احباب جماعت زیادہ مستعدی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم سے اس کی توفیق کے ساتھ زیادہ کامیاب تبلیغ کر رہے ہیں.اس لئے کریڈٹ کا جہاں تک تعلق ہے وہ سارا مبلغ ہی کا یا مبلغوں کا ہی ہے یعنی سارے سے مراد میری یہ ہے کہ اگر ان کو یہ فکر ہو کہ ہمارا کریڈٹ کم ہو جائے گا تو اس فکر کو مٹادیں دماغ سے.آنحضرت ﷺ نے جو قانون ہمیں بتایا ہے اور جو خدا نے آپ کو بتایا وہ تو بالکل دنیا کے قانون سے مختلف ہے.دنیا میں تو اگر ایک سے کریڈٹ لے کے دوسرے کو دے دیا جائے تو پہلے کی جھولی خالی ہو جاتی ہے.دوسرے سے لے کے تیسرے کو دے دیا جائے تو دوسرے کی جھولی خالی ہو جاتی ہے.آنحضرت ﷺ نے جو قانون خدا سے علم پا کر جاری فرمایا اور وہی قانون جماعت میں جاری ہے.وہ تو یہ ہے کہ اگر کوئی نیک بات کرے اور اس کا نمونہ دیکھ کر یا اس کی بات سن کر کوئی دوسرا بھی ویسا نیک کام کرے تو اس کو بھی اتنی ہی جزا ملے گی ، وہ خدا کے نزدیک اسی طرح اس کا کریڈٹ پانے والا ہو گا جس طرح وہ کام کرنے والا ہے اور پھر فرمایا کہ اس کے اجر میں بھی کوئی کمی نہیں آئے

Page 93

خطبات طاہر جلد ۶ 89 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء گی.یہ نہیں ہو گا کہ اس دوسرے شخص نے جس نے کسی ایک سے سیکھ کر اچھا کام کیا ہے اس کے ثواب میں پہلے کو حصہ دار بنایا گیا ہے.فرمایا ہے اس کو بھی اتنا ملے گا اور جس کی وجہ سے کسی نے توفیق پائی اس کو بھی اتنا ملے گا.سیر و مضمون ہے جسے ہر احمدی کو ذہن نشین کرنا چاہئے اور کریڈٹ خدا کے ہاں بنتے ہیں دنیا کے کریڈٹ کی ویسے ہی پر واہ کوئی نہیں کرنی چاہئے.اگر تحریک جدید کے کھاتے میں کریڈٹ نہ بھی بن رہا ہو یا انجمن کے کسی شعبے کے کھاتے میں نہ بھی بن رہا ہو تو بالکل اس کی کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.کریڈٹ ایک ہی ہے جو خدا کے کھاتے میں بنتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ نے بھی اسی مضمون پر زور دیا ہے.فرماتے ہیں: ہم ہوئے خیر امم تجھ سے ہی اے خیر الرسل ! تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے (درمین صفحه: ۱۷) سارا کریڈٹ خود پیش کر رہے ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو کہ آپ نے ہمیں آگے بڑھنا سکھایا تو بڑھے ورنہ ہمیں کہاں سے توفیق ملنی تھی.تو جہاں تک داعیین الی اللہ کا تعلق ہے ان کا مزاج یہ ہونا چاہئے.ان کا مزاج یہ نہیں ہونا چاہئے کہ جی ہم نے بنایا ہے.اپنے امیر کے سامنے اپنے مبلغ کے سامنے ان کا ادب اور احترام اور انکساری کا یہ انداز ہونا چاہئے کہ جی خدا نے توفیق دی ہے لیکن آپ نے سکھایا تو تو فیق ملی ، آپ کا نیک نمونہ پکڑا تو توفیق ملی سب کچھ آپ ہی کا ہے.اس رنگ میں اگر باہمی تعاون اور محبت کے ساتھ سارے داعین الی اللہ از سر نو کام شروع کر دیں تو ایک بہت بڑے انقلابی دور میں جماعت داخل ہو سکتی ہے اور وہی دور ہے جس کی دیکھنے کی تمنا لئے ہوئے میں آج آپ کو سامنے یہ بات رکھ رہا ہوں.بعض دفعہ اس سے پہلے اب تک ملکوں سے ہزار ہا کی اطلاعیں تو آتی رہی ہیں مگر آج لاکھوں کی بیعتوں کی اطلاع نہیں ملی تو دعایہ کریں اور کوشش یہ کریں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے ہم معیار کے پیمانے بدل دیں بالکل اور ملک اب ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں جانچے جانے لگیں اور کثرت سے ایسے ملک پیدا ہوں اور نئے شامل ہو جائیں اولین کی صف میں جہاں سے یہ اطلاع

Page 94

خطبات طاہر جلد ۶ 06 90 خطبہ جمعہ ۶ / فروری ۱۹۸۷ء مل رہی ہو کہ گزشتہ سال اتنے لاکھ تھی اب اتنے لاکھ ہیں، اب اتنے لاکھ ہیں، اب اتنے لاکھ ہیں.تو لاکھوں میں اگر ہزاروں کو بدلنا ہے تو وقت کی کمی کے پیش نظر آپ کو احساس ہونا چاہئے کہ کتنی زیادہ توجہ اور محنت اور افرادی قوت، انفرادی اور اجتماعی قوت کی ضرورت ہے اور دعاؤں کی بڑی شدید ضرورت ہے کیونکہ دعاؤں کے بغیر اس قسم کے انقلاب نہیں پیدا ہوا کرتے.جتنا مرضی آپ زور لگا ئیں، جتنی مرضی آپ کی صلاحیتیں بیدار ہو جائیں.جو کام میں آپ کو بتا رہا ہوں یہ آپ کے بس میں ہی نہیں ہے اگر خدا کی طرف سے غیر معمولی توفیق عطا نہ ہو.اس لئے خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں غیر معمولی طور پر ، اپنے لئے بھی اپنی جماعت کے لئے بھی اور یہ ارادہ لے کر اٹھیں کہ ہم نے یہ کر کے دکھانا ہے پھر دیکھیں خدا کے فضل سے کتنی عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوں گی اور دعا کا تو ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قبولیت دعا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق بہت زیادہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے.اتنا گہرا ہوتا جاتا ہے کہ دعا کرنے والی جماعت کا نہ دعا کرنے والی جماعت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں رہتا یعنی یوں کہنا چاہئے کہ نہ دعا کرنے والی جماعتوں کا دعا کرنے والی جماعتوں سے کوئی مقابلہ ہی نہیں رہتا کیونکہ ہر دفعہ جب مانگنے والا ہاتھ اپنے ہاتھ کو بھرا ہوا دیکھتا ہے تو جو یقین اور جوشکر اور حمد کے جذبات اس پر پیدا ہوتے ہیں جو خدا سے ایک نیا تعلق مضبوط باندھا جاتا ہے وہ دعا سے غافل آدمی کو تو نصیب ہی نہیں ہو سکتا اس کا تصور بھی نہیں پہنچتا.ابھی کل کی بات ہے مجھے ایک نواحمدی دوست کا ، جو گزشتہ سال احمدی ہوئے ہیں یہاں سے چلے گئے ہیں، ان کا خط آیا.انہوں نے بہت ہی پتے کی بات یہ کھی اور مجھے بڑا لطف آیا اور یقین ہوا کہ واقعہ جو شخص ان تجربوں سے گزرا نہ ہو اس کا خیال ہی نہیں آسکتا کہ اس قسم کی بات میں لکھوں.اس نے کہا احمدیت میں آکر میں نے یہ پایا وہ پایا لیکن سب سے زیادہ جو مجھے لطف آیا ہے احمدیت میں آکے وہ دعا کا ہے.باہر عمر گنوادی لیکن ہمارے ماحول میں دعا کا ذکر سرسری کبھی آجائے تو آجائے ور نہ اسے ایک مؤثر ذریعے کے طور پر اختیار ہی نہیں کیا جاتا اور ہو بھی نہیں سکتا.جہاں غیر اللہ کے سہارے لینے کی عادت پڑ جائے ، جہاں رشوت کا سہارا لینے کی عادت پڑ جائے ، جہاں طاقتور دوست کی سفارش کا سہارا لینے کی عادت پڑ جائے ، جہاں نا جائز ذریعے اختیار کرنے کے سہارا لینے کی عادت پڑ جائے وہاں دعا تو ایک طرف بیٹھی رہتی ہے بے چاری کبھی اتفاق سے خیال آیا تو آ گیا ورنہ

Page 95

خطبات طاہر جلد ۶ 91 خطبہ جمعہ ۶ / فروری ۱۹۸۷ء کوئی ایسی چیز نہیں ہے دعا ایسے لوگوں کے نزدیک جو زندگی میں کوئی اہم کردار ادا کرے، کوئی مؤثر کردار ادا کرے.تو وہ کہتے ہیں اوّل تو دعا کی کوئی اہمیت نہیں.دوسرے وہ دوست لکھتے ہیں کہ مجھے ایک اور لطف بہت آیا کہ ہم جب جن لوگوں کو کبھی رسما دعا کے لئے کہنے جاتے ہیں پیروں اور بزرگوں کو تو کبھی انہوں نے آگے سے یہ نہیں کہا کہ تم اپنے لئے بھی دعا کرو اور با قاعدہ کرو.وہ سمجھتے ہیں صرف ان کی دعا کی طاقت ہے اور وہ ہے ہی نہیں اور یا وہ ہاتھ اُٹھا کر نیچے گرا دیتے ہیں یا وہ کہتے ہیں ہم آپ کے لئے دعا کر دیں گے اور کام ہو جائے گا.کہتے ہیں میں نے جب بیعت کی تو میں نے آپ سے دعا کے لئے کہا تو آپ نے اسی وقت مجھے کہا کہ ہاں میں بھی کروں گا لیکن تم بھی اپنے لئے با قاعدہ دعا کرو.تو میں حیران رہ گیا کہ دعا کا ایک یہ پہلو بھی ہے.ایک زندہ فعال ایک آلہ کار ہے جسے ہر شخص استعمال کرسکتا ہے.تو اس لئے دعا کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح ایک حقیقت بنا کر پیش کیا ہے، بنا کر نہیں حقیقت دکھا کر پیش کیا ہے حقیقت تو یہ تھی ہی لیکن حقیقت ایسی تھی کہ دکھائی نہیں دے رہی تھی دنیا کو.اتنا زور دیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا یہ کہ آپ تعجب کریں گے کہ گزشتہ بزرگوں کی کتابیں کی کتابیں پڑھ جائیں ان میں اتناز دور دکھائی نہیں دے گا ، اجتماعی طور پر اتناز ور دکھائی نہیں دے گا جتنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا پر زوردیا اور اس مضمون کے ہر پہلو کو کھول کر بیان فرمایا.تو یہ جو منصوبہ ہے اس کی کامیابی کے لئے بہت دعاؤں کی ضرورت ہے اور ہر چیز میں دعا کے ذریعے برکت پڑے گی اور جب وہ برکت پڑے گی تو آپ کے ایمان میں نئی تازگی پیدا ہوگی، نیا روحانی رزق آپ کو حاصل ہوگا جس سے ایک نئی شخصیت وجود میں آنی شروع ہو جائے گی اور اس شخصیت کی ضرورت ہے جماعت کو اگلی صدی میں.اس نئی روحانی شخصیت کو جس نے خدا کو عملاً دیکھا ہواس کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کیا ہوتا کہ جو بہت عظیم کام ہمیں بعد میں کرنے ہیں ان کو ہم زیادہ بہتر رنگ میں زیادہ یقین اور عزم کے ساتھ اور زیادہ کامیابی کے ساتھ سرانجام دے سکیں.جہاں تک ملکوں کے منصوبے کا تعلق ہے جن ممالک کے سپر دنئے ممالک کئے گئے تھے ان میں سے بعض نے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی محنت کی ہے اور بہت ہی اللہ تعالیٰ نے ان محنتوں کو

Page 96

خطبات طاہر جلد ۶ 92 92 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء قبولیت سے نوازتے ہوئے پھل دیا اور بہت شیریں پھل دیا جو فوراً آگے بیج میں تبدیل ہو گیا پھر اس سے بھی اچھے پھل لگے تو بعض ممالک میں تو اس تحریک سے بڑی رونق آگئی ہے اور نئے نئے ممالک احمدیت میں داخل ہوئے ہیں اور خدا کے فضل سے اکثر و بیشتر داعیین الی اللہ کی محنت کا اس میں بہت دخل ہے اور جب نئے پودے لگ جاتے ہیں کسی ملک میں تو پھر باقاعدہ تربیت یافتہ مربیان بھی بھیجے جاتے ہیں پھر وہ اور زیادہ کام کو منظم کرتے ہیں.لیکن بعض ممالک ہیں جن میں ابھی تک غفلت ہے یا کام کا سلیقہ نہیں ہے.وقف عارضی کو استعمال کرتے ہیں لیکن اس طریق پر نہیں کہ کسی ایک جگہ بار بار بات دہرائی جائے یہاں تک کہ وہ اثر کرنے لگ جائے بلکہ وقف عارضی اس طرح ہوتا ہے جیسے کبھی ایک جگہ کوئی انسان گندم کا چھٹہ ڈال جائے کبھی کسی دوسری جگہ چلا جائے کبھی کسی تیسری جگہ چلا جائے اور پانی دینے لگے تو پانی دوسری زمینوں کو دینے لگے ایک دانہ بھی نہیں اُگے گا اس طرح تو.اُگے گا تو ضائع ہو جائے گا.وقف عارضی سے بھی اگر فائدہ اٹھانا ہے ان ملکوں کو تو منظم طریقے پر اٹھانا چاہئے جہاں پہلا وفد گیا ہے جو تعلقات اس نے قائم کئے ہیں انہیں تعلقات کا اعادہ جب تک نہیں کرتا اگلا وفد اور ا نہی جگہوں پر جا کہ محنت نہیں کرتا اس وقت تک یہ توقع رکھنا کہ ہم بڑا کام کر رہے ہیں اور اس کا پھل بھی ملے گا.قسمت سے قدرت سے تو پھل مل جائے تو الگ بات ہے اس سے تو انکار ہی نہیں ہے اور خدا دیتا رہتا ہے ایسے پھل مگر با قاعدہ منصوبہ بندی کے طریق پر پھل حاصل کرنے کا اسلوب نہیں ہے جو خدا نے ہمیں سکھایا ہو.اس کے لئے تو حکمت اور عقل کے ساتھ باقاعدہ ایسی محنت کو دُہرانا پڑے گا جو بار بار دہرانے کے بعد پھل دیتی ہے اور اسی طریقے اور منصوبے سے دہرانا پڑے گا.ہر کام کے اپنے اسلوب ہیں اپنے طریق ہیں ان کو اختیار کئے بغیر ہماری بہت سی محنتیں بالکل ضائع چلی جاتی ہیں ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا.اس لئے اپنے منصوبوں پر نظر ڈالیں.سارے ممالک جنہوں نے بعض نئے ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اسلام کا پودا لگا نا تھا وہ سوچیں کہ کیوں نہیں لگا سکے غفلتیں تھیں تو غفلتیں دور کریں اگر منصوبے میں کمزوریاں تھیں تو ان کو ٹھیک کریں اور دعاؤں میں کمی تھی تو دعائیں کریں.بہر حال میدان کا اپنا کام ہے کہ اپنے گردوپیش کا جائزہ لے کر از سر نو بلند عزم کے ساتھ یہ کام شروع کر دیں.سب سے بڑا خلا جواب تک محسوس ہوا ہے وہ جنوبی امریکہ کے براعظم میں محسوس ہوا ہے.

Page 97

خطبات طاہر جلد ۶ 93 88 خطبہ جمعہ ۶ / فروری ۱۹۸۷ء حیرت کی بات ہے کہ باوجود اس کے کہ باہر سے جانے والے احمدی تو وہاں آباد ہوئے ہیں مختلف ممالک میں مثلاً ہنگری میں جب انقلاب آیا تو ہنگری کے انقلاب سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں جماعت کثرت سے پھیلنا شروع ہوئی تھی یعنی خصوصا مسلمانوں میں.وہ لوگ جو ہجرت کر گئے جنوبی امریکہ میں اُن کے کہیں کہیں سے خط آتے رہے، کہیں کہیں سے ان کی اطلاعیں ملتی رہیں جو آہستہ آہستہ کم ہونے لگیں اور ایک لمبے عرصے میں وہ تعلق بھی ٹوٹ گیا.سوائے اتفاقاً کبھی کوئی آواز دوبارہ آجاتی ہے.اس سے یہ تو پتہ چلتا ہے کہ آج سے چالیس پچاس سال پہلے سے ہی وہاں جنوبی امریکہ کے مختلف ملکوں میں دانہ دانہ کہیں کہیں احمدیت پہنچی ہے لیکن پھر اس نے نشو نما پائی یانہیں پائی ان لوگوں کا کیا بنا اس کا ہمیں علم نہیں ہے.بعض جگہوں پر پاکستان سے جاکے بسنے والے بھی موجود ہیں مگر مقامی نہیں تھے تو اللہ تعالیٰ نے اس نئے سال میں یہ پہلا فضل نازل فرمایا کہ برازیل میں پہلی دفعہ مقامی دوستوں میں سے جو عیسائی تھے ان میں خدا تعالیٰ نے احمدیت میں داخل ہونے والے پھل عطا فرما دئیے اور ایک خاتون جو بہت تعلیم یافتہ ہیں ان کے بعد بعض نوجوان بھی خدا کے فضل سے اسلام اور احمدیت میں داخل ہوئے اور اب وہاں امید بندھی ہے کہ انشاء اللہ مقامی طور پر ایک تحریک پرورش پائے گی لیکن یہ ایک ہی ملک ہے صرف ابھی تک اور میں سمجھتا ہوں کہ اگلی صدی سے پہلے اگر چہ وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے لیکن کام تو اللہ نے کرنے ہیں اگر دعا اور خلوص اور ہمت لے کر ہم کوشش کریں تو بعید نہیں کہ اس بر اعظم کے ہر ملک میں مقامی طور پر پودا لگا دے.یہ وہ خیال ہے جس کے متعلق میں سوچتا رہا تو میرے ذہن میں یہ تجویز ابھری ہے کہ تحریک جدید کی طرف سے وکیل اعلیٰ جو آج کل یہاں آئے ہوئے ہیں وہ منصوبہ بندی کمیٹی کے مشورے کے ساتھ بعض ممالک ایک سے زیادہ ملکوں کو بے شک تقسیم کریں لیکن یہاں پندرہ دن والے وقف کی سکیم کام نہیں کر سکتی.چھ مہینے یا سال کے یا چھ چھ مہینے اور سال سال کے وقف کی تحریک زیادہ مؤثر ثابت ہو گی اور اس ضمن میں ایک بالکل نئی طرز پہ کام کرنا پڑے گا.عام جوطریق ہے عارضی وقف کا اُس کے اوپر یہ کام نہیں ہو سکتا.ایسے ممالک جن کے سپر د وہ جگہ ہو وہ تلاش کریں، ایسے ریٹائرڈ آدمی یا ایسے کام کرنے والے جو لمبی چھٹی لے سکتے ہوں اور اگر ان کو توفیق نہ ہو تو سارا ملک ان کے لئے اخراجات مہیا کرے اور ان سے کہیں کہ فرض کفایہ ادا کرو ہم سب کی طرف سے اور

Page 98

خطبات طاہر جلد ۶ 94 خطبہ جمعہ ۶ / فروری ۱۹۸۷ء ویزوں کا بھی خود انتظام کرو.لٹریچر اور رہنمائی کا جہاں تک تعلق ہے وہ تحریک جدید سے وہ حاصل کریں اور کہاں جا کہ بیٹھنا ہے یہ بھی تحریک جدید ہی ان کی رہنمائی کرے اور پھر جا کے وہاں بیٹھ جائیں، دھونی رمالیں ان درویشوں کی طرح جو پہلے بھی خدا کی راہ میں نکل کے ملک فتح کرتے رہے ہیں.تو وہاں جا کے اپنا اور اپنے ملک کا نام ہمیشہ کے لئے ثبت کر دیں.دنیا کی قوموں سے تو ہمارا مقابلہ نہیں ہو سکتا مادی ترقیات میں لیکن خدا نے جس میدان کی چوٹیاں فتح کرنے کے لئے ہمیں پیدا کیا ہے وہ بلند تر چوٹیاں ہیں اور بہت ہی عظیم الشان چوٹیاں ہیں.ہمالہ فتح کرنے والوں کے نام تو ضرور ثبت ہوئے وہاں لیکن آئندہ نسلیں جس شان کے ساتھ ان لوگوں کو یاد کریں گی جنہوں نے خدا کی راہ میں ممالک فتح کئے ہیں ان کی شان کا وہ ہمالہ کی چوٹیاں فتح کرنے والا تو مقابلہ نہیں کر سکتا.آج اس کی زیادہ عزت ہے، آج وہ زیادہ معروف ہے دنیا میں، آج اس کا نام دنیا کے ریڈیو، ٹیلی ویژن پر زیادہ احترام سے لیا جاتا ہے مگر لازما وہ وقت آئے گا جب کہ ارب ہا ارب دنیا کے انسان ان ناموں کو تو بھول چکے ہوں گے مگر درود اور سلام بھیجیں گے ان لوگوں پر محمد مصطفی ﷺے اور ان کے ان غلاموں پر جنہوں نے اسلام کے لئے نئے نئے ممالک فتح کئے ہیں.بہت ہی عظیم الشان کام ہے اس کو اگر فوری طور پر تقسیم کر کے مشورے کے ساتھ یا Alternative مشورے بھی بھیج دیئے جائیں گے اگر آپ کے لئے یہ مناسب نہیں تو اور دوسری جگہ لے لیں اپنی پسند کی تو جنوبی امریکہ کے ہر ملک میں یہ عزم لے کر بڑھیں آگے کہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ اسلام کا اور اسلام کے احیائے نو کا پودا راسخ کر دینا ہے اور کوشش کرنی ہے کہ مضبوط جماعت مقامی دوستوں کی وہاں پیدا ہو جائے.اتنی کثرت سے اب دنیا میں جماعتیں پھیل چکی ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ اور ذرائع بھی ایسے وسعت پذیر ہیں کہ یہ کام اگر حکمت کے ساتھ تقسیم کیا جائے تو کچھ زیادہ بوجھ معلوم ہی نہیں ہو گا.بہت آسانی کے ساتھ خدا کے فضل کے ساتھ یہ دوسرے کاموں کے ساتھ ضمنا ہونا شروع ہو جائے گا.اس کے علاوہ کچھ انفرادی ذمہ داریاں ہیں جن کی طرف مجھے دوبارہ توجہ دلانا ہے.انفرادی طور پر ہر شخص، ہر مومن ہر وقت کوشش میں رہتا ہے کہ میری کچھ کمزوریاں کم ہوں اور کچھ خوبیاں نئی مجھ میں پیدا ہو جائیں اور اس کے متعلق وہ پھر دعا بھی کرتا ہے، دعاؤں کے لئے لکھتا بھی ہے اور جب وہ

Page 99

خطبات طاہر جلد ۶ 556 95 خطبہ جمعہ ۶ / فروری ۱۹۸۷ء بے بس ہو جاتا ہے ان کمزوریوں کے مقابل پر تو اور زیادہ بے چین اور پریشان ہوتا ہے.آگے جو آپ کو منزل نظر آ رہی ہے اس کو اگر آپ سامنے رکھ کر اپنی کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کریں اور دعا یہ شروع کر دیں کہ اے خدا ! نئی صدی میں میں داخل نہ ہوں جب تک میری کمزوریاں مجھ سے جھڑ نہ چکی ہوں اور بعض نئی خوبیاں مجھ میں پیدا نہ ہو چکی ہوں.تو یہ عزم اور یہ قریب آتی ہوئی منزل آپ کی بہت مدد کرے گی اور عام حالات میں جن گناہوں کا مقابلہ آپ نہیں کر سکتے تھے یہ ایک نیا رجحان آپ میں گناہوں کا مقابلہ کرنے کی مزید طاقت پیدا کر دے گا.تو دعاؤں کے ساتھ انفرادی کمزوریاں بھی دور کرنے کی کوشش کریں اور اپنے گھر اور اپنے ماحول پر نظر ڈال کر ان کی کمزوریاں بھی دور کرنے کی کوشش کریں لیکن اعتراض کا نشانہ بنا کر نہیں ، طعنے دے کر نہیں.جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت کو نصیحت فرمائی محبت اور پیار اور خلوص کے ساتھ نصیحت کرتے ہوئے ، ان کے لئے دعائیں کرتے ہوئے عاجزی اور انکساری کے ساتھ کوشش کریں کہ اپنے ماحول میں سے بھی کچھ برائیاں دور کریں کچھ نئی خوبیاں پیدا کر دیں.اس ضمن میں جہاں تک گھروں کا تعلق ہے مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ابھی تک احمدی گھروں میں بہت سے دکھ موجود ہیں جو محض یا تو خاوند کی بد خلقی کی وجہ سے ہیں یا بیوی کے عدم تعاون اور نیکی کی کمی کی وجہ سے ہیں یا ایسی ساس کی وجہ سے ہیں جس نے آنے والی کو اپنی بیٹی نہیں سمجھا اور یا ایسی بہو کی طرف سے ہیں جس نے اپنی ساس کو ماں کا مقام نہیں دیا اور طرز عمل کی کجی ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں اور جو یوں ٹھیک ہو سکتی ہے کہ ایک آنا فانا دل کا ارادہ ہو اور خدا سے توفیق ملے تو فوراً دفع ہو سکتی ہے لیکن توجہ نہیں ہے.انا کا مسئلہ بنا ہوا ہے ہر جگہ.پھر بعض لمبی عادتیں ہیں جو ایسے گھر کے ماحول کو بگاڑ رہی ہیں مثلاً ایک خاوند دیر سے بد خلق ہو چکا ہے بات بات میں اس کے ترشی ہے اس کی بات میں سختی اور طعن ہے، وہ بچوں کی تربیت بھی سختی سے کرنا چاہتا ہے، بیوی کے اوپر بھی ہر وقت کی تنقید کہ گھر میں ایک عذاب کا ماحول بنایا ہوا ہے اس نے اور سمجھتا ہے کہ اسی میں میری بڑائی ہے کہ میں زور اور ڈنڈے کے ساتھ اپنے گھر پر حکومت کر رہا ہوں.بعض بیویاں ہیں جو مجھتی ہیں کہ جب تک میں نشوز نہ کروں خاوند کے خلاف، جب تک انگوٹھے کے نیچے نہ رکھوں اس وقت تک گھر میں امن

Page 100

خطبات طاہر جلد ۶ 96 96 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء نہیں آسکتا.یہ ساری جہالت کی باتیں ہیں.حکومت محبت ہی کی ہے اور لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرہ: ۲۵۷) میں یہ بھی مفہوم ہے.دین کا مضمون تو بہت ہی وسیع ہے جہاں جہاں آپ انحراة داخل کریں گے خواہ وہ عائلی زندگی ہو وہاں جہنم بناتے چلے جائیں گے اس زندگی کو اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی اور جہاں محبت اور پیار اور دعا سے حالات کو خوشگوار بنانے کی کوشش کریں گے اور اپنی بدخلقیوں کو بالا رادہ دور کرنے کی کوشش کریں گے.نفرت کی بجائے محبت پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، ترش روئی کے بجائے نرم گفتاری پیدا کرنے کی کوشش کریں گے، کسی سے جبر ا چھیننے کی بجائے ایثار پیدا کرنے کی کوشش کریں گے وہاں وہاں آپ کو محسوس ہو جائے گا کہ آپ جنت کی طرف چلنا شروع کر چکے ہیں.آپ کا ہر قدم بہتری کی طرف روانہ ہوا ہے اور جب تک یہ سفر شروع نہیں کریں گے اس سفر کی منزلیں طے کیسے ہوں گی.تو اکثر جو جھگڑے اور جو شکائتیں مجھ تک پہنچتی ہیں اور کوئی دن بھی ایسا نہیں ہوتا جب کہ بیسیوں خطوط یہ ذکر لئے ہوئے نہیں آتے.میں نے اندازہ لگایا ہے کہ بے وجہ کا عذاب ہے جو اپنے او پر لوگوں نے سہیڑا ہوا ہے اور صرف ان کے ارادے کا دخل ہے پر خلوص ارادے کا جس کے ساتھ دعائیں شامل ہوں.اگر وہ آج ارادہ کر لیں کہ ہم نے اپنے گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانا ہے تو کل وہ گھر خوشگوار بن سکتا ہے اور دوسرے دعاؤں کی کمی ہے.پہلے بھی میں نے توجہ دلائی تھی کہ قرآن کریم نے یہ دعا سکھائی ہے بڑی خوبصورت دعا ہے: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إمَامًا ( الفرقان: ۷۵) یہ دعا کیوں نہیں پڑھتے اور تقویٰ اور خلوص کے ساتھ سوچ سمجھ کے.یہ دعا اگر پورے خلوص کے ساتھ سوچ کر سمجھ کر اس کے معنی کیا ہیں آپ پڑھیں گے تو اس کا پھل بھی پائیں گے اسکے نتیجے میں آپ کی کوششوں میں بہت برکت پڑے گی.بعض لوگوں نے توجہ کی اور فائدہ بھی اُٹھایا.بعض دفعہ بعض خواتین نے بہت ہی بیقراری سے خط لکھے کہ ہمارا یہ حال ہو چکا ہے اور ساری کوششیں ناکام ہو گئی ہیں دعا بھی کرتے ہیں اب آپ دعا کے ذریعے میری مدد کریں اور میں یہ نہیں چاہتی کہ میرے خاوند کو ڈانٹیں اس سے خفا ہوں کیونکہ اس کے نتیجے میں میرے گھر کا ماحول اور زیادہ تباہ ہو گا لیکن دعا کریں اور اللہ تعالیٰ نے بعض دفعہ اس

Page 101

خطبات طاہر جلد ۶ 97 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء طرح درد کے ساتھ دعا کی توفیق بخشی کہ چند مہینے کے اندر اندر بعض دفعہ چند ہفتوں کے اندراندران کا خط آیا کہ سمجھ نہیں آئی کیا ہوا ہے لیکن بالکل اچانک پلٹا کھا گیا ہے ان کا مزاج اور خدا کے فضل سے نیکی کی طرف مائل ہو گیا ہے.تو میں تجربے سے بتا رہا ہوں آپ کو کہ دعا کی بہت بڑی قیمت ہے جو آپ وصول نہیں کرتے خواہ مخواہ.اپنے گھروں کے ماحول کو سجانے اور خوشگوار بنانے میں دعاؤں کو استعمال کریں اور دعا سے خلوص نیت پیدا ہوتا ہے.اگر آپ بغیر دعا کے نتیں باندھتے ہیں تو بعض دفعہ ان میں خرابی رہ جاتی ہے اس میں کھو کھلا پن ہوتا ہے لیکن جب آپ دعا کرتے ہیں نیت کے ساتھ تو خدا سے چونکہ مانگ رہے ہوتے ہیں اس لئے نیت بھی ساتھ ساتھ پر کھی جاتی ہے.اس میں زیادہ سنجیدگی پیدا ہو جاتی ہے، اس میں زیادہ عزم آجاتا ہے.تو اپنے گھروں کے ماحول کو بھی سجائیں بہت عظیم الشان جشن ہے یہ.یہ جشن کوئی ایسا نہیں ہے جو صرف جھنڈیوں سے یا روشنیاں جلا کر خوبصورت دکھایا جائے گا.یہ وہ تزئین ہے جو میں بتا رہا ہوں اس سے آپ نے یہ جشن منانا ہے اور اس کے لئے تیاری کرنی پڑے گی ابھی سے دور نہ اچانک ایک دن میں تو آپ کے گھر کا ماحول خوبصورت نہیں ہو جائے گا.پھر نمازوں کی طرف توجہ کریں گھر میں ابھی بھی بہت سے بچے ایسے ہیں جو نمازوں سے غافل ہیں اور ماں باپ ان کو بچپن سے عادت نہیں ڈالتے تلاوت سے ناواقف ہیں اور اس کی عادت نہیں ڈالتے.بہت سی کمزوریاں ہیں گھر کے ماحول میں اب وقت ہے کہ آپ بھی توجہ کریں اور جماعت بھی آپ کو وقتا فوقتا یاد دہانی کرواتی رہے اور آپ کی مدد کرے ان چیزوں کو حاصل کرنے میں.ایک آخری بات لیکن وہ بھی بہت ہی اہم ہے وہ لین دین کو سنوارنا ہے.بہت ہی تکلیف ہوتی ہے جب یہ پتا چلتا ہے کہ ایک احمدی نے کسی دوسرے احمدی کا پیسہ کھالیا ہے یا ایک احمدی نے کسی غیر احمدی کا پیسہ کھا لیا ہے.بعض دفعہ غیر احمدی خط لکھتے ہیں کہ ہم کچھ نہیں کر سکتے عدالت میں بھی نہیں جا سکتے کیونکہ ہمارے پاس ایسے ثبوت نہیں ہیں نہ اتنی توفیق ہے لیکن ہے وہ احمدی اور احمدیت پر اعتبار کر کے میں نے اس کو یہ پیسے دیئے اور وقت کے اوپر اس کے کام آیا لیکن اب وہ واپس نہیں کر رہا اور بسا اوقات ایسی شکائتیں بچی نکلیں.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میرے کہنے کی وجہ سے ان دوستوں نے ، اکثر دوستوں نے بہت اچھا رد عمل دکھایا اور پہلی غفلت کی تلافی کی اور ان

Page 102

خطبات طاہر جلد ۶ 98 98 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء کی رقم واپس کر دی لیکن یہ موقع کیوں آیا کہ آپ کی غفلت کا طعنہ خلیفہ وقت کو دیا جائے اور ساری جماعت کو بدنام کرنے کا ایک موقع مہیا کیا جائے.لیکن اس سے قطع نظر لین دین کے معاملے کی صفائی بہت ہی ضروری ہے کیونکہ لین دین میں اگر آپ گندے رہیں گے تو نہ آپ کی دعاؤں میں برکت ہوگی ، نہ آپ کی اولاد کی تربیت میں برکت ہوگی ، نہ سچا امن اور چین آپ کو نصیب ہوسکتا ہے کیونکہ گندے مال کا زہر جو ہے وہ ہر چیز کوگندہ کر دیتا ہے اور خصوصا گندے مال کی بھی مختلف قسمیں ہیں جو بدیانتی اور دھو کے کا پیسہ ہے وہ تو کسی احمدی کو ہضم ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کی سزا خدا تعالیٰ احمدی اگر ہے تو اپنی باقی باتوں میں سچا ہے تو خدا تعالیٰ اس کو بعد میں جہنم میں ڈالنے کی بجائے اس دنیا میں ہی سزا دے دیتا ہے پھر وہ بد سے بدتر حال میں منتقل ہونا شروع ہو جاتا ہے.اس لئے لین دین میں احتیاط کریں، ہودی کا روبار سے سوائے اس کے کسی ملکی قانون کی وجہ سے مجبوری ہے بے انتہا.اس کراہت کے ساتھ جس کراہت کے ساتھ سو رکھانے کی اجازت ہے اس کے ساتھ سودی کاروبار کرنا ہو تو کریں ورنہ اس کو ختم کریں.نئے رستے نکالیں اپنے اموال میں برکت پیدا کرنے کے اور ایک دوسرے سے لین دین میں صاف ہوں اور غیروں سے خصوصیت کے ساتھ لین دین میں صاف ہوں.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو جشن منانے میں بہت بڑی مدد ملے گی.کتنا عظیم الشان جشن ہوگا اس جماعت کا جس کے گھر عائلی زندگی میں سنت پر عمل کرنے کے نتیجہ میں جنت نشان بن چکے ہوں.یہ لین دین کے معاملات ایک دوسرے کے پیسے غصب کرنے میں نہیں بلکہ ایک دوسرے کے لئے ایثار کی بنیادوں پر قائم ہوئے ہوں اور جن کے گھر دعاؤں اور درود اور سلام کی آوازوں سے اور خدا کی راہ میں گریہ وزاری اور عبادتوں کے نتیجہ میں ایک ایسی موسیقی پیدا کر رہے ہوں کہ جس کی کوئی مثال دنیا کی کوئی تہذیب بھی پیش نہیں کر سکتی.کہاں وہ نئی طرز کے موسیقی کے پروگرام جہاں معلوم ہوتا ہے کہ انسانیت عمدا موسیقی کے جھنڈ میں ڈوب کر خود کشی کرنے کے ارادے سے اس میں داخل ہوئی ہے.کہاں خدا کی یاد میں بلند ہونے والی آواز میں خواہ وہ سکیاں ہوں ہلکی آواز کی یا بلند آواز میں رو رہے ہوں یا تلاوت کی آوازیں ہوں کہاں ذکر الہی کی صدائیں یہ اور موسیقی ہے جو اسلام نے ہمیں سکھائی ہے.بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام آرٹ کے خلاف ہے اور اسلام میں آرٹ کو

Page 103

خطبات طاہر جلد ۶ 99 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء پروموٹ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے.چنانچہ موسیقی کا اعتراض مغرب میں اکثر کیا جاتا ہے ان کو میں سمجھا تا ہوں کہ جو لوگ اپنی موسیقی کی تمنا کو مغربی طرز کی موسیقی کے ذریعے تسکین دینے کی کوشش کرتے ہیں وہ قومیں بسا اوقات اور اکثر صورتوں میں خدا کے ذکر کی لذت سے نا آشنا ہو جاتی ہیں.وہ ایسی مادی قسم کی موسیقی کا ذریعہ ان کو حاصل ہو جاتا ہے کہ اس کے نتیجے میں جو فطرت کے اندر دبے ہوئے لطیف خدا تعالیٰ نے آلات رکھے ہیں جو ذکر الہی سے لذت پانے والے ہیں جو موجود ہیں جن سے استفادہ نہیں کیا گیا وہ دبتے دبتے دب جاتے ہیں، مرتے مرتے مر جاتے ہیں یہاں تک کے سوائے دنیا کی چھن چھن کے اور کوئی چیز آپ کے اندر تحریک نہیں پیدا کرسکتی ، آپ کے اندر ارتعاش نہیں پیدا کرسکتی.تو بے خدا ہونے کا ایک طریق بن جاتا ہے.ایک رستہ ہے جو آپ کو روحانی لذتوں سے دور لے جا رہا ہے اور روحانی لذتوں کی قابلیت آپ کے اندر مارتا چلا جاتا ہے دن بدن.اس لئے اگر کوئی پوچھتا ہے کہ موسیقی بالکل حرام ہے تو میں کہتا ہوں یہاں تو کان میں پڑے بغیر گزارہ ہی نہیں لیکن موسیقی کی تمنا اور اس میں جذب ہونا حرام ہے یقیناً کیونکہ اس کے بعد پھر تم ذکر الہی کے قابل نہیں رہو گے.ذکر الہی کو اہمیت دو اور اس کو غالب رکھو پھر اِلَّا اللَّمَمَ (النجم :۳۳) کے اندر کوئی ایسی باتیں آجاتی ہیں تو ان پر اس طرح پکڑ نہیں کی جاسکتی لیکن لازما وہ موسیقی جو فطرت کے تاروں میں روحانی ارتعاش پیدا کرتی ہے وہ موسیقی جو آپ کو ملاء اعلیٰ کے طیور کے گانے سکھاتی ہے وہ موسیقی سیکھیں اور اس موسیقی سے اپنے گھروں کے ماحول کو مترنم کر دیں.اس طرح یہ نغمے گاتے ہوئے اور یہ ساز بجاتے ہوئے نئی صدی میں داخل ہوں کہ عرش پر بھی آپ کی موسیقی کی صدائیں ایک خاص گن کے ساتھ سنی جانے لگیں اور ایک خاص پیار اور محبت کے ساتھ اس طرح فرشتے آپ کی اس موسیقی کی نقل اتاریں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میرے گانے وہ ہیں جن کو آسمان پر فرشتے بھی گاتے ہیں.پس آپ فرشتوں کو موسیقی سکھانے والے موسیقار بن جائیں اور اگلی صدی میں اس طرح داخل ہوں کہ ساری دنیا کو ایک نئے انداز میں موسیقی سکھانے والی صرف اور صرف جماعت احمدیہ ہو اور اوّل اور آخر جماعت احمدیہ ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: بعض دوستوں کا، احباب کا اور خواتین کا جنازہ آج جمعہ اور عصر کے بعد پڑھا جائے گا، جنازہ

Page 104

خطبات طاہر جلد ۶ 100 خطبہ جمعہ ۶ فروری ۱۹۸۷ء غائب.ان میں سے ایک تو ہمارے چوہدری عطا محمد صاحب تحصیلدار بڑے جماعت کے مخلص فدائی آدمی تھے جن کے بیٹے چوہدری عبد اللطیف صاحب مغربی جرمنی کے مبلغ رہے ہیں اور چوہدری محمد رشید صاحب بھی ان کے بیٹے ہیں ربوہ میں اور بھی بچے ہیں خدا کے فضل سے اکثر دین میں اچھے ہیں.چوہدری عطا محمد صاحب کی بیوہ یعنی چوہدری عبد اللطیف صاحب سابق مبلغ جرمنی کی والدہ وفات پاگئی ہیں.اسی طرح مولوی محمد اسماعیل صاحب اسلم ( صد ر محلہ دارالیمن وسطی ربوہ) ان کے بھتیجے سعادت احمد صاحب عین جوانی کے عالم میں ایک بس کے حادثے کا شکا ر ہو گئے ، ان کی بھی نماز جنازہ ہوگی.مکرمہ امته الرشید بیگم صاحبہ اہلیہ شیخ عبد اللطیف صاحب سمن آباد لاہور کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے اور اسی طرح ہمارے سلسلہ کے ایک واقف زندگی اور مصروف مبلغ جو غالبا مسقط کے پہلے مبلغ تھے مولا نا روشن دین صاحب ان کی اہلیہ امتہ الرحیم صاحبہ بھی وفات پاگئیں ہیں.ان سب کی نماز جنازہ نماز جمعہ اور عصر کے بعد ہوگی.

Page 105

خطبات طاہر جلد ۶ 101 خطبه جمعه ۱۳ فروری ۱۹۸۷ء آخرت پر یقین کی لطیف تفسیر فتح دین پر یقین کامل رکھتے ہوئے دعوت الی اللہ تیز کریں خطبه جمعه فرموده ۱۳ فروری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی :.المة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ) أُولَبِكَ عَلَى هُدًى مِّنْ رَّبِّهِمْ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) ق (البقره: ۲-۶) سورہ بقرہ کی یہ جو ابتدائی آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں ایمان اور یقین دو اصطلاحیں استعمال فرمائی گئی ہیں.بسا اوقات انسان کے لئے یہ فرق سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے کہ کیوں بعض چیزوں پر ایمان کا حکم ہے اور بعض چیزوں پر یقین کا اور یقین اور ایمان کا آپس میں کیا تعلق ہے اور بغیر یقین کے ایمان کیسے پیدا ہو سکتا ہے یا اس کے برعکس صورت پیدا ہوتی ہے.یہ سارے

Page 106

خطبات طاہر جلد ۶ 102 خطبه جمعه ۱۳ار فروری ۱۹۸۷ء سوالات ہیں جو انسانی ذہن میں اٹھتے ہیں اور قرآن کریم نے آخرت پر یقین کا تو ذکر فرمایا لیکن خدا کی ہستی پر یقین کا یا انبیاء کی ہستی پہ یقین کا یا قرآن کریم پر یقین کا یا ملا ئکتہ اللہ پر یقین کا کوئی ذکر نہیں فرمایا.پس لازما کوئی اہم فرق ہے ایمان اور یقین میں جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے.اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو کئی قسم کے فرق ہمارے سامنے ابھرتے ہیں.بعض ایسے بنیادی اور اہم فرق ہیں جن کا ذکر آج میں ضروری سمجھتا ہوں.ایمان جن چیزوں پر لانا ضروری ہے وہ چیزیں اپنی ذات میں مستحکم ہیں اور کسی کے ایمان لانے پانہ لانے سے ان کا کوئی بھی تعلق نہیں.ان کے وجود پر ایک ذرہ بھی اثر اس بات کا نہیں پڑتا کہ کوئی شخص ایمان لایا ہے یا نہیں لایا.اللہ ہے وہ ان معنوں میں مستغنی ہے کہ باوجود اس کے کہ سب سے یقینی ذات اور ہر یقین کا منبع وہ ہے.اس کے باوجود جہاں تک ایمانیات کا تعلق ہے کروڑ ہا وجود، ارب ہا وجود پیدا ہوں اور بے ایمان کے مر جائیں تب بھی خدا کی ہستی پر اس کی ذات کے استحکام پر کوئی فرق نہیں پڑتا.اسی طرح ملائکہ کا وجود ہے ان پر کوئی ایمان لاتا ہے یا نہیں لا تاملائکہ کا وجود اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کے سہارے قائم ہے.اسی طرح کتابوں کا معاملہ ہے اور اسی طرح انبیاء کا معاملہ ہے اور اسی طرح یوم آخرت کا معاملہ ہے.آخرت پر ایمان لانا بھی ضروری ہے لیکن یہاں قرآن کریم نے جس آخرت کا ذکر فرمایا ہے اس پر یقین لانا ضروری ہے.ایمان والی آخرت سے یقین والی آخرت میں ایک فرق ہے جس کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.ایمان کا جہاں تک تعلق ہے آپ اگر اس پر بہت غور کریں تو اس کے کئی پہلو سامنے آئیں گے مگر اس کا جو بنیادی مرکزی نقطہ ہے ایمان کو مجھنے کا وہ پہلی آیت میں جہاں ایمان کا ذکر ہے وہیں مذکور فرما دیا گیا ہے.یؤمنون بالغیب وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور یقین کا جہاں تک تعلق ہے یقین حاضر پر ہوا کرتا ہے،شاہد پر ہوا کرتا ہے.یقین کا تعلق قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے تین چیزوں سے ہے علم سے ہے، روئیت سے ہے اور تجربے سے ہے.علم الیقین سب سے کمزور یقین ہے وہ مشاہدے کی پہلی شکل ہے اور عین الیقین اس سے زیادہ قوی یقین ہے یعنی جب مشاہدہ آنکھوں کے ذریعے ہو صرف کان کے ذریعے اطلاع نہ پہنچے اور حق الیقین تجربے کے یقین کو کہتے ہیں جس پر آج کی سائینٹفک دنیا زور دیتی ہے.پس

Page 107

خطبات طاہر جلد ۶ 103 خطبه جمعه ۱۳ فروری ۱۹۸۷ء Hypothesis اور Theory اور Experimental Truth یہ تین چیزیں ہیں جو سائنس کی اصطلاحوں میں اور طرح بیان کی جاتیں ہیں مذہب کی اصطلاح میں اور طرح بیان ہوتی ہیں یکن بنیادی طور پر ایک ہی چیز کی دو مختلف شکلیں ہیں.تو یقین کا تعلق تو رؤیت سے ہے، یقین کا تعلق تو تجربہ سے ہے.پھر وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ کیوں فرمایا ؟ اس مسلئے پر جب ہم غور کریں گے تو کچھ اور باتیں سبق ہمیں حاصل ہوں گے.لیکن ایک اور پہلو سے ایمان کا جو تعلق شہادت سے ہے وہ بھی قابل توجہ ہے اس پر بھی کچھ غور کرنا چاہیئے.امر واقعہ یہ ہے کہ ایمان یقین پیدا کرتا ہے اور شہادت کا یقین سے تعلق ہے اس لئے ایمان کے نتیجے میں یقین پیدا ہوتا ہے ایمان جتنا کامل ہوا تنا یقین کی طرف لے کے جاتا ہے.پس ایمان یقین کا بچہ نہیں لیکن یقین ایمان کا بچہ ہے.شہادۃ سے ایمان پیدا نہیں ہوتا ایمان کے نتیجے میں شہادۃ پیدا ہوتی ہے غیب سے شہادۃ کا جو تعلق ہے وہی ایمان کا شہادت اور یقین سے تعلق ہے.پس غیب کا بھی شروع میں ذکر فرما دیا يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ اور خدا تعالیٰ کو علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ (الحشر :۲۳) قرار دیا.پہلے ایمان کے ذریعے خدا پہچانا جاتا ہے جو غیب سے تعلق رکھتا ہے اور پھر جوں جوں ایمان انسان کو یقین کی طرف لے کر بڑھتا ہے اس کے ساتھ ساتھ انسان بھی خدا کو شہادت کے طور پر دیکھنے لگتا ہے.ایسے وجود کے طور پر اس کو دیکھنے لگتا ہے جو ہر طرف اس کو دکھائی دینے لگتا ہے اور ایمان یقین میں بدلنے کا نام ہی وہ شہادت ہے جسے ہم کلمہ شہادۃ کہتے ہیں.اس لئے ہر شخص کا کلمہ پڑھنا ایک مقام کا نہیں ہے.کلمہ کا سفر ایک لا متناہی سفر ہے.آغاز میں کلمہ پڑھنے والے اور طرح کی گواہی دے رہے ہوتے ہیں اور مقام محمدی پر فائز حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کلمہ ایک اور طرح کی گواہی دے رہا تھا.کچھ کلمہ پڑھنے والے ایسی گواہی دیتے ہیں کہ انہیں بعض چیزیں خدا نماد کھائی دیتی ہیں.بعض کلمہ پڑھنے والے ایسی گواہی دیتے ہیں کہ کائنات کی ہر چیز ان کے لئے خدا نما ہو جاتی ہے.چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا ( در این صفحه ۱۰)

Page 108

خطبات طاہر جلد ۶ 104 خطبه جمعه ۱۳ار فروری ۱۹۸۷ء کوئی ذرہ کا ئنات کا ایسا نہیں رہتا جہاں خدا کو شہادت کے طور پر نہ دیکھیں.پس وہاں کلمہ شہادہ ایک بالکل اور مقام رکھتا ہے ایک اور مرتبہ کا کلمہ ہو جاتا ہے بنسبت ایک غافل آدمی کے شہادت کے کہ جس کی شہادت یقین کی بناء پر نہیں بلکہ علم کی بنا پر ہوتی ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ عین الیقین کی بناء پر نہیں بلکہ علم الیقین کی بناء پر ہوتی ہے اور جب شہادت آگے بڑھ جاتی ہے تو پھر حق الیقین تک پہنچ جاتی ہے.پس ایمان کے نتیجے میں یقین کا پیدا ہونا ایک لازمی امر ہے.اگر ایمان سچا ہو، اگر ایمان قوی ہو اور برحق ہوتو لا زما وہ ایمان انسان کو یقین کی طرف لے کر بڑھتا ہے یہاں تک کے مستقبل میں ہونے والے واقعات پر یقین پیدا ہو جاتا ہے.وہ اور طرح کا غیب ہے.مستقبل میں جو ہونے والے واقعات ہیں ان کے اوپر یقین ایمان براہ راست ایمان سے تعلق رکھتا ہے اور ایمان کے پختہ ہونے کے نتیجے میں مستقبل بھی ایک قسم کی شہادت کے طور پر دکھائی دینے لگتا ہے.یہاں جس آخرت کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ آخرت کئی معنوں میں استعمال ہو سکتی ہے لیکن ایک بنیادی سب سے اہم معنی میرے نزدیک آخری کامیابی ہے، آخری غلبہ ہے.وہ فتح جو خدا تعالیٰ کے نزدیک اسلام سے وابستہ ہے اور جس نے لازما تمام دنیا پر اپنا اثر دکھانا ہے اس فتح پر یقین کی طرف اس جگہ پہلی آیت میں اشارہ فرمایا گیا ہے، ان ابتدائی آیات میں اشارہ فرمایا گیا ہے.وَ بِالآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ وہ اتنے کامل الایمان لوگ ہیں کہ ان کی ایمان کے نتیجے میں خدا تعالیٰ انہیں یقین کے مختلف منازل طے کراتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ چیزیں جو اندھیروں میں غائب ہیں جو دور کی باتیں ہیں ان پر بھی وہ کامل یقین رکھتے ہیں.اب ایک اور پہلو سے جب ہم ایمان کا یقین سے موازنہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ایمان تو صرف مذہبی اصطلاح ہے اور اہل دنیا سے اس کا کوئی تعلق نہیں.یقین ایک ایسی اصطلاح ہے جو عام ہے اور مومن اور کافر اور مذہبی انسان یا غیر مذہبی انسان ہر ایک پر مشترک ہے.ان سب کے درمیان قدر مشترک ہے، ہر ایک پر برابر اطلاق پاتی ہے اور یقین اس پہلو سے جب ہم دیکھتے ہیں تو اس کا مستقبل سے ہی تعلق ہے درحقیقت.جو تو میں اپنے مستقبل پر یقین رکھتی ہیں چونکہ عام دنیا کی اصطلاح میں تو ایمان ان کے لئے کوئی چیز نہیں ہے.وہ جو مستقبل پر یقین رکھتی ہیں وہ اس

Page 109

خطبات طاہر جلد ۶ 105 خطبه جمعه ۱۳ار فروری ۱۹۸۷ء یقین کے سہارے زندہ رہتی ہیں اور اگر یقین اٹھ جائے مستقبل پر تو تو میں ہلاک ہو جایا کرتی ہیں.اسی لئے جنگوں میں خصوصا جدیدترین جنگوں میں سب سے بڑا ہتھیار جو دشمن کے خلاف استعمال کیا گیا وہ مایوسی پیدا کرنا تھا.ہوٹلوں میں، مختلف جمگھٹوں میں، تماشہ گا ہوں میں بعض ایجنٹ بیٹھ جایا کرتے تھے اور یہ باتیں کرتے تھے کہ اب تو تم لوگوں نے ہارنا ہی ہارنا ہے.Ammunition ختم ہو گیا، ہتھیار ختم ہو گئے، خوراک ختم ہوتی چلی جارہی ہے، دشمن کا گھیر اسخت ہو گیا، دشمن نے یہ یہ مقابل پر ہتھیار ایجاد کر لئے ہیں یہ باتیں صرف کرتے تھے جو ہر شخص کرسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں قطعی ثبوت ان کے دشمن کے ایجنٹ ہونے کا بھی نہیں ملتا تھا.ہر کس و ناکس گھر میں ایسی باتیں کرتا ہے.چنانچہ اس کے ذریعے قوم میں مایوسی پھیلا کر ان کو شکست دینے کی جو بڑی منظم سازش کی گئی یا منصوبہ بنایا گیا یہ جرمنی میں اس کا آغاز ہوا اور اس کا نام "Fifth Column" رکھا گیا اور نائٹسی (نازی) تصور کے مطابق سب سے زیادہ قوی اور سب سے زیادہ مضبوط ہتھیار جس سے وہ اتحادیوں پر حملہ آور تھے وہ یہ ہی " Fifth Column" تھا.پانچواں ان کا فوجی کالم جو آگے بڑھ رہا ہے اور پیشتر اس کے کہ وہ ان کے علاقوں پر قابض ہوں ان کے جو دنیاوی مادی کالم تھے وہ تو پیچھے رہ جاتے تھے یا تھوڑی دیر کے لئے ہوائی جہاز کی پرواز کے ذریعے سے وہاں پہنچتے تھے لیکن یہ Fifth" Column اندر گھس کے ان کے اندر بیٹھ جاتا تھا، ان کی زندگی کے ہر پہلو پر حملہ آور ہوتا تھا.تو مایوسی یقین کا برعکس ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا خواہ کسی کوئی مذہبی ہو یا غیر مذہبی ہو خدا کی ہستی پہ ایمان لاتا ہو یا نہ لاتا ہو یقین کے بغیر قومیں زندہ نہیں رہ سکتیں.تبھی قائد اعظم نے پاکستان کے قیام کے وقت یقین محکم“ کا نعرہ بھی دیا کہ یقین کے ساتھ تم لوگ زندہ رہو ، اپنے مستقبل پر یقین رکھو.وہ بہت سی چیزیں جن کو انسان نے رفتہ رفتہ بڑے لمبے تجربوں کے بعد گزشتہ چودہ سوسال میں سیکھا قرآن کریم نے اپنے آغاز ہی میں ان کی طرف نہ صرف اشارہ فرمایا بلکہ بہت کھلے طور پر اس مضمون کو ایک مربوط رنگ میں پیش فرما دیا اور ایمان کے ساتھ ایک ایسا تعلق باندھ دیا جس کے بعد مومن بے یقین رہ ہی نہیں سکتا.اگر بے یقین مومن ہے تو اس کا ایمان بھی ختم ہے کیونکہ ایمان کی علامت کے طور پر یقین کو قرار دیا گیا ہے.ایمان نہیں ہے یہ لیکن ایمان کی علامت ہے.پس جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بہت بڑے سبق ہیں.ایمان اور یقین کا ایک اور فرق

Page 110

خطبات طاہر جلد ۶ 106 خطبه جمعه ۱۳ار فروری ۱۹۸۷ء یہ ہے جس کی طرف بالآخر میں اشارہ کرنا چاہتا ہوں جس کے بعد یہ مضمون کھل جائے گا کہ ایمان اگر کسی چیز پر نہ ہو تو اس چیز کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اگر کسی چیز پر یقین نہ ہو تو اس چیز کو ضرور فرق پڑ جاتا ہے، بسا اوقات فرق پڑ جاتا ہے.اگر مومن کو اپنے مستقبل پر یقین نہ ہو تو اس کے عمل پر اس کا براہِ راست اثر پڑتا ہے اور اس عدم یقینی کے نتیجے میں اس کو پھل نہیں ملتا اپنے خدا کے جو وعدے ہیں وہ پھر اس کے ذریعے پورے نہیں ہوتے کسی اور کے ذریعے پورے ہوتے ہیں.خدا کے وعدے پورے ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو مایوسی کا شکار ہو جائیں ان کے ذریعے بھی خدا وعدے پورے فرمایا کرتا ہے.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اور قومیں لے آتا ہے.بہتر لوگ ان کی جگہ پیدا کر دیتا ہے یا بعض ایسے وعدے بھی ہیں خدا کے جن کا انسان کی کوششوں سے تعلق ہی نہیں ہوتا وہ تو بہر حال پورے ہوں گے جس طرح بھی ہو.مگر یقین کا عمل سے ایک بڑا گہرا تعلق ہے اور یہ تعلق صرف مذہبی ہی نہیں غیر مذہبی بھی ہے یعنی خواہ مذہبی دنیا ہو یا غیر مذہبی دنیا ہوا اگر یقین ہے تو عمل رہے گا اگر یقین اٹھ جائے گا تو عمل ختم ہو جائے گا.ایک انسان بھاگتا ہے خطرے سے اور اس اُمید پر بھاگتا ہے کہ شاید میں بچ جاؤں.جہاں اس کی مایوسی یقین کی حد تک پہنچ جائے یعنی مایوسی پہ بھی بعض اوقات یقین ہو جاتا ہے کہ اب نجات کی کوئی شکل نہیں رہی ان معنوں میں ، تو جب اس کی مایوسی یقین بن جاتی ہے اور یہ اعلان کرتی ہے کہ نجات کی کوئی شکل نہیں تو پھر وہ کہتا ہے مجھے بھاگ کر مرنے کی کیا ضرورت ہے آرام سے بیٹھوں یہیں انتظار کرتا ہوں موت نے آنا تو ہے ہی تو آرام سے آئے بجائے اس کے کہ میں خواہ مخواہ جد و جہد کر رہا ہوں.تو مایوسی یقین کے مقابل پر ہے اور سب سے مہلک ہتھیار ہے اسی لئے قرآن کریم نے شیطان کا ایک نام مایوس قرار دیا ہے.ابلیس لفظ میں مایوسیت پائی جاتی ہے اور اس کے معنوں میں یہ بات داخل ہے.چنانچہ ابلیس کا بھی سب سے بڑا ہتھیار مایوسی پیدا کرنا ہے.جب وہ مومن کے دل میں اپنے مستقبل کے بارے میں مایوسی پیدا کر دیتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ اس کے بعد مومن نہیں زندہ رہ سکتا، ایمان کی حالت میں زندہ نہیں رہ سکتا اور اس کی ہلاکت اور مایوسی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس موضوع پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور بار بار متوجہ فرمایا ہے کہ مایوسی گناہ ہے، مایوسی کفر ہے.نہایت ہی خطرناک اور مہلک چیز ہے جس کے بعد انسان کی زندگی کا

Page 111

خطبات طاہر جلد ۶ کوئی سوال باقی نہیں رہتا.107 خطبه جمعه ۳ ار فروری ۱۹۸۷ء تو یقین کے ساتھ جو مستقبل کا تعلق ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی حالت میں بھی کوشش اور جد و جہد نہیں چھوڑتے باوجود اس کے کہ بظاہر ان کے سپر د جو کام ہے وہ اتنا مشکل ہے دیکھنے میں ایسا ناممکن الوقوع نظر آتا ہے اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں ، یقین رکھتے ہیں کہ یہ کام ضرور ہو کے رہے گا اور چونکہ یہ یقین رکھتے ہیں اس لئے محنت نہیں چھوڑتے ، کوشش نہیں چھوڑتے.اب جماعت احمدیہ کے سامنے جو کام ہے ساری دنیا کو فتح کرنا یہ ان کاموں میں سے ہے جن کو جو باہر سے دیکھنے والا ہے وہ ہمارے معاملے میں پاگل پن قرار دے گا.آپ کو معقول سمجھتا رہے بے شک لیکن آپ کے اس خیال کو پاگل پن سمجھے گا.وہ کہے گا کیوں بیوقوف ہو گیا ہے، کیا ہوگیا ہے اس کی عقل کو اچھی بھلی باتیں کر رہا تھا اور اچانک کہنے لگ گیا ہے ہم دنیا پر غالب آجائیں گے.انٹرویو کے دوران، مختلف قسم کے جو انٹرویو ہوتے ہیں ان کے دوران میں نے بھی یہ محسوس کیا ہے اور وہ اندر سے مجھ پہ ہنس رہے ہوتے ہیں اور میں اندر سے ان پہ ہنس رہا ہوتا ہوں.وہ اس لئے ہنستے ہیں اندر سے کہ شریف لوگ اکثر جو انٹرویو لینے والے ہیں وہ کوشش یہی کرتے ہیں کہ بدتہذیبی کا مظاہرہ نہ ہو.منہ پر نہیں کہتے اور ہنسی بھی آئے تو اسے ضبط کرنے کی کوشش کرتے ہیں.جب وہ پوچھتے ہیں کہ کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ غالب آجائیں گے اور تمام دنیا کو فتح کرلیں گے اور میں کہتا ہوں ہاں مجھے کامل یقین ہے تو اس کا چہرہ بتا دیتا ہے سوال کرنے والے کا اس کی آنکھیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ اگر وہ اکیلا ہوتا تو قہقہہ مار کے ہنس پڑتا کہ کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو اچھی بھلی معقول باتیں کرتے کرتے اچانک پاگلوں والی باتیں شروع کر دیں اور میں اس لئے دل میں مسکرا تا ہوں کہ اس کو پتا نہیں ہے کہ کیوں ہم یقین کر رہے ہیں.اس لئے کہ ایسی ناممکن باتیں ہمیشہ سے ہوتی چلی آئی ہیں اس لئے کہ مذہب کی تاریخ اس کی ساری تاریخ گواہی دے رہی ہے کہ ایسی ناممکن الوقوع باتیں ہمیشہ وقوع پذیر ہوتی رہیں اور جو یقینی دکھائی دیتی تھیں باتیں وہ غیر یقینی ہوگئیں.یقینی چیزیں صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے مٹادی گئیں اور بظاہر غیر یقینی چیزیں منصہ شہود پر اس طرح قوت کے ساتھ ابھری ہیں اور اس استحکام کے ساتھ قائم رہی ہیں کہ پھر ان کے مٹانے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.پس قرآن کریم نے جو آخرت پر یقین پر زور دیا ہے وہ اسی لئے دیا ہے.

Page 112

خطبات طاہر جلد 4 108 خطبه جمعه ۱۳ / فروری ۱۹۸۷ء یقین کے نتیجے میں بعض دفعہ انبیاء کو پاگل قرار دیا گیا ہے اور اپنوں کے ذریعے بھی قرار دیا گیا ہے.جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنے بچوں سے کہا :.لَا جِدُ رِيحَ يُوْسُفَ لَوْلَا أَنْ تُفَتِّدُونِ (يوسف:۹۵) اس کا یہی مطلب تھا کہ مجھے تو یوسف کی خوشبو آ رہی ہے اور میں جانتا ہوں کہ تم میرے منہ پہ مجھے پاگل نہیں کہہ سکتے لیکن تمہارا دل یہی کہہ رہا ہے اندر سے کہ اس کو تو کچھ ہو گیا ہے یہ تو پاگلوں والی باتیں کرتا لَوْلَا أَنْ تُفْسِدُونِ خواہ تم دیوانہ سمجھو، دیوانہ قرار دو جو کہو کہومگر مجھے کامل یقین ہے کہ یوسف آنے والا ہے مجھے اس کی خوشبو آرہی ہے.فتح اسلام سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی محاورہ استعمال فرمایا ہے: آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گو کہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار ( در مشین صفحه: ۱۳۰) ہے.پس ہم تو ان دیوانوں کے غلام ہیں جن کے یقین کو کوئی دنیا کا طعنہ بھی تبدیل نہیں کر سکا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب ہونے کے بعد ہم آپ کے انتظار میں شامل ہو چکے ہیں اور اس یقین کے ساتھ شامل ہو چکے ہیں جس یقین کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے یوسف کا انتظار کر رہے تھے.پس جب میں کہتا ہوں کہ اگلے سال سے پیمانے بدل دو، ہزاروں کو لاکھوں میں تبدیل کر دو.تو جس طرح حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹوں میں سے بعض نے ضرور یہ سمجھا ہو گا کہ یہ تو دیوانوں کی بر لگتی ہے اس طرح خواہ آپ کا مجھ سے کیسا ہی تعلق ہو اور پیار ہو آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو سوچتے ہوں گے کہ اسلام کے پیار میں اور محبت میں ایسی باتیں کر رہا ہے لیکن بظاہر یہ ہونی ممکن نہیں ہے.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ممکن ہے اور آپ کے ہاتھوں ممکن ہے آپ یقین تو پیدا کریں کیونکہ یقین پیدا کئے بغیر عمل میں قوت پیدا نہیں ہوتی عمل میں جان نہیں پڑتی اور آخرت پر یقین ہے جو غیر ممکن چیزوں کو ممکن کر کے دکھا دیا کرتا ہے، کامل یقین کی ضرورت ہے.انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ ایک شخص کو یہ پتہ نہیں تھا کہ یہ چیز ناممکن ہے.سو وہ آگے بڑھا اور اس

Page 113

خطبات طاہر جلد ۶ 109 خطبہ جمعہ ۱۳؍ فروری ۱۹۸۷ء نے کر دکھائی.تو جن لوگوں کی ڈکشنری میں ناممکن کا لفظ نہ ہو ، وہ لوگ جن کی ڈکشنریاں ناممکن سے بھری ہوتی ہیں وہ ان چیزوں کو ناممکن دیکھ رہے ہوتے ہیں ، ناممکن سے خالی ڈکشنریوں والے ان کو ممکن کر کے دکھاتے چلے جاتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلاموں اور عاشقوں کے لئے اسلام کی فتح کا جہاں تک تعلق ہے کسی ابہام کسی شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں.لا زما یہ فتح ہوگی لیکن ہوگی یقین کے ذریعے کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے وَ بِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ اور اگر آپ کا یقین کمزور ہو گا تو اس فتح کے امکانات بھی کم تر ہوتے چلے جائیں گے، مدھم پڑتے چلے جائیں گے.یہ ایمانیات والا معاملہ نہیں ہے کہ آپ کو ایمان ہو یا نہ ہو خدا بہر حال قائم ہے، آپ کو ایمان ہو یا نہ ہو فرشتوں کو وجودمٹ نہیں سکتا.اسلام کی فتح آپ کی عدم یقینی کی وجہ سے پیچھے چلتی چلی جائے گی اس کا وجود میں آنا آپ کے یقین سے ایک براہ راست تعلق رکھتا ہے اس لئے کیوں اسے ہزاروں سال پیچھے ڈالتے ہیں.اپنے یقین کا دل بڑھا ئیں تو یہ فتح تیزی کے ساتھ آپ کی طرف بڑھنی شروع ہو جائے گی، کیوں اگلی صدیوں میں اس کو دیکھنا چاہتے ہیں؟ کیوں اپنے یقین کا معیار بلند کر کے اسے اس صدی میں لانے کی کوشش نہیں کرتے ؟ اس لئے جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر احمدی ایک احمدی بنائے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ ہاں ، سننے میں تو بہت اچھی بات ہے لیکن ہوتا نہیں.پس جہاں یہ ہوتا نہیں کا شیطان دل میں داخل ہوا و ہیں کام ختم ہونا شروع ہو گیا.کہتے ہیں اربع ہے، حساب ہے ہر آدمی کہاں بنا سکتا ہے.یہ خیال دل میں آتے ہی آپ یقین کریں کہ شیطان دل میں داخل ہو گیا.مایوسی ہی کا نام خدا نے شیطان رکھا ہے اور شیطان کا نام مایوسی ہے اور عمل کو ذلیل اور رسوا کرنے والا سب سے بڑا مہلک ہتھیار مایوسی ہے اس کے بعد عمل خاک ہو جاتا ہے کچھ بھی اس میں باقی نہیں رہتا، کچھ پیدا کرنے کی طاقت نہیں رہتی اس میں.ہر احمدی کے لئے فرض ہے کہ اپنے دل میں یقین رکھے کہ ہاں ممکن ہے اور یقینا ہوگا اور اگر میں یہ فیصلہ کروں گا کہ میں نے بنانا ہے تو لازماً بنا سکوں گا.اگر یہ یقین ہی نہیں ہے تو آپ نے کرنا کیا ہے پھر دنیا میں.پھر ان لوگوں میں آپ کا شمار کیسے ہو سکتا ہے جن کے متعلق قرآن کی ابتدائی آیات کہتی ہیں:

Page 114

خطبات طاہر جلد ۶ 110 خطبه جمعه ۱۳ار فروری ۱۹۸۷ء وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ ایک عظیم الشان گردیا ہے خدا تعالیٰ نے ہمیں ترقی کا.ایک ایسا راز سکھا دیا ہے جو قوموں کی زندگی کا راز ہے.اس کو سیکھنے کے بعد کیوں اس کو استعمال نہیں کرتے.یہ ہے بنیادی بات جس کی طرف میں آج آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.حقیقت یہ ہے کہ اکثر اوقات تبلیغ کا اس تیزی کے ساتھ آگے نہ پھیلنالا زمامایوسی کے نتیجے میں ہے.آپ جائزہ لے کے دیکھ لیں وہ لوگ جو ان باتوں کو سنتے ہیں اور ان کے دل پر اثر بھی پڑتا ہے وہ کیوں ایسا نہیں کر سکتے اس لئے کہ دل میں ایک بے یقینی ہے کیسے ہو سکتا ہے یہ تو بہت بڑی بات ہے.اگر ایسا ہونے لگے تو چند سالوں میں ساری دنیا پر احمدیت غالب آجائے.یہ کہانیاں ہیں یہ قصے ہیں، یہ اچھی باتیں ہیں، اچھے ارادے ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.یہ خیال ہیں جو نیک لوگوں کے دل میں نسبتا نیکی کے روپ میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں ، بدلوگوں کے دل میں تنقید کی شکل میں داخل ہو رہے ہوتے ہیں اور بد تر لوگوں کے دل میں تضحیک کے رنگ میں داخل ہورہے ہوتے ہیں، مذاق اڑانے کی خاطر داخل ہو رہے ہوتے ہیں.لیکن ہیں یہ ایک ہی بیماری کی مختلف شکلیں مختلف اس کے درجات ہیں.کبھی یہ مہلک ہو کر ظاہر ہو رہی ہے، کبھی یہ ابتدائی خراش پیدا کر رہی ہے.ہر منزل پر اس بیماری کو کچلیں کیونکہ آپ کے عمل پر براہ راست اس کا اثر پڑتا ہے.ہراحمدی کو یقین کرنا چاہئے مجھے کئی خطوط ایسے ملتے ہیں جن میں مختلف رنگ میں یعنی بڑے بڑے اچھے مخلصین کی طرف سے بھی ان باتوں پہ تبصرہ ہوتا ہے اور اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ کس طرح یہ بیماری بھیس بدل کر جس طرح قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ شیطان بھیس بدل کر داخل ہوتا ہے کس طرح یہ اچھے اچھے مخلصوں کے دل میں بھی بھیس بدل کر داخل ہو جاتی ہے.ایک دوست نے لکھا کہ آپ کہتے ہیں وعدہ کرو کہ سال میں ایک احمدی بناؤں گا.آپ بتائیں کہ انسان کے بس میں ہے کیا.جب تک خدا کی تقدیر نہ ہواس وقت تک کچھ بھی نہیں ہوسکتا.اس لئے جو چیز خدا کے ہاتھ میں ہے اس کے متعلق میں وعدہ کرلوں اور پھر جھوٹا بنوں یہ کیسے ہوسکتا ہے.اصل میں وہی بے یقینی پن ہے اگر انسان کو آخرت پر یقین ہو تو آخرت تو خدا کی خاطر ہے آپ خدا کی خاطر کام کریں اور خدا آپ کو پھل سے محروم کر دے یہ وہم آپ کے دل میں کیوں پیدا ہوتا ہے؟ اسی کا نام مایوسی ہے.کامل تو کل کے نتیجے میں یہ وعدہ ہوتا ہے اور ایک مومن یقین رکھتا

Page 115

خطبات طاہر جلد ۶ 111 خطبه جمعه ۱۳ فروری ۱۹۸۷ء ہے کہ میں اس وعدے کو پورا کروں گا پھر اگر نہ کر سکے تو جھوٹا اُسے نہیں کہا جاسکتا.ان کو اس معاملہ میں جھوٹ کی تعریف کا ہی علم نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کے وعدوں کے متعلق بھی یہ فرمایا کہ انجان آدمی بیوقوف اور جاہل آدمی بعض دفعہ سمجھتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے وعدہ خلافی کی ہے حالانکہ یہ سنت ہے کہ وعدہ خلافی نہیں کرتا اور اس کے باوجود بعض وعدے پورے ہوتے دکھائی نہیں دیتے.اس لئے کہ ان وعدوں میں مخفی شرائط ہوتی ہیں اور شرائط کے ٹلنے کی وجہ سے وعدہ ملتا ہے اور ایسا شخص جو ایسا وعدہ کرے جس میں ظاہری یا مخفی شرائط ہوں جب وہ شرائط پوری نہ ہوں تو وہ وعدہ ٹل جاتا ہے.ایسے شخص کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا.آپ اپنے طور پر دنیا میں ہزار ہا وعدے کرتے پھرتے ہیں اپنی اولاد سے بھی اور دوسروں سے بھی وہاں آپ کو جھوٹا ہونے کا کوئی خوف نہیں آتا.اپنے بیٹے کو کہتے ہیں کہ ہاں میں تمہارے لئے تعلیم کا انتظام کروں گا، میں تمہیں فلاں چیز لے کے دوں گا، فلاں جگہ سیر پہ لے کے جاؤں گا، اپنی بیویوں سے وعدے کرتے ہیں اپنے بچوں سے وعدہ کرتے ہیں حالانکہ اگلے سانس کا آپ کو پتہ نہیں کہ اگلے سانس میں بھی زندہ رہیں گے کہ نہیں.وہاں کیوں جھوٹ کا خوف نہیں آتا؟ کیا خدا کی خاطر کام بس ایک ہی چیز رہ گئی ہے جہاں سے آپ کو جھوٹا ہونے کا خوف لاحق ہو جاتا ہے؟ اس کا جھوٹ اور سچ سے تعلق ہی کوئی نہیں اس کا یقین اور تو کل سے تعلق ہے.اگر یقین کا سر آپ بلند رکھیں گے اور تو کل کا میعار بلند تر کریں گے تو لازماً آپ کے وعدوں میں پختگی ہوتی چلی جائے گی اور زیادہ یقینی ہوتا چلا جائے گا کہ وہ وعدہ ضرور پورا ہوگا کیونکہ خدا تعالیٰ آپ کو جھوٹا نہیں دیکھنا چاہتا جو تمیں کھا جاتے ہیں یہی تو اس کا مطلب ہے لو اقســم عـلـى الـلـه لا بــره الله ( بخاری کتاب الصلح حدیث نمبر: ۲۵۰۴۰) بعض ایسے بھی ہیں جو خدا پر قسمیں کھا جاتے ہیں.اتنا کامل یقین اور اتنا کامل تو کل کہ خدا ایسے کرے گا.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ ان کے سر میں بظاہر خاک پڑی ہوئی ہوتی ہے، بال بکھرے ہوئے اور پراگندہ حال ہوتے ہیں لیکن جب وہ خدا پر قسم کھاتے ہیں تو خدا ضرور ان کی قسم کو پورا کر دیتا ہے.ان معنوں میں میں آپ سے کہتا ہوں کہ وعدے کریں خدا سے اور قسمیں کھائیں بے شک کہ خدا کی قسم ہم ایسا کر کے دکھائیں گے.پھر چاہے آپ پراگندہ حال ہوں، چاہے آپ کے بالوں میں خاک پڑی ہوئی ہوتب بھی خدا تعالیٰ

Page 116

خطبات طاہر جلد ۶ 112 خطبہ جمعہ ۱۳؍ فروری ۱۹۸۷ء آپ کی قسموں کی غیرت رکھے گا اور آپ کے وعدے انشاء اللہ ضرور پورے ہوں گے لیکن خدا سے وہ سلوک تو نہ کریں جس طرح وہ دودھ کا تالاب بھرنے والوں نے بادشاہ سے سلوک کیا تھا.کہانی بار ہا آپ نے سنی ہوگی لیکن ہے ہی اس لائق کے بار بار سنایا جائے اور بار بار سنا جائے کیونکہ اس میں ایک بڑا گہر ا سبق ہے اور قوموں کے عروج اور زوال سے اس کا تعلق ہے، قوموں کی زندگی اور موت سے اس کہانی کا تعلق ہے.ایک بادشاہ نے ایک دفعہ یہ فیصلہ کیا کہ پانی کا تالاب تو دنیا میں سب بنانے والے ہوتے ہیں.میں ایک ایسا تالاب بناؤں جسے دودھ سے بھروں اور یہ ایک عجوبہ روزگار تالاب ہود نیا میں کبھی کسی بادشاہ کو تو فیق نہیں ملی کہ ایسا تالاب بنائے جسے دودھ سے بھر دے.چنانچہ اس نے بڑے پیار سے، بڑی چاہت بڑے اہتمام سے ایک وسیع و عریض تالاب بنایا.یا یہ بھی کہا جاتا ہے اس کہانی کے متعلق کہ بادشاہ نے تالاب بنایا تھا پانی کے لئے لیکن وزیر نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ اتنا خوبصورت اتنا عظیم الشان تالاب ہے تو اسے پانی سے نہ بھر میں اسے دودھ سے بھریں.اس دوسری شکل میں جو کہانی بیان ہوتی ہے اس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ بادشاہ نے تعجب کیا کہ دودھ سے کیسے بھر سکتا ہوں؟ اس نے کہا بالکل معمولی بات ہے.آپ اپنی بستی میں اپنے شہر میں اعلان کروا دیں اور گردو پیش میں اس علاقے میں کہ کل یعنی آنے والے کل میں سب لوگ ایک ایک لوٹا دودھ اس تالاب میں ڈال دیں اور اُس دن جو بچے وہی پیئیں باقی دودھ اس دن نہ پیئیں کیا فرق پڑتا ہے اور آپ دیکھیں گے کہ کس طرح ایک ایک لوٹے سے وہ سارا تالاب بھر جائے گا.چنانچہ بادشاہ نے اعلان کروادیا اور سارے شہروں میں اور اردگرد کے دیہات میں جو قریب قریب تھے ان میں یہ منادی کرادی گئی.ہر شخص نے یہ سوچا اتناز بر دست بادشاہ کا یہ حکم ہے یقینا ساری رعایا دودھ کے لوٹے لے کر پہنچے گی اگر ایک میں نہ پہنچوں تو کیا فرق پڑتا ہے؟ ایک میرے لوٹے سے ہی تالاب میں کمی آجائے گی؟ چنانچہ ہر ایک نے اپنے دل میں یہ بات سوچی اور اس دن کوئی ایک شخص بھی لوٹالے کے نہیں گیا.اور جب بادشاہ اپنے ساتھ اپنے Courtiers اپنے حواریوں کو لے کر پہنچا تو خالی تالاب پڑا تھا اس میں کوئی ایک قطرہ بھی دودھ کا نہیں تھا.تو وہ سلوک تو اپنے خالق اور مالک سے نہ کریں جو ایک بادشاہ کی جاہل رعایا نے ایک

Page 117

خطبات طاہر جلد ۶ 113 خطبه جمعه ۱۳ / فروری ۱۹۸۷ء بے حیثیت بادشاہ سے کیا تھا، ایک لاعلم بادشاہ سے کیا تھا.بادشاہ کی لاعلمی کی بناء پر ان کو یہ جرات ہوئی تھی لیکن آپ کا خدا جس کے لئے آپ نے اپنا دودھ کا وٹاڈالنا ہے وہ تو عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ہے.اگر آپ غیب پر ایمان لاتے ہیں تو وہ علم رکھتا ہے کہ کس حد تک آپ غیب پر ایمان لاتے ہیں اور کس حد تک آپ کا ایمان یقین میں تبدیل ہوا ہے.اس کے حضورا اپنا لوٹا پیش کریں پھر دیکھیں کہ یہ سارا عالم محمد مصطفی ماہ کے دین کے دودھ سے بھر جائے گا اور اس دنیا میں دودھ کی نہریں بہنے لگیں گی.یہی تو وہ نہریں ہیں جو آپ کو جنت میں ملنی ہیں اس لئے خدا کے لئے اپنا لوٹا ڈالنا نہ بھولیں.یہی وہ ایک دودھ کا لوٹا ہے جو آپ کے لئے نہروں میں تبدیل ہو جائے گا اگلی دنیا میں اور اگر ہر احمدی اس یقین کے ساتھ اپنا حصہ پورا کرنے کی کوشش کرے گا تو فتح ہماری کہانیوں میں بسنے والی فتح نہیں رہے گی، تصورات کی دنیا کی جنت نہیں رہے گی بلکہ اس حقیقی دنیا کی فتح بن جائے گی.اس حقیقی دنیا کی جنت بن جائے گی اور ساری دنیا اس میں آپ کی طرف دیکھ رہی ہے اور آپ کا انتظار کر رہی ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آخر پر میں یہ بات کہنا چاہتا تھا اس وقت ذہن سے اتر گئی کہ جو شخص یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے لا ز ما ایک احمدی بنانا ہے اگر وہ فیصلہ قطعی ہے حقیقی ہے تو خدا تعالیٰ رستے بھی اس کو بجھا دے گا اس کو باہر سے بتانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح بناؤ.وہ فوراً اپنے گردو پیش پر نظر ڈالنا شروع کرے گا.کہتے ہیں شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے.خدا تعالیٰ نے جس پرندے کو میٹھا کھانے والا بنا دیا ہے اس کے لئے وہ میٹھا بھی مہیا فرما ہی دیتا ہے.تو آپ شکر خورہ بنیں تو سہی ہر طرف سے اللہ تعالیٰ آپ کو شکر بھجوانے کا انتظام فرما دے گا.خود سوچیں، خود غور کریں جس طرح بس چلتا ہے جو کچھ بھی آپ کی پیش جاتی ہے اس کے مطابق کوشش کریں اور دعا کرتے رہیں اللہ تعالیٰ انشاء اللہ ان دعاؤں کو سنے گا اور آپ کے غیب کو حاضر میں تبدیل فرما دے گا.

Page 118

Page 119

خطبات طاہر جلد ۶ 115 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا تذکرہ اصحاب کہف کی تاریخ دہرائی جارہی ہے خطبه جمعه فرموده ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.پاکستان میں ایک بدنصیب حکومت کی طرف سے احمدیت پر جو مظالم توڑے جا رہے ہیں ان میں وقتا فوقتا کبھی کچھ کی بھی آجاتی ہے اور پھر وقتاً فوقتاً کچھ تیزی بھی پیدا ہو جاتی ہے لیکن بالعموم ان نہایت ہی قابل مذمت اور جہاں تک حکومت کا تعلق ہے قابل شرم کا رروائیوں میں بالعموم کوئی ایسا فرق نہیں ہے جس سے ہم یہ کہہ سکیں کہ حکومت کی سوچ بدل گئی ہو یا اس کی جو نفرتوں کی آگ ہے وہ مدھم پڑ گئی ہو.اسی طرح مسلسل یہ سلسلہ جاری ہے بلکہ بعض پہلوؤں سے اوپر کی طرف رخ ہے.یعنی نفرتوں کے اور انتقامی کارروائیوں کے بڑھنے کے آثار مسلسل جاری ہیں.جب میں کہتا ہوں اوپر کی طرف رخ ہے تو در حقیقت تو یہ کوششیں سفلی ہیں، دنیاوی اور رذیل کوششیں ہیں.ان سے جب میں کہتا ہوں اوپر کی طرف رخ تو یہ ہرگز مراد نہیں کہ آسمان کی طرف رخ ہے مراد یہ ہے کہ اپنی جہت میں یہ آگے بڑھ رہی ہیں اور بعض پہلوؤں سے شدت اختیار کر رہی ہیں.اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی آگ جلانے والا آگ جلاتا ہے تو جب آگ مدھم پڑنے لگتی ہے تو اس میں نیا ایندھن ڈالتا ہے پھر نیا ایندھن ڈالتا ہے.تو حکومت کی مثال بھی اسی طرح ایک آگ جلانے والے کی سی ہے.جیسے کہ ابولہب کا نقشہ کھینچا گیا ہے قرآن کریم میں بعض دفعہ حکومتیں بھی ابولہب بننے کی

Page 120

خطبات طاہر جلد ۶ 116 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء کوششیں کرتی ہیں اور ان کے ساتھ ان کی کچھ لونڈیاں چلتی ہیں جو ایندھن اٹھائے ہوئے اور جہاں بھی وہ بجھتی ہیں آگ میں کمی آنے لگی ہے وہ مزید ایندھن اس میں جھونکتی ہیں.حکومت نے جو طریق اختیار کیا ہے اس میں قوانین کے ذریعے، نئے نئے قوانین کے ذریعے اور نئے نئے حکم ناموں کے ذریعے یہ جب بھی احمدیت کے خلاف مخالفت کی آگ ان کے خیال میں بجھنے لگتی ہے یہ اس میں مزید ایندھن جھونک دیتے ہیں.ایک قانون کے بعد دوسرا قانون، دوسرے کے بعد تیسر ا جب اس سے بھی دل کی جہنم نہیں بجھتی تو پھر چوتھا قانون اور جہاں تک احمدیت کے خلاف قانون سازی کا تعلق ہے یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے.جہاں تک عوام میں اس کے رد عمل کا تعلق ہے عوام الناس بالعموم حکومت کی ان حرکتوں کو خوب سمجھتے ہیں، وہ ان چالوں کو بھانپ گئے ہیں، ان کے مقاصد سے واقف ہیں اس لئے کوئی بھی پاکستان میں عوامی تحریک اس وقت جماعت احمدیہ کے خلاف نہیں ہے چونکہ وقتا فوقتا جماعت کی طرف سے پاکستان میں ہونے والے مظالم کے متعلق اعداد و شمار جاری ہوتے رہتے ہیں اس لئے ساری دنیا کی احمد یہ جماعتوں کو کھل کر معلوم ہونا چاہئے کہ وہاں ہو کیا رہا ہے اور کون ذمہ دار ہے ورنہ بعض اوقات غلط نہی سے بے وجہ پاکستان کے خلاف دلوں میں نفرت پیدا ہو جاتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان بحیثیت پاکستان ہرگز نفرتوں کا مستحق نہیں بلکہ رحم کا طالب ہے، ہمدردی کا مستحق ہے.سارا ملک اس وقت انتہائی مظلوم ہے.حکومت جوحرکتیں کر رہی ہے یہ چند لوگ ہیں اور ان کے ساتھ چلنے والے، ان کے پیچھے ایندھن اٹھانے والی چند لونڈیاں ہیں جو ان کے ساتھ ہیں.اس کے سوا اور کچھ نہیں ہے.جہاں تک ملک کا تعلق ہے اس کی نفسیات میں ایک عجیب پیچ پایا جاتا ہے.عوام الناس جہاں تک سیاست کا معاملہ ہے خوب جانتے ہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت جھوٹی ہے اسے یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے اور بار بار ڈھونگ رچاتی ہے مختلف قسم کے تا کہ اپنی بقا کے لئے کوئی جواز تلاش کر سکے اور عوام الناس کے اوپر ایک لمحہ کے لئے بھی اس حکومت کے متعلق کسی قسم کی خوش فہمی ان کے دلوں میں نہیں پیدا ہوئی.مسلسل وہ ان کو زیادہ جانچتے چلے جارہے ہیں، زیادہ ان سے متنفر ہوتے چلے جارہے ہیں زیادہ ان کے دل بھر تے چلے جارہے ہیں.اس لئے عوام الناس اگر جماعت کے معاملے میں حکومت کی ان مذموم حرکتوں کا ساتھ نہیں دے رہے

Page 121

خطبات طاہر جلد ۶ 117 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء یا ان کے اشاروں پر ظلم میں آگے نہیں بڑھ رہے تو اس کی یہ وجہ نہیں ہے کہ وہ جماعت احمدیہ سے محبت کرتے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس حکومت سے شدید نفرت کرتے ہیں.اس قدر نفرت کا معیار بلند ہوتا چلا جارہا ہے کہ بدقسمتی سے وہ عوام الناس خود بھی بہت جگہ سے حکومت اور پاکستان میں تفریق کرنے کے بھی اہل نہیں رہے.اب یہ نفرتیں ملک کی نفرتوں میں تبدیل ہونے لگی ہیں.چنانچہ کھلم کھلا بڑے ہوش مند لیڈر جو کسی زمانے میں پاکستان کی قومیت کی حفاظت کے لئے بڑے مخلص نظر آتے تھے یہ بیان دینے لگ گئے ہیں کہ یہ ملک رہنے کے لائق نہیں ہے یہ ملک ٹوٹ جانا چاہئے سندھ آزاد ہو جانا چاہئے صوبہ سرحد آزاد ہو جانا چاہئے ، پنجاب کو ہندوستان کے حوالے کر دینا چاہئے یہ آوازیں انہیں لوگوں کی زبانوں پہ جاری ہوئیں ہیں جو کل تک ملک کے نیشنلسٹ لیڈرز کی صف اول میں تھے جو پاکستان کے قومی نظریے کے قائل بھی تھے اور اس کے حق میں آوازیں اٹھاتے تھے اور وہ لوگ علیحدہ پسند تھے ان کے خلاف بیان دیا کرتے تھے.تو جو خطرناک چیز اب ظاہر ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ عوام الناس حکومت کے نفرت میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں اور حکومت ایسی حرکتیں کرتی چلی جارہی ہے جس کے نتیجے میں شدید نفرتیں اور بڑھ رہی ہیں کہ اب ان کو کوئی تمیز باقی نہیں رہی کہ حکومت کیا ہوتی ہے اور ملک کیا ہوتا ہے.یہ صرف جماعت احمدیہ کو اللہ تعالی نے یہ فراست بخشی ہے اور گہر ا خلوص اور ملک سے محبت بخشی ہے کہ شدید ترین مظالم کے باوجود جماعت احمد یہ خواہ وہ پاکستان میں ہو یا پاکستانی باہر بس رہے ہوں ملک اور حکومت میں فرق کر رہے ہیں.کبھی بھی وہ ملک کے لئے بددعا نہیں کرتے بلکہ ملک کے متعلق سب سے زیادہ فکرمند جماعت احمد یہ ہے.ہاں ایک ظالم حکومت سے چھٹکارے کی دعامانگتے ہیں.لیکن عوام الناس کو جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ اکثر شعور نہیں ہوا کرتا اور اس پہنی الجھن کی وجہ سے، الجھاؤ کی وجہ سے کہنا چاہئے ، وہ غلط فیصلے کر جاتے ہیں اور ان کے جذبات پھر غلط سمت میں بہنے لگتے ہیں.جماعت احمدیہ سے محبت نہیں ہے یہ میں نے کہا تھا اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف مولوی جو انتہائی جھوٹا پروپیگنڈا کر رہے ہیں وہ ان کے کانوں میں پڑتا ہے.حکومت کے اخبار اور حکومت کے ذرائع خواہ ریڈیو ہو یا ٹیلی ویژن وغیرہ جتنے بھی ذرائع حکومت کے پاس موجود ہیں اشاعت کے وہ سارے اس بات میں پیش پیش رہتے ہیں کہ جب بھی جماعت احمد یہ کے خلاف

Page 122

خطبات طاہر جلد ۶ 118 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء کوئی گندا چھالنے کا موقع ملے تو وہ حکومت کے منظور نظر بننے کی کوشش کریں.جتنا زیادہ وہ جھوٹ کو اچھالیں گے اتنا ہی وہ سمجھتے ہیں ان کے سربراہ یا ان کے نگران کہ ہم حکومت کی نظر میں زیادہ لاڈلے ہوتے چلے جائیں گے، زیادہ محبوب ہوتے چلے جائیں گے.اس لئے کوئی ادنی سا موقع بھی ایسے اخبار جو حکومت کے پیچھے چلنے والے یا حکومت کی زکوۃ پر پلنے والے ہیں، وہ اخبار ہر کوشش کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف گند کو اچھالا جائے.عوام الناس اس کو سنتے ہیں.ان کے دلوں میں یک طرفہ جماعت کے خلاف غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں.یہاں تک کے بالعموم جماعت کے خلاف ایک نفرت کا رجحان موجود ہے اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا.لیکن وہ یہ جانتے ہیں ان سب کے باوجود کہ احمدیوں پر اس کے باوجود مظالم کی کوئی وجہ نہیں ہے.ایک عام احساس ملک میں بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ جو بھی ہیں وہ یقین بھی کر لیتے ہیں کہ ہم اسی قسم کے جھوٹے ہیں جس طرح کے بیان کئے جاتے ہیں.وہ یہ بھی یقین کر لیتے ہیں کہ ہم نعوذ باللہ من ذالک اپنے عقائد میں فاسد ہیں، فستق رکھتے ہیں اور ہر قسم کے جو لغو الزامات ہم پر لگائے چلے جاتے ہیں وہ ان کو مانتے بھی جاتے ہیں.اُس کے باوجود عوام الناس کی طرف سے جور پورٹیں مل رہی ہیں ان کا رد عمل یہ ہے کہ یہ سب کچھ اپنی جگہ ٹھیک ہو گا حالانکہ وہ جھوٹ ہے.ٹھیک ہونے کے باوجود ان کے نزدیک وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ان مظالم کا کوئی حق نہیں.کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں قید کرنا اور ظلم کرنے اور بسم اللہ لکھنے کے نتیجے میں گلیوں میں گھسیٹنا اور دکانوں کو آگ لگانی اور چھ چھ سال سات سات سال قید بامشقت کی سزائیں سنائی جانی ، یہ ساری باتیں وہ جانتے ہیں ان کا دل گواہی دیتا ہے کہ یہ ظلم ہے اور جھوٹ ہے وہ اس لئے حکومت کے ساتھ شامل نہیں ہوتے کہ حکومت ان کے نزدیک بہت زیادہ قابل نفرت ہے احمدیوں کے مقابل پر.دوسرا حصہ پاکستان کے عوام کا وہ ہے جو احمدیوں سے واقف ہے ذاتی طور پر اور ایک بہت بڑا طبقہ ہے جو احمدیوں سے ذاتی طور پر واقف ہے.ان کا ایک حصہ جانتا ہے کہ یہ جھوٹ ہے.جوان کے متعلق پرو پیگنڈا کیا جا رہا ہے وہ بھی جھوٹ ہے لیکن ان کی زبان میں جرات نہیں ہے.وہ دبی زبان سے بعض اوقات جماعت کی حمایت میں بات کر جاتے ہیں، جماعت کے خلاف ہونے والے پرو پیگنڈا کے خلاف بولتے بھی ہیں لیکن ہمدردی رکھتے ہوئے بھی اتنی ہمدردی بہر حال نہیں رکھتے کہ

Page 123

خطبات طاہر جلد ۶ 119 خطبه جمعه ۲۰ / فروری ۱۹۸۷ء وہ جرات کے ساتھ عوام الناس میں اعلان کر سکیں کہ یہ جھوٹ بولتے ہیں جماعت احمدیہ کا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ یہ عقیدہ ہے.اسلام کے ساتھ وہ کچی اور مخلص ہے، کلمہ پڑھنے میں جتنا ایمان اور یقین جماعت احمد یہ رکھتی ہے کسی اور فرقے کو ایسا نصیب نہیں ہوگا، یہ ساری باتیں وہ جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود جرات نہیں رکھتے.تو جماعت احمدیہ کے لئے مسائل تو ہیں لیکن اللہ کی تقدیر نے ان مسائل سے جماعت احمدیہ کے بیچ کے نکل جانے کے لئے کچھ اور سامان پیدا کئے ہوئے ہیں اور وہ سامان یہی نفرتیں ہیں جو خود حکومت اپنے لئے پیدا کر رہی ہے وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ (البقرہ: ۲۵۶) کا اصول قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے کہ اگر ہم بعض اسلام کے دشمنوں کو بعض دوسرے دشمنوں سے ٹکرانہ دیتے اور آپس میں یہ ایک دوسرے سے الجھ نہ جاتے یا دوسرے مذاہب کا ذکر بھی لیا جائے تو یہ آیت وسیع المعنی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی جگہ بھی مذہب کی حفاظت کے لئے ہم مذہب کے دشمنوں کے آپس میں نہ الجھا دیتے تو نتیجہ یہ نکلتا کہ نہ کہیں مساجد باقی رہتیں، نہ گر جا گھر باقی رہتے نہ ٹیمپلز (Temples) کہیں دکھائی دیتے.عیسائیوں کے معاہد بھی تباہ ہو جاتے اور یہودیوں کے معابد بھی تباہ ہو جاتے اور دوسرے مذاہب کے معاہد بھی تباہ ہو جاتے.تو جماعت احمدیہ کو جو اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایک نہایت ہی شدید ابتلاء سے محفوظ رکھ رہا ہے تو وہ اس کے پیچھے خدا تعالیٰ کی یہ دائگی ابدی حکمتیں کارفرما ہیں.اس لئے ویسا ہی نظارہ ہے جیسے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ ایسے موقع پر بچالے گیا کہ جب کے لہریں پھٹ گئیں تھیں اور فرعون اس وقت اس علاقے سے گزرا جب لہروں کے ملنے کا وقت آ گیا تھا.تو خدا کی یہ عمومی تقدیر اس طرح بھی کام کیا کرتی ہے.بعض دفعہ قوم کا پھٹنا سچائی کی حفاظت کے لئے ممد اور مفید ثابت ہو جاتا ہے اور پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ نفرتوں کا پیمانہ اتنا بلند ہو جاتا ہے، اتنا بھر جاتا ہے کہ وہ پھٹے ہوئے وجود اس بات پر ملتے ہیں کہ جس سے نفرت ہے اس کو مٹا ڈالا جائے اور وہاں جب مخالف لہریں اکٹھی ہوتی ہیں تو پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر سمندر میں غرق کرنے والی تقدیر بھی ظاہر ہوتی ہے.تو جب آپ پرانے واقعات پڑھتے ہیں قرآن کریم میں تو یہ نہ سمجھا کریں کے یہ واقعات محض کہانیوں کے طور پر ہیں نہ یہ خیال کیا کریں کہ یہ واقعات بعینہ اسی طرح آئندہ ہونے والے

Page 124

خطبات طاہر جلد ۶ 120 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء ہیں.مختلف اوقات میں مختلف رنگ میں چیزیں ظاہر ہوتی ہیں.مثالیں ان کی قرآن کریم بیان فرماتا ہے.ان پر غور کرنے والے جب غور کرتے ہیں فکر کرتے ہیں تو ان کو ان مثالوں کے اندر بڑے گہرے پیغام ملتے ہیں جو اپنے وقت کے اوپر وقت کے مطابق کھلتے چلے جاتے ہیں اور بات روشن ہوتی چلی جاتی ہے.پس ان معنوں میں مذہب کی تاریخ بھی اپنے آپ کو دُہراتی ہے اور ان معنوں میں یہ تاریخ پاکستان میں دہرائی جا رہی ہے اور کئی طریق سے دہرائی جا رہی ہے.اب اگر غور کریں گزشتہ واقعات پر جو قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں تو ایک سے زیادہ مثالیں آپ کو ایسی نظر آئیں گی جو جماعت احمدیہ کے حالات پر اور جماعت احمدیہ کے مد مقابل ان کے دشمنوں کے حالات پر اس طرح صادق آتی ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایک دوست نے ایک دفعہ مجھے لکھا بڑے درد سے کہ اب تو یوں لگتا ہے کہ اصحاب کہف کی سی کیفیت پیدا ہورہی ہے.میں نے اس کو لکھا کہ تم نے تو بڑی مبارک بات کی ہے اس میں درد کی کیا بات ہے.اصحاب کہف کا دور تو وہ دور تھا کہ ہمیشہ عیسائیت اس پر رشک کرتی رہے گی اور ایسا شاندار دور عیسائیت پر آئندہ کبھی بھی نہیں آسکتا.انتہائی ممتاز، انتہائی چمکتا ہوا، انتہائی شاندار دور تھا.اُس دور کے صدقے ، اس دور کی برکتوں کے نتیجے میں عیسائیت کو ترقی ملی ہے.اگر تم پہ اصحاب کہف کا دور آ گیا ہے تو مبارک ہو تمہیں کہ تم پر خدا تعالیٰ نے یہ دور دوبارہ جاری فرما دیا.اس لحاظ سے میں نے ان کو لکھا آپ کو شاید علم نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالی نے الہاماً یہ خبر بھی تھی ، اصحاب کہف کی آیات الہاما دوبارہ آپ پر نازل فرمائی گئیں ( تذکرہ صفحہ: ۸۵) اور آپ کو ی تفہیم بھی نازل ہوئی کہ جماعت احمدیہ پر اصحاب کہف کا ایک دور آنے ولا ہے جبکہ حق بات کو بھی وہ کھل کر نہیں بیان کر سکیں گے اور زیر زمین جانا پڑے گا بعض جگہ.اب یہ مثال میرے ذہن میں اس لئے آئی ہے تا کہ آپ کو بتاؤں کہ کس طرح تاریخ اپنے آپ کو دُہراتی ہے اور بعض دفعہ آپ اور سمت میں دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ اور طرف سے ظاہر ہوتی ہے لیکن دُہرا ضرور رہی ہوتی ہے اپنے آپ کو.اب زیر زمین جانا پرانے زمانے میں واقعہ یعنی مادی لحاظ سے ممکن تھا اور اس طرح ہوا کرتا تھا کہ دشمن کے خطرے سے بیچ کر لوگ زمینوں میں سرنگیں کھود کر یا پہاڑوں میں پہلے سے موجود

Page 125

خطبات طاہر جلد ۶ 121 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء سرنگوں میں گھس جایا کرتے تھے.سپین میں بھی جب مسلمانوں پر ظلم کا دور ہوا ہے تو ان کو بھی زیر زمین جانا پڑا تھا.آج کل وہ سرنگیں جو غرناطہ کے ارد گرد ہیں ان میں خانہ بدوش رہتے ہیں.وہ کسی زمانے میں وہ غاریں مسلمان سپینش عیسائیوں کے ظلم سے بچنے کے لئے استعمال کیا کرتے تھے.تو ایک زمانہ تھا جب کہ واقعہ زیر زمین جانا ممکن تھا اور جاتے تھے لوگ لیکن اب اس کے لئے جدید زمانوں میں محاورہ بن گیا ہے انڈر گراؤنڈ یعنی زیر زمین ویسے نہیں جاتے لیکن انڈر گراؤنڈ ہو جاتے ہیں وہ اپنے کام جاری رکھتے ہیں مگر سطح پر ظاہر نہیں ہوتے وہ زیر سطح یعنی اندر اندر وہ سارے کام اپنے جاری رکھتے ہیں.ان کو میں نے کہا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر تھا اور اس دور میں خدا تعالیٰ نے ایک اور اشارہ فرمایا ہے میں نے ان کو لکھا تو نہیں تفصیل سے اتنا لیکن اب میں آپ کو بتارہا ہوں فرمایا اصحبَ الْكَهْفِ وَالرَّقِيمِ (الكيف:۱۰) کہ وہ زیرزمین جانے والے لوگ رقیم بھی تھے.زیرزمین جا کر سو بھی جایا کرتے تھے جس طرح جانور زیر زمین جا کے سو جایا کرتے ہیں بلکہ وہ لکھتے رہتے تھے.کوئی سنانے والا نہیں تھا تو وہ لکھ کر اپنے دل کے خیالات اپنی تبلیغ جو خدا تعالیٰ کے رستے میں ان کے ذہنوں میں مختلف باتیں پیدا ہوتی چلی جاتی تھیں وہ ان کو لکھ لیا کرتے تھے ، لکھتے رہتے تھے.یعنی ایک لمحہ بھی ان کا ضائع نہیں ہوتا تھا اور جماعت احمدیہ پر بھی جہاں جہاں یہ دور ہے وہاں اس آیت کی انگلی آپ کو اشارہ کر کے بتارہی ہے کہ آپ کو بیکار نہیں رہنا ہر حالت میں آپ کو اپنے وقت کا حساب دینا ہے.اگر کوئی سنے والا نہیں ہے جسے آپ بات سنا سکیں تو رقیم بن جائیں علمی کاموں میں ترقی کریں ، جماعت احمدیہ کے حق میں اور اسلام کے حق میں جو مضامین خدا تعالیٰ آپ کو سمجھاتا ہے وہ لکھنا شروع کریں، خطوط لکھنا شروع کریں.غرضیکہ کئی طریق پر جب زبانیں بند ہوں تو ہماری تو تحریریں بھی بند کی گئیں ہیں مگر بہر حال جب زبانیں بند ہوں تو قلم انسان کا اس وقت بھی چلتا رہتا ہے اور بعض دفعہ وقتی طور پر وہ تحریریں بھی بند ہو جاتی ہیں لیکن پھر وقت ایسا آتا ہے کہ وہی تحریریں اچھل کے سامنے آجاتی ہیں ابھر آتی ہیں اور پھر تحریر کی جو زبان ہے وہ بہت لمبا عرصہ چلتی ہے.کلمات تو کچھ عرصہ کے بعد آہستہ آہستہ یادوں سے مٹ جاتے ہیں مگر تحریریں بہت لمبا عرصہ رہتی ہیں.چنانچہ انہیں تحریروں میں سے ہمارے ایک عزیز بہت ہی پیارے خادم سلسلہ الیاس منیر کی

Page 126

خطبات طاہر جلد ۶ 122 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء بعض تحریریں ہیں جو یہاں میں نے اکٹھی کی ہیں.وہ اصحاب کہف بھی ہیں ، واقعہ بھی اصحاب کہف بن گئے ان معنوں میں کہ خدا کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور رقیم بھی بن گئے کیونکہ انہوں نے اپنے جیل کی ساری داستان شروع سے آخر تک اپنے ہاتھ سے لکھ کر مختلف وقتوں میں مجھے بھجوائی اب اس کی آخری قسط کل موصول ہوئی اور اس وقت مجھے خیال آیا کہ واقعہ ظاہری طور پر بھی اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں اصحاب الکہف والرقیم پیدا فرما دیئے.عمداً میں نے اس کی اشاعت رو کی ہوئی ہے کسی مصلحت کے پیش نظر لیکن وہ جب اشاعت ہوگی تو جماعت کے لٹریچر میں ایک بڑا قیمتی اضافہ ہوگا اور جماعت کی تبلیغ کے لئے بھی انشاء اللہ وہ بہت ہی مد و مفید ثابت ہوگی جب بھی وہ کتاب شائع ہوگی.تو میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم ایسے دور میں سے گزر رہے ہیں جبکہ اصحاب کہف بھی ہیں اصحاب رقیم بھی ہیں اور رقیم ہونا جماعت کا کئی طرح سے ظاہر ہو رہا ہے.کثرت سے احمدی خطوں کے ذریعے دوستوں کو یا غیروں کو تبلیغ کرنا شروع کر چکے ہیں.اگر وہ اپنا نام ظاہر نہیں کر سکتے تو بغیر نام ظاہر کئے بغیر پتہ لکھے وہ خط بھیج رہے ہیں.بعض لوگ رقیم بن گئے ہیں نظموں کی صورت میں.اس دور میں جتنے احمدی شاعر پیدا ہوئے ہیں شاید ہی کبھی کسی دور میں اتنے شاعر پیدا ہوئے ہوں.شاعروں میں ایسے بھی ہیں جن کو شعر کہنا نہیں آتا.ٹوٹے پھوٹے کلمے ہیں جن کو وہ شعر کہہ کر یا شعروں کی شکل میں لکھ کر وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے شعر کہے لیکن ان کے جذبات میں بڑی گہری شعریت ہے اور وہ شعریت ہے جو مومن کی شاعری کا نمایاں حصہ ہوتی ہے یعنی سچائی کے نتیجے میں ان کے اندر شعریت پیدا ہوئی ہے.بہت قوت ہے، بہت گہرائی ہے ، بڑا گہرا درد ہے اور بڑا اثر ہے.بعض ٹوٹی پھوٹی ایسی نظمیں آتی ہیں جو اتنی قوت کے ساتھ دل کو متحرک کرتی ہیں کہ بڑے بڑے شاعروں کا سجا ہوا کلام بھی وہ طاقت نہیں رکھتا اپنے اندر.تو اصحاب الرقیم کے دور میں سے بھی جماعت گزررہی ہے اور اصحاب الکہف کے دور سے بھی یعنی انڈرگراؤنڈ ہو کر اپنی خدمتوں سے غافل نہیں ، اپنے کاموں سے غافل نہیں ہیں کام کرتے چلے جارہے ہیں.جو بھی زمانہ ہمارے لئے لے کے آتا ہے یا لے کے آسکتا ہے اس سب کا کوئی نہ کوئی علاج قرآن کریم نے بیان فرمایا ہوا ہے اور قصص کی صورت میں ایک تاریخ لکھی ہوئی ہے جو مختلف بھیس

Page 127

خطبات طاہر جلد ۶ 123 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء بدل کر دوبارہ آتی ہے، ظاہر ہوتی ہے اور دوبارہ اپنا جلوہ دکھا کر چلی جاتی ہے.جو دیکھنے والی آنکھیں ہیں وہ پہچان لیتی ہیں کہ قرآن کریم نے کون سے قصے کس کس وقت کے لئے محفوظ کئے ہوئے تھے.پہلے کس طرح ظاہر ہوئے تھے اب کس شان سے ظاہر ہورہے ہیں.بہر حال ایک دور ہے اس کا ، اس تاریخ کا جو گزرا ہے اور یہ تاریخ اب ایک بڑی تیزی کے ساتھ ایک نئے دور میں بھی داخل ہو رہی ہے.جو جو باتیں میں نے مثالاً بیان کی ہیں یہ ساری پوری نہیں ہوئیں صرف ان کا ایک حصہ ہے جو ابھی تک پورا ہوا ہے اور جو دوسرا حصہ ہے اس میں اب یہ تاریخ داخل ہو رہی ہے اور اسی کی طرف توجہ دلا کر آپ کو دعا کی تحریک کرنے کے لئے یہ میں نے اتنی لمبی تمہید باندھی ہے.جماعت احمدیہ کی مخالفت میں جو ظلم ہورہے ہیں اس وقت وہ کھلے کھلے ننگے خدا سے جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں.کلمہ کے نتیجے میں پہلے تو یہ کہتے تھے کے تم محمد رسول اللہ ﷺ کا نام نہیں لے سکتے کیونکہ نعوذ باللہ من ذالک تم نے آنحضرت ﷺ کی خاتمیت پر حملہ کیا ہے اس لئے تم نے اپنا تعلق تو ڑ لیا.اب کہتے ہیں کے تم اللہ کا نام بھی نہیں لے سکتے.تمہارا نہ محمد ﷺ سے کوئی تعلق نہ اللہ سے کوئی تعلق.یعنی جب تک ہم تمہیں دہر یہ نہ بنا دیں مکمل اس وقت تک ہم تمہارا پیچھا نہیں چھوڑیں گے اور بسم اللہ جن جن کے گھروں سے نکلی اور بعض دفعہ شادی کے کارڈوں پر لکھی ہوئی نظر آئی بعض دفعہ کسی نے اپنی دکان کے ماتھے پر بسم اللہ سجائی ہوئی تھی اَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر: ۳۷) آیت کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ، یہ آیت لکھی ہوئی کہیں ملی یا کسی کے خط میں نظر آگئی اور وہ خط پکڑا گیا.یہ سارے اب ایسے بھیانک جرم بن چکے ہیں پاکستان میں کہ علماء بڑی توجہ کے ساتھ ان جرموں کی نشاندہی کے لئے وقف ہوئے ہوئے ہیں.جس طرح پولیس کا محکمہ ہوتا ہے ایک جاسوسی کا ، وہ ایسے جرائم تلاش کر رہا ہوتا ہے کہ کسی نے حکومت کے خلاف کوئی سازش تو نہیں کی کسی نے کوئی بد معاشی تو نہیں کی جس کے نتیجے میں ملک میں اور فساد پھیلے، ڈاکے کی سازشیں کہاں ہورہی ہیں، بغاوت کی سازشیں کہاں ہو رہی ہیں اس قسم کی باتوں میں ہر ملک میں جاسوسی کے محکمے ہوتے ہیں جو کام کر رہے ہوتے ہیں.مولویوں کے جاسوسی کا محکمہ اب اس بات پر لگا ہوا ہے کہ کسی جگہ کسی احمدی نے کہیں بسم اللہ تو نہیں لکھی ہوئی، کہیں لا الہ الا اللہ تو نہیں لکھا ہوا، کہیں اذان تو نہیں

Page 128

خطبات طاہر جلد ۶ 124 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء دی جارہی، کہیں خدا کا نام تو نہیں بلند کیا جارہا، کہیں نماز یں تو نہیں پڑھی جار ہیں.یہ بھی رپورٹیں درج ہوئی ہیں با قاعدہ کہ یہ احمدی ہو کر خدا کی عبادت کرتا ہے نمازیں پڑھ رہا ہے.تو یہ اب ان لوگوں کا پیشہ بن گیا ہے.اس سلسلہ میں ایک احمدی نے ایک بڑی اچھی بات مجھے لکھی ، کہتا ہے میری ایک دفعہ بحث ہو رہی تھی ایک مولوی صاحب سے تو میں نے ان سے کہا تم کیا سمجھتے ہو کہ تم جوں جوں آگے بڑھ رہے ہوشدت میں اور مخالفت میں اور ظلم میں ، جماعت احمد یہ پہ کیا اثر ہورہا ہے.انہوں نے کہا میں تمہیں بتا تا ہوں کہ امر واقعہ یہ ہے کہ پہلے جب ۵۳ء میں یا ۳۴ ء وغیرہ میں جب فسادات ہوا کرتے تھے.ان دنوں میں تم نشان لگایا کرتے تھے ہمارے گھروں پر اور تم یہ نشان لگا کر۴ ۷ ء تک بھی یہ ہمیں ڈرایا کرتے تھے اپنی طرف سے کہ ہم نشان لگا رہے ہیں اور یہ خون کا نشان ہے، یہ تمہاری موت کا نشان ہے، تمہارے ان نشان لگانوں نے ہمارے حو صلے کم کئے ہیں یا زیادہ کئے ہیں اس بات سے تم پہچان جاؤ کہ اب ہم اپنے گھروں کو نشان لگا رہے ہیں.ہم لا اله الا الله محمدرسول اللہ خود اپنے گھروں اور اپنی دکانوں پر لکھتے ہیں کہ تمہیں نشان لگانے کی ضرورت نہ پڑے.ہم تو خدا کے وہ بہادر اور شیر بندے ہیں کہ تمہارے ہر خوف دلانے کے نتیجے میں ہماری جراتیں بڑھی ہیں تم ہمیں کیسے شکست دے سکتے ہو؟ تو امر واقعہ یہ ہے کہ یہ اپنی طرف سے جاسوسی کر رہے ہیں لیکن ہو یہ رہا ہے کہ احمدیوں کو اس جاسوسی کی ضرورت نہیں ہے.وہ تو خود کھلم کھلا ایک دفعہ جب یہ کلمہ مٹاتے ہیں تو دوسری دفعہ پھر لکھتے ہیں وہ دوسری دفعہ مٹاتے ہیں، تیسری دفعہ پھر لکھتے ہیں.قطعا اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کرتے کہ ان سے کیا گزرے گی اور چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں سارے اس عظیم جہاد میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی دلیری کے ساتھ اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مومنانہ شان کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں.چنانچہ جو وہاں سے قیدیوں کی تصویر میں آتی ہیں.آپ اندازہ کریں کیا کیا مناظر اس وقت احمدیت آسمان مذہب پر کیسے کیسے حسین مناظر نقش کر رہی ہے.پچھتر سالہ بوڑھا، اسی سالہ بوڑھا، دو ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں، ہتھکڑیاں لگی ہوئی ہیں اور مسکرار ہے ہیں اور ساتھ مخوست زدہ چہرے پولیس کے اور مولویوں کے دکھائی دے رہے ہیں جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہم نے ان کو آخر کلمہ لکھنے کے جرم میں یا بسم اللہ پڑھنے کے جرم میں قید میں پہنچا دیا اور جن کے ہاتھ میں ہتھکڑیاں ہیں ان کے چہرے آپ دیکھیں حیران ہوں گے.ایسا نور ہے، ایسی طمانیت ہے ان کے چہروں پر ، ایسا لطف ہے کہ وہ

Page 129

خطبات طاہر جلد ۶ 125 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء ان کو ایسے دیکھ رہے ہیں جیسے بے وقوف جانور ہوں ان کو پتہ ہی نہیں ان کو کہ وہ کیا کر رہے ہیں اور وہ اپنی طرف سے ظلم کر رہے ہیں، اپنی طرف سے ان کی فتح کا نشان ہے کہ ہم نے ہتھکڑیاں پہنا دیں.جن کو ہتھکڑیاں پہنا ئیں وہ تو پہلے ہی اللہ کی محبت کے اسیر تھے، وہ تو پہلے ہی اس قید خانے میں زندگی بسر کر رہے تھے جس کے متعلق حضرت محمد مصطفی امیہ نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ دنیا مومن کا قید خانہ ہے اور کافروں کی جنت ہے.(ابن ماجہ کتاب الزہد حدیث نمبر :۴۱۰۳) تو جنہوں نے پہلے ہی وہ زنجیریں پہن رکھی تھیں اگر ان کا ظاہری نشان بھی تم نے پورا کر دیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ان کو ؟ لیکن اس جماعت کو شکست تم بہر حال نہیں دے سکتے.خدا تعالیٰ کی وہ دوسری تقدیر بھی تمہارے سامنے آنکھوں کے سامنے جاری ہورہی ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے اور تمہیں دکھائی نہیں دے رہا.جتنا جتناتم جماعت پر ظلم میں بڑھتے چلے جارہے ہو یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ ملک اتنا ہی زیادہ نحوستوں کا شکار ہورہا ہے.جرائم بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں، بے اطمینانی زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے، فساد پھیلتے چلے جارہے ہیں، وہ نفرت جو پہلے صرف حکومت کے لئے تھی اب آپس میں اہلِ وطن ایک دوسرے سے کرنے لگے ہیں.اس قدر خوفناک انجام کی طرف یہ ملک تیزی سے بڑھ رہا ہے کہ اس کے اوپر نگاہ ڈالنے سے ہول آتا ہے.شمال جنوب سے مد مقابل ہو چکا ہے، مہاجر اور پٹھان کے اندر نفرتیں پیدا ہو رہی ہیں ، پٹھان اور پٹھان کے اندر نفرتیں پیدا ہو رہی ہیں، سندھی اور پنجابی کے درمیان نفرتیں پیدا ہورہی ہیں اور ہر قسم کی نفرتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں اور بڑھتے ہوئے یہ عمل میں نہایت ہی ظالمانہ طور پر عملی دنیا میں ظاہر ہونے لگی ہیں.لبنان کے قصے آپ بڑے ہول کے ساتھ پڑھتے ہیں لیکن یوں لگتا ہے کہ لبنان تو ایک چھوٹی سی جگہ ہے یہ سارا ملک لبنان کے نقش قدم پر چلنے والا ہے اور دن بدن یہ عادتیں بڑھتی چلی جارہی ہیں.جماعت احمدیہ کو اب اپنے دوستوں اور اپنے حلقہ احباب میں کھل کر بتانا چاہئے اور بتا بھی رہے ہوں گے لیکن اور زیادہ واضح کرنا چاہئے کہ تم یہ بتاؤ کہ اگر یہ واقعہ دین کی خدمت تھی جو تم نے شروع کر رکھی تھی.اگر احمدیت خدا کی نظر میں واقعی ایک نہایت ہی ذلیل اور مغضوب جماعت تھی جو اس دنیا میں سب سے بڑی فسادی اور مفتری جماعت تھی تو جس حکومت نے اس جماعت کے ساتھ

Page 130

126 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء خطبات طاہر جلد ۶ دشمنی میں حد کر دی اس کے چہروں پر تمہیں مومنانہ شان دکھائی دینی چاہئے ، اس حکومت کے ساتھ خدا تعالیٰ کی غیر معمولی غیبی تائید نظر آنی چاہئے ، ان کے اخلاق اور ان کے کردار میں سنت کی شان دکھائی دینی چاہئے اور جس ملک میں یہ عظیم الشان خدمت ہو رہی ہے اس ملک پر خدا تعالیٰ کی بے شمار رحمتیں نازل ہونی چاہئیں.دن بدن خدا کے پیار کے زیادہ اظہار دکھائی دینے چاہئے لوگوں کو کہ یہ ملک جو اتنا خدمت دین میں آگے بڑھ گیا ہے اتنا ہی اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ پیار کرے، اتنا ہی ان کے گھر بار پر رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، ان کی گلیاں مسلمان ہو جائیں ، ان کے گھر مسلمان ہو جائیں، ان کے محکمے مسلمان ہو جائیں، ان میں شرافت، دیانت، تقویٰ کا معیار بڑھ جائے ، ان سے چوری ختم ہو جائے ، ان سے ڈا کہ ختم ہو جائے ، ان سے غبن ختم ہو جائے ، رشوت ستانی جاتی رہے.کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کی طرف سے جور رحمتیں نازل ہوا کرتی ہیں وہ تو اس طرح ہی نازل ہوا کرتی ہیں.اس قسم کے آثار ہیں جو ظاہر ہوا کرتے ہیں.اگر برعکس صورت پیدا ہو رہی ہے.تو اس چیز کو خدمت دین کہنے کا تم کیا حق رکھتے ہو؟ کیوں تمہیں دکھائی نہیں دے رہا کہ جتنا تم احمدیت کی دشمنی میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہو اتنا زیادہ خدا کے غضب کے نیچے آتے چلے جارہے ہو.تمہارا دین جتنا بھی تھا خدا کی ستاری کے پردوں کے نیچے تھا اب تو وہ پردے پھٹ رہے ہیں اب تو اندر سے نہایت بھیانک اور ایسی خوفناک شکلیں ظاہر ہو رہی ہیں کہ جس طرح ناسور سے پردہ اُٹھے تو آنکھوں کو دھکا لگتا ہے.اس طرح سوسائٹی سے جب یہ ستاری کے پردے اٹھے ہیں تو ایسے ایسے بھیا نک پھوڑے، ایسے ایسے بھیانک ناسور دکھائی دینے لگے ہیں کہ چیخ اٹھا ہے ملک.کراچی میں جو دردناک واقعات ہوئے ہیں آپ ان کے متعلق اہل قلم کی تحریریں دیکھیں ، ان کی پڑھیں تو اس وقت آپ کو اندازہ ہو گا.باہر بیٹھے آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کیسے خوفناک واقعات گزر گئے ہیں.اُن کی تحریریں پڑھیں گے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا گزری تھی ملک کے اوپر.یعنی مسلمان شاعر اور ادیب یہ لکھ رہے ہیں کہ پارٹیشن کے وقت جو سکھوں نے مسلمانوں پر ظلم کئے تھے یا مسلمانوں نے یہاں مقابل پر غیر مذہب والوں پر ظلم کئے تھے، بعض کہتے ہیں ہم اس دور سے گزر کے آئے ہیں.وہ ان نظاروں کے سامنے وہ پرانی باتیں جو ہیں وہ مانند پڑ جاتی ہیں.جیسی بہیمیت ،جیسی سفا کی بعض مسلمانوں نے بعض دوسرے مسلمانوں کے خلاف دکھائی ہے اس کا کوئی آدمی تصور بھی نہیں طمير

Page 131

خطبات طاہر جلد ۶ 127 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء کر سکتا اور یہ نفرتیں ختم نہیں ہوئیں اور نفرتوں کے بیج بو چکی ہیں جو پرورش پارہے ہیں اور اسی طرح جیسا کے میں نے بیان کیا تھا ایک طرف مہاجر اور پٹھان کے درمیان جو دشمنیوں کے بیج بوئے گئے ہیں یہ صرف مہاجر پٹھان کے درمیان نہیں ہیں کئی قسم کی شکلوں میں یہ نفرتیں ظاہر ہو رہی ہیں.پنجابی سندھی، پٹھان مقامی اور پٹھان مہاجر.ابھی آج ہی کے اخبار میں یہ خبر تھی کہ ایک بم کے دھماکے میں پشاور میں اٹھارہ آدمی ہلاک ہوئے اور غالبا اکاون یا کچھ اس کے لگ بھگ شدید زخمی ہوئے اور مقامی لوگوں نے مہاجروں کے دفتر پر حملہ کیا اور مہاجروں نے اس کے مقابل پر حملہ کر کے کئی دکانیں لوٹیں اور اچھا خاصہ فساد بر پا ہوا.امن اٹھتا چلا جارہا ہے ، بے اطمینانی بڑھتی چلی جارہی ہے.یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ناراضگی کا اظہار ہے.خدا تعالیٰ اپنے پیاروں کی گستاخی برداشت نہیں کیا کرتا.خدا کے پیارے تو انتقام نہیں لیتے نہ لے سکتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو ذوالانتقام بھی ہے وہ اپنے مظلوم بندوں کا انتقام لیتا ہے اور بعض دفعہ ظلم اتنے بڑھ جاتے ہیں کہ استغفارا گر آپ ان کے لئے کریں تب بھی وہ استغفار نہیں سنی جائے گی.قرآن کریم نے اس مضمون کو خوب کھول دیا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں جانتا ہوں کہ بھاری اکثریت ہے، بہت کم ہیں جو حوصلہ چھوڑتے ہیں اور بددعا پر اتر آتے ہیں مگر بہت بھاری اکثریت ہے جو اپنے ہم وطنوں کے لئے اپنے ظلم کرنے والوں کے لئے بھی دعائیں کر رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے اور انہیں عذاب سے بچائے لیکن بعض مواقع پر مومنوں کی استغفار بھی ظالموں کے لئے کام نہیں آتی.خصوصا جب خدا کے پیاروں کی گستاخی اور ہتک کی جائے اس وقت اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے.قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً (التوبه: ۸۰) اے محمد ﷺ ! اگر تو ان ظالموں کے لئے ستر دفعہ بھی استغفار کرے تب بھی خدا ان کو نہیں بخشے گا.بعض نادان اس بات کو سمجھتے نہیں وہ حیران ہو کر دیکھتے ہیں کہ اللہ کا رسول اتنا پیارا ، تمام انبیاء کا سردار اور اس کو خدا فرما رہا ہے تو ان کے لئے ستر دفعہ بھی استغفار کرے تو میں نہیں بخشوں گا.گویا کہ وہ رحم دل ہے اور اللہ تعالیٰ نعوذ بالله من ذالک ظالم ہے.اس کا رحم تو جوش میں آیا ہوا ہے جس نے اپنی رحمت ارحم الراحمین سے لی تھی ، حاصل کی تھی اور جو ارحم الراحمین ہے اس کی رحمت جوش میں ہی نہیں آرہی بلکہ اس کا غضب رحمت پہ نعوذ بالله

Page 132

خطبات طاہر جلد ۶ 128 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء غالب نظر آتا ہے.وہ اس راز کو نہیں سمجھتے کہ یہ جو جرم ہے جس کا ذکر ہورہا ہے یہ ان منافقوں کا جرم تھا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی گستاخی کرتے تھے اور آنحضرت ﷺ اپنے خلاف بولنے والوں ، اپنی گستاخی کرنے والوں کو معاف کرنے کے لئے ایک غیر معمولی طاقت رکھتے تھے.اسی لئے جب منافقوں کے سردار نے جب آپ کے متعلق نہایت ہی نازیبا بلکہ نازیبا کا لفظ ہی اس کے لئے زیبا نہیں، نہایت ہی ظالمانہ کلمات کہے، انتہائی گستاخانہ ، ایسے کے دہرائے نہیں جاتے آج، اُس کے با وجود آنحضرت ﷺ نے جو ہر قسم کی نفس کی ملونی سے پاک تھے آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ میں اس کے لئے استغفار کروں اور کیونکہ اللہ کو اپنے نبی کی غیرت ہوتی ہے اور بے انتہا غیرت ہوتی ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا کہ محمد اپنی استغناء کی شان جیسی بھی دکھا رہا ہے یہ اس کے اوپر بجتی ہے لیکن مجھ پر یہ بجتا ہے کہ ان ظالموں کو میں معاف نہ کروں.پس آنحضرت ﷺ کے خلاف جرم کے مرتکب لوگ تھے جن کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ اگر ستر دفعہ بھی تو نے استغفار کی تب بھی میں ان کو معاف نہیں کروں گا اور آنحضرت ﷺ کا حسن سیرت دیکھیں کہ اس بات کو سن کر یہ نہیں فرمایا کہ اچھا پھر میں استغفار نہیں کرتا فرمایا اچھا میں ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار کروں گا.( بخاری کتاب الجنائز حدیث نمبر : ۱۲۷۷) عجیب شان ہے ہمارے آقا محمد مصطفی کی.ان علماء کو پتہ ہی کچھ نہیں کہ کس کی غلامی کا دم بھر رہے ہیں نــعـــو ذبـــالـلـه مـن ذالک یہ خود کس کی طرف منسوب ہو رہے ہیں.ان کو پتہ ہوتا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان کیا ہے تو حیا کرتے ان کی طرف منسوب ہونے سے.ادھر یہ عالم تھا یہ شان تھی ادھر یہ حال ہے کہ کلمہ پڑھنا جرم بن گیا ہے، بسم اللہ کہنا جرم بن گیا ہے، اللہ کا نام لینا جرم بن گیا ہے.الله ان کے جرائم کی فہرست بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے جو آنکھیں نکالنا، بالجبر زنا کرنا، چھوٹے بچوں کو قتل کر دینا، اغواء کر لینا، لوٹنا ، ڈاکے مارنا ، عورتوں کی سروں کی چادر میں اتار دینا ان کی عصمت دری کرنا، ہر قسم کے گناہ، ہر قسم کے ظلم، ہر قسم کی سفا کی کی فہرست پاکستان میں دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور ادھر احمدیوں کے جرائم کی فہرست بھی بڑھتی ہی چلی جارہی ہے.بسم الله کہنے والے، اللہ کا نام لینے والے، لا اله الا الله محمد رسول اللہ پڑھنے والے، خدا تعالیٰ اور محمد مصطفی ﷺ کے عشق کے گیت گانے والے ، عبادتیں کرنے والے.یہ جرائم ہیں جو آپ دیکھ لیں

Page 133

خطبات طاہر جلد ۶ 129 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء پاکستان کے جرائم کی فہرستیں.ادھر ان کے جرائم کی فہرستیں بڑھ رہی ہیں ادھر ہمارے جرائم کی فہرستیں بڑھ رہی ہیں.یہ غیر مسلم امہ کے جرائم ہیں اور وہ مسلمانوں کے جرائم ہیں جو میں نے پہلے بتائے.یہ جماعت احمدیہ کے اوپر جو چاہیں کریں جتنا چاہیں زور لگالیں پرانی تاریخیں جو خدا تعالیٰ دہرا رہا ہے یہ ضرور د ہرائی جائیں گی اور اپنے انجام تک پہنچیں گی اور کوئی نہیں ہے جوان تاریخوں کا رخ بدل سکے.حضرت بلال کی تاریخ بھی آپ دیکھ لیں پاکستان کی گلیوں میں دہرائی جارہی ہے کہ نہیں جارہی ؟ لیکن آخر وہی لوگ جو بلال پر ظلم کرتے نہیں تھکا کرتے تھے، ان کے پھر دل ایسے پلیٹے اور خدا تعالیٰ نے بلال کی شان اس طرح ظاہر فرمائی کہ وہی لوگ بلال کی جوتیوں کی خاک کہلانے میں بھی عزت محسوس کرنے لگے.سید نابلال کہہ کہہ کر عظیم صحابہ نے ان کی عزت افزائی کی اور فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت ﷺ نے یہ اعلان فرما دیا کہ آج اگر کوئی جان کی پناہ چاہتا ہے تو ایک بلال کا جھنڈا بھی وہ جھنڈا ہے جس کے نیچے جو بھی آئے گا وہ آج میری معافی کا حقدار بن جائے گا (سیرۃ الحلبیہ جلد ۳ صفحہ : ۹۷).کتنا عظیم الشان وہ وجود تھا جس نے حضرت محمد مصطفی امیہ کی خاک سے ثریا سے بلند تر عظمتیں حاصل کر لیں اور آج آپ اس دور میں سے گزر رہے ہیں اور کھلم کھلا قدم بہ قدم بلال کے نقش پا پر آگے بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ایک بلال کے ہزار ہا بلال پیدا ہور ہے ہیں.ایسی برکت ملی ہے بلالی دور کو اور یہ چودہ سو سال کے بعد واقعہ رونما ہوا ہے، کسی انسان کی طاقت میں تھا یہ بھلا کہ خود اپنے زور سے اپنی قوت سے اس تاریخ کو دہرا دیتا؟ تو جہاں بلال کی قربانیوں کی تاریخ دہرائی جارہی ہے وہاں بلال کے انعام کی تاریخ بھی ضرور ہرائی جائے گی.آپ ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہ ہوں.خدا نے یہ ساری عظمتیں اور ساری رفعتیں اور ساری عزتیں آپ کے لئے رکھی ہیں.آپ لا زما بالآخر غالب آئیں گے اور کوئی نہیں ہے جو اس غلبے کو تبدیل کر سکے اس یقین کے ساتھ آگے بڑھیں.جہاں تک دشمن کا تعلق ہے تو دشمن کا تو مقدر یہی ہے کہ یہ بولتا رہتا ہے، یہ پیچھے پڑا رہتا ہے.آپ ان کی طرف توجہ دیں تب بھی یہ آپ کو گالیاں دیتے رہیں گے ، توجہ نہ دیں تب بھی گالیاں دیتے رہیں گے.اس لئے اپنے کام سے کیوں غافل ہوتے ہیں.آپ تبلیغ کریں تب بھی آپ پہ جرم لگائیں گے تبلیغ نہ کریں تب بھی یہ آپ پر جرم لگائیں گے انہوں نے چھوڑ نا تو آپ کو

Page 134

خطبات طاہر جلد ۶ 130 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء ہے نہیں.اس لئے اپنے نیک کاموں سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہ ہوں اور ترک کچھ نہ کریں.وہ لوگ جو اس خیال سے پاکستان میں تبلیغ چھوڑ چکے ہیں کہ اب تبلیغ بند ہوگئی ہے اور بڑی سختی ہو رہی ہے اور ہم تبلیغ کریں گے تو ہمیں یہ یہ مصیبتیں پڑیں گی یہ ان کا واہمہ ہے.جو تبلیغ نہیں کریں گے ان پر بھی تبلیغ کا الزام لگنا ہی لگتا ہے کیونکہ مقابل پر جھوٹے ہیں.اس لئے اگر تبلیغ نہ کر کے آپ قید میں جائیں گے تو یہ تو گناہ بے لذت ہے.کوئی فائدہ ہی نہیں.اس سزا کا کوئی اجر آپ کو نہیں ملے گا پھر جب جانا ہی ہے تو پھر تبلیغ کر کے قید میں جائیں تا کہ خدا کے پیار کا مورد بنیں، اللہ تعالیٰ آپ کی ان ادنی سی قربانیوں کو اپنی رحمتوں اور پیار سے نوازے.اجر تو پائیں اس قربانی کا.اس بات کو یا درکھیں بہر حال کہ جو چاہیں آپ کریں نرمی اختیار کریں بختی اختیار کریں، اعراض کریں یا ان کے مقابل پر آپ کھڑے ہوں جو چاہیں آپ کریں انہوں نے آپ کا پیچھا نہیں چھوڑ نا اور پیچھا کرنے میں یہ فخر کرتے ہیں اور فخر کرتے چلے جائیں گے کیونکہ ان کے مقدر میں یہ بات لکھی ہوئی ہے، خدا تعالیٰ نے پہلے سے ہی بیان فرما دیا ہے انہوں نے ضرور آپ کا پیچھا کرنا ہے.یہ تو فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ ہم تعاقب کر رہے ہیں اور تعاقب کرتے کرتے سانس چڑھ گئے ہیں ہانپنے لگ گئے ہیں.جہاں جہاں احمدیت زور دکھائے گی ہم اس کے تعاقب میں پہنچیں گے، ہم اس کے پیچھے دوڑیں گے اور ہم کوشش کریں گے کہ ان کی ترقی بند ہو جائے اور یہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدمت دین ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو ایک اور طرح سے بیان فرمایا ہے، فرماتا ہے:.وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَهُ بِهَا وَلَكِنَّةَ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوىهُ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِنْ تَحْمِلُ عَلَيْهِ يَلْهَثْ اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ ذَلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِيْنَ كَذَّبُوا بِايْتِنَا فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (الاعراف: ۱۷۷) کہ اگر ہم چاہتے تو یہ جو نعمت نبوت عطا فرمائی ہے اس کے ذریعہ ہم اس شخص کا درجہ یا اگر قوم کی طرف اشارہ ہو تو اس قوم کا مقام بہت بلند کر دیتے.ضمیر تو ایک شخص کی طرف گئی ہے لیکن بات کا مضمون بتا رہا ہے کہ قومی طور پر ایک مضمون ایک تمثیل کے رنگ میں بیان کیا جارہا ہے.فرماتا

Page 135

خطبات طاہر جلد ۶ 131 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء ہے اگر ہم چاہتے تو اس کا ، جس کی ہم مثال دے رہے ہیں ، اس کا مرتبہ نور نبوت کے ذریعہ بہت بلند کر دیتے لیکن اس نے زمین کی طرف جھکنا اختیار کر لیا اسے اپنے لئے پسند کیا فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ خود اس کی مثال ایک کتے کی سی ہے اِنْ تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ تو خواہ اس کے اوپر روڑا اٹھائے تب بھی بھونکتے بھونکتے اور تیرا تعاقب کرتے کرتے اس کو سانس چڑھناہی چڑھنا ہے اَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَثْ اسے چھوڑ بھی دے تب بھی اس نے یہی کام کرنا ہے.ایسا عجیب نقشہ کھینچا ہے.آپ کسی جگہ سفر پر جارہے ہوں تو بعض قافلوں کے کتے بیٹھے ہوئے ہوں یا کسی گاؤں کے پاس سے گزریں تو گاؤں کے کتنے آپ پر حملہ کرتے ہیں اور نہ کاٹنے والے بھی ہوں اور اکثر نہیں کاٹتے تو دوڑتے ہوئے آتے ہیں اور جب آپ ہاتھ اُٹھاتے ہیں یا زمین کی طرف روڑے کے لئے جھکتے ہیں تو وہ دوڑ جاتے ہیں اور آپ ان کو چھیڑیں یا نہ چھیڑیں ، ماریں یا نہ ماریں انہوں نے ضرور یہ کرنا ہے اور ہمیشہ یہی کرتے ہیں یہ ان کا مقدر ہے یہ ان کی فطرت ہے.تو خدا تعالی کہتا ہے انہوں نے تو دوڑ دوڑ کر اپنے لئے سانس چڑھانا اپنا مقدر بنالیا ہے.یہ تو تمہارے تعاقب کرتے رہیں گے.ہانپتے رہیں گے، کانپتے رہیں گے، برا حال رہے گا.اس لئے یہ تمہارے روڑا اٹھانے یا روڑا پھینکنے کے ساتھ اس کا کوئی تعلق بھی نہیں ہے انہوں نے اپنا کام بہر حال یہی کرنا ہے اور یہی کرتے چلے جائیں گے.اس لئے تم کیوں اپنی کوششوں سے غافل ہوتے ہو؟ تم کیوں اپنی رفتار میں کمی آنے دیتے ہو؟ تم نے جو عظیم فاصلے طے کرنے ہیں وہ کرتے چلے جاؤ.غافل رہو اس بات سے اس ڈر سے بے پرواہ رہو کہ یہ کیا کرتے ہیں اور کیا کریں گے، انکے مقدر میں بہر حال ہانپنا کانپنا لکھا ہوا ہے یہ تو اسی طرح مارے جائیں گے.اس لئے ان کے ساتھ تو یہی ہو گا خدا کی تقدیر نے ان کو سانس چڑھا چڑھا کر مارنا ہے.یہ آپ کا تعاقب کر کر کے، برے حال ہو کر ہر کوشش کے بعد نا کام اور نامراد ہوں گے اور دیکھیں گے کہ ہاں ہم ناکام اور نامراد ہوئے.ساری تاریخ جماعت احمدیہ کی بتارہی ہے یہی ہوتارہا ہے.اس لئے آپ اپنی کوششوں میں کمی نہ آنے دیں.جو کام آپ کے لئے مقدر ہیں ان کے اوپر نظر رکھیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں.ایک دن ایک لمحہ بھی اپنے اوپر غفلت کا نہ آنے دیں.ہر حال میں آپ نے ترقی کرنی ہے.ہر حال میں آپ نے فاصلے طے کرنے ہیں.ایک حملہ آوروں کا قافلہ پیچھے چھوڑ جائیں گے تو آگے پھر آپ کی راہ میں کوئی اور بیٹھا ہو گا.مستقل آپ کو کبھی بھی امن نصیب نہیں

Page 136

خطبات طاہر جلد ۶ 132 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء ہوسکتا جب تک آپ اپنی منزل کو نہ پالیں اور یہ ضروری ہے آپ کے لئے ، آپ کو بیدار رکھنے کے لئے ، آپ کو ہوشیار کھنے کے لئے ، آپ کے اندر قوت مدافعت پیدا کرنے کے لئے ، اپنے مقاصد اور اپنے رخ کی طرف ہمیشہ نظر رکھنے کی خاطر خدا تعالیٰ نے یہ انتظام کر رکھا ہے یہ تو آپ کے ساتھ چلے گا بہر حال چلے گا، آج کچھ ہوں گے تو کل کچھ اور آجائیں گے نام بدلے جائیں گے حرکتیں یہی ہوں گی کہ دوڑ دوڑ کے انہوں نے سانس چڑھا چڑھا کر مرنا ہے.آپ نے آگے بڑھ بڑھ کر، خدا کے رستے پر مزید قدم بڑھاتے ہوئے جانیں دینی ہیں.ایک مقصد کی خاطر ، ایک معین رخ پر آپ نے آگے بڑھتے چلے جانا ہے اور اس سفر میں ان کی مذموم حرکتوں کو ہرگز اجازت نہیں ملنی چاہئے کو وہ کسی قسم کا بداثر ڈال سکیں ، آپ کی رفتار کو روک سکیں ، آپ کی توجہ کو بانٹ سکیں اس طرح کہ آپ اپنی زندگی کے اعلیٰ مقاصد کو بھلا دیں.پس خواہ آپ سطح زمین پر بسنے والے احمدی ہیں تب بھی آپ نے آگے ہی بڑھنا ہے، خواہ آپ زیر زمین جانے والے یعنی انڈر گراؤنڈ ہونے والے احمدی ہیں اصحاب کہف بن چکے ہوں ، تب بھی آپ نے کام کرتے چلے جانا ہے.احمدیت کے اوپر کوئی غفلت کا لمحہ، کوئی بے عملی کالمحہ نہیں آنا چاہئے اس کے ساتھ آخر پر میں آپ کو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں کہ جو میں نے حالات بتائے ہیں پاکستان کے متعلق اس کے نتیجے میں کوئی احمدی جو پاکستانی احمدی ہو وہ خوش نہیں ہوسکتا.حقیقت یہ ہے کہ بعض دفعہ جماعت جب ان باتوں کو دیکھتی ہے تو اس کے دل میں ایک تحریک پیدا ہوتی ہے ایک حرکت پیدا ہوتی ہے، ایک موج پیدا ہوتی ہے.ضروری ہے کہ اس کا صحیح تجزیہ کیا جائے.ظلم کے نتیجے میں خوشی کی وہ ہر نہیں ہے اگر ہے تو وہ پھر جھوٹی لہر ہے وہ احمدی ناقص احمدی ہے.اس کے دل میں جو موج پیدا ہوتی ہے یا ہونی چاہئے وہ اللہ تعالیٰ کی حمد کی موج ہونی چاہئے.اس خیال کے ساتھ دل میں شکر پیدا ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدے جماعت سے کئے تھے وہ پورے کر رہا ہے.جو وعدے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ کئے تھے وہ پورے کر رہا ہے.انی معین من اراد اعانتک کا وعدہ بھی پورا ہورہا ہے.انی مهین من اراد اهانتک ( تذکره صفحه: ۱۶۱) کا وعده بھی پورا ہو رہا ہے.اس حد تک تو دل میں اگر تموج پیدا ہو ایک حرکت پیدا ہو تو وہ قابل ستائش ہے قابل مذمت نہیں.لیکن اپنے بھائیوں کے اوپر دوسرے بھائی ظلم کر رہے ہوں سفا کا نہ، انسان کی عزتیں لوٹی جارہیں ہوں، بچے یتیم بنائے جا رہے ہوں، چھوٹے چھوٹے معصوم بچوں اور عورتوں کو

Page 137

خطبات طاہر جلد ۶ 133 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء جھلا جھلا کر جلتی ہوئی آگوں میں پھینکا جا رہا ہو اور اغواء کر کے لڑکیاں ان کی عزتیں لوٹی جا رہی ہوں اور پھر اس کے بعد ان کو قتل کر کے بھیانک طریقے پر سڑکوں پر ان کی لاشیں پھینکی جارہی ہوں.کون احمدی ہے جس کے اندر ایک ایمان کا ذرہ بھی ہے جو ان باتوں سے خوش ہوسکتا ہے.یہ نہایت ہی خوفناک ظلم ہیں جنہیں ہر شریف انسان مذمت کی اور تکلیف کی نظر سے دیکھے گا.اس لئے ہرگز کسی احمدی کے لئے بھی ایک لمحہ کے لئے ایک ذرہ برابر بھی ان باتوں پر خوشی کی کوئی گنجائش نہیں.ہاں خدا تعالی کی طرف سے جو پکڑ ظاہر ہوتی ہے اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے وعدے پورے کرنے کی طرف جو دھیان جاتا ہے وہ ایک بالکل اور مضمون ہے.اس کے نتیجے میں انسان کی انسانیت کے اوپر حرف نہیں آتا ، انسان کی انسانی قدریں قربان نہیں ہوتیں.حضرت رسول اکرم ﷺ کی ساری زندگی کا آپ مطالعہ کریں خدا تعالیٰ کے وعدوں کے پورا ہونے پر آپ شکر بھی فرماتے تھے اور دشمن کی ہلاکت پر درد بھی محسوس فرماتے تھے بلکہ اس دشمن کی ہلاکت پر بھی درد محسوس فرماتے تھے جس کی ہلاکت ابھی واقع ہی نہیں ہوئی تھی ، جس کے متعلق خبر دی جاتی.پس ہم نے آنحضرت ﷺ کی سنت کو اپنانا ہے اور یہی سنت ہماری بقا کا موجب بنے گی.اس لئے آپ اگر پاکستانی ہیں تو آپ پر دو ہرا فرض ہے کہ آپ اس ملک کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو عذاب سے بچائے.اللہ تعالیٰ ان کو اپنی پکڑ سے اس طرح محفوظ رکھے کہ ہمارے دل بھی ٹھنڈے کرے اور اس کے لئے خدا تعالیٰ کے پاس بے شمار رستے ہیں میں یہ نہیں کہتا آپ کو کہ یہ دعا کریں کہ ہمارے دل اسی طرح جلتے رہیں ان کے ظلم دیکھ کر اور اللہ تعالیٰ ان سے کوئی معاملہ بھی نہ کرے، ہرگز میں یہ نہیں کہہ رہا.میں تو یہ کہ رہا ہوں کہ آپ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے.وہ جو ظلم کرنے والے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گستاخی کرنے والے ہیں وہ سلام بھیجنے والے بن جائیں.وہ جو احمدیت کی مخالفت کر رہے ہیں، احمدیت کی راہ میں آگے بڑھ کر قربانیاں دینے والے بن جائیں.وہ جو آپ پر ظلم کر کے آپ کے بہتے ہوئے آنسو پہ ہنسا کرتے تھے وہ اپنے مظالم کی یاد سے خود روئیں آپ کے سامنے اور آپ ان کے آنسوؤں پر نہیں نہیں بلکہ پیار اور محبت سے ان کے آنسوؤں پر پھر آنسو بہائیں.یہ جوانتقام ہے، یہ جو دل کی تسکین کا سامان ہے اس جیسا کوئی نہ انتظام ہے نہ کوئی تسکین کا سامان ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ایک پشیمان آدمی

Page 138

خطبات طاہر جلد ۶ 134 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء کی پشیمانی کو دیکھ کر ایک سچے دل میں جو تسکین اور اطمینان کے جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ ایک من دل میں ہزار انتقام کے بعد بھی پیدا نہیں ہو سکتے.پس برا دیکھ کر اپنے دلوں کو ٹھنڈا کرنے کی دعائیں نہ کریں.آپ کو دل کی ٹھنڈک چاہیئے آپ کو دل کی طمانیت چاہئے ، اللہ تعالیٰ کے پاس ہزار رستے ہیں آپ کے دلوں کو ٹھنڈا کرنے کے وہ غضب کو بھڑکائے بغیر بھی آپ کے دلوں کو ٹھنڈا کر سکتا ہے.ورنہ امر واقعہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے خدا کے نشان دیکھے ہیں عذاب کے اور سزا کے قریب سے وہ جانتے ہیں کے ان میں کوئی لذت نہیں ہے.استغفار کا مقام ہے خوف کا مقام ہے.کسی کی بگڑی ہوئی فطرت ہو تو وہ تو لذت پائے گا اس سے لیکن حقیقت میں عبرت تو حاصل ہو سکتی ہے لذت حاصل نہیں ہوا کرتی خدا کے غضب کے بعد.بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے واقعات بھی ہوتے ہیں.مجھے ایک احمدی دوست نے خط لکھا کہ ایک ان کا افسر تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گستاخی میں دن بدن بڑھتا چلا جارہا تھا اور چونکہ افسر تھا ویسے بھی اس کے سامنے یہ کچھ نہیں کر سکتے تھے مگر کہتے ہیں صبر کی تعلیم تھی میں صبر کرتا رہا، بہت صبر کرتا رہا لیکن ایک دن اس نے اتنی گستاخی شدید کی ایسا گند بولا کہ میرے دل سے بے اختیار بددعا نکل گئی اور میں نے اس کو کہا خدا تیرے گلے میں جہاں سے آواز نکل رہی ہے کیڑے ڈالے تیری زبان بند ہو جائے اور تو ذلت کی موت مرے.کہتے ہیں اس کے بعد میں پشیمان بھی ہوا لیکن اب تو میں اتنا استغفار کر رہا ہوں اور اتنا ڈر رہا ہوں کہ میں نے کیوں ایسی بات کہی کہ اس کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد، ایک دو ہفتے کے اندر اندر، واقعہ اس شخص کے گلے میں کوئی ایسی بیماری پڑی کہ اس کی آواز بند ہوگئی اور انتہائی دردناک حالت ہوگئی.ایسے کوئی جراثیم تھے جن کے متعلق وہ کہتے ہیں میں نہیں جانتا کہ ان کی نوعیت کیا تھی مگر اتنا شدید عذاب میں مبتلا تھا کہ چند دن اس عذاب میں مبتلا رہ کر بات کرنے کی اہلیت جاتی رہی ہاتھ سے اور اسی حالت میں مر گیا.انہوں نے مجھے جو خط لکھا وہ کہتے ہیں میں اس وقت سے استغفار کر رہا ہوں آپ نے تو ہمیں کہا تھا کہ صبر کرو اور دشمن کے لئے بھی بد دعا ئیں نہ کرو اس وقت میرے منہ سے بددعا نکل گئی لیکن جو اس کی درد ناک حالت دیکھی ہے مجھے اب چین نہیں آرہا کہ کیوں میں نے ایسی حرکت کی.تو میں آپ کو یہ بتاتا ہوں کہ صاحب تجر بہ جانتے ہیں کہ جب خدا کا عذاب نازل ہو رہا

Page 139

خطبات طاہر جلد ۶ 135 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء ہو اور آپ قریب سے دیکھ رہے ہوں تو خواہ آپ کی بددعا کے نتیجے میں بھی ہو تب بھی دل کو چین نہیں آتا کیونکہ مومن کی انسانیت کا معیار بڑا بلند ہو چکا ہوتا ہے.مومن کی بنی نوع انسان کی ہمدردی کا معیار بہت بلند ہو چکا ہوتا ہے.اسے عام پیمانوں پر نہیں جانچا جا سکتا.اس لئے آپ اپنی دعاؤں میں حوصلہ پیدا کریں اور اس ملک کی بقا کے لئے ضرور دعا کریں ورنہ جو حالات ظاہر ہورہے ہیں وہ بہت ہی خطرناک ہیں.اگر خدانخواستہ اسی طرح یہ اپنے ظلم اور سفا کی میں آگے بڑھتے رہے اور آپ کی دعاؤں نے اس ملک کونہ بچایا تو پر دنیا کی کوئی چیز اس ملک کو بچا نہیں سکتی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.چونکہ عصر کا وقت ذرا پیچھے ہٹ گیا تھا اس لئے میں نے امام صاحب سے کہا تھا کہ اعلان کر دیں کہ آج کے جمعہ سے پھر جمع نہیں ہوا کرے گی کیونکہ جمعہ کی مجبوری یہ بھی کہ جمعہ ختم ہوتے ہوتے عصر کا وقت شروع ہو جا تا تھا لیکن اب میں نے دیکھا ہے آج خطبہ کچھ ضرورت سے زیادہ ہی لمبا ہو گیا ہے میرا خیال تھا چھوٹا کرنے کا بہر حال باتوں سے باتیں نکلتی چلی جاتی ہیں ، یاد آ جاتی ہے کوئی اور بات.بہت زیادہ لمبا ہو گیا ہے.اب تو نماز پڑھتے پڑھتے پھر عصر کا وقت آجائے گا.اس لئے آج کے جمعہ میں تو جمع ہوگی عصر کی نماز اور انشاء اللہ آئندہ کچھ عصر اور پیچھے ہٹ جائے گی اور میں خطبہ چھوٹا کرنے کی کوشش کروں گا.اب کچھ دوستوں کی وفات کی اطلاع ملی ہے اور بعض ان میں سے سلسلہ کے بڑے پرانے خدمت کرنے والے واقفین زندگی تھے.بعض ایسے خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو سلسلے میں خدمت کے لحاظ سے بڑی شہرت رکھنے والے ہیں.مولوی صدرالدین صاحب جو سابق مبلغ ایران تھے ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے لاہور سے، ہارٹ اٹیک ہوا ہے ان کو ، وفات پاگئے.فارسی میں انہوں نے بہائیوں کے خلاف خصوصیت کے ساتھ بہت اچھی کتابیں لکھیں تھیں جو اس زمانے میں جب انہوں نے یہ کھیں تو کافی ایران میں شہرت پا گئیں تھیں اور بڑے اچھے اچھے تبصرے ان پر لکھے گئے.میں نے کہا ہے ساقی صاحب مبارک احمد ساقی ) کو نکالیں آج کچھ فارسی بدل گئی ہے اس کے مطابق اس کی تھوڑی سی اصلاح کر کے انشاء اللہ ان سے پھر استفادہ کیا جائے گا.مولوی مبشر احمد صاحب را جیکی ،حضرت مولا ناغلام رسول صاحب را جیکی کے صاحبزادے،

Page 140

خطبات طاہر جلد ۶ 136 خطبه جمعه ۲۰ فروری ۱۹۸۷ء وقف جدید کے آغاز میں وقف کرنے والے جو لوگ تھے ان میں یہ بھی شامل تھے اور ایک عرصے تک وقف جدید میں میرے ساتھ بھی کام کرتے رہے ہیں.بہت اچھے قادر الکلام شاعر بھی اور بہت اعلیٰ پائے کے ادیب، اپنے ابا سے بہت سی خوبیاں انہوں نے ورثے میں پائیں تھیں.ان کا بھی اچانک ہارٹ فیلیئر ہوا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ شادی کر لی تھی انہوں نے ورنہ بہت دیر سے دوست کہتے بھی رہتے تھے شادی کی طرف مائل نہیں ہوتے تھے.اپنا ایک فقیرانہ مزاج تھا.کہتے تھے میں نے کیا کرنی ہے شادی اور بہت اعلیٰ قسم کی نسل چھوڑ کے جاؤں تو تب میں شادی کروں، اس قسم کی باتیں ایک صوفیانہ مزاج کی وجہ سے کیا کرتے تھے لیکن آخر اللہ تعالیٰ نے دل کو مائل فرما دیا اب ان کا ایک بیٹا بھی ہے چھوٹا.اللہ تعالیٰ اس کو اپنے باپ اور دادا کی خصوصا تمام نیکیوں کا وارث بنائے.ایک ہمارے ربوہ کے مشہور مستری تھے مستری فیروز دین صاحب بجلی والی ان کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.ایک ہمارے چوہدری نور احمد صاحب میر پور خاص کے، ان کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے.چوہدری نور احمد صاحب کے والد بھی خدا کے فضل سے اپنے اخلاص اور دین کی قربانی میں بہت اچھا اونچا مقام رکھتے تھے ماشاء اللہ.اسی طرح حافظ محمد رمضان صاحب کے بڑے داماد مکرم محمد لطیف صاحب زرگر وفات پاگئے ہیں اور مختار احمد صاحب ہاشمی جو خدمت درویشاں میں انچارج دفتر ہوا کرتے تھے ان کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.ان سب کی نماز جنازہ غائب نماز عصر کے بعد ہوگی.

Page 141

خطبات طاہر جلد ۶ 137 خطبه جمعه ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء جماعت احمدیہ کے خلاف کارروائیاں ، جہلم میں ہونے والی شہادت ، سارا پاکستان مظلوم ہے اس کے لئے دعا اور ہمدردی کی نصیحت ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : اِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ انَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ اِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَكَذِبُونَ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيلِ اللهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ أَمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوا فَطِيعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ) اور پھر فرمایا: (المنافقون:۴۲) پاکستان میں جو جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیزی کی اور افترا پردازی کی اور اشاعت فحش کی مہم حکومت کے سائے تلے علماء کی طرف سے چلائی جا رہی ہے.اس میں وقتاً فوقتاً تیزی بھی آجاتی ہے اور علاقے بھی مختلف وقتوں میں بدلتے رہتے ہیں.کبھی سندھ کو خاص طور پر اپنی

Page 142

خطبات طاہر جلد ۶ 138 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء مذموم سازشوں کے لئے نشانہ بنایا جاتا ہے، خاص علاقوں کو چنا جاتا ہے.ایک منظم طریق پر ان مخصوص علاقوں میں شرارت کو ہوا دی جاتی ہے.کبھی صوبہ سرحد میں، کبھی بلوچستان میں کبھی پنجاب میں اور یہ ساری سازش اس طریق پر وقتا فوقتا عمل دکھاتی ہے کہ صاف پتا چلتا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی سازشی دماغ کام کر رہے ہیں ،منصوبہ بنارہے ہیں اور کام کو سنبھال کر باقاعدہ ایک منظم طریق پر آگے بڑھانے کے لئے کچھ خاص کا ر کن استعمال کئے جاتے ہیں اور کسی جگہ بھی جہاں بھی یہ مہم تیزی دکھاتی ہے وہاں عوامی جوش اس میں کوئی نظر نہیں آتا.کاغذی جوش بہت دکھائی دے گا.اخبارات میں بہت شور پڑے گا ، علماء کی طرف سے احتجاجی Resolutions پاس کئے جاتے ہیں جو شائع کئے جاتے ہیں اور فضا ایسی بنتی ہوئی دکھائی جاتی ہے اخباروں میں گویا کہ سارے ملک میں آگ لگ گئی ہے اور اشتعال پیدا ہو گیا ہے اور شدید ہنگامہ آرائی ہو رہی ہے حالانکہ جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے سارا ملک پر سکون ہے.جتنی بھی ہنگامہ آرائیاں ہیں وہ جماعت احمدیہ کے سوا اور مضامین پر ہیں.وہ سیاسی نفرتوں کے نتیجے میں ہیں یا علاقائی نفرتوں کے نتیجے میں ہیں یا لسانی نفرتوں کے نتیجے میں ہیں بہر حال کوئی بھی وجہ ہو جو حقیقی اشتعال واقعہ ملک میں دکھائی دیتا ہے اس کا جماعت احمدیہ سے تعلق نہیں ہے.ہاں ایک بنایا ہوا کاغذی اشتعال ہے جو حکومت کی سرپرستی میں باقاعدہ منصوبے کے مطابق پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.چنانچہ جتنے بھی شہداء ہوئے ہیں جماعت احمدیہ کے اس دور میں گزشتہ ادوار کے برعکس یہ سارے نہایت ہی سفا کا نہ سازشی قتل کہلا سکتے ہیں عوامی جوش کے نتیجے میں کوئی ایک بھی شہید نہیں ہوا.آپ ساری گزشتہ چند سالوں کی تاریخ پر ایک ایک شہید کے حالات پر غور کریں تو آپ حیران ہوں گے کہ ایک بھی ایسا شہید نہیں ہے جس سے آپ کہہ سکیں کہ عوامی اشتعال کے نتیجے میں ہنگامہ آرائی ہوئی اور اس کے نتیجے میں دونوں طرف سے لڑائی ہوئی اور ایک آدمی شہید ہو گیا یا ایک شریک نے غلبہ پایا اور دوسرے نے مدافعت نہ کی ، ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا.تمام شہادتیں صاف نظر آرہا ہے کہ قتل کے منصوبے ہیں اور چھپ کر قتل کئے گئے ہیں اور جن علاقوں میں قتل ہوئے ہیں وہاں لوگوں نے شدید نفرت کا اظہار کیا ہے ان ظالمانہ قتلوں کے خلاف بعض جگہ با قاعده Resolutions بھی پیش کئے گئے بعض جگہ وکلاء کی طرف سے، بعض جگہ تاجروں کی طرف سے اور بعض علاقوں میں احمدی

Page 143

خطبات طاہر جلد ۶ 139 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء کی شہادت کے نتیجے میں بازار بند کئے گئے.کون دنیا کا جاہل اور پاگل ہو گا جو اس قسم کے قتلوں کو عوامی اشتعال کے نتیجے کے قتل قرار دے سکتا ہے.صاف پتا چلتا ہے کہ حکومت باہر کی دنیا میں ان ذلیل حرکتوں پر پردہ ڈالنے کے لئے یہ ظاہر کرنے کی خاطر کہ حکومت کا تو کوئی بھی قصور نہیں حکومت تو چاہتی ہے کہ احمدیوں کی جان و مال کی حفاظت ہو مگر اس قدر شدید اشتعال ہے ان کے خلاف کہ ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے.یہ اثر ڈالنے کی خاطر اخباری اشتعال انگیزی کے قصے اور کاغذی فسادات کے ذکر وہ اپنے ملک میں بھی پھیلاتے رہتے ہیں اور بیرون ملک بھی یہی خبریں بھیجتے رہتے ہیں.حالانکہ ہر قتل ایک واضح سازش کا نتیجہ ہے جس میں حکومت کی سرپرستی قطعی طور پر شامل ہے.ورنہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ اتنے قتل ہوں ظالمانہ اور کسی قاتل کو نہ پکڑا جائے اور اگر کوئی پکڑا جائے تو اسے یہ کہہ کر بعد میں چھوڑ دیا جائے کہ اس سے نعوذ باللہ من ذالک رسول اللہ ﷺ کی گستاخی برداشت نہیں ہوئی تھی چونکہ احمدی نے گستاخی کی تھی اس لئے اس کو قتل کر دیا گیا اور اگر دفاعی طور پر احمدی سے کسی کا جانی نقصان ہو جبکہ وہ حملہ آور ہو، گھر میں گھس کر ظلم کی رُو سے تشدد کر رہا ہو تو اس کے خلاف اتنا بڑا ہنگامہ برپا کیا جاتا ہے کہ گویا ملک میں سب سے بڑا فتنہ اور فساد وہی تھا اس سے بڑھ کر اور کوئی فتنہ ہو ہی نہیں سکتا اور بڑے بڑے فتنوں کو تو اب استناد بایا جا رہا کہ جو وہاں سے خبریں آرہی ہیں حقیقی فتنوں کو ، اخباروں میں جو چھپتی ہیں آنے والے لوگ بتاتے ہیں کہ یہ تو کچھ ہیں جو چھپ رہی ہیں اب تو عادت پڑ گئی ہے ملک کو بدنظمی کی اور فساد کی اور روز مرہ کے فساد تو اب قابل ذکر ہی نہیں سمجھے جا رہے.تو ان دونوں موازنوں میں خدا کی ایک تقدیر کام کر رہی ہے.بالکل کھلا کھلا خدا کا ہاتھ دکھائی دے رہا ہے.جتنا یہ جماعت احمدیہ پر ظلم کرتے ہیں اور اچھالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملک میں فساد ہے خدا تعالیٰ کی تقدیر عملاً اتنا ہی فساد برپا کرتی ہے اور کوئی ان کا اختیار نہیں ہے کہ اس کو روک سکے.نہ بھی چاہیں تو تب بھی وہ اخباروں میں وہ باتیں اچھلتی ہیں اور دنیا میں ان کی تشہیر ہوتی ہے اور اب تو اتنی زیادہ بدامنی ہو چکی ہے کہ پاکستان سے جو گزشتہ چند دنوں میں آنے والے ملے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہم اتنی مدت کے بعد وہاں گئے ہیں حیران رہ گئے ہیں یہ ملک پہنچانا نہیں جاتا کسی کو تحفظ کا احساس نہیں رہا، کسی کو یہ یقین نہیں ہے کہ عزتیں محفوظ ہیں اس ملک میں.تاجر تجارتوں سے خوفزدہ ہیں ، سارے ملک میں ایک بدامنی ہے اور کچھ پتا نہیں کہ خطرہ کہاں سے ہے، کس طرف سے آرہا ہے لیکن حالات

Page 144

خطبات طاہر جلد ۶ 140 خطبه جمعه ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء بعض لوگوں پر واضح بھی ہورہے ہیں بعض زبانیں وہ باتیں بیان بھی کرنے لگی ہیں جو پہلے کسی زمانے میں سوچ بھی نہیں سکتی تھیں، سوچ بھی نہیں سکتے تھے لوگ کہ بڑی بڑی مجالس میں ایسی باتیں ہوسکتی ہیں.چنانچہ کراچی سے ایک ہماے احمدی دوست کا خط ملا کہ ایک بہت بڑی شادی کی دعوت میں جس میں کراچی کے تمام چوٹی کے معززین اہل علم بھی اور تاجر بھی اور وکلاء بھی اور ہر قسم کے معززین جود نیا کے پیمانے میں معزز کہلاتے ہیں وہ جمع تھے اور وہاں بھری مجلس میں ایک صحافی نے جس کا یہاں نام لینا مناسب نہیں اس نے کہا یہ جو ظلم ہورہے ہیں سارے کراچی میں اور اندھیر نگری پھیلی ہوئی ہے تم لوگ کیوں محسوس نہیں کرتے یہ سارا ظلم اس ظلم کی سزا ہے جو تم نے جماعت احمد یہ پہ روا رکھا ہے اور یہ خدا کی تقدیر کی طرف سے عذاب الہی ہے اور اس کے جواب میں ایک زبان نے بھی انکار نہیں کیا سارے خاموش ہو گئے.وہاں جماعت اسلامی کے کٹر ممبران بھی موجود تھے چوٹی کے کیونکہ بڑے آدمیوں کی دعوت میں ہر قسم کے بڑے آدمی ہی بلائے جاتے ہیں عموما بلکہ ایک عالم دین نے جو عالم دین بھی ہیں اور ایک صحافی بھی انہوں نے اس کی تائید کی.انہوں نے کہا واقعی یہ ظلم ہے اور ہمیں کوئی حق ہی نہیں تھا جو ہم نے ان کے ساتھ کیا ہے اس کا کوئی شرعی جواز نہیں ہے، قطعا غلط ہوا ہے.لیکن اس کے باوجود جن کو نظر نہ آرہا ہو ان کی آنکھیں بند ہو جاتی ہیں وہ اپنے ظلم میں رکنے کی بجائے آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ آج ہی صبح پاکستان سے سوہاوہ ضلع جہلم سے ایک شہادت کی اطلاع ملی ہے جو ہمارے ایک نہایت مخلص نوجوان غلام ظہیر کی شہادت ہے یہ تقریبا تین سال ہوئے احمدی ہوئے اور ایسے صادق القول اور صادق الفعل نو جوان تھے کہ ان کے متعلق مجھے بعض جو ان کے ملنے والے تھے لکھا کہ ان کو نکالنا چاہئے وہاں سے ان کو شدید خطرہ ہے بار بار قتل کی دھمکیاں ملتی ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں کھلم کھلا، کلمہ لگا کر پھرتے ہیں اور جب کہا جاتا ہے کہ جگہ چھوڑ و تو کہتے ہیں ہرگز نہیں میں نے چھوڑنی.چھوٹی سی کریانے کی دکان جس کی پکری بھی کم ہونی شروع ہوگئی اس مخالفت کے دور کی وجہ سے لیکن باوجود علاقے کے دوسرے معزز احمدیوں کے اور واقفوں کے سمجھانے کے ایسا بہادر نوجوان تھا اس نے کہا ہرگز کبھی میں نے یہ جگہ نہیں چھوڑنی اسی دکان پر گزارہ کروں گا اور جو بھی ہوگا مجھے

Page 145

خطبات طاہر جلد ۶ 141 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء خدا تعالیٰ نے نور ہدایت عطا فرمایا ہے اور میں اس سے علاقے کو یہ نور پہنچا تا رہوں گا.چنانچہ ان کی شہادت بھی ہمارے لحاظ سے تو ایک بہت ہی عظیم شہادت ہے ان کے لحاظ سے بھی یہ خدا تعالیٰ کا ایک بڑا عظیم فضل ہے جو ان پر نازل ہوا لیکن جہاں تک دشمن کا تعلق ہے وہی کمینگی ، وہی سفلہ پن اس قتل میں بھی پایا جاتا ہے.رات کو ان کے گھر کی بجلی بجھائی گئی اور انہوں نے باہر نکل کے دیکھنا چاہا کہ کیا بات ہے بجلی کیوں کبھی اور دروازہ کھولا تو وہیں گولی مار کر شہید کر دیا، موقع پر ہی ان کی شہادت ہوگئی.تو اس کو عوامی اشتعال کیسے کہہ سکتے ہیں یہ تو قتل کی ایک باقاعدہ ایک سلسلہ وار سازش ہے جو جہاں جہاں بھی فوکس (Focus) ان کا بدلتا ہے جہاں جہاں یہ فسادات کے لئے منظم ہو کر تیار ہو کر کوشش کرنا چاہتے ہیں وہاں ایسی حرکتیں کروا ر ہے ہیں اور بہت سے قتلوں کے انداز سے لگتا ہے کہ پیشہ ور قاتل استعمال ہوتے ہیں اور وہاں تو آجکل جان کی کوئی بڑی قیمت نہیں ہے اس لئے چند ہزار میں بھی آسانی کے ساتھ ایسے قاتل مہیا ہو سکتے ہیں جن کو خصوصا یہ ضمانت مل جائے کہ کوئی پکڑا نہیں جائے گا کوئی سزا نہیں ہوگی اور اگر پکڑا گیا تو ایک عظیم الشان ہیرو کے طور پر ساری دنیا میں نام اچھالا جائے گا اور اس کے بعد موت کے ہاتھوں سے چھین لیا جائے گا واپس لیکن یہ بے وقوفی ہے موت تو وہی ہے جو خدا کی طرف سے وارد ہوتی ہے اور زندگی بھی وہی ہے جو اس کی طرف سے عطا ہوتی ہے.وہ لوگ تو مردہ ہو چکے جنہوں نے مردوں والے کام شروع کر دیئے اور جن کو یہ مارتے ہیں ان کی زندگی کی خدا شہادت دے رہا ہے اس سے بڑھ کر کیا مقام ہوسکتا ہے.کتنے ہیں انسان جو زندہ رہتے ہیں بظاہر لیکن زندوں سے بہت زیادہ مردوں کے مشابہ زندگی گزار رہے ہیں.بہت خوش نصیب کم ہیں وہ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ زندہ ہیں اور ایسے زندہ ہیں کہ کبھی کوئی ان کو مار نہیں سکتا.تو ان ابدی زندہ رہنے والوں میں جو امر ہو گئے جن کے او پر کبھی کوئی موت آ نہیں سکتی جو آئی اس کا نام بھی خدا نے زندگی رکھا ، ایک ہی موت آیا کرتی ہے انسان پر اور اس کا نام خدا نے زندگی رکھ دیا ایسے شخص کی زندگی پھر کون چھین سکتا ہے یہ تو یقیناً خوش نصیب ہیں لیکن ان کی محبت ان کے پیار کی وجہ سے ان کی جدائی کا دکھ بھی پہنچتا ہے اور ایسے ظالم دشمن کے متعلق طبیعت پر ایک بوجھ بھی پڑتا ہے.ابھی گزشتہ خطبہ میں میں نے دعاؤں کی تحریک کی تھی مظالم کے باوجود ، جب یہ

Page 146

خطبات طاہر جلد ۶ 142 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء واقعہ سنا تو خود میرے دل پہ بوجھ پڑا اور دعا کے لئے تھوڑی دیر کے لئے روک پیدا ہوئی لیکن کیونکہ اس لئے کہ دعا میں تو سچائی ہونی چاہئے اگر سچائی کے ساتھ دعانہ نکلے کسی قوم کے لئے تو پھر ایسی دعا تو خدا کے نزدیک کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی بلکہ انسان کے اپنے ضمیر کو گندہ کر دیتی ہے.جھوٹ خدا سے تو بولا ہی نہیں جا سکتا.آپ خدا سے رحم مانگیں اور دل میں سختی پیدا ہو چکی ہو اور دل تکلیف کی وجہ سے مجبور ہو کہ دعا نہ کر سکے تو ایسی صورت میں آدمی کیسے وہ دعا کر سکتا ہے دوسروں کو کیسے تلقین کر سکتا ہے.تو میں نے پھر اس مسئلہ پر غور کیا اور سارے پہلو اس کے دیکھے تو میں نے سوچا کہ اس کے باوجود مجھے جماعت کو یہی تلقین کرنی چاہئے اور میرا دل بھی پھر بعد میں کھل گیا دعا کے لئے کہ ایسے ظالم کم ہیں اسی لئے میں نے یہ تمہید باندھی ہے لمبی کہ اکثریت پاکستان کی ان جرائم میں شریک نہیں ے ورنہ بھی پاکستان کو اتنا بڑا موقع نہیں ملا تھا ک حکومت کھلم کھلا احمد یوںکے قتل و غارت کی تلقین کر رہی ہو اور ہو اور جتنے قتل ہوں وہ مثالیں بن چکے ہوں اس بات کی کہ کبھی پوچھے نہیں جائیں گے اور اس کے باوجود اس سارے کئی سال کے عرصے میں گنتی کے چند قتل ہیں.اٹھارہ یا انیس شہادتیں بنتی ہیں جبکہ جو فوری طور پر ہنگامی جوش میں فسادات ہوتے ہیں ان میں ایک ہمیں اپنی گزشتہ تاریخوں میں مہینے دو مہینے کے اندر اندر میں چالیس تک شہادتیں پہنچ جایا کرتی تھیں بلکہ بعض دفعہ اس سے بھی کم عرصے میں ایک ہفتے کے اندراندر اتنی شہادتیں ہو جاتی رہی ہیں.اس لئے یہ ساری بات اگر آپ غور کریں تو ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ پاکستان ملک مظلوم ہے، پاکستانی خودمظلوم ہیں، ان کی بھاری اکثریت بے چاری بہت ہی پراگندہ حال میں زندگی بسر کر رہی ہے.ایسے غرباء ہیں جن کو سر ڈھانکنے کو کپڑا نہیں ملتا ایسی عورتیں ہیں.ایسے غریب مسکین لوگ ہیں جن کو سونے کے لئے چھت میسر نہیں ہے، سردیوں میں کپڑے نہیں ملتے بدن ڈھانکنے کے لئے گرمیوں میں سایہ نہیں ملتا، دن کو دھوپ اور مکھیوں کا عذاب، رات کو مچھروں کا عذاب اور پھر اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بخار، گندے پانی بعض جگہ پانی بھی میسر نہیں.ایسے ایسے خوفناک علاقے ہیں کراچی اور لاہور وغیرہ میں خصوصا کراچی میں کہ آپ وہاں سے گزر جائیں اور دیکھیں کہ کس طرح خدا کے بندے زندگی بسر کر رہے ہیں تو بدن کانپ اٹھتا ہے ان کی حالت پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.ایسے گندے نالوں میں رہ رہے ہیں بے چارے جن کو جب سیلاب آئے تو انہی گندے نالوں میں

Page 147

خطبات طاہر جلد ۶ 143 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء غرق کر دیتا ہے یا ان کے سارے کپڑے یا جو بھی ان کے پاس غریبانہ سامان ہوتے ہیں سب بہا کے لے جاتا ہے اور بہت ہی گندی حالت ہے اور بہت ہی تکلیف میں زندگی بسر کرنے والے ہیں.ہیضے اور وبائیں پھوٹتی ہیں تو وہیں انہیں بے چاروں کے اوپر.دیہات میں بھی غربت کا یہ عالم ہے کہ جو ایک طبقہ غریب ہے ان کا پرسان حال ہی کوئی نہیں ہے، فاقہ کر رہے ہیں تو کسی کو پتہ ہی نہیں کہ گھروں میں فاقہ پڑ رہا ہے اور پھر عزتیں نیچی جارہی ہیں چھوٹے قصبات میں کثرت سے اور بالکل بے اختیاری اور مجبوری کی حالت ہے اس کے اوپر چوری، اس کے اوپر ڈا کہ اس کے باوجود ان سب تکلیفوں کے پھر ظلم کوئی اور کرتا ہے اور چند لوگ جو بے سہارا ہیں جن کی پولیس میں سفارش نہیں ہے ان کو پکڑ کے گھسیٹ کے تھانوں میں پہنچا دیا جاتا ہے.یہ سارے حالات ہیں ان پر بھی تو نظر کریں.جتنی شہادتیں احمدیوں کی ہوئی ہیں اس کے مقابل پر لاکھوں گنا زیادہ دکھ ہے جو سارے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور ان شہادتوں کے بعد پھر اور زیادہ خدا تعالیٰ کا عذاب بھی ظاہر ہو رہا ہے اور لوگ مختلف مصیبتوں اور تکلیفوں میں پکڑے بھی جارہے ہیں.تو بددعا کے حقدار تو نہیں ہیں یہ لوگ ، رحم کے مستحق ہیں، دعاؤں کے محتاج ہیں.پس اپنی تکلیف کو ان کی تکلیفوں کے ساتھ شامل کر کے ساری قوم کے لئے دعا مانگیں ہاں جو چند بد بخت ہیں ان کے لئے میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی فرمایا اور جس طرح آنحضرت ﷺ نے بھی آئمۃ الکافرین کے لئے ، آئمۃ التکفیر کے لئے بددعا کی ہے ایسے چند بد بختوں کے لئے جن کے دل سخت ہو گئے اور سخت ہوتے چلے جارہے ہیں ان میں کوئی حیاء باقی نہیں رہی اپنا اگر جوش نکالنا ہے بددعا کا توان پر بے شک نکال لیں لیکن قوم کو اپنی بددعا میں شامل نہ کریں بلکہ قوم کیلئے پہلے سے زیادہ دعائیں کریں اور زیادہ درد کے ساتھ دعائیں کریں.ان سارے حالات پر نظر کریں پھر آپ کا دل واقعۂ دعا کے لئے مائل ہو گا ورنہ بغیر سوچے صرف اس لئے کہ میں نے کہہ دیا دعا کریں آپ دعا شروع کر دیں یہ ہو نہیں سکتا تبھی میں نے اپنی سوچ میں آپ کو شامل کیا ہے، آپ کو بتایا ہے، مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ واقعہ یہ قوم قابل رحم ہے، نہایت درد ناک حالات ہیں.جہاں جہاں احمدی جماعتیں ہیں وہاں آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ باوجود جماعت کی کوششوں کے پھر بھی کچھ نہ کچھ دکھ رہ جاتے ہیں اور باقی سارے شہر سارے

Page 148

خطبات طاہر جلد ۶ 144 خطبہ جمعہ ۲۷ / فروری ۱۹۸۷ء قصبے بے سہارا ہیں.ہمارے ہاں قیموں کے لئے سہاروں کا انتظام ہے.ان کے گزارے لگے ہوئے ہیں ان کی تعلیم کا انتظام ہے.بیواؤں کے لئے سر ڈھانپنے کا انتظام ہے، بے گھروں کے لئے گھر مہیا کرنے کے انتظامات ہیں جتنی بھی جماعت کی طرف سے توفیق ہے.گندم دی جاتی ہے سالانہ اور ضرورتیں گرمیوں کی بھی پوری کی جاتی ہیں سردیوں کی بھی پوری کی جاتی ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ جتنی بد حالی ہے اقتصادی لحاظ سے ہمیں توفیق نہیں ہے کہ کم سے کم بنیادی معیار پوری طرح مہیا کر سکیں لیکن اللہ کے فضل کے ساتھ کوئی آدمی بے سہارا نہیں ہے.ایک دور دراز قصبے سے یا ایک چھوٹے سے گاؤں سے بعض دفعہ ایک یتیم کی ایک بیوہ کی دردناک آواز یہاں تک پہنچتی ہے اور اسی وقت جماعت حرکت میں آتی ہے اور اسی وقت لوگ پہنچتے ہیں ، بڑے بڑے لمبے سفر کر کے پہنچتے ہیں کہ تم نے خلیفہ وقت کو کیا لکھا تھا جس کی وجہ سے ہمیں یہ بے قرار پیغام پہنچا ہے کہ جاؤ اور اس کی ضرورت کو پورا کرو.ان بے چاروں کا کون ہے؟ کون ان کا سہارا ہے؟ کون ان کا نگہداشت کرنے والا ہے؟ کون پوچھنے والا ہے؟ ساتھ کے گھر میں ظلم ہورہا ہے اور سفا کی ہورہی ہے اور کوئی نہیں جس کے دل میں ادنی سی بھی حرکت پیدا ہوئی ہو ، رحم پیدا ہوا ہو.سارا ملک ظلم کا شکار ہے چل رہے ہیں اسی طرح تو اس کے بعد آپ کی بددعائیں لگیں اس قوم کو تو یہ تو بڑا ظلم ہے.ایسے دردناک واقعات پر اپنے آپ کو سنبھالا کریں غور کیا کریں کہ آپ رحم کے لئے پیدا کئے گئے ہیں، بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران : ۱۱۰) تم وہ بہترین امت ہو جس کو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے خدا تعالیٰ نے نکالا ہے اور وہی اُمت ہو جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی قائم کردہ امت ہے اس لئے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (الشعراء:۳) کا لحاظ کیا کرو.حضرت محمد مصطفی ﷺ تو دشمنوں کی ہلاکت کے خبر سے بھی انتہائی دردمند ہو جایا کرتے تھے.اس لئے اپنے اس پاک جذبے کی حفاظت کرو جو سنت محمد مصطفی ﷺ کے نتیجے میں تمہیں عطا ہوا ہے.ان دلوں کی حفاظت کرو جن میں سفا کی نہیں ہے بلکہ رحم ہے اور یہی تمہاری شخصیت ہے جو آئندہ تمہاری زندگی کی ضامن بنے گی.یہی وہ شخصیت ہے جس شخصیت کو خدا کبھی ضائع نہیں ہونے دیا کرتا.اگر ادنی انتظامات کے لئے تم نے عمومی طور پر بنی نوع انسان کی ہمدردی چھوڑ دی اور بے تعلق ہو گئے اور سفا کی پر خوش ہونا شروع

Page 149

خطبات طاہر جلد ۶ 145 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء ہو گئے تو پھر تمہاری اپنی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے، تم انہی لوگوں میں سے ایک بن جاؤ گے.اس لئے یہ جہاں تک درد کا تعلق ہے درد اپنی جگہ ہے مگر اس درد کے حصے دار بہت ہیں.صرف جماعت کے مظلوم نہیں ہیں سارے پاکستان کے مظلوم ہیں، ساری دنیا کے مظلوم ہیں.افریقہ میں بھی جگہ جگہ جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہاں یہ نظام قائم ہے کہ لوگ اپنی تکلیفیں ہمیں بھیجتے ہیں لکھ کے پتا لگ رہا ہے کہ انسانیت کا کیا حال ہے کتنے دکھوں میں بس رہی ہے اور جب حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے تو احمدی محسوس کرتا ہے کہ اس کے سر پر کوئی ہاتھ ہے کوئی سہارا ہے خدا کے فضل کا اور غیر احمد یوں میں بھی اب یہ بات پھیلتی چلی جارہی ہے اور وہ اپنی مصیبت کے وقت لکھنے لگ گئے ہیں ہر طرف سے.ان کو یہ پتا ہے کہ اگر سچی ہمدردی ہے کسی جماعت میں تو اسی میں ہے ہندو بھی لکھتے ہیں بعض.یعنی بھوپال میں جو واقعہ گزرا اس کے اوپر ایک ہندو نو جوان کا خط آیا پتا نہیں کہاں سے وہ لوگ پتا کر لیتے ہیں یہ اللہ تعالیٰ ذرائع بنا دیتا ہے ان تک بات پہنچانے کے کہ میں اس مصیبت میں ہوں اس تکلیف میں ہوں میرا خیال کیا جائے.ایک نہیں کئی ہندو ہیں ایسے اور سکھ ہیں بعض جنہوں نے اپنی مصیبتیں اپنی تکلیفیں لکھیں بعض تو بے چارے صرف دعا کے لئے لکھتے ہیں اور محسوس کرتے ہیں کہ ایک دعا کرنے کی جگہ ہے ہمارے لئے اور بعض پھر تکلیفیں ظاہر کر کے مدد کے لئے بھی لکھتے ہیں اور جہاں تک جماعت کو توفیق ہے مذہب کی تفریق کئے بغیر مدد کی کوشش کرتی رہتی ہے.تو خدا نے آپ کو بنایا ہے ان چیزوں کے لئے ، بھلائی کے لئے بنایا ہے.ظلم اور سفا کی کے لئے نہیں بنایا.اس لئے اپنی شخصیت کو نہ تبدیل ہونے دیں.وہ مثال ایک دفعہ میں نے پہلے بھی ایک موقع پر دی تھی اب پھر دیتا ہوں ، بڑی موقع اور محل کی مثال ہے.کہتے ہیں ایک گائے دریا پار کر رہی تھی تیرتے ہوئے تو ایک بچھو اس کی دُم پر آکے بیٹھ گیا اور وہ ڈوبنے لگا تھا اس کو قریب دُم نظر آئی اس کی دُم تک پہنچا اس کے سہارے وہ دریا پار کر گیا.جب اس نے دُم کنارے سے لگا کر بچھو کو ا تارا تو اس نے اترنے سے پہلے اس کو ڈس لیا.کہانی کی زبان میں جانور بھی باتیں کرتے ہیں یہ تمثیل ہوتی ہے.کہتے ہیں وہاں خرگوش ایک بیٹھا ہوا تھا اس نے گائے سے کہا تم بڑی بے وقوف ہو اتنا احمق جانور میں نے نہیں دیکھا، بچھو کو تم نے نجات دی ؟ بچھو کو اُٹھا کر دریا پار کروایا؟ اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا اس نے ڈنگ مارا ہے تمہیں.گائے نے کہا

Page 150

خطبات طاہر جلد ۶ 146 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء میں احمق نہیں ہوں، میں مجبور ہوں میرے خدا نے مجھے بنایا ایسا ہے اور اس کو ایسا ہی بنایا تھا یہ بھی مجبور ہے، اس کا کام ہے اس کی فطرت میں ہے کہ یہ ڈنگ مارے گا اور مارتا چلا جائے گا.میری فطرت میں خدا نے یہ رکھا ہے میں دودھ پلاؤں، بنی نوع انسان کی خدمت کروں، ان کے ہل چلاؤں، ان کے رزق کے سارے انتظام کروں اور پھر آخر خود بھی قربان ہو کر اپنا گوشت بھی بنی نوع انسان کے لئے پیش کر دوں تو میری فطرت میں جب خدا نے یہ رکھ دیا ہے تو میں کون ہوں جو اس فطرت کو بدل دوں.تو تمہاری فطرت ایک گائے سے لاکھوں گنا زیادہ ہے بنی نوع انسان کے افادے اور بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے.امت محمدیہ ہو.حضرت محمد مصطفی ﷺ جو رحمۃ للعالمین ہیں ان کی طرف منسوب ہونے والے ہو اس لئے اپنی فطرت کی حفاظت کرو یہ سب سے بڑا خزانہ ہے جو آج اس دنیا میں دوبارہ آسمان سے نازل ہوا اور تم پر نازل ہوا تم پر نازل ہوا.خدا کی قسم سب سے بڑا انعام دنیا میں جو کسی قوم کو مل سکتا تھا وہ یہی تھا کہ خدا نے پاک خُو فطرت والے جو محمد مصطفی ﷺ کی فطرت پر چلنے والے، وہ دوبارہ اس دنیا میں پیدا کر دیئے ہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج کے جنازوں میں سر فہرست تو یہی ہمارے نہایت ہی پیارے عزیز غلام ظہیر شہید کا جنازہ ہو گا.اس کے علاوہ بھی بعض جنازے ہیں جو جنازہ غائب پڑھنے والے.ایک ان میں سے چوہدری صلاح الدین صاحب سابق مشیر قانونی صدر انجمن احمدیہ کی نماز جنازہ ہوگی.یہ بڑے لمبے عرصہ تک وقف زندگی کے طور پر خدمت دین پر فائز رہے اور صدرانجمن احمدیہ کے مشیر قانونی رہے اور پھر کسی انسانی لغزش ہو جاتی ہے اس کی وجہ سے میں نے ان کو اس عہدے سے فارغ کیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ابتلا میں بہت ثابت قدم رہے اور ان کی سلسلہ کی وفاداری پر کوئی آنچ نہیں آئی.اس کے ساتھ ایک اور دلچسپ واقعہ یہ بھی ہے کہ ان کے کسی رشتہ دار نے جو ان کو شائد سمجھتا نہیں تھا پوری طرح مجھے یہ خط لکھا کہ ان کو معاف کر دینا چاہئے کیونکہ ان کا بڑا اثر ہے، ان کا خاندان بڑا وسیع ہے اور سارے خاندان پر برا اثر پڑے گا اس کا.تو میں نے اس کو لکھا کہ تم نہیں جانتے میں ان کو جانتا ہوں کوئی برا اثر نہیں پڑے گا اور اگر پڑے گا بھی تو میں پھر بزدل نہیں ہوں جو مجھے خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنے کی توفیق دی ہے وہ تو میں بہر حال کروں گا لیکن میں جانتا ہوں ان لوگوں کو اور اللہ تعالیٰ

Page 151

خطبات طاہر جلد ۶ 147 خطبہ جمعہ ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء نے وہ میری بات بیچ کر دکھائی ان کی اولاد میں بعض پہلے سے بھی بڑھ کر خدا کے فضل سے فدائی ہو گئے اور بہت ہی عاشقانہ تعلق جماعت سے قائم تھا، قائم رہا بلکہ بڑھ گیا تو یہ جو ابتلاء میں ثابت قدم رہنے والے لوگ ہوتے ہیں یہ وفادار ہیں یہ زیادہ دعاؤں کے حقدار ہوتے ہیں.اس لحاظ سے میں نے ذکر کیا کہ اگر چہ آخر وقت تک اس طرح باقاعدہ خدمت کا موقع تو نہیں ملا لیکن وقف کی روح کو انہوں نے زخمی نہیں ہونے دیا.پھر ایک ہمارے واقف زندگی مبلغ سلسلہ میر عبدالباسط صاحب کی اہلیہ عزیزہ طاہرہ بشری صاحبہ ایک لمبے عرصہ تک کینسر کی وجہ سے بیمار رہ کر وفات پاگئیں ہیں.بہت ہی صابرہ خاتون تھیں ہے اور بہت لمبی تکلیف دیکھی ہے لیکن بڑے صبر اور شکر کے ساتھ پھر انہوں نے گزارہ کیا ہے.واقف زندگی کی بیوی کی حیثیت سے بھی بڑے صبر کے ساتھ ان کا ساتھ دیا.ان کو یہ بھی اعزاز حاصل ہے کہ دو واقفین زندگی کی ہمشیرہ بھی ہیں ایک ان میں ہمارے مکرم صالح محمد صاحب بیلجیئم مشن کے (سابق) انچارج ہیں اور ایک حافظ برہان محمد صاحب مربی سلسلہ تو دو واقفین زندگی کی بہن اور ایک کی بیگم اور پھر خود بھی وقف کی روح رکھنے والی.اسی طرح تین اور جنازے ہیں.مکرمہ زینت بی بی صاحبہ اہلیہ محمد صدیق صاحب.یہ ہمارے محمد ہارون صاحب جولنڈن میں ہیں ان کی تائی تھیں.مکرم محمدحمید صاحب ان کے متعلق تفصیل سے میں نہیں جانتا مگر سارہ باسط صاحبہ ڈرگ روڈ کالونی کراچی کے بھائی تھے.عزیزہ فوزیہ مقبول عمر ڈیڑھ سال یہ مقبول احمد خان صاحب جو تحصیل شکر گڑھ کے امیر ہیں ان کی صاحبزادی ہیں ان کے خاندان پہ بھی اس لحاظ سے بڑا ابتلاء ہے اور بڑا ہی صبر کرنے والے خاندان ہے نو جوان بچے بھی فوت ہوئے اوپر تلے اور بیماری ایسی ہے کوئی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر بے بس ہو جاتے ہیں کوئی خون کے اندر ایسی بیماری ہے کہ بعض دفعہ چھوٹی عمر میں اور بعض دفعہ جوان ہنستا کھیلتا بچہ بہت تھوڑا سا عرصہ بیمار رہ کر فوت ہو جاتا ہے.تو ان کے لئے تو خصوصیت سے جو باقی بچے ہیں ان کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے اللہ اپنے فضل سے ان کو اعجازی شفا بخشے کیونکہ مقبول خان صاحب بہت ہی خلیق اور خدمت گزار اور منکسر مزاج اور بہت اچھے جماعت کے ایک خادم ہیں جن کا

Page 152

خطبات طاہر جلد ۶ ساری تحصیل میں بڑا اچھا اثر ہے.148 خطبه جمعه ۲۷ فروری ۱۹۸۷ء تو ان سب کی نماز جنازہ غائب، عزیزہ فوزیہ کی بھی.انشاء اللہ آج تو عصر کا بھی ہمارے پاس وقت ہوگا الگ اس لئے جمعہ کی نماز کے بعد پڑھائی جائے گی.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: یہ جو آیات میں نے تلاوت کی تھیں اس کا مقصد اور مضمون بیان کرنا تھا لیکن چونکہ شہادت کی اطلاع کی وجہ سے بہت سا وقت اس طرف خرچ ہو گیا اس لئے آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ جس مقصد سے یہ تلاوت کی گئی تھی اس مضمون کو واضح کروں گا.

Page 153

خطبات طاہر جلد ۶ 149 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء منافقین کی تعریف ، علماء کو مقابلے کا چینج، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عشق رسول ( خطبه جمعه فرموده ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: إذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَ اللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنْفِقِينَ لكَذِبُونَ اتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً فَصَدُّوا عَنْ سَبِيْلِ اللهِ إِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ذلِكَ بِأَنَّهُمْ امَنُوْا ثُمَّ كَفَرُوا فَطِيعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ ) (المنافقون : ۲-۴) گزشتہ خطبہ میں میں نے اس نہایت ہی غیر اسلامی اور دل آزار مہم کا ذکر کیا تھا جو پاکستان کے مولویوں کے ایک طبقہ کی طرف سے کلمہ طیبہ کے خلاف چلائی جارہی ہے.کلمہ طیبہ ایک ایسا محاورہ ہے جو ہندوستان اور پاکستان میں رائج ہے اور جب ہم کلمہ طیبہ کہتے ہیں تو مراد اشهد ان لا اله الا الله وحده لا شريك له واشهد ان محمدا عبده و رسوله سے ہے.صرف لا اله الا الله محمد رسول اللہ کو کلمہ شہادہ بھی کہا جاتا ہے اور کلمہ طیبہ کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے.عرب اس کلمہ کو کلمہ شہادۃ کے نام سے جانتے ہیں کیونکہ یہ گواہی دینے والا کلمہ ہے.اس لئے ہمارے

Page 154

خطبات طاہر جلد ۶ 150 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء لٹریچر میں جب کلمہ شہادۃ کا ذکر کلمہ طیبہ کے لفظ کے تابع آتا ہے تو عربی میں ترجمہ کرتے وقت یہ تاکید کی جاتی ہے کہ اسے کلمہ شہادۃ لکھا جائے ورنہ عربوں کو اس کی سمجھ نہیں آسکتی.تو بہر حال نام اس کا جو بھی معروف ہو کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادہ بنیادی حقیقت تو وہی رہتی ہے.اس کلمہ کو ایک بہت ہی بڑے جرم اور بھیانک جرم کے طور پر آج کل پاکستان میں بعض علماء کی طرف سے دیکھا جا رہا ہے اور اگر کوئی احمدی کلمہ طیبہ پڑھے یا کلمہ شہادہ پڑھے اور یا اسے اپنے سینے سے لگائے پھرے یا اس کے گھر سے لکھا ہوا یہ کلمہ برآمد ہو یا اس کے خطوں میں یہ کلمہ لکھا ہوا پایا جائے تو پاکستان کے علماء کے نزدیک یہ اتنا بھیا نک ظلم ہے کہ نہ صرف اسے فوراً بحوالہ پولیس کرنا چاہئے بلکہ پولیس کے حوالے کرنے سے پہلے جس حد تک بھی اسے مارا جائے اور ذلیل اور رسوا کیا جائے وہ بھی کار ثواب ہے اور جب ایسے حکومت کے افسران جو طبعی شرافت دل میں رکھتے ہیں اس بات میں تردد محسوس کرتے ہیں یہاں تک کے بعض پولیس افسران بھی احمدیوں کے خلاف کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادہ پڑھنے کے نتیجے میں پرچہ درج کرنے سے گریز کرتے ہیں تو ان کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی جاتی ہے انہیں مرزائی نواز کہا جاتا ہے، ان کے خلاف حکومت میں شکایتیں کی جاتی ہیں کہ اسے تبدیل کر دو.چنانچہ اتنا خوف شرفاء افسروں کے دل میں اس بات کا بیٹھ گیا ہے کہ بہت ہی کم ایسے مرد ہیں کو جو مردانگی اور جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے اصولاً اس ناپاک مہم میں ملوث ہونے سے انکار کرتے ہیں.مگر بہر حال ایسے مرد شرفاء گنتی کے چند ہوتے ہیں.اکثر تو ہمارے ملک میں یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ شرافت یا گونگی ہوتی ہے یا بزدل ہوتی ہے.گزشتہ مرتبہ میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ قرآن کریم کی جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس سلسلے میں میں آئندہ مزید وضاحت کروں گا کہ اس کا کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادہ کی مہم سے کیا تعلق ہے تعلق یہ ہے کہ علماء اپنے اس مذموم فعل کو حسن دکھانے کے لئے ،اچھا کر کے دکھانے کے لئے بعض موقف اختیار کر رہے ہیں جنہیں شائع کر کے سارے پاکستان میں پھیلایا جا رہا ہے اور باہر سے جو خبریں آرہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ انگریزی میں بھی ایسے رسائل کی اشاعت کی جارہی ہے کثرت کے ساتھ اور عربی زبان میں بھی کثرت کے ساتھ ایسے رسائل کی اشاعت کی جارہی ہے جن میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پاکستان میں ہم احمدیوں کو کلمہ پڑھنے سے اس لئے روکتے ہیں کہ

Page 155

خطبات طاہر جلد ۶ 151 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء ان کا کلمہ پڑھنا کلمہ کی تو ہین ہے اور تو ہین کیوں ہے اس مضمون پر چھوٹے چھوٹے رسائل اور پمفلٹس بڑی کثرت کے ساتھ تقسیم کئے جارہے ہیں.لکھوکھا کی تعداد میں پاکستان میں ایسے پمفلٹس شائع کئے گئے اور باہر کی دنیا میں بھی کثرت سے شائع کئے گئے.پہلے میں نے اس کو نظر انداز اس لئے کئے رکھا کہ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے سارا پاکستان جانتا ہے جو احمدیوں کو جانتا ہے کہ یہ مولوی جھوٹ بول رہے ہیں اور جتنے بھی الزامات ایسے رسائل میں ہیں وہ جھوٹے الزام ہیں، ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.مگر بیرونی دنیا کو واقعہ دھوکے میں ڈالا جا سکتا ہے.خاص طور پر ایسے لوگ جن کو کچھ بھی پتہ نہیں جماعت احمدیہ کا یا کبھی جماعت سے ان کا واسطہ نہیں پڑا ، ان کو جب اس قسم کے رسائل پہنچائے جائیں گے تو یقینا غلط نہی پیدا ہو گی.چنانچہ عرب دنیا میں ایک بہت بڑی نفرت کی خلیج حائل کی گئی ہے ان رسائل کے ذریعہ جماعت کے خلاف اور اسی طرح باہر یورپ سے بھی اطلاعیں مل رہی ہیں کہ وہاں بھی جب ان رسائل کے اشاعت کی جاتی ہے تو جماعت سے نفرتیں بڑھنے لگتی ہیں، دوریاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں.ایسے رسائل کا جواب جو علمی رنگ رکھتا ہو گا.بہر حال ہر جواب علمی رنگ میں ہونا چاہئے میرا مطلب یہ ہے نقطہ یہ نقطہ جواب جو کتب کے حوالے سے کھول کر بیان کیا جائے اور دکھایا جائے کہ کہاں الزام لگانے والے جھوٹے ہیں کیا افترا پردازی کی گئی ہے، کہاں تلبیس سے کام لیا گیا ہے؟ ایسا جواب تفصیلی انشاء اللہ تعالیٰ شائع کیا جائے گا.مگر مختصر ابنیادی طور پر جو جواب ہے وہ میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جو کتابچے شائع کئے گئے ہیں ان میں سے ایک کتابچے میں جو ذیلی عنوانات ہیں وہ یہ ہیں:.قادیانی محمد رسول اللہ محمد رسول اللہ کی دو بعثتیں ، مرزا بعینہ محمد رسول اللہ محمد رسول اللہ کے تمام کمالات مرزا قادیانی میں، مرزا خاتم النبيين"، مرزا اہل الرسل فخر الاولین والآخرین، پہلے محمد رسول اللہ سے بڑھ کر، ہلال اور بدر کی نسبت بڑی فتح مبین، روحانی کمالات کی ابتداء اور انتہا، یہنی ارتقاء محمد عربی کا کلمہ پڑھنے والے کافر.ان عنوانات سے ظاہر ہو جاتا ہے کہ کیا کیا افترا پردازیاں جماعت کے خلاف کی گئی ہوں گی.خلاصہ آخر پر جو مولوی صاحب یہ رسالہ لکھنے والے ہیں یہ بیان کرتے ہیں کہ :.مندرجہ بالا حوالوں پر غور کرنے سے واضح ہو جاتا ہے کہ قادیانی مرزا غلام احمد کو محمد رسول اللہ ﷺ کا ظہور اکمل سمجھ کر اس کا کلمہ پڑھتے ہیں اور

Page 156

خطبات طاہر جلد ۶ 152 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء چونکہ محمد عربی ﷺ کا کلمہ پڑھنے والے ان کے نزدیک کافر ہیں.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک محمد عربی ﷺ کا کلمہ منسوخ ہے.اگر بغور جائزہ لیا جائے تو قادیانیوں کے نزدیک بہائیوں کی طرح محمد عربی ﷺ کی نبوت اور رسالت کا دور بھی ختم ہو چکا ہے.وہ عملاً منسوخ ہو چکی ہے کیونکہ قادیانی عقیدہ کے مطابق اب صرف مرزا قادیانی کی پیروی ہی مدار نجات ہے.پھر کچھ وقفے کے بعد بیان کرتے ہیں:.یہی وجہ ہے کہ قادیانیوں کے نزدیک مرزا قادیانی کے بغیر دین 66 اسلام مردہ ہے.یہ خلاصہ ہے اس مہم کا جو انہوں نے اپنے الفاظ میں نکالا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ساری دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت احمدیہ کا ہر فرد جب اپنے اوپر یہ الزام لگتا ہوا سنے گا یا دیکھے گا تو اس کا ایمان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام به سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ جائے گا، زیادہ پختہ ہو جائے گا اور جان لے گا کہ آپ کے مخالفین واضح طور پر افتراء کرنے والے اور جھوٹے ہیں اور انہیں کوئی شرم نہیں ہے ایسے خطر ناک جھوٹے الزام لگانے کے متعلق کوئی عار نہیں ہے، کوئی بات نہیں ہے.چنانچہ تمام عالم کے اندر پھیلی ہوئی جماعت کا بچہ بچہ، بوڑھا بوڑھا، مرد ہو یا عورت ہر شخص گواہ ہے کہ اس الزام کا ایک ایک لفظ جھوٹ ہے اور سوائے اس کے کوئی جواب نہیں کہ لعنة الله على الكاذبين کہ اگر تم نے جھوٹ کی لعنت کمانی ہی ہے تو ہم تمہیں کس طرح روک سکتے ہیں.آخر اتنی دنیا میں جماعت پھیلی ہے انگریزوں میں پھیلی ، جرمنوں میں پھیلی ، امریکیوں میں پھیلی، افریقیوں میں پھیلی ، چین میں گئی، جاپان میں گئی، روسی احمدی ہوئے اور دنیا کے ممالک میں نام لیں ممالک کا اور وہاں کے احمدی خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کو ہم دکھاتے چلے جائیں گے.کسی ملک کا ایک احمدی بھی ایسا نہیں ہے جو اس الزام کو سچا سمجھ سکے.ہر احمدی جب کلمہ پڑھتا ہے تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا کلمہ پڑھتا ہے.ہر احمدی یقین رکھتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ بھی پایا آنحضرت ﷺ کے فیض

Page 157

خطبات طاہر جلد ۶ 153 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء سے پایا.ایک ذرہ بھی آپ نے نہ دعوی کیا نہ واقعہ ایسا ہوا کہ ایک ذرہ فیض کا بھی آپ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے وسیلے کے بغیر پایا ہو.یہی ہمارا ایمان ہے اسی ایمان پہ ہم زندہ ہیں اسی ایمان کی حفاظت کے لئے ہم ہر قربانی دے رہے ہیں.اس لئے اتنا جھوٹا ، لچر اور بے حقیقت الزام لگا کر یہ پتا نہیں اپنے لئے کیا کمارہے ہیں اور یہ ہو نہیں سکتا کہ ان کو علم نہ ہو اس بات کا یہ صاف پتا چل رہا ہے کہ یہ تحریر جو ہے یہ تکلیس ہے اور دھوکا دینے کی ناپاک کوشش ہے عبارتوں میں سے کچھ حصے نکال کر ان کو غلط رنگ پہنا کر اور جن معنوں میں وہ بات بیان نہیں کی گئی ان معنوں میں اسے زبر دستی بنا کر یہ نتیجے نکالے گئے ہیں ، ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں.لیکن بہر حال اس کے متعلق میں پھر دوبارہ بات کروں گا.سر دست یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر ان کے یہ الزام سچے ہوں نعوذ باللہ من ذالک.اگر جماعت احمدیہ نعوذ بالله من ذالک ساری دنیا میں منافق ہے اور خود ان میں سے بھی جو شرفاء جماعت میں داخل ہوتے چلے جاتے ہیں وہ نعوذ بالله من ذالک آنحضرت ﷺ کا نام لے کر آپ سے مراد نہیں لیتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مراد لیتے ہیں اور عملاً کلمہ پڑھتے وقت اللہ اور رسول کی بات نہیں کرتے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بات کرتے ہیں.اگر یہ بات درست ہے تو جو بات قطعی طور پر ثابت ہوتی ہے وہ منافقت ہے.ظاہرا تو وہی نام ہے، ظاہراً تو وہی کلمہ ہے اس لئے ظاہری طور پر جماعت احمدیہ کے خلاف یہ فتویٰ تو بہر حال نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ کلمہ کے منکر ہیں.حد سے زیادہ جو کوشش کی جاسکتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ منافق ہیں اور یہ ہی دعویٰ کیا گیا ہے کہ منہ سے کچھ اور کہتے ہیں دل میں کچھ اور مراد ہے.اگر خدانخوستہ یہ صورت ہے تو ایسی صورت میں ان کو کیا حق ہے اور شریعت اسلامیہ کیا حکم دیتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت ہمیں کیا رستہ دکھاتی ہے اس مضمون پر روشنی ڈالنے کے لئے میں نے قرآن کریم سے وہ چند آیات تلاوت کیں تھیں جو سورۃ المنافقون سے لی گئیں اول دو، تین اور چار آیتیں.ان آیتوں سے قتل مرتد کے عقیدہ کے خلاف بھی بڑا قطعی استدلال ہوتا ہے لیکن یہ آیتیں بعینہ اس مضمون پر بھی روشنی ڈال رہی ہیں جو اس وقت پاکستان میں زیر بحث ہے کہ اگر کوئی شخص کلمہ پڑھتا ہو اور کوئی دوسرا مولوی یہ سمجھتا ہو کہ یہ جھوٹ بولتا ہے ، منافقت سے کلمہ پڑھتا ہے، دل میں یہ سچی گواہی نہیں دے رہا تو اس دوسرے مولوی کو کیا حق دیتی ہے شریعت کہ اسے کیا کرنا

Page 158

خطبات طاہر جلد ۶ 154 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء چاہئے یہ بحث ہے.اس بحث کو قرآن کریم پہلے اٹھا چکا ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح آئندہ کے حالات کی پیشگوئی بھی ان آیات میں کی گئی ہے.نہ صرف یہ کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں یہ حالات چسپاں ہوتے تھے ظاہری طور پر بلکہ اس رنگ میں پیشگوئی کی گئی کہ اگر ایسے حالات پیدا ہوں تو شریعت کا تقاضا کیا ہے.یہ مراد نہیں ہے نعوذ بالله من ذالک جماعت احمدیہ کو منافق ظاہر کیا گیا ہے بلکہ یہ مراد ہے کہ جماعت احمدیہ کی سچائی ان آیات میں بطور پیشگوئی بتائی گئی ہے اور ان لوگوں کو منافق دکھایا گیا ہے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا طریق چھوڑ کر آپ کے دشمنوں کا طریق اختیار کریں گے اور یہ آیت کسوٹی ہے ان کے لئے ، صاف پہچانے جائیں گے کہ محمد رسول اللہ ﷺ سے ہمیں کاٹنے والے ہمیں کاٹنے میں کامیاب ہوتے ہیں یا خود کٹ جاتے ہیں.اس آیت میں، بسم اللہ کے بعد جو دوسری آیت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ کہ اے محمد ! جب تیرے پاس منافق آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ کہ تو یقینا اللہ کا رسول ہے وَ اللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ الله خوب جانتا ہے کہ تو اللہ کا رسول ہے ، اسی نے تو بھیجا ہے تجھے.وَاللهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ اور اللہ یہ بھی گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹ بول رہے ہیں.جب کہتے ہیں تو رسول ہے تو ہر گز دل میں یہ مراد نہیں ہوتی کہ تو رسول ہے، جھوٹ بولتے ہیں.مولوی جو ہم پر الزام لگاتے ہیں ان کو اس لئے الزام لگانے کا حق نہیں کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ میں کسی مسلمان کو بھی حق نہیں دیا نہ آئندہ آنے والے کسی مسلمان کو حق دیا تو وہ کسی کے ادعا کے خلاف اس کی طرف کوئی بات منسوب کرے اور دل کی طرف ایسی بات منسوب کرے جو زبان سے نہ کہتا ہو تو یہ ایک اصول ہے آنحضرت ﷺ کا لیکن اس آیت میں خدا خبر دے رہا ہے آنحضرت ہو نے اپنی طرف سے کوئی فتویٰ جاری نہیں فرمایا.اللہ واضح طور پر بعض لوگوں کے متعلق خبر دیتا ہے کہ وہ تیرے پاس آتے ہیں، تجھے خدا کا رسول بتاتے ہیں، اللہ جانتا ہے تو رسول اللہ ہے اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں.اِتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً انہوں نے اپنے ایمان کو ڈھال بنالیا ہے.فَصَدُّوا عَنْ سَبِیلِ الله پس اس کے نتیجے میں وہ اللہ کے رستے سے روکتے ہیں.اِنَّهُم

Page 159

خطبات طاہر جلد ۶ 155 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ یقیناً بہت برا ہے جو وہ کرتے ہیں.پاکستان کے موجودہ علماء جماعت احمدیہ پر یہ الزام لگا رہے ہیں بلا ثبوت جو آنحضرت ﷺ کے زمانے میں خدا کی گواہی کے مطابق اس زمانے کے منافقین کیا کرتے تھے اور ہمیں ان منافقوں سے ملا رہے ہیں یہ ہے صورتحال اور اس تفصیل کے ساتھ ہمیں ان کے مشابہ قرار دے رہے ہیں کہ کہتے ہ اِتَّخَذُوا أَيْمَانَهُمْ جُنَّةً انہوں نے کلمہ کو اپنی ڈھال بنایا ہوا ہے دھوکہ دینے کے لئے.اس لئے پڑھتے ہیں تاکہ مسلمان عوام الناس کو دھوکہ دے دیں اور وہ دھو کے کے ذریعے جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائیں یہ سمجھتے ہوئے کہ سچ سچ یہی کلمہ ہے فَصَدُّوا عَن سَبِيْلِ اللہ پھر وہ خدا کے رستے سے ان کو روکیں.اِنَّهُمْ سَاءَ مَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ یہ بہت ہی برا ہے جو وہ کرتے ہیں.جہاں تک مشابہت بنانے کا تعلق ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم نے وہاں جو منافقین کا نقشہ کھینچا ہے اللہ کی گواہی کے مطابق ہم پر یہ وہی الزام لگا رہے ہیں لیکن جہاں تک واقعات کا تعلق ہے میں آگے جا کر ظاہر کروں گا کہ بالکل برعکس صورتحال ہے.جہاں تک جن کا لفظ ہے کہ یہ ڈھال بناتے ہیں اور مسلمان بنتے ہیں یہ بات قابل غور ہے کہ وہ ڈھال کس طرح بناتے تھے.جُنَّةً شر سے بچنے کے لئے ہوتی ہے، حملے سے بچنے کے لئے ہوتی ہے.آنحضرت ہے کے زمانے میں اگر بعض منافقین کلمہ پڑھ کے مسلمان ظاہر کرتے تھے تو کسی شر سے بچنے کے لئے کرتے تھے اور اگر آج احمدی کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں شر میں مبتلا ہوتا ہے تو وہ کیسے منافق ہو گیا.اتنی کھلی کھلی بات ہے کہ حیرت ہے کہ ان کی عقلوں میں گھستی نہیں بات.جُنَّةً تو بچنے کے لئے ہوتی ہے منافق تو اس لئے پڑھتا ہے کوئی چیز کے فائدے اٹھا جائے اور نقصان سے بیچ جائے اور احمدی کلمہ پڑھتے ہیں یہ جانتے ہوئے کہ شدید تکلیفوں میں مبتلا کئے جائیں گے.ہزاروں ہیں جو جیلوں میں ٹھونسے گئے جن کے اوپر ہر وقت عدالت کے مقدموں کی تلواریں لٹکی ہوئی ہیں، ہر وقت کی ان کے اوپر پابندیاں ہیں، ضمانتوں پر جو رہا ہوئے ہیں ان کو بھی بار بار پیشی میں جانا پڑتا ہے اور جس قسم کے ہمارے ملک کے حالات ہیں جو جانتے ہیں ان کو اندازہ ہے کہ کتنا بڑا عذاب ہے وہاں کی عدالتوں میں پیش ہونا یعنی سزا ہونا یا ہونا تو بعد کا قصہ ہے ایسے گندے مناظر ہیں ایسے تکلیف دہ

Page 160

خطبات طاہر جلد ۶ 156 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء حالات ہیں سارا دن ان لوگوں میں جا کر بیٹھنا اور آواز میں پڑنا جس قسم کے قماش کے لوگ وہاں اکٹھے ہوتے ہیں ہر قسم کے مجرم، ان لوگوں میں شرفاء کا جانا خود اپنی ذات میں ایک بہت بڑی سزا ہے.تو مولویوں کی بات تو قرآن کریم کے اس ایک لفظ نے جھوٹی کر دی اب جتنا مرضی زور لگا لیں احمدیوں کے متعلق وہ منافقت کا دعویٰ نہیں کر سکتے.اللہ فرماتا ہے یہ جنگ کے طور پر ایسا کرتے ہیں ان کو کچھ فوائد پہنچتے ہیں اور بعض شر سے بچتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام تو کلمہ پڑھتے ہیں مارکھانے کے لئے ہمصیبتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرات کے ساتھ بار بار اس کلمے کی محبت میں جیل میں جاتے ہیں تو جن کیسے بن گیا یہ کلمہ یہ تو جُنَّةً ہٹانے والی چیز ہوگئی.پھر فرمایا ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ آمَنُوا ثُمَّ كَفَرُوْا فَطُبِعَ عَلَى قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ یہ اس لئے ہے کہ وہ ایمان لائے پھر انکار کیا اور انکار میں پھر ایسے پختہ ہوئے کہ فَطيعَ عَلَى قُلُوبِھد اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہریں لگا دیں فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ اور اب وہ ہر گز نہیں سمجھیں گے.اس سے بڑی پختہ گواہی کسی کے کفر کی اور نہیں دی جاسکتی اور کسی کے جھوٹ اور منافقت کی اس سے بڑی گواہی نہیں دی جاسکتی.اگر ایسے شخصوں کے متعلق آنحضرت ﷺ نے نرمی کا سلوک فرمایا تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس لئے نرمی کا سلوک فرمایا کہ آپ کو توقع تھی کہ یہ مسلمان ہو جائیں گے اور میری نرمی اور پیار کے نتیجے میں ان کو بات سمجھ آجائے گی.کوئی انسان جو ذراسی بھی عربی سے واقفیت رکھتا ہو اس آیت کو پڑھنے کے بعد یہ بات نہیں سوچ سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جھوٹے ہیں جھوٹی گواہی دے رہے ہیں حالانکہ تو خدا کا نبی ہے وہ تجھے نبی نہیں سمجھتے اور پھر فرماتا ہے کہ انہوں نے جُنَّةً بنالیا ہے، ڈھال بنالیا ہے اس بات کو اپنے لئے اور ایمان لائے تو تھے کسی وقت لیکن پھر کافر ہو گئے یعنی مرتد ہوئے اور ایسے پکے مرتد ہو چکے ہیں خدا جو عالم الغیب ہے وہ جانتا ہے فطبع على قلوبھم کہ اب ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں فَهُمْ لَا يَفْقَهُونَ جو چا ہو کرلو یہ بھی سمجھ نہیں سکیں گے.اس واضح خبر کے بعد آنحضرت ﷺ کیسے توقع رکھ سکتے تھے کہ یہ لوگ مسلمان ہو جائیں گے یا اپنے طرز عمل میں یا طرز فکر میں تبدیلی پیدا کر لیں گے.

Page 161

خطبات طاہر جلد ۶ 157 پھر ایک آیت کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کا نقشہ کھینچتے ہوئے: خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ لَوْوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آجاؤ يَسْتَغْفِرُ لَكُمْ رَسُولُ اللهِ اللہ کا رسول تمہارے لئے بخشش مانگے گا خدا سے، اس کا دل بہت ہی نرم اور رحیم ہے وہ تمہیں بخشش کی طرف بلاتا ہے نَوَوْا رُءُوسَهُم سر مٹکاتے ہوئے تکبر کے ساتھ وہ چلے جاتے ہیں وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ تو ان کو دیکھے گا کہ وہ اس بات سے رک جاتے ہیں دوسروں کو بھی روکتے ہیں خود بھی رکتے ہیں وَهُمْ مُسْتَكْبِرُونَ ایسی حالت میں کہ نہایت ہی متکبر لوگ ہیں.سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ ایسی حالت ان کی ہو چکی ہے کہ اے اللہ کے رسول ان کے لئے برابر ہے کہ خواہ تو ان کے لئے بخشش مانگے یا نہ مانگے.لَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمُ ان لوگوں کو خدا کبھی نہیں بخشے گا اِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفُسِقِينَ (المنافقون: ۶-۷ ) اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.اس سے زیادہ پختہ جھوٹ بولنے والے کلمہ سے مذاق کرنے والے ، منافقت سے کام لینے والے، پکے کا فرجن کے دلوں پر مہریں لگی ہیں اور زیادہ متصور ہو ہی نہیں سکتے کیونکہ یہ وہ ہیں جن کے لئے خدا نے گواہی دی ہے اور خود حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بتایا، ان لوگوں سے آنحضرت ﷺ کا کیا سلوک تھا.جو سچ سچ کے منافق تھے، مبینہ منافق نہیں.ان میں سے کتنوں کو آنحضرت ﷺ نے کلمہ سے روکا کہ تم ایسے ناپاک اور فاسق لوگ ہو جن کو خدا کہتا ہے تم ہوتے کون ہو میرا کلمہ پڑھنے والے.پیغام نہیں بھیجا کہ کلمہ سے رک جاؤ ورنہ قتل کر دیئے جاؤ گے، یہ پیغام بھیجا کہ آجاؤ میں تمہارے لئے بخشش کی دعا مانگوں گا اور یہ پیغام بھیجتے رہے.ایسی زبان استعمال فرمائی گئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ ایک مستقل حالت تھی.بار بار ہمدرد لوگ جاتے تھے اور جانتے تھے کہ وہ کون لوگ ہیں ان کو سمجھاتے تھے کہ ایسا نہ کرو.اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ ان کی بخشش کی دعا مانگے گا تب بھی میں نہیں بخشوں گا مگر آنحضرت ﷺ نرم پہلو رکھتے ہیں کہ باوجود اس واضح خدا تعالیٰ کے علم دینے کے بخشش کے لئے پیغام بھیج رہے ہیں کہ آؤ میں

Page 162

خطبات طاہر جلد ۶ 158 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء تمہارے لئے دعا کروں.زندگی میں اسی حالت پر یہ لوگ قائم رہے اور بعض ان میں سے اسی حالت پر مرے آنحضرت ﷺ کے زمانے میں آپ کے سامنے اور جو منافقوں کا سردار تھاوہ آنحضور ﷺ کی زندگی میں آپ کی آنکھوں کے سامنے مرا اور اسی حالت میں مرا جس پر خدا نے گواہی دی تھی.اس کے متعلق آپ نے کیا سلوک فرمایا.سیرۃ النبویہ لابن ہشام جزء رابع مطبوعہ بیروت صفحه ۱۴۶، ۱۴۵ میں ایک حدیث ہے حضرت ابن عباس کی روایت سے جو سننے سے تعلق رکھتی ہے اس کا اس مضمون سے بڑا گہرا تعلق ہے.حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمرؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جب عبد اللہ بن ابی کی وفات ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے بلایا گیا ( یہ آیتیں نازل ہو چکی ہیں اور عبد اللہ اول نمبر پر ان آیتوں کا مصداق تھا یہ سردار المنافقین کہلاتا تھا.مسلسل آنحضرت ﷺ کا رویہ اس کے ساتھ ایسا مشفقانہ رہا کہ بعضوں کو یہ جرات ہوئی کہ آنحضرت ﷺ کو اس کی نماز جنازہ کے لئے بلائیں ) حضور وہاں گئے اور جب اس کی نماز پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو حضرت عمرؓ کہتے ہیں میں اپنی جگہ سے ہٹ کر آنحضرت ﷺ کے سینے کے سامنے دو بدو کھڑا ہو گیا، قریب ہو کر بالکل قریب جا کر سینے کے سامنے اور کہا کہ اے اللہ کے رسول ! کیا آپ اللہ کے دشمن عبداللہ بن ابی بن سلول کی نماز جنازہ پڑھائیں گے جس نے فلاں دن فلاں بات کہی اور فلاں وقت فلاں بات کہی اس بات کا قرآن کریم میں ذکر بھی ہے.( نہایت ہی خبیثا نہ بات ہے اور گستاخی رسول اس سے زیادہ متصور نہیں ہو سکتی یعنی نہ صرف یہ کہ جھوٹے تھے اور منافق تھے بلکہ شدید گستاخ تھے یہ لوگ اور حضرت عمرؓ نے وہیں اس کی نعش کے سامنے یہ بات آنحضرت ﷺ کو یاد کروائی تھی ).حضرت عمر بتاتے ہیں کہ اس طرح میں اس کے ایسے واقعات گنوانے لگا کہ اس بد بخت نے یہ کہا، یہ کہا، یہ کیا، یہ کیا، یہ کیا اور آپ آج اس کی نماز جنازہ کے لئے تشریف لا رہے ہیں.رسول اللہ ہے اسی طرح مسکراتے رہے.عجیب حوصلہ ہے ہمارے آقا کا حیرت ہے.ایک ایک بات پر آنحضرت ﷺ کے دل عشق سے اچھلتا ہے.وہ ساری گالیاں سن رہے ہیں جو بد بخت نے دی ہیں سارے ذلت آمیز اس کے واقعات جو خود ذلتوں سے بھرے ہوئے تھے اور نعوذ بالله من ذالک ذلتیں آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب کر رہا تھا.وہ سنتے رہے جنازہ

Page 163

خطبات طاہر جلد ۶ 159 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء سامنے پڑا ہوا ہے مسکراتے رہے حتی کے میں نے اس بات پر بہت ہی زور دیا جتنا میں دے سکتا تھا.حضور نے فرمایا اے عمر! میرے سامنے سے ہٹ جاؤ مجھے اختیار دیا گیا ہے اس لئے میں نے اختیار کو استعمال کیا ہے مجھے کہا گیا ہے:.اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ (التوبه: ۸۰) مجھے کہا گیا ہے تو ان کے لئے چاہے بخشش مانگ چاہے بخشش نہ مانگ اِنْ تَسْتَغْفِرُ لَهُمُ سَبْعِينَ مَرَّةً اگر تو ستر مرتبہ بھی ان کے لئے بخشش مانگے گا فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمُ الله انہیں معاف نہیں فرمائے گا.اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ اگر میں اس کے لئے ستر سے زائد مرتبہ استغفار کروں تو اس بخش دیا جائے گا تو میں ضرور ستر سے زائد مرتبہ استغفار کروں گا.صلى الله یہ ہے حضرت محمد مصطفی ، روح اچھلتی ہے آپ کے عشق میں.ایسا کامل حسن ہے اخلاق کو ایسا درجہ کمال تک پہنچایا ہے کہ اس کے اوپر اخلاق کا تصور نہیں ہوسکتا اور یہ ان کا حال ہے یہ ان لوگوں کے متعلق آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہے جن کے متعلق خدا نے فرمایا ہے کہ منافق ہے اس بات کو بھولے نہیں اور یہ خود ساختہ اپنے منافقوں کے متعلق یہ رویہ اختیار کر رہے ہیں اس کو بار باراب یہاں بتانے کی ضرورت نہیں آپ جانتے ہیں ساری دنیا جانتی ہے اب تو.حضرت عمرؓ کہتے ہیں پھر رسول اللہ ﷺ نے اس کی نماز پڑھائی اور اس کی میت کے ساتھ گئے حتی کے اس کی قبر کے پاس کھڑے رہے یہاں تک کہ اس سے فارغ ہوئے.حضرت عمرؓ کہتے ہیں کہ مجھے اپنی جرات پر بہت تعجب ہوا جو رسول اللہ ﷺ کے سامنے میں نے کی اور اللہ اور رسول زیادہ علم رکھتے ہیں.معلوم ہوتا ہے آخری وقت تک پچھتاتے رہے ہیں.جب یہ روایت بیان کی ہے تو اس وقت تک شرمندہ اور پچھتاتے رہے ہیں کہ عمر ! تجھے ہوا کیا تھا، اللہ اور رسول زیادہ جانتے ہیں اسی میں سب حکایت ، سب بات مکمل ہو جاتی ہے.تمہیں جرات کیسے ہوئی کہ رسول اللہ ﷺ کو یاد دلا رہے ہو کہ قرآن میں یہ اترا اور اس نے یہ کہا اور اس نے یہ کہا.جس پر قرآن نازل ہو رہا تھا وہ زیادہ جانتا تھا کہ خدا تعالیٰ کا کیا مفہوم ہے اور اس کے نتیجے میں مجھے کیا کرنا چاہئے.

Page 164

خطبات طاہر جلد ۶ 160 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ اس واقعہ کو ابھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ یہ دو آیتیں نازل ہوئی.وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِم اِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَمَا تُوْا وَهُمْ فَسِقُوْنَ (التوبہ: ۸۴) کہ ان میں سے کسی ایک کی قبر پر جو مر جائے ان منافقین میں سے کبھی نماز نہیں پڑھنی تو نے کبھی ان کا جنازہ نہیں پڑھنا.وَلَا تَقُم عَلى قَبْرِہ اور نہ کبھی ان کی قبر کے پاس جا کے کھڑے ہونا ہے.اِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ اور رسول کا کفر کیا ہے.وَمَا تُوْا وَهُمْ فَسِقُونَ اور مر گئے اور وہ فاسق تھے یعنی وہی خبر جو قرآن کریم نے دی تھی کہ فاسقوں کے طور پر رہیں گے، فاسقوں کے طور پر ہی مریں گے وہ خبر ان کے متعلق پوری ہو چکی ہے.اس کے بعد رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات تک کی پھر منافق کی نماز نہیں پڑھائی.اس سے دو اور بڑے دلچسپ استنباط ہوتے ہیں.اول یہ کہ خدا تعالیٰ کو تو علم تھا کہ آنحضرت ﷺ نے اس کی نماز پڑھنی ہی پڑھنی ہے جب تک میں روکوں گا نہیں.تو یہ آیتیں پہلے کیوں نہ نازل فرما دیں؟ وہ تو مستقبل کا واقف ہے.یہ آیتیں پہلے نازل نہ فرمانا نعوذ بالله بھول نہیں تھی یوں بیان کرتے ہیں بعض روایت کرنے والے گویا کہ اللہ تعالیٰ کو پتا لگا اوہو! یہ تو نہیں رکیں گے اس طرح پڑھنے سے.خاص حکم دوں تو پھر رکیں گے.ہر گز یہ مقصد نہیں ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ایک اسوہ حسنہ کا ایک ایسا عظیم الشان پہلودنیا کی نظر سے اوجھل رہ جاتا اگر یہ دو آیتیں پہلے نازل ہو جاتیں.لوگ کہہ سکتے تھے کہ دشمنوں کو معاف کرنے پہ آمادہ تھے شدید منافقین، پختہ منافقین جو انتہائی بد زبانی کرنے والے تھے ان کا بھی جنازہ آپ پڑھ لیتے اگر خدا نہ روکتا.یہ کہنے کی باتیں ہوتی صرف لیکن اللہ تعالیٰ نے حکمت کاملہ کے تابع کچھ تاخیر کر دی اس واضح حکم دینے میں تاکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دل کی حالت لوگوں کو پتا لگ جائے ، ہمیشہ کے لئے دنیا کے سامنے ایک نمونہ قائم ہو جائے کہ اس طرح محمدی حسن اپنے دشمنوں کے حق میں جلوہ دکھاتا ہے.دوسری بات یہ کہ وہ معلوم لوگ تھے، معروف لوگ تھے وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا صاف پتا چلتا ہے کہ وہ سارے لوگ سوسائٹی میں معروف تھے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ

Page 165

خطبات طاہر جلد ۶ 161 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء جزل(General) ایک فتویٰ تھا خدا کا.معین فتویٰ تھا سب کو علم تھا کس کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں.چنانچہ عبداللہ جب مرا ہے حضرت عمرؓ نے فرمایا یہ وہ شخص ہے اس کے متعلق یہ یہ باتیں آئیں تو آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ نہیں اس کا نام دکھا ؤ قرآن کریم نے کہاں لکھا ہے.معروف لوگ تھے سوسائٹی جانتی تھی اور اللہ گواہی دے چکا تھا اس کے باوجود ساری زندگی منافقوں میں سے ایک کو بھی آنحضرت مے یا آپ کے صحابہ نے کلمہ پڑھنے سے نہیں روکا.یہ کہہ کر کہ یہ ناپاک ہیں اور جھوٹے ہیں ان کے دل میں کچھ اور ہے اور زبان سے کچھ اور جاری ہے.آج کا مولوی دو طرح سے تجاوز کر رہا ہے اور بڑی بے باکی دکھا رہا ہے.اول یہ تجاوز کر رہا ہے کہ جس کی خبر ان کو خدا نے نہیں دی وہ خود خبر اپنی ہاتھ میں لے رہا ہے اور خدائی کا دعوی کر رہا ہے جس کی اجازت آنحضرت ﷺ نے نہیں دی وہ بغیر اجازت کے وہ فعل کر رہے ہیں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی واضح ہدایات کے خلاف ہے یہ بات کہ کسی کے دل کی طرف وہ بات منسوب کرو جو اس کی زبان سے جاری نہیں ہو رہی.اس کا حق خدا کے سوا کسی کو نہیں.جب خدا نے یہ حق استعمال فرمایا اور کھلم کھلا بتا دیا اس کے باوجود ان کے کلمہ سے نہیں روکا گیا.یہ ان کا دوسرا تجاوز ہے.جھوٹا الزام لگاتے ہیں خدائی کا دعوی کرتے ہیں اور پھر اس کے بعد جو نتیجہ نکالتے ہیں وہ سنت محمد مصطفی ﷺ سے کھلی کھلی بغاوت ہے اور ہمیں کاٹ رہے ہیں آنحضرت ﷺ کے دامن سے یہ آیت تو ان کو اس طرح کاٹ کے پھینک دیتی ہے جس طرح کسی تیز چھری سے کسی شاخ کو دو نیم کر دیا جائے ، دوٹکڑے کر دیا جائے.کوئی تعلق بھی نہیں رہتا اس آیت کی روشنی میں ان لوگوں کا جو ہم پر یہ ظلم کر رہے ہیں آنحضرت ﷺ اور آپ کے اسوہ حسنہ سے.اگر واقعہ آنحضرت ﷺ کی محبت میں یہ جوش ہے اور ہمیں منافق اور جھوٹا سمجھ کے کر رہے ہیں تو پھر ان کے لئے سنت نبوی کے سوا اور کسی چیز کی پیروی کا چارہ ہی کوئی نہیں.ایک ہی پیروی ہے جس کی محبت کا دم بھرتے ہو، جس کے عشق کے راگ الا پتے ہو جس کی غلامی پر فخر کرتے ہو اس کی پیروی کرو اس کے دشمنوں کی پیروی کیوں کرتے ہو.اس لئے آج انہوں نے اپنے دعویٰ سے اپنا جھوٹ ثابت کر دیا ہے اپنے عمل سے بھی اپنا جھوٹ ثابت کر دیا ہے.عملاً دعوی خدائی کا کر رہے ہیں اور عملاً سنت نبویہ کے خلاف شدید بغاوت کر رہے ہیں.

Page 166

خطبات طاہر جلد ۶ 162 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء جہاں تک ان الزامات کا جائزہ لینے کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا انشاء اللہ تعالیٰ اس موضوع پر نقطہ بنقطہ جواب لکھ کر ان سب زبانوں میں کثرت کے ساتھ تقسیم کرایا جائے گا جن زبانوں میں انہوں نے یہ الزام تراشیاں شروع کی ہوئی ہیں اور جو بھی ہوگا ضرور ہو گا.چاہے وہاں پاکستان کے احمدیوں کو اور تنگی میں ڈالیں لیکن پاکستان میں بھی اب ضروری ہو گیا ہے کہ اس قسم کا جوابی اشتہار شائع کیا جائے یا چھوٹا رسالہ شائع کیا جائے اور کثرت کے ساتھ وہاں پھیلایا جائے.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی کا تعلق ہے.آپ کے متعلق یہ نتیجہ نکالنا جو نکالا ہے ایسا ظلم عظیم ہے ایسی سفا کی ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ان کو یہ کیسے جرات ہوئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جماعت احمدیہ کو کیا نصیحت کی اور آپ کا کیا دین تھا اور کیا کلمہ تھا یہ آپ کے اپنے الفاظ میں سنئے :.ہم مسلمان ہیں، خدائے واحد ولا شریک پر ایمان لاتے ہیں.ہاں ایک اور نتیجہ انہوں نے اس کتاب سے یہ نکالا ہے کہ شریعت منسوخ ہو گئی ان کے نزدیک اور اب مرزا غلام احمد کا کلام ہی ان کی شریعت ہے.حیرت ہے ان کی فتنہ پردازیوں پر کوئی خدا کا ادنی سا بھی خوف نہیں کھاتے کیسے کیسے بڑے جھوٹ بولتے ہیں اور کس قدر بے باکی سے بولتے ہیں مگر اگر یہی بات ان کی سچی ہے تو پھر مرزا غلام احمد قادیانی نے جو شریعت ہمیں بتائی ہے وہ سن لیجئے ، پھر اس کو بھی مانیں کسی جگہ ٹھہریں تو سہی.اگر ہم سے وہی سلوک کرنا ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں تعلیم دی ہے اور اس کو یہ ہماری شریعت ماننے پر آمادہ ہیں تو پھر وہ شریعت سن لیجئے وہ کیا ہے.وہ شریعت یہ ہے:.ہم مسلمان ہیں خدائے واحد لاشریک پر ایمان لاتے ہیں اور کلمہ لا الله الا اللہ کے قائل ہیں اور خدا کی کتاب اور اس کے رسول محمد ﷺ کو جو خاتم الانبیاء ہے مانتے ہیں اور فرشتوں اور یوم البعث اور بہشت اور دوزخ پر ایمان رکھتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں اور اہل قبلہ ہیں اور جو کچھ خدا اور رسول نے حرام کیا اس کو حرام سمجھتے ہیں اور جو کچھ حلال کیا اس کو حلال قرار دیتے ہیں اور نہ ہم شریعت میں کچھ بڑھاتے اور نہ کم کرتے ہیں اور ایک ذرہ کی کمی بیشی

Page 167

خطبات طاہر جلد ۶ 163 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء نہیں کرتے اور جو کچھ رسول اللہ اللہ سے ہمیں پہنچا اس کو قبول کرتے ہیں چاہے ہم اس کو سمجھیں یا اس کے بھید کو سمجھ نہ سکیں اور اس کی حقیقت تک پہنچ نہ سکیں اور ہم اللہ کے فضل سے مومن موحد مسلم ہیں“.( نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحہ ۷ ) پس اگر ان کے نزدیک احمدیوں کی شریعت وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی تو پھر وہ شریعت تو یہ ہے.مگر جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے کبھی اس پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے کبھی دوسرے پاؤں پر کھڑا ہوتا ہے.کوئی ایک بات تو واضح طور پر ما نہیں اور عہد کریں کہ ہاں ہم اس بات سے نہیں ملیں گے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.میں سچ کہتا ہوں اور خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اور میری جماعت مسلمان ہے اور آنحضرت علی اور قرآن کریم پر اسی طرح ایمان لاتی ہے جس طرح پر ایک سچے مسلمان کو لانا چاہئے“.(لیکچر لدھیانہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ ۲۶۰) اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ الزام تراشیاں اسی طرح جاری رہیں اور فرضی قصے جماعت احمدیہ کی طرف منسوب کرتے چلے جائیں اور ہمیں جواب دینے کی اجازت نہ ہو اور جماعت احمدیہ کی زبان پر بھی پابندی لگی ہو ایک ملک میں اور قلم پر بھی پابندی ہو اور وہ کوشش کر کے اپنی آواز پہنچانے کی کوشش کریں لیکن ظاہر بات ہے کہ رستے میں بہت سی روکیں ہوں گی ، دقتیں ہوں گی اور جس کثرت سے ان کا گند مصنوعی اور افتراپردازیوں کا گند یہ پھیل رہا ہے اور جہاں جہاں تک یہ گند پہنچ رہا ہے ممکن نہیں ہے جماعت کے لئے اپنے محدود وسائل میں ان سب جگہوں تک یہ بات، اس کا جوابی پیغام پہنچا دے.تو اس کا کیا حل ہے؟ ایک ہی حل ہے اور میں تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے ان سارے علماء کو خواہ وہ پاکستان میں بسنے والے ہوں یا باہر ہوں میں چیلنج کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جس طرح خدا تعالیٰ کے پاک نام کی قسمیں کھا کر یہ اعلان کیا ہے کہ میراکلمہ وہی ہے جو سب مسلمانوں کلمہ ہے اور میرا رسول حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہیں اور میرا ان سب باتوں پر ایمان ہے جو اسلام لانے کے لئے جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے.جس شوکت اور شان سے آپ نے قسم کھائی ہے

Page 168

خطبات طاہر جلد ۶ 164 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء اور لعنت ڈالی ہے جھوٹوں پر اس طرح اگر یہ اپنے دعوے میں بچے ہیں تو یہ قسم اٹھالیں اور سارے علماء مل کر یہ حلفیہ بیان پاکستان میں شائع کریں اور باہر دنیا میں اس کا ترجمہ کرا کے شائع کرائیں کہ ہم اللہ تعالیٰ کو حاضر ناظر جان کر یہ یقین رکھتے ہوئے کہ جھوٹوں پر اس کی لعنت پڑتی ہے اور یہ دعا کرتے ہوئے کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو خدا ہم پر لعنت ڈالے ہمیں ذلیل و رسوا کرے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.یہ اعلان کرتے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ فی الحقیقت اور ہے اور جب یہ کلمہ پڑھتی ہے، جب محمد رسول اللہ ﷺ کہتی ہے تو مراد مرزا غلام احمد قادیانی ہوتے ہیں اور ان کی شریعت اور ہے ان کا خدا اور ہے اور نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت ﷺ سے افضل سمجھتے ہیں ہرشان میں افضل سمجھتے ہیں.غرضیکہ جتنی افتراپردازیاں یہ کر رہے ہیں اگر ان میں کبھی بھی غیرت اور ایمان ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہ تم پہلے سے کھا چکے ہیں یہ بھی آگے قسم اٹھا جا ئیں اور پھر دیکھیں خدا کی تقدیر کیا ظاہر کرتی ہے.بددعا تو میں روکتا ہوں کرنے سے مگر یہ لوگ ایسے ظالم ہیں ایسی سفا کی ان کے اندر پائی جاتی ہے ، جھوٹ اور افترا پر ایسی جرات ہے کہ اب کچھ چارہ نہیں رہا کہ سوائے اس کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس چیلنج کو جو اپنے اندر ایک مخفی پینج کا رنگ رکھتا ہے ان کی طرف پھینکوں اور ان سے کہوں کہ تم بھی اگر جرأت رکھتے ہو اور واقعہ تم متقی ہو خدا پر ایمان لاتے ہو تو تم اسی قسم کی جرات دکھاؤ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس شان کے ساتھ اللہ کو گواہ اور حاضر ناظر جان کر عہد کیا ہے اور ایک اعلان کیا ہے تم بھی ایسا اعلان کر دو مقابل کا کہ یہ لوگ جھوٹے اور بدکار اور فاسق اور فاجر اور آنحضرت صلى الله ہ کے گستاخ اور دین اسلام سے بٹے ہوئے اور بہائیوں کی طرح ایک نیا دین بنانے والے ہیں.یہ ساری باتیں جو الزام لگائے گئے ہیں اس پر اعلان کر دیں پھر دیکھیں خدا کی تقدیر کیا فیصلہ فرماتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.’بالآخر پھر میں عامۃ الناس پر ظاہر کرتا ہوں کہ مجھے اللہ جل شانہ کی قسم ہے کہ میں کا فرنہیں.لا اله الا الله محمد رسول اللہ میرا عقیدہ ہے اور لكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِينَ (الاحزاب: اے ) پر آنحضرت کی نسبت میرا ایمان ہے.میں اپنے اس ایمان کی صحت پر اس قدر قسمیں کھاتا ہوں جس قدر خدا تعالیٰ کے پاک نام ہیں اور جس قدرقرآن کریم

Page 169

خطبات طاہر جلد ۶ 165 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء کے حرف ہیں اور جس قدر آنحضرت علی کے خدا تعالیٰ کے نزدیک کمالات ہیں.کوئی عقیدہ میرا اللہ اور رسول کے فرمودہ کے برخلاف نہیں اور جو کوئی ایسا خیال کرتا ہے خود اس کی غلط نہی ہے اور جو شخص مجھے اب بھی کا فرسمجھتا ہے اور تکفیر سے باز نہیں آتا یقین یا درکھے کہ مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا“.کرامات الصادقین، روحانی خزائن جلدے صفحہ : ۶۷) جواب میں قوت ہے ، شان ہے اور لیکن ساتھ ایک رحم کا کا پہلو بھی ہے ”مرنے کے بعد اس کو پوچھا جائے گا لیکن یہ لوگ اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ اب تو ان کو یہ کہنا چاہئے کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو خدا اس دنیا میں بھی ہمیں پوچھے.اب تو اس شخص کی نہج پہ یہ چل پڑے ہیں جس نے یہ کہا تھا کہ اس دنیا میں بھی پھر ہم پر پتھراؤ ہو اور آسمان پتھر برسائے.اس لئے جب اس قدر بے با کی اختیار کر چکے ہیں تو پھر آگے بڑھیں اور یہ اعلان کریں خدا کی قسمیں کھا کے کہ اگر ہم جھوٹے ہیں تو اللہ اس دنیا میں ہم پر لعنت ڈالے اور ہمیں بر باداور ذلیل ورسوا کر دے اگر ہم اس دعوی میں جھوٹے ہیں کہ احمدی محمد مصطفی ﷺ کا کلمہ نہیں پڑھتے بلکہ مرزا غلام احمد کا کلمہ پڑھتے ہیں ، دین محمد کے قائل نہیں بلکہ ایک اور دین بنایا ہوا ہے، قرآن کے قائل نہیں بلکہ ایک اور کتاب ہے جو قرآن کے برخلاف اور اس سے جدا ایک الگ کتاب بنالی گئی ہے.ان کی شریعت بہائیوں کی طرح مختلف شریعت ہے ان کا خدا اور ہے ان کا رسول اور ہے بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کو نعوذ بالله من ذالک یہ محمد رسول اللہ سے افضل ہی نہیں بلکہ خدا مانتے ہیں.یہ سب باتیں یہ سب بکواس اسی کتاب میں موجود ہے.تو پھر یہ کر لیں اور اگر یہ کر کے دکھا ئیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی قہری تحیتی ضرور ظاہر ہوگی آپ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے کہ کس طرح خدا کی تقدیر ان کے پر خچے اڑا کے رکھ دے گی اور ذلیل ورسوا اور نا کام کر کے دکھائے گی.نا کامی تو بہر حال ان کے مقدر میں ہے لیکن ہم یہ تو منتیں کرتے ہیں اور اس کی ہمیشہ خدا سے توقع رکھتے ہیں کہ ان کو خدا ہدایت دے، اللہ ان پر رحم فرمائے یہ اپنی بدیوں سے باز آجائیں اور یہ ہم اس لئے کرتے ہیں کہ ہم خدائی اپنے ہاتھ میں نہیں لیتے.آنحضرت کو تو خدا نے خود روک دیا تھا لیکن ان کے متعلق کہ ان میں سے کون سے ایسے ہیں جو مہر زدہ ہیں اور

Page 170

خطبات طاہر جلد ۶ 166 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء کون سے ایسے ہیں جو بیچ میں سے سعید روح رکھتے ہیں اور انجانی کی بات کرتے ہیں ہمیں علم نہیں.اس لئے دل آمادہ نہیں ہوتا کہ ان پر کلیہ ایسی لعنت ڈالی جائے لیکن اب میں جو پیشکش کر رہا ہوں اس کا تو یہ مطلب ہے کہ اگر ان میں سے کوئی جرات مند ہے تو وہ خود آگے آئے ہم لعنت نہیں ڈالتے ، خود آگے آئے اور اپنے دعوی کی تائید میں اپنے اوپر اگر جھوٹا ہے تو لعنت ڈالے.اس کی اگر ان میں جرات ہے تو آئیں اور آپ دیکھیں گے خدا کی تقدیر کس طرح ان کو ذلیل ورسوا کر دکھاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسا عاشق صادق کوئی اور لا کے تو دکھائیں کہیں سے.چودہ سوسال گواہ ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جیسا محبت اور عشق کا معاملہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے کیا اس کی کوئی نظیر نظر نہیں آتی.حیرت انگیز عشق ہے حیرت انگیز فدائیت ہے.نظم کا کلام ہو یا نثر کا کلام ہو بالکل ایک ایسا تعلق ہے کہ کوئی شریف النفس انسان ذرا سا بھی نگاہ رکھے حیران ہو جاتا ہے کہ کوئی شخص کسی کے عشق میں اس طرح دیوانہ ہوسکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے منصف مزاج غیر احمدی مسلمانوں نے جو پہلی نسلوں میں زیادہ نظر آیا کرتے تھے باوجود اختلاف عقیدہ کی یہ ہے عاشق رسول جو اس کو کہہ لو اور ان کی کتابوں میں ابھی تک یہ باتیں لکھی ہوئی موجود ہیں.شدید مخالفت رکھنے والے علماء ان کے پاس پہنچتے رہے اور کوشش کرتے رہے ان سے کفر کے فتوے لیں.انہوں نے کہا نہیں ایک بات بہر حال پکی ہے کہ جو کچھ بھی کہو جتنا چاہو اختلاف رکھو یہ ہے عاشق رسول عل محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں دیوانہ ہوا ہوا ہے.آپ کے کلام کو تفصیل سے پیش کرنے کا تو وقت نہیں ہے جو اشعار لا یا تھا لکھ کر بعض نمونے کے طور پر یا عبارتیں ان میں سے چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق سے آپ کی بھی روح معطر ہو، آپ کو بھی پتہ لگے کہ کس آقا کا آپ نے دامن پکڑا ہے اور اس کو آنحضرت ﷺ سے کیسی فدائیت اور عشق کی ایک نسبت تھی.در دلم جوشد ثنائے سرورے سرورے پڑھتے ہیں ہمارے ہندوستان وغیرہ کے فارسی دان اور اگر فارسی طرز میں پڑھا جائے تو ”سروری پڑھا جائے گا مگر اس پر پھر وہ بڑا ناراض ہوتے ہیں اگر میں اس کو ایرانی تلفظ پڑھنے کی کوشش کروں تو ہمارے اہل علم فارسی دان جو ہندوستان پاکستان ہیں وہ کہتے ہیں تم نے کیا ستیا ناس کر دیا ہے بگاڑ

Page 171

خطبات طاہر جلد ۶ 167 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء دیا ہے اس شکل وصورت کو.چونکہ اکثر مخاطب وہی ہیں اس لئے میں انہیں کی طرز میں پڑھوں گا یہ:.در دلم جوشد ثنائے سرورے آنکه در خوبی ندارد ہمسرے آنکه جانش عاشق یا رازل آنکه روحش ، واصل آں دلبری (در مشین فارسی صفحه: ۵) میرے دل میں ” سرورے“ ایک سرور ایک آقا ایک سردار کا عشق جوش مار رہا ہے اس کی ثناء میرے دل میں جوش مار رہی ہے.کون ہو ہے وہ در خوبی ندارد ہمسرے“ کہ اس کی خوبی میں کوئی بھی اس کا ثانی کوئی بھی شریک نہیں ہے اس دنیا میں انسانوں میں.وہ ایک یکتا و تنہا ہے اس جیسا کوئی اور نہیں.آنکه جانش عاشق بارازل مجھے اس سے یہ نسبت کیوں ہے اس لئے کہ خود وہ یار ازل“ کا ایک عاشق صادق ہے، اس کی ساری جان اپنے خدا پر عاشق ہو چکی ہے.آنکه روحش، واصل آں دلبرے میرا محبوب کون ہے وہ کہ جس کی روح ” آس دلبر یعنی اللہ کی ذات میں پوری طرح کھوئی گئی ہے.پھر فرماتے ہیں:.در ره ره عشق محمد ، ایس سرو جانم رود ایں تمنا ، ایں دعا ، ایس در دلم عزم صمیم کہ محمد مصطفی ﷺ کی عشق کی راہ میں ” این سرو جانم رود یہ ( درشین فارسی صفحه ۱۰۲) میری جان اور یہ میرا سر فدا ہو جائے ، جاتا رہے اس راہ میں.ایس تمنا، یہ میری تمنا اور ایں دعا، یہ میری دعا ہے ای در دلم عزم صمیم“ اور میرے دل میں یہی عزم صمیم بھی ہے.پھر فرماتے ہیں:.مے پریدم، سُوئے گوئے اُو مُدام من اگر میداشتم، بال و پرے ختم مهد ، بر نفس پاکش، ہر کمال لا جرم شد ختم ہر پیغمبرے

Page 172

خطبات طاہر جلد ۶ 168 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء آں ترقیم ہا ، کہ خلق اس وے پد ید گس ندیده، در جہاں از مادری ( در تمین فارسی صفحہ : ۶.۷) کہ میرا تو یہ حال ہے محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں کہ ہمیشہ اس کے کوچے کی طرف اپنے آپ کو اڑتا ہوا پاتا ہوں گویا کہ ہمیشہ حضوراکرم ﷺ کے تصور میں آپ کے وجود کی طرف اڑتا ہوا چلا جارہا ہوں.من اگر میداشتم، بال و پرے کاش میرے وجود کو میرے جسم کو اگر یہ بال و پر مل جاتے یہ ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا.یعنی روحانی حالت میں تو ہر وقت اسی سمت میں جاری وساری ہوں لیکن من اگر میداشتم، بال و پرے کیسا پیارا مصرع ہے.کاش! ایسا ہوتا میرے جسم کو بھی یہ طاقت ہوتی تو میں آج محمد مصطفیٰ کے جسم کی طرف اسی طرح اڑتا ہوا چلا جاتا.ختم مهد ، بر نفس پاکش، ہر کمال لا بجرم هدختم ہر پیغمبرے ( در تمین فارسی صفحه: ۵) آپ کے پاک نفس پر ہر کمال ختم ہو چکا ہے.بے شبہ آپ پہ ہر پیمبری ختم ہے اور ہر پیغمبر ختم ہے.اگر پیغمبری پڑھا جائے ان معنوں میں تو مراد یہ ہوگی کہ پیغمبری ختم ہوگئی مگر ویسے لا جرم، خُد ختم ہر پیغمبرے کا مطلب ہے کہ ہر دوسرا بی آنحضرت ﷺ کے بعد ختم ہو چکا ہوائے آپ کے ہر دوسرا بی ختم ہے.آں ترخم ہا ، کہ خلق اس وے پد ید گس ندیده، در جہاں، از مادری کہ وہ رحمتیں جو مخلوق خدا نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے مشاہدہ کیس کسی نے کبھی اپنی ماں سے ایسی رحمتیں نہیں پائیں.پھر فرماتے ہیں:.

Page 173

خطبات طاہر جلد ۶ 169 برتر گمان و وہم سے احمد کی شان ہے جس کا غلام دیکھو مسیح الزمان ہے ( در ثمین صفحه ۱۶۲) خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء محمد مصطفی ﷺ کی شان کا تصور کرو وہم گمان میں بھی نہیں آسکتی ، جسے خدا نے سارے زمانے کا صیح بنایا ہے وہ اس کا غلام ہے.اب بتائیں کہ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ جب ہم نام لیتے ہیں تو مراد یہ ہوتی ہے تو بالکل آمنے سامنے دکھایا ہے کہ ایک کون ہے اور دوسرا کون ہے.پھر فرماتے ہیں: اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے پہلے تو راہ میں ہارے پاراس نے ہیں اتارے میں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے (در نمین صفحه : ۸۴،۸۳) پھر فرماتے ہیں:.انظر الى برحمة و تحنن یا سیدی انا احقر الغلمان کہ اے میرے محبوب میرے معشوق ! میری طرف رحمت اور لطف کی نظر ڈالیں.اے میرے آقا ! میں تو ایک غلاموں میں سے حقیر ترین غلام ہوں.احقر الغلمان يا حب انک قد دخلت محبةً اے میرے محبوب! تو محبت کے ذریعے داخل ہو گیا في مهجتی و مدارکی و جنانی میری جان میں، میرے حواس میں اور میرے دل میں اس طرح تو داخل ہو گیا ہے محبت

Page 174

خطبات طاہر جلد ۶ 170 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء کے ذریعے کے ذرے ذرے میں تو رچ گیا ہے.من ذكر وجهک یا حديقة بهجتی لم اخل في لحظ ولا في آن اے میری مسرت کے باغ تیرے چہرے کے ذکر کے ساتھ من ذکر وجھک لم اخــل فـي لـحـظ ولا في ان کسی حالت میں اور کسی لمحہ بھی میں غافل نہیں رہتا.ہر وقت تیرا خیال ہے جو میرے دل پہ چھایا ہوا ہے.جسمى يطير اليك من شوق علا یالیت كانت قوة الطيران ( القصائد الاحمدیہ صفحہ : ) میرا جسم ایک غالب شوق کی وجہ سے ہر آن تیری طرف اڑتا چلا جارہا ہے.وہی شعر جس کا پہلے فارسی میں بھی اس مضمون کو بیان کر دیا گیا ہے.جسمى يطير الیک من شوق علا یالیت كانت قوة الطيران اے کاش ! مجھ میں اڑنے کی طاقت ہوتی یعنی میرا جسم بھی اڑ سکتا اور میں تیرے حضور حاضر ہو جاتا.پھر فرمایا:.انی اموت ولا تموت محبتی میں تو ضرور مر جاؤں گا لیکن میری محبت محمد مصطفی حلیے سے جو مجھے عشق ہے وہ کبھی نہیں مرے گی.انی اموت ولا تموت محبتی یدری بذکرک فی التراب ندائی (القصائد الاحمد به صفحه : ۲۰۴) اے محمد ! تیرے ذکر کے بعد میری مٹی سے بھی تیری محبت کی آواز بلند ہوگی.آج دنیا کے کروڑوں احمدی گواہ ہیں کہ خدا کی قسم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محمد مصطفی ﷺ کے ساتھ محبت کبھی نہیں مرے گی.آپ مر گئے دنیا کے لحاظ سے اور ہم مر جائیں گے اور نسلاً بعد نسل

Page 175

خطبات طاہر جلد ۶ 171 خطبہ جمعہ ۶ / مارچ ۱۹۸۷ء جماعتیں آئیں گی اور مرتی چلی جائیں گی مگر ایک چیز جس کو ہمیشہ زندہ رکھیں گی وہ عشق محمد مصطفی امت ہے ہے اور قیامت تک آپ کے اور آپ کے غلاموں کی قبروں کی مٹی سے محمد مصطفی مے کی محبت کی ﷺ آواز ہمیشہ بلند ہوتی چلی جائے گی.

Page 176

Page 177

خطبات طاہر جلد ۶ 173 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء اپنے اور اولاد کے تقویٰ کی فکر کریں ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی : وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ و اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اور پھر فرمایا: (الفرقان: ۷۵) عموما میں جب جمعہ کے لئے آتا ہوں تو پہلے احباب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہتا ہوں اور پھر اذان کی اجازت دیتا ہوں اس دفعہ میں خیالوں میں کھویا ہوا یہ بھول ہی گیا.تبھی میں تعجب کر رہا تھا کہ اذان کیوں نہیں فوراً شروع کی.تو اب میں اس کوتاہی کو دور کرتے ہوئے سب کو السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ کہتا ہوں.دنیا میں ہمیں جتنے کیمیاوی رد عمل دکھائی دیتے ہیں ان میں کچھ تو ایسے ہیں جو مستقل جاری وساری ہیں اور ہم نہ ان کو روک سکتے ہیں نہ ان کو چلا سکتے ہیں یہ قانون قدرت کی طرف سے جاری نظام ہے اور کچھ ایسے ہیں جو اپنے آغاز کے لئے کسی مدد اور سہارے کے محتاج ہوتے ہیں جب تک انہیں چلنے کا حکم نہ دیا جائے اس وقت تک وہ رد عمل جاری نہیں ہوتے اور ان کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے مددگار مقرر فرمائے ہوئے ہیں جو اس رد عمل کو چلانے کے لئے ایک قسم کے Trigger جس کو انگریزی میں کہتے ہیں، لبلبہ کا کام دیتے ہیں.وہTrigger چلے تو وہ چلیں گے

Page 178

خطبات طاہر جلد ۶ 174 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء ور نہ خاموش پڑے رہیں گے اور Trigger کی مثال کے ساتھ ہی سب سے پہلی مثال جو سامنے آتی ہے وہ بارود کی ہے.کتنے ہی کارتوس ہیں یا بم ہیں جن کے اندر بارود پڑے ہوئے ہیں اور وہ بالکل بے ضرر ہیں کسی کو کچھ نہیں کہتے لیکن ایک چھوٹا سا شعلہ جو ان کو چلنے کا حکم دیتا ہے یا ان کی مدد کرتا ہے چلنے میں وہ جب ان پر چلے یا دھما کہ جو دھماکے سے چلنے والے بارود ہیں ان کے لئے ظاہر ہو تو اچانک ایک حیرت انگیز اور نہایت ہی برق رفتار سلسلہ کیمیاوی اثرات کا شروع ہو جاتا ہے.اس سے انسان نے بہت فائدہ اُٹھایا ہے اور انسان نے جتنی مشینیں ایجاد کی ہیں ان میں بہت حد تک خدا تعالیٰ کے جاری کردہ نظام سے استفادہ کیا گیا ہے.اب موٹر ہے اس میں ایک پٹرول ہے جو دراصل موٹر کی غذا ہے ساری طاقت دیتا ہے چلنے کے لئے لیکن اگر وہ بجلی کا شعلہ نہ چلے جو سٹاٹر Starter سے چلتا ہے جس کے لئے الگ انتظام کیا جاتا ہے تو کروڑوں ٹن بھی پٹرول کسی کے پاس پڑا ہو کتنے ہی اسے استعمال کرنے کے لئے جہاز یا موٹریں وغیرہ موجود ہوں اس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.چلانے کے لئے ایک مددگار اور ایک معاون کی ضرورت ہے جو ا سے بہر حال رہے گی.ان اُمور پر جب آپ غور کرتے ہیں تو انسانی زندگی میں بھی ہمیں اس کی بکثرت مثالیں دکھائی دیتی ہیں اور اگر قانون قدرت پر انسان غور کرے اور ان مثالوں کو انسانی زندگی کی مثالوں پر چسپاں کرے تو اس سے بہت سے سبق ملتے ہیں.پچھلے کچھ عرصے سے میں جماعت کو تحریک کر رہا ہوں مختلف نیک کاموں کی اور یہ بتا کر کہ وقت ، ویسے تو ہر انسان کے لئے وقت تھوڑا ہی ہے لیکن ایک خاص سنگ میل کو مد نظر رکھتے ہوئے جو سو سالہ جشن کا سنگ میل ہے.اجتماعی حیثیت سے جماعت کے پاس وقت تھوڑا رہ گیا ہے اور مختلف تحریکات کر رہا ہوں اصلاح نفس کی ،اصلاح معاشرہ کی تعلق باللہ کو بڑھانے کے لئے اور تبلیغ کے لئے مستعد ہونے کے لئے ، جلد تر ساری دنیا میں اسلام کا نور پھیلانے کے لئے ، جتنی جتنی بھی جدوجہد کی ضرورت ہے جس نوع کی جدوجہد کی ضرورت ہے اس کی طرف توجہ دلا رہا ہوں لیکن بعض دوستوں کے بڑے معذوری کے خط آتے ہیں وہ کہتے ہیں تمنا تو بیدار ہوگئی ہے لیکن طاقت نہیں اور بعض اپنے متعلق یہ لکھتے ہیں اور جو اپنے متعلق لکھتے ہیں ان کے اندر ایک درد پایا جاتا ہے دعا کی تحریک ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں ہمیں سمجھ نہیں آتی جب ہم خطبہ سنتے ہیں یا کوئی پیغام سنتے ہیں تو دل میں ایک بڑا ز بر دست ولولہ پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے بعد پھر عمل کی قوت

Page 179

خطبات طاہر جلد ۶ 175 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء نہیں آتی اور ہم احساس محرومی کا شکار ہوتے چلے جا رہے ہیں.بعض لوگ ہیں جو اپنے متعلق نہیں لکھتے دوسروں کے متعلق لکھتے ہیں کہ آپ تو خطبے دیتے رہتے ہیں وہاں وہی حال ہے سب کا اور فلاں میں یہ برائی پائی جاتی ہے اور فلاں میں یہ برائی پائی جاتی ہے.بعض عورتیں ہیں ان کی شکایتوں میں درد بھی پایا جاتا ہے اور غیر کی شکایت بھی یعنی خاوند کی.کہتی ہیں کہ ہم نے تو یہاں تک بھی کیا کہ آپ کے خطبے ان کو سنائے بٹھا کے کہ یہ ہوتا ہے حسن سلوک معاشرے میں ، عائلی زندگی یہ ہونی چاہئے.اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول آپ سے یہ تقاضا کرتے ہیں لیکن کوئی فرق نہیں پڑا، وہی زندگی، وہی چال چلن ، وہی رہن سہن ، وہی نا انصافی اور سختی ان کے بیان کے مطابق.تو ان سب امور پر غور کرتے ہوئے میں نے اس کا یہی ایک جواب پایا کہ انسانی زندگی میں جسے ہم پیڑول کہتے ہیں، چلنے کی طاقت چلنے والی چیز ، وہ قوت جسے چلایا جائے تو پھر وہ بڑے عظیم الشان کارنامے دکھاتی ہے.وہ قوت کیا ہے انسان میں اور تقریر اس قوت پر کیا اثر کرتی ہے؟ تقریر اور نصیحت اور یاد دہانیاں یہ سارے تو اس شعلے کی طرح ہیں جو بارود پر چلے تو اس میں ایک رد عمل جاری کر دیتا ہے یا پٹرول کو حکم دیتا ہے کہ تم چل پڑو یا اسی قسم کی دوسری انسانی مشینوں میں انسان نے استفادہ کرتے ہوئے تعاون کا ایک نظام جاری کر دیا ہے لیکن اگر پٹرول نہ ہو تو شعلہ بریکار جائے گا.خالی اسٹاٹر چلا کے آپ گھنٹوں بیٹھے رہیں موٹر میں ، گھنٹوں تو اسٹاٹر آپ کا ساتھ ہی نہیں دے گا، چند منٹ کے اندر اندر وہ بھی جواب دے دے گا اور کسی قسم کی کوئی حرکت اس موٹر میں پیدا نہیں ہوگی تو اس کا جواب مجھے قرآن کریم میں یہ ملا:.وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى وَاتَّقُونِ يَأُولِي الْأَلْبَابِ (البقرہ: ۱۹۸) قرآن کریم نے بھی انسانی نظام میں ایک پٹرول کا ایک قوت کے ذخیرے کا ذکر فرمایا ہے اور فرمایا ہے کہ باوجود اس کے کہ آسمان سے نور نازل ہو چکا ہر قسم کو ہدایت مل گئی اور دلوں کو گرمانے والا وجود جیسا پہلے کبھی نہیں آیا تھا ویسا وجود ظاہر ہو گیا لیکن جب تک تمہارے اندر وہ غذا موجود نہیں ہوگی جس سے قوت پا کے تم آگے چلو گے اس وقت تک یہ ساری نصیحتیں، یہ سارے کارخانے بیکار جائیں گے.فرمایا: - وَتَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوى سفر پر روانہ ہونا چاہتے ہو، دل

Page 180

خطبات طاہر جلد ۶ 176 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء میں خواہشیں پیدا ہوگئی ہیں، جی چاہتا ہے ہم بھی حرکت کریں اور فعال وجود بن جائیں لیکن زادراہ کوئی نہیں.تو وہ زاد راہ ہے کیا جس کی قوت سے روحانی سلسلے چلتے ہیں؟ وہ تقویٰ ہے.اب اس جواب کی روشنی میں جب آپ ان سب حالات پر نظر ڈالیں جو جماعت پر گزر رہے ہیں تو ہر دفعہ یہی جواب ملے گا.جب متقی کے کان پر آواز پڑتی ہے تو صرف اُسکا وجود مرتعش نہیں ہوتا بلکہ متحرک ہو جاتا ہے.صرف لرزہ ہی نہیں طاری ہوتا اس کے وجود پر بلکہ مستقلاً وہ آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور جس نوع کا بھی کام آپ اس سے لینا چاہیں جس سمت اسے حرکت دیں وہ ایک نتیجہ خیز وجود بن جاتا ہے اور جب تقویٰ کی کمی ہو تو ارتعاش پھر بھی آجاتا ہے.بسا اوقات لاکھوں آدمی ایک جلسے پر کسی کا وعظ سن رہے ہوں ان کا وجود بعض نصائح سے متاثر ہوکانپ اُٹھتا ہے واقعہ ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے بدن میں لرزہ طاری ہو جاتا ہے، آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہو جاتے ہیں لیکن جب وہ جاتے ہیں تو گنتی کے چند ہوں گے جن کے اندر وہ قوت کارفرما ہو چکی ہو جو ان کے وجود کے اندر پہلے ہی تھی لیکن مخفی تھی خوابیدہ حالت میں تھی اور پھر دوبارہ انہیں چنگاری کی ضرورت پیش نہیں آتی.وہ جوارتعاش ہے وہ ایک مستقل حرکت کی شکل اختیار کر لیتا ہے وہ آگے بڑھنے لگتے ہیں.تو اگر واقعۂ ان بیویوں کا بیان درست ہے جو اپنے خاوندوں کا ذکر کرتی ہیں اور بڑے درد کے حالات لکھتی ہیں تو اگر ان کے اندر وہ تقویٰ نہیں ہے تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں کوئی کسی کا کچھ نہیں کرسکتا.اس کے لئے دعا مانگیں اور اسی لئے قرآن کریم نے تقویٰ کے لئے جو ہمیں دعا سکھائی اس میں عجیب بات ہے کہ عائلی زندگی کا خصوصیت کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا:.وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اے خدا! ہمیں ہمارے جوڑوں سے دل کا چین اور آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرما.قُرَّةَ أَعْيُنِ سے مراد دونوں چیزیں ہیں آنکھ کی ٹھنڈک یعنی دل کا چین اور سکون اور ہمیں متقیوں کے لئے امام بنا.یہ متقیوں کے لئے امام بنانے کی دعا بہت ہی حیرت انگیز سبق قوموں کے لئے اپنے اندر رکھتی ہے اور اگر چہ اس نسبت سے یہاں پہلا اطلاق اس کا اولاد پر ہوتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی جتنی قومیں ہیں ان پر آپ نظر دوڑا کے دیکھیں لیڈرشپ اگر متقیوں کی نہیں ہے تو اسکی کوئی بھی

Page 181

خطبات طاہر جلد ۶ 177 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء حیثیت نہیں.لیڈرشپ میں تقویٰ سے قوت پیدا ہوتی ہے اور ہر تقویٰ کا اپنا الگ الگ میدان ہے.انسانی زندگی میں جو مذہب کے علاوہ مضامین ہیں ان کے اندر بھی تقویٰ کا مضمون چلتا ہے.جو سیاست ہے اس میں اگر قوم اپنے مقصد کے طرف مخلص نہ ہو، اپنے وطن کی محبت میں مخلص نہ ہو تو وہ غیر متقی قوم ہے.اس کے لیڈر ہزار کوشش کریں ان کے اندر کوئی مستقل تبدیلی، کوئی پاک تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.ایک شور ڈالتے رہیں گے وہ، منہ سے جھاگ بھی نکالتے رہیں گے لیکن قوم جیسا کہ بے عمل تھی ویسی ہی بے عمل رہے گی کیونکہ خالی سٹاٹر ہے ان کے پاس اور وہ زادِ راہ نہیں ہے جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا وَ تَزَوَّدُوا فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقْوَى - اسی طرح مذہب کی دنیا میں بھی یہی حال ہے اور تقویٰ کے نتیجے میں ہی قومیں آگے بڑھا کرتی ہیں.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دو قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ایک وہ جنہیں اپنے تقویٰ کی فکر رہتی ہے.وہی ہیں جو حقیقت میں ہدایت پانے کے اہل ہیں اور ایک وہ ہیں جو دوسرے کے تقویٰ کی فکر نہیں کرتے بلکہ دوسرے کی برائیوں کا کھوج نکالنے کی فکر میں رہتے ہیں اور اس کا نام انہوں نے اپنا تقویٰ رکھ لیا ہے اور غیر میں تقویٰ کی تلاش رہتی ہے حالانکہ تقویٰ کی تلاش سے نہ ان کا تعلق ہوتا ہے، نہ ان کو اپنے تقویٰ کی کوئی فکر ہوتی ہے اور ان کو ہر طرف برائی ہی برائی دکھائی دیتی ہے لیکن اس قسم کے لوگوں میں آگے پھر دوگروہ ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت میں ایسے لوگوں کی تعداد بہت ہی کم ہے اور دن بدن کم ہوتی چلی جارہی ہے جو محض تخریب کے لئے تنقید کرتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو میں نے پچھلے چند سالوں میں محسوس کیا کہ غیر معمولی طور پر جماعت میں اس بات کی طرف دھیان منتقل ہو رہا ہے کہ ہم اپنی فکر کریں اور وہ جو زبانیں پہلے تنقید کے لئے بے دھڑک چلا کرتی تھیں یا وہ قلم جو تنقید کے لئے بے ساختہ بے لگام ہو جایا کرتے تھے ان میں بڑا فرق پڑتا چلا جا رہا ہے.ان زبانوں میں، ان قلم کی تحریروں میں ادب آنا شروع ہو گیا ہے اپنی ذات کی فکر پیدا ہونا شروع ہو گئی ہے لیکن ایک اور ایسا طبقہ ہے جس کے اندر مخفی نقص ہیں اور جس کا مطلب یہ ہے کہ تقوی گہرا نہیں ہے اور کھوکھلا ہے اور وہ مخفی نقص اس طرح ظاہر ہوتے ہیں کہ ا یک معاشرے میں وہ رہتے چلے جارہے ہیں انہیں کوئی برائی دکھائی نہیں دیتی.جب کسی شخص سے ان پر حملہ ہو، کوئی ان کے روپے کھا جائے ، کوئی ان کے ساتھ بدسلوکی کرے تو اچانک سارا معاشرہ ان کو

Page 182

خطبات طاہر جلد ۶ 178 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء گندہ دکھائی دینے لگ جاتا ہے.عجیب حالت ہے ان کی جہاں رہے، جہاں تعریفیں کیں جہاں جماعت کے گن گائے وہاں ایک شخص نے ان سے بدسلوکی کر دی تو یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ صرف کھوکھلی ہے جماعت اس کے اندر کچھ بھی نہیں ہے.غیر متقیوں کا ٹولہ ہے ہم نے تو آزما کر دیکھا فلاں شخص نے ہمارے پیسے کھالئے اور یہ بھی ضروری نہیں ہوتا کہ اس نے واقعہ کھائے بھی ہوں.جب تحقیق کی جاتی ہے تو بعض دفعہ بالکل برعکس شکل نظر آتی ہے.مجھے ایک شخص کے خط آنے شروع ہوئے کہ جماعت کا کیا حال ہے، آپ کہتے ہیں جماعت متقی ہے اور وہ غیروں سے افضل اور آگے بڑھ گئی ہے.فلاں شخص سے میر امعاہدہ ہوا اور اس نے میرے روپے دبا دیے، اب بھی اس کی عزت ہے جماعت میں اور اب بھی وہ اس نے اپنی طرف سے کہا کہ چوہدری بنا پھرتا ہے اور کوئی نظام نہیں ہے اور کوئی پکڑ نہیں ہیں ہے، غریبوں کے لئے پکڑرہ گئی ہے امیروں کے لئے کوئی پکڑ نہیں ، اس مضمون کے خط لکھنے شروع کئے.میں نے ایک کمیشن مقرر کیا اور بالکل غیر جانبدار کمیشن جس کو سختی سے تاکید کی کہ تم نے قطعا کوئی پرواہ نہیں کرنی کوئی کس مقام کا آدمی ہے لا ز ما خالص تحقیق کر کے مجھے بتانی ہے.یہ میں دیکھوں گا کہ کس طرح کوئی بظا ہر بڑا ہو کر کسی غریب پر ظلم کرتا ہے.ان کی تحقیق جس کے ساتھ قطعی ثبوت تھے اس نے ثابت کیا کہ وہ شخص جو شکایت کنندہ ہے اس نے اتنی رقم اس کی دینی ہے اور جب اس پر ایکشن لیا گیا تو اب اس کا رنگ اور بدلا ہوا ہے کہ رحم بھی تو کوئی دنیا میں ہوتا ہے کسی غریب پر ہمدردی کرنی چاہیئے.اپنی ذات پر آکر بالکل رنگ ہی بدلتے جاتے ہیں تقویٰ کی تعریفیں بدلتی چلی جاتی ہیں.یہ ایسے شخص وہ ہیں جن کا عام حالات میں پتا نہیں چلتا.عام حالات میں ٹھیک رہتے ہیں.ربوہ کے متعلق بعض خط ایسے آیا کرتے تھے بے انتہا تعریف کے، جماعت کی سوسائٹی کی تعریف کے، بہت اچھی جماعت ما شاء اللہ فلاں نے یہ کر دیا اور فلاں نے یہ کر دیا.کسی معاملے میں نظام جماعت نے پکڑ کی تو ایسے خط آنے لگے کہ تقویٰ کا نشان تک نہیں ملتا اس شہر میں.ہر شخص بد دیانت، ہر شخص بلا پر واہ ، جتنا بڑا آدمی اتنا بڑا منافق.اچانک ایک رات میں یہ کیسے انقلاب برپا ہو گیا ؟ تو معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کا مضمون بہت ہی باریک نگاہ سے دیکھنے کا تقاضا کرتا ہے.بعضوں کے تقویٰ پر خدا کی ستاری کے پردے پڑے ہوئے ہیں اور اللہ ان پر دوں کو سلامت رکھے تو ٹھیک

Page 183

خطبات طاہر جلد ۶ 179 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء ہے ورنہ وہ پردے پھٹے تو کچھ اور مضمون اندر دکھائی دیتا ہے اور اس کے برعکس خدا کے فضل سے جماعت کی ایک بڑی بھاری تعداد ہے جو آزمائشوں میں آکر بھی تقوی میں آگے بڑھتی ہے اور میں جانتا ہوں کہ یہ جماعت بالعموم خدا کی نظر میں ایک متقی جماعت ہے.مجھے اس جماعت سے جتنا رابطہ پڑا ہے میں خدا کی قسم کھا کے گواہی دیتا ہوں کہ اگر یہ جماعت متقی نہیں تو دنیا میں پھر کوئی متقی نہیں ہے آج وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِینَ اِمَامًا میں ہمیں تقویٰ کی پہچان سکھا دی.فرمایا تمہاری امامت کی طاقت تمہاری جماعت میں ہے.اگر جماعت میں تقویٰ ہے تو تم طاقتور امام ہو.اگر جماعت میں تقویٰ نہیں ہے تو تم کمزور اور بیکا ر امام ہو تمہاری کسی بات کا کسی سکیم کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہو گا.پس وہ جماعت جو ہر نیکی کی طرف بلانے پر والہانہ عاشقانہ آگے بڑھتی ہے، حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے کرتی ہے جو کلمہ لا الہ الا اللہ کے تقدس کی تحریک ہو یا کوئی اور تحریک ہو یا مالی قربانی ہو کونسی ایسی تحریک ہے جس میں جماعت نے آواز پر سو فیصد لبیک نہ کہا ہو.ایسی حیرت انگیز جماعت ہے اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا ثمرہ جماعت ہو اس کے متعلق جب یہ لوگ ظالمانہ اعتراض کرتے ہیں جماعت میں سے ہی تو دل میرا پھٹنے لگتا ہے غم سے.ان کو اپنی فکر کرنی چاہئے.کسی کی برائی دور کرنے کے لئے دردمند ہونا بالکل اور بات ہے لیکن جب اپنے اوپر معمولی سی چوٹ پڑے تو انسان یہ بات بالکل بھلا دے کہ کس پر زبان دراز کر رہا ہے کن لوگوں کے متعلق باتیں کر رہا ہے.ایسے لوگ اولین میں بھی تھے اور آخرین میں بھی پیدا ہورہے صلى الله ہیں.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی ایسے لوگ تھے جو چھوٹی چھوٹی باتوں پر خود حضور اکرم ہے پر بھی زبان طعن دراز کرنے سے باز نہیں آئے لیکن اس کے باوجود، با وجود اس کے کہ میں جانتا ہوں بالعموم خدا کے فضل سے نہ صرف جماعت تقویٰ کے معیار میں بلند ہے بلکہ بلند تر ہونے کی تمنا رکھتی ہے آگے بڑھنے کے لئے بے قرار ہے اور کمزوریاں ہر انسان میں ہوتی ہیں کوئی انسان ایسا نہیں جس میں کمزوریاں نہ ہوں دیکھنا یہ ہے کہ اس شخص کی توجہ کس طرف ہے.کمزوریاں بڑھنے پر وہ خوش ہے یا کمزوریاں کم کرنے کی طرف متوجہ ہے.بعض لوگ ایسے ہیں جن کو کمزوریوں کے باوجود ہر وقت فکر لگا رہتا ہے کہ میری فلاں کمزوری ابھی تک دور نہیں ہوئی میرا کیا بنے گا ؟ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جن کو برائی کی تمنا ہے اور حسرت ہی رہتی ہے کہ ہماری تمنا پوری نہیں ہو سکتی.جیسا کہ غالب نے کہا:.

Page 184

خطبات طاہر جلد ۶ 180 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب! اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے (دیوان غالب صفحه : ۳۴۶) کہتا ہے میرا سر دامن بھی ابھی تر نہیں ہوا تھا میری زندگی کا دور ختم ہو گیا اور گناہوں میں میرا سردامن بھی ابھی تر نہیں ہوا تھا.یہ بھی ایک سادگی ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا دوستم کے انسانوں پر مشتمل ہے بعض بدیوں کی تمنار کھتے ہیں اور ان کی طرف آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور ان کے لئے جو ان کی بداعمالیوں کے رستے میں جو روک ہے وہ ان کی بے چارگی ہوتی ہے.بس چلے تو ایسے ایسے لوگ ہیں جو دنیا کے ہر انسان کا سارا مال کھا جائیں ، ایسے لوگ ہیں جو دوسروں کے سب حقوق غصب کر لیں.اپنی ترقی کی خاطر کسی کو تنزل کے گڑھے میں دھکیلنا پڑے تو کوئی اس میں عارنہ سمجھیں کوئی بات نہ سمجھیں لیکن بے اختیاری ہے ہر تمنا بدن کی پوری ہو ہی نہیں سکتی اگر اس طرح پوری ہونے لگے تو دنیا تو آنا فانا ختم ہو جائے.ان کے اندر بھی مخفی بد ہیں اور ظاہری بد ہیں.غیر متقیوں میں بھی بہت بڑی تعداد ہے جن کی بدی چھپی پڑی ہوئی ہے اندروہ دبی ہوئی ہے وہ وقت آنے پر ایک دم جلوہ دکھاتی ہے اپنا اور جب وقت ملتا ہے اسی وقت سراٹھاتی ہے جس حد تک تو فیق اس کو ملتی ہے بدی کی تو ضرور اپنے شر کو ظاہر کر کے چھوڑتی ہے.اس کے مقابل پر کچھ متقی ہیں جن کی تمنائیں نیکی کے لئے ہیں.ان میں بھی کمزوریاں ہیں لیکن وہ کمزوریوں سے ہمیشہ ایک دکھ میں مبتلا رہتے ہیں اور ایک قسم کے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں اور کوئی بعید نہیں کہ ان کا اسی دنیا میں جو عذاب ہے وہی ان کے لئے بخشش کا موجب بن جائے وہی ان کے لئے اللہ کی رحمت حاصل کرنے کی موجب بن جائے اور جب میں کہتا ہوں کوئی بعید نہیں تو اپنی طرف سے نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ارشاد کے مطابق کہہ رہا ہوں.آپ نے ایک شخص کا ذکر فرمایا کہ وہ بے انتہا گناہگار تھا اتنا گناہگار تھا کہ اس سے زیادہ گناہ کا تصور نہیں.مرتے وقت اس نے اپنے بیٹوں کو نصیحت کی کہ تم میری لاش کو جلانا اور ایسا جلانا کہ خاک کر دینا اس کو ، راکھ بنا دینا اور پھر اس راکھ کو چاروں طرف ہواؤں میں اڑا دینا کچھ کو پانی میں کچھ کو ہواؤں میں تا کہ ہر طرف یہ بکھر جائے اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے گا اور یہ نصیحت کر کے کچھ عرصے کے بعد وہ مرگیا اس کی

Page 185

خطبات طاہر جلد ۶ 181 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء اولا د نے اس نصیحت پر عمل کیا اور اس کے ساتھ یہی کیا.قیامت کے دن آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اسے بلایا اور پوچھا تو نے یہ کیوں کیا تھا، سارا واقعہ بیان کے کہ یہ ہمارے علم میں ہے کہ تو نے ایسا کیا، کیوں ایسا کیا؟ اس نے جواب دیا کہ اے خدا! میں تیری پکڑ سے تیرے عذاب سے سخت ڈرتا تھا اور میں نے یہ ترکیب کی کہ تجھ سے بچنے کا سوائے اس کے کوئی ذریعہ نہیں کہ میرا ذرہ ذرہ سب جگہ پھیل جائے اور ساری خاک بکھر جائے یا پانی میں غرق ہو جائے.تفصیلی حدیث سے اس کے درمیان میں یہ بھی ذکر ہے کہ خدا نے حکم دیا کہ پانی سے بھی اس کے ذرات اکٹھے کئے جائیں اور خاک سے بھی ذرات اکٹھے کئے جائیں اور اس پر خدا نے فرمایا تو مجھ سے اتنا ڈرتا تھا تو میں تجھے بخشا ہوں.( بخاری کتاب التوحید، حدیث نمبر: ۶۹۵۴۰) اب یہ ایسی مثالیں ہیں جو خاص خدا کی رحمت کے بعض جلووں کو ظاہر کرنے کے لئے بتائی جاتی ہیں.عمومی قانون کے طور پر ایسے نہیں کہ ہر شخص کہے کہ چلو میں کچھ ڈرتا ہوں خدا سے اس لئے میں معاف کر دیا جاؤں گا.خدا کی نظر ہے دلوں پر اس لئے بظاہر کچھ ایسے متقی بھی ہوں گے جن کے اندر کمزوریاں ہیں لیکن ان کے دلوں میں اپنے اعمال کے نتیجے میں خود ایک جہنم پیدا ہو چکی ہے اور کچھ ایسے بد ہیں جن کو بدیاں کرتے کرتے چین نہیں ملتا اور ان کے اندر بھی ایک جہنم ہے مگر وہ هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ (ق:۳۱) کی جہنم ہے اور بھی چاہئے کچھ اور بھی چاہئے اور بھی چاہئے.وہ حسرتوں کی جہنم ہے اور یہاں یہ جہنم ہے اپنے کئے ہوئے پر ندامت کی جہنم ، دونوں قسم کی جہنم ہوا کرتی ہے.تو باہر کی آنکھ کو کیا پتہ کہ اندر کیا ہورہا ہے لیکن جب عمومی طور پر نیک کاموں کی طرف بلانے والا بلاتا ہے تو اس وقت اجتماعی رد عمل سے پتہ چلتا ہے کہ ایک بڑا عظیم الشان ذخیرہ تقویٰ کا ہے اس جماعت میں جس کے نتیجے میں اس نے حیرت انگیز طور پر نیکی کے کاموں میں لبیک کہا.اب یہ دوسرے علماء ہیں آپ ان کو دیکھ لیں ساری دنیا میں گھومتے پھرتے ہیں منتیں کرتے ہیں قوم کی ، غیرت دلاتے ہیں.ہمیں کہتے ہیں دیکھو وہ مرتد ہو کر ایک مانگتا ہے تو ان کی جماعت دس دیتی ہے ہم لاکھ مانگتے ہیں تم دس بھی نہیں دیتے اور تم اتنے زیادہ ہو اور تمہیں کوئی غیرت نہیں آتی لیکن پھر بھی دل ان کے لئے کھلتے نہیں ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ ہمارے امام بھی غیر متقی ہیں.امام جانتے ہیں کہ ہمارے پیروکار بھی غیر متقی ہیں.پر وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِما ما میں خدا نے ہمیں یہ عظیم الشان را ز سکھایا کہ امامت کی

Page 186

خطبات طاہر جلد ۶ 182 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء تمنانہ کرو متقیوں کی امامت کی تمنا کرو اور اگر تمہارے پیرو کار متقی ہوں گے تو تمہارے اندر ایک عظمت پیدا ہوگی تمہارے اندر ایک رعب پیدا ہوگا، تمہارے اندر ایک دلیری پیدا ہوگی.تم جرات کے ساتھ سب دنیا کو چیلنج کر سکو گے کہ آؤ اور ہمارا مقابلہ کر کے دیکھو تم یقیناً شکست کھا جاؤ گے.پس جب میں جرات کے ساتھ اور بڑے حوصلے کے ساتھ ایسی باتیں کرتا ہوں تو اللہ پر توکل کرتے ہوئے آپ کے تقویٰ پر نظر رکھ کے ایسی باتیں کہتا ہوں اور مجھے پتا ہے کہ خدا اس معاملے میں مجھے کبھی شرمندہ نہیں کرے گا.اس لئے وہ لوگ جو ہمیشہ کاٹنے والی زبان استعمال کرتے ہیں یا نقص تلاش کرنے والی نظر استعمال کرتے ہیں خود اپنے اوپر اگر وہ یہ کام کرنا شروع کر دیں تو یہ تقویٰ کی جنگ کا بڑا حصہ ہمارے لئے جیتا جائے.یہ بات بری نہیں ہے.آپ ظلم کریں بے شک لیکن غیر پہ نہ کریں اپنی جان پر ظلم کریں.اس مضمون کو قرآن کریم نے کھولا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب : ۷۳ ) کا لفظ استعمال فرما دیا کہ قرآن کی امانت کے لئے ایک ہی انسان کامل تھا جسے خدا نے اس بات کا حقدار سمجھا کہ اس پر قرآن نازل فرمایا جائے اس لئے کہ وہ ظَلُومًا جَهُولًا تھا.بعض لوگ تفسیر کرنے والے لرزے میں مبتلا ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ مضمون چل رہا ہے قرآن کریم کی عظیم امانت کا اور آگے ظَلُومًا جَهُولًا ابیان ہو گیا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہاں ظل ظَلُومًا سے مراد غیروں پر ظلم کرنے والا نہیں بلکہ نیکی اور بھلائی کی خاطر اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور جھولا سے مراد یہ نہیں کہ اسے کوئی پرواہ نہیں ہے کہ دنیا تباہی میں مبتلا ہوتی ہے یا اس پر کیا گزرتی ہے بلکہ نیکی کی خاطر اپنے نفس کو ہلاک کرنے کے معاملے میں بالکل مستغنی ہو چکا ہے.اسے کوئی پرواہ نہیں کہ اس کے ساتھ کیا ہوتا ہے ( تفسیر حضرت مسیح موعود ، سورۃ الاحزاب، جلد سوم صفحہ ۷۳۲).چنانچہ اس مضمون کی گواہی خدا نے خود قرآن کریم میں دی ہے.لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء:۴) اپنے آپ کو تو ہلاک کر لے گا اس لئے کہ دنیا حق کا کلہ نہیں پڑھ رہی.تو ظلم اچھی چیز ہے اگر اپنی برائیوں پر ظلم کیا جائے ، اپنی کوتاہیوں پر ظلم کیا جائے اور اپنے نفس پر ان معنوں میں ظلم کیا

Page 187

خطبات طاہر جلد ۶ 183 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء جائے کہ اس کو کوئی لغزش نہ بخشی جائے.اگر لغزش کرتا ہے تو اس کو ہر وقت آپ Censure کریں اس کو تنقید کریں اس کے اوپر ، اسے کہیں کہ تم نے ظلم کیا ہے اور اپنے لئے ایک بے چینی پیدا کر لیں.یہ ظلم بہت ہی قیمتی اور پیارا ظلم ہے جس کی تعلیم ہمیں قرآن کریم نے دی اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اس پاک ظلم کا نمونہ بنا کر ہمارے سامنے پیش فرمایا.تو جذ بہ تو اچھا ہے تنقید کا لیکن رخ بدلنے کی ضرورت ہے.غیروں پر رحم کی نظر ڈالیں.پیار اور محبت سے ان کو نصیحت کریں، ان کی مدد کریں.ان کے اندر اگر ذخیرے ہیں تقویٰ کے تو انہیں انگیخت کرنے کے لئے وہ چنگاری بن جائیں جو ان کے ذخیروں میں قوت کے دھما کے پیدا کر دے.لیکن ایسی بات نہ کریں کہ وہ جو ذخیرے ہیں ان پر اور پانی پڑے اور بھی زیادہ وہ بڑھنے اور نشو ونما پانے کے نا اہل ہوتے چلے جائیں.حقیقت یہ ہے کہ تقویٰ کے معیار بلند کئے بغیر ہم کوئی بھی عظیم الشان کارنامہ دنیا میں سرانجام نہیں دے سکتے اور باوجود اس کے کہ ہم تقویٰ کے خدا کے فضل کے ساتھ نہایت ہی بلند معیار پر ہیں لیکن مزید کی ضرورت ہے.اسی لئے بار بار یہ یاد دہانی کرانے کی ضرورت پڑتی ہے تقویٰ کا کوئی آخری مقام نہیں ہے.سوائے اس کے کہ انسانی تاریخ میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زندگی میں اور آپ کی ذات میں تقویٰ کا آخری مقام ظاہر ہوا جس سے اوپر تقوی کا کوئی مقام انسان کے علم میں نہیں آسکتا.اس کے بعد اس مقام کی طرف حرکت کے مظاہر تو آپ کو نظر آئیں گے لیکن اس مقام تک پہنچنے کا ایک بھی موقع آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا، قریب تر ہونے کا مضمون ہے اور اس میں گم ہو کر جو اپنے وجود کو پوری طرح کھو دے وہ اس سے قریب تر دکھائی دے گا مگر پھر بھی اس جیسا نہیں ہو سکتا.اس میں کھویا بھی جائے تو ہم مرتبہ نہیں ہوسکتا، آقا آقا رہتا ہے شاگر دشاگر درہتا ہے.اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض ظالموں نے حضرت مسیح موعود دعلیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو نہیں سمجھا اور اس پر بھی اعتراض کئے.یہ تقویٰ کا مضمون ایسا وسیع ہے اور اتنا بلند بھی اور اتنا باریک بھی کہ اس کے لئے ہمہ جہت نگرانی کی ضرورت ہے اور ہر طرف کوشش کی ضرورت ہے.اس لئے آپ جس بھی مقام پر کھڑے ہوں آگے اور مقامات ہیں اور اگر واقعی تقویٰ سچا ہے تو پھر کسی مقام پر بھی آپ کھڑے ہوں آپ اس

Page 188

خطبات طاہر جلد ۶ 184 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء سے مطمئن نہیں ہوں گے.یہی سمجھتے رہیں گے کہ نہیں کچھ کمی رہ گئی ، ابھی میں کچھ بھی حاصل نہیں کر سکا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اللہ سے پیار کرنے والے اور حقیقی متقیوں کا نقشہ کھینچتے ہوئے اس مضمون کو بیان فرماتے ہیں:.خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر شار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب اسے دے چکے مال و جاں بار بار ابھی خوف دل میں کہ ہیں نابکار ( در شین صفحه : ۱۵) ایک دفعہ نہیں بار بارسب کچھ فدا کرنے کا موقع ملتا چلا جاتا ہے اور غم اور فکر یہ لگا ہوا ہے کہ ہم تو نابکا رہی رہے کچھ بھی نہیں کر سکے خدا کے لئے.یہ وہ تقویٰ کی تعریف ہے جس پہ اگر آپ عمل شروع کر دیں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو کوئی خطرہ نہیں اور کوئی غم نہیں.سب کچھ دے چکنے کے بعد احساس عجز دل میں پیدا ہو اور نیکی کے متعلق غرور اور تکبر پیدا نہ ہو بلکہ خیال یہ ہو کہ ہم بہت کچھ کر سکتے تھے جو نہیں کر سکے، جس رنگ میں کر سکتے تھے اس رنگ میں پورا نہیں کر سکے، اس قربانی کے اعلیٰ تقاضوں پر پورا نہیں اتر سکے.بہت سے مضمون ہیں جو فرضی نہیں رہتے حقیقی بن جاتے ہیں اور ایک عاجز انسان جانتا ہے کہ میں نہیں کر سکا یہ نہیں کہ وہ مبالغہ کے ساتھ یا منافقت کے ساتھ ایسی باتیں کرتا ہے.وہ بھی لوگ ہیں جو بظا ہر عجز کی باتیں کرتے ہیں لیکن صاف پتہ چلتا ہے کہ لفاظی ہے اور اس میں لوگ اپنی نیکی کا ہی ڈھنڈورا پیٹتے ہیں یا اپنی بڑائی کا ہی اظہار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم تو کچھ بھی نہیں اور جانتے ہیں لوگ کہیں گے ہاں سب کچھ ہے اور پھر بھی یہ کہہ رہا ہے کہ کچھ بھی نہیں.لیکن جن لوگوں کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذکر فرما رہے ہیں وہ اور لوگ ہیں وہ واقعہ اپنے اوپر جب گہری نظر ڈالتے ہیں ظلم کی نظر جو میں کہہ رہا ہوں تو ان کو دکھائی دینے لگتا ہے کہ وہ کچھ بھی نہیں، محسوس کرنے لگتے ہیں.اس کے نتیجے میں پھر دل کی بے چینی پیدا ہوتی ہے جو ان کے

Page 189

خطبات طاہر جلد ۶ 185 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے مزید تقویٰ کے انعام کا موجب بنتی ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو لا متناہی ترقیات کے ساتھ آگے بڑھاتا ہے.فرماتے ہیں:.لگاتے ہیں دل اپنا اس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے ایسا پیارا کلام ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت پر ظلم کرنے والے جو زبانیں دراز کرتے ہیں اس ایک شعر کو سادہ سے شعر کو دیکھ لیں اگر دل میں ذرا سا بھی تقویٰ ہو تو یقین کریں کہ نہ صرف متقی بلکہ اعلیٰ درجہ کا عارف باللہ نہ ہو یہ شعر نہیں کہہ سکتا:.لگاتے ہیں دل اپنا اس پاک سے وہی پاک جاتے ہیں اس خاک سے (در ثمین صفحه: ۱۵) اور خاک میں وہ مضمون آگیا خاکساری کا.جب تک وہ یہاں رہتے ہیں وہ خاک ہی بنے رہتے ہیں اور دل خدا سے لگائے رکھتے ہیں.اس خاک سے پھر وہ پاک ہو کر نکل جاتے ہیں اپنے رب کے حضور.تو اس لئے تقویٰ کے معیار کو تو ابھی بہت بڑھانے کی ضرورت ہے یہ جتنا وقت تھوڑا ہوتا چلا جا رہا ہے میری یہ فکر بڑھتی چلی جارہی ہے، اپنے متعلق بھی اور آپ کے متعلق بھی کہ ابھی ہم ان تقاضوں کو پورا نہیں کر سکے اگر کر دیتے تو بہت ہی عظیم الشان نتائج جو اس وقت نکل رہے ہیں اس سے بھی کئی گنا عظیم الشان نتائج ظاہر ہونا شروع ہو جاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس مضمون پر نظم میں بھی اور نثر میں بھی اتنی روشنی ڈالی ہے کہ میں نے موازنہ تو نہیں کیا لیکن میرا اندازہ ہے اگر احمدی محقق موازنہ کر کے دیکھیں تو گزشتہ صدیوں کے جتنے مجددین اور بڑے چوٹی کے علماء، اکابر ہیں ان کے کلام میں آپ کو اجتماعی طور پر بھی اتنا زور تقوی پر نظر نہیں آئے گا.بھری پڑی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتیں آپ کا منظوم کلام، آپ کی نثر، آپ کے ملفوظات جس میں صرف تقویٰ کے اوپر زور نہیں بلکہ اس کے بار یک تجزیہ کر کے باریک سے باریک خطرات سے بھی آگاہ فرمایا گیا ہے،اس کے نفیس تر تجزیہ پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور عارف باللہ کے سوا کوئی اس مضمون کو کھول ہی نہیں سکتا

Page 190

خطبات طاہر جلد ۶ 186 جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھولا ہے.فرماتے ہیں:.ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے یہی اک فیر شان اولیاء ہے خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے (در ثمین صفحه : ۴۹ ) اولیاء کی شان بھی سمجھا دی.خواہ مخواہ لوگ مرعوب ہو رہے ہوتے ہیں کہ پتا نہیں کیا چیز ہے.کیسا عمدہ تجزیہ ہے:.بجز تقویٰ زیادت ان میں کیا ہے تقویٰ ہی ہے نہ ور نہ یہ نہیں کہ عجیب و غریب کرشمے دکھانے والی طاقتیں ان میں موجود ہیں مردوں کو زندہ کرنے والے یا حیرت انگیز نشان دنیا کو دکھانے والے ان چیزوں میں کوئی حقیقت نہیں.بجز تقوى زیادت ان میں کیا ہے اگر کچھ برتری ہے تو سوائے تقویٰ کے اور کچھ نہیں ہے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أنفسكم (الحجرات ۱۴۰) کا مضمون آپ نے نظمایا ہے:.ڈرو یارو کہ وہ بینا خدا ہے اگر سوچو، یہی دار الجزاء ہے تقویٰ کا جو فقدان ہے اس کے نتیجے میں اگر آپ غور کرنے والے ہوں تو آپ کو اسی دنیا میں ساتھ ساتھ اس کی جزا یعنی سزا کی شکل میں اس کی جزا ملنی شروع ہو جاتی ہے.اسی لئے اس کو دارالجزاء کہتے ہیں.مجھے تقویٰ سے اس نے یہ جزا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي کہ مجھے جس مقام پر کھڑا کیا ہے وہ تقویٰ کے نتیجے میں کھڑا کیا ہے.عجب گوہر ہے جس کا نام تقویٰ مبارک وہ ہے جس کا کام تقویٰ

Page 191

خطبات طاہر جلد ۶ سو! 187 ہے حاصل اسلام تقویٰ خدا کا عشق کے اور جام تقویٰ خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء مسلمانو ! بناؤ بناؤ تام تام تقوی کہاں ایماں اگر ہے خام تقویٰ پھر فرماتے ہیں:.یہ دولت تو نے مجھ کو اے خدا دی فسبحان الذي اخزى الاعادي ( در تمین صفحه : ۴۹ ) زمین تمہارا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکتی اگر تمہارا آسمان سے پختہ تعلق ہے.جب کبھی تم اپنا نقصان کرو گے تو اپنے ہاتھوں سے نہ دشمن کے ہاتھوں سے.اگر تمہاری زمینی عزت ساری جاتی رہے تو خدا تمہیں ایک لازوال عزت آسمان پر دے گا سو تم اس کو مت چھوڑ دو اور ضرور ہے کہ تم دکھ دیئے جاؤ اور اپنی کئی امیدوں سے بے نصیب کئے جاؤ.سوان صورتوں سے تم دلگیر مت ہو کیونکہ تمہارا خدا تمہیں آزماتا ہے کہ تم اس کی راہ میں ثابت قدم ہو یا نہیں.اگر تم چاہتے ہو کہ آسمان پر فرشتے بھی تمہاری تعریف کریں تو تم ماریں کھاؤ اور خوش رہو اور گالیاں سنو اور شکر کرو اور نا کامیاں دیکھو اور پیوند مت توڑو.یہ وہ پیمانہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے رکھا.اب کیا پاکستان کی جماعت اس پیمانے پر پورا نہیں اتر رہی؟ کتنی گالیاں ہیں جو ان کو دن رات دی جاتی ہیں، کتنے دکھ ہیں جو ان کو پہنچائے جارہے ہیں؟ کتنی کڑی تکلیفوں کی آزمائشیں ہیں جن میں وہ مبتلا کئے جا رہے ہیں اور اس کے باوجود خدا گواہ ہے کہ انہوں نے پیوند نہیں توڑا اور اپنے پیوند میں مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جا رہے ہیں.ایسی پیاری جماعت کے متعلق کوئی کہے اپنے ذاتی اور چھوٹے سے مشاہدے کے نتیجے میں کہ وہ غیر متقی اور خدا سے دور اور ظالم اور سفاک اور منافق ہیں تو پھر دنیا میں باقی کہیں بھی کوئی حق کا نشان تک آپ کو دکھائی نہیں دے گا.فرماتے ہیں:

Page 192

خطبات طاہر جلد ۶ 188 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء تم خدا کی آخری جماعت ہو سو وہ نیک عمل دکھلا ؤ جو اپنے کمال میں انتہائی درجہ پر ہو.ہر ایک جو تم میں سے سُست ہو جائے گاوہ ایک گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا.“ جب خدا نے یہ ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے تو پھر بے وجہ اتنی زیادہ یہ باتیں اپنے ہاتھ لینے کی ضرورت ہی کوئی نہیں جن سے خدا خود بھی ذمہ دار ہو چکا ہے.فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ خدا تعالیٰ خود ذمہ دار ہے گندوں کو آہستہ آہستہ نکال کر باہر پھینکتا چلا جائے گا اور یہ نمونہ ہم روز دیکھ رہے ہیں ایک جاری نمونہ ہے.بہت سے ایسے ہیں جو بظا ہر نیک انجام کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن جن کے دل میں گندگی تھی اللہ تعالیٰ نے آخری وقت میں ان کو نیک انجام سے محروم کر دیا.وہ گندی چیز کی طرح جماعت سے باہر پھینک دیا جائے گا اور حسرت سے مرے گا اور خدا کا کچھ نہ بگاڑ سکے گا.دیکھو! میں بہت خوشی سے خبر دیتا ہوں کہ تمہارا خدا در حقیقت موجود ہے اگر چہ سب اسی کی مخلوق ہے لیکن وہ اس شخص کو چن لیتا ہے جو اس کو چتا ہے، وہ اس کے پاس آجاتا ہے جو اس کے پاس جاتا ہے، جو اس کو عزت دیتا ہے وہ بھی اس کو بھی عزت دیتا ہے“.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه : ۱۵) پس اللہ تعالیٰ سے اپنے تقویٰ کا تعلق مضبوط تر کرتے چلے جائیں اور اپنے تقویٰ کی فکر کریں اور اپنی اولاد کے تقویٰ کی فکر کریں.وہ آپ کی اپنی ذات میں داخل ہے اسی لئے قرآن کریم کی جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی اس میں یہ لطیف مضمون بھی بیان فرما دیا اگر تمہیں حقیقہ سوسائٹی کی اصلاح کی فکر ہے تو اپنی اولاد پر پہلے کام کرو.اس کے لئے دعائیں کرو ، اس کے لئے اصلاح کی کوشش کرو.اگر تم ایسا کرتے ہو تو تمہارے دل کی سچائی کم سے کم ثابت ہو جائے گی.تم اس بات کے اہل ہو جاؤ گے کہ غیروں کو بھی نصیحت کرو، ان کے اندر بھی کمزوریاں اگر ہوں تو دور کرنے کی کوشش کرو اور یہ مضمون کھول دیا کہ اولاد سے جب تم یہ معاملہ کرتے ہو تمہیں پتا ہے کہ کیسا معاملہ کرتے ہوں، کیسی اس میں سنجیدگی پائی جاتی ہے اور سنجیدگی کے نتیجے میں پھر اللہ تعالیٰ اس اولاد میں تبدیلیاں بھی پیدا کرتا ہے.اگر غیر سنجیدہ ہوتے ہو اور محض دکھاوا ہے اس سے کوئی بھی اثر نہیں

Page 193

خطبات طاہر جلد ۶ 189 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء پڑتا.تمہارا رخ کسی اور طرف ہے اولاد کا کسی اور طرف ہے اور اگر اولاد کی حقیقی پرواہ نہیں اور غیروں پر ظلم کرنے پر آمادہ ہوتو پھر تمہارا تقویٰ نہیں ہے.اس لئے اپنی اولاد کا جو پہلی ہے اس کو نہ بھولیں.سب سے پہلے خصوصیت کے ساتھ اپنی اولاد کی طرف توجہ کریں اور اگر آپ اپنی اولاد کی طرف متوجہ ہو جائیں گے تو سوسائٹی میں ہر جگہ تقویٰ کی یاد دہانی کرانے والے ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جن کی نصیحت پہ بدظنی نہیں کی جاسکتی ، جن کی نصیحت میں ضرورت سے زیادہ تلخی پیدا ہونی نہیں چاہئے سوائے اس کے کہ اتنے ٹیڑھے ہوں بعض جیسا کہ بعض دفعہ بعض ماں باپ ہو جاتے ہیں کہ خود اپنی اولاد پر ایسی سختی کرتے ہیں جس کا ان کو حق نہیں ہوتا.دشنام درازی کرتے ہیں، گھر میں اک فساد برپا کیا ہوا ہوتا ہے، چین اڑا لیتے ہیں اپنے بیوی بچوں کا اور پھر اپنے ہاتھ سے ہلاک کر دیتے ہیں اپنی اولا د کو.ایسے بھی ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے.وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ (الانعام:۱۵۲) کہ اپنی اولاد کو خود اپنے ہاتھوں سے قتل نہ کیا کرو لیکن یہ عمومی قانون نہیں ہے.بھاری اکثریت انسانوں کی ایسی ہے جو اولاد کے متعلق نا واجب سختی پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوگی.اس لئے وہاں آپ کو پریکٹس کرنے کا موقع مل جائے گا تقویٰ کی یعنی تقویٰ پیدا کرنے کی پریکٹس کرنے کا موقع مل جائے گا.اگر وہاں آپ سیکھ لیں کہ کس طرح تقویٰ پیدا کیا جاتا ہے، کس طرح اصلاح کی جاتی ہے تو پھر نسبتا بہتر ، زیادہ اہل ہو جائیں گے آپ اپنے گردو پیش کی اصلاح کرنے میں.لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے کھول کے بیان کیا ہے اصلاح کا مضمون بالکل الگ ہے.اصلاح کے مضمون میں طعن و تشنیع نہیں پائی جاتی ، اس میں غصہ نہیں ہوسکتا ، اس میں دکھ دینا نہیں ہوتا بلکہ دکھ اٹھانا ہوتا ہے اتنا نمایاں فرق ہے اس میں کہ کوئی نابینا ہوگا تو اس کو وہ دکھائی نہیں دے گا ورنہ حقیقت میں یہ فرق بالکل واضح ہے.آنحضرت ﷺ سے سیکھیں کہ اپنے پر ظلم اور غیروں کے لئے رحمت.اصلاح جب بھی کی دکھ سے کی اور خود دکھ اٹھا کر کی غیروں کو دکھ میں مبتلا کر کے نہیں کی.اس لئے یہ محسوس قانون ہے Thumb Rule جس کو انگریزی میں کہتے ہیں.اس میں آپ کبھی دھوکا نہیں کھائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ان اعلیٰ تقویٰ کے مضامین کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:

Page 194

خطبات طاہر جلد ۶ 190 خطبه جمعه ۱۳ مارچ ۱۹۸۷ء آج کچھ احباب اور خواتین کی نماز جنازہ غائب ہوگی جمعہ کے معا بعد.ایک ہمارے وقف جدید کے پرانے کارکن بہت ہی مخلص ، فدائی دوست تھے صو بیدار شرافت احمد صاحب، ان کی اہلیہ مکرمہ رشیدہ بیگم صاحبہ کچھ عرصہ کافی علیل رہ کر وفات پاگئی ہیں.عزیزہ ہاجرہ بی بی صاحبہ، یہ بہت چھوٹی سی بچی تھیں بہت پیاری اور بہت محبت کی ، نیکی کی باتیں کرنے والی تین سال کی عمر تھی صرف لیکن بڑی ذہین، جماعت سے بہت پیار کرتی تھیں یہ ہمارے منظور افضل بٹ خدا کے فضل سے بہت ہی اچھے کامیاب داعی الی اللہ ہیں کرائیڈن کی جماعت کے ان کی بھیجی ہے اور اس اچانک حادثے کا شکار ہوگئی غالبا کنوئیں میں گری یا کہیں جھا سکتے جھانکتے کوئی بہر حال حادثے کے نتیجے میں وفات پاگئی اور بڑا گہرا صدمہ ہے ان کے ماں باپ اور عزیزوں کو کیونکہ بچی بہت پیاری تھی ان کے لئے بھی دعا کریں اس کی تو خدا تعالیٰ نے مغفرت کے سامان خود ہی فرمائے مکرم سیٹھی فضل حق صاحب.یہ بھی کرائیڈن کی خاتون ہیں لجنہ کی اچھی کام کرنے والی، قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتی ہیں ، ان کے اجلاسوں میں لئیقہ شاہدہ، ان کے والد اوران سے بڑھ کر قابل ذکر ہیں ان کے بھائی جو جہلم کے امیر ہیں اور وقت پر انہوں نے امارت سنبھالی ہے ماشاء اللہ بہت ہی اچھا کام چل رہا ہے جہلم کی جماعت کا اور ہر پہلو سےاب نمایاں فرق ہے.چنانچہ مربی کی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ جس مسجد میں بہت کم نمازی ہوتے تھے اب خدا کے فضل سے بھری ہوئی ہوتی ہے.تو ان کے والد اچانک وفات پاگئے ہیں وہ آنکھوں کے آپریشن کے لئے گئے تھے لیکن آپریشن سے پہلی ہی ایک رات ہارٹ فیل ہو گیا.چوہدری محمود نعمت اللہ من آباد لاہور میں ایک چوہدری اللہ بخش صاحب جو برادر اصغر عنایت اللہ صاحب احمدی سابق مبلغ تنزانیہ ہیں، فالج کی وجہ سے وفات ہوئی.اور آخری جنازہ جس کا ہے ان کا نام ہے محمد حبیب صاحب ابن مکرم محمد لطیف صاحب سندھو جو ہمارے مبلغ ماریشیس مکرم رفیق احمد صاحب جاوید کے چھوٹے بھائی تھے اور امریکہ گئے ہوئے تھے وہاں کسی حادثے کا شکار ہو گئے غالباً کسی موٹر کے حادثے کا شکار ہو گئے.ان پانچوں کی نماز جنازہ جمعہ کے معابعد ہوگی.

Page 195

خطبات طاہر جلد ۶ 191 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء تقویٰ اور محبت الہی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں تقوی آنحضور سے سیکھیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ پھر فرمایا: (السجدۃ: ۱۷-۱۸) تقویٰ کا مضمون اسلام کے ساتھ ایک ایسا تعلق رکھتا ہے کہ کسی اور مذہبی تعلیم میں اس مذہب کے ساتھ تقویٰ کا مضمون اس طرح گہری وابستگی اختیار کئے ہوئے دکھائی نہیں دیتا بلکہ عملاً فی الحقیقت اگر آپ غور کریں تو اسلام تقویٰ اور تقویٰ اسلام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.اس لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے منظوم کلام میں اسلام ہی کو تقوی قرار دیا ہے.اس وسعت کے ساتھ یہ مضمون قرآن کریم میں پھیلا ہوا ہے اور احادیث میں ملتا ہے اور اس شدت سے اس پر زور دیا گیا ہے اول و آخر کہ گویا روحانی زندگی کا خلاصہ تقویٰ ہے جس کے بغیر کچھ بھی باقی نہیں رہتا.

Page 196

خطبات طاہر جلد ۶ 192 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء گزشتہ خطبہ میں میں نے بھی تقوی کی طرف توجہ دلائی تھی پھر مجھے خیال آیا کہ جماعت احمدیہ میں مختلف قوموں سے شامل ہونے والے لوگ ہیں جن کے پس منظر میں تقویٰ کی وہ تعریف نہیں ہے جو ہم لوگوں نے بچپن سے سنی.نہ وہ تعلیمی پس منظر ہے ان کا جس سے ان کو تقویٰ کے معنی کی زیادہ گہرائی سے سمجھ آسکے اور جماعت احمد یہ چونکہ ایک پھیلنے والی جماعت ہے اور ہر روز آگے بڑھ رہی ہے اور ہر سمت وسعت پذیر ہے اس لئے دن بدن نئی نئی قوموں سے، نئے نئے مذاہب سے لوگ احمدیت میں داخل ہوتے چلے جارہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ موجودہ دور میں اب ہمارے لئے یہ آسان ہو گیا کہ کیسٹس کے ذریعے ان تک اپنی آواز ایک ہفتے کے اندر اندر پہنچا دیں خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی موجود ہوں.اس لئے اب خطبات کو یہ اہمیت حاصل ہو گئی ہے کہ جو ایک عالمی بھائی چارہ اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے جسے قرآن کریم اخوۃ کا نام دیتا ہے، مومنین جو ہیں وہ اخوۃ ہیں، ایک بھائی کی طرح ہیں یا بھائیوں کی طرح ہیں.اس مضمون پر حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے بھی بہت توجہ فرمائی اور خصوصیت کے ساتھ اس وحدت ملی کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے اس بات پر زور دیا کہ آئندہ جو ہمارا جشن منایا جائے گا اس میں اس بات کی طرف خصوصیت سے توجہ دی جائے کہ ایک عالمی اسلامی برادری وجود میں آئے جس کے نقش و نگار با ہم ایک دوسرے سے اس طرح ملتے ہوں کہ ہر دیکھنے والے کو ایک ہی قوم دکھائی دے اور یہ بھی ممکن ہے کہ سب میں تقویٰ قدرے مشترک بن جائے کیونکہ تقویٰ کے سوا کچھ اور چیز بھی اگر آپ قدرے مشترک کے طور پر اختیار کرنا چاہیں گے تو اس سے کوئی اور عالمی برادری تو وجود میں آجائے گی لیکن مسلم عالمی برادری اس سے وجود میں نہیں آئے گی.ایک ہی چیز ہے جو قدرے مشترک ہے ہر مومن کے درمیان ہر مسلم کے درمیان اور وہ تقویٰ ہے اور اگر تقومی رنگ پکڑ جائے اور تقویٰ کا رنگ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر غالب آجائے تو ہر دیکھنے والا ایسے متقیوں کو اپنے سے ایک الگ قوم کے طور پر دیکھے گا اور جو دوسرے رنگ ونسل کے امتیاز ہیں وہ تقویٰ کے غلبہ کے نیچے بالکل دب کے مٹتے چلے جائیں گے بلکہ مٹ جائیں گے اور ایک ایسی قوم وجود میں آئے گی جیسی قوم دنیا نے پہلے نہ دیکھی ہوگی اور حیرت سے یہ ماجرہ دیکھیں گے کہ اُنہیں لوگوں میں سے خواہ وہ افریقہ کہ بسنے والے ہوں یا ایشیاء کے یا یورپ کے یا امریکہ کے

Page 197

خطبات طاہر جلد ۶ 193 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء کسی بھی خطہ ارض سے تعلق رکھتے ہوں ان سب سے نکل نکل کر کچھ لوگ اسلام کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ایک جھنڈے کے تلے جمع ہوتے چلے جارہے ہیں اور سب میں ایک نئی قومیت ابھر رہی ہے، نئی قومیت وجود پا رہی ہے، نئی قومیت نشو و نما دکھا رہی ہے یہاں تک کے ان کے رنگ ڈھنگ بالکل ایک جیسے ہو گئے ہیں.یہ چیز جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ کسی حد تک دکھائی دینے لگی ہے اور وہ لوگ جن کو جماعت کے پس منظر کا کچھ علم نہیں ، جماعت کے فلسفہ کا کچھ علم نہیں وہ بھی محسوس کرتے ہیں.چنانچہ گزشتہ جلسہ سالانہ کے بعد جو امیگریشن کے افسروں کی طرف سے تبصرے موصول ہوئے اس میں سب سے زیادہ اہمیت والا تبصرہ یہ تھا کہ عجیب سے لوگ ہیں احمدی کہ دنیا کے جس کونے سے بھی آئے ہیں ایک ہی قسم کے لوگ ہیں اور ہم ان کو پہچان جاتے تھے.وہ ایک قسم کیا ہے یہ کسی کو سمجھ نہیں آئی.کیسے ایک قوم بن سکتی ہے افریقہ سے آنے والے لوگوں کی اور پاکستان سے آنے والوں کی اور چین سے آنے والوں کی اور امریکہ سے اور جاپان سے غرضیکہ مختلف ممالک سے آنے والوں کی.وہ کیا چیز ہے جس نے ایک قوم بنادیا اور ایک غیر نظر سے دیکھنے والے کو بھی محسوس ہوا کہ ان میں قدرے مشترک ہے.وہ یہ بات تو نہیں پہچان سکتا تھا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تقویٰ ہی وہ قدرے مشترک ہے جو جماعت احمدیہ کو ایک قوم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے.لیکن اس کی طرف بہت توجہ کی ضرورت ہے.بہت ہی ابھی خلاء ہیں اور ابھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تقویٰ کا رنگ ہماری ہر ادا پہ غالب آ گیا ہے.جب یہ رنگ کسی جماعت پر غالب آجائے تو اس جماعت کا دنیا پر غالب آنا ایک لازمی امر ہو جاتا ہے اس کا ایک طبعی نتیجہ ہے.یہ واقعہ رونما کر لیں آپ کہ جماعت احمدیہ کی ہر ادا پر تقومی غالب آجائے تو آسمان اور زمین گواہ ہو جائیں گے اس بات پر کہ آپ لازما ساری دنیا پر غالب آئیں گے کوئی دنیا کی طاقت آپ کو روک نہیں سکتی اور یہ غلبہ ہے جوحقیقی غلبہ ہے، یہ غلبہ ہے جو معنی رکھتا ہے، یہ وہ غلبہ ہے جو دنیا کی بھلائی اور اس کی بہبود کے لئے ضروری ہے.اس لئے تقویٰ کے متعلق میں نے سوچا کہ مزید مختلف پہلوؤں سے اس پر وقتا فوقتا روشنی ڈالتا رہوں.ایک بڑا سوال یہ ہے کہ تقویٰ کیسے حاصل ہو، ہوتا کیا ہے تقویٰ؟ اس کے متعلق کچھ حصہ

Page 198

خطبات طاہر جلد ۶ 194 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء پہلے بھی میں خطبات میں بیان کر چکا ہوں لیکن اب میں اس رنگ میں آپ کے سامنے تقویٰ کا مضمون رکھنا چاہتا ہوں کہ تقویٰ کی دو ہی جڑیں ہیں ایک اللہ کی محبت اور ایک اللہ کا خوف.اس لئے تقویٰ کا یہ ترجمہ کہ ڈرنا، خدا سے ڈرنا یہ کافی نہیں.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ تقویٰ کی اعلی قسم اللہ تعالیٰ کی محبت میں پیوستہ ہوتی ہے اور اس کی ثانوی قسم خدا تعالیٰ کے خوف میں پیوستہ ہوتی ہے اور جو قسم محبت میں پیوستہ ہوتی ہے جب وہ نشو ونما پاتی ہے تو اسی سے خوف کی جڑ بھی نکلتی ہے اور جو خوف میں پیوستہ ہوتی ہے تقویٰ کی جڑ وہ جب حقیقی معنوں میں نشو و نما پاتی ہے تو اسی سے ایک محبت کی جڑ بھی نکلتی ہے اور پھر تقویٰ کا مضمون مکمل ہو جاتا ہے لیکن حقیقی اور نہایت اعلیٰ پائے کا تقویٰ وہی ہے جس کا آغاز محبت سے ہوا ہو اور قرآن کریم بھی اس تقویٰ کو سب سے اعلیٰ درجہ کا تقویٰ قرار دیتا ہے.لیکن اس مضمون کے اوپر تو بہت لمبا وقت درکار ہے اس کے اتنے پہلو ہیں اور اتنے بعض باریک پہلو ہیں کہ ان میں سے ایک پہلو کو بھی کھول کر نکھار کر جماعت کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک وقت چاہئے.آج مختصرا میں نے اس بات کو پیش نظر رکھا ہے کہ اگر تقویٰ محبت ہے تو محبت حاصل کیسے ہو.ہر مزاج کے لوگ ہیں جماعت میں ہر علمی سطح کے لوگ ہیں، ہر عقل کے معیار کے لوگ ہیں اور ان سب کو کس زبان میں سمجھایا جائے کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ خدا تعالیٰ سے محبت کیسے پیدا ہو.وہ محبت جو حقیقت میں تقویٰ ہی کا دوسرا نام ہے.ہر آدمی کو سمجھانے کے لئے الگ الگ زبان تو استعمال کی نہیں جاسکتی کیونکہ لاکھوں کی جماعت سے جب خطاب ہورہا ہو تو کوئی ایسی ترکیب ،کوئی ایسا آسان سہل طریق ڈھونڈنا چاہئے جو سب کے لئے قابل فہم ہو اور سارے اس سے اثر قبول کر سکیں.اس مضمون پر جب میں نے غور کیا تو مجھے سب سے آسان رستہ یہ نظر آیا کہ جن لوگوں نے سب سے زیادہ خدا سے محبت کی ہے ان کی زبان میں اگر خدا کا ذکر کیا جائے تو سب سے آسان طریق اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کا ہے اور اسی لئے قرآن کریم میں یہ ارشاد ملتا ہے کہ :.اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران :۳۲) اے محمد ﷺ لوگوں میں یہ اعلان کر دے قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ که اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو یا محبت کرنا چاہتے ہو تو میرے پیچھے چلو يُحببكُمُ اللهُ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا.

Page 199

خطبات طاہر جلد ۶ 195 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء پس سارے ذرائع جتنے بھی سوچے جاسکتے ہیں ان میں سب سے آسان ذریعہ یہ ہے کہ کسی سچے محبت کرنے والے کی زبان میں خدا کا ذکر کیا جائے اور اس پہلو سے جب حضرت اقدس محمد مصطفی میت ہے کے ارشادات پر آپ نگاہ ڈالتے ہیں تو زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے ایسے ارشادات ملتے ہیں جن کو سن کر اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور سچی محبت جو عمل کو دعوت دیتی ہے، فرضی محبت نہیں جس کے نتیجے میں عمل پیدا نہ ہو.یہ مضمون ایسا ہے جو دنیا کی محبت پر غور کر نیوالوں کو نہیں سمجھ آیا.چنانچہ مجھے اس مضمون پر غور کرتے ہوئے غالب کا ایک شعر بھی یاد آیا کہ:.ذکر اس پری وش کا اور پھر بیان اپنا بن گیا رقیب آخر تھا جو رازداں اپنا (دیوان غالب صفحه : ۸۹) کہ میں نے کسی کو راز داں بنایا تھا محبت میں لیکن اس نہایت ہی حسین پری چہرہ کا ذکر ہو اور وہ بھی غالب کی زبان میں ہو تو کیسے ہو سکتا ہے کہ سننے والا عاشق نہ ہو جائے.چنانچہ وہ جسے میں نے راز دار بنایا تھا وہ میرا رقیب بن گیا تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے زیادہ اللہ کا عاشق تو کوئی دنیا میں سوچا ہی نہیں جا سکتا اور پھر ذکر بھی آپ کی زبان سے ہو خدا کا جو عام باتوں کے علاوہ فصاحت و بلاغت میں بھی قرآن کے بعد سب سے بلند معیار رکھنے والے تھے.اس سے لازماً بے اختیار اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا ہوتی ہے.پھر اسی طرح خوف کا مضمون جو ہے وہ بھی آنحضرت ﷺ کی زبان ہی سے سنے میں حقیقی خوف کا علم ہوتا.ہوتا ہے، اس کا احساس پیدا ہوتا ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ اس ذکر سے سارا وجود کانپنے لگتا ہے.تو اس مضمون پر میں مختصراً آج روشنی ڈالتا ہوں اور پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی آپ سے سن کر خدا کا ذکر جس طرح عشق کا نمونہ دکھایا، جس طرح والہانہ طور پر آپ بھی اپنے آقا کے پیچھے پیچھے اپنے رب کے عاشق ہوئے ، آپ کی زبان سے بھی اللہ کا ذکر سنتے ہوئے ہر صاحب فراست ، ہر صاحب دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ سچے عشق کے سوا یہ کلام جاری نہیں ہو سکتا اور یہ ایسا کلام ہے جو جاری ہو تو سچا عشق بھی پیدا کرتا ہے.دل سے نکلتا ہے دل میں اثر کرتا

Page 200

خطبات طاہر جلد ۶ ہے دل کی گہرائی میں ڈوب جاتا ہے.196 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کا مختلف رنگ میں ذکر فرمایا ہے کبھی اس کے جلال کا ذکر کبھی اس کے جمال کا ذکر کبھی اس کی رحمت اور بخشش کا ذکر اور کبھی دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے قرب کے طریق سکھائے غرضیکہ زندگی کے ہر پہلو پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا خدا سے عشق غالب ہے.کوئی زندگی کا ایسا پہلو نہیں ہے جس میں حضرت رسول اکرم ﷺ کے آئینہ قلب میں آپ کو خدا دکھائی نہ دے.حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں بخاری کتاب التوحید سے یہ حدیث لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے رب کی طرف سے ہمیں یہ بات بتائی.اسے حدیث قدسی کہا جاتا ہے جب یہ کہا جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے کوئی بات بتائی اور واضح فرما دیا کہ مجھے خدا نے یہ بات بتائی ہے تو چونکہ روایت خدا تک جا پہنچتی ہے.اس لئے اسے حدیث قدسی کہتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرا بندہ گناہ کرتا ہے اور پھر دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ ! میرے گناہ بخش دے.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نے نا مجھی سے گناہ تو کیا لیکن اس کے علم میں ہے کہ اس کا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے اور چاہے تو پکڑ بھی لے.پھر میرا بندہ تو بہ تو ڑ دیتا ہے اور گناہ کرنے لگ جاتا ہے اور پھر نادم ہو کر کہتا ہے اے میرے رب ! میرا گناہ بخش دے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے بندے نے گناہ کیا لیکن وہ جانتا ہے کہ اس کا ایک رب ہے.وہ گنا ہوں کو معاف بھی فرماتا ہے اور گرفت بھی کرتا ہے اور پھر بندہ تو بہ تو ڑ دیتا ہے اور گناہ کرتا ہے لیکن نادم ہو کر دعا مانگتا ہے کہ اے ہمارے رب ! میرا گناہ بخش.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرا بندہ ہے جو جانتا ہے کہ میرا ایک رب ہے جو گناہ بخشتا ہے.میرا بندہ کمزور ہے اپنے پر قابو نہیں رکھ سکتا غلطی کر بیٹھتا ہے لیکن اگر وہ نادم ہو کر تو بہ کرے تو میں اسے بخش دوں گا.( بخاری کتاب التوحید حدیث نمبر: ۶۹۵۳) یہ جو مضمون ہے کیسی سادہ زبان میں اللہ اور بندے کا گناہ کے بعد بخشش مانگنے کا جو تعلق قائم ہوتا ہے اسے بیان فرمایا گیا ہے اور بار بار یہ دیکھنے کے باوجود کے ایک انسان گناہ گار ہے پھر خدا تعالیٰ کی بخشش کا اس رنگ میں ذکر ہے کہ جوں جوں آپ یہ بات سنتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں زیادہ بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن گناہ کی محبت نہیں بڑھتی.یہ وہ انداز ہے

Page 201

خطبات طاہر جلد ۶ 197 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء جو عارف باللہ کے سوا کسی اور کو نصیب نہیں ہو سکتا.حقیقی بات یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جہاں بھی بخشش کا مضمون بیان فرمایا ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے دل نرم تو ہوتا ہے اور امید بھی پیدا ہوتی ہے بخشش کی لیکن گناہوں کی محبت دل میں پیدا نہیں ہوتی اور اگر بخشش کا مضمون گنا ہوں کی محبت بھی ساتھ پیدا کر دے یا ان پر دلیری پیدا کر دے تو پھر وہ بخشش کا مضمون نہیں ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے مختلف مواقع پر اس توازن کو قائم فرمایا اور ایسے حیرت انگیز طریق پر توازن قائم فرمایا کہ خدا کی بخشش سامنے دکھائی دینے لگتی ہے لیکن ساتھ ہی اس کی پکڑ کا خوف بھی دل پر طاری ہو جاتا ہے.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں اور یہ مسلم باب فضل مجلس الذکر سے روایت لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ بزرگ فرشتے گھومتے رہتے ہیں اور انہیں ذکر کی مجالس کی تلاش رہتی ہے جب وہ کوئی ایسی مجلس پاتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر ہو رہا ہو تو وہاں بیٹھ جاتے ہیں اور پروں سے اس کو ڈھانپ لیتے ہیں ساری فضا ان کے سایہ برکت سے معمور ہو جاتی ہے جب لوگ اس مجلس سے اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی آسمان کی طرف چڑھ جاتے ہیں.وہاں اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے حالانکہ وہ سب کچھ جانتا ہے، کہاں سے آئے ہو؟ وہ جواب دیتے ہیں ہم تیرے بندوں کے پاس سے آئے ہیں جو تیری تسبیح کر رہے تھے ، تیری بڑائی بیان کر رہے تھے، تیری عبادت میں مصروف تھے اور تیری حمد میں رطب اللسان تھے اور تجھ سے دعائیں مانگ رہے تھے.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ مجھ سے کیا مانگتے ہیں؟ اس پر فرشتے عرض کرتے ہیں کہ وہ تجھ سے تیری جنت ما نگتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے کیا انھوں نے میری جنت دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں اے میرے رب ! انھوں نے تیری جنت دیکھی تو نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کی کیا کیفیت ہوگی اگر وہ میری جنت کو دیکھ لیں.پھر فرشتے کہتے ہیں وہ تیری پناہ چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ اس پر کہتا ہے کہ وہ کس چیز سے میری پناہ چاہتے ہیں؟ فرشتے اس پر جواب دیتے ہیں تیری آگ سے پناہ چاہتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا انھوں نے میری آگ دیکھی ہے؟ فرشتے کہتے ہیں دیکھی تو نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کا کیا حال ہوا گر وہ میری آگ کو دیکھ لیں.کیسا حسین توازن ہے ان دو چیزوں کے درمیان اور کیسے پیار سے جس طرح بچے کو اصلى الله کوئی لوریاں دے رہا ہو اس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اپنے رب کا ذکر فرماتے ہیں.پھر

Page 202

خطبات طاہر جلد ۶ 198 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء فرشتے کہتے ہیں وہ تیری بخشش طلب کرتے تھے اس پر اللہ تعالیٰ کہتا ہے میں نے انھیں بخش دیا اور انہیں وہ سب کچھ دیا جو انھوں نے مجھ سے مانگا اور میں نے ان کو پناہ دی جس سے انھوں نے میری پناہ طلب کی.اس پر فرشتے کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ان میں فلاں غلط کار شخص بھی تھا اور وہاں سے گزرا اور ان کو ذکر کرتے ہوئے دیکھ کر تماش بین کی طور پر ان میں بیٹھ گیا.اس پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، میں نے اس کو بھی بخش دیا کیونکہ یہ ایسے لوگ ہیں کہ ان کے پاس بیٹھنے والا بھی محروم اور بد بخت نہیں رہتا.(مسلم کتاب الذکر حدیث نمبر: ۴۸۵۴) پس آپ کو یہ بننا ہے کیونکہ ساری دنیا کو پناہ دینے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو کھڑ ا فر مایا ہے.وہ فرشتے جو اپنے پروں کے نیچے دوسروں کو لیتے ہیں وہ فرشتے بننا پڑے گا اور ایسے لوگ بننا پڑے گا جن کے ساتھ بیٹھنے والے بھی بدنصیب نہیں رہا کرتے.اتنا عظیم الشان کام ہے ساری دنیا کو امن دینا اور سکون عطا کرنا اور طمانیت بخشا اور خدا کی رحمت تلے لے آنا کہ اس کے لئے سوائے اس کے کہ آپ خدا کی محبت میں ڈوب جائیں اور کوئی حل نہیں ہے.اس کا ذکر اس طرح کریں جس ذکر پر خدا کی نظر پڑتی ہے اور یہ جو مضمون حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے کھولا ہے اس میں یہ بات بہت ہی پیاری اور دلنشین ہے.فرماتے ہیں اللہ کو پتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے نیچے؟ اللہ خوب جانتا ہے کہ اس کے بندے کیا کیا باتیں کر رہے تھے، کیا ان پر گزری، کیا ان کے دل کے اندر تھا.لیکن پھر بھی پوچھتا ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ خدا کو آپ سے محبت ہے، خدا کو اپنے بندوں سے محبت ہے.یہ مضمون کی طرز بتا رہی ہے کہ خدا کو جب تک اپنے بندوں سے پیار نہ ہو اس قسم کی بات کر نہیں سکتا.اپنے روزمرہ کی زندگی کے تجربے میں دیکھیں بسا اوقات کسی بچے سے پیار ہو، کسی دوست سے تعلق ہو، کسی بیوی کو خاوند سے ہو، خاوند کو بیوی سے ہو یا بہن کو بھائی سے ہو یا بھائی کو بہن سے جب بھی وہ اس دیس سے آتا ہے جہاں وہ اس کا پیارا رہتا ہو تو انسان ان باتوں کے علم کے باوجود جو وہاں ہو رہی ہوں بار بار پوچھتا ہے کے وہ کیا کر رہے تھے کیسے تھے کیا حال تھا اور بعض دفعہ ایک بات سننے کے باوجود پھر دہراتا ہے اور پھر سننے کے باوجود پھر سوال دہراتا ہے.تو یہ خالص محبت کی ادا ہے جس کی طرف حضرت رسول اکرم ﷺ نے یہ کہہ کر اشارہ فرما دیا کہ خدا کو علم تو ہے کہ کیا تھا اور کیا ہورہا ہے لیکن وہ اس ذکر میں لذت پاتا ہے کہ اس طرح میرے کچھ بندے بیٹھے ہوئے میرا ذکر کر رہے ہیں اور مجھے

Page 203

خطبات طاہر جلد ۶ 199 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء سے پیار کا اظہار کر رہے ہیں.تو اگر خدا آپ سے پیار کرتا ہے اپنے بندوں اور غلاموں کے طور پر تو اس سے بڑھ کے محبت کا محرک اور کوئی نہیں ہوسکتا.حقیقت یہ ہے کہ محبت پیدا کرنے کے لئے سب سے زیادہ قوی محرک حسن اور پھر اس کے بعد محبت ہے.خالی حسن محبت اگر پیدا کرتا بھی ہے تو وہ مستقل حیثیت کی محبت نہیں ہوتی.جو محبت سب سے زیادہ گہری اور سب سے زیادہ قوی ہے وہ محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کی طرف اشارہ فرما دیا کہ تم تو ان خوش نصیبوں میں سے ہو جن سے خدا پیار کرتا ہے اور ان کے پیار کے نتیجے میں ان کی باتیں پوچھتا ہے اور ان کا ذکر کرنا پسند فرماتا ہے.پھر اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے کہ خدا تعالیٰ کو اپنے بندے کی پاک تبدیلی سے کیسا صلى الله لطف آتا ہے، کیسا وہ حفظ محسوس فرماتا ہے کہ میرا ایک کھویا ہوا بندہ مجھے واپس مل گیا.آنحضرت مو ایک مسافر کی اور ایک گمشدہ اونٹ کی مثال دیتے ہیں.فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جس کو یہ حادثہ پیش آیا ہو کہ جنگل بیابان میں اس کی اونٹنی گم ہوگئی ہو حالانکہ اس پر اس کا سارا کھانا اور پانی اور ساز وسامان لدا ہوا ہو.اب بیابان میں خصوصاً عرب کے صحرا اور ریگستانوں میں جہاں درجہ حرارت دن کے وقت ایک سو چالیس تک بھی پہنچ جاتا ہے.اس صحرا کا تصور باندھیں اور ایک مسافر کسی درخت کی چھاؤں تلے ستانے کے لئے ٹھہرا ہو اور تھوڑی دیر کے لئے اس کی آنکھ لگ جائے وہ جب آنکھ کھولے تو پتا لگے کہ اونٹنی اس کا سازوسامان لے کر اس کا پانی اس کا کھانا لے کر غائب ہوگئی ہے.کیسی اس کی حالت ہوتی ہوگی؟ فرمایا کہ اسی حالت اور پریشانی میں وہ لیٹ جائے اور تھک کر اسے نیند کا جھونکا آجائے اور جب اچانک آنکھ کھلے تو دیکھے کہ وہ اونٹنی اس کے سامنے کھڑی ہے.فرمایا جتنا مزہ اس شخص کو آتا ہے اس اونٹنی کو دیکھ کر جتنا لطف وہ محسوس کرتا ہے اس سے زیادہ خدا اپنے تو بہ کرنے والے بندے کے واپس آنے پر محسوس فرماتا ہے.( بخاری کتاب الدعوات حدیث نمبر: ۵۸۳۳) تو آنحضرت ﷺ کے منہ سے یہ ذکر سن کر کون ہے جو اپنے رب کا عاشق نہ ہو جائے حیرت ہے وہ خالق وہ مالک ہے؟ اس کے سامنے ایک انسان کی ، ایک گناہ گار انسان کی کچھ

Page 204

خطبات طاہر جلد ۶ 200 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء حیثیت ہی کیا ہے.ایک بالکل ذرہ لاشئے ہے اور اس کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ طلب، یہ انتظار کہ یہ تو بہ کر کے واپس آجائے.کتنا حیرت انگیز مضمون ہے، کتنا گہرا عشق کا مضمون ہے.اس مضمون کے بعد پھر وہ حدیثیں گناہ کی جرات کیسے دلا سکتی ہیں جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر وہ تو بہ کرتا ہے، گناہ کرتا ہے پھر میں اُسے معاف کر دیتا ہوں.کہاں معافی کہاں یہ کہ خدا منتظر ہو اور تو بہ کر کے ہمیشہ کے لئے اس کی گود میں یہ بندہ آجائے ، زمین آسمان کا فرق ہے ان دو باتوں میں.اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے جہاں گناہ گاروں کے لئے ایک امید کی کھڑ کی کھولتے تھے ایک امید کی کرن ان کے دلوں پر پڑتی تھی رسول اکرم ﷺ کے پیار کے اور رحمت کے نتیجے میں، ایک امید کا دروازہ کھل جایا کرتا تھا ان کے لئے اور ہمیشہ یہ کھڑ کی کھلتی رہے گی ، یہ دروازے کھلتے رہیں گے لیکن ساتھ ہی حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی کی ایک عجیب شان ہے کہ اس بخشش کی امید کے باوجود گناہ پر جرات آپ نے نہیں دلائی اور سب باتوں کا آخری ماحصل یہ ہے کہ انسان گناہ سے دل اچاٹ کر بیٹھتا ہے، گناہ کی اس کے سامنے کوئی حقیقت باقی نہیں رہتی ، لطف نہیں رہتا اس گناہ میں اور خدا تعالیٰ کی محبت اور اس کا لطف رفتہ رفتہ اس کے دل پر غالب آتے چلے جاتے ہیں.الله پھر آنحضرت ﷺ نے خدا تعالیٰ کی محبت اور رحمت کے حصول کے لئے جو تمنا دلوں میں پیدا کی ہے مختلف ذرائع سے وہ بھی ایک بڑا وسیع مضمون ہے.آنحضرت ﷺ ایسے رنگ میں اپنے رب کا ذکر فرماتے ہیں اس کی بخشش کا، روز جزا کا کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے حصول کی تمنا بے اختیار دل میں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے اور پھر بعض دفعہ اس رنگ میں ہیبت بھی پیدا فرمائی ہے، خدا تعالیٰ کی ہیبت کا تصور باندھا ہے اس طرح کہ جو رہا سہا گناہ کا جذبہ یا گناہ کی لذت کا تعلق ہے وہ بھی اس ہیبت کے نیچے آ کے بالکل جل کے خاکستر ہو جاتا ہے لیکن یہ تبھی ہوسکتا ہے اگر بار بار حضرت رسول اکرم ﷺ کے ارشادات کا مطالعہ کیا جائے ، آپ کی سیرت پر غور کیا جائے ، آپ کے ارشادات میں ڈوب کر آنحضرت ﷺ کے تجارب میں حصہ پایا جائے.آنحضرت ﷺ کے ارشادات میں ڈوب کر جو میں نے کہا کہ آپ کے تجارب میں سے حصہ پایا جائے یہ اس وجہ سے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کا کوئی بھی ارشاد نہیں ہے جو تجربے پر مبنی نہ ہو.عام انسانوں کے جوارشادات ہیں ان میں ایک بھاری حصہ سماعی ہوتا ہے.نیکوں سے باتیں سنی ہوئی صلى الله

Page 205

خطبات طاہر جلد ۶ 201 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء ہیں، صاحب تجر بہ لوگوں سے باتیں سنی ہوئی ہیں.بعض لوگ اس کے نتیجے میں مجلسیں سجاتے ہیں اور بہت پر لطف مجلسیں سجاتے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں یا خدا بہتر جانتا ہے ان کے دل کا حال، بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہوگا کہ ان کی اکثر باتیں کھوکھلی اور دوسروں کی سنی ہوئی باتیں ہیں اور تجربے کے طور پر ان کو ان میں سے کچھ بھی نصیب نہیں ہوا.اس لئے یہ ایک بہت ہی نمایاں فرق ہے جو رسول اکرم ﷺ کی احادیث اور آپ کے کلام کے سنتے ہوئے آپ کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ آنحضرت ﷺ جو کچھ فرماتے ہیں اس کا لطف سماعی نہیں ہونا چاہئے ، اس کا لطف صرف ذہنی نہیں ہونا چاہئے ، اس کے اندر ڈوب کر آپ کے تجربے سے لذت پانی چاہئے اور اس تجربے کی لگن دل میں پیدا ہونی چاہئے تا کہ ہم بھی ان رستوں پر چلیں جن رستوں کی یہ خوبصورت فضا ہے، ہم بھی اس سمندر میں غوطہ لگائیں جس سمندر میں غوطہ لگا کر خدا کی محبت کا لطف آتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں آنحضرت ﷺ کے ارشادات پر غور کرتے رہنا چاہئے.آپ فرماتے ہیں جس دن اللہ تعالیٰ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا اس دن اللہ تعالی سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا.اول امامِ عادل، یہ وہ شخص جسے خدا نے امام بنایا ہو یاد نیا کی بھی سرداری دی ہو ، وہ عدل سے کام لے.دوسرے وہ نو جوان جس نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے جوانی بسر کی ہو.اب ان سب جوڑوں میں آپ کو ایک خاص حکمت کی بات نظر آئے گی یہ کوئی اتفاق جوڑ نہیں بنائے گئے.اس سے آپ کو معلوم ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کا ہر کلام اور آپ کے کلام کا ہر حصہ گہری حکمتوں پر مبنی ہوتا تھا.امام جو بن جائے ، حاکم بن جائے وہ اگر عدل نہ کرے تو اس کو کوئی دنیا میں پوچھنے والا نہیں ہوتا.اس لئے وہ شخص اگر عدل کرتا ہے جس کے اوپر پوچھنے والا ہو تو اس کے عدل کا وہ مقام نہیں ہے، اس کے عدل کا وہ مرتبہ نہیں لیکن جب وہ شخص عدل کرے جس سے اوپر انسانوں میں سے کوئی اس سے پوچھنے والا نہ ہو تو اس کے عدل کا ایک خاص مقام اللہ کی نظر میں پیدا ہو جاتا ہے اور وہ اس سے خاص رحمت کا سلوک فرمائے گا یہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا پیغام ہے اور پھر اکثر بوڑھوں کو آپ عبادت کرتے ہوئے دیکھیں گے کیونکہ دنیا کی اکثر لذتیں ویسے ہی ختم ہو چکی ہوتی ہیں اور خالی بیٹھ کے جو بور ہونا ہے ،اپنی زندگی بڑے کڑے

Page 206

خطبات طاہر جلد ۶ 202 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء حال میں گزارنی ہے اس سے پھر وہ سوچتے ہیں کہ کیوں نہ پھر عبادت کی جائے.تو کہتے ہیں:.دم واپسیں بر سر راه ہے عزیزو! اب اللہ ہی اللہ ہے یعنی خدا صرف واپسی کے لئے رہ گیا ہے اس سے پہلے خدا کا کوئی ذکر ہی نہیں تھا کوئی ضرورت ہی نہیں تھی.تو آنحضرت ﷺ اسی مضمون کو کھولتے ہیں فرماتے ہیں دم واپسیس کا اللہ تو کوئی حقیقت نہیں رکھتا.آغاز سفر کا خدا ہے اگر تم اس کو پکڑو گے تو وہ تمہیں پھر واپسی کے وقت تک کبھی نہیں چھوڑے گا.پھر تمہارا دم واپسیں مقبول ہو گا.اس لئے وہ جو جوانی میں خدا کی عبادت کرتے ہیں اور وفا کے ساتھ اس عبادت پہ قائم رہتے ہیں دم واپسیں تو کیا خدا قیامت کے دن تک ان کو یاد رکھتا ہے اور جب کوئی سایہ اور میسر نہیں آئے گا اس وقت خدا کا سایہ ان کو میسر آئے گا.یہ ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا انداز نصیحت جس کے ساتھ گوندھ گوندھ کے گھونٹ گھونٹ، جرعہ جرعہ اللہ تعالیٰ کی محبت پلائے چلے جاتے ہیں.فرمایا تیسرے وہ آدمی جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لگا ہوا ہے اور مسجدوں کے ساتھ دل لگے ہوئے کی آپ حدیثوں میں مطالعہ کریں تو آنحضرت ﷺ کے متعلق ہی روائتیں آتی ہیں.صلى الله بسا اوقات آنحضرت ﷺ اپنا کر فرماتے ہیں اور نام نہیں لے رہے ہوتے اور بعض جگہ پھر جس طرح کہتے ہیں نا کوئی پکڑا جاتا ہے اس طرح پیار اور عشق کے انداز میں بھی آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا یہ انکسار، یہ چھپنا بھی پکڑا جاتا ہے.چنانچہ ہمیں کثرت سے ایسی احادیث ملتی ہیں جن میں آنحضرت ﷺ کے متعلق ذکر ملتا ہے کہ آپ کا دل ہر وقت مسجد میں اٹکا رہتا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی یہی گر آپ سے سیکھا اور آپ کے متعلق بھی یہ پتا چلتا ہے بچپن ہی سے مسجد سے ایسا تعلق تھا کہ بسا اوقات اسی صف پہ خدا کی عبادت کرتے کرتے نیند آگئی اور مسجد کا خادم صف پیٹتا تھا تو وہ آپ کو بھی بعض دفعہ لپیٹ دیا کرتا تھا بیچ میں.تو عبادت کے بعد مسجد کا ذکر کیوں ہے؟ کیا عبادت کا ذکر کافی نہیں تھا جوانی کی عبادت کا ؟ امر واقعہ یہ ہے کہ عبادت کی حفاظت کے لئے مسجد ضروری ہے اور مسجدوں کی آبادی نہایت بہت ہی بڑا مقام رکھتی ہے عبادتوں کے قیام کے لئے.اگر مساجد نہ ہوتی تو کبھی کی مسلمانوں سے عبادت مٹ چکی ہوتی.

Page 207

خطبات طاہر جلد ۶ 203 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء اسی لئے صرف اسلام ہی میں نہیں دنیا کے ہر مذہب میں ایک خاص عبادت گھر کا تصور قائم فرمایا گیا ہے اور کوئی بھی دنیا کا ایسامذ ہب نہیں جہاں عبادت کا مضمون تو نظر آتا ہولیکن عبادت خانہ نہ نظر آتا ہو حالانکہ عبادت تو گھروں میں بھی ہوسکتی ہے، جنگلوں میں بھی ہوسکتی ہے ،شہروں میں بھی ہو سکتی ہے تو رسول اکرم ﷺ نے عبادت کے سوا جب مساجد کا ذکر فرمایا تو اس کی طرف توجہ دلائی ہے.ایسے بھی بعض عبادت کرنے والے ہوں گے جنہوں نے جوانی عبادتوں میں کاٹی ہے لیکن مساجد کے ساتھ ان کا تعلق نہیں رہا ہو گا.بعض ایسی جگہ پیدا ہوتے ہیں جہاں مسجدیں میسر نہیں آتیں بعض ویسے ہی جنگلوں میں اور بیابانوں میں رہنے والے لوگ ہیں.تو خدا ان کو بھی نہیں بھولتا، ان کی عبادتوں پر بھی نظر فرماتا ہے لیکن عبادت کا معراج مساجد میں ہے اور مسجدوں میں جو عبادت قائم کی جاتی ہے وہ سب سے اعلیٰ عبادت ہے.اسی لئے آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کا الگ ذکر فرمایا کہ وہ شخص جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لگا ہوا ہو اللہ تعالیٰ اسے کبھی نہیں بھولتا اور قیامت کے دن جب کوئی اور سایہ میسر نہیں ہو گا اس وقت خدا اپنا سایہ اسے بھی نصیب فرمائے گا.پھر فرمایا چوتھے وہ دو آدمی جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اسی پر وہ متحد ہوئے اور اسی کی خاطر وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے.اب محبت کا مضمون تو ہر جگہ دنیا میں پھیلا ہوا ہے.بغیر محبت کے بغیر تعلق کے تو انسانی زندگی کا کوئی تصور ہی نہیں ہے بلکہ حیوانی زندگی کا بھی کوئی تصور نہیں لیکن یہ ایک نیا مضمون ہے کہ آپس کے تعلق خدا کی محبت کے نتیجے میں ہوں.جہاں تک میرا علم ہے کسی اور مذہب میں اس مضمون کو اس حسن کے ساتھ بیان نہیں کیا گیا.ممکن ہے مخفی طور پر اشارے تو ملتے ہوں گے لیکن اس شان اور وضاحت کے ساتھ سوائے حضرت اقدس محمد مصطفی مے کے کسی نے یہ مضمون نہیں باندھا اور کثرت کے ساتھ اس مضمون کو باندھا ہے آپ نے:.الحب فی الله والبغض في الله (بخاری کتاب الایمان ) اللہ کے نام پر اللہ کی خاطر محبت کرنا اور اللہ کی خاطر بغض کرنا اور اپنے نفس کو اس میں سے مٹادینا یہ ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کی محبت ہے جو انسانی محبتوں میں بہت کم دکھائی دیتی ہے اور اگر یہ محبت روز مرہ کی ہماری زندگی کا حصہ بن جائے یا ہماری محبتوں پر غالب آجائے تو اسی دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک ایسی جنت پیدا ہو سکتی ہے جس کا دوسری قومیں محض اخروی زندگی میں تصور باندھتی ہیں.لیکن جماعت احمد یہ اگر اس پر عمل کرے اور

Page 208

خطبات طاہر جلد ۶ 204 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء الحب في الله کا مضمون سیکھ جائے اور البغض فی اللہ کا مضمون سیکھ جائے تو حقیقت یہ ہے کہ یہی دنیا ہمارے لئے امن کا گہوارہ بن جائے اور جنت نشان ہو جائے.پھر حضرت رسول اکرم علیہ فرماتے ہیں اور یہ بھی ایک مشکل مضمون ہے اسی لئے اسے خاص طور پر چنا ہے.اکثر ہماری محبتیں جس کو ہم خدا کے لئے کہتے ہیں ان کا اگر آپ تجزیہ کریں تو پتا لگے گا کہ اپنی محبت کے نام ہم نے خدا کی محبت رکھ دیا ہے اس لئے ایک خطرے کی گھنٹی ہے اس ہدایت میں.اپنی محبتوں کا تجزیہ کرنا شروع کریں.آپ حیران ہوں گے کہ شاذ کے طور پر آپ کی محبت ہے جو خالصہ للہ ہو گی ورنہ اکثر محبتیں اپنی ہیں اور انہی محبتوں کو آپ خدا کی محبت قرار دے رہے ہوتے ہیں.مثلاً ایک امیر ہے آپ اس کی اطاعت کرتے ہیں، اس سے پیار کرتے ہیں، اس سے تعلق رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو اس معاملہ میں غلطی سے بہت ہی خدا کی محبت کی خاطر محبت کرنے والا سمجھ رہے ہوتے ہیں.جماعت کا امیر ہے ،اس سے تعلق ہے، اس کے کہنے پر اس کی فرمانبرداری میں آپ جماعت کی خدمت کر رہے ہیں.تو اس سے زیادہ اور کیا ثبوت ہو گا کہ آپ کو خدا سے محبت ہے اور خدا کی محبت کی خاطر کر رہے ہیں لیکن اگلے سال الیکشن ہوتا ہے وہ امیر بدل جاتا ہے ایک اور امیر آ جاتا ہے جسے آپ اپنے سے ادنیٰ سمجھ رہے ہیں ، ایک اور امیر آجاتا ہے جس کی عادات آپ کو پسند نہیں ہیں تو اچا نک آپ اس کے خلاف پرو پیگنڈہ شروع کر دیتے ہیں کہتے ہیں یہ ویسا نہیں ہے پہلا امیر کہاں اور یہ امیر کہاں، اس میں تو وہ خصلتیں ہی نہیں جس کے نتیجے میں انسان اس کی پیروی کرے.وہیں آپ کی محبت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے.وہیں پتا چلتا ہے کہ جتنے سال بھی آپ نے اس امیر سے محبت کی اس کی اطاعت کی اس کی خاطر جماعت کی خدمت کی وہ ساری نفس کی محبت تھی خدا کی محبت کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں تھا.اس لئے آنحضرت ﷺ کے ہر ارشاد کے پیچھے ایک بہت ہی وسیع مضمون پوشیدہ ہوتا ہے اور اس میں ڈوب کر اس کی گہرائی میں جا کر آپ کو پھر حقیقی طور معلوم ہوگا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں.اسی لئے میں یہ زور دیتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات سن کہ آپ کے تجارب میں شریک ہونے کی کوشش کریں اور جب تک آپ ارشادات پر پوری توجہ کے ساتھ غور نہیں کریں گے.یہ عام آدمی کا کلام تو ہے نہیں کہ سطحی طور پر کہا گیا اور سطحی طور پر آپ کو سمجھ میں آجائے.اس لئے جب تک آپ پوری توجہ کے ساتھ اس پر غور نہیں کریں گے آپ کو پہلے تو اس کا مضمون ہی نہیں سمجھ آئے گا

Page 209

خطبات طاہر جلد ۶ 205 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء اور پھر جب سمجھ آئے گا تو پھر اگلا مرحلہ ہے اس مضمون کو اپنی زندگی میں جاری کرنا.یہ بعض دفعہ اتنا مشکل ہو جاتا ہے کہ ایک چھوٹے سے ارشاد کو بھی انسان اپنی زندگی میں جاری کرتے ہوئے بڑی دقتیں محسوس کرتا ہے.اب یہی مسلہ ہے مثلاً الحب فی اللہ.بڑے وسیع تجربے کے بعد میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ابھی تک ہماری جماعتیں تقویٰ کے اس معیار پر پوری نہیں آئیں.بہت شاذ جماعتیں ہیں جن کے متعلق پورا اطمینان ہے ایک خالصہ للہ محبت ہے اور خالصہ اللہ بغض ہے.لیکن بہت سی جماعتیں ہیں جہاں ایک عصر ہر وقت موجود رہتا ہے جن کی محبت کبھی کبھی بظاہر خدا کی محبت دکھائی دے رہی ہوتی ہے لیکن پھر وہ دوسری دفعہ کسی اور موقع پر ان کی محبت کا بھانڈا پھوٹ جاتا ہے یا اس کا راز کھل جاتا ہے اور اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ نہیں ان کی محبت تو انسانی محبت تھی یونہی خدا کے نام پر چل رہی تھی.اگر جماعت اس مضمون کو سمجھ جائے تو ایسا حیرت انگیز مضبوط نظام ابھرے دنیا میں کہ اس میں کوئی دشمن کبھی رخنہ نہ ڈال سکے.کتنی چھوٹی سی بات ہے لیکن اس چھوٹی سی بات کے اندر بھی قوموں کی زندگی اور ان کی بقا کا راز ہے ، روحانی قوموں کی زندگی اور ان کی بقا کا راز ہے.پھر فرمایاوہ پاکباز مرد جس کو خوبصورت عورت اور با اقتدار عورت نے بدی کی طرف بلایا ہو اور اس نے کہا میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہوں.عام حالات میں حسن کی کشش کا مقابلہ کرنا ایک بڑا ہی مشکل کام ہے لیکن رسول اکرم ﷺ کی شان دیکھیں اس کے ساتھ با اقتدار کا لفظ داخل فرما دیا.با اقتدار تو اگر بدصورت بھی ہو تو انسانی فطرت یہ ہے کہ اس سے تعلق باندھنے کے لئے ہاتھ بڑھاتا ہے.بعض دفعہ اعلیٰ نسب کی خاطر نہایت ہی منحوس اور بدصورت عورتوں کو بھی انسان قبول کر لیتا ہے، خاندان اونچا ہے، مقام اونچا ہے، مرتبہ اونچا ہے.تو دیکھیں آزمائش کے مقام کو کہاں تک رسول اکرم ﷺ نے پہنچا دیا.فرمایا حسین عورت ہو اور پھر با اقتدار ہو، وہ بلا رہی ہو اور پھر انسان کہے کہ نہیں میں نے یہ کام نہیں کرنا.ایسے شخص کو بھی خدا پھر کبھی نہیں بھولتا اور قیامت کے دن اس کے اوپر خدا کی رحمت کا سایہ ہوگا.اس میں دراصل سورۃ یوسف کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے ایک چھوٹے سے فقرے میں روح بیان کر دی ہے حضرت یوسف کی نیکی کی.عام لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکتے کہ کیوں خدا تعالیٰ نے یوسف کو اتنا عظیم الشان مقام عطا فر مایا کہ قرآن کریم نے اس کے نام کی ایک سورۃ جاری فرما دی ہمیشہ ہمیش کے

Page 210

خطبات طاہر جلد ۶ 206 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء لئے اور پھر اس کو احسن القصص بیان فرمایا.اس آزمائش میں یہی دو باتیں اکٹھی ہو گئیں تھیں.حسن بھی اپنے عروج پر تھا اور قوت بھی بہت بڑی حاصل تھی اس شخص کو اس کی بیوی کو.چنانچہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ اس کہ کہنے پر سارے شہر کی معزز عورتیں حاضر ہوئیں شوق کے ساتھ اور وہ اس کے کہنے میں چلنے والی تھیں.معلوم ہوتا ہے کہ وہ محض ایک عام بیوی نہیں تھی افسر کی بلکہ با اقتدار بیوی تھی.بعض عورتیں اپنے افسروں کے ذریعے حکومت کر رہی ہوتی ہیں ان کی اور بھی زیادہ شان بڑھ جاتی ہے.چنانچہ آج کل امریکہ میں ریگن کو یہی طعنہ دیا جا رہا ہے کہ یہ تو یونہی نام کا پریذیڈنٹ ہے اصل تو اس کی بیوی پریذیڈنٹ ہے.یہاں تک کہ پچھلے دنوں پریس میں بڑے چڑ کر اس نے اس کی تردید کی کہ نہیں میں ہی پریذیڈنٹ ہوں میری بیوی کہاں سے ہوگئی.بیوی کے متعلق معلوم یہی ہوتا ہے کہ اصل میں صاحب اقتدار تھی اور اس کا خاوند اس کے پیچھے چلتا تھا.چنانچہ ہر صورت میں وہ غالب رہی اپنے خاوند کے اوپر اور علاقے پر بھی اس کا بڑا اثر تھا.تو آپ نے نام تو نہیں لیا لیکن یوسفی شان کا خلاصہ بیان فرما دیا ہے کہ پاکباز مرد جس کو خوبصورت اور با اقتدار عورت نے بدی کی طرف بُلایا اور پھر اس نے اس کا انکار کیا.چھٹے وہ بنی جس نے اس طرح پوشیدہ طور پر اللہ تعالیٰ کی راہ میں صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا.اب صدقے کے مضمون میں بھی ہمارے بے شمار نیک خرچ جو نیکی کے نام پر ہم کرتے ہیں اور بسا اوقات ان کے پیچھے دل کا جذ بہ بھی شامل ہوتا ہے یعنی ریاء کی خاطر نہیں کر رہے ہوتے.دل ایک خاص جذبے سے متاثر ہو جاتا ہے کسی غربت سے کسی کی تکلیف سے دردمند ہو جاتا ہے ہم خرچ کر دیتے ہیں لیکن شیطان موقع کی تلاش میں رہتا ہے.جب خرچ کر رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ داخل ہو جاتا ہے کہ تم نے ٹھیک ہے اچھے کام کی خاطر کیا تھا بڑی نیکی کی ہے ساتھ ہی اگر شہرت بھی ہو جائے تو کیا فرق پڑتا ہے.کیا حرج ہے دنیا بعد میں واہ واہ کرے ہاں تم نے اس طرح کیا اور اس طرح کیا.تو آنحضرت یہ چونکہ ہر اس سوراخ سے واقف تھے جس سے بدی داخل ہوتی ہے اور اپنی حفاظت فرما چکے تھے ہر اس سوراخ سے اسی لئے صاحب تجربہ تھے اور جانتے تھے کہ یہ انتہا ہے آزمائش کی.فرمایا کہ خدا کی باریک نظر جہاں تک پہنچتی ہے تم اگر خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو کرتے ہوگے لیکن کبھی ایسا بھی تو خرچ کرو کہ کسی کو

Page 211

خطبات طاہر جلد ۶ 207 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء کانوں کان خبر نہ ہو کہ کس طرح تم نے خدا کی راہ میں خرچ کر دیا ہے.ایسا شخص جو ریاء سے کلیۂ پاک ہو آغاز میں بھی اور انجام میں بھی.عطا کرتے وقت بھی اور ان محرکات کے لحاظ سے بھی جو عطا کے پیچھے ہوتے ہیں.تو ایسے شخص کو بھی خدا پھر کبھی نہیں بھلاتا.ہمیشہ خدا اُسے پیار اور محبت سے یادرکھتا ہے اور جب سائے کی تلاش ہوگی بنی نوع انسان کو تو اس کو بھی خدا کے سائے کی طرف بلایا جائے گا.آنحضرت ﷺ اس رنگ میں خدا کے پیار کی باتیں سکھایا کرتے تھے اس سے انسان کو کس طرح تعلق بڑھانا چاہئے کس طرح خدا کا پیار جیتنا چاہئے کہ عام صحابہ میں اس کی طرف بڑی شدت سے احساس پیدا ہو چکا تھا کہ ہم نیکی کریں تو اس کے نتیجے میں ہمیں دنیا میں واہ واہ نہ ملے اور اگر ملتی بھی ہو تو ہم اس کا انکار کر دیں.چنانچہ بعض صدقات کے معاملہ میں روایت ملتی ہے کوئی شخص ایک صحابی رات کو نکلے چھپ کر دینے کے لئے کسی کو تو ایک فاحشہ عورت کو دے دیا صدقہ اور صدقہ دیتے ہی دوڑ جایا کرتے تھے کہ تا کہ وہ شکریہ بھی ادا نہ کر سکے پتا ہی نہ لگے کس نے دیا ہے.دوسرے دن شہر میں باتیں شروع ہو گئیں کہ ایک فاحشہ عورت تھی وہ شکار کی تلاش میں نکلی ہوئی تھی ایک سیدھا سادھا آدمی اس کو صدقہ دے کر بھاگ گیا.کبھی کسی اور کو دے دیا کبھی کسی اور کو دے دیا.بڑی دلچسپ ہے وہ روایت کہ کس طرح وہ بار بار کسی ایک امیر آدمی کو صدقہ دے کر بھاگ گیا اتنا بھی وقت نہ دیا اس کو کہ وہ واپس کرے کہ میاں مجھے کیا دے رہے ہو میں تو تمہیں دے سکتا ہوں.صلى الله ( بخاری کتاب الزکوۃ حدیث نمبر :۱۳۳۲) یہ جو جذبہ پیدا کر دیا تھا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس جذبہ کے نتیجے میں خدا کے پیار کی باریک راہوں کی تلاش کرتے تھے وہ لوگ اور اللہ تعالیٰ کی ان پر نظر ہوتی تھی یہاں تک کہ قرآن کریم میں ایسے لوگوں کا ذکر خدا تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے محفوظ فرما دیا.فرماتا ہے: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَّ يَتِيمَا وَ أَسِيران (الدم :) کہ دیکھو محمد مصطفی امت ہو نے کیسے کیسے عشاق پیدا کئے ہیں يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حب وہ محض اللہ کی محبت کی خاطر مسکینوں کو بھی کھانا کھلاتے ہیں، یتیموں کو بھی کھانا کھلاتے ہیں اسیروں کو بھی کھانا کھلاتے ہیں اس کا عموما یہ ترجمہ کیا جاتا ہے کہ کھانے کی محبت پر کہ جب کھانا اپنا کم ہو اور غربت ہو اس کے باوجود دیتے ہیں.یہ بھی اس کا مطلب صحیح ہے کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیت سے اس مضمون کو بھی تقویت ملتی ہے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ

Page 212

خطبات طاہر جلد ۶ 208 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء ( آل عمران : ۹۳) کہ تم اعلی درجہ کی نیکی نہیں پاسکتے جب تک کہ اس مال میں سے خدا کے لئے خرچ نہ کرو جس مال سے تمہیں محبت ہے یعنی اس کی کمی محسوس کر رہے ہو یا بہت ہی زیادہ قدر و قیمت محسوس کر رہے ہو.تو یہ مضمون بھی درست ہے لیکن اسی آیت سے اگلی آیت یہ بھی بتا رہی ہے کہ علی حصّہ سے مراد ہے محض خدا کی محبت کی خاطر یعنی ان کا خرچ محض اپنے جذبات کی بناء پر نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجے میں ہوتا تھا.اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا ( الدم :١٠) وہ جو نیکی کا خرچ ہے جس کی جڑیں انسانی دل کی تحریک میں ہوتی ہیں اس کے نتیجے میں طبعا انسان جزا اور شکر چاہتا ہے اور اسی لئے آپ دیکھیں گے کہ جتنا زیادہ کوئی احسان کرتا ہے اتنی زیادہ توقع رکھتا ہے کہ کوئی احسان مند ہو.لیکن قرآن کریم نے اور اس کی روشنی میں حضرت اقدس محمد مصطفی میہ نے مومن کی زندگی کا ہر پہلو خدا کی محبت کی طرف موڑ دیا اور انسانی فطرت سے گویا جڑیں نکال کر جس طرح پنیری لگانے والا ایک دوسری زمین میں پنیری لگاتا ہے اس طرح خدا کی محبت میں ہر انسانی سکون اور ہر انسانی حرکت کی پنیری لگا دی.وہ روز مرہ خرچ کرنے والے آپ کو دکھائی دیں گے جو بسا اوقات آپ سے بہت زیادہ خرچ کرتے ہوئے دکھائی دیں گے لیکن ان کے خرچ کے محرکات اور ان کی وجوہات اور خرچ کے بعد کے ان کے انداز اور اُن کی توقعات اور لیکن محمد مصطفی امیہ نے جو سوسائٹی پیدا کی ان کے متعلق خدا گواہی دے رہا ہے کہ دل کے جذبات کے ساتھ انہوں نے اپنی نیکیوں کا تعلق توڑ کے خدا کی محبت میں ان کی جڑیں گاڑ دیں.ہر چیز پر خدا کی محبت غالب آگئی تھی.فرمایا وہ پھر کہتے ہیں ہم تمہیں بتا رہے ہیں اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ ہم تمہیں بتا رہے ہیں ہمارا تم پر کوئی احسان نہیں کہیں سادگی سے یہ نہ سمجھ لینا کہ تم ہمارے احسان کے نیچے آ گئے ہو اِنَّمَا نُطْعِمُكُمْ لِوَجْهِ اللهِ اللہ کے چہرے کی خاطر ہم کر رہے ہیں، اس کے پیار کی خاطر کر رہے ہیں.اس لئے ہماری جزاء وہ دے گا وہ ہم سے پیار کرے گاتم پر ہمارا کوئی احسان نہیں ، نہ ہم کوئی جزا چاہتے ہیں نہ تم سے کوئی شکر چاہتے ہیں.پس آنحضرت ﷺ نے پوشیدہ صدقے کے اوپر زور دے کر اس مضمون کو کھول دیا ہے کہ

Page 213

خطبات طاہر جلد ۶ 209 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء انسانی فطرت سے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ بے مقصد نیکی کرے اور اگر کوئی شخص پوشیدہ نیکی میں انتہا کر دیتا ہے تو یقینی طور پر اس کی نیکی کا محرک خدا کی محبت ہے.پس اس مضمون کو خدا کی محبت سے اس طرح باندھ دیا ہے کہ اس سے زیادہ گہرائی کے ساتھ اور مضبوطی کے ساتھ کوئی مضمون خدا کے محبت میں نہیں باندھا جا سکتا.مائیں تو کہتی ہیں سوتے پتر دامنہ کی چھنا یعنی فائدہ کیا حالانکہ ماں کو پیار بے ساختہ ہوتا ہے وہ چاہتی ہے بیٹے سے پیار کرے تو کہتے ہے سوتے پتر دا کی منہ چھنا یعنی جو سو یا ہوا بیٹا ہے اس کو پیار کرنے کا کیا فائدہ ہے آگے سے پتہ ہی نہ چلے اس کو کیا ہو رہا ہے.تو ایسی کا یا پلٹ دے حضرت محمد مصطفی یاہو نے کہ منہ چومنے کے لئے پیر کو پہلے سلانے لگے جب ان کی آنکھیں بند ہو جاتی تھیں جب وہ غافل ہو جاتے تھے پتا ہی نہیں لگتا تھا کہ کون منہ چوم رہا ہے تب خدا کے نام پر وہ ان کے منہ چومتے تھے، ان غریبوں کو سینے سے لگاتے تھے.کیسی عظیم الشان کا یا پلٹی اور خالصہ یہ اللہ تعالی کی محبت کے نتیجے میں حسن پیدا ہوا ہے ور نہ ہو ہی نہیں سکتا کسی سوسائٹی میں ایسا عظیم الشان حسن.پھر فرمایا ساتویں وہ مخلص جس نے خلوت میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی محبت اور خشیت سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.کوئی دیکھنے والا نہیں کچھ نہیں اکیلے میں اللہ یاد آیا اس کے پیار کی باتیں یاد آئیں اور اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کو بھی خدا کبھی نہیں بھولے گا اور قیامت کے دن جب کوئی اور سایہ نہیں ہوگا ، خدا کی رحمت کا سایہ اس کے سر کو بھی ڈھانپ لے گا.پس اگر تقویٰ سیکھنا ہے تو حضرت محمد مصطفی ﷺ سے سیکھیں اور تقویٰ کی سب سے اعلیٰ اور سب سے زیادہ حسین صورت وہی صورت ہے جو محبت الہی کے ساتھ تعلق رکھتی ہے گویا محبت الہی اور تقویٰ ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.اس مضمون پر انشاء اللہ تعالیٰ بقیہ حصہ میں آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا کیونکہ یہ ہے بہت ہی پیارا اور بہت ہی بنیادی اور اہم مضمون ہے اور میں چاہتا ہوں سو سالہ جشن سے پہلے پہلے جماعت تقولی سے اس قدر ایسی حسین اور مزین ہو چکی ہو کہ بھی ہوئی دولہن کی طرح جو اپنے حسن کے عروج پر ہو اور پھر سجائی گئی ہو اس طرح اگلی صدی میں داخل ہو رہی ہو.خدا کرے کے ایسا ہی ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.بعض احباب کی اور بعض خواتین کی ، بعض نوجوانوں کی پچھلے ایک ہفتے کے اندر وفات ہوئی الله

Page 214

خطبات طاہر جلد ۶ 210 خطبہ جمعہ ۲۰ مارچ ۱۹۸۷ء ہے ان کی نماز جنازہ غائب کے لئے درخواست کی گئی ہے.جمعہ کے معا بعد انشاء اللہ ہم نماز جنازہ غائب پڑھیں گے.سب سے پہلے ملک محمد خان صاحب جوئیہ، موصی تھے.بھان ضلع خوشاب میں صدر جماعت تھے اور ہمارے شیر دل مجاہد اللہ کے فضل سے کلمہ طیبہ یعنی کلمہ شہادۃ کے لئے عظیم قربانی کرنے والے، جہانگیر محمد صاحب جوئیہ کے نانا تھے.ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.جہانگیر محمد صاحب جوئیہ نے درخواست کی ہے ان کے لئے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.پھر ہمارے ایک بڑے مخلص خاندان کے فرد شیخ محمد اقبال صاحب جو شیخ محمد حنیف صاحب کوئٹہ کے بھائی تھے اور شیخ کریم بخش صاحب جو کوئٹہ کی جماعت کے پہلے امیر رہے ہیں اور حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ ان کا بہت ہی عشق کا گہرا تعلق تھا اس لحاظ سے ان کی شخصیت ہمارے بچپن میں ہمارے ذہنوں میں نقش رہی جو خاص فدائی ہوتے تھے ان میں سے تھے وہ اور اسی لئے ان کی اولاد میں بھی یہی جذبہ آگے ورثے میں جاری رہا.دل کا غالبا اچانک حملہ ہوا ہے اور یہ اچانک ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.پھر مرزا انور بیگ صاحب ابن مرزا محمد جمیل بیگ صاحب یہ حضرت مصلح موعودؓ کے ڈرائیور ہوا کرتے تھے ضلع لاہور کے رہنے والے تھے.ہمارے عبدالرزاق منگلا مربی سلسلہ کے خسر بھی تھے ان کی بھی وفات کی اطلاع ملی ہے.ایک محمد سمیع اللہ خان صاحب طالب علم تھے یہ پنڈی بھٹیاں کے پاس بس کے حادثے میں وفات پاگئے.بڑے مخلص اچھے نو جوان تھے ان کا بھی ان کے خاندان کو بہت گہرا صدمہ ہے.ایک ہمارے مبشر احمد صاحب ہیں بچہ ہے چھوٹا طاہر احمد صاحب جرمنی کے ہیں ان کا تقریباً تین سال کا بچہ تالاب میں ڈوب گیا اور باہر بے چارے کی ٹوپی پڑی ہوئی تھی اس سے پولیس نے پھر تالاب سا را خشک کروایا تو اندر سے لاش نکلی.ان سب کے لئے اور ان کے پسماندگان کے لئے بھی دعا کریں اللہ انہیں اپنی رحمت کے سائے میں جگہ دے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.

Page 215

خطبات طاہر جلد ۶ 211 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء محبت الہی ہے تو آنحضور ﷺ کی پیروی کریں یہ محبت میں بڑھا دے گی ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ مارچ ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:.قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ L وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ اور پھر فرمایا: ( آل عمران : ۳۲) گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ تقویٰ کی دو بنیاد میں ہیں ایک اللہ کی محبت اور ایک اللہ کا خوف اور تقویٰ جہاں سے بھی شروع ہو بالآخر اس کی جڑ دوسرے مقام میں بھی گڑھ جاتی ہے.آغاز اس کا محبت الہی سے ہو تو خوف الہی کا پیدا ہونا ایک لازمی اور طبعی نتیجہ ہے اور آغا ز خوف سے ہو تو رفتہ رفتہ خوف محبت میں تبدیل ہونے لگتا ہے لیکن وہ جنہیں اعلیٰ درجہ کا تقو کی نصیب ہوتا ہے ان کا آغاز بھی محبت سے ہی ہوتا ہے اور مسلسل ان کی زندگی میں محبت کا پہلو غالب رہتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی نے تمام بنی نوع انسان میں جو پیدا ہوئے یا کبھی پیدا ہوں گے تقویٰ کے لحاظ سے سب سے بڑھ کر تھے، سب سے بڑھ کر رہیں گے اور اس حیثیت سے آنحضرت ﷺ کی پیروی کرنے کا جو خلاصہ گر ہمیں بتایا گیا ہے وہ محبت کا طریق ہی ہے جس کے.

Page 216

خطبات طاہر جلد ۶ 212 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرنا چاہتے ہوتو اللہ کی محبت کے سوا یہ پیروی ممکن نہیں.یا بصورت دیگر اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کے سوا یہ محبت ممکن نہیں.چنانچہ میں نے جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی ہے قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله اس کے اوپر میں گزشتہ درس میں بھی روشنی ڈال چکا ہوں.اس سے پہلے چند سال قبل ایک خطبہ کا موضوع بھی یہی آیت تھی مگر آج مختصر ااس کا یہ پہلو آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ اس کا مطلب جو بالعموم سامنے آتا ہے وہ تو یہ ہے کہ اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو اس دعوئی میں بچے ہوتو محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرو اور اپنے دعوئی کو سچا کر دکھاؤ.اگر تم پیروی کرنے کی طاقت رکھتے ہو تو پھر تم دعوئی میں بچے ہو اور جو بھی اللہ سے محبت کے دعوی میں سچا ہوتا ہے خدا اس محبت کرنے لگتا ہے يُحببكُمُ الله اس پیروی کے بعد تمہاری محبت سچی ثابت ہوگی اور خدا تم سے محبت کرے گا.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے جو نظروں سے مخفی رہتا ہے اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي محمدمصطفی ﷺ کی پیروی اگر خدا کی محبت کی بنا پر نہ ہو تو بہت ہی مشکل کام ہے.اس لئے اے وہ لو گو جو محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرنا چاہتے ہو اگر خدا سے محبت ہے تو پھر یہ پیروی کرو کیونکہ محد مصطفی اللہ نے تو اللہ کی اطاعت محبت کے ذریعے سے کی تھی اور آپ کی زندگی کے ہر شعبہ پر، ہر لمحے پر خدا کی محبت غالب تھی.اس لئے وہ جو محبت سے نا آشنا ہیں وہ اس کوچے سے واقف نہیں ان کے لئے سنت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی بہت ہی بھاری ہو جائے گی اور یہ امر واقعہ ہے کہ سنت کے جتنے بھی مراحل ہیں وہ محبت کے ذریعے ہی آسان ہوتے ہیں اور محبت ہی کے ذریعے قطع ہوتے ہیں لیکن غالب پہلو اللہ کی محبت ہے.محمد مصطفی ﷺ کی محبت بعد میں پیدا ہوتی ہے اور سنت کا یہ طریق ہمیں سکھا دیا گیا ہے کہ اگر تم نے سنت کو اولیت دے دی اور اس کے نتیجے میں خدا کی محبت ڈھونڈتے رہو تو تمہیں حقیقت میں اول اور آخر کا فرق معلوم نہیں ہے تمہیں ترجیحات معلوم نہیں، آنحضرت ﷺ کی پیروی کی بنیاد اللہ کی محبت سے شروع ہوگی.پیروی کا آغاز اللہ کی محبت سے شروع ہوگا اور یہ پیروی تمہیں محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں بھی مبتلا کر دے گی.جس کا یہ مذہب ہے وہی سچا مذہب ہے، تعليسة

Page 217

خطبات طاہر جلد ۶ 213 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء وہی ہمیشہ زندہ رہنے والے مذہب ہے اور اس میں کوئی رخنہ نہیں.لیکن وہ لوگ جو اس کی حکمت کو نہیں سمجھتے ، وہ قرآن کریم کی اس آیت کو بھی پیغام نہیں سمجھتے ، وہ بعض دفعہ سنت کو اولیت دیتے ہوئے اللہ کی محبت سے دور ہٹنا شروع ہو جاتے ہیں بجائے قریب تر ہونے کے اور یہی محسوس ہوتا ہے کہ ان کے مذہب میں کہ خدا اور خدائی کا مقصد صرف رسول اللہ ﷺ کی پیروی کروانا تھا حالانکہ خدا کی خدائی کا مقصد تو یہ ہے کہ خدا سے محبت کی جائے اور محبت نصیب نہیں ہو سکتی محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کے بغیر.تو حقیقی محبت جو خدا کی محبت کو بھینچتی ہے اس کے لئے ایک ہی رستہ باقی رہ گیا اور وہ سنت محمد مصطفی ا ہے.سنت کے ذریعے خدا کی محبت حاصل کی جائے تو یہ مضمون پھر بہت وسیع ہو جاتا ہے اور خدا کی محبت کا گر سیکھنا ہو تو سنت سے سیکھا جائے.اس پر اگر تفصیلی روشنی ڈالی جائے تو عمریں صرف ہوسکتی ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ کی سنت کا مضمون تو انسانی فطرت پر حاوی ہے.کسی ایک قوم کی عادات پر ، اس کے رجحانات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا بلکہ گہرا فطرت انسانی سے اس کا تعلق ہے.جہاں فطرت انسانی خدا تعالیٰ کے قریب تر ہے وہیں آپ سنت کا مفہوم سمجھ سکتے ہیں، وہیں آپ سنت کے فلسفہ کو پا سکتے ہیں.اس لئے یہ تو ایک اتنا وسیع مضمون ہے جس کا دنیا کی ہر قوم سے تعلق ہے، ہر زمانے کی ہر قوم سے تعلق ہے اور اس کا حق ایک دو خطبوں میں تو کیا انسان ساری زندگی بھی ادا کرنا چاہے تو ادا نہیں کر سکتا.میں نے آپ سے ایک وعدہ کیا تھا کہ کوشش کروں گا کہ رفتہ رفتہ آپ کو یہ سمجھاؤں کہ خدا کی محبت کیسے پیدا ہو سکتی ہے.سنت محمد مصطفی اللہ کے ذکر کے سوا تو چارہ کوئی نہیں ہے ؛ اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن اس مضمون کو سمجھنے کے لئے مختلف دروازے ہمارے لئے کھولے گئے ہیں جن کا آغا ز قرآن کریم سے ہوتا ہے اور آگے اس کا رستہ سنت کے ذریعے ہم پر کھلتا چلا جاتا ہے اور واضح ہوتا چلا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے جو اللہ تعالیٰ کی محبت کے ہمیں راز بتائے اور وہ طریق سمجھایا کہ کس طرح خدا سے محبت پیدا ہوتی ہے.ان رازوں میں سے ایک یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود آنحضرت می کو متعلق کچھ ایسی باتیں کہیں اور اس پیار کے انداز میں کہیں کہ ان کا ذکر جب آنحضرت ﷺ کی زبان سے انسان سنتا ہے تو محبت پیدا کرنے کے لئے کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہتی.اس ذکر کے ساتھ

Page 218

خطبات طاہر جلد ۶ 214 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء ساتھ دل میں محبت پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.اس لئے سنت کا جو ایک پہلو ہے کہ حدیث قدسی سے اس مضمون کو شروع کیا جائے میرے نزدیک یہ سب سے زیادہ مؤثر طریق ہے.قرآن کریم کے ذکر کے بعد آپ حدیث قدسی کی تلاش کریں.حدیث قدسی کے بعد آنحضرت ﷺ کی روز مرہ زندگی میں اس حدیث کو جاری ہوتا دیکھیں تو اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے پیار کا پانا ایک کوشش کے نتیجے میں نہیں ہوگا بلکہ خود روندی کی طرح یہ محبت خود بخود بہتی چلی جائے گی اور انسان کو محسوس بھی نہیں ہوگا کہ کس طرح میں خدا کی محبت پا گیا.ایک جاری سلسلہ بن جاتا ہے خدا کا پیار اور اس سے زیادہ آسان طریق اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے کا اور کوئی نہیں ہے.مثال کے طور پر قرآن کریم کی وہ آیات جن کی میں نے پہلے تلاوت کی تھی گزشتہ خطبے میں ان میں ایک آیت یہ تھی فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِى لَهُمْ مِّنْ قُرَّةٍ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ (السجدہ: ۱۸) کہ کوئی نفس نہیں جانتا کہ خدا کی خاطر رات کو اٹھنے والوں اور بستروں سے الگ ہونے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے کیسی کیسی آنکھوں کی ٹھنڈ کیں پوشیدہ رکھی ہوئی ہیں، چھپا کے رکھی ہوئی ہیں.یہ آیت ایک حیرت انگیز محبت کا مضمون ہے جس کی کوئی مثال دنیا کے عشقیہ مضمون کلام میں آپ کو دکھائی نہیں دے سکتی.وہ لوگ جو راتوں کو خدا کے لئے اٹھتے ہیں تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا بے اختیار خدا کو خوف اور طمع سے پکارتے ہیں.وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدہ : ۱۷) اور جو کچھ تمہارے لئے دیا ہے خدا کے نام پر خدا کو جیتنے کے لئے خرچ کرتے ہیں.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنِ کوئی جان یہ معلوم نہیں کر سکتی.کسی نفس کو یہ توفیق نہیں ہے کہ اندازہ کر سکے کہ ان کے لئے خدا نے کیا کیا آنکھوں کی لذتیں اور دل کی چاہت کے سامان پیدا فرما دیئے ہیں.جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ یہ جزا ہے ان باتوں کی جو وہ کیا کرتے تھے.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو کہ خدا کی خاطر اپنے سارے اعمال کو ڈھالا جائے کہ کوئی اجر ایسا سامنے نہ ہو جسے ہم جنت کہتے ہیں.کوئی اجر ایسا نہ ہو جسے ہم دنیا کی مراد کہتے ہیں بلکہ خالصۂ محبت کی خاطر اللہ کے لئے انسان اٹھے اور محبت کی خاطر اسے یاد کرے اور آخری مقصو د رضائے باری تعالیٰ ہو.اس مضمون کو آنحضرت ﷺ نے مختلف مواقع پر مختلف رنگ میں بیان فرمایا.چنانچہ ایک موقع

Page 219

خطبات طاہر جلد ۶ 215 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء پر حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ نے اللہ کی طرف یہ حدیث ، یہ حکایت منسوب کرتے ہوئے فرمایا:.اللہ تعالیٰ اہل جنت کو کہے گا اے جنت کے رہنے والو!.وہ جواب دیں گے اے ہمارے رب ! ہم حاضر ہیں، تمام سعادتیں تیرے پاس ہیں اور سب بھلائی تیرے قبضہ میں ہے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم خوش ہو؟ جنت میں رہنے والے عرض کریں گے اے ہمارے رب! ہم کیوں نہ خوش ہوں.تو نے ہمیں وہ کچھ دیا جو اپنی مخلوقات میں سے کسی کو نہیں دیا.پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں تمہیں ان نعمتوں سے بہتر نہ دوں؟ جنت والے کہیں گے ان سے بہتر اور کوئی نعمت نہیں ہو سکتی یا ان سے بہتر اور کوئی نعمت بھی ہو سکتی ہے؟ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم پر اپنی رضا نازل کروں گا.یعنی تم سے ہمیشہ کے لئے خوش ہو جاؤں گا اور اس اس کے بعد کبھی بھی تم سے ناراض نہ ہوں گا“.(مسلم کتاب الحیۃ حدیث: ۵۰۵۷) یعنی عام انسان کی جنت تو وہ جنت ہے جس کا ظاہری الفاظ میں ہم سے وعدہ کیا گیا ہے اور اس کی جو بھی شکل ہے وہ بھی پوری طرح ہم پر روشن نہیں.اس میں تو کوئی بھی شک نہیں وہ بھی ہم پر مخفی ہے مگر حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر ہمارے لئے یہ معاملہ ہمیشہ کے لئے کھول دیا کہ خدا کے خالص بندوں کی جنت وہ جنت نہیں ہے جسے عام دنیا کے لوگ دودھ کی نہروں اور شہد والی جنت سمجھتے ہیں بلکہ اس سے پرے سب سے اعلیٰ مرضی مولا کی جنت ہے.اس میں وہ بسنا چاہتے ہیں اور اس جنت میں وہ مرنے کے بعد نہیں بستے بلکہ اس دنیا سے ہی بسنا شروع کر دیتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم جو فرماتا ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِّنْ قُرَّةِ اغین اس کا ایک معنی یہ ہے کہ دوسروں کو خبر نہیں ہو سکتی سوائے خدا سے محبت کرنے والوں کے کہ ان کے لئے اس محبت میں کیسی کیسی لذتیں پوشیدہ ہیں.جیسے دنیا والے کہتے ہیں ظالم تو نے پی ہی نہیں، تجھے کیا پتا ہے کہ شراب کا کیا مزہ ہے فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ سے مراد یہ ہوگی کہ دوسرا شخص جس کو خدا کی محبت کا تجربہ نہیں ہے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں آسکتا کہ وہ کیا لذتیں ہیں جو خدا نے ان کے لئے مخفی کر رکھی ہیں اور لفظ مخفی کرنے میں ایک خاص لطف ہے جیسے ہم انگریزی میں

Page 220

خطبات طاہر جلد ۶ 216 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء Surprise کہتے ہیں.عام طور پر لوگوں کو جن سے پیار ہو ان کے لئے وہ اپنی محبت کے اظہار میں تعجب بھی شامل کرنا چاہتے ہیں اور تعجب کا عصر یعنی Surprise کا جز اگر شامل ہو جائے تو اس سے محبت کرنے والوں کو اور بھی زیادہ لطف آتا ہے اور جس کی خاطر ایک محبت کرنے والے نے ایک اچنبھے کی بات سوچی ہے کہ اچانک میں اس کو بتاؤں گا یا اچانک میں اس کو تحفہ دکھاؤں گا.اس کے لئے بہت زیادہ لطف پیدا ہو جاتا ہے.تو یہ کلام خالصہ ایک محبت سے گہرے رازوں سے واقف ہستی کا کلام تھا اور یہ کلام ایسی ہستی پر نازل ہو رہا تھا جو محبت کے معاملے میں سب سے زیادہ آشنا تھی.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس مخفی پیار کے ہر پہلو کو پایا اور ایک صاحب تجربہ کے طور پر آپ کی زندگی میں یہ تمام لمحات، یہ تمام واقعات، یہ تمام تعجب انگیز پیار کے اظہار اس طرح جاری ہوئے کہ آپ کی زندگی کا ایک جز ولا ینفک بن گئے تھے.ما اُخْفِى لَهُمْ میں ہر قسم کی محبت آجاتی ہے.ایک خاوند کو بیوی سے جو محبت ہے اس کا لطف بھی اس میں آجاتا ہے اور ایک دوست کو دوست سے جو محبت ہے اس کا لطف بھی آجاتا ہے.ایک ماں کو جو بچوں سے پیار ہے اس کا لطف بھی آجاتا ہے کیونکہ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ کا پہلو انسان کی محبت کے ہر پہلو پر جاری ہے.اس کا کوئی بھی آپ تصور باندھیں اس میں، کسی تعلق کا تصور باندھیں اس میں آپ کو مآ أُخْفِى لَهُمُ کا مضمون ضرور نظر آئے گا.انسان یہ چاہتا ہے کہ میں چھپا کر رکھوں.مائیں بعض دفعہ اپنے بچوں کے لئے چیزیں چھپا کر رکھ لیتی ہیں اور بظاہر وہ اس طرح اپنا رویہ رکھتی ہیں کہ گویا کچھ نہیں کھانے کے لئے.پھر اچانک جب وہ نکال کر دکھاتی ہیں کہ یہ ہے تمہارے لئے تو بچے نہال ہو جاتے ہیں، الٹ الٹ کر ماں پر گرتے ہیں کہ آج تو تم نے حد کر دی، کمال ہو گیا ہماری مرضی کی چیز تم نے چھپا کر رکھی ہوئی تھی.دوست دوستوں کے لئے Surprise دیتے ہیں.کتنا حیرت انگیز کلام ہے جو دنیا کی کسی کتاب میں، کسی مذہب میں آپ کو دکھائی نہیں دیتا.آپ تلاش کر کے دیکھ لیں.خدا کہتا ہے کہ میں بندوں کے لئے پیار کے Surprise رکھتا ہوں.زندگی میں ہی اس کے لئے مخفی رکھی ہوتی ہے.قدم قدم پر اس کے پیار کے نمونے اس طرح ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں کہ انسان حیران ہو جاتا ہے اور یہ جو آپ کے تجربوں میں بات آئی ہے یہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت کے طفیل ہے.اس طرف لوگوں کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ قرآن

Page 221

خطبات طاہر جلد ۶ 217 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء صلى الله نے اس مضمون کو سنت سے شروع سے باندھا ہوا ہے.فرمایا خدا محبت نہیں کرے گا جب تک حضرت محمد مصطفی امیے کے پیچھے نہیں چلو گے اور ہم عام طور پر احمد یہ جماعت میں تو بکثرت اس بات کا اظہار دیکھتے ہیں کہ خدا کی خاطر کوئی انسان کوئی فعل کرتا ہے، پیار کا اظہار کرتا ہے، کوئی قربانی پیش کرتا ہے تو خدا اتنے مختلف رنگ میں اس کا جواب اس کو دیتا ہے، اتنے مختلف رنگ میں اپنے پیار کا اظہار اس پر کرتا ہے کہ حیران رہ جاتا ہے کہ میرا تو عمل کچھ بھی نہیں تھا اس کے مقابلے میں خدا نے مجھ سے پیار کیا.یہاں تک تو بات درست ہے لیکن عموماً ذہن اگلا قدم نہیں اٹھا تا کہ مجھے کیوں نصیب ہوا ؟ اس لئے کہ یہ طریق میں نے آنحضرت ﷺ کی پیروی سے سیکھا تھا ، اس لئے کہ آنحضرت ﷺ کی پیروی میں میری ساری زندگی کے اوپر ایک نقش کیا ہوا ہے، اگر وہ نقش نہ ہو تو میں خدا کی محبت کا جلوہ اس حصے میں نہیں پاسکتا اور جہاں جہاں وہ نقش نہیں ہوگا وہاں وہاں میری زندگی ویران ہوگی ، اس میں کوئی حسن نہیں ہوگا اور اس حصے میں زندگی کے اس دور میں گویا ایک سیر کرنے والا ایک ویرانے سے گزر رہا ہے جہاں اس کو نہ کوئی ٹھنڈا سایہ مل سکتا ہے ، نہ کوئی خوبصورت منظر ہے، اس لئے نہ کوئی ستانے کی جگہ ہے، نہ پیاس بجھانے کے لئے ٹھنڈا پانی.ایسے سفر سے طبیعت اکتا جاتی ہے لیکن اگر خیال ہو، اگر وہ شعور بیدار ہو کہ لذت کیا ہے اور میں کیوں سفر کر رہا ہوں.اگر شعور مر چکے ہوں تو بعض دفعہ انسان لمبے سفر کرتا ہے اس کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ میں کیا کر رہا ہوں.وہ ایک بیوقوفی کی حالت میں بے ہوشی کی زندگی بسر کر دیتا ہے.تو آنحضرت ﷺ کی پیروی کا مضمون خدا کی محبت سے باندھ کر قرآن نے عجیب کرشمہ الله دکھایا ہے.ہر دنیا کے مضمون کو آسان کر دیا ہے، ہر نیکی کے سفر کو آسان کر دیا ہے.توحید کی روح ہمیں بتادی ہے ، تو حید خالص کہتے کس کو ہیں اور آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے کا فلسفہ کیا ہے، آپ پر ہم درود کیوں پڑھیں اور کس طرح پڑھیں.ہر پیروی کے بعد جب خدا آپ سے پیار کرے گا تو ہر پیار کے بعد آپ کو اگلا قدم اٹھانا چاہئے.ہر پیار کے بعد بے ساختہ آپ کے دل سے درود اٹھنا چاہئے کہ اے میرے آقا! اے میرے محمد ﷺ! تیری جوتیوں کے غلام ہم جیسے غریب انسانوں کے ساتھ اگر خدا محبت کا اظہار فرما رہا ہے اس لئے کہ ہم نے تیری پیروی کی تھی

Page 222

خطبات طاہر جلد ۶ 218 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء اور خدا سے محبت کا اظہار تیری پیروی سے باندھ دیا گیا ہے.اس کے سوا کوئی بھی صورت نہیں.کس طرح انتشار کے ساتھ پھر تو حید پیدا ہوتی ہے اور کبھی نہ ٹوٹنے والا تو حید کا مضمون انسان کے سامنے امڈتا ہے.محبت کے ذریعے جو تقویٰ نصیب ہوتا ہے اس میں پھر افتراق کوئی نہیں ہوتا.اس میں مضمون کو آگے پیچھے کرنا یا خلط ملط کرنے کا کوئی خطرہ باقی نہیں رہتا.یہ وہم نہیں پیدا ہوسکتا پھر کہ آنحضرت ﷺ کے مقام کو نعوذ باللہ من ذالک خدا کی توحید کے مقابل پر نہ کھڑا کر دیا جائے.ایسی حیرت انگیز آیت ہے كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ کہ اس کی روشنی میں آپ شش جہات میں سفر کر جائیں آپ کے لئے کوئی ٹھو کر نہیں ، کوئی خطرہ نہیں، کوئی خدشہ نہیں.تقویٰ اگر سیکھنا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت ﷺ سے سیکھا جائے گا، قدم قدم آپ کی پیروی سے سیکھا جائے گا لیکن آغاز اس سفر کا خدا کی محبت کے سوا اور ہو نہیں سکتا.پس اس کا ایک دوسرا معنی یہ بھی بن جائے گا کہ ہر سفر کے لئے تم زادراہ لیتے ہوئے میرے پیچھے آنا چاہتے ہوا گر، اگر میرے پیچھے چلنا چاہتے تو میں انہیں کو بلاؤں گا جو خدا کی محبت کا زادراہ لے کر میرے پیچھے چلتے ہیں.ورنہ میرا سفر ایسا وسیع ہے، ایسے راستوں سے گزرتا ہے کہ اس ذات کے سوا کوئی ذات تمہارے کام نہیں آسکتی.چند دن میں تم فاقے سے مر جاؤ گے، میرے ساتھ نہیں چل سکو گے.ہاں خدا کی محبت کا مضمون لے کر چلتے ہو تو پھر ہر قدم ، ہر وادی میں تمہارا سفر آسان ہوتا چلا جائے گا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی پیروی اور خدا کی محبت کے نتیجہ میں آپ کی پیروی یہ مضمون ایک تاریخ بن چکا تھا اور اس تاریخ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوبارہ زندہ کر کے دکھایا.ایک ایسے دور میں جو دہریت کا دور ہے ، جو مادہ پرستی کا دور ہے جب کئی قسم کے تو ہمات ہمارے دل میں پیدا ہوتے ہیں کہ خدا جانے چودہ سو سال پہلے کی باتیں ہیں تھیں بھی کہ نہیں تھیں، روایتیں غلط تو نہیں تھیں.ان سارے شکوک کو حضرت رسول اکرم ﷺ کے کامل غلام نے اس دور میں اپنی عملی زندگی کا نمونہ پیش کر کے ہمیشہ کے لئے دور کر دیا اور وہ خدا جو آنحضرت ﷺ پر ظاہر ہوا تھا آپ کی سنت کی برکت سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی ظاہر ہوا اور وہی ادا ئیں تھیں ، وہی پیار کی باتیں ، وہی مضمون اس میں کوئی فرق نہیں.

Page 223

خطبات طاہر جلد ۶ 219 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے.(حوالہ کیسی حیرت انگیز بات ہے، کتنی پیار کی بات ہے اور کوئی شخص جسے تجربہ نہ ہو ایسی بات نہیں کر سکتا.جس نے خدا کو عقلی دلیلوں سے سیکھا ہو یا خدا کا تصور عقلی دلیلوں کے ذریعہ باندھا ہو اس کے منہ سے یہ فقرہ جاری ہو ہی نہیں سکتا اس لئے لازماً یہ خدا کا کلام ہے، وہ سچا ہے جس پر یہ کلام جاری ہوا.تقویٰ ایک ایسا درخت ہے جس کو دل میں لگانا چاہئے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تقویٰ کا مضمون بھی محبت الہی سے تعلق رکھتا ہے.محبت الہی کی بنا تھی جس کی وجہ سے آپ نے سنت کی پیروی کی اور اس سنت کی پیروی کے نتیجے میں ہر قدم پر آپ کو خدا کی محبت نصیب ہوئی اور آپ کا آخری مقصد خدا سے پیار کا اس کی مرضی تھی.ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ خدا سے میری محبت اتنی شدید ہے، اتنی گہری محبت ہے کہ اگر خدا کی ساری جنتیں، ساری نعمتیں ، خدا کی ساری نعمتیں ایک طرف ہوں اور خدا کی محبت کے لئے جہنم میں جانا پڑے تو میں جہنم قبول کرلوں گا اپنے لئے اور ان نعمتوں کے منہ پر تھوکوں گا بھی نہیں.یہ کلام ایک ایسے شخص کی زبان سے جاری ہوسکتا ہے جو خدا کی رضا کے لئے اچھل رہا ہو روز مرہ اور آئندہ کا منتظر نہیں ہو ، جو ان چیزوں میں سے گزررہا ہو ، جوان لذتوں سے آشنا نہیں اس کے منہ سے تو یہ فقرہ جاری ہو ہی نہیں سکتا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے کلام میں جس میں سے چند اشعار میں نے پہلے بھی پیش کئے تھے آج ان میں سے ایک حصہ پھر پیش کرتا ہوں.اس بات کو خوب کھول کر بیان فرمایا ہے.کہتے ہیں :.خدا سے وہی لوگ کرتے ہیں پیار جو سب کچھ ہی کرتے ہیں اس پر شار اسی فکر میں رہتے ہیں روز و شب که راضی وہ دلدار ہوتا ہے کب ( در مشین صفحه : ۱۵) پس خدا کی رضا کے لئے وہ سب کچھ کرتے ہیں اور خدا کی رضا کی جنت ہی ہے جس کے

Page 224

خطبات طاہر جلد ۶ 220 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء لئے ہمیشہ طالب رہتے ہیں اور یہ عشق کے بغیر مکن نہیں.عاشق سے ایسی حرکتیں سرزد ہوسکتی ہیں لیکن دوسرے شخص سے کبھی ایسا نہیں ہوسکتا اور حقیقت یہ ہے کہ ہماری روزمرہ کی زندگی میں ایسے مشاہدات ہوتے رہتے ہیں جن کے نتیجے میں ہم خود یہ جان سکتے ہیں، تجربہ سے یہ پہچان سکتے ہیں کہ اصل راز رضا اور پیار میں ہی ہے نعمتوں میں نہیں ہے.چنانچہ آپ میں سے بہتوں کو یہ تجربہ ہوگا کسی کے لئے کوئی بچے کے لئے مثلاً ماں باپ میں سے کوئی تحفہ لے کر آتا ہے.بعض بچے ایسے ہوتے ہیں خواہ اپنے کسی کے ان کی زیادہ نظر تحفہ پر ہوتی ہے اور بعض بچے ایسے ہوتے ہیں جو تحفے کو ایک طرف پھینک دیتے ہیں.پہلے جب تک اپنے پیار کا چسکا پورا نہ کر لیں، پہلے گلے سے چمٹ نہ جائیں، گودی میں کچھ دیر نہ چڑھ بیٹھیں اس وقت تک وہ تحفہ ان کے لئے ایک ثانوی حیثیت رکھتا ہے.تحفہ دینے والا جتنا ایسے بچے کی قدر کر سکتا ہے اس کا دسواں حصہ بھی قدر دوسرے بچے کے لئے پیدا نہیں ہو سکتی جس کا تعلق تحفے کی وساطت سے ہوتا ہے اور ہمیشہ تحفے کی وساطت سے رہتا ہے.خدا کی نعمتیں ایک تحفہ ہیں اور ان نعمتوں پر آپ جتنا غور کریں آپ کو خدا سے پیار ہوتا چلا جائے گا مگر عارف باللہ جانتے ہیں اور انہوں نے ہمیں یہ مضمون سکھایا کہ یہ تحفے رستے ہیں آخری منزل نہیں یا رستے کی عارضی منازل ہیں، وقفے ہیں.ان کے ذریعے آگے بڑھنے کی تمنا پیدا ہونی چاہئے لیکن مقصود بالذات نہیں ہیں.ٹھہر رہنے کی جگہ نہیں ہے.اس لئے وہ لوگ جو خدا تعالیٰ کی محبت میں آگے سفر کرتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد گوان کو خدا کی نعمتوں کے ذریعے ہی خدا سے پیار پیدا ہوتا ہے لیکن نعمتیں بے معنی اور بے حقیقت دکھائی دینے لگتی ہیں اس پیار کے مقابل پر اور پھر وہ ساری نعمتیں خدا کے پیار کی خاطر لٹا دینے کو دل چاہنے لگتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے اس آیت میں کھول کر بیان فرمایا:.وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَالله رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ (بقره: ۲۰۸) کہ دیکھو ! خدا کے بندوں میں سے بعض ایسے بھی ہیں مَنْ يَشْرِكْ نَفْسَهُ اپنی جان لٹا

Page 225

خطبات طاہر جلد ۶ 221 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء بیٹھتے ہیں جو ابتغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ ان تمناؤں، ان امیدوں میں کہ کاش! ہمیں خدا کی رضا کی جھلکیاں نصیب ہو جا ئیں.اس مضمون کے اول مخاطب حضرت اقدس محمد مصطفی ملتے تھے.بعض دفعہ جس طرح آپ کے لئے خدا کے پیار کی جنتیں مخفی تھیں آپ کا ذکر بھی بعض دفعہ خدا اخفا سے کرتا تھا.یہ بھی پیار کا خاص اظہار ہے اور آپ کے لئے جو مخفی جنتیں تھیں ان میں ایک یہ بھی تھی.جب اس آیت سے گزرتے ہوئے بے انتہا عشق اچھلتا ہوگا اللہ کا دل میں کہ میرے مولا نے میرا کتنے پیار سے ذکر فرمایا، میرے متعلق یہ کہا اور یہ ہو سکتا ہے کہ رسول اکرم ﷺ کو یہ علم نہ ہو کہ آپ کے متعلق یہ کہا گیا وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ ایسے ایسے بندے بھی ہیں میرے، اس شان کے بندے ہیں کہ جو میری مرضی کی خاطر اپنا سب کچھ بیچ ڈالتے ہیں.نفس کو بیچ ڈالنے کا مطلب یہ ہے کوئی تمنا باقی نہیں رکھی.نہ نعمت سے کوئی دلچسپی ہے نہ آرام سے کوئی تعلق.کوئی بھی خواہش نفس ایسی نہیں جو اپنے لئے وہ رکھ چھوڑیں.وہ کہتے ہیں ہمیں تو مرضی مولا کی عادت پڑ گئی ہے.اے مرضی مولا! تیری تمنا میں جیتے ہیں تو اپنی جھلکیاں دکھاتا چلا جا اور ہم اپنا سب کچھ تجھ پر فدا کرتے چلے جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جو کچھ پایا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت سے پایا اور جب ہم پڑھتے ہیں قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ الله تو اس مضمون کو سمجھنے کے لئے اس قسم کی آیتیں بھی تلاش کرنی چاہئیں جو اس مضمون کو کھولتی چلی جائیں گی اور قرآن کریم اس مضمون کے اظہار سے بھرا پڑا ہے.اس کثرت سے قرآن کریم میں ایسی آیتیں پھیلی ہوئی ہیں جو اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللہ کی تشریح کر رہی ہوں اور آنحضرت ﷺ اور بعض دوسرے انبیاء کے ذکر سے بھری ہوئی ہیں.جن میں یہی مضمون بھرا ہوا ہے کہ اگر آپ اور ان پر غور کریں تو آپ کو ہر روز خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک تازہ رزق عطا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیروی کے ذریعہ ہی خدا سے اپنی محبت کا اظہار کیا اور اپنے خدا سے عشق کو آنحضرت ﷺ کی سنت میں ڈھال کر اس عشق کا سچا ہونا ثابت کر دیا.اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے آپ کے لئے جولز میں مخفی رکھی تھیں اپنے ذکر میں اور اپنے پیار میں اس کا اظہار آپ نے بار ہا نظم میں بھی کہا نثر میں بھی فرمایا.چنانچہ کشتی نوح

Page 226

خطبات طاہر جلد ۶ 222 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء کی یہ عبارت جو بارہا آپ کے سامنے پڑھی گئی ہے ایسی بے اختیار پیار اور بے ساختہ عشق کے اظہار پر مبنی ہے جو خالصہ سچائی کے سرچشمے سے پھوٹتا ہے.اس کا کوئی بھی تعلق تصنع سے نہیں ہوتا.فرمایا:.”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کوئی غیر اللہ سے محبت کرنے والا ، کوئی دنیا سے پیار کرنے والا یہ فقرہ کہ ہی نہیں سکتا.کسی ملاں کے دماغ کے کونہ میں بھی یہ بات نہیں آسکتی کہ ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.فرماتے ہیں: ”ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا رہے ہیں.اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملئے.مَنْ تَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وہی مضمون ہے جو بیان فرما وو یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجو دکھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ یہ تمہیں سیراب کرے گا، یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشہری کو دلوں میں بٹھا دوں.کس دف سے بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا کہ سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه : ۲۱-۲۲) یہ جتنی بھی منازل ہیں اللہ کی محبت اور اس محبت کا اظہار سنت کے ذریعہ.یہ خدا کی عطا کردہ توفیق کے سوانسان طے نہیں کر سکتا اور یہ مضمون بھی انہیں حضرت محمد مصطفی نے ہی سمجھایا اور یہ جو پہلا قدم اٹھانا ہے وہ کیسے اٹھے.باقی قدم پہلے کی برکت سے خود ہی اٹھنے لگتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یہ پہلا قدم کونسا ہے جب اچانک دل میں خدا کی محبت کا شعلہ اس طرح پیدا ہو کہ پھر اس کی پھلجھڑی کی طرح روشنیوں کا سلسلہ پھوٹ پڑے.یہ جو مشکل ہے اس کو آسان کرنے کے لئے ت ﷺ فرماتے ہیں کہ حضرت داؤد علیہ السلام یہی دعا مانگا کرتے تھے.

Page 227

خطبات طاہر جلد ۶ 223 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء ”اے میرے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور ان لوگوں کی محبت جو تجھ سے پیار کرتے ہیں اور اس کام کی محبت جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.اے میرے خدا! ایسا کر کہ تیری محبت مجھے اپنی جان، اپنے اہل وعیال اور ٹھنڈے شیریں پانی سے بھی زیادہ پیاری اور اچھی لگنے لگے.“ وہ دعا جہاں تک ممکن ہے ہر احمدی بڑے اور بچے کو یاد کرنی چاہئے.مجھے یاد ہے قادیان میں ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے یہ دعا یاد کرنے کی تلقین بھی فرمائی اور پھر آہستہ آہستہ پڑھ کر سنائی تا کہ یاد کر لیں اور بعد میں پھر باقاعدہ جماعت کی طرف مختلف قطعات کی شکل میں چھپوا کر ہر جگہ دکانوں میں ، گھروں میں آویزاں ہونے لگی.یہ چونکہ بہت ہی اہم اور بنیادی دعا ہے اس لئے ساری دنیا میں جماعت کو کوشش کرنی چاہئے اپنے انتظام کے تابع کہ یہ دعا سب کو یاد کر وادی جائے اللهم انی اسئلک حبک و حب من يحبك و العمل الذي يبلغني حبك اللهم اجعل حبك احب الي من نفسى و اهلى ومن الماء البارد ( ترندی کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۴۱۲) ترجمہ اس کا میں پہلے سنا چکا ہوں بعض جگہ بعض روایتوں میں یہ دعا نسبتاً چھوٹی ہے.ترمذی کتاب الدعوات میں درج ہے.اس دعا میں کچھ اور باتیں بھی ہیں جو انسان کی نظر سے بالعموم میں نے دیکھا ہے کہ اوجھل ہو جاتی ہیں.حالانکہ جو شخص محمد مصطفی ﷺ سے پیار کرتا ہو اس کی نظر سے اوجھل نہیں ہونی چاہئیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دعا کا آغاز کیسے ہوا؟ کیا نعوذ باللہ آنحضرت میہ کا خدا اس لئے خبر دے رہا تھا کہ آپ کو پتا نہیں تھا کہ خدا کی محبت کیسے حاصل کی جاتی ہے اور کیا نعوذ باللہ حضرت داؤد کی مثال دے رہا تھا کہ داؤد سے سیکھو اگر مجھ سے محبت کرنا سیکھنا ہے.یہ تو بالکل لغو خیال ہے.اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.تو قرآن شریف اس مضمون کو بڑی شدت سے ٹھکرا تا ہے.آنحضرت ﷺ اللہ تعالیٰ سے عشق کے مقام میں اتنی بلند و بالا اور ارفع مقام پر فائز تھے کہ آپ کے اس مقام کو ساتویں آسمان سے بھی آگے گزر جانے والا دکھایا گیا ہے اور مختلف انبیاء کو جو مختلف آسمانوں پر دکھایا گیا ہے یہ بتایا گیا ہے کہ ان کو خدا کا عرفان یہاں تک تھا، ان کا خدا کی محبت کا تصور یہاں تک تھا، وغیرہ وغیرہ.ظاہری طور پر کوئی ایسے آسمان نہیں ہیں جن کو دکھایا گیا ہو.آنحضرت ہی ہے

Page 228

خطبات طاہر جلد ۶ 224 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء کے معراج میں.یہی مضمون تھا کہ خدا کی محبت اور خدا کے عرفان میں کونسا نبی قریب تر ہوا.تو اس مضمون کے سامنے اس حدیث کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ خدا تعالیٰ رسول الله الله تربیت کر رہا تھا.یہ تو بالکل عقل میں پڑنے والی بات نہیں.اس لئے بھی یہ مضمون رسول کریم اللہ کے متعلق بیان نہیں ہو سکتا کہ آپ اپنی امت کو بتائیں کہ اس معاملہ میں آپ کی نہیں بلکہ حضرت داؤڈ کی پیروی کریں.یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ جس کی سنت کامل ہواس کی پیروی کو چھوڑ کر ایک پرانے نبی کا ذکر کر کے کہ اس کی پیروی کرو.یہ نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے.اس حدیث کے مضمون کو سمجھنے کے لئے محبت کا عرفان ہونا ضروری ہے.اس کے بغیر یہ حدیث سمجھ نہیں آسکتی.ایک شخص جو اپنی محبت میں بڑھ جاتا ہے بسا اوقات اس کی اپنی محبوب سے گفتگو اس طرح ہوتی ہے کہ میرے سوا تو نے کس سے پیار کیا ہے اس کی باتیں بھی مجھے بتا! میرے سوا کس نے تجھ سے پیار کیا مجھے اس کے قصے بھی سنا اور یہ ذکر بھی بہت پیارے مخفی طریق پر ایک عاشق اور محبوب کے درمیان چلتارہتا تھا.کبھی شکوے کا رنگ اختیار کر لیتا ہے کبھی اس طمانیت کا رنگ اختیار کر لیتا ہے کہ ہاں مجھ سے بڑھ کر اس نے کبھی کسی سے پیار نہیں کیا.یقیناً آنحضرت ﷺ سے خدا الله تعالیٰ نے ان واقعات کا اظہار جو گزشتہ انبیاء سے خدا کے پیار کے واقعات ہیں اسی رنگ میں فرمایا اور کوئی اس کا مطلب نہیں تھا.آنحضرت ﷺ کے سامنے جب یہ مضمون پیش ہوا ہوگا تو کوئی نئی بات معلوم نہیں ہوئی.یہ ہوا معلوم ہوا کہ داؤد علیہ السلام نے بھی منتیں کر کے خدا سے محبت مانگی تھی اور جو بھی خدا سے محبت مانگتا ہے ہر انسان کو اللہ تعالیٰ محبت عطا کر دیتا ہے.مگر یہ مراد نہیں ہے کہ اس محبت کا مقام گویا کہ آنحضرت ﷺ کی سے محبت کرنے سے افضل تھا.لیکن جو باتوں کا رنگ ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بہت ہی پیار صل الله کے ایسے قصے چلتے رہے.آنحضرت ﷺ اور اللہ کے درمیان جن کی بسا اوقات محض اشارہ جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں اور وہ بھی مخفی چل رہے ہیں.چنانچہ اس لحاظ سے میں نے بسا اوقات احادیث پر غور کیا ہے تو حیران رہ گیا کہ بہت سی حدیثیں جن کے مضمون کو ہم دوسروں پر چسپاں ہوتا ہوا سمجھتے ہیں دراصل مخفی طور پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کا مضمون ہی تھیں اور آنحضرت ﷺ میں اس قدر انکساری تھی اور اتنی حیا تھی کہ بعض دفعہ ایسے مضمون کا ذکر کرتے ہوئے جس کا آپ کی ذات سے تعلق

Page 229

خطبات طاہر جلد ۶ 225 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء ہوتا تھا حیا کی وجہ سے کہ میری محبت ظاہر نہ ہو جائے کہیں کھل نہ جائے سب کے سامنے یہ ذکر فر ما دیا کرتے تھے کہ خدا کے ایک بندے نے ایسا کیا، خدا کے ایک بندے سے خدا نے ایسے بات کی اور بعض دفعہ ملتی جلتی باتیں دوسرے انبیاء کی بیان فرما دیا کرتے تھے.تو جب خدا کہتا ہے قُلْ اِن كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ تو اس دعوے یا اس کلام میں جو آنحضرت ﷺ کی زبانی ہمیں موصول ہوا ایک ذرہ بھی مبالغہ نہیں ہے.ہرگز اس میں کوئی تحدی نہیں ہے، کوئی زبردستی نہیں ہم پر یہ کوئی ایسا دعوی نہیں کہ بس میں نے نہیں تم سے پیار کرنا جب تک تم محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے نہ چلو.اس یقین کا ذرہ ذرہ سچا ہے اور کہیں سے نصیب ہو نہیں سکتا خدا کے پیار کا طریق سیکھنا کسی در سے یہ سے نہیں بٹتی جومحمد مصطفی مے کے در سے بٹتی ہے.سارے پیمانے خشک ہو گئے ہیں.اگر کسی نے خدا سے بچے پیار کا طریق سیکھنا ہے تو سوائے اس کے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرے اور تلاش کرے، باریک نظر سے دیکھے کہ کس طرح آپ خدا سے پیار کیا کرتے تھے اور کس طرح آپ کے پیار کے راز و نیاز ہوا کرتے تھے.آپ کے اور اللہ کے درمیان اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے اختیار میں تم سے محبت کرنے لگوں گا.يُحببكُمُ الله اس کے درمیان کوئی صلہ نہیں رکھا، کوئی اور لفظ نہیں رکھا.شرط یہ بیان فرما دی کہ اگر تم محبت کرتے ہو تو محمد رسول اللہ ﷺ کے پیچھے چلو.جہاں جہاں آپ گئے ہیں وہاں وہاں میں ہوں اور اس طرح ملے گا کہ میں تمہیں پیار سے دیکھ رہا ہوں.اس لئے یہ مضمون کامل بھی ہو گیا ہے اور بہت بھی ہے اور بہت مختصر بھی اور آسان بھی.آنحضرت ﷺ کی پیروی کے ذریعے خدا تعالیٰ کی محبت کا اظہار انسان کرنا شروع کر دے اور آپ سے محبت کرنے کے طریقے سیکھ لے تو جو دل میں خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک رشتہ قائم ہوتا ہے، اس کا نام تقویٰ ہے اور تقویٰ اپنی ذات میں ایک ایسا مضمون ہے جو آپ کی زندگی میں ہر شعبے پر حاوی ہوگا اور ہر شعبے میں ایک تبدیلی پیدا کر کے دکھا دے گا.تقویٰ کے بغیر سیرت میں تبدیلی ممکن نہیں اور محمد مصطفی ﷺ کی پیروی جو خدا کی محبت پر مبنی ہو اس کے بغیر تقوی نصیب نہیں ہو سکتا.اس بات کو میں پھر دہراتا ہوں وہ پیروی جو خدا کی محبت پر مبنی نہ ہو اس کے بغیر تقویٰ نصیب نہیں ہوتا.ورنہ لاکھوں کروڑوں آپ کو ایسے ملیں گے جو آنکھیں بند کر کے بظاہر پیروی کر رہے ہیں ، مولود شریف منارہے ہیں اور بہت سی حرکتیں کر رہے ہیں لیکن چونکہ اس سفر کا

Page 230

خطبات طاہر جلد ۶ 226 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء آغاز اللہ کی محبت سے نہیں کرتے اس لئے وہ پیروی خالی رہتی ہے.اس کے کوئی بھی معنی نہیں ہوتے.اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجے میں آنحضرت ﷺ کی پیروی کریں تو اس سے آپ کے دل میں تقویٰ پیدا ہو گا اور اس کے نتیجے میں آپ کے دل میں ایک مستقل حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہوں گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو خوب کھول کر اپنی کتب میں مختلف پیراؤں میں بیان فرمایا ہے.تقویٰ کے نتیجے میں انسان کو عقل کیسے حاصل ہوتی ہے؟ تقویٰ اور عقل دراصل ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں.اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ سَيَّاتِكُمْ (الانفال:۳۰) وَيَجْعَلْ لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه (الحديد: ۲۹) قرآن کریم کی اس آیت میں.اللہ فرماتا ہے: ”اے ایمان والو اگر تم متقی ہونے پر ثابت قدم رہو اور اللہ تعالیٰ کے لئے اتقاء کی صفت میں قیام اور استحکام اختیار کرو تو اللہ تعالیٰ تم میں اور غیروں میں فرق رکھ دے گا.یعنی تقوی اگر دل میں ہو اور جس طرح تقویٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا اور بیان فرمایا ہے تو ہو نہیں سکتا کی ایک احمدی اور ایک غیر مذہب والے میں فرق نظر نہ آئے.یہ وہ بنیادی چیز ہے جو ہمارے لئے ہمیشہ کسوٹی کا کام دیتی رہے گی اور اس کسوٹی پر ہمیں اپنے آپ کو پرکھنا پڑے گا.زندگی کے کسی شعبے سے ایک احمدی کا تعلق ہو اس کے دل میں تقویٰ اللہ تعالیٰ نے ڈالا ہے اور اس کا عمل تقویٰ پر مبنی ہے تو قرآن کریم کے اس بیان کے مطابق جس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمائی.يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا تم میں اور تمہارے غیروں میں اک فرق رکھ دے گا.یہ بھی بڑا دلچسپ مضمون ہے یہ نہیں فرمایا کہ تم فرق پیدا کرو گے.فرق پیدا کر دے گا بھی

Page 231

خطبات طاہر جلد ۶ نہیں فرمایا، فرق رکھ دے گا.227 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء یہ بہت ہی عظیم کلام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصاحت اور بلاغت کا فرمایا یہ ایک موقع ہے.فرماتے ہیں یہ جو تقویٰ ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوتا ہے.تقویٰ کا پھل بھی خدا کی طرف سے ملتا ہے اور جو انسان فرق کر کے دکھانا چاہتا ہے اس کے لئے ایک کوشش درکار ہوتی ہے.لیکن یہاں بچے تقویٰ کے نتیجے میں پھل کے طور پر آسمان سے یہ فرق ظاہر ہوتا ہے.گویا خدا اس شخصیت میں سجا رہا ہے، رکھ رہا ہے چیزیں کہ یہاں میں یہ فرق رکھ رہا ہوں اور جو فرق خدا رکھتا ہے اس فرق میں اور انسان کی کوشش سے پیدا کئے ہوئے فرق میں زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.خدا کا رکھا ہوا فرق بالکل اور چیز ہے.اس کی کیفیت ہی اور ہے.اس کی کوئی تشبیہ آپ دے نہیں سکتے دنیا میں کسی اور چیز سے.ایک خلق ہے جو انسان اپنی کوشش سے بناتا ہے اور ایسا خلق آپ کو دنیا کی ہر تہذیب میں دکھائی دے گا.وہ بھی ایک فرق ہوتا ہے.غیر اخلاقی قوموں کی نسبت اخلاق یافتہ قومیں زیادہ بہتر ہوتی ہیں.وہ جو اخلاق باختہ قومیں ہیں ان میں اور اخلاق یافتہ قوموں میں ایک ایسا فرق ہے جو ہر ایک آدمی کو دکھائی دیتا ہے.مگر یہ جو فرق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرما رہے ہیں وہ خدا رکھتا ہے.ان اخلاق یافتہ قوموں میں یہ لوگ بالکل ممتاز دکھائی دیتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے تقویٰ کے نتیجے میں ایک اخلاقی برتری عطا فرمائی ہے.ان کے مقابل پر جیسے زمین کو آسمان سے کوئی نسبت نہیں یعنی دنیا والوں کے اخلاق سے یعنی خدا سے اخلاق پانے والوں کی کوئی نسبت نہیں رہتی.پھر فرق کیا ہے؟ وہ عقل کل ہے جس کو آپ اخلاق کہہ لیں یا نور کہ لیں یا تقویٰ کا عملی اظہار کہہ لیں جو نام بھی آپ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کی روشنی میں تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.یہ فرق ہے کہ تم کو ایک نور دیا جائے گا جس نور کے ساتھ تم اپنی تمام راہوں میں چلو گے یعنی وہ نور تمہارے تمام افعال اور اقوال اور قومی اور حواس میں آجائے گا اور تمہاری عقل میں بھی نور ہوگا اور تمہاری ایک اٹکل کی بات میں بھی نور ہوگا.“ یہ بات ہے کہ انکل کی بات میں بھی نور ہو گا.ہر صاحب فہم جانتا ہے کہ یہ بات سوائے

Page 232

خطبات طاہر جلد ۶ 228 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء ایک صاحب تجربہ کے اور کوئی بیان نہیں کر سکتا.بسا اوقات صحابہ کی روایات میں یہ بات پڑھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بات کہی اور خدا نے اسی طرح پوری کر دی اور یہ بات حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیشگوئی کے مطابق تھی.اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے بعض غلاموں کے متعلق یہ خبر دی تھی کہ اگر وہ خدا پر قسم بھی کھالیں تو خدا ان کے پیار کی وجہ سے ان قسموں کو پورا کر دے گا.حالانکہ خدا کی طرف سے ان کو خبر نہیں دی گئی.تو جو وعدہ دیا گیا تھا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو جس کی بنیاد قرآن کی اس آیت میں ہے:.يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانًا اور پھر فرمایا وَ يَجْعَل لَّكُمْ نُورًا تَمْشُونَ بِه اور تمہارے لئے ایک نور پیدا کرے گا جس کے ذریعے تم چلو گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ نور ایسا کامل ہوتا ہے کہ انکل سے بھی بات کرے کوئی آدمی تو خدا اسے کچی کر کے دکھاتا ہے.فرماتے ہیں:.تمہاری آنکھوں میں بھی نور ہو گا اور تمہارے کانوں اور تمہاری زبانوں اور تمہارے بیانوں اور تمہاری ہر ایک حرکت اور سکون میں نو ر ہو گا.یہ وہ نور ہے جس کا دنیاوی کوشش سے کمائے ہوئے اخلاق کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.دنیا جس کو نور بجھتی ہے اس کا تو آنکھوں سے تعلق ہے یا بصیرت سے کوئی تعلق ہے لیکن کا نوں میں نور کیسے ہو سکتا ہے دنیا کے تصور میں یہ بات آہی نہیں سکتی.حرکت میں کیسے نور ہو سکتا ہے یا سکون میں کیسے نور ہو سکتا ہے اور زبانوں اور بیانوں میں کیسے نور ہوسکتا ہے لیکن صاحب تجر بہ جانتا ہے کہ تقویٰ کے نتیجے میں جو اللہ تعالیٰ نور عطا فرماتا ہے وہ زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہو جاتا ہے.اس میں ایک چمک آجاتی ہے اور دنیا بھی اس فرق کو دیکھنےلگتی ہے.یہ ایسا فرق نہیں ہوتا جو انسان کے اندر ہی صرف محسوس ہوتا ہو.یہ فرق ہر جگہ ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے.پھر فرماتے ہیں:.جن راہوں پر تم چلو گے وہ راہ نورانی ہو جائیں گی“.یعنی رستوں پر اپنا نور چھوڑتے چلے جاؤ گے.جس طرح ایک کیمیاوی روشنی سے منور ہونے والی چیزیں بسا اوقات جن جگہوں پر چلتی ہیں وہاں کیمیاوی مادے کا کچھ نہ کچھ اثر پیچھے چھوڑتی

Page 233

خطبات طاہر جلد ۶ 229 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء چلی جاتی ہیں اور کچھ عرصہ تک وہ رستہ چمکتا رہتا ہے.یہ مشاہدہ جو لوگ جانتے ہیں اس قسم کی کیمیاوی چیزوں کو جن کے اندر خدا نے چمکنے کا مادہ رکھا بھی ہوا ہے وہ کرتے بھی ہیں اور تماشے کے طور پر دکھا بھی سکتے ہیں.وہ لیکر جہاں جہاں سے گزرے گی وہ چیز ایک لکیر چھوڑتی چلی جائے گی جو چمکتی رہتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں خدا نے تقویٰ کے اندر جو نور رکھا ہے اس میں بھی یہی کیفیت ہے.جن را ہوں سے یہ لوگ گزرتے ہیں ان راہوں کو چمکا دیتے ہیں.غرض جتنی بھی تمہاری راہیں ہیں تمہارے قویٰ کی راہیں ہیں تمہارے حواس کی راہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور ہو کر چلو گے“.آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵، صفحہ: ۱۷۸-۱۷۷) لطف کی بات یہ ہے کہ ان راہوں کی تشریح فرمائی یہ گلیاں جوظاہر کی گلیاں مراد نہیں ہیں کیونکہ جس نور کی بات ہورہی ہے اس کا ان ظاہری جگہوں سے تعلق نہیں.جتنی راہیں تمہاری راہیں، تمہارے قویٰ کی راہیں تمہارے حواس کی راہیں ہیں وہ سب نور سے بھر جائیں گی اور تم سراپا نور میں ہی چلو گے.یہ مضمون بہت ہی وسیع اور بہت دلچسپ اور بڑا ہے.میں نے نمونے کے طور پر ایک آدھ بات آپ کے سامنے رکھی ہے.مگر خلاصہ یہی ہے کہ محبت ہے تو آنحضرت ﷺ کی پیروی کرو اور ثابت کرو کہ تمہیں محبت ہے.محبت ہے تو آنحضرت ﷺ کی پیروی اس محبت کو اتنا بڑھا دے گی اور اتنا چپکا دے گی کہ اس پیروی کے نتیجے میں خدا تم سے محبت کرنے لگے گا اور پھر تمہارا دل یقین سے بھر جائے گا کہ تمہاری محبت سچی ہے اور اس رستے میں سفر کے دوران تمہیں نور نصیب ہو گا، تمہیں تقومی عطا ہو گا، تمہیں عقل کل معلوم ہوگی تمہیں معلوم ہوگا کہ یہ عقل کل جس کا قصہ سنا کرتے تھے وہ کیا ہے.کس طرح ہر بات انسان کی درست ہو سکتی ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کی محبت سے روشنی حاصل کرے.اب چونکہ وقت زیادہ ہو گیا ہے اس مضمون کا ایک اور حصہ رہتا تھا جو میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.چونکہ جماعت کے سامنے اس مضمون پر غور کرتے ہوئے ایک پروگرام رکھنے کی طرف میرا دل مائل ہوا جو میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تصرف ہے وہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں جب اس مضمون کو کچھ اور آگے بڑھاؤں گا تو آپ کو بتاؤں گا کہ ایک بہت ہی خدا تعالیٰ نے روشن

Page 234

خطبات طاہر جلد ۶ 230 خطبہ جمعہ ۲۷ / مارچ ۱۹۸۷ء رستہ میرے لئے کھولا یہ بھی اس بات کے ثبوت کے طور پر ہے کہ اللہ تعالیٰ نور عطا فرماتا ہے اور راہیں روشن کرتا ہے اور یہ انشاء اللہ ایسے رستہ ہیں جن کے نتیجے میں دور دور تک اللہ تعالیٰ آپ کے لئے ، آپ کی اولادوں کی راہیں بھی روشن کرتا چلا جائے گا اور امید ہے آئندہ خطبہ میں میں اس مضمون کو انشاء اللہ کھول کر بیان کروں گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج جمعہ کے بعد کچھ جنازے ہوں گے جن میں سب سے پہلے تو سیرالیون سے ایک افسوسناک خبر آئی ہے کہ ہمارے وہاں کہ ایک پرانے اور مخلص احمدی جو جماعت کے فدائی تھے : الحاج ی کمارا صاحب وہ وفات پاگئے ہیں.ان کی نماز جنازہ غائب کی درخواست کی گئی ہے.دوسرے ہمارے ایک مبلغ ہیں ماریشیس کے ، مکرم رفیق احمد صاحب جاویدان کے بھائی کا جنازہ ہم نے پڑھا تھا جو اچانک امریکہ میں حادثے میں وفات پاگئے تھے.ان کے والد صاحب بھی تھوڑے عرصے کے بعد وفات پاگئے یا تو صدمے کا اثر تھا یا عمر ہوگئی تھی.مگر بہر حال یہ دوصد مے اس خاندان کو اوپر تلے دیکھنے پڑے.محمد لطیف صاحب سندھی دارالصدر غربی ربوہ میں رہتے تھے ان کی بھی وفات کی اطلاع ملی ہے.تیسرا ہمارے سیکیورٹی کے افسران میں سے مبارک احمد صاحب ساہی کے خسر مکرم چوہدری رشید احمد صاحب باجوہ کی وفات کی اطلاع آئی ہے ان کی بھی نماز جنازہ ہوگی.اور سیدہ افضل بی بی صاحبہ جو مکرم سید محمد یکی صاحب اسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ سائنس کالج فیصل آباد کی والدہ تھیں ان کی بھی نماز جنازہ ہوگی.اس طرح آخر پر مکرم چوہدری فضل گوندل صاحب آف خانیوال کی نماز جنازہ غائب ہم پڑھیں گے.

Page 235

خطبات طاہر جلد ۶ 231 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء محبت الہی و محبت رسول کا مضمون نیز عظیم الشان تحریک وقف نو کا اعلان خطبه جمعه فرموده ۳ را پریل ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی :.قُلْ إِنْ كَانَ أَبَاؤُكُمْ وَابْنَاؤُكُمْ وَإخْوَانُكُم وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَ تُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِه وَاللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ (التوبہ: ۲۴) پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے قرآن کریم کی ایک اور آیت تلاوت کی تھی قُل اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبَكُمُ اللهُ ( آل عمران: ۳۲) اے محمد ﷺ ! تو یہ اعلان کر دے اگر تم واقعی حقیقیہ اللہ سے محبت کرتے ہو یا فی الواقعی خدا ہی سے محبت کرنا چاہتے ہو فَاتَّبِعُونِي يُحببكم الله تو تم میری پیروی کرو یقیناً خدا تم سے محبت کرنے لگے گا.اس مضمون کے کچھ پہلو میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کئے تھے کچھ آج بیان کروں گا.اس دوسری آیت کے تابع جو میں نے ابھی تلاوت کی ہے.جب اللہ تعالیٰ کی محبت کے دعویٰ کے نتیجے میں

Page 236

خطبات طاہر جلد ۶ 232 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء آنحضرت ﷺ کی اتباع اور پیروی کا حکم ملا ہے تو سوال یہ ہے کہ اس میں کیا منطقی جوڑ ہے اور پھر یہ پیروی کس طرح ہو سکتی ہے؟ کس رنگ میں پیروی کی تاکید فرمائی گئی ہے.ایک انسان ایک ملک کے قانون کی بھی اطاعت کرتا ہے اور بعض دفعہ اپنے Instructor کی جس جس موضوع پر بھی کوئی Instructor مقررہ ہوا ہو اس کی بھی پیروی کرتا ہے اس کی نقل اتارتا ہے اور یہ دونوں قسم کی اطاعتیں محبت کے بغیر ہوتی ہیں.بسا اوقات ان میں محبت کا نہیں بلکہ نفرت کا پہلو بھی پایا جاتا ہے.چنانچہ دنیا میں بڑے بڑے ظالم ڈکٹیٹر گزرے ہیں اور آج بھی موجود ہیں جن کی کروڑوں کی قومیں، کروڑوں کی تعداد میں قوم کے افراد اطاعت کر رہے ہیں اور نفرت کے ساتھ اطاعت کر رہے ہیں تو اگر اسی قسم کا حکم ہے جیسے ایک جابر حکم صادر کر دیتا ہے کہ تم میرے قبضہ قدرت میں ہو تمہاری مجال نہیں کہ میرے حکم کی نافرمانی کرسکواس لئے اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو پھر محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرو.کیا نـعــوذ بالله من ذالک مضمون ہے جو بیان ہوا ہے؟ یہ مضمون ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ آغاز اس بات سے کیا گیا ہے کہ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ الله اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو جس سے محبت ہواس میں ڈکٹیٹر شپ اور مغلوب کے تعلقات کا کوئی تصور ہی نہیں پایا جاتا ہے.تُحبون اللہ کی شرط نے واضح کر دیا کہ جو کچھ بھی کرو گئے محبت کی وجہ سے کرو گے.اس لئے ایک منطقی رشتہ خدا کی محبت کا ہے جسے محمد مصطفی ﷺ کی غلامی اور اطاعت میں تبدیل کیا جا رہا ہے.پس اس اطاعت میں بھی محبت ہی کا پہلو غالب رہنا چاہئے اور محبت ہی کے نتیجے میں وہ اطاعت ہونی چاہئے.اب اگلا سوال یہ ہے کہ حکماً بھی کیا محبت ہوسکتی ہے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ مجھ سے تمہیں محبت ہے؟ ہم کہتے ہیں ہاں! ہمیں محبت ہے.ہم نے تیرا حسن دنیا میں جلوہ گر دیکھا، تیرے اتنے بے انتہا احسانات صبح، دوپہر، شام، رات، دن اور رات کا لمحہ لحہ ہم تیرے فضلوں کو دیکھتے ہیں، تجھے تیرے کائنات کے حسن میں جلوہ گر دیکھتے ہوئے تجھ پہ عاشق ہوتے چلے جارہے ہیں اور پھر ہر روز جو تو نے ہمارے لئے سامان مہیا فرمائے ہیں پیارا اور محبت کے ساتھ ہر قسم کی نعمتیں عطا کیں، ہر قسم کی زندگی کے نظام کی حفاظت کے سامان بخشے ، ترقیات کے قوانین ایسے بنائے جن کے نتیجہ میں مسلسل انسان آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.

Page 237

خطبات طاہر جلد ۶ 233 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء غرضیکہ اس مضمون کا احاطہ تو نہیں ہوسکتا لیکن خلاصہ ایک انسان یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم تجھ سے محبت کرتے ہیں اس لئے کہ تیری محبت کی وجوہات اور تیرے حسن کی شہادتیں ساری دنیا میں بکھری پڑی ہیں پھر تیرے حکم سے ہم کیسے محبت کرنے لگیں.اس حکم کے اندر چونکہ خدا تعالیٰ حکمت کاملہ رکھتا ہے اس حکم کے اندر کوئی غیر منطقی بات نہیں ہو سکتی.اس لئے اس بات کو تو بہر حال ہمیں کلیۂ فراموش کر دینا پڑے گا کہ خدا تعالیٰ حکم کے نتیجہ میں محبت چاہتا ہے.اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو اس کے جواب میں وہ بھی محبت کا ایک اظہار فرماتا ہے اور آپ کو ایک ایسی چیز کی طرف یا ایک ایسی ہستی کی طرف جواباً اشارہ کرتا ہے کہ اگر تمہیں مجھ سے محبت ہے تو میں اپنی محبت کا ایک ظاہری عکس ایسا انسانوں میں بھی تمہیں بتاتا ہوں کہ جس طرح کائنات کا تم مشاہدہ کرتے ہو اور اس میں ہر طرف حسن دیکھتے ہو اور عاشق ہوتے چلے جاتے ہو اس طرح ایک ایسی محبوب ہستی میں تمہیں بتا تا ہوں کہ جو میرے عشق کی وجہ سے سنوری ہے، میری محبت کے نتیجے میں اس میں حسن پیدا ہوا ہے.اس کو دیکھو اور اس پر عاشق ہو جاؤ اور عاشقانہ اس کی اطاعت کرو.یہ مضمون ہے جو اس آیت میں مخفی ہے اور دوسری آیات میں اس کا کھلا کھلا اظہار فرما دیا گیا ہے.پس جواب گویا خدا کی طرف سے یہ ہے کہ تمہیں مجھ سے محبت تو ہے یا ارادہ ہے یا خواہش ہے کہ بچی اور حقیقی محبت کرو لیکن کوئی ایسا عاشق صادق تمہیں معلوم نہیں جس کے ساتھ میں نے بھی محبت کی ہو.اس لئے اگر تم اس کے پیچھے چلو جس کے ساتھ میں نے محبت کی ہے تو لا ز ما قطعی طور پر میں بھی تم سے محبت کرنے لگوں گا اور جس سے خدا محبت کرتا ہے وہ لازما حسین ہوگا کیونکہ قابل نفرت وجود سے خدا محبت نہیں کر سکتا محض کسی کی محبت کی وجہ سے محبت نہیں کر سکتا.جس شخص کے متعلق خدا یہ کہتا ہے کہ میں نے اس سے محبت کی ہے یہ اس کے اندر مضمر ہے اس کے بغیر بات بنتی کوئی نہیں اس لئے لازما اسے Understood جس طرح کہتے ہیں، اس کے اندر مخفی اور پوشیدہ پیغام کے طور پر آپ کو دیکھنا پڑے گا ورنہ کوئی منطقی بات نہیں بنتی.اگر تم محبت کے دعوے دار ہو تو محبت چاہتے ہو، میں تمہیں ایک ایسے شخص کا پتا بتا تا ہوں جو مجھ سے محبت میں انتہا کر گیا اور جو خود بھی اتنا حسین تھا اور میری محبت کے نتیجے میں مزید اس کا حسن چکا تو میں نے اس سے بہت محبت کی پس تم ان رستوں پر چل پڑو، جن رستوں پر وہ چلتا ہے تم میں بھی اک حسن پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور میں تمہارے

Page 238

خطبات طاہر جلد ۶ حسن سے بھی محبت کرنے لگوں گا.234 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۸۷ء یہ ہے مکمل جواب جو اس آیت میں دیا گیا.اس کی تائید میں قرآن کریم میں مختلف آیات میں مختلف رنگ میں ہمیں ذکر ملتا ہے ان میں سے ایک آیت جو میں نے ابھی تلاوت کی تھی وہ اس مضمون کو ایک بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتی ہے فرمایا:.قُلْ إِنْ كَانَ أَبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيْرَ تُكُمْ وَاَمْوَالُ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَمَسْكِنُ تَرْضَوْنَهَا أَحَبَّ إِلَيْكُمْ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُوْلِهِ وَجِهَادٍ فِي سَبِيْلِهِ فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِه وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْفَسِقِينَ کہ اے محمد ! یہ بھی اعلان کر کہ اگر تمہارے آباؤ اجداد اور تمہاری اولادیں، تمہاری آئندہ نسلیں اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے قبائل اور قو میں اور وہ اموال جن کو تم کماتے ہو اور محنت کے ساتھ حاصل کرتے ہو اور وہ تجارتیں جن کے متعلق خوف دامن گیر رہتا ہے کہ کہیں نقصان نہ ہو جائے اور وہ رہنے کے گھر جن سے تم راضی ہو یعنی وہ محلات اور مکانات جو تمہاری تمناؤں کے مطابق بنائے گئے ہوں اَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ تمہیں اللہ اور اس کے رسول ع سے زیادہ پیارے ہیں اور خدا کے رستے میں جہاد سے زیادہ پیارے ہیں فَتَرَبَّصُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِ و پر تم انتظار کرو یہاں تک کہ خدا اپنا فیصلہ صادر فرمادے.یعنی کیا مطلب ہے ایسا فیصلہ صادر فرمادے جس سے تمہاری محبت کا جھوٹا ہونا ثابت ہو جائے اور خدا کا پیار پانے کی بجائے اس کی تم ناراضگی کو دیکھ لو.چنانچہ فرمایا وَ اللهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفُسِقِيْنَ خدا تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.تو فسق کی یہ تعریف فرمائی ہے قرآن کریم نے اور فسق کی یہ تعریف آپ کو دنیا کی کسی اور کتاب میں نہیں ملے گی.فسق سے تو ہم عموما یہ سمجھا کرتے تھے کہ گناہ کرنا، واضح طور پر نا پسندیدہ حرکت کرنا فسق کو محبت کے مضمون میں داخل فرما دیا قرآن کریم نے اور عدم محبت کو فسق قرار دیا.فرمایا محمد مصطفی ﷺ کی محبت بھی خدا کے بعد لازم ہے اگر تم اس وجود سے محبت نہیں کرتے

Page 239

خطبات طاہر جلد ۶ 235 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء تو تم فاسق ہو.اب محبت نہ کرنے کا تعلق فسق سے کیا ہے؟ یہ تعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.فرمایا کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا تعالیٰ کی اطاعت میں تھا.ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جس میں کوئی نقص ہو.اگر کوئی نقص ہوتا تو خدا تعالیٰ ہمیں کامل پیروی کا حکم نہ دیتا.جب خدا نے کامل پیروی کا حکم دیا تو معلوم ہوا کہ آپ کی زندگی کا ہرلمحہ خدا کی رضا کے لئے ہے اور جو عمل خدا کی رضا سے باہر ہے وہ فسق ہے.پس یہ فسق کی تعریف قرآن کریم نے فرمائی جو محبت کے مضمون میں لپیٹ کر بیان کی ہے الله لیکن حیرت انگیز ہے.اگر تمہیں محمد رسول اللہ ﷺ اور اس قسم کی جہاد والی زندگی سے پیار نہیں جو رسول اکرم ﷺ نے زندگی بھر جہاد کر کے دکھایا تو پھر تمہاری یہ حالت فاسقوں جیسی ہے اور جہاں جہاں تم اس سنت سے ہٹتے ہو وہاں فسق میں داخل ہو جاتے ہو اور اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا.اب یہاں جہاد فی سبیل اللہ کی محبت کا ذکر فرمایا حالانکہ بظاہر انسان یہ سوچ نہیں سکتا کہ جہاد سے بھی محبت ہو.یہاں صرف تلوار کا جہاد مراد نہیں ہے.محبت کے نتیجے میں محبوب کو حاصل کرنے کے لئے ہر کوشش کا نام قرآن کریم نے جہادر کھا رہا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی محبت کے بعد جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر ایک تعلق میں یہ مضمون ظاہر کر رہا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ نے جس طرح زندگی گزاری اس زندگی کا ہرلمحہ جہاد تھا ہر وقت تو آنحضرت معہ تلوار ہاتھ میں لئے نہیں پھرا کرتے تھے، ہر وقت تو تیر کمان ہاتھ میں نہیں رہتا تھا.شاذ کے طور پر جب غزوات میں آپ شامل ہوئے تو عملاً دشمن سے دو بد ولڑنے کا موقع بھی آپ کو میسر آیا مگر آپ کا جہاد اس وقت بھی تھا جب تیرہ سال کی مکی زندگی میں انتہائی مظلومیت کی حالت میں آپ زندگی گزارر ہے تھے.پس جہاد صرف مارنے کا نام نہیں ہے اس سے بڑھ کر مارکھانے کا نام ہے اور خدا کے رستے میں دن رات اس کی محبت میں مگن ہو کر زندہ رہنے کا نام ہے.اس کے متعلق فرمایا اگر تمہیں ان چیزوں سے محبت نہیں ہے تو پھر تمہارا خدا سے محبت کا دعویٰ نہ صرف غلط بلکہ خدا کے نزدیک تمہاری زندگی فاسقانہ ہے.اب یہاں پہنچ کے بھی سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکم تو بہت سخت لگایا گیا ہے مگر محبت حکماً کیسے پیدا ہوسکتی ہے؟ جیسا کہ میں نے پہلے سوال اٹھایا تھا.محبت اور حکم کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ، آپ کو

Page 240

خطبات طاہر جلد ۶ 236 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء کوئی آدمی کتنا ہی پیارا ہو اس کو آپ کہیں کہ تم فلاں چیز سے محبت کرنے لگ جاؤ.وہ آپ سے کتنا ہی پیار کرتا ہو اس سے آپ کہیں کہ فلاں چیز سے محبت کرنے لگ جاؤ.وہ سمجھے گا کہ اس کو کیا ہو گیا ہے اس کے دماغ میں کوئی نقص ہے.دنیا کے شاعر تو یہاں تک کہتے ہیں کہ:.تمہیں چاہوں تمہارے چاہنے والوں کو بھی چاہوں میرا دل پھیر دو مجھ سے یہ جھگڑا ہو نہیں سکتا عجیب شرطیں لگا رہا ہے کہ تم سے تو محبت کروں ساتھ ان سے بھی محبت کرنے لگ جاؤں جو تمہارے چاہنے والے ہیں.”میرا دل پھیر دو مجھے واپس کرو میرا دل، مجھ سے یہ جھگڑا نہیں ہوسکتا ہے اور اللہ کی شان دیکھیں یہی فرما رہا ہے.مجھے چاہو، میرے چاہنے والوں کو بھی چاہو اور اگر نہیں چاہو گے میرے چاہنے والوں کو تو تم فاسق ہو، تمہاری محبت مردود ہے.یہ ہے اصل حکیمانہ کلام.حقیقت میں محبت کی اعلیٰ نشانی اور اس کی سچائی کی دلیل یہ ہے کہ جس سے آقا پیار کرے اس سے بھی پیار ہو جائے اور جو اپنے محبوب سے پیار کرتا ہو اس سے بھی محبت بڑھے نہ کہ اس سے دشمنی بڑھے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اور جگہ بھی کھول کر بیان فرمایا ایک دعا سکھائی کہ اے خدا! ہمارے دلوں میں مومنوں کے لئے غلل نہ پیدا کرنا جو ہم سے ایمان میں سبقت لے گے پہلے آگے ہم تجھ سے التجاء کرتے ہیں کہ کسی بنا پر کسی غلط فہمی کی وجہ سے بھی ان کے لئے ہمارے دل میں کوئی ٹیڑھا پن نہ پیدا کر دے.اس آیت میں شیعہ کے غلط فلسفہ کا جواب ہے ہمیشہ کے لئے.وہ ایسی باتیں بتاتے ہیں آج ہمیں یا ان میں سے بعض جن کے نتیجے میں ایمان میں سبقت لے جانے والوں سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور قرآن کریم نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے کہ وہ لوگ جو سبقت لے گئے اول دور کے ایمان لانے والے تھے.اے خدا! ہمیں ان سے نفرت نہ ہونے دینا.غلط فہمی سے تاریخ کے غلط سمجھنے کے نتیجے میں یا غلط روایات کے پہنچنے کے نتیجے میں ہو سکتا ہے ہمارے دل میں کبھی پیدا ہو جائے اور ان کے لئے سختی پیدا ہو جائے.تو دعا سکھائی کہ اے اللہ ! ان کے لئے ہمارے دل کو نرم رکھنا.وجہ کیا ہے؟ وہ خدا کو چاہنے والے تھے اور وہی مضمون ہے کہ مجھے چاہتے ہو تو میرے چاہنے والوں کو چاہو.اس کے بغیر وحدت نہیں پیدا ہوسکتی ہے یہ ہے اس کا اصل فلسفہ اگر خدا کے عشق کے نتیجے میں رقابت پیدا ہوتی

Page 241

خطبات طاہر جلد ۶ 237 خطبہ جمعہ ۳ اپریل ۱۹۸۷ء صلى اور رقابت کی اجازت ہوتی تو جتنے خدا کے محبت کرنے والے تھے، اتنے ہی تعداد میں خدا کی خدائی کے تصور بٹ جاتے.امت واحدہ کے پیدا ہونے کا سوال ہی باقی نہ رہتا.ہر خدا سے محبت کرنے والا ، دوسرے خدا سے محبت کرنے والے سے جل رہا ہوتا ، حسد کر رہا ہوتا نفرت کر رہا ہوتا کہ وہ کون ہوتا ہے اس خدا سے محبت کرنے والا جس سے میں کر رہا ہوں.یہ جہالت کا عشق تو صرف دنیا کے لئے خدا نے رہنے دیا.اپنے لئے وہ عشق چنا جو وحدت کاملہ پیدا کرتا چلا جاتا ہے اور اس وحدت کا دائرہ بڑھاتا چلا جارہا ہے.یہ وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ سے محبت کی تعلیم اس رنگ میں خدا تعالیٰ نے دی اور جس وسعت کے ساتھ جس حکمت کے ساتھ باہمی رابطے کے ساتھ قرآن کریم محبت کی تعلیم ہے.آپ جائزہ لے کے دیکھیں دنیا کے کسی اور مذہب میں آپ کو اس جیسی اتنی حسین ، اتنی کامل اتنی مضبوط تعلیم دکھائی نہیں دے گی.آنحضرت ﷺ سے محبت پہلی بات یہ کہ کسی حکم اور جبر کی وجہ سے نہیں، اس لئے ہے کہ وہ محبت کے لائق چیز اور خدا تعالیٰ نے نشاندہی فرما دی اور گواہی دے دی کہ اس سے بڑھ کے تمہیں کیا دلیل چاہئے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں اگر انسان زیادہ حسین ہو تو کم ترحسن سے محبت کرنے کے کم امکانات ہوتے ہیں.جتنازیادہ کوئی حسین ہواتنا ہی اس کا معیارحسن بھی بڑھتا چلا جاتا ہے.پس آنحضرت یہ حسن کی سب سے بڑی دلیل اس آیت میں رکھ دی گئی ہے کہ وہ اتنا حسین ہے کہ میں اس سے محبت کر رہا ہوں اور اتنی محبت کرتا ہوں کہ اگر تم اس کی پیروی کرو گے تم اس سے محبت کرو گے تو میں تم سے بھی محبت کرنے لگ جاؤں گا.پس آنحضرت ﷺ میں ذاتی حسن موجود ہے اور یہ حسن جو ہے اس کا بیان ہونا چاہئے ، اس کا تذکرہ چلنا چاہئے ،اس کی مجالس ہونی چاہئیں بڑوں اور چھوٹوں کو اس سے ذاتی واقفیت ہونی ضرور چاہئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.بن دیکھے کس طرح کسی مد رخ پہ آئے دل کیسے کوئی خیالی صنم سے لگائے دل ( درمین صفحه : ۱۱۱) پس آنحضرت ﷺ کی محبت کا جب قرآن کریم نے حکم دیا جب قرآن کریم نے احسان فرمایا ہم پر یہ بتا کر کہ ایک بہت ہی محبوب ہستی موجود ہے جس کا پیار تمہارے دل میں خدا کا پیار پیدا

Page 242

خطبات طاہر جلد ۶ 238 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء کرے گا اور خدا تم سے پیار کرنے لگے گا تو محض یہ کہنا تو کافی نہیں ہے: بن دیکھے کس طرح کسی مدرخ پر آئے دل اور صلى الله آنحضرت ﷺ کا دکھا نا ضروری ہے.اس لئے میں نے گزشتہ سال یہ تاکید کی تھی کہ جوں جوں ہم غلبہ اسلام کی صدی میں داخل ہونے کے لئے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.سیرت کے مضمون پر جلسوں کی کثرت ہونی چاہئے تا کہ اس صدی میں اللہ اور رسول ﷺ کے عاشقوں کا ایک قافلہ داخل ہو.محض اسلام سب پہ غالب آنے کے بڑے بڑے نعرے بلند کرتے ہوئے خالی دل لوگ نہ ہوں بلکہ ایسے جن کے دل عشق الہی اور عشق محمد مصطفی ﷺ سے بھرے ہوئے ہوں جن کے خون میں وہ عشق جاری ہو چکے ہوں اس زادراہ کے بغیر آپ اب بھی اگلی نسل کی انگلی صدی کی نسلوں کی زندگی میں کوئی عظیم الشان تبدیلی پیدا نہیں کر سکیں گے.بہت بڑی صدی ہے جو ہمارا انتظار کر رہی ہے.اس میں بہت بڑے بڑے کام ہونے والے ہیں.انہوں نے ہم سے رنگ پکڑنے ہیں اور وہ رنگ لے کے انہوں نے آگے بڑھنا ہے اس سے اگلی صدی کی طرف.پس پیشتر اس کے کہ وہ وقت پہنچ جائے اور ہم اس صدی میں داخل ہو رہے ہوں.ہمیں چاہئے کہ ہم اس حسن کامل سے مزین ہونے کی کوشش شروع کر دیں جو اللہ اور رسول کی محبت کے نتیجے میں ظاہر ہوتا ہے، اسی کے نتیجے میں عطا ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کی پیروی کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے خود حضوراکرم ﷺ کو اپنی پیروی سکھائی ہے.جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے:.اِتَّبِعْ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ کہ جو کچھ خدا تجھ پر وحی نازل فرما رہا ہے وہ کرتا چلا جا اور مشرکوں سے اعراض کر اور کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھ.پس حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیروی میں ایک ثانویت نہیں ہے.یہ نہ سمجھیں کہ خدا کہتا ہے کہ مجھ سے پیار کرتے ہو تو ایک اور تیسرے شخص سے بھی پیار شروع کرو.ایک ایسے شخص کے پیار کا حکم دیا جا رہا ہے جسے خدا نے خود تربیت دے کر اپنے رنگ اس پر چڑھائے ہیں اور اپنے حسن کو زیادہ ہماری دسترس میں پہنچادیا ہے.انسان کا جہاں تک تعلق ہے.انسان (الانعام: ۱۰۷) صلى الله

Page 243

خطبات طاہر جلد ۶ 239 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء کو انسان سے ملتی جلتی کوئی شکل نظر آنی چاہئے جس کے نتیجے میں وہ اس سے محبت کرے.چنانچہ ایک روایت آتی ہے کہ آنحضرت ﷺ ایک دفعہ خانہ کعبہ میں داخل ہوئے وہاں کچھ لوگ بتوں کو سجارہے تھے انہیں بندے پہنا رہے تھے انہیں کھڑا کر کے اور ان کے اوپر لباس چڑھا رہے تھے اور پھر یہ خودہی ان کو سجا کر ان کے سجدے کر رہے تھے.آنحضرت ﷺ نے ان سے پوچھا کہ یہ کیا حرکتیں کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا دیکھو! ہم اس لئے ان کی عبادت کرتے ہیں ان سے پیار کرتے ہیں کہ یہ ہمیں خدا کا پیار سکھاتے ہیں پھر اور ان کے پیار کے ذریعے ہمیں اللہ کا پیار حاصل ہوتا ہے، مقصد تو وہی ہے جو تم باتیں کر رہے ہو.اس پر یہ آیت نازل ہوئی قُل إن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللهَ فَاتَّبِعُونِي يُحبكُمُ الله کہ کتنی بیوقوفی بتوں سے تم کس طرح خدا کا پیار سیکھ سکتے ہو.وہ تو نہ پیروی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں نہ ان کی پیروی کی جاسکتی ہے.خدا کا پیار تو اس سے سیکھا جاسکتا ہے جسے خدا نے خود اپنا پیار سکھایا ہو.پس چونکہ مجھے خدا نے اپنا پیار سکھا دیا ہے اسی لیے تم میری پیروی کرو، اگر یہی تمہارا دعوی ہے تو پھر بتوں کی پیروی سے خدا کا پیار تو نہیں آسکتا.ایک اور موقع پر خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کی محبت کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے یا پیروی کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے قُلْ لِعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ کہ دے اے میرے بندو! یہ لفظی ترجمہ ہے اے میرے بندو!) او محمد مصطفی ﷺ کو کہا جارہا کہ اعلان کر و بنی نوع انسان سے کہہ دواے میرے بندو ! بعض تفسیر کرنے والے بڑے مشکل میں، الجھن میں پڑ گئے کہ آنحضرت ﷺ کو تو حید کامل کا پیغام لے کر آئے خدا آپ کو یہ سکھا رہا ہے کہ کہواے میرے بندو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر ایک سے زیادہ مرتبہ لکھا اور بہت ہی لطیف تغیر فرمائی ہر موقع پر.ایک موقع پر آپ فرماتے ہیں یہاں عبادی سے مراد غلام ہے مخلوق نہیں ہے.قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ سے مراد یہ ہے کہ اے محمد !یہ اعلان کر کہ اے میرے غلامو! تو پیروی کا مضمون تفسیری زبان میں ہمیں سکھایا جا رہا ہے یہاں.جب خدا کہتا ہے اس کا فاتبعونی اس کا اعلان کرو تو مراد یہ ہے کہ میرے غلامانہ عاشق ہو جاؤ.جس طرح غلام آقا کی پیروی کرتا ہے اور اس پیروی سے فعل میں انحراف کی طاقت نہیں پاتا.تو ایسی کامل

Page 244

خطبات طاہر جلد ۶ 240 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء محبت کرد محمد مصطفی ﷺ سے کہ تمہیں استطاعت نہ رہے نافرمانی کی گویا کہ فوری طور پر تمہاری ساری طاقتیں آنحضرت مے کے سپرد ہو جائیں.کیوں ہو جائیں؟ اس کی دلیل قرآن کریم دوسری جگہ دے رہا ہے.فرماتا ہے کہ قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام: ۱۶۳) کہ میں یہ نہیں کہتا کہ تم میرے غلام بن جاؤ سب کچھ ،میرے سپردکر دو میری پیروی عاشقانہ شروع کر دو اس لئے نہیں کہ میری اپنی ذات میں کچھ رکھا ہے.میں تو اپنا سب کچھ لٹا چکا ہوں ، میں نے اپنا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا.یہی اعلان کروا رہا ہے خدا قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِی میری ساری عبادتیں ان کا ایک ایک پہلو، میرے سارے روزے اور قربانیاں اور ان کا ہر پہلو، میرا تو مرنا اور جینا سب کچھ خدا کے لئے ہو چکا.پس آنحضرت ﷺ کے متعلق جب خدایہ فرماتا ہے ان کے سپر د ہو جاؤ تو اس لئے نہیں کہ ایک بشر کو دوسرے بشر کے سپر د ہونے کا حکم دیا جارہا ہے بلکہ اس لئے کہ ایک بشر کو ایک ایسے وجود کے سپرد ہونے کا حکم دیا جا رہا ہے جس نے اپنی بشریت کوفنا کر کے کلیہ اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے سپر د کر دیا تھا.یدار ہوتو پھر تمام انعامات کے دروازے کھلے ہیں مگر س موقع پر انعامات کا ذکر نہیں ایک اور پہلو بیان کیا جار ہا فرمایا الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ (الزمر:۵۴) وہ لوگ جنہوں نے بڑے بڑے گناہ کئے ہیں، پہاڑوں کے برابر خواہ گناہ کئے ہوں پھر بھی انہیں کوئی خوف نہیں ہے اگر وہ محمد مصطفی میلے کے پیچھے لگ جائیں گے اور غلاموں کے طرح پیچھے لگیں گے تو ان کے وہ سارے گناہ بخش دیئے جائیں گے کیونکہ خدا تمام گناہ بخشنے کی طاقت رکھتا ہے.شرط یہ ہے کہ محم مصطفی ﷺ کے عباد بن جاؤ.چنانچہ یہ جو تثلیث کا مسئلہ اور ہماری خاطر نجات دہندہ نے اپنے آپ کو نعوذبالله من ذالک لعنت میں ڈالا یہ جو تصور پیش کیا تھا ان سب کا بطلان کر دیا اس آیت میں.فرمایا اللہ تعالیٰ کو تو سپردگی چاہئے.پس وہ وجود جو خدا کے سپر د ہو گیا کلیۂ کامل طور پر اس کا ہو گیا اگر تم اس کے پیچھے آنا چاہتے ہو تمہیں یہ خوف دامن گیر نہ رہے کہ ہم گناہ گار ہیں ہم کیسے پیچھے لگیں گے.ہم کہاں ہوتے ہیں الله د مصطفی ﷺ کی پیروی کرنے والے یہ خیال دل میں پیدا ہوسکتا ہے.فرمایا نہیں اگر اس وجود کی

Page 245

خطبات طاہر جلد ۶ 241 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۸۷ء پیروی کرو گے تم دیکھو گے کہ اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا محمد رسول کریم ﷺ کی سنت آپ کی طرز زندگی سے خدا کو اتنا پیار ہے کہ آپ کی خاطر اس حسن ، اس ادا کی خاطر جو تم اختیار کرو گے محمد رسول اللہ ﷺ کی غلامی میں اللہ تعالیٰ تمہارے ہر قسم کے گناہ معاف فرما تا چلا جائے گا.إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ یقیناوہ بہت ہی بخشنے والا اور بہت ہی مہربان ہے.پھر ایک اور مقام پر یہ تو منفی لحاظ سے جو خوف تھے وہ دور کئے مختلف لحاظ سے امیدوں کو آخری مقام تک پہنچاد یا فر مایا:.وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيَّنَ وَالصَّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّلِحِينَ * وَحَسُنَ أُولَك رفيقان (النساء: ۷۰) جب محمد مصطفی می ﷺ کی پیروی کا حکم دیا جاتا ہے محبت کے نتیجے میں پیار کی وجہ سے تو فرمایا اس کے بعد جب میں کہتا ہوں تم میرے محبوب بن جاؤ گے تو اس طرح محبوب بنا کر میں تمہیں کیا دوں گا.تو وعدے میں وضاحت بھی تو ہونی چاہئے کہ محبوب کے ساتھ خدا کیا سلوک فرمائے گا فرمایا اگر محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرو اس وجہ سے کہ یہ خدا کی پیروی کرنے والا مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ ایک بریکٹ میں باندھ دیا ہے ایک کی پیروی دوسری کی پیروی سے الگ نہیں ہوسکتی یہ مضمون بیان ہو رہا ہے.فرمایا وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِم پھر دیکھو گے کہ خدا کے انعام کی بارشیں برستیں ہیں تم پر اور تم دیکھو گے کوئی انعام بھی ایسا نہیں ہوگا جو پیروی کے نتیجے میں نہ پاسکو.مِنَ النَّبِيِّنَ وَالصَّدِيقِينَ کتنی عظیم الشان بلند پہاڑوں کی طرح انعام ہیں نبیوں کا انعام فرمایا تمہاری اطاعت کا درجہ یہ طے کرے گا کہ تم اس پیروی کے نتیجے میں خدا کے کتنے محبوب بنتے ہو.اگر صالحیت تک ہی پہنچتے ہو تو وہ انعام بھی خدا نہیں روکے گا اور اگر آگے بڑھ کہ شہادت کے مقام تک پہنچ جاتے ہو تو تمہیں محمد مصطفی ﷺ کی غلامی سے شہادت کا مقام نصیب ہوگا.اگر اس سے آگے قدم رکھنے کی ہمت ہے اور صدیقیت کی شان اپنے اندر پیدا کرتے ہو تو یقین جانو کہ محمد مصطفی ﷺ کی

Page 246

خطبات طاہر جلد ۶ 242 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء غلامی انہیں صدیقیت کے مقام تک پہنچائے گی اور یہ انعام بھی تم پر نازل ہوگا اور اگر اس سے بھی آگے بڑھنے کی طاقت ہے اور اپنا کامل وجود محمد مصطفی ﷺ میں کھو دینے کی عظمت پاتے ہو پھر یقین جانو کہ تمہیں ظلی نبوت بھی عطا ہوگی جو محمدمصطفی ﷺ کی غلامی کے نتیجہ میں عطا ہوسکتی ہے.لامتناہی انعامات که دروازے کھولتی چلی جارہی ہے یہ محبت جس محبت کی طرف اللہ تعالیٰ بلا رہا ہے اور آغاز اس کا اس دعوے سے، اس تمنا سے ، اس اقرار سے ہوا کہ ہم خدا سے محبت کرتے ہیں.سارے رستے کھول دیئے ، سارے پہلو اس کے بیان فرمائے لیکن یہ مضمون تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم پر حاوی ہے اور قرآن کریم میں ہر طرف پھیلا پڑا ہے.اس موضوع کے تمام پہلو پر تو چند خطبات میں روشنی ڈالی نہیں جاسکتی مگر میں نے ایک دواموران خطبوں کے لئے چتے ہیں.آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقرار آپ کے سامنے رکھتا ہوں ایک ایسے شخص کا اقرار جس نے اپنے آپ کو سپرد کیا، جس نے محبت کی اور آنحضرت ﷺ کومحبوب پایا.اس قدر عشق آپ کے دل میں حضرت رسول اکرم ﷺ کا موجزن تھا اس کی کوئی مثال آپ کو اور کہیں دکھائی نہیں دے گی نہ دنیا کے عاشقوں میں، نہ محمد رسول اللہ ﷺ کے بعد روحانی عاشقوں میں کہیں آپ یہ نظارہ دیکھیں.ایک موقع پر فرمایا.اگر خواہی دلیلے عاشقش باش برہان محمد در تین فارسی صفحه: ۱۴۱) تم صداقت محمد مصطفی ﷺ کی دلیل مانگتے ہو تو ایک ہی دلیل ہے تم عاشق ہو جاؤ اس کے.اب ایک ایسا شخص جو اس عظیم الشان عرفان کے تجربے میں سے نہ گزرا ہووہ یہ بات کہہ ہی نہیں سکتا.فرمای محمد مصطفی ﷺ کو پانا جو ہے وہ تو حسن کے رستے سے پانا ہے.تم منطقی دلائل کیا ڈھونڈ رہے ہو.ایک حسین دلیل ہے اس کو دیکھو اور عاشق ہو جاؤ محمد ہست برہان محمد محمد خود اپنے حسن کی دلیل ہے اس سے زیادہ اور کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی.پھر فرماتے ہیں:.میں نے محض خدا کی فضل سے نہ اپنے کسی ہنر سے اس نعمت سے

Page 247

خطبات طاہر جلد ۶ 243 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء کامل حصہ پایا ہے جو مجھ سے پہلے نبیوں اور رسولوں اور خدا کے برگزیدوں کو دی گئی تھی اور میرے لئے اس نعمت کا پاناممکن نہ تھا اگر میں اپنے سید و مولی فخر الانبیاء اور خیر الوریٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی راہوں کی پیروی نہ کرتا.سو میں نے جو کچھ پایا اس پیروی سے پایا اور میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اس نبی ﷺ کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کا ملہ کا حصہ پاسکتا ہے اور میں اس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے جو سچی اور کامل پیروی آنحضرت میے کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.اور میں اس جگہ یہ بھی بتا تا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت مے کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے.یہ ہے راز ساری باتوں کا جس پر ہر چیز کی تان ٹوٹتی ہے.اس سے پہلے بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک میں نے تحریر پڑھ کر سنائی تھی جس میں نقطہ بیان فرمایا گیا تھا اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا آخری نقطہ دل میں پیدا ہوتا ہے.اس کا دماغ سے تعلق نہیں ہے اور وہی بات رسول اکرم ﷺ کی پیروی کے متعلق آپ بیان فرماتے ہیں.یادر ہے کہ وہ قلب سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے پھر بعد اس کے ایک مصفی اور کامل محبت الہی باعث اس قلب سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت ﷺ کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه : ۶۴) اس مضمون کے جو چند پہلو ہیں آج بیان کرنا چاہتا تھا وقت چونکہ تھوڑا ہورہا ہے اس لیے ان چندکا بیان بھی چلے گا، لیکن میں نے آپ سے گزشتہ خطبے میں یہ ذکر کیا تھا کہ میں ایک تحریک جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جس کا اس مضمون سے تعلق ہے.حقیقت یہ ہے کہ محبت کے نتیجے میں انسان تحائف پیش کرتا ہے اور قرآن کریم نے ہر چیز جو خدا کی راہ میں پیش کی جاتی ہے اس کے ساتھ محبت کی شرط لگادی ہے بلکہ نیکی کی تعریف میں محبت کے

Page 248

خطبات طاہر جلد ۶ 244 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء تحفے کو بطور شرط کے داخل فرما دیا.فرمایا: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران : ۹۳) کہ تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پاسکتے نیکی کی باتیں کرتے ہو تمہیں پتا کیا ہے کہ نیکی کیا ہے تم نیکی کی گرد کو بھی نہیں پاسکو گے اگر یہ راز جان لو کہ خدا کے راستے میں وہ خرچ کرو جس سے تمہیں محبت ہے.اپنی محبوب چیز ان کو خدا کی راہ میں پیش کرنا سیکھو پھر ہاں تم کہہ سکتے ہو کہ ہاں ہم نے نیکی کا مفہوم سمجھ لیا ہے.تو وہاں بھی محبت ہی کا مضمون جاری ہے.مجھے حیرت ہوتی ہے بعض دفعہ عیسائیوں کے اس ادعا پر کہ اسلام کو محبت کا کیا پتا.محبت کی تعلیم تو عیسائیت نے سکھائی ہے.میں حضرت مسیح کی تعلیم کا کچھ نا کچھ اقتباسات بھی ساتھ لے کر آیا تھا مگر اب ان کو پڑھ کر سنانے کا وقت نہیں ہے.اسے آپ پڑھ کہ دیکھیں آپ کو نمایاں فرق محسوس ہوگا کہ اسلام کی محبت کی تعلیم اتنی وسیع ، اتنی کامل ہے کہ اگر چہ مسیح کی محبت کی تعلیم تو بہت ہی حسین ہے بہت ہی دلکش ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن جب مقابلے پر رکھتے ہیں یوں لگتا ہے کہ اس چہرے پر نور نہیں رہا، پھیکی پڑنے لگ جاتی ہے اسلام کی تعلیم کے مقابلے پر لیکن ہرگز اپنی ذات میں وہ حسن سے خالی نہیں.بہت ہی پیاری بہت دلکش تعلیم اس سے کوئی انکار نہیں مگر اسلام نے جس طرح اس محبت کی تعلیم کو انسانی زندگی کے ہر جزو میں داخل کر دیا ہے اس تفصیل کے ساتھ آپ کو کسی اور مذہب میں محبت کے فلسفے کا بیان نہیں ملے گا فرمایا لَنْ تَنالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ تم نیکی کو جانتے ہی نہیں تمہیں پتا ہی کیا ہے نیکی کیا ہوتی ہے؟ اگر یہ بات سیکھو تو خدا کے کی راہ میں سب سی اچھی چیز سب سے پیاری چیز قربان کرنانہ شروع کر دو یا خدا کی راہ میں اپنی سب سے پیاری چیز دینے کی تمنا اگر تمہارے دل میں پیدا نہیں ہوتی تو تم نیکی کو نہیں جانتے.اس کسوٹی پر جب ہم انبیاء کو پر کھتے ہیں اور خصوصاً حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے حالات پر نظر ڈالتے ہیں تو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں یہ چیز درجہ کمال کو پہنچی ہوئی دکھائی دیتی ہے.بہت سے انسان ایسے ہیں جو محبت کرتے ہیں سمجھتے ہیں کہ ہمیں اچھی چیز پیش کرنی چاہیئے اور پھر سوچتے ہیں اور متر دور ہتے ہیں یہ پیش کروں یا وہ پیش کروں ، یہ پیش کروں کہ وہ پیش کروں.چنانچہ صوفیاء کے بھی بہت سے دلچسپ واقعات اس میں ملتے ہیں اور عام دنیا میں محبت کرنے والوں کے بھی بہت سے واقعات ملتے ہیں کہ ایک خیال آیا یہ مجھے چیز سب سے زیادہ پیاری ہے پھر خیال آیا کہ نہیں یہ زیادہ

Page 249

خطبات طاہر جلد ۶ 245 خطبه جمعه ۳ را پریل ۱۹۸۷ء پیاری ہے پھر خیال آیا کہ زیادہ پیاری ہے اور پھر آخر وہی پیش کی.چنانچہ ہمایوں کے متعلق بھی بابر نے جب یہ سوچا کہ ہمایوں کی زندگی بچانے کے لئے میں خدا کے سامنے اپنی کوئی پیاری چیز پیش کروں تو کہتے ہیں کہ بابر اس کے گرد گھومتا رہا اور اس نے سوچا کہ میں یہ ہیرا جو بہت پیارا ہے یہ دے دوں اسے خیال آیا یہ ہیرا کیا چیز ہے میں یہ دے دوں پھر خیال آیا کہ پوری سلطنت مجھے بہت پیاری ہے.یہ پوری سلطنت دے دیتا ہوں اور پھر سوچتا رہا پھر آخر اس کو خیال آیا اس کے نفس نے اس کو بتایا کہ تمہیں تو اپنی جان سب سے زیادہ پیاری ہے.اس وقت اس نے عہد کیا اور خدا سے دعا کی کہ اے خدا! واقعی اب میں سمجھ گیا ہوں کہ مجھے سب سے زیادہ پیاری چیز میری جان ہے، میری جان لے لے اور میرے بیٹے کی جان بچالے.تاریخ میں لکھا ہے کہ واقعہ اس وقت کے بعد سے ہمایوں کی صحت سدھرنے لگی اور بابر کی صحت بگڑنے لگی.تو لوگ یہ سوچتے رہتے ہیں کہ کیا چیز پیاری ہے اور کیا کم پیاری ہے.آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں سوچا بلکہ اپنا سب کچھ پیش کر دیا اپنا سونا، جاگنا، اٹھنا، بیٹھنا چونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی ہر چیز پیاری ہوتی ہے.اپنی ہر چیز پیاری ہوتی ہے اور جب وہ زیادہ پیاری چیز دیتا ہے تو اس کے دل میں اطمینان رہ جاتا ہے کہ کچھ کم میں نے اپنے لئے بھی روک لی ہے اس سے کم جب پیاری دے دیتا ہے تو پھر اس کو کچھ نہ کچھ اپنے ہاتھ میں بھی دکھائی دیتا ہے اور وہ پھر اس کے بعد اس سے سب سے زیادہ پیار ہو جاتا ہے جو چیز پیچھے ہٹتی چلی جاتی ہے وہ زیادہ پیاری ہوتی چلی جارہی ہوتی ہے.کسی ماں کا سب سے لاڈلا بچہ مر جائے تو دوسرے بچے سے پہلے سے بڑھ کر پیار ہو جاتا ہے اور یہ مضمون انسانی فطرت کے ہر پہلو پر حاوی ہے.تو آنحضرت ﷺ نے یہ سودا نہیں کیا کہ اے خدا میں نے اپنی سب سے پیاری چیز جب پیش کر دی یعنی اپنی جان دے دی اس لئے اب باقی چیزیں میری رہ گئیں لیکن فرما یا قُل اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) اے محمد ! تو محبت کرنا سکھا ان غلاموں کو.یہ تیرے غلام بن چکے ہیں مگر نہیں جانتے کس طرح مجھ سے محبت کے جائے تو محبت کے راز بتا ان کو.ان سے پتا چلتا ہے کہ خدا کا حکم نہ ہوتا تو آنحضرت ﷺ کے در پردہ عشق کے راز نہ بتاتے کسی کو.یہ بھی ایک عجیب حسین پہلو ہے جو میری نظر میں ابھرا اور بے ساختہ دل اور فریفتہ ہو گیا.بعض جگہ حکماً خدا تعالیٰ نے اپنے راز و نیاز کی باتیں بنی نوع انسان

Page 250

خطبات طاہر جلد ۶ 246 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء کو بتانے پر پابند فرما دیا آنحضرت ﷺ کو.ورنہ یہ بتاتے تو لوگوں کو پتا چلتا اتنا حسین ہے اس شان کا نبی جو اس قدر منکسر المزاج ہو.اس کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے حسن پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنی کمزوریاں کو چھپاتا نہیں اور یہی بنیادی فرق ہے.مادہ پرست اور خدا پرست میں ، مادہ پرست اپنی کمزوریوں پر پردے ڈالتا چلا جاتا ہے اور اپنے معمولی سے حسن کو بھی اچھالتا اور دکھا تا اور اس کی نشو و نما کرتا ہے اور پلیٹی اس کی زندگی کے ہر شعبے کا ایک جزولا ینفک بن جاتی ہے.تو خدا تعالی نے حکماً رسول اکرم ﷺ کو پابند فرمایا کہ تیری بعض خوبیاں جو میری نظر میں ہیں تیرے غلاموں کا بھی حق ہے کہ ان کو پتا چلے اس لئے کہ تا وہ تمہاری پیروی کر کے مجھ تک پہنچنا سیکھ جائیں.ان میں سے ایک یہ تھا کہ اپنا سب کچھ دے دو.چنانچہ انبیاء کی یہ سنت ہے کہ وہ اپنا سب کچھ دینے کی خاطر یہ سوچتے سوچتے کہ ہم اور کیا دیں اور کیا دیں، اپنی اولادیں بھی پیش کرتے ہیں اور بعض دفعہ ابھی اولاد پیدا بھی نہیں ہوتی تو پیش کر رہے ہوتے ہیں.ابرار کی یہ سنت ہے انبیاء کے علاوہ.جیسے حضرت مریم علیہ السلام کی والدہ نے یہ التجاء کی خدا سے:.رَبِّ إِنِّى نَذَرْتُ لَكَ مَا فِي بَطْنِى مُحَرَّرً ا فَتَقَبَّلْ مِنِّي ( آل عمران : ۳۶) لوج إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيْمُ کہ میرے رب جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے ہے پیش کر رہی ہوں نہیں پتا کیا چیز ہے لڑکی ہے یالڑ کا ہے.اچھا ہے یا برا ہے مگر جو کچھ ہے وہ سب کچھ تمہیں دے رہی ہوں تو فَتَقَبَّلُ مِنی مجھ سے قبول فرما إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِیم تو بہت ہی سننے والا اور جاننے والا ہے.وہ سنتا ہے اور علم رکھتا ہے اس کا اس مضمون کا الگ تعلق ہے اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر بہر حال یہ دعا حضرت مریم کی والدہ جو آل عمران سے تھیں کی خدا تعالیٰ کو ایسی پسند آئی جسے قرآن کریم میں آئندہ نسلوں کے لئے محفوظ کر لیا اور پھر حضرت ابرا ہیم کی دعا اپنی اولاد کے متعلق اور دوسرے انبیاء کی دعائیں اپنی اولاد کے متعلق یہ ساری قرآن کریم نے محفوظ فرما دیں.بعض جگہ آپ کو ظاہر طور پر وقف کا مضمون نظر نہیں آئے گا جیسا کہ یہاں آیا ہے مُحَرَّرًا اے خدا! میں تیری راہ میں اس بچے کو وقف کرتی ہوں لیکن بسا اوقات آپ کو یہ دعا نظر آئے

Page 251

خطبات طاہر جلد ۶ 247 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء گی کہ اے خدا جو نعمت تو نے مجھے دی ہے وہ میری اولاد کو بھی دے اور ان میں بھی انعام جاری فرما.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس رنگ میں دعا کی لیکن حقیقت میں اگر آپ غور کریں تو جو انعام مانگا جارہا ہے وہ وقف کامل ہے.کامل وقف کے سوانبوت ہو ہی نہیں ہوسکتی اور سب سے زیادہ بنی نوع انسان سے آزاد یعنی محر ر اور خدا کی غلامی میں جکڑا جانے والا نبی ہوتا ہے.تو امر واقعہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص یہ دعا کرتا ہے کہ میری اولا د میں نبوت کو جاری فرما تو اس دعا کا حقیقی معنی یہ ہے میری اولا د کو ہمیشہ میری طرح غلام در غلام در غلام بنا تا چلا جا.اپنی محبت میں اپنی اطاعت میں جکڑتا چلا جا اتنا کامل طور پر جکڑ لے کہ دنیا میں کوئی آزادی کا پہلو نہ رہے.تو محررًا کے مقابل پر دنیا سے آزاد کر کے میں تیرے سپرد کرتی ہوں.یہ مضمون اور بھی زیادہ بالا ہے وقف کا کہ میری اولا د کو تو اپنی غلامی میں جکڑ لے اور کوئی پہلو بھی آزاد نہ رہنے دے.بہر حال یہ بھی ایک پہلو ہے کہ جو کچھ تھاوہ تو دیا خدا کی راہ میں لیکن جوابھی ہاتھ میں نہیں آیا وہ بھی پیش کرنے کی تمنار کھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی چلہ کشی کی تھی اس مضمون میں چالیس دن یہ گریہ زاری کرتے رہے دن رات کہ اے خدا! مجھے اولا د دے اور وہ دے جو تیری غلام ہو جائے.میری طرف سے تحفہ ہو تیرے حضور.پس میں نے یہ سوچا کہ ساری جماعت کو میں اس بات پر آمادہ کروں کہ انگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں روحانی اولا د بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.دعوت الی اللہ کے ذریعے وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کو خدا کی راہ میں ابھی سے وقف کر دیں اور یہ دعامانگیں کہ اے خدا! ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگر تیرے نزدیک بیٹی ہی ہمارے لئے مقدر ہے تو ہماری بیٹی ہی تیرے حضور پیش ہے.ما في بطنی جو کچھ بھی میرے بطن میں ہے یہ مائیں دعائیں کریں اور والدین بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا! انہیں اپنے لئے چن لے اور اپنے لئے خاص کرلے تیرے ہو کر رہ جائیں اور آئندہ صدی میں ایک عظیم الشان بچوں کی فوج ساری دنیا سے اس طرح داخل ہورہی ہو کہ وہ دنیا سے آزاد ہو رہی ہو اور محمد رسول اللہ ﷺ اور محمد رسول اللہ ﷺ کے خدا کے غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو.چھوٹے چھوٹے بچے ہم خدا کے حضور تھے پیش کر رہے ہیں اور اس کی شدید ضرورت ہے آئندہ سوسالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہر جگہ پھیلنا ہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ

Page 252

خطبات طاہر جلد ۶ 248 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء غلام چاہئیں جومحمد رسول اللہ ﷺ اور خدا کے غلام ہوں.واقفین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اور ہر طبقہ زندگی کے ساتھ واقفین زندگی چاہئیں.ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں.اس سے پہلے جو ہم تحریک کرتے رہے ہیں بہت کوشش کرتے رہے لیکن بعض خاص طبقوں نے عملاً اپنے آپ کو وقف زندگی سے منتقلی سمجھا اور عملاً جو واقفین سلسلہ کو ملتے رہے وہ زندگی کے ہر طبقے سے نہیں آئے.بعض بہت صاحب حیثیت لوگوں نے بھی اپنے بچے پیش کئے لیکن بالعموم دنیا کی نظر میں جس طبقے کو بہت زیادہ عزت سے نہیں دیکھا جا تا درمیانہ درجہ کا غریبانہ جو طبقہ ہے اس میں سے وہ بچے پیش ہوتے رہے.اس طبقے کے ان واقفین زندگی کا آنا ان واقفین زندگی کی عزت بڑھانے کا موجب ہے عزت گرانے کا موجب نہیں لیکن دوسرے طبقے سے نہ آنا ان طبقوں کی عزت گرانے کا ضرور موجب ہے.پس میں اس پہلو سے مضمون بیان کر رہا ہوں ہرگز کوئی یہ غلط ہی نہ سمجھے نعوذ بالله من ذالک جماعت محروم رہ جائے گی اور جماعت کی عزت میں کمی آئے گئی اگر ظاہری عزت والے لوگ اپنے بچے وقف نہ کریں.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان خاندانوں کی عزتیں باقی نہیں رہیں گی جو بظاہر دنیا میں معزز اور خدا کے نزدیک وہ خود اپنے آپ کو آئندہ ذلیل کرتے چلے جائیں گئے اگر خدا کے حضورانہوں نے اپنے بچے پیش کرنے کا گر نہ سیکھا اور یہ سنت انبیاء ہے.انبیاء کے بچوں سے زیادہ معزز بچے اور کوئی بچے دنیا میں نہیں ہو سکتے.انہوں نے اس عاجزی سے وقف کئے ہیں اس طرح منتیں کر کے وقف کئے ہیں، اس طرح گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرتے ہوئے ، روتے ہوئے وقف کئے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے ان کو دیکھ کر.پس اگلی صدی کو شدید ضرورت ہے کہ جماعت کے ہر طبقے سے لکھوکھا کی تعداد میں واقفین زندگی ایک صدی کے بعد ہم دراصل خدا کے حضور تحفہ پیش کر رہے ہوں گے لیکن استعمال تو اس صدی کے لوگوں نے کرنا ہے بہر حال.یہ تحفہ ہم اس صدی کو دینے والے ہیں اس لئے جن کو بھی توفیق ہے وہ اس تحفے کے لئے بھی تیار ہو جائیں ہو سکتا ہے اس نیت کی اس نذر کی برکت سے بعض ایسے خاندان جن میں اولاد نہیں پیدا ہورہی اور ایسے میاں بیوی جو کسی وجہ سے اولاد سے محروم ہیں اللہ تعالیٰ اس قربانی کی روح کو قبول فرماتے ہوئے ان کو بھی اولا ددے دے.

Page 253

خطبات طاہر جلد ۶ 249 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء خدا تعالیٰ اس سے پہلے یہ کر چکا ہے جو انبیاء اولاد کی دعائیں مانگتے ہیں وقف کی خاطر مانگتے ہیں تو بعض دفعہ بڑھاپے میں بھی تو اولا د ہو جاتی ہے ایسی صورت میں بھی ہو جاتی ہے کہ بیوی بھی بانجھ اور خاوند بھی.حضرت زکریا علیہ السلام کو دیکھیں اس شان سے دعا کی تھی یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! میں تو بوڑھا ہو گیا ہوں میرا سر بھڑک اٹھا ہے بڑھاپے کے شعلوں سے اور ہڈیاں تک گل گئیں اور میری عاقر یعنی اس میں بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت ہی کوئی نہیں ہے لیکن میری یہی تمنا ہے کہ تیری راہ میں ایک بچہ پیش کروں اس لئے میری تمنا کو قبول فرما: و لَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّان (مریم:۵) اے میرے رب میں تیرے حضور یہ دعا کرتے کرتے کبھی بھی مایوس نہیں ہوا.میں کبھی بھی تیرے حضور مایوس نہیں ہو اشقیا کا لفظ حیرت انگیز فصاحت و بلاغت رکھتا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اے خدا! میں ایسا بد بخت تو نہیں کہ تیرے حضور دعا کر رہا ہوں اور مایوس ہو جاؤں اور تھک جاؤں.اس عظمت کی اس درد کی دعا تھی کہ اسی وقت دعا کی حالت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تجھے بیٹی کی خوش خبری دی خود اس کا نام رکھا اور اس میں بھی عظیم الشان خدا کے پیار کا اظہار ہے.عجیب کتاب ہے قرآن کریم ایسی ایسی پیار کی ادائیں سکھاتی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے آپ کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے آپ سوچتے ہیں کس سے نام رکھواؤں اور اسی جذ بہ جو یہی ہی محبت سے جماعت احمدیہ کو ہر خلیفہ وقت سے ہوتی ہے بعض لوگ بلکہ بڑی کثرت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ نام رکھیں.تو اللہ تعالیٰ نے پیشتر اس کے کہ حضرت زکریا کہتے کہ اے خدا میں اس کا کیا نام رکھوں یا سوچتے کہ میں کیا نام رکھوں خوشخبری کے ساتھ ہی فرمایا اسْمُهُ يَحْیى (مریم:۸) ہم رکھ رہے ہیں نام.یہ پیار حضرت ذکریا علیہ السلام سے تھا اور حضرت زکریا علیہ السلام کے دعا سے پیار تھا.پس اس رنگ میں آپ اگلی صدی میں جو خدا کے حضور تحفے بھیجنے والے ہیں یا بھیج رہے ہیں مسلسل احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بے شمار چندے دے رہے ہیں مالی قربانیاں کر رہے ہیں ، وقت کی قربانیاں کر رہے ہیں، واقفین زندگی ہیں، تو ایک تحفہ جو مستقبل کا تحفہ ہے وہ باقی رہ گیا تھا.مجھے خدا نے یہ توجہ دلائی کہ میں آپ کو بتادوں کہ آئندہ دو سال کے اندر یہ عہد کرلیں کہ جس کو بھی جو اولا دنصیب ہوگی وہ خدا کے حضور پیش کر دے گا اور اگر آج کچھ مائیں حاملہ ہیں تو وہ بھی اس

Page 254

خطبات طاہر جلد ۶ 250 خطبه جمعه ۳ اپریل ۱۹۸۷ء تحریک میں اگر پہلے شامل نہیں ہو سکی تھیں تو اب ہو جائیں وہ بھی یہ عہد کر لیں لیکن ماں باپ کومل کر کرنا ہوگا دونوں کو اکٹھے فیصلہ کرنا چاہئے تا کہ اس سلسلے میں پھر پجہتی بھی پیدا ہواولاد کی تربیت میں اور بچپن سے ان کی اعلیٰ تربیت کرنا شروع کر دیں اور اعلیٰ تربیت کے ساتھ ان کو بچپن سے ہی اس بات پر آمادہ کرنا شروع کریں کہ تم ایک عظیم مقصد کے لئے کے عظیم الشان وقت میں پیدا ہوئے ہو جبکہ غلبہ اسلام کی ایک صدی، غلبہ اسلام کی دوسری صدی سے مل رہی تھی اس جوڑ پر تمہاری پیدائش ہوئی ہے اور اس نیت اور دعا کے ساتھ ہم نے تجھ کو مانگا تھا خدا سے کہ اے خدا تو آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے اس کے عظیم الشان مجاہد بن جاؤ.اگر اس طرح دعائیں کرتے ہوئے لوگ اپنے آئندہ بچوں کو وقف کریں گئے تو مجھے یقین ہے کہ بہت ہی حسین اور بہت پیاری ایک نسل تمہاری آنکھوں کے سامنے دیکھتے دیکھتے اپنے آپ کو خدا کی راہ میں قربان کرنے لئے تیار ہوگی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.ہماری جماعت کے ایک بہت ہی مخلص اور ہر دل عزیز خادم، انگلستان کی جماعت کے بہت ہی معروف پرانے خادم ہیں یعنی ہدایت اللہ صاحب بنگوی ان کی درخواست آئی ہے کہ مکرمہ فضل بی بی صاحبہ جوان کی تایا زاد بہن اور بھا وجہ تھیں اور موصیہ تھیں اور بہت ہی مخلص فدائی احمدی تھیں وہ بہت دعا گو بزرگ خاتون تھیں وہ ۹۲ سال کی عمر میں وفات پاگئی ہیں اور ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.ان کے ساتھ ہی تین اور جنازوں کے لئے اطلاع ملی ہے ان کی بھی ان کے ساتھ ہی نماز جنازہ غائب ہو گئی.انصری بیگم صاحبہ موصیبہ تھیں قاضی رشیدالدین صاحب واقف زندگی پیشنر ربوہ کی اہلیہ تھیں.بشیر بی بی صاحبہ چوہدری محمود نواز صاحب چک 9 پنیار ضلع سرگودھا کی اہلیہ تھیں اور مکرم سردار احمد صاحب سعد اللہ پور ضلع گجرات کے ممبر جماعت احمد یہ ہیں ان کی تفصیل مجھے بتائی نہیں گئی.بہر حال ان سب کی نماز جنازہ غائب انشاء اللہ جمعہ کے معا بعد ہوگی.

Page 255

خطبات طاہر جلد ۶ 251 خطبه جمعه ۰ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء مبارک دوشنبہ اور فرائیڈے دی ٹینتھ کے تناظر میں تاریخی اہمیت کی حامل خوشخبریاں خطبه جمعه فرموده ۱۰ را پریل ۱۹۸۷ء بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ پیر کے روز جسے دوشنبہ بھی کہا جاتا ہے اور سوموار بھی کہتے ہیں.صبح ہی سے اللہ تعالی نے مختلف خوشیوں کی خبریں دکھانی شروع کیں.خبر کے ساتھ ویسے تو سنانے کا لفظ آتا ہے مگر خوشی کی خبر دکھانا بھی ایک محاورہ ہے.یعنی اسے جسے عملاً پورا ہوتے ہوئے، کرتے ہوئے.یہ کچھ چھوٹی بھی تھیں اور بڑی بھی مگر سب تاریخی نوعیت کی تھیں.مثلاً یوگوسلاویہ میں اگر چہ ایک لمبے عرصہ سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کامیاب تبلیغ ہوتی رہی ہے.باہر آ کر بھی ان میں سے احمدی مسلمان بنتے رہے اور اندر بھی.لیکن وہ سارے البانین، قوم سے تعلق رکھنے والے تھے.اور سر بوکر ویشن جو وہاں کی بڑی قوم ہے جن میں عیسائیت پائی جاتی ہے بڑی شدت کے ساتھ یاد ہر یت آگئی ہے سیاست سے.ان میں آج تک کوئی احمدی مسلمان نہیں ہوا تھا.تو اس کا سامان اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمایا کہ پیر کے روز صبح یہ خوشخبری ملی کہ وہاں کے ایک کیتھولک عیسائی جو پادری بھی تھے یا کم سے کم پادریوں کے ساتھ یہاں آتے رہے تھے اس سے پہلے، وہ خدا کے فضل سے بیعت کر کے اس دن سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہوئے اور چونکہ وہ پہلے ہیں اپنی قوم میں سے اور ایک بہت بڑی اور اہم قوم ہے اس لئے یہ تاریخی نوعیت کی خوشخبری ہے.

Page 256

خطبات طاہر جلد ۶ 252 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۸۷ء دوسری اس قسم کی خوشخبری آئس لینڈ سے ملی یا آئس لینڈ کی طرف سے ہے مگر وہ خوشخبری ملی سکاٹ لینڈ گلاسکو سے.گلاسکو میں ایک آئس لینڈ کے طالب علم پی ایچ ڈی کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے.انہوں نے یہاں آنے کے بعد تعلیم کے دوران احمدیت کے نقطہ نگاہ سے اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور ان کے دل پر رفتہ رفتہ اس کا اتنا اثر پڑا تو انہوں نے خط لکھا جو پیر ہی کے دن میں ملا یہاں کہ میں نے پوری تحقیق کے بعد احمدی مسلمان ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے اور فوری طور پر مجھ سے رابطہ کیا جائے.چنانچہ میں نے مبلغ کو اطلاع کی وہاں گلاسکو میں اور ان کی طرف سے خوشخبری ملی کہ با قاعدہ بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوئے.آئس لینڈ کو ہم نے غالبا ڈنمارک کے سپرد کیا ہوا تھا کہ کوشش کریں کہ آئس لینڈ میں پہلا اسلام کا پھل ملے لیکن باوجود کوششوں کے ڈنمارک سے کوئی بیعت نہیں ہوسکی.اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے پھل بھیجتا ہے اور بعض دفعہ بالکل ہی انسانی کوششوں کا کوئی دخل نظر نہیں آتا.تیسرے پیر ہی کے روز ہمارے بہت ہی اہم پریس کا افتتاح ہوا ہے جو جدید ترین پریس جس کا بڑی دیر سے میں جماعت سے وعدہ کر رہا تھا اور جماعت نے بہت ہی عظیم الشان تاریخی قربانیاں بھی کی تھیں اسکے کمپیوٹر سیکشن کا پیر ہی کے روز افتتاح ہوا اور یہ دو انفرادی یا چھوٹی بظاہر خبریں ہیں.گو پریس کی خبر چھوٹی نہیں کیونکہ اس کا بہت ہی وسیع اثر پڑے گا انشاء اللہ تعالی.لیکن اس سے آگے اور زیادہ دلچسپ اور زیادہ وسیع خوشی کی خبر یہ ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تقریباً ڈیڑھ مہینہ پہلے لائبیریا سے ایک ایسے چیف کی بیعت کی اطلاع ملی جو بڑے مخالف ٹیم سے تعلق رکھتے تھے اور وہ چیف نہیں بلکہ چیفوں کے چیف ہیں.اور His Royal Highness کہلاتے ہیں اور ان کے ماتحت چالیس چیفس ہیں، اتنا وسیع علاقے سے شاہی خاندان کے فرد ہیں.ان کا سادہ سا خط مجھے ملا اچانک اور جب میں نے ان کے ٹائٹل (القابات) پڑھے تو میں حیران ہوا کہ یہ تو ما شاء اللہ بڑے اثر ورسوخ والے آدمی ہیں.میں نے اسی وقت مبلغ کو فون پر اطلاع کروائی اور ایک جانے والے کے ہاتھ الیس الله بکاف عبدہ کی انگوٹھی ان کو تحفہ میں بھجوائی اور پیغام دیا کہ مجھے بہت خوشی ہوئی ہے مگرا کیلیے آپ کے آنے سے اتنی خوشی نہیں ہوگی جتنا اس بات سے خوشی ہوگی کہ آپ اپنے اثر و رسوخ کو آگے اسلام کی خدمت میں استعمال کریں اور لوگوں کے لئے راہنمائی کا موجب

Page 257

خطبات طاہر جلد ۶ 253 خطبه جمعه ۰ اراپریل ۱۹۸۷ء بنیں.وہ اس پر اتنا خوش ہوئے کہ انہوں نے اسی وقت عہد کیا کہ میں انشاء اللہ یہ کام کروں گا مگر اپنے طریق پر.میں نے کہا ٹھیک ہے آپ کریں.انہوں نے طریق یہ سوچا کہ بجائے اس کے کہ ایک ایک آدمی کو میں احمدی بناؤں مسلمان.اپنے برابر کے جو چیف ہیں ان کو کیوں نہ تبلیغ کروں تا کہ بڑے بڑے علاقوں پر اثر پھیلے.چنانچہ انہوں نے اپنے تین ہم مرتبہ چیفس کو تبلیغ شروع کی اور پیر کے دن یعنی ” دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ جسے کہا جاتا ہے اس دن دو ایسے چیفس کی بیعت کی اطلاع ملی.جن کے تابع چالیس چالیس چیف تھے اور بہت وسیع علاقے پہ یہ بات پھیل گئی اور انہوں نے بہت ہی خوشی کا اظہار کیا اپنے سعادت کا اظہار کیا مبلغ کو لے کے گئے.اپنا پیلس دکھایا ان میں سے ایک چیف نے اور کہا کہ یہ تو اللہ کا عجیب احسان ہے کہ خدا نے روشنی دکھا دی ورنہ ہم لوگ تو اندھیروں میں ہی رہنے والے تھے.تو بات وسیع تر ہوتی چلی گئی.اس پر مجھے خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود کو جو الہام ہوا تھا ” دوشنبہ ہے مبارک دوشنبه ( تذکره صفحه : ۱۱۰) جو ہم پر تو آج ایک دفعہ پھر پورا ہو گیا اور صرف یہی نہیں بلکہ مجھے اس سے ایک اور خیال آیا کہ ہم جو Friday The 10th خدا تعالیٰ کی طرف سے جو خبر ملی تھی اسے خواہ مخواہ محض انذاری خبر بنائے ہوئے ہیں حالانکہ خدا کی طرف سے تو کوئی شرط نہیں تھی کہ یہ انذاری خبر ہے اور جو چمک دکھائی گئی ہے بار بار کی وہ اس کو دونوں طرح سے سمجھا جاسکتا ہے.انذار کی بھی چمک ہوتی ہے اور خوشخبریوں کی بھی چمک ہوتی ہے.تو میرے دل میں یہ بات خدا تعالیٰ نے گاڑ دی ہے کہ جمعہ جو Friday The 10th “ آنے والا ہے اس میں ہی آئندہ کسی " Friday The 10th میں جماعت کے لئے ویسی ہی خوشخبری بہت بڑی دکھائی جائیگی.خیر اس انتظار میں اسی دن سے مجھے کچھ امید بندھی اور چونکہ جمعہ کا دن اسلامی نقطہ نگاہ سے جمعرات کا سورج غروب ہونے پر شروع ہو جاتا ہے اور انگریزی کیلنڈر کے لحاظ سے جمعہ کا دن رات بارہ بجے تک چلتا ہے تو جسے امید ہو تمنا ہو وہ کھینچتا ہے وقت کو دونوں طرف سے.اس لئے میں نے اس تمنا میں اس امید میں کہ خدا خوشخبری دکھائے اور وقت لمبا ہو جائے اس میں زیادہ خوشخبریاں مل سکیں.اپنے طور پر اندازہ لگایا کہ جمعرات کا سورج غروب ہوتے ہی یہ انتظار شروع کروں گا اور پھر دیکھیں کب خدا تعالیٰ کوئی خبر دکھاتا ہے.اس کے دوران منگل کے روز ہارٹلے پول مجھے جانے کا اتفاق ہوا.ہارٹلے پول میں

Page 258

خطبات طاہر جلد ۶ 254 خطبه جمعه ۰ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء ہماری وہ جماعت ہے جو ایک احمدی خاتون کی کوششوں سے بنی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور وہ چونکہ صرف خواتین میں تبلیغ کر سکتی تھیں اس لئے شروع میں صرف خواتین میں یہ جماعت بنی شروع ہوئی خواتین اور بچوں کی پھر انہوں نے اپنے خاوند کو بھی تبلیغ کی ان کو مبلغ بنایا اور کچھ میں نے ان کو کچھ کے دیئے کہ شرم کرو تمہاری بیوی بہت آگے بڑھ گئی ہے اور تم بیٹھے ہوئے ہو.وہ طبعا خاموش ہیں بہت اور ویسی ہی بات کرنی مشکل ہے لیکن وہ پٹھان ہیں آخر غیرت اتنی آئی کہ انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں بنا کے دیکھوں گا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر ان کے خاوند نے بھی تبلیغ شروع کی وہ بھی ہم میں شامل ہونا شروع ہو گئے.وہ ایک خاندان تھا وہاں اس وقت جب میں یہاں آیا ہوں ۱۹۸۴ء میں اور اب وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے دس خاندان ہیں جن میں سے ایک یا دو پاکستانی باہر سے آئے ہیں باقی سب مقامی انگریز خاندان ہیں.اس سے پہلے ایک انگریز خاتون کا خط آیا تھا کہ میں تو احمدی ہوگئی ہوں لیکن میرے خاوند نہیں مانتے اور ان کے متعلق ایک اور ذریعے سے اطلاع ملی کہ ان کی طرف سے کافی پریشانی ہے کیونکہ ان کے خاوند نے جو بیمار ہیں بیچاری خاتون بارہ سال سے مسلسل ان کی خدمت کی ہے وفا کے ساتھ اور قطعاً اس سے دل نہیں چرایا.لیکن ان کے مسلمان ہونے کا ان کو اتنا صدمہ پہنچا کہ انہوں نے طلاق کی دھمکی دیدی کہ اب میں یہ برداشت نہیں کر سکتا.تمہیں تکلیف جو کچھ ہے میں ہر طرح حوصلے سے برداشت کرونگا لیکن تم مسلمان ہو جاؤ یہ نہیں ہوسکتا ان کو میں نے لکھا کہ ان کو لے کر تو آؤ ان سے گفت و شنید ہو.چنانچہ وہ ہمارا احمدی جوڑا ان کو لے کر آیا ساتھ اور گفتگو کے بعد مجھے کافی ان کے دل میں تبدیلی نظر آئی ، کافی نرمی پیدا ہوئی، خدا کے فضل سے.اب جبکہ میں وہاں منگل کو گیا سوال جواب کی مجلس تھی تو انہوں نے مجھے خوشخبری بتائی کہ گزشتہ پیر کو میں بھی مسلمان ہو گیا ہوں خدا کے فضل سے اور باقاعدہ فارم بیعت پر دستخط کرنے والے دستخط کروالیں اور وہاں سوال و جواب کی مجلس میں ایک اور خاتون اپنے بچوں سمیت وہ بھی خدا کے فضل سے احمدی ہوگئی.ان کی طلاق ہوئی تھی ، ان کا خاوند نہیں تھا لیکن اور شخص سے ان کی دوسری شادی کی امید بندھی تھی.وہ اس کو بھی لے آئیں کہ وہ مجھ سے بات کرے.چنانچہ مجلس میں سوال رکھ دیئے اور آپ جمعہ کے دن انکی بیعت کی اطلاع مل گئی.خدا کے فضل سے.

Page 259

خطبات طاہر جلد 4 255 خطبه جمعه ۰ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء تو مسلسل خوشخبریوں پہ خوشخبریاں اکٹھی ہوئیں.لیکن ایک سب سے بڑی خوشخبری ابھی آپ کو بتانے والی باقی ہے.جس کا تعلق Friday The 10th “ سے ہے.ایک بہت بڑے مسلمان را ہنما کہ جن کا اتنا وسیع اثر ہے کہ کروڑوں مسلمان ان کی عزت واحترام کرتے ہیں.انہوں نے کئی کتب لکھیں بہت بڑے عالم دین، کئی زبانوں کے ماہر اور بہت بارسوخ انسان.ان سے کچھ عرصہ پہلے جمعرات کی شام کو ملاقات مقرر ہوئی تھی.لیکن یہ بھی عجیب تصرف ہے اللہ تعالیٰ کا کہ کسی وجہ سے تاخیر ہوتے ہوتے جب تک جمعہ شروع نہیں ہو گیا وہ ملاقات بھی شروع نہیں ہوئی.میں اس سلسلے میں فکر مند تھا اس نقطۂ نگاہ سے کہ یکطرفہ باتیں انہوں نے احمدیت کے متعلق سنی ہونگی اور چونکہ ان سے ملاقات اس نقطۂ نگاہ سے بڑی اہم ہے کہ بہت بڑی تعداد جو کروڑوں کی تعداد ہے مسلمانوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں ہمیں سہولت ہو جائیگی اگر ان پر نیک اثر پڑے.تو فکر مند بھی تھا دعا بھی کی تھی اور اس مجلس میں اپنے دو احمدی دوستوں کو بھی شامل کیا تا کہ ان کی بات کا بھی اچھا اثر پڑے.جب وہ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو عین سورج غروب ہوا جب تو اس وقت اتفاق ایسا ہوا.اتفاق نہیں بلکہ تصرف کہنا چاہئے کہ میں سات بجے سے انتظار کر رہا تھا مگر آٹھ بجے سے پہلے ملاقات نہ ہوسکی جو سورج غروب ہوا اور جمعہ کا دن شروع ہوا.ملاقات کے دوران یہ نظر آیا کہ انہوں نے جماعت کے متعلق دوسروں سے باتیں سنی ہوئی تھیں جماعت کے متعلق کوئی علم نہیں اور ان کا رویہ بھی درمیانہ سا تھا کیونکہ شریف انسان تعلیم یافتہ اس لئے وہ بغض کا اظہار تو بہر حال نہیں کر رہے تھے لیکن ایک خشک کا سا تعلق جس طرح ہوتا ہے کوئی قلبی تعلق نہ ہو، کوئی دلچسپی نہ ہو.لیکن رفتہ رفتہ پھر باتیں شروع ہوئیں تفصیل سے سارے مسائل ان کے سامنے میں نے بیان کئے.جماعت کیا ہے کیا کر رہی ہے اور امام مہدی کا ذکر کیا ، دعویٰ کیا ہے ، دوسرے مسلمان کیوں مخالف ہیں اور انہوں نے اشارۃ براہ راست کہہ کے تو نہیں اشارہ اس طرح کیا کہ دلیل بھی ہونی چاہئے.تو میں نے پھر ان کو ایک دو دلائل دیئے ان کو اور اس دوران ان کی شکل تبدیل ہونی شروع ہوئی یعنی محبت کے آثار پیدا ہونے شروع ہوئے واضح اور دیکھتے دیکھتے یوں لگا کہ جس طرح دل پکھل جاتا ہے ایک آدمی کا اور وہ بڑے کم گو ہیں دو باتیں انہوں نے کہیں.ایک یہ کہی کہ میں اپنی یہ خوش نصیبی سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے یہاں آنے کا موقع دیا

Page 260

خطبات طاہر جلد ۶ 256 خطبہ جمعہ اراپریل ۱۹۸۷ء کیونکہ کانوں سے سنی ہوئی باتیں بسا اوقات جھوٹی نکلتی ہیں.جب تک آنکھیں نہ دیکھ لیں اس وقت تک انسان کو مسیح پتا نہیں لگ سکتا اور آج مجھے خدا نے یہ موقع دے دیا کہ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ لوں اور خود پتا کرلوں کہ آپ کیا لوگ ہیں.دوسرا ایک بڑی معنی خیز فقرہ انہوں نے کہا جس سے مجھے بہت ہی امید پیدا ہوئی ہے.انہوں نے کہا کہ ایک لمبے عرصے سے میں اسلام کا تاریخی مطالعہ کر رہا تھا آنحضرت کے زمانے سے لے کر اب تک کا اور میں نے ہر طرف نظر دوڑائی اور خوب چھان پھٹک کی ،سب تلاش کی لیکن جس چیز کی مجھے تلاش تھی مجھے ملی نہیں.آج مجھے وہ مل گئی ہے اس سے بیعت تو انہوں نے نہیں کی لیکن اتنا حیرت انگیز فقرہ تھا ایک کم گو، اتنے بڑے عالم اور اتنے بڑے لیڈر کے منہ سے نکلا ہوا اتنا معنی خیز ہے کہ اس وقت مجھے یہ معلوم ہو کہ یہی وہ خوشخبری تھی جو پیر کے دن خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ ” Friday The 10th صرف جلال نہیں لے کے آئے گا بلکہ جمال لے کے بھی آئے گا اور احمدیت کی ترقی کے لئے انشاء اللہ نئے نئے دروازے کھولے گا اور جماعت کو میں ان خوشخبریوں میں اس لئے ساتھ شامل کر رہا ہوں کہ تکلیف دہ خبریں آپ سنتے رہے ہیں اس سے دل دعاؤں کی طرف مائل ہوتا ہے لیکن طمع کے ساتھ بھی تو دل دعاؤں کی طرف مائل ہوتا ہے حمد اور شکر سے دل بھرتا ہے اور اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شعر کی مصداق ہیں: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز 66 جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ اغم اغیار کا ( در تمین صفحه : ۱۰) تو کبھی ایسی باتیں بھی آپ کو بتانی چاہئیں کہ ہمیں اغیار کا جھگڑا کچھ دیر کے لئے کٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کی حمد سے دل لبریز ہو جائیں اور حمد و ثناء کے ساتھ دعائیں اٹھیں اس لئے دعا ئیں کریں.اب معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا کی تقدیر بڑی تیزی سے جماعت احمدیہ کو اس عظیم عالمی انقلاب کی طرف لے کے جارہی ہے جس کا لانا ہمارے قبضہ قدرت میں نہیں ہے.وہ خدا کی تقدیر کے قبضہ قدرت میں ہے اور نئی صدی میں داخل ہونے سے پہلے خدا عظیم الشان دروازے کھولنا چاہتا ہے جماعت کی ترقیات کے اور ان کے لئے تیاری کی خاطر میں آپ کو بار بار مختلف نصیحتیں کرتا رہا ہوں آئندہ بھی پھر اسی مضمون کولوں گا کہ تقویٰ کا دوسرا پہلو کیا ہے جس کا خوف سے تعلق ہے اور اس سلسلے

Page 261

خطبات طاہر جلد ۶ 257 خطبه جمعه ۰ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء میں جماعت پر کیا مزید ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں.بہر حال آج تو حمد وثنا کا دن ہے خاص طور پر اور خوب دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اور بھی ان راہوں کو وسیع کردے.آج بھی خدا کے فضل سے ساتھ ایک بہت ہی اہم مسلمان لیڈر سے ملاقات ہے جو کسی پہلو سے بھی اپنی اہمیت میں پیچھے نہیں ہیں تو ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تو فیق عطا فرمائے کہ اس رنگ میں ان کے سامنے نقطۂ نگاہ پیش کر سکوں کہ ان کے ذریعے بھی ہمیں بڑی بڑی وسیع قوموں میں احمدیت کا پیغام پہنچانے کی توفیق ملے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: اس سے پہلے ذہن اس طرح تھا جو خطبہ میں بیان کرتا رہا ہوں اس لئے از خود پڑھتا رہا ہوں وہ دعائیں ذہن اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ خوشخبریوں میں پھنسا ہوا تھا.اس لئے دو دفعہ زبان بہکی اور دوسری طرف چلنے لگی.دو خطبوں کے درمیان چند ایسے وفات شدہ دوستوں کے جنازے کا اعلان کرنا تھا جن کی نماز جنازہ ابھی انشاء اللہ غائبانہ نماز جنازہ جمعہ کے بعد ہوگی.ایک تو ہمارے بہت ہی مخلص انڈونیشیا کے دوست تھے جو ساؤتھ سولا والسی کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے اور ایک علاقے کے جماعت کے سیکرٹری تبلیغ تھے بڑے مخلص ، فدائی احمدی مکرم عمر عبداللہ صاحب ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.دوسرے ہماری جماعت انگلستان کے ایک مخلص جو انصار میں ہیں.شمیم احمد خان صاحب جو نائب زعیم اعلیٰ یو کے ہیں اور مکرم نعیم احمد خان صاحب ان کے بھائی کراچی میں ہیں.ان کے والد سلسلہ کے بڑے پرانے بزرگ تھے، بہت ہی فدائی اور عاشق ان کی بھی اطلاع ملی ہے وفات کی.اسی طرح ہمارے ایک اسیر راہ مولیٰ ملک محمد دین صاحب جو بڑی عمر کے ہیں اور اس وقت ساہیوال جیل میں ہیں ان کی بیگم کی وفات ہوئی مکرمہ حفیظ بیگم صاحبہ کی سابق ریٹائر ڈ انسپکٹر پولیس تھے.لیکن جہاں احمدیت کی دشمنی آجائے وہاں یہ باتیں اپنا اثر نہیں دکھاتیں.بڑی تگ و دو کے بعد ان کے لئے تین گھنٹے کی اجازت ملی جیل سے وہ ہتھکڑیوں میں گھر میں اپنی بیوی کا منہ دیکھ لیں آخری دفعہ انکی بھی وفات کی بڑی دردناک اطلاع ہے.اس لئے ان کی بھی نماز جنازہ غائب جمعہ کے معا بعد ہوگی.ایک اور ہمارے سلسلے کے معروف دوست ایک لمبے عرصے سے امریکہ میں بیماری کے دن

Page 262

خطبات طاہر جلد ۶ 258 خطبه جمعه ۰ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء کاٹ رہے تھے اس لئے نظر سے غائب رہے ورنہ کراچی جماعت کے ایک بہت ہی معروف اور ہر دلعزیز دوست تھے ملک بشیر احمد صاحب نیووے ڈرائی کلین والے جن کی وہاں ڈرائی کلین وغیرہ کی دکان وغیرہ تھی.جب سے انہوں نے ڈرائی کلین کی دکان کھولی ہے اس وقت کے لحاظ سے سب سے جدید مشین تھی بڑا شور پڑ گیا تھا کراچی میں ایک بہت ہی عظیم الشان ڈرائی کلین کا انتظام ہوا ہے.بڑے دلچسپ مرنجان مرنج انسان تھے.یہ چار جنازے کی خبریں ہیں جن کی انشاء اللہ نماز جنازہ نماز جمعہ کے بعد ہوگی.

Page 263

خطبات طاہر جلد ۶ 259 خطبہ جمعہ ۱۷ اپریل ۱۹۸۷ء جلسہ سالانہ جرمنی کے موقع پر محبت الہی اور تقویٰ کی لطیف تفسیر ، بہترین زادراہ تقویٰ ہے ( خطبہ جمعہ فرموده ۷ ارا پریل ۱۹۸۷ء بمقام ناصر باغ فرینکفورٹ جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ جرمنی کا سالانہ جلسہ شروع ہورہا ہے.عموما تو دستور یہی ہے کہ جمعہ کے دن جلسہ شروع ہوتا ہے لیکن افتتاحی خطاب جمعہ کے بعد اس مجلس میں ہوتا ہے جو خالصہ جلسے کی غرض سے بلائی جاتی ہے لیکن اس روایت سے ہٹ کر آج میں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میرا خطاب جو افتتاحی ہے وہ جمعہ پر ہی رکھ لیا جائے اور جمعہ اور افتتاحی خطاب اکٹھے ہو جائیں کیونکہ مجھے جمعہ اور افتتاحی خطاب جبکہ اکٹھے ہو چکے ہیں ان کے معا بعد واپس جانا ہے اور واپسی سے پہلے، معا بعد تو نہیں کہنا چاہئے تھا کچھ عرصے کے بعد لیکن واپسی سے پہلے بہت سے اور کام ہیں جو یہاں کرنے ہیں کچھ میٹنگز ہیں مجلس عاملہ وغیرہ سے کچھ اور دوسرے جماعتی کاموں کے سلسلے میں وقت صرف کرنا ہے اس لئے مجبور امیں باقی وقت آپ کے ساتھ نہیں رہ سکوں گا لیکن ابھی میں نے امیر صاحب سے اس بارے میں بات کی ہے کہ اگر جمعہ کے معا بعد اسی جگہ اسی طرح بیٹھے ہوئے جلسہ شروع ہونا ہے تو فوراًبعد میں چلا گیا تو اس کا مجھے بھی صدمہ ہو گا آپ کو بھی اس کا خیال ہوگا کہ ٹھیک ہے جمعہ میں افتتاح تو ہوگیا لیکن جو باقاعدہ آغاز ہوا تھا اس میں میں موجود نہیں تھا.اس لئے میں نے تھوڑی سی یہ ترمیم کر لی ہے پروگرام میں کہ جمعہ کے بعد جب جلسہ شروع ہو گا تو تلاوت اور نظم میری موجودگی میں ہو

Page 264

خطبات طاہر جلد ۶ 260 خطبہ جمعہ ۷ ا ر اپریل ۱۹۸۷ء جائیں گے اس کے بعد افتتاحی دعا بھی ہم اکٹھے کر لیں گے پھر میں آپ سے اجازت چاہوں گا.دوسرے اس کی اس لئے بھی ضرورت پیش آگئی کہ آپ لوگوں کو جب تک نعرے نہ لگا ئیں مزہ نہیں آتا اور یہ آپ کی مجبوری خاص طور پر ہے کیونکہ دنیا کی جتنی بھی احمد یہ جماعتیں میری نظر میں ہیں اور بہت بڑی تعداد ہے جو میری نظر میں ہے ان میں نو جوانوں کا ایسا تناسب اور کہیں نہیں جیسا جرمنی میں ہے.اس وقت یہ جماعت کا اجتماع ہے لیکن سرسری نظر سے کوئی پہچان نہیں سکتا کہ یہ جماعت کا اجتماع ہے یا خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہے.اس پہلو سے آپ کا خون ماشاء اللہ گرم ہے اور جلسے پر نعرے لگانے کی عادت ہے اور جمعہ پر نعرے لگا نہیں سکتے منع ہے اس لئے کچھ آپ کو خلا کا احساس رہ جانا تھا تو چند منٹ جو آپ کے ساتھ گزاروں گا اس وقت بے شک جتنے نعرے لگانے ہیں لگا لینا لیکن جمعہ کے آداب کولو ظ ر کھتے ہوئے اس خطاب کے دوران ہرگز کسی قسم کی کوئی آواز بلند نہ ہو.گزشتہ چند خطبات میں میں تقویٰ کی طرف جماعت کو توجہ دلاتا رہا ہوں اور یہ سلسلہ ابھی آگے بڑھانے کا پروگرام ہے.آج بھی اسی موضوع سے متعلق میں چند باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کچھ ہو سکتا ہے پہلے بھی بیان کر چکا ہوں لیکن بطور خاص آج کے اجتماع میں میں سمجھتا ہوں کہ تقویٰ کے ایک دو ایسے پہلو ہیں جن کا یہاں بیان کرنا بہت ضروری ہے.میں اس سے پہلے بتا چکا ہوں کہ تقویٰ ایسے خوف کو نہیں کہتے جیسے کسی جنگلی جانور سے یا فرضی توے سے خوف ہوتا ہے.تقویٰ کا یہ ترجمہ اللہ کا خوف اختیار کرو، اللہ کا ڈراختیار کرو یہ ایک زبان کی مجبوری ہے ورنہ حقیقت میں ڈر اور خوف تقویٰ کے مضمون کو ہرگز بیان نہیں کر سکتے.وجہ یہ ہے کہ ڈر کے نتیجے میں تو انسان دور بھاگتا ہے.جس چیز سے خوف ہواس سے ہلتا ہے اور بچتا ہے اور اللہ سے تعلق میں تو خدا تعالیٰ تقویٰ کے ذریعے بندے کو اپنی طرف کھینچتا ہے.جتنا تقویٰ کا معیار بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ انسان اپنے آپ کو خدا کی گود میں محسوس کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ے ابتداء سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں مثل طفلِ شیر خوار (در تمین صفحه: ۱۲۶)

Page 265

خطبات طاہر جلد ۶ 261 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء کہ اے میرے آقا ! مجھے تو جب سے ہوش آئی ہے میں نے اپنے آپ کو تیرے ہی سائیہ رحمت تلے پایا ہے.گود میں تیری رہا میں مثلِ طفلِ شیر خوار عمر گزرتی گئی مگر میں نے ہمیشہ اپنے آپ کو تیری گود میں اس طرح محسوس کیا جیسے ایک دودھ پیتا بچہ اپنی ماں کی گود میں ہوتا ہے.تو دودھ پیتے بچے کو تو ہر دوسری چیز سے خوف ہوتا ہے سوائے ماں کی گود کے بلکہ اس کے خوف کا احساس ہی ماں کی گود سے علیحدگی کے نتیجے میں شروع ہوتا ہے.ایک دودھ پیتے بچے کی نفسیات پر جب ماہرین نفسیات نے مزید غور کیا اور تحقیق کی تو ان کو پتا چلا کہ اس کے لئے سوائے گود کے اور خصوصا ماں کی گود کے اور کوئی امن کی جگہ نہیں اور جو بچے اس گود سے محروم رہ جائیں وہ ہمیشہ کئی قسم کی نفسیاتی بیماریوں کا شکار رہتے ہیں ، ان کا احساس تحفظ اٹھ جاتا ہے وہ اپنے آپ کو خالی خالی اور بغیر دفاع کے پاتے ہیں.تو تقویٰ کا یہ معنی کرنا کہ خدا کا خوف اختیار کرو ان میں جن معنوں میں اللہ تعالیٰ کے خوف کو ہم سمجھتے ہیں یہ لفظ تقویٰ سے بہت زیادتی ہوگی کیونکہ اس کا حقیقی مفہوم اس سے بالکل برعکس ہے.خوف ان معنوں میں کہ اس خوف میں ہمیشہ مبتلا ہو کہ خدا سے دور نہ چلے جاؤ کیونکہ خدا کی دوری کا خوف جو ہے، اُس سے ڈرتے رہنا یہ ہے تقویٰ کی حقیقی تعریف.اس سلسلے میں میں آپ کو اس سے پہلے خطبات میں یہ بتا چکا ہوں کہ تقویٰ دو مرکزی فطرت کے سرچشموں سے پھوٹتا ہے.ایک محبت سے اور ایک خوف سے.وہ خوف کن معنوں میں ہے اس سلسلے میں میں آئندہ آپ کے سامنے کچھ بیان کروں گا.وہ کون سا خوف ہے جس میں تقوی کی جڑیں پیوستہ ہوتی ہیں لیکن بنیادی طور پر سب سے اعلیٰ تقوی سب سے اونچے درجے کا تقویٰ خالصہ محبت میں جڑیں رکھتا ہے اور محبت الہی سے پیدا ہوتا ہے.پس قرآن کریم نے جب فرمایا: - فَإِنَّ خَيْرَ الزَّادِ التَّقوى (البقره: ۱۹۸) که زاد راہ ،سفر کا خرچ سب سے اچھا تقویٰ ہے.تو اولین معنی اس آیت کے یہ ہیں کہ جہاں کا بھی تم سفر اختیار کرو خدا کی محبت لے کر چلو، خدا کی محبت اگر تمہارے ساتھ رہی تو تمہیں کبھی روحانی طور پر ضعف اور کمزوری کا احساس پیدا نہیں ہوگا.ہمیشہ تمہاری غذا تمہارے ساتھ ہوگی تمہاری تقویت کے سامان تمہارے ساتھ ساتھ چلیں گے اور کبھی بھی تم اپنے آپ کو بغیر رزق کے نہیں پاؤ گے.

Page 266

خطبات طاہر جلد ۶ 262 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء اس سلسلے میں چند باتیں جو میں آپ کے سامنے خصوصیت سے رکھنی چاہتا ہوں یہ ہیں کہ بہت سے احمدی ایسے نوجوان اور بڑے اور چھوٹے بھی ہیں، مرد بھی ہیں اور عورتیں بھی جنہوں نے جرمنی کا سفر اختیار کیا اور اسی طرح دیگر ممالک کا سفر اختیار کیا.ان کے سفر کی بنایا ان کے سفر کی وجہ مختلف تھی اور مختلف ہے، ہمیشہ مختلف رہے گی کیونکہ ہر انسان بعینہ ایک وجہ سے سفر نہیں کرتا.کچھ ایسے ہیں جن کو جذباتی طور پر شدید تکلیف پہنچی ایک ایسے ملک میں بستے ہوئے جہاں ان کے بنیادی حقوق پہ پہرے بٹھا دیئے گئے ، ہر قسم کے مذہبی حقوق ان کے تلف کر لئے گئے اور ان کے بزرگوں کو جن سے وہ بڑی محبت اور عقیدت رکھتے تھے ان کو مسلسل گالیاں دی گئی اور دی جاتی رہیں اور اب بھی دی جاتی ہیں اور ادھر سے ان کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں.تو نوجوان بسا اوقات اس صورتحال کے نتیجے میں یا تو اپنا ضبط کھو بیٹھتے ہیں اور کچھ ایسی حرکت کر گزرتے ہیں جو ان کے لئے بھی اچھی نہیں اور جماعت کے لئے بھی اچھی نہیں اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ اگر ایسا نہ کریں اور ضبط رکھیں تو ایسے نوجوان نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.تو کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے اس دباؤ کے نتیجے میں ہجرت کی.کچھ ایسے لوگ تھے جنہوں نے واقعہ جسمانی طور پر بھی تکلیفیں اٹھا ئیں، قید و بند کی صعوبتیں دیکھیں ، گالیاں کھا ئیں، پتھر کھائے ، گلیوں میں گھسیٹے گئے ، کلمہ پڑھنے کے جرم میں ان کو کئی قسم کی اذیتوں کا نشانہ بنایا گیا اور اس لئے وہ اس لحاظ سے بھی ہجرت کے اہل ٹھہرے کہ باہر کی دنیا جن چیزوں کو دیکھتی ہے وہ ان کو دکھا سکتے تھے کہ ہاں دیکھو! اگر جسمانی اذیت ہی تمہارے نزدیک ہجرت کا حقیقی محرک بننی چاہئے تو ہم جسمانی اذیت کے نتیجے میں باہر آئے ہیں لیکن یہ مطلب نہیں کہ ان کو روحانی اذیت نہیں تھی یہ دونوں چیزیں اکٹھی تھیں.ایک طبقہ وہ بھی ہے ، وہ بھی ہوگا اور ویسے میں امید رکھتا ہوں کہ بہت تھوڑا ہوگا کہ جنہوں نے محض اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا چاہا ہوگا.انہوں نے سوچا ہوگا کہ اس ہجرت کے طوفان میں جب لوگ جا رہے ہیں ہم بھی جائیں اور اپنی زندگی کی کیفیت بدلیں ، اپنے اقتصادی حالات بدلیں ، ہمارے گھر والے غریب ہیں مشکلات سے گزارا کر رہے ہیں تو باہر نکلیں اور ان کے لئے بہتر کمائی کی صورت پیدا کریں.جذ بہ تو یہ بھی نیک ہے لیکن اس نیکی کے اندر ایک تھوڑی سی خرابی کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے.جب وہ باہر جا کر کہتے ہیں کہ ہم اس وجہ سے نکلے تھے کہ جماعت احمدیہ کے ممبر ہونے کی

Page 267

خطبات طاہر جلد ۶ 263 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء وجہ سے ہماری زندگی وہاں اجیرن ہوگئی تھی تو ایسے بھی آپ میں سے ہوں گے جو یہ بات درست نہیں کہتے.تکلیف تو تھی لیکن تکلیف کی وجہ سے ہر شخص نے ہجرت نہیں کی بعض ایسے بھی ہیں جنہوں نے محض اقتصادی فوائد کی خاطر ہجرت کی ہوگی لیکن عمومی طور پر یہ بات کہی جاسکتی ہے، فردا فردا کسی ایک شخص کے متعلق یہ کہنا جائز نہیں کہ فلاں شخص نے یہ حرکت کی ہے لیکن جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جنہوں نے اس لئے ہجرت کی وہ خود جانتے ہیں.ان کے دل گواہ ہیں اور ان سے زیادہ اس صورتحال سے کوئی باخبر نہیں ہے.اس قسم کی ہجرت کرنے والوں میں ایسے بھی ہیں جو وہاں تقویٰ کے نسبتا بہتر مقام پر فائز تھے.عبادتیں بھی کرتے تھے ، جہاں تک توفیق ملے نماز با جماعت بھی ادا کرتے تھے، نظام جماعت سے بھی تعلق رکھتے تھے اور مالی اور دیگر قربانیوں میں جہاں تک تو فیق ملتی تھی حصہ لیتے تھے یا کم سے کم حصہ لینے کی حسرتیں ضرور رکھتے تھے.بہت سے ایسے تھے جو غربت کی وجہ سے مختلف قسم کی مالی قربانیوں میں حصہ نہیں لے سکتے تھے مگر دل میں تمنا ضرور تھی اور کچھ ایسے بھی ہیں جو وہاں جماعتی نقطہ نگاہ سے اچھی زندگی نہیں گزار رہے تھے.نہ تو نظام جماعت کا فرد تھے ، نہ عبادت کے لحاظ سے ان کی صورتحال تسلی بخش تھی ، نہ ان کو دین سے کوئی طبعی ایسی محبت تھی ایسے بھی تھے جو ورثہ میں احمدیت کو پانے والے تھے لیکن ان کا اٹھنا بیٹھنا ایسے لوگوں میں تھا ایسی غلط سوسائٹی میں تھا کہ کئی گندی عادتیں وہ ساتھ لے کر آئے.اب کئی قسم کے لوگ یہاں اکٹھے ہو گئے نیت کے لحاظ سے بھی اور عملی حالت کے لحاظ سے بھی لیکن جرمنی میں پہنچنے کے بعد جب آپ کو ایک غیر عمومی نظر سے دیکھتا ہے تو اس کو اس پس منظر کی تفریق کا علم نہیں ، اس کو نہیں پتا کہ کون کس نیت سے وہاں سے نکلا تھا کس حد تک اس میں خدا کا حصہ تھا، کس حد تک اس میں نفس کا حصہ تھا.وہ نہیں جانتا کہ کس معیار کا احمدی پاکستان سے چلا تھا، اعلیٰ اخلاقی قدریں لے کر وہاں سے نکلا تھا یا اخلاقی قدروں سے محروم خالی ہاتھ وہاں سے نکلا تھا.ایسا تھا جو دنیا کے لحاظ سے تو محروم تھا لیکن دین کے لحاظ سے نہیں تھا یا ایسا تھا کہ دونوں لحاظ سے اس کے دامن میں کچھ بھی نہیں تھا.اس لئے وہ عمومی طور پر جب آپ کا جائزہ لیتا ہے تو آپ کو جماعت کا نمائندہ اور جماعت کا سفیر سمجھتا ہے اور یہاں آنے کے بعد آپ میں سے کچھ ایسے ہیں جو بد قسمتی سے چونکہ وہیں سے کمزوریاں رکھتے تھے یہاں آکر نئی کمزوریوں کا بھی شکار ہو گئے.بہت سی ایسی برائیوں

Page 268

خطبات طاہر جلد ۶ 264 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء نے کھلے ہاتھوں ان کا استقبال کیا جن کے تصور سے بھی وہاں وہ خوف کھاتے تھے اور وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ سوسائٹی میں کھلم کھلا میں ایسی حرکت کر سکوں گا لیکن یہاں کی سوسائٹی نے اپنے دروازے کھولے ان کا استقبال کیا، برائیوں نے زیادہ استقبال کیا اور خوبیوں نے کم استقبال کیا.نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لوگ جو کمزوریاں لے کے چلے تھے یہاں آنے کے بعد اور بھی زیادہ کمزوریوں کا شکار ہو گئے اور چونکہ داغ زیادہ دکھائی دیتا ہے اور بے داغ حصہ کم دکھائی دیتا ہے.ایک سفید چادر پر اگر داغ پڑا ہوتو وہ بہت نظر کو برا لگتا ہے فوراً پہلے داغ پر نظر جاتی ہے.بعض لوگ جو نوکروں سے کام لیتے ہیں صفائیوں کا خواہ انڈسٹریل ہو یا دوکانوں کا یا گھروں کا وہ جب صفائی کے بعد گھر میں داخل ہوتے ہیں یا دکان میں داخل ہوتے ہیں تو چاروں طرف نظر ڈالتے ہیں اور صفائی ان کو خوشی نہیں دیتی لیکن جو گندہ داغ ہے وہ جہاں بھی پڑا ہو و ہیں نظر ان کو پکڑ لیتی ہے کہتے ہیں اچھا اس کا نام تم نے صفائی رکھا ہوا ہے.یہ تو گندہ داغ رہ گیا ہے تم کام چور ہو، ہم نکتے ہو اور کئی قسم کی سخت زبان اس کے خلاف استعمال کرتے ہیں اور اس کی صفائی کو بھول جاتے ہیں.توایسی جماعت جو دنیا کے سامنے جماعت کے بانی نے تقویٰ کے اعلیٰ معیار کے طور پر، نمونہ کے طور پر پیش کی ہو جس کے متعلق اس نے دعوی یہ کیا ہو کہ میں تمہی میں سے نسبتا کمزور اور ادنیٰ حالت میں لوگوں کو پکڑتا ہوں اور اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ ان میں ایک پاک تغیر پیدا کرتا چلا جا رہا ہوں.ایک نئی روحانی پرندوں کی جماعت تمہاری مردہ مٹی سے پیدا کر رہا ہوں.یہ دعوی کیا ہو تو دنیا کی نگاہ اور بھی زیادہ برائیوں کی تلاش میں مستعد ہو جاتی ہے اور بہت نمایاں طور پر اس کو گندے داغ دکھائی دینے لگتے ہیں اور اگر یہ داغ زیادہ ہوں اور بدقسمتی سے ایسے لوگ زیادہ آئے ہوں جو کمزوریاں لے کر باہر نکلے ہیں تو دیکھنے والا بالعموم باقی سب کو نظر انداز کر کے انہی کمزور لوگوں پر نظر رکھے گا اور جماعت احمدیہ کے متعلق جو بھی تصور باندھے گا ان کو پیش نظر رکھ کر باندھے گا.اس لحاظ سے آپ پر بہت ہی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پھر جب آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ آپ تبلیغ کریں آپ انقلاب عظیم برپا کر دیں ، اس ملک کی حالت بدل دیں اور اس ملک کا شکریہ اس طرح ادا کریں کہ انہوں نے آپ کو اقتصادی اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالا ہے آپ ان کو روحانی اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالیں اور هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ

Page 269

خطبات طاہر جلد ۶ 265 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن :۶۱) پر یہ عمل کر کے دکھا ئیں کہ ادنی احسان کے بدلے ان پر اعلیٰ احسان کریں.جب آپ سے یہ توقع کی جاتی ہے تو وہ کمزوری والا پہلو اور بھی زیادہ نمایاں ہوکر تکلیف دہ شکل میں سامنے آجاتا ہے.ان سب باتوں کا کیا حل ہے ؟ ایک تو وہ حل ہے جو مسلسل جماعت میں جاری ہے تنظیمیں کوشش کر رہی ہیں.کہیں الجنہ اماءاللہ کام کر رہی ہے، کہیں اطفال الاحمدیہ کہیں خدام الاحمدیہ، کہیں انصار اللہ کہیں جماعت کا عمومی نظام ہے اور یہ ایک بہت ہی لمبا کام ہے اور ہمیں جلدی ہے، ہمارا وقت تھوڑا ہے ہمیں بہت جلدی انقلاب برپا کرنا ہے.ہم صبر سے انتظار نہیں کر سکتے کہ مدتوں کے بعد آہستہ آہستہ منجھ کر یہ لوگ صاف ہوں اور پاک ہوں.اس کا کیا حل ہے؟ اس کا سب سے اعلیٰ ، سب سے اول اور سب سے آخر ، سب سے نمایاں اور سب سے زیادہ مؤثر حل یہ ہے کہ آپ کو محبت الہی کے تقویٰ کی تعلیم دوں.آپ کو بتاؤں کے سب بیماریوں کا حل ایک ہی ہے کہ ہر شخص خواہ کمزوری کی کسی حالت میں بھی ہے فوری طور پر اپنے رب سے محبت اور پیار کا تعلق پیدا کرنے کی کوشش کرے.یہ وہ تعلق ہے جس کے ساتھ کڑوی نصیحتیں شامل نہیں ہیں، یہ وہ تعلق ہے جس کے ساتھ نظام کی پکڑ شامل نہیں، یہ وہ تعلق ہے جس کے ساتھ کوئی طعن آمیزی شامل نہیں ہے، کوئی دنیا کی سزا کا اس میں دخل نہیں.ایک لمحہ آپ کی زندگی کا آپ کے اندر ایک عظیم روحانی انقلاب بر پا کرسکتا ہے اور وہ لمحہ اس فیصلے کا لمحہ ہے کہ آپ نے اپنے رب سے محبت کرنی ہے، اُس کی یاد کو دل میں بسانا ہے، زیادہ سے زیادہ اس کے قریب ہونے کی کوشش کرنی ہے.اگر یہ لمحہ آپ کو نصیب ہو جائے تو خواہ آپ دنیا اور آخرت دونوں لحاظ سے خالی ہاتھ پاکستان سے چلے تھے آپ کو دونوں جہان کی دولتیں نصیب ہو جائیں گی.نہ آپ تہی دامن رہیں گے دنیا کے لحاظ سے نہ آپ تہی دامن رہیں گے آخرت کے لحاظ سے اور وہی لمحہ محبت الہی کالمحہ ہے جو دونوں جہان کی دولتیں نصیب کرنے والالحہ ہے.اسی لئے سب سے زیادہ زور قرآن کریم نے محبت کے تقویٰ پر دیا ہے اور اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زندگی میں بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق کو آپ کے دشمنوں نے بھی عشق کے تعلق کے طور پر دیکھا ہے.عرب جو آپ کے شدید دشمن تھے وہ بھی برائیوں کی تلاش میں اس سے بہت زیادہ تھے جتنا یہاں کا ماحول آپ کی برائیوں کی تلاش میں ہے لیکن بڑی گہری نظر کے مطالعہ کے بعد

Page 270

خطبات طاہر جلد ۶ 266 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء اور بڑی گہری دشمنی کی نظر کے مطالعہ کے بعد اُنہوں نے یہ فیصلہ دیا کہ عشق محمد ربہ کہ ہمیں تو یہ پتا لگ رہا ہے کہ یہ شخص محمد اپنے رب کا عاشق ہو گیا ہے اور جب عرب عشق کا لفظ ان معنوں میں بولتا تھا تو مراد یہ ہوتی تھی کہ عشق میں پاگل ہو گیا ہے، دنیا و مافیھا کی ہوش نہیں رہی ،سب کچھ گنوا بیٹھا ہے.سوائے اللہ اللہ کے اس کو کچھ یاد ہی نہیں رہا اور کچھ اس کے اوپر کسی رنگ میں اثر انداز ہی نہیں ہوتا صرف خدا کا تصور ہے جو اس کی زندگی پہ چھا گیا ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم نے بیان فرمایا لیکن بد قسمتی سے بعض لوگوں نے اس کو سمجھا نہیں اور اس کے غلط معنی کئے جبکہ خدا نے فرمایا وَ وَجَدَكَ ضَا لَّا فَهَدى (اضعی : ۸) اے محمد! تیرے رب نے تجھے صال پایا اور مجھے ہدایت دی.ضال کہتے ہیں اس شخص کو بھی جو گمراہ ہو جائے اور اس شخص کو بھی جس کو ہوش ہی باقی نہ رہے.کسی خیال میں ایسا کھویا جائے ،کسی عشق میں ایسا مبتلا ہو جائے کہ دنیا و مافیھا ہاتھ سے گنوا بیٹھے اور سوائے ایک خیال کے کوئی خیال اس کے لئے باقی نہ رہے تو ضال سے مراد یہ تھی کہ اللہ نے تجھے اپنے عشق میں ایسے سرگرداں پایا کہ سب کچھ تیرے ہاتھوں سے کھویا گیا.سوائے خدا کے ذکر کے کچھ بھی باقی نہیں رہا.پس اس حالت کو دیکھ کر اللہ نے تجھ پر پیار کی نظر ڈالی فَهَدی اس نے پھر خود تیری ہدایت کا سامان فرمایا یعنی اپنا وصل عطا کیا.تو حقیقت یہ ہے کہ سب سے آسان سفر خدا کی راہ میں اور سب سے زیادہ قوی تربیت کرنے والا عنصر تقویٰ کا عصر ہے جو محبت الہی پر مبنی ہو اس کے بغیر آپ کا ہر سفر مشکل ہوگا.بہت سے لوگ مجھے جرمنی سے خصوصیت کے ساتھ خط لکھتے ہیں اپنی مشکلات میں دعاؤں کے لئے کئی قسم کے مسائل ہیں جن کا وہ ذکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجھے ان کے لئے توفیق بھی ملتی ہے اور مجھے یہ معلوم کر کے خوشی ہوتی ہے کہ ان کی توجہ دعا کی طرف ہے لیکن بعض دفعہ ایسے خطوں سے بعض تکلیف دہ شکلیں بھی سامنے آتی ہیں.بعض لوگ لکھتے ہیں کہ ہم نے اتنی دعائیں کیں کچھ بھی نتیجہ نہیں نکلا.اتنی سرکھپائی خدا کے سامنے کی ،اتنا کچھ مانگا لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا.اس لئے آپ کچھ اور زور لگائیں کہ یہ کام ہو جائے.تاثر یہ پیدا ہوتا ہے کہ گویا ہر شخص کی دعا سننے اور اسے ماننے پر خدا پابند بیٹھا ہوا ہے.ایسے لوگ دعا کا فلسفہ ہی نہیں سمجھتے.حقیقت یہ ہے کہ دعا کا فلسفہ بھی تقوی کے بغیر سمجھ نہیں آسکتا.ابھی کل

Page 271

خطبات طاہر جلد ۶ 267 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء کی بات ہے وبان بیلیم میں مقامی بیجین احمد یوں سے میں نے گفت و شنید کی تو ان کو اس طرف متوجہ کیا اور اسی مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے میں نے بعض باتیں ان کے سامنے کھولیں جو میں آپ کے سامنے بھی کھولنا چاہتا ہوں.خدا سے دعا مانگنے والے بندے مختلف انواع کے بندے ہوتے ہیں مختلف قسموں کے لوگ ہیں.کچھ ایسے ہیں جن پر جب تک انتہائی مصیبت کا وقت نہیں آتا وہ خدا سے دعا مانگنے کی طرف متوجہ ہی نہیں ہوتے.شدید بیقراری پیدا ہو جائے ، غرق ہورہے ہوں، کینسر نے گھیر لیا ہو، مررہے ہوں یا اسی قسم کی کوئی اور نا گہانی مصیبت یا پرانی بیماری بڑھتے بڑھتے نا قابل علاج ہو چکی ہو.جب ایسی مشکلات کا سامنا آتا ہے تو پھر وہ خود بھی دعا کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں یعنی ضرورت بھی وہ ہو جو حد سے بڑھ جائے وہ خدا کی یاد دلاتی ہے.اور کچھ ایسے ہیں جو وقتاً فوقتاً ضرورت کے وقت خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور ضرورت پورا ہونے پر بھلا بھی دیتے ہیں.لیکن کچھ ایسے ہیں جو ضرورت سے بے نیاز اپنے رب سے پیار کا تعلق رکھتے ہیں.خدا ان کی زندگی کا جزو بن چکا ہوتا ہے وہ اس کے بغیر رہنے کا تصور ہی نہیں کر سکتے.ان تینوں گروہوں کی حالتیں مختلف ہیں.پہلا گر وہ جو ہے وہ تو اس قسم کا نظریہ رکھتا ہے کہ میں تجھے اس وقت یا دکروں گا جب اور کوئی چارہ ہی نہیں رہے گا اور اس سے ادنیٰ حالت میں تجھے یاد کر نے کا کوئی سوال نہیں.جب ہر بات ہر طاقت مجھے چھوڑ دے گی جب کوئی اور سہارا باقی نہیں رہے گا پھر میں تجھے یاد کروں گا لیکن اس طرح سے آزماؤں گا اگر تو نے میری بات مان لی تو میں تیری عزت کروں گا اگر نہیں مانی تو تجھے سوسو گالیاں بھی دوں گا کہ تو کہاں سے خدا بنا پھرتا ہے.میں نے تو اتنی حد کر دی ، ماتھا رگڑا ہنتیں کیں اور تو نے بات ہی نہیں سنی میری دعاؤں کے ہوتے ہوئے میرا فلاں دوست مر گیا ، میں فلاں مصیبت کا شکار ہو گیا، میرا قرضہ نہیں اترا، یہ نہیں ہوا وہ نہیں ہوا اور تو عجیب خدا ہے اس لئے میرا تجھ سے کوئی تعلق نہیں رہا.ان کی دعا حقیقت میں چیلنج کا رنگ رکھتی ہے ایک مقابلے کا رنگ رکھتی ہے، ایک بغاوت کا رنگ رکھتی ہے، وہ چاہتے ہیں کہ خدا کو جب بھی یاد کریں ایک نوکر کے طور پر یاد کریں، ایک ادنی غلام کے طور پر یاد کریں اور وہ بھی روزمرہ بلانے والا نو کر نہیں ایسا نو کر جو کہیں دور بٹھایا گیا ہو جس کی شکل دیکھنا بھی انسان عام حالات میں گوارا نہ کرتا ہو لیکن کبھی ضرورت مجبور کر دے کہ ہاں اسے ضرور بلایا جائے

Page 272

خطبات طاہر جلد ۶ 268 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء اور اس سے کوئی گندہ کوئی مشکل کام لیا جائے.اس دعا کو دعا کہنا کہاں کی عظمندی ہے؟ اس دعا کے متعلق یہ تصور باندھنا کہ یہاں دل سے نکلے گی اور عرش پہ فوراسنی جائے گی.یہ کہاں کی ہوشمندی ہے؟ لیکن اللہ اپنے بندے پہ اتنا مہربان ہے کہ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ ایسے بندوں کی بھی میں سن لیتا ہوں اور یہ جانتے ہوئے بھی سن لیتا ہوں کہ جب خطرے ٹل جائیں گے تو مجھ سے اعراض کریں گے مجھے بھول جائیں گے ، میرا نام بھی نہیں پھر لیں گے اور ان کو پکارا کریں گے جو میرے سوا انہوں نے شریک بنارکھے ہیں پھر بھی خدا کبھی کبھی ایسے بندوں پر مہربانی فرماتا ہے کیونکہ وہ بہت ہی مہربان ہے.لیکن جہاں تک انسان کے زاویہ نگاہ کا تعلق ہے اس کا ہر گز حق نہیں ، ہرگز اس کو زیبا نہیں کہ اس دعا کو حقیقی معنوں میں دعا سمجھے اور پھر اس دعا پر ایسا انحصار کرے کہ گویا خدا پابند ہو چکا ہے اس حکم کو ماننے پر اور اگر نہیں مانے گا تو پھر میں سمجھوں گا کہ ہے ہی کوئی نہیں.جو لوگ ایسی شرطیں لگاتے ہیں اور ایسی حرکتیں کرتے ہیں ان کو معلوم ہی نہیں کہ خدا کیا ہے اور یہ وہی لوگ ہیں جن کی سنی بھی جائے تو تب بھی وہ خدا کو پا کر کھو دیتے ہیں.انہی کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم جانتے ہیں یہ بڑے خود غرض بندے تھے.میں نے تو ان کی سن لی انہوں نے مجھے چھوڑ دینا ہے کیونکہ اس لائق نہیں ہیں کہ میرے ساتھ رہیں.اس لئے دراصل ان کا چھوڑ دینا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ ان کی دعا سنتے وقت خدا جانتا تھا کہ ضرورت تو میں پوری کر دوں گا لیکن میرے ساتھ رہنے کے لائق نہیں ہیں.اسی قسم کی ایک دعا کا ذکر قرآن کریم میں اس فرعون کی دعا کے ذکر کے طور پر ملتا ہے جو موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابلے پر نکلا تھا.جب وہ غرق ہونے لگا تو اس نے دعا کی کہ اے خدا! تو مجھے نجات بخش میں آج اس وقت موسیٰ اور ہارون کے رب پر ایمان لاتا ہوں.گویا ایمان لانا فرعون کا کوئی اتنا بڑا خدا پر احسان تھا کہ اس کے نتیجے میں اس کی ساری خطائیں سارے مظالم اچانک معاف ہو جانے چاہئے تھے اور اچانک وہ مقبول بندہ بن جانا چاہئے.اللہ تعالیٰ نے اس کا جو جواب دیا وہ یہ تھا آئین (یونس : ۹۲) اب یہ معافی کا کون سا وقت ہے؟ جب تم کچھ کر سکتے تھے میرے بندوں کے خلاف اور میرے پیاروں کے خلاف اس وقت تم باز نہیں آئے ؟ اب تم میں طاقت کیا ہے؟ بے حیثیت لہروں کے تھپیڑوں کے رحم پر پڑے ہوئے ہو.اب تم معافی مانگ رہے ہواس معافی کے کیا معنی؟ لیکن میں پھر بھی رؤف رحیم ہوں میں تیرے بدن کو نجات بخش دوں گا (یونس:۹۳)

Page 273

خطبات طاہر جلد ۶ 269 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء لیکن اس شرط کے ساتھ کہ تیری روح مردود ہے اور نا مقبول رہے گی ، تیری روح کی نجات کا میں کوئی وعدہ نہیں کرتا.پس ایسے بندے جو محض اپنی ضرورت کے وقت خود غرضی کے نتیجے میں خدا کی طرف مائل ہوتے ہیں بعض دفعہ سنی بھی جاتی ہے فرعون کی بھی سنی گئی تھی ان معنوں میں لیکن خدا اس کے باوجودان کی روحوں کو قبول نہیں کرتا کیونکہ وہ بدن کی خاطر خدا کے خدمت میں حاضر ہوتے ہیں اور ان کی آس ان کی تمنا خدا سے بہت ہی چھوٹی اور بہت ہی گھٹیا ہوتی ہے.اللہ سے پیار کے نتیجے میں اُس کے پاس نہیں جاتے.پس آپ میں سے جو ضرورت مند ہیں وہ وہ نہ ہوں جو اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں.اگر پہلے خدا کو یاد کرنے کی عادت نہیں تھی تو مصیبت نے یاد کرادیا لیکن پھر اس شرط کے ساتھ دعا کیا کریں کہ ہم حقدار نہیں ہیں.ہم نے ساری زندگی تجھ سے اعراض کیا، ہماری ساری زندگی گناہوں اور غفلتوں کا شکار ہو گئی، جو کچھ تو نے دیا تیرا کرم تھا جو کچھ تو نے عطا کیا تیرا رحم تھا ہم کسی چیز کے بھی حقدار نہیں تھے اب تو ہمیں عطا فرمادے تو تیری عنایت ہے، نہ بھی عطا فرما تو کم سے کم اپنا تو بنالے.آئندہ کی زندگی میں ہمیں یہ اطمینان تو نصیب کر کہ ہم تیرے ساتھ رہیں اور تیرے ساتھ رہنے والے ہوں اور کبھی تجھ سے بے وفائی نہ کریں.یہ اگر دعا کریں ایسی مصیبتوں میں مبتلا لوگ تو ان کی دعا کی بھی کیفیت بدل جائے گی ان کی اپنی زندگیوں کی کیفیت بھی بدل جائے گی.آنا فانا وہ اپنے آپ کو ایک نئی زندگی میں پائیں گے نئی حالت میں دیکھیں گے اور محسوس کریں گے کہ انہیں وہ دن نصیب ہوا ہے جس کے بعد کوئی موت نہیں ہے، ایک ابدی زندگی ہے.پھر دوسری قسم کے لوگ ہیں جو نسبنا اعلیٰ مقام پر ہیں لیکن پھر بھی ادنی یعنی نہایت اعلیٰ مقام پر تو نہیں لیکن ان کے مقابل پر بہتر مقام پر فائز ہوتے ہیں.چھوٹی موٹی ضرورتوں کے وقت وہ خدا کو یاد کرتے رہتے ہیں اور جب وہ ضرورتیں ٹل جاتی ہے تو پھر وہ بھول بھی جاتے ہیں ساتھ ساتھ.وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ محبت کا تعلق دوطرفہ ہوا کرتا ہے اگر آپ خدا کو یاد کرتے ہیں اس وقت جب آپ کو خدا کی ضرورت ہے تو جب خدا کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت بھی تو اس کو یاد کیا کریں.خدا کو ضرورت کیسے ہوتی ہے خدا کے دین کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے، خدا کے بندوں کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے.اگر اپنی ضرورت کے وقت آپ کسی دوست کو یاد کیا کریں گے اور دوست

Page 274

خطبات طاہر جلد ۶ 270 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء کی ضرورت کے وقت اس کو بھول جایا کریں تو آپ جانتے ہیں کہ وہ دوست آپکے متعلق کیا سمجھے گا اور رفته رفته اگر تعلق تھا بھی تو وہ گرتے گرتے بے تعلقی اور بعض دفعہ پھر دشمنی میں بھی تبدیل ہو جاتا ہے.آپ کے ساتھ اگر کوئی ایسا سلوک کرے کہ جب ضرورت پڑے آپ کے پاس آ جایا کرے منتیں خوشامد میں کرے، معافیاں مانگے اور کہہ دے کہ اب میرا کام کر دو مجھ سے بڑی غلطیاں ہوئیں.بسا اوقات آپ اس کی بات مان بھی لیتے ہیں.رحم کا بھی سلوک کرتے ہیں ،عفو کا سلوک کرتے ہیں، معاف کرتے چلے جاتے ہیں مگر کب تک.اگر مسلسل اسی طرح کرے کہ جب آپ کو ضرورت پیش آئے تو وہ آپ سے منہ موڑ لے، اعراض کرے بلکہ باتیں بنائے اور کہے کہ تم آگئے ہو اپنا کام کروانے کے لئے تمہیں پتہ ہی نہیں ہماری اور ذمہ داریاں کتنی ہیں.تمہیں تو ہوش ہی اور کوئی نہیں تم سمجھتے ہو کہ میں خالی تمہاری خاطر بیٹھا ہوں، اگر اس قسم کی باتیں کرے آپ کے دل میں اس کی کیا قدر باقی رہ جائے؟ اللہ بھی بندوں سے بندوں والا معاملہ فرماتا ہے ورنہ وہ تو لا محدود ہے.ذاتی طور پر وہ کیا سوچتا ہے؟ کس طرح سوچتا ہے؟ اس کے احساسات ہیں یا نہیں ہیں؟ یہ سارے ایسے راز ہیں جن کو خدا کے سوا یا ان بندوں کے سوا جنہیں وہ راز عطا فرمائے اور کوئی نہیں جانتا.اس کا بندوں سے معاملہ اس طرح ہوتا ہے کہ جیسے بندے ویسا ہی ان کے لئے وہ بن جاتا ہے.اس لئے خدا کو سمجھنے کے لئے اپنی فطرت کو سمجھنا ضروری ہے ، اپنے احساسات کو پہچاننا ضروری ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ راز ہمیں سکھلا دیا اور بڑا گہرا راز ہے، بہت سادہ سا فقرہ ہے لیکن اس میں معرفتوں کا سمندر پنہاں ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو خبر دى أَنَا عِنْدَظَنِ عَبْدِی بی ( بخاری کتاب التوحید حدیث نمبر: ۶۹۵۱) بندے کا ظن تو مجھے سما ہی نہیں سکتا ویسے لیکن میں بندے کے ظن کے مطابق ہو جاتا ہوں.مطلب یہ ہے کہ چھوٹا سا بچہ ایک لمبے چوڑے قد آور باپ کو تو پہنچ نہیں سکتا، وہ جھک جاتا ہے، نیچے ہو کر اس کی پیشانی کا بوسہ لے لیتا ہے یا اس کو اٹھا کر گلے سے لگا لیتا ہے.تو آنحضرت ﷺ کواللہ تعالیٰ نے یہ راز سمجھا دیا کہ بندے خواہ کسی بھی مقام پر ہوں میرے مقابل پر تو اتنے ادنیٰ اور اتنے بے حقیقت ، اتنے بے معنی ہیں ان کا دماغ خواہ بظاہر آسمان کی چوٹیوں سے باتیں کرتا ہو لیکن میرے علم اور میرے فہم اور میرے ہمیشگی کے حکمت کے سرچشمے کے مقابل پر اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.پھر کس طرح ہمارا ملاپ ہو کیسے ممکن ہے کہ ہم

Page 275

خطبات طاہر جلد ۶ 271 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء اکٹھے ایک سطح پر ایک دوسرے سے باتیں کر سکیں.فرمایا انا عِندَ ظَنِ عَبْدِی ہی وہ میرے مطابق نہیں ہوسکتا میں بندے کے مطابق ہو جاتا ہوں میں کہتا ہوں اچھا میں چھوٹا ہو جاتا ہوں تمہارے ساتھ.جس طرح ماں باپ چھوٹے سے بچے سے تو تلی باتیں شروع کر دیتے ہیں.یہ تو نہیں کہ ان کو باتیں کرنی بھول جاتی ہیں.یہ ان کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ،ان کے چھوٹے پن کا اظہار نہیں ہوتا، جس زبان میں بچہ ان سے باتیں کرتا ہے اسی زبان میں وہ اس سے باتیں شروع کر دیتے ہیں.اگر وہ چھوٹے قد کا ہے تو نیچے جھک جائیں گے، اگر وہ لیٹا ہوا ہے تو پنگھوڑے میں سر رکھ کر اسے پیار کریں گے.غرضیکہ جس سے پیار ہو اس کے مطابق ہونے کی انسان کوشش کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بھی یہ راز سمجھایا کہ میں بندے کے مطابق ہو جاتا ہوں.اس لئے خدا کو سمجھنے کے لئے اپنی فطرت کا مطالعہ کریں.اپنے جذبات اور احساسات اور اپنے احساسات کے رد عمل کو جانچیں پھر آپ کو معلوم ہونا شروع ہو جائے گا کہ آپ سے خدا کیا توقع رکھتا ہے اور آپ کو خدا سے کیا توقع رکھنی چاہئے.اگر روزمرہ کی زندگی میں کوئی ایسا شخص آپ کو ملتا ہے جو ضرورت کے وقت دوست بن جاتا ہے اور ضرورت رفع ہونے پر آپ سے استغناء اختیار کرتا ہے، منہ موڑ لیتا ہے، پرواہ بھی نہیں کرتا تو آخر کب تک آپ اس سے پیار کا سلوک کریں گے.ایک وقت ایسا آئے گا کہ آپ اس کی شکل دیکھنے کے بھی روادار نہ رہیں گے.اس لئے اللہ تعالیٰ بھی پھر آخر ایسے بندوں کو چھوڑ دیا کرتا ہے.اگر نہیں چھوڑا تو غنیمت ہے ابھی اپنی حالت میں تبدیلی پیدا کریں اور کوشش کریں کہ وہ وقت جب خدا کو آپ کی ضرورت ہوتی ہے اس وقت خدا کے بن کر دکھائیں.آنحضرت ﷺ نے ایک تمثیل کے رنگ میں یہ بات بیان کی کہ خدا تعالیٰ قیامت کے دن بعض بندوں سے کہے گا، شکوہ کرے گا کہ دیکھو میں بھوکا تھا میں تمہارے پاس آیا تم نے مجھے کھانا نہیں کھلایا، میں پیاسا تھا اور میں تمہارے پاس آیا مدد کے لئے تم نے مجھے پانی نہ پوچھا اور میں نگا تھا اور تمہارے پاس میں کپڑوں کے لئے آیا تم نے مجھے کپڑے نہ دیئے.تو بندہ عرض کرے گا اے کائنات کے مالک تو نے ہمیں پیدا کیا ہر چیز تیری ہے تیری طرف لوٹ کے آتی ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ تو بھوکا ہو اور میں جو حقیر اور ذلیل اور ادنی آدمی اپنا کچھ بھی نہیں رکھتا میرے پاس تو بھوک مٹانے کے لئے آئے.کیسے ممکن ہے کہ تجھے پیاس لگی ہو اور میرے پاس پانی مانگنے کے لئے آئے جبکہ میں خود تیرے

Page 276

خطبات طاہر جلد ۶ 272 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء پانی کا محتاج ہوں.کیسے ممکن ہے کہ تو نگا ہو اور مجھ ننگے بدن کے پاس مجھ سے کپڑے مانگے کے لئے آئے.اللہ تعالیٰ فرمائے گا ہاں ایسا ہی تھا جب میرا بھوکا بندہ تیرے پاس حاضر ہوا ، بھوک سے بے تاب تھا وہ میں ہی تھا جو تیرے پاس بھوک مٹانے کے لئے آیا تو نے میرے بندے کی پرواہ نہیں کی ، تو نے مجھے رد کر دیا.جب میرا پیاسا بندہ تیری خدمت میں حاضر ہوا پیاس مٹانے کے لئے تجھ سے درخواست لے کر اور تو نے اُسے پانی نہ پوچھا تو وہ گویا میں ہی تھا، میں تیرے پاس آیا تھا تو نے مجھے پانی نہ پوچھا اور جب میرانگا بندہ کوئی سردیوں میں ٹھٹھر تا ہو یا چلچلاتی دھوپ میں بے قرار ہوتا ہوا تیرے پاس آیا مجھے تن ڈھانپنے کے لئے کچھ دے دو اور تو نے اسے کچھ نہیں دیا تو وہ میں ہی تھا.(مسلم کتاب البر والصلہ حدیث نمبر :۴۶۶۱) اس حدیث میں بہت گہرائی ہے، حیرت انگیز وسعت ہے.اس کے ذریعے آپ خدا سے اپنے معاملات کو پر کھ سکتے ہیں اور نئی قرب کی راہیں اس حدیث سے آپ تلاش کر سکتے ہیں اور باتوں کے علاوہ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جتنا آپ کو خیال ہے اس سے بہت زیادہ خدا کو آپ سے پیار ہے.ایک بھوکے بندے کو اپنا آنا کہہ دینا یہ بتاتا ہے کہ ہر بھو کے پر خدا کی نظر ہے لیکن چونکہ یہ آزمائش کی دنیا ہے، اس وقت خدا اپنے بنائے ہوئے نظام کو تو ڑتا نہیں لیکن توقع رکھتا ہے کہ خدا کے دوسرے بندے خدا کے کمزور اور محتاج بندوں کی ضرورتیں پوری کریں گے اور جب وہ نہیں کرتے تو جس طرح آپ کو تکلیف پہنچتی ہے محتاجی کی نگاہ سے کسی کو دیکھنے کی سوال کی نظر کسی پر ڈالنے کی اور پھر رد ہو جانے کی اسی طرح خدا اس تکلیف کو اپنی تکلیف بنالیتا ہے.کتنا حیرت انگیز کتنا عظیم الشان کتنا رؤف و رحیم خدا ہے جو اپنے ہر حقیر اور ذلیل بندے پر اس طرح پیار کی نظر رکھتا ہے اور اس کے مقابل پر پھر اس سے مستقل مسلسل بے اعتناعی کرتے چلے جانا گویا کہ وہ ہے ہی نہیں.اگر ہے تو صرف ہماری ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اور ہماری منشاء کے مطابق ہم سے سلوک کرنے کے لئے ہے، کتنا بڑا ظلم ہے ہے.پھر آپ جب خدا کی ضرورتیں پوری نہیں کرتے تو ان معنوں میں پوری نہیں کرتے کہ خدا کے بندوں کی ضرورتیں پوری نہیں کرتے ، خدا کے دین کی ضرورتیں پوری نہیں کرتے.جب آپ سے وقت مانگا جاتا ہے آپ وقت نہیں دیتے ، جب اچھے کاموں کی طرف بلایا جاتا ہے آپ حاضر نہیں

Page 277

خطبات طاہر جلد ۶ 273 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء ہوتے.نماز کے لئے کہا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے کیا ہر وقت ہمارے پیچھے پڑا ہوا ہے.برائیوں سے روکا جاتا ہے تو آپ کہتے ہیں دین دین ہر وقت لگایا ہوا ہے اپنا کام کرے ہر معاملے میں دخل اندازی.چندہ مانگا جاتا ہے تو کہتے ہیں ان کو تو چندوں کی پڑی ہوئی ہے اور ہوش ہی کوئی نہیں.در حقیقت اس حدیث کے مطابق آپ ہر دفعہ ایک ادنی معمولی نظر آنے والے بندے کو نہیں ٹھکرا رہے ہوتے بلکہ خدا کو ٹھکرارہے ہوتے ہیں اور پھر توقع رکھتے ہیں کہ جب آپ خدا کو اپنی مدد کے لئے بلائیں تو وہ دوڑتا ہوا غلاموں کی طرح آپ کے سامنے حاضر ہو جائے.تو خدا نہ ہوا وہ تو اللہ دین کا جن بن گیا جب بھی لیمپ کو رگڑا اسی وقت وہ جن حاضر ہوا اور اس نے کہا جو کام مجھ سے کروانا ہے کروالو.اللہ تعالیٰ کی عظمت کو پہچا نہیں اور اس سے پیار کا تعلق اس وقت قائم کرنے کی کوشش کریں جب خدا کو آپ کی ضرورت ہے.وہ پیار کا تعلق ایسا ہے جو خدا کبھی نہیں بھولتا اور وہ پیار کا تعلق ہے جو آپکی دعاؤں کو تقویت بخشتا ہے گویا کہ اس دوسری حالت سے جس قدر جلد ممکن ہو تیسری حالت میں داخل ہو جائیں یعنی ہر وقت خدا کی محبت میں زندہ رہنا سیکھ لیں، ہر وقت آپ کی نگاہ اس بات پر لگی رہے کہ میں کس طرح اپنے آقا کو خوش کروں.مجھے اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو میں ایسی حالت میں ہر وقت اپنے آپکو پاؤں کہ گویا خدا کی ضرورتوں کے تلاش میں ہوں.میں اپنے نفس کو اس طرح پیش کروں کہ اے خدا ! مجھے تو اس بات میں لطف آتا ہے کہ تیرے دین کی یا تیرے بندوں کی کوئی ضرورت ہو اور میں تیری خاطر اُسے پورا کر رہا ہوں.اس مقام کو قرآن کریم ابراہیمی مقام کہتا ہے.یہی مقام ہے جب ترقی کرتا ہے تو محمد یت کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے جس کے اوپر پھر کوئی مقام نہیں.تو آپ ابراہیمی مقام سے سفر شروع کریں.جب خدا نے کہا أَسْلِمُ قَالَ أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقره :۱۳۲) اے ابراہیم ! اپنے آپ کو میرے سپرد کر دے میرا ہو جا تو عرض کیا أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِيْنَ اے خدا! میں تو پہلے ہی تیرا ہو چکا ہوں.میں تو پہلے بھی تیرا ہوں.اس لئے اس کے سوا اور میں کیا کر سکتا ہوں.پھر عرض کیا رَبَّنَا اَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا (البقره: ۱۲۹) اے خدا! تیرا تو ہوں لیکن کچھ قربانیاں تو لے ہم سے ، قربانی کرنے کا لطف تو آئے ، یہ یقین تو دل میں ہو کہ ہاں میں واقعہ تیرا ہو

Page 278

خطبات طاہر جلد ۶ 274 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء چکا ہوں آرِنَا مَنَاسِگنا ہمیں ہماری قربان گاہیں دکھا! وہ مواقع عطا فرما کہ ہم تیری خدمت کریں اور پھر لطف محسوس کریں گے کہ ہاں ہم بچے تھے اپنے عہد میں سچے تھے.یہ وہ مقام ہے جو مستقل خدا کے ساتھ رہنے کا مقام ہے جس کے بعد برائیاں خود بخود جھڑتی ہیں وہاں رہ نہیں سکتیں.دیکھیں اگر آپ بیماری کی حالت میں ہوں گے تو اس وقت جسم کا رد عمل اور طرح کا ہوتا ہے جب آپ صحت کی حالت میں ہوں تو جسم کا رد عمل اور طرح کا ہوا کرتا ہے.ایک پھوڑا اگر ابھی کچا ہو، زخمی ہو ایک بچہ اسے جتنا چاہے چھیلتا چلا جائے وہ کھرنڈ اس پہ پھر آنا ہی آنا ہے وہ آتا چلا جائے گا.وہ چھیلتا چلا جائے گا وہ کھرنڈ آتا چلا جائے گالیکن اگر وہ بھر جائے اگر اس مقام کو صحت نصیب ہو تو آپ چھیلیں نہ چھیلیں وہ کھرنڈ جسے ہم پنجابی میں کہتے ہیں وہ اوپر ایک ڈھکنا سا بن جاتا ہے وہ خود بخود اتر جاتا ہے آپ چاہیں بھی اس کو روک کے رکھیں تو نہیں روک کے رکھ سکتے.گناہوں اور صحت مند بدن کی ایسی ہی مثال ہے.خدا کی محبت وہ صحت بخشتی ہے وہ تقویٰ عطا کرتی ہے جس کے نتیجے میں زخم مندمل ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور گناہوں کے چھپر خود بخود جسم کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں.آپ چاہیں بھی تو وہ چمٹ نہیں سکتے کیونکہ آپ کا بدن ان کو چھوڑ رہا ہے ان کو مزید چمٹنے کی اجازت نہیں دیتا اور بغیر کسی تکلیف کے بلکہ خوشی اور لذت کے احساس کے ساتھ گناہ جھڑتے ہیں.پس سب سے آسان، سب سے زیادہ مفید ، سب سے زیادہ دیر پا بلکہ سب سے زیادہ وفادار ہمیشہ ساتھ رہنے والا نسخہ یہی نسخہ ہے کہ محبت پر بنا کرنے والا تقومی حاصل کریں.اللہ تعالیٰ سے پیار کریں اور اس کے وفادار بندے بہنیں.اس وقت خدا کی خدمت میں حاضر ہوں جب آپ کو کوئی طلب نہ ہو اور کوئی تمنا نہ ہو کچھ مانگنے کی خواہش نہ ہو.اگر اس وقت آپ خدا کی ضرورت کے لئے فکر مند ہوں گے اور خدا کے دین کے لئے اپنے آپ کو مستعد پائیں گے تو سوچیں تو سہی کہ آپ کا دوست جو آپ سے اس طرح کا سلوک کرتا اس کے لئے آپ کیا جذ بہ محسوس کرتے ہیں.ایسے بھی بعض دوست ہوتے ہیں جو کبھی اپنی ضرورت کے لئے نہیں آتے.وہ جب آتے ہیں آپ کی ضرورت کی خاطر آتے ہیں.رات کو آئیں گے دروازہ کھٹکھٹائیں گے کہ شور کی آواز سنی تھی ہمیں خیال پیدا ہوا کہ کہیں کوئی دشمن تو نہیں آیا، کوئی چور تو نہیں آیا، بچے کی آواز آئی تھی اس کو تکلیف تو نہیں ہمیں حکم دیں ہم

Page 279

خطبات طاہر جلد ۶ 275 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء ڈاکٹر کے پاس جاتے ہیں.کئی ایسے دوست ہوتے ہیں اس دنیا میں بھی جو ہر وقت دوستوں کی ضرورت پر دھیان رکھتے اور ہمیشہ اس دھیان میں فکر مند رہتے ہیں.جب بھی ملتے ہیں آپ کی خاطر آپ کو ملتے ہیں.آپ سوچیں کہ اگر کبھی ان کو ضرورت پڑے تو کیا آپ کے دل میں ان کے لئے بے اختیار محبت کا جذ بہ نہیں موجود ہو گا ؟ کیا آپ کے دل میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے آمادگی نہیں پائی جائے گی.یقینا انسانی قدریں اگر آپ میں زندہ ہیں تو یہی آپ اس سے سلوک کریں گے بلکہ آپ کوشش کریں گے کہ آپ بھی اس پر نظر رکھیں ، اس کی ضرورت پر نظر رکھیں کیونکہ آپ جانتے ہوں گے کہ اس نے مجھ سے کچھ نہیں کہنا.تو بعض بندے اسی طرح مجسم دعا بن جایا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس وقت خدا ان پر نظر رکھنے لگتا ہے.دعا منہ سے اٹھنے سے پہلے خدا ان کی ضرورتوں پر نگاہ کرتا ہے، جب وہ سورہے ہوتے ہیں تو وہ ان کے لئے جاگ رہا ہوتا ہے، جب وہ دشمن سے غافل ہوتے ہیں تو وہ دشمن پر نگاہ کر رہا ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے معاملے میں خدا تعالٰی کے ساتھ راست بازی کا معاملہ کیا اور وفا کوانتہائی مقام تک پہنچا دیا.خدا سے بڑھ کر کوئی وفادار نہیں، خدا سے بڑھ کر کوئی راست بازی کا معاملہ کرنے والا نہیں.آپ ایک دفعہ خدا سے اس قسم کا معاملہ کریں خدا دس دفعہ ہزار دفعہ ان گنت دفعہ اسی قسم کا معاملہ اس سے بہت بڑھ کر شان کے ساتھ آپ سے کرتا چلا جائے گا.تو تقویٰ کا سودا تو حاصل کا سودا ہے زیاں کا کوئی تصور اس سودے میں نہیں پایا جا تا.حاصل ہی حاصل ہے کچھ بھی آپ گنوا نہیں سکتے جتنا آپ کھوتے چلے جائیں گے بظاہر اس سے بے انتہا زیادہ آپ کو عطا ہوتا چلا جائے گا.اس لئے بجائے اس کے کہ خشک نصیحتوں کے ذریعے ، نظام جماعت کی مسلسل کوشش اور محنت کے ذریعے ہم یہ انتظار کریں کہ کب آپ کی حالتیں بدلیں ، کب آپ روحانی لحاظ سے دینی لحاظ سے ترقی کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچیں کہ باقی دنیا کے لئے بھی روشنی کا منار بن جائیں.میں نے یہ سوچا کہ یہ نسخہ آپ کو دوں جو معا کام کرتا ہے جو پھل کے لئے سالوں کا انتظار نہیں کیا کرتا.اس بوڑھے کے درخت کی طرح ہو جاتا ہے جس نے مدتوں اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ کب یہ درخت جوان ہو کب وہ جوان ہو اور پھر اس کو پھل لگیں بلکہ جیسا کہ آپ نے بارہا اس واقعہ کو سنا ہو گا کہ ایک

Page 280

خطبات طاہر جلد ۶ 276 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء مسلمان بادشاہ ایک دفعہ ایک سفر پر جارہا تھا اس کے ساتھ ایک وزیر تھا اور اس نے اپنے وزیر کو یہ حکم دے رکھا تھا کہ جب بھی میں سفر پہ جاؤں میری شان کے مطابق کچھ اشرفیوں سے بھری ہوئی تھیلیاں ساتھ رکھ لیا کرو تا کہ اگر مجھے کوئی بات پسند آئے اور میرا انعام دینے کو دل چاہے تو میری شان کے مطابق کوئی انعام ہو جو میں کسی خوش کرنے والے کو دے سکوں.چنانچہ اس کا دستور بھی یہی تھا کہ جب بھی سفر پہ جاتا تھا وزیر اس قسم کی تھیلیاں ساتھ رکھ لیا کرتا تھا.ایک موقع پر سفر کرتے ہوئے اس کا ایک بوڑھے کسان کے پاس سے گزر ہوا جو کھجور کی پنیری لگا رہا تھا، ایک جگہ سے کھجور کے چھوٹے چھوٹے پودے منتقل کر رہا تھا دوسری طرف وہ بڑی عمر کا تھا.بادشاہ وہاں کھڑا ہوا اور اس نے اسے تعجب سے پوچھا کہ اے بڑے میاں! آپ تو عمر کے آخری کنارے تک پہنچے ہوئے ہیں.آپ کیوں ایسا کام کر رہے ہیں جس کا پھل آپ نہیں کھا سکتے.یہ کھجور تو نو سال یا دس سال کے بعد پھل دے گا اس وقت تک آپ مرچکے ہوں گے تو کیوں اپنی محنت ضائع کر رہے ہیں.اس بوڑھے نے جواب دیا کہ بادشاہ سلامت ! میرے بڑوں نے جو درخت لگائے تھے میں نے ان کا پھل کھایا.اب میں جو درخت لگاؤں گا میرے چھوٹے بعد میں آنے والے وہ پھل کھائیں گے اسی طرح ایک نسل دوسری نسل کا شکریہ ادا کیا کرتی ہے.یہ بات بادشاہ کو اتنی پسند آئی کہ جیسا کے اس کی عادت تھی اس نے زہ! کہہ دیا یعنی کیا خوب بہت ہی عمدہ اور وزیر کو حکم تھا کہ جب وہ زہ کہے تو تم فوراً ایک تفصیلی اشرفیوں کی اس کو پیش کر دو.چنانچہ بادشاہ نے زہ کہا اور وزیر نے اس بوڑھے کو ایک اشرفیوں کی ایک تحصیلی تھمادی.بوڑھے نے جواب دیا کہ واہ ! بادشاہ سلامت کیا شان ہے میرے اس درخت کی کہ دنیا کے درخت تو نو نو دس دس سال انتظار کرتے ہیں پھل کا میرے اس درخت نے تو ابھی پھل دے دیا.بادشاہ کو یہ بات اتنی پسند آئی کہ اس نے پھر زہ! کہہ دیا اور وزیر نے دوسری تحصیلی اشرفیوں کی بھری ہوئی اس بوڑھے کو پکڑا دی.بوڑھے نے کہا اللہ تیری شان ! کیسا درخت تو نے مجھے عطا کیا ہے کہ دنیا کے کھجور کے درخت تو جب بھی پھل دیتے ہیں سال میں ایک پھل دیتے ہیں اور میرا درخت تو دو دو پھل دینے لگا.بادشاہ کہ منہ سے پھر زہ نکل گیا اور وزیر نے تیسری تحصیلی اس کو پکڑا دی لیکن ساتھ ہی بادشاہ نے کہا کہ جلدی کرو یہاں سے نکلو ورنہ یہ میرا خزانہ خالی کر دے گا.لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے سارے اگلے اور پچھلے بڑے اور چھوٹے

Page 281

خطبات طاہر جلد ۶ 277 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء ساری زندگیاں نسلاً بعد نسل ایسے اعمال کرتے رہیں جن پر خدازہ کہتا ر ہے تو تب بھی قیامت تک اور قیامت کے بعد تک بھی خدا کے خزانے خالی نہیں ہو سکتے.وہ جگہ چھوڑ کر جانے والا نہیں ہے.وہ احسان کرنے والوں سے بے وفائی کرنے والا نہیں ہے.آپ جتنا نیک عمل کرتے چلے جائیں گے خدا اور خدا کے فرشتے زہ کہتے چلے جائیں گے اور آپ پر لامتناہی انعامات کی بارشیں ہوتی چلی جائیں گی.یہ وہ درخت ہے جسے قرآن کریم فجر طیبہ کہتا ہے تُؤْتِي أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِإِذْنِ رَبَّهَا (ابراہیم :۲۶) کہ ایسا شجرہ طیبہ مومنوں کو خدا عطا فرماتا ہے کہ وہ ہر آن پھل دیتا چلا جاتا ہے اور موسم کی انتظار نہیں کرتا بِاِذْنِ رَبَّهَا آسمان سے خدازہ کہتا ہے حکم دیتا ہے، تب اس کو پھل لگتے ہیں.تو دیکھئے یہ فرضی قصہ نہیں ہے جو میں آپ کو بتا رہا ہوں.قرآن کریم میں اس درخت کا ذکر ہے اور فرماتا ہے کہ ہر لمحہ پھل دینے والا ایک درخت ہے جو قرآن تمہیں عطا کرتا ہے.وہ نیک اعمال کا شجرہ طبیہ ہے جس پر خدا کے حکم سے سوا پھل نہیں لگتا یعنی جو کچھ ملتا ہے آسمان سے آتا ہے اور خدا اس حکم کو دیتے دیتے تھکتا نہیں اگر آپ اس درخت کی حالت بہتر بناتے چلے جائیں گے تو یقین کریں کہ ہر لمحہ خدا زہ زہ! کی آواز بلند کرتا چلا جائے گا اور خدا کے حکم سے اس درخت کو عظیم الشان روحانی پھل لگتے چلے جائیں گے.پس تقویٰ کی زاد راہ لے کے چلیں.یہ وہ زاد ہے جو ختم ہونے میں نہیں آتی.باقی جتنی تھیلیاں ہیں سفر کے خوراک کی وہ تو خالی ہوتی چلی جاتی ہیں.جتنا لمبا سفر ہوتا چلا جاتا ہے اتنی تھیلی سکڑتی چلی جاتی ہے اور ایک موقع پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا ز ادراہ ختم ہو گیا.مگر کیا شان ہے قرآن کریم کی کہ ایسا زاد راہ ہمیں بتایا کہ جو ختم نہ ہونے کی بجائے بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس تھیلی کا بوجھ محسوس نہیں ہوتا کیونکہ یہ تھیلی کا بوجھ لے کر آپ نہیں چلتے آسمان سے ضرورت کے مطابق ہر وقت اس کو پھل ملتا چلا جاتا ہے.پہلے اگر یہ لے کر نہیں بھی چلے تھے تو اب یہ پکڑ لیں یہ ایک نہ ختم ہونے والی رزق کی تھیلی ہے جو دنیا کے رزق سے بھی تعلق رکھتی ہے اور روحانیت کے آسمانی رزق سے بھی تعلق رکھتی ہے.اگر آپ تقویٰ کے ذریعے اس زندگی کا سفر شروع کر دیں اگر پہلے نہیں بھی تھا اب شروع کر دیں تو دیکھیں گے کہ آپ کی بھی حالت بدلنی شروع ہو جائے گی اور آپ کے ماحول آپ کے گرد و پیش کی حالت میں بھی ایک عظیم انقلابی تبدیلی رونما ہونے لگ جائے گی.

Page 282

خطبات طاہر جلد ۶ 278 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء تبلیغ کی طرف میں آپ کو توجہ دلاتا ہوں تبلیغ کے لئے سب سے زیادہ ضروری چیز تقویٰ ہے.تقویٰ سے یعنی اس یقین کے ساتھ کہ خدا سے مجھے پیار ہے میں خدا کا ہوں تقویٰ سے یعنی اس یقین کے ساتھ کے خدا مجھ سے پیار کرتا ہے.آپ کو اتنی عظمت نصیب ہوتی ہے.آپ کی بات میں اتنی قوت پیدا ہو جاتی ہے کہ دیکھنے والا نہ سمجھنے کے باوجود جانتا ہے کہ یہ ایک مختلف بات ہے.عام باتوں سے ایک الگ بات ہے اس میں ایک بڑ اوزن محسوس ہوتا ہے.ایسے شخص کا چہرا بدل جاتا ہے اور اس کی باتوں میں ایسا اثر پیدا ہوتا ہے کہ مجبور ہو کر لوگ اس کی باتوں پر کشاں کشاں اس کی طرف چلے آتے ہیں ان کے لئے چارہ نہیں رہتا کچھ اور.خصوصا اس سوسائٹی میں جس میں آپ نے خدا کی طرف بلانا ہے.جہاں تک عقل کا تعلق ہے ان کی عقلیں آپ سے کسی حال میں بھی کم نہیں بلکہ عقل کے سفر میں یہ آپ سے اتنا آگے بڑھ چکے ہیں کہ بعض حالتوں میں سینکڑوں سالوں کا فاصلہ آپ کو دے گئے ہیں.ان کی صناعی، ان کا سائنس کے ہر شعبہ کا علم اتنا تیزی سے آگے آگے بھاگ رہا ہے کہ مشرق سے آنے والے اگر اپنی پوری قوت کے ساتھ بھی ان کی پیروی کریں تو ان کے کندھے کے ساتھ کندھا ملانے کی طاقت نہیں پاتے.پیچھے پیچھے آئیں گے.اس لئے یہاں اس دنیا میں اس میدان میں آپ ان کو کیا سکھا سکتے ہیں کچھ بھی نہیں.آپ تو بھکاری بن کے آئے ، بھکاری بن کے ہی رہیں گے.اگر دولت کے بھکاری نہیں تو علم کے بھکاری بنے رہیں گے اور ان سے سیکھے بغیر آپ کی نہیں سارے مشرق کی حالت اب نہیں بدل سکتی کیونکہ بہت بڑا فاصلہ دے چکے ہیں اب آپ کو.ہاں ایک میدان خالی ہے اور وہ تقویٰ اور محبت الہی کا میدان ہے.علم کی بجائے یہ ان کو عطا کریں اور یہ اتنا بڑا احسان ہو گا کہ ساری عمر کی کمائیاں ساری زندگی کا ماحصل بھی آپ کے قدموں میں ڈال دیں تو اس احسان کا بدلہ نہیں اتار سکتے.کیونکہ مخلوق کے بدلے آپ خالق ان کو دے رہے ہیں مادیت کے بدلے آپ ان کو روحانیت عطا کر رہے ہوں گے لیکن اگر آپ خدا والے ہوں تو پھر آپ کی بات کا ان پر اثر ہوگا یہ یقین کریں گے کہ ہاں اس کے ذریعے خدا مجھے مل سکتا ہے.اگر خالی ذہنی چالاکی سے کام لیں گے یا دلائل کے برتے پر آپ ان کو فتح کرنے کی کوشش کریں گے کچھ دیر یہ بات سنیں گے اور کچھ دیر کے بعد منہ موڑ کے دوسری طرف چلے جائیں گے.ہوسکتا ہے کہ آپ سمجھتے ہوں کہ ان پر اثر پڑ گیا لیکن خالی باتوں کا کوئی اثر نہیں پڑا کرتا.اتنا اثر بہر حال نہیں پڑتا کہ اپنی زندگی کی حالت بدل دیں

Page 283

خطبات طاہر جلد ۶ 279 خطبہ جمعہ ۷ اسر ا پریل ۱۹۸۷ء اور کیسے ممکن ہے کہ یہ اپنی زندگی کی حالت کو بدل دیں جبکہ ان کی ظاہری زندگی کی حالت آپ کی حالت سے بہت بہتر ہے.آپ سوچیں کہ اگر کوئی خانہ بدوش جو نہایت سختی کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے آپ کو نہ صرف یہ کہے کہ عقیدہ اس کا عقیدہ اختیار کرلو بلکہ یہ کہے کہ خانہ بدوش بن جاؤ اور ہمارے ساتھ یہی زندگی اختیار کر لو، کتنا مشکل کام ہے.جب آپ ان کو پیغام دیتے ہیں اسلام کا اور اسلامی تہذیب کا تو اسی قسم کے فاصلے ان کو دکھائی دیتے ہیں.تمدن کی ساری آزادیاں چھیننے کی آپ ان کو تلقین کر رہے ہوتے ہیں.آپ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اعلیٰ زندگی ، ناچ گانا ، آزادی جو چاہو کرو جس طرح بسر کرو اچھے کپڑے پورے پہنو آدھے بدن پہ پہنو نہ پہنو سب آزادیاں ہیں جو رنگ ڈھنگ چاہوا ختیار کرو ان اداؤں کو چھوڑ دو اور زنجیریں پہن لو، اپنے پور پور کو خدا کی رضا کے اندر جکڑ کر رکھ دو.اپنے وقت کا کچھ بھی نہ رہنے دو سب کچھ خدا کو دے دو اور خواہ تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے وہ زندگی کا طریق اختیار کرو جو ہم بتاتے ہیں کہ خدا تم سے چاہتا ہے تو آپ بتائیں کہ اس نئی زندگی میں جو آپ ان کو دے رہے ہیں اور اس پرانی زندگی میں ان کو کتنے فاصلے دکھائی دیں گے؟ بہت ہی مشکل کام ہے.اس لئے اگر یہ چھوڑ کر آتے ہیں تو آپ کی خاطر نہیں ، آپ کی چالاکیوں کی خاطر نہیں ، اس یقین کے نتیجے میں کہ ہاں خدا یہ ہم سے چاہتا ہے.اس لئے خدا کے بغیر آپ کس طرح ان کو فتح سکتے ہیں، خدا کے بغیر آپ کیسے ان میں انقلاب برپا کر سکتے ہیں، خدا کے بغیر کیسے تصور کر سکتے ہیں کہ آپ کی تبلیغ کسی قسم کے کرشمے دکھائے گی اور خدا وہ خدا نہیں جو آسمان پر خیالی بسنے والا خدا ہے.خدا وہ خدا جو آپ کی ذات میں بسنے والا خدا ہے وہ تبدیلیاں پیدا کرے گا.اس لئے ہر ذات میں خدا کو بسانا ہوگا ، ہر ذات میں خدا کی محبت کا زادراہ داخل کرنا ہوگا اور ہر شخص کو ضروری ہوگا کہ وہ زادراہ لے کر چلے، خدا کی محبت کے لقے چکھائے ان لوگوں کو خدا کی محبت کے چسکے پیدا کرے، بتائے کہ ہاں میرے سے تمہیں خدا کی محبت ملے گی.مجھ سے تمہیں زندہ خدا ملے گا، نشان دکھانے والا خدا ملے گا، اپنی ہستی کا ہر آن ثبوت دینے والا خدا ملے گا یہ آپ پیغام دیں تو پھر دیکھیں کتنی حیرت انگیز اور کتنی تیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونماہونا شروع ہو جاتی ہیں.اس لئے اس بات پر زور دیں اور چونکہ وقت تھوڑا رہ گیا ہے احمدیت کی اگلی صدی بس اب

Page 284

خطبات طاہر جلد ۶ 280 خطبہ جمعہ ۷ اراپریل ۱۹۸۷ء سر پہ آئی کھڑی ہے بمشکل دو سال، دو سال سے بھی کم عرصہ باقی ہے اس عرصے میں آپ نے کم سے کم ایک ہزار جرمن خدا کے حضور تحفے کے طور پر پیش کرنا ہے.یہ کوئی معمولی کام تو نہیں ہے لیکن اگر خدا کی محبت کا زادِ راہ آپ لے کر چلیں گے تو بالکل معمولی کام ہو جائے گا.جو خدا کی خاطر خدا سے اس کی محبت کی خاطر یہ چاہے گا کہ خدا کے لئے ایک دل جیتے کسی غلام بندے کا کیسے ممکن ہے کہ خدا اس پر رحم کی نظر نہ فرمائے اس کی مدد نہ کرے، اس کے لئے راہیں آسان نہ فرما دے،خود اس کے بوجھ نہ اُٹھا لے یہ نہیں ہوسکتا.لازما خدا ایسے بندے کی بات میں اثر رکھ دے گا.اس کی اداؤں کو دلنشین بنا دے گا، اس کی ہستی کو ایسی جاذبیت بخشے گا کہ لوگوں کے لئے اُسے رو کر ناممکن نہیں رہے گا.اس لئے آپ اس طریق کو اختیار کرتے ہوئے اپنی زندگی کا ایک نیا سفر شروع کریں آپ میں سے بہت سے ہیں جو پہلے ہی اس سفر سے آشنا ہیں.جب مجھے خط ملتے ہیں تو خط کے دو چار سطروں سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس مقام کا آدمی ہے، کس تجربے کا آدمی ہے، کس قبیل سے تعلق رکھنے والا ہے.حروف پر مُبر میں ہوتی ہیں اور محبت الہی تو ایسی چیز ہے جو مہر کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتی.محبت الہی رکھنے والا تو دوسروں کے لئے بھی خاتم ہو جایا کرتا ہے.چنانچہ خاتم النبیین کے سب سے اعلی معنی یہی ہیں کہ مد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی محبت کی خاتمیت عطا کی گئی ہے اور ایسی جس سے دوسرے نبی گر سیکھیں ایسے جن سے دوسرے نبی محبت الہی کے راز حاصل کریں اور قدم قدم چلنا سیکھیں اتنا عظیم الشان نبی ہے یہ تو خدا کی محبت کی ایک مہر ہوتی ہے وہ ضرورلگتی ہے ، وہ ضرور اپنا نشان چھوڑتی ہے.تحریریں اس مُہر سے زندہ ہو جایا کرتیں ہیں، اداؤں کی کیفیت بدل جایا کرتی ہے.ایک روحانی انقلاب انسان پر برپا ہو جاتا ہے.پس اس دولت سے آپ استفادہ کریں اور ایک لمحہ زندگی کا اس فیصلے کے لئے صرف کر دیں کہ اے خدا! میں تیرا ہونا چاہتا ہوں ، میں نے فیصلہ کر لیا ہے بہت کمزور ہوں ، بہت خامیاں ہیں ہوسکتا ہے بعد میں بھی مجھ سے کمزوریاں سرزدہوں مگر اپنا بنائے رکھنا، کبھی مایوس نہ کرنا اس پہلو سے، ہمت اور تقویٰ عطا کرنا کہ اگر تو میرے سوالوں کو رد بھی کرے تب بھی میں تجھ سے اسی طرح محبت کرتا چلا جاؤں اور کبھی تجھ سے بے وفائی کا خیال دل میں نہ لاؤں.خدا کرے کہ ہم اس سبق کو ہمیشہ کے لئے اپنے دلوں میں گرہ دے دیں، دلوں میں جانشین کر لیں ، دلوں کی تہہ میں بٹھا لیں کیونکہ دل سے ہو کر سارا خون گزرتا ہے اگر خدا کی محبت دل میں

Page 285

خطبات طاہر جلد ۶ 281 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء جانشین ہو جائے تو خون کے ذرے ذرے میں رچ بس جاتی ہے، وجود کے ذرے ذرے تک پہنچتی ہے اور یہ فیصلہ کتنا آسان ہے دل میں خدا کی محبت کا فیصلہ کر لیا.اللہ کرے اس کی توفیق عطا ہو اور خدا کرے جتنی تو قعات آپ سے اس ملک میں عظیم الشان انقلاب کی میں وابستہ رکھتا ہوں اس سے بہت زیادہ توقعات آپ کو خدا تعالیٰ پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آج نماز جمعہ اور عصر جمع ہوں گی اور ان کے معا بعد ایک نماز جنازہ حاضر پڑھائی جائے گی اور اس کے علاوہ پانچ نماز جنازہ غائب ہوں گی.مکرم عزیز اللہ خان صاحب راولپنڈی کے تھے جو مکرم سمیع اللہ خان اور احسان اللہ خان صاحب جو جرمنی میں یہاں مہاجر ہو کر آئے ہیں.ان کے والد تھے ان کے پاس آئے ہوئے تھے.موصی تھے یہاں دل کا حملہ ہوا اور چند دن کی بیماری کے بعد وفات پاگئے اناللہ وانا الیہ راجعون.ان کی نماز جنازہ حاضر ہوگی.دوسرے پانچ جنازے غائب ہیں ایک محمد عبداللہ ابوطفی صاحب عمر چھیاسی سال.فلسطین کے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے، مولانا جلال الدین صاحب شمس کے زمانے میں احمدی ہوئے اور مکرم عثمان محمد عودہ صاحب جو کہا بیر جماعت کے سیکرٹری تبشیر ہیں ان کے والد تھے.ایک شیخ مشتاق احمد صاحب اور شیخ شبیر احمد صاحب کی والدہ محترمہ کا جنازہ ہے ویسے تو یہ پنجاب کا خاندان ہے لیکن بہت مدت سے مردان میں آباد ہوا اور بہت بڑے سخت ابتلاؤں میں سے خصوصا حالیہ گزشتہ ابتلا میں اس خاندان کو بہت تکلیفوں کا سامنا ، بہت آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن ان کی والدہ بڑی بزرگ، بہت مخلص تھیں اور یہ ان کی ہی نیک دعا ئیں اور نیک تربیت کا نتیجہ تھا کہ ان بچوں کو خدا کے فضل سے بہت ہی مشکل حالات کا مردانہ وار مقابلہ کی توفیق ملی ہے، ان کی بھی وفات ہوگئی ہے.اللہ ان کا سایہ اٹھنے کے بعد بھی ان کو اپنے فضلوں کے سائے سے محروم نہ رکھے اور اسی طرح استقامت بھی عطا فرمائے اور مشکلات بھی حل کرے اور ان کی مرحومہ والدہ کے درجات بلند فرمائے.ایک ہمارے ناظر صاحب بیت المال قادیان مکرم مولوی عبد القدیر صاحب درویش

Page 286

خطبات طاہر جلد ۶ 282 خطبہ جمعہ ۷ ا ر ا پریل ۱۹۸۷ء ابتدائی درویشوں میں سے تھے وہ پاکستان سے آرہے تھے کہ دل کا حملہ ہوا اور چند دن کے بعد اسی سے ان کی وفات ہوئی.ایک جنازہ چوہدری غلام قادر صاحب چیمه چک ۸۴ فتح ضلع بہاولپور کا ہے یہ بھی قادیان کے در ولیش مظفر اقبال صاحب کے دادا تھے انہوں نے ان کے لئے نماز جنازہ غائب کی درخواست کی ہے.ایک پانچواں جنازہ محترمہ سیکینہ بیگم صاحبہ اہلیہ اللہ بخش صاحب سکنہ وساوے والا ضلع اوکاڑہ کا ہے.یہ ہمارے ایک واقف زندگی اور جامعہ کے پروفیسر مرزا محمد الدین صاحب ناز کی ہمشیرہ تھیں کافی لمبی بیماری ان کو بڑی تکلیف دہ بیماری چلی آرہی تھی ، بڑی صابرہ شاکرہ خاتون تھیں.ان کے لئے بھی مغفرت کی دعا کریں اللہ تعالیٰ رحم کا سلوک فرمائے.نماز جمعہ اور عصر کے معا بعد انشاء اللہ یہ نماز جنازہ غائب ہوں گے، حاضر اور غائب.

Page 287

خطبات طاہر جلد ۶ 283 خطبه جمعه ۲۴ ر ا پریل ۱۹۸۷ء روزے حصول تقویٰ اور حصول لقائے باری تعالیٰ کا ذریعہ ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ اَيَّامٍ أُخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ پھر فرمایا: (البقرة : ۱۸۴-۱۸۵) یہ آیات جو میں نے آج آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں روزے کا مضمون بیان فرمایا گیا ہے اور آغاز اس بیان سے ہوا ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر اسی طرح روزہ فرض کر دیا گیا ہے جیسے ان لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے تھے.کیوں فرض کیا گیا ہے، اس کا کیا فائدہ ہے؟ فرمایا لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا کہ تم تقویٰ اختیار کر سکو.تقویٰ حاصل کرنے میں تمہیں مدد ملے.تو خدا تعالیٰ نے تقویٰ حاصل کرنے کا ایک بہت ہی عمدہ ذریعہ ہمیں روزوں کی صورت میں مہیا

Page 288

خطبات طاہر جلد ۶ 284 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء فرما دیا اور روزے اور تقویٰ کا تعلق ایسا ہے کہ بعض دفعہ تقویٰ کے نتیجے میں روزے نصیب ہوتے ہیں بعض دفعہ روزے کے نتیجے میں تقویٰ نصیب ہوتا ہے اور گویا دونوں ہی ایک دوسرے کے مددگار ہوتے ہیں.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ میں یہ بھی معنی ہے تا کہ تم تقویٰ کی راہیں اختیار کرو اور اس کے نتیجے میں روزے سے جو تمہیں فائدہ ہو سکتا ہے وہ فائدہ اٹھاؤ.بہر حال یہ بات قطعی ہے کہ رمضان کا اور روزوں کا تقویٰ کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.جتنا تقویٰ کا معیار بلند ہوگا اتنا ہی روزے زیادہ فائدہ مند ہوں گے اور جتنا انسان اخلاص کے ساتھ روزے رکھ کے ان کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا انسان کو زیادہ سے زیادہ تقویٰ نصیب ہونا شروع ہو جائے گا.تقویٰ کا جب اس پہلو سے مطالعہ کرتے ہیں تو خصوصیت کے ساتھ اس مضمون میں تقویٰ کا ایک ایسا گہرا تعلق نظر آتا ہے جسے کھول کر ہر روزہ دار کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے.تقوی بنیادی طور پر بچنے کو کہتے ہیں.احتراز کرنے کو گریز کرنے کو، اور اس میں یہ مفہوم داخل ہے کہ بری چیز سے ضر ر والی چیز سے شروالی چیز سے بچنا.رمضان مبارک میں اور ویسے بھی ہر روزے میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے صرف بری چیزوں سے بچنے کے لئے ہی حکم نہیں فرمایا بلکہ خاص وقت میں ان اچھی چیزوں سے بھی منع فرما دیا جو روز مرہ کی زندگی میں اسے استعمال کرنے کی اجازت ہے.بلکہ بڑی خوشی کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اجازت عطا فرمائی ہے.ایک موقع پر فرمایا کہ یہ نعمتیں ہم نے اپنے مومن بندوں کے لئے پیدا کی ہیں.دوسرے بھی دنیا میں اس کے شریک ہو جاتے ہیں مگر قیامت کے دن تو خالصہ یہ ہمارے پاک بندوں کے لئے ہمارے مومن بندوں کے لئے ہوں گی.تو ان سے بھی منع فرما دیا.اس لئے بچنے کا جو انتہائی مضمون ہے وہ روزے میں داخل ہونے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز سے بچنا، ہر چیز سے پر ہیز.ہر چیز سے کیوں پر ہیز سوال یہ ہے.اگر آپ روزے پر غور کرے تو تقویٰ کا یہ بار یک معنی آپ کو سمجھ میں آجائے گا کہ تقویٰ کا اصل معنی یہ ہے کہ ہر اس چیز سے بچنا جس سے خدا رو کے.نیکی بدی کے ذاتی فلسفے میں داخل ہی انسان کو ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر نیکی بدی کے فلسفے کے میں داخل ہو کر یہ تفریق شروع کر دے کہ بد کیا ہے اور نیک کیا ہے؟ تو ہر قوم کا نیک و بد کا معیار بدلتا جاتا ہے.ایک نہایت ہی مکروہ چیز جس کے تصور سے آپ کو کھانا کھاتے وقت متلی ہو جائے گی بعض قو میں اس قدر شوق سے کھاتی ہیں ایک دوسرے کے

Page 289

خطبات طاہر جلد ۶ 285 خطبه جمعه ۲۴ ر اپریل ۱۹۸۷ء ساتھ دوڑ کے مقابلہ کر کے ان چیزوں کو پکڑتی ہیں.اگر تقویٰ کا یہ مفہوم لیا جائے صرف کہ ہر بری چیز کو چھوڑ دو تو بہت سے ایسے لوگ ہیں یہ کہیں گے کہ ہاں ہر بری چیز چھوڑ دیتے ہیں ہمارے نزدیک ، فلاں اچھی چیز ہے اس لئے ہم نہیں چھوڑتے شراب بہت اچھی چیز ہے بعضوں کے نزدیک سور بہت اچھی چیز ہے بعضوں کے نزدیک.افریقہ میں چوہا کھانے کا اتنا شوق ہے کہ بعض ممالک میں چوہا مرغی سے زیادہ مہنگا بکتا ہے.ہمارے ایک احمدی استاد نے وہاں سے چٹھی لکھی کہ آج ہماری کلاس کا حرج ہو گیا کیونکہ چوہا نکل آیا تھا اور سارے بچے چوہا پکڑنے کے لئے دوڑ پڑے.اور جب چوہا نکلے تو اس وقت کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا اتنا پسند ہے ان لوگوں کو.تو آپ کا تقویٰ اور ہو گیا ان کا تقویٰ اور ہو گیا.آپ کو چوہے کے نام سے بھی کراہت آتی ہے اور وہ چوہے کی خاطر کلاس بھی چھوڑ دیتے ہیں ہر دوسری چیز سے غافل ہو کر چوہے کے پیچھے لپکتے ہیں.تو خدا تعالیٰ نے یہاں آکر تقویٰ کا ایک ایسا مضمون سمجھا دیا جو روزوں کی برکت سے ہمیں معلوم ہوا کہ اس کے بعد پھر انسان کے لئے کسی مزاج کی تفریق کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.معاشرے کے فرق کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.تقویٰ کی یہ تعریف ہے بیچو.لیکن ہر اس چیز سے بچو جس سے خدا روکتا ہے.خدا جس سے بچنے کا حکم دیتا ہے.چنانچہ رمضان میں داخل ہو کر تقویٰ اپنے عروج کو پہنچتا ہے اور خدا جب بری چیزوں کی بجائے اچھی چیزوں سے بھی رکنے کا حکم دیتا ہے تو آپ اس سے بھی رک جاتے ہیں.اس وقت وہی چیزیں بری ہو جاتی ہیں.پس نیک اور بد کی تمیز کا ایک ہی راز ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی کسوٹی پر نیک و بد کو پرکھا جائے.جو رضا کے مطابق ہے وہ نیک ہے، جو رضا کے خلاف ہے وہ بد ہے.تو رمضان المبارک ہمیں تقویٰ کی بہت ہی اعلی تعلیم دیتا ہے.پس جب ہم خدا کی رضا کی خاطر اچھی چیزوں سے بھی پر ہیز کرنے لگ جاتے ہیں تو ہم میں ایک قوت پیدا ہوتی ہے کہ جو بری چیزیں ہیں ان سے بدرجہ اولیٰ پر ہیز کریں اور ان کے خلاف دل میں ایک طبعی طور پر طاقت پیدا ہو جاتی ہے.عام طور پر باتیں کرنا معیوب نہیں ہے مگر رمضان میں روزہ رکھنے کے بعد عام باتیں کرنا بھی معیوب بن جاتا ہے سوائے اس کے کہ ضرورت ہو ورنہ زیادہ تر ذکر الہی میں وقت خرچ ہونا چاہئے.اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا کہ روزہ رکھ کر اپنے روز مرہ کے دستور میں کوئی فرق ہی نہ ڈالو.

Page 290

خطبات طاہر جلد ۶ 286 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء بعض بدیاں ویسی ہی بدی ہیں لیکن رمضان شریف میں داخل ہونے کے بعد ان بدیوں کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے اور وہ اگر پہلے کم گناہ تھا تو گناہ کبیر بن جائیں گی.ایسے افعال جن کی عام حالات میں اجازت ہے ان پر روزے کے دوران کرنے پر شدید سزا بھی عائد کی جاتی ہے.تو یہ سارا عرصہ ایک مہینے کا جو ہم اس ریاضت میں سے گزریں گے اس میں ہمیں بدیاں چھوڑنے کی مزید طاقت ملے گی.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ کا مطلب یہ ہے کہ جب تم روزے رکھو گے تو تم بہت سی بدیوں سے بچنے کی طاقت پاؤ گے جوروزے کے بغیر ویسے تمہیں نصیب نہیں تھی.بسا اوقات ایک انسان جب رمضان میں داخل ہوتا ہے بہت سی بدیوں کے بوجھ اٹھا کر داخل ہوتا ہے اور جب نکلتا ہے تو بہت ہلکا پھلکا ہو کر نکلتا ہے.اگر بہت نہیں تو کم از کم کچھ نہ کچھ بدیاں اس کی پیچھے رہ جاتی ہیں لیکن اس کے بعد، کچھ عرصے کے بعد بعض دوست مجھے خط لکھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہماری تو حالت ہی بڑی خطرناک ہے.رمضان میں خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی بہت سی کمزوریاں دور کیں اور رمضان کے بعد پھر وہ واپس آنی شروع ہوگئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کمزوریوں کے دور کرنے کا معاملہ سمجھنے کے لئے در حقیقت ایک زمیندار کی آنکھ سے فصلوں کی حالت اور ان فصلوں پر حملہ کرنے والے نقصان دہ جراثیم اور کیڑے مکوڑوں کے مقابلے کی حالت کو دیکھنا چاہئے اس وقت انسان کو سمجھ آجاتی ہے کہ طبعی فطرت کے طبعی تقاضے کیا ہیں.ایک اچھا زمیندار خوب جانتا ہے کہ اگر جڑی بوٹی یا نقصان دہ کیڑوں سے اپنے کھیت کو میں ایک دفعہ بچالوں ان کی تلفی کر دوں ان پر سپرے کروں یا اور مختلف ذرائع سے جڑی بوٹیوں کو اکھیڑ کر پھینک دوں تو پہلے چند دن بہت ہی لطف آتا ہے اس کو دیکھ کر اور اگر انسان اسی پر راضی ہو کر غافل ہو جائے اور یہ سمجھے کہ بس کافی ہوگئی تو چند دن کے بعد پھر جڑی بوٹی سر نکالنا شروع کر دیتی ہے.پس بدیوں کا بھی انسان کے ساتھ یہی معاملہ ہوتا ہے.اگر کوئی انسان ایک دفعہ بدی کو دور کر دے اور مطمئن ہو کے بیٹھ جائے کہ اب میں بدیوں سے فارغ ہو گیا تو اس کی مثال ایسے زمیندار کی سی ہوگی جو ایک دفعہ جڑی بوٹیاں تلف کرنے کے بعد اطمینان پا جائے اور سمجھے کہ اب سارا سال جڑی بوٹیاں اس کھیت کا رخ نہیں کریں گی.لوگ سمجھتے نہیں کہ زمیندار کو کتنی مسلسل محنت اور کتنی مسلسل نگرانی کی ضرورت پڑتی ہے چونکہ کارخانہ چلنے کی آواز نہیں آرہی کوئی شور نہیں پڑ رہا.اس لئے لوگ سمجھتے ہیں زمیندارہ بڑا

Page 291

خطبات طاہر جلد ۶ 287 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء آسان کام ہے.ایک زمیندار پھر رہا ہے کھیت کے کنارے ایک بنہ تو ڑ دیا، پانی ڈال دیا اور بس یا ہل چلا دیا یہی اس کی زندگی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ زمیندارہ سے زیادہ فی الحقیقت اور کوئی مشکل کام نہیں ہے.اتنی باریک نگرانی کی ضرورت ہے اور اتنی مسلسل محنت کی ضرورت ہے کہ اگر اس سے انسان عدم توجہ کرے تو فائدے کے بجائے نقصان میں داخل ہو جاتا ہے اور بعض دفعہ پھر اپنی زمینیں بھی بیچ دینی پر تی ہیں.بہت ہی فرق ہے اچھے زمیندار اور برے زمیندار کی حالت میں حالانکہ بظاہر ان کے حالات ایک جیسے بھی ہوں.اس لئے جڑی بوٹی کو جس طرح زمیندار تلف کرتا ہے اور جانتا ہے کہ پھر آئے گی اور دوبارہ سراٹھانے کی کوشش کرے گی اور مجھے ہمیشہ نگرانی کرنی پڑے گی.جس طرح زمیندار کیڑے مکوڑے کو تلف کرتا ہے اور پھر جانتا ہے کہ دوبارہ حملہ کریں گے اور مجھے اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے اور تیار رہتا ہے کہ جب بھی وہ بیماری سراٹھائے دوبارہ اس کے سر کو کچلنے کی کوشش کرے گا.تو پھر ایسا زمیندار یقیناً اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنی محنت سے بہت زیادہ پھل پاتا ہے.اور سال بہ سال اس کے کھیت کی حالت بہتر ہوتی چلی جاتی ہے.اگر لمبا عرصہ نگرانی کی جائے تو کچھ عرصہ کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کھیت کو تو کیڑے چھوڑ بیٹھے ہیں.گویا اس کھیت کی طرف رخ ہی نہیں کرتے.چنانچہ ہم نے بعض ایسے زمیندارہ علاقے دیکھے جن کی شہرت سنی تھی اور جماعت میں ایک دفعہ ایک اعلی سطح کی کمیٹی بنائی گئی، مشاورت کی وجہ سے بنائی گئی تھی جس کا کام یہ تھا کہ دورہ کر کے مختلف جماعتوں سے رابطے بھی کئے جائیں اور نمونے کے فارم دیکھ کر لوگوں کو مشورے دیئے جائیں.تو میں بھی اس کمیٹی کے ساتھ ایک دفعہ دورے پر گیا.ایک بہت ہی اعلیٰ پیمانے کا زمیندارہ فارم اوکاڑہ میں تھا.جس کے ایکڑ تو مجھے یاد نہیں لیکن بہت وسیع فارم تھا.اور اس میں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک ہم نے بڑے غور سے پھر کر دیکھا ایک گھاس کی پتی دکھائی نہیں دی اور کوئی کسی قسم کا کیڑے کا حملہ کسی جگہ بھی ہمیں دکھائی نہیں دیا.بالکل صاف ستھرا جس طرح نہا دھو کر کوئی انسان باہر نکلتا ہے اس طرح ہر کھیت تھا.اور دیکھنے والا یہ سمجھتا ہو گا عام آدمی جو واقف نہیں ہے کہ یہ تو بڑی اچھی بات ہے آپ خود بخود ہی ہوگئی ہے، بڑے آرام سے ہوگئی ہے.حالانکہ جو بھی اس کھیت کا مالک تھا اس نے سال ہا سال مسلسل اس پر محنت کی ہوگی اور بڑی کڑی نگرانی رکھی ہوگی.تب جا کر اس

Page 292

خطبات طاہر جلد ۶ 288 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء کو یہ فائدہ ہوا.ایسی صوررت میں ساری غذا ، ساری طاقت جو زمین سے یا آسمان سے ملتی ہے وہ اچھی فصلوں میں صرف ہو جاتی ہے اور کوئی اس طاقت کو چرانے والا باقی نہیں رہتا.یہی حال انسانی زندگی کا ہے رمضان آکر جڑی بوٹی کی تلفی میں آپ کی مدد کرتا ہے.لیکن اس کے بعد اس کی حفاظت کرنا آپ کا کام ہے.اور اس حفاظت کا فائدہ یہ ہوگا کہ تَتَّقُونَ تک آپ ان نقصان دہ پودوں سے بچ جائیں گے.آپ نقصان دہ جراثیم اور کیڑے مکوڑوں سے بچ جائیں گے اور نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کی جتنی بھی صلاحیتیں اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں وہ نیکی کی نشو ونما میں صرف ہوں گی.اتنا غیر معمولی آپ روحانی تغیر محسوس کریں گے کہ گویا کہ ایک انقلاب برپا ہوگیا ہے.ایسے کھیت کو جو بیرونی حملوں سے بچا ہوا ہواگر آپ غور سے دیکھیں تو ہر شاخ اس کی ہر پتا لہرا رہا ہوتا ہے.ایک ایک پودے کے اندر صحت پھوٹ پھوٹ کر نکل رہی ہوتی ہے، لطف آتا ہے اس کے نظارے کا اور وہی ویسا ہی بے شک کھیت ہو بظاہر لیکن اس کی جڑی بوٹی سے تلفی نہ کی گئی ہو یا کیڑے نہ مارے گئے ہوں ، کھاد آپ اتنی ہی دیں بے شک اس سے زیادہ دے دیں بیچ اس سے بہتر استعمال کریں پانی با قاعدہ دیں اس کا سطح اس کھیت کی درست رکھیں ، ہر دوسرا کام کریں لیکن ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق نظر آئے گا.پس بہت سی انسانی طاقتیں بدیوں کی موجودگی کی وجہ سے ضائع ہو جاتی ہیں اور بہت سی نیکیاں جو محنت کر کے انسان کماتا ہے ان کے اندر جان باقی نہیں رہتی ، ان کی صحت کمزور ہو جاتی ہے، ان کو ویسا پھل نہیں لگتا.تو یہ تقویٰ جس کا قرآن کریم یہاں ذکر فرمارہا ہے رمضان کے نتیجے میں حاصل ہوتا ہے.اس سے خصوصیت کے ساتھ یہ مراد ہے کہ تمہاری نیکیوں پر حملہ کرنے والے بدی کے جانور اور کیڑے مکوڑے رمضان میں سے گزر کر تلف ہو جائیں گے اور تمہیں ایک نئی صحت عطا ہوگی.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رمضان اور روزوں پر عمومی طور پر جو نصائح کثرت سے فرمائی ہیں ان میں ایک یہ بھی ذکر فرمایا ہے بار بار کہ رمضان کے معنوں میں شدت کی لو اور گرمی داخل ہے اور جس طرح زمیندار کے لئے جڑی بوٹی کی تلفی کے لئے بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب تیزی کے ساتھ گرمی پڑ رہی ہو اور لوئیں چل رہی ہوں.اس وقت جب وہ اکھاڑتا ہے غلط پودوں کو تو ان کی جان سوکھ جاتی ہے، ان میں کچھ باقی نہیں رہتا.اسی طرح رمضان میں بدیاں دور

Page 293

خطبات طاہر جلد ۶ 289 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء کرنے کے لئے ایک خاص ماحول پیدا ہو جاتا ہے.وہ گرمی جس کے نتیجے میں بدیاں مرتی ہیں وہ رمضان کی دعاؤں کے جوش میں یا اس ماحول کے نتیجے میں داخل ہوتی ہے اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ، زیادہ آسانی کے ساتھ بیماریاں مرنا شروع ہوتی ہیں اور ایک دفعہ مر جائیں تو پھر جب تک باہر سے دوبارہ داخل نہ ہوں اس وقت تک وہ بیماری پھر دوبارہ جڑ نہیں پکڑ سکتی.عام حالات میں بسا اوقات آپ اپنی کمزوریاں دور کریں لیکن ان کی جڑیں باقی رہ جاتی ہیں اور ہر انسان جسے اپنے نفس پر غور کرنے کی عادت ہو وہ جانتا ہے ، اس کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ میں پوری طرح اپنی صفائی نہیں کرسکا میرے اندر بدیوں کی جڑی ابھی باقی ہیں.وہ جڑیں عام حالات میں نشو و نما پھر پا جاتی ہیں.رمضان میں جو مزید فائدہ یہ ہے کہ رمضان کی تپش یعنی عبادتوں کی تپش خدا تعالیٰ کے ذکر کی تپش اللہ تعالیٰ کی محبت کی تپش، جس کا خاص رمضان سے تعلق ہے.اس کے نتیجے میں ان بدیوں کی جڑیں مرنے لگ جاتی ہیں تو نسبتاً بہت زیادہ تقویٰ کی حالت میں انسان رمضان سے باہر آتا ہے لیکن پھر اگر غافل ہو جائے تو پھر وہی حال ہو گا.اس لئے اس مہینے سے حتی المقدور پورا استفادہ کرنا چاہئے.ایک اور بدیوں سے بچنے کا طریق یہ ہے کہ رمضان میں بعض زائد نیکیاں جو پہلے نہیں تھیں وہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.قرآن کریم میں جہاں بدیوں کو دور کرنے کا مضمون تزکیہ کے لفظ کے تابع بیان فرمایا ہے اور زکوۃ میں یہ مضمون پایا جاتا ہے، وہاں دوسرے مضمون کو بھی بیان فرمایا ہے کہ نیکیاں بڑھانے کے نتیجے میں بھی بدیاں دور ہوتی ہیں.اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ (هود: ۱۱۵) یقیناً نیکیاں بدیوں کو دور کرنا شروع کر دیتی ہیں.یہ بھی کھیت کے اوپر اگر آپ نظر ڈالیں تو یہ آیت بھی مکمل طور پر کھیت کے معاملے پر چسپاں ہوتی دکھائی دے گی اور اس طرح یہ پوری تصویر مکمل ہو جائے گی.تزکیہ بدیوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہے اور اس کے نتیجہ میں زکوۃ نصیب ہوتی ہے.زکوۃ کا معنی ایک یہ ہے کہ اچھی چیزیں پرورش پائیں اور تیزی سے نشو ونما حاصل کریں.تو جب آپ بدیاں دور کرتے ہیں تو نیکیاں نشو و نما پاتی ہیں.اور اگر نیکیوں کے اندرا گر آپ اور نیکیاں داخل کر لیں تو بیچ میں بدیوں کے اگنے کی جگہ باقی نہیں رہتی.یہ بھی ایک بڑا دلچسپ زمیندارہ تجربہ ہے کہ جن زمینداروں کے پاس کھیت کھلا ہو اور اس میں جتنے پورے فصل کے داخل کئے جاسکتے ہوں اتنے داخل نہ کئے گئے ہوں، کاشت نہ کئے گئے ہوں، بیچ میں خلا رہ گیا تو اس بیچارے کو اس خلا کو جڑی بوٹی سے

Page 294

خطبات طاہر جلد ۶ 290 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء دور کرنے کے لئے بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور ذرہ بھی غافل ہو جائے تو پھر وہاں کچھ نہ کچھ ضرور اگ آتا ہے.یہ قانون قدرت ہے.خلا اگر پیدا ہوگا تو ارد گرد کی طاقتیں ضرور وہاں دخل اندازی کریں گی.تو جہاں تزکیہ نے ہمیں یہ مضمون سمجھایا کہ جن پودوں کا کسی کھیت میں حق نہیں ہے.جو غیر ہیں جو دشمن ہیں.ان کو اکھیڑ کے پھینکو وہ جو اس کھیت کے سگے اور اپنے ہیں ان کی نشو و نما میں بہت زیادہ قوت پیدا ہو جائے گی اور پہلے سے زیادہ ان میں برکت نظر آئے گی.دوسری طرف یہ فرمایا کہ خالی جگہوں کو نیکیوں سے بھرنا شروع کرو تا کہ بدیوں کے لئے جگہ باقی نہ رہے.اس مضمون کو اگر آپ سمجھ لیں تو آئندہ بدیوں سے مقابلہ کے لئے ایک بہت ہی عظیم راز آپ کے ہاتھ میں آجائے گا.امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کا وقت محدود ہے اور اس کی دلچسپیاں بھی محدود ہیں.اگر انسان کے اندر جتنی بھی خدا نے استطاعت رکھی ہے اور ہر انسان کی استطاعت کئی پہلوؤں سے بدل جاتی ہے مگر جس شخص کی جتنی بھی استطاعت ہے اگر اس کی ساری استطاعت میں نیکیوں کے پودے لگا دیئے جائیں تو بدیوں کے داخل ہونے کا امکان بہت ہی بعید کی بات ہو جائے گی اور اگر خلاء چھوڑ دیئے جائیں تو پھر باوجود محنت کے کچھ نہ کچھ بدیاں اس میں ضرورا گنا شروع ہو جائیں گی.تورمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے دوسرا طریق یہ ہے کہ آپ اپنی حسنات کو بڑھائیں.بالا رادہ سوچ کر کہ فلاں میرے دوست میں یہ خوبی پائی جاتی ہیں میں کوشش کرتا ہوں کہ اس رمضان شریف میں یہ خوبی بھی مجھے حاصل ہو جائے یا میں اس پر عمل درآمد شروع کر دوں.تو اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر تمہاری بعض برائیاں بھی دور ہونا شروع ہو جائیں گی.اچھے کھیت کے سائے میں جڑی بوٹیاں مرنا شروع ہو جاتی ہیں اور جب کھیت کاٹے جاتے ہیں ہم نے دیکھا ہے جو جتنا صحت مند کھیت ہو اس کے سائے کے اندر جڑی بوٹیاں نکلتی بھی ہیں تو نہایت مری ہوئی مردہ ہی زرد حالت میں بمشکل وہ زندگی کے سانس پورے کر رہی ہوتی ہیں اور جب جڑی بوٹیاں غلبہ پا جائیں تو پھر اچھے پودوں کا جن کا لگانا مقصود تھا ان کا یہ حال ہو جاتا ہے بے چاروں کا کہ وہ غالب آجاتی ہیں اور ان کو سانس لینے میں مشکل ہو جاتی ہے.اس لئے اس مضمون سے اس رمضان میں جہاں تک ممکن ہو جماعت احمدیہ کو استفادہ کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ نے جو یہ مہینہ دیا ہے ہمیں بہت بڑی نعمت ہے.اگر رمضان نہ ہوتا تو امت مسلمہ کی حالت بالکل کچھ اور ہوتی.باوجود اتنی گراوٹ کے جو آنحضور صلى الله

Page 295

خطبات طاہر جلد ۶ 291 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء کی ذات سے چودہ صدیوں کی دوری نے مسلمانوں میں پیدا کی اس کے باوجود رمضان کے مہینے کی برکتوں سے بہت سی نیکیاں زندہ ہیں اور بہت سی بدیاں ہیں جو داخل ہوتے ہوتے پھر واپس نکال دی جاتی ہیں.بہت ہی بڑا احسان ہے اور مضان کا امت محمدیہ پر کہ اللہ تعالیٰ نے خاص فضل کے ساتھ ہمیں ایک چھلنی عطا کر دی ہے جس میں سے نکل کر بہت سی بدیوں کو ہم جھاڑ کر تازہ دم ہو کر صحت مند ہو کر باہر نکلتے ہیں جسمانی لحاظ سے بھی اس کے بڑے فوائد ہیں، معاشرتی لحاظ سے بھی بڑے فوائد ہیں کسی عبادت کے اتنے گہرے اثرات انسانی استطاعت کے ہر حصہ پر نہیں پڑتے جتنے رمضان کے یا روزوں کے انسانی استطاعت کے ہر حصہ پر پڑتے ہیں کوئی انسانی استطاعت ایسی نہیں ہے جس کا آپ تصور کر سکیں جس پر رمضان اپنا اثر نہ چھوڑ جائے.کامل طور پر پورے انسان کی زندگی پھر رمضان حاوی ہو جاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے رمضان کے متعلق جو چند بہت سی نصائح فرمائی ہیں ان میں سے چند میں آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں تا کہ ان بابرکت اور بے حد گہری تاثیر رکھنے والی نصائح سے آپ استفادہ کر سکیں.حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزاء بنوں گا یعنی اس کی اس نیکی کے بدلے میں اسے اپنا دیدار نصیب کروں گا.ابھی چند دن پہلے ہالینڈ میں ایک دوست نے یہی سوال کیا تھا کہ ہر نیکی انسان کی خدا کے لئے ہوتی ہے روزے کو خاص طور پر یہ کیوں کہا گیا ہے کہ خدا فرماتا ہے کہ وہ میرے لئے ہے گویا، تو واقعہ یہ ہے کہ کسی نیکی کا انسان کی ہر طاقت سے تعلق نہیں ہے سوائے روزے کے کسی نیکی کا کچھ طاقتوں سے تعلق کسی کا کچھ اور طاقتوں سے تعلق ہے لیکن پورا وجود خدا کی رضا کے تابع کرنے کے لئے روزے کی ضرورت پیش آتی ہے اس میں ہر قربانی داخل ہو جاتی ہے ہر عبادت داخل ہو جاتی ہے تو گویا جب انسان اپنے پورے وجود کو خدا کے سپر د کر دے تو اس کی جزاء خدا بن جاتا ہے اور اگر پورا وجود نہ دے تو اس کی کچھ نہ کچھ دوسری جزاء ہوگی پورے وجود کا پورا وجود جزاء ہے ان معنوں میں آپ اسے بہتر سمجھ سکیں گے.یعنی ایک لحاظ سے تو انسان اپنا پورا وجود چھوڑ کے اپنی اگلی پچھلی ساری نسلیں بھی خدا کو دے دے تو اس کے مقابل پر خدا کی ذات کا سودا نہیں ہوسکتا.اس لئے اس کو آسان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ پیار کے سودے اس طرح فرماتا ہے کہتا ہے اچھا یوں کرتے ہیں تم مجھے پورا دے دو میں پورا تمہارا ہو جاتا ہوں.اور یہ مضمون روزے میں سمجھ آتا ہے.اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اسے آسان

Page 296

خطبات طاہر جلد ۶ 292 خطبه جمعه ۲۴ را پریل ۱۹۸۷ء کر کے ہمیں سمجھا دیا کہ بہت ہی عظیم الشان موقع ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم نے سب کچھ مجھے دیا اپنی ہر طاقت میں سے مجھے لوٹایا ہے.چونکہ تم پورے میرے ہور ہے ہو اس لئے میں آج پورا تمہارا ہوجا تا ہوں.ورنہ یہ مطلب نہیں ہے کہ نمازوں میں نفسانیت پائی جاتی ہے یا حج میں نفسانیت پائی جاتی ہے یا ز کوۃ میں نفسانیت پائی جاتی ہے ایک تمثیل ہے جس کے ذریعے ایک محبت اور عشق کا راز سمجھایا گیا ہے.فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ ڈھال ہے پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہے تو نہ وہ بیہودہ باتیں کرے نہ شور و شر کرے اگر اس سے کوئی گالی گلوچ ہو یا لڑے جھگڑے تو وہ جواب میں کہے میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے.اب دیکھیں روز مرہ ہمارے گھروں میں جو معاشرے کے مسائل ہیں اگر ایک انسان اس نصیحت کو ہی پیش نظر رکھ کے اسے اپنا لے اسے مضبوطی سے پلے باندھ لے تو کتنے ہی گھر جو جہنم بنے ہوئے ہیں جنت بن سکتے ہیں ایک مہینے کی یہ ریاضت ہے صرف لیکن جو ایک مہینہ مسلسل اپنے گھر میں سخت کلامی سے بچ جائے گالی گلوچ سے بچ جائے.اسے یقینا اپنے گھر میں ایک ایسی پاکیزہ تبدیلی دکھائی دے گی کہ سوائے اس کے کہ بالکل ہی کوئی جاہل مطلق ہو یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک مہینے کے بعد وہ دوبارہ بدیاں شروع کر دے اور اپنے گھر کو اپنے ہاتھوں سے پھر جہنم بنالے.لیکن اکثر جب آپ دیکھتے ہیں کہ روزوں میں سے گزرنے کے باوجود معاشرے میں اصلاح نہیں ہوتی تو یقین جانیں کہ اس لئے نہیں ہوتی کہ آنحضرت ﷺ کی اس نصیحت پر عمل نہیں کیا جا تالا کھوں عہد یدار ہیں جو اپنی روز مرہ کی زندگی کی عادتوں میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کرتے.اگر اونچی آواز میں شور و شر کرنے کی پہلے عادت تھی تو روزے میں بھی وہی عادت رکھتے ہیں.اگر بدکلامی کی عادت تھی تو روزے میں بھی بدکلامی ان سے ہوتی رہتی ہے.درشت مزاجی کی عادت تھی وہ بھی اسی طرح باقی رہتی ہے صرف بھوکے رہتے ہیں اور کچھ نہیں یا پیاسے رہتے ہیں اور کچھ نہیں.تو آنحضرت مہ نے تقویٰ کے راز سکھائے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تو کیا مطلب ہے کن چیزوں سے بچو تفصیل بیان فرما دی.ایک نظریہ کو ایک حقیقت میں تبدیل کر کے دکھایا ہے فرمایا نہ تو وہ بے ہودہ باتیں کرے، نہ شور و شر کرے، اگر کوئی گالی گلوچ ہو یعنی لوگ اس کو گالیاں دیں تو وہ جواب میں کہے کہ میں نے تو روزہ رکھا ہوا ہے.یہ نہیں کہ مجھے جواب دینا نہیں آتا میں مجبور ہوں اور خاص طور پر ایک ایسا شخص جو معاشرے میں مشہور ہو تیز کلامی کے لئے وہ جب چپ ہوگا تو لازماً تعجب ہوگا کہ آج اس کو کیا ہو گیا ہے تو وہ بتاتا ہے کہ میاں میں بیمار نہیں ہوں مجھے اور کوئی تکلیف نہیں میں

Page 297

خطبات طاہر جلد ۶ 293 خطبه جمعه ۲۴ ر ا پریل ۱۹۸۷ء روزہ دار ہوں میں بے اختیار ہوں اب.اس وقت تم جتنا چاہو مجھ سے لڑو جتنی چاہو گالیاں دو میں نے الله آگے سے کچھ نہیں کہنا اس کے بعد آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد کی جان ہے.روزے دار کی منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار ہے.پہلے روزے دار کی تعریف فرمائی ہے پھر فرمایا ہے کہ اس کے منہ کی بواس روزے دار کے منہ کی بومراد نہیں جو گالیوں سے ویسے ہی منہ متعفن ہوا ہے.اس روزہ دار کے منہ کی بومراد نہیں ہے جو بد کلامی کرتا ہے یا ذکر الہی سے خالی رہتا ہے صرف گندے ڈکاروں کی بد بو ہے جس نے منہ کوملوث کیا ہوا ہے.وہ بومراد ہے جو خدا کی خاطر ہر بری چیز سے رکنے والا منہ ہے اس میں سے بھی طبعاً فطرتاً روزہ رکھنے کے نتیجہ میں ایک بو پیدا ہوتی ہے.لیکن فرمایا کہ چونکہ اس منہ میں پاکیزگی داخل ہو چکی ہے خدا کی خاطر اس لئے اللہ تعالیٰ کو کستوری سے بھی زیادہ پاکیزہ اور خوشگوار معلوم ہوتی ہے اور وجہ بیان فرما دی کہ کیونکہ اس نے اپنا یہ حال خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے.پھر فرمایا روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں.ایک خوشی اسے اس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزے کی وجہ سے اسے اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوگی.یہ جو ملاقات ہے اس الله کے متعلق آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ مرنے کے بعد نصیب ہوگی.( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۷) لیکن بالعموم لوگ اس کا یہی مطلب سمجھتے ہیں کہ روزے کی خوشی تو اسی دنیا میں نقد مل جائے گی یعنی جب بھی ہم روزہ کھولیں گے تو دنیا کے رزق سے جو ملاقات ہو رہی ہے اسکے نتیجے میں خوشی میسر آئے گی اور خدا کی ملاقات ادھار رہتی ہے وہ مرنے کے بعد نصیب ہوگی یہ غلط ہے.روزے کے اندر جب خدا جزا ہے تو روزے کے دوران ہی وہ جزاء بنتا ہے.کوئی ادھار کا سودا نہیں کرتا اللہ تعالی.اسی لئے روزے کے آخر پر لیلتہ القدر رکھی گئی ہے تا کہ اگر پہلے اسے دیدار نصیب نہ ہوا ہو تو لیلۃ القدر کے دوران جو ایک خاص معراج کی رات ہوتی ہے رمضان کی نیکیوں کی اس رات ہی اسے نصیب ہو جائے تو ایک چیز تو آپ کے اپنے اختیار میں ہے یعنی روزہ کھول لینا اور رزق کی لذت حاصل کرنا وہ جزاء ہے یا نہیں ہمیں اس کا علم نہیں جزاء تو تب ہم کو خدا پیار و محبت سے کہے کہ ہاں تم نے میری خاطر منہ بند رکھا تھا میری خاطر اس کو کھاؤ اس لئے ہم سب یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہماری جزاء ہے دوسری جزاء کے متعلق ہم یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ مرنے کے بعد پتہ چلے گا تو اس دنیا میں کیا پتہ کہ روزے مقبول بھی ہوئے یا نہیں اس لئے حقیقیت یہ ہے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ خدا جب جزاء

Page 298

خطبات طاہر جلد ۶ 294 خطبه جمعه ۲۴ ر ا پریل ۱۹۸۷ء بنتا ہے تو قیامت کے دن نہیں اس دنیا میں بنتا ہے.اس دنیا میں اس کا حاصل ہونا ایک امر واقعہ ہو جاتا ہے.اس پہلو سے ہر روزہ دار کو رمضان کے درمیان یہ معلوم ہو جانا چاہئے کہ میرے روزے کے خدا کی خاطر تھے یا نہیں اگر تھے تو اس دوران اسے ضرور خدا کی لقا نصیب ہو جائے گی لقاء سے مراد یہ تو نہیں کہ خدا اپنی تمام شان کے ساتھ اس پر جلوہ گر ہوگا کیونکہ موسیٰ کی لقاء اور تھی اور محمد مصطفیٰ کی لقاء اور تھی.جب نبیوں کی لقا میں فرق ہے تو عام انسانوں کی لقاء میں بھی فرق ہوگا.لیکن لقاء اپنی توفیق کے مطابق اپنے ظرف کے مطابق.کچھ نہ کچھ خدا کے پیار کا جلوہ اس طرح دیکھے گا کہ گویا اسے خدا نصیب ہوا ہے.اس پہلو سے ہمیں پوری توجہ اور محنت کے ساتھ صرف کوشش ہی نہیں کرنی چاہئے بلکہ دعا کرنی چاہئے کیونکہ خدا اصل میں تو کسی چیز کی بھی جزاء نہیں وہ اپنی رحمت کی جزاء ہے.اپنے فضل کی جزاء ہے اپنے کرم کی جزاء ہے.اس سے کوئی سودا ہو ہی نہیں سکتا یہ تو محض اس کے پیار کی باتیں ہیں دلداری کی باتیں ہیں جو وہ کہتا ہے کہ ہاں میں تمہارا سودا ہوں.اس لئے سب سے زیادہ گہری حقیقت اس بات میں ہے کہ آپ عاجزانہ دعا کریں کہ اے خدا ہم نے جو کچھ بھی کیا ہے ہم جانتے ہیں جو اس کا حال ہے اس لئے تو محض اپنے فضل اور رحمت کے نتیجے میں ہماری جزاء بن جا.جس طرح ہم اپنی غفلتوں سے غافل رہے ہیں اس دنیا میں تو بھی ہماری چشم پوشی فرما اور باوجود سب کمزوریوں کے ہمیں فضل کا یہ کرشمہ دکھا اپنے رحم کا جلوہ دکھا کہ ہم سمجھیں کہ ہاں اللہ ہمارے روزوں کے بدلے ہمارا ہو گیا.اس قسم کی عاجزانہ دعائیں کریں، گریہ وزاری کریں، اپنے اعمال یہ بنا نہ رکھیں اللہ کے رحم کی طرف نگاہ رکھیں تو بہت سی کمزوریان بہت سی غفلتوں کی حالتیں جو خود ہماری نظر میں بھی نہیں آتیں اللہ بھی ان سے چشم پوشی فرما سکتا ہے اور فرما دیتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کوئی بعید نہیں کہ لکھوکھا احمدیوں کو اسی رمضان المبارک میں اس طرح خدا کی لقاء نصیب ہو کہ پہلے کبھی نصیب نہ ہوئی ہو.اور یہی سب زندگی کی ترقی کا راز ہے یہی فلاح کی کنجی ہے.جس کے بعد ایک ہمیشہ کی زندگی اسی دنیا میں انسان کو نصیب ہو جاتی ہے انسان اس عالم فنا میں رہتا ہوا عالم بقا میں داخل ہو جاتا ہے.رمضان عالم بقا لے کر آپ کے لئے آ رہا ہے.آب حیات ہے.اس کا ایک گھونٹ آپ حقیقت میں بھر لیں جس طرح کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے تو ایک ہی گھونٹ آپ کے لئے ہمیشہ کی زندگی کا پیغام لاسکتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.

Page 299

خطبات طاہر جلد ۶ 295 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء اللہ کی محبت کی خاطر مشکلات پر صبر کریں خطبه جمعه فرموده یکم مئی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت کی :.وَالَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَيْكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِة اور فرمایا: (الرعد: ۲۳) گزشتہ جمعہ پہ جو رمضان سے پہلے جمعہ تھا میں نے جماعت کو کچھ نصائح کی تھیں کہ رمضان مبارک میں خصوصیت کے ساتھ ان امور کی طرف توجہ کریں.یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے یہ اس خطبہ کا بہترین عنوان بن سکتی تھی اور حقیقت میں رمضان مبارک میں خصوصیت کے ساتھ جو پروگرام پیش نظر رہنا چاہئے وہ اس آیت میں تمام تر پیش کر دیا گیا ہے اور ہر رمضان کا یہ آیت بہترین عنوان بن سکتی ہے.ویسے تو مومن کی زندگی کا خلاصہ یہی ہے جو اس آیت میں بیان کیا گیا ہے لیکن رمضان میں چونکہ خصوصیت کے ساتھ ہر نیکی اپنے عروج تک پہنچتی ہے یا توقع کی جاتی ہے کہ ہر مومن اپنی ہر نیکی کو رمضان مبارک میں عروج تک پہنچانے کی کوشش کرے گا.اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس آیت کے مضمون کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.

Page 300

خطبات طاہر جلد ۶ 296 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء تقویٰ کی جو اعلیٰ تعریف میں نے جماعت کے سامنے رکھی تھی وہ بھی اس آیت میں مذکور ہے یعنی وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبھم کہ وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی محبت کی خاطر صبر کرتے ہیں یہاں اگر چہ تقویٰ کا نام نہیں لیا گیا مگر تقویٰ کے نتیجے میں ہی وہ اعلیٰ درجہ کا صبر حاصل ہوتا ہے جس کا یہاں ذکر فرمایا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم کی بعض اور آیات میں اسی مضمون کو تقویٰ کا نام لے کر بھی بیان فرمایا گیا.خدا کی رضا کی خاطر، اس کی محبت میں صبر کرتے ہیں یہ ہے اس آیت کے مضمون کا آغاز.صبر کیا ہے؟ صبر کا مضمون اسلامی اصطلاح میں بہت وسیع ہے اس پر پہلے بھی میں بارہا روشنی ڈال چکا ہوں کہ اس میں صرف تکلیف کے نتیجے میں خاموشی اختیار کر لینا اور واویلہ نہ کرنا مراد نہیں.آنحضرت ﷺ کی تعریف کے مطابق جو قرآن سے ماخوذ ہے.صبر نیکیوں پر استقامت اختیار کرنے کو کہتے ہیں.جس اچھی چیز پر ایک دفعہ ہاتھ ڈال بیٹھیں اس کو نہیں چھوڑنا اور کسی قیمت پر بھی حاصل شدہ نیکیوں سے منہ نہیں موڑنا.اس کا صبر سے کیا تعلق ہے؟ اچھی چیز جس کو انسان اختیار کر لے اسے آخر کیوں چھوڑے اور اس کے چھوڑنے کو بے صبری کیوں کہا گیا؟ اس کی دو وجوہات ہیں:.اول تو یہ کہ نیکی بہر صورت اچھی ضرور ہوتی ہے لیکن نیکی کو قائم رکھنے کے لئے کچھ محنت بھی کرنی پڑتی ہے.انسان کا سفر یا بلندی کی طرف ہوسکتا ہے یاڈھلوان کی طرف.ڈھلوان کی طرف سفر کے لئے انسان کو کسی محنت کی ضرورت نہیں لیکن بلندی کے سفر کے لئے محنت کی ضرورت ہے اور جو بلندی بھی انسان حاصل کر لے اسے قائم رکھنے کے لئے بھی ایک محنت کی ضرورت ہوتی ہے.تو اس لئے نیکیوں کے ساتھ صبر کے مضمون کو ہر جگہ قرآن کریم نے باندھا ہے.دوسری وجہ یہ ہے کہ جولوگ انفرادی طور پر کوئی اچھی عادت اختیار کرتے ہیں ان کو دنیا اس اچھی عادت سے باز رکھنے کی کوشش نہیں کرتی.دنیا ایک عام انسان کی انفرادی نیکی کے خلاف کوئی مخالفت کی مہم شروع نہیں کرتی لیکن جو نیکی اللہ کی خاطر اختیار کی جائے اس کی ایک نمایاں پہچان یہ ہے کہ اس نیکی کے مقابل پر دنیا اس کے پیچھے پڑ جاتی ہے نیکی اختیار کرنے والے کے اور پورا زور لگاتی ہے کہ کسی طرح وہ اس نیکی سے ہٹ جائے.مثلاً یہ اعلان کے خدا ایک ہے، یہ ایک بہت ہی اچھا اور پیارا اعلان ہے اور کسی دوسرے کو تکلیف نہیں دیتا.کم سے کم اس کی ذات میں کوئی ایسی بات نہیں جو کسی کو تکلیف دے

Page 301

خطبات طاہر جلد ۶ 297 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء سکے.اگر کسی کا عقیدہ ہے کہ خدا زیادہ ہیں اور کوئی شخص یہ کہے کہ خدا ایک ہے تو فطرتا اور طبعا اس کو تکلیف نہیں پہنچنی چاہئے کیونکہ جس کے پاس زیادہ ہے وہ زیادہ پر خوش ہوگا.اگر واقعہ زیادہ ہیں اور کوئی ایک پر راضی ہوتا ہے تو وہ دوسرا سے بیوقوف سمجھے گا محروم سمجھے گا.یہ سمجھے گا کہ ہیں تو بہت زیادہ یہ بیوقوف ایک پر ہی راضی ہو گیا ہے لیکن اس پہ غصہ آنے کی کوئی وجہ نہیں.بہر حال تمام نیکیوں میں سب سے زیادہ بنیادی نیکی اپنے خالق کے وجود کا اعتراف اور یہ اعلان ہے کہ ہمارا ایک خالق اور مالک موجود ہے اور پھر یہ اعلان کہ وہ ایک ہی ہے اسی سے ساری طاقتیں، ہرقسم کی دوئی پھوٹتی ہے اور رفتہ رفتہ ایک ان گنت جہان دکھائی دینے لگتا ہے لیکن بنیادی طور پر آخری نکتے کے طور پر ہر چیز ایک ہی منبع ، ایک ہی سرچشمہ سے پھوٹتی ہے، یہ ہے تو حید کا اعلان.لیکن آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اس اعلان کی کتنی سزا آپ کو اور آپ کے غلاموں کو دی گئی اور یہ کوئی نئی کہانی نہیں تھی.ازل سے جب یہ اعلان ہوا ہے یہ سزادی جاتی رہی ہے اور جب بھی یہ سزادی جاتی ہے اس وقت آپ تلاش کریں تو وہ قرب نبوت کا زمانہ ہوگا.اس وقت یہ سزا کیوں دی جاتی ہے؟ بیچ کے زمانے میں یہ سزا کیوں ختم کر دی جاتی ہے؟ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لا الہ الا اللہ تو وہی رہتا ہے لیکن ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ کا مضمون اس میں سے غائب ہو جاتا ہے بعض اوقات.قرب نبوت کے زمانے میں جب انسان لا اله الا اللہ کا اعلان کرتا ہے تو اللہ کی محبت کی بنا پہ ایسا کر رہا ہوتا ہے.خالصہ خدا کی رضا کی خاطر ایسا کرتا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کی تقدیر اسے ابتلا میں ڈالتی ہے.اس وقت اس کی محبت اور اس کے خلوص کی آزمائش کی جاتی ہے، پر کھا جاتا ہے کہ واقعہ اپنے عقیدے میں وہ سچا تھا بھی کہ نہیں لیکن اگر یہ اعلان رسماً ہونا شروع ہو جائے ، اگر اس کا دل کے جذبات سے کوئی تعلق نہ ہو.خدا کی رضا حاصل کرنے کی خاطر نہیں بلکہ اس لئے کہ ورثے میں یہ اعلان ملا ہے کوئی شخص یہ اعلان کرتا رہے تو آپ دیکھیں گے اس کی کوئی مخالفت نہیں ہوتی.صلى الله چنانچہ امت محمدیہ میلے میں دو زمانے ہیں جن میں اس اعلان کی مخالفت کی گئی ہے ایک اول زمانہ یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نبوت کا آغاز اور پھر کچھ عرصہ تک اس کے بعد اور ایک وہ زمانہ جو ہمیں نصیب ہوا جس میں پھر یہ مخالفت شروع ہوئی.یہ ضروری نہیں ہے کہ جب مخالفت ختم ہو جائے اس موضوع پر تو گویا یہ اعلان ہے کہ اس اعلان کے ساتھ جو دلی وابستگی تھی وہ بھی ختم ہو چکی

Page 302

خطبات طاہر جلد ۶ 298 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء ہے.آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں نے یہ اعلان خالصہ وجہ اللہ کے لئے کیا، اللہ کی رضا کی خاطر کیا اور اس کے نتیجے میں مخالفت شروع ہوئی لیکن وہ مخالفت رفتہ رفتہ دب گئی اور غائب ہوگئی کیونکہ اسی اعلان کی برکت نے آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں کو غلبہ عطا فرما دیا.پس مخالف کی مخالفت کیونکہ تقویٰ پر بنی نہیں ہوتی.وہ اس وقت تک مخالفت کرتا ہے جب تک اسے غلبہ نصیب ہو جب کمزوری کی حالت میں چلا جائے تو وہ مخالفت کو چھوڑ دیتا ہے.اس وجہ سے کچھ عرصہ کے بعد مخالفت تو دب جاتی ہے لیکن یہ مطلب نہیں کہ اس کے ساتھ ہی اللہ کی محبت اور اس کی رضا بھی مٹ جاتی ہے.اس لئے ایک لمبے عرصے تک یہ مضمون چلتا ہے لیکن جب میں کہتا ہوں کہ بعد میں یہ مخالفت ختم ہو جاتی ہے تو مراد یہ ہے کہ دراصل ایک نبوت سے دوری کے بعد چند نسلوں کے بعد یہی اعلان ایک رسمی اعلان بن جاتا ہے اور جب یہ رسمی اعلان بنتا ہے پھر کسی مخالفت کی ویسی ہی ضرورت باقی نہیں رہتی اور اس دور میں جب کبھی انفرادی طور پر کوئی عشق کے نتیجے میں یہ اعلان کرے تو اس کی پھر مخالفت شروع ہو جاتی ہو.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد احمدیت کی تاریخ تک اگر چہ مہم کے طور پر آپ کو درمیان میں یہ لا الہ الا اللہ کے خلاف مہم نظر نہیں آئے گی لیکن انفرادی طور پر اللہ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ، خدا کے عشق کا گیت الاپنے والے اور خدا کو ایک کہنے والوں کے خلاف آپ کو بارہا مخالفت کی لہریں اٹھتی ہوئی دکھائی دیں گی جنہوں نے وقتاً فوقتاً امت محمدیہ میں بہت ہی تکلیف دہ ابواب کا اضافہ کیا ہے لیکن دو بدو لڑائی لا الہ الا اللہ کے اعلان کے ساتھ گویا قوم دوحصوں میں بٹ چکی ہو.ایک وہ جو مٹا کر چھوڑے گی اس اعلان کو اور ایک وہ ہیں اس کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت مستعد اور تمام جان کے ساتھ مستعد رہے گی.یہ وہ نمایاں پہلو ہے جو نبوت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس کی بنیاد اللہ کی محبت میں ہے.رضائے باری تعالیٰ کی خاطر جب بھی کوئی نیکی اختیار کی جائے گی اس وقت اس کی مخالفت ضرور ہوگی.پس آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مسلمانوں کی ہر نیکی کا امتحان تھا.میں نے ایک مثال کے طور پر بنیادی نیکی کا ذکر کیا ہے مگر یہ مراد نہیں ہے کہ صرف اسی کی مخالفت ہوتی ہے.ہر نیکی جو دور نبوت میں کی جاتی ہے اس کی مخالفت ہوتی ہے، ہر حرکت جو انسان خدا کی رضا کی خاطر کرتا ہے اس کی

Page 303

خطبات طاہر جلد ۶ 299 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء مخالفت ہوتی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے ایک اور آیت میں اس مضمون کو بیان فرمایا کہ محمدمصطفی امیر اور محمد مصطفی اللہ کے غلام کا اٹھنا ، بیٹھنا، اوڑھنا بچھونا سب خدا کے لئے ہو چکا تھا.ان کا تو یہ حال ہو چکا ہے کہ یہ جب وہ قدم اٹھاتے ہیں بازاروں میں تو ان قدموں کو بھی نفرت سے دیکھا جاتا ہے.کوئی ایسا کام نہیں ہے جو وہ کرتے ہوں جس کی مخالفت نہ ہوتی ہو.اس لئے یہ آیت رکھی گی تا کہ یہ بتایا جائے کہ وہ لوگ جو خدا کے ہو جاتے ہیں ان کا ہر فعل نیکی بن جاتا ہے اور خدا کی خاطر جب نیکیاں اختیار کی جاتی ہیں تو ان کی مخالفت ایک لازمی چیز ہے.لا ز ما دشمن ان نیکیوں کو مٹانے کی کوشش کرتا ہے.اس لئے وہ نیکی جو اللہ ہو اس کے ساتھ صبر کا مضمون ایک جزولاینفک ہے، نہ ٹوٹنے والا ایک مضمون ہے جسے کبھی آپ علیحدہ نہیں ہوتے دیکھیں گے.تبھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وہ لوگ جنہوں نے اللہ کے منہ کی خاطر.جس طرح ہم اردو میں بھی کہتے ہیں اس کے منہ کی خاطر ، مراد ہے اس کی رضا کی خاطر یا اس کے پیار کے نتیجے میں، اس کی محبت کی وجہ سے کچھ نیکیاں اختیار کی ہیں یا کریں گے ان کو لازما صبر کے ساتھ آراستہ ہونا پڑے گا یا صبر کے ہتھیاروں کے ساتھ ہتھیار بند ہونا پڑے گا ورنہ ان کے لئے یہ سفر مشکل ہو جائے گا.پس حقیقت یہ ہے کہ محبت کا سفر بظاہر آسان دیکھائی دیتا ہے اور کئی پہلوؤں سے بہت آسان بھی ہے لیکن محبت کا سفر مشکل بھی بہت ہوتا ہے.اس پہلو سے بہت آسان ہے کہ سوائے اس کے کہ اللہ کی محبت کی خاطر تقویٰ اور نیکی اختیار کئے جائیں تقویٰ اور نیکی اپنی ذات میں بہت مشکل ہو جاتے ہیں.پس وہی مضمون ہے کہ: ہمارے واسطے راہ عدم بھی ہے اور یوں بھی کسی پہلو سے دیکھیں تو صبر کی ضروت بہر حال ہمیں پیش آتی ہے.اللہ کی محبت کے بغیر خشک دین کو اختیار کرنا ایک بہت ہی مصیبت ہے، زندگی عذاب بن جاتی ہے اور اللہ کی محبت کے بغیر اگر خشک دین ورثے میں مل جائے تو اسے اختیار کرنا مشکل تو نہیں ہو گا لیکن وہ دین بے معنی ہو جائے گا.جو عادتا ملا ہو، جو ورثے میں ملا ہو جو پریڈ کی طرح انسان کر رہا ہو جس کا روح سے کوئی تعلق نہ ہو.اس دین کا ہونا نہ ہونا بے معنی ہے لیکن اگر کوئی بے دین ہو اور دین کی طرف سفر شروع کرے

Page 304

خطبات طاہر جلد ۶ 300 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء اس کے لئے دو ہی راستے ہیں یا تو محبت کے نتیجے میں ایسا کرے گا یا زور لگا کر اپنی دماغی قوتوں سے کام لے کر اپنے اوپر پابندی عائد کرے گا.جو دماغی قوتوں سے کام لے کر پابندی عائد کرتا ہے نصیحت کو نصیحت سمجھ کر زبردستی اپنے اعمال میں تبدیلی چاہتا ہے.وہ جانتا ہے کہ چھوٹی سی چھوٹی بدی چھوڑنا بھی اور چھوٹی سی چھوٹی نیکی کو اختیار کرنا بھی کتنا مشکل کام ہو جاتا ہے.پوری زندگی کو تبدیل کر دیناز بر دستی محض دماغی طاقت سے یہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن یہ کام آسان ہو جاتا ہے اگر عشق کے نتیجے میں ہو، اگر محبت اور پیار کی بناء پر ہو.تو کتنا ہی مشکل مرحلہ ہو وہ آسانی سے طے ہو جاتا ہے کیونکہ عشق میں ایک دیوانگی پیدا ہوتی ہے اس دیوانگی کے نتیجے میں مشکلات آسان ہوتی چلی جاتی ہیں.تو ایک طرف عشق ایک مشکل کو آسان کر رہا ہوتا ہے دوسری طرف عشق ہی کے نتیجے میں کچھ مشکلات پیدا ہو رہی ہوتی ہیں.اندرونی مشکلات حل ہو رہی ہوتی ہیں اور بیرونی مشکلات بڑھ رہی ہوتی ہیں.حقیقت میں عشق اگر اللہ کا ہو یا دنیا کا ہو ہر جگہ عشق کے ساتھ ایک صبر اور ایک مشکل کا مفہوم ایک فطری تعلق رکھتا ہے.چنانچہ ایک شاعر نے اس بارے میں کہا:.الايايها الساقی ادر كأساً وَّ نَاوِلُهَا که عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلها کہ اے ساقی ! پیالہ جام کو حرکت دو اور پیاسوں تک پہنچاؤ اس جام کو کیونکہ وہ عاشق جو تیری مجلس میں بیٹھے ہیں ان کو بظا ہر عشق دیکھنے میں آسان نظر آیا مگر ولے افتاد مشکلها مشکل ہے.عشق شروع میں تو آسان دکھائی دیا تھا پڑ گیا ہے تو بہت ہی مشکل دکھائی دیتا ہے.شراب کی طاقت کے بغیر گزارا نہیں ہے کہ اس مشکل کو انسان برداشت کر سکے.شراب کے پیالے میں غم ڈبوئیں تو پھر ہم زندہ رہ سکتے ہیں اور نہ اور کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی.اللہ تعالیٰ کی محبت میں بھی ایک پیالہ چلتا ہے اور وہ گردش میں آتا ہے مگر وہ خدا کی محبت ہی کا جام ہے، خدا کی محبت ہی کی ئے ہے جس میں اپنے آپ کو ڈبونا پڑتا ہے:.نہاں ہو گئے ہم یار نہاں میں (در ثمین صفحه : ۵۰) یہ وہی مضمون ہے کہ جتنا زیادہ خدا کے عشق میں تکلیف پہنچتی ہے اتنا ہی خدا کے عشق

Page 305

ہو خطبات طاہر جلد ۶ 301 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء میں غرق ہونا پڑتا ہے اور وہی کے ہے جو آپ کو دنیا کے غموں سے نجات بخش سکتی ہے.پس قرآن کریم نے جب فرمایا وَ الَّذِينَ صَبَرُوا ابْتِغَاءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ تو ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ کہنے سے پہلے صبر کا مضمون بیان فرما کر خود متنبہ کر دیا کہ اللہ کی محبت کا دعویٰ لے کر اٹھے ہو اور خدا کی محبت کے نتیجے میں اپنی ساری زندگی کو ایک نیا رنگ دینے کا فیصلہ کر چکے ہو اس لئے ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ اس کے لئے صبر ضروری ہے.صبر کے بغیر تم اس مشکل راہ کو حل نہیں کر سکو گے وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَأَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ سِرًّا وَ عَلَانِيَةً یہ سارا کام آسان ہو جائے گا اگر خدا کی محبت کے نتیجے میں تم شروع کرو گے اور اگر صبر کی صفات سے مزین گے.اَقَامُوا الصَّلوةَ پھر تم نمازیں بھی قائم کر سکو گے اور کرو گے وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ ایسے لوگ بھی ہیں جو نمازوں کو قائم کرتے ہیں اور پھر خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں سِرًّا وَ عَلَانِيَةً چھپ چھپ کر بھی اور اعلانیہ بھی وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اور پھر وہ حسنہ کے ذریعے نیکیوں کے ذریعے اپنی برائیوں کو دور کرنا شروع کر دیتے ہیں.اوليك لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ یہی وہ لوگ ہیں کہ انجام انہیں کا ٹھیک ہوگا انجام کا روہی لوگ غالب آئیں گے.یہ جو آخری ٹکڑا ہے آیت کا اس میں بتایا کہ مومن کے جہاد کی کامیابی کا تمام تر راز ان صفات میں ہے جو اس سے پہلے بیان کی گئی ہیں.صبر کی عادت ، رضائے باری تعالیٰ خدا کی محبت کے نتیجے میں صبر کرنا أَقَامُوا الصَّلوة یعنی عبادتیں ادا کر نا خشک عبادتیں نہیں بلکہ ایسی عبادتیں جو محبت الہی کے نتیجہ میں ہوں اور محبت الہی کا سرور دینے والی ہوں.اَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقْنَهُمْ انفاق فی سبیل اللہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا لیکن رسما نہیں یا دکھاوے کے لئے نہیں بلکہ خدا کی محبت کے نتیجے میں.یہی وجہ ہے کہ عَلَانِيَةً سے پہلے سرا کا لفظ رکھ دیا.محبت کے نتیجے میں اگر خرچ کرتا ہے تو دنیا کو پتا لگے یا نہ لگے کسی کے علم میں آئے یا نہ آئے اس کو قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی کہ وہ جس کی خاطر خرچ کر رہا ہے اس کے علم میں آنا ضروری ہے.اس لئے فرمایارَ زَقْنهُم سرا ان کا مخفی خرچ کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِھ انہوں نے ایسا کام کیا تھا خدا کی رضا کی خاطر اس کے منہ کے لئے انہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا تھا لیکن سرا کافی نہیں ہوا کرتا بسا

Page 306

خطبات طاہر جلد ۶ 302 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء اوقات قوم میں خرچ کی روح زندہ رکھنے کے لئے اعلامیہ بھی خرچ کرنا پڑتا ہے اور اعلانیہ ایک دوسرے سے آگے بھی نکلنا پڑتا ہے لیکن وہ لوگ جو یسرا خرچ کرنے کے عادی ہوں اگر وہ اعلانیہ بھی کریں تو کوئی حرج کی بات نہیں کیونکہ ان کا مخفی طور پر خدا کی راہ میں خرچ کر دینا انہیں ثبات قدم بخش دیتا ہے ان کی نیکیوں کو قائم کر دیتا ہے اور ان کے لئے خطرہ کوئی نہیں رہتا لیکن جو عَلَانِيَةً ہی کریں صرف ان کی حالت خطرے میں ہے کیونکہ ان کے عمل کے متعلق یقینی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ یہ عشق الہی کے نتیجے میں تھا یا کسی اور وجہ سے.اس لئے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا یہ کمال ہے کہ اس مضمون کو مسلسل قدم بہ قدم اور کھولتا چلا جاتا اور اندرونی روابط ایسے ہیں جو مضمون کے ایک حصے کو دوسرے سے ملاتے ہیں اور آپس میں کوئی تضاد نہیں.سِرًّا وَ عَلَانِيَةً وَيَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ اور یہ لوگ حسنہ کے ذریعے برائی کو مٹاتے ہیں.برائی سے دشمنی فی ذاتہ ان کے معاشرے کی اصلاح کا محرک نہیں بنتی بلکہ نیکی سے محبت یہ محرک بنتی ہے.اب دیکھیں یہاں حسنہ کا پہلے ذکر فرما کے اسی مضمون کو کس طرح مسلسل ایک نہ ٹوٹنے والے رابطے کے ساتھ بیان فرمایا ہے.چونکہ محبت الہی ان کی ہر حرکت اور ہر سکون کے پیچھے کارفرما قوت ہے.اس لئے یہ جب معاشرے کی اصلاح کرتے ہیں تو نیکی کی محبت کی خاطر کرتے ہیں نہ کہ برائی کو مٹانے کا کوئی دعویٰ ہے کہ ہم برائیاں برداشت نہیں کر سکتے ہم ان کو مٹا کے چھوڑیں گے اور یہ عجیب بات ہے کہ قرآن کریم نے جہاں جہاں بھی اس مضمون کو بیان فرمایا ہے وہاں حسنہ کو پہلے رکھا ہے اور سیئة کو بعد میں رکھا ہے.الا ماشاء اللہ بعض اور مقاصد کو بیان کرنے کی خاطر ایک دوجگہ سيئة کا ذکر پہلے آیا ہے لیکن وہ مضمون الگ ہے.تو بہر حال یہاں مراد یہ ہے کہ مومن کی زندگی مثبت چیزوں پر مبنی ہوتی ہے کیونکہ اس کی نیکی اللہ کی محبت کے نتیجے میں ہے.جس کی نیکی مثبت محرکات کی بناء پر قائم ہواس کا ہر فعل ،اس کی ہر حرکت اور اس کا ہر پروگرام اپنی ذات میں مثبت پہلو رکھتا ہے اور منفی پہلو نہیں رکھتا.علاوہ ازیں اس کے میں بیان کر چکا ہوں کہ اگر مسیئۃ کو مٹانے کا دعویٰ لے کر صرف کوئی قوم اٹھے تو اس کے نتیجے میں تخریب کاری تو ہو سکتی ہے لیکن دنیا کا بہتر نقشہ نہیں بن سکتا.اللہ تعالیٰ نے حسنہ کو پہلے رکھ کے یہ بیان فرمایا کہ اگر تمہارے پاس کوئی مثبت چیزیں ہیں دنیا کو دینے کے لئے تو اس طرح برائیاں دور کرو کہ ہر برائی

Page 307

خطبات طاہر جلد ۶ 303 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء کے بدلے کوئی اچھی چیز آ جائے.محض بری چیز کو مٹانے کا دعوی لے کر اٹھو گے تو ہو سکتا ہے جو کچھ دنیا کو حاصل ہے اس سے بھی اس کو محروم کر دو.ایک کھنڈر کسی کو برا لگتا ہے کئی پہلوؤں سے، اس کی عمارت کی شکل ہو یا ویسے اس خیال سے کہ یہاں چور بھی چھپ سکتے ہیں، یہاں کیڑے مکوڑے بھی بیٹھے ہوئے ہیں یہاں جنگلی جانور بھی آجاتے ہیں ، اس کھنڈر کو مٹانے کے لئے دو طرح کے پروگرام ہو سکتے ہیں.ایک یہ کہ اس کھنڈر کو مٹا کر اس کی جگہ اس سے بہتر عمارت بنائی جائے اور ایک یہ کہ بس برائی سے نفرت ہے ہم نے کھنڈر کو مٹا کے چھوڑنا ہے.بسا اوقات یہ دوسرا پروگرام انسان کو عام فائدوں سے بھی محروم کرتا چلا جاتا ہے.کھنڈر کے کچھ نہ کچھ فوائد بھی ہوتے ہیں.کچھ نہ کچھ تو وہ بعض غریبوں کے لئے پردے کا موجب بن جاتا ہے ان کے سر پر سایہ کر دیتا ہے جنگلی جانور بھی اس میں پناہ لیتے ہیں ان کا بھی تو آخر پناہ کا حق ہے.تو کھنڈر خواہ کیسا بھی بدنما ہو کچھ نہ کچھ فائدہ پہنچا رہا ہے.اسی طرح مذاہب ہیں.مذاہب کے بھی کھنڈر چلے آرہے ہیں.ایک مومن جو جاہل ہو یعنی بظاہر مومن ہولیکن حقیقت میں مومن نہ ہو قرآن کریم کے معارف سے ناواقف ہو وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ وہ مذہب ہمیں بڑا برا لگتا ہے کیونکہ یہ اصل نہیں رہا.اصل عمارت جو تعمیر کی گئی تھی وہ بہت خوبصورت تھی اس لئے ہمارا حق ہے کہ اس کو مٹا دیں.قرآن کریم اس کو یہ حق نہیں دیتا.وہ کہتا ہے اگر کھنڈر ہے تو ہے لیکن تم تب مٹا سکتے ہو اگر ان لوگوں کے دل میں پہلے اسلام تعمیر کرو.اگر اسلام کی عمارت بناتے چلے جاؤ تو یہ کھنڈر خود بخود مٹتے چلے جائیں چ گے.نیکی کے بدلے برائی دور کرو.فی ذاتہ برائی دور کرنا تمہارا مشغلہ نہیں نہ اس کی خاطر تم پیدا کئے گئے ہو لیکن ہاں ہر برائی کے بدلے ایک نیکی رکھ دو، ہر بد زیب چیز کی بجائے ایک حسن عطا کر دو اس مقام کو جہاں کوئی بد زیب چیز دکھائی دی تھی تو یہ تمہاری شان کے مطابق ہے اور فرمایا اگر اللہ کی محبت کے نتیجے میں تم نیکیاں اختیار کرتے ہو تو لازماً تمہیں یہی طریق اختیار کرنا ہوگا يَدْرَءُونَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ أُولَكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ ایسے لوگ ہی ہیں جولا ز ما انجام کا ر غالب آنے والے ہیں.اس وقت جماعت احمد یہ بالعموم ایسے دور میں داخل ہے جہاں اس آیت میں بیان کردہ صفات جو مومنوں میں ہونی چاہئے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت میں نہ صرف موجود ہیں بلکہ اور زیادہ نمایاں ہوتی چلی جارہی ہیں، جلا پکڑ رہی ہیں.وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں جو منفی صفات

Page 308

خطبات طاہر جلد ۶ 304 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء بیان ہوئی ہیں یعنی جو خو بیاں ہیں ان کے برعکس جو چیز میں ان خوبیوں کے مقابل پر صف آرا ہوا کرتی ہیں وہ بھی آج احمدیت کے دشمن میں پہلے سے زیادہ زور پکڑ رہی ہیں اور شدت اختیار کرتی چلی جارہی ہیں.گویا کہ حق اور باطل ایک دفعہ پھر ایک بہت ہی بڑے معرکے میں صف آرا ہو چکے ہیں جن معرکوں کا نتیجہ زندگی یا موت ہوا کرتا ہے.ایسے موقع پر جب اس قسم کی صف آرائی ہو جائے جبکہ دونوں طرف یہ فیصلے ہو جا ئیں کہ ہم اپنے موقف کو نہیں چھوڑیں گے جب نیکیوں پر قائم لوگ یہ عہد کر لیں کہ ہم صبر خدا کی خاطر اختیار کریں گے اور جو کچھ بھی ہو جو قیمت بھی ہمیں دینی پڑے ہم نے صبر کا دامن نہیں چھوڑ نا اور خدا کی محبت نے جو نیکیاں ہمیں عطا کی ہیں ہم ان کی حفاظت کریں گے.تو اس کے مقابل پردشمن اگر غالب ہے تو وہ لا زما پوری قوت صرف کرے گا کہ جس طرح بھی ہو اس مقام سے مومنوں کو ہٹا دیا جائے.یہ جب صف آرائی پوری قوت کے ساتھ ہوتی ہے، پورے عزم کے ساتھ ہوتی ہے تو پھر اس کا انجام لا زمانہ نکلتا ہے کہ ایک قوم زندہ رہتی ہے اور ایک قوم مرجاتی ہے.ایک قوم مٹنا شروع ہوتی ہے اور بڑی تیزی سے مٹنا شروع ہوتی ہے اور دوسری قوم کو خدا تعالیٰ مزید قوت عطا کرتا ہے اور قوت پر قوت عطا فرماتا چلا جاتا ہے.ليَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيْنَةٍ (الانفال :۴۳) یہ وہ مضمون ہے فرماتا ہے کہ پھر زور کا فیصلہ نہیں ہو گا خدا کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ایسے موقع پر بین کہ ذریعے فیصلہ ہوگا.جس کو دلیل زندہ رکھے گی ، جس کو استدلال زندہ رکھے گا ، جس کو حق زندہ رکھے گا وہ بہر حال زندہ رہے گا اور جس کے پاس نہ دلیل ہے ، نہ حق ہے، نہ انصاف ہے اسے مٹنا ہوگا.پس یہ وہ دور ہے جس میں ہم داخل ہوئے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِ بظاہر یہاں کسی صف آرائی کا ذکر نہیں فرمایا گیا تھا پہلے بعض صفات حسنہ اختیار کرنے کی تلقین تھی مگر انجام کار فرمایا یہی لوگ ہیں جو جیتیں گے، یہی لوگ ہیں جو بالآخر غالب آئیں گے.تو صبر کے لفظ میں جو باتیں پنہاں تھیں ، جو جد و جہد مخفی تھی اس کا کھلم کھلا اظہار اسی آیت کے آخری ٹکڑے میں فرما دیا کہ صبر اس لئے کہ تم خدا کی محبت میں ایک عظیم جدوجہد میں داخل ہو چکے ہو.صبر اس لئے کہ تمہاری مخالفانہ طاقتیں تمہیں ضرور مٹانے کی کوشش کریں گی لیکن اگر تم ان نیکیوں کو پکڑے رہو گے، اگر تم ان نیکیوں سے وفا کرو گے اور ثبات قدم دکھاؤ گے تو خدا یہ فرماتا ہے أُولَبِكَ لَهُمُ

Page 309

خطبات طاہر جلد ۶ 305 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء عُقْبَى الدَّارِ یقیناً انجام کار یہی ہیں جو غالب آئیں گے ان کے حق میں یہ فتح لکھی جائے گی.پس جماعت احمدیہ جس نازک دور میں سے گزر رہی ہے مسلسل میری یہی تعلیم ہے کہ صبر کو اس تمام وسیع معنوں کے ساتھ پیش نظر رکھ کر خدا تعالیٰ کی راہوں پہ وفا دکھا ئیں اور جس قدر بھی تکلیفیں برداشت کرنی پڑیں خدا کی خاطر برداشت کرتے چلے جائیں اور مایوس نہ ہوں.فتح آپ کے اپنے اختیار میں نہیں ہے، فتح عطا کرنا اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اور بعض دفعہ بہت وسیع فتح کے لئے وسیع محرکات جاری ہو چکے ہوتے ہیں جو اندر اندر کام کر رہے ہیں کہیں آپ کو نظر آجاتے ہیں کہیں آپ کو نظر نہیں آتے لیکن قومی انقلابات کے لئے بعض دفعہ وسیع پروگرام خدا کے پیش نظر ہوتے ہیں اور ان وسیع پروگراموں کے انجام تک پہنچنے کے لئے بھی صبر کی ضرورت ہے.بہت سے کمزور رستے میں ہی ہمت ہار بیٹھتے ہیں اور کنارے پہ بیٹھ جاتے ہیں یا رستے بدل لیتے ہیں.تو یہ سارا مضمون شروع سے آخر تک صبر کا متقاضی ہے اور رمضان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ موقع فراہم فرما دیا کہ ہم اس صبر کو پہلے سے بڑھ کر اختیار کریں اور زندگی کے ہر شعبہ میں صبر کا نمونہ دکھا ئیں.رمضان کا دور وہ دور ہے جس میں تمام انسانی صلاحیتیں صبر چاہتی ہیں.زندہ رہنے کے لئے قوت کی ضرورت ہے، ایک انرجی (Energy) کی ضرورت ہے اور اس کے لئے پانی اور کھانا یا جو بھی شکلیں اس کی ہوں پانی کی بجائے دودھ ہو یا جن لوگوں کو جوس کی عادت ہے وہ جوس پیتے ہوں بہر حال انرجی جس کی انسان کو زندہ رہنے کے لئے ضرورت ہے اس کی مختلف شکلیں ہیں.رمضان شریف میں انسان ہر قوت سے جو اس کی زندگی کے لئے ضروری ہے منہ موڑ لیتا ہے اللہ کے چہرے کی خاطر، اللہ کے منہ کی خاطر اور صبر دکھاتا ہے اور یہ صبر بعض ملکوں میں پیاس کی آزمائش کڑی پیش کرتا ہے اور بعض ملکوں میں بھوک کی آزمائش زیادہ کڑی شکل میں پیش کرتا ہے.جتنا آپ شمال میں جاتے چلے جائیں اتنے دن لمبے ہوتے چلے جاتے ہیں اور شدید بھوک میں انسان مبتلا ہو جا تا ہے.بعض دوستوں نے مجھے لکھا ناروے سے پیچھے جب اور بھی دن لمبے تھے زیادہ گرمیوں میں روزے آرہے تھے کہ اتنا لمبا دن ہو گیا ہے اور دفتر میں کام کرنا ہوتا ہے یا بعض فیکٹریوں میں ہم نے کام کرنا ہوتا ہے کہ روزہ کھلتے کھلتے موت آنکھوں کے سامنے آکھڑی ہوتی ہے.اس قدر شدید تکلیف میں سے گزرنا پڑتا ہے.تو صبر وہاں بھی ضروری ہے اور پاکستان میں نسبتا دن چھوٹے

Page 310

خطبات طاہر جلد ۶ 306 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء ہیں مگر وہاں گرمی بہت شدید ہو جاتی ہے بعض دنوں میں اور اس طرح دن اور راتیں آپس میں بدلتے رہتے ہیں اور صبر کے پیمانے بھی ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں.پھر اپنی عام عادات کو چھوڑ ناروزمرہ کی انسان کی بعض عادات ہیں بعض کھانے کی خاص قسم کی عادات ہیں بعضوں کو چائے کی عادت ہے، بعضوں کو اور کئی قسم کی عادات ہیں وہ ساری اس عرصے میں ترک کرنی پڑتی ہیں.پھر اپنی زبان پہ پہرے لگانے پڑتے ہیں، اپنی عادات کے روز مرہ کے دستور کو بدل کر اس میں قرآن کریم کی تلاوت کو زیادہ داخل کرنا ہے، عبادتوں کو زیادہ داخل کرنا ہے، اگر پہلے خاص عبادت کی عادت نہیں تھی.جن کو پانچ وقت نہیں تھی پوری ان کو لا زما روزے میں پانچ وقت کی عبادت کرنی پڑتی ہے، جن کو تہجد کی عادت نہیں تھی ان کو تہجد کے لئے اٹھنا پڑتا ہے.غرضیکہ زندگی کا کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس پر روزہ اثر انداز نہ ہو.میاں بیوی کے تعلقات ہیں اور دوستوں کے تعلقات ہیں سب پر روزے کا اثر پڑتا ہے اور ہر جگہ صبر کی ضرورت ہے.تو رمضان المبارک میں اپنے صبر کا پیمانہ بڑھائیں اور روزے سے خصوصیت کے ساتھ یہ فائدہ حاصل کریں اور ارادہ اپنی تمام خواہشات پر اس طرح نظر رکھیں کہ ہر خواہش کی قربانی میں آپ کے صبر کا معیار پہلے سے بلند تر ہو جائے.بہت ہی عظیم الشان ہے خدا تعالیٰ کی خاطر ایک جس طرح چھاؤنی میں فوجوں کو مہارت دی جاتی ہے اس طرح خدا کی رضا کی خاطر صبر کی مہارت کے دن ہیں یہ اور ہر طرف خدا نے مومنوں کے لئے چھاؤنی ڈالی دی ہے اس کا فائدہ رمضان المبارک میں خصوصیت کے ساتھ ہوگا کیونکہ یہاں تو صبر کے ساتھ اس کو ذکر نہیں ہے مگر قرآن کریم نے دوسری جگہ صبر کے مضمون کے ساتھ دعا کو باندھا ہے اور جتنا زیادہ صبر بڑھے اتنا ہی زیادہ دعا میں رفت پیدا ہو جاتی ہے اور بعض جگہ خدا تعالیٰ نے صبر کے مضمون کے ساتھ نصیحت کو باندھا ہے.جتنا زیادہ صبر میں قوت پیدا ہو جائے اتنا ہی زیادہ انسان کی نصیحت میں قوت پیدا ہو جاتی ہے اور زیادہ اہل ہو جاتا ہے نصیحت کرنے کے اور وہ نصیحت جو صاحب صبر کرتا ہے اسے لوگ سنتے بھی ہیں اور اس نصیحت کا فائدہ بھی پہنچتا ہے کیونکہ نصیحت میں ایسا شخص ہارتا نہیں ہے.تو جماعت احمدیہ کے قیام کے جتنے بھی مقاصد ہیں ان سب کا اس آیت میں بیان کردہ مضمون سے تعلق ہے اور رمضان مبارک میں خصوصیت کے ساتھ ہماری زندگی کے ہر شعبہ پر یہ آیت

Page 311

خطبات طاہر جلد ۶ 307 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء حاوی ہو جانی چاہئے.جہاں تک دشمن کی کوششوں کا تعلق ہے رمضان مبارک میں کم ہونے کی بجائے وہ اور زیادہ منفی شکل میں بڑھ جاتی ہیں.جہاں تک کلمہ حق سے روکنے کے لئے اور نیکیوں سے باز رکھنے کے لئے معاندانہ کوششوں کا تعلق ہے وہ رمضان مبارک میں اور بھی زیادہ زور دکھانے لگتی ہیں کیونک ہر رمضان مبارک میں یعنی جہاں تک مسلمانوں کو تعلق ہے ایسے ایسے لوگ بھی مسجدوں میں پہنچنے لگ جاتے ہیں جنہوں نے کبھی سارا سال اپنی شکل نہیں دکھائی ہوتی مسجد کو یا مسجد کی شکل نہیں دیکھی ہوتی.وہ لوگ جو گھروں میں بھی نماز نہیں پڑھتے وہ بھی رمضان کے مہینے میں مسجد میں آنا جانا شروع کر دیتے ہیں اور پھر بعض جمعے تو ایسے آتے ہیں جبکہ سارے سال میں جن لوگوں نے ایک بھی نماز نہ پڑھی ہو وہ ان جمعوں میں پہنچ جاتے ہیں اور رمضان مبارک میں مسجدیں بھر کے ان کے محسن بھر کے اتنی جگہ بھی باقی نہیں رہتی کہ صحن میں انسان سجدے کر سکے باہر نکل جاتے ہیں ، گلیوں میں خیمے تانے جاتے ہیں اور شامیانے جگہ جگہ آپ کو دکھائی دیں گے کہ آج یہ جمعۃ الوداع ہے اس لئے بڑی کثرت کے ساتھ لوگ عبادت کر رہے ہیں.یہ سارے لوگ کہاں تھے اس سے پہلے؟ جمعۃ الوداع سے پہلے یا بعض عام جمعوں میں بھی اگر وہ نمازی ہوتے تو ہر جمعہ پر یہی کیفیت ہونی چاہئے تھی.یہ وہ لوگ ہیں جو سارا سال غائب رہنے والے ہیں اور بعض جمعوں میں تو بہت ہی خصوصیت کے ساتھ یہ مسجدوں میں حاضر ہوتے ہیں.ایسے موقع پر ان کو اشتعال دلانے کے لئے بعض دشمنوں کو بہت ہی اچھا موقع میسر آجاتا ہے اور وہ خدا تعالیٰ کے گھروں کو خدا تعالیٰ کی محبت پیدا کرنے کی بجائے خدا تعالیٰ کے نام پر خدا کے بندوں سے نفرتیں پیدا کرنے کے لئے استعمال کرنے لگتے ہیں.اس لئے اور بھی زیادہ ہمیں صبر کی ضرورت پیش آئے گی.ساری دنیا میں کئی ایسی مساجد ہوں گی جنہیں محض خدا کے نام پر نفرت پیدا کرنے کے لئے استعمال کیا جائے گا اور نفرت ان بندوں سے جو خدا سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں.عجیب کیفیت ہے دنیا کے پاگل پن کی کہ وہ لوگ جو خدا کے نام پر جیتے اور خدا کے نام پر مرتے ہیں جن کی زندگی کا ہر شعبہ اللہ کی محبت میں ڈوب چکا ہوتا ہے، جو خدا کی محبت کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہوتے ہیں، ان کے خلاف خدا کے نام پر نفرت کی تعلیم دی جاتی ہے اور رمضان مبارک میں یہ نفرت اور بھی زیادہ بعض اوقات جوش دکھانے لگتی ہے.

Page 312

خطبات طاہر جلد ۶ 308 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء اس لئے رمضان میں خصوصیت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے صبر کی آزمائش بھی ہے اور جماعت احمدیہ کو صبر کی پریکٹس یعنی کوشش کر کے اس کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.اگر جماعت ایسا کرے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم سے صاف پتا چلتا ہے کہ صابر لوگوں کی نصیحت ضرور اثر دکھاتی ہے.آپ کی نصیحت جو صبر کے نتیجے میں پیدا ہوگی اس میں بہت غیر معمولی قوت پیدا ہو جائے گی اور جیسا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے صبر کرنے والوں کی دعا ئیں بہت زیادہ مقبول ہوتی ہیں بہ نسبت بے صبروں کی دعاؤں کے.قرآن کریم نے عجیب طرح اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.بعض جگہ یہ فرمایا کہ شدید بے صبرا ہوگا تو اس کی دعا قبول کروں گا یعنی جسے مصیبت کی شدت بے صبر کر دے اور بعض جگہ یہ فرمایا کہ صاحب صبر ہیں جو صاحب عزم ہیں ، صاحب صبر ہیں جن کے ساتھ خدا کی رحمت ہوتی ہے جن کی دعاؤں کو خدا قبول فرماتا ہے اور ان کے ساتھ رہتا ہے.تو بظاہر اس میں تضاد ہے لیکن درحقیقت تضاد نہیں ہے.جو خدا کی خاطر مستقل صبر دکھانے والے ہیں ان کی تو ہمیشہ دعائیں قبول ہوتی ہیں لیکن وہ لوگ جوصبر سے عاری ہوں ان کی ہمیشہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں.ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے ان کی اسی وقت ہوتی ہیں جبکہ مصیبت حد سے بڑھ چکی ہوتی ہے اور مضطر ہو جاتے ہیں وہ کسی پہلو قرار نہیں آتا، چین نہیں آتا ، تب وہ دعا کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ چونکہ بے انتہا رحم کرنے والا ہے اس لئے وہ اس اضطرار کی حالت کو رحم کی نظر سے دیکھتا ہے اور ان کی دعا قبول کر لیتا ہے.تو بظا ہر قرآن کریم میں بے صبروں کی دعا قبول کرنے کا ذکر ہے لیکن حقیقت میں مراد یہ ہے کہ بے صبری اگر انتہائی دکھ کے نتیجے میں پیدا ہو تو جب بھی ایسا واقعہ ہو خدا تعالیٰ رحم کی نظر ڈالتا ہے مگر وہ رحم کی نظر اس واقعہ سے تعلق رکھتی ہے اور عام حالات میں وہ ایسا شخص جو بے صبرا ہو اور خدا سے بے تعلق ہو وہ اس رحم کی نظر سے محروم رہتا ہے لیکن صاحب صبر وہ ہیں جن کی ہر حرکت اور ہرسکون پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہے.صاحب صبر وہ ہیں جن کی دعائیں دن کو بھی قبول ہوتی ہیں اور رات کو بھی قبول ہوتی ہیں ، بیٹھے ہوئے بھی قبول ہوتی ہیں اور کھڑے ہوئے بھی قبول ہوتی ہیں، بستروں پر آرام کرتے ہوئے بھی قبول ہوتی ہیں اور راستہ چلتے ہوئے بھی قبول ہوتی ہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فرماتے ہیں کہ جب وہ سوئے ہوئے ہوتے ہیں اس وقت

Page 313

خطبات طاہر جلد ۶ 309 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء بھی ان کی دعائیں قبول ہو رہی ہوتی ہیں.وہ دعا ئیں بھی قبول ہو رہی ہوتی ہیں جو ابھی الفاظ میں ڈھلی نہیں ہوتیں.ایک محض تمنا بن کے دل میں کروٹیں بدل رہی ہوتی ہیں اور اللہ تعالیٰ انہیں بھی قبول فرمالیتا ہے.پس بے صبری کا انتظار نہ کریں یہ انتظار نہ کریں مصیبت انتہا کو پہنچے تو پھر جب خدا تعالیٰ کا رحم ایسا جوش مارتا ہے کہ کافر اور مومن ہر ایک کی دعا قبول کر لیتا ہے اس وقت تو آپ کی دعاسنی جائے گی.صاحب صبر بنیں تا کہ ہر حالت میں آپ کی دعا قبول کی جائے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دعا کی قبولیت کے نتیجے میں اگر خدا تعالیٰ نے آپ کی فتح کا کوئی عظیم منصوبہ بنایا ہے اس کے وقت ٹل جائیں، اس کی ترتیب بدل جائے.جو وسیع تر منصوبے ہیں خدا تعالیٰ کے بعض مذہبی قوموں کی فتوحات کے وہ منصوبے اپنے خدو خال میں تبدیل نہیں ہوا کرتے.ان منصوبوں نے بہر حال اسی طرح جاری رہنا ہے جس طرح خدا نے کسی قوم پر فضل کرنے کا فیصلہ فرمالیا ہے.ہاں اس کی تفاصیل میں خدا تعالیٰ کی رحمت کے سائے انسان کو سہارا دینے کے لئے جگہ جگہ میسر آنے لگتے ہیں.عیسائیت کی ابتدائی تاریخ پر آپ نظر کریں خدا تعالیٰ نے عیسائیت کی فتح کے لئے ایک بڑا وسیع منصو بہ بنایا تھا جوکئی صدیوں پہ پھیلا ہوا تھا اور اس کا کئی ممالک سے تعلق تھا اور پھر اس کا اثر ہزاروں سال تک جاری رہنا تھا.اس دور میں صاحب صبر ابتدائی عیسائی ایسے بھی تھے جن کا قرآن کریم نے انتہائی تعریف کے ساتھ ذکر فرمایا ہے.جن کو آپ اصحاب کہف کے نام سے جانتے ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ ان صاحب صبر لوگوں کی دعائیں قبول نہیں ہو رہی تھیں؟ کون کہہ سکتا ہے کہ ان کے لئے تسکین کے سامان میسر نہیں آرہے تھے؟ کون کہہ سکتا ہے کہ وقتاً فوقتاً ان کی دعاؤں کے نتیجے میں ان کے دشمنوں کو سزائیں نہیں ملیں ؟ لیکن اس کے باوجود وہ منصوبہ تبدیل نہیں ہوا.جو اس کا وقت مقدر تھا وہی وقت مقدر رہا کیونکہ اس کے نتیجے میں انعامات میں بہت وسعت کے ساتھ ایک ایسی برکھا کے طور پر برسنا تھا جو ایک شہر یا ایک علاقے کے لئے یا ایک ملک کے لئے نہیں ہوتی بلکہ بعض دفعہ پورے براعظم کو ڈھانپ لیتی ہے.اسی طرح ابتدائی عیسائیت کے ساتھ جب تک اس کا ایک حصہ صالح حالت میں رہا خدا تعالیٰ کا یہی سلوک رہا اور ایک وسیع منصوبہ تھا جس کا قرآن کریم میں ذکر فر مایا گیا ہے کہ کم و بیش تین سو

Page 314

خطبات طاہر جلد ۶ 310 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء سال سے کچھ زائد عرصہ تک وہ منصوبہ جاری رہا اور بالآخر عیسائیت کی آخری فتح پہ منتج ہوا اور وہ ایسی عظیم فتح ہے کہ بہت کم مذاہب کو ایسی عظیم فتح نصیب ہوا کرتی ہے اتنی وسیع کہ عیسائیوں کو تقریباً ساری دنیا پر غلبہ نصیب ہو گیا اور اتنا لمبا عرصہ کہ نسلاً بعد نسل وہ غلبہ نہ صرف جاری رہا بلکہ صدیوں کے بعد صدیاں جاری رہا، ہزار سال کے بعد ہزار سال جاری رہا.دوسری قوموں کے حالات بدل گئے وہ اسی دور میں پیدا ہوئیں ترقی کی اور پھر تنزل کا شکار ہو گئیں.صفحہ ہستی پر ابھریں اور بعض نقوش چھوڑ کر پھر مٹ گئیں لیکن یہ غلبہ ہے جو آج تک جاری ہے اور ابھی تک اس غلبہ سے جو بدشکل اختیار کر چکا ہے نجات پانے کی دوسری قوموں کو راہ نہیں نظر آ رہی.تو خدا تعالیٰ کے جو منصوبے ہیں وہ بعض دفعہ بہت ہی عظیم اور بہت ہی وسیع ہوتے ہیں اور انسانی زندگیاں اس کے مقابل پر بہت محدود بلکہ اتنی محدود ہوتی ہیں کہ ان کو اپنے کل کی بھی خبر نہیں ہوتی کہ کل کیا ان کے لئے مقدر ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ سایہ جو ہے غموں کا یا فکروں کا یہ تو ٹل ہی نہیں رہا کہاں گئے خدا کے وعدے؟ حالانکہ بعض وعدے ایسے ہیں جن کا دور سے تعلق ہے اور دیر سے تعلق ہے لیکن اس کے باوجود صاحب صبر لوگوں کو خدا اپنی رحمت کے چھینٹوں سے محروم کبھی نہیں رکھتا.اس لئے اگر اس تکلیف کے دور میں آپ صاحب صبر ہو جائیں گے تو خدا کی سکیم کا نقشہ تو نہیں بدل سکیں گے.جو وقت اس کے ہاں مقدر ہے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے دین کے آخری غلبہ کا وقت اس وقت کو آپ آگے پیچھے نہیں کر سکیں گے.ایک تقدیر ہے جو خود بخود Unfold ہو رہی ہے اور وسیع تقدیر ہے لیکن اس آخری غلبہ کے انتظار میں آپ کا وقت اچھا کٹے گا.خدا کی محبت کی چاشنی آپ محسوس کریں گے زندگی میں، روزمرہ خدا تعالیٰ اپنے قرب کے جلوے آپ کو دکھاتا چلا جائے گا اور آپ کے صبر کو اسی دنیا میں اسی زندگی میں ایسے میٹھے پھل لگیں گے کہ محض وعدوں کے انتظار میں نہیں جیئیں گے بلکہ ان وعدوں کو اپنی زندگی میں کسی نہ کسی شکل میں پورا ہوتے بھی دیکھتے رہیں گے.چھوٹے پیمانے پر آپ کو وقتی غلبہ بھی نصیب ہوں گے چھوٹے پیمانے پر آپ کو خدا تعالیٰ کے قرب کے نشان اس طرح دکھائی دیں گے کہ آپ یقین سے بھرتے چلے جائیں گے یعنی آپ کے دل یقین سے بھرتے چلے جائیں گے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں ایک زندہ قادر مطلق ہستی کی خاطر کر رہے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہے وہ کبھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑتی.اس لئے صبر آسان ہو جائے گا اگر دعاؤں کے ساتھ اللہ صبر

Page 315

خطبات طاہر جلد ۶ 311 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء کریں گے تو یہ آسان ہو جائے گا.اگر اللہ صبر نہیں کریں گے تو صبر تو پھر بھی کرنا پڑے گا اور یہی وہ آخری بات ہے جو میں کھول کر آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.صَبَرُوا ابْتِغَاء وَجْهِ ربهم فرمایا کہ اللہ کے چہرے کی خاطر صبر، اللہ کے منہ کی خاطر صبر کر دیا وہ صبر کرتے ہیں.سوال یہ ہے کہ خدا کے منہ کی خاطر اگر مذہبی قومیں صبر نہ کریں تو کیا ان کے حالات بہتر ہو سکتے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کے منہ کی خاطر صبر کرنا بہترین صبر ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں صبر خود آسان ہو جاتا ہے اگر خدا کے منہ کی خاطر صبر نہیں کریں گے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض منصوبے بڑے وسیع ہوتے ہیں ان کو آپ تبدیل نہیں کر سکتے.نتیجہ یہ ہوگا کہ ان دکھوں میں سے تو آپ کو پھر بھی گزرنا پڑے گا، ان مصیبتوں کا تو آپ کو پھر بھی شکار ہونا پڑے گا مگر یہ ایک بے لذت زندگی ہوگی تکلیف کی.تکلیف ہوگی مگر کوئی پیار کرنے والا اپنی رحمت کا پھایا آپ کے دل پر نہیں رکھے گا پھر.اس لئے صبر کریں اللہ کی محبت کے نتیجے میں اور یادرکھیں اس کے بغیر صبر ہونا بھی نہیں آپ سے.تکلیف اٹھائیں گے واویلہ کریں گے اپنے ایمان کا نقصان کریں گے ، اپنی جان کا نقصان کریں گے اور حاصل کچھ بھی نہیں ہو گا.اس لئے یہ ایسا دور ہے جہاں آپ کے لئے کوئی اور رستہ ہی باقی نہیں رہا ایک ہی رستہ ہے الَّذِيْنَ صَبَرُوا ابْتِغَاء وَجْهِ رَبِّهِمْ اپنے رب کے منہ کی خاطر اس کے پیار کی خاطر صبر کر جاؤ اور پھر اس کے نتیجے میں اللہ کا پیار بڑھاتے چلے جاؤ پھر دیکھو گے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کا فضل تمہارے اوپر سایہ بن کر آتا ہے وہ سایہ رحمت بن کر تمہارے ساتھ وفا کرتا ہے تمہیں کبھی نہیں چھوڑتا تمہاری حفاظت فرماتا ہے اور یہ ایسا تجربہ ہے جس میں سے ہر صبر کرنے والا گزرتا ہے صرف جماعت نہیں گزر رہی ہوتی.کوئی بھی ایسا خدا کی خاطر صبر کرنے والا نہیں ہے جس کو اس صبر کے دوران اللہ کی رحمت کے پھل نصیب نہیں ہو رہے ہوتے.وہی رحمت کے پھل ہیں وہی خدا کے پیار کے پھل ہیں جو اس کی صبر کی تقویت کا موجب بنتے ہیں جو اس کے راستے کو آسان کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس رستے کی جتنی بھی مصیبتیں ہیں اور جب تک بھی ہیں ہمیں ان کے لئے صبر عطا کرے اور اپنے پیار کا صبر عطا کرے، اپنی محبت کا صبر عطا کرے کیونکہ صبر ہے ہی وہی جو لینے کے لائق ہے جو قبول کرنے کے لائق ہے باقی صبر کی تو کوئی حیثیت اور کوئی وقعت نہیں ہے.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا:.

Page 316

خطبات طاہر جلد ۶ 312 خطبہ جمعہ یکم مئی ۱۹۸۷ء نماز جمعہ کے بعد کچھ فوت شدگان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.پہلے مکرم علی بھائی پارا پیا جو کینیا کے رہنے والے تھے ۱۹۴۱ء میں اسماعیلیہ فرقہ سے احمدی ہوئے.کروڑ پتی خاندان تھا اور ان کے والد نے سختیاں بھی کیں اور کروڑوں کا لالچ بھی دیا چونکہ انہوں نے لانچ قبول نہیں کیا اس لئے ہر قسم کی دولت سے محروم بھی کر دیا لیکن خدا کے فضل سے ثابت قدم رہے اور بہت ہی نیک دعا گو انسان تھے.ان کی وفات کی وہاں سے اطلاع ملی ہے.مکرم محمد رفیق صاحب آف لاہور، محمد سعید صاحب انجینئر راولپنڈی کے والد تھے.محمد سعید صاحب کو ایک لمبا عرصہ خدام الاحمدیہ میں خدمت کی توفیق ملی ہے.قائد ضلع لاہور بھی ہوا کرتے تھے اور ویسے بھی سلسلہ میں مختلف کاموں میں ہمیشہ بڑے خلوص سے وقت دیتے رہے ہیں.ان کے والد کو میں جانتا ہوں بہت نیک اور سادہ مزاج انسان تھے اور اچھی تربیت کی ہے بچوں کی.فہمیدہ افضل صاحبہ بنت محمد افضل صاحب آف سرگودھا.ان کے لئے درخواست کی ہے مکرمه اکبری اسماعیل صاحبہ جن کو انگلستان کے آپ سارے لوگ جانتے ہیں یہ ان کی بھیجی تھیں جو عین جوانی کے عالم میں وفات پاگئیں.مکرم خلیل بٹ صاحب آف جموں کشمیر.ان کے لئے کشمیر سے نماز جنازہ غائب کی درخواست آئی ہے.طاہرہ فوزیہ کے متعلق مرزا محمد اکرم صاحب آف لیسٹر نے درخواست کی ہے کہ ۱۸ سال کی بہت نیک بچی ایف.اے کی طالبہ تھیں آگ کے حادثہ میں وفات پاگئیں.مکرم عبد السلام خان صاحب ابن مکرم ملک عبد اللطیف خان صاحب مردان کے متعلق ناظر صاحب اعلیٰ قادیان ملک صلاح الدین صاحب نے درخواست کی ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.یہ ان کے ہم زلف تھے.اسی طرح مکرمہ اہلیہ صاحبہ مکرم محمدابراہیم صاحب فاروق آباد کے متعلق بھی درخواست کی گئی ہے.بشیراں بیگم صاحبہ اہلیہ حمد نواز صاحب سیکرٹری مال چک ۹ پنیار جو موصیہ تھیں ان کے متعلق بھی نماز جنازہ غائب کی درخواست آئی ہے.

Page 317

خطبات طاہر جلد ۶ 313 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء صاحب برکت لوگوں سے وفا کرتے ہوئے ان کی برکتوں سے چمٹ جائیں ، حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی وفات پر ذکر خیر (خطبه جمعه فرموده ۸ مئی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی.إن تَمْسَسْكُمُ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوْابِهَا وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيدٌ ) (آل عمران : ۱۳) اور فرمایا: گزشتہ جمعہ میں میں نے تقویٰ کے ایک بہت ہی اہم پہلو یعنی صبر کی طرف توجہ دلائی تھی.اسی مضمون سے متعلق آج بھی میں کچھ مزید باتیں کہوں گا لیکن اس سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں اور جماعت کو اس سے پہلے یہ علم ہو بھی چکا ہے کہ اسی ہفتہ میں اللہ تعالیٰ نے ہم سب کے صبر کا اس رنگ میں بھی امتحان لیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سب سے چھوٹی بیٹی جو جماعت کے لئے ایک بہت ہی بابرکت وجود تھیں ہم سے اس ہفتہ جدا ہو گئیں.آپ سے بڑے بھائی صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے وصال پر حضرت اقدس

Page 318

خطبات طاہر جلد ۶ 314 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ فرمایا وہ آپ کی ذات پر بھی اس رنگ میں پورا ہوتا ہے.آپ نے فرمایا:.جگر کا ٹکر ا مبارک احمد جو پاک شکل اور پاک خو تھا وہ آج ہم سے جُدا ہوا ہے ہمارے دل کو حزیں بنا کر ( در مشین صفحه :۱۰۰) حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ بھی بہت پاک خو اور پاک شکل تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد میں سے آپ کو ایک اپنا سارنگ عطا ہوا تھا جس میں بہت ہی جاذبیت تھی ، بہت ہی پیار کرنے والی طبیعت اور عمر کے ہر طبقے کے بچوں سے آپ کے تعلقات کا دائرہ آپ کی محبت اور رحمت اور شفقت کے نتیجے میں بہت ہی وسیع تھا.بچپن میں ہم چھوٹی پھوپھی جان آپ کو کہا کرتے تھے بعد میں بھی ابھی تک چھوٹی پھوپھی جان کہتے رہے.میرا کہنا یہ تھا کہ بچپن میں چھوٹی پھوپھی جان سے بچوں کو خصوصیت سے بہت لگاؤ تھا.حضرت بڑی پھوپھی جان اور بچوں کے درمیان ایک رُعب کا پردہ حائل رہتا تھا.حضرت بڑی پھوپھی جان کو اللہ تعالیٰ نے ایک غیر معمولی ایک رُعب عطا فر مایا تھا اور بعض طبیعتوں میں بچوں کے ساتھ ملنے جلنے کا جو غیر معمولی مادہ پایا جاتا ہے وہ حضرت چھوٹی پھوپھی جان میں خصوصیت کے ساتھ زیادہ تھا.اس لئے بچے طبعا آپ کے ساتھ بہت جلد مانوس ہو جایا کرتے تھے پھر آپ کو یہ عادت تھی کہ بلا کہ ان سے کھیلنا، چھوٹی چھوٹی باتیں کرنا، ان کو چھیڑنا اور اس میں ان کی بچیاں بھی ساتھ شامل ہو جایا کرتی تھیں.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ کے بچوں کا حضرت پھوپھی جان کے ساتھ بچپن ہی سے اس لئے غیر معمولی تعلق رہا اور باقی ہمارے چاؤں کی اولاد کا بھی ایک پہلو سے بہت تعلق تھا.آپ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کئی مرتبہ ذکر فرمایا ہے.ملفوظات“ میں جہاں حضرت مسیح کی بحث چل رہی ہے کہ آپ کو بچپن میں ، مہدا اور کہل میں خدا تعالیٰ نے بولنے کی طاقت بخشی اس گفتگو میں آپ فرماتے ہیں کہ مہد کا زمانہ جو ہے یہ ضروری نہیں کہ پہلے چھ مہینے کا ہو یہ تو دودھ کا زمانہ کہلاتا ہے جو تین چار سال تک ممتد ہوتا ہے اور اس عمر میں بعض بچے بہت باتیں کرتے ہیں چنانچہ میری بیٹی امتہ الحفیظ بھی جو کم و بیش اسی عمر کی ہے بہت باتیں کرنے والی ہے اور بڑی ذہین

Page 319

خطبات طاہر جلد ۶ 315 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء بچی ہے.(ملفوظات جلد ۵ صفحہ: ۱۸۳) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور بھی کئی مرتبہ آپ کا ذکر فرمایا.ایک موقع پر آپ نے فرمایا، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ جو ہیں وہ میں آپ کو سناتا ہوں.”حقیقۃ الوحی“ میں آپ تحریر فرماتے ہیں:.وو چالیسواں نشان یہ ہے کہ اس لڑکی کے بعد ایک اور لڑکی کی بشارت دی گئی جس کے الفاظ یہ تھے کہ دُختِ کرام چنانچہ وہ الہام الحکم اور البدر اخباروں میں اور شاید ان دونوں میں سے ایک میں شائع کیا گیا اور پھر اس کے بعد لڑ کی پیدا ہوئی جس کا نام امتہ الحفیظ رکھا گیا اور وہ اب تک زندہ ہے.“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه : ۲۲۸) دخت کرام کا مطلب ہے کریم النفس لوگوں کی اولاد.ایسے بزرگوں کی اولاد جو اخلاق کریمانہ پر فائز ہوں.تو مراد یہ ہے کہ جس طرح ہم اُردو میں کہتے ہیں، جیسے ہم دوسرے محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کے خون میں شرافت اور نجابت ہے تو ان معنوں میں صاحب کرم لوگوں ، کریمانہ اخلاق والے بزرگوں کی اولاد سے مراد یہ ہے ایک ایسی بچی جس کے خون میں ہی کریمانہ اخلاق شامل ہوں گے اور جو بھی حضرت سیّدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کو جانتے تھے اور جو جانتے ہیں یہ خوب گواہی دیں گے کہ آپ کے خون اور مزاج میں کریمانہ اخلاق شامل تھے.اس سے پہلے جس بچی کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ذکر فرمایا ہے اس کا نام امۃ النصیر تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو امتہ الحفیظ کا یعنی دُختِ کرام کا جو تحفہ عطا ہوا وہ دراصل اس پہلی بچی کی وفات پر صبر کرنے کے نتیجے میں ایک خاص پھل تھا، خاص انعام تھا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بچی کا بھی انتالیسویں نشان کے طور پر ذکر فرمایا ہے چونکہ ان دونوں کی ولادت کا ایک روحانی تعلق ہے اس لئے میں اس بچی کے متعلق بھی اور اس خاص نشان کے متعلق بھی احباب جماعت کو مطلع کرنا چاہتا ہوں.اس بچی کی پیدائش 28 جنوری 1903ء کو چار بجے صبح ہوئی اور اس بچی کا نام امتہ انصیر رکھا گیا.اس کی پیدائش سے بہت تھوڑا عرصہ پہلے یعنی تقریبا چار گھنٹے پیشتر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو الہام ہوا غاسق اللہ ( تذکرہ صفحہ ۳۷۴۰ تا ۳۷۶) اور اس الہام کے نتیجے میں اور ایک کشف

Page 320

خطبات طاہر جلد ۶ 316 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء کے نتیجے میں آپ کے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا ہوئی اور آپ اسی وقت اٹھ کر یعنی جب رات کے تقریبا بارہ بجے تھے مولوی محمد احسن صاحب امروہوی کی کوٹھڑی میں تشریف لے گئے آپ نے دروازے پر دستک دی ، مولوی صاحب نے پوچھا کون ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جوابا فرمایا " غلام احمد.مولوی محمد احسن صاحب نے دروازہ کھولا تو حضور نے فرمایا مجھے ایک کشفی صورت میں خواب میں دکھلایا گیا ہے کہ میرے گھر سے یعنی حضرت ام المؤمنین کہتی ہیں اگر میں فوت ہو جاؤں تو میری تجہیز و تکفین آپ خود اپنے ہاتھ سے کرنا اس کے بعد مجھے ایک بڑا منذ ر الہام ہوا ” غاسق اللہ مجھے اس کے معنی یہ معلوم ہوئے ہیں کہ جو بچہ میرے ہاں پیدا ہونے والا ہے وہ زندہ نہ رہے گا اس لئے آپ دعا میں مشغول ہوں اور باقی احباب کو بھی اس کی تحریک کریں.چنانچہ ان دعاؤں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت اماں جان کی زندگی بچالی اور اس کے بعد خدا تعالیٰ نے لمبا عرصہ زندگی عطا فرمائی اور اس کی برکتوں کو ساری جماعت میں تابعین نے اور تبع تابعین نے مشاہدہ کیا.جہاں تک اس بچی کے متعلق یہ خبر تھی کہ وہ فوت ہو جائے گی یہ بچی اسی سال ، یعنی جنوری میں پیدا ہوئی ہے اور 3 دسمبر 1903 ء کو یہ بچی انتقال کر گئی ( تاریخ احمدیت جلد ۲ صفه ۲۷۳).تو حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے آپ کی اس کشفی خبر کو اور الہام کو پورا فرمایا، ایک خطرے کو ٹال دیا دعا کے نتیجے میں اور دوسرے حصے کو پورا فرما دیا.اس صبر کے نتیجے میں جو جزا اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائی اور حضرت اماں جان کو وہ حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ تھیں.چنانچہ آپ کے متعلق رخت کرام کا الہام تسکی اور محبت کے اظہار کے علاوہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کے کریمانہ اخلاق کولوگ مشاہدہ کریں گے اور اس کے گواہ ٹھہریں گے کیونکہ دُختِ کرام کا یہ مطلب تو نہیں کہ کریمانہ اخلاق والوں کی بچی جو خود بھی چھوٹی عمر میں فوت ہو جائے اور لوگوں کو کیا پتا لگے کہ کریمانہ اخلاق والوں کی بچی تھی بھی کہ نہیں اس میں لمبی عمر کی ایک پیشگوئی شامل تھی.مطلب یہ تھا کہ ایسی بچی جو اپنے اخلاق سے ثابت کرے گی کہ وہ کریمانہ اخلاق والوں کی بیٹی ہے اور یہ ایک عام محاورہ ہے کسی اچھے بزرگ کی اولاد کے ساتھ اس بزرگ کی اولاد سے اچھے اخلاق کی توقع کی جاتی ہے اور جب اس سے اچھے اخلاق ظاہر ہوتے ہیں تو سب کہنے والے خراج تحسین دیتے ہوئے اس شخص کے بزرگوں اور آبا ؤ اجداد کو بھی یا در کھتے ہیں اور کہتے ہیں ہاں تم نے حق ادا کر دیا آخر کن لوگوں کی اولاد تھے.

Page 321

خطبات طاہر جلد ۶ 317 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ ”وخت کرام میں حضرت پھوپھی جان کی لمبی عمر کی پیشگوئی تھی چونکہ پہلی بیٹی جلد چھوٹی عمر میں فوت ہوگئی تھی اس کے جواب میں دُختِ کرام کے اندر ہی یہ بتا دیا گیا کہ یہ اخلاق کریمانہ رکھنے والی بیٹی ہوگی اور لوگ اس کو دیکھیں گے اور یہ کہیں گے کہ ہاں صاحب اخلاق والوں کی بچی ہے.اس پہلو سے یہ امر واقعہ ہے کہ یہ الہام بڑی شان کے ساتھ حضرت پھوپھی جان کے حق میں پورا ہوا اور عورتیں کیا اور بچے کیا اور بزرگان کیا جن کو کسی رنگ میں بھی حضرت پھوپھی جان کے ساتھ کسی رنگ و نوع کا معاملہ ہوا تو سب گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے فضل سے بہت ہی کریمانہ اخلاق کی مالک تھیں.مئی 1904ء میں آپ کے متعلق الہام ہوا ہے 10 مئی کو اور آپ کی پیدائش 25 جون 1904ء کو ہوئی اور آپ کا وصال 6 رمئی 1987 ء کو تقریبا ساڑھے تین بجے ہوا.پونے تین بجے اچانک آپ کی صحت بگڑی اور جب ڈاکٹر پہنچے ہیں تو اس وقت تک معاملہ ہاتھ سے نکل چکا تھا چنانچہ مجھے فون پر بہت جلد اُس کے بعد اطلاع ملی کہ بہت تھوڑے عرصے میں ہی کوئی لمبی تکلیف نزع کی آپ نے نہیں دیکھی بہت تھوڑے عرصے یعنی ساڑھے تین تک آپ کا وصال ہو چکا تھا.میرے لئے بطور خاص یہ ایک بہت ہی صبر آزما خبر تھی اس لئے کہ حضرت پھوپھی جان کی یہ خواہش تھی اور میں جانتا ہوں کہ میری خواہش کے جواب میں تھی یعنی جو مجھے ان سے محبت تھی میں سمجھتا ہوں اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں بھی یہ خواہش پیدا فرمائی کہ وہ مجھے دوبارہ دیکھیں اور گلے لگائیں.چنانچہ اپنے خطوں میں جو لکھوائے انہوں نے ، اس خواہش کا ذکر بھی کیا کہ میں دوبارہ تمہیں دیکھوں اور خود گلے لگا سکوں.یہ عجیب بات ہے کہ بعض اوقات خدا تعالیٰ ان خواہشات کو ایک خاص رنگ میں پورا فرما دیتا ہے.دنیا والوں کو اس بات کا پوری طرح احساس نہیں ہوسکتا لیکن اللہ تعالیٰ کے رنگ نرالے ہیں اور وہ روحانی طور پر بعض دفعہ خواہشات کو اس طرح حیرت انگیز طریقے سے پورا فرماتا ہے کہ جن کو یہ تجربہ ہو وہی جانتے ہیں کہ یہ کس دنیا کی باتیں ہیں.چند روز پہلے میں نے ایک عجیب خواب دیکھا.خواب میں دیکھا کہ بوزینب یعنی چی جان حضرت چھوٹے چچا جان (حضرت مرزا شریف احمد صاحب) کی بیگم مرحومہ جو صاحبزداہ مرزا منصور احمد صاحب کی والدہ تھیں وہ تشریف لائی ہیں ان کو میں نے پہلے تو کبھی خواب میں دیکھا نہیں تھا

Page 322

خطبات طاہر جلد ۶ 318 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء شاید ایک مرتبہ دیکھا ہو مجھے یاد پڑتا ہے مگر بالعموم ان کو میں خواب میں نہیں دیکھا کرتا، وہ آئی ہیں اور قد بھی بڑا ہے اور جسم میں عام زندگی کی حالت میں جو جسم تھا اس کے مقابل پر زیادہ شوکت نظر آتی ہے اور آپ آ کے مجھے گلے لگتی ہیں لیکن گلے لگ کر پیچھے ہٹ جاتی ہیں اور بغیر الفاظ کے مجھ تک یہ مضمون ان کا پہنچتا ہے کہ میں خود نہیں ملنے آئی بلکہ ملانے آئی ہوں اور ایک خیمے سے اس کے معا بعد حضرت پھوپھی جان نکلتی ہیں گویا کہ وہ ان کو ملانے کی خاطر تشریف لائی تھیں اور خواب میں ایسا منظر ہے کہ اور کچھ نہ کوئی بات ہوئی ہے نہ کوئی اور نظارہ ہے دائیں بائیں ،صرف خیمے سے آپ کا نکلنا اور بہت ہی خوش لباس ہے بہت ہی اچھی صحت ہے.آپ مجھے گلے لگتی ہیں اور اس قدرمحبت اور پیار سے گلے لگتی ہیں اور اتنی دیر تک گلے لگائے رکھتی ہیں کہ اس خواب میں حقیقت کا احساس ہونے لگتا ہے.یہاں تک کہ جب میری آنکھ کھلی تو لذت سے میرا سینہ بھرا ہوا تھا اور بالکل یہ محسوس ہورہا تھا جیسے ابھی مل کے گئی ہوں لیکن اس میں ایک غم کے پہلو کی طرف توجہگئی کیونکہ زینب نام میں ایک غم کا پہلو پایا جاتا ہے لیکن اس وقت یہ خیال نہیں آیا کہ یہ الوداعی معانقہ ہے.میرا ذہن اس طرف گیا کہ شاید جماعت پر کوئی ابتلاء آنے والا ہے اور ایک غم کی خبر ہوگی جس سے فکر پیدا ہوگی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کو اپنی حفاظت میں رکھے گا.چنانچہ ایک ملک کے امیر صاحب کو میں نے اسی تعبیر کے ساتھ خط میں یہ خواب لکھی کہ اس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ آپ کے ملک میں یہ واقعہ ہونے والا ہے اطمینان رکھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ حفاظت فرمائے گا.لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ واقعہ یہ اسی خواہش کا جواب تھا جو میرے دل میں بھی بہت شدید تھی اور حضرت پھوپھی جان کے دل میں بھی تھی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے وصال سے پہلے ملا دے اور معانقہ ہو جائے اور یہ معالفقہ اتنا حقیقی تھا کہ جیسے جاتے ہوئے کسی کو انسان مل رہا ہو اور اتنا گہرا اس کا اثر اور لذت تھی کہ خواب کے بعد یہ احساس نہیں ہوا کہ خواب تھی اور چلی گئی بلکہ یوں آئیں ہیں جیسے حقیقی چیز کوئی واقعہ کے بعد پیچھے دل میں رہ جاتی ہے.تو میں سمجھتا ہوں اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں ہماری ملاقات کا انتظام فرما دیا اور یہ الوداعی معانقہ تھا جو مجھے دکھایا گیا.حضرت پھوپھی جان کی شادی بہت بچپن میں یعنی گیارہ سال کی عمر میں حضرت نواب محمد عبداللہ خان صاحب نواب مالیر کوٹلہ یعنی مالیر کوٹلہ کے نواب خاندان سے آپ تعلق رکھتے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی تھے، حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بڑے

Page 323

خطبات طاہر جلد ۶ 319 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء بیٹے ، ان کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کے ابتدائی خلافت کے دور میں ہوئی اور نکاح آپ کا گیارہ سال کی عمر میں پڑھا دیا گیا تھا لیکن رخصتانہ تیرہ سال کی عمر میں ہوا.آپ کے تین بیٹے جو بقید حیات ہیں اور چھ بیٹیاں تھیں اور چھ خدا کے فضل سے زندہ ہیں اور ہر لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے دنیا اور آخرت کے لحاظ سے فضل فرمایا اور بہت ہی اچھی کامیاب نیکیوں اور خوشیوں سے معمور لمبی زندگی عطا فرمائی.آپ کی عمر وصال کے وقت تراسی (83) سال اور کچھ مہینے بنتی ہے، کم و بیش تر اسی سال بنتی ہے.بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ بعض وجودوں کے ساتھ بعض برکتیں ہوتی ہیں جو ان وجودوں کے ساتھ چلی جاتی ہیں اور اس خیال سے طبیعتوں میں فکر پیدا ہوتی ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض وجودوں کے ساتھ بعض برکتیں ایسی ہوتی ہیں جو ان کے جانے کے بعد اس طرح دکھائی نہیں دیتیں اور ان کا خلاء محسوس ہوتا ہے لیکن یہ کہہ دینا کہ ہر وجود گویا کہ اپنی ساری برکتیں ساتھ لے کر چلا جاتا ہے یہ بالکل غلط خیال ہے.سب سے زیادہ برکتوں والا وجود حضرت اقدس محمد مصطفی ملی تھے.آپ جو برکتیں لے کر آئے آپ کے وصال کے بعد یوں محسوس ہوا جیسے ان برکتوں کا ایک بہت سا حصہ جدا ہو گیا ہے ساتھ ہی اور ایک شدید بحران کی سی کیفیت پیدا ہوئی جسے اللہ تعالیٰ نے ایک صدیق کو کھڑا کر کے ایک بہت حد تک اس بحران سے جماعت کو نکال لیا.لیکن تمام مؤرخین جانتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زندگی میں جو مسلمانوں کی حالت تھی ، جو اسلام کی حالت تھی وصال کے بعد ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے اور زندگی کے بعد کے حالات کو یکساں قرار نہیں دیا جاسکتا اس سے اور اسی قسم کی دوسری مثالوں سے دل میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ صاحب برکت وجود جب جاتے ہیں تو گویا اپنی برکتیں ساتھ لے جاتے ہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ صاحب برکت وجود اپنی برکتیں پیچھے چھوڑ جاتے ہیں لیکن ان برکتوں سے استفادہ کرنے والوں کی کیفیت میں کمی آجاتی ہے اور وہ برکتیں اپنی ذات میں زندہ رہتی ہیں.آنحضرت ﷺ کی برکتوں کو کون کہہ سکتا ہے کہ ختم ہوئیں.اس دور تک وہ جاری ہیں اور قیامت تک جاری رہیں گی.بیچ کے دور میں اگر اس سے استفادہ ختم ہو گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی روحانی اولاد کے طور پر کھڑ افرمایا اور وہ ساری برکتیں حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی کی تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات میں دوبارہ جاری دکھائی گئیں.ایک برکت بھی

Page 324

خطبات طاہر جلد ۶ 320 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء ایسی نہیں جو آنحضرت ﷺ کی برکت کے علاوہ ہو.چنانچہ آپ کو الہاما بتایا گیا كُلُّ بَرَكَةٍ مِنْ مُحَمَّد الله ( تذکره صفحه ۳۵) کہ ساری برکتیں آنحضرت ﷺ کی برکتیں ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا اقرار فرمایا مختلف رنگ میں.ایک جگہ فرماتے ہیں:.ایں چشمہ رواں کہ خلق خدا دہم یک قطره ز بحر کمال محمد است در مشین فارسی صفحه ۸۹) تو اگر برکتیں جو وجود اپنے ساتھ ہی لے جائے تو ایسا وجود تو بہت ہی برکتوں کے معاملے میں کنجوس ہو گا.وقتی طور پر برکتیں دے کر ساتھ لے جانے والا وجود حقیقی طور پر نافع الناس نہیں کہلا سکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی برکتیں تا قیامت جاری ہیں اور بعد میں جو اچانک وصال کے بعد جو خلا محسوس ہوا تھا اس کی اور کئی وجوہات ہیں.ایک تو یہ کہ محبت کے نتیجے میں محبوب کی جدائی سے ایک خلا محسوس ہوا کرتا ہے اور اس کا برکت سے کوئی تعلق نہیں.محبوب چلا جائے تو رونق اٹھ جایا کرتی ہے.محبوب چلا جائے تو وہی مناظر جو پہلے خوش دکھائی دیتے تھے وہ بد دکھائی دینے لگتے ہیں.اس لئے ایک تو بہت بڑی وجہ حضرت اقدس محمد مصطفی حلوہے کے وصال کے بعد کا بحران آپ کے ایک محبوب کی جدائی کا بحران تھا.دوسرے برکت کے علاوہ کچھ اور بھی مضامین ہیں جو مذہبی امور سے تعلق رکھتے ہیں اگر برکت کے دائرے میں ان کو شمار کر لیں تو پھر یہ کہنا پڑے گا کہ بعض برکتیں ضرور ساتھ چلی جاتی ہیں.وہ مضامین ہیں صاحب برکت کے ذاتی اثر کے نتیجے میں اس کے برکتوں سے استفادہ کرنے کی طاقت.اس مضمون کا مطالعہ کرنے سے یہ سارا مسئلہ حل ہو جاتا ہے.بعض لوگ برکتیں لے کر آتے ہیں اور ان میں خدا تعالیٰ یہ طاقت بھی بخشتا ہے کہ وہ ان برکتوں کو جاری کریں اور ان برکتوں سے استفادہ کرنے والوں کی طاقت بڑھا ئیں اس معاملے میں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی میں یہ کی زندگی میں وہی صحابہ جو بعد میں بعض پہلوؤں سے کمزور دکھائی دینے لگے آنحضرت ﷺ کی صحبت اور برکت سے غیر معمولی استفادہ کیا کرتے تھے.وہ استفادہ کی طاقت اگر کسی میں موجود ہو، خواہ وہ سینکڑوں سال کے بعد بھی پیدا ہو وہ لوگ جو زندہ برکتیں رکھتے ہیں وہ پھر بھی ان برکتوں کا فیض ان تک پہنچا سکتے ہیں اور حاصل کرنے والے حاصل کر سکتے ہیں.

Page 325

خطبات طاہر جلد ۶ 321 خطبہ جمعہ ۸ رمئی ۱۹۸۷ء یہ ہے اصل حقیقت جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض دفعہ مستشرقین نے اسلام پر بڑے اعتراضات کئے اور کہا کہ یہ کیا اسلام تھا چند دن کی رونقیں دکھا کر رخصت ہو گیا نہ وہ وحدت رہی نہ وہ باہمی تعلق رہا، آپس میں پھٹ گئے ، فتنہ وفساد شروع ہو گئے ،تضادشروع ہو گیا، غیر معمولی طور پر نقائص جواچانک دشمن کو دکھائی دینے لگے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اسلام میں پائیداری نہیں تھی اور مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ برکتیں تھیں جو ساتھ ہی اٹھ گئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی برکتیں نہ صرف یہ کہ جاری تھیں، جاری رہیں بلکہ قیامت تک جاری رہیں گی اور آنحضرت ﷺ کی زندگی کا یہی مفہوم ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس پر بہت روشنی ڈالی اور مختلف رنگ میں توجہ دلائی کہ ہمار ایک زندہ خدا ہے اور ایک زندہ رسول ہے.آنحضرت ﷺ جیسے زندہ رسول تھے برکتوں کے معاملے میں آج بھی ویسے ہی زندہ رسول ہیں.ہاں اگر زندگی کے خواہاں لوگ اس زندگی بخش وجود سے تعلق جوڑیں تو اب بھی ویسی ہی زندگی پا سکتے ہیں اور قیامت تک یہ زندگی اسی طرح جاری رہے گی.اس لئے کسی بابرکت وجود کے چلے جانے سے جو مایوسی پیدا ہوتی ہے طبیعت میں کہ گویا برکتیں اٹھ گئیں اس کا ایک بہت حد تک برکتیں لینے والوں سے تعلق ہے.بعض لوگ بعض لوگوں کی صحبت میں اس کے رنگ اختیار کرتے ہیں اس کو خوش کرنے کے لئے ، بعض لوگ بعض لوگوں کی صحبت میں اس کی خوبیوں سے استفادہ کرتے ہیں کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نہ کریں گے تو اس پر برا اثر پڑے گا، بعض برائیوں سے بچے رہتے ہیں اس خیال سے کہ اس محبوب کے علم میں نہ آجائے اگر اس کے علم میں آ گیا تو ہمارا برا اثر پڑے گا.یہی وہ چیزیں ہیں جن میں بعض لوگوں کے جانے کے نتیجے میں نقصان ظاہر ہوتا ہے.ایسے بھی لوگ ہیں جو اچانک بعض برکتوں سے اپنے آپ کو خالی محسوس کرتے ہیں.بعض لوگوں کا تعلق کسی برکت سے براہ راست مستقل قائم ہو جایا کرتا ہے اور برکت کے مفہوم پر اگر آپ غور کریں تو دراصل برکت نیکی اور اخلاق کریمانہ کا ہی نام ہے اور قرب الہی کا نام ہے.پس وہ وجود جو صاحب برکت ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ قرب الہی رکھتا ہے اور قرب الہی عطا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، وہ صاحب خلق ہے کریمانہ اخلاق پر فائز ہے اور کریمانہ اخلاق ودیعت کرنے کی طاقت رکھتا ہے، وہ بدیوں سے پاک ہے اور لوگوں کو بدیوں سے پاک رکھنے کی طاقت

Page 326

خطبات طاہر جلد ۶ 322 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء رکھتا ہے، حقیقی برکت اسی کا نام ہے.اس پہلو سے یہ درست ہے کہ بعض لوگ جب تک زندہ ہوں بعض خام لوگ ان کی صحبت سے مستقل فائدہ اٹھانے کی بجائے عارضی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کی برکتوں سے اس وقت تک چھٹتے ہیں جب تک وہ وجود زندہ ہوں اور ان کے جانے کے بعد خود برکتوں کو اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیتے ہیں.یہ جو کیفیت ہے اس کے نتیجے میں آپ کو ایک نمایاں فرق نظر آتا ہے اس بزرگ کی زندگی اور اس بزرگ کی آنکھیں بند کرنے کے بعد.پس سب سے پہلا اور سب سے اہم فریضہ اولاد کا ہے کہ اپنے بزرگوں کی برکتوں کو جاری رکھیں وہ لوگ جو اپنے بزرگوں کی برکتوں کا نوحہ کرنے لگ جاتے وہ اپنے ہاتھ سے برکتوں کو ہلاک کرنے والے ہوتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بزرگ کے وصال کے بعد خدا تعالیٰ کبھی اس کی برکتوں کو ختم نہیں فرماتا.لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اس کی برکتوں کو اس سے قطع تعلق کر لیں یا اس تعلق کو جاری رکھیں اور برکتوں کو اپنے اندر ہمیشہ کے لئے زندہ رکھیں.اسی مضمون کو اللہ تعالی بیان فرماتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے:.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:١٣) اگر آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی برکتوں نے اٹھ جانا تھا محض آپ کے وصال کے نتیجے میں تو قرآن کریم میں خدا تعالیٰ یہ اعلان کبھی نہ فرماتا: - إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ ، خدا تعالیٰ جونعمتیں عطا فرما دیتا ہے کسی قوم کو، فرماتا ہے ہر گز کسی صورت میں خدا تعالیٰ ان نعمتوں کو تبدیل نہیں فرمایا کرتا جب تک قوم خود نہ بدل دے.اس لئے اس مضمون کو خوب سمجھنا چاہئے کہ صاحب برکت وجود کی برکتوں کو زندہ رکھنا ان لوگوں کا کام ہے جو ان برکتوں کو ایک دفعہ اس کی زندگی میں حاصل کر چکے ہیں.ان کے اختیار میں خدا تعالیٰ نے دے دیا ہے چاہیں تو ان برکتوں کو زندہ رکھیں چاہیں تو ان برکتوں کو ختم کر دیں اور پیچھے ماضی میں چھوڑ جائیں.اس لئے جب بھی کوئی با برکت وجود گزرتا ہے جماعت احمدیہ کو یہ عہد کرنا چاہئے کہ ہم ان برکتوں کو بفضلہ تعالیٰ مضبوطی کے ساتھ چمٹے رہیں گے اور کسی برکت کو بھی اس وجود کے جانے کے نتیجے میں اپنے ہاتھ سے ضائع نہیں کریں گے.یہ وہ عزم ہے اگر جماعت کرتی ہے تو کوئی بھی آتا ہے اور چلا

Page 327

خطبات طاہر جلد ۶ 323 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء جاتا ہے اس کے نتیجے میں جماعت کو کوئی دائی نقصان نہیں پہنچ سکتا.ہر آنے والا اپنی خاص برکتیں چھوڑ کر جایا کرے گا اور ہمیشہ کے لئے وہ برکتیں جماعت کی امانت بنتی چلی جائیں گی اور جماعت ہمیشہ پہلے حال کی نسبت بہتر حال میں منتقل ہوتی چلی جائے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الاوّل کے دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی چھوڑی ہوئی برکتیں ختم تو نہیں ہو گئیں تھیں.جاری رہیں بلکہ نشو ونما پاتی رہیں اور حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی اپنی شخصیت کی جو خصوصی برکتیں تھیں وہ بھی جمع ہوئیں بیچ میں اور حضرت خلیفہ مسیح الا قال کے وصال کے بعد حضرت خلیفہ امسیح الثانی کے دور میں بھی یہی ہوا.چنانچہ ایک موقع پر حضرت خلیفتہ اسیح الثالث نے اسی مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جماعت احمدیہ پر ایک عرب شاعر کا شعر صادق آتا ہے:.اذا سيد منا خلا قام سید قئول بما قال الكرام فعول کہ جب کوئی بزرگ سردار ہم میں سے گزرتا ہے تو اپنی بزرگیاں نہیں لے جایا کرتا ساتھ اپنی سیادتوں سے محروم نہیں کر جایا کرتا قوم کو قام سید ایک اور سید ایک اور سردار اس کی جگہ اٹھ کھڑا ہوتا ہے قئول بما قال الکرام صاحب کرام لوگ، جیسا کہ الہام میں ذکر ہے، صاحب کرام لوگوں کی باتوں کو، صاحب کرامت لوگوں کی باتوں کو وہ اسی طرح کہتا ہے جس طرح پہلے کرام لوگ کہا کرتے تھے اور فعول ان باتوں پر اُسی طرح عمل کر کے دکھاتا ہے جس طرح اس سے پہلے کرام لوگ ان باتوں پر نیک عمل کر کے دکھایا کرتے تھے.تو یہ ہے برکت کی حقیقت اور یہ مضمون خوب اچھی طرح جماعت کو ذہن نشین کر لینا چاہیئے اگر وہ برکتوں سے چمٹنے کی عادت ڈالے اور ایک صاحب برکت وجود کے بعد اس وجود کی جدائی کا غم تو کرے لیکن برکتوں پر نوحہ نہ کرے تو یہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے زندگی کی ہر علامت میں ترقی کرتی چلی جائے گی اور ہر لحاظ سے اس کی برکتیں نشو ونما پاتی رہیں گی اور بڑھتی رہیں گی ہر آنے والا وجود ضرور نئی برکتیں لے کر آئے گا اور ہر جانے والا وجود نئی برکتیں پیچھے چھوڑ جایا کرے گا اور جماعت کو برکتوں کے لحاظ سے کبھی نوحہ کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.پس سیدہ حضرت امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کی جدائی اگر چہ بہت ہی شاق ہے اور جذباتی لحاظ سے ایک بڑی آزمائش ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ ایک صاحب برکت وجود تھا جو چلا گیا اب ہم یہ

Page 328

خطبات طاہر جلد ۶ 324 خطبہ جمعہ ۸ رمئی ۱۹۸۷ء برکتیں کہاں سے ڈھونڈیں گے یہ کہنے والا جھوٹا ہے.وہ برکتیں جماعت کو ورثے کے طور پر خدا تعالیٰ عطا فرما تا چلا جاتا ہے.ہاں اگر ورثہ پانے والے اس ورثے کو ضائع کر دیں، ان برکتوں سے منہ موڑ لیں، ان نیکیوں کو الوداع کہہ دیں تو پھر لازما مرنے والا اپنی نیکیوں کے ساتھ باقی پیچھے والوں کو الوداع کہہ دیا کرتا ہے اور خود ہی جدانہیں ہوتا بلکہ اس کی برکتیں بھی جدا ہو جایا کرتی ہیں.پس خدا تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ صاحب برکت وجودوں سے ایسا گہرا وفا کا تعلق پیدا فرمائے کہ ان سے ہی نہیں ان کی برکتوں سے بھی چمٹ جائیں اور یہی وہ صبر کا مضمون ہے جس کو میں پچھلے ہفتہ کھول کر بیان کرنے کی کوشش کرتارہا اور انشاء اللہ آئندہ ہفتہ بھی اسی مضمون پر میں روشنی ڈالوں گا.کچھ آیات میں نے منتخب کیں تھیں جن پر آج بیان کرنا مقصود تھا لیکن چونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے میں اتنا ہی کہہ کر احباب جماعت کو تلقین کرتا ہوں خصوصیت کے ساتھ کہ صبر کے اس مضمون کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیں ، اپنے پلے باندھ لیں کہ اچھی باتوں کو پکڑ لینا، اُن پر قائم رہنا، اُن کو کسی حالت میں نہ چھوڑنا، خواہ کیسی ہی بڑی آزمائش ہو، نیکیوں سے وفا کرنا یہی دراصل نیکوں سے وفا کرنے کی دوسری صورت ہے.وہ لوگ جو نیکیوں سے وفا نہیں کرتے وہ نیکیوں کے بھی بے وفا ہوتے ہیں.اس لئے اگر آپ کی محبت اچھے لوگوں سے بچی ہے، اگر آپ حقیقت میں ان سے پیار کرتے ہیں اور آپ وفادار ہیں تو ان کے جانے کے بعد اپنی وفا کو اس طرح ثابت کریں کہ ان کی نیکیوں سے چمٹ جائیں اور کسی قیمت پر ان سے جدا نہ ہوں.حضرت اماں جان نے یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد آپ کی اولا دکو ایک بہت ہی سادہ لیکن بہت ہی پیارے فقرے میں سمجھائی.آپ نے اولا دکو اکٹھا کیا اور فرمایا دیکھو! تم بظاہر یہ دیکھو گے کہ اس گھر میں کچھ بھی نہیں.کوئی مال دولت نہیں، کچھ دنیا کی جائدادیں نہیں ہیں، کچھ آرام کے سامان نہیں ہیں تمہیں یوں محسوس ہوگا کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے اور اپنی پیاری اولاد کو خالی ہاتھ چھوڑ گئے اور اپنے گھر میں پیچھے کچھ بھی نہ باقی رکھا لیکن تم غلط سمجھتے ہو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے پیچھے اللہ کو ہمارے لئے چھوڑ گئے ہیں اور اس سے بہتر اور کوئی چیز نہیں.( تاریخ احمدیت جلد ۲ صفحہ ۵۴۸) پس صاحب برکت وجود سب سے بڑی برکت یعنی اللہ کو پیچھے چھوڑ جایا کرتے ہیں اور کبھی

Page 329

خطبات طاہر جلد ۶ 325 خطبہ جمعہ ۸ رمئی ۱۹۸۷ء بھی ان کی برکتیں بے وفائی نہیں کرتیں ہاں لوگ ہیں جو برکتوں سے بے وفائی کر دیا کرتے ہیں.پس اللہ تعالیٰ جماعت کو بھی توفیق عطا فرمائے اور حضرت سیدہ مرحومہ کی اولا دکو خصوصیت کے ساتھ یہ توفیق عطا فرمائے کہ آپ تو جدا ہو گئیں لیکن آپ کی اولا داور جماعت آپ کی برکتوں سے بے وفائی نہ کرے تا کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ برکتیں ہمارے اندر زندہ اور باقی اور پائندہ رہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی جمعہ کی نماز کے بعد حضرت پھوپھی جان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.آپ کے ذکر کے رض سلسلے میں میں یہ بات بھی بتانا چاہتا تھا کہ حضرت پھوپھا جان یعنی حضرت نواب محمد عبد اللہ خان صاحب کو بھی خدا تعالیٰ نے ایک بہت ہی پیار کرنے والی شخصیت عطا فرمائی تھی.بہت ہی مہمان نواز بہت ہی خلیق انسان تھے اور اس لحاظ سے یہ جوڑ بہت ہی مناسب تھا.اُن کی طبیعت میں سادگی تھی اور سادگی کے ساتھ حضرت پھوپھی جان کی بعض خاص ایسی خوبیاں تھیں جن تک ان کی رسائی نہیں تھی لیکن اس کے باوجود ایک انتہائی اعلیٰ ، ایک مثالی نمونے کا جوڑا تھا.جن خوبیوں کا میں نے ذکر کیا ہے اس میں مثلاً ادب اور ذوق شعری ہے.حضرت پھوپھا جان کو یہ شعری ذوق ملا ہی نہیں تھا اور یہ شعر پڑھتے بھی تھے اگر تو صحیح وزن کے ساتھ بعض دفعہ نہیں پڑھ سکتے تھے.اُس کے مقابل پر حضرت پھوپھی جان کو نہایت ہی لطیف شعری ذوق عطا ہوا تھا.خود بہت ہی صاحب کمال شاعرہ تھیں لیکن اپنے کلام کو چھپاتی تھیں لوگوں سے اور اکثر چند سطر لکھ کر ایک طرف پھینک دیں اور پھر نظر سے وہ کلام غائب ہو گیا.چونکہ مجھے بھی بچپن سے ذوق رہا ہے شعر کا اس لئے پھوپھی جان کے ساتھ میرا خاص تعلق اس لئے سے بھی ایک تھا کیونکہ ان تک رسائی تھی اور وہ بعض دفعہ بڑے پیار کے ساتھ مجھے اپنا کلام سنا بھی دیا کرتی تھیں.ابھی کچھ عرصہ پہلے میں جب ملاقات کے لئے گیا تو ایک بہت ہی پرانی نظم جو حضرت پھوپھی جان نے مجھے قادیان کے زمانے میں سنائی تھی اس کے ایک دو شعر میں نے ان سے کہے تو عجیب چہرے پر مسکراہٹ پیدا ہوئی کہ تم اب تک وہ باتیں یادر کھتے ہو.چنانچہ یہ حضرت پھوپھا جان کے ساتھ اگر چہ اس لحاظ سے طبیعتوں کا جو طبعی نہیں تھا لیکن اس کے باوجود ایسی محبت ، ایسا غیر معمولی تعلق آپس میں ، ایسا ساتھ ، ایسی وفا.یہ اس لئے میں ذکر کر رہا ہوں خصوصیت کے ساتھ کہ بعض لوگ یہ کہہ دیا کرتے ہیں کہ جی! ہمارا طبیعتوں کا جوڑ نہیں ہے.جو صاحب کرام لوگ ہوں وہ طبیعتوں کا جوڑ نہ بھی ہو تو اچھی باتیں نکال

Page 330

خطبات طاہر جلد ۶ 326 خطبه جمعه ۸ رمئی ۱۹۸۷ء کر ان کی قدر کر کے ان سے جوڑ پیدا کر لیا کرتے ہیں اور جو صاحب کرام نہ ہوں ان کو ان جوڑ باتیں زیادہ دکھائی دیتی ہیں اور جہاں جوڑ ہو سکتا ہے وہ نظر انداز کر دیا کرتے ہیں.اس لئے خصوصیت سے میں اس کا ذکر کرنا چاہتا تھا خطبہ میں کہ آپ کی زندگی اسی لحاظ کا نمونہ تھی.آپ کا صاحب کرام لوگوں کی اولا د ہونا یعنی کرام کی اولاد ہونا کرام سے مراد ہے ذوالا کرام لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی کریمانہ اخلاق بخشے ہوں، اس بات سے بھی ثابت تھا کہ آپ کے اندر یہ کریمانہ صفت موجود تھی کہ اگر کوئی طبیعت کا اختلاف بھی ہے اسے نظر انداز کر کے جو خوبیاں اور نیکیاں ہیں ان سے تعلق جوڑ لیں.چنانچہ آپ کی ساری زندگی کے تعلقات میں یہ بات ہمیشہ غالب رہی کہ خوبیوں پر نظر رکھ کر ان سے آپ تعلق جوڑا کرتی تھیں جہاں تک حضرت پھوپھا جان کا تعلق ہے ان کے اندر خدا تعالیٰ نے بڑی خوبیاں رکھی تھیں.خصوصیت کے ساتھ ان کی مہمان نوازی ایک ضرب المثل تھی اور پھر یہ عبادت سے ان کا تعلق پنجوقتہ نماز اور باجماعت نماز کو شوق اور ذوق ایسا تھا کہ بہت کم لوگوں میں ایسے دیکھنے میں آتا ہے.اس لئے آپ بھی کرام لوگوں کی اولا د تھے اگر چہ الہام یہ ذکر موجود نہیں لیکن ان کے اندر بھی بڑی خوبیاں تھیں.تو ان دونوں کی اولاد کے لئے خاص طور پر دعا کرنی چاہئے کہ خصوصی خوبیاں جو حضرت پھوپھا جان کی تھیں یا حضرت پھوپھی جان کی تھیں وہ مل کر بڑھ جائیں بجائے اس کے ان کے اندر کمی محسوس ہو.اس رنگ میں قومیں ترقیاں کیا کرتی ہیں.والدین کی اچھی چیزیں اگر وہ اپنانے لگ جائیں اور کمزوریوں سے صرف نظر کریں اس طرح قو میں ہر لحاظ سے آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں.اللہ تعالی جماعت کو اس رنگ میں ہمیشہ اپنے آباؤ اجداد کی خوبیاں کو زندہ رکھنے بلکہ جمع کرنے اور بڑھانے کی توفیق عطا فرما تار ہے.حضرت پھوپھی جان کے ساتھ میرا ایک اور تعلق یہ بھی تھا کہ میری والدہ کو ان سے بہت پیار تھا اور بچپن سے آنکھ کھلتے ہی جب سے ہوش آئی ہے ہم نے اپنی والدہ کو پھوپھی جان کے لئے بہت غیر معمولی محبت کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے پایا اور پھوپھی جان کو بھی جوابا آپ سے بہت تعلق تھا اس لئے میرے لئے ایک قسم کی والدہ تھیں جو فوت ہو گئیں مگر ایسے واقعات دنیا میں ہوتے رہتے ہیں.صاحب حوصلہ لوگوں کو حو صلے کے ساتھ برداشت کرنے چاہئیں اور خدا تعالیٰ سے صبر مانگنا چاہئے.صبر مانگنے کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ صبر عطا فرما دیا کرتا ہے.پس جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ صبر پر قائم رہنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 331

خطبات طاہر جلد ۶ 327 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء بزرگوں کی برکتیں دائگئی ہیں.ان کی نیکیوں کو زندہ رکھیں نیز رمضان کی نیکیوں کو دوام بخشیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ رمئی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: قوموں کی زندگی میں وہ دور بہت ہی اہم ہوتا ہے جب ایک نسل دوسری نسل سے جدا ہورہی ہوتی ہے اور اسے دو نسلوں کے جوڑ یا سنگم کا زمانہ کہہ سکتے ہیں.یہ جدائی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے نتیجہ میں یک لخت واقع نہیں ہوتی بلکہ ایک تدریجاً لمبا سلسلہ ہے جو کافی مدت تک دراز رہتا ہے لیکن بالآخر اسے آخری دموں تک پہنچنا ہے.صحابہ کی نسل سے تابعین کی نسل کی جدائی کا یہ دور بھی ایک لمبا تدریجی عمل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے لمحہ سے شروع ہوا اور تقریباً اسی برس ہو گئے ابھی تک جاری ہے.آج بھی ہم میں صحابہ تو موجود ہیں لیکن بہت شاذ اور صحابہ میں سے وہ صحابہ جو اس زمانے میں صحابہ کی صف اول میں یا صف دوم میں بھی شمار نہیں ہوتے تھے بلکہ جو خاص صحابہ کا دور کہلاتا ہے جب وہ کثرت کے ساتھ ملتے تھے اُس وقت صحابہ کے ساتھ شامل ہونے میں یہ صحابہ جو آج ہم میں زندہ موجود ہیں یہ غیر معمولی فخر محسوس کیا کرتے تھے.واقعہ یہ فخر درست تھا لیکن جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے وہ عموماً ایسے صحابہ کی طرف رجوع کیا کرتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی نمایاں حیثیت اختیا ر فرما چکے تھے.حضرت خلیفتہ اسیح الاوّل

Page 332

خطبات طاہر جلد ۶ 328 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۸۷ء رضی اللہ تعالی عنہ ہیں، حضرت خلیفہ مسیح الثانی رضی اللہ عنہ، حضرت مولوی شیر علی صاحب، حضرت مولا ناراجیکی صاحب وغیرہ یہ وہ گروہ ہے، غیر معمولی شان کے ساتھ چپکنے والے ستاروں کا ہے کہ جن کی روشنی میں بعض دوسرے ستاروں کی روشنی مدھم پڑ گئی اور ان کی طرف توجہ نہ کی گئی.لیکن اب ہم ایسے دور میں داخل ہو گئے ہیں جب یہی صحابہ ہمارے لئے آسمان کے چمکتے ہوئے نمایاں ستارے بن گئے ہیں اور ہماری دعائیں ہیں، ہماری آرزوئیں ہیں، ہماری تمنائیں ہیں کہ ان کی روشنی ہم میں زیادہ سے زیادہ دیر تک چمکتی رہے اور ان سے جدائی ہونے کا وقت اور دیر تک ٹل جائے اور ان کے وصل کا عرصہ اور لمبا ہو جائے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا کی تقدیر نے تو بہر حال جاری ہونا ہے ایک لمبا عرصہ ہمیں ان کی سر پرستی حاصل رہی ، ان کا سہارا رہا.ان سے ہم نے نیک روایات سنیں اور نیک روایات پر عمل کرتے ہوئے بھی دیکھا.پس اس پہلو سے ہماری تربیت کا جہاں تک دور ہے یہ اتنا وسیع ہے کہ کسی انسان کو شکوے کا حق نہیں رہا کہ اے خدا ہمیں یعنی ہمارے تابعین کی نسل کو تو نے زیادہ لمبا عرصہ صحابہ سے تربیت پانے کا نہیں دیا.کم و بیش ایک صدی تک یہ عرصہ دراز ہے اور اس عرصہ میں بھی اگر ہم تربیت پا کر تربیت کے ماحصل کو اپنی ذات میں محفوظ نہیں کر لیں اور ان کے اخلاق کو اپنے اخلاق میں جاری وساری نہ کر لیں، ان کی نیک روایات کو اپنی نیک روایات نہ بنالیں، ان کی دعاؤں کے رجحانات اور دعاؤں کے انداز کو اپنا نہ لیں تو پھر ہماری بدقسمتی ہوگی.جہاں تک اللہ تعالی کی تقدیر کا تعلق ہے اس نے بہت لمبا عرصہ ہمیں ان چیزوں کے لئے دیا.ان کے جانے سے افسوس ہوتا ہے ایک بھی اب جدا ہو تو غیر معمولی تکلیف ہوتی ہے.ایک زمانہ تھا کہ جب آئے دن تقریباً ہر ہفتہ صحابہ فوت ہوتے تھے ان کے جنازے پڑھے جاتے تھے چونکہ پیچھے رہنے والے بھی بڑے روشن ستارے تھے اور کثرت سے تھے.اس لئے اس خیال سے کہ گویا صحابہ ہم سے جدا ہو رہے ہیں خوف وہر اس کا کوئی پہلو بھی ذہن میں نہیں آتا تھا.یہ بھی وقت ہے جبکہ بعض لوگوں کی توجہ بعض لوگوں کا ذہن خوف کی طرف بھی مائل ہو جاتا ہے انہیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سروں سے چھت اڑ رہی ہو ، جیسے بے سہارا رہ رہے ہوں.یہ خوف درست نہیں ہے اور اسی کی طرف متوجہ کرنے کے لئے میں نے گزشتہ خطبہ میں خاص طور پر جماعت کو

Page 333

خطبات طاہر جلد ۶ 329 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء برکتوں کے دوام کا مضمون سمجھانے کی کوشش کی تھی.حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالی عنها بطور صحابیہ بھی ایک برکت رکھتی تھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبشر اولاد کی حیثیت سے جن کے متعلق الہاماً پہلے خبر دی گئی یہ ایک خاص اہمیت رکھتی تھیں.مجھے خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں تو ہمات پیدا کرنے والے یا تو ہمات میں بسنے والے لوگ اس قسم کی افواہیں نہ پھیلانی شروع کر دیں کہ گو یا یہ ایک Omen ہے جماعت کے لئے ، ایک بدشگون ہے کہ یہ بزرگ اب اُٹھ رہے ہیں اُن کی برکتیں اُن کے ساتھ چلی جائیں گی ، اب ہم بے سہارارہ جائیں گے اور ابتلاء بڑھ جائیں گے اور فتنے زیادہ پیدا ہو جائیں گے.اس خطرے کی پیش بندی کے لئے میں نے مضمون کا ایک پہلو غیر معمولی زور کے ساتھ بیان کیا اور آپ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ برکتوں کی ماہیت کو سمجھنے کی کوشش کریں، ان کی حقیقت سے آشنا ہوں پھر آپ کو یہ معلوم ہوگا کہ حقیقی برکتیں اخلاق حسنہ میں ہیں، حقیقی برکتیں نیکیوں میں ہیں حقیقی برکتیں تعلق باللہ میں ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک نیکی اور اخلاق حسنہ اور تعلق باللہ کے مضمون میں بہت نمایاں شان اختیار کرنے والا بزرگ ہم سے جدا ہورہا ہو تو اُس کی جدائی کا احساس تو ضرور رہے گا اس کا خلاء تو ضرور محسوس ہو گا مگر اس کا یہ نتیجہ نکالنا کہ گویا یہ برکتیں جو ابدی نوعیت کی برکتیں ہیں یہ ہم سے جدا ہو جائیں گی یہ نتیجہ درست نہیں اور اگر خلاء زیادہ محسوس ہو تو پھر یہ فکر کی ضرورت ہے کہ ہمارا قصور ہے کہ یہ خلاء کیوں محسوس ہوتا ہے یا خلاء کیوں پیدا ہوا جو ہم نے محسوس کیا ؟ ایک بارش برستی ہے بعض زمینوں پر برستی ہے تو دیکھتے دیکھتے پانی نظر سے غائب ہو جاتا ہے.بعض زمینوں پر برستی ہے تو وہ دیر تک اس پانی کو محفوظ رکھتی ہیں.دونوں جگہ بیک وقت یکساں بارش برس رہی ہو ایک ہی مقدار میں برس رہی ہو تو بارش کے معا بعد کے مناظر ایک نہیں ہوتے.بعض جگہ زمینیں جو پانی کو محفوظ رکھتی ہیں لمبا عرصہ تک اس کو اپنے ذرات میں بھی محفوظ رکھتی ہیں اور اپنی ذات سے پیدا ہونے والی نشو ونما میں بھی نمایاں کر کے دکھاتی ہیں.سبزی اور ہریاول کی صورت میں مدت تک اس بارش کی یاد باقی رہتی ہے.اور بعض ریگستانی علاقے ایسے ہیں جہاں عارضی ایک بہار آتی ہے اور اُس بارش کے ساتھ بہت تھوڑے عرصے کے بعد وہ بہار نکل جاتی ہے.تو میرا مفہوم یہ تھا کہ آپ اُس زمین کا منظر پیدا نہ کریں جس پر برکتوں والی بارش برس کر

Page 334

خطبات طاہر جلد ۶ 330 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء جب نظر سے غائب ہوتی ہے تو اس کی برکتیں بھی نظر سے غائب ہو جاتی ہیں بلکہ ایسی سرزمین کا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کریں جو برکتیں محفوظ کرنے والی سرزمین ہو.جس کے اندر برکتیں برسیں تو مدتوں تک ان برکتوں کی یاد باقی رہے اور اس عرصہ میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور برکتوں والے وجود پیدا کرتا چلا جاتا ہے.ہر پہلو سے نمایاں ہونے والی شخصیت اور ابھارتا رہتا ہے.پس فی الحقیقت جو خلا کا احساس ہے وہ اپنی جگہ ایک الگ ایک Independant ایک آزاد حقیقت ہے.لیکن خلا کے مضمون کو سمجھنے کے بعد ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ جتنا بڑا خلا پیدا ہوتا ہے اس خلا میں ہماری کمزوریوں کا بھی بہت بڑا دخل ہے.اگر ہم برکتوں سے محبت کرنے والے ہوں اور حقیقتاً ان کی اہمیت کو سمجھنے والے ہوں تو ان برکتوں کو ہمیں اپنی ذات میں جاری کرنا چاہئے تھا.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کی ذات کو ایک ایسے نور کے طور پر قرآن کریم نے پیش فرمایا.جو خدا کے نور کی مثال ہے اور وہ نور ایک حیرت انگیز استثنائی شان رکھتا ہے.اپنی پاکیزگی میں ، اپنی جلا میں اس کی کوئی دوسری مثال دکھائی نہیں دیتی.لیکن وہ آیت ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ نور بڑھتا اور پھیلتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور وہ آیت اس مضمون پر ختم ہوتی ہے کہ پھر اسی نور کو تم مومنوں کے سینوں میں مختلف گھروں میں بھی روشن پاؤ گے.قرآن کریم کی آیات میں سے ایک عظیم الشان آیت ہے جو اپنے نو ر اور اپنی چمک میں ایک بے مثل آیت دکھائی دیتی ہے.حیرت انگیز ایک فلم تیار کی گئی ہے ایک چھوٹے سے جملے کے اندر.اس میں خدا کے نور کی مثال دنیا پہ ظاہر ہوتی دکھائی گئی اس نور کی چمک دمک، اس کی غیر معمولی شان بیان فرمائی گئی اس کا لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (النور: ۳۶) ہونا بتایا گیا کہ وہ کسی قسم کے تعصبات یا نسلی رجحانات رکھنے والا نو ر نہیں ہے.مشرق کے لئے بھی ہے اور مغرب کے لئے بھی ہے.جس طرح خدا کی ذات سب کے لئے مشترک ہے اسی طرح محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا نور جو خدا کے نور سے رنگ پکڑ کر پیدا ہوا ہے وہ بھی عالمی نوعیت کا نور ہے.اور پھر فرمایا بظاہر اکیلا نور ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے، توحید سے مضمون شروع ہوا ہے، خدا کے نور سے بات چلی ہے اور غیر محسوس طور پر معاوہ بات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کے اظہار میں داخل ہو جاتی ہے اور پھر وہاں نہیں ٹھہرتی بلکہ آگے مضمون کو پھیلاتے ہوئے بتاتی ہے کہ یہ نور پھیلنے والا نور

Page 335

خطبات طاہر جلد ۶ 331 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء تھا.ایسی شمع تھی جو دوسری شمع کو روشن کر سکتی تھی.چنانچہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہی میں اور بہت سے سینوں نے اپنے اندر اس نورکومستعار لیا اور پھر اپنی شمعیں روشن کر لیں اور جگہ جگہ مومنین کے سینہ میں تم اس نور کو چمکتا ہوا اور اردگرد ماحول کو روشن کرتا ہوا پاؤ گے.یہ وہ مضمون تھا جس کو میں جماعت کے سامنے نمایاں طور پر لانا چاہتا تھا کہ نور سے نور لینا اور نور بننا خلاء کو محسوس کرنا لیکن دوسروں کے لئے ایسا نمونہ بن جانا کہ وہ خلاء محسوس نہ کریں اور ایک نور کو لے کر دوسروں تک پہنچانا اسکی طرف توجہ کریں بجائے اس کے کہ کھوئے ہوئے کی طرف اپنی ساری توجہ مبذول کر دیں جو حاصل ہوسکتا ہے اس میں اس کی طرف توجہ مبذول کریں.اس خطبہ سے ممکن ہے کسی پر یہ اثر پڑا ہو کہ میں کلیڈ کس شخصی وجو د کی ذاتی برکتوں کا انکار کر رہا ہوں.اسلئے مجھے خیال آیا کہ اس پہلو پر بھی روشنی ڈالنی ضروری ہے تا کہ ہماری سوچوں میں توازن پیدا ہو اور توازن قائم رہے.اس بات سے کوئی انکار نہیں جو میں نے بات کی ہے یہ اپنی ذات میں درست ہے.لیکن یہ بھی درست ہے کہ بعض لوگ جو بعض خوبیوں اور خصلتوں میں ایک نمایاں شان اختیار کر جاتے ہیں ان کے معا بعد ویسے دوسرے لوگ دکھائی نہیں دیا کرتے خواہ ان کا اپنا قصور ہو لیکن واقعات سے تو آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں اور بعض وجودوں کو آنکھیں ترسا کرتی ہیں.حضرت محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی ہی شان تھی.باوجود اس کے کہ آپ کو اسوہ قرار دیا گیا با وجود اس کے کہ یہ یقین دہانی کروائی گئی کہ یہ نور باقی رہنے والا نور ہے اس کے ساتھ ساری روشنی نہیں چلی جائے گی.تم جانتے ہو تمہارے گھروں میں چمک رہا ہے، تمہارے سینوں میں چمک رہا ہے.اس یقین دہانی کے باوجود اور Model ،اسوہ قرار دینے کے باوجود جب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جدا ہوئے تو آنکھیں ویران ہو گئیں.ایسے ایسے دردناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ساری دنیا صحابہ پر اندھیر ہوگئی: كنت السواد لناظري فعمى على الناظر من شاء بعدك فلیمت فعلیک کنت احاذر حسان بن ثابت نے یہ انتہائی درد کی آواز بلند کی ہے.بے ساختہ اس کے سینہ سے ایک چیخ نکلی جو اپنی ذات میں ایک دائی پیچ بن گئی.یہی کیفیت تھی صحابہ کے دل کی جسے حضرت حسان

Page 336

خطبات طاہر جلد ۶ 332 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء بن ثابت کی زبان میں بیان کر دیا کہ اے جدا ہونے والے میرے محمد ، میرے پیارے! تو نور تھا جس سے میں دیکھا کرتا تھا.تو میری آنکھوں کی پتلی تھا.آج تو جدا ہوا ہے تو میں آنکھوں کے نور سے محروم ہو گیا، مجھے کچھ دکھائی نہیں دیتا.من شاء بعد ک فلیمت اب جو چاہے تیرے سوا مرتا پھرے فعلیک کنت احاذر مجھے تو صرف تیرا غم تھا کہ تو نہ ہاتھ سے جاتا رہے.وہ صحابہ بھی برکتوں کے مضمون کو سمجھتے تھے اور جانتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم برکتوں کو اپنے تک محدود رکھنے کے لئے نہیں آئے تھے.بلکہ کل عالم میں پھیلانے کے لئے آئے تھے.ایسا نور لائے تھے جو مشرق اور مغرب میں چمکنے والا تھا جو بادشاہوں کے محلوں اور فقیروں کی کٹیاؤں میں چمکنے والا تھا، جو کوئی تفریق نہیں کرنے والا تھا.اس کے باوجود جہاں تک ذاتی شان کا تعلق ہے اس کے جدا ہونے سے لازماً اندھیرا دکھائی دینا چاہئے تھا کیونکہ مقابل پر جونور تھے ان کی حیثیت آزادانہ طور پر اتنی نہیں تھی کہ ایک جانے والے نور کی کمی کو کوئی ایک دم پورا کر سکیں.ستارے سورج کے غروب کے وقت فورا تو روشنی نہیں دکھایا کرتے.ایک لمبا عرصہ Dusk کا، بے چینی کا، ایک جھٹپٹے کا وقت ہے جو کچھ دیر باقی رہتا ہے اور طبیعتوں میں اداسی پیدا کر دیتا ہے.شام کی اداسی کا فلسفہ دراصل یہی ہے روشنی غائب ہو چکی ہوتی ہے سورج جا چکا ہوتا ہے اور ستارے ابھی اپنی روشنی دینا شروع نہیں کرتے اس لئے کہ گئے ہوئے سورج کی روشنی میں بھی وہ ماند دکھائی دیتے ہیں وہ روشنی ابھی باقی رہتی ہے، اس کی یاد باقی رہتی ہے.اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی جدائی کے بعد آپ کی روشنی جو کائنات میں ہر جگہ شفق کی صورت میں دکھائی دے رہی تھی، اس نے سورج کی جدائی کا احساس کو نمایاں کر دیا لیکن ستاروں کو ابھی یہ توفیق نہیں بخشی تھی کہ وہ فوراً مطلع پر ابھر کے اپنے آپ کو دکھانا شروع کریں اور اپنی روشنی کو پھیلا نا شروع کر دیں.اس لئے یہ جوڑ کا زمانہ بڑے گہرے غم اور فکر کا زمانہ تھا اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کا محسوس ہونا ایک طبعی امر تھا.اسی طرح ہر بزرگ کی جدائی درجہ بدرجہ محسوس تو ہوتی ہے اور خلاء بھی پیدا ہوتے ہیں.پس اگر یہ برکت ہے تو پھر میرے گزشتہ بیان میں یہ ترمیم ہونی چاہئے کہ بعض نوع کی برکتیں ضرور ایسی ہوتی ہیں جو وقتی طور پر ہاتھ سے جاتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور ایک شدت کے

Page 337

خطبات طاہر جلد ۶ 333 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء ساتھ خلاء کا احساس ہوتا ہے لیکن جب آپ تجزیہ کریں تو اس کے علاوہ اور بھی بہت سے پہلو ہیں جو اس عمل میں کارفرما دکھائی دیتے ہیں اور محرکات بھی ہیں جو اپنا اپنا پارٹ (Part) پلے کرتے ہیں اس میں اپنا حصہ ادا کر کے یہ جدا ہو جاتے ہیں.شخصیتوں پر اگر آپ غور کریں تو ہر شخصیت میں ہر خوبی کو اپنے اندر سمانے کی خاصیت بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہے بعض لوگ بعض پہلو کے لحاظ سے حسن اختیار کر جاتے ہیں، بعض دوسرے پہلو کے لحاظ کے حسن اختیار کر جاتے ہیں.بعضوں میں ایک برائی باقی رہتی ہے حسن کے ساتھ بعضوں میں دوسری برائی باقی رہتی ہے.اسی لئے ایک کہنے والے نے کہا.گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز کانٹوں سے بھی نباہ کئے جا رہا ہوں میں جو خو بیوں سے محبت کرنے والے ہیں وہ جانتے ہیں کہ بعض خوبیوں کے ساتھ بعض برائیاں بھی اکٹھی آئیں گی.گلدستے سے پیار ہے تو کانٹوں سے بھی نباہ کرنا ہی پڑے گا.تو ایسے وجود جو سراسر فیض ہوں اور ساری خوبیوں کے مجمع بن جائیں ،سارے انوار کا مہبط ہو جائیں،سارے حسن کا گلدستہ بن جائیں ایسے وجود استثنائی شان رکھنے والے وجود ہوتے ہیں اور عام طور پر ہمیں دنیا میں ملی جلی کیفیات کے لوگ نظر آتے ہیں.ان میں کمزور بھی ہیں اور طاقتور بھی ہیں زیادہ حسین بھی ہیں کم حسین بھی.پھر ہر ایک کی حسن کی صفت ایک الگ حیثیت رکھتی ہے.کوئی کسی پہلو سے چمکتا ہے، کوئی کسی دوسرے پہلو سے چمکتا ہے.اس لحاظ سے جب ایک شخص جاتا ہے، ہم سے جدا ہو جاتا ہے تو ہم بلا شبہ محسوس کرتے ہیں کہ بعض پہلوؤں سے وہ ہمیں ضرور یاد آئے گا اور وہ لوگ چاہے کیسے بھی ہوں اس کے باوجود ہمیں بعض پہلوؤں سے ہمیں اس کا خلا ء ضر ور محسوس ہو گا.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ عنہ میں ایک خاص خوبی تھی کہ وہ جگ مشیر تھے.کسی کو کوئی مشکل ہو کوئی مسئلہ ہو، مرد ہو، عورت ہو، بچہ ہو، بوڑھا ہو بڑا ہو، جوان ہو، ہر قسم کے لوگ ہر طرف سے یہ جان چکے تھے کہ آپ بہترین مشورہ دینے والے ہیں اس لئے کوئی مشکل ہو، مصیبت ہو، کوئی الجھن ہو سارے بے فکر آپ کا دروازہ کھٹکھٹاتے تھے.درمیان میں کوئی دربان نہیں تھا، کوئی حفاظتی انتظام نہیں تھا ، دن ہو رات ہو کنڈیاں کھٹکتی تھیں آپ آتے اور بڑی شفقت

Page 338

خطبات طاہر جلد ۶ 334 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء کے ساتھ ان کو مشورہ دیا کرتے تھے.جب آپ کا وصال ہوا تو یہ کہنا کہ مشورے دینے والے کلیۂ دنیا سے غائب ہو گئے یا مشورے کی برکت اٹھ گئی یہ درست نہیں ہے.خدا رفتہ رفتہ دوسرے لوگوں کو توفیق بخشتا ہے.ایک کی جگہ اگر ایک پر نہیں کر سکتا تو دس پر کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے یہ کہنا تو غلط ہے کہ وہ برکتیں پوری کی پوری وہ اپنے ساتھ لے کر چلے گئے.لیکن یہ کہنا بھی غلط ہے کہ ان کے جانے سے کوئی خلاء پیدا نہیں ہوا.مدتوں لوگ ان کی یاد کو اس پہلو سے یاد رکھتے رہے اور بسا اوقات مجھے بھی خط لکھا کرتے تھے کہ اب تو ربوہ آکر سمجھ نہیں آتی کہ کس کے پاس جائیں اور کس سے جا کر اپنی مشکلات میں مشورہ کریں.خلیفہ اسیح کی ذات خطوں کے ذریعہ تو سب اس تک پہنچ سکتے ہیں لیکن ہر وقت جب آدمی چاہے دروازہ کھٹکھٹائے اور فوراوقت لے لے یہ تو ممکن ہی نہیں.اس لئے ہمیں ایک خلاء محسوس ہوتا ہے لیکن رفتہ رفتہ اس خلاء کو ایک سے زیادہ وجودوں نے پورا کرنے کی کوشش کی یعنی طبعی طور پر ارادہ نہیں اور کئی پہلوؤں سے پر بھی ہوا.پھر کئی لوگ ہیں جو اور رنگ میں غریبوں کی ہمدردی اور خدمت کے لحاظ سے، کئی ڈاکٹر ہیں جو غیر معمولی طور پر غرباء کا ہمدردی سے علاج کرنے والے ہیں اور بعض دفعہ میں جانتا ہوں کہ بجائے اس کے کہ فیس لیں وہ اپنے پلے سے ان پر خرچ بھی کرتے ہیں.ہمارے ڈاکٹر عقیل شہید اسی قسم کے ڈاکٹروں میں سے تھے.غیر معمولی ہمدردی کا جذبہ، غیر معمولی انکسار اور ایثار کا جذبہ تھا اور جو بھی غریب احمدی ان کے دروازے تک پہنچا کبھی مایوس نہیں لوٹا.ہمیشہ اسکی محبت اور شفقت کے ساتھ خدمت کی اُس کا علاج کیا اور ویسے بھی غرباء کے علاج کے لئے قطع نظر مذہب کے آپ کیمپ بھی لگاتے رہے.اب یہ خوبی تو اپنی ذات میں جماعت سے اٹھنی نہیں چاہئے کوئی یہ کہے کہ وہ چلے گئے تو یہ برکت بھی جاتی رہی یہ ظلم ہو گا یعنی اگر جاتی رہی تو پھر ہمارا قصور ہے.جانے والے کا قصور نہیں ہے تقدیر الہی کا قصور نہیں ہے.اُن کا قصور ہے جنہوں نے ایک لمبے عرصہ تک ایسے شخص کی صحبت پائی اور اُس سے یہ نیکی کے گر اختیار نہیں کئے سیکھے نہیں اور ان نیک خصائل کو اپنا یا نہیں ہے.لیکن ساتھ ہی اس کے خلاء کا احساس فور جو پیدا ہوتا ہے اس سے انکار نہیں ہے.کوئی معقول شخص اس کی حقیقت سے انکار نہیں کر سکتا یہ ایک لابدی چیز ہے.مدتوں تک احمدیوں کو بھی ، غیر احمدیوں کو بھی

Page 339

خطبات طاہر جلد ۶ 335 خطبه جمعه ۱۵ رمئی ۱۹۸۷ء جن جن کا بھی ایسے ڈاکٹروں سے واسطہ پڑا وہ یاد آتے رہیں گے.اسی طرح آج ہم میں زندہ ڈاکٹر بھی ہیں زندہ انجینئر بھی ہیں اور پیشہ ور ہیں پروفیسر ہیں جو اپنے وقت دے کر طلبہ کی خدمت کرتے ہیں، اساتذہ ہیں.احمدیوں میں کثرت سے آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جن کے اوپر قرآن مجید کی آیت صادق آتی ہے وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ: ۴ ) کہ جو کچھ ہم نے ان کو عطا فر مایا وہ آگے خرچ کرتے چلے جاتے ہیں پس جس کو جس پہلو سے اپنا جوائی رزق، الہی تحفہ غیروں کے افادہ کے لئے خرچ کرنے کی توفیق ملی اسی حد تک وہ صاحب برکت وجود نظر آتا ہے اور ہر صاحب برکت وجود بعض پہلوؤں میں نمایاں طور پر چمکتا ہے.حضرت صاحبزادی سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے متعلق جو خطوط موصول ہو رہے ہیں عورتوں کی طرف سے بھی اور مردوں کی طرف سے بھی ان سے پتا چلتا ہے کہ آپ کی شفقت کا دائرہ بہت ہی وسیع تھا اور مدت تک یہ نسل ان شفقتوں کو یاد کرے گی.اگر خلاء نہ بھی پیدا ہو تب بھی ایسی شفقتیں ضرور یا درہتی ہیں.صرف خلاء کی وجہ سے نہیں ویسے ایک اور بھی مضمون ہے جو اس میں اثر دکھاتا ہے وہ یہ کہ کسی کے احسان کے نتیجہ میں اس سے پیار پیدا ہو جاتا ہے.اس کی محبت دل میں پیدا ہو جاتی ہے.ویسا اگر کوئی اور ہو بھی تو ایک وفادار شخص ایک محسن کو بھلا تو نہیں دیا کرتا کہ اس کی بجائے اور محسن گئے ہیں.محبت کا مضمون ایک جدا مضمون ہے اُس شخص کی برکت، اس شخص کی برکت کے طور پر پیاری ہو جاتی ہے ویسی برکت باہر سے ملتی بھی ہو تب بھی اُس جدا ہونے والے کی جدائی کا احساس ہمیشہ دل میں کھٹکتا رہے گا.کسی شاعر نے کہا ہے:.ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور تم سے جہاں میں لاکھ سہی تو مگر کہاں تم جیسے ہوں گے مگر ہمیں تم سے جو تعلق پیدا ہو چکا ہے ہمیں تمہاری ادا الگ دکھائی دیتی ہے یہ انکار نہیں کہ عقلا واقعہ تم جیسے سینکڑوں ہزاروں اور ہوں گے.غیر جانبدار آنکھ دیکھے گی تو ہوسکتا ہے تم سے بہتر بھی قرار دیدے کسی کو گر ہمیں تمہاری عادت پڑ گئی ہے.ہمیں تم سے پیار ہو گیا ہے.پس ایک محسن اس لئے بھی خلاء چھوڑتا جاتا ہے کہ جو برکتیں اس سے حاصل کرتا ہے اس احسان کے نتیجہ میں اس کی جدائی تکلیف دیتی ہے.

Page 340

خطبات طاہر جلد ۶ 336 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء اس کے علاوہ بعض اور قسم کی خصوصی برکتیں بھی ہیں جن میں سے ایک بہت ہی اہم دعا کی برکت بھی ہے.یہ تو ایسی چیز نہیں جو کوئی لے جانے والا اپنے ساتھ لے جائے کیونکہ مذہب میں Monoply کا کوئی مضمون آپ کو دکھائی نہیں دیتا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دعائیں مقبول ہوتی تھیں تو آپ نے کوئی راز نہیں رکھا اور خدا نے کوئی راز نہیں رکھا کہ یہ دعائیں کیوں مقبول ہوتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے وہ سارے نسخے سب کے لئے روشن کر دیئے جو دنیا دارPatent کروا لیا کرتے ہیں اور بعض چھوٹے درجہ کے بزرگ اُن کو خاص نسخوں کے طور پر سینہ بہ سینہ محفوظ کر کے آگے لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہمارے خاص مریدوں کو یہ راز بتانا کہ فلاں وظیفہ یوں کیا جائے اور فلاں وظیفہ یوں کیا جائے لیکن وہ رحمۃ للعالمین بن کے آیا تھا اُس نے دنیا سے کوئی بات راز میں نہیں رکھی.سارے عالم پر سب نسخے ظاہر کر دیئے.قرآن کریم نے بھی ظاہر کئے اور آپ ﷺ کے اسوہ حسنہ نے بھی ظاہر کر دیئے اس لئے وہ برکتیں نہ صرف عام ہو ئیں بلکہ لافانی بن گئیں.لافانی بن جانا چاہئے تھا.لیکن اس کے باجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعائیں آنحضرت ﷺ کی ہی دعا ئیں تھیں دوسرے اس تک نہیں پہنچ سکے نہ آئندہ پہنچ سکتے ہیں.علم صرف کافی نہیں، اُس علم سے استفادہ ایک الگ مضمون ہے.بعضوں کو ایک حد تک استفادہ کی توفیق ملتی ہے، بعضوں کو اس سے آگے بڑھنے کی توفیق مل جاتی ہے.تو کیسے ممکن ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جدائی کے بعد اچانک آپ کی دعاؤں کا فقدان ان معنوں میں محسوس نہ ہوا ہو کہ ہر ضرورت مند جس وقت ضرورت پیش آتی ہے پہنچ جاتا ہے کہ جی اس بات کی دعا کر دیں، اس بات کی دعا کر دیں.اس بات کی دعا کر دیں.نماز کے وقت پہنچ رہے ہیں کبھی نماز کے بعد اٹھ کر یہ عرض کر دیا یا رسول اللہ ! اس چیز کی ضرورت پیش آگئی ہے دعا کر دیں، وہیں ہاتھ اٹھائے دعا کر دی اور بعض دفعہ ایسے حیرت انگیز طور پر وہ دعا قبول ہوتی تھی کہ دیکھنے والے حیران رہ جایا کرتے تھے.بارش نہیں ہو رہی، خشک سالی ہے ایک زمیندار بیچارے کی چھوٹی سی کھیتی خراب ہو رہی ہے، وہ پہنچتا ہے یا رسول اللہ دعا کریں بہت بُرا حال ہو گیا ہے، جانور پیا سے مر رہے ہیں، کھیتیاں برباد ہو رہی ہیں.آپ نے دعا کے لئے ہاتھ اٹھایا تو دعاختم نہیں ہوئی تھی کہ وہ آسمان جس پر بادلوں کا نشان تک نہیں تھا گھنگھور گھٹاؤں سے بھر گیا اور اتنی بارش برسی اتنی بارش برسی کہ وادیاں جل تھل

Page 341

خطبات طاہر جلد ۶ 337 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء ہوگئیں ، سارے علاقے سیراب ہو گئے.یہاں تک کہ اُسی دعا کی درخواست کرنے والے کو یہ عرض کرنا پڑی یا رسول اللہ بہت ہو گیا بس کریں.اب دعا یہ کریں کہ اے خدا بس اب اس رحمت کو عارضی طور پر بند کر دے.( بخاری کتاب الجمعہ حدیث نمبر: ۹۳۳).ایسے ایسے عجیب نظارے جن آنکھوں نے دیکھے ہوں کیسے ممکن ہے کہ ایسی بابرکت ہستی کی جدائی کے بعد وہ اس کی بات پر ہی صرف اطمینان پکڑ جائیں کہ وہ برکتیں جاری رہنے والی برکتیں ہیں.دعا کی برکتیں آپ نے سکھائیں جس طرح بچے کو پیار سے ماں سکھاتی ہے اُس سے بھی زیادہ پیار اور توجہ سے آپ ﷺ نے تربیت کی اور بڑے دعا گو پیچھے چھوڑے لیکن وہ جو خود تھے وہ تو پیدا نہیں ہو سکا.اس لئے وہ خلاء ضرور محسوس ہوا اور دیر تک یہ محسوس ہوتارہا لیکن اس کے باجود یہ کہنا بھی نا جائز ہے کہ آپ کی دعاؤں کی ساری برکتیں اُٹھ گئیں.آج بھی امت محمدیہ پر آپ کی دعاؤں کی برکتیں برس رہی ہیں.دیکھنے والے جانتے ہیں اور پہچانتے ہیں کہ ہزار خطروں کے ایسے لمحے آئے جن سے امت محمد یہ بیچ کر گزرگئی اور ہلاک ہونے سے بچالی گئی جو خالصہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی جاری برکات کے نتیجہ میں تھا.پس مایوسی کی پھر بھی کوئی وجہ نہیں اور وہ دعا گو پیدا ہوئے جن کا زمانہ کے لحاظ سے تیرہ سو سال کا فرق تھا لیکن حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں ہی کی برکتوں نے ایسے دعا گو پیدا کر دیئے جنہوں نے پرانی دعاؤں کی یاد میں زندہ کر دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں کپورتھلہ کے دوصحابہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور جب جدا ہونے لگے تو ان میں سے ایک نے ہنشی اروڑے خاں صاحب نے اپنے خاص پیار کے انداز میں، بے تکلفی کے انداز میں یہ درخواست کی کہ بہت گرمی ہو گئی ہے ہم نے واپس جانا ہے اور موسم بڑا سخت ہے حضور دعا کریں کہ ایسی بارش بر سے کہ اوپر سے بھی بارش ہو اور نیچے سے بھی بارش، بارش ہی بارش ہو جائے اب یہ محاروہ ہے اوپر سے بھی بارش نیچے سے بھی بارش اور منشی ظفر احمد صاحب بڑے ذہین اور فطین انسان تھے.انہوں نے مسکرا کر عرض کی حضور میرے لئے اوپر کی بارش کی دعا کریں نیچے کی بارش کی نہ کریں.وہ بتاتے ہیں کہ ہم یکہ پر روانہ ہوئے اور قادیان سے بٹالہ تک کا سفر ابھی آدھا طے نہیں کیا تھا کہ اس قدر گہری کالی گھٹا اٹھی ہے اور اس زور سے برسی ہے کہ حیران رہ گئے ہم ، کوئی آثار نہیں تھے.لیکن جل تھل بھر گئے یہاں تک کہ بٹالہ کے پاس یا اس سے کچھ آگے ایک پل آیا کرتا تھا جہاں سڑک میں ایک بڑا نمایاں بمپ بن گیا تھا.یعنی

Page 342

خطبات طاہر جلد ۶ 338 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء ٹھوکر اونچی سی کو ہان جیسا بن گیا تھا.جب اس کو ہان پر تانگہ پہنچا تو اتنی زور سے جھٹکا لگا کہ منشی اروڑے خاں صاحب اُچھل کر کیچڑ میں جا گرے ان کے نیچے بھی بارش تھی اور او پر بھی بارش تھی اور منشی ظفر احمد صاحب کو اللہ تعالی نے بچا لیا ان کو صرف اوپر کی بارش ملی نیچے کی بارش نہیں ملی.( اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ ۱۶۲ ) وہ خدا جو غیر معمولی شان کے ساتھ دعاؤں کی قبولیت کے نشان دکھایا کرتا تھا محمد مصطفی اصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعاؤں کی ہی برکت سے ایسی دعائیں کرنے والے پیدا ہو گئے کہ خدا نے دوبارہ ویسے ہی نشان دکھانا شروع کر دیئے.اس لئے دعاؤں کی برکتوں سے مایوس ہونا یہ ہے جس کے خلاف میں اس دن آپ کو نصیحت کی تھی کہ ہرگز ایسی مایوسی کا شکار نہ ہوں.آپ دعا گو ہنیں آپ کو دعاؤں کی برکتیں ملیں گی اور آپ خود دعا گو بن جائیں گے لیکن ایک دعا گو بزرگ کو اُس کی رحمتوں اُس کی شفقتوں ، اس کے احسان کے نتیجہ میں پیار اور محبت سے یا درکھنا یہ الگ مضمون ہے اور اسکی کمی محسوس کرنا یہ ایک الگ مضمون ہے.اس سے وفا کرنا اور خود جس سے دعائیں لیتے رہے اس کے لئے دعائیں کرنا یہ ایک الگ مضمون ہے جو پہلے مضمون کے منافی نہیں.اس مضمون کو سمجھ کر اس کو اپنے طور پر یا درکھیں اور اس پر بھی عمل کریں.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر ( آپ کے وصال کے جلدی بعد ) جو درد ناک نظمیں کہیں ان میں سے ایک نظم کے چند شعر میں آپ کو سناتا ہوں اس سے اُس وقت آپ کے دل کی کیفیت محسوس ہوتی ہے کہ کیا تھی.فرماتے ہیں: وه نکات معرفت بتلائے کون جام وصل دلربا پلوائے کون ڈھونڈتی جلوہ جاناں کو آنکھ ہے چاند سا چہرہ ہمیں دکھلائے کون کون دے دل کو تسلی ہر گھڑی کون کون میرے واسطے زاری کرے درگه ربی میں میرا جائے کون

Page 343

خطبات طاہر جلد ۶ 339 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء کس کی تقریروں سے اب دل شاد ہو اپنی تحریروں سے اب پھڑ کائے کون ( کلام محمود صفحه: ۵۷) یہ جو درد کی یہ آواز بلند کر رہا تھا وہ خود سب باتوں میں وہی کچھ ہو گیا.وہ خود وہ بن گیا جو معرفت کے نکات بتلایا کرتا تھا ، وہ خود وہ ہو گیا جو جام وصل دلر با پلوانے لگا، وہ خود وہ ہو گیا جیسے بعد میں جس کے جلوہ جاناں کو ترستی آنکھوں نے ڈھونڈا اور اس کو پا نہ سکیں.وہ آڑے وقتوں میں آڑے آنے والا ہو گیا.پس برکتوں کے جانے سے اس کے خلاء کا احساس بھی ایک زندہ حقیقت ہے اور برکتوں کے دائمی ہونے کا مضمون یہی ایک زندہ حقیقت ہے.اس مضمون کو اس طرح سمجھیں تو آپ کے تصورات میں کوئی توازن کا بگاڑ پیدا نہیں ہوگا.خاص طور پر رمضان مبارک میں مجھے اس مضمون کو نمایاں طور پر آپ کے سامنے رکھنے کی اس لئے ضرورت پیش آئی کہ رمضان مبارک سے بھی ہم عموماً یہی سلوک کیا کرتے ہیں جو جانے والے بزرگوں سے کرتے ہیں یعنی بعض لوگ.ان کی یاد تو رکھتے ہیں دل میں لیکن ان کی برکتوں کو اپنانے کی کوشش نہیں کیا کرتے نوحے کا پہلو تو زندہ رہتا ہے اور زندہ رہنے والی خوبیوں کا پہلو مر جاتا ہے.برکتوں سے محروم تو ہو جاتے ہیں لیکن ہمیشہ استفادہ کرنے کے لئے جو خدا نے ان کو جو صلاحیت بخشی تھی اس صلاحیت کو بروئے کار نہیں لاتے.رمضان مبارک بھی آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ رمضان آیا اور اپنی ساری برکتیں لے کر چلا گیا.لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جن کے لئے رمضان برکتیں چھوڑ کر جاتا ہے اور ہر رمضان برکتیں چھوڑ کر جاتا ہے.اسی لئے میں نے کہا تھا کہ اسی طرح خدا تعالیٰ کے بعض بندے ہیں جو خاص خوبیاں لے کر آتے ہیں وہ ہمیشہ برکتوں میں اضافہ کر کے جایا کرتے ہیں.ایک پہلو سے خلا بھی محسوس ہو گا لیکن دوسرے پہلو سے یہ واقعہ ہے کہ کچھ نہ کچھ مزید باتیں چھوڑ جاتے ہیں، سنت حسنہ میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں.اسی طرح رمضان کا مبارک مہینہ ہے ہر سال یہ لوٹ کر اس لئے آتا ہے تا کہ کچھ برکتیں ہمیشہ کے لئے پیچھے چھوڑ جائے.ابھی آئندہ جمعہ کو جمعتہ الوداع کہا جائے گا.کم از کم اس علاقے میں جہاں تقریباً 29 کے روز قطعی ہو چکے ہیں یعنی نظر آنے لگ گیا ہے سائنسی شواہد سے کہ 29 کے روزے ہیں وہاں تو یہ جمعہ

Page 344

خطبات طاہر جلد ۶ 340 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۸۷ء وادع کا جمعہ ہے.جمعہ کے دن جو خطبہ ہوگا وہ تو خدا تعالیٰ جو سکھائے گا مضمون وہ بیان کروں گا لیکن اس وقت میں آپ کو رمضان کے تقریباً وسط میں اس بات کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ رمضان کی برکتوں کو اپنی ذات میں محفوظ کرنے کی کوشش کریں.ان سے چمٹ جائیں اور یہ فیصلہ کر یں باشعور طور پر اور دیکھیں کہ رمضان سے پہلے اور رمضان کے دوران آپ کی زندگی میں کیا کیا فرق پڑا ہے.ہر شخص اپنا جائزہ لے گا تو اسے محسوس ہوگا کہ رمضان سے پہلے کی زندگی میں ان خوبیوں سے وہ عاری تھا جو خالصہ رمضان کی برکت سے اسے نصیب ہوئی ہیں.ان برائیوں میں مبتلا تھا جو خالصۂ رمضان کی برکت سے اس سے جدا ہوئی ہیں.پس اس قسم کا باشعور تجزیہ کر کے اپنے نفس کا اور رمضان کے شیشے میں اپنی نئی صورت کو دیکھ کر یہ کوشش کرے کہ ان نئے خوبصورت نقوش کو میں نے اب دوام بخشا ہے.اور ان بد نقوش کو جن سے رمضان کی برکت سے چھٹکارا ملا ہے.ان کو دوبارہ اپنے چہرے کو داغدار کرنے کی اجازت نہیں دینی.یہ ایک سائنسی طریق ہوگا اپنے حالات کا جائزہ لینے کا اور رمضان کی برکتوں کو استقلال بخشا کا یہ کوشش کریں تو آپ حیران ہوں گے دیکھ کر کہ Conscious ؟ بالا رادہ جب آپ کوشش کریں گے تو جو بظاہر آسان مضمون ہے وہ مشکل ہوتا دکھائی دے گا.چھوٹی چھوٹی بعض خوبیاں بھی جو رمضان کی وجہ سے آپ میں داخل ہوگئی ہیں ان کو دوام بخشا آپ کو مشکل نظر آئے گا.نمازوں کی کیفیت جو اس وقت رمضان کے دنوں میں ہے لوگوں کی وہ نہیں ہے جو اس سے پہلے تھی اور لمبا تجربہ بتا رہا ہے کہ رمضان کے بعد وہ نہیں رہے گی جو رمضان میں ہے اس لئے اگر بالا رادہ کوشش نہ کی جائے تو خطرہ ہے کہ رمضان جتنی برکتیں لے کر آیا ہے اتنی ہی برکتیں لے کر چلا بھی جائے گا.اس لئے Consciously با شعور طور پر حالات کا تجزیہ کریں، موازنہ کریں رمضان سے پہلے اور رمضان کے بیچ کے حالات کا اور پھر کوشش کریں کہ رمضان کے بیچ کے حالات آپ کے لئے استقلال اختیار کر لیں.اس کے باوجود جب آپ اگلے رمضان میں داخل ہوں گے تو رمضان نئی برکتیں لے کر آئے گا اور نئی خوبیاں آپ کے لئے لے کے آئے گا.نئی برائیوں سے آپ کے لئے نجات کا پیغام لائے گا اور اس طرح ایک مسلسل ترقی کی صورت پیدا ہو جائے گی جولا متناہی ہے.ربوہ جانے والوں نے واپسی پر مجھے جو رپورٹ دی اس لحاظ سے میری طبیعت بہت خوش

Page 345

خطبات طاہر جلد ۶ 341 خطبہ جمعہ ۱۵ رمئی ۱۹۸۷ء ہوئی کہ باوجود اس کے کہ بعض معاملات میں اہل ربوہ کے متعلق بعض کمزوریوں کی اطلاع بھی ملتی رہی اور طبیعت بڑی فکرمند تھی لیکن نماز کے متعلق مجھے بتانے والوں نے بتایا کہ مسجد میں دیکھ کر دل خوش ہو گیا کہ بھری ہوئی تھیں.لیکن مجھے علم ہے کہ ابھی بھی ایک بڑی تعداد وہاں ایسی ہوگی بڑی تعداد سے مراد یہ ہے کہ خاصی تعداد ایسی ہوگی جو اگر مسجدوں میں جانے کی کوشش کرتی تو مسجدوں میں جگہ نہ ملتی.دیکھنے والا یہ نہ کہتا کہ مسجد میں بھرتی ہوئی تھیں وہ کہتا کہ مسجدوں کے باہر کے صحن بھی بھرے ہوئے تھے صحنوں سے باہر بھی لوگ گلیوں میں نماز پڑھنے والے تھے کیونکہ کسی شہر کی مسجدیں فی الحقیقت اس شہر کی آبادی کیلئے کافی نہیں ہوا کرتیں.کسی شہر کا آپ جائزہ لے لیں سوائے اس کے کہ پرانے کھنڈر شہروں کی بات چل رہی ہو جہاں مسجدیں تو باقی ہیں اور نمازی کوئی نہیں ہے.بالعموم یہی دیکھا گیا ہے کہ مسجدوں کی گنجائش اہل شہر کی آبادی سے کم ہوا کرتی ہے اور رمضان مبارک میں اگر سارے نماز پڑھنے لگیں تو مسجدوں سے نمازیوں کی تعدادا چھل کر کناروں سے باہر نکل کر دور دور تک پھیلی ہوئی دکھائے دے.اگر یہ نہیں نظر آتا تو لازما کچھ لوگ ایسے باقی رہ گئے ہیں جنہوں نے رمضان کے باوجود بھی مسجدوں کی طرف رخ نہیں کیا.ان کی طرف توجہ دینے کے لئے ایک الگ مہم کی ضرورت ہے.مگر اس وقت میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جو گھر میں آگئے ہیں خدا کے جن کو رمضان لے آیا ہے کشاں کشاں وہ اپنے لئے یہ کوشش تو کریں کہ اب اس تعلق کو دائمی بنالیں.اور یہ کوشش دعا کے بغیر کامیاب نہیں ہو سکتی اور دعا بھی وہ جو انسان اپنے لئے کرے.اگر اپنے لئے کوئی دعا نہیں کرتا نیکی کی تو دوسرے کی دعا اس کے لئے فائدہ نہیں پہنچایا کرتی.پس ساری جماعت من حیث الجماعت ساری جماعت کے لئے دعا کرے اور ہر شخص اپنے لئے یہ دعا کرے اور دعا کے لئے اس سے بہتر اور کونسا وقت ہے کہ ہم عین رمضان کے وسط سے منجدھار میں سے گزر رہے ہیں اور دن بدن اُس دور میں داخل ہونے والے ہیں، قریب آرہے ہیں جو خاص دعاؤں کی مقبولیت کا زمانہ ہے.اس لئے اس بات کی طرف خصوصیت سے توجہ کریں کہ خدا ہماری نیکیوں کو دوام بخش دے اور ہم سے الگ ہونے والی کمزور یوں کو اجازت نہ دے کہ دوبارہ ہم پر قبضہ کر لیں.درد دل سے اپنے لئے اپنی اولاد کے لئے اپنے گردو پیش کے لئے دعا کریں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک باشعور انسان کے طور پر خود اپنا نفسیاتی تجزیہ کریں.بجائے اس

Page 346

خطبات طاہر جلد ۶ 342 خطبه جمعه ۱۵ارمئی ۱۹۸۷ء کے کہ لوگ آئیں اور انگلی اٹھا ئیں آپ کے نفس کی انگلی ہر دکھتے ہوئے مقام پر پڑ کر بتا رہی ہو کہ تمہارا نیکی کے لحاظ سے یہ دکھتا ہوا مقام ہے اور یہ دُکھتا ہوا مقام ہے.اس مقام کی فکر کرو.اور اس مقام کی فکر کرو ہم اس تحسین کے عمل میں داخل ہو رہے ہیں اور انشاء اللہ اس عمل میں ہمیشہ داخل رہیں گے اور آگے بڑھتے رہیں گے.دشمن کو ایذارسانی اور گالیاں اور نا پاک کلام کے چسکے پڑ رہے ہیں وہ رمضان میں بھی باز نہیں آرہا اسی طرح آگے بڑھتا چلا جارہا ہے تو آپ کا کیا نقصان ہے؟ اس کا اپنا ایک لائحہ عمل ہے جو اسے پسند ہے،اسے اختیار کرنے دیں اُس کو اس راہ پر جانے دیں.اتنی غیر معمولی تکلیف محسوس نہ کریں ان گالیوں کی گویا آپ کا سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا.بے چین ہو گئے ، بے قرار ہو گئے کہ اب کیا ہو گا.ان کو گالیاں دینے دیں.گند بولنے دیں اُنہوں نے اپنے لئے لذتوں کی ایک راہ تلاش کر لی ہے.آپ نے اپنے لئے لذتوں کی ایک راہ تلاش کی ہے اور آپ جانتے ہیں کہ آپ کی لذتیں بہت اعلیٰ درجہ کی ہیں، نیکیوں اور پاکیزگیوں اور روحانیت کی اعلیٰ لذات ہیں ان کے مقابلہ میں آپ ان لذتوں کو کس طرح قبول کر سکتے ہیں اس کا تصور بھی آپ کے لئے بھیانک ہو جانا چاہئے.اس لئے آپ بہتر ہیں.بظا ہر دشمن غالب ہے لیکن خدا کی تقدیر نے فیصلہ کیا ہے کہ نیکیوں کو ضرور بدیوں پر غالب کر کے دکھائے گا.پس اپنی نیکیوں میں ترقی کرتے چلے جائیں اور اپنی تقدیر کو خدا کے حوالے کر دیں.اُس پاک ذات کے حوالے آپ کی تقدیر ہوگی تو کبھی اُس میں کوئی خرابی پیدا نہیں ہوگی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج جمعہ کے معا بعد نو مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.سب سے پہلے بہت ہی درد ناک حادثاتی موت کی اطلاع دیتا ہوں سلمان الحق خاں صاحب کی جو احسان الحق خاں صاحب ایڈووکیٹ کوئٹہ کے نئے منتخب امیر ہیں ان کے بیٹے تھے خود بھی قائد خدام الاحمدیہ تھے.بہت ہی مخلص فدائی مشکل وقت میں بڑی بہادری کے ساتھ جماعت کی خدمت پر چوکس رہنے والے تھے.مکرم میاں محمود احمد صاحب جو میاں بشیر احمد صاحب ایم.اے مرحوم کے داماد تھے اُن کے بیٹے میاں مسعود احمد صاحب دونوں نوجوان ( سلمان الحق ، مسعود احمد ) ایک پکنک پر گئے ہوئے تھے

Page 347

خطبات طاہر جلد ۶ 343 خطبه جمعه ۵ ارمئی ۱۹۸۷ء وہاں ان دونوں میں ایک مجھے یاد نہیں کون تھا اس کو خطرہ لاحق ہوا کہ وہ ڈوبنے لگا تو دوسرے نے بھی چھلانگ لگا کر بچانے کو کوشش کی اور دونوں ڈوب گئے.بالکل نو جوانی کی وفات ہے جس سے والدین پر صدمہ کا بہت ہی گہرا اثر ہے.جہاں اُن کے لئے دعا مغفرت ہوگی وہاں ان کے والدین کے لئے خصوصیت کے ساتھ صبر جمیل کی دعا بھی کریں.اللہ تعالی اپنے فضل سے اس کمی کو باقی نوجوانوں کے اخلاص بڑھا کر پورا فرمائے.مکرمہ نسیم اختر صاحبہ اہلیہ ظہور الدین احمد صاحب صدر جماعت منگلا ڈیم ، مرحومہ ہمارے مسعود احمد صاحب جہلمی واقف زندگی جو مبلغ انچارج سوئٹزر لینڈ ہیں ان کی نسبتی ہمشیرہ تھیں.مکرم غلام احمد صاحب بٹ ، مکرم محمد سلیم بٹ جرمنی کے والد تھے.وہ لکھتے ہیں کہ خاندان میں اکیلے احمدی تھے یعنی آبائی خاندان میں ، بچوں میں تو آگے خدا کے فضل سے احمدی ہیں.مکرم احسان الہی صاحب جنجوعہ ایڈووکیٹ معروف شخص ہیں.اہل ربوہ ان کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں.چنیوٹ میں ایڈووکیٹ تھے اور دوستوں کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے.مکرم ولی الرحمن صاحب سنوری کا رکن حدیقہ المبشرین کے خسر تھے.شریفاں بیگم صاحبہ زوجہ حکیم محمد کامل صاحب مرحوم سکنہ جھنگ کے متعلق بھی محمد یعقوب صاحب نے درخواست کی ہے کیونکہ یہ ان کی ہمشیرہ تھیں.اسی طرح طیبہ حبیب صاحبہ نے اپنے چا محمد یونس صاحب کی نماز جنازہ کی درخواست کی ہے.طیبہ حبیب صاحبہ مولوی روشن دین صاحب مبلغ سلسلہ کی بہو ہیں.ماڈل ٹاؤن فیصل آباد سے اطلاع ملی ہے کہ عبد الغفور صاحب جو شیخ رحمت اللہ صاحب صحابی کے فرزند تھے یہ حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے ہیں.ان سب کی نماز جنازہ غائب جمعہ کے معا بعد ہوگی انشاء اللہ.

Page 348

Page 349

خطبات طاہر جلد ۶ 345 خطبہ جمعہ ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء عالم اسلام کے لئے دعا، جھوٹ کے خلاف جہاد، سچائی کی عادت اور لین دین کے معاملات درست کرنے کی تلقین خطبه جمعه فرموده ۲۲ مئی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کا جمعہ تمام عالم اسلام میں خاص شان اور اہتمام کے ساتھ منایا جارہا ہے اور حسن اتفاق سے اس جمعہ کو دنیا کے اکثر ممالک میں جمعتہ الوداع قرار دیا جا چکا ہے.ورنہ اس سے قبل اختلافات ہو جایا کرتے تھے اور بہت سے علماء بعض دوسرے علماء سے اس بات پر متفق نہیں ہوتے تھے کہ عید کب منائی جائے گی.خصوصا جب تک عید کا چاند قریب نہ آجائے اس وقت تک بعض علماء اظہارِ رائے سے بھی گریز کرتے تھے.اس لئے کسی جمعہ کو جمعتہ الوداع قرار دینا بعید از قیاس تھا لیکن یہ جمعہ اس لحاظ سے ایک امتیازی جمعہ بن جاتا ہے کہ ابھی مہینے کا فیصلہ تو اپنی پرانی طرز کے مطابق نہیں کر سکتے لیکن جمعہ کو جمعتہ الوداع قرار دے چکے ہیں.بہر حال دنیا والوں کے جمعہ کو جمعۃ الوداع قرار دینے سے تو اس جمعہ کی حقیقت اور اسکی کیفیت پر کوئی اثر نہیں پڑ سکتا.یہ جمعہ الجمعۃ الوداع ہے یا نہیں اس سے قطع نظر ایک بات بہر حال یقیناً اس جمعہ کے متعلق کہی جاسکتی ہے کہ جتنی مساجد اس جمعہ پر بھری ہیں اتنی مساجد اس سارے سال میں نہ پہلے بھری ہیں نہ بقیہ سال کے حصے میں کبھی بھریں گی اور اس وقت ساری دنیا میں جہاں جہاں بھی مساجد موجود ہیں وہ کثرت کے ساتھ بھر چکی ہیں بلکہ لوگوں کو سمانہیں سکتیں اس لئے باہر گلیوں میں

Page 350

خطبات طاہر جلد ۶ 346 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء یا صحنوں میں یا شامیانوں کے نیچے یا کھلی فضا میں جہاں جہاں کسی کو جگہ ملی ہے وہ آج عبادت کے لئے اکٹھا ہوا ہے.تو عبادت کی کثرت بھی اپنی ذات میں ایک برکت پیدا کرتی ہے.کثرت ان معنوں میں کہ عبادت کرنے والوں کی کثرت ہو جائے اور کثرت کے ساتھ ایک قوت پیدا ہوتی ہے اس لئے اگر سارا عالم اسلام اس جمعہ کے دن ، خواہ ان میں سے بہت سے ایک ہی دن اکٹھے ہونے والے ہوں اکٹھا ہو جائے اور تقویٰ کی دعا مانگے ، عالم اسلام کے لئے اچھے نصیبوں کی دعا مانگے ، بدیوں سے پر ہیز کی دعا مانگے تو مجھے یقین ہے کہ اس جمعہ کی دعائیں خصوصیت کے ساتھ مقبول ہوں گی اور عالم اسلام کے لئے اللہ تعالیٰ کے طرف سے نئی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں گی، کئی مصائب ان کے دور ہوں گے.لیکن بد قسمتی سے آج کل کے زمانے میں نیکی کے معاملے میں بھی علماء کا اتفاق نہیں رہا اور ایسے مقدس موقع پر بھی بعض دفعہ خدا تعالیٰ سے اتحاد اور نیکی کی توفیق مانگنے کی بجائے افتراق کی تعلیم دینے والے موجود ہیں.ایک دوسرے کے خلاف جذبات کو ابھارنے والے موجود ہیں اور ایسے موقع پر جتنا بڑا اجتماع ہو اتنا ہی بڑا نحوست کا موجب بن جاتا ہے.خدا سے برکتیں حاصل کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے غضب کو مانگے والا بن جاتا ہے.اس لئے جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہمیں اس خصوصی جمعہ کے دن زیادہ تر توجہ ایسی دعاؤں کی طرف دینی چاہئے جن کا سارے عالم اسلام سے تعلق ہو اور وقتی طور پر اپنے دکھ بھول کر من حیث الجماعت اسلام کے دکھ جو ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر ان کے لئے خصوصیت سے دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ یہ تکلیفیں عالم اسلام سے ٹال دے.حقیقت یہ ہے کہ ہم ہی اسلام ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن جب میں عالم اسلام کہتا ہوں تو مرادصرف جماعت احمد یہ نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ جو بھی کسی رنگ میں بھی اسلام کی طرف منسوب ہورہا ہے، جو بھی دعوی کرتا ہے کہ اس کا توحید باری تعالیٰ سے تعلق ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کے دعاوی پر ایمان لاتا ہے ہر وہ شخص ایک وسیع تر تعریف کی رُو سے عالم اسلام میں داخل ہو جاتا ہے اور جب میں کہتا ہوں عالم اسلام کے دکھ تو سارے عالم اسلام کے دکھ مراد ہیں ہر اُس شخص کے دکھ مراد ہیں جو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والا ہے.ان میں سب سے بڑے دکھ تو روحانی دکھ ہیں.اس قدر تیزی کے ساتھ اسلام کی طرف منسوب ہونے والوں کا معاشرہ ظلم اور بدی کی طرف

Page 351

خطبات طاہر جلد ۶ 347 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء دوڑتا چلا جارہا ہے، اس تیزی کے ساتھ انحطاط پذیر ہے کہ جولوگ احساس رکھتے ہیں وہ بارہا اس غم میں کڑھتے ہیں، خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں اور بہت سی صورتوں میں جہاں تک دنیاوی اصلاحی کوششوں کا تعلق ہے ان کی پیش نہیں جاتی.بہت زیادہ مہیب حالات ہیں اس سے بہت زیادہ جو پچھلے سال آپ نے دیکھے تھے.دن بدن کیفیت بگڑتی چلی جارہی ہے.ایک طرف بظاہر حکومتوں کی شوکتوں سے ایک اجماع کی تصویر بھی کھیچ رہی ہے.بڑے بڑے منصوبے باندھے جا رہے ہیں عالم اسلام کو اکٹھا کرنے کے، ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے ان کی سیاسی وحدت کو جو پہلے منتشر ہو چکی تھی پھر ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے اور جہاں تک اسلام کی ظاہری شوکت کا تعلق ہے اسے بحال کرنے کے لئے بہت بڑے وسیع منصوبے ہیں جو بڑی بڑی حکومتیں بنارہی ہیں اور اس میں زیادہ دلچسپی لے رہیں ہیں لیکن جہاں تک ان کی کنہ کا تعلق ہے، ان کی حقیقت کا تعلق ہے ان میں دنیا داری کے لئے ، وجاہتوں کے لئے کوششیں، غیر قوموں میں نفوذ کے لئے کوششیں اور بعض حکومتوں کے اپنے اثر ونفوذ کو بڑھانے کے لئے کوششیں یہی اس تمام اجتماعی جد و جہد کا ماحصل ہے.یہی خلاصہ ہے اس تحریک احیائے نو کا.عملاً جب تک اسلام مسلمان افراد کے رگ و پے میں پیوستہ نہ ہو جائے ، ان کے خون میں داخل ہو کر ان میں دوڑنا نہ شروع کر دے اس وقت تک فی الحقیقت اسلام کے لئے کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور اسلام کی شوکت کا راز مسلمانوں کے تقویٰ میں ہے، اس طرف توجہ نہیں ہے.چنانچہ ایسی حکومتیں آپ دیکھیں گے جنہوں نے اپنے نام اسلامی حکومتیں قرار دے دیئے جنہوں نے شریعت کو نافذ کرنے کی کوششیں شروع کر دیں یہ الگ بات ہے کہ ان کی شریعت کا تصور کس حد تک باقی علماء نزد یک اتفاق کے لائق ہے یا نہیں ہے لیکن بہر حال ایک نیکی کے نام پر ایک کوشش دکھائی دے رہی ہے اور خود ایسے ممالک ہی میں جہاں اسلام کا چرچا بڑھ رہا ہے یہی حکومت والے ساتھ یہ اعلان کرنے پر بھی مجبور ہورہے ہیں کہ دن بدن بددیانتی بڑھ رہی ہے ، دن بدن ظلم بڑھ رہا ہے، دن بدن سفا کی زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے، دن بدن اخلاقی قدریں گر رہی ہیں.جو بد رسوم پہلے نہیں تھیں غریب ممالک میں وہ ان غریب ممالک میں داخل ہو رہی ہیں.پہلے یہ سمجھا جاتا تھا کہ Drug Adiction یہ بڑے بڑے امیر ممالک کی عیاشی ہے یعنی ایسے افیم قسم کی دوائیں جو

Page 352

خطبات طاہر جلد ۶ 348 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء نشہ تو نہیں پیدا کرتیں شراب کے رنگ میں لیکن انسانی ذہنی صلاحیتوں کو بالکل تباہ و برباد کر کے رکھ دیتی ہیں.اسی دنیا میں رہتے ہوئے ابتداء میں وہ یہ تصور پیدا کرتی ہیں کہ آپ اس دنیا سے باہر بلند ہو گئے ہیں اور ایک ایسی دلکش فضا میں پہنچ گئے ہیں جہاں لذتیں ہی لذتیں ہیں کوئی تکلیف نہیں ہے.اس قسم کے نفس کے دھو کے یہ دوائیاں پیدا کر کے اس کی عادت ڈال دیتی ہیں اور اس کے نتیجے میں چونکہ یہ دوا ئیں ابتداء میں سستی ملتی ہیں اور عمد جو دوائیں پھیلانے والے لوگ ہیں وہ شروع میں ان کوستا رکھتے ہیں لیکن رفتہ رفتہ ان کو مہنگا کرتے چلے جاتے ہیں اور جوں جوں حکومتیں ان کے خلاف ،ان تحریکات کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں ویسے ہی ایک اقتصادی قانون کے مطابق ان کی قیمتیں بڑھتی چلی جاتی ہیں.تو یہ جب امیر ممالک میں بھی داخل ہوتی ہے بُرائی تو اس کے نتیجے میں جرائم پھیل جاتے ہیں کثرت سے کیونکہ امیر ممالک میں بھی ان ڈرگز (Drugs) وغیرہ قسم کی چیزوں کو خریدنے کے لئے عام طور پر لوگوں میں استطاعت نہیں ہوتی خصوصاً نو جوان طبقے میں کیونکہ مالی لحاظ سے ان کے اندر یہ استطاعت نہیں ہوتی کہ جتنی بھی ڈرگ کی قیمت بڑھتی چلی جائے وہ اپنی عادت کے مطابق وہ حاصل کرتے چلے جائیں.چنانچہ چوری، ظلم ، سفا کی ، گھروں کے تالے توڑنا یا ویسے اُچکوں کے طور پر بازاروں میں پھر ناکسی غریب عورت کو پکڑ لیا کسی بچے پر ظلم کر لیا اس سے کچھ چھین لیا.یہ رجحانات جو اکثر مغربی ممالک میں آپ کو مل رہے ہیں اس کے پیچھے ڈرگ کی بدی ہے اور غریب ممالک میں آپ اندازہ کریں اگر ڈرگز کی عادتیں پھیل جائیں تو جب ان کی قیمتیں بڑھیں گی لازماً اس وقت کس قدر پاگل ہو کر یہ لوگ جرائم میں مبتلاؤں گے.نہایت ہی خوفناک حالات پیدا ہونے والے ہیں قریب کے زمانہ میں بہت سے ایسے اسلامی ممالک میں جہاں اراد تا بعض ظالموں نے ڈرگز کو، ڈرگز کی عادت کو ایک سکیم کے مطابق عوام الناس میں جاری کیا ہے اور بعض ممالک میں تو اس کثرت سے یہ پھیل چکی ہے کہ اگر حکومت کی تمام تر کوششیں اس طرف مبذول ہو جائیں تب بھی اب وہ اس کو جڑوں سے اکھیڑنے کے قابل نہیں رہے.مافیاز (Mafias) بن چکے ہیں جن کے قبضہ قدرت میں چلا گیا ہے سارے کا سارا ملک.اس لئے یہ تو پہلا دور ہے اس سے جو صلاحیتیں تباہ ہوں گی ، جو روحانی قدریں ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں گی ، جو بداخلاقی اس کے نتیجے میں ظاہر ہوگی وہ اپنی جگہ اور دوسروں پر جو ظلم بڑھیں گے وہ اپنی جگہ.ایسے ملک اقتصادی لحاظ سے بھی پھر زندہ رہنے

Page 353

خطبات طاہر جلد ۶ 349 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء کے لائق نہیں رہتے سب کچھ ان کا تباہ ہو جاتا ہے.بہت بڑے بڑے ممالک میں چونکہ اقتصادی معیار بہت بلند ہوتا ہے اس لئے ان کی اقتصادیات پر گہرا اثر پڑتے پڑتے وقت لگتا ہے لیکن جو غریب ممالک ہیں ان پر تو بد اثرات بہت تیزی سے ظاہر ہونے لگ جاتے ہیں.تو صرف اس ایک پہلو کو آپ دیکھ لیں تو عالم اسلام کے بہت بڑے حصے کو شدید خطرہ لاحق ہے اور بہت بڑا حصہ اس خطرے سے عملاً دو چار ہو چکا ہے.سفا کی اور ظلم ویسے ہی زیادہ پھیلتے چلے جا رہے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بظاہر ایک ملک اسلامی بن گیا ہے بظاہرنعرے اسلامی ہو گئے ہیں ، ان کے ریڈیو مسلمان ہو گئے ان کی ٹیلی ویژن مسلمان ہو گئیں، ان کے اخبارات مسلمان ہو گئے ، سب عنوان مسلمان ہو گئے ہیں لیکن واقعہ اگر آپ دیکھیں تو بد دیانتی اور ظلم دن بدن حدود سے تجاوز کرتے چلے جارہے ہیں.پہلے بھی یہ ظلم کی کیفیت تھی وہ اچھی نہیں تھی اور خدا کے عذاب کو بلانے والی تھی لیکن اب تو بعض جگہ اتنی خطرناک حالت ہو گئی ہے کہ بعض مثلاً پاکستان کے علاقوں سے جو مجھے خط آتے ہیں بہت ہی ہولناک ہیں.کہتے ہیں پہلے زمانے میں تو پولیس مقدمے درج کیا کرتی تھی اور یہ ڈراوا دے کر کہ ہم تمہارے خلاف یہ جھوٹا مقدمہ درج کرلیں گے ہمیں پیسے دو، پیسے بٹورہ کرتی تھی.بڑا ظلم ہے جھوٹ اور سفا کی ہے سب کچھ ہے لیکن اب ایک اور قباحت پیدا ہوگئی ہے.اب یہ کہ جس کو الزام لگا کر پکڑتے ہیں اس کو شدید Torture کرتے ہیں اور Torture کی حالت میں اُس سے فون کرواتے ہیں رشتہ داروں کو کہ اگر تم نے اس شخص کو بچانا ہے تو اتنے پیسے دے دوورنہ ہمارے ہاتھ تمہارا ایک مجرم آیا ہوا ہے اس کو ہم نہ صرف یہ کہ مقدمہ کر کے خراب کریں گے مگر مقدمے سے پہلے پہلے جو کچھ ہم سے ہو سکتا ہے ہم اس کے خلاف کریں گے اور بعض خطوں سے پتا چلتا ہے کہ قریباً نیم پاگل کر کے انہوں نے مقدمہ اس وقت دائر کیا پولیس نے جب غریب رشتہ دار پیسے نہ دے سکے، مقدمہ بھی دائر کیا لیکن اس سے پہلے Torture کر کر کے اس کو نیم پاگل بنا کے چھوڑ دیا.تو جس ملک میں ظلم اس حد تک پہنچ چکا ہو وہاں آپ کی دعائیں بھی کیا کریں گی پھر کیونکہ بعض چیزیں ایسی ہیں جن کے لئے خدا کی رحمت نازل نہیں ہوا کرتی.بعض جرم ایسے ہیں جن کے نتیجے میں آپ مغفرت کی توقع ہی چھوڑ دیتے ہیں اور مظلوم کی آہ رسا ایک ایسی آہ ہے جس کے قبول

Page 354

خطبات طاہر جلد ۶ 350 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء کرنے کی خدا نے حتمی آنحضرت ﷺ کو خبر دی ہے.وہ دعائیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ میں ضرور قبول کروں گا ان میں ایک مظلوم کی دعا ہے اور وہ دعائیں جو نا مقبول ہوں ان کے متعلق بھی خبر ہے بلکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملے جیسے مستجاب الدعوات کے متعلق بھی فرمایا کہ بعض ظالم ایسے ہیں جن کے متعلق میں تمہاری دعا بھی قبول نہیں کروں گا.آخر کیوں یہ آیت قرآن کریم میں نازل فرمائی گئی ؟ یہ ہم جیسے انسانوں کے لئے ایک نصیحت اور سبق تھا کہ بعض مظالم سے اگر تم نہیں روکو گے اپنے ساتھیوں کو، وقت پر نہی عن المنکر کا کام نہیں شروع کرو گے تو ایسے حالات ہو سکتے ہیں کہ پھر کسی کی دعا بھی اس موقع پر کام نہیں آئے گی.تو تو میں جب مظالم میں حد سے زیادہ آگے بڑھ جاتی ہیں تو خدا کا غضب مقدر ہو جاتا ہے پھر نیک سے نیک آدمی کی دعا بھی مقبول نہیں ہو سکتی.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کتنی گریہ وزاری کی تھی کیسی التجائیں کی تھیں بلکہ قرآن کریم نے فرمایا کہ جھگڑا شروع کر دیا، بحث کی کہ نہیں اس قوم کو ابھی کچھ اور مہلت ملنی چاہئے اس کو معاف کر دے لیکن خدا تعالیٰ نے ابراہیم کے ساتھ بے انتہا پیار کے باوجود جو بحث کی گئی مجرموں کی خاطر اس کو محفوظ بھی کیا، حضرت ابراہیم سے ناراض نہیں ہوا لیکن بات نہیں مانی.حضرت لوط کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا اور کتنے ہی انبیاء ہیں جن کی دعائیں ظالموں کے حق میں نا مقبول ہو گئیں.تو جماعت احمد یہ تقویٰ کے کسی بھی مقام پر ہو جو خدا تعالیٰ کی ازلی تقدیریں ہیں ان کو نہیں بدل سکتی.اس کو بدلنے کے لئے بعض وقت ہوتے ہیں اور بہت ساری صورتوں میں وہ وقت گزر چکے ہیں ہمارے ہاتھ میں نہیں رہے، پانی سر سے گزر چکا ہے.تو اتنے خطرناک مہیب حالات ہیں اگر ان کی جس ہی نہ ہو، اگر توجہ ہی نہ ہو ان کی طرف ، انسان اس غم میں نہ گھلے تو دعا مقبول ہو یا نا مقبول دعا کی طرف توجہ بھی پیدا نہیں ہوگی لیکن ایک بات جس کی طرف میں آپ کو آج خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ دعائیں نا مقبول ہو جائیں گی اور کسی قوم کے حق میں بظاہر حالات ایسے ہیں کہ اب نہیں سنی جائیں گی تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ دعائیں کی نہ جائیں.اللہ نے بار بار آنحضرت ﷺ کو یہ خبر دی کہ میں نہیں سنوں گا تمہاری یہ دعا، بعض ظالموں کے حق میں میں نہیں قبول کروں گاستر دفعہ بھی استغفار کرو گے تو میں نہیں قبول کروں گا.

Page 355

خطبات طاہر جلد ۶ 351 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء آنحضرت ﷺ نے دعا نہیں چھوڑی.فرمایا اچھا میں ستر دفعہ سے زیادہ استغفار کر لیتا ہوں، اگر مجھے پتا لگ جائے کہ یہ قبول ہو جائے گی تو اس سے بھی زیادہ دفعہ کر لیتا (بخاری کتاب الجنائز.حدیث نمبر : ۱۱۹۰) لیکن دعا ئیں نہیں چھوڑیں.دعا ئیں نا مقبول نہیں ہوتیں ان معنوں میں کہ کرنے والے کو لگ جاتی ہیں اور اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے اپنے لئے یہ دعائیں حصار بن جائیں گی.اگر وہ ظالموں کے حق میں دعائیں کریں گے کہ اے اللہ ! انہیں معاف فرما انہیں مصیبتوں سے نجات بخش تو بعض صورتوں میں تو فائدہ ہو بھی جائے گا کیونکہ ہر آدمی کی ایک جیسی حالت نہیں ہے ، ہر ایک کا ظلم مختلف معیار پر ہے مختلف مراحل میں سے قوم گزر رہی ہے اس لئے یہ کہنا بھی غلط ہے کہ بالعموم نامقبول ہو جائیں گی.بہت سے خدا کے نیک بندے ہیں جنہیں خدا کی خاطر خدا کے بندوں کی بھلائی کی خاطر بعض دعا کرنے والوں کی دعائیں بچا سکتیں ہیں لیکن جن کے حق میں نامقبول بھی ہوں ان کے متعلق بھی دعا کا فلسفہ یہ ہے کہ وہ دعائیں دعا کرنے والے کی طرف لوٹ آتی ہیں پھر اور بددعا کا بھی یہی فلسفہ ہے.انبیاء اور نیک لوگوں کے خلاف بددعائیں کرنے والے خود اپنی بددعاؤں سے ہلاک ہو جایا کرتے ہیں اور ظالموں کے لئے دعائیں کرنے والے خود انہی دعاؤں سے خود بیچتے ہیں اور ان کے مراتب بلند ہوتے ہیں خدا کا قرب پہلے سے بڑھ کر ان کو نصیب ہونے لگ جاتا ہے.پس اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو خدا کا یہ اعلان کہ میں دعا کو قبول کرنے والا ہوں فَإِنِّي قَرِيب (البقره: ۱۸۷) یہ ایک لحاظ سے اعلانِ مطلق ہے اس میں کوئی استثناء آپ نہیں دیکھتے.ہاں یہ دعا کس کے حق میں قبول ہونی ہے یہ فیصلہ خدا اپنے ہاتھ میں لیتا ہے.بد بخت کی دعا اس کے خلاف مقبول ہو جاتی ہے اور نیک بخت کی دعا اگر بد بخت کے لئے بھی کی جائے بعض دفعہ تو نیک بخت کے اپنے حق میں قبول ہوتی ہے.اس لئے دعا تو بہر حال کرنی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر ملک میں ایک حالت نہیں ہے، ہر ملک جو بد سے بدتر بھی ہو چکا ہے اس میں بھی شریف النفس لوگ موجود ہیں.بہت سے لوگ ہیں جن تک ابھی بدیاں نہیں پہنچیں.بہت سے ہیں جو کڑھ رہے ہیں، ان کے دل جل رہے ہیں وہ کچھ کر نہیں سکتے چاہتے ہیں کہ بدیاں دور ہوں.فطری طور پر مسلمان میں نیکی موجود ہے اور بڑی بھاری تعدا د مسلمان عوام الناس کی ایسی ہے جو نہایت بدملکوں میں رہنے کے باوجود بھی نیکی سے پیار ضرور رکھتے ہیں.ان کے دل میں تمنا ہے

Page 356

خطبات طاہر جلد ۶ 352 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء کہ ہم نیک ہوں اور ہماری حالت سدھر جائے.تو ایسے سب لوگ آپ کی دعاؤں سے فیض پائیں گے اور بڑی کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ جماعت احمدیہ کی دعائیں عالم اسلام کے حق میں قبول ہوں گی مختلف رنگ میں قبول ہوں گی.اس لئے دعا کی طرف جب میں توجہ دلاتا ہوں تو یہ سارے پہلو کھولنا چاہتا ہوں کہ کیا مراد ہے.بد سے بدقوم کے لئے بھی ، بد سے بد انسان کے لئے بھی دعا کرنا ہمارا فرض ہے اور اس دعا کے لئے ہمدردی ہونا ضروری ہے.یہ ایک دوسرا پہلو ہے جس کو ہمیشہ دعا کرنے والے کو پیش نظر رکھنا چاہئے.منہ سے نکلی ہوئی ایسی دعا جو حلق سے نیچے سے نہ اٹھ رہی ہو.ایسی دعا ایک Mechanical Process ہے.ایک قسم کا ایسا عمل ہے جس کے اندر جان نہیں ہے،اس میں کوئی روح نہیں ہے.ہر دعا جو مقبول ہوتی ہے اس کے اندر روح ہونا ضروری ہے اور روح کے لئے نیک اعمال کا ہونا بھی ضروری ہے.اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ دعا کریں تو پہلی بات تو یہ ہے کہ روح کے ساتھ دعا کریں اور پھر اپنا جائزہ لے کر یہ بھی دیکھیں کہ اگر آپ کی دعائیں مقبول نہیں ہوتیں تو کون سی بدیاں ایسی ہیں جن پر آپ کو اصرار ہے، کون سی ایسی نیکیاں ہیں جن سے آپ کو محرومی حاصل ہے.اس طرف آپ توجہ کریں گے تو وہ لوگ جو شکوے کرتے رہتے ہیں کہ ہماری دعا مقبول نہیں ہوئی ان کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک ایسی دولت ہاتھ آجائے گی جس کے نتیجے میں ایک ایسا عظیم الشان گرمل جائے گا، جس کے نتیجے میں دن بدن ان کی دعائیں پہلے سے بڑھ کر مقبول ہونے لگ جائیں گی.مگر آج کے دن اس وقت تو یہ وقت نہیں ہے کہ آپ فوری طور پر اپنی اصلاح کر لیں اپنی نیکیاں بڑھالیں اپنی بدیوں کو دور کر دیں اس لئے آج کیا کریں؟ یہ سوال ہے اس کا جواب میں یہ دیتا ہوں کہ ایک چیز ہے جو آپ کر سکتے ہیں.اپنے لئے دعا کرتے ہوئے خدا کے حضور یہ نذر پیش کر دیں کہ میں یہ فیصلہ کر چکا ہوں میں اتنی بدیاں ضرور دور کر دوں گا اور یہ یہ نیکی حاصل کرنے کی کوشش کروں گا.پھر خدا تعالیٰ اس عہد کے بعد آپ کے ساتھ یقیناً غیر معمولی رحمت اور شفقت کا سلوک فرمائے گا اور وہ نیکیاں جو ابھی آپ نے کیں نہیں ان کی ابھی سے جزا دینی شروع کر دے گا کیونکہ خدا کے ہاں جو بندے کے تعلق کے معاملات ہیں وہ عام دنیا

Page 357

خطبات طاہر جلد ۶ کے معاملات سے مختلف ہیں.353 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء اس لئے اگر آج بھی کسی جگہ کوئی شخص یہ فیصلہ کرے کہ اے اللہ ! آج کے دن میں یہ فیصلہ کرتا ہوں میں کمزور ہوں تو مجھے طاقت بخش میں اس فیصلے پر قائم رہوں لیکن نیست میری اچھی ہے اس لئے میری دعاؤں کی قبولیت کو بڑھا دے.یہ جو میں کہہ رہا ہوں دعاؤں کی قبولیت کا اعمالِ صالحہ سے تعلق ہے یہ قرآن کریم سے ثابت ہے.قرآن کریم فرماتا ہے اچھے کلمات کو عمل صالح رفع بخشتے ہیں.وہ کون سے اچھے کلمات ہیں.سب سے اہم صفات باری تعالیٰ ، اس کی حمد ہے.اس کے بعد درود کی باری آتی ہے، تیسرے نمبر پر دعائیں ہیں.ان تینوں چیزوں کو جو کلماتِ حسنہ شمار ہوں گی ان تینوں چیزوں کو عمل صالح رفعت بخشتے ہیں.ورنہ جس طرح کمزور کا پھینکا ہوا پتھر بعض دفعہ ہاتھ سے ہمشکل اچھلتا ہے اور واپس گر جاتا ہے اور بعض بڑی قوت سے پھینکتے ہیں اور بڑا اونچا چلا جاتا ہے.اسی طرح دعا ئیں کرنے والوں کی دعائیں ہیں کوئی چلتی ہی نہیں ، اٹھتی ہی نہیں بے چاری وہ اٹھتی ہے اور گر جاتی ہے،اس میں پرواز کی طاقت ہی نہیں.کچھ ایسے ہیں جن کی دعاؤں میں ایسی پرواز کی طاقت ہے کہ وہ دل میں پیدا ہوتی ہے اور عرشِ الہی میں مقبول ہو جاتی ہے تو ان کے درمیان بہت سے مراحل ہیں بہت سے مختلف درجات کے انسان ہیں.ہر انسان کو کوشش یہ کرنی چاہئے کہ کچھ تو طاقت بڑھائے اپنی.اس لئے عملِ صالح کا جو دعا سے تعلق ہے اس کو ضرور پیش نظر رکھیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آج چونکہ مخصوص دعاؤں کا دن ہے ویسے بھی جمعہ کا دن بہت ہی مبارک ہوا کرتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کے بعد عصر تک کی جو حالت ہے خاص طور پر دعاؤں کی مقبولیت کا وقت ہوتا ہے ( ترندی کتاب الجمعۃ حدیث نمبر : ۴۵۱) اور جمعہ جو رمضان شریف میں ہو پھر وہ جمعہ جو جمعتہ الوداع کے طور پر بڑی کثرت کے ساتھ منایا جا رہا ہوا اور عبادت کرنے والوں کی کثرت کی برکت بھی اس کو حاصل ہو جائے پھر وہ جو آخری عشرہ کی ایسی تاریخ میں ہو جس کا لیلۃ القدر سے بھی تعلق ہے تو یہ ایک خاص دن ہے.اس لئے اس دن سے جس قدر بھی ممکن ہے استفادہ کرتے ہوئے اپنی جھولیاں بھر لیں.جہاں تک اعمالِ صالحہ کا تعلق ہے چند باتیں خاص طور پر میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آپ کو دعا کی قبولیت کی لالچ دے کر میں نے سوچا کہ اس رنگ میں دوبارہ تحریک کروں کہ یہ

Page 358

خطبات طاہر جلد ۶ 354 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء نیکیاں اختیار کریں اور ان بدیوں سے بچیں.گزشتہ سال کے دوران بھی یہ کہتا رہا ہوں مختلف مواقع پر اس سے پہلے بھی کہتا رہا لیکن بعض خصوصیت کے ساتھ ایسی چیزیں ہیں جن کو جماعت احمدیہ کو کوشش کے ساتھ حاصل کرنا چاہئے اور بعض ایسی ہیں جن کو کوشش کے ساتھ ترک کرنا چاہئے اور اس کے نتیجے میں ان کو دو طرح کی قوتیں نصیب ہوں گی ایک تو دعا کی قوت ، دوسرے ان کی بات میں وزن پیدا ہو جائے گا اور معاشرے کی اصلاح کے لئے جو بات کا وزن ضروری ہے وہ ان کو نصیب ہوگا ورنہ ان کی باتیں بے کار جائیں گی.نصیحت کرنے والے میں بعض بنیادی خوبیاں ہونی چاہئیں اگر وہ خوبیاں اس میں پائی جائیں تو اس کی نصیحت چھوٹی سے ہو سادہ بھی ہو اس میں وزن پیدا ہو جاتا ہے، اس میں تبدیلی کی قوت پیدا ہو جاتی ہے.اگر وہ خوبیاں اس میں موجود نہ ہوں تو خواہ کتنی ہوشیاری کی باتیں کرنے والا ہو کیسی کیسی ضروب المثل پیش کرے یا کہیں گے امثال پیش کرے اچھی اچھی تب بھی اس کی بات میں وزن نہیں پیدا ہوگا، دکھاوے کا حسن پیدا ہو سکتا ہے تو تبھی آپ نے دیکھا ہوگا بعض لوگوں کی بات چھوٹی سی بھی ہو وہ دلوں میں حرکت پیدا کر دیتی ہے بعض دفعہ بڑے بڑے عظیم الشان انقلاب بر پا کر دیتی ہے.میں نے پہلے بھی ایک دفعہ مثال دی تھی حضرت خلیفتہ امسیح الاول کوخدا تعالیٰ نے غیر معمولی نور اور تقویٰ بخشا تھا اور آپ کی بات میں بڑا وزن تھا لیکن آپ کی بات کا جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بات کے وزن سے موازنہ کا تعلق ہے ایک روایت ہے جو بڑی دلچسپ ہے.ایک صاحب روایت کرتے ہیں کہ میرے ایک شرابی دوست تھے جو ویسے نیکی کے خواہشمند تھے ان کے دل میں تمنا تھی کہ میرے اندر تبدیلی پیدا ہوا انہوں نے مجھ سے خود خواہش کا اظہار کیا کہ چلو مجھے قادیان لے کے چلو، شراب میں نہیں چھوڑ سکتا.اس کا ایسا میں عادی ہو چکا ہوں کہ جتنا چاہوں کوشش کر کے دیکھ لوں مجھ سے نہیں چھٹتی تو وہاں خدا کے نیک بندے بستے ہیں ہوسکتا ہے ان کے اثر سے میری یہ بُرائی چھوٹ جائے.چنانچہ وہ صحابی جنہوں نے روایت کی ہے وہ ان کو لے کے گئے اور حضرت خلیفتہ امسیح الاول کی خدمت میں پہلے لے گئے.حضرت خلیفتہ امسیح الاول نے ان کو لمبے عرصے تک سمجھایا ، ان کو شراب کی بُرائیاں بتائیں اور نیکی کی تعلیمیں دیں ، مثالیں دیں لیکن اس کے باوجود جب وہ باہر آئے تو انہوں نے کہا کہ ابھی وہ بات نہیں پیدا ہوئی.میں سب کچھ سمجھ گیا ہوں

Page 359

خطبات طاہر جلد ۶ 355 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء لیکن وہ جو آخری قوت ہے ارادے کی وہ نہیں پیدا ہو سکی.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لے گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے صرف چند کلمات کہے مختصر اور وہ مجلس برخاست ہوئی لیکن جب وہ باہر نکلے تو انہوں نے کہا کہ میری ساری جو بدی کی تمنا تھی بالکل اس پر موت آگئی ہے دل ٹھنڈا ہو گیا ہے اس خواہش سے اور یوں لگتا ہے ایک نئی زندگی مجھے عطا ہوئی ہے.چند کلمات تھے (حیات قدسی صفحہ ۱۵۹-۱۲۵).تو اس لئے کلمہ کے اندر رفعت کا یہ بھی مفہوم ہے ایک.یعنی دو طرح کی قوت ملتی ہے نیکی سے ایک کلمہ کا دعا بن کے مقبول ہو جانا، ایک بندوں میں نصیحت بن کے مقبول ہو جانا.دوستم کی رفعتیں نصیب ہوتی ہیں اس لئے عملِ صالح کو اختیا ر کرنا ضروری ہے.اس کے بغیر نہ کلہ کلمہ حسن بنتا ہے نہ اس میں کسی قسم کی رفعت پیدا ہوتی ہے نہ رسوخ پیدا ہوتا ہے.جو باتیں خاص طور پر میرے پیش نظر ہیں جن کی اطلا میں جب ملتی ہیں تو بہت تکلیف پہنچتی ہے یعنی بعض برائیوں میں سے، ان میں ایک جھوٹ ہے.جماعت احمدیہ کا جھوٹ سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہونا چاہئے.اپنی باتوں میں سادگی اختیار کرنی چاہئے اور جہاں تک ممکن ہے جھوٹ کی ہر قسم سے پر ہیز کرنا چاہئے لیکن میں نے دیکھا ہے یہ جھوٹ ہمارے بچوں میں بھی پایا جاتا ہے.خاص طور پر تو بعض ممالک میں ویسے ہی جھوٹ کی بیماری بڑی عام ہے.انگلستان میں آپ دیکھیں اور بعض یورپ کے دوسرے ممالک میں دوسری بدیاں بڑی کثرت سے ملتی ہیں لیکن جھوٹ بہت کم ملے گا.ان کی بدیوں کے اظہار میں بھی دراصل ایک سچائی پائی جاتی ہے.اگر آپ اس کا غور سے تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ جو چھپاتے نہیں اپنی بیماریاں اس کا بھی سچائی سے ایک قسم کا تعلق ضرور ہے.کہ یہ جو کچھ ہے وہ اس کو ظاہر کر دیتے ہیں.بدمعاشیاں ہیں گند ہے اس کو بھی ظاہر کر دیتے ہیں یہ الگ مسئلہ ہے کہ یہ ظاہر کرنا خود بھی ایک جرم بن جاتا ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جرم عام ہوتا ہے، بے حیائی پھیلتی ہے.یہ الگ مسئلہ ہے کہ ظاہر کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے مگر اس کے پیچھے ایک سادگی اور ایک سچائی ضرور ہے اور عام روز مرہ کی باتوں میں الا ماشاء اللہ جب پولیس پکڑ کے لے جاتی ہوگی تو میں نہیں جانتا کتنا جھوٹ بولتے ہیں لیکن عام روز مرہ کی زندگی میں ان کو جھوٹ کی عادت ہی نہیں ہے بالکل صاف بات کرتے ہیں.

Page 360

خطبات طاہر جلد ۶ 356 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء اسی طرح افریقہ میں میں نے دیکھا ہے وہاں جھوٹ کی بہت کم عادت ہے جو بھی مجھے خطوط ملتے رہتے ہیں بڑی سادگی کے ساتھ اپنی ساری باتیں بیان کرتے ہیں کھل کے اور جو جرم ہے وہ کہتے ہیں ہاں ہم نے یہ کیا، یہ یہ کرتے ہیں.جو سچی بات ہے وہ اسی طرح کھل کے بیان کرتے ہیں یا میں نہیں جانتا کہ باقی معاشرے میں بھی یہ حال ہے لیکن افریقہ کے احمدیوں کا جہاں تک تعلق ہے میں بڑے حد تک وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سچائی کی عادت ہے لیکن پاکستان ، ہندوستان اور اسی طرح بعض دیگر ممالک ایسے ہیں جن کے معاشرے میں جھوٹ رچ بس گیا ہے.بچپن سے مائیں گویا دودھ میں جھوٹ پلا رہی ہوتی ہیں.ماں باپ بے تکلفی سے گھر میں جھوٹ بولتے ہیں اور روزمرہ بچے کو جھوٹ کی تربیت دے رہے ہوتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں چالا کی ہے یعنی جھوٹ کے ذریعے کچھ حاصل کر لینا یہ ہوشیاری اور ذہن کی برتری ہے حالانکہ حد سے زیادہ جہالت اور بے وقوفی ہے.کریکٹر تباہ ہو جاتا ہے ، انسان کسی کام کا بھی نہیں رہتا نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا رہتا ہے.ایسا ذلیل گناہ ہے کہ اگر آپ غور کریں تو ہر گناہ ہر بدی کی جڑ جھوٹ کے اندر داخل ہے اور جھوٹے کی دعا مقبول نہیں ہوگی.جھوٹا اپنے آپ سے جھوٹ بولنے لگ جاتا ہے اس بیچارے کو پتا ہی نہیں لگتا کہ میں کیا ہوں.اپنے متعلق فرضی باتیں نیکی کی سوچ لیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میں بڑا ٹھیک کام کر رہا ہوں.اتنا ظلم ہے جھوٹ کے اندر اتنی تاریکی ہے کہ قرآن کریم نے اسی لئے سب سے زیادہ جس بُرائی کو مردود قرار دیا ہے وہ جھوٹ ہے اسے شرک بھی قرار دیا ہر طرح سے اس کے خلاف جہاد کیا اور اس کے متعلق یہاں تک فرمایا کہ یہ ہے ہی کوئی چیز نہیں اس کے اندر وجود کی کوئی بھی صفت نہیں پائی جاتی.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بی اسرائیل: ۸۲) جھوٹ میں بزدلی بھی ہے، جھوٹ میں ظلمتیں بھی ہیں جھوٹ میں کوئی بھی باقی رہنے والی صفت موجود نہیں.خودمٹتا ہے مراد یہ ہے کہ قوموں کو مٹا دیتا ہے جو جھوٹ کی حامل قو میں ہوتی ہیں وہ مٹ جایا کرتی ہیں.اس لئے جھوٹ سے پر ہیز تو انتہائی ضروری ہے.جہاں آپ اپنے دوستوں کو جھوٹ بولتا سنتے ہیں بعض دفعہ آپ سمجھتے ہوں گے کہ یہ مذاق کا جھوٹ ہے ہلکی بات کی ہے.ہرگز یہ نہ سمجھیں.جھوٹ کو تو کسی قیمت پر برداشت نہ کریں.آج کل الرجیز (Alergies) کا زمانہ ہے یعنی الرجیز دریافت

Page 361

خطبات طاہر جلد ۶ 357 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء بہت ہو رہی ہیں.بڑی بری چیز ہے الرجی.اگر ایک الرجی اگر آپ حاصل کر لیں تو میں سمجھتا ہوں یہ بہت ہی اچھی چیز ہوگی.یہ جھوٹ کے خلاف الرجی اختیار کر لیں.برداشت نہ ہو آپ کے اعصاب ٹوٹنے لگ جائیں جھوٹ سنتے ہوں تو.یہ ایک بہت ہی اہم چیز ہے اور اس معاملے میں مجھے یاد ہے کہ حضرت خلیفہ مسیح الثانی کو تو واقعی الرجی تھی جھوٹ کے ساتھ ، برداشت نہیں ہوتا تھا کسی کے منہ سے.بہت دفعہ بعض لوگ بڑے بڑے جرم کر کے آپ کے سامنے آتے تھے آپ حمل سے بات کرتے تھے ان کو سمجھاتے تھے غصے کا اظہار نہیں کرتے تھے مگر جہاں کسی نے بہانہ پیش کیا اپنے نفس کا کوئی جھوٹی بات کہہ دی وہاں آپ کا غصے کا پارہ یوں چڑھتا تھا اور بالکل برداشت نہیں ہوتا تھا.بعض لوگ بلکہ حیران ہوا کرتے تھے کہ دل کا حلیم ہو گا اور اتنا غصے کا اظہار.دل کا حلیم تو تھا مگر جھوٹ کے خلاف الرجی ضرور تھی.وہ برداشت نہیں ہوسکتا تھا اور اکثر صورتوں میں میں نے یہی دیکھا ہے کہ جہاں جھوٹ کا پہلو آیا وہاں آپ کا غصہ بڑھتا تھا جہاں جھوٹ نہ ہو وہاں بڑے سے بڑا مجرم اگر صاف بات کر رہا ہو آپ غصے کا اظہار نہیں کیا کرتے تھے اور دل کا حلیم ہونا بھی سچا تھا کیونکہ غصے کے اظہار کے بعد پھر دل میں اس شخص کے لئے ہمدردی بھی پیدا ہوتی تھی اس کی دلداری بھی فرماتے تھے کئی رنگ میں اس سے احسان کا معاملہ بھی کیا کرتے تھے.آپ بھی جھوٹ کی الرجی کی دعا مانگیں تا کہ معاشرے کو پاک کریں جھوٹ سے، برداشت نہ کریں اس چیز کو اور برداشت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مارنا شروع کر دیں، خود تکلیف محسوس کریں اور پھر جس طرح بھی چاہیں ، جس طرح بھی ہو سکتا ہو سمجھا کر محبت سے پیار سے بعض جگہ ناراضگی کے اظہار سے بھی دعائیں کر کے جھوٹ کی بیخ کنی کی کوشش کریں.یہ جہاد گھروں میں شروع ہوگا کیونکہ ہر گھر والا جانتا ہے کہ میرے گھر میں جھوٹ پرورش پا رہا ہے.بیوی جھوٹ بولتی ہو وہ خاوند سے چھپ نہیں سکتی ، ماں جھوٹ بولتی ہے تو وہ بچوں سے چھپ نہیں سکتی ، باپ جھوٹ بولتا ہے تو وہ نہ بیوی سے چھپ سکتا ہے نہ بچوں سے چھپ سکتا ہے.اس لئے گھروں کو اصلاح کا یونٹ بننا چاہئے اور ہر احمدی جس تک یہ آواز پہنچے خواہ وہ مرد ہو یا عورت ہو یا بچے ہوں ان کو جھوٹ کے خلاف ایک جہاد کا علم بلند کر دینا چاہئے.بچے بھی اس ضمن میں ہمارے بہت

Page 362

خطبات طاہر جلد ۶ 358 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء کام آسکتے ہیں کیونکہ بہت سے بچے ایسے ہیں وہ میں حیران ہوتا ہوں دیکھ کے کہ اللہ کے فضل.سے وہ جو بات سنتے ہیں تو قبول کرتے ہیں اور پھر اپنے بڑوں کو بھی نصیحت شروع کر دیتے ہیں.آج کل کیسٹ سنانے کا رواج ہورہا ہے گھروں میں مختلف ممالک سے اطلاعیں ملتی ہیں کہ خطبات کی کیسٹ یا بعض دوسرے مضامین پر مشتمل ٹیسٹس سناتے ہیں تو بچے بڑے شوق سے سنتے ہیں اور بعض بچوں کو تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ سنے کا جنون ہو گیا ہے وہ کہتے ہیں کہ جی ابھی تک آئی کیوں نہیں.اس کا نیک اثر کس حد تک پیدا ہو رہا ہے اس کا میں اس سے اندازہ کرتا ہوں کہ کئی بچے مجھے یہ خط لکھنے لگ گئے ہیں کہ ہمارے ابا کو جھوٹ کی عادت ہے، ہماری ماں میں یہ عادت ہے، دعا کریں ہمارے بڑے بھائی نماز شروع کر دیں.اپنے پتے لکھتے ہیں بعض بچے کہ میرے بھائی کا یہ پتا ہے میرے باپ کا یہ پتا ہے اس کو خدا کے لئے خط لکھیں کہ یہ کام نہ کرے بہت بُرا لگتا ہے ہمیں.تو معلوم ہوتا ہے بچوں کی چونکہ فطرت نسبتاً زیادہ صاف ہے اور خدا کے قریب تر ہے اس لئے ان تک ان باتوں کا اچھا اثر پڑتا ہے.تو پہلے میں بچوں سے مخاطب ہوں.جو بچے میری آواز سنیں گے براہ راست یا کیسٹس کے ذریعے وہ یہ فیصلہ کر لیں کہ نہ ہم نے جھوٹ بولنا ہے نہ اپنے ماں باپ کو جھوٹ بولنے دینا ہے.بچوں کی طرف سے اگر نصیحت ہوگی تو کچھ شرمندہ تو ہوں گے کم سے کم، یہ کیا ہورہا ہے ہمارے گھر ، خدا نے ہمارے سپر د بچے کئے تھے اور ہم نے اپنے آپ کو بچوں کے سپر د کر دیا ہے.تو بچوں کی طرف سے جو نصیحت آتی ہے وہ بعض دفعہ کاٹتی ہے، بعض دفعہ وہ چر کہ لگا کر بھی اثر پیدا کر دیتی ہے.موٹی جلد والوں کو چر کہ لگا نا پڑتا ہے اس لئے بچے کی نصیحت بعض دفعہ یہ کام کر جاتی ہے.پھر بہنیں ہیں اپنی بھائیوں کو نصیحت کریں، مائیں اپنے خاوندوں سے التجاء کریں کہ دیکھو خدا کے واسطے جھوٹ نہ بولو کم سے کم گھر کو تو چھوڑ وسردست اور خاوند اپنی بیویوں کو نصیحت کریں.یہ چر چا کریں ان باتوں کا.مجالس میں مذاق کے طور پر بھی جب جھوٹ بولا جائے تو ہنسیں نہیں بلکہ ناراضگی کا اظہار کریں کہ یہ کیا مذاق ہوا یہ تو بڑی بے ہودہ بات ہے.جھوٹ کے خلاف آپ کا جو جہاد ہے وہ آپ کی بات میں ایک خاص وزن پیدا کر دے گا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ کو اپنی دعاؤں کو بھی رفعت نصیب ہو گی.آپ کے کلام کی تاثیر کو بھی رفعت نصیب ہوگی.مطلب یہ ہے کہ جھوٹ نہیں بولیں گے تو مراد ہے سچ بولیں گے.یعنی یہ

Page 363

خطبات طاہر جلد ۶ 359 خطبہ جمعہ ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء ایک ایسی بات ہے کہ ایک کی نفی کی جائے تو اس کا جو دوسرا پہلو ہے وہ خود بخو دساتھ ابھر آتا ہے.جھوٹ نہ بولنے کا مطلب یہ تو نہیں کہ بولیں ہی نہ، مطلب یہ ہے کہ جب بھی بولیں گے آپ سچ بولیں گے اور جب آپ سچ کی طرف متوجہ ہوں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ سچائی کا سفر بھی ایک بڑا وسیع سفر ہے.جھوٹ نہ بولنے کا نام سچائی نہیں ہے صرف سچائی کے اندر بہت ہی بار یک مضامین داخل ہیں بہت ہی وسیع معانی ہیں اس لفظ کے اندر جو تجربے سے معلوم ہوں گے اور پھر بظا ہر آپ بچے بن چکے ہوں گے مگر مختلف مراحل پر آپ کو معلوم ہو گا کہ آپ اتنے سچے نہیں بنے تھے کہ یہاں بھی سچائی کو قائم رکھ سکیں.ابتلاء کے مختلف ادوار انسان پر آتے ہیں بعض مواقع پر انسان کو یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ یہاں اگر میں سچ بولوں گا تو یہ نتیجہ نکلے گا اگر میں جھوٹ بولوں گا تو یہ نتیجہ نکلے گا.عام حالات میں کوئی شخص سچا بھی ہو تو بعض ایسے مراحل پر آکر وہ محسوس کرتا ہے کہ اس میں سچائی کی طاقت پیدا نہیں ہوئی کم سے کم اتنی پیدا نہیں ہوئی کہ اس مرحلے پر بھی وہ سچائی کے ساتھ چمٹ سکے.تو مختلف مراحل پر سچائی کے امتحان بدلتے رہتے ہیں مختلف مراحل پر انسان محسوس کرتا ہے کہ کس حد تک وہ حقیقت میں سچا تھا اور کس حد تک حقیقت میں سچا نہیں تھا.تو بڑا وسیع سفر ہے.پس یہ کہہ دینا کہ جھوٹ نہ بولو یہ کافی نہیں سچائی کا ایک مثبت مضمون ہے.اسی لئے انبیاء کے متعلق جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے وہ صدیق تھے تو اس میں اور معیار کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں.نبی کو صدیق کہنا سچائی کی اتنی عظیم الشان تعریف ہے کہ عام انسان عام حالات میں اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا کہ سچائی ہوتی کیا ہے اس لئے یہ بہت ہی بڑا وسیع سفر ہے اس کے لئے بھی دعائیں کریں گے محنت کریں گے، اپنی نظر کو تیز کریں گے، غور کی عادت ڈالیں تو رفتہ رفتہ اللہ کے فضل کے ساتھ آپ کو سچائی کی گہرائی نصیب ہونا شروع ہو جائیگی سچائی کی وسعتوں سے آپ واقف ہونا شروع ہو جائیں گے اور یہ سچائی جب یہ مومن کو ایک روحانی سفر سے دوسرے روحانی سفر کی طرف لے جانا شروع کرتی ہے تو یہ بھی ایک رفعت کی تعریف ہے.عملِ صالح کلام کو رفعت بخشتے ہیں اور کلمہ کی رفعت سے مراد مومن کی اپنی ذات کی رفعت بھی ہے کیونکہ مومن بھی ایک کلمہ ہے.اس لئے واقعہ یہ ہے کہ سچائی کے نتیجے میں انسان کا مرتبہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے، انسان کا مقام بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے.اس کو نئی عظمتیں نصیب ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور وہ رفتہ رفتہ اپنے گردو پیش سے بلند ہونے لگ جاتا ہے.

Page 364

خطبات طاہر جلد ۶ 360 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء تو سچائی کا سفر بھی ایک ایسا سفر ہے جس کو Conciously اس بات کو پیشِ نظر رکھ کر اختیار کرنا ہے کہ ہم نے سچائی کے مختلف پہلوؤں کو دریافت کرنا ہے کہ سچائی ہوتی کیا ہے اس سے پیار کرنا ہے، اس سے محبت کرنی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا مانگنی ہے کہ خدا ہمیں سچائی کے بلند تر معیار نصیب فرماتا رہے.یہ دو باتیں تو بنیادی ہیں.ان دو باتوں کے درمیان اور بھی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جن کا ان سے تعلق ہے، ایک چیز دوسرے پر اثر ڈالنے والی ہے.میری مراد ہے عام اخلاق حسنہ.روز مرہ کی گفتگو میں انسان کے اندر شائستگی پائی جائے ، حوصلہ پایا جائے، چھوٹی اور اوچھی باتیں نہ کرے، کمپنی کمینی باتوں پر خوش نہ ہو، ایک دوسرے کے اوپر فوقیت حاصل کرنے کی تمنا اس رنگ میں نہ ہو کہ انسان اپنی بڑائی کرنا شروع کر دے دوسرے کے اوپر ، ایک دوسرے پر فوقیت حاصل کرنے کی ایک تمنا تو وہ ہے جس کا خدا ہمیں حکم دیتا ہے اسی لئے میں کوئی تھوڑا ساڑک کر یہاں اس مضمون کو آگے بڑھاؤں.ایک فوقیت تو وہ ہے جس کا خدا نے حکم دیا ہے کہ ضرور حاصل کرو و الشبقُونَ الشبقُونَ (الواقعہ: (1) ان کا ذکر فرماتا ہے کہ کیسے کیسے خدا کے پیارے بندے ہیں جو سبقت لے جانے والے ہیں اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے والے.پس نیکیوں میں آگے بڑھنے والے وہی ہیں جو ایک دوسرے پر فوقیت اختیار کرتے ہیں لیکن اس فوقیت کو تکبر میں تبدیل نہیں ہونے دیتے.اس فوقیت کے نتیجے میں اپنے سے کم درجے پر تمسخر نہیں کرتے اپنے سے کم درجے کا مذاق نہیں اڑاتے اسے اپنے سے گھٹیا اور نیچانہیں سمجھتے اس کی تذلیل نہیں کرتے.یہ جو فوقیت کا تصور ہے کہ میں دنیا کی نظر میں بڑا ہو جاؤں اور خواہ خدا کی نظر میں چھوٹا ہی رہوں.یہ وہ خطرناک چیز ہے جو اخلاق کو تباہ کر دیتی ہے.روزمرہ کی زندگی میں بھی جو اخلاق ہیں ان کا سفر بھی جیسا کے میں نے جھوٹ کے خلاف جہاد کے متعلق کہا تھا گھروں سے شروع ہو گا.گھروں میں اگر بداخلاقیاں ہورہی ہوں تو جو بچے ان گھروں میں پل کر جوان ہوتے ہیں وہ خوش اخلاق بن ہی نہیں سکتے.اکثر قوموں کے اخلاق بگاڑنے والے ان کے ماں باپ ہیں.گھروں میں اگر ماں اور باپ کا آپس کا معاملہ بدخلقی پر مبنی ہوگا تو یقین کریں کہ وہ نسل لا زمنا بد خلق ہو جائے گی جو ایسے گھروں میں پل رہی ہے.خیر کی توقع ان سے

Page 365

خطبات طاہر جلد ۶ 361 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء کی ہی نہیں جاسکتی.لازماً ان معنوں میں کہ عمومی قانون ہے جو کارفرما ہوگا لیکن استثناء ان معنوں میں بھی ہو سکتے ہیں کہ ظلمتوں میں سے خدا روشنی نکال دیتا ہے، بدوں کے گھر نیک پیدا کر دیتا ہے.اس لحاظ سے تو بعض سعید فطرت بچے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو بد اخلاقوں کے گھر پلیں اور صاحب اخلاق ہوں لیکن بالعموم یہی ہوتا ہے کہ گھروں میں ماں باپ اپنی اولاد کو بد خلق بناتے ہیں بعض ایسی صورتوں میں بھی بدخلق بنار ہے ہوتے ہیں جب ان کو نصیحت اخلاق کی کر رہے ہوتے ہیں.ایک تضاد پایا جاتا ہے ان کی زندگی میں.اپنے بچوں سے وہ اعلیٰ اخلاق دیکھنا چاہتے ہیں اور بچوں کے سامنے اپنا نمونہ جو رکھتے ہیں وہ بدخلقی کا ہوتا ہے اس لئے بچے ان کی بات ماننے کی بجائے ان کے عمل کا اثر قبول کر رہے ہوتے ہیں.گھر میں ہر وقت فتنہ فساد گالی گلوچ، بیوی خاوند کے خلاف بول رہی ہے ، خاوند آیا گھر میں تو بیوی نے ہاتھ میں کوئی چیز اٹھالی اور غصے کی باتیں شروع کیں اتنی دیر کہاں رہے تھے، ہزار قسم کی بکواس شروع ہو جاتی ہے ایسی کہ جس کے نتیجے میں زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.قرآن کریم نے گھروں کا تصور پیش فرمایا کہ تا کہ تمہیں سکینت نصیب ہو، طمانیت کی آماجگاہ ہو تمہارے لئے اور ایسی کیفیت لوگ خود اپنے گھروں کی بنا دیتے ہیں کہ اگر ان کو سکینت ملتی ہے تو گھر سے باہر ملتی ہے گھر کا تصور ہی ان کے لئے مصیبت بنا ہوا تھا.بجائے اس کے کہ بعض بیویاں اپنے خاوندوں کا انتظار کریں ان کو یہ ایک خوف لاحق ہو جاتا ہے کہ کب خاوند آئے گھر میں اور مصیبت شروع ہوئی.بعض خاوند بجائے اس کے کہ یہ سوچیں کہ ہم بیویوں کی طرف لوٹیں گے تو دنیا کے دھندے باہر چھوڑ کر تھوڑی سی سکینت حاصل کریں گے.وہ ڈرتے ہیں کہ گھر میں آئے تو فساد شروع ہوا گالی گلوچ شروع ہو گئی مطالبے ہوئے کوئی اور طعنے دینے شروع کر دئیے گئے.خواہ مخواہ پاگلوں کی طرح، بے وقوفوں کی طرح اپنے گھروں کو خود جہنم بنارہے ہیں.بداخلاقی بہت ہی بڑا گناہ بن جاتی ہے کیونکہ بد اخلاق کے متعلق میں جنت کا تصور نہیں کر سکتا.اس لئے نہیں کر سکتا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو خدا نے جس جنت کی خبر دی ہے اس کا بدخلقی سے کوئی تعلق نہیں ہے.سلام سلام ہی وہاں ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اس جنت کے لئے اس دنیا میں آپ کو سلامتی کی پریکٹس کرنی پڑے گی.اس کی رضا کے ذریعے سلامت ہونا اور سلامتی دینا دوسرے کو یہ صفات اپنے اندر پیدا کرنی پڑیں گی.اس لئے جنت کے متعلق یہ خیال کے سلامتی کو

Page 366

خطبات طاہر جلد ۶ 362 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء توڑنے والے بدخلقی کرنے والے، ایک دوسرے کے خلاف زبانیں دراز کرنے والے جنت میں جائیں گے یہ واہمہ ہے اگر جائیں گے تو پہلے ان کی اصلاح فرمائے گا.اللہ تعالیٰ ایک لمبے دور سے ان کو گزارے گا، خدا کرے ایسا ہی ہو لیکن بدخلقی اور روحانیت میرے نزدیک اکھٹے نہیں رہ سکتے کیونکہ قرآن اور حدیث کے مطالعے نے مجھے تو یہی سمجھایا ہے کہ اگر سچی روحانیت ہے تو اخلاق کی اصلاح ضروری ہے.اخلاق اچھے ہیں تو روحانیت کی تمنا رکھنی چاہئے.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں جو اہم فلسفہ بیان فرمایا ہے اسلام کی اصلاح کا وہ یہی ہے کہ پہلے اسلام انسان بنانا سکھاتا ہے.اسلام جب انسان بنا دیتا ہے تو پھر اگلے مراتب اور اگلے مراحل کی طرف سفر نصیب ہوتا ہے اس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا.گندے کپڑے پر رنگ نہیں چڑھتا، پہلے اس کو دھونا پڑتا ہے اس کو صاف کرنا پڑتا ہے تب اس پر رنگ چڑھتا ہے.رمضان شریف اس معاملے میں ہماری بہت مدد کرتا ہے.بہت سے گند ہمارے بدخلقی کے رمضان کی جو آزمائش ہے اس میں سے گزرتے ہوئے جھڑ نا شروع ہو جاتے ہیں.اس لئے بہت اچھا وقت ہے اب کہ اخلاق کے اوپر زور دیں اور بد خلقی کی ، بدزبانی کی جو عادتیں ہمارے معاشرے میں پائی جاتیں ہیں اُن کے خلاف ایک جہاد شروع کریں لیکن بدزبانی کے ساتھ نہیں محبت اور پیار اور نرمی کے ساتھ.جب بھی آپ بے وجہ گھر میں شور دیکھیں کوئی بہن بھائی سے اونچی آواز میں بات کر رہی ہے خواہ مخواہ جبکہ نرمی سے بھی بات ہو سکتی ہے یا ماں آواز بلند کر رہی ہے بے وجہ.آپ دیکھیں گے کہ بعض دفعہ تو ان آوازوں سے ہی انسان کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے.خواہ مخواہ وقت بے وقت چیخوں کی آوازیں ایک دوسرے کے خلاف حملے ایک دوسرے سے چڑ کر بولنا.ایسے گھروں میں جنت کہاں سے پھر ملے گی؟ جن کو یہاں جنت نہیں ملنی ان کو وہاں جنت کہاں سے ملنی ہے.وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أعمى ( بنی اسرائیل :۷۳) خدا فرماتا ہے جو اس دنیا میں اندھا ہے اس نے وہاں بھی اندھا ہی اُٹھنا ہے.اس لئے اپنے گھروں کو جنت بنانا سیکھیں.اگر آپ وہاں جھوٹ کا قلع قمع کر دیں، اگر پاکیزہ سچائی کی عادت ڈالیں جو ہر مرحلے سے گزر کر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہو.اگر آپ اعلیٰ اخلاق پیدا کریں اپنے گھروں میں اور چوتھی چیز یہ کہ لین دین کو درست کریں.یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا آغاز باہر سے ہوگا گھروں کی بجائے کیونکہ

Page 367

خطبات طاہر جلد ۶ 363 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء عموما میں نے دیکھا ہے کہ جو لین دین کے معاملے میں باہر گندے ہوتے ہیں وہ اپنے گھر اس بات کی اطلاع نہیں کرتے.جب ان کو پکڑا جاتا ہے تو اُن کی بیوی اور بچے حیران ہو جاتے ہیں کہ اتنا نیک باپ اس کے خلاف جماعت ایکشن لے رہی ہے، اس کے خلاف فلاں نے مقدمہ کر دیا، اس بیچارے مظلوم کو گھسیٹ رہے ہیں کیونکہ باقی باتیں تو وہ نہ بھی چھپا سکے عموما اکثر مردا اپنی بددیانتی ضرور چھپا جاتے ہیں گھر سے اور وہ بتاتے ہی نہیں کہ وہ کس قسم کی Shady Deals کر رہے ہیں باہر ، کس قسم کے ان کے کمائی کے ذریعے ہیں.جہاں تک ان کے بیوی اور بچوں کا تعلق ہے وہ تو ان کو بڑا ہی محنتی، پارسا ، نیک کمائی کرنے والا سمجھ رہے ہوتے ہیں.اس لئے یہ جہاد باہر سے کرنا پڑے گا.سارے نظامِ جماعت کی ہر شاخ کو اس کے خلاف جہاد کرنا چاہئے.لین دین کے معاملے میں جو شخص گندہ ہے، جو بے تکلفی سے کسی کا پیسہ کھا جاتا ہے شراکت کرتا ہے اس کو بڑے بڑے وعدے دیتا ہے اور پھر اس کے آغاز میں ہی اس کی نیت کے اندر بد دیانتی کا فتور داخل ہوتا ہے.یہ خیال غلط ہے کہ بعد میں حالات اسے بدیانت بناتے ہیں.ہمیشہ جب بھی شراکتوں میں بددیانتی ہوتی ہے آپ دیکھیں گے کہ کسی نہ کسی شخص کی نیت میں یہ فتور تھا.شروع میں وہ نرم بن کے چلتا ہے جب موقع دیکھتا ہے آہستہ آہستہ اپنے پر پرزے پھیلانا شروع کر دیتا ہے اور بعض معصوم لوگوں کولوٹ لیتا ہے.خاص طور پر وہ جو ہمارے باہر سے کمائی کر کے پاکستان جانے والے احمدی ہیں ان کو بہت اپنی فکر بھی کرنی چاہئے اس معاملے میں.اکثر صورتوں میں بے چاروں نے بڑی محنت سے پیسہ کمایا ہوا ہے اور وہاں جائیں گے تو بعض لوگ بڑا نیکی کا لبادہ اوڑھ کر ان سے ملیں گے اور ان کو نیک مشورے دیں گے کہ فلاں کام میں بڑی برکت ہے اور بڑا فائدہ ہے کہو تو ہم تمہارے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں ہم تمہیں کروا دیتے ہیں یہ کام اور بہت ساری صورتوں میں ایسے بے چارے لوگ اپنی ساری عمر کی کمائی ایسے ظالموں کے ہاتھ میں گنوا دیتے ہیں.بعد میں پھر خط لکھتے رہ جاتے ہیں کہ ہم تو ربوہ گئے تھے ہم سمجھے تھے یہاں سارے ہی پار سابستے ہیں.ہم سے یہ ہو گیا.ہم لاہور گئے تھے وہاں ایک آدمی تھا وہ جماعت کا ہی عہدہ دار ہم وہم بھی نہیں کر سکتے تھے سب کچھ اس کو دے دیا وہ سب کچھ کھا گیا وغیرہ وغیرہ.یعنی نہ میرے ذہن میں اس وقت ربوہ کا کوئی شخص ہے نہ لا ہور کا یہ نہ سمجھیں یہ

Page 368

خطبات طاہر جلد ۶ 364 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء دونوں جماعتیں کہ میں ان کے اوپر کوئی واضح طور پر حملہ کر رہا ہوں.میری مراد ہے مثال کے طور پر.بعض لوگ اچھے نظر آتے ہیں بظاہر ، بعض خوبیاں بھی ان میں پائی جاتی ہیں، بعض لوگ ایسے ہیں جن میں بدیاں اور خوبیاں مل جھل کے رہتی ہیں یہ تو خدا نے فیصلہ کرنا ہے بعد میں کہ ان کی بدیاں غالب تھیں یا ان کی نیکیاں غالب تھیں لیکن عہدے دار بھی ہو جماعت کا اس میں بھی یہ خطرہ موجود ہے اس کی ذات میں کہ وہ لین دین کے معاملے میں خراب ہو.تو لین دین کا جہاں تک تعلق ہے اس کے خلاف دو طرح سے جہاد کرنا ہے.ایک خود احتیاط کر کے.جتنی بے وقوف قوم ہوگی اتنا اس کو لوگ بے وقوف بنائیں گے.جتنی بے احتیاطی پائی جائے گی طبیعتوں میں اتنا زیادہ لوٹنے والوں کے لئے وہ جنت بن جاتی ہے ایسی قوم جہاں بے احتیاطی کی عادت ہو تو اپنے پیسے کے معاملے میں احتیاط کریں.تمام امکانی احتیاطیں اختیار کریں سارے ذرائع جس قسم کی بھی خدا نے عقل آپ کو عطا فرمائی ہے ان کو بروئے کارلائیں اور اعتماد کے نتیجے میں کہ فلاں آدمی نیک ہے اسی لئے میں اس پر اعتماد کروں، اپنا پیسہ ضائع نہ کریں.قرآن کریم نے فَاكْتُبُوهُ (البقرہ:۲۸۳) کا جو حکم دیا ہے اس میں یہ شرط ہی نہیں لگائی کہ کسی مشکوک کردار والے سے سودا کرو تو لکھ لیا کرو اور نیک سے کیا کرو تو نہ لکھا کرو.تجارتی اصول بنیادی پیش کر دیا ہے.فَاكْتُبُوہ سے صرف لکھنا مراد نہیں ہے اس زمانے میں جب کے لکھنے کا رواج نہیں تھا قرآن کریم میں خدا کا یہ حکم نازل ہونا بتاتا ہے کہ غیر معمولی احتیاطوں کی تعلیم دی جارہی ہے.لین دین میں بات پکی کر لیا کرو.کتاب سے مراد صرف لکھنا نہیں ہے، کتاب سے مراد فرض بھی ہے، کتاب سے مراد بات کا پختہ کرنا بھی ہے كَتَبَ اللهُ لَا غُلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِي (المجادله (۲۱) یہاں خدا نے قلم سے تو نہیں لکھا ہوا ، کتب کا مطلب ہے پکی بات کر لی ہے اللہ نے یہ ٹوٹ نہیں سکتی اٹوٹ بات ہے.تو فرمایا کہ تم احتیاطیں بہت پختہ کر لیا کرو جب تم تجارت کیا کرو تو اعتمادات ، بظاہر کسی کو نیک دیکھ کر احتیاط کے تقاضے نظر انداز نہ کیا کرو.پس جس سوسائٹی میں احتیاط زیادہ ہوگی وہاں لین دین کی بددیانتی کا جرم پرورش نہیں پاسکتا طبعی طور پر.بعض جسموں میں بعض بیکٹریا زیادہ سرعت کے ساتھ پھیلتے ہیں ، بعض جسم مقابلہ کرنے

Page 369

خطبات طاہر جلد ۶ 365 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء والے ہوتے ہیں تو پہلا علاج تو یہ کرنا ہے کہ ساری جماعت ان بدیوں کا مقابلہ کرنے والی بنے.قرآن کریم نے جو حکم دیا ہے کتابت کا اُس کے ہر پہلو کو پورا کرے.تحریر جہاں لکھنا ضروری ہے وہاں لکھے، جہاں پختگی پیدا کرنے کے اور ذرائع اختیار کرنے ہے وہاں اختیار کرے.بہت سے لوگ تو ایسے ہیں جو اگر مجھے وقت سے پہلے خط لکھ دیتے تو میں ان کو بتا دیتا کہ آپ نے ہرگز یہ کام نہیں کرنا.بعد میں بتاتے ہیں کہ یہ ہو گیا حالانکہ وہ ایسی چیزیں ہیں اگر نظری طور پر بھی میرے سامنے آتیں تو میں کہ دیتا.بعض دفعہ ایک خط کی تمہید پڑھتے پڑھتے جب وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص سے ہم نے یہ سودا اسی وقت الارم خطرے کا بج جاتا ہے میں کہہ دیتا ہوں کہ بس اگر یہ کر لیا تو مارے گئے بیچارے اور بسا اوقات پھر یہ اطلاع ہوتی ہے کہ ہم نے کیا اور ہم مارے گئے.تو جب خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ میں آپ کو خلافت عطا فرمائی ہے اور جب میں خلافت کہتا ہوں تو سارا نظام خلافت جو اس کے ساتھ کام کر رہا ہے وہ ساری مراد ہے میری.نظامِ جماعت ہے جو اس کے ساتھ ہے، ایک دوسرے کو صحیح اطلاعیں دینے کا ایک رابطہ ہے اور بہت سے فوائد ہیں نظام سے جو آپ حاصل کر سکتے ہیں.تو دوسرا طریق یہ ہے کہ نظام کے ان تمام سہولتوں سے جہاں تک ممکن ہے آپ فائدہ اُٹھا ئیں اور ویسے بھی اگر کوئی نئی تجارت کرنی ہے، کوئی نیا کام کرنا ہے تو جب آپ دعا کے لئے لکھتے ہی ہیں عموماً تو ساتھ کچھ تفصیل بھی دے سکتے ہیں کہ یہ ہمارے ذہن میں ہے.کئی دفعہ ایسا ہوا ہے اللہ کے فضل سے وقت کے اوپر میں نے ان کو روک دیا ہے کہ یہ کام نہیں کرنا بعد میں اُن کا خط آیا کہ الحمد للہ خدا نے بچالیا ہمیں ور نہ بڑا ابتلاء پیش آ جانا تھا.تو دعا کے لئے بھی لکھیں ساتھ کچھ تفصیل بھی بتا دیا کریں اور اگر کہیں چھان بین کی ضرورت ہے تو امیر جماعت سے رابطہ کریں.امیر جماعت کے علاوہ نظارتیں بھی ہیں ، براہِ راست مجھے بھی لکھ سکتے ہیں، میں تحقیق کروا سکتا ہوں.تو جس حد تک ممکن ہے یہ فیصلہ کر لیں کہ ہم نے اپنے اندران بد بخت جراثیم کو پلنے ہی نہیں دینا اپنا دفاع مضبوط کر لینا ہے.دفاع جسم کا مضبوط نہ ہو تو یہ جو (Germ) جرم کش دوائیں ہیں وہ بھی کام نہیں دیتیں بنیادی طور پر آپ کا دفاع ہی ہے جو کام دیتا ہے.ایڈز کی بیماری کیا ہے؟ یہی ہے کہ جسم کا دفاع ناکام ہو چکا ہے اب اس کے اوپر لا کھ پنسلین آپ جسم میں داخل کریں، لاکھ دوسری دوائیں مائی سین یا اور قسم کی جرم کش دوائیں داخل کر دیں کچھ

Page 370

خطبات طاہر جلد ۶ 366 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء بھی نہیں ہو گا اس سے.جسم نے ہی جب ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے دفاع کرنا چھوڑ دیا ہے تو کوئی فائدہ بیرونی مدد نہیں کر سکتی.پس جسم کا دفاع مضبوط ہو جائے تو بغیر دواؤں کے بعض دفعہ شدید سے شدید خطرناک امراض کو مغلوب کرنے کی جسم میں طاقت پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے ایک جہاد تو آپ نے یہ کرنا ہے.دوسرے نظام جماعت کو ان ایسے لوگوں کو پہن پوائنٹ (Pin point) کر لینا چاہئے جن سے بعض دوسروں کو خطرہ ہے اور ان کے متعلق تحقیق کرنی چاہئے ان کے لین دین کے مطابق سنجیدگی کے ساتھ صرف فیصلوں کے لئے نہیں بلکہ پیش بندی کے لئے بھی.بعض لوگوں کے متعلق پتا ہوتا ہے اُمراء کو کہ ان سے خطرہ لاحق ہے.ان کے متعلق ایسے ایکشن لینے چاہئیں کہ وہ جماعت کے سامنے آجائے معاملہ کوئی ان سے پوشیدہ نہ رہے، ایسا نہ ہو کہ جس کو ان کے شر سے محفوظ رکھا جا سکتا ہو معقول طریق پر اور نہ رکھا جائے.اب یہ معاملہ ایسا ہے کہ جس میں بعض احتیاطوں کی بھی ضرورت پڑے گی یعنی ایک شخص کے متعلق یہ مشہور کر دینا ایک امیر کی طرف سے کہ یہ بد کردار ہے، یہ لین دین میں ایسا ہے یہ بھی مناسب بات نہیں ہے کئی موقعوں پر اس سے زیادتی بھی پیدا ہو سکتی ہے.اس لئے میں نے کہا کہ پہلے تحقیق ایسی پختہ کریں کہ اس کے بعد اگر مشورہ مانگنے والا آئے تو اس کو بتا ئیں کہ اس پختہ تحقیق کے نتیجے میں اس نے یہ بات کہی تھی بس آگے آپ کی مرضی ہے آپ آزاد ہیں چاہیں لین دین کریں چاہیں تو نہ کریں اور اگر اس نظام کو رواج دیا گیا جماعت میں کہ سب لوگ مشورے کریں اپنی ذاتی تجارتوں کے معاملے میں بھی ، لین دین کے معاملات میں اور بعض لوگ جماعت کی نظر میں ہوں کہ یہ خطرناک ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجے میں بہت سی مصیبتوں سے جماعت نجات بخش سکتی ہے.لین دین کے معاملے میں اگر گندگی ہو تو جو پچھلی ساری باتیں ہیں وہ ساری ضائع ہو جاتی ہیں ، آہی نہیں سکتیں نہ جھوٹ سے نجات مل سکتی ہے نہ سچائی حاصل ہوسکتی ہے نہ اخلاق حاصل ہو سکتے ہیں ریاء کاری حاصل ہو سکتی ہے صرف کیونکہ اکثر دھوکہ دینے والے دو قسم کے اخلاق رکھتے ہیں.ایک پہلے کا خلق اور ایک بعد کا خلق.معاملہ کرنے سے پہلے انتہائی نرمی کے ساتھ ایسی ایسی پیار کی باتیں کرتے ہیں اور ایسے ایسے ان کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے ان کو دیکھ کر اور جب وہ ایک دفعہ پیسہ کھا جائیں اس پہ قبضہ کر لیں پھر آپ ان کے سامنے جا کے دیکھیں

Page 371

خطبات طاہر جلد ۶ 367 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء آپ نظر آتے ہیں تو ان کو غصہ آجاتا ہے.یہ بد بخت ہوتا کون ہے دن رات مصیبت ڈالی ہوئی ہے مجھے اور پھر وہ گھروں میں بھی جھوٹ بلواتے ہیں، دروازہ کھٹکتا ہے تو بچوں کو تعلیم دے کر بھیجتے ہیں کہ فلاں بد بخت آدمی نظر آجائے تو کہنا یہ ہے ہی نہیں ہمارا باپ.وہ جو نیک ہے وہ بد بخت ہو جاتا ہے ان کے لئے جو بد بخت ہے وہ گھروں میں چھپنے لگ جاتا ہے اور نیکوں سے نفرت کرنے لگ جاتا ہے.یہ سارے گندگی کے پہلو ہیں جنہیں لے کے ہم اگلی صدی میں داخل نہیں ہو سکتے اگر داخل ہوں گے تو پھر اگلی صدی سے خیر کی توقع نہیں رکھ سکتے، غیر قو میں ہم سے خیر کی توقع نہیں رکھ سکتیں.اس لئے اس جہاد میں مصروف ہو جائیں اور اس جہاد میں آپ مصروف ہوں گے تو ایک عجیب کیفیت پیدا ہوگی تضاد کی.ایک طرف آپ کو غیر مسلم کہنے والے دن بدن اسلامی قدروں سے محروم ہوتے چلے جارہے ہیں ، ایک طرف جن کو غیر مسلم کہا جا رہا ہے وہ دن بدن اسلام کا ایک خالص اور ٹھیٹھ نمونہ بن کے دنیا کے سامنے ابھر رہے ہوں گے.خدا کس طرح دیکھے گا ان دونوں قسم کے لوگوں کو اور بالآخر دنیا کے ضمیر کے اندر جو خدا نے سچائی پیوستہ کر دی ہے جسے اکھیڑنا بھی چاہیں تو وہ اکھیڑ نہیں سکتے اس سچائی کا کیا فیصلہ ہوگا.یہ دو باتیں جب اکٹھی ہوں گی تو پھر وہ عظیم انقلاب بر پا ہو جائے گا آپ کی فتح اور غلبہ کا جسے دنیا کی کوئی طاقت روک نہیں سکتی.پس آج اس جمعہ میں ان باتوں پر عمل کرنے کا فوری وقت تو نہیں ہے کیونکہ جمعہ میں تو آپ بات بھی نہیں کر سکتے خاموش بیٹھے رہیں گے لیکن نیتوں کا وقت ضرور ہے، فیصلوں کا وقت ضرور ہے اور جن تک یہ بات بعد میں بھی پہنچے ہم دعا کرتے ہیں کہ خدا ان کے لئے بھی جمعۃ الوداع کی برکتوں کا دن بنادے وہ وقت جب وہ یہ بات سن رہے ہوں اور ان کے دل میں بھی خدا اسی قسم کی مضبوط نیکی کی تحریکیں پیدا کر دے اور پھر ان کو تقویت عطا فرمائے.یہ چار باتیں تھیں جو میں آج آپ سے کہنا چاہتا ہوں.عہد کریں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں تک خدا آپ کو توفیق عطا فرماتا ہے ان پر عمل کریں گے اور ان پر آگے عمل کروائیں گے اور عمل کروانے کے لئے ایک ڈھن لگا لیں گے جس طرح مسیح کے حواریوں کو ڈھن لگ گئی تھی اس طرح یہ ڈھن لگا لیں اپنے اندر پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کتنی تیزی کے ساتھ جماعت اور بھی زیادہ ترقیوں کی طرف بڑھنے لگے گی.

Page 372

خطبات طاہر جلد ۶ 368 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء آخر پر دعا کے متعلق میں یہ صرف اتنا عرض کروں گا کہ جو احمدی بیچارے مسجدوں سے محروم کر دیئے گئے ہیں بڑے ہی مظلوم ہیں ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ عبادتوں کے لئے اکٹھے ہوں ، سب سے زیادہ وہ ہی اکٹھے ہونے والے تھے ان کے لئے جگہ نہیں چھوڑی گئی.جہاں تک ان کا تعلق ہے ان کی عبادتوں کا تعلق ہے ان کو تو میں یہ پیغام دیتا ہوں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف سے پیغام دیتا ہوں کہ خدا نے تمہارے لئے زمین کا چپہ چپہ مسجد بنا دیا ہے.بالکل غم اور فکر نہ کر وہ تمہاری عبادتیں پہلے سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں جہاں بھی تم عبادتیں کر رہے ہو لیکن جنہوں نے ان کو محروم کیا ہے ان کی بد بختی کا تصور کریں.ان کی عبادتیں کہیں بھی مقبول نہیں ہور ہیں لازماً مردود ہو چکی ہیں.اس لئے اپنی دعاؤں میں ان مظلوموں کو بھی یاد رکھیں کہ ان کے دل کا درد دور کرنے کا خدا انتظام فرمائے ، دوبارہ ان کے اکٹھا ہونے کا انتظام فرمائے اور ان کو دشمن کے شر سے محفوظ رکھے اور ان کے دلوں کو حوصلہ دے، ڈھارس دے، ان کے صبر کا مرتبہ بلند فرمائے اور ان کے اندر راضی برضا ہونے کا حوصلہ پید فرمائے.راضی برضا ہونے کا بھی حوصلہ چاہئے بڑی مزیدار بات ہے راضی برضا ہونا لیکن بے حوصلے کے نصیب نہیں ہوا کرتی.تو ان کے لئے خصوصیت سے یہ دعا کریں اور انہوں نے جنہوں نے اپنا مقدر تباہ کر لیا ہے مسجدوں پر حملے کر کے ان کے لئے دعا کریں اللہ ان کو عقل دے پیشتر اس کے کہ وہ مریں خدا ان کو ہدایت عطا فرمائے اور بدنصیبی کی حالت میں ان کو موت نہ دے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج بھی نماز جنازہ غائب ہو گی جمعہ کے بعد اور دس مرحومین ہیں جن کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے گی.ایک عبدالستارخان صاحب ایڈووکیٹ سرگودھا، ہمارے چوہدری حمید اللہ صاحب وکیل اعلیٰ کی بیگم کے بھائی تھے یہ خاموش طبیعت تھے مگر بہت دل میں نیکی اور اخلاص تھا.پچھلے کچھ عرصہ سے کافی بیمار چلے آرہے ہیں.ان کا مجھے خط بھی ملا تھا خاص طور پر اس میں یہ تاکید تھی کہ جنازہ ان کا میں پڑھوں.مجھے تو آج ہی ابھی پتا لگا ہے کہ یہ فوت ہو گئے ہیں معلوم ہوتا ہے پہلے خط آیا ہوگا میرے ذہن میں نہیں رہا.

Page 373

خطبات طاہر جلد ۶ 369 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء اسی طرح ہمارے سیالکوٹ کے ایک مخلص خاندان خواجگان کا خاندان ہے، خواجہ عبدالرحمان صاحب کے بیٹے ، جماعت میں بڑے معروف ہیں خواجہ سرفراز احمد اور ان کے دیگر بھائی خدا کے فضل سے جماعت کے سب کاموں میں بہت پیش پیش اور یہ گھر مہمان نوازی کے لحاظ سے ایک خاص مقام رکھتا ہے سیالکوٹ میں.خواجہ سرفراز احمد کی والدہ وفات پاگئی ہیں، موصیبہ تھیں.صغراں بیگم صاحبہ اہلیہ منشی سلطان احمد صاحب منڈ یکے گورائیہ ضلع سیالکوٹ ہمارے شریف خالد صاحب جو پہلے پروفیسر ہوا کرتے تھے اور ایڈووکیٹ ہیں آجکل ربوہ میں ان کی نسبتی بہن ہیں جو حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ کے جنازے میں شرکت کے لئے آرہی تھی تو راستے میں بس کے حادثے میں شہید ہوگئیں.مکرمہ انور بیگم صاحبہ یہ مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر مرحوم کی اہلیہ تھیں.جماعت کے جو پرانے لوگ ہیں، ان معنوں میں پرانے کہ قادیان کا زمانہ یاد ہوگا ، وہ خوب واقف ہوں گے مولوی محمد یعقوب صاحب طاہر سے.زود نویں تھے اور ایسے کہ نہ ان کی زندگی میں کوئی ایسا زود نویس اور دیکھا گیا نہ ان کے بعد پھر کبھی نصیب ہوا.تو اکیلے حضرت مصلح موعودؓ کی ساری تقریریں لکھتے تھے اور اتنی اچھی وہ پھر Reproduce کر لیتے تھے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا، نہیں تو لکیریں ہی نظر آتیں تھیں مگر تمام کی تمام تقریر کم و بیش من و عن اس طرح وہ صاف کر کے پھر حضرت خلیفتہ المسیح کی خدمت میں پیش کیا کرتے تھے.وہ زمانہ تھا جب ریکارڈنگ وغیرہ تو ہوا نہیں کرتی تھی خود ہاتھ سے لکھتے تھے لوگ اور مولوی محمد یعقوب صاحب آٹھ آٹھ نو نو گھنٹے کی تقریریں لکھ رہے ہوتے تھے ساتھ اور بغیر خطا کے الا ماشاء اللہ اس کو پھر دوبارہ اسی حالت میں پیش کر دینا حیرت انگیز معجزانہ کام تھا.آخری عمر پہ ان کے ہاتھ بیچاروں کے مڑ بھی گئے تھے اتنا لمبا عرصہ تک یہ کام کرنے کی وجہ سے ان کے ہاتھ کی طبعی شکل میں تبدیلی پیدا ہوگئی تھی لیکن بڑے نیک بہت مخلص فدائی آدمی ان کی اہلیہ نے اب وفات پائی ہے انہوں نے ان کے لئے خاص طور پر دعا بھی کی جائے.اسی طرح باقی سب کے لئے بھی.ایک ہمارے کوٹ مومن کے دومیاں بیوی بہت مخلص تھے یکے بعد دیگرے بہت تھوڑے عرصے میں انہوں نے وفات پائی ہے.ہمارے عبدالحمید صاحب غازی جو انگلستان کی جماعت کے معروف خدمت کرنے والے ہیں ان کے عزیز تھے یہ.اقبال بیگم اور شیخ مشتاق احمد صاحب یہ

Page 374

خطبات طاہر جلد ۶ 370 دونوں بہت تھوڑے تھوڑے وقفے سے ایک دوسرے کے بعد فوت ہو گئے.خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء پھر ایک ڈاکٹر محمد اسلم صاحب ہومیو پیتھ لاہور کے تھے یہ بھی عبدالحمید صاحب غازی ہی کی طرف سے اطلاع ملی ہے.یہ بھی میں جانتا ہوں بڑے نیک آدمی خدمت کرنے والے یہ بھی وفات پاگئے ہیں ان کو فالج کا حملہ ہوا تھا کچھ عرصہ پہلے.شیخ محمد اقبال صاحب شیخ محمد حنیف صاحب کے بھائی ( مجھے تو یاد پڑتا تھا کی ان کی نماز جنازہ ہو گئی ہے مگر یہاں انہوں نے بتایا ہے کہ ابھی تک نہیں ہوئی ) یہ بھی بہت مخلص خاندان کے فرد تھے خود بھی بڑے نیک مزاج اور خوش خلق.اسی طرح ڈاکٹر صادق احمد صاحب بنگالی کنری سندھ کے ہیں.یہ بھی بہت جماعت سے محبت کرنے والے مخلص، دین کی خدمت کرنے والے.سعید الدین احمد ابن حمید الدین صاحب جرمنی ( سعید الدین احمد بچہ ہے آٹھ ماہ کی عمر تھی جب وہ وفات پا گیا) حمید الدین صاحب نے درخواست کی ہے کہ صحت مند بچہ تھا اور کوئی بیماری بھی نہیں ہوئی صرف ایک بیماری ہے جو بہت ہی Rare ہے کہ سوتے میں بغیر کسی بیماری کے دم نکل جائے اس سے چونکہ وفات ہوئی اس لئے ماں باپ کے لئے غیر معمولی صدمے کا موجب ہے تو ان سب کی نماز جنازہ انشاء اللہ نماز جمعہ کے معا بعد ہوگی.عید کے متعلق وقت کا اعلان امام صاحب نے کر دیا ہو گا انشاء اللہ ساڑھے دس بجے اسلام آباد میں ہوگی.جہاں تک جمعہ کا تعلق ہے اس کے متعلق میں نے تمام احادیث اور فقہی آراء اکٹھی کروائی تھیں ان کا مطالعہ کیا ہے بڑی تفصیل سے اس وقت اس کے تفصیل سے بتانے کا تو موقع کا نہیں لیکن ایک پہلوا بھی تشنہ ہے یہ دیکھنا باقی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایک ہی موقع آیا جس میں جمعہ اور عید ا کٹھے تھے یا ایک سے زیادہ مواقع آئے.اگر ایک ہی موقع تھا تو پھر جومستند روایات ہیں وہ یہی بتاتی ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے خود جمعہ پڑھا عید کے علاوہ اور باہر سے دور سے آنے والوں کو رخصت دی اور جو مقابلہ غیر مستند یا دور کی روایات ہیں اُن سے دو قسم کی شکلیں آرہی ہیں سامنے.ایک یہ کہ آپ نے جمعہ پڑھا عید کے ساتھ ہی اور پھر نماز ظہر بھی اس وقت نہیں پڑھی گئی اور ایک یہ کہ نماز ظہر پڑھی گئی اور جمعہ نہیں پڑھا گیا.تو اگر ایک ہی جمعہ تھا تو پھر یہ باقی ساری

Page 375

خطبات طاہر جلد ۶ 371 خطبه جمعه ۲۲ رمئی ۱۹۸۷ء روایتیں نا قابلِ اعتماد ہیں اور سب سے زیادہ وزن دار روایت وہی ہے جس کو میں نے بیان کیا ہے اور اگر ایک سے زائد جمعہ ہیں تو پھر ہو سکتا ہے کہ ایک جمعہ میں ایک مؤقف اختیار فرمایا گیا ہو اور دوسرے جمعہ میں دوسرا مؤقف اختیار فرمایا گیا ہو.چونکہ یہ بات ابھی قابل تحقیق ہے اس لئے ہم اسی مستند روایت پر ہی عمل کریں گے یعنی اسلام آباد میں عید ہوگی اور جو دور سے آنے والے ہیں جن کو آنحضرت ﷺ نے خود رخصت فرما دی کہ وہ بے شک جمعہ میں شامل نہ ہوں ان کا جمعہ عید کے ساتھ ہی ہو جائے گا لیکن ہم جمعہ پڑھیں گے یہاں اور مختصر جمعہ بالکل چند کلمات کہہ کر مسنون خطبہ کے بعد وہ ختم کر دیا جائے گا.اس لئے جو دوست اس حلقے میں رہنے والے ہیں جو شامل ہو سکتے ہیں یا جو نماز ظہر میں شامل ہوتے ہیں وہی شامل ہوں جو دور سے آنے والے ہیں ان کو خدا اور رسول نے اجازت دے دی ہے مگر اگر وہ شامل ہونا چاہیں کہیں جمعہ میں تو ان کی مرضی ہے.اس سے روکا بھی نہیں ہے.اسلام آباد والے فیصلہ کر لیں وہاں تو میرا خیال ہے مرکزی جمعہ جو ہے یہیں کا کافی ہے.وہاں اس وقت باقیوں کے لئے ابتلاء آجائے گا کیونکہ جو لوگ پھیلے ہوئے ہوں گے وہاں کھانا کھا رہے ہیں مختلف مشاغل میں مصروف اگر جمعہ کی اذان ہو اور وہ نہ شامل ہوں تو اپنے آپ کو مجرم محسوس کریں گے.اس لئے بہتر یہی ہے کہ وہاں ظہر کی نماز ہی پڑھی جائے اور ان کا جمعہ عید کے ساتھ ہی شامل ہو جائے گا.یہاں مرکزی مسجد میں جو اس وقت ہماری مرکزی مسجد ہے اس میں ہم جمعہ ادا کریں گے.

Page 376

Page 377

خطبات طاہر جلد ۶ 373 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۸۷ء عید کے دن جمعہ کا مسئلہ نیز رمضان کے بعد تعلق باللہ میں اضافہ کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ مئی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جیسا کی پچھلے جمعہ میں میں نے بتایا تھا آج کا جمعہ بعض روایتوں کے مطابق تو طوعی ہے یعنی اجازت ہے کہ جمعہ ہو یا نہ ہو اور بعض روایتوں کے مطابق طوقی نہیں بلکہ جمعہ بہر حال ہونا چاہئے شامل ہونے والوں کو اجازت ہے کہ وہ چاہیں تو شامل ہوں چاہیں تو نہ ہوں یعنی چند ہی اگر ہو جائیں تو کافی ہے اور یہ جو روایت ہے اس کا زیادہ وزن معلوم ہوتا ہے کیونکہ امام مالک نے موطا میں یہ روایت درج کی ہے اور جو رخصت والی ہیں کہ جمعہ بے شک ہو ہی نہ (موطا امام مالک کتاب نداء الصلوۃ حدیث نمبر : ۳۸۵) بالکل وہ روایتیں بعد کی ہیں اور بعض تو ان میں سے آثار ہیں صرف یعنی حدیث کی بجائے وہ صرف صحابہ تک بات پہنچتی ہے.حدیث اور اثر میں فرق یہ ہے کہ حدیث وہ کلام ہے جو آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہو خواہ بیچ کی ساری کڑیاں محفوظ ہوں یا نہ ہوں اور اثر کہتے ہیں ایسی بات کو جو صحابہ تک بات پہنچا کے چھوڑ دے اور آگے صحابہ سے رسول اکرم ﷺ کے درمیان کڑی نہ ملائے.اس پہلو سے جب میں نے جائزہ لیا تو وہ حدیثیں جن کا رخصت کی طرف کلی رخصت کی طرف رجحان ہے وہ یہ بیان یا تو بہت بعد کے زمانے کی ہیں یا پھر صرف آثار ہیں یعنی یہ بیان کیا گیا کہ حضرت علی یوں کیا کرتے تھے یا ان کا یہ خیال تھا ، ابن عباس کا یہ خیال تھا یا ان کا یہ عمل تھا، ان کا یہ

Page 378

خطبات طاہر جلد ۶ 374 خطبه جمعه ۲۹ رمئی ۱۹۸۷ء فتویٰ تھا.تو اس پہلو سے میں نے پھر یہی مناسب سمجھا کہ جو زیادہ وزنی چیز ہے اسی کو اختیار کیا جائے اور مزید تحقیق ہوگی آئندہ جب بھی تو یہ معلوم کیا جائے گا کہ رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں ایک سے زیادہ تو نہیں ہوئے ایسے موقعے.بعض موقعوں پر آپ نے شروع میں ہوسکتا ہے یہ موقف اختیار کیا ہو کہ مرکزی جمعہ بہر حال ہو اور باقیوں کو رخصت ہے.ہوسکتا ہے کسی اور موقع پر آپ نے فرما دیا ہو کہ ٹھیک ہے آج ہم سب رخصت سے فائدہ اٹھاتے ہیں.تو جب وہ تحقیق ہوگی تو پھر انشاء اللہ جماعت کے سامنے پھر پیش کر دی جائے گی.آج تو صرف سنت پوری کرنی تھی اور یہ کہہ کر میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں کہ دعاؤں کا خاص دور تو گزر گیا ہے مگر دعاؤں کا وقت بہر حال نہیں گزرا.یہ خیال کہ عبادتوں کا وقت بھی رمضان کے ساتھ محدود دعاؤں کا وقت بھی یہ بالکل غلط تصور ہے.زندہ خدا کے ساتھ جو مذہب منسوب ہوتے ہیں ان کا ایمان بھی زندہ، ان کی دعائیں بھی ہمیشہ زندہ ، ان کا تعلق باللہ زندہ.رمضان نے اس زندگی میں اضافہ کیا ہے یعنی رمضان کے بعد پہلے سے زیادہ تعلق قائم پیدا ہو جانا چاہئے.رمضان کے بعد پہلے سے زیادہ عبادتیں ہو جانی چاہئے.یہ ہے اصل صحیح تصور، یہ نہ ہو کہ چونکہ رمضان میں ہو گیا تعلق اس لئے السلام علیکم.اب ہم اس تعلق کو تو ڑ لیتے ہیں اور آئندہ سال پھر رمضان کو سلام کریں گے.یہ بالکل جاہلانہ خیال ہے لیکن افسوس کہ عموماً مسلمانوں میں یہی رجحان پایا جاتا ہے.جماعت احمدیہ کو اس غلط رجحان سے اگر ان میں ہے تو استغفار کرنا چاہئے اور اس رنگ میں رمضان کو دیکھنا چاہئے کہ گویا سیڑھیاں ہیں.جب اگلا رمضان آئے تو ایک سیڑھی پر اور اوپر قدم چلا جاتا ہے اس کے بعد نہ نیچے اترتے ہیں نہ فلیٹ دور ہے کوئی پھر اگلے رمضان کی سیڑھی آپ کو اور اونچا پہنچا دیتی ہے.یہ ہے صحیح اسلامی زندگی اور اسلامی سفر کا تصور.اللہ ہمیں اس پر قائم فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی شیخو پورہ سے کچھ عرصہ پہلے یہ خبر ملی ہے کہ حضرت چوہدری انور حسین صاحب امیر جماعت شیخو پورہ جو سلسلے کے پرانے مخلص خادم ہیں ان کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں.انا للہ وانا اليه راجعون.تو نماز جمعہ کے معا بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.

Page 379

خطبات طاہر جلد ۶ 375 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء ہر مالی قربانی تزکیہ نفس کا باعث ہے خص بلا استثناء مالی قربانی میں حصہ لے ( خطبہ جمعہ فرموده ۵/ جون ۱۹۸۷ء بمقام بیت محمودز یورک سوئٹزر لینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا:.انگلستان میں جب خطبہ دیا جاتا ہے تو ساتھ ساتھ اس کے ترجمہ کا بھی انتظام ہے اور جن لوگوں کو اردو سمجھ نہیں آتی ، صرف انگریزی دان ہیں ان کو ہیڈ سیٹس (Head Sets) مہیا کر دئیے جاتے ہیں جن سے وہ ساتھ ساتھ خطبہ کا ترجمہ انگریزی میں سن سکتے ہیں.یہاں زیورک کی جماعت کے پاس ایسا کوئی انتظام نہیں ہے جبکہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک کافی تعداد ایسے احمدیوں کی موجود ہے جو جرمن زبان سمجھتے ہیں مگر اردو یا انگریزی نہیں سمجھتے.اس لئے آج یہ طریق اختیار کیا جائے گا کہ خطبہ کو میں ٹھہر ٹھہر کر بیان کروں گا اور ہر ٹکڑے کے بعد شیخ ناصر احمد صاحب اس بیان شدہ حصہ کا ترجمہ جرمن زبان میں ساتھ ساتھ کرتے چلے جائیں گے.اس لحاظ سے خطبہ کچھ مختصر بھی کرنا پڑے گا کیونکہ اگر گھنٹہ بھر کاخطبہ ہو تو ترجمہ سمیت پھر دو گھنٹے تک بات پہنچ جاتی ہے جو تکلیف مالا يطاق ہے.یہ جون کا مہینہ جماعت کے مالی نظام میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیوں نکہ بہت سے ممالک میں جہاں جماعت کی بڑی تعداد ہے یہ ادائیگیوں کا آخری مہینہ ہے.اس پہلو سے چندہ عام اور چندہ وصیت کے لحاظ سے جماعت سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ اس مہینے کے آخر سے پہلے پر اپنے سارے بقائے ادا کر دیں.ہر جون ہر سال یہی پیغام لے کے آتی ہے اور جہاں تک جماعت کی استطاعت ہے اس کے تقاضے بہت عمدگی کے ساتھ ، ذمہ داری کے ساتھ پورے کرتی چلی آرہی

Page 380

خطبات طاہر جلد ۶ 376 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء ہے.لیکن اس سال اس راہ میں کچھ مشکلات پیدا ہوئی ہیں.کئی ممالک میں بعض آسمانی آفات کی وجہ سے مالی طور پر وقتیں پیدا ہوئیں اور اس کے علاوہ صد سالہ جوبلی کے قرب کی وجہ سے جو گزشتہ سال میں نے تحریک کی تھی کہ آئندہ سال خصوصیت کے ساتھ صدسالہ جو بلی کے بقایا ادا کئے جائیں وہ اتنا بڑا مالی بوجھ ہے، بوجھ کا لفظ تو مناسب نہیں ہو گا ، اتنی بڑی مالی ذمہ داری اور مالی ذمہ داری کا اعزاز ہے کہ اگر وہ بھی پورا کیا جائے اور پھر اس سال کے چندے بھی ادا کئے جائیں تو ایک بہت ہی زیادہ مالی ذمہ داری جماعت کے اوپر پڑ جاتی ہے.ان امور پر غور کرتے ہوئے میں یہ سوچتا رہا کہ جماعت کو اس معاملے میں کیسے تحریک کروں جبکہ یہ جانتا ہوں کہ وہ مخلصین جو پورے اخلاص اور صداقت کے ساتھ اس عہد پہ قائم رہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے جو ذمہ داریاں مالی لحاظ سے ان پر عائد کی ہیں جو کچھ بھی ہو سکے وہ کر گزریں گے اور ان ذمہ داریوں کو ضرور ادا کریں گے.ان کو جب دوبارہ تحریک کی جائے تو ان کی مجبوریوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے انسان یہ سوچنے پہ مجبور ہو جاتا ہے کہ ان کے دل پر اس سے کیا گزرے گی کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بہت سے مخلصین کا ایسا طبقہ بھی ہے جو ہر آواز پر لبیک کہنے کی بے قرار تمنا رکھتا ہے اور کامل خلوص کے ساتھ ہر قربانی کی آواز پر لبیک کہنا چاہتا ہے اور اپنے عہدوں کو اعمال میں بدلنا چاہتا ہے، اعمال میں تبدیل کرنا چاہتا ہے یعنی اعمال کے ذریعے اپنے عہدوں کی صداقت کو ثابت کرنا چاہتا ہے.ایسے طبقات تک جب یہ آواز پہنچتی ہے تو کچھ ان میں سے ایسے ہیں جو اپنی مجبوریوں کا دکھ محسوس کرتے ہیں لیکن وعدے پورا کرنے کی استطاعت نہیں پاتے.کچھ ایسے ہیں جو استطاعت اس حال میں پاتے ہیں کہ غیر معمولی قربانی ان کو دینی پڑتی ہے اور اپنے اعزاء اور اقرباء کی جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان سے ان کا حق چھین کر ان کو جماعت کی طرف منتقل کرنا پڑتا ہے.اس کے باوجود چونکہ میری ذمہ داری ہے اور جماعت کو وقتا فوقتا نیکیوں کی طرف بلا نا اور ان کی یاد دہانی کرواتے رہنا میرے فرائض منصبی میں داخل ہے اس لئے میں اس موضوع پر کچھ کہنے پر بہر حال مجبور ہوں.لیکن غور کے بعد کچھ خاص پہلو میں نے آج چنے ہیں جن کے متعلق میں آپ کو یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں.ایک بات تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میں نے بار ہا تجربہ کیا ہے کہ جب بھی مالی امور سے متعلق تحریک کی جاتی ہے تو بالعموم وہی طبقہ آگے آتا ہے جو پہلے بھی مالی قربانیوں میں آگے ہے اور وہ

Page 381

خطبات طاہر جلد ۶ 377 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء اپنے آپ کو اولین مخاطب سمجھتا ہے.اس لئے جن پر پہلے ہی مالی ذمہ داریاں زیادہ ہیں نسبت کے لحاظ سے وہ آگے بڑھ کر اور بھی زیادہ بوجھ اٹھانے کے لئے خوشی کے ساتھ آمادہ ہو جاتے ہیں لیکن ایک ایسا طبقہ جماعت میں ہے جو یا تو مالی نظام میں پوری طرح شامل ہی نہیں یا اپنی توفیق کے مطابق ادا نہیں کر رہا.ان میں امراء بھی ہیں اور غرباء بھی.دراصل وہ میرے مخاطب ہیں اور خصوصیت کے ساتھ آج وہ میرے مخاطب ہیں کیونکہ میرا گزشتہ تجربہ مجھے یہ بھی بتاتا ہے کہ زیادہ تر یہی وہ طبقہ ہے جن تک یا تو خطبات کی آواز نہیں پہنچتی یعنی ان میں سے بعض اتنے بے تعلق ہو چکے ہیں کہ وابستہ رہتے ہوئے بھی جماعت کے پروگراموں سے پوری طرح آشنا نہیں ہوتے ، خلفائے وقت جو بھی تحریکات کرتے ہیں ان سے رابطہ نہیں رکھتے اور چونکہ جماعت سے بالعموم رابطہ کمزور ہو جاتا ہے اس لئے کئی جمعوں میں بھی وہ غائب رہتے ہیں.تو ایک حصہ ایسا ابھی بھی موجود ہے جن تک آواز ہی نہیں پہنچتی.اس لئے وہ گزشتہ تحریکات کے دوران غالبا عدم علم کی وجہ سے اپنی بعض کمزوریوں کو دور نہیں کر سکے لیکن کچھ ایسا طبقہ بھی ہے جن تک آواز تو پہنچتی ہے مگر مجبوریاں حائل ہوتی ہیں اور اس کی بناء پر یہی وہ جس کو مجبوریاں سمجھتے ہیں ان کے پیش نظر کچھ دیر تک وہ خطبہ سن کر یا جماعت کے دوسرے عہد یداران کی تحریک کے اثر سے سوچتے رہتے ہیں کہ ہمیں کچھ قدم اٹھانا چاہئے پھر وہ نیکی کی تحریک دب جاتی ہے اور وہ دنیا کے عام دستور کی طرف لوٹ جاتے ہیں.اس دوسرے طبقے میں دو قسم کے لوگ شامل ہیں ایک طبقہ ان میں وہ ہے جن کی آمدن تھوڑی ہے اور ذمہ داریاں زیادہ ہیں.وہ اپنے نفس کو یہ کہہ کر مطمئن کرتے ہیں کہ ہمیں توفیق نہیں ہے لیکن جیسا کہ میں نے بار ہا یاد دہانی کرائی ہے جن کو توفیق نہیں ہے یاوہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھے توفیق نہیں اسے غائب رہنے کا حق نہیں ہے نہ از خود فیصلہ کرنے کا حق ہے اس کو چاہئے کہ دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ کام لیتے ہوئے اپنی مجبوریوں سے مختصر ا مطلع کر دے جماعت کو یا اگر جماعت کے سامنے حالات کھول کر بیان کرنا مناسب نہ سمجھیں تو مجھے لکھ دیں اور میں نے عموما یہ وعدہ کیا ہوا ہے جماعت سے کہ ایسے سب دوستوں کو ان کی توفیق کے مطابق چندہ ادا کرنے کی اجازت دے دیا کروں گا تا کہ ان کا یہ فعل خدا کی نگاہ میں کوئی کمزوری شمار نہ ہو بلکہ با قاعدہ نظام جماعت کے مطابق جتنی ذمہ داری ان کو ادا کرنی چاہئے وہ ادا کر رہے ہوں.اس سے ان کے دل میں بھی پھر حرکت پیدا ہوگی ،ان کے

Page 382

خطبات طاہر جلد ۶ 378 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء اندر بھی یہ احساس پیدا ہو گا کہ ہم خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک فعال حصہ ہیں جماعت کا اور ہم کوئی جرم نہیں کر رہے.اس کے نتیجے میں نئی نیکیوں کی توفیق ملے گی.ابھی تک میں سمجھتا ہوں کہ ایک حصہ ایسا موجود ہے جماعت میں جس نے اس کی ضرورت نہیں سمجھی حالانکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی زندگی گزارنا کہ توقع ہے کہ وہ ایک شرح کے مطابق چندہ ادا کریں اور از خود نہ ادا کر رہے ہوں.یہ ایک قسم کی مجرمانہ ہی زندگی ہے، تقویٰ کے اعلیٰ معیار کے مطابق نہیں ہے لیکن اجازت لے کر وہی فعل کرنا اس کے نتیجے میں دل میں ایک شرح صدر پیدا ہوتا ہے، انسان کے اندر ایک خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور باقی نیکیوں میں حصہ لینے کے لئے حوصلہ پیدا ہوتا ہے.اس لئے ان دو حالتوں میں زمین آسمان کا فرق ہے اس لئے جب میں یہ تحریک کرتا ہوں اور یاد دہانی کراتا ہوں تو اس کے پیچھے حکمت ہے اس کو سمجھیں اور ابھی تک اگر آپ میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جنہوں نے یہ فعل نہیں کیا تو اب کر کے اپنے نفس کو مطمئن کریں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں.ایک بات کی وضاحت میں کرنی چاہتا تھا خواہ مخواہ اپنے ذمے جمعہ میں بولنے کا گناہ لیا.میں یہی بات کہنی چاہتا تھا جس کی طرف آپ نے مجھے ابھی توجہ دلانے کی کوشش کی ہے.اس بات کی میں وضاحت کرنا چاہتا ہوں کہ جو دوست مجھے یہ لکھتے ہیں کہ کلیہ چندہ معاف کر دیا جائے میں انہیں ہمیشہ یہ جواب لکھتا ہوں کہ مجھے اس بات کی توفیق ہی نہیں ہے کہ میں آپ کو کلیہ آزادی دوں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ آپ کی جان پر یہ سخت ظلم ہوگا اور دوسرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان کے خلاف کوئی فیصلہ کرنے کا کسی خلیفہ کو اختیارہی نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ، جب شرحیں مقرر نہیں ہو ئیں تھیں کہ جو بھی مجھ سے عہد بیعت باندھتا ہے وہ اپنے اوپر کچھ نہ کچھ ضرور فرض کرلے اپنی توفیق کے مطابق.اس لئے جب میں نے کھلی اجازت دی تو وہ فعل میرا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے تابع تھا اور آپ کی ہدایت کے نیچے تھا.میں نے ایک بعد کی مقرر کردہ شرح سے استثناء کیا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حکم سے استثناء نہیں کیا جو مامور وقت ہیں.اس لئے میں کبھی بھی کسی کو یہ اجازت نہیں دے سکتا نہ دیتا ہوں کہ وہ کلیہ مستی ہے.دوسرے میں یہ بیان کیا کرتا ہوں عموماً خط کے ذریعے اب میں جماعت کو بالعموم بتا دیتا

Page 383

خطبات طاہر جلد ۶ 379 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء ہوں کہ میں ان سے کہتا ہوں کہ تم پہ اس لحاظ سے بھی یہ ظلم ہوگا کہ میں جانتا ہوں کہ جو کچھ نہ کچھ مشکل کے باوجو دضر ور فرض کرتے ہیں ان کے اندر اللہ تعالیٰ بہت ہی پاکیزہ تبدیلیاں پیدا فرماتا ہے اور ان کے اموال میں بھی وسعتیں عطا فرماتا ہے اور برکت بخشتا ہے یہاں تک کہ بارہا ایسا ہوا ہے کہ جس کو میں نے اجازت دی جس نے خود مجبوریاں لکھ کے اجازت لی تھوڑے عرصے کے بعد ہی اس کا خط آیا کہ میرے حالات خدا کے فضل سے بالکل بدل چکے ہیں اور مجھے اب اس اجازت کی کوئی ضرورت نہیں.تو میں یہ جواب دیا کرتا ہوں کہ میں آپ کے اوپر دو ہر اظلم کرنے والا ہوں گا ( اول تو پہلے کی اجازت ہی نہیں مجھے ) لیکن پھر بھی دو ہر اظلم کرنے والا ہوں گا اگر میں آپ کو کلیۂ چندوں سے مستفی قرار دے دوں.پھر تزکیۂ اعمال کے ساتھ خدا کی راہ میں خرچ کئے جانے والے اموال کا اتنا گہراتعلق ہے کہ عمومی نام اس قربانی کا زکوۃ رکھا گیا اس لئے جو شخص بھی کچھ نہ کچھ خالص تقویٰ کے ساتھ اور خلوص کے ساتھ اللہ کی راہ میں پیش کرتا رہتا ہے اس کا ایک بہت ہی بڑا فائدہ اس کی ذات کو یہ پہنچتا ہے کہ اس کے اندر تزکیہ کا عمل جاری ہو جاتا ہے.اسی لئے اس موضوع کو سمجھنے سے یہ مسئلہ بھی حل ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم میں سورۃ جمعہ میں آنحضرت عے کے جو چار کام بتائے گئے ہیں ان میں بظاہر مالی قربانی کا ذکر نہیں.يَتْلُوا عَلَيْهِمُ التِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَلٍ مُّبِيْنٍ ) (الجمعہ: ۳) ان چاروں میں بظاہر مالی قربانی کا ذکر نہیں حالانکہ برسیم میں یہ داخل ہے کیونکہ قرآن کریم نے مالی قربانی کا بنیادی مرکزی نام زکوۃ رکھا اور تزکیہ کے اندر قربانی کا اتنا بڑا دخل ہے کہ وہ لوگ جن کو تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ مالی قربانیوں نے ان کے نفوس کی کایا پلٹ دی.ایک سے دوسرے، دوسرے سے تیسرے بلند مقام کی طرف انہوں نے حرکت کی ہے اور اس حرکت کا محرک مالی قربانی بنتی - ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مالی قربانی کرتے وقت بسا اوقات انسان کو چاروں طرف سے مشکلات دکھائی دینے لگتی ہیں اور اپنی حالت اور اپنی بیقراری پر رحم آنے لگتا ہے کہ میں کیا کروں.پھر وہ ایک فیصلہ کرتا ہے جو اس وقت اس کو تھوڑ اسا کرو ابھی معلوم ہوتا ہے کہ میں نے خدا کی خاطر یہ کام کرنا ہے چاہے کوئی تکلیف پہنچے میں یہ کام کروں گا.وہ ایک لمحہ فیصلے کا اس کی کایا پلٹ دیا کرتا ہے.اس کے

Page 384

خطبات طاہر جلد ۶ 380 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء اندر ایک عظمت کا احساس پیدا کر جاتا ہے.خود وہ جانتا ہے کہ اب میں دوسروں سے مختلف ہورہا ہوں یا اپنی پہلی حالت سے الگ ہو چکا ہوں.اسی لئے مالی قربانی کا تزکیہ سے اتنا گہرا تعلق ہے اور اتنا حقیقی تعلق ہے کہ میرے نزدیک نیز سیف کے فعل میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا قوم کو مالی قربانیوں کے لئے تیار کرنے کا بھی ذکر شامل ہے.یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مالی قربانی کی روح سے واقف ہونے کے بعد صحابہ نے حیرت انگیز نمونے دکھائے جو بعض پہلو سے ناقابلِ فہم ہیں.اصحاب صفہ وہ لوگ ہیں جن کے کمائی کے کوئی ذریعے نہیں تھے جو اپنے آپ کو خالصہ للہ وقف کر کے مسجدوں میں دھونی رما کے بیٹھ گئے تھے اور آنحضرت ﷺ کی کسی بات کو بھی کھونا نہیں چاہتے تھے ہاتھ سے اس لئے ہر وقت مسجدوں سے چمٹے ہوئے تھے اور غرباء تھے.جب انہوں نے سمجھا کہ مالی قربانی کی کتنی عظمت ہے تو باوجود اس کے کہ خودان کا گزارہ لوگوں کے لائے ہوئے تحائف اور ہدیوں پر تھا.ان میں سے بہت سے ایسے تھے جنہوں نے کلہاڑیاں بنائیں اور جنگلوں میں نکل گئے اور لکڑیاں کاٹیں اور شہر میں لا کر بیچیں اور جو حاصل کیا وہ خود خدا کی راہ میں خرچ کرنا شروع کیا تا کہ وہ اس عظمت سے محروم نہ رہ جائیں.پس ان اصحاب صفہ کی درخشندہ مثال کے نتیجے میں اب قیامت تک کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں تو غریبانہ گزارہ حاصل کرنے والا ہوں میں کیسے چندہ دوں کیونکہ میری تو روز مرہ کی زندگی اس طرح گزرتی ہے کہ مجھے حکومت یا کوئی دوسرے ادارے زندہ رہنے کا الاؤنس دے رہے ہیں اس لئے چندہ ان پر فرض ہے جو کماتے ہیں میں تو بمشکل الاؤنس پر رہتا ہوں.ان عظیم الشان صحابہ کی اس درخشندہ مثال کا پر تو ہے جماعت احمدیہ پر اللہ کے فضل کے ساتھ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جرمنی میں خصوصیت کے ساتھ اور بعض دیگر ممالک میں بھی ایسے مخلصین ہیں جن کو بظاہر اتنا تھوڑا گزارہ ملتا ہے کہ بمشکل اس سے زندگی کے سانس پورے ہو سکتے ہیں لیکن با قاعدگی کے ساتھ اس کے باوجود وہ چندہ ادا کرتے ہیں اور دعا کے لئے تحریک کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں توفیق ملے کہ ہم اور بھی زیادہ خدمت کر سکیں.پھر بعض ان میں سے ایسے بھی ہیں جنہوں نے بہت ہی سخت احتجاج میرے سامنے کیا کہ ہم نے جب چندہ ادا کرنے کی کوشش کی تو سیکرٹری مال نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ہم جانتے ہیں تمہارا گزارہ تھوڑا ہے اس لئے تم چندہ نہ دو.جب ان کی شکایت مجھے ملی تو میں نے امیر کی بھی جواب

Page 385

خطبات طاہر جلد ۶ 381 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء طلبی کی اور سیکرٹری مال کی بھی جواب طلبی کی کہ خدا ان کو سعادت بخش رہا ہے، ان کو اس بات کا فہم ہے کہ مالی قربانی کے نتیجے میں کچھ کھویا نہیں جاتا بلکہ حاصل ہوتا ہے تم کون ہوتے ہو ان کو اس سعادت سے محروم کرنے والے؟ تم سے زیادہ خدا رحم کرنے والا ہے.تمہارے رحم سے تو ان کو کچھ بھی نہیں ملے گا.ایک انسان کے رحم سے کیا مل سکتا ہے انسان تو ایک فقیر اور ایک ذلیل زمین کے کیڑے پر بھی بعض دفعہ رحم کی نگاہ ڈال دیتا ہے.اس سے اس کا کچھ نہیں بنتا ان کو خدا کو رحم کیوں نہیں حاصل کرنے دیتے.جب یہ خدا کی خاطر دکھ اٹھاتے ہیں اور ایسے درد ناک حالات میں قربانی کرتے ہیں تو تم سمجھتے ہو کہ تمہارا دل تو حرکت میں آگیا اور خدا کا دل حرکت میں یا خدا کی روح ، جو بھی اس کو نام دیا جا سکتا ہے وہ حرکت میں نہیں آئے گی؟ اس کے علاوہ بہت سے ایسے جماعت میں نئے داخل ہونے والے ہیں جو گز شتہ کئی سال سے داخل ہوئے یا ہو رہے ہیں اس عرصہ میں لیکن احباب جماعت ان کو اپنی طرف سے اس ٹھوکر سے بچانے کے لئے کہ کہیں ان سے مالی قربانی کی بات کی گئی تو پیچھے نہ ہٹ جائیں.ان پر یہ ظلم کر دیتے ہیں کہ ان کو چندوں کے نظام سے پوری طرح آشنا نہیں کرتے اور ان کو ان قربانیوں کی طرف متوجہ نہیں کرتے جو ان کا حق ہے.مالی قربانی کے لئے فرض کا لفظ اتنا موضوع نہیں جتنا حق کا لفظ ہے.چنانچہ قرآن کریم نے ہمیں یہ نقطہ سمجھایا فرمایا: وَفي أَمْوَالِهِمْ حَقُّ لِلسَّابِلِ وَالْمَعْرُوْمِ (الذاریات:۲۰) حق کہہ کر بتایا کہ ان کے اموال میں حق ہے اور یہ بات کھلی رہنے دی کہ کس کا حق ہے.لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ ادا کرنے کا ان کا حق ہے یا سائل ومحروم کا حق ہے کہ ان کے مال سے لے عین بیچ میں اتنی خوبصورتی کے ساتھ اس مضمون کو رکھ دیا کہ دونوں طرف چل جاتا ہے.وہ لوگ جو تقومی کو اعلی مقام رکھتے ہیں وہ یہ سمجھیں گے اس آیت سے کہ ہمارا حق ہے کے سائل اور محروم کے لئے ہم اپنے اموال میں سے کچھ پیش کریں یعنی خدا نے یہ ہمیں سعادت بخشی ہے اور وہ لوگ جو نسبتا کم معیار پر ہیں وہ یہ معنی لے سکتے ہیں کہ سائل اور محروم کا ہمارے اموال میں حق داخل ہو گیا ہے جب تک ہم ادا نہیں کریں گے ہم اس کی ذمہ داری ادا نہیں کریں گے.بہر حال میں ذاتی طور پر یہ زیادہ پسند کرتا ہوں که مالی قربانیوں کو حق قرار دیا جائے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سعادت ہے یہ بوجھ نہیں ہے.پس جو نئے داخل ہونے والے احمدی ہیں جماعت کو چاہئے کہ جس قدر جلد ممکن ہو ان کو یہ

Page 386

خطبات طاہر جلد ۶ 382 خطبہ جمعہ ۵/ جون ۱۹۸۷ء بتائیں کہ تمہارے لئے روحانی ترقی کی یہ وہ راہیں ہیں جو قرآن نے اور محمد مصطفی ﷺ نے چودہ سو سال پہلے سے کھول رکھی تھیں.ہم وہ خوش نصیب ہیں جو صاحب تجر بہ ہو چکے ہیں.ہم جانتے ہیں کہ ان قربانیوں کے نتیجے میں غیر معمولی عظمتیں نصیب ہوتی ہیں اور خدا کی رضا کا انسان حامل بن جاتا ہے.تم بھی محروم نہ رہو تم بھی شامل ہو.ہاں اگر تم میں ابھی توفیق نہیں کہ زیادہ شامل ہوسکو تو دعا کرو، استغفار کرو اور جتنی ہمت پاتے ہو خلیفہ وقت کو لکھ کر اجازت لو کہ میں اس شرح سے ادا کیا کروں گا اور اس کے بعد اس پر قائم رہو.اگر جماعت اس فرض کو ادا کرے تو گزشتہ چند سالوں میں اس کثرت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدیت میں داخل ہونے کا رجحان پیدا ہو چکا ہے کہ دیکھتے دیکھتے نئے آنے والوں کی وجہ سے ہی ہماری بہت سی مالی ذمہ داریاں احسن رنگ میں ادا ہونی شروع ہو جائیں گی.اس کے علاوہ ایک اور طبقہ ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں وہ ہے تاجروں کا اور دوسرے پیشہ وروں کا جن کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی استطاعت بخشی ہوئی ہے.میں بار باران کو متوجہ ہو کر پہلے بھی کہہ چکا ہوں اور اب بھی اس بات کو دہراتا ہوں کہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ خدا نے آپ کو کتنی توفیق بخشی ہے اور خدا سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ کیا آپ اس توفیق کے مطابق ادا کر بھی رہے ہیں کہ نہیں.پہلی بات میں جب میں نے کہا آپ میں سے کوئی نہیں جانتا تو خدا کا استثناء تھا لیکن دوسری بات میں جب میں نے یہ کہا تو اس میں آپ بھی شامل ہیں کہ خدا سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ آپ واقعہ تو فیق کے مطابق ادا کر رہے ہیں کہ نہیں.یہ میں نے اس لئے کہا کہ بسا اوقات انسان اپنے نفس کو خود دھوکے میں مبتلا کر دیتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ میری توفیق یہ ہے حالانکہ اس کی توفیق عنداللہ زیادہ ہوتی ہے.اس لئے اس طبقے کو میں مخاطب اب پھر کرتا ہوں کیونکہ میں جانتا ہوں ابھی ان میں ایک بڑی تعداد ایسی موجود ہے جو ہر گز شرح کے مطابق چندہ نہیں دے رہے اور زائد چندوں میں بھی جتنی توفیق ہے اتنا حصہ نہیں لے رہے.پاکستان میں ایسے لوگ نسبتا کم ہیں کیونکہ وہاں ایک لمبی تربیت کی وجہ سے مالی قربانی کا معیار ماشاء اللہ بہت ہی بلند ہو چکا ہے لیکن پھر بھی موجود ہیں.بیرونی دنیا میں نسبتا زیادہ ہیں.ایک ملک کی مجلس عاملہ کے اہم ممبران نے جائزہ لیا تو مجھے ان میں سے بعض نے لکھا کہ ہم بڑے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ بظاہر ہمارا ملک خدا کے فضل سے اتنا آگے بڑھ چکا ہے لیکن ابھی 3/4 احمدی

Page 387

خطبات طاہر جلد ۶ 383 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء ایسے ہیں جو اپنی شرح کے مطابق پورا چندہ نہیں دیتے اور اگر وہ دیں تو چندہ کئی گنا زیادہ بڑھ جائے.ہم ان کو نام بنام مخاطب نہیں ہو سکتے کیونکہ ان کا ایک خط ہے اخفاء کا اور ستاری کا.اس پردے کو پھاڑ نا ہمارا کام نہیں ہے لیکن خطبات میں خلیفہ وقت یہ تو کر سکتا ہے کہ عمومی تحریک کرے اور بار باران کے دل کو جھنجھوڑنے کی کوشش کرے اور ان کو ان سعادتوں کی طرف متوجہ کرائے جن سے وہ محروم رہتے چلے آرہے ہیں.یہ طبقہ اگر شامل ہو جائے تو میں یقین کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ آئندہ چند ماہ جو اس سال کے باقی ہیں ان میں ہی وہ ساری کمیاں پوری ہو سکتی ہیں جو گزشتہ بیان کردہ طبقات کی کمزوری یا دیر میں شامل ہونے کے نتیجے میں ہمارے سامنے آ رہی تھیں اور ابھی بھی میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے مختلف ممالک کے بجٹ ان کی توقعات سے آگے بڑھ سکتے ہیں.دوسرے اس طبقے کو مخاطب کر کے میں پھر یہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ آپ کے یہ خدشات جھوٹے ہیں کہ آپ اگر شرح کے مطابق چندے دیں گے تو آپ کے اموال میں نا قابل تلافی نقصان پہنچ جائے گا اور آپ کی تجارتوں پر برا اثر پڑے گا.یہ وہم ہے، یہ خدا پر بدظنی ہے، یہ سلسلے کے لمبے تجربے کے بالکل مخالف بات ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی راہ میں خالص تقویٰ کے ساتھ خدا کی محبت کو اور اس کی رضا کی نگاہ کو سامنے رکھ کر قربانی دیتے ہیں ان کے اموال میں کبھی بے برکتی نہیں ہوتی.غیر متوقع راہوں سے خدا ان کے اموال میں برکت پہ برکت دیتا چلا جاتا ہے.اس کے اتنے بکثرت مشاہدات ہیں کہ جماعت احمدیہ میں تو ایک جاری سلسلہ ہے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا اور اس کے نشانات کا جو دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے.تاجروں کے طبقے سے تازہ ، ابھی دو تین دن کی ڈاک کے اندر، جو مجھے بعض باتیں ملیں میرے ذہن میں تازہ ہیں جو میں دو مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ جو لوگ خدا کے لئے قربانی کا حوصلہ کرتے ہیں خدا تعالیٰ ان سے بے وفائی کبھی نہیں کرتا.ایک دوست نے مجھے لکھا کہ ایک انسپکٹر مال صاحب نے اندازہ لگا کر میرے متعلق کہ میری اتنی آمد ہو گی ٹھیکیدار ہوں، اتنا بڑا کاروبار ہے مجھے کہا کہ آپ دس ہزار چندہ کیوں نہیں لکھاتے تو میں نے اسے کہا کہ توفیق نہ بھی ہو تو لکھواؤں؟ اس نے مجھ سے یہ بحث نہیں کی کہ توفیق ہے کہ نہیں.اس نے کہا پھر بھی لکھوادیں دیکھیں خدا کیا فضل کرتا ہے.کہتے ہیں میں نے لکھوادیا اور سال پورانہیں

Page 388

خطبات طاہر جلد ۶ 384 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء ہوا تھا کہ میرا کاروبار جو ہمیشہ تین لاکھ کے پھیر میں رہتا تھا ٹھیکوں کے وہ ایک سال کے اختتام سے پہلے تھیں چالیس لاکھ تک پہنچ گیا اور اب میں نے کام لینے چھوڑ دیئے ہیں کیونکہ میں سنبھال ہی نہیں سکتا اور یہ دس ہزار کی ادا ئیگی مجھے پتا بھی نہیں لگا کہ کیسے ادا ہے.اس سے بھی زیادہ ایک اور عظیم الشان مثال زیادہ دلچسپ مثال یہ ہے کہ آنے سے پہلے لندن میں ایک دوست میرے پاس آئے اور ان کے ہاتھ میں دو چیک تھے ایک پینتالیس ہزار پاؤنڈ کا اور ایک چالیس ہزار پاؤنڈ کا.میں نے کہا یہ کیسے چیک ہیں تو انہوں نے کہا اس چیک کے ساتھ ایک کہانی وابستہ ہے وہ پہلے سن لیں پھر آپ کو بات سمجھ آجائے گی.انہوں نے کہا کہ جب آپ نے تحریک کی صد سالہ جوبلی کے لئے تو اس میں اس قسم کے الفاظ تھے کہ تاجر جو ہیں وہ بھی حوصلہ کریں خدا کی راہ میں قربانی کے لئے ہمت دکھا ئیں ، دیکھیں تو سہی کہ خدا تعالیٰ کس طرح غائبانہ مددکرتا ہے.وہ کہتے ہیں اس سے میرے دل پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ میری تجارت چھوٹی تھی باوجود اس کے کہ میرے پاس پیسہ نہیں تھا میں نے بنک سے ایک لاکھ قرض لیا اور چندہ ادا کر دیا.اس واقعہ کو چار سال گزرے ہیں کہتے ہیں اب اس وقت میرا سالانہ جو چندہ عام بنتا ہے وہ کچھ میں جماعت میں با قاعدہ ادا کرتارہا ہوں اب سال کے آخر پر جو میں نے حساب کیا ہے تو پینتالیس ہزار پاؤنڈ میرے ذمہ بن رہا ہے چندہ عام کا جو میں اب ادا کر رہا ہوں.چار سال پہلے جو ایک لاکھ چندہ ادا کرنے کے لئے قرض لے رہا تھا اور اس کو بہت ہی بڑا تیر سمجھ رہا تھا کہ میں نے تیر مار دیا ہے قربانی کا.اب وہ بیک وقت سولہ لاکھ کہ لگ بھگ چندہ بقایا ادا کر رہا ہے سارا چندہ شامل نہیں ہے اس میں.دوسرے اس نے کہا کہ شکرانے کے طور پر میں نے فیصلہ کیا کہ جس تحریک کی وجہ سے خدا نے اتنی عظیم برکت ڈالی ہے اس چندے کو میں بڑھا دوں چنانچہ میں نے پچاس ہزار پاؤنڈ مزید صد سالہ جو بلی کا دینے کا فیصلہ کیا تھا اس ہزار میں ادا کر چکا ہوں بقیہ چالیس ہزار پاؤنڈ کا یہ چیک میں ابھی آپ کے لئے لے کے آیا ہوں.یہ واقعات ابھی دو تین دن کے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لندن سے چلنے سے ایک دودن پہلے کی بات ہے.یہ واقعہ اور یہ خط آتے ہوئے مجھے ملا تھا میں نے ہادی علی پرائیویٹ سیکرٹری کو پکڑا دیا کہ وہاں جا کے مجھے دے دینا، جمعہ پر یاد کرا دینا.آئے دن روز مرہ یہ باتیں ہو رہی ہیں جماعت میں اور بڑی بھاری تعداد میں خدا کی رحمتوں کے گواہ موجود ہیں ہمارے اندر.آپ کو

Page 389

خطبات طاہر جلد ۶ 385 خطبه جمعه ۵/ جون ۱۹۸۷ء کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے اپنے گردو پیش میں اپنے ساتھیوں سے اس موضوع کو چھیڑیں گے تو آپ حیران ہوں گے سن کر کہ کثرت کے ساتھ ساری دنیا میں تمام جماعتوں میں ایسے خدا کی رحمت کے گواہ پیدا ہو چکے ہیں اس زمانے میں جو گواہی دے سکتے ہیں کہ غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ نے معمولی معمولی ادنیٰ قربانیوں کو قبول کرتے ہوئے بے انتہا فضل نازل فرمائے ہیں.ڈرنے کی کون سی بات ہے، بے حوصلگی کا کون سا موقع ہے.بدظنی کر کے خدا تعالیٰ پر آپ اپنا نقصان کر رہے ہیں اور ان لذتوں سے محروم ہورہے ہیں جو مالی قربانی کے ساتھ وابستہ ہیں اور وہ لذتیں اپنی ذات میں اتنی عظیم ہیں کہ ان کے بعد جو روپیہ ملتا ہے خدا کے فضل کے ساتھ اس کی قیمت بھی کوئی نہیں رہتی انسان کی نظر میں.محض خدا کی خاطر قربانی کر دینے کا فعل ہی اپنے اندر اتنی لذت رکھتا ہے کہ وہ خود اپنا اجر ہے اور صاحب تجر بہ آدمی کو پتا ہے کہ اس اجر کے بعد انسان موجوں میں رہتا ہے کہ ہاں مجھے لطف آ گیا میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اپنے رب کے حضور کچھ پیش کیا ہے اس کے پیار اور اس کی محبت کے نتیجے میں اور مشکل حالات میں.وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (الحشر: ۱۰) میں ان لوگوں میں داخل ہو گیا ہوں جن کے اوپر خصاصت تھی، جن کے اوپر تنگی تھی پھر بھی خدا کی محبت کی خاطر میں اس مقدس گروہ میں داخل ہو گیا کہ اس کے لئے میں نے کچھ قربانی دی.پیش نظر یہ مطمح نظر رکھیں ، یہ اعلیٰ مقصد رکھیں کہ خدا کے پیار کی نگاہ مجھ پر پڑے.اس کی رضا کی جنت میں میں داخل ہو جاؤں کیونکہ خدا کے پیار کی نگاہ اور خدا کی رضا کی جنت دائمی ہوتے ہیں لیکن مالی فضل خواہ کتنا بڑا بھی ہو اس کے دائمی ہونے کی کوئی ضمانت نہیں اور اگر آپ کی زندگی تک وفا بھی کرے تو پھر ساتھ آگے نہیں جائے گا سب کچھ پیچھے چھوڑنا پڑے گا لیکن رضا کی جنت ایسی ہے جو اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور اگلی دنیا میں آپ کے ساتھ جاتی ہے.خدا کے پیار کی نگاہ اس دنیا میں بھی آپ پہ پڑتی ہے اور اگلی دنیا میں اس سے زیادہ شدت کے ساتھ پڑتی ہے اس کے درمیان کوئی بیرئیر (Barrier) نہیں ہے، کوئی ایسا ملک نہیں ہے جس کا قانون رستے میں کھڑا ہو کہ اس دنیا سے ہم نے خدا کی رضا کو آگے نہیں جانے دینا یا اس دنیا سے ہم نے خدا کی محبت اور پیار کی نگاہوں کو آگے نہیں جانے دینا.وہ دونوں ملکوں کا بادشاہ ہے، اس دنیا کا بھی اور اس دنیا کا بھی.اس لئے ان دونوں کے درمیان واقع ہونے والی سرحد پر کوئی پہرہ نہیں ہے جو رستے میں حائل ہو جائے اور کہہ سکے کہ نہیں اس دنیا

Page 390

خطبات طاہر جلد ۶ 386 خطبہ جمعہ ۵/ جون ۱۹۸۷ء کی چیز کو میں نے اس دنیا میں نہیں جانے دینا لیکن ان کے سوا باقی چیزیں ایسی ہیں جن کے اوپر بڑے پہرے کھڑے ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس دنیا میں خرچ کر لو.ہم ضامن ہیں کہ اس دنیا میں تمہارے نام پر منتقل کریں لیکن اگر نہیں خرچ کرو گے تو زمین و آسمان کے برابر بھی سونے اگر تم پیش کرو گے خدا کے حضور تو وہ قبول نہیں کئے جائیں گے.کوئی آدمی کہہ سکتا ہے کہ اس دنیا میں ہم سونے ہم کس طرح پیش کر سکتے ہیں.اس دنیا میں تو سونے پیش نہیں ہو سکتے.اس لئے ایک معنی اس کا یہ ہے کہ جب وقت تھا، سونے پیش کئے جاسکتے تھے اس وقت ہم نے تم سے سونے کے پہاڑوں کا مطالبہ نہیں کیا تھا ایک ایک ریزہ جو تم خدا کے حضور سونے کا پیش کر سکتے تھے اور کیا خدا نے اس کو بھی قبول فرمایا اور پہاڑوں میں بدل دیا.اب اس کے برعکس صورتحال ہے اب پہاڑ بھی پیش کرو یعنی عقلی طور پر یہ بات اٹھائی جائے تب بھی وہ قبول نہیں کئے جائیں گے یا کوئی یہ کہہ دے کہ نہیں گزشتہ ساری جائیداد جو میں چھوڑ کے آیا ہوں وہ اب قبول کر لے میری اولا دکو بے شک محروم کر دے یہ بھی قبول نہیں ہو گا.تو یہ دود نیاؤں کے درمیان جو حد فاصل ہے قرآن کریم نے کھول دیا ہے کہ ٹیرف (Tariff) کے قوانین کیا ہیں کون سی چیزیں یہاں سے گزر کے اس جگہ جاسکتی ہیں اور کون سی چیزیں روک دی جائیں گی اور کوئی Bribery ،کوئی رشوت، کوئی سفارش کام نہیں آئے گی کیونکہ جن فرشتوں کے پہرے ہیں اس نظام پر وہ فرشتے کسی قیمت پر اس دنیا کی چیز اس دنیا میں منتقل نہیں ہونے دیں گے سوائے نیکیوں کے رضائے باری تعالیٰ کے اور ان اخراجات کے لئے جو آپ یہاں کر چکے ہیں وہ ضرور منتقل ہوں گے یعنی خدا کی راہ میں کئے جانے والے اخراجات.اس لئے اس بات کو سمجھیں آپ کے فائدے کی باتیں ہونگی.اس دنیا میں بھی آپ کے فائدے کی باتیں ہیں، اس دنیا میں بھی آپ کے فائدے کی باتیں ہیں.نفس کے تزکیہ کے لحاظ سے بھی آپ کے پاس فائدے کی باتیں ہیں اور اموال میں نشو ونما کے لحاظ سے بھی آپ کے فائدے کی باتیں ہیں.یہ وہ سودے ہیں جن میں نقصان کا کوئی امکان نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 391

خطبات طاہر جلد ۶ 387 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء یورپ کو اپنی خوبیاں دیں اور ان کی خوبیاں لیں نیز دعا میں وسعت پیدا کریں اور اس کے طریق خطبه جمعه فرموده ۱۲ جون ۱۹۸۷ء بمقام ہالینڈ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.آج ہالینڈ کی تاریخ میں یہ ایک امتیازی دن ہے کہ پہلا یوروپین سالانہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع یہاں منعقد کیا جا رہا ہے.جب میں کہتا ہوں ہالینڈ کی تاریخ میں ایک امتیازی دن ہے تو آج کے نقطہ نگاہ سے اس زمانے کے لحاظ سے یہ ایک حیرت انگیز بات ہے.یہ کیسا تاریخی دن ہے کہ ہالینڈ کی بھاری اکثریت اس دن کی اہمیت سے کلیہ نا آشنا بلکہ خدام الاحمدیہ کے ساتھ وابستگی کے تصور سے بھی شاید شرم محسوس کرے.وہ حیرت سے ہمیں دیکھیں گے کہ یہ کیا بات کہہ رہے ہیں کہ آج یہ دن ہالینڈ کی تاریخ میں ایک امتیازی دن ہے.مگر اسی طرح دنیا میں ہوتا چلا آیا ہے.وقت کوئی ٹھہری ہوئی چیز نہیں بلکہ ایک جاری سلسلہ ہے اور ایک زمانے کے متعلق تاثرات بھی ہمیشہ ایک سے نہیں رہا کرتے.قومیں مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے اپنے نظریات ، اپنے رجحانات میں تبدیلی پیدا کرتی چلی جاتی ہیں اور بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دور کے گزرے ہوئے زمانے میں ایک معمولی ہونے والا واقعہ جسے اس دور کا انسان نہایت ہی تحقیر کی نظر سے دیکھتا ہے بعد کے آنے والے انسان کی نظر میں حیرت انگیز وقعت اختیار کر جاتا ہے.تاریخ اس واقعہ سے شروع ہوتی ہے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے انسانی زندگی میں وہ واقعہ ایک سنگ میل

Page 392

خطبات طاہر جلد ۶ 388 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء بن جایا کرتا ہے.خصوصا الہی جماعتوں کی تاریخ میں یہی ہوتا ہے اور ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جس دن ہجرت کی ہے کتنے انسان تھے جو اس ہجرت کے دن کی اہمیت کو سمجھ رہے تھے یا اس ہجرت کے واقعہ سے آشنا ہی تھے؟ ایک حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ تھے جنہیں پیچھے بستر میں لٹایا گیا تھا تا کہ دیکھنے والا دشمن یہ سمجھتار ہے کہ آنحضرت ﷺ ابھی اپنے بستر ہی میں تشریف فرما ہیں.ایک حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے جو آپ کے ساتھی تھے اور ایک حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی اور ایک غلام یہ چند گنتی کے انسان تھے جو اس واقعہ سے باخبر تھے اور اہل مکہ کو جب اس کا علم ہوا تو انہوں نے اس واقعہ پر تحقیر کی نظر ڈالی ، وقعت کی نظر نہیں ڈالی لیکن آج کل عالم میں اسلامی تاریخ کا آغاز اس دن سے ہوتا ہے اور یہ اسلامی کیلنڈر دن بدن زیادہ سے زیادہ وقعت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے.اسلام کے پھیلنے کے ساتھ یہ کیلنڈر جو اس سے پہلے عرب بھی نا آشنا تھے ایک عالمی حیثیت اختیار کر چکا ہے اور دن بدن بڑھتا چلا جائے گا ، دن بدن پھیلتا چلا جائے گا اور دنیا کی تاریخ جس دن سے شروع ہوگی وہ وہی دن ہوگا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کی ہجرت کا دن اور باقی تاریخ ماقبل ہجرت کی تاریخ سمجھی جائے گی.یہی وجہ ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ نے عیسوی کیلنڈرکو ہجری کیلنڈر میں سورج کے لحاظ سے تبدیل کرنے کے لئے ایک علماء کی کمیٹی بٹھائی اور بڑی کوشش اور بڑی محنت اور جد و جہد اور علمی تحقیق کے بعد انہوں نے ایک ایسا اسلامی کیلنڈر بنایا جو شروع تو ہجرت سے ہوتا ہے لیکن چاند کی بجائے سورج کے حساب سے مقرر کیا گیا تھا تا کہ نئے دور میں چونکہ دنیا سورج کے لحاظ سے کیلنڈرکو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنے اوقات کو مقرر کرنے اور مرتب کرنے کی عادی ہو چکی ہے اس لئے ان کے لئے کچھ مشکل نہ ہو.تو دیکھئے ! ایک چھوٹا سا بظاہر واقعہ تھا جس نے کوئی سنسنی پیدا نہیں کی اس وقت لیکن حیرت انگیز طور پر وہ واقعہ عظمت اختیار کر گیا.حضرت مسیح علیہ السلام کی ذات سے جو کیلنڈر منسوب اگر چہ اس کے متعلق ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ کب شروع ہوا ہے، نہ تو اس کا صلیب کے وقت سے تعلق ہے نہ حقیقت پیدائش کے دن سے کوئی تعلق ہے لیکن مسیح علیہ السلام کی ذات سے وہ کیلنڈر بہر حال وابستہ ہے اور دیکھئے دنیا میں کتنی بڑی عظمت اختیار کر چکا ہے.اس وقت جب مسیح کا دور تھا اس زمانے کا تاریخ دان تو مسیحیت کے پیدا ہونے کا ذکر بھی نہیں کرتا.صلیب کا واقعہ ان کی نظر میں کوئی

Page 393

خطبات طاہر جلد ۶ 389 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء بھی حیثیت نہیں رکھتا تھا.بہت سے مجرم ، بہت سے معصوم اس وقت صلیب دئیے جاتے تھے اور تاریخ دان کی نظر میں ایک روز مرہ ہونے والا واقعہ جیسے خزاں میں ایک پتا گر جاتا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے.آج عیسائی دنیا اس دور کو کتنی عظمت دیتی ہے.پس جب میں کہتا ہوں کہ ہالینڈ کی تاریخ میں یہ ایک عظیم دن ہے تو میں ماضی سے قوت پاکر احمدیت کے شاندار مستقبل کی بات کرتا ہوں.ماضی سے سہارا لے کر مستقبل میں دور تک دیکھتے ہوئے یہ اندازہ لگاتا ہوں کہ آئندہ آنے والا مؤرخ ہالینڈ کی تاریخ میں جو اہم دن شمار کیا کرے گا اس میں اس دن کی کیا حیثیت ہوگی؟ پس یقیناً خدام الاحمدیہ کے مؤرخین اس دور میں جو آج سے پانچ سوسال بعد آئے یا ہزار سال بعد یا خدا کرے اس سے بہت پہلے آجائے ، یقیناً اس دن کو ایک اہمیت دیں گے.پس اس دن کو دعاؤں کے ساتھ شروع کریں اور اس عرصے میں خصوصیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگتے رہیں کہ خدا تعالیٰ ہمیں ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو اس دن سے وابستہ ہو چکے ہیں.دعا کا مضمون جتنی مرتبہ بھی بیان کیا جائے ہمیشہ تشنہ تکمیل ہی رہتا ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ دعا جتنی ظاہر ہے اتنی چھپی ہوئی بھی ہے.ظاہر ان معنوں میں کہ وہ لوگ جو صاحب تجر بہ ہیں وہ جانتے ہیں کہ تمام ذرائع سے زیادہ قوی اور یقینی ذریعہ دعا کا ذریعہ ہے اور اس مضمون سے واقف جتنے جماعت احمدیہ میں اس وقت افراد ہیں دنیا کی ساری جماعتوں میں مل کر بھی اتنے افراد موجود نہیں ہوں گے.شاید ہی کوئی گھر ہو جس نے دعاؤں کے اثر کا مشاہدہ نہ کیا ہو ، شاید ہی کوئی خاندان ہو جس نے دعاؤں کا ثمرہ نہ کھایا ہو، دعاؤں کا پھل نہ کھایا ہو لیکن اس کے باوجود یہ چھپی ہوئی حقیقت بھی ہے یعنی انسان جاننے کے باوجود بھی اپنے اکثر مسائل میں، اپنی اکثر مشکلات میں دعا کو بہت بعد میں رکھتا ہے اور انسانی کوشش کو پہلے رکھتا ہے اور اس حقیقت کو بھول جاتا ہے کہ انسانی کوشش میں برکت کے لئے ہر کوشش کا آغاز بھی دعا سے ہونا چاہئے ، انسانی کوشش کی توفیق پانے کے لئے بھی ہر کوشش کا آغاز دعا سے ہونا چاہئے.قرآن کریم تو یہاں تک بتاتا ہے یعنی سورۃ فاتحہ کہ عبادت جیسا مقدس ترین انسانی فریضہ جس کے متعلق انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ خدا کی خاطر ، خدا سے تعلق کے لئے کر رہا ہوں اس کے لئے

Page 394

خطبات طاہر جلد ۶ 390 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء خدا خود مددگار ہوگا.اس فریضہ کے متعلق بھی یہی سکھایا گیا کہ جب تک دعا نہیں مانگو گے یہ فریضہ بھی ادا نہیں کر سکو گے.انسانی معاملات میں سب سے زیادہ اہمیت عبادت کو ہے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: ۵۷) میں نے انسان کو اور جن کو محض عبادت کی غرض سے پیدا کیا ہے.جو پیدائش انسانی کی غرض ہے، جس کی خاطر خدا نے پیدا کیا اس کے لئے بھی قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ جب تک دعا نہیں کرو گے اس کی توفیق نہیں پاؤ گے.چنانچہ سورۃ فاتحہ نے ہمیں یہ گر سکھایا.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ: ۵) اے اللہ ! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا کرنا چاہتے ہیں یا کریں گے، تینوں معنوں میں اس کا ترجمہ ہو سکتا ہے لیکن اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ شرط یہ ہے کہ تو مددفرما تیری مدد کے بغیر ہم عبادت کرنے کے اہل نہیں ہیں ، تیری مدد کے بغیر اس کی ذمہ داریاں ہم ادا نہیں کر سکیں گے، تیری مدد کے بغیر یہ بوجھ ہی رہے گا اس میں کوئی لذت پیدا نہیں ہوگی.اس لئے دعا اول بھی ہے اور آخر بھی اور ہر چیز کا اول اور ہر چیز کا آخر ہے.دعا ہی سے آغا ز کی توفیق ملتی ہے اور دعا ہی سے کام نیک نتائج تک پہنچتے ہیں.اس لئے جماعت کو بار بار یہ یاد دہانی کرانی پڑتی ہے کہ اپنے تمام معاملات میں دعا کو وہ مقام نہ دیں کہ جب کچھ پیش نہ جائے ، تب معاملہ ہاتھ سے نکل جائے تو اس وقت خدا کو یاد کریں کہ اب تو کچھ بھی نہیں رہا سوائے خدا کے.دعا کو اول رکھیں اور ہر کام سے اول رکھیں.ہر معاملے میں دعا پر زور دیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ کے فضل سے آپ کی عام روز مرہ کی طاقتوں میں کتنی جلا پیدا ہو جاتی ہے.مسائل خود بخود آسان ہوتے چلے جاتے ہیں.وہ مشکلات جو پہاڑ کی طرح نظر آتی ہیں وہ خود بخود سہل اور بالکل آسان ہو کر اس طرح حل ہونے لگتی ہیں جیسے کہا جاتا ہے کہ جادو منتر ہو جائے کسی چیز پر.سب جادوؤں سے بڑھ کر دعا کا جادو ہے.اس لئے دعا پر بہت ہی زیادہ زور دینے کی ضرورت ہے.اس تمہید کے ساتھ جو باتیں میں آپ سے کہوں گا ان تمام باتوں کو حاصل کرنے کے لئے اب بھی دعا کریں اور آئندہ بھی مسلسل دعا کا سہارا لیتے رہیں دعا کی توفیق پاتے رہیں اور کبھی کبھی یہ بھی دعا کیا کریں کہ اے خدا! ہمیں دعاؤں کی توفیق عطا فرما.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کی سمجھ نہیں آتی کہ شروع کہاں سے ہوتا ہے اور ختم کہاں ہوتا ہے ساری زندگی پر دعا کا مضمون حاوی ہے.دعا

Page 395

خطبات طاہر جلد ۶ 391 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء کرنے کے لئے بھی بعض دفعہ دعا ہی کا سہارا لینا پڑتا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے وسیع روحانی تجارب کے بعد اس راز کو ہم پر کھولا جو ایک کھلی ہوئی حقیقت بھی ہے لیکن اک راز سر بستہ بھی ہے، اکثر انسان اس کی اہمیت سے ویسے واقف نہیں جیسا کہ ہونا چاہئے.جو پروگرام میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ عام روز مرہ کی باتیں ہیں جو پہلے بھی کہتا رہا ہوں اب پھر کہوں گا لیکن ایک خاص صورتحال کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ باتیں میں دہرانا چاہتا ہوں.جب بھی قوموں کی بدقسمتی ہوتی ہے، جب ان کے برے دن آتے ہیں تو ان میں یہ رجحان پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ اپنی برائیاں دوسروں کو دیتے ہیں اور دوسروں کی برائیاں خود لینے لگ جاتے ہیں اور جب قوموں کے اچھے دن آتے ہیں ان کے مقدر جاگتے ہیں تو بالکل اس کے برعکس صورت پیدا ہوتی ہے.وہ اپنی برائیاں چھپاتے ہیں اور ان سے شرم محسوس کرتے ہیں اور لوگوں سے ان کی برائیاں لینے کی بجائے ان کی خوبیاں اخذ کرتے ہیں اور برائیاں دور کرنے کے لئے ان کو نصیحت کرتے ہیں اور نصیحت کو قوت دینے کے لئے اپنے نیک اعمال سے اپنی نصیحت کو طاقت دیتے ہیں.قرآن کریم نے قوموں کے عروج وزوال کا جو نقشہ کھینچا ہے اس کا خلاصہ یہی ہے.آنحضرت ﷺ نے کئی مثالیں دے کر ہمیں سمجھایا اور بتایا کہ جب تو میں ہلاک ہونے لگتی ہیں تو پہلی علامت ان میں یہ ظاہر ہوتی ہے کہ وہ برائی سے نہ شرماتے ہیں نہ برائی سے منع کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کی مثال ایسی ہی ہوتی ہے جیسے کسی کشتی میں سفر کرنے والے دیکھیں کہ سب سے نیچے جو لوگ اس کشتی میں سفر کر رہے ہیں وہ پیندے میں سوراخ کر رہے ہیں اور اس کے باوجود وہ سوراخ کرنے سے منع نہ کریں ( بخاری کتاب الشہادۃ حدیث نمبر: ۲۴۸۹).قومی زندگی میں برائیوں سے نہ روکنا اور برائیوں کی شرم اُڑ جانا اور برائیوں سے روکنے کے لئے ایک دوسرے کو نیک نصیحت کے ذریعے باز رکھنے کی کوشش نہ کرنا یہ ہلاکت کا آغاز ہے.پس آج یورپ میں آباد ہونے والے احمدی چونکہ اکثریت ایسے احباب کی ہے جو دوسرے ممالک سے یہاں تشریف لائے ہیں اس لئے اس خاص صورتحال کے پیش نظر میں آپ کو خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ یہاں آئے ہیں تو دونوں میں سے ایک چیز آپ کے اختیار میں ہے یا یہ کہ اپنی برائیاں ان کو دیں جو پہلے ان کو عادت نہیں تھی وہ گندی عادت ڈال دیں اور ان کی

Page 396

خطبات طاہر جلد ۶ 392 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء برائیاں خود لے لیں.اگر ایسا کریں گے تو قرآن آپ کی تقدیر کا فیصلہ پہلے ہی کر چکا ہے اور حضرت محمد مصطفی نے مثالیں دے دے کر بتا چکے ہیں کہ جس قوم میں یہ عادت پڑ جائے وہ زندہ رہنے کی اہل نہیں رہا کرتی، وہ یقینا غرق ہوگی.ایک دوسری صورت یہ ہے کہ آپ اپنی خوبیاں ان کو دیں اور ان سے ان کی خوبیاں لیں اور اس طرح خوبیوں کا اجتماع کریں.اس صورت میں کوئی دنیا کی طاقت آپ کو ہلاک نہیں کر سکے گی لازماً آپ ایک بلندی کی منزل سے دوسری بلندی کی منزل کی طرف اونچا ہوتے چلے جائیں گے.پس اس صورتحال کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو خصوصیت کے ساتھ آج باہر سے آنے والے احمدیوں کو درپیش ہے میں نصیحت کرتا ہوں کہ بعض اپنی خوبیاں جو خدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں جو نسبتا مغرب میں کم ہیں ان خوبیوں کی حفاظت بھی کریں اور ان خوبیوں کو ان لوگوں میں داخل کرنے کی کوشش کریں اور اسی طرح ان کی برائیوں سے بچتے ہوئے ان کی خوبیوں سے استفادہ کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تو میں جیسا کہ آپ لوگ بعض دفعہ کہہ دیتے ہیں کہ بہت برائیاں ان میں آچکی ہیں، اتنی بری بھی نہیں ہیں.چند ایک برائیوں میں بہت آگے بڑھ گئیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ایسی خوبیاں ہیں جن سے مشرق کی اکثر اقوام محروم ہیں.یہاں مذاہب کی بحث نہیں ہے، یہاں تہذیبوں کی بات ہو رہی ہے.مشرق کی تہذیب سے آنے والے لوگ بہت سی گندی عادات کا شکار ہو چکے ہیں.وقت کا ضیاع ، جھوٹ بولنے میں جلدی کرنا، بہانے تراش کرنا، محنت سے جی چرانا اور اسی قسم کی وہ رہن سہن کی معاملات میں سہل انگاری اور گندے رہنا.کمروں میں جا کر دیکھوتو بستر بکھرے پڑے ہیں کہیں تکیہ ہے کہیں چادر ، جو چیز گر گئی وہیں پڑی رہی.کھانا بستر پہ بیٹھ کے کھا رہے ہیں تو داغ بھی پڑ رہے ہیں ساتھ ساتھ اور اسی قسم کی اور بہت سی ایسی عادتیں ہیں جس کے نتیجے میں ان کو رہن سہن بہت ہی تکلیف دہ اور بد منظر ہو جاتا ہے.کھانا پکایا ہے تو برتن صاف ہی نہیں کئے یہاں تک کہ وہ جگہ جہاں برتن صاف کئے جاتے ہیں وہ بھی کھانے کے برتنوں کی طرح رفتہ رفتہ گندی ہو جاتی ہے، بد بوئیں اُٹھ رہی ہیں کہیں اولیاں لگ گئی ہیں.نہایت ہی خوفناک مناظر بعض لوگوں کا رہن سہن پیش کرتے ہیں اور اسی طرح اور بہت سی عادتیں ایسی ہیں جن کو دیکھ کر مغرب والے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کہاں سے جانور اُٹھ کے آگئے ہیں.وہ جو Racial نفرت کہلاتی

Page 397

خطبات طاہر جلد ۶ 393 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء ہے یعنی قومی نفرت وہ خالصہ قومی نفرت بھی نہیں.وہ دراصل عادات کا بعد ہے جس کے نتیجے میں ایک مغائرت پیدا ہو جاتی ہے، ایک قسم کی دوری پیدا ہو جاتی ہے.وہ اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ کہاں سے آئے؟ کیسے انہوں نے رہن سہن سیکھا ؟ کس طرح یہ لوگ زندگی بسر کرتے ہیں؟ کوئی ان کو بتانے والا نہیں کہ انسانیت کے تقاضے یہ ہیں یا وہ ہیں.پھر ایسے اوقات میں شور کرنا جب کے دوسروں کے آرام کا وقت ہو، گلیوں اور بازارون میں تھوکنا، ٹوائلٹ میں جانا تو ٹوائلٹ کی صفائی کے تقاضے پورے نہ کرنا، جہاں کھانا کھایا وہاں ہڈیاں اچھال دینا چاروں طرف جنگل سمجھ کے کہ یہاں کیا فرق پڑتا ہے یا روٹی کے ٹکڑے پھینک دینا.غرضیکہ بہت سی ایسی عادات ہیں جو بالعموم مشرق سے آنے والے اقتصادی لحاظ سے پسماندہ لوگوں میں اپنی اقتصادی پسماندگی کے نتیجے میں ایک لمبے عرصے میں راسخ ہو چکی ہیں.اس قوم کو آپ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ صدیوں تم نے مشرق کا خون چوسا ، صدیوں تم نے مشرق پر حکومت کی اور دولت کے ساتھ رہنے کے جو اوصاف ہیں وہ بھی حاصل کر لئے اب کس بات کا شکوہ کرتے ہو ہم سے، آپ یہ کہہ کر تو ان کے منہ بند نہیں کرا سکتے گندگی بہر حال گندگی ہے، بری عادتیں بہر حال بری عادتیں ہیں.اس لئے یہ کہہ کر نہ آپ خود مطمئن ہو سکتے ہیں نہ ان کو مطمئن کر سکتے ہیں.اس کا تو ایک ہی علاج ہے کہ ان سے وہ صفائی کے سارے رہن سہن سیکھ لیں اگر آپ کو خود نہیں آتے لیکن ایک احمدی کے لئے یہ کہنا بڑے ہی تعجب کے بات ہو گی کہ وہ خود نہیں آتے.صفائی اور نظافت اور اعلیٰ رہن سہن کے جیسے اسلوب حضرت اقدس محمد مصطفی احہ سکھلا گئے اس کی تمام خوبیوں اور حسن کو تو ابھی تک بھی یہ لوگ نہیں پہنچ سکے.صرف اپنی تعلیم کو عمل میں ڈھالنے کی ضرورت ہے.ان کا اچھا رہن سہن دیکھ کر آپ یہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں کہ وہ جو شرف والی تعلیم لے کر آیا تھا میں تو ایک ایسے آقا کی غلامی سے منسلک ہوں جس نے ہر انسانی خوبی کو بلند ترین معیار تک پہنچادیا تھا اب میرے عملی نمونے سے یہ کیا سمجھیں گے.نہ تو ان کے اندر یہ صلاحیت ہے اس وقت کہ وہ اقتصادی پس منظر کو دیکھ کر ایسے تجزیئے کریں کہ جس کے نتیجہ میں سمجھیں کہ یہ قوم مجبور تھی ہم نے ان کو غلام بنایا، یہ غریب ہو گئے اور اس کے نتیجے میں لازماً ایسی باتیں پیدا ہوئیں.نہ ان میں یہ قابلیت ہے کہ ماضی کی تلاش کر کے حضرت محمد مصطفی امی ﷺ کی تعلیم کا جائزہ لیں اور یہ سوچیں کہ یہ تو بڑے ہی بدقسمت لوگ ہیں ہم سے

Page 398

خطبات طاہر جلد ۶ 394 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء بہت بہتر اصول رکھنے کے باوجود، ہم سے بہت بہتر تعلیم کے حامل ہونے کے باوجودا اپنی بدعملیوں کی وجہ سے یہ اس حال کو پہنچ گئے ہیں.ان کو صرف آپ نظر آئیں گے اور آپ کے پیچھے اسلام نظر آئے گا اور آپ کی ہر بات کو یہ اسلام کی طرف منسوب کر دیں گے.کیا دیکھا نہیں آپ نے کہ خمینی کے ساتھ یہ کیا کرتے ہیں؟ کیا سنا نہیں کہ لیبیا کے قذافی کے ساتھ کیا کرتے ہیں.خمینی کی ہر بات اسلام بن کر ان کو دکھائی دیتی ہے اور قذافی کی ہر حرکت ان کو اسلام بن کر سنائی دیتی ہے.یہ تیار بیٹھے ہیں کہ ہر بدی کو اسلام کے منہ پر تھو ہیں، ہرظلم کو اسلام کی طرف منسوب کریں.آج انہوں نے Terrorism کا نام بھی اسلام رکھ لیا ہے، یہ Islamic Terrorism ہے ، یہ اسلامی ظلم ہے حالانکہ اس سے بہت زیادہ مظالم بہت ہی زیادہ خوفناک مظالم آئر لینڈ میں بھی ہور ہے ہیں لیکن اس کا نام Christian Terrorism یہ کبھی نہیں رکھیں گے.تو جو پہلے ہی تیار بیٹھے ہوں کہ نکتہ چینی کریں، جو بہانے ڈھونڈیں کہ آپ کے نقائص آپ کے مذہب کی طرف منسوب کریں.ان کے نزدیک آپ کا کوئی قصور نہیں ہوگا، تمام قصور اسلام کا ہوگا.کتنا بڑا گناہ کر رہے ہوں گے آپ کہ ہر خوبی اسلام کی تھی اور ہر قصور آپ کا تھا لیکن آپ نے برداشت کر لیا کہ آپ کے سارے قصور محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی پاکیزہ تعلیم کی طرف منسوب کر دیے جائیں.یہی ہورہا ہے اور یہی ہوتا چلا جائے گا اگر اپنے اندر آپ نے ایک نمایاں پاک تبدیلی پیدا نہ کی.پس اپنی ان خوبیوں کو دوبارہ حاصل کریں جن کو مدتوں سے آپ کھو چکے ہیں.ہزار سال سے لمبا عرصہ ہو گیا کہ مسلمان بد قسمتی سے تنزل کرتے ہوئے اسلام کی تعلیم سے دور ہٹتے چلے گئے اور نظافت اور نجابت اور روزمرہ کے ملنے جلنے کے اعلیٰ اخلاق جو آنحضرت ﷺ نے ہمیں سکھائے تھے ان سب سے غافل ہو گئے.اس زمانے میں جبکہ اکثر گھروں میں دروازے بھی نہیں ہوتے تھے بعض دفعہ پردے لٹکا کر کام لیا جاتا تھا بعض دفعہ پر دے بھی نہیں انکائے جائے تھے.حیرت کی بات ہے چودہ سوسال پہلے ہر اپنے غلام کو یہ عادت ڈالی کہ کہیں بغیر اجازت کے کسی گھر میں کسی دروازے میں داخل نہیں ہونا.سلام کہو اور اجازت حاصل کرو اور اگر اجازت نہیں ملتی تو کسی قسم کی دل پر میل لائے بغیر السلام علیکم کہہ کے اس گھر سے الگ ہو جاؤ ( بخاری کتاب الاستیذان حدیث نمبر : ۶۲۴۵).آج یورپ میں یا دوسری ترقی یافتہ قوموں نے لمبے عرصے اور لمبے تجربے کے بعد یہ

Page 399

خطبات طاہر جلد ۶ 395 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء عادات سیکھیں ہیں.آپ یہ عادات بھلا کے یہاں آئیں ہیں.آپ کسی گھر جاتے ہیں تو دروازہ کھول کے کسی کمرے میں جانا چاہتے ہیں تو بغیر آواز کے دروازہ دھڑام سے کھولا اور اندر داخل ہو جاتے ہیں.ان کو کیا پتہ کہ آپ کا ماضی کیسا شاندار تھا.انہوں نے آج کا چہرہ دیکھنا ہے اور پھر آج کے چہرے کو آج کے جسم کی طرف منسوب نہیں کرنا بلکہ چودہ سو سال پہلے کے چہروں کی طرف منسوب کرنا ہے.یہ ظلم ہے جو اسلام کے ساتھ کیا جا رہا ہے اور اس ظلم میں آپ ان کے مد ہو جا ئیں گے اگر آپ نے اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا نہ کی.پس اپنی خوبیوں کو دوبارہ حاصل کریں ان کی خوبیوں کو دیکھ کر شرم محسوس کریں کہ یہ تو ہماری تھیں.اسی واسطے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اس صورتحال پر نظر ڈالی اور یہ فرمایا کہ: الحكمة ضالة المومن ( ترندی کتاب العلم حدیث نمبر:۲۶۱۱) کہ حکمت کی بات ، اچھی بات تو مومن کی گمشدہ اونٹنی کی طرح کی ہے.اگر کسی انسان کی اونٹنی گم جائے تو اسے دوبارہ حاصل کرنے میں شرم محسوس نہیں کرتا ، وہ جانتا ہے کہ میری تھی مجھ سے الگ ہوئی ہے.پس جب آپ ان کی خوبیاں حاصل کریں گے تو آپ کی یہی کیفیت ہوگی ، کسی شرم کی ضرورت نہیں ہے ،کسی احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اگر آپ کی خوبیاں نہ بھی ہوتیں تب بھی خوبیوں کو اختیار کرنے میں تو کوئی احساس کمتری کا سامنا نہیں کرنا پڑتا لیکن بفرض محال بعض حساس لوگ کہتے ہیں ہم کیوں نقلیں ماریں ان کے لئے آنحضرت ﷺ نے یہ رستے کتنے آسان فرما دیئے.فرمایا الحكمة ضالة المؤمن يت تو تمہاری خوبیاں تھیں تم حاصل کرو جس طرح مالک ہوتے ہو تم سے ان لوگوں نے حاصل کر لی ہیں.پس خوبیوں میں تو یہ طریق اختیار کریں اور برائیوں میں وہ دوسرا طریق کہ برائیاں آپ کی نہیں ہیں اگر آپ میں ہیں تو کہیں غیر سے آگئیں ، اگر آپ برائیوں کا شکار ہیں تو یہ پردیسی چیزیں ہیں جن کا آپ کی ذات سے کوئی تعلق نہیں لیکن اپنے دلوں کو ، اپنی عادات کو آپ نے ان کا وطن بنالیا لیکن اس کے برعکس اگر آپ ان کی برائیاں حاصل کرنے لگ جائیں اور خوبیوں سے غافل ہو جائیں خوبیوں سے آنکھیں بند کر لیں تو کتنا بڑا ظلم ہوگا ؟ پہلے ہی بہت ہی گندی عادات کے بوجھ تلے دبے پڑے ہیں ہم لوگ ، معاشرتی لحاظ سے، تمدنی لحاظ سے، روز مرہ کی عادات رہن سہن کے لحاظ سے اور میل جول کے لحاظ سے.کئی پہلو ہیں جن میں ہم بدقسمتی سے ایک لمبے پسماندہ دور میں سے گزرتے

Page 400

خطبات طاہر جلد ۶ 396 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء ہوئے بہت سی بدیوں کی گٹھریاں اُٹھائے ہوئے ہیں اوپر سے ان کی ڈرگز (Drugs) اختیار کرنے لگ جائیں ، اوپر سے ان کی شراب پینے لگ جائیں، اوپر سے ان کی دوسری عادات کو اختیار کر جائیں کچھ بھی ہمارا باقی نہیں رہے گا.کتنا ظالمانہ سودا ہو گا کہ نیک مقاصد کی خاطر ہجرت کر کے آئے ، دین کا نام لے کر گھروں سے نکلے اور اپنے عزیزوں کو پیچھے چھوڑا، پیچھے مائیں فوت ہو گئیں، پیچھے باپ جدائی میں مشکلات میں زندگی بسر کرتے کرتے رحلت کر گئے ، بعض بچے فوت ہو گئے لیکن واپس نہ جا سکے آپ لوگ اور یہاں آ کر کیا سودا کیا؟ سودا یہ کیا کہ اپنی برائیاں ان کو دینی شروع کر دیں اور ان کی برائیاں خود اختیار کرنے لگ گئے.جب میں کہتا ہوں کہ برائیاں دینے لگ گئے تو یہ بھی واقعہ ہے کہ بدقسمتی سے بعض لوگ یہ بھی کرتے ہیں.جب آج سے ایک لمبا عرصہ پہلے تقریبا انتیس سال پہلے جب میں انگلستان آیا تھا تو شاذ و نادر کے طور پر کوئی پولیس مین ایسا بیان کیا جاتا تھا یعنی یہ بھی نہیں کہ حقیقت میں صحیح تھی بات ، بیان کیا جاتا تھا کہ رشوت لے لیتا ہے اور یہ ایک حیرت انگیز بات سمجھی جاتی تھی لیکن اب ایسی باتیں عام ہو گئی ہیں.اب ان کے ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں بھی یہ باتیں آرہی ہیں، اخبارات میں بھی اس کے چرچے ہوتے ہیں، پولیس کے اصلاحی کمیشن بھی بیٹھتے ہیں اور حیرت کی بات اور ظلم کی بات یہ ہے کہ اس کا آغاز Asians نے شروع کیا ہے.اس زمانے میں کبھی کبھی میرے کان میں یہ بھنک پڑتی تھی اور بہت تکلیف پہنچتی تھی کہ بعض لوگ کہتے تھے کہ جی! ہم ان کو رشوت لینا سکھا رہے ہیں اور بڑے فخر سے بات کرتے تھے.کہتے تھے کوئی فرق نہیں پڑتا ان کو ایک شراب کی بوتل دے دو تو یہ بھی ہماری طرح بات ماننے لگ جاتے ہیں.انسانی فطرت کی کمزوریاں تو ہر جگہ ہیں.آپ نے ایک اچھی قوم کو گندہ بنایا اور اس پر فخر محسوس کیا.اسی طرح ممکن ہے کہ اور بھی بہت سی بدیاں مشرق نے ان لوگوں میں داخل کر دی ہوں تو ان کی بدیوں کے ڈھیر بھی بڑھنے شروع ہو گئے ، آپ کی بدیوں کے ڈھیر بھی بڑھنے شروع ہو گئے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا یہ فرمان پھر کیسے پورا نہ ہو گا کہ کشتی کے پیندے میں سوراخ تو ہو گیا ہے اس نے ڈوبنا ہی ڈوبنا ہے.ایسی قومیں جن کی بدیاں بڑھنے لگ جاتی ہیں اور یہ عادت اب ان میں بھی آچکی ہے.ایک دوسرے سے بدیاں سیکھنے لگ گئے ہیں.امریکہ کا معاشرہ یورپ کو بدیاں سکھا رہا ہے، یورپ کا معاشرہ کچھ باتیں

Page 401

خطبات طاہر جلد ۶ 397 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۸۷ء امریکہ میں داخل کرتا ہوگا لیکن بالعموم تو امریکہ سے ہی گندگی آتی ہے اور ساری دنیا میں پھیلتی ہے اور بڑی خوشی سے انہیں قبول کر رہے ہیں.پھر ایک دوسرے سے بدیاں سیکھتے ہیں.جو اٹلی میں بدی ایجاد ہو گئی وہ یورپ کے باقی ممالک نے بھی ضرور اختیار کرنی ہے، جو انگلستان میں پیدا ہوئی اسے بڑے شوق سے پھر باقی ملک بھی نقل کرتے اور اختیار کرنے لگ جاتے ہیں.تو جو قوم پہلے ہی بیچاری اس حال کو پہنچ رہی ہو کہ ان میں بھی یہ رجحان پیدا ہو جائے کہ وہ بدیاں اختیار کرتے ہیں آسانی کے ساتھ اور شوق کے ساتھ.اوپر سے آپ ان کو اپنی بدیاں پہنچانے لگ جائیں تو یہ سارا زمانہ یقیناً بڑا گھاٹے کا زمانہ ہوگا.قرآن کریم نے اسی طرح اس زمانے کا ذکر فرمایا ہے، قرآن کریم نے یہی تو کہا ہے: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّلِحَتِ (الحصر :)))) کہ میں زمانے کی قسم کھا کر کہتا ہوں اِنَّ الإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ ایسا زمانہ آئے گا کہ انسان بحیثیت مجموعی گھاٹے میں جار ہا ہو گا.یہ بات تو سمجھ میں آجاتی ہے مگر ذرا سوچیں کہ اس کے بعد قرآن کریم کیا فرماتا ہے إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ مگر زمانے ہی کی قسم کچھ لوگ ایسے ضرور ہوں گے جو ایمان لانے والے ہوں گے اور نیک عمل کرنے والے ہوں گے.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبرِ وہ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جائیں گے زمانے کو اور صبر کے ساتھ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جائیں گے ، نیک اعمال کے ساتھ نیک کاموں کی نصیحت کرتے چلے جائیں گے.اگر آپ وہ نہیں ہیں تو پہلی پیشگوئی تو پوری ہوگئی اس دوسری پیشگوئی کو پورا کرنے والے اور کون لوگ ہوں گے؟ قرآن کریم کے اس بیان کی صداقت پر آپ گواہ ٹھہرائے گئے ہیں.آپ ہی ہیں جن کا ذکر ہے کہ اِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا ہاں! چند ایک ایسے لوگ ہیں جو ایمان لے آئے ہیں اور اپنی ایمان کی صداقت میں اس کے ثبوت میں انہوں نے نیک اعمال شروع کر دیئے اور پھر نیک اعمال کو اپنے تک نہیں رکھتے ، اس صداقت کو اپنے تک صرف نہیں رکھتے بلکہ بڑی سخاوت کے ساتھ تمام دنیا میں تقسیم کرنے لگ جاتے ہیں وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ حق بات کی نصیحت کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں، صبر کی نصیحت کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں.

Page 402

خطبات طاہر جلد ۶ 398 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء پس آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں اور آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں، آپ احمدیت کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں اور آپ اسلام کے سفیر بن کے یہاں آئے ہیں.اس لئے اس سفارت کے حقوق کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں، اس سفارت کی ذمہ داریوں کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.اپنے مقدر بنا ئیں ان سے خوبیاں سیکھ کر اور ان کے مقدر جگائیں ان کو خوبیاں عطا کر کے.ایک نئی قوم وجود میں آنے لگ جائے جو انہی لوگوں میں سے بنے لیکن ان سے بالکل مختلف اور امر واقعہ یہ ہے کہ میں ایسی قوم کو یہاں بنتا ہوا دیکھ رہا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ ان لوگوں میں جو سفید فام یوروپین ممالک میں احمدی ہوئے ہیں ان کے اندر خدا کے فضل سے ایسی ایسی پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں کہ اگر وہ سونا تھے تو کندن بن چکے ہیں.حیرت انگیز جلا ان میں پیدا ہوئی ہے.مشرق کا اخلاص اور مشرق کا پیاران کو کرنا آ گیا اور مغرب کی ساری خوبیوں کی بھی انہوں نے حفاظت کی اور پھر عام انسانوں سے بلند تر ہو کر وہ اللہ والے انسان بن گئے.آپ ان کو غور سے دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ نے ان کو دین سکھایا لیکن اب یہ اس قابل ہیں کہ آپ کو دین سکھانے لگ جائیں.عظیم الشان اخلاص کے پیکر ہیں ان میں ایسے لوگ جو کامل وفا کے ساتھ اسلامی تعلیم کے تمام تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں.اسی سر زمین میں جہاں شیطانیت کھلے بندوں جولانی دکھاتی ہے یہ فرشتوں کی طرح قدم رکھتے ہیں اور ان کی سب برائیوں سے اغماض کرتے ہوئے نیکی کا پیکر بن کر ان گلیوں میں چلتے ہیں.ایسے لوگ انگلستان میں بھی ہیں میں جانتا ہوں اور ڈنمارک میں بھی ہیں جن کو میں جانتا ہوں اور ناروے میں بھی ہیں جن کو میں جانتا ہوں ، سویڈن میں بھی ہیں جن کو میں جانتا ہوں ، جرمنی میں بھی ایسے لوگ ہیں خدا کے فضل ہیں ایک بڑی تعداد میں اور اس ملک میں جس کے آج آپ مہمان ہیں اس ملک میں بھی خدا تعالیٰ نے ایسے ہی فرشتہ سیرت انسان احمدیت کے اثر کے نتیجے میں پیدا فرما دیئے ہیں.آپ اگر اس تعلیم پر عمل کریں گے جو میں نے اسلام کی تعلیم آپ تک پہنچائی ہے تو آپ اس قابل ہو جائیں گے کہ ایسے اور بہت سے لوگ پیدا کر سکیں.آپ اس قابل ہو جائیں کہ کثرت کے ساتھ اس معاشرے میں پھیل جائیں اور اکیلے اکیلے نہ رہیں بلکہ تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع کریں اور اگر آپ ایسا کریں گے تو آپ اس دنیا میں بھی یقیناً کامیاب ہوں گے اور اس دنیا میں بھی

Page 403

خطبات طاہر جلد ۶ 399 خطبہ جمعہ ۱۲ جون ۱۹۸۷ء یقیناً کامیاب ہوں گے آپ کی دنیا بھی سنور جائے گی اور آپ کا دین بھی سنور جائے گا.آپ کا فیض مدتوں تک آپ کی اولا دوں میں وراثتا منتقل ہوتا چلا جائے گا.صدیوں تک آپ کی آنے والی نسلیں آپ کا فیض پائیں گی اور آپ کو دعائیں دیں گی.کتنا عظیم الشان موقع ہے جو آج آپ کو میسر آیا ہے اس موقع سے فائدہ اُٹھا ئیں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو احمدی اور ایک ایسی تعداد ہے جو دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے ان باتوں پر عمل کرتے ہیں اور نیک نصیحت کے ذریعے اچھی باتیں دوسروں میں داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور تبلیغ کے لئے ہرممکن طور پر جد و جہد کر رہے ہیں.ایسے احمدی جب اپنی کوششوں کا آغاز دعا سے کرتے ہیں اور ان کوششوں کے نیک انجام کے لئے بھی دعاؤں ہی کا سہارا لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو ہر روز یا کچھ کچھ عرصے کے بعد بہت ہی میٹھے پھل نصیب ہونے شروع ہو جاتے ہیں.ہر روز کے پھل ان کی اندرونی تبدیلوں کے ذریعے خدا سے ان کا پیار بڑھنے کے نتیجے میں اور کئی قسم کے لطف ہیں جو ہر روز ان کو نصیب ہوتے رہتے ہیں اور وہ خوب مطمئن ہوتے ہیں.پھر خدا کے فضل اور فضلوں کے نازل ہونے کے خاص پیار کے انداز ان کو نصیب ہوتے رہتے ہیں اور بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو ان تجارب کو لکھ کر مجھے بھی اپنی خوشیوں میں شریک کرتے ہیں اور بڑا ہی لطف آتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ ایک ایک اس احمدی پر نگاہ رکھ رہا ہے جو اخلاص کے ساتھ پر رہا اس کی راہوں میں آگے قدم بڑھانا چاہتا ہے.کس طرح بڑے پیار کے ساتھ اس کے ایمان کو بڑھا رہا ہے، بداثرات سے اس کی حفاظت فرما رہا ہے اور خود اس پر ظاہر ہوتا ہے.وہ کسی واسطے سے ملنے والا خدا نہیں رہتا بلکہ براہ راست اس کے دل پہ نازل ہونے والا خدا بن جاتا ہے.تو ہر روز مشاہدہ کرنے والے بھی ایسے ہیں اور ہفتے ہفتے میں بھی مشاہدہ کرنے والے ہیں مہینوں میں بھی مشاہدہ کرنے والے ہیں اور دن بدن جہاں تک میرا تاثر ہے اور میں بڑی گہری نظر سے ان حالات کا جائزہ لے رہا ہوں خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن یہ سارے وہ لوگ ہیں جو دعاؤں پر ایمان رکھتے ہیں، یہ سارے وہ لوگ ہیں جو محض اپنے اعمال پر انحصار نہیں کرتے ان کے ہر پروگرام کا آغاز دعا سے ہوتا ہے پروگرام کے دوران بھی یہ دعائیں کرتے رہتے ہیں اور رب سے مدد مانگتے رہتے ہیں اور انجام کے متعلق بھی یہ نہیں سمجھتے کہ ان کی کوششوں کو

Page 404

خطبات طاہر جلد ۶ 400 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء پھل لگا ہے بلکہ ہر پھل کو اپنے رب کی طرف سے ایک تحفہ سمجھتے ہیں ، ایک عنایت سمجھتے ہیں اور ہے بھی یہی بات ور نہ ہم کیا اور ہماری کوششیں کیا ؟ جس عظیم قوموں سے ہم ٹکرائے ہیں اسلام کے نمائندہ بن کر وہ تو پہاڑوں کی طرح بلند تر ہیں.حیرت انگیز طاقتیں انہوں نے حاصل کر لی ہیں: ذہانت میں علم کی گہرائی کے لحاظ سے، محنت کے لحاظ سے، ان عادات کے لحاظ سے جو قوموں کو زندہ رکھنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں یہ بہت زیادہ ہم سے آگے بڑھ چکے ہیں.اس لئے ان سب مشکلات کا ایک ہی اور صرف ایک ہی حل ہے کہ ہم اس سے رابطہ کر لیں جو سب سے بلند تر ہے جس سے ہم ہر روز ، مدتوں، بار بار یہ کہتے ہیں کہ اللہ اکبر، اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ اکبر اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے، اللہ سب سے بڑا ہے.پس ان کی بڑائی کا ایک ہی علاج ہے کہ اپنی ذات کو اپنے رب کی عظمت عطا کریں اور یہ عظمت تبھی عطا ہو سکتی ہے جب آپ اپنے رب سے تعلق جوڑیں گے، جب ہر روز اس سے عظمتیں مانگیں گے، ہر روز اس کی تکبیر دل کی گہرائیوں سے بلند کریں گے تا کہ یہ آسمان کے کنگروں تک پہنچے اور آسمان کی رفعتیں اس کے نتیجے میں حاصل کریں گے.پس دعا ہی ہے جس کے ذریعے سارے کام بنے ہیں.آپ عادت ڈالیں ، عادت ڈال کے دیکھیں تو سہی! آپ میں سے وہ لوگ جو سوقسم کی کمزوریوں میں مبتلا ہیں کوشش کرنے کے باوجود ارادوں کے باوجود بھی نجات نہیں پاسکتے ، وہ دعائیں کریں.دعاؤں سے دو قسم کے فائدہ ان کو حاصل ہوں گے ایک تو یہ کہ رفتہ رفتہ وہ کمزوریاں رفع ہونا شروع ہو جائیں گی اور دوسرے یہ کہ ان کمزوریوں کے دوران بھی خدا کے غضب کی نظر نہیں پڑے گی بلکہ رحم کی نظر پڑے گی.کیونکہ بسا اوقات کمزوریاں دور کرنے کا عرصہ ایک لمبا وقت چاہتا ہے، کمزوریاں دور کرنے کا جو جہاد ہے وہ ایک لمبا وقت چاہتا ہے اس لئے ایک لمحے کے اندر تو ہر ایک انسان کی ہر کمزوری دور نہیں ہوسکتی.پس دعا کے نتیجے میں یہ فیض حاصل ہوتا ہے کہ وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( آل عمران : ۱۹۴) کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے اور دعائیں کرنے والے کو خدا وفات نہیں دیتا جب تک اسے نیکوں میں نہ شمار کر لے.پس ہر روز کا جو خطرہ اپنی بدیوں کی طرف سے لاحق ہوتا ہے، ہر روز جو ہلاکت کی موت کا خطرہ انسان کو در پیش ہوتا ہے دعا کے نتیجے میں اس خطرے سے نجات مل جاتی ہے.اس لئے بہت ہی

Page 405

خطبات طاہر جلد ۶ 401 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء برکتیں ہیں دعاؤں میں.دعاؤں کی طرف توجہ کریں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دعا میں خلوص کو ہمیشہ پیش نظر رکھیں.زبان کی دعا یا صرف مصیبت میں گھرے ہوئے انسان کی دعا ایک وقتی اثر دکھاتی ہے لیکن وہ دعا جومستقل تعلق باللہ کے نتیجے میں عطا ہوتی ہے ، جومستقل تعلق باللہ کا مظہر بن جایا کرتی ہے ، ہر بات میں عادت پڑ جاتی ہے بلانے کی، وہ دعا سیکھیں ، اس دعا کی عادت ڈالیں پھر دیکھیں کہ آپ کی زندگی میں کتنی حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں.کئی لوگ مجھے اپنے عزیزوں کی وفات کے بعد یہ لکھتے ہیں ، آج بھی ایک اسی قسم کا خط ملا کہ میری بیوی بہت ہی پیاری تھی فوت ہو گئی اس کی عادت پڑ گئی تھی.بات بات پر اس کی طرف جھکنا بات بات پر اس کو آواز دینا اور اب اس کی جدائی سے اس وجہ سے بہت ہی تکلیف محسوس ہوتی ہے بہت ہی خلا محسوس ہوتا ہے.لیکن آپ کو میں جس وجود کی عادت ڈالنے کے لئے کہ رہا ہوں وہ تو دائی وجود ہے اس کا کبھی آپ کو خلا محسوس نہیں ہوگا.ایسی عادت ڈالیں کہ جس عادت کا ہر حال میں ہمیشہ پورا ہوتے رہنا ممکن ہے.کبھی ممکن ہی نہیں کہ یہ عادت آپ سے بے وفائی کرے یا وہ وجود آپ سے بے وفائی کرے اور یقین جانیں کہ دعا آپ کے اعمال کے اندر پاک تبدیلی پیدا کرنے کے لئے حیرت انگیز اثر دکھائے گی اور دعا کے نتیجے میں آپ کے سارے مشکل کام آسان ہو جائیں گے لیکن جب دعا کریں تو بلند حوصلہ رکھ کے دعا کریں، بلند ارادوں کے ساتھ دعا کریں محض Asylum کے لئے دعا کرنایا محض چھوٹی موٹی مشکلات کے لئے یا بیوی بچوں کی بیماری کے لئے دعا کرنا یہ تو بڑے وجود سے بہت ہی ادنی اردنی باتیں مانگ کر انہیں پر راضی ہو رہنے والی بات ہے.جس سے مانگ رہے ہیں اس کو ملحوظ رکھ کے حوصلے کی دعا کیا کریں.عظیم دعائیں مانگا کریں، تمام دنیا کی اصلاح کی دعائیں کریں، یہ دعا کریں کہ آپ کو خدا کی توفیق ملے اس تمام علاقے کو اسلام کے لئے فتح کرنے والے ہوں ، بہت بڑے بڑے بول ہیں لیکن جس ذات سے دعا کر رہے ہیں وہ ذات بھی تو بہت بڑی ہے، اس کے متعلق آپ کا منہ یہ کہتے تھکتا نہیں کہ وہ بہت بڑی،سب سے بڑی ہے،سب سے بڑی ذات ہے، سب سے بڑی ذات ہے.پس اس شخص کی شان کو ملحوظ رکھ کر مانگا جاتا ہے جس کے حضور آپ حاضر ہوں.بادشاہوں کے حضور جب کوئی انسان حاضر ہوتا ہے تو ایک روٹی کا سوال تو نہیں کیا کرتا وہ تو ان کی حیثیت دیکھ کر،

Page 406

خطبات طاہر جلد ۶ 402 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء ان کی سابقہ روایات کو ملحوظ رکھ کر ، ان کے خاندانی مزاج کو اوران شاندار کہانیوں کوملحوظ رکھ کر جو ان کے خاندانوں سے منسوب ہو چکی ہوتی ہیں ، انسان مانگتا ہے.ایک شخص کے متعلق آتا ہے کہ بادشاہ اس سے خوش ہوا.اس نے اسے انعام دیا کہ میں تمہیں یہ اتنی دولت انعام کے طور پر دیتا ہوں.اس نے کہا بادشاہ سلامت اس دولت کو کسی دوسرے گھر تک پہنچانے کے لئے بھی تو کوئی چیز چاہئے ؟ اس نے کہا ہاں ! اونٹ دے دیتے ہیں.اس نے کہا اونٹ کو چلانے والا بھی تو چاہئے؟ میں غریب مجھے کیا پتہ اونٹ کیا ہوتا ہے اور کیسے چلایا جاتا ہے.انہوں نے کہا ہاں چلانے والا نو کر بھی دے دیتے ہیں.اس نے کہا ایک اونٹ کا پیٹ تو میں پال نہیں سکتا یہ نوکر کا پیٹ کہاں سے ساتھ پالوں گا اس کے لئے بھی گزارے کا انتظام ہونا چاہئے.انہوں نے ایک جاگیر بھی ساتھ کر دی.ایک عام انسان ایک معمولی سے بادشاہ کے حضور جب حاضر ہوتا ہے تو اپنی دعا کا حوصلہ بڑھا لیتا ہے، اپنی طلب کو وسعت عطا کر دیتا ہے.آپ خدا سے دعامانگیں اور چھوٹی چھوٹی دعاؤں پر راضی ہو کے رہ جائیں بڑا ہی نقصان کا سودا ہے.لیکن چھوٹی دعا ئیں بھی اسی سے مانگیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ چھوٹی باتوں میں اپنے اوپر بھروسہ کر لیں اور بڑی باتوں میں اس کی طرف متوجہ ہوا کریں.خدا اکبر ہی نہیں ہے وہ عظیم بھی ہے اور عظیم کا یہ مطلب ہے کہ ہر طرف اس کا وجود حاوی ہے ادنیٰ سے ادنی چیزوں تک بھی اس کی پہنچ ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ چیزوں تک بھی اس کی پہنچ ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں یہی گر سکھایا ہے کہ بوٹ کا تسمہ بھی اس سے مانگو یہی آنحضرت ﷺ کی تعلیم ہے اور اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی زور دیا کہ چھوٹی سے چھوٹی چیز کی طرف بھی خدا کی طرف متوجہ ہو مگر صرف چھوٹی چیزوں کے لئے نہیں بلکہ بہت بڑی بڑی چیزیں بھی اس سے مانگو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی لئے اپنی اولاد کے لئے دعا کرتے ہوئے باوجود اس علم کے کہ نبوت ایک ایسا انعام نہیں ہے جو زمانے کی ضروریات سے قطع نظر بار بار ہر شخص کو ملتا چلا جائے ،آپ نے اپنی اولاد کے لئے دعا کرتے ہوئے عرض کی کہ وہ سب دے ان کو جو مجھ کو دیا ہے.اے خدا! جو کچھ مجھے دیا ہے میں کہتا ہوں سب کچھ اس کو دے.اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ قادر وتوانا سے میں دعا مانگ رہا ہوں اس کا کام ہے

Page 407

خطبات طاہر جلد ۶ 403 خطبہ جمعہ ۱۲ / جون ۱۹۸۷ء یہ فیصلہ کرنا کہ کتنی منظور کرنی ہے اور کتنی نہیں منظور کرنی.میرا کام نہیں ہے کہ خدا کی عطا کے اوپر پابندیاں خود ہی عائد کر دوں اور خود ہی اس سے کم مانگنے لگ جاؤں.پس مانگنے میں حوصلہ بڑھائیں لیکن محض بلند حوصلہ نہ رکھیں.ادنیٰ سے ادنی چیزوں میں بھی اس کی طرف جھکیں.پس دعا میں انکساری کو بھی ملحوظ رکھیں.جب آپ ادنی چیز مانگتے ہیں تو خدا کی نسبت سے نہیں اپنی نسبت سے مانگتے ہیں جب اعلیٰ چیز مانگتے ہیں تو خدا کی نسبت سے مانگتے ہیں یہ راز ہے جس کو آپ سمجھ لیں تو آپ کی دعا مکمل ہو جائے گی.ایک چھوٹا سا ذرہ اٹھانے کی آپ سمجھتے ہیں آپ کو توفیق ہے آپ جتنی دفعہ چاہیں جس طرح چاہیں اس ذرے کو اٹھا لیں اس میں بھی ایک انانیت ہے.ایک عارف باللہ جانتا ہے کہ خدا کی دی ہوئی توفیق ہی ہے اگر خدا کی توفیق نہ ہو تو ایک معمولی ساذرہ بھی میں نہیں اُٹھا سکتا.پس جب آپ ایک ذرے کو اُٹھانے کے لئے دعا مانگتے ہیں تو خدا کی نسبت سے نہیں اپنی نسبت سے، بہت ہی ادنی چیز سے اس کا آغاز کرتے ہیں اور جب ایسی باتیں مانگتے ہیں جو آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کہاں اور وہ باتیں کہاں، آپ کہاں اور وہ عظمتیں کہاں تو اپنے لحاظ سے نہیں بلکہ اللہ کی عظمتوں کو محوظ رکھتے ہوئے اس سے یہ مانگتے ہیں، اللہ کے کب کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس سے مانگتے ہیں.پس دعا کے دو کنارے ہیں.ایک وہ جو نفس کے عرفان سے شروع ہوتا ہے اور وہ انتہائی انکساری کا مقام رکھتا ہے اس کے لئے چھوٹے سے چھوٹا کا کوئی تصور بھی نہیں ہر چیز چھوٹی سی چھوٹی بھی اس دعا کے دائرے میں داخل ہو جاتی ہے اور ایک وہ ہے جو عظمتوں میں بے انتہا ہے اور لافانی ہے اور وہ خدا کی ذات کو ملحوظ رکھ کر دعا کا گر انسان سیکھتا ہے اس لئے ان دونوں کناروں کے تقاضوں کو محوظ رکھتے ہوئے آپ دعائیں کرنے کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ آپ کی ساری زندگی کی ہر کیفیت پر حاوی ہو جائے گا اور آپ پر اتنے انعام نازل فرمائے گا، ایسی برکتیں عطا کرے گا کہ آپ کے ساتھ اُٹھنے بیٹھنے والے بھی برکتیں پا جائیں گے آپ کی نگاہیں بھی ان پر پڑیں گی وہ بھی متبرک ہو جائیں گے.آپ کا ذکر ، آپ کی یاد اور پیار کرنے والے بھی متبرک ہوتے چلے جائیں گے.یہ ہے اللہ تعالیٰ کی عظمت اور خدا کی شان.خدا کرے کہ ہمیں یہ توفیق نصیب ہو اس کے بغیر ہم ان قوموں کی زندگی بدل نہیں سکتے ، اس کے بغیر ہم یورپ کی تقدیر میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں کر سکتے.آمین.

Page 408

Page 409

خطبات طاہر جلد ۶ 405 خطبہ جمعہ ۱۹ر جون ۱۹۸۷ء پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم اور احمدی مظلومین کے بارے میں حضور کی رویا ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ جون ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.کچھ عرصے سے میں نے خطبات میں پاکستان میں ہونے والے احمدیت پر مظالم کا ذکر نہیں کیا.اس کی ایک بڑی وجہ تو یہ تھی کہ جن لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ چونکہ ذکر بڑے دردناک ہوتے ہیں اس لئے بعض دفعہ آواز پر یا طرز کلام سے بیان کرنے والے کا دکھ بھی ظاہر ہو جاتا ہے اور جن کے متعلق بات کی جاتی ہے وہ اس سے بھی زیادہ تکلیف محسوس کرتے ہیں اور متعدد بار خطوط کے ذریعے مجھے اس ذکر سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہیں.کہتے ہیں یا تو اس ضبط کے ساتھ بات کیا کرو کہ تمہارے دل کا اثر باہر نہ آئے یا جب بھی تم جذبات سے مغلوب ہوتے ہو تو ہمیں اتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ جس تکلیف کا آپ ذکر کرتے ہیں وہ تکلیف اس کے سامنے بیچ ہو جاتی ہے.اس لئے اگرچہ جماعت کو دوسرے ذرائع سے با قاعدہ مطلع رکھا جا رہا ہے اور تمام دنیا کی جماعتیں با قاعدہ صورتحال سے باخبر ہیں لیکن خطبات میں میں نے اس لئے عملاً ذکر سے پر ہیز کیا لیکن رات ایک رؤیا دیکھی جس کا اس مضمون سے تعلق ہے اس رویا کی وجہ سے میں نے سمجھا کہ اب مجھے پھر کسی خطبے میں اس ذکر کو چھیڑنا چاہئے.اس کا ذکر میں انشاء اللہ خطبے کے آخر پر کروں گا.جہاں تک مظالم کی داستان ہے یہ اسی طرح جاری ہے اس میں کوئی فرق نہیں.بعض لحاظ

Page 410

خطبات طاہر جلد ۶ 406 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء سے بعض علاقوں میں شدت میں کچھ کمی لیکن بعض دوسرے علاقوں میں شدت میں اس سے بہت زیادہ زیادتی ہے اور مسلسل ایک منصوبے کے ساتھ مرکزی حکومت اس ظلم کو جاری رکھنے کی با قاعدہ ہدایات دیتی چلی جارہی ہے.ہر صوبے میں مرکزی حکومت سے جو چٹھیاں پہنچتی ہیں ان کی نقول جماعت تک بھی پہنچتی ہیں اور میرے پاس موجود ہیں.کوئی بھی ایسا مہینہ نہیں گزرتا جس میں با قاعدہ مہر لگی ہوئی دستخطوں کے ساتھ ہدایت جاری نہ ہوئی ہو کہ تم جماعت احمدیہ پر مظالم میں سست پڑ گئے ہو، مظالم کا لفظ تو استعمال نہیں کیا جاتا لیکن جماعت کے خلاف کاروائیاں کرنے میں تم ڈھیلے پڑ گئے ہو اور فلاں فلاں معاملات میں نہایت سختی کے ساتھ کاروائیاں کی جائیں.یہ تحریریں تو ایک لکھا ہوا ثبوت ہیں لیکن اکثر باتیں تحریر میں نہیں لائی جاتیں.آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ جو زبانی ہدایات ہوتی ہوں گی یا ٹیلی فون کے اوپر جو جماعت احمدیہ کے اوپر مظالم کے بارے میں تلقین کی جاتی ہوگی وہ کس نوعیت کی اور کس شدت کی ہوگی.جوز ہر تحریر میں گھل جاتا ہے اس سے بہت زیادہ شدت کا زہر الفاظ میں گھولا جاتا ہے یہ ایک طبعی امر ہے اس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کیونکہ تحریر کے وقت انسان کچھ محتاط ہو جاتا ہے اس لئے آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان زبانی ہدایات میں کیا کچھ نہ ہوتا ہوگا.چنانچہ ابھی حال ہی میں جو واقعات ہوئے ان کے متعلق جب جماعت نے بعض افسران سے رابطہ کیا تو ان افسران نے بھی اگر چہ وہ تحریر نہیں دے سکتے اس بات کی لیکن زبانی کھل کے بتایا کہ بالکل بے اختیار ہیں ہمیں با قاعدہ مرکز سے براہ راست ہدائتیں ملتی ہیں اور صوبے سے اس کا تعلق نہیں ہے اور ہم جانتے ہیں ظلم ہے، ہم جانتے ہیں کہ بے حیائی ہے، ہم جانتے ہیں اس میں انسانی شرافت کا کوئی بھی پاس نہیں رکھا جاتا لیکن ہمیں آپ کمزور کہہ لیں ، ہمیں بزدل کہہ لیں لیکن ہم مجبور ہیں ہم نے نوکریاں کرنی ہیں، ہماری ترقی کے رستے ہیں وہ بند کر دیئے جائیں گے اگر ہم تعاون نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ.ابھی ہمارے بعض انگلستان کے دوستوں نے پاکستان کا دورہ کیا کچھ عرصہ پہلے اور ان کے تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے وہ جب مل کے آئے چوٹی کے افسروں سے تو انہوں نے یہی ذکر کیا خود.چنانچہ جو اطلا میں نچلی سطح پر ہمیں ملتی ہیں ان کی تصدیق بہت بلند سطح کے افسروں سے بھی ہوئی انہوں نے کہا ہم بالکل بے اختیار ہیں ، ہمیں تو باقاعدہ مسلسل یاد دہانی کرائی جاتی ہے اور بعض دفعہ

Page 411

خطبات طاہر جلد ۶ 407 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء معین ہدایت دی جاتی ہے.چنانچہ ڈی آئی جی پولیس فیصل آباد ریجن کی طرف سے یہ جو تحریری ہدایت جاری ہوئی کہ احمد یہ جماعت کے سر براہ اور دوسرے تمام چوٹی کے لیڈروں کے خلاف پرچہ درج کرو یہ ہدایت تحریری ہمارے پاس موجود ہے.اس سطح پر تو یہ تحریری ہدایات دینے پر مجبور ہو چکے ہیں یعنی یہ وہ باتیں ہیں جن کے متعلق ایک تھانیدار ایک سپاہی کو بھی تحریری ہدایت دینے پر آمادہ نہیں ہوتا کہ کلمہ کے خلاف پرچہ درج کر دیا بسم اللہ لکھنے کے خلاف پرچہ درج کرو بلکہ جہاں تک سپاہیوں کا تعلق ہے ان میں ایمانی غیرت زیادہ ہے اور حیرت کی بات ہے کہ افسروں کا یہ حال ہو چکا ہے اور ہر سطح کے افسروں کا یہ حال ہو گیا ہے لیکن ایک جگہ کی پولیس کے متعلق ابھی تازہ خبریں آئی ہیں کہ انہوں نے بالکل صاف انکار کر دیا ہے کہ کلمہ مٹانا ہے تو آپ مٹاؤ یا چوہڑوں کو لے کے جاؤ ہم یہ کام نہیں کر سکتے ہم مسلمان ہیں اور ہم کسی قیمت پر بھی یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمیں کلمہ مٹانے کی نوکری ملی ہوئی ہے.اس لئے نوکری تم اپنے گھر رکھو اگر فارغ کرنا ہے فارغ کر ولیکن کلمہ ہم نہیں مٹائیں گے.چونکہ پاکستانی پولیس میں شروع سے ہی یہ روایات چلی آرہی ہیں کہ باقی کمزوریاں ہوں تو ہوں لیکن نماز کا معیار پولیس کا مجھے یاد ہے تقسیم سے پہلے بھی کافی اونچا ہوا کرتا تھا اور جتنے بھی تھانے تھے ان میں با قاعدہ نماز پڑھی جاتی تھی.کچھ اپنی دوسری زیادتیوں کے لئے شاید معافی مانگنے کی وجہ سے جو توجہ پیدا ہوتی ہے اس سے ان کو نماز کی طرف رغبت پیدا ہوگئی مگر بہر حال کسی وجہ سے بھی ہوئی ہو ایک روایت چلی آرہی ہے کہ شاید یہ اسی کی برکت ہے کہ نچلی سطح کا پولیس کا سپاہی بہت زیادہ شرافت دکھا رہا ہے اور اپنی نوکری کی پرواہ نہ کرتے ہوئے بھی وہ بہت سے مظالم سے باز رہتا ہے یا بازرکھنے کے لئے اپنے افسروں کو کہتا ہے لیکن اوپر کی سطح پر ایسے واقعات شاذ کے طور پر ہیں.وجہ کیا ہے جو یہ اتنا لمبا عرصہ چل گیا ہے؟ یہ سوال اٹھتا ہے.جہاں تک میں نے تجزیہ کیا ہے اس کی بنیادی وجہ تو حکومت کی کمزوری اور یہ احساس کمتری جو دن بدن زیادہ شدت اختیار کرتا چلا جارہا ہے کہ ہم غاصب ہیں، ہم نے ملک پر قبضہ کیا ہوا ہے جبکہ عوام ہمیں نہیں چاہتے ،عوام الناس کی بھاری اکثریت ہمیں رد کر چکی ہے.جس نام سے بھی ہم حکومت کرنا چاہیں یہ کھلی حقیقت ہے اور ملک جانتا ہے کہ ہم بے وجہ ناجائز حکومت پر قابض ہیں.اس احساس کمزوری کی وجہ سے وہ دوطبقوں میں بٹے ہوئے ہیں.ایک وہ ہے جو سمجھتا ہے کہ اگر علماء کو خرید کر اور علماء کا ہیرو بن کر بار باراحمد بیت پر مظالم

Page 412

خطبات طاہر جلد ۶ 408 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء کئے جائیں تو عوام الناس کی توجہ ان مظالم کی طرف ہوگی اور بہت سا ایسا طبقہ جو اسلام سے کچھ محبت رکھتا ہے یہ سمجھے گا کہ اور کچھ نہیں تو کم سے کم اسلام کے ہیرو تو ضرور ہیں یہ، اسلام سے محبت تو ضرور ہے اور اس محبت کا صرف ایک ہی ثبوت ہے کہ احمدیت کی دشمنی کی جارہی ہے.اس کا اظہار یہ ہے کہ کلمے مٹائے جا رہے ہیں، اس کا اظہار یہ ہے کہ انتہائی غلیظ گالیاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلسلے کے دیگر بزرگوں کو دی جاتی ہیں، اس کا اظہار یہ ہے کہ ہر جائز بات پر احمدیوں پر پابندی اور ہر ناجائز بات پر احمدیت کے دشمنوں کو آزادی اور انگیخت اور گالیاں دینے کے لئے زکوۃ کے پیسے ادا کئے جاتے ہیں.یہ اسلام کی محبت کا اظہار اور اسلام کی خدمت کا تصور ہے جو حکومت کے بعض بدنصیب چوٹی کے سر براہوں کا ذہنی تصور ہے، یہ ان کی ذہنی ایچ ہے اور اس کے مطابق وہ سمجھتے ہیں اور شاید ایک حد تک درست بھی سمجھتے ہیں کہ نچلی سطح پر ملک کا ایک طبقہ ضرور ہے جو ان چیزوں کو انسانی خدمت سمجھتا ہے اس لئے ان کے ہم دل جیت سکتے ہیں.ان میں سے چند ایسے بھی ہیں جو از لی بدنصیب ہیں.جو ہمیشہ سے جب سے دنیا قائم ہوئی ہے یہی اسی کام پر معمور ہیں کہ روشنی کے نام پر نور کے مخالفت کی جائے ، حق کے نام پر سچائی کی دشمنی کی جائے.وہ بدنصیب ہیں از لی ان کو تو تبدیل کیا ہی نہیں جاسکتا لیکن میں ان کو چھوڑ کر دوسرے طبقے کی بات کر رہا ہوں جن کے پیش نظر مصلحتیں ہیں.ایک بڑا طبقہ اوپر کے افسران کا خواہ سیاسی ہو یا دوسرے وہ ایسا ہے جو مذہبی ہیرو نہیں بننا چاہتا ان کو کوئی دلچسپی نہیں.ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کو مذہب میں ہی کوئی دلچسپی نہیں لیکن سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ اگر موجودہ حالات میں جبکہ مولویوں کو ایک طرف سے کھلی چھٹی دی جاچکی ہے اور علماء جانتے ہیں کہ انتہائی اوپر کی سطح پر ان کے براہ راست رابطے ہیں اگر ہم نے ان کو اس وقت دبانے کی کوشش کی تو اوپر سے بھی مار پڑے گی اور نیچے سے بھی مار پڑے گی.اس لئے وہ مصلحت کا تقاضا یہی سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں بالکل خاموش رہیں.ان میں بعض بڑے شریف لوگ بھی ہیں جن کا جماعت سے پرانا دیرینہ تعلق چلا آرہا ہے، کچھ بالکل لا مذہب ہیں ان کو پرواہ ہی کوئی نہیں کہ مذہب ہوتا کیا ہے لیکن اس موقع پر مصلحتا وہ خاموشی بہتر سمجھتے ہیں اور جب ان کی وساطت سے بعض احکام جاری ہوتے ہیں تو ان میں اتنی جرات نہیں ہے کہ ان احکامات کو

Page 413

خطبات طاہر جلد ۶ 409 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء روک دیں یا افسران بالا کو سمجھائیں یا ماتحت لوگوں کو کہیں کہ ہاں ہم مجبور جاری کر رہے ہیں لیکن تم سنجیدگی سے اس بات کو نہ لو.اس لئے یہ سارے حالات ہیں جو ان مظالم کو جاری رکھنے میں ایک طرح سے محمد ہیں اور ان کے بہت لمبا عرصہ تک جاری رہنے کے ذمہ دار ہیں.جہاں تک مولویوں کی سطح کا تعلق ہے اس کے متعلق میں اس وقت تفصیلی بحث میں نہیں جانا چاہتا بہت سے اس کے محرکات ہیں، بہت سے ایسے اسباب ہیں بیرونی اور اندرونی یعنی بیرونی ممالک سے تعلق رکھنے والے بھی اور اندرونِ پاکستان سے بھی جن کے نتیجے میں علماء کے بعض طبقے ہیں جو مسلسل اس کام پر مامور ہو چکے ہیں اور ان میں بھی پھر بددیانتی والے ایسے لوگ ہیں جن سے پیسہ کھاتے ہیں ان کے خلاف بھی ہو جاتے ہیں، جن کی رسی پہ ناچتے ہیں خود ان کو بھی کاٹتے ہیں.چنانچہ اب علماء کا ایک ایسا طبقہ انہیں لوگوں میں سے ہے جن کو صدر مملکت نے بہت شہ دے کر اور بہت سینے سے لگا کر احمدیت کی مخالفت پر مامور کئے رکھا، اب وہ اسی صدر مملکت کو اتنی غلیظ گالیاں دے رہے ہیں کہ ناقابلِ برداشت ہیں اور ایسے ایسے بے ہودہ ذلیل الزام لگارہے ہیں کہ ہماری تو دوستی نہیں ہے لیکن ہم شریف النفس لوگ ہیں، ہمیں سچائی کی تربیت ہے، ہم جانتے ہیں کہ بالکل جھوٹ ہے مثلاً کھلے بندوں بڑے پبلک جلسوں میں یہ اعلان کیا جا رہا ہے بعض جگہ کہ گوجرانوالہ میں جس شخص نے ایک مردہ لڑکی کو نکال کر اس کے ساتھ اپنی شہوت کو بجھانے کی کوشش کی اور انتہائی خبیث قسم کا ظلم کیا وہ صدر ضیاء الحق صاحب کا رشتہ دار ہے.جھوٹے اور ظالم لوگ ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ احمدیت کے اوپر بھی اسی قسم کے الزام لگایا کرتے تھے بے وجہ، بالکل بے تعلق نہ کسی کا کوئی حق ہے ایسی بکواس کرے یہ تو حکومت کا کام ہے تحقیق کرے اور اگر حکومت کے افسران ملوث ہوں تو دوسرے آدمیوں کو بھی بغیر تحقیق کے اس قسم کی بات کا حق ہی کوئی نہیں لیکن وہی جھوٹے جو ہم پر مامور کئے گئے تھے اب ان کے اوپر مامور ہو چکے ہیں اور یہ تو میں نے ایک مثال دی ہے ایسی ایسی مغلظات بولی جا رہی ہیں دین کے نام پر مسجدوں کے منبروں پر کھڑے ہو ہو کے کہ آدمی حیران ہوتا ہے کہ لوگوں کو کچھ اندازہ ہی نہیں رہا کہ آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والوں سے کچھ اور توقعات کی جاتی ہیں.مساجد اس کام کے لئے نہیں بنائی گئی تھیں لیکن سارا معیار گر چکا ہے جب اوپر سے معیار گرا ہوا ہو تو نچلی سطح کا معیار تولا زما اور بھی نیچے گرنے والی بات ہے.

Page 414

خطبات طاہر جلد ۶ 410 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء ویسے حال ہو چکا ہے مذہبی معیار کا گرنے کا جہاں تک تعلق ہے.کہتے ہیں کہ ایک شخص پیر صاحب کے پاس گیا تو وہ چارپائی پر بیٹھے ہوئے تھے اور سامنے والی چار پائی پر غریب بیٹھ گیا.پیر صاحب نے بھی بڑی ناراضگی کا اظہار کیا اور ساتھیوں نے تو اس کو مارنا بھی شروع کر دیا کہ بڑے ذلیل آدمی ہو تم ہوتے کون ہو پیر صاحب کے مقابل پر اونچا بیٹھنے والے؟ اس نے کہا جی ! میں غریب آدمی ایک طرف دوسری چار پائی پر بیٹھا ہوں سرہانے نہیں میں پائنتی کی طرف ہو جاتا ہوں مگر اس میں حرج کیا ہے؟ انہوں نے خوب اچھی طرح مارا کہ تمہیں ادب ہی کوئی نہیں ہے تمہیں پتا ہی نہیں ہے کہ پیر کے مقابل پر برابر نہیں بیٹھا کرتے.وہ بیچارہ ایک دن آیا تو پیر صاحب زمین پر فرش بنا کے بیٹھے ہوئے تھے.اس نے کہا کدال چاہئے ، کدال مانگا اور سامنے جگہ کھودنی شروع کر دی.انہوں نے کہا پاگل ہو گئے ہو کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا میں گڑھا کھود کے نیچے بیٹھنا چاہتا ہوں کیونکہ پچھلی دفعہ جو میری بے عزتی ہوئی تھی اور مار پڑی تھی اب میں دوبارہ تمہیں اس کا موقع نہیں دینا چاہتا پیر کے مقابل پر میں نہیں بیٹھ سکتا اس سطح پر اس لئے اگر وہ زمین پر بیٹھا ہے تو مجھے گڑھا کھود کر نیچے اترنا پڑے گا.جہاں تک مذہبی تصورات کا معیار ہے، جہاں تک اسلام کا تصور پایا جاتا ہے آج پاکستان میں اس کا اب یہ حال ہو چکا ہے.جہاں بلند تر تصور رکھنے والا ز مین کی سطح پر اترا ہوا ہو وہاں عوام الناس بیچارے گڑھے کھود کر نیچے اتریں گے.اس لئے ان کی یہ رائے بعض لوگوں کے حق میں درست ہے کہ جتنی بے ہودہ حرکتیں اسلام کے نام پر کی جائیں گی اتنا ہی زیادہ بے ہودہ حرکتیں کرنے والا اسلام کا ہیرو سمجھا جائے گا لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اب یہ سلسلہ اور رنگ سے چل چکا ہے.جماعت کے خلاف بھی جاری ہے اور آپس میں بھی ایک دوسرے کے خلاف جو ہاتھ کھل چکے، ہیں جو زبانیں بے ادب ہوگئی ہیں، جن لوگوں کو عادت پڑ چکی ہے جھوٹ بولنے کی اور جانتے ہیں کہ الزام لگانے کے نتیجے میں کوئی سرزنش نہیں کی جاتی.ان کو اب روکا تو نہیں جاسکتا.اب تو جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اب یہ حکایت عام ہوئی ہے سنتا جا شرماتا جا وہی کیفیت ہے.صرف شرماتا جا کا لفظ زیادہ ہے کیونکہ یہاں شرماتے جا کا کوئی تعلق نہیں رہا باقی.ادنی شرم اور حیا بھی ہو تو کوئی اپنے ملک اور اپنے وطن پر یہ ظلم نہیں کر سکتا کہ اس قسم کی بے حیائیوں کو ترویج دے اور ان کو شہ دے اور سارے ملک کا

Page 415

خطبات طاہر جلد ۶ 411 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۷ء دیوالیہ پٹ جائے اور کوئی حس نہ ہو، کوئی ادنی سا بھی احساس نہ ہو کہ میں نے اس ملک کو کہاں سے پکڑا تھا اور کہاں پہنچا چکا ہوں.لیکن جہاں تک جماعت کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مظالم جاری ہیں اور جماعت کو بزدل اور کمزور بنانے کی بجائے اور زیادہ جرات بخشتے چلے جارہے ہیں ، حوصلہ دے رہے ہیں.بعض لوگ بعض جگہ تھک بھی چکے ہوں گے لیکن پھر جب ان کو سنبھالا جاتا ہے، ان سے بات کی جاتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی جلدی حوصلہ پا جاتے ہیں اور میری خواب میں وہی مضمون ہے جس کا میں آئندہ ذکر کروں گا.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اکثر تو یہ حالت ہے کہ جن کے دکھ کا تذکرہ کریں وہ اس تذکرے پر اور بھی دکھ محسوس کرتے ہیں، یہ احمدیت کی سچائی کی ایک عظیم الشان دلیل ہے.واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی لیڈرشپ میں اس قسم کی محبت اور ایثار کا کوئی تعلق آپ کو دکھائی نہیں دے گا.یہی وجہ ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے زمانے میں جب ایک صحابی کو جو غالبا ان ستر صحابہ میں سے ایک تھا ، جو حفاظ بھجوائے گئے تھے ایک وفد کے طور پر، ان کو جب شہید کیا جانے لگا تو ایک شخص نے مجمع میں اس کی شہادت سے پہلے اس سے پوچھا کہ تم مجھے یہ بتاؤ کہ اب تو تمہارا دل ضرور چاہتا ہو گا کہ تمہاری جگہ نعوذ بالله حضرت محمد مصطفی کے ہوتے ، اس نے تو خالی محمد ہی کہا اور تم ان کی جگہ آرام سے مدینے میں بیٹھے ہوتے.اس نے کہا تم یہ کیا بات کر رہے ہو؟ خدا کی قسم! میرا تو یہ بھی دل نہیں چاہ سکتا، میں تو اس کا بھی تصور نہیں کر سکتا کہ یہاں تم میری جان بخشی کر دو اور اس کے بدلے محمد رسول اللہ ﷺ کو مدینے کی گلیوں میں ایک کا نٹا بھی چھ جائے، میں تو اس سودے کے لئے بھی تیار نہیں ہوں.(سیرۃ حلبیہ جلد ۳ صفحہ۱۷۰) پس اگر کسی قوم میں جو آنحضرت ﷺ کی طرف وابستہ ہوتی ہو خلوص ہو اور رسول اکرم ﷺ سے پیار ہو اور آپ کی تربیت کے نیچے ہو اس قوم میں تو ایسے واقعات پیدا ہو سکتے ہیں.یہ آنحضرت ﷺ کے غلاموں کا ہی حسن ہے اس کے سوا آپ کو یہ حسن دنیا میں نہیں دکھائی دے سکتا دوسرے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.ان پاکستان کے حالات میں کثرت کے ساتھ صحابہ کے اس خلق کو دوبارہ زندہ کر دینا اور وہ ماضی کے قصے جو ہم سنا کرتے تھے ان کو حال کی دنیا میں اتار لینا آسمان صلى الله سے یہ آنحضرت ﷺ کے بچے غلاموں کے سوا کسی کو تو فیق مل ہی نہیں سکتی.پس جتنا یہ ہمیں ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ سے کاٹ کر دور پھینکنے کی

Page 416

خطبات طاہر جلد ۶ 412 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۸۷ء کوشش کرتے ہیں اتنا ہی جماعت اور زیادہ تیزی کے ساتھ آنحضرت ﷺ کے قدموں کی طرف لپکتی اور آپ سے چمٹ رہی ہے، کوئی دنیا کی طاقت آنحضرت ﷺ سے جماعت کی محبت کو مٹا نہیں سکتی جماعت کے تعلق کو کاٹ نہیں سکتی.ہر اس کوشش کے نتیجے میں ایک رد عمل پیدا ہوتا ہے جماعت اور بھی زیادہ اپنے آقا و مولا کے قدموں میں قریب تر ہوتی چلی جاتی ہے.یہ ہے وہ صورتحال اور جو بدنما کر یہ المنظر اسلام کے نام پر ہونے والے واقعات ہیں ان کا نقشہ بھی سن لیجئے.ابھی چند دن پہلے علی پور چٹھہ میں پولیس کی معیت میں، پولیس کی حفاظت میں چند ملانوں اور ان کے شاگردوں کا ایک ٹولہ مسجد پر حملہ آور ہوا اور باقاعدہ پولیس ساتھ ان کے مددگار تھی اور اس بات کی نگران تھی کہ کوئی احمدی اپنے دفاع میں ان کو ضرب نہ لگا دے اور سارا مربی کا سامان اور مسجد کا سامان ، قرآن کریم اور ایسی کتابیں جن میں قرآن کریم کی آیات یا احادیث درج تھیں ان کی انتہائی طور پر ہتک کی گئی.جو بھی رویہ اختیار کیا گیا وہ تفصیل بیان کرنے سے انسان گھبراتا ہے، تکلیف محسوس کرتا ہے.بالآخر کوڑا کرکٹ کی طرح اکٹھا کر کے ان کے ڈھیر کو آگ لگا دی گئی اور یہ ہے اسلام کی محبت اور اسلام سے عشق کا مظاہرہ جو اس وقت پاکستان میں ہورہا ہے اور کسی کو وہم بھی نہیں آتا کہ یہ اسلام نہیں ہے یعنی بدبختی کا حال یہ ہے کہ اتنا ظلم کر کر کے اتنی بار بار ایسی بیہودہ باتیں کر کر کے عوام کے مزاج کو مسخ کر دیا گیا ہے.وہ بیچارے بیچ مچ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد ہم جنت میں جانے کے لائق ہو جائیں گے.گویا کہ آنحضرت ﷺ کی بعثت کا مقصد ہی یہ تھا کہ اس زمانے میں تو ایسے لوگ پیدا نہیں ہو سکے لیکن چودہ سو سال کے بعد نعوذ باللہ خدا تعالیٰ آپ کو ایسے غلام عطا کرے گا جو مسجدوں پر حملے کریں گے، قرآن کریم کی بے عزتی کریں گے، ان کو جلائیں گے، لوگوں کے مال لوٹیں گے اور ظلم کریں گے عوام الناس پر، بچوں پر ، عورتوں پر.ایسے لوگ جب پیدا ہوں گے اس وقت اسلام کامیاب ہوگا.یہ تصور ہے جو یہ آج اسلام کی طرف منسوب کر رہے ہیں.اپنے جو دماغ بگڑ گئے یا سخ ہو گئے اس حد تک بات رہنے دیتے تو اور بات تھی.کھلے بندوں علماء یہ تقریریں بھی کر رہے ہیں اور یہ تحریریں بھی چھپوا کر شائع کر رہے ہیں ساری دنیا میں کہ یہی اسلام ہے ، اسی کے نتیجے میں جنت کی ضمانت دی جائے گی اور بعض بد نصیب تو یہ بھی اعلان کرتے ہیں کہ تم جتنا زیادہ ان باتوں میں آگے

Page 417

خطبات طاہر جلد ۶ 413 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۷ء بڑھو گے اتنا ہی زیادہ جنت میں آنحضرت ﷺ تمہارا انتظار کر رہے ہوں گے اور تمہارے استقبال کے لئے نعوذ باللہ من ذالک تشریف لائیں گے تو کوئی بھی اعلیٰ قدرایسی نہیں جس کے زندہ رہنے کے امکان باقی چھوڑے جارہے ہوں.ہر تصور مسخ کر دیا گیا ہے، ہر عمل بگاڑ دیا گیا ہے.اب مردان ہی سے دوبارہ اطلاع ملی وہ مسجد جسے شہید کر دیا گیا تھا لیکن اس کے ساتھ یہ فرق ہے کہ سامان کو آگ نہیں لگائی گئی لوٹ لیا گیا یہ تھوڑا سا زیادہ عقل کا نمونہ دکھایا ہے مردان والوں نے کہ مال پلید ہوگا تو نیک لوگوں کے استعمال میں آکر صاف ہو جائے گا جلانے کی کیا ضرورت ہے.چنانچہ انہوں نے صرف قرآن کریم پھینکے ہیں اور جو پنکھے یا قالین وغیرہ اس قسم کی چیزیں جو انسانی استعمال کی ہو سکتی تھیں وہ اُٹھا کر لے گئے.اسی دن اس واقعہ سے پہلے تمام احمدیوں کو بلا استثناء اس میں فوج کے بڑے بڑے افسران بھی شامل تھے قید کر کے تھانے پہنچا دیا گیا تا کہ یہ دفاع کر کے کوئی امنِ عامہ کے لئے خدشہ کا موجب نہ بن جائے اور ان لوگوں پر مقدمے کئے گئے خصوصاً ان میں سے جو کوئی بھی کسی رنگ میں صاحب اثر تھے.ابھی چند دن پہلے ان میں سے ایک وہاں کے معزز دوست قاضی محمد اکبر صاحب جو پہلے میجر ہوا کرتے تھے ان کے بھائی کرنل اکبر مرحوم بھی بڑے مخلص اور فدائی احمدی اور فوج میں ایک اچھا مقام حاصل کرنے والے انسان تھے.بنگال میں جب جنرل اعظم خان کی حکومت تھی تو ان کے وه Second in Command تھے وہاں عملاً اور جنرل اعظم ان کی بہت عزت کرتے تھے بہت اعتماد کیا کرتے تھے ، بڑے بہادر ، دلیر مخلص احمدی.اس خاندان کا وہاں بڑا اثر ہے مردان میں اور بہت مدتوں سے سالہا سال سے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ بیسیوں سال سے وہاں کے معزز ترین خاندانوں میں شمار ہوتا ہے اور اہل مردان پہلے عام حالات میں تو سوچ بھی نہیں سکتے کے ان کے خلاف کسی قسم کی نامناسب کاروائی کریں یا میلی آنکھ سے دیکھیں.تو ایسے لوگوں کو تکلیف پہنچانے کے لئے اب طریق یہ بن گیا ہے کہ ملاں لوگ باہر سے آدمی لاتے ہیں کیونکہ اہل مردان اپنی پرانی روایات کے تابع اور اس خیال سے کہ ہمارے گھر کے معزز لوگ ہیں ہم کیوں ان کے خلاف کوئی بُری بات کریں، وہ ملا کے اشتعال دلانے کے باوجود بھی ایسی بیہودہ حرکتوں سے باز رہتے ہیں.چنانچہ ابھی بھی ایسا ہوا کہ جب اس مقدمے میں جو جھوٹا مقدمہ ان پر اس مسجد کے انہدام کے بعد بنایا گیا.

Page 418

خطبات طاہر جلد ۶ 414 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۷ء پیشی دے کر واپس آرہے تھے تو رستے میں ان کی کا روک کر ان پر حملہ کیا گیا اور شدید زخمی کیا گیا، ان کے بھتیجے کو بھی شدید زخمی کیا گیا اور چونکہ ان پر حملہ ہوا تھا اور یہ امنِ عامہ کے لئے خدشہ تھا اس لئے ساتھ ہی ان کو دوبارہ قید کر دیا گیا اور باوجود کوشش کے ضمانت بھی نہیں دی گئی.یہ جس ملک میں انصاف کا تصور ہو ، جس ملک میں انسانی عدل اور تقویٰ کا یہ معیار ہو، ساتھ میں یہ دعویٰ کرے کہ ہم ایک عظیم الشان مسلمان اسلام کی خدمت کرنے والی حکومت ہیں اور اس سے پہلے کبھی اسلام کی ایسی خدمت کرنے والے لوگ نہیں آئے تھے.ایسا دجل ، ایسا جھوٹ ہے کھلا کھلا فساد ہے کہ بہت سے ملک کے اندر رہنے والے لوگ اس کو سمجھ بھی چکے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے.جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے چونکہ ان کی زبانیں کھل چکی ہیں کھلم کھلا صاف انکار کر دیتے ہیں کہ ایسی کوئی بات ہوئی نہیں.ابھی وہاں میں نے وہاں پر یس کا نفرنس میں زیورچ میں جو بیان دیا تو رائٹر وغیرہ نے کافی چھان بین کے بعد مجھ سے کوئی ڈیڑھ دو گھنٹے تک بحث کی جب وہ پوری طرح مطمئن ہو گئے تو اس کے بعد انہوں نے بہت اچھی خبر یہ تمام دنیا میں مشتہر کی اور وہ سوئٹزر لینڈ کے بڑے اخباروں میں بھی چھپی ، باہر کی دنیا میں بھی کہ ہو کیا رہا ہے اس وقت اس کی تفصیل تھی.اس پر پاکستان کے Ambassador صاحب کا بیان آیا کہ بالکل جھوٹ ہے ایسی کوئی بات ہی نہیں ہے.اتنا امن ہے پاکستان میں خصوصاً احمدیت کے معاملے میں، نہ ان کے جلسوں پر پابندی، نہ ان کی مساجد پر کسی قسم کی پابندی، نہ ان پر کوئی اور ظلم اب یہ پتہ نہیں کیا مرزا صاحب بیٹھے بیان دیتے رہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں تو یہ نہیں ہو رہا.بالکل صاف انکار کر دیا اور چھپی ہوئی ان کی کتابیں ان کی تحریر میں حکومت کے بیانات سب موجود ہیں اور پر لیس کو ہم نے دکھائے ہیں حالانکہ وہ بھی حیران ہوتے ہوں گے کہ کس قسم کا ملک ہے کوئی شرم نہیں ہے جھوٹ بولنے میں اور ابھی حال ہی میں اتنی مسجدوں کے انہدام کے باوجود ، لوٹنے کے باوجود، ہزاروں احمدیوں کو کلمہ کے جرم میں یا مسجدوں کی حفاظت کے ظلم میں جیلوں میں بھجوانے کے باوجود ابھی چند دن ہوئے مذہبی امور کے وزیر صاحب کا ایک بیان چھپا ہے یہاں جنگ میں بھی چھپا ہے.وہ کہتے ہیں ہمارے ملک میں تو جو خاص خوبی ہے وہ یہ ہے کہ ہم اقلیت کے حقوق کا بہت خیال رکھتے ہیں.کہتے ہیں یہ تو ایسی چیز ہے جو ہماری اصولی بات ہے اس سے ہم ہٹ ہی نہیں اور سب سے بڑھ کر ان کے عبادتگاہوں کا جو احترام ہم کرتے ہیں

Page 419

خطبات طاہر جلد ۶ 415 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء ویسا کوئی دنیا میں نہیں کرتا.ہم نے خاص فنڈ رکھے ہوئے ہیں ان کی عبادتگاہوں کی مرمتوں وغیرہ کے لئے بھی.وہ فنڈ جو غالباً بچا رہے ہیں ابھی کیونکہ اتنا مرمتیں ہونے والی ہیں مسجدوں کی مسجدیں مسمار ہو گئیں تو تھوڑے سے فنڈ سے تو نہیں اب وہ بن سکتیں.تو جو بھی ان فنڈوں کی شکل ہے ہمیں پتا نہیں کہ کہاں پڑے ہوئے ہیں کس غرض کے لئے استعمال ہوتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو ہم بڑی شان کے ساتھ بیان کر سکتے ہیں اور اسلام نے یہ ہمیں قدر عطا فرمائی ہے، اسلامی قدروں کے محافظ تھے نہ وہ مذہبی امور کے وزیر.کہتے ہیں ہمارے ہاں تو بہت ہی احترام کے ساتھ اقلیتیں اور ان کے معابد خاص طور پر دیکھے جاتے ہیں اور ساتھ ہی یہ خبر آئی ہے کہ اس مسجد کے کیس میں جو منہدم پڑی ہے، جو بیچارے وہ لوگ جو جن پر پہلے بھی ظلم کیا گیا تھا ان پر مزید ظلم کیا جاتا ہے، مزید ان کو زخمی کیا جاتا ہے اور اس کے بعد شدید گرمی میں اندھیری کوٹھریوں میں مقید کیا گیا جہاں کوئی پنکھا نہیں اور کوئی انسان کو گرمی سے بچانے کا سامان نہیں تھا، ہوا تک نہیں چلتی اور ضمانتیں نامنظور کی جارہی ہیں.یہ ہے موجودہ حکومت کی اسلام دوستی یا انسان دوستی اور اس طرح یہ جن کو وہ اقلیت سمجھتے ہیں ان کے حقوق کی حفاظت کر رہے ہیں یا پھر دوسری شکل یہ ہوگی کہ انہوں نے ہمیں اقلیت قرار دینے سے توبہ کر لی ہو گی مگر ہمیں بتایا نہیں ابھی تک یعنی اقلیتوں سے تو یہی سلوک کرتے ہوں گے سکھوں سے، ہندوؤں سے، عیسائیوں سے لیکن دل میں جانتے ہیں کہ احمدی اقلیت نہیں اور دل میں پوری طرح اچھی طرح مطمئن ہیں کہ احمدی ہیں مسلمان ہی اقلیت نہیں ہیں اس لئے مسلمان مسلمان سے جو چاہے کرے اس سے کیا فرق پڑتا ہے اسلام صرف اقلیتوں پر ظلم کرنے سے باز رکھتا ہے.شاید یہی دل کی آواز ہو جس کے نتیجے میں ان کے عمل میں یہ دوغلا پن پیدا ہو گیا ہے.مگر بہر حال یہ بھی شکل ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ بڑی ہمت اور استقلال کے ساتھ شدید مظالم کے سامنے سینہ سپر ہے اور ہرگز کسی قسم کے ظلم اور استبداد سے ڈرنے والی جماعت نہیں ہے.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کرتی چلی جارہی ہے اور اگر کچھ لوگ کہیں جماعت سے مرتد ہوئے ہیں تو جب بھی ہم نے تحقیق کرائی ان میں وہی لوگ نکلے جو اس سے پہلے جماعت سے بعض جرائم کے نتیجے میں پہلے ہی علیحدہ کر دیئے گئے تھے یا دل میں بددیانتی تھی،

Page 420

خطبات طاہر جلد ۶ 416 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۷ء نفاق تھا، چندوں کے ڈر سے اور کئی قسم کی ذمہ داریوں کے ڈر سے پہلے ہی کٹ کے الگ ہو چکے تھے.کچھ ایسے تھے جن میں گندی عادتیں تھیں نشے کی یادوسری چوری ، مالی لین دین میں خرابیاں.تو عجیب بات ہے کہ جو بھی نیک لوگ ان کے نزدیک جماعت سے مرتد ہو کر تو بہ کر کے اسلام میں داخل ہوتے ہیں وہ کریکٹر کے لحاظ سے جماعت احمدیہ کی ادنی ترین سطح سے بھی تعلق نہیں رکھ سکے اور آخر خود ہی کٹ کے پہلے الگ ہو چکے تھے اور پھر اس پر ایسا فخر کیا جاتا ہے کہ اخباروں میں چھپتا ہے کہ پھر ان کے لئے دیگیں پکائی گئیں، ان کو ہار پہنائے گئے ، مٹھائیاں تقسیم ہوئیں، گلے لگے اور ہمیں جنسی آتی ہے تم ایک جیسے ہو ملتے رہو، آپس میں گلے لگتے رہو کیا فرق پڑتا ہے.شرم چاہیئے کس قسم کے لوگ تم لے رہے ہو جن پر فخر کر رہے ہو.اس دور میں جو تم سے ہم لے رہے ہیں ان کے منہ پر تو دیکھو کیسا نور ہے ان کے چہروں پر کتنی عظمت ہے کہ ہاروں کے لئے نہیں ، مٹھائیاں تقسیم کروانے کے لئے نہیں بلکہ ماریں کھانے لئے وہ حق کو قبول کر رہے ہیں ، شدید ذلتیں اٹھانے کے باوجود حق کو قبول کر رہے ہیں.یہ ہوتے ہیں وہ وجود جو لینے کے لائق ہوتے ہیں.یہ وہ ہیں جب کسی جگہ داخل ہوں تو ان کے داخل ہونے سے عزتوں میں اضافہ ہوا کرتا ہے، وہ اس لائق ہوتے ہیں کہ ان کا استقبال کیا جائے لیکن ہمیشہ ان کے استقبال دنیاوی شاہانہ طریقوں پر نہیں ہوئے بلکہ اس طرح یہ لوگ ایک جگہ کو چھوڑ کر دوسری جگہ ہجرت کر کے گئے کہ ان کے پیچھے پتھر مارنے والے، گالیاں دینے والے ، ان معززین کو ذلیل کرنے والے لوگ پیچھے غول در غول لگے رہے اور ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ دنیا میں سب سے معزز وجود نبی کا ہوا کرتا ہے اور سب سے ظالمانہ استقبال نبی کا ہوا کرتا ہے.نبی کے آنے پر دیکھیں نہیں چڑھائی جایا کرتیں، نبی کے آنے کے وقت مٹھائیاں نہیں تقسیم کی جاتیں.نبی وہ ہوتا ہے جو قوم کا ادنی نہیں بلکہ سب سے اعلیٰ وجود ہوتا ہے نبوت سے پہلے اور لوگ کہتے ہیں کہ ہماری تو نظریں تم پر گی ہوئی تھیں، ہماری تو امیدیں ہی تم سے وابستہ تھیں تم نے یہ کیا کر دیا.ان کے دل کی آواز بتاتی ہے کہ ان میں سے بہترین ہے جو ان کو چھوڑ کر خدا کی خاطر کسی اور طرف ہجرت کر گیا ہے.چنانچہ اس واقعہ کے بعد نبی کی تمثیل میں اس کی پیروی میں جو بھی آتے ہیں ایسے ہی آتے ہیں لیکن یہ نہیں ہوا کرتا کہ قوم کا وہ حصہ جو اخلاقی لحاظ سے ادنی ترین ہو ، جو رفتہ رفتہ خودہی بے تعلق ہو کر اس لئے ہٹ گیا ہو کہ اس میں اخلاقی ضابطوں کی پابندی کی طاقت نہ ہو.وہ سمجھتا ہو کہ اس

Page 421

خطبات طاہر جلد ۶ 417 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء جماعت کے ساتھ وابستہ رہیں گے تو ہم سے بعض بلند تر اخلاقی تو قعات کی جائیں گی اس لئے وہ چور بن گیا ہو جماعت کا.وہ الگ ہو جائے اور خوشیوں کے شادیانے بجائے جائیں یہ کون سی عقل ہے؟ یہ کون سا دین ہے؟ کہاں پہلے کبھی انبیاء کے زمانے میں ایسے واقعات ہوئے ہیں؟ لیکن یہی ان کا ماحصل ہے.ساری کوششوں کے بعد اگر چند گنتی کے آدمی انہوں نے پکڑے اور جن کی اشتہار بازیاں کی گئیں وہ ایسے ہی نکلے اور ہر اشتہار میں جھوٹ شامل رہا.ہر اعلان میں اکثر وہ لوگ تھے جو غیر احمدی ہوئے ہی نہیں ان کے نام زبر دستی داخل کر دیئے گئے ادھر اعلان ہوتا تھا ادھر دوڑے دوڑے وہ ربوہ آتے تھے کہ جھوٹ اندھیر ہے ہم تو خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں.ہمیں جو چاہیں کریں ہم تو ہٹ ہی نہیں سکتے احمدیت سے تو یہ ہے سارا تماشا جو وہاں ہو رہا ہے اور جس کے نتیجے میں یہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت کو مٹادیں گے.ان کے بس کی بات کہاں ہے احمدیت مٹانے والی.ان سے زیادہ طاقتور مذہبی لیڈران کے آبا ؤ اجداد تھے جو ناکیں رگڑتے چلے گئے زمین کے ساتھ لیکن احمدیت کو مٹا نہیں سکے.ہر مخالفت کے دور کے بعد احمدیت بڑی ہو کر نکلی ہے اللہ کے فضل کے ساتھ.اس لئے نہیں کہ ہم طاقتور ہیں، اس لئے کہ ہمارا خدا طاقتور ہے، وہ ہماری پشت پر کھڑا ہے.کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو جماعت احمدیہ کو مٹا سکے اور یہ سبق اگر آج نہیں سمجھیں گے تو کل ان کو سمجھنا پڑے گا لیکن ہر دن جو گزررہا ہے، ہر رات جو آ کے چلی جاتی ہے جماعت کے لئے پہلے سے زیادہ بہتر حال چھوڑ جاتی ہے، پہلے سے زیادہ نور عطا کر جاتے ہیں یہ بدلتے ہوئے حالات اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے تقویٰ میں بھی اضافہ ہو رہا ہے، جماعت کی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے جماعت کی قوت میں جماعت کے رُعب میں ہر پہلو سے جماعت آگے بڑھتی چلی جارہی ہے اور ابھی تو بندھن ہیں یہاں کے اور بہت سے لوگ ملک کے کمزور ہیں.جہاں بندھن نہیں ہیں یعنی بیرونی دنیا میں وہاں جماعت کی ترقی اس سے بہت ہی زیادہ تیز رفتار ہوگئی ہے خدا کے فضل کے ساتھ.بہر حال ان لوگوں کا ذکر خیر کبھی کبھی ہوتے رہنا چاہئے اس کے ساتھ ان کو بھی حوصلہ ہوگا یادر ہے گا کہ ساری جماعت دنیا کی ہمیں یاد رکھتی ہے.سب دنیا کی طرف سے جماعت کی عزت اور وقار کی سر بلندی کا موجب ہے یہ.اس لئے ہمیں لازماً ان کو ہمیشہ یادرکھنا ہوگا اور محبت کے ساتھ اور

Page 422

خطبات طاہر جلد ۶ 418 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء ادب کے ساتھ اور احترام کے ساتھ یاد رکھنا ہو گا.دعاؤں کے ذریعے ان کو تقویت دینی ہوگی کیونکہ حقیقت میں ساری طاقتیں آسمان ہی سے آتی ہیں.رات جو میں نے رویا دیکھا جس کے نتیجے میں مجھے محسوس ہوا کہ اللہ تعالیٰ یہ پسند فرماتا ہے کہ اس ذکر کو پھر چھیڑا جائے وہ یہ تھا کہ ایک کمرے میں کچھ ایسے اسیرانِ راہ مولا اور دیگر دکھ اُٹھانے والے دکھائے گئے جن میں سے بعض کے چہرے پر تھوڑی سی تھکاوٹ کے آثار تھے، کچھ پڑ مردگی سی تھی اور کچھ ایسے تھے جو باہمت بیٹھے ہوئے تھے ان کو کوئی پرواہ محسوس نہیں ہوتی تھی لیکن عجیب بات ہے کہ ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے میں معین طور پر پہچان سکتا یعنی جتنے بھی بہت ہی عزیز اور پیارے قید ہیں ان میں سے کوئی معین آدمی سامنے نہیں آیا بلکہ معلوم ہوتا ہے خدا تعالیٰ ایک عمومی تصویر دکھانا چاہتا تھا کہ یہ ہورہا ہے.چنانچہ بعض جو ذرا سے پژمردہ تھے ، زیادہ نہیں لیکن معمولی سے چہرے پر سائے سے تھے غم کے ان کی خاطر میں نے ان کو مخاطب کر کے کہا کہ ہم آپ کے لئے وہ سب کچھ کر رہے ہیں جو انسان کی طاقت میں ہے.کوئی خانہ نہیں ہے جو ہم نے خالی چھوڑا ہو، کوئی اسباب کا ایسا امکانی ذریعہ نہیں ہے جس کی ہم نے شدت کے ساتھ پیروی نہ کی ہو، تلاش کر کے ان راہوں پر نہ چلے ہوں جن سے آپ کو کسی قسم کی مددمل سکتی ہو لیکن محض یہ زمینی ذرائع نہیں ہیں جو ہم نے اختیار کئے ہیں یا کر رہے ہیں، ہم آسمان کی طرف بھی متوجہ ہیں اور یہ کہتے کہتے میں دیکھتا ہوں کہ ان چہروں پر بشاشت آجاتی ہے اور ایک عجیب عزم آجاتا ہے، لگتا ہے کیفیت ہی بدل گئی ہے ان کی حالت کی ، ایک نیا ولولہ ہے جوان چہروں سے ٹپکنے لگا ہے.چنانچہ میں پھر اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے کہتا ہوں کہ آسمان میں بھی جتنے کونے ہیں میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ ان سب کو نوں تک ہم پہنچیں گے جن تک ہم نہیں بھی پہنچ سکے ان تک بھی پہنچیں گے اور کبھی آپ کو اکیلا نہیں چھوڑیں گے، کبھی آپ سے بے وفائی نہیں کریں گے.ہر آسمانی کونے پر ہم جائیں گے اور جو کچھ ہمارے بس میں ہے ہم آپ کے لئے کوشش کریں گے.جب آسمان کے کونے کہتا ہوں تو یہ چار کونے ذہن میں نہیں ہیں بلکہ یہ نقشہ ہے کہ آسمان پر بہت سے مخفی خانے ہیں.کونے ان معنوں میں کہ نظر سے اوجھل ہیں اور ان میں ہمارے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے منفعتیں ہیں اور مصلحتیں ہیں.تو مراد یہ ہے کہ ہم ان کی بھی تلاش کریں گے اور

Page 423

خطبات طاہر جلد ۶ 419 خطبہ جمعہ ۱۹ / جون ۱۹۸۷ء ان تک بھی پہنچیں گے اور کسی حالت میں بھی اس جہاد کو ہم چھوڑنے والے نہیں ہیں.یہ کہنے کے بعد مجھے اچانک خیال آتا ہے کہ یہ کہیں گے کہ زمین تک تو تم پہنچ سکتے ہو ہم مان لیتے ہیں ہر کوشش تم نے کی ہوگی لیکن آسمان کی بلندیوں پہ کس طرح جاؤ گے اور کس طرح آسمان کے ہر کونے میں ہمارے لئے منفعتوں کی تلاش کرو گے؟ یہ سوال اٹھتے ہی میرے ذہن میں جواب آتا ہے اور میں ان کو یہ بتاتا ہوں یا بتانے لگتا ہوں کہ اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ خواب، ایک دم تو نہیں مگر رفتہ رفتہ جیسے بالکل غائب ہو جاتی ہے اور مکمل ہو جاتی ہے.وہ دو باتیں جو میرے ذہن میں آتی ہیں جو ان کو میں پوری طرح بتا نہیں سکا کیونکہ اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ خواب غائب ہو گئی، وہ یہ تھی کہ اس دنیا میں بھی جو ہم کوشش کرتے ہیں وہ ساری کہاں کر سکتے ہیں اور ان کوششوں کی حیثیت کیا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ ان کوششوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ صرف ہمارا اخلاص دیکھتا ہے ہماری نیتیں جانچتا ہے.یہ معلوم کر لیتا ہے کہ ہم کمزورں کی طاقت میں جو کچھ بھی تھا وہ سب کچھ ہم نے صرف کر دیا پھر یہ خدا کی طاقت ہے جود نیا کے سارے ذرائع کو ہمارے حق میں حرکت میں لے آتی ہے اور گویا ہم نے دنیا کی ہر امکان کی چھان بین کر لی اور ہر امکان سے استفادے کی کوشش کر لی.میں نے کہا جب میں یہ کہنا چاہتا ہوں ان کو تو مراد یہ نہیں تھی کہ ہم نے واقعہ ہر سبب کو اختیار کر دیا ہے ہر ذریعے سے تمہاری مدد کی ہے مراد یہ ہے کہ ہم میں جتنی طاقت تھی وہ ہم نے کر دیا لیکن خدا نے اس کو قبول کیا ہے اور خدا نے اب سارے ذرائع کو متحرک کرنا ہے.اسی طرح آسمان کا معاملہ ہے ہم تو جتنی ہماری پہنچ ہے اس کے مطابق ہی کریں گے لیکن جب میں وعدہ کرتا ہوں کے سب کو نوں تک پہنچیں گے تو مراد یہ ہے کہ ہمارا خدا اسب کونوں تک ہمیں پہنچائے گا اور ہمارا خدا ہر کونے میں مخفی مصلحتوں کو بروئے کار لائے گا اور متحرک فرما دے گا.یہ ہے وہ جو میں ان کو مضمون سمجھانا چاہ رہا ہوں خواب میں.مجھ پہ پوری طرح واضح ہو گیا لیکن اس کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ وہ خواب ختم ہوگئی لیکن دوسرا پہلو بھی مجھ پر واضح ہے وہ بھی میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں وہ یہ تھا کہ ایک لمحے کے اندر خدا تعالیٰ یہ دونوں باتیں مجھے سمجھاتا ہے.دوسرا یہ تھا کہ ہم مرنے کے بعد جو لا فانی اجر پاتے ہیں اس لافانی اجر پانے میں تو کوئی بھی بظاہر انصاف نہیں پایا جاتا.ہماری عمر چھوٹی سی ، ہماری دنیا کی نیک کوششیں بالکل معمولی اور حقیر اور جب ہم مرجاتے ہیں تو اجر لافانی ہو جاتا ہے.یہ کیوں؟ اس کو لا فانی نہیں ہونا چاہئے اس اجر کو کچھ عرصے

Page 424

خطبات طاہر جلد ۶ 420 خطبہ جمعہ ۱۹/ جون ۱۹۸۷ء بعد جب ہماری کوششوں کا پھل ختم ہو جائے ، ہماری کمائی جہاں تک پہنچتی ہے وہاں تک جا کر وہ پھل رُک جانا چاہئے.میں نے کہا یہ بھی وہی بات ہے اس کا وہی فلسفہ ہے کہ خدا تعالیٰ یہ بتاتا ہے کہ اگر تم ہمیشہ کے لئے زندہ رکھے جاؤ تو تب بھی وہ نیک اعمال اس تکمیل کے ساتھ نہیں کر سکتے جو میری رضا کا اس حد تک موجب بن جائیں کہ میں تمہیں لا فانی اجر دوں کیونکہ جہاں بھی تمہارا اجر کاٹوں گا وہیں تمہاری کوشش فانی ہو جائے گی اور محدود ہو جائے گی اور اس کے بعد کا زمانہ پھر لا فانی ہے.اس لئے فانی کو لا فانی سے کوئی نسبت ہو ہی نہیں سکتی.اگر لافانی اجر کے لئے لافانی محنت درکار ہو تو پھر اجر کا دور آہی نہیں سکتا اور اگر فانی اجر کے ذریعے لافانی خدا نے دینا ہی ہے تو پھر بھی تکلیف کیوں دے پھر وہ تھوڑی سی آزمائش میں ڈالتا ہے اور اس کے بعد لافانی اجر کا سلسلہ شروع فرما دیتا ہے.یہ مضمون خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ میں ان کو تسلی دوں کہ ان معنوں میں ہماری پہنچ آسمان کے ہر کونے تک ہو گی کہ ہم چھوٹی سی بھی چھلانگ لگائیں گے تو خدا اس کی پہنچ کو آسمان کی بلندیوں اور رفعتوں تک ممتد فرما دے گا اور چند کونوں کی بھی تلاش کریں گے تو سب کو نوں تک ہماری کوشش کا اثر پہنچ جائے گا.پس چونکہ یہ پیغام بہت اہم تھا اور میں سمجھتا تھا کہ اللہ تعالیٰ جب بھی فضل لے کے آئے گا اسی طرح جماعت پر فضل لے کے آئے گا.خواب میں یہ سب جو مجھے بتایا گیا ہے یہ دراصل صرف ان کے لئے نہیں ساری جماعت کو بتانے والا تھا اور اس ذکر سے میں امید رکھتا ہوں کہ پاکستان میں تکلیف اٹھانے والوں کو نئے حوصلے ملیں گے ، نیا ان میں تو کل پیدا ہوگا اللہ تعالیٰ پر اور ان کے ایمان میں جو خدا کے فضل سے پہلے ہی مضبوط ہیں ایمان کو نئی مضبوطی عطا کی جائے گی.بہر حال ان کو دعاؤں میں یاد رکھنا ہمارے فرض ہے.ان کے ذکر کو زندہ رکھنا ہمارا فرض ہے، اپنی محافل میں بھی اپنے دیگر مشاغل میں بھی.ذکر کے ذریعے بھی ان کو زندہ رکھیں اور دعاؤں کے ذریعے بھی ان کی مدد کرتے رہیں کیونکہ وہ ہم سب کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں ہم سب کا بوجھ اٹھانے والے لوگ ہیں اللہ ان کی نصرت فرمائے اور ان کی مشکلات کو جلد تر آسان فرمادے.آمین خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.ابھی نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر بھی جمع ہوگی کیونکہ موسم کافی خراب ہے اور جو باہر سے

Page 425

خطبات طاہر جلد ۶ 421 خطبہ جمعہ ۱۹ جون ۱۹۸۷ء دور دور سے لوگ آنے والے ہیں وہ شاید جلدی گھروں میں واپس جانا چاہیں.دوسرا اعلان یہ ہے کہ نماز عصر کے معا بعد بعض مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوں گی.ان میں ایک ہمارے سیٹھ محمد اعظم صاحب مرحوم کی اہلیہ عزیزہ بیگم صاحبہ تھی جن کو ہم بڑی بھابی کہا کرتے تھے.بہت ہی محبت کرنے والی ، اخلاص کا تعلق رکھنے والی.میری والدہ کے ساتھ ان کا بہت تعلق تھا اس لئے عملاً تو ہم خالہ کے طور پر ہی سمجھا کرتے تھے لیکن بچپن سے بڑی بھابی کہنے کی عادت تھی.بڑی حوصلے کی خاتون تھیں، بڑے شدید صدمے برداشت کئے انہوں نے آخری عمر میں اس کے باوجود حیرت انگیز صبر کا مظاہرہ کیا.تو ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.اسی طرح ہمارے ایک مبلغ سلسلہ عبدالقدیر صاحب فیاض کی بیگم بڑی لمبی تکلیف دہ بیماری کے بعد وفات پاگئی ہیں امتہ الباسط صاحبہ.یہ عبد القدیر صاحب فیاض تنزانیہ میں مبلغ سلسلہ ہیں.اسی طرح ہمارے ایک مشرقی بنگال کے بہت پرانے خاندان جو چوہدری ابوالھاشم خان صاحب کا خاندان ہے اس خاندان میں بھی صدمہ پہنچا ہے.ابوالقاسم انصر صاحب مرحوم جو نائب امیر صوبائی تھے ان کی بیگم صاحبہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے، یہ جنرل امجد ریٹائر ڈ کی والدہ تھیں.اسی طرح نظام الدین صاحب جو محمد امتیاز خالد صاحب (سابق) مربی سلسلہ قلعہ کالر والا کے والد تھے.غرضیکہ اور بھی بہت سے لوگوں کی وفات کی اطلاع ملی ہے.چودہ کی فہرست ہے یہ.میں نے کہا تھا کہ جمعہ سے پہلے اعلان کر دیا جائے تاکہ لوگوں کے ذہن میں حاضر ہو.تو ان سب کی انشاء اللہ نماز جنازہ غائب عصر کی نماز کے معابعد پڑھائی جائے گی.

Page 426

Page 427

خطبات طاہر جلد ۶ 423 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء ابتلاء کا فلسفہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ابتلا کا یہ عظیم الشان دور جو اس وقت جماعت احمدیہ کو نصیب ہے، اس دور میں حق کے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے خدا تعالیٰ نے جو ہمیں ہتھیار عطا فرمائے ہیں ان میں سب سے اول دعا عليسة صلى الله ہے اور اس کے بعد جو متعدد ہتھیار خدا تعالیٰ نے ہمیں دیئے اور قرآن کریم نے اور سنت محمد مصطفی امتار نے ان کو استعمال کے اسلوب بھی سکھائے.ان میں صبر، تقویٰ اور توکل کو ایک خاص مقام حاصل ہے.صبر اور تو کل اور تقویٰ کا مضمون آپس میں ملتا جلتا ہے اور ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ تو کل کے بغیر کوئی بھی عظیم لڑائی جیتی نہیں جاسکتی.دنیاوی قو میں جنگوں میں مصروف ہوں یا روحانی قو میں روحانی مقابلوں میں تو کل کے بغیر دنیا کی کوئی عظیم جنگ بھی جیتی نہیں جا سکتی.تو کل دنیا کی اصطلاح میں اپنے مقصد کے یقین کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے اور مذہبی اصطلاح میں اللہ تعالیٰ کی ذات پر کامل ایمان کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے اور صرف کامل ایمان کی وجہ سے نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے سابقہ سلوک پر نظر کر کے تو کل کو تازہ غذا ملتی رہتی ہے.دنیا کے تو کل کی کوئی عقلی بنیاد نہیں محض وطینت کے ساتھ ایک گہرا رابطہ، گہر اواسطہ، گہرا لبعض صورتوں میں عشق یہی ان کے اندر تو کل پیدا کرنے کا ذریعہ ہے لیکن کوئی ایسا قطعی تاریخی مشاہدہ ان کو میسر نہیں آتا کہ ہمیشہ ضرور ہر لڑائی میں وہی فتح یاب ہوں گے.لیکن مذہبی دنیا میں جو تو کل ہے وہ خدا تعالیٰ کی ایک بہت ہی قدیم سنت پر مبنی ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ کی قدیم سے جو سنت چلی آئی ہے کہ میں اپنے تعلق والوں کو اپنے پیاروں کو

Page 428

خطبات طاہر جلد ۶ 424 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء حق پرستوں کو بھی تنہا نہیں چھوڑتا اور کبھی مغلوب نہیں رہنے دیتا یہ وہ مرکزی سرچشمہ ہے جہاں سے تو کل اپنی غذا حاصل کرتا ہے.تو کل ہو تو صبر کو بھی تقویت ملتی ہے کیونکہ اگر مقصد پر یقین نہ رہے اور امید باقی نہ رہے فتح کی تو صبر زیادہ دن انسان کا ساتھ نہیں دے سکتا.مایوسی اور صبر دو متضاد چیزیں ہیں.اس لئے تو کل صبر کے ایک کنارے پر کھڑا ہے اور ایک بازو سے صبر کو تقویت دیتا ہے.اس کے دوسرے کنارے پر تقویٰ ہے اور تقوی سے صبر کو تقویت ملتی ہے.پس ان دونوں بازوؤں کے مضبوط ہونے کے نتیجے میں صبر مضبوط ہو جاتا ہے اور صبر کے متعلق قرآن کریم بار ہا یہ فرماتا ہے کہ صبر کرنے والے ضائع نہیں جاتے خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے اور بالآخر صبر کرنے والے لا ز ما فتح یاب ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر جو روشنی ڈالی ہے وہ مضمون تو بہت ا ہی وسیع ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف وقتوں میں مختلف زاویہ ہائے نظر سے جماعت کے سامنے رکھا لیکن اس میں سے چند اقتباسات میں نے آج کے خطبے میں آپ کے سامنے رکھنے کے لئے چنے ہیں.جہاں تک ابتلا کا فلسفہ ہے سب سے پہلے اس پر نظر ڈالنی ضروری ہے کہ آخر ابتلا آتا کیوں ہے؟ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر خدا کو کوئی قوم اتنی ہی پیاری ہے کہ لازماً اس کی فتح کی ضمانت دی جاتی ہے اور یقین دلایا جاتا ہے کہ کسی قیمت پر یہ قوم اپنے دشمن سے مغلوب نہیں ہوگی خواہ وہ دشمن کتنا ہی بڑا اور طاقتور کیوں نہ ہو.تو اگر یہ بالآخر کرنا ہی تھا تو شروع میں ان کو مصیبت میں ڈالنے کی ضرورت کیا تھی ؟ اس فلسفے کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے پیارے انداز میں واضح فرمایا ہے کہ یہ عارف باللہ کا ہی حق ہے کہ وہ مضمون پر اس طرح روشنی ڈال سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ابتلا جو اوائل حال میں انبیاء اور اولیاء پر نازل ہوتا ہے اور باوجود عزیز ہونے کے ذلت کی صورت میں ان کو ظاہر کرتا ہے ( یعنی خدا کو بہت پیارے ہوتے ہیں لیکن ہر ابتلا کے دور میں سے گزرتے ہوئے وہ پیارے

Page 429

خطبات طاہر جلد ۶ 425 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء بظاہر ذلیل کر دئے جاتے ہیں ) اور باوجود مقبول ہونے کے کچھ مردود سے کر کے ان کو دکھاتا ہے.یہ ابتلا اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام و نشان مٹا دیوے کیونکہ یہ تو ہر گز ممکن ہی نہیں کہ خداوند عز وجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے بچے اور وفا دار عاشقوں کو ذلت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے.بلکہ حقیقت میں وہ ابتلا کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے اور ا الہی معارف کے بار یک دقیقے ان کو سکھا دے“.سبز اشتہار روحانی خزائن جلد ۲ صفحه : ۴۵۷-۴۵۸) پہلا نتیجہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نکالا ہے وہ یہ ہے کہ تا ان کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے.اس کا مفہوم سمجھنا چاہئے کہ اس فقرے کے اندر کیا حقیقت پوشیدہ ہے جو سطحی نظر سے مطالعہ سے نظر نہیں آتی.ابتلا کے ذریعے مقبولیت کے بلند مینار پر کیسے پہنچایا جاتا ہے؟ اگر خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو اپنا پیارا قرار دے دے اور کسی آزمائش میں سے ان کو نہ گزارے تو یہ ترجیح بلا وجہ اور بلاحق ہوگی.خدا کے پیارا ہونے کے لئے ان کے پاس کچھ علامتیں ہونی چاہئیں، کچھ ان کی وفا کے ثبوت ہونے چاہئیں، کچھ دنیا پر ثابت کرنا چاہئے کہ کیوں میں نے اس قوم کو اپنے لئے اختیار فرمایا اور کیوں اس کو تم پر فضیلت دی.اگر ابتلاؤں کے دور سے مذہبی قومیں نہ گزرتیں تو کوئی کہنے والا یہ کہ سکتا تھا کہ خدا نے ایک کی بجائے دوسرے کو چن لیا چونکہ وہ ساتھ تھاوہ قوم غالب آگئی، ان کے اندر ترجیح کے کوئی خواص نہیں تھے، کوئی استحقاق نہیں تھا جس کی بناء پر ان کو دوسری قوموں پر ترجیح دی گئی.پس جب وہ خدا کے نام پر طرح طرح کے مصائب کی چکی میں پیسے جاتے ہیں، ہر طرح سے دکھ اُٹھاتے ہیں اور وفا پر اور بھی مضبوطی سے قائم ہو جاتے ہیں آخر وقت تک وہ خدا کا دامن نہیں چھوڑتے.تو پھر ایسوں کو غالب کرنا اپنی ذات کے اندر ایک ایسی معقول وجہ رکھتا ہے جس کو ایک معمولی نظر رکھنے والا انسان بھی پہچان سکتا ہے.یہ ایک استحقاق ہے جو ایک معمولی عقل والے کو بھی

Page 430

خطبات طاہر جلد ۶ 426 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۷ء سمجھ آسکتا ہے.خدا کے نام پر شدید مخالفتوں کے باوجود جو قوم وفا کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنا رشتہ قائم رکھے اور بے وفائی نہ کرے، پیٹھ نہ دکھائے ایسے وقت میں ان کو غالب نہ کرنا خدا کی ہستی کے اوپر ایک حرف لانے والی بات ہے.اس لئے اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ اگر وہ خدا کوئی ہے تو ضرور ان کو غالب کر کے دکھائے.پس ان قوموں کے صبر کے نتیجے میں اور وفا کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل کا ایک ایسا استحقاق ان کو حاصل ہو جاتا ہے جو دوسروں کو بھی نظر آنے لگتا ہے.پھر قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے.آزمائش کے بغیر اگر کسی سے تعلق بھی ہو تو اس تعلق میں وہ پختگی پیدا نہیں ہوتی جو آزمائش میں پورا اُترنے کے بعد اس تعلق میں پیدا ہو جاتی ہے.آپ کے کتنے ہی دوست ایسے ہوں گے جن سے آپ کو وفا کی امید ہے ، جن پر آپ کو تو کل ہے کہ آپ کی مشکل میں کام آئیں گے لیکن جب مشکل پڑتی ہے تو بہت سے ان میں سے ایسے ہیں جو پیٹھ دکھا دیتے ہیں، بہت سے ایسے ہیں جن پر آپ کو بڑا ناز ہوتا ہے لیکن ادنی ضرورت میں بھی وہ کام نہیں آتے لیکن بعض دفعہ کچھ ایسے دوست بھی نکلتے ہیں جو بظاہر معمولی اور بظاہر آپ کی نظر میں کوئی احترام نہ رکھنے والے ہوتے ہیں لیکن وقت کے او پر وہ ایسی خدمت کرتے ہیں اور ایسی قربانی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ ہمیشہ کے لئے ایک سچا انسان ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے.اس کے بعد ان کو ان کی عظمت کی حقیقت معلوم ہوتی ہے.پھر جو ایسے دوست کی قدر کی جاتی ہے اس کا پہلی حالت سے کوئی مقابلہ ہی نہیں ہوتا کوئی نسبت ہی نہیں ہوا کرتی.تو مقبولیت کے بلند مینار تک پہنچانے کا مفہوم یہی ہے کہ اگر چہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے لیکن جاننے کے باوجود وہ ان کو آزمائش میں سے گزارتا ہے تا کہ وہ بھی جانیں کہ واقعہ وہ خدا کے پیارے بننے کے مستحق ہیں.خدا کے علم میں تو ہر چیز ہے، اس علم کے مطابق اگر خدا تعالیٰ فیصلے دے اور عمل کی دنیا میں سے گزارے ہی نہیں تو وہ علم ہی نہیں رہے گا باقی.یہ بھی ایک سوچنے کی بات ہے لوگ کہتے ہیں کہ خدا کو علم ہی ہے تو بغیر آزمائش کے کیوں نہیں فیصلہ فرما دیتا.اگر بغیر آزمائش کے فیصلہ فرمادے تو علم ہی نہیں ہو گا خدا کو پھر.خدا کو تو حق کا، سچی بات کا علم ہے نہ کہ جھوٹی بات کا علم ہے.جب تک وہ واقعہ رونما ہونے والا نہ ہو خدا کو اس کا علم نہیں ہوتا اور جو خدا کا علم ہے وہ حق پر مبنی ہوتا ہے.پس جس کنارے سے بھی آپ دیکھیں اس چیز سے مفر نہیں ہے کہ ابتلا میں سے

Page 431

خطبات طاہر جلد ۶ 427 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء گزارے بغیر خدا تعالیٰ کا علم نہ بنے.چنانچہ قرآن کریم بسا اوقات یہ محاورہ استعمال فرماتا ہے کہ ہم نے یہ کیا تا کہ اللہ تعالیٰ جان لے.نادان آدمی یہ سمجھتے ہیں کہ بالکل کھو کھلی سی بات ہے خدا تعالیٰ کو پہلے ہی علم ہے یہ کیوں کہتا ہے کہ وہ ایسا کر دیا تا کہ خدا تعالیٰ جان لے.حالانکہ اگر اس کا برعکس سوچیں تو فوراً ان کو مفہوم سمجھ میں آجائے گا.اگر وہ نہ ہو تو خدا تعالیٰ نہیں جانے گا پھر کیونکہ جو ہے وہی جانتا ہے جو نہیں ہے وہ نہیں جانتا کیونکہ فرضی باتوں پر تو خدا تعالیٰ کا کوئی علم نہیں ہے جو ایسی باتیں جو ہیں ہی نہیں ، جو عدم ہیں ان کے متعلق تو خدا کا صرف یہی علم ہے کہ وہ عدم ہیں.اس لئے جو بات ہو نہیں سکتی یا ہو نہیں جاتی اس کا علم خدا کو نہیں ہوتا اور جو ہوتی ہوتی ہے لازما اس کا علم ہوتا ہے.اس لئے اگر علم ہوتا ہے تو اسے ہو کے رہنا پڑے گا ورنہ وہ علم جھوٹا ثابت ہو جائے گا.تو جس کنارے سے بھی آپ نظر ڈالیں.خدا کے علم کا تقاضا ہے کہ ایک بات ضرور ہو اور جو بات ضرور ہوگی اسی کا علم ہو گا ضرور.پس خدا تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ اپنے دوست کہلانے والوں کو ایسے ابتلا میں سے گزارتا ہے کہ ان کی ذات کے متعلق جو خدا کا علم ہے وہ سچا ہو کر دنیا کے سامنے ظاہر ہو جائے.وہ علم عمل میں ڈھل جاتا ہے اور پھر وہ لوگ جو ادنیٰ اور حقیر اور ذلیل ہونے کے باوجود وفا کرتے ہیں وہ یقیناً اس لائق ہیں کہ ان کی غیر معمولی قدر کی جائے.دیکھیں! آپ کی ضرورت کے وقت اگر کوئی امیر آدمی آپ کے کام آئے تب بھی آپ اس کے زیر ا حسان آجاتے ہیں لیکن ایک امیر آدمی کے اگر غریب آدمی کام آجائے کچھ نہ ہونے کے باوجود تو جو جذ بہ اس امیر کے دل میں پیدا ہوتا ہے اس کو اس پہلی حالت کے جذبے سے کوئی نسبت نہیں ہوتی.ایک طاقتور آدمی جب ضرورت کے وقت کسی کمزور کا محتاج کا ہو جائے اور وہ قربانی کر کے اس کی مددکرے تو یہ جو وفا کا یا ایثار کا مظاہرہ ہے یہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑی عظمت رکھتا ہے.اللہ تعالیٰ تو قادر مطلق ہے بندے کمزور اور بالکل بے حقیقت ہیں اس کے مقابل پر.خدا چاہے تو اپنے پیغام کو خود ہی دنیا پر غالب کر سکتا ہے لیکن چند کمزور بے حیثیت ناکارہ بندے جن کو ساری دنیا دھتکار رہی ہوتی ہے اور ذلیل کر کے مردود کر دیا کرتی ہے اس وقت اس حالت میں بھی وہ خدا سے وفا کرتے ہیں تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی کتنی رحمتیں جذب کرنے والے ہوں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی نقشے کو بیان کرتے ہوئے

Page 432

خطبات طاہر جلد ۶ 428 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء فرمایا: ” قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے.وہ پہلے بھی مقبول ہوتے ہیں لیکن ایسے مقبول جو نظر سے غائب ہیں.اگر دنیا کی نظر میں وہ مقبول ٹھہرتے تو ان کی مخالفت کبھی نہ کرتے لیکن بلند مینار پر فائز چیز تو دور دور سے دنیا کو دکھائی دینے لگتی ہے.اس محاورے میں ان کی شان کا بھی اظہار ہے اور ان کی شان کا دنیا پر ظاہر ہونے کا بھی اظہار ہے پھر وہ چھپے ہوئے مقبول نہیں رہتے بلکہ دور دور تک ان کی قبولیت کی شہرت پھیلتی ہے، ایسے واقعات ان کے حق میں رونما ہوتے ہیں جن کے نتیجے میں قومیں دور دور سے ان کی مقبولیت اور ان کی فتح کے گیت گانے لگتی ہیں اور ان کی حیرت انگیز فتح کی مثالیں دی جانے لگتی ہیں.تو ایک چھوٹے سے فقرے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک بڑے گہرے اور وسیع فلسفے کو بیان فرمایا اور ایک انتہائی معجزانہ کلام کے ذریعے جو فتح فصاحت و بلاغت کا مینار ہے اس مضمون کے ہر پہلو پر روشنی ڈال دی.پھر فرماتے ہیں : ” اور الہی معارف کے بار یک دقیقے ان کو سکھا دے“.ابتلا کے دور کا معارف سیکھنے کے ساتھ جو تعلق ہے یہ ایسی بات نہیں ہے جو کسی عام شخص کو معلوم ہو سکے.کوئی دنیاوی عقل اور دنیاوی علم رکھنے والا ایسی بات کر ہی نہیں سکتا.یہ وہ خاص مقامات ہیں جہاں سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت ایک پہاڑی چشمے کی طرح خود بخود پھوٹتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.یہ صرف صاحب عرفان کا کام ہے کہ اس قسم کی بات کرے کہ ابتلا کے دور سے گزر کر عرفان کے باریک اور دقیق نکات انسان کو معلوم ہوتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت جماعت جو ابتلا کے دور میں سے گزر رہی ہے اس پر عرفان کی بارش نازل ہو رہی ہے.وہ لوگ جو مصیبتوں میں سے گزرتے ہیں ان حالتوں میں مجھے خط لکھتے ہیں یا اس کے بعد لکھتے ہیں یا مصیبتیں جب ان کے اوپر حملہ آور ہونے کے لئے تیار کھڑی ہوتی ہیں اس حالت میں خط لکھتے ہیں.ان خطوں کے اندر جو معارف اور نکات بیان ہوتے ہیں وہی لوگ جو اس سے پہلے خط لکھتے رہے ان خطوں اور ان خطوں کے درمیان کوئی آپس میں نسبت نہیں ہوتی.معمولی ان پڑھ لوگ ایسے ایسے معرفت کے نکتے سمجھ جاتے ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے لیکن ظاہری طور پر اس کا کوئی تعلق نہیں ہے اس سے.خوف کے وقت تو اور کسی چیز کی ہوش ہی نہیں ہوا کرتی اپنے جسم کی ، اپنی جان کی ، اپنے عزیزوں کی ، اپنے مال کی ان چیزوں کی فکر ہوا کرتی ہے.اس وقت معرفت کے نکتے سیکھنے کا کونسا

Page 433

خطبات طاہر جلد ۶ 429 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۷ء وقت ہوتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حقیقۂ عارف باللہ تھے.آپ کو خدا یہ عرفان عطا فرما رہا تھا.آپ نے فرمایا کہ یہ اس لئے ہوتا ہے ابتلا تا کہ معرفت کے باریک اور دقیق سکتے ان کو سمجھائے جائیں اور اس وقت جماعت جس دور میں سے گزر رہی ہے میں جانتا ہوں کہ بعینہ یہی واقعہ جماعت کے ساتھ گزر رہا ہے.یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدا تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے.پھر فرمایا:.زبور میں حضرت داؤد کی ابتلائی حالت میں عاجزانہ نعرے اس سنت کو ظاہر کرتے ہیں اور انجیل میں آزمائش کے وقت میں حضرت مسیح کی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں.یہ جو الفاظ ہیں ان دونوں میں ایک مضمون آپ نے باندھا ہے عاجزانہ اور غریبانہ کے الفاظ کے ساتھ.فرمایا دیکھو! داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کی ابتدائی حالت میں جوز بور میں ان کے گیت ہمیں ملتے ہیں ان میں عاجزانہ نعرے پائے جاتے ہیں اور حضرت مسیح علیہ السلام کے اس تکلیف اور ابتلا کے دور میں ان کی تضرعات میں ایک غریبانہ رنگ پایا جاتا ہے.اگر چہ خدا کے انبیاء اور وہ سب جن کو خدا تعالیٰ عرفان عطا فرماتا ہے عاجز ہی ہوتے ہیں اور غریب ہی ہوتے ہیں مگر ابتلا کے وقت میں اپنے بجز اور غربت پر ان سے بڑھ کر اور کون واقف ہو سکتا ہے؟ اس سے پہلے ان کی عاجزی اور ان کی غربت ابتلا کے بغیر ایک نظریاتی دائرے سے تعلق رکھنے والا عجز ہے، ایک نظریاتی دائرے سے تعلق رکھنے والی غربت ہے لیکن جب ابتلا کے دور سے وہ لوگ گزرتے ہیں تو جانتے ہیں کہ ہم واقعہ غریب ہیں.خوب پہچان لیتے ہیں کہ ہم واقعہ عاجز ہیں خدا کے سوا کوئی طاقت نہیں ہے جو ہمیں بچا سکے.اس وقت ان کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.عاجزانہ نعرے ان کا نشان بن جایا کرتے ہیں.یہاں لفظ عاجزانہ نعرے بھی بہت ہی ایک عظیم الشان فصاحت و بلاغت کا کرشمہ ہے.نعرے کے ساتھ تو فتح کا مضمون باندھا جاتا ہے.عجز کے ساتھ نعرہ کیسا؟ لیکن وہ لوگ جو جانتے ہیں بعض دفعہ ملنگ ، ایسے ملنگ نہیں جو جھوٹے بنے ہوں بلکہ حقیقت

Page 434

خطبات طاہر جلد ۶ 430 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء میں خدا کی خاطر کھوئے گئے ہوں، وہ ملنگی اور غربت میں نعرے لگایا کرتے ہیں.نعرہ نشان ہے فتح کا اور نعرہ نشان ہے کامل تو کل کا اور کامل یقین کا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت داؤدعلیہ السلام کو عملاً یہ خراج تحسین پیش فرما دیا ایک چھوٹے سے لفظ سے ایزاد کے ساتھ کہ وہ ابتدائی حالت میں جو انتہائی کمزوری کی حالت تھی اس وقت بھی عاجزانہ نعرے لگایا کرتے تھے.عجز کے اندر ایک تکبیر کا معنی بھی تھا کہ ہم عاجز ہیں کچھ بھی نہیں ہے خدا کے سوا ہمارے لئے لیکن اسی میں ہماری عظمت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.پھر فرمایا: مسیح کی غریبانہ تضرعات اسی عادت اللہ پر دال ہیں، مسیح کے لئے تضرعات کا لفظ استعمال فرمایا ہے اس لئے کہ جہاں تک میں سمجھا ہوں فرق اس لئے کر کے دکھایا گیا ہے کہ حضرت داؤد کو اپنی زندگی میں کامل غلبہ نصیب ہوا تھا اور ان کی فتح کا زمانہ بہت دور نہیں تھا اس لئے ان کو زیبا تھا کہ بجز کے ساتھ نعرے بھی لگائیں لیکن حضرت مسیح کے ساتھ ایک لمبی غربت کا دور وابستہ کیا گیا تھا.نسلاً بعد نسل آپ کو ابتلا میں سے گزرنا تھا اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے لئے غریبانہ تضرعات کا محاورہ استعمال فرمایا حضرت داؤد کے عاجزانہ نعروں کے مقابل پر.پھر آپ فرماتے ہیں:.دو اور قرآن شریف اور احادیث نبویہ میں جناب فخر الرسل کی عبودیت سے ملی ہوئی ابتہالات اسی قانون قدرت کی تصریح کرتے ہیں.یہ الفاظ بھی بہت ہی معنی خیز ہیں جو آنحضرت ﷺ کے لئے آپ نے استعمال فرمائے.عبودیت کہہ کر آپ کے کامل تسلیم و رضا کا مضمون باندھ دیا.فرمایا کہ وہاں آپ کی عاجزی اور گریہ وزاری میں طلب کا مضمون اتنا نہیں تھا مدد مانگنے کا مضمون اتنا نہیں تھا جتنا غلامی کا مضمون تھا کہ ہم تیرے ہیں اور تیرے ہی ہو چکے ہیں اس لئے جس حال میں بھی تو ہمیں رکھے گا ہم فتح مند ہی فتح مند ہیں کیونکہ فتح عبودیت سے تعلق رکھتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام یونہی اتفاقی حادثات کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوتا کہ ذہن میں کوئی خیال آگیا کوئی لفظ آ گیا تو آپ نے وہاں باندھ دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام پر غور کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے تبھی آپ فرماتے ہیں کہ جو تین دفعہ میرے کلام کو

Page 435

خطبات طاہر جلد ۶ 431 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء نہیں پڑھتا وہ متکبر ہے.یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر شخص جو تین دفعہ نہ پڑھے وہ متکبر ہے مراد یہ ہے کہ جس شخص کے ذہن میں یہ بات ہو کہ سرسری مطالعہ سے ہی وہ میرے مطالب کو پا جائے گا وہ بیوقوف اور متکبر ہے (سیرۃ المہدی حصہ سوم روایت نمبر :۴۱۰ ).میری عبارتیں سطحی مطالعہ سے حاصل نہیں ہوسکتیں، بار بار پڑھنے کی ضرورت ہے.پس تین کا لفظ بھی ایک تمثیل کے طور پر ایک مثال کے طور پر بیان ہوا ہے.ضروری نہیں کہ بعینہ تین دفعہ پڑھ لیں تو آپ تکبر کی بجائے عاجز بن جائیں گے مراد یہ ہے بار بار پڑھو اور غور کرو کیونکہ تم ایک دفعہ گزرو گے تو تمہیں کچھ اور چیز نظر آئے گی دوسری دفعہ گز رو گے تو اور گہرا تمہیں غور کا موقع ملے گا.تو کم سے کم تین مرتبہ تو تم غور کرو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کے ساتھ پیش آنے والے ابتلا کو عبودیت کے ساتھ جو باندھا ہے آنحضرت ﷺ کی سیرت پر غور کرنے سے بعینہ وہی مضمون ثابت ہوتا ہے.جنگ بدر کا وقت ایسا تھا جو رسول اکرم ﷺ اور آپ کے غلاموں کے لئے زندگی اور موت کا وقت تھا.ان معنوں میں جو دنیا کے محاورے میں کہا جاتا ہے ورنہ آپ کے لئے تو ایک ہمیشہ کے لئے ایک ابدی زندگی کا وقت ہی تھا ، موت تو آپ کے سامنے پیش ہی نہیں ہو سکتی لیکن اس کے با وجود محاورۂ قرآن کریم نے بھی یہ مضمون باندھا ہے.قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ (الانعام : ۱۶۳) تو ایک رنگ میں موت کا لفظ بھی صادق آتا ہے مگر اور معنی رکھتا ہے.بہر حال زندگی اور موت کا سوال ان معنوں میں تھا کہ اگر صحابہ اُس وقت جنگ ہار جاتے تو ہمیشہ کے لئے اسلام مٹ جاتا اس کے سوا کچھ تھا ہی نہیں جو کچھ تھا وہ لے کر نکل کھڑے ہوئے تھے.اس وقت آنحضرت ﷺ نے فتح کی دعا نہیں مانگی تھی ، آپ نے یہ دعا مانگی اے خدا ! اگر آج تو نے ان لوگوں کو ، اس چھوٹی سی جماعت کو مٹنے دیا تو تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا ( ترندی کتاب تفسیر القرآن حدیث نمبر ۳۰۰۶).یہ عبودیت کے ساتھ گہر اعشق کا اظہار تھا وہ.حالانکہ ایسے خطر ناک وقت میں پہلا کلمہ زبان پر نصرت الہی کی طلب کا آنا چاہئے لیکن بار بار گریہ وزاری کے ساتھ یہی فرماتے کہ اے خدا! میں تو تیری

Page 436

خطبات طاہر جلد ۶ 432 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۷ء عبادت کے قیام کی خاطر آیا ہوں، میرے آنے کا مقصد فوت ہو جائے گا اگر آج اس میدان ہمیں شکست ملی تو پھر قیامت تک تیری عبادت کوئی نہیں کرے گا.بہت ہی عظیم الشان دعا تھی اور فتح کے لئے اس سے بہتر دعا مانگی ہی نہیں جاسکتی مگر اس کو عبودیت کا ابتہال فرمانا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کامل عرفان پر دلالت کرتا ہے.ایسا عشق تھا آنحضرت ﷺ سے اور ایسا عرفان تھا آپ کی ذات کا کہ ان کے لئے بعینہ الفاظ موزوں تھے، یہی زیب دیتے تھے اور یہی آپ نے اختیار فرمائے.اگر یہ ابتلا درمیان میں نہ ہوتا تو انبیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جو ابتلا کی برکت سے انہوں نے پالئے.ابتلا نے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگا دی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور کیسے بچے وفادار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے بڑے زلزلے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اور اکیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مردوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپالیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مرتیا نہ عادت کو یکبارگی کچھ ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی و تکلیف میں چھوڑ دیا گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں“.یہ واقعات بھی روزمرہ کی زندگی میں گزرتے ہیں اور آپ جانتے ہیں کہ ایسا ہوا کرتا ہے بعض دفعہ پیار میں، آزمائش میں ، مائیں بعض دفعہ منہ بسور کے بچے پر اپنی ناراضگی کا اظہار کرتی ہیں اور وہ لاڈ ہورہا ہوتا ہے کوئی ناراضگی نہیں ہوتی.وہ دیکھتی ہیں کہ اس وقت یہ کیا حرکت کرتا ہے؟ کیا ناراضگی کے جواب میں غصہ دکھاتا ہے یا بد تمیزی شروع کر دیتا ہے یا اور زیادہ پیار کا اظہار کرتا ہے.تو وہ ایک چند لمحے کی آزمائش ہوا کرتی ہے لیکن عظیم تر مقاصد میں بلند رشتوں میں اور تعلقات میں بعض دفعه یه آزمائش لمبے عرصے تک پھیل جاتی ہے.

Page 437

خطبات طاہر جلد ۶ 433 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء پس خدا تعالیٰ کے متعلق جو یہ فرمایا ہے کہ ناراض سا بن کر دکھایا ان کو یہ کوئی غیر حقیقی چیز نہیں ہے عملاً تعلقات کے دائروں میں ایسا ہوا کرتا ہے اور اس کے بعد جو محبت کا پھل ایک محبت کرنے والے کو نصیب ہوتا ہے وہ پہلی حالت سے بہت زیادہ بہتر حالت میں اس کو لے جاتا ہے.اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مہربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے.یہ عبارت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس وقت لکھی ہے اس کو تقریبا نوے سال گزر چکے ہیں اور اس وقت کوئی ایسی کیفیت نظر نہیں آتی تھی.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے حالات کا آپ مطالعہ کر سکتے ہیں آپ کو یہی ملے گا کہ آپ کی دعا میں مقبول ہو رہی تھیں جس دور میں یہ کتاب لکھی گئی ہے خصوصیت کے ساتھ ، سبز اشتہار کا دور ہے اور دشمن ذلیل وخوار ہورہا تھا اور بڑے بڑے دشمن جو مقابلے کے لئے نکلے خدا تعالیٰ نے ان کو خائب و خاسر کر کے دکھایا.یہ آئندہ کسی دور کی طرف اشارہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اور آئندہ کسی دور کے لئے جماعت کو تیار فرما رہے تھے.چنانچہ فرمایا ایسا بھی ہوتا ہے کہ عام کم فہم لوگ یا ایمان میں ناقص لوگ یہ باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ خدا تو دشمن پر مہربان دکھائی دینے لگا ہے.بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا ہے.ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلا نازل ہوا.یہ واقعات حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں تو ہمیں نظر نہیں آرہے.یہ آج کا زمانہ ہے جس کا نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس وقت کھینچا اور یقینا اللہ تعالیٰ کی عطا فرمودہ خبروں کے نتیجے میں آپ یہ کلام کر رہے ہیں.غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت وبسختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں ان پر ہوئیں اور وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادے سے باز نہ آئے اور سُست اور شکستہ دل نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب اور شدائد کا باران پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور

Page 438

خطبات طاہر جلد ۶ 434 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء جس قدر وہ توڑے گئے اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اسی قدر ان کی ہمت بلند اور شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی.بالآخر وہ ان تمام امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا.(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ: ۴۵۷-۴۶۰) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.”اے میرے دوستو! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو ( یعنی یہ تو وہ مضمون ہے جو ہمیشہ ہوتا آیا ہے اور آپ کو خدا تعالیٰ نے جو خبریں دیں ان کے مطابق آئندہ جماعت کو بھی پیش آنا تھا.اس کے لئے تیاری کی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں) اے میرے دوستو ! جو میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو خدا ہمیں اور تمہیں ان باتوں کی توفیق دے جن سے وہ راضی ہو جائے.آج تم تھوڑے ہو اور تحقیر کی نظر سے دیکھے گئے ہو اور ایک ابتلا کا وقت تم پر ہے اسی سنّت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے“.ہر ایک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے پھر فرمایا ہے:.ستائے جاؤ گے“.یہاں حال کا مضمون معا مستقبل کے مضمون میں تبدیل فرما دیا گیا.وہ جو ابتلاء کا دور جاری تھا اس میں کچھ مزید اضافے ہونے والے تھے ،نئی شکلوں میں ابتلا نے ظاہر ہونا تھا.اس لئے جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں پہلے مضمون کا بھی مستقبل کی بعض خبروں سے تعلق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ابتلا کا وقت تم پر ہے اسی سنت اللہ کے موافق جو قدیم سے جاری ہے لیکن آئندہ کیا ہو گا فرماتے ہیں:.وو ہر ایک طرف سے کوشش ہو گی کہ تم ٹھوکر کھاؤ اور تم ہر طرح سے

Page 439

خطبات طاہر جلد ۶ 435 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء ستائے جاؤ گے اور طرح طرح کی با تیں تمہیں سننی پڑیں گی اور ہر یک جو تمہیں زبان یا ہاتھ سے دکھ دے گا وہ یہ خیال کرے گا کہ اسلام کی حمایت کر رہا ہے.کتنی صفائی کے ساتھ یہ پیشگوئی اس زمانے میں پوری ہورہی ہے حیرت ہوتی ہے آگے آپ سنیں ) اور کچھ آسمانی ابتلا بھی تم پر آئیں گے تا تم ہر طرح سے آزمائے جاؤ.سو تم اس وقت سُن رکھو کہ تمہارے فتح مند اور غالب ہو جانے کی یہ راہ نہیں کہ تم اپنی خشک منطق سے کام لو یا تمسخر کے مقابل پر تمسخر کی باتیں کرو، یا گالی کے مقابل پر گالی دو کیونکہ اگر تم نے یہی راہیں اختیار کیں تو تمہارے دل سخت ہو جائیں گے اور تم میں صرف باتیں ہی باتیں ہوں گی جن سے خدا تعالیٰ نفرت کرتا ہے اور کراہت کی نظر سے دیکھتا ہے.تو تم ایسا نہ کرو کہ اپنے پر دو لعنتیں جمع کر لو، ایک خلقت کی اور دوسری خدا کی بھی.یقیناً یا درکھو کہ لوگوں کی لعنت اگر خدا کی لعنت کے ساتھ نہ ہو کچھ بھی چیز نہیں.اگر خدا ہمیں نابود نہ کرنا چاہے تو ہم کسی سے نابود نہیں ہو سکتے لیکن اگر وہی ہمارا دشمن ہو جائے تو کوئی ہمیں پناہ نہیں دے سکتا.ہم کیونکر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو.اس کا اس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا کہ تقویٰ سے“.پہلا مضمون جو صبر اور تو کل سے تعلق رکھتا تھا اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کے مضمون میں داخل فرمایا ہے اور اپنی طرف سے نہیں.فرماتے ہیں جب میں نے ان باتوں پر غور کیا کہ ان حالات میں ہم کیا کریں اور کس طرح تیری رضا کو حاصل کریں.فرمایا بار بار مجھے یہی خدا تعالیٰ کی طرف سے جواب دیا گیا کہ تقویٰ سے.سواے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں.سوتقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اُٹھاؤ اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت کرو.سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اور سچ مچ دلوں کے علیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ کہ ہر یک

Page 440

خطبات طاہر جلد ۶ 436 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے.اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور تیرے سارے اعضاء.ہر یک نور یا اندھیرا پہلے دل ہی میں پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.تو اپنے دلوں کو ہر دم ٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور رڈی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کور ڈی پاؤ اس کو کاٹ کر باہر پھینکو.ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ“.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه: ۵۴۶-۵۴۸) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے آئندہ آنے والے ابتلا کا بھی انتہائی صفائی کے ساتھ نقشہ کھینچا اور ان سے بچنے کا طریق بھی واضح فرما دیا اور اس مضمون کو اتنا آسان فرما دیا بالآخر کہ ہر انسان کی پہنچ میں آجاتا ہے.بجائے اس کے کہ تقویٰ کی بہت لمبی چوڑی تفصیل بیان فرما کے ایک کمزور انسان کو معیوب اور مرعوب کر دیتے اور وہ یہ خیال کرتا کہ میری طاقت میں نہیں ہے تقویٰ کا اختیار کرنا آپ نے اس کا مرکزی نقطہ کھول کے رکھ دیا ہے.فرمایا اس کا دل کے ساتھ تعلق ہے اور دل میں پہلے خیالات پیدا ہوتے ہیں جو بد ہوں یا نیک ہوں وہ رفتہ رفتہ اعمال پر غالب آنے لگ جاتے ہیں اور اعمال پر وہی رنگ چڑھا دیتے ہیں اور ہر شخص کی استطاعت میں ہے کہ ان خیالات کی نگرانی کرتا رہے اگر باشعور طور پر ہر روز اپنی دل میں پیدا ہونے والے محرکات اور خیالات اور وساوس اور تو ہمات یا نظریات کی جانچ پڑتال کرتا رہے اور جس طرح آپ نے فرمایا پان بیچنے والا پانوں کو الٹتا پلٹتا رہتا ہے اور خراب حصے کو دیکھ کر کاٹ کر ایک طرف کر دیتا ہے.یہ مثال جن لوگوں نے ہندوستان اور پاکستان کے معاشرے میں پان بیچنے والے دیکھیں ہیں ان کو پوری طرح سمجھ آسکتی ہے.کئی دفعہ مجھے یاد ہے بچپن میں ہم پان کی دکان کے سامنے کھڑے ہوتے تھے تو وہ پان بناتا بھی جاتا تھا اور جب وقت ملتا تھا بیچ میں ایک پان کو اٹھایا الٹایا دیکھا کسی گلے ہوئے ٹکڑے کو کاٹا اور پھر الٹا کر رکھ دیا.ان کو الٹتا پلٹتا رہتا تھا اور ٹکڑوں کو کچھ حصوں کو کاٹتا رہتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام

Page 441

خطبات طاہر جلد ۶ 437 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء کی عبارت پڑھ کہ پھر مجھ آئی کہ وہ کیا حرکتیں کیا کرتا تھا.وہ جانتا تھا کہ اگر ایک گلا ہو حصہ اس کے ساتھ باقی رہنے دیا گیا تو رفتہ رفتہ باقی حصے کو بھی وہ گلا دے گا.اس لئے پیشتر اس کے کہ اس کو یہ موقع ملے کے وہ چھا جائے باقی حصے پر وہ اس کو کاٹ کر الگ کر دیتا تھا.ابتدا میں ایسا ہونا ممکن ہے.جب بدی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جب خیال ایک برائی کی صورت پکڑ جاتا ہے اس وقت اس کا مقابلہ بہت مشکل ہو جاتا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تقویٰ کے حصول کا ایک عظیم الشان راز یہ سمجھا دیا ہے.دل میں جب خیال اُٹھتے ہیں اس وقت اس کو پکڑو ، اس وقت ان کو نظر کے سامنے پھیرنا شروع کرو.جو اچھے خیالات ہیں ان کو اور نشو ونما دو، ان کو اور پیار کے ساتھ بڑھاؤ اور جو خیالات گندے نظر آتے ہیں ان کو ایک طرف کرتے چلے جاؤ.مگر جو لطف کی بات ہے وہ اس عبارت میں یہ ہے کہ آپ نے کسی خیال کو پورا گندہ اور کسی خیال کو پورا پاک نہیں قرار دیا.عام انسانی تجربہ میں یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ ہمارے گندے خیالات میں بھی کچھ نہ کچھ نیکی کے پہلو بھی ہوا کرتے ہیں اور ہمارے اچھے خیالات میں بھی کہیں نہ کہیں ریاء کا کیڑا یا کوئی اور ذاتی خواہشات کا رنگ داخل ہو کر اس نیکی کے خیال کو ذرا کچھ گندہ کر دیتا ہے.تو آپ فرماتے ہیں اپنے خیالات کو یا بالکل رد یا بالکل مقبول نہ کرو بلکہ پرکھا کرو فکر ونظر کی آنکھ سے دیکھو اور الٹاؤ پلٹا اور دیکھو کون سا حصہ گندہ ہے؟ کون سا حصہ رکھنے کے لائق ہے؟ جور رکھنے کے لائق ہے اسے سنبھال لو اور جو گندہ ہے اسے کاٹ کے پھینک دو.تو تقویٰ کے حصول کی اس سے زیادہ آسان راہ جو ہر انسان کی دسترس میں ہے اور سوچی بھی نہیں جاسکتی اور بہت ہی با اثر ہے.حیرت انگیز اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی پر اثرات مترتب ہو سکتے ہیں اس کی ساری زندگی کی کایا پلٹ سکتے ہیں ، سارے اعمال کی شکل تبدیل کر سکتے ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس ابتلا کے دور سے اس قسم کے فائدے اٹھائے گی.یہ فائدے ہماری جھولیوں میں باقی رہنے والے فائدے ہیں، یہ فائدے ہیں جو اس دنیا میں بھی ہمیشہ ہمارا ساتھ دیں گے بلکہ ہماری نسلوں پر بھی نیک اثر ڈالیں گے.نسلاً بعد نسل یہ چیز میں جو آج ہم سیکھیں گے اس ابتلا کے دور سے یہ ہماری اولا د کو ورثے میں ملتی چلی جائیں گی اور پھر ہماری بھی اور ان کی بھی دوسری زندگی میں بھی کام آنے والی چیزیں ہیں.وقتی طور پر ابتلا آتے ہیں اور گزر بھی

Page 442

خطبات طاہر جلد ۶ 438 خطبہ جمعہ ۲۶ جون ۱۹۸۷ء جاتے ہیں اور وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ ابتلا کے گزرنے کے بعد جو فتح کا احساس ہے وہی ہماری جزا ہے وہ کم فہم لوگ ہیں ان کو معلوم نہیں ہے کہ وہ جز انہیں ہوا کرتی.جزا ایک لمبی اور باقی رہنے والی جزا ہوا کرتی ہے یعنی الہی معاملات میں وہ جزا ایک آنے جانے والی چیز ہے جس کی کوئی لمبی حقیقت نہیں ہے.وہ فتح ضرور نصیب ہوگی لیکن یہ ماحصل ہے ہماری قربانیوں کا جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے.اس دور میں سے گزرتے ہوئے ہم تقویٰ کی حالتیں اپنی مضبوط کر لیں، اپنی کمزوریوں کو دور کر دیں اور رضائے باری تعالیٰ کے حصول میں فکر مند اور غلطاں رہیں اور کوشش کرتے رہیں کہ ہم مقبولیت کے مینار پر فائز کئے جائیں یعنی خدا کی مقبولیت پیش نظر ہو دنیا کی آنکھ پیش نظر نہ ہو.یہ اگر ہمیں حاصل ہو جائے تو ایک ہمیشہ کے لئے باقی رہنے والی فتح ہے جسے کوئی دنیا کی قوم مٹا نہیں سکتی.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج نماز جمعہ کے بعد چار مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.پہلے مکرم جمال الدین صاحب قادیانی جو وقف جدید کے معلم تھے اور غریب مزاج اور بڑے مخلص فدائی سلسلے کے کارکن تھے.بہت لمبی بیماری کے باوجود کام نہیں چھوڑا اور خدمت سے روگردانی نہیں کی.آج سے قریبا دس بارہ سال پہلے شاید اس سے بھی کچھ زیادہ عرصے ہو گیا ہوان کو جگر کا کینسر ہو گیا تھا اور لاعلاج کر کے میو ہاسپٹل سے نکال دئے گئے پھر ہمارے ربوہ کے ہسپتال میں بھی داخل ہوئے اور وہاں سے بھی بالآخر ان کو لا علاج کر کے فارغ کر دیا گیا اور ان کا بچہ روتا ہوا آیا میرے پاس کہ اب تو انہوں نے کہا ہے کہ دو تین دن کے اندر ان کی موت یقینی ہوگئی ہے اب کچھ نہیں کیا جا سکتا.اس بچے کی کچھ حالت ایسی تھی کہ میرے دل سے خدا تعالیٰ کے لئے خاص گریہ وزاری کے ساتھ دعا بلند ہوئی اور اس کے لئے میں نے ہومیو پیتھک علاج بھی شروع کیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ تین دن میں مرنے کی بجائے تقریبا تیسرے دن ہی بچہ میرے پاس آیا کہ آپ کے پاس کوئی مالٹے کے جوس کی بوتل ہے.میں نے کہا کیوں؟ ان نے کہا کہ پہلی دفعہ اس چھ سات مہینے کے بعد اس بیماری میں میرے ابا کے دل میں خواہش پیدا ہوئی ہے کہ میں کچھ پیئوں ور نہ نہ غذا کی خواہش تھی نہ پانی کی کوئی تمنا تھی.تو جوس کی بوتلیں ہمارے وقف جدید میں چونکہ بنا

Page 443

خطبات طاہر جلد ۶ 439 خطبہ جمعہ ۲۶/ جون ۱۹۸۷ء کرتی تھیں اس لئے اس کو خیال آیا وہ میں نے اس کو کہا کہ لو جتنی چا ہو.چنانچہ وہ جوس لے کے گیا اور دوسرے دن آیا کہ وہ تو بڑے شوق سے پینے بھی لگ گئے ہیں اور کھانا بھی مانگنے لگ گئے ہیں.میں نے کہا اب خدا کے فضل سے بچ گئے ہیں.چنانچہ اس کے بعد انہوں نے چند مہینے کے اندر ہی پوری بظاہر صحت کے ساتھ رپورٹ کر دی کام یہ اور باقاعدہ کام کرتے رہے لیکن معلوم ہوتا ہے کینسر کے کچھ اثرات ضرور تھے طبیعت پہ کیونکہ جب ملتے تھے تو معلوم ہوتا تھا کسی تکلیف کی وجہ سے کوئی انسان دباتا ہے یا ایک پوری ہوش کی حالت نہیں ہوتی مگر یہ اللہ کا فضل ہوا کہ شدید بیماری کے رنگ میں جو مہلک ثابت ہواس کینسر نے دوبارہ پھر اپنی کوئی صورت نہیں دکھائی.ورنہ بالعموم ایسے کینسر جو اس انتہا کو پہنچ چکے ہوں وہ تیسرے یا چوتھے سال دوبارہ حملہ کرتے ہیں اور آخری حملہ ہوا کرتا ہے.مگر بڑا خدا نے اپنا فضل دکھا یا تو ان کے وصال کی ابھی اطلاع ملی ہے.ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک سید نذیر احمد شاہ صاحب ہیں جو ہمارے سلسلہ کے پرانے کارکن تھے.پہلے صدر انجمن میں انسپکٹر ہوا کرتے تھے پھر ریٹائر منٹ کے بعد تحریک جدید میں انسپکٹر ہوئے.ان کا ہارٹ فیل ہوا ہے چند دن ہوئے.ان کے افسر کی بھی درخواست تھی کہ ان کی نماز جنازہ پڑھائی جائے.محمد اشرف صاحب حجہ ، ان کے والد رحمت علی صاحب حجہ لکھتے ہیں کہ تمیں سال کی عمر کا جوان بیٹا ایک بس کے حادثے میں شہید ہو گیا ہے اس کے لئے مغفرت کی دعا اور نماز جنازہ غائب.ایک سید بشیر احمد شاہ صاحب ابن سیدامیر شاہ صاحب درخواست منجانب ذکیہ مرزا صاحبه آف لنڈن ہے.ذکیہ مرزا صاحبہ ہمارے لنڈن کی جماعت کی خاتون ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ میرے ماموں تھے میں تو ذاتی طور پر نہیں جانتا مگر بہر حال ان کو بھی اس فہرست میں شامل کیا جائے.

Page 444

Page 445

خطبات طاہر جلد ۶ 441 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۷ء مالی سال کی کامیاب کار کردگی اور چندہ صد سالہ جوبلی کی طرف توجہ کی تحریک (خطبہ جمعہ فرموده ۳ جولائی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.جماعت احمدیہ کا مالی سال جو ۳۰ / جون کو ختم ہوا ہے چونکہ اس کے بعد آج یہ پہلا جمعہ ہے.اس لئے روایات کے مطابق انشاء اللہ اسی مالی سال کی کارکردگی سے متعلق چند باتیں میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.یہ مالی سال دنیا میں ہر جگہ ایک پہلو سے جماعت کے لئے کافی آزمائش کا سال تھا کیونکہ بہت سے ایسے دوسرے چندے تھے جن کا عام روز مرہ کے چندوں کے علاوہ جماعت کے کندھوں پر مقدس بوجھ پڑا اور اس کی وجہ سے خطرہ یہ تھا کہ جماعت اس دفعہ اپنا با قاعدہ ماہانہ چندہ اس ذمہ داری سے ادا نہیں کر سکے گی جیسے پہلے کرتی رہی ہے.خصوصیت سے اس لئے کہ صد سالہ جو بلی کے قرب کی وجہ سے یہ دوہرا خطرہ تھا کہ بہت سی جماعتیں چونکہ اس چندے میں پیچھے رہ گئیں ہیں اور اس کا غیر معمولی بوجھ ہے عام روز مرہ کے چندوں سے بعض صورتوں میں کئی گنا زیادہ چندہ صرف صد سالہ جوبلی کا دینے والا رہ گیا ہے اور سال صرف ایک باقی تھا.پاکستان میں خصوصیت سے یہ اس لئے زیادہ آزمائش کا سال تھا کہ پاکستان میں جو حالات ہیں غیر معمولی ان کی وجہ سے جماعت کی اقتصادیات پر بھی اس کا اثر ہے.ذہنی پریشانیوں

Page 446

خطبات طاہر جلد ۶ 442 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۸۷ء کے نتیجے میں ویسے بھی تجارتوں میں روز مرہ کے مالی معاملات میں یکسوئی سے کام نہیں ہوسکتا پھر سینکڑوں ایسے افراد ہیں جن کو کلمہ شہادہ پڑھنے کے جرم میں قید کیا گیا اور ایسی حالت میں وہ قید میں گئے کہ پیچھے ان کی فصلیں اٹھانے والا بھی کوئی نہیں تھا، ان کے کام سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا.جہاں جہاں جماعت کے بس میں تھا اس نے کوشش کی اور جہاں تک توفیق ملی ان کی مدد بھی کی گئی لیکن پھر ان کے اپنے کاموں کو نقصان پہنچا جنہوں نے دوسری طرف توجہ دی تو اس لحاظ سے جماعت احمد یہ پاکستان کے لئے یہ غیر معمولی آزمائش کا سال تھا.ایک اور پہلو سے اس لئے بھی کہ اگر چہ جو بلی کے چندے میں بیرون پاکستان اور اندرونِ پاکستان اس سال کے آغاز پر کم و بیش ادائیگی کی ایک ہی نسبت تھی یعنی اگر پاکستان میں ساٹھ فیصد کل چندے کی ادائیگی ہوئی تھی تو بیرونِ پاکستان بھی کم و بیش ایک دو فیصد کے فرق سے یہی تناسب تھا لیکن بیرون پاکستان اس چندے کی ادائیگی کی طرف پاکستان کے مقابل پر بہت کم توجہ دی گئی یہاں تک کہ پاکستان اس سال کی ادائیگی میں تمام دنیا کی تمام جماعتوں سے آگے بڑھ گیا ہے.تو اس خیال سے کئی مالی نظام سے تعلق رکھنے والے مجھے دعا کے لئے بھی لکھتے رہے خاص طور پر ناظر صاحب بیت المال.اس دفعہ تو ان کی آواز میں کوئی ضرورت سے زیادہ ہی بیقراری آگئی تھی.ہمیشہ وہ مجھے سال کے اختتام سے چند مہینے پہلے اس نیت سے پریشان کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ دعاؤں کی طرف توجہ ہو اور ہر دفعہ ڈراتے ہیں کہ اس دفعہ کچھ زیادہ ہی صورتحال خراب ہے.مگر اس دفعہ ان کی آواز میں واقعی خوف تھا.پہلے تو نظر آجاتا تھا کہ صرف دعا کی تحریک کی خاطر کہہ رہے ہیں لیکن اس دفعہ کے جوان کے خطوط تھے ان میں تو Panic آگئی تھی اور واقعی بات ہی ایسی تھی کیونکہ بعض چندے مختلف قسم کے ہیں ان میں سے بعض چندے گزشتہ سالوں کی نسبت سے بہت ہی پیچھے رہ گئے تھے اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک دو مہینے کے اندراب ناممکن ہو جائے گا کہ یہ چندے ادا ہوں.بہر حال جن جن دوستوں نے مجھے یہ توجہ دلائی ان کو میں نے یہی لکھا کہ اس دفعہ بھی ہو جائے گا جو تم سمجھتے ہو کہ نہیں ہو گا.وجہ یہ ہے کہ پہلے بھی انسانی کوششوں سے نہیں ہوتا رہا.پہلے بھی اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت اور تائید سے ہی ایسا ہوا ہے.اگر ہم یہ سمجھیں کہ ہماری کوششوں سے سب کچھ ہورہا ہے تو دنیا میں اتنا عظیم مالی نظام چلانا اتنی غریب جماعت کے لئے اور پھر ہر سال قدم آگے

Page 447

خطبات طاہر جلد ۶ 443 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۸۷ء بڑھانا یہ ناممکن ہے یہ ہوہی نہیں سکتا.اس وقت عرب دنیا میں بہت کثرت سے ایسے لوگ ہیں جن میں سے ایک ایک تمام جماعت کے تمام چندوں سے بڑھ کر اگر چاہے تو خدمت دین میں خرچ کر سکتا ہے اور سال میں ایک دفعہ نہیں ہر مہینے اس سے زیادہ خرچ کر سکتا ہے.بعض ایسے ہیں کہ ہر ہفتے اتنا خرچ کر سکتے ہیں اور پھر بھی ان کو فرق نہ پڑے.اس لئے ایک غریب جماعت کے لئے ، ایک عالمگیر غریب جماعت کے لئے اتنی عظیم مالی قربانی کو ہمت اور وفا کے ساتھ جاری رکھنا ایک بہت بڑی چیز ہے اور بوجھ اتنا زیادہ بعض دفعہ محسوس ہوتا ہے کہ واقعی اگر ایک انسان پورا ایمان نہ رکھتا ہو اس کا دل ڈول جائے گا کہ اب تو ادائیگی ہماری استطاعت سے باہر چلی گئی ہے.اس کے باوجود خدا نے فضل فرمایا اور کل جو پاکستان سے بذریعہ فون اطلاع ملی ہے اس کے مطابق خدا کے فضل سے پاکستان نے سابقہ روایات کو قائم رکھا ہے اور ہمیشہ کی طرح وعدوں سے آگے قدم بڑھایا ہے پیچھے نہیں ہے.اس لئے ایک تو یہ خاص طور پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر کا مقام ہے جتنا بھی خدا کا شکر ادا کیا جائے اتنا کم اور جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا وہ زیادہ عطا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم میرا شکر کرو گے میں تمہیں بڑھاتا چلا جاؤں گا.لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم : ۸) اگر تم میراشکر ادا کرو گے تو میں اسی نسبت سے تمہیں اور زیادہ عطا کرتا چلا جاؤں گا.تو خدا تعالیٰ کے شکر کا ایک تو ویسے بھی موقع ہے قطع نظر اس کے کہ خدا تعالیٰ اس کے نتیجے میں زیادہ عطا کرتا ہے کہ نہیں عطا کرتا.مومن کے اندر احسان مندی کا جذبہ پایا جاتا ہے اور وہ احسان مند اس نیت سے نہیں ہوا کرتا کہ اس احسان مندی کے بعد کچھ زیادہ ملے گا اور خدا تعالیٰ کے تو اتنے احسانات ہیں کہ سابقہ کا ہی حق ادا کرتار ہے انسان تو لاکھوں کروڑوں زندگیاں بھی پائے تب بھی وہ حق ادا نہیں کر سکتے.اس لئے یہ کہنا کہ اب حق ادا کر دیا اب ہمیں اس کے بدلے مزید دے اس مطالبے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس مومن کو تو اپنی نیت یہی رکھنی چاہئے کہ ہم جذ بہ احسان مندی کے تابع جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا ہے اس کی حمد و ثناء کے گیت گائیں اس کا شکر ادا کریں.پل پل ذہن اس کی طرف لوٹے اور حمد کے ترانے گائے.اس نیت کے ساتھ شکر کرنا چاہئے لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ خدا تعالیٰ

Page 448

خطبات طاہر جلد ۶ 444 خطبہ جمعہ ۳/ جولائی ۱۹۸۷ء کا شکر خواہ کسی نیت سے کیا جائے وہ ایک ایسا موتی ہے جو عطا کے لئے بہانے ڈھونڈتا ہے اس لئے اس نے عطا پھر بھی کرنا ہی کرنا ہے اور اسی سال اس کے میں نے کثرت سے نظارے دیکھے ہیں.جماعت احمدیہ کے مختلف ممالک میں مختلف حالات ہیں بعض جگہ کثرت سے بعض دوستوں کو پریشانیاں بھی ہیں اور پھر ان کے حالات میں اونچ نیچ آتا رہتا ہے کسی اچھے وقت میں زیادہ وعدہ کر بیٹھے جوش سے محبت سے اس امید پر کہ یہ اچھے دن جاری رہیں گے اور کچھ دن کے بعد نوکری نہیں ملی کوئی اور جو ذریعہ تھا معاش کا وہ ہاتھ سے جاتا رہا.باقی ساری باتیں بھول گئے لیکن چندے کا بوجھ ذہن میں سب سے اوپر رہا اور سب سے زیادہ اس فکر میں غلطاں ہو گئے کہ ہم چندہ کس طرح ادا کریں گے.چنانچہ ایسے لوگوں کے بھی خط ساتھ آنے شروع ہو جاتے ہیں جوں جوں مالی سال اختتام کو پہنچ رہا ہوتا ہے ایک طرف بیت المال کی طرف سے خط آرہے ہوتے ہیں.ایک طرف ایسے مخلصین کے خط آرہے ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں اتنے ہمارے مہینے رہ گئے اتنے مہینے رہ گئے اور ابھی تک کوئی انتظام نہیں.پھر ان کے خط آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ کس طرح حیرت انگیز طور پر اللہ تعالیٰ نے انتظام فرمایا ور صرف انتظام ہی نہیں فرمایا بلکہ ان کے جو زائد بوجھ تھے وہ بھی اتار دیے.جو کچھ خدا کے حضور انہوں نے پیش کیا اس سے بھی زیادہ خدا تعالیٰ نے عطا فر ما دیا اور جو پہلا پیش کیا وہ بھی خدا کے فضل سے کیا ورنہ ان کے پاس کوئی سامان نہیں تھا.ایسے حیرت انگیز سلوک اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں خدا کی خاطر مالی قربانی کرنے والی جماعت سے اور جماعت کے افراد سے کر رہا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی کسی وہم کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی کہ ہم تو بے سہارا جماعت ہیں، ہمارا کوئی مولا نہیں ہے.ہمارا ایک ایسا مولا ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر ہماری حفاظت کرتا ہے.ہمارا ایک ایسا مولا ہے جو لمحہ لمحہ اپنے قرب کا احساس دلاتا چلا جاتا ہے فَانِي قَرِيب (البقرہ: ۱۸۷) کے طور پر ہم اسے دیکھتے ہیں اور ہمیشہ اس کے قرب کے جلوے مختلف شکلوں میں جماعت احمدیہ پر اور احباب جماعت احمدیہ پر ظاہر ہوتے رہتے ہیں.پس اس سال کی جو کامیابی ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ہوئی اور چونکہ بعض جماعتوں نے باقی دوسری جماعتوں کی نسبت زیادہ قربانی سے کام لیا ہے اس لئے ساری دنیا کی جماعتوں کا فرض ہے کہ ان کو خاص طور پر دعاؤں میں یاد رکھیں.سب سے زیادہ تکلیف بھی راہِ خدا

Page 449

خطبات طاہر جلد ۶ 445 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۸۷ء میں اس وقت پاکستان کے احمدی اٹھا رہے ہیں.سب سے زیادہ قربانیوں میں بھی اس وقت پاکستان کے احمدی آگے بڑھ چکے ہیں اس لئے سب سے زیادہ ان کا حق ہے کہ ان کو آپ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں اور اگر آپ ان کو دعاؤں میں یاد رکھیں گے تو اللہ کے فرشتے آپ کو دعاؤں میں یادرکھیں گے کیونکہ یہی وہ دستور العمل ہے روحانی دنیا کا جس کی حضرت اقدس محمد مصطفی میہ نے ہمیں خبر دی.اپنے بھائی کے لئے اگر فکر سے کوئی دعا کرتا ہے، دل کی لگن کے ساتھ خلوص اور محبت کے ساتھ تو ویسے ہی اس پر آسمان دعائیں کر رہا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر اُس کا اجر خدا کے ہاتھ میں ہے وہ دوسرے کی فکر میں رہتا ہے خدا کے فرشتے یعنی مراد یہ ہے خدا کا سارا نظام اس کی فکر میں ہو جاتا ہے.تو اس طریق پر ہم جو بھی دعائیں کریں گے اپنے بھائیوں کے لئے وہ لوٹیں گی ہماری طرف ہی اور جب بھی خدا کے نظام سے ٹکرا کر چیزیں لوٹا کرتیں ہیں یاد رکھیں وہ کم ہو کے نہیں لوٹا کرتیں.ہمیشہ بڑھ کہ کوٹتی ہیں.یہی وہ فرق ہے جو دنیاوی اور آسمانی نظام میں ہے.دنیاوی نظام میں کوئی چیز بھی جو کسی جگہ سے ٹکرا کر آتی ہے بڑھ کر نہیں آتی اس میں کوئی نہ کوئی کمی آجاتی ہے.اس لئے شعائیں جو آسمان کے پردوں سے ٹکرا کر واپس زمین کی طرف کوٹتی ہیں ، ریڈیائی شعاعیں ہوں یا دوسری بسا اوقات ان کو Boost کرنے کے لئے دنیا میں مختلف کلیں لگائی جاتی ہیں تا کہ وہ جو کمزوری بار بار ٹکراؤ میں اور لوٹنے سے ان کے اندر پیدا ہو جاتی ہے یا سفر کے نتیجے میں وہ دور ہونی شروع ہو جائے یا وہ دور ہو کر مزید قوت کا اس میں اضافہ ہو جائے ہے لیکن یہ اللہ کی عجیب شان ہے کہ روحانی نظام میں اور دعاؤں کے نظام میں جب خدا مومن کے خلوص کے جذبات کو لوٹاتا ہے تو بہت زیادہ بڑھا کہ لوٹاتا ہے.بوسٹر تو لگے ہوئے ہیں لیکن وہ آسمان پر لگے ہوئے ہیں ہماری پہنچ سے بہت باہر اور بہت بالا لیکن ایساز بر دست یہ بوسٹنگ کا نظام ہے کہ بعض دفعہ چھوٹی سی نیکی غیر معمولی طور پر عظمت اختیار کر جاتی ہے خدا کے ہاں اور جب وہ واپس آتی ہے انسان تک تو اس کی شکل بھی نہیں پہچانی جاتی ایسی اس میں حیرت انگیز حسین تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں ایسی قوت پیدا ہو جاتی ہے، ایسی عظمت آجاتی ہے.پس اللہ تعالیٰ سے دعا کریں ان کے لئے بھی اور اپنے لئے بھی کیونکہ بیرونی جماعتوں کو بعض معاملات میں اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں.خصوصیت سے صد سالہ جو بلی کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ابھی تقریباً ساٹھ

Page 450

خطبات طاہر جلد ۶ 446 خطبہ جمعہ ۳ / جولائی ۱۹۸۷ء فیصدی سے زیادہ نہیں ہوا گزشتہ چودہ یا پندرہ سالوں میں بیرونی جماعتوں کا چندہ.یہ چندہ جیسا کہ میں نے ایک دفعہ پچھلے خطبے میں بھی بیان کیا تھا جو جو بلی کا چندہ ہے اس کا تخمینہ آج سے بہت پہلے لگایا گیا تھا یعنی آج سے تقریبا دس بارہ سال پہلے جو وعدے موصول ہوئے ان پر بناء کرتے ہوئے بجٹ بنا ہے.اس وقت اگر بیرونی جماعتوں کا پانچ کروڑ کا وعدہ تھا تو جب ہم کہتے ہیں کہ پچاس فیصدی وصولی ہوئی تو مراد یہ ہے کہ اڑھائی کروڑ وصولی ہوئی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ دس بارہ سال میں چندہ دینے کی جماعت کی صلاحیت میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.بعض صورتوں میں تو گزشتہ چار پانچ سال کے اندر ہی تین تین چار چار گنا چندہ بڑھا ہے لازما اس کا مطلب یہ ہے کہ نئے چندے دینے والے بھی داخل ہوئے اور پرانے نسبت سے کم چندہ دینے والے بھی آگے بڑھے ہیں.تقویٰ کا معیار آگے بڑھا ہے، دین سے محبت آگے بڑھی ہے.بہر حال جب باقی سب چندوں میں کئی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے اور گزشتہ چار پانچ سال کے اندر تو دس بارہ سال کے اندر ، آپ اندازہ کر سکتے ہیں کم و بیش دس بارہ سال کا عرصہ ہو گا کہ جماعت کے اندر نئی توفیقات میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا ہے.پس اس نقطہ نگاہ سے اگر دیکھیں تو بیرونی جماعتوں کا ساٹھ فیصد کے قریب جو بلی کو چندہ ادا کرنا ایک فرضی عدد ہے.آج اگر جائزہ لیا جاتا اور آج تحریک ہوتی تو پانچ کروڑ کی بجائے مجھے یقین ہے کہ میں کروڑ کے قریب وعدے ہوتے تو عملاً اگر آپ نے تین کروڑ ادا کیا ہے تو ہیں کے مقابل پر تین کیا ہے نہ کہ پانچ کے مقابل پر لیکن اس کے باوجود بعض بیرونی جماعتیں ایسی ہیں، یورپ میں ہیں مثلاً جو خدا کے فضل سے اپنی توفیق کے مطابق اور بعض جگہ اپنی توفیق کو کھینچ کر آگے بڑھ رہی ہیں اور ادائیگیوں میں خدا کے فضل سے صف اول میں ہیں.ان پر کسی اور وجہ سے انتظامیہ کی غفلت کی وجہ سے یاددہانی کی کمی کی وجہ سے یہ بوجھ اچانک پڑ گیا ہے.ان کو گویا اب یاد آیا کہ اوہو! ہم نے تو ایک بہت بڑا چندہ ادا کرنا تھا جو پہلے کرنا چاہئے تھا.اب وقت تھوڑا رہ گیا ہے تو ہمیں یاد کرایا جا رہا ہے.اس لحاظ سے وہ ان کی حالت خاص دعا کی محتاج ہے.مگر تمام دنیا میں اس چندے کی طرف اب خصوصی توجہ دینے کا وقت آ گیا ہے اب تو آج اور جوبلی کے سال کے درمیان وقت ہی کوئی نہیں رہا.سارے جو پروگرام بنائے جارہے تھے اب ان پروگراموں پر عمل درآمد کا وقت ہے اور تیزی سے وہ اخراجات کا مطالبہ کر رہے ہیں اور اگراب تاخیر کر دی گئی تو خطرہ ہے کہ وقت پر ہم

Page 451

خطبات طاہر جلد ۶ 447 خطبہ جمعہ ۳ جولائی ۱۹۸۷ء ان کا موں کو ختم نہیں کر سکیں گے.اس لئے دعا کریں اور حوصلہ کریں.جو پاکستان کے حالات میں نے بیان کئے ہیں اس لئے بتائے ہیں تا کہ آپ کے اندر حوصلہ پیدا ہواور تو کل پیدا ہو.آپ اگر اخلاص کے ساتھ یہ نیت کر لیں کہ ہم نے تمام بقایا ادا کر دینے ہیں اور شرح کے مطابق چندوں میں کمی نہیں آنے دینی اور دعا کریں اور اخلاص کے ساتھ اپنے دل کو اس خیال سے منسلک کر لیں باندھ لیں یعنی اٹھتے بیٹھتے خود بخود ذہن اس ذمہ داری کی طرف منتقل ہونا شروع ہو جائے.یہ آپ کریں تو باقی سارے کام خدا کی تقدیر کرے گی اور بالآخر جب آپ سب ادائیگیوں سے فارغ ہوں گے تو مالی لحاظ سے پہلے سے بہتر حالت ہوگی بدتر حالت نہیں ہوگی.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کیونکہ ساری دنیا میں، سالہاسال کا تقریبا ایک صدی کا تازہ تجربہ ہے اسی طرح خدا سلوک فرمایا کرتا ہے.ہماری کم ہمتی حائل ہو جائے تو ہو جائے ورنہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمت کا تعلق ہے، اس کی عطا کا تعلق ہے وہ کبھی بھی اپنی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کو خالی ہاتھ نہیں رہنے دیا کرتا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور جماعت جو اس وقت ایک نشان بنی ہوئی ہے دنیا میں مالی قربانی کے لحاظ سے، جماعت کا یہ اعجاز ہر حال میں، ہر صورت میں چاہے خزاں کے دن ہوں خواہ بہار کے دن ہوں ہمیشہ پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ چمکتا رہے.آمین.

Page 452

Page 453

خطبات طاہر جلد ۶ 449 خطبہ جمعہ امر جولائی ۱۹۸۷ء وقف نو بچوں میں بچپن سے ہی ان کے دل میں خدا کی محبت بھر دیں کہ یہ دوسرے بچوں سے مختلف نظر آئیں (خطبہ جمعہ فرموده • ار جولائی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَمَا أَرْسَلْنَا فِي قَرْيَةٍ مِنْ نَّذِ يُرِ إِلَّا قَالَ مُتْرَفُوهَا إِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ كَفِرُونَ وَقَالُوا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَاَوْلَادًا وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيَقْدِرُ وَ لَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ وَمَا اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَأُولَكَ لَهُمْ جَزَاءُ الضّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفْتِ أَمِنُوْنَ وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ فِي ابْتِنَا مُعْجِزِيْنَ أُولَيكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ وَمَا أَنْفَقْتُم فَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرَّزِقِينَ (سبا: ۳۵-۴۰) اور فرمایا:

Page 454

خطبات طاہر جلد ۶ 450 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ سبا سے لی گئیں ہیں اور آیت ۳۵ تا ۴۰ کی میں نے آج تلاوت کی ہے.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ جب بھی ہم کوئی نذیر، کوئی ڈرانے والا کسی بستی یا کسی قوم کی طرف بھیجتے ہیں تو ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان میں سے جو خوشحال لوگ ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جس چیز کو بھی تم لے کے آئے ہو ہم اس کا انکار کرتے ہیں.جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو خدا نے جو بھی پیغام دیا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ کیا پیغام ہے ہم اس کا انکار کرتے ہیں اور ساتھ وہ یہ کہتے ہیں نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَاَوَلَادًا ہم تم سے اموال میں بھی زیادہ ہیں اور اولاد میں بھی زیادہ ہیں یعنی مالی لحاظ سے بھی تم پر فوقیت رکھتے ہیں اور عددی قوت کے لحاظ سے بھی تم پر فوقیت رکھتے ہیں وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ اور ہم عذاب نہیں دیئے جائیں گے.تین نفسیاتی حالتیں ان کی بیان کی گئیں جن کی بنا پر وہ انکار کرتے ہیں اور اس مضمون کو ساری نبوت کی تاریخ پر پھیلا دیا گیا ہے کہ جب بھی خدا کی طرف سے دنیا میں کہیں بھی کوئی ڈرانے والا آیا ہے اس کے ساتھ یہ سلوک ضرور ہوا ہے.یہاں اختلافات عقائد کی بحث نہیں اُٹھائی گئی یہ گفتگو ہو رہی ہے کہ کیوں انکار کیا جاتا ہے.انکار کے نفسیاتی پہلو کو نمایاں فرمایا گیا ہے اور صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انکار کی بنیادی وجہ تکبر ہے اور تکبر دنیا کے لحاظ سے بھی ہے اور آخرت کے لحاظ سے بھی ہے انسان پر بھی بڑے بول بولے جاتے ہیں اور خدا پر بھی بڑے بول بولے جاتے ہیں.انسان پر تکبر کی یہ مثال ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ چونکہ ہم مال میں بڑے ہیں اور تعداد میں زیادہ ہیں اس لئے چھوٹے سے گھٹیا لوگ جن کو نہ مالی برتری حاصل ہے نہ عددی.ان کا حق کیا ہے کہ ہم ان کے سامنے گردنیں جھکائیں یا ان کی باتیں ماننے لگ جائیں اور خدا پر بھی دو طرح کے تکبر ہیں، اول یہ کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ جس چیز کے ساتھ بھی تمہیں بھیجا گیا ہم اس کا انکار کرتے ہیں.یعنی یہ بحث نہیں اُٹھاتے کے کیا چیز ہے جو انکار کے لائق ہے.اچھی باتوں کا بھی انکار کرتے ہیں بُری باتوں کا بھی انکار کرتے ہیں.یعنی نہ اس کی پرواہ ہے جس کو بھیجا گیا ہے، نہ اس کی پرواہ ہے جس نے بھیجا ہے اور دوسرا یہ کہ مرنے کے بعد جو معاملہ ہوگا وہ بھی ہم جانتے ہیں کہ جہاں تک ہماری عظمت کا تعلق ہے یہ ظاہر وباہر ہے ایسے لوگوں کو خدا تعالیٰ بھی عذاب نہیں دیا کرتا اور قیامت کے عذاب سے بھی تم ہمیں نہ ڈراؤ ہم یہاں بھی بڑے لوگ ہیں وہاں بھی بڑے لوگ ہی شمار ہوں گے.دونوں پہلو تکبر

Page 455

خطبات طاہر جلد ۶ 451 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء رکھتے ہیں.ایک بندے پر تکبر اور ایک خدا پر تکبر.بنیادی طور پر اس آیت میں اس تکبر کی تفصیل کے ضمن میں تین باتیں بیان ہوئی اسنتر أمْوَالًا وَاَوْلَادًا وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ مال میں زیادہ ہیں، اولاد میں زیادہ ہیں اور ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا.ان تینوں باتوں کا جواب ان آیات میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیا گیا ہے جن کی میں نے بعد ازاں تلاوت کی.پہلے تو یہ فرمایا: قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَقْدِرُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ تو ان سے کہہ دے کہ یقیناً میرا رب ہی ہے جو رزق کو کشادہ فرماتا ہے اور جس کے لئے چاہے اس کے لئے رزق کشادہ کر دیتا ہے وَيَقْدِرُ اور وہ کم کرنا بھی جانتا ہے.جس کے لئے چاہے وہ رزق تنگ بھی کر سکتا ہے.وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ لیکن افسوس کہ اکثر لوگ یہ بات نہیں جانتے.یہاں یہ جو آیت کا دوسرا حصہ ہے آخری اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ يه قابل توجه ہے کیونکہ جو لوگ یہ مذہبی مقابلے کرتے ہیں ان میں سے بعض اوقات ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو اصولاً اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رزق اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے.اللہ تعالیٰ چاہے تو بڑھا دے چاہے تو کم کر دے.اس کے باوجود یہ جو فرمایا گیا اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس مضمون سے غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں.نظریے کے لحاظ سے ہر ایک کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں رزق کو بڑھانا بھی ہے اور رزق کو کم کرنا بھی ہے لیکن وہ لوگ جن کے اوپر رزق کشادہ کر دیا جائے ، رزق کی راہیں کھول دی جائیں ان کے اوپر تکبر کی ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ہمارا رزق ہمارا ساتھ دے گا اور آئندہ ہم پر کبھی کوئی برا زمانہ نہیں آئے گا.چنانچہ لَا يَعْلَمُونَ سے مراد یہ ہے عملاً بیدار مغزی کے ساتھ وہ اس بات کا شعور نہیں رکھتے.اگر شعور رکھتے تو جس کو خدا تعالیٰ نے رزق میں وسعت عطا فرمائی ہے اس کو کبھی بھی اس بارے میں امن نصیب نہیں ہو سکتا.ہمیشہ اس کے دل میں ایک عجز کا پہلور ہے گا،

Page 456

خطبات طاہر جلد ۶ 452 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء عجز کا پہلو شاملِ حال رہے گا اس کی سوچوں میں، اس کی فکروں میں، اس کے طرز عمل میں.وہ یہ احساس رکھے گا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رزق عطا فرمایا ہے اور جب چاہے اس رزق کو واپس لے سکتا ہے میرا ذاتی کمال کوئی نہیں.میری ہوشیاریوں کے نتیجے میں مجھے رزق نہیں ملا بلکہ خدا کے ہاتھ میں ہے.اس کے نتیجے میں اس کے اندر بجز پید ہوتا ہے.ا پس عجز کا فقدان ثابت کرتا ہے کہ اس بات کا کسی کو علم نہیں چنانچہ اس کا قطعی اور طبعی نتیجہ نکالا گیا ہے.ایک شخص جسے احساس ہو کہ خدا کے فضل کے نتیجے میں مجھے سب کچھ عطا ہوا ہے اس میں پیدا ہو ہی نہیں سکتا.چونکہ ان کی باتوں میں تکبر ہے اس لئے اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے لَا يَعْلَمُونَ وہ اس بات سے بے خبر ہیں، ان کو پتا ہی نہیں کہ اصل میں مسبب الاسباب کون ہے اور عطا کرنے والا کون ہے اور پھر یہ فرما کر ويَقْدِرُ تنبیہ بھی فرما دی گئی کہ اس سے تو خوب اچھی طرح بے خبر ہیں کہ خدا نے انہیں عطا کیا تھا.اس بات سے بھی بے خبر ہیں کہ وہ لینا بھی جانتا ہے.وہ جب چاہے جس قوم کے متعلق فیصلہ کرے اس کے رزق کی راہیں یا وہ تنگ کر دیتا ہے یا بند کر دیتا ہے.چنانچہ ان کے اس تکبر کا جواب ہے ایک تنبیہ ہے کہ آئندہ تمہارے ساتھ یہ ہونے والا ہے.جہاں تک رزق کے متعلق تمہارا تکبر کا تعلق ہے آئندہ وقت آئے گا کہ جن کو تم اپنے سے کم سمجھتے ہو خدا تعالیٰ ان کے رزق میں برکت ڈالے گا اور جس رزق کی بنا پر تم تکبر اختیار کر رہے ہو وہ تم سے چھین لیا جائے گا.پھر فرمایا وَمَا اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا اور وہ مال اور وہ اولادیں جن کے ذریعے بالتی تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلفی جو تمہیں ہمارے نزدیک ایک قرب کا مقام عطا کر سکتیں ہیں، یہ قرب کا مقام نہیں عطا کریں گی.کیوں اس کی وجہ بیان فرمائی گئی ہے یعنی ایسے اموال اور ایسی اولادیں جو یہ اندرونی طور پر خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ صلاحیت رکھتیں ہیں کہ کسی کو اللہ کا قرب عطا کر دیں.تمہیں یہ قرب عطا نہیں کریں گی إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائیں اور عمل صالح اختیار کریں فَأُولَك لَهُمْ جَزَاء الضّحُفِ یہی وہ لوگ ہیں جن کو دو ہرا دوہرا اجر کا ثواب ملے گا بڑھا چڑھا کر خدا ان کو عطا فرمائے گا بِمَا عَمِلُوا اس وجہ سے کہ جو نیک اعمال وہ بجالاتے رہے وَهُمْ فِي الْغُرُفتِ آمِنُونَ اور وہ بالا خانوں میں نہایت ہی امن کے

Page 457

خطبات طاہر جلد ۶ مقام پر فائز کئے جائیں گے.453 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء وہ وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِي ايْتِنَا مُعْجِزِيْنَ یہ دو باتیں جو ان کی طرف سے کی گئی تھیں ان کا جواب تو آگیا، ہمارے اموال زیادہ ہیں ہماری اولا دزیادہ ہے.ان کا کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچے گا یہ بیان فرما دیا گیا اور جہاں تک وَمَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ کا دعوی تھا اس کا جواب اس آیت میں ہے.وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِي ابْتِنَا مُعْجِزِينَ أو ليكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ..لوگ جو ہماری آیات کو ناکام بنانے کے لئے دوڑے پھرتے ہیں.ہر وقت مصروف ہیں کہ کسی وقت خدا تعالیٰ کی آیات کو ناکام بنادیں.اُن کے متعلق تو قطعی بات ہے کہ وہ ضرور عذاب میں حاضر کئے جائیں گے.یہ جو آخری حصہ ہے اس میں ساری قوم کے ساتھ عذاب کا وعدہ نہیں ہے یہ بہت ہی دلچسپ مضمون ہے لیکن اس کے متعلق میں بعد میں بیان کروں گا.پہلے میں کچھ تھوڑی دیر کے لئے واپس ان آیات کی طرف لوٹتا ہوں جن کا میں نے ترجمہ آپ کے سامنے پیش کیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ تمام مذہبی تاریخ میں ہمیشہ ہر قوم کی خدا تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کی مخالفت کرنا اسی نفسیاتی بیماری کے نتیجے میں ہوتا ہے.تکبر کو تبھی خدا تعالیٰ نے سب سے زیادہ ذلیل بدی شمار فرمایا ہے سب سے زیادہ قابل نفرت بدی جو قرار دی گئی ہے وہ تکبر ہے.شیطانیت کی روح تکبر بیان فرمائی گئی.قرآن کریم میں سب سے پہلا واقعہ جو نصیحت کے طور پر ہمارے سامنے پیش فرمایا گیا وہ ابلیس کا واقعہ ہے کہ کس طرح وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہو گیا اور خدا کے قرب کی تمام را ہیں اس پر بند کر دی گئیں اور بظاہر اتنی بڑی سزا کے لئے جو اس کا جرم ہے وہ چھوٹا سا دکھائی دیتا ہے اس نے اتنا کہا تھا کہ میں نے آدم کو سجدہ نہیں کرنا میں تجھے کروں گا.تیرا مطیع ہوں ، تو آقا ہے اس سے تو میں انکار ہی نہیں کرتا لیکن یہ حقیر سے مٹی سے بنایا ہوا وجود مجھ پر کیسے فضیلت پا گیا.مجھے تو نے زیادہ طاقت کے مادے سے پیدا کیا ہے، زیادہ پر جلال مادے سے پیدا کیا ہے اور میں جلا دینے کی طاقت رکھتا ہوں.یہ حقیر سی گیلی مٹی میرے سامنے کیا حیثیت رکھتی ہے.تو چونکہ اس کا مادہ اور اس کی سرشت میں ہی کمزوری پائی جاتی ہے اس لئے غالب چیز کو ایک کمزور سی چیز کے سامنے نہیں جھکنا چاہئے یہ اس کا اعتراض تھا اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو ہمیشہ کے لئے مردود ہو گیا.وجہ یہ ہے کہ پہلا گناہ ہی تکبر کا گناہ تھا اور تکبر بظاہر مخلوق کے ساتھ تھا لیکن فی الحقیقت

Page 458

خطبات طاہر جلد ۶ 454 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء پیدا کرنے والے کے مقابل پر وہ تکبر تھا.پیدا کرنے والے سے حق چھینا جار ہا تھا کہ وہ جسے چاہے مطاع بنادے جسے چاہے مطیع بنا دے اور ہر حق خدا ہی کا حق ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کے اس موقف کو تسلیم نہیں فرمایا.یہ وہ بنیادی نقطہ ہے جسے نا سمجھنے کے نتیجے میں بے انتہا انتظامی مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور تمام دنیا میں ہر طرف بہت سے فساد اسی نقطے کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں آپ کو پیدا ہوتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.جماعتی معاملات میں نے بسا اوقات اس بات کا مشاہدہ کیا ہے.بعض لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مطیع ہیں، ہم واقف زندگی ہیں، ہم ہر طرح کی قربانی کے لئے اطاعت کے لئے تیار ہیں لیکن جب کسی ایسے آدمی کا مطیع بنایا جائے ان کو جس کو وہ اپنی نظر میں اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہوں.یہ دیکھتے ہوں کہ یہ ہم پر حکومت کرنے کے لائق نہیں ہے ، ہم اس پر حکومت کرنے کے لائق ہیں.وہیں ان کی وقف کی روح تباہ ہو جاتی ہے، وہیں ان کی اطاعت کی روح ختم ہو جاتی ہے اور وہ یہ سوال اُٹھانے لگ جاتے ہیں کہ اس کے سامنے ہم کیوں سر جھکا ئیں.یہ تو معمولی آدمی ہے، یہ تو چھوٹا آدمی ہے.پھر اس کی ہر بات تکلیف دیتی ہے.جس کو وہ اپنے سے بڑا سمجھتے ہیں وہ ان سے بدسلو کی بھی کرے گا گالیاں بھی دے لے گا، ڈانٹ ڈپٹ کرے گا وہ اپنے دل میں اتنی تکلیف محسوس نہیں کرتے.جس کو اپنے سے چھوٹا سمجھتے ہیں خواہ اس کو ان کا مطاع بنا بھی دیا گیا ہو اس کی ادنی سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں اس نے ہماری بے عزتی کی.یہ تو اس لائق نہیں ہے کہ ہم اس کی اطاعت کریں.اندرونی بیماری وہی ہے جو پہلے دن کی شیطان کی بیماری تھی جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے یہ نیکی اور بدی کی جنگ کے آغاز کا اعلان کیا.فرمایا تکبر کے نتیجے میں اس حکمت کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں کہ جو شخص مقرر کرتا ہے اس کو دیکھا جائے گا نہ کہ یہ دیکھا جائے گا کہ کس کو مقرر کیا گیا ہے.اگر تم اس کو دیکھو گے جس نے مقرر کیا ہے تو تم ہمیشہ بجز کے سامنے، ہر اس چیز کے سامنے سر جھکا دو گے جسے مقرر کیا گیا ہے اگر تم یہ دیکھو گے کہ کس کو مقرر کیا گیا ہے تو پھر تو ہزار دھو کے ہیں نفس کے ہزار مواقع پر تمہیں یہ خیال پیدا ہو گا کہ اس لحاظ سے میں بہتر ہوں، اس لحاظ سے میں بہتر ہوں اور تمہاری اطاعت بیسیوں یا سینکڑوں یا ہزاروں جگہ مجروح ہوتی چلی جائے گی.تو تکبر کا جو مضمون ہے اس پر آپ غور کر کے دیکھ لیں جہاں خدا تعالیٰ کے سامنے شیطان

Page 459

خطبات طاہر جلد ۶ 455 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء نے تکبر کا اظہار فرمایا وہاں براہ راست نہیں تھا بالواسطہ تھا اور نبوت کے متعلق بھی تکبر بالواسطہ ہی رہا ہے ہمیشہ.وہ لوگ جن کو خدا نے بھیجا ہے وہ چھوٹے دکھائی دیتے ہیں وہ کمتر دکھائی دیتے ہیں اور اسی وجہ سے ہمیشہ انسان دھوکا کھاتا چلا آیا ہے.آج بھی اسی لئے دھوکا کھا رہا ہے کہ جن کو خدا نے چنا ہے یہ تھوڑے سے لوگ ہیں معمولی نظر آنے والے ، تعداد میں بھی تھوڑے اموال اور طاقت میں بھی تھوڑے، ہم کیسے ان کے سامنے سر تسلیم خم کر سکتے ہیں.وَمَا اَمْوَالُكُمْ وَلَا أَوْلَادُكُمْ بِالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا میں جو طر ز بیان اختیار فرمائی گئی ہے عربی گرائمر کے لحاظ سے یہ عام دستور سے ہٹ کر ہے اور جہاں بھی آپ کو عام دستور سے ہٹی ہوئی طرز دکھائی دے گی وہاں یقین کریں کہ ایک سے زیادہ معانی پیدا کرنے کی خاطر ایسا کیا گیا ہے اور اس جگہ بھی یہی طریق ہے ورنہ عام طریق عربی گرائمر کے مطابق یہ ہونا چاہئے تھا و ما اموالكم ولا اولادكم التي تقربكم عندنا زلفی - کیونکہ فاعل اموالكم ولا اولاد کم ہیں.وہ تمہیں ہمارے قریب کرتے ہیں اس میں انتی سے پہلے ب کی بظاہر گنجائش نظر نہیں آتی لیکن گنجائش پیدا کی جاسکتی ہے اور قادرالکلام اس رنگ میں اس طریق کو اختیار کر سکتا ہے کہ اس سے بجائے اس کے کہ زبان کے قواعد کی مخالفت ہو طر ز بیان ایسی بن جائے کہ اس میں نیا مضمون داخل ہو جائے.اس پہلو سے میں نے نمایاں طور پر یہ بات اس لئے بیان کی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں بھی آپ عام طرز سے ذرا ہٹ کر بات کو بیان ہوتا ہوا دیکھیں گے اور جہاں بظاہر ایک اشکال پیدا ہوگا یقین جانیں کہ وہاں ضرور کوئی خزانہ مدفون ہے.حکمتوں کا کوئی خزانہ، معانی کا کوئی گنجینہ وہاں ضرور دفن ہوگا.یہ آیت بھی فی الحقیقت دو معانی رکھتی ہے اور انہی دو معانی کا مضمون آگے چلتا چلا جا رہا ہے اسی طرح دوہرا مضمون.ایک معنی اس کا یہ بنے گا وَمَا اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ بالَّتِى تُقَرِّبُكُمُ عِنْدَنَا زُلْفَی اس کے بعد إِلَّا سے پہلے کچھ مضمون حذف ماننا پڑے گا.تمہارے اموال اور تمہاری اولادیں جو تمہارے نزدیک تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں ہرگز ایسا نہیں وہ کافی نہیں ہے.یہ مضمون اس میں حذف مانا پڑے گا إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا.

Page 460

خطبات طاہر جلد ۶ 456 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء ہاں اگر وہ لوگ جو اموال رکھتے ہیں اور اولادیں رکھتے ہیں وہ ایمان لانے والے ہوں اور عملِ صالح کرنے والے ہوں تو اس صورت میں اموال بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن سکتے ہیں اور اولادیں بھی خدا تعالیٰ کے قرب کا ذریعہ بن سکتی ہیں.دوسرا معنی یہ ہے گا کہ مَنْ آمَنَ میں اولاد شامل ہو جائے اور یہ معنی ہو گا اگر چہ اموال اور اولاد براہِ راست اپنی ذات میں خدا کے نزدیک کوئی بھی اہمیت نہیں رکھتے.یہ کافی نہیں ہیں تمہیں خدا کے قریب کرنے کے سوائے اس کے کہ اولادیں ایسی ہوں جو تمہاری طرح ایمان لانے والی ہوں اور عملِ صالح اختیار کرنے والی ہوں پھر ان اولا دوں کی قیمت بن جاتی ہے خدا کے حضور اور وہ اولادیں تمہیں ضرور خدا کے قریب کر سکتی ہیں.یہ دونوں معانی گویا دومنزلیں ہیں مضامین کی جو اس مضمون کو ایک نسل تک محدود نہیں رہنے دیتی اگلی نسل تک پھیلا دیتی ہے.چنانچہ اس کے جواب میں بھی خدا تعالیٰ نے دو ہی منزلیں بیان فرمائی ہے فَأُولَيْك لَهُمْ جَزَاءُ الضَّعْفِ ان کے لئے دوہرا تہرا اجر ہے بِمَا عَمِلُوا وَهُمْ فِي الْغُرُفْتِ امِنُونَ یہ بالا خانوں والے لوگ ہیں دو منزلہ مکانوں میں رہنے والے.یہاں دومنزلہ جو اجر ہے اس سے دراصل دو نسلوں کی مسلسل نیکی کی طرف اشارہ ہے.ماں باپ بھی نیک ہوں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال خرچ کرنے والے ہوں اور اولادیں پیش کرنے والے ہوں.اموال تو ان کی نیکی کی وجہ سے قبول ہو جائیں گے لیکن اولا د میں اس طرح قبول نہیں ہوں گی جب تک اولادیں خود بھی إِلَّا مَنْ آمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا وہ خود ایمان لانے والی بنیں اور عمل صالح کرنے والی بنیں تو اوپر تلے دو نسلیں اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف ہو جائیں گی.پھر ایسی اولادوں کا اجر ان ماں باپ کو بھی ملے گا جو وقف کی نیت رکھتے تھے ان کو خدا کے حضور پیش کرنا چاہتے تھے یہ اولاد میں ضرور ان کے لئے بھی خدا کے قرب کا ذریعہ بن جائیں گی ، خدا کے پیار کے حصول کا ذریعہ بن جائیں گی لیکن خود اگر وہ بالا رادہ اس میں شامل نہ ہوں ، اپنے نیک اعمال کے ذریعے اپنے دعاوی کو سچا نہ کر دکھا ئیں تو پھر ان کا اجر ان کے ماں باپ کو نہیں مل سکتا.اسی طرح ماں باپ کو اگر وہ عملِ صالح نہ کرنے والے ہوں یا ایمان نہ لانے والے ہوں.ان کو نہ اموال کا کوئی اجر مل سکتا ہے نہ اولاد کا کوئی اجر مل سکتا ہے.یہ دو مضمون ہیں جو کٹھے اس آیت میں بیان فرما دیے گئے.تبى فأوليك لَهُمْ جَزَاءُ الصّعْفِ بِمَا عَمِلُوْا وَهُمْ فِي الْغُرُفْتِ مِنُونَ کا

Page 461

خطبات طاہر جلد ۶ 457 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء مضمون بیان فرما کے دوہری شان بیان کی گئی ہے ایسے لوگوں کی.اسی کے پیش نظر میں نے یہ تحریک کی تھی کہ آئندہ صدی کے لئے جماعت جہاں اموال کثرت کے ساتھ پیش کر رہی ہے.اس میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ اتنی حیرت انگیز مالی قربانی کی روح جماعت میں پیدا ہو چکی ہے کہ بسا اوقات مجھے تحریک کی ضرورت ہی نہیں پڑتی اسی لئے میں نے اب زیادہ ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ مجھے یہ خطرہ رہتا ہے کہ کہیں کچھ لوگ توفیق سے زیادہ نہ تکلیف اٹھا جائیں.جو کام کرنے ہوتے ہیں ان کے لئے خدا کے نزدیک جتنے روپے کی ضرورت ہے وہ کثرت سے آجاتے ہیں ایک بھی کام گزشتہ چند سالوں کے اندر، مجھے جب سے خدا تعالیٰ نے خلافت پر فائز فرمایا ہے، ایک بھی کام ایسا نہیں ہے جومالی کمی کی وجہ سے رک گیا ہو.ایک ذہن میں نئی سکیم آتی ہے میں پیش کرتا ہوں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ اس کے لئے رقمیں بجھوانی شروع کر دیتا ہے.بعض دفعہ اعلان سے پہلے ہی خود بخود آنی شروع ہو جاتیں ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے میرے ذہن میں یہ تھا اور اس کے لئے میں نے نقشے بھی بنوانے شروع کئے تھے کہ اگلی صدی سے پہلے ہم دار الیتامی بھی بنا لیں کیونکہ قرآن کریم میں تیموں کے بہت حقوق بیان ہوئے ہیں اور تحریک میں نے کوئی نہیں کی لیکن ایک صاحب کا مجھے خط آ گیا کہ میری خواہش یہ ہے کہ کم از کم چالیس لاکھ روپیہ دار الیتامی کے لئے پیش کروں.اس لئے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں جس طرح چاہیں جو چاہیں بنوائیں یہ آپ کی مرضی ہے، یہ جماعتی معاملہ ہے جس طرح چاہے پسند کرے بنائے لیکن یہ میری خواہش ہے کہ دار الیتامی کے لئے استعمال ہو اور اس کے علاوہ بھی پھر کئی ایسی رقمیں آنی شروع ہو گئیں.جس میں اسی قسم کا اظہار تھا.ابھی یورپ سے ہی خاتون نے یہ خواہش ظاہر کی کہ مجھے دلی محبت ہے تیموں اور غریب بچوں کے اوپر خرچ کرنے کی اور یہ رقم ہے جو میں آپ کے پاس آپ لئے پیش کرتی ہوں جس طرح چاہیں خرچ کریں.تو بسا اوقات تحریک کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی اس کثرت سے جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ مالی قربانی میں آگے بڑھ گئی ہے کہ از خود اچھل رہا ہے جس طرح ماں کی چھاتیوں سے بچے کے لئے دودھ اچھلتا ہے اس طرح اللہ کے دین کے کاموں کے لئے خدا تعالیٰ نے جماعت کی چھاتیوں میں دودھ اتار دیا ہے.اچھل اچھل کے باہر نکل رہا ہے.

Page 462

خطبات طاہر جلد ۶ 458 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء جہاں تک اولادوں کے وقف کا تعلق ہے اس ضمن میں ابھی اس شان کی قربانی پیدا نہیں ہوئی تھی کیونکہ مختلف اوقات میں جب وقت کے لئے زور دیا جاتا رہا تو جماعت اپنے جگر گوشے پیش کرتی رہی ہے لیکن درمیان میں بسا اوقات لمبے عرصے پڑ گئے، لمبے وقفے حائل ہو گئے کہ جب خلیفہ وقت نے وقف کی طرف توجہ نہیں دلائی اس لئے جماعت بھی اس معاملے میں خاموش ہو گئی.چنانچہ آئندہ کی ضرورتوں کے پیش نظر میں نے یہ تحریک کی کہ اپنے بچوں کو اپنی آئندہ نسلوں کو وقف کرو.اگلی صدی میں ہمارے کام بہت کثرت سے پھیلنے والے ہیں.ان کے اندازے ابھی سے کچھ ہونے شروع ہو گئے ہیں.بالکل نئے نئے ممالک کی فتح کے اللہ تعالی سامان پیدا فرمارہا ہے، بنی نئی قوموں میں جماعت کو داخل کر رہا ہے اور خود بخود ہورہا ہے، ہماری کوششوں سے بعض دفعہ تعلق نظر آتا ہے بعض دفعہ کوئی تعلق نظر نہیں آتا.افریقہ کے ایک ملک میں جہاں خیال تھا کہ ہم وہاں بھی جماعت کا پودا لگائیں گے انشاء اللہ ابھی تک وہ محروم تھا اس پہلو سے.اس کا ایک سیاح باہر نکلا سپین وہاں مسجد دیکھی اور بیعت کر کے واپس چلا گیا اور اب اس کا خط ملا ہے کہ اب ہماری تربیت کا کچھ کر وسو سے زائد تو احمدی میں بنا چکا ہوں ابھی تک اور چندہ بھی دے رہے ہیں سارے اور مسجد کے لئے زمین بھی پیش کر دی ہے یہ بھی فیصلہ ہے کہ ہم خود ہی بنائیں گے سب کچھ کوئی جماعت پہ بوجھ نہیں ہوگا یعنی مددنہیں مانگیں گے کسی اور سے لیکن ہمیں پھر بھی ، آخر ہم نئے ہیں ہمیں دینی تربیت کے لئے کوئی آدمی چاہئے ، آپ ہمارے لئے کچھ فکر کریں کہیں یہ نہ ہو کے بعض غلط باتیں ہم میں رائج ہو جائے.تو اس معاملے میں تو جس طرح چھت پھاڑ کر ملتا ہے رزق اسی طرح کی کیفیت ہے کوئی جماعتی کوشش کا اس میں دخل نہیں ہے لیکن بہت سے ایسے وہ مقامات بھی ہیں جہاں بظاہر جماعتی کوشش کا دخل نظر آ رہا ہے لیکن امر واقعہ ہے کہ اللہ کی تقدیر خود پیدا کر رہی ہے سامان.اس قسم کے واقعات نصیحت کے طور پر ہیں یہ بتانے کے لئے کہ کہیں تم اپنی کوششوں کی طرف ان روحانی پھلوں کو منسوب کر کے متکبر نہ ہو جانا.یہ نہ سمجھ لینا کہ تم نے کیا ہے.چونکہ تکبر کا مضمون بیان ہو رہا ہے اس لئے میں اس بات کو بھی کھول دینا چاہتا ہوں کہ نئے نئے علاقوں میں جو جماعت پھیل رہی ہے بعض دفعہ نظر آتا ہے کہ گویا جماعت نے یہ ترکیب کی اور اس

Page 463

خطبات طاہر جلد ۶ 459 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء کو یہ پھل لگ گیا حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ وہی ترکیبیں پہلے ہو چکی تھیں اور ان کو کوئی پھل نہیں لگا تھا.اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک سازگار ہوا چلائی جارہی ہے، کچھ پھل ہیں جو پکائے جار ہے ہیں.اس لئے کہ جماعت ترقی کے بالکل نئے دور میں داخل ہونے والی ہے.بہت ہی عظیم الشان ترقیات آپ کا انتظار کر رہی ہیں.ان کے لئے اللہ تعالیٰ آپ کو تیار فرما رہا ہے.اس لئے مجھے یقین ہے کہ اگلی صدی میں لکھوکھا واقفین زندگی کی ضرورت پڑے گی.اسی لئے میں نے جماعت میں ایک تحریک کی تھی کہ ابھی سے اپنے بچے پیش کر دیں تا کہ پھر جب ہم صدی میں داخل ہوں تو خدا کے حضور پہلے ہی تیار ہو کر حاضر ہوں اور جب بھی خدا کے حضور کوئی قربانی پیش کی جاتی ہے اس کے لئے مصارف کا انتظام بھی اللہ تعالیٰ خود ہی فرما دیتا ہے.اگر لا کھ واقفین آپ پیش کریں گے تو یقین جانیں کہ لاکھ واقفین کے لئے تمام ضروری سامان خدا خود مہیا فرمائے گا.مشنوں کے لئے جگہ عطا کرے گا، ان کے تبلیغ کے لئے جتنی بھی ضرورتیں ہیں وہ ضرورتیں پوری فرمائے گا، ان کے اپنے لئے رزق کا انتظام فرمائے گا اور پھر اسی نسبت سے نئی نئی قوموں میں ، نئے نئے علاقوں میں احمدیت اور اسلام کی طرف رجحان پیدا فرما دے گا.تو بعض دعائیں ہوتی ہیں زبان کی دعائیں، بعض ہوتی ہیں عمل کی دعائیں.یہ بھی میرے ذہن میں ایک بات تھی کہ ہم عملاً خدا کے حضور دعا کے طور پر یہ بچے پیش کر دیں کہ اللہ تیرے حضور حاضر ہیں اب تو سنبھال تیرا کام ہے.اب ہمارے نہیں رہے تیرے ہو گئے ہیں تو نے ہی ان کو پالنا ہے تو نے ہی ان کے لئے سارے انتظامات فرمانے ہیں، ان سے کام لینے کے انتظامات فرمانے ہیں.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جماعت بالعموم بہت اچھے طریق پر اس آواز کا جواب دے رہی ہے اور بعض جگہ تو لطیفے بھی بن جاتے ہیں.بعض معمر لوگوں نے تو یہ درخواست کی کہ ہمیں دوسری شادی کی اجازت دی جائے کیونکہ ہماری پہلی بیوی اس لائق نہیں رہی کہ اس کے بچہ ہو سکے.اس بہانے انہوں نے کہا ہم شادی بھی اور کرلیں گے ثواب بھی مل جائے گا ساتھ اور بیویاں اب کس طرح انکار کریں گی، خلیفہ وقت نے تحریک کی ہوئی ہے اور خاوند کہتا ہے میں مجبور ہوں میں نے بچہ پیش کرنا ہے اب بتاؤ بیوی کیا کہہ سکتی ہے بے چاری اور واقعہ احمدی عورتیں اتنی مخلص ہیں کہ بعض یہ کہہ رہی ہیں خود کہ اس معاملے میں ہم تمہیں نہیں روکتیں چنانچہ ان کے اجازت نامے بھی مجھے پہنچ جاتے ہیں

Page 464

خطبات طاہر جلد ۶ 460 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء کہ اب وقت کی تحریک ہے ہم اپنے خاوند کو اپنے جذبات کی بنا پر کیسے محروم کریں اس نیکی سے.تو بڑے دلچسپ لطیفے ہیں لیکن پر خلوص لطیفے ہیں.ان کے اندر گہرا قربانی کا جذبہ پایا جاتا ہے.اگر خاوند کی طرف سے نہیں تو بیوی کی طرف سے تو ضرور پایا جاتا ہے.تو جماعت اس رنگ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان بچوں کو پیش کر رہی ہے لیکن ان آیات کو میں نے اس وجہ سے بھی منتخب کیا کہ آپ کو یہ بتاؤں کے بچے پیش کرنا کافی نہیں ہوگا کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ:.وَمَا اَمْوَالُكُمْ وَلَا اَوْلَادُكُمْ ِبالَّتِي تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْفَى إِلَّا مَنْ مَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا کہ تم جو مال پیش کرتے ہو اور جو اولادیں پیش کرتے ہو ہرگز یہ خیال نہ کرنا کہ فی ذاتہ ان کے ذریعے تم خدا کے رضا خرید سکتے ہو، اللہ تعالیٰ کی محبت کے سودے کر سکتے ہو.اموال کے تو ہو سکتے ہیں اگر تم مخلص ہو اور اولاد کے اس حد تک ہو سکتے ہیں کہ تمہارا اخلاص قبول ہو جائے گا لیکن اگلی نسل کا وقف اس بات پر منحصر ہے کہ وہ خود بھی ایمان لانے والی ہو اور عمل صالح کرنے والی ہو.اگر وہ ایمان لے آئیں اور عمل صالح کریں تو پھر ان کی ساری نیکیاں تمہارے درجات کی بلندی کا موجب بھی بنے گیں پھر دو منزلہ اور کئی کئی منزلوں والے بالا خانے تمہیں عطا ہوں گے لیکن اگر ا گلی نسل تک تمہاری نیکی رک گئی اور وہاں ان میں داخل نہ ہو سکی یا وہ اسے لے کر آئندہ نسلوں تک پیغام کے طور پر جاری نہ کر سکے تو پھر یہ معاملہ ختم ہو جائے گا پھر بالا خانے کا مضمون پیدا نہیں ہوگا.پس جماعت کو اپنی اس اولاد کی تربیت کی طرف بہت توجہ دینے کی ضرورت ہے.بچپن سے ہی ان بچوں کے دلوں میں خدا کی محبت اس طرح بھر دیں اور اس خلوص کے ساتھ ان کے لئے دعائیں کریں کہ جو آپ کی کوتاہیاں ہیں ان کو نظر انداز فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے فرشتے ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کی محبت بھرنا شروع کر دیں.مائیں ان کو دودھ میں اللہ کی محبت پلائیں اور بچپن سے یہ مختلف دکھائی دینے لگیں.یہ جو مضمون ہے مختلف دکھائی دینے والا اس کا تعلق بھی ایک بچے کے وقف سے ہے.حضرت مریم کو ان کی والدہ نے وقف فرمایا اور خدا کے سپر د کر دیا کہ اب تو جان جو چاہے کر میں نے تو وقف کرنا تھا لڑکا یالڑ کی عطا کرنا تیرا کام تھا.جو کچھ بھی ہے میں نے تیرے حضور پیش کر دیا اور قرآن کریم فرماتا ہے بچپن سے ہی ان کے حالات دوسرے بچوں سے مختلف تھے.اُن کے اندر بعض

Page 465

خطبات طاہر جلد ۶ 461 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء امتیازی شانیں تھیں جن کو حضرت ذکریا نے محسوس فرمایا اور ان امتیازی نشانات کو دیکھ کر ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی اور جو د عا بن گئی کہ اے خدا! مجھے بھی تو ایسی اولا د عطا فرما.جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیی کی خوشخبری دی.پھر اسی ماں کے پیٹ سے جو بچہ پیدا ہوا اس کے بھی بچپن میں آثار دوسرے بچوں سے مختلف تھے.فِي الْمَهْدِ وَ كَھلا ( آل عمران : ۴۷) وہ گفتگو کرتا تھا ، خدائی گفتگو کرتا تھا اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا تھا.تو ان دونوں مثالوں میں ہمارے لئے ایک سبق ہے کہ بچپن ہی سے وقف کرنے والی اولاد کے دل میں اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی محبت پیدا کرنی چاہئے اور صرف کوشش سے مطمئن نہیں ہونا چاہئے جب تک وہ آثار ان میں ظاہر نہ ہو جائیں اُس وقت تک اطمینان نہیں پکڑ نا چاہئے.پس اب ان کی تربیت کا جو دور ہے اس میں اللہ تعالیٰ ماں باپ کو زندگی عطا فرمائے کہ وہ خود محبت کے ساتھ ان وقف شدہ بچوں کی تربیت کر سکیں.اس تربیت کے دور میں دعا ئیں بھی آپ کو کرنی ہوں گی، ہر قسم کے ذرائع کو استعمال میں لانا ہو گا یہاں تک کہ آپ کی آنکھیں دن بدن اپنی اولاد کی طرف سے زیادہ ٹھنڈی ہوتی چلی جائیں گی.آئے دن آپ ان کی طرف سے ایک جنت کے نظارے دیکھیں گے کہ ان کے اندر خدا تعالیٰ ، پھر دیکھیں، ان بچوں میں کس طرح اپنی محبت کے ساتھ ساتھ اپنے قرب کے نشان ظاہر فرماتا ہے اور جو بچے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائیں ان کے لئے اعجازی نشان عطا ہونے میں دیر نہیں کی جاتی.یہ خیال نہ کریں کہ جب تک وہ بڑے نہ ہو جائیں، بالغ نہ ہو جائیں اللہ تعالیٰ ان سے کوئی اعجازی سلوک نہیں فرمایا کرتا.بچپن سے ہی ان کے اندر اعجازی طاقتیں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہیں ان کی دعائیں قبول ہونے لگ جاتیں ہیں ان کی خواہشات دعا بن جاتیں ہیں اور ایسے بچے نمایاں ہو کر باقی بچوں سے ایک الگ وجود دکھائی دینے لگتے ہیں.ایسے وقف کریں جو قرآن کریم کی وقف کی مثالوں کے اوپر پورے اترنے والے ہوں.ایسے وقف کریں کہ اگلی صدیاں ناز کریں ان پر بھی اور آپ پر بھی جنہوں نے وقف کئے تھے کہ ہاں ہاں ایسی ایسی مائیں تھیں جنہوں نے یہ عمل ہمارے لئے تحفہ بھیجے، ایسے باپ تھے جنہوں نے اس طرح دعاؤں کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کا خیال رکھا تھا اپنے جگر گوشے ہماری ہی بھلائی کے لئے پیش کر دئیے تھے.یہ جب آپ کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ سے وعدہ کرتا ہے کہ آپ کو ان نیکیوں کے برابر اجر نہیں بلکہ دوہرا تہرا ہمیشہ بڑھتے رہنے والا اجر عطا ہوگا اور

Page 466

خطبات طاہر جلد ۶ 462 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء آپ کی نیکیاں Skyscrapers بنی شروع ہو جائیں گی ، بالا خانے عطا ہوں گے اس لئے کہ اگر پہلی نسل بھی نیکی پہ قائم ہو جائے تو ایک منزلہ نیکی کی بجائے دومنزلہ نیکی بن گئی اور اگر نسلاً بعد نسل اسی طرح ان کی اولاد اور پھر اُن کی اولاد اور پھر اُن کی اولا د نیکیوں پر قائم ہوتی چلی جائے تو آپ کو تو Skyscrapers ہی اس شان کے عطا ہوں گے کہ دنیا نے کبھی اس شان کے Skyscrapers نہیں دیکھے.امریکہ کے بنائے ہوئے Skyscrapers تو کوئی چودہ سوفٹ جا کہ ختم ہو جاتا ہے، کوئی پندرہ سوفٹ پہ جا کے ختم ہو جاتا ہے لیکن یہ جو بالا خانے ہیں یہ زمین سے اُٹھتے ہیں اور آسمان سے باتیں کرتے ہیں، ان کی بلندیاں آسمان کے کنگروں کو چھوتی ہیں.اتنے عظیم الشان اجر ہیں اس نیکی کے جو اس آیت میں بیان کئے گئے ہیں کہ میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اگر وہ اس کے پیچھے تبع کریں اور اس کی رُوح کو قائم کرتے ہوئے پورے انہماک اور پورے خلوص کے ساتھ یہ کوشش کریں کہ ان کی قربانیاں قبولیت کا درجہ پا جائیں تو پھر اجر اتنا ہے کہ اس کی کوئی انتہا نہیں.ایسی رفعتیں آپ کے لئے مقدر ہیں خدا کی طرف سے کہ کسی انسان کا تصور بھی ان کو نہیں پہنچ سکتا.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی چند دن ہوئے انگلستان کی جماعت کو ایک بہت گہرا صدمہ اُٹھانا پڑا.ہمارے ایک بہت ہی مخلص اور فدائی دوست احمدی داؤ د احمد صاحب گلزار اچانک دل کی بیماری سے وفات پاگئے.سی بھی ان لوگوں میں سے تھے جو وقف کی روح رکھتے تھے اور بظاہر وقف نہیں تھے لیکن زندگی کا ہر حصہ ہر شعبہ، ہرلحہ ان کا وقف کی طرح گزرتا تھا.مسجد سے بے انتہا محبت، ہر دین کے کام میں آگے آگے.میرے یہاں آنے پر جن لوگوں نے غیر معمولی ہاتھ بٹایا ہے ان میں یہ بھی ایک سر فہرست تھے.اس لئے ساری جماعت کا اور میرا یہ بڑا گہرا صدمہ ہے.اللہ تعالیٰ انہی غریق رحمت فرمائے اور جن بالا خانوں کا ذکر ان آیات میں کیا گیا ہے ان کو بھی نصیب ہوں اور ان کی اولاد میں بھی جن میں ابھی بھی میں نیکی کے بہت بڑے آثار دیکھ رہا ہوں، ان کی اولاد کو بھی اللہ تعالیٰ انہیں راہوں پر چلائے اور آگے نسلاً بعد نسل ان کو مزید نیکیاں عطا فرماتا رہے.ان کی نماز جنازہ تو ہو چکی ہے اس لئے حاضر کے بعد غائب نماز جنازہ پڑھنے کا تو کوئی سوال نہیں ہے.

Page 467

خطبات طاہر جلد ۶ 463 خطبہ جمعہ ار جولائی ۱۹۸۷ء مگر ایک اور مخلص کارکن سلسلے کے ایسے ہیں جن کی آج جمعہ کے بعد نماز جنازہ ہوگی وہ بھی ایک غیر معمولی مقام رکھنے والے واقف زندگی تھے، مولوی عزیز الرحمان صاحب منگلا مربی سلسله جو 29 جون کو وفات پاگئے ہیں.مولوی عزیز الرحمان صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے ایک پیر تھے منور دین صاحب جن کے ذریعے ان کو احمدیت نصیب ہوئی اور منور دین صاحب کا بہت اثر تھا منگلا علاقے میں.چنانچہ ان کے اثر کے نتیجے میں منگلا قوم میں رجحان پیدا ہوا لیکن کچھ عرصہ تک احمدیت سے کھلم کھلا وابستہ رہنے کے باوجود یا اس کی تائید کرنے کے باوجود دنیا کے دباؤ میں آکر وہ پیچھے ہٹنا شروع ہو گئے.ان کا خیال تھا کہ ان کا شاگر درشید عزیز الرحمان بھی ان کے ساتھ ہی واپس چلا جائے گا لیکن یہ حقیقۂ شاگر درشید تھے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو رشد عطا فرمایا تھا.نہ صرف یہ کہ واپس نہیں گئے بلکہ بہت کھلم کھلا ان کا مقابلہ کیا ہے.مناظروں میں ان کو چیلنج دیئے ان کے تمام ان اثرات کو مٹایا جو وہ بعد میں قوم میں پھر پیدا کرنا چاہتے تھے اور نیک اثرات کو قائم رکھا.چنانچہ اس لحاظ سے ہزاروں کی ہدایت کا موجب بنے ہیں یہ اور وقف زندگی بھی کیا پھر ان کے تقاضوں کو نبھایا بھی.اس لئے یہ خاص مقام رکھنے والے خادم سلسلہ ہیں ان کی نماز جنازہ غائب ابھی جمعہ کے بعد ہوگی.اسی طرح ہمارے ایک بچپن میں ہمارے ساتھ قادیان میں وقت گزار نے والے اکٹھے کھیلنے والے کیپٹن عبد الحمید صاحب سیال کے متعلق ان کے صاحبزادے طاہر احمد نے اطلاع دی ہے وہ آج کل کینیڈا میں ہیں کہ یہ وفات پاگئے ہیں اور انہوں نے خط میں وہ بعض واقعات ان کے بچپن کا ذکر کے کہ ہمارے والد ہمیشہ ہمیں آپ کے متعلق یہ بتایا کرتے تھے.اس لئے خاص طور پر میرے محبت کے جذبات کو اُٹھایا ہے.بیدار کیا ہے کہ ان کے لئے خصوصیت سے دعا کروں تو آپ بھی اس دعا میں شامل ہوں.ان دونوں کی نماز جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے معا بعد ہوگی.

Page 468

Page 469

خطبات طاہر جلد ۶ 465 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء مالی قربانی کے جاری مضمون کا مزید بیان نیز کارکنان جلسہ سالانہ برطانیہ وضروری ہدایات (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷ جولائی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِي أَيْتِنَا مُعْجِزِيْنَ أَو لَيْكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ ) قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَيَقْدِرُ لَهُ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ وَهُوَ خَيْرُ الرُّزِقِينَ (سبا: ۳۹-۴۰) اور فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے جن آیات کی تلاوت کی تھی ان میں آخری دو آیات پر گفتگو ابھی باقی تھی کہ خطبہ وقت کی مناسبت کے لحاظ سے ختم کرنا پڑا.اس لئے انہی دو آیات کی تلاوت آج میں نے پھر دوبارہ کی ہے کیونکہ ان سے متعلق مضمون کے تسلسل میں جو پہلے بیان ہو چکا ہے کچھ باتیں بیان کرنا باقی ہیں.پہلی آیت ان دو میں سے ہے وَالَّذِيْنَ يَسْعَوْنَ فِي أَيْتِنَا مُعْجِزِينَ أو لَيْكَ فِي الْعَذَابِ مُحْضَرُونَ کہ یقیناً وہی لوگ جو اس بات کی بہت سعی کرتے ہیں ، کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح ہمارے نشانات کو نا کام کر دکھائیں اور عاجز کر دکھائیں.یہی وہ لوگ ہیں جو یقیناً عذاب میں حاضر کئے جائیں گے.قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ

Page 470

خطبات طاہر جلد ۶ 466 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء س مِنْ عِبَادِم تو یہ اعلان کر دے کہ میرا رب جس کا چاہے رزق کو وسیع فرما دیتا ہے اپنے بندوں میں وَيَقْدِرُ لَهُ اور اسی طرح بعض اوقات رزق کو تنگ بھی کر دیتا ہے.وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ اور جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو فَهُوَ يُخْلِفُہ اللہ اس کے ساتھ اخلاف کا معاملہ فرماتا ہے، یہ اخلاف کیا چیز ہے اس کے متعلق میں جب اس آیت کی تشریح کروں گا تو بتاؤں گا.وَهُوَ خَيْرُ الرُّزِقِيْنَ اوروہ بہترین رزق دینے والا ہے.میں نے بیان کیا تھا کہ پہلی آیت جس میں عذاب کی بات کی گئی ہے اس کا تعلق کفار کے اس دعوئی سے ہے جو اس سے پہلی آیت میں ( جو شروع میں میں نے تلاوت کی تھی ) خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا وَ مَا نَحْنُ بِمُعَذِّبِينَ.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کفار یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ ہم ہرگز عذاب نہیں دیئے جائیں گے.اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یقیناً وہ لوگ جو غیر معمولی جد و جہد کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی آیات کو نا کام بنانے کی وہ ضرور عذاب دیئے جائیں گے.یہاں خاص طور پر قابل ذکر بات یہ ہے کہ صرف ان لوگوں کا ذکر فرمایا گیا ہے عذاب کے لئے جو ائمۃ التکفیر میں وَالَّذِينَ يَسْعَوْنَ کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے، وہ لوگ جو غیر معمولی کوشش کرتے ، جد و جہد کرتے ہیں دعوی کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کا پیچھا نہیں چھوڑ رہے، دنیا میں جہاں بھی جائیں گے ہم پیچھے پیچھے پہنچیں گے ، یہ وہ نقشہ ہے جو قرآن کریم نے وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ (المائدہ: ۶۵) کا بیان فرمایا ہے.تو سوال یہ ہے کہ ان کو تو عذاب دیا جائے گا مگر وہ ساری قوم جوان کے ساتھ شامل ہے اس کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟ دعوی کرنے والوں نے تو یہ دعویٰ کیا تھا کہ ہمیں عذاب نہیں دیا جائے گا اور اس ہم میں گویا وہ ساری قوم شامل تھی جو ان کے ساتھ متفق تھی ، جو کسی نہ کسی رنگ میں مخالفت کر رہی تھی خواہ اس تیزی اور شدت کے ساتھ نہ کر رہی ہو لیکن قرآن کریم نے ساری قوم کے عذاب کا یہاں ذکر نہیں فرمایا بلکہ چیدہ چیدہ مخالفوں کے لیڈروں کو عذاب دینے کا ذکر فرمایا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مغفرت اتنی وسیع ہے کہ بسا اوقات ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص لاعلمی میں مخالفت کر رہا ہو لیکن اس کی مخالفت میں کوئی غیر معمولی کوشش نہ ہو.یہ مخالفت ایک قسم کی خاموش مخالفت ہے لیکن بالا رادہ شرارت سے عاری ہے.ایسے شخص کے متعلق قطعی طور پر یہ کہ دینا کہ یہ بھی

Page 471

خطبات طاہر جلد ۶ 467 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۸۷ء ضرور عذاب میں مبتلا کیا جائے گا یہ درست نہیں.اللہ تعالیٰ مغفرت کا سلوک فرماتا ہے اور اس آیت سے ان کے دعوی کی تشریح فرما دی کہ ہاں جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم عذاب نہیں دیئے جاؤ گے جو شرارت کے لیڈر ہو ہم یقین دلاتے ہیں کہ تمہیں ضرور عذاب دیا جائے گا.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تمہاری شرارتوں کی وجہ سے ساری قوم کو عذاب دیا جائے اس کے متعلق ہم قطعی وعدہ نہیں کرتے قطعی و عید نہیں دیتے.اس میں ایک امید کی کھڑ کی بھی کھول دی گئی ہے.یہ امکان روشن ہو جاتا ہے کہ باقی قوم کسی وقت ہدایت پا جائے.ائمۃ التکفیر کے مقدر میں ہدایت نہیں رہتی.جو شرارت میں بہت بڑھ جاتے ہیں اور بالا رادہ جھوٹ سے کام لیتے ہیں، افترا سے کام لیتے ہیں ان کی فطرتیں ایسی زنگ آلود ہو جاتی ہیں کہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو میں اپنی بخشش.باہر نکال رہا ہوں ، انہی کا ذکر فرمایا گیا.باقی قوم کے متعلق اس آیت نے امید کی کھڑ کی کھول دی کہ ان کو کیوں ہم عذاب دیں ان میں بہت شریف النفس لوگ بھی ہیں، لاعلم ہیں سادہ مزاج ہیں تمہاری جھوٹی باتوں میں آگئے ہیں وقتی طور پر لیکن ہمیشہ تمہارے نہیں رہیں گے اور عین ممکن ہے کہ وہ تو بہ کریں اور استغفار کریں اور تمہارا ساتھ چھوڑ کر میرے بھیجے ہوئے محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں میں شامل ہو جا ئیں.پس ہم دیکھتے ہیں کہ اس آیت کے نزول کے بعد یہی واقعہ رونما ہوتا ہے.کثرت کے ساتھ وہ لوگ جو آنحضرت علیہ کے زمانے میں ائمۃ التکفیر کے پیچھے لگ گئے تھے لیکن ان کی فطرت میں کجی اور شرارت نہیں تھی ان کو اللہ تعالیٰ نے بچالیا، ان کو ہدایت عطا فرمائی یہاں تک کے ان بڑے بڑے لیڈروں کی اپنی اولاد میں سے بھی جو سعید فطرت تھے ان کو بھی خدا تعالیٰ نے ہدایت بخشی.جہاں قوم کے لئے بالعموم یہ آیت خوشخبری کا رنگ رکھتی ہے وہاں قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر بھی دلالت کرتی ہے.وہاں یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی انسان کا کلام نہیں ہے ورنہ عام انسان جب اس قسم کا کلام بنائے ، عام ہو یا خاص ہو ، وہ اس بات کو پیش نظر رکھے گا کہ دشمن کہتا ہے کہ ہمیں عذاب نہ دیا جائے گا.میرا جواب یہ ہوگا کہ تمہیں دو ہر اعذاب دیا جائے لیکن یہ امکان باقی نہیں رکھتا انسان عقلاً کہ تم میں سے جو نسبتا کم شریر ہیں جو بالا رادہ شامل نہیں ہوئے ان کو چھوڑ دیا جائے گا یہ

Page 472

خطبات طاہر جلد ۶ 468 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء انسانی فطرت میں خود بخود پیدا ہونے والا خیال نہیں ہے.یہ عالم الغیب ہستی کی جو باہر سے پیغام دے رہی ہے، جو مستقبل پر بھی نظر رکھتی ہے، انسان کی کمزوریوں پر بھی نظر رکھتی ہے، یہ اسی کا جواب ہے.اس لئے طرز کلام بتا رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کا کلام نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے.اسی طرح اگلی آیت میں قرآن کریم نے ایک ایسی بات کو دہرایا ہے جو پہلے بھی بیان فرما چکا ہے.جب کفار کا یہ دعوی قرآن کریم نے پیش فرمایا وَ قَالُوا نَحْنُ اَكْثَرُ اَمْوَالًا وَّ اَوْلَادًا (: ۳۵) وہ کہتے ہیں کہ ہم تم سے اموال میں بھی زیادہ ہیں اور نفری میں بھی زیادہ ہیں.ان کو جواب دے.قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ کہہ دے کہ میرا رب رزق کو کشادہ فرماتا ہے جس کے لئے چاہتا ہے.وَيَقْدِرُ اور تنگ بھی کر دیتا ہے.یہ جواب تو دیا جا چکا تھا لیکن اس کے معا بعد پھر خدا تعالیٰ اسی مضمون کی تکرار فرما رہا ہے.قُلْ إِنَّ رَبِّي يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاءُ اے محمد ! ( گویا یہ بیچ میں حذف ہے کہ پھر یہ اعلان کرو ) دوبارہ یہ اعلان کر دو کہ میرا رب ہی ہے جو رزق کو کشادہ فرماتا ہے لِمَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِو ان کے لئے جو اس کے بندے ہیں.ان میں سے بعض کے لئے وہ رزق کو کشادہ فرماتا ہے.یہاں عِبَادِہ کا لفظ بڑھا دیا گیا ہے جو پہلی آیت میں موجود نہیں اور عبادہ کے دو معانی ہیں.ایک عبد بالعموم یہ معنی رکھتا ہے کہ ہر وہ انسان جو خدا کا پیدا کردہ ہے خواہ وہ کسی قوم نسل، مذہب سے تعلق رکھتا ہو وہ عبد ہے.ان معنوں میں عبد کا لفظ عام ہے اور عبد کا ایک معنی ہے خدا تعالیٰ کا خاص بندہ جو عبادت کرنے والا ہو اور عبادت کے ذریعے گویا وہ دوبارہ خدا کا بالا راہ عبد بن گیا ہو.پہلی عبودیت میں تو اس کا اختیار کوئی نہیں تھا.خدا نے اُسے عبد بنا دیا وہ عبد بن گیا لیکن دوسری عبودیت کی منزل خود بالا رادہ طے کرنی پڑتی ہے.مِنْ عِبَادِم یہاں رکھ کر اس کے دونوں پہلوؤں کے متعلق اس آیت میں گفتگو فرمائی.جو خدا کے خالص بندے ہیں ان کے لئے يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَشَاء کا مضمون صادق آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اعلان کر کہ خدا ہر حال میں ہمیشہ دستور کے مطابق رزق کو بڑھاتا بھی ہے اور کم بھی کرتا ہے مگر اس موقع پر خدا جن عباد کو اپنا خاص عباد سمجھے گا ان کے لئے رزق بڑھا دے گا، جن عباد کو اپنا عبد نہیں سمجھے گا یعنی فی الحقیقت اور اعلی معنی کے اعتبار سے ان کا رزق کم بھی کر سکتا ہے.وہ گویا یہ پیشگوئی تھی کہ اب اقتصادی حالات بھی تبدیل کر

Page 473

خطبات طاہر جلد ۶ 469 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۸۷ء دیئے جائیں گے.انہیں اپنی بڑائی کا دعوی تھا اور زعم یہ تھا کہ چونکہ ہمیں مالی برتری حاصل ہے اس لئے ہم حق رکھتے ہیں کہ ان ایمان لانے والوں کی مخالفت کریں اور انہیں ہر طرح سے اذیت پہنچا ئیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ اعلان دوبارہ کر کہ خدا کی طاقت میں ہے اپنے جن بندوں سے چاہے گا عطا کا سلوک فرمائے گا اور اُن کے رزق میں غیر معمولی برکت بخشے گا اور جن بندوں سے چاہے گا ان سے دوسرا معاملہ کرے گا يَقْدِرُ له ان کا رزق تنگ کر دے گا.وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُہ کہہ کر اس مضمون کو کھول دیا کہ جن کا رزق بڑھانا ہے وہ کون لوگ ہیں؟ وہ لوگ ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں یعنی تبدیلی جو آنے والی ہے اب یہ بلا وجہ نہیں ہوگی.ان لوگوں کے رزق میں برکت ڈالی جائے گی جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں، جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے سے رکنے والے ہیں ان کے لئے خدا دوسری تقدیر جاری کرے گا جسے يَقْدِرُ لَہ کے لفظ کے تابع بیان فرمایا گیا ہے.چنانچہ فَهُوَ يُخْلِفُہ کا مضمون فرمایا کہ ان کے ساتھ یہ معاملہ کیا جائے گا.اب يُخْلِفُہ سے کیا مراد ہے؟ یہ لفظ بہت دلچسپ ہے.تین بنیادی حروف اس کا مادہ ہیں: خ ، ل اور ف.یہ جو ہم لفظ خلاف استعمال کرتے ہیں یہ بھی اسی سے نکلا ہے ، مخالفت بھی اسی سے نکلا ہے اور خلیفہ بھی اسی سے نکلا ہے ، وارث ہونا بھی اسی لفظ سے نکلا ہے حالانکہ بظاہر ان دونوں معنوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے.مخالفت اور وارث ہونے میں تو کوئی نسبت نظر نہیں آتی لیکن عربی زبان کے اندر بعض بہت ہی لطیف حکمتیں ہیں.اس وقت ان کی بحث کا موقع نہیں صرف اتنا بتانا کافی ہے کہ اس لفظ میں دونوں معنی پائے جاتے ہیں.جب یہ لفظ نباتات کے متعلق بولا جاتا ہے مثلاً درخت کے متعلق تو عجیب بات ہے کہ بظاہر یہ باب لازم کو متعدی بنانے والا ہے لیکن اس موقع پر یہ لازم کا مضمون اپنے اندر رکھتا ہے اور جب خدا تعالیٰ اس کا فاعل ہو تو پھر یہی لفظ متعدی کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے.مثلاً پہلے تو آپ میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہیں لازم اور متعدی کی اصطلاح معلوم نہ ہو اس لئے میں ان کو سمجھا کر بتاتا ہوں.لازم اس فعل کو کہتے ہیں جو کہ نتیجے میں کوئی مفعول ظاہر نہ ہو.فعل تو صادر ہوا ہے لیکن کسی اور وجود پر ظاہر نہیں ہوا مثلاً آپ کہتے ہیں میں ہنسا.آپ ہنسے، آپ کا یہ فعل کسی دوسرے کو متاثر نہیں

Page 474

خطبات طاہر جلد ۶ 470 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء کر گیا، آپ کی جنسی آپ کے ماحول پر ظاہر نہیں ہوئی، اس کے نتیجے میں آپ کے گردو پیش کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، آپ کے اندر ایک تبدیلی پیدا ہوئی ہے اندرونی طور پر.اس لئے ایسے فعل کو جس کے نتیجے میں ایک انسان کا فعل اس کی ذات کو متاثر کرے لیکن دوسری ذات کو وہ متاثر نہ کرے اُسے لازم کہتے ہیں.میں اٹھا.آپ اٹھے آپ کے اندر تبدیلی ضرور ہوئی ہے کیونکہ فعل کا مطلب ہی یہی ہے کہ کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے لیکن کسی اور وجود پر اس تبدیلی نے اثر پیدا نہیں کیا لیکن ہم جب اردو میں ایک ”الف“ کی زیادتی کرتے ہیں بیچ میں تو ہم کہتے ہیں ہنسایا، اٹھایا.اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نہیں ہنسا یعنی ہو سکتا ہے کہ ہنسا ہو لیکن اپنے بننے کی کوئی بات نہیں ہو رہی ، میں نے دوسرے کو ہنسایا ہے، میں اپنے اٹھنے کی بات نہیں کر رہا میں نے دوسرے کا اٹھایا تو ایک’الف‘‘ نے اس لازم کو متعدی بنا دیا.اسی طرح عربی زبان میں باب افعال بھی ایک الف کو زائد کرتا ہے لیکن آغاز میں زائد کرتا ہے اور لازم افعال کو متعدی میں تبدیل کر دیتا ہے لیکن اس لفظ میں خاص دلچسپ بات یہ ہے کہ باب افعال میں جا کر بھی بعض صورتوں میں یہ لازم رہتا ہے اور بعض صورتوں میں متعدی بن جاتا ہے مثلاً عرب کہتے ہیں اَخلَفَ الشَّجَرُ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ درخت نے پت جھڑ کے بعد نئی شاخیں نکالیں جب کہ وہ بالکل بے رونق ہو چکا تھا اس میں کچھ بھی باقی نہیں رہا تھا اور جب عرب دعا دیتا ہے کسی کواخلفک اللہ تو مراد یہ ہوتی ہے کہ تیر ضائع شدہ مال خدا تجھے واپس کر دے، جو کچھ تیرے ہاتھ سے جاچکا ہے تجھے پھر اللہ تعالیٰ عطا فر مادے تو یہاں متعدی کے معنوں میں استعمال ہورہا ہے.ایک ہی جگہ قرآن کریم میں ان معنوں میں خدا تعالیٰ نے یہ لفظ رزق کے بڑھانے کے لئے استعمال فرمایا ہے اور وہ یہ جگہ ہے.فرماتا ہے.مَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ نقشہ یہ کھینچا ہوا ہے کہ خدا کی راہ میں کچھ ایسے بندے جن کو غیر یہ طعنہ دیتے ہیں کہ تمہارے پاس کچھ بھی نہیں ، ہم مالدار ہیں تمہارے پاس کچھ نہیں اور اس وجہ سے ان کی مخالفت کرتے ہیں لیکن وہ ایسے جنونی بندے ہیں کہ جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی خرچ کر ڈالتے ہیں خدا کی راہ ، میں اسے بھی اپنا نہیں رہنے دیتے اور تو بسا اوقات ان کو دیکھے گا کہ ایک پت جھڑ کا سا سماں اپنے ذاتی اموال کے معاملے میں ان کے اندر ظاہر ہوتا ہے اور جو کچھ ہوتا ہے وہ سب جھاڑ کر اپنی ساری رونق اپنے ہاتھ سے فنا کر دیتے ہیں.ان میں تو یہ طاقت نہیں کہ وہ دوبارہ نشو و نما پائیں ، ان میں بسا اوقات استطاعت نہیں رہتی کہ

Page 475

خطبات طاہر جلد ۶ 471 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء وہ پھر پھولیں پھلیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے ذمے لیتا ہوں اور اے محمد! یہ اعلان کر دے کہ میرا رب ہے جو تجھ سے وعدہ کرتا ہے.فَهُوَ يُخْلِفُہ تمہیں اس طرح بارونق کر دے گا ، وہ اس طرح تمہیں نشو و نما بخشے گا ، اک سے ہزار کرے گا ، با برگ و بار کرے گا جس طرح خزاں رسیدہ درخت کے اوپر دوبارہ بہار آجایا کرتی ہے.تو ان مومنوں کے لئے جن کو پہلے یہ طعنہ ملا تھا کہ تمہارے پاس کچھ نہیں ہے ان کے متعلق یہ نقشہ کھینچنا آخر پر کتنا حیرت انگیز ، کتنا حسین مضمون ہے اور پھر یہ تکرار بتارہی ہے، یہ خدا کا کلام ہے.ایسی فصاحت و بلاغت ہے اس تکرار میں کہ انسان تعجب سے اس کو دیکھتا ہے.یہ وہی آیت ہے جس میں بالا خانوں کا مضمون بیان ہوا ہے اور بالا خانے کی جنت کے مضمون میں ہی تکرار پائی جاتی ہے.ایک عمارت بنی اس کے اوپر پھر ایک اور عمارت تعمیر ہوئی اور یہ ساری آیت یہی نقشہ پیش کر رہی ہے اس طرح.پہلے فرما دیا ہے کہ انہیں خوب عطا کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ میں رزق دینا ہے، اس کے ہاتھ میں رزق کو تنگ کرنا ہے، یہ کس خدا کے بندوں کو چیلنج کر رہا ہے، یہ پہلے مضمون بیان ہو چکا ہے.تکرار میں یہ بتایا کہ بار بار خدا ان سے یہ سلوک کرے گا اور اس تکرار میں جونئی باتیں پیدا کر دیں اس کے نتیجے میں یہ اعتراض بھی وارد نہیں ہو سکتا ہے کہ بے وجہ تکرار ہے.اگر وہ مضمون کسی کو سمجھ نہ بھی آئے تب بھی یہ تکرار اس قسم کی تکرار نہیں کہ بعینہ ایک بات دہرائی جارہی ہو بلکہ جب وہ دہرائی جارہی ہے تو اس میں ایک نئی شان پیدا کی جا رہی ہے، دہرائی جارہی ہے تو اس میں ایک نئے حسن کا اضافہ کیا جا رہا ہے.اس پہلو سے یہ آیات خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے لئے ایک انتہائی عظیم الشان خوشخبری رکھتی ہیں.ایسی خوشخبری جس میں خدا تعالیٰ کے پیار کا بھی اظہار ہے بار بار اور بڑے ہی لطیف رنگ میں پیار کا اظہار فرمایا گیا ہے.گزشتہ جمعہ پہ چونکہ میں نے یہ مضمون بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے جماعت کو نہایت تنگی کے حالات میں بھی غیر معمولی قربانی کی توفیق بخشی ہے اس لئے ان آیات کا مجھے خیال آیا کہ نہایت مناسب ہوگا کہ انہی آیات کو اس خطبہ کا عنوان بنایا جائے اور کیونکہ آخرتان اس آیت پر ٹوٹی تھی ، بات یہاں پہنچ کر مکمل ہوئی تھی جو پہلے نہیں ہو سکی اس لئے میں نے دوبارہ آج اسی مضمون کو لیا ہے.ایک آدمی نہیں، دو نہیں ، تین نہیں بیسیوں ایسے خطوط مجھے انہی دنوں میں ملے جن میں یہ ذکر

Page 476

خطبات طاہر جلد ۶ 472 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء تھا کہ ہمارے پاس یہ رقم باقی رہ گئی تھی جو سرمائے کے لئے تھی، ہمارے پاس یہ رقم باقی رہ گئی تھی جو فلاں کام کے لئے رکھی ہوئی تھی ، ہمارے پاس یہ رقم باقی رہ گئی تھی جو فلاں کام کے لئے رکھی ہوئی تھی، ہمیں پیغام ملا کہ سال ختم ہو رہا ہے اور کوئی اور ذریعہ نہیں ، ہم نے ساری کی ساری خدا کے حضور پیش کر دی اور اس لئے نہیں ہم بتا رہے کہ کوئی اس سے ہماری انانیت کو تسکین ملے گی یار یا کاری مراد ہے بلکہ آپ کی ہدایت ہے کہ مجھے اطلاع دیا کرو تا کہ دعا کی تحریک پیدا ہواوران خطوط کے بعد جوانتظامیہ کے خطوط ملنے شروع ہوئے، بعد میں ملنے شروع ہوئے ، اب بھی مل رہے ہیں ان میں بھی حیرت انگیز قربانیوں کا ذکر ملتا ہے.تو بظاہر تو وہ لوگ خود یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ ہم بالکل خالی ہاتھ رہ گئے ہیں.پورا خزاں کا سا منظر ہے جو کچھ پتے ہمارے پاس رہ گئے تھے باقی جو کچھ پھول نظر آتے تھے وہ سب ختم ہو گئے لیکن خدا تعالیٰ ان کو یہ خوشخبری دے رہا ہے.وَمَا أَنْفَقْتُم مِّنْ شَيْءٍ فَهُوَ يُخْلِفُهُ تم نے اپنی کو طرف سے تو کمال کر دیا ہے سب کچھ جھاڑ بیٹھے لیکن تم دیکھتے نہیں کہ وہ خدا جو عام دنیا میں درختوں سے یہ سلوک فرماتا ہے کہ جب وہ سب کچھ جھاڑ بیٹھتے ہیں تو اتنا نہیں ان سے بڑھ کر ان کو عطا کیا کرتا ہے.اپنے خاص بندوں سے اور محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں سے وہ کیوں ایسا سلوک نہیں فرمائے گا.اس لئے تمہاری لئے کسی قسم کی مایوسی کا کوئی جواز باقی نہیں.یہ تو وہ مضمون تھا جو گزشتہ خطبے میں بیان سے رہ گیا تھا.آج کے خطبہ کے لئے جیسا کے عموماً جلسے کے قرب پر رواج ہے اور ایک اچھی رسم بن چکی ہے جو فائدہ مند ہے کہ جلسے سے متعلق ، آنے والے مہمانوں سے متعلق اور میز بانوں سے متعلق کچھ ہدایات دی جاتی ہیں اور ہدایات تو وہی ہیں جو گزشتہ سالوں میں بھی دی جاچکی ہیں لیکن فَذَكِرانْ نَّفَعَتِ الذِّكْرَى (الاعلیٰ : ۱۰) کے ارشاد کے تابع نصیحت کو بار بار دہرانا پڑتا ہے تا کہ جولوگ بھول چکے ہوں ان کو یاد کروایا جائے.اس وقت تک جو انتظامات ہیں ان کے ڈھانچے آخری شکل میں مکمل ہو چکے ہیں لیکن مکمل کہنا درست نہیں کیونکہ میرے ذہن میں ایک دو باتیں ہیں جن کی روشنی میں کچھ ان میں اضافہ بھی کرنا پڑے گا.بہر حال اب تک جس حد تک بھی منتظمین کی سوچ تھی انہوں نے اپنے ڈھانچےمکمل کر لئے ہیں اور ڈیوٹیاں تقسیم کر دی گئی ہیں.

Page 477

خطبات طاہر جلد ۶ 473 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء چونکہ یورپ میں اور پاکستان کے علاوہ اور ہندوستان کے علاوہ دیگر ممالک میں جلسہ سالانہ کے متعلق ویسی تربیت نہیں دی جاتی رہی جو ہمیشہ سے جماعت احمدیہ کے ان کارکنان کو ملتی ہے جو قادیان میں جلسے کے ساتھ متعلق ہوتے ہیں یار بوہ میں آکر یہاں کے جلسے سے متعلق رہے ہیں.اس لئے میری گزشتہ چند سالوں میں یہی کوشش رہی ہے کہ رفتہ رفتہ بیرونی انتظامی ڈھانچوں کو بھی مرکزی انتظامی ڈھانچوں کے عین مطابق کر دیا جائے اور ویسی ہی تربیت دی جائے بیرونی کارکنان کو جیسی مرکز میں ہمیں ملتی رہی.اس سے ایک عالمی یک جہتی پیدا ہوگی اور دوسرے اس نظام میں عام دنیا کے نظام سے ایک فرق بھی ہے.غیر معمولی طور پر اخلاقی پہلوؤں پر وہاں زور دیا جاتا ہے جو عام دنیا کے انتظامات میں نہیں دیا جاتا.اس لئے ضروری ہے کہ مزاج بھی وہی رہے انتظام کا جو ہمیشہ سے روایہ مرکز کا مزاج چلا آ رہا ہے.اس پہلو سے پہلی میری نصیحت تو یہ ہوگی کہ انتظامیہ میں اس بات کو داخل کریں کہ تربیت کا ناظم بھی موجود ہو.یہ قادیان میں بھی ہوا کرتا تھار بوہ میں بھی ہوتا تھا، میں خود بھی لمبے عرصے تک رہا ہوں.بعض دفعہ مہمان نوازی کے شعبے سے اس کو منسلک کر دیا جاتا تھا، الحاق کر دیا جاتا تھا اس کا بعض دفعہ الگ رکھا جاتا تھا مگر بہر حال ایک الگ ناظم تربیت موجود ہوتا تھا جو میں سمجھتا ہوں جہاں تک مجھے یاد ہے یہاں کے انتظام میں شامل نہیں ہے.اس لئے ایک ناظم تربیت بنایا جائے جو نو جوان نسلوں کی تربیت کے لئے اپنے ساتھ ایک با اثر نسبتاً معمر دوستوں کی ٹیم بنائے اور عموماً ناظم تربیت معمر لوگوں میں سے ہی چنا جاتا ہے جب ایسا ہو تو جو افسر مہمان نوازی ہے اس کو چونکہ زیادہ تجربہ ہوتا ہے اس کے ساتھ اس کو ملحق کر دیتے ہیں اور اگر خود وہ تجربہ کار ہوتو پھر آزاد بھی رکھ دیا جاتا ہے.بہر حال یہاں بہتر ہے کہ ہمارے امام صاحب ہیں ان کے ساتھ اس شعبے کو ملحق کر دیا جائے تا کہ براہ راست ان سے وہ نصیحت حاصل کریں اور طریقہ سیکھیں کہ کس طرح تربیت کرنی ہے.بہت سارے نوجوان ہیں جن بے چاروں کو ہمارے پرانے روایتی آداب کا علم بھی نہیں ہے اور یورپ میں یہ ایک بڑا اچھا موقع ہوتا ہے اجتماع کے وقت وہ شکلیں دکھانے لگ جاتے ہیں جو عام حالات میں ویسے نظر بھی نہیں آتے بعض.اب تو خدا کے فضل سے غیر معمولی فرق پڑ چکا ہے.وہ چہرے جو شروع میں مجھے کبھی کبھی دکھائی دیتے تھے اب وہ کثرت سے دکھائی دینے لگے ہیں

Page 478

خطبات طاہر جلد ۶ 474 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء اور جو نہیں دکھائی دیتے تھے وہ دکھائی دینے لگ گئے ہیں اور دن بدن اللہ تعالیٰ اس لحاظ سے بھی جماعت بڑھا رہا ہے کہ جو جماعت کہلاتی تھی اور عملا نہیں تھی وہ پھر جماعت بن گئی ہے اور علاوہ ازیں اضافہ ہورہا ہے بڑی کثرت کے ساتھ غیروں میں سے.اس پہلو سے بھی نظام تربیت کا قائم کرنا ضروری ہے کہ نئے آنے والے تربیت کے محتاج ہیں اور نئے آنے والوں سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ سلوک کرنے والے تربیت کے محتاج ہیں.بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ ایک نیا آنے والا اپنے آپ کو اجنبی محسوس کرتا رہتا ہے اور اس کے گرد و پیش کہ جو لوگ ہیں وہ شاید یہ سمجھ کر کہ ہمارا واقف نہیں ہے اس کی طرف توجہ نہیں کرتے ، اس سے اس کی زبان میں گفتگو کی کوشش نہیں کرتے ، اس کو اعزاز دینے کی کوشش نہیں کرتے حالانکہ تالیف قلب کا جو مضمون قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اس کا مطلب صرف یہ نہیں ہے کہ صرف مال خرچ کروان پر.مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقره:۴) کے تابع جو کچھ تمہیں خدا نے عطا کیا ہے نئے آنے والوں پر وہ خرچ کرنا چاہئے ، حسن خلق کا مظاہرہ کرنا چاہئے ، نرمی محبت اور پیار سے ان لوگوں کے دل جیتنے چاہیئے، ان کو اعزاز دینا چاہئے وہ محسوس کریں کہ ہم ایسی جگہ آئے ہیں جہاں ہمارے ساتھ غیر معمولی تکریم کا معاملہ کیا جارہا ہے ، عزت کے ساتھ پیش آیا جارہا ہے.تو ہر نئے چہرے کو جب آپ دیکھتے ہیں اس کے ساتھ کس طرح حسن سلوک کرنا ہے اگر اس کی زبان نہیں آتی تو کیا کرنا چاہئے.اس قسم کے معاملات میں باقاعدہ تربیت دینے کی ضرورت ہے اور ناظم تربیت کو چاہئے کہ وہ امام صاحب سے، ہمارے عطاء المجیب راشد صاحب سے اچھی طرح معاملہ سمجھ کر پھر آگے اپنے کارکنان کو سمجھائیں.پھر بعض بیہودہ حرکتیں ہورہی ہوتی ہیں، غیر ذمہ دارانہ غلط جگہ چیزیں پھینکی جارہی ہیں، بلا وجہ شور کیا جا رہا ہے، بہت سارے بد اخلاقی کے مظاہر ہیں جو ان ملکوں میں اجنبی نہیں اور عام گلیوں میں اس سے بہت کچھ زیادہ بھی ہو جائے تو اسے بداخلاقی سمجھا ہی نہیں جاتا لیکن ہمارے اجتماع کی ایک اپنی شان ہے ، اس کی اپنی روایات ہیں.ان کے پیش نظر نو جوانوں کو بتانا چاہئے کہ میاں ! باہر جا کے تم ان جیسے بنتے رہے بھی ہو تو کم سے کم یہاں تو ہمارے جیسے بنے کی کوشش کرو.تم ہی لوگوں کا محاورہ ہے کہ جب روم میں جاؤ تو رومنز (Romans) کی طرح رہنا سیکھو.

Page 479

خطبات طاہر جلد ۶ 475 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء تو کم سے کم جب تم احمدی اجتماع میں آتے ہو تو احمدی روایات کی پابندی کرو.ان میں ایک سرڈھانکنا بھی ہے، ان میں پلک (Public) جگہوں پر سگریٹ نوشی سے پر ہیز بھی شامل ہے اور بھی بہت سی پرانی روایات ہیں جن کو ہم وہیں چھوڑ آئے ہیں جہاں سے ہم چلے تھے اور یہ سمجھتے ہیں کہ دوسرے ملکوں میں ان کو منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ہے حالانکہ ضرورت ہے.پوری تصویر من وعن جو مرکز میں بنتی چلی آئی ہے اس کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے، اس تصویر کو امانت سمجھتے ہوئے ان لوگوں تک پہنچانا ضروری ہے جن کا حق ہے کہ یہ امانت ان کو ملے.اسی لئے تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی احمدی جلسے ہوتے ہیں وہاں ایک ناظم تربیت مقرر ہونا چاہئے جو روایات کا بھی نگران ہو اور ان روایات کو نئی نسلوں تک یا نئے آنے والوں تک منتقل کرے.ان نئے آنے والوں کو پیار سے سمجھانا ہے کہ یہ بات یوں نہیں کی جاتی یوں کی جاتی ہے بہت سے کام ہیں ایسے ایک بڑا اہم شعبہ ہے جس کو رائج کرنے کی ضرورت ہے.ایک اور پہلو سے مجھے جہاں تک یاد ہے میں نے جائزہ لیا تھا کہ کون کون کا رکن اب تک مقرر ہو چکے ہیں.اس جائزے کے بعد میں سمجھتا ہوں ایک اور پہلو سے بھی ترمیم کی گنجائش ہے.مجھے نومسلموں کے نام اس میں بہت کم نظر آئے حالانکہ تربیت دینے کا بہترین طریق یہ ہوتا ہے کہ ان کے اوپر ذمہ داری ڈالیں.اگر کوئی شخص ذمہ داری سے باہر ہوتو بالعموم وہ تنقید کی نظر سے انتظام کو دیکھ رہا ہوتا ہے ، جب وہ ذمہ داری سنبھال لیتا ہے تو لوگ اس کو تنقید کی نظر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں پھر اس کو اپنا دفاع کرنا پڑتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ کیا مشکلات ہیں ان کاموں کے سلسلے میں.وہ جانتا ہے کہ ان ذمہ داریوں کو ادا کرنا آسان کام نہیں باہر بیٹھے دور کی نظر کی ڈالتے ہوئے تنقید کرنا اور بات ہے، شامل ہو کر ایک محنت کرنا اور اپنے انتظام کو بہتر بنانا ایک بالکل اور چیز ہے.تو اس لحاظ سے بھی ان کی تربیت ہو گی دوسرے انہوں نے پھر آگے کام سنبھالنے ہیں.یہ یونہی مفروضہ ہے کہ بعض علاقوں میں پاکستانی اکثریت میں ہی رہیں گے یعنی پاکستان سے آئے ہوئے احمدی.اگر پاکستان سے آئے ہوئے احمدی اپنا فرض شروع سے ہی ادا کر رہے ہوتے تو اب تک یہ ایک بہت معمولی اقلیت بن چکے ہوتے اور جن ممالک میں ادا کیا ہے وہاں ہیں ہی بہت معمولی اقلیت.افریقہ میں غانا میں دیکھیں، آپ سیرالیون میں دیکھیں، نائجیریا میں دیکھیں ،لائبیریا میں دیکھیں اسی طرح بہت

Page 480

خطبات طاہر جلد ۶ 476 خطبہ جمعہ کے ار جولائی ۱۹۸۷ء سے ممالک اور ہیں وہاں پاکستانی احمدی جنہوں نے جا کر ان کو اسلام سکھایا اور احمدیت کا پیغام دیا وہ ایک بالکل معمولی اقلیت ہیں اور سارے انتظام ان لوگوں نے ہی سنبھالنے ہیں اور اب دن بدن ان پر زیادہ ذمہ داریاں ڈالی جارہی ہیں.اس لئے ابھی سے ان کی تربیت کریں آخر انہوں نے اپنے کام خود اپنے ہاتھوں میں لینے ہیں اور اس پہلو سے مختلف انتظامات میں ان کو اس طرح شامل کرنا چاہئے کہ کبھی ایک انتظام سے ان کو واقفیت ہو جائے کبھی دوسرے انتظام کی واقفیت ہو جائے.پہلے انگلستان میں عموماً یہ رواج تھا اور غالبا اب بھی ہوگا کہ فیکٹریوں کے بڑے بڑے امیر مالک اپنے بچوں کو فیکٹریوں میں اس قسم کی ملازمتیں دلواتے تھے شروع میں کہ بطور مزدور بھی وہ کام کرے، بطور داروغہ بھی کام کرے، بطور چوکیدار بھی کام کرے.غرضیکہ جتنے معمولی چھوٹے موٹے کاموں کے شعبے ہیں ان میں سے وہ ان کو پھراتے تھے پھر درجہ بدرجہ اوپر کی طرف بھی لے کر بڑی تیزی کے ساتھ ، یہ نہیں کہ مزدور کی طرح بے چاروں کی اکثر زندگی اپنی ختم ہو جائے لیکن تھوڑا تھوڑا نمونہ ان کو چکھاتے تھے کہ یہ ہوتی ہے مزدوری ، اس طرح دار ونگی کی جاتی ہے، اس طرح چوکیداری کی جاتی ہے.اس تربیت کے بعد جب وہ آگے نکل کر اپنے کاموں کو سنبھالتے تھے تو بہت بہتر مینجر ثابت ہوتے تھے.آج کل میں جانتا نہیں کہ یہ ہے کے نہیں لیکن ہے بہت عمدہ طریق اور جماعت احمدیہ میں خود بخو در انج ہے ، ہمیشہ سے رائج ہے.کبھی یہ نہیں ہوا کہ کسی بڑے وکیل کا، کسی بڑے شخص کا بیٹا از خود ہی بڑا بن گیا ہوا نتظام میں.سارے بچپن سے ، چھوٹی عمر میں ہی چھوٹے چھوٹے انتظاموں میں تربیت پا کر او پرنکل رہے ہوتے ہیں آہستہ آہستہ اور پھر وہی ترقی پاتا ہے جو صلاحیت رکھتا ہے.اس لحاظ سے ان قوموں کی تربیت ضروری ہے.ان میں سے جہاں تک ممکن ہو ہر ایک کو زیادہ سے زیادہ شعبوں کی تربیت بھی دیں تا کہ اجتماعی انتظامی صلاحیت بھی ان کے اندر پیدا ہو.دوسرا اس ضمن میں یہ پہلو خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس دوران نمازوں کی نگرانی کی جائے اور جب نمازیں کھڑی ہو جاتی ہیں اس وقت نظر ڈالیں کہ کوئی بچہ کوئی نو جوان بغیر نماز کے باہر نہ ہو، جو ڈیوٹی پر ہے وہ تو ڈیوٹی پر ہے اس کو خدا تعالیٰ نے مستی فرمایا ہے لیکن اس کے علاوہ کوئی شخص بھی ایسا نہ رہے جو نماز میں شامل نہ ہو اور اذان کے وقت سے ہی یہ نصیحت شروع ہو جانی چاہئے.جو

Page 481

خطبات طاہر جلد ۶ 477 خطبہ جمعہ کے ار جولائی ۱۹۸۷ء دوست کھڑے گئیں مار رہے ہیں ان کو کہا جائے کہ آپ تیاری کیوں نہیں کرتے.آپ کا وضو اگر نہیں ہے تو پھر آپ کو وضو کرنا چاہئے.پیار اور محبت کے ساتھ آہستہ آہستہ یہ تربیت کرنی شروع کریں.عموماً گزشتہ تجربے سے بھی یہی پتا چلتا ہے کہ اللہ کے فضل سے نماز کا معیار کافی بلند ہے لیکن یورپ میں صبح کی نماز کا معیار بہت گرا ہوا ہے.باقی جگہوں میں بھی پاکستان میں بھی یہ معیار گرتا رہتا ہے پھر اس کو کوشش کر کے اونچا کیا جاتا ہے کیونکہ نیند کے غلبے کے وقت ہوتے ہیں بعض لیکن یورپ میں اور شمالی یورپ میں خصوصیت کے ساتھ اس کا موسم سے بھی تعلق ہے.راتیں بہت چھوٹی ہو جاتی ہیں بعض اوقات اور سارا دن کام کے بعد رات کو خصوصا وہ لوگ جو دیر سے سونے کے عادی ہیں پھر صبح اُٹھ نہیں سکتے.اس لئے صبح کی نماز کا خاص اہتمام کرنا چاہئے اور اس روایت کو یہاں منتقل کرنا چاہئے جو بہت ہی پیاری روایت ہے کہ اذان سے بھی پہلے درود پڑھنے والے بچوں کی پارٹیاں صل علی کے گیت گاتے ہوئے پھریں اور کثرت کے ساتھ وہاں صل علیٰ کا شور بلند ہو.وہ روایتی نغمے جو آنحضرت ﷺ کے عشق اور مدح میں گائے جاتے ہیں ان کی آوازیں یہاں اسلام آباد میں بھی سنائی دیں.وہ اسلام آباد جو وہاں پاکستان میں ہے مجھے نہیں پتا وہاں یہ نغمے سنائی دیتے ہیں کہ نہیں لیکن جو سنانے والے ہیں ان تو اس جرم میں قید کر لیا جاتا ہے اور جو نہیں سنانے والے وہ ہم جانتے ہیں کہ ان کو عادت ہی نہیں ان باتوں کی.تو اس روایت کو یہاں زندہ کریں اور ہر دنیا کے ملک میں جہاں جہاں جماعت کے اجتماعات ہوں وہاں اس شاندار روایت کو زندہ کریں اور قائم کریں اور انگریز بچوں کو عادت ڈالیں ان کی زبان سے آپ کو بہت پیارے لگیں گے یہ نغمے اور جو افریقین ہیں وہ افریقین بچوں کو عادت ڈالیں.ان کی زبان سے یہ نغمے بہت پیارے لگیں گے اور اسی طرح جرمن جو ہیں وہ جرمن بچوں کو عادت ڈالیں ، ان کی اگلی نسلوں کو ساتھ شامل کریں.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی نسلوں کو بچپن ہی سے جماعتی روایات کا علم ہوگا ، اس سے وابستہ ہونے کی عادت پڑے گی بلکہ وابستہ ہونے کا لطف حاصل ہونا شروع ہو جائے گا.اس ضمن میں جو بیرونی مہمان ہمارے آ رہے ہیں ان کو بھی کچھ کام ضرور دیں کیونکہ بہت سے ایسے ملکوں سے آتے ہیں جہاں ان کے لئے انتظام میں شامل ہو نا ممکن نہیں ہوتا تو کچھ نہ کچھ کام ان کو دیا جائے تو وہ شوق سے قبول کریں گے اور جماعت سے پہلے کی نسبت زیادہ وابستگی محسوس

Page 482

خطبات طاہر جلد ۶ 478 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۸۷ء کریں گے.عرب میں بہت سے آنے والے اس دفعہ خدا کے فضل سے یورپ سے بھی اور عرب ممالک سے بھی ان کو بھی کام میں شامل کرنا چاہئے محض مہمان بنا کر نہ ان کو رکھا جائے.جماعت میں تو یہ شخص واضح طور پر الگ الگ کرنا ممکن ہی نہیں ہے کہ میزبان کون ہے اور مہمان کون.ایک پہلو سے ہم سارے میزبان ہیں، ایک پہلو سے ہم سارے مہمان ہیں، ایک پہلو سے ہم وہ ہیں جن کی نگرانی ہو رہی ہے ، ایک پہلو سے ہم وہ ہیں جنہیں نگران بنایا گیا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے :.تَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (الحج: ۷۹) تاکہ تم سارے تمام بنی نوع کے اوپر گران بن جاؤ اور تم سب پر اللہ کا رسول نگران بنادیا گیا ہے اور اللہ کا رسول براہ راست خدا کی نگرانی کے تابع ہے.یہ ہے مضمون جو نیچے سے شروع ہو کر اوپر تک پہنچتا ہے.امت محمدیہ ایک پہلو سے نگران بھی ہے اور ایک پہلو سے وہ بھی ہے جس کی نگرانی کی جارہی ہے.نگران ہے وہ غیروں پر اور اس کی نگرانی حضرت محمد مصطفی امی ﷺ اور آپ کی تعلیم کر رہی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کوئی رات تم پر یہ گواہی نہ دے کہ تم نے فلاں فلاں حکم کی خلاف ورزی کی اور قرآن تم پر گواہی نہ دے اور سنت تم پر گواہی نہ دے.یہ محاورے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رائج کئے ہیں اسلامی علم کلام میں کہ قرآن گواہی دے اور حدیث گواہی دے، قرآن گواہی نہ دے اور حدیث گواہی نہ دے یعنی محاورے تو پہلے بھی اس طرح آئے ہیں لیکن جس شان کے ساتھ اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے باندھا ہے اور کسی بزرگ کی تحریروں میں آپ کو یہ نہیں ملے گا.پس یہی وہ مضمون ہے ایک پہلو سے ہم سب نگران ہیں اور ایک پہلو سے جب ہم علی النَّاسِ کہتے ہیں یا للناس کہتے ہیں تو ہر مسلمان دوسرے مسلمان کی نگرانی میں بھی آجاتا ہے اور اس نگرانی کے لحاظ سے وہ آنحضرت ﷺ کا نمائندہ اور آپ کا امین بنتا ہے.آنحضرت ﷺ کی شہادت کی قائم مقامی کر رہا ہوتا ہے.اس پہلو سے نگران بنتا ہے کہ کوئی سنت پر عمل کر رہا ہے کہ نہیں ، کوئی قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کر رہا ہے کہ نہیں.تو آپ سب نگران بن جاتے ہیں اور آپ سب وہ ہیں جن کی نگرانی ہو رہی ہے.اس

Page 483

خطبات طاہر جلد ۶ 479 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء لئے جب آپ کی نگرانی کی جائے تو آپ کو شکوے کا کوئی حق نہیں.قرآن کریم کا حکم ہے، سنت محمد مصطفی ﷺ ہے اور یہ تعلیم کئی رنگ میں کھولی گئی ہے قرآن کریم میں.اس لئے جن کی نگرانی کی جاتی ہے وہ نصیحت کرنے والے کی نصیحت پر نہ بد کیں ، نہ اس پہ ناراض ہوں کیونکہ نصیحت کرنے والا مجبور ہے.خدا نے اسے نگران بنایا ہے اور تمام بنی نوع انسان پر ہے، اس میں آپ بھی شامل ہیں اور خصوصا آنحضرت ﷺ کی نمائندگی میں تو ہر مسلمان کا فرض ہے.پھر آپ اگر نگرانی اس کی کرتے ہیں تو اس کو شکوے کا کوئی حق نہیں اگر وہ نصیحت میں بے وقوفی سے کام لیتا ہے تلخی سے کام لیتا ہے جو حسن خلق کے تقاضے ہیں ان پر پورا نہیں اتر تا تو جن کو نصیحت کی جارہی ہے ان کا کام ہے طعن کی بجائے پیار اور محبت اور ادب کے ساتھ اس کو سمجھائیں کہ نصیحت یوں نہیں یوں کرنی چاہئے.اگر آپ اس طرح کریں تو اور بھی زیادہ آپ کی بات میں حسن پیدا ہو جائے گا اور بھی زیادہ آپ کی بات میں وزن پیدا ہو جائے گا، دل سے نکالیں بات کو تا کہ دل میں اترے.اس قسم کی چند باتیں اگر آپ جواباً کہیں تو قرآن کریم اس کا بھی آپ کو حق دیتا ہے.تو یہ معاشرہ جو ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ سے ورثے میں پایا یہ ان قوموں کی امانت ہے، ان تک پہنچانا ہمارا فرض ہے.اس لئے اس جلسہ سالانہ پر اگر چہ یہ عالمی جلسہ نہیں ہے جماعت کا لیکن چونکہ خلیفہ وقت یہاں موجود ہے اس لئے اس کو ایک رنگ میں عالمی حیثیت بھی حاصل ہو جاتی ہے.UK کے جلسے پر کہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ آیا کرتے تھے کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوتا تھا، کسی کے علم میں بھی نہیں ہوا کرتا تھا کہ UK کا جلسہ ہوتا بھی ہے کہ نہیں لیکن اب آپ دیکھیں کہ ساری دنیا سے کھچے کھچے چلے آتے ہیں لوگ اور بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کہ بڑی بڑی قربانیاں کر کے پیسے جوڑ جوڑ کے ، دعائیں کر کر کے بعض اپنی چیزیں بیچ دیتے ہیں یہاں پہنچنے کے لئے.اس لئے اس جلسے کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے.اس پہلو سے بھی ان روایات کو یہاں زندہ کرنا ضروری ہے کہ آنے والے آپ سے توقع بھی یہ رکھیں گے.جو تشنگی لے کے چلیں گے وہ پوری ہونی چاہئے اور یہاں کی جماعت کو خدا نے توفیق بخشی ہے کہ غیر معمولی بوجھ اٹھایا ہے اس جماعت نے اور بڑی عمدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو نبھایا ہے اور نبھاتی چلی جارہی ہے بغیر

Page 484

خطبات طاہر جلد ۶ 480 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء تھکے ہوئے.تو اس میں اگر اور حسین پہلوؤں کا اضافہ ہو جائے تو آپ کی خدمتیں اور بھی زیادہ قبولیت کا رنگ پا جائیں گی اور بھی زیادہ اللہ تعالیٰ سے انعام پانے کی مستحق قرار دی جائیں گی.اس لئے اس جلسے کو زیادہ سے زیادہ پہلوؤں سے اور زیادہ سے زیادہ شدت کے ساتھ روایتی، بہترین جماعتی مرکزی جلسوں کا نمائندہ بنانے کی کوشش کریں.ایک پہلو جس پر جہاں بھی میں منتظم رہا ہوں ہمیشہ زور دیتا رہا ہوں وہ یہ ہے کہ کارکنوں کو دعا کی طرف توجہ دلانا.جب بھی اس پہلو میں کمی آئے اس کے نتیجے میں انتظام میں بھی اسی حد تک کمی آجاتی ہے، اسی حد تک خرابی پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے منتظمین کا کام ہے کہ اپنے شعبے میں ہر جگہ جہاں جہاں ان کے لئے ممکن ہے، جب وقت ملتا ہے پیار کی بات کرنے کا نصیحت کی بات کرنے کا وہ اور امور کے علاوہ دعا کی طرف توجہ دلائیں اور ان کو بتائیں کہ دعا کے نتیجے میں غیر معمولی فرق پڑتا ہے عملاً پڑتا ہے تم پڑتا ہوا دیکھو گے اپنی آنکھوں سے.اس لئے کوئی فرضی قصہ نہیں ہے یہ سب سے زیادہ ٹھوس حقیقت ہے اس زمانے کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عظیم ترین احسان یہ ہے کہ آپ نے دعا کے مضمون کو دوبارہ زندہ کر دیا.کہاں دعا کی اتنی باتیں ہوتی ہیں دنیا میں جتنی جماعت احمدیہ میں ہوتی ہیں؟ ملتے ، الگ ہوتے ، خط لکھتے ، خط وصول کرتے ہوئے ہر جگہ دعا کا مضمون آپ کو ملے گا اور احمدیوں کے منہ سے خود بخو دنکلتا ہی رہتا ہے دعا کا کہ دعا کریں، دعا کریں.بس ایسا محاورہ جاری ہوا ہے اور یہ محاورہ پہلے خدا کے فضل کے ساتھ دوسرے مسلمانوں میں بھی تھا لیکن رفتہ رفتہ اٹھتا جا رہا ہے.جب قبولیت کی سعادت ان کو نصیب نہیں ہوئی تو اسلام کی دیگر برکتیں بھی آہستہ آہستہ ان سے اٹھ رہی ہیں، اسلام کی ٹھنڈی چھاؤں کا سایہ ویسا نہیں رہا ان کے اوپر.آپ دیکھ لیں پاکستانی معاشرہ کس تیزی کے ساتھ بدی کا شکار ہوتا چلا جا رہا ہے تسکین سے محروم ہوتا چلا جا رہا ہے، بے چینیاں بڑھ رہی ہیں.ان تمام امور کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہ اسلام کے ٹھنڈے سائے سے محروم ہورہے ہیں اور انہوں نے وقت کے امام کا انکار کر دیا ہے اس لئے وہ برکتیں جو اسلام کی برکتیں ہیں وہ اب ان پر اس طرح جاری نظر نہیں آتیں جس طرح ایک بچے سعادت مند مسلمان کی ذات میں وہ جاری ہونی چاہئیں.بہر حال یہ ایک تفصیلی الگ مضمون ہے.

Page 485

خطبات طاہر جلد ۶ 481 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء آپ کے اندر یہ برکتیں دکھائی دینی چاہئیں، آپ کے اندر دعا کا مضمون بھی نہ صرف ذکر کے طور پر جاری رہنا چاہئے بلکہ عملاً آپ خود بھی دعا ئیں خلوص کے ساتھ کریں اور اپنے ساتھیوں کو بھی اس طرح خلوص کے ساتھ دعاؤں کی عادت ڈالیں کہ جب وہ اس جلسے سے جائیں تو بعض خدا کے نشانات کے گواہ بن کر جائیں.شاہد میں ایک یہ بھی مضمون ہے.شاہد کا لفظ صرف نگران کے لئے ہی نہیں ہے بلکہ گواہ کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور اعلیٰ درجے کا شاہد کے اندر یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ وہ خدا کی قدرت کے گواہ ہیں ، خدا کی نصرت کے گواہ ہیں اور وہ دنیا میں یہ گواہیاں دیتے پھرتے ہیں.اسی لئے آنحضرت ﷺ تمام انبیاء کے گواہ بنائے گئے ، تمام انبیاء پر گواہ بنائے گئے ، ان کے لئے گواہ بنائے گئے یہ دونوں مضمون قرآن کریم میں ملتے ہیں.تو اس طرح شامل ہوں کہ خدا کی قدرت کے نشان ، خدا کے پیار اور قرب کے نشان دیکھیں اور پھر باہر جا کر اپنے ملکوں میں جائیں گے یا اپنے شہروں میں جائیں گے تو آپ بتائیں کہ دیکھو ہم جلسے میں شامل ہوئے تھے اس اس طرح مشکل پڑی، اس طرح ہم نے دعا کی ،اس طرح اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا.اس کثرت کے ساتھ یہ واقعات رونما ہوتے ہیں کوئی نئی بات نہیں ہے کہ آپ اگر دعا سے کام لیں گے تو ان کو اپنی آنکھوں سے ہوتا دیکھنا شروع کر دیں گے دوبارہ.اس لئے دعا کے اوپر بھی خاص زور دیں.میں کوشش یہ کر رہا ہوں کہ جو باتیں بالعموم بار بار کی جاچکی ہیں وہ اگر ساری دہرائی جائیں تو بہت لمبا خطبہ ہو جائے گا اس لئے بعض پہلو جو گزشتہ ہدایتوں میں سے رہ گئے تھے ان پر زیادہ زور دوں.ایک اور پہلو ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ جو نو مبائع ہیں باہر سے آنے والے اور نو جوان ان سے ڈیوٹیاں لیتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ جلسے کا اعلیٰ اور اصل مقصد دینی تربیت ہے.ڈیوٹی ادا کرنا اور خدمت بجالانا بھی ایک دینی تربیت ہے لیکن اس سے بڑھ کر اعلی دینی تربیت عبادت کرنا اور ان نیک باتوں کو سننا ہے جن کی خاطر جلسہ منعقد کیا جاتا ہے.تو ان سے ڈیوٹیاں لیتے وقت اس بات کو خیال رکھیں کہ ان کا حق ہے کہ نہ یہ نمازوں سے محروم رہیں ڈیوٹیوں کی وجہ سے، نہ یہ جلسے سے محروم رہیں کیونکہ بعض لوگوں کو بہر حال قربانی کرنی ہوگی کیونکہ نہ نماز کے وقت ، نہ جلسے کے وقت یہ ممکن ہوتا ہے کہ سو فیصدی آدمی حاضر ہو جائیں.اس

Page 486

خطبات طاہر جلد ۶ 482 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء لئے وہ جو نسبتاً بڑی عمر کے ہیں زیادہ تربیت یافتہ ہیں جو بار بار جلسے سن چکے ہیں ان کو چاہئے کہ یا انتظام کو چاہئے کہ ایسا انتظام کرے کے نمازوں کے وقت نو مبائعین اور نو جوانوں کو ڈیوٹی سے سہولت دے دی جایا کرے اور وہ نمازوں میں شامل ہوا کریں اور جلسوں کے وقت ان کو ڈیوٹی سے سہولت دے دی جایا کرے اور وہ جلسے میں شامل ہوا کریں.ایک اور پہلو بھی اس کا ہے جس سے ہم مرکز میں فائدہ اٹھاتے رہے ہیں کہ بعض انتظامات جہاں سے الگ ہونا ممکن نہیں وہاں لاؤڈ سپیکر کا انتظام کر دیا جاتا ہے.جہاں تک اس پہلو کا تعلق ہے میرا خیال ہے کہ گزشتہ سال بھی یہاں اس قسم کا انتظام ہوا تھا اور چونکہ لاؤڈ سپیکر کے انتظام کی ٹیم ربوہ سے ہی آتی ہے بیشتر اس لئے ان کو ان سب باتوں کا علم ہے اس لئے دہرانے کی ضرورت نہیں.جہاں جہاں بھی ممکن ہو وہ ایسے چھوٹے لاؤڈ سپیکر مہیا کر دیں کہ جن لوگوں کے لئے انتظام چھوڑ کر جلسوں میں آنا ممکن نہیں وہ وہاں بیٹھے بھی ان جلسوں کو سن سکیں.آخری بات یہ میں کہوں گا کہ حسن خلق کی کوئی قیمت نہیں ہے.نہ آپ کو خلق لینے کے لئے پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں اور نہ جس کو آپ خلق عطا کرتے ہیں، اپنے خلق کی لذت بخشتے ہیں اس کو اس خلق کے لئے کوئی پیسے خرچ کرنے پڑتے ہیں.اس لئے یہ بہت ہی ضروری ہے کہ انتظامات میں حسن خلق پر بالعموم زور دیا جائے.آنے والوں سے محبت اور پیار کا سلوک کریں اور روز مرہ اپنے عام عادات میں یہ بات داخل کر دیں کہ آپ نے خوش کرنا ہے کسی کو خوش کرنے میں تو کوئی محنت زیادہ نہیں کرنی پڑتی بلکہ حقیقت میں یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ خوش کرنے والا خوش ہوئے بغیر کسی کو خوش کر ہی نہیں سکتا.یہ یا درکھیں اگر آپ خوش کریں گے تو اسی دوران آپ خوش ہوں گے ضرور کسی کو ہنسانے کی کوشش کر رہے ہوں تو اگر آپ اندر سے پہلے رو بھی رہے تھے تو اس دوران میں آپ کے اندر ایک بشاشت پیدا ہو جائے گی.اندرونی نفسیاتی تبدیلی کے بغیر بیرونی نفسیاتی تبدیلی ممکن نہیں ہے.اس لئے حسن خلق کا ایک بہت بڑا پھل جو ساتھ ساتھ انسان کو عطا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ دوسروں کو خوش کرنے کی خاطر خود بخود خوش ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک خلیق آدمی بہت بہتر زندگی گزار رہا ہوتا ہے ایک بدخو آدمی کے مقابل پر.بدخو آدمی دوسروں کو بھی تکلیف پہنچا رہا ہوتا ہے اور خود بھی مسلسل تکلیف میں مبتلا رہتا ہے.ایک عذاب میں ہر وقت جلتا رہتا ہے، گڑھتا رہتا ہے، غصے میں

Page 487

خطبات طاہر جلد ۶ 483 خطبہ جمعہ ۷ ارجولائی ۱۹۸۷ء گھلتا رہتا ہے اور کچھ بے چارے کی پیش نہیں جاتی ، اپنے لئے بھی عذاب دوسروں کے لئے بھی عذاب، یہ کیا زندگی ہے؟ ایک با اخلاق انسان خود بھی ہمیشہ تروتازہ رہتا ہے خوش رہتا ہے دوسروں کو بھی خوش کرتا رہتا ہے.اس لئے ایسا پھول بنیں جس کے اندر رنگ بھی ہو اور خوشبو بھی ہو، اپنے لئے بھی ہو اور غیروں کے لئے بھی ہو اور اس معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو اور ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم آنے والوں کے حقوق ادا کریں اور حقوق سے بڑھ کر ادا کریں اور آنے والوں کو توفیق بخشے کہ وہ یہاں مقامی لوگوں کے اور مہمان نوازوں کے حقوق ادا کریں اور بلکہ حقوق سے بڑھ کر ان سے حسن سلوک کا معاملہ کریں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا.نماز جمعہ کے بعد دو مرحومین کی نماز جنازہ غائب ادا کی جائے گی.ایک تو ہمارے حیدرآباد کے ایک مخلص خاندان کے چشم و چراغ سیٹھ محمد معین الدین صاحب مرحوم کی اہلیہ مکرمہ محمودہ بیگم صاحبہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے یہ دل کے دورے کی بناء پر وفات پاگئی ہیں.یہ ہمارے سلسلہ کے ایک بہت بڑے بزرگ اور بہت ہی ایک معزز ہندوستان کے خاندان کے فرد مولانا ذوالفقار علی خان صاحب کی صاحبزادی تھیں یعنی مولا نا عبد المالک خان صاحب کی ہمشیرہ تھیں اور سیٹھ حد معین الدین صاحب جو حیدر آباد دکن کے ایک معز مخلص احمدی خاندان کے فرد تھے ان کی بیگم تھیں.اس سے دو تین جمعہ پہلے کی بات ہے ہم نے سیٹھ معین الدین صاحب کے بڑے بھائی کی بیگم، بڑی بھا بھی جن کو ہم کہتے تھے ، ان کی نماز جنازہ بھی پڑھائی تھی.اوپر تلے ان دو بھائیوں کی بیویاں قریباً تھوڑے وقفے سے ہی جدا ہوئی ہیں.ان کو ہم بڑی بھا بھی کہا کرتے تھے ان کو چھوٹی بھا بھی اور دونوں کے ساتھ بچپن سے ہی ہمارے خاندان کا گہرا تعلق ، ہمارے ہاں ہی آکر جلسے میں قیام کیا کرتے تھے.پرانے زمانے میں یہ بھی روایت تھی ابھی بھی یہاں بھی شاید چل پڑی ہوگی کہ جلسے پر جو مہمان آیا کرتے تھے وہ روایہ پھر بعض گھروں سے متعلق ہو جاتے تھے اور پہلے رشتے نہیں بھی ہوتے تھے تو یہ مہمانی کا رشتہ اتنا زیادہ بڑھ جاتا تھا کہ خون کے رشتوں کی طرح معزز ہو جاتا تھا اور قریبی ہو جاتا تھا اور بہت سے خاندان ایسے تھے جن کے ساتھ ہمارے تعلقات محض جلسے کی مہمان نوازی کی وجہ سے قائم رہے اور پھر ہمیشہ جاری رہے.

Page 488

خطبات طاہر جلد 4 484 خطبہ جمعہ ۷ ار جولائی ۱۹۸۷ء حلیمہ صادقہ شاہین صاحبہ یہ ہمارے سلسلہ کے ایک بہت مخلص بزرگ مرزا بشیر احمد صاحب لنگر وال والوں کی بیٹی تھیں اور ہمارے ایک مربی سلسلہ صفی الرحمن صاحب خورشید کی ہمشیرہ نسبتی تھیں.تو یہ بھی اچانک ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے، زیادہ بڑی عمر نہیں تھی ان کے چھوٹے بچے ہیں.ان دونوں کے لئے نماز جنازہ کے علاوہ بھی مغفرت کی دعا کرتے رہیں.

Page 489

خطبات طاہر جلد ۶ 485 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۷ء اللہ تعالیٰ کی رسی کو مضبوطی سے تھا میں.امراء جماعت کو انکساری اور وحدت پیدا کرنے کی ہدایت ( خطبہ جمعہ فرموده ۲۴ / جولائی ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.من يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيْعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنتُمْ عَلَى شَفَا حَفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ) ( آل عمران ۱۰۳ - ۱۰۵) یہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ قرآن کریم کی سورہ آل عمران کی ۱۰۳ تا ۱۰۵ آیات ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ تعالیٰ کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جیسا کہ حق ہے، ایسا خدا سے ڈرو جیسا کہ خدا سے ڈرنے کا حق ہے اور وہ حق کیا ہے وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَاَنْتُمْ مُسْلِمُونَ ہرگز ایسی حالت میں نہ مرو کہ تم مسلمان نہ ہو یا ہرگز نہ مرو مگر ایسی حالت میں کہ

Page 490

خطبات طاہر جلد ۶ 486 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء تم مسلمان ہو وَ اعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو اجتماعی طور پر مضبوطی سے پکڑ لو وَلَا تَفَرَّقُوا اور تفرقہ میں نہ پڑو، ایک دوسرے سے الگ نہ ہو.وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُم اور اللہ کی نعمت کو یاد کرو جو اس نے تم پر فرمائی جبکہ تم آپس میں دشمن تھے فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ وہی خدا ہے جس نے تمہارے دلوں کو آپس میں محبت کے رشتوں میں باندھا.فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ اِخْوَانًا اور یہ رشتے ایسے مضبوط تھے کہ تم اللہ کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے.جو پہلے ایک دوسرے کے دشمن تھے ان میں ایک ایسا روحانی انقلاب بر پا ہوا کہ وہ بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ منسلک اور متحد ہو گئے وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تم گویا آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس سے نجات بخشی.اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے نشان کھول کھول کر تمہارے سامنے بیان فرماتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ.وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً اور چاہئے کہ تم میں سے ہمیشہ ایک قوم ، ایک امت لوگوں کو نیکی پر بلانے اور برائی سے روکنے پر مامور ہے وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ بي وہ لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں.پہلی آیت میں حق تقیہ کا ایک تو عام مفہوم ہے کہ جیسا کہ خدا سے ڈرنے کا حق ہے ویسا اس سے ڈرو اور یہ ہر زندگی کے شعبے پر ہر انسانی سوچ پر اور ہر انسانی عمل پر حاوی ہے اور اس بات کا فیصلہ کہ خدا سے کیسے ڈرا جاتا ہے یا کیا حق ہے.ایک پہلو سے تو ہر انسان الگ الگ اپنے اپنے علم اور اپنی اپنی عقل اور اپنے مزاج کے مطابق کرتا ہے.جو لوگ گناہوں کے عادی ہو چکے ہوں ان کا مزاج سخت ہوتا چلا جاتا ہے اور خدا تعالیٰ کے متعلق ان کے تقویٰ پر بھی اس کا برا اثر پڑتا ہے یہاں تک کہ ان کے نزدیک خدا سے ڈرنے کا حق سوائے چند ایک کبائر گناہ کے اور کچھ بھی باقی نہیں رہتا.جو لوگ نیکی میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں ان کے ہاں تقویٰ کا مضمون باریک راہوں میں داخل ہو جاتا ہے اور ایسی چیزیں جو بعض دوسروں کے نزدیک نیکی کہلاتی ہیں ان لوگوں کے نزدیک وہ گناہ بن جاتی ہیں اور حق تقیہ کا کچھ اور مفہوم ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کھولا جاتا ہے اور یہ مفہوم ہمیشہ ترقی کرتا رہتا ہے اور ایک مفہوم دوسرے میں بدلتا رہتا ہے.گویا اول مقام پہ جو سفر شروع کیا تھا اس مقام پر جب ان سے پوچھا جاتا کہ تقویٰ کیا ہے تو جو وہ تعریف تقویٰ کی بیان کرتے اس مقام پر

Page 491

خطبات طاہر جلد ۶ 487 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء وہ تعریف بہت کچھ بدل چکی ہوتی جہاں ان کا سفرختم ہونا تھا.ہرلمحہ ان کے اوپر خدا تعالیٰ تقوی کے نئے مفاہیم کھولتا چلا جاتا ہے.پس ان دونوں حدوں کے درمیان بہت ہی وسیع فاصلے ہیں.گناہوں کی بھی کوئی حد نہیں ہے سوائے اس کے کہ انسان اس استعداد کی انتہا کو پہنچ جائے جو خدا تعالیٰ نے کسی انسان میں پیدا فرمائی ہے اور چونکہ استعدادیں مختلف ہیں اس لئے یہ کہنا درست ہے کہ گناہوں کی بھی کوئی حد نہیں.بعض لوگ بے انتہا گناہ کرنے کی استعداد میں رکھتے ہیں اور وہ ان استعدادوں کو حتی المقدور پوری طرح استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں.بعض لوگ ہیں جن میں گناہ کی استعداد میں کم ہیں.تو منفی پہلو سے بھی حَقَّ تُفته کا مضمون انسان انسان میں بدلتا رہتا ہے اس کی حالت کے مطابق بدلتا رہتا ہے اور مثبت حالت میں بھی نیکی کی استعداد میں اور صلاحیتیں زندگی کے بہت ہی وسیع شعبوں پر پھیلی پڑی ہیں.وسیع شعبوں کا لفظ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ ایک اور مضمون کی طرف آپ کو متوجہ کروں.تقویٰ کی باریک راہیں ایک انسان کو نصیب ہو سکتی ہیں لیکن اگر اس کی استعداد میں کم ہوں اور زندگی کے کم شعبوں سے اس کی دلچسپیوں کا تعلق ہو تو راہیں باریک ہونے کی بجائے پھر بھی تنگ رہیں گی لیکن بعض انسانوں کو اللہ تعالیٰ بہت ہی وسیع قلب عطا فرماتا ہے، بہت ہی وسیع ذہن عطا فرماتا ہے اور ان کی زندگی کی دلچسپیوں کے امکانات بھی بہت وسیع ہوتے ہیں پس ان کی یہ راہیں بہت کشادہ ہو جاتی ہیں.جہاں جہاں ان کی سوچیں جس جس جہت میں جاسکتی تھیں ہر جہت میں تقویٰ کے نئے مفاہیم ان کو ملتے ہیں اور بعض عظیم الشان وجود ایسے ہوتے ہیں جن کا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق ہوتا ہے بلکہ زندگی کے علاوہ بھی یعنی انسانی زندگی کے علاوہ بھی حیوانی زندگی تک ان کی سوچیں ممتد ہو جاتی ہیں.ان میں جو سب سے اعلیٰ وجو دتھا ، جوسب سے اکمل وجود تھا اس کا نام محمد مصطفی مے ہے.پس آپ کو رحمت للعالمین قرار دیا گیا.آپ کا تقویٰ جانوروں تک بھی ممتد تھا اور وہ باتیں جو ایک انسان دوسرے انسانوں کے متعلق بھی نہیں سوچ سکتا وہ جانوروں کے متعلق بھی آپ سوچتے ان کا احساس فرماتے اور ان کے مطابق انسانوں کو تقویٰ کی تعلیم دیتے تھے.پس حَقَّ تُقتِہ کا یہ مضمون بہت ہی وسیع ہے لیکن جب اس کے معا بعد یہ فرمایا گیا وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ تو اس مضمون کے خاص پہلو کی طرف بطور خاص اشارہ فرما

Page 492

خطبات طاہر جلد ۶ 488 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء دیا گیا اور وہ پہلو یہ ہے کہ اپنے تقومی کو اپنی زندگی کے ہر لمحے پر حاوی کر دو اگر ایسا کرو تو حق تقیه کے مضمون کے مطابق عمل کرنے والے ہو گے.یعنی خدا سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ زندگی کا کوئی لمحہ بھی تقوی کی چھاؤں سے باہر نہ ہو، تقویٰ کی حفاظت سے باہر نہ ہو کیونکہ موت اپنے اختیار میں نہیں موت اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور وہ کسی لمحہ بھی موت دے سکتا ہے.اس کے متعلق آپ کا فیصلہ نہیں چلے گا بلکہ خدا کا فیصلہ چلے گا.پس اگر خدا کے یہ حکم آپ نے ماننا ہے کہ نہیں مرنا جب تک مسلمان نہ ہوں تو چونکہ مرنے کا فیصلہ آپ نے نہیں کرنا خدا نے کرنا ہے اگر کوئی ایسے لمحے میں وفات ہو جائے جو تقویٰ سے عاری تھا تو آپ اس آیت کے مطابق عمل کرنے والے نہیں ہوں گے.اس لئے اگر دیانتداری سے اس آیت کے مفہوم کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے تو اس کے سوا نتیجہ کوئی نہیں نکلتا کہ زندگی کے ہر لمحہ کو تقویٰ کی حفاظت میں لے آؤ.اگر تم ایسا کرو گے تو تم نہیں مرو گے جب تک مسلمان نہیں ہو گے.اس کی تفصیل ہے پھر آگے ایک اور نئی تفسیر ملتی ہے جو دوسری آیت میں بیان ہوئی ہے.فرمایا: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا.بہت مشکل ہے جو پہلی ہدایت ہے اس پر عمل کرنا بڑے دل گردے کا کام ہے اور شاذ کے طور پر ہی ایسے انسان ملتے ہوں گے جن کی زندگی کا ہر لمحہ تقویٰ کی حفاظت میں ہو، اس کی حدود کے اندر واقع ہو اس لئے اس مضمون کو آسان فرما دیا گیا اور ایک ایسا طریق ہمارے سامنے رکھ دیا گیا جس کے نتیجے میں گویا خدا یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر تم اس شرط کو پورا کرو گے تو وہ تمہیں وفات نہیں دے گا جب تک تمہاری وفات کی حالت مسلمانی کی حالت نہ ہو.فرمایا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور اجتماعی طور پر پکڑ لو.جماعت میں داخل ہو اور جماعت کے تقاضوں کو پورا کرو اور مضبوطی کے ساتھ جماعت کے ساتھ وابستہ ہو جاؤ لیکن جماعت کیا چیز ہے؟ فرمایا اللہ کی رسی سے چمٹ جانے والے جماعت بنتے ہیں جو خدا کی رسی سے الگ ہو جائیں ان کو جماعت نہیں کہا جاسکتا.پس یہاں پہنچ کر ہمیں مسلمان ہونے کے بغیر نہ مرنے کا ایک طریق سمجھ آ گیا.اگر انفرادی زندگی پر ہم ہر لمحے پر پہرے نہیں بٹھا سکتے تو ایسے نیک لوگوں کی معیت میں ضرور داخل ہو سکتے ہیں جن کے متعلق خدا کا عمومی فیصلہ رحم اور فضل کا ہے.بحیثیت جماعت جن کو اللہ پیار کی نظر سے دیکھتا

Page 493

خطبات طاہر جلد ۶ 489 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء ہے اور جن کے متعلق آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق خدا تعالی کا یہ فیصلہ ہے کہ جو ایسے لوگوں کی معیت میں بھی ہوان کو بھی خدا اپنے فضل اور برکتوں سے محروم نہیں کرتا.پس یہاں ایسی جماعت مراد ہے جو خد اوالی جماعت ہے، ایسی جماعت مراد ہے جس نے اللہ کی رسی پہ مضبوطی سے ہاتھ پکڑا ہوا ہے.فرمایا تم بھی شامل ہوتے چلے جاؤ اس جماعت کی برکت سے خدا تمہیں نہیں مرنے دے گا جب تک کہ خدا کی نظر میں تم مسلمان نہیں ہو چکے ہو گے.حبل اللہ کیا ہے؟ حبل اللہ کی مختلف رنگ میں تفسیر کی گئی ہے.مختلف پرانے مفسرین نے مختلف زاویوں سے اس کو سمجھا دیکھا پر کھا اور بالعموم سب کی نظر اس بات پر گئی کہ حبل اللہ یا تو وہ کتاب ہے، وہ وحی ہے جو آسمان سے نازل ہوتی ہے یا وہ رسول ہے جس پر وہ وحی نازل ہوتی ہے.اس کے سوا آسمان سے تو ہم نے کوئی رسی اترتی نہیں دیکھی جس کے اوپر ہم ہاتھ ڈال دیں اور یہ سمجھیں کہ ہم محفوظ ہو گئے ہیں.تو دراصل یہ دو باتیں ہیں ہی نہیں.رسالت ہی حبل اللہ ہے.اللہ کا رسول اس تعلیم سے رسول بنتا ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے اس تعلیم کے سوا اس کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہتی اس لئے رسالت اور وحی اور کتاب کو الگ الگ کیا ہی نہیں جاسکتا.پس حبل اللہ سے مراد خدا تعالیٰ کا بھیجا ہوا اس کا پیغمبر، اس کا رسول ہے اور اس کی اطاعت میں داخل ہو جانا، اس کی بیعت میں داخل ہو جانا، اس کی غلامی کا دم بھرنا اور یہ کوشش کرتے رہنا کہ اس کی اطاعت سے باہر نہ جایا جائے یہی وہ حبل اللہ ہے جس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ فرمایا گیا ہے لیکن یہ حبل اللہ انبیاء کی وفات کے بعد بھی جاری رہتی ہے اور بعض صورتوں میں سب سے اعلیٰ شکل میں نبوت کے بعد خلافت کی صورت میں ملتی ہے اور اس کے بعد اگر خلافت نہ ہو تو پھر مجددیت ہے یا اور خدا تعالیٰ کے ایسے بزرگ اور اولیاء امتوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کے ساتھ تعلق جوڑ نا گویا ایک رنگ میں حبل اللہ سے تعلق جوڑنے کے مترادف سمجھا جاتا ہے.چنانچہ اسی حبل اللہ کا ذکر کر کے فرمایا ہے، اس کی تشریح میں فرمایا ہے:.وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءِ فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوْبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا یاد کرو اس وقت کو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، جب بھائی بھی بھائی کا دشمن تھا، جب قبیلہ قبیلے کا دشمن تھا اور سارا عرب ایک دوسرے کی دشمنی سے پھٹا ہوا

Page 494

خطبات طاہر جلد 4 490 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء تھا.فرمایا محمد مصطفی یہ تشریف لائے اور خدا نے ایسا کیا کہ تمہارے دلوں کو محبت کے مضبوط بندھنوں سے باندھ دیا فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِةِ اِخْوَانًا اسی کی نعمت سے یعنی اللہ کی نعمت سے تم بھائی بھائی بن گئے.یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے کیونکہ اتمام نعمت ہی کا مطلب نبوت ہے.آپ قرآن کریم کا مطالعہ کر کے دیکھیں ہر جگہ نعمت کے کمال تک پہنچے کا نام ہی نبوت ہے.تو یہاں نعمت ہی میں حضرت محمد مصطفی ﷺ اور نبوت کا ذکر فرمایا گیا ہے اور واقعہ بھی یہی ہے کہ آنحضرت ﷺ کی نبوت ہی کی برکت تھی جس کے نتیجے میں اللہ نے ان پر فضل فرمایا.دلوں کو خدا باندھتا ہے دلوں کو انسان نہیں باندھتا.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے دوسری جگہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر جو کچھ زمین میں ہے تو خرچ کر دیتا تب بھی ان کے دلوں کو باندھ نہ سکتا یعنی آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط نہ کر سکتا.یہ اللہ ہی ہے جس کا دلوں پر تصرف ہے اور جس نے دلوں کو جوڑا ہے.لیکن کس ذریعہ سے وہ سیمنٹ کیا تھا؟ وہ جوڑنے والا مادہ کیا تھا؟ فرمایا بنعمة نبوت کے ذریعے محمد مصطفی مے کی برکتوں کے ذریعے تمہیں باندھ دیا گیا ہے.وَكُنتُم عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ تم آگ سے بھرے ہوئے گڑھے کے کنارے پر کھڑے تھے فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تمہیں اُس سے خدا تعالیٰ نے نجات بخشی اور اس طرح خدا تعالیٰ کھول کھول کر اپنے نشان بیان فرماتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ.اب یہ مضمون شروع ہوا تھا تقویٰ سے اور حق تقیہ سے کہ تقویٰ کا حق ادا کرو اور اس دوسری آیت کے آخر پر فرمایا ہے کہ جو کچھ ہم نے بیان کیا ہے یہ کسی آیت کو کسی مضمون کو کھول دیا ہے تمہارے لئے.پس دراصل یہ تقویٰ کا ہی مضمون ہے جسے کھولا گیا ہے اور پہلی آیت میں جو کچھ ہدایت دی گئیں تھیں اس کی تفصیل ہے جو دوسری آیت میں بیان فرمائی گئی ہے.پس وہ لوگ جو فی الحقیقت تقویٰ کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ وہ متحد ہو جائیں اور خدا کی رسی پر اس مضبوطی سے ہاتھ ڈال دیں گے کہ کسی قیمت پر بھی وہ اس رسی کو چھوڑ نا قبول نہ کریں.قرآن کریم میں دوسری جگہ اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا کہ عروہ وثقی پر ان کا ہاتھ پڑ گیا لا انفِصَامَ لَهَا ( البقرہ: ۲۵۷) اب اس عروہ سے وہ ہاتھ الگ کیا ہی نہیں جا سکتا.کوئی کاٹ دے تو کاٹ دے مگر وہ ہاتھ نہیں چھوڑے گا اس عروہ کو.پس اللہ کی راہ میں شہید ہونے والے

Page 495

خطبات طاہر جلد ۶ 491 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۷ء جن کو ارتداد کے لئے مجبور کیا جاتا ہے اور اس راہ میں جان دیتے ہیں یہ انہیں کا نقشہ کھینچا گیا ہے.بہر حال انسان چونکہ کمزور ہے اُسکے زندگی کے مختلف لمحے ایسے آتے ہیں اور ہر انسان کی زندگی میں بعید نہیں کہ ہر روز ایسے لمحے آتے ہوں جو تقویٰ کی حفاظت سے باہر ہوں.لاعلمی کے نادانی کے غفلتوں کے، اپنی طبعی چاہتوں سے مجبور ہو جانے کے لمحے ، بہت سی کمزوریاں ہیں جن کے نتیجے میں انسان زندگی میں بار ہا تقویٰ سے باہر قدم رکھ دیتا ہے.جو نیک لوگ ہیں وہ قدم واپس لے لیتے ہیں پھر کوشش کرتے ہیں کہ باہر نہ جائیں، جن کا رجحان بدی کی طرف مائل ہے ان کے اکثر قدم باہر رہتے ہیں کبھی کبھی وہ تقویٰ کی حفاظت میں بھی آجاتے ہیں.اس لئے یہ کہنا بہت ہی مشکل ہے کہ ہم میں سے اکثریت وہ ہے جو اس آیت کے مضمون پر پورا اتر رہی ہے کہ لَا تَمُوتُنَّ وَاَنْتُمْ مسْلِمُونَ.مرنا نہیں جب تک مسلمان نہ ہو.اس کا علاج ہے جو یہ بتایا گیا ہے کہ اس خدا تعالیٰ نے جو تمہارے لئے وحدت کی زندگی پیدا فرما دی تفرقے میں سے ایک وحدت کو تخلیق فرمایا، یعنی نبوت کے ذریعے اور خلافت کے ذریعے اس وحدت کی حفاظت کا انتظام فرما دیا تم اس میں شامل رہنا.اُس اجتماع میں اگر تم شامل رہو گے اور یہ فیصلہ کر لو گے اس سے ہمیں باہر نہیں جانا، کسی قیمت پر بھی اس اجتماعیت کے تقاضوں کو نظر انداز نہیں کرنا تو گویا خدا یہ وعدہ فرماتا ہے کہ تم سے یہ رحمت کا سلوک فرمائے گا کہ تمہیں ان لمحوں میں وفات دے گا جب خدا تم سے پیار کر رہا ہو گا.ایسے لمحے تو بعض بدوں پر بھی آجاتے ہیں کہ ان کے دل سے ایک نیکی کا چشمہ پھوٹتا ہے گو وہ لمبا عرصہ جاری رہنے والا چشمہ نہیں ہوتا لیکن بعض دفعہ یک لخت جیسا کہ خدا فرماتا ہے پتھروں میں سے بھی چشمے پھوٹ پڑتے ہیں.سخت دل لوگ جو گناہوں میں مبتلارہ کر اپنی تمام نرم حالتوں سے محروم رہ چکے ہوتے ہیں ان کے دل میں سختی سختی رہ جاتی ہے، اچانک کسی ایک گوشے سے کسی ایک دبے ہوئے جس طرح بلبلہ ساد با ہوا ہوتا ہے اس طرح بعض پتھروں میں بھی پانی کے بلبلے باقی رہ جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رگیں ہیں کچھ ایسی نیکی کی جو پھوٹتی ہیں اچانک اور ان سے تم چشمے بہتے ہوئے دیکھو گے.اسی طرح ہر بد کو بعض دفعہ نیک لمحوں کی بھی توفیق نصیب ہوتی ہے اور بڑے وہ خوش نصیب ہو گا جو ان لمحوں میں وفات پا جائے اور اسی طرح بہت سے ایسے نیک ہیں جو خواہ نیکی میں کتنا ہی ترقی کر چکے ہوں ان کو بعض بدلمحوں کی بدنصیبی بھی نصیب ہوتی ہے اور بعید نہیں کہ ان لمحوں میں وہ وفات

Page 496

خطبات طاہر جلد ۶ 492 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء پا جائیں.اس سے حفاظت کا کیا طریق ہے وہ یہی ہے فرمایا خدا کی رسی پہ ہاتھ ڈالے رکھنا اللہ تم سے رحم کا سلوک فرمائے گا اور جو جماعت کے حق میں فیصلہ ہے وہ انفرادی طور پر تمہارے حق میں لکھا جائے گا.جس جماعت سے تم وابستہ تھے اگر اجتماعی طور پر وہ متقی ہے اگر اجتماعی طور پر خدا کے نزدیک وہ مسلمان ہے تو جب تک خدا کی تحریر میں وہ جماعت مسلمان ہے تمہارا انفرادی طور پر مرنا بھی مسلمان کے طور پر مرنا شمار کیا جائے گا.پس جولوگ جماعت کے ساتھ بغاوت کر کے باہر نکلتے ہیں اور پیچھے ہٹ جاتے ہیں ان کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کتنی خطرناک غلطی کرتے ہیں، زندگی کی سب سے خطرناک غلطی ہے.وہ خدا کی حفاظت سے باہر چلے جاتے ہیں پھر ان سے وعدہ نہیں ہے کوئی ، ان کی موت کا پھر کوئی اعتبار نہیں کہ کس حالت میں آئے.اس لئے بہت ہی بڑی اہم بات ہے کہ جماعت متفق اور متحد رہے.اور جب ہم خلافت کہتے ہیں تو مراد سارا نظام جماعت ہے اس کو آپ خلافت سے الگ نہیں کر سکتے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا : من عصی امیری فقد عصانی.جس نے میرے امیر کی ، میرے مقرر کردہ امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی و من عصاني فقد عصى الله.جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی (مسلم کتاب الامارۃ حدیث نمبر : ۳۴۱۸).یہی وہ حبل اللہ کا منفی مضمون ہے جو بیان ہو رہا ہے وہی رستہ ہے جس کی آنحضرت ﷺ نے وضاحت فرمائی ہے کہ خدا کے بعد حبل اللہ تو میں ہوں اور یہ حبل اللہ تم پر ان لوگوں کی ذریعے پہنچے گی جن کو میں نے مقرر فرمایا ہے یا جو میری یا جو میری نیابت کر رہے ہیں.پس اگر وہاں تم نے ان سے بے ادبی کا سلوک کیا اور ان کی نافرمانی کی تو یہ سمجھنا کہ تم نے میری کی اور جو میری نافرمانی کرتا ہے وہ خدا کی اطاعت سے یقیناً باہر ہوتا ہے.اس لئے نظام جماعت کے ساتھ وابستہ رہنا اور ادب اور اطاعت کے ساتھ وابستہ رہنا بہت ہی اہم ہے اور ایک اور پہلو سے بھی اہم ہے کہ وہ لوگ جو حبل اللہ کو چھوڑ نا شروع کر دیتے ہیں اور جماعت میں رہتے ہوئے بظاہر ایسے حرکتیں شروع کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں نظام جماعت کا رعب کم ہو جاتا ہے، اس کی وقعت کم ہونے لگ جاتی ہے، لوگ اسے تخفیف سے دیکھنے لگ جاتے ہیں.وہ صرف اپنی ہلاکت کا موجب نہیں بنتے بلکہ اردگرد اپنے ماحول میں دوسروں کی ہلاکت کا بھی موجب بن جاتے ہیں اور بالعموم ایسی جماعتوں میں پھر افتراق کا رجحان شروع ہو جاتا ہے، پارٹی

Page 497

خطبات طاہر جلد ۶ 493 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۷ء بازی شروع ہو جاتی ہے اور ایسی جماعت برکتوں سے محروم رہ جاتی ہے.چنانچہ وہ برکتیں جو اجتماعیت کے نتیجے میں نصیب ہوتی ہیں ان کا ذکر اس سے اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے اور اس کو پڑھ کر اس پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ یہاں جہاں فرمایا گیا ہے یعنی تیسری آیت میں اس میں دراصل یہ مضمون مکمل فرما دیا گیا ہے جس کا آغاز ہوا تھا.ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ حَقَّ تُقَتِہ سے فرمایا: - وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ) کہ تم وہ لوگ ہو جو اللہ کی طرف بلانے والے بن گئے ہو، جب تک تم اکٹھے نہ ہو تم اس بات کے اہل نہیں ہو کہ لوگوں کو خدا کی طرف بلاؤ، نیکیوں کی طرف متوجہ کرو اور بدیوں سے باز رکھو.خدا کی طرف بلا نا عملاً انہی دو پہلوؤں پر مشتمل ہے.خدا کی طرف سے آنے والا یہی دو کام کرتا ہے.نیکیوں کی تعلیم دیتا ہے، بدیوں سے روکتا ہے لیکن اس کا حق تب قائم ہوتا ہے جب خدا کی رسی پر ہاتھ ڈالا ہو.خدا کی رسی پر ہاتھ ڈالنے سے مراد، حبل اللہ پر ہاتھ ڈالنے سے دوسری مراد یہ ہے کہ اس کا خدا سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے.جس طرح ایک تار برقی سے ایک بلب کا تعلق ہو جاتا ہے تو وہ روشن ہو جاتا ہے.اس میں اس تار کے اندر دوڑنے والی قوتوں کے آثار ظا ہر ہو جاتے ہیں.تو فرماتا ہے اگر تم حبل اللہ کو پکڑ لو گے تو تمہارے اندر بھی الہی صفات کے آثار ظاہر ہوں گے اور تم اس قابل ہو جاؤ گے پھر کہ لوگوں کو نیکی کی تعلیم دو اور ان کو بدی سے روکو.وَ أُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ اس طرح خدمت دین کرنے والے ، اس طرح لوگوں کو نیکیوں کی طرف بلانے والے اور بدیوں سے باز رکھنے والے یقیناً کامیاب ہوتے ہیں.میرا عمومی تجربہ یہ ہے کہ جن جماعتوں میں وحدت ہے وہاں برکت ہے، وہاں ان کی باتوں میں اثر ہے.وہ اپنے ماحول کی اصلاح کے اہل ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وحدت کے نتیجے میں بے شمار برکتیں ان کو نصیب ہوتی ہیں.ان کی دعوت الی اللہ بھی قبول کی جاتی ہے لیکن جہاں جماعتوں میں اختلاف ہے وہاں کوئی بھی برکت باقی نہیں رہتی.نحوست پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے

Page 498

خطبات طاہر جلد ۶ 494 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء بلکہ بعض اوقات ایسے دور میں جبکہ باقی جماعتوں کے لئے ابتلا کا دور ہوتا ہے اور بڑا ہی عظیم الشان ابتلا کا دور ہوتا ہے.ان جماعتوں سے سلوک میں کچھ سزا کا رنگ بھی آجاتا ہے.وہ ان کی اپنی ناچاقی کی نحوستیں ہیں جو اس ابتلا کے دور میں خدا کی سزا کو کھینچنے لگ جاتی ہیں.چنانچہ آپ اگر آفاقی نظر سے جائزہ لیں حالات کا تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جہاں خدا تعالیٰ نے اتحاد عطا فرمایا ہے جماعت کو اور جہاں حبل اللہ کو جماعت نے مضبوطی سے پکڑا ہوا ہے وہاں اللہ تعالی غیر معمولی حفاظت کے سامان فرماتا ہے اور وہاں ان لوگوں سے کچھ اور سلوک ہو رہا ہوتا ہے خدا کا ان جماعتوں کی نسبت جو ہیں تو محدود چند لیکن اس پہلو سے بڑے نمایاں ہیں کہ سفید کپڑے پہ داغ کی طرح ہیں اور انہوں نے وحدت کو چھوڑ دیا ہے.اس مضمون پہ پہلے بھی میں کئی دفعہ توجہ دلا چکا ہوں لیکن یہ مضمون اتنا اہم ہے کہ بار بار آپ کے سامنے لایا جانا چاہئے.میں نے دیکھا ہے جب کسی مضمون پر خطبہ دیا جاتا ہے تو اللہ تعالی کے فضل سے چونکہ جماعت متقیوں کی جماعت ہے اسی لئے میں نے کہا کہ جماعت سے وابستہ ہوں گے تو آپ پر جماعت کا لیبل (Lable) لگ جائے گا، یہی مضمون ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے.چونکہ جماعت متقیوں کی جماعت ہے.اس لئے بڑی تیزی کے ساتھ اصلاح کی طرف مائل ہوتی ہے.حیرت انگیز طور پر دل و جان کے ساتھ پوری محنت اور توجہ کے ساتھ کوشش کرتی ہے کہ ہر بات جو خلیفہ کے منہ سے نکلے اسے پورا کرے.یہ جو غیر معمولی خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے اندر اخلاص اور ایمان کو پیدا فرمایا اور پھر اس اعلی درجے تک پہنچا دیا، یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اعجاز یہ پیشگوئی پوری ہوئی ہے جس میں آنحضرت ﷺ نے فرمایا تھا کہ اگر ریا پبھی ایمان چلا گیا تو ان میں سے ایک شخص ہوگا ایک عظیم انسان ہو گا جو اسے واپس لے آئے گا ( بخاری کتاب تفسیر القران حدیث نمبر: ۴۵۱۸).پس یہ جو عظیم الشان ایمان کا مظاہرہ آپ دیکھ رہے ہیں جماعت میں اور اخلاص کا اور محبت کا اور اطاعت کا اور ادب کا یہ سب وہی در اصل حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی و عملا پورا ہوتے دیکھنا ہے.بہر حال میرا یہ تجربہ ہے کہ جب بھی توجہ دلائی جائے پھر جماعت فوراً توجہ کرتی ہے لیکن انسان کمزور ہے اور یہی توقع بھی رکھی جاتی ہے کہ بعض دفعہ ، کچھ عرصے کے بعد پھر بعض لوگ ان مقامات سے گرنے لگتے ہیں جہاں تک وہ پہلے ترقی کر کے پہنچتے ہیں اور بار بار بعض لوگوں کو توجہ دلانی

Page 499

خطبات طاہر جلد ۶ 495 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء پڑتی ہے.کچھ کمزور ہیں، کچھ دنیا میں پڑ کے غافل ہو جاتے ہیں.بعض جگہ نئے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں.نے قسم کے جذبات سے مغلوب ہو کر لوگ اپنے آپے میں نہیں رہتے اور پھر اختلافات کا بیج بو دیتے ہیں.تو یہ وہ اہم مضمون ہے جس کی طرف بار بار وقتاً فوقتاً توجہ دلائی جانی چاہئے.خصوصیت سے نئے آنے والے دور سے پہلے تو ہمیں بالا رادہ غیر معمولی کوشش کر کے جہاں بھی ہم نے اپنے اتحاد کو کھویا ہے اپنے کھوئے ہوئے اتحاد کو واپس لینا چاہئے.بالعموم یہ دیکھا گیا ہے کہ اتحاد کو پارہ پارہ کرنے والے بعض افراد ہوتے ہیں.ان کے مزاج میں بعض دفعہ تختی پائی جاتی ہے، بعض دفعہ خود غرضی پائی جاتی ہے، بعض دفعہ ذہنی سطح اتنی نیچے ہوتی ہے کہ وہ دوسرے کو دیکھتے ہیں تو اس کی برائیاں نظر آ رہی ہوتی ہیں جب اُنہی حالات میں سے خود گزرتے ہیں تو ان کی نظر اپنے حالات کا جائزہ لینے کی اہل نہیں رہتی.اس لئے ان کو ہر برائی دور دکھائی دیتی ہے اور یہ نظر جو ہے یہ ایسی کمزور نہیں کہ نزدیک کی چیز کو دیکھ ہی نہ سکے ، ان کو ہر خوبی اپنے اندر دکھائی دے رہی ہوتی ہے یعنی یہ ایک عجیب قسم کا بھینگا پن ہے نظر کا اور بیک وقت دور کی نظر بھی خراب ہے اور نزدیک کی بھی اور بیک وقت دور کی نظر بھی ٹھیک ہے اور نزدیک کی بھی.تو یہ جو تضاد ہے اس تضاد کے نتیجے میں بالعموم فساد پیدا ہوتے ہیں.کسی اور سے اور توقع ہے اپنے ساتھ سلوک کرنے میں اور جب خود سلوک کرتے ہیں اس سے تو اس توقع کے بالکل برعکس کررہے ہوتے ہیں.لیکن ان میں بھی پھر مختلف لوگ ہیں جو ان میں سے نسبتا زیادہ خدا کا خوف کرنے والے ہیں جب ان کو ڈانٹا ڈ پٹا جائے ان کو سمجھانے کی کوشش کی جائے تو وہ پھر رک بھی جاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو کنارے تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن آگ میں گرنا کسی قیمت برداشت نہیں کرتے.جب ان کو یہ کہا جائے بالآخر کہ بہت اچھا اگر آپ اس ضد پر قائم رہیں گے تو جماعت سے باہر چلے جائیں.اس وقت پھر وہ واپس آجاتے ہیں اور یہ اللہ کی نعمت ہے جس کے نتیجے میں ان کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے ور نہ انسانی کوششوں سے وہ واپس آنے والے نہیں ہوتے لیکن بد قسمتی یہ ضرور ہے کہ شَفَا حُفْرَةٍ ضرور دیکھنا ہے.اس کنارے کو ضرور پہنچنا ہے جہاں پہلے وہ آگ میں گرنے والے تھے جہاں سے خدا نے ان کو بچایا تھا دوبارہ آگ میں جھانکنا ان کے مقدر میں لکھا ہوتا ہے.کچھ ایسے ہیں جو بالکل پرواہ نہیں کرتے خدا کی نعمت کا انکار کرنے والے ہیں اور اسی لئے آیت استخلاف میں ایسے لوگوں کے

Page 500

خطبات طاہر جلد ۶ 496 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء لئے جو کفران کا لفظ استعمال فرمایا ہے وہ ناشکری کرنے والے ہیں اور ان لوگوں کو فاسق قرار دیا گیا.تو بہر حال یہ وہ لوگ ہیں جو پھر اس کنارے سے گر بھی جاتے ہیں لیکن بہت کم ہیں.پھر بعض گرنے کے بعد جلنے سے پہلے واپس آنے کی کوشش کرتے ہیں اور اکثر صورتوں میں جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے مقام پر فائز ہے کہ گنتی کے چند افراد کے سوا جو بہت ہی بدنصیب ہوتے ہیں ، اکثر خدا کے فضل سے کچھ ویسے ہی بچ جاتے ہیں کچھ ٹھو کر میں کھا کر بچ جاتے ہیں، کچھ کنارے سے واپس لوٹ آتے ہیں، کچھ گرنے کے بعد ہاتھ بڑھا کرتے ہیں، اونچا کرتے ہیں کہ ہمیں نکال لو، ہم سے غلطی ہو گئی.لیکن اور بھی بہت سے اس میں محرکات ہیں اور موجبات ہیں جن کے نتیجے میں جماعت میں اختلافات پیدا ہوتے ہیں.جہاں تک بیرونی جماعتوں کا تعلق ہے تربیت کی کمی ، نظامِ جماعت سے ناواقفیت اور اسی قسم کے اور بہت سے عوامل ہیں.ابھی کچھ عرصہ ہوا ایک نائجیرین ٹیلی ویژن والے انٹرویو لے رہے تھے انہوں نے جب مجھ سے وہاں کے حالات کے متعلق پوچھا تو وہاں کے حالات میں ایک اور بھی وجہ میرے سامنے آئی جو میں نے ان کے سامنے بیان کی کہ دراصل تم لوگ ایک لمبے عرصے سے عیسائیت اور استعماریت کے درمیان فرق نہ کرنے کی وجہ سے بظاہر ایک پہلو سے ان سے وصول کر رہے تھے اور ایک پہلو سے تم سے سب کچھ چھینا جا رہا تھا.اب تمہیں ہوش آئی ہے کہ ہمارے ساتھ کچھ ہو گیا ہے.بظاہر عیسائیت کے نام پر ہمیں نعمتیں دینے آئے تھے لیکن روحانی نعمتیں دینے کے بہانے ہماری ساری جسمانی دولتیں لوٹ کے چلے گئے.اس لئے تم ہر آنے والے کو ، باہر سے آنے والے کو اب شک کی نگاہ سے دیکھنے لگ گئے ہو لیکن تم یہ فرق نہیں کرتے کہ جماعت احمد یہ ستر سال سے تمہارے ملکوں میں کام کر رہی ہے لیکن اس ستر سال میں ایک آنہ بھی تمہارے ملک سے باہر لے کے نہیں گئی.وہ صرف روحانیت دینے نہیں آئی بلکہ جسمانی لحاظ سے بھی تمہاری حالت بہتر بنانے آئی ہے اور باہر سے روپیہ تمہارے ملکوں میں پھینک رہی ہے.تو کم سے کم اتنی ہوش تو کرو کہ کسی اور سے سزا پا کر اس کی سزا ہمیں نہ دو.پنجابی کا ایک محاورہ ہے کہ گدھے سے گرا اور کمہار کو مارنا شروع کر دیا.جس گدھے سے گرے ہو اس کو بے شک مارو لیکن ہم تو وہ نہیں ہیں.بہر حال وہ بات سمجھ گئے اور وہ پوری طرح مطمئن ہو گئے اصل صورتحال ان کو معلوم ہو گئی.تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض قوموں میں بعض

Page 501

خطبات طاہر جلد ۶ 497 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۷ء نفسیاتی اور سیاسی پس منظر ہیں جن کے نتیجے میں وہ آمادہ ہو جاتی ہیں طبعا کہ وہ کسی بیرونی آمر جس کو وہ مجھتی ہیں یعنی حکم دینے والا ، در اصل امیر جو ہے وہ تو اپنا حکم نہیں دیتا وہ خدا کا حکم دینے والا ہوتا ہے لیکن اس بار یک فرق کو تو باہر والے لوگ نہیں دیکھ سکتے.چنانچہ بہر حال وہ اس وجہ سے امیر کو آمر سمجھنے لگ جاتی ہیں اور جب وہ حکمت کے تقاضوں کو چھوڑ کر ان کو بعض احکامات کی پیروی پہ مجبور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو وہ بدک جاتی ہیں ، بھاگ جاتی ہیں.پھر آہستہ آہستہ اس کے فیصلوں کے اوپر کڑی نکتہ چینی شروع ہو جاتی ہے کہ تمہارا یہ فیصلہ غلط ہے وہ فیصلہ غلط ہے.بہر حال یہ ایک لمبی کہانی ہے اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.میں اس وقت آپ کے سامنے خصوصیت کے ساتھ اب یہ بات رکھنا چاہتا ہوں کہ ہر جگہ افراد کا قصور نہیں ہوا کرتا بعض دفعہ امراء کا بھی قصور ہوتا ہے اور اگر افراد کا قصور ہو بھی تب بھی اس قصور کے زیادہ بھیانک نتیجے امراء کے قصور کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں.اس لئے یہ جو بقیہ عرصہ ہے اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے اس میں میں امراء کو تنبیہ کرنے کے لئے آج یہ خطبہ دے رہا ہوں، تمام دنیا کے امراء جن کے سپر د جماعتوں کی باگ ڈور کی گئی ہے.افریقہ کے ممالک میں میرا تجربہ ہے اور میں نے گزشتہ فائلوں کا مطالعہ کر کے بھی دیکھا ہے کہ اگرچہ بظا ہر غلطی کا آغاز ایک بغاوت کی شکل میں بعض افراد سے اور بعض افراد کے گروہوں سے شروع ہوالیکن عملاً اگر امیر متقی ہوتا اور ان کو ان کے حقوق بتاتا اور یہ بتاتا کہ اگر ان کو کوئی تکلیف ہے یا کوئی اختلاف ہے تو اسے کس طرح حل کرنا چاہئے تو ان سے لاعلمی میں وہ حرکتیں سرزد نہ ہوتیں جن کے نتیجے میں وہ جماعت سے باہر نکالے گئے.اگر امیر کو یہ احساس ہوتا کہ میں تو ان بھیٹروں پر نگران ہوں اور گڈریا ہوں ، بھیڑوں کا مالک نہیں ہوں.ایک بھی بھیڑر ضائع ہو گئی تو حضرت محمد مصطفی امی ہے جن کی وساطت سے مجھے یہ امارت نصیب ہوئی ہے، جن کی عطا سے کہنا چاہئے مجھے امارت نصیب ہوئی ہے میں ان کے سامنے جوابدہ ہوں اور وہ میرے نگران ہیں اور بالآخر میں خدا کے سامنے جواب دہ ہوں.اس لئے وہ امیر جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے ہر فرد کا درد رکھتا ہے وہ آسانی سے یہ بات ہونے ہی نہیں دیتا کہ کوئی انسان آگ کے کنارے تک پہنچ جائے.حتی المقدور کوشش کرتا ہے محبت اور پیار سے سمجھا کر کہ کسی طرح ایک ایسا شخص جو غلہ انہی کا شکار

Page 502

خطبات طاہر جلد ۶ 498 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء ہوتا چلا جا رہا ہے یا انانیت کا شکار ہو رہا ہے ، اس کی اصلاح کرے، اس سے محبت اور پیار کا سلوک کرے، اسے سمجھائے اور بالعموم ایسے امراء جو در درکھتے ہیں جماعت کا جو برداشت نہیں کر سکتے کہ ایک احمدی بھی ضائع ہو ان کے ہاں اتحاد کی اور شکل ہوتی ہے اور وہ امراء جو بے حس ہوں اس معاملے میں ان کے ہاں اتحاد کی اور شکل ہوتی ہے.پھر امیر اور عام صدر میں ایک فرق ہے.عموما صدر تو لوگ خود بناتے ہیں لیکن امیر مقرر کیا جاتا ہے.اس لئے اگر صدر غلطی کرے تو لوگوں کے انتخاب کی وجہ سے وہ اس کی ذمہ داری چھوٹی ہوتی ہے.اس نے گویا ان کے انتخاب کو جھوٹا کر دکھایا لیکن جب امیر غلطی کرتا ہے تو وہ خلیفہ وقت کا نمائندہ ہوتا ہے.وہ خلیفہ وقت کے اعتماد کو ٹھوکر لگاتا ہے اور اس کی غلطی کے نتیجے میں جو گناہ سرزد ہوتا ہے وہ اس معاملے میں بہت زیادہ باز پرس کا اہل ہوتا ہے بنسبت ایک عام صدر کی غلطی کے.کا پھر امیر بھی دو قسم کے ہیں.ایک وہ امیر ہیں جن کو لوگ منتخب کرتے ہیں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ ہمارا مشورہ ہے چاہیں تو قبول کریں چاہیں تو نہ قبول کریں.آپ جس کو چاہیں مقرر کر دیں گے ہم اسے قبول کریں گے لیکن آپ نے مشورہ مانگا ہے تو ہم یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اس کو یا اس کو یا دو تین آدمیوں کے نام لیتے ہیں کہ ان میں سے کسی ایک کو منتخب کر لو.آخر وہ انتخاب خلیفہ وقت کا ہی ہوتا ہے لیکن اس میں ایک حصہ لوگوں کے مشورے کا بھی شامل ہو جاتا ہے لیکن بعض امراء ایسے ہیں جو سلسلے کے کارکن جو غیر ملکوں میں جا کر امیر بنائے جاتے ہیں، ان کی امارت میں مقامی لوگوں کی مرضی کا کوئی بھی دخل نہیں ہوتا.کلیہ باہر سے ہی ان کو حکم ملتا ہے.اب ایسی حالت میں آپ اندازہ کریں کہ ان جماعتوں کے اخلاص کا کیا حال ہو گا جن کے اندر عام دنیا میں یہ خیالات بیدار ہوتے چلے جارہے ہیں اور باہر سے متفرق حرکات ان کو اور حوصلہ دے رہی ہیں کہ غیر قوموں کی اطاعت سے باہر نکلو.ہر شخص جو باہر سے آتا ہے وہ چور ہوتا ہے، ہر وہ شخص جو باہر سے آتا ہے وہ تم پر حکومت جتانا چاہتا ہے.اس کے باوجود وہ ایسے امیر سے بالعموم بہت تعاون کرتے ہیں اور ایسے امیر کی اطاعت کرتے ہیں اس کا ہر حکم مانتے ہیں.ان کے اخلاص کا اندازہ کریں اور پھر ایک ایسے امیر کا تصور باندھیں جو اس اخلاص کے باوجود ان کو ہاتھ سے کھوتا چلا جاتا ہے اور اپنے اعتماد کو بار بار ٹھوکر لگا تا ہے.اپنی امارت جتانے کا اس کو زیادہ شوق ہوتا ہے بنسبت اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت

Page 503

خطبات طاہر جلد ۶ 499 خطبہ جمعہ ۲۴ / جولائی ۱۹۸۷ء سے کوئی شخص اپنا تعلق توڑ کے باہر جارہا ہے اور جھگڑا ہی ہر وقت اس کے ذہن میں یہ ہوتا ہے کہ کسی طرح میں اپنی امارت جتاؤں، ثابت کر کے دکھاؤں کہ میں امیر ہوں.امارت کے آداب سکھانا اس کا فرض ہے ، ضروری ہے اس کے لئے کہ ان کی تربیت کرے اور جماعت کے عالمی نظام کا ایک جزو لا ینفک بنادے لیکن امارت جتا کر نہیں بلکہ محبت کے ساتھ اپنی امارت کو ان کے دلوں پر حاوی کر کے.یہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں.اعلیٰ درجے کے امراء ، جو جماعت میں پیدا ہوئے اور ابھی بھی ہیں اور آگے آئندہ بھی خدا کے فضل سے پیدا ہوتے رہیں گے، ان کے ہاں آپ کو کہیں بھی امارت جتانے کا کوئی لمحہ دکھائی نہیں دے گا.وہاں تو یہ شکل بنتی ہے کہ اپنے احکامات کو حکم کہنے سے وہ شرماتے ہیں یوں لگتا ہے جس طرح بھائی سے ایک عاجزانہ درخواست کر رہے ہیں لیکن آگے ان کی امارت میں شامل احمدیوں کا حال یہ ہوتا ہے کہ وہ اشاروں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جدھر اشارہ کرے وہاں آگے بڑھ کر ہم ان کی اطاعت میں اعلیٰ جو ہر دکھائیں.یہ ہے وہ مضمون جس کو قرآن کریم میں بیان فرمایا کہ تم اِخْوَانًا ہو گئے تم بھائی بھائی بن گئے.پس جو امیر جماعت کو بھائی بھائی نہیں بناتا یا بھائی بھائی بنانے کی کوشش نہیں کرتا یا یوں کہنا چاہئے کہ مقدور بھر کوشش نہیں کرتا وہ یقیناً خدا تعالیٰ کے ہاں پوچھا جائے گا.ہم ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جہاں ہماری ذمہ داریاں بہت تیزی سے پھیلنے والی ہیں.بالکل ایک نیا دور آنے والا ہے جماعت کے لئے.بہت تیز رفتاری پیدا ہونے والی ہے ہماری ترقیات میں.بہت نئے رستے ہیں جو خدا کی طرف سے اب کھولے جا رہے ہیں جن کے اندر جب خدا کی تقدیر کی کنجیاں گونجتی ہیں تو میں ان کی آواز سن رہا ہوتا ہوں.ایسے رستے ہیں جو خدا دکھا رہا ہے کہ اب اس ملک میں بھی میں تمہارے لئے سامان پیدا فرما رہا ہوں، اس ملک میں بھی تمہارے لئے سامان پیدا فرما رہا ہوں.وہ کون لوگ ہیں جو ان ذمہ داریوں کو سنبھالیں گے؟ آج کی امارتیں ہی ہیں جنہوں نے آگے امیر بننے کی صلاحیتیں پیدا کرنی ہیں، جنہوں نے قوموں کو لیڈ ر عطا کرنے ہیں اگر امیر اپنی ذمہ داریوں کو پورا نہیں کر سکیں گے اور جماعتیں افتراق کا شکار رہیں گی تو کیسے وہ لوگ پیدا ہوں گے جنہوں نے تمام عالم کو ایک امت واحدہ میں تبدیل کر دینا ہے.اس لئے چونکہ امتِ واحدہ بننے کے آثار ظاہر ہو رہے ہیں اور وقت قریب آتا جارہا ہے.اس لئے بہت ہی زیادہ ضرورت

Page 504

خطبات طاہر جلد ۶ 500 خطبہ جمعہ ۲۴ ؍ جولائی ۱۹۸۷ء ہے کہ ہر کوشش کریں، ہر جتن کریں کہ ہمارے تمام اختلافات مٹ جائیں اور جماعت امت واحدہ بن کر اُبھرے تا کہ ہم اگلی صدی میں ایک قوم کے طور پر، ایک ایسی جماعت کے طور پر داخل ہوں جن میں سے ایک جماعت کا تقویٰ ہر فرد کے اوپر مہر بن جائے، ہر فرد جو اس جماعت میں داخل ہواس پر خدا تعالیٰ کے فرشتے تقویٰ کی مہریں لگا رہے ہوں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ میں توجہ دلا رہا ہوں کہ ابھی تک گزشتہ تین چار سال میں بارہا کہنے کے باوجود بعض مقامات پر بعض فسادات کے اڈے قائم ہیں.بعض ملکوں میں وہ ذلیل اور کمینی روایات ابھی تک چل رہی ہیں کہ ایک دوسرے کا گلہ کاٹ رہا ہے، ایک دوسرے کے خلاف شکایتیں کر رہا ہے اور پھر ٹولیاں بن بن کے امیر کے خلاف شکایتیں کر رہے ہوتے ہیں.پھر امیر کی طرف سے اس کے ہمنوا جواب دے رہے ہوتے ہیں کہ نہیں قصور فلاں کا ہے فلاں کا ہے.میں تنگ آگیا ہوں ان چیزوں سے.اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ آپ کے مزاج کی خاطر.ساری جماعت کی طرف سے میں تنگ آچکا ہوں ، ہماری جماعت اس بات کو قبول نہیں کرے گی.اس لئے امراء کے لئے اب دور ستے ہیں اگر تو ان کے اندر کوئی قصور ہے تو اپنی حالت کو درست کریں اور اپنے تقویٰ کے معیار کو بلند کریں اور سر دھڑ کی بازی لگا دیں اس بات میں کہ ساری جماعت متحد ہو جائے گی.یا پھر وہ جو قصور وار لوگ ہیں ان کو نظر انداز وہ کیوں کر رہے ہیں؟ ثابت کریں کہ یہ وہ لوگ ہیں جو قصور وار ہیں اور ہر اصلاح کی کوشش ناکام ہوئی ہے ان کو نکال کے باہر پھینکا جائے گا.اگلی صدی میں خدا تعالیٰ اگر تو فیق عطا فرمائے تو میرا یہ فیصلہ ہے کہ ہم نے متحد ہو کے داخل ہونا ہے ، ہم نے بکھری ہوئی حالت میں داخل نہیں ہونا.انشاء اللہ تعالیٰ و بالہ توفیق.اس لئے امراء کو میں چھ مہینے کا وقت دیتا ہوں.چھ مہینے جو زور لگانا ہے لگالیں اور دو میں سے ایک رستے کو کھول دیں، واضح کر دیں کہ ہماری کوششوں کے نتیجے میں اب خدا کے فضل سے ساری جماعت واحد جماعت میں تبدیل ہو چکی ہے اور ہمارے دل ایک دوسرے سے مل چکے ہیں، بھائی بھائی ہوچکے ہیں اور ہمارے اندر کوئی تفریق نہیں ہے.یا دوسرا پہلو یہ کہ فلاں افراد ایسے ہیں جماعت کے جو نہیں سمجھ رہے اور نہیں باز آر ہے، یہ یہ جتن ہم نے کئے لیکن انہوں نے کوئی اثر نہیں دکھایا.ایسی صورتوں میں اُن جماعتوں میں کمیشن مقرر کئے جائیں گے دیکھا جائے گا کہ ہو کیا رہا ہے.اگر امیر کو تبدیل کرنے

Page 505

خطبات طاہر جلد ۶ 501 خطبہ جمعہ ۲۴ جولائی ۱۹۸۷ء کی ضرورت پڑی تو امیر کو تبدیل کیا جائے گا.اگر چند بیماروں کو اس غرض سے باہر نکالنا پڑا کہ ان کی بیماری کے اثرات دوسروں تک نہ پہنچیں تو ایسا کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جائے گا.یہ دونوں فیصلے تکلیف دہ ہیں لیکن میرے کاموں میں یہ تکلیف شامل ہے ، میرے منصب میں یہ تکلیف داخل ہے اس لئے میں اس سے گریز نہیں کر سکتا لیکن میں امید کرتا ہوں اگر ہم ساری جماعت دعائیں کرے، اگر امراء انکساری دکھائیں لیکن انکساری کے ساتھ Firmness بھی ہو،اصولوں کا سودا نہ کریں.جہاں ان کو خدا تعالیٰ نے مغفرت کا حق نہیں دیا وہاں اپنی نرم دلی کو جماعت کے لئے نقصان کا موجب نہ بنائیں.جہاں سختی کے بغیر اور اصولوں میں مفاہمت کے بغیر نرمی کام کر سکتی ہے وہاں اپنی انانیت کو اس نرمی کی راہ میں روک نہ بننے دیں.انکساری کے تمام اپنے خدا داد جو ہروں کو استعمال کریں اور دعائیں کریں تو کوئی بعید نہیں کہ جہاں بظاہر بڑے بڑے فتنے دکھائی دے رہے ہیں وہاں کوئی بھی فتنہ باقی نہ رہے.تو بہر حال اس چھ مہینے کے بعد چند مہینے تحقیقات کے بھی لگ جائیں گے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالی ۸۸ء کے وسط تک جماعت خدا کے فضل سے یہ کہہ سکے گی کہ اب ہم جہاں تک انسانی کوششیں ہو سکتی تھیں امت واحدہ بن چکے ہیں اور اس حیثیت سے اگلی صدی میں ہم داخل ہورہے ہیں کہ تمام دنیا کومحمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے تلے ایک امت کے طور پر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے.یہ آپ کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کا یہ وعدہ آپ کے حق میں ضرور پورا ہوگا.وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جو اکٹھے ہو کر ایک امت بن کر خدا کی راہ میں نیکیوں کی طرف بلاتے ہیں اور بدیوں سے باز رکھتے ہیں خدا فرماتا ہے او ليكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ یقینا یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہوں گے.

Page 506

Page 507

خطبات طاہر جلد ۶ 503 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء جلسہ سالانہ یو کے کے موقع پر پاکستانی احمدیوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر اور ان کے لئے دعا کی تحریک (خطبہ جمعہ فرموده ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء بمقام اسلام آباد، ٹلفورڈ ، برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:.إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَاَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِى كُنتُم ( لحم السجدة: ۳۱) تُوعَدُونَ اور فرمایا: آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ یو کے کا یہ تیسرا سالانہ جلسہ ہے جس میں ہمیں شرکت کی توفیق مل رہی ہے.ویسے تو یو کے (UK) میں اس سے پہلے بھی بہت سے جلسے ہوتے رہے مگر جب میں تیسرا سالانہ جلسہ کہتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ ایسا سالانہ جلسہ جس میں خلیفہ وقت نے شرکت کی ہو اور اس غرض سے دور نزدیک سے بہت سے ممالک سے لوگ محض اس غرض سے یو کے کے جلسے میں شرکت کے لئے تشریف لائے ہوں کہ اس جلسے میں خلیفہ وقت بھی شریک ہے.اس پہلو سے اس جلسے میں جو آج کے دن رونق نظر آیا کرتی تھی اس دفعہ اس میں کچھ کمی دکھائی دے رہی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انگلستان کی حکومت نے پاکستان سے آنے والے احمدیوں سے بالخصوص بہت سخت رویہ اختیار کئے رکھا اور ایک بڑی بھاری تعداد پاکستان سے آنے

Page 508

خطبات طاہر جلد ۶ 504 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء والے احمدیوں کی ایسی تھی یعنی یہاں جلسے میں شمولیت کے لئے جو آنا چاہتے تھے ان کی تعداد ایسی تھی جنہیں بڑی درشت روئی سے اور بدخلقی سے ویزہ دینے سے انکار کر دیا گیا.بالعموم انگلستان کی حکومت سے اس قسم کی توقعات نہیں کی جاتیں کیونکہ دنیا میں ان کے عدل کا معیار بہت اونچا مشہور ہے اور ان کی روایات اس پہلو سے بہت بلند ہیں اس لئے ہم نہیں کہہ سکتے کہ یہ ایک با قاعدہ حکومت کی پالیسی کے تابع ہوا یا انفرادی طور پر کوئی بدخلق افسر تھا جس نے اپنے طور پر یہ زیادتی کی.مگر بہر حال جو بھی صورت تھی اس کا جماعت احمدیہ کے جلسے کی حاضری پر بہت ہی برا اثر پڑا.اس کے باوجود ہمیں شکوے کا حق نہیں.ان کے انصاف کے معیار سے تو شکوے کا حق ضرور ہے لیکن جس قسم کے انصاف کا مظاہرہ خود ہمارے اپنے بھائی ہم سے کر رہے ہیں اس کو دیکھیں تو ہرگز ان سے شکوے کا کوئی حق نہیں بلکہ ہم پھر بھی ان کا شکریہ ادا کرنے کے سزاوار ٹھہرتے ہیں کیونکہ اختلاف مذہب کے باوجود، باوجود اس کے کہ ہم میں سے بہت سے آج یہاں ایسے ہیں جن کا اس وطن کی شہریت سے کوئی تعلق نہیں، اس کے باوجود بالعموم یہ قوم بڑے حوصلے کا سلوک کرتی ہے اور بالعموم ان کا رویہ دوستانہ یا شریفانہ رہتا ہے.پاکستان کے جن حالات کے متعلق میں نے اشارۃ ذکر کیا ہے.کچھ عرصے سے میں نے ان کے متعلق تفصیلی روشنی نہیں ڈالی لیکن آج کے خطبے کے لئے میں نے ایک خاص پہلو سے ان واقعات پر روشنی ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے.وہ تحریک جو عمومی مخالفت کی تحریک تھی ، وہ تحریک جس میں حکومت علی الاعلان یہ کہہ کر شامل ہوئی اور بار ہا شامل ہوئی کہ ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جماعت احمدیہ کو اس ملک سے نیست و نابود کر دیں.ایک لمبے عرصے کی جاہلانہ کوششوں کے باوجود معلوم ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو یہ ارادے لے کر اُٹھے ہوئے تھے وہ یہ سمجھ چکے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے ان کو یہ توفیق نہیں بخشی کہ وہ جماعت احمد یہ کو نقصان پہنچا سکیں.ہاں جماعتی رنگ میں کچھ نقصان کی باتیں تو کر سکتے ہیں ، تکلیف دہ باتیں کر سکتے ہیں، ایذاء رسانی تو ممکن ہے لیکن یہ ممکن نہیں کے وہ نعوذ بالله من ذالک جماعت احمدیہ کو کسی پہلو سے کوئی دائمی نقصان پہنچاسکیں.عارضی تکلیف کے دن آتے بھی ہیں اور چلے بھی جاتے ہیں اور یہ باتیں خوابیں بن جایا

Page 509

خطبات طاہر جلد ۶ 505 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء کرتی ہیں مگر ایک بات بہر حال درست ہے کہ خوا ہمیں خواہ کیسی ہی بھیا نک کیوں نہ ہوں جماعت احمدیہ کے حق میں ان کی تعبیریں ہمیشہ حسین نکلتی ہیں اور ان چند ڈراؤنے خوابوں کو دیکھنے کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ برکتوں اور خوشیوں کے دن چڑھاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ایسے ایسے نظارے جماعت احمد یہ دیکھتی ہے کہ خوا میں کوئی بھی بداثر ان کی یاد پر بھی باقی نہیں چھوڑ تھیں.مگر جب تک خواب کی کیفیت طاری ہو جب انسان اس بعض اوقات دل ہلا دینے والے نظارے سے گزر رہا ہو جو وہ خواب میں دیکھتا ہے تو صرف بچہ ہی نہیں بسا اوقات بڑا انسان، عمر رسیدہ بھی تکلیف محسوس کرتا ہے، کچھ دیر کے لئے وہ گھبراتا ہے اور پریشان ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ جلد یہ خواب کی کیفیت دور ہو اور بسا اوقات خواب کے دوران ہی اسے کچھ کچھ یہ بھی محسوس ہونے لگتا ہے کہ ہے یہ خواب ہی ، میرا اعملا تو کچھ بگاڑ نہیں سکے گی مگر اس کے باوجود میں تکلیف کی حالت میں ہوں.پس کچھ اسی قسم کی کیفیت آج جماعت احمدیہ کی ہے.ماضی پر نظر ڈالیں تو یقین سے دل بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جماعتوں کو جن کی داغ بیل اس نے اپنے ہاتھ سے ڈالی ہو کبھی بھی نہیں چھوڑا.وقتی ابتلا آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں اور ان کے عقب میں ہمیشہ عظیم الشان کامیابیاں ان کے قدم چومنے کے لئے تیار رہتی ہیں اور خدا تعالیٰ ہمیشہ بار بار اپنے فضل لے کر آتا ہے.اس کے باوجود جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابھی ہم خواب کی اس حالت میں سے گزر رہے ہیں جس کی تکلیف کا احساس بھی ساتھ ساتھ ہمارے شامل حال ہے.لیکن یہ عمومی دعاوی تکلیف پہنچانے کے اور یہ کوشش کہ سارا ملک جماعت احمدیہ کے خلاف حرکت میں آجائے ،ان دعاوی کا اب وہ حال نہیں رہا اور ان کوششوں کا بھی اب وہ حال نہیں رہا کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پاکستان کے عوام نے ایسے دعاوی کرنے والوں کی امنگوں پر پانی پھیر دیا ہے جو یہ سمجھتے تھے کہ ظلم کی ہر راہ میں یہ ہمارے شریک سفر ہو جائیں گے بلکہ عوام کی بھاری اکثریت بار بار ان کی ان کوششوں کو دھتکارتی رہی ہے اور رد کرتی رہی ہے اور دن بدن اللہ تعالیٰ کے فضل سے رائے عامہ میں جماعت احمدیہ کے حق میں اچھے خیالات پیدا ہونے شروع ہو گئے ہیں جو بڑھتے چلے جا رہے ہیں بلکہ بعض اوقات ایسی ایسی خبریں بھی ملتی ہیں کہ وہ لوگ جو پہلے ظلم میں شریک ہوا کرتے تھے، نہ صرف ہاتھ بھینچ بیٹھے ہیں بلکہ جماعت کی تائید میں لفظی اور فعلی طور پر جو کچھ ان سے بن سکتا ہے وہ کرنا شروع کر چکے ہیں.

Page 510

خطبات طاہر جلد ۶ 506 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء پس بالعموم تو یہی کیفیت ہے لیکن ایک معاملے میں حکومت کے کارندے اور علماء یعنی سارے علماء تو ہر گز نہیں علماء کا ایک سوء طبقہ، ایک بدنصیب طبقہ ابھی تک ان مذموم کوششوں سے باز نہیں آرہا بلکہ بعض پہلوؤں سے اور زیادہ شدت اختیار کرتا چلا جاتا ہے اور ان کا تخریبی دائرہ کلمہ توحید کو مٹانے کی حد تک محدود ہو چکا ہے، ان کی تمام تر توجہ اب اس جہاد پر مرکوز ہے کہ جس طرح بھی بن پڑے کلمہ طیبہ کو جماعت کے سینوں سے نوچ پھینکا جائے ، ان کی مساجد سے مٹا کر نیست و نابود کر دیا جائے اور جہاں تک بس چلے ان سے کلمہ طیبہ کا کھلا کھلا انکار کر وایا جائے.کلمہ طیبہ جسے ہم پاکستان اور ہندوستان کے ایک بہت حصے میں ، ایک بڑے حصے میں کلمہ طیبہ کے نام سے یاد کرتے ہیں در حقیقت کلمہ شہادہ کہلاتا ہے اور عرب دنیا اسے کلمہ شہادہ کے نام سے جانتی ہے اور یہی اصل صحیح اصطلاح بھی ہے.مراد یہ ہے یہ گواہی دینا ، یہ شہادت دینا کہ اللہ تعالیٰ ایک ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور صلى الله حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ اس کے بندے اور رسول ہیں.پس اس وقت پاکستان کی حکومت کے کارندوں اور علماء کے ایک ٹولے کی تمام تر کوششیں اس بات پر مرکوز ہو چکی ہیں کہ اس کلمے کا جماعت احمدیہ سے جبراً انکار کر وایا جائے.وہ کہتے ہیں اگر تم یہ گواہی دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد مصطفی امی کو سچے ہیں اور خدا کے رسول ہیں تو ہمیں اتنی تکلیف پہنچتی ہے، ایسا اشتعال آتا ہے کہ ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے.ہاں اگر تم یہ گواہی دو کہ خدا ایک نہیں بلکہ بے شمار ہیں اور اگر یہ گواہی دو کہ نعوذ بالله من ذالک حضرت اقدس محمد مصطفی یہ خدا کے بندے اور رسول نہیں ہیں تو پھر ہم تم سے اعراض کریں گے، پھر تم جو چاہو کرتے پھرو پھر ہم تم سے کوئی باز پرس نہیں کریں گے.یہ اعلان ہے جو بار بار مساجد کے منبروں سے بھی ہو رہا ہے اور پاکستان کی عدالت کی کرسیوں سے بھی ہو رہا ہے اور کھلم کھلا حج یہ اعلان کرتے ہیں کہ تم احمدیوں کا کوئی حق نہیں کہ یہ بچی گواہی دو کہ اللہ ایک ہے اور محمد مصطفی یہ اس کے بچے رسول ہیں اور یہ بیماری چھوٹی سطح کی عدالتوں میں نسبتاً کم ہے اور اوپر کی سطح کی عدالتوں میں جہاں ان کو حکومت سے اپنی ترقیات کی تمنا ئیں وابستہ ہیں کہیں کہیں بڑے نمایاں طور پر سر نکالتی دکھائی دیتی ہے.بالعموم عدلیہ کے متعلق تبصرہ پسندیدہ نہیں اس لئے میں اس پر مزید کچھ گفتگو نہیں کرتا لیکن

Page 511

خطبات طاہر جلد ۶ 507 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء ان کے سب تبصرے جو جماعت احمدیہ کے متعلق اور بانی جماعت احمدیہ کے متعلق ہیں ایسے ناپسندیدہ اور ایسے مکروہ اور ایسے جھوٹے اور ایسے بے بنیاد ہیں کہ انسان حیرت سے دیکھتا ہے کہ ان فیصلوں کے بعد ان تبصروں کے بعد ان کا کیا حق باقی رہتا ہے کہ وہ عدلیہ کہلائیں.آج میں جس پہلو سے آپ کے سامنے بعض حالات رکھنا چاہتا ہوں وہ پہلو ہے ان اسیرانِ راہ مولا کے دل کی کیفیات اور ان کی اپنی زبان سے یہ ذکر کہ ان پر کیا گزر رہی ہے اور ان سے اس ملک میں کیا سلوک ہو رہا ہے.اس ضمن میں میں پہلا اقتباس آپ کے سامنے مکرم جہانگیر جوئیہ صاحب ایڈووکیٹ امیر ضلع خوشاب حال شاہ پور جیل کے ایک خط سے پڑھ کے سناتا ہوں.آپ کو یہ بار بار توفیق ملی کہ کلمہ طیبہ پڑھنے کے جرم میں یعنی کلمہ شہادہ پڑھنے کے جرم میں اور اسے عزت اور پیار سے اپنے سینے پر آویزاں کرنے کے جرم میں بار بار جیل میں جائیں اور جتنی بار پھر ضمانت سے نکالیں جائیں پھر دوبارہ اسی جرم کا اعادہ کریں اور پھر جیل میں جائیں.یہاں تک کہ اب تو کئی ماہ سے ان کی ضمانت کی امیدیں بھی قطع ہوتی جاتی ہیں اور ہائی کورٹ نے بھی یہ تبصرہ کرتے ہوئے ان کی ضمانت کو رد کر دیا ہے کہ یہ تو ایسا بھیانک جرم ہے اللہ کی اور محمد مصطفی پہلے کی صداقت کی گواہی دینا اور سچائی کی گواہی دینا کہ ان کے خلاف توہین رسالت کے مقدمے درج ہونے چاہئیں.بہر حال وہ لکھتے ہیں :.”دو روز قبل مورخہ 27 جولائی کو سات افراد جماعت احمدیہ ( یعنی خوشاب کے سات افراد جماعت احمدیہ ) کلمہ طیبہ کے جرم میں جیل میں خاکسار کے پاس پہنچ چکے ہیں اور دو افراد جماعت احمدیہ ڈیرہ بستان اور ڈیرہ چانن خان والے سے بھی تعلق رکھتے ہیں.اس بار پولیس انسپکٹر عبدالحمید خان نیازی نے اسیران کلمہ طیبہ کو خوب مارا.خان محمد صاحب انصار اور بوڑھے آدمی تھے ان کو بہت مارا اور ان کا ایک دانت بھی خراب ہو گیا.ان کی عمر تقریباً ساٹھ سال ہے.ان کو اس انسپکٹر نے مارتے ہوئے کئی بار نیچے گرایا.ان کے علاوہ میر عالم صاحب، مبشر احمد صاحب، رانا اسد اللہ صاحب اور مشتاق احمد صاحب کو بھی اس انسپکٹر نے نہایت بے رحمی سے مارا، مبشر کی عمر تو

Page 512

خطبات طاہر جلد ۶ 508 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء صرف تیرہ سال ہے.جس بچے مبشر کا ذکر ہے اس کا اپنا خط بھی ملا ہے وہ کس تجربے میں سے گزرا ہے.وہ لکھتا ہے:.پیارے آقا جماعت احمد یہ خوشاب نے جب پانچویں مرتبہ کلمہ طیبہ بیت الذکر خوشاب کی پیشانی پر تحریر کیا تو اس رات بیت الذکر کی حفاظت کے لئے خدام کے ہمراہ میں نے بھی بیت الذکر میں قیام کیا (یعنی یہ طفل ہے، پندرہ سال سے کم عمر کے بچے طفل کہلاتے ہیں، خدام میں وہ شامل نہیں ہوتے ، اس لئے اس پر فرض تو نہیں تھا لیکن یہ طوعی طور پر نفلی طور پر اس حفاظت کے گروہ میں شامل ہو گیا ).بیت الذکر کو اندر سے تالا لگا کر ہم سب آرام سے سو گئے.رات تقریبا دس گیارہ بجے سٹی مجسٹریٹ ایک بھاری پولیس کی تعداد کے ساتھ بیت الذکر پہنچے.ایک پولیس مین نے بیرونی طرف سیڑھی لگائی اور یوں دیوار پھلانگ کر قانونی اور اخلاقی جرم کرتے ہوئے اندر داخل ہوئے.عاجز جہاں موجود افراد میں سے سب سے چھوٹا بچہ تھا.عمر تقریباً چودہ سال ہے.سب سے پہلے اس عاجز کی مشکیں پیچھے کی طرف اتنی سختی سے باندھیں جس طرح میں نے کوئی بہت بڑا قصور کیا ہو.اللہ جانتا ہے کہ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا.پھر زیادتی پر زیادتی یہ کہ انسپکٹر نے دوز در دار تھپڑ خاکسار کو رسید کئے، پھر باہر لے جا کر ایک پولیس مین نے دو تھپڑ دے مارے سٹی مجسٹریٹ نے پولیس مین کو کہا کہ دو تھپڑ اور لگاؤ.اس پر اس سپاہی نے ایک اور تھپڑ رسید کیا.اس کے بعد میرے دیگر ساتھیوں کا ایک ایک ہاتھ باندھا جبکہ میرے دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف کر کے بڑی سختی سے باندھے ہوئے تھے.پھر پولیس مین کالے رنگ کے موبل آئل سے کلمہ طیبہ کو مٹا کر توحید باری تعالیٰ اور رسالت تاب ﷺ کا نام مٹا کر ہم پانچ افراد کو ویگن میں بٹھا کر تھانے لے گئے.وہاں جا کر عاجز کو سہ بارہ انسپکٹر پولیس نے دو تھپڑ اور ایک تھپڑ AS I نے مارا.گویا ان کی نظر میں یہ عاجز ہی سب سے بڑا گناہگار مجرم تھا.اس وقت ہم نو اسیران کلمہ

Page 513

خطبات طاہر جلد ۶ 509 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء طیبہ ڈسٹرکٹ جیل صدر شاہ پور میں ہیں.( کیا جرم کر رہے ہیں وہاں ؟) پنجگانہ نمازیں اور نماز تہجد با جماعت التزام سے ادا کر رہے ہیں“.یہ تو ایک بچے کے ساتھ اس بھیانک جرم میں سلوک کیا گیا ہے کہ اس نے اللہ کی تو حید اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کی صداقت کی گواہی دی تھی.ایک نیم پاگل ، یعنی پاگل تو پورے نہیں لیکن جو فاطر العقل سے مجہول سے لوگ ہوتے ہیں.ایک ایسا شخص مسجد بیت الذکر آہیراں والا میں خادم بیت ہے اور وہ خود بھی جانتا ہے کہ میری ذہنی حالت درست نہیں.وہ یہ لکھتا ہے کہ:.وو عاجز جامع مسجد بیت الذکر واقع محلہ آہیراں والا میں بطور خادم بیت الذکر میں کام کرتا ہے.پولیس کو اچھی طرح علم ہے کہ میرا دماغ ٹھیک نہیں ہے.پیشتر ازیں بھی خاکسار پر اذان کا کیس چل رہا ہے.( یعنی جرائم ہیں اذان کا بھی ایک جرم ہے بڑا خطرناک).سیدی ! مورخہ 87-6-26 کو جب پولیس نے پانچویں مرتبہ کلمہ طیبہ مٹانے کے لئے کوشش کی تو اس عاجز کے بھی پیچھے سے ہاتھ باندھ، زور دار تھپڑوں سے مارنا شروع کیا.عاجز نے ”سی“ تک نہ کی اور محض اللہ نہایت صبر اور استقلال سے انسپکٹر پولیس کی مار کو برداشت کیا اور اپنے چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ ہنستے ہوئے حوالات تھا نہ خوشاب اور پھر یہاں سے ڈسٹرکٹ جیل صدر بھیجے گئے.ہم اپنے پیارے امیر ضلع مکرم ملک جہانگیر محمد جوئیہ کے ہمراہ اس وقت جیل میں بند ہیں.مکرم امیر صاحب ضلع خوشاب دوبارہ لکھتے ہیں:.اب پولیس نے پانچویں بار مسجد احمد یہ خوشاب سے کلمہ طیبہ مٹا دیا ہے اور اس کے ساتھ ہی نواحمدی احباب کو گرفتار کر کے جیل بھیج دیا ہے.اب شہر خوشاب میں بہت کم مرد رہ گئے ہیں.اکثر احمدی احباب کلمہ طیبہ کے جرم میں جیلوں کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں پڑے ہوئے ہیں.اب ہم سفید

Page 514

خطبات طاہر جلد ۶ 510 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء پینٹ سے کلمہ طیبہ لکھیں گے کیونکہ پولیس نے مسجد کے سامنے والی ساری دیوار کو پوری طرح سیاہ کر دیا ہے اور مسجد کی حالت بھی سیاہ تیل سے خراب کر دی ہے.باہر کے دروازے کو تالہ لگا دیا ہے.اب ہم جلد از جلد وہاں کلمہ طیبہ لکھوا رہے ہیں.ہم کلمہ طیبہ کی پوری حفاظت کریں گے چاہے ہماری عورتوں کو بھی جیل جانا پڑے کیونکہ پولیس والوں نے ہمیں یہ دھمکی دے دی ہے اب ہم آپ کی عورتوں کو بھی جیل میں بھیجیں گے.ہم اس پر پوری طرح تیار ہیں اور کلمہ طیبہ لکھتے رہیں گے اور ایک لمحے کے لئے بھی اس سے باز نہیں آئیں گے، دشمن جو کر سکتا ہے کرتا پھرے وہ ہمارے عزم اور ہمت کو پامال نہیں کرسکتا.پیرکوٹ ثانی گوجرانوالہ میں ایک گاؤں ہے وہاں کے ایک احمدی دوست کا واقعہ بھی ہے کس طرح وقت کے علماء بالکل کھلا کھلا جھوٹ بول کر فرضی مقدمے بناتے احمدیوں پر اور پھر فرضی گواہ بناتے اور ان کو کوئی خدا خوف نہیں اور تلاش میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کسی احمدی کو موقع ملے تو جھوٹے گواہ بنا کر اس پر کوئی مقدمہ قائم کروائیں.چنانچہ اس وقت یہ بھی جیل میں ہیں اور جیل سے ہی اپنی داستان لکھ رہے ہیں کہ مجھ سے کیا گزری.چنانچہ کہتے ہیں کہ :.مولویوں نے یہ جھوٹا مقدمہ درج کرا کے کہ نعوذ بالله من ذالک میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی امی کی بہتک کی ہے، جن پر میرا جان مال اولا دسب کچھ نچھاور ہے.مجھے اس مقدمے میں جیل بھجوایا اور چونکہ میں جیل میں نمازیں بھی پڑھتا رہا اور تلاوت بھی کرتا رہا اور چونکہ مولویوں کے وفود پہنچ کر ساتھ کے قیدیوں کو مشتعل کرتے رہے کہ یہ اب بھی نماز میں پڑھنے اور کلمہ توحید پڑھنے سے باز نہیں آرہا اس لئے ان کی شکایت پر مجھے چکی میں بند کر دیا گیا.(چکی وہ اندھیری کوٹھڑی ہوتی ہے جس میں موت کی سزا پانے والے قیدیوں کو پھانسی سے پہلے بند کیا جاتا ہے.کہتے ہیں ) وہاں بھی میں نمازوں سے باز نہیں آیا نہ آسکتا تھا اور بلند آواز سے تلاوت کرتا رہا جس کی آواز سن کر بعض ساتھ کے قیدیوں نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے شدید احتجاج کیا کہ خدا کے

Page 515

خطبات طاہر جلد ۶ 511 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء اس نیک بندے کو تم نے سراسر ظلم کی راہ سے چکی میں بند کیا ہے اور ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اسے چکی سے نکالو.چنانچہ اس احتجاج کے نتیجے میں وہ سپرنٹنڈنٹ مرعوب ہو کر ان کو نکالنے پر آمادہ ہو گیا.چونکہ اکثر قیدی سخت جرائم پیشہ ہوتے ہیں اور خصوصا سخت سزا پانے والے قیدی جو چکی کے گرد و پیش رکھے جاتے ہیں یا خود چکی میں ہی شاید وہ بھی ہوں ، وہ مزاج کے لحاظ سے بھی درشت ہوتے ہیں.اس لئے ان کا رعب ہوتا ہے کسی نہ کسی رنگ میں جیل کے افسران پر.پھر وہ جرائم میں شریک پیسے کھا کر ، ڈرگز وغیرہ سمگل کروانے میں ممدو معاون بنے ہوئے ہوتے ہیں.تو کئی قسم کے ان کے ایسے تعلقات ہیں جس کے نتیجے میں ویسے تو خدا کا کوئی خوف اس شخص کے دل میں نہیں آیا مگران قیدیوں کے احتجاج کے نتیجے میں اس نے ان کی سزا میں نرمی کر دی.ہمارے سلسلے کے ایک بہت ہی مخلص خادم اور بڑے فعال کارکن سرگودھا کے خادم حسین صاحب وڑائچ لکھتے ہیں:.23 جون کو تقریباً پونے تین بجے دوپہر ہمارے مخلص دوست مبارک احمد صاحب چیمہ سرگودھا سے جو ہر آباد جانے کے لئے بس پر سوار ہوئے.تین موٹر سائیکل سوار غنڈوں نے ان کی بس کو روک کر ان کو بس سے اتروا لیا.نیچے اتار کر شدید زود کوب کیا اور پھر زبردستی رکشہ میں بٹھا کر تھانے لے جانے کی کوشش کی.ان کے پاس ایک کتا بچہ تھا وہ چھین لیا اور ۱۷۵ روپے جیب سے نکال لئے اور یہ عزم ظاہر کیا کہ ہم تھانے جا کر یہ رپورٹ درج کرائیں گے کہ تم ہمیں تبلیغ کرتے تھے.لیکن دوسرے بس کے شریف مسافروں نے بیچ میں پڑکر ان کو چھڑا لیا اور وہ تین جو نو جوان تھے وہ اس عظیم جہاد کے نتیجے میں حاصل ہونے والا مال غنیمت ۱۷۵ روپے لے کر وہاں سے رخصت ہوئے“.بعض جگہ سے ایسی خبریں بھی آتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ شرافت بالکل مری نہیں ہے یعنی پولیس کے محکمے میں بھی کچھ لوگ نسبتا شریف النفس موجود ہیں.چنانچہ ایک صاحب لکھتے ہیں کہ:.وه ایک دفعہ ہماری دکان پر اچانک پولیس کا ایک تھانے دار اور دو

Page 516

خطبات طاہر جلد ۶ 512 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء سپاہی آئے اور کہا ہم آپ کو گرفتار کرنے آئے ہیں.جرم یہ بتایا کہ بورڈ پر بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِیمِ لکھا ہوا ہے اور یہی نہیں بلکہ نحمده و نصلی علی رسوله الکریم بھی لکھ دیا گیا ہے کہ میں اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں جو بہت رحمان بے حد رحم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے اور ہم حمد کرتے ہیں اس ذات کی ونصلی علی رسوله الکریم اور اس کے معزز رسول پر درود بھیجتے ہیں.پھر اس نے بتایا کہ یہی ابھی جرم نہیں ہے ایک اور بھی جرم تم نے کیا ہے یہ آیت بھی لکھی ہوئی ہے أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ (الزمر : ۳۷) کیا خدا اپنے بندے کے لئے کافی نہیں ہے.تو کہتا ہے کہ اتنے شدید واضح جرائم کے بعد تم نے ہمارے لئے رستہ کوئی نہیں چھوڑ ا مگر اب ہم مجبور ہو کر تمہیں لا زما قید کریں گے.لکھنے والے دوست کے والد چونکہ بوڑھے تھے انہوں نے کہا میں اپنے آپ کو پیش کرتا ہوں تم ان پر اس کی ذمہ داری نہ ڈالو میں ذمہ دار ہوں مجھے لے جاؤ.چنانچہ تھانے دار نے یہ شرافت دکھائی کے ان کو ساتھ لے گیا اور رستے میں کہا کہ دل تو میرا بالکل نہیں چاہتا مگر میں سخت مجبور ہوں ، اوپر سے ہمیں اسی قسم کے احکامات ملتے ہیں.کہتے ہیں پولیس کا تو رویہ بس اتنا ہی رہا لیکن جس افسر کے سامنے جو مجسٹریٹ تھا، ہمیں پیش کیا گیا اس نے یہ معلوم کر کے کہ ہمارا جرم کیا تھا ہمارے خلاف نہایت گندی زبان استعمال کرنی شروع کی.کہتے ہیں ہمارے ساتھ بعض بڑے بھیانک جرائم میں ملوث دوسرے جرائم پیشہ لوگ بھی شامل تھے لیکن ان کے ساتھ وہ نرمی سے بولتا رہا لیکن جب اس کو یہ پتا چلا کہ ہم نے لا اله الا الله محمد رسول اللہ کی گواہی دی ہے یا بِسمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ لکھ کر اپنی دکان پر لگایا ہوا ہے یاد کان کی پیشانی درود سے سجائی ہے اور آیت قرآن کریم اس پر لکھی ہے ، وہ کہتا ہے ایک دم م مشتعل ہو گیا اور آپے سے باہر ہو گیا اور سخت گندی زبان استعمال کرتے ہوئے کہا تم باز آؤ گے یا نہیں؟ میں تمہیں تین سال کی قید با مشقت کی سزا دوں گا اور اس کے بعد اس نے ماتحتوں کو حکم دیا اس کی اچھی طرح پٹائی کرو تا کہ یہ بار بار یہ جرم کرنے سے باز آجائے.

Page 517

خطبات طاہر جلد ۶ 513 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء پنجاب کے علاوہ بھی دوسرے مختلف ملک کے حصوں میں اس قسم کے واقعات مسلسل ہو رہے ہیں لیکن خصوصیت کے ساتھ سرگودھا اور خوشاب کا علاقہ ہے جو بدنصیبی میں اس وقت سارے پاکستان سے آگے بڑھا ہوا ہے.مگر بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ملک کے مختلف حصوں میں ایسے ایسے واقعات کی رپورٹیں آئے دن آتی رہتی ہیں گو نسبتا کم.کراچی سے ایک دوست نعیم احمد صاحب لکھتے ہیں کہ:.میں بہاولپور سے سکھر تک ٹرین میں سفر کر رہا تھا.( مگر یہ واقعہ پنجاب کا ہی لگتا ہے یا سندھ اور پنجاب دونوں میں مشترکہ ہے.ہیں یہ کراچی کے مگر واقعہ اس طرف کا لکھ رہے ہیں) دورانِ سفر آپس میں تعارف ہوا باتیں شروع ہوئیں اور جب ان کو یہ پتا چلا کہ میں احمدی ہوں تو ایک شخص نے شدید بد زبانی شروع کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف نہایت گندی زبان استعمال کی اور پھر مجھے مارنا شروع کیا اور اس کے ساتھ ایک دو اور ساتھی بھی شامل ہو گئے اور جب میں خدا یا قرآن کا نام لیتا تھا تو مجھے اور بھی مارتے تھے کہ تم خدا اور قرآن کا نام لینے والے ہوتے کون ہو؟ چنانچہ جب مارتے مارتے تھک گئے ( کہتے ہیں ) میں نے درود شریف بلند آواز سے پڑھنا شروع کیا اس پر اور بھی مشتعل ہو گئے اور کہا کہ ابھی ہم تمہیں گاڑی سے باہر دھکا دیتے ہیں.( چونکہ گاڑی چل رہی تھی اور تیز رفتار سے عموما چلتی ہے لائن پر اس لئے اس بات کا بھاری احتمال تھا کہ اگر اس کو دھکا دیا جاتا تو وہ اس صدمے سے بچ نہ سکتا.لیکن وہ یہ لکھ رہے ہیں واقعہ دراصل وہ شکایت کے رنگ میں نہیں لکھ رہے اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید کے اظہار اور تشکر کے لئے واقعہ لکھ رہے ہیں.کہتے ہیں ) جو نہی اس نے یہ کہا پیشتر اس کے کہ وہ مجھے گاڑی سے باہر نکالتا بجلی بند ہوگئی اور معلوم ہوتا ہے اس سے کچھ خرابی ایسی پیدا ہوئی ہے انجن وغیرہ میں کہ ان کو، انجن والوں کو ، گاڑی روکنی پڑی اور بجلی بند ہو کر جب انہوں نے مجھے دھکا دیا تو کھڑی گاڑی سے

Page 518

خطبات طاہر جلد ۶ 514 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء کوئی نقصان نہیں ہوا میں اُتر آیا آرام سے اور اس کا کہتے ہیں دوہرا فائدہ یہ ہوا کہ اگر دھکا دے کر چلتی گاڑی سے مجھے پھینکتے اور میں بچ بھی جاتا تو آدھی رات کے وقت نہایت خطرناک علاقے سے سکھر تک جو ابھی چند پانچ ، چھ میل کے فاصلے پر تھا پہنچنا ویسے ہی محال ہوتا.( کہتے ہیں ) اب اندھیرے نے دوسرا کام یہ کیا کہ میں کچھ قدم چل کر دوسرے ڈبے میں بیٹھ گیا اور جب میں بیٹھا ہوں تو بجلی پھر آگئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے گاڑی چل پڑی اور اس طرح خدا تعالیٰ نے مجھے ان کے فتنے سے بچالیا.کلمہ طیبہ کی مخالفت یعنی بار بار میرے منہ سے کلمہ طیبہ کے لفظ نکلتے ہیں جو اصل عرب محاورہ ہے یا اسلامی پرانا محاورہ ہے وہ کلمہ توحید ہے یا کلمہ شہادہ ہے.تو کلمہ شہادہ اور کلمہ توحید کی مخالفت کرتے کرتے اب ان علماء کا یہ حال ہو چکا ہے کہ ان کو اپنی زبان پر اختیا رہی نہیں رہا کہ ہم کیا باتیں کہہ جاتے ہیں اس مخالفت میں.چنانچہ ایک دوست نے بڑا دلچسپ واقعہ لکھا ہے ڈسٹرکٹ جیل سرگودھا سے کہ:.ایک مولوی اور اس کے چیلے سارے شہر میں گھومتے پھرتے یہ تلاش کر رہے تھے کہ کوئی احمدی کلمہ طیبہ کا بیج (Badge) لگائے ہوئے نظر آئے تو ہم اسے پولیس کے حوالے کریں اور پھر وہ اسے مار مار کر جس کو بھی پکڑتے تھے لے جاتے تھے.جب مجھ پر نظر پڑی تو اس کے مولوی کے ایک ساتھی نے میرے سینے سے کلمہ نوچنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو فوراً مولوی نے سختی سے اُسے روکا کہ کلمہ کو ہاتھ نہ لگا و پلید ہو جاؤ گئے.وہ کہتا ہے اب ان کے مقدر میں کلمے کو ہاتھ لگانے سے پلیدی رہ گئی ہے اور کلمے کی ساری برکتیں یہ ہمیں اپنے ہاتھوں سے دے بیٹھے ہیں.اور یہ جو باتیں ہیں صرف یہ عوامی سطح پر نہیں ہور ہیں با قاعدہ حکومت کے محکموں میں اس قسم کے مقدمے درج ہو رہے ہیں، اس قسم کے اعتراضات لوگوں کی فائلوں میں لکھے جا رہے ہیں.چنانچہ ٹیکسلا سے ایک سرکاری افسر ہمارے احمدی دوست لکھتے ہیں کہ ان کے خلاف نماز پڑھنے کے

Page 519

خطبات طاہر جلد ۶ 515 خطبہ جمعہ ۳۱ / جولائی ۱۹۸۷ء جرم میں پاور ہاؤس کے بعض ملازمین نے شکایت کی.اس پر ان کے خلاف جو محکمے کے بڑے افسر کی طرف سے رپورٹ درج کرائی گئی ہے FIR اس میں لکھا گیا ہے کہ اس ظالم نے نماز پڑھی جس سے سارے دفتر میں اشتعال پھیل گیا اور اس لئے اس کے خلاف شدید قانونی چارہ جوئی کی جائے.پس جہاں اس قسم کے واقعات کی اطلاعیں ملتی ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض شرفاء بھی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت شرفاء پر ہی مشتمل ہے.جب میں یہ کہتا ہوں تو بعض لوگ تعجب سے دیکھیں گے کہ اس طرح جرائم کی آماجگاہ بن چکا ہے وہ ملک اور آئے دن نہایت ہی بھیانک خبریں ملتی ہیں، اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہے، ہر روز ان کے کردار کی صورتیں پہلے سے بدتر اور اور بھی بدتر ہوتی چلی جارہی ہیں اور تم یہ کہتے ہو کہ اس ملک کی اکثریت شریف النفس ہے.ان سب باتوں کو جانتے ہوئے بھی میں یہی کہتا ہوں اور مجھ سے پہلے حضرت خلیفہ المسح الثالث رضی اللہ عنہ بھی ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ اس ملک کے اندر گہری شرافت ہے لیکن بدنصیبی سے یہ ملک جس طرح بعض بچے ظالم سوتیلی ماؤں کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں ظالم سیاسی لیڈروں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں اور وہ ان کے ساتھ نہایت ظالمانہ سلوک کر رہے ہیں، ان کو غلط راہوں پر چلا رہے ہیں ، ہر قسم کی خرابیاں جو ہمیں دکھائی دیتی ہیں اس کی دراصل ذمہ دار ہماری سیاسی لیڈر شپ یا بھٹکی ہوئی مذہبی لیڈر شپ ہے.چنانچہ آپ ثبوت کے طور پر فرمایا کرتے تھے کہ ان میں سے ہر قسم کے بگڑے ہوئے آدمی بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے جب غلط فہمیاں دور ہونے کے نتیجے میں احمدیت میں داخل ہوتے ہیں تو دیکھتے دیکھتے ان کی کایا پلٹ جاتی ہے.ایک بد کر دار قوم اتنی جلدی تبدیلی پیدا نہیں کرسکتی اور خدا تعالیٰ جب کسی قوم کو دنیا کی سیادت کے لئے چنتا ہے تو ضرور بنیادی طور پر اس میں کچھ خوبی ہوتی ہے.یہی حال اس سے بہت زیادہ شان کے ساتھ اس عرب میں ہمیں دکھائی دیتا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے کا عرب تھا.یعنی آپ کے ظہور سے پہلے اس عرب پر نگاہ ڈالیں تو ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک خوبیوں کی تلاش میں نکل جائیں ، سوائے ایک دوا ایسی خوبیوں کے جوان کی جاہلانہ زندگی کا ایک حصہ تھیں یعنی شجاعت اور سخاوت، وہ ہر دنیا کی برائی میں ملوث تھے اس کے باوجود حضرت اقدس محمد مصطفی کے ظہور سے ایک عظیم الشان معجزہ دنیا نے دیکھا کہ وہ جو گندے دکھائی دیتے تھے سب سے زیادہ پاک ہو گئے اور سب سے زیادہ پاک کرنے والے وجود بن گئے.صلى الله

Page 520

خطبات طاہر جلد ۶ 516 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء پس اس قوم سے مایوسی کی وجہ نہیں ہے.اس قوم میں لازما شرافت موجود ہے اور اور یہی سے.وجہ ہے کہ جماعت کی اکثریت ان آزمائشوں کو دیکھ رہی ہے لیکن خود نہیں گزر رہی ان میں.جماعت کی اکثریت یہ دکھ تو برداشت کر رہی ہے اور بڑے حوصلے کے ساتھ مگر بڑی تکلیف کے ساتھ بیک وقت کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو حکومت کے کارندے اور چند مولوی دن رات گالیاں دے رہے ہیں اور شدید جھوٹے بے بنیاد الزامات جماعت احمدیہ پر آئے دن لگائے جار ہے ہیں مگر عملاً جس طرح کہ ان کے بعض ساتھیوں کے ساتھ نہایت تکلیف دہ واقعات پیش آرہے ہیں جسمانی اذیتوں کے، قید و بند کے ، جھوٹے الزامات انفرادی طور پر عائد کرنے کے جماعت کی بھاری اکثریت پاکستان میں اس سے بچی ہوئی ہے.اس کی وجہ یہی ہے کہ اکثریت بیچ میں ، دل کے اندر سے شریف ہے اور وہ کھلم کھلا ظلم میں شامل ہونے کے لئے تیار نہیں ہے.اس لئے آج میں یہی کہہ کر اس خطبے کو ختم کروں گا کہ سب دنیا سے جو احمدی آئے ہوئے ہیں اول تو وہ یہ معلوم کر لیں کہ ان کے بعض بھائیوں پر اس ملک میں کیا گزر رہی ہے؟ کیسے دردناک حالات سے وہ گزر رہے ہیں اور کس حو صلے کے ساتھ وہ اپنے عہدوں کو نبھا رہے ہیں اور خدا تعالیٰ سے کسی قیمت پر بھی بے وفائی کے لئے تیار نہیں.ان کے نمونوں کو ساری دنیا میں زندہ رکھنا ہم سب پر فرض ہے اور دوسری طرف اس لئے میں یہ واقعات پڑھ کے آج آپ کو سنا رہا ہوں کہ جہاں بھی جلسے کے شر کا ء واپس جائیں گے وہاں اپنی جماعتوں کو یہ واقعات بتائیں اور ان کو دعاؤں کی تحریک کریں.یہ واقعات ہم جہاں تک بس چلتا ہے دنیا کی نظر میں بھی لے کے آتے ہیں لیکن دنیا کی نظر میں لانے سے ہر گز یہ مراد نہیں کہ ہمارا اس بات پر انحصار ہے کہ وہ حکومت پاکستان کو مجبور کریں گے اور حکومتِ پاکستان ان بد کاروائیوں سے باز آجائے گی، ہرگز ایسا ہمارا کوئی انحصار نہیں اور وہ جو کوشش کرتے بھی ہیں ، وہ جو جوابات ہمیں بھجواتے ہیں وہ بڑے مایوس کن ہوتے ہیں.وہ بڑے بڑے ممالک کے بڑے بڑے نمائندگان جن کا اپنے ممالک میں بھی ایک غیر معمولی احترام ہے جن کی قوت وہاں محسوس کی جاتی ہے وہ بھی جب لکھتے ہیں حکومت پاکستان کو تو جو جواب وہاں سے آتا ہے اسے احمدی کو جس نے ان کے سامنے وہ حالات بیان کئے ہوئے ، بسا اوقات اس نوٹ کے ساتھ بھیج دیتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ بالکل جھوٹ ہے یعنی وہ جواب جو انہوں نے دیا ہے سراسر جھوٹ ہے لیکن اب میں کیا

Page 521

خطبات طاہر جلد ۶ 517 خطبہ جمعہ ۳۱ جولائی ۱۹۸۷ء کر سکتا ہوں میں نے ان کو لکھنا تھا میں نے اپنا فرض پورا کر دیا اس سے زیادہ میں کچھ کر نہیں سکتا اور اس سے زیادہ تمہیں توقع نہیں رکھنی چاہئے اور یہ بالکل درست ہے.لیکن ایک ذات ایسی ہے جس کے قبضہ قدرت میں انسان بحیثیت فرد ہی کے نہیں بلکہ ساری دنیا کی قومیں ، تمام مردہ اور زندہ وجود اس طرح ہیں کہ ایک ذرہ برابر بھی ، ایک شعشہ برابر بھی اس قبضہ قدرت سے باہر نکلنے کی کسی کو استطاعت نہیں ہے.اس لئے میں آپ کو متوجہ کر رہا ہوں کہ واپس جا کر اس بات پر زور دیں کہ اپنے مظلوم احمدی بھائیوں کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کے مصائب کا دور ختم فرمائے ، ان کے صبر کی آزمائشیں جتنی ہو چکیں انہیں اور زیادہ لمبا نہ فرمائے اور اگر اس کے ہاں یہی مقدر ہے اور جماعت کے عظیم تر مقاصد اس سے وابستہ ہیں کہ صبر کا دور کچھ اور لمبا چلے تو پھر ان کے حوصلوں کے دل بڑھا دے، ان کے عزم کو سر بلند رکھے، پہلے سے بڑھ کر اپنے پیار کا سلوک ان سے فرمائے اور ان کی دلداریاں کرے تا کہ وہ اس مشکل وقت میں حوصلے ہارنے کی بجائے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے پہلے سے بڑھ کر قائل ہوتے چلے جائیں اور ان کا ہر آنے والالمحہ ہر گزرے ہوئے لمحے سے بہتر ہوتا چلا جائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی نماز جمعہ کے بعد نماز عصر بھی جمع ہوگی اور نماز عصر کے معا بعد ہمارے ایک احمدی دوست چوہدری محمود احمد صاحب کی نماز جنازہ ہوگی جو پاکستان سے تعلق رکھتے تھے، وہاں شدید بیمار ہوئے اور علاج کی آخری چارہ جوئی کے طور پر کچھ عرصہ پہلے انگلستان تشریف لائے لیکن آپریشن کے بعد پھر ان کی طبیعت سنبھل نہ سکی.ان کے متعلق اطلاع ملی تھی دو تین دن پہلے کہ وہ وفات پاچکے ہیں اور آج ہی ان کا جنازہ تیار ہو کر آیا ہے.اس لئے نماز عصر کے معا بعد سامنے جنازہ ان کا آجائے گا اور ہم ان کی نماز جنازہ حاضر پڑھیں گے.

Page 522

Page 523

خطبات طاہر جلد ۶ 519 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء امت واحدہ بننے کے لئے پاکیزگی بھی ضروری ہے.بیوت الذکر، گھروں اور گلیوں کو صاف اور مزین کرنے کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۷ اگست ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت کی : وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَآمَنَّا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرهِمَ مُصَلَّى وَعَدْنَا إِلَى إِبْرَهِمَ وَاسْمُعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اور فرمایا: (البقره: ۱۲۶) یہ آیت جس کا میں نے آج انتخاب کیا ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ وقت یاد کر یا وہ ایک بہت ہی اہم وقت تھا جب ہم نے بیت اللہ کو بنی نوع انسان کے آنے کی جگہ ٹھہرایا دور دور سے چل کر آنا اور اپنا مقصود بیت اللہ کو بنانا قرار دیا وَ اَهُنَّا اور اس جگہ کو امن کی جگہ قرار دیا.وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ اِبْرهِمَ مُصَلَّى اور ابراہیم کے مقام پر اپنی نمازوں کی جگہ بناؤ.وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَجِمَ وَاسْمُعِيلَ أَنْ طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّابِفِينَ وَالْعَكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ اور ہم نے ابراہیم اور اسمعیل سے یہ عہد لیا کہ وہ میرے گھر کو دونوں مل کر پاک رکھیں گے تاکہ

Page 524

خطبات طاہر جلد ۶ 520 خطبه جمعه ۱۷ اگست ۱۹۸۷ء دور سے آنے والے طواف کی خاطر آئیں یا وہاں مسجد میں اعتکاف کی خاطر آئیں یا رکوع و سجود کی خاطر آئیں ان کو میرے گھر میں پاکیزگی کے سوا کچھ اور دکھائی نہ دے.یہ تشریحی ترجمہ ہے اس آیت کا.سب سے پہلے تو میں وَاتَّخِذُوا مِنْ مَّقَامِ إِبْرَهِمَ مُصَلَّی سے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں خانہ کعبہ کے پاس ایک مقام ابراہیم ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام عبادت کیا کرتے تھے.پس اس آیت کا عمومی مفہوم یہ ہی لیا جاتا ہے اور اسی مفہوم پر اکتفاء کی جاتی ہے کہ جب بھی حج پر لوگ پہنچیں اس مقام پر نماز پڑھنے کی کوشش کیا کریں جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نمازیں پڑھیں.اس مفہوم کے درست ہونے سے کوئی انکار نہیں لیکن اس میں اس سے ایک بہت اعلیٰ درجہ کا مفہوم بھی شامل ہے جس کا تعلق تمام بنی نوع انسان سے ہے.جہاں بھی وہ خدائے واحد کی پرستش کرتے ہوں جہاں بھی وہ نمازیں پڑھتے ہوں وہ اس آیت کے ارشاد کی تعمیل کرنے کے اہل ہیں.اہل جب میں کہتا ہوں تو مراد ہے ان کی طاقت میں ہے کہ اس کی تعمیل کی کوشش کریں.جہاں تک مرتبہ کے لحاظ سے اہلیت کا تعلق ہے ایک بہت ہی بڑا مطالبہ ہے جس کو پورا کرنے کی ہر انسان مقدرت نہیں رکھتا.مراد یہ ہے کہ ابراہیم نے جس انداز سے نمازیں پڑھیں جو مقام ابراہیم کو نماز پڑھنے میں خدا کے حضور حاصل تھا اس مقام کو اپنانے کی کوشش کرو.جس طرح کامل وفاء کامل الحاح، کامل اطاعت، کامل وفاداری کے ساتھ اپنی توجہ کو خالصہ اللہ کے لئے کرتے ہوئے اپنے وجود کو کوئی حصہ بھی باقی نہ چھوڑتے ہوئے ، اپنی رضا ، اپنی آرزوؤں کو یک نظر نظر انداز کرتے ہوئے ، کلیہ اپنے وجود کو خدا کے سامنے پیش کرتے ہوئے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام مقام عبادت پہ کھڑے ہو جایا کرتے تھے اس کو نمونہ پکڑو، وہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کر و عبادات میں.وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرهِم وَ اِسْمعِيْلَ اور ابراہیم اور اسمعیل دونوں سے ہم نے یہ عہد لیا کہ تم میرے گھر کو آنے والوں ، طواف کرنے والوں ، اعتکاف کرنے والے، رکوع کرنے والے اور تجود کرنے والوں کے لئے پاک رکھو گے.یہ جو دوسرا پہلو ہے یہ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے اور تمام بنی نوع انسان کے لئے اہمیت کا حامل ہے اس کے بھی دوسرے پہلو کی طرف، اس کے اندر بھی دو پہلو موجود ہیں ایک تو ہے خانہ کعبہ کو صاف اور پاک رکھنا اور دوسرا ہے جو تمام بنی نوع انسان سے تعلق رکھتا ہے اور ان سب کو ایک صفائی

Page 525

خطبات طاہر جلد ۶ 521 خطبہ جمعہ۷/اگست ۱۹۸۷ء اور پاکیزگی کی تعلیم دی گئی ہے کیونکہ خانہ کعبہ کو جب مشابةً لِلنَّاسِ قرار دیا اور امن کی جگہ قرار دیا تو خانہ کعبہ کو ہر انسان کے لئے ایک بہترین ماڈل قرار دے دیا.مَثَابَةً میں یہ مضمون بھی داخل ہے کہ وہ اسے ایک صلح نظر بنا کر اس کی طرف چلے آتے ہیں، وہ نمونہ ہے تمام بنی نوع انسان کے لئے بہترین گھر کا نمونہ.گھر میں جو سب سے اعلیٰ صفات ہونی چاہئیں وہ دو بیان فرمائی گئی ہیں اول طور پر.اول گھروں میں عبادتیں ہونی چاہیں.دوئم ہر گھر کو امن حاصل ہونا چاہئے اور سوئم ہر گھر صاف اور پاک ہونا چاہئے.تنزیل کے طور پر بیت اللہ سے اترتے ہوئے سب سے پہلے ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی مساجد کو پاک اور صاف رکھیں ، جہاں کہیں بھی وہ مساجد واقع ہوں ان کی صفائی ان کی پاکیزگی ، ان کی ظاہری زینت کا بھی خیال رکھیں.جہاں تک زینت کا تعلق ہے قرآن کریم میں دوسری آیت میں یہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہر سجدہ گاہ کے لئے اپنی زینت لے کے حاضر ہوا کرو، زینت اختیار کر کے سجدہ گاہوں کی طرف آیا کرو.تو جو شخص خود زینت کا محل نہ ہو وہاں زینت لے کے جانا ایک بے محل بات ہے، بے موقع بات ہے.مضمون میں یہ بات بھی داخل ہو گئی کہ مسجدیں مزین ہونی چاہئیں، صاف ستھری پاکیزہ نظر کو اس بھانے والی اور دیدہ زیب.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو ابھی بہت زیادہ توجہ دلانے کی ضرورت ہے.جہاں تک مساجد کا تعلق ہے اس کے ساتھ ڈیزائن میں تو کچھ کسی حد تک یہ اجازت دی جاسکتی ہے کہ قومیں اپنے منشاء اپنے مزاج کے مطابق اس کی تصویر بنائیں، اس کے مطابق اس کا ڈھانچہ تیار کریں.جس رنگ میں بھی قومیں پسند کرتی ہیں عمارتوں کے نقشے اپنی پسند کی جھلک اپنی مساجد میں بھی دکھانے کی کوشش کریں.اس حد تک تو کوئی اعتراض کی بات نہیں لیکن صفائی کے معیار کے لحاظ سے ہر قوم کی مسجد کا صفائی کا معیار مختلف ہو یہ بالکل اسلامی تعلیم کے خلاف بات ہے.جب بھی بیت اللہ کا ذکر کرے گا اور بیت اللہ کے نمونے پر قائم ہونے والی دیگر عبادت گاہوں کا مضمون سامنے آئے گا تو صفائی اور پاکیزگی کا مضمون اس کے ساتھ اس طرح لازم ہے جسے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا اور نمونہ خدا تعالیٰ نے ہمارے سامنے رکھ دیا اور پھر مسجد کی خدمت کو ایسا اعزاز بخشا ہے کہ اس سے بڑا اعزاز کسی مقام کی صفائی کے متعلق انسان کے تصور میں آہی نہیں سکتا.

Page 526

خطبات طاہر جلد ۶ 522 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء ہمارے ہاں معاشرے میں سمجھا جاتا ہے کہ خادم مسجد گویا معاشرے کی ایک معمولی سی چیز ہے بالکل جھوٹا اور لغو تصور ہے.جماعت کو اس تصور میں اصلاح کرنی چاہئے.خادم مسجد کا تو اتنا عظیم الشان مقام ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں نے اپنے بندوں ابراہیم اور اسمعیل کے سپر دمسجد کی خدمت کی تھی اور ان سے عہد لیا تھا کہ تم میرے گھر کی صفائی کے لئے نوکروں کی طرح حاضر رہا کرو.اللہ کے گھر کی صفائی ہو اور اس میں یہ خیال کے ہم نے خادم مسجد کے سپرد یہ ذمہ داری کردی ہے اور وہ چند پیسوں کے اوپر غریب آدمی جس کو اور کوئی ملازمت کی جگہ نہیں ملتی ، بوڑھا ہو گیا ہے، گزارے کی اور صورت نہیں وہ مسجد کی صفائی کر دیا کرے اور جیسی بھی کر دیا کرے ٹھیک ہے.یہ قرآن کریم کی اس آیت کے مضمون سے ٹکرانے والا عمل ہے ، اس سے متصادم ہے اور جماعت کو فوری طور پر اس معاملے میں اپنی اصلاح کی طرف توجہ کرنی چاہئے.تمام عالم میں جہاں جہاں بھی جماعت کی مساجد ہیں وہ غریبانہ تو ہوسکتی ہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں.ایسی غریب نہ بھی ہو سکتی ہیں کہ گھاس پھونس کی چھت ہو اور پانی ٹپکے اور زمین پختہ نہ ہو لیکن صفائی کے معیار سے ان پر کوئی انگلی نہیں اُٹھنی چاہئے.آنے والے کو معلوم ہونا چاہئے کہ جس کسی نے بھی یہ غریبانہ مسجد بنائی ہے اپنی تمام جان اور تمام استطاعت کے ساتھ اس نے کوشش کی ہے کہ یہ گھر صاف اور ستھرا اور پاکیزہ دکھائی دے.اس بات کا جماعت کے ساتھ ایک گہرا تعلق ایک اور رنگ میں بھی پیدا ہوتا ہے.ایک موقع پر پاکستان میں ہیں سال ، پچیس سال کے قریب کی بات ہے میں نے ایک مسجد کو نہایت ہی گندی حالت میں دیکھا کوئی جگہ نہیں ملتی تھی ایسی جہاں اطمینان سے انسان سجدہ کر سکے.ہر طرف تنکے بکھرے ہوئے ، خاک اڑتی اندر آتی تھی کسی نے کوشش نہیں کی کہ اس کو صفائی کر کے باہر پھینکے اور جماعت کے آپس میں جہاں تک اتحاد اور اتفاق اور محبت کا تعلق ہے اس کو بھی اسی حال میں پایا.چنانچہ میں نے ان کو توجہ دلائی، میں نے کہا آپ اگر مسجد کی عزت نہیں کریں گے اور مسجد کے لئے پوری کوشش کر کے، اس وقت میں نے یہ مثال تو نہیں دی لیکن جس حد تک بھی مجھے خیال آیا میں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ خدا کے گھر کا جو تصور آپ کے ذہن میں ہے اس کے مطابق اس کو سجانے اور زینت دینے کی کوشش نہیں کریں گے تو بعید نہیں کے آپ کے دل اسی طرح پھٹے رہیں اور

Page 527

خطبات طاہر جلد ۶ 523 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء آپ کے اوپر جو بد حالی کی تصویر بنی ہوئی ہے اس کو دور کرنے کی اور کوئی صورت نہیں ہے سوائے اس کے کہ آپ خدا کے گھر کے معاملے میں اپنی توجہ کو درست کریں، اپنی نیتوں کو صاف کریں.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جلدی تو اس بات کا اثر نہیں ہوا مگر جب بھی ہوا چند سالوں کے بعد اس جماعت کی حالت بھی بدل گئی ساتھ.ایک جگہ نہیں دیکھا میں نے ، دو جگہ نہیں ، بارہا دوروں کے وقت میں نے محسوس کیا کہ جو جماعتیں مسجدوں کی طرف توجہ دیتی ہیں ان کی اپنی حالت بھی اسی شان کے مطابق درست ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ایک براہ راست نسبت رکھتی ہے.جو جماعتیں اپنی مساجد سے غافل ہو جاتی ہیں ان کے اندر پراگندی آجاتی ہے، بدحالی کی کیفیت دن بدن بڑھتی رہتی ہے اور پھر یہاں تک کہ ایک دوسرے سے منتشر ہو کر بسا اوقات ایک دوسرے کی دشمنیوں کا بھی شکار ہو جاتے ہیں.تو یہ زائد فائدہ ہے جو جماعت کو حاصل ہو گا اگر ہر جگہ مساجد کے معیار کو بلند کرنے کی کوشش کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کی عمومی حالت پر اس کا بہت ہی اچھا اثر پڑے گا.اس سے اگلا مقام ہے زینت بخشنے کا.جہاں جہاں ممکن ہے وہاں مسجد کو پھولوں سے سجانا چاہئے.اردگرد کیاریاں لگائی جائیں، جہاں جہاں ایسے ساتھ صحن موجود ہیں جن کو سجایا جا سکتا ہے، سائے کا انتظام کرنا چاہئے.احمدی مسجد باقی تمام دنیا کی مساجد سے اس لحاظ سے امتیاز اختیار کر جائے کہ دولت کی بھر مار وہاں نظر نہ آئے مگر خلوص اور محبت ،صفائی اور پاکیزگی کی صورت میں اس مسجد پر ہمیشہ نچھاور ہورہا ہو.نظر پڑے تو محسوس کرے کہ ایسے لوگوں کی مسجد ہے جو خدا کی عبادت سے محبت رکھتے ہیں.جو اپنے گھر پر خدا کے گھر کو ترجیح دینے والے ہیں.اس کے برعکس ایک ایسی بھیا نک شکل اور بھی نظر آتی ہے کہ اپنے گھر سجانے والوں کی مسجد میں بھی برے حال میں ہوتی ہیں.بعض ایسے علاقے ہیں جہاں گھروں کی طرف بڑی توجہ دی جاتی ہے.طبعا اور فطرتا ان کو شوق ہے کہ گھر اچھے رکھے جائیں لیکن اس کے باوجود مسجد کی حالت زبوں ہوتی ہے اندر جائے انسان تو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں کچھ تاریکی کا سایہ ہے.اندر جا کر اطمینان سے بیٹھنے کا لطف نہیں آتا.تو امید رکھتا ہوں کہ اس طرف بھی خصوصیت سے توجہ دیں گے کیونکہ ملتِ واحدہ بنانے کے پروگرام میں اس کو بھی ایک بڑی اہمیت حاصل ہے.ہم اس صدی کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں

Page 528

خطبات طاہر جلد ۶ 524 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء جہاں بڑے نیک عزم لے کر ہم داخل ہونے والے ہیں.ان عزائم میں سے ایک عزم یہ تھا کہ ہم تمام بنی نوع انسان کو ملت واحدہ بنانے کے لئے ایک نمونے کی جماعت پیش کریں گے جو ملت واحدہ کا نمونہ خود ہوتا کہ دوسروں کو اسی شکل وصورت کے اوپر ملت واحدہ بننے کی دعوت دے رہی ہو.مساجد کوملت واحدہ بنانے میں سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے کیونکہ مساجد کے اور پہلو بھی ہیں.نمازوں کی طرف میں پہلے توجہ دلا چکا ہوں، باجماعت نماز کی طرف عبادت کا معیار بلند کرنے کی طرف اس پہلو سے میں دوبارہ اس مضمون کو نہیں دہرا تا لیکن خود مساجد کے معیار کو اور مساجد کے متعلق جماعت کے رجحان کو بھی ملت واحدہ کے مضمون سے گہرا تعلق ہے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ آئندہ دنیا میں ہر جگہ جماعت کی مساجد صفائی اور پاکیزگی کے اعتبار سے خانہ کعبہ کے اس معیار کو اپنا نمونہ بنائیں گی.مساجد نمونہ بنائیں گی جب میں کہتا ہوں تو مراد ہے جماعتیں ان کو نمونہ بنائیں گی تو ہماری مساجد بھی انشاء اللہ آئندہ خانہ کعبہ کے اس معیار کے نمونے پر پورا اترنے کی کوشش کریں گی جس کا اظہار اس آیت میں فرمایا گیا ہے.اور دوسرا پہلو میں دوبارہ یاد کراؤں کہ مسجد کی خدمت کے اعزاز کو ہم نے قائم کرنا ہے.بہت سے ایسی مساجد دنیا میں ہیں جن میں کروڑوں اربوں روپیہ خرچ کیا گیا ہے اور بڑے بڑے خادم مسجد وہاں ہمہ وقت مستعد رہتے ہیں کہ مسجد کے کونے کونے کو صاف اور ستھرارکھیں.جماعت احمدیہ کی مساجد میں جو امتیاز ہونا چاہئے وہ یہ کہ دنیا کے لحاظ سے جو اونچے مرتبے پر فائز کئے گئے ہیں ان کو رزق میں فضیلت دی گئی ہے، دیگر عزتوں کے لحاظ سے جن کو اپنے دوسرے بھائیوں پر ایک اعزاز بخشا گیا ہے ، وہ مسجدوں کی صفائی میں ذاتی حصہ لینے کی کوشش کریں اور اس بات کو خاندان اپنا اعزاز سمجھیں کہ وہ وقف کرتے ہوں کہ آج کا دن ہمیں دیا جائے تا کہ ہم اس مسجد کی صفائی کریں اور بڑے اور چھوٹے کی تفریق اس معاملے میں نہ ہو بلکہ وہی بڑا ہو گا خدا کے نزدیک جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسمعیل علیہ السلام کی سنت کو زندہ کرنے کی کوشش کر رہا ہو.چنانچہ اس آیت کا وہ بھی ایک رنگ میں مصداق بن جائے گا.تو مساجد بھی مصداق بن رہیں ہوں اور مسجدوں کی خدمت کرنے والے بھی اس آیت کا مصداق بن رہے ہوں تو ایک بہت ہی پاکیزہ اور دلفریب تبدیلی جماعت کے اندر محسوس ہوگی.

Page 529

خطبات طاہر جلد ۶ 525 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء اس کا تیسرا پہلو ایک اور ہے کہ جب خدا کے گھروں کا ایک نمونہ ہمارے سامنے رکھا گیا تو ہمارے گھر بھی تو اسی نمونے کے مطابق صاف ستھرے اور پاکیزہ ہونے چاہئیں اور ہمارے اندر صفائی کی عادت پیدا ہونی چاہئے.اس لحاظ سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا میں ابھی جماعت کی تربیت کی بہت ضرورت ہے.عمومی جائزے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ صفائی ایک قومی خلق بن گئی ہے اور دینی خلق نہیں رہی.پاکستان کے احمدی کی صفائی کا معیار علاقے علاقے میں مختلف ہوتا چلا جاتا ہے.ہندوستان کے احمدی کے گھروں کی صفائی یا پاکیزگی کا معیار بھی علاقے علاقے میں مختلف ہوتا چلا جاتا ہے.یورپ کے احمدیوں کا معیار اپنے علاقے سے مناسبت رکھتا ہے.امریکہ کے احمدیوں کا معیار اپنے علاقے سے مناسبت رکھتا ہے.بنگلہ دیش کے احمدیوں کا معیار اپنے علاقے سے مناسبت رکھتا ہے.حالانکہ اسلام نے صفائی کو دین کے ساتھ وابستہ کیا ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ صحیح معنوں میں کوئی انسان دین کو سمجھتا ہو اور دین کے لحاظ سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھتا ہو تو وہ صفائی کو اپنے دینی عوامل کا حصہ نہ بنائے.پس جب ہم صفائی کی بات کرتے ہیں تو یہ کہنا درست نہیں ہے کہ ہمارے یورپ میں بسنے والے احمدی بڑے اچھے اور صاف ستھرے ہیں ، امریکہ میں بسنے والے صاف ستھرے ہیں کیونکہ وہ اگر صاف ستھرے ہیں تو ان کو یہ صفائی احمدیت یعنی حقیقی اسلام سے نہیں ملی بلکہ اپنی عادات کے نتیجے میں ملی ہے اور جو صفائی ملی ہے اس میں بھی بڑی خامیاں ہیں کیونکہ قومی صفائی کے تصور دینی صفائی کے تصور سے پوری طرح مطابقت نہیں کھایا کرتے.ہمارے ہاں جو پاکی ناپاکی کا ایک مضمون ہے وہ ان قوموں کی صفائی میں داخل نہیں ہے.نہایت گندی اور غلیظ چیزیں بھی بعض گھروں میں آپ کو دکھائی دیں گی اور اس کے باوجود وہ گھر صاف ستھرے ہیں.شیشوں کی طرح چمکتے ہوئے گھروں میں کئی قسم کی گندگیاں بھی نظر آتی ہیں لیکن اس کی ان کو پرواہ نہیں ہے.تو جب ہم اسلام کے نقطہ نگاہ سے صفائی کی بات کرتے ہیں تو مراد ہے وہ صفائی کا تصور جو قرآن نے پیش فرمایا، جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے پیش فرمایا اور آپ نے اسے دین کا حصہ بنا دیا ہے.چنانچہ ابو مالک الاشعری سے روایت ہے انہوں نے کہا: قال قال رسول الله الله الطهور شطر الايمان (مسلم کتاب الطهارة حدیث نمبر : ۳۲۸) کہ ابو مالک الاشعری روایت کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا کہ پاکیزگی ایمان کا ایک حصہ ہے اسے ایمان سے الگ

Page 530

خطبات طاہر جلد ۶ 526 خطبہ جمعہ۷/اگست ۱۹۸۷ء قرار نہیں دیا جا سکتا.اس پہلو سے احمدی کے گھر کی صفائی بھی اس کے ایمان کے ان فرائض میں داخل ہو جاتی ہے جو ایمان نے اس پر عائد کی ہے اور تمام دنیا کے احمدی کے گھر کی صفائی اسلام سے حاصل کردہ تعلیم کے مطابق ہونی چاہئے.جس کا مطلب یہ ہے کہ گھروں کی صفائی بھی امت واحدہ پیدا کرنے میں بہت حد تک ممد اور معاون ثابت ہو سکتی ہے.اگر اس تعلیم پر تمام احمدی دین کا حصہ سمجھتے ہوئے عمل کریں تو ساری دنیا میں خواہ غریب گھر ہوں یا امیر گھر ہوں ،غریب ملکوں کے گھر ہوں یا امیر ملکوں کے گھر ہوں وہاں صفائی کو وہ معیار ضرور قائم ہو سکتا ہے جو اسلام نے عائد کیا ہے کیونکہ اسلام نے جو بھی صفائی ضروری قرار دی اس پر پیسہ نہیں لگتا.اُس پر توجہ درکار ہوتی ہے.ایک صفائی والے مزاج کی ضرورت ہے، غیر معمولی یا معمولی بھی خرچ کی ضرورت نہیں ، ادنیٰ سے ادنی غریب انسان یعنی مالی نقطہ نگاہ سے جسے ہم ادنی کہہ سکتے ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ امیر ترین انسان بھی اسلامی صفائی کی تعلیم میں برابر ہو سکتے ہیں.یہ بھی اسلامی مساوات کا ایک عجیب حصہ صلى الله پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جو صفائی کی تعلیم دی اس کو ہمارے گھروں میں بھی منعکس ہونا چاہئے.آنحضرت ﷺ نے اس مضمون کو بھی خوب کھول دیا ہے کہ صاف ستھرا رہنا ، دیدہ زیب لباس اختیار کرنا اور عموماً اچھا نظیف انسان بن کر معاشرے میں ظاہر ہونا اس کا براہ راست کبر سے تعلق نہیں ہے.کبر کا مضمون اور ہے اور صفائی کا مضمون اور ہے.اچھے کپڑے پہنا کبر کی نشانی نہیں ہے.چنانچہ ایک موقع پر حضرت عبداللہ بن مسعود روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا و شخص جنت میں داخل نہیں ہوگا جس کے دل میں ذرہ برابر بھی کبر پایا جاتا ہو.سننے والوں میں سے ایک کے دل میں یہ خوف پیدا ہوا کہ بعض لوگ اچھے کپڑے پہن کر نکلتے ہیں سج دھج کر باہر آتے ہیں کہیں یہ تو نہیں کہ نعوذ باللہ وہ بھی جہنم میں چلے جائیں گے کیونکہ وہ اچھے کپڑے پہنتے ہیں اور ان کے دوسرے بھائیوں سے نمایاں دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ انہوں نے معین طور پر یہ سوال کیا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ انسان چاہتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو اس کا جوتا اچھا ہو.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے.تکبر تو حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے.مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر: ۱۳۱) ایسی حیرت انگیز صفائی کے ساتھ آپ نے تکبر کا تجزیہ کر دیا ہے کہ اس کے بعد کسی کے لئے کسی غلط فہمی کا امکان ہی باقی نہیں رہنا چاہئے.

Page 531

خطبات طاہر جلد ۶ 527 خطبه جمعه ۱۷ اگست ۱۹۸۷ء دو قسم کے اچھے کپڑے پہنے والے باہر نکلتے ہیں.ایک وہ جو کپڑے پہنے ہوں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ کپڑوں میں گرفتار ہو گئے ہیں، کپڑوں کے غلام بن گئے ہیں.کپڑے ان پر سوار ہیں بجائے اس کے کہ انہوں نے اپنی ضرورت کے لئے کپڑے پہنے ہوں.کریز کا دماغ میں ایسا خیال ہوتا ہے کہ بیٹھتے ہیں تو بہت ہی احتیاط کے ساتھ ، تیزی سے حرکت نہیں کریں گے کہ ان کے کپڑوں کی سلوٹ میں فرق نہ پڑ جائے ،معمولی ساکسی بے چارے کا ہاتھ لگ جائے میلا تو جھٹکتے ہیں اس کونفرت کے ساتھ.چھوٹا بچہ کبھی پیار کے ساتھ ان کے پاس آجائے ہاتھ لگا لے تو ان کے چہرے کی آپ تیوریاں دیکھیں.وہ اتنے بھی اخلاق نہیں باقی رہتے کہ چھوٹے بچے نے غلطی سے ہاتھ لگایا ہے اس سے غصہ کا اظہار نہ کریں.یہ ساری باتیں تکبر کے پس منظر کی نشاندہی کرتی ہیں.نماز پڑھنی ان کے لئے مشکل ہو جاتی ہے سجدے میں جاتے ہیں تو ہر وقت یہ دھیان کے میری شلوار یا میری پتلون کی سلوٹیں خراب نہ ہو جائیں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہ اتنی باریک نظر سے اپنے غلاموں کو دیکھا کرتے تھے اور ایسی باریک نظر سے تربیت فرمایا کرتے تھے.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ جب سجدے کے لئے جانے لگو تو اپنے کپڑے نہ سمیٹا کرو.(بخاری کتاب الاذان حدیث نمبر: ۷۷۴ ) دو شکلیں ہیں کپڑے سمیٹنے کی.ایک تو یہ کہ وہ رکاوٹ پیدا کرتا ہو.یہ مراد نہیں ہے کہ اس رکاوٹ کو دور نہ کرو کیونکہ اس سے توجہ بٹتی ہے ، مراد یہ ہے کہ توجہ کپڑوں کی طرف نہ کیا کرو.ان دو چیزوں میں ایک بڑا نمایاں فرق ہے.اگر ایک شخص کپڑوں کی طرف توجہ رکھنے کی وجہ سے سمیٹتا ہے تو وہ آنحضرت ﷺ کی حکم کی خلاف ورزی کرتا ہے.اگر ایک شخص اس لئے سمیٹتا ہے کہ کہیں کپڑوں کی طرف توجہ نہ رہے کہیں پھنسا ہوا ہے کہیں ایسی مشکل پیدا کر رہا ہے کہ سجدے میں توجہ قائم نہیں ہوتی اور دماغ میں یہی بات رہتی ہے کہ فلاں جگہ میری شلوار اس طرح اٹک گئی ہے کہ مجھے تکلیف پہنچارہی ہے، یا میری پتلون اس طرح انکی ہوئی ہے کہ مجھے تکلیف پہنچا رہی ہے.ایسے موقع پر اس تکلیف کو دور کرنا توجہ خدا کی طرف مبذول کروانے کی خاطر، یہ آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے منافی نہیں ہے.پس آپ نے جب یہ فرمایا کہ تکبر حق کا انکار اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے تو ساتھ ہی ایک ہی قسم کالباس پہننے والوں کے اندر بھی ایک تفریق کا سامان پیدا فرما دیا.بعینہ ایک ہی طرح کا لباس پہننے

Page 532

خطبات طاہر جلد ۶ 528 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء والے دو آدمی آپ کو مل سکتے ہیں جن میں ایک تکبر کے نتیجے میں پہن رہا ہو اور ایک اس وجہ سے کہ خدا تعالیٰ نے اس کے لئے زینت کا سامان پیدا فرمایا ہے اور خدا تعالیٰ نے موقع دیا ہے کہ صاف ستھرا ہو.اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند فرماتا ہے اور ایک شخص جب باہر نکلتا ہے تو جس کے کپڑے اس سے کمزور ہوں ، اس سے خراب ہوں وہ ان کو اس نظر سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ یہ تو کچھ بھی نہیں ، اس کا تو سوٹ پتا نہیں کہاں سے سلوایا ہوا ہے پاگل نے ، جس درزی سے سلوایا ہے اس کو سوٹ سینا ہی نہیں آتا.ٹائی کا رنگ دیکھ لو قمیض کے ساتھ میچ نہیں کر رہا، جرا ہیں اس کے سوٹ کے ساتھ میچ نہیں کر رہیں اس کی نظر ہر وقت اسی دھیان میں پڑی رہتی ہے کہ فلاں کے کپڑے ایسے ہیں ، فلاں کے کپڑے ایسے ہیں اور اپنے کپڑوں کے متعلق یہ احساس برتری کہ دیکھو میرے کیسے عمدہ کپڑے ہیں.اس معاملے میں ہماری خواتین کی بہت تربیت کی ضرورت ہے.چنانچہ جب وہ مجالس میں جاتی ہیں تو واپس آکر اکثر ان کی گفتگو یہی ہوتی ہے کہ فلاں کے کپڑے دیکھے تھے کیسے تھے، فلاں کے کیسے تھے، فلاں کے کیسے تھے.اس مضمون میں ایک تو دلچسپی اس رنگ میں بھی ہوسکتی ہے طبعی طور پر کہ کسی کے اچھے کپڑے پسند آئے ہوں اور باتیں ہو گئی ہوں لیکن اس سے بڑھ کر بات اس مضمون پر اکثر چلتی ہے کہ کیسا بے ڈھنگا جوڑا پہنچا ہوا تھا اس نے ، اس کے تو رنگوں کا ہی نہیں پتا، اس کا جو کام تھا وہ اس قسم کا تھا، اس کی بناوٹ بے ڈھب تھی.اس قسم کی باتیں کر کے تو وہ لطف اٹھاتی ہیں اور لطف اٹھانے کے ساتھ ہی آنحضرت ﷺ کی اس تعریف کی زد میں آجاتی ہیں کہ تکبر تو لوگوں کو حقیر جاننا ہے، اچھے کپڑے پہنا تو نہیں.ان کے اچھے کپڑے جمال کی حد سے نکل کر ایک مکروہ دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں.وہ جس طرح خدا کے بندوں کو تحقیر سے دیکھ رہے ہوتے ہیں ایسے لوگ اپنے اچھے کپڑوں کی وجہ سے ان کے کپڑوں پر خدا کی تحقیر کی نظر پڑ رہی ہوتی ہے، یہ متکبر لوگ ہیں ان کے کپڑوں کی کوئی حیثیت نہیں.تو ایک ہی جیسے کپڑوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی فراست نے کتنا نمایاں فرق کر کے دکھا دیا.ایسے بے ساختہ آپ جواب دیا کرتے تھے اور اتنی گہرائی ہوتی تھی اس میں کہ جب ہم اس کا مطالعہ کرتے ہیں تو عاشق ہو جاتا ہے دل اس عظیم الشان وجود پر.چھوٹے سے چھوٹے معاملے میں حیرت انگیز باریکی کے ساتھ آپ کی نظر تمام ان محرکات پر پڑتی تھی جو نیتوں کے پیچھے کارفرما ہوتے ہیں.

Page 533

خطبات طاہر جلد ۶ 529 خطبہ جمعہ ۷/اگست ۱۹۸۷ء پس تکبر کو چھوڑتے ہوئے اس سے بچتے ہوئے ،اس سے انتہائی کوشش کے ساتھ احتراز کرتے ہوئے اپنے اندر، اپنے گھروں کے اندر زینت پیدا کرنے کی بھی کوشش کریں اور زینت آپ کی صفائی کی اس طرح حفاظت کرے گی جس طرح نوافل فرائض کی حفاظت کرتے ہیں.جن لوگوں کوزینت کی عادت ہو جاتی ہے وہ صفائی کے ادنی معیار پر نسبتاً زیادہ آسانی کے ساتھ پورا اترتے ہیں کیونکہ زینت صفائی سے آگے ایک نفلی قدم ہے.جتنا زیادہ آپ زینت کی طرف توجہ کریں گے، ان شرائط کے ساتھ جو میں نے بیان کی ہیں، اتنا ہی صفائی کا معیار خود بخو داونچا ہوتا چلا جائے گا.پس گھروں میں صفائی پیدا کرنا، اپنے جسم میں صفائی پیدا کرنا اور حتی المقدور کوشش کرنا کہ ان میں زینت پیدا ہو اور زینت بھی کسی غیر معمولی خرچ کو نہیں چاہتی.ہر انسان اپنے حالات کے مطابق ذراسی بھی کوشش کرے تو زینت کا کوئی نہ کوئی رنگ اختیار کر سکتا ہے.میں نے دیکھا ہے غریب قوموں میں بھی بعضوں میں جہاں زینت کی طرف توجہ ہے وہ لپائی ایسی صاف ستھری کرتی ہیں یعنی ان کی عورتیں کہ ان کے گھر سجے ہوئے نظر آتے ہیں.ایسے دیہات غریب دیکھے ہیں میں نے جہاں مزاج میں زنیت پائی جاتی ہے.ان کے کھلیان بھی سجے ہوئے ہوتے ہیں، ان کے گھروں کے صحن صاف ستھرے اور پاکیزہ اور ان کے گوبر اور مٹی سے کی ہوئی لپائی کا معیار ہی ایسا اچھا ہوتا ہے کہ انسان کھڑے ہو کر دیکھتا ہے اور نظر لذت محسوس کرتی ہے.تو زینت بھی غربت میں اختیار کی جا سکتی ہے، مزاج میں زینت کی صلاحیت ہونی چاہئے.پس آنحضرت ﷺ کے ان ارشادات کی روشنی میں تمام دنیا کی جماعتوں کو اول اپنے بیوت کا معیار بہت بلند کرنا چاہئے.سب سے زیادہ توجہ کا مرکز اللہ کا گھر ہونا چاہئے کسی محلے میں کسی شہر میں اور ساری جماعت کو اس کو پاکیزہ رکھنے میں اور اسے زینت بخشنے میں حصہ لینے کی اس طرح کوشش کرنی چاہئے کہ اگر حصہ ملے تو اپنا اعزاز سمجھے اگر حصہ نہ ملے تو محرومی سمجھے.اسی طرح اپنے گھروں کو بھی خدا کے گھروں کے نمونے کے مطابق بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ لوگ جو باہر سے آئیں گے اور آنے والے ہیں کثرت کے ساتھ جب بھی وہ احمدی گھروں میں داخل ہوں تو ان کو محسوس ہو کہ یہ اسلامی گھر ہیں اور ہر دنیا کے احمدی گھر میں ایک قدرے مشترک پائی جائے یعنی پاکیزگی صفائی ، زینت.بعض قوموں میں واقعہ یہ اسی رنگ میں اس مضمون کو سمجھا گیا ہے اور گھروں کی طرف اسی

Page 534

خطبات طاہر جلد ۶ 530 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء طرح توجہ دی جاتی ہے لیکن مشرقی قوموں میں اکثر اس طرف توجہ نہیں ہے.میری ملاقات سوئٹزر لینڈ کے دورے پر ایک بوسنیا کے مسلمان سے ہوئی اور ان کے گھر جانے کا موقع ملا.محبت سے وہ پیش آئے جماعت احمدیہ سے متعلق بھی بے انتہا محبت کا اظہار کیا اور عملاً ابھی بیعت تو نہیں کی لیکن ہر پہلو سے اپنے نظریات میں اپنے مزاج میں، اپنے رجحان میں وہ احمدی ہو چکے ہیں.جب میں دورے سے واپس آیا تو وہ مبلغ انچارج سے ملے اور بڑی معذرتوں کے بعد انہوں نے کہا کہ میں ہر طرح سے تم سے مل کر خوش ہوں، راضی ہوں ، ہر بات سے اتفاق ہے لیکن ایک مجھے چھوٹا سا شکوہ ہے مجھے ابھی سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیوں ہوا ہے ایسا واقعہ.انہوں نے کہا بات کیا ہے؟ انہوں نے کہا بات یہ ہے کہ جب وہ میرے گھر آئے تھے تو بوٹ اتارے بغیر گھر میں داخل ہو گئے تھے.انہوں نے کہا یہ اس میں کیا بات ہے یہ تو سارا یہی ہوتا ہے یہاں.انہوں نے کہا ” ہیں؟ آپ کے ہاں یہی ہوتا ہے؟ اسلام نے تو گھروں کی صفائی کا ایسا معیار مقرر کیا ہے کہ ہمارے بوسنیا میں تو کوئی شخص بھی جو مسلمان ہو بوٹوں سمیت گھروں میں داخل نہیں ہوتا اور وجہ یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں گھر کو چپہ چپہ ایسا ہونا چاہئے جہاں سجدہ کیا جا سکتا ہو خدا کو اور بہت برے حال تک وہ لوگ پہنچ گئے لیکن اس معیار کو آج بھی انہوں نے قائم رکھا ہوا ہے.اس شکوے پہ میرا دل عش عش کر اٹھا ، میں نے ان سے کہا کاش! ہر جگہ ہمارے ہاں یہی رواج بن جائیں کہ ایسے گھر پاکیزہ رکھے جائیں کہ گویا اس کے چپہ چپہ پر سجدہ ہو سکے.لیکن یہ معیار حاصل کرنا بہت مشکل کام ہے اور بعینہ گھر کے ہر حصے کو ایسا بنانا ہم پر فرض نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم اور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ گھر کے بعض حصوں کو وقف کرنا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ نے تو بہت کھل کر بیان فرمایا ، بار بار وضاحت سے فرمایا کے گھروں میں ایک ایسا حجرہ ہونا چاہئے ، ایک ایسی الگ جگہ ہونی چاہئے جہاں جا کر تم عبادتیں کرو اور خدا کی طرف تبتل اختیار کرو.( حدیث اسماعیل بن جعفر جلد اول حدیث نمبر۰ ۳۱) بچے ہوتے ہیں، بچوں کی عادتیں مختلف اور پھر کام بھی ہمارے ہاں بہت ہوتے ہیں.اس کے علاوہ بعض گھروں میں ماشاء اللہ سات سات، آٹھ آٹھ بچے پیدا ہو جاتے ہیں اب وہاں کس طرح وہ عورت بے چاری نبٹے گی کاموں سے کہ وہ گھر کا معیار الیسا بلند رکھ سکے لیکن بہر حال جو رکھ سکتے ہیں انہوں نے کمال کر دیا، اس میں کوئی شک نہیں.قابل تعریف ہیں وہ لوگ جنہوں نے صفائی کے معیار کو اس انتہا تک پہنچا دیا ہے کہ ان کے گھروں میں ہر چیپہ پر سجدہ ہوسکتا ہے وہ مسجدیں بن گئی ہیں.

Page 535

خطبات طاہر جلد ۶ 531 خطبہ جمعہ ۷ / اگست ۱۹۸۷ء تو جہاں ممکن ہے وہاں جماعت کو یہ بھی کوشش کرنی چاہئے، یعنی صلح نظر بلند تر رہنا چاہئے.ایک اور بات گھروں کی صفائی کے نتیجے میں کہہ کر اب میں اس مضمون کو ختم کروں گا کہ گھروں کی صفائی عمومی عادات کی صفائی سے گہرا تعلق رکھتیں ہیں.جو لوگ گندے مزاج کے ہوں وہ گھر کیسے صاف رکھیں گے.انسانی مزاج منعکس ہوتا ہے گھروں میں.اس لئے جب کہتے ہیں گھروں کی صفائی رکھو اور ان کو پاک نمونہ بناؤ تو ظاہر بات ہے کہ آپ کی شخصی عادات کو بھی صاف ہونا ہوگا اور نمونہ بنا ہوگا.اپنے مزاج میں شائستگی پیدا کریں ، صاف اور ستھرا بدن ، رہن رکھنے کی عادت ڈالیں اور جہاں تک ممکن ہے غریبانہ کپڑے بھی ہوں تو دھوکر ، بار بار دھو کر ان کو پہنا جائے.ایک غریب گھر کے متعلق مجھے کسی نے بتایا ہماری ہمشیرگان میں سے کسی نے اطلاع دی کہ بہت غریبانہ ان کا گزارہ تھا لیکن اچھے وقتوں سے ان کے اندر یہ عادت چلی آرہی تھی جسے انہوں نے آخر وقت تک بڑی عمدگی کے ساتھ قائم رکھا اس کی حفاظت کی کہ جب بھی گھروں میں بچے واپس آتے تھے تو آتے ہی وہ کپڑے بدلتے تھے دوسرے گھر کے کپڑے پہنتے تھے اور روزانہ اپنے کپڑے دھوتے تھے خود اور ان کو لٹکا کر سو کھنے کے لئے پھر وہ نہا کر کھانا کھایا کرتے تھے.بڑی مشکل عادتیں ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہیں بہت اعلیٰ اور پاکیزہ.جن لوگوں میں یہ عادتیں اختیار کی جاسکتی ہوں وہ بے شک کریں لیکن کم سے کم معیار سے نہیں گرنا ، یہ تو ساری جماعت پر فرض ہے.دیکھنے میں صاف ہوں، بولنے میں ان کے صفائی ہوان کی عادات میں ان کے مزاج میں صفائی ہو ، گھر اچھے اور پاکیزہ ہوں.لیکن ایک آخری تنبیہ میں ضرور کروں گا کہ گھروں کی صفائی کے نتیجے میں گلیاں نہ گندی کریں اس کا آپ کو حق نہیں ہے، یہ اچھی عادت کی بجائے ایک بری عادت کا مظہر بات ہے.بعض ہمارے پاکستان میں ایسے قصبے ہیں جن کے اندر گھروں کی صفائی کا معیار بہت بلند ہے ، شیشے کی طرح چمک رہے ہوتے ہیں اور گلیاں اتنی گندی که بد بوئیں اور غلاظتیں ان کی نالیوں میں بہتی اور ہر چیز گندی باہر سڑکوں پر پھینکی ہوئی.وہ لوگ بیچارے جن کے جسم پر خارش، وہ گلیوں میں جہاں جہاں بیٹھیں گے وہ خارش کرتے ہوئے آپ کو دکھائی دیں گے کسی کو آدھی جلد میں کسی کو پوری جلد میں بال اڑے ہوئے.نہایت مکروہ منظر ان کی گلیاں پیش کرتی ہیں.اسی لئے بیماریاں بھی بہت زیادہ ہیں وہاں لکھی بھی ہے ، گند بھی ہے لیکن قومی

Page 536

خطبات طاہر جلد ۶ 532 خطبه جمعه ۱۷ اگست ۱۹۸۷ء عادت ہے، گھر صاف ہیں.گھروں کو خوب صاف رکھتے ہیں مانجھتے ہیں یعنی اپنا گند سوسائٹی کے سپرد کر دیا.اس کا کسی احمدی کو کوئی حق نہیں ہے.اپنا گندا اپنے گھر سے دور کر کے قوم کے سپرد نہیں کرنا یعنی قوم کے اوپر نہیں پھینکنا بلکہ اس کی حفاظت کا انتظام کرنا ہے جہاں اچھی میونسپل کمیٹیاں ہیں وہاں تو ایسے انتظامات ہوتے ہیں سہولت کے ساتھ کہ گندگی کو ڈبوں میں بند کیا جاسکتا ہے.جہاں نہیں ہے اور احمدی گاؤں ہے وہاں ان کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ مل کر ایسا انتظام کریں کہ گھروں کا گند باہر گلیوں میں نہ پھینکا جائے، گھروں کی گندگی نالیوں میں نہ ہے.جہاں تک ممکن ہے اس کو اس برائی کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ قومی انتظام نہ بھی ہو تو گھروں کو اپنے طور پر کچھ ایسے ذرائع اختیار کرنے چاہئیں کہ وہ ایک نیکی کو اختیار کرتے ہوئے ایک بڑے جرم کا شکار نہ ہو جائیں.قوم کے جو حقوق ہیں وہ افراد کے ذاتی حقوق پر کئی پہلوؤں سے فوقیت رکھتے ہیں ان میں ایک یہ بھی کہ اپنی صفائی کو قوم کا گند بنانے کا کسی کو حق نہیں.اس لئے یا تو قومی طور پر مل کر وقار عمل کے ذریعے ایسے انتظام کئے جائیں یا کوئی پھر اپنے گھروں میں ایسے بڑے ڈبے رکھ لیں کہ وقتا فوقتا اس کے خالی کرنے کی کوشش کی جائے گھر والوں کی طرف سے کسی ایسی جگہ جہاں گندگی کے لئے ڈھیر مقرر کئے جاتے ہیں.تو ان سب باتوں کی طرف توجہ کریں میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اگلی صدی سے پہلے اس پہلو سے بھی ہم ایک امت واحدہ بننے کی کوشش کریں گے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے ایک نہایت پاکیزہ اور صاف شفاف امت واحدہ کے طور پر ظاہر ہوں گے.اللہ کرے کہ ہمیں اس کی توفیق عطا ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج بھی جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہوگی کیونکہ ابھی تک باہر سے آنے والے مہمانوں کی کثرت ہے اور ان کے لئے تکلیف کا موجب ہوتا ہے کہ ظہر کے بعد واپس جائیں جو بہت دور دور جگہیں ہیں پھر وہ واپس عصر کے لئے تشریف لا ئیں.تو اس لئے آج کے جمعہ میں بھی اس کے ساتھ ہی انشاء اللہ عصر کی نماز جمع کی جائے گی.کل تک دیکھا جائے گا اگر ممکن ہوا تو ظہر اور عصر کی نماز میں الگ کر دی جائیں گی اور جب تک مغرب اور عشاء کی ضرورت محسوس ہو گی باہر سے آنے

Page 537

خطبات طاہر جلد ۶ 533 خطبه جمعه ۷ / اگست ۱۹۸۷ء والوں کی کثرت کی وجہ سے وہاں ان کا زیادہ حق ہے سہولت پیدا کرنے کا.تو وہ دیکھ لیں گے انشاء اللہ کل سے کب تک چلنا ہے آئندہ.نماز عصر کے بعد چونکہ جمع ہوں گی ، نماز جنازہ ہوگی چند مرحومین کی جن کے نام میں آپ کو پڑھ کر سنا دیتا ہوں، نماز جنازہ غائب.ایک حکیم قریشی نذیر احمد صاحب النصرت دوا خانہ ربوہ جو ہاضمون والے کے نام سے مشہور تھے، بہت سے دوست ان کو جانتے ہیں اس لحاظ سے.۷۲ سال کی عمر میں آپ وفات پاگئے ہیں.ہمارے انگلستان کی جماعت کے ایک بہت ہی مخلص اور مستعد خادم حمید احمد لائل پوری کے خسر تھے.مکرم نذیر الہی صاحب جو پیٹس برگ کے پریذیڈنٹ تھے امریکہ میں ان کے متعلق بھی عبدالرشید صاحب مبلغ واشنگٹن نے وفات کی اطلاع دی ہے اور نماز جنازہ غائب کی درخواست کی ہے.مکرمہ امتہ الرحیم صاحبہ چوہدری غلام رسول صاحب مرحوم کی بیوہ تھیں اچانک دل کا دور پڑھنے سے وفات پاگئی ہیں.غلام مصطفی ظفر صدر جماعت احمد یہ ڈگری ضلع تھر پارکر کی والدہ تھیں.کل انہوں نے مجھے ملاقات کے دوران بتایا کہ وہ جلسے پر تشریف لائے تھے کہ اچانک ان کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی.اللہ انہیں صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے.طالعہ بیگم اہلیہ چوہدری فضل احمد صاحب مرحوم بھو پال والا ضلع سیالکوٹ وفات پاگئیں ہیں.چوہدری فضل احمد صاحب مرحوم.وہ سندھ سینڈیکیٹ میں کام کیا کرتے تھے اور کسی زمانے میں امیر جماعت احمدیہ کراچی بھی رہے ہیں.تو ان سب کی انشاء اللہ نماز عصر کے معابعد نماز جنازہ ہوگی.

Page 538

Page 539

خطبات طاہر جلد ۶ 535 خطبه جمعه ۴ ۱اراگست ۱۹۸۷ء عہدیداران بڑھتی ہوئی ضرورتوں کیلئے کمزور اور خاموش بیٹھ رہنے والوں کو خدمت دین میں لگائیں، مربیان کی تعد ا بڑھائیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۴اراگست ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی:.لَا يَسْتَوِي الْقَعِدُونَ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ غَيْرُ أُولِى الضَّرَرِ وَالْمُجْهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فَضَّلَ الله المُجْهِدِينَ بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ عَلَى الْقَعِدِينَ دَرَجَةً ۖ وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنٰى وَفَضَّلَ اللَّهُ الْمُجْهِدِيْنَ عَلَى الْقَعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا دَرَجَتٍ مِّنْهُ وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّ حِيْمان اور فرمایا: (النساء: ٩٦-٩٧) یہ دو آیات جو سورہ النساء کی آیات ۹۶ اور ۹۷ ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ مومنوں میں سے وہ لوگ جو بیٹھ رہنے والے ہیں.سوائے اس کے کہ وہ بیماری یا کسی دیگر آزار کے باعث مجبور ہوں ،کسی قسم کی تکلیف کے نتیجے میں وہ عملاً کسی کام میں حصہ نہ لے سکتے ہوں.پس ایسے لوگ جو مومنوں میں

Page 540

خطبات طاہر جلد ۶ 536 خطبه جمعه ۴ ار اگست ۱۹۸۷ء سے بیٹھ رہنے والے ہیں وہ اور مجاہدین فی سبیل اللہ ایک جیسے نہیں یعنی وہ مجاہدین فی سبیل اللہ جو اپنے اموال کے ذریعے بھی جہاد کر رہے ہیں، اپنی جانوں کے ذریعے بھی جہاد کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ایسے مجاہدین کو جو اپنے اموال اور جانوں کے ذریعے خدا کی راہ میں جہاد میں مصروف ہیں بیٹھ رہنے والوں پر ایک غیر معمولی درجہ عطا فرمایا ہے ، ایک شاندار درجہ عطا کیا ہے وَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى حالانکہ ویسے تو سب مومنوں کے لئے ہی خدا تعالیٰ نے حسن سلوک کا وعدہ فرمایا ہے سب سے ہی حسنہ عطا کرنے والا ہے لیکن وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجْهِدِينَ عَلَى الْقَعِدِينَ أَجْرًا عَظِيمًا لیکن مجاہدین کے ساتھ جو غیر معمولی فضلوں کا سلوک ہے بیٹھ رہنے والوں کو اس کے ساتھ کوئی نسبت نہیں اُن کے اوپر غیر معمولی درجہ اور غیر معمولی زیادہ رحمتوں کی بارشیں ہونگیں جو مجاہدین ہیں دَرَجَتِ مِنْهُ یہ ایسے عظیم مقامات ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے ان کو ملنے والے ہیں.درجہ کی بجائے یہاں درجات کہہ کر یہ غلط فہمی دور فرما دی کہ کوئی ایک ہی خاص مرتبہ ان کو عطا ہو گیا.دَرَجت منہ میں ایک لا متناہی درجات کے سلسلے کا وعدہ فرما دیا گیا.تو پہلا لفظ درجہ جب واحد میں استعمال ہوا تو اس کے بعد درجات نے یہ مسلہ کھول دیا کہ وہ درجہ کن معنوں میں ہے.عربی قاعدہ ہے کہ جب نکرہ میں ایک واحد لفظ کو استعمال کیا جاتا ہے خصوصیت کے ساتھ اس کے اندر بہت ہی عظیم الشان معنی پیدا ہو جاتے ہیں یعنی غیر معمولی شان پیدا ہو جاتی ہے اس میں.انہی معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو رَسُولًا مِّنْهُمْ کے طور پر بیان فرمایا گیا کہ ایک بہت ہی عظیم الشان رسول ہے.اسی طرح قرآن کریم میں اور بھی کئی مرتبہ آنحضرت ﷺ کا نام نمرہ کے طور پر لے کر آپ کے عظیم الشان لامتناہی حد ادراک سے باہر درجات کی طرف اشارہ فرمایا گیا.پس درجات میں یہ بتایا کہ وہاں درجہ کسی ایک خاص فضل کی طرف اشارہ کرنے کے لئے نہیں آیا تھا بلکہ درجہ سے مراد یہ تھی کہ غیر معمولی، بے انتہا بلند مقام اور مرتبہ ان کو عطا کیا گیا ہے اور اس مقام اور مرتبے میں پیچھے بیٹھے رہنے والے شامل نہیں ہیں.دَرَجتٍ مِّنْهُ یہ مقام اور مرتبہ ایسا ہے کہ اس کے نتیجے میں کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عظیم الشان مراتب عطا ہونے والے ہیں وَمَغْفِرَةً وَرَحْمَةً اور بخشش بھی ہے اور رحمت بھی ہے وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّ حِيمًا اور اللہ تعالیٰ بہت ہی مغفرت کرنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے.

Page 541

خطبات طاہر جلد ۶ 537 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء ہو اس آیت پر غور کرنے سے یا ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں قتال والے جہاد کا ذکر نہیں ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ قتال کے وقت جب کہ جہاد تلوار کی جنگ میں تبدیل ہو چکا ہو اس وقت جو لوگ پیچھے بیٹھ رہتے ہیں اور ان کے پاس کوئی عذر نہیں ہوتا ان کے متعلق تو قرآن کریم میں بہت ہی سخت وعید آتی ہے اور ایک سے زیادہ مرتبہ ان کے متعلق خدا تعالیٰ کی سخت ناراضگی کا اظہار ملتا ہے اور بہت ہی سخت تنبیہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی سب نیکیاں ضائع ہر جائیں گی اگر وہ پیچھے بیٹھ ر ہیں گے اور جب ساری قوم موت اور زندگی کی جدوجہد میں مبتلا ہواور قتال ہورہا ہو تو کسی مومن کو جو مجبور اور معذور نہ ہو قرآن کریم یہ حق ہی نہیں دیتا کہ وہ بلا عذ رقتال سے باہر رہے.اس کے باوجود یہاں جن القمدِین کا ذکر ہے ان کا ذکر فرماتے ہوئے دو باتیں بڑی نمایاں نظر آتیں ہیں.ایک تو یہ کہ کسی قسم کی کوئی وعید کہیں نہیں ملتی، کوئی ناراضگی کا اظہار نہیں ملتا، کوئی نار جہنم کی وعید نظر نہیں آتی اور دوسری بات یہ کہ اگر چہ ان کے اوپر جہاد کرنے والوں کے درجات کا بیان تو ہے لیکن ان کو بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ان حُسنی سے باہر نہیں رکھا گیا بلکہ جملہ معترضہ کے طور پر بیچ میں آیت کا ایک ٹکڑا داخل فرمایا گیاوَكُلًّا وَعَدَ اللهُ الْحُسْنَى پہلے مضمون کو چھوڑ کر بیچ میں اس کو داخل کر دیا گیا تا کہ یہ بات واضح ہو جائے کہ ان لوگوں پر بھی خدا تعالیٰ کا فضل تو بہر حال ہے، ان سے حسن سلوک کا وعدہ موجود ہے.اس کے باوجود دوسروں کو ان پر بہت فضیلت ہے جو خدمت دین میں بہت آگے آگے اور پیش پیش ہیں.پس یہ کون سے مجاہدین ہیں اور یہ کون سے مومنین ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے یہاں ایک خاص رنگ میں روشنی ڈالی اور وہ پیچھے بیٹھ رہنے والے کون سے ہیں جو پیچھے بیٹھ رہنے کے باوجود کسی نہ کسی رنگ میں ثواب میں شریک ہو جاتے ہیں.ان کے متعلق اگلی آیت کسی حد تک وضاحت فرما دیتی ہے.فرمایا:.اِنَّ الَّذِينَ تَوَفُهُمُ الْمَلبِكَةُ ظَالِمِي أَنْفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنْتُمْ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِيْنَ فِي الْأَرْضِ قَالُوا اَلَمْ تَكُنْ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فَتُهَا جِرُوا فِيهَا فَأُولَيْكَ مَأُونَهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مَصِيرًان

Page 542

خطبات طاہر جلد ۶ 538 خطبه جمعه ۴ ۱اراگست ۱۹۸۷ء إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيْلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا فَأُولَيْكَ عَسَى الله اَنْ يَعْفُو عَنْهُمْ وَكَانَ اللهُ عَفُوا غَفُورًا (النساء: ۹۸-۱۰۰) ان دونوں کے متعلق یہ بیان فرما کر کہ بعض کو محض حسن سلوک کا وعدہ دیا گیا ہے بعض کو غیر معمولی درجات عطا فرمانے کا وعدہ دیا گیا ہے.ایک اور گروہ کا ذکر فرمایا اِنَّ الَّذِینَ تَوَقُهُمُ الْمَلَكَةُ ظَالِی اَنْفُسِهِمْ ایسے بھی ہیں جو اس حالت میں مرتے ہیں یعنی خدا کے فرشتے ان کو اس حالت میں واپسی کا پیغام دیتے ہیں کہ وہ اپنے نفسوں پر ظلم کر رہے ہوتے ہیں.قَالُوا فِيمَ كُنتُم وہ فرشتے ان سے پوچھتے ہیں یا پوچھیں گے کہ تمہارا کیا حال تھا؟ کیوں تم نے ایسا کیا؟ وہ جواب دیتے ہیں كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ہم زمین میں بہت کمزور سمجھے گئے اور ہم سے کمزوروں والا سلوک کیا گیا اس لئے ہم اپنے دین پر قائم نہیں رہ سکے، نیک اعمال پر قائم نہیں رہ سکے ظَالِی اَنفُسِهِم نے یہ بات واضح کر دی کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو مجبوریوں کی حالت میں راہ حق سے یا عقیدہ ہٹ جاتے ہیں یا عملاً ہٹ جاتے ہیں اور دین سے تعلق توڑ لیتے ہیں ، خاموش ہو کر غائب ہو جاتے ہیں.تو یہ وہ انقَعِدِينَ ہیں جن کا پہلے القاعِدِينَ سے کوئی تعلق نہیں ایک الگ ایک تیسری قسم ہے جس کا بیان ہو رہا ہے.قَالُوا الَم تَكُنْ اَرْضُ اللهِ وَاسِعَةً فرشتے ان کو جواب دیں گے یا جوابا پوچھیں گے کہ کیا خدا کی زمین وسیع نہیں تھی کہ تم اس میں ہجرت کر کے چلے جاتے فَأُولَبِكَ مَأْ ونَهُمْ جَهَنَّمُ وَسَاءَتْ مصير ا یہ وہ لوگ ہیں جن کو جہنم میں سزا دی جائے گی اور بہت ہی برا ٹھکانہ ہے لوٹ کر آنے کی جگہ، ان کے پہنچے کی جگہ بہت ہی بری ہے.إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ اب ایک چوتھے گروہ کا بھی ذکر فرما دیا گیا.إِلَّا الْمُسْتَضْعَفِينَ مِنَ الرِّجَالِ ہاں وہ کمزور حال لوگ جن کو لوگوں نے بالکل بے طاقت دیکھا مردوں میں سے بھی اور عورتوں میں سے بھی اور بچوں میں سے بھی وَ النِّسَاءِ وَالْوِلْدَانِ

Page 543

خطبات طاہر جلد ۶ 539 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء لَا يَسْتَطِيعُونَ حِيْلَةً وَلَا يَهْتَدُونَ سَبِيلًا وہ کوئی حیلہ نہیں پاتے.اتنے کمزور ہیں واقعہ کہ ظالم اور جابر کا مقابلہ نہیں کر سکتے ، اپنی اعلیٰ قدروں کی حفاظت نہیں کر سکتے.وَلَا يَهْتَدُونَ سبیلا اور ملک چھوڑ کر باہر جانے کے لئے بھی ان کے پاس کوئی چارہ نہیں.فَأُولَك عَسَى اللهُ اَنْ تَعْفُوَ عَنْهُمْ بعید نہیں کہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں سے عفو کا سلوک فرمائے.وَكَانَ اللهُ عَفُوا غَفُورًا اور اللہ تعالیٰ بہت ہی عضو فرمانے والا اور بہت ہی بخشنے والا ہے.پس یہ جو چار گروہ ہیں یہ ایک ایسی حالت کی خبر دے رہے ہیں جس میں ایمان لانے کے نتیجے میں بعض خدا کے بندوں کو مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے.قتال نہیں ہو رہا، یک طرفہ ظلم تو ڑے جار ہے ہیں.اس وقت چار قسم کے گروہ ہیں جن کا ذکر ملتا ہے ایک وہ جو ظلموں سے مرعوب ہونے کی بجائے خدا تعالیٰ کا پیغام دوسروں تک پہنچانے میں، مالی اور جانی قربانی پیش کرنے میں، خدا کی خاطر ہر قسم کے دکھ اٹھانے میں صف اول کے مجاہدین ہیں.ہر نیکی کے میدان میں مصائب کی شدت کے باوجود جرأت کے ساتھ آگے بڑھنے والے ہیں اور کسی قسم کی آفات ان کے اخلاص اور ان کے جذ بہ خدمت پر برے رنگ میں اثر انداز نہیں ہوتیں.دوسرا گروہ وہ ہے جو اپنے دین کی تو حفاظت کرتا ہے ، اپنے ایمان کو نقصان نہیں پہنچنے دیتا لیکن عملاً غیر معمولی طور پر خدمت دین میں آگے نہیں بڑھتا ، خاموش بیٹھ رہتا ہے.جو مجاہدین ہیں ان کو داد کی نظر سے دیکھتا ہے، ان کے حق میں دعا ئیں ضرور کرتا ہوگا لیکن جانی یامالی قربانی میں ایسے سخت دور میں انہیں خاص خدمت کی توفیق نہیں ملتی.تیسرے وہ ہیں جو ظلموں سے مرعوب ہونے کی وجہ سے اپنے دین کو نقصان پہنچا بیٹھتے ہیں یعنی نظریاتی لحاظ سے یا عملی لحاظ سے کسی پہلو سے بھی ہو اور باوجود اس کے کہ استطاعت رکھتے ہیں ہجرت نہیں کرتے.مالی منفعتیں ، دنیا کے فوائد یا نقصانات کے احتمالات ان کو اس بات سے باز رکھتے ہیں کہ وہ ایک جگہ چھوڑ کر کسی اور جگہ چلے جائیں.ایسے لوگوں کے لئے نہایت سخت وعید ہے کہ جہنم ان کا ٹھکانہ ہے اور یہ ٹھکانہ بہت ہی برا ٹھکانہ ہے.چوتھا گر وہ وہ ہے جو اتنا کمزور ہے کہ نہ اپنے ایمان کی صحیح طرح حفاظت کر سکتا ہے نہ ہجرت کی طاقت پاتا ہے اور بالکل بے بس ہے.ان کے متعلق فرمایا کہ بعید نہیں کہ اللہ ان سے حسن سلوک

Page 544

خطبات طاہر جلد ۶ 540 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء فرمائے ، ان سے عفو کا معاملہ کرے کیونکہ ان کی بھی حالتیں مختلف ہوں گی بعض لوگ نسبتاً بہتر تو فیق پانے کے باوجود پورا اس سے استفادہ نہیں کر رہے ہوں گے.کچھ ایسے ہوں گے جو خدا کے نزدیک بالکل معذور ٹھہر رہے ہوں گے تو ان کے متعلق عمومی مغفرت کا وعدہ فرما دیا ہے یہ نہیں فرمایا کہ ان سب سے اللہ تعالیٰ عفو کا سلوک فرمائے گا.تو ان چاروں آیات میں جو مضمون نظر آرہا ہے وہ ایک ماحول ہمارے سامنے لا کھڑا کرتا ہے.ایک ظلم اور تشدد کا ماحول جس میں خدا کے کچھ بندے مجبور اور بے طاقت کئی قسم کے مظالم کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں اور ان میں پھر مختلف حالتوں میں ہمیں اللہ کے نام پر مظالم کا نشانہ بنتے ہوئے ہمیں مختلف حالتوں میں لوگ دکھائی دیتے ہیں جن کے رد عمل مختلف ہیں جن کا میں نے بیان کر دیا ہے.اب میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ کیوں میں نے خصوصیت کے ساتھ ان آیات کا انتخاب کیا اور کیوں صرف پہلی دو آیات تلاوت کیں ہیں اور باقی پہلی دو آیات کی وضاحت کے لئے بعد میں پڑھیں.آج کے خطبے کے لئے میں نے صرف پہلی دو آیات کو خصوصیت کے ساتھ سامنے رکھا ہے.بہت سی باتیں ان آیات میں ایسی بیان ہوئی ہیں جو سرسری نظر سے معلوم نہیں ہوتیں لیکن اگر آپ گہرا مطالعہ کریں تو زندہ رہنے کے بہت سے گران آیات میں سکھا دیئے گئے ہیں.مختلف وقتوں میں مختلف منتظمین کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے دراصل ان کے انتظام کی صلاحیت نمایاں طور پر اجاگر ہو کر اس وقت ابھرتی ہے جب وہ مشکلات کے دور میں سے گزر رہے ہوں اور شدید مخالفت کا سامنا ہو یہاں تک کہ یہ خطرہ ہو کہ اگر مستعدی کے ساتھ حالات کا مقابلہ نہ کیا گیا تو قوم شاید صفحہ ہستی سے مٹا دی جائے ، ایسے حالات بھی قوموں پر آتے ہیں.جہاں تک الہی جماعتوں کا تعلق ہے خدا کا وعدہ ہے کہ دشمن کو ہرگز توفیق نہیں ملے گی کہ وہ انہیں صفحہ ہستی سے مٹا دے اس لئے اس خطرے کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.جہاں تک ذمہ دار منتظمین کا تعلق ہے ان کے پھر مختلف قسم کے حالات ہیں.دو گروہ خاص طور پر ایسے ہیں جن کا اس پہلی آیت کریمہ میں ذکر ہے اور جن کے متعلق میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.ہمارے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اور دیگر عہدیداران کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ مومنوں کے پہلے دو درجات جن کو صف اول اور صف دوئم کے درجے کے مومن قراردیا جاسکتا ہے

Page 545

خطبات طاہر جلد ۶ 541 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء.ان کا اس آیت میں ذکر ہے.ایک وہ ہیں جو ہر حال میں ، ہر مشکل کے وقت بہر حال سابقون میں شامل رہتے ہیں اور خدا کی خاطر ہر مصیبت کے دور میں بھی خدمت دین سے پیچھے نہیں ہٹتے.بہت سے امراء اور عہدیداران ہیں جو ان کے حال پر نظر رکھ کر راضی ہو جاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ جو خدمت دین ادا کر رہے ہیں بس یہی کافی ہیں.حالانکہ ایک اور طبقہ بھی ہے جس کا اس آیت میں ذکر فرمایا گیا ہے اور وہ ہے بیٹھ رہنے والوں کا دوسرا طبقہ جو ایمان کے لحاظ سے زخمی نہیں ہوتے حقیقہ مومنوں کے ساتھ ہی ہیں اور ان سے بھی خدا تعالیٰ حسن سلوک فرمائے گا لیکن وہ ایسا طبقہ ہے جو عملاً عظیم قومی جہاد میں شامل نہیں ہے.ایسے لوگ، بہت سے ایسے منتظمین ہیں چند نہیں بلکہ بہت سے ایسے منتظمین ہیں ، جہاں تک میں نے دنیا کی جماعتوں کا جائزہ لیا ہے میرا خیال ہے بدقسمتی سے اکثریت ہمارے منتظمین کی ایسی ہے جو اس دوسرے طبقے کو نظر انداز کر دیتی ہے اور ان پر کام نہیں کرتی.نتیجہ ان کی جماعتوں کی حالت یکساں سی رہتی ہے.یعنی مقامی کوششوں کے نتیجے میں وہ ترقی نہیں کرتی.دیگر حالات تبدیل ہو جائیں بیرونی اثرات کے نتیجے میں ممکن ہے ان میں سے بعض سوئے ہوئے بھی جاگ اٹھیں.یعنی جہاں تک مقامی منتظمین کا تعلق ہے وہ نیم خوابیدہ طبقہ جوضائع نہیں ہوا مگر جاگ کر قومی جہاد میں حصہ بھی نہیں لے رہا اس کی طرف وہ متوجہ نہیں ہوتے.چنانچہ بعض ایسی جماعتیں ہیں کہ بیسیوں سال سے وہ اسی حالت میں ہیں جو خدا تعالیٰ کی تقدیر سے خود بخو دا چھے لوگ نکل کر آگے آگئے ، خدمت دین میں پیش پیش ہیں انہی کے کام کے مجموعہ کو ہم جماعت کے کام کا مجموعہ قرار دے سکتے ہیں لیکن جو نسبتا کمزور تھے یا خاموش بیٹھ رہنے والے تھے ان کو بیدار کرنے اور صف اول میں شامل کرنے کی کوئی انتظامی کوشش نہیں کی گئی.آج بھی ایسا حال ہے بعض جماعتیں میرے آنکھوں کے سامنے ہیں جن کے امراء مسلسل یہ خیال رکھتے ہیں کہ نسبتاً پیچھے رہنے والوں کو محنت کر کے آگے لایا جائے اور ان کو عظیم الشان درجات سے محروم نہ رکھا جائے.چنانچہ دن بدن ان جماعتوں کی حالت پہلے سے بہتر ہوتی چلی جاتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا اکثر صورتوں میں پریذیڈنٹ کو یا امیر کو بنے بنائے جو مخلصین مل جائیں وہ ان پر راضی رہتا ہے اور خود مخلص بنانا آتا نہیں.اور آج کل ہم جس دور میں سے گزر رہے ہیں ہمیں کثرت کے ساتھ ان دونوں میں سے صف اول کے مومنین کی ضرورت ہے کیونکہ مسائل اور مشکلات بڑھتے جارہے ہیں.

Page 546

خطبات طاہر جلد ۶ 542 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء کچھ ایسے ہیں جو ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہو چکے ہیں.بہت سے ایسے ہیں جن کی دشمن تیاری کر رہا ہے، جن کی خبریں ہمیں دنیا کے کونے کونے سے موصول ہو رہی ہیں.اگر آپ کو یہ اندازہ ہو کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے کتنے نئے سکول اور کالج اور جامعہ کھولنے کا منصوبہ بن چکا ہے،اس کی شرارت کے جتنے بھی پہلو ممکن ہیں ان سب کو مدنظر رکھتے ہوئے تیاری کی جا چکی ہے ، اربوں روپیہ دنیا میں خرچ کر کے آئندہ نسلوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف زہر پھیلانے اور مشکلات کے بیج بونے کے جو سامان کئے جارہے ہیں اگر ان کا آپ کو اندازہ ہو تو آپ میں سے جو کمزور ہیں وہ ممکن ہے مایوس ہو جا ئیں.بہت بڑی بڑی طاقتیں ہیں جو اس پر کام کر رہی ہیں اور ایسے دنیا کے ممالک جن میں اس وقت آپ کو امن دکھائی دے رہا ہے ان کے متعلق بھی نہایت ہی خطرناک منصوبے ہیں جو اس وقت زیرعمل ہیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو باوجود اس کے کہ ہمارے ہاں کوئی جاسوسی کا نظام نہیں ہے ان باتوں سے باخبر رکھتا ہے.کہیں نہ کہیں سے جہاں یہ باتیں پنپ رہی ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ ایسے سامان پیدا فرما دیتا ہے کہ جماعت کے کسی مخلص دوست کو اطلاع ملتی ہے اور پھر وہ جو بھی اطلاع ملتی ہے وہ آگے ہمیں پہنچا دیتا ہے.تو کچھ مخالفت ظاہر ہے اور کچھ مخالفت مخفی ہے ابھی جس کی بہت سی تیاری کی جارہی ہے.اسی طرح مخالفت سے قطع نظر جماعت کے کام جو نئے نئے ابھر رہے ہیں نئے نئے منصوبے ہمارے سامنے آرہے ہیں نئی نئی ترقی کی راہیں اللہ تعالیٰ کھول رہا ہے، نئے محنت کے میدان ہمارے سامنے ظاہر ہورہے ہیں.اس کے لئے مثبت پہلو سے بھی دیکھیں تو ہمیں بہت زیادہ خدمت دین کرنے والوں کی ضرورت ہے.تو ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہیں کہ یہ چند آدمی جو خود بخود اخلاص کے ساتھ پیدا ہو جاتے ہیں جن کا خدا تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ہر حالت میں انہوں نے خدمت دین کرنی ہی کرنی ہے، کوئی حالات کی تبدیلی انہیں باز نہیں رکھ سکتی ، وہ ہمیشہ صف اول میں رہیں گے ، جان مال کی قربانی میں ہمیشہ پیش پیش رہیں گے.ان پر بنا کرتے ہوئے ان پر راضی رہتے ہوئے جو امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان یہ خیال کرتے ہیں کہ مستقبل کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں گے وہ غلطی میں ہیں.ایسے لوگوں کی مثال زمینداروں کی صورت میں اس طرح دی جاسکتی ہے کہ بعض زمیندار

Page 547

خطبات طاہر جلد ۶ 543 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء ایسے ہوتے ہیں جن کو زمین کا جو اچھا ٹکڑ امل جائے اس پر فصل لگاتے رہتے ہیں اور جو نسبتا کمزور ٹکڑے ہیں ان کی بحالی کی کوشش نہیں کرتے یا محنت برداشت نہیں کر سکتے.نیچے دوطرح کے نقصان پہنچتے ہیں ان کو.اول یہ کہ جو زمین بحال ہو سکتی تھی بحال نہ ہونے کے نتیجے میں بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے اور پھر یہ خطرہ پیدا ہو جاتا ہے کہ وہ ایسی حالت میں پہنچ جائے کہ پھر اس کی واپسی ممکن نہ ہو.چنانچہ یہ جو تیسری آیت میں ذکر ہے وہ اسی قسم کی زمینوں کا ذکر ہے.ابتداء میں اچھے بھلے مومن ہوں گے خدمت دین سے غافل رہنے کے نتیجے میں رفتہ رفتہ سرکنے شروع ہوئے یہاں تک کہ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ جیسا کہ لوگوں نے دیکھا واقعہ الْمُسْتَضْعَفِيْنَ ہوگئے.یعنی ضعیف زدہ ہو گئے الْمُسْتَضْعَفِینَ نہیں رہے بلکہ ضعف زدہ بن گئے.پہلے دشمن نے ان کو کمز ور سمجھا پھر واقعہ کمزور ہو گئے.چنانچہ ایسی زمینیں پھر ہاتھ سے نکل جاتی ہیں اور کلر تھور کا شکار ہو جاتی ہیں.ان کو واپس لانے کے لئے غیر معمولی محنت کرنی پڑتی ہے.کچھ زمیندار ایسے ہیں جو ان پر بھی محنت کرتے ہیں اور ان سے بھی غافل نہیں رہتے ان کو بھی کھینچ کر واپس لانے کی کوشش کرتے ہیں.اور ایسے جو دو قسم کے زمیندار ہیں ان کے حالات میں زمین آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے.مجھے لمبا تجربہ ہے زمینداری کا خود اپنے بھی اور بھائیوں کی مشترکہ زمین پر بھی میں نے کام کیا ہے اس لئے میں جانتا ہوں کہ جہاں ایسا مینیجر ہو جو محض دکھاوے کے لئے اپنی اوسط (Average) کو بڑھانا چاہتا ہے وہ بالعموم اچھی زمینیں اپنے لئے بچن لیتا ہے اور انہیں پر کام کرتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ دیکھیں میرے فی ایکڑ اوسط کا معیار دوسرے سے بہتر ہے.اس کے مقابل پر ایک دوسرا مینیجر ہوتا ہے جو دیانت داری اور اخلاص کے ساتھ زمیندارے سے محبت کرتے ہوئے ،زمیندارے کے اصولوں کو سمجھ کر کام کرتا ہے.اس کی کیفیت یہ ہے کہ شروع میں بعض دفعہ اس کی اوسط کم دکھائی دیتی ہے اور بعض دفعہ کئی سال تک اس کے کام کی خوبیاں ظاہر نہیں ہوتیں لیکن رفتہ رفتہ جب آپ دیکھتے ہیں تجزیہ کر کے گزشتہ سالوں سے مقابلہ کر کے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کی زمینیں دوسرے مینجر کی نسبت بہت زیادہ آگے نکل چکی ہیں.خراب زمینوں اچھی زمینوں کی نسبت میں فرق پڑ گیا ، اچھی زمینیں پہلے سے بہت بہتر ہو گئیں رفتہ رفتہ لیکن اس کے برعکس جو خراب مینیجر ہے یا خراب زمیندار یا ناواقف زمیندار اس کو ایک اور نقصان بھی پہنچتا ہے.اگر زمین اچھی ہو اور تھوڑی ہو اور اس پر زیادہ بوجھ ڈالا

Page 548

خطبات طاہر جلد ۶ 544 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء جائے تو پھر وہ اچھی نہیں رہتی اور وہ بھی کمزور رہنے لگ جاتی ہے.طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیں تو جتنا پہلے آپ حاصل کر سکتے تھے اس سے وہ حاصل نہیں کر سکتے.آپ مثال لیں ہمیں مالی طور پر قربانی کی مسلسل پیچھے سے ضرورت پڑتی چلی آرہی ہے اللہ کے فضل سے اور جماعت بڑے شوق سے اس میں حصہ لیتی چلی جارہی ہے.کئی امیر ہیں جو نسبتاً مالی قربانی میں پیچھے رہنے والوں کی طرف بھی توجہ کرتے ہیں.چنانچہ جب نئی تحریکیں آتی ہیں، جب نئے قسم کے مالی قربانی کے تقاضے سامنے آتے ہیں تو ہر وقت کچھ نئے لوگ ہیں جو آگے آکر اس بوجھ میں ساری جماعت کے شریک ہوتے چلے جارہے ہوتے ہیں.بعض امراء ایسے ہیں دوڑ دوڑ کر انہیں کے پاس جاتے ہیں جن کو مالی قربانی کی عادت ہے اور ایک دفعہ، دو دفعہ، تین دفعہ جب ان پر بوجھ ڈالتے ہیں تو چوتھی یا پانچویں دفعہ بالآخر وہ اپنے دروازے بند کرنے لگ جاتے ہیں.گھبرانے لگ جاتے ہیں کہ اب فون آیا ہے یا اطلاع آئی ہے یا دروازہ کھٹکا ہے تو ضرور کچھ مانگنے کے لئے آئے ہونگے.ان کے اوپر ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے کے نتیجے میں جماعت پر بھی ظلم کیا گیا اور ان کی ذات پر شدید ظلم کیا گیا.اس سے پہلے وہ اخلاص کے ساتھ قربانی کرتے تھے، اس سے پہلے ان کو قربانی میں لطف آتا تھا لیکن جب طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیا گیا تو پہلے ان کا لطف ضائع کیا گیا یدان پر ظلم کیا گیا پھر لطف کی بجائے بدمزگی شروع ہوئی اور بوجھ کا احساس بڑھنا شروع ہوا جس کے نتیجے میں قربانی کے ثواب سے بھی وہ محروم رہ گئے.تو اچھی زمینوں کو یہ لوگ بری زمینوں میں تبدیل کرنے والے ہوتے ہیں.اس وقت جماعت جس دور میں سے گزر رہی ہے اس وقت ہمارے کاموں پر بوجھ بڑھنے والے ہیں.مخالفت کے مقابلے کے لحاظ سے بھی ایک دو ملکوں کی بات نہیں رہے گی.آئندہ چند سالوں میں یا آٹھ یا دس سال کے اندر میں سمجھتا ہوں کہ دنیا میں کئی ممالک ایسے ظاہر ہوں گے جہاں جماعت احمدیہ کے خوف کے نتیجے میں، اس سے ڈر کر یہ محسوس کر کے کہ یہ جماعت غالب آنے والی ہے بڑی شدید مخالفتیں ہوں گی.وہ چند مخلصین جو اس وقت ساری جماعت کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں وہ کافی نہیں ہوں گے اس وقت.اب وقت ہے ہمارے پاس کہ ان نسبتاً غافل لوگوں کو جو خدا کے غضب کے نیچے ابھی نہیں آئے ان سے حسن سلوک کا وعدہ ابھی جاری ہے، جن کا ایمان سلامت ہے،

Page 549

خطبات طاہر جلد ۶ 545 خطبه جمعه ۴ ۱اراگست ۱۹۸۷ء ان کو دین سے محبت ضرور ہے مگر کمزور ہے، ان کو آگے لایا جائے اور ان کے اوپر ذمہ داریاں ڈالی جائیں.جن جماعتوں میں اس طرف توجہ دی جاتی ہے وہاں حیران ہو جاتا ہے انسان یہ دیکھ کر کہ کثرت سے لوگ نکلنے شروع ہو جاتے ہیں ، بڑی برکت پڑتی ہے اس کام میں.چنانچہ میں نے انگلستان کی مثال بار ہادی ہے جب میں یہاں آیا تھا اس سے پہلے چند گنتی کے چہرے تھے وہی ہر کام میں بار بار سامنے آنے والے تھے اور جو کام ہوتا تھا بالآخر ان کے ذمے ڈال دیا جاتا تھا لیکن اب کئی گنا زیادہ ، کوئی نسبت ہی نہیں رہی.ایسے نوجوان، ایسے بوڑھے، ایسے مرد ، ایسی عورتیں کاموں میں آگے آگئے ہیں کہ پہلے ان کے متعلق واہمہ بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ یہ خدمت دین کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان میں سے پھر ایسے اچھے اچھے چمکے ہیں بعض جو پہلوں سے بھی آگے بڑھ گئے ہیں.زمینداری میں بھی میں نے یہی دیکھا ہے بعض دفعہ جن زمینوں کو چھوڑا جاتا ہے جب ان کی اصلاح کی جاتی ہے تو اتنا پھر پھل دیتی ہیں کہ جن کو ہم پہلے اچھی زمینیں سمجھا کرتے تھے ان سے بھی بہت آگے بڑھ جاتی ہیں.تو جماعت میں خدمت دین کرنے والوں کی کمی نہیں ہے.ایک تو خوشخبری ہمیں بہر حال مل چکی ہے کہ فتنہ وفساد کی انتہا کے باوجود بہت شاذ وہ لوگ ہیں جن کا تیسری آیت میں ذکر کیا گیا ہے یعنی ظَالِى أَنْفُسِهِمْ - پاکستان جیسے شدید خطرناک حالات میں ایسے لوگ جو مرتد ہو گئے یا جماعت سے منہ موڑ کر چھپ گئے ، نظروں سے اوجھل ہو گئے وہ ظَالِی اَنْفُسِهِمْ ہیں.ان کی تعداد دیکھیں گنتی کے چند لوگ ہیں.تو یہ تو ایک عظیم الشان خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس ابتلا میں سے جماعت کے اکثر حصے کو اس طرح گزارا کہ وہ مرے نہیں اور شدید زخمی بھی نہیں ہوئے ،معمولی کمزوریاں پیدا ہوئیں ایسی کمزوریاں جن سے خدا مغفرت کا سلوک فرمانے کا وعدہ فرمارہا ہے.دوسری بڑی خوشخبری یہ ہے کہ ایسی زمینیں کثرت کے ساتھ موجود ہیں جو اصلاح کے لائق ہیں اور تھوڑے سے کام کے نتیجے میں بہت ہی زرخیز زمینیں بن سکتی ہیں اور انذار کا پہلو یہ ہے کہ اگر ان کی طرف توجہ نہ کی گئی ، اگر ان کو صف اول میں لانے کی کوشش نہ کی گئی تو یہی وہ زمینیں ہیں جو رفتہ رفتہ تیسری قسم میں تبدیل ہوا کرتی ہیں اور پھر کلر تھور بن جاتی ہیں پھر ان کی بحالی کی اگر کوشش کی بھی جائے تو بہت زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے.

Page 550

خطبات طاہر جلد ۶ 546 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء تو ہر جگہ کے امراء اور پریذیڈنٹ صاحبان اور دیگر کارندوں کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ آئندہ بڑھتی ہوئی ضرورتوں کے پیش نظر ہمیں ابھی سے خدمت دین کی صف اول میں کام کرنے والوں کی تعداد کو بڑھانا چاہئے.اس سلسلے میں کچھ نفسیاتی روکیں بھی ہیں جن کا تجزیہ ضروری ہے ورنہ بہت سے امیر اور پریذیڈنٹ صاحبان ایسے ہوں گے جن کو پتا ہی نہیں ہو گا اپنا کہ ہم کیوں یہ کام نہیں کر رہے.کچھ تو جیسا کہ میں نے ایک پہلے خطبہ میں بھی اشارہ کیا تھا اپنی بے وقوفی کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ کچھ لوگ ہمارے ساتھی ہیں اور کچھ لوگ ہمارے دشمن ہیں یعنی ناجائز طور پر بے وجہ بعض احمدیوں پر اعتماد نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو ہیں ہمارے مخالفین ان کو ایک طرف چھوڑ دو اور یہ چند لوگ اچھے ہیں یا مخالف نہ بھی سمجھیں تو بدظنی کرتے ہیں.جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو کہتے ہیں جی ! یہاں تو قحط الرجال ہے.کام کرنے والے ملتے ہی کوئی نہیں.قحط الرجال تو نہیں ہے لیکن قحط العقل ضرور ہوسکتا ہے.قرآن کریم بتا رہا ہے کہ قحط الرجال نہیں ہوتا.بہت سے لوگ خاموش بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں تمہیں نظر نہیں آرہے ہوتے.اس دور کی آزمائش نے ہمیں بتا دیا کہ ہمارے ہاں کثرت سے ہیں ایسے لوگ جن میں الرجال بننے کی خاصیت موجود ہے، ان کو اگر صحیح طریق پر آپ آگے لانے کی کوشش کریں تو بہت اچھے اچھے لوگ آپ کے پاس موجود ہیں جن کو آپ نظر انداز کئے بیٹھے ہیں.پس بہت سے امراء ہیں جو بدظنی کرتے ہیں حالانکہ درحقیقت اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو دنیا کے کسی دور میں بھی قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہے.سب سے زیادہ خطر ناک دور جسے قحط الرجال کا دور کہا جاسکتا ہے وہ انبیاء کے ظہور کا دور ہوا کرتا ہے.ایک دفعہ تو یوں دکھائی دیتا ہے کہ ایک شخص کے سوا خدا تعالیٰ نے ہر دوسرے انسان کو ر ڈ فرما دیا ہے.ایک وجود ابھرتا ہے اور اس کے ارد گرد سارے فساد کی کیفیت دکھائی دیتی ہے.وہ لوگ جو انتہائی ردی حالت میں دکھائی دے رہے ہوتے ہیں وہ وجود ان پر ہاتھ ڈالتا ہے اور ان کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرنی شروع کر دیتا ہے.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَلِي، وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِينٍ (الجمع : (٣) یہ نقشہ ابھر نے لگتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں جتنا قحط الرجال

Page 551

خطبات طاہر جلد ۶ 547 خطبه جمعه ۴ ۱ را گست ۱۹۸۷ء ممکن ہوسکتا تھا وہ تھا بظاہر لیکن اللہ کی تقدیر نے ثابت کیا کہ خدا کے بہادر بندوں کے سامنے قحط الرجال نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی.جو اللہ پر توکل کرنے والے ہوتے ہیں، دعاؤں سے خدا کی مدد مانگتے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ اپنے اموال اور اپنی جانوں سے کرنے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں.ان کو خدا یہ توفیق بخشتا ہے کہ جہاں مرد نظر نہ آرہے ہوں وہاں سے مرد پیدا کر کے دکھا دیتے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ گوبر کے ٹکڑے نظر آتے تھے جن پر ہاتھ ڈالا محمدمصطفی اللہ نے اور چمکتی ہوئی سونے کی ڈلیوں میں تبدیل فرما دیا.(القصائد الاحمدیہ صفحہ ۳۰) پس آپ بھی تو اسی کے غلام ہیں، اسی کی محبت کا دعویٰ کرنے والے ہیں ، اسی عظیم وجود کے کام کو آگے بڑھانے کا عہد لے کر اٹھے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کے افراد کو اگر کوئی امیر یہ کہہ کر رد کرتا ہے کہ یہاں قحط الرجال ہے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.اس کے ہاں عقل کا یا ایمان کا قحط ہو سکتا ہے لیکن قحط الرجال نہیں، اگر قحط الرجال ہوتا نعوذ بالله من ذالک تو اس وقت پاکستان کے اکثر احمدی مرتد ہو چکے ہوتے.میں یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ پوری طرح بے عملی کا شکار ہیں لیکن نسبتیں ہوا کرتی ہیں، یہ دو گروہ خدا تعالیٰ نے نمایاں طور پر دکھائے ہیں یہ مطلب نہیں کہ ان کے درمیان کوئی اور ٹکڑا ہی نہیں آتا ، درجہ بدرجہ فرق پڑا کرتے ہیں.پس اس وقت میرا جائزہ یہ ہے کہ جماعت، ساری دنیا کی جماعتوں میں، اکثر جماعتوں میں اکثر احمدی ایسے ہیں جو ابھی صف اول کے مجاہد نہیں ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ غیر معمولی کام کی گنجائش موجود ہے.اگر آپ ان سب کی تمام صلاحیتوں کو صف اول کی صلاحیتوں میں تبدیل کر دیں تو اتنی بڑی طاقت جماعت احمدیہ بن چکی ہے کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کے بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتیں.یہ طاقتیں خدا نے دیکھیں ہیں تو ہم پر بوجھ ڈالے ہیں، یہ طاقتیں خدا کی تقدیرکو دکھائی گئی ہیں تبھی ان اتنے بڑے بڑے ابتلاؤں میں سے جماعت کو خدا تعالیٰ نے گزارنا شروع کیا ہے.پس ان کا مقابلہ کرنے کے لئے ایک بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے امرائے جماعت پر اور پریذیڈنٹ صاحبان پر یا دیگر عہدیدار خواہ وہ قائد کہلائیں یا زعیم کہلائیں، جو نام بھی ان کا رکھیں.طریقہ کار یہ ہونا چاہئے کے کچھ پیچھے ہٹنے والے یا کمزور رہنے والے آدمیوں پر تھوڑی تھوڑی ذمہ داریاں ڈالنی شروع کریں.ان کو اپنے ساتھ ملائیں، ان سے محبت اور پیار کا سلوک کریں ان پر

Page 552

خطبات طاہر جلد ۶ 548 خطبه جمعه ۴ ۱ را گست ۱۹۸۷ء اعتماد کریں.ان سے کہیں یہ یہ کام جماعت کے ہونے والے ہیں چند ہی آدمی ہیں جن پر بار بار بوجھ ڈالے جاتے ہیں خطرہ ہے وہ تھک نہ جائیں ان کی طاقت سے بوجھ بڑھ نہ جائے اس لئے آپ تھوڑا سا ان کو سہارا دیں.چنانچہ بعض اچھے آدمیوں کے ساتھ بعض کمزور آدمی شامل کئے جائیں ، نو جوانوں کو بھی پکڑا جائے اور کچھ نہ کچھ کام دیا جائے.کام اگر دیا جائے اور کوئی کام کر لے تو کسی شخص کا یہ احساس کے میں نے ایک اچھا کام کیا ہے یہ ہی اس کی جزا ہوا کرتی ہے اور آئندہ کام کے لئے طلب دل میں پیدا ہو جاتی ہے.ایک ایسا اہم نفسیاتی نقطہ ہے جس کو بھلا دینے کے نتیجے میں ہم بہت سے ایسے آدمیوں کو ضائع کر دیتے ہیں.کسی آدمی کو پکڑیں اس سے کوئی اچھا سا کام لے لیں اور پھر دیکھیں کہ اس کے اندر کیسی بشاشت پیدا ہوتی ہے اور آئندہ اتنا کام نہیں بلکہ اس سے زیادہ کام کرنے کی صلاحیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے.اسی طرح رفتہ رفتہ ترقی ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور یہ کام ایسا نہیں ہے کہ ایک دو دن میں ہو.بعض دفعہ مہینوں بعض دفعہ کئی سال چاہئیں لیکن ایسی جماعتیں جو اس طرح اپنے کمزوروں کو طاقتوروں میں تبدیل کرنے کا عزم رکھتی ہیں اور حکمت کے ساتھ منصو بہ بنا کر ان پر کام کرتی ہیں ان کی حالت دن بدن بدلتی چلی جاتی ہے.اللہ کے فضل سے دنیا میں کئی ایسی بڑی بڑی جماعتیں ہیں جو بڑے بڑے صوبوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگئی ہیں، بڑے بڑے ملکوں کا بوجھ اٹھانے کے قابل ہوگئی ہیں.اور ایسی کثرت سے جماعتیں ہیں جو ابھی بیدار نہیں ہوئیں پوری طرح.پس اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا کہ مومنوں میں سے جو القعِدِينَ ہیں، بیٹھ رہنے والے ان میں اور آگے بڑھنے والوں میں بہت فرق ہے، غیر معمولی فرق ہے.تو اس میں ایک خاص نقطہ ہے جو ہمیں بیان فرمایا گیا ہے جو ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.جتنا ان میں فرق ہے اتنا ہی ہم ان کے درجات سے محروم ہو رہے ہیں.معلوم یہ ہو رہا ہے کہ ہم میں سے جو بہترین کام کرنے والے ہیں وہ نہ کام کرنے والوں سے اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ اگر نہ کام کرنے والوں کے قدم ہم بڑھانے شروع کریں ان کو ساتھ ملانے کی کوشش کریں تو بہت سے درجات سے گزر کر ان کو وہاں تک پہنچنا ہوگا اور جتنے درجات سے وہ گزریں گے اتنا ہی جماعت کو فائدہ ہے.ہر درجے پہ وہ جماعت کے لئے کچھ حاصل کرنے والے ہوں گے ، ان کی کوششیں ہر مقام پر جماعت کے لئے کوئی پھل پیدا کریں گی.ترقی کی لامتناہی گنجائش موجود ہے یہ بتارہی ہے یہ

Page 553

خطبات طاہر جلد ۶ 549 خطبه جمعه ۴ ۱ را گست ۱۹۸۷ء آیت.اپنے اولین کو دیکھو اور اپنے آخرین کو دیکھو تمہارے اندر پوشیدہ صلاحیتیں موجود ہیں.پس اس نقطۂ نگاہ سے دنیا کی ہر جماعت میں با قاعدہ منصوبہ بننا چاہئے ملکی سطح پر بھی ،صوبائی سطح پر بھی اور جماعتی سطح پر بھی اور ایسے لوگ جن کی بہت سے صلاحیتیں ابھی Harness نہیں ہوئیں، ان کے اوپر ذمہ داریوں کے بوجھ نہیں ڈالے گئے ، ان کے متعلق منصوبے بنائے جائیں کہ کس طرح ان کو آہستہ آہستہ جماعت کے غیر معمولی فعال اور خدا کی رضا حاصل کرنے والے وجودوں میں تبدیل کرنا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ اگر ہم ساری دنیا میں اس منصوبے پر عمل شروع کر دیں تو اس کے غیر معمولی فوائد فوری اگر نظر نہ بھی آئیں تو آئندہ چند سال میں ظاہر ہوں گے اور ہمارے جتنے بھی نیک منصوبے ہیں ان سب میں برکت پڑ جائے گی.منصوبے اچھے جتنے چاہے ہوں اگر اچھے کارکن میسر نہ ہوں تو منصوبے بے معنی ہو جایا کرتے ہیں.اچھے کارکن میسر ہوں مگر تعداد کافی نہ ہو اور منصوبہ زیادہ بوجھ اٹھانے والا ہو تو پھر بھی انسان بہت سی برکتوں سے محروم رہ جایا کرتا ہے.تو جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ منصوبوں کی کوئی کمی نہیں ہے ، جماعت خود ایک نہایت اعلیٰ منصوبہ ہے لیکن کام کرنے والوں کی کمی ہے اور جتنا آپ نے ترقی کی ہے اتنا اس کمی کا احساس زیادہ پیدا ہوا ہے.گزشتہ چند سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ابتلا کے نیک پھل کے طور پر خدا نے جماعت کو بہت ہی ترقی عطا فرمائی ہے اور اس ترقی نے میری توجہ اس بات کی طرف مبذول کی ہے کہ اگر سارے ہم شامل ہو جائیں اور اپنا سب کچھ اس راہ میں ڈال دیں تو سینکڑوں گنا زیادہ ترقی اور ممکن ہے.بہت سے درجات ہیں جنہیں ہم نے ابھی طے کرنا ہے اور جو ہمارے منتظر ہیں.تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے یہ کام ایک دو سال میں تو مکمل نہیں ہوا کرتا کسی خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے، لمبی محنت ہے جو چاہئے.جس طرح زمینیں بحال نہیں ہوا کرتیں اسی طرح انسان بھی اتنی جلدی بحال نہیں ہوا کرتے.وقت لگتا ہے بہت محنت چاہئے ، نئی نئی ترکیبیں پھر آپ کو سوجھیں گی اور چار پانچ دس سال کے اندر مسلسل جماعت کی حالت بدلتی رہے گی.بہت ضروری ایک اور نقطہ نگاہ سے بھی ہے اگر آپ کے پاس اچھے مربی اور نہ آئے تو نئے

Page 554

خطبات طاہر جلد ۶ 550 خطبه جمعه ۴ ار ا گست ۱۹۸۷ء آنے والوں کی تربیت سے ہم محروم رہ جائیں گے اور اس کے نتیجے میں پھر بہت سے خطرات ہیں جو در پیش ہوں گے ہمارا کردار بدل جائے گا بجائے اس کے کہ ہم مؤثر ہوں لوگوں پر ہم متاثر ہو جائیں گے.تو جتنی نئی قو میں کثرت کے ساتھ آنے والی ہیں جن کے آثار ظاہر ہو گئے ہیں، جن کے ہراول دستے داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں جماعت میں ان قوموں کی تربیت کا تقاضا ہے کہ ہم جلد سے جلد اپنے مربیوں کی تعداد بڑھائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 555

خطبات طاہر جلد ۶ 551 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۸۷ء بیت الذکر ہالینڈ کا معاندین کی طرف سے آگ لگانے کی کوشش پر وسیع بیت الذکر کی تعمیر کا اعلان ہماری قیمتی متاع ہمارا ایمان ، اصول اور اخلاق ہیں خطبه جمعه فرموده ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء بمقام ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ابھی چند روز پہلے ہالینڈ میں ایک ایسا واقعہ ہوا جس کے نتیجے میں ہالینڈ کے احمدیوں میں سے بعض نے مجھے ایسے خط لکھے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل پر اس کا بہت ہی گہرا اثر پڑا ہے اور غیر معمولی طور پر اس سے وہ متاثر معلوم ہوتے تھے.واقعہ یہ ہے کہ جب ہمارا جلسہ انگلستان میں ہو رہا تھا اس وقت اس خیال سے کہ اکثر احمدی جلسے پر گئے ہوں گے فائدہ اٹھاتے ہوئے بعض شریروں کے گروہ نے موقع پا کر جبکہ ہمارا پہرہ موجود نہیں تھا مسجد کو آگ لگانے کی کوشش کی.مسجد کا نچلا حصہ آگ سے بہت بری طرح متاثر ہوا، بہت سی قیمتی دستاویز اور کا غذات ضائع ہو گئے اور ابتداء میں جوڈچ احمدی تھے انہوں نے بڑے اخلاص سے جو اپنے ہاتھ سے بعض خصوصی چیزیں مسجد کے لئے بنائی ہوئیں تھیں وہ بھی ایک قیمتی اور تاریخی سرمایہ تھا وہ بھی اکثر حصہ ضائع ہو گیا تو مسجد کو جو ظاہری نقصان ہے اس کو بھی ملحوظ رکھا جائے تو دستاویز کا نقصان اور ظاہری نقصان ملا کر یقینا اس جماعت کے لئے ایک بڑے صدمے کی بات ہے.

Page 556

خطبات طاہر جلد ۶ 552 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۸۷ء اس پہلو سے لوگوں کے پریشانی اور گھبرانے کے خط موصول ہوتے رہے.میرا ان سب کو جواب یہ ہے کہ یہ واقعات زندہ قوموں کے ساتھ چلتے ہیں اور ان سے دیکھ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن ان واقعات کے نتیجے میں طبیعتوں پر گہرے اثر نہیں قائم رہنے چاہئیں کیونکہ ہمارے تو بہت بڑے سفر ہیں، ہمارے ارادے بہت بلند ہیں، یہ معمولی چھوٹی چھوٹی چیزیں تو Pinpricks کی طرح ہیں جیسے لمبے سفر کرنے والے قافلوں میں سے بعض کو رستے میں ایک کانٹا چبھ جاتا ہے.ساری دنیا کی ایک سو چودہ (ممالک کی ) جماعتیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی اسلام کی شاہراہ پر دن بدن آگے بڑھ رہی ہیں.آپ بھی ان میں سے ایک ہیں.آپ میں سے، ہالینڈ کی جماعتوں میں سے ایک کو یا ایک کے پاؤں کو جو کانٹا چبھا ہے اس کی تکلیف میں بھی ساری دنیا کی جماعتیں حصہ دار ہیں.تو اس کانٹے کو اتنا زیادہ نہ منائیں کہ گویا قیامت آپ پر ٹوٹ پڑی ہے.اس کے برعکس یہ سوچیں کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے کیا کیا فضل آپ پر مزید نازل ہوں گے جیسے ہمیشہ ہوتے رہے ہیں.اس کے جو نقصانات ہیں ان کا ازالہ کیسے ہو گا وہ تو معمولی بات ہے وہ میں آپ سے ابھی بعد میں ذکر کروں گا.سب سے بڑا نقصان جس کا مجھے خطرہ تھا وہ آپ کی طبیعتوں کی پژمردگی ہے.اگر ایسے واقعات پر طبیعتیں پژمردہ ہو جائیں تو ہمارا تو سب سے بڑا وہ نقصان ہے.آپ کے عزم پر کوئی آنچ نہیں آنی چاہئے ، آپ کے ارادوں کے سر بلند رہنے چاہئیں.ایک ادنی ساخم بھی آپ کی پیٹھ پر ظاہر نہیں ہونا چاہئے ان بوجھوں کے نتیجے میں.یہ ہے مردانگی کی علامتیں جن کی خدا مومن سے توقع رکھتا ہے.پس آپ اپنا کام کریں اللہ تعالیٰ کی تقدیر اپنا کام کرے گی.بھلا ان ایسی ذلیل حرکتوں سے کبھی تو میں دنیا میں تباہ ہوا کرتی ہیں یا رستوں سے ہٹا کرتی ہیں یا ان کے عزم پر آنچ آیا کرتی ہے.چھوٹی معمولی سی کمینی سی حرکت ہے، ایک چھوٹے سے دل کی پیداوار ہے ، چھوٹے کوتاہ ذہن کی پہنچ بس یہیں تک ہی ہو سکتی ہے کہ مسجد کو جلا دیا جائے کسی کو دکھ دیا جائے کسی کو نقصان پہنچایا جائے.ہر لحاظ سے ایک بہت ہی کمینی اور چھوٹی سفلہ حرکت ہے اور اس کے برعکس آپ کو یہ ایک بڑا غیر معمولی تاریخی اعزاز حاصل ہو گیا کہ آپ ان لوگوں میں، ان قوموں میں داخل ہوئے جن کو خدا کے نام پر تکلیف دی جاتی ہے، جن کی عبادت گاہوں کو خدا کی دشمنی میں جلایا جاتا ہے.بہت بڑا ایک

Page 557

خطبات طاہر جلد ۶ 553 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء تاریخی سنگ میل ہے.آپ کو اپنا یہ امتیاز پیش نظر رکھنا چاہئے کہ آپ وہ ہیں جن کی مسجد جلائی گئی ہے آپ وہ بد بخت نہیں ہیں جو مسجد میں جلانے والے ہیں.کتناز مین آسمان کا فرق ہے.جب سے خدا تعالیٰ نے آدم کے ذریعے نبوت کا آغاز فرمایا یہ ایک دوہری تاریخ انسانیت کی چل رہی ہے.کچھ وہ لوگ ہیں بد نصیب جو خدا کے گھروں کو جلانے والے ہیں کچھ وہ لوگ ہیں جن کو دکھ دیا جاتا ہے خدا کے نام پر اور جن کی عبادت گاہوں کو جلایا جاتا ہے اور یہ تفریق مسلسل بڑی نمایاں چلی آرہی ہے.آپ اس گروہ میں داخل ہوئے ہیں جن کو خدا کے نام پر تکلیف دی جاتی ہے اور جن کے عبادتگاہوں کو جلایا جاتا ہے.تو سودا تو ایسا سودا نہیں ہے جس پر آپ دکھ محسوس کریں یا پژمردہ ہوں.دکھ اس بات کا ہے کہ خدا کی عبادت کی جگہ کو خدا کے نام پر جلایا گیا ہے.ایک جذباتی تکلیف ہے لیکن جہاں تک سود وزیاں کا تعلق ہے جہاں تک اس بات کے تولنے کا تعلق ہے کہ آپ کا حاصل کیا ہے، آپ کا نقصان کیا ہوا ہے.آپ فائدے ہی فائدے میں ہیں ،قطعا آپ کا کوئی نقصان نہیں.ایک اور پہلو ہے اس کا جس میں مجھے خطرہ تھا کہ آپ کو نقصان نہ پہنچے اور میری توجہ آپ کے روحانی نقصان کی طرف ہے مادی جسمانی نقصان تو معمولی حیثیت رکھتے ہیں.اس کی طرف بھی میں آپ کو متوجہ کر دینا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ اخباروں کے جو بھی میں نے اقتباسات دیکھے ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ شاید بعض احمدیوں کی طرف سے بھی یہ تاثر دیا گیا ہے کہ اس واقعہ کے پیچھے حکومت پاکستان کا ہاتھ ہے حالانکہ ہمیں ہرگز بغیر شواہد کے بات نہیں کرنی چاہئے.ہم ہرگز یقینی طور پر یہ نہیں کہہ سکتے کہ حکومت پاکستان کا ہاتھ ہے یا سعودی عریبیہ کے جو مختلف ادارے دنیا میں کام کر رہے ہیں، رابطہ عالم اسلامی وغیرہ ان میں سے کسی کا ہاتھ ہے یا مقامی شرارت ہے.جب ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ بغیر شواہد کے ہم پر کوئی الزام لگائے ، جب ہم جھوٹ کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب ہمارے او پر بولا جاتا ہے تو ہمارا یہ کوئی حق نہیں کہ ہم چاہے ہمارا دشمن ہی ہو اس کے اوپر جھوٹ بولیں یا اس کی طرف بغیر شواہد کے بغیر دلیل کے باتیں منسوب کریں.اب تک ایسے کئی واقعات گزر چکے ہیں اور ہر ایسے واقعہ کے بعد جب میں نے خطبہ دیا تو اس میں اس طرف متوجہ کیا کہ جب تک ہمیں یقینی طور پر معلوم نہ ہو کہ کون سا گروہ یقینی طور پر سے مراد یہ ہے کہ ایسے مضبوط شواہد معلوم نہ ہوں کہ

Page 558

خطبات طاہر جلد ۶ 554 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء کون سا گروہ ملوث ہے اس وقت تک ہمارا یہ اخلاقی حق نہیں بنتا کہ ہم کسی کو ملزم کریں.ہم دنیا کی طرح تو نہیں ہیں کہ ایک قتل ہو گیا تو اندازہ لگا کر بچیں تھیں یا بعض دفعہ پورے کے پورے خاندان کا نام شبہ میں لکھوا دیا گیا.اس لئے ہمیں ایسے مواقع پر اپنے اخلاق کی حفاظت کرنی چاہئے ، اپنے اعلیٰ اصولوں کی حفاظت کرنی چاہئے.مسجد کا نقصان ہو یا کوئی اور عمارت کا نقصان ہو یہ اصولوں کے نقصان اور اخلاق کے نقصان کے مقابل پر کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتا.مسجدیں تو بنتی ہیں صاحب اخلاق لوگوں کے ذریعے، صاحب ایمان لوگوں کے ذریعے ورنہ دنیا کی بڑی بڑی قو میں عظیم الشان کروڑوں، اربوں روپے کی مسجدیں بنا سکتی ہیں ان کی کیا حیثیت ہوگی خدا کی نظر میں جب تک نمازی متقی نہ ہوں ، جب تک مسجدوں میں جانے والوں کے اخلاق بلند نہ ہوں ،ان کے نام کے ساتھ اسلام کا حسن جب تک وابستہ نہ ہو ، اس وقت تک ان مسجدوں کی کوئی بھی قیمت نہیں.اسی لئے خدا تعالیٰ فرماتا خُذُوا زِينَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ (الاعراف :۳۲) جب مسجدوں میں جایا کرو تو اپنی زینت یعنی تقویٰ کو ساتھ لے جایا کرو کیونکہ وہاں تمہارے تقویٰ ہی سے مسجدوں کی رونق بنتی ہے.پس ظاہری مساجد کی تو کوئی حیثیت نہیں ہے، مسجد میں جانے والوں کی حیثیت ہے.ان سے مسجدوں کو زینت ملتی ہے وہ اپنی زمینیں لے کے ساتھ جایا کرتے ہیں.پس اگر مسجد کو بھی نقصان پہنچ جائے اور آپ اس زینت سے بھی محروم رہ جائیں جس سے آپ کی مسجد کی رونق بنی تھی تو یہ بڑا نقصان ہے.اس لئے ایسے ہر ابتلا میں اپنے قیمتی اور دائمی اصولوں کو بالکل نہیں چھوڑنا.دشمن خواہ کتنی بھی زیادتی آپ پر کرے، دشمن کی دشمنی میں اپنی جان کے دشمن بنا تو کوئی عقل کی بات نہیں ہے.ہماری سب سے زیادہ قیمتی جان سے بھی زیادہ قیمتی چیز ہمارا ایمان ہے، ہمارے اصول ہیں ، ہماری اعلیٰ اخلاقی قدریں ہیں جو اسلام سے ہمیں عطا ہوئی ہیں ان قدروں کی حفاظت کرنا ضروری ہے.اس لئے میں نے امیر صاحب سے آتے ہی جو بات کی وہ یہی تھی کہ کوئی الزام بغیر کسی دلیل کے بغیر کسی قطعی ثبوت کے ہمیں دوسرے پر نہیں لگانا چاہئے.ایک چیز البتہ ہے جس سے ہم یقینی طور پہ کہہ سکتے ہیں اور اسی تک ہمیں اپنی توجہ کو مبذول رکھنا چاہئے ، اسی تک ہمیں اپنے بیانات کو محدود رکھنا چاہئے.وہ یہ ہے کہ حکومت پاکستان کے متعلق ہم بغیر کسی شبہ کے جانتے ہیں کہ حکومت پاکستان

Page 559

خطبات طاہر جلد ۶ 555 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء نے عہد کر رکھا ہے ، حکومت پاکستان سے مراد ایک ڈکٹیٹر کی حکومت کی بات کر رہا ہوں، اس نے یہ عہد کر رکھا ہے کہ جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنی ہے.جہاں جائیں گے ہم ان کی دشمنی کریں گے.جہاں جہاں جماعت احمد یہ موجود ہے وہاں کرائے کے مولوی بھجوا کر ان کے بزرگوں کی بے عزتیاں کروائی جائیں گی ، ان کے خلاف اشتعال پھیلایا جائے گا، ان کے خلاف نفرت کی آگ کا الاؤ روشن کیا جائے گا.نفرت کے الاؤ کے ساتھ روشن کا لفظ تو مناسب بھی نہیں ہے، الا ؤ بھڑ کا یا جائے گا کہ دینا چاہئے.مگر بہر حال یہ وہ فیصلے ہیں حکومت پاکستان کے ایک ڈکٹیٹر کے جن کے متعلق اس نے اپنی بدنصیبی کے ساتھ ساری دنیا میں تشہیر خود کی ہے.انگلستان کی کانفرنس میں، یہ بات جو چند سال پہلے ہوئی تھی ایک علماء کی کانفرنس اس کی طرف میرا اشارہ ہے، اس کا نفرنس میں یہ بات ایک تحریری پیغام کے طور پر انگلستان میں پاکستان کے Ambassador کے نمائندے نے پڑھ کر سنائی جس میں پیغام کا ما حاصل یہ تھا کہ ہم یعنی حکومت پاکستان کے نزدیک جماعت احمدیہ کو ایک کینسر سمجھتی ہے اور ہم اس بات کا تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ اس کینسر کی بیخ کنی کریں گے ہر طرح سے.تو ایک بات ہم یقینی طور پر ساری دنیا کو ایسے موقعوں پر یاد کرا سکتے ہیں کہ ہمیں اتنا پتا ہے کہ ایک حکومت ہے جس کے بعض بد نصیب موجودہ سربراہ یہ کھلم کھلا اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم جماعت احمدیہ کی دشمنی میں جو کچھ ہم سے بن پڑے گی کریں گے.ایسی حکومت کے کرائے کے مولوی جس ملک میں بھی جائیں گے اس ملک میں اس قسم کے واقعات کی توقع رکھنا ایک معمولی بات ہے.بڑی بے وقوفی ہو گی کسی حکومت کی کہ ایسی حکومت کے نمائندہ مولویوں کو کھلی چھٹی دے دیں کہ ان کے اپنے ملک میں آکر وہ امن بر باد کرنے کی کوشش کریں اور پھر یہ توقع رکھیں کہ امن بر باد نہیں ہو گا.یہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ایسے واقعات حکومتوں کی براہ راست سازش کے نتیجے میں ہوں لیکن یہ تو قطعی بات ہے کہ ایک حکومت ایسی ہے جس نے تہیہ کیا ہوا ہے کہ آپ کے خلاف گند اور جھوٹ پھیلانے کے لئے کرائے کے مولوی استعمال کرے گی اور دنیا میں ہر جگہ کرے گی اور وہ با قاعدہ کرائے کے مولوی بجھوائے جاتے ہیں ہر جگہ.ہالینڈ میں بھی آتے رہے ہیں.اس لئے آپ بغیر کسی تردد کے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ ان کا پھیلایا ہوا فتنہ اور فساد ہے جس کے نتیجے میں یہ واقعہ ہوا ہے، اس میں کوئی شک نہیں اور کن لوگوں نے کیا یہ ہم نہیں جانتے.یہ بھی ممکن ہے کہ علماء کی ایسی تقریروں کے

Page 560

خطبات طاہر جلد ۶ 556 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء نتیجے میں ایک سر پھرا آدمی اپنے طور پر ہی مشتعل ہو جائے اور کوئی ایسی حرکت کر بیٹھے، ہوسکتا ہے اس کے پیچھے کوئی سازش نہ ہو.یہ بھی ممکن ہے کہ ایک نوجوانوں کا گروہ آپس میں مل کر بیٹھے آج کل ٹیلی ویژن وغیرہ کے ذریعے مختلف قسم کے جرائم کے طریق وغیرہ تو دنیا کو معلوم ہوتے ہی رہتے ہیں کس طرح کسی کے گھر جب آگ لگائی گئی اور پھر ٹیلی فون کر کے اطلاع دی گئی اور بعض جاہل بے وقوف اس میں اتنی Excitement حاصل کرتے ہیں ان باتوں سے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ہیرو بن جائیں گے اگر ہم نے بھی کوئی ایسا واقعہ کیا اور ہم نے بھی بعد میں پولیس کو فون کیا کہ ہم نے یہ کام کر دیا ہے.تو مذہبی دیوانگی پھیلانے والوں کے متعلق ہم جانتے ہیں یہ قطعی طور پر ثبوت ہمارے پاس موجود ہیں کہ وہ لاکھوں روپیہ خرچ کر کے ایسے کرائے کے مولویوں کو دنیا میں ہر جگہ بھجوا کے اشتعال انگیزی کے لئے استعمال کرتے ہیں.ہم یہ قطعی طور پر جانتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں سر پھرے لوگ ایسے واقعات کر دیا کرتے ہیں.وہ کون ہیں جنہوں نے کیا ہے ، واقعہ کوئی پاکستانی ہے یا کوئی سوری نامی یا پھر اور شخص ہے اس کے متعلق ہم کچھ نہیں جانتے اور ہمیں اپنے بیانات میں ایسی چیزوں سے احتراز کرنا چاہئے.جہاں تک تیسرے حصہ کا یعنی ظاہری نقصان کا تعلق ہے اس کے متعلق میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں رہے گا.یہ بات میں بار بار بیان کر چکا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کو جتنا نقصان، جس جہت میں پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے یا کی جائے گی اسی جہت میں اس سے دس گنا فضل اللہ تعالیٰ ہمیں عطافرما تارہے گا اور فرما رہا ہے.چند مسجدیں انہوں نے پاکستان میں جلائیں اور شہید کیں اس کے مقابل پر اتنی سو مساجد ہم نے ایک ہی سال میں تمام دنیا میں بنا دیں.اس لئے آپ کو بھی میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی مسجد کو جو نقصان پہنچا ہے اس سے بہت زیادہ شاندار بہت زیادہ وسیع مسجد اب آپ کو وہیں بنا کے دی جائے گی.اللہ کے فضل کے ساتھ اور اسی کی توفیق کے مطابق.اس لئے یہ بات تو قطعی ہے کہ ملاں کی بنائی ہوئی تقدیر ہے یا کسی حکومت کے سربراہ کی بنائی ہوئی تقدیر ہے اس ہر تقدیر پر ہمارے خدا کی تقدیر غالب رہی ہے اور ہمیشہ غالب رہے گی ، ہمیشہ ان کی بنائی ہوئی تقدیروں کو نا مراد کرے گی اور ہمارے حق میں بہتر فضل اور رحمت اور برکتوں کی تقدیر

Page 561

خطبات طاہر جلد ۶ 557 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۸۷ء جس طرح پہلے جاری ہوتی رہی آئندہ بھی جاری ہوتی رہے گی.آپ میں سے جن کو جو توفیق ہے اس عظیم الشان خدمت میں حصہ لینے کی اپنی اپنی توفیق کے مطابق اس میں حصہ ڈالیں تا کہ آپ کو بھی سعادت نصیب ہو.لیکن میں جانتا ہوں کے ہالینڈ کی جماعت کی حیثیت مالی لحاظ سے اتنی نہیں ہے کہ دیگر چندوں کے علاوہ وہ اتنے بڑے کام میں حصہ لے سکیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نقصان جتنا ہوا ہے اس سے کم سے کم دس گنا زیادہ اور جو کم سے کم ہے اس کا مطلب ہے.یقینا اور بھی زیادہ کرنے کی کوشش کی جائے گی.کم سے کم دس گنازیادہ وسیع عمارت سے، دس گنا زیادہ بہتر جگہ آپ کو انشاء اللہ تعالیٰ مہیا کر دی جائے گی.جو آپ کی توفیق سے باہر ہے وہ دنیا کی دوسری جماعتیں انشاء اللہ تعالیٰ پیش کریں گی.اس پر بھی میں کوئی معین پابندی نہیں لگانی چاہتا حسب توفیق جہاں جہاں بھی دنیا میں یہ خطبہ پہنچے گا دوست اپنی مرضی سے اپنے شوق سے خود اس کارِ خیر میں حصہ لینے کی کوشش کریں گے اور جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے مجھے کوئی بھی فکر نہیں کہ ضرورت کہاں سے پوری ہوگی، انشاء اللہ ضرور پوری ہوگی.ایک حصہ ایسا ہے جس میں جماعت ہالینڈ کو حصہ لینا چاہئے اور وہ میدان ایسا ہے جہاں دوسری جماعتیں حصہ لے نہیں سکتیں بلکہ خود آپ لے سکتے ہیں.وہ ہے مسجد کی تعمیر کے دوران جولوگ آپ میں سے فارغ ہیں وہ وقار عمل کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں، جو لوگ کوئی فن جانتے ہیں جس کا تعمیر سے تعلق ہے وہ فن مسجد کی خدمت میں پیش کریں، کچھ Supervision کے کام بھی ہوں گے.کچھ دوسرے ایسے کام ہوں گے جن میں جماعت کی وقت کی اور جسمانی قربانی کے نتیجے میں ہمارا بہت سارا روپیہ بیچ سکتا ہے.باقی دنیا میں جماعتیں اسی طرح کر رہی ہیں اور غیر معمولی بچت کا موجب بنتی ہیں ان کی محنت اور اس محنت کے ساتھ جو خلوص وابستہ ہوتا ہے اس سے کاموں میں بہت برکت پڑتی ہے.انگلستان میں ہم نے بارہا یہ تجربہ کیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بعض دفعہ جو مارکیٹ کے تخمینے تھے ان سے پانچویں حصے پر ایک عمارت تعمیر ہوگئی کیونکہ وہاں کے خدام انصار اور خواتین نے بہت اپنے وقت کی قربانی کی.تو آپ کو بھی جہاں تک نصیب ہو، جہاں تک توفیق ہو مسجد کے کام میں اپنے وقت کی قربانی ضرور پیش کریں.اس سے دوہرا تہرا فائدہ پہنچتا ہے.ایک تو یہ کہ آپ کے روپے کی جو کمی ہے وہ اس طرح بہت حد تک پوری ہو جائے گی ، اگر آپ کے وقت کی قربانی

Page 562

خطبات طاہر جلد ۶ 558 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء کے نتیجے میں خرچ اگر 1/5 نہ سہی نصف بھی رہ جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت بڑی چیز ہے اور جتنا بھی ہو بہر حال وہ عملاً آپ کا چندہ ہی شمار ہوگا.دوسرے یہ کہ خدمت کرنے والوں کو ایک براہ راست سعادت نصیب ہوتی ہے.خدا کے گھر کے بنانے میں حصہ لینا یہ ایسی عظیم الشان توفیق ہے کہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انسان کے اندر ایک سعادت کی نئی روح پیدا فرما دیتا ہے گویا اسے ایک نئی زندگی ملی ہے اور خدا تعالیٰ کا خاص محبت اور پیار کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے.اسی لئے عید کے خطبے میں میں نے اس طرف متوجہ کیا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا حضرت اسماعیل علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ مل کر مسجد کے تعمیر کرنے کا واقعہ خدا تعالیٰ کو ایسا پیارا لگا کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کو قرآن کریم میں محفوظ فرما دیا اور ایسے پیار سے ذکر کیا کہ باپ معمار ہے اور بیٹا مزدور اور دونوں نبی.اس سے بڑے اس زمانے میں کسی انسان کا تصور ہی نہیں ہوسکتا تھا کہ باپ بھی نبی اور بیٹا بھی نبی اور خدا تعالیٰ نے ایک کو معمار بنایا ہوا ہے اور ایک کو مزدور اور وہ دونوں مل کر خدا کے گھر کی عمارت کھڑی کر رہے ہیں.تو معماری کا کام دنیا کی نظر میں خواہ کچھ بھی حیثیت رکھتا ہو، جب اس کا مسجد سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے تو دنیا کا عظیم ترین کام بن جاتا ہے.ایسا کام جس پر بعد میں قومیں اور آنے والی نسلیں فخر کرتی ہیں.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا معماری کا جب یہ واقعہ آپ پڑھتے ہیں تو کس قدردل میں رشک پیدا ہوتا ہے، کس قدر انسان درود بھیجتا ہے ان پر کہ کیا شان تھی، کیسے عظیم الشان باپ بیٹا تھے، کس پیار اور محبت سے خدا کا گھر بنارہے تھے، اللہ کی رضا کی آنکھیں ان پر پڑ رہی تھیں اور ہمیشہ کے لئے اس خدمت کو محفوظ کر دیا.ورنہ دنیا میں بعض قو میں ہیں جو تعمیر کے کام میں اپنی عمریں ضائع کر دیتی ہیں.بعض ایسی غلام قومیں تھیں جن کو بڑی بڑی عمارات کے لئے زنجیروں میں باندھ کر ان سے غیر معمولی محنتیں لی گئیں، نسلاً بعد نسل وہ لوگ قیدوں میں بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے رہے.ایسی عمارتیں جن کو بعض دفعہ سوسوسال سے زائد عرصہ مکمل ہونے میں لگا ہے.تو جسمانی محنت اور جسمانی کوشش کا جہاں تک تعلق ہے بہت ہی زیادہ محنتیں عمارتوں کے سلسلے میں کی گئیں ہیں اور ظاہری قربانی کو دیکھیں تو حضرت اسمعیل علیہ الصلوۃ والسلام اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی قربانی اس کے مقابل پر جسمانی محنت کے لحاظ سے کوئی حیثیت نہیں رکھتی

Page 563

خطبات طاہر جلد ۶ 559 خطبه جمعه ۲۱ را گست ۱۹۸۷ء مگر چونکہ خدا کے گھر سے وابستہ ہوئی تھی اس لئے اس کی عظمت اور شان اتنی بلند ہوگئی کہ ہمالہ کی چوٹیوں سے بھی بالا ہے، آسمان کے کنگروں سے لگی بیٹھی ہے عظمت اس کی.اس لئے آپ کے لئے بھی ایک سنت جاریہ ہے.آپ کی مسجد سے محبت کے نتیجے میں ، خدا کا گھر سمجھتے ہوئے ، اس کی تعمیر میں جو حصہ لیں گے یا اس کی صفائی میں کبھی حصہ لیں ، اس کے ٹھیک ٹھاک کرنے میں حصہ لیں.یا درکھیں کہ ایک ایسی خدمت ہے جس کو خدا بہت ہی پیار اور اعزاز کے ساتھ دیکھتا ہے تو اللہ کرے اس کی بھی آپ کو تو فیق ملے.جس کے پاس جو کچھ بھی ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرہ: ۳) کا نظارہ دکھائے اور دشمن کو یہ بتا دے کہ ہم ہارنے والی قوم نہیں ہیں.ناممکن ہے ان کی ساری ذلیل ترین کوششیں کتنی بھی بڑی طاقتور ہو کر ظاہر ہوں ،تب بھی وہ ہمیں نا کام نہیں بنا سکتیں ان کی ہر دشمنی ہمارے لئے ماں کے دودھ بن جایا کریں گی جب ہمارے جسم میں داخل ہو گی اور ہم کمزور ہونے کی بجائے ان زہروں سے مزید طاقت پائیں گے، مزید عظمت پائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ اسی شان کے ساتھ زندہ رکھے.زندگی کی یہی شان ہے اس کے بغیر تو زندگی بے معنی ہے.مرد مومن اور مرد صادق کی طرح جو تو میں زندہ رہتی ہیں وہی زندہ رہنے کی اہل ہیں باقی تو فضول جھگڑے ہیں دنیا کے جن کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: جمعہ کے بعد نماز عصر جمع ہوں گی اور مسافر دوگانہ پڑھیں گے اور مقامی دوست غالبا ایک ہی ہیں یا دو ہوں گے.وہ اپنی نماز پوری کر لیں عصر کی.باقی دوسرا اعلان یہ ہے کہ نماز عصر کے معابعد دومرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک ہمارے سلسلے کے مخلص واقف زندگی دوست چوہدری انور حسن صاحب نائب وکیل التصنيف ربوہ دل کے حملے سے اچانک وفات پا گئے.بڑا مخلص خاندان ہے اور سارے بھائی اللہ کے فضل سے سلسلے سے بہت ہی محبت رکھنے والے ہیں.ان کے ایک پہلے بھائی بھی جو غالبا دل کے دورے سے وفات پاگئے تھے یا دل کا حملہ ہوا تھا مجھے صحیح نہیں یاد مگر بہر حال.ان کو پہلے بھی ہو چکا ہے اس کے باوجود بڑی محنت اور محبت سے سلسلے کا کام کرتے رہے.دوسرے دوست ہمارے مکرم ہارون اوپو کو صاحب آف غانا مغربی افریقہ ہیں، ان کے

Page 564

خطبات طاہر جلد ۶ 560 خطبه جمعه ۲۱ / اگست ۱۹۸۷ء بھائی مکرم موسیٰ ڈونکر صاحب مغربی جرمنی میں ایک بہت مخلص داعی الی اللہ ہیں اور انہوں نے افریقن ممالک کے طلبہ کو اکٹھا کرنے ، ان میں تبلیغ کرنے اور ان میں سے کھوئے ہوئے احمدیوں کو دوبارہ تلاش کرنے اور اخلاص میں ان کو آگے بڑھانے میں بہت محنت سے کام کیا ہے، ان کا خط آیا ہے کہ میرے بھائی کی وفات کی اطلاع ملی ہے ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.

Page 565

خطبات طاہر جلد ۶ 561 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء آج جماعت کی سب سے اہم اور بڑی ذمہ داری دعوت الی اللہ ہے.احباب جماعت اور عہدیداران کو دعوت الی اللہ کی تلقین خطبه جمعه فرموده ۲۸ راگست ۱۹۸۷ء بمقام اوسلو، ناروے) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.یورپ کے چند ممالک کے اس مختصر دورے میں میں نے خصوصیت سے اس بات پر نظر رکھی کہ جماعت کو جو بار با دعوت الی اللہ کی نصیحت کی جاتی رہی ہے اس کا کس حد تک عملاً اثر ظاہر ہوا ہے.ہالینڈ میں بھی میں نے اسکا جائزہ لیا، جرمنی میں بھی ، ڈنمارک اور سویڈن میں بھی اور اب ناروے آکر بھی ، ملاقاتوں کے دوران بھی اور اس کے علاوہ جماعت سے گفت و شنید کے دوران میں نے اندازہ لگایا کہ ابھی جماعت کی بھاری اکثریت ایسی ہے جو عملاً دعوت الی اللہ کے کام میں مشغول نہیں ہوئی اور اگر یہ کہا جائے کہ پچانوے فیصد جماعت ابھی تک اس کام سے غافل پڑی ہے، عملاً اس کام میں سنجیدگی سے حصہ نہیں لے رہی تو اس میں مبالغہ نہیں ہوگا.بعض ممالک میں ممکن ہے یہ نسبت اور بھی زیادہ خراب ہو مگر جن ممالک میں توجہ شروع ہو چکی ہے ان میں بھی بمشکل پانچ فیصد احمدی ایسا ہے جو فی الحقیقت دعوت الی اللہ کا حق ادا کر رہا ہے.اس سلسلے میں کچھ تو میں براہ راست جماعت سے باتیں کرنی چاہتا ہوں اور کچھ امراء اور مربیان اور صدرانِ جماعت اور دیگر عہدیداران کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.جب بھی ایک بات کی ہدایت کی جائے اور تکرار سے کی جائے تو اُسے بھلا دینا جائز

Page 566

خطبات طاہر جلد ۶ 562 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء نہیں ہے.اس خیال سے کہ اب یہ بات پرانی ہوگئی اور اب ہماری جواب طلبی نہیں ہوگی یہ درست بات نہیں ہے.جواب طلبی کا اسلامی نظام عام دنیا وی جواب طلبی کے نظام سے مختلف ہے.دنیاوی جواب طلبی کے نظام میں تو بعض دفعہ کا غذات داخل دفتر ہو جاتے ہیں، بعض افسروں کو بات بھول جاتی ہے اور انسان ایک نافرمانی کے باوجود پکڑ سے بچ جاتا ہے لیکن اسلام میں جو جواب طلبی کا نظام ہے اس کی رُو سے تو ہر انسان پر فرشتوں کے پہرے بیٹھے ہوئے ہیں.وہ صبح بھی اور شام بھی خدا تعالیٰ کے بتائے ہوئے طریق کے مطابق انسان کے حالات کا جائزہ درج کرتے رہتے ہیں اور کوئی چیز بھی ان سے مخفی نہیں، کوئی چیز بھی ان کی نظر سے اوجھل نہیں اور کوئی ایسی بات بھی نہیں جس کی ان کو یاد دہانی کی ضرورت پڑے.چنانچہ جو اہم امور خدا تعالیٰ نے بندے کو کرنے کے لئے کہے ہیں اُن کا ایک سوالنامہ بھی ساتھ ساتھ تیار ہوتا چلا جا رہا ہے مختلف حالات کے مطابق اور عملاً ہم جو اس کا جواب پیش کرتے ہیں وہ بھی تیار ہوتا چلا جاتا ہے.پس کہنے والا دنیا میں بھول چکا ہو، سننے والا بھول چکا ہو مگر یہ جو خدا تعالیٰ کا آسمانی جواب طلبی کا نظام ہے یہ تو کسی چیز کو نہیں بھولتا اور چونکہ جماعت احمدیہ کا تعلق دنیاوی حکومت سے نہیں بلکہ آسمانی حکومت سے ہے اس لئے یہاں جزا سزا کا نظام بھی آسمانی ہے اگر تو دنیا میں سزا دینی ہوتی کوئی پھر تو جواب طلبی کرنے والے بھول جائیں تو پھر فرق پڑتا اور کئی لوگ سزا سے بچ جاتے.اگر خدا تعالیٰ نے فیصلہ کرنا ہے جزا سزا کا تو پھر دنیا والے جواب طلبی کریں نہ کریں، بھول جائیں تب بھی نہ بھولیں تب بھی عملاً کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.اس لئے ان امور کو جن کا دین سے تعلق ہونسبت زیادہ سنجیدگی سے دیکھنا چاہئے اور زیادہ کوشش اور جد و جہد اور ذمہ داری کے ساتھ ان کی ادائیگی کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یہ دعوت الی اللہ کا پروگرام کوئی معمولی پروگرام نہیں ہے.ہم اگلی صدی کے کنارے پر بیٹھے ہیں اور ساری دنیا کو اسلام میں لانے کا تہیہ کر کے ایک سوسال سے جو کوشش کر رہے ہیں ابھی تک ایک سو سال میں کسی ایک ملک میں بھی واضح اکثریت تو در کنار نصف تک بھی ہم نہیں پہنچ سکے.دسواں حصہ بھی ابھی تک ہمیں کامیابی نہیں ہوسکی کسی ملک میں.تو ساری دنیا کو اسلام میں لانا یہ کوئی معمولی ذمہ داری نہیں ہے جو ہمارے کندھوں پر خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے.اس کے لئے سنجیدگی سے تیاری کرنی ہے اور اس کے سوا اور کوئی حل بھی نہیں

Page 567

خطبات طاہر جلد ۶ 563 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۸۷ء ہے کہ ہم میں سے ہر شخص تبلیغ کرے اور مؤثر تبلیغ کرے اور چین سے نہ بیٹھے جب تک اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کی تبلیغ کو پھل نہ لگنے لگ جائیں.تو جہاں تک عہدیداران کا تعلق ہے ان کو بھولنا نہیں چاہئے ان کی خواہ میں جواب طلبی کروں یا نہ کروں اگر وہ اس بات کو بھول جائیں گے تو جماعت بھی بھول جائے گی.عہد یداروں پر بہت بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ خوب یاد رکھیں اور بار بار پلٹ پلٹ کر جماعت کے حالات کو دیکھتے رہیں کہ کس حد تک یہ کام آگے جاری ہے.عموما یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ عہدیداران چند آدمیوں کے نیک کام کو اپنی رپورٹ میں سمیٹتے ہیں اور جس طرح آسٹریلیا کے Obroganees تھے جو خود محنت کر کے چیز ا گانے کی بجائے جو قدرت پھل دیتی ہے اس کو سمیٹنے والے لوگ.چنانچہ دنیا میں دو قسم کے رزق حاصل کرنے والے ہیں ایک وہ جو اگاتے ہیں محنت کر کے اور پھر پھل کھاتے ہیں جیسے آج کل متمدن دنیا اکثر یہی کر رہی ہے.فصلیں کاشت کرتی ہے، پھل والے درخت لگاتی ہے اور پھر جتنا محنت کرتی ہے اتنا اس کا پھل کھاتی ہے لیکن کچھ قومیں جیسا کہ آسٹریلیا کے Obroganees تھے یا ہیں اور کچھ اور ممالک بھی ایسے ہیں جن کو Gatherers کہا جاتا ہے وہ صرف سمیٹنے کا کام کرتے ہیں.تو اکثر منتظمین کام سمیٹ رہے ہیں.خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے جہاں دو، چار، دس داعی الی اللہ دے دیئے ان کی رپورٹوں کو سمیٹ کر ان کی رپورٹ بڑی مزین ہو جاتی ہے اور خوبصورت ہو جاتی ہے اور یہ تاثر دیتے ہیں مرکز کو کہ گویا ساری جماعت بڑا اچھا کام کر رہی ہے اور دیکھیں اتنا اچھا پھل لگ گیا حالانکہ بعض اوقات جو داعی الی اللہ ہیں ان کو بنانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ان کو سجانے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا ان کو پہلے سے زیادہ بہتر کرنے میں ان کا کوئی دخل نہیں ہوتا لیکن بعض جگہ ہوتا ہے.بعض جگہ جماعت کا سارا نظام ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہا ہوتا ہے، سر پرستی کر رہا ہوتا ہے، ان کے ساتھ مل کر کام کو آگے بڑھا رہا ہوتا ہے.تو وہ صاف نظر آ جاتا ہے.تو جہاں تک رپورٹیں سمیٹنے کا تعلق ہے رپورٹیں تو کچھ نہ کچھ سج جاتی ہیں لیکن سمیٹنے والے کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی.اس کا کام یہ ہے کہ خود اپنی زمینیں بنائے ، اس کا کام یہ ہے کہ نئی کاشت کی کھیتیاں پیدا کرے، اس کا کام یہ ہے کہ نئے درخت لگائے اور پھر خدا تعالیٰ کے سامنے صاف دل

Page 568

خطبات طاہر جلد ۶ 564 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء کے ساتھ پیش ہو کہ اے خدا! اس سال میری محنت کا یہ پھل ہے، میں نے کوشش کی تو نے اپنے فضل کے ساتھ مجھے توفیق عطا فرمائی کہ میں نے تیری راہ میں نئے کھیت اگائے ہیں اور تیری راہ میں نئے باغ لگائے ہیں.تو دعوت الی اللہ کے باغ اور کھیت لگانے کا کام یہ عہدیداران کا کام ہے اور یہ شخض نصیحت سے نہیں ہوتا، بی حض یاد دہانی سے بھی نہیں ہوتا، یہ ساتھ لگ کر کام سکھانے سے ہوتا ہے.بعض عادتیں راسخ کرنے سے ہوتا ہے ، بعض لوگوں کو پکڑ کر اپنے ساتھ لگانا اور پھر ان کے ساتھ پیار کا تعلق قائم کر کے ان کے دلوں میں کام کی محبت پیدا کرنا، یہ ایک فن ہے اور اس فن کے متعلق قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے ایک نہایت ہی عمدہ اصولی روشنی ڈالی جس سے استفادہ کرنا چاہئے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د خدا تعالیٰ نے قوموں کو زندہ کرنے کا کام کیا تھا.وہ قوموں کے نبی تھے بڑے عظیم الشان مقام کے نبی تھے اور خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ تیرے ذریعے میں قوموں کو نئی زندگی عطا کروں گا.بڑے عاجز مزاج تھے.حیران ہوئے کہ اتنا مشکل کام میں کیسے کر سکوں گا.عرض کیا رَبِّ اَرِنِي كَيْفَ تُحْيِ الْمَوْتُى (البقرہ:۲۲۱) زندگی تو تو نے ہی بخشنی ہے میں جانتا ہوں میرے ذریعے ہو یا جو بھی تیرا منشا ہے لیکن تو بخشنے والا ہے.میں جانتا تو ہوں کہ تو ان قوموں کو زندہ کر دے گا مگر کیسے کرے گا مجھے بتا تو سہی میرے دل کو تسلی دے.تو خدا تعالیٰ نے وہ رازان کو سمجھایا کہ زندہ میں کروں گا لیکن تیرے ذریعے کروں گا.فرمایا چار پرندے لے ان کو اپنے سے مانوس کر لے.اپنے لئے ان کے دل میں محبت پیدا کر اور ان کے لئے اپنے دل میں محبت پیدا کر.جب وہ مانوس ہو جائیں تو ان کو چار مختلف سمت کی پہاڑیوں پر چھوڑ دے پھر ان کو آواز دے، دیکھ کس سرعت کے ساتھ وہ تیری آواز کے اوپر اڑتے ہوئے چلے آتے ہیں.یہ نئی زندگی بخشے کا جو نظام ہے خدا تعالیٰ نے خود حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو سمجھایا اور ہمیشہ کے لئے ہمارے لئے نمونے کے طور پر پیش فرما دیا.پس ہر مر بی ، ہر مبلغ، ہر امیر اور ہر صدر اور ہر متعلقہ عہد یدار کو خواہ وہ سیکرٹری اصلاح وارشاد ہو یا جس حیثیت سے بھی اس کام میں اس کا تعلق ہو اس کو چاہئے کے جماعت کے بعض افراد کو پکڑے اور فَصْرُهُنَّ إِلَيْكَ (البقرہ:۲۶۱) کے طابع ان کو اپنے ساتھ وابستہ کرے.اپنے ساتھ ملا کر، پیار

Page 569

خطبات طاہر جلد ۶ 565 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء کا تعلق قائم کر کے ان کی تربیت کرے، تھوڑے تھوڑے کام ان کے سپر د کرے پھر ان کو دنیا میں پھیلا دے اور ان کے ذریعے احیائے موتی کا کام لے.اس طرح اپنی توفیق کے مطابق اس کی توجہ کو مرکز بدلتا رہے گا.آج چار یا آٹھ یا دس نوجوان پکڑے ان کی تربیت کی ان کو کام پر لگا دیا پھر دوبارہ کل آٹھ یا دس یا ہمیں نوجوان جتنی بھی توفیق خدا بڑھاتا چلائے اس کے مطابق ان کو لیا، ان کی طرف توجہ کی.چند مہینے ان کے ساتھ محنت کی ، پیار اور محبت کے ساتھ ان کو طریقے سمجھائے اور جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے پھر وہ اپنا کام خود سنبھال لیں گے.اس طرح ہر وقت پیش نظر پہلے سے بڑھتی ہوئی تعداد رہنی چاہئے.مسلسل ذہن میں یہ بات حاوی رہنی چاہئے کہ میری جماعت میں دعوت الی اللہ کرنے والے پہلے سے بڑھے ہیں کہ نہیں بڑھے؟ کیا میں پہلوں پر ہی راضی ہوں یا میں جان کر عمداً کوشش کر رہا ہوں کہ پہلے سے تعداد بڑھتی چلی جائے.پھر اس کے علاوہ یہ امر بھی دیکھنے والا ہے کہ جن لوگوں کو تبلیغ کی جاتی ہے ان میں کتنے طبقات ہیں اور کیا ہر طبقے کی طرف ہم متوجہ ہیں کہ نہیں ؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ بعض اچھی اچھی زمینیں ہیں جو ہمارے ملک میں موجود ہیں ہم ان کی طرف توجہ ہی نہیں کر رہے، جہاں اتفاق سے ایک طرف رُخ ہو گیا بس اسی طرف رخ چل رہا ہے حالانکہ خدا تعالیٰ نے مختلف ممالک میں مختلف قسم کے لوگ پیدا کئے ہیں کچھ باہر سے بھیجے ہیں اور ہر طبقے کے اپنے اپنے حالات ہیں.ہر طبقہ مزاج کے لحاظ سے یکساں مذہبی نہیں.ہر طبقہ اپنی نفسیاتی کیفیت کے لحاظ سے یکساں طور پر ایک نئی دعوت کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہے.مختلف طریق درکار ہیں، مختلف قسم کے اسلوب چاہئیں تبلیغ میں.چنانچہ آپ جب بھی کسی نئے طبقے کی طرف توجہ کریں گے دوبارہ از سر نو مبلغ کو یا امیر کو جو بھی عہد یدار ہے اس طبقے کو ملحوظ رکھ کر نئی محنت کرنی پڑے گی.جائزہ لینا پڑے گا کہ جن لوگوں کو میں نے دعوت الی اللہ پر مقر رکیا ہے وہ اس طبقے کو مخاطب ہونے کے لئے تیار ہیں کہ نہیں؟ اس کے لئے جائزہ لینا پڑے گا کہ لٹریچر موجود ہے کہ نہیں ؟ کیسٹس موجود ہیں کہ نہیں ؟ دیگر معلومات جو گفتگو کے دوران چاہئیں وہ ان لوگوں کو معلوم ہیں کہ نہیں ؟ جس قوم کی طرف، جس طبقہ انسانیت کی طرف توجہ ہے ان کے حالات کے متعلق یہ لوگ آگاہ ہیں کہ نہیں.یہاں زمیندار ہیں ناروے میں ان کے حالات اور ہیں شہری لوگوں کے اور ہیں ان کی

Page 570

خطبات طاہر جلد ۶ 566 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء مذہبی کیفیت اور ہے شہری لوگوں کی مذہبی کیفیت اور ہے.پھر یہاں باہر سے آکر بسنے والے ہیں.ان میں عرب ہیں، ان میں سے افریقین ہیں، ان میں ویت نامیز ہیں.ایک بہت بڑا طبقہ ویت نام کا آج کل شمالی علاقوں کی طرف رخ کر رہا ہے.اسی طرح بعض دیگر مہاجرین ہیں مختلف ممالک کے، سیلون کے مہاجرین ہیں، بعض اور ممالک کے مہاجرین ہیں.ان لوگوں کی طرف توجہ کرنا ہے.پھر قیدی ہیں کئی جرموں کے نتیجے میں کئی بغیر جرم کے قید ہو جاتے ہیں.کئی جرم کر کے قید ہوتے ہیں لیکن قید کے دوران ان کے اندر اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی ہے.اس وقت ان کے پاس وقت ہوتا ہے.اُس وقت وہ خاص مزاج رکھتے ہیں نیک باتوں کو سننے اور ان پر عمل کرنے کا.پھر بیمار لوگ ہیں، ہاسپٹل (Hospital) میں ، غریب لوگ ہیں جن کا یا رشتہ داروں کی کمی کی وجہ سے یا بوڑھا ہونے کی وجہ سے کوئی پوچھنے والا نہیں.کئی مسافرا یکسیڈنٹس کا شکار ہو جاتے ہیں.ہر طرف ایسے طبقے پھیلے پڑے ہیں جن کوئی زندگی دینے کا کام آپ کے سپرد ہے اور ہر طبقے کوملحوظ رکھ کر اس کام کو آگے بڑھانا ہوگا.جب اتنے طبقے سامنے آجائیں اور ایک مربی پیش نظر رکھے کہ ہاں ان سب کو مخاطب کرنا میرا کام ہے تو لازما اس کے اندر Panic پیدا ہوگی ، اس کے اندر خوف و ہراس پیدا ہوگا کہ میرے پاس چار تو گنتی کے آدمی ہیں جو تبلیغ کر رہے ہیں چار یا پانچ ہی تو ہیں جو اپنی رپورٹیں لا کر مجھے دیتے رہتے ہیں، ان کو میں سب جگہ کیسے استعمال کر سکتا ہوں.اس لئے اگر وہ اپنی زمینوں کی فکر کرے گا تو اس کے لئے لازما اور مزدور حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہوگی.جس طرح زمین کا کام بڑھتا ہے تو مزدوروں کی تلاش بڑھ جاتی ہے زمیندار کو.اس طرح راہ مولیٰ کے مزدور اس کو تلاش کرنے پڑیں گے کیونکہ خدا کی زمینیں بڑھ گئی ہیں.پس ایک کام کی طرف عدم توجہ، دوسرے کام کی طرف سے عدم توجہ پر مبذول ہو جاتی ہے.ایک کام کی طرف کما حقہ توجہ کریں تو دوسری توجہ خود بخود بیدار ہوتی ہے.اسی طرح کام ایک دوسرے کو سہارا دے کر آگے بڑھتے ہیں.اس لئے سب سے اہم ذمہ داری کسی ملک کے امیر کی ہے، اُس ملک کے مربی کی ہے اور اس ملک کی مجلس عاملہ کی من حیث المجموع ذمہ داری ہے اور متعلقہ عہدیداران کی ہے، اسی طرح خدام ہیں، انصار ہیں.اگر سارے اپنی ذمہ داریوں کو پیش نظر رکھ کر

Page 571

خطبات طاہر جلد ۶ 567 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء حکمت کے ساتھ مسلسل آگے بڑھیں گے اور جو نصیحت کی جاتی ہے اس کو معمولی سمجھ کے نظر انداز نہیں کریں گے تو دیکھتے دیکھتے جماعتوں کی کایا پلٹ جائے گی.بعض دفعہ سنتے ہیں کہتے ہیں ہاں خلیفہ وقت نے کہہ دیا ہے ٹھیک ہے تھوڑی دیر کے بعد یہ بھی بھول جائے گا ہم بھی بھول جائیں گے.میں تو انشاء اللہ نہیں بھولوں گا کیونکہ مجھے خدا یاد کرا دیتا ہے، آپ بھولیں گے تو جرم کریں گے.میری تو دن رات کی یہ تمنا ہے، دن رات کی دل میں ایک آگ لگی ہوئی ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں.اس لئے اللہ مجھے یاد کرا تارہے گا اور میں یا درکھوں گا اور یاد آپ کو بھی کراتا رہوں گا لیکن اگر آپ نے غفلت کی وجہ سے اس بات کو بھلایا تو یا درکھیں آپ خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے.نہ بھولیں نہ بھولنے دیں.آج جماعت کی سب سے بڑی سب سے اہم ذمہ داری خدا کا پیغام دوسروں تک پہنچانا ہے اور اس میں ہم پہلے ہی پیچھے رہ گئے ہیں.کون سا وقت رہ گیا ہے ضائع کرنے کا ؟ ہر شخص کو تربیت دیں پیار اور محبت سے سمجھا کر آگے بڑھائیں اور جو ایک دفعہ اس میدان کا سوار بن جائے گا وہ پھر آپ کو دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہونے کی ضرورت نہیں رہے گی.یہ کام ہی ایسا ہے دنیا والے جس طرح نشہ کرتے ہیں تو نشہ ان کو سنبھال لیتا ہے اسی طرح تبلیغ کا ایسا کام ہے کہ جو نشے سے بڑھ کر طاقت رکھتا ہے اور تبلیغ کرنے والے کو سنبھال لیتا ہے.داعی الی اللہ پھر داعی الی اللہ ہی بنا رہتا ہے اس کو کسی اور کام میں دلچسپی ہی نہیں رہتی ، بعض داعی الی اللہ تو اپنے گھر کے حالات بھول جاتے ہیں ، اپنے خاندانوں کو بھول جاتے ہیں، دن رات ایک کام کی لگن ہو جاتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں جب احمدیت تیزی سے پھیلی ہے تو یہ وجہ تھی.ایسے ایسے صحابہ تھے جن کو اپنے تن بدن کی کسی اور چیز کی ہوش ہی نہیں رہتی تھی.دعوت الی اللہ میں مصروف ہوتے تھے تو ہر دوسری چیز بھول جایا کرتے تھے..چنانچہ مغل صاحب، عبدالعزیز صاحب مغل لاہور کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی تھے، ان کے واقعات آتے ہیں کہ بعض دفعہ یہ ہوتا تھا کہ صبح گھر سے سبزی لینے گئے ہیں اور رات بارہ بجے واپس آئے ہیں.پتا لگا کہ گاؤں جا کے سبزی لینی شروع کی تو وہیں تبلیغ شروع کر دی، کچھ دکاندار تھے ، کچھ آنے والے اکٹھے ہو گئے ایک اڈا بن گیا اور نہ کھانے کی ہوش نہ کسی گھر کا خیال.گھر والے بیٹھے انتظار کر رہے ہیں کہ سبزی لے کر آئے تو کچھ پکے اور یہ بارہ بجے رات کے

Page 572

خطبات طاہر جلد ۶ 568 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء تھک کے واپس آرہے ہیں اور پھر بڑے مزے کے ساتھ ، بڑے سرور کے ساتھ گھر والوں کو واقعات سناتے کہ آج یہ باتیں ہوئی، یہ باتیں ہوئی اور یہ باتیں ہوئی.بڑی تبلیغ کا ان کو موقع ملا.کئی خدا کے فضل سے احمدی ہیں، کئی احمدی خاندان ہیں جو ان کے مرہونِ منت ہیں اور ہمیشہ رہیں گے.قیامت تک ان میں جو نسلیں پیدا ہوں گی وہ ان کا خیال کر کے ان کا نام لے کر ان کو سلام بھیجیں یا نہ بھیجیں خدا کے فرشتے ان کی طرف سے ان کو سلام بھیجتے رہیں گے.پس ایسے ایسے عظیم لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں پیدا ہوئے انہی کی نسلیں ہیں آج اکثر جن کو ہم احمدیت کی شکل میں دیکھ رہے ہیں.کچھ نئے آنے والے بھی ہیں لیکن تربیت تو بہر حال انہی کی ہے.ان یادوں کو زندہ کرنا ہوگا، ان رسموں کو زندہ کرنا ہوگا ، وہ رواج دوبارہ اپنی زندگی کے رواج بنانے ہوں گے.وہ زندہ رہنے کا فیشن ہے جسے ہمیں اختیار کرنا ہوگا پھر ہم زندہ قوم بن سکتے ہیں.اس لئے جو باتیں دوسرے ملکوں میں درست ہیں وہ ناروے میں بھی درست ہیں.آپ جماعت سے باہر کوئی الگ جماعت نہیں ہیں.آپ کو بھی دعوت الی اللہ کے پروگرام کو اسی طرح ہر سمت میں ہر جہت میں بڑھانا پڑے گا.تعلیم اور تربیت کا کام جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے علمی پہلو سے بڑھ کر محبت اور پیار کے تعلق کے قیام کے ذریعے ہوتا ہے.جس طرح مرغی اپنے پروں کے نیچے لیتی ہے بچوں کو اور وہی اس کی تربیت ہے.جماعت کو اپنے پروں کے نیچے لینے کی عادت ڈالنی پڑے گی عہدیداروں کو اور پروں کے نیچے لے کر پروں میں سمیٹنے کی صرف نہیں ، طاقت دے کر پھر آگے چھوڑنے کی، پھر اڑنے کی مشق کرانے کی ، پھر آزاد زندگی گزارنے کی.یہ ہے وہ تربیت جو دعوت الی اللہ کی تیاری کے لئے ضروری ہے.جس کا راز ہمیں فَصُرُهُنَّ إِلَيْكَ نے بتا دیا کہ اے ابراہیم ! میں تیرے لئے ضرور قوموں کو زندہ کروں گا، زندہ میں ہی کرتا ہوں لیکن تجھے وہ کرنا ہوگا جو میں تجھے بتاتا ہوں.محبت اور پیار سے پرندوں کو پکڑ اور اپنے ساتھ لگالے اپنی محبت ان کے دل میں پیدا کر اور پھر ان کی تربیت کر پھر دیکھ کس طرح وہ تیری آواز کے تابع وہ سارے کرشمے کر کے دکھا ئیں گے جو تو ان سے توقع رکھے گا.اس سلسلے میں جہاں تک علمی پروگرام کا تعلق ہے ہم اس کے مکمل ہونے کا انتظار نہیں

Page 573

خطبات طاہر جلد ۶ 569 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء کر سکتے.ایک مربی کو جامعہ میں تربیت دینے کے لئے سات سال لگ جاتے ہیں اور جب وہ نکلتا ہے تو ابھی کچا ہوتا ہے.مختلف میدانوں میں جب اس سے مقابلہ کروایا جاتا ہے تو اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ سات سال کی تعلیم کے باوجود ، بعض دفعہ بڑے نمایاں نمبر حاصل کرنے کے باوجود عملی میدان میں جب پڑتا ہے تو کئی قسم کی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.وقت پر بات بھول جاتی ہے، گفتگو کا سلیقہ یاد نہیں رہتا، دلیل یاد بھی تھی تو اس وقت الٹی پلیٹی دلیل شروع ہو جاتی ہے جو طریقے اور داؤ کے مطابق نہیں ہوتی.علم ہے مگر استعمال درست نہیں لیتا.کہیں نئے اعتراض آتے ہیں تو آدمی حیران اوسان ہو جاتا ہے کہ اوہو! اس کا جواب تو میں نے کتاب میں پڑھا کوئی نہیں تھا.تو عملاً جو تبلیغ ہے وہ علمی تبلیغ سے کچھ مختلف ہو جایا کرتی ہے اور محض علمی تیاری بھی اگر آپ کی کرائی جائے تو میں نے بتایا ہے Whole Time سات سال کا کورس کرنا پڑے گا.اب کہاں جماعت اتنی توفیق رکھتی ہے ، کہاں اتنا صبر ہے ہیں کہ ہر شخص کے لئے سات سات سال کے کورس کریں اور پھر توقع رکھیں کہ وہ تبلیغ کرے.لیکن عملاً تجربہ میں اگر فوراً داخل ہو جائیں اور توکل رکھیں اللہ تعالیٰ پر اور دعا کریں تو اتنے لمبے علم کی ضرورت نہیں ہے.خدا تعالیٰ خود مربی بن جاتا ہے خدا تعالیٰ خود معلم ہو جاتا ہے.ایک داعی الی اللہ اگر خالصہ اللہ اللہ کی محبت میں کام شروع کرتا ہے، اس پر تو کل کر کے کام شروع کرتا ہے تو بسا اوقات خدا اس کی ایسی ایسی حیرت انگیز رہنمائی فرماتا ہے کہ اُسے پتا ہی نہیں ہوتا کہ کس طرح اس کو یہ دلیل ذہن میں آئی اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کو عظیم الشان غلبہ عطا کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں جہلاء کو بھی اللہ تعالیٰ بڑے بڑے علماء پر غلبہ عطا کر دیا کرتا تھا.اس لئے کہ وہ نیک اور مخلص اور متقی لوگ تھے اپنے علم پر توکل کرنے والے نہیں تھے بلکہ خدا تعالیٰ کے سہارے اس کے فضل پر تو کل کرنے والے تھے اور سارے علموں کا سر چشمہ خدا ہے، وہی گر سکھاتا ہے کہ کیسے تم غالب آؤ.حضرت موسیٰ جب فرعون سے گفتگو کر رہے تھے تو قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ بار بار آپ کی توجہ خدا کی طرف مبذول ہوتی تھی.اللہ تعالیٰ ہی ان کو جوابات سکھاتا چلا جارہا تھا کہ یہ جواب دو، یہ جواب دو، یہ جواب دو.اس لئے وہی خدا ہے ہمارا.وہ آپ کی بھی اسی طرح پرورش کرے گا ، آپ کی بھی اسی طرح سر پرستی کرے گا.اس لئے علم کی کمی کو عذر نہ رکھیں علم کی کمی کا بہانہ لے کر میدان سے نہ بھا گئیں.جو

Page 574

خطبات طاہر جلد ۶ 570 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء کچھ آپ کے پاس ہے وہ خدا کے سپرد کر دیں پھر دیکھیں خدا اپنا حصہ کتنا ڈالتا ہے.یہ بات میں وسیع تجربے کے بعد کہہ رہا ہوں.جو احمدی بھی لاعلمی کے باوجود تبلیغ کے میدان میں کودتے ہیں ہر قسم کے دشمن سے واسطے کے باوجود کبھی بھی خفت محسوس نہیں کرتے کبھی خدا ان کو ذلیل نہیں ہونے دیتا.پھر آج کل کے زمانے میں تو بہت سے ایسے نئے ذرائع ایجاد ہو گئے ہیں جس سے تبلیغ کی اہلیت کی کمی یا زبانیں نہ جاننے کا نقص بڑی آسانی سے دور ہو جاتا ہے.کیسٹس ہیں ان میں عربی کے سوال جواب کے پروگرام بھی درج ہیں، عربی کے لیکچر بھی درج ہیں مختلف مسائل کے اوپر ، ٹرکش زبان میں کیسٹس ہیں اور دنیا کی افریقین اور دیگر ایشیائی زبانوں اور بعض مغربی زبانوں مثلاً انگریزی، فریج ، جرمن ان سب میں ہمارے پاس کیسٹس موجود ہیں.ویڈیوز بھی ہیں، آڈیوز بھی ہیں لیکن اکثر مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مبلغین نے یا جو ملکی عہدیداران تھے اُنہوں نے جماعت میں ان باتوں کی تشہیر نہیں کی ہوئی.بار بار یاد نہیں کرایا کہ ہمارے پاس یہ سب کچھ موجود ہے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بعض دفعہ ایک احمدی کا کسی ٹرک (Turk) سے واسطہ پڑتا ہے یا کسی ویت نامی سے یا کسی اور سپینش سے مثلاً واسطہ پڑتا ہے تو مجھے خط لکھتا ہے کہ میں کیا کروں؟ میرے پاس کیسٹس نہیں ہیں، میرے پاس لٹریچر نہیں ہے.اب میرے ساتھ اور کئی آدمیوں کا وقت اس بات میں استعمال ہوتا ہے، میں ضائع تو نہیں کہہ سکتا یہ تو اچھی جگہ استعمال ہوتا ہے لیکن اس کے بغیر بھی اس کا کام چل سکتا تھا اور ہمارا وقت بچ سکتا تھا.اگر مربی نے پہلے سے بتایا ہوا ہوتا کہ یہ کیسٹس تو مرکز ہمیں مدت ہوئی بھیج چکا ہے اور اگر مرکز نے نہیں بھیجی تھی تو مربی کا کام تھا مجھے لکھتا اور بتا تا کہ اس مضمون پر مجھ سے مطالبہ کیا گیا میں نے جائزہ لیا ہمارے پاس کوئی ایسی کیسٹ نہیں حالانکہ مرکز میں یہ انتظام ہے اور سارے ملکوں کو ہدایت ہے کہ اپنی زبان میں جو کیسٹس وہ تیار کرتے ہیں وہ دوسرے ملکوں کو بھجوائیں تا کہ دنیا کے ہر ملک میں ہر زبان کی لائبریری قائم ہو جائے لیکن وہ ہوسکتا ہے اس لئے شکایت نہ کرتے ہوں کہ خود جو کیسٹس بناتے ہیں وہ آگے نہیں بھجواتے.اگر یہ احساس ہو کہ جو ہم نے کام تیار کیا ہے اس سے ساری دنیا استفادہ کرے تو پھر دنیا سے استفادہ کرنے کا حق بھی پیدا ہو جاتا ہے.پھر اگر کوئی نہ ان کو فائدہ پہنچا رہا ہو تو خیال پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو بھجوا رہے ہیں باہر سے کوئی کیسٹ ہمیں نہیں ملتی.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں اس طرف سے.خواہ مخواہ کیوں اتنا بوجھ اُٹھایا جائے کہ پھر اور

Page 575

خطبات طاہر جلد ۶ 571 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء مصیبت بنی رہے ہر طرف سے پھر مطالبے ہوں گے ، پھر کیسٹ کو Duplicate کروانا ہوگا پھر آگے تقسیم کرانا ہو گا.تو کسی ملک میں کوئی کمزوری نظر آ رہی ہے، کسی میں کوئی کمزوری نظر آرہی ہے اور جماعت کو پوری طرح آگاہ نہیں رکھا جارہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کیا کیا ہتھیار مہیا فرما دیئے ہیں.جہاں استفادہ ہوتا ہے اور جرمنی میں بہت حد تک ہوتا ہے وہاں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے زیادہ سے زیادہ دس فیصد داعی الی اللہ بنے ہوں گے اس سے زیادہ نہیں.مگر جو کرتے ہیں وہ ایسے ایسے لوگ ہیں جن کو جرمن زبان یا ٹرکش زبان تو کیا اُردو بھی نہیں ٹھیک آتی.ایک خط میں اُردو کے ساتھ دس پندرہ پنجابی کے لفظ ملا کے لکھتے ہیں اور حال یہ ہے کہ اللہ ان کو پھل عطا فرمارہا ہے.ان کی تبلیغ کو پھل لگ رہے ہیں بعض ایسے آدمی جن کو کسی چیز کا بھی زیادہ علم نہیں.عربوں کو تبلیغ کر کے، ان کو کامیابی کے ساتھ تبلیغ کر کے ان کو احمدی بنا چکے ہیں.بعض ٹرکس (Turks) کو احمدی بناچکے ہیں.ابھی جب میں جرمنی میں ایک دن کے لئے ٹھہرا تھا ہمبرگ میں.وہاں اسی طرح ایک احمدی دوست تھے حالانکہ ان کو ٹر کی زبان نہیں آتی ایک ٹرک (Turk) کو لے کر آئے ہوئے تھے، جو اپنی مجد کا عالم تھا اور بڑا با اثر انسان تھا، اس کو لے کر آئے اور پتا یہی چلا کہ وہ ٹرکی زبان کی کیسٹس کے ذریعے کچھ اشاروں سے کچھ اپنے محبت کے اظہار کے ذریعے اس سے تعلق قائم کر چکے تھے اور وہ آیا اور اس نے ملاقات کے دوران بار بار یہ اظہار کیا کہ اب میں باہر نہیں رہوں گا میں بیعت کر کے سلسلے میں داخل ہوں گا اور نہایت ہی محبت سے اس کا چہرہ جو تھا تمتمارہا تھا.تو ایک عام آدمی جس کو ایک زبان ہی نہیں آتی ، اس کو زیادہ دینی علم بھی نہیں ہے اس کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرما دی اس لئے کہ اس کا جذبہ خلوص سچا تھا ، اس لئے کہ اس کے دل کے بے قرار تمنا تھی ، اس لئے کہ وہ دعا کرتا تھا اور پھر ایک خوبی جو ہر داعی الی اللہ میں ہونی ضروری ہے وہ اس میں موجود تھی کہ زبان کا میٹھا تھا.علم سارا بیکار ہو جاتا ہے اگر ایک انسان مشتعل مزاج ہو،اگر مغلوب الغضب ہو تو دنیا کے کسی کام کا بھی نہیں رہتا.خصوصا اس وقت جب غیر سے مقابلہ ہواُس وقت تو بہت ہی زیادہ تحمل ہونا چاہئے.اپنے جذبات پر کنٹرول اور حوصلے سے اس کی دشمنی کی بات کو سننا اور پھر محبت اور پیار سے اس کو سمجھانا اور جواب دینا یہ وہ ایسا ایک سلیقہ ہے تبلیغ کا جو اگر کسی کو آجائے تو بہت بڑے بڑے

Page 576

خطبات طاہر جلد ۶ عالموں پر وہ حاوی ہوسکتا ہے.572 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء تبلیغ میں دماغ سے زیادہ دل جیتنے ہوتے ہیں اس نقطے کو یا درکھنا چاہئے.جب دل جیت لئے تو تین چوتھائی کام و ہیں ختم ہو گیا پھر دماغ جیتنا کوئی مشکل نہیں ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے ایسا عظیم اور ایسا غالب کلام عطا کیا ہے کہ وہ علم کلام بڑوں بڑوں پر غالب آجاتا ہے.صرف دشمنی کا جذبہ یا نفرت اس کے درمیان میں حائل ہوتی ہے آپ اگر کسی سے محبت اور پیار سے اس کا دل جیت لیں تو جو باتیں اس کے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام کے درمیان حائل تھیں، وہ دیوار جو بیچ میں کھڑی تھی وہ ختم ہو جاتی ہے.پس اپنی زبان کو سلیقہ دیں، اپنے دل کو سلیقہ دیں.دل میں مٹھاس پیدا کریں اور زبان سے جو بات نکلے وہ دل کی مٹھاس ہو.اپنے اندر عجز اور انکسار پیدا کریں تو پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی دعوت الی اللہ کو کتنی عظیم الشان برکت ملتی ہے.دیکھتے دیکھتے دل فتح ہونے شروع ہو جائیں گے اور سب سے آخر پر لیکن سب سے اہم یہ کہ دعا کی طرف میں پھر متوجہ کرتا ہوں.دعوت الی اللہ کی ہر منزل پر دعا کی عادت ڈالیں.تبلیغ کے دوران دعا کریں گھر جا کر دعا کریں، اپنے بچوں کو کہیں کہ دعا کرو.اگر آپ اس سنجیدگی کے ساتھ دعوت الی اللہ کی طرف توجہ کریں گے اور اپنا دل بیچ میں ڈال دیں گے، اپنی معصوم اولاد کو بھی ساتھ شامل کریں گے اور جذبے کے ساتھ ان کو کہیں گے کہ خدا کے لئے میری مدد کرو.میرا دل چاہتا ہے مگر میں مجبور اور بے اختیار ہوں میرا بس نہیں چل رہا.پھر دیکھیں کہ خدا ان معصوم بچوں کی دعائیں آپ کے ساتھ شامل کرے گا.کتنی عظیم الشان طاقت پیدا ہو جائے گی آپ کے الفاظ میں.آپ قوموں کو فتح کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں لیکن قوموں کو محبت اور پیار کے غالب جذبے اور دعاؤں کے ذریعے آپ نے فتح کرنا.یہ سلیقے سیکھتے ہیں اور یہ سلیقے اپنی اولا د کو سکھائیں.دیکھتے دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے گی نئی زندگی پیدا ہوگی، نئی روحانیت آپ کو عطا ہوگی.پھر یہ شکایتیں نہیں ہوں گی کہ فلاں احمدی باہر سے آیا تھا اس نے فلاں گندگی شروع کر دی، فلاں باتیں اس نے اختیار کر لیں جماعت کی بدنامی کا موجب بنا.ایسی جماعت جو پھیل رہی ہو چاروں طرف جہاں نئے نئے لوگ داخل ہور ہے ہوں وہاں

Page 577

خطبات طاہر جلد ۶ 573 خطبه جمعه ۲۸ / اگست ۱۹۸۷ء تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسا روحانی ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ تربیت کی ضرورت ہی کوئی نہیں پڑتی ، تربیت خدا خود کرنے لگ جاتا ہے.پس میں امید رکھتا ہوں کے ان باتوں کو آپ پلے باندھیں گے اور یہ نہیں ہوگا کہ میں اگلے سال آؤں تو پھر ویسی ہی حالت میں دیکھوں.بدلتی ہوئی حالتوں میں زندہ قو میں چلا کرتی ہیں ، ایک حال پر نہیں کھڑی رہا کرتیں.اس لئے آپ کو ہمیشہ ہر لحاظ سے آگے سے ترقی کرنی چاہئے اور میں جانتا ہوں کے ایک سال میں ناممکن ہے سوائے اس کے کہ اللہ معجزہ دکھائے ، ناممکن ہے کہ نوے فیصد آدمی جو داعی الی اللہ نہیں وہ داعی الی اللہ بن جائیں لیکن یہ ضرور ممکن ہے کہ داعین الی اللہ کی تعداد دگنی ہو جائے اگر دس تھے تو ہمیں ہو جائیں اگر میں تھے تو چالیس ہو جائیں.پس اپنی توفیق کے مطابق کام کریں آپ کی توفیق سے بڑھ کر میں آپ پر بوجھ نہیں ڈالتا کیونکہ خدا بھی نہیں بوجھ ڈالتا لیکن اگر آپ اپنی توفیق کے مطابق کام کریں تو خدا نے آپ کو بہت بڑے بڑے بوجھ اُٹھانے کے قابل بنایا ہے.اگر خدا نے آپ کو بڑے بوجھ اُٹھانے کے قابل نہ بنایا ہوتا تو ساری دنیا کا بوجھ ہر گز آپ کے کندھوں پر نہ ڈالتا.اپنی عظمت کو سمجھیں، اپنی خوابیدہ قابلیتوں کو سمجھیں ، آپ میں وہ طاقتیں موجود ہیں جنہوں نے دنیا کی تقدیر بدلنی ہے.یہ احساس خود اعتمادی پیدا کریں.پھر جب دعا کے ذریعے اور توکل کے ذریعے آپ کام کریں گے تو انشاء اللہ عظیم الشان کام آپ دنیا میں کر کے دکھائیں گے.اللہ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج دو مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک تو ہمارے ایک شہید دوست مکرم رشید احمد صاحب بٹ آف کنڈیارو کے بیٹے تھے، مبارک احمد ان کا نام تھا.ان کے والد رشید احمد صاحب بٹ کو 1974ء میں شہید کیا گیا تھا.ان کا وصال احمدیت کی وجہ سے نہیں بلکہ یہ جو آج کل کراچی اور حیدر آبا دوغیرہ میں فسادات ہورہے ہیں ان کے نتیجے میں ہوا ہے.نہایت ہی ہمارے ملک کی ایک بدبختی ہے کہ ایسا منحوس سایہ او پر آیا ہوا ہے کہ ہر طرف ملک پھٹتا چلا جا رہا ہے.پہلے مذہب میں نفاق شروع ہوا ، مذہبی نقطہ نگاہ سے پھٹنے لگے.اب قومی نقطہ نگاہ سے ملک پھٹتا چلا جا رہا ہے اور دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ تین دن

Page 578

خطبات طاہر جلد ۶ 574 خطبه جمعه ۲۸ اگست ۱۹۸۷ء پہلے کراچی میں فرقہ وارانہ فسادات مذہبی نقطہ نگاہ سے نہیں بلکہ قومی نقطہ نگاہ سے ہوئے اور مہاجر سندھی اور پنجابی پٹھان یہ دو گروہوں میں بٹے ہوئے لوگوں کے درمیان فساد ہوئے.اُس کا رد عمل حیدر آباد میں ظاہر ہوا.چنانچہ حیدر آباد میں جتنے پنجابی تھے ان کی دکانوں پر حملے ہوئے اور ان کو لوٹا گیا اور کام کرنے والوں کوقتل کیا گیا.چنانچہ یہ فرنیچر کی دکان میں ملازم تھے ان کے مالک کو بھی اور ان کو بھی گولی مار کر شہید کر دیا گیا اور یہ بڑے ہی دردناک واقعات ملک میں ہورہے ہیں اس میں احمدی غیر احمدی کا فرق نہیں ، ہمارے ہم وطن سارے ہی بڑے دکھ اُٹھا رہے ہیں اس لحاظ سے اور ہر طرف نفرتیں پھیلا دی گئی ہیں جو ایسی نفرتیں ہیں جو آگے بڑھنے والی ہیں.ایک انتقام کی کاروائی دوسرے انتقام کو پیدا کر دیتی ہے.دوسرے انتقام کی کاروائی تیسرے کو پیدا کر دیتی.وہ جہالت کا دور جس کی طرف ایک ڈکٹیٹر (Dictator) نے ملک کو واپس کیا تھا چودہ سو سال پہلے کچھ اس سے بھی پہلے یعنی کلمہ لا الہ الا اللہ کی تحقیر اور تذلیل کا ظالمانہ دور ، وہی دور ان کو اس سے بھی پہلے لے گیا ہے.اب عرب جہالت کے زمانے کی طرح یہ ایک دوسروں سے قوموں کے لحاظ سے بٹ رہے ہیں اور اسی طرح انتقام کی کاروائیاں ایک دوسرے کے خلاف کر رہے ہیں جس طرح آپ تاریخ میں پڑھتے ہیں کہ اسلام سے پہلے کے جاہلیت کے دور میں یہ باتیں ہوا کرتی تھیں.تو خدا کی تقدیر بتارہی ہے کہ اگر تم نے جہالت ہی کو اپنے لئے پسند کیا ہے تو جہالت کی تو اور بھی قسمیں ہیں اور نہ ختم ہونے والی جہالت کے سائے ہیں قسم قسم کے ایک سے دوسرا تاریک تر جن کی طرف اب بعض ظالم لیڈر قوم کو لے کے آگے بڑھ رہے ہیں.تو جہاں ان کی نماز جنازہ ہوگی مبارک شہید کی وہاں ساری قوم کے لئے بھی دعا کرنی چاہئے.یہ حالات اچھے نہیں ہیں بڑے ہی خطرناک ہیں اللہ رحم فرمائے.ہمیں تو کوئی انتقام میں دلچسپی نہیں.ہمیں تو اس بات میں دلچسپی ہے کہ قوم ہدایت پائے اور امن حاصل ہو اور جس ملک کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھاوہ اسلام کا گہوارہ بنے.اس لئے ہمیں ہر گز کسی فساد سے خوشی یا اطمینان کی کوئی ضرورت نہیں ہے نہ ہو سکتا ہے کسی احمدی کو ہمیں تو ہر فساد سے تکلیف ہوتی ہے اس لئے دعا کریں اللہ اس ملک کو امن بھی نصیب کرے.دوسرا جنازہ ہمارے (سابق) مربی اظہر احمد صاحب مبلغ ناروے کی پھی کا ہے جو ایک نیک خاتون تھیں اور ہمارے مبلغ کی پھوپھی تھیں اس لحاظ سے ان کی نماز جنازہ بھی نماز جمعہ کے مطابعد ہوگی.

Page 579

خطبات طاہر جلد ۶ 575 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء دورہ یورپ کے حالات مختلف اقوام میں دعوت الی اللہ تیز کرنے اور یکجہتی کے لئے اپنے اندر لوہے کی متقناطیسی قوت پیدا کرنے کی نصیحت (خطبہ جمعہ فرمودہ استمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ تقریباً تین ہفتے میں یورپ کے بعض ممالک کے سفر پر رہا.سب سے پہلے تو ہالینڈ جانے کا موقع ملا پھر جرمنی میں تھوڑی دیر کیلئے ، پھر سویڈن ، آگے سے ڈنمارک تو ہم نہیں جا سکے لیکن ڈنمارک کی جماعت سویڈن کے اس حصے میں پہنچ گئی جو ڈنمارک کے بالکل قریب ہے اور پہلے ہمارا وہیں قیام تھا.پھر سویڈن کے دوسرے حصے میں یعنی جہاں ہماری مسجد ہے گوٹن برگ اس کے بعد ناروے میں اوسلو اور پھر شمال مغربی حصے کا دورہ کر کے جو دراصل ایک قسم کی ذاتی رخصت کا حصہ تھا آخری.پھر میں واپس آیا ہوں تو اس عرصے میں تین جمعہ باہر پڑھنے کا موقع ملا ہے تین جمعہ تو نہیں ایک تو سفر کے دوران آیا تھا دو جمعہ پڑھنے کا موقع ملا اور ایک جمعہ میں جو اسلام نے رخصت دی ہے اس سے استفادہ کیا گیا ہے اس دفعہ.

Page 580

خطبات طاہر جلد ۶ 576 خطبہ جمعہ ار ستمبر ۱۹۸۷ء جمعہ کا مسئلہ یہ ہے کہ اگر سفر میں پڑھا جا سکتا ہے تو پڑھنے کی اجازت ہے اور اگر دقت ہو تو نہ پڑھنا نا پسندیدہ نہیں یعنی ایسا معاملہ ہے جو بالکل بین بین ہے اگر چھوڑ نا پڑے تو چھوڑ بھی دیا جائے.چنانچہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی بنا پر کہ اس حصے سے بھی استفادہ کرنا چاہئے اور اس حصے سے بھی بعض اوقات سفر میں جمعہ پڑھا اور بعض اوقات نہیں پڑھا.تو اسی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک جمعہ آخری جو تھا گویا اس جمعہ سے پہلے وہ ہم نے بھی نہیں پڑھا صرف ظہر کی نماز اس دن پڑھی گئی.اس دوران جماعتوں سے تفصیلی ملاقات کا بہت موقع ملا انفرادی طور پر ، خاندانوں سے بھی اور مجالس عاملہ کے ساتھ بیٹھ کر عمومی حالات کا جائزہ لینے کا موقع ملا.ایک خوشی کی بات تو یہ ہے کہ بالعموم مسلسل جماعت کے ساتھ افراد جماعت کا تعلق بڑھ رہا ہے اور خلوص میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے، اجتماعیت پیدا ہو رہی ہے ، قربانی کا جذبہ بڑھ رہا ہے اور تبلیغ کا شوق بھی پہلے کی نسبت نمایاں زیادہ ہے.یہ پہلو جو بالعموم ترقی کا رجحان ہے اس کا یہ پہلو بہت خوش کن ہے اور تسلی بخش ہے اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل ہے اس کا احسان ہے وہ جماعت کو محض ایک وقتی جوشیلی ترقی کی بجائے مستقل ترقی کا رجحان عطا فرما رہا ہے ورنہ وقتی طور پر تو بعض دفعہ ایسی قومیں بھی جو بگڑ چکی ہوں بعض نیک کاموں کے وقت اچانک اچھلتی ہیں اور ان کا قربانی کا معیار ایک دم بڑھ جاتا ہے لیکن بالعموم اسی تیز رفتاری کے ساتھ پھر وہ واپس بھی پہنچ جاتی ہیں.تو ایسی وقتی قربانی گوخوش کن تو ہوتی ہے، خوش منظر تو پیدا کرتی ہے لیکن قوموں کے احیاء کے لئے کافی نہیں ہوا کرتی.اس لئے لازما ایسی قربانی طلب کرنی چاہئے اللہ تعالیٰ سے جو زندگی کا دائم حصہ بن جائے ، جو انسان کی فطرت ثانیہ بن جائے اور وقتی حالات سے متاثر تو ہو لیکن اچھے رنگ میں اور جب وہ حالات گزرجائیں تو واپس پہلے مقام پر گر نے کی بجائے اور آگے بڑھتی رہے.یہ رجحان جماعت میں پیدا ہونا چاہئے اور احمد للہ کہ پیدا ہورہا ہے.گزشتہ چند سال میں ، اس عرصے میں جب مجھے تفصیل سے جماعت سے تعلق کا موقع ملا ہے تو میں بہت مطمئن ہوں اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتا ہوں کہ وہ جماعت کو ایک مسلسل ترقی کے دور میں داخل فرما چکا ہے.لیکن اس کے ساتھ ہی جو کمزور حصے ہیں ان پر نظر رکھنی بھی ضروری ہے اور خواہ کوئی ترقی کے کسی بھی مقام پر کھڑا ہوا سے آخری مقام قرار دیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ آخری مقام موت ہے،

Page 581

خطبات طاہر جلد ۶ 577 خطبہ جمعہ ا ار تمبر ۱۹۸۷ء موت کے سوا کوئی اور آخری مقام نہیں ترقی کا ہر مقام ایک منزل ہے اور اگر اس سے آگے کوئی منزل نہیں رہی تو پھر وہ آپ کی موت کا دن ہے.اس لئے لازم ہے کہ ہم ہمیشہ جہاں ترقی پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے رہیں وہاں یہ دیکھتے رہیں کہ اگلی منازل کونسی ہیں ، کون سے ایسے پہلو ہیں جن میں نقص رہ گئے ہیں، کونسی کمزوریاں دور ہونے والی باقی ہیں، کونسی نئی نیکیاں رائج ہونی چاہئیں.جب اس پہلو سے ہم دیکھتے ہیں تو بے حد خلا دکھائی دیتے ہیں.اتنی کمزوریاں نظر آنے لگتی ہیں کہ خدا کے فضلوں اور اس کے وعدوں کا حوصلہ نہ ہو تو دل ڈوبنے لگتا ہے.بالعموم ایک جماعت بڑی سہانی اور لہلہاتی ہوئی دکھائی دیتی ہے.انفرادی طور پر جب غور سے دیکھیں تو ہر انسان میں بشری کمزوریاں اس درجے تک پائی جاتی ہیں کہ اگر ان کو دور کیا جائے تو اس کے لئے بھی ایک عمر درکار ہے اور اگر وہ دور ہو جائیں تو اجتماعی قوت میں ہزاروں لاکھوں گنا زیادہ اضافہ ہو سکتا ہے.اس لئے یہ کہنا کہ ہم نے ترقی حاصل کر لی اور آخری مقام تک پہنچ گئے نہایت ہی بڑی بیوقوفی ہوگی بلکہ ایک ایسی پالیسی ہے جو خود کشی کے مترادف ہے.پس حمد کے نقطہ نگاہ سے خدا کے فضلوں پر نظر رکھنے کے لحاظ سے ترقی کو دیکھنا چاہئے ترقی کی باتیں کرنی چاہئیں اس سے حوصلہ افزائی ہوتی ہے لیکن ایک صائب النظر جماعت کی حیثیت سے ہمیں لازما اپنی کمزوریوں پر مسلسل نگاہ رکھنی چاہئے اور ان کی تلاش کرنی چاہئے اور جب میں کہتا ہوں کہ کمزوریوں کی تلاش کرنی چاہئے تو انفرادی تجس کے رنگ میں نہیں.اس لئے نہیں کہ زید اور بکر میں کیا کیا خرابیاں ہیں جن کو میں معلوم کروں اور اچھالوں بلکہ کمزوریوں کی تلاش میں سب سے پہلے نفس کی کمزوریوں کی تلاش ضروری ہے اور جماعتی کمزوریوں میں انفرادیت سامنے نہیں آنی چاہئے بلکہ بالعموم جو خرابیاں پائی جاتی ہیں ان پر نظر ہونی چاہئے اور ان کو دور کرنے کے لئے انسان کو ہمدردی اور دلی جذبے کے ساتھ غور کرتے رہنا چاہئے.چنانچہ اس سفر کا جو مجھے ایک بڑا فائدہ ہوا اور جو مجھے فائدہ ہے وہ جماعت ہی کو فائدہ ہے کہ مجھے اس پہلو سے بھی جماعت کے مختلف حالات پر غور کرنے کا موقع ملا.ہر جماعت کے اپنے اپنے حالات جو ہر دوسری جماعت سے کسی رنگ میں مختلف ہیں، ان پر غور کرنے کا موقع ملا.تفصیلاً جو میرے جائزے کا ماحصل ہے وہ تو میں آج آپ کے سامنے پیش نہیں کر سکتا.بہت سا ایسا حصہ ہے:

Page 582

خطبات طاہر جلد ۶ 578 خطبہ جمعہ الارستمبر ۱۹۸۷ء دوران سال زیر نظر رہے گا اور ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ جو بھی طریق سمجھائے گا ان پر جس طرح بھی عمل کی توفیق بخشے گا وہ ہم کرتے رہیں گے انشاء اللہ لیکن کچھ بنیادی اصولی باتیں ہیں جو میں مختصراً آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.جماعت کے سامنے وقتا فوقتا مختلف تحریکات کی جاتی ہیں.جب وہ تحریکات آپ سنتے ہیں یا ان پر عمل ہوتا ہوا دیکھتے ہیں تو ایک طبیعت میں جوش اور ولولہ پیدا ہوتا ہے اور آپ کچھ دیر اس ہوا کے ساتھ بھاگتے ہیں لیکن بعض ہوائیں ایسی ہیں جو آپ کا عارضی ساتھ دیا کرتی ہیں.تقریروں کی ہوا ئیں بھی ایسی ہوا کرتی ہیں.ایک خطیب جب آپ کو ایک جوش دلاتا ہے تو اس کی ہوا اسی قسم کی ہوتی ہے جیسے تیزی سے بس گزر رہی ہو تو ساتھ دونوں طرف سڑک کے آپ دیکھیں تو کھیتیاں بس کی جانے کی سمت میں مڑتی ہیں اور تیز ہوا کا جھونکا ہے جو بھینچ رہا ہے.اگر بائیسکل چلاتے وقت آپ بس کی ہوا میں آپ تھوڑی دیر کے لئے آجائیں تو آپ کو تھوڑی دیر کے لئے ایک مزید قوت نصیب ہو جاتی ہے لیکن وہ آپ کا ساتھ نہیں دیتی.وہ ہوا آتی ہے گزر جاتی ہے وہ ایک تیز رفتاری کا اشارہ کر کے اس کا مزہ چکھا کر وہ آگے نکل جاتی ہے.تو اسی طرح انسانوں کے ساتھ معاملات ہیں جب ایک خطیب آپ کو توجہ دلاتا ہے، ایک نصیحت کرنے والا آپ کو سمجھاتا ہے کہ کیا کیا اچھی باتیں ہیں جو کرنی چاہئیں.تو اس کے نتیجے میں آپ کے اندر ایک وقتی ولولہ پیدا ہوتا ہے جو ضروری نہیں کہ آپ کی اپنی قوت ہو بلکہ وہ بیرونی ہوا کے اثر سے ایسی چیز پیدا ہوتی ہے.اسے دائم بنانا ایک اندرونی قوت کو چاہتا ہے اور وہ اللہ کا تقویٰ ہے.جب تک خدا کا تقویٰ نہ ہو اس وقت تک یہ عارضی تحریکیں مستقل نہیں بنا کرتیں.اس لئے سب سے اہم اور بنیادی بات تو یہی ہے کہ جتنی بھی تحریکات کی جاتی ہیں ان کو دوام بخشنے کے لئے اور صرف دوام بخشنے کے لئے نہیں بلکہ پہلے سے ہمیشہ آگے بڑھانے کے لئے ہر فرد جماعت کا تقومی بلند ہو، اس کے تقویٰ کا معیار اونچا ہو یعنی جو بات اچھی ایک دفعہ سوچے کہ میں نے کرنی ہے اس کے بعد ہر روز صبح شام اٹھتے بیٹھتے اپنے اللہ کے حوالے سے اپنے دل کا جائزہ لیتا رہے کہ میں نے یہ کام خدا کو خوش کرنے کے لئے کرنا تھاوہ میں نے کیا کہ نہیں کیا؟ کس حد تک میں اس میں پیچھے رہا ہوں؟ اور چونکہ خدا ہمیشہ ساتھ رہنے والا ہے اس لئے تقویٰ Impersonal چیز نہیں رہتا.تقویٰ محض کوئی ایسا

Page 583

خطبات طاہر جلد ۶ 579 خطبہ جمعہ الارستمبر ۱۹۸۷ء اصول نہیں ہے جسے یادر رکھ کر آپ اپنے عزم کے نتیجے میں اس کے ساتھ چھٹے رہیں.تقویٰ اللہ ہے یہ ایک لفظ نہیں ہے، اللہ کا تقویٰ جس کا مطلب ہے ایسی دائمی ذات کا خیال جو ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے والی ہے اور یہ تقویٰ پیدا ہو ہی نہیں سکتا جب تک ایک زندہ ہمیشہ ساتھ رہنے والے ساتھی خدا کا تصور قائم نہ ہو.پس جس حد تک یہ خدا زندہ اور ساتھی ہے اس حد تک تقویٰ کا معیار بلند ہوگا علمی پہلو سے محض تقویٰ کا میعار بلند نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات تقویٰ پر ہیں وہ پڑھیں ان کا ایک اثر تو وہی ہوا کا سا اثر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں پڑھتے ہیں تو جب تیز جھونکا آتا ہے جو آپ کو لے کر کئی قدم آگے بڑھ جاتا ہے.پھر باقی آپ کا تقویٰ ہے.وہ تقویٰ اس علم کے باوجود جو آپ نے حاصل کیا آپ کو دوام نہیں بخشا.جب تک وہ تقویٰ اللہ صحیح معنوں میں نہ بن جائے.جب تک اللہ تعالیٰ کی ذات سے ایسا تعلق پیدا نہ ہو جائے کہ وہ رفیق ہو جائے ، وہ ہمیشہ ایک Reference Point بن جائے.ہمیشہ اس کے حوالے سے بات ہو اور اس کی طرف مخاطب ہو کر بات ہو اور اس کو دکھا کر بات ہو.تو انسان کے اندر جو دکھاوے کا جذبہ ہے اس کا رخ موڑنا بھی ایک بنیادی تقویٰ کا اصول ہے اور اس کو نا سمجھنے کے نتیجے میں ہم اپنی بہت سے قوتوں کو ضائع کر دیتے ہیں.یہ تو ہو نہیں سکتا کہ انسان میں دکھا وہ نہ ہو.جو یہ کہتا ہے کہ دکھاوے کے بغیر کوئی انسان رہ سکتا ہے بالکل جھوٹ بولتا ہے.کامل نفس کا مرنا کوئی حقیقت نہیں ہے لیکن دکھاوے کا رخ تبدیل ہونا اصل حقیقت ہے.انبیاء انسانوں کی طرف سے آنکھیں بند کر لیتے تھے اور ان کے دکھاوے کا پہلو محض اپنے رب کی طرف مڑ جایا کرتا تھا تبتل الی اللہ اسی کا نام ہے.یہ مطلب تو نہیں کہ باقی انسانوں سے تعلق توڑ لو ور نہ حضرت اقدس محمد مصطفی امتی رحمت للعالمین کیسے رہتے اگر انسانوں سے اور تمام مخلوقات سے تعلق ہی تو ڑ بیٹھتے.پس تبتل کا مفہوم بھی تقویٰ پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے.وہ تبتل پیدا کریں جو حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے پیدا فرمایا یعنی بنی نوع انسان کو جہاں تک آپ کی نیکیاں اور حسن کے دکھانے کا تعلق ہے اس سے کلیہ مستغنی ہو چکے تھے.ایک ذرہ بھی آپ کے دل میں یہ خیال نہیں تھا کہ کوئی مجھے دیکھ کر کیا سمجھ رہا ہے لیکن ہر لحظہ یہ خیال اپنے خدا کے مقابل پر تھا، اپنے خدا کی نسبت سے تھا.

Page 584

خطبات طاہر جلد ۶ 580 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی آقا کی درس گاہ میں تربیت حاصل فرمائی اور آپ سے بھی جب یہ سوال ہوا تو آپ نے اسی قسم کا جواب دیا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی نے آپ سے عرض کیا کہ آپ کی نمازوں کی بعض دفعہ ایسی حالتیں پیدا ہوتی ہیں کہ اس وقت اور بھی لوگ دیکھ رہے ہوتے ہیں کبھی آپ کو خیال آیا کہ کوئی دیکھ رہا ہو گا اور کیا سمجھ رہا ہو گا ؟ آپ نے فرمایا میں تو اسی طرح کا ایک تعلق رکھتا ہوں اس وقت دوسروں سے جس طرح تم اصطبل میں نماز پڑھ رہے ہو کبھی تمہیں خیال آئے گا کہ گھوڑے دیکھ رہے ہیں؟ ان پر کیا اثر پڑ رہا ہے تمہاری نماز کا ؟ یہ ہے تبتمل کی تعریف جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرما دی.انسانوں سے تعلق کے لحاظ سے ان کے لئے رحمت بنو اپنے دکھاوے کے لحاظ سے ان کو گھوڑوں سے زیادہ اہمیت نہ دو.ایسے جانور جن کا دیکھنا نہ دیکھنا تمہارے لئے برابر ہے.یہ کامل تبتل جب ہو جائے تو دکھاوا سارا خدا کے لئے رہ جاتا ہے کیونکہ انسان دکھاوے کے بغیر رہ ہی نہیں سکتا.فطرت کے خلاف ہے وہ مرجاتا ہے جس کو اپنی نیکی کی وجہ سے تحسین حاصل نہ ہو.اس لئے ایک ہی رخ ہے وہ تحسین حاصل کرنے کا کہ اپنے رب کو دکھا کر اس سے باتیں کرتے ہوئے انسان جس حد تک بھی اس کو تو فیق ہو اس نیکی کا سفر اختیار کرے.ہر موڑ پر ہر پہلو پر وہ اپنے رب کو دکھاتا رہے کہ ہاں دیکھ! میں یہ کر رہا ہوں، میں یہ کر رہا ہوں یا یہ میں نہیں کر سکا، یہ نہیں کر سکا، یہ نہیں کر سکا اور اس کے نتیجے میں دل میں درد پیدا ہو پھر اس سے دعائیں نکلیں.تو تقویٰ کی حقیقت کو اگر آپ سمجھیں تو بہت بڑی زندگی کی عظمتوں کے راز تقویٰ میں شامل ہیں اور ساری نیکی کی تحریکات تمام نیک اثر جو آپ کو ہواؤں کی طرح آگے بڑھاتے ہیں ان کو دوام بخشنے کے لئے ضروری ہے کہ اللہ کے حوالے سے اپنے دل کو طاقت دیں اور ہر اچھے کام کو خود اپنے نفس کے جائزے کے ساتھ اس طرح دیکھا کریں کہ میں خدا کو کتنا خوش کر سکا ہوں یا کتنا بدنصیب ہوں کہ خدا کو خوش نہیں کر سکا.دوسرا پہلو جو اس سفر کے دوران میرے سامنے آیا میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو یاد دہانی کرانی ضروری ہے.وہ یہ کہ ساری باتیں اچھی ہوں لیکن اس کے باوجود انسان کمزور ہے اچھی باتیں سن کر بھی

Page 585

خطبات طاہر جلد ۶ 581 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء ان کے اوپر عمل کرنے کی نیت رکھتے ہوئے بھی وہ کمزوری دکھاتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے بار بار اس طرف توجہ دلائی کہ مومنوں کو نصیحت کر نصیحت مومنوں کوضرور فائدہ پہنچائے گی.فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرُ (الغاشیہ: ۲۲) نصیحت کر لیکن عارضی نصیحت کرنے والا نہ بن تو مذکر ہے.مذکر اس کو کہتے ہیں جو مستقل ناصح ہو، کبھی بھی نصیحت سے الگ رہنے والا نہ ہو.تو یاد دہانیاں کرانے ایک نظام ہے ایک نصیحت کا نظام ہے جو در حقیقت جماعت کی انتظامیہ کے سپرد ہے.افسوس کے جماعت کی انتظامیہ بھی اس سے پھر غافل ہو جاتی ہے.اس سلسلے میں میں نے جب جائزہ لیا مجھے افسوس ہوا یہ دیکھ کر کہ جو کام انتظامیہ کے سپرد کئے ہوئے تھے وہ انہوں نے نہیں کئے ، اکثر جگہوں پر نہیں گئے.بعض باتوں کے متعلق کہا تھا کہ ان کو مستقل اپنے ایجنڈے کا حصہ رکھیں ورنہ آپ بھول جائیں گے.مثلاً دعوت الی اللہ کی سکیم ہے اس سے اللہ کے فضل سے انفرادی طور پر لوگوں نے بے حد فائدہ اٹھایا ہے اور بعض جگہ جماعتی طور پر بھی یعنی با قاعدہ تنظیم کے تابع وہ لوگ جو پہلے دعوت الی اللہ کرنا جانتے نہیں تھے ان کو دعوت الی اللہ کا طریقہ آیا، اس کا شوق بڑھا اور نظم وضبط کے ساتھ انہوں نے کام آگے بڑھانا شروع کیا.لیکن اگر مجالس عاملہ اسے مہینے میں کم سے کم ایک دفعہ اپنے ایجنڈے میں شامل رکھتیں اور جس طرح کہ میں نے کہا تھا کہ وہ بار بار جائزہ لیتی رہیں بحیثیت مجلس عاملہ، بحیثیت ایک سیکرٹری اصلاح وارشاد نہیں.ساری مجلس عاملہ اپنے آپ کو ذمہ دار سمجھے اور جائزہ لے کہ اس دور میں ہم نے کتنے مزید احمدیوں کو دعوت الی اللہ کا فن سکھایا ہے؟ ان کو ساتھ لے کر آگے بڑھے ہیں.کتنے نئے دائروں میں جماعت کا پیغام پہنچانے کی کوشش کی ہے، کون سے علاقے تشنہ پڑے ہیں ، کون کون سی قو میں خالی ہیں، کون کون سے گروہ ہیں مثلاًکستانی اور دوسرے باہر سے آنے والے مہاجرین کے بھی بڑے گروہ ہوتے ہیں ، کن کی طرف ہم توجہ کر سکیں ہیں، کن کی طرف توجہ کرنا باقی ہے؟ یہ سارے کام اتنے زیادہ ہیں کہ ایک فرد کا کام نہیں اور یہ بار بار بھول جانے والے کام ہیں.اس لئے جماعتوں کے لئے ضروری ہے کہ جو نصیحت کی جائے وہ انفرادی طور پر بھی یا درکھنے کی کوشش کی جائے لیکن اُس سے بڑھ کر جماعتی طور پر یا در کھنے کی کوشش کی جائے.انتظامیہ کو بعض ایسی باتیں جو مستقل ہدایت کا رنگ رکھتی ہیں چارٹس پر لکھ کر اپنے دفتروں میں لٹکا لینی چاہئیں تاکہ

Page 586

خطبات طاہر جلد ۶ 582 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء بھولیں نہ اور باشعور قوموں کی طرح ان کی طرف Methodically ایک طریق کے مطابق عمل کرنا چاہئے اور اگر بار بار اس طرح ان کو یاد دہانی ہوتی رہے اور وہ بیٹھیں اور غور کریں تو ہر غور کے نتیجے میں جماعت کا قدم آگے بڑھے گا.انسان بعض دفعہ غور کے نتیجے میں Excite ہونے لگتا ہے اور Excitement کے نتیجے میں پھر قوت پیدا ہوتی ہے.ایک مردہ دل انسان یا ایک مردہ دل جماعت تو کسی پہلو سے بھی خواہ وہ سب نیکی کے طریق جانتی ہو کسی پہلو سے بھی آگے نہیں بڑھ سکتی.وہ جو طبعی جوش ہے وہ Excitement سے پیدا ہوتا ہے.فکر ونظر کے لئے بھی Excitement ضروری ہے.آپ عام حالات میں بیٹھے ہوئے ہیں شعر و شاعری کی طرف توجہ ہی کوئی نہیں.کوئی اچھا شعر کہنے والا آپ کے پاس آجاتا ہے یا کوئی اچھے شعر یا د رکھنے والا آ جاتا ہے وہ ذکر چھیڑتا ہے ایک اچھا شعر پڑھتا ہے آپ کے دل میں ایک اور اچھا شعر پیدا ہو جاتا ہے خواہ شعریت کے نتیجے میں پیدا ہو یا کسی کا شعر یاد آ کر اور اس طرح بات بڑھتے بڑھتے آپ کا جو شعر کی طرف رجحان ہے وہ بہت ہی بلندی اختیار کر جاتا ہے.تو معاملات کو مجالس عاملہ میں رکھنے سے ہر ذہن Excite ہو جاتا ہے.وہ متحرک ہوکر پھر جماعت کے متعلق اچھی باتیں سوچتا ہے اور ان سب کے دل میں ایک ولولہ پیدا ہو جاتا ہے.تو اس لئے جو پروگرام مجالس عاملہ کے سپرد ہیں وہ مجالس عاملہ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنے چاہئیں.مشکل ایک اور بھی میں نے دیکھی ہے کہ مجالس عاملہ پر بعض لوگ انحصار نہیں کرتے حالانکہ وہ امیر ہی نہیں ہے جس سے اس نے امارت حاصل کی ہے اس کے احکام کو نظر انداز کر رہا ہے.وہ امیر کیا ہوا؟ وہ تو امیر ہے ہی اس لئے کہ اس کو کسی نے امیر بنایا ہے.اگر وہ امیر بنانے والے کی ایسی ہدایات کو جو اس کے پاس امانت ہیں ان کی طرف بحیثیت امانت اس کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ امیر ہی نہیں ہے عملا.اس لئے آخری بات پھر امیر پر آئے گی.امیر کو چاہئے وہ ذمہ دار ہے اور مجلس عاملہ کا ہر فرد ویسے بھی ذمہ دار ہے کیونکہ ساری مجلس عاملہ مخاطب ہے لیکن اول درجے کی ذمہ داری امیر پر عائد ہوتی ہے.ان باتوں پر غور کرتے رہا کریں دیکھتے رہیں اور جہاں جہاں بھی کو ئی نقص پیدا ہورہا ہے یعنی ہدایات کے عمل نہ کرنے کی حیثیت سے میں کہہ رہا ہوں اس نقص کو دور کرنے کی کوشش کریں.بہت ہی امکانات ہیں احمدیت کی ترقی کے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن بڑھ رہے

Page 587

خطبات طاہر جلد ۶ 583 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء ہیں، قوموں کے رجحان پیدا ہو رہے ہیں اور پہلے سے بڑھتے چلے جا رہے ہیں.عربوں کے متعلق میں نے آپ کو بتایا تھا کہ اللہ کے فضل سے رجحان بہت نمایاں ہے لیکن اب میں نے سفر میں دیکھا ہے کہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھ چکا ہے.گزشتہ سال میں جن جگہوں میں جا کر میں نے عرب نواحمدیوں کو دیکھا ان کی تعداد میں اضافہ، ان کی کیفیت، ان کے اخلاص میں اضافہ بعض تو یوں لگتا تھا جیسے صدیوں سے وہ خاندان احمدیت ہی میں پیدا ہوئے ، احمدیت کی جھولی میں بلند ہوئے.حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں اور غیر معمولی اس قوم میں نیکی کے لئے قربانی دینے کا جذبہ ہے.خدا کا انتخاب غلط نہیں ہوسکتا.خدا نے آقا عربوں میں پیدا کیا تھا، غلام پنجابیوں میں پیدا کا ہے اور یہ نسبت رہے گی آپ کو.وہ عرب جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں وہ دنیا کی ہر قوم سے بلند ہو جاتے ہیں اور جو دوسری قومیں عمل کرتی ہیں وہ بھی بلند ہو جاتی ہیں لیکن انفرادی طور پر.یہ ممکن ہے کہ ایک عجمی انفرادی طور پر ایک عرب سے بہت آگے نکل جائے لیکن آنحضرت ﷺ کو عطا کردہ تعلیم پر عمل کے نتیجے میں لیکن جب ہم قومی بات کرتے ہیں تو بالعموم بات کر رہے ہوتے ہیں.تبھی خدا تعالیٰ نے جو اول درجے کے انعامات تھے قرآن کریم میں ان کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.ثُلَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرِينَ (الواقعہ: ۱۴-۱۵) جو پہلے ہیں ان میں جوق در جوق لوگ شامل ہیں جو اس مقام تک پہنچ گئے.آخرین میں بھی پہنچنے والے ہیں لیکن اس اول مقام تک پہنچنے والے کم ہیں نسبتا.یہ تفریق جو خدا تعالیٰ نے رکھی ہے یہ مطلب ہے اس کا ، یہ مطلب نہیں کے عربوں کے سوا کوئی بلند مقام کو حاصل نہیں کر سکتا.مراد یہ ہے کہ اس قوم کو ہم نے اس لئے چنا ہے کہ اس میں بالعموم قربانیوں کا ولولہ ہے، قربانیوں کی استطاعت ہے اور فدا ہو جانا جانتے ہیں یہ.جب ایک دفعہ ایک بات کو سمجھ جائیں پھر اس کو قبول کرتے ہیں من وعن اور اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں.یہ جذبہ میں نے دیکھا ہے کہ عرب نئے آنے والے بہت سے پرانے احمدیوں سے آگے بڑھ گئے ہیں اور ان کے علاوہ باہر سے نئے عربوں کو بھی انہوں نے اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے اور ان میں اعلیٰ درجے کے صحافی بھی شامل ہیں، بڑے اچھے تعلیم یافتہ لوگ ، بعض اور اپنے انسانی خواص میں امتیاز حاصل کرنے

Page 588

خطبات طاہر جلد ۶ 584 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء والے، صلاحیتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی عطا کردہ صلاحیتوں والے لوگ یہ احمد بیت میں داخل ہورہے ہیں اور توجہ بھی کر رہے ہیں.چنانچہ ایسا ایک صحافی نوجوان ابھی کچھ عرصہ پہلے احمدی ہوا جس کا اثر اپنے صحافی حلقے میں اتنا نمایاں ہے کہ اس نے مضمون لکھنے شروع کئے عراق وغیرہ اور دوسری جگہوں پر اور اس سے ایک نمایاں شور پیدا ہو گیا کہ یہ کیا ہورہا ہے، احمدیت کے حق میں ایک عرب صحافی مضمون لکھ رہا ہے.ایک اخبار جو شدت سے احمدیت کے خلاف ہمیشہ کچھ نہ کچھ کھتارہتا تھا، اس اخبار نے اس سے تعلق قائم کیا اور اس کو کہا کہ تم ہمارے لئے کوئی کالم لکھا کرو.اس نے کہا کالم تو میں لکھ دوں گا لیکن شرط یہ ہے کہ احمدیت کی مخالفت ترک کر دو، جس رسالے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دی جا رہی ہیں اس میں میرا مضمون شائع نہیں ہوگا.اس نے وعدہ کیا اور جب میں پہنچا ہوں اس عرصے تک اس کے وعدے سے لے کر کوئی پھر اور مضمون شائع نہیں ہوا.تو اتنا ان میں جذبہ بھی ہے، اتنی قابلیت بھی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور بعض ایسے صحافی عرب تھے دوسرے ممالک کے جنہوں نے بڑا شکوہ کیا کہ یہ احمدیت تھی تو آپ نے ہم سے چھپا کر کیوں رکھی ہوئی تھی.ہم تو دھوکے میں رہے، ہم تو صحراؤں میں بھٹکتے رہے ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ احمدیت کیا چیز ہے یہ تو عظیم نعمت ہے اور آپ نے ہمیں بتایا ہی نہیں.میں نے ان کو بتایا کچھ ہمارا بھی قصور ہو گا لیکن کچھ آپ لوگوں کا بھی قصور ہے یک طرفہ جھوٹی باتیں پھیلائے چلے جارہے ہیں.ہمارا لٹریچر جب پہنچے تو اس کو ضبط کر لیتے ہیں ہم کریں کیا؟ ہمیں آواز دینے کی اجازت نہیں ہے اور مخالفوں کو جھوٹ کھلم کھلا سر منبر بیان کرنے کی اجازت ہے بلکہ تحریک کی جاتی ہے بلکہ اس کے پیسے ملتے ہیں.خلاف گند لکھنے پر کروڑوں روپیہ خرچ کیا جا رہا ہے تو یہ مجبوریاں بھی ہیں.انہوں نے کہا ٹھیک ہے میں سمجھتا ہوں مجبوریاں بھی تھیں لیکن ہمیں اب خاموش نہیں بیٹھنا ہے جو میری استطاعت میں ہے جتنے میرے دوست ہیں صحافی یا دیگر صاحب علم لوگ میں اپنے آپ کو آج سے وقف کرتا ہوں کہ ان کو ہمیشہ احمدیت کا پیغام جس طرح بھی ہو سکے دیتا چلا جاؤں گا.تو ایسی قومیں ہیں مگر بعض ممالک میں ان کی طرف توجہ ہے عربوں کی طرف بعض میں نہیں حالانکہ میں بار بار توجہ دلا چکا ہوں کہ یہ ایک بڑا قیمتی گروہ ہے اس کو ہر گز نظر انداز نہیں کرنا چاہئے

Page 589

خطبات طاہر جلد ۶ 585 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء احمدیت کی آئندہ ترقی وابستہ ہے اس بات سے کہ ہم جلد از جلد عربوں کی غلط فہمیاں دور کریں اور ان کے احسانات کا بدلہ اتاریں.ابتداء میں ان سے ہمیں اسلام ملا اب وہ اسلام سے بدقسمتی سے، اس کی حقیقت سے دور ہو گئے ہیں.اسلام کو ان کو واپس پہنچانا ان کے لئے تو ضالة المو من والی بات ہوگی لیکن ہمارے لئے احسان کا بدلہ اتارنے والی بات ہو جائے گی.اس لئے یہ بھی حصہ ہے.پھر چینی ہیں بہت سے مختلف ممالک میں آباد ہیں.آپ چین نہیں جا سکتے تبلیغ کے لئے چینی خدا نے بھیجا ہوا ہے آپ کے پاس کیوں اس کو تبلیغ نہیں کرتے ؟ کیوں اس کے لئے وقف نہیں کرتے؟ ویت نامیز آرہے ہیں ، کئی دوسری قوموں کے مہاجرین ہیں، افغان مہاجرین ہیں جنہوں نے وہاں احمدیت پر مظالم کئے اور احمدیت کی آواز بند کر دی اب خدا نے ساری دنیا میں ان کو بکھیر دیا اور آپ کے دسترس میں داخل کر دیا ہے اب جب چاہیں ان تک پہنچ سکتے ہیں اور آزادی کے ساتھ ان کو تبلیغ کر سکتے ہیں.تو خدا تعالیٰ بڑے عظیم انتظام فرما رہا ہے.ترک (Turk) لوگ ہیں.مدتوں سے ترکوں کی طرف توجہ نہ ہونے کی ایک بڑی وجہ ان کے قانون کی سختیاں تھیں لیکن بیرونی ممالک میں جو ترک ہیں وہاں تو ان کا قانون نہیں چلتا.یہ بھی بہت عظیم قوم ہیں باوجود اس کے کہ اتاترک نے سیاسی خدمات کیں لیکن اسلام کو دبانے کی کوشش کی اپنے ملک میں.بحیثیت فرد ترک میں آج بھی اسلام کا معیار بہت سے عرب ممالک سے زیادہ ہے.یعنی فیصد کے حساب سے جتنے ترک نمازی اور تعلق رکھنے والے ہیں اللہ تعالیٰ سے اور محرمات سے پر ہیز کرنے والے اتنے آپ کو کم دوسری قوموں میں ملیں گے.تو ترکوں کے ساتھ بھی جماعت کی ترقی بہت حد تک وابستہ ہے لیکن یہ بحث نہیں ہے کہ جماعت کی ترقی وابستہ ہے.ہمارا کام یہ ہے، ہم اس غرض کے لئے پیدا کئے گئے ہیں کہ امت محمدیہ کو پہلے سنبھالیں ، تجدید نو کریں اور پھر سارے عالم کے لئے ایک بہت بڑا پلیٹ فارم بنائیں جس سے سارے عالم کے لئے تبلیغ کا آغاز ، آغاز تو ہو چکا ہے اس کو انجام تک پہنچایا جائے.یہ کام ہے جس کے لئے مجالس عاملہ کو غور کرتے رہنا چاہیئے اس کے لئے میں نے جیسا کہ نے کہا تھا الگ الگ گروہ مقرر کرنے چاہئیں.ایک تیسری بات اہم یہ ہے کہ جب کام زیادہ ہوں تو اندرونی محبت کا بڑھنا ضروری ہے اور اختلافات کا ختم ہونا ضروری ہے.اختلافات جن جماعتوں میں پائے جاتے ہیں وہ کئی قسم کے ہیں

Page 590

خطبات طاہر جلد ۶ 586 خطبہ جمعہ ا ار تمبر ۱۹۸۷ء یا کئی قسم کے ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ بعض جماعتوں دو نیم کر دیتے ہیں.ایک حصہ ایک طرف ، دوسرا حصہ دوسری طرف اور ایک دوسرے کی طرف مقابل ہو کر ایک دوسرے کی برائیاں دیکھنا اور اچھالنا اور ہر ایک کو یہ سمجھنا کہ یہ جماعت کی ترقی کی راہ میں روک ہے.ایسی جماعتیں تو نہ صرف صفر ہو جاتی ہیں بلکہ منفی کی طرف تیزی سے حرکت کرنا شروع کر دیتی ہیں.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ بہت سی ایسی جماعتیں جو میری نظر میں تھیں خدا تعالیٰ نے بہت فضل فرمایا.اب ان میں سے بھاری اکثریت ایسی ہے جو اس برائی سے آزاد ہو چکی ہے، نجات پا چکی ہے.لیکن چند ایک گنتی کے ابھی باقی ہیں پاکستان میں بھی اور باہر کے ممالک میں بھی.پھر دوسرا اختلاف ہوتا ہے جو عاملہ میں ہوتا ہے.آپس میں لڑتے رہتے ہیں خواہ مخواہ عاملہ میں مجلس میں جب بیٹھتے ہیں ایک اپنی چوھد راہٹ کے لئے جھگڑا کرتا ہے دوسرا اپنی چوھد راہٹ کے لئے اور جماعت کی چوھد راہٹ کی پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ اس کی پگڑی پارہ پارہ ہو کر بکھر گئی ہے، اس کی عزت خاک میں مل گئی ہے.اپنی عزتوں کا خیال ہوتا ہے.جہاں بھی مجلس عاملہ کے ممبر آپس میں لڑیں گے وہاں جماعت پر نہایت بے ہودہ اثر پڑتا ہے خواہ باقی جماعت اکٹھی بھی ہو اور ترقی کی را ہیں وہاں پر بند ہو جاتی ہیں اور جماعت کا وقار ذلیل ہو جاتا ہے.اس لئے اس قسم کے اختلافات کو بھی ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہئے بلکہ غیر معمولی توجہ کے ساتھ ان کو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے.پھر جماعت کے اندر بعض طبقات ہیں یعنی چھوٹے گروہ بعض دوسرے چھوٹے گروہوں سے متصادم ہو جاتے ہیں ، ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگ جاتے ہیں اور خواہ خواہ ان کی وجہ سے ہمیشہ جماعت میں بدمزگی اور چپقلش رہتی ہے.ہر قسم کے اختلاف کو ہمیں مٹانا ہے.ایک امت واحدہ بننا ہے تب دنیا کو امت واحدہ بنا سکیں گے اور اس کے لئے بنیادی اصول جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بیان فرمائے ہیں ان کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اختلاف سے نجات تو ممکن نہیں ہے.جس طرح میں نے کہا تھا دکھا وہ تو کرنا ہی ہے اگر خدا کو نہیں دکھائیں گے تو دنیا کو دکھانے لگ جائیں گے.اسی طرح اختلاف سے بھی کوئی نجات نہیں ایک فطری حصہ ہے انسان کا اس نے اختلاف کرنا ہے اس سے ترقی ہوتی ہے اس کو لیکن آنحضرت ﷺ نے صرف ایک قسم کے اختلاف کی اجازت دی ہے اختلاف سے منع نہیں فرمایا.فرمایا:.

Page 591

خطبات طاہر جلد ۶ 587 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء اختلاف امتی رحمة (جمع الجوامع للسيوطى، حرف الهز مع الماء ) میری امت ، اگر وہ میری امت ہے تو صرف وہی اختلاف کرے گی جو رحمت ہو گا، جس کے نتیجے میں ترقیات نصیب ہوتی ہیں.ایسا اختلاف جو سچ پر مبنی ہو جو دیانتدارانہ رائے کے اظہار پر مبنی ہو، جو شرافت اور ادب کے اصولوں کے تابع ہو اس کے نتیجے میں رحمت ہے، رحمت میں محبت کا بڑھنا داخل ہے بلکہ سب سے اہم نکتہ رحمت کا محبت ہے.تو فرمایا میری امت کا اختلاف دوسرے لوگوں کے اختلاف کی طرح نہیں ہے کیونکہ باقی اختلاف نفرتوں میں مبتلا کر دیتے ہیں، باقی اختلاف انشقاق پیدا کر دیتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ میری امت جو تقویٰ پر بنی اختلاف کرتی ہے اس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے پیار بڑھتا ہے ایک دوسرے سے شفقت بڑھتی ہے، ایک دوسرے سے رحمت بڑھتی ہے.تو یہ اسلوب ہوا گر اختلاف کا تو اس کے لئے تو آپ کو نہ صرف اجازت بلکہ تاکید ہے کہ ایسا اختلاف ضرور کریں لیکن جہاں آپ کے اختلاف انشقاق پر منتج ہوں گے، جہاں آپ کے اختلافات کے نتیجے میں افتراق ہوں گے اور دل پھٹیں گے یاد رکھیں ! یا آپ امت محمدیہ نہیں رہے یا آپ کے اختلاف امت محمدیہ کے اختلاف کے مطابق نہیں ہیں.کوئی نہ کوئی گڑ بڑ وہاں پیدا ہوگئی ہے، کوئی نہ کئی خرابی پیدا ہو چکی ہے اس کو دور کرنا آپ کی ذمہ داری ہے.پس اختلاف کریں مجلس میں کریں یا باہر کریں اس شرط کے ساتھ کہ ہر اختلاف کے نتیجے میں رحمت نصیب ہو، ترقی ہو اور ایک دوسرے سے محبت پیدا ہواور ایک دوسرے کا احسان انسان قبول کرے کہ ہاں! آپ نے صحیح بات بتائی پہلے میرے علم میں نہیں تھی شکریہ، جزاک اللہ.میں پہلے سے بہت زیادہ بہتر سوچنے کی اہلیت رکھتا ہوں اب کیونکہ آپ نے میری راہنمائی فرما دی.اس قسم کی باتیں اگر اختلاف کے نتیجے میں ہوں تو یہ رحمت کی نشانی ہے.اگر اس قسم کی باتیں ہوں کہ تم کون ہوتے ہو؟ تم کیا سمجھتے ہو اپنے آپ کو ؟ تم زیادہ بڑے تھانیدار آئے ہو؟ تمہیں کس نے مقرر کیا ہے ان باتوں کے لئے؟ بیوقوف ہو، جاہل ہو تمہیں آتا کچھ نہیں مجھے سمجھانے آگئے ہو.اگر ایسی باتیں ہیں تو یہ امت محمدیہ کا اختلاف نہیں.یہ تو جاہلوں کا اختلاف ہے جن کا امت سے کوئی تعلق ہی نہیں.قبل از زمانہ اسلام کو زمانہ جاہلیت کہا کرتے تھے اس وقت ایسے اختلاف ہوا کرتے تھے.رسول اللہ لے کے اپنے دور میں یہ اختلاف ختم ہو چکے تھے.پھر رفتہ رفتہ بدقسمتی سے بعض عرب ان

Page 592

خطبات طاہر جلد ۶ 588 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء پرانے اختلافات کی طرف لوٹے اور ان کو شدید نقصان پہنچا.تو مومن تو ایک بل سے دو دفعہ نہیں ڈسا جاتا اس تعریف کو پیش نظر رکھیں.اگر آپ نے اختلافات کو اپنے لئے زہر قاتل نہ سمجھا اور اس سے زہر قاتل کی طرح پر ہیز نہ کیا تو ساری ترقی ضائع ہوسکتی ہے.خصوصاً جبکہ غیر قوموں سے عظیم مقابلہ ہے اسلام کی طرف سے، اس وقت اختلاف کا صرف ایک منفی پہلو نہیں ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنا ہے، جس سے بچنے کی کوشش کرنی ہے.ایک یہ بات بھی ملحوظ رکھیں کہ اختلاف نہ ہونے کے نتیجے میں ایک مثبت طاقت عطا ہوتی ہے جو بہت ہی بڑے اور عظیم کام کرنے کی اہلیت آپ کو عطا کر دیتی ہے.وہ طاقت کیسے عطا ہوتی ہے؟ قرآن کریم میں اس کی طرف اشارہ موجود ہے اور وضاحت بھی موجود ہے بار بار یہ فرمایا گیا ہے کہ بُنْيَانٌ مَّرْصُوص (الصف: ۵) بنو.اتحاد کے نتیجے میں تمہیں غیر معمولی طاقت عطا ہوگی ، لوگ تمہیں تو ڑ نہیں سکیں گے پھر.بہت سے مختلف اصول بیان فرمائے مختلف رنگ میں.روشنی ڈالی اور یہ بتایا کہ اگر اختلاف نہیں کرو گے تو تمہارے اندر ایک ریح پیدا ہوگی اور اگر اختلاف کرو گے تو وہ ریح نکل جائے گی.وہ ریح کیا چیز ہے جس کا قرآن کریم ذکر فرماتا ہے؟ وہ کون سی طاقت ہے جو بظاہر اسی تعداد پر مشتمل مسلمان ہونے کے وہ کبھی ہوتی ہے اور کبھی نہیں ہوتی ، آتی بھی ہے اور غائب بھی ہو جاتی ہے اور نظر نہیں آتی کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے.اس پر غور کرنا چاہئے.قرآن کریم نے جہاں آسمان سے نازل ہونے والی چیزوں کا ذکر فر مایا وہاں لوہے کا بھی ذکر فرمایا کہ ہم نے لوہے کو آسمان سے نازل فرمایا ہے.چنانچہ اس اصول کے پیش نظر کہ خدا تعالیٰ نے صرف ان چیزوں کے نزول کا ذکر فرمایا ہے جو اپنی جنس میں سب سے زیادہ فائدہ مند تھیں اور باقی چیزوں کو چھوڑ دیا ہے.اپنے نوع میں بعض چیزیں ہیں جو غیر معمولی افادہ کی طاقت رکھتی ہیں.ان کو خدا تعالیٰ نے فرمایا ہم نے نازل کیا.مثلاً پانی کو نازل کیا، لوہے کو نازل کیا، دودھ دینے والے جانوروں کو نازل کیا، لباس کو نازل کیا ، حضرت محمد مصطفی ﷺ کو نازل کیا ، کسی اور نبی کو نازل نہیں کیا.کیا تو سب کو ہے لیکن ذکر صرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کا کیا ہے.تو نزول کا لفظ بتا تا ہے کہ ہر نوع میں جو سب سے زیادہ شاندار فائدے کی چیز تھی اس کا ذکر فرمایا گیا ہے.چنانچہ اس پہلو سے میں لوہے کے متعلق غور کرتا رہتا ہوں کہ اس میں کیا آخر غیر معمولی بات

Page 593

خطبات طاہر جلد ۶ 589 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء ہے جو دوسری دھاتوں میں نہیں جس کو خدا تعالیٰ نے چن لیا یہ کہہ کر کہ میں نے اسے نازل فرمایا.ایک چیز کی طرف میری توجہ سویڈن میں پیدا ہوئی.چنانچہ لجنہ کے اجلاس میں بھی میں نے ان کو متوجہ کیا کہ صرف لوہا ایک ایسی دھات ہے جس کے ذرات کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے کہ ایک سمت منہ کر لیں.باقی دھاتوں کے ذرات کے منہ مختلف سمتوں میں رہتے ہیں اور بجلی کی جتنی طاقت چاہیں آپ گزاریں ان کے اندر یہ استطاعت ہی نہیں کہ وہ مقناطیس بن سکیں یعنی تانبے میں یہ طاقت نہیں ہے، چاندی میں یہ طاقت نہیں ہے ، سونا کتنا ہی قیمتی آپ کو لگے لیکن اس میں یہ طاقت نہیں ہے ، پلاٹینم میں یہ طاقت نہیں ہے لیکن لو ہے میں ہے کہ وہ مقناطیس بن جاتا ہے اور مقناطیس بنے کا راز یہ ہے کہ اس کے سارے ذرے ایک سمت میں منہ کر لیتے ہیں.پس قرآن کریم نے ہمیں بہت بڑی حکمت کا راز بتا دیا اور جب ہم غور کرتے ہیں قرآن کریم کی دوسری آیات پر تو امت محمدیہ کو بالکل لوہے کی دھات کی طرح شمار کیا گیا ہے.فرمایا ہے جہاں کہیں بھی ہو ایک طرف منہ کرو ہمیشہ اپنا قبلہ درست رکھو.اتنی اہمیت دی گئی ہے یک جہتی کو کہ دنیا کی ساری الہی کتابوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں کہیں اتنی اہمیت تو چھوڑ اس کا عشر عشیر بھی آپ کو نہیں ملے گا.پس امت محمدیہ کا منہ اگر ایک طرف ہو جائے تو اس میں عظیم مقناطیسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے اور اسی کا نام ریح ہے جو فرمایا جب تم ایک دوسرے سے منہ پھیر لو گے تو تمہاری ریح نکل جائے گی.ریح اس قوت کو کہتے ہیں جو اپنے جسمانی مادے سے بڑھ کر ہوتی ہے وہ نظر نہیں آرہی ہوتی کیونکہ اس کا دائرہ پھیلا ہوا ہوتا ہے.وہ رعب ہے جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات میں بھی ذکر ملتا ہے.پس یک جہتی بہت ضروری ہے کیونکہ ہم نے جو کام کرنے ہیں وہ ہماری موجودہ مادی طاقت سے بہت بڑھ کر ہیں اور اگر ہم ایک طرف رخ کرلیں سارے تو محض ہماری مادی طاقت کے اجتماع کے نتیجے میں جو قوت حاصل ہوتی ہے وہ نہیں رہے گی بلکہ وہ قوت حاصل ہو جائے گی جسے قرآنی اصطلاح ریح کہتی ہے اور جسے سائنسی اصطلاح مقناطیس کہتی ہے.اس پہلو سے جب میں نے غور کیا تو میں حیران رہ گیا کہ ہم پہلے صرف یہ باتیں سوچا

Page 594

خطبات طاہر جلد ۶ 590 خطبہ جمعہ ا ار ستمبر ۱۹۸۷ء کرتے تھے کہ لوہاوہ دھات ہے جس نے سب سے زیادہ انسان کی تعمیرات میں حصہ لیا ہے، بڑے بڑے کھڑے رہنے والے تعمیری کام یا چلنے پھرنے والی مشینیں لوہے سے بنائی گئیں.لیکن پھر مجھے اچانک خیال آیا کہ اس سے بہت زیادہ قوت تو لوہے کی اس صلاحیت میں ہے کہ اس کے ذرے ایک طرف ہو جاتے ہیں.چنانچہ اگر آپ مقناطیس کو نکال دیں انسانی ترقی سے تو ہم ہزاروں سال پیچھے لوٹ جائیں.بجلی کی طاقت کا تصور مقناطیس سے پیدا ہوا ہے اور مقناطیس بننے کی لوہے میں صلاحیت نہ ہوتی تو آپ بجلی بنا ہی نہیں سکتے تھے اور اتنے غیر معمولی کام جو اس زمانے میں ہوئے ہیں جس میں انسان کی ترقی کی رفتار بھی ہزاروں گنا آگے بڑھ چکی ہے ان تمام باتوں کا انحصار بجلی پر ہے اور بجلی پیدا ہوتی ہے لوہے کی اس صلاحیت کے نتیجے میں کہ اس کے ذرے ایک طرف ہو جائیں.آپ کو خدا نے وہ صلاحیت بخشی ہوئی ہے آپ محمد ﷺ کی امت ہیں.آپ کو فرمایا ہے اور بار بار فرمایا ہے کہ ایک طرف رخ کرو تمہارے اندر ایک عظیم روح پیدا ہوگی.کیوں وہ طاقت حاصل نہیں کرتے؟ اس لئے آپ کی انفرادی طاقت کا مجموعہ خواہ کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو اس اثر پر اگر آپ عمل کر جائیں تو آپ کے اندر اتنی غیر معمولی قوت جاذ بہ پیدا ہو جائے گی کہ پھر تو آنے والوں کا یہ حال ہوگا:.میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذ بہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے (دیوان غالب صفحه : ۲۹۶) مقناطیسی قوت یہ بات پیدا کر دیا کرتی ہے.لوگوں کے لئے چارہ ہی نہیں رہے گا سوائے اس میں کہ آپ میں آئیں اور آپ میں شامل ہوتے چلے جائیں.خدا کرے کہ جلد تر وہ قوت ہمیں نصیب ہو.آمین.

Page 595

خطبات طاہر جلد ۶ 591 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء ابتلا ترقی کا باعث بنتے ہیں.بنگلہ دیش میں مخالفانہ کاروائیاں اور جماعتی رد عمل تعمیر بیوت الذكر، بيوت الحمد اور تحریک شدھی کے لئے مالی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: جماعت احمد یہ جس ابتلا کے دور سے گزر رہی ہے یہ اس نوعیت کا ابتلا نہیں ہے کہ جس کا جلد کنارہ آجائے کیونکہ جتنے لمبے سفر ہوں اسی کی نسبت سے راہ کی مشکلیں بھی ہوا کرتی ہیں.ترقی کے جس دور میں جماعت احمد یہ داخل ہورہی ہے اور اگلی صدی کی شاہراہ جن بلند تر اور عظیم تر منازل کی طرف جماعت احمدیہ کو بلا رہی ہے ان کے نتیجے میں کچھ ایسے بھی ہم پر ابتلا آرہے ہیں اور آئیں گے جن میں سے ترقی کے لئے قوموں کا گزرنا ایک تقدیر مبرم ہے اور آج تک کبھی کوئی مذہبی جماعت بھی ان مشکلات سے گزرے بغیر ترقی کی منازل طے نہیں کر سکی لیکن جتنا لمبا یہ ابتلا کا دور چل رہا ہے یا آگے چلے گا اسی کی نسبت سے خدا کے فضل ضرور نازل ہوں گے.اس لئے جہاں ایک طرف نگاہ کر کے خوف پیدا ہوتا ہے وہاں دوسری طرف نظر کر کے حوصلے بڑھتے ہیں اور نئی امنگیں اور نئے ولولے پیدا ہوتے ہیں.وہ لوگ جن کو پہاڑوں پر چڑھنے کا تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ دوطرف ہی نظریں جایا کرتی

Page 596

خطبات طاہر جلد ۶ 592 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء ہیں یا ان گہری کھڈوں کی طرف جن میں ایک لحظہ کی غلطی بھی انسان کو اگر گرا دے تو اس کے جسم کے پر نچے اُڑ جائیں اور بسا اوقات بیچ میں سے چٹانیں ایسی ابھری ہوئی ہوتی ہیں کہ زمین کی گہرائی تک پہنچنے سے پہلے پہلے ہی انسان کے چیتھڑے اڑ سکتے ہیں.لیکن دوسری طرف وہ بلند پہاڑیاں ہیں، بلند چوٹیاں ہیں جو ایک کے بعد دوسری ابھرتی چلی جاتی ہیں اور انسان جب ایک طرف نیچے کی طرف نگاہ کرتا ہے تو پھر بلندی کی طرف بھی دیکھتا ہے.وہ بلند پہاڑیاں اس کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتی ہیں اور اس دعوت میں کتنی قوت ہوتی ہے کہ انسان تھکا ہارا بھی ہو، خواہ پاؤں دکھ رہے ہوں یا جسم کے عضو عضو میں تکلیف محسوس ہوتی ہو بلندی دکھائی دیتی ہے اس کے ساتھ ہی ایک حوصلہ بڑھتا ہے اور انسان یہ عزم کرتا ہے کہ اچھا جیسا بھی ہو میں اس چوٹی تک ضرور پہنچ جاؤں گا اور جب وہ اس چوٹی تک پہنچتا ہے تو اس سے آگے ایک اور چوٹی دکھائی دینے لگتی ہے اور جب پھر اس چوٹی تک پہنچتا ہے تو اس سے آگے ایک اور چوٹی دکھائی دینے لگتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے.دنیا کی رفعتوں میں تو کوئی سلسلہ بھی لامتناہی نہیں ہوا کرتا لیکن جہاں تک روحانی عظمتوں اور مذہبی رفعتوں کا تعلق ہے یقیناً یہ سلسلہ لامتناہی ہے.اس لئے دنیا کی چوٹیاں سر کرنے والے ایک اس بات پر تو ضرور امید لگائے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس چوٹی کے بعد اگر ایک اور بھی آئی اور ایک اور بھی آئی تو آخر اس سلسلے کا کوئی انجام ہوگا اور اس کے بعد اس بلندی پر بیٹھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ جو بھی بلندیاں سر کی جاسکتی تھیں وہ سب ہم نے سر کر لیں لیکن ایک مذہبی ترقی کرنے والی جماعت یا روحانی ترقی کرنے والا فرد بلندیوں کی طرف سفر تو کرتا رہتا ہے خدا اسے نئی منازل سر کرنے کی توفیق بھی عطا فرماتا رہتا ہے لیکن اسکی سوچ میں یہ عنصر کبھی بھی داخل نہیں ہوا کہ یہ آخری چوٹی ہے جو ہم سر کر لیں گے اور اس کے بعد اطمینان سے بیٹھیں گے.اس لئے ساری زندگی جدو جہد ہے.زندگی کے آخری سانس تک مومن کا جہاد جاری رہتا ہے.موت کے بعد کیا ہے یہ ہم نہیں جانتے لیکن یہ ضرور اندازہ ہوسکتا ہے کہ وہ خدا جس نے یہ سلسلہ ترقیوں کا جاری فرمایا ہے اس نے موت کے بعد بھی کوئی سلسلہ ترقیوں کا ضرور جاری رکھا ہو گا ورنہ یہ ممکن نہیں کہ اتنے لمبے ترقیات کے دور سے انسان کو گزار کر خدا تعالیٰ کسی ایسے مقام پر کھڑا کر دے جہاں پھر لیٹ رہنا ہے اور کھانا کھانا ہے یادودھ پینا ہے اور نظارے دیکھنے ہیں اور کوئی بھی کام نہیں کرنا، کوئی مزید بلندی نہیں.اس لئے میں یہ سمجھتا ہوں اور

Page 597

خطبات طاہر جلد ۶ 593 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء یقیناً یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ مرنے کے بعد بھی رفعتوں کی کوئی انتہا نہیں ہوگی بلکہ درجات انسان کے بڑھتے چلے جائیں گے اور ان درجات کے لئے اسے روحانی رنگ میں کچھ نہ کچھ محنت بھی ضرور کرنی پڑے گی.اس تربیت کے مضمون کے متعلق ہمیں آنحضرت ﷺ کی حدیث سے علم ہوتا ہے کہ وہ بچے جو بلوغت تک پہنچنے سے پہلے جب پہلے سے ایک شریعت ان پر فرض ہوئی ، فوت ہو جاتے ہیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے سپردان کی روحیں کی جاتی ہیں کہ وہ ترقیات جو اس دنیا میں نہیں کر سکے وہ ان کی طرف ان کو تربیت دے کر آگے بڑھائیں اور ان کی نشو ونما کریں.(مسند احمد بن حنبل، مسند ابی حریره جلد۲) تو اگر نشو ونما کا سلسلہ بچوں میں جاری ہے تو ہر گز بعید نہیں بلکہ زیادہ قرین قیاس ہے کہ بڑوں میں بھی آئندہ ترقی کی راہیں کھلی رہیں گی.بہر حال بعد کی دنیا کے حالات تو بعد کی دنیا میں جانے کے بعد ہی حقیقی طور پر معلوم ہو سکتے ہیں لیکن قرآن کریم نے جو کھڑکیاں کھولی ہیں اس سے میں یہی انداز ہ لگا تا ہوں کہ کوئی آخری ایسی آرام کی منزل نہیں ہے جس کے بعد جد و جہد ختم ہو جاتی ہے.پس اس دنیا میں تو جد و جہد ہماری زندگی کا ایک لازمہ ہے اور جیسا کے میں نے بیان کیا مذہبی دنیا میں تو Retirement کا کوئی تصور نہیں.اگر Retirement کا کوئی تصور ہوتا تو سب سے زیادہ نبی حقدار تھے کہ ان کو Retire کیا جاتا.اتنی محنت اٹھاتے تھے اتنی قوم کے لئے انہوں نے دکھ برداشت کئے اور ہمیشہ کرتے رہے اور اتنا مسلسل ان کے ذہنوں پر اور ان کے اعصاب پر بوجھ رہا کے دنیاوی مشقتوں سے بڑھ کر ذہنی بوجھ ان کی صحبتوں پر زیادہ اثر کرتارہا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا کہ مجھے تو ہود نے بوڑھا کر دیا.تین سورتیں اکٹھی ہیں مینوں کا ذکر ملتا ہے ایک حدیث میں ہے شیبتنی الھود کے مجھے تو سورۃ ہود نے بوڑھا کر دیا.(ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر: ۲۲۱۹) یعنی لوگوں کو تو عمر بوڑھا کرتی ہے گزرتا ہوا وقت بوڑھا کرتا ہے یا جسمانی مشقتیں کرتی ہوں گی لیکن مجھے تو اس مضمون نے جو سورۃ ہود میں نازل ہوا ہے جس نے مجھے ڈرا دیا کہ قومیں کس طرح ہلاک ہوا کرتی ہیں اس کی فکر نے بوڑھا کر دیا ہے.تو انبیاء کے اوپر جو ذہنی بوجھ ہوتے ہیں وہ عام جسمانی بوجھوں سے بہت زیادہ ان کے اوپر Demanding ہوتے ہیں، ان کی صحت کے اوپر وہ ایسے گہرے بداثر چھوڑتے ہیں کہ خدا کا فضل

Page 598

خطبات طاہر جلد ۶ 594 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء اگر غیر معمولی شامل حال نہ ہو تو وہ اپنی ذمہ داری کو نباہ نہ سکیں.یہی وجہ ہے کہ نہایت پاکیزہ زندگی کے باوجود جو بظاہر عمر ہونی چاہئے اس سے پہلے بعض دفعہ وفات ہوتی دکھائی دیتی ہے.آنحضرت ﷺ کی نبوت سے پہلے ذمہ داری سے پہلے کے چالیس سال جس طرح پاکیزگی سے گزرے اور اس کے بعد جس طرح پاکیزگی سے ساری زندگی گزری اس میں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ عمر بہت لمبی ہونی چاہئے اور پھر غذا میں بھی بہت ہی زیادہ سادگی اس حد تک کہ کسی قسم کی مضر غذا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.پھر زیادہ کھانے کا تو کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا لیکن کم کھا کر اپنے آپ کو ایک ایسی زندگی کی عادت ڈال لینا انبیاء کا شیوا ہوا کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں ان کے جسم میں کوئی بھی زائد بوجھ نہیں رہتا ایک چربی کا قطرہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ ان کے جسم پر زائد بوجھ ہے.ان حالات میں بعض انبیاء کی عمر میں بڑی لمبی بھی گزری ہیں لیکن جو سب سے عظیم الشان نبی دنیا میں پیدا ہوا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی امی نے آپ کی عمر ایک پہلو سے ساڑھے باسٹھ سال بنتی ہے یعنی سورج کے سالوں سے حساب کیا جائے تو ساٹھ سال بنتی ہے بڑی وجہ یہ تھی کہ آپ کے او پر بے انتہا ذہنی بوجھ تھے اتنے غیر معمولی عصابی تناؤ تھے کہ عبادت کے ذریعے وہ حل ہوتے رہتے تھے لیکن اس کے باوجود صحت کے لئے سب سے زیادہ مصر کردار اگر کسی چیز نے ادا کیا ہے تو آپ کی ذمہ داریوں نے ادا کیا ہے.پس اس پہلو سے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر کسی کو Retirement کا حق ہے تو انبیاء کو Retirement کا حق ہے لیکن آخری سانس تک آخری ہوش کے لمحے تک انبیاء اپنے کاموں میں مصروف رہتے ہیں بلکہ بوجھ ان کے بڑھتے ہوئے دکھائی دیتے.حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے حالات پر غور کرنے سے یہی معلوم ہوتا ہے.پس اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ مذہبی دنیا میں ترقیات زندگی کے آخری سانس تک ہمارے لئے مقدر ہیں اور کوئی ترقی ایسی نہیں جو مفت میں حاصل ہو سکے.ہر ترقی کے لئے کچھ محنت کرنی پڑتی ہے، ہر ترقی کے لئے کچھ صرف کرنا ہوگا.یہ وہ ایک Scientific اصول ہے جس میں کوئی آپ استثناء نہیں دیکھیں گے.اگر فضل کا مضمون کسی کے ذہن میں آئے کہ وہ کیا چیز ہے؟ تو جو ترقی ملتی ہے وہ فضل سے ملتی ہے.محنت کے ساتھ اس قسم کی اس کو مناسبت نہیں ہے جیسے دنیاوی محنت میں عمل اور جزا کی ایک مناسبت ہوا کرتی ہے بلکہ روحانی

Page 599

خطبات طاہر جلد ۶ 595 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء زندگی میں اور مذہبی زندگی میں ہم جتنی محنت کرتے ہیں اس سے کئی گناہ زیادہ اجر پاتے ہیں اس لئے وہ کی گناہ زیادہ اجر پانا اور محدود محنت کا لامتناہی پھل ملنا یہ سارا فضل سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.بہر حال اس تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا.میں متوجہ یہ کرنا چاہتا ہوں کے اگر جماعت احمدیہ میں سے کسی کو یا بعض کو یہ خیال ہو کہ یہ ابتلا کا دور لمبا ہورہا ہے یا ایک جگہ کی بجائے دوسری جگہ بھی ابتلا شروع ہو گئے تو اس کے نتیجے میں خوف نہیں اس کے دل میں پیدا ہونا چاہئے ، مایوسی پیدا نہیں ہونی چاہئے کیونکہ ایسے ابتلا ساری مذہبی تاریخ گواہ ہے کہ مزید بلندتر منازل کی طرف لے جانے والے ہوا کرتے ہیں.لامذہب قوموں کے ابتلا بعض دفعہ ان کو ہلاک کر دیتے ہیں لیکن باخداند ہی قوموں کے ابتلا ان کو کبھی ہلاک نہیں کیا کرتے لازما بلا استثناء ہمیشہ ہر ابتلا کے بعد وہ نئی قوت، نئی شان، نئی زندگی کے ساتھ باہر نکلتے ہیں.پس اس لئے ابتلا پر نظر کریں اور ان کے مقابلے کی کوشش کریں لیکن مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.ابھی پاکستان میں جو سلسلہ جاری ہے وہ تو جاری ہی ہے لیکن اب بنگلہ دیش کی طرف بھی بعض بیرونی ملانوں نے اور بعض بیرونی حکومتوں نے رخ کیا ہے اور بعض ایسے علاقے جہاں احمدیت سب سے پہلے ظاہر ہوئی تھی اور احمدیت کے لئے وہاں بنیاد بنے وہ آج کل ان کی شرارت کی توجہ کا مرکز ہیں.برہمن بڑیا اور اس کی گرد ماحول میں جماعتوں کا ایک گچھا ہے جو بڑی دیر سے قائم ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور ان برہمن بڑیا سے فساد شروع کر کے اب ان مولویوں نے ان فسادات کو دیہات میں پہنچا دیا ہے اور بعض جگہ شدید مظالم کئے ہیں بعض نوجوانوں کو بھی ، بوڑھوں کو بھی اتنا مارا گیا کہ گویا وہ یعنی موت کے کنارے پہنچ گئے اور اللہ تعالیٰ نے فضل کیا بعض ایسی حالت میں ملے بعض دوسروں کو کہد در جس طرح کوئی سسک سسک کے دم تو ڑ رہا ہوا یسی حالت تھی اور خدا تعالیٰ نے فضل کیا وقت پر پھر ان کو ہسپتال بھی پہنچانے کا انتظام بھی ہو گیا اور بعض ابھی ہسپتالوں میں ہیں بعض ہسپتالوں سے فارغ ہو چکے ہیں لیکن ان پر جود باؤ ہے وہ یہ ہے کہ ہم تمہیں مار مار کے ہلاک کر دیں گے جب تک تم مرتد نہ ہو اور وہاں خصوصیت کے ساتھ رخ ارتداد کی طرف ہے.پاکستان میں جو حالات ہیں ان میں اور ان حالات میں ایک فرق ہے.پاکستان میں کلمہ پڑھنے سے روکا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ جب تک تم کلے سے بعض نہیں آؤ گئے اس وقت تک ہم تمہیں مارتے

Page 600

خطبات طاہر جلد ۶ 596 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء رہیں گے.وہاں وہ اپنی جہالت میں شاید یہ سمجھتے ہیں کے ہم کلمہ نہیں پڑھتے ، وہ کلمہ پڑھانے کے لئے مارتے ہیں اور جب کلمہ پڑھ کے سناتے ہیں احمدی تو کہتے ہیں کہ نہیں اس کے ساتھ مسیح موعود علیہ السلام کا انکار بھی کر ولیکن میرے علم میں بنگلہ دیش میں کوئی ایسا واقعہ نہیں آیا کہ کوئی احمدی کلمہ پڑھتا ہواس کے نتیجے میں اس کو سزا ملی ہو.دراصل تو حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار کروانے کے لئے یہ سارے مظالم توڑے جارہے ہیں اور ایک آدھ جگہ ارتداد کی خبریں بھی ملی ہیں مثلاً برہمن بریا میں ایک دو ایسے اشخاص کے متعلق ارتداد کی ملی جو مظالم زیادہ برداشت نہیں کر سکے لیکن اس کے باوجود خوش کن پہلو یہ ہے کہ ان کے بیوی اور بچوں کے خطوط مجھے آنے شروع ہوئے اور انہوں نے اپنے خاوند سے یا اپنے باپ سے بیزاری کا اظہار کیا اور استغفار کے متعلق بتایا کہ مسلسل استغفار کر رہے ہیں آپ بھی ہمارے لئے دعا کریں.ہم تو یہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ اس کا مقدرا گر خراب ہوا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اس ذلیل انجام سے بچائے اور جان بھی جائے تو تب بھی ہمارا ایمان سلامت رہے.اس قسم کے خط ملتے ہیں ان کی طرف سے.تو ارتداد ہے اگر تو بہت تھوڑا اور ایسا نہیں ہے کہ خاندان کے خاندان الگ ہوجائیں.دوسرے مرتدوں کے متعلق جو چند ہیں گنتی کے ان کے متعلق وہاں کی جماعت کی اطلاع یہ ہے کہ یہ ایسے لوگ ہیں جو پہلے ہی نہ صرف یہ کہ جماعتی تعلق میں بہت کمزور تھے بلکہ بعض گندے کاروبار میں مصروف تھے.ایسے کاروبار تھے ان کے اور معاملات میں ایسے گندے تھے کہ ان کی وجہ سے جماعت پر داغ تھے.اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا.ایک لحاظ سے تو فرق نہیں پڑتا لیکن جب دشمن سے مقابلہ ہورہا ہوصف آرائی ہو اسی مضمون پر کہ ایمان سلامت رہتا ہے کہ نہیں رہتا ہے.اس وقت کمزور بھیجائے تو داغ ضرور پڑتا ہے اور تکلیف ضرور ہوتی ہے.اگر وہ ایسے تھے تو ان کو وقت کے او پر سنبھالنا چاہئے تھا ، اگر ایسے تھے تو اس وقت ان کو کوشش کر لی چاہئے تھی واپس لانے کی.عدم توجہ کے نتیجہ میں اگر بیمار عضو بھی کاٹنا پڑے تو اس پر یہ کہ کرتسلی کا اظہار کرنا کہ بیمار تھا کاٹا گیا یہ تو بڑی بیوقوفی ہے.بیمار تو تھا لیکن کاٹنے کی نوبت کیوں آئی اور اگر سب کوششیں کرلیں گئیں اور اس کے با وجود ایسا ہوا جیسے بعض دفعہ ہوا کرتا ہے انسان کے بس میں نہیں ہوتا.بعض بد نصیب ہیں جنہوں نے بدنصیب ہی رہنا ہے تو پھر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہماری طرف سے پوری کوشش ہوئی لیکن یہ بیچ

Page 601

خطبات طاہر جلد ۶ 597 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء نہیں سکا.اس کے باوجود دل میں دکھ ہوتا ہے.ایک احمدی بھی کہیں دنیا میں ضائع ہو چائے ہماری غفلت کی وجہ سے یا اپنی بدنصیبی کی وجہ سے تو اس کا دکھ پہنچتا ہے.اس لئے جو بھی احمدی جہاں ضائع ہوں ان کو واپس لانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے اور یہ کہہ کر معاملے کو ختم نہیں سمجھنا چاہئے کے گندہ تھا نکل گیا.دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ مجھے یقین ہے ان کی اطلاع درست ہوگی اگر چند گندے آدمی جماعت سے الگ ہو جائیں تو اس سے مایوسی بہر حال نہیں ہونی چاہئے کیونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ہر ارتداد کے بعد اللہ تعالیٰ کثرت سے دوسرے پھل عطا فر مائے گا جو پہلوں سے بہتر ہوں گے.اس لئے خدا تعالیٰ کا جو وعدہ ہے وہ تو جماعت احمدیہ کے حق میں پہلے بھی پورا ہوتا رہا ہے آئندہ بھی انشاء اللہ ہمیشہ پورا ہوتارہے گا.اس بارے میں ہمیں کوئی بھی کسی قسم کا شک نہیں ہے بلکہ شک کرنا بھی اپنے نفس کو ہلاک کرنے کے مترادف ہے.خدا تعالیٰ کی رحمت کا خدا کی تائید کا ہاتھ جماعت کے ساتھ اتنا واضح ہے، اتنا کھلا ہے اس طرح بار بار ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے بعد بہت ہی کوئی بدنصیب انسان ہوگا جو خدا تعالیٰ کے وعدوں پر شک کرے.اس لئے ہمیں تو کوئی شک نہیں اس بات میں کہ لازماً پہلے سے بہت بڑھ کر جماعت احمدیہ کو انفرادی قوت بھی نصیب ہوگی اور روحانی قوت بھی نصیب ہوگی اور اخلاقی لحاظ سے بھی جماعت پہلے سے بہت سے بہت زیادہ ترقی کرے گی لیکن صرف یہی کافی نہیں ہے یہ امید بھی صرف کافی نہیں ہے اس امید کے ساتھ ہمیں اپنی کوششوں کو پہلے سے زیادہ تیز کرنا چاہئے ہر ٹھوکر کے بعد اپنی رفتار کو بڑھانے کی کوشش کرنی چاہئے.ہر تکلیف کے بعد یہ سوچنا چاہئے کہ آئندہ ایسی تکلیف کی راہ کیسے بند کی جائے ، اس کے ازالے کی کوشش کرنی چاہئے.اس لئے جہاں جہاں بھی جماعت میں کہیں ارتداد ہو یا کمزوریاں دکھائی گئیں ہیں وہاں کی انتظامیہ کو اور بحیثیت ملک سارے ملک کی انتظامیہ کو آئندہ کے لئے جماعتی حفاظت کے لئے بہتر سامان پیدا کرنے چاہئے اور سب سے بہتر روحانی حفاظت کا سامان نیکیوں کی عادت ڈالنے سے ہوتا ہے.نصیحت سے نہیں ہوا کرتا اتنا یعنی اگر یہ نصیحت کی جائے تم لوگ مرتد نہ ہو کمزوری نہ دکھاؤ کچھ اثر تو ضرور ہوتا ہوگا لیکن سب سے زیادہ انسان کی ابتلا میں حفاظت کرنے والی چیز اس کی وہ نیکیاں ہیں جو پہلے سے جاری ہوں اور ان نیکیوں کو نئی جلا ملتی ہے ابتلا میں اور اگر اندر سے کوئی کھایا ہوا وجود ہے تو وہ اس کا کھوکھلا پن ظاہر ہو جایا

Page 602

خطبات طاہر جلد ۶ 598 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء کرتا ہے.اس لئے ہمیں اس جہت سے جماعتوں کو پروگرام بنانا چاہئے کہ جہاں جہاں بھی ابتلا کے بادل ہیں وہاں خصوصیت کے ساتھ جماعت کی روحانی اور اخلاقی ترقی کی طرف توجہ دینی چاہئے.اگر نمازوں میں کمزوری ہے تو ان کو نمازوں میں قائم کیا جائے ، اگر مالی قربانی میں کمزوری ہے تو مالی قربانی میں ان کا قدم آگے بڑھایا جائے، اگر نظریاتی لحاظ سے علم کی کمی کی وجہ سے کمزوری ہے تو پھر علم کی کمی پوری کرنی چاہیئے.تو بہر حال جہاں بھی دشمن حملہ کرے اس کی جوابی کاروائی کے لئے ٹھنڈے مزاج کے ساتھ پوری تفصیل کے ساتھ غور کے بعد ایک جوابی کاروائی طے ہونی چاہئے.جہاں تک عمومی طور پر ساری دنیا کی جماعت کے رد عمل کا تعلق ہے اس میں سب سے پہلے میں آپ کو دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.جہاں تک ان اطلاعوں کے نتیجے میں دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلاتاخیر جس وقت کوئی بری اطلاع آتی ہے جوابی کاروائیاں شروع ہو جاتی ہیں اور ہر امکانی جہت میں شروع ہو جاتی ہیں.جہاں تک انسانی عقل کام کرتی ہے جہاں تک اللہ تعالیٰ راہنمائی عطا فرماتا ہے میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ کوئی بھی ایسا گوشہ نہیں چھوڑا جاتا جہاں انسانی کوشش ہو سکتی ہے اور جماعت نہ کرے لیکن میرا یہ تجربہ ہے کہ انسانی ساری کوششیں ایسے موقعوں پر بیکار جاتی ہیں.وہ اللہ کے حکم کے نتیجے میں ہم کرتے ہیں اور اس وجہ سے کرتے ہیں کہ ہم خدا کے قانون سے بالا نہیں ہیں.ہمیں لازما جو کچھ ہم کر سکتے ہمیں کرنا ہوگا لیکن ہمیشہ مسائل دعا سے حل ہوتے ہیں اور جب یہ ساری کوششیں بالکل بریکار ہو جاتی ہیں جب ایسی پتھر کی دیوار سامنے نظر آتی ہے کہ آگے کوئی رستہ دکھائی نہ دے اس وقت ایک ہی گر ہے جو کارآمد ثابت ہوتا ہے اور وہ دعا کا ہے.ایک ہی ہتھیار ہے جوان روکوں کو توڑ دیتا ہے پاش پاش کر دیتا ہے اور وہ دعا کا ہتھیار ہے اور اس وقت پھر خدا تعالیٰ کی قدرت جس طرح عجیب رنگ میں ظاہر ہوتی ہے اس سے جو لذت پیدا ہوتی ہے اس کا کوئی عام دنیاوی کوششوں کی کامیابی کی لذت سے کوئی مقابلہ نہیں جو روحانی ہتھیار یعنی دعا کے ذریعے انسان کو کامیابی سے حاصل ہوتی ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کو سب سے پہلے اور سب سے اہم دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں.یہ ابتلا بڑھ رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں اور اس کے پیچھے بڑی بڑی حکومتوں کی سازشیں ہیں جن کی اطلاعیں جماعت کومل رہی ہیں اور جو جماعت مقابل پر کوشش کر سکتی ہے کر رہی ہے لیکن یہ مسائل دعا

Page 603

خطبات طاہر جلد ۶ 599 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء کے بغیر حل نہیں ہوں گے.اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی فضل آپ مانگیں گے تو وہ نازل ہوگا.کچھ فضل بن مانگے نازل ہوا کرتے ہیں رحمان کے لیکن کچھ ایسا ہیں جن کا رحیمیت سے تعلق ہے اور ابتلا کے دور کا رحیمیت سے گہرا تعلق ہے اس کی تفصیل میں اس وقت جانے کا وقت نہیں ہے کیونکہ ایک تفصیلی مضمون ہے لیکن اتنا میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ابتلا کے ادوار کا رحیمیت سے گہرا تعلق ہوا کرتا ہے اور رحیمیت کے لئے آپ کو مانگنا پڑے گا بن مانگے نہیں ملے گا.اپنے نیک اعمال کے ذریعے مانگنا ہوگا اپنی زبان کے ذریعے ، اپنے دل کے ذریعے جو کچھ بھی آپ کے بس میں ہے جس رنگ کی عاجزی کی دعا آپ کر سکتے ہیں ویسی دعا کریں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح ان خطرناک راستوں سے بڑی کامیابی کے ساتھ اور اطمینان کے ساتھ آگے گزارتا ہے.دوسری بات جو عمومی طور پر جماعت کر سکتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں جس قسم کی مخالفانہ کوشش ہو اس کے جواب میں ساری جماعت دنیا میں ہر جگہ اپنے معیار کو بڑھا دے اور پہلے سے زیادہ نیکیاں اختیار کرے.اگر مساجد توڑی جا رہی ہیں، مساجد برباد کی جا رہی ہیں تو مساجد بڑھنی چاہئیں، اگر غرباء کے گھر برباد کئے جارہے ہیں تو غرباء کے گھروں کی طرف توجہ کرنی چاہئے.یعنی جس رنگ میں بھی دشمن ظلم کرتا ہے اس کی جوابی کاروائی براہ راست ساری دنیا میں جماعت کر سکتی ہے اور وہ نیکیوں کے ذریعے ہے اسی قسم کی نیکیوں کے ذریعے جن کا ابتلا کے ساتھ ایک قدرتی تعلق ہے.چنانچہ اس ابتلا میں بنگلہ دیش میں خصوصیت کے ساتھ ایک انہوں نے مسجدوں پر حملہ کیا ہے اور ایک غرباء کے گھروں پر اور غرباء کی تجارتوں پر.اس لئے ہمیں اس کے رد عمل کے طور پر دو طرح سے ساری دنیا میں اپنی بعض نیکیوں کو خصوصیت سے آگے بڑھانا چاہئے.مسجد سے تعلق کو بڑھانا چاہئے.جہاں جہاں مساجد ہیں جیسا کہ میں نے پہلے بھی نصیحت کی تھی ان کی زینت کی طرف توجہ کرنی چاہئے ان کی صفائی کی طرف توجہ کرنی چاہئے.جہاں جہاں مساجد نہیں ہیں اور جماعتیں ہیں خواہ چھوٹی ہی ہوں وہاں مساجد بنی چاہئیں اور اللہ کے فضل کے ساتھ جو اطلاعیں مل رہی ہیں گزشتہ چند مہینے میں خدا کے فضل سے جماعت کی مسجدوں کی طرف بڑی غیر معمولی توجہ ہوئی ہے، بن رہی ہیں لیکن چونکہ مسجدوں پر خصوصیت سے حملہ ہے اس لئے اور زیادہ تیزی کے ساتھ ہمیں بنانے کی کوشش کرنی چاہئے اگر بڑی مسجد نہیں بنا سکتے تو جھونپڑی والی مسجد بنالیں لیکن مسجدوں کی تعداد میں غیر معمولی

Page 604

خطبات طاہر جلد ۶ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے.600 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء غرباء کے گھر لوٹے جارہے ہیں تو غرباء کی طرف توجہ کریں جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہ اپنے غرباء کا خیال رکھیں ، ان کی مصیبتیں دور کرنے کی کوشش کریں، جن کے پاس ذریعہ معاش نہیں ہے ان کو ذریعہ معاش مہیا کرنے کی کوشش کی جائے.جن کے پاس گھر نہیں ہیں ان کے گھر بنا کے دیئے جائیں.یہ بظاہر بنگلہ دیش سے دور ہزاروں میل دور ایک واقعہ ہورہا ہوگا کہیں چھوٹی سی مسجد بن رہی ہے، کہیں کسی غریب کے گھر کی مرمت میں جماعت کوشش کر رہی ہے، کہیں اس کو نیا گھر بنا کے دے رہی ہے.یہ جو واقعات ہیں بظاہر ان کا کوئی تعلق نہیں ہے ہزاروں میل کے فاصلے پر ایک واقعہ چھوٹا سا ہورہا ہے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کے خدا کی تقدیر میں ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے جس قسم کا حملہ ہو اس کی جوابی اصلاحی کاروائی کرنا اور نیکی میں اسی میدان میں آگے قدم بڑھانا یہ قرآن کریم کا حکم ہے.اس لئے اگر آپ ایسا کریں گے تو خدا کی تقدیر ایسی کمزور جگہوں سے بھی آپ کی مسجدوں کی حفاظت کرے گی جہاں آپ کی طاقت پہنچ نہیں سکتی.جہاں آپ کی طاقت ہے وہاں مسجدوں کے ساتھ اپنی محبت کا اظہار کریں جہاں آپ کی طاقت نہیں ہے وہاں خدا آپ کی محبت کو پہنچائے گا اور آپ کی محبت پر کرم اور رحم کی نظر کرتے ہوئے ان کمزور جگہوں سے بھی آپ کی مسجدوں کی حفاظت کرے گا.اگر آپ ان غریب گھروں کو مسمار ہونے سے نہیں بچا سکتے جن تک پہنچنا آپ کی طاقت میں نہیں ہے تو جن غریبوں تک پہنچنا آپ کی طاقت میں ہے ان کے گھروں کے لئے کچھ کوشش کریں کچھ جدو جہد کریں کچھ ان کا انتظام کریں اور پھر آپ دیکھیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ کی تقدیر کمزور جگہوں سے بھی احمدی غرباء کے گھروں کی حفاظت فرمائے گی.یہ ایک بالکل قطعی بات ہے اس میں کوئی افسانوی پہلو نہیں ہے.اتنی قطعی ہے جس طرح آپ مجھے دیکھ رہے ہیں اس وقت جو میرے سامنے بیٹھے ہیں یا میں آپ کو دیکھ رہا ہوں.لازماً ایسا ہوتا رہا ہے ایسا ہی ہوگا آئندہ بھی انشاء اللہ.اس لئے ان دو امور کی طرف میں خصوصیت سے آپ کو متوجہ کرتا ہوں.مسجدوں کے ضمن میں ایک ہالینڈ کی مسجد کا واقعہ گزرا تھا جو میں نے آپ کو بتایا ہے کیونکہ یہ سازش بین الاقوامی ہے اس کے پیچھے بعض بڑی بڑی حکومتوں کا اور بڑی بڑی مالدار حکومتوں کا ہاتھ

Page 605

خطبات طاہر جلد ۶ 601 خطبہ جمعہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۸۷ء ہے.اس لئے یہ ہر جگہ پہنچیں گے ہر جگہ شرارت کریں گے.جہاں بھی اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے شرارت نہیں ہے وہاں کی جماعت کو بیدار مغز بھی ہونا چاہئے.چنانچہ میں نے اسی وقت ساری دنیا کی جماعتوں کو ہدایت دی تھی کہ اپنے اتنے قیمتی مسوادات کی بھی حفاظت کا انتظام کریں اور اپنے مساجد کی حفاظت کا پہلے سے بہتر انتظام کریں یہ بھی اسی اسکیم کا ایک حصہ ہے.لیکن بہر حال جن مساجد کونقصان پہنچا ہے ان کی تعمیر نو میں بھی ہمیں جہاں تک کسی کو توفیق ہو حصہ لینا چاہئے.چنانچہ ہالینڈ کی مسجد کے لئے میں نے اعلان کیا تھا کہ جن دوستوں کو تو فیق ہے وہ اس سے پہلے سے بہت زیادہ شاندار بنانے کے لئے اگر خدا کی راہ میں کچھ خرچ کر سکتے ہیں تو کریں.اسی طرح بنگلہ دیش کی مساجد میں جب بھی خدا توفیق دے گا ہمیں ان کو نہ صرف یہ کہ دوبارہ بحال کرنا ہے بلکہ پہلے سے بہت زیادہ بڑھانا ہے اور اگر کوئی معمولی چھپروں کی مسجد تھی اسے پختہ بناکے دینا ہے.چند نمازی نماز پڑھ سکتے تھے تو کئی گنا زیادہ نمازیوں کے لئے گنجائش پیدا کر نیہ.سے کوئی ایک جگہ بھی دنیا میں ایسی نہیں جہاں احمدی مسجد پہ حملہ ہوا ہو اور جواباً ہم نے اس سے زیادہ تر وسیع مسجد بنانے کی کوشش نہیں کر لی.یہ تو لمبے فاصلے ہیں، لمبے سفر ہیں انشاء اللہ اسی طرح ہم یہ سفر آگے کرتے چلے جائیں گے.جماعت کا جہاں تک تعلق ہے اپنے طور پر اپنے علاقوں میں مسجدوں کے علاوہ بھی جن مسجدوں کو نقصان پہنچا ہے ان کے لئے کچھ حصہ لیں.اس ضمن میں ایک تاکید ہے کہ جن احباب نے صد سالہ جو بلی میں ابھی اپنے بقایا ادا کرنے ہیں یا بعض اور کسی بڑی تحریک میں اپنا چندہ ابھی ادا کرنے والا باقی ہے وہ سوائے اس کے کہ تبرک کے طور پر بالکل معمولی حصہ لیں پہلے اپنے بقایا ادا کریں پھر نئی تحریکات میں حصہ لیں.صد سالہ جوبلی کے کام بھی بہت زیادہ ہیں اور بڑے Demanding ہیں یعنی ان کا وقت تھوڑا رہ گیا ہے کام بہت زیادہ ہیں اخراجات بہت ہیں اٹھنے والے اس لئے اس چندے کو تو بہر حال اہمیت دینی چاہئے.جن کے بقایا ہیں وہ پہلے بقایا ادا کرنے کی طرف توجہ کریں پھر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو پھر ان تحریکات میں بھی شامل ہو جائیں.تو مسجد کے لئے میں اپنی طرف سے ان مساجد کی تعمیر کے لئے جن پر دشمن حملہ کرتا ہے ایک ہزار پونڈ کا اپنی طرف سے میں وعدہ پیش کر چکا ہوں اور بتانے کی ضرورت اس لئے پیش آئی ہے کہ کئی

Page 606

خطبات طاہر جلد ۶ 602 خطبہ جمعہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۸۷ء دفعہ میرا تجربہ ہے کے جب میں اپنا چندہ بتا دوں تو جماعت بہت تیزی سے آگے بڑھتی ہے جب میں مخفی رکھوں تو اس بارے میں خاموش رہتی ہے شاید ان کو یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کے میں جہاں چندہ نہیں لکھوا تا وہاں اہمیت نہیں دیتا اس کو خاص حالانکہ ضروری نہیں ہوتا کہ انسان بتا کے چندہ دے.تو بعض چندے ایسے ہیں جن میں چونکہ جماعت کو بتایا نہیں گیا، میں نے فہرستوں کا جب جائزہ لیا تو ان میں کوئی توجہ نہیں تھی جماعت کی جہاں بتایا گیا ہے وہاں غیر معمولی طور پر قربانی میں جماعت آگے بڑھی ہے.تو یہ ممکن ہے ایک طبعی فطری بات ہو.اس لئے میں آپ کو بتارہا ہوں کہ اسی نسبت سے آپ بھی اپنی توفیق کے مطابق جس حد تک حصہ لے سکتے ہیں لیں لیکن وہی جو پہلے صد سالہ جو بلی کے چندہ ادا کر چکے ہوں.دوسرا بیوت الحمد کا معاملہ ہے.بیوت الحمد میں ہماری کوشش ہے کہ ایک سومکان غرباء کو یا ایسے دین کی خدمت کرنے والوں کو جن کو توفیق نہیں ہے اپنے مکان بنانے کی ان کو بنا کر مکمل پیش کریں.یہ تحریک چار سال پہلے پیش کی گئی تھی اس وقت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے بڑا ہی اچھارڈ عمل دکھایا اور کثرت سے اتنے وعدے موصول ہوئے کہ ہمارا خیال تھا کہ اوسطاً اگر سارے اخراجات ملا کر ایک لاکھ میں ایک مکان پڑے تو ایک کروڑ روپیہ چاہئے ہوگا اور وعدے خدا کے فضل سے ایک کروڑ سے زیادہ کے آگئے لیکن ایک بات ہماری نظر سے رہ گئی تھی وہ یہ کہ اس سکیم کا ایک یہ بھی حصہ تھا کہ وہ غرباء جن کو پورے مکان کی ضرورت نہ ہولیکن ان کا مکان نا کافی ہو یا چار دیواری نہ بنا سکے ہوں یا غسل خانہ وغیرہ نہ بنا سکے ہوں یا ایک ہی کمرہ ہے اور خاندان بڑا ہے ان کی جزوی مدد بھی کی جائے گی اور جزوی مدد میں کسی کو کمرہ بنادیا جائے گا کسی کو چار دیواری بنادی جائے گی.تو یہ مجھے اندازہ نہیں تھا اس حصے پر کتنا زیادہ خرچ ہوگا.نتیجہ یہ نکلا کہ اکثر رو پیدا اسی حصے پر خرچ ہو چکا ہے اور سونہیں بلکہ کئی سو مکان ایسے ہیں غرباء کے جن کو کسی کو چار دیواری بنادی گئی، کسی کو باورچی خانہ بنا کر دیا گیا، کسی کو زائد کمرہ بنا کے دیا گیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سکیم کا جو فیض ذہن میں تھا اس سے زیادہ فیض پہنچ چکا ہے.اس وقت جماعت کو تحریض دلانے کی خاطر دوتین سال کے بعد میں نے اپنا چندہ دگنا کر دیا تھا یعنی ایک لاکھ کی بجائے دولاکھ کر دیا تھا تا کہ دومکان اگر میں بنا کے دیتا ہوں تو جو صاحب توفیق ہیں وہ بھی اس معاملے میں آگے قدم بڑھا ئیں.اب جب

Page 607

خطبات طاہر جلد ۶ 603 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء جائزہ لیا ہے تو ابھی بھی اور ضرورت ہے اس لئے میں اپنی طرف سے ایک اور مکان کا خرچ پیش کرتا ہوں اور جن دوستوں کو توفیق ہے کہ وہ ایک مکان کا خرچ پیش کر سکیں یا جن جماعتوں کو تو فیق ہے کہ وہ ایک مکان کا خرچ پیش کر سکیں ان کو بھی اجازت ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ صد سالہ جوبلی کے بقایا دا رنہ ہوں اور بیوت الحمد کی تحریک کے بقایا دار نہ ہوں.پہلے پرانے وعدے پورے کریں پھر خدا توفیق عطا فرمائے تو پھر بے شک آگے بڑھیں.ایک تیسری تحریک یہ ہے کہ ہندستان میں ہم نے شدھی کی جوابی کاروائی شروع کی تھی اور اس کا بھی موجودہ مخالفانہ کوششوں کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.وہ ہمیں مرتد بنانے کی کوشش کر رہے ہیں.اس کا طبعی قدرتی جواب یہ کہ جہاں جہاں مسلمان کو مرتد بنانے کی کوشش کی جارہی ہے وہاں اس ارتداد کو روک دیں اور اپنے بھائیوں کو تقویت دیں اور ان کو اپنے ایمان پر مستحکم کریں.چنانچہ یہ تیسری جوابی عمومی کاروائی ہے جس میں ساری دنیا کی جماعت کو میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہوں.اکثر حصہ تو ہندستان سے تعلق رکھتا ہے واقف زندگیوں کا آگے آنا اور انتظامی کوششیں کرنا.ان سب کا تعلق صرف ہندوستان سے ہے ان باتوں کا لیکن مالی امداد دینا شدھی کی تحریک کو اس میں تو ساری دنیا کی جماعتیں شامل ہو سکتی ہیں.اس لئے اس طرف بھی ہمیں توجہ کرنی چاہیئے.خلاصہ اس وقت تک کے کام کا یہ ہے کہ اس سے پہلے ہندوستان کی بڑی بڑی مذہبی جماعتیں جو شدھی کے میدان میں داخل ہوئی تھیں اور ان کے پیچھے بعض حکومتوں کے روپے بھی تھے، بعض بڑے بڑے تاجروں کے روپے بھی تھے ان کی طرف سے کوئی مؤثر کا روائی نہیں ہو سکی.لیکن جب سے جماعت احمد یہ اس میدان میں داخل ہوئی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی اثر ظاہر ہوا ہے.آپ اس سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس علاقے کے ایک بہت ہی بڑے معزز مسلمان جو اپنے رسوخ کے لحاظ سے اس سارے علاقے میں سب سے، اس وقت ، بڑے کہے جاسکتے ہیں ان کا مجھے خط آیا کہ میں فلاں شخص ہوں اور یہ یہ میرے کام ہیں اور اس قسم کا میرا رسوخ ہے میں احمدی نہیں ہوں آپ کو علم ہے لیکن میں شدھی کی تحریک کی جوابی کاروائی کے متعلق آپ کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ چونکہ میرا علاقہ ہے اس سے ذاتی طور پر متعلق ہوں اس لئے میں بڑی فکر سے یہ دیکھتا رہا کہ بعض علماء نے بعض جماعتوں نے جوابی کاروائی کی کوشش کی لیکن کوئی اس کا اثر نہیں تھا، کچھ نہ کچھ کوئی

Page 608

خطبات طاہر جلد ۶ 604 خطبہ جمعہ ۱۸؍ستمبر ۱۹۸۷ء اثر تو نہیں کہا انہوں نے یعنی بہت معمولی اثر ظاہر ہوا ہے اور بہت سے آتے تھے اور تھک کے چلے جاتے تھے.پھر جب آپ نے تحریک کی تو اس وقت قادیان حرکت میں آیا اور ہندوستان کی احمدی جماعتوں نے اپنے نمائندے بھیجنے شروع کئے اور جب وہ آئے تو اس وقت نمایاں طور پر نیک اثر ظاہر ہونے شروع ہوئے اور ایک بڑے علاقے میں جہاں انہوں نے کام شروع کیا ہے وہاں ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے شدھی کی تحریک کو آگے بڑھنے سے روک دیا ہے اور مسلمان میں اب نیا حوصلہ پیدا ہونا شروع ہوا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ مجھے یہ دیکھ کر اتنا شوق پیدا ہوا کہ یہ کیسی جماعت ہے میں ذرا دیکھوں تو سہی کہ میں نے فیصلہ کیا کہ میں قادیان ضرور جاؤں گا.چنانچہ میں قادیان گیا اور جو کچھ ان لوگوں کی زبانی میں سنتا تھا جو یہاں کام کرنے آتے تھے اس سے بہت زیادہ بہتر پایا قادیان کو.ایک ایسا ماحول تھا جس کو بیان نہیں کیا جا سکتا اور میں بہت ہی مطمئن اور خوش ہو کر یہاں آیا ہوں اور میری امید اب اس میدان میں صرف جماعت احمدیہ پر ہے.اس لئے میں آپ کو خط لکھ رہا ہوں کہ آپ جو نیک سکیم بناتے ہیں اس میں میرا ہر قسم کا تعاون شامل ہوگا اور یہ یہ میری تجویزیں ہیں اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ مفید ہیں تو ان پر بھی عمل کریں.تو یہ ایک غیر احمدی ایسے دوست جو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت بااثر بارسوخ وسیع علاقے پر اثر رکھنے والے دوست ہیں ان کے تاثرات ہیں.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام تو ہورہا ہے لیکن جو اس کام میں نئے مطالبات سامنے آرہے ہیں، نئے میدان سامنے آرہے ہیں ان کے نتیجے میں میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں بیرونی طور پر اس کام کو آگے بڑھانے کے لئے مالی مددضرور دینی پڑے گی کیونکہ موجودہ طور پر ہندستان کی جماعتیں اتنی استطاعت نہیں رکھتیں.تو اس ضمن میں بھی میں اپنی طرف سے ایک ہزار پونڈ کا وعدہ کرتا ہوں اور ساری جماعت میں جو صاحب استطاعت ہیں اور جو اپنے پرانے اہم وعدے پورے کر چکے ہیں ان کو بھی دعوت دیتا ہوں کہ وہ جس حد تک اللہ توفیق دے اس میں حصہ لیں اور جو بقایادار ہیں یعنی صد سالہ جو بلی کے یا بیوت الحمد کے ان کو چاہئے کہ ثواب کی خاطر یا اپنے اس خیال سے کہ نفس بالکل محروم نہ رہے ٹوکن کے طور پر بے شک کچھ دے دیں.اس سے میں نہیں روکتانہ جماعت کو ان کو روکنا چاہئے.بعض مجبوریوں کے پیش نظر بقایادار ہو جاتے ہیں وہ آہستہ آہستہ ادا کریں گے.اس لئے ان کلیۂ نیکی سے

Page 609

خطبات طاہر جلد ۶ 605 خطبه جمعه ۱۸ ستمبر ۱۹۸۷ء محروم کرنے کا تو ہمیں حق نہیں ہے اس لئے ایسے دوستوں کی خاطر میں یہ اعلان کرتا ہوں جماعتیں ان کو روکیں نہیں زبردستی کہ ہم بالکل نہیں لیں گے بلکہ ٹوکن کے طور پر جوان پر زیادہ بوجھ نہ ڈالے اپنے دل کی تسکین کی خاطر وہ بھی اس تحریک میں کچھ نہ کچھ حصہ لے سکتے ہیں.تو یہ وہ جوابی کاروائی ہے جو بنگلہ دیش کی اطلاعات کے نتیجے میں میں بطور پروگرام کے جماعت کو دیتا ہوں.وہ دکھ پہنچانے میں آگے بڑھتے رہیں ہم بنی نوع انسان کو آرام پہنچانے میں آگے بڑھتے رہیں ، وہ مسجد میں گرانے میں بدبختی میں آگے بڑھتے رہیں.ہم مسجدیں تعمیر کرنے اور مسجدوں کو پہلے سے بڑھ کر صاف ستھرا کرنے اور سجانے میں آگے بڑھتے رہیں گے.وہ مسلمانوں کو مرتذ کرنے میں آگے بڑھتے رہیں، ان کا یہی نصیب ہے، ہم مسلمانوں کو ارتداد سے بچانے کے لئے آگے بڑھتے رہیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور ان سارے کاموں میں کوششوں سے بہت بڑھ کر دعاؤں نے ہماری مدد کرنی ہے اس لئے دعاؤں کو ہر گز نہ بھولیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.ابھی جمعہ کے بعد جیسے کہ پہلے بھی اعلان کیا جاچکا ہے نماز جنازہ غائب ہو گی چونکہ فہرست لمبی تھی اس لئے میں نے کہا تھا کہ وہ پہلے ہی فہرست پڑھ کے سنادی جائے بجائے اس کے کہ ہر جمعہ نماز جنازہ غائب ادا کی جائے جن لوگوں کی خواہش ہوتی ہے اور میرا خیال ہے دو تین جمعوں کے بعد ا کٹھا ان کی فہرست اکٹھی سنادی جایا کرے اور ان سب کو اکٹھا اس میں شامل کر لیا جایا کرے.فہرست سنادی گئی ہے تو انشاء اللہ نماز جمعہ کے معا بعد نماز جنازہ غائب ہوگی.

Page 610

Page 611

خطبات طاہر جلد ۶ 607 خطبه جمعه ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۸۷ء افواہ، حسد اور غیبت کی بیماری سے بچنے کے لئے اہل ربوہ کو خصوصاً اور جماعت کو بالعموم تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.وَإِذَا جَاءَهُمْ أَمْرُ مِنَ الْاَمْنِ اَوِ الْخَوْفِ اَذَاعُوْا بِهِم وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ وَلَوْلَا فَضْلُ اللهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُ لَا تَبَعْتُمُ الشَّيْطَنَ إِلَّا قَلِيْلًا اور فرمایا: (النساء: ۸۴) اس آیت کا جو سورۃ النساء کی ۸۴ ویں آیت ہے، ترجمہ یہ ہے اور جب بھی ان کے پاس امن کی یا خوف کی کوئی بات پہنچے وہ اسے مشتہر کرنا شروع کر دیتے ہیں.ایسا کیوں نہیں کرتے کہ جب ان تک کوئی بات پہنچی تو انہوں نے مشتہر کرنے کی بجائے خدا کے رسول یا اس کی طرف اس بات کو لوٹا دیا جو صاحب امر ہو.ایسی صورت میں جو صاحب علم لوگ ہیں وہ ان باتوں کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر ان سے استنباط کرتے ہیں اور معلوم کرتے ہیں کہ کیوں ایسی باتیں پھیلائی جا رہی ہیں اور ان کی حقیقت کیا ہے اور اگر خدا کا خاص فضل تم پر نہ ہوتا اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو یقینا تم میں سے اکثر

Page 612

خطبات طاہر جلد ۶ 608 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء لوگ شیطان کی پیروی کرنے لگ جاتے.دنیا میں جتنی بھی بیماریاں ہم دیکھتے ہیں یا نہیں دیکھتے، موجود پاتے ہیں یا نہیں موجود پاتے.بنیادی طور پر خواہ ہمارے علم میں ہوں یا نہ ہوں، ہر قسم کی بیماریوں کے بیج دنیا میں ہمیشہ موجود رہتے ہیں.کچھ جراثیم کی صورت میں کچھ دیگر اسباب اور محرکات کی صورت میں اور بیماری کے اسباب موجود ہونے کا نتیجہ یہ نہیں نکلتا کہ ہر وقت وہ بیماری ہر انسان کو لاحق ہو.جس فضا میں ہم سانس لے رہے ہوتے ہیں بسا اوقات اسی فضا میں کوڑھ کے جراثیم بھی ہوتے ہیں سل کے جراثیم بھی ہوتے ہیں، نزلے زکام اور فلو کے جراثیم بھی ہوتے ہیں اور کئی قسم کے ایسی امراض کے پیج کے موجود ہوتے ہیں جن کے تصور سے بھی ہم خوف کھاتے ہیں.اگر ہمیں معلوم ہو کہ وہ سانس جو ہم لے رہے ہیں ان میں کتنے جراثیم ہیں اور کس کس نوعیت کے ہیں تو خوف سے کمزور دل آدمیوں کی زندگی اجیرن ہو جائے ، ہر سانس پر ان کو دھڑکا لگ جائے.وہ پانی جو ہم پیتے ہیں اگر اس کے اندر موجود مختلف قسم کے جراثیم کا ہمیں علم ہو جائے تو ہر گھونٹ تشفی کی بجائے ایک خوف کی آگ لگا دے.اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان ہے کہ اگر چہ خطرات کے مواقع ہر جگہ موجود ہیں اور ہر طرف سے انسان کو گھیرے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود ہم ان سب بیماریوں کا شکار نہیں ہوتے.ہاں ہم میں سے جو کمزور ہیں وہ قلیل تعداد ان بیماریوں کا شکار ہو بھی جاتی ہے.جیسے دنیا میں یہ نقشہ ہے ویسا ہی روحانی اور مذہبی دنیا میں بھی ہمیں یہ نقشہ نظر آتا ہے.بیماری کے پھیلنے کے لئے محض جراثیم کا ہونا کافی نہیں ہے.جراثیم تو ہمیشہ موجود ہی رہتے ہیں اور بھی کئی ایسے عناصر ہیں جن کی ضرورت پڑتی ہے اور جب وہ سب اکٹھے ہو جائیں تو عام معمولی دکھائی دینے والی بیماریاں بھی نہایت خوفناک قسم کی وبائی صورتیں اختیار کر جاتی ہیں.پیچش سے لوگ مرنے لگتے ہیں ، نزلوں سے لوگ مرنے لگتے ہیں، اسہال عام دنیا میں ہوتے رہتے ہیں لیکن جب یہ وبا کی شکل میں پھیلتی ہے بیماری تو نہایت ہی خوفناک صورتیں اختیار کر جاتی ہے.تو فضا کا ہونا بھی ضروری ہے.موسم گرمی اور سردی، خشکی اور تری یہ ساری چیزیں اس میں ایک کردار ادا کرتی ہیں.پھر ہر انسان کا اپنا رد عمل ، اس کے اندر جو خدا تعالیٰ نے مخفی توانائی رکھی ہے اس کی کیفیت ، اس کی اس وقت کی حالت کیا ہے جس وقت وہ بیماری پنپ رہی ہے.یہ سارے امور

Page 613

خطبات طاہر جلد ۶ 609 خطبه جمعه ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۸۷ء مل کر بعض دفعہ بیماریوں کو اُبھار کر منظر عام پر لے آتے ہیں ، بعض دفعہ ان کو دبا کر نظروں سے بالکل غائب کر دیتے ہیں لیکن بالعموم خدا کی یہ تقدیر کارفرما دکھائی دیتی ہے کہ اگر خدا کا فضل اور خدا کی رحمت شامل حال نہ ہوتے تو ہم میں سے اکثر ان مادی شیطانوں کا شکار ہو جاتے.پس روحانی دنیا میں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ایسی ہی کیفیتیں ہوا کرتی ہیں اور جس طرح ان بیماریوں سے بچنے کے لئے دنیا کے اہل علم ان کی نشاندہی کرتے ہیں ، خطرات سے پوری طرح متنبہ کرتے ہیں (Precautionary Measures) حفاظتی اقدامات جو پیش بندی کے طور پر کئے جاتے ہیں ان سے متعلق آپ کو بتاتے ہیں اور بہت سی ایسی بیماریوں سے انسان اس علم کی بناء پر بچ سکتا ہے کہ وہ بیماریاں کیا ہیں، کہاں کہاں پائی جاتی ہیں، کس طرح پھیلتی ہیں ، اور ان کے دفاع کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ قرآن کریم ایک ایسی کامل روحانی امراض کی شفا کی کتاب ہے کہ جس نے صرف بیماریوں میں مبتلا ہونے کے بعد شفا کے گر نہیں سکھائے بلکہ بیماریوں میں مبتلا ہونے سے پہلے ہی ان کے متعلق ہر قسم کے احتمالات سے ہمیں متنبہ کر دیا اس تفصیل سے ہر روحانی مرض خواہ وہ انفرادی ہو یا قومی ہو اس کے اوپر روشنی ڈالی ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایک بیماری ان بیماریوں میں سے ایسی ہے جو قوم کے Moral کو گرانے والی ہے، قوم کو مایوس کرنے والی ہے اور خطرات کے وقت یا شدید ابتلاؤں کے وقت اگر وہ کسی قوم کو لاحق ہو تو اس کی تقدیر کی کایا پلٹ سکتی ہے.جتنی قومیں بھی بعض ایسی روحانی بیماریوں کا شکار ہوکر بازیاں ہار جایا کرتی ہیں.چنانچہ جیسا کہ ایک دفعہ پہلے بھی میں نے اس بات پر روشنی ڈالی تھی، جرمن قوم میں جنگ کے دنوں میں جو Fifth Column کا تصور پیش کیا وہ یہی تھا کہ سب سے زیادہ طاقتور حملہ کسی قوم کے Moral پر ہوا کرتا ہے.اس لئے ایسے ایجنٹ خفیہ ہر جگہ پھیلا دیئے جائیں جو دن رات صبح شام با تیں کر رہے ہوں ہر قسم کی اور ان میں ایسی باتیں بھی شامل ہوں جو بالا رادہ قوم کے حوصلے کو گرانے والی ہوں، اپنے مقصد سے مایوس کرنے والی ہوں.ان لوگوں پر عدم اعتماد پیدا کرنے والی ہوں جو ان کے رہنما ہوتے ہیں.جن کے ہاتھوں میں ان کے انتظامی امور ہوتے ہیں.اپنے افسروں سے بد دل کرنے والی، اپنے ماتحتوں سے بددل کرنے والی غرضیکہ ایک با قاعدہ سازش کے نتیجے میں اور فکر کے نتیجے میں

Page 614

خطبات طاہر جلد ۶ 610 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء الله ایک با قاعدہ پلان (Plan) بنائی جاتی تھی اور اس کے مطابق پھر ان افواہوں کو پھیلا یا جاتا تھا.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں جبکہ بڑی تیزی کے ساتھ عرب سوسائٹی انتہائی شدید قسم کی روحانی بیماریوں سے نکل کر ایک عظیم الشان صحت مند دور میں داخل ہورہی تھی اور بڑی تیزی کے ساتھ روحانی ترقی کر رہی تھی اس وقت بھی اس قسم کے منصوبہ بندی کے ساتھ کئے جانے والے حملے مسلمان سوسائٹی پر ہورہے تھے.کچھ حملے تو وہ تھے جو تلوار اور تیر کے حملے تھے جو نظر آ جاتے تھے.اس کے علاوہ مدینہ میں ہر طرف افواہیں پھیلانے والے بھی موجود تھے ، شرارت کرنے والے موجود تھے، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے متعلق اعتماد اٹھانے والی باتیں کرنے والے موجود تھے ، آپ کی ازواج مطہرات امھات المؤمنین پر حملہ کرنے والے موجود تھے.مومنوں کے متعلق عموما بدزبانی کرنے والے اور ایسی باتیں پھیلانے والے موجود تھے جس سے خود مومنوں کی جماعت کا مومنوں کی جماعت کے متعلق اطمینان ختم ہو جائے اور اعتماد اٹھ جائے اور ان سب باتوں کو قرآن کریم نے محفوظ فرمایا ہے.تعجب ہوتا ہے اگر جو عام آدمی سرسری نظر سے دیکھنے والا ہو اس کو ضرور تعجب ہوتا ہے کہ کیا ضرورت تھی رسول اکرم ﷺ کے زمانے کے مومنوں اور مسلمانوں اور مدینہ میں رہنے والوں کے متعلق یہ نقشہ کھینچنے کی ؟ بعض نقشے ایسے خوفناک نظر آتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے اچھا اس زمانے میں بھی یہ باتیں ہوا کرتی تھیں حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ یہ قرآن کی سچائی کے دلائل میں سے ایک عظیم دلیل ہے.سچائی کی کتاب ہے کسی چیز پر پردہ نہیں ڈالتی.ہر بات کو محفوظ کرتی ہے اور کچی اور حقیقی تاریخ دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے.اعلیٰ سے اعلیٰ سوسائٹی میں بھی بیمار لوگ ہوتے ہیں اور اعلیٰ سے اعلیٰ سوسائٹی کو بیمار دکھانے والے لوگ بھی ہوتے ہیں.اچھے لوگوں کو برا کہنے والے بھی ہوتے ہیں اور بروں سے میں اچھے بھی دکھائی دیتے ہیں.الله ہر قسم کے پہلو جو ایک سوسائٹی میں جو ترقی کر رہی ہے صحت یا عدم صحت کے موجود ہیں وہ سارے قرآن کریم میں محفوظ فرما دیئے ہیں اور جو بیماریاں پھیلانے کا ذکر ہے ان میں ایک ایسی چیز ہے جس کو خاص طور پر میں نے آج کے لئے چنا ہے وہ یہی ہے کہ بعض لوگ سادگی سے عادتا اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ جو بات سنی اسے آگے پہنچا دیا.چنانچہ یہاں جن لوگوں کا ذکر ہے اس آیت میں جس کہ میں نے تلاوت کی ہے یہاں شریروں کا ذکر نہیں ہے وہ دوسری آیت میں ہے جس

Page 615

خطبات طاہر جلد ۶ 611 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء صلى الله کا میں آگے ذکر کروں گا.فرمایا کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں ان کو خواہ امن کی بات پہنچے خواہ خوف کی بات پہنچے انہوں نے آگے بات کرنی کرنی ہے.اتنی عقل نہیں کہ خود پہچان سکیں کہ بات مناسب بھی ہے کہ نہیں اس کے اندر کوئی بدی کے پہلو تو مضمر نہیں ہیں، شرارت تو نہیں مخفی.یہ ساری باتیں دیکھنے کی وہ بیچارے اہلیت نہیں رکھتے لیکن خود شرارت نہیں کرنے والے ورنہ وہ صرف خوف کی باتیں پھیلاتے.ایسے لوگوں سے الزام اٹھانے کے لئے قرآن کریم نے عجیب اسلوب اختیار فرمایا ہے.فرمایا ہے یہ لوگ ان کو تم متہم نہیں کر سکتے یہ بیچارے تو امن کی باتیں ہوں وہ بھی پھیلا دیتے ہیں، خوف کی باتیں ہوں وہ بھی پھیلا دیتے ہیں لیکن نصیحت فرمائی کہ تمہیں چاہئے کہ جب کوئی باتیں سنو تو ان لوگوں تک پہنچایا کرو جن کا ان امور میں انتظا می تعلق ہے جن کے سپر دخدا تعالیٰ نے معاملات کی باگ دوڑ رکھی ہے سپرد کی ہوئی ہے.وہ لوگ یا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ جب تک وہ ان میں موجود رہے پہلا حق ان کا تھا کہ ان تک یہ بات پہنچائی جائے.ان کو خدا نے فہم بخشا ہے، ان کو استطاعت عطا فرمائی ہے کہ وہ چھان بین کر سکیں اور پھر وہ بتائیں کہ اس بات کے پھیلانے میں کوئی عار تو نہیں، کوئی نقص کا خطرہ تو نہیں، کوئی شر کا پہلو تو نہیں لیکن اس کے علاوہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو ارادہ شرارت اور بدی کی نیت سے باتیں پھیلاتے ہیں.ان کے متعلق قرآن کریم نے بڑی سخت تنبیہ فرمائی ہے فرمایا:.لَبِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنْفِقُونَ وَالَّذِيْنَ فِي قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ وَالْمُرْجِفُونَ فِي الْمَدِينَةِ لَنُخْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُونَكَ فِيهَا إِلَّا قَلِيلان کہ اگر یہ منافق لوگ وہ لوگ جن کے دل بیمار ہیں ، وہ لوگ جو عادتا مد ینہ میں غلط خبریں پھیلانے والے ہیں اور نیت کے ساتھ شرارت کی خبریں پھیلاتے ہیں ، وہ اس بات سے غافل نہ رہیں کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قدرت رکھتا ہے کہ تجھے ان کے اوپر مسلط فرمادے اور ان کے پیچھے لگا دے.پھر وہ اس حال کو پہنچ جائیں کہ بہت شاذ کے طور پر تیرے ارد گرد دکھائی دیں گے ورنہ وہ اس جگہ کو چھوڑ کر باہر جانے پر مجبور ہو جائیں گے.تو بعض دفعہ بعض لوگ عمد أشرارت پھیلانے والے بھی ہوتے ہیں.ان دونوں آیات کا (الاحزاب: ۶۱)

Page 616

خطبات طاہر جلد ۶ 612 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء ایک گہرا تعلق ہے.قرآن کریم ہمیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ بے خیالی میں بغیر کسی بالا رادہ شرارت کے اگر تم باتیں کرتے ہوتے تو ذمہ داری سے مبر اقرار نہیں دئے جاسکتے کیونکہ اسی سوسائٹی میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اراداہ شرارت کے ساتھ بعض باتیں پھیلاتے ہیں.تم ان کا ذریعہ بن جاتے ہو، ان کا میڈیم (Medium) ہو جاتے ہو.تمہارے ذریعے باوجود اس کے کہ تم آغاز میں شر میں شامل نہیں تھے، تمہارے ذریعے وہ شر دوسروں میں پھیلتا ہے اور اس لحاظ سے تم الزام کے نیچے آجاتے ہو.اس لئے تمہیں اس عادت کو چھوڑنا پڑے گا.یہ عادت مجرمانہ عادت ہے جو شر کو پھیلانے کا موجب بنتی ہے.بعینہ اسی قسم کا تعلق ایک اور بیماری کا بھی بعض لوگوں سے ہے اور اس بیماری کا پھر اس سے بڑا گہرا تعلق ہے وہ ہے غیبت کی بیماری.چنانچہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِ اثْم وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا اَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ + ( الحجرات: ۱۳) اس میں فرمایا کہ وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا تم میں سے بعض بعض دوسرے کی غیبت نہ کیا کریں.کسی میں برائی دیکھتے ہیں تو ان کو یہ حق نہیں ہے کہ ان کی عدم موجودگی میں کسی بے تعلق شخص سے اس برائی کا ذکر کریں.چنانچہ اس مضمون کو آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر مزید تفصیل سے بیان کرتے ہوئے اس کی ایک ایسی مثال دی جس سے وہ تعلق کھل کر سامنے آجاتا ہے جو ان دونوں آیات کے درمیان ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی تھیں.فرمایا کہ اگر کوئی شخص کسی کی غیبت کرتا ہے اور وہ غیبت اس تک نہیں پہنچتی جس کی کی جارہی ہے.کوئی شخص اس برائی کی بات اس تک پہنچاتا ہے جس کے متعلق کی جا رہی ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی نے تیر مارا ہوکسی کی طرف اور اس کو لگا نہ ہو اس کے پاؤں کے نیچے قدموں میں آکے گر گیا ہو کوئی شخص اس تیر کو اٹھائے اور اس کے سینے میں گھونپ دے کہ یہ تو تمہارے سینے کے اوپر چلایا گیا تھا پہنچا نہیں میرا تو کوئی قصور نہیں میں تو نیچے سے اٹھا کر

Page 617

خطبات طاہر جلد ۶ 613 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء تمہارے سینے میں داخل کر رہا ہوں جو اصل مقصد تھا اس تیر کے چلانے کا.پس بعض لوگ تیر چلاتے ہیں بعض ان تیروں کو ان جگہوں تک پہنچاتے ہیں جہاں نہیں پہنچانا چاہئے.بعض شرارت کرتے ہیں، بعض شرارت کا آلہ کار ہو جاتے ہیں اور غیبت کا اس مضمون سے بھی بڑا تعلق ہے جو پہلی دو آیات میں بیان ہوا کیونکہ یہ جو بیماری ہے باتیں کرنے کی اس کا غیبت سے بڑا برا ہ راست سے گہرا تعلق ہے.باتیں کرنے والے باتوں کا چسکا لیتے ہیں اور جن کو باتیں کرنے کا چسکا پڑے کہ افواہیں مشہور ہو رہی ہیں کہ جی وہاں تو یہ بات ہورہی ہے وہاں یہ بات ہو رہی ہے، یہ یہ باتیں ہمیں پہنچی ہیں ہم تمہیں بتاتے ہیں.اس کے کئی قسم کے محرکات ہیں ایک تو سب سے سادہ سب سے پہلا محرک تو یہ ہے کہ ہر شخص کو صاحب علم بنے کا شوق ہے.یہ ظاہر کرنے کا شوق ہے کہ مجھے اس سے زیادہ پتا ہے جو تمہیں پتا ہے یہ خبر کسی کو نہیں پتا مجھے پتا لگی ہے.اس لئے جو بھی نئی خبر کسی کو سوسائٹی میں سناتا ہے وہ اس بات کا لطف لے رہا ہوتا ہے کہ میں تم سے زیادہ علم رکھتا ہوں.چنانچہ اس قسم کے لوگ پھر آگے کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں.باتیں کر کر کے مبالغے کی عادت پڑتی ہے کیونکہ خبر اگر سننے والوں کے دل میں کوئی تحریک پیدا نہ کرے، کوئی ارتعاش پیدا نہ کرے تو بعض دفعہ خبر سنانے والا شرمندہ ہو جاتا ہے.کوئی خبر سناتا ہے کہ اچھا اچھا یہی اتنی سی بات تھی کیا فرق پڑتا تھا پھر یہ کونسی کونسی سنانے والی بات ہے.تو جس کو عادت ہے اس قسم کا مزہ لینے کی وہ پھر اس میں مبالغہ شامل کرتا ہے.وہ کہتا ہے نہیں نہیں یہ اس طرح ہوا تھا واقعہ اور اس معمولی سے چسکے کے نتیجے میں ایک اور برائی جنم لینے لگتی ہے اور پھر مبالغہ میں ایک دوسرے سے مقابلے شروع ہو جاتے ہیں ایسے ایسے عجیب مبالغے بن جاتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے ان خبروں کو سن کے مگر جن سوسائٹیوں کو ان گپوں کی عادت پڑ جائے وہ پھر سننے والے بھی چسکے سے سن رہے ہوتے ہیں.چنانچہ بعض ہمارے علم میں ہیں ایسے لوگ بھی جو مشہور تھے کہیں مارنے میں ان کی ساری عمر گزرگئی اس قسم کی گتیں سنانے میں اور بعض لوگ جو ان کی مجلسوں کے عادی تھے وہ اپنی عمر کا ایک بڑا حصہ اس بات میں ضائع کر بیٹھے کہ ان کی گنتیں سننے کے لئے ان کی مجالس میں جاتے تھے.پتا تھا گئیں مارتے ہیں، پتا تھا جھوٹ ہے لیکن ایک جھوٹ سنانے کا عادی ایک جھوٹ سننے کا عادی بن گیا.

Page 618

خطبات طاہر جلد ۶ 614 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے اندرحسد کا مادہ پایا جاتا ہے وہ اس بیماری کا اکثر شکار ہو جاتے ہیں.ان کو سوسائٹی میں کچھ لوگ اچھے دکھائی دے رہے ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے کئی قسم کی نعمتوں یا انتظامی برتری سے نوازا ہوتا ہے اور کچھ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم تو ان چیزوں سے محروم ہیں وہ خود تو کچھ حاصل کر نہیں سکتے ان کی ٹانگ کھینچ کے ان کو نیچے گرا کر نسبتا اپنے قریب لے آتے ہیں یعنی اس کا نفسیاتی پس منظر یہی ہے کہ فاصلے کم ہوں، اونچے اور نیچے کے درمیان جو فا صلے ہیں ان میں کچھ تھوڑی سی کمی آجائے تو ایک اچھے آدمی کے متعلق کہیں گے وہ تو بہت برا آدمی ہے.ایک نیک آدمی کے متعلق کہیں گے تمہیں نہیں پتہ یہ یہ برائیاں وہ کرتا ہے ، ایک ایسا منتظم جس کے متعلق مشہور ہے کہ وہ عدل اور انصاف سے کام کرنے والا ہے اس کے متعلق کہیں گے تمہیں نہیں پتہ اس نے کتنی بڑی کاررکھی ہوئی ہے جماعت کی اور کیا ضرورت تھی اتنی بڑی کار کی ، اتنا خرچ اس نے کیا،فرسٹ کلاس میں چلا گیا اس کو کیا ضرورت تھی فرسٹ کلاس میں جانے کی.غرضیکہ کوئی نہ کوئی ایسا عذر وہ تلاش کر لیتے ہیں جس کے نتیجے میں جس شخص کی نیک شہرت ہے اس کی شہرت بد ہو اور لوگ یہ محسوس کریں کہ یہ ہم جیسا ہی ہے ایک.کوئی خاص ایسا آدمی نہیں وہ جو سمجھا جاتا تھا کہ بڑا فرق ہے ہم میں اور اس میں ایسی بات کوئی نہیں ہے اور ساتھ پھر اس کے خبر کا چسکا بھی پڑ جاتا ہے، پھر انتقام کا جذ بہ بھی پورا ہوتا ہے.جس شخص کو اپنے سے اچھا دیکھتے ہیں اس کو چوٹ لگا کر دل تھوڑی سی تسکین پاتا ہے اور ان کے اردگرد پھر وہ لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو جاتے ہیں جن کو ایسے لوگوں سے کسی قسم کا کوئی انتظامی شکوہ ہو، کسی قسم کی کوئی تکلیف پہنچی ہو اور گروہ بننا شروع ہو جاتا ہے پھر ان کے ارد گرد سادہ نو جوان جن کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہو رہا ہے اور کیا نہیں ہورہا کیونکہ عادت پڑی ہوتی ہے مجلسوں میں بیٹھنے کی اور باتیں سننے کی اور صحیح تربیت نہیں ہوتی جو اسلامی تربیت ہے ان آیات میں جس کا بیان ہے.عدم تربیت کے نتیجے میں وہ اپنا کوئی قصور ہی نہیں سمجھ رہے ہوتے ، وہ کہتے ہیں ہم تو بیٹھے ہیں یہ سنا رہے ہیں لیکن آہستہ آہستہ پھر دلوں میں زنگ لگ جاتا ہے.تو یہ ساری بیماریاں جس جس طرح سے پنپتی ہیں؟ کہاں کہاں پرورش پاتی ہیں؟ کن حالات میں پرورش پاتی ہیں؟ قرآن کریم میں تفصیل سے بیان ہوئی ہیں اور صرف یہ تین آیات نہیں متعدد آیات ہیں جن میں اس بیماری کے ہر پہلو کا تذکرہ فرمایا گیا ہے.

Page 619

خطبات طاہر جلد ۶ 615 خطبه جمعه ۲۵ ر ستمبر ۱۹۸۷ء خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن قوموں میں یہ بیماریاں آجائیں وہ ہلاکت کی طرف تیزی کے ساتھ بڑھنا شروع ہو جاتی ہیں اور وہ نہیں جانتیں کے دشمن مخفی طور پر ان پر حملے کر رہا ہے اور ان حملوں کو کامیاب بنانے کے لئے خود ان کو ہی استعمال کر رہا ہے.خصوصاً جب خطرات کے وقت ہوں جب قوموں پر ابتلا آئے ہوں اس وقت دشمن اور زیادہ تیزی اختیار کرتا ہے اور اور زیادہ بیدار مغزی کے ساتھ مومن کو ان بیماریوں کے حملوں کے خلاف مستعد ہونا چاہئے اور ہر دفاعی کوشش کرنی چاہئے.وہ دفاعی کوششیں کیا ہیں؟ بالکل سادہ بظاہر معمولی معمولی نظر آنے والی چند باتیں ہیں جوان سب بیماریوں کے خلاف عظیم الشان دفاع کی طاقت رکھتی ہیں.سب سے پہلے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا کہ کوئی کسی کی غیبت نہ کرے.ایک آدمی دوسرے کے خلاف بات نہ کرے اور اگر وہ غیبت کرتا ہے تو اس کی مثال ایسی مکروہ دی فرمایا اس کی مثال ایسی ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانے والا ہو.مومنوں کو فرمایا وہ اخوۃ ہیں: ایک دوسرے کے بھائی ہیں.مردہ بھائی کے اندر دو باتیں پائی جاتی ہیں ایک تو وہ موجود نہیں ہوتا بیچارہ دوسرا ویسے بھی دفاع کی طاقت نہیں رکھتا.مردے کے اوپر آپ جتنے چاہیں حملے کریں وہ اپنا دفاع کرہی نہیں سکتا.تو ایسا شخص جو غائب ہے، غائب ہونے کے لحاظ سے اس کی ایک مردے سے مشابہت پائی جاتی ہے اور جس کو پتا ہی نہیں کہ مجھ پر الزام کیا لگائے جار ہے ہیں اس بیچارے نے اپنا دفاع کیا کرنا ہے اور جو باتیں کرنے والے ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا وہ چسکا ہوتا ہے ان کو ، ان کے چسکے کے اظہار کے طور پر فرمایا مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہو، جسکے تو پورے کر رہے ہو لیکن بڑے ہی بد بخت ہو.یہ گوشت تو نہیں ہے چسکے پورے کرنے کے لئے یہ تو نہایت ہی ذلیل اور مکر وہ غذا ہے تمہارے لئے کیسی کامل مثال دی ہے؟ فطرت کے جو پوشیدہ راز ہیں وہ اس میں ظاہر کئے گئے ہیں.تو جو شخص ان باتوں کو سنتا ہے اور قبول کر لیتا ہے وہ بھی اس محفل میں شریک ہو جاتا ہے، وہ بھی اس دعوت میں سے حصہ پاتا ہے کیونکہ وہ بھی لذت حاصل کرتا ہے کچھ نہ کچھ اور ایسا ہی ہے جیسے کسی امیر آدمی کی دعوت میں کوئی غریب بھی پہنچ جائے اور کہے کہ آؤ، وہ کہتے ہیں نا! پنجابی میں صلح مارنا کہ آئیے آپ بیٹھیں تشریف لائیے وہ بھی ساتھ دو لقمے کھالیتا ہے.تو غیبت کرنے والے کے ساتھ

Page 620

خطبات طاہر جلد ۶ 616 خطبه جمعه ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۸۷ء شامل ہونے والا بھی شروع میں ویسے مجرم بنتا ہے اس کے ساتھ شریک ہوکر بعد میں پھر وہ خود عادی بنتا ہے اور دوسرا مرض جو عام انسانوں میں پایا جاتا ہے بات کو آگے پہنچانے والا اس کا ذکر فرما کے فرمایا کہ تم میں سے تو اکثر لوگ ایسے ہیں لاعلمی میں جو بات سنتے ہیں آگے کر دیتے ہیں.پس ایک طرف غیبت سنو گے اگر تم میں یہ عادت پائی گئی کہ بات آگے کرنی ہے تو تم وہ بات آگے کرنی شروع کر دو گے اور سوسائٹی میں ہر طرف یہ باتیں پھیل جائیں گی.پھر تیسرا درجہ وہ ہے کہ غیبت عام نفسیاتی بیماریوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک شریر ا نسان عمداً قوم کو تباہ کرنے کے لئے جھوٹی باتیں پھیلاتا ہے اور ایس سوسائٹی جو غیبت کے مرض میں مبتلا ہو اور غیبت کو برداشت کر چکی ہو، روز مرہ کی زندگی کا حصہ بنا چکی ہو اور جس کے لوگوں میں یہ عادت پڑ گئی ہو کہ آگے بات پہنچاتے ہیں وہ بہترین شکار ہیں ایسے دشمنوں کا اس سے بہتر فضا ان کو نہیں مل سکتی.پس یہ وہ فضا ہے جہاں جراثیم پھر وبا کی صورت اختیار کر جاتے ہیں تیزی کے ساتھ لوگ بیمار ہونا شروع ہوتے ہیں.اس لئے ضرورت ہے کہ جماعت ان باتوں کے خلاف متنبہ ہو.سب سے اوّل ذمہ داری اہلِ ربوہ کی ہے کیونکہ آج دشمن کی شرارتوں کا سب سے بڑا نشانہ ربوہ بنا ہوا ہے اور میں جانتا ہوں کہ اہل ربوہ میں اس قسم کی باتیں پھیلانے کے لئے آج ہی نہیں بلکہ جب سے ربوہ بنا ہے اس کے آغاز ہی سے بعض لوگ عمد امقرر کئے جاتے ہیں.دشمن بعض لوگوں کو خریدتے ہیں ان کو مقرر کرتے ہیں کہ جھوٹی باتیں پھیلاؤ اور ہر قسم کے لغو خیالات ان کے اندر جاری کئے جاتے ہیں ہر قسم کے الزامات لگائے جاتے ہیں ان کے بڑوں پر کہ جن کو سننے کے بعد جن کو برداشت کرنے کے بعد پھر ان کے اندر کئی قسم کی برائیاں پیدا ہو جاتی ہیں.اگر ایک الزام ہے مثلاً نا انصافی کا ظلم کا، بے حیائی کا جو ایسے انسان پر لگایا جا رہا ہے جس کی کوئی شخص عزت کرتا ہے یا کسی لحاظ سے اس سے بڑا ہے تو اس الزام کو برداشت کرنے کے نتیجے میں ان برائیوں کے علاوہ جو میں نے بیان کی ہے ایک اور برائی اس میں یہ پیدا ہوگی وہ یہ کہتا ہے اچھا جی ! جب لوگ یہ کرتے ہیں تو پھر ہم کیوں نہ کریں، جب بڑے ایسے کرتے ہیں تو پھر ہمارا کیا ہے ہم تو عام انسان ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا اور اس کے نتیجے میں اس سوسائٹی میں پھر اس قسم کے جواب ہر نصیحت کرنے والے کو ملنے لگ جاتے ہیں.آپ کسی سے کہیں کہ میاں ! تم اخلاق سے بات کرو کہ جی جانے دوفلاں صاحب جو ہیں وہ تو اس طرح بات کرتے ہیں.اپنی

Page 621

خطبات طاہر جلد ۶ 617 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء بچیوں کو پردہ کراؤ، کہ جانے دو جی فلاں ناظر ہے اور فلاں فلاں ہے اس کی بچیاں تو بے پر دپھرتی ہیں.یہ تو کچھ چیزیں جو سامنے نظر آنے والی ہیں کچھ چیزیں کثرت کے ساتھ ایسے جھوٹے الزام ہوتے ہیں جن کی کوئی بنیاد ہی نہیں ہوا کرتی اور چونکہ سوسائٹی اس مرض کا شکار ہو جاتی ہے اس میں دفاع کی طاقت نہیں رہتی ہر نصیحت کرنے والے کی نصیحت بے کار چلی جاتی ہے، ہر انسان کے اخلاق خطرے میں پڑ جاتے ہیں وہ دن بدن ان جھوٹی خبروں کی وجہ سے خود بھی زیادہ ذلیل ہوتا چلا جاتا ہے اور زیادہ نیچے گرتا چلا جاتا ہے.آج کل جن حالات میں سے جماعت گزررہی ہے ہم پر یقینا بعض نہایت خبیث فطرت لوگ جاسوسوں کے طور پر، نمائندوں کے طور پر مسلط کئے جاتے ہیں، کچھ پکڑے جاتے کچھ نہیں پکڑے جاتے مگر قرآن کریم نے جن باتوں کی طرف ہمیں مطلع فرما دیا ہے کھول کھول کر ان باتوں پر عمل کریں تو خواہ آپ کو کوئی منافق نظر آئے یا نہ آئے ، خواہ کوئی جاسوس ہو یا اتفاقا بات کرنے والا ہو یہ بیماری آپ کی سوسائٹی میں پھیل ہی نہیں سکتی.چنانچہ اس کا سب سے اہم علاج یہ بتایا کہ جب تم کوئی بات سنتے ہو تمہارا حق نہیں ہے کہ اس بات کو آگے پہنچاؤ.تمہارا فرض ہے کہ جو لوگ ان باتوں پر نگران مقرر ہیں ان تک اس بات کو پہنچاؤ.یہ نہیں فرمایا کہ جس کے متعلق بات کی جاتی ہے اس کو پہنچاؤ، اس کے متعلق تو خود آنحضرت ﷺ منع فرما چکے ہیں کیسی عظیم الشان بات ہے.فرمایا غیبت کو اس تک پہنچانے کا حق تمہارا نہیں ہے جس کو کہا جارہا ہے ورنہ پھر اور قسم کے فساد پھیلنے شروع ہو جائیں گے.جن کام ہے اس قسم کے شریروں کو پکڑنے کا ان تک پہنچوان کو بتاؤ کہ یہ بات ہم نے سنی اور جس سے سن رہے ہو اس کو قرآن کریم کا یہ پیغام دو که لَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا تمہیں کیا حق ہے تم کسی کی بات ہم تک پہنچا رہے ہو، ہمارا تعلق کیا ہے اس بات سے؟ پس اگر یہ باتیں پھیلتی ہیں اور بعض امور کے متعلق مجھے اطلاع ہے کہ پھیلائے جار ہے ہیں تو ان کا پھیلنا بتارہا ہے کہ سوسائٹی میں کوئی بیماری آگئی ہے.جو دفاع کی قوتیں قرآن کریم نے عطا فرمائی ہیں وہ یا موجود نہیں ہیں یا کمزور ہو چکی ہیں.اگر ہر فر دسوسائٹی کا اپنے آپ کو اس بات کا پابند کر لے کہ بات کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو، بڑا ہو یا چھوٹا ہو عزیز ہو یا دشمن ہو قطع نظر اس کے کہ بات

Page 622

خطبات طاہر جلد ۶ 618 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء کرنے والا کون ہے اگر ایسی بات کرے گا جس کا اس کے ساتھ تعلق نہیں ، جس کا میرے ساتھ تعلق نہیں جو ایک خبر اور ایک افواہ پھیلانے والی بات ہے تو میں قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق اسے افسران متعلقہ تک ضرور پہنچاؤں گا.اگر ہر شخص یہ فیصلہ کرلے تو اس بیماری کے پھیلنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.جتنا مرضی کوئی خرچ کرے بعض منافقوں کو خریدنے پر جتنی چاہے افواہیں بنائے ہر قدم پر اس کے لئے روک بن جائے گی ، ہر قدم پر ایک Resistance قائم ہو جائے گی اور وہ چیز آگے بڑھ ہی نہیں سکتی.جس طرح Non-Conductors ہوتے ہیں بعض مسالے بعض مادے ان کے اندر بجلی یا گرمی سرایت نہیں کر سکتی ، آگے بڑھ نہیں سکتی کیونکہ ان کا ہر ذرہ Resist کرتا ہے کہتا ہے نہیں ! مجھ سے آگے نہیں جاؤ گے تم سوائے اس کے کہ مجھے جلا دو.چنانچہ جو گرمی کے Non-Conductors ہیں ان کے اندر ایک غیر شعوری قربانی کا ایک عجیب دلچسپ منظر دکھائی دیتا ہے.ہر ذرہ جس کے اوپر گرمی حملہ کرتی ہے وہ آگے گویا سینہ تان کر کھڑا ہو جاتا ہے کہ میں نے پچھلے ذرے تک اس کو نہیں پہنچنے دینا.ہاں میں جل جاؤں گا تو پھر تمہیں حق ہے کہ تم پچھلے تک پہنچ جاؤ سے پہلے میں تمہیں نہیں جانے دوں گا.تو وہ مومنوں کی سوسائٹی جس کو قرآن کریم نے باشعور طور پر افواہوں کے خلاف مستعد کر کے کھڑا کر دیا ہو اور ہر فرد کو پابند کر دیا ہو کہ جب تک تم تک بات پہنچے تو یہ فیصلہ کئے بغیر کہ یہ امن کی بات ہے یا خوف کی بات ہے، معصوم بات ہے یا شرارت والی بات ہے.ایسی بات جو افواہ کا رنگ رکھتی ہے تمہارا فرض ہے کہ تم متعلقہ افراد تک اس کو پہنچا دو اور تمہارا فرض ہے کہ ایک شخص کے خلاف نفرت پیدا کرنے کی خاطر اس بات کو تحقیق سے قبل متعلقہ افراد کو پہنچائے بغیر اس شخص کو نہ پہنچاؤ جس کو تم متعلق سمجھ رہے یا جس کے متعلق بات کی جارہی ہے اور افسران متعلقہ کو پہنچاؤ.اگر یہ رسم شدت کے ساتھ قائم ہو جائے تو ایسی سوسائٹی بیماریوں کے پھیلنے سے بالکل بالا ہو جاتی ہے اور محفوظ ہو جاتی ہے.پس اہل ربوہ کو خصوصیت کے ساتھ اور دنیا کی تمام جماعتوں کے افراد کو بالعموم یہ نصیحت کرتا ہوں کہ یہ عادت بنالیں اپنی اپنی ایسی عادت بنالیں جسے فطرت ثانیہ کہا جاتا ہے کیونکہ ایسے حالات آتے رہتے ہیں آج آپ امن میں ہو سکتے ہیں مگر وہ جراثیم موجود ہیں جو آپ کو نظر نہیں آرہے.کل ہوسکتا ہے فضا بدل جائے.اگر آج آپ کی عادتیں بگڑی ہوں گی اور آپ کو عادت ہوگی باتیں سُن کر

Page 623

خطبات طاہر جلد ۶ 619 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء آگے پہنچانے کی تو آپ جراثیم کے شکار کے لئے ایک موزوں زمین کے طور پر تیار بیٹھے ہیں، آپ پر حملہ ہوسکتا ہے.اس واسطے سے آج نہیں تو کل کل نہیں تو پرسوں آج کی نسل پر نہیں تو اگلی نسل پر جب بھی خطرے کا وقت آئے گا آپ دفاع کے قابل نہیں رہیں گے.اس لئے غیبت کے خلاف جو قرآن کریم نے عظیم الشان تعلیم دی ہے اسے معمولی نہ سمجھیں.چوکس ہو کر اس کے خلاف ہمیشہ نگران رہیں اور اپنی نسلوں کو بھی نگران کریں.عجیب بات ہے کہ غیبت جہاں سے پھوٹتی ہے، جہاں زیادہ بلتی ہے یعنی عموما مستورات میں ان کی غیبت عموما قومی طور پر اتنی نقصان دہ نہیں ہوا کرتی کیونکہ ان کی غیبت کی سطح چھوٹی ہوتی ہے.عموما عورتوں کی باتیں عورتوں کے خلاف کسی کے لباس پر طعنہ، کسی کی ادا ئیں خراب بتائی جاتی ہیں، کسی کے کردار کے اوپر معمولی ساحملہ لیکن مردوں میں جب یہ بیماری پھیلتی ہے تو نہایت خطرناک شکل اختیار کر جاتی ہے.ایک تو یہ کہ مردوں کو ویسے اپنے کاموں کی نوعیت کے لحاظ سے زیب نہیں دیتی اور دوسرے وہاں قومی نقصان پہنچانے کا موجب بنتی ہے.عورتوں میں آپ بہت کم سنیں گے کہ انتظامی امور کے متعلق بحثیں ہو رہی ہوں کہ فلاں منتظم اعلیٰ یوں کرتا ہے اور فلاں یوں کرتا ہے ان بیچاریوں کی غیبتیں بھی چھوٹی چھوٹی کپڑوں کے متعلق ہنجروں کے متعلق اسی قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کے متعلق تھوڑا سا چسکا پورا کیا اور ایک مردہ بہن کا گوشت کھایا اور چھٹی کر لی لیکن جب مرد غیبت کرتے ہیں تو وہ پھر بڑی تباہی مچاتے ہیں وہ تو یوں لگتا ہے جیسے قبرستان اکھیڑ اکھیڑ کر کھائے جارہے ہیں اور پھر بھی بھوک بند نہیں ہوتی ان کی.اس لئے بہت خطرناک بیماری ہے قرآن کریم نے بے وجہ اس پر زور نہیں دیا.صلى الله آنحضرت ﷺ نے متعدد بار ، بارہا سوسائٹی کو غیبت سے پاک رکھنے کے لئے نصائح فرمائیں اور افواہیں پھیلانے والوں کو باز رکھنے کی تلقین فرمائی.اگر ایسا نہیں کرو گے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ تم پر پھر ایسے لوگوں کو مسلط کرے گا، ایسے مومنوں کو مسلط کرے گا جو پھر تمہیں اس کی سزا دیں گے.یعنی یہ نہ سمجھو کہ یہ کمزوری کی حالت اسی طرح رہے گی، یہ کمزوریاں اس میں بڑی عظیم الشان خوشخبری ہے.فرمایا یہ جو غیبت پھیلانے والے اور غلط باتیں پھیلا کر مسلمانوں کے حوصلے کمزور کرنے والے نیچے گرانے والے لوگ ہیں یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں یہ غالب

Page 624

خطبات طاہر جلد ۶ 620 خطبه جمعه ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۸۷ء آجائیں گے، یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں مسلمان اور زیادہ کمزور ہو جائیں گے اور کلیۂ مغلوب ہو جائیں گے.کیسی لطافت کے ساتھ ان لوگوں کی ناکامی اور مسلمانوں کے غلبے کی خوشخبری دے دی.فرمایا جو چاہتے ہو کر لو اس تقدیر کو تم نہیں بدل سکتے کہ بالآخر محمدمصطفی ہے اور اس کے ماننے والے مومنین کو خدا تعالیٰ غلبہ عطا فرمائے گا اور وہ ایسی طاقت پا جائیں گے کہ پھر تمہاری شرارتوں کی تمہیں سزا دے سکیں گے.آج کمزوری کی حالت میں دیکھ کر تم جو چاہے کرتے پھرتے ہو لیکن بے خوف ہوکر زندگی نہ گزار و یہ وقت بدلنے والے وقت ہیں.پس جماعت کی کمزوری سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر جو منافقین ایسی باتیں پھیلاتے ہیں جس سے جماعت کو کمزور کرنا مقصود ہے ان کو میں قرآن کی زبان میں متنبہ کرتا ہوں کہ تم لا زما نا کام ہو گے یہ ایک زندہ جماعت ہے خدا کے فضل کے ساتھ اس کی نگرانی کرنے والے خدا کے فضل سے زندہ ہیں، ان نگرانی کرنے والوں کا ایک خدا ہے جو ان پر ہمیشہ نگران ہے اور ان کی مدد کو ہمیشہ مستعد رہتا ہے.اس لئے تم ناکام رہو گے، تمہاری افواہیں ناکام رہیں گی اور وہ وقت آئے گا جبکہ تم ان شرارتوں کی سزا دے جاؤ گے.اس لئے تم نے تو بہر حال ناکام رہنا ہے میرے اصل مخاطب تو وہ مومن ہیں جو کسی نہ کسی حد تک ان بیماریوں میں ملوث ہو جائیں گے یا ہو جاتے ہیں اور جن کے نتیجے میں جماعت مومنین کو دکھ ضرور پہنچتا ہے.غلبے کی آخری تقدیر تو نہیں بدل سکتی جیسا کہ بیان فرمایا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ پھر مومنوں کی سوسائٹی ضرور دکھ اٹھاتی ہے.حضرت عائشہ پر جب الزام لگا اور کچھ بدبختوں نے اس کو پھیلا دیا تو کتنی شدید تکلیف پہنچی ہے مومنوں کی سوسائٹی کو.وہ نامراداور نا کام ہوئے یہ درست ہے لیکن ایک مہینہ کتنی اذیت اٹھائی حضرت عائشہ صدیقہ نے.حضرت اقدس محمد مصطفی ہو نے کتنا دکھ اٹھایا اور سارے صحابہ کی جو کیفیت تھی کرب کی اس کی تفصیل تو بیان نہیں ہوئی لیکن آپ اندازہ کر سکتے ہیں.پس یہ خیال کر لینا کہ چونکہ غلبہ آخری ہمارا ہو گا اس لئے فرق نہیں پڑتا، ایک احمقانہ خیال ہے تکلیف ضرور پہنچتی ہے.کوئی آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ کوڑھ کا علاج نکل آیا ہے اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا مجھے بے شک کوڑھ ہو جائے میں نے آخر ا چھے ہونا ہی ہونا ہے.کوئی کہے کہ جی ! وہ زمانہ گزر گیا جب رسل کا علاج نہیں ہوا کرتا اب دو سال کی ٹکیاں کھانی ہے اور دوسال کے بعد میں ٹھیک ہو جاؤں گا

Page 625

خطبات طاہر جلد ۶ 621 خطبه جمعه ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۸۷ء اس لئے بے شک ہو سل مجھے.ایسے آدمی کو پاگل کا بچہ تو کوئی کہ سکتا ہے کوئی اس کو معقول درجہ تو نہیں دے سکتا.اس لئے غلبے کی پیشگوئی اس لئے کی گئی ہے کہ یہ بتا دیا جائے کہ دشمن ناکام ہوگا، مومن پر موت نہیں آسکتی لیکن تنبیہ یہ کی گئی ہے کہ تمہارے لئے دور ستے ہیں.ایک صحت کا رستہ ہے توانائی کے ساتھ ، مضبوطی کے ساتھ ، چھلانگیں لگاتے ہوئے ترقی کی راہوں پر آگے بڑھو اور ایک رستہ ہے گھسٹ گھسٹ کے، گرتے پڑتے ، کراہتے ہوئے مریضوں کی طرح تم اس منزل تک پہنچو جہاں تم نے بہر حال پہنچنا ہی پہنچنا ہے.تو کون سا رستہ ہے جو تم اختیار کرو گے؟ ذلت کے ساتھ گھٹے ہوئے تکلیفیں اٹھا کر اس منزل تک پہنچنا ہے جس طرح خدا تمہیں چاہتا ہے.غازیوں کی طرح چھلانگیں لگاتے ہوئے ہمت و حوصلے کے ساتھ ہر قدم پر لطف اٹھاتے ہوئے وہاں پہنچنا ہے.پس قرآن کی تعلیم کو توجہ سے سنا کریں اور اس پر عمل کیا کریں اور بھولا نہ کریں بات کو.یہ بات ایک دفعہ ربوہ میں میں نے خطبہ میں کہی تو کچھ عرصے تک یہ رپورٹیں ملیں کہ بڑا فرق پڑ گیا ہے کچھ عورتوں کے خط آنے لگے کہ جی ! اب تو ہم بھی بات کرتی ہیں تو خیال آتا ہے اوہو! یہ تو غیبت ہو رہی ہے پھر رکھتی ہیں اور کچھ عرصے کے بعد پھر بھول گئیں.فَذَكِرانْ نَفَعَتِ الذِّكْرَى (الاعلیٰ : ۱۰) کا یہی تو مطلب ہے کہ لوگ بھولنے والے ہیں مگر ان کو یاد کروانا ہے اور بہر حال کرواتے چلے جانا ہے لیکن یہ باتیں ایسی نہیں ہیں جن کو آپ جلدی بھول جائیں.ان کا ہماری قومی زندگی اور قوی موت سے تعلق ہے.اس لئے یا درکھیں اور ہر سننے والے کو میں سب سے زیادہ پابند کرتا ہوں.اگر کوئی شخص سنتا ہے اور متعلقہ افسران کو یا مجھے براہ راست مطلع نہیں کرتا کہ آج میں نے ربوہ کی فلاں دکان پر بیٹھ کر یہ بات سنی ہے یا فلاں بازار میں چلتے ہوئے ایک شخص نے مجھے یہ قصہ سنایا یا فلاں دکان پر یہ باتیں ہو رہی تھیں اور فلاں فلاں صاحب موجود تھے، کیا ان کا ردعمل تھا ؟ اگر وہ مجھے نہیں پہنچاتا تو وہ پھر میری بات کا انکار کرنے والا ہے وہ قرآن کریم کی تعلیم کی حکمت کو نہیں سمجھتا.متعلقہ لوگوں تک اگر یہ سارے لوگ سننے والے باتیں پہنچانی شروع کر دیں تو بیماری کا آنا فانا قلع قمع ہو سکتا ہے.حو صلے مر جاتے ہیں ان لوگوں کے جو ایسی باتیں پھیلاتے ہیں.ایک آدمی بھی اگر جرات سے صحیح حالات کی رپورٹ کر دے تو اسی سے ہی ان مریضوں کی حوصلہ شکنی ہو جاتی ہے جو آگے مرض پھیلانے والے مریض ہیں.

Page 626

خطبات طاہر جلد ۶ 622 خطبه جمعه ۲۵ ستمبر ۱۹۸۷ء تو اس لئے ہر احمدی جو سنتا ہے وہ اس بات کو یاد رکھے کہ وہ جوابدہ ہے اور مجھے جوابدہ کا مطلب ہے کہ بالآخر خدا کو جوابدہ ہے کیونکہ میری تو کوئی بھی حیثیت نہیں ہے جس میں میں آپ سے بات کر رہا ہوں سوائے اس کے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے ایک منصب پر کھڑا کیا ہے.پس اس منصب کی رعایت سے میں بات کر رہا ہوں کہ آپ میں سے ہر شخص جوابدہ ہے اگر وہ باتیں سنے گا اور سن کر آگے پہنچانے کی عادت نہیں ڈالے گا تو پھر وہ اس بیماری میں آگے پھیلانے کے لئے ایک میڈیم (Medium) بن رہا ہے اور اس سزا سے وہ مبر انہیں ہوسکتا جو بیماروں کی سزا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ایک صحت مند وجود کی طرح بیماریوں کے خلاف دفاع کرنے کی اہلیت پیدا کریں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہو گی جمعہ کے معا بعد.ان میں سے ایک ہمارے ملک حبیب الرحمان صاحب مرحوم ہیں جو ربوہ میں ایک لمبے عرصے تک مختلف جماعتی خدمتوں پر مامور رہے اور خصوصا مشکل حالات میں سکول کی انہوں نے بہت خدمت کی ہے کیونکہ انسپکٹر سکولز رہے تھے بڑے لمبا عرصہ اس لئے ان لوگوں سے تعارف تھا ان کا جو اس محکمے سے تعلق رکھنے والے ہیں کئی ان میں سے بڑے افسر تھے ان کے مزاجوں کو جانتے تھے کس طرح بات کرنی ہے تو شدید سختی کے اور شرارت کے دور میں بھی ان کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے میٹھا پھل دیا اور کئی قسم کی تکلیفوں سے ہمارے بچے بچ جاتے رہے.ویسے بھی خدمتیں اور بھی کئی کرنے کا موقع ملا.ہمارے ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب کے ماموں تھے اور ان کے ایک بھائی چوہدری عبد الرشید صاحب بھی ہماری انگلستان کی جماعت میں بہت معروف ہیں ،اچھے خدمت کرنے والے ہیں.دوسرا جنازہ ہے والدہ صاحبہ مکرم جہانگیر محمد صاحب جوئیہ.یہ ہمارے خوشاب کے امیر ہیں جنہوں نے تمام امراء میں سب سے زیادہ کلمہ شہادہ کے لئے قربانیاں دی ہیں اور مشقتوں اور تکلیفوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ کر پھر آگے قدم بڑھا کر قربانیاں دی ہیں.ایک موقع پر میں نے ان کو لکھا بھی کہ آپ اب بیج (Badge) لگانا تو فرض نہیں ہے مگر جو لگاتے ہیں اس حق کی خاطر کہ ہاں ہمارا حق ہے فرض ہو یا نہ ہو وہ قربانی دے رہے ہیں ساری جماعت کے لئے اور اس کلمے کی عظمت کے لئے قربانی دے رہے ہیں لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر فر دضرور پیج لگا کے پھرے.آپ کے

Page 627

خطبات طاہر جلد ۶ 623 خطبه جمعه ۲۵ ؍ستمبر ۱۹۸۷ء سپر د جماعت کی ذمہ داریاں ہیں وہ جیل میں بیٹھ کر تو آپ پوری نہیں کر سکیں گے.اس لئے آپ چھوڑ دیں اس بات کو اب اور میں کہہ رہا ہوں اس لئے آپ کو کوئی اس میں تر قد نہیں ہونا چاہئے جماعتی کاموں کی خاطر آپ کو امیر مقرر کیا گیا ہے، جماعت قربانیاں دے رہی ہے ضروری تو نہیں کہ ہرا میر بیج لگا کر پھرے.اس کا ان کے اوپر ایسا اثر پڑا کہ مجھے اطلاع آئی کہ ہر وقت جیل میں روتے رہتے ہیں کہ میں اب نہیں کر سکتا یہ قربانی، مجھے روک دیا گیا ہے.اس پر پھر میں نے ان کو لکھا پھر ٹھیک ہے جو چاہیں کریں، اللہ توفیق دے آپ کے نائب کو کہ وہ آپ کے کام سنبھال لے.ان کی والدہ کا اس قید کی حالت میں وفات پانا اور پھر ان خصوصی حالات میں جبکہ والدہ بیٹے سے نہیں مل سکتی تھی بیٹے کو یہ احساس کہ میں نہیں جاسکا کافی جذباتی لحاظ سے تکلیف دہ صورتحال ہے لیکن یہ خدا نے فضل کیا کہ عارضی طور پر ان کو دس دن کی Bail مل گئی اور یہ والدہ کے جنازے میں شامل ہو سکے.تیسرا جنازہ ہمارے ایک ماموں زاد بھائی سید نسیم احمد شاہ صاحب کا ہے جو سیدہ مہر آپا جو ہماری والداؤں میں سے ایک والدہ ہیں ان کے چھوٹے بھائی کا ہے.کھیلوں میں ہوتا ہے نا! Best of three تو یہ تین بھائی ہیں ان سب کو ہمیشہ مذاق سے کہا کرتا تھا کہ تم میں سے نسیم Bestof three ہے کیونکہ خدمت دین کے لحاظ سے ، جماعتی تعلق کے لحاظ سے، منکسر مزاجی اور خدمت لوگوں کی کرنا ، خدا تعالیٰ نے اس لحاظ سے ان میں بڑی خوبیاں رکھی تھیں.غیر معمولی خدا تعالیٰ نے اس شخص میں محبت اور خدمت کا جذبہ اور خوش اخلاقی عطافرمائی تھی تو نو عمری میں سب سے پہلے انہیں کو خدا تعالیٰ نے بلانا تھا بہر حال جو بھی اس کا مقدر ہے.کینیڈا میں ان کی وفات ہوئی اور آج ہی جمعہ کے دن ربوہ میں ان کی تدفین ہوئی تھی اور جنازہ ہونا تھا.مجھے پتانہیں کس وقت وہاں ہونا ہے بہر حال پچھلے جمعہ ان کی وفات ہوئی ہے اور نفش آج صبح پہنچی ہے ربوہ اب تو وہاں دیر ہو چکی ہوگی.بہر حال ان تینوں کے علاوہ بھی کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہو گی جن کا اعلان میں نے کرنے کے لئے کہا تھا ( اعلان ہو چکا ہے ) تو ان سب کو اپنی خاص دعاؤں میں یا درکھیں.

Page 628

Page 629

خطبات طاہر جلد ۶ 625 خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۸۷ء امریکہ احمدیوں کو نصائح.اپنا سب کچھ اللہ کے سپر د کر کے اس کی حفاظت میں آجائیں.اللہ نے آپ کو دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے جنا ہے.(خطبه جمعه فرموده ۱/۲ اکتوبر ۱۹۸۷ء بمقام واشنگٹن امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ مرتبہ جب مجھے امریکہ آنے کی توفیق ملی تھی یہ 1978ء کے وسط کی بات ہے گویا تقریباً نو سال گزر چکے ہیں.گزشتہ مرتبہ اگرچہ میرا اسفر ایک انفرادی حیثیت سے تھا لیکن طبعا جماعت کی محبت کے نتیجے میں کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس میں کسی جماعت سے ملاقات ہوسکتی ہو اور نہ کی ہو.چنانچہ اس کے نتیجے میں مجھے تفصیلاً اس زمانے میں جو موجود جماعتیں تھی ان میں سے بھاری اکثریت سے تعارف حاصل ہوا اور شاید ایک یا دو مقامات ایسے تھے جہاں جماعت تو تھی لیکن مجھے جانے کا موقع نہ مل سکا اور جہاں بھی گیا وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے انفرادی طور پر بھی دوستوں سے واقفیت کی توفیق ملی اور زیادہ قریب سے یہاں کے مسائل کو سمجھنے کی بھی توفیق ملی.اگر چہ اس سفر میں ابھی مجھے امریکہ پہنچے ہوئے صرف دو روز ہوئے ہیں اس لئے تفصیلاً موازنہ تو میں نہیں کر سکتا.یہ تو سفر جوں جوں آگے بڑھے گا زیادہ موقع ملے گا دوستوں سے ملنے کا تفصیل سے ان کے حالات معلوم کرنے کا ، ان کے چہرے سے اندازے لگانے کا.اس وقت نسبتاً

Page 630

خطبات طاہر جلد ۶ 626 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء زیادہ قطعی طور پر میں موازنے کا اہل ہو سکوں گا لیکن سردست یہ خوش کن پہلو تو بہت ہی ظاہر و باہر ہے کہ گزشتہ دورے کے مقابل پر آج امریکہ کی جماعتوں کو بہت زیادہ متحکم مراکز حاصل ہو چکے ہیں اور بالعموم نظام جماعت سے وابستگی کے معیار میں بھی نمایاں اضافہ معلوم ہوتا ہے.بہت سے ایسے چہرے ہیں جو آج میں دیکھ رہا ہوں جو میرے لئے اس پہلو سے نئے ہیں کہ گزشتہ سفر میں وہ دکھائی نہیں دے رہے تھے.اس کی کئی وجوہات ہیں ان میں سے ایک تو یہ بھی ہے کہ میرا پہلا سفر محض انفرادی حیثیت سے تھا اور باہر کے رہنے والے دوستوں کے لئے نہ ضروری تھانہ ان کے دل میں کوئی طبعی خواہش تھی کہ وہ سفر کر کے تشریف لائیں اور جہاں میں جمعہ ادا کروں وہاں وہ بھی ادا کریں.اس لئے طبعی طور پر خلیفہ وقت کے دورے اور ایک عام احمدی کے دورے کے اندر زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے.دوسرے ایک یہ بھی وجہ ہے اور کچھ معاملات میں میں جانتا ہوں کہ یہ بھی ہوگی کہ پہلے ایسے لوگ بھی تھے جو یہاں رہتے ہوئے بھی جماعت سے تعلق نہیں رکھ رہے تھے.اس تعلق نہ رکھنے کی وجہ ایک تو اچھے مرکز کا فقدان تھا.بعض ایسے دوست تھے جن سے میں نے خود پوچھا کہ آپ جہاں تک میر اعلم ہے جب پاکستان میں یا ہندوستان میں تھے آپ کا تعلق جماعت سے اچھا تھا اب میں آپ کو نیو یارک کے مرکز میں نہیں آتا دیکھتا کیا وجہ ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ وہ علاقہ ایسا ہے وہاں جانا خطر ناک ہے وہاں ہم اپنے بچوں کو نہیں لے جاسکتے اور ایسا ماحول ہے تاریک کہ آپ کو اندازہ نہیں آپ تو آج آئے ہیں کل چلے جائیں گے یہاں تو Mugging بڑی ہوتی اور یہ ہوتا ہے اور وہ ہوتا ہے.اس سے مجھے عام طور پر پاکستانی دوستوں کے مزاج کا علم ہوا اگر چہ کسی حد تک یہ بات درست تھی کسی حد تک یہ عذر لائق پذیرائی ضرور تھا لیکن اس حد تک نہیں کہ انسان اپنے ہاتھوں سے اپنا دین کھو بیٹھے، اس حد تک نہیں کہ اتنی عظیم قربانی دے کہ جماعت کے ساتھ تعلق توڑ بیٹھے اور دور ہو جائے اور نظام جماعت سے جو انسان کی زندگی وابستہ ہے خود اس رگ کو قطع کر لے.چنانچہ اس پہلے تجربے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ جہاں کہیں بھی ایسے مراکز ہوں جہاں سے زیادہ خطرات لاحق ہوں میں وہیں جا کے ٹھہروں گا اور پسند کروں گا کہ اپنے ان بھائیوں کے درمیان ٹھہروں جن کو بدبختی سے اور بدقسمتی سے بعض لوگ اپنے سے گھٹیا سمجھتے اور نفرت کی نظر سے دیکھتے تھے تا کہ میرے ملنے کے بہانے ہی کچھ ایسے دوست وہاں آجائیں جو پہلے نہیں آسکتے تھے یا نہیں آیا کرتے تھے.

Page 631

خطبات طاہر جلد 4 627 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء چنانچہ اس فیصلے کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت سی ایسی جگہوں پہ مجھے جانے کا اتفاق ہوا جن کو علاقوں کے لحاظ سے خطرناک علاقہ سمجھا جاتا تھا اور میرے ساتھ کوئی مرد بھی اور نہیں تھے میرے بیوی تھی ، دو بیٹیاں تھیں، دو جوان بیٹیاں اور اگر خطرہ لاحق ہوسکتا تھا تو اس حالت میں مجھے زیادہ خطرہ لاحق ہوسکتا تھا لیکن میں جانتا تھا کہ جب خدا کی خاطر انسان ایک عزم کر کے ایک نیک قدم اٹھاتا ہے تو لازما اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت بھی میسر آتی ہے.چنانچہ وہ بھی ایسے حیرت انگیز طریق پر آئی کہ مقتل ششدر رہ جاتی ہے ، وہم وگمان میں بھی انسان کے نہیں آسکتا کہ عام حالات میں انسان کے ساتھ ویسا سلوک ہوسکتا ہے.یہ میں اس لئے آپ کو بتارہا ہوں کے اس وقت میں خلیفہ وقت تو نہیں تھا اس وقت ایک جماعت کا ایک عام فرد تھا جس کے سپر د جماعت کی کوئی بہت بڑی ذمہ داری نہیں تھی اور یہ سفر بھی ذاتی نوعیت کا سفر تھا اس کے باوجود جب میں نے ایک فیصلہ خدا تعالیٰ کی خاطر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس رنگ میں حیرت انگیز نصرت فرمائی کہ اس کا وہم و گمان بھی خود میرے ذہن میں نہیں تھا کہ اس حد تک اللہ تعالیٰ محبت اور پیار کا سلوک فرمائے گا.آپ میں سے ہر ایک خدا کو اسی طرح پیارا ہے کیونکہ خدا اپنے بندوں کے درمیان تفریق نہیں کرتا.آپ میں سے ہر ایک خدا کو اسی طرح عزیز ہے کیونکہ جو خدا کو عزیز رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ ضرور انہیں عزیز رکھتا ہے.اس کی نظر میں نہ کوئی کالا ہے نہ کوئی گورا ہے نہ کوئی شمالی ہے نہ کوئی جنوبی.اس نے جو رسول ہمیں عطا فرمایا اس کے نور کے متعلق بیان کیا لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّة ( النور : ۳۶) وہ ایسا نور ہے جو مشرق اور مغرب میں تمیز نہیں جانتا، وہ مشرق کو بھی اسی طرح روشن کرنے والا ہے جس طرح مغرب کر روشن کرنے والا ہے.پس میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس ملک میں رہتے ہوئے اگر آپ خدا کی خاطر اپنے دلوں میں کچھ نیک پاک ارادے قائم کریں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور آپ کی نصرت فرمائے گا اور غیر معمولی طور پر آپ سے پیار اور محبت کا سلوک فرمائے گا.بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں لیکن ایک مختصر سا واقعہ میں آپ کو بتا تا ہوں غالباً پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کر چکا ہوں کسی خطبے میں لیکن ہر خطبہ ہر دوست تک خصوصا جو باہر ہیں ان تک نہیں پہنچتا اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ میں ہونے والا واقعہ تھا اس لئے آپ کے علم میں دوبارہ لانا چاہئے.

Page 632

خطبات طاہر جلد ۶ 628 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء جب میں شکا گو گیا تو شکاگو کے متعلق مجھے واشنگٹن میں خصوصیت کے ساتھ متنبہ کیا گیا کہ جہاں ہمارا مرکز ہے وہ نہایت خطرناک علاقہ ہے.شکاگو دوحصوں میں تقسیم ہے بیچ میں سے ایک سڑک 80 East یا 80 West دونوں طرف جاتے ہوئے اس کا نام بدل جاتا ہے وہ گزرتی ہے شکا گوکو دو حصوں میں تقسیم کر دیتی ہے.ایک حصہ وہ ہے جس میں سیاہ فام امریکن بستے ہیں یعنی Africo-Americans.ایک حصہ وہ ہے جس میں سفید فام امریکن بستے ہیں.جو سیاہ فام امریکنوں کا علاقہ ہے ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ مشہور تھا کہ وہ سفید آدمی کو اپنے علاقے میں دیکھ ہی نہیں سکتے اور شاذ کے طور پر ان سے بیچ کو کوئی آدمی واپس آسکتا ہے اس لئے کوئی سفید آپ کو وہاں دکھائی نہیں دے گا اور ایسے غیر ملکی جو بیچ کے لوگ ہیں نہ پورے سفید نہ پورے کالے وہ بھی ان کے حملوں کا نشانہ بنتے رہتے ہیں اور اکثر ان میں سے وہاں جاتے ہوئے اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتے.اس لئے مجھے بتایا گیا کہ آپ نے اگر ٹھہر نا ہوتو کسی پاکستانی کے گھر ٹھہریں جو باہر کا رہنے والا ہو، باہر کے علاقے میں رہتا ہو.مسجد میں جانا ہو تو دن کے وقت پوری حفاظت کے ساتھ ایک دو کاریں اور ساتھ لے کر چلیں اور شیشے ہر وقت چڑھائے رکھیں.ایسا خوفناک نقشہ کھینچا گیا کہ میں نے پسند نہیں کیا کہ میں اپنی بیوی اور بچیوں کو بتاؤں ورنہ میرے لئے مشکل پڑ جاتی کیونکہ کرنا تو میں نے وہی تھا جو میں نے بہر حال کرنا تھا جس کے متعلق میں فیصلہ دل میں کر چکا تھا.اس لئے میں نے وہاں پیغام بھجوایا کہ ہمارے صدر صاحب جو سیاہ فام امریکنوں میں سے تھے میں ان کے گھر ٹھہر نا چاہتا ہوں اس لئے وہ انتظام کر دیں.بڑے محبت اور اخلاص سے انہوں نے اپنے گھر ہمارا انتظام کیا.عین وہ علاقہ تھا جس کے متعلق سب سے زیادہ خوف کا اظہار کیا جاتا تھا.شکا گو پہنچنے کا حال یہ تھا کہ خیال تو یہ تھا کہ ہم شام کے وقت کسی وقت پہنچیں گے لیکن بعض غلطیاں ایسی ہو گئیں تخمینے میں جس کے نتیجے میں رات کے ایک بجے ہم شکا گو پہنچے.شکا گورات ایک بجے پہنچنے کے متعلق تو سارے امریکہ میں اس وقت یہی مشہور تھا کہ اگر کسی جگہ کھڑا کر کے آپ شیشہ اتار کر بات کریں اور پوچھیں کہ یہ کون سی جگہ ہے اور ان کو پتا لگ جائے کہ آپ غیر ملکی یا نا واقف ہیں تو لا زما وہاں یا قتل ہو جائیں گے یا زخمی ہوں گے اور آپ کا مال لوٹ لیا جائے گا.اس لئے کسی سے کچھ پوچھنا خود کشی کے مترادف ہے.علاقہ کہاں تھا مجھے اس کا کچھ علم نہیں تھا.بہت وسیع شہر ہے

Page 633

خطبات طاہر جلد ۶ 629 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء تقریباً سومیل ایک طرف سے دوسرے طرف پہنچنے تک طے کرنے پڑتے ہیں کیونکہ جس گھر سے میں واپسی پہ چلا تھا وہاں سے آخری شہر کے کنارے تک پہنچتے ہوئے پورے چھیانوے میل ہو گئے تھے گویا ربوہ اور لاہور کے درمیان پورا شکا گو آباد ہے.اب وہاں بغیر کسی سے پوچھے یہ اندازہ لگانا کہ میں کس طرف مڑوں کون سی سڑک لوں یہاں تک کہ میں مرکز کے اتنا قریب پہنچ جاؤں کہ صرف ایک یا دو خطرےمول لے کر میں وہاں پہنچ سکوں یہ کسی انسان کے بس کی بات ہی نہیں ہے، ناممکن ہے آپ ہزار دفعہ کوشش کر کے دیکھ لیں آپ کبھی کسی ایسے ایڈریس پر اتنے بڑے شہر میں قریب نہیں پہنچ سکتے.چنانچہ میں سفر کرتا رہا اس سڑک پر وہ 80 West اس وقت تھی میں West کی طرف جارہا تھا اور میرے بیوی بچے مجھ سے پوچھتے رہے کتنی دیر ہوگئی ہے آپ کو چلتے ہوئے آپ کہیں جاتے کیوں نہیں پوچھتے کیوں نہیں.میں نے کہا بس میں اسی وقت جاؤں گا جب مجھے خدا تعالیٰ دل میں ڈالے گا کہ اب مڑ جاؤ.چنانچہ ایک موقع پر پہنچ کے میں دائیں طرف مڑ گیا پھر اس سڑک پر چلتا رہا پھر خیال آیا کہ چلو اب ہم اس طرف مڑ جاتے ہیں پھر اس طرف مڑ گئے اور ایک دو موڑوں کے بعد ایک پٹرول اسٹیشن نظر آیا میں نے کہا یہاں پوچھتے ہیں.جب وہاں موٹر کھڑی کی تو جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے سارے ہی اس میں Black Americans تھے کوئی ایک بھی سفید فام نہیں تھا اور سب شرابوں میں مست اور چہرے اور حلیے سے اچھے خاصے خطرناک نظر آرہے تھے ان میں بعض موٹے تازے جو خاص لڑا کا طرز کے لوگ ہوتے ہیں وہ بھی اور کار کھڑی ہوتے ہی انہوں نے کار کو گھیر لیا.چنانچہ میں اُتر امیں نے ان کی طرف توجہ ہی نہیں کی.ایک نوجوان لڑکی جو خود بدمست سی تھی اس کے دل میں اللہ تعالیٰ نے ڈالا وہ آگے بڑھی اور مجھے کہا کہ تم کیا چاہتے ہو.میں نے کہا فلاں نمبر ہے ٹیلی فون کا میں نمبر ڈائل کرنا چاہتا ہوں لیکن میرے پاس ٹوٹے ہوئے پیسے نہیں ہیں.اس نے کہا پیسے میں دوں گی اور میں نمبر ڈائل کرتی ہوں اور تم نے صرف بات کرنی ہے.جب نمبر ڈائل کیا تو وہاں ہمارے ایک نورالدین نام کے ٹیکسی ڈرائیور ہوا کرتے تھے جو بعد میں شاید تعلیم بھی اچھی حاصل کی وہ ٹیلی فون پر بیٹھے ہوئے فورا مل گئے.انہوں نے کہا ہم تو آپ کا بڑی دیر سے انتظار کر رہے ہیں بتا ئیں آپ کہاں ہیں؟ میں نے کہا مجھے پتا نہیں میں اس لڑکی کو فون دیتا ہوں اس سے پوچھو کہ ہم کہاں ہیں.اس لڑکی سے اس نے بات کی اس نے کہا دوبارہ فون پہ بات کرو اس نے کہا آپ پانچ منٹ کے

Page 634

خطبات طاہر جلد ۶ 630 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء Walking Distance پر ہیں یہاں سے.اس لئے بالکل کسی سے بات نہ کریں میں پہنچا ہی پہنچا اور ابھی میں موٹر کی طرف جارہا تھا اتنے میں کچھ لوگ آئے میری طرف کہ تم کون ہو، کیوں آئے ہو یہاں؟ اتنے میں موٹر کی لائٹ نظر آئی ان کے آنے کی اور وہ پہنچ گئے اور چونکہ وہ خود بھی سیاہ فام تھے س لئے ان کو کوئی زیادہ وقت نہیں ہوئی ہمیں وہاں سے نکالنے میں.یہ جو اتنے بڑے شہر میں اس طرح خدا تعالیٰ اپنی حفاظت سے بغیر پوچھے مشن کے اتنا قریب لے جائے اور خود ہی انتظام کر دے.کوئی بیوقوف احمق ہی ہوگا جو کہے کہ سب اتفاقات ہیں اگر اتفاقات ہیں تو آپ ٹرائی (Try) کر کے دیکھیں کسی اور شہر میں جو اس سے آدھا بھی ہو اور اس ایڈریس پر پہنچنے کی کوشش کریں جس کے متعلق آپ نے کچھ نہ پوچھا ہو اور پہلی دفعہ اس شہر میں داخل ہوئے ہوں ناممکن ہے کہ اتنا قریب آپ پہلی دفعہ میں پہنچ جائیں.تو میں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ایک زندہ حقیقت ہے کوئی دور کا قصہ نہیں ہے.جب وہ کہتا ہے کہ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ تو سچ کہتا ہے کہ جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں ضرور اس کا جواب دیتا ہوں فَلْيَسْتَجِيبو الى (البقرہ: ۱۸۷) لیکن دوسروں کو بھی تو چاہئے کہ میری باتوں کا جواب دیں.یک طرفہ تعلق تو قائم تو دو انسانوں کے درمیان میں بھی نہیں ہوا کرتا ، دو برابر کے انسانوں میں بھی یک طرفہ تعلق تو نہیں قائم ہوا کرتا کہ آپ ایک شخص سے حسن سلوک کرتے چلے جارہے ہیں، جب وہ بلائے آپ اس کی آواز پر لبیک کہیں فوراً اپنے سارے کام چھوڑ کر پہنچ جائیں اور جب آپ کو ضرورت پڑے تو وہ دوسری طرف منہ کر لے.یہ راز ہے دعا کی قبولیت کا جسے قرآن کریم نے ہم پر کھولا.آپ خدا کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ذہنی طور پر تیار ہوں، قلبی طور پر تیار ہوں.دل میں ایک فیصلے کی بات ہے ایک معمولی سے لمحے کے اندر جو وقت کے لحاظ سے ایک معمولی لمحہ ہوا کرتا ہے لیکن ایک انسان کی زندگی میں اس کا سب سے قیمتی لمحہ بن جاتا ہے اگر آپ یہ فیصلہ کرلیں کہ فَلْيَسْتَجِنیوالی کی شرط ضرور پوری کریں گے اور خدا تعالیٰ کی آواز کو دوسری ہر آواز پر فوقیت دینے کی کوشش کریں گے افضیلت دینے کی کوشش کریں گے.یہ فیصلہ ہے جس کے بعد آپ کی دعاؤں کے رنگ بدل جائیں گے.پس پھر اُجیب دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کے نظارے آپ بار بار دیکھیں گے.یہ ممکن ہے اور عین ممکن ہے کہ

Page 635

خطبات طاہر جلد ۶ 631 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء آپ اپنے فیصلے پر قائم نہ رہ سکیں ، آپ نیت رکھتے ہوئے بھی بارہا اپنے اس عہد پر پورے نہ اتر سکیں بار ہا ایسا ہو کہ خدا ایک بات چاہتا ہے لیکن جسمانی بشری کمزوریاں اور بہت سے لواحق جو انسان کے ساتھ وابستہ ہوتے ہیں گناہوں کے گھیرے آپ کو اس عہد کو پورا کرنے سے مانع رکھیں پوری طرح جیسا کہ حق ہے ویسے آپ عہد پورا نہ کرسکیں یہ ممکن ہے لیکن اس کے باوجود خدا اپنا عہد پورا کرتا چلا جائیگا ہے.اگر ایسا نہ ہو تو کسی بندے سے اس کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا کیونکہ وہ کامل ہے اور ہم نا کامل ہیں اور ہم کمزور ہیں لیکن دل کی نیت کی صفائی ضروری ہے.مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ (الاعراف: ۳۰) یہ جو شرط ہے جس کے ساتھ خدا تعالیٰ کے ساتھ سارا تعلق وابستہ ہے.اگر خدا کو پکاریں گے اخلاص کے ساتھ اور اس کی خاطر ایک فیصلہ اخلاص کے ساتھ کریں گے تو پھر آپ کا اور خدا کا تعلق ایک ایسا تعلق ہو گا جس کے متعلق کسی دوسرے بندے کو فکر کی ضرورت نہیں رہتی.پھر نظام جماعت کی آنکھ آپ پر ہو یا نہ ہو، خواہ کوئی خدام الاحمدیہ کا یا انصار اللہ کا عہد یدار آپ کی فکر کرے یا نہ کرے آپ کے اندر سے وہ ضمیر بیدار ہو چکا ہو گا جو ہر آن خدا کی رہنمائی میں آپ کی فکر کر رہا ہو گا.جس حال میں ہوں تاریکی میں ہوں یا روشنی میں ہوں ، دن کا وقت ہو یا رات کا وقت ہو خدا تعالیٰ کی طرف سے حفاظت کرنے والے آپ پر مقرر ہو جائیں گے اور یہی وہ معاملہ ہے جوسب سے زیادہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے ہوا.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں عموماً اس بات کا ذکر فرماتا ہے لیکن فی الحقیقت اول طور پر یہاں حضرت اقدس محمد مصطفی مے ہیں.جب خدا تعالیٰ نے فرمایا:.اللهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنثَى وَمَا تَغِيْضُ الْاَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْ ءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الكَبِيرُ الْمُتَعَالِ سَوَا مِنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَ بِهِ وَمَنْ هُوَ مُسْتَخْفِ بِالَّيْلِ وَسَارِبُ بِالنَّهَارِ لَهُ مُعَقِّبَتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللهِ (الرعد: آیت ۹-۱۲) بات یہ فرمائی گئی ہے کہ اللہ تمہارے مخفی کو بھی جانتا ہے تمہارے ظاہر کو بھی جانتا ہے.اس

Page 636

خطبات طاہر جلد ۶ 632 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء وقت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جب دن کو تم چل رہے ہوتے ہو اس وقت بھی تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے جب رات کو سفر کر رہے ہوتے ہو، ہر وجود جو ظا ہر ہو یا باطن ہو اس کے نزدیک برابر ہے لیکن خدا تعالیٰ نے ان سب حالتوں میں تم پر ایسے فرشتے مقرر فرما رکھے ہیں جو خدا کے حکم سے تمہاری حفاظت کرتے ہیں یہ عمومی آیت ہے مگر جہاں تک دنیا داروں کا تعلق ہے ان کی دنیا پر اس کا اطلاق ہوتا ہے.اس کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ آپ یہ معاملہ پیش نظر رکھیں کہ زندگی کا ہر لمحہ جو ہم گزار رہے ہیں ہر لمحہ خطرات میں سے ہو کر گزار رہے ہیں کوئی ایک ارادہ بھی ہم نہیں کرتے جس میں ہماری زندگی کو خطرہ درپیش نہیں ہوتا.ایک فیصلہ کر کے انگلی کا ایک پورہ بھی ہم نہیں ہلاتے جب ہماری زندگی کو خطرہ در پیش نہیں ہوتا اور وہ سائنس دان جو Neurologists ہیں جنہوں نے خوب اچھی طرح انسان کے اعصابی نظام کا جائزہ لیا ہے ان میں سے ایک سائنسدان نے یہ بات دریافت کی کہ ہر دفعہ جب ہم ایک ارادہ کرتے ہیں تو ایک کیمیکل انسانی جسم پیدا کرتا ہے اور اس ارادے کو جب ہم ڈھالتے ہیں ایک فیصلے میں تو بے شمار خلیوں کے سلسلے کے ذریعے وہ حکم اس کنارے تک پہنچتا ہے جس کنارے پر حرکت نے وجود میں آنا ہے.مثلاً آپ کہتے ہیں میں نے انگلی کا پورہ ہلانا ہے.حقیقتا آپ کو علم ہی نہیں کہ اس عرصے میں کیا کچھ ہو گیا ہے.لکھو کھایا اس سے بھی زیادہ خلیے ہیں نظام کے اندر جکڑے ہوئے ایک لمبے سلسلے میں پروئے ہوئے جن تک آپ کا یہ فیصلہ پہنچتے ہی ان کے اندر نہ صرف ایک حرکت پیدا ہوئی بلکہ ایک کیمیاوی مادہ پیدا ہونا شروع ہوا جس نے ان کو طاقت دی اس پیغام کو اگلے کو پہنچایا اس نے اس سے اگلے کو پہنچایا اور آنا فانا بجلی کی سی صورت سے یہ پیغام انگلی کے پورہ تک پہنچ گیا.اگر فوری طور پر ایک دوسری کیمیا اس پہلی کیمیا کو ختم نہ کر دے اور Cancel Out نہ کر دے تو ایک جگہ بھی یہ واقعہ ہو تو انسان کی موت لاحق ہوسکتی ہے.یہ Discovery ایک Neurologist نے کی اس پر اس کو نوبل پرائز بھی ملا اور اس سے معلوم ہوا کہ جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہر لمحہ تم کسی حالت میں بھی ہو خدا کے فرشتے تمہاری حفاظت کر رہے ہیں تو یہ ایک محض سرسری دعوی نہیں تھا محض سطحی بات نہیں ہے کہ ہاں کوئی فرشتے ہوں گے کہیں ٹھوکر لگے، کہیں ٹکر لگنے لگے تو ہماری حفاظت کرتے ہیں یہ مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ زندگی کے ہر لمحہ ہم محتاج ہیں خدا تعالیٰ کی غیر معمولی قدرت کی عملداری کے ،Conscious بالا رادہ قدرت ہے جو ایک نظام کے تابع زندگی کی حفاظت کرتی چلی جارہی ہے.جب خدا کی تقدیر

Page 637

خطبات طاہر جلد ۶ 633 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء ایک لمحے کے لئے بھی وہاں سے ہاتھ اٹھاتی ہے تو اس وقت ہم نقصان اٹھا جاتے ہیں.اس لئے جب ہم اس آیت پر غور کرتے ہیں تو عمومی طور پر میں نے اس لئے کہا کہ دنیا کے ہر انسان پر اس کا اطلاق ہو رہا ہے.روحانی دنیا میں سب سے زیادہ اطلاق اس کا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر ہوا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں بندوں پر وحی نازل کرتا ہوں اور خاص پیغام دیتا ہوں تو اس وقت بھی بہت سے خطرات لاحق ہوتے ہیں.امنیہ دل سے اٹھتی ہے اور دخل دے سکتی ہے اور بہت سے ایسے نظام ہیں شیطانی جوحملہ آور ہو جاتے ہیں اس وقت لیکن خدا اپنے خاص بندوں کی غیر معمولی حفاظت فرماتا ہے.اس لئے وحی کا نظام جو بالعموم آپ سادہ سا سمجھتے ہیں سطحی نظر سے دیکھتے ہوئے یہ سمجھتے ہیں کہ الہام ہو گیا بات ختم ہو گئی.ایسی بات نہیں ہے اس کے اندر خطرات کیسے کیسے لاحق ہیں؟ کتنے خطرات درپیش ہیں جو نفسیات کے ماہر ڈاکٹر ہیں وہ اس بات کو خوب جانتے ہیں کہ ہزار قسم کی ذہنی بیماریاں ہزار قسم کے تصورات پیدا کر دیتی ہیں اور ہزار قسم کی بیماریاں ایسی بھی ہیں جن کے تصورات باہر سے آواز کی صورت میں آتے دکھائی دیتے ہیں اور اپنی ہر خواہش کے وقت انسان کلیہ اندرونی محرکات سے آزاد نہیں ہوتا.ہر فیصلے کے وقت بے شمار اندرونی محرکات ہیں جو دخل دے رہے ہوتے ہیں.ان حالات میں جب کسی خاص مقرر کردہ وجود پر خدا تعالیٰ کی وحی نازل ہو رہی ہوتی ہے تو اس کو بے شمار خطرات درپیش ہوتے ہیں اور یہ تو اندرونی خطرات ہیں وحی کے ساتھ ہی پھر بیرونی خطرات بے شمار پیدا ہو جاتے ہیں.ہر طرف سے دشمنی ہے، ہر طرف سے اس کے پیغام کو بدلنے کی کوشش ہے، ہر طرف سے اس کے ماننے والوں کو مایوس کرنے کی کوشش ہے، ہر طرف سے یہ کوشش ہے کہ یا تو وہ اپنے مقصد سے ہٹ جائیں یا صفحہ ہستی سے مٹادئے جائیں.بے انتہا شیطانی طاقتیں بیرونی طور پر بھی حملہ آور ہو جاتی ہیں.ایسی صورت میں کسی نبی کا اپنے پیغام کے ساتھ زندہ رہ جانا اور خود باقی رہنا اور پیغام کو باقی رکھنا ان سب کی حفاظت کرنا جو اس کے پیغام پر لبیک کہتے ہوئے اس کے ساتھ شامل ہو گئے ہیں کسی انسان کے بس کی بات نہیں يَحْفَظُونَهُ مِنْ اَمرِ اللہ ایسے فرشتے مقرر ہو جاتے ہیں جو محمد مصطفی امیہ کی حفاظت کے لئے خاص طور پر مامور ہوتے ہیں اور مامور ہو کر پھر ان کی حفاظت پھیل جاتی ہے باقی مسلمانوں پر.یہ واقعہ جو ہوا ہے مکہ میں اس کی طرف بالخصوص یہ آیت اشارہ کر رہی ہے اور یہی واقعہ

Page 638

خطبات طاہر جلد ۶ 634 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۸۷ء قادیان میں آنحضرت ﷺ کی غلامی اور کامل اطاعت کے نتیجے میں دہرایا گیا.وہی پیغام تھا جسے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا ، وہی پیغام تھا جس کی دوبارہ اس طرح حفاظت کا فیصلہ کیا گیا کہ جو کچھ زائد اس میں شامل ہو گیا تھا جو کچھ تیرہ صدیوں کی امنیہ نے تیرہ صدیوں کی نفسانی خواہشات نے اس میں داخل کر دیا تھا اسے پھر اس سے پاک کر دیا جائے اور الگ کر کے نتھار کر حضرت اقدس محمد مصطفی میلے کے پیغام کو خالص اور شفاف صورت میں بہترین پیالوں میں سجا کر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے.یہ وہ واقعہ ہے جو ہوا ہے اور اس واقعہ کے نتیجے میں خدا کے فرشتے جو جماعت کے ساتھ مسلط ہیں وہ کوئی چھپے ہوئے فرشتے نہیں ہیں.جس چھوٹے سے واقعہ کا میں نے ذکر کیا ہے یہ اسی کا ایک معمولی سا ادنی سا ایک نظارہ تھا جو میں نے دیکھا اور ایسے نظارے میں نے بھی بارہا دیکھے اور آپ میں سے بھی بہت سے ہوں گے جنہوں نے بارہا دیکھے ہوں گے.جب جماعتی طور پر یہ ابتلا بڑھتے ہیں تو اسی قدر کثرت سے خدا تعالیٰ کے فرشتے نازل ہوتے ہیں اور اس رنگ میں حفاظت فرمارہے ہوتے ہیں کہ ہماری نظران کی پہنائیوں تک ان کی گہرائیوں تک پہنچ ہی نہیں سکتی لیکن یہ قطعی نظام ہے کوئی شک کی بات نہیں کوئی کہانی نہیں کوئی افسانہ نہیں ایک ایسا واقعہ ہے جو ہر روز گزررہا ہے اور کثرت کے ساتھ گزرتا چلا جارہا ہے.لیکن بدقسمتی سے ہم میں سے بہت سے ہیں جو غفلت کی حالت میں وقت گزار رہے ہیں خدا کے پیار کو جو ان پر نازل ہو رہا ہے وہ بھی نہیں دیکھ سکتے.جانتے ہی نہیں کہ ان کا مقام کیا ہے، پہنچانتے ہی نہیں کہ ان کا مرتبہ کیا ہے.خدا کی نظر میں وہ چینیں گئے ہیں آج اور ایک خاص مقام پر فائز کئے گئے ہیں دنیا کی زندگی ان کے ساتھ وابستہ کر دی گئی ہے.اس لئے اس کو ان نکتہ نگاہ سے اپنے حالات کا جائزہ لے کر اپنی زندگی کی حفاظت کرنی چاہئے یعنی اپنی روحانی زندگی کی اور خوب جان لینا چاہئے کہ ان کے اوپر بھی ہر طرف سے حملے ہوں گے اور خدا کی خاص حفاظت کے بغیر وہ بچ نہیں سکتے.خاص حفاظت ایسی جو ہر لمحہ ان پر نازل ہورہی ہو ہر لمحہ ان کو گھیرے ہوئے ہوان کے آگے بھی چلے اور ان کے پیچھے بھی اس حفاظت کے ساتھ الہی جماعتیں آگے بڑھتی ہیں اور یہ عمومی حفاظت جماعت کے نکتہ نگاہ سے بھی نازل ہوتی ہے اور انفرادی طور پر بھی فرداً فرد ہر شخص جو کامل اخلاص کے ساتھ خدا کو پکارتا ہے اس پر بھی نازل ہوتی ہے.ان پر بھی نازل ہوتی ہے جو نہیں پکار

Page 639

خطبات طاہر جلد ۶ 635 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء رہے ہوتے خالص طور پر اور وہ نہیں پہچانتے.اس لئے نہیں کہ ان کی ذات خدا کو غیر معمولی طور پر اچھی لگ رہی ہے اس لئے کہ وہ ایسے نظام کا حصہ بن چکے ہیں جو نظام خدا کو پیارا ہے.جو رحمتیں اس نظام پر نازل ہوئی ہیں وہ ضرور اس میں سے حصہ پاتے ہیں لیکن یہ ایک پہلی منزل ہے.میں جس منزل کی طرف آپ کو بلانا چاہتا ہوں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اس گردو پیش کا معائنہ کر کے اپنے دل میں شعور بیدار کریں کہ خدا آپ سے پیار کرنا چاہتا ہے اور اس کے دروازے آپ پر کھول دیئے گئے ہیں.آپ کی آواز کا منتظر ہے آپ کا خدا.فَلْيَسْتَجِیو الی کی آواز کا آپ جواب دیں.آپ تیار کریں اپنے نفسوں کو کہ خدا جن راہوں کی طرف آپ کو بلاتا ہے آپ لبیک کہیں گے، جانے کی کوشش کریں گے.پھر خامیاں رہ جائیں گی، پھر ٹھوکریں کھا ئیں گے تو پھر اس خدا ہی کا ہاتھ ہے جو آپ کو سنبھالے گا.خدا ہی کے فرشتے ہیں جو آپ کی حفاظت فرمائیں گے لیکن اپنی کمزوریوں کو دیکھ کر جولوگ آگے بڑھنے سے ڈر جاتے ہیں پھر وہ کبھی بھی کوئی سفر طے نہیں کیا کرتے.بہت سے لوگ ہیں جنہوں نے اپنی عمر میں ضائع کر دیں اور بہت سے قیمتی لمحات کھو دیے صرف اس انکساری کے خیال سے کہ ہم اس قابل کہاں ہیں بہت سے دوست ہیں جو کہتے ہیں ہم احمدی ہونا تو چاہتے ہیں لیکن جی ہم اس لائق نہیں ہیں اس لئے ہم فیصلہ نہیں کر سکتے.اسی قسم کی ایک مثال میں آپ کو دیتا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی اولاد میں سے.حضرت مرزا سلطان احمد صاحب آپ کی اولاد میں سے آپ کو بہت پیارے تھے، پہلی بیگم کی اولاد میں سے تھے اور وہ مسلسل آپ کی صداقت پر ایمان رکھتے تھے ایک لمحہ بھی ان کے دل میں شک کا نہیں گزرا کیونکہ بہت قریب سے اپنے باپ کو اس حالت میں دیکھا کہ وہ جانتے تھے کہ یہ سچا ہے اس کے باوجود بیعت نہیں کی.ساری زندگی گزاری تائید کرتے رہے، وقت کے اوپر دعاؤں کے لئے درخواست کرتے رہے ہمیشہ جہاں جس مجلس میں بیٹھے وہاں احمدیت کی صداقت کا اعلان کیا لیکن خود محروم رہے.جب پوچھا گیا کہ کیوں ایسا ہوا ہے تو بتایا کہ اس لئے کہ میں تو اپنے اعمال کی وجہ سے ڈرتا تھا کہ میں اس لائق نہیں ہوں کہ اپنے اس عظیم باپ کے ہاتھ پر بیعت کر سکوں صرف یہی خیال ہے جو ہمیشہ میرے مانع رہا.پھر ایک وقت آیا کہ اپنا چھوٹا بھائی منصب خلافت پر بیٹھا اور خدا کی تقدیر نے ان کو اس بھائی کی بیعت کرنے پر مجبور کر دیا جو ہا تھ اپنے باپ کی بیعت نہیں کر سکا تھا لیکن کتنا

Page 640

خطبات طاہر جلد ۶ 636 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء عظیم الشان مقام اور کتنا مرتبہ تھا جو پیچھے چھوڑ آئے تھے جسے دوبارہ کبھی حاصل نہیں کر سکتے تھے.کون ہے جو کمزوریوں کے بغیر ہے؟ نیکیوں کی انتظار میں یہ شرط لگا دینا کہ پہلے کمزوریاں دور ہو جائیں یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کچھ بھی انسان کی استطاعت میں نہیں.خدا تعالیٰ یہ نہیں شرط لگا تا کہ پہلے نیک ہو پھر میرے پاس آؤ خدا تعالیٰ تو یہ چاہتا ہے کہ اپنا سب کچھ پیش کر دو اور یہی اسلام کی روح ہے جب آپ کہتے ہیں:.أَسْلَمْتُ لِرَبِّ الْعَلَمِينَ (البقرہ:۱۳۲) تو یہ نہیں کہا کرتے کہ میں مکمل طور پر نیک ہو چکا ہوں اس لئے اب میں اس قابل ہو گیا ہوں کہ اپنے آپ کو تیرے سپرد کر دوں.أَسْلَمْتُ کا تو مطلب ہے کہ جو کچھ میرا ہے میں تجھے دے رہا ہوں اس میں اچھا بھی ہے بُرا بھی ہے.بُرا زیادہ ہوگا.میں بہت ناقص اور کمزور ہوں بہت گندہ بھی ہوں لیکن میں چاہتا ہوں کہ تیرے سپر داپنے آپ کو کر دوں کہ تجھ سے جیسا محفوظ اور کوئی مقام میں نہیں دیکھتا.تیرے سپرد کر دوں گا تو تو میری حفاظت فرمائے گا میرے گند دور کرے گا مجھے اچھائیوں کی طرف لے کے آگے بڑھتا چلا جائے گا.یہ ہے اسلام کی روح اس روح کے ساتھ اپنے آپ کو خدا کے سپرد کرنے کا فیصلہ کریں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس شان کے ساتھ آپ کی دعاؤں کو قبول کرتا ہے آپ سے پیار کا اظہار کرتا ہے آپ کا ہو جاتا ہے اور دن بدن آپ کی کمزوریاں دور ہوتی چلی جاتی ہیں.چنانچہ اسلام نے یہ شرط نہیں لگائی کہ ایمان سے پہلے کمزوریاں دور کر لو یہ دعا سکھائی، یہ عرض کرو کہ: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا تُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَامُنَا اے خدا! ہم نے ایک آواز سنی تھی پکارنے والے کی وہ آواز یہ کہتی تھی کہ یہ آواز رب کی طرف سے ہے، ہمارے رب کی طرف سے.ہم نے اس آواز کو نا اور اس آواز پر ایمان لے آئے یہ نہیں دیکھا کہ ہم اچھے ہیں کہ برے، یہ انتظار نہیں کیا کہ ہماری کمزوریاں دور ہوں تو پھر اس آواز کی طرف لبیک کہیں:.رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا اس لئے اس ایمان کی حالت میں ہمارے اندر کمزوریاں باقی ہیں ہم گناہ لے کر آئے ہیں اب تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اس ایمان کے نتیجے میں اتنا کرم فرما کہ ہمارے پہلے گناہوں کی بخشش فرمادے اور آئندہ ہماری برائیاں دور فرما.اس سے زیادہ کھلا کھلا اور کیا پیغام ہو سکتا ہے کمزوروں کے لئے کہ تمہاری کمزوریاں دور کرنا میرے پاس آنے کے لئے شرط نہیں ہے.میرے پاس آنے کے لئے شرط صرف اخلاص ہے، فیصلہ ہے کہ ہاں ہم اپنے

Page 641

خطبات طاہر جلد ۶ 637 خطبه جمعه ۲ /اکتوبر ۱۹۸۷ء پر لازما ایمان لائیں گے.اس کے بعد تم مجھ پر چھوڑ دو بخشش بھی میں نے کرنی ہے، تمہاری کمزوریاں بھی میں نے دور کرنی ہے اور پھر آگے فرمایا کہ یہ پھر دعا کرنا.وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ( آل عمران : ۱۹۴) اے ہمارے رب! ہمیں نیکیوں کے ساتھ وفات دینا.اتنا عظیم الشان نظام ہے اسلام کا نظام جو آپ کو اپنی طرف بلا رہا ہے اور کتنا آسان ہے بظاہر کتنا مشکل دکھائی دیتا تھا.ایمان لانا کامل خلوص کے ساتھ اس کے نتیجے میں اگر چہ کوئی احسان نہیں ہے خدا پر اپنی ذات پر احسان ہے لیکن انسان کو بھی خدا نے کیسی نازوں والی دعا سکھا دی یعنی ایمان لاتے ہی مجھے سے مانگنا کچھ کہ اے اللہ ! ہم نے تو کمال کر دیا ہم ایمان لے آئے ہیں اب کچھ دے ہمیں.ایمان لائے اپنی خاطر ایمان لائے حقیقت کے اوپر ،سورج پر بھی تو ایمان لاتے ہو، ہر چیز جو دیکھتے ہو اس پر ایمان لاتے ہو.سب سے زیادہ تو خدا کی ذات ہے ایمان لانے کے لائق لیکن خدا کے پیار کے انداز ہیں.تازہ تازہ جو آیا ہو اس کے ساتھ زیادہ لاڈ ہوا کرتے ہیں، زیادہ دلداریاں ہوتی ہیں.یہی اس نے ہمیں سکھایا ہے کہ جب تمہارے اندر نئے لوگ داخل ہوا کریں تو وہ مؤلفۃ القلوب ہوتے ہیں تم ان کی تالیف قلب کرو، ان کے ساتھ عام احمد یوں والا عام مسلمانوں والا سلوک نہ کرو، زیادہ پیار اور محبت کے ساتھ ان کو سینے سے لگاؤ.کیسے ہوسکتا تھا کہ ہمیں یہ تعلیم دی اور خود اس پر عمل نہ کرے؟ چنانچہ اس آیت میں وہ مضمون بیان ہوا ہے فرمایا کہ ایمان لاتے ہی مانگنا، ناز کرنا لاڈ کرنا میرے ساتھ مجھے کہنا کہ اے خدا ہم ایمان لائے اب ہمیں دے کچھ اور پہلی قیمت یہ مانگنا کہ ہمارے گناہ معاف فرما دے.پہلے گناہوں سے بخشش کہ بغیر انسان ہلکا نہیں ہوسکتا اور ساتھ ہی پھر یا د رکھنا کہ ابھی تم اس لائق نہیں ہو کہ مزید گناہوں سے بچ سکو.پہلے گناہوں سے معافی کے بعد پھر تم پر گناہوں کے ڈھیر چڑھتے چلے جائیں گے اس لئے دوسری دعا تم نے یہ کرنی ہے وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتنا ہماری کمزوریاں بھی تو دور فرما یہ نہ ہو کہ ایک طرف سے گناہ دھل رہے ہوں اور دوسری طرف سے اور دل کو میلا کرتے چلے جائیں.پھر فرمایا کہ اسی پر اکتفا نہ کرنا کیونکہ موت اور حیات انسان کے قبضہ میں نہیں.ہو سکتا ہے کہ ایک انسان اپنی کمزوریاں دور کر رہا ہولیکن ابھی اکثر کمزوریاں باقی ہوں اور اس کو موت آجائے.فرمایا کہ یہ بھی خدا پر ہی چھوڑ دو پھر.یہ عرض کرنا کہ ہم نہیں جانتے کہ کب تک ہماری کمزوریاں دور ہوں گی لیکن ایک منت کرتے ہیں کہ نہ بلانا

Page 642

خطبات طاہر جلد ۶ 638 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء ہمیں اپنی طرف جب تک تیری نظر میں ہم نیکوں میں شمار نہ ہونے لگ جائیں.ایسے وقت میں وفات دینا کہ جب تیرے پیار کی نگاہیں پڑ رہی ہوں اور تو کہے کہ ہاں یہ میرے نیک لوگوں میں شامل ہو چکا ہے.اس سے زیادہ آسان دین بھی کبھی کوئی دیکھا ہے؟ اس سے زیادہ عقل اور دل کو مطمئن کرنے والا دین بھی کبھی تصور میں آسکتا ہے؟ پھر کیا انتظار ہے وہ جو پہلے ہی ایمان لا چکے ہیں ان کو ان راہوں کی طرف آگے بڑھنا چاہئے اور جب تک ان راہوں کی طرف آپ آگے نہیں بڑھیں گے ہم دنیا میں کوئی ترقی حاصل نہیں کر سکتے.اتنا عظیم الشان کام ہے ساری دنیا کی تقدیر بدلنا، لقد مرتو خدا بدلا کرتا ہے لیکن آپ کی تقدیر کو اس میں حصہ لینا ہوگا یہ اتنا عظیم الشان کام ہے اور اتنا بو جھل کام ہے جو خدا کی مدد کے سہارے آپ نہیں کر سکتے آپ میں سے ہر ایک کو آگے قدم بڑھانا ہو گا ہر ایک کو اپنا حصہ ڈالنا ہو گا.اس لئے آپ کوشش کریں اور اپنے گردو پیش کو ذرا غور سے دیکھیں تو سہی کہ کن لوگوں میں آپ آبسے ہیں؟ کس دنیا میں آپ سانس لے رہے ہیں جہاں فضا کا ذرہ ذرہ زہریلا ہے.بہت سے ہیں جو احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں Inferiority Complex.وہ سمجھتے ہیں ہم کس دنیا سے آئے تھے یہاں کیا کچھ ہم نے دیکھا ہے کتنا عظیم الشان ملک ہے ہم نے تو عمر میں ضائع کر دیں اصل تو یہی ہے.کچھ ہیں جو کچھ دیر مقابلے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اپنے بچوں کی طرف نگاہ نہیں کرتے ان کے بچے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں.غرضیکہ بہت سے خطرات ہیں جو یہاں درپیش ہیں.ان خطرات میں بھی خدا کی خاص حفاظت ہے جو آپ کو بچائے گی.اس لئے جو رستہ میں نے بتایا ہے قرآن کی تعلیم کی روشنی میں اس رستے ہی میں امن ہے اسی رستے میں ہی حفاظت ہے.اپنے آپ کو سپرد کریں، اپنے بچوں کو خدا کے سپر د کریں اور پھر یہ فیصلہ کریں کہ ہم خدا کی باتوں کا جواب دینے کی پوری دیانت داری سے کوشش کریں گے.اپنے بچوں کو بھی یہ ہی تعلیم دیں گے اور بچپن سے ہی سے یہ سکھائیں گے.پھر دعائیں کرتے ہوئے آپ اگر اور قدم آگے بڑھائیں گے ایک نئی ہوش آپ کو عطا ہوگی، ایک نیا شعور آپ کے دل کے اندر سے پیدا ہو گا آپ دنیا کو ایک اور نظر سے دیکھنے لگ جائیں گے.اس وقت آپ کے اندر ایک نیا خوف بھی جنم لے گا اور وہ خوف آپ کو بتائے گا کہ آپ نے اپنی اکثر عمر ضائع کر دی ہے.بہت سے نیک کام

Page 643

خطبات طاہر جلد ۶ 639 خطبه جمعه ۱/۲ کتوبر ۱۹۸۷ء آپ کی ذات سے وابستہ تھے جو نہیں کر سکے ، بہت سی تبدیلیاں اس ملک میں آپ نے کرنی تھی جو آپ نہیں کر سکے.کتنے ہیں مؤلفۃ القلوب جن سے آپ نے تعلق بڑھایا.کتنے وہ ہیں جو یہاں سے آکر احمدیت میں شامل ہوئے اور انہوں نے اعلان کیا کہ قادیان میں پیدا ہونے والا ایک شخص جس نے دعویٰ کیا تھا میں خدا کا مسیح ہوں ہاں وہ سچا مسیح ہے.ان کے اس دعوئی کے نتیجے میں آپ کو کیسی محبت ان سے پیدا ہوئی ؟ ان سے کتنا پیار کا آپ نے سلوک کیا؟ ایک یہ بھی جائزہ ہے جب آپ کو نیا شعور بیدار ہوگا تو آپ لینے پر مجبور ہو جائیں گے.کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ نے اپنی سوسائٹی جو نسبتاً زیادہ امیرانہ تھی اسی میں اپنے آپ کو مگن رکھا اور سمجھا کہ یہی امریکہ تھا جو آپ کو پیش کر سکتا تھا اور آپ نے دونوں ہاتھوں سے قبول کر لیا اور احمدیت کے لحاظ سے اتنا ہی کافی ہے کہ میں چندے دے دیتا ہوں.احمدیت تو اسلام ہے اور اسلام ایک بہت وسیع دائرے سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.آپ کو گھیرے ہوئے ہے آپ اسلام کو نہیں گھیر سکتے کبھی.اس لئے جب آپ کا شعور بیدار ہوگا تو تقاضے بیدار ہوں گے اور وہ شعور اسی طرح پیدا ہوتا ہے جس طرح میں نے بیان کیا ہے.دماغی ایکسر سائز (Exercise) سے نہیں پیدا ہوتا.وہ دل کے ایک فیصلے سے پیدا ہوتا ہے کہ میں اللہ کا ہونا چاہتا ہوں اس کا ہو جاتا ہوں.پھر رفتہ رفتہ آپ کا ضمیر جاگنے لگتا ہے آپ کا شعور بیدار ہوتا ہے اور وسعت اختیار کرتا چلا جاتا ہے.آپ کو اپنی زندگی میں خلا دکھائی دینے لگتا ہے بعض خلا بھیانک صحراؤں کی طرح بھیانک دکھائی دیتے ہیں پھر آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے محنت کرنی پڑے گی مجھے ان کو بھرنا پڑے گا ان کے اندر آب پاشی کرنی پڑے گی ، ان کو ہریالی عطا کرنی ہوگی.ایک نیا زندگی کا سفر شروع ہو جاتا ہے.پھر آپ یہ دیکھیں گے کہ میں نے امریکہ میں آکر کتنے دوستوں کو اسلام عطا کیا ، کتنوں کو اسلام کی طرف توجہ دلائی اور میں نے ایک کارآمد زندگی بسر کی اس پہلو سے اسلام کے خادم کے طور پر.ہر طرف آپ میں سے اکثر کو کامل خلا دکھائی دیں گے.جتنا شعور بیدار ہوگا اتنا آپ کو تکلیف پہنچے گی، اتناضمیر کچوکے دے گا، بے چینی پیدا ہوگی ،فکر لاحق ہو جائے گا.ان سب بے چینیوں، ان سب فکروں کا علاج پھر وہی ہے کہ اپنے رب کو پکار میں اور اس سے مدد چاہیں.میں ہر لمحہ آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتا وہ مبلغ جو یہاں مامور ہیں وہ ہر لمحہ آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتے ، وہ عہدیدار جو خاص کاموں پر مامور ہیں وہ ہر لمحہ آپ کے ساتھ نہیں رہ سکتے لیکن ایک

Page 644

خطبات طاہر جلد ۶ 640 خطبه جمعه ۲ اکتوبر ۱۹۸۷ء از لی اور ابدی خدا ہے جو ہمیشہ آپ کے ساتھ ہے.اس نے وعدہ کیا ہے کہ میں ہمیشہ آپ کی بات کا جواب دوں گا.جب آپ پہلا فیصلہ کر چکے ہیں تو پھر وہ سودے جوخود خدا نے آپ کو سکھائے ہیں وہ سودے اس سے کرتے چلے جائیں.ہر موقع پر سارا بوجھ اس پر ڈال دیں کہ اے خدا ! اب یہ مشکل پیش آگئی اب میرا فیصلہ فرما اب میں کیا کروں؟ باہر سے آکر لوگ آپ کا بوجھ نہیں اٹھا ئیں گے اس کے باوجود.ہم توقع کریں گے کہ آپ کے اندر بہت سی مخفی طاقتیں تھیں جن کو آپ نے کبھی استعمال نہیں کیا اور وہ بوجھ جو خدا اٹھانے کی توفیق دیتا ہے ان بوجھوں کے ساتھ لذت عطا کیا کرتا ہے، ان بوجھوں کے ساتھ تھکاوٹ اور درماندگی عطا نہیں کیا کرتا.ایک فرحت عطا کرتا ہے جس کی کوئی مثال دنیا میں اور نہیں.اس لئے یہی وہ ایک راہ ہے جس راہ سے آپ اپنی حالت بدل سکتے ہیں اور جب تک آپ اپنی حالت نہ بدلیں اس ملک کی حالت نہیں بدل سکتے.اور ایک لازمی قانون دوسرا بھی ہے اگر آپ نے اپنی حالت نہ بدلی اس حد تک کہ اس ملک کی حالت بدل سکیں تو یہ ملک آپ کی حالت بدل دے گا.آپ اس حال پر نہیں رہ سکیں گے ، اس نعمت پر قائم نہیں رہ سکیں گے جس نعمت کے ساتھ آپ یہاں پہنچے تھے یا جس نعمت کے ساتھ آپ نے کہیں بھی سفر کا آغاز کیا تھا.چنانچہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو جو میں نے بیان کیا اس کے بیان کرنے کے معا بعد فرماتا ہے.اِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ بڑی بڑی نعمتیں میں عطا کرتا ہوں، میں ان کو تبدیل نہیں کیا کرتا جب بندے یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ ہم ان نعمتوں پر راضی نہیں ہم دوسری نعمتوں پر راضی ہیں ہمیں تیرا روحانی عطا کردہ رزق کافی نہیں ہم دنیا کے گند پر منہ مارنے پر تل چکے ہیں ہمیں مزہ ہی نہیں آتا تیری باتوں کا دنیا کی باتوں میں مزہ آتا ہے.جب وہ یہ فیصلہ کر لیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر میں بھی فیصلہ کرتا ہوں اور یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ یہ لوگ میری نعمت کے لائق نہیں رہے.فرمایا جب میں یہ فیصلہ کرتا ہوں :.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ ۚ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالِ (الرعد : ١٢)

Page 645

خطبات طاہر جلد ۶ 641 خطبه جمعه ۲/اکتوبر ۱۹۸۷ء کہ پھر جب خدا یہ فیصلہ کرتا ہے تو اس قوم کو برائی پہنچنے سے دنیا کی کوئی طاقت بچا نہیں سکتی اور خدا کے سوا کوئی نہیں ہے جو اس کے بدنتائج سے کبھی ان کو محفوظ رکھ سکے.تو خدا کو دوشانوں کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ایک وہ شان جو ہر لحظہ محافظ کی شان ہے، ہر لحظہ حفاظت کرنے والے کی شان ہے.سوئے ہوؤں کی بھی حفاظت کرنے والا اور جاگے ہوؤں کی بھی حفاظت کرنے والا ، بیٹھ رہنے والوں کی بھی حفاظت کرنے والا، چلنے والوں کی بھی حفاظت کرنے والا.فرمایا تمہارے اپنے اختیار میں ہے تم چاہو تو اس ذات سے تعلق قائم کر لو لیکن یا درکھو ایک دوسرا پہلو بھی ہے اگر یہ تم نے نہ کیا تو پھر خدا ایک اور شان اور ایک اور جلال کی شان سے ظاہر ہونا بھی جانتا ہے جب وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میرے بعض بندے میری نعمتوں کی قدر نہیں کرتے اور ان کے اہل نہیں رہے تو پھر خدا جس برائی کا فیصلہ کرتا ہے پھر کوئی دنیا کی طاقت اسے بچ نہیں سکتی.ایک طرف خدا کے محافظ ہیں جو ہر طاقت کے مقابل پر ایک کامیاب حفاظت کرتے ہیں.ایک طرف دنیا کے محافظ ہیں جو سارے مل کر بھی زور لگا ئیں تو خدا کی تقدیر کے مقابل پر کسی بندے کو برائی سے بچانہیں سکتے.کتنی کھلی کھلی دو راہیں ہیں کتنی صاف ہیں، ان کی منفعتیں اور ان کے نقصانات کتنی واضح زبان میں کھول دیئے گئے ہیں.اس لئے ظاہر ہے کہ ہر احمدی کا فیصلہ ایک ہی ہو گا اس راہ کو قبول کر چکا ہے اسی راہ پر قائم رہنا چاہے جو خدا کی حفاظت کی راہ ہے، جس کے نظارے وہ بارہا اپنی زندگیوں میں دیکھ چکا ہے جس کی لذتوں سے آشنا ہو چکا ہے.خدا کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس راہ پر ہی قدم بڑھا تا ر ہے اور جو غفلت کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں نیا شعور عطا فرمائے ، جن کا ضمیر تو ہے لیکن بیدار نہیں اللہ تعالیٰ انہیں بیدار ضمیر عطا فرمائے.جو اپنے بچوں کے حال سے غافل ہیں نہیں جانتے کہ ان کا رُخ کس طرف ہے ان کو اپنے بچوں کا شعور عطا فرمائے اپنے بچوں کے لئے ایک نیا ضمیر بخشے اور وہ ترقی کی اس راہ میں آگے بڑھیں جہاں سفر کے دوران وہ کم نہ ہوتے رہیں بلکہ اور روحانی اولا د کو ساتھ ملا کر ان کا قافلہ بڑھتا چلا جائے.اس شان کے ساتھ وہ شاہراہ ترقی اسلام کی راہ پر آگے بڑھتے رہیں ، خدا کرے کے ایسا ہی ہو.آمین.

Page 646

Page 647

خطبات طاہر جلد ۶ 643 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۸۷ء دنیا کی نجات کا واحد رستہ سیرۃ النبی کی کامل پیروی ہے.امریکہ کے احمدی اس پر عمل پیرا ہو کر امریکہ کو دین کا قلعہ بنادیں ( خطبه جمعه فرموده ۹ را کتوبر ۱۹۸۷ء بمقام واشنگٹن امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: امریکہ کو اس وقت دنیا میں ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہے اور امریکہ خود بہت ہی گہرے اور بنیادی تضادات کا شکار ہے.ایک پہلو سے امریکہ کی اہمیت مشرقی خطہ کے مقابل پر یعنی روسی اور دیگر اشتراکی ممالک کے بلاک کے مقابل پر مختلف زاویوں سے دیکھی جاسکتی ہے.ایک تو امریکہ اشترا کی نظام کے مقابل پر دنیا کو ایک استحکام مہیا کرنے کا دعویدار ہے اور اس اقتصادی نظام کے مقابل پر جو اشتراکیت پیش کرتی ہے کوئی بہتر اقتصادی نظام پیش نہیں کرتا.سوسب سے پہلا تضاد جو اس ملک کے اندر دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ایک نظام کے مقابل پر باقی بنی نوع انسان کی آزادی اور تحفظ کی ضمانت دینے کے باوجود ان کو اس سے بہتر تسلی بخش دلوں کو اور ذہنوں کو مطمئن کرنے والا کوئی نظام نہیں دیتا اور جو نظام بھی دیتا ہے وہ ایک طرف سے پیدا ہونے والے اطمینان کو کھانا شروع کر دیتا ہے.جو اطمینان اس عمومی تحفظ کے نتیجے میں باہر کی دنیا کو ملتا ہے کہ ہم اشترا کی نفوذ کے مقابل پر تمہاری حفاظت کریں گے ایک قسم کا امن دیتا ہے اور دوسری طرف سے اقتصادی بدنظمی اور بدحالی کے نتیجے میں وہی امن اندر سے کھایا جاتا ہے جس طرح گندم کوگھن لگ جائے.آپ کسی غریب کی بھوک

Page 648

خطبات طاہر جلد ۶ 644 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء مٹانے کے لئے اس سے وعدہ کریں کہ میں تمہیں گندم کے پہاڑ دوں گا اور وہ پہاڑ ایسے دیں کہ جن میں سے ہر دانے کے اندر کیر الگا ہوا ہواور اندر سے اس کو کھا چکا ہو.تو بہت ہی بڑا اور خوفناک تضاد ہے اور اب تک امریکہ نے اپنے مسائل کو حل کرنے کی جتنی بھی کوششیں کی ہیں اس تضاد کو وہ حل نہیں کر سکے.اس تضاد کو حل کرنے کے لئے جو متبادل نظام یا یوں کہنا چاہئے کہ جو متبادل طریق ان کے ذہن میں آئے اوران کو انہوں نے Implement کرنے کی کوشش کی ، نافذ کرنے کی کوشش کی ان کی بحث میں میں اس وقت نہیں جانا چاہتا لیکن ان کے گہرے تفصیلی مطالعہ کے نتیجے میں یقین کے ساتھ آپ کو بتا سکتا ہوں کہ وہ ہر کوشش جو امریکہ نے اس تضاد کو دور کرنے کے لئے کی ہے وہ خود تضادات کا شکار ہے اور اس کی کامیابی کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا.دوسری طرف ہم اس پہلو سے جب امریکہ کا جائزہ لیتے ہیں کہ ایک بے خدا نظام کے مقابل پر خدا والوں کو امن کی ضمانت دیتا ہے تو بے اختیار دل امریکہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس کا ممنون ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کے لئے کم سے کم یہ ضمانت ضرور ہے کہ زبردستی کوئی بے خدا نظام ان پر نہیں ٹھونسا جائے گا.بہت بڑی خدمت ہے دنیا کی اور بہت بڑا تحفظ ہے مذاہب کو جو اس پہلو سے امریکہ مہیا کرتا ہے.دوسرے پہلو سے دیکھیں تو مذاہب کی روح کو کھا جانے والے جتنے بھی ایسے مضرات ہیں ،ایسے خوفناک عوامل ہیں جو مذہب کی روح کا چاٹ جاتے ہیں اور اخلاق کی بنیادیں ہلا دیتے ہیں وہ سارے عوامل امریکہ میں پیدا ہو رہے ہیں اور وہ سارے مضرات امریکہ سے باہر کی دنیا میں بھیجے جارہے ہیں.خود امریکہ کی سوسائٹی بھی خدا کی طرف منسوب ہونے کے باوجود عملی طور پر خدا سے اس طرح دور ہوتی چلی جارہی ہے کہ جو شائبہ خدا کی طرف منسوب ہونے کے نتیجے میں اعمال میں ملنا چاہئے ، ایک تصویری ، ایک جھلکی سی دکھائی دینی چاہئے وہ دن بدن زائل ہوتی چلی جارہی ہے اور عنقاء ہوتی چلی جارہی ہے.ہر اخلاقی خرابی کی جڑیں امریکہ کی آزاد تہذیب میں وابستہ ہیں.پس ایک طرف سے جو امن دیا دوسرے ہاتھ سے وہ امن بھی واپس لے لیا پھر ایک طرف سے جو امن دیا دوسرے ہاتھ سے وہ امن بھی واپس لے لیا اور اس تضاد کا بھی ان کے پاس کوئی جواب نہیں.ان کے مفکرین جو ان مسائل پر غور کرتے رہتے ہیں ان کے سامنے یہ مسائل موجود ہیں اور بہت سی بین الاقوامی کوششیں ایسی نظر آتی ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ بالا رادہ منصوبے بنا کران

Page 649

خطبات طاہر جلد ۶ 645 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء مسائل کا حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے مگر جتنے بھی ایسے منصوبوں کا میں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا اور جولٹریچر امریکہ کی طرف سے مختلف ایجنسیوں کے نام پر یا مختلف مصنفین کے نام پر ان مسائل کو حل کرنے کے لئے بظا ہر آزادانہ شائع کروایا جاتا ہے اس کا بھی میں نے جائزہ لیا تو میں اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کوشش بھی خود مزید تضادات کا شکار ہے.ایسی سوسائٹی جو اس قسم کے تضادات کا شکار ہو چکی ہو اس کے زندہ رہنے اور پنپنے کے بظاہر کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے.لازما کچھ ہونا ہے، لازما خدا کی تقدیر کچھ ایسی باتیں ظاہر کرے گی جس کے نتیجے میں یہ فرسودہ نظام مٹنے ہیں اور اس کے سوا کوئی چارہ دکھائی نہیں دیتا.صرف فیصلہ کن امر یہ ہے کہ کیسے یہ نظام مٹیں گے؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا اب تو نہ مشرق سے کوئی امید رہی نہ مغرب سے کوئی امید رہی اور جہاں تک مذہبی نکتہ نگاہ کا تعلق ہے ایسی کوئی قوم دکھائی نہیں دے رہی جو خالصہ اللہ اور خالصہ بنی نوع انسان کے تعلق کی بناء پر کوئی منصو بہ رکھتی ہو اور اسے عملی جامہ پہنانے کی کوشش کر رہی ہو.دنیا کے سیاسی نقشے پر آپ نگاہ ڈال کر دیکھیں خواہ عیسائی دنیا کا سیاسی نقشہ ہو یا اسلامی دنیا کا سیاسی نقشہ ہو یاد ہر یہ دنیا کا یا اور مذاہب کے نام پر منسوب ہونے والے سیاسی نقشے ہوں کہیں آپ کو کوئی بھی نجات کا دروازہ دکھائی نہیں دے گا بلکہ ان بڑے تضادات کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہر چھوٹی قوم مزید شکار ہو چکی ہے اور وہ نہیں جانتے کہ ہمیں کیا رخ اختیا کرنا ہے.چنانچہ بسا اوقات آپ کو یہ دکھائی دے گا کہ بعض لوگ امریکہ جس کو آزاد دنیا کہا جاتا ہے ان کے حالات سے غیر مطمئن ہوکر مشرق میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتے ہیں اور بعض جو مشرق کو قریب سے دیکھتے ہیں اور اس کے مشرقی طاقتوں کے متعلق ان کے تصورات میں تبدیلی پیدا ہو چکی ہوتی ہے تجر بہ ان کو بتاتا ہے کہ یہ بھی نہایت ہی خطرناک اور مہلک تعلق ہے جو کوئی بھی فائدہ عطا نہیں کریں گے تو پھر وہاں سے وہ بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں اور مغرب کا رُخ اختیار کرتے ہیں.کچھ ایسے ممالک ہیں جو مستقل یا ایک کا حصہ بن گئے یا دوسرے کا حصہ بن گئے اور جو ملک جس نظام کا حصہ بنا اس نے اپنے مذہب کو بھی وہی رنگ عطا کر دیا.چنانچہ ایک ہی مذہب مختلف رنگوں میں دکھائی دینے لگا.اسلامی دنیا کا حال آپ دیکھ لیجئے آپ کو اسلام لیبیا میں اور سیر یا یعنی شام

Page 650

خطبات طاہر جلد ۶ 646 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء میں نہایت سست دکھائی دے گا اور یہی اسلام سعودی عریبیہ میں اور ایران میں مختلف رنگوں کا سبز دکھائی دے گا.کچھ ممالک ایسے ہیں جنہوں نے بغیر مذہب کے یک طرفہ تعلق کو قبول کر لیا اور ایک طاقت کے اوپر گویا لٹک گئے.کچھ ایسے ہیں جنہیں آج تک اپنی بنیادی تشخیص کی ہی توفیق نہیں ملی.جہاں تک ایران کا تعلق ہے ایران نے یہ حل نکالنے کی کوشش کی نہ ہم مشرق سے تعلق رکھیں نہ مغرب سے تعلق رکھیں اور جس چیز کو ہم اسلام سمجھتے ہیں اسے دنیا کے سامنے آزادانہ پیش کریں تا کہ اس کے اوپر کسی بڑے بلاک کا اثر دکھائی نہ دے لیکن بدنصیبی سے جس کو انہوں نے اسلام سمجھا اور اسلام دیکھا اور اسلام کے طور پر پیش کیا وہ خود اپنی ذات میں ایک بھیانک تصور ہے جو ہر گز دنیا کو مطمئن نہیں کرسکتا.تو اب بڑی دیانتداری سے اور بیرونی نظر سے اگر آپ دیکھیں، آفاقی نظر سے دیکھیں تو دنیا کے کسی خطے میں مستقبل کے امن کی کوئی ضمانت دکھائی نہیں دے گی اور کوئی ایسے آثار دکھائی نہیں دیں گے جن پر بناء کرتے ہوئے ہم ہوشمندانہ طور پر امید رکھ سکیں کہ ہاں آئندہ کسی وقت یا حالات تبدیل ہو جائیں گے.آپ ہیں صرف یعنی جماعت احمد یہ اور اس کے سوا اور کوئی نہیں ہے جس سے دنیا کے مستقل کا امن وابستہ ہے.عقلی طور پر وابستہ ہو سکتا ہے، عقلی طور پر یہ امکان موجود ہے کہ اگر جماعت احمد یہ دنیا میں پھیلے تو اس کے ساتھ ہر قسم کے امن کا تحفظ دنیا میں پھیلے گا اور اس کے ساتھ ہر قسم کے تضادات دور ہونے کا ایک سلسلہ جاری ہو جائے گا.یہ دعویٰ بہت بڑا دعویٰ ہے لیکن امر واقعہ ہے کہ ہر احمدی اپنی شخصیت کے اندر اس دعویٰ کو جانچ سکتا ہے.احمدیت نے اسے کیا شخصیت عطا فرمائی ہے ایک انتہائی متوازن شخصیت جو خالصۂ انصاف پر ہی مبنی نہیں بلکہ اپنا حق چھوڑ کر دوسرے پر احسان کرنے کے رجحان پر مبنی ہے.ایک ایسی شخصیت جو خالصہ اللہ سے محبت رکھنے والی اور اللہ کی محبت چاہنے والی ہے، ایک ایسی شخصیت جو واقعہ بنی نوع انسان کی ہمدردی رکھتی ہے.مشرق سے بھی محبت رکھتی ہے، مغرب سے بھی محبت رکھتی ہے، نہ امریکہ میں رہتے ہوئے امریکن احمدی کو روس سے دشمنی ہے بلکہ روسی انسان اسی طرح اس کو پیارا ہے جس طرح مغرب میں بسنے والا کوئی انسان.نہ مشرقی اشترا کی دنیا میں رہنے والے آدمی کو امریکہ سے کوئی دشمنی ہے بلکہ امریکہ کا انسان اسے اسی طرح پیارا ہے جس طرح مشرق میں بسنے والا انسان.ایک عالمی شخصیت وجود میں آرہی ہے.ایک بین الاقوامی روح ترقی کر رہی ہے جس کا تمام تر مدار

Page 651

خطبات طاہر جلد ۶ 647 خطبه جمعه ۹ / اکتوبر ۱۹۸۷ء خالص تقویٰ پر ہے، خالص انصاف پر ہے، خالص انسانی ہمدردی پر ہے اور یہ روح اللہ کے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتی.جب تک خدا کا تعلق غالب نہ رہے ہماری زندگی کے ہر فیصلے میں فیصلہ کن نہ بن جائے اس وقت تک یہ مزاج پیدا نہیں ہو سکتا اور اسی وجہ سے جماعت احمدیہ کو یہ استثناء حاصل ہے آج دنیا میں کہ جماعت احمدیہ کے سوا اور کسی کو خدا کا وہ تعلق نصیب نہیں ہے جس کے نتیجے میں ایک ایسی انسانیت وجود میں آتی ہے جو سب انسانوں کے درمیان سانبھی ہو جاتی ہے، جو سب سے پیار کرنے والی ہوتی ہے سب کا بھلا چاہتی ہے اور اس کے نتیجے میں قربانیاں دیتی چلی جاتی ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کا آغاز ہمیشہ نبوت کے ساتھ ہوا ہے ساری تاریخ مذاہب کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے آپ کو اس ضمون کا آغا ز نبوت کے بغیر کہیں دکھائی نہیں دے گا.چنانچہ عجیب بات ہے کہ وہ لوگ جو دنیا کے سب سے سچے ہمدرد ہوتے ہیں سب سے زیادہ پیار کرنے والے ہوتے ہیں، وہ جن کی ذات کے ساتھ دنیا کی نجات وابستہ ہو جاتی ہے سب سے زیادہ دنیا ان سے دشمنی کرتی ہے.بظاہر اس بات میں بھی ایک تضاد دکھائی دے رہا ہے وہ وجود جو رحمت اللعالمین بن کے آیا سب سے زیادہ دنیا نے اس سے دشمنی کی ہے.یہ دعویٰ ایک وسیع آفاقی نظر سے جانچنے کے نتیجے میں کھل کر سامنے آتا ہے عموما مسلمان عرب میں ہونے والی ان دشمنیوں کے ذکر تک اپنے آپ کو محدود کر دیتے ہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی کے زمانے میں خصوصا مکی دور میں اور بعد میں بار بامدنی دور میں بھی مسلمانوں کے مقابل پر ظہور پذیر ہوئیں.اس دشمنی کا اثر شدید تھا اور بڑے ہی دردناک مناظر ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن دائرہ محدود تھا اور کچھ عرصے کے لئے تھی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ آفاقی نظر سے مطالعہ کر کے دیکھیں تو دنیا کے کسی نبی کو دنیا کے باقی مذاہب نے اتنی گالیاں نہیں دیں جتنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کود ہیں.ساری عیسائی تاریخ ، ساری یہودی تاریخ ، ساری ہندو تاریخ اور دیگر مذاہب کی تاریخ اس بات سے بھری ہوئی ہے.آخر ہندوؤں کے یہودیوں سے بھی تو اختلاف ہیں عیسائیوں سے بھی تو اختلاف ہیں دوسرے دیگر مذاہب سے بھی اختلاف ہیں، مگر مجھے کوئی ایک ہندو کتاب اٹھا کر دکھائیے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو گالیاں دی گئی ہوں ، حضرت عیسی علیہ السلام کو گالیاں دی گئی ہوں.جو بد بخت اٹھتا ہے ان میں سے لکھنے والا یعنی مذہب کے معاملے میں لکھنے والا وہ دنیا کی سب سے مقدس

Page 652

خطبات طاہر جلد ۶ 648 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء ذات ،سب سے زیادہ ہمدرد ذات کو اپنے ظلم اور اپنے دل کے تعفن کا نشانہ بناتا ہے.ایسی ایسی ظالمانہ کتا بیں ہیں کہ خون کھولنے لگتا ہے انسان چند صفحے مطالعہ نہیں کرسکتا.پھر آپ عیسائی دنیا کے لٹریچر کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے وہ یہود جن سے سب سے زیادہ ضرران کو پہنچا آغا ز عیسائیت پر، وہ یہود جو مسیح کی صلیب کا موجب بنے ان کی سب تکلیفوں کو کلیۂ بھلایا جا چکا ہے.گزشتہ سینکڑوں سال سے جو عیسائی مصنف اٹھتا ہے وہ اسلام کو اپنے مظالم کا نشانہ بناتا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات کو خصوصیت کے ساتھ اپنے طعن وتشنیع کا نشانہ بناتا ہے.یہودی کتب اٹھا کر دیکھ لیجئے عیسی علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کا ایک فوری مقابلہ تھا اس وقت جو بعد میں پھیلتا چلا گیا اور وہ مقابلہ جس کا آغاز حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوی کے ساتھ ہوا تھا وہ آج تک اسی طرح جاری رہنا چاہئے مگر عیسائی اور یہودی Polarization یہ مد مقامل جو مورچہ بندی ہے یہ آپ کو وہاں دکھائی نہیں دیتی لیکن یہودیوں کا رُخ بھی اسلام کی طرف اور خصوصیت سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف ہے اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں قرآن کریم کی تعلیم سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت سے واقف سبھی لوگ جانتے ہیں کہ اس سے زیادہ بنی نوع انسان کا ہمدرد وجود نہ پیدا ہوا نہ ہوسکتا ہے عقلاً.ممکن نہیں کہ کوئی انسان ان حدووں سے تجاوز کر جائے جو نیکی اور رحمت کی حدیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے چھوٹی تھیں.پھر یہ تضاد کیوں ہے؟ کیوں ایک ایسے انسان کی دشمنی کی جاتی ہے اس کے مختلف محرکات بھی ہیں اور مختلف فلسفیانہ پس منظر بھی ہیں اور یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے لیکن اس کے صرف ایک پہلو کی طرف میں آج آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.خدا ان لوگوں سے جو اسے سب سے زیادہ پیارے ہوں اور پھر ان لوگوں سے جو بنی نوع انسان کے لئے سب سے زیادہ پیارے وجود بننے والے ہوں جو بنیادی صلاحیتیں رکھتے ہوں کہ بنی نوع انسان کے آئندہ سب سے زیادہ محبوب بنے والے ہوں ان سے یہ سلوک کیوں ہونے دیتا ہے؟ ایک حکمت اس کی یہ ہے کہ دعوے پر کھے جاتے ہیں اور آزمائش کی چکی میں سے گزر کہ دعووں کی حقیقت روشن ہوا کرتی ہے.بے شمار انسان ہیں جو کسی اور انسان سے تعلق کا دعویٰ کرتے ہیں اگر اس دعوی کو پرکھا نہ جائے تو ہم نہیں کہہ سکتے کہ کون اپنے دعوے میں سچا ہے اور کون اپنے دعوے میں جھوٹا ہے اور فرضی

Page 653

خطبات طاہر جلد ۶ دعوے کر رہا ہے.649 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء آپ ایک دوست سے دوستی کا تعلق رکھتے ہیں وہ آپ پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتا ہے آپ اس پر جان نچھاور کرنے کی باتیں کرتے ہیں لیکن ایک وقت آپ کو اچانک کوئی مشکل پیش آجاتی ہے آپ اس کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں وہ بہانے بنا دیتا ہے اور کئی قسم کے عذر پیش کرتا ہے اس وقت آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ یہ سارے دعوے فرضی تھے اور یہ آزمائش روز مرہ کی زندگی میں چلتی چلی جارہی ہے.مشکل کے وقت باپ کو اپنی اولاد کی محبت کا پتا چلتا ہے ،ہمشکل کے وقت اولا د کو اپنے ماں باپ کی محبت کا پتا چلتا ہے، دوستوں کی دوستی پر بھی جاتی ہے محبت کرنے والوں کی محبت کے دعوے پر کھے جاتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ جتنا امتحان شدید ہوتا چلا جائے اتنا ہی زیادہ کسی دعوے کی صداقت نمایاں طور پر کھل کر اور روشن طریق پر ظاہر ہوتی ہے اور یہ بھی ایک امر واقعہ ہے کہ کلیہ ہر حالت میں کسی کا ہو رہنے کا دعوی یہ ایک محض فرضی دعویٰ ہے انسان میں یہ طاقت نہیں ہے.آزمائش اگر بہت بڑھ جائے تو پھر انسان ہر دوسرے کو چھوڑتا چلا جاتا ہے اور یہ ایک نفسیاتی نکتہ ہے کہ آخر پر صرف نفس باقی رہ جاتا ہے.صرف فرق یہ ہے کہ کونسی ایسی آزمائش ہے جس کے اندر یہ امتحان مکمل ہو جائے.بظاہر ایک باپ بعض دفعہ اپنی بیٹی کے لئے جان قربان کر دیتا ہے اور آپ کہہ سکتے ہیں کہ دیکھو اس نے تو اپنا نفس قربان کر دیا لیکن قرآن کریم اس مضمون کو ایک اور رنگ میں پیش فرماتا ہے.کہتا ہے بعض ابتلا ایسے خطر ناک ہوتے ہیں کہ کوئی جان کسی دوسری جان کے لئے قربانی کے لئے تیار نہیں رہتی.جتنے ابتلا بڑھتے چلے جاتے ہیں جتنی تکلیف کی شدت اونچی ہوتی چلی جاتی ہے اتنا ہی اس امر کی چھان بین ہوتی چلی جاتی ہے، یوں کہنا چاہئے کہ نکھر کر یہ معاملہ سامنے آتا چلا جاتا ہے کہ کس حد تک کوئی کس سے پیار کرتا تھا، کس حد تک کوئی کسی سے محبت رکھتا تھا اور قربانی کے لئے تیار تھا.چنانچہ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک وقت ایسا آئے گا جب بنی نوع انسان خدا کی پکڑ کے نیچے ہوں گے.وہ ایسا سخت دن ہوگا کہ کوئی ماں اپنے بچے کے لئے قربانی کے لئے تیار نہیں ہوگی بلکہ تمنا کرے گی کہ کاش! میرا بچہ پکڑا جائے اور میں بچ جاؤں.کوئی بچہ اپنے ماں باپ کے لئے قربانی کے لئے تیار نہیں ہوگا اور یہ تمنا کرے گا کہ کاش! میرا باپ پکڑا جائے یا میری ماں پکڑی جائے اور میں اس مصیبت سے بچ جاؤں، کوئی بہن اپنے بھائی کے لئے

Page 654

خطبات طاہر جلد ۶ 650 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء قربانی کے لئے تیار نہیں ہوگی.پس امتحان کا معیار بلند کر دیں پختی کا معیار بلند کر دیں تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ کون کس کا ہے.ایک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات ہے جو ہر خطرناک امتحان سے پوری گزرنے کے بعد بھی خدا کے نزدیک اس لائق ٹھہری کہ ہر بڑی سے بڑی تکلیف کے وقت وہ بنی نوع انسان کی ہمدردری میں اور دوسروں کی ہمدردوری میں اپنے نفس کو قربان کرنے کے لئے تیار ہے.یہی وہ گہرا فلسفہ ہے جس کے نتیجے میں آپ کو شفیع بنایا گیا ہے.لوگ بڑے آرام سے ہلکے سے منہ سے کہہ دیتے ہیں شفیع ہیں دنیا کے، ہم گناہگاروں کے اور گویا بڑے آسانی سے شفاعت نصیب ہوگئی ہے.خدا نے کہہ دیا تو شفیع بن گیا وہ شفیع ہو گئے حالانکہ ان انعامات میں ان عظیم مقامات میں جو اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے ان کے پیچھے بھی گہری حکمتیں ہوتی ہیں.خدا کا کوئی فیصلہ بھی حکمت سے خالی نہیں.تمام بنی نوع انسان کا شفیع اس کو بنایا جس کے متعلق جانتا تھا اور جانتا ہے کہ وہ تمام بنی نوع انسان کا سب سے زیادہ ہمدرد ہے اور تکلیفوں میں پڑ کر اس کی سچائی کھل کر نکھر کر سامنے آچکی تھی.تمام دنیا نے جو مظالم کا نشانہ صلى الله بنانا تھا حضرت اقدس محمد مصطفی ہے اس میں سے کچھ نمونے آپ نے دیکھے تھے اور بہت سے ایسے تھے جو آپ کو بتائے گئے تھے اور قرآن کریم نے اس کی پیشگوئیاں کیں اور ملا مگہ اللہ نے ان کی تفاصیل سے آنحضرت ﷺ کو آگاہ فرمایا کہ ایسی بدبخت قومیں ہیں جنہوں نے تجھے اپنے مظالم کا نشانہ بننے کے لئے پہن لینا ہے اور صدیوں کے بعد صدیاں گزرتی چلی جائیں گی اور وہ تیرے اوپر گند اچھالتے چلے جائیں گے وہ تیرا انکار کرتے چلے جائیں گے، تیری تکذیب کرتے چلے جائیں گے.یہ خبریں خصوصیت کے ساتھ سورہ کہف میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو دی گئیں اور احادیث سے پتا چلتا ہے کہ ان کی بہت سی تفاصیل مختلف مواقع حضور اکرم ﷺ کو بتائی گئیں.جب یہ بتایا گیا کہ اس کے نتیجے میں بالآخر یہ قو میں ہلاک ہوں گی تو اس وقت حضرت محمد مصطفی امیہ کے دل کی جو حالت ہوئی اس کو قرآن کریم ان الفاظ میں ذکر فرماتا ہے:.فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكيف : ) کہ اے محمد ! تیرے دل کا کیا حال ہے ہم تجھے ان قوموں کے عذاب کی خبر دے رہے

Page 655

خطبات طاہر جلد ۶ 651 خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۷ء ہیں جو تیری مخالفت پر تلے بیٹھے ہیں اور ہزار سال بلکہ اس سے بھی بڑھ کر وہ تیری مخالفت پر وقف ہو جائیں گے اور تیرے دین کو مٹانے کی کوشش کریں گے اور جب ہم یہ خبر دیتے ہیں کہ خدا ان کو ہلاک کرے گا تو تیرے دل کا کیا حال ہے.تو کیا اس غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا کہ یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے.یہ وہ دل تھا جو کل عالم کا شفیع بنے کا اہل تھا، یہ وہ دل تھا جسے رحمت للعالمین قرار دیا گیا.پس وہ ساری پیشگوئیاں جو قرآن کریم میں اس پاک وجود کی مخالفت کے نتیجے میں دنیا کے ہلاک ہونے کے متعلق موجود ہیں ہم اس دور سے گزر رہے ہیں ، وہ حالات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں جو مستقبل کی باتیں تھیں وہ آج حال بن چکی ہیں اور اس بنتی ہوئی اور قوموں کی بگڑتی ہوئی تاریخ کو ہم اپنی آنکھوں سے مطالعہ کر رہے ہیں.اس تاریخ ساز یا تاریخ کو بگاڑنے والے دور میں سے آج ہم گزر رہے ہیں اور محمد مصطفی ﷺ کے دل کی نمائندگی ، اس پاک دل کی نمائندگی ہمیں عطا ہوئی ہے اور یہ نمائندگی نہیں ہو سکتی جب تک اپنے دلوں کو رحمت کی آماجگاہ نہ بنالیں جب تک وہی جذ بہ اپنے دل میں پیدا نہ کریں جس طرح مائیں اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں آپ اس جذبے کی پرورش نہ کریں اس وقت تک نہ آپ حقیقی معنوں میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے نمائندہ بن سکتے ہیں نہ حقیقی معنوں میں آپ کو وہ اختیار نصیب ہوگا ، وہ قوت عطا ہوگی ، خدا کی تقدیر کی وہ تائید ملے گی کہ جس کے نتیجے میں آپ حقیقی عملاً بھی آنحضرت ﷺ کی رحمت اس دنیا کو پہنچا سکیں گے اور اس دنیا کو ہلاکت سے بچاسکیں گے.صلى الله یہ وہ خلاصہ ہے مضمون کا جو امریکہ کے حالات دیکھ کر بنی نوع انسان کے حالات دیکھ کر میرے دل میں اُبھرا اور جب میں نے سوچا کہ یہ تو ایسے ایسے خطرناک حالات ہیں اور اتنے وسیع پیمانے پر ہیں اور اتنے بڑے قوتوں کے پہاڑ ہمارے مقابل پر کھڑے ہیں کہ ہم بالکل بے بس ہیں اس کے مقابل پر.پھر جب دل میں شدید اس کے لئے کرب پیدا ہوا بے چینی پیدا ہوئی تو ظاہر ہے کہ انسان پھر نظر اپنے بڑوں کی طرف اٹھاتا ہے، جب بھی مصیبت میں پڑتا ہے میری نظر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف منتقل ہوئی آپ کے حالات کا جائزہ لیا تو اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ دنیا کے نجات جس طرح کل آپ کی ذات سے وابستہ تھی آج بھی ہماری ذات سے نہیں بلکہ محمد ہی کی ذات سے وابستہ ہے.اس ذات کو اپنی ذات میں اتارنا پڑے گا.وہی ایک ذات ہے

Page 656

خطبات طاہر جلد ۶ 652 خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۷ء جو آپ کو بچا سکتی ہے اور وہی ایک ذات ہے جو تمام دنیا کے لئے امن کی ضمانت دے سکتی ہے.اس ذات کو تمام دنیا میں منتشر کرنا پڑے گا ، اس کا عکس ہر دل میں اتارنا ہوگا.یہ وہ رستہ ہے جس کے سوا اور کوئی نجات کا رستہ نہیں اور اگر آنحضرت ﷺ کی سیرت اور خصوصیت سے اس پاکیزہ رحمت للعالمین کے رجحان کو اپنے دلوں میں آپ سالیں اور اس کی حفاظت کریں اور اس کی پرورش کریں تو ناممکن ہے کہ خدا آپ کو ہلاک ہونے دے، ناممکن ہے کہ یہ جذ بہ کسی اور نفرت کے جذبے سے شکست کھا جائے.ہر چیز ممکن ہے لیکن محمد مصطفی امیہ کی سیرت کے مقدر میں شکست ممکن نہیں.اس لئے اس طاقت کے سرچشمے کے ساتھ کھڑے ہو جا ئیں اور اس سے آپ پانی پئیں جو سر چشمہ ہمیشہ کی فتح کے لئے ایک آب حیات کا مقام رکھتا ہے لیکن یہ کہنا آسان ہے جب ہم اس کی تفصیل میں جاتے ہیں تو پھر دل مزید ڈولنے لگتا ہے اور کئی قسم کے خطرات سامنے آتے ہیں.کتنا تسکین بخش ہے یہ مضمون لیکن مشکل بھی تو بہت ہے.عام دنیا میں کسی کو آپ ہیرو بنائیں اپنا، معمولی سی ذات ہو ، ویسا بننے کی کوشش کریں ساری عمر آپ گزار دیں گے پھر بھی بسا اوقات آپ میں اکثر ویسا نہیں بن سکیں گے.بعض لوگ اپنا ہیرو بناتے ہیں اور اس کی آواز Imitate کرتے ہیں اس کی طرز Imitate کرتے ہیں اس کی نقالی کرتے ہیں کہ ہم ویسے ہو جائیں اور یہ ہیر ومختلف قسم کے ہیں.بائرن ایک دفعہ ایک زمانے میں بڑا بدکردار نواب مشہور تھا بہت اچھا شاعر تھا مگر وہ ہیرو بن گیا.وہ لنگڑا کر چلا کرتا تھا، ہلکی سی لنگڑاہٹ تھی اس کی چال میں اور انگلستان کے بڑے بڑے لارڈ اور بڑے بڑے جو چوٹی کے فیشن میں آگے آگے لوگ تھے انہوں نے بھی لنگڑا کر چلنا شروع کر دیا.عجیب حال تھا.تو دنیا تو اپنے ہیرو کی خاطر لنگڑا کے چلتی ہے، آپ محمد مصطفی ﷺ کی خاطر کیوں ہمیشہ کا ، ابدی حسن اختیار نہیں کرنے کی کوشش کرتے ؟ اس ذات کو اپنا ہیرو بنا ئیں.اس جیسا بننے کی کوشش کریں اور یقین رکھیں کہ اس کی ہر ادا پیاری ہے، ہر ادا زندہ رکھنے کے لائق ہے اور خدا ہر ادا کولا زما زندہ رکھے گا.کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جومحمد مصطفی امت ہے کی اداؤں کو مٹا دے.انہی اداؤں میں آپ کی زندگی ہے اور انہی اداؤں کے ساتھ آج تمام دنیا کی زندگی وابستہ ہوچکی ہے.مشکل ہے لیکن محبت سے یہ مضمون آسان ہوتا ہے، تلقین سے آسان نہیں ہوگا، نصائح سے

Page 657

خطبات طاہر جلد ۶ 653 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء آسان نہیں ہوگا.پیار اور محبت سے آسان ہو گا محبت ہو جائے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لنگڑوں کی بھی نقالی کی جاتی ہے.محمد مصطفی ﷺ کا تو ایسا پیارا وجود ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.اگر خواهی دلیل عاشقش باش محمد ہست محمد برہان کہ محمد کی صداقت اس کے حسن کی دلیل پوچھتے ہو تو میرا جواب یہ ہے کہ اس کا عاشق ہو جاؤ محمد تو خود اپنے حسن کی دلیل ہے کبھی حسینوں کے متعلق بھی ثابت کیا جاتا ہے کہ کیوں حسین ہے.ان کا حسن دلیل ہوا کرتا ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ مجسم حسن ہیں.دلیلوں کے ذریعے تم نہیں پہنچو گے.ہاں دیکھو اور عاشق ہوتے چلے جاؤ.وہی جواب جو ایک عارف باللہ نے اس وقت دیا تھا وہی جواب آج ہمارے لئے ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کو اپنانے کے تمام کٹھن مراحل آسان ہو سکتے ہیں اگر آپ اس سیرت پر عاشق ہونا شروع کر دیں.اس سے آگاہ ہوں، اس کا گہری نظر سے مطالعہ کریں، ایک دلی تعلق اور وابستگی پیدا کریں، درود میں کثرت کریں.ہر اپنے روزانہ کے حالات پر اگر آپ غور کریں تو اتنے احسانات ہیں ہم پر حضرت محمد مصطفی اس کے کہ کسی دوسرے مطالعہ کی ضرورت نہیں رہتی باقی اگر ضرورت ہے تو مزید حسن میں اضافے کے لئے ہے.ورنہ ہر روز آپ کی زندگی میں جو بھی نیکیاں ہیں جو بھی آپ کے دل کی بھلائی ہے، جو بھی آپ کی سیرت کا حسن ہے کبھی آپ موازنہ کر کے دیکھیں اس کو ہر جز حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ سے آپ کو ملا.کوئی پیاری بات آپ کی ذات میں نہیں ہے جو بالآخر چشمہ محمدی سے نہ پھوٹتی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو یہ احسان ہے کہ آپ نے اس چشمے سے پانی پیا خالصہ اس کے ہو گئے اور ہمیں بلا کر اس کی راہ دکھانے لگے لیکن اصل وہی ہے، سارے حسن کا سر چشمہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہیں.اس ضمن میں ایک آخری بات کہہ کر میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ روزانہ جب آپ نماز ادا کرتے ہیں تو سورہ فاتحہ کی اس دعا میں کہ اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتح: ۵) آنحضرت مہ کی محبت کی التجا بھی شامل کر لیا کریں.جب آپ کہتے ہیں کہ اے خدا!! ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں تو بہت بڑا دعوی ہے.کیسے عبادت کریں، کس

Page 658

خطبات طاہر جلد ۶ 654 خطبه جمعه ۹/اکتوبر ۱۹۸۷ء طرح وہ عبادت نصیب ہو؟ اس کے لئے فرمایا اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ہم تجھ سے یہ مدد چاہتے ہیں.تیری مدد کے بغیر عبادت نصیب نہیں ہو سکتی.مگر اصل پیغام اس دعا میں ہی ہے کہ عبادت تو کرنا چاہتے ہیں مگر ویسی عبادت کرنا چاہتے ہیں جیسی محمد مصطفی می ا ہو نے کی تھی کیونکہ تو نے خود سے عبد کا خطاب دیا قاما عبدالله (الجن : ۲۰) قرآن کریم نے سب سے بڑا لقب جس کسی نبی کو عطا کیا ہے وہ عبداللہ کا لقب ہے چنانچہ فرمایا کہ حمد عبد اللہ ہے.پس عبادت کا عبد کے ساتھ گہرا تعلق ہے ایک ہی لفظ کی دو مختلف شکلیں ہیں پس جب آپ کہتے ہیں اِيَّاكَ نَعْبُدُ تو اس میں یہ بات داخل کریں کہ آنحضرت ﷺ نے جس طرح تیری عبادت کی تھی ویسی ہی عبادت ہم کرنا چاہتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے تو عشق کے ساتھ عبادت کی تھی اور عشق از خود پیدا نہیں ہو سکتا.اس لئے اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ اے خدا! اس معاملے میں ہم بالکل نا اہل اور بالکل صفر ہیں کوئی ہماری حالت نہیں ہے، دعویٰ اتنا بلند اور اعمال ایسے کمزور.صرف ایک سہارا ہے کہ عبادت کی توفیق بھی تجھ سے مانگیں.پس ہمیں حضرت محمد مصطفی ﷺ جیسا عبد بنادے.اگر اس نیت سے آپ دعا کریں گے تو اللہ کی عبادت کا گر بھی آپ کو نصیب ہو گا اور حضرت محمد مصطفی اللہ کا عشق بھی آپ کو نصیب ہوگا ایک ہی چیز کے دو نام بن جاتے ہیں آخر پہ ، ان دوباتوں میں پھر کوئی تفریق نہیں رہتی.اس نیت سے اس مضمون کے مطابق اگر آج امریکہ کا ہر احمدی اپنی تربیت شروع کر دے اور اپنے بچوں کی تربیت شروع کر دے تو اتنی عظیم الشان طاقت آپ میں سے پیدا ہوگی کہ آپ باوجوداس کے کہ اب بھی خدا کے فضل سے اپنی نیکیوں کی وجہ سے ایک طاقت ہیں.آپ تصور نہیں کر سکتے کہ آپ میں اندر کتنی مزید طاقتوں کے امکانات موجود ہیں ایک نا قابل تسخیر قلعہ بن جائے گا اسلام کے لئے امریکہ.دنیا میں ہلاکتیں پھیلانے کا ذریعہ نہیں رہے گا بلکہ ساری دنیا کے لئے امن کا ذریعہ بن سکتا ہے اگر امریکہ میں بسنے والے احمدی اس نسخے کو آزمائیں اور اس نسخے کے اوپر ہمیشہ عمل کرنے کی کوشش کریں اور خالصہ اللہ اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی محبت کو اپنی ذات میں داخل کرنے کی کوشش کریں.کام آپ کو دیئے جاتے ہیں یہ کوئی مصنوعی حیثیت نہیں رکھتے ، پھر کوئی بیرونی تلقین کی حیثیت نہیں رکھتے یہ آپ کے دل سے اگیں گے آپ کے دل کی تمنا بنیں گے پھر قربانیوں کے لئے

Page 659

خطبات طاہر جلد ۶ 655 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء آپ کو جب بلایا جائے گا تو آپ یہ نہیں سمجھیں گے کہ باہر سے میری مرضی کے خلاف مجھے آواز دی جا رہی ہے میں بیٹھنا چاہتا ہوں مجھے چلایا جارہا ہے، میں چلنا چاہتا ہوں مجھے دوڑایا جار ہے بلکہ آپ کے دل کی کیفیت حضرت ابراہیم کے دل کی سی کیفیت ہو جائے گی.ربنا ارنا مناسکنا(البقرہ:۱۳۹) کی آواز آپ کے دلوں سے اٹھے گی.اے خدا ! وہ ولولہ پیدا ہو گیا ہے عشق محمد مصطفی میر کے نتیجے میں اور تیرے پیار کے نتیجے میں کہ اب ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں قربان گاہیں دکھائی جائیں.ہم ڈھونڈ رہے ہیں ان مواقعوں کو ہم تلاش میں ہیں ان نیکیوں کی جن کی طرف ہمیں بلایا جائے اور ہم دوڑتے ہوئے لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھیں.یہ وہ کیفیت ہے جو اس مضمون کے نتیجے میں لا زما نصیب ہوا کرتی ہے اور یہ مقام اگر کسی جماعت کو عطا ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ آپ نے پھیلنا ہی پھیلنا ہے کوئی طاقت روک ہی نہیں سکتی آپ کو.کوئی دنیا کی قوت ایسی نہیں جو نظام قدرت کے قوانین کے اوپر غالب آسکے.ایک چھوٹی سی بھاپ کی طاقت ہے اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک نوجوان لڑکے نے انجمن ایجاد کر لیا.انجن بھاپ سے چلنے والا تمہاری مشینوں کا تصور منتقل ہوا اور پھر ریلوے کا انجن ایجاد کیا پھر اور بہت سی مشینیں اس سے نکلیں.اس کا خیال تھا کہ میں بھاپ کو جوا ہلتی ہوئی دیچی سے نکل رہی ہو اس میں کسی طرح دبا کر دیکھوں کیا ہوتا ہے.پہلے اس نے آٹا واٹا لگا یا اس کو دبایا اس پر پتھر رکھے تھوڑی دیر بعد پھر بلبلے نکلنے شروع ہو گئے پھر اس نے اور کوشش کی جو بوجھل سی چیزیں رکھی جا سکتی تھیں اس پر رکھ دیں آپ اس پر کھڑا ہو گیا لیکن پھر تھوڑی دیر کے بعد ایک طرف سے اور زیادہ قوت کے ساتھ وہ بھاپ نکلنا شروع ہو گئی.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت خدا کی قسم اس بھاپ کی قوت سے سینکڑوں ہزاروں گنا زیادہ طاقتور ہے کوئی دنیا کی طاقت اس قوت کو دبا نہیں سکتی اگر یہ سچے طور پر آپ کے دلوں میں جاری ہو جائے.کیسے آپ رُکیں گے ایک مقام پر پھر؟ کیسے دنیا آپ کی رفتار میں حائل ہو سکے گی؟ آپ کو لا زما بڑھنا ہوگا اور پھیلنا ہوگا اور اس قوت پر آپ کا اپنا اختیار نہیں رہے گا.اس لئے میں یہی دعا کرتا ہوں اور یہی تمام امریکہ کو واشنگٹن سے میرا پیغام ہے کیونکہ یہ.آپ کا ہیڈ کوارٹر ہے کہ اس سے بہتر نسخہ ان سارے مسائل کے علاج کے طور پر مجھے اور کوئی معلوم نہیں

Page 660

خطبات طاہر جلد ۶ 656 خطبه جمعه ۹ /اکتوبر ۱۹۸۷ء نہ ممکن ہوسکتا ہے اللہ کرے کہ ہم اس نسخے پر عمل پیرا ہو جائیں اور پھر سارے ترقیات کے مراحل ہم پر خود بخود آسان ہوتے چلے جائیں گے.اللہ کرے کہ جلد تر ہمیں یہ مقام نصیب ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آج نماز جمعہ اور نماز عصر کے بعد کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.سب سے پہلے تو ایک بہت ہی تکلیف دہ خبر بنگلہ دیش سے ملی ہے کہ مولوی محمد صاحب سابق امیر بنگلہ دیش 5 اکتوبر کو بعمر 85 86 سال وفات پاگئے ہیں.بہت ہی مخلص فدائی احمدی تھے اور جب تک صحت نے اجازت دی بڑی عمر کے باوجود گزشتہ چند مہینے پہلے تک یہ امیر کے فرائض سرانجام دیتے رہے.جب میں نے دیکھا کہ اب ان کے لئے ناممکن ہو گیا ہے بہت ہی زیادہ کمزور اور تکلیف میں تھے تو پھر امارت کو تبدیل کیا گیا اور یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک مقدر ہی تھا کیونکہ پھر بہت جلد اس کے چند مہینے بعد ہی ان کی وفات مقدر تھی.جب بنگلہ دیش بن رہا تھا اور بنگلہ دیش کے بعد جبکہ جو قومی جذبات ہیں وہ بے قابو ہو گئے تھے اور بہت سے نوجوان ایسے تھے جنہوں نے احمدیت کے مقابل پر بھی قومیت کو ترجیح دینا شروع کی.اس وقت مولوی محمد صاحب ایک استقامت کا مینار بن گئے تھے اس کے لئے.ساری جماعت کے رجحان کو اس ذہنیت کو درست کیا اور خدا کے فضل سے بعض جگہوں کو ایک خطر ناک ابتلا سے بچالیا.تو اس لئے خاص طور پر یہ ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں.ایک اور اطلاع ملی ہے آپ سب میں سے بہت سے تو واقف ہوں گے ہمارے ملک جمال الدین صاحب ما شاء اللہ سیکر ٹری ضیافت ہیں واشنگٹن جماعت کے اور مخلص سلسلے کے کارکن ہیں ان کی ہمشیرگان بھی مختلف جگہ امریکہ میں رہتی ہیں اور ان کے خاندان کا عموما خدا کے فضل سے خدمت دین کے معاملے میں اچھا مقام ہے.ان کے والد ملک معراج الدین صاحبد ( کی وفات کی اطلاع ملی ہے ).بغداد میں رہے ہیں لمبا عرصہ تبلیغ کے بڑے شیدائی تھے.جہاں جہاں بھی رہے ہیں وہاں ان کی کوششوں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سینئے لوگ احمدی ہوئے.پاکستان آنے کے بعد بھی بڑھاپے میں بھی خدا کے فضل سے آخر دم تک انہوں نے اس لگن کو قائم زندہ رکھا ہے.خدا کرے ان کی اولاد میں آگے یہ لگن زندہ رہے اور اصل تو ہم جو اپنے بزرگوں کے لئے کر سکتے ہیں وہ یہی ہے کہ ان کو مرنے نہ دیں یعنی ان کی نیکیوں کو زندہ رکھیں پھر عارضی موتیں جو ہیں جسم کی وہ کوئی حقیقت نہیں رکھتیں اس کے بعد.

Page 661

خطبات طاہر جلد ۶ 657 خطبه جمعه ۹ را کتوبر ۱۹۸۷ء خدا کرے ان کی بھی سب نیکیاں ان کی اولاد میں آجائیں اور اللہ ان کو زندہ رکھے.عبد الرحیم صاحب عارف مربی سلسلہ بڑے مخلص فدائی مربی تھے.سارے ہی مربی خدا کے فضل سے واقف زندگی کی حیثیت سے ہمیشہ خاموش قربانی دیتے چلے جاتے ہیں.ستر سال کی عمر میں ان کی وفات ہوئی ہے.ایک ہمارے امین اللہ خان صاحب سالک کی پھوپھی زہرہ خانم صاحبہ اہلیہ نیاز محمد خان صاحب کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.ان کے خاونداحمدی نہیں تھے مگر مسلسل انہوں نے پوری وفا کا تعلق جماعت احمدیہ سے رکھا اپنی اولاد کے اوپر بہت نیک اثر ڈالا بچیاں احمدی ہوئیں اور بیٹے احمدی نہیں ہو سکے وہ باپ کے اثر کے نیچے تھے مگر مالی قربانی میں ہر دوسری قربانی میں پیش پیش.حضرت خلیفہ اسیح الثانی سے بہت زیادہ محبت کا تعلق اور وفا کا تعلق پھر خلیفہ الثالت کی طرف وہ منتقل ہو گیا پھر جب میں بنا تو میری طرف منتقل ہو گیا تو بڑی خلافت سے پیار رکھنے والی عورت جس کو کہا جاسکتا ہے.ان کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.ایک دوان کی زندگی کے ایسے مسائل تھے جو ابھی حل نہیں ہوئے ان کے لئے پریشان تھیں وہ بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو حل فرمادے اور ان کی روح کی تسکین کا موجب بنیں.ایک سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ میری خالہ کی بیٹی میری خالہ زاد بہن بھی تھیں اور ایک پہلو سے خالہ بھی تھیں کہ میری اُمی نے اپنی بڑی بہن کا ان کے ساتھ دودھ پیا ہوا ہے یہ تھوڑی سی چھوٹی تھیں مگر ایسا وقفہ تھا کہ دونوں نے یعنی یوں کہنا چاہئے کہ بھانجی نے اور خالہ نے ایک ہی ماں کا دودھ پیا ہوا ہے اکٹھے.ان کی بھی ساری عمر بہت تکلیف میں گزری دائم المریض تھیں مگر بڑی صابرہ بہت دعا گو.تو ابھی ان کی ربوہ سے اطلاع ملی ہے کہ یہ بھی وفات پاگئی ہیں.چنانچہ انشاءاللہ نماز جمعہ کے اور عصر کے معابعد ان سب کی نماز جنازہ غائب ہوگی.

Page 662

Page 663

خطبات طاہر جلد ۶ 659 خطبہ جمعہ ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء اپنے اندر عظمت کردار پیدا کریں اس سے احساس کمتری مٹ جاتا ہے.سفید و سیاہ فام کی تفریق احمدیت میں نہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱/۱۶اکتوبر ۱۹۸۷ء بمقام ڈیٹرائٹ مشی گن امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَانَرُبكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَريكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرّأيِ ۚ وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلِ بَلْ نَظُنُّكُمْ كَذِبِينَ قَالَ يُقَوْمِ اَرَعَيْتُمُ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيْنَةٍ مِنْ رَّبِي وَأَتَنِي رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمُ اللزِمُكُمُوهَا وَاَنْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ.وَيُقَوْمِ لَا أَسْلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا إِنْ أجْرِى إِلَّا عَلَى اللهِ وَمَا اَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّهُمْ قُلْقَوْا رَبّهِمْ وَلَكِنِّي أَرَبَّكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ وَيُقَوْمٍ مَنْ يَنْصُرُنِى مِنَ اللهِ اِنْ طَرَدْتُهُمْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَايِنُ اللهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ إنّى مَلَكَ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِى ط

Page 664

خطبات طاہر جلد ۶ 660 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء أعْيُنَكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللهُ خَيْرًا اَللهُ أَعْلَمُ بِمَا فِى أَنْفُسِهِمْ * إِنِّي إِذَا لَمِنَ الظَّلِمِينَ اور پھر فرمایا: (ہود: ۲۸_۳۲) قرآن کریم کی جو آیات میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اگر چہ ایک بہت ہی قدیم زمانے کا واقعہ بیان فرمایا گیا ہے یعنی حضرت اقدس نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کا واقعہ لیکن قرآن کریم کی دوسری آیات سے اور تاریخی مطالعہ اور مشاہدہ سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم تاریخی واقعہ کے طور پر ان آیات میں یہ ذکر نہیں چھیڑا بلکہ انسانی نفسیات کو ایک مستقل ، دائمی رہنے والی حقیقت کے طور پر پیش کیا ہے کہ وہ حالات جو نوح کے زمانے میں تھے ویسے ہی حالات انسان پر بار بار آتے ہیں اور ہر زمانے میں انسانی نفسیات وہی منظر دکھاتی ہے اور وہی معاملہ کرتی ہے جو اس زمانے میں کیا گیا.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں ایک بہت بڑی تہذیب اور بہت بڑے تمدن کا دور دورہ تھا اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ معاملہ بڑی وضاحت سے بیان فرمایا ہے کہ ایک بہت ہی عظیم الشان تہذیب تھی جس کی مثال کم دکھائی دیتی ہے.اس زمانے میں حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام کے انکار کی جو وجوہات پیش کی گئیں ان میں ایک وجہ یہ بیان کی گئی جیسا کہ قرآن کریم کی ان آیات سے پتا چلتا ہے:.وَمَا نَرْبكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْي کہ ہم تو تجھے ایسادیکھتے ہیں کہ ہماری نظر میں جو لوگ ذلیل ہیں ، بے حیثیت ہیں وہی تیری پیروی کر رہے ہیں اور بڑے بڑے لوگوں میں صاحب علم ، صاحب فضل اور امیر اور قوم میں معزز سمجھے جاتے ہیں وہ تیری اطاعت نہیں کر رہے، وہ تیرے پیچھے نہیں چل رہے.وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلٍ پس تمہیں ہم پر کیا فضیلت حاصل ہے.وہ جو کمزوروں اور غریبوں کا لیڈ ر ہے، وہ جس کے پیچھے وہ لوگ چلیں جنہیں دنیا پوچھتی نہیں ، جن کا دنیا میں کوئی پرسان حال نہیں ہے.ایسے لیڈر کو اور اس کے ماننے والوں کو انہوں نے کہا کہ ہم پر کیا عظمت حاصل ہوسکتی ہے.بَلْ نَظُنُّكُمْ كَذِبِينَ ہم تو اس کا نتیجہ یہ نکالتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو.اگر بچے ہوتے تو دنیا کی بڑی بڑی قو میں اور عظیم الشان طاقتور

Page 665

خطبات طاہر جلد ۶ 661 خطبہ جمعہ ۶ ارا کتوبر ۱۹۸۷ء لوگ اور طاقتور لیڈ ر تمہاری پیروی کرتے.اس کے جواب میں حضرت نوح نے جو فرمایا قرآن کریم نے من و عن اسے محفوظ فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.قَالَ يُقَوْمِ أَرَءَيْتُمْ إِنْ كُنْتُ عَلَى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّي وَأَثْنِي رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ اَنْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ ) کہ اے میری قوم! کیا تم یہ نہیں دیکھتے یا نہیں دیکھ سکتے یا کیوں اس بات کی طرف توجہ نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے اگر مجھے یہ بینہ دے کر بھیجا ہے، روشن دلائل کے ساتھ بھیجا ہے اور مجھے رحمت عطا فرمائی ہے تو اگر یہ رحمت تمہیں دکھائی نہیں دے رہی، یہ فضیلت تمہیں نظر نہیں آرہی کہ قرب الہی ہی ہے جو سب نعمتوں کی جان ہے اور اللہ تعالیٰ کا پیار ہی ہے جو ہر دوسری چیز پر فضیلت رکھتا ہے.تو میں تمہارے اس اندھے پن کا کیا علاج کروں؟ جو چیزیں تم بڑی دیکھتے ہو وہ مجھے چھوٹی دکھائی دے رہی ہیں.جو خدا نے مجھے بڑی چیزیں عطا فرمائی ہیں وہ تمہیں دکھائی نہیں دے رہیں.آنُلْزِمُكُمُوهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ کیسے میں تمہارے اندر زبردستی یہ باتیں داخل کر دوں؟ کیسے یہ نعمتیں میں تمہاری ذات کے ساتھ چمٹا دوں کہ تم ان سے الگ نہ ہو سکو یعنی خدا کی محبت اور اس کا پیار اور اس بات میں عظمت جاننا کہ جو شخص خدا کے قریب ہے وہی عظیم ہے.وَاَنْتُمْ لَهَا كُرِهُونَ تم تو ان باتوں کو کراہت کی نظر سے دیکھتے ہو.پس جب تک تم کراہت کی نظر سے دیکھتے رہوگے میں بے اختیار ہوں ، دل تو بہت چاہتا ہے مگر مجبور ہوں میں زبر دستی تمہیں ان نعمتوں میں اپنا شریک نہیں کرسکتا اور پھر یہ فرمایا وَ يُقَوْمِ لَا اَسْتَلُكُمْ عَلَيْهِ مَالًا میں تم سے ان خدمات کا جو میں قومی خدمات سر انجام دے رہا ہوں بھلائی کی تعلیم دے رہا ہوں دن رات تمہیں نصیحتیں کرنے میں مصروف ہوں تم سے کوئی مال کے طور پر اجر نہیں مانگ رہا یعنی اگر میری نظر میں تمہارے مالوں کی کوئی وقعت ہوتی تو میں یہ نیکی کے کام تم سے پیسے لے کر کرتا.ایک بہت ہی گہر ا حکمت کا راز اس میں بیان فرما دیا گیا ہے جو آج بھی بچوں اور جھوٹوں کے درمیان ایک مابہ الامتیاز دکھا رہا ہے.جتنے دنیا میں نیکی کے نام پر بہت سے کام کرنے والے آپ

Page 666

خطبات طاہر جلد ۶ 662 خطبہ جمعہ ۱۶ / اکتوبر ۱۹۸۷ء کو دکھائی دیں گے ان میں دو ہی قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں یا وہ جو اپنی طرف سے خرچ کریں، قربانیاں کریں اور پھر نصیحت کریں.کچھ وہ جن کو بڑی بڑی حکومتیں لاکھوں کروڑوں روپے دے رہی ہوں کہ جاؤ اور بنی نوع انسان کو ہدایت دو.تو وہ لوگ جن کے پاس پیسہ آئے تو وہ خدمت کریں پیسہ نہ آئے تو ان کی خدمتیں ختم ہو جائیں.نفسیاتی لحاظ سے یہ قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ ان کی نگاہ میں پیسے کی قیمت ہے، بنی نوع انسان کی بھلائی کی قیمت نہیں.اس پہلو سے جب آپ جماعت احمدیہ کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو مغربی قوموں میں بھی اور مشرقی قوموں میں بھی جماعت احمد یہ اس وقت بھلائی کا پیغام لے کر نکلی جب کے انتہائی غریب تھی اور کوئی دنیا میں مالی لحاظ سے اس جماعت کا مددگار نہیں تھا.جس زمانے میں امریکہ جیسی بڑی اور عظیم مملکت کو ہدایت کا پیغام دینے کے لئے بھجوایا گیا، حضرت مفتی محمد صادق صاحب کو بھجوایا گیا.قادیان میں یہ حال تھا کہ بعض دفعہ چھ چھ مہینے کے لئے کارکنوں کو تنخواہ دینے کے لئے پیسے نہیں ہوا کرتے تھے.واقعہ گھروں میں فاقے پڑنے لگ جاتے تھے اور پھر حضرت مصلح موعودؓ تحریک فرماتے تھے جماعت کے امراء سے کہ امانتا کچھ بھجوا دو جب خدا نے توفیق دی ہم تمہیں واپس کر دیں گے لیکن سلسلے کے کارکنوں کی غریبانہ حالت مجھ سے دیکھی نہیں جاتی.چنانچہ ان در دناک اپیلوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ فضل فرما تا بعض صاحب حیثیت لوگوں کے دل کھلتے ، کچھ ویسے رقمیں ا دیتے کچھ امانت میں رقمیں بھجوادیتے.چنانچہ تاریخ احمدیت کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ سالہا سال تک ایسی کیفیت گزری کہ قرضوں کے اوپر سلسلے کے خدمت کرنے والوں کے گزارے ادا ہوتے رہے جو کہ بہت ہی معمولی گزارے تھے.آج جو واقفین کو گزارے ملتے ہیں ان کی ان گزاروں کے ساتھ کوئی مماثلت نہیں.بمشکل زندہ رہنے کے لئے گزارے تھے اور وہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا کئی مہینوں نہیں مل سکتے تھے.اس وقت احمدیت نے امریکہ جیسی عظیم مملکت کو اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے ایک درویش بھجوایا.یہ وہ بات ہے جو حضرت نوح ان کو سمجھانے کی کوشش کرتے رہے کہ ہم تو مال کی طرف ادنیٰ سی لالچ کی نگاہ بھی نہیں کرتے.تمہارے اموال سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہے.ہم تو خود قربانیاں دے رہے ہیں اور پھر تمہیں نصیحت کر رہے ہیں تم کیوں اس بات کو نہیں سمجھتے.کیوں نہیں سمجھتے کہ مال

Page 667

خطبات طاہر جلد ۶ 663 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء میں فضیلت نہیں ہے بلکہ انسان کی شرافت میں فضیلت ہے، خدا سے تعلق میں فضیلت ہے اور اب تم یہ کہتے ہو کہ مال والوں کی عزت کریں اور وہ لوگ جو خدا کی خاطر سب کچھ قربان کر کے میرے سامنے خدا کے دین کی نصرت کے لئے حاضر ہوئے ان کو میں دھتکار دوں اس لئے کہ وہ غریب ہیں، اس لئے کہ وہ بے حیثیت ہیں، اس لئے کہ ان کے رنگ کالے ہیں یا پھر اور حیثیت ایسی ہے کہ چونکہ اس زمانے میں بھی بہت بڑی بڑی قوموں کو جو سیاہ فام بھی تھیں اور دوسرے رنگوں سے بھی تعلق رکھتی تھیں غلام بنا کر امیر قو میں خدمت پر لگایا کرتی تھیں، یہ بھی کوئی نئی بات نہیں ہے.تو فرمایا جن کو تم ویسے ہی حقارت سے دیکھتے ہو نہ ان کے پاس مال، نہ ان کے پاس عزتیں، نہ ان کے پاس قومی فضیلت ایسی پائی جاتی ہے جس کے نتیجے میں تم ان کی عزت کر سکو اور مجھے کہتے ہو کہ میں بھی ان کو ذلیل دیکھوں تب تم میرے بات سنو گے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ الصلوۃ والسلام معزز قوم کے فرد تھے جو اس زمانے میں حاکم تھی ، جس کی عزت کی جاتی تھی، جس کو ایک قومی نوع کی فضیلت حاصل تھی.پس ان کی قوم نے ان پر یہ اعتراض نہیں کیا کہ اگر ہمارے رہتے ، ہم لوگوں میں کام کرتے ، ہم تمہیں مانتے تو یہ بات درست تھی کہ تمہیں ایک درجہ اور ایک عظمت حاصل ہوتی.مگر تم تو ہر کس و ناکس ، ہر غریب جو تمہاری مدد کے لئے آتا ہے اسے گلے سے لگا لیتے ہو، اس کی عزت شروع کر دیتے ہو گویا تم قوم کی ناک کاٹ رہے ہو.اس لئے ہمارا تم سے کوئی تعلق نہیں.اس کے جواب میں حضرت نوح نے فرمایا تم نہیں جانتے کہ ان کو خدا تعالیٰ نے کیسے مراتب عطا فرمائے ہیں.میرا اجر بھی اللہ پر ہے وَمَا أَنَا بِطَارِدِ الَّذِينَ آمَنُوا میں ہر گز کسی قیمت پر خدا پر ایمان لانے والوں کو کبھی دھتکار نہیں سکتا.إِنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ یہ یقینا اپنے خدا کو پالیں گے اور جو اپنے رب کو پالے اس سے بڑا مرتبہ کسی کو اور کیا نصیب ہوسکتا ہے.ہاں ! بات یہ ہے کہ وَلكِنی اریكُمْ قَوْمًا تَجْهَلُونَ میں تو تمہیں بہت ہی جاہل اور بیوقوف پاتا ہوں.تمہیں معلوم ہی نہیں ہے کہ کتنی نعمتیں تمہیں عطا کی جانے والی تھیں اور ان کو دھتکار کر تم کتنی ذلیل اور کمینی باتوں میں پڑ گئے ہو اور پھر یہ فرمایا وَيُقَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنى مِنَ اللهِ اِنْ طَرَدْتُهُمْ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ کہ صرف یہ بات نہیں ہے کہ میں طبعاً ان لوگوں سے ، ان غریبوں سے محبت رکھتا ہوں

Page 668

خطبات طاہر جلد ۶ 664 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء جوخدا کے بندے بن رہے ہیں بلکہ تمہیں ایک اور بات بھی بتا تا ہوں کہ اگر کسی کی طبیعت میں یہ بات داخل نہ بھی ہواگر وہ ان کو نیچی نگاہ سے دیکھے گا اور گھٹیا سمجھے گا تو خدا کی پکڑ سے پھر اس کو کوئی نہیں بچا سکتا ، کوئی مدد پھر اس کو غیب کی طرف سے نصیب نہیں ہوگی.فرمایا وَ يُقَوْمِ مَنْ يَنْصُرُنِي من اللہ پھر اللہ سے مجھے بچائے گا کون؟ کون میری حفاظت کرے گا خدا تعالیٰ کی پکڑ سے.اگر میں نے ان غریبوں کو دھتکار دیا أَفَلَا تَذَكَّرُونَ پھر تم کیوں نصیحت نہیں پکڑتے.پھر اسی مال والے پہلو کو نمایاں کرنے کے لئے آپ نے فرمایا:.وَلَا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزَآ بِنُ اللهِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ اِنِّى مَلَكَ وَلَا أَقُولُ لِلَّذِينَ تَزْدَرِى أَعْيُنُكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللهُ خَيْرًا کہ میں تمہیں یہ تو نہیں کہتا کہ میرے پاس خزائن ہیں، دنیا کے خزانے اور بڑے اموال ہیں تم وہ خزانے میرے پاس آ کے لو اور میں یہ بھی نہیں کہتا کہ میں خود بذاتہ غیب کی خبریں رکھتا ہوں ، نہ میرا یہ دعویٰ ہے کہ میں کوئی فرشتہ ہوں.وَلَا أَقُولُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِى أَعْيُنَكُمْ لَنْ تُؤْتِيَهُمُ اللهُ خَيْرً ا لیکن میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جن لوگوں کو تم نے غربت کی وجہ سے ذلیل جانا ہے خدا انہیں مال و دولت نہیں عطا فرمائے گا.یہ ایک طرز بیان ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ باقی باتوں کا تو مجھے کچھ پتانہیں میں عالم الغیب نہیں ، نہ میں فرشتہ ہوں تم لوگوں کی طرح ایک انسان ہوں جسے خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے نعمتیں عطا کیں یعنی روحانی نعمتیں اور میرے پاس خزائن نہیں ہیں لیکن خدا ایک وقت ضرور لائے گا کہ میرے ماننے والوں کے گھر خزانوں سے بھر دے گا کیونکہ خیر سے مراد دنیا کی دولت ہوتی ہے.جس طرح حسنہ سے مراد اول معنوں میں نعمتیں جو اخلاقی نعمتیں ہوں یا روحانی نعمتیں ہوں اول معنوں میں حسنہ سے مراد وہی نعمتیں ہوا کرتی ہیں.اس کے نتیجے میں دنیاوی نعمتیں بھی بعض دفعہ اس کے دائرے میں شمار کی جاتی ہیں لیکن اول طور پر حسنہ کا معنی نیکیاں اور خوبیاں اور روحانی اور مذہبی نعمتیں ہیں نہ کہ دنیاوی نعمتیں اور اکثر قرآن کریم نے لفظ خیر پہلے درجے میں دنیاوی نعمتوں کے طور پر استعمال کیا

Page 669

خطبات طاہر جلد ۶ 665 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء ہے، دنیاوی اموال کے معنوں میں استعمال کیا ہے اگر چہ اس کے ساتھ دوسرے معنی بھی وابستہ ہیں.تو اس مضمون سے پتا چلتا ہے کہ حضرت نوح یہ پیغام دے رہے تھے کہ آج واقعہ میرے پاس کوئی خزانے نہیں ہیں، آج میرے پاس واقعہ علم غیب نہیں ہے اور میں فرشتہ بھی نہیں ہوں جو خدا تعالیٰ کے غیب میں خدا تعالیٰ کی عطا کے مطابق کسی نہ کسی حد تک شریک ہوا کرتا ہے یعنی شریک کا لفظ تو نہیں کہنا چاہئے لیکن فرشتوں کو جیسا کہ قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ غیب کا انسانوں کی نسبت زیادہ علم دیا جاتا.یہ سب کہنے کے باوجود آپ کا یہ فرمانا کہ میں ہرگز یہ نہیں کہہ سکتا کہ ان کو دنیا کی دولتیں نہیں دی جائیں گی.یہ طرز بیان جو عربی زبان سمجھتے ہیں یا انگریزی میں بھی بعض اوقات ایسی طرز بیان کو استعمال کیا جاتا ہے جتنا منفی میں شدت رکھتی ہے اتنا ہی مثبت میں بھی شدت کے معنی پیدا کر دیتی ہے.جب آپ کہتے ہیں میں ہر گز نہیں کہ سکتا کہ کبھی تمہیں خدا نہیں دے گا اس کا مطلب ہے میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ لازما تمہیں خدا بہت زیادہ دے گا.چنانچہ فرمایا کہ ہم غریبوں کے بعد آنے والی نسلیں ہیں جن کو خدا تعالیٰ دنیا کے اموال بھی کثرت سے عطا فرمائے گا.پس اگر اسی میں تمہاری دلچسپی ہے تو ہم تمہیں بتا دیتے ہیں کہ کل تم غریب کئے جانے والے ہو اور یہ لوگ امیر کئے جانے والے ہیں.آخر پر فرمایا اللهُ أَعْلَمُ بِمَا فِي أَنْفُسِهِمْ دلوں کی قیمت ہوا کرتی ہے اللہ تعالیٰ کے نزدیک اللہ خوب جانتا ہے کہ ان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے وہ کیسی کیسی اس سے محبت رکھتے ہیں ، کیسی کیسی قربانی کا جذبہ رکھتے ہیں.اگر آج ان کے پاس نہیں ہے اس کے باوجود یہ سب کچھ فدا کرنے کی تمنار کھتے ہیں.پس خدا تو دلوں پر نظر رکھنے والا اور دلوں سے پیار کرنے والا ہے.اگر میں ان باتوں کی طرف متوجہ نہ ہوں اور خدا کی طرح ان سے سلوک نہ کروں اِنِّي إِذًا لَمِنَ الظَّلِمِينَ میں تو پھر بہت ہی گھاٹا کھانے والا اور ظلم کرنے والا بن جاؤں گا.جیسا کہ ان آیات کے ایک مختصر تفسیری ترجمہ سے آپ پر ظاہر ہو گیا ہو گا حضرت نوح کا زمانے کتنا پرانا ہے، کتنی قدیم کی باتیں ہیں لیکن یوں معلوم ہوتا ہے کہ آج کل خود اسی ملک میں امریکہ کے حالات پر یا امریکہ کے حالات کو سامنے رکھ کر یہ مضمون بیان فرمایا گیا ہے.یہاں بھی ایسی قوم بستی ہے جس کو دنیا حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے.خود ان کے اہل وطن جو نسبتاً سفید فام ہیں ان کے

Page 670

خطبات طاہر جلد ۶ 666 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں کہ اگر چہ قانون ان کو بعض حقوق دلواتا ہے، آزادیاں دیتا ہے، ان کو برابر کا مواقع میں شریک قرار دیتا ہے لیکن عملاً یہ خستہ حال ہیں اور گلیوں اور کارخانے کے کمترین کام کرنے والوں میں آپ کو یہ دکھائی دیں گے.جہاں تک اقتدار کا تعلق ہے حقیقت میں اقتدار کی کنجیاں سفید فام لوگوں کے ہاتھ میں ہیں اور اس کے نتیجے میں یہ بہت ہی بے چینی کا شکار ہیں.جہاں تک اسلام کا تعلق ہے اسلام چونکہ ایک عالمی مذہب ہے اس لئے رنگ اور نسل کی تمیز نہیں کرتا.جیسے اس بات کی تعلیم نہیں دیتا کہ رنگ اور نسل کے لحاظ سے کسی دوسری قوم کی تحقیر کی جائے اسے ذلیل سمجھا جائے اسی طرح اس بات کی بھی اجازت نہیں دیتا کہ رنگ اور نسل کی بنا پر کسی قوم سے انتقام لیا جائے اور اس سے انصاف کا سلوک نہ کیا جائے اور اپنی قوم کو انتظامی تعلیم دی جائے.اسلام ایک توازن کامذہب ہے اس لئے جب میں یہ تفریق کر کے آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں تو ہرگز مراد یہ نہیں کہ احمدیت ایک طرف ہے اور دوسری طرف نہیں ہے.احمدیت کے نزدیک خدا کے سب بندے برابر اور یکساں ہیں لیکن اگر کوئی احمدیت تفریق کرتی ہے تو ظالم اور مظلوم کے درمیان کرتی ہے، ایک رنگ اور دوسرے رنگ کے درمیان نہیں کرتی.لیکن اس وقت میں اس کی تفصیل میں بھی نہیں جانا چاہتا.میں آپ سے ان دونوں سے جو بحیثیت احمدی یہاں موجود ہیں خواہ وہ کسی رنگ سے تعلق رکھتے ہوں سیاہ رنگ سے تعلق رکھتے ہوں یا نسبتاً کم سیاہ رنگ سے تعلق رکھتے ہوں یا بالکل سفید رنگ سے تعلق رکھتے ہوں.ان سے میں ان آیات میں بیان کردہ مضمون کی روشنی میں کچھ اہم باتیں کرنی چاہتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ پاکستانی خصوصیت کے ساتھ جو باہر سے تشریف لائے اور یہاں آباد ہوئے وہ بھی ایک قسم کے Complex کا شکار ہیں یعنی احساس کمتری صرف رنگ کے سیاہ ہونے سے نہیں ہوا کرتا بعض دفعہ رنگ کے کم سیاہ ہونے سے بھی ایک احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے.احساس کمتری تو دل کے چھوٹا ہونے کا نام ہے، نظر کے چھوٹا ہونے کا نام ہے.خواہ یہ دل کا چھوٹا پن، اور نظر کا چھوٹا پن کالے رنگوں میں پایا جائے یا سفید رنگوں میں پایا جائے یا درمیان کے رنگوں میں پایا جائے اس کا مظہر ایک ہی ہو گا یعنی احساس کمتری اور دنیا کے معاشرے کی بہت سی بیماریاں احساس کمتری کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں لیکن سب سے زیادہ مذہب کی دنیا میں اگر کوئی قوم یا بعض

Page 671

خطبات طاہر جلد ۶ 667 خطبہ جمعہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۸۷ء قو میں احساس کمتری کا شکار ہو جائیں تو اس کے نہایت ہی خوفناک نتیجے پیدا ہوتے ہیں کیونکہ جیسا کہ آپ نے ان آیات میں سنا ہے احساس کمتری اور سچائی اکٹھے نہیں رہ سکتے.ایک دوسرے کے ایسے شدید دشمن ہیں کہ بیک وقت دونوں پہنپ ہی نہیں سکتے.احساس کمتری کے نتیجے میں صداقت کھائی جاتی ہے جس طرح گھن کھا جاتا ہے بعض چیزوں کو اسی طرح احساس کمتری ایمان کو کھا جاتا ہے، صداقت کو کھا جاتا ہے ، شرافت کو کھا جاتا ہے اور بعض دفعہ یہ احساس کمتری مخفی ہوتا ہے.مثلاً اگر کوئی باہر سے پاکستانی ہو یا غیر پاکستانی ، بنگال سے آئے ہوئے ہوں یا عرب سے آئے ہوئے ہوں وہ آکر یہ محسوس کریں کہ ان کے حالات نسبتا ان لوگوں سے اچھے ہیں جنہیں سیاہ فام کہا جاتا ہے اور ان کے رنگ بھی نسبتا ان سے سفید فام قوموں کے قریب تر ہیں اور لاشعوری طور پر اس کے نتیجے میں وہ یہ مجھنے لگیں کہ ہم چونکہ اتنے کالے نہیں اور چونکہ اتنے غریب نہیں اس لئے ہم سفید فام لوگوں میں ملنے کے زیادہ اہل ہیں اور وہ ہمیں زیادہ قرب عطا کریں گے اس لئے اصل سوسائٹی ہماری ان کی ہے.ان سے تعلق بڑھا ئیں تو ہمیں ان دوسروں پر ایک فضیلت حاصل ہے حالانکہ وہ ان کی قوم سے تعلق رکھنے والے ہیں.یہ احساس بسا اوقات میں نے دیکھا ہے شعوری طور پر پیدا نہیں ہوتا.ورنہ ایک احمدی اگر شعوری طور پر یہ بات سوچے تو وہ احمدی رہتا ہی نہیں.وہ اسی وقت بددیانت اور بے ایمان ہو جاتا ہے کیونکہ وہ قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے روگردانی کرتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا انسان ہزار دھوکوں کا شکار ہے.ایسی غفلتوں کا شکار ہے کہ اس کی آنکھ نہیں کھلتی بعض دفعہ موت کا قرب بعض دفعہ آنکھ کھول کر اسے ایسا پیغام دیتا ہے کہ وہ حیران رہ جاتا ہے کہ ساری عمر میں نے گزاری اور مجھے محسوس نہیں ہوا کہ میں کیسی عمر گزار کے آیا ہوں.اس لئے ضروری ہے کہ انسان کو اس کے حالات کا تجزیہ کر کے اسے تفصیل سے سمجھایا جائے کہ تم کیا کر رہے ہو اور کیوں کر رہے ہو اور کیوں تمہیں یہ نہیں کرنا چاہئے.اس لئے میں ہر پاکستانی یا غیر امریکن نیم رنگ رکھنے والے کو مخاطب نہیں ہوں یعنی مخاطب تو سب کو ہوں لیکن ہر ایک کو ملزم قرار نہیں دے رہا.مگر کم نہمی کے نتیجے میں ایسا ہوتا ضرور ہے اور ایک بڑی تعداد ایسے امراض کا شکار ہو جاتی ہے.ایک دفعہ بہت پرانی بات ہے.اس زمانے میں ابھی بہت کم پاکستانی یہاں آنے لگے تھے.ایک پاکستانی نے مجھ سے بیان کیا کہ امریکہ میں جوسب سے بڑی ایک Problem یعنی ایک سب سے بڑا مسئلہ ہے وہ یہ ہے کہ اس کے نزدیک نعوذ بالله من

Page 672

خطبات طاہر جلد ۶ 668 خطبہ جمعہ ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء ڈالک ہمارے مبلغین نے یہ غلطی کی کہ پہلے سیاہ فام لوگوں میں تبلیغ شروع کر دی اور اس کے نتیجے میں وہ جوق در جوق شامل ہونے شروع ہوئے چنانچہ خود اپنے ہاتھوں سے سفید فام قوموں کے لئے رستے بند کر دیے.اس کے اندر وہ احساس کمتری پایا جاتا تھا جو نوح کی بظاہر غالب قوم کے اندر پایا جاتا تھا.اس کے اندر وہ جاہلانہ بات تھی کہ جو نسبتا کم عزت رکھنے والی قومیں ہیں وہ خدا کی ہو بھی جائیں تب بھی وہ ذلیل ہی رہیں گے گویا کہ اور سفید فام آئیں گے تو دین کو عزت ملے گی سفید فام نہیں آئیں گے تو دین ذلیل رہے گا.وہ بات کرنے والا ایک ذلیل سوچ رکھنے والا تھا.میرا دل متلانے لگا کہ کس قسم کی بات کر رہا ہے.قرآن کریم تو فرماتا ہے کہ میرے باشعور بندے ہزار ہا سال پہلے بھی ایسے روشن دماغ رکھتے تھے کہ وہ جانتے تھے کہ بچی فضیلتیں کن باتوں میں ہیں، وہ جانتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ غریبوں کو توفیق دے اور کم نظروں کو، چھوٹا دکھائی دینے والوں کو توفیق دے تو وہ خدا سے ایسی عزت پاتے ہیں کہ تمام دنیا پر وہ فضیلت پا جاتے ہیں.ان کے آنے سے دین کو عزت ملتی ہے ان کے جانے سے دین کی ذلت ہے اور جو دین کو چھوٹا دیکھتے ہیں ان کے نہ آنے میں دین کی عزت ہے اور پھر یہ کہ ان پر دروازے کیسے بند کئے جاسکتے ہیں.اگر خدا تعالیٰ کسی قوم کو ایک فضلیت عطا کرے اور وہ نیکی کی طرف آگے بڑھے اور قربانیوں کی طرف آگے بڑھے تو اس بنا پر ان پر دروازے بند کئے جائیں کہ تمہارا رنگ مختلف ہے، تمہاری قومی حیثیت مختلف ہے، تم غریب لوگ ہو.یہ دروازے ظاہراً لبعض دفعہ نہیں بند کئے جاتے بعض دفعہ دلوں پر تالے پڑتے ہیں اور رجحان بند ہو جاتے ہیں.ان کی طرف دیکھنے والی نگاہیں مجرم ہو جاتی ہیں.ان کو محبت سے سینے سے لگانے کی بجائے وہ ایک ہلکی سے دوری محسوس کرتے ہیں، ایک پردہ سا بیچ میں حائل کر دیتے ہیں.پس ظاہری طور پر کبھی ایسا واقعہ نہیں سنا ہوگا آپ نے کہ ان لوگوں میں سے احمدی ہوئے ہوں اور ان پر دروازے مسجد کے بند کر دئیے جائیں کہ تم نے نہیں آنا.لیکن ایسے واقعات آپ نے ضرور دیکھے ہوں گے اور اگر آپ اپنے دل کو ٹول کر دیکھیں تو ہو سکتا ہے آپ کو اپنے اندر بھی ایسی بد بدنصیبی کبھی دکھائی دے وے کہ آپ نے اپنی روح کے دروازے ان پر کچھ بند کئے یا بھیڑ دیئے کم از کم.اگر مقفل نہیں کئے تو نہیں چاہا کہ یہ کھلے ہوں اور یہ شوق سے آپ کے اندر داخل ہوں.اس

Page 673

خطبات طاہر جلد ۶ 669 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء رجحان کے نتیجے میں جماعت احمدیہ کو اتنا شدید نقصان پہنچا ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.حضرت نوح کی یہ بات کتنی سچی ہے آپ نے فرمایا ويقوم من ينصرني من الله ان طردتهم اگر میں نے ان کو دھتکارا تو یہ اتنا بڑا جرم ہے خدا کی نگاہ میں کہ پھر خدا جب اپنی تقدیر جاری کریگا تو تم میں سے کوئی میری مدد نہیں کر سکے گا.کتنا خوشخبریوں سے بھرا ہوا عظیم الشان زمانہ تھا جب حضرت مفتی محمد صادق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہاں تشریف لائے اور جوق در جوق اور قوم در قوم ان لوگوں نے جن کو سیاہ فام کہا جاتا ہے احمدیت کے لئے اپنے دروازے کھول دیئے، اپنے سینے وا کر دیے.اس زمانے میں تار کا خیال بہت شاذ آیا کرتا تھا عموماً خطوں کا زمانہ تھا بلکہ لوگ تار کو اتنا بڑا واقعہ سمجھتے تھے کہ تار دینے کی بجائے خط میں لکھا کرتے تھے کہ آپ اس خط کو تار سمجھیں یعنی ہے تو بہت بڑی Urgency ، بہت ہی شدت کی ضرورت ہے لیکن تار تو بہت بڑی بات ہے اس لئے آپ مہربانی فرما کر میرے خط کو یہ تارسمجھ لیں اور ہمارے دیہات میں خصوصاً پنجاب میں یہ تو عام محاورہ تھا.اس زمانے میں اتنا Excite ہو گئے حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے تاروں پر تاریں دینے لگے.آج یہاں انقلاب آ گیا آج وہاں انقلاب آ گیا یہاں اب جوق در جوق لوگ شام ہوئے وہاں قوم در قوم لوگ شامل ہونا شروع ہوئے.اس زمانے میں حضرت مصلح موعودؓ کے خطبے سنیں کس طرح حمد سے بھرے ہوئے ہیں.ایک غریب جماعت جس کے کارکنوں کو کھانے کی روٹی بھی میسر نہیں اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ، اس کا ایک غریب نمائندہ ایک امیر ترین ملک میں جاتا ہے اور وہاں سے خوشخبریاں بھیج رہا ہے کہ خدا کے فضل سے ان قوموں کے دل کھل رہے ہیں.کسی نے ان سے یہ سوال نہیں کیا کہ کالے آرہے ہیں کہ سفید آرہے ہیں.کسی نے مفتی محمد صادق سے نہیں پوچھا کہ تم نے حکمت عملی کیا اختیار کی کہیں یہ تو نہیں کیا کر رہے کہ کالوں کو قبول کر رہے ہو اور سفید پیچھے رہ جائیں.ہر آنے والا خدا کا بندہ تھا اور خدا کے بندے کے طور پر خدا کے بندے دونوں ہاتھوں سے اسے سینے سے لگا کر قبول کیا کرتے تھے.ہر آنے والا تقویٰ کی رونقیں ساتھ لے کر آتا تھا اور ہر تقوے والا مقابلہ اسے تقویٰ کے نور سے اسے اور بھی زیادہ مزین کرتا چلا جاتا تھا.یہ وہ دور تھا اگر یہ اسی طرح جاری رہتا تو بعید نہیں تھا کہ آج اس ملک کی ایک بھاری تعداد

Page 674

خطبات طاہر جلد ۶ 670 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ احمدی اسلام میں داخل ہو چکی ہوتی اور بجائے اس کے کہ یہ ملک دنیا میں برائیاں پھیلانے کا اڈا بنا ہوا ہوتا، بجائے اس کے کہ دنیا میں گند پھیلانے کے لئے یہاں سب سے بڑی صنعتیں قائم ہوتیں.یہاں سے دنیا کے لئے رحمتیں بانٹی جاتیں، دنیا یہاں سے نعمتیں حاصل کرتی، دین کی بھی اور دنیا کی بھی.اور عظیم الشان محسن کے طور پر یہ ملک دنیا کے سامنے ابھرتا.جتنی اس قوم کی تعداد ہے، وہ اتنی بڑی طاقت ہے اگر وہ اسلام کے رنگ میں رنگین ہو کر اسلامی تہذیب سے وابستہ ہو جا ئیں اور اس رنگ ڈھنگ کو اپنے لئے اختیار کر لیں اور خلافت کی تنظیم سے وابستہ ہو جائیں تو دنیا کی سب سے بڑی طاقت بن سکتی ہے اور کوئی دنیا کی سازش، کوئی دنیا کی طاقت ان کو دبا نہیں سکتی.پھر اس طرح ابھریں گے کہ ناممکن ہے کہ ساری دنیا بھی چاہے تو ان کو دبا دے.اسلام میں اگر چہ بظا ہرا بھرنے کی تعلیم نہیں ہے بظاہر بغاوت سے منع کیا گیا ہے اور انکسار بتایا گیا ہے Humility سکھائی گئی ہے کہ عاجز بندے بنو اور اسلام بتاتا ہے کہ خدا کو بجز کی راہیں پسند ہیں لیکن اس میں ایک بہت بڑا حکمت کا ایک راز ہے کہ وہ قومیں جو خدا سے محبت کے نتیجے میں عاجز بنتی ہیں ان کے اندر خدا کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے، ان کو خدا اپنی عظمتیں عطا کرتا ہے اور کوئی دنیا کی قوم نہیں ہے جوان لوگوں کو دبا سکے جن میں خدا کی طاقت پیدا ہو جائے.اس لئے میں یہ کہہ رہا ہوں کہ آج دنیا کی تقدیر کا نقشہ بدل چکا ہوتا.آج اور مسائل دنیا میں ہورہے ہوتے ، آج امریکہ کے میدان سے اسلام کا سورج طلوع ہورہا ہوتا اور وہ جو آپ باتیں سنتے تھے کہ مغرب سے سورج طلوع ہو گا.آپ اپنی آنکھوں سے اس کو ظہور ہوتے ہوئے دیکھ لیتے.چھوٹی چھوٹی بدنصیبیاں ہیں.اپنے ہی مرضوں کا شکار بعض لوگ اپنے آپ کو دنیا کی فضیلت کے نتیجے میں افضل سمجھنے لگ جاتے اور اب خدا کے ان بندوں سے جو دنیا کے لحاظ نسبتا ان کے کم درجے پر ہوں ان سے تکبر کا سلوک کرتے.اگر آپ ان میں سے نہیں ہیں جنہوں نے تکبر کا سلوک کیا تو پھر بھی جیسی محبت کا سلوک چاہئے تھا، جیسے سینے سے لگانے کی ضرورت تھی ویسا آپ نے نہیں کیا.چنانچہ بعد میں اسلام کے جھوٹے Version بھی آنے شروع ہوئے یعنی مصنوعی اسلام کے نام پر آنے والی تنظیمیں جو اس وقت یہاں داخل ہوئی ہیں جب ان کو دولت دی گئی ہے کہ جاؤ اس دولت کے ذریعے امریکہ میں جا کر اسلام کا پیغام پہنچاؤ.حضرت نوح کا یہ بیان اگر چہ ان کو جھوٹا بتا رہا ہے اگر چہ بتا رہا ہے کہ

Page 675

خطبات طاہر جلد ۶ 671 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء جب تک تمہارے پاس دولت نہیں آئی تم کیوں اس میدان میں نہیں نکلے اس لئے تم قوموں کی بھلائی کے جذبے سے نہیں نکل رہے دولت کی خاطر پیسے لے کر اب نکل رہے ہو تبلیغوں کے لئے.اس کے باوجود چونکہ جماعت احمدیہ نے ایک میدان خالی چھوڑ دیا تھا.اس لئے جوق در جوق یہ لوگ ان کی طرف جانے شروع ہوئے اور ایک بہت بڑی طاقت بن گئے مگر بدنصیبی سے کیونکہ متقی سیادت ان کو نصیب نہیں ہے، متقی لیڈرشپ نصیب نہیں ہے.اس لئے وہ لوگ ان کو اسلام میں داخل کر کے انکو غلط کاموں کے لئے استعمال کرنے لگے.سیاست کے فائدے اٹھانے کے لئے ان کو جرائم پر آمادہ کیا جاتا ہے،ان سے خوفناک کام لئے جاتے ہیں، ان کو غلط تصور دیئے جاتے ہیں نیکی کے اور ہر وہ بات جو اسلام نے غلط قرار دی اس کی طرف با قاعدہ منظم طریق پر ان کو تیار کیا جارہا ہے.کوئی کسی لیبل کے نیچے مسلمان ہو رہا ہے کوئی کسی لیبل کے نیچے مسلمان ہو رہا ہے اور ہر پیسے دینے والے کا اپنا ایک ذاتی مقصد ہے، ایک سیاسی مقصد ہے کہ ان کو ہم استعمال کریں لیکن یہ وہ جانتے ہیں کہ ہے بہت بڑی طاقت.یہ طاقت اگر احمدیت میں داخل ہوتی تو اس سے لاکھوں گنا بڑی طاقت بن جاتی کیونکہ یہ طاقت خدا کے ہاتھ میں آجاتی.بندوں کے ہاتھ میں جب طاقتیں آتی ہیں تو وہ ہمیشہ برائی کیلئے استعمال ہوتی ہیں.خدا کے ہاتھ میں جب طاقتیں آتی ہیں تو وہ ہمیشہ بھلائی کے بے شمار سر چشمے ان طاقتوں سے پھوٹتے ہیں اور ساری دنیا کو سیراب کر دیا کرتے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ کس کا قصور تھا کہ کس کا نہیں تھا یا کس کا آج قصور ہے یا کس کا نہیں ہے.مگر میں یہ آپ کو بتا تا ہوں کہ قرآن کریم نے یہ جو واقعہ بیان کیا ہے یہ ایک ہمیشہ کی سچائی ہے.قرآن کی نظر دلوں پر ہے کیونکہ یہ خدا کا کلام ہے اور جیسا جو کچھ نوخ کے زمانے میں ہوگز را وہ سب کچھ آج بھی یہاں ہوسکتا ہے اور ہوسکتا ہے ہو رہا ہے.اس لئے ہم نتائج کے لحاظ سے جانچ سکتے ہیں.میں یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ فلاں نے یہ ظلم کیا یا فلاں مبلغ سے یہ غلطی ہوئی یا فلاں آنے والے نے یہ قصور کیا مگر میں یہ جانتا ہوں کہ ہم سب سے کوئی اجتماعی قصور ضرور ہوا ہے ورنہ آج اس حالت میں ہم احمدیت کو یہاں نہ دیکھتے.اس لئے اس نظریے کو تبدیل کریں.اس لئے نہیں کہ آپ نے ان کو حاصل کرنا ہے.اس لئے کہ آپ ہلاک ہو جائیں گے اگر آپ نے یہ نظر یہ تبدیل نہ کیا.تعداد جیتنے کی خاطر جو بھی آپ فعل کریں گے وہ بے معنی ہے.آپ نے خدا جیتنے کی خاطر فعل کرنے ہیں.

Page 676

خطبات طاہر جلد ۶ 672 خطبہ جمعہ ۱۶ / اکتوبر ۱۹۸۷ء پس اگر آپ خود خدا سے کھوئے جارہے ہیں ایک طرز عمل کے نتیجے میں تو پہلے اپنی فکر کریں.اگر آپ اپنی فکر کریں گے اور باخدا ہو جائیں گے تو خدا خود ان کی فکر کریگا.پھر آپ کے لئے سکیمیں بنانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح ان کو بلائیں.اپنے دل خدا کے لئے کھولیں.خدا کی خاطر تقویٰ اختیار کریں، خدا کی خاطر انکسار پیدا کریں اپنے اندر.اور ہر قسم کے کیبر سے ایسا خوف کھائیں جس طرح بعض کوڑھیوں سے خوف کھاتے ہیں.جس طرح شیر سے بھاگا جاتا ہے ڈر کے مارے، اس سے بھی زیادہ رکبر سے خوف کھائیں.اس سے زیادہ ہلاک کرنے والی اور کوئی چیز نہیں.اور یہ خفی دروازوں سے اندر داخل ہوتا ہے.یہ بغیر آہٹ کے چلتا ہے اور جب انسان کے اندر داخل ہو جائے تو اس کے وجود پر قبضہ کر لیتا ہے.اور بسا اوقات بجز کا پیغام دینے والے بجز کا اظہار کرنے والے خود تکبر کا شکار ہو جاتے ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ باہر سے آنے والےخصوصیت کے ساتھ اپنی نگاہوں کو تبدیل کریں.خدا کا شکر ادا کریں کہ ان کو ایک غیر ملک میں ایسی دنیا کمانے کی بھی توفیق ملی جسے وہ دین کی طرف منتقل کر سکتے ہیں اور اگر نہیں کر سکتے تو ان کا آنا بیکار، انہوں نے اپنی روحوں اور اپنی اولادوں کے سودے کئے ہیں اس ملک سے.اگر خدا نے آپ کو دیا ہے تو اس خیال سے خدا کے حضور جھکیں اور اس کا شکر ادا کریں کہ خدا تو نے ہمیں وہ کچھ دیا جس کی تمنا تھی کہ ملتا تو ہم خدا کی راہوں میں خرچ کرتے.ملتا تو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے خرچ کرتے.پہلے خالی ہاتھ تھے حسرتیں تھیں.اب خدا نے ہاتھ بھرے ہیں تو حسرتیں پوری کرنے کا زمانہ آیا، امنگیں پوری کرنے کا زمانہ آ گیا.اگر یہ احساس پیدا ہوگا تو کتنا شکر آپ کے دلوں میں پیدا ہوگا.پھر ان بھائیوں کو، ان پسماندہ لوگوں کو اٹھا ئیں ، ان کو سینے سے لگا ئیں کیونکہ یہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسوہ ہے.قرآن سے آپ نے جو کچھ سیکھا اسے اس حیرت انگیز شان کے ساتھ اپنے وجود میں داخل کر دیا.کہ ہمیشہ کیلئے حسین ترین نمونے دنیا کے سامنے ایسے پیدا ہوئے کہ ان کی کوئی مثال آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گی.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے غریبوں کے ساتھ ایسی محبت کی ہے کہ اصحاب صفہ وہ لوگ ہیں جو غرباء میں سے رسول اللہ کی محبت کے نتیجے میں مسجد میں آ کے بیٹھ گئے.یہ جوابی پیار کیسے پیدا ہوا اگر پہلے حضرت رسول اکرم ﷺ کے دل میں پیار پیدا نہیں ہوا تھا.بعض لوگ اپنی بیوقوفی یا نہ کبھی سے یہ گمان کرتے ہیں کہ اصحاب صفہ سب کے سب وہ لوگ

Page 677

خطبات طاہر جلد ۶ 673 خطبہ جمعہ ۶ ارا کتوبر ۱۹۸۷ء تھے جو بریکار تھے.جن کو دنیا کی کمائی کے ڈھنگ نہیں آتے تھے اور اس کے نتیجے میں جس طرح درویش کو لے لنگڑے وہاں اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں بعض جگہوں پہ جہاں کھانا مفت ملتا ہے اس طرح اصحاب الصفہ بھی آگئے چونکہ نیک تھے اس لئے مسجد میں آ کے بیٹھ گئے بجائے کسی اور یتیم خانے میں جانے کے.بالکل غلط اور جھوٹا تصور ہے.وہ صاحب عظمت و وقار لوگ تھے.ان میں ایسے تھے جو دنیا کمانا جانتے تھے.اس کے باوجود انہوں نے اپنے آپ کو حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ کے عشق میں آپ کے حضور حاضر کر دیا اور غربت قبول کی تھی کیونکہ جانتے تھے کہ غربت میں ان کو زیادہ پیار ملتا تھا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے.ابو ہریرہ کے حالات دیکھیں ساری عمر بڑی اچھی ٹھاٹھ کی زندگی گزاری لیکن جب آنحضرت ﷺ پر ایمان لائے تو اس خیال سے کہ اس پیارے رسول کی پیاری باتیں جو میں پہلے زمانوں میں نہیں سن سکا وہ سننے کا بس ایک ہی طریقہ ہے کہ مسجد کے ساتھ بیٹھ جاؤں، مسجد ہی کا ہو رہوں تا کہ جب بھی رسول کریم ﷺ باہر تشریف لائیں میں ساتھ جاسکوں، جب بھی کچھ فرما ئیں میں سن سکوں، چہرہ دیکھ سکوں.چنانچہ وہ جن کے متعلق آپ جانتے ہیں کہ بعض دفعہ فاقوں سے بیہوش ہو جایا کرتے تھے.ی تھی ان کی غربت کی وجہ اور غربت کے نتیجے میں آپ نے دوسروں سے زیادہ پیار پایا کیونکہ آنحضرت می فرمایا کرتے تھے کہ مجھے تلاش کرنا ہو تو غریبوں اور مسکینوں میں تلاش کرو.آپ نے فرمایا کہ قیامت کے دن بھی خدا مجھے غریبوں میں اٹھائے گا، کمزوروں میں اٹھائے گا کیونکہ میں ان سے محبت رکھتا ہوں.(مستدرک للحاکم.کتاب الجہاد، حدیث نمبر ۲۵۰۹) قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں وہیں تمہیں اٹھاوں گا جن سے تم پیار کرتے ہو.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے خود ایک موقع پر ایک صحابی سے کہا جس نے کہا کہ یا رسول اللہ سے دعا کریں کہ میں قیامت کے دن میں آپ کے ساتھ اٹھایا جاؤں، آپ کا قرب عطا کیا جاؤں.آپ نے فرمایا تم میں کیا بات ہے اس نے کہا میں عشق کرتا ہوں آپ سے اور مجھ میں کیا بات ہونی تھی.میں تو محبت کرتا ہوں آپ نے فرمایا ہاں وہ شخص جو کسی سے محبت کرتا ہے اس کے ساتھ اٹھایا جائیگا.( بخاری کتاب فضائل اصحاب النبی حدیث نمبر ۱۳۸۸) حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمانا کہ میں غریبوں کے ساتھ اٹھایا جاؤں گا.غریبوں میں مجھے دیکھنا قیامت کے دن، بتاتا ہے کہ غریبوں سے بڑھ کر آپ ان سے محبت کرتے تھے.پس غریب بھی آپ کے گرد اکٹھے ہوئے اور امیر

Page 678

خطبات طاہر جلد ۶ 674 خطبہ جمعہ ۶ ارا کتوبر ۱۹۸۷ء بھی امارتوں کو لاتیں مار کر امارتوں کو دھتکار کر آپ کے قریب اکٹھے ہو گئے اور وہاں جو بھی غریب تھے وہ عشق کی خاطر غریب ہوئے تھے، محمد مصطفی میت ہے کے پیار کی خاطر غریب ہوئے تھے.اور ایسے خزانے انکوعطا ہوئے ، ایسی ان کو نعمتیں ان عطا ہوئیں کہ آج ان کا نام اگر کوئی مسلمان امیر سے امیر بھی ہو ، بڑی سے بڑی بادشاہت بھی اس کو عطا ہوئی ہو وہ انکا نام لیتے وقت ان پر سلامتی بھیجتا ہے.اس کا سر جھکتا ہے ان کی عظمتوں کے سامنے.یہ وہ لوگ ہیں جن کا حضرت نوح نے اجمالاً ذکر کیا تھا.پس غریبوں سے سچی محبت حضرت د مصطفی ﷺ کا اسوہ ہے.جہاں تک رنگ و نسل کا تعلق ہے آپ جانتے ہیں کہ بلال کو کیا عظمت نصیب ہوئی.ایک سیاہ فام انسان ہی تو تھا اور وہ بھی غلام.لیکن حضرت عمرؓ اپنی خلافت کے زمانے میں جب ان کو دیکھتے تھے تو سیدنا بلال کہہ کر اٹھ کھڑے ہوا کرتے تھے.(مستدرک حاکم معرفۃ صحابہ ذکر بلال) عجیب مذہب تھا اور عجیب اس مذہب کی شان تھی کہ محمد مصطفی ہے.اس مذہب کے آئینے کے طور پر چنے گئے.اس لئے اپنی ذات کو مٹادیا اور کلیۂ قرآن کو سامنے کر دیا.آنحضرت ﷺ کی شفقت آپ کے پیار ، آپ کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ ایک ایسا شخص جو نہ صرف یہ کہ انتہائی غریب تھا بلکہ اس کا رنگ سیاہ ، اس کا حلیہ اتنا خراب کہ دنیا کے بدصورت ترین آدمیوں میں شمار کیا جاتا تھا.بعض لوگ اس کی طرف دیکھتے نہیں تھے کیونکہ دیکھ کر گھبراہٹ ہوتی تھی اور خوف طاری ہوتا تھا اتنی منحوس صورت ، مزدور تھا مزدوری پیشہ کر کے اپنی روٹی کا انتظام کرتا تھا.ایک دفعہ وہ اسی حال میں سوچتا ہوا ایک جگہ کھڑا تھا.میرا کیا حال ہے میں کس خاطر پیدا کیا گیا ہوں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ وہاں سے گزرے آپ نے جس طرح مائیں پیار سے بچوں کی آنکھیں بند کر لیا کرتی ہیں.اس طرح آگے بڑھ کر اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ دیا.دیکھتے ہیں کہ بوجھتا ہے کہ میں کون ہوں.پیار کا اظہار تھا.وہ جانتا تھا کہ محمد مصطفی ہے کے سوا کوئی نہیں ہے جو ایسی محبت کرنے والا ہو غریبوں اور مسکینوں سے.جانتا تھا کہ وہی ہیں.اس کے باوجود اس کو ایک عظیم موقع ہوغر صلى الله میسر آیا اور اس نے اپنے پسینے سے شرابور جسم کو اپنے بد بودار کپڑوں کے ساتھ حضرت اقدس محمد ملے کے ساتھ ملنا شروع کیا.ہاتھ پھیر نے شروع کیئے ، یہ بہانہ بنا کر گویا میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ یہ ہے کون؟ آخر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلیہ وسلم نے فرمایا : کون ہوں میں؟ اس نے کہا کہ آپ

Page 679

خطبات طاہر جلد ۶ 675 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء کے سوا ہو کون سکتا ہے.میں تو صرف اس خوش نصیبی سے فائدہ اٹھارہا تھا کہ زیادہ سے زیادہ میراجسم آپ کے ساتھ لگے، مس ہو، میں اپنے ہاتھوں سے آپ کے پیارے جسم کو ٹولوں.یہ قیمتیں کہاں نصیب ہوا کرتیں ہیں.اس کے بعد اس نے کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے سوا کون پوچھ سکتا ہے جسے دنیا میں کوئی بھی نہیں پوچھتا.آج اگر بازار میں بیچنے جائیں تو کوئی میرا خریدار نہیں ہوگا.اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا.ہر گز نہیں آسمان کا خدا تمہارا خریدار ہے.تم اس کی نظر میں محبوب ہوا اور اس کی نظر میں عزت رکھتے ہو.(مسنداحمد جلد۳صفحہ 161 مطبوعہ بیروت) یہ اسلام ہے، یہ وہ اسلام جو ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا.اگر یہ اسلام لے کر آپ امریکہ کی گلیوں اور بازاروں میں نکلیں تو اس اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے.کوئی دنیا کی طاقت اس اسلام کی کشش سے قوموں کو بچا نہیں سکتی پھر.کشاں کشاں وہ آپ کی طرف چلے جائیں گے کیونکہ آپ محمد مصطفی ﷺ کے خلق کے ایچی بن جائیں گے محض آپ کے پیغام کے زبانی اینچی نہیں رہیں گے اور آج کی دنیا زبانی پیغاموں کے سفیروں کی کچھ بھی پرواہ نہیں کرتی.آج تو بڑی بڑی طاقتوں کے سربراہ بھی اب ان صلحوں کے جھوٹے سفیر اور محبت کے جھوٹے سفیر ہیں.آپ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلق کے سچے سفیر بن کے دیکھیں کہ آپ کو خدا کیسی عظمتیں عطا کرتا ہے اور ان لوگوں سے پیار کرنا سیکھیں.میں تو جب بھی ان سے ملتا ہوں میرے وہم و گمان میں بھی کوئی رنگ کا فرق نہیں آتا.نہ مجھے کالے نظر آتے ہیں نہ مجھے سفید نظر آتے ہیں.مجھے تو اللہ کے نور سے مزین دکھائی دیتے ہیں.ان میں سے ایسے ایسے لوگ میں جانتا ہوں جن کا عشق خدا سے دل بھرا ہوا ہے اور راتوں کو اٹھ کر تہجد پڑھتے ہیں.غربت کے باوجود خدا کی راہ میں مالی قربانی میں پیش پیش ہیں ایسی محبت رکھتے ہیں احمدیت سے کہ ان کے چہرے بشرے سے جھلکتی ہے، ان کی آنکھوں سے ڈھلکتی ہے آنسو بن کے بعض دفعہ جذبات سے بے قابو ہو کر اس طرح سینے سے لگتے ہیں کہ سکیوں کی آواز سے کچھ سمجھ نہیں آرہی ہوتی کہ کیا کہہ رہے ہیں.میں تو ان کو دیکھتا ہوں میں خدا کے نور کے سوا ان میں اور کوئی چمک نہیں دیکھتا.بے اختیار میرا دل ان کی محبت میں اچھلتا ہے.میری روح ان کے پیار سے وجد کر نے لگتی ہے.آپ نے بھی تو میرے ہاتھ پر بیعت کی ہے اور میں نے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

Page 680

خطبات طاہر جلد ۶ 676 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.آپ ایسا ہی بہنیں ورنہ آپ اپنے عہد بیعت میں سچے نہیں ہوں گے اور جب تک آپ ایسا نہیں بنیں گے آپ امریکہ کی تقدیر کو نہیں تبدیل کر سکیں گے.لاکھ پاکستانی یا لاکھ عرب یالا کھ انڈونیشین یا ملائشین یا بنگالی یہاں آکر آباد ہو جائے.جب تک حضور اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور لے کر نہیں نکلتا وہ اس قوم کو فتح نہیں کر سکتا.جن کو آپ ادنی سمجھتے ہیں نعوذ باللہ من ذالک یا یہ دیکھتے ہیں کہ دنیا ان کو دنی سمجھتی ہے.ان کے اندر ہیرے جواہر ہیں بڑی عظیم طاقتیں مخفی ہیں اور وہ خدا کے پیار کو قبول کرنے کے لئے ان باقی قوموں سے زیادہ تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ان میں محرومی کا احساس ہے.وہ قومیں جن کو سب کچھ مل چکا ہو وہ متکبر ہو جایا کرتی ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا حضرت نوح نے فرمایا ہے کہ تم تو اندھے ہوئے ہو اپنی دولت میں.میں تمہیں کیسے دکھادوں کہ نعمتیں وہاں نہیں ہیں یہاں ہیں.ان کو خدا تعالیٰ نے ان کی غربت کی بنا بصیرت عطا فرما دی ہے.ان کے احساس محرومی نے ان کو تیار کر دیا ہے کہ وہ نعمت جو ان کی طرف آئے وہ اسے قبول کریں.پس اس احساس سے ان کو فائدہ اٹھانے دیں، آپ ان کی راہ میں حائل نہ ہوں.اُن تک محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن وخلق کا پیغام پہنچائیں.پھر دیکھیں کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کی کایا پلٹتا ہے.یہ وہی قومیں ہیں جو شراب کے نشے میں دھت جو دن رات میوزک اور بعض دفعہ Drugs کے عادی ہوگر اپنی زندگیوں کو گنوار ہے ہیں.انہی میں سے احمدی نکلیں اور آپ دیکھیں ان میں سے کتنی کا یا پلٹ گئی ہے ان لوگوں کی.ایک احمدی ایسے میوزیشن ہیں یہاں جو اپنے وقت میں اتنی تیزی کے ساتھ میوزک میں ترقی کر رہے تھے کہ بہت جلد انہوں نے امریکہ کی سطح پر شہرت حاصل کر لی اور ان کے متعلق ماہرین کا خیال تھا کہ یہ All Time Best یعنی ایسے عظیم الشان میوزیشن بن جائیں گے کہ گویا ان کو یاد کیا جائے گا اپنے زمانے کے بہترین تھے احمدی ہوئے نہ میوزک کی پرواہ کی ، نہ میوزک سے آنے والی دولت کی طرف لالچ کی نظر سے دیکھا.سب کچھ یک دفعه، یک قلم منقطع کر دیا.وہ درویشانہ اپنی زندگی گزارتے ہیں.باقاعدگی سے تہجد پڑھتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام لیتے ہیں تو آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ویسا عشق ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے آقا

Page 681

خطبات طاہر جلد ۶ 677 خطبہ جمعہ ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء سے عشق تھا.رنگ بدلے ہوئے ہیں ، کیفیت ہی اور ہو چکی ہے اور لوگ ان کو دیکھتے ہیں ان کو پتا نہیں کہ ان کے بھیس میں کیا وجود پھر رہا ہے.میں نے ان سے بارہا، مدت سے میں جب واقف ہوں.ان سے بارہا باتیں کی ہیں.خدا تعالیٰ ان کی دعاؤں کو سنتا ان کو جواب دیتا.ان سے رحمت اور شفقت کا اظہار فرماتا ہے.آپ کو کیا پتا کہ کتنے کتنے عظیم الشان جو ہر قابل یہاں موجود ہیں اور اگر ہم نے نعوذ باللہ من ذالک ان کی قدر نہ کی تو خدا ہماری قدر نہیں کرے گا.ہماری ذرہ بھر پرواہ نہیں کرے گا.اس لئے اپنی کیفیت بدلیں ، اپنے حالات تبدیل کریں اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جن کا میں ذکر کر رہا ہوں جو احمدیوں کا اپنی حالت بدل کر مجھے بھی بے انتہا پیارے ہیں اور میں جانتا ہوں کہ خدا کو بہت پیارے ہیں ورنہ مجھے بھی پیارے نہ ہوتے.ان کو میرا یہ پیغام ہے کہ آپ اسلام سے عظمت کر دار حاصل کریں، استغنا حاصل کریں.آپ کو بھی اسلام ایک خاص اسلوب زندگی سکھاتا ہے.اسلام آپ کو بتاتا ہے کہ آپ آزاد ہو گئے ہیں ہر قسم کے Complexes ہر قسم کے احساسات کمتری سے.جب آپ نے خدا کو پایا یہ سمجھ کر کہ خدا کو پایا تو پھر احساس کمتری کی گنجائش ہی کون سی باقی رہ جاتی ہے.پھر کیوں آپ حساس ہو جاتے ہیں اس بات پہ کہ فلاں نے مجھے یوں دیکھا اور فلاں نے مجھے یوں نہیں دیکھا.حضرت نوح کیوں نہیں حساس ہوئے.حضرت نوح کے ماننے والے غریب کیوں نہ حساس ہوئے.یہی وہ آیات ہیں جو آپ کو بھی پیغام دے رہی ہیں، آپ سے بھی تو مخاطب ہیں.ایک خدا کا عظیم الشان بندہ جو خدا کو اتنا پیارا تھا اور اسکے چند ماننے والے اتنے پیارے تھے کہ ان کو باقی رکھنے کے لئے اس علاقے کے ہر دوسرے انسان کو خدا نے ہلاک کر دیا.اس عظیم الشان وجود کو اور اس کو ماننے والے خدا کے پیاروں کو اس قدر ذلت سے دنیا دیکھتی تھی ، اس قدر ہنسی کا سلوک کرتی تھی ، اس قسم کی تحقیر کے ساتھ ان سے معاملہ کیا جاتا تھا کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب وہ کشتی بنا رہے تھے تو آتے جاتے قوم کے سردار اور دوسرے قہقہے اڑاتے اور مذاق کرتے ، یہ دیکھو جی پاگل کے بچے کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو.حال یہ ہے کہ روٹی میسر نہیں، حال یہ ہے کہ ہم جس وقت چاہیں انہیں ذلیل کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بچائے جائیں گے اور تم لوگ ہلاک ہو جاؤ گے.ان کے اندر کیوں احساس کمتری پیدا نہیں ہوا.اس لئے کہ ان کا ایمان سچا تھا.وہ جانتے تھے کہ

Page 682

خطبات طاہر جلد ۶ 678 خطبہ جمعہ ۱۶/اکتوبر ۱۹۸۷ء وہ خدا کے ہو چکے ہیں وہ دوسروں پر رحم کیا کرتے تھے.اس لئے اگر کوئی آپ سے ایسا سلوک کرتا ہے تو آپ ان پر رحم کریں نہ کہ اس کے رد عمل کے نتیجے میں آپ کہیں کہ یہ ہم سے ایسا سلوک کرتا ہے ہم بھی ہم پیچھے ہٹ جاتے ہیں.اپنے خدا سے پیچھے ہٹیں گے، اپنی بھلائی سے پیچھے ہٹیں گے.خود اپنے سے بے وفائی کریں گے.کیوں یہ نہیں سمجھتے کہ اسلام آپ کا ہے اور خدا آپ کا ہے.اگر کوئی باہر سے آنے والا اس خدا اور اسلام سے برگشتہ ہورہا ہے اپنے اخلاق اور اپنی قدروں میں تو آپ کو کیا حق ہے یا کیسی عقل ہے کہ آپ خود برگشتہ ہونے لگیں.آپ کو یہ احساس پیدا ہونا چاہئے اللہ آپ کا ہو چکا ہے.آپ کو کوئی پرواہ نہیں ہونی چاہئے کون کس طرح آپ کو دیکھتا ہے اور یہ عظمت آپ کے اندر پیدا ہوگئی تب آپ اس ملک میں غالب آئیں گے.مذہبی اقدار چھوڑ دیں ، نفسیاتی لحاظ سے میں آپ کو بتاتا ہوں ایک لازمی حقیقت ہے جسے اگر کوئی قوم بھول جائیگی تو کبھی بھی فلاح نہیں پاسکتی.وہ تو میں جو احساس کمتری سے آزاد ہو جایا کرتی ہیں جو سیدھی راہ پر چلنا جانتی ہیں قطع نظر اس کے کہ کوئی ان کو دیکھ رہا ہے کہ نہیں دیکھ رہا، کوئی ان کی عزت کر رہا ہے یا نہیں کر رہا.یہی وہ قومیں ہیں جو انبیاء کی کوک سے جنم لیا کرتی ہیں.انبیاء یہ تو میں بنایا کرتے ہیں اور اس کے بعد بڑی بڑی قو میں ہلاک ہو جایا کرتی ہیں اور یہ قو میں عظمت پاتی ہیں کیونکہ وہ خدا کے نام سے عظمت پاتی ہیں.اس لئے آپ خوش نصیب ہیں کیوں نہیں سمجھتے کہ آپ کو ہرگز کوئی ضرورت نہیں ہے کوئی آپ کو سینے سے لگائے یا نہ لگائے.آپ وہ بنیں جو سینوں سے لگائیں اور احسان کے طور پر لوگوں کو سینوں سے لگائیں کیونکہ خدا نے آپ کو چن لیا رحمت کے لئے اور نعمتوں کیلئے.اس لئے ضروری ہے کہ ہر احساس کمتری سے ہر احمدی آزاد ہو جائے.وہ جن کے رنگ نسبتا صاف ہیں اور جن کو خدا نے نسبتاً زیادہ دولتیں عطا کی ہیں ان کا احساس کمتری بھی ان کو ہلاک کر سکتا ہے اور ضرور کر دیگا اگر وہ اس سے باز نہ آئے اور وہ تو میں جو بظاہر دنیا میں کم درجے پر شمار کی گئی ہیں اگر وہ احساس کمتری کا شکار ہوں گی تو ان کو بھی احساس کمتری ہلاک کر دے گا.آنحضرت ﷺ نے یہ سارے راز ہمیں سکھا دیئے ہیں.دنیا کا سب سے بڑا ماہر نفسیات آدم سے لے کر آخری انسان تک جتنے بھی لوگ پیدا ہوئے ان میں سب سے اونچا ماہر نفسیات الله

Page 683

خطبات طاہر جلد ۶ 679 خطبہ جمعہ ۱۶ اکتوبر ۱۹۸۷ء حضرت اقدس محمد مصطفی ملے ہیں کیونکہ آپ اللہ کے مزاج شناس تھے خدا نے اپنا مزاج آپ کو بتایا تھا جسنے انسان کی فطرت پیدا کی اور وہی ایک راہ ہے جس سے انسانی فطرت کا معائنہ کیا جا سکتا ہے.تعصبات سے پاک خالص اللہ کی نظر سے انسان کو دیکھا جائے تو کوئی عارضی پردہ حائل نہیں ہوسکتا انسان.کے مطالعہ اور فطرت کے درمیان.اس لئے میں آپ کو بتا رہا ہوں کامل یقین کے ساتھ حکمت کی بنا پر کہ حضرت اقدس محمد مصطفی مالے سے بڑھ کر فطرت کا مطالعہ کرنے والا نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ کبھی آئندہ پیدا ہو سکتا ہے اور آپ نے فرمایا ایک موقع پر کہ خدا کو جولوگ بہت ہی ناپسند ہیں ان میں سے ایک قسم وہ ہے جو غریب اور بے حال ہونے کے باوجود متکبر ہیں.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر : ۱۹۷) یہ احساس کمتری کی تفصیل بیان فرمائی جا رہی ہے.وہ لوگ جن کے پاس کچھ نہ ہو یا غریبانہ حالت میں زندگی بسر کرتے ہوں یا تو میں ان کو تحقیر کی نظر سے دیکھتی ہوں اگر وہ آگے سے تکبر کا اظہار کریں گے تو یہ تکبر احساس کمتری سے پیدا ہوتا ہے کہ اچھا اب ہم ان کو بھی ذلیل دیکھنا شروع کریں گے اور ذلیل کرنا شروع کریں گے فرمایا اللہ ان کو بڑی نفرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے.تو بجائے اس کے کہ اس حالت کے نتیجے میں آپ خدا کی محبت کے سودے کریں کیوں خدا کی نفرت اور خدا کے غضب کے سودے کرتے ہیں.آپ خدا کے ہو گئے تو خدا کی قسم آپ عظیم ہو چکے ہیں کیونکہ خدا سے جو بھی تعلق جوڑ لے وہ عظیم ہو جایا کرتا ہے پھر اس جھوٹے احساس کمتری کا شکار کیوں ہوتے ہیں، کیوں شیطان کو موقع وہ دیتے ہیں کہ آپ کے دل میں یہ خیال پیدا کرے کہ گویاوہ لوگ زیادہ ہیں اور آپ کم ہیں.اگر یہ آپ جذ بہ پیدا کر لیں اور حضرت اقدس محمدمصطفی ﷺ کی سیرت کا یہ رنگ اپنے اندر داخل کر لیں تو میں آپ کو بتاتا ہوں کہ احمد یہ سوسائٹی میں تفریق پیدا کرنے والا کوئی وجود کا میاب نہیں ہوسکتا.آج آپ کے اندر منافق بھی ہیں، آج آپ کے اندر بیوقوف بھی ہیں ، احساس کمتری کا شکار جاہل لوگ بھی ہیں اور باہر کی تو میں آپ کے اندرایجنٹ بھی داخل کر رہی ہیں کہ کسی طرح آپ کے اندر تفریق پیدا کر دیں اور شیطان اسی طرح کی تفریقیں پیدا کیا کرتا ہے.یاد رکھیں کہ مومن کہ اندر کوئی دنیا کی طاقت تفریق پیدا نہیں کر سکتی.اس لئے ہر وہ شخص خواہ وہ احساس کمتری کے نتیجے میں یا شیطانیت کے نتیجے میں آپ کے اندر ایسی باتیں کرے جس کے نتیجے میں آپ کا اپنے بھائی سے دل بدظن ہورہا ہو جس کے نتیجے میں آپ سمجھیں کہ آپ کی محبت میں کوئی فرق پڑ رہا ہے جس کے نتیجے میں

Page 684

خطبات طاہر جلد ۶ 680 خطبہ جمعہ ۶ ارا کتوبر ۱۹۸۷ء آپ سمجھیں کہ جماعت کی نمائندہ تنظیم کے نمائندہ جولوگ ہیں ان کی عزت ،ان کے احترام، ان کے اطاعت کے جذبے میں فرق آ رہا ہے تو جان لیں کہ وہ خدا کی طرف سے بولنے والا نہیں ، وہ شیطان کی طرف سے بولنے والا ہے.ایسے انسان کو رد کریں اور اگر آپ میں سے ہر ایک یہ طریق اختیار کر لے تو احمدیت کے اندر کوئی شیطانی جذ بہ سرایت نہیں کر سکتا.میں تو حیران ہوتا ہوں دیکھ کر کہ بعض لوگ اس اثر کو قبول کر لیتے ہیں اور پھر مجھ سے شکایت کرتے ہیں کہ جی ! فلاں نے ہم سے یہ سلوک کیا فلاں نے بچے کے امتحان میں اس لئے پاکستانی بچے کو پاس کر دیا کہ وہ پاکستانی تھا یا اس کا رنگ بہتر تھا یا دولت مند تھا اور ہمارے بچے کو جو زیادہ نمبر لینے کا مستحق تھا اسے قرآن یا نظم میں پیچھے کر دیا.میں حیرت سے ان کو دیکھتا ہوں کہ اگر ایسا کیا تو کیا آپ کو معلوم نہیں کہ آپ خدا کے ہیں اور خدا خود آپ سے پیار کا سلوک کرے گا.خدا کی خاطر جو بھی قوم قربانی کرتی ہے جو شخص قربانی کرتا ہے اس کا مرتبہ خدا کی نظر میں بڑھ جاتا ہے.اس لئے اگر یہ سلوک ہوا تو آپ تب بھی مراد پاگئے.اس بیوقوف پر رحم کریں جس کا حق نہیں تھا اگر واقعی اس کا حق نہیں تھا وہ انعام پا گیا.وہ تو جاہل ہے وہ تو جانتا نہیں کہ اس کو کیا دیا جارہا ہے.حضرت محمد مصطفی یہ فرماتے ہیں کہ اگر تم میں سے دو فریق جھگڑا لے کر میرے پاس آئیں اور کوئی اپنی چرب زبانی کی وجہ سے، زیادہ چالا کی کی وجہ سے اس طرح معاملہ پیش کرے کہ میں حقدار کی بجائے کچھ حصہ حق کا ناحق کی طرف منتقل کر دوں تو اس کے نتیجے میں یہ نہ سمجھیں کہ چونکہ میں نے فیصلہ کیا ہے اس لئے وہ اس کا حقدار ہو گیا.اس نے صرف جہنم کا ایک ٹکڑا کمایا ہے اس سے زیادہ اس کو کچھ بھی نصیب نہیں.(ابوداؤ د کتاب القضاء :۳۱۱۲) صلى الله پس اگر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نعوذ بالله من ذالک حالات سے لاعلمی کے نتیجے عليم غلط فیصلہ کر سکتے ہیں.میرا ایمان ہے کہ نہیں کر سکتے مثال کے طور پر پیش فرمارہے ہیں.مگر مثال یہی بتاتی ہے کہ اگر وہ کر سکتے تو ادنی ادنی بندے بعض دفعہ جان کر نہیں لاعلمی کے نتیجے میں فیصلہ غلط کر دیا کرتے ہیں.اس لئے جب آپ اس کے مقابل پر یہ رد عمل دکھائیں گے تو دو جرموں کا ارتکاب کریں گے.اول یہ کہ اپنے بھائی پر بدظنی کی.آپ نہیں جانتے کہ اس نے کیوں فیصلہ کیا.دوسرے یہ کہ واقعہ اپنے آپ کو ذلیل سمجھا کہ گویا ہم سے کچھ چھین لیا گیا ہے.آپ سے کوئی کچھ نہیں چھین سکتا یہ تو

Page 685

خطبات طاہر جلد ۶ 681 خطبہ جمعہ ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء سارے سلسلے ہی رضائے الہی کے سلسلے ہیں، رضائے الہی کو کوئی کس طرح زبردستی چھین سکتا ہے.آپ کا مرتبہ خدا کی نظر میں ضرور بڑھتا ہے اس وقت.جب آپ جائز حق سے محروم کئے جاتے ہیں اور اس کا مرتبہ جو نا جائز حق لیتا ہے ضرور گرتا ہے خدا کی نظر میں.اس لئے اسلام ایک محفوظ مقام ہے سچے مسلمان کو کسی طرف سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا.اس لئے اپنے اندر وہ احترام پیدا کریں اپنا جو خدا سے تعلق کے نتیجے میں لا زما پیدا ہو جایا کرتا ہے.جو انکساری کے ساتھ ساتھ رہنا جانتا ہے، اس کے ساتھ ساتھ چلتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ جانتے تھے کہ وہ کتنے محترم ہیں اس کے باوجود وہ اس کے باوجود منکسر المزاج تھے.یہ توازن ہے جو اسلام پیدا کرتا ہے، یہ سین شخصیتیں ہیں جو اسلام کے نتیجہ میں منصہ شہود پر ابھرتی ہیں.پس خدا کرے کہ یہ جماعت ہوامریکہ میں جو پیدا ہو اور جو کمزوریاں ہیں وہ اللہ اپنے فضل سے دور فرما دے.کچھ آپ اپنے حالات کا جائزہ اپنے اندر ڈوب کے کرنا شروع کریں.کچھ اپنے بھائیوں کے جائزہ لے کر ان کو پیار اور محبت سے سمجھانے کی کوشش کریں.بہت ضرورت ہے کیونکہ اتنا بڑا کام ہمیں کرنا ہے اور ہم اتنا پیچھے رہ گئے ہیں وقت سے کہ بہت تیزی کے ساتھ ہمیں اپنے حالات کو درست کر کے خدا کی فوج میں لازما شریک ہونا ہوگا.اگر ہم ایسا نہیں کر سکیں گے تو ان کو خدا کی خاطر جیتنے کے بجائے ہم اپنے بچوں کو شیطان کے ہاتھ فروخت کرنے والے ہوں گے.اگر آپ نے پھیلانہ سیکھا اگر آپ نے اپنے معاشرے کو دوسرے پر غالب کرنا نہ سیکھا تو دوسرا معاشرہ آپ پر غالب آجائے گا.آپ کمزور ہو جائیں گے، آپ کم ہونا شروع ہو جائیں گے.ان تاریخی اسباق سے نصیحت حاصل کریں.یہ غیر مبدل قوانین ہیں جو انسان کی تاریخ ہمیں سکھا رہی ہے.آپ سے کوئی الگ سلوک نہیں کیا جائے گا.یہ وہ سلوک ہے جو خدا نے ہمیشہ قوموں سے کیا اور ہمیشہ کرتا چلا جائے گا.اس لئے استغفار کے ساتھ دعا کرتے ہوئے اپنے حالات کا جائزہ لیں اور انکسار کے ساتھ عظمت کردار پیدا کریں.ہر وہ شخص جو بظا ہر کسی سوسائٹی کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ یہ عزم کرلے کہ میں نے محمد مصطفی میل ہی کی طرف اس طرح منسوب ہو جانا ہے کہ سوسائٹیوں کے فرضی رنگ بالکل غائب ہو جائیں اور اڑ جائیں اور باریک سے باریک فلم ( جھلی ) بھی میرے اور میرے بھائی کے درمیان باقی نہ رہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.صلى الله

Page 686

خطبات طاہر جلد ۶ 682 خطبه جمعه ۱۶ را کتوبر ۱۹۸۷ء خطبہ ثانیہ کے دران حضور نے فرمایا: یہاں کی جماعت کے لئے خصوصیت کے ساتھ اور عموما جماعت کے لئے ایک پُر درد خبر ہے وہ یہ کہ ہمارے ایک بہت مخلص احمدی ڈاکٹر عبد الخالق صاحب جنہوں نے افریقہ میں وقف کے بعد بڑی عظیم الشان خدمات بھی سرانجام دیں اور یہ سارا خاندان ہی احمدیت کا بڑا فدائی خاندان ہے اچانک ان کو بہت صدمہ پہنچا ان کی اہلیہ خالدہ ادیب خانم ، بڑی عمر بھی نہیں تھی زیادہ اور صحت بھی اچھی تھی ، اچانک سمجھ نہیں آئی کہ کیا ہوا ہے لیکن اچانک بقضائے الہی وفات پاگئیں انا لله و انا الیه راجعون.یہ ہمارے یہاں کی جماعت کے ایک مخلص کارکن جو خدا کے فضل سے جنرل سیکرٹری جماعت احمد یہ ڈیٹرائٹ بھی ہیں : ڈاکٹر بشیر الدین خلیل احمد صاحب ان کی خوشدامنہ بھی تھیں.اس لئے عموما ہم سب کے لئے دکھ کا موجب ہے لیکن خصوصا جماعت ڈیٹرائٹ کے لئے یہ دوہرا صدمہ ہے کہ ان کے ایک بہت اچھے کارکن کو یہ صدمہ پہنچا ہے.ان کی نماز جنازہ غائب جمعہ اور عصر کی نماز کے معا بعد ہوگی.اللہ انہیں غریق رحمت فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: دعا کے لئے یہ بھی کہنا تھا کہ ڈاکٹر بشیر الدین خلیل احمد صاحب کا ایک بچہ بیمار ہے جس کی وجہ سے بچے کی والدہ بھی بہت پریشان تھی ان کو دوہری پریشانی ہوئی ہے.اس حالت میں چھوڑ کے جانا پڑا اور ڈاکٹر صاحب بھی پریشان ہیں ان کی صحت کے لئے بھی خصوصیت سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اعجازی شفا عطا فرمائے.آمین.

Page 687

خطبات طاہر جلد ۶ 683 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء اپنی ذات کے خلاؤں کو نیکیوں سے پُر کر دیں اس سے مغربی معاشرہ آپ پر اثر انداز نہیں ہوگا اور آپ یقیناً غالب رہیں گے ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ اکتو بر ۱۹۸۷ء بمقام لاس اینجلس امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: سفر کے دوران جس کا آغاز کینیڈا سے ہوا اگر چہ وہاں ایک دو دن ہی ٹھہرا اور بعد میں پھر امریکہ آیا اور یہاں تقریبا یہ سفر نصف تک پہنچ چکا ہے.اس تمام سفر کے دوران جہاں جہاں بھی جانے کا موقع ملا عموما احباب جماعت نے ایک سوال بڑی شدت کے ساتھ اٹھایا کہ جس ملک میں یا جن ملکوں میں ہم رہ رہے ہیں یہاں کا معاشرہ اتنا گندہ ہو چکا ہے اور فضا اتنی زہریلی ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے مستقبل سے متعلق فکر ہے.اس لئے ہمیں کوئی ایسی ترکیب بتائیں جس کے نتیجے میں ، جس پر عمل کرنے سے ہم آئندہ اپنے بچوں کے بارے میں مطمئن ہوسکیں کہ یہ اسلامی اقدار کے ساتھ پلیں گے ،ساتھ جوان ہوں گے اور کسی طرح بھی یہ غیروں سے مرعوب نہیں ہوں گے.کینیڈا میں جو مجلس سوال و جواب تھی اس میں بھی میں نے اس سوال کا جواب دیا اور بعد میں خصوصیت کے ساتھ واشنگٹن میں بچوں کے اجلاس میں بھی میں نے اس مضمون کے بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی.چونکہ یہ سوال عام طور پر اٹھایا جا رہا ہے اور اکثر ذہنوں کو بے چین کر رہا ہے اس لئے

Page 688

خطبات طاہر جلد ۶ 684 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء مناسب ہوگا کہ ان دونوں جوابوں کی اکٹھی ایک کیسٹ تیار کر لی جائے اور چونکہ اس خطبے میں بھی میں اسی کے ایک اور پہلو پر گفتگو کروں گا اس لئے اس کو بھی ساتھ شامل کر لیا جائے اور تمام امریکہ کی جماعتوں میں اس احتیاط کے ساتھ ان کیسٹس کو بھجوایا جائے کہ خلا نہ رہ جائے.اگر چہ کیسٹ کا نظام اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ دو تین سالوں میں کافی مضبوط ہو چکا ہے اور تقویت پاچکا ہے لیکن جب بھی میں نے تفصیلی جائزہ لیا ہے تو بہت سے خلا ضرور دکھائی دیتے ہیں اور یہ کہنا درست نہیں کہ کسی ملک کی ہر جماعت میں با قاعدگی سے کیسٹس پہنچ رہے ہیں اور اس جماعت کے ہر فرد تک ان کی رسائی ہے یا ہر فرد کو ان تک رسائی ہے.یہ نظام بھی ابھی نامکمل ہے کہ سنائی کیسے جائے اگر اکٹھا جماعت کو لیسٹس سنانے کا انتظام نہ ہو جس میں خطبات ہوں یا خصوصی پیغامات ہوں تو بسا اوقات بہت سے خاندان ایسے رہ جاتے ہیں جو اپنے طور پر تو سن ہی نہیں سکتے.علاوہ ازیں بھی اگر جمعہ پر بھی یہ انتظام کیا جائے تو آپ جانتے ہیں کہ جن ملکوں میں آپ بس رہے ہیں یہاں بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو جمعہ پر حاضر ہی نہیں ہوسکتی اور کچھ جو جمعہ پر آتے ہیں مرد یا خواتین ان کے بچے ضروری نہیں کہ ساتھ آسکیں.اس لئے خلا کے احتمالات زیادہ ہیں بنسبت اس کے کہ یہ یقین کیا جائے کہ سب تک پیغام پہنچ رہے ہیں.اس لئے ایسے اہم مضامین جن کا جماعت کی تربیت کے ساتھ یا ان کے بچوں کے مستقبل کے ساتھ گہرا تعلق ہو ان کو زیادہ احتیاط کے ساتھ ، زیادہ محنت کے ساتھ احباب جماعت تک پہنچانے کی کوشش کرنی چاہئے.اس لئے جہاں اجتماعی انتظامات ہیں ان میں یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ کتنے دوست تشریف لا سکے جو تشریف لائے ان سے مل کے یہ طے کرنا چاہئے کہ آپ اپنے بچوں کو کس طرح سنائیں گے ، جو نہیں آسکے ان تک پہنچانے کا انتظام اگر یہ ان خطبات کے علاوہ عموما بھی جماعت ایسا انتظام کرے اور اس توجہ کے ساتھ یہ انتظام کرے تو اس سے بالعموم ساری دنیا کی جماعت کو بہت سے فوائد پہنچیں گے.خطبات ایک ایسا ذریعہ ہے جن کے ذریعے ساری دنیا میں خواہ کسی ملک سے تعلق کے رکھنے والی جماعتیں ہوں ان میں یک جہتی اور یک سوئی پیدا ہو سکتی ہے.جماعت احمد یہ کہ مقاصد میں ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اسلام کو عالمی بنایا جائے ، تمام عالم کے دوسرے مذاہب پر اس کو غالب کیا

Page 689

خطبات طاہر جلد ۶ 685 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء جائے اور ایک اسلامی مزاج ساری دنیا میں پیدا کیا جائے.اس ایک مزاج کو پیدا کرنے کے لئے خلافت سے ساری جماعتوں کی وابستگی سب سے بڑا ذریعہ ہے جودنیا میں کسی اور مذہبی جماعت کو اس طرح حاصل نہیں اور پھر ہر ہفتے ایک ہی قسم کے مزاج کو دنیا میں پیدا کرنے کی خاطر ایک ہی خطبہ کو ہر جگہ پھیلانا اور ایسے خطبے کو پھیلانا جس کا سنے والا یہ سمجھتا ہو کہ میرا اس بیان کرنے والے سے ایک ایسا گہرا روحانی تعلق ہے کہ جو باتیں بھی کہی جارہی ہیں میں عہد کر چکا ہوں کہ میں انہیں توجہ سے سنوں گا اور ان پر عمل کرنے کی کوشش کروں گا.یہ بات بھی دنیا میں کسی اور مذہبی نظام کو حاصل نہیں.اس لئے اگر اس دنیا کی وحدت کسی جماعت سے وابستہ ہے تو وہ جماعت احمدیہ ہی ہے لیکن جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے جو نظام مہیا فرما دیا ہے جو انتظامات مکمل کر دیئے ہیں اگر خود یہ جماعت اس سے استفادہ نہ کرے تو پھر دنیا کی وحدت تو در کنار اپنی وحدت کو بھی برقرار نہیں رکھ سکے گی اور میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بسا اوقات اس کمی کی وجہ سے مختلف جماعتوں کے مزاج مختلف ہونے لگتے ہیں.جہاں باقاعدگی سے خطبات پہنچانے کا انتظام نہیں وہاں کئی قسم کے ایسے خیالات کئی قسم کے ایسے تو اہمات دلوں میں پیدا ہوتے رہتے ہیں جن کا ساتھ ساتھ علاج نہیں ہورہا ہوتا اور وہاں مختلف مزاج میں جماعتیں پرورش پا رہی ہوتی ہیں دنیا کی دوسری جماعتوں سے فرق کے ساتھ ان کی تربیت ہو رہی ہوتی ہے.اس لئے بالعموم ابھی یہ بہت ضروری ہے اور خصوصا ایسی جگہ جیسے لاس اینجلس ہے، بہت پھیلی ہوئی جماعتیں ہیں گھروں کے درمیان فاصلے بہت ہیں ،شہر بہت بڑا ہے، بداثرات بہت زیادہ ہیں اور ایک مسجد اگر بنا بھی دی جائے تو تب بھی اس مسجد تک سب کی رسائی عملا ممکن نہیں ہے.تو ایسی جماعتوں میں تو خصوصیت کے ساتھ یہ انتظام ضروری ہے کہ مرکز سے ان کا رابطہ مکمل رہے اور ہر بڑے چھوٹے تک خلیفہ وقت کی آواز میں وہ باتیں پہنچیں جن پر عمل کرنا وقت کے تقاضوں کے لحاظ سے خصوصیت سے بہت ضروری ہے.اس تمہید کے بعد میں اب اس مضمون کی طرف آتا ہوں جس کا میں نے ذکر شروع میں چھیڑا کہ بچوں کی حفاظت کے لئے ہمیں کیا کرنا چاہئے.جو باتیں میں پہلے بیان کر چکا ہوں انہیں دوہرانے کی ضرورت نہیں لیکن قرآن کریم کی ایک آیت کو خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھتے ہوئے آج میں اس

Page 690

خطبات طاہر جلد ۶ 686 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء مضمون پر روشنی ڈالوں گا.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرمایا ہے:.اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ (خود : ۱۱۵) کہ یقیناً حسنات برائیوں کو دور ر کر دیتی ہیں.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کے متعلق بالعموم بہت ہی غلط فہمی پائی جاتی ہے.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ برائیاں نیکیوں کو کھا جاتی ہیں اور اس وجہ سے یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایسے ماحول میں ہیں جو برا ہے اس لئے ہمیں خطرہ ہے کہ یہ برائی ہم پر غالب نہ آجائے.قرآن کریم نے اس مضمون کو بالکل برعکس شکل میں پیش فرمایا ہے.فرمایا اگر تم واقعی اچھے ہو تو تمہیں برائی سے خوف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں برائیاں تم سے خوف کھائیں گی کیونکہ برائیوں کی فطرت میں ایک کمزوری داخل ہے کہ حسنات کا مقابلہ نہیں کر سکتیں اور حسنات ان پر بھی ضرور غالب آتی ہیں.یہ ایک ایسا بالکل نیا اور اچھوتا مضمون ہے جس کا دنیا کے دوسرے مذاہب میں اشارہ تو شاید ذکر ملے مگر اس طرح وضاحت کے ساتھ اس قوت کے ساتھ آپ کو دنیا کی کسی الہامی کتاب میں اس مضمون پر روشنی پڑتی ہوئی دکھائی نہیں دے گی.چنانچہ اس مضمون کو مزید تقویت دیتے ہوئے قرآن کریم فرمایا ہے:.جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا ( بنی اسرائیل :۸۲) دیکھو! حق آگیا ہے اور اب باطل کے مقدر میں بھاگنے کے سوا کچھ بھی نہیں لازما باطل کو بھاگنا ہوگا.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا اس کی فطرت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ بھاگے.إِنَّ الْحَسَنْتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ کے پیغام کے ساتھ جب یہ نظارہ قرآن میں موجود ہے.اس کے بعد کسی احمدی کے لئے اس خوف کی تو ضرورت بہر حال نہیں کہ معاشرے کی برائیاں ہماری بھلائیوں کو کھا جائیں گی لیکن کچھ اور خوف کی ضرورت بہر حال ہے.اس لئے ہمیں اس خوف کا تجزیہ کرنا ہوگا کہ اصل قصہ کیا ہے؟ کیونکہ محض یہ کہ دینا کہ تم اچھے ہو اس لئے تم ضرور غالب آؤ گے یہ کافی نہیں ہے کیونکہ امر واقع یہ ہے ہم دیکھتے ہیں بہت سے خاندان اردگرد کے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں، اپنی ان خوبیوں کو بظاہر چھوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جن پر وہ بظاہر قائم دکھائی دیتے تھے اور برائیوں کی طرف سرکتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کی اولادیں ضائع ہوتی نظر آ رہی ہوتی ہیں، ان کے مزاج بدل جاتے ہیں، ان کے دین کے رجحانات میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے، ان کی آنکھوں میں

Page 691

خطبات طاہر جلد ۶ 687 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء وہ تعلق قائم نہیں رہتا جو اچھے تربیت یافتہ بچوں کی آنکھوں میں دکھائی دینا چاہئے.دین سے اپنائیت دکھائی نہیں دیتی ، ایک غیریت پیدا ہو جاتی ہے.تو ایک طرف یہ واقعات ہمیں دکھائی دے رہے ہیں جس سے ہم کیسے آنکھیں بند کر سکتے ہیں؟ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حسنات چونکہ برائیوں کو کھا جاتی ہیں اس لئے ہمیں کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں، بے فکر رہیں خود بخود ہماری خوبیاں غالب آجائیں گی.تو ان دو تضادات میں بیچ میں کونسی ایسی راہ ہے جسے ہم تلاش کریں اور سب سے پہلے تو یہ کوشش کریں کہ ان تضادات کا وجود ممکن کیسے ہے.قرآن کریم تو سچائی ہے اور ایک سچائی کا دوسری سچائی سے تضاد ہو ہی نہیں سکتا.یہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم ایک بات بیان فرما رہا ہو اور حقائق اس کی مخالفت کر رہے ہوں اس لئے اس تجزئیے کے لئے مزید غور کرنا ہوگا.اس الجھے ہوئے مسئلے کو پہلے حل کرنا ہو گا کہ یہ تضاد ہے کیوں؟ ہمارا مشاہدہ کچھ اور بتا رہا ہے.قرآن کریم کی آیت کچھ اور بیان فرما رہی ہے اور دونوں میں گویا مشرق اور مغرب کا بعد ہے.اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم ہی سچا ہے اور اصل بات یہ ہے کہ ہمارا مشاہدہ بھی درست ہے مگر ان دونوں کے درمیان جو تضاد ہے وہ ہماری نظر کی کمی کی وجہ سے ہے.جب ہم کہتے ہیں کہ عملاً لوگ ضائع ہورہے ہیں تو یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اچھے تھے اور اچھے ہونے کے باوجود ضائع ہو گئے ، یہ بات غلط ہے.وہی ضائع ہوتے ہیں جو اچھے نہیں ہیں.جن میں حسنات ہیں وہ کبھی ضائع نہیں ہوا کرتے.جن میں خوبیاں ہیں ان کی خوبیاں لازما غالب آیا کرتی ہیں.ہاں ! جنہیں زعم ہو کہ ہم اچھے ہیں جنہیں دھوکا ہو کہ ہم خوبیوں پر قائم ہیں ، وہ سمجھتے ہوں کہ ہم ٹھوس مقامات پر فائز ہیں لیکن بیچ میں سے وہ کھو کھلے مقامات ہوں، ریت کے محلوں پر کھڑے ہوں، ان لوگوں نے تو گرنا ہی گرنا ہے.اس لئے نسلیں ہی وہ ضائع ہوتی ہیں جو حسنات سے خالی ہوتی ہیں.ان لوگوں کی نسلیں ضائع ہوتی ہیں جن کو حسنات پر زعم ہوتا ہے لیکن عملاً وہ حسنات سے خالی ہوتے ہیں اور یہ اصول یقینی اور قطعی ہے کہ برائیاں حسنات کو نہیں کھایا کرتی خلاؤں میں داخل ہوا کرتی ہیں.حسنات کے نام سے آپ کے سینے اور آپ کے اعمال بھر نہیں سکتے.وہ عمل سے بھرتے ہیں جو حسن عمل ہو ، جو نیک عمل ہو، نیک عادات سے بھرتے ہیں.پس آپ کے وجود اگر نیک ناموں سے تو وابستہ ہوں اور بظاہر ارد گر د نیکی کا ملمع بھی موجود ہو لیکن اندر سینے میں خلا ہو، آپ کے اعمال میں خلا ہو تو قانون قدرت ہے کہ خلا باقی نہیں رہا کرتا، اس

Page 692

خطبات طاہر جلد ۶ 688 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء خلا کوضرور کوئی چیز بھرتی ہے.اگر نیکی نے نہیں بھرا تو بدی اس کو ضرور بھرے گی.اس لئے قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ تو مراد یہ ہے کہ اپنے نفوس کا پہلے جائزہ لو.اگر برائیاں تم پر غالب آرہی ہیں تو یقین کرو کہ تمہارے اندر حسنات موجود نہیں ، یقین کرو کہ تمہیں وہم ہے کہ تم اچھے ہو اور اپنی خلاؤں کو تلاش کرو اور ان خلاؤں کو نیکیوں سے بھرنے کی کوشش کرو کیونکہ جو وجود نیکیوں سے بھر جاتے ہیں ان پر کبھی بدی غالب نہیں آیا کرتی.چنانچہ ایک قرآن کریم اس مضمون کو عملاً تاریخ کی روشنی میں بھی پیش فرماتا ہے.انبیاء کا آغاز ہمیشہ ایسے ماحول میں ہوتا ہے جس پر بدی غالب آچکی ہوتی ہے، ہر طرف بدی ہی بدی کا دور دورہ ہوتا ہے.قرآن کریم اس نقشے کو آنحضرت ﷺ کی آمد سے پہلے کی حالت کو یوں بیان فرماتا ہے کہ: ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :٤٢ ) خشکی اور تری سارے بدیوں سے بھر گئے تھے کوئی جگہ بھی فساد سے خالی نہیں تھی.ایک محمد مصطفی ﷺ کو فائز کیا گیا اور اس دن سے مسلسل آپ کی زندگی کے آخری سانس تک بدیوں کو بھاگنا پڑا اور آپ کی نیکیوں کو ان پر غالب آنا تھا اور اور وہ غالب آکر رہیں.ایسے گندے ماحول میں قدم رکھ کر اس کو اپنے گردوپیش نور سے بھر دیا اور ایسی حیرت انگیز حسنات عربوں کو عطا کیں کہ ان کی کیفیت بدل گئی، ان کی کایا پلٹ گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو نثر اور نظم میں بیان فرماتے ہیں اور بڑی گہرائی سے اس پر روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی نیکیاں تھیں جو ماحول پر غالب آئیں اور ہر وہ وجود جو نیک وجود پیدا ہوا وہ آپ کی نیکیوں کی برکت سے پیدا ہوا اور یہی مضمون آج بھی جاری ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی جماعت کو اس طرف متوجہ کیا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی حسنات ہی ہیں جو پہلے بھی غالب آئیں تھیں اور آج بھی غالب آئیں گی ان کے سوا کچھ بھی نہیں ہے دنیا میں.اس لئے انہیں اپنائے بغیر، ہتھیاروں سے لیس کئے بغیر میدان میں نکلنا اور پھر یہ خیال کر لینا کہ ہم اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو بچا سکیں گے یہ درست خیال نہیں.یہ تو ویسی بات ہے کہ لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں“.غالب کہتا ہے: اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا! لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

Page 693

خطبات طاہر جلد ۶ 689 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء (دیوان غالب صفحه : ۱۸۲) تو جہاں محبت ہو وہاں اس چیز کو سادگی کہہ دیتے ہیں لیکن جہاں محبت نہ ہو اور جذبات سے عاری نظر سے دیکھا جائے وہاں اس چیز کا نام حماقت ہوتا ہے،انتہائی بیوقوفی کہا جاسکتا ہے.پس ایسی قوم جو ہتھیاروں کے بغیر نکلے اور دنیا پر غالب آنے کے دعوے کرے وہ حماقت میں تو مبتلا قرار دی جاسکتی ہے لیکن اس کے لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی دور کا بھی امکان ہے کہ یہ کبھی دنیا پر غالب آجائے گی.اس لئے قرآن کریم نے بعض چھوٹی چھوٹی آیات میں حکمتوں کے دریا بند کر رکھے ہیں جیسے کوزے میں دریا بند کرنے کا محاورہ ہے.واقعہ قرآن کریم میں ایسے کوزے ہیں جن میں حکمتوں کے دریا بند ہیں.تو اس چھوٹی سی آیت نے ہمیں اپنی کمزوریوں کی طرف توجہ دلا دی.ہمیں یہ بتایا کہ ہمارا مقام کیا ہے؟ ہمیں یہ سکھایا کہ اگر ہم اپنی نسلوں کو بچانا چاہتے ہیں تو پہلے اپنے آپ کو بچائیں.جب تک ہم اپنے وجود کو نیکیوں سے نہیں بھرتے اس وقت تک آئندہ نسلوں کی حفاظت کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.تو امر واقعہ یہ ہے کہ وہی لوگ ہیں جن کی اولاد میں ضائع ہوتی ہیں جن کے اندر خلا ہیں جو خود مادیت سے پہلے متاثر ہو چکے ہوتے ہیں.وہ خود اپنا سر خم کر چکے ہوتے ہیں دنیا کے رعب کے سامنے اور ان کی برائیوں کو بظاہر برائیاں سمجھتے ہوئے بھی ، ان کی طرف ان کو جانے دیتے ہیں اور اس وقت تشویش محسوس نہیں کرتے.جب بچے بڑے ہو جاتے ہیں، جب ان کی عادات پختہ ہو جاتی ہیں اس وقت ان کا کل نیکی کا جذبہ اچانک جیسے ہوش آ جائے اس کو ، اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اچھا اچھا! میری اولا د و ضائع ہو رہی ہے اس کو بچانے کی کوشش کی جائے.قرآن کریم بتاتا ہے کہ بچانے کی کوشش ہمیں اپنی ذات سے کرنی پڑے گی.اگر ہمارے دل نیکیوں سے بھرے ہوئے ہیں، اگر ہمارے اعمال حسن ہیں تو پھر نہ ہمیں خوف ہے نہ ہماری اولا دکو کوئی خوف کیونکہ ایسی صورت میں ہم اپنی اولاد کو بھی صحیح معنوں میں نیک بنانے کی بچپن سے کوشش کر سکتے ہیں.اگر یہ نہیں ہے، اگر دنیا سے مرعوب ہیں تو پھر کوئی ایسی ترکیب کارگر نہیں ہوگی جو میں آپ کو زبانی بتا سکوں.اب اس پہلو سے آپ اپنا جائزہ لیں اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیں ، اپنی تمناؤں کے رخ

Page 694

خطبات طاہر جلد ۶ 690 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء دیکھیں کس طرف ہیں؟ کن باتوں سے آپ کو خوشیاں ہوتی ہیں؟ کن باتوں سے دل لذتوں سے بھر جاتے ہیں؟ اگر وہ دنیا کی تعلیمات ہیں جو بچے آپ کو بتاتے ہیں کہ ہم نے اس طرح حاصل کر لیں ، اتنے بڑے کارنامے حاصل کئے ، خاص جو غیر معمولی ذہین گروپ ہیں ان میں ہم داخل ہو گئے اور ان کی انگریزی سن کر آپ مرعوب ہو جاتے ہیں ، ان کے اچھے نمبر دیکھ کر آپ مرعوب ہو جاتے ہیں اور کبھی آپ کو خیال نہیں آتا کہ بچپن سے ان کے اندر دین کی محبت پیدا نہیں ہوسکی، قرآن کریم کی تلاوت اچھی نہیں کرتے ، آنحضرت ﷺ کی پیار کی باتیں نہیں کرتے.اگر ان کے اندر بچپن ہی سے دین کی محبت کا جذبہ پیدا نہیں ہوا اور آپ فکر مند نہیں ہوتے ، غیر معمولی طور پر آپ غمگین نہیں ہو جاتے ، اداس نہیں ہو جاتے ، بے چین نہیں ہوتے ، اس بات کو محسوس کر کے شروع ہی سے دعا ئیں نہیں کرتے تو پھر آپ کے اندر خلا ہیں اور یہ خلا ایسے ہیں جن کو بدیوں نے بہر حال بھرنا ہے کیونکہ قانون قدرت ہے کہ کوئی جگہ خالی نہیں رہ سکتی.وہی خلا ہیں جو بچوں میں بڑے ہو جایا کرتے ہیں.بعض اوقات انسان کو اپنے خلا دکھائی نہیں دیتے لیکن بچے کے آئینے میں وہ خلا دکھائی دینے لگتے ہیں.بچہ ماں باپ کی تصویر بنا رہا ہوتا ہے اور ماں باپ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے کی شکلیں ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں.ماں باپ کا اندرونہ بچوں میں منعکس ہو رہا ہوتا ہے.ضروری نہیں کہ ہر حالت میں ایسا ہومگر میں دنیا کے عمومی قوانین بتا رہا ہوں.عام طور پر قومی تاریخیں اس طرح بنتی اور بگڑا کرتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ایک اور جگہ واضح طور پر یہ بیان فرمایا کہ وہ لوگ جو خدا کو یاد کرتے ہیں اور خدا کو یادرکھتے ہیں وہ نہیں بگڑا کرتے ، ان کی اولادیں بگڑا کرتی ہیں جو آہستہ آہستہ خدا کو یاد کرنا چھوڑ دیتے ہیں لیکن ان کو پتا نہیں لگتا.اولا د کو خطرہ ہوتا ہے اولاد میں جا کر وہ تصویر نمایاں ہو جاتی ہے.چنانچہ جو خدا کو یا درکھنے والے ہیں ان پر تو غیر غالب نہیں آسکتا.جو خدا کو یا در کھنے کا دعویٰ رکھتے ہیں ان میں بھی بسا اوقات برائیاں نمایاں طور پر دکھائی نہیں دیتیں لیکن ان کی اگلی نسل اس پول کو کھول دیتی ہے اور ان کی کمزوریوں کے راز طشت از بام ہو جاتے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے:.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا الله اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَبِكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ) (الحشر : ۲۰۱۹)

Page 695

خطبات طاہر جلد ۶ 691 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء دیکھو! اپنی اولادوں کی فکر کرو.اگر تم یہ فکر نہیں کرو گے کہ کل کے لئے کل آئندہ زمانے کے لئے تم کیسے لوگ آگے بھیج رہے ہو تو تمہیں اس کا شدید نقصان پہنچے گا اور تمہارے وہ اعمال جن کے نتیجے میں آئندہ اولادیں خراب ہوں گی وہ خدا کی نگاہ میں ہیں.یعنی تمہارے اعمال ہیں لیکن ان کا اثر اولادوں کے اوپر ظاہر ہونے والا ہے.تمہیں دکھائی نہیں دے رہا وہ اثر لیکن آئندہ اولا دیں ایسی ہیں جن کے بارے میں تم پوچھے جاؤ گے.یہ ہے وہ بنیادی مضمون جس پر آپ غور کریں تو یہ مسئلہ آپ کو اور زیادہ وضاحت سے سمجھ آجائے گا.فرماتا ہے خدا تمہارے اعمال سے واقف ہے، خوب باخبر ہے اور اس طرز بیان میں زور اس بات پر دیا گیا ہے گویا تم باخبر نہیں ہو مگر خدا باخبر ہے، تم بے خبر ہو اور خدا با خبر ہے.اِنَّ اللهَ خَبِير بِمَا تَعْمَلُونَ تمہیں معلوم نہیں کہ تم کیا کر رہے ہو لیکن اللہ خوب خبر رکھتا ہے.یہ ہے بنیادی بیان اور اس کے ساتھ ہی یہ فرمایا گیا ہے کہ اپنی اولادوں کی فکر کرو.مراد یہ ہے کہ تمہارے بعض اعمال ایسے ہیں تمہیں علم ہی نہیں کہ ان کے کیا اثرات پیدا ہو رہے ہیں اور خدا جانتا ہے کہ ان کے اثرات تمہارے تک محدود نہیں رہیں گے ، آئندہ نسلوں تک پھیلیں گے.اس لئے اے تقویٰ اختیار کرنے والو! خوب خیال رکھو اور فکر کرو کہ آئندہ زمانوں کے لئے تم کیا بھیج رہے ہو.پس اس وضاحت کے ساتھ خوب معلوم ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم ایسے اعمال کی بات کر رہا ہو کر ہے جن کا اثر مستقبل پر پڑتا ہے اور انسان کو معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیسے اعمال ہیں لیکن خدا جانتا ہے کہ مستقبل پر وہ ضرور اثر دکھائیں گے اس لئے متنبہ فرماتا ہے.فرمایا:.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ نَسُوا اللَّهَ فَانْسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ أُولَيكَ هُمُ الفُسِقُونَ ایسے لوگوں کی طرح نہ بنو جو خدا کو بھول جائیں کیونکہ پھر خدا ان کو اپنے حال سے بے خبر کر دیتا ہے.فَأَنْسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ وہ خود اپنے آپ کو بھول جاتے ہیں.اب دیکھ لیں اس مضمون کا اس سے کتنا گہرا اور براہ راست تعلق ہے.جو قوم جو اپنے اعمال سے بے خبر ہو وہی ہے جو اپنے آپ کو بھول رہی ہے.اسی کی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے اگلی آیت میں.اِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ خدا جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے اور تم نہیں جانتے کیونکہ تم وہ ہو

Page 696

خطبات طاہر جلد ۶ 692 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء جو خدا کو بھول چکے ہو اور جو خدا کو بھول جائیں خدا ان کو اپنا آپ بھلا دیا کرتا ہے.اپنے حال سے بے خبر کر دیتا ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آئندہ پھر فاسق نسلیں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں.اس لئے سب سے پہلی فکر اپنی کریں، اولاد کی باری تو بعد میں آئے گی.اگر آپ کے رجحانات درست ہیں، اگر آپ کا اللہ تعالیٰ سے گہرا تعلق ہے، اگر آپ خدا کو نہیں بھولے تو پھر آپ کے دل خدا کے نور سے بھرے رہیں گے اور ان پر بدی غالب نہیں آسکتی.خدا کا ذکر کرنے والی قوموں پر غیر اللہ کو غلبہ نصیب نہیں ہوسکتا.اس مضمون کو قرآن کریم کی ایک اور آیت بھی بیان فرما رہی ہے جہاں شیطان نے خدا تعالیٰ سے اجازت مانگی ہے کہ مجھے موقع دے قیامت تک کہ میں تیرے بندوں کو آزماؤں اور انہیں راہ راست سے بھٹکانے کی کوشش کروں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٹھیک ہے جو تیرا زور ہے لگا اپنے لاؤلشکر لے کر میرے بندوں پر چڑھا دے لیکن میں تجھے یہ بتاتا ہوں کہ جو میرے بندے ہیں ان پر تو غالب نہیں آسکے گا.جو میرے ہو چکے ہیں ان پر تیرا کوئی زور نہیں چلے گا.اس سے بھی پتا چلتا ہے کہ حقیقی نیکی کے اوپر بدی غالب آہی نہیں سکتی بلکہ حقیقی نیکی ہے جو بدیوں کو ختم کرتی ہے.اس لئے اگر ہمارے اندر کمزوریاں اور خلا ہیں اور ہماری نیکیوں کے خول ہیں جن کے اندررس کوئی نہیں ، ان کے اندر حقیقت میں کوئی ٹھوس وجود نہیں ہے بلکہ چھلکے ہیں.تو پھر ایسے چھلکوں کو تو بدیاں ضرور کھا جائیں گی.سب سے پہلے اپنے نفس کا جائزہ لینا ضروری ہے، اپنے ماحول کا جائزہ لینا ضروری ہے.میاں بیوی دونوں جن کی اولاد ہے جو فکر کرتے ہیں کہ اولاد کا کیا بنے گا ان کو پہلے اپنی فکر کرنی چاہئے ، اپنے تعلقات پہلے اسلامی رنگ میں درست کرنے چاہئیں.اپنے ماحول کو درست کرنا چاہئے ، اپنے رجحانات کو درست رکھنا چاہئے.ہر بات میں دین کو فضیلت دینے کی عادت ڈالنی چاہئے.اگر سارا دن گھر کے ماحول میں دنیا کی لذتوں کی باتیں ہو رہی ہوں ، یہ ذکر چل رہے ہوں کہ فلاں کے پاس فلاں چیز آگئی ہے اور ہم نے یہ چیز ابھی لینی ہے، اس طرح ہم مکان بنائیں گے، اس طرح ہم یہ کریں گے ، اس طرح وہ کریں گے.اس طرح اولاد کو اچھی تعلیم دلوائیں گے اور وہ دنیا میں بڑے آدمی بنیں گے.اگر ذکر ہی یہ چلتے ہوں اور مقابلے ہوں آپس میں مادیت کے حصول کے لئے تو پھر یہ خیال کر لینا کہ ہماری اولا د نیک بھی رہے بہت اچھی ہو، یہ خیال تو اچھا ہے مگر نتیجہ اس کا اچھا نہیں نکلا

Page 697

خطبات طاہر جلد ۶ 693 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء کرتا.اچھے نتائج کے لئے خیالات کے ساتھ ٹھوس حقائق کا شامل ہونا بھی ضرور ہوا کرتا ہے.پس اس پہلو سے سارے امریکہ کی جماعتوں اور کینیڈا کی جماعتوں کو جن تک یہ آواز پہنچتی ہے خصوصیت کے ساتھ اور تمام عالم کی جماعت کو بالعموم اس قرآن کریم کے بیان فرمودہ نکتے کی طرف بہت گہری توجہ کرنی چاہئے.آپ حسنات پر قائم ہیں کہ نہیں؟ یہ پہلا سوال ہے.آپ کے دل واقعہ نیکی کی طرف مائل ہیں کہ نہیں ؟ کیا آپ دین کو دنیا پر فضیلت دیتے ہیں یا نہیں دیتے ؟ اگر ان سوالات کے جوابات مثبت ہیں تو میں قرآن کی زبان میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی اولادیں ضائع نہیں ہوں گی انشاء اللہ تعالیٰ.سوائے اس کے کہ بعض دوسری حماقتیں اور کمزوریاں آڑے آجائیں اور وہ بد قسمتی کے ساتھ اولاد پر بد اثرات ڈال دیں.بعض دفعہ لوگ نیک بھی ہوتے ہیں خوبیوں سے مزین ہوتے ہیں لیکن خبردار نہیں ہوتے.چنانچہ قرآن کریم نے خبر دار رہنے کی طرف بھی بار بار ہمیں توجہ دلائی ہے.اس وجہ سے بعض نیکوں کی اولادیں بھی ضائع ہو جاتی ہیں.وہ خود نیک ہوتے ہیں مثلاً ماں بھی، باپ بھی دونوں نیکیوں سے بھرے ہوتے ہیں، نمازیں پڑھ رہے ہیں خدا کو یاد کرتے ہیں لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ بھی کافی نہیں.تمہیں باخبر رہنا پڑے گا، ہوشمند رہنا پڑے گا کہ دیکھو کہ تمہاری اولاد کدھر جا رہی ہے؟ اگر سچی نیکیاں ہوں اور ہوشمندی ساتھ شامل ہو جائے اگر اولاد کی طرف گہری فکر والی توجہ بھی پیدا ہو جائے تو پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ اولادیں ضائع نہیں ہوا کرتیں.جو کمزوریاں ان معاشروں میں ہیں وہ کمزوریاں میری نظر کے سامنے ہیں میں ان سے خوب واقف ہوں لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسے سینکڑوں احمدی خاندان ہیں جو انہی کمزور ماحولوں میں پل رہے ہیں اور ان کو کوئی خطرہ نہیں.ان کے بچے بھی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ صحیح خطوط پر جوان ہورہے ہیں وہ خود بھی اپنے آپ کو نہ صرف محفوظ سمجھتے ہیں بلکہ اردگر دا اپنے ماحول پر نیک اثرات مرتب کرتے چلے جارہے ہیں.پس وہ قرآن کریم کی اس آیت کی سچائی کا زندہ ثبوت ہیں اور باقیوں کے لئے وہ روشنی کا مینار ہیں.امید میں ان سے وابستہ ہیں کیونکہ اگر ایسا بعض خاندانوں میں ممکن ہے تو باقی خاندانوں میں کیوں ممکن نہیں.اس لئے سب سے پہلے تو اس احساس کمتری کو دور کریں کہ آپ گویا بدیوں سے

Page 698

خطبات طاہر جلد ۶ 694 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء خوف کھا سکتے ہیں یا بدیاں آپ پر غالب آسکتی ہیں.قرآن کریم خبر دیتا ہے کہ ہرگز ایسا نہیں ہو گا.تم نیکیوں پر قائم رہو تو بدیاں تم سے بھاگیں گی تمہیں بدیوں سے بھاگنے کی ضرورت نہیں.پس وہ لوگ جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہم اولاد کی خاطر ملک کو چھوڑ جائیں ان کو میں یہی جواب دیتا ہوں کہ اگر آپ اتنے کمزور ہیں کہ آپ بچ نہیں سکتے تو پھر بہتر یہی ہے کہ دنیا چھوڑیں اور دین کو فضیلت دیں، بھاگ جائیں یہاں سے لیکن محمد رسول اللہ ﷺ کو بھا گنا ویسے زیب دیتا نہیں.آنحضرت ﷺ نے تو ساری دنیا کی تقدیر بدلنی ہے اور اپنے غلاموں کے ذریعے بدلنی ہے.ان کے ذریعے بدلنی ہے جو آپ کے پیچھے چلنے والے، آپ سے محبت کرنے والے، آپ کی سنت کو زندہ کرنے والے ہیں.اگر وہی میدان چھوڑ کے بھاگنے لگیں تو پھر دنیا کی تقدیر کون بدلے گا ؟ کہاں سے وہ لوگ آئیں گے؟ آسمان سے ایسی باتوں کے لئے فرشتے تو نازل نہیں ہوا کرتے.زمین فرشتے اگایا کرتی ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت سے آج بھی ایسے فرشتے دنیا میں پیدا ہو سکتے ہیں ، ہور ہے ہیں اور یقین ہے کہ آئندہ بھی انشاء اللہ ہوتے رہیں گے.تو اپنے اندر پہلے احساس پیدا کریں مضبوطی کا ، قوت کا.واضح طور پر یہ بات سمجھ لیں کہ آپ مغلوب ہونے کے لئے پیدا نہیں کئے گئے غالب آنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.شرط یہ ہے کہ قرآن کریم سے غالب آنے کے راز سیکھ لیں.شرط یہ ہے کہ اس فلسفے کو خوب اچھی طرح جان جائیں کہ خلا سے دنیا فتح نہیں ہوا کرتی ٹھوس باتوں سے دنیا فتح ہوا کرتی ہے.پس اپنی نیکیوں کو یا اپنے نیک تصورات کو نیک اعمال کی صورت میں ڈھالیں اپنے خلاؤں کا جائزہ لیتے رہیں انہیں بھرنے کی کوشش کریں اور اس کے نتیجے میں آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ اور آپ کی اولاد بھی ماحول سے خطرہ محسوس کرنے کی بجائے ماحول پر غالب آنے لگے گی.یہ تو ایک عمومی بات ہے.سوال یہ ہے خلا بھرنے کیسے ہیں؟ قرآن کریم کا مطالعہ کریں تو یہ بات صاف نظر آجاتی ہے کہ ہر وقت انسان کو اپنا نگران رہنا پڑتا ہے، ہر وقت متلاشی رہنا پڑتا ہے اور حقیقت میں تقویٰ کا مضمون اس چیز سے بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے.تقویٰ کا ایک معنی ہے خوف کا.اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.خوف کس بات کا؟ اللہ سے تو خوف نہیں کھایا جاتا.ان معنوں میں اللہ وہ ڈرنے والی چیز تو نہیں وہ تو پیارا وجود ہے،اسے تو اپنایا جاتا ہے ہر وقت اس کی باتیں ہوتی ہیں.جس کا خوف ہوانسان ہر وقت

Page 699

خطبات طاہر جلد ۶ 695 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء اس کا ذکر تو نہیں کرتا رہتا.اس لئے جب آپ تقویٰ کے مضمون کو سمجھیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو نیکیاں پیدا کرنے کا مضمون بھی خود بخود سمجھ آجائے گا.جس چیز سے آدمی ڈرے بھوت ہے یا بچے بھوتوں سے ڈرتے ہیں یا چڑیلوں کے نام سے خوف کھاتے ہیں.جتنا آپ ان کا ذکر کریں گے اتنا ہی ان کی چیخیں نکلیں گی ڈر کے مارے کہ یہ کیا کر رہے ہو.اس لئے کبھی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ بھوتوں اور چڑیلوں سے خوف کھاؤ اور ہر وقت بھوتوں اور چڑیلوں کا ذکر کرتے رہو.جس چیز سے آدمی ڈرتا ہے اس سے بھاگتا ہے، اس کے نام سے بھی بھاگتا ہے.پس جو بھی مطلب ہے تقویٰ کا یہ مطلب بہر حال نہیں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اللہ تعالیٰ کو بلا سمجھو اور مصیبت جانو.پھر تقویٰ کا کیا مطلب ہے؟ تقویٰ کا اصل مطلب یہ ہے کہ اللہ سے ایسا پیار کرو کہ ہمیشہ یہ خوف دامن گیر رہ جائے کہ کہیں خدا ہمیں چھوڑ نہ دے.کہیں مجھ سے کوئی ایسی حرکت سرزد نہ ہو جائے کہ خدا کے ہم سے تعلق میں کمی آجائے.یہ خوف ہے.یہ خوف نہیں کہ خدا ہمارے قریب نہ آجائے کہیں نعوذ بالله من ذالک.پس تقویٰ کا مضمون جب آپ سمجھیں تو خوف خدا کا مطلب ہی اس سے محبت ہے اصل میں.جس شخص سے محبت زیادہ ہو جائے اس کے بارے میں یہ خوف ضرور دل میں دامن گیر ہوتا ہے.ہر وقت آدمی وہموں میں مبتلا رہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو گیا ہو.فرضی باتوں پر بھی وہم پیدا ہو جاتے ہیں دل میں.چنانچہ فارسی میں محاورہ ہے : عشق است و ہزار بدگمانی ایک عشق اور ہزار بدگمانیاں.بدگمانیاں ان معنوں میں کہ او ہو کہیں فلاں وقت جو مجھے نہیں دیکھا پوری طرح کہیں وہ ناراض تو نہیں تھا؟ فلاں وقت اس نے یہ بات کی کہیں یہ مراد تو نہیں کہ مجھ سے کوئی غلطی ہوگئی ہو؟ چنانچہ مجھے بھی اس بات کا ان معنوں میں تجربہ ہے کہ جو لوگ خلافت سے غیر معمولی محبت اور عشق رکھنے والے لوگ ہیں کبھی اتفاق سے بھی کبھی آنکھ ان کی طرف نہ اٹھے تو ان کے خط آنے شروع ہو جاتے ہیں.ہم سے پتا نہیں کیا غلطی ہو گئی ہے آپ ہم سے ناراض تو نہیں؟ پہلے آپ ہمیشہ ہمیں دیکھتے تھے مسکرا کر بات کرتے تھے اس دفعہ گزرے اور سرسری نظر سے دیکھا ہے اور بھی کئی قسم کی باتیں لیکن ہر ڈاک میں کوئی نہ کوئی ایسا خط آتا ہی رہتا ہے کہ یہ وہم دامنگیر ہیں کہ کہیں ناراض تو نہیں ہو گئے.ایک دوست کو میں نے یہی مصرعہ جواب میں لکھا تھا کہ ناراض تو نہیں مگر یہ پتا لگ گیا

Page 700

خطبات طاہر جلد ۶ 696 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء کہ تمہیں محبت بہت ہے کیونکہ عشق است و ہزار بدگمانی.ہر دفعہ تمہیں بدگمانی ہو جاتی ہے کہ کہیں میں ناراض نہ ہو گیا ہوں.تو اگر اسی مضمون کو آگے بڑھا کر خدا کی طرف لے جائیں تو پھر آپ کو محسوس ہو گا کہ تقویٰ والوں کی زندگی کیسے بسر ہوتی ہے اور ہر وقت ہر حالت میں ان کو یہ خوف دامن گیر رہتا ہے کہ میرا محبوب مجھ سے ناراض نہ ہو جائے کہیں یا ناراض نہ ہو گیا ہو.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں بھی صحابہ ان وہموں کے ساتھ حاضر ہوا کرتے تھے، ان فکروں کو بیان کیا کرتے تھے.یا رسول اللہ ! بعض دفعہ کئی کئی دن ایسے گزرتے ہیں کہ اللہ کی محبت اور اس کے ذکر میں دل اس طرح مچلتا نہیں جیسے بعض دوسرے دنوں میں مچلتا ہے.اس طرح دل میں ولولے نہیں اٹھتے پیار کے تو ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں ہلاک نہ ہو جا ئیں خدا جانے کیا ہو گیا ہے.اس پر آنحضرت ﷺ مختلف طریق پر ان کو سمجھاتے تسلی دیتے.یہ ہے تقویٰ اور اسی کے نتیجے میں نیکیاں حاصل ہوتی ہیں.پس ایک شخص اگر خدا تعالیٰ کے متعلق ہمیشہ یہ باتیں سوچتا ر ہے کہ وہ مجھ سے ناراض نہ ہو کسی طرح ، آج میں نے کوئی ایسی بات تو نہیں کی جس سے ناراض ہو گیا ہو، کل تو نہیں مجھ سے ایسی بات ہوئی تھی جس سے اس کے تعلق میں کمی محسوس ہوئی ہو یا اس کے مقابل پر پھر یہ محسوس کرے کہ خدا نے کب، کس طرح مجھ سے پیار کا اظہار کیا ہے اور اب کمی کیوں آئی ہے اگر کمی ہے.یہ وہ خلا میں آپ کے احساس کے ان کو پہلے بھریں.اگر آپ غفلت کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں تو آپ کی ساری زندگی خالی ہے.وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللَّهَ فَأَنْسِهُمْ أَنْفُسَهُمْ کا یہ مطلب ہے کہ خدا کو بھلائے بیٹھے ہو تم لوگ.تمہاری زندگی میں وہ ہمیشہ ساتھ رہنے والا وجود ہی نہ رہا ہو تو پھر کیسے گمان کر سکتے ہو کہ تمہاری حفاظت ہوگی اور تمہاری نسلوں کی حفاظت ہوگی اور تم اپنے حال سے باخبر رہو گے.ان معنوں میں خدا کو یا درکھیں کہ ہمیشہ دلوں پر غالب رہے، ہمیشہ ذہنوں پر غالب رہے، ذہن بار بار اس کی طرف پرواز کرنا شروع کر دیں، عادت پڑ جائے کہ دل کی ہر حرکت اس کی طرف مائل ہونے لگ جائے.حنیفاً مسلما ہو جائیں.اللہ کی طرف جھکاؤ کی طبیعت پیدا ہو جائے.تو پھر اس کے نتیجے میں آپ کو خلا بھی دکھائی دیں گے اور ان کو بھرنے کا طریقہ بھی معلوم ہو جائے گا.ورنہ ایک خطبہ میں کیا سینکڑوں خطبوں میں بھی میں ان تمام امکانی خلاؤں کا

Page 701

خطبات طاہر جلد ۶ 697 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء صلى الله ذکر کر نہیں کرسکتا.ہر انسان کی کیفیت مختلف ہے، ہر انسان کی کمزوریاں مختلف ہیں ، ہر انسان کی خوبیاں مختلف ہیں اور معاشرے کا اس پر اثر مختلف رنگ میں پڑتا ہے،اس کے مزاج کا اثر پڑتا ہے.اس لئے سوائے اس نسخہ کے اور کوئی نسخہ میں آپ کو نہیں بتا سکتا کہ ان معنوں میں اللہ کا تقویٰ اختیار کریں جن کا میں آپ کو بتا رہا ہوں ، جو میں نے قرآن سے اور آنحضور ﷺ سے سیکھا ہے کہ ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہے آپ کے ساتھ کہ خدا پتا نہیں کیا مجھ سے پیار کر رہا ہے یا نہیں کر رہا؟ اس کا تعلق ہے یا نہیں ہے؟ جب یہ فکر کریں گے تو آپ کا تعلق خود بخود بڑھنے لگے گا آہستہ آہستہ اس مضمون میں آپ کو مزہ آنا شروع ہو جائے گا.آہستہ آہستہ مستقل آپ کے ساتھ ایک اصلاح کا ذریعہ ایسا چمٹ جائے گا کہ وہ کسی حالت میں آپ کو چھوڑے گا نہیں.دن رات ، سوتے جاگتے رفتہ رفتہ یہ خیال غالب آنا شروع ہو جائے گا.پس اس خیال کے ساتھ آپ اپنی اصلاح کا سفر شروع کریں تو میں آپ کا یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کا کوئی معاشرہ کبھی آپ پر غالب نہیں آسکتا، ممکن ہی نہیں ہے کہ خدا سے پیار کرنے والوں، خدا کا ذکر کر نے والوں ، خدا کی محبت کے ضائع ہونے کے خوف میں ہر دم مرتے رہنے والوں پر کوئی دنیا کا معاشرہ غالب آ سکے.جب یہ تعلق آپ کا قائم ہو اللہ تعالیٰ کے ساتھ تو یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ اپنے بچوں کے ساتھ بچپن ہی سے خدا کا ذکر نہ کریں.جن لوگوں کے اوپر خدا کا خیال غالب رہتا ہے وہ لا زما بچپن سے اپنے بچوں سے ایسی باتیں کرتے رہتے ہیں اور بچپن سے ہی ان کو خدا کے پیار کی باتیں سکھاتے رہتے ہیں.چنانچہ احمدیت میں تو یہ عام بات ہے اور بہت سے ایسے خاندان جن سے میری ملاقات ہوتی ہے سفروں کے دوران ان کے بچوں سے میں فوراً پہچان جاتا ہوں کہ ماں باپ کیسے ہوں گے.بعض بچے ہیں جو شروع ہی سے ان کی اداؤں سے پتا چلتا ہے کہ ان کو اللہ تعالیٰ سے پیار ہے اور باتیں بھی اللہ تعالیٰ کی کرتے ہیں.اپنے اپنے رنگ میں غلطیاں بھی کرتے ہیں نا سمجھی میں بعض دفعہ غلط تصورات پیش کر دیتے ہیں جن کی اصلاح کر دی جاتی ہے لیکن اس سے ایک بات جو قطعی طور پر ثابت ہے وہ یہ ہے کہ ان کے ماں باپ نے ضرور بچپن سے ہی ان کے دل میں خدا کا پیار پیدا کرنے کی کوشش کی ہے.

Page 702

خطبات طاہر جلد ۶ 698 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء یہ وہ ایک ترکیب ہے جو ہر دوسری ترکیب سے زیادہ وزن رکھتی ہے.آپ کا پیار خدا سے ضرور منعکس ہوگا آپ کے بچوں کے دلوں میں اور پھر ہر اس چیز سے آپ خوف کھائیں گے جو آپ کو بچوں کو خدا سے دور لے جانے والی ہو اور آپ کے بچے آپ کی زندگی میں دیکھیں گے اس خوف کو.آپ کے چہرے پر ان کی برائی کا غم ظاہر ہو گا.یہ بات یاد رکھیں کہ چھوٹی عمر کے بچوں پر آپ جتنا بھی بوجھ ڈال دیں بچے اتنا ہی بوجھ اٹھا لیتے ہیں.جو لوگ بچوں پر رحم کرتے رہیں کہ نہیں! ہم اتنا بوجھ نہیں ڈالیں گے بعد میں سکھائیں گے تو بچے اس سے پہلے سیکھ چکے ہوتے ہیں.اس عمر کے بعد بہت کم مزید سیکھنے کی اہلیت ان میں باقی رہتی ہے.اس لئے شروع میں اہل زبان نے تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ چھ چھ، سات سات زبانیں فرفر بچے بولتے ہیں اور بالکل ساری زبانیں مادری زبان کی طرح بولتے ہیں کیونکہ ان کے ماں باپ نے شروع سے ہی ان پر بوجھ ڈال دیا.اس لئے بچوں کی فراست سے آپ خوف بھی کھا سکتے ہیں، ان سے امیدیں بھی وابستہ کر سکتے ہیں.ماں باپ کے دلوں کی کمزوریاں، ماں باپ کے دلوں کی برائیاں بچے اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں ان کے چہرے بشرے میں پڑھ لیا کرتے ہیں ان کی دلی کیفیات کیا ہیں؟ ان کی دلی تمنائیں کیا ہیں؟ یہ بچوں سے اوجھل نہیں رہا کرتیں.اسی طرح ماں باپ کی خوبیاں بھی اور یہ بات کہ ماں باپ کا دل کس چیز میں اٹکا ہوا ہے بچے بخوبی جانتے ہیں شروع سے اور اسی کے مطابق وہ پرورش پانے لگتے ہیں.اس لئے اگر ہمیشہ آپ کے دل میں خدا کا تعلق غالب رہے، ہمیشہ آپ کے دل میں یہ گمان رہے کہ کہیں خدا نخواستہ ، یعنی ہم خدا نخواستہ محاورہ کہتے ہیں یہاں اس طرح چسپاں نہیں ہوتا مگر یہ و ہم رہے کہ ایسانہ ہو کہیں کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض ہو گیا ہو اور ایسا نہ ہو کہ میں نے آج ایسے اعمال کئے ہوں جن کو خدا نے پیار سے نہ دیکھا ہو اور ایسے اعمال سے محروم رہ گیا ہوں جن کو خدا پیار سے دیکھتا ہے.اس تفصیل کے ساتھ اگر روز مرہ آپ اپنا جائزہ لینا شروع کریں اور یہ ذہن میں ایک لگن لگا لیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے بچوں کے اوپر بھی اس کا پر تو پڑنا شروع ہو جائے گا اور خود بخود یہ قانون قدرت کے طور پر ان کے اوپر خدا کی محبت غالب آنے لگ جائے گی.یہ ایک نسل کا تجربہ نہیں سینکڑوں نسلوں کے تجربے ہیں.ہمیشہ یہ طریق کار گر ثابت ہوا ہے پہلے بھی ، آج

Page 703

خطبات طاہر جلد ۶ بھی اور آئندہ بھی کارگر رہے گا.699 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء اس لئے اس پہلو سے اپنا جائزہ لیں اور جب میں کہتا ہوں کہ خدا سے پیار کر لیا کریں اس کا ذہن میں ہر وقت تصور رہے تو بظاہر یہ عام بات ہے معمولی سی بات دکھائی دیتی ہے آپ سب کہتے ہوں گے کہ ٹھیک ہے جی ! بڑا آسان طریقہ مل گیا ہے اللہ تعالیٰ کو یاد کر لیا کریں گے لیکن اللہ تعالیٰ کو اس تقویٰ کی اس تعریف کے ساتھ یاد کرنا اتنا آسان نہیں جتنا آپ سمجھ رہے ہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ ہر یاد کے ساتھ کچھ تقاضے وابستہ ہو جاتے ہیں اور ان تقاضوں کو جب آپ نظر انداز کر دیتے ہیں تو یاد مٹ جاتی ہے وہ کالعدم ہو جاتی ہے.اگر آپ کو بھوک لگی ہے اور آپ کچھ کھانا کھاتے ہیں لیکن کھانے کے لئے آپ کو پیش کیا جائے اور آپ نہیں کھاتے تو وہ بھوک بے معنی ہو جاتی ہے.اگر آپ پیاس کا دعوی کرتے ہیں اور پانی آپ کو مہیا کر دیا جاتا ہے یا آپ کی پسند کا شربت پیش کر دیا جاتا ہے اور آپ نہیں پیتے تو آپ اس پیاس کو کالعدم کر دیتے ہیں.یا وہ پیاس جھوٹی تھی یا پھر آپ عقل نہیں رکھتے کہ وہ پیاس بجھانے کا سامان بھی پیدا ہوا اور آپ نے اس سے فائدہ نہیں اٹھایا.تو اس طرح خدا کی یاد کے ہر لمحہ تقاضے ہوں گے، خدا کے پیار کے نتیجے میں ہر لمحہ مطالبے شروع ہو جائیں گے.اچھا! تم مجھے یاد کرتے ہو تم مجھ سے پیار کرتے ہو تو پھر یہ بھی کرو، پھر وہ بھی کرو اور ہر دفعہ جب یہ بھی کرو اور وہ بھی کرو کی آوازیں اٹھیں گی اس پیار سے تو ہر دفعہ آپ محسوس کریں گے کہ نہ میں یہ کرنے کا اہل ہوں نہ میں وہ کرنے کا اہل.اس وقت آپ کو پتا چلے گا کہ آپ کی محبت ایک رومانی محبت تھی ایک افسانوی قصہ تھا جس کا حقیقت سے تعلق نہیں ہے.پھر ایک اور خوف دامن گیر ہو جائے گا اور وہ خوف یہ ہے کہ میں جو فرضی طور پر خدا سے پیار کے دعوے کرتارہا ہوں یہ تو اور بھی زیادہ گناہ ہے.میں تو اپنی زندگی سے راضی ہو گیا ہوں میری حالت کیسی ہے؟ میں کیسے اسے تبدیل کروں.چنانچہ ایک ایسا خوف دل میں پیدا ہوتا ہے اس کے نتیجے میں جب انسان اپنے تصور کو عمل کے سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتا ہے.اس کی زندگی پر ایک لرزہ طاری ہو جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں بہت سے عشق سوئے ہوئے بیدار ہونے لگتے ہیں.جس طرح بارش کے ساتھ ، برسات کے ساتھ زندگی کی کئی قسمیں اٹھ کھڑی ہوتی ہے اور اچانک یوں لگتا ہے کہ ساری دنیا جاگ اٹھی ہے اسی طرح انسان کے اندر بھی بے شمار دنیا ئیں ہیں جو سوئی پڑی ہیں.ان کو خدا کو خوف بیدار کرتا ہے

Page 704

خطبات طاہر جلد ۶ 700 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء اور جس طرح میں آپ کو بتا رہا ہوں ان مراحل سے آپ گزریں گے تو پھر آپ محسوس کریں گے کہ یہ کیا واقعہ ہے اس کے بغیر آپ اس کو نہیں سمجھ سکتے.جب خدا کے پیار کے ذکر کے ساتھ مطالبے پیدا ہوں گے اور آپ اپنے آپ کو نا اہل پائیں گے پھر آپ کے اندر کئی قسم کے خوف اور بیدار ہونے شروع ہو جائیں گے، ایک ہلچل مچ جائے گی.پھر آپ کو محسوس ہو گا کہ کتنے امور ایسے ہیں جن کی طرف آپ کو توجہ کرنی چاہئے تھی آپ نہیں کر سکے.ایک ایسے رستے پر آپ چل پڑیں گے جو روحانی انقلاب کا رستہ ہے.تب آپ کو محسوس ہو گا کہ دراصل تو دامن خالی ہی خالی تھا اور یہ جو میں کہتا ہوں تو یہ مضمون اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس کی گہرائی اور اس کی وسعت کو آپ میرے اس کہنے سے سمجھ ہی نہیں سکتے.وہ صاحب فراست لوگ، وہ صاحب فہم اور صاحب معرفت لوگ جنہوں نے اس رنگ میں خدا کو پانے کی کوشش کی ہے اور اپنے خلاؤں کو بھرنے کی کوشش کی ہے وہ بسا اوقات ساری عمر کے سفر کے بعد بھی اپنے آپ کو خالی دیکھتے ہیں اور کچی معرفت کا یہی تقاضا ہے یہی ہونا چاہئے کیونکہ خدا کی عظمتوں سے ایک انسان اپنے آپ کو پوری طرح بھر سکتا ہی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ ایسالا متناہی مضمون ہے کہ انسان کے اندر مزید کی طلب پیدا ہو جاتی ہے اور انسان جتنی ترقی کرتا چلا جاتا ہے اتنی اپنی کمزوریوں کی طرف اس کی نگاہ اور زیادہ کثرت کے ساتھ پڑنے لگتی ہے اور زیادہ کمزوریاں دریافت کرنے لگتا ہے.چنانچہ ایسے صاحب عرفان وجود جب خدا کو مخاطب ہوتے ہیں تو کہتے ہیں کہ :.کرم خاکی ہوں میرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ( در تمین صفحه: ۱۲۵) یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! ہم میں تو کچھ بھی نہیں ، تو نے کیا ہم میں دیکھا جو ہمیں چن لیا، ہم تو کسی لائق بھی نہیں.بے شمار محبت اور عشق کے ترانے دل سے اٹھتے ہیں جو دوسرے سننے والوں کو عجیب دکھائی دیتے ہیں.جب وہ ایسے صاحب عرفان لوگوں کی باتیں سنتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ وہ کیا باتیں کر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن کو خدا نے اس دنیا کا امام بنادیا ہے، اتنا بڑا مقام عطا کیا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا سب سے کامل غلام بنا کر اس دنیا کی امامت پر کھڑا کر دیا اور وہ یہ کہتا ہے:.

Page 705

خطبات طاہر جلد ۶ 701 ابتدا سے تیرے ہی سایہ میں میرے دن کٹے گود میں تیری رہا میں میں مثلِ طفلِ شیر خوار میں تو مر کر خاک ہوتا گر نہ ہوتا تیرا الطف پھر خدا جانے کہاں یہ پھینک دی جاتی غبار یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ورنہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار ( در ثمین صفحه: ۱۲۵-۱۲۶) خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء یہ جو مضمون آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زبان سے سنتے ہیں تو آپ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا بات ہے.جن کی ہم نے بیعت کی، جن کو اپنا امام مانا ، جن کو خدا نے ہمارا امام بنایا ان کی یہ حالت ہے.آپ تعجب سے دیکھتے ہیں اور غیر تضحیک سے ان باتوں کو دیکھتا ہے اور مجالس میں بیان کرتا ہے کہ لو یہ دیکھ لو! یہ مرزا صاحب ہیں جنہوں نے دنیا کا امام ہونے کا دعویٰ کیا، کہتے ہیں خدا نے مجھے چن لیا اور پھر کہتے ہیں کرم خاکی ہوں نہ آدم زاد ہوں، بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار ہوں.ایسا شخص دنیا کی کیا سرداری کرے گا اور دنیا کی کیسے رہنمائی کا اہل ہو گا.وہ نادان یہ نہیں جانتے کہ ایسے وجود جب وہ خدا کو مخاطب ہوتے ہیں تو خدا کی عظمتوں کے مقابل پر اپنے آپ کو دیکھ رہے ہیں اور خدا کی عظمتوں کو جاننے والا صاحب عرفان آدمی خدا کے مقابل پر اپنے آپ کا بالکل ذرہ ناچیز اور حقیر اور ذلیل ترین وجود سمجھنے لگتا ہے.اس پر یہ روشن ہو جاتا ہے کہ جس کی طرف وہ حرکت کر رہا ہے وہ لامتناہی وجود ہے جس کی کوئی حد نہیں ، وہ حسنات کا درجہ کمال ہے، اسی سے حسنات پھوٹتی ہیں اسی کی طرف لوٹتی ہیں اور اس کے مقابل پر وہ جو اپنی حیثیت کو دیکھتے ہیں تو وہ چھوٹی ہوتی ہوتی رفتہ رفتہ نظر سے غائب ہو جاتی ہے.خدا تعالیٰ کو دیکھنے والے کے متعلق آپ تصور کریں کہ اس کا کیا حال ہوگا.دنیا کے دیکھنے والے بھی دراصل جب صاحب عرفان ہوتے ہیں تو دنیا کے معاملات میں بھی اپنی یہی حیثیت پاتے ہیں.چنانچہ سائنسدان جب عالمی وسعتوں پر غور کرتے ہیں، کائنات میں نئی نئی کائناتیں دریافت ہو رہی ہیں ان پر نظر ڈالتے ہیں تو رفتہ رفتہ خود سمٹنے لگتے ہیں اور یہ بیان کرتے ہیں کہ ساری کائنات پر

Page 706

خطبات طاہر جلد ۶ 702 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء.غور کرنے کے بعد اسے دیکھنے کے بعد ہماری حیثیت تو کیا ہماری دنیا کی بھی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی.ریڈر ڈائجسٹ میں ایک اٹلس ہے اس میں آپ ساری کائنات کا نقشہ دیکھیں تو وہاں ایک اشارہ نظر آئے گا Arrow.وہ ایک ایسے Spot کی طرف جو Spot بھی نظر نہیں آرہا اور وہ لکھتا یہ ہے وہ نقشے کے اوپر نوٹ دینے والا کہ ہمارا Solar System سورج اور سارے سیارے یہاں کہیں واقع ہیں لیکن اس کائنات کے مقابل پر اتنے چھوٹے ہیں کہ نقطے سے بھی دکھائی نہیں دیئے جاسکتے کیونکہ نقطہ جتنی جگہ لے گا وہ اس سے زیادہ ہوگی جتنی کائنات کے مقابل پر ہمارےSolar System کو ملنی چاہئے.وہ کہتے ہیں ہم یہاں کہیں ہوں گے.وہ جو خدا کی ہستی میں سفر کرتا ہے جس پر خدا روشن ہوتا ہے.آپ تصور تو کریں اس کی دنیا سمٹ کر کیا رہ جاتی ہے؟ کچھ بھی اس کا وجود باقی نہیں رہتا اور پھر وہ مزید حاصل کرنے کے لئے خدا تعالیٰ کے وجود کے اندر مزید سفر اختیار کرتا ہے مزید تلاش کرتا ہے وہ راہیں جن سے خدا راضی ہو جن سے خدا اس کے اوپر عیاں ہو اور اس کے وجود کے اندر جذب ہونا شروع ہو جائے..اس لئے یہ سفر تو لا متناہی سفر ہے.خلا بھرتے رہیں گے اور نئے خلا پیدا ہوتے رہیں گے لیکن جو خلا خدا کے حسن اور پیار سے بھر رہے ہوں ان پر دنیا کی کوئی بدی غالب نہیں آسکتی.یہ مضمون ہے جس کے اوپر آپ کو کامل یقین رکھنا.خدا ہی ہے پھر جوان خلاؤں کو بھر سکتا ہے کیونکہ آپ کی تمنائیں اس کی طرف ہو جاتی ہیں.آپ کی توجہ اس کی طرف پھر جاتی ہے اور باقی ساری دنیا اس کے مقابل پر بے معنی ہو کر دکھائی دینے لگتی ہے.اس طرح آپ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس سے دعائیں کرتے ہوئے امریکہ ہو یا روس ہو یا دنیا کا کوئی خطہ ہو وہاں زندگی بسر کریں آپ کے اندر ایک حیرت انگیز عظمت کا احساس بیدار ہو گا جو اس کامل انکسار کا ایک طبعی نتیجہ ہے.کامل انکسار کے نتیجے میں ایک ایسی عظمت نصیب ہوتی ہے جو خدا کے فضل کے نتیجے میں نصیب ہوتی ہے.انسان کو قوت محسوس ہوتی ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ غالب آنے والا ہے، وہ جانتا ہے کہ وہ قوی ہے اور ہو نہیں سکتا کہ غیر اللہ بھی اس کے اوپر غالب آسکے.تو یہ خوف سارے خود بخود مٹ جائیں گے ، ان کی کوئی حیثیت ہی باقی نہیں رہے گی.آپ کے بچے بھی آپ سے بچپن ہی میں یہ عظمت کر دار حاصل کریں گے ، اس سوسائٹی میں

Page 707

خطبات طاہر جلد ۶ سراٹھا کر چلنے والے بنیں گے.703 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء پس اس رنگ میں اگر آپ یہاں جینا سیکھ سکتے ہیں اور اس رنگ میں جینے کے لئے خدا سے دعائیں مانگنا چاہتے ہیں اور دعائیں مانگتے ہیں تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو کوئی خطرہ نہیں.نہ آپ کو خطرہ ہے نہ آپ کی اولادوں کو خطرہ ہے اور آپ کی اولا دوں کو بھی بھی تبھی خطرہ ہو گا جب پہلے آپ کو خطرہ ہوگا.پہلے اپنے خطرات کا مقابلہ کریں کامیابی کے ساتھ اور پھر اپنی اولاد کی طرف خبر داری کے ساتھ ، ہوشیار نگاہیں ڈالیں اور جس طرح قرآن کریم نے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے اپنی نیکیوں کے ساتھ اولاد پر نظر کرتے ہوئے خدا پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں خدا کا یہ کلام یقینا سچا ہے اور حضرت محمد مصطفی امیہ کا کردار یقینا غالب ہے.اس لئے اپنے خلاؤں کو محمد مصطفی یہ ہے کے کردار سے بھرنا شروع کریں اور یقین رکھیں کہ آپ ہی ہیں جو دنیا پر غالب آئیں گے اور آپ کے نتیجے میں دنیا کی تقدیر بدلے گی ، دنیا آپ کی تقدیر نہیں بدل سکتی.اتنی ضرورت ہے اس ملک کو آپ کی کہ جب میں یہ سنتا ہوں تو مجھے ایک اور غم لگ جاتا ہے یہ تو اسلام کے سفیر تھے جن سے میں یہ باتیں سنتا ہوں.یہ تو اس لئے گئے تھے ان ملکوں میں کہ ان ملکوں کے حالات بدلیں اور ان کی خرابیوں کو دور کریں.یہ کیسے سفیر ہیں جو یہ خوف کھا رہے ہیں کہ ان کی برائیاں ان پر غالب نہ آجائیں.آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے والا انسان اور یہ فکر اس کو دامن گیر ہو کہ غیر اس پر غالب نہ آجائیں ایسی باتیں زیب نہیں دیتیں آپ کو یہ چھوٹی اور کمینی باتیں ہیں آپ بہت عظیم باتوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.آپ محسوس تو کریں کہ آپ ہیں کون؟ ان معنوں میں انکسار کی شرط کے ساتھ اپنی اس عظمت کو سمجھیں کہ آپ حضرت محمد مصطفی ہے کی طرف منسوب ہو رہے ہیں اور آپ کو ساری دنیا پر غالب آنے کے لئے پیدا کیا ہے.پہلے دور میں آپ کو یہ کر کے دکھا دیا ہے، دوسرے دور میں آپ نے اس بات کو سچا ثابت کر کے دکھانا ہے.پس دعا کر کے ہمت کے ساتھ نیکیوں کا سفر اختیار کریں.میری بھی دعائیں آپ کے ساتھ ہیں اور ہم سب کی دعائیں مل کر میں یقین دلاتا ہوں کہ وہ خدا کی حفاظت کی فصیل ہمارے ارد گرد کھڑی کر دیں گی جن کے اوپر کسی دشمن کو غالب آنے کی توفیق نہیں مل سکے گی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:

Page 708

خطبات طاہر جلد ۶ 704 خطبه جمعه ۲۳/اکتوبر ۱۹۸۷ء نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع ہوگی اور عصر میں میں دورکعتیں پڑھوں گا کیونکہ مسافر ہوں اور وہ جو آپ میں سے مسافر ہیں وہ میرے ساتھ ہی سلام پھیریں گے.باقی سب مقامی بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو کر باقی دور کعتیں پوری کریں اور پھر سلام پھیریں.آپ میں سے جو بڑے ہیں وہ تو جانتے ہی ہوں گے ان مسائل کو لیکن بسا اوقات اپنے بچوں کو وہ مسائل نہیں بتاتے جن کا آپ کو خود علم ہے.یہ بھی ایک خلا ہے جسے ہمیں پورا کرنا چاہئے.جو ہمیں علم ہے اپنے بچوں کو اس علم میں شریک کر کے ساتھ بڑھانا چاہئے.اس لئے کئی دفعہ میں نے دیکھا ہے کہ نئی جگہوں پر جائیں تو بچے ساتھ سلام پھیر دیتے ہیں یا بعض نئے احمدی، نو مسلم بھی تربیت کے محتاج ہوتے ہیں ان کو احمدی بنانے والا آگے مزید باتیں نہیں بتا تا اور اپنے علم میں شریک نہیں کرتا.اس لئے یہ دوبارہ بتانی پڑتی ہیں.نماز جمعہ اور عصر جمع ہوں گی اور عصر کی نماز کے معا بعد دومرحومین کی نماز جنازہ غائب ہو گی.ایک مکرم محمد عبد الطیف صاحب ابن مکرم منشی محمد اسماعیل صاحب صحابی 22 اکتوبر کو دل کے حملے سے وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.ڈاکٹر لئیق احمد صاحب واشنگٹن کے والد تھے ان کی طرف سے درخواست ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.دوسرے ہمارے امریکہ ہی کے ایک دوست شیخ بشیر الرحمان صاحب جو نیو یارک میں ہیں، ان کی والدہ انتقال فرما گئی ہیں اور ان کی طرف سے درخواست آئی ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.پس عصر کی نماز کے معا بعد ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.

Page 709

خطبات طاہر جلد ۶ 705 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان وو تحریک جدید کے دفاتر کا تعارف نیز دفتر اول کے کھاتوں کو زندہ کرنے اور شاملین کی تعداد بڑھانے کی تلقین خطبه جمعه فرموده ۳۰ را کتوبر ۱۹۸۷ء بمقام پورٹ لینڈ امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے کم ہے.یہ ایک ایسا محاورہ ہے جو عموماً خاص مواقع پر استعمال کیا جاتا ہے.جیسے آج کا دن جبکہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اس مسجد میں جو پورٹ لینڈ میں ہی تعمیر ہونے والی پہلی مسجد نہیں بلکہ سارے امریکہ کے مغربی ساحل میں مجھے بتایا گیا ہے یہ وہ پہلی مسجد ہے جو اس ابتداء سے اسی غرض سے تعمیر کی گئی کہ خدا کے لئے ایک عبادت گاہ کے طور پر بنائی جائے گی اور آخر تک مسجد ہی کی غرض سے تعمیر ہوئی اور مکمل ہوئی.تو یہ چونکہ سارے مغربی امریکہ کے ساحل کے ساتھ بنائی جانے والی پہلی مسجد ہے.اس لحاظ سے یہ دن ہمارے لئے غیر معمولی خوشی کا دن اور غیر معمولی تشکر کا دن بنتا ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ محاورہ صرف چند مواقع کے لئے نہیں بلکہ زندگی کے ہر لمحہ پر چسپاں ہونے والا محاورہ ہونا چاہئے کیونکہ اگر آپ بنظر غائر دیکھیں ، تدبر کریں اپنی زندگی کے حالالت پر اور زندگی کا لمحہ لحہ جوخدا تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا ہے.اس کے پس منظر پر غور کریں تو خدا کا شکر کسی پہلو

Page 710

خطبات طاہر جلد ۶ 706 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء سے زندگی کے کسی لمحہ میں بھی ادا ہو ہی نہیں سکتا.صرف فرق یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر ایک قسم کی غفلت کی نگاہ سے اپنے گردو پیش کو دیکھتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں.اور ہم میں سے اکثر اس بات سے بھی بے خبر رہتے ہیں کہ ان کی زندگی کی تعمیر میں قانون قدرت نے کتنی لمبی اور کتنی وسیع تیاری کی تھی.اور کتنا عظیم چند سو یا چند ہزار سال کا احسان نہیں بلکہ لاکھوں کروڑوں اربوں سال کا احسان ہے کائنات کے بنانے والے کا جو ہماری زندگی کے بعد لمحوں کی تعمیر کے لئے ایک منصوبے کی صورت میں ہم سے پہلے کھولا گیا تھا.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہم میں سے اکثر بدقسمتی سے غفلت کی حالت میں رہتے ہیں ، غفلت کی حالت میں زندگی گزار دیتے ہیں.اس لئے ہم ایک دوسرے سے معاملات میں تو شکریہ کے جذبات نمایاں طور پر پاتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ سے معاملات کے وقت غیر معمولی احسانات کو بھول جاتے ہیں.چند ایسے بزرگوں کے واقعات ہمیں ملتے ہیں جن کی عادت تھی کہ وہ ہر بات کی تہہ میں ڈوب کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کرتے تھے.چند ایسے بزرگوں کے واقعات جب میں کہتا ہوں تو مراد یہ نہیں کہ اسلام میں صرف چند ایسے بزرگ ہی پیدا ہوئے ہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ چند ایسے بزرگوں کے واقعات ہم تک پہنچے ہیں.ورنہ لاکھوں ایسے خدا کے بندے اسلام میں پیدا ہوئے ہوں گے جن کی زندگیاں تشکر کے لئے وقف تھیں لیکن ان کے واقعات تاریخ میں ریکار ڈ نہیں ہو سکے اور جن کی عادت اپنے دلی جذبات کو اس حد تک چھپانے کی تھی کہ وہ واقعات ریکارڈ کرنے کے لئے کوئی تیار بھی ہوتا تو اسے مہیا نہ ہوتے.ایک واقعہ ان میں سے یہ ہے کہ ایک شخص ایک بزرگ کی خدمت میں مٹھائی کا ٹوکرا لے کر آیا جس میں بہت سے لڈو تھے اور ان کے ساتھ بہت سے شاگر دبھی بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے وہ لڈو اپنے شاگردوں میں تقسیم کر دئیے اور ایک لڈو خود اٹھالیا اور شاگر دتو ایک سے زیادہ لڈو کھا کر بہت دیر پہلے فارغ ہو گئے.لیکن وہ بزرگ اس میں سے ایک ایک دانہ منہ میں ڈالتے تھے اور کچھ سوچتے رہتے تھے اور اسے چباتے رہتے تھے یہاں تک کہ جب انتظار میں دیر ہو گئی تو ایک شاگرد نے ادب سے پوچھا کہ آپ نے تو ابھی ایک معمولی حصہ بھی لڈو کا نہیں کھایا جبکہ ہم مدت سے فارغ ہو چکے ہیں ، کیا بات ہے.کوئی خاص پریشانی کی بات تو نہیں؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب میں

Page 711

خطبات طاہر جلد ۶ 707 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء نے پہلا دانہ منہ میں ڈالا تو مجھے خیال آیا کہ بظاہر یہ صرف ایک حلوائی کی کوشش کا نتیجہ ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے قوانین اور ان قوانین کے تابع بہت سے کام کرنے والے اس لڈو کی تعمیر میں اس سے بہت پہلے حصہ لے چکے ہیں اور میں یہ سوچ رہا تھا کہ مجھ تک جو خدا تعالیٰ نے یہ لڈو پہنچایا اس سے پہلے کتنے خدا تعالیٰ کے احسانات ہیں جنہوں نے مجتمع ہو کر اس لڑو کی شکل اختیار کی.انہوں نے کہا میں نے سوچا کہ ایک وقت ایک زمیندار گنے کا بیج لے کر نکلا ہوگا پتا نہیں کس موسم میں کس تلخی کے ساتھ وہ کھیتوں تک پہنچا اور اس سے پہلے اس نے کھیت کی تیاری میں بھی بہت محنت صرف کی ہوگی.پھر اس نے گنے کی قلمیں اس کھیت میں کاشت کیں.پھر سارا سال ان کی حفاظت کی، ان کو پانی دیا، ان کی کھاد کا خیال رکھا، چوروں اچکوں سے ان کو بچایا، پھر وہ وقت آیا کہ اس کا کھیت ہرا بھرا ہو کر جوان ہوا اور اس قابل ہوا کہ اس کو شکر میں تبدیل کر لیا جائے.پھر اس نے وہ آلات خریدے جن کے ذریعہ گنے کا رس نچوڑا جاتا ہے.اس نے کہا یہاں تک پہنچتے ہی میرا ذ ہن اس طرف چلا گیا کہ جن سے وہ آلات خریدے ان آلات کی بھی تو ایک داستان ہے.وہ لوہا کسی زمانے میں زمین میں دبا ہوا تھا.جس نے اس آلے کا جز بننا تھا جس سے پھر گنے کا رس نچوڑا جانا تھا.کس طرح خدا تعالیٰ نے انسان کو توفیق بخشی کہ وہ اس بات کو دریافت کرے کہ لوہا اس کے لئے مفید ہے پھر اسے اس فن میں ترقی دی.سینکڑوں نسلیں اس کام میں لگی ہیں یہاں تک کہ ترقی کرتے کرتے رفتہ رفتہ انسان اس قابل ہوا کہ ایسی مشین بنا سکے.پھر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے یہ مشین بنائی اور بالآخر جب یم مشین تیار ہوئی تو اس زمیندار تک پھر یہ پہنچی.کیسے پہنچی اس کی بھی ایک داستان ہے.غرضیکہ وہ بتاتے رہے کہ جوں جوں میں غور کرتا چلا گیا اور شاخیں تصور کی پھوٹتی رہیں جن پر میرا تصور سفر کرتا رہا.اور یہ اتنا معاملہ حد سے زیادہ پھیل گیا اور وسیع ہو گیا کہ کئی سفر کرنے کے باوجود بھی میں اب تک ان تمام مراحل پر غور نہیں کر سکا جن مراحل سے گزرنے کے بعد یہ لڈو بالآخر اس شکل میں مجھ تک پہنچا ہے اور شروع سے آخر تک خدا تعالیٰ کا مقصد یہ تھا کہ یہ قیمتیں انسان کے لئے پیدا کی جائیں اور انسان شکر گزار بندہ بنے اور قرآن کریم میں واقعہ یہی ذکر ملتا ہے کہ ہم نے تمام کائنات کو انسان کے لئے مسخر کیا ہے.ایک لامتناہی سلسلہ ہے احسانات کا جو جتنا غور کریں اتنا کم ہونے کی بجائے پھیلتا چلا جاتا ہے.تنگ ہونے کی بجائے وسعت پذیر ہوتا چلا جاتا ہے اور انسانی نگاہ کھوئی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ

Page 712

خطبات طاہر جلد ۶ 708 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ تم غور کر کے دیکھو تمہیں خدا کی کائنات میں کہیں رخنہ نہیں پاؤ گے تمہاری نگاہیں واپس لوٹ آئیں گی تمہاری طرف لیکن پھر بھی یہ رخنہ نہیں پائیں گی پھر غور کرو پھر نگاہیں دوڑاؤ تمہاری نگاہیں تھکی ہاری نا کام ہو کر پھر تمہاری طرف واپس لوٹ آئیں گی مگر خدا کی کائنات میں تم کوئی رخنہ نہیں پاؤ گے.یہ سفر ولا متناہی ہے اور یہ ممکن نہیں کہ ہر انسان ہر لمحے میں اس ہر لمحے کا حق ادا کر سکے کیونکہ ایسے واقعات اور ایسی سوچوں کے لئے محرکات اگر چہ ہر وقت موجود ہیں لیکن انسان کی زندگی کے اور بھی کام اور بھی تو جہات کے مرکز ہیں اس لئے ناممکن ہے کہ ایک لمحے پر غور کرتے ہوئے انسان ان تمام باتوں کا جائزہ لے سکے جو اللہ تعالیٰ کے احسان کے طور پر انسان کے پس منظر میں موجود ہیں اگر اس کا حق ادا کر نے کی کوشش کرے گا تو اگلے لمحے کا حق ادا نہیں ہو سکے گا اگر اگلے لمحے کا حق ادا کرنے کی کوشش کرے گا تو اس سے اگلے اور اس سے پچھلے لمحوں کا حق ادا نہیں ہو گا.اس لئے جب ہم یہ کہتے ہیں خدا کا جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے یہ کسی خاص موقع پر اسی محاورے کا استعمال نہیں ہونا چاہئے بلکہ ہمارے زندگی کے ہر لمحے پر یہ محاورہ چسپاں ہوتا ہے اور فی الحقیقت چسپاں ہوتا ہے اور بڑی وسعت اور گہرائی کے ساتھ چسپاں ہوتا ہے.پس آج بھی انہی لمحات سے ایک لمحہ ہے، انہی ساعتوں میں سے ایک ساعت ہے جن کے شکر کا حق ہم ادا نہیں کر سکتے مگر ایک بات ضرور ہے کہ اگر مساجد کی تعمیر کے شکر کا حق ادا کرنا ہو تو عبادت کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور سب سے بہتر خدا تعالیٰ کے تشکر کا ذریعہ یہی ہے کہ انسان ہر ایسے موقع پر جس میں خدا تعالیٰ کے لئے کوئی عبادت کے لئے گھر تعمیر کیا جائے اپنی عبادت کے معیار کو بڑھانے کی کوشش کرے.اس سے زیادہ معنی خیز ، اس سے زیادہ حقیقی شکر اور کسی طریق پر خدا تعالیٰ کا ادا نہیں ہوسکتا.اس مختصر خطاب کے ساتھ جو اس مسجد سے تعلق میں ہے میں اس خطاب کے دوسرے حصے کی طرف متوجہ ہوتا ہوں کیونکہ آج کے دن ہمارے لئے ایک اور پہلو سے بھی بڑا اہم دن ہے.تحریک جدید جو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے والے القا کے نتیجے میں 1934ء میں شروع کی تھی، یہ تحریک اب اپنے 54 ویں سال میں داخل

Page 713

خطبات طاہر جلد ۶ 709 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء ہورہی ہے اور اس کو 53 سال آج مکمل ہوتے ہیں.اس پہلو سے ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے یعنی خلفاء کا کہ اس دن کے جمعہ کو یا اس سے پہلے جو آخری ہفتے میں جمعہ ہو اس کو تحریک جدید سے متعلق وقت دیا جاتا ہے.چنانچہ اب میں مختصر تحریک جدید کے متعلق آپ سے کچھ باتیں کروں گا.تحریک جدید کے کئی پہلو ہیں ایک پہلو تو انتظامی ہے، ایک پہلو ہے دنیا نے اس تحریک سے کیا کچھ حاصل کیا اور ایک پہلو وہ ہے جس کا ہماری مالی قربانی سے تعلق ہے.یہ خطبہ جمعہ جو آج دیا جار ہا ہے اور اس دن سے پہلے بھی دیا جاتارہا ہے اس کا تعلق پہلے دوامور سے نہیں بلکہ صرف جماعت کی مالی قربانیوں سے متعلق ہے.روایتاً خلفاء پہلے مختصر اسال کی رپورٹ پیش کرتے ہیں اور اس کے بعد پھر نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتے ہیں.جہاں تک عمومی تاریخ کا تعلق ہے اور موازنہ کرنے کے لحاظ سے سال بہ سال تجزیے کا تعلق ہے یہ بات تو ہر احمدی چھوٹا بڑا خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر سال جماعت کا قدم ہر شعبے میں ترقی کی طرف رہا ہے اور دنیا کے حالات خواہ وہ کیسے بھی ہوں کبھی بھی برے رنگ میں جماعت احمدیہ کی مالی قربانی پر اثر انداز نہیں ہو سکے.شدید ترین مخالفتوں کے دور میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ ہر قسم کی مالی قربانی میں آگے ہی قدم بڑھاتی رہی ہے اور اس عمومی تاریخ کا اطلاق تحریک جدید کے ساتھ بھی اسی طرح ہے جس طرح باقی دیگر امور کے ساتھ ہے.چنانچہ اس سال بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو یہ سال ختم ہورہا ہے ہمیں یعنی جماعت احمدیہ کو یہ توفیق ملی ہے کہ گزشتہ سالوں سے بڑھ کر وعدہ جات لکھوائے اور گزشتہ سالوں سے بڑھ کر وعدہ جات کو اس مدت کے اندر پورا کرنے کی سعی کر کے ان دونوں پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سال جو زیر تبصرہ ہے گزشتہ سالوں سے بہت بہتر ہے.اس پہلو سے سب سے پہلے تو پاکستان کے متعلق یہ عرض کرتا ہوں.جو پاکستان میں حالات ہیں، جماعت پر جس قسم کے سختی کے حالات ہیں ، ان کے پیش نظر سب سے زیادہ وہم یہ پیدا ہوسکتا تھا کہ کہیں پاکستان میں جماعت کسی پہلو سے مالی قربانی میں پیچھے نہ رہ جائے اور جیسا کہ گزشتہ سالوں میں میں آپ کو خوشخبری دیتا رہا ہوں نہ پہلے ایسا ہوا ہے نہ اس دفعہ ایسا ہوا ہے نہ انشاء اللہ آئندہ کبھی ایسا ہو گا.ہر قسم کے حالات میں جماعت احمدیہ کا قدم ترقی کی طرف

Page 714

خطبات طاہر جلد ۶ 710 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء ہی اٹھا ہے اور اس سال بھی ترقی کی ہی طرف اٹھا ہے اور ہر پہلو سے ترقی کی طرف اٹھا ہے.وعدوں کے لحاظ سے بھی سال زیر تبصرہ پچھلے سب سالوں سے آگے ہے اور نمایاں اضافہ ہے.وصولی کی رفتار کے لحاظ سے بھی سال زیر تبصرہ پچھلے سب سالوں سے آگے ہے اور نمایاں اضافہ ہے اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مجاہدین تحریک جدید کے لحاظ سے بھی یہ سال گزشتہ سب سالوں سے بڑھ کر ہے اور نمایاں اضافہ ہے.مجاہدین کی تعداد کا جہاں تک تعلق ہے سابقہ تعداد 66545 تھی اور اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے 70170 تک یہ تعداد پہنچ چکی ہے لیکن اسی میں یہ صرف پاکستان کی تعداد ہے بیرون پاکستان کی تعداد اس کے علاوہ ہے.تفصیلی طور پر جماعتوں کا ذکر کرنا یہاں مشکل ہوگا کیونکہ بہت زیادہ تعداد ہے جماعتوں کی جن کا تفصیلی موازنے کا وقت نہیں ہے اگر چہ تحریک جدید نے وہ رپورٹ مجھے بھجوا دی ہے لیکن عمومی طور پر دیکھا جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر دفتر میں وعدوں میں بھی اضافہ ہے اور وصولی میں بھی اضافہ ہے.جب میں دفتر کہتا ہوں تو شاید آپ میں سے بہت سے نوجوان جن کو پاکستان چھوڑے مدت گزرگئی اور جن تک بعض وجوہات کی وجہ سے خطبات با قاعدہ نہیں پہنچتے شاید وہ نہ سمجھ سکیں دفتر سے کیا مراد ہے.اس لئے پہلے میں مختصر أدفتر کے لفظ کی اصطلاح کا تعارف کرواتا ہوں.دفتر سے مراد ہے جس وقت بھی تحریک جدید کا آغاز ہوا تھا اس سال جولوگ وہ خوش نصیب جو اس تحریک میں شامل ہوئے تھے ان کی جتنی تعداد تھی وہ ایک لمبے عرصے تک ایک دفتر کے سپر د ر ہے یعنی تحریک جدید کا ایک دفتر ان کے اندراجات کا ذمہ دار تھا، ان کے ریکارڈ کا ان کو یاد دہانیاں کرانے کا اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کے لئے ہر قسم کی کوششیں کرنے کا ذمہ دار تھا.اُس زمانے میں حضرت مصلح موعود کی تحریک پر تقریبا پانچ ہزار مجاہدین تحریک جدید کے جنہوں نے حصہ لیا اور تمام دنیا میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے مشن اور نئی مساجد بنانے کی تمام تر ذمہ داری ان پانچ ہزار قربانی کرنے والوں پر تھی.اگر چہ وہ زمانہ جماعت پر بہت غربت کا تھا لیکن ان پانچ ہزار نے اپنی آمد کی نسبت سے جو حیرت انگیز قربانی کی ہے وہ ایسی ہے کہ ہمیشہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی.بہت ہی غریب لوگوں نے جن کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی تھی اپنے پیٹ کاٹ کر، اپنے بیوی بچوں کی قربانی دے کر ان تحریکات میں حصہ لیا اور جب آپ

Page 715

خطبات طاہر جلد ۶ 711 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء دیکھیں کہ انہوں نے کیا دیا تو بظاہر وہ ایک بہت ہی معمولی رقم نظر آتی ہے جو کہ ایک غریب کی قربانی اس کی توفیق کے مناسبت سے ہوا کرتی ہے.عورتوں نے بھی حصہ لیا.بچوں نے بھی حصہ لیا ایک بہت ہی لمبی داستان ہے جو دردناک بھی ہے اور قابل فخر بھی کیونکہ قربانی کی تاریخ جتنی زیادہ درد ناک ہو اتنی زیادہ قابل فخر ہوا کرتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ لوگ ایسے ہیں جن کو دفتر اول کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ہمیشہ تاریخ میں ہر دوسرے دفتر پر ان کو ایک فوقیت رہے گی اور ایک سبقت رہے گی.دوسرا دفتر دس سال کے بعد قائم کیا گیا اور حضرت مصلح موعود نے اس غرض سے قائم کیا کہ پہلے لوگ اس عرصے میں ایک نئی نسل پیدا کر چکے ہیں اور یہ نئی نسل اور اس پہلی نسلوں سے بھی کچھ جوان ہو کر اس قابل ہوئے کہ انہوں نے کمانا شروع کر دیا ہوگا تو پہلوؤں کو بھی الگ امتیاز دینے کی خاطر بھی اور نئے نوجوانوں کو دوبارہ موقع دینے کی خاطر ایک نئے دفتر کا آغاز کیا گیا جس کو آج 45 واں سال گزر رہا ہے.پھر آج سے 23 سال قبل حضرت خلیفقہ اسمع الاسف نے تیسرے دفتر کا آغاز کیا جس کو آج 23 سال گزر چکے ہیں اور وہ نسلیں جو دوسرے دفتر سے تیسرے دفتر تک یعنی تقریباً 20 سال کے عرصے میں بڑی ہوئی تھیں ان کو موقع ملا کہ وہ بھی جہاں تک ممکن ہو دین کی خاطر قربانی کے مظاہرے کریں اور سب سے آخر پر دو سال قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے تو فیق عطا فرمائی کہ دفتر چهارم کا آغاز کروں گویا 21 سال کے بعد.اس پہلو سے اس وقت چار دفاتر ہیں جن کا تعلق ان متعلقہ عرصے میں بڑے ہونے والوں اور نئے شامل ہونے والوں کے ساتھ ہے جو سنگہائے میل کے درمیان پیدا ہوئے یا بڑے ہوئے.اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں کہ چاروں دفتر خدا تعالیٰ کے فضل سے رو بہ ترقی ہیں تو صرف ایک فرق ہے جس کو وضاحت سے بیان کرنا ضروری ہے دفتر اول کے متعلق یہ کہنا تو درست نہیں ہوسکتا کہ اس میں اضافہ ہو رہا ہے، قربانی کرنے والوں میں یعنی اس کی وجہ یہ ہے کہ 1934ء میں جو نسل موجود تھی اور ان میں سے 5000 ہزار قربانی کرنے والے آگے آئے تھے ان میں ایک بڑی تعدا د صحابہ کی تھی ، بڑی عمر کے بزرگوں کی تھی اور ایک تعداد بچوں کی بھی تھی.وہ تمام بزرگ صحابہ

Page 716

خطبات طاہر جلد ۶ 712 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء گزر چکے ہیں غیر صحابہ تابعین جو پہلے درجے کے تابعین تھے جنہوں نے صحابہ سے تربیت پائی ان میں سے بھی اکثر فوت ہو چکے ہیں.اس لئے یہ کہنا تو بہر حال اس دفتر کے متعلق درست نہیں ہوگا کہ ان کی تعداد بھی باقی دفاتر کی طرح ترقی کر رہی ہے اور ان کا چندہ بھی باقی دفاتر کی طرح ترقی کر رہا ہے.چندے کے لحاظ سے تو ممکن ہے کہ ترقی ہو یعنی ظاہری معنوں میں کہ جو تھوڑے سے رہ گئے ہیں ان کی تو فیق بہت بڑھ چکی ہے لیکن تعداد کے لحاظ سے تو یقیناً ہم نہیں کہہ سکتے ہیں کہ تعداد زیادہ ہو رہی ہے لیکن اس میں ایک اور پہلو ترقی کا ایسا نکل آیا ہے جس کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے یہ کہا تھا کہ : دفتر میں ہر پہلو سے ترقی ہے.تقریباً تین سال پہلے میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ دفتر اول میں شامل ہونے والوں کی قربانیاں اگر تو روپے پیسے میں جانچی جائیں تو بہت ہی معمولی دکھائی دیں گی دنیا کو لیکن اگر آمد کی نسبت اور حالات کے موازنے کے ساتھ ان پر غور کیا جائے اور اس کو اخلاص کے پہلو سے پرکھا جائے جو قربانی کرنے والا اپنی قربانی میں شامل کر دیتا ہے تو ان جیسا کوئی دفتر قیامت تک اور بھی پیدا نہیں ہو سکتا وہ السابقون الاولون ہیں ان میں ایک بڑی تعداد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے تربیت پانے والے صحابہ رضوان اللہ یھم کی تھی جو غیر معمولی اخلاص اور محبت سے مرقع تھے وہ لوگ ایسی تصویریں ہیں جو بار بار آسمان پر دکھائی نہیں دیا کرتیں.ایسے وقت کے لوگ جو آ کے گزر جاتے ہیں اور پھر یاد میں رہ جاتی ہیں ان عظیم الشان صورتوں کی جو ہمیشہ کے لئے اپنے نقوش تاریخ میں جما دیتی ہیں.اس پہلو سے مجھے خیال آیا کہ اس دفتر کو بھی ہمیشہ کے لئے زندگی بخشنی چاہئے اس دفتر کا حق ہے کہ ہمیشہ زندہ رہے اور کبھی بھی قربانی کرنے والوں کے ساتھ یہ دفتر نہ مرے.چنانچہ میں نے یہ تحریک کی کہ وہ سب خاندان جن کے بزرگ اس دفتر میں شامل تھے وہ اپنی طرف سے جو چندہ دیں وہ تو دیں گے ہی وہ اپنے بزرگوں کی یادیں زندہ رکھنے کے لئے اور ان کی نیکیوں کو زندہ رکھنے کے لئے قیامت تک عہد کریں کہ وہ پھر آئندہ ان کی آنے والی نسلیں ان کے نام پر وہ تحریک جدید کا چندہ ہمیشہ ادا کرتی رہیں گی اس تحریک کے نتیجے میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہر سال کھاتوں میں کچھ اوراضافہ ہورہا ہے.اس پہلو سے میں سمجھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ دفتر بھی ترقی پذیر ہے

Page 717

خطبات طاہر جلد ۶ 713 خطبه جمعه ۳۰ /اکتوبر ۱۹۸۷ء یعنی پہلے کم ہوتے ہوئے دو ہزار کے قریب تعد ادرہ گئی تھی اب پھر بڑھتے بڑھتے تین ہزار سے اوپر ہورہی ہے اور جو مشکل ہے وہ صرف لاعلمی کی مشکل ہے ورنہ جہاں تک جماعت کے اخلاص کا تعلق ہے اگر ان کو پتا چلے کہ کون سے ان کے بزرگ دفتر اول میں شامل تھے جن کی یاد کو زندہ رکھنا جن کی نیکی کو زندہ رکھنا ان کی ذمہ داری ہے تو میں وہم بھی نہیں کر سکتا کہ وہ اس بارہ میں کوئی بھی تردد کریں لیکن معلوماتی مشکل ہے.دفتر تحریک جدید بار بار مجھے یہی لکھتا ہے کہ ہمارے پاس وہ ذرائع نہیں ہیں جن سے ہم معلوم کر سکیں کہ ان بزرگوں کی اولادیں کہاں چلی گئیں، کون لوگ تھے، کہاں جاسکتے ہیں زندگی نے ان کو کہاں منتخب کیا آخر اس وقت وہ کہاں موجود ہیں.اس لئے ہم ان سے رابطہ نہیں کر سکتے سارا سال کھوج لگاتے ہیں جن کے متعلق پتا لگتا ہے کہ یہ قربانی کرنے والوں کی اولاد میں سے ہیں تو ان کو لکھتے ہیں پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے فوری طور پر ان کا کھانہ دوبارہ زندہ ہو جاتا ہے.اس سلسلے میں میں نے تحریک ( جدید ) کو یہ نصیحت کی تھی کہ آپ ان کے نام پتے ان خاندانوں کا ذکر جہاں تک آپ اکٹھا کر سکتے ہیں وہ شائع کر کے دنیا کی ساری جماعتوں میں بھجوائیں تا کہ جماعتیں اعلان کریں ہمارے پاس اولین قربانی کرنے والوں میں سے وہ لوگ جو وفات پاچکے ہیں جن لوگوں کے کھاتے بند ہیں جن کی لسٹیں آگئی ہیں ان کا ذکر کس گاؤں کے تھے ان کا خاندان کون سا تھا ساری معلومات حاصل ہو چکی ہیں.اگر کسی احمدی دوست کو معلوم کرنے کے لئے دلچسپی ہو، تمنا ہو کہ اپنے آباؤ اجداد کا نام بھی اس قابل فخر فہرست میں دیکھیں تو وہ ہم سے معلوم کریں اور علاوہ ازیں بھی جہاں تک ممکن ہے تھوڑا تھوڑا کر کے بار بار ہر خاندان تک وہ فہرست پہنچانی چاہئیں خواہ کوئی دیکھنے کے لئے توجہ کرے یا نہ کرے، کوئی وقت دے یا نہ دے جماعت کو چاہئے کہ پھر وہ فہرست تمام احباب کو پہنچائیں اور بتائیں کے کون کون لوگ تھے.اس طرح امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی سارے کا سارا کھاتہ یک دفعہ زندہ ہو جائے گا لیکن میرے علم میں ابھی تحریک جدید کی طرف سے یہ رپورٹ نہیں آئی کہ انہوں نے یہ محنت کی ہو.اس لئے میں نہیں جانتا کہ وہ کس رنگ میں تلاش کر رہے ہیں کس طرح تلاش کر رہے ہیں، لیکن ایسا مشکل کام نہیں ہے جو ہو نہ سکتا ہو.اس لئے میں یہ کام اب تحریک جدید انجمن کے سپرد کرتا ہوں نہ کہ شعبہ مال کے کہ وہ اپنے ایجنڈے پر اس بات کو

Page 718

خطبات طاہر جلد ۶ 714 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء رکھے اور ان فہرستوں کا موازنہ کر کے صلح نظریہ بنائے کہ ایک بھی مجاہد اول دفتر اول سے تعلق رکھنے والا مجاہد ایسانہ ہو جس کا کھانہ مردہ رہے.اس سے پہلے میں نے یہ بھی تحریک کی تھی کہ اگر ایسے کھاتے رہ جائیں تو مجھے لکھیں.جو ہر کوشش کے باوجود پھر بھی کسی طرح زندہ نہ ہو سکے اللہ تعالیٰ نے جتنی مجھے توفیق دی ہے میں اس میں حصہ لوں گا اور جماعت کے دیگر مخلصین جو میری مدد کے لئے تیار ہوں گے وہ حصہ لیں گے تو اسی رنگ میں ہم بالآخر اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے کہ سارے کا سارا دفتر اول کا کھانہ زندہ ہو جائے گا.اس بارے میں بھی تحریک جدید کی طرف سے اس سال جور پورٹ آئی اس میں ہے اس کا ذکر نہیں ملتا.اس لئے تحریک جدید انجمن کو چاہئے کہ ان امور پر غور کر کے مجھے دو تین مہینے کے اندر اپنی کوششوں سے مطلع کرے.باقی جہاں تک ترقی کا تعلق ہے اعداد و شمار کی تفصیل بہت لمبی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا کہ اعدادوشمار کی تفصیل یہاں بیان کرنے کا وقت نہیں ہے مگر جو بعض جماعتیں ہیں غیر معمولی طور پر قربانی میں آگے ہیں اور پہلے بھی آگے رہی ہیں ان میں پاکستان میں لا ہور اور کراچی کے علاوہ اور بہت سے ایسے قصبات ہیں جو غیر معمولی طور پر مصائب کا شکار رہے ہیں معاشی طور پر کبھی ان کو شدید صدمے پہنچے ہیں اور دین کے لئے قربانی دینے میں انہوں نے بڑی بڑی اذیتیں اٹھائی ہیں بعض جگہ سینکڑوں نوجوان قیدوں میں رہے ، ان کی تجارتوں پر اثر پڑا، انکے زمیندارے پر اثر پڑا لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص احسان ہے اس کے باوجود ان سب کا قدم ترقی کی طرف ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ کے فضلوں اور احسانوں پر انحصار کرتے ہوئے آئندہ بھی انشاء اللہ ترقی کی طرف رہے گا.ان کے متعلق میں صرف یہ کہوں گا کہ آپ اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یاد رکھیں.اللہ تعالیٰ ان کی مشکلات دور فرمائے اللہ تعالیٰ ان کی نیک تمنائیں جو خدا کی راہ میں قربانی کرنے کی ہیں انہیں بھی پورا فرمائے اور اللہ دین و دنیا کے حسنات ان کو عطا فرماتا چلا جائے.ان کا سہارا بنے اور یہ ہرلمحہ محسوس کریں کہ خدا کے نازل ہونے والے فضلوں کے مقابل ان کی قربانیاں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں.اس کثرت سے اللہ کے فضلوں کی بارشیں ان پر نازل ہوں کہ یہ اپنی قربانیوں کو ان کے مقابل پر حقیر اور بے معنی دیکھیں.

Page 719

خطبات طاہر جلد ۶ 715 خطبه جمعه ۳۰ /اکتوبر ۱۹۸۷ء جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یوکے(U.K) کی جماعت کو نمایاں خدمت کی توفیق ملی ہے اور ان کا گزشتہ سال کا جو وعدہ تھا ساٹھ ہزار پاؤنڈ کا وہ آج کی تاریخ تک مکمل پورا ہو چکا ہے اور آئندہ سال کیلئے انکے امیر مکرم آفتاب احمد خان صاحب کی طرف سے فون پر اطلاع ملی ہے کہ 75,000 پاؤنڈ کا وعدہ جماعت کی خدمت میں پیش کرتے ہیں.امیر صاحب کینیڈا کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ گزشتہ سال ان کا وعدہ ساٹھ ہزار ڈالر کا تھا.نئے سال کے لئے وہ 75,000 ڈالر کا وعدہ پیش کرتے ہیں لیکن یہاں انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ گزشتہ ساٹھ ہزار ڈالر کا وعدہ پورا ہو چکا ہے کہ نہیں اس کی میں امید رکھتا ہوں کہ ہوگیا ہوگا ورنہ ہو جائے گا مگر اس فقرے کا فقدان بتا رہا ہے کہ شاید ایسا نہ ہو سکا ہو لیکن ابھی تحریک کی وصولی کے کچھ مہینے باقی ہیں اس لئے فکر کی بات نہیں ہے اگر کچھ حصہ رہ گیا ہو تو انشاء اللہ وہ وصول ہو جائے گا.امریکہ کی طرف سے مکرم شیخ مبارک احمد صاحب کی یہ اطلاع چند منٹ پہلے ملی ہے کہ ان کا وعدہ ایک لاکھ ڈالر کا تھا یعنی امریکہ کی جماعت کا جس میں سے غالباً نوے ہزار وصول ہوا ہے.غالباً میں اس لئے کہتا ہوں کہ انہوں نے پہلے کوئی اور ( Figure) لکھی تھی پھر اسے مٹا کر اور (Figure) لکھ دی اگر یقینی طور پر ان کوعلم ہوتا تو وہ کبھی ایسا نہ کرتے.اس لئے ان کو امید ہے کہ اتنا ادا ہو چکا ہوگا.خدا کرے کہ ان کی امید صحیح ہو لیکن بہر حال جتنا ان کا ادا ئیگی کا اندازہ ہے وہ بھی بھاری ادائیگی ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ بقیہ ادائیگی ایک دو مہینے کے اندر ہو جائے گی.وہ امریکہ کی جماعت وعدے کو بڑھا کرا یک لاکھ دس ہزار ڈالرز کا وعدہ پیش کرتے ہیں.جہاں تک عمومی طور پر ساری دنیا کے بجٹ کا تعلق ہے سال 1986ء میں پوری دنیا کی صرف تحریک جدید کا بجٹ صرف 156,17,400 روپے تھا کیونکہ کرنسی دنیا میں مختلف ہیں ہمارا اصل بڑا دفتر پاکستان میں واقع ہے.اس لئے روایات کے مطابق یہی دستور رہا ہے کہ ہر کرنسی کو پاکستانی روپے میں تبدیل کر کے پھر عمومی بجٹ پاکستانی کرنسی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے.اس پہلو سے جب میں کہتا ہوں روپے تو مراد ہے کہ ہر ملک نے اپنے اپنے رنگ میں اس میں حصہ لیا ہے اس کو پاکستانی روپے میں تبدیل کریں تو یہ رقم بنے گی اور جہاں تک وصولی کا تعلق ہے اس سال یہ وصولی ، اس سال یہ وعدہ (اس سال سے مراد جو گزر چکا یا جو آج ختم ہوا سال کے اختتام تک ) یہ وعدہ

Page 720

خطبات طاہر جلد ۶ 716 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء بڑھ کر 194,39,000 روپے ہو چکا تھا.عمومی وصولی کا جہاں تک تعلق ہے گزشتہ سال اگر چہ سال کے آخر تک خدا تعالیٰ کے فضل سے تمام وعدہ پورا ہو چکا تھا لیکن اس وقت تک 72,4,380 روپے کی وصولی ہوئی.یعنی کل وعدہ 156,00,000 روپے کے مقابل پر آج کی تاریخ تک 72,00,000 روپے وصولی تھی گویا کے نصف سے کم تھی لیکن بقیہ مہینوں میں خدا کے فضل سے وہ وصولی پوری ہوگئی اور کوئی بقایا نہ رہا امسال 194,00,000 روپے کے وعدوں کے مقابل پر وصولی 94,61,000 روپے ہے یعنی تقریباً نصف اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ابھی سال کے کچھ مہینے باقی ہیں اور عموماً یہ رجحان پایا جاتا ہے کہ آخری مہینوں میں تیزی کے ساتھ ادائیگی کی جاتی ہے.دوسرے یہ جو رپورٹ چلی تھی پاکستان سے اس کو چلے کافی وقت گزر چکا ہے.اس عرصے میں انگلستان نے اپنی وصولی کی مکمل ادا ئیگی کروادی ہے اور باقی ملکوں میں بھی کافی محنت کی ہے اس عرصہ میں میں اُمید کرتا ہوں کہ ابھی وصولی بڑھ چکی ہوگی.جہاں تک کل تعداد چندہ دینے والوں کی ہے اس لحاظ سے ابھی بہت کام کی گنجائش ہے خصوصاً پاکستان سے باہر.اگر چہ پاکستان کے باہر کا چندہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا ہے اور خوشکن ہے لیکن وہ مجاہدین جو چندوں میں حصہ لے رہے ہیں تحریک جدید کے چندوں میں میری مراد ہے ان کی تعداد بھی پاکستان کی تعداد سے بہت ہی پیچھے ہے.پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ستر ہزار سے زائد مجاہدین ہیں جو تحریک جدید میں شامل ہو گئے ہیں اور بیرون پاکستان صرف اٹھارہ ہزار ایک سو پچاس اور یہ تعداد بہت ہی قابل فکر ہے میں نے گزشتہ سال بھی یہ بات کہی تھی اور اب پھر اس کی یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اموال تو خدا تعالیٰ مہیا ضرور کرتا ہے اور ہمارا تجربہ ہے.کوئی جماعت کے کام پیسے کی کمی کی وجہ سے پیچھے نہیں رہے لیکن چندہ دینے والا بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتا ہے ہمیں اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے جو شخص چندہ دینا شروع کر دے اس کے اندر اللہ تعالیٰ بہت سی پاک تبدیلیاں پیدا کرتا ہے اور اسے ایک نئی زندگی ودیعت ہوتی ہے نئی زندگی اللہ کی طرف سے عطا ہوتی ہے تو ہمیں ایسے لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرنا چاہئے جن کو چندہ دینے کا مزہ آنا شروع ہو جائے جن کو معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا کتنا عظیم کام ہے کتنی عظیم سعادت ہے اس پہلو

Page 721

خطبات طاہر جلد ۶ 717 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء سے میں نے گزشتہ سال بھی بہت زور دیا تھا کہ محض وعدوں کو بڑھا کر پیش کرنے سے تسلی نہ پایا کریں خوشی کی بات ہے ایک دوسرے سے بے شک مقابلہ کریں جتنا مقابلہ کریں اچھا ہے کبھی امریکہ آگے بڑھا کبھی کینیڈا آگے بڑھا.اور کبھی انگلستان آگے بڑھا.یہ مقابلہ برانہیں ہے کیونکہ ہمارے اسلام مسلمانوں کی تعمیر کا مقصد یہ ہے کیونکہ مسلمانوں کے بنائے جانے کا مقصد یہ ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ (البقرہ:۱۴۹) ایک دوسرے سے نیکیوں میں مقابلہ کرو اور آگے بڑھو.مگر اس سے بڑھ کر ضروری یہ ہے کہ یہ مقابلہ کریں کہ آپ کے ملک میں جتنے افراد جماعت ہیں وہ کتنی جلدی سارے کے سارے تحریک جدید کے چندے میں شامل ہو چکے ہیں اور یہ جو مقابلہ ہے کہ سو فیصد احباب جماعت کو مردوں عورتوں اور بچوں کو تحریک کے چندے میں شامل کر دیا جائے یہ بہت ہی عظیم مقابلہ ہے اور اس کے لئے آپ ایسے تردد کی ضرورت نہیں کہ غریب آدمی تھوڑی دے سکتا ہے تو آپ کہیں کہ اس سے فرق کیا پڑے گا بعض دفعہ کھاتہ رکھنے میں زیادہ مشکل پڑتی ہے بنسبت اس شخص کے چندے کی آمد کی حیثیت کے لحاظ سے مگر اس کا کوئی فرق نہیں پڑتا.ہاں ایک احمدی اگر ایسا نیا شامل کریں جو پہلے کچھ نہیں دیتا تھا اگر وہ نصف ڈالر بھی دے تو تب بھی خدا تعالیٰ اس کو ایسی نیکی کی توفیق بخشے گا جس کے نتیجے میں نیکیاں پھر ترقی کریں گی اور وہ پھر اپنے اندر ایک عظمت کر دار محسوس کرے گا.تو روپیہ دینے والا روپے سے زیادہ اہم ہے اور اس کی تربیت بہت زیادہ اہم ہے کیونکہ روپے دینے کے مقاصد میں انسانی تربیت شامل ہے.اس لئے محض اس بات پر تسلی نہ پایا کریں کہ آپ میں سے امیر بڑے بڑے چندے دے کر ملک کے عمومی بجٹ کو بڑھا رہے ہیں بلکہ یہ دیکھا کریں کہ کتنے غریب یا دل کے غریب ایسے ہیں جو تو فیق ہونے کے باوجود اس چندے میں شامل نہیں ہو سکے ان کی تعداد بڑھانے کی طرف توجہ کریں.اس سے آپ کو نیک آدمیوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا موقع ملے گا کیونکہ چندہ دینے والوں میں نیکی پیدا ہوتی ہے اور جماعت کا انحصار نیکی پر ہے.اگر ہم زیادہ نیک آدمی بنا سکتے ہیں تو اتنی ہی زیادہ جماعت ترقی کرے گی.اس پہلو سے اب اپنے کمزوروں پر رحم کریں اور ان کے لئے باقاعدہ سارا سال کوشش کرتے رہا کریں کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہو.یہ رپورٹ مجھے نہیں ملتی اور اس سے مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ اس پہلو سے سقم ہے کیونکہ جماعتوں میں رپورٹ بھیجنے کا رجحان یہ ہوتا ہے کہ جس چیز میں وہ کوئی قابل فخر کام کریں اس کو اور Over

Page 722

خطبات طاہر جلد ۶ 718 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء Emphiasize کر دیتے ہیں یعنی زیادہ بڑھا کر بیان کرتے ہیں، بڑھا کر واقعات کا نہیں بلکہ نمایاں رنگ میں میں کہنا چاہتا ہوں تا کہ میری نظر اس پر پڑے اور میرا دل خوش ہو اور ان کی نیت نیک ہوتی ہے تاکہ ان کے لئے دعا دل سے نکلے کہ بہت اچھا کام کر رہے ہیں.جو پہلو تشنہ رہ گئے ہوں ان کا ذکر ہی نہیں کرتے تا کہ دماغ میں یہ خیال ہی نہ جائے کہ کوئی خلاء ہے اور وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ کس طرح میری نظر سے ان کی کوئی بات بھی اوجھل نہیں ہوسکتی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے مزاج ہی ایسا عطا فرمایا ہوا ہے کہ میں سارے پہلوؤں پر نظر ڈال کر رپورٹ دیکھتا ہوں اگر بعض پہلوؤں کا ذکر نہ ہو تو مجھے یقین ہو جاتا ہے کہ اس پہلو میں کام ہی نہیں ہو اور نہ وہ ذکر کرتے اور میں نے نصیحت کی تھی گزشتہ سال بھی کہ آپ اپنے ہاتھ سے لکھ دیا کریں کہ ہم نے اس معاملے میں اب تک کوئی کام نہیں کیا.اس میں برکت ہے.یہ قول سدید ہے.اس سے آپ کو ایک کام کی طرف بار بار توجہ پیدا ہوگی اور وہ خلاء بھرنا شروع ہو جائے گا.جب آپ اپنی کمزوری چھپانے کے لئے ایک جگہ سے چھلانگ لگا کر دوسری جگہ پہنچتے ہیں اور بیچ میں ایک خلاء پیدا کر دیتے ہیں تو جو مقصد ہے وہ تو پورا نہیں ہوا نہ مجھے دھوکہ دیا جا سکانہ خدا کو کوئی دے سکتا ہے.تو بے مقصد ایسی غلطی کر رہے ہیں جس کا آپ کو اپنا نقصان ہے.آپ اگر یہ لکھتے اور آگے جا کر مجھے Brief کرنا پڑے گا ، بیچ میں خلاء آرہا ہے تو ہم بدقسمتی سے اس خلاء کو پر نہیں کر سکے.ہر رپورٹ میں اگر یہ لکھا جائے تو انسانی ضمیر آخر کچوکے دیتا ہے، توجہ دلاتا ہے پھر انسان کوشش کرتا ہے کہ اس خلاء کو کسی رنگ میں پُر کرے اور اس کے نتیجے میں ترقی ہوتی ہے تبھی خدا تعالیٰ نے فلاح کی راہ یہی بتائی ہے کہ قول سدید اختیار کرو.تو میں جماعتوں سے یہ بھی توقع رکھتا ہوں کہ جو تحریک جدید کے ٹارگٹ مقرر کئے جاتے ہیں ان میں اگر وہ بدقسمتی سے کسی پہلو سے پیچھے بھی رہ جائیں تو خواہ مخواہ اس کو چھپانے کی کوشش نہ کیا کریں.جرات کے ساتھ صاف لکھا کریں اس کے نتیجے میں بھی تو دعا پیدا ہوتی ہے یہ بات بھول جاتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ صرف اچھے کاموں کے نتیجے میں دعا نکلتی ہے اور پڑھتا ہوں اور دل خوش ہو جاتا ہے حالانکہ جو کمزور کام ہیں ان پر بعض دفعہ زیادہ دردناک دعا نکلتی ہے.اس بارے میں بھی خدا ان کو تو فیق عطا کر دے.اس بارے میں بھی اللہ تعالیٰ ان کی ہمتیں بڑھائے ان کو توفیق اور نصرت عطا فرمائے اور بعض دفعہ کمزوری دیکھ کر زیادہ دردمند دعا اٹھتی ہے.اس لئے دعا تو دونوں صورتوں میں ملنی ہے جب آپ خلاء پیدا کریں گے

Page 723

خطبات طاہر جلد ۶ 719 خطبه جمعه ۳۰/اکتوبر ۱۹۸۷ء تو ایک پہلو سے دعا میں بھی خلاء پیدا ہو جائے گا.اُمید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ سال اس بات پر غیر معمولی زور دیا جائے گا.ہر احمدی مرد عورت اور بچہ جہاں تک ممکن ہے تحریک جدید کی قربانیوں میں شامل ہو خواہ بہت تھوڑا دے کر کیونکہ اس کے نتیجے میں اس کا مستقبل بنے گا، اس کے اندر قربانی کا جذبہ پیدا ہوگا ، ایک احساس ذمہ داری پیدا ہوگا اور جماعت کو پہلے سے بہت زیادہ تعداد میں متقی لوگوں کی نصیب ہو جائے گی اور اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو اور یہ جماعت ہر پہلو سے خدا کی نظر میں ترقی کرے.ہماری رپورٹوں کی نظر سے نہیں بلکہ خدا کی نظر ہمارے ہر شعبے پر محبت اور پیار سے پڑ رہی ہو کہیہ بندے میری خاطر کام کرتے ہوئے ہر شعبے میں میرے قریب تر ہوتے چلے جارہے ہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: (بقیہ ) خطبہ ثانیہ سے پہلے میں یہ بعض نماز جنازہ غائب کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.ہمارے سلسلے کے مخلص کارکن مکرم چوہدری محمد شریف صاحب اشرف جو آج کل ایڈیشنل وکیل المال ثانی کے طور پر رضائی طور پر خدمات سلسلہ انجام دے رہے ہیں اور میرے ساتھ کافی ہاتھ بٹا رہے ہیں انگلستان میں.ان کے والد میاں فتح محمد صاحب جو کہ مکرم غلام محمد اختر صاحب سابق ناظر اعلیٰ مرحوم کے بڑے بھائی تھے انکی وفات کی اطلاع ملی ہے.مکرم شریف اشرف صاحب اپنے والد کے جنازہ میں شرکت کے لئے پاکستان چلے گئے ہیں جانے سے پہلے یہ پیغام دے گئے تھے کہ ان نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.اسی طرح ایک بزرگ احمدی خاتون شہزادی حلیمہ اعظم صاحبہ جو موصیہ تھیں اور ڈاکٹر رشید اعظم صاحب کی اہلیہ تھیں وہ وفات پاگئیں ہیں.یہ ڈاکٹر ماسٹر نذیرحسین صاحب چغتائی مرہم عیسی والے کی چھوٹی بیٹی تھیں.انکی بھی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک ہمارے سلسلے کے پرانے خادم دین مکرم راجہ محمد نواز صاحب ان کے ایک بیٹے آج کل ناروے میں ہیں اور ایک جہلم میں ہیں اور سلسلہ کے بڑے اچھے مخلص کارکن ہیں اچانک انکی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے یہ جلسے پر تشریف لائے تھے اور بہت اچھی صحت تھی اس وقت کوئی فکر والی بات نظر نہیں آرہی تھی مگر خدا کی مرضی ہے جب بلاوا آجائے.انشاء اللہ نماز جمعہ کے معا بعد ان تینوں کی نماز جنازہ غائب ہوگی.

Page 724

Page 725

خطبات طاہر جلد ۶ 721 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء دورہ کینیڈا.الزراع کی لطیف تشریح اور دعوت الی اللہ کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء بمقام کیلگری، کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی:.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِيْنَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَيةِ : وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيل * كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْعَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزَّرَاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ اور فرمایا: (الفتح: ۳۰) قرآن کریم کی جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں حضرت اقدس محمد مصطفی ہے اور آپ کے ساتھیوں کی بعض صفات بیان فرمائی گئیں ہیں لیکن دو مختلف حوالوں سے.ایک تورات کے حوالے سے اور ایک انجیل کے حوالے سے اور اگر چہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے صحابہ ہی کا ذکر ہے مگر دونوں صفات مختلف ہیں یعنی انجیل کے حوالے کی صفات تورات کے حوالے کی صفات سے مختلف ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ دو مختلف قوموں کا نقشہ کھینچا جا رہا ہے.تو رات نے جو یہ نقشہ کھینچا ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کا اس میں شوکت

Page 726

خطبات طاہر جلد ۶ 722 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء اور جلال پلیا جاتا ہے قوت ظاہر ہوتی ہے.چنانچہ فرمایا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ کہ محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو دیکھو کس شان کے لوگ ہیں کتنے دشمنوں کے مقابل پر سخت اور توانا اور قوی ہیں.رُحَمَاء بَيْنَهُم لیکن آپس میں بہت محبت کرنے والے اور بہت رحم کرنے والے.تَربُهُمُ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا کامل طور پر اللہ پر بھروسہ کرنے والے ان کو خدا کے حضور تم رکوع اور سجدے میں پڑے ہوئے دیکھو گے اور خدا ہی سے یہ فضل چاہتے ہیں اور اسی سے رحمت کی امید رکھتے ہیں.سِيْمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ اور ان کے چہروں ان کی پیشانیوں پر ان کے سجدوں کے نتیجے میں بعض پاکیزہ علامتیں ظاہر ہوتی ہیں.یہ ہے تو رات کا نقشہ اور اس کے ساتھ ہی فرمایا مَثَلُهُمْ فِي الْإِنْجِيلِ انجیل میں ان لوگوں کی مثال اور طریق سے دی گئی ہے گزرعٍ اَخْرَجَ شَطْئَے ایک ایسی کونپل کی طرح، نرم نازک کو نپل جو اپنی روئیدگی کو زمین سے نکالے فَازَرَہ پھر اسے ذرا مضبوط کرے فَاسْتَغْلَظ اور پھر وہ کونپل پھوٹ کر شاخ بنے اور شاخ مضبوط ہونی شروع ہو جائے فَاسْتَوى عَلى سُوقِ اور سُوقہ سے مراد وہ ڈنڈی ہے جو جب پودا بڑا ہو جاتا ہے تو ڈنڈی بن جاتا ہے.تو وہ ڈنڈی مضبوط اور توانا ہو کر اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گویا خود اپنے ہی سہارے زندہ رہنے کی استطاعت اختیار کرلے اور اس کو غیر کے سہارے کی محتاجی نہ رہے.ان معنوں میں جب فصل مضبوط ہوکر بڑی ہو جاتی ہے تو پھر اگر زمیندار کی طرف سے کچھ کمزوری بھی ہو جائے تب بھی وہ قائم رہتی ہے اور تب بھی وہ اپنا پھل دے دیا کرتی ہے تو ایسی صورت کو فاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ کہا جاتا ہے یہ نقشہ نرمی اور ملائمت کا نقشہ ہے اور پہلے نقشے سے مختلف ہے.پہلے نقشے میں دشمن کے مقابل پر سخت قرار دیا گیا اور دشمن کے حال کا ذکر نہیں فرمایا گیا کیونکہ طاقتور کے مقابل پر دشمن کو کم غصہ آتا ہے.دوسرے نقشے میں ایک کمزور کو نیل کے طور پر دکھایا گیا جس کا زندہ رہنا بھی ایک سوالیہ نشان کی صورت میں تھا ایک نرم و نازک کو نپل جو زمین سے پھوٹ رہی ہے پتا نہیں وہ باقی بھی رہتی ہے کہ نہیں اور اس کی کمزوری کے مقابل پر دشمن کو اس پر غصہ بہت آتا ہے یعنی جو پہلا نقشہ ہے اس میں طاقت اور شوکت ہے لیکن دشمن کے غصے کا ذکر نہیں.دوسرے نقشے میں نرمی اور کمزوری ہے اور وہ رفتہ

Page 727

خطبات طاہر جلد ۶ 723 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء رفتہ وہ کمزوری اور نرمی طاقت میں تبدیل ہو رہی ہے لیکن ایسی طاقت نہیں جس میں غیر معمولی دفاعی طاقتیں پائی جائیں بلکہ اپنی ذات میں ایک طاقت ہے جو رفتہ رفتہ ترقی پذیر ہے لیکن اس کے باوجود یک فصل کی ڈنڈی خواہ کتنی بھی مضبوط ہو جائے اس کو دشمن کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں ہوا کرتی.اسی لئے ساتھ ہی فرمایا یعجب الزراع جو زمیندار ہیں اس کے کاشت کرنے والے وہ تو اس صورت کو دیکھ کر بہت خوش ہو رہے ہیں لیکن ان کے دشمن جو کفار ہیں ان کو یہ حالت دیکھ کر بہت ہی غصہ آتا ہے اور جتنا جتنا و فصل بڑھتی چلی جاتی ہے اتنادشمن کا غصہ بڑھتا چلا جاتا ہے.اب یہ دو نقشے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مختلف ہیں لیکن جن لوگوں پر یہ حالات وارد ہونے والے ہیں ان کو حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی کا ساتھی قرار دیا گیا اور کسی تیسرے کا ذکر کوئی نہیں.مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ محمد مصطفى ﷺ اور ان کے ساتھیوں کے یہ دو نقشے ہیں.اس مسئلے سے پردہ اس وقت اٹھتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پہلا حوالہ تو رات کا ہے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا پہلا جلوہ مثیل موسیٰ کے طور پر تھا اس لئے لا زما پہلے دور کے ساتھیوں کا پہلے ذکر ہے اور دوسرا حوالہ انجیل کا ہے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کا دوسرا جلوہ مسیحیت کی طرح نرم شان مصافی علوس والا جلوہ ہے جس کو احمد نام کے جلوے سے موسوم کیا جاتا ہے.تو صاف پتہ چلا کہ تاریخ اسلام کے دو مختلف ادوار کا ذکر ہے لیکن جن لوگوں کا ذکر ہے وہ محمد رسول اللہ ﷺ کے ہی ساتھی ہوں گے کسی اور کے ساتھی نہیں.اس سے ایک مزید مسئلہ حل ہوا کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے ایک نئی نبوت کا نعوذ بالله آغاز کیا اور ایک نئی امت بنالی ، یہ بالکل جھوٹ اور بے بنیاد الزام ہے.قرآن کریم کی رُو سے آنحضرت ﷺ کی دوسری شان میں جو لوگ بھی ہوں گے وہ بلا واسطہ آنحضرت ﷺ ہی کے ساتھی قرار دئیے گئے ہیں.گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد تو ساتھی بنانے کا ایک ذریعہ ہے لیکن ساتھی محمد رسول اللہ ﷺ کے ہی بنتے ہیں.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کا جو مقام ہے وہ عام دوسرے تمام فرقوں اور دوسرے تمام مذاہب سے بالکل مختلف ہو جاتا ہے، بلند تر ہو جاتا ہے، ایک امتیاز اختیار کر جاتا ہے.حضرت رسول اکرم ﷺ کے ساتھی قرار دے دینا کسی جماعت کو اس سے بڑا اعزاز ممکن ہی نہیں ہے.چنانچہ اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو

Page 728

خطبات طاہر جلد ۶ 724 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء اپنے حالات کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اپنے مقام کا جائزہ لیتے رہنا چاہئے اور اس مقام سے جو توقعات وابستہ ہیں ان کے اوپر نظر رکھنی چاہئے کہ وہ کیا تو قعات ہیں.دوسرا پہلو جو ان آیات میں بیان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ يُعْجِبُ الزراع فرما کر یہ بتایا کہ اس روحانی فصل کو کاشت کرنے والا ایک ہاتھ نہیں ہے بلکہ بہت سے ہاتھ ہیں کیونکہ زارع نہیں فرمایا الزُّرَّاع فرمایا جو جمع ہے.عام طور پر بعض احمدی جو پوری طرح قرآن کریم کا ترجمہ نہیں سمجھتے وہ بھی یہ خیال کرتے ہیں کہ الزراع سے مراد خدا تعالیٰ ہے.خدا تعالیٰ نے وہ کھیتی لگائی اور خدا تعالیٰ کو اس کی نشو و نما پسند آرہی ہے جبکہ دشمن اس سے جل رہے ہیں.یہ تصور ہے جو عام طور پر لوگوں کے ذہن میں ہے لیکن امر واقع یہ ہے کہ یہاں الزراع سے مراد ساری جماعت احمد یہ ہے جس طرح مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ میں پہلے دور کے اندر سارے صحابہ شامل ہو گئے تھے اسی طرح دوسرے دور میں ساری جماعت مراد ہے لیکن یہاں ان کا نام الزراع رکھا گیا، کھیتی لگانے والے اور کھیتی کاشت کرنے والے اور ان میں سے ہر ایک کی کھیتی الگ الگ طور پر کونپل نکال رہی ہے ان میں سے ہر ایک کی کونیل جو زمین سے پھوٹ رہی ہے وہ تناور ہوتی چلی جارہی ہے اور ایک مضبوط شاخ بن رہی ہے.شاخ کا لفظ میں اس لئے استعمال کر رہا ہوں کہ جس قسم کی فصلوں کا ذکر ہے اس کے لئے تنے کا لفظ استعمال نہیں ہوسکتا مگر مراد یہی ہے جو درمیانی مرکزی ڈنڈی گندم کی یا چاولوں وغیرہ کی ہوتی ہے.یہاں وہی مراد ہے سوق سے مراد وہ ڈنڈی ہے جو عام کھیتیوں کی مرکزی ڈنڈی ہوا کرتی ہے.بہر حال اس تشریح کے ساتھ میں اس مضموں کو دوبار شروع کرتا ہوں کہ یہاں الوداع صلى الله سے مراد چند لوگ نہیں ہیں جنہوں نے کھیتی کاشت کی ہے جس طرح پہلے دور میں آنحضور ﷺ کے تمام غلام تمام صحابہ اس تعریف میں داخل کر دیئے گئے اسی طرح لفظ الزراع نے اسی مضمون کو دوبارہ بیان کیا ہے اور ساری جماعت پر اطلاق پاتا ہے.اس بات کو بھلا دینے کی وجہ سے ہم نے بہت نقصان اٹھایا ہے.اس بات کو بھلا دینے کی وجہ سے ہر احمدی کو یہ پتا ہی نہیں کہ قرآن کریم میں میرا کیا مقام بیان ہوا ہے.ہر احمدی سے جب میں توقع رکھتا ہوں کہ وہ تبلیغ کرے اور خدا کی راہ میں ایک کھیتی اگائے اور روحانی اولاد پیدا کرے تو لوگ سمجھتے ہیں شاید اس کو اپنا ذاتی جنون ہی ہو گیا ہے، بار بار

Page 729

خطبات طاہر جلد ۶ 725 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء ی ذکر کرتا ہے اور اس ذکر کو چھوڑتا نہیں حالانکہ قرآن کریم کی رو سے ہر شخص پر تبلیغ فرض نہیں ہے لیکن اگر محمد رسول اللہ ﷺ کے ساتھی بنا ہے تو پھر ضرور فرض ہے پھر ہر شخص پر فرض ہے کیونکہ قرآن کریم نے تعریف ہی یہ بیان فرمائی کہ محمد مصطفی ﷺ کے وہ ساتھی جو دور آخر میں پیدا ہوں گے ان کی یہ مثال انجیل میں بیان بھی ہوئی ہے ، پیشگوئی کے طور پر اور وہی ساتھی شمار ہوں گے جو خدا کی راہ میں کھیتی اگائیں گے اور پھر اس کی پرورش خود کریں گے یہاں تک کہ وہ کھیتی تو انا ہو جائے.تو ہر جگہ ہر احمدی جو دعوت الی اللہ کا کام کرتا ہے اس کا قرآن کریم میں ذکر موجود ہے اور انہیں آیات میں اس کا ذکر موجود ہے اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل کا ذکر موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کھیتی کو توانائی بخشے گا اور اسے مضبوط تر کرتا چلا جائے گا یہاں تک کہ کھیتی لگانے والے یا بیج بونے والے کا دل تر و تازہ ہو جائے گا اس نظارے کو دیکھ کر اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں گی يُعْجِبُ الزُّرّاع کا یہ مطلب ہے اور جوں جوں مومنوں کے دل اس وجہ سے ٹھنڈے ہوں گے کہ خدا تعالیٰ نے ان کی محنتوں کو عظیم الشان پھل لگایا اسی طرح ساتھ ساتھ دشمنوں کا غیظ و غضب بڑھتا چلا جائے گا.اب یہاں غیظ و غضب کا بڑھنا لا زما ڈرانے کے لئے نہیں ہے.جب یہ فرما دیا کہ وہ اپنی مرکزی شاخ پر یا اپنی ڈنڈی پر مضبوط اور توانا ہو گئی اور مومنوں کے دل ٹھنڈے ہو گئے تو صاف پتا چلا کہ اس کھیتی کو خطرہ کوئی نہیں اس لئے ليَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ کا جو مضمون بیان فرمایا گیا ہے وہ خوف دلانے کے لئے نہیں ہے بلکہ علامت کے طور پر ہے کہ جتنا دشمن تم سے زیادہ جلے، زیادہ غیظ و غضب دکھائے اتنا ہی تمہاری کامیابی کا سرٹیفیکیٹ ہے، اتنا ہی تمہیں مطمئن کرنے والی بات ہے کہ تم خدا کے فضل سے صحیح رستے پر ہو.تمہاری ترقی کے ساتھ دشمن کا غضب اس طرح باندھ دیا گیا ہے کہ ترقی کے ساتھ ساتھ وہ غضب بھی بڑھتا چلا جائے گا.اس لئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جماعت احمد یہ دشمن کے غضب کو ٹھنڈا کر سکے.آپ جو چاہیں کریں اگر قرآن کریم کی تعریف کی رُو سے آپ محمد رسول کریم ﷺ کے ساتھی بنتے ہیں تو آپ کو لازما خدا کی راہ میں ایک کھیتی الگانی ہوگی اور نئے نئے روحانی بچے پیدا کرنے ہوں گے اور جب آپ یہ کریں گے تو قرآن کہتا ہے کہ لا زما د شمن غصہ کھائے گا اور خدا کی راہ میں کام کرنے کے نتیجے میں دین کی خدمت کے نتیجے میں جو دشمن کو غصہ پیدا ہوتا ہے اس سے اللہ تعالیٰ بچاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس

Page 730

خطبات طاہر جلد ۶ سے حفاظت بخشتا ہے.726 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم میں جماعت احمدیہ کے متعلق بیان ہوا اور یہی مضمون ہے جو بار بار میں خطبوں میں یاد کراتا ہوں لیکن یہ جو مثال ہے زمیندار کی اس پر میں نے جتنا غور کیا ہے اتنا ہی میں حیرت میں ڈوب جاتا ہوں کہ اس میں اتنے تفصیلی مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان پر جتنا بھی آدمی غور کرے نئے نئے مضامین اس پر کھلتے چلے جاتے ہیں.نئی نئی تبلیغ کی راہیں اس پر روشن ہوتی چلی جاتی ہیں اور پھر جو تجربہ مجھے ہو رہا ہے اس تجربے کی رُو سے بھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت ایک حیرت انگیز مضامین کا خزانہ اپنے اندر رکھتی ہے.کھیتیوں کے متعلق اکثر زمیندار جانتے ہیں کہ جب وہ زمین کے اوپر محنت کرتے ہیں بیج ڈالتے ہیں ہل چلاتے ہیں پانی دیتے ہیں تو سب زمینیں ایک طرح رد عمل نہیں دیکھا تیں.بعض زمینیں اس محنت کو قبول کرتی ہیں اور جلدی پھل اگاتی ہیں.بعض زمینیں اس محنت کو قبول نہیں کرتیں پھر بعض کھیتوں کے بعض حصے محنت کو زیادہ قبول کرتے ہیں اور بعض دوسرے حصے قبول نہیں کرتے.تو ایک پہلو سے یہ مثال ساری جماعت پر اطلاق پاتی ہے اور ایک پہلو سے یہ ہر اس شخص پر اطلاق پاتی ہے جو دوسروں کو اس کھیتی لگانے کی طرف متوجہ کرتا ہے.اس نسبت سے جماعت کھیتی بن جائے گی اور خلیفہ وقت وہ زمیندار ہوگا جوکھیتی لگانے کی کوشش کر رہا ہے اس کی نصیحتیں جو جماعت کو کی جاتی ہیں وہ پیج بن جائے گا اور جماعت جو رد عمل دکھاتی ہے وہ زمین کا رد عمل ہے جو بیج اور محنت کے نتیجے میں زمین دکھایا کرتی ہے.تو اس مثال کو الٹا ئیں پلٹا ئیں مختلف زاویوں سے دیکھیں تو کئی قسم کے نئے نئے نظارے سامنے آتے ہیں لیکن یہ مرکزی بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ اس مثال میں ہم سب کے لئے بہت سے سبق ہیں.تبلیغ کے بے شمار مضامین اس چھوٹی سی آیت میں بیان ہو گئے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تبلیغ کا کام لینے والوں میں خلیفہ وقت کے بعد تمام امرائے جماعت ہیں، تمام مربیان سلسلہ ہیں اس پہلو سے الزراع وہ بن جائیں گے اور جماعت وہ کھیتی ہوگی جس کو وہ نصیحت کرتے ہیں جس سے چاہتے ہیں کہ وہ مضبوط ہو اور جلد جلد بڑھے اور توانا ہو جائے اور اپنی مرکزی ڈنڈی پر اس طرح اپنی ذات میں قائم ہو جائے کہ دشمن کی دشمنیوں سے بے نیاز ہو جائے اس پہلو سے یہ مثال خلیفہ وقت پر بھی صادق آتی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے منتظمین

Page 731

خطبات طاہر جلد ۶ پر بھی صادق آتی ہے.727 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء اس پہلو سے جب میں غور کرتا ہوں تو مختلف جماعتوں کے مختلف رد عمل دکھائی دیتے ہیں اور مختلف جماعتوں میں پھر آگے مختلف رد عمل نظر آتے ہیں.اگر کینیڈا کو مثلاً ایک کھیت کے طور پر تصور کریں اور گزشتہ سارے خطبات جن میں تبلیغ کا ذکر کیا گیا ہے ان خطبات کے نتیجے میں جماعت کینیڈا کے رد عمل کو دیکھیں اور میرے ساتھ شامل ہونے والے دیگر نصیحت کرنے والوں کو اگر الزُّرَّاعَ میں داخل کر لیا جائے یعنی امیر ہے، مقامی امراء ہیں ،سیکر ٹر یان تبلیغ ہیں وہ سارے محنت کر رہے ہیں اس لئے ہم سب پر جمع کا صیغہ آئے گا.اس پہلو سے ایک اور بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ یہ آیت فصاحت و بلاغت کے درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہے.محمد رسول اللہ ﷺہ ایک شخص کا ذکر فرمایا اور پھر وَالَّذِينَ مَعَةً کہہ کہ اس مضمون کو پھیلا دیا کہ اس کے ساتھ اور بھی بہت سے ساتھی ہیں.اسی طرح الدراع میں بھی ایک مرکزی نقطہ ہوگا جو سارے نظام زراعت کا انچارج ہوگا اور اس کے ساتھ پھر اور کام کرنے والے شامل ہوتے چلے جائیں گے اور ایک بڑی جماعت بن جائے گی.یہ مضمون ہے جو اس میں ساتھ بیان فرمایا گیا.یہاں مرکزی نقطہ سے مرادخلیفہ وقت نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور آپ کے ساتھ شامل ہونے والے خلفاء اور پھر ان کے ساتھ شامل ہونے والے دیگر ساتھی اور اس طرح یہ مضمون پھیلتا چلا جاتا ہے.اس پہلو سے جب میں غور کرتا ہوں تو بعض ممالک خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کوششوں کے نتیجے میں بہت ہی اچھا رد عمل دکھاتے ہیں.بعض زمینیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت جلد محنت کا بدلہ اگلتی ہیں.بیج ان میں داخل کریں تو اسے بڑھا کر واپس کرتی ہیں، تھوڑی محنت کریں زیادہ پھل دیتی ہیں اور بعض زمینیں ہیں جو نسبتاً بہت زیادہ محنت چاہتی ہیں ، بہت زیادہ توجہ چاہتی ہیں.چنانچہ بعض چھوٹے چھوٹے ممالک ہیں جن کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق ملتی ہے کہ جب میں تحریک کرتا ہوں بڑی کثرت کے ساتھ اس کے نتیجے وہاں ظاہر ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ الزراع جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے ان کی تعداد بھی بڑھتی چلی جارہی ہے.اپنے رقبے کے لحاظ سے چھوٹے ، اپنی آبادی کے لحاظ سے چھوٹے ، جماعت احمدیہ کے لحاظ سے چھوٹے لیکن کھیتیاں اگانے کے لحاظ سے بہت ہی زرخیز اور بہت ہی وسیع اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی

Page 732

خطبات طاہر جلد ۶ 728 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء تیزی کے ساتھ ان میں روز بروز ترقی ہوتی چلی جارہی ہے.افریقہ کے بعض ممالک ہیں جن میں پہلے بہت سستی تھی گزشتہ چند سال سے میں ان سے یہ توقع رکھ رہا ہوں کہ اپنا دائرہ بڑھاؤ کھیتی لگانے والے زیادہ سے زیادہ تیار کرو اور اپنی جماعت کو بڑھاؤ یعنی حقیقی وہ جماعت جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے جو لا زما خدا کی راہ کچھ بیج لگاتے ہیں اور پھر ان کی پرورش کرتے ہیں ، ان لوگوں کی تعداد میں اضافہ کرو.اس نصیحت کے نتیجے میں میں نے ان کے سامنے ایک کسوٹی رکھی اس کسوٹی کے اوپر اپنی کوششوں کو پرکھا کرو.وہ یہ تھی کہ آپ ہر سال دگنا ہونے کی کوشش کرو.اگر تمہاری کوششیں پچھلے سال سے دگنا پھل دیتی ہیں اور آئندہ سال پھر وہ دگنا ہو جاتا ہے اور آئندہ سال پھر وہ دگنا ہو جاتا ہے تو اس سے میں یہ نتیجہ نکالوں گا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تم نصیحتوں پر پوری طرح عمل کرنے والے ہو اور خدا تعالیٰ کا فضل اس بات کو ثابت کر رہا ہے کہ تمہاری کوئی محنت ضائع نہیں جا رہی.چنانچہ کئی ممالک ہیں جو مسلسل گزشتہ چار سال سے اسی طرح دگنا اور پھر دگنا اور پھر دگنا نتیجہ دکھاتے چلے جارہے ہیں.ہوسکتا ہے ایک موقع پر جا کر یہ رفتار اس طرح تیزی کے ساتھ قائم نہ رہ سکے کیونکہ انسانی استعدادوں کی اپنی حد بندی ہوا کرتی ہے اور یہ لازمی نہیں ہوا کرتا کہ اس طرح ہر جماعت ہر سال اپنے نیک نتائج کو دگنا کر سکے لیکن اب تک بہر حال خدا کے فضل سے یہ نتیجہ ظاہر ہورہا ہے.پھر بعض یورپین ممالک ہیں جن میں تبلیغ کی طرف عملا کوئی بھی توجہ نہیں تھی لیکن گزشتہ چند سالوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں واقع ہوئیں.ناروے ان میں سے ایک ہے.بہت چھوٹی سی جماعت ہے.ایک زمانے میں چند گنتی کے احمدی تھے لیکن اب خدا کے فضل سے ہر سال ہر جہت میں وہ جماعت پھیلتی چلی جارہی ہے.اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ بعض عرب ممالک کے بعد ، سب سے زیادہ عربوں میں تبلیغ میں وہ جماعت کامیاب ہے اور ایک سے زائد آدمی ہیں جو وہاں کام کر رہے ہیں.لیکن جب کینیڈا کو دیکھا جائے تو یہ زمین سخت نظر آتی ہے یہاں سے جواب نہیں ملتا آواز تو یہاں پہنچتی ہے لیکن جس طرح بیج کھیت میں ہر طرف پھیلایا جاتا ہے زمیندار کسی زمین کے ٹکڑے سے کنجوسی تو نہیں کیا کرتا ہر طرف بار بار پھیلاتا ہے.یہاں بھی اسی طرح وہ بیج ڈالا جا رہا ہے نیک نصیحتوں کا بیج لیکن اُگتے بہت تھوڑے ہیں.اتنی تھوڑی تعداد ہے Respond کرنے والوں کی

Page 733

خطبات طاہر جلد ۶ 729 خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۷ء لبیک کہنے والوں کی ، ہاں میں جواب دینے والوں کی کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ کیا واقعہ ہے.جب جماعت کا دورہ کرتا ہوں، دوستوں سے ملتا ہوں تو ان میں مجھے اخلاص بھی دکھائی دیتا ہے سچائی بھی نظر آتی ہے، دین سے محبت بھی دکھائی دیتی ہے، نیک تمنائیں بھی نظر آرہی ہیں لیکن جب دعوت الی اللہ کی طرف بلاتا ہوں تو عجیب بات ہے کہ خاموشی دکھائی دیتی ہے.اس لئے اپنی کچھ فکر کریں سوچیں کہ کیا وجہ ہے کیوں آپ لوگ ان لوگوں میں شامل ہونے کی تمنا نہیں رکھتے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے.بہت ہی خوش نصیب لوگ ہیں وہ جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے، خدا کے کلام میں ذکر ہے.سوچیں تو سہی کہ کتنا عظیم مقام ہے اور اس مقام کو حاصل کرنے کے لئے آپ سے جو توقع کی جارہی ہے وہ ناممکن نہیں ہے اتنا بڑا کام نہیں ہے جو ہو نہ سکے.امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سے احمدی جو علمی لحاظ سے بہت کمزور ہیں صرف سچے اخلاص سے کوشش کرتے ہیں اور ہمہ تن مصروف رہتے ہیں تبلیغ کے کاموں میں اور سوچتے رہتے ہیں دعائیں کرتے رہتے ہیں ان کو ضرور پھل ملتا ہے اور بہت بہت بڑے اچھے اچھے پھل ملتے ہیں.ان کے علم کے مقابل پر نہیں بلکہ ان کے اخلاص کے مقابل پر ان کو پھل ملتا ہے علم کی بنا پر نہیں بلکہ اخلاص کی بنا پر ان کو پھل ملتا ہے.اس لئے کچھ نہ کچھ ایسی بات ضرور ہے یا عدم توجہ ہے یا کہیں کوئی اور کمزوری ہے یاد نیا داری کی دلچسپیاں ہیں جنہوں نے اپنی طرف توجہ مائل کی ہوئی ہے لیکن اگر آپ میں سے ہر شخص اس آواز پر لبیک کہنا چاہے تو ہر شخص کے لئے رستہ کھلا ہے.تبلیغ کے اتنے مواقع دنیا میں پیدا ہوتے رہتے ہیں کہ ایک شخص جو بیدار مغزی کے ساتھ رستے تلاش کرنا چاہے اللہ تعالیٰ خود اس کو رستے مہیا فرما دیتا ہے.رستہ چلتے کوئی سیر گاہ میں آپ جارہے ہوں سیر کر رہے ہوں سیر تو ہوگی ہی ساتھ لیکن کئی رستے میں ایسے دوست ملتے ہیں جن کے ساتھ علیک سلیک ہو جاتی ہے ان کے ساتھ محبت کا سلوک کیا جائے ، اخلاص کا سلوک کیا جائے تو فوری طور پر متوجہ ہوتے ہیں اور چونکہ عام طور پر دوسرے سیر کرنے والے ایک دوسرے سے غیر معمولی حسن و احسان کا سلوک نہیں کرتے اس لئے وہ غیر معمولی طور پر ایسے اخلاق کے مظاہرہ سے متاثر ہوتے ہیں اور اس وقت جو تعلقات قائم ہوتے ہیں اس کے نتیجے میں پھر تبلیغی روابط آگے بڑھ جاتے ہیں.اسی طرح رستہ چلتے بازار میں جاتے ہوئے ، شاپنگ کرتے ہوئے دیگر اپنے کاموں کے دوران جن لوگوں کو شوق پیدا ہو جائے وہ کچھ نہ کچھ نئے لوگ

Page 734

خطبات طاہر جلد ۶ 730 خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۷ء تلاش کر ہی لیا کرتے ہیں اور کچھ مشکل نہیں ہے اور سارا سال چند دوستوں کو چن لینا ان سے خاص طور پر پیار اور محبت کا سلوک کرنا رفتہ رفتہ ان کو یہ بتانا کہ میں اگر مختلف ہوں تو کیوں مختلف ہوں، اپنی ذات میں ان کی دلچسپی پیدا کرنا اور پھر اس ذاتی دلچسپی کو جماعتی دلچسپی میں تبدیل کر دینا یہ ایک عام بات ہے کوئی بہت مشکل کام نہیں ہے.اگر آپ کرنا شروع کریں گے اور دعا کریں گے تو آپ کو بھی آجائے گا.لیکن عموما میں نے دیکھا ہے کہ لوگ ایک بات کو سن کر اثر قبول کرتے ہیں اور پھر اگر کچھ عرصہ اس اثر سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو وہ اثر بھی مٹ جایا کرتا ہے پھر نیند آجاتی ہے پھر اپنی پہلی حالت پر وہ راضی ہو جاتے ہیں.تو جب بھی آپ اچھی بات سنتے ہیں وہ وقت ہوتا ہے اس پر عمل کرنے کا اسی وقت کچھ فیصلے کیا کریں، اسی وقت اپنے طرز عمل میں کچھ تبدیلیاں پیدا کیا کریں.اگر آپ ایسا کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نیک نصیحتیں آپ کے اندر نئی روحانی روئیدگی پیدا کریں گی اور آپ کے اندر سے نئی نئی ترقی کی شاخیں پھوٹیں گی ، آپ کی وجود میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی جن کے نتیجے میں ماحول میں آپ پاک تبدیلیاں پیدا کرنے کے اہل ہو جائیں گے.اسی طرح اور بھی کئی پہلوؤں سے یہ مثال تبلیغ کے معاملے میں حیرت انگیز طور پر صادق آتی ہے.زمینداروں کو تجربہ ہے کہ جب وہ کھیت میں گندم یا کوئی اور بیچ ڈالتے ہیں، اس پر محنت کرتے ہیں جیسا میں نے بیان کیا بعض حصے جواب نہیں دیتے.بعض جواب دیتے ہیں لیکن اگر وہ مسلسل محنت کرتے رہیں تو جو پہلے جواب نہیں دیتے تھے وہ بھی جواب دینے لگ جاتے ہیں.زمیندار جانتا ہے کہ جس کھیت کی طرف توجہ رکھی جائے وہ آہستہ آہستہ پہلے سے زیادہ Responsive ہونا شروع ہو جاتا ہے اور کچھ اور زمین کے ٹکڑے جو پہلے ناکارہ تھے شامل ہونے شروع ہو جاتے ہیں پھر بنے کٹ کٹ کے کھیت میں داخل ہونے لگ جاتے ہیں یہاں تک کہ درمیان میں چلنے کی جگہ بھی تھوڑی سی رہ جاتی ہے.کھیتوں کے درمیان جو ڈنڈیاں بنی ہوئی ہوتی ہیں اچھے زمیندار جانتے ہیں کہ آہستہ آہستہ وہ بھی کھیت میں داخل ہونے شروع ہو جاتے ہیں جو کلر زمین ہے اس کا کلر کم ہونا شروع ہو جاتا ہے جو لیول (Level) نہیں تھی پانی نہیں پہنچتا تھا پھر وہ لیول ہونی شروع ہو جاتی ہے.تو وہ کھیت جن پر محنت کی جائے وہ جواب دیتے ہیں اس لئے بار بار یاد دہانی کرانے کی ضرورت ہے اور بار بار محنت

Page 735

خطبات طاہر جلد ۶ کی ضرورت ہے.731 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء امراء کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے اور ان کی مجالس عاملہ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے ،سیکرٹریان تبلیغ کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے.صرف ایک دفعہ کی یا دو دفعہ کی نصیحت کافی نہیں ہے.آپ سب جو جماعت کے عہدیدار ہیں ، آپ کا جماعت سے واسطہ روز روز کا پڑنے والا ہے.میں ہر خطبے میں تو اس بات کو چھیڑ نہیں سکتا اور بہت سے مضامین ہیں جن کی طرف توجہ دینی پڑتی ہے.ساری دنیا کے بہت سے مسائل ہیں جن کو باری باری زیر نظر لا کر جماعت کے سامنے رکھنا ہوتا ہے اور نہ میں بار بار یہاں آسکتا ہوں اس لئے جو عہد یدار ہیں وہ ان الزراع میں داخل ہیں جو میرے ساتھ شامل کئے گئے ہیں ان کو مسلسل توجہ کرنی چاہئے.آپ نے دیکھا ہوگا بعض زمیندار خود کھیتوں پر حاضر نہیں رہ سکتے ان کی بڑی بڑی زمینیں ہوتی ہیں.آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن اچھے مینیجر رکھتے ہیں اور اچھے مینجر پھر ان کی نصیحتوں کو یا درکھتے ہیں جو وہ آکر ہدائتیں دے کر جاتے ہیں ان پر عمل کرواتے ہیں اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن بدن زمیندارہ کی حالت بہتر ہونی شروع ہو جاتی ہے اور اگر مینیجر کمزور پڑ جائیں یا بات سنیں اور بھلا دیں تو پھر وہ دورے بے کار ہو جاتے ہیں.حضرت مصلح موعودؓ کے ساتھ مجھے بھی کئی دفعہ بچپن میں سندھ جانے کا موقع ملا.آپ جا کر وہاں ایک ایک مہینہ ٹھہر تے تھے.بعض دفعہ چند دن صرف موقع ملتا تھا لیکن سب مینیجر کو، منشیوں کو بلا کر اور ان کے ساتھ محنت کرتے تھے ، ان کے ساتھ بیٹھتے تھے.ان کو سمجھاتے تھے کیا کرنا چاہئے ،کس طرح کرنا چاہئے اور جب واپس جایا کرتے تھے تو کچھ لوگ ان نصیحتوں کو پکڑ کر یا درکھتے تھے اور کچھ بھلا دیا کرتے تھے شکر کرتے تھے کہ دورہ ختم ہوا اور عزت رہ گئی اور نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ عزت نہیں رہتی تھی اگلے دورے میں پھر وہ ذلیل ہوتے تھے پھر ان کی ساری کمزوریاں سامنے آجایا کرتی تھیں اور وہ اثر کو مٹانے کے لئے اپنی کمزوریوں کو نظر سے اوجھل رکھنے کی خاطر اس وقت نمازوں میں بڑی توجہ کیا کرتے تھے اور بعض تو نمازوں میں خوب رویا بھی کرتے تھے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا گھر واپس آکے کہ مجھے پتا لگ جاتا ہے کس نے سارا سال کام نہیں کیا کیونکہ نماز میں جس کی زیادہ رونے کی آواز آتی ہے وہ سب سے نائما ہوتا ہے.وہ خدا کے سامنے رات کو روئے تو اور بات ہے مجھے سنا کر کیوں روتا ہے صاف پتا لگتا ہے

Page 736

خطبات طاہر جلد ۶ 732 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی نیکی سے میں متاثر ہو جاؤں گا اور دنیاوی کاموں میں کمزور یوں کو نظر انداز کر دوں گا لیکن وہ یہ نہیں سمجھتا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے اور طرح کی فراست بخشی ہے میں سب باتوں کو پہچانتا ہوں.چنانچہ وہ لوگ اپنی نشاندہی خود کر دیا کرتے تھے.چنانچہ زیادہ رونے والوں کی فائلیں زیادہ منگواتے تھے اور زیادہ تفصیل سے ان کی نگرانی فرمایا کرتے تھے اور وہ لوگ پکڑے جاتے تھے لیکن وہ لوگ جو سامنے رونے کی بجائے ویسے رویا کرتے تھے.ان کی کھیتیوں میں خدا کے فضل سے بڑی برکت پڑتی تھی یعنی خدا کے سامنے رونے کی تخفیف نہیں ہے.خدا کے سامنے رونے کی بجائے بندوں کے سامنے رونے کے معاملے کی تخفیف کی گئی ہے.چنانچہ ایک اور موقع پر حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ایک سال بہت برا سال گزرا ساری کھیتیاں خراب تھیں.مختلف اسٹیٹس تھیں تو مختلف اسٹیٹس میں فصلیں خراب تھیں لیکن ایک اسٹیٹ میں جب میں گیا تو وہ بہت اچھی فصل تھی اور وہاں کے مینیجر صاحب کو میں نے بلا کہ پوچھا کہ آپ نے کیا ترکیب کی ہے؟ ساری فصلیں خراب ہیں آپ کی فصل اچھی ہے.انہوں نے جواب دیا کہ میں نے ہر کھیت کے ہر ہر کونے پر رو رو کر سجدے کئے ہیں اس کے سوا مجھے کوئی اور ترکیب سمجھ نہیں آتی تھی.موسم خراب تھا حالات خراب تھے پانی وقت پر نہیں ملتا تھا اور کوئی پیش نہیں جاسکتی تھی ، میں کچھ کر ہی نہیں سکتا تھا ایک علاج مجھے سمجھ آیا کہ میں صبح جاتا تھا صرف کھیت کا معائنہ نہیں کرتا تھا بلکہ ہر کونے پر سجدے کر کے دعائیں کرتا تھا.آپ نے فرمایا دیکھو اللہ تعالیٰ نے ان دعاؤں کو کیسا قبولیت کا شرف بخشا اور انہی حالات میں بالکل ویسے ہی حالات میں سارے کھیت مرجھائے ہوئے اور کمزور اور ایک مینجر کے سارے کھیت ٹھیک اور غیر معمولی رونق والے.تو پہلے واقعہ میں جو مضمون ہے وہ یہ نہیں ہے کہ نعوذ باللہ خدا کی راہ میں رونے والوں کے معاملے کو تخفیف کی نظر سے دیکھا جائے.مراد یہ ہے کہ اگر خدا کی راہ میں رونے میں کوئی دکھاوا آجائے تو رونا بیکار ہو جایا کرتا ہے اور بجائے فائدے کے نقصان دے سکتا ہے لیکن حقیقت میں اگر خدا کی راہ میں رویا جائے تو کھیتوں میں بڑی برکت پڑتی ہے خصوصا ان کھیتوں میں جو خدا کی خاطر اُگائے جاتے ہیں.آپ کو جن کھیتیوں کی طرف میں بلا رہا ہوں وہ تو خدا کی راہ میں لگائی جانے والی کھیتیاں ہیں ان میں بے شک روئیں لیکن مجھے دکھا کر نہیں اللہ کے حضور تنہائی میں اور دعائیں کرنے

Page 737

خطبات طاہر جلد ۶ 733 خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۷ء کے نتیجے میں آپ دیکھیں انشاء اللہ آپ کے کھیتوں میں کیسی برکت پڑے گی اور کیسے وہ شاداب ہوں گے اور کیسے لہلہاتے ہوئے آپ کے دلوں کو خوش کریں گے.یہ مضمون جو ہے یہ ان سب الزراع پر صادق آتا ہے جو کسی ملک کی انتظامیہ سے تعلق رکھتے ہیں، مجلس عاملہ مرکزیہ ہو یا مقامی مجالس عاملہ ہوں کیونکہ میں نے تمام مجالس عاملہ کی ذمہ داری لگائی ہے کہ ہر مہینے وہ تبلیغ کے موضوع کو ضرور زیر بحث لائیں اور کوئی مجلس عاملہ ایسی نہ ہو جس میں مہینے ایک بار ایجنڈے پر یہ مضمون نہ ہو کہ ہم نے تبلیغ کو زیر نظر لانا ہے اور دیکھنا ہے کہ ہم کیا کوششیں کر رہے ہیں؟ ان کوششوں کا کیا نتیجہ نکلا رہا ہے؟ کتنے نئے احمدیوں کو ہم نے داعی الی اللہ بنا دیا ہے اور ایک نیا اعزاز بخشا ہے داعی الی اللہ بنا کے ان لوگوں میں شامل کر دیا ہے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور کتنے داعی الی اللہ ہیں جو کمزور تھے یا ان کو طریقہ نہیں آتا تھا ان کو ہم نے طریقے سمجھائے ان کی کمزوری کو دور کیا ان کی مدد کی یہاں تک کہ اللہ کے فضل کے ساتھ وہ پہلے سے بہتر داعی الی اللہ بن گئے.اس قسم کے مضامین پر غور کرنے کے لئے میں نے ہدایت کی تھی کہ ہر مجلس عاملہ ایک دفعہ اسے زیر غور لائے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا.بہت کم ممالک نے سنجیدگی سے اس ہدایت کی طرف توجہ دی ہے اور یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ اگر آپ خلیفہ وقت کی ہدایت ، میں ہوں یا کوئی بھی ہو جو بھی اس منصب پر فائز ہوتا ہے خواہ میرے جیسا کمزور ہی کیوں نہ ہواگر اس کی ہدایات کو آپ نظر انداز کریں یا تخفیف کی نظر سے دیکھیں گے تو آپ سے برکتیں اٹھ جائیں گی.میرا ساری زندگی کا تجربہ ہے یعنی میں تو خلیفہ ابھی چند سال ہوئے بنالیکن میں نے دو خلافتوں کو دیکھا ہے بڑے غور کے ساتھ اور قریب سے اور میرا ساری زندگی کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ خلیفہ وقت کی ہدایت پر اگر آپ اخلاص کے ساتھ سنجیدگی کے ساتھ توجہ دیں گے خواہ آپ کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے تو آپ کے کاموں میں غیر معمولی برکت پڑے گی اور اگر آپ ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے بھلائیں گے تو پھر آپ کے کاموں میں سے برکت اٹھ جائے گی.جماعت کو اس وقت بڑی تیزی کے ساتھ کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور کثرت کے ساتھ انز راع پیدا کرنے کی ضرورت ہے.اس لئے اس معاملے کی طرف زیادہ سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہئے.پھر اس مثال کو اور طرح سے بھی پرکھ کر دیکھیں حیرت انگیز وسعت اس مثال میں پائی جاتی

Page 738

خطبات طاہر جلد ۶ 734 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء ہے، ایک آیت ہے لیکن اتنا وسیع مضمون بیان ہوا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.بعض کھیتوں پر میں نے کام کر کے دیکھا ہے جب آپ محنت کرتے ہیں بار بار یا زیادہ کھاد ڈالتے ہیں تو بعض جگہ وہ کھا دضائع جاتی ہے اور بعض جگہوں پر فصل بہت زیادہ اگتی ہے اور ہر محنت میں وہی حصہ جواب دیتا ہے.چنانچہ بعض دفعہ بعض ٹکڑوں کا زرخیز ہونا باقی کھیت کے عیب بھی ڈھانپ لیتا ہے.چنانچہ میں نے بھی یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ جماعت کو جب بھی تبلیغ کی نصیحت کرتا ہوں زیادہ تر وہی لوگ دوبارہ سامنے آتے ہیں جو پہلے ہی تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں.زیادہ تر وہی لوگ اپنی محنت کو اور زیادہ بڑھا دیتے ہیں اور زیادہ کوشش کرتے ہیں، دعاؤں کو بڑھا دیتے ہیں اور ان کے پھل میں اضافہ ہوتا ہے.کم ایسا دیکھا گیا ہے کہ جو نہیں کرتے وہ شامل ہو جائے اور ان کی وجہ سے بعض دفعہ باقی کھیت کی جو کمزوری ہے وہ چھپ جاتی ہے.ابھی اس امریکہ کے دورے میں بھی میں نے محسوس کیا ہے کہ بعض جماعتوں میں چند آدمی ہیں جو کام کرے رہے ہیں اور ان کے کام کے نتیجے میں غیر معمولی طور پر کثرت کے ساتھ تبلیغ ہورہی ہے، کثرت کے ساتھ غیر احمدی مسلمان، کثرت کے ساتھ غیر مسلم عیسائی اور یہودی اور اس قسم کے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے جماعت کا لٹریچر پڑھ رہے ہیں جماعت کی مجالس میں شامل ہوتے ہیں اور جب بلایا جاتا ہے تو وہ شوق سے حاضر ہوتے ہیں لیکن اگر آپ غور سے دیکھیں تو وہ چند کام کرنے والے ہیں اور اکثر آدمی ابھی بھی کام نہیں کر رہے لیکن جماعت کے چہرے پر رونق آگئی دور سے دیکھنے والا یہی سمجھتا ہے کہ وہ جماعت غیر معمولی طور پر فعال ہوگئی ہے لیکن جس زمیندار نے دیکھنا ہے اپنی کھیتی کو وہ اس نظر سے نہیں دیکھا کرتا اگر اس نظر سے وہ بھی دیکھے تو اس کی کھیتی ترقی نہیں کر سکتی.اس کا زمیندارہ نشو و نما نہیں پاسکتا.زمیندار کو اور نظر سے دیکھنا پڑتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ کھیت کا کتنا حصہ خالی پڑا ہے.کتنے حصے نے محنت کا جواب نہیں دیا اور وہ بعض حصوں کی روئیدگی سے خوش ہو کر مطمئن نہیں ہوا کرتا بلکہ جو کمزور حصے ہیں ان کی طرف نظر دیکھ کر اور فکر مند ہوتا ہے جب تک وہ شامل نہ ہو جائیں وہ اطمینان نہیں پاتا لیکن بعض امراء یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ر پورٹوں میں بعض لوگوں کے زیادہ کام کو دکھا دیا جائے تو میں مطمئن ہو جاؤں گا.وہ سمجھتے ہیں کہ کہہ دیا جائے دیکھیں شکاگو کی جماعت ماشاء اللہ کیسا اچھا کام کر رہی ہے.واقعی اچھا کام کر رہی ہے لیکن چند کام کر رہے ہیں.اس

Page 739

خطبات طاہر جلد ۶ 735 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء بات کو وہ مجھ سے چھپا نہیں سکتے.جب میں دورہ کرتا ہوں ملتا ہوں لوگوں سے تو خدا تعالیٰ مجھے ساتھ دکھا دیتا ہے کہ کون لوگ ہیں کتنا کام کر رہے ہیں اور ساری جماعت اس محنت میں شامل ہے یا چند لوگوں کی محنت باقی جماعت کھا رہی ہے.پھر اسی طرح بعض شہروں میں کوئی کام نہیں ہورہا لیکن سارے ملک کی مجموعی محنت کے نتیجے میں خدا تعالیٰ جو فضل نازل فرمارہا ہے بعض امراء وہی دکھاتے ہیں حالانکہ ان کو یہ دکھانا چاہئے کہ میرے ملک میں کتنے حصے ابھی تک سوئے پڑے ہیں؟ کتنی کھیتیاں ہیں جو بیکار پڑی ہیں اور ان کے لئے میں کیا کر رہا ہوں؟ ان کے لئے میری مجلس عاملہ کیا کر رہی ہے اور میرے ساتھی کس طرح توجہ کر رہے ہیں؟ اس طرف سے نظر ہٹا کر چندلوگوں کی محنت پر خوش ہو جاتے ہیں.ان کی محنت پر خوش ہونا تو ضروری ہے لیکن ان کی خاطر ، ان کی محنت کے نتیجے میں دوسروں سے خوش ہونے کا کیا مطلب؟ یعنی جنہوں نے کام کیا ہے ان کی محنت پر تو بہر حال خوش ہونا ہے لیکن ان کی محنت کو باقی سب پر تقسیم کر کے سب سے برابرخوش ہو جانا یہ کوئی معقول بات نہیں.اس لئے ان کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.لیکن بہر حال میں نے دیکھا ہے کہ جہاں بڑی رونق دکھائی دیتی ہے تبلیغ کے لحاظ سے ان لوگوں میں بھی جب قریب سے جا کر آپ مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک جماعت کا اکثر حصہ فعال نہیں ہے.بہت چند گنتی کے لوگ ہیں ہر جماعت میں جو محنت کر رہے ہیں اور ان کے پھل کو اس ساری جماعت کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اور ساری جماعت پھر فخر کرتی ہے کہ ہاں ہم نے یہ کام کیا ہے حالانکہ چند ہیں جو کام کرنے والے ہیں.اس ضمن میں ایک مثال میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ میں سے جو اچھے ہیں جو آپ کی جماعت کی طرف منسوب ہوتے ہیں ان کا پھل بھی آپ اس لحاظ سے بے شک کھائیں کہ وہ آپ کے ہیں لیکن جو اپنا پھل کھانے کا مزہ ہے وہ بالکل اور چیز ہے.دوسرے کی کمائی پر پلنا بھی بعض دفعہ جائز ہوتا ہے لیکن جو اپنی کمائی پر پلنا ہے وہ بالکل مختلف نوع کی چیز ہے.ایک واقعہ حضرت مصلح موعود نے بھی کئی دفعہ سنایا میں بھی پہلے سنا چکا ہوں لیکن ہر دفعہ اس میں ایک لذت پائی جاتی ہے، وہ پرانا نہیں ہوتا کیونکہ اس میں گہری حکمت کا راز ہے ، وہ میں آج آپ کو پھر سناتا ہوں.ایک بزرگ کے متعلق جو تاجر بھی تھے روایت ملتی ہے کہ ان کا بیٹا جب جوان ہوا تو انہوں نے اس کو ایک تجارت کے قافلے کے ساتھ ایک بیرونی ممالک کے سفر کے لئے تیار کیا بہت سا

Page 740

خطبات طاہر جلد ۶ 736 خطبہ جمعہ ۶ / نومبر ۱۹۸۷ء سامانِ تجارت اس کے ساتھ کیا اور کہا کہ جاؤ اور محنت کرو اور کماؤ اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر پھر واپس آکر میرے ساتھ مل کر تجارتوں میں حصہ لو.اتفاق ایسا ہوا کہ پہلی ہی منزل پر جنگل میں جب اس قافلے نے پڑاؤ کیا تو اس نے ایک عجیب نظارہ دیکھا.اس نے دیکھا کہ جس درخت کے نیچے یا اس کی شاخوں پر جیسی بھی صورت تھی وہ آرام کر رہا تھا اس کے قریب ہی ایک شیر نے ایک شکار کیا اور اس کے بہترین حصے کھا کر باقی سارا جسم جانور کا وہیں چھوڑ کر وہ کہیں چلا گیا.جب وہ شیر چلا گیا تو اس کے پیچھے ایک لگڑ بگڑ جس کی پچھلی ٹانگیں ماری ہوئیں تھیں اور وہ خود شکار نہیں کر سکتا تھا وہ ایک جھاڑی سے نکلا اپنی ٹانگیں گھسیٹا ہوا آہستہ آہستہ اس چھوڑے ہوئے شکار کی طرف بڑھا اور اس نے اپنا پیٹ بھرا اور پھر وہ بھی جنگل میں غائب ہو گیا.یہ نظارہ دیکھ کر اس نے وہیں سے واپسی کا فیصلہ کیا اور واپس جا کر اپنے باپ سے کہا کہ سب تجارتیں بریکار اور بے معنی ہیں میں نے تو ایک ایسا نظارہ دیکھا ہے جس سے مجھے یقین ہو گیا ہے کہ رازق خدا ہے اور وہ سب کو رزق دیتا ہے خواہ وہ رزق کمانے کے قابل ہو یا نہ قابل ہو.اس لئے میرا تو دل اچاٹ ہو گیا ہے دنیا کی تجارتوں سےاب میں سب کچھ چھوڑ کر صرف خدا کی یاد میں بسر کرنا چاہتا ہوں.ان کے والد بھی بہت بڑے بزرگ تھے خدا سے بہت محبت کرتے تھے لیکن زیادہ صاحب عرفان تھے ، بیٹے کی نسبت بہت زیادہ صاحب عرفان تھے.انہوں نے ساری بات سن کر اسے جواب دیا کہ مجھ سے یہ بات پوشیدہ تو نہیں میں جانتا ہوں کہ خدا رازق ہے مگر میں یہ چاہتا تھا کہ خدا تمہیں وہ شیر بنائے جس کے مارے ہوئے رزق سے دنیا فائدہ اٹھائے وہ لگڑ بگڑ نہ بنائے جس کو اپنی بقا کے لئے شیروں کے شکار کی ضرورت ہو.یہ بات اس کے دل میں ایسی پیوستہ ہوئی کہ اس دن سے اس کی زندگی پر ایک انقلاب آ گیا.آپ خدا کے وہ شیر ہیں آپ میں سے ہر ایک کا ذکر قرآن کریم میں ان شیروں کے طور پر ملتا ہے جنہوں نے خدا کی راہ میں کچھ Produce کرنا ہے کچھ پیدا کرنا ہے اور بھیک منگے نہیں بنا لوگوں کے شکار پر زندہ نہیں رہنا بلکہ اپنا شکار خود پیدا کرنا ہے.آپ میں سے ہر ایک کو زراع کی جماعت میں داخل ہونا چاہئے اور ہر ایک کو خدا کی راہ میں کچھ پیدا کرنا چاہئے تا کہ لوگ آپ کے شکار سے فائدہ اٹھا ئیں آپ لوگوں کے مارے ہوئے شکار کی طرف نظریں نہ جائیں.اس شان کی جماعت بننا ہے آپ کو اس لئے یہ ٹھیک ہے کہ آپ کی جماعت میں چند لوگ

Page 741

خطبات طاہر جلد ۶ 737 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء بھی اگر کام کریں گے تو ساری جماعت کے چہرے پر رونق آئے گی لیکن آپ ان کی پیدا کردہ رونق کے محتاج ہوں گے، ان کی وجہ سے آپ کا نام بلند ہورہا ہو گا ان لوگوں میں کیوں نہیں شامل ہوتے جن کی وجہ سے دوسروں کے نام بلند ہوا کرتے ہیں.اس لئے ہر جماعت کے فرد کو اس پہلو سے اپنا جائزہ لینا چاہئے اور واقعہ اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں کہ اگر آپ اپنے طور پرخدا کی راہ میں کھیتی لگانے والوں میں شامل ہو جائیں گے تو اس جماعت میں داخل ہوں گے جن کا ذکر ان آیات میں ملتا ہے کہ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ حمد اللہ کا رسول ہے کس شان کا رسول ہے اور کس شان کے ساتھی اس نے پیدا کر دیئے ہیں کہ یہ یہ ان کی صفات ہے اور دوسرے دور میں بھی اس کے کچھ ساتھی پیدا ہوں گے جو الزراع ہوں گے خدا کی راہ میں کھیتی لگانے والے ہوں گے اور ان کی کھیتیاں نشو ونما پائیں گی اور اس کثرت سے وہ پھیلیں گے کہ غیر کے لئے غضب کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.یہ بھی مضمون ہے اس میں غیر کا غضب بیکار ہو جایا کرتا ہے اگر نشو ونما تیز ہو جائے اور اگر نشو ونما کمزور رہے تو پھر غضب کا نقصان بھی ضرور پہنچا کرتا ہے.تو نشو ونما کی تیزی کے نتیجے میں صرف غضب کا ذکر فرمایا اس کے نقصان کا ذکر نہیں فرمایا.اگر جماعت احمد یہ اس تیزی سے پھیلنا شروع ہو جائے تو ناممکن ہے کہ کوئی حاسد کوئی جماعت کا دشمن جماعت کو کوئی نقصان پہنچا سکے.کثرت کے ساتھ اور تیزی ساتھ پھیلنے والی جماعتوں کو کوئی دنیا میں نقصان نہیں پہنچا سکتا جو اپنی جگہ کھڑی ہو جاتی ہیں، جو کمزور پڑ جاتی ہیں نشو ونما بند کر دیتی ہیں ان کو نقصان پہنچتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کی اس مثال کا اطلاق اس پہلو سے بھی کھیتی باڑی کے اوپر خوب صادق آتا ہے.وہ پودے جو بڑھ رہے ہوتے ہیں ان کے اوپر بھی کیڑے مکوڑے بیٹھتے ہیں لیکن ان کا نقصان نہیں کر سکتے جن کی صحت اندورنی طور پر اچھی ہو ان کے اوپر بھی دوسرے کیڑے حملہ کرتے ہیں لیکن ان کا نقصان نہیں کر سکتے لیکن جو پودے اندرونی طور پر کمزور پڑ جائیں جن کی نشو و نما کھڑی ہو جائے Stinted Growth جس کو کہتے ہیں وہ رک رک کر بڑھیں یا ایک جگہ کھڑے ہوں اس کثرت سے کیڑے مکوڑے ان پر حملہ کرتے ہیں کہ ان کی رہی سہی جان بھی ختم کر دیتے ہیں.تنے سے بیماری شروع ہوتی ہے جڑوں تک اتر جاتی ہے، جڑوں سے شروع ہوتی ہے تو سارے تنے کو کھا جاتی ہے.تو

Page 742

خطبات طاہر جلد ۶ 738 خطبہ جمعہ ۶ نومبر ۱۹۸۷ء غالبا یہ وجہ ہے کہ قرآن کریم نے دشمن کے غضب کا تو ذکر فرمایا اس کے نقصان کا کوئی ذکر نہیں فرمایا اس لئے کہ مثال ایک ایسی کھیتی سے دی ہے جو بڑی تیزی سے بڑھ رہی ہے، روز روز نئے رنگ دکھا رہی ہے نئی کونپلیں پھوٹ رہی ہیں اور اس کے تنے میں نئی توانائی پیدا ہوتی چلی جارہی ہے.اس پہلو سے اگر جماعت احمدیہ ترقی کرنا شروع کرے اور اس کا انحصار ہر فرد جماعت پر ہے یہ یادر رکھنے والی بات ہے عمومی طور پر جماعت احمدیہ سے نہیں ہر فرد جماعت سے.اگر ہر فرد جماعت محمد رسول کریم ﷺ کی جماعت میں داخل ہونا چاہے اور ان لوگوں میں شامل ہونا چاہے جو آخرین میں ہو کر بھی پہلوں سے مل گئے تھے تو یہ وہ راز ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سمجھایا ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت ہر شر اور ہر خطرے سے آزاد ہو جائے گی کوئی دنیا کی طاقت آپ کو سمیٹ نہیں سکتی کسی جگہ.سارا کینیڈا خالی پڑا ہے، سارا امریکہ خالی پڑا ہے.بہت سے لوگ ہیں یہاں قابل توجہ ان کی طرف توجہ کرنی چاہیئے اوراکثر لوگ ان کی طرف توجہ نہیں کر رہے.امریکہ کی جماعت کو میں نے بار بار سمجھایا اور ایک خطبے میں خاص طور پر اس طرف متوجہ کیا کہ بہت سے ایسے امریکن ہیں جن کو کالے امریکن کہا جاتا ہے اور ہم ان کو Afro-American کہتے ہیں یعنی افریقائی امریکن تاکہ وہ کالے کا لفظ جو اپنے اندر داغ رکھتا ہے اس سے ان کو صاف کیا جائے ویسے تو رنگ میں کوئی برائی نہیں لیکن کیونکہ کالے لفظ کے ساتھ ایک تذلیل کا معنی شامل کر دیا گیا ہے اس لئے ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ان کو کالے افریقین کہا جائے بلکہ کہتے ہیں افریقائی امریکن.جو افریقی باشندے ہیں اور آغاز کے لحاظ سے لیکن بعد میں امریکہ میں آباد ہو کر امریکن بن گئے.میں نے ان کو سمجھایا کہ آپ نے اس قوم کی طرف توجہ ہی نہیں کی نتیجہ بہت سے بعد میں آنے والے ان کے بہت سے حصے کو اپنے ساتھ شامل کر گئے حالانکہ وہ آپ کے تھے پہلے، آپ تھے پہلے جو امریکہ میں پہنچے آپ کے یہاں امریکہ میں آنے کے نتیجے میں اسلام داخل ہوا ہے یہاں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سب سے پہلا اسلام کا مشن جس جماعت کو کھولنے کی توفیق ملی وہ جماعت احمد یہ تھی لیکن عدم توجہ کے نتیجے میں آپ نے بہت عظیم الشان مواقع اپنے ہاتھ سے گنوا دیے اب بھی توجہ کریں اور یہ وہ زمین ہے یعنی یہاں بھی اسی آیت کے مضمون کا اطلاق پاتا ہے جو زرخیز ہی نہیں بلکہ بہت جلد جلد بہترین جواب دینے والی زمین ہے، لبیک کہنے والی زمین ہے تھوڑا کام کریں آپ افریقین امریکنوں

Page 743

خطبات طاہر جلد 4 پر بہت بڑے نتیجے نکلتے ہیں.739 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء تو جوز زمینیں زرخیز اور نتیجہ خیز ہیں جو تعاون کرنے والی زمینیں ہیں ان کو آپ چھوڑ رہے ہیں اور سفید چمڑی کے پیچھے پڑ گئے ہیں کہ سفید ہو گا تو آپ کو عزت ملے گی.عزتیں کون سی ہیں جو دنیا سے تعلق رکھنے والی ہیں.فَاِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيْعًا ( النساء:۱۴۰) عزتیں تو ساری کی ساری خدا کی ہیں اور خدا کے ہاتھ میں ہیں جو قوم خدا کے نام پر لبیک کہتی ہے ، نیک باتوں کو توجہ سے سنتی ہے اور جلد آگے بڑھتی ہے وہی عزت والی قوم ہے.اسی کے آنے سے آپ کی عزت بڑھے گی جو توجہ نہیں کرتے ان کی طرف آپ کا توجہ دینا قرآن کی نصیحت کے منافی بات ہے، قرآنی تعلیم کے منافی بات ہے.چنانچہ قرآن کریم میں وہ سورۃ موجود ہے جس میں اس میں اس مضمون کو بیان فرمایا:.(عبس ایم) عَبَسَ وَتَوَلَّيلِ أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزِّى أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنْفَعَهُ الذِّكْرُى اگلا ایک ٹکڑا آیت کا یاد نہیں رہا مگر مضمون یہ ہے کہ خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کو یہ سمجھا رہا ہے کہ ایک موقع پر جب حضور اکرم ﷺ ایک سردار مکہ سے تبلیغ میں مصروف تھے ایک اندھا صحابی حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس کے آنے کے نتیجے میں رسول اکرم ﷺ نے اس کی طرف توجہ فرمائی ہوگی نتیجہ یہ نکلا کہ جس سردار سے آپ بات کر رہے تھے اس نے تیوری چڑھائی اور اپنے چہرے پر ناپسندیدگی کے آثار ظاہر کئے.یہ وہ تفسیر ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمائی.عام طور پر جو مسلمان مفسرین ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ جب وہ اندھا آیا تو آنحضرت ﷺ نے ناپسند فرمایا کہ میں تو ایک سردار سے بات کر رہا ہوں یہ معمولی آدمی اور پھر ہے بھی اندھا یہ آ کر مجھے بار بار تنگ کر رہا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے گویا کہ رسول کریم ﷺ سے ناراضگی کا اظہار فرمایا کہ اس کے آنے پر تم نے تیوری چڑھائی اور ساتھ یہ سمجھایا کہ جو توجہ کرتا ہے اس کی طرف توجہ ہونی چاہئے جو توجہ نہیں کرتا اس کی طرف توجہ نہیں ہونی چاہئے.حضرت مصلح موعودؓ نے جیسے کہ میں نے بیان کیا ہے اس مضمون کو اور رنگ میں سمجھا اور اور رنگ میں بیان فرمایا.آپ کی تفصیل کے مطابق عبس کا لفظ نا پسندیدہ لفظ ہے اور آنحضرت ﷺ پر اطلاق پاہی نہیں سکتا.آپ نے یہ تفسیر فرمائی کہ خدا تعالیٰ

Page 744

خطبات طاہر جلد ۶ 740 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء یہ بتاتا ہے کہ وہ سردار جس سے حضور ﷺ محو گفتگو تھے اس نے نا پسند کیا کہ ایک ادنی آدمی آیا ہے اور اس کی ناپسندیدگی ظاہر کرتی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس کی طرف توجہ کی ہوگی.اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے بیان فرماتے ہوئے تمام دوسرے مسلمانوں کو یہ نصیحت فرمائی ہے کہ جو تمہاری طرف توجہ کرے تم اس کی طرف متوجہ ہوئے کرو، اس کو لطف کی نظر سے دیکھا کرواس سے پیار کا سلوک کیا کرو.جو تمہاری طرف متوجہ نہیں ہوتا اس کے اوپر وقت ضائع کرنے کی بجائے متوجہ ہونے والے کو تر جیح دو.اس مضمون کو میں نے امریکہ میں بھی بیان کیا اور آپ کے سامنے بھی رکھتا ہوں.وہ قومیں جو پسماندہ قومیں کہلاتی ہیں وہ لوگ جن کو لوگ تحقیر کی نظر سے دیکھتے ہیں عموما دیکھا گیا ہے کہ جب ان تک دین کا پیغام پہنچایا جائے تو وہ جلدی جواب دیتے ہیں جلدی لبیک کہتے ہیں.تو یہ سب خدا کی زمینیں ہیں خدا کی نظر میں کوئی بھی گھٹیا اور پسماندہ نہیں ہے اور کوئی بھی ذلیل نہیں ایک ریڈ انڈین اگر آپ کی بات کا جواب دے تو وہی خدا کی نظر میں معزز ہے.اس لئے آپ زمینوں کی تلاش میں بھی عقل اور ہوش سے کام لیا کریں.جو جلد جواب دیتے ہیں جلد لبیک کہتے ہیں جلد تعاون کرتے ہیں ان کی طرف زیادہ توجہ دیں.جو بار بار بات سننے کے باوجو د رسما توجہ کرتے ہیں اور حقیقی طور پر تبدیلی پیدا نہیں کرتے ان کو نظر انداز کر دیا کریں یا معمولی توجہ دیا کریں اسی نسبت کے لحاظ سے.بہر حال یہ مضمون تو بہت ہی وسیع ہے نہ ختم ہونے والا ہے.میں آخر پر آپ کو یہی نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ بھی بار بار آپ کے سامنے پروگرام رکھے جاتے ہیں ان کو توجہ سے سنا کریں انہیں قبول کیا کریں اور عمل کے سانچوں میں ڈھالا کریں اگر آپ یہ کریں گے تو آپ کو تکلیف نہیں ہوگی ، آپ کی زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا ہوں گی ، آپ کو زندہ رہنے کا زیادہ لطف آئے گا، آپ کو ایک موقع پر یہ محسوس ہوگا کہ آپ کی پہلی زندگی بریکار اور بے معنی تھی.اب جو زندگی آپ نے بنائی ہے وہ بہت زیادہ پر لطف ہے اور بہت زیادہ معنی خیز ہے با مقصد.ہے اس پہلو سے وہ لوگ جو دعوت الی اللہ کی طرف توجہ نہیں دیتے وہ بیچارے قابل رحم ہیں بالکل اسی طرح قابل رحم ہیں جس طرح ایک کمر والا کھیت یا کسی اور بیماری کے نتیجے میں ایسا کھیت جو بیج کو اگانے کی بجائے اپنے اندر سمیٹ لیا کرتا ہے.نصیحت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے اسے ضائع کر

Page 745

خطبات طاہر جلد ۶ 741 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء دیتا ہے.ان کھیتوں کی طرف جب نظر پڑتی ہے تو آپ دیکھیں آپ کو ان کے اوپر یا غصہ آئے گا یا رحم آئے گا لیکن جو کھیت زرخیز ہوں ان کی تو کیفیت ہی اور ہوتی ہے، ان کو دیکھ کر نظر تازہ ہو جاتی ہے.پہاڑوں کی طرف دیکھیں جن کو خدا تعالیٰ نے رونق بخشی ہے سرسبزی اور ہریاول کی ان کی طرف دیکھنے سے اور لطف آتا ہے جو بنجر اور ویران ہیں ان کی طرف دیکھ کر اور قسم کے خیالات اور جذبات پیدا ہوتے ہیں.تو اس لحاظ سے جماعت کا وہ حصہ جو ابھی زرخیز نہیں ہوا، میری نظر میں اس کی حالت قابل رحم ہے.ان کو خود نہیں پتا کہ ان کی زندگی کیسی بے معنی ہے جب وہ زرخیز ہو جائیں گے جب وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نشو و نما کے آثار ظاہر کریں گے تو وہ خود محسوس کریں گے کہ ان کے اندر ایک عظیم الشان انقلاب پیدا ہو چکا ہے، ان کی زندگی پہلے سے بہت زیادہ پر لطف ہو جائے گی.اس لئے اپنے اوپر رحم کریں اور ان نصیحتوں کی طرف توجہ دیا کریں اور ساری جماعت کو بالعموم چاہئے کہ اس معاملے میں ایک دوسرے کو نصیحت کرتی رہے اور یاد کراتی رہے اگر اس طرح کا رد عمل آپ نصیحتوں پر دکھا ئیں گے تو انشاء اللہ روز بروز آپ کی حالت تبدیل ہونی شروع ہو جائے گی پھر ہر سال آپ کے اندر حیرت انگیز تبدیلیاں پیدا ہوں گی توانائی کا احساس ایک بہت ہی پُر لطف احساس ہے کمزوری کا احساس اگر وہ دعاؤں میں نہ بدلے تو نہایت ہی تکلیف دہ احساس ہے.اس لئے اپنے کمزوری کے احساس دعاؤں کے نتیجے میں اور نیک اعمال کے نتیجے میں توانائی کے احساس میں تبدیل کریں آپ کے اوپر دنیا میں ورنہ کوئی رحم نہیں کرے گا ، آپ کو ہمیشہ تذلیل کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.آپ دنیا میں کوئی مقام نہیں پیدا کر سکتے جب تک آپ ان رستوں پر نہ چلیں جو توانائی حاصل کرنے کے رستے ہیں.یہ دنیا اخلاق کی دنیا نہیں ہے جس میں آپ زندہ ہیں.یہ دنیا محض جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی دنیا ہے، اس اصول کی دنیا ہے اور وہی قومیں پنپتی ہیں اور عزت پاتی ہیں جو توانا ہو جایا کرتی ہیں یا توانائی کے رستوں پر چل پڑتی ہیں.جو قو میں کمزور رہتی ہیں ان کو شاید بعض لوگ رحم کی نظر سے دیکھتے ہوں ورنہ اکثر تو ان کو کھا جانے کی سوچتے ہیں ، ان کو اور زیادہ ذلیل ورسوا کرنے کی سوچتے ہیں.اس ملک میں جو کینیڈا ہے یا امریکہ، شمالی امریکہ میں اور جنوبی امریکہ میں بھی آپ نے دیکھا ہے کہ کمز ور تو میں کس طرح صفحہ ہستی سے ایسے غائب ہو گئیں.اس لئے توانائی کا حاصل کرنا ضروری ہے ان رستوں پر چل کر جن رستوں پر خدا نے چلنے کی تلقین

Page 746

خطبات طاہر جلد ۶ فرمائی ہے.742 خطبہ جمعہ ۶ رنومبر ۱۹۸۷ء اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم اپنے اندر وہ پاک تبدیلیاں پیدا کریں کہ جس کے نتیجے میں ہم روز بروز بڑھنا شروع کریں پھولنا اور پھیلنا اور پھلنا شروع کریں ہمارے اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نشو ونما کی ایک انقلابی کیفیت ظاہر ہو جو پہلے سے بالکل مختلف ہو جائے ہمارے بچوں کے چہرے پر بھی ان حالات کو دیکھ کر رونق آجائے ، وہ محسوس کریں کے وہ ایک طاقتور جماعت سے تعلق رکھتے ہیں، بڑھنے اور پھیلنے والی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں.یہ تبدیلیاں اگر آپ کے اندر پیدا ہو جائیں گی تو آپ کو زندگی کے نئے لطف آئیں گی جن سے پہلے آپ نا آشنا ہیں خدا تعالیٰ کرے کہ جلد تر ایسا ہو.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا:.نمازیں جمع ہوں گی ظہر کے بعد ساتھ ہی عصر کی نماز پڑھی جائے گی.میں چونکہ مسافر ہوں میں بھی قصر کروں گا اور وہ سب جو مسافر ہیں وہ بھی میرے ساتھ قصر کریں گے اور مقامی لوگ بغیر سلام پھیرے چار رکعتیں پوری کریں گے.یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ بہت سے بچے ناواقف ہوتے ہیں بعض نوجوان بھی وہ سلام پھیر دیتے ہیں ساتھ ہی ،اس لئے بار بار بتانا پڑتا ہے.

Page 747

خطبات طاہر جلد ۶ 743 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء دین حق کا عالمی مزاج قائم کریں اور حبل اللہ یعنی خلافت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الظفر نیویارک امریکہ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُم مِّنْهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ وَأُولَيكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمُ ) ( آل عمران : ۱۰۴_۱۰۶) اور فرمایا: امریکہ سے روانگی سے پہلے یہ میرا آخری خطبہ ہے جو اس دورے میں میں یہاں دینے کے لئے کھڑا ہوا ہوں.اس دوسرے کے تجربے کی روشنی میں جس نے مجھے بہت سی امریکہ کی احمدی

Page 748

خطبات طاہر جلد ۶ 744 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء جماعتوں کے اکثر ممبران سے ملنے کا موقع ملا.میں آپ کو بعض نصائح کرنی چاہتا ہوں اور میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ان نصیحتوں کو آپ مضبوطی سے پکڑ لیں گے اور اگر آپ ایسا کریں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت آپ کو یا اس پیارے دین کو جس کے ساتھ آپ چمٹے ہوئے ہیں یعنی دین اسلام اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی.ان نصائح کا خلاصہ جو میں آج آپ کے سامنے رکھنی چاہتا ہوں ان آیات میں موجود ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے.اس لئے تفصیلی تبصرے سے پہلے میں ان آیات کا لفظی ترجمہ آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.لفظی مگر با محاورہ یعنی یہ ترجمہ تفسیر صغیر سے لیا گیا ہے.فرمایا:.اور تم سب کے سب اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور پراگندہ مت ہو اور اللہ کا احسان جو اس نے تم پر کیا ہے یاد کرو کہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں محبت پیدا کر دی جس کے نتیجے میں تم اس کے احسان سے بھائی بھائی بن گئے اور تم آگ کے ایک گڑھے کے کنارے پر تھے مگر اس نے تمہیں اس سے بچالیا.اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے ذریعے اپنی آیات کو بیان فرماتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ اور تم میں سے ایک ایسی جماعت ہونی چاہئے جس کا کام صرف یہ ہو کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور نیک باتوں کی تعلیم دے اور بدی سے روکے اور یہی لوگ ہیں جو کامیاب ہونے والے ہیں اور تم ان لوگوں کی طرح نہ بنو جو کھلے کھلے نشانات آچکنے کے بعد پھر پراگندہ ہو گئے اور انہوں نے باہم اختلاف پیدا کرلیا اور انہی لوگوں کے لئے اس دن بڑا عذاب مقدر ہے.ان پاکیزہ نصائح کی روشنی میں جو قرآن کریم کے الفاظ میں آج میں نے آپ کی سامنے پیش کی ہیں.میں ان میں سے بعض نصائح کو زیادہ کھول کر اور اپنے تجربے کی روشنی میں بعض پہلوؤں سے اجاگر کر کے آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پہلی نصیحت یہ فرمائی گئی ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو سب کے سب مضبوطی سے پکڑلو.حبل اللہ سے کیا مراد ہے؟ اس کے متعلق بار ہا جماعت کے علماء کی طرف سے اور اس سے

Page 749

خطبات طاہر جلد ۶ 745 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء پہلے خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی طرف سے جماعت کے سامنے یہ بات کھولی گئی ہے کہ حبل اللہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کی طرف سے پیغام لے کر آتے ہیں اور اول طور پر حبل اللہ سے مراد اللہ کے نبی ہیں اور اللہ کے پیغمبر ہیں.وہی وہ رسی ہے جس کو مضبوطی سے اجتماعی طور پر پکڑنے کی ان آیات میں نصیحت فرمائی گئی ہے.نبوت کے بعد یہ رسی خلافت کے نام سے موسوم ہوتی ہے اور اسی پہلو سے خلفاء کے ساتھ مضبوطی سے اپنا تعلق قائم کرنا جماعتی زندگی کے لئے انتہائی ضروری ہے اور اس تعلق میں بیچ میں کوئی اور واسطہ بیان نہیں فرمایا گیا اور اس تعلق میں واقعہ عملی زندگی میں بھی کوئی اور واسطہ ہمیں دکھائی نہیں دیتا.خلیفہ وقت اور احمدی مسلمان ان کے درمیان ایک ایسا تعلق ہے جس میں کوئی نظام جماعت اور کوئی نظام جماعت کا نمائندہ حائل نہیں ہوتا اور یہی وہ تعلق ہے جو سب سے پہلے نبی اپنے اور اپنے متبعین کے درمیان قائم فرماتا ہے اور اسی تعلق کو جاری رکھنے کے لئے نظام خلافت ہے.یہ ایک روحانی تعلق ہے اگر اس بلا واسطہ تعلق کی نسبت سے آپ اس مضمون کو سمجھیں گے اور اس تعلق کی حفاظت کریں گے تو آپ بہت سے خطرات اور خدشات سے محفوظ رہیں گے.بالعموم جماعت میں جو رخنہ ڈالنے کی کوششیں کی جاتی ہیں ان میں خلیفہ وقت کو پہلے سامنے نہیں رکھا جاتا بلکہ خلیفہ وقت کے نمائندوں پر حملہ کیا جاتا ہے.خلیفہ وقت کے نمائندوں کو اپنے تخریبی Criticism یا الزامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ ہمارا خلیفہ وقت سے تو تعلق ہے یہ لوگ جو بیچ میں حائل ہیں انہوں نے صحیح نمائندگی نہیں کی، یہ لوگ جو بیچ میں حائل ہیں ان کا کردار ایسا نہیں کہ ان کے ہوتے ہوئے نظام جماعت سے وفا کی جائے.چنانچہ اکثر فتنوں کا آغاز اسی طریق پر ہوا ہے.قرآن کریم یہ مضمون بیان فرما رہا ہے کہ تمہارا بنیا دوں سے تعلق ہے اور جن کا بنیادوں سے تعلق ہو شاخوں کے خراب ہونے سے وہ تعلق ٹوٹ نہیں جایا کرتا.اس لئے جڑوں سے اپنا تعلق مضبوط کرو.نبوت سب سے پہلے ہے جس کا تعلق نبوت کے ساتھ مضبوط ہے اس کو کوئی خطرہ نہیں.نبوت کے بعد جو خلافت نبوت کی نمائندگی کر رہی ہے اگر کسی کا براہ راست اس خلافت سے تعلق ہے تو اس کو کوئی خطرہ نہیں ہے اور یہی وہ بنیادی نصیحت ہے جو اس آیت میں فرمائی گئی اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بھی آگے ہماری سوچ کو خدا تعالیٰ کی طرف منتقل فرما دیا گیا جب یہ کہا گیا کہ حبل اللہ کو پکڑو.

Page 750

خطبات طاہر جلد ۶ 746 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء حبل اپنی ذات میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی.حبل تو یعنی رسی کسی جگہ باندھی جاتی ہے اور جس چیز سے وہ رسی باندھی گئی ہے اس چیز نے اس رسی میں کچھ صفات پیدا کرنی ہیں.حبل اللہ کہہ کر نبوت سے انسانوں کے تعلق کا فلسفہ بیان فرما دیا گیا.یہ فرمایا گیا کہ حقیقت میں اللہ ہی ہے جس کا تعلق نبوت سے اللہ کے واسطے سے ہے اس کے تعلق کو بھی وہ خطرہ نہیں ہے.جس کو خدا سے نبوت کی وجہ سے تعلق ہے وہ ہمیشہ خطرے میں رہے گا.اس لئے اگر نبوت سے اپنا تعلق جوڑنا ہے تو اللہ کے تعلق کو فوقیت دو اور اللہ کے تعلق کے نتیجے میں نبوت سے محبت کرو اور یہی مضمون پھر آگے خلافت میں جاری ہوگا اور یہی مضمون پھر آگے خلافت کے نمائندوں میں جاری ہوگا.ایک مسلمان بزرگ ہیں جن کے اوپر آج کے زمانے میں کسی کو فتویٰ لگانے کی جرات نہیں لیکن اس عظیم بزرگ نے ایک ایسا شعر کہا جس شعر کے متعلق اس زمانے کے بہت سے علماء نے کفر کا اتہام لگایا اور یہ کہا کہ یہ شعر کہنے والا سچا مومن نہیں ہو سکتا.بظاہر اس شعر میں ایک نہایت ہی خطرناک بات کی گئی ہے جس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ نبوت کی گستاخی ہورہی ہے.وہ شعر یہ ہے:.پرواہ ہے.پنجه در چه خدا دارم پرواه مصطفی دارم (حوالہ ) کہ میرا پنجہ خدا کے پنجے میں ہے، میرا ہاتھ خدا کے ہاتھ میں ہے.مجھے مصطفی امیہ کی کیا یہ ظاہری طور پر ایک انتہائی شدید گستاخی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی امی کی کیونکہ ظاہری معنی یہ نظر آتے ہیں کہ کہنے والا یہ کہتا ہے کہ میرا براہ راست خدا سے تعلق ہے محمد مصطفی ہے سے ہو یا نہ ہو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.حالانکہ یہ مضمون نہیں ہے وہ ایک بہت ہی بڑے عارف باللہ تھے.وہ یہ بتانا چاہتے تھے کہ وہ شخص جس کا خدا سے تعلق مضبوط ہومحمدﷺ سے اس کا تعلق لا زما ہوگا اور اس تعلق کو کوئی خطرہ نہیں ہے پھر.جس کو محمد سے تعلق ہے اور اس کی وجہ سے خدا سے محبت کرتا ہے اس کا صلى الله محمد کا تعلق بھی خطرے میں ہے کیونکہ وہ ایک انسان تھے اور ان کی عظمت رسالت میں تھی ، ان کی عظمت نمائندگی میں تھی.اس لئے پنجہ در پنجہ خدا دارم کا مطلب یہ ہے کہ میرا ہر تعلق اللہ کے واسطے

Page 751

خطبات طاہر جلد ۶ 747 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء سے ہے.اس پہلو سے مجھے کوئی اور پرواہ نہیں رہی کہ میرے باقی تعلق کس نوعیت کے ہوں گے.اگر میں خدا سے سچی محبت کرتا ہوں، اگر میرا تعلق خدا سے مضبوط ہے تو لازمی نتیجہ اس کا یہ ہوگا کہ میرا محمد مصطفی ماہ سے بھی تعلق مضبوط ہوگا.یہی وہ مضمون ہے جو قرآن کریم کی اس آیت میں حبل اللہ کے الفاظ میں بیان فرمایا گیا.اللہ کی رسی کہہ کر رسالت کو عظمت دی گئی ہے فی ذاتہ رسالت کی کوئی عظمت نہیں اور اگر حقیقۂ رسالت کی نمائندہ خلافت ہے تو خلافت کو اس رسالت کی نسبت سے عظمت ہے ورنہ فی الحقیقت خلافت تو ایک نمائندگی کا نام ہے، یہ نمائندگی غیر اللہ کی بھی ہوسکتی ہے، ادنی کی بھی ہوسکتی ہے، اعلیٰ کی بھی ہوسکتی ہے.تو حبل اللہ کے مضمون کو ضرور یاد رکھیں کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ میں نے اپنی زندگی کے تجربے میں دو قسم کے لوگ دیکھے ہیں.کچھ وہ جو خلیفہ وقت کو خوش کرنا چاہتے ہیں اور اس کا مزاج معلوم کر کے ایسی باتیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت خوش ہو.ایسے لوگ اکثر خلیفہ وقت کو خوش کرنے میں ناکام رہتے ہیں.خصوصا حضرت مصلح موعودؓ کے عظیم دور میں میں نے بڑے قریب سے، بڑی باریک نظر سے اس تعلق کا مطالعہ کیا اور میں نے معلوم کیا کہ بہت سے ایسے جماعت کے عہد یداران ہیں جو خلیفہ وقت کا مزاج پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں.کچھ اس کے برعکس اور یہ لوگ بھاری اکثریت میں تھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تربیت یافتہ تھے خدا کو خوش کرنے کی نیت سے خلیفہ وقت کی اطاعت کرتے تھے.ان کا فیصلہ اس بات پر منحصر تھا کہ میرے خلیفہ سے اس تعلق میں میرا خدا راضی ہوگا کہ نہیں ہوگا اور ہمیشہ ان کے فیصلے درست ہوا کرتے تھے.کبھی بھی انہوں نے خلیفہ وقت کی ناراضگی مول نہیں لی کیونکہ حبل اللہ کے معنی وہ جانتے تھے.وہ جانتے تھے کہ اللہ کی ذات سے سارے مضامین شروع ہوتے ہیں، جس کا تعلق اللہ سے مضبوط ہوگا اس کے ہر فیصلے اسی نسبت سے مضبوط ہوں گے اور درست ہوں گے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر مومن کی یہ تعریف فرمائی کہ مومن کی فراست سے ڈرو کیونکہ مومن خدا کی آنکھ سے دیکھتا ہے (ترمذی کتاب النفسر ، تفسیر سورۃ الحجر حدیث نمبر ۲ ۳۰۵).یہی وہ مضمون ہے جس کا سمجھنا جماعت کے لئے آج پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہے.کیونکہ آج جماعت ایسے دور میں داخل ہو رہی ہے جب کہ مختلف سمتوں سے اس کئی قسم کے خطرات

Page 752

خطبات طاہر جلد ۶ 748 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء در پیش ہیں اور سب سے پہلے آپ کے ایمان پر حملہ ہو گا.اگر ایمان کو نقصان پہنچا اور حبل اللہ پر سے آپ کا ہاتھ ڈھیلا پڑ گیا تو پھر باقی کچھ باقی نہیں رہے گا.اس لئے حبل اللہ کے مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا نہایت ضروری ہے.ہر احمدی کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ سے ہو یا آپ کے خلفاء سے یا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے یا آپ کے خلفاء سے اس کی بنیاد اللہ کے تعلق پر ہے.اگر اس کی بنیاد اللہ کے تعلق پر نہیں ہے تو یہ تعلق مصنوعی اور جعلی اور بے معنی ہے.اگر اللہ کی محبت یہ تعلق پیدا کرتی ہے اور اللہ کی محبت جتنا بڑھتی ہے اتنا ہی حضرت محمد مصطفی علیہ سے تعلق بڑھتا چلا جا رہا ہے تو پھر یقیناً جانئے کہ ایسے شخص کو کسی قسم کا کوئی خطرہ در پیش نہیں ، نہ اس دنیا میں نہ اس دنیا میں اور یہ تعلق والے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر فتنے سے محفوظ رہتے ہیں.جب بھی کوئی ایسی بات کی جاتی ہے جس سے ان کے نزدیک ان کا خدا ناراض ہو سکتا ہے وہ جانتے ہیں کہ ایسی بات شیطان کی طرف سے آئی ہے.جب بھی کوئی ایسی بات کی جاتی ہے جو خدا تعالیٰ کی واضح ہدایات کے منافی نتیجے پیدا کرنے والی ہو خواہ وہ کیسا ہی بھیس بدل کر بات کی گئی ہو اللہ سے تعلق والے جانتے ہیں کہ یہ بات جھوٹی اور شیطان کی طرف سے ہے.اس لئے ایسی جماعت میں جو اللہ کی رسی پر ہاتھ ڈال لے اور اس تعلق کو مضبوط کر لے کسی قسم کا کوئی رخنہ پیدا نہیں کیا جاسکتا.فرمایا:.وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ : قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِةٍ اِخْوَانًا یاد کرو اس وقت کو کہ جب خدا نے تم پر ایک عظیم الشان نعمت نازل فرمائی تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تمہارے دلوں کو آپس میں باندھ دیا اور اللہ کی نعمت کے نتیجے میں تم بھائی بھائی بن گئے.اس مضمون کو ایک اور آیت میں قرآن کریم نے اس رنگ میں بھی بیان فرمایا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو اگر چاہتا کہ مومنوں کے دلوں کو باندھ دے تو تو ایسا نہیں کر سکتا تھا.لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا مَّا أَلَّفْتَ بَيْنَ قُلُوبِهِمْ وَلكِنَّ اللهَ أَلَّفَ بَيْنَهُمْ (انفال:۲۴) اگر تو وہ سب کچھ خرچ کر دیتا جو زمین میں ہے سب کا سب تب بھی تو مومنوں کے دلوں کو

Page 753

خطبات طاہر جلد ۶ 749 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء نہیں باندھ سکتا تھا، اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں کو باندھا ہے.یہ بظاہر تو بات عجیب لگتی ہے کہ گویا حضرت محمدمصطفی ﷺ کی صفات کے منافی بات کی جارہی ہے.ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ آنحضو ر ی ہے کے اندر بے انتہا محبت پیدا کرنے کی طاقت موجود ہے اور آپ کی اس طاقت کے نتیجے میں مومن ایک دوسرے کے ساتھ باندھے گئے لیکن یہ آیت بظاہر اس سے برعکس بات پیش کر رہی ہے کہ نہ صرف یہ ہے کہ ان کو آپس میں اکٹھا کرنے کی طاقت نہیں تو دنیا کی تمام دولتیں اگر ان پر خرچ کر دیتا تب بھی ان کو اکٹھا نہ کر سکتا اور پھر یہ کہ اللہ ہی ہے جس نے ان کے دلوں کو باندھا ہے.دراصل آنحضرت می اور آپ کے عشاق کو خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم الشان ، خراج تو نہیں کہنا چاہئے مگر محاورے میں کہا جاتا ہے خراج تحسین پیش کیا گیا.مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک عظیم الشان تعریف فرمائی ہے آنحضرت ﷺ اور آپ کی جماعت کی کہ ان کا تعلق اللہ کے واسطے سے ہے.اللہ کی محبت کے نتیجے میں اکٹھا ہوئے ہیں.دنیا کے لالچ کے نتیجے میں اکٹھا نہیں ہوئے.جو کچھ زمین ہے تو خرچ کر دیتا سے یہ مراد ہے کہ یہ بندے جو تیرے گردا کٹھے ہوئے ہیں یہ خالصہ اللہ کی محبت میں اکٹھے ہوئے ہیں ان کو دنیا کی مال و دولت کی کچھ بھی پرواہ نہیں.اس لئے ساری دنیا کے خزانے بھی تو ان پر لٹا دیتا تو کبھی یہ اس طرح اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے چونکہ اللہ سے محبت کرنے والے خدا کے غلام ہیں اس لئے خدا کی خاطر تیرے اردگر دا کٹھے ہو گئے ہیں.اس سے ایک منفی مضمون بھی پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ محمد مصطفی میں یہ بھی ان خدا کے عشاق کو کسی طرح خرید نہیں سکتے تھے دنیا کی دولت کے ذریعے تو غیر اللہ کو کیا طاقت ہے محمد ﷺ کے کسی دشمن کو کیا طاقت ہے کہ وہ محمد ﷺ کے غلاموں کو دنیا کے لالچ میں خرید لے.بہت ہی عظیم الشان تعریف ہے.اس سے بڑھ کر کسی نبی اور اس کی جماعت کی ایسی تعریف نہیں فرمائی گئی ، آپ دنیا کی کتابوں کا مطالعہ کر کے دیکھ لیجئے.حیرت انگیز تعریف کا کلام ہے الله کہ دیکھو! محمد رسول اللہ ﷺ کے سارے غلام اللہ کی محبت کے نتیجے میں اس کے گردا کٹھے ہوئے ہیں اس لئے ناممکن ہے دنیا کی کسی طاقت کے لئے کہ وہ ان کی محبت پر ہاتھ ڈال سکے، ان کے تعلق کو توڑ سکے، ان کے بھائی چارے کی محبت جو ایک دوسرے کو باندھے ہوئے اس پر کسی قسم کا حملہ کر سکے.فرما یا:.

Page 754

خطبات طاہر جلد ۶ 750 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَانْقَذَكُمْ مِنْهَا اس مضمون کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ آگ ہی آگ ہے.فرمایا خدا کی محبت کے نتیجے میں اگر تم اکٹھے ہو جاتے ہو بھائی بھائی بن جاتے ہو تو تم ہر خطرے سے محفوظ ہو جاتے ہو.اس کے سوا آگ ہی آگ ہے، اس کے سوا جتنے بھی تعلق ہیں وہ آگ کی طرف لے جانے والے ہیں.پس یہ مضمون ہے جو فرمایا:.وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا تم تو آگ کے کنارے پر کھڑے تھے کہیں دنیا کی لالچ میں تم خریدے جارہے تھے تمہیں Exploit کیا جارہا تھا، کہیں دنیا کی محبت کے ذریعے تم خریدے جارہے تھے یا نفس کے شہوانی جذبات کے ذریعے تم خریدے جارہے تھے.جتنے بھی تعلق تمہارے اللہ کے سوا تعلق تھے وہ تو تمہیں آگ میں لے جانے والے تھے دیکھو خدا نے تم پر کتنا احسان فرمایا کہ سب سے پاکیزہ تعلق کے رشتے میں تمہیں باندھ دیا اور ہر دوسرے خطرے سے محفوظ فرمالیا.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَيَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ دیکھو اس طرح تمہارا خدا تمہارے سامنے ان مضامین کو کھول کھول کر بیان فرماتا ہے.لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ تا کہ تم ہدایت پاؤ.کتنے عظیم الشان مضامین ہیں جو اس آیت کے کوزے میں بند ہیں اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو یہ ہے میری شان، یہ ہے میرا تم سے تعلق، اس طرح میں تمہیں بچاتا ہوں اور پھر اس طرح تمہیں زندگی کے فلسفے سے آگاہ کرتا ہوں تا کہ تم ہدایت پاؤ.اتنے عظیم الشان مضامین کے سننے اور سمجھنے کے بعد اگر کوئی قوم پھر بھی آنکھیں بند کرے اور آگ کی طرف بڑھے اس سے زیادہ بدقسمت قوم اور کوئی نہیں ہو سکتی.جس قوم میں یہ صفات پیدا ہو جائیں کہ اللہ کے تعلق کے نتیجے میں ان کے سارے تعلق قائم ہوں اور ہر اس تعلق کی عظمت ان کے دل میں قائم ہو جائے جو اللہ کے تعلق کے نتیجے میں قائم ہوا ہے ان کی حمیت ان کی غیرت برداشت نہ کر سکے کہ اس شخص پر ہاتھ ڈالے کسی کی زبان یا کسی کا ہاتھ اس شخص پر دراز ہو جس سے وہ خدا کی خاطر محبت کرتا ہے.ایسی جماعت کو کون منتشر کر سکتا ہے؟ کیسے ممکن ہے کہ اس جماعت کا شیرازہ کوئی بکھیر سکے اور ایسی جماعت کے اندر ایک ایسی عظیم الشان مقناطیسی طاقت پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ دوسروں کو ہدایت کی طرف بلانے کی اہل بن جاتی ہے.

Page 755

خطبات طاہر جلد ۶ 751 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء دعوت الی اللہ کا اس مضمون سے بڑا گہرا تعلق ہے.برائیوں کو دور کرنے کے لئے جو آپ نصیحت کرتے ہیں اس کا اس مضمون سے بڑا گہرا تعلق ہے.جب تک آپ کے اندر یہ بنیادی صفات پیدا نہ ہو جائیں کہ آپ خدا کے ہو جائیں اور خدا کے ہونے کے نتیجے میں آپ کے تعلق استوار ہوں اس وقت تک آپ کی نصیحت میں وزن پیدا نہیں ہوگا، اس وقت تک آپ کی نصیحت میں طاقت پیدا نہیں ہوگی.زبان کی بات تو ہوگی لیکن دلوں کو تبدیل کرنے کی اس میں کوئی طاقت نہیں ہوگی کوئی اہلیت نہیں ہوگی.اسی لئے ایک ہی بات مختلف لوگ کہتے ہیں تو مختلف اثر پڑتے ہیں.اتنا فرق ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول کے متعلق روایت آتی ہے کہ ایک دوست کسی اپنے غیر احمدی دوست کو قادیان لے کر آئے اور انہوں نے سوچا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ میں سب سے عالم سب سے متقی بزرگ حکیم نورالدین ہیں، ان کے پاس میں ان کو لے کے جاتا ہوں.انہوں نے نصیحت کی ، انہوں نے سمجھایا انہوں نے اس برائی کے خلاف وہ سارے مضامین بیان فرما دیے جن کا اس برائی سے تعلق ہے اور اس کے باوجود ان کے دل پر کوئی اثر نہ پڑا اور وہ اسی طرح کورے کے کورے واپس آگئے.واپس جانے سے پہلے ان کو خیال آیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس لمبا وقت تو نہیں ہو گا محض ملاقات کروا دوں.چنانچہ ملاقات کی نیت سے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوئے.آپ نے صرف چند فقرے نصیحت کے فرمائے اور باہر نکل کر اس شخص نے کہا میری زندگی پر ایک انقلاب آچکا ہے.وہ ساری برائیاں دھل گئی ہیں جو پہلے میرے دل میں تھیں.حالانکہ براہ راست ان برائیوں کے متعلق کوئی بھی نصیحت نہیں فرمائی.چند کلمات تھے.پس اگر خلیفہ بننے والا جس کے اندر خدا نے اہلیت دیکھی تھی اس میں اور ان خلفاء میں بھی ایک خاص شان رکھنے والے بزرگ کا اپنے وقت میں اپنے اس امام کے ساتھ یہ مناسبت ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ یہ نسبت ہے.تو باقی آپ سوچ سکتے ہیں کہ درجہ بدرجہ یہ نسبتیں کتنی دراز ہو جاتی ہیں اور کتنے مختلف درجات میں تقسیم ہو جاتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ نصیحت میں وزن تعلق باللہ سے پیدا ہوتا ہے اور تعلق باللہ کے نتیجے میں جو نصیحت اثر کرتی ہے اس کا دلائل سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا.اپنی ذات میں حیرت انگیز انقلابی طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں ایک ایسے شخص میں جس کا اللہ سے تعلق ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد ایک لکھنے والے نے جب

Page 756

خطبات ظاہر جلده 752 خطبہ جمعہ ۱۳ نومبر ۱۹۸۷ء آپ کے متعلق لکھا تو یہ لفظ استعمال کئے کہ اس کی انگلیوں کے ساتھ انقلاب کے تارا لجھے ہوئے تھے.اس نے دور کی نظر سے دیکھا کہ اس شخص میں انقلابی کیفیات ہیں.وہ نہیں جان سکا کہ وہ انقلابی کیفیات یا انقلابی کیفیات کیوں پیدا ہوئیں لیکن قرآن کریم نے اس مضمون کو کھولا ہے اور یہ فرمایا ہے کہ اللہ کے تعلق کے نتیجے میں تمام انقلابی طاقتیں پیدا ہوتی ہیں.چنانچہ فر مایا کہ یہ وہ جماعت ہے جو تعلق باللہ پر قائم ہو ان میں سے ایسے لوگ پیدا ہوا کرتے ہیں اور ایسے لوگ پیدا ہونے چائیں يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ..بھلائی کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کریں اور يَأمرون بالمعروف اور نیک کاموں کی ہدایت کرنی شروع کریں.کسی دلیل کا ذکر نہیں ہے، کسی استدلال کی بات نہیں ہورہی، ایک ہی ان کی صفت بیان ہوئی ہے کہ ان کے سارے تعلق اللہ کی محبت پر قائم ہیں اور معابعد فرمایا کہ ایسے لوگ اس بات کے اہل ہو گئے ہیں کہ وہ لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور نیک بات کی نصیحت کریں.! چنانچہ ان کا محض نصیحت کرنا ہی اپنے اندر ایک غیر معمولی وزن رکھتا ہے.اس معاشرے میں جس میں آپ زندگی بسر رہے ہیں اس پہلو سے بھی یہ آیت ایک غیر معمولی مقام رکھتی ہے اور اس آیت کے اتباع کے نتیجے میں آپ ہزار ہا خطرات سے بچ سکتے ہیں.یہاں تو قدم قدم پر صرف مومنوں کے لئے نہیں بلکہ غیر مومنوں کے لئے بھی خطرات ہیں اور ان لوگوں کے لئے بھی خطرات ہیں جن کا یہ معاشرہ ہے اور اتنے زیادہ خطرات ہیں کہ آپ ان کو شمار نہیں کر سکتے.ہر قدم پر روحانی زندگی کے لئے اس ملک میں ایک چینج ہے اور آپ نے صرف اپنی زندگی نہیں بچانی بلکہ غیروں کی زندگی بچانی ہے.غیروں کو ان خطرات سے محفوظ کرنا ہے.دلائل کے ذریعے آپ ایسا نہیں کر سکیں گے.تعلق باللہ کو مضبوط کریں اور اس تعلق باللہ کے نتیجے میں خود ایک ہوں ، خود ایک دوسرے سے محبت پیدا کریں.یا یوں کہنا چاہئے کہ اس تعلق باللہ کے اظہار کے طور پر آپ ایک ہو جائیں اور خود ایک طبعی قانون کے طور پر آپ کے دل ایک دوسرے کے ساتھ باندھے جائیں تب آپ میں وہ عظمت پیدا ہوگی جس کے نتیجے میں آپ کی نصیحتوں میں وہ عظمت پیدا ہو جائے گی، آپ کے کا ہم میں ایک وزن پیدا ہوگا.ایک ایسی قوت ہوگی کہ دوسرا اس کا انکار نہیں کر سکتا.غالب نے اس مضمون کو سمجھے بغیر ایک موقع پر کہا کہ:.میں بلاتا تو ہوں اس کو مگر اے جذبہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے (دیوان غالب صفحہ ۲۹۲)

Page 757

خطبات طاہر جلد ۶ 753 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء میں بلاتا تو ہوں لیکن باتوں سے نہیں وہ آنے والے، باتوں سے ماننے والے وجود نہیں ہیں.ہاں دل کے قصے ہیں اگر دل پر کچھ بن جائے اور خدا کرے کہ ایسی بن جائے کہ آئے بغیران کے لئے چارہ نہ رہے.قرآن کریم نے یہ مضمون حل فرما دیا ہے.فرمایا تم اپنے دل کو خدا کی آماجگاہ بنا لو.اپنے دلوں کو خدا کی تخت گاہ بنا لوتو دیکھو گے کہ غیروں کے لئے آئے بغیر چارہ نہیں رہے گا، تم بلاؤ گے تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی رستہ نہیں ہو گا کہ تمہارے آواز پر لبیک کہتے ہوئے دوڑتے ہوئے تمہاری طرف چلے آئیں.ان معنوں میں حضرت محمد مصطفی حملے کا براہ راست دخل تھا.وہ آیت جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنائی تھی اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مومنوں کو اکٹھا کرنے میں تو نے کچھ نہیں کیا.وہ تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ایک بہت ہی گہرا اور بہت ہی عظیم مضمون ہے جو بیان فرمایا گیا ہے.لیکن چونکہ حضرت محمد مصطفی امیہ کا دل خدا کی تخت گاہ بن چکا تھا اس لئے آپ کے بلانے میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہو گئی تھی.خدا کی تخت گاہ بن چکا تھا.اس لئے آپ کے بلانے میں ایک غیر معمولی طاقت پیدا ہوگئی تھی اور آپ کی آواز میں ایک ایسی عظمت تھی اور انیسی کشش تھی کہ اللہ کی محبت کی خاطر لوگ کھچے چلے آتے تھے.پس یہ مضمون اور وہ مضمون ایک دوسرے سے متضاد اور متصادم نہیں ہیں.مراد یہ ہے کہ تو نے اس دل کے ساتھ ان کو بلایا جو خدا کی محبت کی آماجگاہ تھا اور خدا کی محبت کے نتیجے میں یہ لوگ چلے آئے.ان معنوں میں خدا کی محبت ہی ہے جس نے ان کے دلوں کو باندھا ہے اور اس کے سوا اور کوئی طاقت نہیں.پھر فرمایا وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ صرف وہ نیکیوں کی طرف نہیں بلاتے بلکہ برائیوں سے روکتے بھی ہیں اور یہ اس مضمون کا کسی شخص کے مسلمان ہونے سے تعلق نہیں ہے.تمام معاشرے پر یا تمام معاشرے کا ایک مسلمان پر جو حق ہے وہ بیان فرمایا گیا ہے.اس لئے آپ کو اپنے گردو پیش کو برائی سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اپنے ماحول کو نیکی کی طرف بلانا چاہئے اور نیک نصیحت اور جذبے کے ساتھ ایسا کرنا چاہئے.اگر آپ اس طرح کام شروع کریں گے تو لا زما لوگ آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے اگر دلائل کے رستے اور منطق کی دقیق راہوں سے آپ دنیا کو اپنی طرف بلانے کی

Page 758

خطبات طاہر جلد ۶ 754 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء کوشش کریں گے تو اول تو ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں کہ وہ دلیل کو عمدگی سے پیش کر سکے اور دوسرے محض دلیل کے ذریعے معاشرے تبدیل نہیں ہوا کرتے.لوگ سمجھتے بھی ہیں کہ ایک چیز بری ہے مگر اسے چھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتے.لوگ جانتے ہیں کہ اچھی نصیحت کی جارہی ہے لیکن اس نصیحت کے اندر ایسی کشش نہیں پاتے کہ اپنی برائی کی کشش پر اس کو غالب آتا ہوا دیکھیں.سمجھتے ہیں عقلاً جانتے ہیں کہ ہاں یہ چیز بری ہے، نصیحت اچھی ہے مگر برائی کے اندر ایک کشش ہے اور کشش ا اور نقل کی طرح، ایک قانون کی طرح وہ کام کرتی ہے.اس لئے ناممکن ہے کہ نصیحتوں کے ذریعے جن کے اندر کوئی اور وزن نہ ہو آپ لوگوں کو برائیوں سے الگ کر سکیں.چنانچہ اس مضمون کو دنیا کے ہر ادب میں بیان کیا گیا ہے.تمام شعراء نے اس مضمون کو کسی نہ کسی رنگ میں چھیڑا ہے اور اسی طرح بیان کیا ہے کہ ہاں ہمیں پتا تو ہے کہ یہ چیز ا چھی نہیں بری ہے مگر کیا کریں دل برائی کی طرف مائل ہو گیا ہے.جب یہ نفسیاتی کیفیت ہو انسان کی خواہ وہ دنیا کے کسی خطے سے بھی تعلق رکھتا ہو تو محض دلائل اور نصائح سے آپ کیسے ان میں تبدیلی پیدا کر لیں گے.ٹیلی ویژن پر آپ کئی قسم کی برائیوں کے خلاف مناظرے سنتے ہیں، مباحثات ملاحظہ کرتے ہیں لیکن جو سوسائٹی ہے وہ وہیں کی وہیں رہتی ہے.اس پر تو ایسی مثال صادق آتی ہے جیسے پنجابی میں کہتے ہیں.اردو میں بھی اس کا ترجمہ میں بیان کرتا ہوں پنجابی میں بھی محاورہ ہے غالباً اردو میں بھی ہو گا.سر پہنچوں کا کہا سر آنکھوں پر لیکن پر نالہ وہیں رہے گا جہاں رہنا ہے.یعنی ہم نے اپنی چھت پر جس جگہ پر نالہ لگایا ہوا ہے سرپنچوں نے فیصلہ کر دیا ہے کہ اس پر نالے کو یہاں نہیں ہونا چاہئے لوگوں کی تکلیف کا موجب ہے.ان کا کہا سر آنکھوں پر لیکن پر نالہ جگہ نہیں بدلے گا یہ وہیں رہے گا.تو انسانی فطرت کا پر نالہ ہے ایک جو اپنی جگہ نہیں بدلتا.نصیحتوں کے سامنے سر جھکاتا ہے ان کی تعظیم کرتا ہے، کہتا ہیں ہاں ایک اچھی نصیحت کرنے والے نے ایک اچھی نصیحت کی تھی لیکن پر نالہ وہیں رہتا ہے، وہیں سے بہتا ہے.اس لئے اس کے مقابل پر کوئی طاقت ہونی چاہئے اور قرآن کریم فرما رہا ہے کہ تمہارے تعلق باللہ کے نتیجے میں تمہاری ذات میں ایک کشش پیدا ہوگی وہ کشش لوگوں کو کھینچے گی ، وہ کشش ان کی برائی سے محبت کے مقابل پر زیادہ قوی ہو جائے گی کیونکہ کشش ثقل زمین کی طرف بلاتی ہے اور خدا کی محبت آسمان کی طرف بلاتی ہے اور خدا کی محبت زمین کی

Page 759

خطبات طاہر جلد ۶ 755 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء محبت پر غالب آجاتی ہے اگر وہ سچی ہو.اس لئے لازما وہ لوگ خدا کی طرف کھینچے جائیں گے اگر ان کو بلانے والے خدا کی طرف تھے، اگر ان کو بلانے والے خدا کی محبت اپنے دل میں رکھتے ہوں.پس اس پہلو سے قرآن کریم فرماتا ہے ہاں ! اب تم تیار ہو گئے ہو کہ بنی نوع انسان کو نیکی کی طرف بلا ؤ اور برائیوں سے روکو کیونکہ تمہارا حبل اللہ سے تعلق قائم ہو چکا ہے کیونکہ تم اللہ کی محبت کے نتیجے میں اس کے بندوں اور اس کے غلاموں سے محبت کرنے کے اہل ہو گئے ہو.یہ ہو جاتا ہے ایسی سوسائٹیاں وجود میں آتی ہیں جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کے زمانے میں ایک عوض الشان خدا کی محبت کے نتیجے میں پیدا ہونے والی محبت سے لوگ باندھے گئے تھے لیکن پھر اگلی نسلیں آتی ہیں، ان کو یہ باتیں ورثہ میں ملتی ہیں، ان کے لئے یہ تاریخ ہو جاتی ہے.ان کو مخاطب کر کے فرمایا: وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنَتُ کہ خبردار! یہ نہ سمجھنا کہ یہ بندھن ہمیشہ مضبوط رہیں گے، خطرہ ہے کہ آئندہ نسلوں میں یہ بندھن کمزور ہو جائیں اور ان تعلقات کو تم رسمی تعلقات سمجھ لو ہم یہ سمجھ لو کہ ماں باپ کے تعلق تھے جو ہمیں ورثے میں ہیں، ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ اس طرح یہ تعلق قائم رہنے کے نہیں یہ پھر ٹوٹ جائیں گے.اس لئے ایسے بد بخت انسان نہ بننا جن کو خدا نے اپنی محبت عطا کی ہو اور اس محبت کے نتیجے میں ان کے دلوں کو باندھا ہوا ان کو ایک نظام سے وابستہ فرمایا ہو اور پھر وہ اس کی ناقدری کرتے ہوئے اس سے اپنا تعلق کمزور کر دیں اور سب کچھ دیکھنے کے باوجود ، تمام کھلے کھلے نشانات کا مشاہدہ کرنے کے باوجود پھر وہ اس تعلق کو توڑ لیں.وَأُولَكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے ایک بہت بڑا عذاب مقدر ہے.پس نیک لوگوں کے متعلق تو آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایک دفعہ خدا کی محبت ان کے دل میں پیدا ہو جائے اور شیطان ان پر غالب آجائے.اس لئے ان کا ذکر چل ہی نہیں رہا.یقیناً ان کی آئندہ نسلوں کی بات ہو رہی ہے.یہ تو کبھی ہم نے نہیں دیکھا کہ کوئی قوم خدا کی محبت کی خاطر دنیا کی محبتوں کو تج کر دے اور ان کو دھتکار دے یہاں تک کہ کسی میں اتنی طاقت بھی نہ ہو کہ ساری دنیا کی دولتیں ان کے اوپر خرچ کر کے بھی ان کا ایک دل خرید سکے.کبھی ایسے لوگ بھی خدا سے دور جایا کرتے ہیں ہر گز نہیں وہ تو کامل وفا سے خدا کی محبت کی خاطر جیتے اور خدا کی محبت کی خاطر مرتے ہیں اور کبھی اس تعلق کو نہیں توڑا کرتے.یہ مضمون آئندہ نسلوں پر چسپاں ہوتا ہے.فرمایا ان لوگوں کی طرح

Page 760

خطبات طاہر جلد ۶ 756 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء نہ ہونا جن کے ماں باپ کو خدا نے اپنی محبت عطا کی تھی اور انہوں نے دیکھا اور بینات کا مشاہدہ کیا، انہوں نے عظیم انقلابات دیکھے.وہ جانتے تھے کہ ان کے والدین نے اس محبت کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں ، نہ دنیا کی پرواہ کی ، نہ دنیا کی دوستی کی پرواہ کی نہ دنیا کی دشمنی کی پرواہ کی ، نہ دنیا کے اموال کی پرواہ کی.وہ خدا کے خاطر فقیر ہو گئے.وہ جو پہلے معزز تھے اپنے علاقوں میں وہ خدا کی خاطر ان علاقوں میں ذلیل بن گئے.اس لئے انہوں نے اپنے اعمال سے ثابت کر دیا کہ وہ دل کے سچے تھے.ان کے دل تھے جن کو خدا نے اپنی محبت کے لئے خاص کیا تھا اور ان کے دل تھے جن کو خدا کی محبت نے ایک دوسرے سے باندھا تھا.ان کی نسلوں نے یہ سب کچھ مشاہدہ کیا ہے.یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد جب بینات ان کے سامنے آگئیں پھر اگر وہ ایسے بدنصیب ہوں کہ ان رستوں کو چھوڑ دیں اور دنیا کے تعلق کو خدا کے تعلق پر غالب کر لیں اور دنیا کے تعلق ، نفسانی خواہشات یا ہوا و ہوس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے دور ہٹنے لگیں، ایک دوسرے کو طعنہ و تشنیع کا نشانہ بنانے لگیں، ایک دوسرے کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے لگیں اور دشمن کو موقع دیں کہ ان کے درمیان داخل ہو اور ان کے اجتماع کو منتشر کر دے.تو فرمایا یہ لوگ بہت ہی بدنصیب ہیں کیونکہ ان کے لئے ایک بہت ہی بڑا عذاب مقدر ہے.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی موجودہ نسل کے لئے ایک بہت ہی بڑی تنبیہ ہے.ورثہ میں وہ سب رہتے تم پاؤ گے اگر ورثہ میں خدا کی محبت بھی تمہیں ملی ہو اور اگر خدا کی محبت تمہیں ورثہ میں نہیں ملی اور حبل اللہ سے تعلق کمزور ہو گیا ہے تو بزرگوں کے ورثہ میں سے کچھ بھی تمہارے حصے میں نہیں آئے گا بلکہ ان کا ورثہ پاؤ گے جو تمہارے بڑوں اور تمہارے بزرگوں کے دشمن تھے.جنہوں نے اپنی زندگی میں ان کی مخالفت کر کے عذاب کمایا تھا.فرمایا تمہارے مقدر میں بھی ان کا ورثہ آئے گا اپنا بزرگ والدین اور اپنی پہلی نسلوں کا ورثہ پانے والوں میں سے نہیں ہو گے.یہ وہ بڑی واضح اور عظیم اور کھلی کھلی نصیحت ہے جس کو بار بار جماعت کے سامنے لانے کی ضرورت ہے اور خصوصا امریکہ کے اس دورے کے نتیجے میں میں نے محسوس کیا کہ جماعت کے سامنے اسے پھر رکھنے کی ضرورت ہے.آپ کے دلوں میں بھی رخنے پیدا کرنے کے لئے شیطان کئی طرح سے کوشش کرتا ہے اور کر رہا ہے.کئی طرح سے جماعت کے خلاف کوشش کی جارہی ہے پہلے بھی کی جاتی تھی آئندہ بھی ہوتی رہے گی.اس لئے یاد رکھیں کہ ہر وہ کوشش جو اللہ سے محبت کے اوپر

Page 761

خطبات طاہر جلد ۶ 757 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء حملہ کرنے والی ہو اور اس محبت کے نتیجے میں ان لوگوں کی محبت پر حملہ کرے جو خدا کی خاطر آپ کو پیارے ہیں ،اس نظام پر حملہ کریں جو خدا کی خاطر آپ کو پیارا ہے.وہ شیطان ہیں جو یہ آواز اٹھانے والے ہیں ، ان کی آواز کو دھتکار دیں اور رد کر دیں.بعض دفعہ یہ شیطان واضح ہو کر حملہ کرتا ہے بعض دفعہ چھپ کر حملہ کرتا ہے.بعض دفعہ براہ راست حملہ کرتا ہے، بعض دفعہ ایسے نمائندوں کے ذریعے حملہ کرتا ہے جن کو آپ نیک دیکھتے ہیں، جن کو آپ اچھا پاتے ہیں.دیکھتے ہیں کہ وہ لمبے سجدے کر رہے ہیں، وہ نمازوں میں آگے ہیں اور دین کے کاموں میں بظاہر پیش پیش ہیں اور اس نتیجے میں آپ دھوکا کھا جاتے ہیں.قرآن کریم نے یہ نہیں فرمایا کہ کیا دیکھو، کس طرف سے بات آرہی ہے.قرآن کریم نے فرمایا کہ میری محبت کو عزیز تر کر لو اور اپنے تعلق کو میرے تعلق کی بنا پر مضبوط کرو.اگر تم ایسا کرو گے تو پھر تمہیں کوئی خطرہ نہیں.پس اگر ایک نیک آدمی کی طرف سے ایک ایسی آواز اٹھتی ہو جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو خدا کی خاطر آپ کو پیارے ہوں ان کے خلاف دل میں بغض پیدا ہوتا ہے تو وہ آواز نیک انسان کی طرف سے نہیں شیطان کی طرف سے ہے.وہ نیک آدمی اگر بظاہر نیک ہے تو پھر وہ شیطان کا نمائندہ بن چکا ہے، آلہ کار بن چکا ہے.اس کو علم نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے.اس لئے ہر اس کوشش کو پہچانیں کہ وہ اپنی ذات میں بد ہے یا اچھی ہے.اگر وہ تفرقہ پیدا کرنے والی کوشش ہے تو یقیناً خدا کی طرف سے نہیں کیونکہ قرآن کریم نے ان آیات میں خوب کھول دیا ہے، بار بار کھول دیا ہے کہ خدا تو تفرقوں سے نکال کر اجتماع کی طرف لانے والا ہے.وہ تو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے کر آتا ہے.کیسے ممکن ہے کہ خدا سے پیار کرنے والے کی آواز تمہیں دوبارہ ان اندھیروں میں دھکیل دے دوبارہ افتراق کا نشانہ بنادے.اس لئے کسی نوع کا افتراق ہو جو بات بالآخر آپ کو اپنے بھائیوں سے دور لے جانے والی ہو، نظام جماعت سے دور لے جانے والی ہو وہ آواز خدا کی آواز نہیں ہے.اس ملک میں کئی قسم کے ایسے خطرات ہیں.بعض دفعہ آپ کو کہنے والے یہ کہیں گے کہ فلاں آدمی امیر ہے اور اس کی زیادہ عزت ہے اور ہم غریب ہیں یا فلاں غریب ہے اس کی عزت نہیں ہے.اس لئے جماعت تقویٰ سے ہٹ گئی ہے، اس لئے جماعت سے تعلق کمزور ہو جانا چاہئے ، اس لئے ایسے لوگوں کو اپنی تنقید کا نشانہ بنانا چاہئے.واقعہ یہ ہے کہ اگر یہ ایسی بات درست ہے تو وہ بدنصیب

Page 762

خطبات طاہر جلد ۶ 758 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء ہے جو کسی امیر کی محض اس کی امارت کی وجہ سے عزت کرتا ہے.لیکن وہ اس سے بھی زیادہ بدنصیب ہے جو جماعت سے اس لئے تعلق توڑ لیتا ہے کہ جماعت کا کوئی شخص کسی امیر کی محض دولت کی خاطر عزت کر رہا ہے.اس لئے وہ اس سے بڑھ کر بدنصیب کیوں ہوتا ہے جس کی بدنصیبی کو وہ اپنی طعن و تشنیع کا نشانہ بنارہا ہے.کیا دولتوں کی طرف رجحان کے نتیجے میں آپ کا تعلق خدا سے پیدا ہوا تھا.کیا آپ کا تعلق خدا سے اس لئے تھا کہ تمام مسلمان امیر لوگوں کو ذلیل کرتے ہیں اور غریبوں کو عزت دیتے ہیں.یہ ایسی ثانوی چیز میں ہیں جن کا خدا سے تعلق سے کوئی بھی تعلق نہیں.اس لئے خدا کا تعلق بنیاد ہے.اگر کسی شخص کا تعلق خدا سے مضبوط ہے اور اسے کوئی یہ کہہ دے کہ فلاں شخص جو جماعت کا نمائندہ ہے اس نے تمہیں ذلیل سمجھا تو کیا اس کے نتیجے میں وہ خدا سے تعلق توڑلے گا؟ امر واقعہ یہ ہے کہ سب سے زیادہ ذلیل دنیا میں ان لوگوں کو سمجھا گیا جن کا خدا سے سب سے زیادہ تعلق تھا.دنیا میں اپنے وطن میں سب سے زیادہ ذلیل انبیاء کئے گئے ہیں اور سب سے زیادہ تحقیر ان کی کی گئی ہے.کیا انہوں نے کبھی اس بنا پر کہ خدا کے بندوں نے ان پر ناجائز حملے کئے خدا سے اپنے تعلق کو کمزور کر لیا.اس لئے پنجہ در پنجہ خدا دارم کا یہ معنی ہے کہ ہمارا تو اپنے خدا سے تعلق ہے.اس لئے دنیا کا Behaviour یا خدا کی طرف بظاہر منسوب ہونے والےلوگوں کا جو طرز عمل ہے وہ بھی اس تعلق میں ہمیں کمزور نہیں کر سکتا.ہمیں جس سے محبت یہ ہے خدا کی خاطر ہے اور جب تک وہ خدا کی خاطر رہے گی ہماری اس محبت کو کوئی بھی خطرہ نہیں.اس مضمون کو آپ اچھی طرح سمجھیں تو پھر کوئی شخص آپ کو دھوکا نہیں دے سکتا.کوئی شخص آپ کو یہ آ کر کہتا ہے کہ ہم ایک ایسا اجلاس بلاتے ہیں جس میں صرف African Americans شامل ہوں گے.پاکستانی شامل نہیں ہوں گے.ہر African American کو سمجھ جانا چاہئے کہ یہ شیطان کی آواز ہے.یہ ایک ایسی آواز ہے جو انفرادی تفریق نہیں پیدا کر رہی بلکہ جماعت کو دو نیم کرنا چاہتی ہے جو جماعت کے ایک طبقے کے ساتھ دوسرے طبقے میں فرق پیدا کرنا چاہتی ہے اور یہی وہ رد عمل ہے جو یہاں کی جماعت نے ایک موقع پر دکھایا جبکہ ایسی آواز ابھی اٹھائی گئی.تمام ایسے African Americans جو اپنے اخلاص اور محبت میں خالص ہیں اور مجھے خوشی ہے کہ

Page 763

خطبات طاہر جلد ۶ 759 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء ایک بڑی بھاری تعداد ایسی ہے جو اپنی محبت اور اپنی اخلاص میں خالص ہیں.انہوں نے اس بات کو تحقیر کی نظر سے دیکھا اور رد کر دیا اور ہر ایک نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم کسی ایسے اجلاس میں شریک نہیں ہوں گے جو خدا کی جماعت کو دو نیم کرنے والا ہو اور جو خدا کی جماعت میں تفریق پیدا کرنے والا ہو.اگر چہ بظاہر ان کی محبت کی خاطر یہ آواز اٹھائی گئی تھی.یہ میں نہیں کہہ سکتا کہ وہ شخص جس نے اس آواز کو اٹھایا اس کے دل میں شیطان نے اثر کیا تھا اور براہ راست اس کے دل سے یہ آواز اٹھی تھی یا کسی شیطان نے اس کو اپنا آلہ کار بنایا تھا.مگر دونوں صورتوں میں اس کی ایک بدنصیبی ہے.وہ خدا کے دشمن کا آلہ کار بن گیا خواہ لاعلمی میں بنا، خواہ جان کر اور اس بات کو خوب پہچاننے کے بعد بنا مگر دونوں صورتوں میں اس کی ایک بدنصیبی ہے اور میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ امریکہ کی جماعت پر اس نوع میں بھی کئی قسم کے حملے پہلے ہو چکے ہیں.یہ حملے ہمیشہ ایک طرف پر نہیں ہوا کرتے.قرآن کریم ہمیں دوسری طرح مطلع فرماتا ہے کہ شیطان تم پر اس طرح حملے کرتا ہے کہ خود چھپ جاتا ہے اور تمہیں یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کس طرف سے حملہ ہورہا ہے.آخری سورۃ قرآن کریم کی جو خصوصا آخری زمانے کے فتنوں سے متنبہ فرماتی ہے اس میں ایک خناس کا ذکر فرمایا.کہ اے خدا! ہمیں خناس کے شر سے بچا.الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ فى مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ( الناس: ٦-٧) جولوگوں کے دلوں میں انسانوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کرتا ہے ججوں کے دل میں بھی یعنی بڑے لوگوں کے دل میں بھی اور الناس یعنی چھوٹے لوگوں کے دلوں میں بھی اور خناس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو بات پھونک کر خود پیچھے ہٹ جائے اور چھپ جائے ،خود سامنے نہ آئے لیکن اس کی بات سامنے آنی شروع ہو جائے.چنانچہ یہ جو حملے ہیں مختلف رنگ میں ہوتے ہیں.کبھی بلند شکل میں پیدا ہوتے ہیں کبھی چھوٹوں کی شکل میں پیدا ہوتے ہیں.کبھی محبت کے نام پر پیدا ہوتے ہیں، کبھی دشمنی کے نام پر پیدا ہوتے ہیں اور یہ وسوسے اپنے رنگ بدلتے رہتے ہیں، نتیجہ ایک ہی ہے کہ وہ لوگ جو حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں ان کے درمیان میں رخنہ پڑ جائے اور ان کے درمیان افتراق پیدا ہو جائے اور ان کے اوپر قبضہ کر لیا جائے.

Page 764

خطبات طاہر جلد ۶ 760 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء چنانچہ امریکہ ہی میں ایک ایسا دور تھا جبکہ امریکہ کی جماعت پر نیکی کے نام پر قبضہ کیا جانے کی کوششیں کی جارہی تھیں.بعض لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایک دم جماعت کے کاموں میں آگے آنا شروع کر دیا اور ان کا ایک گروہ تھا جن کا آپس میں تعلق تھا اور وہ ایک دوسرے کو بڑھاتے تھے اور جب میں نے تحقیق کی تو اس تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ بعض ان کے ایجنٹ جماعتوں میں پھرتے تھے اور ان کی تعریفیں کرتے تھے.کہتے تھے فلاں شخص بہت نیک ہے اور بہت اعلیٰ خدمات کرنے والا ہے کیوں اس کو آگے نہیں لایا جارہا ؟ کہیں یہ وجہ تو نہیں کہ پاکستانی لیڈرشپ کو یہ خطرہ ہے کہ اس لیڈرشپ پر مقامی لوگ قابض ہو جائیں گے.اس لئے ہمیں اچھے لوگوں کو ووٹ دینا چاہئے.جو ہم میں سے نیک ہیں ان کا حق ہے کہ وہ آگے آئیں.اس طرح پرو پیگنڈا کر کے بعض نہایت ہی اسلام کے خطر ناک لوگوں کو آگے لانے کی کوشش کی جارہی تھی.جب میں 1978ء میں ایک عام احمدی کی حیثیت سے آیا یعنی خلافت کے منصب پر ابھی خدا تعالیٰ نے مجھے فائز نہیں فرمایا تھا لیکن خدا تعالیٰ نے کچھ نہ کچھ بصیرت مجھے ایسی عطا فرمائی تھی جس سے میں ان باتوں کو بھانپ لیتا تھا، پہچان لیتا تھا.ان سب لوگوں سے میں نے تعلق قائم کیا ، ایک ذاتی دورہ تھا ، میں پھر رہا تھا اور جہاں جہاں بھی موقع ملا مقامی ، بیرونی ہر قسم کے احمدیوں سے بڑی محبت سے ملا اور ان کو قریب سے دیکھا اور واپس جا کر میں نے بعض لوگوں کے متعلق یہ رپورٹ کی کہ مجھے یہ نہایت خطرناک سازش دکھائی دے رہی ہے.کچھ لوگ نیکی کے نام پر جماعت پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور دو طرح کے خطرات ہیں.اول اگر وہ واقعہ نیک ہیں تو ان کو جماعت کے نظام کا علم کوئی نہیں.ان کے اندر احمدیت گہری طور پر جذب نہیں ہے، وہ بیرونی خیالات سے متاثر ہیں اور احمدیت اور اسلام کو اپنے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کریں گے اور دوسرے مجھے یہ خطرہ محسوس ہو رہا ہے کہ ایک سازش کے نتیجے میں ایسا ہو رہا ہے.چنانچہ ایسے لوگوں کو یہاں کے بعض مخلص احمدیوں نے نہایت سادگی سے ان کو نیک سمجھتے ہوئے اوپر لانے کی کوشش کی اور چونکہ مرکز متنبہ ہو چکا تھا ان کی اس کوششوں کو رد کر دیا گیا اور ان کو وہ عہدے نہیں دیئے گئے جن کے لئے ان کے نام پیش ہوئے تھے.نتیجہ کچھ لوگوں کے اندر تو یہ غصہ سلگتا رہا کہ جماعت نے ہمیں چنا اور مرکز نے رد کر دیا، یہ کیا وجہ ہے؟ یہ کس قسم کی Democracy ہے

Page 765

خطبات طاہر جلد ۶ 761 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء ؟ میں بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہاں دنیاوی کوئی Democracy نہیں ہے.نظام جماعت خدا کی رسی سے شروع ہوتا ہے اور آسمان سے لٹکنے والی رسی ہے جو نظام جماعت کی نمائندگی کرتی ہے.زمین سے اٹھنے والی کوئی رسی نہیں ہے جس کو آپ Democracy کہہ کر دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.اگر واقعۂ آپ کا تعلق اللہ سے ہے تو آپ کی نظر اللہ پر رہے گی اور ان لوگوں کی رضا آپ کی رضا بن جائے گی جو خدا کی رضا پر چلتے ہیں اور Democracy کا بالکل ایک مختلف سے مختلف تصور پیدا ہوتا ہے.وہ جو خدا کے لئے کام کرنے والے ہیں جن کا خدا سے تعلق مضبوط ہے ان کی رضا آپ کی اپنی رضا پر غالب آجاتی ہے اور ایسے شخص کو پھر کوئی خطرہ نہیں.چنانچہ اس مضمون کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں کچھ لوگوں کے دلوں میں اعتراض پیدا ہوئے لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ جن کو خدا نے ایک بڑا عظیم الشان دنیا کا کام سپر دفرمایا ہے جن کی تربیت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود فرمائی، جن کو تقویٰ پر قائم کیا ، ان کو اہل تقویٰ کی بصیرتیں عطا فرمائیں، پھر خلافت کے زیر سایہ انہوں نے لمبی پرورش پائی.بچپن سے بڑے ہوتے تک، بڑے ہو کر جوان ہوتے تک ، جوان ہو کر بوڑھے ہوتے تک اور مرتے دم تک کامل وفا سے وہ اسلام کے ساتھ بڑی محبت کے ساتھ چھٹے رہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے تقویٰ پر قائم فرمایا ہے.ان کے فیصلے اپنی انا کے مطابق نہیں ہوتے ، ان کے فیصلے ہر گز اس بنا پر نہیں ہوتے کہ کوئی قوم کسی دوسری قوم پر غالب آجائے.ان کے فیصلے خالصہ اس بات پر قائم ہوتے ہیں کہ اللہ غیر اللہ پر غالب آجائے اور اللہ کی محبت غیر اللہ کی محبت پر غالب آجائے.اس لئے کسی ایسے خطرے کو برداشت نہیں کر سکتے ، اس کے خلاف نبرد آزما ہونا ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے، جس سے نظام جماعت پر حملہ ہورہا ہو.اس بنا پر وہ فیصلے ہوتے ہیں لیکن دنیا میں بہت سے نئے آنے والے مختلف جگہوں سے دین میں بعد میں شامل ہونے والے اس مضمون کو گہرائی سے نہیں سمجھتے اس لئے وہ بعض دفعہ دشمن کے پروپیگنڈے کا شکار ہو جاتے ہیں.بہر حال ایک یہ بھی دور تھا جب اس رنگ میں کوشش کی گئی اور بعض دفعہ پھر بھی ایسی کوششیں کی جائیں گی لیکن آپ یا درکھیں اگر آپ خلیفہ امسیح سے آپ کی بیعت سچی ہے، اگر خلیفہ مسیح پر آپ کا اعتماد ہے اور آپ جانتے ہیں کہ وہ خدا کی طرف سے ہے اور آج دنیا میں سب سے زیادہ خدا

Page 766

خطبات طاہر جلد ۶ 762 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء کی نمائندگی کا اس کو حق حاصل ہے تو پھر اپنے فیصلوں اور اپنی آراء کو اس کی رائے پر اور اس کے فیصلے پر کبھی ترجیح نہ دیں.اگر آپ نے کبھی ترجیح دی تو حبل اللہ سے آپ کا ہاتھ چھٹ جائے گا اور قرآن کریم کی آیت آپ کو حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دے گی.آپ مشورہ دیتے ہیں اور مشورے میں تقوی ضروری ہے اور بسا اوقات ایک نا تجربہ کار آدمی تقویٰ پر مبنی مشورہ بھی دیتا ہے اور وہ مشورہ قابل قبول نہیں ہوتا.اس لئے آخری فیصلہ دین میں نبی اور نبی کے بعد خلیفہ کے ہاتھ میں رکھا گیا ہے اور قرآن کریم نے یہ فرمایا ہے وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ اے محمد ﷺ ! تو خدا کی رسی ہے لیکن بنی نوع انسان کی تربیت کی خاطر ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ اس سے مشورہ ضرور کر لیکن مشورے پر چلنا فرض نہیں ہے.فیصلہ تجھے کرنا ہوگا.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ ( آل عمران :۱۶۰) تو خدا کا نمائندہ ہے اس لئے مشورہ سن اور اس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر اور پھر جو کچھ تقویٰ کے ساتھ تو سمجھتا ہے کہ خدا کی رضا اس میں ہے اس پر قائم ہو جا اور چونکہ ہم جانتے ہیں کہ تیرا فیصلہ ہمیشہ رضا کی خاطر ہو گا اس لئے فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ پھر یقین کر کہ اگر ساری دنیا کی رائے کو بھی تو نے رد کر دیا تو جس خدا کی خاطر تو نے رد کیا وہ خدا تیرا ساتھ دے گا اور تجھ سے وفا کرے گا اور تجھے نہیں چھوڑے گا اور تجھے لازما کامیاب کرے گا.یہ ہے تو کل علی اللہ کا مضمون.پس آج کی شوری کے ساتھ بھی اس مضمون کا تعلق ہے.آپ جتنے بھی مشورے دیتے ہیں اپنی انا کی خاطر نہیں دیتے، اپنی قومیت کی خاطر نہیں دیتے ، اپنے رنگ اور نسل کی خاطر نہیں دیتے محض اللہ کی خاطر دیتے ہیں اور اس لئے وہ جس کی بیعت آپ نے اللہ کی خاطر کی ہے اس کے فیصلے کو خدا کی خاطر قبول کرنا آپ کے ایمان کا جز ہے، آپ کے ایمان کا جز ہی نہیں بلکہ آپ کے ایمان کی بنیادی شرائط میں داخل ہیں.یہی وہ تربیت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے آپ کے صحابہ رضوان اللہ میم نے پائی اور یہی وہ تربیت ہے جو خلفاء نے ہمیشہ جماعت کی کی اور اسی تربیت میں ہم پل کر جوان ہوئے ہیں.میں کسی قیمت پر یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اس عظیم تربیت سے آپ کے قدم ہٹنے دوں ، اس راہ سے آپ کو بھٹکنے دوں.اس لئے میں خوب کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں کہ حبل اللہ سے تعلق کا یہ مطلب ہے آپ میں سے جو خدا سے وفا کرتے ہیں وہ لا زما خدا کے نمائندوں سے وفا

Page 767

خطبات طاہر جلد ۶ 763 خطبہ جمعہ ۱۳ار نومبر ۱۹۸۷ء کریں گے اور مجھے ان کے متعلق کوئی بھی خدشہ نہیں.خدا خودان کی حفاظت فرمائے گا اور جو بے وفائی کے جذبے دل میں رکھتا ہے اور احمدیت کو قومی نفرتوں کے لئے ایک آلہ کار بنانا چاہتا ہے اس کی کوششیں مردود ہوں گی میں یقیناً آپ کو بتاتا ہوں اور اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ خدا خود اس جماعت کی حفاظت کرنے والا ہے، وہ نگران ہے اور وہ ہر ایسی کوشش کو نا مراد اور نا کام کر دے گا جو جماعت میں تفرقہ پیدا کرنے والی ہے اور حبل اللہ پر ہاتھ ڈالنے والوں کے اجتماع کے خلاف کوشش کی ہے.خدا نے خود یہ وعدہ فرمایا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اور بڑے کھلے الفاظ میں دنیا کی آئندہ ہونے والی سازشوں کا ذکر فرماتے ہوئے فرمایا کہ خدا تجھے محفوظ رکھے گا.چنانچہ 1905ء میں جبکہ پہلی مرتبہ فری مینز (Free Masons) کے متعلق انگریزی زبان میں ایک کتاب شائع ہوئی جس میں یہ بیان کیا گیا کہ ایک سیکرٹ سوسائٹی ہے جو دنیا کی طاقتوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے.اس وقت جب کہ فری میسنز (Free Masons) کے لفظ سے ہندوستان کے شاید گنتی کے چند باشندے آگاہ ہوں اور ہندوستان کی بھاری اکثریت نے کبھی نام بھی نہیں سنا تھا کہ فری میسن ہوتے کیا ہیں.1901ء میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا الہام ہوا فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے“.( تذکرہ صفحہ:۳۳۶) یعنی خدا تعالی تمہیں اور تمہارے ماننے والوں کوفری میسنز کے تسلط سے محفوظ رکھے گا.کتنا عظیم الشان وعدہ ہے اور کتنا یقین کی چٹانوں پر قائم کرنے والا وعدہ ہے.اس لئے خطرات سے آگاہ کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کو خوفزدہ کر رہا ہوں.میں جانتا ہوں کہ آپ جو خد اوالے ہیں آپ کو کوئی خطرہ نہیں لیکن متنبہ کرنا پھر بھی ضروری ہے کیونکہ قرآن کریم بار بار متنبہ فرماتا ہے.بعض دفعہت یہ نہ ہونے کے نتیجے میں بعض لوگوں کو خدشہ پیدا ہو جاتا ہے، بعض کمزور لوگ ٹھو کر کھا جاتے ہیں وہ منصب سے ہٹ جایا کرتے ہیں.اس لئے جماعت کو تنبیہ نہیں ہے، ان کمزوروں کو بچانے کی خاطر ایک نصیحت ہے کہ تم باخبر رہو کس طرف سے لوگ تم پر حملہ کرتے ہیں کس طرح تمہیں خطرات لاحق ہوتے ہیں اور علاج ایک ہے کہ اللہ کی رسی کو پکڑ لو اور اس رسی کو پکڑ لو جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ اس رسی کے پکڑنے والوں پر کوئی مسلطا نہیں کیا جائے گا.فری میسنری کیا ہے اس کی تفصیل کے متعلق ہمیں جاننے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ ایک

Page 768

خطبات طاہر جلد ۶ 764 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء سمبل(Symbol) بن چکا ہے، خفیہ سازش کے ذریعے دنیا کی طاقتوں پر قبضہ کرنے کا.کہاں تک یہ بات درست ہے کہاں تک یہ بات غلط ہے اس سے بحث نہیں لیکن آج دنیا فری میسنری کو ایک خفیہ تنظیم کے طور پر جانتی ہے جو دنیا کی نظر سے اوجھل ہو کر طاقتوں کے سرچشمے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کوشش میں دنیا کے اکثر ممالک میں کامیاب ہو چکی ہے اور بارہا دنیا کے اخبارات میں کتب میں ٹیلی ویژنز پر ، ریڈیو پر ایسے پروگرام آپ سنتے ہوں گے جن میں ان معاملات کی تفصیل بیان کی جاتی ہے کہ کس طرح کتنے اہم لوگ فری میسنری کے ممبر بن گئے.جب یہ کہا جاتا ہے کہ یہ قبضہ ہے تو وہ انکار کرتے ہیں کہ نہیں ہم تو ایک نیک سوسائٹی کے ممبر ہیں لیکن واقعہ نتیجہ یہی نکلتا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے اس الہام کے ذریعے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یقین دلا دیا کہ تو اور تیرے غلام ہر خفیہ تنظیم کی سازش سے محفوظ کئے جائیں گے کیونکہ خدا یہ فرماتا ہے اس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ تمہیں غیر اللہ کے تسلط سے آزاد کرے گا.کیسے آپ آزا در ہیں گے؟ اس لئے کہ جب خدا کی محبت آپ کے دلوں پر غالب آئے گی تو غیر اللہ کا رنگ اس پر چڑھ ہی نہیں سکتا ، آہی نہیں سکتا.ایک دل میں دو محبتیں نہیں رہا کرتیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک سینے میں دو دل ہم نے پیدا نہیں گئے.مراد یہ ہے کہ جو محبت ایک دفعہ دل پر غالب آجائے اس محبت کی طاقت ہے جو ہر غیر محبت کو دھتکار دیا کرتی ہے.یہ راز ہے ایک طاقت کے سرچشمے کا.اس لئے آپ خدا کی محبت کو مضبوطی سے پکڑ لیں اور اس محبت کی خاطر اپنے سارے تعلق مضبوط کریں، اس محبت کی بنا پر خلافت سے تعلق قائم رکھیں تو یقیناً پھر آپ کو کوئی خطرہ نہیں ہوگا.ہر دوسرا تعلق جس کی طرف آپ کو بلایا جائے گا اس کی آپ کے نزدیک کوئی بھی اہمیت اور کوئی بھی قیمت نہیں ہوگی.پھر اسی طرح اور بھی کئی ذرائع سے رفتہ رفتہ رخنہ پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.شوریٰ کے لئے جو تجاویز میں نے دیکھیں چند دن ہوئے میں حیران ہو گیا کہ کس طرح بعض لوگ لاعلمی سے اور بعض لوگ غالباً عمداً ایسی تجویزیں رفتہ رفتہ داخل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ لوگ جو امریکن پرورش میں جوان ہوئے ہیں، یہاں پیدا ہوئے اور یہی بڑے ہوئے اور بعض امریکن قدروں سے واقف ہیں وہ دھو کے میں مبتلا ہو سکتے ہیں اور نیکی کے نام پر ان کو برائی کی طرف

Page 769

خطبات طاہر جلد ۶ 765 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء منتقل کیا جاسکتا ہے.مثلاً اگر یہ آواز اٹھے بار بار کہ جماعت احمدیہ کو امریکن مزاج کو سمجھنا چاہئے اور امریکن مزاج کو سمجھنے کے ذریعے وہ تبلیغ کر سکتے ہیں ورنہ نا کام ہو جائیں گے.اس لئے امریکن مزاج جاننے والے اوپر آنے چاہئیں یہ ظاہری نتیجہ ہے جس کو مخفی رکھا جاتا ہے.اگر جماعت احمد یہ امریکہ کے مزاج سے ناواقف ہے خلیفہ وقت تو امریکہ کی پیداوار نہیں ہے.ہوسکتا ہے آئندہ کبھی خدا تعالیٰ اس ملک کو بھی اگر یہ تقویٰ کی آماجگاہ بن جائے خلافت کا مرکز بنا دے، کوئی اس سے انکار نہیں کر سکتا مگر سر دست تو خدا تعالیٰ نے خلیفہ وہاں سے چنا ہے جو امریکہ کی پیداوار نہیں اور بظاہر اس کو امریکہ کے مزاج کا کوئی علم نہیں ہونا چاہئے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ امریکہ کے مزاج سمجھنے کے لئے امریکن لوگ آگے آنے چاہئیں ، جاپان کا مزاج پھر کیوں اہمیت نہیں رکھتا ؟ جاپان کا مزاج بھی تو اہمیت رکھتا ہے، اس کو سمجھنے کے لئے اور اس کو غالب کرنے کے لئے جاپانیوں کے ہاتھ میں لیڈر شپ چلی جانی چاہئے اور نائیجریا کا مزاج سمجھنا چاہئے اور پھر غانا کا مزاج سمجھنا چاہئے اور سیرالیون کا مزاج سمجھنا چاہئے، انگلستان کا سمجھنا چاہئے ، جرمنی کا سمجھنا چاہئے ، چین کا سمجھنا چاہئے ، کوریا کا سمجھنا چاہئے ، بے شمار دنیا میں ممالک ہیں.ایک سو چودہ (114) ممالک میں جماعت احمد یہ خدا کے فضل سے قائم ہو چکی ہے.کیا خلیفہ ایک سو چودہ ممالک میں پیدا ہو گا بیک وقت؟ اور ایک سو چودہ کی ممالک کی تربیت میں جوان ہو گا ؟ اگر نہیں تو پھر وہ کیسے دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچائے گا یہ آواز اٹھ رہی ہے.حالانکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ ایک ہی مزاج ہے جس پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور اس مزاج پر اسلام کو پیدا کیا گیا ہے.یہ دین فطرت ہے.یہ دعوئی ہے اسلام کا.اس دعوے کی بنا پر یہ عالمگیر مذہب ہونے کا اہل ہے.یہ آواز جو اٹھتی ہے کہ امریکہ کے لئے امریکہ کا مزاج سمجھنے والے چاہئیں.یہ بظاہر ایک جدید آواز ہے لیکن قدیم ترین آواز ہے، ایک پرانے زمانے کی آواز ہے.اس زمانے کی آواز ہے جبکہ مذاہب قومی اور ملکی ہوا کرتے تھے.ابھی اسلام پیدا نہیں ہوا تھا.امریکہ میں امریکہ کی طرف نبی آئے تھے ، یورپ کے ممالک میں یورپ کے ممالک کو مخاطب کرنے والے نبی آئے تھے ، جاپان میں جاپان کو خطاب کرنے والے نبی آئے تھے اور Middle East میں Middle East سے تخاطب کرنے والے نبی پیدا ہوئے.ساری دنیا کے مزاج کو خدا نے ملحوظ رکھا

Page 770

خطبات طاہر جلد ۶ 766 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء لیکن علاقائی نبی پیدا کئے کیونکہ علاقائی مزاج کو سمجھ کر پیغام دینے والا دنیا کو مخاطب نہیں ہوسکتا.ایک ہی صورت تھی تمام دنیا کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کی.ایک ایسے عالمی نبی کو پیدا کیا جاتا جو فطرت کا مزاج سمجھتا، اس فطرت کا مزاج سمجھتا جس پر خدا نے انسان کو پیدا کیا ہے.جس پر ہر کالے کو پیدا کیا ہے، جس پر ہر گورے کو پیدا کیا ہے، جس پر ہر سرخ کو پیدا کیا ہے، جس پر ہر زرد کو پیدا کیا ہے.مشرق کو بھی پیدا کیا ہے، مغرب کو بھی پیدا کیا ہے.چنانچہ اس نور کا جو محمد مصطفی ﷺ سے ذکر کرتے ہوئے قرآن فرماتا ہے:.لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ (النور: ۳۶) یہ تو عالمی نور ہے نہ یہ مشرق کی جائیداد ہے نہ مغرب کی جائیداد ہے.ہر ملک اور ہر قوم کی نمائندگی کرنے والا نبی ہے.اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ علیہ نے اپنے آخری خطاب میں جو حجۃ الوداع کہلاتا ہے، بڑی شدت کے ساتھ ، بڑی سختی کے ساتھ قبائلی تقسیموں کور د فر ما یا جاہلیت قرار دیا.انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا رہنے کی نصیحت فرمائی اور فرمایا کہ آج اس دن اور اس دن کی عزت کی قسم ! جس دن میں بات کر رہا ہوں ( یعنی حج اکبر کا دن تھا) اس مقام کی قسم ! جس مقام پر میں کھڑا ہوں، اس دن کی حرمت اس مقام کی حرمت میں تمہیں یاد دلاتا ہوں.میں ان سارے جاہلیت کے خیالات کو جو انسان کو مختلف قوموں اور نظریوں میں تفریق کرنے والے ہیں اپنے پاؤں کے نیچے چل رہا ہوں، ہمیشہ کے لئے میں ان کو کچل چکا ہوں، کبھی کوئی تم میں سے ان کو زندہ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا.اگر تم سچے مسلمان ہو، اگر تم میری اس آخری نصیحت کی کوئی بھی قدر کرتے ہو تو یہ تفریقیں تمہارے پاؤں کے نیچے بھی ہمیشہ کھلی جانی چاہئے.یہ وہ دین ہے جو دین واحد ہے جس نے تمام دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنا ہے.یہ ہے محمد مصطفی ﷺ کا دین جو عالمی نبی تھے، ہر قوم کو پیغام دینے کے لئے خدا کی طرف سے چنے گئے تھے.پس پہلے بھی جب میں اس دورے پر حاضر ہوا تھا اپنے ذاتی طور پر ، ایک مجلس میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آپ ایسے آدمیوں کو بھیج دیتے ہیں جو امریکن مزاج نہیں سمجھتے.میں نے ان سے کہا کہ وہ صلى الله.محمد مصطفی مے کا مزاج سمجھتے ہیں کہ نہیں؟ مجھے صرف اس میں دلچسپی ہے.اگر محمد مصطفی میلے کا مزاج سمجھنے والے غلام تمہارے سامنے حاضر ہوتے ہیں تو امریکن مزاج سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں، جاپانی مزاج سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں ، افریقین مزاج سمجھتے ہوں یا نہ سمجھتے ہوں لا زما وہ اس بات کے اہل

Page 771

خطبات طاہر جلد ۶ 767 خطبہ جمعہ ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء ہیں کہ تمہاری تربیت کر سکیں.تمہارے مزاج اگر بگڑ جائیں گے تو اسلام کہاں کہاں تمہارے اس بگڑے ہوئے مزاجوں کی پیروی کرتا پھرے گا.اگر تمہاری سوچیں ٹیڑھی ہو چکی ہوں گی اور مقامی بن گئی ہوں گی تو کہاں کہاں اسلام ٹیڑھا ہو کر تمہاری سوچوں کی پیروی کرتا پھرے گا.تمہیں ان ٹیڑھی سوچوں کو چھوڑ نا ہوگا اور اس مرکزی بنیادی مزاج کی طرف آنا ہوگا جومحمد مصطفی ﷺ کا مزاج ہے.اسی لئے قرآن کریم نے واضح طور پر سورۃ طہ میں فرمایا کہ جب دنیا کے تکبر توڑ دیئے جائیں گے، جب عظیم طاقتوں کو ملیا میٹ کر دیا جائے گا اور انہیں ہموار کر دیا جائے گا:.يَوْمَ بِذِ يَتَّبِعُونَ الدَّاعِيَ لَا عِوَجَ لَهُ ( : ١٠٩) تب دنیا اس بات کی اہل ہوگی کہ میرے محمد ، اس داعی کی پیروی کر سکے جس میں کوئی کبھی نہیں.تم چاہتے ہو کہ اسلام تمہاری کجیوں کی پیروی کرے،تمہارے مطابق اپنا مزاج بدلنا شروع کرے یہ نہیں ہوسکتا.کسی قوم کو یہ اجازت نہیں دی جائے گی کہ اسلام کے عالمی مزاج کو قومی مزاج میں تبدیل کرنے کی کوشش کرے.اسی طرح جاپانیوں نے ہر مذہب کا حلیہ بگاڑا.آج بھی بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ جو مذہب جاپان میں داخل ہوا ہم نے اس کو Japanised کر دیا یعنی بدھ ازم کو بھی Japanised بدھ ازم کے طور پر اپنا یا کنفیوشس ازم کو بھی Japanised کنفیوشس ازم کے طور پر اپنایا اور تا ؤازم کو بھی Japanise تاؤ ازم کے طور پر اپنایا اور آج اسلام کو بھی Japanised اسلام کے طور پر اپنا رہے ہیں.چنانچہ ایک جاپان کا مسلمان لیڈر مجھے ملا اور اس سے میں نے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ اسلام کو آپ جس طرح Japanised کر رہے ہیں اس کی مثال دیں؟ کہتا مثلاً ہم نے وہاں شراب حلال کر دی سؤ رحلال کر دیا.سب جاپانی مسلمانوں کو ہم کہتے ہیں کہ یہ پرانے زمانے کی باتیں تھیں جاپانی مزاج کے مطابق ہم سور اور شراب کے بغیر رہ ہی نہیں سکتے اس لئے اسلام کو بدلنا ہوگا.اس طرح تو اسلام دوبارہ ہزار ہا ملکوں اور قوموں میں تبدیل ہو جائے گا.وہ وحدت ملی کہاں رہی جس کی طرف دنیا کو بلایا جارہا تھا؟ وہ ایک پیغام کہاں چلا گیا جس کی طرف سارے انسانوں کو دعوت دی جا رہی تھی ؟ دنیا واپس لوٹ جائے گی ان قدیم زمانوں کی طرف جب ملکی نبی ملکی پیغام لے کر آیا

Page 772

خطبات طاہر جلد ۶ 768 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء کرتے تھے ہلکی مزاج کو ملحوظ رکھا کرتے تھے.اس لئے ان باتوں کو خوب سمجھیں اور اپنے پلے باندھ لیں یہ مضمون بہت وسیع اور بہت لمبا ہے میں اب اس بات کو مختصر کرتا ہوں کیونکہ آج اس کے بعد شوری کی کاروائی بھی ہونی ہے.اللہ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے، خدا آپ کو اپنی خالص محبت عطا کرے کیونکہ سب ضمانتوں سے بڑھ کر ، سب ضمانتوں کی جان خدا کی محبت ہے.یہ محبت آپ کے دل میں پیدا ہوگئی تو مجھے آپ کے بارے میں کوئی خطرہ نہیں رہے گا میری ساری فکریں دور ہو جائیں گی.میں کامل اطمینان رکھوں گا کہ میں آپ کو خدا کی حفاظت میں چھوڑ کر جارہا ہوں لیکن اگر آپ نے اس محبت کو خطرہ پیدا ہونے دیا، اس محبت پر آنچ آنے دی تو میری ساری نصیحتیں ہوا میں بکھر جائیں گی ، میرے سارے غم قائم رہیں گے، میں ہمیشہ آپ کے بارے میں فکروں میں مبتلا رہوں گا.خدا کی خاطر ایک ہو جائیں، خدا سے اپنا پیار بڑھا ئیں ، مجھ سے اگر پیار کرتے ہیں تو محض خدا کی خاطر کریں پھر آپ کو کوئی دنیا کی طاقت نقصان نہیں پہنچاسکتی.پھر آپ کی جمعیت ہمیشہ قائم رہے گی، پھر آپ پھولیں گے اور پھلیں گے اور بڑھیں گے اور کوئی دنیا کی طاقت آپ کو سمیٹ نہیں سکے گی، آپ کے پیغام میں وہ عظمت پیدا ہو جائے گی جس میں خدا کی محبت غیر معمولی کشش پیدا کرتی ہے.آپ وہ آسمانی آواز ہو جائیں گے جو زمینی طاقتوں کے مقابل پر غالب آئے گی اور زمین پر جھکنے والوں کو آپ اٹھا ئیں گے اور آسمان کی بلندیوں پر لے جائیں گے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: چند مرحومین کی نماز جنازہ غائب کی درخواست کی گئی ہے اور بہت سے ایسے اس میں کارکن بھی شامل ہیں جو سلسلے کے کارکن تھے، بعض ان میں ایک وقت میں واقفین زندگی بھی رہے.بہر حال ان سب کی نماز جنازہ غائب، جمعہ کے بعد عصر کی نماز ہوگی عصر کی نماز کے بعد پڑھائی جائے گی.پہلا نام ہے مکرم ملک عطاء الرحمان صاحب سابق مبلغ فرانس کا جو چند روز قبل جرمنی میں وفات پاگئے.دوسرے ڈاکٹر کیپٹن بشیر احمد صاحب ربوہ میں وفات پاگئے ہیں اور ان کے ایک بھائی جو دفتر پرائیویٹ سیکرٹری میں مدت سے بہت ہی عمدگی اور اخلاص کے ساتھ کام کرتے رہے مکرم محمد احمد

Page 773

خطبات طاہر جلد ۶ 769 خطبه جمعه ۱۳/ نومبر ۱۹۸۷ء صاحب وہ بھی تھوڑے ہی عرصہ پہلے وفات پاگئے ہیں.اوپر تلے اس خاندان میں یہ دو موتیں ہوئی ہیں اور اس کے علاوہ ان کے ایک اور عزیز محمد شفیع صاحب بھی جوقریبی رشتہ دار تھے وہ سیالکوٹ میں وفات پاگئے.تو ان تینوں کی نماز جنازہ بھی عصر کے بعد ہوگی.اس کے علاوہ ہمارے ایک بہت مخلص فدائی کارکن جو واقف زندگی تو نہیں تھے مگر جہاں بھی رہے سلسلہ کی خدمت میں ہمیشہ پیش پیش رہے صوفی رحیم بخش صاحب.جو ہمارے وقف جدید کے ایک پرانے ساتھی صوفی خدا بخش صاحب کے بھائی تھے.لنڈن میں کل اطلاع ملی ہے کہ ہارٹ اٹیک سے وفات پاگئے ہیں.تو ان سب کی نماز جنازہ غائب عصر کی نماز کے معابعد ہوگی

Page 774

Page 775

خطبات طاہر جلد ۶ 771 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء دورہ امریکہ کے ایمان افروز حالات اور جماعت کو داعی الی اللہ بننے کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ رنومبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا:.ابھی چند روز پہلے میں شمالی امریکہ کے دورے سے واپس آیا ہوں.شمالی امریکہ اس لئے کہ شمالی امریکہ میں کینیڈا بھی شامل ہے اور اگر چہ زیادہ تر سفر کا مقصد امریکہ یعنی یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ (United States of America) کا دورہ کرنا تھا مگر اس موقع سے استفادہ کرتے ہوئے دو مرتبہ کینیڈ ابھی جانے کا موقع ملا اور مشرقی کینیڈا اور مغربی کینیڈا کی بعض جماعتوں میں جا کر کئی قسم کی تقریبات میں شامل ہونے کی توفیق ملی.یہ سفر چونکہ بہت طویل تھا بہت وسیع ملک ہے تقریباً ڈیڑھ مہینہ اس سفر میں گزرا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے تقریباً تمام جماعتوں میں سب میں تو نہیں لیکن اکثر جماعتوں میں جانے کا موقع ملا اور اکثر جماعتوں کے تقریباً اکثر احمدی احباب سے ملنے کا موقع ملا.ان میں مرد و زن بیچے سب شامل کر کے ہزارہا کی تعداد بنتی ہے اور تفصیلاً سب سے ملاقات کا تو وقت نہیں تھا لیکن بعض صورتوں میں لمبی ملاقاتیں بھی کرنی پڑیں بعض صورتوں میں مختصر مگر بالعموم تمام احباب جماعت یا یوں کہنا چاہئے کہ احباب جماعت کی اکثریت سے خو دل کر ان کے حالات کا جائزہ لینے کی توفیق ملی.یہ ایک بڑا اہم مقصد تھا جس کی خاطر میں نے یہ سفر شروع کیا تھا اور شروع میں ہی میں نے یہ ہدایت بھجوائی تھی کہ میرا بنیادی مقصد امریکہ جانے کا غیروں سے ملاقاتیں اور بڑے بڑے فنکشنز اور

Page 776

خطبات طاہر جلد ۶ 772 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء تقریبات میں خطابات کرنے نہیں بلکہ جماعتی حالات کا جائزہ لینا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ کس حد تک وہاں کی جماعت ان مختلف ہدایات سے استفادہ کر رہی ہے جو گزشتہ چند سالوں میں میں خصوصیت کے ساتھ جماعت کو دیتارہا ہوں اور اسی طرح بعض ایسے مسائل ہیں جن کا امریکہ سے بطور خاص تعلق تھا ان مسائل کو سمجھنے کے لئے بھی ہر طبقہ جماعت سے تفصیلی ملاقات کی یا بعضوں سے ان میں سے تفصیلی ملاقات کی ضرورت تھی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ مقصد بہت عمدگی سے پورا ہوا لیکن اس سے استفادہ کرتے ہوئے وہاں کی جماعتوں نے ہر جگہ دوسرے پروگرام بھی بنائے ہوئے تھے اس میں کئی قسم کے پروگرام شامل تھے پبلک ایڈریسز (Public Addresses) اور یعنی عام مجالس سے خطاب اور پھر سوال و جواب کا موقع فراہم کرنا ان میں پاکستانی احباب جو امریکہ میں بسے ہوئے ہیں ان کے لئے بھی مجالس منعقد کی گئیں اور امریکن اور مغربی ممالک کے رہنے والے افراد کے لئے بھی الگ مجالس مقرر کی گئیں اور اسی طرح جس طرح انگلستان میں ہم مجالس سوال و جواب منعقد کرتے رہے ہیں جماعتی طور پر بھی مجالس سوال و جواب منعقد کی گئیں.پھر پریس سے انٹرویو بھی کثرت کے ساتھ ہوئے ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ساتھ انٹرویو بھی ہوئے.پھر بعض مشہور شخصیتوں اہم شخصیتوں سے ملاقات کا بھی انتظام کیا گیا لیکن ان اجتماعی تقریبات میں سب سے اہم تقریبات وہ تھیں جن کا مساجد کی تعمیر یا مساجد کی افتتاح سے تعلق تھا.اس پہلو سے جو بہت ہی خوش کن خبر ہے وہ یہ ہے کہ اس دورے میں تین مساجد کے افتتاح کی توفیق ملی.ان میں سے ایک فلاڈلفیا میں ایک ہماری چھوٹی سی جماعت ہے ان میں بعض بہت ہی مخلص فدائی نمبر ہیں جنہوں نے زیادہ بوجھ اٹھایا ہے اور اللہ کے فضل سے اپنی توفیق سے جیسا کہ نظر آتا ہے بڑھ کر تو نہیں کہہ سکتے لیکن توفیق کے آخری کناروں تک پہنچ کر بڑی ہمت سے انہوں نے بہت ہی خوبصورت جگہ جماعت کے لئے خریدی اور وہاں پہلے سے ایک عمارت موجود تھی اس پر مزید کام کر کے مزید اس کا نقشہ بدل کر اس میں ایک مسجد بنائی گئی ، مستورات کے لئے الگ مردوں کے لئے الگ اور کافی وسیع فلورز (Floors) یعنی ایسے کمرے ہیں ہال قسم کے جن کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے اور دیگر ضروریات کا بھی خیال رکھا گیا.چنانچہ اللہ کے فضل سے بہت ہی اچھی جگہ انہوں نے حاصل کر لی ہے.

Page 777

خطبات طاہر جلد ۶ 773 خطبہ جمعہ ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء پھر Tosan ایک جگہ ہے مغرب کی طرف وہاں بھی جماعت چھوٹی ہونے کے باوجود بہت ہی خوبصورت اور با موقع مسجد کی تعمیر کی ان کو توفیق ملی اور وہاں بھی افتتاح کی تقریب ہوئی.پھر Portland شمال مغربی حصے میں واقع ہے یہ Origan سٹیٹ کا دارالخلافہ یا Capital City ہے.اس جگہ بھی خدا کے فضل سے چھوٹی سی جماعت نے بہت ہی پیاری اور بڑی خوبصورت مسجد بنائی ہے اور امید رکھتے ہیں کہ آئندہ کئی سالوں تک ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی.صرف چار خاندانوں کی جماعت ہے.امریکہ کی جماعتوں میں غالبا سب سے چھوٹی ہے اور ان کو یہ تاریخی خدمت کی توفیق ملی کہ سارے امریکہ کے مغربی ساحل میں بیان کیا جاتا ہے کہ یہ پہلی مسجد ہے جس کی پہلی اینٹ اس غرض سے رکھی گئی تھی کہ خدا کا گھر بنے گا اور سارے مغربی امریکہ کے اندر یہ جو اعزاز ہے اس کے مغربی ساحل کے اندر پہلی مسجد بنانے کا یہ بہت ہی ایک تاریخی نوعیت کا اعزاز ہے.اگر چہ دیگر ممالک کے مسلمانوں نے بھی اور پاکستانیوں نے بھی بعض مراکز قائم کئے ہیں جن میں وہ نمازیں ادا کرتے ہیں جس طرح جماعت احمد یہ بھی کثرت سے ایسے مراکز قائم کرتی ہے لیکن بیان یہ کیا گیا ہے پہلی خدا کی خاطر بنائی جانے والی عمارت یعنی آغاز سے لے کر آخر تک مسجد کی خاطر جو بنائی گئی تھی وہ یہ پہلی مسجد ہے.جہاں تک جماعتوں کے تعلقات کا معاملہ ہے اکثر یہ محسوس کیا گیا ہے کہ احباب جماعت خدا کے فضل سے غیروں پر اچھا اثر رکھتے ہیں اور ان کے تعلقات بہت وسیع ہیں.بعض صورتوں میں تو بہت چھوٹا ہونے کے باوجود تعداد میں ان کا رسوخ اور ان کا نیک اثر بہت ہی وسیع ہے.چنانچہ Portland ہی میں جو تقریب منعقد کی گئی مسجد کی اور اس کے بعد مجھ سے ملاقات کروانے اور پھر سوال وجواب کی مجلس منعقد کرنے کی اس میں Portland کی تقریباً ساری سوسائٹی کی کریم (Cream) آئی ہوئی تھی یعنی جو ان کی سوسائٹی میں اہم لوگ ہیں بڑے بڑے دانشور اور سائنسدان اور ڈاکٹرز اور جراح، ہر قسم کے قابل لوگ وہاں اکٹھے ہوئے تھے اور اس علاقے کے سینیٹر جہاں مسجد بنی ہے وہ بھی اور ان کی بیگم بھی جو اس شہر کی میئر ہیں وہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے تقریب میں اور ان کے رد عمل سے جو باتوں کے دوران ظاہر ہوا یہ معلوم ہوتا ہے کہ جماعت نے وہاں بہت ہی نیک اثر ان لوگوں پر چھوڑا ہوا ہے.چنانچہ بعض لوگوں نے بتایا کہ اپنی دلچسپی کی تقریبات اور کلبوں کی شمولیت کو محض اس لئے وہ

Page 778

خطبات طاہر جلد ۶ 774 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء قربان کر کے آئے کہ جن دوستوں نے ان کو دعوت دی تھی ان کا انکار نہیں کر سکتے تھے.تو اس پہلو سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ جماعت امریکہ میں بالعموم بہت ہی زیادہ کام کرنے کی گنجائش پیدا ہو چکی ہے اور بہت ہی نیک اثر احمدیوں کا اپنے اپنے علاقوں میں ہے.تقریبات میں شمولیت کے بعد وہاں کی جماعت نے جو تاثرات بھجوائے یا اس وقت بھی بعد میں بیان کئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں اسلام کے لئے یعنی بچے اسلام کے لئے اس اسلام کے لئے جسے جماعت احمد یہ دیکھتی ہے اور جس پر جماعت احمد یہ عاشق ہے بہت ہی عظیم الشان گنجائش موجود ہے.اکثر امریکہ کے متعلق جو یہ تاثر ہے کہ لوگ اسلام سے نفرت کرتے ہیں یہ درست ہے کہ لوگ اسلام سے نفرت کرتے ہیں لیکن اس اسلام سے نفرت نہیں کرتے جو حضرت اقدس محمد مصطفی مو کا اسلام تھا ، اس اسلام سے نفرت نہیں کرتے جسے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آنکھوں نے دیکھا اور جس سے ہم پیار کرتے ہیں بلکہ ایک ایسے فرضی اسلام سے نفرت کرتے ہیں جس کا دو طرح سے انہوں نے مشاہدہ کیا ہے.اوّل وہ اسلام جوان کے پروپیگنڈا میڈیا ریڈیو، ٹیلی ویژن اور اخبارات ان کے سامنے پیش کرتے ہیں اور وہ چونکہ ایک خاص نفرت کے زاویے سے تصویر پیش کی جاتی ہے جس میں سیاسی مصالح شامل ہو چکے ہیں اور بہت حد تک عمد أ مکر وہ صورت میں اسلام کو پیش کیا جاتا ہے.اس لئے اس زاویے سے جب اسلام کو دیکھا جائے تو واقعی ایک نہایت ہی مکر وہ تصویر ابھرتی ہے.اس لئے جو عوام الناس ہیں ان کا اس میں کوئی قصور نہیں.جب آپ ایک بدصورت نقشہ کھینچیں گے تو طبیعت طبعا اس سے متنفر ہوگی اور دور بھاگے گی.دوسرا جو بعض مسلمان ممالک کے جارحانہ اقدامات ہیں اور ان کے خاص ظالمانہ برتاؤ خود اپنے ممالک کے بسنے والوں سے ہیں اس کا بہت برا اثر ہے اور جب بھی مجالس لگتی ہیں ان میں یہ سوال ضرور اٹھتے ہیں.بہر حال یہ ایک الگ لمبی روئیداد ہے جس کی تفصیل میں اس وقت جانے کی گنجائش نہیں مگر جہاں جہاں بھی مجالس لگیں وہاں ان مسائل پر سوال اٹھتے رہے اور جماعت کی طرف سے جو صحیح اسلام کی تصویر ہے اسے پیش کرنے کی کوشش کی جاتی رہی.خود اسی جگہ یعنی Portland میں بھی جہاں کی بات ہو رہی تھی وہاں سے ہمارے احمدی دوستوں نے بعض زبانی تاثر بھی بیان کیا پھران کے تحریری خطوط بھی بھجوائے جو لوگ شامل ہوئے تھے تو ان میں سے ایک صاحب جنہوں نے اسلام

Page 779

خطبات طاہر جلد ۶ 775 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء کی Violence کے اوپر سوال کیا تھا.وہاں کے چوٹی کے قابل سرجنز (Surgeons) میں ان کا شمار ہے اور دنیا میں شہرت رکھنے والے دوست ہیں.ان کو جب میں نے اس کا جواب دیا تفصیل سے تو اس کے بعد ان کا یہ تاثر تھا انہوں نے اپنے دوست کو بتایا کہ میں تو اپنی شام کی محفل اور کلب قربان کر کے صرف تمہاری خاطر آیا تھا اور میں تیار ہو کے آیا تھا کہ ایک دو گھنٹے بہت ہی بور ہوں گا اور بڑی مشکل سے وقت گزرے لیکن ایسی مجلس میں آکر میں نے محسوس کیا کہ اگر یہ مجلس ہے تو میں اس کے لئے ہر جگہ جا کر اپنا وقت خرچ کرنے کے لئے شوق سے تیار ہوں گا کیونکہ اسلام کے متعلق اور بعض دیگر امور میں ایسی ایسی معلومات حاصل ہوئیں کہ اس سے پہلے ہمارے تصور میں بھی نہیں تھا.پھر اسی طرح ایک اور دوست اسی جگہ وہ بھی ایک بہت قابل ڈاکٹر ہیں اور عملاً دہریہ، مذہب سے متنفر تھے انہوں نے ایک سوال کیا اور سوال کے جواب کے بعد ان کا تاثر یہ تھا کہ دوسرے دن وہ خود اپنے دوست کے پاس پہنچے اور کہا کہ میں آج تک ساری زندگی مذہب سے متنفر رہا ہوں کوئی کبھی دلچسپی نہیں لی لیکن صرف ایک سوال کرنے کے نتیجے میں جب اسلامک نظریہ مجھے معلوم ہوا ہے تو مجھ میں اتنی دلچسپی پیدا ہو گئی ہے کہ اب میں لٹریچر مانگنے کے لئے آیا ہوں.مجھے مذہب کے متعلق ہر قسم کا لٹریچر دو، مذہب سے مراد اسلام تھی اور میں اس کا مطالعہ کرنا چاہتا ہوں اور اس کے علاوہ بھی کثرت سے وہاں سے مطالبے شروع ہو گئے.تو صرف یہ ایک نمونہ ہے جو ہر جگہ اسی طرح دہرایا گیا ہے اللہ کے فضل سے.تو میں نے یہ محسوس کیا کہ باوجود اس کے کہ عام تاثر یہی ہے کہ امریکہ میں اسلام کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے.یہ تاثر درست بھی ہے اور غلط بھی ہے.اسلام کے خلاف نفرت نہیں ہے.اس اسلام کے خلاف نفرت ہے جو بگڑی ہوئی صورت میں آج امریکہ کے سامنے پیش کیا جا رہا ہے.ایک اور پہلو سے ان سب مواقع پر ان کی سوسائٹی کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا کیونکہ میں تو اس نظر سے ان کو دیکھتا رہا کہ اسلام کے داخل کرنے کے لئے کون کون سے مواقع ہیں، کون کون سے نئے رستے کھل سکتے ہیں.جیسا کہ میں پہلے بیان کرتا رہا ہوں میرا تاثر امریکہ کے متعلق یہی تھا اور وہ درست ہے کہ سب دنیا میں اس وقت گندگی پھیلانے کا سب سے بڑا مرکز امریکہ ہے اور ہر بدی وہاں ایجاد ہوتی ہے، ہر دنیا کی برائی امریکہ سے پھوٹ رہی ہے لیکن ایک اور پہلو سے مجھے اس سفر میں جب ان کے

Page 780

خطبات طاہر جلد ۶ 776 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء حالات کے مطالعہ کا موقع ملا تو معلوم ہوا کہ یہ پوری صحیح تصویر نہیں ہے اس کو زیادہ وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت ہے.چنانچہ اس کی طرف مجھے ایک امریکہ کے کانگرس مین نے توجہ دلائی جب وہ ملاقات کے لئے تشریف لائے تو ضمناً ان کو یہ اندازہ ہو گیا کہ میری امریکہ کے متعلق رائے اچھی نہیں ہے.تو انہوں نے کہا کہ آپ اس پہلو سے جب ملاقاتیں کریں گے تصور کریں گے تو اس پہلو سے ضرور مطالعہ کریں کہ امریکن عوام اچھے لوگ ہیں.دل کے اچھے ہیں، سادہ ہیں اور ان کے دل میں برائی نہیں ہے.یہ الگ بات ہے کہ وہ خود بعض بڑے بڑے Cartels کا شکار ہو چکے ہیں بڑی بڑی مافیا قسم کی تنظیموں کے نیچے وہ بے بس ہیں.یہ آخری لفظ تو انہوں نے نہیں کہے مگر مراد یہی تھی کہ آپ ان کو دیکھیں گے کہ وہ خود معصوم اور بے قصور لوگ ہیں.چنانچہ اس سے مجھے بڑا فائدہ پہنچا انہوں نے جو یہ اس زاویے سے امریکنوں کے حالات کے جائزے کا مشورہ دیا تو اس کا میں بڑا ممنون ہوں کیونکہ اس سے مجھے واقعہ بہت فائدہ پہنچا اور سارے امریکہ کے سفر کے دوران ملاقاتوں کے بعد جن میں گورے بھی تھے کالے بھی افریقین بسے ہوئے بھی اور دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے بھی.میں نے یہ اندازہ کیا کہ سارا امریکہ خود اس وقت غلام بنا ہوا ہے اپنے نظام کا اور یہ جو نہایت ہی ذلیل قسم کا مالیاتی نظام سودی نظام اور مادہ پرستی کا نظام ان کے اوپر نافذ ہو چکا ہے اس سے وہ نکل نہیں سکتے اب بالکل بے اختیار ہو چکے ہیں ان کے ہاتھوں میں اور چند بڑے بڑے ایسے Cartels ہیں، چندا ایسے بڑے بڑے جتے ہیں اموال کے اوپر قبضہ کرنے والے جن کے قبضے میں سارے امریکہ کی ہر چیز آچکی ہے.ان کا تمدن، ان کا معاشرہ ، ان کا مذہب، ان کی سیاست، ان کا عام رہن سہن ، بولنے کے انداز ، رہنے کے انداز یہ تمام کے تمام اس وقت چوٹی کے چند اہم جتھوں کے قبضے میں ہے جو Sources پر یعنی جو بھی قوتوں کے منبع ہیں ان پر قابض ہو چکے ہیں اور اپنے مفاد کو قائم رکھنے اور آگے بڑھانے کے لئے وہ ہر قسم کی بدی امریکن عوام کو دیتے ہیں اور ان کے مزاج کو بگاڑتے ان کے مزاج کو بگاڑنے کے بعد بگڑی ہوئی چیزیں پھر ان کو مہیا کرنے کی ذمہ داری لیتے گویا کہ آخری چیز پیسہ ہے اور وہ پیسہ چونکہ چندلوگوں کے قبضے میں ہے اس لئے پیسے کی خاطر وہ قوم کی ہر چیز کو قربان کر سکتے ہیں ان کے مزاج کو ان کے خیالات کو ان کی سیاست کو، ان کے بین الاقوامی تعلقات کو تو بہت ہی مظلوم حالت ہے اس قوم کی اس پہلو سے اور

Page 781

خطبات طاہر جلد ۶ 777 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء جب بھی اس مسئلے کو چھیڑا جائے تو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اس کا ایک مبہم سا احساس تو کم از کم ہر دل میں موجود ہے لیکن بعض لوگوں میں باشعور احساس ہے ، شدت سے اس کے خلاف رد عمل پیدا ہورہا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ وہ کس طرح اس مصیبت سے آزاد ہو سکتے ہیں.پھر بین الاقوامی سیاست نے بھی وہاں رخنے ڈالے ہوئے ہیں اور بعض خرابیوں کو بڑھا رہے ہیں مثلاً جن کو کالا امریکن کہا جاتا ہے ہم ان کو Afro-American کہتے ہیں کیونکہ Afro-American لفظ میں کوئی تذلیل نہیں لیکن بدبختی سے کالا امریکن کے اندر ایک تذلیل کا پہلو داخل ہو چکا ہے اس لئے میں ہمیشہ اس اصطلاح سے گریز کرتا رہا اور جماعت کو بھی یہی کہتا رہا کہ اس اصطلاح سے اس لئے گریز کریں کہ Black Americans لفظ میں ایک تذلیل کا ، جس طرح پہلے زمانوں میں Nigger کے لفظ میں تذلیل کا پہلو پایا جاتا تھا اس میں بھی داخل ہو چکا ہے اور ہمیں Afro-American کہنا چاہئے.تو African Americans میں بھی بین الاقوامی سازشیں کام کر رہی ہیں اور جو سینکڑوں سال کی محرومی کا احساس ہے اس کو مشتعل کر کے خودان کو اپنے مفاد کے خلاف غلط رستوں پر ڈالا جا رہا ہے اور سیاہ اور سفید کی تفریق کو اس رنگ میں ابھارا جا رہا ہے کہ اس کے نتیجے میں سیاہ فام اپنے حقوق لینے کی بجائے پہلے سے بھی زیادہ بدتر حال تک پہنچ جائیں اور عملاً اشتعال انگیزی کے لئے غیر قو میں اور غیر طاقتیں اپنے روپے کے بل بوتے پر ان کو استعمال کر رہی ہیں.پھر مذہب کے معاملے میں بھی ان کے ساتھ کھیلا جارہا ہے یہاں تک ظلم ہے کہ اسلام کے نام پر قتل و غارت کی تعلیم دینے والی تنظیموں نے ان میں سے ایک بڑے حصے پر قبضہ کیا ہوا ہے اور مختلف ناموں سے اس وقت اسلامی فرقے وہاں کام کر رہے ہیں اور ان سب کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ ہے کسی تیل کی طاقت کا ہاتھ ہے جسے وہ اپنے طور پر استعمال کر رہی ہے، جس کو کہتے ہیں Petrodollars وہ وہاں خرچ کر کے تو ان سب تنظیمات کے اخراجات مہیا کئے جاتے ہیں اور ان کو مساجد اور مراکز بنا کے دیئے جاتے ہیں اور پھر ان کی پالیسیز (Policies) پہ نہ صرف کنٹرول ہوتا ہے بلکہ عملاً ان کو لیڈرشپ بھی باہر سے مہیا کی جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں بعض بڑے بڑے خطرناک رجحانات ان لوگوں میں اسلام کے نام پر داخل کئے جار ہے ہیں.ایک یہ بھی وجہ ہے جس کی وجہ سے اسلام مزید بد نام ہورہا ہے.

Page 782

خطبات طاہر جلد ۶ 778 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء تو یہ مسائل اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مسائل کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کی توفیق ملی اور میں نے محسوس کیا کہ وہ لوگ صحیح اور نیک مشورے کی قدر کرتے ہیں اور بڑی جلدی اس کی طرف متوجہ ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں.اس لئے یہ سارے خوفناک نقشوں کے باوجود جو ہمیں وہاں دکھائی دے رہے ہیں.امریکہ سے ہمیں ایک امید رکھنی چاہئے اور بھی کئی ایسے پہلو ہیں جس کے نتیجے میں ہمیں امریکہ کی طرف نسبتا زیادہ توجہ دینی چاہئے.اکثران ملاقاتوں کے بعد جو مجالس میں ہوئیں بہت سے دوستوں کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا کہ ہمیں علیحدہ ملاقات کے موقعے بھی دیئے جائیں اور ان میں بعض Afro-American لیڈرز بھی تھے اپنے اپنے علاقے کے جنہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کیونکہ میرے پاس وقت تھوڑا تھا اس لئے میں خود تو ان سے دوبارہ ہل نہیں سکتا تھا میں نے ان کو اپنے مقامی جماعتوں کے پتے دیئے بعض ایسی شخصیتوں کے جن کے متعلق مجھے امید تھی کہ ان کو مطمئن کر سکیں گے لیکن اس کے باوجود ان کا مطالبہ یہ رہا کہ ہمارے مسائل میں راہنمائی کی خاطر آپ ہمیں خود بھی ضرور وقت دیں.چنانچہ بعد میں کہا کہ اگر آپ ہمیں لنڈن میں وقت دینا چاہتے ہیں تو ہم وہاں آنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ بعضوں کو ان میں سے وقت میں نے دیا ہے کہ وہ لنڈن جب بھی تشریف لائیں یا اسی غرض سے اگر سفر کرنا چاہتے ہیں تب بھی وہ تشریف لائیں اور انشاء اللہ جتنا بھی ممکن ہوا میں ان کو وقت دے سکا تو اتنا وقت دوں گا.تو کئی پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ سفر بہت ہی مصروف گزرا اور جس حد تک بھی انسان اپنے وقت کو بہترین مصرف میں استعمال کر سکتا ہے وہاں کی جماعت نے کوشش کی کہ میرے وقت کو اس کا ایک ایک منٹ جس حد تک بھی باندھا جا سکتا ہے مصروفیتوں میں وہ باندھا جائے اور اس کے نیک نتائج حاصل کرنے کی کوشش کی جائے.جہاں تک نیک نتائج کا تعلق ہے اس میں ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ نیک نتائج تو خدا ہی کے ہاتھ میں ہوتے ہیں.کوششیں آپ جتنی چاہیں کریں اگر دعا شامل حال نہ ہو یا اللہ تعالیٰ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہو تو وہ ساری کوششیں نا کام جاتی ہیں.چنانچہ ہماری کوششوں کے مقابل پر بعض حکومتیں اس سفر کو ناکام بنانے کے لئے ہم سے بہت زیادہ قوی کوششیں کر رہی تھیں.

Page 783

779 خطبه جمعه ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء خطبات طاہر جلد ۶ یہاں تک کہ غیروں نے خود ان کے متعلق ہمیں تفاصیل بیان کیں کہ کتنی توجہ کے ساتھ آپ کے دورے کو ناکام بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.ایک Voice of America کے انٹرویو کے بعد ہی وہاں کے انٹرویو لینے والے نے ہمیں فون پر اطلاع دی کہ ایک ہمارے سفارت خانے پر اتنا دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان کا کوئی انٹرویو وہاں سے براڈ کاسٹ نہ کیا جائے کہ اب تک ہمیں چھ Telex موصول ہو چکی ہیں اور اس دباؤ کے نتیجے میں اگر چہ میں تو بالکل دینے والا انسان نہیں ہوں مگر ہمارا شعبے کے بڑے سر براہ وہ ڈر گئے ہیں اور انہوں نے مجھے کہا ہے کہ اس انٹرویو کو شائع نہ کرو.چنانچہ ہم نے ان سے پوچھا.میں نے خود تو بات نہیں کی جو مجھے بتایا گیا تو میں نے کہا پھر ان سے پوچھو کہ پھر انہوں نے کیا فیصلہ کیا ہے.انہوں نے کہا میرا فیصلہ تو یہی ہے کہ لازما اس انٹرویو کو میں براڈ کاسٹ کروں گا لیکن میں نے اپنے افسران سے یہ کہا ہے کہ آپ ایک بورڈ بٹھا دیں وہ اس کی سکروٹنی (Scrutiny) کریں اور اگر ان کو کوئی قابلِ اعترض چیز نظر آئی تو بیشک اس حصے کو نکال دیں لیکن یہ کوئی قابل قبول بات نہیں ہے کہ کوئی حکومت پسند نہیں کرتی کہ کسی کا انٹرویو ہو اور وہ انٹر ویو اس لائق ہو کہ ہمارے عوام اس کو سنیں یا دنیا کے دوسرے عوام اس کو سنیں اور ہم اس کو بند کر دیں یہ میری سمجھ سے بالا بات ہے.چنانچہ تین یا چار آدمیوں کا ایک بورڈ بیٹھا اس نے تفصیل سے اس انٹرویو کو سنا اور اس کو کڑی نظر سے دیکھا اور آخر پر فیصلہ کیا ایک فقرے کے متعلق کہ اگر یہ نہ ہو تو کوئی حرج نہیں تو جس نے انٹرو یولیا تھا اس نے کہا کہ میرے نزدیک تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں انہوں نے کہا ٹھیک ہے پھر اس کو بھی بیچ میں شامل کر دو.تو یہ حالت تھی شدید مخالفانہ کوششیں کی جارہی تھیں.ہر جگہ جہاں ہم پہنچتے تھے تقریبا ہر جگہ یعنی اکثر صورتوں میں ایک ایک گھر چٹھیاں پہنچائی گئیں کہ ان کی بات سننے کے لئے کوئی نہ آئے مسلمان کو بھی اور غیر مسلموں کو بھی روکا گیا کہ کوئی ان کی بات نہ سنے اور اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کے سے لوگ رُکے نہیں اور چلے آئے اور خدا کے فضل سے بہت ہی نیک اثرات ظاہر ہوئے اور بڑے اچھے خیالات کا اظہار کرتے رہے.بعض جگہ تو ایسی شکل تھی کہ ایک خاوند ہیں بڑے قابل پاکستانی اور یجن کے یعنی خاوند میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آگے بیوی کا ذکر اس رنگ میں آنے والا ہے کہ ان کا تعارف خاوند کے طور پر ہی ہونا چاہئے ، وہ اپنے بیوی بچوں کو احمدیوں سے ملنے سے روکا فضل.

Page 784

خطبات طاہر جلد ۶ 780 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء کرتے تھے اور کبھی بھی تقریبات میں آنے نہیں دیتے تھے ان کے گھر میں کوئی عزیز بیمار ہو گیا تو چونکہ عورتوں میں زیادہ توجہ ہوتی ہے دعا کی طرف بالعموم یہ دیکھا گیا ہے خصوصا بچوں کے معاملے میں زیادہ تر پھر وہ ہر تعصب کو بالائے طاق رکھ کر جہاں سے بھی ان کو امید ہو کہ دعا کے نتیجے فائدہ ہوسکتا ہے وہ کوشش کرتیں ہیں.تو ان کی بیوی اس خیال سے کہ شاید ان کی دعا سے ہمارے بچے بچی کی مراد پوری ہو جائے ٹھیک ہو جائے وہ تشریف لے آئیں ہماری ایک مجلس سوال و جواب میں اور ان کے ساتھ ان کی ایک بچی بھی تھی اور اس کے بعد پھر ملاقات کی پھر انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ ہمارا مسئلہ ہے اس میں دعا بھی کریں اور اگر دوا بھی ہو سکتی ہے تو وہ بھی دیں.ان کے ساتھ جو بچی تھی اس کا ایک اپنی چھوٹی سی معصوم سی ایک تکلیف تھی یعنی ایک خواہش تھی اور ایک تکلیف تھی اس کا اس نے ذکر کیا.اس نے کہا کہ کافی عرصہ سے مجھے یہ پریشانی ہے تو میرے لئے بھی دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کی ایسی شان اس طرح ظاہر ہوئی ، میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ نتیجے خدا ظاہر فرماتا ہے کس طرح خدا نے ان کے خاندان کا دل بدلنے کے لئے انتظام کئے کہ دوسرے دن ہی اس بچی کی وہ خواہش جس کے پورے ہونے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے وہ پوری ہوگئی اور جس رنگ میں ہوئی وہ حیرت انگیز تھا.چنانچہ جب اس کے والد کام سے واپس آئے تو اس وقت اس نے یہ راز کھول دیا ان کے سامنے کہ آپ تو منع کیا کرتے تھے اور یہ واقعہ ہوا ہے ہم وہاں گئے ہیں اور یہ باتیں سنیں اور پھر یہ دعا کروائی اور یہ دیکھ لیں کہ یہ خدا کے فضل سے پوری بھی ہوگئی تو ان کے والد کا فون آیا، اس بچی کے والد کا کہ اگلی مجلس میں میں بھی شامل ہونا چاہتا ہوں.چنانچہ نئی دوسری مجلس جو غیروں کے لئے تھی خصوصیت سے غیروں سے مراد ہے غیر مسلموں کے لئے بعض اس میں پاکستانی بھی تھے ان کو بھی بلا لیا گیا اور اللہ کے فضل سے نتیجہ یہ نکلا کہ جب میں وہاں سے (لاس اینجلس کی بات ہے ) سان فرانسسکو گیا تو انہوں نے اپنے بھائی کو جو وہاں رہتے تھے فون کر کے یہ تاکید کی کہ وہ مجھ سے ضرور ملیں اور اپنی فیملی کو لے کے آئیں چنانچہ انہوں نے بھی وقت لیا اور ان سے بھی اچھی گفتگو ہوئی.تو ہر جگہ خدا تعالیٰ اپنے فضل سے دلوں پر تصرف فرمارہا تھا اور بہت ہی نیک نتائج اس کے ظاہر ہوتے چلے گئے.کئی جگہ شروع میں ملنے والوں کا رویہ جارحانہ تھا ان میں عیسائی بھی تھے اور دوسرے بھی مثلاً ایک پریس کے انٹرویو لینے والے دوست نے بڑے ہی جارحانہ انداز میں اسلام

Page 785

خطبات طاہر جلد ۶ 781 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء کے خلاف باتیں شروع کیں اور مسائل کے متعلق اسلام کا عالمی تصور کیا ہے کس طرح مسائل حل ہوں گے؟ کس طرح انسان کو Peace ملے گی؟ کس طرح دنیا میں امن قائم ہوگا ؟ اس قسم کے سوالات تھے اور مسلمان ممالک کے متعلق جو ان کے ذہن میں تصویر تھی اس کے پیش نظر ان کے سوالات میں کافی جارحیت تھی.تو ان کو میں نے پہلے ہی جواب دیا میں نے کہا بڑا آسان طریق ہے احمدی ہو جائیں آپ تو ساری دنیا میں امن آجائے گا اور عیسائی بھی یہودی بھی سب جھگڑے ختم اور وہ پہلے تو ہنس پڑے سمجھے کہ میں مذاق کر رہا ہوں پھر انہوں نے دوبارہ پوچھا کہ تم سنجیدہ ہو اس جواب میں؟ میں نے کہا ہاں! نہ صرف سنجیدہ ہوں بلکہ کامل یقین ہے مجھے.تو اس نے کہا یہ تو لغو جواب ہے بالکل بے معنی جواب میں تو نہیں توقع رکھتا کہ اس قسم کے سوال کا جواب یہ ہو.میں نے کہا پھر اسی پر گفتگو ہو جائے کہ بے معنی جواب ہے کہ نہیں اور میں ساری تفصیل سے آپ کو سمجھاتا ہوں.چنانچہ جب ان کو سمجھایا تو جارحیت تو در کنار ان کے اندر غیر معمولی دوستی پیدا ہو گئی اور انہوں نے کہا کہ اگر اجازت ہو تو اب جو اس کے بعد آپ کی تقریب ہو رہی ہے مجلس اس میں بھی میں شامل ہو جاؤں؟ میں نے کہا ہاں ! ضرور شوق سے تشریف لائیں.چنانچہ وہ اس میں شامل ہوئے پھر دوبارہ اجازت لے کر قریب آ کے کرسی پر بیٹھ گئے.پھر انہوں نے کہا میں آپ کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں.اسلام سے جو مجھے نفرت ہوئی ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ میں ایک دفعہ مسلمان ہو گیا تھا اور مسلمان ہونے کے بعد جن لوگوں کے پہلے پڑا جس قسم کے مسلمانوں سے واسطہ پڑا غیر ملکوں کا خصوصا ذکر کیا انہوں نے غیر ملکی نمائندوں سے اس سے مجھے شدید جھٹکا پہنچا اور پھر میں نے دعا کی کہ اے خدا! میں تو ہدایت کی خاطر اس طرف آیا تھا یہاں تو اس قسم کے لوگ ہیں، اس قسم کے ان کے تصورات ہیں، میری فطرت کے خلاف ہے یہ اسلام تو میری ہدایت فرما.کہتے ہیں اس دوران مجھے دھکا لگا بڑی زور سے اور میں چاروں شانے چت جا گرا اور اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ خدا نے مجھے کہا ہے کہ اس اسلام کو رد کر دو اور یہ دھکا ملا ہے اور میں نے اسی وقت پھر چھوڑ دیا اور شروع میں جو میرے سوالات میں ایک جارحیت پائی جاتی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ ایک پس منظر ہے میری دشمنی اور نفرت کا لیکن آج جو میں نے انٹرویو کے دوران اور یہاں مجلس میں باتیں سنی ہیں میں اب شک میں پڑ گیا ہوں کہ میرا فیصلہ درست تھا یا غلط تھا اور اس کی تعبیر کیا تھی جو واقعہ میرے ساتھ گزرا؟ اور پھر انہوں نے اس کے

Page 786

خطبات طاہر جلد ۶ 782 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء ساتھ ایک اور نظارہ بتایا کہ یہ نظارہ بھی میں نے دیکھا مجھے اس کی تعبیر چاہئے.تو جب میں نے ان کو سمجھایا تو ان کی بالکل کیفیت بدل گئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے دلچسپی اور بڑھ گئی یہاں تک کہ انہوں نے کہا کہ آپ اب ٹیلی ویژن پر انٹرویو کے لئے جا رہے ہیں تو مجھے اجازت ہے میں بھی ساتھ آجاؤں؟ میں نے کہا ہاں شوق سے آئیں اور وہاں بھی بیٹھے رہے اور بڑا ہی چہرے پہ محبت کے آثار ظاہر ہورہے تھے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے دیکھا ہے جب اللہ تعالیٰ دل بدلنا چاہتا ہے تو بالکل اچانک بدل دیتا ہے جیسے مشرق سے کسی کا سر پکڑ کے مغرب کی طرف کر دے.رسول اکرم ﷺ نے یہی نقشہ کھینچا ہے فرمایا خدا کی دوانگلیوں کے درمیان اس طرح دل ہیں یوں اس کو پلٹ دے تو رُخ ادھر ہو جاتا ہے یوں کر دے تو رخ ادھر ہو جاتا ہے اور خدا ہی کے ہاتھ میں دل ہے (مسلم کتاب القدر حدیث نمبر ۴۷۹۸).اس لئے کوئی بھی دورہ کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی جب تک دعاؤں پر انحصار نہ ہو اور جب اللہ تعالیٰ فضل فرمائے تو معمولی کوششوں کے بھی اچھے نتیجے ظاہر ہوتے ہیں اچھے پھل ظاہر ہوتے ہیں وہاں بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بے ساختہ اچانک پھل ملتے رہے.واشنگٹن میں جو سب سے اہم جگہ ہے امریکہ کی طاقت کے سرچشموں کا مرکز ہے وہاں جو مجلس ہوئی وہاں غیر احمدی مسلمانوں کی طرف سے ایک باقاعدہ منظم سازش کے نتیجے میں شرارت کی کوشش کی گئی اور بعض سوالات ایسے کئے گئے جس کے نتیجے میں ان کا خیال تھا کہ جو مسلمان آئے ہوئے ہیں اور ان میں بڑی بڑی اہم شخصیتیں شامل تھیں کیونکہ واشنگٹن چونکہ مرکز ہے وہاں سارے عالم اسلام سے اہم لوگ آکے بسے ہوئے ہیں اور پاکستان کے نمائندہ بھی وہیں ہیں زیادہ تر.وہاں بڑی منظم سازش کی گئی اور بعض ایسے سوال اٹھائے گئے جن کے نتیجے میں وہ لوگ سمجھتے تھے کہ دوسرے مسلمانوں پر اگر کوئی نیک اثر پڑ رہا ہے تو وہ فورا اٹل جائے گا.اس کا الٹ نتیجہ خدا نے پیدا کیا ان کے نقطہ نگاہ سے اور جتنی کوشش کی گئی جماعت کے اثر کو مٹانے کی اتنی ہی زیادہ قوت کے ساتھ جماعت کا اثر ظاہر ہوا.چنانچہ مجلس ختم ہونے سے پہلے ہی مستورات کے سیکشن سے مجھے پیغام ملا کہ بعض خواتین ہیں غیر مسلم وہ آئیں ہوئیں ہیں وہ اتنا زیادہ دلچسپی لینے لگ گئی ہیں اسلام میں کہ وہ کہتی ہیں کہ ہماری پیاس نہیں بجھے گی اگر وہ ہمارے پاس آکر خود بالمشافہ ہمیں موقع نہ دیں گفتگو کا اور بعض سوال جو ہم

Page 787

خطبات طاہر جلد ۶ 783 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء وہاں نہیں کرنا چاہتیں ہم یہاں ان سے کرنا چاہتی ہیں.چنانچہ معا بعد میں اس مجلس میں گیا اور ان میں یہودی بھی تھیں مسلمان بھی تھیں ہندو بھی سکھ بھی عیسائی عورتیں بھی اور اچھی خاصی ایسی مجلس تھی جو وہ نمائندہ کلاسز کی مجلس ہوتی ہے نمائندہ طبقات کی مجلس کہلا سکتی ہے اور بڑی گہری دلچسپی انہوں نے لی اور اس کے بعد جب باہر آیا ملاقاتیں ہوئی تو وہاں بھی دوستوں نے بڑی محبت کے ساتھ بڑے اچھے خیالات کا اظہار فرمایا.اس وقت تک کھڑے رہے وہیں رہے جب تک میں واپس نہیں آ گیا اور ملاقات کے بغیر باہر نہیں گئے الا ماشاء اللہ اور واپسی کے وقت مجھے پتالگا نیو یارک میں ایک خاتون جو اس مجلس میں آئیں ہوئیں تھیں امریکن انہوں نے بیعت کرنے کا فیصلہ کیا ہے وہ چاہتی ہیں کہ خود آئیں.چنانچہ جب بیعت کی ان سے میں نے پوچھا کہ کیا خاص وجہ تھی آپ کی بیعت کی تو انہوں نے کہا وہ واشنگٹن کی مجلس میں میں شامل ہوئی تھی اور اس میں جو آپ کے اوپر خاص رنگ میں حملے کئے گئے تھے اور کوشش کی گئی تھی کہ آپ کے اثر کو مٹایا جائے جس طرح آپ نے احمدیت کے دفاع میں جواب دیئے مجھے اسی وقت یقین ہو گیا تھا کہ آپ سچے ہیں اور یہ لوگ جھوٹے ہیں اور میرے دل میں میخ کی طرح گڑ گئی تھی یہ بات کہ احمدیت کچی ہے پھر کچھ وقت لگا مجھے کیونکہ میرا معاشرہ مختلف ہے اور اچا نک مذہب بدلنا پھر اپنی عادات بدلنا خیالات بدلنا یعنی طرز رہائش بدلنا یہ آسان کام نہیں لیکن اب مجھے توفیق مل گئی ہے اور وہ پہلی مجلس میں ہی برقع پہن کے آئیں تھیں.سفید فام امریکن تھیں لیکن ان کے اندر ایک اور خوشی کا پہلو یہ تھا کہ ریڈ انڈین بلڈ بھی موجود تھا جس کی ہمیں ضرورت ہے تعارف کی اور ریڈ انڈین ان کے رشتہ داریوں کے تعلقات بھی ابھی تک قائم تھے.تو مجھے تو بڑی تلاش تھی ایسے لوگوں کی جن کے ذریعے ہم ریڈ انڈینز (Red Indians) میں بھی داخل ہوسکیں.تو اس پہلو سے میرے نزدیک اس کی بڑی اہمیت تھی لیکن مجھے بتایا یہ گیا کہ جب انہوں نے فیصلہ کیا دوسرے دن بیعت کرنی ہے تو ساری رات بیٹھ کے برقع سیا اور برقع پہن کر آئیں.تو یہ اچانک تبدیلیاں ہے یہ انسان کے بس کی بات ہی نہیں یہ خدا تعالیٰ کے تصرف میں جو دل ہیں اس کے کرشمے ہیں اور وہ دل بدلتا ہے اور اچانک اس طرح کا یا پلٹ دیتا ہے کہ کس معاشرے سے اٹھی بچی ایک اور نوجوان لڑکی.جب وہ بیعت کی اس نے اور میں نے کہا آپ دستخط کر دیں اور دعا کر لیتے ہیں اکٹھے تو اس کے بعد وہ اتنی زیادہ جذباتی ہو گئیں تھیں کہ جو خواتین ان کو ساتھ لے کر آئیں تھیں ان کے ساتھ ، ایک ایک کے

Page 788

خطبات طاہر جلد ۶ 784 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء ساتھ گلے مل مل کے روتی تھی کہ الحمد اللہ ! آج میری قسمت جاگ گئی آج مجھے خدا نے یہ دن دکھایا اور بے انتہا خوشی کے جذبات اور آنسوؤں کی جھڑی لگی ہوئی تھی ان کی.تو یہ ایسے پاکیزہ پھل خدا جو عطا فرماتا ہے اس کے بے انتہا مواقع موجود ہیں اور ایک جگہ نہیں کئی جگہ ایسے واقعات ہوئے کہ ایک مجلس کے بعد ہی شامل ہونے والوں میں سے کسی نے اظہار کیا کہ ہم بیعت کرنا چاہتے ہیں.ایک ہندو نے بھی بیعت کی خدا کے فضل سے ایک اور جگہ شکاگو میں بھی ایک سفید فام خاتون نے بیعت کی اور ایک اور دلچسپ واقعہ وہاں یہ ہوا کہ چونکہ واشنگٹن میں ایسے آثار ظاہر ہوئے تھے کہ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ مجھ پر حملے کی ایک سازش تیار کی گئی ہے اس لئے اگرچہ پہلے بھی جماعت کی طرف سے بہت اچھے انتظامات تھے اور امیر صاحب یونائیٹڈ سٹیٹس (United States) اور نائب امیر دونوں نے مل کے سیکیورٹی کی طرف بڑی توجہ دی تھی لیکن اس واقعہ کے بعد وہاں شکاگو کی جماعت نے یہ فیصلہ کیا کہ باقاعدہ سیکیورٹی کی جو ایجنسیز (Agencies) ہیں ان کو بھی حفاظت کے لئے کرائے پر لینا چاہئے اور جو بھی خرچ ہو لیکن بہر حال اس قسم کے ہم کوئی خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ دوبارہ ایسی شرارت کے متعلق کوئی سوچ سکے.چنانچہ وہاں کی ایک تجربہ کارسیکیورٹی کی ایجنسی جس کے افسر پولیس کے ایک پرانے تجربہ کار افسر تھے ان کو مقر رکیا ہوا تھا اور چار دن کا دورہ تھا شکا گوگا.چلنے سے ایک رات پہلے وہ پہنچے مسجد میں انہوں نے کہا کہ میں بیعت کرنی چاہتا ہوں آپ مجھے سیکیورٹی افسر کی طور پر دیکھ رہے تھے کہ گویا میں ہوں یا نہ ہوں میں اپنے کام میں لگا ہوا ہوں لیکن میں اس نظر سے دیکھ رہا تھا کہ یہ کیا باتیں ہیں اور واقعہ اس طرف سچائی ہے کہ نہیں اور دو دن کے اندراندر میرے دل کی حالت بدل گئی ہے اور میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ جماعت احمد یہ جس اسلام کو پیش کر رہی ہے وہی سچا اسلام ہے اور یہ اسلام ایسا نہیں جس سے میں باہر رہ سکوں.اس لئے مجھے شامل کیا جائے اور پھر اسی رات کو وہ ہمارے ساتھ نماز عشاء میں بھی شامل ہوئے اور اللہ کے فضل سے بڑی جلدی جلدی پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہوئی ہم نے لوگوں میں دیکھیں اور بہت سے نیک اثرات ہیں جو انشاء اللہ لمبے عرصے تک ایک رحمت کے سائے کے طور پر جماعت امریکہ پر رہیں گے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جن لوگوں سے واسطے پڑے ہیں اور تعلقات وسیع ہوئے ہیں ان لوگوں میں جماعت بھی اپنی دلچسپی کو جاری رکھے گی اور ان میں بہت سے انشاء اللہ تعالیٰ

Page 789

خطبات طاہر جلد ۶ 785 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء اچھے پھل ہیں جو تیار ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی جھولی میں آنے والے ہیں وہ اس سے باہر جانہیں سکتے کیونکہ ملاقاتوں کے دوران بھی اور عمومی سوال و جواب کے رجحانات کو دیکھتے ہوئے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں امریکن عوام کے دل میں سعادت ابھی تک زندہ ہے.مادہ پرستی کے باوجود، باوجود اس کے کہ وہ ایک ایسے نظام کے غلام ہیں جس کے چنگل میں پھنسے ہوئے جدھر وہ زنجیروں میں باندھ کر لے جا رہا ہے اس طرف چلے جارہے ہیں لیکن ان کے دل میں کچھ سچائی کی محبت موجود ہے ابھی تک اور آزادی کی محبت بھی موجود ہے.چاہتے بھی ہیں کہ اس قسم کی مصیبتوں سے ان کو نجات ملے.اپنے معاشرے کی بدیوں کا احساس بھی ان کے دل میں پیدا ہو چکا ہے.اس لئے خدا کے فضل سے بے حد مواقع موجود ہیں.ان واقعات کا جو تذکرہ ہے وہ تو بہت ہی لمبا ہو جائے گا میں نے نمونیہ ایک دو باتیں آپ کے سامنے اس لئے رکھی ہیں تا کہ دو نتائج کی طرف آپ کو توجہ دلاؤں.امریکہ کے سفر کے دوران جہاں میں نے یہ محسوس کیا کہ کثرت سے لوگوں کے دلوں میں اسلام کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے وہاں یہ بھی محسوس کیا جماعت کی اکثریت اس صلاحیت سے استفادہ نہیں کر رہی اور کم و بیش یہی صورت یورپ کی جماعتوں پر بھی اطلاق پاتی ہے، انگلستان کی جماعت پر بھی اطلاق پاتی ہے.گنتی کے چند ایسے احباب ہیں جو ایک مشن کے طور پر دعوت الی اللہ کو اپنا شیوہ اور اپنا وطیرہ بنالیں ، اپنی زندگی کا مقصد بنالیں ، عادت میں داخل کر لیں اور جہاں جہاں ایسے دوست ہیں ان کے بہت ہی نیک نتیجے اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے.چنانچہ جو مجالس اور کثرت کے ساتھ ایسی مجالس تھیں یعنی ان کا تو شمار اس وقت میں کر ہی نہیں سکتا کیونکہ صبح سے لے کر رات تک مختلف پروگرام ہی چل رہے تھے مسلسل.ان میں میں نے یہ اندازہ لگایا کہ صرف چند احمدیوں کی کوششوں کے نتیجے میں اس کثرت سے لوگوں نے دلچسپی لی ہے.شکاگو میں مثلا کہ جس مجلس میں صرف غیر مسلم مہمانوں کو مدعو کیا گیا تھا اس میں تقریباً ایک سومر داور ساٹھ عورتیں تھیں اور صرف چند گنتی کے احمدیوں کی کوششوں کے نتیجے میں وہ سب آئے تھے.چار یا پانچ سے زیادہ وہ لوگ نہیں ہیں جن کو دعوت الی اللہ کا چسکا ہے اور بعض تو ایسے تھے جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے کہ کم سے کم ایک تہائی مدعوئین ان کے ذاتی تعلق کی وجہ سے آئے ہوئے تھے اور اسی طرح جیسا کہ میں نے پورٹ لینڈ کا واقعہ بیان

Page 790

خطبات طاہر جلد ۶ 786 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء کیا ہے صرف چار خاندان ہیں اور اس کثرت کے ساتھ ان کا نیک اثر تھا چونکہ اللہ کے فضل.چاروں خاندان کے سر براہ ہی جماعت سے محبت رکھنے والے اور تعلق رکھنے والے ہیں.تو پوٹینشل (Potential) یعنی جو امکانات موجود ہیں جماعت کے اندر طاقت کے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اگر ان ساروں کو استعمال کیا جائے تو باوجود اس کے کہ امریکہ میں جماعت بہت تھوڑی ہے پوٹینشل کے لحاظ سے بہت عظیم قوت ہے اور بہت بڑے بڑے انقلابات پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور جو لوگ داعی الی اللہ نہیں بنے ان کو میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی رحمت لوگوں کو اسلام کے قریب لا رہی ہے آپ دیکھ رہے ہیں کہ لوگ اسلام سے متنفر ہو رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ خدا کی رحمت اسلام کے قریب لا رہی ہے کیونکہ جب یہ Parallax پیدا ہو جائے ایک فرضی بات میں اور ایک حقیقت میں بعد پیدا ہو جائے تو جب حقیقت دکھائی دیتی ہے تو اس وقت انسان کو حقیقت سے عام حالات کی نسبت سے زیادہ دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے.مراد میری یہ ہے کہ ایک فرضی تصویر ہوتی ہے اور ایک حقیقی تصویر اگر فرضی تصویر بدصورت ہو جائے اگر فرضی تصویر میں نہایت ہی مکروہ نقوش پیدا کئے گئے ہوں اور حقیقی تصویر.خوبصورت ہو تو جب بھی ایسا شخص جو فرضی تصویر کے نتیجے میں کسی تصور سے نفرت کر رہا ہے حقیقی تصویر کے نقش دیکھتا ہے تو عام حالات سے زیادہ اس میں دلچسپی لیتا ہے عام حالات سے زیادہ رد عمل کے طور پر اس کے دل میں محبت پیدا ہوتی ہے اور مذہب کی دنیا میں ہمیشہ یہی ہوتا رہا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ماہ کے زمانے میں بھی یہی کرشمے آپ کو دکھائی دیتے ہیں.آج ایک شخص شدید نفرت شکار ہے کیونکہ اس نے ایک فرضی تصویر حضور اکرم ﷺ کی دیکھی جو اسے دکھائی گئی تھی اور وہ قابل نفرت تصویر بھی.جب حقیقی حسن کو دیکھا تو عام حالات میں بھی وہ حسن شیفتہ بنانے والا حسن تھا لیکن اس نے سفر کیا ہے اس حسن کی طرف اس فرضی تصویر سے اور اس نے زیادہ صلى الله فاصلہ طے کیا ہے آپ کی طرف آنے میں اور زیادہ شدید محبت کے ساتھ اس نے حضور اکرم ہے سے عشق کیا ہے کیونکہ اس کے دل میں یہ تاثر بھی تھا کہ پہلے میں اس پیارے وجود سے نفرت کیا کرتا تھا.اس کا ایک نفسیاتی رد عمل تھا جس نے بہت زیادہ قوت کے ساتھ اس نے حضور اکرم ﷺ کی طرف اس کو مائل کیا.

Page 791

خطبات طاہر جلد ۶ 787 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء یہی مضمون جماعت احمدیہ کی شکل میں بھی ہمیں دکھائی دے رہا ہے آج.جتنا مولوی مکر وہ تصویر جماعت احمدیہ کی کھینچ رہا ہے اتنا ہی جب لوگ قریب سے آکے دیکھتے ہیں تو رد عمل کے طور پر زیادہ جلدی جماعت احمدیہ کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں اور امریکہ میں یا یورپ میں اسلام کی جو تصویر ہے اس کا بھی یہی حال ہے.ایک فرضی قابل نفرت تصویر کھینچی جارہی ہے.اگر جماعت احمدیہ اپنے اعمال کی رُو سے، اپنے ذات کے تعارف کے ذریعے دنیا کو اسلام سے متعارف کروائے ،اسلام کا بہترین نمونہ اپنی ذات میں پیش کرے یہ مطلب ہے اور وہ اسلام دنیا کو دکھائے صرف سنائے نہیں جو کے خوبصورت اسلام ہے تو اسی قسم کا رد عمل اس دنیا میں ظاہر ہو گا اور بہت کثرت کے ساتھ اور بڑی شدت سے اسلام سے محبت کرنے والے یہاں پیدا ہونے شروع ہو جائیں گے.اس لئے وہ احمدی جو ابھی تک دعوت الی اللہ کے کام سے غافل ہیں ان کو میں بتاتا ہوں کہ اب تو یہ حالت ہے کہ وہ مجرم بنتے چلے جارہے ہیں.خدا کی تقدیر ان لوگوں کو قریب لانے کے انتظام کر رہی ہے ان کو اس وقت حالت یہ ہے کہ اپنے معاشرے سے بھی نفرت پیدا ہورہی ہے، اپنے مغربی فلسفوں سے بھی یہ لوگ متنفر ہوتے چلے جاررہے ہیں.بے اطمینانی ہے ، تلاش میں ہیں کہیں ان کو سکونِ قلب مل سکے.جو تعلق ہے وہ ایک سطحی تعلق ہے اپنے معاشرے سے یعنی چونکہ ظاہری کشش پائی جاتی ہے اس لئے اس میں مگن ہیں ایک قسم کے شراب کے نشے کی طرح ان کی کیفیت ہے.اس نشے کی حالت میں اپنے معاشرے کے ساتھ یہ تعلق رکھ رہے ہیں کیونکہ ظاہری کشش ہے ایک لیکن جب بھی دل کو ٹول کے دیکھیں آپ کو اطمینان نظر نہیں آئے گا ، سکینت نظر نہیں آئے گی، ہر جگہ بے اطمینانی پائی جاتی ہے وہ بھی آپ کی مدد کر رہی ہے.جو اسلام کی حقیقی تصویر آپ کھینچ سکتے ہیں ، جو تصور اسلام کا آپ پیش کر سکتے ہیں وہ اتنا دلکش ہے کہ اس موقع پر اگر وہ ان کے سامنے رکھا جائے تو بے اختیار یہ اس کی طرف مائل ہوں گے.اس کے باوجود ان کو محروم رکھنے کا گناہ اگر آپ اپنے سر لیتے ہیں تو بڑی جرات ہے اور بڑی بے حسی بھی ہے.اللہ تعالیٰ نے وہ ہوائیں چلادی ہیں جس کے نتیجے میں اسلامی انقلاب قریب تر آ رہا ہے ، دل مائل ہورہے ہیں اور خدا تعالیٰ کی تقدیر خود دلوں کو مائل کرنے کے انتظامات بھی فرمارہی ہے اور جب بھی آپ دلچسپی لیتے ہیں خدا کی تقدیر ان دلوں میں دلچسپی لینے لگ جاتی ہے جن میں آپ دلچپسی

Page 792

خطبات طاہر جلد ۶ 788 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء لیتے ہیں.ان حالات کے باوجود سعادت سے محروم رہنا یہ نہ عقل کے مطابق ہے نہ کسی پہلو سے بھی کوئی معقول بات دکھائی نہیں دیتی اور محرومی نہیں بلکہ گناہ بن جاتا ہے.اس لئے میں یورپ اور امریکہ میں بسنے والی جماعتوں کو بالخصوص اور تمام دنیا کی جماعتوں کو پھر یادکرا تا ہوں کہ وہ ہوا چل پڑی ہے جس ہوا کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کو بالآخر دنیا پہ غلبہ نصیب ہوتا ہے اور آپ کی جد و جہد اور کوشش اور دلچپسی کی ضرورت ہے.دلچسپی جب میں کہتا ہوں تو اکثر دوستوں کو پتا نہیں چلتا کہ کس طرح دلچسپی لیں، اکثر دوستوں کو طریقہ نہیں پتا اور اسی لئے میں نے بار بار جماعتوں کو متوجہ کیا ہے کہ وہ اپنی مجالس عاملہ میں ہر مہینے یہ بات رکھا کریں کتنے دوست تبلیغ میں دلچسپی لے رہے ہیں جو لے رہے ہیں ان کو تبلیغ کا سلیقہ بھی ہے کہ نہیں اور جو نہیں لے رہے وہ کیوں نہیں لے رہے.اکثر ان میں سے ایسے ہوں گے جن کے دل میں تمنا تو ہوگی لیکن پتا نہیں ہوگا کیسے کرنی ہے اور امریکہ کے دورے کے دوران مجھے یہ بھی معلوم ہوئی بات کہ اس معاملے میں امریکہ کا نظام جماعت غفلت کا مرتکب رہا ہے.انہوں نے اس ہدایت کو سنجیدگی سے نہیں لیا نہ مرکزی جماعت نے نہ شہروں کی جماعتوں نے اور نتیجہ یہ نکلا کہ مجالس عاملہ کے اجلاسات اگر ہوتے بھی ہیں یہ نہیں مجھے پتا کے با قاعدگی کے ساتھ ہوتے بھی ہیں کہ نہیں اگر ہوتے بھی ہیں تو اس سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر غور نہیں کیا جاتا.چنانچہ اس سفر کے دوان میں ان کو متوجہ کرتارہا ہوں کہ جب خلیفہ وقت کی طرف سے کوئی بات آپ کو پہنچائی جائے اس میں حکمت ہوتی ہے اس میں ایک فائدہ ہوتا ہے اس کو نظر انداز کرنے سے آپ بہت سی سعادتوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو کھلی کھلی برسر عام ہدایت دی گئی ہے اس کی خلاف ورزی کرنا تو ایک قسم کا باغیانہ رجحان ہے.تو نظام جماعت کے نمائندہ لوگوں کا فرض بن جاتا ہے کہ جب بھی کوئی ایسی ہدایت دی جائے اس کے اوپر عمل کرنا شروع کریں اور اس سعادت کے نتیجے میں ہی خدا ان کو بہت ساری نیکیاں نصیب فرمائے گا ، بہت ساری نئی نیکیوں کی توفیق عطا فرمائے گا ، ان کی کوششوں کو مزید بہتر پھل لگنے شروع ہو جائیں گے.اس لئے میں یہ دوبارہ یاد دہانی کروانا چاہتا ہوں کہ یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی لیکن ساری دنیا میں تمام دنیا کی جماعتیں اس بات پر پابندی کے ساتھ قائم ہو جائیں کہ ہر مہینے ایک دفعہ مجلس عاملہ میں ان باتوں پر غور کیا جائے کہ کہاں تک جماعت دعوت الی اللہ

Page 793

خطبات طاہر جلد ۶ 789 خطبہ جمعہ ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء کا کام کر رہی ہے؟ جہاں نہیں کر رہے وہاں کیوں نہیں کر رہے؟ اور کون سے ایسے ذرائع ہمیں اختیار کرنے چاہئیں جن کے نتیجے میں دعوت الی اللہ کا کام تیز ہو سکے اور معنی خیز ہو سکے.پس اگر ہم اس سنجیدگی کے ساتھ کام کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ دنیا میں انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا.سائنس سے جو لوگ واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ بعض امور میں رفتار معنی خیز ہوا کرتی ہے.کتنے قدم طے کئے ہیں یہ بات معنی خیز نہیں ہوتی بلکہ رفتار کیا ہے آگے بڑھنے کی.جو جماعتیں نظریاتی طور پر اور روحانی طور پر دنیا پر غالب آیا کرتی ہیں ان پر بالخصوص یہ اصول کارفرما ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے کی رفتار کیا ہے؟ کتنے احمدی ہو رہے ہیں سال میں، کتنے مسلمان بن رہے ہیں یہ بحث نہیں ہے جو کچھ ہمارے پاس ہے ہمارے آگے بڑھنے کی رفتار کیا ہے یہ ہے اصل فیصلہ کن بات.اس پہلو سے ہماری رفتار میرا اندازہ ہے کہ پچاسی گنا یا نوے گنا زیادہ ہوسکتی ہے کیونکہ زیادہ سے زیادہ جماعت کے دس فیصدی حصے کو ہم فعال داعی الی اللہ قرار دے سکتے ہیں اور یہ بھی میں نے بہت بڑی چھلانگ لگائی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر میں حقیقی جائزہ پیش کروں چند تجربوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے تو شاید پانچ فیصدی بھی نہ ہوں لیکن بعض ممالک پر میں حسن ظنی کرتا ہوں مثلاً افریقہ میں نسبتاً زیادہ لوگ کر رہے ہوں گے کیونکہ ان کے نتائج سے بھی یہی لگ رہا ہے ، بعض اور ممالک میں بھی کر رہے ہوں گے.اس لئے میں نے زیادہ سے زیادہ دس فیصدی داعی الی اللہ کی تعداد مقرر کی لیکن میرا خیال میں تو پانچ فیصدی بھی نہیں ہے پوری.اگر پانچ فیصدی سمجھی جائے تو پچانوے فیصد مزید اضافے کی گنجائش موجود ہے اور بہت بڑی گنجائش ہے اگر آپ کی رفتار پانچ میل فی گھنٹہ کی بجائے سومیل فی گھنٹہ ہو جائے تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آپ کے فاصلے طے کرنے کی قوت میں کتنا بڑا اضافہ ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ہی اس رفتار کے نتیجے میں جو شامل ہونے والے ساتھ شامل ہورہے ہیں وہ اس رفتار میں Acceleration پیدا کر دیتے ہیں یہ ہے وہ اصل سائنسی نقطہ جسے سمجھنا چاہئے.پانچ آدمی سال میں سو آدمی پر جو داخل ہو رہے ہوں ان کے نتیجے میں Acceleration پیدا نہیں ہوتی یعنی رفتار اس طرح نہیں بڑھتی جس طرح زمین کی طرف گرنے والی چیز کی رفتار بڑھ رہی ہوتی ہے بلکہ ایک قسم کی Steady ایک معتدل کی رفتار کی شکل بن جاتی ہے.Acceleration

Page 794

خطبات طاہر جلد ۶ 790 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء کے نتیجے میں تو ہر اگلی رفتار غیر معمولی طور پر اور بڑھنا شروع ہو جاتی ہے، ہر اگلے گھنٹے کی رفتار اور ہو جاتی ہے، ہر اگلے دن اور ہفتے اور مہینے اور سال کی رفتار میں فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے.تو پانچ فیصد بھی اگر ہیں تو یہ کافی نہیں ہیں Acceleration پیدا کرنے کے لئے.اگر آپ سو فیصدی نہ بھی ہوں میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر پچاس فیصد احمدی بھی حقیقی معنوں میں داعی الی اللہ بن جائے تو اتنی تیزی سے دنیا میں اسلام کا انقلاب آنا شروع ہو جائے کہ آپ بھی کبھی اس کا تصور نہیں کر سکتے.دنوں میں، ہفتوں میں مہینوں میں کیفیتیں اس طرح تبدیل ہونی لگیں کہ آپ حیران ہو جائیں گے دیکھ کر کہ دنیا کو کیا ہو گیا ہے.بہت بڑی طاقت جماعت کو خدا عطا کر چکا ہے اور یہ طاقت انفرادی طور پر نہیں بلکہ جماعت کے اخلاص کے لحاظ ہے.چنانچہ میں نے امریکہ کے دورے میں یہ بھی محسوس کیا کہ باوجود اس کے کہ اکثریت داعی الی اللہ نہیں لیکن اخلاص اور محبت کے لحاظ سے ہر ایک ان میں سے داعی الی اللہ بننے کا اہل بن چکا ہے.بہت فرق پڑا ہے پہلے کی نسبت جب میں 1978ء میں امریکہ گیا تھا اس امریکہ میں اور آج کے امریکہ میں بہت بڑا فرق پڑ چکا ہے.اس وقت اکثر خاندان بے تعلق سے یا تعلق تھا بھی تو ہلکا ہلکا نرم رفتار نرم گفتار ساتعلق تھا لیکن اب تو کیفیت یہ ہے کہ دلوں میں جذ بے اُچھلتے ہوئے میں نے دیکھے ہیں.ہر خاندان میں اکثر ممبران خاندان کے اکثر ممبروں کی جماعت سے محبت کی حالت میں بہت بڑا فرق پڑا ہوا ہے اور خصوصیت سے مجھے خوشی اس بات کی ہوئی کہ احمدی خواتین میں خدمتِ دین کا جذ بہ بہت بیدار ہو چکا ہے.غیر معمولی محبت اسلام کی اور اسلام کی خاطر قربانیاں پیش کرنے کی تمنا ان کے دل میں پیدا ہو چکی ہے.چنانچہ یہ نظارہ میں نے دیکھا ہے اکثر خاندانوں میں ملاقات کے وقت ان کی مائیں جب بچے پیش کرتی تھیں تو ان بچوں کے اوپر ان کی محنت ہوئی ہوئی دکھائی دیتی تھی معلوم ہوتا تھا کہ ایک لمبے عرصے سے گھر میں انہوں نے دینی ماحول بنایا ہوا ہے، بچوں کو خدا اور رسول کی باتیں بتاتی ہیں.فخر کے ساتھ ان سے وہ کلمے سنواتی تھیں، قرآن کریم کی آیات جو یاد کی ہو ئیں تھیں وہ سنواتی تھیں.دین کی محبت کے اظہار والی نظمیں ان کو یاد کروائی ہوئی تھیں اور بچوں کے دل میں بڑا نمایاں طور پر اسلام کا پیار دکھائی دے رہا تھا.تو یہ جو چیز ہے یہ خوش کن بھی بہت ہے کہ باوجود اس کے کہ ہم میں سے اکثر ا بھی داعی الی اللہ

Page 795

خطبات طاہر جلد ۶ 791 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء نہیں بن سکے لیکن داعی الی اللہ بننے کے لئے جو مرکزی طاقت چاہئے محبت اور اخلاص کی وہ موجود ہے.اس لئے کوئی فرضی بات نہیں ہے کہ پچاس فیصدی احمدی حقیقہ داعی الی اللہ بن جائیں.میں یقین رکھتا ہوں کہ پچاس فیصدی احمدی داعی الی اللہ بننے کے اہل بن چکے ہیں اللہ کے فضل سے.سب سے زیادہ ضرورت دعوت الی اللہ کے لئے ایک جذبے کی ہے دوسرے دعا کی ہے.علم اور دلیلیں باقی سب چیزیں بعد کی باتیں ہیں.یہ دو باتیں آپ اپنے اندر پیدا کر لیں جذبہ پیدا کر لیں اور دعا کرنی شروع کر دیں اپنے لئے کہ خدا آپ کو توفیق دے تو باقی سب مراحل آسانی سے طے ہو جائیں گے.تو امید رکھتا ہوں کہ جماعت اس طرف خصوصیت سے توجہ دے گی.جہاں تک یورپ کی جماعتوں کا تعلق ہے ان کو بھی نسبتاً زیادہ تفصیل سے منصوبہ بندی کرنی چاہئے اب بہت تھوڑا وقت اگلی صدی کے شروع ہونے میں رہ گیا ہے اور وہ صدی اسلام کے مستقل میں بہت ہی اہم کردار ادا کرنے والی ہے اور آپ یعنی آج کی نسلیں بڑی خوش نصیب ہیں اس لحاظ سے کہ ایک نئے اسلام کے تاریخی دور میں داخل ہونے والی ہیں.ایک ایسے اہم تاریخی دور میں داخل ہونے والی ہیں ایک ڈیڑھ سال کے اندر اندر جماعت کے نکتہ نگاہ سے اور جو دنیا کی صدی کے حساب ہیں اس لحاظ سے بھی اگلی صدی بہت دور نہیں رہی.تو آپ ایک دوسال کے لحاظ سے جماعت کے نکتہ نگاہ سے یا چند سالوں میں دنیاوی نکتہ نگاہ سے اگلی صدی میں داخل ہونے والے ہیں.خدا کرے کہ ہم میں سے بھاری اکثریت اگلی صدی میں بالکل نئی سج دھج کے ساتھ داخل ہو.ان کے ارادوں میں ایک عظمت پیدا ہو چکی ہو، ان کے حوصلے بلند ہو چکے ہوں، وہ سر بلندی کے ساتھ اسلام کے نام کو اور اسلام کے کام کو آگے بڑھانے کے اہل بن چکے ہوں اور یہ نیتیں لے کر داخل ہوں کہ ہم نے اگلی صدی نہیں ختم ہونے دینی یہاں تک کہ اسلام دنیا میں غالب نہ آ جائے اور یہ دعائیں کر کے داخل ہونے والے ہوں کہ ہماری نسلیں بھی اس پیغام کو لے کرنئی شان اور نئی ہمت اور نئے استقلال اور جذبوں کے ساتھ آگے بڑھے.اس لئے اس صدی کا قریب آنا بھی آپ کے دلوں میں ایک ہلچل مچا دینے والا موقع ہے.اس لحاظ سے بھی نگاہ کریں کہ آپ کس زمانے میں پیدا ہوئے ہیں جہاں دو صدیاں ملائی جارہی ہیں جو مجمع البحرین ہیں ، جو ذوالقرنین کے لحاظ سے ایک خاص اہمیت کا زمانہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی رسول اکرم ﷺ کی غلامی میں ظلی طور.

Page 796

خطبات طاہر جلد ۶ 792 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء پر ذوالقرنین ہیں اور آپ ایک پرانے زمانے کو یعنی جاہلیت کے زمانے کو جبکہ دنیا کی اکثریت اسلام سے غافل تھی ایک نئے زمانے سے ملانے والے ہیں جب کہ دنیا کی اکثریت اسلام قبول کرنے والی ہے.آپ کو اس کام کے لئے چنا گیا ہے آپ کو اس سنگم پر پیدا کر دیا گیا ہے جہاں یہ دوصدیاں ملنے والی ہیں ایک وہ صدی جسے اگلی صدی کا انسان پرانے زمانے کی صدی شمار کرے گا جبکہ دنیا کہ اکثریت اسلام سے غافل تھی.ایک وہ صدی جس میں اللہ تعالیٰ آپ کو توفیق دے گا اور آپ کی نسلوں کو توفیق دے گا کہ صدی ختم ہونے سے پہلے اسلام غالب آجائے.پس ان سب باتوں پر نگاہ رکھیں اپنی خوش نصیبی پر ناز کریں اور اس خوش نصیبی سے فائدہ اٹھا ئیں.اگر ہمت نہیں ہے خواہش ہے تو دعا کریں تو ہمت بھی پیدا ہو جائے گی بہر حال اب وقت ضائع کرنے کا نہیں ہے ہم میں سے ہر ایک کو دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف ہو جانا چاہئے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آج خطبے سے پہلے چند مرحومین کی فہرست آپ کو پڑھ کر سنائی گئی ہو گی جن کی نماز جنازہ غائب مجھے آج جمعہ اور عصر کی نماز کے معا بعد ادا کرنی ہے یعنی آپ نے اور ہم نے مل کر.چونکہ میں سفر پہ رہا ہوں اس لئے بہت سی ڈاک ایسی تھی جو یہاں پڑی رہی ، وقت پر نہیں مل سکی ایک لمبی فہرست بن گئی تھی اس لئے میں نے کہا تھا کہ پہلے ہی آپ کو ان کے ناموں سے آگاہ کر دیا جائے.ان میں تین نام ایسے ہیں جو ایک قسم کی شہادت کا رنگ رکھتے ہیں.شہادت ایک تو مذہبی شہادت ہے خالصہ وہ تو بالکل اور مضمون ہے لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اچانک حادثوں میں جاں بحق ہونے والوں کے لئے بھی شہید کا لفظ استعمال فرمایا ہے اور اور بھی بعض لوگوں کے لئے ڈوب کر مرنے والے وہ بھی حادثاتی موت ہی ہے ایک قسم کی.تو اس لئے شہادت کی ایک تعریف کی رُو سے تین ایسے ہمارے مرحوم ہیں جو شہید کہلا سکتے ہیں اس دوسری تعریف کی رُو سے.ان میں ایک مکرم مولوی احمد علی صاحب ہیں اہل حدیث مسجد کے امام تھے اور چند سال پہلے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو خدا تعالیٰ نے توفیق دی اور اپنی امامت کو چھوڑ کر بڑی جرأت اور بہادری سے احمدیت کو قبول کیا اور بڑی ثابت قدمی اور وفا سے قائم رہے.یہ بس کے ایک حادثے میں شہید ہو گئے ہیں یعنی شہید ان معنوں میں جن معنوں میں میں نے بتایا ہے کہ ایک دوسری تعریف شہادت کی

Page 797

خطبات طاہر جلد ۶ 793 خطبہ جمعہ ۲۰ / نومبر ۱۹۸۷ء ان پر چسپاں ہوتی ہے.اسی طرح ہمارے وقف جدید کے ایک اچھے مخلص کارکن اور ساتھی پرانے عزیزم ضیاء الرحمان کا ایک بچہ تھار فیق الرحمان جو پیدائشی طور پر گونگا تھا لیکن بڑا ذہین اور ہونٹوں کے اشاروں سے بھی اس نے باتیں کرنی سیکھ لیں تھیں اور قرآن کریم پڑھنا سیکھ لیا اور بہت ساری باتیں اپنی ذہانت کی وجہ سے وہ سیکھتا رہا حالانکہ پاکستان میں ایسے اچھے انتظامات نہیں ہیں کہ ان بچوں کو سنبھالا جا سکے کیونکہ سن نہیں سکتا تھا اس لئے وہ ریلوے کی پٹڑی سے گزر رہا تھا کہ اس کو پتا نہیں لگا کہ پیچھے سے گاڑی نے آکر ٹکر لگائی اور وہ فوری طور پر نہیں لیکن دو تین دن کے اندر ہی ہسپتال میں زخموں سے دم تو ڑ گیا.اسی طرح ایک بہت ہی درد ناک خبر ملی ہے لاس اینجلس سے.ہمارے ایک مخلص احمدی ڈاکٹر خالد پرویز صاحب ہیں ان کے بچے کو گیارہ بارہ سال کی عمر تھی اس کو کسی نے نہایت بہیمانہ طور پر قتل کر دیا ہے اور اس قسم کے جرائم امریکہ میں تو کثرت سے ہوتے رہتے ہیں مگر ایک احمدی کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ اس کو ایسے درد ناک رنگ میں قتل کیا گیا ہو.اس بچے کے لئے بھی خصوصیت کے ساتھ نماز جنازہ میں دعا کریں اور ڈاکٹر صاحب اور ان کے خاندان کے دوسرے لوگ اس کی والدہ وغیرہ کے لئے بھی اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل عطا فرمائے.اس بچے کا نام راحیل پرویز تھا ان کے والد ڈاکٹر خالد پرویز اور ان کی والدہ نرگس پرویز کہلاتی تھیں.خطبہ ثانیہ میں حضور نے مرحومین کی جس فہرست کا ذکر فرمایا ہے وہ حسب ذیل.مکرم مولوی محمد حفیظ صاحب بقا پوری در ویش قادیان مکرم شیخ محمد اسلم صاحب سیکرٹری ضیافت کھاریاں ضلع گجرات * مکرم عبدالحمید صاحب ڈاہری نواب شاہ سندھ مکرم حسن خان صاحب بجا نہ نائب ناظم انصار اللہ ضلع ڈیرہ غازی خان * مکرم لطیف احمد صاحب بھٹی کا رکن نظارت تعلیم ربوہ.مکرمہ والدہ صاحبہ مکرم عبدالمالک صاحب قائد ضلع کوئٹہ.مکرمہ حسن بی بی صاحبہ موصی اہلیہ محمدحسین گل ناظم انصار اللہ ضلع اوکاڑہ.مکرمہ بشیر بیگم صاحبہ زوجہ چوہدری نصر اللہ خان صاحب دا تا زید کا ضلع سیالکوٹ.مرحومہ حمید اللہ

Page 798

خطبات طاہر جلد ۶ 794 خطبه جمعه ۲۰ نومبر ۱۹۸۷ء صاحب ظفر نا ئب قائد ضلع کراچی کی والدہ تھیں.* مکرم مرزا امنیر احمد صاحب نصیر قادیانی.آپ مکرم مرزا آفتاب احمد صاحب آف جہلم کے والد تھے.مکرمہ شمیم اختر صاحبہ اہلیہ منیر احمد صاحب گوندل چیف اکا ؤنٹنٹ شوگر ملز منڈی بہاؤالدین.مکرم عبدالواحد خان صاحب بطور معلم لمبا عرصہ آپ نے خدمت کی توفیق پائی ، مرحوم مکرم عبد الماجد صاحب امجد ڈیرہ غازی خان کے والد تھے.* مکرم محمد داؤد صاحب برادر محمد یوسف شاہد مربی سلسلہ کھڑیانوالہ ضلع فیصل آباد.* مکر مہ رشیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ چوہدری تھے خان صاحب آف چک نمبر 641 ضلع شیخو پورہ.مکرمہ امۃ القدیر بشری صاحبہ، آپ مرزا الطاف حسین صاحب آف ڈیرہ اسماعیل خان کی بھانجی تھیں.* مکرم حفیظ احمد صاحب ولد چوہدری اللہ رکھا صاحب بشیر آباد فارم سندھ.مکرمہ والدہ صاحبہ مکرم محمد شفیق شاہ صاحب کنری ضلع تھر پارکر سندھ.مکر مہ امۃ الرحمان صاحبہ بنت عبدالمنان صاحب انور کنڈری ضلع تھر پاکر سندھ.* مکرمہ بشری صاحبہ بنت بشیر احمد صاحب ، مرحومہ مکرم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر کی بھیجی تھیں اور مکرم خالد اختر صاحب آف لندن کی خالہ زاد بہن تھیں.* مکرم خالد ظفر صاحب، مرحوم مکرم پر ویز احمد صاحب آف مغربی جرمنی کے بھیجے تھے.مکرمہ امتة المنان صاحبہ آف سرگودھا کا لڑ کا چھوٹی عمر میں وفات پا گیا ہے اور مکرم احسن الحق صاحب مرحوم اعزاز الحق صاحب آف لندن کے بھائی تھے.محترم امام صاحب بیت الفضل نے یہ فہرست پڑھ کر سنائی جن کی نماز جنازہ غائب حضور نے جمعہ وعصر کے بعد پڑھائی.)

Page 799

خطبات طاہر جلد ۶ 795 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء نظام کائنات میں ہر چیز اپنے مدار میں رہتی ہے.جماعت میں جو شخص اپنے منصب سے ہٹ کر معاملہ کرتا ہے اس سے فساد پیدا ہوتا ہے ( خطبہ جمعہ فرموده ۲۷ نومبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے ذیل آیات کی تلاوت کی :.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيُوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفْوُتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرى مِنْ فَطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ ا يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرُ اور فرمایا: (الملک: ۲-۵) قرآن کریم کی سورۃ ملک کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ بہت ہی برکتوں والی ہے وہ ذات جس کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی ملکیت ہے اور تمام ملکیت اسی کے

Page 800

خطبات طاہر جلد ۶ 796 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء ہاتھ میں ہے اور وہ ہر چیز پر اسی بنا پر قادر ہے کہ تمام ملکیتوں کی باگ ڈور آخری صورت میں اس کے ہاتھ میں ہے وہی ذات ہے جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا اور زمین و آسمان کی یعنی ساری کائنات کی پیدائش میں تم کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ نظر دوڑا کے دیکھو تو سہی کیا تمہیں کہیں کوئی رخنہ کوئی سوراخ دکھائی دیتا ہے؟ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ پھر نظر کو دوڑاؤ تمہاری طرف تمہاری نظر لوٹ آئے گی تھکی ہاری لیکن خدا کی عظیم ترین کا ئنات میں تم کہیں کوئی رخنہ، کوئی سوراخ نہیں دیکھو گے.ان آیات کے سرسری مطالعہ سے ایک مضمون سامنے آتا ہے پھر زیادہ قریب کی نظر سے ان آیات کا مطالعہ کیا جائے تو ایک بظاہر نظر آنے والا تضاد دکھائی دیتا ہے پھر اور مزید گہری نظر سے دیکھا جائے تو وہ تضاد دور ہو کر ایک نہایت ہی حسین موافقت نظر آتی ہے اس مضمون کے درمیان.اسی طرح انسان جب خدا کی کائنات میں جستجو کے نئے سفر کرتا ہے تو اس کے اوپر یہ حالتیں آتی رہتی ہیں.پہلی سرسری نظر میں اسے کچھ بھی دکھائی نہیں دیتا پھر جب تردد کرتا ہے غور کرتا ہے تو جب علم ناکامل ہو سفر آغاز میں ہو تو وہ سمجھتا ہے کہ میں نے بہت سی خرابیاں محسوس کر لیں ، بہت سی خرابیاں دریافت کر لیں لیکن جب انسان اور زیادہ گہری اور عمیق نظر سے مطالعہ کرتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کا پہلا علم خام تھا خدا کی کائنات میں کوئی خامی نہیں.سائنس نے جو معلوماتی سفر کیا ہے اس پر بھی یہ ادوار آئے اور قرآن کریم کے مطالعہ کرنے والوں پر بھی یہ ادوار آتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنی حفاظت اور اپنی پناہ میں رکھتے ہوئے لمس شیطان سے پاک رکھتے ہوئے گہرے اور عمیق مضامین کے مطالعہ اور ان کے فہم کی توفیق عطا فرماتا ہے اور اس کے نتیجے میں پھر اس آیت میں جو بیان ہوا ہے منظر کہ ساری کائنات میں تم کہیں کوئی فتور نہیں دیکھو گے.اس مضمون میں انسان حق الیقین تک پہنچ جاتا ہے.جس سرسری نظر کے مطالعہ سے تضاد کا میں نے ذکر کیا ہے اس کے متعلق میں واضح طور پر آپ کے سامنے اس کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں.پہلے فرمایا ہم نے زندگی اور موت کو الَّذِی خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيُوةَ اس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا تا کہ وہ معلوم کرے تم میں سے کون بہتر اعمال کرنے والا ہے جس کے نتیجے میں وہ زندہ رہ سکتا ہے.

Page 801

خطبات طاہر جلد ۶ 797 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء اب مضمون کا آغاز ہی ایک جدو جہد کے بیان سے ہوا ہے.زندگی اور موت کے درمیان ایک مسلسل جد و جہد اور آگے چل کے فرمایا ساری کائنات میں تم کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے.تفاوت کی تفصیل میں ابھی بیان کروں گا لیکن عام معنی جو اس سے سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ مقابلہ مد مقابل نہیں پاؤ گے چیزوں کو آپس میں.چنانچہ عربی لغات تفاوت کا مطلب یہی بیان کرتی ہیں یعنی ایک معنی یہ بیان کرتی ہیں کہ کسی قسم کا مقابلہ نہیں دیکھو گے.تو بات تو مقابلہ ہی سے شروع فرمائی گئی.کہا یہ گیا کہ ہم نے خود موت اور زندگی کو باہم متقابل پیدا کر دیا ہے اور اس مقابلے کا مقصد یہ ہے تا کہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون ایسے اعمال والا ہے جو Survival of the Fittest مطابق زندہ رہنے کی اہلیت رکھتا ہے اور آگے بڑھنے کی اہلیت رکھتا ہے.ساری کائنات میں ہر جگہ آپ کو زندگی موت کے مد مقابل دکھائی دے گی اور ساری کا ئنات کا فلسفہ اسی تقابل پر مبنی ہے اگر موت اور زندگی کی لڑائی ختم کر دی جائے تو کائنات کا وجود نظر سے غائب ہو جائے گا.جو کچھ بھی ہمیں دکھائی دیتا ہے وہ اس تقابل کے نتیجے میں دکھائی دیتا ہے اور اہل علم سائنسدان جانتے ہیں کہ اس تقابل کے محرکات کو اگر ختم کر دیا جائے تو ساری کائنات بے معنی ہو جائے گی.کوئی ترقی نہیں ہو سکتی کوئی ارتقاء نہیں ہو سکتا.جمود پیدا ہو جائے گا یعنی آخری موت کی شکل ہمیں دکھائی دے گی.اس لئے ایک طرف تو مضمون یہ باندھا گیا اور جو بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے کہ ساری کائنات کا فلسفہ حیات یا فلسفہ وجود یہ ہے کہ تم موت اور زندگی کو باہم متقابل دیکھتے ہو اور اس مقابلے کے نتیجے میں ہم تمہیں آزماتے ہیں یعنی ہر وجود کو آزماتے ہیں کہ وہ کیا اہلیت رکھتا ہے اور دوسری طرف فرمایا گیا کہ تم کوئی مقابلہ نہیں دیکھو گے.پس یہ جو مقابلہ نہیں دیکھو گے کا لفظ ہے اس پر غور کی ضرورت ہے تفاوت کا اصل معنی کیا ہے کیونکہ جس جگہ یہ دعوی کیا گیا کہ کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے وہاں تفاوت ہو ہی نہیں سکتا ان دونوں کو ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیا گیا ہے جس طرح موت کو زندگی کے مقابل رکھ دیا گیا ہے.اسی طرح یہ دو اعلان بظاہر ایک دوسرے کے سامنے کھڑے دکھائی دیتے ہیں.تفاوت کا مضمون آپ سمجھ جائیں گے تو یہ سارا مسئلہ حل ہو جائے گا کہ ان میں جو یہ رکھا ہی اس لئے گیا ہے تا کہ زندگی اور موت کی جدو جہد کے فلسفے کی حقیقت کو آپ سمجھ سکیں.مقابلہ تفاوت نہیں ہے.اس لئے اگر کوئی سرسری معنی

Page 802

خطبات طاہر جلد ۶ 798 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء لغات میں مقابلہ کے دکھائی دیں گے تو وہ اس پر پوری طرح صادق نہیں آتے.یہ باب مفاعلہ سے ہے تقابل اور اور تفاوت بھی باب مفاعلہ ہے اور اس کا مادہ فوت ہے.فوت ہونا آپ سب جانتے ہیں موت کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے.فات کا جو اصل عربی معنی ہے وہ یہ ہے کہ کوئی چیز ہاتھ سے کھوئی جائے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ اپنے مقام سے ہٹ جائے ، اپنے منصب سے ہٹ جائے.پس فات کے لفظ کے اندر اس مسئلے کا حل ہے.وہ مقابلہ جس کا تفاوت میں ذکر کیا گیا ہے اس سے مراد یہ ہے فلسفہ حیات سے ہٹ کر مقابلہ، اپنے منصب سے ہٹ کر مقابلہ.جن چیزوں کی خاطر کسی چیز کو پیدا کیا گیا ہے اگر اس اصول کو چھوڑ کر اپنی راہ سے ہٹ کر کسی اور کی راہ میں کوئی چیز دخل دیتی ہے اور وہ مقابلہ ہوتا ہے اس کے اوپر لفظ تفاوت صادق آتا ہے.پس تفاوت کا معنی خالی مقابلہ کرنا بالکل غلط ہے.تفاوت کا معنی ہے وہ مقابلہ جو بے محل ہو جس چیز کی خاطر کسی چیز کو پیدا کیا گیا ہے اس سے ہٹ کر جب وہ کسی دوسری چیز سے ٹکراتی ہے اس کو تفاوت کہتے ہیں.ان معنوں میں آپ ہر مشین کے کل پرزوں پر غور کریں جب بھی کوئی کل پرزہ اپنے دائرے سے ہٹ کر کسی دوسرے دائرے میں دخل اندازی شروع کرتا ہے وہیں فتور پیدا ہو جاتا ہے.تو فرمایا فتور یعنی فساد کی جڑ اپنے اپنے منصب سے ہٹ کر کسی دوسرے کے منصب میں دخل اندازی ہے اور چونکہ خدا کی ساری کائنات میں کہیں کوئی تفاوت نہیں دیکھو گے اس لئے تمہیں کہیں فتور بھی نظر نہیں آئے گا.فتور اس حادثاتی موت کو کہتے ہیں یعنی اگر ہم کائنات کی اصطلاح میں بات کریں تو اسے حادثاتی موت قرار دیا جا سکتا ہے.چنانچہ تفاوت کے لفظ میں یہ مزید حسن قابل غور ہے کہ ایک فوت کا دوسرے فوت سے مقابلہ.فات اس چیز پر اطلاق پاتا ہے جو اپنی جگہ سے ہٹ جائے وہ جب ٹکراتی ہے کسی ایسی چیز سے جو خود اپنی جگہ سے ہٹی ہوئی ہو تو اس کو تفاوت کہیں گے اور اگر کوئی چیز ہٹ کر کسی ایسی چیز سے ٹکراتی ہے جو اپنے مقام سے علی نہیں ہے، اپنے دائرے میں ہی موجود رہتی ہے تو وہ ٹکرانے والی چیز ناکام اور نامراد ہو جائے گی اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.اس کو تفاوت نہیں پھر کہیں گے.اس کو ایک ایسا حادثہ کہتے ہیں جس طرح کہ قرآن کریم میں دوسری جگہ مضمون باندھا گیا ہے کہ بعض اہل دنیا جب سماء الدنیا میں دخل دینے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کے لئے تفاوت کا لفظ استعمال نہیں فرمایا.فرمایا ایک ناجائز کوشش ہے جس کا ان کو حق نہیں ہے.اس کے نتیجے

Page 803

خطبات طاہر جلد ۶ 799 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء میں شہاب ثاقب ان کی پیروی کرتے ہیں اور آسمان کی طرف سے شعلے ان پر نازل کئے جاتے ہیں جوان کو ہلاک کر دیتے ہیں لیکن آسمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے.تو جو چیز اپنے مدار پر قائم ہے وہ کسی دوسری چیز سے ٹکر انہیں سکتی جو اپنے مدار پر قائم ہو.جو چیز اپنے مدار پر قائم ہے اس سے اگر کوئی چیز ٹکراتی ہے اور مدار پر قائم رہنے والی چیز اپنے منصب سے نہیں بہتی تو قرآن کریم کے فلسفے کے مطابق اس کو کوئی نقصان نہیں ہے اور ٹکرانے والی چیز کو نقصان ہوگا لیکن اگر ایک چیز مدار سے ہٹتی ہے، منصب کو چھوڑ دیتی ہے اور اس کے مقابل پر دوسری چیز بھی اپنے منصب کو چھوڑ دیتی ہے اور مقام سے ہٹ جاتی ہے پھر جو ٹکراؤ ہے اس کا نام قرآنی اصطلاح میں تفاوت ہے اور چونکہ فوت ہونے کا مطلب ہی موت ہے اس لئے جب منصب سے ہٹ گئے تو موت خود بخود واقع ہوئی.گویا دو موتوں کے درمیان تصادم ہے اور جودو موتیں متصادم ہوں گی تو نتیجہ فتور ہی پیدا ہو گا اس سے زیادہ اور کیا نکل سکتا ہے.عجیب حیرت انگیز کلام ہے اس کو باریک در بار یک نظر سے آپ دیکھیں اور اگر آپ تفاوت تلاش کرنے کی کوشش کریں اور فتور تلاش کرنے کی کوشش کریں تو لا زما آپ کی نظر تھکی ہوئی واپس لوٹ آئے گی اور قرآن کریم کی کائنات میں بھی آپ کو کوئی تفاوت اور کوئی فتور دکھائی نہیں دے گا.اس فلسفے میں جو فلسفہ وجود ہے تمام دنیا کے نظام یا نظاموں کی حفاظت کا راز بیان فرما دیا گیا ہے خواہ معاشرتی نظام ہو، خواہ اقتصادی نظام ہو، خواہ مذہبی نظام ہو، کسی نوع کا سیاسی نظام ہو، کسی نوع کا بھی نظام ہو اس میں اگر منتظمین یہ نگرانی کریں کہ تفاوت نہیں ہونے دیں گے اور اس نظام کے کل پرزے اس بات کے اوپر قائم ہو جائیں کہ ہم اپنے مدار سے کبھی نہیں ہٹیں گے تو پھر کوئی فتور دکھائی نہیں دے گا ورنہ بظاہر چھوٹی چھوٹی باتیں آپ کو دکھائی دیتی ہیں جب بھی مدار سے ہٹا جائے گا اور مد مقابل بھی مدار سے ہٹ جائے گا یعنی اپنے مقرر کردہ راہوں سے ،اپنے مقرر کردہ منصب سے کوئی چیز ہٹ جاتی ہے تو اس کے مقابل پر دوسری چیز کہتی ہے اچھا پھر ہم بھی ہٹتے ہیں.اس ٹکراؤ کا نام دو موتوں کی ٹکر ہے اور اس کا نتیجہ فتنہ وفساد ہے، مزید موتوں کا پیدا ہونا ہے.نظام جماعت کی حفاظت کے لئے بھی یہ انتہائی ضروری ہے اور ہمارے معاشرے کی حفاظت کے لئے بھی یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم قرآن کریم کی ان آیات میں بیان فرمودہ بنیادی سبق

Page 804

خطبات طاہر جلد ۶ 800 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء پر غور کریں اور اس کو مضبوطی سے پکڑ لیں.آج کل کئی ایسے مسائل میرے پیش نظر ہیں جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ اگلی صدی میں جماعت کے داخل ہونے سے پہلے پہلے ان کی نوعیت کو ان کی ماہیت کو خوب کھول کھول کر آپ کے سامنے بیان کر دیا جائے تا کہ خدا کے حضور میں بری الذمہ ہو جاؤں کہ ان امور کے متعلق جن کے متعلق قومی زندگی کے لئے راہنمائی ضروری ہے اور لمبی زندگی کے لئے راہنمائی ضروری ہے جہاں تک مجھے توفیق ملی میں نے آپ کی راہنمائی کی.شمالی امریکہ کے دورے میں دو خطبات میں نے اس موضوع پر دیئے تھے کہ بہت سے فساد Inferiority Complex یعنی احساس کمتری کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور بعض صورتوں میں کھول کھول کر بیان کیا.چنانچہ نسلی جھگڑے قومی تفریقیں اور فسادات جو ملکی قومی نسلی فرق کی بنا پر ہوں یہ سارے بنیادی طور پر احساس کمتری کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں.اس مضمون کو بھی ضرور پیش نظر رکھنا چاہئے لیکن یہ جو آج مضمون میں بیان کر رہا ہوں یہ بھی انتہائی اہمیت رکھتا ہے.آپ کے سامنے تفصیل کے ساتھ ساری مثالیں تو پیش نہیں کی جاسکتیں لیکن دو تین مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ قرآن کریم کی ایک ایک آیت میں کتنے عظیم الشان زندگی کے راز موجود ہیں.انفرادی زندگی کے بھی اور معاشرتی زندگی کے بھی ، اجتماعی زندگی کے بھی اور ایک عام آیت سمجھ کر آپ سرسری طور پر مطالعہ کر کے آگے گزر جاتے ہیں لیکن یہ نہیں جانتے کہ کتنا عظیم خزانہ یہاں دفن ہے.اس لئے جماعت کے نظام کی حفاظت کے لئے اور اسلامی معاشرے کی حفاظت کے لئے اس اصول کو جو ان آیات میں بیان ہوا ہے خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیجئے اور اس پر مضبوطی سے ہاتھ ڈال دیں کیونکہ اس کے بغیر ہماری زندگی یعنی قومی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.ایک جگہ ایک واقعہ ہوتا ہے مثلاً ایک برائی کسی جماعت کے سامنے آتی ہے اگر منتظمین جماعت اس برائی پر غور کرتے ہوئے پہلی اپنے حیثیت کی تعیین کریں کہ ہما را منصب کیا ہے اور بے وجہ اس برائی سے ٹکرانے کی خاطر اپنے منصب اور اپنے دائرے سے الگ نہ ہوں تو کوئی تفاوت آپ کو نظر نہیں آئے گا اور اس کے نتیجے میں کوئی فتور پیدا نہیں ہوگا، مثلاً برائیاں کئی قسم کی ہیں بعض ایسی برائیاں ہیں نجی جھگڑے ہیں مثلاً خاندانی جھگڑے ہیں ، میاں بیوی کے جھگڑے ہیں ان کا تعلق مجلس

Page 805

خطبات طاہر جلد ۶ 801 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء عاملہ سے کوئی نہیں ہے براہ راست مجلس عاملہ ایک نظام جماعت کے تابع مخصوص کاموں کے لئے مقرر کی جاتی ہے اس میں ایک سیکرٹری امور عامہ بھی ہے، ایک سیکرٹری اصلاح وارشاد بھی ہے.ان کا تعلق ایسے جھگڑوں سے صرف اس حد تک ہے کہ وہ فریقین کو جا کر سمجھا ئیں اور ان کو یہ بتائیں کہ یہاں آپ کی غلطی ہے وہاں دوسرے کی غلطی ہے.پیار اور محبت کے ساتھ ان کو سمجھا کر ان کی کمزوریوں کی طرف متوجہ کریں لیکن ان کا یہ کام ہرگز نہیں ہے کہ انفرادی حیثیت سے یا اجتماعی حیثیت سے قاضی بن جائیں.قضاء کا الگ ایک نظام موجود ہے اور جتنے نجی جھگڑے ہیں وہ سارے اس نظام کا کام ہے کہ ان کو طے کرائے جب اصلاحی کوششیں جو نصیحت کا رنگ صرف رکھتی ہیں اور نصیحت کرنا تصادم نہیں ہے کیونکہ قرآن کریم نے ہر شخص کو نصیحت کے اوپر مامور فرما دیا ہے.اس لئے یہ بھی سمجھ لیں اچھی طرح کہ کسی کو نصیحت کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ اس سے متصادم ہو رہے ہیں اس لئے اگر آپ کو کوئی نصیحت کرتا ہے تو آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ میرے معاملات میں کیوں دخل دیتے ہو.جاؤ تم اپنے معاملے سے معاملہ رکھو.یہ حماقت ہے یہ زندگی کی حقیقت کو نا سمجھنے کے نتیجے میں جواب پیدا ہوتا ہے.جو آدمی نصیحت کرتا ہے وہ ٹکرا تا نہیں ہے وہ ایک مشورہ دیتا ہے ایک بیرونی آئینہ دکھاتا ہے اسی لئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے ایک مومن کو دوسرے مومن کا آئینہ قرار دے دیا ( ابو داؤد کتاب الادب ، حدیث نمبر: ۴۲۷۲).آئینہ اگر متصادم ہوگا تو ٹوٹ جائے گا لیکن آئینہ اگر صحیح صورت صرف دکھا دے گا خاموشی سے اور اس کا پرو پیگنڈ انہیں کرتا کسی اور کو کسی کے چہرے کا نقص نہیں بتا تا تو اس کا نام تصادم بہر حال نہیں ہے.اس لئے نصیحت کرنا ان کا کام ہے اور جہاں معین بعض اختیارات امور عامہ کے سیکرٹری کو دیئے گئے ہیں ان اختیارات کو استعمال کرنا اس کا کام ہے لیکن نجی معاملات میں یا مالی اختلافات میں قاضی بن کر بیٹھ جانا اور فیصلوں کا پابند کرنے کی کوشش کر نا اور جو ان فیصلوں پر پابندی نہ کرے ان کے خلاف شکایتیں کرنا کہ اس کو سزاملنی چاہئے یہ سارا محض فساد ہے.اگر کوئی ایسا فریق جس کے متعلق کوئی شخص مدار سے ہٹ کر کاروائی کرتا ہے جو ابا بد تمیزی اختیار نہیں کرتا ، گالی گلوچ سے کام نہیں لیتا، عوام الناس میں پرو پیگنڈا نہیں کرتا بلکہ اپنے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے بالا منتظمین تک بات کو پہنچادیتا ہے تو اس کا نام تصادم نہیں ہے اور اگر ایسا واقعہ ہوتو کوئی فساد آپ کو نظر نہیں آئے گا.جس نے

Page 806

خطبات طاہر جلد ۶ 802 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء غلطی کی اس کی غلطی متعلقہ افسران تک پہنچائی جاتی ہے وہ اس کو درست کر لیتے ہیں اور کوئی ٹکراؤ کی صورت نہیں پیدا ہوتی لیکن اگر ایک طرف سے بھی غلطی ہو رہی ہو دوسری طرف سے بھی غلطی ہو رہی ہو تو پھر یہ تفاوت بن جاتا ہے اور اس کے نتیجے میں لازما فتور پیدا ہوتا ہے.اس لئے یک طرفہ غلطی بھی بری چیز ہے اس کے نتیجے میں بھی نقصان پہنچ سکتے ہیں لیکن نظام تباہ نہیں ہوا کرتے اگر ٹکراؤ والی غلطی پیدا ہو جائے تو نظام تباہ ہو جایا کرتے ہیں.مشین کے کل پر زورں پر آپ غور کریں دوبارہ ایک پرزہ اپنی ذات میں خراب ہو جاتا ہے موٹر کو اس سے بھی نقصان پہنچتا ہے لیکن ایک پرزہ دوسرے پرزے کی راہ میں اٹکتا ہے اس کا نقصان اس سے بہت زیادہ شدید نوعیت کا ہوتا ہے، اس سے دھما کہ پیدا ہوتا ہے، اس سے تصادم پیدا ہوتا ہے.اس لئے تفاوت کے مضمون کو پیش نظر رکھتے ہوئے پہلی نصیحت تو میری یہ ہے کہ اپنے مدار کو بہر حال نہ چھوڑیں اگر آپ اپنے مدار کو چھوڑیں گے تو بڑا بھاری احتمال موجود ہے، چونکہ عوام الناس اکثر ان مضامین کو نہیں سمجھتے اس لئے آپ کے چھوڑنے کے نتیجے میں کوئی دوسرا بھی اپنے مدار کو چھوڑ دے گا اور جب وہ اپنے منصب سے ہٹ کر آپ سے ٹکرائے گا تو اس کے نتیجے میں آپ دونوں کی بھی ہلاکت ہے اور نظام جماعت کو بھی شدید نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.پہلی مثال کی طرف واپس آتے ہوئے مزید میں اس پر روشنی ڈالتا ہوں.میاں بیوی کا جھگڑا ہوتا ہے مجلس عاملہ اس کے اوپر بیٹھ جاتی ہے غور کرنے اور خود ہی فیصلے کرتی ہے اور فیصلے صرف اس لحاظ سے نہیں کہ وہ نجی جھگڑے سے متعلق فیصلے ہوں کہ ان کو کیسے سلجھایا جائے.افتاء کا اختیار بھی اپنے ہاتھ میں لے لیتی ہے.یکطرفہ باتیں سنتی ہے پھر ایک فریق کو موقع دیئے بغیر قضاء کا کام اس طرح کرتی ہے کہ قضاء کے بھی منافی ہے وہ یعنی قضاء کے ادنی تقاضے بھی پورے نہیں کرتی.دوسرے فریق کو بلاتی ہی نہیں ہے، ان کو پوری طرح موقع ہی نہیں دیتی حالانکہ اس کو اول تو اس طرح قاضی بننے کا حق ہی کوئی نہیں بنیادی طور پر.قاضی بن جاتی ہے مجلس عاملہ قاضی پھر ٹیڑھا اور لنگڑا کیونکہ قاضی بنانے کے لئے مقرر نہیں کیا گیا اس لئے وہ صلاحیتیں ہی موجود نہیں ہے اس میں جو قاضی میں ہونی چاہئیں.پھر اسی پر اکتفا نہیں کرتی.قضاء کے دوران بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں فتوے چاہئیں اور ایک متقی قاضی خدا کا خوف رکھنے والا جب کسی معاملے میں نہیں جانتا کہ قرآن کا یا سنت کا

Page 807

خطبات طاہر جلد ۶ 803 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء کیا واضح حکم موجود ہے تو وہ مجلس افتاء کی طرف یا دار الافتاء کی طرف اس معاملے کو بھیجتا ہے اور جانتا ہے کہ یہ فتوے دینا قاضی کا کام بھی نہیں ہے ، قاضی کا کام صرف اتنا ہے کہ جوفتاوے موجود ہیں ان کے اندر رہتے ہوئے وہ اپنے فیصلے صادر کرے.تو ایک مجلس عاملہ اٹھتی ہے اپنے مقام کو ایک جگہ بھی چھوڑتی ہے اور دوسری جگہ بھی چھوڑتی ہے اور جہاں افتا کی ضرورت پیش آتی ہے وہاں خود ہی مفتی بن جاتی ہے اور مفتی بن کے فیصلے صادر کر دیتی ہے اور پھر اس کے نتیجے میں فحشاء پھیلاتی ہے.جو نقائص سمجھتی ہے چونکہ ان نقائص کی پوری چھان بین بھی نہیں ہو سکی.ذاتی حقوق جو خاندانوں کے ہیں ان کے بعض معاملات کے پردہ پوشی کی جائے ان کے معاملات کو منظر میں نہ لایا جائے ، اس سے بھی وہ پھر روگردانی کرتے ہوئے اس بنیادی اصول سے ایک اور معاملے میں ایک اور طرف بھی رخ کرتی ہے جہاں اس کو رخ کرنے کا کوئی حق نہیں اور سارے معاشرے میں بدامنی بے چینی اور فحشاء پھیلا دیتی ہے.ایسے کاموں کے لئے مجالس عاملہ کو مقرر ہی نہیں کیا گیا اگر اس طرح کریں گی اور جن کے متعلق جن کی حق تلفی کی جائے گی ان طریقوں پر ، جن کو ٹکراؤ کی دعوت دی جائے گی وہ آگے سے ٹکراؤ کریں گے تو سارا نظام جماعت ٹکڑے ٹکڑے ہو کر بکھر جائے گا اور اگر نہیں کریں گے تو تب بھی یہ ظالم رہے گی مجلس عاملہ جس نے ناجائز کسی فریق کے اوپر ظلم کیا اس کو کوئی حق نہیں تھا.ایسے بعض معاملات میرے علم میں آئے تو میں نے فوری طور پر مجالس عاملہ کو معطل کیا لیکن مجھے اس موقع پر بیان کرنے کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ جو کمیشن مقرر کیا گیا وہ بظاہر ایسے لوگوں پر مشتمل تھا جو بڑی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں اور اس کمیشن نے ان بنیادی باتوں کو نوٹ کئے بغیر کہ کیا ہوگیا ہے وہاں، کیا قیامت برپا ہوئی ہے، قرآن کے بنیادی اصول کو چھوڑا گیا ہے خود قاضی بننے کی کوشش کی اور یہ فیصلہ کرنے کی کوشش شروع کر دی کہ کون سا فریق ٹھیک تھا اور کون سا غلط.چنانچہ میں نے اپنے فیصلے میں پھر مجھے یہ بھی لکھنا پڑا کہ آئندہ یہ ممبران جو ہیں کمیشن کے ان کو کم از کم ایک سال تک کے لئے کوئی تحقیقی کام نہ دیا جائے کیونکہ بنیادی طور پر یہ اہلیت ہی نہیں رکھتے.تو مجھے یہ خیال آیا کہ اگر ایسے ممبران جو بڑے مخلص ہیں، تجربہ کار ہیں نظام جماعت میں ان کو بھی بعض باتوں کے بنیادی فرق معلوم نہیں ہیں.اس لئے ضروری ہے کہ ساری جماعت کو مخاطب کرتے ہوئے یہ معاملات ان

Page 808

خطبات طاہر جلد ۶ 804 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۸۷ء کے سامنے لائے جائیں تا کہ قرآن کریم کی اس آیت کو نظر انداز کرتے ہوئے کسی قسم کے تصادم کی صورت بھی جماعت احمدیہ میں پیدا نہ ہو اور مجھے تعجب ہے کہ کس طرح اب تک یہ بات میری نظر سے اوجھل رہی کہ ہماری مجالس عاملہ کو بھی بہت بڑی تربیت کی ضرورت ہے.اس سلسلے میں بعض اور اقدامات میں کروں گا انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق ان پر میں غور کر رہا ہوں لیکن سردست ساری جماعت کی تربیت کی ضرورت ہے ان کو بتانا چاہئے کہ رخنے کس طرح پیدا ہوتے ہیں کسی ایک قرآنی تعلیم کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں فساد پیدا ہوتا ہے.چنانچہ دوسری مثال آپ کے سامنے میں یہ رکھتا ہوں کہ ایک جگہ ایک لجنہ کا اجلاس ہو رہا ہے اور بڑی اہم تقریب ہے سارے ملک سے ممبرات آئیں ہوئی ہیں اس لئے کہ ان کی تربیت کی جائے اور جب ان کی اپنی تربیت کا امتحان ہوتا ہے تو قطعاً سارے تربیت کے تقاضے، پرانی تعلیمات کو بھلا کر تصادم کی راہ اختیار کر لیتی ہیں یعنی نظام جماعت سے تصادم کی راہ.ایک ایسے ہی موقع پر ایک جگہ ایک لڑکی روتی ہوئی واویلہ کرتی ہوئی بلند آواز میں اپنے خاوند کے خلاف اور اس کے رشتہ داروں کے متعلق باتیں کرتی ہوئی لجنہ کی تقریب میں پہنچ جاتی ہے وہ کہتی ہے آپ کے قریب ہی فلاں خاوند نے مجھ پر ظلم کیا، مجھے یہ کیا مجھے وہ کیا.زود کوب کیا.اس کے والدین نے ہمیں یہ کیا اور یہ مضامین کئے اس نے میرے والدین کو یہ کہا.نظام جماعت کا تقاضا یہ ہے کہ لجنہ اماء اللہ کی عہد یدار فوراً اس کی زبان بندی کریں.ان سے کہیں ہوسکتا ہے تم مظلوم ہولیکن ہم اس مقام پر فائز نہیں ہیں کہ تمہارے ظلم کی یک طرفہ داستان سنیں.اوّل تو یک طرفہ داستان سننا ہی انصاف کے تقاضے کے خلاف ہے اور اگر کوئی سنا دیتا ہے سرسری طور پر یا مثلاً بعض خطوں میں میرے سامنے آجاتی ہے تو پھر سنے والے کا جو سرسری طور پر سن لیتا ہے یا گزرتے ہوئے اس کے کان میں پڑ جاتی ہے یہ بنیادی فرض ہے کہ یک طرفہ رائے سن کر کوئی نتیجہ اپنے ذہن میں قائم نہ کرے، کوئی بداثر قائم نہ کرے لیکن ایک نہیں دو نہیں بار بار وہ منتظمین جولوگوں کی تربیت کے لئے ایک تقریب منعقد کر رہے ہیں وہ عہدیداران یہ رد عمل دکھاتی ہیں کہ نہ وہ قاضی ، نہ ان کو یہ حق کہ ان معاملات میں فیصلہ کریں بجائے اس کے اس فریق کو جو اپنے منصب سے ہٹ کے ان کے پاس آیا تھا، اپنے دائرہ اختیار سے ہٹ کر ان کے پاس آیا تھا اس کو سمجھاتے کہ بلند آواز سے فحشاء کا ذکر کرنا جائز نہیں

Page 809

خطبات طاہر جلد ۶ 805 خطبہ جمعہ ۲۷ نومبر ۱۹۸۷ء ہے اور غیر محل جگہ میں یہ باتیں کرنا جائز نہیں ہے، تم فتور پیدا کر رہی ہو.ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ تم مظلوم ہو یا ظالم ہو لیکن اپنے اس فعل سے نظام جماعت پر تم ضر ور ظلم کر رہی ہو، اس لئے تم قاضی کے پاس رجوع کر دیا امور عامہ کے پاس جاؤ تا کہ ابتدائی معاملے جو امور عامہ طے کیا کرتی ہے شعبہ امور عامہ طے کیا کرتا ہے وہ طے کریں یا اصلاح وارشاد کے پاس جاؤ یا امیر کے پاس پہنچو.ان کو کہو تم میرے باپ کی جگہ ہو ، تم سارے نظام کے امیر مقرر کئے گئے ہو تمہارے دائرے میں ایک واقعہ ہو رہا ہے تحقیقات کرواؤ یا تو سمجھانے کی کوشش کرو اور اگر نہیں سمجھ سکتا تو پھر ہمیں بتاؤ کہ ہمیں کیسی کا روائی کرنی چاہئے تا کہ معاملہ نہی ہو سکے.اس لجنہ کی عہدیداروں کو یہ بھی خیال نہیں آتا کہ قرآن کریم جو وہ بار بار پڑھتی ہیں اور اکثر ان میں سے ترجمہ بھی جانتی ہیں عہد یداروں میں سے، اس میں لکھا ہوا ہے کہ جب نجی جھگڑے ہوں تو :.حَكَمًا مِنْ أَهْلِهِ وَحَكَمًا مِّنْ أَهْلِهَا (النساء: ٣٦) یہ دوفریق مقرر ہوں ایک مرد کے اہل سے اور ایک عورت کے اہل سے جو حکم ہوں ان میں فیصلہ کرنے کی طاقت ہو خدا تعالیٰ نے ان کو حکمت عطا فرمائی ہوان کو چنو وہ آپس میں بیٹھیں اور معاملے طے کریں اور اگر وہ نہیں ہو سکتے تو پھر قضاء کا رستہ کھلا ہے ہر شخص کے لئے.یہ کرنے کی بجائے اس قدر چسکا اٹھایا ان باتوں میں کہ سارا نظام وہاں درہم برہم ہو گیا اور وہ اجلاس ملتوی ہو گئے وہ گھیرے پڑ گئے اس لڑکی کے اردگر داور سارے اکٹھے ہو گئے جلسے کی باتیں سننے کی بجائے، تقریریں سننے کی بجائے محفل لگ گئی اور باتیں شروع ہو گئی بڑا ظلم ہو گیا بڑا ندھیر ہو گیا فلاں نے اتنا یہ کر دیا فلاں نے وہ کر دیا اور پھر اس میں اپنی زبان درازیوں میں اور طعن میں خلیفہ وقت کو بھی نہیں چھوڑا گیا.اس لڑکی نے پھر اور بھی درد ناک باتیں بیان کیں کہ میرے والدین سے یک طرفہ باتیں سن کر خلیفہ وقت نے بائیکاٹ کر دیا ہے ، ان کی طرف متوجہ نہیں ہوتا.اس لئے کہ اس کے ارد گرد دو تین حاشی حواشی ایسے ہیں جو یک طرفہ باتیں اس کے کانوں میں ڈالتے ہیں.اس وقت بھی کسی کو خدا کا خوف نہیں آیا کہ اب حملہ ایسی جگہ کیا جا رہا ہے جہاں حد سے زیادہ تصادم ہے، دنیا نے سمائے دنیا پر حملہ کر دیا ہے جیسے اسی قسم کا واقعہ ہے یا اس سے بڑھ کر نوعیت کا ہے اور کسی کو خیال نہیں آتا اور دو قسم کے مزاج کے لوگ ایک ہی بات کہتے ہیں اس کے نتیجے میں اس کا منہ پھر بھی بند نہیں کرایا جاتا یعنی

Page 810

خطبات طاہر جلد ۶ 806 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء محبت اور پیار سے سمجھا کر میرا مطلب ہے سختی سے مراد نہیں ہے.اس کو یہ نہیں کہتے کہ تم پہلے اپنے خاوند کے خلاف یک طرفہ باتیں کر رہی تھی ، اب تم خلیفہ وقت کے خلاف یک طرفہ باتیں کر رہی ہو تمہارے خاوند کو تو ہم نہیں جانتی لیکن خلیفہ وقت کے ہاتھ تو ہم نے منصف سمجھ کے بیعت کی ہوئی ہے.یہ ایمان رکھتے ہوئے بیعت کی ہے وہ خود منصف نہیں بلکہ انصاف کا محافظ ہے دنیا میں تم ایسے شخص کے اوپر عدل کے خلاف الزام لگا رہی ہو ، اس لئے اگر پہلے سن بھی لیں تھیں جسکے اٹھائے بھی تھے ناجائز ، اب ہم تمہاری مزید باتیں نہیں سنیں گی.اس کی بجائے کہتی ہیں ہاں ہاں یہ تو فلاں شخص کی وجہ سے ہے یا فلاں اشخاص کی وجہ سے وہ پرائیویٹ سیکرٹری اس کا دوست ہے، وہ افسر حفاظت اس کا دوست ہے، وہ فلاں اس کا دوست ہے اس کی یک طرفہ باتیں سنتا ہے اور مجبور ہو گیا ہے.اب امر واقعہ یہ ہے کہ ایسی باتیں کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں یا منافقین یا وہ جو خلیفہ وقت کے اوپر حملہ نہیں کرنا چاہتے اور اپنی طرف سے اس کا دفاع کر رہے ہوتے ہیں اور بات ایک ہی ہوتی ہے.قرآن کریم نے اس مضمون کو بھی بیان فرما دیا ہے نہ صرف یہ فرمایا کہ تفاوت نہیں دیکھو گے خدا کی کائنات میں بلکہ روحانی کائنات میں جہاں جہاں تفاوت کے احتمالات ہیں ان سب کا ذکر قرآن کریم میں فرمایا ہوا ہے.خود حضرت اقدس محمد مصطفی میہ کی ذات پر بھی ایسے حملے ہوئے آپ کے متعلق باتیں یہ کی گئیں کہ هُوَ أُذُب کہ وہ تو کان ہیں مجسم یعنی لوگوں کی باتیں سنتا ہے اور مان جاتا ہے اس کے نتیجے میں بعض دوسرے لوگوں کے خلاف فیصلے کر دیتا ہے نعوذ بالله من ذالک یا ان سے متنفر ہو جاتا ہے، ان سے پیچھے ہٹ جاتا ہے.قرآن کریم نے اس کا بہت پیارا جواب دیا ہے فرمایا أُذُنَ خَيْرٍ لَّكُمْ (التوبہ: (۶) کان تو ہے لیکن صرف بھلائی کا کان ہے برائی کا کان نہیں.جب بری باتیں کسی سے سنتا ہے تمہارے متعلق تو تم پرحسن ظن رکھتا ہے اور یک طرفہ فیصلے نہیں کرتا جب اچھی باتیں سنتا ہے تو قبول کر لیتا ہے کیونکہ وہ تم سے پیار کرتا ہے، تمہارے اوپرحسن ظن رکھتا ہے.اس لئے کان بے شک کہولیکن خیر کا کان کہو ، بھلائی کا کان کہو.الله یہی آنحضرت ﷺ کے اتباع میں آپ کے سب غلاموں کی کوشش ہونی چاہئے اور ہوتی ہے.خلفائے وقت کے لئے بھی یہی وہ سنت ہے جس کے اوپر وہ عمل کی پیروی کرتے ہیں.اس لئے یہ بھی جواب کسی نہ نہیں دیا کہ اُذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ تمہارے لئے بھلائی کا کان تو ہوسکتا ہے ہم برائی

Page 811

خطبات طاہر جلد ۶ 807 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء کے کان کے طور پر اس کو تسلیم نہیں کر سکتے بلکہ اپنی طرف سے یہ دفاع پیش کیا کہ ہاں ہے تو کان لیکن کان بیچارے کا کیا قصور وہ تو اس زبان کا قصور ہے جس نے پاگلوں والی جھوٹی لغو باتیں اس تک پہنچائی ہیں.الله جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی باتیں کرنے والے دو قسم کے ہو سکتے ہیں.میں حسن ظنی رکھتا ہوں لجنہ پر اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ انہوں نے اپنی طرف سے میرا دفاع کیا ہے، اپنی طرف سے مجھے معذور قرار دیا ہے لیکن منافق بھی تو اسی طرح حملے کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ کا اعتما داٹھانے کے لئے بھی اسی قسم کی باتیں کی گئی تھیں اور وہ لازما منافقین تھے.اب بھی معاشرے میں جب خلیفہ وقت پر حملہ کیا جاتا ہے یا پہلے جب بھی کیا گیا ہمیشہ اس طرح کیا جاتا ہے کہ اس کے اوپر ایک الزام کو تسلیم کر کے اس کی ایک وجہ جواز بیان کی جاتی ہے.فلاں صاحب جو ہیں وہ تو فلاں کی باتوں میں آگئے.قادیان میں مجھے یاد ہے بچپن میں بڑے بڑے فتنے پیدا ہوئے اور فتنہ پردازوں نے آغاز ہمیشہ نظارت امور عامه پر یا نظارت اصلاح وارشاد پر یا نظارت تعلیم پر حملے کے ذریعے کیا اور کہا کہ خلیفہ وقت کو تو پتا ہی نہیں اس کے سامنے جھوٹی فائلیں پیش کی گئیں یا قضاء پر حملہ کیا اور کہا کہ قضا نے یہ دیکھو کتنا ظلم کیا ہے کہ خلیفہ وقت کے سامنے غلط معاملات پیش کر کے ان سے غلط فیصلے لے لئے.تو قرآن کریم نے تو ہمیشہ کے لئے یہ بات پیش کر کے آپ کی راہنمائی فرما دی تھی آپ کی آنکھیں کھول دی تھیں آپ کے کان کھول دیئے تھے بتا دیا تھا کہ اس طرح حملے ہوا کرتے ہیں ان حملوں سے باخبر رہو اور جو تمہارا منصب نہیں ہے اس منصب سے ہٹ کر تم نے کوئی بات نہیں سنی نہ کوئی بات کرنی ہے.چنانچہ اگر آپ منصب میں رہیں اور اپنے دائرے میں رہیں تو پھر کوئی فتور پیدا نہیں ہوسکتا جو تفاوت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.اب اس معاملے میں جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص نے فلاں خلیفہ نے فلاں کی بات سن لی.مولوی ابو العطاء صاحب مرحوم کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس کی بات سن لی ، میر داؤد کی بات سن لی ، فلاں کی سن لی ، فلاں کی سن لی یا ناظر امور عامہ سید ولی اللہ شاہ کی بات سن لی یا قاضی کی بات سن لی.تو سننے والے کا فرض تھا اس کا فرض تھا کہ اگر یہ بات ہے تو میں کون ہوں، مجھے تم کیوں بتارہے ہو؟ میرا یہ منصب نہیں ہے کہ میں قضاء پر یا نظارت اصلاح وارشاد پر یا کسی

Page 812

خطبات طاہر جلد ۶ 808 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء اور نظارت کے اوپر محاکمہ کروں یا ان پر حج بن کر بیٹھ جاؤں.اس لئے تم مجھے کیوں بتا رہے ہو؟ تم اپنے منصب سے ہٹ چکے ہو اور چاہتے ہو کہ میں بھی اپنے منصب سے ہٹ جاؤں.تمہارا فرض ہے کہ اگر تم سمجھتی ہو کہ خلیفہ وقت معصوم ہے واقعہ تو جن باتوں میں سمجھتی ہو کہ وہ آگئے ہیں وہ خلیفہ وقت کو بتاؤ کہ تم ان باتوں میں نہ آؤ، اس کو لکھ کر بھیجو اور پھر تمہارے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو اس کے عدل پر پھر حملہ کرو یہ نہ کہو کہ ناظر امور عامہ بددیانت ہے پھر جرات کے ساتھ تقویٰ کے ساتھ یہ فیصلہ کرو کہ جو بھی تمہیں تقویٰ نصیب ہوا ہے اس کے مطابق کہ خلیفہ وقت جھوٹا ہے، خلیفہ وقت بددیانت ہے اور اس کو چھوڑ دو.اگر چھوڑ دو گے تو تب بھی رخنہ پیدا نہیں ہوگا اور اس میں رہ کر جب تم تصادم کی راہ اختیار کرو گے تو تفاوت پیدا ہوگا اور تفاوت کے نتیجے میں لازما فتور ہوگا یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.اگر یہ مسلک اختیار کرتے ہمیشہ لوگ تو کبھی کوئی فتنہ پیدا نہ ہوتا، فتنہ سر ہی نہیں اٹھا سکتا تھا.آج بھی پاکستان میں بھی باہر بھی جہاں بھی متفی پیدا ہوتے وہ پہلا حملہ خلیفہ وقت پر نہیں کیا کرتے.وہ کہتے ہیں کہ فلاں شخص نے ہماری دشمنی میں خلیفہ وقت تک یہ بات پہنچائی ، فلاں شخص نے فلاں آدمی سے پیسے کھا لئے ، اس کی دعوتیں اُڑائیں اور پھر خلیفہ وقت سے یہ بات کہی ایک مخرج ہے اس وقت وہ لوگوں کے پاس پہنچتا ہے اور بڑے ہی چاپلوسی سے کہتا ہے کہ میں تو عاشق ہوں خلیفہ وقت کا ، خلیفہ وقت تو بہت ہی بلند مقام رکھتے ہیں اور میں تو معافیوں کی عاجزانہ درخواستیں بھی کر رہا ہوں لیکن معافی نہیں ملتی ناظر امور عامہ ایسا ذلیل آدمی ہے کہ وہ راشی ہے وہ فریق ثانی سے دعوتیں اُڑا چکا ہے، فریق ثانی سے پیسے کھا چکا ہے حالانکہ جو مخرج ہے میں اس کے متعلق جانتا ہوں کہ اس کو عادت ہے لوگوں کو پیسے چڑھانے کی اور دعوتیں کرانے کی اور میں نے آغا ز خلافت ہی میں اس کے متعلق متنبہ کر دیا تھا عہدیداروں کو کہ اس کی کوئی دعوت قبول نہیں کرنی آپ نے.اب وہ چونکہ خود اس مرض کا شکار ہے وہ ناظر امور عامہ کے متعلق یہ باتیں کرتا ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ سننے والے سن لیتے ہیں.یہ کہتے ہیں کہ ہاں ! خلیفہ وقت نے ناظر امور عامہ کی بات سن لی ہے اس لئے اس بیچارے پر ظلم ہو رہا ہے حالانکہ اس کا اگلا نتیجہ نہیں نکالتے.جو خلیفہ اتنا بیوقوف اور احمق ہو کہ اس کو معاملہ نہی ہو ہی کوئی نہیں جس طرف سے بات سنی اس کو فوراً قبول کر لیا وہ اس لائق کہاں ہے کہ تم اس کی بیعت میں رہو.اس لئے تمہارے تقویٰ کا یہ تقاضا ہے اگر تم متقی ہو تو اس کی بیعت سے الگ ہو

Page 813

خطبات طاہر جلد ۶ 809 جاؤ لیکن بیعت پر قائم رہتے ہوئے تمہیں تصادم کی اجازت نہیں دی جاسکتی.خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء یہ وہ بات ہے جس کے متعلق قرآن کریم کی ایک آیت ہمیں ہمیشہ کے لئے متنبہ کر چکی ہے کہ خبردار! تفاوت کی راہ اختیار نہ کرنا.تفاوت نام ہے دوموتوں کے ٹکرانے کا دو ایسی چیزوں کے ٹکرانے کا جو دونوں اپنے منصب سے ہٹ چکی ہیں.اس لئے اگر ایک کو اپنا منصب چھوڑتے ہوئے دیکھو کبھی تو تم اسی رو میں بہہ کر اپنا منصب نہ چھوڑ دینا.پس ایسے فتنے تو پیدا ہوتے رہیں گے اور ہمیشہ اصلاح کے نام پر ہوں گے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ:.وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ تم زمین میں فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں ہم تو اصلاح کی خاطر کی بات کر رہے ہیں.نظام جماعت میں فتنہ پیدا ہورہا ہے اس کے متعلق ہم عوام الناس کی رائے عامہ کو بیدار کر رہے ہیں اور بتارہے ہیں کہ ایسی ایسی خطرناک باتیں پیدا ہو رہی ہیں.ان کے متعلق یہ کیوں کہہ ديا أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَا يَشْعُرُونَ (البقره ۱۲-۱۳) خبردار! وہ خود مفسد ہیں اور ان کو علم نہیں ہے اس میں تو بظاہر کوئی دلیل نہیں ہے انہوں نے کہا ہم اصلاح کرتے ہیں انہوں نے کہا نہیں تم مفسد ہو، کس دلیل سے ان کو مفسد قرار دیا جا سکتا ہے؟ وہ وہی دلیل ہے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر ہے جس کی میں نے آغاز میں تلاوت کی تھی.ایک شخص جب اپنے منصب سے ہٹ کر باتیں کرتا ہے تو خواہ وہ اصلاح کی باتیں ہوں ، وہ ضرور مفسد ہے کیونکہ قرآن کریم نے فساد کی تعریف ہی منصب سے ہٹنا قرار دیا ہے.تفاوت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عربی زبان کے مطابق ان دو چیزوں کے ٹکراؤ کا نام ہے جو اپنے منصب سے الگ ہو چکی ہیں اپنے مقام کو چھوڑ کر فوت ہو چکی ہیں اپنی جگہ سے پس جس شخص نے کوئی اصلاح کی بات کی ہو اور اس کا مقام ہی نہ ہو وہ اصلاح کی بات کرنے کا وہ قضاء میں دخل دے رہا ہے، کبھی امور امہ میں دخل دے رہا ہے، کبھی تعلیم میں دخل دے رہا ہے ، نہ اس کو ناظر امور عامہ مقرر کیا ، نہ قاضی مقرر کیا گیا نہ اور عہدے دیئے گئے.اپنے محلے کا سیکرٹری بھی نہیں ہے اور سیکرٹری بھی ہے تو اس کا کام ہے اپنے مجلس عاملہ میں بات کرنا یا اوپر کے عہد یداروں کو متنبہ کرنایا عوام الناس میں بغیر کسی کی ذات پر حملہ کئے عمومی نصیحت کرنا.تو ان چیزوں پر

Page 814

خطبات طاہر جلد ۶ 810 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء اگر کوئی قائم رہتا ہے تو وہ فساد پیدا کر ہی نہیں سکتا.اس لئے اگر وہ کہتا ہے میں مصلح ہوں تو بیشک مصلح کا دعویٰ کرتا پھرے اس کے اوپر کوئی ہمیں اعتراض نہیں، قرآن کریم اس کو اجازت دیتا ہے لیکن اصلاح کی بات کر رہا ہو خواہ بچی بھی ہو لیکن منصب سے ہٹ کر کر رہا ہے تو وہ لا زما مفسد ہے اور بہت سے ایسے مفسد ہیں جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ عمداً مجرم نہیں ہوتے بعض دفعہ ولکن لا يَشْعُرُونَ ان بیچاروں کو پتا ہی نہیں کہ وہ کیا کہ رہے ہیں.اس لئے دونوں قسم کے لوگ نظام کو تو بہر حال نقصان پہنچا دیتے ہیں.عمد مفسد ہوں گے تو خدا کے ہاں مزید سزا پائیں گے اور بغیر عمد کے مفسد ہوں گے تو نظام کو تو بہر حال نقصان پہنچا دیں گے.ان کو اس درجے کی سزا ملے یا نہ ملے جو باشعور جرم کرنے والے کو ملتی ہے یہ الگ مسئلہ ہے.اس لئے لا يَشْعُرُونَ والے پہلو کے تابع یہ باتیں کئی لوگ مجھے لکھتے ہیں جب ان کے اوپر پکڑ کی جاتی ہے کہ ہم نے جان بوجھ کر نہیں کیں ، ہم نیک دلی سے یہ کرنے والے تھے.ان کو میرا یہی جواب ہے کہ تم چاہے نیک دلی سے کسی کو قتل کرو یا بد دلی سے قتل کرو وہ تو مارا گیا جس کو تل کر دیا گیا.یہ فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے کہ تم نے بدنیتی سے اس کو مارا تھا یا نیک نیتی سے مارا تھا.جیسا کہ قرآن کریم میں ایک جگہ پتا چلتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے سوال کیا کہ کیوں مار دیا تم نے انہوں نے بتایا کہ مارا تو ہے لیکن نیک نیتی سے مارا ہے کیونکہ خدا کا حکم تھا.تو بعض دفعہ ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں کہ کسی کے قتل کا کسی کی موت کا قانون فیصلہ کر دیتا ہے اور چونکہ خدا قانون کا مرجع اور منبع ہے اس لئے جب خدا کسی کو حکم دیتا ہے تو وہ اور مسئلہ بن جاتا ہے لیکن جہاں تک مرنے والے کا تعلق ہے اور جہاں تک دیکھنے والوں کا تعلق ہے وہ قتل ہی کہلائے گا.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہی اعتراض کیا کہ تم نے کیوں ناحق ماردیا کسی کو حالانکہ خدا کے نبی تھے لیکن دیکھنے والے کے نکتہ نگاہ سے ان کا اعتراض درست تھا.پس جہاں تک معاشرے کا تعلق ہے جو شخص بھی اپنے مقام اور مرتبے سے ہٹ کر بات کرتا ہے اپنے دائرے سے نکل کر بات کرتا ہے ساری جماعت کو اس بات کا حق ہے اس کا فرض ہے کہ اس کو متوجہ کرے اور کہے کہ جہاں تک قرآنی تعلیم کا تعلق ہے ہمارے نزدیک تم مفسد ہو اور ہم تمہارا یہ دعویٰ قبول نہیں کریں گے کہ تم نے اصلاح کی خاطر یہ بات کی تھی.یہ دعویٰ جو ہے تم جانو اور خدا جانے

Page 815

خطبات طاہر جلد ۶ 811 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء ہمیں اس سے غرض نہیں لیکن جو تم کام کر رہے ہو اس کے نتیجے میں جماعت میں فتنہ وفساد پیدا ہوگا.پھر انفرادی طور پر بعض فحشاء پھیلانے والے ہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں بدکردار ہے اور فلاں بد کردار ہے اور ظلم کی بات یہ ہے کہ لوگ ان کی باتوں کو سن لیتے ہیں.سوائے ایک صورت کے اور کسی صورت میں یہ بات سننا جائز نہیں.سننے والے کا منہ بند کرنا ضروری ہے اس موقع پر اور کہنا ضروری ہے کہ قرآن کریم نے اس بات کی تمہیں اجازت نہیں دی اور قرآنی اصطلاح میں تم جھوٹے ہو کیونکہ تم غلط جگہ بات کر رہے ہو اور جو بات کر رہے ہو اس کے گواہ تمہارے پاس نہیں ہیں.اگر گواہ ہیں تو پھر بھی ہمارے پاس بات نہ کرو پھر تمہیں چاہئے کہ نظام جماعت کے پاس جاؤ جو لوگ مقرر ہیں اس بات پر ان سے بات کرو.یہ بات سننا کسی کے لئے جائز ہی نہیں ہے کیونکہ اسی سے آگے فحشاء پھیلتی ہیں سوائے ایک صورت کے وہ ایک مریض کے متعلق نظام جماعت کو مطلع کرنے کی خاطر اس کی بات سنتا ہے تاکہ نظام جماعت کو معلوم ہو جائے کہ ایک بیماری کا گڑھ ہے جو وائرس کا شکار ہے اور جگہ جگہ پھر رہا ہے اور اس وائرس کو پھیلا رہا ہے.جس طرح بعض مریض ہیں جو بیماریاں پھیلاتے ہیں ان کے متعلق بر وقت اطلاع کر دی جاتی ہے بعض باؤلے کتے پھر رہے ہوتے ہیں ان کے کاٹنے سے پاگل پن ہو جاتا ہے جن کو کاٹتے ہیں وہ پاگل ہو جاتے ہیں.ان کے متعلق اطلاع کرنا تو فرض ہے.اس لئے اگر کوئی اطلاع کی خاطر کسی کی بات کوسن کر غور سے کیا کہتا ہے اور اچھی طرح ذہن نشین کر کے تا کہ اس کی طرف غلط بات منسوب نہ کرے پھر وہ بات نظام جماعت تک پہنچائے تو یہ سننانا جائز نہیں ہے لیکن شرط یہ ہے کہ بلا کم و کاست اس بات کو پھر ضرور نظام جماعت تک پہنچائے اس کے بغیر اس کو کوئی حق نہیں ہے.تو جتنے فحشاء پھیلتے ہیں، جتنے اعتماد اٹھتے ہیں نظام جماعت سے، جتنے فساد پیدا ہوتے ہیں ان کے نتیجے میں آپ کی زندگی کا ہر اجتماعی شعبہ متاثر ہو جاتا ہے.کسی اجتماعی شعبے کی حفاظت کی یقین دہانی نہیں کی جاسکتی.اوپر سے نیچے تک آپ دشمن کے سامنے اپنے سینے ننگے کر کے کھڑے ہیں گویا اور اس کے لئے قرآن کریم نے آپ کو جو ڈھال دی تھی اس کو چھوڑ بیٹھے ہیں اور وہ ڈھال اسی آیت میں بیان فرمائی گئی ہے.ہر جماعت احمدیہ کے ممبر کا فرض ہے اس نے لمبے سفر کرنے ہیں ابھی اپنے معاشرے اپنے

Page 816

خطبات طاہر جلد ۶ 812 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء نظام کی حفاظت کرنی ہے چونکہ یہ جماعت ایک سو سال کے لئے تو نہیں تھی ابھی تو ہمیں اپنے اعلیٰ تر مقصد کو حاصل کرنے میں یعنی دین محمد مصطفی ﷺ کو تمام ادیان پر غالب کرنے میں بڑا وقت درکار ہے.اس وقت سے پہلے اگر آپ ان قدروں سے ہٹ جائیں گے، ان بنیادی اصولوں سے ہٹ جائیں گے ، جن کے ہٹنے کی قرآن کریم کسی قیمت پر اجازت نہیں دیتا ، جن کے متعلق کھول کر بیان کر رہا ہے کہ ایک ذرہ بھی تم ان مناصب سے ہٹو گے تو اس کا نتیجہ لا زما موت ہے اور فساد ہے اور بے نظمی ہے کچھ بھی تمہارے پاس باقی نہیں رہے گا.اتنی واضح نصیحت کے باوجود اگر آپ بار باران باتوں کو نظر انداز کریں گے بار بار نصیحت کو سنیں گے اور پھر بھی فحشاء کو اپنے اندر پھیلنے دیں گے چسکوں کی خاطر یا عورتوں اور مردوں کے جھگڑوں کو اپنے کانوں کے چسکوں کی خاطر سنیں گے تو آپ قومی مجرم ہیں نیت بھلائی کی ہے یا نہیں یہ میں نہیں جانتا لیکن قومی مجرم ضرور ہیں آپ.اس لئے ساری دنیا کے احمدیوں کو اس بات میں متنبہ ہو جانا چاہئے جو اختیار ان کو دیا گیا ہے اس سے انہوں نے نہیں ہٹنا، جو اختیار قرآن کریم نے بنی نوع انسان کو دیئے ہیں اس سے اگر وہ ہٹتے ہیں تو پھر آپ نہ نہیں اور ان کو یک طرفہ ٹکر انے والا سمجھ لیں لیکن آپ نے اپنے مقام کو چھوڑ کر ان کی طرف مائل نہیں ہونا.اگر یہ ہوگا تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تفاوت پھر نہیں ہوگا.پھر اگر آپ سے کوئی یک طرفہ ٹکراتا ہے، اپنے منصب کو چھوڑتا ہے اور جماعتی نظام پر حملہ کرتا ہے تو خدا نے وعدہ کیا ہے کہ اس نے اس کے لئے شعلہ بردار مقررفرمار رکھے ہیں، اسے جہنم تک پہنچا کے چھوڑیں گے،اس کو ضرور نا کام اور نامراد کر کے دکھائیں گے.اس لئے آپ کو کیا خطرہ ہے کہ آپ اُٹھتے ہیں اور اس سے متصادم ہونے کے لئے اپنی راہیں چھوڑ دیتے ہیں، اپنے رستوں سے ہٹ جاتے ہیں.ان امور پر کئی دفعہ میں خطبات دے چکا ہوں لیکن پھر بار بار یہ باتیں سامنے آتی ہیں کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں معمولی باتیں ہیں، کیا فرق پڑا اگر ہم نے چسکے سے فلاں کی بات سن لی.ساتھ ساتھ اپنی دانست میں خلیفہ وقت کی حفاظت بھی کر لی کہہ دیا کہ ہاں ہاں ! کسی کی باتوں میں آ گیا ہوگا خود تو اپنی ذات میں شریف آدمی لگتا ہے ، خود تو جھوٹا اور غیر منصف نظر نہیں آتا اس لئے ضرور باتوں میں آیا ہوگا یعنی غیر منصف بھی قرار دے دیا اور بیوقوف بھی ساتھ ہی قرار دے دیا.اچھا دفاع کیا خلیفہ وقت کا یعنی پہلے نے تو صرف ظالم کہا تھا آپ نے کہا ہاں ! ظالم صرف نہیں ہے احمق بھی بڑا سخت ہے اور

Page 817

خطبات طاہر جلد ۶ 813 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء اس کو عادت ہے چغلیوں کی بھی ، یک طرفہ باتیں سنتا ہے اور فیصلے دیتا چلا جاتا ہے.تو حسن ظنی میں میں کہتا ہوں کہ آپ نے اپنی طرف سے دفاع کیا لیکن یہ کیا دفاع ہے؟ اس کے متعلق تو یہ مصرع غالب کا آپ پر صادق آتا ہے کہ:.ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو اگر ایسے ہی دفاع کرنے ہیں آپ نے خلافت کے یہی عزم تھے آپ کے جب آپ نے عہد کئے تھے کہ ہم قیامت تک اپنی نسلوں کو بھی یہ یاد دلاتے رہیں گے کہ تم نے خلافت احمدیہ کی حفاظت کرنی ہے اور اس کے لئے ہر چیز کی قربانی کے لئے تیار رہو.اگر یہی عہد سے آپ کی مراد ہے تو یہ عہد مجھے نہیں چاہئے.خلافت احمدیہ کو یہ عہد نہیں چاہئے کیونکہ اس قسم کی حفاظت نقصان پہنچانے والی ہے فائدہ پہنچانے والی نہیں ہے.لیکن صرف ایک خلافت کا معاملہ نہیں ہے سارے نظام اسلام کا معاملہ ہے، تمام اسلامی قدروں کا معاملہ ہے.ہم تو دور کے مسافر ہیں ایک صدی کا ہمارا سفر نہیں ہے سینکڑوں سال تک اور خدا کرے ہزاروں سال تک ہم اسلام کی امانت کو حفاظت کے ساتھ نسلاً بعد نسل دوسروں تک منتقل کرتے چلے جائیں گے.اس اہم مقصد کے لئے آپ کو پوری طرح ہتھیار بند تو ہونا چاہئے.ان معاملوں میں کیوں بار بار آپ شیطان کے حملوں کے لئے اپنے سینوں کو پیش کرتے ہیں جن میں قرآن کریم نے کھول کھول کر آپ کو بیان فرما دیا ہے کہ ان اصولوں سے ہٹو گے تو موت کے سوا تمہارا کوئی مقدر نہیں ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ اور نماز عصر کے معا بعد کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.سب سے پہلے تو ہمارے عزیز دوست اور پرانے سلسلے کے دیرینہ کارکن جو آپ کے ہاں انگلستان میں ایک لمبا عرصہ تک امیر جماعت انگلستان کے طور پر کام کرتے رہے ہیں یعنی مکرم بشیر احمد خان صاحب رفیق کی والدہ کی وفات کی اطلاع ملی ہے.ان کی والدہ مولوی محمد الیاس خان صاحب کی بیٹی تھیں جن کے دو صاحبزادے بھی جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی خدمتوں میں اور تقویٰ کے ساتھ وفا کے ساتھ وابستگی میں بہت معروف ہیں یعنی عبدالسلام خان صاحب اور عبد القدوس خان صاحب.ان کی والدہ موصیہ تھیں اور بہت ہی سلسلے کے ساتھ گہرا محبت اور اخلاص اور وفا

Page 818

خطبات طاہر جلد ۶ 814 خطبہ جمعہ ۲۷ / نومبر ۱۹۸۷ء کا تعلق رکھنے والی.مولوی محمد الیاس خان صاحب خود بہت بڑے سلسلے کے عالم تھے.1907ء میں آپ نے بیعت کی تھی اور آپ کے دو بیٹے بھی خدا کے فضل سے بہت جماعت میں نمایاں مقام رکھنے والے تھے.ایک تو زندہ ہیں ماشاء اللہ اور دوسرے ان کی بیٹیوں میں سے ایک صالحہ بیگم مرحومہ تھیں رستم خان صاحب شہید کی بیگم.انہوں نے بھی آگے اپنی اولاد کی بہت اچھی تربیت کی ہے ماشاء اللہ اور دوسری کلثوم بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد یوسف صاحب اور تیسری اور بیٹیوں میں سے یہ تھیں یہ تین بیٹیاں میں جانتا ہوں خاص طور پر باقیوں سے تو میں واقف نہیں ہوں.یہ تھیں ہمارے بشیر رفیق صاحب کی والدہ.یہ ساری جو مائیں تھی اللہ کے فضل سے ماں کی حیثیت سے اپنے بچوں کے لئے بہت بڑا خزانہ چھوڑ گئی ہیں تربیت کا اور سب اولاد میں خدا کے فضل سے سلسلہ سے تعلق اور وفا کا جذبہ موجود ہے الا ماشاء اللہ کوئی ایک آدھ آدمی اپنے امتحان میں نا کام بھی ہو جاتا ہے لیکن عمومی طور پر دیکھا جاتا ہے کیسی تربیت کی جارہی ہے اور صوبہ سرحد میں خاص طور پر میں نے یہ مطالعہ کیا ہے کہ تربیت کا بھاری دار و مدار ماؤں پر تھا اور اب بھی ہے یعنی والد کا اتنا زیادہ دخل نہیں ہوتا.جن کی مائیں اچھی تھیں ان کی اولادیں لازما مخلص بنی ہیں اور ضروری نہیں کہ والد اچھا ہو اور اولا د اچھی ہو کیونکہ بعض معاشرے ہوتے ہیں ان میں مائیں زیادہ کردار ادا کرتی ہیں لیکن بالعموم بھی جماعت احمدیہ میں ساری دنیا میں ماؤں کو یہ پوزیشن اپنی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ وہ آئندہ اچھی نسلوں کو پیدا کرنے والی ہوں.بہر حال ان کی نماز جنازہ غائب کے علاہ ایک ہمارے بہت ہی پرانے دوست اور مخلص فدائی احمدی واقف زندگی مولوی محمد صدیق صاحب جنگلی کی اہلیہ کی اچانک وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.اسی طرح مکرم ڈاکٹر عبدالرشید صاحب تبسم جو علمی وادبی حلقوں میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے اور پاکستان میں احمدیت کے شدید مخالفت کے دور میں بھی ان کی ادبی علمی کوششوں کو اس حد تک بھی سراہا گیا کہ حکومت پاکستان ان کو انعام دینے پر یوں کہنا چاہئے کہ مجبور ہوگئی یعنی ان کو نظر انداز نہیں کر سکتی تھی اور کافی انہوں نے ادبی علمی حلقوں میں مقام پیدا کیا تھا.ان کی بھی اچانک وفات کی اطلاع ملی ہے.پھر مکرم ابراہیم صاحب لکھو ما جو افریقہ اور غانا سے تعلق رکھتے تھے ہمارے مخلص احمدی دوست کے خسر تھے اس حد تک مجھے علم ہے صرف لیکن ان دوست نے جن کے یہ خسر تھے انہوں نے ان کی نماز جنازہ کی درخواست کی ہے تو انشاء اللہ نماز جمعہ اور عصر کے معابعد یہ جنازے پڑھے جائیں گے.

Page 819

خطبات طاہر جلد ۶ 815 خطبہ جمعہ ۲ دسمبر ۱۹۸۷ء شفاعت کے مضمون کی لطیف تشریح (خطبہ جمعہ فرموده ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی: وَكَمْ مِنْ مَّلَكٍ فِي السَّمَوتِ لَا تُغْنِي شَفَاعَتُهُمْ شَيْئًا إِلَّا مِنْ بَعْدِ اَنْ يَّأْذَنَ اللهُ لِمَنْ يَّشَاءُ وَيَرْضُى ( انجم:۳۷) قرآن کریم کی جس آیت کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ کتنے ہی فرشتے آسمانوں میں ایسے ہیں کہ ان کی شفاعت کچھ بھی کام نہیں آتی یا کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی مگر اس کے بعد کے خدا تعالیٰ ان کو شفاعت کی اجازت عطا فرمادے اس کے لئے جس کے لئے وہ چاہے اور جس سے وہ راضی ہو.اس آیت میں جو شفاعت کا مضمون بیان ہوا ہے آج میں نے اس مضمون کو ایک خاص وجہ سے اختیار کیا ہے.مختلف احباب جماعت جو دعاؤں کے خط لکھتے ہیں بعض کے مسائل اتنے الجھے ہوئے ہوتے ہیں یا دنیا کی نظر میں ان کی بیماریاں ایسی بڑھ چکی ہوتی ہیں، ایسی شدت اختیار کر چکی ہوتی ہیں کہ دنیا کے علم کے لحاظ سے وہ نا قابلِ شفا قرار دیئے جاتے ہیں اور بھی ایسے مسائل ہیں مثلاً ایک عورت ہے جس کا بچہ ہو ہی نہیں سکتا دنیاوی علم کے مطابق یا ایک مرد ہے جس کو تولید کی طاقت ہی نصیب نہیں ہوئی اسی قسم کے اور بہت سے معاملات ہیں جن میں چونکہ احمدی کو دعا کی عادت ہے، دعا پر انحصار کی عادت ہے اور دعا سے ایک لا ینفک تعلق احمدی کو قائم ہو چکا ہے.اس لئے وہ ایسے معاملات

Page 820

خطبات طاہر جلد ۶ 816 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء میں بھی دعا کے لئے لکھتے ہیں.جب ان کو دعا کا مضمون سمجھایا جاتا ہے تو بعض دفعہ اپنی لاعلمی میں وہ یہ کہہ دیتے ہیں کہ اچھا پھر ہماری شفاعت کر دیں کیونکہ شفاعت کے آگے تو کوئی چیز بھی ناممکن نہیں.اس کا طبعی جواب جو قدرۂ طبعا اور فوراً ذہن میں ابھرتا ہے وہ یہی ہے کہ :.مَنْ ذَا الَّذِي يَشْفَعُ عِنْدَةَ إِلَّا بِإِذْنِهِ (البقره: ۲۵۶) کہ اللہ کے سوا، اللہ کی اجازت کے سوا وہ ہے کون جو خدا کے حضور شفاعت کر سکے اور یہ اتنی عظیم الشان اور پُر ہیبت آیت ہے کہ اس کے اثر سے انبیاء بھی الگ نہیں، اس کے دائرہ اثر سے انبیاء بھی باہر نہیں.اسی مضمون کی یہ دوسری آیت ہے لیکن اس آیت میں فرشتوں کا بطور خاص ذکر فرمایا گیا ہے.اس کی طرف میں دوبارہ آتا ہوں لیکن اس سے پہلے میں یہ بتا دوں کہ جب میں ان کو یہ لکھتا ہوں کہ شفاعت تو صرف خدا کے اختیار میں ہے وہ جس کو اجازت دے وہی شفاعت کر سکتا ہے اور میں عاجز اور کم حیثیت انسان اپنے آپ کو اس مقام پر نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ وہ منصب عطا فرمائے جس میں اس کا اور بندے کا شفاعت کا تعلق پیدا ہوتا ہے.تو اس پر یہ سوال اُٹھتے ہیں کہ کیا وہی لوگ جو کسی نبی کی زندگی میں پیدا ہوئے اور نبی سے ان کا تعلق قائم ہوا کیا صرف وہی ایسے خوش نصیب ہیں جن کو شفاعت نصیب ہوسکتی ہے اور وہ تمام زمانے جو انبیاء کے بغیر ہیں یعنی انبیاء کے بغیر ان معنوں میں کہ اس وقت کوئی نبی جسمانی لحاظ سے زندہ موجود نہیں.کیا وہ سارے شفاعت کے مضمون سے خالی زمانے ہیں اور شفاعت کا کوئی فائدہ ان زمانوں میں نہیں پہنچ سکتا ؟ اس سوال کا جواب دینے کے لئے میں نے اس آیت کو اختیار کیا ہے اورا س پر کسی قدر تفصیل سے روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آسمانوں میں خدا کے ملائک ہیں اور ان کی بھی یہ حیثیت ہے ان کو بھی خدا تعالیٰ نے ایسے مناصب عطا فرمائے ہیں کہ جب خدا ان کو اجازت دے ان بندوں کے لئے جن کے لئے وہ چاہے اور جن سے وہ راضی ہو تو ان کو ان کے لئے شفاعت کی اجازت دے دیتا ہے.پس یہ کہنا کہ بنی نوع انسان پر کبھی بھی ایک ایسا دور آتا ہے جس میں ان کے لئے شفاعت ہو ہی نہیں سکتی یہ غلط ہے.قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ شفاعت کا ایک جاری و ساری سلسلہ ہے یعنی نظام ہے جو خدا تعالیٰ کی مرضی سے حرکت میں آجاتا ہے اور اس کی مرضی کے بغیر حرکت میں نہیں آتا اور ہر وقت آسمان پر ایسے ملائک خدا کی طرف سے مامور ہیں جو شفاعت کے منصب پر بھی قائم کئے جاتے

Page 821

خطبات طاہر جلد ۶ 817 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء ہیں.اب سوال یہ ہے کہ ایسے ملائک سے کیسا رابطہ ہو؟ کیونکر ان سے تعلق قائم ہو جس کے نتیجے میں انسان کو بعض مواقع پر ان کی شفاعت نصیب ہو جائے.یہ شفاعت کا مضمون بہت ہی اہم ہے اور بہت ہی وسیع ہے.اس کے سارے پہلو تو آج بیان نہیں ہو سکیں گے مگر چونکہ بعض سوال بار بار اٹھائے جاتے ہیں اس لئے ان سے تعلق رکھنے والے بعض پہلو میں اس آیت کی روشنی میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلی بات تو یہ قابل غور ہے کہ وہ فرشتے ہیں کون اور کیسے ان کا علم ہو اور کیا ان سے ذاتی تعلق قائم ہو اور کیا بعض فرشتوں کو بعض دوسرے فرشتوں پر ترجیح دی جائے اور اس کے نتیجے میں جس طرح عیسائیوں میں بعض Saints کے ساتھ تعلق قائم کر لیا جاتا ہے یا بگڑے ہوئے زمانے کے بعض مسلمانوں میں بعض پیروں کے ساتھ محبت کا تعلق قائم کر لیا جاتا ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہر مشکل کے وقت مشکل کشائی کریں گے.کیا نعوذ باللہ من ذالک اسی قسم کا مضمون بیان ہوا ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس سے بالکل مختلف مضمون ہے اور ملائک کے متعلق قرآن کریم ہمیں فرماتا ہے کہ تمام ملائک پر ایمان لانا ضروری ہے اور جس طرح تمام انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے اور ایک نبی اور دوسرے نبی کے درمیان فرق نہیں کیا جاسکتا رسالت کے اعتبار سے وہی مضمون ملائک کے اوپر بھی چسپاں ہوتا ہے اور کسی فرشتے کے ساتھ ایسی دوستی اور ایسا تعلق کہ کسی دوسرے فرشتے کے ساتھ تعلق توڑنے پر منتج ہو جائے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس لئے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ میرا تو فلاں فرشتہ ہے اور تمہارا فلاں فرشتہ ہے تمہارا فرشتہ تمہاری مدد کرے گا اور میرا فرشتہ میری مدد کرے گا اور اس طرح کائنات میں شرک کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے.اس لئے سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تعلق کو سمجھا جائے پھر باقی مضمون خود بخو د واضح ہو جائے گا اور جو بظا ہر ٹکراؤ کی اور شرک کی شکلیں ابھری ہوئی دکھائی دیتی ہیں وہ ساری آنا فانا نظر سے غائب ہو جائیں گی یعنی بے حیثیت اور بے معنی شکلیں ہیں ان کا اس آیت سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے.ملائک کے مضمون کو قرآن کریم نے بڑی تفصیل سے مختلف آیات میں بیان فرمایا اور جو ملائک کے کام بیان فرمائے گئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام کائنات کا ہر قانون بعض ملائک کے

Page 822

خطبات طاہر جلد ۶ 818 خطبہ جمعہ ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء تابع کارفرماہے اور یہ کائنات از خود بغیر کسی نگران اور بغیر کسی طاقت دینے والے کے خود بخود نہیں چل رہی.چنانچہ کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.الَّذِيْنَ يَحْمِلُوْنَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُوْنَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ) (المؤمن :) یعنی خدا کے ایسے فرشتے ہیں جو عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں.وَمَنْ حَوْلَهُ اور عرش کے اردگرد جو بھی اس کا ماحول ہے جو بھی عرش سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں ان سب کو اٹھائے ہوئے ہیں.يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ اپنے رب کی تسبیح کرتے ہیں اس کی حمد کے ساتھ.اس آیت میں جو پہلا حصہ ہے يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ بالله من ذالک خدا تعالیٰ کسی تخت پر بیٹھا ہوا ہے جیسا کہ بعض دفعہ جاہلانہ تصور میں یہ ایسی تصویر پیش کی جاتی ہے کہ عرش پہ بیٹھا ہوا ہے اور فرشتوں نے اس کا بوجھ اٹھایا ہوا ہے.خدا تعالیٰ تو ساری کائنات کو اٹھانے والا اور اس کا پیدا کرنے والا اسی کی طاقت سے ہر چیز قائم ہے فرشتے اس کی طاقت سے قائم ہیں.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خدا نعوذ باللہ من ذالک کسی جسمانی نوعیت کے عرش پر یا کسی بھی نوعیت کے عرش پر اس طرح بیٹھا ہو کہ فرشتے اگر اس تخت کو چھوڑ دیں تو وہ نیچے گر پڑے.اوّل تو اونچا اور نیچے کا جو تصور ہے حقیقی اس میں یہ بات کسی طرح بھی بھتی نہیں لیکن اس بات کو چھوڑ بھی دیں اونچے اور نیچے کا جو بھی تصور ہو خدا کا عرش اٹھانے کا کچھ اور مطلب ہے، یہ مطلب بہر حال نہیں کہ خدا کا انحصار، خدا کی شان کا انحصار کسی دوسری ذات پر ہے.اس لئے عرش سے مراد یہاں جیسا کہ عرش عظیم کے لفظ سے بھی معلوم ہوتا ہے خدا کی کائنات ہے خدا تعالیٰ نے جو کچھ بھی پیدا کیا ہے من حیث المجموع وہ ساری کی ساری خدا کی کائنات عرش کے لفظ کے تابع ہے.يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظام کائنات عظیم الشان اور لامتناہی جو تم دیکھ رہے ہو یہ تمام کا تمام خدا کے مامور کردہ فرشتے چلا رہے ہیں از خود یہ نظام نہیں چل رہا.جس پہلو سے بھی تم دیکھو، جس بار یک نظر

Page 823

خطبات طاہر جلد ۶ 819 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء سے بھی تم مطالعہ کرو ہر قانون کے پیچھے ایک اور قانون ،لطیف تر قانون اس قانون کا محرک اور موجب بنا ہوا نظر آئے گا اور آخری باگ ڈور نظام کائنات کی خدا کے مقرر کردہ فرشتوں کے ہاتھ میں ہے.اس کی لا انتہا مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں.آپ جس علم کے بھی ماہر ہوں یا جس علم سے بھی آپ کا تعلق ہو اس پر آپ غور کر کے دیکھیں تو ہمیشہ یہی جواب نظر آئے گا کہ کچھ طاقتیں پس پردہ کار فرما ہیں جن کے نتیجے میں بعض چیزیں ہمیں متحرک یا از خود متحرک نظر آتی ہیں.اب آپ کے جسم کے عضلات ہیں اور سارا جسم اور اس کی حرکت اور اس کی زندگی عضلات کی حرکت اور زندگی پر مبنی ہے اور بظاہر انسان یہی سمجھتا ہے کہ خون کی طاقت سے براہ راست عضلات حرکت میں آگئے.یہ درست ہے کہ خون کی طاقت سے وہ حرکت میں آتے ہیں لیکن ہر عضلہ پر اعصاب کی ایک نس مقرر ہے جس کی طاقت عضلہ اور خون کی طاقت کے مقابل پر بظاہر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی.اتنی خفیف سی برقی رو اس میں دوڑتی ہے اور اتنی معمولی سی کیمیائی تبدیلی اس کے اندر پیدا ہوتی ہے کہ سارے اعصاب کی پوری طاقت کا مجموعہ بھی ایک عضلہ کی طاقت سے کم ہوتا ہے اگر اسے بجلی کے پیمانوں پر اور قوت کے ظاہری پیمانوں پر نا پا جائے لیکن سارے جسم کی طاقت موجود رہے اور عضلات کانسوں سے تعلق ٹوٹ جائے تو اسی کو ہم مفلوج کہتے ہیں بالکل بے معنی اور بے حقیقت ہو کہ رہ جاتی ہیں وہ طاقتیں جو بظاہر از خود کارفرما نظر آتی ہیں اور اس تعلق کا جو مرکز ہے وہ دماغ یعنی ظاہری دماغ نہیں بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس طرح اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے اس اعصابی نظام کا مرکز روح ہے اور اس کا اور دماغ کا ایک رشتہ ہے اور ہر حکم جو عضلات کو دیا جاتا ہے وہ اس روح کے واسطے سے پہنچتا ہے.یہاں تک تو دنیا کے ماہرین کی نظر بھی پہنچنے لگ گئی ہے.اتنی بات کو تو اب جو اعصاب کے ماہر ڈاکٹر ز ہیں اور نیورولوجسٹ بڑے بڑے چوٹی کے سرجنز ( Surgeons) وغیرہ بھی جیسا کہ میں پہلے کئی دفعہ سوال و جواب کی مجالس میں بیان کر چکا ہوں وہ اس مضمون کو نہ صرف پہنچ چکے ہیں بلکہ بڑے دھڑلے سے عام دنیا دار یا مادہ پرست علماء کے مقابل پر کھڑے ہو کر یہ اعلان کرنے لگ گئے ہیں کہ دماغ اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہے یہ تو ایک آلہ کار ہے اور اس کے پیچھے کوئی طاقت ہے جسے ہم جیسے Brain کے مقابل پر Mind کہتے ہیں اس طرح دماغ کے مقابل پر اسے روح قرار دیا

Page 824

خطبات طاہر جلد ۶ 820 جاسکتا ہے اور مختلف دنیا کی زبانوں میں اسے مختلف نام دیئے جاتے ہیں.خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء پس بالآخر کائنات کے ہر نظام کے ہر جزء کی تان روحانیت پر ٹوٹتی ہے اور اس سے اگلا قدم فرشتوں کا ہے.ہر چیز پر فرشتے مامور ہیں اور ان فرشتوں کی اصل طاقت سے ساری کائنات رواں دواں ہے اور ان کے نظام کے نیچے چل رہی ہے.پس فرشتوں سے تعلق کے لئے فرشتوں کے نظام کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ نام بنام اس طرح کا تعلق تو آپ فرشتوں سے کبھی بھی قائم نہیں کر سکتے جس طرح جہلاء بعض دفعہ ہمزاد کا تصور پیش کرتے ہیں یا الہ دین کے چراغ کی کہانی میں ایک جن کا تصور پیش کیا گیا ہے جو چراغ کو مکس کرنے سے خود بخود ظاہر ہو جائے گا اور آپ کے سارے کام کرنے شروع کر دے گا.خدا کی کائنات کہانیوں پر بنی ہوئی نہیں ہے خدا کی کائنات گہرے حقائق پر مبنی ہے.ان حقائق کو سمجھنے کے نتیجے میں آپ کی طاقتیں بڑھیں گے ان حقائق کو سمجھنے کے نتیجے میں آپ کے مسائل حل ہوں گے ورنہ بغیر حقائق کو سمجھے بغیر حقائق کے عرفان کے آپ خدا کی کائنات سے کچھ بھی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.یہی کائنات ہے جو آج سے دس ہزار سال پہلے کے انسان کے سامنے بھی کھلی پڑی تھی ، یہی کائنات ہے جو آج کے انسان کے سامنے بھی کھلی پڑی ہے لیکن جن لوگوں نے اس کا ئنات کے معارف کو سمجھنے کی کوشش کی اس کے پس منظر میں محرکات کو جاننے اور پہچاننے کی کوشش کی انہوں نے اس سے بہت کچھ حاصل کیا اور دس ہزار سال پہلے کا انسان جس کا ئنات میں بستا تھا اور آج کا انسان جس کا ئنات میں بستا ہے ظاہراً ایک ہے لیکن اس کے باوجود بھی ان دونوں کے درمیان زمین و آسمان کو فرق دکھائی دیتا ہے.اسی طرح کل آنے والا انسان اسی کا ئنات سے ایسے ایسے فائدے اٹھائے گا جو آج آپ کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتے.پس فرشتوں کے نظام کی حقیقت کو سمجھنا ضروری ہے ورنہ ان کی نہ دعاؤں سے آپ استفادہ کر سکتے ہیں، نہ ان کے استغفار سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، نہ کوئی ان کی شفاعت کا اہل ہوسکتا ہے.شفاعت کے اندر ملنے کا مضمون ہے تعلق قائم کرنے کا مضمون ہے دو چیزوں کو جوڑنے کا مضمون ہے اس لئے ان کا تعلق تو خدا سے ہے ورنہ ان کے لئے شفاعت کی اجازت کا کبھی بھی کوئی سوال پیدا نہ ہوتا.سوال یہ ہے کہ ہمارا ان سے تعلق کیسے قائم ہو.اس تعلق کا راز اس بات میں ہے کہ دوانسان

Page 825

خطبات طاہر جلد ۶ 821 خطبہ جمعہ ۴ رد سمبر ۱۹۸۷ء جب ہم آہنگ ہو جاتے ہیں تو ان کے درمیان تعلق قائم ہو جاتا ہے اور Tuning Forks جس طرح سائنس کی لیبارٹری میں جو چمٹے سے بنے ہوئے ہوتے ہیں دھاتوں کے اگر ان کی Wavelength ایک ہو جائے ، ان کے اندر جو ایٹمز اور مالیکولیز کی ترتیب ہے وہ ایک ہی قسم کے نظم و ضبط میں آجائے اور ایک جیسی Wavelength پیدا ہونی شروع ہو جائے تو ایک ٹیوننگ فورک کو آپ بجا ئیں اور اس کے بعد اس پر ہاتھ رکھ کر اس کو بند کر دیں تو آپ حیران ہوں گے دیکھ کر کہ دوسرا ٹیوننگ فورک خود بخود اسی طرح بجنے لگ گیا ہے یعنی جو نغمہ اس ٹیونگ فورک سے پیدا ہو رہا تھا جسے آپ نے خود متحرک کیا ہے دوسرا ٹیونگ فورک جو بظاہر مردہ دکھائی دیتا ہے اسے کسی نے متحرک نہیں کیا اس ٹیوننگ فورک کی حرکت کے نتیجے میں خود بخود متحرک ہوا اور خود بخوداس سے وہی نغمگی پیدا ہونی شروع ہوگئی جو متحرک ٹیوننگ فورک سے پیدا ہورہی تھی.یه تجربهہ عام سائنس کی لیبارٹریوں میں بچوں کو بھی دکھایا جاتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہم آہنگی سے ہم کیسے کیسے استفادے کر سکتے ہیں.اگر مزاج ایک ہو جائیں تو آپ کو ایک دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے بعض دفعہ محبت کے دوسرے سارے محرکات موجود ہوتے ہیں لیکن مزاج کے بعض حصوں کا اختلاف ان محبتوں کو بالآخر نفرتوں میں تبدیل کر دیتا ہے.بڑے پیار سے کئے ہوئے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں اس لئے کہ مزاج میں ہم آہنگی نہیں.تو فرشتوں کی ذات اور ان کی گنہ اور ان کے محل اور ان کے مقام سے تو آپ نا آشنا ہیں اور نہ اس طرح ان کو بلانا آپ کے لئے جائز قرار دیا گیا ہے چونکہ وہ شرک میں داخل ہو جاتا ہے لیکن جن کاموں پر مامور ہیں اگر آپ ان کے ساتھ ہم آہنگ ہو جائیں تو آپ کا فرشتوں کے ساتھ ایک تعلق قائم ہو جائے گا.مثلاً جس طرح کائنات کو چلانے کے لئے فرشتے ہیں اس طرح روحانی اور شرعی نظام کو چلانے کے لئے بھی خدا کے فرشتے مامور ہیں اور انسان کے ساتھ انسان کے تعلقات کو قائم رکھنے اور ان کو چلانے اور ان کی حفاظت کے لئے بھی خدا تعالیٰ کے فرشتے مامور ہیں.اس لئے آپ جس نیکی میں ترقی کرتے ہیں اس نیکی کے فرشتے کے ساتھ آپ کا ایک تعلق قائم ہونا شروع ہو جاتا ہے.انسان اپنے دوستوں اور عزیزوں پر خرچ کرتا ہے مثلاً اپنا رزق ان کے او پر خرچ کرتا ہے تو وہ فرشتے جو رزق کے نظام پر قائم ہیں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان کا ان سے تعلق

Page 826

خطبات طاہر جلد ۶ 822 خطبہ جمعہ ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء پیدا ہوتا ہے کہ نہیں.اگر اس تعلق سے یہ مراد ہو تو ہر انسان اپنی احتیاج کے وقت کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے پھر تو ہر انسان کا خواہ وہ کافر ہو خواہ مومن ہو خواہ نیک ہو خواہ بد ہو تمام فرشتوں سے تعلق قائم ہو جانا چاہئے اور ان کے سارے مسائل حل ہو جانے چاہئیں.اس لئے یہ مراد نہیں ہے مراد یہ ہے کہ وہ حرکت ، وہ کام وہ عمل جو فرشتوں کے مزاج کے مطابق کیا جائے اور اسی طرح کی اپنے اندر حصلتیں پیدا کی جائیں جو ان فرشتوں میں ہیں جو کسی نیکی پر مامور ہیں اس کے نتیجے میں تعلق پیدا ہوتا ہے.ایک ماں اپنے بچے کے لئے قربانی کر رہی ہے فرشتہ اس نظام سے بھی تعلق رکھ رہا ہے اس پر بھی کوئی فرشتہ مامور ہے جس کا بچے کی اس حاجت کے ساتھ تعلق ہے جو ماں پوری کر رہی ہے لیکن اس ماں کے لئے اس فرشتے کے دل میں اگر دل کا لفظ فرشتوں کے لئے استعمال کیا جائے کوئی بھی حرکت پیدا نہیں ہوگی.لیکن ایک ماں اگر غیر کے بچے کے لئے ویسا ہی جذبہ دکھائے جیسا اپنے بچے کی تکلیف کے وقت دکھا رہی تھی تو پھر فرشتے کے مزاج کے مطابق اس کا مزاج بن گیا.یہ مراد ہے ہم آہنگی سے کیونکہ فرشتے کے تو کوئی بچے نہیں ہیں.وہ فرشتے جو بچوں کی بعض ضروریات پر مامور ہیں اور ہر قسم کے انسان کی ہر عمر کی ضروریات مختلف ہوتی چلی جاتی ہیں.اس لئے نظام کا ئنات بہت ہی وسیع ہے اور بہت ہی باریک تر ہے، ان گنت فرشتے ہیں جو درجہ بدرجہ مختلف مقامات پر فائز، مختلف آسمانوں سے تعلق رکھنے والے اور مختلف دائرہ کار میں حرکت کرنے والے ہیں ان کی طاقتیں بھی مختلف ہیں قرآن کریم سے اس مضمون پر بڑی روشنی پڑتی ہے.بہر حال اب ایک فرشتے کی تو کوئی اولاد نہیں ہے اس کو خدا نے جس کام پر مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے مثلاً جیسا کہ میں نے مثال دی تھی بعض بچوں کی کوئی ضرورت ہے اس کا تعلق کسی فرشتے سے ہے مثلاً اس کے لئے دانت کے زمانے کی تکلیفوں کو دور کرنا اور اس میں آسانی پیدا کرنا.اسی قسم کی بے شمار مثالیں دی جاسکتی.کوئی بھی ضرورت ہو غیر معین آپ سمجھ لیں اس میں جب آپ اپنی ذات کی خاطر وہ ضرورت پوری کرتے ہیں تو اس کے نتیجے میں اس فرشتے سے تعلق قائم نہیں ہوگا کیونکہ فرشتہ جب آپ کی ضرورت پوری کرتا ہے تو اپنی ذات کی خاطر نہیں کرتا.خدا کی خاطر کرتا ہے جس نے اس کو مامور فرمایا ہے اس لئے جب آپ ایسے انسان کو ایسے ضرورت مند کو محبت اور پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں جس کا براہِ راست آپ سے رشتہ نہیں ہے اور اس کی اس ضرورت کو پورا کرنے کی کوشش کرتے

Page 827

خطبات طاہر جلد ۶ 823 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء ہیں تو اس پہلو سے اس دائرے میں اس فرشتے کے ساتھ آپ کا ازخود تعلق قائم ہو جاتا ہے اور یہ تعلق منشاء الہی کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.ذاتی طور پر آپ کو نہ کسی فرشتے کے نام کی ضرورت ہے اس معاملے میں ، نہ اس کے ساتھ خاص محبت بنانے کی ضرورت ہے، اس کا جذبات سے تعلق ہی کوئی نہیں.اس مضمون کا ہم آہنگی سے تعلق ہے گویا کہ خدا کی کائنات کے جو بھی مددگار بن جاتے ہیں خدا ان کا مددگار ہو جاتا ہے، اس کا خلاصہ یہ ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو اپنی بھائی کی ضرورت یعنی بنی نوع انسان کی ضرورت پوری کرنے پر لگا رہتا ہے خدا اس کی ضرورتیں پوری کرنے پر لگا رہتا ہے.وہ کس طرح کرتا ہے ؟ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک بہت وسیع نظام ہے اس میں بعض باشعور قو تیں مقرر فرمائی گئی ہیں ، وہ باشعور طاقتیں اس نظام کی نگرانی کر رہی ہیں.آپ اگر کسی کے رزق کی ضرورت پوری کرنے کے لئے خاص توجہ رکھتے ہیں، غرباء سے خاص ہمدردی رکھتے ہیں تو جب آپ کو وہ ضرورت پیش آئے گی تو باشعور فرشتے خود آپ کی ضرورت کا خیال رکھیں گے.خواہ آپ اپنے لئے وہ چیز حاصل کر سکیں ، یا نہ کر سکیں خواہ باشعور طور پر آپ کے دل میں دعا کی توجہ پیدا ہو یا نہ ہو.اگر آپ کا یہ مزاج ہے تو قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ خدا کے فرشتے آپ کے لئے دعا شروع کر دیتے ہیں اور آپ کے لئے استغفار شروع کر دیتے ہیں کیونکہ یہاں تعلق کا معاملہ ہو جاتا ہے.بچہ جس طرح ماں سے تعلق قائم کرتا ہے ماں بچے سے تعلق قائم کرتی ہے ضروری نہیں کہ دونوں ہی بیک وقت کسی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے باشعور طور پر کوئی کام کریں.بچہ بعض دفعہ لاشعوری طور پر ایک چیز کا محتاج ہوتا ہے اس کو پتا ہی نہیں میں کس چیز کا محتاج ہوں اور ماں کا دل اس کے لئے حرکت میں آجاتا ہے ، ماں کی قوتیں اس کی خدمت پر مامور ہو جاتی ہیں.اسی طرح بسا اوقات انسان کو خود اپنی ضرورت کا نہیں پتا چلتا لیکن اگر اس کا تعلق اس فرشتے سے قائم ہو چکا ہے جو کسی ضرورت پر مامور ہے اور وہ اس لحاظ سے اس فرشتے کے ساتھ ہم آہنگی اختیار کر چکا ہے تو پھر اس معاملے میں اس کے ساتھ ایک خاص سلوک ہوگا.یه مضمون آپ صلحاء کی زندگی میں کھلی کتاب کی طرح پڑھ سکتے ہیں.اگر خود بخود ہر نیک کی ہر ضرورت ہر معاملے میں خود بخود پوری ہونی چاہئے تو پھر ایسا کیوں نظر نہیں آتا اور کیوں یہ دکھائی دیتا

Page 828

خطبات طاہر جلد ۶ 824 خطبه جمعه ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء ہے کہ بعض بزرگوں کی بعض ضرورتیں فورا پوری ہوتی ہیں اور بعض بزرگوں کی بعض دوسری ضرورتیں فوراً پوری ہوتی ہیں.بعض بزرگوں کو بعض امور میں خاص اعانت حاصل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور بعض دوسرے بزرگوں کو اس مضمون میں کوئی اعانت نہیں ہوتی.بعضوں کو غیر معمولی طور پر شفا دی جاتی ہے، بعض لمبے عرصے تک بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں ان کو کوئی شفا نہیں دی جاتی لیکن ان کے رزق کی ضمانت دی جاتی ہے.اس طرح اگر آپ صلحا کے واقعات ،صحابہ کے واقعات پڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے کے قریب کے واقعات تو بالکل ابھی تازہ موجود ہیں ان پر آپ غور کریں تو تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ کیوں مثلاً حضرت خلیفتہ امسیح الاول گو یہ اعجاز دیا گیا کہ آپ کی ہر ضرورت بغیر کسی ظاہری سبب کے پیروی کی پوری کی جارہی ہے، ان کی پہلی زندگی پڑھیں خلافت سے پہلے کی یا صحابیت سے پہلے کی تو پھر آپ کو مسئلہ سمجھ آئے گا کہ وہ ہمیشہ ساری زندگی لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے پر مامور تھے.ساری زندگی ان کا مقصد اعلیٰ یہ معلوم ہوتا تھا کہ خدا کے ضرورتمند ہندوں کی حاجات پوری کریں.کوئی آتا ہے کہ مجھے اتنے قرض کی ضرورت ہے وہ اسی وقت دے دیں گے بغیر پوچھے کہ آیاوہ کب واپس کرے گا، کیسے واپس کرے گا.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر شخص کو یہی طریق اختیار کرنا چاہئے.اگر ہر شخص مصنوعی طور پر یہ طریق اختیار کرے، کسی بھی نیکی کواختیار کرے تو نظام عالم درہم برہم ہو جائے گا.ہر شخص کو پھر خدا توفیق عطا فرماتا ہے بعض خاص قسم کی نیکیوں کی اور ان نیکیوں کے لئے ان کا مزاج بنایا جاتا ہے.اس لئے ایسے قرض دینے والے جب قرض دیتے ہیں تو اس نیت سے دیتے ہیں کہ اگر وہ نہیں دے گا تو میں اُف نہیں کروں گا، دوبارہ اس سے پوچھوں گا نہیں.چنانچہ وہ کتابت سے آزاد کئے جاتے ہیں پھر.وہ قرضے جس میں کتابت ضروری ہے یعنی تحریر ضروری ہے یہ تو ان قرضوں کی بات ہے جہاں برابر کالین دین ہے اور لین دین کی نیت کے ساتھ ایک انسان قرض دے رہا ہے لیکن حضرت خلیفتہ المسیح الاول" کے مزاج کا انسان جو اس لئے دیتا تھا، اس نیت سے دیتا تھا کہ میں نے دوبارہ یاد بھی نہیں کروانا، مانگنا بھی نہیں.اس کا لازما طبعا اس فرشتے سے جو ملاء اعلیٰ پر ان تمام فرشتوں پر افسر اعلیٰ مقرر فرمایا گیا ہے جو حاجات پوری کرنے والے فرشتے ہیں ایک گہرا تعلق پیدا ہو گیا یعنی حضرت خلیفہ المسیح الاول کا اور اس تعلق کے اظہار کے نتیجے میں آپ کے ساتھ خدا کے اذن

Page 829

خطبات طاہر جلد ۶ 825 خطبه جمعه ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء کے ساتھ ان فرشتوں نے وہی معاملہ شروع کر دیا.آپ کو چیزیں پہنچائی جاتی تھیں، دی جاتی تھیں بغیر مانگے بغیر کسی حساب کے بغیر کسی شمار کے اور آپ کو علم تھا کہ یہ لا ز ما پوری ہوں گی.اب مریضوں کے ساتھ ڈاکٹروں کا ایک تعلق ہے اور اس تعلق میں فیس بھی آجاتی ہے.فیس دینے والے مریض کے ساتھ فیس لینے والے ڈاکٹر کا تعلق ہے جس میں فیس ایک اہم کردار ادا کر رہی ہے یہ ایک عام معروف تعلق ہے.اب کوئی ڈاکٹر کہے کہ دیکھو ! میں اتنے لوگوں کی شفا کا موجب بنتا ہوں اس لئے شفا دینے والے فرشتوں کا مجھ سے خاص تعلق کیوں نہیں قائم ہو جاتا اور کیوں جب میں بیمار ہوتا ہوں تو مجھ سے غیر معمولی معاملہ نہیں کیا جاتا.وجہ یہ ہے کہ ہر ڈاکٹر کا تعلق فرشتوں والا نہیں ہوا کرتا.بعض ڈاکٹر ایسے ہیں جن کا تعلق بالکل اور مضمون کا ہے اگر وہ فیس لیتے بھی ہیں تو اس لئے نہیں کہ اگر فیس نہ ملتی تو ہم علاج نہ کرتے اور وہ اس بات سے بالا ہوتے ہیں کہ مریض سے ان کو کیا فائدہ پہنچے گا.ان کی تمام تر توجہ اس بات کی طرف ہوتی ہے کہ مریض کو مجھ سے کیا فائدہ پہنچے گا اور زیادہ سے زیادہ میں کیا فائدہ پہنچا سکتا ہوں.اس پہلو سے جو ہمارے مخلص احمدی ڈاکٹر افریقہ میں گئے ہیں انہوں نے خدا کے خاص سلوک کے بڑے عجیب عجیب نظارے دیکھیں ہیں کیونکہ ان کے جانے میں نیت صاف تھی اور پاک تھی اور لہی رہی تھی.وہ اس غرض سے گئے تھے کہ خدا کے بندوں کی شفا کے لئے خدا کی خاطر ہم یہ سفر اختیار کر رہے ہیں اور وہاں جا کر انہوں نے مریضوں سے فیس کی خاطر تعلق نہیں جوڑا.فیس بھی ملتی تھی جہاں سے مل سکتی تھی لیکن مشروط نہیں کیا اس بات کو بلکہ جس کو جو تو فیق تھی وہ دے گیا جس کو نہیں توفیق تھی اس کا مفت بھی علاج کیا اور بعض ایسے ہمارے مخلص ڈاکٹر ہیں جنہوں نے اور ضرورتیں بھی اپنی جیب سے پوری کیں اور پھر ان کے لئے دعائیں بھی کیں.ان کے ہسپتالوں میں جوشفا کا معیار تھا باوجود اس کے کہ ان ہسپتالوں میں ضرورت کی چیزیں موجود نہیں ہوا کرتی تھیں یعنی بعض دفعہ تو جو جراحی کے آلے ہیں وہ بھی گند اور پرانی قسم کے اور Anaesthesia کا بھی کوئی انتظام نہیں ، بے ہوش کرنے کا بھی.بعض دفعہ بجلی بھی نہیں ہوتی تھی لالٹین کی بتی میں کھلی فضا میں آپریشن کیا جاتا تھا ایک عام میز کے اوپر اور اس کے باوجود ان کی شفا کا معیار اتنا بلند ہوا کہ بعض بڑے بڑے حکومت کے افسران جن کو ہر قسم کی اعلیٰ اعلاج کی سہولت مہیا تھی بہترین ہسپتالوں کو چھوڑ

Page 830

خطبات طاہر جلد ۶ 826 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء کر ان کے پاس پہنچتے رہے اور جب ان سے تعجب سے پوچھا گیا کہ آپ اتنے بڑے افسر آپ کو بہترین سے بہترین شفاخانہ مہیا ہوسکتا ہے، مفت ہوسکتا ہے ان کو چھوڑ کر آپ یہاں کیوں آئیں ہیں ؟ تو یہ جواب دیتے رہے کہ یہ سب چیزیں وہاں ہیں جو آپ کہہ رہے ہیں لیکن شفا یہاں ہے اور ہم نے جائزہ لیا ہے تو اللہ تعالیٰ کا خاص شفا کا سلوک ہے جو اس ہسپتال سے ہو رہا ہے اور ایسے چشم دید گواہ صرف مسلمان نہیں بلکہ عیسائیوں میں سے بھی تھے Pagans میں بھی تھے.تو یہ وہ تعلق ہے فرشتوں کا جس کے متعلق قرآن کریم نے سب سے پہلے فرشتوں پر ایمان لانے کی تاکید کر کے ذکر فرمایا.جس چیز پر آپ ایمان لاتے ہیں اس کے ساتھ ایک تعلق قائم ہوتا ہے.خدا کے تمام فرشتوں پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ تمام نظام کا ئنات سے چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہے ایک ذاتی تعلق پیدا کرو.یہ مضمون اتنا عظیم الشان اور اتنا وسیع ہے کہ اگر اس مضمون کو سمجھ کر انسان اپنی زندگی میں ایک انقلاب برپا کرے تو اس کو خلق آخر کہا جائے گا ایک نیا وجود ابھرے گا آپ کے اندر سے بالکل ایک نئی کائنات آپ کے اردگرد ظاہر ہو جائے گی لیکن اس مضمون کو فی الحال چھوڑتے ہوئے اس مختصر حصے کی طرف میں واپس آتا ہوں کہ جو انسان جس قسم کی نیکیاں ختیار کر رہا ہے اس کا از خود بعض فرشتوں سے تعلق قائم ہوتا چلا جا رہا ہے.اب اس فرشتے کا یہ کام ہے کہ اپنے تعلق کے نتیجے میں وہ اس کے لئے دعا کرے اور اس کے لئے استغفار کرے.چنانچہ جس آیت کی میں نے تلاوت کی تھی اس میں فرمایا کہ وہ فرشتے جن کے اوپر نظام کائنات کا انحصار ہے یعنی خدا کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں وہ کیا کرتے ہیں يَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا ۚ وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں ان کے لئے استغفار میں مصروف رہتے ہیں رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ) کہ اے ہمارے رب! تیری رحمت تو ہر چیز پر وسیع ہے جو نظام کا ئنات چلانے والے فرشتے ہیں ان سے بڑھ کر کوئی گواہ نہیں ہوسکتا اس بات کا کہ خدا کی رحمت کا قانون اس کے ہر دوسرے قانون پر بالا اور حاوی ہے کیونکہ جو قانون ان کے ہاتھ سے بروئے کار آتے ہیں، ان کی قدرت کے تابع رہ کر وہ عمل دکھاتے ہیں ان قوانین میں وہ فرشتے جانتے ہیں کہ خدا کی رحمت کا قانون ہر قانون کے اوپر حاوی ہے.اس لئے سب سے پہلی

Page 831

خطبات طاہر جلد ۶ 827 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء گواہی وہ خدا کے حضور یہ پیش کرتے ہیں کہ رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً اے ہمارے رب! تیری رحمت تو ہم جانتے ہیں کوئی چھپی ہوئی بات نہیں ہم سے کہ ہر چیز پر حاوی ہے.و علما اور ہر کائنات کے ذرے ذرے کا علم بھی تجھ کو ہے یعنی ہم تجھے خبر نہیں دے رہے کوئی تو بہتر جانتا ہے ہم سے فَاغْفِرُ لِلَّذِينَ تَابُوا.اس لئے ہم عرض کرتے ہیں کہ جو لوگ تو بہ کرنے والے ہیں ان سے مغفرت کا سلوک فرما وَاتَّبَعُوا سَبیلک اور وہ لوگ جو تیری راہ کی پیروی کرتے ہیں تیری راہ کے پیچھے لگ جاتے ہیں ان پر رحم فرما ان سے مغفرت کا سلوک فرما وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ اور ان کو جیم کے عذاب سے بچا.اسی طرح یہ دعا آگے ان کے لئے جاری رہتی ہے.تو سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ میں اگر فرشتوں جیسی بات نہ پیدا ہو سکے وہ مزاج نہ ہو سکے تو پھر عظیم الشان توقعات اپنی دعا کے لئے یا اس بات کی توقعات کہ فرشتے آپ کے لئے دعا کریں گے یہ فرضی تو قعات ہیں.دوسرا یہ ہے کہ اگر ان معاملات میں آپ فرشتوں کے مقاصد سے ٹکرانے والی باتیں کر رہے ہوں تو یہ وہم دل سے نکال دیں کہ ان مواقع پر فرشتوں کی مدد اور نصرت آپ کو حاصل ہوگی جب آپ ضرورت مند ہو جائیں گے.مثلاً ایک شخص دوسروں کے مال کھانے سے پر ہیز نہیں کرتا ایک شخص دوسروں پر ظلم کرنے سے باز نہیں آتا.حرص کی نگاہ کو آزاد چھوڑ دیتا ہے اور ہر شخص کا مال غصب کرنے کی تمنا دل میں رکھتا ہے.جب وہ خود پکڑا جاتا ہے جب وہ خود ایک ایسے ابتلا میں پڑتا ہے جس کا اس مضمون سے تعلق ہے تو پھر وہ یہ توقع رکھے کہ اس کے لئے دعائیں قبول ہوں گی یا اس کے لئے شفاعت کا مضمون جاری کیا جائے گا بہت بڑی حماقت ہے.اسی لئے فرشتوں نے اپنی دعا میں تابوا کا لفظ پہلے رکھا ہے.فرشتوں سے تعلق تو بہ کو چاہتا ہے اور تو بہ کے مضمون میں کوئی کمی تو بہ مراد نہیں ہے یہاں اس وقت.مراد یہ ہے کہ ہر گناہ میں گناہ سے تعلق تو ڑ کر فرشتوں سے تعلق قائم کرنے کے لئے بیچ میں تو بہ کا دروازہ حائل ہے.اس دروازے سے جب آپ گزرتے ہیں اور دوسرے مضمون میں داخل ہو جاتے ہیں دوسرے دائرے میں داخل ہو جاتے ہیں پھر وہاں سے آپ کا فرشتوں سے تعلق شروع ہوتا ہے.

Page 832

خطبات طاہر جلد ۶ 828 خطبہ جمعہ ۲ دسمبر ۱۹۸۷ء اس لئے یہ بہت ہی اہم بات ہے.ہاں اضطرار کا مضمون اس کے علاوہ ہے بعض اوقات اضطراری حالت میں دعائیں سنی جاتی ہیں اس وقت اس کی بحث نہیں چل رہی.یہاں فرشتوں کا مضمون بیان ہو رہا ہے.خدا تو مالک ہے خدا جس کی چاہے دعا سن لے ، جس کو چاہے کسی مصیبت سے نجات بخش دے خواہ اس کا تعلق کسی فرشتے سے ہو یا نہ ہو خدا اس سے آزاد ہے لیکن فرشتے آزاد نہیں ہیں.وہ مامور ہیں ، وہ مسخر ہیں ایک کام کے اوپر ان کو تو خدا کا قانون جس حد تک اجازت دے گا اسی حد تک وہ تعلق قائم کریں گے.اس لئے اگر فرشتوں سے تعلق قائم کرنا ہے تو ان کے ہم آہنگ آپ کو ہونا پڑے گا اور جس جس مضمون میں آپ ان سے ہم آہنگ ہوتے چلے جائیں گے ، جس جس صفت حسنہ میں آپ ان سے ہم آہنگ ہوتے چلے جائیں گے اس مضمون میں آپ کو خدا تعالیٰ غیر معمولی قوتیں عطا کرنی شروع کرے گا.شفا کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہی مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ نے جب معاملات کئے ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسی مضمون کے تابع وہ معاملات کئے گئے ہیں.حضرت خلیفتہ المسیح الاول کی مثال دی تھی ان کا بھی شفا سے ایک گہرا تعلق تھا جیسا کہ میں نے بیان کیا.وہ کس طرح اپنے مریضوں سے تعلق رکھتے تھے اس کی ایک مثال میں آپ کو بتا تا ہوں.ا یک دفعہ مجھے ان کا یاد نہیں نام پوری طرح اس لئے نام کو چھوڑئیے.ایک صحابی ( مکرم چوہدری حاکم دین صاحب ) روایت کرتے ہیں کہ میرے گھر میں زچگی تھی یعنی وضع حمل کا وقت تھا اور میری بیوی شدید تکلیف میں تھی اور مجھے یہ ڈر تھا کہ کہیں اس تکلیف سے مر نہ جائے میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس کے لئے دوا بھی اور دعا بھی کریں اور اس کے بعد گھر گیا تو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اعجازی طور پر بچہ عطا فرمایا اور بیوی کی ساری تکلیف رفع ہوگئی جس پیچیدگی کا ڈر تھا وہ پیچیدگی بھی ختم ہوگئی.دوسرے دن صبح کے لئے وہ نماز کے لئے گزر رہے تھے حضرت خلیفہ اسیح کے دروازے کے سامنے سے تو آپ نے ان کو آواز دی باہر نکلے پہچانا اور کہا کہ کیا حال ہے بیوی کا انہوں نے کہا کہ خدا کے فضل سے میں واپس گیا ہوں دیکھتے دیکھتے بیوی ٹھیک ہو گئی اور اعجازی نشان ہے یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کی دعا کا.آپ نے فرمایا

Page 833

خطبات طاہر جلد ۶ 829 خطبہ جمعہ ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء مجھے تو بتا دیتا ہو تا میں تو ساری رات کھڑا اس کے لئے دعا کرتا رہا.(اصحاب احمد جلد ہشتم صفحہ: ۷۶) یہ وہ ہے طبابت ، یہ وہ تعلق ہے مریض سے اس کی تکلیف کے نتیجے میں جس کے نتیجے میں لازما فرشتے ایسے وجود سے عاشقانہ تعلق رکھنے لگ جاتے ہیں اور پھر اس کی دعاؤں میں اعجاز پیدا ہو جاتا ہے اس کی شفا کی کوششوں میں اعجاز پیدا ہو جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام طبیب نہیں تھے یعنی پیشہ کے لحاظ سے تو طبیب نہیں تھے لیکن بچپن سے جوانی ، جوانی سے بڑھاپے تک آپ شوق کے ساتھ غریبوں کی خدمت کی خاطر علاج فرمایا کرتے تھے اور جب بھی کوئی مریض ہو اس کے لئے آپ بے چین ہو جایا کرتے تھے.آپ کی بے چینی خدا کے علم میں اس حد تک تھی کہ آپ کو اس معاملے میں شفاعت کی اجازت دی گئی اور دو مرتبہ واضح طور پر خدا تعالیٰ نے آپ کے ساتھ شفاعت کا تعلق اس معاملے میں قائم فرمایا اور خدا کے اذن سے جب آپ نے شفاعت کی ہے تو پھر جو مریض شفایاب ہوئے ہیں ان کے لئے دنیاوی علم کے لحاظ سے کوئی بچنے کی گنجائش نہیں تھی.حضرت خلیفہ امسیح الاول کا بھی ایک تعلق تھا اور وہ تعلق بھی نظر آ رہا تھا لوگوں کو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی اپنے مریضوں سے ایک تعلق تھا اور وہ بھی لوگوں کو بظاہر نظر آرہا تھا مگر خدا بہتر جانتا تھا کہ کس کا تعلق کس نوع کا ہے کتنا گہرا ہے کتنا اس کی ذات میں پیوستہ ہو چکا ہے اس کی روح میں ڈوب چکا ہے اور اسی لئے درجہ بدرجہ ان سے سلوک ہوتا تھا.یہ وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ فرشتوں کو بھی اور نبیوں کو بھی جب تک اجازت نہ دے وہ شفاعت نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو خود نہیں پتا ہوتا کہ اس تعلق میں کتنی گہرائی ہے.اپنے ساتھ تعلق کو تو انسان جان سکتا ہے ایک نبی بھی جان سکتا ہے اور ایک فرشتہ بھی جان سکتا ہے.چنانچہ انبیاء بھی جب شفاعت کی کوشش کرتے ہیں بعض دفعہ اتنا جذبہ بڑھ جاتا ہے کہ بغیر اجازت کے غلطی سے لاعلمی میں عمداً نہیں ان کے منہ سے لفظ شفاعت نکل جاتا ہے اور خدا تعالیٰ پھر اس کی درستگی بھی فرما دیتا ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کو اس بندے سے کتنا تعلق تھا جس کے لئے دعا کی جارہی ہے اور دعا قبول نہ ہونے کی شکل میں پھر شفاعت کی طرف رجحان پیدا ہوا ہے لیکن وہ نہیں جانتے کہ ان کا اپنا اس معاملے میں خدا کی نظر میں کیا منصب ہے اور پھر یہ نہیں جانتے کہ جس بندے کے لئے شفاعت کی جا رہی ہے خدا کی نظر میں وہ اس شفاعت کا اہل ہے یا نہیں ہے.

Page 834

خطبات طاہر جلد ۶ 830 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء اس لئے دولا علمیاں ہیں جو انسان کو گھیرے ہوئے ہیں اور یہی دو لا علمیاں ان فرشتوں کو بھی گھیرے ہوئے ہیں جن کا اس آیت میں ذکر ہے.وہ نہیں جانتے اور ان میں سے کوئی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ ہم اس منصب پر فائز ہیں کہ ہم شفاعت کریں اور نہ ان کو یہ علم ہے کہ وہ وجود جن کا ان فرشتوں سے تعلق ہے اس تعلق کی گنہ کیا ہے اور اس تعلق کی آخری وابستگی کس شکل میں ہے.مثلاً ایک آدمی بنی نوع انسان کی محبت میں ان کی خدمت بھی کرتا ہے اور اس محبت میں نیکی کا رنگ پایا جاتا ہے لیکن ایک اور آدمی ویسی ہی خدمت کر رہا ہے لیکن اس کی ہر خدمت میں دراصل خدا کا تعلق کارفرما ہور ہا ہوتا ہے اور بندے کا جو تعلق ہے وہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے.ان دونوں قسم کے بندوں سے خدا کا معاملہ مختلف ہوگا.اس لئے جو شخص فرشتوں سے تعلق قائم کرتا ہے یعنی اپنی نیکیوں کے ذریعے ان خاص فرشتوں سے جوان نیکیوں پر مامور ہیں وہ تعلق قائم کر لیتا ہے اس حد تک تو درست ہے لیکن فرشتے یہ بات نہیں جان سکتے کہ اس تعلق کی بنا ہے کیا ؟ کیا خالصہ اللہ یہ کام کیا جارہا تھا یا اگر وہ ظاہری طور پر جانتے بھی ہیں کہ نیتیں نیک ہیں تو اس گہرائی کو نہیں جانتے جو تعلق باللہ کے نتیجے میں نیکیوں میں پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے وہ تو اس حد تک دیکھتے ہیں کہ ہمارے معاملے میں یہ شخص ہم سے ہم آہنگ ہو گیا ہے ہمیں خدا نے غریبوں کی خدمت پر مامور فرمایا ہے یہ غریبوں کی خدمت کر رہا ہے ، ہمیں خدا نے مامور فرمایا ہے مریضوں پر شفا دینے پر اور یہ مریضوں کو شفا دے رہا ہے اور ذاتی تعلق نہیں بھی ہے تب بھی شفا دے رہا ہے، پیسے نہیں بھی وصول کرتا تب بھی دے رہا ہے فرشتے اپنے دائرہ کار میں اتنا جانتے ہیں لیکن خدا جانتا ہے کہ کوئی در حقیقت یہ بظاہر فرشتوں والے کام کس لئے کر رہا ہے.اس لئے دعا کی تو اجازت ہے کیونکہ دعا تو ہر شخص کو اجازت ہے.ایک فقیر کی صدا ہے نا جو آئے گا لگا دے گا صدا،صدا سے کون روک سکتا ہے؟ فرشتوں کا تو کوئی خاص حق نہیں ہے دعا پر.ہر وجود ہر کائنات کا ذرہ ذرہ خدا کے حضور دعا اور التجا کر سکتا ہے اور خدا مالک ہے اسے رد کرتا جائے لیکن شفاعت کو مضمون اس سے بالا ہے.شفاعت کے مضمون میں خدا کا وعدہ ہے کہ جن کو میں شفاعت کی اجازت دوں وہ جس چیز کی شفاعت کریں گے میں اس کی اجازت دوں گا اور وہ ہوکر رہے گی.یہ بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے اس کے لئے فرشتے اس بات کے نا اہل ہیں کہ وہ یہ بتا سکیں کہ ان

Page 835

خطبات طاہر جلد ۶ 831 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء نیکیوں میں جو ہم آہنگی ہے وہ کس حد تک اللہ ہے اور کس حد تک کسی اور غرض کے لئے اور چونکہ فرشتے خدا کے مقابل کے وجود نہیں ہیں اس لئے وہی نیکیاں انسان کے کام آسکتی ہیں جو اللہ ہوں اور ان کو اللہ بہتر جانتا ہے.اس لئے شفاعت سے پہلے یہ شرط لگائی گئی کہ کون ہے وہ ملک جو آسمانوں پر ہیں ان کی شفاعت کام آ سکے مگر اس صورت میں کہ آنْ يَأْذَنَ اللهُ لِمَنْ يَشَاءُ کہ اللہ تعالیٰ اجازت دے اس کے لئے جسے چاہے.اَنْ يَأْذَنَ اللهُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضُی اس میں دو مفعول پیش نظر رہنے چاہئیں.ایک مراد یہ ہو سکتی ہے کہ جن فرشتوں کو خدا چاہے اجازت دیتا ہے ہر فرشتے کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ سفارش کر سکے اور جن فرشتوں کو خاص رضا خدا کی حاصل ہوتی ہے ان کو اجازت دیتا ہے اور دوسرا “ کا تعلق ان بندوں سے ہے جن کے لئے سفارش کی جاتی ہے.تو فرمایا کہ جن بندوں کے متعلق خدا چاہتا ہے ان کو اجازت دیتا ہے ان کے لئے اجازت دیتا ہے یعنی مراد یہ ہے کہ تم یہ نہ سمجھ لینا کہ تمہارا فرشتوں سے تعلق قائم ہو گیا تم خود مختار ہو گئے ہو خدا سے بے نیاز ہو گئے ہو.خدا تعالیٰ کی کائنات میں کسی قسم کا کوئی شرک نہیں ہے کوئی بھی خدا کا شریک نہیں ہے کسی چیز میں.اس لئے تم بھی خدا کے سوا کسی طاقت پر انحصار نہیں کر سکتے خواہ وہ کتنی عظیم الشان طاقت ہو.فرشتوں کو جب شفاعت کی اجازت ملے گی اس وقت ملے گی جب خدا چاہے گا کسی بندے کے لئے کہ ہاں اس بندے کے لئے میں اجازت دیتا ہوں.وَيَرْضُی اس میں رضا کا پہلو بھی شامل ہے.تو معلوم یہ ہوا کہ رضائے الہی کی خاطر کام کرنے والوں کے لئے شفاعت کے دروازے کھلنے کا زیادہ امکان ہے اور جو رضائے الہی کے لئے کام نہیں کرتے ان کے لئے کم امکان ہے.اب یہاں ایک اور مسئلہ بھی حل کرنا ضروری ہے بعض اوقات ایک شخص کے لئے شفاعت قبول ہو جاتی ہے شفاعت کی اجازت دی جاتی ہے اور وہ شخص اگر غیر معمولی طور پر شفا پا تا بڑا ہوتا ہے لیکن وہ نیک نہیں بنتایا اس شفاعت کا بظاہر حقدار دکھائی نہیں دیتا.اس کا کیا حل ہے؟ اس کا حل یہ ہے کہ “ کا لفظ اس کے لئے استعمال ہی نہیں.ایسے مواقع پر دراصل جس شخص کی خاطر وہ شفاعت کی جاتی ہے بعض دفعہ وہ اور ہوتا ہے اور جس کے حق میں وہ قبول ہوتی ہے وہ اور ہوتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت نواب محمد علی خان کے بیٹے کی بیماری کے وقت جبکہ وہ ہاتھ سے نکل چکا تھا اور ڈاکٹروں کی رائے میں اس کا بچنا ناممکن تھا اس وقت شفاعت کی.کس کے

Page 836

خطبات طاہر جلد ۶ 832 خطبہ جمعہ ۴ رد سمبر ۱۹۸۷ء لئے ؟ نواب محمد علی خان کے تعلق کی وجہ سے نہ کہ اس بچے کے تعلق کی وجہ سے.ابھی اس بچہ کا براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے کوئی تعلق محبت کا پیدا ہی نہیں ہوسکتا تھا.بعض اپنے غلام بعض محبت کرنے والے پیار کرنے والے اتنے پیارے ہوتے ہیں کہ ان کی تکلیف جس کی وجہ سے ہو وہ تکلیف دور کرنا مقصد ہوتا ہے وہ ذات جس کی وجہ سے وہ تکلیف ہے وہ براہ راست توجہ کا مرکز نہیں ہوتی.پس وہاں شفاعت میں لمن سے مراد حضرت نواب محمد علی خان صاحب بنتے ہیں نہ کہ وہ بچہ جس کے لئے دعا کی گئی.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه : ۲۲۹) اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض دوسری جگہ اپنی شفاعت کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں نے یہ کہا اور یہ سوچا کہ خدا کے ایک فلاں نیک بندے نے اس لئے یہ کام کیا تھا.اے خدا! اس لئے تو رحم فرما اور اس مصیبت کو ٹال دے.مثلاً جب عبد الکریم کے لئے شفاعت فرمائی یا شفاعت کی اجازت فرمائی گئی اور آپ کو آپ نے پھر شفاعت کی اور وہ غیر معمولی طور پر شفاعت پا گیا آج تک میڈیکل ہسٹری میں ایسا واقعہ نہیں دیکھا گیا کہ کسی کو کتے کے کاٹے کا جنون پیدا ہو جائے اور ساری علامتیں ظاہر ہو جائیں اور اس کے بعد وہ بغیر کسی ظاہری وجہ کے بغیر کسی دوائی کے از خود کلیۂ شفا جائے لمبی عمر پائے اس کا کوئی بداثر نہ رہے اس کی اولاد پیدا ہو یہ ایک ایسی بات تھی جو ناممکن تھی.آپ نے شفاعت کی لیکن اس کے پس منظر میں آپ بتاتے ہیں کہ میرے دل میں درد اس لئے پیدا ہوا تھا محض اس لڑکے کی خاطر نہیں ورنہ تو ہر دیوانے کتے کے کاٹے ہوئے کے لئے درد پیدا ہو جانا چاہئے اس لئے پیدا ہوا کہ اس کے باپ نے بڑے اخلاص کے ساتھ اس کو بہت دور سے بھجوایا تھا اور اس نیت کے ساتھ بھیجا تھا کہ خالصہ دین کی خدمت کے لئے علم سیکھے اور میری صحبت میری تربیت میں بڑا ہو اور باہر جا کر خدا کے دین کی خدمت کرے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه :۴۸۰) پس ” کا لفظ بہت اہمیت رکھتا ہے اس کو سمجھے بغیر کئی دفعہ آپ ایسی الجھنوں میں مبتلا ہو 66 جائیں گے کہ سمجھ نہیں آئے گی کہ خدا نے تو کہا کہ لِمَنْ يَشَاءُ وَيَرْضُی بظاہر دعا قبول ہوئی ہے شفاعت قبول ہوئی ہے لیکن جس شخص کے حق میں ہوئی ہے وہ اہم نظر نہیں آرہا.وہاں آپ نے ” “ کا اشارہ نہیں سمجھا وہ شفاعت کسی اور کی خاطر قبول ہوئی ہوتی ہے اور وہ اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا

Page 837

خطبات طاہر جلد ۶ 833 خطبہ جمعہ ۲ دسمبر ۱۹۸۷ء رحم کسی اور وجہ سے نازل ہورہا ہوتا ہے.بعض دفعہ وہ مثلاً ایک خاص مضمون کے پیش نظر قبول ہوتی ہے، صرف شفاعت میں ہی نہیں دعا میں بھی یہ مضمون چل رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں مولانا محمد علی صاحب مرحوم و مغفور کو طاعون کا نہ صرف شبہ ہوا بلکہ ان کو یقین تھا کیونکہ علامتیں ساری طاعون والی تھیں.گلٹی بھی نکل آئی بخار بھی اسی طرح کا تیز اور بظاہر ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کیا.وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو دعا کی ہے اس میں اس اعجازی نشان کو پیش نظر رکھ کے دعا کی ہے جو آپ کو عطا کیا گیا تھا.فرمایا اس طرح تو شماتة الاعداء ہوگی.میرا ایک قریبی مجھ سے تعلق رکھنے والا یعنی صحابی کی حیثیت ہم یہ کہہ سکتے ہیں حضرت مولوی محمد علی صاحب رضی اللہ عنہ اللہ بہتر جانتا ہے ان کے ساتھ کیا معاملہ ہوگا یہ تو اس کا کام ہے ہمارا کام نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قریب رہے ، بڑی خدمت کی.اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک تعلق بھی تھا لیکن آپ نے دعا کے وقت اس تعلق کی بات نہیں کی ، آپ نے دعا کے وقت ایک اور مضمون کا حوالہ دیا ہے جس میں خدا نے آپ کو ایک اعجازی نشان عطا فر مایا اور آپ کے قرب وجوار میں رہنے والوں کے متعلق وعدہ فرمایا کہ ان کو میں بچاؤں گا.جب اس حوالے سے دعا کی تو اچانک بغیر بظاہر کسی ظاہری وجہ کے مولوی محمد علی صاحب اچھے ہو گئے.(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۵) اسی طرح ہر مضمون میں ” “ کی انگلی بعض دفعہ کسی اور انسان کی طرف اٹھ رہی ہوتی ہے بعض دفعہ کسی اور مضمون کی طرف اٹھ رہی ہوتی ہے لیکن بہر حال شفاعت کا مضمون ان کے لئے حرکت میں آتا ہے جن کا تعلق یا تو براہ راست خدا کے فرشتوں سے ایسا ہو کہ وہ تعلق غیر معمولی ہو جائے اور اس کے اندر قانون قدرت سے ایک الگ بات پیدا ہو جائے ، عام قانون سے ایک الگ بات پیدا ہو جائے یا اس سے محبت کرنے والا کوئی ایسا ہو، اس سے غیر معمولی تعلق رکھنے والا ایسا ہو جو خودان لوگوں میں شامل ہو جن کے اوپر خاص خدا کی رضا اور رحمت کی نظر پڑتی ہے.ایسے معاملات اگر ہوں تو شفاعت آج بھی ہوسکتی ہے.اس لئے چونکہ یہ مضمون ہمیں سمجھ آگیا کہ شفاعت بعض دفعہ جس وجود کے لئے ہو رہی ہے اس کی خاطر نہیں ہوتی بلکہ کسی اور کی خاطر ہو رہی ہوتی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنی دعاؤں

Page 838

خطبات طاہر جلد ۶ 834 خطبه جمعه ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء میں اگر کسی خاص وجود کو پیش نظر رکھیں اپنی نیکیوں میں کسی خاص وجود کو پیش نظر رکھیں دعاؤں میں تو خیر ہو بھی سکتا ہے میں نیکیوں کی بات کرنی چاہتا تھا.نیکیاں وہ ہم کر رہے ہوں گے یہ ممکن ہے کہ اس کا فائدہ ان کو دوسرے کو پہنچ جائے.یہ ایک اور حکمت کا راز ہمیں اس آیت پر غور کرنے سے معلوم ہواس لئے بعض دفعہ ہر حالت میں نہیں مگر بعض دفعہ بعض نیکیوں کا ثواب مرحومین کو پہنتا ہے عمل کسی اور کا ہے اور ثواب کسی اور کو پہنچ رہا ہے.اس پہلو پر غور کرتے ہوئے مجھے اسیرانِ راہ مولا کا خیال آیا.بہت دعائیں کی ہیں ان کے لئے ،ساری جماعت دعائیں کر رہی ہے اور بہت دلوں میں درد ہے اور ساری دنیا کی جماعت کے دلوں میں درد ہے اور ابھی تک ان کا ابتلا لمبا ہو رہا ہے.مجھے اس شفاعت کے مضمون پر غور کرتے ہوئے خیال آیا کہ کیوں نہ ان کی خاطر ہم ہر دوسرے اسیر سے تعلق رکھنا شروع کر دیں.اسیران سے خواہ وہ راہ مولا کے اسیر ہوں یا کسی قسم کے اسیر ہوں، اسیران کی بہبود کے لئے کچھ نہ کچھ کریں تا کہ خدا کے فرشتوں سے ہمارا تعلق قائم ہو جائے.ان فرشتوں سے تعلق قائم ہو جائے جن کا اسیری کے مضمون پر مامور فرمایا گیا ہے، جو اسیروں کی رستگاری کا موجب بنا کرتے ہیں اور خدا کے ہاں جو مختلف قوانین جاری ہیں ان میں ایک یہ بھی قانون ہے کہ غلامی کو دور کرنے کے لئے خدا کے بعض نظام جاری ہیں وہ بعض دفعہ ہزاروں سال کی حرکت کے بعد مکمل ہوتا ہے ان کا دور اور بعض دفعہ چھوٹی حرکتوں میں ان کا دور مکمل ہو جاتا ہے لیکن یہ بھی اپنی ذات میں بہت وسیع مضمون ہے.بہر حال یہ تو قطعی بات ہے کہ اسیروں کی رستگاری کا جو نظام ہے وہ بھی ایک نظام ہے کوئی اتفاقی حادثات کا نتیجہ نہیں ہے اور اس میں خدا کے بعض فرشتے ملاء اعلیٰ پر مامور ہیں ان کے تابع پر ان گنت فرشتے دوسرے کام کر رہے ہیں.تو ہم ان کے لئے دعا ئیں تو کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہمارا ان فرشتوں سے واقعۂ تعلق ہے؟ ہم تو ان سے دعا ئیں اپنی محبت کے نتیجے میں کر رہے ہیں جو ہر احمدی کو دوسرے احمدی سے ہو چکی ہے اور یہ محبت اتنی بڑھ چکی ہے کہ ذی الــقــربـی' کا مضمون اس میں آجاتا ہے یعنی ہماری محبت اسی نوع کی ہو گئی ہے جیسے ماں کو بچے سے محبت ہوتی ہے.اس لئے ایک نفسانی تمنا جو ہے وہ بھی تو داخل ہوگئی.ہم مجبور ہیں اختیار ہی کوئی نہیں ہمیں ہم ان کے لئے غم کرنے پر، ان کے لئے دعائیں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں لیکن خدا کے کتنے اور بندے ہیں لکھوکھا بندے

Page 839

خطبات طاہر جلد ۶ 835 خطبه جمعه ۴ /دسمبر ۱۹۸۷ء ہیں جو اسیری کے دکھ سہہ رہے ہیں ان میں مجرم بھی بہت ہوں گے کچھ معصوم بھی ہیں بلکہ بعض ممالک میں تو لاکھوں معصوم بندے ہیں خدا کے ان بیچاروں کے لئے چونکہ وہ خدا کی خاطر اسیری نہیں اجر کا بھی کوئی وعدہ نہیں بڑے ہی مظلوم لوگ ہیں.جماعت احمدیہ کو اگر ساری دنیا میں اس طرف توجہ پیدا ہو اور جیل خانوں میں جولوگ جاسکتے ہیں نظام کے تابع جو پروگرام بنائے جاسکتے ہیں وہاں اسیروں سے رابطے پیدا کئے جائیں، ان کے دکھ معلوم کئے جائیں.میں جانتا ہوں کہ سمندر میں قطرے کے برابر کوشش ہو گی مگر ہمارے قطرے کے دائرے میں ہمارے مسائل تو حل ہو جائیں گے، جو ہمارا مقصد ہے وہ تو پورا ہو جائے گا.ایک اور مقصد بھی پورا ہوگا اس سے ہمارے اندر ایک جلا پیدا ہوگی.ہماری انسانی قدریں پہلے سے زیادہ چمک اٹھیں گی لیکن نیت یہ رکھیں کہ ہم اسیروں سے براہ راست تعلق قائم کریں تا کہ ان فرشتوں کی نظر میں آجائیں جو اسیری کے کاموں پر مامور ہیں اور جس طرح ہم نے عمدا دنیا میں مشاہدہ کیا ہے کہ جس خدمت کے کام پر کوئی خاص تعلق سے اپنے دائرہ خدمت کو وسیع کرتا ہے خدا کے فرشتوں کالا زما اس سے تعلق ہوتا ہے اور اس کے حق میں معجزے دکھاتے ہیں.اس طرح خدا تعالیٰ کے وہ فرشتے جو اس کام پر مامور ہیں ہمارے ان بھائیوں کے لئے اعجاز دکھائیں اور اس حد تک آپ اس مضمون کو آگے بڑھائیں کہ شفاعت کے مضمون میں یہ مضمون داخل ہو جائے اور آسمان پر خدا کے فرشتے اس کے حضور شفاعت کریں ان راہ مولا میں اسیری کے دکھ اٹھانے والوں کے اب دن آسان فرما دے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آج کچھ بعض مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.پہلے تو ہمارے وکیل اعلیٰ مکرم چوہدری حمید اللہ صاحب کی بیگم کی والدہ یعنی ان کی ساس مکرمہ عائشہ بیگم صاحبہ اہلیہ عبدالجبار خان صاحب مرحوم کی اچانک وفات کی اطلاع ملی ہے.مرحومہ موصیہ تھیں.پھر مکر مہ محمودہ بیگم صاحبہ مرحومہ موصیبہ یہ بھی ہمارے سلسلے کے ایک کارکن سید منصور احمد بشیر کی والد ہتھیں ، ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.اس کے ساتھ ہی اسی خاندان میں ایک دوسری وفات کا سانحہ بھی ہوا ہے یعنی مکرم اقبال احمد صاحب بھٹی یہ سید منصور احمد بشیر کے بہنوئی تھے تو اوپر تلے یہ

Page 840

خطبات طاہر جلد ۶ 836 خطبہ جمعہ ۴ ردسمبر ۱۹۸۷ء دونوں صدمے اکٹھے ان کو پہنچے، یہ اچانک حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے.پھر سلسلے کے ایک اور پرانے مخلص خادم جو کسی زمانے میں افسر حفاظت ہوا کرتے تھے کیپٹن با با شیر ولی صاحب آف در یامل ضلع چکوال ان کی بھی وفات کی اطلاع ملی ہے.پھر ایک ہمارے چوہدری محمد اسماعیل صاحب، مقبول احمد صاحب خالد کارکن دفتر وصیت کے والد تھے ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے اور آخر پر گزار احمد صاحب طاہر بدوملی ضلع سیالکوٹ کے چار ماہ قبل احمدی ہوئے تھے.پہلے شیعہ تھے اور شیعوں میں اپنے علم کی وجہ سے بڑا مقام رکھتے تھے ان کا بیٹا پہلے احمدی ہوا ہے اور اس کی لمبی کوششوں اور دعاؤں کے نتیجے میں یہ چند ماہ پہلے احمدی ہوئے اس لحاظ سے تو بہت نیک انجام کو پہنچے کہ وفات سے چند ماہ پہلے خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی.تو چھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب جمعہ اور عصر کی نماز کے معابعد ہوگی.

Page 841

خطبات طاہر جلد ۶ 837 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء غلبہ دین کے ذرائع صبر ،استغفار اور انکسار (خطبہ جمعہ فرمودہ | اردسمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی :.فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ إِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي ایتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطن الهُم إِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبر مَّاهُمْ بِبَالِغِيْهِ ۚ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ اور فرمایا: (المومن: ۵۶-۵۷) یہ دو آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ المومن کی 56 ویں اور 57 ویں آیات ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ پس صبر کر کیونکہ یقینا اللہ تعالیٰ کا وعدہ حق ہے اور ضرور پورا ہو کے رہے گا.وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبك اور اپنے گناہوں کی بخشش طلب کرتا رہ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّت اور اللہ تعالیٰ کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ بلند کر یا لفظی ترجمہ ہوگا اپنے رب کی تسبیح اس کی حمد کے ساتھ بلند کر بِالْعَشِي وَالْإِبْكَارِ شاموں اور راتوں کو بھی اور صبح کو بھی.اِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي أَيْتِ اللهِ یقیناً وہ لوگ جو جھگڑا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کی آیات کے بارے میں بِغَيْرِ سُلْطنٍ آتُهُمْ بغیر کسی غالب اور قوی دلیل کے جو ان کو خدا نے دی ہو اِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا

Page 842

خطبات طاہر جلد ۶ 838 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء كبُرَ مَا هُمْ بِبَالِغِيهِ ان کے دل میں سوائے کبر کے اور کچھ بھی نہیں اور اس کب کو وہ بھی بھی پانہیں سکیں گے.فَاسْتَعِذْ بِاللهِ پس اللہ تعالی کی پناہ مانگ اِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ يَقِيَاوه بہت سننے والا اور بہت دیکھنے والا ہے.ان دونوں میں سے جو پہلی آیت ہے اس میں وہی مضمون بیان ہوا ہے جو سورہ نصر میں بیان ہوا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ سورہ نصر میں فتح کے آنے کے بعد کی نصیحتیں ہیں اور اس آیت میں فتح کے آنے سے پہلے کی نصیحتیں جو فتح کو قریب تر لانے میں ممد و معاون ہو سکتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ بعد کا بھی نصیحت کا وہی مضمون ہے جو پہلے کا ہے صرف فرق یہ ہے کہ پہلے صبر کے مضمون کو زائد کر دیا گیا اور جن امور کی نصیحت فرمائی گئی ہے ان میں ترتیب کو بدل دیا گیا ہے.چنانچہ سورہ نصر میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ جب خدا کی طرف سے اس کی فتح و نصرت کا وعدہ پورا ہو جائے اور فتح و نصرت آجائے وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِینِ اللهِ أَفْوَاجًا اور جب تو لوگوں کو دیکھے کہ حسب وعدہ وہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اس کے بعد کیا کر؟ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَتِک اللہ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر وَاسْتَغْفِرْهُ اور اس سے بخشش مانگ اِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا یقینا وہ بہت بخشنے والا ہے.اب اس مضمون کو ذہن نشین رکھتے ہوئے اس پہلی آیت کی طرف واپس لوٹتے ہیں.فرمایا فَا صبر صبر کر.یہ صبر کا مضمون سورہ نصر میں موجود نہیں چونکہ وعدہ آچکا ہے اور صبر کا تعلق وعدہ پورا ہونے سے پہلے کے مضمون سے ہے، پہلے کے زمانے سے ہے.پس اس کو چھوڑ کر فرمایا اِنَّ وَعْدَ الله حق اللہ کا وعدہ یقیناً آنے والا ہے حق ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبك اپنے گناہوں کی بخشش طلب کر وَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبَّت اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ شاموں کو بھی اور صبح کو بھی ، رات اور دن تسبیح کر.پس جہاں تک استغفار اور تسبیح اور تحمید کا تعلق ہے سورہ نصر میں فتح کے نتیجے میں ان امور کی طرف توجہ دلائی گئی اور فتح کے وعدے کے انتظار میں، وعدے کے پورا ہونے کے انتظار میں بھی اسی مضمون کی طرف توجہ دلائی گئی لیکن وہاں تسبیح اور تحمید کے بعد استغفار کا ذکر ہے یہاں تسبیح وتحمید سے پہلے استغفار کا ذکر ہے اور اس سے پہلے صبر کی نصیحت کا اضافہ فرما دیا گیا.

Page 843

خطبات طاہر جلد ۶ 839 خطبہ جمعہ ا ار دسمبر ۱۹۸۷ء اس پر غور کرنے سے بہت سے نکات ہاتھ آتے ہیں اور فتح ونصرت کو قریب تر لانے کے لئے جو اسباب ہیں ان پر نظر پڑتی ہے اور انسان اس مضمون کو سمجھنے کے بعد پہلے سے بہتر دعوت الی اللہ کرنے کا اہل ہو جاتا ہے.چنانچہ بہت سے دوست جو مجھ سے پوچھتے ہیں کہ دعوت الی اللہ تو ہم کر رہے ہیں لیکن ہماری دعوت کو پھل نہیں لگتا جبکہ اور بہت سے ہیں جو دعوت الی اللہ کا کام کرتے ہیں ہم سے کم وقت دیتے ہیں اور بظاہر علم میں بھی ہم سے زیادہ نہیں مگر ان کی دعوت کو پھل لگتا ہے.اس کا کیا علاج ہے؟ قرآن کریم کی اس آیت پر غور کرنے سے اس کا علاج سمجھ میں آجاتا ہے.خدا نے جس نصرت کا وعدہ فرمایا ہے کہ جوق در جوق لوگ دین اسلام میں داخل ہوں گے اس نصرت سے پہلے سب سے پہلے صبر کی تلقین فرمائی گئی.فرمایا کہ صبر کرنے والوں کے سوا اس عظیم الشان فتح کو دوسرے لوگ نہیں دیکھ سکتے اور یہ فتح صبر کرنے والوں کے مقدر میں لکھی گئی ہے.اس لئے صبر کے مضمون کو سب سے زیادہ اس میں اہمیت ہے.وجہ یہ ہے کہ جب بھی غیر سے مقابلہ ہوتا ہے جیسا کہ دوسری آیت اس مضمون کو اور کھول دے گی تو اس مقابلے میں دنیا کی نظر کے لحاظ سے ایک طرف انتہائی کمزوری اور ایک طرف انتہائی بڑی طاقت ہوتی ہے اور کمزوری کو وعدہ دیا جا رہا ہے کہ وہ طاقت پہ غالب آجائے گی اور کمزور لوگ اس وعدے کے انتظار میں خدا سے ایک آس لگائے بیٹھے ہوتے ہیں چنانچہ غالب کے مقابل پر جب کمزور کو کھڑا کر دیا جائے تو کمزور اس مقابلے میں استقلال اختیار کر ہی نہیں سکتا جب تک اس کے اندر غیر معمولی صبر کی طاقت موجود نہ ہو اور صبر کے اندر دو مضامین ہیں ایک تو یہ کہ ہر قسم کی تکلیف کو برداشت کرتے چلے جانا اور کسی تکلیف کے موقع پر بھی مایوسی کا اظہار نہ کرنا، یقین کامل رکھنا کہ میں بہر حال غالب آؤں گا وقت کی بات ہے اس لئے جیسے کیسے بھی وقت کو کاٹوں کیونکہ بالآخر اس برے وقت نے ٹل جانا ہے اور اچھے وقت نے لا زما آنا ہے.پس صبر کے مضمون میں یقین کامل کا مضمون بھی داخل ہے اور وہی لوگ صبر کر سکتے ہیں جن کا ایمان قوی ہو ، جو اپنے مقصد کے غلبے پر کامل یقین رکھتے ہوں اور کبھی بھی اس بارے میں متنذ بذب نہ ہوں کیونکہ یقین اور صبر دونوں کا چولی دامن کا ساتھ ہے.جہاں یقین میں کمی آئی وہیں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے گا.اسی لئے بیماروں کو تسلی دلانے کے لئے ان سے صحت کی

Page 844

خطبات طاہر جلد ۶ 840 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء باتیں کی جاتی ہیں.جب تک ان سے صحت کی باتیں نہ کریں کہ ہاں ! آپ اچھے ہونے والے ہیں یا بے قرار ہے کوئی کسی تکلیف کی وجہ سے اور رات کا وقت ہے اسے کہا جاتا ہے کہ دیکھو! صبح تو آئے گی اور جلد ہی آنے والی ہے.صبح کا ذکر کیوں کیا جاتا ہے؟ اس لئے کہ صبح ایک یقینی چیز ہے اور صبح کے خیال سے طبیعت میں بشاشت پیدا ہوتی ہے.اسی طرح صحت کے ساتھ صبح کا ذکر بھی چلتا ہے رات کے مریضوں سے کیونکہ ایک یقینی حالت سے دوسری یقینی حالت کی طرف بھی توجہ مائل ہوتی ہے.اس لئے صبر کا صبر کے اندر اپنے اچھے انجام پر یقین کا مضمون بھی داخل ہے.فَاصْبِرُ یقیناً صبر کر نتیجہ کیا نکلا؟ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ اس مضمون کو خدا نے خود ظاہر فرما دیا.صبر اس لئے کر کہ خدا کا وعدہ ضرور پورا ہوگا اگر خدا کے وعدہ پورے ہونے میں کوئی شک ہوتا تو پھر تو یہ صبر کی تلقین نہ کی جاتی کیونکہ پھر یہ بڑا ظلم ہے.کسی کو جھوٹے وعدے دینا اور جھوٹی تسلیاں دینا یہ خدا کی شان کے خلاف ہے اور ایک شریف النفس انسان کی شان کے بھی خلاف ہے.پس فرمایا کہ ہم جو تجھے صبر کی تلقین کرتے ہیں تو بے جا تلقین نہیں کرتے بے مقصد تلقین نہیں کرتے.خدا کا وعدہ چونکہ لا زما پورا ہوگا اس لئے مبر کر اور ساتھ ہی صبر کے ساتھ خدا کے وعدہ پورا ہونے کا مضمون بھی متعلق ہے.جوصبر کے ساتھ انتظار کرتے ہیں ان کے حق میں وعدہ آیا کرتا ہے اور جو صبر چھوڑ دیتے ہیں ان کے لئے وہ وعدہ نہیں پورا ہوا کرتا.اس لئے یہ دونوں مضمون آپس میں گہرے بندھے ہوئے ہیں جن کا اٹوٹ تعلق ہے، ٹوٹ ہی نہیں سکتا کسی طرح.صبر کے اس مضمون میں اور بھی بہت سی چیزیں داخل ہیں لیکن اس وقت اس تفصیل میں جانے کا وقت نہیں ہے پہلے بھی بعض مواقع پر صبر کے متعلق میں تفصیلاً بیان کر چکا ہوں.ایک بات بہر حال ذہن نشین رکھنی ضروری ہے ہر دعوت الی اللہ کرنے والے کے لئے کہ صبر کے بغیر نہ دعوت الی اللہ ہوسکتی ہے نہ صبر کے بغیر فتح کا دن دیکھنا نصیب ہوسکتا ہے.صبر کے بغیر انسان اپنی اچھی باتوں پر قائم بھی نہیں رہ سکتا.صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ انسان مایوسی سے بچ سکے اور اپنی نیکیوں پر استقلال اختیار کر سکے.اس لئے صبر بہت ہی ضروری ہے لیکن اس یقین کے ساتھ صبر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ بالآخر خدا تعالیٰ لازما فتح کا دن طلوع فرمائے گا.اس کے بعد فرمایا و اسْتَغْفِرْ لِذَنبِك اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا رہ یا استغفار کرتا تو

Page 845

خطبات طاہر جلد ۶ 841 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء رہ ، خدا سے بخشش طلب کرتارہ.اسے سورہ نصر میں تو بعد میں رکھا تھا یہاں پہلے رکھا ہے.بات یہ ہے کہ جو شخص بھی خدا کی طرف بلانے والا ہو اگر اس کی توجہ اپنی اندرونی صفائی کی طرف نہ ہو تو اس کی دعوت میں طاقت پیدا نہیں ہوسکتی کیونکہ دعوت کا تعلق اعمال صالحہ سے ہے.جتنی کسی کو زیادہ نیکی کی توفیق ملتی ہے اتنا ہی اس کی بات میں وزن پیدا ہو جاتا ہے.جتنا ہلکا اورکھوکھلا انسان ہو خواہ وہ کیسی ہی عمدہ تقریریں کرنے والا ہو، دلائل میں کیسا ہی غالب آنے کی اہلیت رکھتا ہو اس کی بات میں قوت پیدا نہیں ہوتی.اس لئے تبلیغ کرنے والوں کے لئے یہ راز سمجھنا بہت ضروری ہے کہ ان کو اعمال صالحہ کی طرف لا زما توجہ کرنی ہوگی.اعمال صالحہ کا مضمون تو لامتناہی ہے.ایک انسان ایک وقت کسی حالت میں ہے دوسرے وقت کسی حالت میں ہے، تیسرے وقت کسی حالت میں ہے.اگر وہ مسلسل بھی ترقی کر رہا ہو تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس نے عمل صالح کا آخری مقام حاصل کر لیا اس لئے یہ شرط نہیں لگائی جاسکتی کہ جب تک عمل صالح کامل نہ ہو جائے اس وقت تک تم تبلیغ نہ شروع کرو، اگر یہ شرط لگ جائے تو خدا کے بعض معصوم بندوں کے سوا دنیا میں کوئی کسی کو تبلیغ نہ کر سکے.اس لئے یہاں شرط یہ رکھ دی وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبك كامل طور پر حسین عمل تمہیں نصیب نہیں بھی ہوئے تو استغفار تو کرواپنی کمزوریوں کی طرف توجہ تو کرو، یہ تو سوچا کرو کہ تم میں کیا کیا خامیاں ہیں اپنے اندرونے کی طرف نگاہ رکھو اور پھر خدا سے مدد مانگتے رہوا گر تم یہ کرنا شروع کر دو تو پھر تمہاری دعوت میں طاقت پیدا ہو جائے گی.کیونکہ اس کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ فتح کا دن لا زما آئے گا.استغفار کا نصیحت کے ساتھ ایک اور بھی بڑا گہرا تعلق ہے جسے اکثر لوگ بھلا دیتے ہیں.وہ لوگ جن کی نظریں دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے کی طرف رہتی ہیں وہ نصیحت کی اہلیت ہی نہیں رکھتے ان کی باتوں میں تیزی پیدا ہو جاتی ہے، وہ تلوار کی طرح کاٹنے والی باتیں ہوتی ہیں ، وہ زہر سے سارے وجود کو بھر دیتی ہیں اور جس کو بھی وہ نصیحت کرتے ہیں اس نصیحت سے وہ تکلیف پہنچاتے ہیں، اس کی اصلاح کی اہلیت نہیں رکھتے.جیسے کوئی سانپ ڈس جائے اس سے تکلیف پہنچتی ہے بعض لوگوں کی نصیحت میں ایسی کرواہٹ ہوتی ہے کہ ایسا زہر گھلا ہوا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجے میں فائدے کی بجائے نقصان تو ہو جاتا ہے چنانچہ ایسی نصیحتوں سے بعض دفعہ لوگ تنگ آکر ضد پر آجاتے ہیں کہتے

Page 846

خطبات طاہر جلد ۶ 842 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء ہیں ٹھیک ہے تم کہتے ہو تو میں یہ نیکی بھی نہیں کروں گا، تم ایسے بد بخت انسان ہو کہ تمہارے کہنے کی طرز میں ہی دشمنی اور ظلم ہے اس لئے اگر یہ نیکی بھی ہے تو اب میں یہ نیکی نہیں کروں گا کیونکہ تم کہ رہے ہو.اس لئے نصیحت کس کی کامیاب ہوتی ہے اور کس کی نہیں ہوتی اس کا راز یہاں بیان فرمایا گیا.وہ لوگ جن کی نظر اپنے تک رہتی ہے، اپنی برائیاں تلاش کرتے رہتے ہیں ، اپنی کمزوریاں دیکھتے رہتے ہیں اور خدا سے مدد مانگتے رہتے ہیں کہ اے خدا! ہم تو بہت ہی کمزور ہیں بہت ہی گناہ گار ہیں جو کام تو نے سارے عالم کو نصیحت کرنے کا ہمارے سپر د فر ما دیا اس کام کی ہم اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ ہم اندر سے داغدار ہیں اور تجھ سے بہتر اور کوئی نہیں ہے جو ہمارے گناہوں پر نظر رکھتا ہے اور ہمارے گناہوں کو جانتا ہے.اس لئے تیرے حکم کے تابع ہم نصیحت کر رہے ہیں اس زعم میں نصیحت نہیں کر رہے کہ ہم نصیحت کے اہل ہیں.تیرے ارشاد کی تعمیل میں ہم دعوت الی اللہ کے لئے نکلے ہیں اس بر تے اور اس زعم پر نہیں کہ ہم اتنے ولی اللہ بن چکے ہیں کہ ہم لوگوں کو اپنی طرف بلائیں.یہ جو انکسار ہے طبیعت کا یہ دعوت الی اللہ میں طاقت پیدا کرتا ہے.یہ انکسار جو ہے طبیعت کا یہ استغفار کی طرف کثرت سے مائل کرتا ہے اور ایسا انسان جو مؤثر داعی الی اللہ بنا چاہے اس نکتے کو نظر انداز کر کے وہ کبھی مؤثر داعی الی اللہ نہیں بن سکتا.آپ کے اندر جو Humility انکسار ہونا چاہئے جس سے بات میں اثر پیدا ہوتا ہے اور بات میں مٹھاس پیدا ہوتی ہے اس مضمون کی طرف خدا نے توجہ فرمائی ہے کہ وَ اسْتَغْفِرْ لِذَنْبِك ہمہ وقت، ہر دم اپنے گناہوں کی طرف متوجہ رہ اور خدا تعالیٰ سے ان کی بخشش کے لئے طلب گار رہ.اس کے نتیجے میں تسبیح و تحمید کا مضمون خود بخو دا بھرتا ہے جب انسان اپنے آپ کو گناہوں سے پاک نہیں دیکھتا اور خوبیوں سے خالی پاتا ہے تو اس کے نتیجے میں ایک ہی ذات اس کے لئے باقی رہ جاتی ہے جو سب گناہوں سے پاک ہے اور ساری خوبیوں سے مرصع ہے یعنی خدا تعالیٰ.پس اپنی نفی کے نتیجے میں خدا کا اثبات پیدا ہوتا ہے لا الہ الا اللہ کا یہ فلسفہ ہے کہ جب غیر اللہ مٹتے ہیں تب اللہ اُبھرتا ہے یعنی ویسے تو اللہ ہر جگہ ہے غیر اللہ ہے ہی کوئی نہیں لیکن انسان کی دنیا میں جو صاحب شعور ہے اس کی دنیا کا عجیب حال ہے جتنے زیادہ غیر اللہ اس کے دل میں موجود ہیں اتنا ہی خدا کا فقدان ہوتا چلا جاتا ہے.جتنے غیر اللہ مٹتے چلے جاتے ہیں اتنا ہی خدا

Page 847

خطبات طاہر جلد ۶ 843 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء اُبھرتا چلا جاتا ہے.تو استغفار ذنب کے ساتھ تسبیح وتحمید کے مضمون کا ایک نہ ٹوٹنے والا تعلق ہے اور Inverse Proportion ہے ان کی یعنی ایک کم ہوگا تو دوسر از یادہ ہو جائے گا، دوسرا کم ہوگا تو پہلا زیادہ ہو جائے جب پہلا زیادہ ہو گا تو دوسرا کم ہو جائے گا.بیک وقت دونوں نہیں بڑھتے یعنی انکسار اور تسبیح ان دونوں کا یہ اس قسم کا تعلق ہے کہ اپنے آپ کو کم دیکھیں گے تو خدا زیادہ نظر آئے گا اپنے آپ کو زیادہ دیکھیں گے تو خدا کم نظر آئے گا.پس مومن کی یہ تعریف بیان فرما دی گئی کہ مومن کے اندر ایک انتہائی انکسار ہوتا ہے، اس کی آنکھ ہمیشہ اپنی جانب کھلی رہتی ہے اور غیر کو جو نصیحت کرتا ہے وہ امتثال امر میں کرتا ہے خدا کے حکم کے تابع چونکہ خدا نے اس کو مامور فرما دیا ہے اور نصیحت کرتے وقت اس کے دل میں ہمیشہ شرمندگی رہتی ہے.شرمندگی کے بغیر استغفار پیدا ہی نہیں ہو سکتا.اس لئے ہمیشہ نفس شرمندہ رہے ہمیشہ نفس اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھتا ر ہے اور خدا سے استغفار کرتے ہوئے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہوئے جب پھر انسان کسی دوسرے کو نصیحت کرتا ہے تو اس نصیحت میں خدا کی تسبیح وتحمید کی قوت پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ اس انکسار کے نتیجے میں اس کے دل سے تسبیح اٹھتی ہے اور حمید اٹھتی ہے اور جو باتیں وہ خدا کی طرف منسوب کرتا ہے اور خدا کی طرف بڑے محبت اور پیار سے منسوب کرتا ہے خدا وہی باتیں اس میں پیدا کرنے لگ جاتا ہے.اسی لئے اس کی زبان میں ایک غیر معمولی شان اور غیر معمولی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.فرمایا بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ راتوں کو بھی تسبیح وتحمید کیا کر اور صبح کو بھی.یہاں رات کو پہلے بیان فرمایا ہے کیونکہ رات اندھیرے اور مایوسی کا وقت ہوا کرتا ہے اور صبح کو بعد میں رکھا لیکن وہی یقین پیدا کرنے کے لئے جیسے ماں بیمار بچے کو کہ دیتی ہے تم ضرور اچھے ہو گے اور صبح بھی ضرور آئے گی.خدا فرماتا ہے کہ جس رب کی تو تسبیح وتحمید کرتا ہے وہی ہے جو راتوں کے بعد صبح کو بھی لانے والا ہے.اس لئے یقین رکھ کہ وہ خدا تیری رات کو بھی ضرور صبح میں تبدیل کر دے گا اور تسبیح وتحمید جتنی زیادہ کریں گے اتنا ہی زیادہ زبان پاک ہوتی چلی جائے گی ، اتنا ہی زیادہ آپ اندھیروں کو روشنیوں میں تبدیل کرنے کے اہل ہوتے چلے جائیں گے.اس کے برعکس کچھ لوگ ہیں جو خدا کے نام کو پھیلانے والوں کے خلاف ایک مہم کا آغاز کرتے ہیں اور وہ طاقت میں بڑے ہوتے ہیں وہ جھگڑے میں زیادہ شدید ہوتے ہیں اور بڑی قوت

Page 848

خطبات طاہر جلد ۶ 844 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء کے ساتھ وہ ان کمزور تھوڑی تعداد کے لوگوں پر حملہ کرتے ہیں جو خدا کی طرف بلانے کا عزم لے کر دنیا میں خدا ہی کی خاطر نکل کھڑے ہوتے ہیں.فرمایا اِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُونَ فِي أَيتِ اللهِ تم تو تیار ہو گئے ہو تم تو بڑی پاک نصیحتوں کے ساتھ دنیا کو نیکی اور حق کی طرف بلانے کے لئے نکلے ہو.تم میں انکسار ہے تم اپنی بڑائی نہیں کوئی سمجھتے محض خدا کی خاطر یہ سب کام ہیں میٹھی زبان کے ساتھ اور نرم دل کے ساتھ تم لوگوں میں پاک تبدیلی پیدا کرنا چاہتے ہو لیکن اس کے باوجود تم سے ایسا سلوک نہیں ہو گا جیسا تم دنیا سے کر رہے ہو.اِنَّ الَّذِينَ يُجَادِلُوْنَ فِي أَيْتِ اللہ ایسے بڑے بڑے عظیم طاقتوں والے لوگ ہیں جو دنیا کے لحاظ سے عظیم طاقتیں رکھتے ہیں وہ خدا کی آیات کے بارے میں تم سے شدید جھگڑا کریں گے اور وہ لڑیں گے تم سے اس بات پر کہ تم کیوں خدا کی آیات بیان کرتے ہو اور اپنا یہ حال ہے کہ فی آیتِ اللهِ بِغَيْرِ سُلْطَنِ الہم اللہ کی آیات میں جھگڑا کر رہے ہیں اور خدا نے ان کو ایک بھی دلیل عطا نہیں کی اپنے حق میں.یہ جو مضمون ہے بغیر دلیل کے لڑتے ہیں اس مضمون میں بھی بڑی گہرائی ہے اور بہت دلچسپ مضمون ہے.پہلی بات تو یہ سمجھنے والی ہے کہ سلطان سے مراد عام دلیل نہیں ہے.سلطان سے مراد یہ ہے ایسی روشن اور واضح دلیل جس میں غالب آنے کی طاقت ہے اور جس کے نتیجے میں سلطانی عطا ہوتی ہے.لفظ سلطان یعنی بادشاہ اسی لفظ سے نکلا ہے جس سے سلطان دلیل نکلی ہے اور ایک ہی مادہ ہے اور اس میں چمک کے معنی بھی پائے جاتے ہیں ، اس میں نور کے سوا قوت اور آگ اور توانائی کے معنی بھی پائے جاتے ہیں اور غالب آنے کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.تو فرمایا خدا تعالیٰ نے تو ان کو کوئی ایسی دلیل عطا نہیں کی جس کے نتیجے میں وہ دنیا میں غالب آنے کے خواب و خیال بھی کر سکیں.چھوٹی موٹی گھٹیا، ذلیل باتیں ہیں جو لے کر تم سے جھگڑنے کے لئے نکلے ہیں لیکن سلطان ان کے پاس کوئی نہیں.اب یہ جو مذہبی محاورہ ہے دیکھئے! دنیا کے محاورے سے کتنا برعکس ہے؟ کتنا مختلف ہے؟ غالب تو کہتا ہے:.اس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا! لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں (دیوان غالب صفحه : ۱۸۲)

Page 849

خطبات طاہر جلد ۶ 845 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء خدا فرماتا ہے ان کی سادگی دیکھو تلواریں ہیں صرف ہاتھوں میں دلیل کوئی نہیں کوئی غالب آنے والی قوی دلیل نہیں ہے کیونکہ غالب دلیلوں کے ذریعے سلطانی عطا کی جاتی ہے.اس کے بغیر سلطانیاں چھین لی جاتی ہیں، سلطانوں کو فقیر بنا دیا جاتا ہے.مذہب کی دنیا میں تو یہی قانون چلے گا.فرمایا ان کی سادگی کو دیکھوان بیوقوفوں کو کہ خدا والوں سے لڑنے کے لئے نکلے ہیں اور کوئی سلطان نہیں ہے اور جب سلطان نہیں تو پھر لڑتے کس برتے پہ ہیں ہاتھ میں تلوار ہے یہ مضمون اس کے اندر شامل کر دیا گیا ہے.چنانچہ یہ کیوں ہے؟ فرمایا ان فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبر اس لئے کہ اپنے آپ کو بڑا سمجھ رہے ہیں.جو شخص دنیا کی طاقت رکھتا ہو، دنیا کا غلبہ رکھتا ہو اس کے اندر ایک کبر پیدا ہو جاتا ہے وہ سمجھتا ہے میں بہت بڑا ہوں مجھے اختیار ہے جو چاہے میں کروں لیکن اس لفظ کبر کو خدا تعالیٰ نے دو طرف سے باندھا ہے بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے جو اس لفظ میں یہاں رکھ دیا گیا یہ کہہ کر کہ اِنْ فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كِبر وہ وجہ بیان فرما دی گئی جس کے نتیجے میں خدا سے دور لوگ خدا والوں سے لڑا کرتے ہیں اور ہمیشہ تکبر کے نتیجے میں ایسا ہوتا ہے.اس سے پہلے خدا نے مومنوں کو یہ تنبیہ کر دی تھی کہ اگر تمہارے اندر نفس کا تکبر رہا تو تم خدا والے نہیں کہلا سکتے اور خدا کی طرف سے لڑنے کے مجاز نہیں رہو گے، خدا کی فوج میں شامل کئے جانے والوں میں سے تم نہیں ہو گے کیونکہ خدا تعالیٰ تو استغفار کرنے والوں کو اپنی فوج میں شامل کیا کرتا ہے.وہ جو ہمہ وقت اپنے آپ کو کچھ نہیں سمجھتے اور کامل انکسار کے ساتھ اپنی کمزوریوں پر نگاہ رکھتے ہوئے خدا سے بخشش طلب کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں یہ ہے خدا کے پاک بندوں کی تعریف جو خدا کی فوج میں داخل کئے جاتے ہیں.اس کے برعکس جو ان سے لڑنے کے لئے نکلیں گے وہ کون ہوں گے يُجَادِلُونَ فِي أَيتِ اللهِ جن کا ذکر ہے.فرمایا ان کے پاس دلیل کوئی نہیں ہے، ان کے پاس محض دنیا کی طاقت ہے اِن فِي صُدُورِهِمْ إِلَّا كبر ان کے دل عجز سے عاری ہیں ، انکساری سے خالی ہیں متکبر لوگ اور دنیا کی طاقت کے بل پر وہ خدا والوں کو مغلوب کرنے کے لئے نکلتے ہیں.یہ کہہ کر کہ دل میں کبر موجود ہے ساتھ یہ فرما دینا ما هُمْ بِبَالِخِیهِ عجیب مضمون ہے.فرمایا ان کے دل میں کبر ہے لیکن وہ اس کبر کو پانہیں سکیں گے.مطلب یہ ہے کہ یہ کبر ان کا جاتا رہے گا ان کی ساری طاقتیں چھین لی

Page 850

خطبات طاہر جلد ۶ 846 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء جائیں گی اور اگر وہ خدا کی مخالفت کے نتیجے میں اور خدا کے پاک بندوں کی مخالفت کے نتیجے میں دنیا میں کسی بڑائی کو چاہتے ہوں اور ان کی مخالفت کے نتیجے میں دنیا والوں سے کوئی داد چاہتے ہوں اور رتبہ چاہتے ہوں اور اپنی طاقت کو بڑھانا چاہتے ہوں جیسا کہ ہمیشہ جماعت احمدیہ کی مخالفت میں مخالفین کے یہ پیش نظر رہا.تو آغاز تو کبر سے ہوا لیکن فرمایا کہ وہ جس مقصد کو چاہتے ہیں یعنی دنیا کی طاقت کو بڑھانے کے لئے یہ شرارت کرتے ہیں وہ دنیا کی طاقتوں کو خدا کی جماعتوں کی مخالفت کے ذریعے نہیں پاسکتے بلکہ جو کبر ان کے دل کا ہے وہ بھی چھین لیا جائے گا وہ دنیا میں ذلیل ورسوا اور نہتے کر دیے جائیں گے.پس عجیب فصاحت و بلاغت کا مرقع ہے یہ آیت جس نے اس مضمون کو دونوں طرف سے باندھا.سورۂ نصر میں اس استغفار کو فتح کے بعد رکھا گیا ہے اور تسبیح وتحمید کے بعد رکھا گیا.فرمایا:.إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ ) وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُوْنَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَيْكَ وَاسْتَغْفِرُهُ.إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًان (النصر : ۴۲) صاف بتا دیا کہ صرف ان کی ناکامی کی پیشگوئی نہیں بلکہ مومنوں کی فتح کی بھی پیشگوئی فرما دی گئی ہے.فرمایا ان کے ہاتھ سے تو ان کا کبر جاتا رہے گا لیکن مومنوں کو وہ فتح ضرور نصیب ہوگی جس کا وعدہ دیا گیا ہے اور جس فتح کے آخر پر استغفار کی طرف توجہ دلائی گئی.پس یہ عجیب خدا کے بندوں کا حال ہے، عجیب نقشہ ہے.فرمایا جب وہ خدا کی خاطر لڑنے کے لئے نکلتے ہیں تو بظاہر کتنے بڑے دشمن ان کے سامنے صف آراء ہوں وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑتے ایک لمحہ کے لئے مایوس نہیں ہوتے اور اپنی بڑائی نہیں سمجھتے بلکہ ہرلمحہ اپنے آپ کو کمزور دیکھتے ہیں اور خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی استغفار کرتے ہوئے اس کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور ان کے ہتھیار خدا کی تسبیح اور خدا کی تحمید ہیں.ان کے مقابل پر ان کا دشمن ہے اس کے پاس دنیا کی طاقتیں تو موجود ہیں جس کے نتیجے میں اس کے دل میں کبر پیدا ہو گیا ہے مگر وہ سلطان سے خالی ہیں.کوئی ایسی دلیل ان کے پاس نہیں جو خدا نے ان کو عطا کی ہو اور کوئی غالب آنے والی علامت ان میں موجود نہیں جس کے نتیجے میں سلطانی عطا کی جاتی اور جو کبر ان کے پاس ہے ایک وقت ایسا آئے گا کہ

Page 851

خطبات طاہر جلد ۶ 847 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء خدا اس کبر سے بھی ان کو محروم کر دے گا یعنی کبر کی ظاہری وجہ سے بھی ان کو محروم کر دے گا اور مومنوں کو لا ز ما فتح عطا کرے گا.فرما یا فاستغفر باللہ پھر استغفار کرو.تو مومنوں کے آغاز میں بھی استغفار ہے اور انجام میں بھی استغفار ہے اور بہت سے مضامین کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ ہے جسے جماعت احمدیہ کو ہمیشہ ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اگر آغاز میں انکسار سچا تھا تو فتح کے بعد دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہونا چاہئے کہ ہم نے یہ چالا کی کی تھی ہم نے ایسی زبردست لڑائی کی تھی ہم نے یہ ہوشیاری کی تھی اس لئے خدا نے ہمیں فتح دی بلکہ وہ انکسار قائم رہنا چاہئے.مومن کے انکسار کی حالت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی فتح سے پہلے بھی اس کے اندر انکسار ہوتا ہے، فتح کے بعد بھی اس میں انکسار ہوتا ہے.جب اپنے آپ کو کمزور دیکھتا ہے اس وقت بھی اس میں انکسار ہوتا ہے جب اپنے آپ کو طاقتور اور غالب دیکھتا ہے اس وقت بھی اس کے اندر انکسار ہوتا ہے.ا صلى الله چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے.جس انکسار کے ساتھ مدینہ سے نکلے تھے اسی انکسار کے ساتھ مدینے میں داخل ہوئے.نکلنے کا مضمون بالکل اور تھا بالکل نہتے ، بے اختیار اور بے طاقت دنیا کے لحاظ سے ، غاروں میں چھپ کر رہنے والے اور دبے پاؤں ایک سفر اختیار کرنے والے تا کہ دشمن کو آپ کی آہٹ کی آواز نہ آئے ، آپ کے پاؤں کی آہٹ بھی نہ سنائی دے.اس حال میں جو سفر کرنے والا ہے وہ داخل ہوتا ہے تو ایسے کامل انکسار کے ساتھ کہ خدا نے اسے فتح عطا فرما دی.صحابہ بیان کرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید اور استغفار کے ساتھ روتے روتے آپ کی چکی بندھ رہی تھی اور سر جھکتے جھکتے اس کا ٹھی کے ساتھ لگ گیا تھا جس پر آپ بیٹھے ہوئے تھے اور اس حالت میں دنیا کا سب سے عظیم فاتح مکہ میں داخل ہو رہا ہے.(السیرۃ النبوي لا بن هشام جلد صفحه: ۹۱ مطبوعہ بیروت) تو فرمایا کہ تمہارا استغفار تبھی معنی رکھے گا اگر فتح کے بعد بھی قائم رہے اگر فتح سے پہلے کی حالت اور ہوگی اور فتح کے بعد کی حالت اور ہو جائیگی تو تم خدا کی فوج میں داخل ہونے کے اہل نہیں ہوگے.اگر تم سچے تھے پہلے کہ تمہاری اپنی طاقتوں سے نہیں بلکہ خدا کے فضل سے ہی تمہیں فتح نصیب ہونی ہے تو اس سچ کو پھر قائم رکھنا اور فتح کے بعد بھی یہ نہ خیال کر لینا کہ تمہاری طاقت کے نتیجے میں، تمہاری ہوشیاریوں کے نتیجے میں تمہارے منصوبے کے نتیجے میں خدا تعالیٰ نے فتح بخشی ہے بلکہ اپنے اندر کچھ بھی نہ دیکھنا اور خدا کی تسبیح و تحمید میں مصروف رہنا.

Page 852

خطبات طاہر جلد ۶ 848 خطبہ جمعہ اردسمبر ۱۹۸۷ء جن قوموں نے غالب آنا ہے خدا کے نام پر ان کے لئے تو ضروری ہتھیار ہے اگر وہ ان ہتھیاروں کے بغیر لڑنے کی کوشش کریں گے تو یہ ان کی سادگی کی انتہا ہے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوں گے اور اگر وہ ان ہتھیاروں کو سجائیں گے اور ان ہتھیاروں پر بھروسہ کرتے ہوئے صبر کے ساتھ آگے بڑھیں گے تو خدا کا وعدہ ہے کہ سلطان ان کے مقدر میں ہے اور ان کا دشمن ہر سلطان سے محروم کر دیا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.آج بھی نماز جمعہ اور عصر کے بعد کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک تو ہمارے لمسلہ کے ایک دیرینہ پرانے مخلص کارکن اور بہت اچھے داعی الی اللہ قریشی فضل حق صاحب گول بازارر بوہ کی اچانک وفات کی اطلاع ملی ہے.بڑے مخلص فدائی اور جاں نثار مجاہد تھے اور اس دن بھی جس دن ان کو اچانک دل کا حملہ ہوا ہے خدا کی خاطر ہی سفر اختیار کر کے واپس آئے تھے.نماز کے بعد واپس گئے ہیں تو اپنا دروازہ کھولنے کی توفیق نہیں ملی اسی وقت دل کا حملہ ہوا ہے اور ہسپتال میں اسی رات وفات پائی.ان کے ایک صاحبزادے یہاں انگلستان کی جماعت کے ممبر ہیں.دوسرا مکر مہ صالح خاتون صاحبہ اہلیہ مکرم شیخ مختار احمد صاحب مرحوم یہ ہمارے عزیز مکرم مولود احمد خان صاحب اور مسعود احمد خان صاحب دہلوی اور پروفیسر سعود احمد خان صاحب کی ہمشیرہ تھیں.مولود صاحب کو تو آپ جانتے ہیں یہاں انگلستان میں ایک لمبا بحیثیت امام مسجد لندن خدمت کی توفیق پاچکے ہیں.ان کے دو بھائی ابھی بھی خدا کے فضل سے واقفین زندگی ہیں یعنی مسعود احمد خان دہلوی اور سعود احمد خان صاحب.ایک اور خاتون ہیں امیر بیگم صاحبہ اہلیہ شیر محمد صاحب مرحوم یہ بھی موصیہ تھیں اور ہمارے اسیر راه مولا رانا نعیم الدین صاحب کی ہمشیرہ تھیں.پھر ایک والدہ صاحبہ مکرمہ فرحت ریحان صاحبہ ماڈل ٹاؤن سے انہوں نے درخواست کی ہے اور ایک مکرمہ والدہ صاحبہ فائز محی الدین صاحب قریشی.فیروز محی الدین صاحب جو یہاں رہے ہیں کافی عرصہ اسلام آباد میں بھی خدمت کرتے رہے ہیں پہلے بطور واقف زندگی افریقہ میں بھی ان کو لمبا عرصہ خدمت کی توفیق ملی ہے ان کی پہلی بیگم اور ان کے بیٹے فائز محی الدین کی والدہ تھیں.ان سب کی نماز جنازہ غائب انشاء اللہ نماز عصر کے معاً بعد ہوگی.

Page 853

خطبات طاہر جلد ۶ 849 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء نا قابل تسخیر بننے کے لئے موحد بننا ضروری ہے عبادت سے شرک کی بیخ کنی ایک مسلسل جد و جہد کا نام ہے ( خطبه جمعه فرموده ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی :.أَفَرَعَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَهَهُ هَوىهُ وَأَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ عَلَى بَصَرِهِ غِشْوَةً فَمَنْ يَهْدِيهِ مِنْ بَعْدِ اللَّهِ أَفَلَا تَذَكَّرُونَ اور فرمایا: (الجاثیه (۲۴) اس کا ترجمہ یہ ہے کیا تم نے اس شخص کی حالت پر غور نہیں کیا جس نے اپنی خواہش ہی کو اپنا معبود بنالیا ہو وَ أَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ اور خدا تعالیٰ نے ایسے شخص کو اپنے کامل اور قطعی علم کی بنا پر گمراہ قرار دے دیا ہو قَ خَتَمَ عَلَى سَمُحِ؟ اور اس کی قوت سامعہ پر ، اس کے کانوں پر مہر لگادی اور پر، ہو و قلبہ اور اس کے دل پر مہر لگادی ہو اور اس کی آنکھوں اور نظر پر پردہ چڑھا دیا ہو.فَمَنْ يَهْدِيْهِ مِن بَعْدِ الله پس خدا کے سوا اور کون ہے جو ا سے ہدایت دے سکے اَفَلَا تَذَكَّرُونَ پس کیوں تم ان باتوں پر غور وفکر نہیں کرتے اور کیوں تم ان باتوں سے نصیحت حاصل نہیں کرتے.عام طور پر وہ لوگ جو خدائے واحد کی پرستش کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں وہ سمجھتے ہیں کہ اس اقرار کے بعد وہ موحد شمار ہونے لگیں گے اور یہی وہ قدم ہے توحید کے اقرار کا جو پہلا بھی ہے اور آخری بھی ہے.گویا محض زبان سے یہ اقرار کر لینا کہ خدا ایک

Page 854

خطبات طاہر جلد ۶ 850 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء ہے انسان کو موحد بنا دیتا ہے.پھر اگر ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی سمجھا جائے کہ محض زبان کا اقرار نہیں بلکہ دل بھی اس دعوے پر مطمئن ہے اور اگر زبان کے اقرار کے ساتھ دل کا اطمینان شامل ہو جائے تو یقیناً ایسے شخص کو موحد سمجھنا چاہئے.پھر ایک تیسرا تصور یہ ہے کہ اگر دل بھی مطمئن ہو تو کافی نہیں عملاً انسان کسی دوسرے شخص کے سامنے سر نہ جھکائے اور اس کی خدائی کو ظاہری طور پر قبول نہ کرے تو ایسا شخص کامل موحد ہو جانا چاہئے اور یہ اس کے سفر کی گویا آخری منزل ہے.مگر قرآن کریم نے جس توحید پر زور دیا ہے اور جس کو بڑی قوت کے ساتھ بڑی تفصیل سے بیان فرمایا ہے اس کا سفر دوتین قدموں پر مشتمل نہیں ہے بلکہ انسان کی ساری زندگی پر بلکہ اس کی زندگی کے لمحے لمحے پر محیط ہے اور یہ سادہ سا خیال کر لینا کہ محض زبان کے اقرار سے یا دل کے اطمینان سے جسے انسان خود اطمینان کے طور پر دیکھ رہا ہو یا ظاہری طور پر غیر اللہ کے سامنے سر نہ جھکانے سے انسان موحد بن جاتا ہے اور توحید کا سارا سفر نہیں تین منازل کا نام ہے.یہ تصور بہت بچگانہ اور بہت سادہ اور حقیقت سے دور تصور ہے.قرآن کریم نے مختلف مخفی بتوں کا متعدد جگہ پر ذکر فرمایا اور شیطان کے مخفی حملوں کا بھی متعدد جگہ ذکر فرمایا.اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ان مخفی بتوں کے ہوتے ہوئے انسان تو حید کے اقرار کی یہ تین منازل طے کرنے کے بعد ان مخفی بتوں سے غافل رہتے ہوئے بھی موحد کامل ہوسکتا ہے.جن مخفی بتوں کا خدا نے قرآن کریم میں ذکر فرمایا ہے اس کی تفصیل بہت لمبی ہے سارے قرآن کریم میں جگہ جگہ یہ ذکر ملتا ہے اور شیطان کے حملوں کا جو ذکر فرمایا ہے اس کا بھی شرک کے ساتھ ایک تعلق قائم کر کے ذکر فرمایا ہے.اس لئے میں اس ساری تفصیل میں تو اس وقت نہیں جاؤں گا مختصر بنیادی طور پر آپ کے علم میں یہ بات لانی چاہتا ہوں کہ یہ خیال کر لینا کہ ہم نے زبان سے اقرار کر لیا یا دل سے اطمینان حاصل کر لیا یا ظاہری طور پر شرک میں مبتلا نہیں ہوئے ہرگز کافی نہیں اور یہ خیال کر لینا کہ شیطان ایسے مواحدین کو پھر اپنے حال پر الگ چھوڑ دیتا ہے اور ان سے کوئی مجادلہ نہیں کرتا یہ بھی نفس کی انتہائی سادگی ہے.شیطان کا سب سے بڑا حملہ توحید پر ہوتا ہے اور اگر تو حید میں یعنی انسان کے خدا کے ساتھ توحید کے تعلق میں وہ رخنہ ڈال دے اور انسان کے تصور یا عمل یا قلبی کیفیات میں شرک پیدا کر دے تو شیطان کی یہ سب سے بڑی فتح ہے.اس لئے شیطان کے متعلق یہ خیال کر لینا کہ قیامت تک کی اس

Page 855

خطبات طاہر جلد ۶ 851 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء نے مہلت مانگی خدا کے بندوں سے لڑنے کے لئے اور صرف دو تین قدم طے کرنے کے نتیجے میں یعنی خدا کے ان بندوں کے دو تین قدم طے کرنے کے نتیجے میں جو تو حید کی طرف رواں ہوئے اس نے سمجھ لیا کہ فتح مند ہو گئے ہیں اور میں اب ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکتا.یہ قرآن کریم نے جو شیطان کے بدا را دوں کا ذکر فرمایا ہے ان سے متصادم بات ہے اس ذکر سے متصادم بات ہے اور بہت ہی سادگی ہے یہ خیال کر بیٹھنا.اس لئے موحد ہر گز محفوظ نہیں ہے جب تک وہ قرآن کریم کے بیان کردہ تو حید کے اسباق پر غور نہیں کرتا اور اس کی توحید پر جو جا بجا مختلف سمتوں سے شیطان نے حملے کرنے ہیں ان سے باخبر نہیں رہتا اور اپنی توحید کی اپنی جان سے بڑھ کر حفاظت نہیں کرتا.بسا اوقات ایک ایسا شخص غفلت کی حالت میں اپنی زندگی بسر کر دیتا ہے اور اس کو علم بھی نہیں ہوتا کہ تو حید کے نام پر اس نے کتنے شرک کئے.اس لئے چونکہ یہ مضمون بہت ہی اہمیت رکھتا ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کی تفصیل تو بہت ہی بڑی ہے، بہت زیادہ ہے بہت وسعت رکھتی ہے مگر بنیادی طور پر آپ کو اس مضمون کی طرف متوجہ کرنے کے لئے میں نے آج چند آیات کا انتخاب کیا ہے.جہاں تک شیطان کے حملے کا تعلق ہے اس حملے کا تعلق جس کا اس آیت کے مضمون سے تعلق ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے پڑھی ہے اس آیت کا مرکزی نکتہ یہ ہے مَنِ اتَّخَذَ الهَهُ هَودَهُ جس نے اپنی ھوی کو اپنا معبود بنالیا ہو.پس ایسے بندے تو بہت شاذ کے طور پر ملیں گے جو شیطان کو اپنا معبود قرار دیں اس لئے شیطان کی یہ کوشش کہ خدا کے بندے مجھے اپنا معبود بنالیں یہ تو لا ز ما ایک نا کام کوشش ہوگی اس میں کوئی امید شیطان نہیں رکھ سکتا لیکن خدا کے بندے اپنے نفس کو اپنا معبود بنا لیں یہ ایک ایسی شیطان کی کوشش ہو سکتی ہے جس میں کامیابی کے اس کے لئے بہت بڑے امکانات ہیں کیونکہ قرآن کریم نے انسانی فطرت کی یہ کمزوری خود بیان فرمائی کہ ایسے بہت سے خدا کے بندے ہوتے ہیں جو اپنے نفس کی خواہش کو اپنا خدا بنالیا کرتے ہیں.اس لئے چونکہ یہ ایک فطری رجحان ہے اور فطری کمزوری ہے اس لئے ایک عیار حملہ آور لا زما اس سے استفادہ کرے گا.چنانچہ قرآن کریم اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے كَالَّذِي اسْتَهْوَتْهُ الشَّيُطِينُ فِي الْأَرْضِ حَيْرَانَ (الانعام : ۷۲ ) اس شخص کی طرح جس کے ساتھ شیطان ن اسْتَهْوَتْهُ کا عمل ہو.استَهْوَتْهُ کا کیا مطلب ہے؟ ھوی کہتے ہیں اپنے نفس کی تمنا نفس

Page 856

خطبات طاہر جلد ۶ 852 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء کی خواہش اور بھی اس کے کئی معنی ہیں لیکن بنیادی طور پر نفس کی تمنا اور نفسانی خواہش کو ھوی کہتے ہیں.اسْتَهْوَتْهُ کا مطلب یہ ہے کہ شیطان نے جسے اپنے نفس کی تمنا میں مبتلا کر دیا ہو اور اس کے نتیجے میں فِي الْأَرْضِ حَيْرَانِ اسے ایسی حالت میں چھوڑ دیا ہو کہ اس کا کوئی بھی قبلہ باقی نہ رہا ہو ، وہ زمین میں پراگندہ حال پھرتا رہے اس سے زیادہ خطرناک حملہ خدا کے بندوں پر شیطان کی طرف سے اور ممکن نہیں کہ کسی انسان کو اپنے نفس کی تمنا میں مبتلا کر دے.اس کا اسیر بنادے اور قرآن کریم نے جیسا کہ بیان فرمایا ہے یہی شرک ہے ایک اور شرک میں بھی اس کا ایک بہت بڑا مقام ہے بعض پہلوؤں سے ظاہری شرک کی نسبت یہ شرک زیادہ خطرناک ہے کیونکہ قرآن کریم نے ظاہری شرک کی حالت میں مرنے والے کے لئے معافی تو نہیں رکھی لیکن مشرکین کا شرک سے بیچ کر ہدایت پا جانا قرآن کریم کی رُو سے ایک عام بات ہے جو ہوتا رہتا ہے اور قرآن کریم میں جو خود عرب میں عظیم الشان معجزہ دکھا یا وہ یہی تو تھا کہ ہزاروں لاکھوں مشرکین قرآن کریم کی برکت سے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے عظیم جہاد کے نتیجے میں مشرک سے موحد بن گئے.پس وہ ظاہری شرک میں مبتلا لوگ تھے ان کے لئے ہدایت کا ایک دروازہ کھلا رکھا ہے قرآن کریم نے اور یہ امکان جاری رکھا ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو شخص خواہ ظاہری مشرک نہ بھی ہوا گر اپنے نفس کو اپنا محبوب بنالیتا ہے تو اس کے لئے سارے ہدایت کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور اس کے لئے ہدایت پانے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہتا.چنانچہ اتنی خطرناک سزا اس کی بیان فرمائی.فرمایا وَ أَضَلَّهُ اللهُ عَلَى عِلْمٍ وَ خَتَمَ عَلَى سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ وَجَعَلَ وَخَتَمَـ عَلَى بَصَرِهِ غِشوةً یہی وہ لوگ ہیں جن کے کانوں پر بھی خدا مہر لگا دیتا ہے ، جن کے دلوں پر بھی خدا مہر لگا دیتا ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیتا ہے.پس قرآن کریم نے آغاز ہی میں جس ختم کا ذکر فرمایا خَتَمَ اللهُ عَلَى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ (البقرہ:۸ ) وہاں تو اس کی وجہ بیان نہیں فرمائی کہ کیوں خدا بعض لوگوں کے دلوں پر مُہر لگاتا ہے ان کے کانوں پر مہر لگاتا ہے، آنکھوں پر پردے ڈالتا ہے اور بہت سے مبصرین نے یہ بحث اٹھائی ہے کہ کیا یہ اس میں ظلم تو نہیں ، کیا یہ کسی اقتداری کیفیت کا ذکر تو نہیں ہو رہا کہ خدا جس کو چاہے مُہر لگا دے اور کوئی اس سے پوچھنے والا نہیں

Page 857

خطبات طاہر جلد ۶ 853 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء اس لئے بغیر کسی وجہ کے بغیر کسی دلیل کے خدا کو حق حاصل ہے کہ جس کے چاہے کانوں پر اور دل پر مُہر لگا تار ہے اور اس کی آنکھوں پر پردے ڈال دے.چنانچہ بعض اسلام کے دشمنوں نے اسی آیت کو اعتراض کا بھی نشانہ بنایا اور کہا کہ ایک طرف تو خدا خود مہریں لگاتا رہتا ہے یعنی قرآن کریم کا بیان کردہ خدا اور دوسری طرف پھر ان کو پکڑتا ہے اور ان کو سزا دیتا ہے یہ کیسا ظلم ہے.چنانچہ قرآن کریم کی اس آیت نے اس مسئلے کو بھی حل فرمایا ہے فرمایا وہ لوگ جن کو یہ سزا ملتی ہے کہ تم جو چاہو کر واب وہ ہدایت نہیں پاسکیں گے یہ سزا بے وجہ نہیں ملتی یہ سزا ایک نہایت ہی خطرناک شرک میں مبتلا ہونے کے نتیجے میں ان کو دی جاتی ہے اور وہ شرک کسی بیرونی خدا کو معبود بنانے کا شرک نہیں ہے بلکہ اپنے نفس کو خدا بنا لینے کا شرک ہے اور یہ جو آخری سزا ہے یہ ہر اس شخص کو مٹا نہیں مل جاتی جو اپنی خواہشات کو خدا بنانے لگتا ہے بلکہ اس شرک کے انتہائی درجے کی یہ سزا بیان فرمائی گئی ہے.چنانچ فرمایا أَضَلَّهُ اللهُ عَلَی عِلم ہر شخص کو جو اپنے نفس کی خواہشات کی پیروی کرتا ہے معا یہ اتنی خطرناک اور آخری سزا نہیں دی جاتی بلکہ خدا اپنے علم سے جب یہ فیصلہ کرتا ہے کہ اب یہ واقعہ اس کا خدا بن چکا ہے یہ وقتی تعلقات نہیں ہیں نفس کے ساتھ وقتی دھو کے نہیں ہیں بلکہ مستقلاً اس نے اپنے نفس کو معبود بنا لیا ہے اس وقت اس کو یہ سزا ملتی ہے اور پھر اس کے لئے ہدایت کا کوئی بھی امکان باقی نہیں رہتا.اب یہ اتنا بڑا خطرناک شرک ہے اور اس کے باوجود ہم روز مرہ کی زندگی میں دیکھتے ہیں کہ وہ فرضی خدا جس کی سب سے زیادہ عبادت کی جاتی ہے وہ نفس ہے اور روزمرہ کی زندگی کے ہر شعبہ پر یہ شرک حاوی ہے اور ہمارے روزمرہ کے فیصلوں میں ہر فیصلے میں یہ شرک دخل دیتا ہے اور رفتہ رفتہ جس طرح بیماریاں پھیلتی ہیں اور جسم کے سارے حصے پر یہ قبضہ کرتی چلی جاتی ہیں یہ اپنی خواہش کو خدا بنا لینے کا شرک اسی طرح ایک بیماری کی طرح رفتہ رفتہ پھیلنے لگتا ہے اور جب یہ جس انسان کو گھیر لے اس وقت خدا پھر اپنے علم سے وہ فیصلہ دیتا ہے جس کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ پھر اس پر مہر لگ جاتی ہے پھر اس کے لئے ہدایت کا کوئی امکان باقی نہیں رہتا.چنانچہ مُہر زدہ لوگ کس طرح بنتے ہیں یہ حقیقت آپ نے دیکھ لی لیکن مُہر لگنے اور اس ظل جرم کے آغاز کے درمیان بے شمار مراحل ہیں، بے شمار قدم ہیں جو انسان توحید سے شرک کی

Page 858

خطبات طاہر جلد ۶ 854 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء طرف اٹھاتا چلا جاتا ہے اور غفلت کی حالت میں ایسا کرتا ہے شروع میں.شیطان اس کے لئے اس کی اس عادت کو بڑا خوبصورت کر کے دکھاتا ہے.چنانچہ آپ اپنی زندگی کے حالات کا جائزہ لیں اپنی روز مرہ کی زندگی کے فیصلوں کا جائزہ لیں تو آپ یہ دیکھ کہ حیران ہوں گے کہ ہمارے اکثر فیصلے اپنی خواہش کی پیروی کے مطابق ہوتے ہیں.یہ تو بظاہر ایک طبعی بات ہے ہر انسان اپنی خواہش کے مطابق فیصلے کرتا ہے لیکن جہاں ٹھوکر والا قدم اٹھایا جاتا ہے اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ دماغ اور فیصلہ کر رہا ہے اور دل اور فیصلہ کر رہا ہے.دماغ کے فیصلے کا انکار کیا جاتا ہے اور دل کے فیصلے کی اطاعت کی جاتی ہے.یہ پہلا قدم ہے جو انسان کو شرک کی طرف مائل کرنے کے لئے تیار کرتا ہے اور وہ شخص دن بدن اپنے دل کی بات کا زیادہ تابع ہوتا چلا جاتا ہے اور دماغ کی بات کا منکر ہوتا چلا جاتا ہے وہ اس لائق بن جاتا ہے کہ وہ مشرک قرار دیا جائے اور رفتہ رفتہ یہی عادت پھر مذہب میں بھی دخل دیتی ہے اور خدا کے فیصلوں کے خلاف اپنے دل کے فیصلے کی بات ماننا اس کی عادت بن جاتی ہے اور یہ بات زندگی پر اس طرح سے حاوی ہو جاتی ہے کہ بہت سے اس کے فیصلے اس کے Concious دماغ میں یعنی لاشعور دماغ میں بطور فیصلوں کے ظاہر ہی نہیں ہوتے.عادت مستمرہ کے طور پر، ایک جاری رہنے والی عادت کے طور پر وہ روز مرہ کے فیصلے کرتا چلا جاتا ہے جو خدا کے خلاف ہیں اور اس کے نفس کے تابع ہیں اور اس کو پتا بھی نہیں لگتا کہ وہ شرک کر رہا ہے اور شرک بھی بدترین قسم کا.یہاں تک کہ اس کی عبادت میں بھی پھر وہ شرک داخل ہو جاتا ہے.انسان کی عبادت میں جو شیطان حملے کرتا ہے قرآن کریم سے پتا چلتا ہے وہ دو قسم کے حملے ہیں یعنی موحدین کے اوپر جو حملے کرتا ہے اور ان کو مشرک بنانے کی کوشش کرتا ہے.اول وہ حملے جو بیرونی تفکرات کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں ان حملوں کا تعلق اس کے نفس کے شرک سے نہیں ہے لیکن اگر تفکرات اتنے غالب آجائیں کہ خدا کے تصور پر تفکرات کو غلبہ نصیب ہو جائے تو پھر وہ ایسے شخص کی وہ روحانی بیماری رفتہ رفتہ اسے مشرک بنادیتی ہے.چنانچہ آپ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اپنی زندگی میں غور کر کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ لوگ جو نظرات کا شکار رہتے ہیں بسا اوقات تفکرات کا جب تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تفکرات کسی چیز سے گہرا دل لگانے کے نتیجے میں

Page 859

خطبات طاہر جلد ۶ 855 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء پیدا ہوتے ہیں.ہر فکر کسی پیاری چیز کے کھوئے جانے کے خیال سے پیدا ہوتا ہے اگر آپ اس فکر کو اتنا بڑھنے دیں کہ وہ آپ کے وجود پر قبضہ کرلے اور اس کے کھو جانے کے نتیجے میں اتنا صدمہ محسوس کریں اس چیز کے کھو جانے کے نتیجے میں جس کے لئے فکر تھا کہ بدحال ہو جائیں اور صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیں تو یہ ساری حرکت توحید سے شرک کی طرف ہے.تفکرات فی ذاتہ شرک پیدا نہیں کرتے تفکرات کا غالب آجانا شرک پیدا کرتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو بھی تفکرات تھے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تفکرات آپ جب عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تھے تو آپ سے لپٹ جایا کرتے تھے لیکن ان تفکرات میں اور عام تفکرات میں ایک بڑا فرق تھا وہ تفکرات خدا کے دین کے تفکرات تھے.نفس کے تفکرات نہیں تھے.ان تفکرات کا کوئی تعلق بھی آپ کی ذات سے یا آپ کی ذات کی ایسی چیزوں سے نہیں تھا جو دین سے الگ ہوں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ کا جو یہ قول ملتا ہے کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا ( حوالہ حدیث ) اس کا ایک یہ مطلب بھی ہے.تفکرات کا شیطان ہر انسان کو بہکانے کی کوشش کرتا ہے اور ہر انسان کو رفتہ رفتہ مشرک بنانے کی کوشش کرتا ہے لیکن حضرت محمد مصطفی مے کے تفکرات بھی مسلمان ہو چکے تھے وہ کلیۂ خدا کے لئے ہو گئے تھے.ایسے شخص کے اوپر شیطان کا غلبہ ہو ہی نہیں سکتا شیطان کی نظر سے وہ شخص پاک کیا جاتا ہے عصمت انبیاء کا یہ مطلب ہے.پس ایسے انسان بھی ہیں جو اپنے تفکرات کے ساتھ ایک جہاد کرتے ہیں اور ایک مقابلہ کرتے ہیں، تفکرات میں مبتلا ہوتے تو ہیں اور دعاؤں کے ذریعے ان تفکرات سے نجات کی خواہش بھی کرتے ہیں لیکن اپنے نفس پر ان کو غالب نہیں ہونے دیتے اور اگر یہ تفکرات دور نہ ہوں اور جس چیز کی وجہ سے تفکرات ہیں وہ کھوئی جائے تو مستغنی ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کی خاطر پھر وہ اس کی پرواہ نہیں کرتے لیکن وہ تفکرات جو مشرک بناتے ہیں وہ وہ ہیں جن کی جان نفس کے اندر واقع ہوتی ہے اور ان کی رگیں گہرے طور پر انسان کے نفس کی رگوں کے اندر پیوستہ ہوتی ہیں.جس طرح ایک ناسور انسان کے جسم میں داخل ہو جاتا ہے اس کی جڑیں اس کے وجود کے اندرونی حصے پر قبضہ کر لیتی ہیں.اسی طرح بعض تفکرات انسان کی روح کو لگ جاتے ہیں.چنانچہ جب یہ تفکرات حقیقت بن کر اس کے سامنے ظاہر ہوں یعنی جو خطرات تھے وہ عملاً ان کے سامنے ظاہر ہو جائیں.جس بچے کی موت کا

Page 860

خطبات طاہر جلد ۶ 856 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء خطرہ تھا مثلاً وہ بچہ مر جائے، جس خاوند کی بیماری کے تفکرات تھے کہ کیا بنے گا کہ خاوند فوت ہو جاتا ہے، وہ مقدمہ کسی زمین کا جس کے لئے انسان پریشان تھا کہ اگر میں ہار گیا تو میری زمین کا کیا بنے گا، میرے بچوں کا کیا بنے گا؟ وہ مقدمہ ہار جاتا ہے.سو قسم کے ایسے تفکرات ہیں جو روز مرہ انسان کو لاحق ہوتے ہیں اور یہ تفکرات پھر عملاً اس کے سامنے وہ خطرہ بن کے ظاہر ہو جاتے ہیں جس خطرے کے پیش نظر بے چین تھا.اس وقت یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اس نے اپنی ھوی کو اپنا معبود بنایا تھا کہ نہیں بنایا ؟ اگر اس کے دل کی تمنا اس کا معبود بن چکی تھی تو ایسے ابتلاء کے وقت پھر وہ خدا تعالیٰ سے غافل ہو جاتا ہے بعض دفعہ خدا کے اوپر زبان کھولنے لگ جاتا ہے اور باتیں کرتا ہے بڑی بڑی کہ پہخدا کون ہوتا تھا میر اسکھ چھینے والا ؟ خدا اپنے آپ کو بڑا رحمان اور رحیم کہتا ہے اس کو کیا تکلیف تھی اگر میرا بچہ نہ مرتا؟ میں تو اتنا رویا میں نے تو اتنی عبادت کی لیکن وہ بچہ میرا پیارا اس نے چھین لیا، خدا کا کیا جاتا تھا اگر وہ میری گریہ وزاری کوسن لیتا اور میں زمین کا مقدمہ جیت لیتا.یہ سارے تصورات اس کے دل میں ابھرتے ہیں اور ان کے نتیجے میں پھر وہ ان کی رو میں بہ بھی جاتا ہے.ایسا شخص جو اس امتحان میں اس حد تک نا کام ہو جاتا ہے کہ تفکرات کی رو میں بہہ جاتا ہے وہ شخص وہ ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ ہم نے اپنے علم کے مطابق اس کے دل پر مہر لگا دی.کچھ لوگ وہ ہیں جو استغفار بھی کرتے ہیں دل سے بد خیالات اٹھتے ہیں لیکن تو بہ کرتے ہیں واپس آجاتے ہیں وہ اس شرک سے رفتہ رفتہ بچا بھی لئے جاتے ہیں لیکن بسا اوقات انسان ایک گستاخی کے بعد دوسری گستاخی میں مبتلا ہونے لگتے ہیں، پہلے قدم پہ خدا کا باغی نہیں بنتا پھر دوسرے قدم پر باغی بن جاتا ہے یا تیسرے قدم پر باغی بن جاتا ہے اور یہ رخ اس کو بالآخر ہلا کت تک پہنچا دیتا ہے.کچھ دوسرے خدا کے بندے ہیں ان کو بھی ابتلا آتے ہیں ان کی بھی عزیز چیزیں ضائع ہوتی ہیں ان کے بھی پیارے ان سے جدا کئے جاتے ہیں لیکن ان کی زبان سے ایسے کلمات نہیں نکلتے جو ثابت کریں کہ ان کا نفس خدا کے مقابل پر ایک خدا تھا.چنانچہ ان کی آواز یہی ہوتی ہے کہ:.بلانے والا ہے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جاں فدا کر (درین صفحه ۱۰۰)

Page 861

خطبات طاہر جلد ۶ 857 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ (البقره: ۱۵۷) اس کا یہ ترجمہ ہے دراصل.چیزیں جو ہاتھ سے جاتی ہیں وہ خدا کی طرف لوٹتی ہیں یعنی خدا نے لے لیں.عام محاورے میں ہم یہ کہتے ہیں کہ خدا کو پیارا ہو گیا خدا نے لے لی یا بعض لوگ گستاخی سے کہتے ہیں خدا نے ہم سے یہ چیز چھین لی.إِلَيْهِ رجِعُوْنَ کا یہ ترجمہ ہے کہ اس کی طرف ہر چیز جاتی ہے.سب چیزیں جو ہلاک ہو جاتی ہیں ہر چیز جو کھوئی جاتی ہے اپنی ذات میں کوئی چیز بھی کھوئی نہیں جاتی کوئی چیز بھی ہلاک نہیں ہوتی دراصل وہ اپنے مرجع کی طرف لوٹتی ہیں.چنانچہ اس کائنات میں کوئی چیز بھی ضائع نہیں ہو رہی دراصل.تبدیلیاں ہو رہی ہیں اور ہر تبدیلی اس کے منبع اور مرجع کی طرف لوٹنے کا نام ہے.اِنَّا لِلہ نے ایک عجیب سبق بتادیا کہ جس کی طرف لوٹ رہی ہیں وہ تو ہمارا ہے، اس سے تو ہم سب قریب ہیں اس لئے اس چیز کے ضائع ہونے کا وہ غم ہو ہی نہیں سکتا جو خدا کا ہوا اسے وہ غم نہیں ہوسکتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب یہ فرمایا:.بلانے والا سے سب سے پیارا اسی پہ اے دل تو جان فدا کر یہ دراصل انا اللہ کا ترجمہ تھا.یہ چیز ہماری چیز ہوگی لیکن ہم کس کے ہیں ہم تو اللہ کے ہیں اس لئے جس کے ہم ہیں اس کی طرف اگر چیز لوٹتی ہے تو ہم جزع فزع کرنے والے کون ہیں.اس لئے بچانے کی حد تک کوشش اس سے پیار کے اظہار کے طور پر بے چین بھی ہو جانا یہ طبعی عوامل ہیں ان کو شرک نہیں کہا جاتا لیکن اپنے نفس کی خواہش کا غلام بن جانا اور اس کے تابع ہو جانا، اس سے مغلوب ہو جانا یہ شرک ہے.اس کے علاوہ جب آپ دیکھتے ہیں کہ آپ کو کسی چیز کی تمنا بھڑک اٹھتی ہے غیر معمولی طور پر زیادہ ہو جاتی ہے تو زندگی کے خیالات پر قبضہ کرنے لگتی ہے یہاں تک کہ بسا اوقات عبادت میں بھی داخل ہو جاتی ہے.آپ خدا کی عبادت کے لئے کھڑے ہیں اور جس طرح تفکرات بار بارگھیرتے ہیں آپ کو اس طرح آپ کے دل کی وہ تمنا جس سے آپ کو پیار ہے بار بار دل میں ظاہر ہوتی ہے اور بار بار آپ کی توجہ خدا سے ہٹا کر اس کی جگہ لے لیتی ہے.اب یہ شرک عمد تو قرار نہیں دیا جا سکتا لیکن اگر آپ اس حالت سے غافل ہو جائیں اور اسے معمولی بیماری سمجھیں یا توجہ ہی نہ کریں اس بات کی

Page 862

خطبات طاہر جلد ۶ 858 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء طرف تو یہ غفلت آپ کوضرور شرک کی طرف لے جائے گی.چنانچہ ہر شخص کا مختلف وقتوں میں خدا بدلتا رہتا ہے واحد خدا اور شیطانی خداؤں میں یہی فرق ہے.جو خدائے واحد و یگانہ ہے وہ تو نہیں بدلتا وہ تو وہی ذات رہتی ہے.جو نفس کے خدا ہیں یہ بت ہر روز نئے نئے بنتے ہیں.نئے حالات میں نئے بت پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جو جہاد ہے یہ عمر بھر کا جہاد ہے اور بعض پہلوؤں سے لمحہ لمحہ کا جہاد ہے.آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے آج اپنے نفس کے اس بت کو توڑ دیا ہے وہ جو ہمیں عبادت میں تنگ کیا کرتا تھا ہم نے اس سے لڑائی کی اس پر غالب آگئے اور اس کو اپنے دل کے عبادت خانے سے نکال کے باہر مارا.اس لئے اب ہم مطمئن ہو گئے کیونکہ آج ایک خدا نے دل پر قبضہ کی کوشش کی ہے کل ایک اور خدا اس پر قبضہ کی کوشش کرے گا اور یہ جاری سلسلہ ہے.کوئی دنیا میں نہیں یہ دعوی کر سکتا انبیاء کے سوا جو مقام محفوظ تک اور مقام معصوم تک پہنچائے جاتے ہیں کہ ان کی شرک کے خلاف یہ اندرونی جد وجہد ختم ہو چکی ہو کیونکہ خدا کے سوا کسی اور چیز کا اب ان پر قبضہ نہیں رہا.کتنا ہی بڑا ولی ہو کتنا ہی بڑا عالی مقام ہو روحانیت کے لحاظ سے جب تک عصمت کے مقام پر خدا اس کو فائز نہیں فرماتا اس کی خطرے کی حالت نہیں مل سکتی یعنی خطرہ بار بار اس کو مختلف سمتوں سے پیش آتا چلا جائے گا.چنانچہ قرآن کریم نے جو متنبہ فرمایا کہ اس شیطان سے اس لئے خصوصیت سے متنبہ رہو اور اس کی حرکتوں سے خبر دار ہو کہ وہ تم پر ایسی سمتوں سے حملے کرے گا جن سے تم اس کو دیکھ نہیں سکتے.اس کے حملے کی طرف بھی مخفی ہوگی ، جن سمتوں سے وہ تم پر حملہ کرتا ہے وہ ہمتیں بھی غیر معروف ہوں گی تمہیں پتا نہیں ہو گا کہ ان سمتوں سے حملہ ہو سکتا ہے.چنانچہ آپ کو کسی سے محبت ہے، کسی سے پیار ہے اور کوئی تعلقات ہیں خونی تعلقات یا دوستانہ تعلقات عام طور پر انسان کو خیال بھی نہیں آسکتا کہ شیطان اس طرف سے بھی حملہ کرے گا لیکن یہ تعلقات ہوں یا دنیا طلبی کے تعلقات ہوں یا و جاہت طلبی کی تمنا ہو یا دنیا کی کسی اور رنگ کی تمنا ہو ہر تمنا کی راہ پر شیطان داخل ہوتا ہے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ انسان کی امنیہ میں شیطان وحی کرتا ہے اس کی امیہ میں شیطان داخل ہوتا ہے کہ ایسا بھیس بدل کر بعض دفعہ حملہ کرتا ہے کہ وہ دل کی تمنا بن کر اس کے اندر جذب ہو کر آپ کے سامنے آرہا ہوتا ہے آپ اسے اپنی تمنا کے طور پر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس تمنا میں شیطان

Page 863

خطبات طاہر جلد ۶ 859 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء داخل ہو چکا ہے.پھر وہ انبیاء جن کی وہ حفاظت فرماتا ہے اللہ تعالیٰ ان کی تمنا سے شیطان کو بے دخل کر دیتا ہے لیکن وہ لوگ جو مقام محفوظ پر نہیں ہیں ان کے لئے خطرہ ہمیشہ رہتا ہے کہ ان کی تمنا بن کے شیطان بیچ میں آتا چلا جائے.پس اس طرح قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ انسان شیطان کی عبادت کر رہا ہوتا ہے اور اس کو پتا ہی نہیں کہ میں شیطان کی عبادت کر رہا ہوں.ایک طرف فرمایا کہ تم اپنے نفس کی عبادت کرتے ہو یہ بات تو عام پہچانی جاسکتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنی خواہشات کو اپنا خدا بناتے ہیں ان کی یہ خواہش ان کی عبادت میں بھی ان کا خدا بن کر سامنے آجایا کرتی ہے اور بسا اوقات ان کو ہوش آتی ہے ایسی حالت میں کہ وہ خدا کی بجائے اپنے دل کی تمنا کی عبادت کر رہے ہوتے ہیں اور پھر بھی ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ہم شیطان کی عبادت کر رہے ہیں.قرآن کریم نے اس مسئلے کو حل کر دیا.فرمایا وہ شیطان تمہاری امنیہ میں داخل ہوتا ہے، تمہارے دل کی امنگوں اور تمناؤں کا بھیس بدل کر تمہارے اندر داخل ہو جاتا ہے اور جس کو تم اپنے نفس کی پیروی سمجھ رہے تھے وہ دراصل شیطان کی پیروی بن جاتی ہے جس کو تم اپنے نفس کی عبادت کے طور پر بعض دفعہ پہچان سکتے ہو اوراکثر نہیں پہچانتے وہ دراصل شیطان کی عبادت ہو جاتی ہے.تو شرک کا مضمون تو بہت ہی تفصیلی ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ تو حید کا مضمون بہت ہی وسعت رکھتا ہے اور جتنا وسیع توحید کا مضمون ہے اس کا منفی پہلو یعنی شرک بھی اسی قدر وسعت رکھتا ہے اس لئے تمام منفی احتمالات سے متنبہ رہنا اور توحید کے ہر مختلف پہلو کو اختیار کرنے کی کوشش کرتے چلے جانا یہ ہے تو حید.صرف یہ تو حید نہیں کہ لا الہ الا اللہ اللہ کے سوا کوئی اللہ نہیں.واقعہ یہ ہے کہ بھاری تعداد وہ موحدین جو آج دنیا میں موحد کہلاتے ہیں یعنی ایسے مذاہب سے وابستہ ہیں جو توحید پرست مذاہب ہیں ان کی بھاری اکثریت اپنے نفس کی خواہشات کی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت کر رہی ہوتی ہے اور وہ وقت جب خدا کے بندے ظاہر ہوتے ہیں اور خصوصیت کے ساتھ دوبارہ ایمان کو دنیا میں قائم کرنے کے لئے ان کو خدا تعالیٰ کی طرف سے نمائندہ بنایا جاتا ہے وہ ایسا وقت ہوتا ہے کہ دنیا کی اکثریت اس شرک میں مبتلا ہو چکی ہوتی ہے.اس لئے وہ لوگ انکار کرتے ہیں.وہ دیکھ ہی نہیں سکتے اس موحد کامل کو وہ اس کی بات کو سنتے بھی ہیں تو سمجھ نہیں سکتے اور ان کے دل اس روحانی دل سے دور ہو چکے ہوتے ہیں جو

Page 864

خطبات طاہر جلد ۶ 860 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء خدا تعالیٰ کی طرف سے پیدا کیا جاتا ہے ان کے اندر کوئی ہم آہنگی نہیں ہوتی ان کی Wave Length بدل چکی ہوتی ہیں ان کے مزاج بدل چکے ہوتے ہیں ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے:.سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَمْ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ (البقره (۷) کہ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے برابر ہو جاتا ہے خواہ تم ان کو ڈراؤ خواہ نہ ڈراؤ یہ کبھی ایمان نہیں لائیں گے.اس لئے نہ ایمان لانے والے در حقیقت اپنے نفس کی عبادت کرنے والے لوگ ہیں اور ان کی زندگی کے عام پہلو جو ہیں ان میں وہ عبادت کھل کر نظر آنے لگ جاتی ہے.جس دور کو آپ مادہ پرستی کا دور کہتے ہیں نفسانی خواہشات کی پیروی کا دور کہتے ہیں دنیا طلبی کا دور کہتے ہیں.یہ جب اندرونی شرک پھوٹ کر منظر پر ابھر آتا ہے اس وقت ایسی سوسائٹی پیدا ہوتی ہے اور یہ سوسائٹی کی انتہائی مذلت کی حالت ہے لیکن جیسا کہ آپ غور کر کے دیکھیں گے اس کا آغا ز دلوں کے شرک سے ہوا تھا مخفی شرک سے یعنی اور تمناؤں کو اہمیت دینے کے نتیجے میں رفتہ رفتہ خدا کی بجائے دوسرے خدا آپ کے دل نے گھڑنے شروع کئے.اس لئے مومن کے لئے کوئی بھی مقام اس لحاظ سے محفوظ نہیں ہے کہ وہ سمجھ لے کہ اب میں توحید میں کامل ہو گیا ہوں تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ڈرتے ڈرتے زندگی بسر کرنی چاہئے.تبھی قرآن کریم تقویٰ کے اوپر اتنا زور دیتا ہے اور بار بار زور دیتا ہے.تقویٰ ڈر کا نام ہے، خوف کا نام ہے مگروہ خوف ہے خدا کی رضا کھو دینے کا خوف یا جو رفعتیں خدا کی طرف سے نصیب ہوئی ہیں وہ رفعتیں کھو دینے کا خوف ، بلندی سے گرنے کا خوف اس کا نام تقویٰ ہے.پس اگر خدا کی طرف حرکت کرنا بلندی کی طرف حرکت کرنا ہے تو اس بلندی کی ہر منزل پر گرنے کا خوف بھی انسان کو لاحق رہتا ہے اور جو خوف سے مستغنی ہو جائے اس کے لئے ٹھوکر کے امکانات زیادہ ہو جاتے ہیں.اس لئے ہر احمدی کو خصوصیت کے ساتھ اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ وہ محض اپنے اقرار توحید سے موحد نہیں بن گیا اور اگر اس اقرار نے اس کو مواحدین کی صف میں داخل کر بھی دیا تھا تو اس اقرار کے بعد اس کی اصل لڑائی شیطان سے شروع ہوئی ہے.یہ منہ کا اقرار فتح کا شادیانہ نہیں ہے، یہ منہ کا اقرار اعلان جنگ کا رنگل ہے.جو شخص حقیقۂ توحید کا اقرار کرتا ہے وہ ایک میدان جنگ میں داخل ہو رہا ہے اور پھر اس کی تمام عمر ایک عظیم مجاہدہ میں صرف ہوتی ہے

Page 865

خطبات طاہر جلد ۶ 861 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء اور ساری زندگی شیطان کے ساتھ اس کی اس بات پر لڑائی رہتی ہے جو ہر پہلو سے انسان کی توحید پر حملے کرتا ہے چھپ کر بھی ظاہری طور پر بھی کئی طرح کے بھیس بدل کر اور بظاہر ہر پہلو سے اس سے لڑائی کرتا ہے اور یہ لڑائی مومن جیت نہیں سکتا جب تک خدا سے اس بارے میں مدد نہ مانگتار ہے.چنانچہ سورۃ فاتحہ میں جو دعا کی جان ہمیں سکھائی یعنی:.إيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتح : ۵) اس کا یہی مطلب ہے.ہر لمحہ انسان اپنی عبادت کے لئے یعنی عبادت کے خلوص کے لئے اس دعویٰ کے اثبات کے لئے وہ خدا کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کرتا خدا کا محتاج رہتا ہے اور خدا کی مدد کے سوا شیطان سے یہ جنگ نہیں جیتی جاسکتی.اس لئے اپنی عبادت کی حفاظت کریں اس کو ہر قسم کے شرک سے پاک کریں اور قرآن کریم نے جو یہ فرمایا عبادت کی تعریف میں :.مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَ يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكُوةَ (البين: (٦) ان شرطوں کو پورا کرنے کی کوشش کریں اپنے دین کو خدا کے لئے خالص کریں اور مختفاء میلان ہمیشہ خدا کی طرف رکھیں.ایسی حالت میں کہ جب گریں خدا کی طرف گریں دوسری طرف نہ گریں.ایسی زندگی کا میلان جس کا ہو جائے جس کا دل خالص ہو جائے وہ اس بات کا اہل ہوتا ہے کہ نماز کو قائم کرے.چنانچہ فرمایا مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكوۃ ایسے لوگوں کی نمازیں نمازیں ہو جاتی ہیں، ایسے لوگوں کی زکوۃ زکوۃ بن جاتی ہے اور خدا کے حضور اس کی نیکیاں قبول کی جاتی ہیں.پس عبادت کی حفاظت سب سے اہم فریضہ ہے اور عبادت سے شرک کی بیخ کنی ایک مسلسل جد و جہد کا نام ہے.یہ خطبہ سننے کے بعد اگر آپ اپنی نمازوں اور عبادت کی حالت پر غور کریں گے تو آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ ان نمازوں پر اس وقت حملہ ہورہا ہے ، آپ کو پتا نہیں تھا کہ ان پر حملہ ہورہا ہے، بہت سی نمازوں میں چاروں طرف سے شیطان حملہ کر رہا ہے اور نمازوں کو ضائع کرتا چلا جا رہا ہے.اس لئے جب تک آپ کو احساس نہ ہو گا حملہ ہو گیا ہے اس وقت تک آپ لڑائی کس طرح کر سکتے ہیں.اس لئے ہر نماز جو احمدی پڑھتا ہے اسے غفلت کی حالت میں نہ پڑھے، نیم خوابیدہ حالت میں بھی نہ پڑھے یعنی کبھی آنکھ کھل گئی اور کبھی آنکھ لگ گئی.ایسی نمازیں بھی ہوتی

Page 866

خطبات طاہر جلد ۶ 862 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء ہیں.پھر ایسی نمازیں بھی ہوتی ہیں جن میں کبھی کبھی اونگھ آتی ہے اور مسلسل ایسی جدو جہد ہوتی ہے جس میں انسان اپنی نمازیں پاک کرنے کی کوشش کرتا ہے، بیدار کرنے کی کوشش کرتا ہے، کھڑی کرنے کی کوشش کرتا ہے لیکن شیطان ہر پہلو سے اسے ناکام بنانے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے.چنانچہ وہ نمازیں جن میں بعض اوقات انسان کامل طور پر خدا کے جلال اور جمال کے جلوے کے نیچے آیا ہوا ہوتا ہے ان نمازوں کی کیفیت عام روز مرہ کی نماز میں جواکثر لڑائیوں میں ہی صرف ہو جاتی ہیں ان سے بالکل مختلف ہوتی ہے.چنانچہ آپ میں سے ہر ایک کو یہ تجربہ ہو گا کہ بعض ایسی نمازیں ہیں جو یادگار بن جاتی ہیں.انسان سوچتا ہے ہاں اس نماز کا بڑا لطف آیا تھا اور جب آپ غور کرتے ہیں تجزیہ کرتے ہیں ، تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ لطف اس لئے آیا تھا اس نماز میں جب آپ نے خدا کا نام لیا آپ کا دل لذت سے بھر گیا تھا، اس نماز میں کوئی غیر کی پرواہ نہیں رہی تھی اس نماز میں یوں لگتا تھا جیسے خدا کی جھولی میں آ کے بیٹھ گئے ہوں امن ہے تو بس یہی ہے باقی ہر طرف خطرہ اور فتنہ ہے.وہی نماز ہے جو ایک موحد کی دراصل نماز ہے.یہی وہ نماز ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے کو آغاز سے آخر تک ہمیشہ نصیب ہوئی اور آپ کے فیض سے آپ کے صحابہ کو بھی بارہا نصیب رہی اور آپ ہی کے فیض سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانے میں نصیب ہوئی اور آپ کے فیض سے پھر آپ کے صحابہ کو نصیب ہوئی.اس نماز کو زندہ کرنا اور نماز کو زندہ رکھنا تو حید ہے.توحید کی جان عبادت ہے اور ایالت کے لفظ میں اس عبادت کو کھول کر بیان کر دیا کہ وہ عبادت جو ہر غیر اللہ کے خیال سے پاک ہے صرف اور صرف خدا کے لئے وہی عبادت ہے اس کے سوا کوئی عبادت نہیں ہے اور اس کے ذریعے خدا کی مدد مانگنا انتہائی ضروری ہے اس لئے خوب اچھی طرح ان باتوں سے باخبر ہوکر باشعور طور پر اپنی نمازوں کی کیفیت کی حفاظت کریں اور کوشش کرتے رہیں کہ نماز میں جولذت کے لمحات ہیں وہ زیادہ ہونے شروع ہو جائیں اور غفلت اور بوریت کے جو لمحات ہیں وہ نسبتا کم ہونے شروع ہو جا ئیں.یہ کہنا تو آسان ہے لیکن عملاً بے انتہا مشکل کام ہے بہت ہی عظیم جدوجہد ہے ساری زندگی کی جدوجہد کا خلاصہ ہے یہ جد و جہد ، سارے جہادوں کی جان ہے یہ جہاد.اس لئے بار بار یاد دہانی کی بھی ضرورت پڑتی ہے بعض دفعہ یاد کرایا جاتا ہے پھر کچھ عرصے کے لئے لوگ متوجہ ہو جاتے ہیں پھر رفتہ رفتہ غفلت

Page 867

خطبات طاہر جلد ۶ کا شکار ہو جاتے ہیں.863 خطبہ جمعہ ۱۸؍ دسمبر ۱۹۸۷ء تو توحید تو ہماری زندگی ہے یہ جو پاکستان میں ہمارے احمدی بھائی تو حید کی حفاظت کے لئے بے شمار قربانیاں دے رہے ہیں.کئی دفعہ مجھے باہر سے لوگوں کے خط آتے ہیں کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم بھی توحید کے لئے کچھ کریں تو میں ان کو بتاتا ہوں کہ توحید کے لئے تو ہر جگہ میدان کھلے ہوئے ہیں اور میدان کارزار گرم ہیں آپ کے نفوس کے اندر یہ لڑائیاں ہو رہی ہیں.صرف شیطان کے ظاہری مظاہر نہیں ہیں جن کے خلاف خدا کے مومن اور موحد بندے جن کے ساتھ نبرد آزما ہیں بلکہ ہر سینے میں ایک جہاد کا میدان کھلا ہوا ہے اور بعض صورتوں میں یہ جہاد بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس ظاہری جہاد سے بھی.اس لئے آپ اپنے اس جہاد سے باخبر ہو جائیں ہے جاری ہے آپ کے دلوں میں لیکن جتنی توجہ ہونی چاہئے جس طرح حفاظت ہونی چاہئے تو حید کی بالعموم ہم اس سے غافل رہتے ہیں اور اس کا حق ادا نہیں کرتے.اللہ سے مدد مانگتے ہوئے خدا کے موحد بننے کی کوشش کریں کیونکہ جو موحد ہو جائے اس پر کبھی موت نہیں آیا کرتی.سچے مواحد پر کوئی دنیا کی طاقت ہاتھ نہیں ڈال سکتی اس پر ہاتھ ڈالنا خدا پر ہاتھ ڈالنا بن جایا کرتا ہے.موحد سے زیادہ نا قابل تسخیر دنیا میں کوئی چیز نہیں اس لئے اگر آپ نے ناقابل تسخیر بنا ہے اگر تمام دنیا پر آپ نے غالب آنا ہے تو موحد بنے بغیر ایسا ہو نہیں سکتا اور جب آپ موحد بن جائیں گے تو یہ خدا کا کام ہوگا کہ آپ کی حفاظت کرے اور آپ کو لے کر آگے بڑھتا چلا جائے گا، ترقی پر ترقی آپ کے نصیب میں لکھی جائے گی کوئی نہیں ہے جو نصیب کو مٹا سکے.

Page 868

Page 869

خطبات طاہر جلد ۶ 865 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء ومن کا غم اس کے ارادے اور حو صلے میں کمی نہیں کرتا بلکہ مہمیز لگاتا ہے.وقف جدید کے سالِ نو کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: سال 1987 ء اب قریب الاختتام ہے.چند دن باقی رہ گئے ہیں اور ان دنوں میں ہم داخل ہو رہے ہیں جن دنوں میں ہمارا سالانہ جلسہ مرکز میں ہوا کرتا تھا یعنی پہلے قادیان میں اور پھر ربوہ میں.قادیان میں تو اب بھی اسی طریق پر وہ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے.چنانچہ حال ہی میں جو وہاں سے اطلاع ملی ہے باوجود اس کے کہ پنجاب کے عمومی حالات بہت قابل فکر ہیں اور امن وامان کی صورت تسلی بخش نہیں اور باوجود اس کے کہ حکومت یعنی حکومت ہندوستان ان حالات کے پیش نظر نہ کہ کسی مذہبی جماعت کو دبانے کی خاطر ان علاقوں میں لوگوں کو جانے کی عموما اجازت نہیں دیتی.خدا تعالیٰ کے فضل سے جلسہ سالانہ قادیان نہایت ہی کامیاب رہا اور دور دور سے لوگ وہاں تشریف لائے اور چند دن نہایت ہی اعلیٰ پاکیزہ روحانی ماحول میں انہوں نے تربیت پاتے ہوئے اور تربیت کرتے ہوئے وقت گزارا اور غیر معمولی طور پر وہاں دعاؤں کی بھی توفیق ملی.جہاں تک پاکستان میں ہونے والے جلسہ سالانہ کا تعلق ہے جیسا کہ آپ جانتے ہیں کچھ عرصے سے حکومت نے اس جلسے کی اجازت روک رکھی ہے اور طبعی بات ہے کہ اس موقع پر جماعت پاکستان کے دل غیر معمولی طور پر درد سے بھر جاتے ہیں اور جوں جوں جلسے کا وقت قریب آتا ہے ان

Page 870

خطبات طاہر جلد ۶ 866 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء کے خطوط میں یہ پہلو نمایاں ہوتا چلا جاتا ہے اور بے چینی اور بے قراری بڑھتی چلی جاتی ہے.چنانچہ امسال بھی دسمبر بلکہ اس سے پہلے سے ہی خطوط میں یہ پہلو بڑا نمایاں ابھرنا شروع ہوا کہ جلسے کے دن قریب آرہے ہیں ہمیں بہت اس کی تکلیف ہے.بعض دوستوں نے تو بہت ہی دردناک خطوط لکھے اور عموما ساری دنیا میں بھی یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم ایک بہت ہی اہم بنیادی حق سے محروم کئے گئے ہیں.جہاں تک غم کے پیدا ہونے کا تعلق ہے یہ تو ایک طبعی بات ہے اور اس سے روکا نہیں جاسکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی میں یہ بھی طبعی حالات کے تابع غم کے اثر کے نیچے آتے تھے لیکن غم آپ پر قبضہ نہیں کیا کرتا تھا اور رغم آپ کی ہمت میں کمی پیدا نہیں کیا کرتا تھا.پس غم کا پیدا ہونا یا آنکھوں کا نمناک ہو جانا یا آنسوؤں کا بہنا اس وقت تک اچھی علامت ہے جب تک اس کے نتیجے میں ہمت میں کمی نہ آئے اور حوصلوں کا سر نہ جھکے.اس لئے جس چیز کو عورتوں کا رونا کہا جاتا ہے اس رونے میں اور باہمت مردوں کے رونے میں بڑا فرق ہے.عورتوں کا رونا تو ایک محاورہ ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ عورتوں میں بھی بڑی بڑی ہمت والی عورتیں ہوا کرتی ہیں جن کے رونے میں کمزوری اور شکست کی کوئی علامت نہیں ہوتی اور ایسے ایسے مرد بھی ہوا کرتے ہیں جن کا رونامحاروۃ واقعہ عورتوں کا رونا ہوتا ہے.چنانچہ پین کا آخری بدنصیب بادشاہ، مسلمان بادشاہ جب سپین سے جدا ہو رہا تھا اور سپین میں اس کی اور مسلمانوں کی شکست زیادہ تر اسی کی وجہ سے ہوئی تھی وہ اس کا ذمہ دار تھا.تو جب اس نے پہاڑی کی آخری چوٹی سے مرا کو کی طرف جاتے ہوئے مڑ کر دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.اس وقت اس کی ماں نے اس کو کہا کہ جس چیز کو تمہاری تلوار روک نہیں سکی اب آنسو بہا کر اپنی ذلت کا اظہار کیوں کر رہے ہو، تمہارے آنسو وہ چیز تمہیں واپس نہیں دے سکیں گے.تو وہ عورت تھی اور اس کو رونا اور نوعیت کا رونا تھاوہ مرد تھا مگر اس کا رونا اور نوعیت کا رونا تھا.پس مومن کا غم اس کے ارادوں اور حوصلوں میں کمی پیدا کرنے کے لئے نہیں آیا کرتا بلکہ نئی مہمیز لگاتا ہے.جس طرح گھوڑا جب تھکنے لگے تو سوار اسے مہمیز لگاتا ہے وہ اچانک پھر دوبارہ مستعدی کے ساتھ اپنا سفر پہلی سی شان اور تیز رفتاری کے ساتھ شروع کر دیتا ہے.اسی طرح غم کے مواقع مومن کے لئے مہمیز لگانے کے لئے آیا کرتے ہیں اور اسی پہلو سے جماعت سے توقع ہے اور اب تک جماعت نے جس رنگ میں برے حالات کا مقابلہ کیا ہے خدا کے فضل سے میں یہ یقین سے

Page 871

خطبات طاہر جلد ۶ 867 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء کہ سکتا ہوں کہ جماعت اسی نوع کی جماعت ہے جس کا قرآن کریم نے رجائی کے لفظ سے اظہار فرمایا گیا ہے رِجَالُ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (النور: ۳۸).یہ وہ مرد ہیں جو کسی چیز کے نتیجے میں بھی خدا کے ذکر سے غافل نہیں ہوتا.مصروفیتیں ان کو بھی ہیں دنیا کی لیکن مصروفیتیں ان پر غالب نہیں آتیں.دوسری بھی کئی جگہوں پر قرآن کریم نے مومنوں کی شان رِجَالُ لفظ کے نیچے بیان فرمائی ہے.پس جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے رِجَالی کی جماعت ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے.پس وہ لوگ جو غم کا اظہار کرتے ہیں ان میں سے بعض اگر غم سے مغلوب ہیں یا طبیعت میں کمزوری پیدا ہوتی ہے تو میں ان کو متنبہ کرتا ہوں کہ ہرگز یہ مومن کی شان نہیں ہے.مومن کی آنکھوں کا پانی تو فولاد کی آب کی طرح ہوا کرتا ہے.وہ کیچڑ پر برس کر کیچڑ کو نرم کرنے کی طرح نہیں بلکہ وہ آب جسے فولاد کی آب کہا جاتا ہے اسے اور زیادہ قوت بخشنے والا پانی ہوا کرتا ہے اور زیادہ پہلے کی نسبت اس میں طاقت اور مقابلے کی شدت پیدا کر دیتا ہے.جہاں تک وقت کے بدلنے کا تعلق ہے سالوں کے بدلنے کا تعلق ہے یہ تو ایک جاری وساری نظام ہے اور اگر چہ ہم نے مختلف جگہوں پر سنگ ہائے میل لگا دئے ہیں جو خدا تعالیٰ نے ہماری خاطر یہ سنگ ہائے میل لگائے ہیں تا کہ ہم اپنے اوقات کو مختلف حصوں میں تقسیم کر کے اپنے حالات کا تقابلی جائزہ لیتے رہیں، یہ معلوم کرتے رہیں کہ ہم کل کہاں تھے آج کہاں ہیں.اسی مقصد سے دنیا کی سڑکوں پر بھی میل لگائے جاتے ہیں، اسی مقصد سے قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے وقت کی راہ پر بھی میں لگادئے ہیں اور یہ علامتیں کھڑی کر دی ہیں جس کو ہم سال کا آنا اور جانا کہتے ہیں.مہینوں کا گزرنا کہتے ہیں یا ہفتوں کا یا روز و شب کا ادلنا بدلنا کہتے ہیں.پس اس لحاظ سے تو اگر چہ یہ سال ختم ہو رہا ہے لیکن سفر تو بلا روک ٹوک جاری رہے گا اور یہ حد بندیاں جس مقصد کی خاطر لگائی گئی ہیں اس کے پیش نظر ہمیں جائزہ ضرور لینا چاہئے کس حد تک ہمارا سال گز را اور کس حد تک ہم اگلے سال میں داخل ہونے سے پہلے اس سال سے سبق حاصل کر سکے ہیں.سال جیسا کہ میں نے کہا ہے اچھے بھی آیا کرتے ہیں اور برے بھی آیا کرتے ہیں ، آسانی والے بھی اور سختی والے بھی.قرآن کریم سے پتا چلتا ہے کہ مصر میں سات سال بہت ہی آسانی کے

Page 872

خطبات طاہر جلد ۶ 868 خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء آئے پھر سات سال بہت سختی کے آئے پھر خدا تعالیٰ نے اس سختی کو بدل دیا اور ایک آسانی کا ایسا سال پیدا فرمایا جس نے گزشتہ سارے غم بھلا دئیے.اس وقت برے سالوں کے وقت مومن اور غیر مومن میں ایک فرق دکھایا گیا.برے سال آنے سے پہلے ہی خدا کے ایک مومن بندے کو، خدا کے ایک مقدس بندے کو یہ بتا دیا گیا کہ برے سالوں کو مومنوں پر غلبہ عطا نہیں کیا جاتا بلکہ مومنوں کی برکت سے برے سال اچھے سالوں میں تبدیل کئے جاتے ہیں.اس لئے بجائے اس کے کہ تم اس رؤیا سے ڈرواور یہ محسوس کرو کہ بہت سخت دن آنے والے ہیں تم اپنی کمر ہمت کو کسو کیونکہ تمہارے ذریعے دنیا کے حالات تبدیل کئے جائیں گے اور ڈوبتوں کو بچایا جائے گا اور فاقہ کشوں کے رزق کا سامان کیا جائے گا.چنانچہ اگر حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام نہ ہوتے یا خدا آپ کو اس غرض سے استعمال نہ فرماتا تو وہ بختی کے سال تمام Egypt یا مصر اور اس کے گردو پیش میں جہاں مصر کا قبضہ تھا ان کے لئے انتہائی ہلاکت کے سال بن جاتے.یہی خدا کا سلوک ہر حال میں، ہر تبدیلی میں مومن کے ساتھ ہوا کرتا ہے.دن بھی آتا ہے مومن پر اور رات بھی آتی ہے لیکن راتیں اس کے پاؤں روک نہیں لیا کرتیں.ہاں رفتار میں ضرور فرق پڑ جاتا ہے لیکن وہ رفتار رک کر ایک مقام پر کھڑی نہیں ہو جایا کرتی یا واپس نہیں لوٹتی اور یہ نمایاں فرق ہے جو قرآن کریم نے خوب اچھی طرح مومن اور منافق ، مومن اور کا فر میں ظاہر فرما دیا.جہاں تک منافقین کا تعلق ہے منافق کا لفظ قرآنی محاورے کے مطابق ان معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے جسے ہم اردو میں منافق کہتے ہیں اور کافروں کے لئے بھی لفظ منافق استعمال ہوا ہے کیونکہ منافق در حقیقت کا فر ہوتا ہے اور ظاہر امسلمان بن رہا ہوتا ہے.تو فرمایا منافقوں کے متعلق کہ إِذَا أَظْلَمَ عَلَيْهِمْ قَامُوا ( البقرہ:۲۱) کہ مومن کا سفر تو دن کو بھی جاری رہتا ہے اور رات کو بھی جاری رہتا ہے لیکن منافقوں کا یہ حال ہے کہ جب رات آتی ہے تو رک جاتے ہیں جب روشنی ہوتی ہے تو چل پڑتے ہیں یعنی وہ وقت کے غلام ہوا کرتے ہیں وقت کے آقا نہیں ہوا کرتے.چنانچہ مومن کو خدا تعالیٰ ابوالوقت وقت کے طور پر پیش کرتا ہے اور کافر کو ابن الوقت کے وقت کے طور پر پیش کرتا ہے.مومن اپنے وقت کو اپنی غلامی میں تبدیل کرتا ہے اس سے فائدے اٹھاتا ہے اور کا فروقت کے دھارے پر خود بخود بہتا چلا جاتا ہے اس کے مقدر میں وقت کے دھارے

Page 873

خطبات طاہر جلد ۶ 869 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء کا رخ تبدیل کرنا نہیں ہوا کرتا.اس لئے جب اچھے وقت کافروں پر آتے ہیں یا خدا کے دشمنوں پر آتے ہیں تو آپ ان کو بڑے زور سے شور مچاتے ہوئے بڑی تیزی کے ساتھ آگے کی طرف بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں گویا ایک سیلاب آ گیا ہے اور جب دن بدلتے ہیں اور ان کے لئے جیسا کہ خدا نے مقدر فرما رکھا ہے راتیں آتی ہیں تو ان کی آواز میں غائب ہو جاتی ہیں منظر سے.ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہاں کبھی کوئی سیلاب تھا ہی نہیں.جیسے افریقہ کے ایک حصے میں جب سخت دن آتے ہیں تپش کے گرمی کا موسم آتا ہے تو ہر طرف پانی سوکھ جاتا ہے اور اس وقت جب جان منظر سے غائب ہونے لگتی ہیں یعنی یوں لگتا ہے کہ زندگی ختم ہو جائے گی اس وقت ایک سیلاب اٹھتا ہے، بڑی دور سے ایک سیلاب آتا ہے جو اچانک دیکھتے دیکھتے صحرا کے منظر تبدیل کر دیتا ہے.صحرائے کالا ہیری کے جنوب کی طرف غالباً یہ علاقہ ہے جہاں اس قسم کا واقعہ ہر سال ہوتا ہے اور دور دور سے جانور اپنی پیاس بجھانے کے لئے اور زندگی بچانے کی خاطر ایک طبعی فطری اشارے کے طور پر اس طرف بھاگتے ہیں.تو سیلاب تو آجاتے ہیں ہر جگہ صحراؤں میں بھی سیلاب آجایا کرتے ہیں لیکن صحراؤں کے سیلاب ہمیشہ کے لئے صحرا کے منظر نہیں بدل سکتے.وہ آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں زندگی ان کے ساتھ آتی ہے اور ان کے ساتھ ہی لوٹ بھی جایا کرتی ہے لیکن مومن کی مثال خدا تعالیٰ نے اور طرح سے دی ہے.فرمایا ہے ان کے لئے ، مومنوں کا تو یہ حال ہے کہ جیسے ایک ایسی زمین کو جو نہایت ہی شادابی کی طاقت رکھنے والی ، نہایت طاقتور زمین ہو اور پانی کو اپنے اندر رو کنا جانتی ہو اس کے اوپر اگر موسلا دھار بارش بھی برسے تو زمین کو بہا کر نہیں لے جاتی بلکہ اس کی روئیدگی میں نئی شان پیدا کر دیتی ہے، نئی قوت پیدا کر دیتی ہے.اس کے مقابل پر کافر کی روئیدگی سطحی ہوا کرتی ہے وہ نظر آتی ہے دیکھنے میں لیکن وقتی اور عارضی ہوتی ہے، جب تیزی کے ساتھ اس پر بارش برستی ہے تو اس کی بناوٹ کی ظاہری روئیدگی اس کی سرسبزی اور شادابی بارش کے ساتھ بہہ جاتی ہے بسا اوقات اور پھر جب خشک موسم آتا ہے تو پھر تو اس کے مقدر میں رہتا ہی کچھ نہیں.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ مومنوں کی مثال ایسی زمین سے ہے کہ جب بارش برستی ہے تو وہ بہت زیادہ اگاتی ہے اور جب نہیں برستی تو خدا ان کو شبنم سے محروم نہیں کیا کرتا.پس شبنم بھی ان کے لئے کافی ہو جایا کرتی ہے اور اس حالت میں بھی وہ ویرانوں میں تبدیل نہیں ہوا کرتی زمین بلکہ سرسبز و شاداب رہتی ہے.اس کی زندگی قائم رہتی ہے.

Page 874

خطبات طاہر جلد ۶ 870 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء پس جماعت احمدیہ کی تقریبا سو سالہ تاریخ ہمیں یہی بتا رہی ہے کہ جس طرح دور اول میں حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے غلاموں کے حالات تھے جن کو رجائی فرمایا گیا ان پر روشنیوں کے وقت بھی آئے اور اندھیروں کے وقت بھی آئے ان پر ، نرمی کے وقت بھی آئے ان پر بختی کے وقت بھی آئے لیکن ہر حال میں وہ ہمیشہ آگے بڑھتے رہے.کبھی کچھ تکلیف کے ساتھ اور دکھ کے ساتھ چھوٹے قدموں سے کبھی بڑی شان کے ساتھ تیز قدموں کے ساتھ دوڑتے ہوئے آگے بڑھے لیکن ایک بھی دن ایسا حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں کی زندگی میں نہیں آیا جب آپ کے قدم رک گئے ہوں یا روک دیئے گئے ہوں اور آپ کو پیچھے ہٹنا پڑا ہو.ایک بھی رات ایسی نہیں آئی جس نے آپ کو زندگیوں کو نور سے محروم کر دیا ہو.بارش کی مثال میں شبنم فرمایا گیا ہے، رات کی مثال میں ستاروں کو قرآن کریم پیش فرماتا ہے کہ اگر سورج کی روشنی سے کوئی محروم ہو جائیں یا چاند کی روشنی سے بھی محروم ہو جائیں تو ستارے ان کی رہنمائی فرماتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے بھی قرآن کریم میں ستاروں کی روشنی کے ذکر کو روحانی معنوں میں پیش فرمایا ہے.چنانچہ فرمایا اصحابی کا النجوم بایھم اقتديتم اهتديتم ( تحفة الطالب جوا صفحہ ۵۶۱) میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں اگر میں بھی نہ ہوں اور مجھ سے نور پانے والے چاند بھی باقی نہ رہیں دوسرے کسی ایک جگہ میرا کوئی صحابی موجود ہو تو وہ تمہارے لئے ستاروں کی طرح روشنی پیدا کرنے والا ہو گا.چنانچہ مومنوں کی عجیب حالت ہے عجیب شان ہے کہ خشک سالی میں خدا ان کے لئے شبنم برسا دیتا ہے اسی پر زندہ رہتے ہیں، اسی پہ آگے بڑھنے کی طاقت پا جاتے ہیں اور اندھیروں کے وقت خود ان کو ستاروں کی روشنی میسر آجاتی ہے کسی حالت میں بھی کلیہ یہ فوائد سے اور ترقیات سے محروم نہیں کئے جاتے.چنانچہ جماعت کی تاریخ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپ اس کے زیر و بم کا مطالعہ کریں کئی بڑے بڑے خطرناک وقت آئے ہیں جبکہ دشمن سمجھتا تھا کہ وہ جماعت کو ہلاک کر دے گا صفحہ ہستی سے اس کی صف لپیٹ دے گا اس وقت بھی جماعت ترقی کرتی رہی.مقابلہ چند سختی کے دنوں میں کچھ رفتار میں کمی دکھائی ضرور دی لیکن خدا تعالیٰ نے اس کمی کو ہمیشہ دو طریق سے پورا کیا ہے.وہ کمی چونکہ ایک طبعی فطری کمزوری کے نتیجے میں نہیں تھی بلکہ ایسے حالات کی بنا پر تھی جن پر

Page 875

خطبات طاہر جلد ۶ 871 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء براه راست وہ عبور حاصل نہیں کر سکتے تھے اس لئے ان کی بڑھنے کی قوت اس عرصے میں جمع ہوتی رہی ہے.چنانچہ جیسا کہ کسی نے کہا ہے:.پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے رکتی ہے میری طبع تو ہوتی ہے رواں اور (دیوان غالب صفحہ : ۱۱۷) خدا کے بندوں کی طبعیں جب روک دی جاتی ہیں تو نالے تو پیدا ہونے بند نہیں ہوا کرتے.جو مومنوں کو خدا تعالیٰ نے طبعی نشو و نما کی قوتیں عطا فرمائی ہیں وہ تو نہیں مر جایا کرتی.اس لئے کچھ نہ کچھ زور لگا کر وہ اندرونی سیلاب کہیں سے تو رستے نکالتا ہی رہتا ہے لیکن پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ ساری روکیں تو ڑ دی جاتی ہیں اور وہ پہلی کمی کو بڑی شان کے ساتھ پورا کرتے ہوئے بڑی قوت کے ساتھ پھر آگے بڑھتے ہیں.دوسرا ان کے ساتھ خدا تعالیٰ یہ سلوک فرماتا ہے کہ ساری دنیا میں ہر جگہ ان کے لئے ایک جیسا وقت نہیں ہوا کرتا.اسی کے ساتھ ہجرت کے مضمون کا تعلق ہے.بعض جگہ ان کے لئے نسبتا کمزوری کا وقت آتا ہے تو بعض دوسری جگہوں پر غیر معمولی طور پر ان کے لئے آگے بڑھنے اور نشو ونما کے وقت آجاتے ہیں اور ایک جگہ کی جو کمی ہے وہ سینکڑوں دوسری جگہوں سے پوری کر دی جاتی ہے اور مجموعی طور پر خزاں میں بھی وہ بہار کا منظر دکھاتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا وہ شعر جو مجھے بہت ہی پیارا ہے بارہا میں اس کو آپ کے سامنے پڑھ چکا ہوں اس کا یہ ایک مفہوم ہے جس کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ:.بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں (در ثمین صفحه: ۵۰) بعض مقامات پر وقتی طور پر آپ یہ شعر صادق ہوتا نہیں دیکھیں گے لیکن اس مضمون کو کلیۂ عالمی سطح پر آپ سمجھیں تو پھر آپ کو معلوم ہوگا کہ مومن کے او پر خزاں آہی نہیں سکتی.جب خزاں آتی بھی ہے تو ہزار دوسری جگہوں پر خدا تعالیٰ بہار کے مناظر پیدا کر کے اس خزاں کے اثر کو زائل فرما دیا کرتا ہے، اس کی تلافی فرما دیتا ہے اور جہاں خزاں آتی بھی ہے وہاں بھی نئی نئی کونپلیں پھوٹا کرتی ہیں.چنانچہ ان دنوں پاکستان میں جس قسم کے حالات ہیں اور جس قسم کی ظالمانہ کاروائیاں ہو

Page 876

خطبات طاہر جلد ۶ 872 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء رہی ہیں جماعت کو روکنے کے لئے ان میں سے جلسے کا روکنا بھی ایک کاروائی ہے ہمارے لٹریچر کو کلی بند کر دینا بھی ایک کا روائی ہے، ہمارے تمام اخبارات اور رسائل کے گلہ گھونٹ دینا بھی ایک کاروائی ہے، ہمیں تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دینا یہاں تک کہ کلمہ لا اله الا الله محمد رسول الله پڑھنے کے بنیادی انسانی حق سے بھی محروم کر دینے کی کوشش کرنا یہ ایک کاروائی ہے.ان حالات میں جبکہ اس کے علاوہ بھی دنیاوی ظالمانہ کاروائیاں بھی جاری ہوں قتل و غارت بھی ، بنیادی حقوق یعنی نوکریوں میں حقوق سے محروم کرنا، طلبہ کو ان کے حقوق سے محروم کر دینا ، عام روز مرہ کی زندگی دوبھر بنا دینا یہ بھی ساتھ ساتھ جاری ہو تو کون سوچ سکتا ہے کہ ایسی جماعت ایسے خطرناک حالات میں ترقی کر سکتی ہے؟ اگر یہ جھوٹ ہو، اگر یہ فریب ہے تو ناممکن ہے کہ ایسے خطرناک حالات میں کوئی جماعت بھی پنپ سکے کجا یہ کہ ترقی کرتی رہے، کوئی جماعت سانس لے سکے اور زندہ رہے یہ بھی تعجب کی بات ہے اور اس جماعت کو مارنے کی خاطر تباہ کرنے کے لئے کلیہ صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے لئے یہ کاروائیاں کی گئی تھیں اور کی جارہی ہیں.اور اس کا نتیجہ ؟ جماعت اپنے اخلاص میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، اپنی عبادتوں میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، اپنے حوصلوں میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے، اپنے ایمان اور یقین محکم میں پہلے سے زیادہ ترقی کر چکی ہے.ہر قربانی کے میدان میں جس قربانی کے میدان کی طرف ان کو بلایا جاتا ہے وہ پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ پہلے سے زیادہ سعادت قلبی کے ساتھ لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں.ایسی زندہ جماعت کو جسے قرآن کریم رجائی کی جماعت فرماتا ہے کون اس دنیا میں جو جو مار سکے؟ ناممکن ہے اور پھر باقی تمام دنیا کی جماعتوں پر جو رونق آئی ہے غیر معمولی طور پر ترقیات ہور ہیں ہیں یہ اسی خزاں کی برکت ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہی وعدوں کے متعلق فرمایا تھا کہ: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں ساری دنیا میں اس خزاں کے صدقے آپ بہار کے مناظر دیکھنے لگے ہیں.یہ زندہ جماعتوں کی علامت ہے اور جن کو خدا سے زندگی ملتی ہے جن کو آسمانی پانی کے ذریعے زندہ کیا جاتا ہے ان کو دنیا کی خشکیاں مار نہیں سکتیں.یہ ایک اٹل قانون ہے جسے آپ کبھی تبدیل ہوتا نہیں دیکھیں گے.اس سال کے آخری خطبے میں اور بعض دفعہ نئے سال کے پہلے خطبے میں وقف جدید کا

Page 877

خطبات طاہر جلد ۶ 873 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء اعلان ہوتا رہا ہے.چنانچہ اس تمہید کے بعد اب میں وقف جدید کے سال نو کا اعلان کرتا ہوں اور جیسا کہ وقف جدید کے کوائف بھی آپ کو بتا ئیں گے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس تحریک کے حالات کا جس اونچ نیچ سے یہ تحریک گزررہی ہے اور اس وقت جس مقام پر پہنچی ہے ان سب حالات کا جائزہ لینے سے قطعی طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بھی ایک زندہ جماعت کی زندہ اور سرسبز شاخ ہے اور اس کی طرف بدنیتی کا تبر نہیں چلایا جا سکتا یعنی یہ ہر حال میں نشو ونما پائے گی اور پاتی رہی ہے اور آگے بڑھتی رہے گی انشاء اللہ تعالی.چنانچہ گزشتہ چند سالوں میں وقف جدید پاکستان کا بجٹ اور وصولی کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتے رہے ہیں اور جب میں نے وقف جدید کو چھوڑا تھا مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں غالباً بارہ تیرہ لاکھ کے قریب بجٹ تھا، تیرہ یا چودہ لاکھ بجٹ تھا اور اب اس تھوڑے سے عرصے میں جو ابتلاؤں کا دور ہے خدا کے فضل سے تقریبا دگنا ہو چکا ہے اور 87ء کا بجٹ ستائیس لاکھ پینتالیس ہزار روپے تھا اور اس وقت تک کی جو وصولی ہے اس میں بھی خدا کے فضل سے نمایاں اضافہ ہے.گزشتہ سال اس وقت تک سترہ لاکھ چوالیس ہزار روپے وصولی تھی اور امسال اس وقت تک ہیں لاکھ ستاسی ہزار روپے وصولی ہے اور چونکہ سال کے آخر پر پرانی روایات اسی طرح قائم ہو چکی ہیں کہ سال کے آخر پر وصولی اکٹھی ملتی ہے یعنی اس کی یہ نسبت نہیں ہوا کرتی کہ ہر مہینے جتنی وصولی ہورہی ہے سال کے آخری مہینے میں بھی اسی طرح ہوگی بلکہ بسا اوقات سال کے آخری ہفتے میں اتنی وصولی ہوتی ہے کہ گزشتہ کئی مہینوں کی وصولی سے بھی بڑھ جاتی ہے اور پھر وصولی کی اطلاعیں جو بعد میں آتی رہتی ہیں اور کچھ بعد میں وصولیاں ہوتی ہیں وہ ملا کر مارچ تک تقریبا یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور بالعموم میں نے دیکھا ہے کہ کم از کم ایک چوتھائی ان آخری دنوں میں وصول ہوتا ہے.اس لئے امید ہے اللہ تعالیٰ سے کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ بجٹ ستائیس لاکھ کا نہ صرف پورا ہوگا بلکہ بفضلہ تعالیٰ وعدوں سے بھی آگے بڑھ جائے گا اور واقعہ ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ ہمارے وعدوں کا نظام ایسا ہے کہ بہت سارے ایسے چندہ ادا کرنے والے جو وعدوں میں شامل نہیں ہو سکتے بعد میں وہ چندہ ادا کر دیتے ہیں اور وعدوں میں شامل نہ ہونا بسا اوقات ایک یقین کے نتیجے میں بھی ہوتا ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے تو دینا ہی دینا ہے کیا فرق پڑتا ہے وعدہ لکھوائیں نہ لکھوائیں اور وہ وعدوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں بے شک

Page 878

خطبات طاہر جلد ۶ 874 خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء بعض دفعہ لکھواتے نہیں لیکن ان کے ذہن میں ایک معین رقم ہوتی ہے کہ ہم نے ضرور خدا کے حضور پیش کرنی ہے اور سال کے ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ ضرور پیش کرتے ہیں.اس لئے وعدوں سے عموما وصولیاں بڑھ جایا کرتی ہیں.یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ جماعت کی وصولی الا ماشاء اللہ ہر سال وعدوں سے آگے بڑھتی رہی ہے اور بجٹ سے آگے بڑھتی رہی ہے.تو اس پہلو سے بڑے امید افزا آپ ہیں.جہاں تک وقف جدید کی کوششوں کا تعلق ہے اور خدمت کا تعلق ہے اس پہلو سے بھی تحریک اپنے فرائض منصبی اچھی طرح ادا کر رہی ہے.بڑے سخت مخالف حالات میں بھی اللہ تعالیٰ اس انجمن کو تو فیق عطا فرما رہا ہے اور اس کی تفاصیل کے بیان کی اس وقت یہاں ضرورت نہیں ہے.جلسہ سالانہ پر بسا اوقات بیان ہوتی رہی ہیں یہ باتیں لیکن اب کچھ عرصہ سے میں نے تفصیل سے ان خدمات کا ذکر صدرانجمن کی اور وقف جدید کی اور دیگر بعض مجالس کی پاکستان کی خدمات کا ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے کیونکہ اس سے بعض لوگوں کو بہت ہی زیادہ تکلیف ہوتی ہے.اتنی تکلیف ہوتی ہے کہ وہ جل بھن جاتے ہیں اور پھر کوشش کرتے ہیں کہ ہر نیک کام کی کوشش کی راہ میں وہ روڑے اٹکائیں اور نیک راہ پر چلنے والوں پر روڑے برسائیں.تو بے وجہ بیچارے عام انسانوں کو تکلیف پہنچانا خواہ خواہ اور اس کے نتیجے میں بعض معصوموں کی تکلیف کا موجب بنا یہ کوئی حکمت کی بات نہیں ہے.اس لئے جہاں جہاں بعض بے بسی کے سے حالات ہیں وہاں میں عمداً ان خدا تعالیٰ کے فضلوں کا بہت تفصیل سے ذکر نہیں کرتا بلکہ عموما خدا کے فضلوں کا ذکر کر دیتا ہوں.عمومی فضل تو ہوتے ہی رہیں گے وہ تو تکلیف ہو کسی کو نہ ہو وہ روک ہی نہیں سکتا لیکن تفصیل کے ساتھ فلاں جگہ یہ ہورہا ہے اور فلاں جگہ یہ ہو رہا ہے یہ بتانے سے بعض دفعہ پھر نقصانات کے خدشات پیدا ہو جاتے ہیں یعنی ایسے نقصان کے خدشات جن کو ٹالا جاسکتا ہے.نقصان کی کوشش تو بہر حال جماعت کو پہنچانے کی کی جارہی ہے مسلسل کی جارہی ہے لیکن اس کوشش میں ہم ان کے مدد گار نہیں بننا چاہتے یوں خلاصہ سمجھ لیجئے اور جہاں تک عمومی کوشش کا تعلق ہے اس کے باوجود بڑھ رہے ہیں خدا کا وعدہ ہے بڑھتے رہیں گے، خدا کا وعدہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ ترقی کرنی ہے اور دشمن نے ہمیشہ ناکام رہتا ہے اس میں تو پھر بھی کوئی تبدیلی نہیں، نہ میرے تفصیل سے بیان کرنے سے تبدیلی پیدا ہو گی لیکن آنحضرت ﷺ کی سنت ہے جب خاص حالات ہوں مقابلے کے تو احتیاطی کاروائیاں اور حکمت کے تقاضے پورے کرنے ضروری ہوا کرتے ہیں.

Page 879

خطبات طاہر جلد ۶ 875 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء جہاں تک بیرونی جماعتوں کے وعدہ جات کا تعلق ہے بالغان کا ان کا ذکر میں بعد میں کروں گا پہلے ذرا ایک نسبتاً ایک جائزہ لے دوں عمومی، جہاں تک چندوں کی آمد کا تعلق ہے.جن جماعتوں میں پاکستان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کے چندے کے سلسلے میں غیر معمولی طور پر ترقی ہوئی ہے یعنی پہلے سے قدم آگے بڑھے ہیں باوجود اقتصادی حالات کے خراب ہونے کے ان میں ربوہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نمایاں آگے بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے.دولاکھ اسی ہزار روپے (۲,۸۰,۰۰۰) گزشتہ پورے سال کی وصولی تھی ربوہ کی اور امسال رپورٹ لکھنے کی تاریخ تک اس میں جیسا کہ میں بیان کیا ہے ایک بڑا حصہ جمع ہونے والا ہے دو لاکھ چھیاسی ہزار روپے (۲,۸۶,۰۰۰) وصولی ہو چکی تھی اور ایک نمایاں فرق ہے پہلے سے آگے کی طرف قدم جس میں ابھی اور بھی وصولی جمع ہونے والی ہے.پھر کراچی کی جماعت ہے جو خدا کے فضل سے ہمیشہ آگے بڑھنے والی جماعتوں میں سے ہے اس میں تین لاکھ بیاسی ہزار روپے (۳,۸۲,۰۰۰) کے مقابل پر جو سارے سال کی وصولی تھی گزشتہ سال اب تک چار لاکھ روپے(۴,۰۰,۰۰۰) وصول ہو چکے ہیں.پھر کوئٹہ جن حالات میں سے گزر رہا ہے اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے کوئٹہ کے چندے میں بھی اضافہ ہوا ہے.مظفر گڑھ ضلع کے چندے میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.لیہ ضلع کے چندے میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.وہاڑی ضلع کے چندے میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.خانیوال ضلع کے چندے میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے.اسی طرح سکھر جہاں بہت ہی سختی کے حالت رہے ہیں اور ابھی تک جاری ہیں وہاں بھی خدا کے فضل سے نمایاں اضافہ ہوا ہے اور گوجرانوالہ میں بھی اور اوکاڑہ میں بھی اور جہلم میں بھی اور اٹک میں بھی اور خوشی کی خبر یہ ہے کہ پشاور اور کوہاٹ میں بھی اور ڈیرہ اسماعیل خان میں بھی.جب سے یہاں امارت بدلی ہے خدا کے فضل سے بڑی نمایاں پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں اور باوجود اس کے کہ حالات تو وہی ہیں جو پہلے تھے لیکن جماعتیں بیدار ہو رہی ہیں اور بڑی ہمت کے ساتھ نیکیوں کے کاموں میں آگے بڑھنے کی وہ دوبارہ کوشش شروع کر دی ہے ورنہ ایک وقت آیا تھا کہ ایک غنودگی کی سی کیفیت تھی.اس جائزے میں یہ بات میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں ، میں نے بڑی تفصیل سے غور سے معائنہ کیا ہے.خیر پور بھی ان جماعتوں میں سے ہے جہاں خدا کے فضل سے اضا فہ نمایاں ہے.یہ

Page 880

خطبات طاہر جلد ۶ 876 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء عمومی طور پر تو جیسا کہ خدا کا وعدہ ہے جماعت نے بہر حال ترقی کرنی ہے اور کرتی ہے اور یہ جو عمومی وعدہ ہے یہ پوٹینشل (Potential) کے طور پر ہر جماعت کے مقدر میں ہے ایک تو عمومی ساری جماعت کا جائزہ ہے ایک ہے مقامی جماعتوں کا یا اضلاع کی جماعتوں کا جائزہ ان دونوں جائزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے میں یہ بات آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کی ترقی کا وعدہ ہے وہ تو سارے پاکستان کی جماعت سے جس طرح باقی دنیا کی جماعتوں سے ہے ایک عمومی وعدہ ہے.اضلاع کی جماعتوں سے بھی وعدہ ہے، شہروں اور قصبات اور دیہات کی جماعتوں سے بھی وعدہ ہے لیکن یہ وعدہ ایک پوٹینشل کی حیثیت رکھتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کی تقدیر تیار ہے مدد کے لئے وہ ضرور آگے بڑھائے گی اگر تم لوگ اس سے استفادہ کرو گے.بالعموم استفادے کی طاقت چونکہ جماعت میں نہ استفادہ کرنے کی طاقت کے مقابل پر غالب رہتی ہے اس لئے عمومی طور پر آپ جماعت کو ہمیشہ آگے بڑھتے دیکھتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جتنا بڑھ سکتی تھی اتنا بڑھی ہے بلکہ بعض جگہ جہاں خدا کی نعمتوں کی تکذیب کی جائے یعنی ان معنوں میں کہ ان نعمتوں سے فائدہ نہ اٹھایا جائے ، نظام کمزوری دکھائے ، مقامی عہدیداران ذمہ داریاں ادا نہ کریں تو بعض جگہ آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے بھی قدم چلے جاتے ہیں لیکن یہ پیچھے جانے والے قدم چند ہیں.قافلے کے قدم بحیثیت مجموعی آگے ہی بڑھتے ہیں اور جہاں قدم پیچھے جائیں وہاں لازم ہے کہ بعض انسانوں کا قصور ہے خدا کی تقدیر کا کوئی قصور نہیں.اس وعدے کی عمومی شکل میں کوئی اثر نہیں پڑتا لیکن کچھ جگہ جماعتوں نے توجہ دی ہے کچھ جگہ نہیں دی.چنانچہ سندھ کے بعض اضلاع میں مثلاً سکھر، خیر پور وغیرہ جہاں سخت حالات کے پیش نظر ایک امیر کو خاص طور پر مقرر کیا گیا تھا ایک نو جوان امیر کو وہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے حالات اسی طرح بد ہیں اور خطر ناک ہیں اور مشکلات بھی ہر قسم کی موجود ہیں اور کئی لوگوں کو علاقہ بھی چھوڑ نا پڑا لیکن وقف جدید کے چندے کا موازنہ بتا رہا ہے کہ ان میں نمایاں آگے کی طرف قدم ہے اور بعض دوسرے اضلاع ہیں جہاں امن کے حالات ہیں اور وہ خدا کے فضل سے، الا ماشاءاللہ ایک دو جگہ ابتلا کی حالتیں پیدا ہوئی ہیں مگر خدا تعالیٰ کے دنیاوی فضل بھی بہت زیادہ ہیں نسبتاً وہاں قدم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے چلا گیا اور تھر پارکر اور سانگھڑ وغیرہ یہ علاقے جو ہیں ان کی امارتوں کو اور ان کے عہد یداروں کو

Page 881

خطبات طاہر جلد ۶ 877 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء میں متنبہ کرتا ہوں کہ یہ عجیب حالت ہے کہ یہاں بارش برس رہی ہے وہاں تو روئیدگی زیادہ نہیں ہو رہی جہاں شبنم پڑ رہی ہے وہاں آپ سے روئیدگی بہت زیادہ ہو رہی ہے.تو خدا تعالی کی جماعت بنتے ہیں تو جب بارش پڑے تو بارش والے حالات دکھایا کریں اور کم سے کم شبنم پڑنے والوں سے تو پیچھے نہ رہا کریں.اسی طرح بعض اضلاع ہیں جو پہلے پیچھے رہنے والوں میں سے تھے مثلاً مظفر گڑھ ہے، لیہ ہے کمزور اضلاع میں سے تھے.وہاڑی اور خانیوال بھی لیکن اللہ کے فضل سے ان میں ترقی ہے اور وہاڑی میں تو عام اسی رفتار کے مطابق ترقی ہے جیسے باقی جگہوں میں ترقی ہے غیر معمولی نہیں لیکن بعض اضلاع میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو بہت نمایاں ترقی کے آثار ہیں مثلاً مظفر گڑھ ان میں شامل ہے اور گوجرنوالہ بھی ان چھ اضلاع میں شامل ہے ، اوکاڑہ، جہلم ، اٹک، پشاور ، کوہاٹ ، ڈیرہ اسماعیل خان، نواب شاہ اور خیر پور.کچھ دوسری جگہیں ہیں جہاں کمی آگئی ہے اس کی تفصیل تو میں اب یہاں لایا تو ہوا ہوں لیکن پڑھ کے نہیں سناتا تا کہ ان لوگوں کی پردہ دری نہ ہو.ان پر خدا کی ستاری کا پردہ پڑار ہے لیکن بعض ایسے اضلاع ہیں جس سے ہر گز توقع نہیں تھی کہ وہ پہلی رفتار پر رہیں گے یا پیچھے کی طرف قدم بڑھائیں گے اور ان میں بعض اضلاع جو بڑے بڑے جو پنجاب کے اضلاع ہیں انہوں نے بہت اس لحاظ سے مایوس کیا ہے اور یہ خدا کا خاص فضل ہے کہ ان کی کمزوری کے باوجود پھر بھی وقف جدید کا قدم نمایاں طور پر پچھلے سالوں کی طرح آگے ہی بڑا ہے.اگر یہ کمزوری نہ دکھاتے تو اس وقت تصویر بہت ہی بہتر رنگ میں ابھرتی ، بہت ہی بہتر شکل میں اُبھرتی اور ان سب جائزوں سے یہ بات سامنے آجاتی ہے کہ بعض جگہ امرائے ضلع تقریریں تو بہت کرتے ہوں گے یار پورٹیں بھی بھجواتے ہوں گے لیکن ٹھوس کام کی اہلیت نہیں رکھتے یعنی ایک ایک جماعت کی طرف توجہ کرنا، ایک ایک جماعت میں حوصلہ بڑھانا، عمومی طور پر جائزے لیتے رہنا اور ہر جہت سے جائزے لیتے رہنا.بعض امراء ہیں ان میں بڑی محنت کی عادت بھی ہے صرف تقریریں نہیں کرتے بلکہ کام بھی بڑا کرتے ہیں لیکن یہ کمزوری ہے کہ ایک دو جہتوں میں کام کرتے ہیں تو باقی جہتوں کو بھلا دیتے ہیں، ان کی طرف توجہ ہوئی تو پہلی جو صورتیں تھیں وہ نظر سے اوجھل ہو گئیں.اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے توازن پر زور دیا گیا ہے اور مومن کی شخصیت جو بہترین

Page 882

خطبات طاہر جلد ۶ 878 خطبه جمعه ۲۵ / دسمبر ۱۹۸۷ء قرآن کریم میں بیان فرمائی ہے وہ متوازن شخصیت ہے.امت محمدیہ کو بھی اُمَّةً وَسَطًا (البقرہ :۱۴۴) قرار دیا گیا ہے آنحضرت ﷺ کو بھی اک انتہائی کامل طور پر متوازن وجود کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے.قیم ہیں لَا عِوَجَ لَئے (طہ: ۱۰۹ ) ان میں کوئی کمی بیشی کسی طرف سے بھی نہیں ہیں کوئی ٹیڑھا پن نہیں ہے.تو پوری مکمل مومن کی شکل کے ساتھ توازن کا بہت گہرا تعلق ہے.بعض خوبیوں میں بہت آگے بڑھ جانا اچھی بات ہے لیکن یہ مطلب نہیں کہ بعض دوسری خوبیوں کا خون چوس کر بعض خوبیوں میں آگے بڑھنا.ہر انسان کے اپنے اپنے رجحان ہیں اسی طرح امرائے ضلع میں میں نے دیکھا ہے کہ ان کے اپنے اپنے رجحان میں بعضوں کو تبلیغ کا بڑا شوق ہے ، بعضوں کو تربیت کا ملکہ دیا گیا ہے، بعضوں کو دوسری بعض خوبیاں عطا فرمائی گئی ہیں ان میں وہ نمایاں امتیاز رکھتے ہیں لیکن نمایاں امتیاز کا یہ مطلب اسلامی تعریف میں بہر حال نہیں ہے کہ باقی چیزوں میں تم منفی ہو جاؤ اور پھر نمایاں امتیاز حاصل کرو.دنیا کی تعریف میں بھی نہیں کیونکہ ایسے طالب علم کو فیل کہا جاتا ہے.یہ نہیں کہہ سکتا وہ کہ ایک میں میں نے فرسٹ کلاس فرسٹ لی ہے اس لئے مجھ پر کسی قسم کی قدغن نہ لگائی جائے کہ میں پانچ مضمونوں میں فیل ہو گیا ہوں.جو کم سے کم معیار سے نیچے اترتا ہے وہ نا کاموں میں داخل ہو جاتا ہے اس لئے کم سے کم اتنا توازن تو ضرور رکھنا چاہئے کہ کسی جگہ آپ ترقی معکوس نہ دکھا ئیں، واپسی کی طرف نہ لوٹنے والے ہوں.تو امید ہے ان چیزوں کی طرف با قاعدہ دانشوری کے ساتھ نظر رکھی جائے گی اور اس کا طریق یہی ہے کہ مجلس عاملہ کے دستور مکمل ہونے چاہئیں.ان میں بعض جائزے وقتا فوقتا پیش ہوتے رہنے چاہئیں.جن لوگوں کو اس قسم کے کام کی عادت ہو جیسے سائنسدان کرتے ہیں،حساب دان کرتے ہیں ان کی اپنی کمزوریوں پر پردے پڑ جاتے ہیں کیونکہ اجتماعی طاقت کے ساتھ ان کی شخصیت کو بھی طاقت ملتی ہے.جن کے اندر اپنی خوبیاں نمایاں ہوں لیکن وہ حسابی رنگ میں ،سائنسی رنگ میں کام کرنے کے عادی نہ ہوں ان کی کمزوریاں باقی جماعت کی کمزوریاں بن جاتی ہیں.اس لئے آپ کو ایک دانشور باشعور جماعت کی طرح کام کرنا چاہئے اور ایسا نظام بنانا چاہئے جس میں خلاء کے احتمالات باقی نہ رہیں.ہر شعبہ زندگی جس میں ایک منصوبہ جماعت کے سامنے پیش کیا گیا ہے یا جماعت کے مستقل منصوبوں میں داخل ہو چکا ہے ہر تحریک جو کی جاتی ہے اس کے تقاضوں سے کس

Page 883

خطبات طاہر جلد ۶ 879 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء طرح نبٹنا ہے اس کام کو کیسے سمیٹنا ہے.وقتا فوقتا کس طریق پر جائزہ لینا ہے کہ ہماری بھول چوک جماعت کی بھول چوک نہ بن جائے ، ہماری غفلت جماعت کی غفلت نہ بن جائے.یہ ہے ایک اچھے منتظم کا کام اور اس پہلو سے انجمنوں کو بھی مدد کرنی چاہئے اپنی ماتحت انجمنوں کی.انجمنوں کا کام صرف یہی نہیں کہ جو Resolution سامنے آجائے یا کسی ترقی کی درخواست آجائے اس پر غور کر کے تو وہ معاملے کو ختم کر دیں.ان کو تو فعال سوچ کا حامل ہونا چاہئے.ذہن کا عقل کا کام یہ تو نہیں ہے صرف سر کا کام کہ جو تاثرات اس کے بدن کے مختلف حصوں سے اس کو ملتے ہیں انہی میں وہ جواب دے بلکہ وہ فکر مند رہتا ہے اور مختلف حالات کا جائزہ لے کر ہر وقت سوچوں میں مبتلا رہتا ہے کہ کس وقت کیا کرنا ہے کون سے حصے کی طرف کیا ضرورت ہے کہاں قدم کس رنگ میں آگے بڑھانا ہے کس کمی کو کس طرح پورا کرنا ہے.اتنا کام کرتا ہے کہ بدن تو سو بھی جاتا ہے اور وہ ذہن سوتا بھی نہیں بلکہ بدن کے مقابل پر بہت کم سوتا ہے اور خدا نے اس لئے اس کو استطاعت بھی ایسی بخشی ہے.تو انجمنوں کو بھی اپنے دماغوں کو اسی طرح استعمال کرنا چاہئے جس طرح قدرت نے نمونے بنا کے دکھا دیئے ہیں اور ان نمونوں سے استفادہ کرنا چاہئے.تو میں امید رکھتا ہوں کہ ایسا وقتا فوقتا انجمنوں کی طرف سے بھی جائزہ لیا جایا کرے گا.وقف جدید کی انجمن کا وقف جدید کے معاملے میں اور عموما مجھے یاد ہے وہ لیتے بھی ہیں لیکن اس رنگ میں غالبا نہیں لیتے کہ ہر ضلع کو دیکھ کر اس ضلع کی مجلس کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر ان کو بتائیں کہ یہ آپ کر رہے ہیں یہ ٹھیک نہیں ہے آپ کو یوں کرنا چاہئے.تحریکوں کی چٹھیاں پھر پہنچتی ہیں یہ مجھے پتا ہے لیکن مدد نہیں کی جاتی ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے.آپ کسی کو یاد دہانی کروا دیں کہ یہ کام ہونا چاہئے جس طرح کہ یہاں سے بھی ہر وقت مختلف دنیا کی جماعتوں کو یاد دہانی کرائی جاتی ہے یہ تو کم سے کم ذمہ داری ہے جو مرکز کو ادا کرنی چاہئے لیکن ایک ذمہ داری ہے کمزوروں کی مدد کرنا.ایسے لوگ جو خود نیک نیت رکھنے کے باوجود اپنی کمزوریوں کی اصلاح نہیں کر سکتے اپنے حالات کو بہتر نہیں بنا سکتے ان کو ہاتھ پکڑ کر آگے چلانا ، ان کو سمجھانا کہ آپ یوں کریں تو آپ کام بہتر کریں گے ان دو چیزوں میں فرق ہے.اس لئے جو افسران اپنے ماتحتوں پر اس رنگ میں رحمت کی اور شفقت کی نظر رکھتے ہوں کہ جہاں وہ دیکھیں کہ وہ نصیحت

Page 884

خطبات طاہر جلد ۶ 880 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء کے مطابق عمل نہیں کر رہے ان کو سمجھائیں بھی کہ اس طرح آپ کریں تو آپ کا کام بہتر ہو جائے گا اور ہر رنگ میں جہاں تک مدد ممکن ہے ان کی مدد کریں.ان کے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے عام انجمنوں کے کاموں کی نسبت یا عام افسروں کے کاموں کی نسبت بہت بہتر ہو جاتے ہیں.تو انجمنوں کو بھی میں امید رکھتا ہوں کہ اس طرف جیسا کہ میں نے کہا ہے توجہ کرنی چاہئے وہ توجہ کریں گے بھی انشاء اللہ اور بالعموم جماعت جس رفتار سے آگے بڑھ سکتی ہے اس رفتار سے بڑھے جس رفتار سے بڑھ سکتی ہے اس میں اور جس رفتار سے بڑھ رہی ہے اس میں بہت فرق ہے اور بعض جماعتوں میں تو بہت ہی زیادہ فرق رہ گیا ہے بعض ضلعوں میں تو افسوسناک فرق پیدا ہوا ہے اس لئے میں ان کا نام لئے بغیر بار بار تاکید کر رہا ہوں.اطفال الاحمدیہ کے چندے میں بھی جو اطفال کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے اس میں بھی عمومی طور پر تو ترقی ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ جس انجمن کے سپر د اطفال کا چندہ ہے انہوں نے ستی دکھائی ہے کیونکہ گزشتہ سال سے بعض جماعتوں میں اطفال کے چندوں میں نمایاں کمی ہے جبکہ بالغوں کے چندے میں نمایاں ترقی ہے اس کا مطلب ہے جماعت کا کوئی قصور نہیں ہے جن انجمنوں کے سپرد یہ ذمہ داری ہے کہ وہ فلاں چندے کو سنبھالیں، فلاں چندے میں جماعت کو آگے لے کر بڑھیں ان انجمنوں کی غلطی ہے، ان مجالس کی غلطی ہے.اس لئے جو ذیلی مجالس تنظیمیں ہیں ان کو بھی جماعت کی انجمنوں کے ساتھ قدم ملا کر آگے کو چلنا چاہئے یعنی جب تک وہ آگے بڑھتی ہیں قدم ملا کے آگے بڑھیں اگر وہ پیچھے رہیں تو پھر بے شک آگے نکل جائیں لیکن پیچھے رہنے کا حق نہیں ہے بہر حال.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ ذیلی انجمنیں جن کے سپر دالگ الگ خدمت کے کام کئے گئے ہیں وہ ان کی طرف نظر رکھیں گی اور پہلے کی نسبت بہتر کام کریں گی.اسی جائزے سے یہ بھی پتا چلا کہ بعض جماعتیں جو بعض پہلوؤں سے کمزور ہیں بعض پہلوؤں سے نمایاں طور پر آگے ہیں.اس بھی مجھے کچھ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سی انجمن کس رنگ میں کام کر رہی ہے کیونکہ بعض اضلاع باقی باتوں میں مثلاً اصلاح و ارشاد کے کام میں اگر نکتے نکل رہے ہوں اور مجھے علم ہو کہ مسلسل پیچھے ہیں اگر وقف جدید کے کام میں نمایاں طور پر آگے ہوں تو صاف پتہ چل جاتا ہے کہ جماعت کے اندر قربانی کی استطاعت موجود ہے، وہ طاقت تو ان کے اندر بہر حال ہے خدا کے فضل

Page 885

خطبات طاہر جلد ۶ 881 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء سے.جس انجمن نے فائدہ اٹھایا اس نے اٹھا لیا اور جس انجمن یا جس شعبے نے اپنے کام کی طرف پوری توجہ نہیں کی اس لحاظ سے ان کے حصے میں کم پھل ملا.تو یہ جو جائزے ہیں اعدادوشمار کے یہ بہت سی باتوں میں راہنمائی کرتے ہیں اور راہنمائی اس لئے کرتے ہیں کہ ہم ان سے استفادے کریں.جہاں تک بیرونی جماعتوں کا تعلق ہے اس کا مختصر جائزہ بھی پیش کر دیتا ہوں.یہ ابتلا کے زمانے کے پھلوں میں سے ایک پھل ہے کہ وقف جدید جو پہلے پاکستان تک محدود تھی اس کا قربانی کا دائرہ ساری دنیا تک پھیلا دیا گیا لیکن اس سے استفادے کا دائرہ ساری دنیا میں اس رنگ میں نہیں پھیلایا گیا.استفادہ دو طرح سے ہے ایک تو ہے کہ جو قربانی کرتے ہیں ان کو روحانی ترقی ملتی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمتیں نصیب ہوتی ہیں وہ دائرہ تو بہر حال ساری دنیا پہ پھیل چکا ہے لیکن اس کی آمد کہاں خرچ کی جائے گی یہ دائرہ ہند و پاک تک محدود تھا.چنانچہ ہندوستان میں میں نے محسوس کیا کہ کئی لحاظ سے بہت کمی رہ گئی ہے اور ان کو بیرونی امداد کی ضرورت ہے.ایک وقت تھا کہ جب ہندوستان تنہا ساری دنیا کی امداد کر رہا تھا دینی معاملات میں.کوئی بھی دنیا کا مشن نہیں تھا جو آزاد ہو اور Independent ہو.ہندوستان کی غریب احمدی جماعتیں ساری دنیا کی مددکر رہی تھیں.انہوں نے کبھی و ہم بھی نہیں کیا کہ ہمارا روپیہ کہاں جارہا ہے.اب وقت ہے کہ تمام دنیا کی جماعتیں ہر معاملے میں نہی بعض معاملات میں اس قرضہ حسنہ کو چکانے کی کوشش کریں اور نیک کاموں میں ہندوستان کی جماعتوں کی مدد کریں.اس کی خصوصیت کے ساتھ اس لئے ضرورت پیش آرہی ہے کہ میں نے جب پاکستان بننے کے بعد سے اب تک کے حالات کا جائزہ لیا تو مجھے ایک چیز نے صدمہ پہنچایا میری تو قعات کو ٹھوکر لگی تفصیلی جائزہ لینے پر.میرا یہ خیال تھا کہ پاکستان بننے کے وقت ہندوستان سے جتنے احمدی ،ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور ہندوستان میں جتنی کمی آئی تھی جماعت کی اب تک اتنا وقت گزر چکا ہے کہ وہ کمی تبلیغ کے ذریعے اور عام دنیاوی قدرتی نشو و نما کے ذریعے پوری ہو چکی ہو گی لیکن ابھی ہم اس سے بہت پیچھے ہیں.ہندوستان سے جتنے احمدی ہجرت کر کے نکلے ہیں ابھی تک اتنے عرصے کے باوجود وہاں کی جماعتیں اس معیار تک نہیں پہنچ سکیں.نہ عددی لحاظ سے، نہ مالی استطاعت کے لحاظ سے، نہ قربانی کے معیار کے لحاظ سے اور تبلیغ و اشاعت کے لحاظ سے بھی جہاں پہلے بہت تیزی کے

Page 886

خطبات طاہر جلد ۶ 882 خطبه جمعه ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء ساتھ جماعتیں ترقی کر رہی تھیں وہاں خاموشی پیدا ہو گئی.اس وجہ سے جب ہندوستان کی جماعت کو تیز کیا گیا اور ان کو سمجھایا گیا کہاں کہاں کس کس رنگ میں کام کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا کی رحمت کا پوٹینشل موجود رہتا ہے صرف چھیڑنے کی بات جیسے اقبال نے کہا ہے:.ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی یا ” بڑی زرخیز ہے ساقی تو واقعہ یہ ہے کہ مٹی ہماری زرخیز ہی رہتی ہے خواہ خشک سالی کا وقت ہو یا تر سالی کا وقت ہو.بہر حال بڑی تیزی کے ساتھ جماعت ہندوستان نے Respond کیا ہے، لبیک کہا ہے نیک کاموں کی تحریک کو یہاں تک کہ میں نے محسوس کیا کہ اب ان کے اندر کام کا جذ بہ تو ہے کام کرنا چاہتے ہیں لیکن پیسے پورے نہیں اور جو قربانی کے معاملے میں جو ستی تھی بعض جگہوں میں اس کی طرف ابھی تک انجمن قادیان توجہ نہیں کرسکی اور باوجود اس کے کہ یہاں سے کچھ کوشش کی گئی ہے بڑھانے کی لیکن ابھی جتنی خدا نے استطاعت بخشی ہے ہندوستان کو اتنا قربانی میں حصہ نہیں لے رہا.اس لئے کام کو تو بہر حال نہیں روکنا.وقت جب خدا توفیق دے گا پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جائیں گے لیکن اس عرصے میں ہمیں باہر سے مدد کرنی ہے.چنانچہ وقف جدید کی جو بیرونی تحریک ہے اس کا ایک بڑا مقصد یہی تھا اور اس کے فوائد اتنے زیادہ ہیں اللہ کے فضل سے اور اس کے نتیجے میں جو ظاہر ہوئے ہیں نتائج وہ اتنے زیادہ ہیں کہ بعض ممالک میں اگر ہم میں روپے صرف کریں تو جو نتیجہ نکل رہا ہے ہندوستان میں ایک روپیہ خرچ کرنے سے وہ نتیجہ نکل رہا ہے یعنی بعض جگہ میں بھی نہیں بیسیوں گنا زیادہ خرچ کے مقابل پر پھل مل رہا ہے.افریقہ میں بھی ایسے حالات ہیں بعض جگہ مختلف ممالک کے مختلف حالات ہوتے ہیں.جہاں خدا کی تقدیر آپ کو پھل زیادہ دے رہی ہو اس واقعہ کونظرانداز کر دینا اور اس سے استفادہ نہ کرنا یہ خدا کی تقدیر کی ناشکری ہے.پس تمام دنیا میں جو وقف جدید کے نام پر آپ سے رقم لی جاتی ہے خدا کی راہ میں اس کا یہ مصرف ہے اور شدھی کی تحریک کے مقابل پر جو جماعت احمدیہ نے تحریک شروع کی اور خدا کے فضل سے انتہائی کامیابی کے ساتھ کی اس میں بھی وقف جدید نمایاں طور پر حصہ لے رہی ہے اور بعض علاقوں میں جہاں غیروں نے سکول بنائے تھے، ہسپتال شفا خانے بنائے تھے اور اس طرح وہ مقامی طور پر اپنے اثرات پیدا کر رہے تھے مثلاً عیسائی ہیں جو مسلمانوں کو مرعوب کر رہے تھے یا شیڈول

Page 887

خطبات طاہر جلد ۶ 883 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء کاسٹ لوگوں کو کھینچ رہے تھے وہاں بھی وقف جدید کی طرف سے جوابی کاروائی اسی رنگ میں شروع ہو گئی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جس طرح نصرت جہاں نے افریقہ میں کام کیا ہے اسی طرح ایک نصرت جہاں نو تحریک ہندوستان کے لئے ہونی چاہئے وہاں بھی اسی خطوط پر کام کو آگے بڑھانا چاہیئے کیونکہ وہاں پھل کی غیر معمولی توقع ہے اللہ کے فضل سے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ہم بہت جلد انشاء اللہ اگر جس رفتار سے اب ہم چل پڑے ہیں آگے پہلی منزل تو یہ ہے کہ پارٹیشن کے وقت تقسیم ہند کے وقت جو ہندوستان میں جماعت احمدیہ کا مقام اور مرتبہ تھا اس کو حاصل کریں گے پہلے اور اس کے بعد گلا قدم یہ ہوگا کہ اس کو بنیاد بنا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان مبشر الہامات کی تعبیر کی طرف آگے بڑھیں گے جو ہندوستان میں اسلام اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کی ترقی سے وابستہ ہیں، ان کے متعلق جو الہامات نازل فرمائے گئے.اس لحاظ سے وقف جدید کی تحریک کو آپ بالکل کوئی معمولی عام تحریک نہ سمجھیں اس کا ہندوستان کے روحانی مستقبل کے ساتھ ایک گہرا واسطہ ہے اور ساری دنیا کی جماعتوں کو اس میں حصہ لینا چاہئے.اب تک جو صورتحال آئی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ جہاں تک وعدوں کا تعلق ہے سال 1986ء میں جتنے جماعت نے وعدے پیش کئے بیرونی جماعتوں نے 1987ء میں اس سے تقریبا نصف وعدے پیش کئے ہیں یعنی آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے رہ گئے ہیں اور یہ عمومی طور پر تو ہو نہیں سکتا اس لئے یہ ضرور کوئی غلط فہمی ہوئی ہے جہاں تک وصولی کا تعلق ہے وہ کم و بیش اتنی ہے.اس لئے یا تو غلط فہمی ہوئی ہے یا مرکزی نظام کی طرف سے پوری توجہ نہیں دلائی جاسکی.کچھ ہوا ضرور ہے جو اعدادو شمار بگڑے ہیں کیونکہ اگر وعدوں میں اتنی کمی تھی تو وصولی میں بھی اتنی کمی ہونی چاہئے تھی نسبت سے ، وہ نظر نہیں آئی.جب میں نے تفصیلی جائزہ لیا تو جو بڑے ممالک ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے قدم پیچھے نہیں گیا.اس لئے معلوم ہوتا ہے کوئی حسابی غلطی ہوئی ہے یا لوگوں نے سمجھا کہ وعدے لکھوانے کی ضرورت ہی کوئی نہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.برطانیہ کا گزشتہ سال تین ہزار چھ سو (۶۰۰ ۳) پاؤنڈ کا وعدہ تھا اس دفعہ خدا کے فضل سے گیارہ ہز را چار سو انیس (۱۱،۴۱۹) پاؤنڈ کا ہے اور بیرونی دنیا کی جماعتوں میں برطانیہ کا چندہ ایک بڑا نمایاں مقام حاصل کر چکا ہے.اس لئے جہاں تقریبا چار گنا اضافہ ہورہا ہو وہاں پیچھے جانے کا سوال ہی نہیں پیدا ہونا چاہئے.دوسری امریکہ کی جماعت ہے امریکہ کی جماعت اگر چہ برطانیہ سے بہت

Page 888

خطبات طاہر جلد ۶ 884 خطبہ جمعہ ۲۵ دسمبر ۱۹۸۷ء پیچھے رہ گئی ہے لیکن اس کے باوجود پچھلے سال کے مقابل پر جو کل ان کی وصولی آٹھ سو ترانوے پاؤنڈ تھی صرف یعنی اگر ڈالر کو پاؤنڈ میں تبدیل کیا جائے تو.اس سال چار ہزار چار سو بہتر (۴۴۷۲) پاؤنڈ ہے یعنی پانچ گنا زیادہ.پھر سوئٹزرلینڈ ہے وہاں بھی ڈیڑھ گنا اضافہ ہے.پھر جرمنی ہے وہاں بھی ڈیڑھ گنا اضافہ ہے.پھر کینیڈا ہے وہاں بھی 1.75 گنا زیادہ اضافہ ہے.تو جو بڑے ممالک ہیں جو چندے کی Back Bone بناتے ہیں باہر کی دنیا میں یعنی اس چندے کی جس کو ہم دوسرے ملکوں میں منتقل کر سکتے ہیں.افریقہ کو میں نے اس لئے شمار نہیں کیا کہ وہاں اکثر ہم روپے کو باہر منتقل ہی نہیں کر سکتے.ایسے ممالک میں جو چندے کی ریڑھ کی ہڈی بنا رہے ہیں ان میں تو نمایاں اضافہ ہے.اس لئے ہمارا جو شعبہ ہے اس کو اپنے اعداد و شمار بھی درست کرنے چاہئیں اور توجہ دلانے کے کام کو تیز کرنا چاہئے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ بہت جلد یہ رقم کم سے کم ایک لاکھ تک تو ضرور پہنچ جائے گی سالانہ کیونکہ پاکستان کے حالات میں اگر وہ ستائیس لاکھ سے زائد جیسا کہ دینے والے ہیں امید ہے انشاء اللہ میں لاکھ تک وہ دے دیں گے امید رکھتا ہوں.پاکستان کے حالات میں اگر وہ اتنی قربانی دے سکتے ہیں تو بیرونی حالات میں کم سے کم پاکستان جتنی ساری دنیا کو قربانی دینی چاہئے اور یہ کم سے کم معیار ہے.تو اس کی طرف نسبتاً زیادہ توجہ کریں اور آخری بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کو زیادہ سے زیادہ شامل کریں اور ان کے ذریعے دلوائیں.میرے پیش نظر صرف روپیہ نہیں ہے بلکہ روپیہ جس مقصد کی خاطر حاصل کیا جاتا ہے وہ مقصد بہر حال اولیت رکھتا ہے یعنی تربیت اور اللہ سے تعلق.چندہ دینے والے کا سب سے بڑا پھل سب سے بڑا اجر اس دنیا میں یہ ہے کہ وہ خدا کے قریب ہو جاتا ہے اور جو بچوں سے چندے دلوائے جاتے ہیں ان کے اوپر اس قربت کا اثر ساری زندگی رہتا ہے، ایسی چھاپ ہے بچپن کی نیکی جو ان کے بڑھنے کے ساتھ خود بھی بڑھتی رہتی ہے اس کا نقش مٹنے کی بجائے اور زیادہ زندگی میں گہرا جمتا چلا جاتا ہے.اس لئے اپنے بچوں کو باشعور طور پر وقف جدید میں شامل کریں یعنی وہ بچے جو باشعور طور پر داخل ہو سکتے ہیں ورنہ تو پہلے دن کے بچے کو بھی مائیں شامل کر دیتی ہیں بعض مائیں تو پیدا ہونے والے بچے کو بھی شامل کر دیتی ہیں جو ابھی پیٹ میں ہے اور لکھوا دیتی ہیں وعدے تو اللہ تعالیٰ اس روح کو اور بڑھائے لیکن جو باشعور بچے ہیں ان کے ہاتھ سے دلوانا اور ان کی تعداد میں اضافہ کرنا آپ کے لئے دوہرے اجر کا موجب بنے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.

Page 888