Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ ١٩٨٦ء فرمودة سیدنا حضرت مرزا برای خلیفة اسم الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد ۵
نام کتاب بیان فرموده اشاعت خطبات طاہر جلد نمبر ۵ حضرت مرزا طاہراحمدخلیفتہ امسیح الرابع رحمہ اللہ طبع اول مارچ ۲۰۰۹ء
نمبر شمار خطبه فرموده 1 L २ ۵ ۶ v > ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ ۱۶ فہرست خطبات عنوان 3 جنوری 1986ء صفت قدیر کا پر معارف بیان نیز برازیل میں مشن کے قیام کا ذکر 10 جنوری 1986 ء صفت قادر قدیر اور مقتدر کی لطیف تشریح نیز قدرت ثانیہ کے ذریعے غلبہ کا وعدہ 17 / جنوری 1986 ء اللہ تعالیٰ کی صفت المقتدر اور اقتداری نشانات کا بیان 24 جنوری 1986 ء بدظنی و غیبت سے بچیں ، مکارم اخلاق کی پیروی سے اپنے لئے جنت پیدا کریں 31 جنوری 1986 ء گھر کی جنت اور اسوہ رسول نیز گھر تباہ کرنے والی بعض معاشرتی برائیوں کا ذکر 7 فروری 1986 ء گھر کی جنت میں حائل بعض معاشرتی برائیوں کا ذکر اور قوام کی پر معارف تشریح 1 ۲۷ ۵۷ ۷۳ ۹۱ 14 فروری1986ء دینی معاشرے کا قیام خوبصورت عائلی زندگی اور رحمی رشتوں کے خیال رکھنے سے ہوگا ۱۳۷ 21 فروری 1986ء ساہیوال بیت الذکر پر حملہ کی تفصیل ، ہر قیمت پر کلمہ طیبہ کی حفاظت کریں گے 28 فروری 1986 ء | ہراک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے ، موصیان و چندہ دہندگان کو تقویٰ کی نصیحت 7 مارچ 1986 ء سکھر کیس کا ظالمانہ فیصلہ اسیران کا بلند حوصلہ اور ثبات قدم پاکستان کیلئے دعا کی تحریک 14 / مارچ 1986 ء | اسیران ساہیوال اور سکھر کے بلند حوصلے کا ذکر اور سیدنا بلال فنڈ کا قیام 21 / مارچ 1986ء تقویٰ کا نور حاصل کریں یہی حقیقی غلبہ ہے 28 / مارچ1986ء موصیان اور نظام وصیت کو نصائح اور مقامات مقدسہ قادیان کیلئے مالی تحریک 4 را پریل 1986 ء عہدیداران اور افریقہ کے ڈاکٹر ز جماعتی اموال خرچ کرنے میں تقویٰ کے معیار بلند کریں تفسیر سورۃ النصر ، دلوں کی فتح حقیقی فتح ہے 11 اپریل 1986ء 18 اپریل 1986 ء | قدم صدق کی تفسیر ہمیشہ صدق پر قدم ماریں 1 25 اپریل 1986 ء پاکستان کے موجودہ حالات میں انقلاب کے لئے احمدی نئی زمین و آسمان پیدا کریں ۱۸ 2 مئی 1986ء حسد کی بیماری اور اس سے بچنے کی نصیحت ۱۷۳ ۱۹۱ ۲۱۳ ۲۲۵ ۲۴۱ ۲۵۹ ۲۷۳ ۲۸۷ ۳۱۳
نمبر شمار خطبہ جمعہ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ Σ ۲۶ ۲۷ 9 مئی 1986ء عنوان انی قریب کے حقیقی معانی اور رمضان کی دعائیں صفحہ نمبر ۳۲۹ 16 مئی 1986 ء شہادت خدا کی عظیم نعمت ہے ،سکھر کے دو شہداء اور احمد یہ بیت الذکر کوئٹہ پرحملہ کا تذکرہ ۳۴۷ 23 مئی 1986ء اللہ اور اس کے رسول کا غلبہ یقینی ہے ، عبادت ہی اصل جہاد ہے 30 مئی 1986ء احباب جماعت روزہ رکھنے کا معیار بڑھائیں نیز فدیہ اور لیلۃ القدر کی تشریح ۳۶۷ ۳۸۳ 6 جون 1986 ء جمعۃ الوداع کی حقیقت، اصل جمعہ خدا کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہنا ہے ۳۹۹ 13 جون 1986ء پاکستان میں احمدیوں کے خلاف کاروائیاں، احمدی کبھی اپنا قبلہ نہیں بدلیں گے ۴۱۷ 20 جون 1986 ء مردان میں احمدی خاتوں کی شہادت کلمہ کی حفاظت اور بلال فنڈ سے اشاعت قرآن کا تحفہ ۴۳۵ 27 / جون 1986ء 4 جولائی 1986ء 198611 ۲۸ 11 جولائی 1986 ء جلسہ سالانہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو قیمتی نصائح مالی قربانی کی برکات اور جماعت کی ذمہ داریاں اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ۲۹ 18 / جولائی 1986 ء گستاخی رسول کے قانون کی حقیقت نیز حضرت مسیح موعود کا عشق رسول ۳۰ 25 جولائی 1986 ء | منصب خلافت اور قبولیت دعا، پیر پرست نہیں بلکہ خدا کے دوست بنیں ۳۱ ۳۲ ۳۳ ۳۴ ۳۵ ۳۶ ۳۷ ۳۸ یکم اگست کست 1986ء خدا کے دین کی حفاظت میں ہی آپ کی زندگی ہے ۴۴۹ ۴۷۱ ۴۸۷ ۴۹۹ ۵۲۱ ۵۳۱ 8 اگست 1986 ء اشاعت قرآن تعمیر بیوت الذکر کے منصوبے اور جلسے سیرۃ النبی کروانے کی تحریک ۵۳۹ اور 15 اگست 1986 ء دعا کا صبر اور صلوٰۃ سے گہرا رشتہ ،صابر کی جزا معیت الہی ہے 22 اگست 1986 ء تحریک شدھی کے خلاف اعلان جہاد نیز بیت الذکر مردان کی شہادت کا تذکرہ 29 اگست 1986 ء بیت الذکر مردان کے انہدام کے حالات اور صبر کی تلقین ، احمدیت نے ضرور غالب آنا ہے ۵۵۱ ۵۶۱ ۵۷۳ 15 ستمبر 1986 ء پاکستان میں جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں ، جماعت کو صبر، دعاؤں کی تحریک ۵۸۵ 12 ستمبر 1986ء آنحضور کے اخلاق کے قریب تر رہنے کی کوشش کریں جو خلق عظیم پر فائز تھے 19 ستمبر 1986ء معاشرتی برائیوں سے بچنے اور معاشرے کو جنت نظیر بنانے کی نصیحت ۵۹۱ ۶۰۳
نمبر شمار خطبه جمعه ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ हे عنوان 26 ستمبر 1986 ء اپنے اندر قوت مؤثر ہ پیدا کریں، پردہ کی روح نیز خاتمیت محمد ﷺ کی تشریح 3 اکتوبر 1986ء جماعت ولایت الہی کا رستہ اختیار کرے جو سچی محبت اور پیار کا رستہ ہے صفحہ نمبر ۶۱۹ ۶۴۱ 10 اکتوبر 1986 ء دورہ کینیڈا کے ایمان افروز حالات یہ ملک دین کے مستقبل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۶۵۹ 17 اکتوبر 1986 ء مغربی غیر دینی اثرات سے بچیں نیز ایلسلواڈور کے یتامیٰ کی کفالت کی تحریک ان الدين عند الله الاسلام کی پر معارف تشریح ۶۷۵ ۶۹۵ 212 ۷۳۱ ۴۳ 24 اکتوبر 1986ء م م 31 اکتوبر 1986 ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان ۴۵ 7 نومبر 1986ء خود سردار بنیں تا دنیا کی سیادت کر سکیں ۴۶ 14 رنومبر 1986ء حسد کی آگ کو محبت کی نصیحت سے ختم کریں 21 نومبر 1986 ء جماعت احمد یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جہاد کرے جو خیر امت کی بنیادی شرط ہے 28 نومبر 1986 ء پاکستان میں جبری دین نافذ کرنے اور جبری دین سے روکنے کی ناکام کوشش 15 دسمبر 1986 ء | ثبات قدم کی دعا کی پر معارف تشریح، آزادی ضمیر کے جہاد میں آنحضور کا اسوہ ۷۴۷ ۷۸۳ ۸۰۱ 12 دسمبر 1986 ء پاکستان میں جماعت کے مخالفانہ حالات، کلمہ کے لئے قربانی اور قتل مرتد کی حقیقت ۸۱۵ کم سن بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری 19 دسمبر 1986ء 26 دسمبر 1986ء فلسفہ حیات کا پر معارف بیان، اپنے وقت کو ضائع نہ ہونے دیں ۸۳۵ ۸۴۹ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ ۵۲
خطبات طاہر جلد۵ 1 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء صفت قدیر کا پر معارف بیان نیز برازیل میں مشن کے قیام کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی کریمہ تلاوت کی: تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيُوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُة يُسَبِّحُ لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) (الملک :۳۲) (التغابن : ۲) وَلِلَّهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌة ( آل عمران : ۱۹۰) لِلهِ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا فِيْهِنَّ ۖ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌة (المائدہ: ۱۲۱)
خطبات طاہر جلد۵ 2 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء يَاهْلَ الْكِتُبِ قَدْ جَاءَكُمْ رَسُولُنَا يُبَيِّنُ لَكُمْ عَلَى فَتْرَةٍ مِنَ الرُّسُلِ اَنْ تَقُولُوا مَا جَاءَنَا مِنْ بَشِيرٍ وَلَا نَذِيرٍ فَقَدْ جَاءَكُمْ بَشِيرٌ وَ نَذِيرٌ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (الماندره: ۲۰) قُلِ اللَّهُمَّ مُلِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَاءُ وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَنْ تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( آل عمران: ۲۷) اور پھر فرمایا: یہ قرآن کریم کی مختلف آیات جو مختلف سورتوں سے میں نے اخذ کی ہیں اور آج آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں پیشتر اس کے کہ میں اس غرض کو بیان کروں کہ کیوں میں نے ان آیات کا انتخاب کیا.میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئے سال کا یہ پہلا جمعہ ہے یعنی 1986ء کا یا ہجری شمسی کے لحاظ سے 1365 کا یہ پہلا جمعہ ہے یہ عمومی دستور ہے کہ نئے سال پر مبارکباد بھی دی جاتی ہے اور جہاں تک کسی کے بس میں ہو تحائف بھی پیش کئے جاتے ہیں.تو اس موقع پر میں اس رسم کو دینی رنگ دیتے ہوئے سب سے پہلے آپ سب کو یعنی تمام جماعت احمدیہ کو محبت بھرا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کا تحفہ پیش کرتا ہوں.اس دعا کے ساتھ کہ یہ سال اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے جماعت احمد یہ ہی کے لئے نہیں تمام بنی نوع انسان کے لئے پہلے سال سے زیادہ بہتر بنائے اور جو مصائب اور مشکلات اور تکالیف کے زمانے گذشتہ سال نے دیکھے تھے وہ اپنے فضل سے اس آئندہ سال میں ٹال دے اور جن مصیبتوں نے گزشتہ سال میں جنم لیا تھا انہیں آگے بڑھنے سے پہلے ہی رد فرمادے اور وہ بے پھل کے مر جائیں اور جن نیکیوں نے گذشتہ سال میں جنم لیا تھا انہیں بھر پور پھل عطا فرمائے اور بکثرت مثمر ثمرات حسنہ بنائے.آمین.اسکے ساتھ ہی ایک اور تحفہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ نئے سال کا ایک رحمت کا پھل جو اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فرمایا اور وہ جماعت کی تاریخ میں ایک نئے سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.وہ یہ ہے کہ جنوبی امریکہ میں پہلی مرتبہ جماعت احمدیہ کو با قاعدہ مشن کے قیام
خطبات طاہر جلد ۵ 3 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء کے لئے ایک بہت ہی موزوں جگہ خریدنے کی توفیق مل گئی ہے.جنوبی امریکہ کے ایک ملک برازیل میں جو بہت ہی بڑا ملک ہے.اور اگر اس کا رقبہ امریکہ سے یا شمالی امریکہ سے بڑا نہیں تو اس کے قریب قریب ضرور ہے.اس ملک میں ریوڈی جنیر و (RIO DE JANEIRO اسکا Capital یعنی مرکزی شہر ہے ، دارالخلافہ ہے.اس شہر کے ساتھ ایک Twin City ہے اور جس کا نام نیتر آئے (NITEROI) ہے.NITEROIاسی دار الخلافہ کا Twin City ہے اور ایک بہت بڑا پل سمندر کے اوپر سے گزرتا ہوا ان دو شہروں کو ملاتا ہے.تو اس دوسرے شہر میں جو اسی دارالخلافہ کا عملاً ایک حصہ ہے ایک بہت ہی اچھا موقع کا رقبہ جس کا سائز 50,600 مربع میٹر ہے یعنی تقربیاً ساڑھے بارہ ایکڑ ہے.اس کے متعلق گفت و شنید تو گزشتہ سال سے چل رہی تھی لیکن آج صبح فون پر اطلاع ملی ہے کہ با قاعدہ قانونی لحاظ سے Deed مکمل ہو گئی ہے اور سودا طے پا گیا ہے.یہ بہت ہی مناسب جگہ میں ایسی جگہ واقع ہے جہاں اس کے قریب ہی بالکل سوگز کے فاصلے پر ایک بہت بڑا ہوٹل ہے جس میں بکثرت Tourist آتے ہیں اور قریب ہی یعنی چند منٹ کے چلنے کے فاصلے پر ایک بہت بڑا نیشنل پارک ہے جو بہت ہی مقبول ہے اور تمام برازیل ہی سے نہیں بلکہ باہر سے آنے والے سیاح بھی اس پارک میں آتے ہیں.اس لحاظ سے یہ رقبہ خدا کے فضل سے بہت ہی موقع کا ہے.کوئی پابندی نہیں ہے اس پر، مسجد کی عمارت کی تعمیر پر کوئی روک نہیں، کوئی مزید اجازت لینے کی ضرورت نہیں.مشن ہاؤس بنانے پر کوئی روک نہیں ہے اور ساتھ ہی دو کمرے کا ایک چھوٹا سا گھر جس میں کچن اور غسلخانہ وغیرہ سب شامل ہیں یہ بھی بنا ہوا مل گیا ہے.اس سے انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے مبلغ کو وہاں ٹھہرنے میں آسانی ہو جائے گی.برازیل میں پہلامشن تو عملاً پچھلے سال ہی کھولا گیا تھا جب کہ زمین ابھی خریدی نہیں گئی تھی مگر پھر بھی مشن کھول لیا گیا تھا.تو یہ برکتیں دونوں سالوں پر پھیلی ہوئی ہیں.مگر اس لحاظ سے کہ جنوبی امریکہ میں پہلی دفعہ جماعت کو مسجد کے لئے جائیداد خریدنے کی توفیق عطا ہوئی ہے یہ نئے سال کا پہلا پھل ہے جو میں تحفہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں.اللہ تعالیٰ بہت برکت دے.یہ بہت ہی بڑا خطہ ہے اور کئی لحاظ سے جنوبی امریکہ کے مختلف ممالک اگر آج نہیں تو کل
خطبات طاہر جلد۵ خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء غیر معمولی اہمیت اختیار کرنے والے ہیں.اس علاقے کو دنیا نے بہت حد تک نظر انداز کئے رکھا ہے اور باوجود اس کے کہ خدا تعالیٰ نے بہت سے ذخائر اور دوستیں عطا کی ہیں یہ پرانی دنیا اور نئی دنیا کے مابین کا علاقہ کہلاتا ہے یعنی نہ Third World میں ہے نہ First World میں بلکہ ایسے ممالک ہیں جن کی نسل سفید فام ہے اکثر یعنی وہ لوگ یہاں قابض ہیں ویسے تو مقامی لوگ سفید فام نہیں جنکی نسل سفید فام ہے اور یہ زیادہ تر Latin (لاطینی امریکہ کہلاتا ہے کیونکہ ان کا تعلق سپین اور اٹلی اور پرتگال وغیرہ علاقوں سے ہے.مگر ترقی کے لحاظ سے یہ وسیع ذرائع کے باوجود شمالی امریکہ اور کینیڈا سے بہت پیچھے رہ گیا ہے.اس لئے یہ درمیان میں آجاتا ہے اور درمیان میں آنے کے بعد کچھ یہ بھی ان علاقوں کے ساتھ زیادتی ہوئی کہ دونوں طرف سے کئی جہت سے پیسا گیا ہے.اسوقت اتنے بڑے قرضے ہیں ان ممالک پر مغربی دنیا کے کہ بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آتی کہ ان قرضوں سے یہ نجات پاسکیں.اس لئے مغربی دنیا بھی اس کا استحصال کر رہی ہے اور مشرقی دنیا میں اشتراکیت پورا زور لگا رہی ہے کہ کسی طرح یہ علاقے اس کے قبضے میں آجائیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے اس تمام علاقے میں.یہ اپنی ذات میں ایک بہت ہی بڑا براعظم بنتا ہے، ویسے تو براعظم امریکہ کا حصہ کہلاتا ہے لیکن فی ذاتہ اتنا بڑا علاقہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ایک ہی ملک کم و بیش شمالی امریکہ کے برابر بن جاتا ہے.تو یہ جو مشرق اور مغرب کی دوڑ شروع ہو گئی ہے اسے اپنانے یا ہتھیانے کی.اس دوڑ کے نتیجہ میں ، اس جدوجہد کے نتیجہ میں ان ممالک کو جو اس علاقہ میں ہیں بہت ہی شدید نقصان پہنچا ہے.ایک اور بد قسمتی اس علاقے کی یہ ہے کہ جماعت احمد یہ بھی ان علاقوں تک احمدیت کا پیغام پہنچانے میں دیر کر گئی.مجبوریوں کی بناء پر ، ہمارے ذرائع تھوڑے تھے.ساری دنیا میں تبلیغ کرنی تھی اس لئے قصور کا سوال نہیں بے اختیاری کی وجہ تھی.ویسے بھی چونکہ پس منظر میں پڑے ہوئے علاقے تھے.اس لئے ان تک نظر بھی بعد میں پہنچی اور کوششیں بھی بعد میں پہنچیں.لیکن یہ کہنا درست نہیں کہ یہاں احمدیت نہیں پہنچی.جہاں تک میرا علم ہے سب سے پہلے جو احمدی ان علاقوں میں آباد ہوئے ہیں وہ ہنگری کے احمدی تھے.جب ہنگری میں انقلاب آیا ہے تو اس سے پہلے خدا تعالیٰ کے فضل سے یعنی جنگ عظیم سے پہلے ہی بہت کثرت کے ساتھ جماعت احمد یہ ہنگری میں نہ صرف متعارف ہوئی
خطبات طاہر جلد ۵ 5 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء بلکہ بکثرت لوگوں نے اسے قبول بھی کیا اور آج تک وہاں آثار باقیہ بھی ملتے ہیں ان احمدی مسلمانوں کے اور ہنگری میں جو بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں وہ سارے جانتے ہیں کہ احمد بیت کیا ہے اور ان کے جو شعبے ہیں تعلیم کے اُن میں بھی احمدیت کے متعلق نہ صرف پوری واقفیت پائی جاتی ہے بلکہ وہ مزید چھان بین بھی کر رہے ہیں اس کے متعلق اور بعض احمدیوں سے جو پرانے ہنگری میں ہمارے کام کرنے والے تھے حکومت کی طرف سے یہ درخواست بھی پہنچی ہے احمدیوں تک کہ ہمیں مزید معلومات مہیا کی جائیں کیونکہ ہم ہنگری کی تاریخ میں جماعت احمدیہ نے جو کردار ادا کیا ہے اس کو محفوظ کرنا چاہتے ہیں.بہر حال انقلاب اشتراکیت کے بعد جو احمدی وہاں سے بھاگے اور لوگوں کے ساتھ وہ بہت حد تک جنوبی امریکہ میں مختلف ملکوں میں آباد ہوئے اور رابطہ اگر چہ عموماً تو کٹ گیا لیکن کبھی کبھی ان میں سے کوئی چھٹی لکھ دیتا تھا قادیان یا پتہ کر کے ربوہ اور وہ تحریک جدید کے دفا تر تک پہنچ جایا کرتی تھی.اس سے ان کے ساتھ رابطہ کی ایک صورت بن جاتی تھی.تو بہر حال Officialy رسمی طور پر با قاعدہ مشن کا آغاز گزشتہ سال ہوا ہے اور امسال خدا تعالیٰ کے فضل سے مستقل بنیادوں پر مشن قائم کرنے کے لئے اور مسجد بنانے کے لئے زمین حاصل کر لی گئی ہے.اللہ تعالیٰ کا بے حداحسان ہے اور میں توقع رکھتا ہوں کہ یہ بارش کا پہلا قطرہ بہت دیر تک پہلا ایک ہی قطرہ نہیں رہے گا بلکہ بکثرت ایک موسلا دھار فضلوں کی بارش میں تبدیل ہو جائے گا.یہ آیات جن کا میں نے انتخاب کیا ہے یہ تمام کی تمام خدا تعالیٰ کی صفت قدیر سے تعلق رکھنے والی آیات ہیں.گزشتہ چند سال پہلے غالباً دو تین سال پہلے یا اڑھائی سال پہلے میں نے ربوہ میں خطبات کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا جس کا تعلق صفات باری تعالیٰ کے بیان سے تھا اور ایک کے بعد دوسری خدا تعالیٰ کی کوئی صفت چن کے قرآن کریم اور احادیث اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور فرمودات کی روشنی میں خدا تعالیٰ کی صفات کا بیان کرتا تھا.مقصد یہ تھا کہ جب جماعت احمدیہ کو یہ کہا جاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین ہو جاؤ تو اس کا صحیح مفہوم بھی جماعت احمد یہ سمجھ سکے کہ یہ رنگ ہیں کیا اور ان میں رنگین کیسے ہوا جا سکتا ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
خطبات طاہر جلد۵ 6 خطبه جمعه ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء سرسے لے کر پاؤں تک وہ یار ہے مجھ میں نہاں تو اس کا کیا مطلب ہے، کیسے خدا تعالیٰ کسی بندے کے سر سے پاؤں تک اس میں نہاں ہو سکتا ہے.جب ہم قرآن کریم میں یہ پڑھتے ہیں کہ وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَمی (الانفال: ۱۸) کہ اے محمد اعتا اللہ تو نے وہ مٹھی کفار کی طرف نہیں پھینکی یعنی کنکریوں کی وہ مٹھی نہیں چلائی کفار کی طرف جو تو نے چلائی تھی بلکہ خدا نے وہ مٹھی چلائی تھی.جب ہم قرآن کریم میں یہ پڑھتے ہیں کہ يَدُ اللهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ (الفتح: 1) کہ وہ جو محمد مصطفی علی کی بیعت کر رہے ہیں ان پر محمد مصطفی ﷺ کا ہاتھ ہے مگر وہ محمد مصطفی " کا ہاتھ نہیں بلکہ خدا کا ہاتھ ہے تو اس سے کیا مراد ہے؟ آنحضرت علی تو توحید کے گن گانے پر وقف تھے، کبھی دنیا میں ساری کائنات میں خدا کی وحدت کے ایسے عشق کے ساتھ ایسی محبت کے ساتھ ، ایسی فدائیت اور وارنگی کے ساتھ کسی نے خدا کی توحید کے گیت نہیں گائے جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ نے گائے کبھی نبیوں کی کسی جماعت کو تو حید کے قیام کے لئے ایسی عظیم الشان خدمت اور ایسی عظیم الشان اور وسیع قربانیوں کی توفیق نہیں ملی جیسے ان لوگوں کو جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے الله مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح:۳۰) محمد مصطفی ہے ان کو بھی دیکھو کس شان کے نبی ہیں اور ان کو بھی دیکھو جو ان کی وجہ سے شان اختیار کر گئے وَالَّذِيْنَ مَحَلَّ ان کے رنگ پکڑ گئے.یہ سب کیا معنی رکھتا ہے؟ جب یہ بھی ساتھ کہا جائے کہ محمد جو رسول اللہ ہیں ان کا ہاتھ تمہارے ہاتھ پر نہیںاللہ کا ہاتھ تمہارے ہاتھ پر ہے.بظاہر تو یہ تضا معلوم ہوتا ہےلیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ صفات باری تعالیٰ کے ساتھ تعلق رکھنے والا مضمون ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو مختلف تحریرات میں نہایت ہی عارفانہ رنگ میں حل فرماتے ہیں اور ایک مثال یہ دیتے ہیں کہ جب لوہا آگ میں پڑتا ہے تو پہلے تو وہ تپتا ہے لیکن اس کا رنگ نہیں بدلتا بظا ہر اس کی شکل وہی رہتی ہے جو پہلے تھی.صرف تم اس کی گرمی کو محسوس کرتے ہو لیکن پھر ایک ایسی حالت اس پر طاری ہو جاتی ہے کہ بالآخر اس کا اپنا کوئی وجود باقی نہیں رہتا بلکہ وہ آگ کی سیرت ہی نہیں آگ کی صورت بھی اختیار کر جاتا ہے.لوہا ہوتے ہوئے بھی وہ گویا ایک آگ کا منظر پیش کرتا ہے.آگ کی تصویر بن جاتا ہے، آگ کا وجود بن جاتا ہے.اسی طرح خدا تعالیٰ
7 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء خطبات طاہر جلد۵ کے وہ بندے جو اپنے وجود کو خدا کی ذات میں پوری طرح گم کر دیتے ہیں اور اپنے نفس کا کوئی بھی حصہ، کوئی بھی ملونی باقی نہیں رہنے دیتے ایسے بندوں پر خدا کی صفات جلوہ گر ہو جاتی ہیں اور جب وہ کامل طور پر اپنے اس بندے کو ڈھانپ لیں اور اس شدت کے ساتھ اس میں رچ بس جائیں کہ گویا اس کا اپنا وجود ختم ہو گیا تو ایسی صورت میں وہ بندہ خدا کا نمائندہ بن جاتا ہے.اس کا بولنا خدا کا بولنا ہو جاتا ہے،اس کا دیکھنا خدا کا دیکھنا ہو جاتا ہے، اسکا سنناخدا کا سننا ہو جاتا ہے،اس کا چلنا خدا کا چلنا ہو جاتا ہے، اس کا اٹھنا خدا کا اٹھنا اور اس کا بیٹھنا خدا کا بیٹھنا ہو جاتا ہے.یہی وہ محاورے ہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ علیہ نے صفات باری تعالیٰ کے بیان میں استعمال فرمائے اور خدا کے مومن بندوں کی مثال بعینہ اسی طرح پیش فرمائی کہ اُن کا اٹھنا بیٹھنا دوڑ نا چلنا پھرناسب خدا کا ہو جاتا ہے.تو یہ کیسے ہوتا ہے جب تک ہم اس نظارے کو قریب سے نہ دیکھیں جب تک ہم ان حالات سے واقف نہ ہوں اس وقت تک یہ محض دور کی باتیں ہیں محض ایک ذہنی تعیش ہے کہ کچھ لوگ ایسے تھے جو نعوذ باللہ من ذالک دنیا کی نگاہ میں خدا ہو گئے لیکن فی الحقیقت وہ خدا جیسے ہو گئے ان معنوں میں کہ انہوں نے خدا کی ہر صفت کو اپنی ہر صفت پر غالب کر دیا اپنے وجود کو خدا تعالیٰ کی ذات معلوم کی خاطر مٹا دیا.اس حقیقت کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم صفات باری تعالیٰ پر غور کریں اور یہ کریں کہ ایک لمحہ میں اچانک کوئی انسان خدا جیسا نہیں بن سکتا اور ہر انسان خدا کی ہر صفت میں اس شدت کے ساتھ خدا جیسا نہیں بن سکتا جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ایک امتیازی شان حاصل ہوئی مگر اس مضمون کو سمجھنے کے بعد ہم رفتہ رفتہ مختلف جہتوں سے خدا کی سمت میں حرکت کر سکتے ہیں مضمون کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں فَفِرُّوا إِلَى اللهِ (الذاریات: ۵۱) کے الفاظ میں آیا ہے اللہ کی طرف دوڑو.یہ آیات آپ بار ہا تلاوت کرتے ہیں لیکن سمجھ میں نہیں آتی کہ پھر خدا کی طرف کیسے دوڑیں.پس صفات باری تعالیٰ کا بیان جب پوری طرح کھل کر ذہن نشین ہو جائے میری مراد یہ ہے کہ جس حد تک بھی انسان اپنی استطاعت رکھتا ہے کہ اس کے ذہن نشین خدا تعالیٰ کی صفات کا بیان ہو جائے.پوری طرح کھل کر کا جو محاورہ میں نے استعمال کیا ہے وہ پوری طرح صادق نہیں
خطبات طاہر جلد۵ 8 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء آسکتا کیونکہ پوری طرح کھل کر تو صفات باری تعالیٰ کسی فرد بشر پر ظاہر نہیں ہوسکتیں سوائے اس کے کہ اس کی استعدادوں کی حد کمال تک اس پر ظاہر ہوں اور اس پہلو سے صرف حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ہیں جو انسانی استعدادوں کے لحاظ سے آخری حد تک خدا تعالیٰ کی صفات کو سمجھ سکے اور اُن کا عرفان حاصل فرمالیا.تو بہر حال یہ محاورے چونکہ انسانی زبان کی کمزوریوں کے بھی مظہر ہیں اس لئے بعض دفعہ محاورہ استعمال کرتے وقت انسان سمجھتا ہے کہ خدا کے ذکر میں یہ پوری طرح صادق نہیں آتا تو وقتاً فوقتاً مجھے یہ غلط نہی جملہ معترضہ کے طور پر دور کرنی پڑتی ہے.بہر حال جس حد تک بھی ایک انسان خدا تعالیٰ کی صفات حسنہ کو سمجھ سکتا ہے اسکو سمجھا جائے اور اس رنگ میں سمجھا جائے کہ دل متاثر ہواور طبیعت میں ہیجان پیدا ہو اور دل اچھلے خدا کی محبت میں اس صفت حسنہ کو دیکھ کر اور اسے پالینے کی تمنا دل میں پیدا ہو.یہ سلسلہ جب شروع ہو دل میں تو اس وقت انسان خدا کی طرف حرکت کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے.اگر ان باتوں سے، ان گلیوں سے ، ان کو چوں سے کوئی واقف ہی نہ ہو تو محض یہ سننے سے کہ کوئی خدا کو پا گیا، کوئی خدا جیسا ہوگیا، کسی میں خدا جذب ہو گیا، کسی میں سر سے پاؤں تک نہاں ہو گیا ، یہ سن کر ایک روحانی لطف تو آجاتا ہے لیکن حقیقت حال میں صحیح معنوں میں انسان استفادہ نہیں کر سکتا.اس لئے اب میں نے دوبارہ اسی سلسلہ کو ہاتھ میں لیا ہے جو بعض مجبوریوں کی بناء پر پیچھے چھوڑنا پڑا اور ممکن ہے کہ وقتافوقتاً پھر انقطاع کرنا پڑے لیکن جہاں تک بھی خدا توفیق عطا فرمائے گا انشاء اللہ اس سلسلہ کو آئندہ جاری رکھا جائے گا.خدا تعالیٰ کی صفات میں قدیر ایک بکثرت استعمال ہونے والی صفت ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر آتا ہے اور اس کی دوسری شکلیں بھی ہیں جو قرآن کریم کی مختلف آیات میں ملتی ہیں.ایک ان میں قادر ہے اور ایک مقتدر.میں نے ان تین صفات کا جو ایک دوسرے کے ساتھ تعلق رکھنے والی صفات ہیں اس پہلے خطبہ کے لئے انتخاب اس لئے کیا ہے کہ یہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک نیک شگون بھی بن جائے.ہم خدائے قدیر کے نام سے نئے سال کا آغاز کریں، خدائے قادر کے نام سے نئے سال کا آغاز کریں اور خدائے مقتدر کے نام سے نئے سال کا آغا ز کریں اور ان صفات کو پوری طرح سمجھ کر اپنی دعاؤں میں انہیں کثرت سے استعمال کریں اور اپنی ذات میں جس حد تک
خطبات طاہر جلد۵ 9 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء بھی انسان کے لئے ممکن ہے ان صفات کا حلول کریں یعنی ان کو رائج کریں اپنی ذات کے اندر.کس حد تک ممکن ہے اس کا میں بعد میں بیان کروں گا اور پھر خدا سے توقع رکھیں کہ وہ جس حد تک خدا کے بندے قدیر اور قادر اور مقتدر بن سکتے ہیں اس حد تک ہمیں بھی وہ اپنی صفات کی برکت سے قدیر اور قادر اور مقتدر بنائے.لفظ قدیر پر جولغوی بحث ہے.سب سے پہلے تو مناسب ہوگا کہ اس سے متعلق میں کچھ احباب کو آگاہ کروں اور یہ جو سلسلہ ہے قدیر، قادر اور مقتدر پر گفتگو کا یہ چونکہ ایک خطبہ میں مکمل ہونا ممکن نہیں تھا.اس لئے میں نے اپنی طرف سے تو کوشش کی ہے کہ دوحصوں میں اس مضمون کو بانٹوں لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تیسرے خطبہ تک بھی اس کو ممتند کرنا پڑے.بہر حال یہ کوشش کروں گا کہ مضمون کو مختصر رکھتے ہوئے دو خطبوں کے اندر اسے سمیٹوں.قَدَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ الأمر : قضى وَحَكَمَ بهِ عَلَیه اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ نے ایک بات کا فیصلہ فرمالیا.تو قدیر اس ذات کو کہتے ہیں جو فیصلہ کرتی ہے اور فیصلہ کی قوت رکھتی ہے ذاتی اور انسانوں میں اس پہلو سے ہر شخص قدیر نہیں ہوتا.کئی مشکل مقامات پر تو بڑے بڑے انسانوں کے لئے بھی فیصلے مشکل ہو جاتے ہیں لیکن بعض لوگ عام روزمرہ کی زندگی میں بھی کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے.یہ کریں یا وہ کریں To be or not to be یہ سوال مستقلاً ایک سوالیہ نشان بن کر ان کی زندگی کا عنوان بن جاتا ہے.اس لئے جب آپ خدا کو قدر سمجھتے ہیں یعنی قطعی فیصلہ کرنے والا تو اس کی اس صفت کے قریب ہونا بھی آپ کے لئے ضروری ہے ورنہ ایک جھوٹے منہ کی تعریف ہوگی.تو مومن کا کام ہے کہ وہ خدا کی یہ صفت اختیار کرے کہ فیصلہ کرنے کی قوت کو بڑھائے اور جب بھی دوٹوک باتیں سامنے ہوں جب بھی دوراہوں پر کھڑا ہوتو بعض ایسے اصولوں سے واقف ہو کہ جن کے نتیجہ میں وہ قطعی فیصلہ کر سکتا ہو اور قرآن کریم نے قدیر کو جن معنوں میں استعمال کیا ہے اس میں یہ بات سمجھنے میں بھی آسانی پیدا ہو جاتی ہے کہ فیصلے کی قوت کو کیسے بڑھایا جا سکتا ہے.پھر قَدَرَ الرِّزْقَ قَسَمَه خدا تعالیٰ کے متعلق جب آتا ہے کہ اس نے قدر کیا رزق کو تو اس کا ایک معنی ہے کہ اس نے زرق کو تقسیم کیا اور قدیر کا معنی مستقلاً رزق کو تقسیم کرنے کا نظام جاری کرنے والا اور اس پر دنیا کو عمل پیرا کروانے والا ہے.یعنی جب سے کائنات بنی ہے جب سے رزق کی
خطبات طاہر جلد۵ 10 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء ضرورت خدا کی مخلوقات کو پیش آئی ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کی ہر مخلوق کو خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ ہو کسی نہ کسی رنگ میں رزق دیا جاتا ہے اور ایک بھی چیز فی ذاتہ قائم نہیں ، وہ رزق کی محتاج ہے لیکن بے حساب رزق کی نہیں.یعنی بے حساب سے مراد ہے بے ترتیب رزق کی نہیں بلکہ رزق میں تقدیر کی ضرورت ہے.اگر رزق تناسب کی حد سے بڑھ جائے تب بھی نقصان دہ ہے.اگر رزق تناسب کی حد سے گر جائے تب بھی نقصان دہ ہے.تو قدر الرزق کا مطلب ہے تقسیم کیا گویا کہ قدیر وہ ذات ہے جو تمام کائنات میں رزق کی تقسیم کا نظام چلانے والی ہے اور چونکہ اس کا اقتدار سے بھی تعلق ہے اس لئے خدا کے مومن بندے جب بھی اقتدار پکڑتے ہیں تو وہ خدا کے رنگ میں قدیر بن جاتے ہیں یعنی خدا کی طرف سے دنیا کو رزق اس طرح تقسیم کرتے ہیں جیسے خدا تعالیٰ کا منشاء ہو اور اپنی طرف سے تقسیم رزق کے قوانین نہیں بناتے یا بندوں کے بنائے ہوئے تقسیم رزق کے قوانین کی پیروی نہیں کرتے بلکہ خالصہ اللہ کی قدیر ذات پر نگاہ رکھتے ہیں.ان اصولوں کو سمجھتے ہیں جن اصولوں کے پیش نظر تقسیم رزق کا انتظام کیا گیا اور انہیں اپنا کر اپنی طرف سے انہی اصولوں کو جاری کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ضَيَّقَهُ رزق تنگ کیا.قَدَرَ کا ایک یہ بھی معنی ہے وَقَدَرَ عَلَیہ کا مطلب ہے کسی پر اس کا رزق محدود کر دیا تنگ کر دیا جس کی تلخی وہ محسوس کرنے لگے.تو بعض اوقات خدا کی طرف سے رزق تنگ بھی کیا جاتا ہے اور اس کے بہت سے مصالح ہیں، بہت سے اس کے پیچھے فلسفے ہیں جو کارفرما ہیں.تو خدا کے مومن بندے جب وہ قدیر بننا چاہتے ہیں تو صفت قدیر کے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کرتے اور بعض موقعوں پر وہ رزق کو تنگ بھی کرتے ہیں.اپنے لئے اپنے خاندان کے لئے بھی اور غیروں کے لئے بھی لیکن وہ بھی محض اللہ ہوتا ہے.مثلاً خدا کے نام پر جب کوئی تحریک کی جاتی ہے تو خدا کے مومن بندے جو اپنے گھر سے اپنے ہاتھوں سے رزق لے کر خدا کے حضور خدا کے کاموں کے لئے پیش کر دیتے ہیں.اپنے بچوں کا رزق لے کر ، اپنی بیوی کا رزق لے کر ، اپنے احباب کا رزق لے کر، اپنے عزیز واقارب کا رزق لے کر.یعنی رزق تو ان کا ہی ہوتا ہے لیکن عموماً وہ ان چیزوں پر خرچ کرنے والے ہوتے ہیں.تو ان سب جہتوں سے اپنے خرچ کو روک کر جب وہ خدا کی سمت رزق کو جاری کرتے ہیں ، دینے والے کی طرف تو گویا وہ خدا کی طرف سے قدیر بن گئے.انہوں نے
خطبات طاہر جلد۵ 11 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء اپنے رزق کو محدود کر دیا لیکن اعلیٰ مقاصد کے لئے اعلیٰ مصالح کی خاطر اور قومی لحاظ سے بھی بعض دفعہ خدا کے مومن بندوں کو ان معنوں میں بھی قدیر بننا پڑتا ہے اور بعض دفعہ اصلاح احوال کے لئے بھی ان کو قد سر بننا پڑتا ہے.بچوں کی تربیت کے لئے بھی ان کو قد مر بنا بڑاتا ہے یعنی رزق بعض دفعہ بچوں کا اس غرض سے تنگ کیا جاتا ہے کہ ان کی عادتیں خراب نہ ہوں، ان کو آسائش کی زندگی کی عادت نہ پڑ جائے ، ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو.ایسی باتیں جو بظاہر محبت کے تقاضوں کے خلاف ہیں کہ انسان اپنے بچے پر رزق تنگ کر دے.جب خدا کی صفات کو انسان سمجھتا ہے تو ایسی ہی باتوں کو اختیار بھی کر لیتا ہے اور صرف مومن کا سوال نہیں ، صاحب فہم قو میں بھی خدا کی ان صفات کی نقالی کرتی ہیں خواه براه راست ان کو قرآن کریم کا عرفان نہ بھی حاصل ہو.چنانچہ دنیا کی قوموں میں ایسے ایسے عظیم الشان، دنیا کی نظر میں عظیم الشان لوگ موجود ہیں جن پر خدا تعالیٰ نے بے انتہاء رزق کھولا ہوا ہے لیکن وہ اپنی اولا د کو پہلے تربیت کی خاطر رزق تنگ کر کے اپنے ہی کارخانوں میں اس طرح ملازم رکھتے ہیں کہ ان کو مزدوری بھی کرنی پڑتی ہے اور پھر مزدوری سے گذر کر ان کو اور سخت کام بھی کرنے پڑتے ہیں محض اس لئے کہ ان کو محسوس ہو کہ رزق کی تنگی کیا چیز ہے اور کس طرح رزق کمایا جاتا ہے.تو بہر حال قدیر کے بہت سے ایسے استعمالات ہیں جن کے ڈھنگ انسان خدا سے سیکھ سکتا ہے.قَدَرَ کا ایک معنی جَمَعَہ اکٹھا کر لیا، کسی چیز کوقابو میں کرلیا، کسی چیز کو جمع کر لیا اور کسی چیز کو کسی مقصد کی خاطر روک رکھا.اس کا تعلق بھی گہرا رزق کے ساتھ ہے.جب خدا تعالیٰ کسی کے رزق کو وسعت دیتا ہے تو بے محابا خرچ کو پسند نہیں فرماتا بلکہ بعض ایسے قوانین جاری فرماتا ہے جن کے نتیجہ میں رزق کو برمحل استعمال کیا جائے بعض جگہ سے روکا جائے ، بعض جگہ پر جاری کیا جائے ، بعض صورتوں میں اکٹھا کیا جائے.تو یہ ساری صفات اللہ تعالیٰ کی ایسی ہیں جن کا تعلق قدیر سے ہے اور جب آپ ان صفات پر غور کرتے ہیں تو یہ لفظ قدیر سے نکل کر پھیلنی شروع ہو جاتی ہیں.جیسے ایک روشنی کے مرکز سے شعاعیں پھیلنے لگتی ہیں اور رفتہ رفتہ اور دیگر مضامین پر حاوی ہو جاتی ہیں اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے قدیر کا ایک سورج چکا ہے جس کی شعاعیں سارے جگ کو بھر رہی ہیں ہر طرف پھیل کر.خدا تعالیٰ کی دیگر صفات کے ساتھ بھی لفظ قدیر کا ایک تعلق قائم ہونے لگتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 12 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء قدر کا ایک معنی پہچانے کے بھی ہیں.جب کہا جاتا ہے کہ اللہ نے بندے کی قدر کی تو اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو خوب اچھی طرح پہچانتا ہے اور اس کی صفات سے خوب اچھی طرح واقف ہے، اس کے نتیجہ میں اس کے ساتھ ہمیشہ صحیح سلوک فرمائے گا.لاعلمی کے نتیجہ میں وہ کوئی غلط سلوک نہیں کر سکتا.اس کا علم کے ساتھ بھی ایک تعلق ہے اسی لئے قرآن کریم میں بسا اوقات علیم اور قدیر صفات کو جوڑ کر بیان فرمایا گیا ہے.تو قدر کے معنی ہیں پہچان لینا، معرفت حاصل کر لینا.مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِة ( الانعام:۹۲) اس کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے اپنے خدا کی قدر نہیں کی ، خدا کی قدر کن معنوں میں؟ اس کی عظمت کو نہیں پہچانا.ایک دفعہ ایک یہودی عالم آنحضرت علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اپنے علم کا زعم لیکر اس نے ایک ایسی چیز اپنی طرف سے آنحضرت علی کے سامنے بیان کی جسے وہ سمجھتا تھا کہ گویانعوذباللہ اس کے علم کا رعب پڑ جائے گا اور بات وہ بیان کی جو آنحضرت ﷺ کے سامنے کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتی تھی.اس نے یہ بیان کیا کہ ہم نے تو رات میں یہ پڑھا ہے کہ خدا تعالیٰ کی ایک انگلی پر آسمان ہے، ایک انگلی پر زمین ہے، ایک انگلی پر دوسری بعض مخلوقات ہیں.اس طرح چند انگلیاں اس نے گنوائیں اور کہا کہ اس پر یہ چیز ہے.اس پر وہ چیز ہے اور اس پر وہ چیز ہے، آنحضرت ﷺ اس پر اتنا مسکرائے کہ راوی بیان کرتا ہے کہ آپ کے دانت نظر آنے شروع ہو گئے اور آپ نے یہ آیت پڑھی مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِہ ان لوگوں نے اللہ کی معرفت کو پہچانا نہیں ( صحیح بخاری تفسیر القرآن حدیث نمبر : ۴۴۳۷).یہ عجیب بات ہے کہ راوی جو بیان کرتے ہیں اس روایت کو اور بعض احادیث کے علماء بالکل برعکس نتیجہ نکالتے ہیں اس سے.وہ کہتے ہیں آنحضرت ہ مسکرائے اس وجہ سے کہ آپ نے تائید فرمائی کہ ہاں ہاں تو نے بہت ہی معرفت کا نکتہ بتایا ہے اور اس کی تائید میں یہ آیت پڑھی.حالانکہ یہ آیت خود بتا رہی ہے کہ آنحضرت ﷺ اس بیچارے کی نادانی اور لاعلمی پر مسکرائے ان معنوں میں کہ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ خدا ہے کیا چیز ؟ وہ مجھ سے سیکھو، مجھے کیا بتانے آئے ہو.جس کی ذات میں سرتا پا خدا انہاں ہو چکا ہے اس کو یہ بتانے آئے ہو کہ خدا کیا ہے اور ایسی اس کی صفات دنیا میں جلوہ گر ہورہی ہیں.تو تحقیر کا مسکرانہ نہیں تھا وہ ، نہ تائید کا تھا بلکہ معرفت الہی کے نتیجہ میں ایک بے اختیار مسکراہٹ تھی.جس پر کوئی انسان اپنے اختیار سے قابو ہی نہیں پاسکتا اور
خطبات طاہر جلد۵ 13 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء پھر یہ آیت پڑھ دی مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِ افسوس! ان لوگوں کو خدا کی قدر نہیں ہے خدا ہے کیا چیز ؟ ان ظاہری بیانوں میں الجھے ہوئے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ خدا تعالیٰ کی تعظیم.عَلَّمَهُ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا تعالیٰ کی صفت قدیر کا صفت علیم سے بڑا گہرا تعلق ہے تو قدر اللہ کا مطلب ہے علمہ یعنی ایک معنی اسکے یہ ہیں کہ کسی چیز کو سکھایا.ان معنوں میں کہ اس کی معرفت بیان کی ان معنوں میں کہ ایک چیز کو سمجھ گئے اس کی قدر کی اور صرف اپنے تک نہیں پھر رکھا پھر وہ آگے دوسروں کے سامنے پیش کیا.چنانچہ ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کی تعظیم بیان کرنے کے لئے بھی قدر اللہ کا محاورہ استعمال ہوتا ہے.عظمہ یعنی خدا کو صرف پہچانا ہی نہیں بلکہ پہچان کر اس کے گیت گائے اس کی بلندی بیان کی اور دوسروں کو بھی اس اس سے متعارف کروایا.ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کی قدر ہمارے لئے یہ ہوگی کہ ہم بکثرت خدا تعالیٰ کی تعظیم کریں اور اس کی عظمت کو دوسروں کے سامنے بیان کریں ان معنوں میں قدیر صفت کے ساتھ ہمارا ایک گہرا رابطہ ہوتا چلا جائے گا.قَدَرَ عَلَيْهِ قوِىَ عَلَيْه کسی چیز کو کرنے پر پوری طاقت اور مقدرت.انہی معنوں میں اردو میں لفظ مقدرت کا استعمال ہوتا ہے اور جب ہم کہتے ہیں کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے قدیر کا ترجمہ ہمیشہ یہ کیا جاتا ہے خدا ہر چیز پر قادر ہے.تو یہاں قدیر اور قادر میں تو اگر چہ فرق تو ہے لیکن اپنی زبان کی مجبوری کی وجہ سے ہم اور ترجمہ کر نہیں سکتے.ورنہ صفت قدیر قادر کی نسبت زیادہ وسیع ہے اور بہت ازلیت اس میں پائی جاتی ہے، اس کے اندر ایک زمانے سے بالا ہونا داخل ہے اس کے معنوں میں، ایسی ذات جو ہر وقت ہمہ وقت قدیر ہو، صاحب قدرت ہو اسکو قدیر کہا جاتا ہے اور قادر کہتے ہیں جوکسی ایک وقت میں اپنی قدرت کا نمونہ دکھائے.قرآن کریم نے مختلف بیانات میں یہ فرق نمایاں کر کے ہمیں دکھایا ہے مگر اس کا موقع بعد میں آئے گا تو میں آپکے سامنے رکھوں گا.بہر حال قدر علیہ کا ایک مطلب ہے قوی عَلَیہ کسی چیز پر قدرت پانا، اسے کرنے کا اختیار رکھنا لیکن یہ معنی بہت سے وساوس کو پیدا کرنے کا بھی موجب بن گیا اور اس لحاظ سے میں اس کی کچھ مزید تشریح کرنا چاہتا ہوں.لیکن یہ مضمون بہتر ہوگا کہ بعض اور باتوں کے بیان کے بعد بیان کیا جائے کیونکہ اس کا تعلق لفظ قدیر کے بعض اور معانی سے بھی ہے.قَدَرَ الشَّي ءَ بِالشَّيْءِ ایک چیز کا دوسری چیز پر قیاس کیا اور اس کے مطابق بنایا.
خطبات طاہر جلد۵ 14 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء تو قدیر کہتے ہیں ایسی ذات کو جو پہلے ایک ماڈل بنائے اور اس ماڈل کے مطابق پھر دوسری چیزیں بنانی شروع کر دے.ایک چیز کوملحوظ رکھے اور اس کے مطابق پھر اور چیز میں بنانی شروع کر دے.تو خدا تعالیٰ نے دنیا میں جتنی بھی زندگی کی شکلیں بنائی ہیں ان میں ان پہلوؤں سے اللہ تعالیٰ کی قدرت ہمیں دکھائی دیتی ہے کہ ماڈل پہلے تیار کیا جاتا ہے پھر اس ماڈل کے آگے اسی جیسے اور بنے شروع ہو جاتے ہیں اور یہ خدا کی صفت قدیر ہے جو اس نظام کو سنبھالے ہوئے ہے اور جاری رکھے ہوئے ہے.اگر خدا قدیر نہ ہوتا تو زندگی کے اپنی شکل میں آگے جاری ہونے کے کوئی امکان نہ ہوتے.کیوں زندگی میں یہ طاقت ہے کہ وہ اپنی جیسی اور چیزیں پیدا کرسکتی ہے؟ یہ کوئی ذاتی صفت نہیں ہے.یہ خدا تعالیٰ کی قدیریت کا مظہر ہے.پس مومنوں میں بھی خدا تعالیٰ کے قدیر ہونے کی یہ شان پائی جانی چاہئے کہ وہ ایک چیز پر اتفاقی پیدائش پر بس نہ کریں بلکہ سلسلے پیدا کرنے کی کوشش کریں.اپنی سوچوں میں ایک ایسا تغیر پیدا کر دیں کہ گویاوہ خدا کی قدیریت کے مظہر بن کر صرف ایک چیز بنا کر راضی نہیں ہوں گے بلکہ نئے ڈیزائن دنیا کو دیں گے، نئے ماڈل دنیا کو دیں گے.جس علم سے بھی ان کا تعلق ہے اس علم میں ایسی باتیں پیدا کریں گے جس سے نمونہ پکڑ کر اور آگے پھر چیزیں پھیلنی شروع ہو جائیں.قَدَرَ الشَّيْءَ کا ایک معنی ہے کسی چیز کو پیدا ہی نہیں کیا بلکہ اس کا ایک وقت معین کیا.اب اس سے دیکھیں کتنا حیرت انگیز اس صفت کا تمام تخلیق سے تعلق قائم ہورہا ہے.خدا تعالی کی تخلیق کا جو بھی پہلو آپ سوچیں کسی نہ کسی رنگ میں اس سے اسکی صفت قدیری کا تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں ایک سبق ہے.کوئی ایک چیز بھی خدا نے ایسی پیدا نہیں کی جس کے لئے وقت معین نہ کیا ہو.اس لئے یہ خیال کہ ہر چیز دائی ہے یا کوئی چیز دائمی ہے یہ بالکل جھوٹا اور باطل خیال ہے.اللہ تعالیٰ کی ذات کے سوا کوئی چیز بھی دائمی نہیں ہے.سوائے خدا کے کوئی چیز بھی ایسی نہیں جو وقت سے بالا ہواور وقت ان معنوں میں کہ اس کے اندر جتنی بھی صفات پائی جاتی ہیں ان کا ایک معین وقت ہے ان کی جلوہ گری کا ایک معین وقت ہے اور کسی نہ کسی وقت آکر ان میں اجتماعی طور پر یا رفتہ رفتہ ایک کے بعد دوسری میں کمی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور بالآخر وہ انجام کو پہنچتی ہیں اور یہ انجام کو پہنچنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتا بلکہ پہلے سے ایک معین طریق پر اس کی ذات میں وہ بات گویا کہ ایک کمپیوٹر کی
خطبات طاہر جلد۵ 15 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء طرح داخل کر دی جاتی ہے کہ تمہارا یہ وقت معین ہے اس سے آگے تم نہیں بڑھ سکتے.ان معنوں میں خدا تعالیٰ قرآن کریم میں مختلف جگہ اپنی قدرت کے اس پہلو پر روشنی ڈالتا ہے.پس یہ آج کل جو دنیا میں صناع قو میں ہیں انہوں نے بھی غیر اختیاری طور پر غیر شعوری طور پر ، لمبے تجربے کی بناء پر خدا کی بعض صفات سے استفادہ کرنا شروع کر دیا.کیونکہ صفات باری تعالیٰ دنیا میں ہر جگہ جلوہ گر ہیں اس لئے ضروری نہیں ہے کہ کلام کے ذریعہ وہ صفات کسی کو بیان کی جائیں تو وہ انہیں سمجھنے لگے گا بلکہ جس رستے پر بھی آپ قدم اٹھائیں گے وہاں خدا کی صفات آپ کو نظر آنی شروع ہو جائیں گی اور اگر گہری نظر سے آپ سفر کریں گے تو آپ کو دائیں بائیں اوپر نیچے ہر جگہ خدا کی کچھ صفات کی معرفت بھی حاصل ہونی شروع ہو جائے گی.اب جو ایسی قومیں جنہوں نے صناعی میں ترقی کی ہے اور بعض علوم میں ترقی کی ہے وہ یہ بات پہچان گئے ہیں کہ جب بھی کوئی چیز بنائی جاتی ہے اس کی عمر معین کرنا صرف ضروری نہیں بلکہ بتانا بھی چاہئے کہ کتنی عمر اس کی مقدر ہے.چنانچہ یہ لوگ جب پل بھی بناتے ہیں تو اس کی بھی عمر لکھ دیتے ہیں.کوئی کیمرہ بناتے ہیں تو اس کی گارنٹی پر بھی عمر ہوتی ہے، اس کے علاوہ بھی تخمینہ ہوتا ہے کہ کب تک یہ جاری رہ سکتا ہے یا چل سکے گا.اور جولوگ ان باتوں سے ناواقف ہیں بدقسمتی سے وہی لوگ ہیں جن کے سامنے بیان کی گئی تھیں یعنی قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے کھول کر یہ مضمون مسلمانوں کے سامنے رکھ دیا کہ خدا تعالیٰ قدیر ہے.وہ جو چیز بھی پیدا کرتا ہے اس کے لئے ایک وقت معین کرتا ہے اس لئے تم بھی اپنی صناعی میں خدا کی قدرت کے یہ رنگ اختیار کرو اور ہر چیز جو بناؤ اس کو علم کے زور سے بناؤ حکمت کے ساتھ بناؤ اور فیصلہ کرو کہ کس وقت تک اس چیز نے کام میں آنا ہے اور کس وقت تک یہ کام دے سکتی ہے.اس پہلو سے بھی جماعت احمدیہ کو اپنے ہر پہلو میں قدیر بنا چاہئے ، اپنی ہر زندگی کے پروگرام کو معین کرنا چاہئے اور وقت مقرر کرنا چاہئے اس کا.قَدْرَهُ عَلَى الشَّيْ ءٍ جَعَلَهُ قَادِراً قَدَّرَ کا معنی ایک یہ بھی ہے جب باب تفعیل میں اسکو ڈھالا جائے قَدْرَ يُقَدِرُ تقدیر اتو اس کا معنی ہے کہ کسی کام کرنے پر قا در بنادیا.قَدْ رَفَلَانٌ رَوَّى وَفَكَّرَفِي تَصْفِيَّةِ اَمْرِهِ کہ اپنے معاملہ کو سدھارنے کے لئے گہرے سوچ بچار سے کام لیا.یہ دونوں مضمون ایسے ہیں جن پر قرآن کریم مختلف جگہوں پر روشنی ڈال رہا ہے.فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ
خطبات طاہر جلد۵ 16 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء (المدثر: ۱۹) برے معنوں میں بھی بیان کیا ہے کہ فرعون کو دیکھو اس نے ایک اندازہ لگایا اور کام اپنی طرف سے سنوارنے کے لئے اس نے ایک گہری تدبیر کی فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ہلاک ہو.اس کی تو تدبیر بالکل الٹ گئی ، بجائے فائدہ پہنچانے کے اس کے لئے نقصان کا موجب بن گئی.تو قدر کا یہ معنی بھی ہے کہ صرف وقتی جذبات یا حالات سے متاثر ہو کر اچانک کوئی کام نہ کرے بلکہ پہلے سے سوچے تذبیر اختیار کرے ایک سکیم بنائے ، اس کے بلیو پرنٹس تیار کرے، اس کے تمام پہلوؤں پر نظر کرے اور پہلے اپنے فکر میں اس کی پلاننگ مکمل کرلے اس کا منصوبہ بنالے پھر اس کو عمل میں ڈھالنے کی کوشش کرے.اب یہ وہ پہلو ہے کہ اگر اس کو آپ اختیار کر لیں یعنی جماعت احمد یہ ایک امتیازی نشان کے طور پر اس پہلو کو اختیار کرلے تو دیکھیں آپ کا مقام کہاں سے کہاں پہنچ جاتا ہے دنیا کے ہر شعبے میں ، زندگی کے ہر شعبے میں اس عادت سے غیر معمولی فائدہ پہنچ سکتا ہے لیکن بدقسمتی سے بہت سے انسان ایسے ہیں جو کام پہلے کرتے ہیں سوچتے بعد میں ہیں یا کام کرتے وقت سوچتے ہیں.جوں جوں مشکلات پیدا ہوں ساتھ ساتھ ان کا ذہن ان مشکلات کو حل کرنے کی طرف متوجہ ہوتا ہے.اور جن قوموں نے خدا کی صفت قدیری سے استفادہ کی کوشش کی ہے وہ نہ صرف یہ کہ بہت پہلے سوچتے ہیں بلکہ آئندہ آنے والے خطرات کے بارہ میں بھی حتی المقدور ایک تصور باندھتے ہیں اور ان خطرات کو دور کرنے کے لئے بھی ذہن میں ایک پلان مکمل کرتے ، ایک منصوبہ بناتے ہیں اور پھر جو چیز بھی وہ تخلیق کرتے ہیں وہ جہاں تک ان کے لئے ممکن ہے وہ تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر تخلیق کرتے ہیں کہ فلاں وقت اتنی دیر تک چلنے کے بعد اس مشین میں یہ نقص پیدا ہوسکتا ہے اس کے نتیجہ میں یہ خطرات پیش آسکتے ہیں.ان خطرات کے ازالہ کے لئے ہمیں یہ یہ کرنا چاہئے.اس کے باوجود انسان پوری طرح قدیر نہیں بن سکتا کیونکہ اس کو تمام علم حاصل نہیں ہے اور قدیر کا علیم سے ایک گہرا تعلق ہے.جب تک علم مکمل نہ ہو قدرت مکمل نہیں ہو سکتی اس لئے انسان تو اس میں ٹھوکر کھا جاتا ہے لیکن بہر حال جتنا جتناوہ خدا کی صفت قدیری کے قریب بڑھتا ہے اتنا اتنا اس کی تخلیق ، اس کی صنعت زیادہ حسین تر ہوتی چلی جاتی ہے.لیکن بدقسمتی سے مسلمان جن کو یہ گر سکھائے گئے قرآن کریم کی طرف سے وہ بالعموم اس سے کلیہ غافل ہیں نہ منصوبہ بناتے ہیں نہ یہ فکر کرتے ہیں کہ کیا کرنا ہے بلکہ ایک عجیب ظالمانہ تضاد پیش کر رہے ہیں یعنی ایک وہ قوم تھی حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کی جن کو یہ
خطبات طاہر جلد۵ 17 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء بتایا گیا کہ کل کی فکر نہ کر و جو وقت آئے گا ٹھیک دیکھا جائے گا اور ایک وہ قوم ہے جس کو قرآن کریم نے بار بار بتایا کہ کل کی فکر کرو وَ لَتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر: ۱۹) خبر دار گران رہو کہ کل تم آگے کیا بھیجنے والے ہو، اپنے مستقبل کے لئے کیا تیاری کر رہے ہو اور جس کو پھر خدا نے اپنی صفات کے بیان کے ذریعہ خوب اچھی طرح آگاہ کر دیا کہ ترقی کی راہیں کیا ہیں اور کس طرح ان پر قدم مارے جاتے ہیں.وہ ان صفات سے عاری ہو بیٹھے ہیں لوگ اور جن کو یہ نہیں بتایا گیا تھا انہوں نے ایک لمبا سفر خدا تعالیٰ کی عملی قدرت میں اختیار کیا یعنی خدا تعالیٰ نے جو قوانین قدرت اس مادی دنیا کے بنائے ہیں ان میں انہوں نے سفر اختیار کیا اور رفتہ رفتہ خدا تعالیٰ کا عرفان غیر شعوری طور پر حاصل کرنا شروع کر دیا اور صفت قدیری کے بعض پہلو اختیار کے اور دنیا میں ترقی کی.القدر مبلغ الشيء کس چیز کی حد اور انتہا كون الشيء مساويا بغيره بلا زیادہ کہ ایک چیز کا بغیر کمی یا بیشی کے دوسری چیز کے برابر ہونا.الطاقة اور طاقت بھی اس کا معنی ہے.یہ بہت ہی عجیب مضمون ہے جو خدا تعالیٰ کی تخلیق میں ہمیں دکھائی دیتا ہے اس کی قدرت کے معنوں میں.قدرت کا ایک معنی یہ ہے کہ ہر چیز کو متوازن رکھنا.اگر ایک مثبت پہلو ہے تو اس کے برابر ایک منفی پہلو رکھنا یہاں تک کہ جب ترازو میں ان باتوں کو تو لو تو دونوں پہلو بالکل مساوی ہوجائیں.خدا تعالیٰ کی قدرت جب عملی تخلیق میں جلوہ گر ہوئی ہے تو حیرت انگیز طور پر اس کی قدیری کی شان ہر جگہ نظر آتی ہے.جو کچھ بھی اس نے پیدا کیا ہے اس کے اندر یہ توازن آپ کو ملاتا ہے.ایک پول ہے دائیں کا اور ایک بائیں کا پول ہے.ایک مثبت قوت ہے ایک منفی قوت ہے اور ان سب کو اگر آپ اکٹھا کر دیں تو Sum Total زیرو ہو جائے گا، بظاہر صفر ہو جائے گا.یہ اتنا حیرت انگیز توازن ہے کہ اگر ساری کائنات کی تمام منفی چیزوں کو تمام مثبت چیزوں کے ساتھ مدغم کر دیں تو جواب صفر آئے گا، ہر چیز عدم ہو جائے گی اور یہ خدا کی قدیری کی شان ہے کہ اس نے عدم سے اس طرح تخلیق کی ہے کہ مثبت بھی پیدا کیا اور منفی بھی پیدا کیا اور دونوں مختلف پہلو اتنے متوازن پیدا کئے کہ آخری حساب کے نقطہ نگاہ سے ایک ذرہ کا بھی بظا ہر فرق نہیں پڑ رہا.اس کے باوجود لا متناہی تخلیق کی صورتیں پیدا ہوگئیں.ایک بھی ہے
خطبات طاہر جلد۵ 18 خدا اور یہ سب کچھ بھی ہے.ان سب سوالوں کا جواب آگیا کہ: کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود جب پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟ خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء اے خدا! تو تو کہتا ہے کہ تیرے سوا اور ہے ہی کچھ نہیں تو پھر یہ کیا ہنگامہ ہے! یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں غمزه و عشوہ و ادا کیا ہے؟ (دیوان غالب صفحه: ۲۵۱-۲۵۲) یہ کیا دنیا میں ہم دیکھ رہے ہیں یہ حسن کی جلوہ گریاں ، یہ ادائیں، یہ ناز یہ مظالم کا سلسلہ، یہ کے مختلف پہلو، یہ بدصورتیوں کے مختلف پہلو.لیکن جب آپ خدا کی صفت قدیر پر غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کا ایک گہرا تعلق توحید باری تعالیٰ سے بھی ہے اور قدرت کے اندر یہ بات پائی جاتی ہے کہ خدا کے سواہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ متوازن ہو کر عدم اختیار کر جائے اگر خدا تعالیٰ یہ چاہے.ایک دفعہ ہمارے ایک احمدی بزرگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی جو بہت دعا گو تھے اور جن کی دعاؤں کو خدا تعالیٰ بڑی جلدی پایہ قبولیت میں جگہ بھی دیتا تھا اور بہت جلد جواب بھی دیتا تھا.ان کے متعلق یہ واقعہ آتا ہے کہ وہ ایک دفعہ اسی الجھن میں مبتلا ہو گئے.اے خدا! جب تیرے سوا ہے ہی کچھ نہیں تو یہ لاکھوں کروڑوں اربوں ان گنت شکلیں ہم کیا دیکھ رہے ہیں، میں کیا ہوں ؟ تو کیا ہے؟ ما وتو کے جھگڑے کیا ہیں، یہ زمین یہ آسمان ، یہ بیچ میں چیزیں پیدا ہونے والی ان گنت مخلوقات کی قسمیں.مجھے تو اس کی سمجھ نہیں آتی.پھر تیری وحدت کہاں گئی.اسی سوچ میں مبتلا تھے کہ اچانک کشفی حالت طاری ہوئی اور کشفی حالت میں انہوں نے دیکھا کہ وہ ایک بچے کی طرح ایک کلاس روم میں بیٹھے سبق حاصل کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ ایک استاد بن کر بلیک بورڈ، تختہ سیاہ پر چاک سے کچھ لکھ رہا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ نے یعنی تمثل کے طور پر ایک استاد کی شکل اختیار کر کے بلیک بورڈر پر ایک لکھا اور ان سے جو شاگرد بنے ہوئے بیٹھے تھے ان سے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو انہوں نے کہا 1 اس پر خدا نے ایک طرف زیرو لکھا، صفر لکھا تو فرمایا یہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ جی صفر.پھر اور صفر لکھے پھر اور صفر لکھے یہاں تک کہ بہت سے صفر لکھے.پھر ایک صفر اٹھا کر اس 1 کے دائیں طرف
خطبات طاہر جلد۵ 19 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء رکھ دیا اور کہا یہ کیا ہے انہوں نے کہا کہ 10 (دس) پھر ایک اور صفر اٹھایا اور اس کے آگے دائیں طرف رکھ دیا پھر خدا نے پوچھا یہ کیا ہے انہوں نے کہا جی 100.غرضیکہ وہ ہند سے بڑھنے شروع ہوئے یہاں تک کہ گنتی ختم ہوگئی اور پھر یہ کشفی حالت بھی جاتی رہی.تو سبق یہ دینا مقصود تھا کہ جو کچھ بھی ہے خدا کی ذات سے طاقت حاصل کر کے ہے، اس کے منشاء اور ارادے کے مطابق ہے اور اسی سے صفر قوت پکڑتے ہیں اور تعدد اختیار کرتے ہیں اور اگر اس 1 کے ساتھ ان صفروں کا رشتہ نہ باندھا جائے اور صحیح سمت میں نہ باندھا جائے تو ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں.تو صفت قدیر بھی ہمیں یہی سبق دیتی ہے کہ تخلیق کا خدا تعالیٰ کی قدرت کی شان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے یعنی قدر کے یہ معنی کہ متناسب اور متوازن کرنا یہاں تک کہ دونوں پہلوسوفی صدی برابر ہوجائیں.یہ صفت خدا کی ہر تخلیق میں آپ جلوہ گر دیکھیں گے اور احمدیوں کے لئے بھی اس میں گہرے سبق ہیں.آپ کو خدا تعالیٰ تخلیق کے نئے نکتے سمجھا رہا ہے، نئے عرفان عطا فرمارہا ہے.اپنی ذات میں پہلے توازن پیدا کریں اگر آپ خدا کے قدیر بندے بنا چاہتے ہیں.اپنی ذات کومتوازن بنائیں کیونکہ متوازن ہوئے بغیر نشو و نما نہیں ہوسکتی.نشو ونما تخلیق کا ایک دوسرا پہلو ہے ابتداء جب تخلیق کی ہو جاتی ہے تو پھر اعادہ ہوتا ہے تخلیق کا اور تخلیق کے ہر اعادہ کے وقت خدا کی قدرت کا یہ پہلو جلوہ گر ہو جاتا ہے کہ ایک توازن کی حالت قائم کی جاتی ہے جس سے پھرنئی نشو ونما پیدا ہوتی ہے.مثلاً آپ گندم کا کھیت اگانے کی کوشش کریں، دانوں کا چھٹا دیں گے تو روئیدگی تو پیدا ہو جائے گی لیکن اگر اس کھیت کے اندر توازن نہیں ہے تو یا تو آپ کو کچھ بھی حاصل نہیں ہو گا یا آپ کی بیشتر محنت ضائع چلی جائے گی یا کم سے کم جو حد امکان تک آپ فائدہ اٹھا سکتے تھے اپنی محنت کا وہ نہیں اٹھا سکیں گے.مثلاً اگر زمین متوازن نہیں ہے تو اس سے زمیندار جانتا ہے کہ کتنا بڑا اس کی فصل کے پھل پر اثر پڑتا ہے.اگر پانی متوازن نہیں دیا گیا یعنی خشکی اور تری کا جو توازن ہے وہ صحیح قائم نہیں رکھا گیا تو اس سے بھی بعض دفعہ ساری محنت بے کار چلی جاتی ہے.کسی وقت میں زیادہ پانی دے دیں اور کسی وقت میں خشکی زیادہ دے دیں تب بھی نقصان خشکی نہ پیدا کریں تب بھی نقصان تری پیدا نہ کریں تب بھی نقصان.توازن ہے جس کے نتیجہ میں کھیت بڑھتے ہیں.کھاد بڑی اچھی چیز ہے.طاقتور چیز ہے لیکن کھاد میں جہاں توازن
خطبات طاہر جلد۵ 20 20 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء بگڑے.وہاں کھیت خود بولتا ہے ، شکایت کرتا ہے.میں زمیندار عملاً رہا ہوں بڑا المبا عرصہ مجھے پتہ ہے، میں تو پھرتا تھا تو کھیتوں کی شکایت سنتا تھا، دیکھتا تھا کہیں زیادہ کھا د سے اتنا زیادہ نشو ونما ہوئی کہ وہ فصل نشو ونما کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئی.ہواؤں سے گرگئی.یاد یسے ہی Vegetative Growth یعنی اس کی سبزی کی نشو ونما زیادہ ہوگئی ، پھل کے قابل نہ رہی اور جہاں کم تھی وہاں چہرے کی زوری بولتی تھی کہ ہمیں کم طاقت دی گئی ہے.تو صفت قدیری میں یہ جو توازن کی شان ہے اس میں بہت گہرے سبق ہیں ہمارے لئے.ہم اپنی ذات میں توازن پیدا کریں اور پھر اس توازن کو اپنی تخلیقات میں جاری کریں تو عظیم الشان ترقی کی راہیں جماعت احمدیہ کے لئے کھل سکتی ہیں.القَدَرُ القَدْرُ کے مقابلہ پر لفظ ہے القَدَر ( دال کی زبر کے ساتھ ) جس کا معنی ہے مَا يُقَدَ اللهُ مِن قَضَاءِ وہ قضاء جس کا اللہ تعالیٰ فیصلہ کرتا ہے.عَرَفَهُ بَعْضُهُمْ بِأَنَّهُ تَألف الارادة بالاشیاء فِی اَوْقَاتِهَا بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اشیاء کا اپنے اوقات پر وقوع پذیر ہونا یہ قدر ہے.تو یہ ایک اور پہلو بھی ہے جو بہت اہم ہے خدا تعالیٰ کی صفت قدیری کو سمجھنے کے لئے کہ جو چیزیں بھی رونما ہوتی ہیں وہ سب اپنے وقت پر رونما ہوتی ہیں.یعنی ہر چیز کے رونما ہونے کے لئے ایک وقت معین اور مقدر ہے.مثلاً جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے دانت نہیں ہوتے لیکن چونکہ وہ خدا کی قدرت سے پیدا ہوا ہے اس لئے ہمیں توقع رکھنی چاہئے کہ وہ چیز جس کی اس کو آئندہ ضرورت پیش آنے والی ہے عین اس وقت پیدا ہوگی جب اس کو ضرورت پیش آئے گی.بعض اور صفات سے بظاہر وہ عاری نظر آتا ہے اس میں نہ اُنا تا والی بات ہے نہ ذکران والی بات ہے.نہ اس میں نر کی صفات ہیں نہ مادہ کی صفات ہیں لیکن ہرانسان جانتا ہے کہ چونکہ وہ خدا تعالیٰ کی قدرت سے پیدا ہوا ہے اس لئے تقدیر کے معنی یہ ہیں کہ اب وقت مقررہ پر کچھ اور چیزیں ظاہر ہوں گی داڑھی نہیں ہے تو وہ داڑھی بھی ظاہر ہوگی.اور بہت سی صفات ہیں جو رفتہ رفتہ ترقی کریں گی.تو جب دانت کی طلب پیدا ہوتی ہے ، جب دانت کا اقتضاء پیدا ہوتا ہے تو دانت اگنے شروع ہو جاتے ہیں اور جب ان دانتوں کے جھڑنے کا اقتضاء پیدا ہوتا ہے تو وہ دانت جھڑ نے لگ جاتے ہیں اور جب ان کی جگہ بہتر اور نسبتاً لمبے رہنے والے دانتوں کا وقت آتا ہے تو پھر وہ ساتھ اُگنے
خطبات طاہر جلد۵ 21 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء بھی شروع ہو جاتے ہیں اور جتنی دیر تک ان کے لئے اگنے کی ضرورت ہے ، جتنا لمبا ہونے کی ضرورت ہے اس وقت تک وہ حکم نافذ العمل رہتا ہے کہ بڑھو اور پیدا ہو اور جس وقت وہ ایک حد مقررہ تک پہنچ جاتے ہیں تو خدا کی دوسری تقدیر جو کم کرنے والی تقدیر بھی ہے ( قدر کا ایک معنی ہے کم کرنا قَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ رزق کم کر دیا.تو خدا کی یہی قدرت کسی نئی صفت کی ضرورت پیش نہیں آتی ، اسی قدرت کا دوسرا پہلو جلوہ گر ہو جاتا ہے اور وہاں قدیر کے معنی یہ ہیں کہ اب اس کو کم کرو.چنانچہ دانت کی Growth بڑھتے بڑھتے ایک مقام پر جا کر رک جاتی ہے اور رکتی کے معنی صرف یہ ہیں کہ کم ہو جاتی ہے ورنہ روزانہ گھسائی پٹائی اتنی زیادہ ہوتی ہے ہمارے اعضاء کی کہ اگر نشو ونما بھی ساتھ جاری نہ رہے تو ہم تو چند دنوں میں گھس پٹ کر ختم ہو جائیں.کہتے ہیں ایک انسان سات سال میں بالکل نیا جسم اختیار کر لیتا ہے کیونکہ سات سال کے اندر جتنا بھی وہ اپنے آپ کو استعمال کرتا ہے عملاً اس کا پہلا وجود سارا ہی غائب ہو چکا ہوتا ہے.تو خدا تعالیٰ کی قدرت کے دونوں پہلو بیک وقت جلوہ گر ہیں قدیر بمعنی نشو و نما پیدا کرنے والے کے بھی اور قدیر معنی کم کرنے والے کے بھی اور پھر توازن پیدا کرنے والے کا معنی بھی عمل پیرا ہے، پھر وقت معین کرنے والے کا معنی بھی عمل پیرا ہے، پھر وقت معینہ پر نئی چیزوں کا ظہور پذیر ہونا یہ معنی بھی عمل پیرا ہے اور انسان غفلت کی حالت میں زندگی گزار دیتا ہے اور سوچتا ہی نہیں کہ خدا کی صرف ایک صفت کا ہی اگر وہ احسان ادا کرنے کی کوشش کرے تو ساری عمر سوچوں میں گزار دے، ساری عم تحقیق میں گزار دے یا دوسروں کی تحقیق سے استفادہ کی کوشش کرے تب بھی وہ ایک صفت الہی باری تعالیٰ کے سمندر کو طے نہیں کر سکتا.کیوں بچہ بڑھتا ہے اور ایک وقت پر جا کر وہ بڑھنا بند کر دیتا ہے.کیا یہ اتفاقی حادثات ہیں؟ کیوں خون کے سیل Duplicate ہوتے ہیں بڑھتے ہیں اور اس کے بعد پھر رک جاتے ہیں بڑھنا بظاہر اور صرف اتنا بڑھتے ہیں کہ جتنا خون کے توازن کو برقرار رکھ سکیں.قد صرف اتنا بڑھتا ہے جتنا گھسائی پٹائی کے مقابل پر اس کو برابر رکھنے کی ضرورت ہے.یہ سارے خدا تعالیٰ کی صفت تقدیری کے منظر ہیں جو عملاً ہر تخلیق کے مناظر میں نظر آتے ہیں.اور عملاً ان میں سے اکثر سے ہم اندھے رہتے ہیں یعنی دیکھتے ہوئے بھی نہیں دیکھ رہے ہوتے.دیکھتے ہوئے بھی خدا کی طرف ان
خطبات طاہر جلد۵ 22 22 خطبہ جمعہ ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء صفات کو منسوب نہیں کر رہے ہوتے اور ایسی غفلت کی حالت میں زندگی گزار دیتے ہیں جیسے کولہو پر بیٹھا ہوا انسان بالآخر اس کی آواز کوسنا بند کر دیتا ہے.اگر کولہو پر بیٹھا ہوا انسان کولہو چل رہا ہو جولوگ اس پر بیٹھتے ہیں ان کو نیند آجائے تو آواز بند ہونے پر ان کی آنکھ کھلتی ہے.یعنی بظاہر عام حالات سے بالکل الٹ بات ہے کیونکہ ایک خاص قسم کے شور کے وہ عادی ہو گئے ہیں وہ شور ہوتو وہ غفلت کی حالت میں چلے جاتے ہیں وہ شور نہ ہوتو وہ بیدار ہو جاتے ہیں.اسی طرح بعض دفعہ صفات باری تعالیٰ جب اپنا جلوہ روکتی ہیں تو تب آنکھیں کھلتی ہیں انسان کی ایک زمیندار ایک فصل کو محبت اور پیار کی نظر سے دیکھ رہا ہے کہ کتنی عظیم الشان فصل ہے اور محسوس ہی نہیں کر رہا کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے جلوے اس میں ہیں ، خدا تعالیٰ کی قدرت کی شان اس میں نمایاں ہورہی ہے، جلوہ دکھا رہی ہے.خدا تعالی کی اور بہت سی صفات ہیں جو جلوہ دکھا رہی ہیں لیکن اچانک خدا تعالیٰ کی حفاظت اور رحمت کا سایہ ایک لمحہ کے لئے اٹھتا ہے اس فصل سے اور ژالہ باری کا وہ شکار ہو کر ایک دم ختم ہو جاتی ہے، کچھ بھی اس کا باقی نہیں رہتا تو سارا سال یا نصف سال کم سے کم خدا تعالیٰ کی جن صفات کو محسوس کرنے سے غافل رہا تھا جب ایک لمحہ کے لئے ان صفات نے جلوہ دکھانا چھوڑا تو اس کی توجہ اس کی طرف مبذول ہوگئی اور وہ بھی ہر ایک کی نہیں.جو خدا سے ڈرنے والے لوگ ہیں وہ بیدار ہو جاتے ہیں ایسے موقعوں پر اور وہ مجھتے ہیں کہ دراصل سب کچھ اللہ کے فضل کے ساتھ جاری ہے.یہ مضمون خود بھی خدا تعالیٰ قرآن کریم کی دوسری آیات میں بہت کھول کر بیان کرتا ہے یہاں تک کہ ہمارے آگے ، ہمارے پیچھے خدا تعالیٰ کی حفاظت کرنے والے، قانون جاری کرنے کے لئے فرشتے موجود ہیں اور ایک لمحہ بھی ہم اگر خدا کی حفاظت سے باہر ہو جائیں تو ہمارے لئے فوری ہلاکت ہے.ایک لمحہ کے لئے بھی ہم بچ نہیں سکتے اس کے بغیر.تو صفت قدیر نے یہ سارے جلوے دکھا رکھے ہیں لیکن افسوس کہ ہم اکثر غفلت کی حالت میں گزر جاتے ہیں زندگی گزار دیتے ہیں اور جن نشانوں سے اپنے رب تک پہنچ سکتے تھے ان سے فائدہ نہیں اٹھاتے.میرا خیال ہے اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے میں اس کو اب اسکے بعد ختم کرتا ہوں.خدا کرے دو خطبوں میں یہ مضمون حل ہو جائے لیکن دو نہیں تو تین میں ہو جائے گا انشاء اللہ تعالیٰ ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے پیار اور محبت کا ذکر ہے مزہ ہی آتا ہے بہر حال یعنی خدا کی
خطبات طاہر جلد۵ 223 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء ایک صفت کو بیان کرنے میں اگر ہم دیر لگا دیں تو اس میں حرج کیا ہے.صرف یہ جلدی ہوتی ہے کہ جلدی مضمون بیان ہوں تا کہ بعض دوسرے مضامین جن کی ضرورت پیش آتی ہے وہ روک نہ بیچ میں بن جائیں جس کو پنجابی میں کہتے ہیں ڈیک ٹوٹنا کہ ڈیک نہ ٹوٹ جائے.اس لئے میں کوشش کرتا ہوں کہ جلدی جلدی بعض صفات کا بیان جہاں تک ممکن ہے مکمل کرلوں.بہر حال چونکہ اب وقت زیادہ ہو گیا ہے اس لئے مجھے اس مضمون اب کو ختم کرنا پڑے گا صرف اس حصے کو جس کو میں نے چھیڑا ہے بیان کرتا ہوں.الْقَدَرُ وَ التَقْدِيرُ تَبْنُ كَمِيَّةِ الشَّيْءِ کسی چیز کی کمیت کی وضاحت تَقْدِيرُ اللهِ الا شَيَاء عَلَى وَجْهَيْنِ اللہ کی تقدیر ان معنوں میں دو طرح سے ظاہر ہوتی ہے.اَحَدُهَما بِعَطَاءِ القُدْرَةِ وَالثَّانِي بِاَنْ يَّجْعَلَهَا عَلَى مِقْدَارٍ مَخْصُوصٍ وَجْهِ مَخْصُوصِ حَسْبَ مُقْتَضَةِ الْحِكْمَةُ یعنی کام کرنے کی قدرت دے کر بھی اللہ تعالیٰ اپنی صفت القدر و التقدیر کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ دوسرں میں بھی کام پیدا کرنے کی قدرت پیدا کرتا ہے اور اس پہلو سے بھی کہ حکمت کے تقاضاکے مطابق اشیاء کو مخصوص اندازے اور مخصوص طرز پر بنا تا ہے یعنی جو کچھ بھی وہ کرتا ہے حکمت کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کے کرتا ہے اور اس کے ہر فعل کے ہر پہلو میں حکمت کارفرما دکھائی دے گی.یہ مضمون الگ ہے کہ حکیم کیا ہے وہ تو اس صفت حکیم کے وقت میں انشاء اللہ تفصیل سے بیان کروں گا.یہاں جو اس کا پہلے حصہ ہے اس کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں.کام پر صرف قدرت پانا ہی انسان کو قدر نہیں بنا دیتا بلکہ اس قدرت کو دوسروں میں پیدا کرنے کی اہلیت بھی صفت قدیری کا حصہ ہے.پس جماعت احمدیہ کو اپنی صفات کو دوسروں میں جاری کرنے کی اہلیت بھی اختیار کرنی چاہئے.اپنی صفات حسنہ کو اپنے بچوں میں اپنے اہل وعیال کے علاوہ اپنے دوستوں میں بھی جاری کرنے کی قدرت حاصل ہونی چاہئے اور اپنے ماحول اپنے گردو پیش میں بھی ان صفات کو جاری کرنے کی قدرت حاصل ہونی چاہئے.تب آپ صحیح معنوں خدا تعالیٰ کی صفت قدیری کی طرف روانہ ہو جائیں گے.میں جب کہتا ہوں روانہ ہو جائیں گے تو مراد ہے فَفِرُّوا إِلَى اللهِ کے حکم پر عمل
خطبات طاہر جلد۵ 24 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء پیرا ہونے کے لئے چند قدم آپ ضرور اٹھالیں گے اس سمت میں.ورنہ یہ آیت آپ روز سنتے رہیں گے یا پڑھتے رہیں گے یا درسوں میں اس پر غور کریں گے مگر حقیقی معنوں میں یہ آیت آپ کو کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچائے گی.پس فَفِرُّوا اِلَی اللہ میں ایک جلدی کا پہلو پایا جاتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ خدا کی باقی تمام صفات تو الگ رہیں اس کی ایک صفت کے سارے تقاضے پورا کرنا ہی بہت بڑا کام ہے.تمہاری زندگیاں تھوڑی ہیں، تمہارا عرصہ حیات چھوٹا سا ہے، تم کیا کیا کرو گے اور کیا کیا اختیار کرو گے.خدا کے فضل کے بغیر کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکے گا مگر جلدی کرو.افراتفری کی وجہ سے گھبراہٹ میں دوڑو اس کی طرف کیونکہ وقت بہت تھوڑا ہے اور کام بہت زیادہ ہے.اگر چہ تقاضے بالآخر سوفی صدی تو پورے ہو ہی نہیں ہو سکتے مگر جب آپ کسی بچے کو کہتے ہیں کہ دوڑو تو جب وہ دوڑ نا شروع کرتا ہے تو اس وقت عملاً وہ تقاضے پورے بھی کر دیتا ہے خواہ وہ اس حد تک نہ بھی دوڑ سکے جس حد تک اس کو دوڑنے کا حکم ملا ہے.ایک کمزور بھی دوڑ پڑتا ہے، حکم پر اور ایک بوڑھا بھی دوڑ پڑتا ہے، ایک بیمار بھی دوڑ پڑتا ہے، ایک جوان بھی دوڑ پڑتا ہے ایک صحت مند بھی دوڑ پڑتا ہے.حکم سن کر عمل شروع کر دینا ہی دراصل ایک معنی میں حکم کی تکمیل ہے.اس کے بعد ضروری تو نہیں کہ سارے دوڑنے والے منزل مقصود تک پہنچ جائیں.جو رستے میں بھی گر جاتے ہیں وہ بھی حکم کو پورا کرنے والے ہیں.اس لئے فَفِرُّوا اِلَی اللہ کا ایک یہ بھی معنی ہے اس میں جہاں ایک گھبراہٹ کا پہلو بھی ہے کہ اوہو دیر ہورہی ہے جلدی کرو.وہاں ایک خوشخبری کا پہلو بھی مضمر ہے کہ تمہارا کام صرف دوڑنا ہے.تم دوڑنا شروع کر دو تو میرے حکم کی تعمیل اسی وقت شروع ہو جائے گی.آگے منزل تک پہنچنا یہ تمہارے بس کی بات ہی نہیں ہے ، وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِيْنَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (العنکبوت: ۷۰) اس کے لئے ایک اور قانون جاری ہے کہ تم خدا کی راہ میں جہاد شروع کرو تم جدو جہد شروع کر دو لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا پھر ان رستوں پر جن پر تم دوڑو گے ان پر ہدایت تک پہنچانا، منزل مراد تک پہنچانا یہ پھر ہمارا کام ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جس حالت میں بھی تمہیں دوڑتے ہوئے اٹھائیں گے وہی حالت تمہارے لئے فلاح اور کامیابی کی حالت قراردی جائے گی.
خطبات طاہر جلد۵ 25 25 خطبہ جمعہ ۳ / جنوری ۱۹۸۶ء یہاں تک کہ یہ مضمون اتنا عظیم الشان ہے کہ خدا کی صفت غُـفـران میں میں نے بیان کیا تھا کہ ایک شخص جو ساری عمر گناہ کرتار ہاوہ بالآخر ایک ایسی بستی کی طرف روانہ ہوا جہاں اس کی جانے کی نیت صرف یہ تھی کہ نیک لوگ ہیں ان کی صحبت میں بیٹھ کر میرے گناہ جھڑ جائیں گے اور مجھے نیکی کی توفیق ملے گی.ابھی آدھا سفر طے کیا تھا تقریباً کہ اس کو رستے میں موت آگئی.آنحضرت علی بیان فرماتے ہیں کہ اس حالت میں اس نے جان دی کہ گھٹنوں اور کہنیوں کے بل گھسٹ رہا تھا کہ کاش مرتے وقت میں اس شہر کے اور قریب ہو چکا ہوں.ایسی حالت میں اس نے جان دی اور فرشتوں نے خدا کے حضور یہ سوال اٹھا دیا کہ اس کو جہنم میں پھینکا جائے یا جنت میں پھینکا جائے ساری عمر یہ گناہ کرتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ دیکھو! آخری حرکت اس کی کیا تھی.یہ تو نیک بننے کے لئے ایک سفر اختیار کر چکا تھا فَفِرُ وا اِلَی اللہ کی آیت کے تابع آچکا تھا.اس کی فرماروائی میں داخل ہو چکا تھا کیسے تم اس کو جہنم میں ڈالو گے.اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ان جھگڑنے والے فرشتوں کو جو عذاب اور رحمت کے فرشتے آپس میں تفسیری رنگ میں جھگڑا کر رہے تھے کہ اچھا تم جھگڑا اس طرح طے کر لو کہ فاصلہ ناپو.اگر اس بری بستی سے وہ قریب تر مرا ہے.جہاں گندے لوگ تھے جہاں کہ وہ جرائم کیا کرتا تھا تو بے شک اس کو جہنم میں ڈال دو لیکن اگر وہ ان نیکوں کی بستی کے زیادہ قریب ہے جن نیکوں کی بستی کی طرف وہ ہجرت اختیار کر رہا تھا تو پھر جہنم اس پر حرام ہے اس کو جنت میں ڈالنا.اور آنحضرت علی کے بڑے ہی پیار کے ساتھ اپنے رب کی حمد کے گیت اس طرح گاتے ہیں فرماتے ہیں کہ جب فرشتوں نے وہ فاصلہ ناپنا شروع کیا تو بدی والی زمین کو خدا نے حکم دیا کہ وہ پھیلنا شروع ہو اور اس کا فاصلہ بڑھنے لگے اور نیکی والی بستی کی طرف کی زمین کو حکم دیا کہ وہ سکڑنے لگے اور خدا کے اس بندہ کو اپنے قریب ترکرلے (مسلم کتاب التوبه حدیث نمبر : ۴۹۶۸).پس رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: ۱۵۷) کا ایک عجیب منظر سامنے آیا کہ وہ شخص جو ساری عمر بدیوں میں مبتلا تھا اس کا انجام خدا تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت کے تابع اسی وجہ سے ہوا کہ ه فَفِرُّوا اِلَی اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہو چکا تھا.پس فَفِرُّوا اِلَی الله کا جہاں یہ مطلب ہے کہ جلدی کرو تمہاری زندگی کا اعتبار کوئی نہیں.خدا کی کس کس صفت کو اپناؤ گے اور کس حد تک تمہیں ان صفات میں سفر کرنے اور سیر کرنے کی وه
خطبات طاہر جلد۵ 26 خطبه جمعه ۳ /جنوری ۱۹۸۶ء توفیق نصیب ہوگی ، وہاں ساتھ ہی یہ خوشخبری بھی ہے کہ گھبرا کر ہمت نہ ہار بیٹھنا کہ کام ہماری طاقت سے بڑھ کر ہے.یہ ایک عجیب قانون ہے جو اس دنیا میں جاری ہے تم فَفِرُّوا اِلَی اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہو جاؤ پہلا قدم اٹھا کر بھی اگر تم مرو گے تب بھی خدا تمہیں فلاح پانے والوں میں لکھ لے گا.میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس رنگ میں صفات باری تعالیٰ میں سفر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے بھی اسی طرح مغفرت اور رحمت کا سلوک فرمائے جس طرح اس گناہ گار بندہ سے سلوک فرمایا تھا جس کی اطلاع ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی اعو اصدق الصادقین نے دی ہے.آمین.
خطبات طاہر جلد۵ 27 27 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء صفت قادر ، قدیر اور مقتدر کی لطیف تقسی قدرت ثانیہ کے ذریعہ حضرت مسیح موعود کو غلبہ کا وعدہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) ( القيمة : ۵-۴) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: اَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ اَلَّنْ نَّجْمَعَ عِظَامَهُ بَلَى قَدِرِينَ عَلَى أَنْ تُسَوَّى بَنَانَهُ أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَّنِي يُمْنَى ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثى أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَدِرٍ عَلَى ان يُخيَّ الْمَوْلى ( القيمه : ۳۸ - ۴۱) أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُمْ بَلَى وَهُوَ الْخَلْقُ الْعَلِيْمُ إِنَّمَا أَمْرُةٌ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ فَسُبْحَنَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِنَّا لَقَدِرُونَ عَلَى أَنْ تُبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِيْنَ ین :۸۲-۸۴) (المعارج : ۴۲۴۱)
خطبات طاہر جلد۵ 28 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء اور پھر فرمایا: وَلَقَدْ جَاءَ الَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ كَذَّبُوا بِايْتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَهُمْ لدالة لدله : کیمرا ) أَخْذَ عَزِيزِ مُّقْتَدِرٍ فَإِمَّا نَذَهَبَنَ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ اَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِي وَعَدْنُهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُّقْتَدِرُونَ (الزخرف:۴۲ ۴۳) یہ قرآن کریم کی مختلف آیات جو مختلف سورتوں سے اخذ کی گئی ہیں.ان کا تعلق خدا تعالیٰ کی دوصفات قادر اور مقتدر سے ہے لیکن پہلے اس سے کہ اس مضمون پر میں کچھ کہوں گزشتہ مضمون جس کا تعلق خدا تعالیٰ کی صفت قدیر کے قدیر ہونے سے تھا اُس سے متعلق چند باتیں باقی ہیں جو میں پہلے بیان کروں گا.عملاً تو ایک ہی مادے سے یہ تینوں صفات نکلی ہیں.قدرت یا قدر سے اور قدر بھی دال کی زبر کے ساتھ لیکن عربی کا طریق یہ ہے کہ مختلف سانچوں میں ڈھل کر ایک ہی مادہ مختلف معنی دینے لگ جاتا ہے اور ہر سانچے کا اپنا ایک خاص مضمون ہے جو اس لفظ میں داخل ہو جاتا ہے اس لئے یہ صفات اپنے خصوصی معنی بھی رکھتی ہیں حالانکہ بنیادی طور پر ایک ہی مادے سے نکالی ہوئیں ہیں.چنانچہ جہاں تک قدیر کا تعلق ہے اُس کی بحث کے دوران میں یہ بتا رہا تھا کہ ایک ایسا مضمون بھی ہے جس کا میں بعد میں ذکر کرونگا کیونکہ قدرت کے بعض معنی بھی بیان کرنے باقی ہیں.وہ مضمون ایک مناظرے سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے کیونکہ بہت سے اسلام کے دشمن جن میں عیسائی بھی شامل ہیں اور آریہ ہند و خصوصیت کے ساتھ پیش پیش ہیں.بار بار جو صفات باری تعالیٰ قرآن کریم میں بیان ہوئی ہیں ان پر مختلف رنگ میں اعتراض کرتے ہیں.خصوصیت کے ساتھ اِنَّ اللهَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ کے اوپر اعتراض بھی اور ٹھٹھے بھی بہت کئے گئے ہیں اور یہ بخشیں آریوں کی طرف سے اٹھائی گئی کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نعوذ باللہ ہر گناہ پر قادر ہے، خودکشی پر قادر ہے، ہر بد فعل پر قادر ہے.عیسائیوں کی طرف سے بھی ہر چیز پر قادر ہونے کے بیان پر اعتراض کئے گئے لیکن سب سے زیادہ دکھ والی بات یہ ہے کہ خود مسلمان علماء نے بھی ان بحثوں کو اٹھایا اور بڑے بڑے مناظرے ان باتوں پر ہوئے.یہاں تک کہ ہندوستان میں بھی قریب ہی کی تاریخ
خطبات طاہر جلد ۵ 29 29 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء میں ان مناظروں میں بہت کشت و خون ہوا اور بہت سے لوگوں کے گھر لوٹے گئے اور بچے یتیم کئے گئے اس وجہ سے کہ یہ بخشیں اشتعال پکڑ گئیں.ایک فریق کہتا تھا کہ خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جھوٹ بولے اور دوسرا فریق کہتا تھا کہ اس بات پر قادر نہیں.ایک فریق کہتا تھا خدا تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ جسے ہم جنسی گناہ کہتے ہیں وہ جنسی گناہ کرے اور دوسرا فریق کہتا تھا کہ اس پر قادر نہیں.پہلے فریق کے خلاف تو جو اعتراض ہے وہ ظاہر وباہر ہے جس کے نتیجے میں عوام کا اشتعال پکڑنا کوئی تعجب کی بات نہیں ، دوسرے فریق کے خلاف اس لئے اشتعال آتا تھا کہ کہتے ہیں کہ خدا تعالیٰ بعض چیزوں پر قادر نہیں.اُس کے آدھی قدرت کا انکار کر رہے ہیں اور جب اُن سے سوال کیا جاتا تھا کہ ایسی لغو بخشیں کیوں کرتے ہو تو جواب دیتے تھے کہ یہ مجبوری ہے یہ امکان کی بحث ہے اور امکان کی بحث میں کوئی حرج نہیں ہے جس قسم کی مرضی امکان کی بحث کر لو.لیکن ان لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ اپنی والدہ کی بدکاری کے امکان پر کیوں بحث نہیں کرتے تو وہ اس بات پر قتل و خون خرابے کے لئے تیار ہو جائیں.یعنی صرف خدا تعالیٰ کی غیرت ہی ایک ایسی ادنی اور معمولی بات ہے کہ اُس پر امکانی بخشیں بے شک جس طرح مرضی اٹھائی جائیں.تصور کو جس گندگی میں چاہوا تار دو لیکن اپنے عزیزوں اور قریبوں اور خونی رشتہ داروں اور محبت کرنے والوں اور جن سے تم محبت کرتے ہو ان کے متعلق کوئی ادنی سی بات بھی برداشت نہ کر سکو.یہ کہاں کا انصاف ہے چنانچہ اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب آریوں اور عیسائیوں سے مناظرے ہوئے تو جو مؤقف اختیار کیا وہ نہایت ہی عظیم الشان ہے اور نہایت ہی گہرا عالمانہ موقف ہے.آپ نے دو پہلوؤں سے اس پر بحث فرمائی ہے.اول تو قدرت کا معنی کیا ہے؟ جب قدرت کا معنی پر آپ غور کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ قدرت کا معنی ہے متناسب چیز پیدا کرنے والا ، متناسب فعل کرنے والا جیسا کہ میں نے لغوی معنی آپ کے سامنے بیان کئے تھے ہر وہ چیز جس میں ایسی تساوی پائی جائے، ایسا آپس میں Balance جس کو انگریزی میں کہتے ہیں Symmetry توازن اتنا خوبصورت پایا جائے کہ ذرا سا بھی فرق نہ ہو اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ قدرت کے اندر ہی حکمت شامل ہے اس لئے جو چیز بھی حکمت کے خلاف ہے.وہ قدرت کے خلاف ہے جب کہا جاتا ہے کہ قدیر ہے تو قدیر سے مراد یہ ہے کہ وہ حکمت کے فعل کرنے
خطبات طاہر جلد۵ 30 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء پر قادر ہے تو ایسی باتیں کرنے پر قادر ہے جو حسین ہوں، جن کے اندر توازن پایا جائے جو عیب سے مبرا ہوں اور جن میں خوبیاں پائی جاتی ہوں اور یشاء کے معنی پر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے زور دیا اور فرمایا کہ یشاء سے مراد ہے جو وہ چاہتا ہے تم میں سے نسبتا پاک لوگ ہیں وہ تو یہ نہیں چاہتے کہ وہ گندگی کریں.خدا کے متعلق تم کیسے سوچ سکتے ہو کہ وہ کوئی بیوقوفی والی بات کوئی گندگی کی بات کوئی نا مناسب اور بے ہودہ بات کرنے کے متعلق سوچ بھی سکتا ہے تو یشاء کا تعلق چونکہ اللہ کی سوچ ، اللہ کی فکر، اللہ کے ارادے سے ہے اس لئے ہر وہ بات جو غلط ہے وہ ویسے ہی خارج از امکان ہو جاتی ہے.اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بات پر زور دیا کہ ان بحثوں کو ختم کیا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے متعلق اس قسم کی بحثیں گستاخی ہیں اور نہایت ہی نا مناسب بات ہے کہ خدا کی متعلق کوئی دور کی بھی لغو بات سوچی جا سکے.تویشآء اور قدیر میں دونوں کے اندر یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ خدا جب چاہتا ہے تو غلط بات چاہ سکتا ہی نہیں ان معنوں میں کہ اس کے حکمت بالغہ کے خلاف ہے اور قدرت کے معنی یہ ہیں کہ جو چیز متوازن ہو اور اچھی ہو اور حکمت سے تعلق رکھتی ہو.پس جب یہ کہیں گے کہ فلاں گندی چیز خدا نہیں کر سکتا تو یہ خدا تعالیٰ کی صفت پر حرف نہیں آتا بلکہ ایسی بات ہے جیسے کہیں کہ فلاں شخص فلاں تصویر نہیں بنا سکتا جوکسی بڑے آرٹسٹ نے بنائی ہے، فلاں شخص فلاں قسم کے میوزک نہیں بنا سکتا بڑے میوزیشن نے بنائی ہے.تو وہاں اس کا قدرت سے عاری ہونا ثابت ہوگا جو نہیں بنا سکتا یعنی اچھے میوزیشن کے متعلق یہ نہیں کہا جائے گا کہ وہ چونکہ گندی میوزک نہیں بنا سکتا اس لئے وہ قادر نہیں ہے.قدرت کا مضمون بھی اعلیٰ تخلیق سے تعلق رکھتا ہے.قدرت کے فقدان کے نتیجے میں بد چیزیں پیدا ہوتی ہیں نہ کہ قدرت کے موجود ہونے کے نتیجہ میں بد چیزیں سوچی جاسکتی ہیں اس لئے اگر خدا قدیر ہے تو اُس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس سے قدرت کا فقدان ثابت ہو وہ چیز اُس میں شامل نہیں ہے.ایک تو یہ ضروری بات تھی جو بتانے والی تھی.دوسری ایک نیا مضمون ہے جو خدا تعالیٰ نے پہلے خطبے کے دوران مجھے بتایا اور اُس کے بعد پھر اُس مضمون کو تفصیل سے مجھے سمجھایا.آپ کو یاد ہوگا کہ گزشتہ خطبے کے دوران جب میں لغوی معنی بیان کر رہا تھا تو میں نے کہا کہ ایک معنی اس کا علمہ بھی ہے یعنی اُس نے سکھایا.یہ کہہ کر چونکہ مجھے یاد تھا کہ میرے نوٹس میں کہیں
خطبات طاہر جلد۵ 31 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء بھی علم کا معنی نہیں لکھا ہوا جب میں نے یہ پڑھا اور آپ کو بتایا تو میں نے دوبارہ نظر ڈالی اور وہاں لکھا ہوا موجود تھا پھر تردد کے باوجود میں نے دوبارہ پڑھا کہ علم بھی ہے اور جب میں پڑھ چکا تو علم کا لفظ غائب ہو گیا اور فوری طور پر میں تعجب میں مبتلا تھا کہ اس مضمون کو کیسے جاری رکھوں کیونکہ نہ میرے نوٹس میں وہ شامل تھا نہ مجھے کبھی پہلے تصور بھی آیا تھا کہ قدر کا معنی علم بھی ہو سکتا ہے اور چونکہ دوبارہ دیکھنے کے باوجود بہت گھلا کھلا صاف لکھا ہوا موجود تھا اس لئے میں نے وہ پڑھ دیا چونکہ اگلا لفظ الزمہ تھا اس لئے میں نے اس کے ساتھ اُس کا تعلق باندھے کی کچھ کوشش کی لیکن پوری طرح دل کو تسلی نہیں ہوئی.اس لئے دعا کی اللہ تعالیٰ جب ایک نیا مضمون دکھایا ہے تو اُس کے معنی بھی سمجھائے چنانچہ خدا تعالیٰ نے جو اُس کے معنی سمجھائے وہ ایسے حیرت انگیز ہیں اور اتنے وسیع ہیں اور اتنا قطعی طور پر قرآن کریم سے ثابت ہیں کہ پھر مجھے یہ تعجب ہوا کہ اس سے پہلے کسی کا خیال کیوں اس طرف نہیں گیا ؟ کیونکہ نہ اہل لغات میں نہ اہل تفسیر نے اشارۃ بھی اس بات کا کہیں ذکر کیا ہے.علم کا معنی ہے سکھانا اور عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ علم کے معنی ایسا سکھانا ہے جس کا تعلق بیان سے ہو اور لفظوں سے ہو حالانکہ علم کا معنی کا تعلق محض لفظوں اور بیان سے نہیں ہے بلکہ وہ خاموش تعلیم جو فطرت میں ودیعت کی جاتی ہے اُسے بھی قرآن کریم تعلیم ہی کہتا ہے اور اُس کا لفظوں اور بیان سے کوئی تعلق بھی نہیں ہوتا.چنانچہ قرآن کریم نے اس تعلیم کو دوحصوں میں بانٹا اور اسکا الگ الگ ذکر فرمایا ہے چنانچہ ایک جگہ فرماتا ہے الرَّحْمَنُ عَلَّمَ الْقُرْآنَ خَلَقَ الْإِنْسَانَ عَلَّمَهُ الْبَيَانَ (الرحمان : ۲-۵) کہ وہ رحمن خدا ہی ہے جس نے قرآن سکھایا ہے خَلَقَ الْإِنْسَانَ انسان کو بنایا.عَلَّمَهُ الْبَيَانَ اور اُس کو بیان سکھایا تو قرآن کریم کے نزول کا تعلق بیان سے ہے اور ایسی تعلیم سے ہے جو لفظوں میں پیش کی جاتی ہے.دوسری جگہ جب خدا تعالیٰ تخلیق عالم کا ذکرفرماتا ہے آسمان اور زمین اور پھر اُس کے نفس کی پیدائش کا تو وہاں فرماتا ہے وَنَفْسٍ وَمَا سَوبَهَاتٌ فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوبَهَاتٌ (الشمس: ۸-۹) کہ ہم نے نفس کو پیدا کیا یعنی پہلے آسمان وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنُهَا (الشمس: 1) اس سے مضمون شروع ہوتا ہے وَالْاَرْضِ وَمَا طَحَهَا (الشمس: ۷ ) کہ ہم گواہ ٹھہراتے ہیں آسمان کو اور
خطبات طاہر جلد۵ 32 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء جیسے وہ بنایا گیا اور زمین کو اور جس طرح وہ ہموار کی گئی پھر فرماتا ہے وَنَفْسٍ وَ مَا سَونَهَا (الشمس: ۸) اور نفس کو کس طرح خدا نے اسے نہایت ہی عمدہ ترکیب کے ساتھ پیدا کیا اور متوازن کیا اور جب اُسے ٹھیک ٹھاک کیا فَالْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقُوبھا اس کو الہام کیا ، اُس کے گناہوں کے متعلق بھی ، اُس کی بدیوں کے متعلق بھی گندی چیزیں بھی جن سے اُسے بچنا چاہئے اُن کے متعلق بھی اور اچھی چیزوں سے متعلق بھی اُس کو الہام کیا.دوسری جگہ فرماتا ہے: خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ ثُمَّ السَّبِيْلَ يَشَرَهُ فى (عبس: ٢٠-٢١) : ۲۱۲۰) ہم نے اُس کو پیدا کیا خَلَقَهُ فَقَدَّرَهُ یہاں فَأَلْهَمَهَا کی بجائے قدرہ کا لفظ استعمال فرماتا ہے اسکو ہم نے قدرہ کیا یعنی اُس کا مطلب یہ ہے کہ اُس کے اندر اس کی فطرت میں کچھ چیز میں داخل تھیں، ثُمَّ السَّبِيلَ يَشَرَهُ پھر اُسے چلا دیا اُن راستوں پر جو اُس کے لئے معین کئے گئے تھے.پس ان معنوں میں خدا تعالیٰ کے کلام کو ہم دو حصوں میں منقسم کر سکتے ہیں ایک وہ کلام جولفظوں اور بیان سے تعلق رکھتا ہو اور ایک وہ کلام جولفظوں اور بیان سے تو تعلق نہیں رکھتا لیکن تمام کائنات میں موجود ہے اور یہی وہ کلام کا وسیع معنی ہے جس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے: قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لَّكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا.(الكهف : ١١٠) کہ اگر ہم سمندر خدا تعالیٰ کے کلام کو لکھتے اور ختم ہو جاتے لکھتے لکھتے ، پھر تو دیکھتا کہ خدا تعالی کا کلام ختم نہیں ہوا ، خدا کے کلمات ختم نہیں ہوۓ ، وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا خواہ ہم ایسے اور بھی سمندر اُس کو لکھنے کے لئے لے آتے.تو جہاں تک خدا تعالیٰ کے ظاہری کلام لفظی کلام کا تعلق ہے یہ تو اگر ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کے سارے کلاموں کو اکٹھا بھی کر لیا جائے اور تمام انسانوں نے آج تک جو کچھ بھی لکھا ہے یا جو کچھ لکھ سکتے ہیں آئندہ ان سب کو اکٹھا کر لیا جائے تو سمندر چھوڑ کے ایک ندی بھی ختم نہیں ہوگی ایک ندی کی سیاہی بھی غالب آجائے گی اس کلام کے اوپر لکھنے کے لحاظ سے.وہ کونسا کلام ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اگر ہم سمندروں کو حکم دیتے
خطبات طاہر جلد۵ 33 خطبه جمعه ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء کہ وہ لکھیں تو وہ خشک ہو جاتے اور بھی ویسے لے آتے تب بھی کلام الہی کلمات الہی ختم نہیں ہو سکتے تھے.تو وہ یہی وسیع تر مضمون ہے کلام کا.ایک کلام ہے جولفظی ہے اور بیان سے تعلق رکھتا ہے ایک کلام ہے تقدیری ہے جو خدا کی ایسی قدرت سے تعلق رکھتا ہے جو ہر چیز میں جاری کی گئی ہے اور بار یک در بار یک احکامات اُس کے اندر داخل کئے گئے ہیں جو اپنے وقت پر کھلتے ہیں جیسا کہ میں پہلے معانی بیان کر چکا ہوں اور یہ سب تعلیم الہی کے نتیجے میں ہیں.اگر اللہ تعالیٰ یہ علیم نہ کرتا فطرت کو تو کسی چیز میں کوئی بھی صفت نہ ہوتی ، ہائیڈ روجن جس طرح Behave کر رہی ہے یا کاربن ڈائی آکسائیڈ جس طرح Behave کرتی ہے یا دوسرے مادے ہیں مختلف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر یا الگ الگ بعض صفات دکھاتے ہیں جتنی بھی کائنات میں چیزیں ہیں ان سب کے اندر خواہ وہ زندگی رکھتی ہوں یا زندگی سے عاری ہوں جتنی بھی صفات جلوہ گر ہیں یہ ساری تعلیم کی طرح ہیں اور اس کی تعلیم دی گئی ہے اللہ کی طرف سے اور خود بخود جاری ہونے والی چیزیں نہیں ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہ وہم کر لینا کہ چیزیں خود بخو دا تفاقاً ہوئیں ہیں یا اتفاقا جاری ہیں یہ بالکل غلط ہے.یہ خدا کی تقدیر کے ساتھ جاری ہیں اور وہ تقدیر ہر وقت کام کر رہی ہے.پس ان معنوں میں تقدیر کا ایک اور معنی بھی ہمیں سمجھ آ گیا.قَدْرُ خَيْرِهِ وَ شَرِہ کا ایک اور مفہوم ہمارے سامنے اُبھر آتا ہے.تقدیر عام کیا چیز ہے؟ تقدیر عام یہی تعلیم عام ہے جو ہماری فطرت کے اندرلکھی ہوئی ہے اور جیسے اب سائنس دان پڑھنے کے اہل بھی ہو گئے ہیں اور جب ہم کہتے ہیں کہ فطرت میں لکھی ہوئی ہے تو واقعہ لکھی ہوئی ہے، ایسی چیز نہیں ہے جو فرضی ہے یا محاورۃ ہم کہہ رہے ہیں بلکہ انسانی زندگی یا حیوانی زندگی میں تو سائنس دان ان Codes کو بریک (Break) کرنے کے قابل ہو گئے ہیں اور باقاعد ہDecode کرنے کے بعد وہ پڑھتے ہیں کہ اس میں کیا لکھا ہوا ہے.ہر حیوان کے ہر زندگی کے ذرے میں یہ تعلیم چھپی ہوئی موجود ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے اور اس تعلیم کے خلاف کوئی کچھ کر نہیں سکتا.بیان کی جو تعلیم ہے اُس کے خلاف انسان جا سکتا ہے لیکن یہ جوتعلیم ہے خاموش تعلیم اس کے خلاف انسان جا نہیں سکتا.اسی لئے اس کا نام تقدیر رکھا، اسی لئے کہتے ہیں کہ تقدیر الہی اہل ہے.تو تقدیر الہی جو عام معنی رکھتی ہے وہ یہی معنی ہیں چونکہ فطرت میں خدا تعالیٰ نے جو چیز میں داخل
خطبات طاہر جلد۵ 34 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء فرمائیں اور لکھ دیں کہ ایسے ہو گا تو آپ جب کہتے ہیں کہ کھی ہوئی کے خلاف کچھ نہیں کر سکتے ہل نہیں سکتی جو لکھی ہوئی ہو اس کا یہی معنی ہے.ہر چیز لکھی ہوئی ہے ،ایک ایک ذرہ کے اندر اُس کی تمام حرکات وسکنات جو اُس نے کرنی ہیں وہ لکھی ہوئی موجود ہیں.کچھ بہت معمولی حصہ ایسا ہے جو سائنس دان پڑھ سکیں ہیں لیکن لا متناہی ایسا حصہ ابھی موجود ہے جسے وہ پڑھ نہیں سکتے صرف جب وہ لکھی ہوئی کے مطابق ایک حرکت ہوتی ہے تو وہ اس حرکت کو دیکھنے لگ جاتے ہیں.اس کے پیچھے کیا کیا کچھ لکھا ہوا ہے اس تک ابھی اُن کی نگاہ نہیں جاسکی.ہوسکتا ہے آئندہ زمانے میں سائنس جب ترقی کرے تو کچھ اور مضامین بھی پڑھنے کے قابل ہو جائے.اس کو عام محاورے میں بھی تعلیم ہی کہا جاتا ہے چنانچہ غالب اپنے ایک شعر میں اسی مضمون کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ پر تو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک (دیوان غالب صفحه: ۱۳۷) کہ جب سورج کا عکس پڑتا ہے تو شبنم کے قطرے کو تعلیم ہی یہی ہے کہ وہ غائب ہو جائے وہ فنا ہو جائے.سورج کا نظارہ کرے اور ایک ہی دید کے ساتھ وہ خود فنا ہو جائے.کہتا ہے اے میرے محبوب ! میں بھی ایک عنایت کی نظر ہونے تک.میری فطرت میں بھی محبت نے یہی تعلیم لکھ دی ہے کہ میں تمہیں دیکھوں اور خود فنا ہو جاؤں.یہ تو دنیا کے لحاظ سے تو قصے ہیں اور ہر گز ماننے کی باتیں نہیں ہیں کہ کوئی شخص کسی دوسرے کے لئے اپنے وجود کو مٹادے مگر مذہبی دنیا میں ایسا واقعہ نظر آتا ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے جب خدا کا جلوہ دیکھا تو اپنے وجود کو مٹا دیا.آپ کو ی تعلیم تھی ، آپ کی تقدیر یہی تھی کہ خدا جلوہ گر ہو اور خود محمد مصطفی ﷺ کا ذاتی وجو دمٹ جائے اور کلیاً خدا جلوہ گر ہو جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہی تعلیم تھی کہ حمد مصطفی ﷺ کا جلوہ دیکھیں اور اپنے وجود کومٹادیں.چنانچہ اسی سے ہمیں ظل کا مضمون سمجھ آیا.یہ وہ تعلیم ہے جسے ہم تقدیر بھی کہتے ہیں اور ان معنوں میں اللہ تعالیٰ نے مجھے سمجھایا کہ قدرت کا معنی تعلیم بھی ہے اور جب اس پہلو سے ہم غور کرتے ہیں تو قدرت کا سب سے زیادہ وسیع سب سے زیادہ اطلاق پانے والا معنی ہے ہی تعلیم.ہر وہ بات جو
خطبات طاہر جلد۵ 35 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء سکھائی جائے لفظوں سے بالا ہو کر ، جو فطرت میں داخل کر دی جائے جس کی قوت اتنی زیادہ ہو کہ وہاں انکار کی مجال ہی کوئی نہ ہو اور لازماً اُس تعلیم کے مطابق چلنا ہو کسی نے اس تعلیم کو تقدیر کہا جاتا ہے اور یہی قدرت کا سب سے بڑا مظہر ہے.اب میں دوسرے مضمون کی طرف آتا ہوں جو میں نے بیان کیا تھا قادر اور مقتدر.قادر اور مقتدر اور قدیران تینوں صفات میں عموماً زیادہ فرق نہیں کیا جاتا ہے اور لغت کی کتابیں لکھنے والے کہتے ہیں کہ بنیادی طور پر تینوں کا ایک ہی معنی ہے لیکن جہاں تک قرآن کریم کے استعمال کا تعلق ہے قرآن کریم نے ان تینوں الفاظ کو الگ الگ مخصوص معنوں میں استعمال کیا ہے اور بعض الفاظ کو زیادہ عمومی طور پر استعمال کیا ہے بعض کو نسبتا کم عمومی طور پر یعنی خصوصی طور پر اور الگ الگ محلات کے لئے بعض الفاظ کو چنا ہے.قدیر کا لفظ سب سے زیادہ عموم اپنے اندر رکھتا ہے چنا نچہ تخلیق عالم کے متعلق جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں ذکر ہے وہاں قدیر کا لفظ ملتا ہے ، مقتدر اور قادر نہیں ملتا لیکن قدیر کا حوالہ دے کر جب کوئی نئی قدرت کی جلوہ نمائی دکھانا مقصود ہو تو وہاں لفظ قادر کا استعمال آتا ہے.یعنی قدیر کو قرآن کریم زیادہ عمومی صفت کے طور پر پیش فرماتا ہے جو ہر میدان میں کارفرما نظر آ رہی ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ تخلیق اول پہلی مرتبہ جو کائنات کو پیدا کیا گیا ہے اور پھر اُس میں جاری خدا کی قدرت جو دکھائی گئی ہے، جب خدا تعالیٰ قرآن کریم میں اس مضمون کا بیان فرماتا ہے تو خدا کی صفت قدیر ساتھ ہی ذکر فرماتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جب ایک خدا کی قدرت کا ایسا جلوہ دکھانا مقصود ہو جو عام جاری تقدیر کے علاوہ ہو اور جاری تقدیر سے انسان جتنا روز مرہ روشناس ہونے کے بعد اُس کو نظر انداز کر بیٹھا ہے جب یہ بتانا مقصود ہو کہ جا گو! اور ہوش کرو، وہ خدا جس نے یہ سب کچھ جاری کیا ہے وہ اس بات پر بھی قادر ہے تو وہاں لفظ قا در استعمال فرماتا ہے.یعنی ایسا قدرت کا جلوہ جو کبھی کبھی بیدار کرنے کے لیے آتا ہو ، عام جاری جلوے سے مختلف مضمون پیدا کرتا ہو، عام تخلیق سے ہٹ کر ایک نئی تخلیق بنا تا ہو وہاں قادر کا لفظ استعمال ہوتا ہے.مقتدر عموماً اُس جگہ استعمال ہوتا ہے جہاں مقابلے کے بھی معنی پائے جاتے ہوں.مثلاً آنحضرت ﷺ کا جب مخالفین پر غلبے کا مضمون بیان ہوگا تو وہاں قادر اور قدیر کی نسبت قادر کا لفظ بھی
خطبات طاہر جلد۵ 36 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء بعض جگہ آتا ہے مگر زیادہ تر اقتدار کا مضمون ہے اس لئے مقتدر صفت بیان کی جاتی ہے.تو جب دشمن خدا کی قدرت پر غلبہ پانے کی کوشش کریں اُس وقت جب خدا کی قدرت جلوہ دکھاتی ہے تو وہ مقتدر کی قدرت ہے جو جلوہ گر ہورہی ہوتی ہے.چنانچہ دیکھئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: أَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَحْيَ الْمَوْتَى بَلَى إِنَّهُ عَلَى (الاحقاف: ۳۴) كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ عَلى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر کا محاورہ تو شروع سے آخر تک چونکہ عمومیت رکھتا ہے ہر چیز پر ثابت آتا ہے لیکن لفظ قادر وہاں استعمال فرمایا جہاں عام قدرت کو تو لوگ تسلیم کر رہے ہیں.خدا کے قدیر ہونے کے ان معنوں میں تو قائل ہیں کہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن ایک نئی تخلیق پر قدرت کا انکار کر رہے ہیں اور فرمایا وَلَمْ يَعْىَ بِخَلْقِهِنَّ جس قدیر خدا نے پہلی تخلیق جاری فرمائی تھی یہ نہ سمجھو کہ وہ اب اپنی تخلیق سے عاجز آچکا ہے یا جو کچھ تخلیق کر چکا اس پر ختم کر بیٹھا ہے وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ اور یہ بھی نہ سمجھو کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد خدا کی قدرت کا ان کے ساتھ تعلق نہیں رہا یا اس کی محتاج نہیں رہی.جاری تعلق ہے ایک جو تمہیں نظر نہیں آرہا وَلَمْ يَعْيَ بِخَلْقِهِنَّ ابھی بھی ان میں تخلیق ہو رہی ہے ابھی بھی نئی نئی قسم کی ان میں.Development اور Evolutions کئی مضمون کی جاری ہیں اور تم دیکھ نہیں رہے ان کو.بقدرٍ عَلَى أَنْ يُحْيِ الْمَوْلى يي قدير خدا ہے جو اس بات پر بھی قادر ہے جہاں لفظ قادر اس معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ عام قدرت سے ہٹ کر ایک نئی جلوہ نمائی فرمائے گا کہ وہ مردوں کو بھی زندہ کر دے.پھر جہاں بھی تعجب کا مضمون آتا ہے وہاں قدیر کی بجائے قادر کا لفظ استعمال فرماتا جاتا ہے: أَيَحْسَبُ الْإِنْسَانُ اَلَّن نَّجْمَعَ عِظَامَهُ بَلَى قَدِرِينَ عَلَى أَنْ تُسَوَّى بَنَانَهُ ( القيمة : ۴-۵) کیا انسان خیال کرتا ہے کہ ہم اس کی ہڈیاں جوڑ نہیں سکتے پھر.نہیں نہیں ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ اس کا انگ انگ دوبارہ اکٹھا کر دیں، ذرہ ذرہ دوبارہ جوڑ دیں.
خطبات طاہر جلد۵ پھر فرماتا ہے: 37 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء أَلَمْ يَكُ نُطْفَةً مِنْ مَّنِي يُمْنَى ثُمَّ كَانَ عَلَقَةً فَخَلَقَ فَسَوَّى فَجَعَلَ مِنْهُ الزَّوْجَيْنِ الذَّكَرَ وَالْأُنثى أَلَيْسَ ذَلِكَ بِقَدِرٍ عَلَى (القيمه : ۳۸ - ۴۱) انْ يُحْيِ الْمَوْلى کہ تم محض تعجب کی وجہ سے خدا کی نئی تخلیق کا انکار کرتے ہو یعنی آئندہ کو تو تعجب کی نگاہ سے دیکھتے ہو لیکن ماضی میں جو گزر گیا ہے اس پر تعجب ہی نہیں کر رہے تم کچھ حالانکہ وہ زیادہ تعجب کے لائق بات ہے جو کچھ ہو چکا ہے وہ اتنا حیرت انگیز ہے، اتنا تعجب میں مبتلا کرنے والا ہے کہ اگر تم اُس کو دیکھو اور اُس کی کنہہ تک پہنچو اور تعجب میں مبتلا ہو تو تعجب تو کوئی اعتراض کی وجہ بھی باقی نہیں رہتا یعنی اللہ تعالیٰ اس مضمون کو اس طرح بیان فرما رہا ہے کہ اکثر نئی زندگی کا انکار تعجب کی بناء پر کرتے ہیں.کہتے ہیں کیسے ہوسکتا ہے کہ ہڈیاں گل سڑ جائیں گی ہم مرکھپ جائیں گے، دوبارہ اٹھائے جائیں گے.کتنا مشکل کام ہے بظاہر ناممکن نظر آتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بے وقوفو! تعجب کے نتیجے میں اگر تخلیق نہیں ہو سکتی تو تمہاری تخلیق اول کہاں سے ہو گئی ؟ اُس میں تو زیادہ تعجب کے محرکات موجود ہیں اور موجبات موجود ہیں.اتنا تعجب انگیز ہے مضمون تمہاری تخلیق اول کا کہ اُس پر غور کرو پھر سوچو کہ جس خدا نے یہ تخلیق پیدا کر دی تھی وہ اُس کے تخلیق نو پر کیوں قادر نہیں ہوسکتا جو کچھ بھی نہ ہو اس سے ایسا حیرت انگیز تخلیق کا نظام پیدا کر دے کچھ ہو تو اُس سے پھر آگے کیوں پیدا نہیں کر سکتا یہ مضمون ہے نسبتا کم تعجب کی بات ہے.فرماتا ہے کیا وہ کسی وقت پانی کا ایک قطرہ نہیں تھا یہ تعجب کرنے والا انسان، جو اپنی مناسب حال جگہ میں ڈالا گیا پھر وہ ایک چمٹنے والا لوتھڑا بن گیا.پھر اُس خدا نے اُس کو اور شکل میں تبدیل فرما دیا اور پھر آخر اسے مکمل کر دیا یعنی کچھ بھی نہیں تھا محض گندگی کا ایک کیڑا تھا جس سے اتنا کامل انسان خدا نے بنا دیا.پھر اُسے جوڑا جوڑا کر کے بنایا یعنی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے مضمون سے پہلے جو حیوانی حالت میں انسان گزرا ہے اس کا ذکر پہلے فرمایا جارہا ہے.زندگی کے آغاز کا مضمون چلایا گیا ہے کہ مختلف حالتوں سے زندگی گزرتی ہوئی آگے بڑھی جہاں تک پہلے جوڑا جوڑا نہیں تھی پھر اُسے جوڑا جوڑا بنایا گیا یعنی نرومادہ کی تمیز کی گئی یعنی نر اور مادہ کی شکل میں بنایا گیا.کیا یہ
خطبات طاہر جلد۵ 38 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء خدا اس بات پر قادر نہیں ہے کہ مردوں سے زندہ پیدا کر سکے؟ پھر اسی مضمون کو آگے بیان فرماتا ہے: ين : ۸۲-۸۴) اَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِقَدِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الخَلْقُ الْعَلِيمُ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا اَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ فَسُبْحْنَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اس بات پر قادر نہیں کہ اُن کی طرح کی اور مخلوق پیدا کر دے یہاں مضمون کو اور بھی پیچھے لے جایا گیا ہے، آسمانوں اور زمین کی پیدائش کی طرف توجہ پھیر دی گئی کہ اتنا وسیع نظام کائنات کا موجود ہے اُس کی تخلیق پر کیوں تم غور نہیں کرتے کہ کتنا حیرت انگیز نظام ہے اور یہاں آکر اٹک جاتے ہو کہ یہ کیسے ہو سکتا کہ ہم دوبارہ زندہ ہو جائیں.جو تم موجود ہو تمہیں ایک نئی تخلیق نہیں مل سکتی ہے اور جب کچھ بھی نہیں تھا اس سے اتنی عظیم الشان تخلیق ہوگئی اس پر تم تعجب نہیں کرتے.پھر فرماتا ہے: فَلَا أُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ إِنَّا لَقَدِرُوْنَ عَلَى اَنْ تُبَدِّلَ خَيْرًا مِّنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِينَ (المعارج : ۴۱_۴۲) ہر گز نہیں.جو تم سوچ رہے ہو غلط ہے اُقْسِمُ بِرَبِّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ میں تم کھاتا ہوں اُس ذات کی جو مشارق کا بھی رب ہے اور مغارب کا بھی رب ہے یعنی ہر جونئی صبح طلوع ہوتی ہے اور جہاں جہاں سے کسی قسم کی بھی صبح طلوع ہوتی ہے ایک نیا نظام بنتا ہے ان سب کا بھی خدا ہی رب ہے اور جب ایک نظام تباہ ہوتا ہے اور غرق ہو جاتا ہے.جب ایک قوت اُبھرتی ہے اور پھر ڈوب بھی جاتی ہے تو جس جس معنی میں بھی کوئی چیز ڈویتی اور نظر سے غائب ہوتی ہے اُس کا بھی وہ رب ہے.یعنی خدا سے دور کوئی بھی چیز نہیں ہو سکتی خدا سے کوئی بھی چیز غائب نہیں ہو سکتی ہے.فرمایا میں اُس کی قسم کھا کر کہتا ہوں ہم اس بات پر قادر ہیں کہ وہ قو میں جو خدا کے انبیاء کی مخالفت کرتیں ہیں ان کو لے جائیں اَنْ تُبَدِّلَ خَيْرًا مِنْهُمْ وَمَا نَحْنُ بِمَسْبُوقِيْنَ
خطبات طاہر جلد۵ 39 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء کہ ہم اُن سے بہتر لوگ لے آئیں ہمیں کوئی عاجز نہیں کر سکتا ہے.فَلْيَنْظُرِ الْإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَ خُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ يَخْرُجُ مِنْ بَيْنِ الصُّلْبِ وَالتَّرَابِبِ هُ إِنَّهُ عَلَى رَجْعِهِ لَقَادِرُة ( الطارق: ۶-۹) یہ بھی وہ مضمون ہے دوسرے رنگ میں بیان فرمایا گیا ہے.ان باتوں پر غور کرو کہ جہاں جہاں بھی لفظ قادر کا استعمال ہوا ہے وہاں غور کرنے سے ایک اور بات بھی سامنے آتی ہے کہ یہ خدا کی ایک اور تقدیر کا ذکر چل پڑا ہے جس کا تعلق دین اور مذہب سے ہے.یعنی پہلے جو قدیر کے اندر جس قدرت کا ذکر تھا جو تقدیر عام تھی ، اُس کا خدا تعالیٰ کی ہر تخلیق سے تعلق ہے وہ عام ہے.جاندار سے بھی ہے بے جان سے بھی ہے، ہر جگہ خدا نے ایک تعلیم دے رکھی ہے جس سے کوئی ہٹ نہیں سکتا.پھر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم کو ظاہر فرمایا یا اس سے پہلے دوسری کتب نازل فرمائیں اور ایک نئی تخلیق بنائی جو مذہبی دنیا کی تخلیق ہے.اس تخلیق میں عام قانون سے ہٹ کر کچھ قوانین ہیں جن کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے.سب سے اہم قانون یہ بیان کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک مقصد کی خاطر پیدا کیا ہے جس کے لئے تم جوابدہ ہو گے اور تمہیں دوبارہ اس لئے زندہ کیا جائے گا کہ تمہاری جواب طلبی کی جائے کہ تم نے اس مقصد کو پورا کیا تھا کہ نہیں کیا تھا اور جزاء اور سزا کے لئے تمہیں ایک جگہ اکٹھا کیا جائے اور جو حق دار ہے سزا کا اُسے سزادی جائے جو جزاء کا حق دار ہے اُسے جزاء دی جائے.یہ جو قدرت ثانیہ ہے خدا تعالیٰ کی تقدیر کا نیا اظہار ہے جہاں جہاں یہ اظہار کیا جاتا ہے وہاں قادر کا لفظ تقدیر کے نسبت زیادہ استعمال ہوا ہے بلکہ بہت زیادہ کثرت کے ساتھ لفظ قادر کا استعمال یہاں ہوا ہے.تو قرآن کریم کی جو تقدیر جاری ہوئی ہے انسانوں کے اوپر اور نبوت کی جو تقدیر اس سے پہلے جاری تھی اور ایک نیا قانون جاری ہوا جس میں کچھ اختیار بھی ہے بندے کو.وہ تقدیر ہے جس کا ذکر خدا کی صفت قادر کی تحت کیا جا رہا ہے.قدیر سے بچنے کا کوئی اختیار نہیں تھا بظاہر.کسی بھی معنی میں بھی انسان بچ نہیں سکتا لیکن قادر کی تقدیر سے ان معنوں میں انسان کچھ بھاگتا
خطبات طاہر جلد۵ 40 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء ہے کہ اُسے اختیار دے دیا گیا ہے کہ چاہو تو کرو.چاہو تو نہ کرو لیکن ساتھ یہ بتادیا گیا ہے کہ بالآخر تم خدا کی طرف لوٹو گے.بالآخر تمہیں لازماً وہاں پہنچ کر جواب دہی کرنی ہوگی اور تم بچ نہیں سکتے.تو غالب تو ہے وہ تقدیر کہ آخر انسان اُس سے پکڑا جائے گا لیکن وقتی طور پر مہلت دیتی ہے جیسے آپ کسی چھوٹے سے بچے کو کچھ دیر کے لئے آگے بھاگنے دیتے ہیں اور بظاہر اختیار دے دیتے ہیں کہ وہ آپ سے آگے نکل جائے لیکن جانتے ہیں کہ کب اور کس وقت جب آپ چاہیں گے جب آپ فیصلہ کرلیں گے اُسے پکڑ لیں گے.تو ایسی تقدیر کا ذکر جہاں قرآن کریم میں ملتا ہے وہاں لفظ قادر کا استعمال ہوتا ہے اور اس کا تخلیق نو سے تعلق ہے.چونکہ قرآن کریم انسان کی مذہبی تخلیق کو تخلیق نو قرار دیتا ہے، خلق آخر قرار دیتا ہے.اس لئے خلق آخر کے مضمون کا خدا تعالیٰ کے قادر ہونے کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے.مقتدر کی صفت اسی مضمون میں آگے بڑھتی ہے جب لوگ بزور یا جبر أخدا کی اس تقدیر کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں تو اس وقت اللہ تعالیٰ مقتدر بن کے ان کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور اپنے پیاروں کی حفاظت فرماتا ہے اور ان کے مخالفین کو مٹادیتا ہے.فرمایا: وَلَقَدْ جَاءَ أَلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ كَذَّبُوا بِايْتِنَا كُلِّهَا فَأَخَذْنَهُمْ ( القمر : ۴۲ ۴۳) أَخْذَ عَزِيزِ مُّقْتَدِرٍ دیکھو فرعون بھی اس سے پہلے آیا تھا اور گزرا تھا وَ لَقَدْ جَاءَ آلَ فِرْعَوْنَ النُّذُرُ اور فرعون کی قوم کے سامنے ، اس کے پیچھے چلنے والوں کے سامنے کئی قسم کے انداری نشان پیش کئے گئے، كَذَّبُوا بِاتنا انہوں نے ہماری آیات کو جھٹلا دیا گلها کلیة.فَأَخَذْنَهُمْ أَخْذَ عَزِيزِ مُّقْتَدِرٍ ہم نے اُن کو اُس طرح پکڑا جس طرح ایک عزیز غالب طاقت والی ہستی جو مقتدر ہو وہ پکڑا کرتی ہے.جب قدرت گھیرا ڈال لیتی ہے، جب مخالف کے مقابل پر جوش کے ساتھ جلوہ دکھاتی ہے اُس وقت خدا تعالیٰ کی صفت قدیر یا قادر کے ذکر کی بجائے مقتدر کی صفت بیان فرمائی جاتی ہے.متکلف جس طرح تکلیف کر کے کام کرتا ہے غیر معمولی توجہ کے ساتھ یہ کام کرتا ہے، کوشش کے ساتھ کام کرتا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 41 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء تو فرمایا ہے کہ یہاں خدا کی تقدیر عام جاری نہیں رہی.اب کوشش کرے گی ، بڑے جلال کے ساتھ ظاہر ہوگی اور جو بھی اُس کے پیاروں پر حملہ آور ہوتے ہیں وہ انہیں لاز م مٹائے گئی ، انہیں لاز مانا کام بنا کر دکھائے گی اب عام تقدیر کا یہاں مقام ہی نہیں رہا.اس تقدیر کی روح سے اگر مخالف بھی یہ نتیجہ نکلتا تو مقتدر خدا کی تقدیر اس نتیجہ کو ناکام بنادے گی اور ایک نیا نتیجہ پیدا کر کے دکھا دے گی.ان معنوں میں مقتدر قد میرا ور قادر دونوں سے زیادہ غلبے کے ساتھ اپنی قدرت نمائی کرتا ہے.لیکن ایک پہلو سے یہ مضمون محدود ہو جاتا ہے لیکن صرف خدا کے پاک بندوں کے لئے یہ تقدیر جوش دکھاتی ہے.تو یہ تقدیر خاص بھی ہے اس لحاظ سے محدود ہے اور چونکہ تقدیر خاص ہے اس لئے زیادہ طاقتور بھی ہے اور زیادہ غالب بھی ہے.تو تین قسم کی تقدیریں ہمیں نظر آئیں تقدیر عام اور تقدیر خاص جو مذہبی تقدیر ہے اور پھر اخص یعنی مقتدر کی تقدیر.پھر قرآن کریم اسی مضمون کو آنحضرت ﷺ کے ذکر میں بیان فرماتا ہے: فَإِمَّا نَذْهَبَنَّ بِكَ فَإِنَّا مِنْهُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ اَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِى وَعَدْنُهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُّقْتَدِرُونَ (الزخرف:۴۲ ۴۳) اگر ہم تجھے لے بھی جائیں یعنی اپنے پاس بلا بھی لیں فَإِنَّا مِنْهُمْ مُنْتَقِمُونَ ہم لازماً ان لوگوں سے تیرا انتقام لیں گے یعنی تو تو ہمیشہ نہیں رہ سکتا اس دنیا میں لیکن جس مقتدر خدا سے تیرا تعلق ہے وہ ہمیشہ رہنے والا ہے.اس لئے اگر تیرے دشمن مٹ جائیں تو وہ مٹ جائیں گے ضروری نہیں اُن کے کام کو جاری رکھنے والے ہوں لیکن تو اگر نہ رہے اس دنیا میں تو تیرا کام نہیں مٹنے دیا جائے گا اور جنہوں نے تجھ پر ظلم کئے ہیں ہم ان سے لازماً انتقام لیں گے لیکن بعد کے وعدے صرف نہیں ہیں اَوْ نُرِيَنَّكَ الَّذِى وَعَدْنُهُمْ فَإِنَّا عَلَيْهِمْ مُّقْتَدِرُوْنَ، أَوْ میں استثناء بتایا جاتا ہے فرمایا یہ نہیں کہ ہم مستقبل کے وعدے کر رہے ہیں پہلے تجھے واپس بلا لیں گے اور پھر ان سے انتقام لیں گے.کچھ حصہ ایسا بھی ہوگا جو اؤ کے تابع ہیں کہ تیری زندگی میں تجھے بھی دکھائیں گے کہ کس طرح خدا مقدرت رکھتا ہے اقتدار رکھتا ہے ان لوگوں کے اوپر تیرے مضمون کو غالب کرے گا اور ان کے مضمون کو مغلوب کر کے دکھائے گا.
خطبات طاہر جلد ۵ 42 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے مختلف جگہ بہت ہی لطیف تفاسیر پیش فرماتے ہیں لیکن پہلے میں اس کے مقتدر کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی بعض تفاسیر کے نمونے پیش کروں، جہاں جہاں آپ نے لفظ قادر کا استعمال کیا ہے اور بعض پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے اس کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں: یاد رکھو! اللہ تعالیٰ بے شک قادر ہے مگر وہ اپنے تقدس اور اُن صفات کے خلاف نہیں کرتا جو قدیم سے الہامی کتب میں بیان کی جارہی ہیں گویا اُن کے خلاف اُس کی توجہ ہوتی ہی نہیں“ (ملفوظات جلد ۵ صفحه: ۲۰۵) یہ جو قدیر کے الہامی کتابوں میں باتیں بیان کی جارہی ہیں فرمایا اُن کے خلاف وہ نہیں کرتا کیونکہ اُن کی طرف اُس کی توجہ ہوتی ہی نہیں اس مضمون کو چونکہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں اس لئے اس کے کچھ حصے چھوڑا رہا ہوں.فرماتے ہیں: ”ہمارا خدا قادر مطلق خدا ہے.وہ کامل اختیارات رکھتا ہے یمحوا لله ما يشاء جس چیز کو چاہتا ہے اُسے مٹا بھی دیتا ہے ہمارا ایمان ہے وہ جوتشی کی طرح نہیں وہ ایک حکم صبح کو دیتا ہے اور رات کو اُس کے بدلنے کے کامل اختیارات رکھتا ہے ماننسخ من اية(البقرہ:۱۰۷) والی آیت اس پر گواہ ہے“ (ملفوظات جلد ۵ صفحه : ۶۳۰) پس قادر صفت کا قدیر سے جو تعلق ہے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اب یہاں کھولا ہے کہ جاری تقدیر ہے ایک.وہ بھی خدا کی جاری کی ہوئی تقدیر ہے مگر وہ ایسی نہیں جو خدا کو عاجز کر دے کہ اُسے بدل نہ سکے اپنے وجود کو دکھانے کے لئے.قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اُس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے ( در متین صفحه: ۱۵۸) اگر وہ خدا یہ غیر معمولی تقدیر جاری کرنا چھوڑ دے تو لوگ یہی کہیں گے کہ خود بخود چیزیں
خطبات طاہر جلد۵ 43 خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۸۶ء پیدا ہوئیں اور خود بخود جاری ہوتی تھیں اور خود بخود جاری رہیں گی اور کسی تیسری بیرونی ہستی کے وجود کی ضرورت کوئی نہیں.اس وہمے کو مٹانے کی خاطر خدا ایک ایسی تقدیر بھی دکھاتا رہتا ہے جو وقتاً فوقتاً جلوہ گر ہوتی ہے اور وہ عام تقدیر سے ہٹ کر ہوتی ہے اور اس بات پر قادر ہے کہ عمومی تقدیر کے برخلا ف اُس پر غالب آنے والی اپنی دوسری تقدیر کو جاری فرمائے.فرماتے ہیں: " اُس خدا پر ایمان لانے سے کیا مزہ جو قریب قریب بتوں کے ہو ( یعنی بتوں کی طرح کا ہو ) نہ سنتا ہواور نہ جواب دے.اُس خدا پر ایمان لانے سے مزہ آتا ہے جو قدرتوں والا خدا ہے جوایسے خدا پر ایمان نہیں لاتا اور خدا تعالیٰ کی قدرتوں اور تصرفات پر ایمان نہیں رکھتا اُس کا خداہت ہے.اصل میں خدا تو ایک ہی ہے مگر تجلیات الگ ہیں جو اس بات کا پابند ہے اس سے ایسا ہی سلوک ہوتا ہے اور جو متوکل ہے اُس سے وہی.اگر خدا تعالیٰ ایسا ہی کمزور ہوتا تو پھر نبیوں سے بڑھ کر کوئی نا کام نہ ہوتا کیونکہ وہ اسباب پرست نہ تھے بلکہ خدا پرست اور متوکل تھے.‘( ملفوظات جلد دوم صفحہ: ۳۹۹) یہاں جو مضمون ہے وہ قدیر اور قادر کے تعلق کا مضمون بیان فرمایا گیا ہے.جب ہم اسباب اختیار کرتے ہیں تو یہ وہی چیز ہے جو خدا تعالیٰ کی ایک جاری تقدیر ہے.اس کے سوا تو اسباب کوئی چیز نہیں ہیں.لیکن جب صرف اسباب ہی اختیار کرنے لگ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی دوسری تقدیر پر ایمان نہیں رکھتے جو وقتاً فوقتاً اُس سے تعلق کی بناء پر یعنی مذہب کے نتیجے میں جاری ہوتی ہے جس کا تعلق قادر سے ہے تو پھر صرف اسباب ہی کے بندے ہوکر رہ جاتے ہیں.فرمایا اُن کے لئے بھی ایک خدا ظاہر ہوتا ہے اُن سے تعلق نہیں توڑتا لیکن جو وہ اپنے لئے پسند کرتے ہیں ویسا ہی خدا اُن کے لئے ظاہر ہوتا ہے.وہ چونکہ اس کی اسباب کی پیروی کرنے لگ جاتے ہیں تو صرف اسباب کی تقدیر تک محدود خدا اُن کے لئے ظاہر ہوتارہتا ہے.یہ مغربی قوموں نے جتنی بھی دنیا میں ترقی کی ہے یہ اسباب کے ذریعہ کی ہے اور اسباب کے خدا سے تعلق قائم کر کے کی ہے، خدا سے ہٹ کر یہ نہیں ترقی کر سکتے لیکن اُن کے لئے صرف اسباب کی تقدیر محدود ہو چکی ہے.فرمایا اگر صرف یہی تقدیر ہوتی تو انبیاء تو جیتے جی مر جاتے کیونکہ اُن کے پاس تو اسباب ہوتے ہی
خطبات طاہر جلد۵ 44 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء نہیں مقابلے کے لئے اتنے تھوڑے، اتنے حقیر ہوتے ہیں کہ دشمن کے اسباب کے مقابل پر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے ہیں فرمایا وہ تو مر جاتے جیتے جی لیکن نہیں اُن کے لئے ایک اور تقدیر خدا کی جاری ہوتی ہے اور وہ اُسکی مذہب کی تقدیر ہے جو اُس سے زندہ تعلق رکھتا ہے اُس کے لئے خدا قادر کے طور پر بھی جلوہ گر ہوتا ہے عام تقدیر کو مٹا کر ایک نئی تقدیر بناتا ہے.پھر فرماتے ہیں: نہیں محصور ہر گز راستہ قدرت نمائی کا خدا کی قدرتوں کا حصر دعوی ہے خدائی کا پھر فرماتے ہیں: قدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت اس بے نشان کی چہرہ نمائی یہی تو ہے جس بات کو کہے کہ کرونگا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے کہ یہاں بولنے والا خدا منظر پر اُبھر آتا ہے یعنی مخلوق ایک ایسے خدا کی واقف ہو جاتی ہے جو بولنے لگ گیا ہے.سائنس دانوں کا خدا تو وہ گونگا خدا ہے کہ جس کی تقدیر جاری تو ہے لیکن اس تقدیر میں نہ ردو بدل کرنے کے اہل ہیں نہ انکے لئے وہ تقدیر یلتی ہے کسی طرح.لازم ہے اُن پر کہ سو فیصدی بھی اس تقدیر کی پیروی کریں، غلامی اختیار کریں اور پھر اس سے جو فائدہ اٹھانا ہے اُس سے اٹھائیں لیکن ایک زندہ فعال خدا سے وہ تقدیر اُن کا تعلق قائم نہیں کرتی.اسی لئے اکثر سائنس دان جس خدا تک پہنچے ہیں وہ ایک تصوراتی خدا ہے جس کا ہونا وہ تسلیم کر لیتے ہیں لیکن انسان کے ساتھ ایک زندہ تعلق والا خدا اُن پر کبھی ظاہر نہیں ہوتا نہ وہ اُن کا وجود تسلیم کرتے ہیں.کہتے ہیں ہو گا قدرت کا ملہ میں ہمیں نظر آتا ہے لیکن ایسا وجود جو انسانی معاملات میں دلچسپی لے، اُن میں دخل دے، اُن سے پیار کرے، اُن کو سزا دے ایسا خدا ہمیں کہیں نظر نہیں آتا.اس لئے اس سے اُن کا تعلق قائم ہی نہیں ہوتا وہ خدا تعالیٰ کی قدرت کو سمجھتے نہیں ہیں لیکن جب وہ قدرت کاملہ پر یقین رکھنے لگ جاتے ہیں انسان.تب خدا اُن پر ظاہر ہوتا ہے اور اُن سے بولتا ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات طاہر جلد۵ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: 45 جس بات کو کہے کہ کرونگا میں یہ ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء پس ایسا خدا جب جلوہ گر ہو جائے تو اُس وقت انسان کے لئے دعا کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے اور تبھی مذہب میں دعا پر غیر معمولی زور دیا جاتا ہے.تبھی قرآن کریم میں دعا پر غیر معمولی زور دیا.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں دعا کے متعلق اتنا کچھ سکھایا کہ آپ گزشتہ صدیوں کا مواد اکٹھا کر کے دیکھ لیں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کے مضمون پر لکھا ہے اُس کے قریب بھی نہیں پھٹکے گاوہ سب کچھ.اپنے مواد کی کثرت کے لحاظ سے بھی اور مضمون کی گہرائی کے لحاظ سے بھی کیونکہ جب ایک قدرتوں والا خدا ہے جو بولتا بھی ہے، جو اپنے پیاروں سے پیار کرتا ہے اور پھر اُن کی تائید فرماتا ہے ، ان کے لئے غیرت دکھاتا ہے.ایسے خدا سے تعلق قائم ہونا چاہئے چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسے قادر خدا سے تعلق کے لئے اس کثرت کے ساتھ دعا کرتے تھے کہ آپ کی نظم میں بھی آپ کی نثر میں بھی بکثرت حیرت انگیز اثر کرنے والی دعا ئیں ملتی ہیں اور سب کے نمونے تو پیش کئے ہی نہیں جاسکتے لیکن اصل بات یہ ہے کہ جو کچھ ملتا ہیں اُس سے بہت زیادہ ہے جو نہیں ملتا کیونکہ وہ رات کی خاموش دعا ئیں تھیں جو سب کے سب نہ بیان ہوئیں نہ لکھی گئیں اور دن کی خاموش دعا ئیں بھی تھیں.ہر وقت دل اور دماغ اللہ تعالیٰ کی طرف مائل رہتا تھا اور خدا کے حضور کچھ نہ کچھ مناجات کرتارہتا تھا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں ہمیں ملتی ہیں اُن میں بھی جہاں قادر کا ذکر ہے بہت ہی وسیع مضمون وہاں نظر آتا ہے اور صاف دکھائی دیتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے غلبے کے لئے ایک ذرہ بھی اپنی ذات پر یا اُن ذرائع پر بھروسہ نہیں تھا جو ایک دنیا دار کی نگاہ دیکھ سکتی ہے.خالصہ اللہ کی قدرت پر بھروسہ تھا.اسی لئے میں اس مضمون کو یہاں تک لایا ہوں تا کہ جماعت کو اس بات کی طرف متنبہ کروں.اسباب بھی چونکہ خدا کی ایک تقدیر کا حصہ ہیں اس لئے اُن سے روگردانی بھی ایک قسم کا تکبر
خطبات طاہر جلد۵ 46 خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۸۶ء ہے جو خدا تعالیٰ کو پسند نہیں.اس لئے انبیاء کو مجبور کیا گیا کہ وہ اسباب بھی اختیار کریں اور جہاں تک ہو سکتا ہے کریں لیکن ساتھ یہ بھی کھول دیا گیا اور خوب کھول دیا گیا کہ رعایت اسباب اس لئے ضروری نہیں ہیں کہ اسباب تمہیں کسی مقام تک پہنچا ئیں گے.تمہیں جو بھی غلبہ نصیب ہوگا وہ تمہارے اسباب کے بغیر ،انکے سہارے کے بغیر خالصہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوگا اور تعلق الہی کاوہ ایک جلوہ ہوگا اس لئے دعائیں کرو اور اصل بناء دعا پر ہے، اصل بناء اللہ تعالیٰ کی مدد پر ہے.ہم اسباب بھی اختیار کریں گے اس لئے کہ وہ قدیر خدا کی جلوہ نمائی ہے اور ہم خدا کی کسی صفت کے کسی حصہ سے بھی مستغنی نہیں ہو سکتے لیکن اصل بناء ہماری قادر خدا سے تعلق جوڑنے پر ہے کیونکہ جب تک ہم قادر خدا سے تعلق نہیں جوڑیں گے قدیر خدا سے تعلق رکھنے والے تو اتنے زیادہ ہیں اور اسباب کے بندے اس کثرت سے ہیں اور اس کثرت کے ساتھ اُن کو اسباب بھی ملے ہوئے ہیں کہ اسباب کے مقابل پر اسباب کے ذریعہ ہم غالب نہیں آسکتے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں کیں بھی اور دعائیں سکھائیں بھی آپ فرماتے ہیں: اک کر شمہ اپنی قدرت کا دکھا تجھ کو سب قدرت ہے رب الوریٰ حق پرستی کا مٹا جاتا ہے نام ایک نشان دکھلا کہ ہو حجت تمام پھر ان دعاؤں کو خدائے قدیر نے اور خدائے قادر نے قبول بھی فرمایا اور اُس قبولیت کا ذکر بھی آپ فرماتے ہیں.تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر میری جاں تیرے فضلوں کی پند گیر حریفوں کو لگے ہر سمت سے تیر گرفتار آگئے جیسے کہ نخچیر ہوا آخر وہی جو تیری تقدیر بھلا چلتی ہے تیرے آگے تدبیر
خطبات طاہر جلد۵ 47 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء خدا نے ان کی عظمت سب اڑادی فسبحان الذي اخزى الاعادي ( در مین صفحه ۵۱) یہاں یہ بات بھی یادر کھنے کے قابل ہے کہ تدبیر بھی دو معنی رکھتی ہے.ایک وہ تدبیر ہے جو خدا تعالیٰ کی تقدیر کو اختیار کرنے کے نتیجے میں کی جاتی ہے.وہ تدبیر کامیاب ہوتی ہے عموماً سوائے اس کے کہ خدا کی کسی غالب تقدیر سے ٹکرا جائے اور ایک تدبیر ہے جو خدا تعالیٰ کی تقدیر کو بدلنے کے لئے کی جاتی ہے، وہ لا ز ما ہر صورت میں ناکام ہوتی ہے.پس یہاں جس تد بیر کا ذکر فرمایا گیا ہے اس تدبیر کی ناکامی کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے.پھر جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نصیحت فرماتے ہیں: اگر مصائب کے وقت میں تم مومن ہو اور خدا تعالیٰ سے صلح کرنے والے ہو اور اس کی محبت میں آگے قدم بڑھانے والے ہوتو وہ رحمت ہے تمہارے واسطے.کیونکہ خدا قادر ہے کہ آگ کو گلزار کر دے.اور اگر تم فاسق ہو تو ڈرو کہ وہ آگ ہے جو بھسم کرنے والی ہے اور قہر اور غضب ہے جو نیست ونا بود کرنے والا ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۱۵۴۰) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدائے قادر کے بعد ایک ایسے جلوے سے فائدہ اٹھانے کی طرف بھی توجہ دلاتے ہیں جس طرف عموم آلوگوں کا خیال نہیں جاتا.ہم عموماً خدائے قادر کو آفاقی نظر سے دیکھنا چاہتے ہیں یعنی گردو پیش میں اس کے جلوے ظاہر ہور ہے ہوں اور ہم لطف اندوز ہورہے ہوں کہ دیکھو ہمارے لئے خدائے قادر اس طرح جلوہ گر ہوا.حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کا عارف باللہ ہونا آپ کی ہر تحریر سے ثابت ہے.ایسے ایسے گوشوں کی طرف ذہن کو منتقل فرما دیتے ہیں جن کی طرف عام انسان کا ذہن جاہی نہیں سکتا ہے.آپ فرماتے ہیں خدا کے قادر ہونے کو باہر ہی تلاش نہ کرو، اپنی ذات کے اندر بھی تلاش کرو، یہی نہ چا ہو کہ خدائے قادر کے جلوے باہر جلوہ گر ہوتے دیکھو، اپنی ذات میں بھی خدائے قادر کے جلووں کی طلب کرو، تمنارکھو اور التجا کرو کہ وہ تمہارے لئے جلوہ گر ہو.کن معنوں میں فرمایا کہ تم اپنی ذات میں روحانی انقلاب پیدا کرنے کے اہل ہی نہیں ہونہ تو تم اس بات کے اہل ہو کہ بیرونی طور پر کوئی روحانی
خطبات طاہر جلد۵ انقلاب تدبیر کے ذریعے بر پا کرسکو.48 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء یہ بات تو تمہیں سمجھ آگئی کہ تم بہت کمزور ہو دشمن غالب ہے لیکن یہ بات تم نہیں سمجھتے کہ تم اتنے کمزور ہو کہ اپنی ذات کے اندر بھی کوئی روحانی انقلاب بر پا نہیں کر سکتے اُس کے لئے بھی خدائے قادر کا ہاتھ ڈھونڈو گے تمہارے اندروہ انقلاب بر پا ہو گا ورنہ انقلاب نہیں ہوسکتا.غور کرو کہ جس قادر خدا نے انسان کو ایسے ایسے انقلابات میں سے گزار کر انسان بنا دیا ہے اور اب ایسا انسان ہے کہ گویا عقل حیران ہے کہ کیا سے کیا بن گیا.ناک منہ اور دوسرے اعضاء پر غور کرو کہ خدا تعالیٰ نے اسے کیا بنایا ہے پھر اندرونی حواس خمسہ دئے اور دوسرے قومی اور طاقتیں اس کو عطا کیں.پس خدائے قادر نے اس زمانہ سے جو یہ نطفہ تھا، عجیب تصرفات سے انسان بنا دیا.کیا اس کے لئے مشکل ہے کہ اس کو پاک حالت میں لے جاوے؟ اور جذبات سے الگ کر دے؟ جو شخص ان باتوں پر غور کرے گا وہ بے اختیار ہو کر کہہ اٹھے گا : اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (البقره: ۱۴۹) ( ملفوظات جلد ۴ صفحه: ۶۵۸) یعنی خدا تعالیٰ نے جو کچھ تمہیں بنایا ہے بہت ہی عظیم الشان خلقت ہے لیکن خدا کی مدد کے بغیر اس حالت کو پاک حالت میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا اس لئے خدائے قادر سے تعلق جوڑو اور خدائے قادر سے توقع رکھو کہ وہ تمہیں پاک حالت میں لے جائے.جہاں تک مقتدر کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چندا قتباس کے بعداب میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں اور اس کا بقیہ حصہ انشاء اللہ آئندہ جمعے کے لیے چھوڑتا ہوں فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ مقتدر ہے وہ جب چاہتا ہے مصیبت کا دروازہ کھول دیتا ہے اور جب چاہتا ہے کشائش کرتا ہے.جو بھی اُس پر بھروسہ کرتا ہے وہ بچایا جاتا ہے.ڈرنے والا اور نہ ڈرنے والا کبھی برابر نہیں ہو سکتے.اللہ تعالیٰ ان دونوں میں ایک فرق رکھ دیتا ہے“ (ملفوظات جلد نمبر ۳ صفحہ ۱۷۳۰) یعنی مقتدر دونوں باتوں پر ہے پکڑ پر بھی مقتدر ہے اور خوف سے بچانے پر بھی مقتدر ہے،
خطبات طاہر جلد۵ 49 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء خوف میں مبتلا کر کے ہلاک کر دینے پر بھی مقتدر ہے اور ہر خوف سے نکال لے جانے پر بھی مقتدر ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کرو جو ڈرنے والا ہے اللہ تعالیٰ سے اُس سے وہ سلوک نہیں کیا جاتا ہے جو خدا تعالیٰ غل با کی کیا کرتا ہے.پھر فرماتے ہیں: مقتدر ذات وہ ہے جو پہلے سے خبر بھی دیتی ہے اور پھر ایسے حالات میں وہ خبر دیتی ہے کہ بظاہر وہ بات ہونی ناممکن ہے اور یہ خدا تعالیٰ کی زندہ ہستی کا ثبوت ہے فرماتے ہیں.ایک دہریہ سے یہ سوال ہے کہ قبل از وقت طاقت اور اقتدار سے بھری ہوئی پیشگوئیاں جو ہم کرتے ہیں یہ کہاں سے ہوتی ہیں؟ اگر کہو یہ کوئی علم ہی ہے تو اس علم کے ذریعے وہ بھی کر سکتا ہے، کر کے دکھائے ورنہ ماننا پڑے گا کہ ایک زبر دست طاقت ہے جو الہام کر رہی ہے.“ (ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۹۴۰) پھر فرماتے ہیں.”اے بد فطر تو ! اپنی فطرتیں دکھلا و لعنتیں بھیجو،ٹھٹھے کرو اور صادقوں کا نام کا ذب اور دروغ گورکھولیکن عنقریب دیکھو گے کہ کیا ہوتا ہے تم ہم پر لعنت کرو تا فرشتے تم پر لعنت کریں.میں نے بہت چاہا کہ تمہارے اندرسچائی ڈالوں اور تاریکی سے تمہیں نکالوں اور نور کے فرزند بناؤں لیکن تمہاری بد بختی تم پر غالب آگئی ہے سو اب جو چاہو لکھو.تم مجھے دیکھ نہیں سکتے جب تک وہ دن نہ آوے کہ جو قادر کریم نے میرے دکھانے کے لئے مقرر کر رکھا ہے.ضرور تھا کہ تمہیں ابتلاء میں ڈالے اور تمہاری آزمائش کرے تا تمہارے جھوٹے دعوے فہم اور فراست اور تقویٰ اور علم قرآن کے تم پر کھل جائیں.“ مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحه: ۳۹۹) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا بار بار جس میں خدا تعالیٰ کی اقتداری جلوہ گری کا ذکر اور وعدہ ملتا ہے.کثرت سے ایسے الہام ہیں لیکن اُن میں سے ایک الہام میں آج اُس کا ترجمہ پڑھ کر آپ کو سناتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام انـــى مـع الا فـواج.ال اتیک بغتة “ ( تذکرہ صفحہ: ۲۴۲) والے الہام کا ترجمہ فرماتے ہیں کہ میں اپنی فوجوں کے ساتھ تیرے
خطبات طاہر جلد۵ 50 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء پاس ناگہانی طور پر آؤنگا.یعنی جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی اس گھڑی کا تجھے علم نہیں.پس وہ احمدی جواندازے لگاتے رہتے ہیں ہر وقت کہ فلاں دن ،فلاں رات ، فلاں گھڑی اچانک یہ کام ہو جائیگا جب پہلے پتہ چل گیا کہ فلاں وقت فلاں گھڑی اچانک یہ کام ہونا ہے تو اچانک کیسے ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن سے وعدہ کیا گیا ہے اقتدار کا آپ کو خدا مخاطب کر کے فرماتا ہے.یعنی جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی.یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اپنا ہے.اُس گھڑی کا تجھے علم نہیں.اور ان کو علم ہے آج کے اندازے لگانے والوں کو کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو پنجابی میں کہتے ہیں گھروں میں آواں تے سندیسے توں دیو ہیں.یعنی گھر سے تو میں آرہا ہوں اور گھر کے پیغام تم مجھے پہنچا رہے ہو.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کس طرح آپ سند دیسے دے سکتے ہیں.صاحب خانہ کے مہمان تو آپ ہیں، خدا ہے ہر کائنات کے خانے کا مالک اس گھر کے آنے والے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ خدا مجھے فرماتا ہے کہ تجھے اس گھڑی کا علم نہیں وہ کب اور کس طرح ظاہر ہو جائے گا اور بعض باہر سے آنے والے کہتے ہیں کہ ہاں ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ فلاں وقت کس طرح ظاہر ہو جائے گا.آج کا دن بھی وہ دن ہے جس کے معنی خود انہوں نے بنائے ہیں یا خود پہنا رکھے ہیں.آج جمعہ ہے اور دس تاریخ ہے مجھے خدا نے بتایا تھا جس خدا کے قبضہ میں میری جان ہے اُس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ گھلا گھلا واضح طور پر ایک چپکتے ہوئے نشان کے طور پر اُس نے مجھے بتایا تھا لیکن جیسا کہ میرے گزشتہ خطبات سے ظاہر ہے مجھ پر قطعاً یہ واضح نہیں ہے کہ کس رنگ میں وہ نشان پورے ہوں گے.کچھ پورے ہوئے تو اندازہ ہوا کہ یہ بھی ایک طریق تھا اور یہ پتہ ہے کہ وہ بار بار کی جلوہ گری ہے کہ کئی رنگ میں پورے ہونگے لیکن جوں جوں جمعہ قریب آیا.لوگوں نے مجھے لکھنا شروع کر دیا کہ اب یہ نشان اس طرح پورا ہونے والا ہے.تمہیں کس طرح پتہ لگ گیا مجھے تو نہیں پتہ؟ لیکن یہ یقین ہے ایک ذرہ بھی تزلزل نہیں اس یقین میں کامل ہے کہ خدا کی طرف سے یہ خبر تھی اور وہ خدا ہی ہے جو اُسے پورا کر کے دکھائے گا اور جب بھی پورا کر کے دکھائے گا جماعت کے دل اطمینان اور شکر اور حمد کے ساتھ بھر دیگا اور کوئی شک کرنے والا اس مقام پر نہیں رہے گا کہ وہ شک کر سکے اور
خطبات طاہر جلد۵ ٹھٹھہ کر سکے پس یہی ہمارے لئے کافی ہے.امین 51 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء کہ جس گھڑی تیری مدد کی جائے گی اُس گھڑی کا تجھے علم نہیں ، اور اُس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا کہ کاش میں اس خدا کے بھیجے ہوئے سے مخالفت نہ کرتا اور اُس کے ساتھ رہتا اور کہتے ہیں کہ یہ جماعت متفرق ہو جائے گی اور بات بگڑ جائے گی حالانکہ ان کو غیب کا علم نہیں دیا گیا ہماری طرف سے ایک برہان ہے اور خدا قادر تھا کہ ضرورت کے وقت میں اپنی برہان ظاہر کرتا “ (روحانی خزائن جلد ۱۷، اربعین ۳ صفحه ۴۲۳) پھر خدائے قادر سے دعا کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں: ”اے میرے حضرت اعلیٰ ذوالجلال قادر وقد وس حی و قیوم جو ہمیشہ راستبازوں کی مدد کرتا ہے تیرا نام ابدالا با دمبارک ہے.تیری قدرت کے کام کبھی رک نہیں سکے.تیرا قومی ہاتھ ہمیشہ عجیب کام دکھلاتا ہے تو نے ہی اس چودھویں صدی کے سر پر مجھے مبعوث کیا اور فرمایا کہ اٹھ میں نے تجھے اس زمانہ میں اسلام کی حجت پوری کرنے کے لیے اور اسلامی سچائیوں کو دنیا میں پھیلانے کے لئے اور ایمان کو زندہ اور قومی کرنے کے لئے چنا...اے میرے قادر خدا تو جانتا ہے کہ اکثر لوگوں نے مجھے منظور نہیں کیا اور مجھے مفتری سمجھا اور میرا نام کافر اور کذاب اور دجال رکھا گیا.مجھے گالیاں دی گئیں اور طرح طرح کی دل آزار باتوں سے مجھے ستایا گیا.سواے میرے مولا قادر خدا! اب مجھے راہ بتلا اور کوئی ایسا نشان ظاہر فرما جس سے تیرے سلیم الفطرت بندے نہایت قوی طور پر یقین کریں کہ میں تیرا مقبول ہوں اور جس سے اُن کا ایمان قوی ہواور وہ تجھے پہچانیں اور تجھ سے ڈریں اور تیرے اس بندے کی ہدایتوں کے موافق ایک پاک تبدیلی اُن کے اندر پید اہو اور زمین پر پاکی اور پرہیز گاری کا اعلیٰ نمونہ دکھلا دیں اور ہر ایک طالب حق کو نیکی کی طرف کھینچیں اور اس طرح پر تمام
خطبات طاہر جلد۵ 52 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء 66 قومیں جو زمین پر ہیں تیری قدرت اور تیرے جلال کو دیکھیں اور سمجھیں کہ تو اپنے اس بندے کے ساتھ ہے اور دنیا میں تیرا جلال چمکے اور تیرے نام کی روشنی اُس بجلی کی طرح دکھلائی دے کہ جو یہ ایک لمحہ میں مشرق سے مغرب تک اپنے تیں پہنچاتی اور شمال و جنوب میں اپنی چمکیں دکھلاتی ہے....اے میرے قادر خدا اے میرے تو انا اور سب قوتوں کے مالک خداوند! تیرے ہاتھ کے برابر کوئی ہاتھ نہیں اور کسی جن اور بھوت کو تیری سلطنت میں شرکت نہیں کسی شیطان کو یہ قوت نہیں دی گی کہ وہ تیرے نشانوں اور تیرے ہیبت ناک ہاتھ کے آگے ٹھہر سکے یا تیری قدرت کی مانند کوئی قدرت دکھلا سکے کیونکہ تو وہ ہے جس کی شان لا الہ الا اللہ ہے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفه ۳۲۲-۳۲۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ خدا تعالیٰ نے اس کثرت کے ساتھ قدرت نمائی کے وعدے فرمائے ہیں ایک مومن کے لئے ایک لمحہ بھی کسی قسم کے شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی.اس لئے خدا تعالیٰ کے قدرتوں کے اس مضمون کو سمجھنے کے بعد خصوصیت کے ساتھ میں احمدیوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے رنگ میں رنگین ہو کر سب سے پہلے اپنے قادر خدا سے تعلق جوڑیں اس کی قدرتوں کے اوپر کامل ایمان رکھیں.ایک لمحہ کے لئے بھی تو کل کے اعلیٰ مقام کو ہاتھ سے نہ جانے دیں.رعایت اسباب ضرور کریں کیونکہ یہ لازم ہے مگر رعایت اسباب پر بھروسہ نہ کریں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حق میں جتنے وعدے ہیں وہ لازماً پورے ہوں گے ایک ذرا سا ادنی سا بھی شک اس بات پر نہیں ہے لیکن اُن کو پورا کرنے کے لئے کچھ توقعات ہیں ہماری جماعت سے ان میں ابتلاؤں کا ایک مقصد ہے اور وہ مقصد جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے واضح ہے وہ ہمیں پاک اور صاف کرنا اور بہتر انسان بنانا ہے.نتھار دینا ہے، لوگوں سے الگ اور ممتاز کردینا ہے.جوں جوں یہ امتیازی نشان ہمارے وجود میں ظاہر ہوتے رہے گے.جوں جوں ہمارے اندر پاک تبدیلیاں ہوتی چلی جائیں گی خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کا ہاتھ ہمارے لئے زیادہ مفید ہوگا.دنیا دیکھے گی ان کے لئے ان بندوں کے لئے خدا نے قدرت کا ہاتھ دکھایا ہے اگر غیر کے ساتھ تمیز کوئی نہ ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ کس کے
خطبات طاہر جلد۵ 53 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء لئے خدا نے کیا قدرت دکھائی اور جب تمیز کوئی نہیں تو خدا تو حکیم خدا ہے اور قدرت کے اندر حکمت کا مضمون پایا جاتا ہے.کوئی وجہ نہیں کہ خدا تمیز کر کے دکھائے کہ جیسے عام تقدیر میں دوسرے لوگ اُس کے تابع چل رہے ہیں اسی طرح آپ بھی عام تقدیر کے تابع چلتے چلے جائیں گے.اس لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک پیشگوئی پڑھنے کے بعد اس مضمون کو آج ختم کرتا ہوں مگر یادرکھیں کہ اس پیشگوئی کا اطلاق ہم پر ہوگا، ضرور ہو گا اس میں شک نہیں لیکن کچھ تقاضے ہیں جو آپ کو پورے کرنے ہوں گے.میں آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ بعض خطبات میں توجہ دلاؤں گا کہ کون کون سی ایسی باتیں ہیں جن کی طرف ہمیں مزید توجہ کی ضرورت ہے.جس کے نتیجے میں اگر ہم توجہ دیں تو انشاء اللہ خدا کے وعدوں کے پورا ہونے کے دن قریب تر آجائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تمام پنجاب اور ہندوستان کے لوگ مجھ سے ایسے بگڑ گئے تھے جو مجھے پیروں کے نیچے کچلنا چاہتے تھے ضرور تھا کہ وہ لوگ اپنی جان توڑ کوششوں میں کامیاب ہو جاتے اور مجھے تباہ کر دیتے لیکن وہ سب کے سب نامرادر ہے اور میں جانتا ہوں کہ اُن کا اس قدر شور اور میرے تباہ کرنے کے لئے اس قدر کوشش اور یہ پر زور طوفان جو میری مخالفت میں پیدا ہوا یہ اس لئے نہیں تھا کہ خدا نے میرے تباہ کرنے کا ارادہ کیا تھا بلکہ اس لئے تھا کہ تا خدا تعالیٰ کے نشان ظاہر ہوں اور تا خدائے قادر جوکسی سے مغلوب نہیں ہوسکتا اُن لوگوں کے مقابل پر اپنی طاقت اور قوت دکھلاوے اور اپنی قدرت کا نشان ظاہر کرے چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا.کون جانتا تھا اور کس کے علم میں یہ بات تھی کہ جب میں ایک چھوٹے سے بیج کی طرح بویا گیا اور بعد اس کے ہزاروں پیروں کے نیچے کچلا گیا اور آندھیاں چلیں اور طوفان آئے اور ایک سیلاب کی طرح شور بغاوت میرے اس چھوٹے سے تخم پر پھر گیا.پھر بھی میں ان صدمات سے بچ جاؤں گا.سو وہ تخم خدا کے فضل سے ضائع نہ ہوا بلکہ بڑھا اور پھولا اور آج وہ ایک بڑا درخت ہے جس کے سایہ کے نیچے تین لاکھ انسان آرام کر رہا ہے ( یہ تقریباً سو
خطبات طاہر جلد۵ 54 خطبہ جمعہ ۱۰ جنوری ۱۹۸۶ء سال پہلے کی بات ہے ) یہ خدائی کام ہیں جن کے ادراک سے انسانی طاقتیں عاجز ہیں وہ کسی سے مغلوب نہیں ہوسکتا، (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۲۶۲-۲۶۳) بعض احمدی بہت تھوڑے ہیں بعض احمدی یہ بھی لکھتے ہیں کہ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چلے گئے اس زمانے کا تقویٰ بھی ختم ہو گیا اور کمزوریاں جماعت میں آگئیں اس لئے یہ ابتلاء نہیں یہ سزا ہے یہ بالکل جھوٹا اور شیطانی خیال ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب تک خدا تعالیٰ کامل غلبہ عطا نہیں کرتا اور آپ کے ذریعہ اسلام کو غیروں پر غلبہ عطا نہیں کرتا خدا کی قدرت نمائی کا ہاتھ نہیں رکے گا نہیں تھے گا اور نہیں ماندا ہو گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ اس آخری عالمی غلبہ کے بغیر خدا تعالیٰ کی قدرت کا ہاتھ آپ سے پیچھے کھینچ دیا جائے اور اسی لئے اس باطل خیال کو مٹانے کے لئے ، ہمیشہ کے لیے اس کو اکھاڑ کر پھینک دینے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک وعدہ کیا گیا اور جو آپ نے بڑے واضح اور گھلے لفظوں میں جماعت کے سامنے رکھا.فرماتے ہیں: میں خدا کی طرف سے ایک قدرت کے رنگ میں ظاہر ہوا اور میں خدا کی ایک مجسم قدرت ہوں اور میرے بعد بعض اور وجو د ہوں گے جو دوسری قدرت کا مظہر ہوں گے سوتم خدا کی قدرت ثانی کے انتظار میں اکٹھے ہو کر دعا کرتے رہو اور چاہئے کہ ہر ایک صالحین کی جماعت ہر ایک ملک میں اکٹھے ہو کر دعا میں لگے رہیں تا دوسری قدرت آسمان سے نازل ہوا اور تمہیں دکھا دے کہ تمہارا خدا ایسا قادر خدا ہے.اپنی موت کو قریب سمجھو تم نہیں جانتے کہ کس وقت وہ گھڑی آجائے گی (الوصیت، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه: ۳۰۶) اس دوسری قدرت کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے وعدہ کیا گیا ہے، کم از کم ایک ہزار سال تک یہ جاری رہے گی.پس وہ لوگ جوان وہموں میں مبتلا ہیں یعنی شیطانی وساوس کا شکار ہو جاتے ہیں کہ گویا خدا کی قدرت کا ہاتھ ہم سے کھینچ لیا گیا ہے جھوٹ بولتے ہیں.وہ قدرت ثانیہ جاری ہے اور جب تک اُس قدرت کے ساتھ جماعت وابستہ رہے گی خدا کی قدرت جماعت کے ساتھ وابستہ رہے گی.کوئی نہیں جو اس تعلق کو کاٹ سکے.پس آپ کامل وفا کے ساتھ خدا کی
خطبات طاہر جلد۵ 55 خطبہ جمعہ ۱۰؍ جنوری ۱۹۸۶ء قدرت ثانیہ کے ساتھ تعلق جوڑے رکھیں.میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں اور خدا کی قسم کھا کر آپ سے کہتا ہوں کہ خدا کی قدرت کبھی بھی آپ سے اپنا پیوند نہیں توڑے گی، ہر گز نہیں توڑے گی اور ہر گز نہیں توڑے گی یہاں تک کہ اسلام کو کامل غلبہ نہ نصیب ہو جائے.
خطبات طاہر جلد۵ 57 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء اللہ تعالیٰ کی صفت المقتدر اور اقتداری نشانات کا بیان (خطبہ جمعہ فرموده ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ أَوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَيُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ أَنْظُرْ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَتِ لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُوْنَ وَكَذَبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيلٍ لِكُلِّ نَبَإِ مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ ) (الانعام: ۶۶-۶۸) یہ آیات ۶۶ تا ۶۸ جو سورہ انعام سے اخذ کی گئی ہیں.ان کا ترجمہ یہ ہے کہ تو ان سے کہہ دے کہ وہ یعنی اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ تمہارے اوپر سے بھی عذاب نازل فرمائے اور تمہارے نیچے سے بھی عذاب نازل فرمائے.یا ایک اور صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تمہیں آپس میں مختلف گروہوں میں تقسیم کر دے اور تمہارے اندر مناقشت پیدا کر دے اور پھر ایک کا عذاب دوسرے کو پہنچائے.پھر فرماتا ہے دیکھ ہم دلیلوں کو کس طرح بار بار بیان فرماتے ہیں اُنظُرُ كَيْفَ نُصَرِّفُ الْآيَتِ کس طرح پھیر پھیر کے مختلف زاویوں سے تمہیں صورت حال دکھاتے ہیں.لَعَلَّهُمْ يَفْقَهُونَ.اس
خطبات طاہر جلد۵ 58 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء لئے کہ یہ لوگ سمجھ جائیں.وَكَذَبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ.تیری قوم نے اے محمد مصطفی ﷺ اس کو جھوٹا قرار دیا ہے.یہاں بس سے مراد آنحضرت علی کا پیغام یا قرآن کریم ہے.وَكَذَّبَ بِهِ قَوْمُكَ وَهُوَ الْحَقُّ قُل لَّسْتُ عَلَيْكُمْ بِوَكِيْلٍ.ان سے کہہ دے کہ میں تم پر نگران اور ذمہ دار نہیں ہوں.نگران ان معنوں میں تو ہیں حضور اکرم ﷺ جن معنوں میں شاھد اور شہید میں نگرانی کا ذکر ہے مگر ان معنوں میں نہیں کہ وہ اگر کوئی برا فعل کریں تو حضوراکرم علی اس کی جواب دہی کریں.پس داروغہ کا لفظ غالباً زیادہ بہتر ترجمہ ہے وکیل کے لحاظ کے لئے ، وکیل کا ترجمہ داروغہ کرنا بہتر رہے گا.لِكُلِّ نَيَا مُسْتَقَرٌّ وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ.ہر خبر کے لئے ایک مقررہ وقت ہوا کرتا ہے وَسَوْفَ تَعْلَمُونَ اور یقینا تم عنقریب جان لو گے.یہ آیات تین قسم کے عذابوں کی خبر دے رہی ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفیٰ وحی نازل ہوئی تو اس پر آپ کا رد عمل کیا تھا.یہ ایک بہت ہی دلچسپ مطالعہ ہے جسے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے عشاق کو پیش نظر رکھنا چاہئے.حضرت جابر سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی (یعنی اس آیت کا یہ ٹکڑا جو ابھی پڑھ کر میں سناتا ہوں قُلْ هُوَ الْقَادِرُ عَلَى أنْ يَبْعَثَ عَلَيْكُمْ عَذَابًا مِنْ فَوْقِكُمْ کہہ دے ان سے کہ اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ وہ تمہیں تمہارے اوپر سے عذاب کے ذریعہ سے پکڑے یا تمہارے اوپر سے عذاب نازل فرمائے) قَالَ رَسُولُ اللهِ الله أَعُوذُ بِوَجْهِكَ کہ اے اللہ میں تیری ذات کی عظمت کی پناہ چاہتا ہوں، تیرے چہرے کی پناہ مانگتا ہوں.پھر یہ آیت آپ نے پڑھی اَوْ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِكُمْ یا تمہارے قدموں کے نیچے سے عذاب ظاہر فرمائے.قَالَ اَعُوذُ بِوَجْهِكَ اے اللہ ! میں تیرے چہرے کی عظمت تیرے وقار کی اور تیری شان کی پناہ مانگتا ہوں.أوْ يَلْبِسَكُمْ شِيَعًا وَ يُذِيقَ بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ پھر یہ ٹکڑا تلاوت فرمایا، یا تمہیں آپس میں گروہوں میں تقسیم کر دے اور ایک کا عذاب دوسرے کو پہنچائے.اس پر حضور اکرم ﷺ نے فرما یا هذَا اهْوَنُ اَوْ قَالَ هَذَا أَيْسَرُ فرمایا ہاں یہ نسبتا نرم بات ہے، یہ زیادہ آسان بات ہے.صحیح بخاری کتاب التفسیر میں یہ روایت درج ہے.( صحیح بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر : ۶۷۶۹)
خطبات طاہر جلد ۵ 59 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء اس پر اگر آپ غور کریں تو آنحضرت ﷺ کی رحمت اور شفقت کا ایک حیرت انگیز نہایت ہی عظیم الشان پہلو سامنے آتا ہے.یہ عذاب کی خبریں تو مخالفین اور معاندین کے متعلق دی جارہی تھیں.پس جب آنحضرت علیے پناہ مانگتے ہیں تو عملاً ان کے لئے دعا کرتے ہیں کہ اے خدا ایسے تو سخت عذاب میں ان کو مبتلا نہ فرما.پس وہ عذاب جو خدا کی طرف سے براہ راست نازل ہوتا ہے عارف باللہ اس سے بہت زیادہ خوف کھاتا ہے اور انسان جو انسان کو تکلیف پہنچا سکتا ہے اسکو نسبتا کم محسوس کرتا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفیٰ علیہ نے ان دونوں عذابوں کی دفعہ جو براہ راست خدا کی طرف سے آسمان سے نازل ہوں یا زمین سے ظاہر ہوں ان کی مرتبہ خدا سے پناہ مانگی یعنی اپنے مخالفین کے حق میں عملاً دعا کی اور تیسری قسم جب عذاب کی بتائی گئی تو آپ نے فرمایا ہاں یہ نسبتاً آسان ہے.معاندین کو خدا نے پکڑ نا تو تھا لیکن ان کے لئے نسبتاً آسان پکڑ کی طلب فرمائی.جہاں تک تاریخ گواہی دیتی ہے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علے کے زمانے میں یعنی پہلے زمانے میں اب بھی آپ ہی کا زمانہ ہے اولین دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس دعا کی قبولیت کے نشان دکھائے اور ایک بھی واقعہ ایسا نظر نہیں آتا جیسے پرانی قوموں کو آسمان سے پتھر برسا کر ہلاک کیا گیا تھا کہ حضرت رسول کریم ﷺ کے سامنے آپ کی قوم کو اس طرح ہلاک کیا گیا ہو.ایک بھی واقعہ ایسا نظر نہیں آتا کہ جس طرح حضرت نوح کی قوم کو آسمان سے بھی ہلاکت کا پیغام ملا اور زمین نے بھی ہلاکت انگلی اس طرح آنحضرت ﷺ نے بھی اپنی قوم کے متعلق ایسی تکلیف دہ سزا کا مشاہدہ فرمایا ہو.ہاں آپس میں انسان کے ذریعے انسان کو جو پکڑ جو عذاب میں مبتلا کیا جاسکتا ہے وہ نظارے آنحضرت ﷺ کو دکھائے گئے اور اس میں بھی اهْوَنُ کے پہلو کو ہمیشہ پیش نظر رکھا گیا.آج دشمن اسلام حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غزوات اور ابتدائی جنگوں کے متعلق جتنا چاہے کہے، جس قدر چاہے تعصب کا اظہار کرے، لیکن کل عالم میں بلا اشتباہ ایک بھی نظیر ایسی نہیں پیش کرسکتا کہ اتنا عظیم الشان انقلاب اتنی تھوڑی جانی قربانی کے ذریعے رونما ہو گیا ہو.تمام جنگوں میں تمام غزوات میں جو حضور اقدس محمد مصطفی ﷺ کو پیش آئے ان تمام میں چند سونفوس سے زیادہ ہلاک نہیں ہوئے اور حیرت انگیز انقلاب جزیرہ عرب میں ہی رونما نہیں ہوا بلکہ چاروں طرف پھیل گیا ان سرحدوں کو عبور کر گیا.
خطبات طاہر جلد۵ 60 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء یہ وہی دعا تھی کتنا گہرا تعلق تھا حضرت اقدس محمد مصطفی علی کو ایک طرف انسانیت کے ساتھ اور دوسری طرف اپنے رب کے ساتھ کہ خدا جب اقتداری نشان دکھانا چاہتا ہے یہ فیصلہ فرمالیتا ہے اس وقت بھی آنحضرت علیل نرمی کے طالب ہوتے ہیں اور پھر آپ کی دعاسنی جاتی ہے اور بہت ہی معمولی جانی قربانی کے ذریعے ایک حیرت انگیز عظیم الشان انقلاب رونما ہوتا ہے.تمام انسانی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں.اس قدر شدید مخالفتوں میں جبکہ غلبہ مخالفین کے پاس ہو کمز ور لوگوں کے ہاتھوں بغیر قربانی کے بغیر عظیم جانی قربانی کے ایسا انقلاب کبھی رونما نہیں ہوا، نہ عقلاً ہوسکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام آنحضرت ﷺ کی ابتدائی پیشگوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے اس ضمن میں ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں اور وہاں بھی بَعْضَكُمْ بَأْسَ بَعْضٍ کا ہی نظارہ ہے آپ فرماتے ہیں:.و لیکھرام کا حال کسری سے یعنی خسرو پرویز سے مشابہ ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ کے خط پہنچنے پر اس نے بہت غصہ ظاہر کیا اور حکم دیا کہ اس شخص کو گرفتار کر کے میرے پاس لانا چاہئے.تب اس نے صوبہ یمن کے گورنر کے نام ایک تاکیدی پروا نہ لکھا کہ وہ شخص جو مدینہ میں پیغمبری کا دعویٰ کرتا ہے جس کا نام محمد ہے ( ع ) اس کو بلا توقف گرفتار کر کے میرے پاس بھیج دو.اس گورنر نے اس خدمت کے لئے اپنے فوجی افسروں میں سے دو مضبوط آدمی متعین کئے کہ تاوہ کسری کے اس حکم کو بجالا ویں.جب وہ مدینہ میں پہنچے اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ظاہر کیا کہ ہمیں یہ حکم ہے کہ آپ کو گرفتار کر کے اپنے خداوند کسری کے پاس حاضر کریں تو آپ نے ان کی اس بات کی کچھ پرواہ نہ کر کے فرمایا کہ میں اس کا کل جواب دونگا.دوسری صبح جب وہ حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ آج رات میرے خداوند نے تمہارے خداوند کو (جس کو وہ بار بار خداوند خداوند کر کے پکارتے تھے ) اسی کے بیٹے شیرویہ کو اس پر مسلط کر کے قتل کر دیا ہے.چنانچہ ایسا ہی ہوا.اور جب یہ لوگ
خطبات طاہر جلد۵ 61 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء یمن کے اس شہر میں پہنچے جہاں سلطنت بھی فارس کا گورنر رہتا تھا تو ابھی تک اس گورنر کو کسریٰ کے قتل کئے جانے کی کچھ خبر نہیں پہنچی تھی.اس لئے اس نے بہت کیا.مگر یہ کہا کہ اس عدول حکمی کے تدارک کے لئے ہمیں جلد تر کچھ نہیں کرنا چاہئے جب تک چند روز تک پایہ سلطنت کی ڈاک کی انتظارنہ کرلیں.سو جب چند روز کے بعد ڈاک پہنچی تو ان کا غذات میں سے ایک پروانہ یمن کے گورنر کے نام نکلا.جس کو شیر و یہ کسری کے ولی عہد نے لکھا تھا.مضمون یہ تھا کہ کہ خسرو میرا باپ ظالم تھا اور اس کے ظلم کی وجہ سے امور سلطنت میں فساد پڑتا جاتا تھا اس لئے میں نے اس کو قتل کر دیا ہے.اب تم مجھے اپنا شہنشاہ سمجھو اور میری اطاعت میں رہو.اور ایک نبی جو عرب میں پیدا ہوا ہے جس کی گرفتاری کے لئے میرے باپ نے تمہیں لکھا تھا اس حکم کو بالفعل ملتوی رکھو.“ تریاق القلوب روحانی خزائن جلد نمبر ۱۵ صفحه ۳۷۶-۳۷۷) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس ضمن میں جو سکھر ام کا ذکر فرمایا ہے یہ بلا حکمت نہیں ہوسکتا.عملا لیکھرام بھی آنحضرت ﷺ کی شدید گستاخی کے نتیجہ میں مارا گیا ہے اور آپ ہی کی تلوار سے مارا گیا ہے.بترس از تیغ بران محمد عمل ہے.اور یہاں بھی خدا تعالیٰ نے وہی نظارہ دکھایا ہے کہ اس کو بھی انسان نے ہی مارا اور انسان کے ذریعے ہی یہ پکڑا گیا اور براہ راست آسمانی بجلی سے نہیں مارا گیا.یعنی تجلی تو تھی لیکن انسانی دخل کے بغیر نہیں مارا گیا.پس آنحضرت عملے کے ساتھ تعلق رکھنے والے دشمنوں کو جتنے بھی عذاب ملے ہیں وہ اس میں خدا تعالیٰ نے انسانی ہاتھ کو استعمال فرمایا اور اس قسم کے عذاب نازل نہیں فرمائے جیسے کہ پہلی قوموں کو دیئے گئے تھے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمیشہ کے لئے اسلام میں اب کوئی اقتداری تجلی دوسرے عذابوں کے ذریعے ظاہر نہیں ہوگی.کیونکہ خود قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ آئندہ زمانہ میں دابۃ الارض نے ظاہر ہونا ہے جو زمین سے ظاہر ہونے والا ایک عذاب ہے.اسی طرح قرآن کریم کی بعض اور پیش خبریوں سے پتہ چلتا ہے کہ آسمان سے بھی کئی قسم کی بلائیں نازل ہوں گی.مگر جہاں تک حضور اکرم ﷺ کا تعلق ہے آپ کو خدا تعالیٰ نے اپنی رحمت کا نشان ، آپ کی
خطبات طاہر جلد۵ 62 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء قبولیت دعا کا نشان اس طرح دکھایا ہے کہ آپ کے زمانہ میں کوئی ایسا مافوق البشر نشان اس رنگ میں ظاہر نہیں فرمایا کہ انسان کو اس میں کوئی دخل نہ ہو.اور نرمی کا پہلو جیسا کہ حضوراکرم ﷺ نے بیان فرمایا تھا وہی اختیار کیا گیا.اقتداری نشان صرف عذاب الہی کی صورت میں ظاہر نہیں ہوا کرتے بلکہ اقتداری نشان غیر معمولی رحمت اور شفقت کے اظہار کے طور پر بھی ظاہر ہوتے ہیں.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اقتدار میں یہ بات شامل ہے، اس کے مضمون میں یہ بات داخل ہے کہ خدا کی عام تقدیر پر غالب آنے والی ایک اور تقدیر ظاہر ہو جو تقدیر الہی کا ہی حصہ ہومگر غالب تقدیر ہو.اس غالب تقدیر کو اقتدار کہتے ہیں اور یہ غالب تقدیر محض دشمنوں کو ہلاک کرنے کے لئے ظاہر نہیں ہوتی بلکہ اپنوں کی تائید میں بھی ظاہر ہوتی ہے اور بعض دفعہ بیک وقت دونوں نمونے دکھاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ایک دفعہ کا ذکر ہے جبکہ میں سیالکوٹ میں تھا ایک دن بارش ہو رہی تھی جس کمرے کے اندر میں بیٹھا ہوا تھا اس میں بجلی آئی سارا کمرہ دھوئیں کی طرح ہو گیا اور گندھنگ کی سی بو آتی تھی لیکن ہمیں کچھ ضرر نہ پہنچا.اسی وقت وہ بجلی ایک مندر پر گری جو کہ تیجا سنگھ کا مندر تھا اور اس میں ہندؤوں کی رسم کے موافق طواف کے واسطے پیچ در پیچ اردگرد دیوار بنی ہوئی تھی اور اندر ایک شخص بیٹھا ہوا تھا بجلی تمام چکروں میں سے ہو کر اندر جا کر اس پر گری اور وہ جل کر کوئلہ کی طرح سیاہ ہو گیا.دیکھو وہی بجلی آگ تھی جس نے اس کو جلا دیا مگر ہم کو کچھ ضرر نہیں دے سکی کیونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری حفاظت کی.“ (سیرۃ المہدی صفحه : ۲۱۶) پس اقتداری نشانات جو خدا کی طرف سے ظاہر ہوتے ہیں ان میں عام تقدیر سے ہٹ کر ایک بات ہوتی ہے اور بیک وقت اس رنگ میں بعض دفعہ تائیدی اقتداری نشان بھی ظاہر ہورہا ہوتا ہے اور مخالفانہ اقتداری نشان بھی ظاہر ہو رہا ہوتا ہے.ایک صاحب بصیرت کے لئے یہ فرق دیکھ لینا کچھ مشکل نہیں رہتا.آنحضرت عل کے اقتداری نشانات میں سے بڑی تعداد میں ایسے اقتداری نشانات
خطبات طاہر جلد۵ 63 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء ملتے ہیں جن کا تعلق خدا تعالیٰ کی خاص رحمت اور شفقت اور تعلق اور محبت کے اظہار سے ہے اور یہ وہ نشانات ہیں جو اپنوں کو دکھائے گئے.دشمن بار ہا مطالبے کرتا رہا کہ ہمیں کوئی معجزہ دکھاؤ اور معجزہ سے مراد عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ اقتداری نشان ہوا یسا جو عام تقدیر سے فرق کرنے والا ہو ، عام سلوک سے الگ سلوک ہو رہا ہو کسی سے، عام قانون قدرت کے خلاف چیز نظر آتی ہو.لیکن آنحضرت عالی کی زندگی میں دشمنوں کو ایسے نشان نہیں دکھائے گئے جیسا کہ ان کے تصور میں اقتداری نشان ہوا کرتے تھے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نہ آسمان نے ان پر پتھر برسائے نہ زمین نے آگ یا پانی اگلا اور غیر معمولی مافوق الفطرت نظر آنے والے نشانات کے ذریعہ ان کو ہلاک نہیں کیا گیا لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آنحضرت ﷺ کو مافوق الفطرت یعنی عرف عام میں جسے مافوق الفطرت کہا جاتا ہے مافوق الفطرت نشان نہیں دکھائے گئے.جہاں تک صحابہ کا تعلق ہے جہاں تک مومنین کی جماعت کا تعلق ہے اس کثرت سے آنحضور ﷺ کو یہ معجزات دکھائے گئے کہ کسی اور نبی کی زندگی میں ایسے تائیدی نشانات کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:.اور اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سید و مولیٰ سید الرسل حضرت خاتم الانبیاء ﷺ نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی.“ یہ فرق ملحوظ رکھنا چاہئے کہ دعا کی بحث بالکل الگ ہے.وہ لوگ جو خدا کو مقتدر جانتے ہیں اور اس رنگ میں جانتے ہیں کہ جس طرح وہ خدائے ذوالاقتدار کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہے ہیں.جواس کی صفات کا رنگ اپنے اوپر چڑھاتے ہیں خدا تعالیٰ بعض دفعہ ذ والا قتدار بن کے ان کے اندر داخل ہوتا ہے اور ان سے پھر آگے اقتدار کے نمونے ظہور پذیر ہوتے ہیں.یہ وہ واقعات ہیں جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں.فرماتے ہیں: وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی
خطبات طاہر جلد۵ 64 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑا کہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو.اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہوگئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا.اسی معجزہ کی طرف اللہ جل شانہ اس آیت میں اشارہ فرماتا ہے وَمَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللهَ رَى (الانفال: ۱۸) جب تو نے اس مٹھی کو پھینکا یعنی در پردہ الہی طاقت کام کر گئی.انسانی طاقت کا یہ کام نہ تھا“ یہاں بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دشمن اسلام کو بھی اقتداری نشان اس رنگ میں دکھایا گیا ہے جسے وہ مافوق الفطرت سمجھتے تھے مگر امر واقعہ یہ ہے کہ یہ نشان بھی مومنوں کو تائیدی رنگ میں دکھایا گیا اور وہی ایمان لاتے تھے.جہاں تک دشمن کا تعلق ہے نہ انہوں نے مٹھی چلتی دیکھی نہ ان کو علم تھا کہ یہ واقعہ گزرا ہے.ان کی ذات کا جہاں تک تعلق ہے ایک بہت ہی شدید آندھی چلی ہے جس میں کنکریاں اٹھ اٹھ کر ان کی آنکھوں اور چہرے پر پڑیں اور ان کو لڑنے کے قابل نہیں رہنے دیا.یہ بات قطعی ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں اقتداری نشان بکثرت دکھائے گئے ہیں لیکن مومنوں کو دکھائے گئے ہیں.اقتداری نشان جس میں انسانی دخل نظر نہ آئے.پھر فرماتے ہیں: ” اور ایسا ہی دوسرا معجزہ آنحضرت علیہ کا جوشق القمر ہے اسی الہی طاقت سے ظہور میں آیا تھا کوئی دعا اس کے ساتھ شامل نہ تھی کیونکہ وہ صرف انگلی کے اشارہ سے جو الہی طاقت سے بھری ہوئی تھی وقوع میں آ گیا تھا.اور اس قسم صلى الله کے اور بھی معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت ﷺ نے دکھلائے.“ اگر کوئی استثنائی شکل ہے تو وہ شق القمر والی ہے یہ وہ اقتداری نشان ہے جس میں ہم بلا شبہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ غیروں نے بھی دیکھا مگر اقتداری نشان کے طور پر جیسا کہ بدقسمتی ہوا کرتی ہے کفار کی اسے تسلیم نہیں کیا.پھر فرماتے ہیں: کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل
خطبات طاہر جلد۵ 65 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار میں موجود تھا.“ یہ وہ بات ہے جو جماعت احمدیہ کو لوظ رکھنی چاہئے بعض دفعہ جماعت کے احباب ہر بات کو Rationalize کرنے کی خاطر یعنی ایک منطقی رنگ دینے کی خاطر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ہر بات میں کچھ نہ کچھ ایسی وجہ پوشیدہ ہے جسے عام انسانی عقل اور فہم سمجھ سکتی ہے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی گواہی کے بعد پھر کسی قسم کی توجیہات کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.احادیث نبویہ میں یہ ساری باتیں ہم پڑھتے تھے اور پڑھتے ہیں لیکن بعض لوگ ان باتوں کی تو جیہات شروع کر دیتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس رنگ میں ان کو ظاہر فرمایا ہے ان کو اللہ تعالیٰ کے اس اقتدار کے طور پر ظاہر فرمایا ہے جواپنے پیاروں کے اندر جلوہ نمائی دکھاتا ہے اور ان کے ذریعے پھر اقتداری نشان ظاہر ہوتے ہیں.اس لئے اس واقعہ میں عقل کو کوئی سمجھ آئے یا نہ آئے بلاشبہ یہ حقیقت ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علی کو ایسے اقتداری نشانات دیے گئے.پھر فرماتے ہیں:.اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزار ہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کر دیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا.اور بعض اوقات شور آب کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا.اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا.اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جاپڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا.ایسا ہی اور بہت سے کام اپنی ذاتی اقتدار سے کئے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الہی مخلوط تھی.“ 66 آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۶۶:۶۵) سنن ابن ماجہ میں ایک روایت درج ہے کہ حجۃ الوداع کے موقعہ پر ایک عورت اپنے بچے کے ہمراہ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ یہ بولتا نہیں.آپ نے پانی
خطبات طاہر جلد۵ 66 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء منگوایا اور پانی سے ہاتھ دھوئے اور کلی کی اور فرمایا کہ یہ پانی اس کو پلا دو اور کچھ اس کے اوپر چھڑک دو.دوسرے سال وہ عورت آئی تو اس نے بیان کیا کہ وہ بچہ بالکل اچھا ہو گیا ہے اور بولنے لگا ہے.(سنن ابن ماجہ، کتاب الطب، باب النشر ه حدیث نمبر : ۳۵۲۳) صحیح بخاری کتاب المغازی میں یہ روایت درج ہے کہ غزوہ خیبر میں جب رسول کریم ﷺے نے علم عطا کرنے کے لئے حضرت علی کو طلب فرمایا تو معلوم ہوا کہ ان کی آنکھوں میں آشوب چشم ہے اور یہ آشوب ایسا سخت تھا کہ حضرت سلمہ بن اکوع ان کا ہاتھ پکڑ کر لائے تھے.آپ نے ان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن مل دیا اور دم کر دیا آنکھیں اسی وقت اچھی ہوگئیں.ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کبھی ان میں درد تھا ہی نہیں.( صحیح بخاری کتاب المغاری باب غزوہ خیبر حدیث : ۳۸۸۵) مبادا کوئی دشمن یا اس دور کا جدید طرز فکر رکھنے والا یہ کہتا یہ باتیں پرانے زمانوں کے قصے ہیں ہم نہیں جانتے کہ واقعہ یہ باتیں ہوئیں بھی یا نہیں.اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ کے کامل غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں پر بھی ایسے اقتداری نشان ظاہر فرمائے کہ وہ خدا جو ماضی کا خدا تھاوہ حال کا خدا بھی بن گیا.اور وعدہ کیا کہ میں تمہارا مستقبل کا بھی خدا ہوں.اور حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے غلاموں کو یہ یقین دلایا کہ قیامت تک میں تمہارے اندراقتداری نشان جاری رکھوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہاتھوں بھی بکثرت اقتداری نشان ظاہر ہوئے ایک ایسے ہی نشان کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:.ایک دفعہ طاعون کے زور کے دنوں میں جب قادیان میں بھی طاعون تھی مولوی محمد علی صاحب ایم.اے کو سخت بخار ہو گیا اور ان کو ظن غالب ہو گیا کہ یہ طاعون ہے اور انہوں نے مرنے والوں کی طرح وصیت کر دی اور مفتی محمد صادق کو سب کچھ سمجھا دیا اور وہ میرے گھر کے ایک حصہ میں رہتے تھے.جس گھر کی نسبت خدا تعالیٰ کا الہام ہے انـی احـافـظ كـل مـن فـي الدار.تب میں ان کی عیادت کے لئے گیا اور ان کو پریشان اور گھبراہٹ میں پاکر میں نے ان سے کہا کہ اگر آپ کو طاعون ہوگئی ہے تو پھر میں
خطبات طاہر جلد۵ 67 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء جھوٹا ہوں اور میرا دعویٰ الہام غلط ہے.یہ کہہ کر میں نے ان کی نبض پر ہاتھ لگایا.یہ عجیب نمونہ قدرت الہی کا دیکھا کہ ہاتھ لگانے کے ساتھ ایسا بدن سرد پایا کہ تپ کا نام ونشان نہ تھا.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۲۶۵) بہت سے ایسے واقعات اور احادیث بھی میں نے اکٹھی کی تھیں جو میں نے وقت کے لحاظ سے چھوڑ دیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے متعلق جتنے میں نے واقعات اکٹھے کئے تھے.اب نظر ڈالنے سے پتہ چلا ہے کہ ان میں ایک دعا کا رنگ شامل ہو گیا ہے.اور میں وہ جو فرق کرنا چاہتا تھا وہ دعا اور اقتدار کے نشان میں فرق کرنا چاہتا تھا.اس لئے اس وقت میں ان واقعات کو چھوڑ رہا ہوں.لیکن میرے علم میں ہے کہ بکثرت ایسے واقعات حضرت مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی ظہور پذیر ہوئے جن کا تعلق اقتداری نشانوں سے ہے.مثلاً اس روایت کے متعلق میں ابھی اس کا حوالہ نہیں جانتا مگر یہ روایت بچپن میں ہم اپنے گھر میں سنتے رہے کہ ایک دفعہ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ چھوٹے تھے تو باغ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انگلی پکڑ کے جا رہے تھے اور ایک درخت پھلدار ایسا تھا کہ جس کو دیکھ کر حضرت مصلح موعودؓ نے خواہش ظاہر کی کہ میں یہ پھل کھانا چاہتا ہوں اور پھل کا موسم بالکل نہیں تھا اور وہ خالی درخت تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا اور واقعہ ایک پھل ظاہری شکل میں ظاہر ہوا اور آپ نے وہ پھل دے دیا حضرت مصلح موعودؓ کو.(سیرۃ المہدی صفحہ:۵) پھر غیب سے ظاہر میں ایک چیز کا وجود پکڑنا جس کا کوئی بھی سائنسی امکان نظر نہیں آتا اس کا ایک واقعہ وہ چھینٹوں والا واقعہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے رویا میں اللہ تعالیٰ کود یکھا کہ کاغذ پر دستخط کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے متمثل ہوکر ایک انسان کی طرح قلم کو ڈبو یا سرخ سیاہی میں اور زیادہ دیکھتے ہوئے اس کو چھڑ کا تاکہ زائد سرخی جو لگی ہوئی تھی وہ نکل جائے اور بقیہ سے دستخط فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ ظاہر میں متمثل ہوگئی اور واقعہ خارج میں رنگ پکڑ گئی.اور آپ کے جسم پر بھی اس کے چھینٹے پڑے اور مولوی عبداللہ سنوری صاحب جو پاس بیٹھے ہوئے تھے ان پر بھی چند چھینٹے پڑے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۲۶۷) تو اس کو کہتے ہیں اقتداری نشان یعنی عام قدرت سے ہٹ کر ایک ایسی غیر معمولی بات پیدا ہو جس کے
خطبات طاہر جلد۵ 68 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء لئے انسان کے پاس کوئی تو جبہ نہ ہو.حضرت رسول کریم ﷺ کا لعاب دہن سے کسی کو شفا بخش دینا، ہاتھ لگا کر پانی کو بڑھا دینا یا اپنے دست مبارک کی برکت سے خوراک کو بڑھا دینا.یہ سارے ایسے واقعات ہیں جن کو بعض لوگ غلط رنگ میں استعمال کرنے لگے اور دم درود جس کو ہم کہتے ہیں یہ رسمیں مسلمانوں میں جاری ہوئیں اور یہ سمجھنے لگے کہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ آیات پر پھونکیں مار کے یا اپنے تھوک سے براہ راست لوگوں کو اچھا کر سکتے ہیں.یہ میں بات واضح کرنا چاہتا ہوں آج کہ یہ تفہیم بالکل غلط ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اقتداری نشانات کے ظہور کے لئے انسان کے اندر ایک ایسی تبدیلی ہونی چاہئے جو مافوق العادت ہو.عام انسانوں سے مختلف تبدیلی جب تک انسان کے اندر پیدا نہ ہو خدا تعالیٰ اس شخص کو اقتداری نشان دکھایا نہیں کرتا.محض اس لئے کہ آنحضرت مے کے لعاب میں یہ برکت تھی اگر ہر کس و ناکس اٹھ کر اپنے لعاب سے لوگوں کو شفاء کا دعویٰ کرنے لگے تو وہ جھوٹ بولتا ہے.لعاب میں یہ اقتداری نشان صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے اگر انسان خدا کی خاطر اپنے اندر مافوق العادت تبدیلی پیدا کرے اور اس کے اپنے وجود میں ایک اقتداری تبدیلی واقع ہو چکی ہو جو عام انسانوں سے ہٹ کر ہو.جب یہ واقعہ ہو تو پھر ایسے لوگوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بکثرت اقتداری نشان ظاہر فرماتا ہے اور یہ بات صرف انبیاء کیلئے خاص نہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے صحابہ کو بھی یہ برکت دی گئی تھی اور ہم ایسے واقعات احادیث میں پڑھتے ہیں کہ آپ کے صحابہ کے ہاتھوں بھی اللہ تعالیٰ نے اقتداری نشانات ظاہر فرمائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ برکت دی گئی اور آپ کے صحابہ کے ذریعہ بھی ہمیں علم ہے خدا تعالیٰ نے اقتداری نشان ظاہر فرمائے اس لئے جب ان نشانات کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کی کنہ تک پہنچنا ضروری ہے ان کو سمجھے بغیر ان سے صحیح معنوں میں آپ لطف اندوز نہیں ہو سکتے.اقتدار سے مراد یہ ہے کہ عام تقدیر سے ہٹ کر ایک غیر معمولی تقدیر الہی ظاہر ہو جو عام تقدیر پر غالب آ جائے.یہ کن لوگوں کو عطا ہوتی ہے ؟ انہی لوگوں کو جو عام سلوک سے ہٹ کر اپنے رب سے ایک ایسا سلوک کرتے ہیں جو عام انسانی سلوک پر غالب آتا ہوا دکھائی دیتا ہے.ایک
خطبات طاہر جلد۵ 69 69 خطبہ جمعہ ۷ ارجنوری ۱۹۸۶ء ایسا غیر معمولی تعلق پکڑتے ہیں اپنے رب سے جو عام بندوں کو نصیب نہیں ہوتا.اور اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ کسی خاص راہ میں یہ تعلق ظاہر ہو یہ تعلق مختلف جہتوں سے ہوسکتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو میرا ایمان ہے اور کامل ایمان ہے کہ ہر جہت میں ایسا ہی تعلق تھا اللہ سے جس جہت میں بھی انسان کا بندے سے کوئی تعلق ہوسکتا ہے لیکن اس سے کم درجے پر عام انسانوں کو اس قسم کی عظمت تو نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کے اندر یہ طاقتیں نہیں ہوتیں.لیکن میں یہ یقین رکھتا ہوں کہ ہر انسان کو کسی نہ کسی نوع میں خدا تعالیٰ سے اقتداری تعلق رکھنے کی توفیق مل سکتی ہے کوئی نہ کوئی ہر انسان میں ایسی غیر معمولی خوبی پائی جاتی ہے، کوئی نہ کوئی ایسا غیر معمولی اللہ سے محبت کا تعلق پایا جاتا ہے.اگر اس کو وہ چپکائے اور اس میں ترقی کرے تو کسی نہ کسی پہلو سے خدا تعالیٰ سے ایک غیر معمولی اقتداری تعلق قائم کر سکتا ہے.پس جماعت کو اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.دشمن کا جہاں تک تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بکثرت الہامات کے ذریعہ پہلے سے ہی بتا دیا ہے کہ ہر بار جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دشمن آپ کو کسی رنگ میں بھی ہلاک کرنے کی کوشش کرے گا اور آپ کے پیغام کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا.اللہ تعالی اقتداری نشان سے دشمن کو نا کا م ثابت کر دے گا اور ہلاک کر دے گا.اسی لئے دشمن کے بارے میں مجھے اس وقت فکر نہیں ہے.اکثر جماعت اس وقت اس انتظار میں بیٹھی ہے کہ کس وقت یہ نشان ظاہر ہومگر میں تو اس طرح دیکھ رہا ہوں جس طرح آپ روزانہ سورج کو چڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں.ایک لمحہ کے لئے بھی ، ایک ذرہ بھی کبھی مجھے شک نہیں ہوا کہ وہ وعدے جو خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اقتداری نشان کے کئے ہیں وہ دشمن کے متعلق پورے ہوں گے.لازما ہوں گے اس طرح جیسے لکھی جا چکی ہے وہ بات.جیسے ماضی یقینی ہے اسی طرح یہ مستقبل یقینی ہے لیکن میں آپ کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں اور توجہ اس طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں کہ اس قسم کے معجزے آپ دیکھیں گے بھی تو کیا فائدہ ہوگا.ایک لذت ہوگی ضرور، بعض لوگوں کے لئے تقویت ایمان کا موجب ہوں گے.بعض کے لئے تقویت ایمان کا نہیں بلکہ طمانیت کا موجب ہوں گے کیونکہ وہ پہلے سے جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ہی ہے.لیکن آپ کے لئے ہمیشہ کے لئے مستقل کیا فائدہ چھوڑ جائیں گے.اس لئے اللہ کے اقتدار کے اس جلوے کے منتظر کیوں بیٹھے
خطبات طاہر جلد۵ 70 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء ہیں.اس جلوے کی تمنا کیوں نہیں کرتے جو ہر روز آپ کی زندگیوں میں ظاہر ہو سکتا ہے اور آپ کو ایک عظیم الشان خلق آخر عطا کر سکتا ہے.وہ اقتداری جلوے ہیں جو خدا کی تائید اور پیار اور محبت اور نصرت کے جلوے ہیں جو اس کثرت سے حضور اکرم ﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوئے ہیں کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ دعوے جتنے بھی کوئی کرے کبھی بھی کوئی نبی ایسا تاریخ عالم میں نہیں مل سکتا جس کی زندگی میں اقتداری نشانوں کے طور پر اس کا دسواں حصہ بھی کہیں ظاہر ہوا ہو.حضرت مسیح کے سارے معجزے آپ اکٹھے کرلیں جو حقیقہ واقعہ ظاہر ہوئے جو مبالغہ کے سوا ہیں ان کی کوئی حیثیت ان معجزات کے سامنے نہیں جو آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوئے ، آپ کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور ہزار ہا لوگوں نے وہ معجزے دیکھے.حضرت مسیح کے معجزوں کے گواہ چند حواری ہیں اوران کی روایتیں ہی ہیں جن پر ساری بناء کی گئی.آنحضرت ﷺ کے معجزات کے گواہ ہزار ہا ایسے صحابہ ہیں جو معروف ہیں جن کے متعلق قطعی طور پر ہمیں ثابت ہے کہ ان کی زندگی مجسم سچائی تھی اور جھوٹ سے ان کا کوئی علاقہ نہیں تھا.اس کثرت سے اتنی مضبوط روایتیں محفوظ چلی آرہی ہیں کہ ان میں شک کی کوئی گنجائش نہیں.پس جماعت کو چاہئے کہ خدائے ذوالا قتدار سے اس رنگ میں تعلق پیدا کریں کہ خدا کا اقتدار ان کے اندر ظاہر ہو.اور یہی وہ تعلیم ہے جو قرآن کریم ہمیں دیتا ہے صِبْغَةَ اللَّهِ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةَ (البقرہ:۱۳۹) کہ اے محمد مصطفی علی نے اپنے غلاموں کو خدا کے رنگ کی طرف بلاؤ.خدا کا رنگ محض دیکھ کر لطف اٹھانے کے لئے نہیں بلکہ خدا کا رنگ اپنے وجود میں جاری کرنے کے لئے ہے.اس لئے خدا کی صفات کا جب ذکر چلتا ہے تو ہمیشہ ساتھ یہ دعا کرتے رہیں سنتے ہوئے کہ اللہ اپنی صفات کا ہمیں بھی اس رنگ میں جلوہ دکھائے کہ ہم دنیا کے لئے خدا نما ہو جائیں اور خدا کے جلوے دنیا کو دکھانے والے بن جائیں.آج کا دور اس کے لئے ایک بہت ہی اہمیت رکھنے والا دور ہے.آج بکثرت جماعت کے دل دکھے ہوئے ہیں.آج بکثرت جماعت کو اس لئے مطعون اور ذلیل کیا جارہا ہے کہ وہ دعویٰ کرتی ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق رکھنے والی جماعت ہے.محض اللہ اگر آج دنیا میں کسی کو دکھ دیا جا رہا ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہے.پس اس دکھوں کے زمانے سے ایسا خزانہ پا جائیں جو ایک نہ ختم ہونے
خطبات طاہر جلد۵ 71 خطبہ جمعہ ۱۷ جنوری ۱۹۸۶ء والا خزانہ ہو گا.آپ کی بھی زندگی بنا جائے گا اور آپ کی نسلوں کی زندگیاں بھی بنا جائے گا.دنیا میں بھی آپ کو سعادتیں نصیب فرمائے گا اور آخرت میں بھی آپ کو سعادتیں نصیب فرمائے گا.پس میں دعا کرتا ہوں اور آپ بھی میرے ساتھ دعا کریں کہ اللہ ہماری جماعت پر بحیثیت جماعت بھی اور انفرادی طور پر بھی احمدیوں کے اوپر ذ والاقتدار خدا کے طور پر ظاہر ہو.المقتدر خدا کے طور پر ظاہر ہو.جس کے پیار اور محبت اور رحمت کے جلوے ہم روز اپنے گھروں میں دیکھیں.اس خدا کے ساتھ بسنے والے ہوں جس کے ہاتھ میں تمام قدرتوں کی چابیاں ہیں ، تمام عظمتوں کی کنجیاں ہیں، وہ ذوالاقتدار ہے ایسا نہیں کہ تصورات میں ہی ذوالاقتدار ہے بلکہ عملی دنیا میں بھی وہ اپنے اقتدار کے نشان ظاہر فرماتا ہے.
خطبات طاہر ۵ 73 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء بدظنی غیبت سے بچیں مکارم اخلاق کی پیروی سے اپنے لئے جنت پیدا کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا لَا يَسْخَرْ قَوْم مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءِ مِنْ نِسَاءِ عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُوْنَ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمُ يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْتُكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وأنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَنْقُكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ) (الحجرات : ۱۱ ۱۴) ۱۱-۱۴)
خطبات طاہر ۵ 74 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء پھر فرمایا: قرآن کریم کی یہ چند آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں حسن معاشرت کے تمام بنیادی اصول بیان فرما دیئے گئے ہیں اور ان تمام باتوں سے روکا گیا ہے جس سے انسانی معاشرہ کسی نہ کسی رنگ میں بیمار پڑ جاتا ہے اور خوشی کی بجائے دکھوں اور تکلیفوں کا موجب بن جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ معاشرت کی بنیاد ہی اس تصور پر ہے کہ ایک انسان جو اپنی اکیلے ایک بھلائی کو نہیں پاسکتا اجتمائی کوشش سے وہ بھلائی اس کو نصیب ہو جائے ورنہ فی الحقیقت تو انسان ایک خود غرض جانور ہے.اگر اکیلا رہ کر اس کا بس چل سکتا کہ سب خیر اس کو حاصل ہو جاتی تو وہ کسی دوسرے کی خاطر کسی تکلیف کو بھی برداشت نہ کرتا اور اپنے آرام میں کسی دوسری چیز کوخل نہ ہونے دیتا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے ایک فرد کو دوسرے فرد پر انحصار کرنے والا بنایا ہے اس لئے کہ خدا کے سوا کوئی نہیں جو کسی دوسرے کی احتیاج سے بالا ہو اس لئے ایک انسان کو دوسرے انسان کی احتیاج رہتی ہے لیکن اس احتیاج کی بنیاد خیر پر واقع ہوئی ہے.اس کا مقصود یہ ہے کہ خیر بڑھے نہ یہ کہ تکلیف بڑے.پس معاشرے میں جب بھی کوئی ایسا عمل جاری ہو یا کوئی ایسا فعل انسان سے سرزد ہو جس کے نتیجے میں دکھ پیدا ہوتا ہے تو یہ معاشرت کے اصول کے بالکل برعکس چیز ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں معاشرہ بالعموم بدیاں پھلانے کا موجب بن چکا ہے اور خیر پھیلانے کا اور خیر کے حصول کا ذریعہ کم رہ گیا ہے.قرآن کریم چونکہ بنیادی اصولوں سے تعلق رکھنے والی کتاب ہے اور ہر زمانے پر حاوی ہے اس لئے قرآن کریم نے حسن معاشرت کے اصول کو بیان فرمایا ہے اور ان چیزوں سے رکنے کی تاکید فرمائی جن کے نتیجے میں معاشرہ خراب ہو سکتا ہے.پہلی بات معاشرے کی تباہی کی موجب افتخار بیان فرمائی گئی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ دیکھو ایک قوم دوسرے پر بڑائی محسوس کر کے اس رنگ میں اس کی تحقیر نہ کرے، اس رنگ میں اس پر نہ ہنسے گویا وہ اس سے ادنی ہے.بظاہر تو یہ اک چھوٹی سی بات ہے لیکن آج کی دنیا میں خصوصا مغربی دنیا میں اس آیت کا یہ ٹکڑا بڑی شدت کے ساتھ عمل دکھا رہا ہے.ساؤتھ افریقہ میں
خطبات طاہر ۵ 75 خطبہ جمعہ ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء جتنے دکھ پھیلے ہیں اور ابھی تک South Africa جن دکھوں سے گزر رہا ہے اس کی بنیاد یہی قومی تفاخر ہے.ایک قوم کو خیال ہے کہ وہ دوسری قوم سے بہتر ہے.اسرائیل کے قیام کا تصور بھی اسی غلط خیال کا نتیجہ ہے.اسرائیلی قوم کو بھی یہ گمان ہے کہ وہ خدا کے دوسروں بندوں سے بہتر ہے اس لئے محض قومیت کی بناء پر انہوں نے اپنا ایک عالمی مرکز قائم کرنے کا حق دنیا سے تسلیم کروایا اور محض نسلی امیتاز کی بناء پر وہ اکٹھے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہودیت میں سے مذہب کا حصہ اب تقریباً عنقاء ہو چکا ہے.ایک نسل کے فخر کا ایک احساس ان کے دلوں میں ایسا شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ آج دنیا پر جو تفوق چاہتے ہیں جو تسلط پیدا کرنا چاہتے ہیں خالصہ نسلی امتیاز کے نظریہ پر یہ کوشش کی جارہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ نسل کے لوگ ہیں کہ تمام دنیا پر حکومت کا حق رکھتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ نازیوں کے ذریعے خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ان کو مار پڑوائی جن کا اپنا یہی نظریہ تھا.بعض کے ذریعے بعض کو جب خدا سزا دلواتا ہے تو ویسے ہی بعض کو چتا ہے ان کے لئے.لوہا لوہے کو کا تا ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ لکڑی سے آپ لوہا کاٹیں اس لئے جب ایک بد کو دوسرے بد سے سزا دلوانی ہے تو ان میں ایک ہی جیسی خصلتیں پائی جاتی ہیں.ایسی خصلتوں کے لوگ خدا اختیار فرماتا ہے جو کسی دوسرے بد کے پلے کے ہوں، جس طرح خدا کی تقدیر چاہے سزا دے بھی سکتے ہوں.اسی طرح مغربی ممالک میں جو نسلی امیتاز کے نتیجے میں آئے دن لڑائیاں ہوتی ہیں قتل و غارت ہوتے ہیں.انگلستان میں کیا ہو رہا ہے، مغربی جرمنی میں کیا ہورہا ہے، دیگر ممالک میں کیا ہو رہا ہے.ان سب کی بنیاد یہ نسلی تفاخر کا تصور ہے.اشترا کی دنیا جو دو نیم ہو چکی ہے اور یورپین اشتراک ،اشترا کی نظریہ بنیادی طور پر اگرچہ مشرقی اشترا کی نظریہ کے مطابق ہے اس سے ہم آہنگ ہے.اس کے باوجود چین میں اشتراکیت اور روس میں اشتراکیت میں ایک نمایاں فرق پیدا ہو گیا ہے.چینی اشتراکیت روسی اشتراکیت کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نہیں آگے بڑھ سکتی.اتنے شدید بنیادی اختلاف پیدا ہو چکے ہیں کہ ایک دوسرے کے دشمنوں کے ساتھ وہ دوست بن سکتے ہیں لیکن آپس میں نظریہ کے اشتراک کے باوجود ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے.اس کے پس منظر میں بھی یہی نسلی امتیاز کا تصور ہے جو کار فرما ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ روس اگر چہ دنیا میں
خطبات طاہر ۵ 76 خطبه جمعه ۲۴ /جنوری ۱۹۸۶ء اشتراکیت کا غلبہ چاہتا ہے لیکن زرد رنگ کی اشتراکیت کا غلبہ نہیں چاہتا بلکہ سفید فام اشتراکیت کا غلبہ چاہتا ہے.جیسا کہ غالب نے کہا ہے: آئیں وہ یہاں خدا کرے ، پر نہ کرے خدا کہ یوں (دیوان غالب صفحه : ۱۸۹) آئیں تو سہی لیکن اس طرح نہ آئیں کہ رقیب کے ساتھ آئیں.پس روس بھی رز د فام قوموں کے غلبہ کو خواہ وہ اشتراکیت کے نام پر ہو، اشتراکیت کی وجہ سے ہو کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتا.پس نظریات کی دنیا ہو یا سیاست کی عام دنیا ہو.کسی پہلو سے آپ دیکھیں آج دنیا میں بڑے بڑے اختلافات جو نہایت ہی خوفناک جنگوں پر منتج ہو سکتے ہیں ، جو عالمگیر تباہیوں پر منتج ہو سکتے ہیں ان کی بنیا نسلی افتخار کے تصور پر قائم ہے.پس قرآن کریم نے فرمایا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمِ ایک قوم اپنے آپ کو دوسری قوم سے بڑا سمجھتے ہوئے اس کی تحقیر نہ کرے.اس کو اپنے سے ادنیٰ نہ جانے.اس کے معا بعد قرآن کریم فرماتا ہے کہ کوئی عورت کسی عورت کے اوپر تفاخر اختیار نہ کرے اور اس سے مذاق ان معنوں میں نہ کرے کہ وہ اس کی تحقیر کر رہی ہو.قوموں کے مقابل پر عورت کو رکھ دینا بظاہر یہ ایک بے جوڑ بات دکھائی دیتی ہے.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ قومی تفاخر کے بعد معاشرتی تفاخر.قومی تفاخر کا ذکر ہے عالمی حیثیت سے اور معاشرتی تفاخر کے طور پر عورت کو پیش کیا گیا ہے ایک نمائندہ کے طور پر کیونکہ معاشرے میں جتنی بھی برائیاں پھیلتی ہیں ایک دوسرے پر بڑائی دکھاتے ہوئے وہ عورت کی طرف سے زیادہ تر رونما ہوتی ہیں اور عورت کا مزاج اس بات کے قریب تر ہے کہ وہ دوسرے کے اوپر، دوسرے خاندانوں کے اوپر، دوسری عورتوں لڑکیوں کے اوپر ، اپنی بڑائی خاندانی طور پر ظاہر کرے اور اپنے آپ کو بہتر سمجھے.بہت کم آپ کو مرد ایسے نظر آئیں گے جو خاندانی طور پر اپنی فوقیت جتانے کے نتیجے میں کسی لڑائی کو پیدا کرنے والے بنے ہوں لیکن معاشرے کو اکثر لڑائیاں عورتوں کے ان طعنوں کے نتیجہ میں ہوتی ہیں کہ تم کس خاندان کی ہو اور وہ کس خاندان کا ہے.اس کی ذات کیا ہے، اس کی قومیت کیا ہے اور رشتے ڈھونڈتے وقت بھی یہ ساری باتیں چلتی ہیں اور اگر رشتہ ہو جائے تو پھر بھی مسلسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.تو جہاں بڑائی زیادہ شدت کے ساتھ پائی جاتی تھی اسے نمایاں
خطبات طاہر ۵ 77 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء کرنے کی خاطر ، مرض پر انگلی رکھ دینے کی خاطر خدا تعالیٰ نے معاشرے کی برائی کا ذکر کرتے ہوئے عورت کو بطور مثال پیش فرمایا اور اسے تنبیہ کی کہ دوسری عورتوں کے اوپر فوقیت نہ دکھایا کرو.ان دونوں جملوں کے ساتھ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ، عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اس میں خدا تعالیٰ ایک عظیم الشان قومی تغییرات کا گر بیان فرماتا ہے ، راز بیان فرماتا ہے.جس طرح رات دن میں بدلتی ہے اور دن رات میں اسی طرح یہ قومی تفاخر بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں.اور یہ خیال غلط ہے کہ ایک قوم ہمیشہ کے لئے دوسری قوم پر ایسی فضیلت اختیار کر جائے کہ ان کے اندر ایک تفاخر کی وجہ پیدا ہو جائے.ذاتوں کے فخر بھی بدلتے رہتے ہیں ، قوموں کے فخر بھی بدلتے رہتے ہیں.ان کے بدلنے کی رفتار اتنی آہستہ ہے کہ عموماً انسان اپنی زندگی میں ان کو محسوس نہیں کر سکتا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر پیچھے مڑ کر دیکھے تو خود اپنے زمانے میں ہی ان تغیرات کو پیدا ہوتا ہوا محسوس کر سکتا ہے.آج سے چالیس سال پہلے یا پچاس سال پہلے ہندوستان میں ذات پات کی جس قدر تمیز پائی جاتی تھی آج اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا.انگلستان میں جو نوابی کے تصورات سوسال پہلے پائے جاتے تھے آج اس کا سوؤاں حصہ بھی باقی نہیں ہے.وہ قو میں وہ لوگ وہ پیشے جن کو بہت تحقیر سے دیکھا جاتا تھا آج وہ معرز ترین پیشے بن گئے ہیں، معزز ترین قو میں بن گئی ہیں.پس قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے عَسَى اَنْ يَّكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ تو مراد یہ ہے کہ یہ قدریں کوئی باقی رہنے والی قدریں نہیں ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہوتا کہ ایک نسل کو دوسری نسل پر فوقیت دی ہوتی اور ایک قوم اور ذات کو دوسری قوم اور ذات پر فوقیت دی ہوتی تو ان کے تبدیل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر کو تو کوئی بدل نہیں سکتا.خدا کی سنت تو غیر محول اور غیر مبدل ہوتی ہے.تو فرمایا کہ ان کے جھوٹا ہونے کا ان کے بے معنی اور بے بنیا د ہونے کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہوسکتا ہے کہ یہ چیزیں بدل جائیں گی.آج وہ لوگ جو فخر کر رہے ہیں دوسروں پر عین ممکن ہے کہ کل وہی لوگ ان پر فخر کر رہے ہوں اور ان کو تحقیر سے دیکھ رہے ہوں، حقیر جان رہے ہوں.تو یہ جو عالمی تصورات ہیں جو رفتہ رفتہ رونما ہونے والے ہیں.بعض دفعہ سینکڑوں سال میں بعض دفعہ ہزاروں سال میں بالکل نظریات کی کایا پلٹ دیتے ہیں.ان
خطبات طاہر ۵ 78 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء تصورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا یہ باقی رہنے والی چیز یں نہیں ہیں.فخر کی چیز تو وہی ہو سکتی ہے جو باقی رہنے والی ہو.یہ تو عارضی واقعات ہیں، عارضی رونما ہونے والے عوارض ہیں اس سے بڑھ کر ان کی کوئی حیثیت نہیں.پھر قرآن کریم فرماتا ہے کہ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کیا کرو.طعنے نہ دیا کرو، لمز کا مطلب ہے کہ طعن کرنا.کسی کو کاٹنا زبان سے ، چر کے لگانا، دکھ پہچانے کی خاطر بات کرنا.وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ تم ایک دوسرے کو دکھ پہچانے والی باتیں نہ کیا کرو.وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ.اور نام اس خاطر نہ رکھا کرو کہ ناموں کے ذریعے کسی کی تحقیر ہو اور یہ جو بیماریاں ہیں یہ قوموں میں بھی پائی جاتی ہیں اور افراد میں بھی پائی جاتی ہیں، عالمی سطح پر بھی پائی جاتی ہیں اور معاشرتی سطح پر بھی پائی جاتی ہیں.بعض لوگ بعض قوموں کے نام رکھتے ہیں یہ بتانے کی خاطر کہ یہ ذلیل اور ادنیٰ لوگ ہیں.چنانچہ Nigger حبشی کو کہا جاتا ہے.سیاہ فام قوموں کو تو Nigger کا لقب ہی تکلیف دینے کی خاطر ہے.اور جب امریکہ یا کینیڈا میں Paki کہتے ہیں کسی کو یعنی پاکستانی تو بڑی شدید گالی سمجھی جاتی ہے.یعنی بدقسمتی سے پاکستانیوں کا وہاں کردار ایسا رہا ہے یا کوئی اور وجوہات پیدا ہوئی ہیں کہ اس کے نتیجے میں ایک سفید فام قوم نے ہماری قوم کا نام Paki رکھ دیا ہے اور یہ بھی تنابَزُوا بِالْأَلْقَابِ کی ایک ذلیل مثال ہے.نیچی سکھوں کو بھی Paki کہتے ہیں جو بے ہودہ کام کر رہے ہوں.ہندو ہوں تب بھی ان کو بھی Paki کہیں گے.کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں.برائی کی نشانی Paki بن گئی ہے.گویا نعوذ باللہ پاکستانی ہر برائی کا مرجع اور منبع ہے، ہر برائی اسی سے پھوٹتی ہے اور اسی میں لوٹ کر آتی ہے.اور انفرادی طور پر غلط نام رکھنے یہ تو عام رواج ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے.سکولوں میں تو یہاں تک رواج تھا کہ ہر استاد کا ایک ایک نام رکھا ہوتا تھا اور اصل نام سے بعض لوگ استادوں کو جانتے ہی نہیں تھے ، اس برے نام سے جانتے تھے اور یہاں تک کہ کئی سال گذرنے کے بعد ایک نسل بوڑھی ہوگئی تب بھی استاد کا اصل نام تو یاد نہیں رہا یہ لقب یا درہ گیا کہ فلاں صاحب یہ تھے اور فلاں صاحب یہ تھے.تو یہ معاشرے کی برائیاں ہیں جن کے نتیجے میں ہر طرف کس گھولی جاتی ہے، زہر پھیلتا ہے.خاندان خاندانوں سے لڑتے ہیں.بیوی خاوند سے لڑتی ہے، ساس بہو سے لڑتی ہے اور سارے گھر کا
خطبات طاہر ۵ امن برباد ہو جاتا ہے.پھر فرمایا: 79 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنَّ اِثْم وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُم بَعْضًا کہ اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو بے وجہ خیال آرائیاں نہ کیا کرو.اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ كَثِيرًا مِنَ الظَّر تم وہموں میں ہی مبتلا رہ کر زندگی گذار دو گے.سوچتے رہتے ہو کہ فلاں نے یہ بات کیوں کی ہوگی کس لئے کی ہوگی ،کس بری نیت سے کی ہوگی.یا فلاں کا یہ فعل کیوں ہوا ہوگا اور اس کے نتیجے میں اپنے ذہنوں میں بھی کہانیاں بنتے رہتے ہو اور ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پالتے رہتے ہو.چنانچہ معاشرے میں بہت سی برائیاں گھروں میں كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ خطن بالکل نہ کرو کیونکہ استنباط ایک ظن کا حصہ ہے بعض مواقع پر بعض علامتیں ظاہر ہوں تو ظن کے بغیر چارہ نہیں لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤ ، اپنی زندگی کو ظنوں کے سپرد نہ کر دو گویا کہ تم ظنوں کے ہو کر رہ گئے ہو.تو ہمات ، بے بنیاد باتیں سوچنا اور یہ نہیں فرمایا کہ ہر ظن گناہ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِ اِثْم بہت زیادہ ظن کی عادت ڈالو گے تو بعض ظن ایسے ہونگے ، بعض گمان ایسے ہوں گے جو گناہ بھی ہو جائیں گے.اس لئے ہمارے محاورے میں حسن ظن اور سوئے ظن دو محاورے پائے جاتے ہیں تو جب فرمایا اجتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ تو مراد یہ ہے کہ سوئے ظن سے بچو اور یہ کہنے کی بجائے کہ سوئے ظن سے بچو جب یہ فرمایا کہ اکثر ظن نہ کیا کرو، تو مراد یہ ہے کہ عموما ظن کی عادت اچھی نہیں ہے.ایک بہت لطیف رنگ ہے یہ بات کو بیان کرنے کا اور اگر آپ جدید رحجانات سائنس کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت ہی گہری سچائی ہے اس طرز بیان میں.جولوگ ظن پر مائل ہوتے ہیں وہ شواہد کی تلاش چھوڑ دیتے ہیں اور جو لوگ شواہد کو فوقیت دیتے ہیں وہ ظن سے اکثر بچتے ہیں، مجبور ہو جائیں تو ظن کرتے ہیں ورنہ وہ شواہد کے پیچھے چلتے ہیں، شواہد کی جستجو میں رہتے ہیں.تو یہ بنیادی اصول ہے جو قوموں کے لئے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے فرمایا
خطبات طاہر ۵ 80 خطبه جمعه ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء ہے.اگر وہ اس کی کنہ کو پا جائیں.سائنس نے تمام ترقی اس بات پر کی ہے کہ شواہد کی تلاش کی ہے اور اگر کوئی قطن پیدا بھی ہوا ہے تو اس کا نام وہ Hypothesis رکھتے ہیں اور نظن پیدا ہونے کے بعد اس پر انحصار نہیں کرتے بلکہ شواہد کی جستجو شروع کر دیتے ہیں اور جب شواہد کسی حد تک گواہ مل جائیں کہ ہاں اس فن کے صحیح ہونے کا امکان موجود ہے تو پھر اسے کہتے ہیں اس کا نام Theory یا نظریہ ہے.اور پھر بھی شواہد کی تلاش نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ اور بڑھتے ہیں اور وسیع نظر کرتے ہیں.ماضی کے شواہد بھی دیکھتے ہیں ، حال کے شواہد بھی دیکھتے ہیں، مستقبل میں جو رخ اختیار کر سکتے ہیں تجارب ان پر بھی نظر ڈالتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ ہر لحاظ سے ہر پہلو سے وہ نظر یہ درست تھا اور اس کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں تو اس کا نام Law رکھ دیا جاتا ہے.یہ سائنس کا قانون ہے.اگر اس کے بر عکس فن پر راضی رہنے والی قو میں ہوتیں جیسا کہ مشرق میں بدقسمتی سے یہ بیماری پائی جاتی ہے تو اپنے ظن کے مطابق وہ شواہد کو موڑنے کی کوشش کرتے اور جس طرح روحانی دنیا میں گناہ ہوتے ہیں مادی دنیا میں بھی گناہ ہوتے ہیں مادی دنیا میں بھی بعض ظن سو بن جاتے ہیں.چنانچہ جتنا کیمیا گروں نے مشرق کی دولتوں کو لٹایا ہے اور خاک کے سوا ان کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا یہ سارا اسی گناہ کی پاداش ہے کہ وہ وطن میں مبتلاء ہوۓ كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ کے عادی ہو گئے اور بعض ظن جو غلط تھے ان کو درست کرنے کی بجائے ان کی پاداش انہوں نے دیکھی اور قوموں کو بلندی سے تنزل کی راہ پر اتار دیا.تو ظن کی عادت بڑی بری چیز ہے.قرآن کریم نے اسی لئے یہ نہیں فرمایا کہ براظن نہ کرو.فرمایا کہ خطن سے بچنے کی کوشش کرو، جہاں تک ممکن ہے جستجو کرو ، جہاں تک ممکن ہے حقائق کی تلاش کرو.حقائق کی جستجو تمہاری عادت ہونی چاہئے اور ظن تمہاری عادت نہیں ہونی چاہئے.اگر خن تمہاری عادت بن گیا تو پھر لازماً تم بعض برے ظنوں میں بھی مبتلا ہو گے جن کی پاداش دیکھو گے.اور بدقسمتی سے مشرقی دنیا میں معاشروں کی تباہی کا ایک بڑا موجب ظن کی کثرت ہے.وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا یہ اسی کی پیداوار ہے.حقائق کا سامنا کرنے کی جن قوموں کو عادت نہیں رہتی وہ پھر منہ پر بات کرنا بھی نہیں جانتے.وہ Escape اختیار کرتے ہیں شواہد سے اور یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی بات Challange ہو جائے گی.اس لئے فرضی باتوں کے عادی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں، چھپ کر باتیں کرتے ہیں، چھپ کر طعن تشنیع
خطبات طاہر ۵ 81 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء کرتے ہیں.اور لمز کی یہ انتہا ہے.لمز کہتے ہیں طعن و تشنیع جو منہ پر کی جائے.جب یہ بدی بڑھ جاتی ہے اور ناسور بن جاتی ہے یا Cancer ہو جاتی ہے تو اس سوسائٹی میں پھر سامنے کی طعن و تشنیع کو چھوڑ کر پھر غیب میں باتیں کی جاتی ہیں اور دوسرے کو اپنے دفاع کا کوئی موقع ہی نہیں مل سکتا.یہ سب سے بڑی بدصورت اس بیماری کی ہے اور اس کا ظن سے گہرا تعلق ہے.فرماتا ہے: ا يُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ، اس کے متعلق میں گذشتہ خطبہ میں تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں.عجیب مثال دی ہے قرآن کریم نے تَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ کہ کیا تم اپنے لئے یہ بات پسند کر لو گے کہ تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھارہے و.چونکہ اس مضمون کا عنوان یہ باندھا گیا تھا اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ دیکھو مومن بھائی بھائی ہیں اس لئے بھائیوں کے درمیان اصلاح کی کاروائی کرو.ہرایسی بات کرو جس سے بھائی ایک دوسرے پر راضی رہیں.اس لئے یہاں بھائی سے مراد سگا بھائی نہیں ہے.ہر مومن بھائی ہے اور بھائی کہہ کر اس کے گوشت کی طرف توجہ دلانے کا مطلب یہ ہے کہ مردہ بھائی کا گوشت، اول تو بھائی کا گوشت کھانا ویسے ہی مکروہ چیز ہے.مردہ کہہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنا دفاع نہیں کر سکتا.جو مرضی اس سے کرو اس کو کچھ پتہ نہیں.چنانچہ اس کراہت کو نمایاں کر کے دکھا دیا.ورنہ خالی یہ کہہ دیا جاتا کہ تم اپنے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتے ہو؟ مردہ بھائی کا گوشت کہہ کر اس کی بے چارگی کو بھی ظاہر کیا جس کے خلاف باتیں کی جارہی اور اس کی لذت کی حقیقت کو بھی ظاہر کیا کہ جسے یہ طیب غذا اپنے لئے سمجھ رہا ہے کہ کسی کے خلاف غیب میں باتیں کر کے اس کی برائیاں کر کے مزہ اٹھا رہا ہے.یہ ایک ایسی مکروہ چیز ہے کہ مردے کا گوشت کھانے والی بات ہے اور وہ بھی بھائی مردہ ہو.ایسی وضاحت و بلاغت کا مرقع ہے یہ کلام کہ ایک بات کو جب بیان فرماتا ہے تو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے اور کتنے چھوٹے سے جملے میں اس برائی کی کتنی تفصیل کے ساتھ مذمت فرما دی گئی.وَاتَّقُوا اللهَ اِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيم اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.وہ بار بار تو بہ کو قبول b کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے.
خطبات طاہر ۵ 82 خطبہ جمعہ ۲۴ /جنوری ۱۹۸۶ء يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنثى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ہم نے تمہیں اے انسانو اس لئے پیدا کیا تھا مرد اور عورت میں وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ اور تمہیں قبائل میں اور قوموں میں اس لئے تفریق کیا تھا لِتَعَارَفُوا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقُكُمْ یقینا تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے.اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ يقيناً اللہ بہت جاننے والا اور بہت خبر رکھنے والا ہے.اس آیت میں عموماً مختلف علماء شُعُوبًا وَ قَبَابِل کو اپنے خطابات کے لئے نمایاں حیثیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہیں جو تفریق کیا گیا ہے تو موں میں اس کی وجہ یہ نہیں کہ تم میں سے ایک دوسرے پر عزت پائے بلکہ اس کی اور وجہ ہے اور پہلے حصے کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جہاں اللہ تعالی یہ فرماتا ہے.اِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ انٹی ہم نے تمہیں مرد اور عورت پیدا کیا.اس لئے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ترجمہ کرنے والا یا تقریر کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا لِتَعَارَفُوا سے تعلق کوئی نہیں.یہ گویا کہ ضمنا ذ کر چل پڑا ہے.اس کا اس مضمون سے تعلق کوئی نہیں.مرد اور عورت کو اس لئے تو نہیں پیدا کیا کہ تا ایک دوسرے کو پہچان سکو.ہاں شُعُوبًا وَقَبَابِلَ اس لئے پیدا کیا تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو.امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ ایک انداز ہے کہ بعض مضامین جو واضح ہوتے ہیں ان کا ذکر چھوڑ دیتا ہے اور ایک مضمون کے تسلسل میں ایک بات نتیجہ نکالے بغیر بیان فرما دیا کرتا ہے.چونکہ مضمون یہ چل رہا ہے کہ ایک دوسرے پر بڑائی نہ کر ، ایک دوسرے کے اوپر اپنی فضیلت نہ جتاؤ ، ایک دوسرے کو حقیر نہ جانو ، اس لئے پہلا حصہ اس جملے کا اِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وانثى معنی رکھتا ہے کہ جس طرح قوموں میں کوئی فخر نہیں ہے اس طرح مرد اور عورت ہونے میں بھی کوئی فخر ہیں ہے.محض اس بنا پر کہ کوئی مرد ہے اسے کوئی فضیلت نہیں ہے کسی دوسرے انسان پر یا محض اس بناء پر کہ کوئی عورت ہے کسی دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ہے.یہ جو آج کل مغربی دنیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ عورت بہتر یا مرد بہتر کہ دونوں میں برابری ہو.قرآن کریم اس مضمون کو اس رنگ میں پیش نہیں فرماتا جس رنگ میں مغربیت کا رخ جا رہا
خطبات طاہر ۵ 83 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء ہے.لیکن بنیادی طور پر عورت اور مرد کے برابر حقوق کو ضر ور تسلیم کرتا ہے اور یہاں یہ ذکر اس لئے فرمایا گیا ہے کہ مرد کو عورت پر بھی کوئی فضیلت نہیں ہے.یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ تم مرد ہو اس لئے تمہیں حق ہے کہ کسی عورت کی تحقیر کرو اور اس کی تذلیل کرو.جس طرح بعض قوموں میں بعض محاورے پائے جاتا ہیں جو عورت کی برائیوں کے اظہار پر وقف ہوتے ہیں یعنی یہ سمجھا جاتا ہے کہ عورت ذات ہے تو اس میں یہ بات ضرور پائی جائے گی.مقابل پر عورتوں نے شاید مردوں کے لئے بھی کچھ ایجاد کئے ہوں گے.مگر قرآن کریم فرما تا ہے اس حیثیت سے ہرگز کوئی تفریق نہیں ہوسکتی.عزت کے لحاظ سے، بلند مرتبے کے لحاظ سے،صرف اور صرف ایک معیار ہے اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَتْقَكُمْ وہی تم میں سب سے معزز ہے جو زیادہ خدا کا خوف رکھنے والا ہے.اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور خوب خبر رکھتا ہے اس بات کی کہ تم لوگ کیا کرتے ہو، کیوں کرتے ہو، تمہارے اعمال کی کنہ کیا ہے، مقصد کیا ہے تمہاری باتوں اور تمہارے افعال کا ، ہر بات سے اول سے آخر تک خوب باخبر ہے اور ان کے پیدا ہونے والے نتائج سے بھی باخبر ہے.دور دراز اثرات جوان کے مرتب ہوں گے ان پر بھی نگاہ رکھتا ہے.آنحضرت عے چونکہ صفات باری کے مظہر اتم تھے ان معنوں میں کہ انسان کو جتنی بھی استطاعت ہے خدا کی صفات میں رنگین ہونے کی اس کو آنحضرت ﷺ نے درجہ کمال تک پہنچادیا اور درجہ کمال تک پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صفات حسنہ میں سب سے آگے برھ گئے.اور قرآن کریم نے بھی اسی مضمون کو آنحضرت ﷺ کے حق میں باندھا اور حضرت رسول اکرم ﷺ نے بھی اسی مضمون کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا.چنانچہ آنحضرت علیہ فرماتے ہیں.انما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں اعلی ترین اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.حضرت امام مالک موطا میں یہی روایت درج فرماتے ہیں مگر ایک لفظی فرق کے ساتھ.وہ فرماتے ہیں ہمیں تو یہ بات پہنچی ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا بعثت لاتمم حسن الاخلاق) موطا اما لک الکتاب الجامع ) کہ میں اس لئے مبعوث فرمایا گیا ہوں کہ میں اخلاق کے حسن کو اس کے درجہ کمال تک پہنچا دوں.بنیادی طور پر مضمون ایک ہی ہے.
خطبات طاہر ۵ 84 خطبه جمعه ۲۴ /جنوری ۱۹۸۶ء پس صفات باری تعالیٰ میں رنگین ہونے کا مطلب جہاں ایک طرف الوہیت سے تعلق قائم کرنا ہے وہاں دوسری طرف عبدیت سے تعلق قائم کرنا بھی ہے اور اخلاق کا بہترین ہونا اس کا ایک طبعی اور لازمی نتیجہ ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی انسان با خدا تو بن رہا ہو ، خدا کی صفات میں تو رنگین ہور رہا ہولیکن دنیا کے لحاظ سے نہایت بد خو ہو اور انسانوں کے لئے اس کا گوشہ نرم نہ ہو.اس لئے صفات باری تعالیٰ کا جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں اس کا یہ مقصد ہے کہ جماعت احمد یہ ان صفات میں اس طرح رنگین ہو کہ اس کا ایک رنگ بنی نوع انسان پر بھی ظاہر ہورہا ہو ساتھ ساتھ.یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اندرونی طور پر انسان میں کوئی پاک تبدیلی ایسی پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق بڑھ رہا ہو اور اس کے باوجود بنی نوع انسان سے اسکا تعلق کم ہورہا ہو.خدا تعالیٰ کے لئے اس کا دل نرم ہو رہا ہو اور بنی نوع انسان کے لئے اس کا دل سخت ہو رہا ہو.یہ متضاد باتیں ہیں یہ ایک وقت میں ممکن ہی نہیں ہے.اس لئے صفات باری تعالیٰ کے سب کامل اور سب سے حسین مظہر حضرت اقدس محمد مصطفی علی کو دیکھیں تو یہ عقدہ حل ہو جائے گا.جتنا زیادہ آپ خدا کی صفات میں رنگین ہوئے اتنا ہی زیادہ حسن اخلاق کی دولت آپ کو عطا فرمائی گئی بلکہ یہاں تک عظمت آپ کو عطا کی گئی کہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تجھے ہم نے عظیم اخلاق پر قائم فرمایا ہے.عظیم سے بڑھ کر حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کے اخلاق کے لئے کوئی اور لفظ استعمال نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں.اللہ جل شانہ ہمارے نبی ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمِ یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.سواس تشریح کے مطابق اس کے معنی ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت، عدل، رحم، احسان، صدق ، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں.غرض جس قدر انسان کے دل میں قو تیں پائی جاتی ہیں جیسا کہ ادب، حیا، دیانت، مروت، غیرت، استقامت، عفت ، ذہانت ، اعتدال، مواسات یعنی ہمدردی.ایسا ہی شجاعت، سخاوت، عفو،صبر ،احسان ،صدق ، وفا وغیرہ جب یہ
خطبات طاہر ۵ 85 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہو گا اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسان کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب محل اور موقع کے لحاظ سے بالا رادہ ان کو استعمال کیا جائے.(اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد ۱۰ صفحه ۳۳۳) پس آنحضرت ﷺ کے متعلق قرآن کریم نے جب فرمایاوَ إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: ۵) تو ان تمام صفات حسنہ کا ذکر فرما دیا جو انسان میں جمع ہوسکتی ہیں.جس کے چند نمونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پیش فرمائے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر فرمائی محض ان اخلاق کا ، ان صفات حسنہ کا آنحضرت ﷺ کو جمع قرار نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ یہ اخلاق اپنے اپنے محل پر حضرت رسول کریم ﷺ کو عطا کئے گئے.ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.یہ ایک ایسا عظیم الشان ترجمہ ہے کہ اس ترجمہ کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلطان القلم بنارہا یا کس طرح آپ کو سلطان القلم اس نے بنایا تھا.آپ ترجمے اٹھا کر دیکھ لیں جہاں جہاں بھی خلق عظیم کا ترجمہ آئے گا وہاں لفظ بزرگ کی طرف کسی کا خیال نہیں جائے گا.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر اس محل اور موقع پر خلق عظیم کا ترجمہ مکن نہیں.تجھے برزگ خلق پر قائم کیا گیا.بڑی عظمت ہے اس لفظ بزرگ میں بڑی گہرائی ہے اور عظیم کا اس سے بہتر اور ترجمہ ممکن نہیں.پس آنحضرت ﷺ کو برزگ خلق پر قائم فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر خلق جو اپنی انتہا کو پہنچا ہے، جو بلند مرتبے تک پہنچ چکا ہے اس خلق پر آنحضرت ﷺ کو قائم فرمایا گیا اور خود حضور کے اپنے الفاظ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق اس بات کا مظہر ہیں کہ مجھے مبعوث فرمایا گیا کہ میں مکارم اخلاق کا اتمام کروں اور ان کو انتہا تک پہنچادوں.مکارم اخلاق سے کیا مراد ہے.مکارم اخلاق سے مراد ہے وہ خلق جو عزت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہوں.معزز ترین اخلاق، برزگترین اخلاق - جو برزگ ترین مقام تک دنیا کے لحاظ سے پہنچ چکے تھے اور آج تک کوئی دوسرا اس سے آگے ان کو نہیں بڑھا سکا تھا، میں انہیں بھی کامل کر کے
خطبات طاہر ۵ 86 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء دکھا دوں.انہیں نئی بلندیوں تک پہنچا کے دکھاؤں اور بتاؤں کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا، جو میرا منتظر تھا که محد مصطفی ﷺ دنیا میں ظاہر ہوں اور اخلاق کو ان چوٹیوں سے اٹھا ئیں جن پر ان کو گزشتہ بزرگوں نے قائم کیا تھا اور نئے بلند تر مقامات تک ان کو پہنچا دیں.یہ منصب ہے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کا اور ہم ایک ایسی قوم ہیں ، ایسی خوش نصیب قوم ہیں جو ایسے بلند صاحب اخلاق انسان کے غلام کہلانے کے مستحق ٹھہرے لیکن مستحق ٹھہرے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے.مستحق ٹھہرنا چاہئے جن کو کیونکہ آنحضرت ﷺ کی پیروی کا دعوی کرنے کے بعد آج مسلمان جو اخلاق میں دنیا میں سب سے ذلیل ترین قوموں میں شمار ہونے لگا ہے.یہ اتنا بڑا تضاد ہے، اتنا بر اظلم ہے کہ اس ظلم کا اگر آپ تصور کریں تو آپ رواں رواں خدا کے خوف سے کا پنپنے لگے.ایک معمولی ماں باپ کے بیٹے سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں دیکھتے نہیں تم کس باپ کے بیٹے ہو اور اس طعنہ پر بعض لوگ کٹ مرتے ہیں.اس باپ کی حیثیت کیا ہے محمد مصطفی ﷺ کے بزرگ اخلاق کے مقابل پر اور عظمتوں کے مقابل پر.یہ طعنہ آج اسلام کو مل رہا ہے، یہ ظلم کیا جارہا ہے آج اسلام پر کہ مسلمانوں کو نمایاں کر کے، مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے کہ تم وہ مسلمان ہو جو کہتے ہو کہ تمام دنیا میں بلند ترین اخلاق پر فائز کئے گئے تھے.تم وہ مسلمان ہو جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تمہارے آقا ومولا تمام دنیا میں سب صاحب خلق لوگوں سے افضل اور سب پر سبقت لے جانے والے تھے.اپنا منہ دیکھو، اپنے اعمال دیکھو، اپنی حرکتیں دیکھو اور پھر سوچو کہ اپنے آقا کی کیا تصویر تم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہو.اتنا خوفناک طعنہ ہے، اتنا دل ہلا دینے والا طعنہ ہے کہ اس کے باوجود اگر کوئی غیرت نہ دکھائے یا اس کے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا نہ ہو.بیدار ہو کر اگر کوئی غور سے نہ دیکھے کہ میں کون ہوں کیا ہوں اور مجھ سے کیا توقعات کی جارہی تھیں تو ایسا آدمی تو معلوم ہوتا ہے کہ یا تو وہ غفلت کی نیند میں سو یا پڑا ہے اٹھ ہی نہیں سکتا اور یا پھر وہ مردہ ہو چکا ہے.جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ وہ اس کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرے.جماعت احمد یہ آج اس مقام پر فائز کی گئی ہے، اس غرض سے قائم کی گئی ہے کہ ان کھوئی ہوئی عظمتوں کو حاصل کرے جو محد مصطفی ﷺ کے غلاموں کو زیبا ہیں.جن کے بغیر عمل کی دنیا میں ہم حضرت محمد مصطفیٰ
خطبات طاہر ۵ 87 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء ہ کی عظمت کو ثابت ہی نہیں کر سکتے.کروڑہا سیرت کی آپ کتابیں لکھ دیں.ارب ہا میلا دمنائیں، ہر دن کو ایک میلا د شریف میں تبدیل کر دیں اور ہر رات کو سیرت کے نغمے گاتے ہوئے گزار دیں مگر حقیقت میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظمت اخلاق کا دنیا کو قائل نہیں کر سکتے جب تک آپ صاحب خلق نہ بن کے دکھا ئیں اور پھر یہ فخر کے طور پر پیش نہ کریں کہ یہ سب کچھ ہم نے آقا سے پایا ہے.تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے یہ گیت تو تب زیب دیتا ہے اگر آپ کے قدم آگے بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہوں لیکن بدقسمتی کی انتہا ہے ، ایک عجیب دردناک المیہ ہے کہ اس آقا کے غلام ہو کر جسے مکارم اخلاق کو آگے بڑھانے کے لئے قائم کیا گیا تھا.بلند ترین چوٹیاں جو اخلاق کی آپ سے پہلے تمام بنی نوع انسان نے قائم کی تھیں محمد مصطفی ﷺ فرماتے ہیں کہ مجھے اس لئے معبوث کیا گیا کہ ہر خلق کی چوٹی سے اس خلق کو اٹھاؤں اور بلند تر مقام پر کھڑا کر کے دکھا دوں کہ یہ ہے اصل مقام.ان خلق کے غلام ہوکر ، ان کی طرف منسوب ہو کر آج امت مسلمہ کے اخلاق کا یہ عالم ہو کر دنیا کی امیرا غیرا اور عام دنیا کی لا مذہب تو میں بھی ان کے اوپر تمسخر کریں اور تشنیع کریں اور کہیں کہ ہاں یہ اخلاق ہیں.دہر یہ بھی ہنس رہے ہیں آج.بگڑے ہوئے مذاہب والے بھی ہنس رہے ہیں اور مشرک بھی ہنس رہے ہیں، فلسفہ دان بھی ہنس رہا ہے اور دنیاوی Civilization اور تہذیب و تمدن کے علمبردار بھی ہنس رہے ہیں.کیا جماعت احمدیہ نے اس میدان میں آگے قدم بڑھایا ہے یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ اتنے گوشے ابھی خلا کے باقی ہیں.اخلاق کی طرف توجہ دینے کا اتنا بڑا کام ابھی باقی ہے کہ اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی تو ہم دنیا کے معلم قرار نہیں دیئے جاسکیں گے.اگر اس کے باوجود ہمیں دنیا کا مربی بنا دیا گیا تو یہ دنیا پر احسان نہیں ہوگا.اس لئے جوں جوں فتح کے دن قریب آرہے ہیں ان ان گوشوں پر میری نظر پڑتی ہے اور میں خدا کے سامنے حول سے کا پنپنے لگتا ہوں کہ اے خدا محض تیر افضل ہے جو ان حالات کو تبدیل فرما دے اور ہمیں وہ عظمتیں عطا فرما جن عظمتوں کی خاطر تو نے ہمیں پیدا کیا ہے.ورنہ ہر قدم پر کمزوریاں ہیں، ہر قدم پر رخنے ہیں.ایک خلا تو نہیں ہر سمت میں کئی خلا ہیں.جب ہم غیروں کے مقابل پر اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو یقیناً ایک عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے.جب ہم دوسروں کے مقابل پر اپنے اخلاق پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک طمانیت کا احساس
خطبات طاہر ۵ 88 خطبہ جمعہ ۲۴ / جنوری ۱۹۸۶ء بھی پیدا ہوتا ہے لیکن میں آج جو بات کہ رہا ہوں وہ یہ نہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک جماعت احمد یہ دوسری قوموں کے مقابل پر دوسرے مذاہب اور فرقوں کے مقابل پر ، آج کم اخلاق رکھنے والی ہے.میری نظر تو محمد مصطفی ملے کے خلق عظیم پر ہے.میں اس لئے یہ موازنہ کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ ادنی پر راضی ہو کر نہ بیٹھ جائیں.اپنے سے نیچے کے اخلاق کے ساتھ آپ نے موازنہ کیا تو آپ ترقی نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ سمجھیں گے کہ آپ کو سب پر فوقیت حاصل ہوگئی ہے.اگر دیکھنا ہے ترقی کی نظر الله سے آگے بڑھنے کی خاطر تو ہمیشہ محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق پر اپنی نظریں مرکوز رکھیں پھر دیکھیں گے آپ کہ آپ کو کتنا محرومی کا احساس بڑھے گا.کیا کچھ پانے کی نئی تمنا ئیں آپ کے دل میں پیدا ہوں گی.ہر وقت ایک لگن لگی رہے گی کہ ہمیں یہ بھی بنا تھا اوروہ بھی بنا تھا اور وہ بھی بنا تھا اوروہ بھی بننا تھا.ابھی تو ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے.پس یہ وہ نظریہ ہے جس کی خاطر مجھے چند باتیں آپ کے سامنے پیش کرنا ہونگی.آج چونکہ خطبہ کا وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے میں اس مضمون کے دوسرے حصے کو آئندہ جمع تک کے لئے اٹھا رکھتا ہوں.بہت سی ایسی معاشرتی خرابیاں جماعت میں پیدا ہو چکی ہیں جس نے جماعت کی عائلی زندگی کو بھی تباہ کر دیا ہے اور آئندہ نسلوں پر بہت برے رنگ میں اثر انداز ہو سکتی ہے.بیسیوں خط مجھے روزانہ ملتے ہیں ایسی باتوں کے جن کو پڑھ کر شدید تکلیف پہنچتی ہے.احمدی گھروں میں خاوند ایسے ہیں اور بیویاں ایسی ہیں اور بہوئیں ایسی ہیں اور ساسیں ایسی ہیں اور نندیں ایسی ہیں، نندوئی ایسے ہیں.گھروں میں وہ فیکٹریاں ہیں در حقیقت جہاں سے گلیاں سنورتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں.گلیوں میں جو جرم پلتے ہیں وہ بھی دراصل گھروں سے نکل کر گلیوں میں جمع ہوا کرتے ہیں.گلیوں میں جو نیکی کے کام جاری ہوتے ہیں وہ بھی پہلے گھروں میں بنتے ہیں پھر گلیوں میں ظاہر ہوا کرتے ہیں.اس لئے اگر آپ نے معاشرے کو درست کرنا ہے تو سب سے چھوٹے یونٹ یعنی گھر پر نظر کرنی ہوگی.گھر کو جنت میں تبدیل کئے بغیر نہ آپ اپنے شہر کو جنت میں تبدیل کر سکتے ہیں نہ عالم کو جنت میں جنت میں تبدیل کرنے کا دعوی کر سکتے ہیں.اس لئے انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق آئندہ خطبہ میں خصوصیت کے ساتھ چند معاشرتی بیماریوں کا ذکر کر کے میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں گا
خطبات طاہر ۵ 89 خطبہ جمعہ ۲۴ جنوری ۱۹۸۶ء کہ جلد تر ان بیماریوں سے اجتناب کریں اور استغفار کریں اور اپنے معاشرے کو حسین بنانے کی کوشش کریں.دنیا تو آپ کو جہنم میں مبتلا کرنے کے لئے ہر کوشش کر رہی ہے.کم سے کم آپ خود اپنے لئے تو جنت پیدا کریں.خود تو ایسے معاشرے میں بسیں جس کا نام قرآن کی رو سے جنت ہے اور جس کا شجر شجر طیبہ ہے جس کو حسین پھل لگتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد۵ 91 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء گھر کی جنت اور اسوہ رسول نیز گھر تباہ کرنے والی بعض معاشرتی برائیوں کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ انشاء اللہ اگر خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو آئندہ جمعہ پر بعض معاشرتی خرابیوں کا ذکر کروں گا جو گھروں کی جنت کو تباہ کرنے کا موجب بنتی ہیں.اور وہ مقاصد جن کی خاطر نکاح کیا جاتا ہے ان مقاصد کے بالکل برعکس نتائج پیدا کر دیتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ بہت سے لوگ ان خرابیوں کی وجہ سے دکھ اٹھاتے ہیں ، وہ بھی دکھ اٹھاتے ہیں جو ان خرابیوں کا موجب ہوتے ہیں اور وہ بھی دکھ اٹھاتے ہیں جوان خرابیوں کا نشانہ بنائے جاتے ہیں اور معاشرتی خرابیاں ایسی نہیں ہوا کرتیں کہ صرف یک طرفہ دکھ پہنچا ئیں، پھر بھی دکھ پہنچانے والے بھی باز نہیں آتے اور جن کو دکھ پہنچایا جارہا ہوتا ہے، بسا اوقات وہ بھی اسی قسم کی غلطیوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جن کے نتیجہ میں معاشرہ مزید بد زیب اور بدصورت اور مکروہ اور کڑوا ہو جاتا ہے.اس ذکر کے نتیجہ میں کچھ دوستوں نے خیال آرائی شروع کی.بعض ذکر مجھ تک بھی پہنچے اور عموما جو میں نے اندازہ لگایا ہے اس سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ بعض ساسیں یہ انتظار کر رہی ہیں کہ ہم جو بہوؤں کے خلاف جو شکایتیں کیا کرتی تھیں تو اگلے خطبہ میں بہوؤں کی شامت آئے گی اور بعض بہوئیں یہ امید لگائے بیٹھیں ہیں کہ ہم نے جو ساسوں کے خلاف چٹھیوں کی بھر مار کی ہوئی تھی تو اگلے
خطبات طاہر جلد ۵ 92 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء خطبہ میں ساسیں پکڑی جائیں گی.بعض بیویاں خاوندوں کی شامت کا تماشاد یکھنے کا انتظار کر رہی ہیں بعض خاوند بیویوں کا تماشا دیکھنے کے منتظر بیٹھے ہیں، بعض بچے ہیں جنہوں نے والدین کی بدخوئی کی شکایت کی ہوئی ہے ، وہ یہ آس لگائے بیٹھے ہیں کہ اس دفعہ والدین پکڑے جائیں گے اور بعض والدین ہیں جو رونا روتے ہیں اپنے بچوں کی بے راہ روی کا ، ان کی بدخلقی کا ، ان کی بے دینی کا ، ان کے دل میں یقین ہے کہ آج ایسے بچوں کا ذکر کیا جائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ خطبہ کسی کے بھی خلاف نہیں نہ ساسوں کے خلاف ہے نہ بہوؤں کے خلاف ہے نہ بیویوں کے خلاف ہے ، نہ خاوندوں کے خلاف ہے، نہ بچوں کے، نہ والدین کے بلکہ محض ان برائیوں کے خلاف ہے جو جس طبقے میں بھی رونما ہوں اس طبقہ کو مجرم بنا دیتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں معاشرے میں نفرتوں کی گس گھلنے لگتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ مومن کو یہ سبق ہی نہیں دیا گیا کہ انسان سے نفرت کرے.برائیوں سے نفرت کی تعلیم دی گئی ہے.اس لئے جب مثال کے طور پر کہیں ساس کا نام لیا جائے یا خاوند کا یا بیوی کا یا بہو کا یا بچوں کا یا ماں باپ کا تو اس سے ہر گز یہ مراد نہ لی جائے کہ کسی ایک خاص طبقہ کو مطعون کیا جا رہا ہے.یہ تو سب برتن ہیں ان برتنوں میں جہاں جہاں حسن جھلکے گا یہ برتن خوبصورت دکھائی دینے لگیں گے اور جہاں جہاں بدی جلوہ نمائی کرے گی وہاں یہ بدصورت اور بد زیب دکھائی دینے لگیں گے.اس لئے ان کا ذکر محض تمثیلاً ہوگا کسی ایک طبقے کے خلاف کوئی بات نہیں.اصولاً قرآن کریم اور آنحضرت ﷺ کا عمل ہمیں جو تعلیم دیتا ہے وہی تعلیم ہے جو اس خطبہ کا محرک ہے.حقیقت یہ ہے سب برائیوں کی جڑ سنت نبوی سے گریز ہے اور جب میں سنت نبوئی کہتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ قرآن کریم کی عملی صورت سے گریز ہے.بسا اوقات ایک انسان قرآن کریم کے خلاف بغاوت نہیں کرتا اور بظاہر یہ یقین رکھتا ہے کہ میں سارے قرآن پر ایمان لاتا ہوں کیونکہ وہ لفظوں میں تعلیم ہے اور لفظوں میں تعلیم خواہ کتنی ہی سخت کیوں نہ ہو جب تک عمل میں نہ ڈھلے اس کی سختی پوری طرح محسوس نہیں ہوتی.اس لئے قرآن کریم کے خلاف بغاوت نہ کرتے ہوئے بھی سنت کو اختیار کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے کیونکہ قرآن کریم کے لفظ جب عمل میں ڈھلتے ہیں تو اسی کا نام سنت محمد مصطفی ﷺے بن جاتا ہے اس لئے قرآن کو عمل میں ڈھالنا یہ ایک بہت ہی مشکل کام ہے اور سنت کی پیروی بظاہر ثانوی درجہ رکھتی ہے لیکن اس پہلو سے اولیت اختیار کر جاتی ہے کہ قرآن کی لفظی
خطبات طاہر جلد۵ 93 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء پیروی کے مقابل پر سنت کی عملی پیروی بہت ہی زیادہ مشکل کام ہے.تو معاشرہ میں بھی جتنی خرابیاں ہیں ان میں سے ہر ایک کی تان اسی بات پر جاکے ٹوٹے گی کہ سنت نبوی سے گریز کیا گیا ہے اور بعض قسم کے اعمال میں مبتلا ہوتے ہوئے یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ اگر آنحضرت ﷺ اس صورت حال میں ہوتے تو ان کا کیا رد عمل ہوتا ؟ آپ نے کیا نمونہ دکھانا تھا ؟ اور وہ نمونہ اتنا واضح ہے اتنا کھلا کھلا ہے اس میں کوئی بات بھی پوشدہ نہیں اور ہر مسلمان کے لئے یہ آسان ہے کہ اس نمونے پر نظر ڈالے، اس کا تصور کرے اور اس کے مطابق اپنی زندگی ڈھالنے لگے.جتنے جھگڑے فضاؤں میں جار ہے ہیں اگر چہ سارے جھگڑے قضاؤں میں نہیں جار ہے مگر جتنے بھی قضاؤں میں جھگڑے جار ہے ہیں ان میں سے ہر جھگڑے کا تجزیہ یہی ہوگا کہ فریقین میں سے دونوں کسی نہ کسی پہلو سے سنت سے گریز کر رہے ہیں.آنحضرت ﷺ نے عائلی خرابیوں سے بچنے کے لئے سب سے بنیادی تعلیم یہ بیان فرمائی اور جس پر عمل کر کے دکھایا کہ اپنے خلق کی حفاظت کرو، حسن خلق اختیار کرو، اگر تمہارا خلق عموماً حسین ہے، نرم ہے، گفتگو کا سلیقہ جانتے ہو اور وہ بنیادی صفات تم میں پائی جاتی ہیں جس سے انسانیت حسین بنتی ہے تو اس کے نتیجہ میں اکثر مواقع خرابیوں کے پیدا ہی نہیں ہو نگے کیونکہ جب دونوں طرف معاملہ کرنے والے حسن خلق کی زینت سے آراستہ ہوں، اچھے اخلاق رکھتے ہوں تو بہت سے ایسے مواقع پیدا ہی نہیں ہوتے جن کے نتیجہ میں بعض دفعہ بڑے بڑے فساد پیدا ہو جاتے ہیں.ایک بات ایک انسان سختی کی کہہ دیتا ہے اگر دوسری طرف کوئی سخت روانسان ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ سخت بات مقابل پر کہتا ہے اور چھوٹی سی بات بڑھتے بڑھتے بعض دفعہ قتل وخون پر منتج ہو جایا کرتی ہے.یعنی ایسی ایسی باتوں پر قتل ہوتے دیکھتے ہیں.رمضان شریف میں دو آنے کے پکوڑے خریدنے کے اوپر پر ایسی گفتگو چل پڑی کہ تیرے پکوڑے خراب ہوتے ہیں، اس نے کہا تو ایسا ہے، تیرا منہ خراب ہے، تیری ذات خراب ہے ، رفتہ رفتہ ایک دوسرے کو جواب دیتے دیتے یہاں تک بات پہنچ گئی کہ ایک نے دوسرے کو قتل کر دیا اور اس طرح رمضان کا روزہ ٹوٹا ایک شخص کا.حیرت ہوتی ہے رمضان کے مہینہ میں خصوصاً جب میں اخبارات میں جرائم کے واقعات پڑھتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح جب انسان بنیادی طور پر بدخلق ہو تو رمضان کا مبارک مہینہ بھی اس کو فتنہ وفساد سے بچا نہیں سکتا.
خطبات طاہر جلد۵ 94 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء آنحضرت علی حسن خلق پر بہت ہی زور دیا کرتے تھے.آنحضرت ﷺ نے اس کو اہل وعیال کے ساتھ سلوک کے ساتھ باندھ کر بیان فرمایا.چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ کی روایت ہے کہ آنحضور نے فرمایا: ان من اكمل المومنين ايما نا احسنهم خلقا والطفهم باهله (سنن ترندی کتاب الایمان حدیث نمبر : ۲۵۳۷) کہ تم میں سے سب سے کامل ایمان والا مومن وہ ہے جو خلق میں سب سے زیادہ حسین ہو.و الطفهم با هله اور اپنے اہل وعیال پر بہت ہی زیادہ لطف و کرم کرنے والا ہو.یہ اگر صفت مردوں میں پیدا ہو جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ کم از کم نوے فیصد فساد کے محرکات اور گھروں کی زندگی کے تباہ ہونے کے محرکات ختم ہو جاتے ہیں.مرد کی بدخوئی بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے، عورت کی بدخوئی بھی بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے لیکن بالعموم مرد کی بدخوئی کے نتیجہ میں عورتیں بھی بدخو ہونے لگ جاتی ہیں اور بنیادی طور پر مرد قوام ہے اس لئے مرد نے عورت کو اخلاق سکھانے ہیں.جیسا کہ میں آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک حوالہ پڑھوں گا.آپ نے اسی بات پر زور دیا ہے کہ اگر عورتوں میں تم حسن خلق پیدا کرنا چاہتے ہو تو اول ذمہ داری مردوں پر ہے کہ وہ حسین اخلاق کا مظاہرہ کریں تا کہ اس کے نتیجہ میں عورتیں بھی وہ خلق کے نمو نے پکڑیں اور اس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ معاشرہ حسین ہونے لگ جائے.ایک اور حدیث میں ذکر ملتا ہے کہ آنحضرت علیہ نے فرمایا: خير كم خير كم لا هله وانا خير كم لاهلى واذا مات صاحبكم فدعوه (سنن ترندی کتاب المناقب حدیث نمبر : ۳۸۳۰) آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنے اہل کے لئے بہترین ہے اور میں تم سے اپنے اہل کے لئے بہترین ہوں.آنحضرت ﷺ نے ایک اور موقع پر فرمایا کہ بیویوں کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلا وجب تم پہنو تو اس کو بھی پہناؤ ، چہرے پر نہ مارو، برا نہ کہو، گھر کے سوا کہیں اور اس سے قطع تعلق نہ کرو.(سنن ابی داؤ د کتاب النکاح حدیث نمبر : ۱۸۳۰) جہاں مارنے کا ذکر ہے اس سلسلے میں میں آئندہ الگ بات کروں گا.اس موقع پر یہ حدیث میں نے اس لئے اختیار کی ہے کہ اس میں آخری فقرہ بہت ہی زیادہ توجہ کا مستحق ہے.یہ تو آپ نے بسا اوقات سنا ہے کہ جیسا خود کرو ویسا ہی دوسرے سے بھی کر وحسن سلوک میں بھی ہر معاملہ میں یعنی صرف بیویوں سے نہیں بلکہ دوستوں سے
خطبات طاہر جلد۵ 95 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء بھی، غیروں سے بھی انسان جیسا چاہتا ہے اپنے لئے ویسا ہی اس کے لئے بھی کرے.اسلام کی تعلیم یہاں تک سکھاتی ہے کہ جو خود کھاؤ وہ غلام کو بھی کھلاؤ جو خود پہنو وہ غلام کو بھی پہناؤ.اس لئے بیوی سے حسن خلق کے معاملہ میں یہ بات تو ایک روز مرہ کی بات ہے لیکن یہ فقرہ ایک بہت غیر معمولی فقرہ ہے جس پر توجہ کی ضرورت ہے کہ اگر تم اس سے قطع تعلق کرو تو گھر میں کرو باہر نہ کرو.اس میں عورت کی عزت و شرف کے قیام کے لئے ایک بہت ہی اہم تعلیم دی گئی ہے.بعض دفعہ مرد اپنی بیویوں کی بے عزتی لوگوں کے سامنے کرتے ہیں ، رشتے داروں کے سامنے یا غیروں کے سامنے اور وہ سمجھتے ہیں کہ قرآن کریم نے ہمیں اجازت دی ہے کہ ان سے سختی کرو.قرآن کریم کو آنحضرت ﷺ سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا.آنحضرت علے بخوبی جانتے تھے کیونکہ آپ پر ہی یہ کلام نازل ہوا ہے کہ بعض صورتوں میں قرآن کریم عورتوں سے عدم تعلقی کی بھی اجازت دیتا ہے جیسے سوشل بائیکاٹ ہوتا ہے مگر حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ لوگوں کے سامنے بھی تم اس قطع تعلقی کو ظاہر کر دو.جب گھر میں کوئی آیا ہو یا کوئی غیر موجود ہو یا باہر نکل کر لوگوں کے گھر جاتے ہو اس وقت لوگوں پر نہ یہ ظاہر ہونے دیا کرو کہ تمہارے اندر کوئی ناچاقی ہے اور تم اپنی بیوی سے ناراض ہو.اور بہت سی معاشرتی خرابیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ عورت کو مرد سے شکایت پیدا ہوتی ہے اور مرد کو عورت سے کہ جو کچھ تم نے ہمیں کہنا تھا علیحدگی میں کہہ لیتے ، لوگوں کے سامنے کہنے کی کیا ضرورت تھی اور جب تم نے لوگوں کے سامنے کہا تو ہم جواب بھی لوگوں کے سامنے دیں گے اور چھوٹی چھوٹی باتیں بڑی بڑی باتوں پر منتج ہونے لگتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں بسا اوقات طلاقیں ہو جاتی ہیں فتنہ وفساد پیدا ہوتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت کے بارے میں آپ کی تعلیم ہے کہ ”فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برادشت کرنی چاہئیں، یعنی یہ خیال کہ ہاتھ اٹھانے کی کھلی اجازت ہے نعوذ باللہ مردوں کو چھوٹی سی بات پہ اس کو نشوز کہہ دیا، بغاوت کہ دیا اور ہاتھ اٹھانے لگ گئے کہ قرآن کریم ہمیں اجازت دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام فرماتے ہیں کہ یہ درست نہیں ہے.فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برادشت کرنی
خطبات طاہر جلد۵ 96 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء چاہئیں.ہمیں تو کمال بے شرمی معلوم ہوتی ہے کہ مرد ہو کر عورت سے جنگ کریں.ہم کو خدا نے مرد بنایا ہے اور در حقیقت یہ ہم پر اتمام نعمت ہے ، اس کا شکریہ یہ ہے کہ ہم عورتوں سے لطف اور نرمی کا برتاؤ کریں ( ملفوظات جلد اول صفحه ۳۰۷) ایک دفعہ ایک دوست کی شکایت ہوئی کہ وہ اپنی بیوی سے سختی سے پیش آتا ہے تو آپ نے فرمایا ”ہمارے احباب کو ایسا نہ ہونا چاہیئے ( ملفوظات جلد سوم صفحه : ۳۰۰) پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں ” عورتوں کے حقوق کی جیسی حفاظت اسلام نے کی ہے ویسی کسی دوسرے مذہب نے قطعاً نہیں کی.مختصر الفاظ میں فرما دیا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِى عَلَيْهِنَّ (البقره: ۲۲۹) که جیسے مردوں کے عورتوں پر حقوق ہیں ویسے ہی عورتوں کے مردوں پر ہیں.بعض لوگوں کا حال سنا جاتا ہے کہ ان بیچاریوں کو پاؤں کی جوتی کی طرح جانتے ہیں اور ذلیل ترین خدمات ان سے لیتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ، حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں اور پردہ کے حکم ایسے ناجائز طریق سیبرتتے ہیں کہ ان کو زندہ درگور کر دیتے ہیں.آنحضرت عمﷺ کا گھر میں اپنی ازواج مطہرات سے جو سلوک تھا اس کی تفصیل بیان کرنے کے لئے تو ایک سے زیادہ خطبے درکار ہیں اور کئی تقاریر کا مضمون بن سکتا ہے کیونکہ بکثرت آنحضرت ﷺ کی ازدواجی زندگی کی تصویر میں احادیث میں موجود ہیں.کیا کرتے تھے روزانہ، کس طرح کا سلوک تھا.اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے ، کھاتے پیتے ،ناراضگیوں کے وقت صلح کے وقت ،اظہار محبت کے وقت اظہار ناراضگی کے وقت، ہر قسم کے حالات میں صبح سے شام تک تمام آنحضرت ﷺ کے اندرونی گھر یلو واقعات احادیث نبوی میں محفوظ ہیں اور امت کی تعلیم کی خاطر امہات المؤمنین نے شب باشی کے واقعات بھی اس حد تک بیان فرمائے جس حد تک مسلمانوں کی تعلیم کے لئے ضروری ہیں.تو بہت ہی وسیع مضمون ہے ، خلاصہ یہ ہے کہ ساری زندگی حضوراکرم نے ایک مرتبہ بھی ازواج مطہرات میں سے کسی کو نہیں مارا اور امر واقعہ یہ ہے کہ ازواج
خطبات طاہر جلد۵ 97 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء مطہرات سے بارہا ایسی باتیں بھی سرزد ہوئیں جن کے نتیجہ میں شدید ناراضگی کا مورد بھی بنیں بعض اوقات ایسی باتیں بھی سرزد ہوئیں جن کے نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کی بجائے کوئی اور مرد ہوتا تو گھر میں کئی قسم کے فتنے پھوٹ پڑتے کئی قسم کی ایسی باتیں چل نکلتی جن کے نتیجہ میں آپس میں میاں بیوی کے طور پر رہنے کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا تھا.لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ نے نہایت ہی صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا یہاں تک کہ آنحضرت علی نے اپنی بیویوں کو والدین کی ناراضگیوں اور ان کی مار سے بچایا.یعنی بجائے اس کے کہ آپ مار میں جلدی کریں.میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے ساری زندگی میں ایک مرتبہ بھی آنحضرت ﷺ نے کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا، ج مطہرات میں سے کسی کو ایک ادنی سی ضرب بھی نہیں لگائی.صرف یہی نہیں بلکہ والدین سے ازواج بھی بچایا.چنانچہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی کچھ نگی آپس میں ہوئی اور حضرت عائشہ صدیقہ بلند آواز سے آنحضور علیہ کے مقابل پر بولنے لگیں.اس وقت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ گھر میں داخل ہوئے اور برداشت نہیں ہوا.اتنی شدید محبت تھی آنحضرت ﷺ سے کہ آپ کی موجودگی میں حضرت عائشہ پر ہاتھ اٹھانے لگے.آنحضرت ﷺ نے پکڑ کر ہاتھ روکا اور فرمایا کہ نہیں ابوبکر یہ نہیں ہوگا.حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق گھر سے باہر چلے گئے اور پھر کافی دن تک اس گھر میں دوبارہ نہیں آئے.حضرت عائشہ صدیقہ سے پھر بھی ناراض رہے.ظاہر بات ہے کہ اپنی بیٹی سے ناراضگی کا موجب ضرور کچھ ایسی بات ہوئی ہوگی جس سے انہوں نے اندازہ لگایا کہ آنحضرت ﷺ کی گویا گستاخی ہو رہی ہے.بہر حال لمبا عرصہ انقطاع کیا اور ایک دفعہ گھر میں دوبارہ داخل ہوئے تو آنحضرت ملے اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بہت ہی محبت کی حالت میں گفتگو فرمارہے تھے ایک دوسرے سے ، بہت پیار کا ماحول تھا تو حضرت ابوبکر صدیق کو وہ واقعہ یا تھا اس لئے جس طرح نکلے تھے اس سے احسن رنگ میں داخل ہوئے اور فرمایا کہ اچھا جس طرح مجھے اپنی ناراضگی میں تم لوگوں نے شریک کر لیا تھا اب مجھے اپنی صلح میں بھی تو شریک کرلو.(سنن ابی داؤد کتاب الادب حدیث نمبر : ۴۳۴۷)
خطبات طاہر جلد۵ 98 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء تمہاری ناراضگی کے وقت میں داخل ہوا تھا اور ناراض ہو کر چلا گیا تھا اب صلح کے ماحول میں تمہیں دیکھ رہا ہوں اس لئے صلح کے ماحول میں بھی شامل کر لو مجھے اپنے ساتھ.کیسے سادہ سادہ پیارے پیارے واقعات ہیں لیکن بڑی گہرائی ہے ان میں.دیکھنے میں بظاہر سادہ ہیں لیکن اگر آپ ان کے اندر غوطہ لگائیں، غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت ہی اعلیٰ درجہ کے خلق ان کے پس منظر میں ہیں.ان اعلیٰ درجہ کے اخلاق کے بغیر ایسی تصویر میں بن نہیں سکتیں.روزمرہ کی زندگی میں عورتیں بیمار بھی ہو جاتی ہیں بعض دفعہ کہتی ہیں کہ مجھے سر درد ہو رہی ہے مرد آگے سے جواب دیتا ہے کہ اچھا جاؤ جہنم میں یا اور سخی کر دیتا ہے یا غیر معمولی نرمی اختیار کر دیتا ہے اور بیماری کو غیر معمولی اہمیت دے دیتا ہے، ایسا بھی ہوتا ہے.اور دونوں صورتوں میں معاشرہ خراب ہوتا ہے.خاوند اگر عورت کی بیماری پر توجہ نہ دے اور مناسب حسن سلوک نہ کرے تب بھی اور ضرورت سے زیادہ بڑھائے تب بھی معاشرہ ضرور تباہ ہو جاتا ہے.بعض گھروں میں آپ نے دیکھا ہوگا پرانے زمانے میں تو ایسے گھر بہت ملا کرتے تھے کہ بعض عورتوں کو بیمار رہنے کی عادت پڑ جاتی تھی صرف اس لئے کہ وہ سمجھتی تھیں کہ خاوند زیادہ دل کو لگاتا ہے اور زیادہ اہمیت دیتا ہے، ان کا شیوہ ہی بیماری بن جاتا تھا اور بعض گھروں میں خاوند کی موجودگی میں تو لازماً عورت بیمار بنی رہتی تھی جب خاوند چلا جاتا تھا تو پھر اٹھ کے دوڑنے پھرنے لگ جایا کرتی تھی.ساری زندگی خاوند بیچارے کی گزر جاتی تھی اپنی بیوی کی بیماریوں کے نخرے اٹھاتے ہوئے.اسکے برعکس بعض عورتوں کی بیماری کی خاوند کو پرواہ نہیں ہوتی تھی یہاں تک کہ موت کے کنارے تک پہنچ جایا کرتی تھی.بیماری کی حالت میں ان سے شدت سے کام لینے، بیماری کی حالت میں ان پر بوجھ ڈالنے ، بیماری کی حالت میں مہمان بلانے اور باہر کے معاشرہ میں اپنا چہرہ خوبصورت دکھانا اور گھر کے اندر ایسی بدصورتی کہ بیمار عورت پر بوجھ ڈالا جا رہا ہے.یہ امر واقعہ ہے بعض عورتیں میرے علم میں ہیں کہ پیدائش کے بعد چالیس دن ابھی پورے نہیں گزرے، وضع حمل کے بعد اور جسم کچی حالت میں ہے.اس حالت میں ان سے بارشوں میں باہر چار پائیاں اٹھوائی جانی، مہمان آئیں تو ان کی خدمت کروانا، اپنی بہنوں اور اپنے دوسرے عزیزوں کے کپڑے دھلوانا ، اس طرح چکی میں پیسی جانے والی بعض عورتیں ہیں کہ حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح کسی انسان کو یہ حوصلہ پڑتا ہے کہ اس قسم کے مظالم کرے تو بیماریوں کو نظر انداز کر دینا یا بیماریوں
خطبات طاہر جلد۵ 99 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء کو غیر معمولی اہمیت دینا یہ دونوں باتیں خرابی کا موجب بنتی ہیں.آنحضرت ﷺ کے حسن خلق کی اگر ایک لفظ میں تعریف کی جائے تو وہ توازن ہے.اتنا حسین تو ازن تھا آپ کی ذات میں کہ ہر چیز اعتدال پر تھی.غیر معمولی محبت بھی نہیں تھی اور محبت جتنی ہونی چاہئے اس سے ایک ذرہ بھی کم نہیں تھی.بنیادی اصولی باتوں میں آنحضور ﷺے محبت کی قطعاً پرواہ نہیں کرتے تھے اور جہاں اپنی ذات کی تکلیف ہو وہاں بہت زیادہ برداشت کر لیا کرتے تھے.حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا ایک واقعہ ہے کہ ایک موقع پر آپ نے آپ کی ایک اور زوجہ محترمہ کے متعلق جن کا قد چھوٹا تھا طعن کے طور پر اپنی چھنگی دکھائی کہ وہ آپ کی بیگم جن کا قدا تنا ہے.آنحضرت ﷺ کو حضرت عائشہ صدیقہ سے بہت محبت تھی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جہاں اصول تھے جہاں سچائیاں سامنے آتیں تھیں، وہاں محبتیں یوں قربان کر دیا کرتے تھے جیسے محبت کی اہمیت ہی کو ئی نہیں.اس موقع پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تم نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اس کو دریا میں ملا دیا جائے تو وہ دریا پر بھی غالب آجائے یعنی اس کی کڑواہٹ دریا کو بھی کڑوا کر دے.اس کا ایک ترجمہ دوسری روایت میں سمندر کا بھی بنتا ہے اگر سمندر میں یہ کلمہ ڈالا جائے تو سمندر کا مزاج بدل دے ، اس کا رنگ بدل دے، اس کا ذائقہ بدل دے یعنی اس کو بھی کڑوا کر دے جو پہلے ہی کڑوا ہوتا ہے.(ابوداؤد کتاب الادب حدیث نمبر :۴۲۳۲) ایک اور موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ نے ایک ایسی بیوی کا بھیجا ہوا سالن گرا دیا جن کی باری نہیں تھی ، حضرت عائشہ صدیقہ کی باری تھی کسی اور زوجہ جن کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا آنحضرت علی بہت ہی پسند فرمایا کرتے تھے انہوں نے محبت میں وہ کھانا بھیج دیا حضرت عائشہ کی باری کے دن اور حضرت عائشہ نے ہاتھ مار کے وہ برتن گرا دیا اور برتن ٹوٹ گیا.آنحضرت ﷺ کا عجیب سلوک ہے.حضرت عائشہ کے اس فعل کے اوپر جو آپ کا رد عمل ظاہر ہوتا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کیسی متوازن طبیعت تھی.اس صورت میں ناراض نہیں ہونا چاہتے تھے کہ جس کے نتیجہ میں گھر بھڑک اٹھے اور شکوے پیدا ہو جائیں دونوں طرف سے.اس صورت میں دبانا بھی نہیں چاہتے تھے اپنے جذبات کو کہ حضرت عائشہ سمجھیں کہ یہ بات بہت اچھی ہوگئی ٹھیک ہے، دوسری سوکنوں کے متعلق میں جو کچھ سلوک کروں گی آنحضرت ملے اسے برداشت کر لیا کریں گے اور یہ بھی جانتے تھے آنحضرت مے
خطبات طاہر جلد۵ 100 خطبہ جمعہ ۳۱ / جنوری ۱۹۸۶ء کہ عائشہ مجھ سے بہت محبت کرتی ہے اگر میں اس بات کو اپنی ذات پر لے لوں، خود تکلیف اٹھاؤں تو اس کا بہت زیادہ گہرا اثر اس پر پڑے گا اور اصلاح کے لئے یہ سب سے زیادہ مؤثر ثابت ہوگی.پس آنحضرت ﷺ نے حضرت عائشہ صدیقہ کو یہ نہیں کہا کہ تم یہ برتن اکٹھے کر وہ تم نیا برتن گھر سے لا کر دو، تم یہ کام کرو تم وہ کام کرو.آنحضرت عے خود جھکے زمین پہ کھانا اپنے ہاتھوں سے اکٹھا کیا ، اس برتن کے ٹکڑے اکٹھے کئے ان کو جوڑا اور جوڑ کر اس میں کھانا ڈالا اور فرمایا کہ عائشہ یہ کھانا کھاؤ اور خود بھی وہ کھانا کھایا.حضرت عائشہ نے پھر ایک نیا برتن گھر سے نکال کر دیا کہ یا رسول اللہ یہ برتن ان کو بجھوا دیں اور آنحضرت ﷺ نے وہ ٹوٹا ہوا بر تن خود جوڑ کر حضرت عائشہ کے سپرد کر دیا کہ یہ لو تم اپنے گھر رکھو اور نیا برتن لے کران بیگم کوبھجوا دیا.اب اس چھوٹے سے واقعہ کے اوپر آپ غور کریں تو روز مرہ کی زندگی میں بہت سے فساد ہو سکتے ہیں اور ہوا کرتے ہیں.غصہ میں آکر اس عورت کے خلاف ایک خاوند با تیں شروع کر دیتا ہے.منہ پر چپیڑ مار دیتا ہے بعض دفعہ گالیاں دینے لگ جاتا ہے تم بدخلق تمہارے ماں باپ بھی بد خلق اور یہ اور وہ ، سارے گھر والوں کے خلاف بولنا شروع کر دیتا ہے.بہر حال کوئی بھی غلط رد عمل ظاہر ہو وہ آگے بہت بڑے فساد پر منتج ہو سکتا ہے لیکن تحمل بردباری ، حوصلے کے ساتھ اور عقل کامل کے ساتھ اگر انسان ایک معاملہ کرتا ہے تو اس سے اعلیٰ خلق پیدا ہوتا ہے.اعلیٰ خلق محض کوئی جذباتی نرمی کا نام نہیں ہے محض جذباتی نرمی بعض لوگوں کو بیماریوں کے طور پر ملا کرتی ہے.بعض بوڑھے ہیں بیچارے وہ ہر بات پہ رو پڑتے ہیں ان سے برداشت ہی نہیں ہوتا ہے، بعض لوگ ہیں جو ہنستے ہی رہتے ہیں ہر وقت لوگ کہتے ہیں کہ یہ بڑا حسین خلق والا آدمی ہے ، بڑا خلیق ہے، بہت ہنستا ہے لیکن جہاں بھی ذرہ سی آزمائش ہوگی ایسا ہنسنے والا آدمی بعض دفعہ ایسا برا نمونہ دکھاتا ہے کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.یہ بیماریاں ہیں تو خلق کا تعلق حکمت کا ملہ سے ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کامل حکمت کی بات نہ ہو اور وہ اچھا خلق ہو.پس آنحضرت ﷺ کے متعلق جو قرآن کریم فرماتا ہے يُعَلِّمُهُمُ الكِتُبَ وَالْحِكْمَةَ (جمعہ :۳) اس میں حکمت کا تعلق خلق سے ہے اتنا ہر آپ کے فعل کے پیچھے حکمت کا سمندر موجزن ہوا کرتا تھا کہ کوئی ایک بھی فعل حضور اکرم کی زندگی کا ایسا نہیں کہ
خطبات طاہر جلد ۵ 101 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء جس کا تجزیہ کریں آپ تو اس نتیجے پر نہ پہنچیں کہ کامل عقل والے نے سوچ کر یہ نمونہ بنایا ہے معلوم ایسے ہی ہوتا ہے کہ سوچ کر بنایا ہے.لیکن جب ذہن صحیح راستوں پر چل پڑے، جب ذہن متقی ہو جائے ، جب صحیح فیصلہ کے خلاف سوچ کسی اور طرف چل ہی نہ سکتی ہو تو پھر یہ خلق بن کر اعضاء میں اس طرح داخل ہو جاتی ہے بات کہ ہر بات سوچ کر پھر نہیں کی جاتی خود بخود ظاہر ہونے لگتی ہے آپ کو پس آنحضرت ﷺ کی زندگی حکمت کا ملہ کا ایک معجز تھی اور ایسی حکمت کا ملہ آپ کو عطا ہوئی تھی جوصرف دماغ میں نہیں رہتی تھی آپ کے اعضاء میں سرایت کر گئی تھی آپ کے ہر زندگی کے رد عمل میں داخل ہو چکی تھی اور اسی لئے آپ سے حسین ترین اخلاق رونما ہوئے.ایک موقعہ پر حضرت صفیہ جو یہودی سردار کی بیٹی تھیں اور آنحضرت ﷺ کے عقد میں آئیں تھیں ان کو ایک دوسری بیوی نے یہ طعنہ دیا کہ یہودی کی بیٹی ہے اور اس طعنہ پر وہ بہت رو رہی تھیں.آنحضرت ﷺ کے سامنے جب یہ بات کی تو کیا رد عمل ظاہر ہوتا ہے دیکھئے ! آپ نے فرمایا ! کیا یہ کوئی رونے کی بات ہے تمہارا تو خاوند بھی نبی ہے اور تمہارا چچا بھی نبی اور تمہارا باپ بھی نبی مطلب یہ ہے کہ یہودی نسل میں یہودی آبا ؤ اجداد میں تو تم جن باپوں کی اولا د ہو وہ نبی تھے اور ایسے نبی تھے جن کے بھائی بھی نبی تھے، تو تمہارا باپ بھی نبی تمہارا چا بھی نبی تمہارا خاوند بھی نبی ، جس نے تمہیں طعنہ دیا ہے وہ بھی یہ کہہ سکتی ہے اپنے متعلق؟.(سنن ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر: ۳۸۲۹) کس طرح بات کو کس حسین رنگ میں الٹایا ہے اور ایک غائب بیوی کے خلاف اس سے باتیں بھی نہیں کیں اور حکمت کا ملہ کس کو کہتے ہیں؟ پس یا د رکھیں کہ حسن کامل یعنی اخلاق کا حسن کامل ، حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے اور جتنا کوئی نجی اور بیوقوف ہوگا اتنا ہی زیادہ بد خلق ہوگا.سوچ کے نتیجہ میں بھی حسین اخلاق پیدا ہو سکتے ہیں اور سنت محمد مصطفی عے میں جذب ہونے کے نتیجہ میں بھی خود بخودوہ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.سوچ کے نتیجہ میں انسان غلطیاں کر سکتا ہے کیونکہ ہر شخص کی سوچ کامل نہیں ہوا کرتی اس لئے سوچ کے نتیجہ میں ، تدبر کے نتیجہ میں جو اخلاق پیدا ہوں گے ان کی ضمانت کو ئی نہیں لیکن سنت کی پیروی کے نتیجہ میں جو اخلاق پیدا ہوتے ہیں ان کی کامل ضمانت ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ تم میں محمد مصطفی علی اسوہ حسنہ ہیں.پس جس کے اعمال کو خدا حسین قرار دے دئے اللہ کی محبت کی اور رضا
خطبات طاہر جلد۵ 102 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء کی آنکھ جس کے اعمال پر پڑتی ہو اس میں کسی غلطی کی ٹھوکر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے.پس آپ کے لئے ضرورت نہیں کہ مزید سوچیں سوچیں ، مزید ند برکریں، غور و فکر کریں کہ ہم کس طرح اپنے اخلاق کو حسین بنائیں.آپ کا تو صرف اتنا کام رہ گیا ہے کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی سنت سے واقف ہوں اور اس سے محبت کریں اور اس محبت کی نتیجہ میں آنحضرت ﷺ کے اخلاق کو اپنانے لگ جائیں اگر حسین سے محبت ہو جائے تو لازماً اس کا حسن محبت کرنے والے میں بھی سرایت کر نے لگتا ہے.اگر آنحضرت ﷺ کی سنت سے آپ کو محبت ہو جائے تو اسکا لازم یہ نتیجہ نکلے گا کہ جن باتوں میں آپ کو سنت کا علم نہیں بھی ہو گا ان باتوں میں بھی آپ سے سنت والے اعمال رونما ہونے لگ جائیں گے.یہ ایک فطرتی نتیجہ ہے گل سے محبت کرنے کا کہ جزء درست لگتے ہیں خواہ بعض اجزاء کا علم نہ بھی ہو.ت عمل ہے جب خود بیمار ہوتے تھے تو اپنی بیگمات پر زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تھے جب وہ بیمار ہوتی تھیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک فرمایا کرتے تھے.روزانہ گھر میں کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے اپنے کپڑے خود سیا کرتے تھے ، اپنی جوتیوں کو بھی بعض دفعہ خود پیوند لگایا کرتے تھے، روزمرہ کے کاموں میں اپنی بیویوں کی مدد کیا کرتے تھے.آج کل اگر کسی مرد سے کہا جائے کہ تم بھی گھر کے کاموں میں دلچپسی لو تم بھی اپنی عورت کے ساتھ مددکرو، اس پر بے وجہ بوجھ نہ ڈالو، اگر وہ خود شوق سے خدمت کرتی ہے تو بیشک کرواؤ خدمت لیکن وقت بے وقت بیمار دیکھ کر اور مصیبت میں دیکھ کر بھی اس کو خدمت پر مجبور کرنا یہ سنت نبوی کے خلاف ہے.تو ایسا مرد بعض دفعہ یہ کہتا ہے کہ جی وہ اور وقت تھے، ہم تو بڑے مصروف ہیں، اس مصروف زندگی میں بھلا ہو سکتا ہے کہ ہم باہر بھی کام کریں اور اندر آ کر بھی عورت کی مدد کریں.وہ یہ بات بھول جاتا ہے کہ ساری دنیا میں جب سے انسان بنا ہے اور جب تک رہے گا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے زیادہ مصروف کوئی انسان نہیں تھا نہ ہے اور نہ ہوگا.اتنا حیرت انگیز ہے آپ کا مصروف الاوقات ہونا کہ خود یہ اپنی ذات میں ایک معجزہ معلوم ہوتا ہے.قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ سارا دن تجھ پر اتنے کام ہیں، اتنے بوجھ ہیں کہ ہم جانتے ہیں کہ تو ہر وقت ہماری یاد میں مبتلا ہونے کے باوجود بھی ان کاموں کی وجہ سے الگ نہیں ہو سکتا اس لئے اے میرے بندے رات کو اٹھ کر مجھ سے ملا کر ، رات کو اٹھ کر عبادت کیا کر.اس سے زیادہ قطعی
خطبات طاہر جلد۵ 103 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء گواہی کسی کے مصروف الاوقات ہونے کی نہیں ہو سکتی اور آپ روز مرہ کے گھر کے کاموں میں عورتوں کا ہاتھ بٹاتے تھے.کیا اس سے بہتر کام کرنے کا موقع آپ کے پاس نہیں تھا، یقینا تھا بے انتہا کام تھے آپ کو.ساری دنیا کی اصلاح کا بیڑا اٹھانا اور پھر قیامت تک کے لئے اور پھر ایسے دشمنوں میں گھر اہونا ادنیٰ سے ادنیٰ خادم کی پرواہ اور اس کے دکھ دور کرنے کی فکر اور دعائیں صرف ان لوگوں ا کے لئے نہیں جو زندہ ہیں.نسلاً بعد نسل آنے والوں کے لئے بھی دعائیں اور فوت شدگان کے لئے بھی دعائیں اور دعائیں وہ جن کا آغاز انسانیت سے بھی تعلق ہے اور انجام انسانیت سے بھی تعلق ہے.بے شمار مسائل جن کا سامنا کرنا پڑتا تھا، بے شمار تعلیمات تھیں ہر زندگی کی دلچسپی کے موضوع پر آنحضرت ﷺ نے تعلیم دینی تھی اور پھر اس تعلیم کی حکمت سمجھانی تھی.کتنے بڑے کام تھے! ایک ایسا مصروف الاوقات گھر میں بیٹھا اپنی جوتی کو بھی پیوند لگا رہا ہے ، اپنے پھٹے ہوئے کپڑے بھی سی رہا ہے، کھانے پکانے میں چیزیں پکڑا رہا ہے اپنی بیوی کو اور اس کی مدد کر رہا ہے،ٹوٹے ہوئے برتن جوڑ رہا ہے کہ کسی کی دل شکنی نہ ہو جائے کسی دوسری بیوی کی.حیرت کی بات ہے کہ یہ نمونہ کیوں نہیں پکڑتے لوگ اپنے گھروں میں.اس قسم کے مرد اگر آج کے معاشرے میں پیدا ہوں تو بہت سی خرابیاں جو بعد میں دوسروں کی طرف سے رونما ہونے لگتی ہیں.بیویوں کی طرف سے یا بچوں کی طرف سے یا دوسرے ملنے جلنے والوں یا گھر والوں کی طرف سے ان کا آغاز ہی نہ ہو، بنے ہی نہ بیماریاں شروع میں.مرد کو خدا نے قوام بنایا ہے اگر مرد اچھا نمونہ گھر میں دکھائے اور اس نمونے کو جاری کرے تو لازماً اس کے نتیجہ میں بہت ہی زیادہ حسین معاشرہ وجود میں آسکتا ہے.حضرت عائشہ صدیقہ کی ایک روایت بیماری کے متعلق بھی ملتی ہے.آپ ایک دفعہ بیمار ہوئیں.شدید سر میں درد تھی.آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو آپ نے شکایت کی کہ یا رسول اللہ میرے سر میں تو سخت سردرد ہے ، آپ نے فرمایا کوئی بات نہیں انشاء اللہ آرام ہو جائے گا (مسنداحمد کتاب باقی مسند الانصار حدیث نمبر ۲۴۶۵۸) سے پیار سے اس بات کا اظہار کیا.وہ زمانہ ایسا تو نہیں تھا کہ بنی بنائیاں دوائیاں گھر میں موجود ہوں کہ فوراً ایک ٹکیہ کھلائی اور سر درد دور ہوگئی لیکن آنحضرت ﷺ کا یہ فقرہ ہی دراصل شفا تھا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے اگلے حصہ سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 104 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات دعا بن جایا کرتی تھی.تو آپ نے تو پیار اور دعا کے رنگ میں فرمایا انشاء اللہ آرام ہو جائے گا ، حضرت عائشہ کی معلوم ہوتا ہے اس وقت سر درد ہٹ گئی ہوگی کیونکہ اگلی بات سے لگتا ہے کہ سر درد والا تو ایسی بات نہیں کرتا، پھر فوراً بولیں کہ آپ کو کیا ہے میں مرجاؤں گی تو آپ کوئی اور شادی کرلیں گے یعنی فکر یہ پڑ گئی کہ میرے بعد آنحضرت ﷺ کوئی اور عورت گھر میں نہ لے آئیں.آپ نے فرمایا! عائشہ نہیں میں فوت ہو جاؤں گا اور تم زندہ رہوگی.حضرت عائشہ صدیقہ ساری عمر پچھتاتی رہیں اس بات کے اوپر.ہمیشہ فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے شدید دکھ ہے کہ میں نے اس وقت یہ کیا بات کہہ دی تھی آپ جانتے ہیں کیوں؟ اس لئے کہ آپ جان گئی تھیں کہ جو کلمہ اس وقت آنحضرت ﷺ کے منہ سے نکل رہا تھاوہ دعا بن رہا تھا.آپ کو جو بعد کی لمبی تنہائی کی زندگی برداشت کرنی پڑی لمبی جدائی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی دیکھنی پڑی اس وقت آپ کو پتہ لگا کہ آپ کے بغیر جینا کیا جینا ہوا کرتا ہے.اس وقت آپ پچھتاتی تھیں کہ کاش میں نے یہ نہ کہا ہوتا اور میں ہی آپ کی زندگی میں فوت ہو جاتی.یہ تھا معاشرہ جو اس وقت وجود میں آرہا تھا.ایک چھوٹی عمر کی لڑکی ہے، ایک بہت بڑی عمر کے مرد سے شادی ہوتی ہے لیکن اتنا حسین سلوک تھا ،اس قدر ترحم تھا، اس قدر لطف تھا، ایسی شفقت تھی آپ کی طبیعت میں کہ وہ چھوٹی سی عمر کی لڑکی اس قدر محبت میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ شاید ہی دنیا میں ایسی مثال ہو کہ کسی بیوی کو اپنے خاوند سے ایسی محبت ہوئی ہو.طعن وتشنیع کا ذکر چلا تھا، بہت سے ہمارے گھر تباہ ہوئے ہیں بے وجہ طعن و تشنیع کی وجہ سے.جیسا کہ میں نے بعض مثالیں پیش کیں تھیں.طعن و تشنیع کو آنحضرت عے بالکل پسند نہیں فرماتے تھے اور آپ کے لئے تو سوال ہی نہیں تھا کہ کسی قسم کے طعنے دیں کسی کو.یہ تو حضوراکرم کی ات کیا آپ کے صحابہ کی ذات سے بھی بہت ہی گری ہوئی بات تھی.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ دشمن طعنے دیا کرتے تھے، کا فرمسلمانوں کو طعنہ دیا کرتے تھے.کہیں قرآن کریم میں یہ ذکر نہیں ملتا کہ مسلمان کا فروں کو طعنے دیتے تھے اس لئے طعن و تشنیع سے اجتناب بہت ہی ضروری ہے.آنحضرت لے تو اتنا نا پسند فرماتے تھے کہ ایک موقع پر فرمایا کہ طعنہ زنی کرنے والا ، دوسرے پر لعنت کرنے والا نخش کلامی کرنے والا، یا وہ گو اور زبان دراز ایسا شخص مومن نہیں ہوسکتا اور جو مرضی
خطبات طاہر جلد ۵ 105 خطبہ جمعہ ۳۱ / جنوری ۱۹۸۶ء ہو.(ترمذی کتاب البر والصله حدیث نمبر : ۱۹۰۰ ) یہ توقعات تھیں آنحضرت علﷺ کی اپنے ایمان لانے والوں پر اور آج کل ہر گھر ان باتوں کی آماجگاہ بنا ہوتا ہے.اچھے گھروں میں کم طعنہ زنی ہے.برے گھروں میں بہت زیادہ ہے.غیروں میں بہت ہی شدت سے پائی جاتی ہے لیکن احمدی گھروں میں بھی موجود ہے.کون کہہ سکتا ہے کہ آج احمدی گھر طعنہ زنی سے پاک ہے.چھوٹی چھوٹی باتوں کے نتیجہ میں طعنہ زنی کی جاتی ہے جس سے سارا معاشرہ تلخ ہوجاتا ہے.جب آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ بات بظا ہر چھوٹی ہے لیکن اگر سمندر میں بھی ڈالی جاتی تو اس پر غالب آجاتی.یہ بات محض ایک بلاغت کا اظہار نہیں ہے ، امر واقعہ یہ ہے کہ معاشرہ کے بھی سمندر ہوا کرتے ہیں اور معاشروں کے سمندر کا رنگ بدلنے میں سب سے بڑا کام طعنہ کرتا ہے.معاشرہ کے سمندر کا مزاج کڑوا کرنے میں سب سے زیادہ ذمہ دار طعنہ ہوا کرتا ہے.بعض قسم کے جو طعنے عام ہمارے گھروں میں رواج پکڑ جاتے ہیں ان میں سے بعضوں کو قد چھوٹے کا طعنہ، بیماری کا طعنہ، کوئی ذات پات کا طعنہ، یہ طعنہ کہ اپنے گھر سے تم لے کے کیا آئی تھی ؟ یا یہ طعنہ کہ اپنے گھر میں تو میں نغم و ناز میں پلا کرتی تھی، میں کس اجاڑ گھر میں آگئی یہاں تو یہ بھی نہیں ملتا اور وہ بھی نہیں ملتا.یہ وہ طعنے ہیں جو روز مرہ کی زندگی میں داخل ہوئے ہوئے ہیں.الا ماشاء اللہ اکثر گھروں میں کسی نہ کسی شکل میں یہ طعنے پائے جاتے ہیں.جہیز کا طعنہ یا بری کا طعنہ یا خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض ابتلاء ہیں ان کے اوپر بھی طعنہ زنی سے باز نہ آنا.مثلاً اولا د کا طعنہ دیا جاتا ہے عورتوں کو کہ اس کے تو اولاد پیدا نہیں ہوتی اور زندگی تلخ کر دی جاتی ہے یہاں تک کہ بعض دفعہ تو بیچاری عورتوں کی زندگی بیٹا نہ ہونے کے اوپر طعنوں کے ذریعہ تلخ کر دی جاتی ہے.چھلنی کر دیا جاتا ہے ان کو.بعض مرد ایسے ہوتے ہیں حیرت ہوتی ہے ان کے اوپر ان کو کس طرح پتہ چلا کہ قصور بیوی کا ہے، ہوسکتا ہے مرد کا قصور ہو کہ بیٹی پیدا ہوتی ہے اور بیٹا پیدا نہیں ہوتا.لیکن مجھے علم ہے چونکہ ساری دنیا کی جماعت مجھ سے تو کچھ بھی نہیں چھپاتی.سارے حالات جو گھروں میں گزرتے ہیں وہ مجھے لکھتے رہتے ہیں بے تکلف.جس طرح اپنے ماں باپ کو انسان بات لکھتا ہے اس طرح ساری دنیا میں جو کچھ گزر رہی ہے اس کی تصویر میرے سامنے روز بنتی
خطبات طاہر جلد۵ 106 خطبہ جمعہ ۳۱ / جنوری ۱۹۸۶ء چلی جاتی ہے.تو بعض عورتیں مردوں کے متعلق لکھتی ہیں کہ ہمارے بیٹی پیدا ہوئی ہے، تین بیٹیاں ہو گئیں ، چار ہو گئیں اور وہ ہماری جان کھا رہا ہے کہتا ہے کہ میں اور شادی کروں گا ، میں تمہیں طلاق دے دوں گا، میں یہ کروں گا میں وہ کروں گا تمہارے بیٹا کیوں نہیں پیدا ہوتا.ایک صورت میں تو ایک عورت نے یہاں تک لکھا کہ مجھے شدید مارا، بیٹی پیدا ہونے کے بعد کہ منحوس عورت تم ایک اور بیٹی لے آئی ہو اگر یہ درست ہے، اللہ بہتر جانتا ہے کہ درست ہے یا غلط لیکن اگر یہ واقعہ کہیں ہوا ہے تو بہت ہی قابل مذمت بہت ہی قابل شرم انسان، انسان کو تو یہ طعنہ دے مگر یہ تو خدا کو طعنہ دینے والی بات ہے کیونکہ یہ چیزیں تو اپنے اختیار میں نہیں ہیں لیکن بعض بچیاں ایسی ہیں جن کی اولاد نہیں ہورہی اور اس کے نتیجہ میں مسلسل ان کی زندگی عذاب میں مبتلا کی گئی ہے، وہ اپنے خطوں میں صرف یہ نہیں لکھتیں کہ ہمیں بچے کی خواہش ہے.کہتی ہیں ہماری ساس، ہمارےسسر، ہمارے گھر کے ماحول ، ہمارے رشتہ دار اس طرح ہم سے سلوک کرتے ہیں جس طرح ہم اچھوت ہیں ، جس طرح ایک ناجائز زندگی بسر کر رہے ہیں اس گھر میں ، ہمارا حق ہی کوئی نہیں وہاں کیونکہ ہمارے بچہ نہیں پیدا ہوتا اور خاوند نرم ہونے کے باوجود مجبور ہوتا چلا جارہا ہے دن بدن اس کے بھی اعصاب ٹوٹ رہے ہیں.یوں لگتا ہے کہ جس طرح دونوں جرم کر رہے ہیں ، ان کی زندگی جرم بن گئی ہے.حالانکہ اولا د فی ذاتہ اس کی خواہش خواہ کتنی بھی ہو کوئی ایسی چیز نہیں کہ اولاد برائے اولا د طلب کی جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے اس موضوع پر متعدد مرتبہ جماعت کو نصیحتیں فرمائی ہیں.دو تین نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ اولاد کو فی الحقیقت انسانی زندگی میں کیا اہمیت حاصل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: کثر لوگ مجھے گھبرا کر خط لکھتے رہتے ہیں کہ آپ دعا کریں کہ میری اولاد ہو.اولا د کا فتنہ ایسا سخت ہے کہ بعض نادان اولاد کے مرجانے کے سبب دہر یہ ہو جاتے ہیں.بعض جگہ اولا د انسان کو ایسی عزیز ہوتی ہے کہ وہ اس کے واسطہ خدا تعالیٰ کا شریک بن جاتی ہے.بعض لوگ اولاد کے سبب سے دہر یہ ملحد اور بے ایمان بن جاتے ہیں ، بعضوں کے بیٹے عیسائی بن جاتے ہیں تو وہ بھی اولاد کی خاطر عیسائی ہو جاتے ہیں.بعض بچے چھوٹی عمر میں مرجاتے ہیں تو وہ
خطبات طاہر جلد۵ 107 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء ماں باپ کے واسطے سلب ایمان کا موجب ہو جاتے ہیں.اولا دتو بہت بڑا ابتلاء ہے ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ: ۴۱۵) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.دین کی جڑ اس میں ہے کہ ہرامر میں خدا تعالیٰ کو مقدم رکھو دراصل ہم تو خدا کے ہیں اور خدا ہمارا ہے اور کسی سے ہم کو کیا غرض ہے.ایک نہیں کروڑ اولا د مر جائے پر خدا راضی رہے تو کوئی غم کی بات نہیں ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ: ۴۱۹) اس کو ایمان کہتے ہیں ایک طرف وہ حال ہے کہ اولاد کی محبت میں لوگ دہر یہ ہورہے ہیں یا خدا نے بیٹا دیا اور واپس لے لیا تو ساری زندگی اس شک میں مبتلا رہے کہ خدا تھا بھی کہ نہیں تھایا اگر تھا تو ظالم خدا تو نہیں تھا جس نے ایک بیٹا دیا اور یہ بھی نہیں دیکھا کہ ہمارا حال کیا ہوگا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کے مقابل پر یہ تعلق رکھتے ہیں اپنے رب سے فرماتے ہیں کہ ایک نہیں کروڑ اولا د مر جائے پر خدا راضی رہے تو کوئی غم کی بات نہیں.اگر اولا د زندہ بھی رہے تو بغیر خدا کے فضل کے وہ بھی موجب ابتلاء ہو جاتی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.پس وہ کام کرو جو اولاد کے لئے بہترین نمونہ اور سبق ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے اول خود اپنی اصلاح کرو.اگر تم اعلیٰ درجہ کے متقی اور پرہیز گار بن جاؤ گے اور خدا تعالیٰ کو راضی کر لو گے تو یقین کیا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے ساتھ بھی اچھا معاملہ کرے گا.قرآن شریف میں خضر اور موسیٰ علیہما السلام کا قصہ درج ہے کہ ان دونوں نے مل کر ایک دیوار کو بنا دیا جو یتیم بچوں کی تھی وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا (الکھف:۸۳) ان کا والد صالح تھا، یہ ذکر نہیں کیا کہ وہ آپ کیسے تھے پس اس مقصد کو حاصل کرو.اولاد کے لئے ہمیشہ اس کی نیکی کی خواہش کرو.اگر وہ دین اور دیانت سے باہر چلے جاویں پھر کیا؟ اس قسم کے امور اکثر لوگوں کو پیش آجاتے ہیں.بد دیانتی خواہ تجارت کے ذریعہ ہو یا رشوت کے ذریعہ یا زراعت
خطبات طاہر جلد۵ 108 کے ذریعہ جس میں حقوق شرکاء کو تلف کیا جاتا ہے.ہے.66 خطبہ جمعہ ۳۱ / جنوری ۱۹۸۶ء اس کی وجہ یہی میری سمجھ میں آتی ہے کہ اولاد کے لئے خواہش ہوتی یہ نکتہ کی بات ہے کہ بہت ساری بد دیانتیاں انسان اپنی زندگی میں اس لئے کر رہا ہوتا ہے کہ اولاد کی غلط محبت ہوتی ہے اور اس کو پتہ ہی نہیں کہ میں کیسی محبت کر رہا ہوں.یہ جو نکتہ ہے ایک بہت ہی باریک ذہن اس نکتہ کو اخذ کر سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذہنی افتاد کا آپ کی طرز فکر کی لطافت کا پتہ چلتا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ روز مرہ کی زندگی میں جو رشوتیں لی جارہی ہیں، ہر قسم کی حرام خوری ہو رہی ہے، لوگوں کے مال ضبط کئے جارہے ہیں اس کی کنہ میں ایک اولاد کی محبت کا ہے.لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ہم اولاد کے لئے اتنی چیزیں چھوڑ جائیں پیچھے، اتنا کچھ اکٹھا کر لیں.تو جس اولاد کی تمنا خود گناہ میں مبتلا کر رہی ہے اس اولاد کے ہونے یا نہ ہونے سے پھر کیا فرق پڑتا ہے؟ یہی فرق پڑ سکتا ہے کہ اولاد نہ ہوتی تو اس کے لئے بہتر تھا.یہ ہے وہ باریک نتیجہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نکال رہے ہیں فرماتے ہیں.کیونکہ بعض اوقات صاحب جائیدا دلوگوں کو یہ کہتے سنا ہے کہ کوئی اولاد ہو جاوے جو اس جائیداد کی وارث ہوتا کہ غیروں کے ہاتھ میں نہ چلی جاوے مگر وہ نہیں جانتے کہ جب مر گئے تو شر کاء کون اور اولادکون سب ہی تیرے لئے تو غیر ہیں اولاد کے لئے اگر خواہش ہو تو اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین 66 ہووے.( ملفوظات جلد ۴ صفحه : ۴۴۴) پس اگر اولاد کے لئے خواہش اس غرض سے ہو کہ وہ خادم دین ہووے تو اولا د نہ ہونے کے نتیجہ میں انسان خود بھی خادم دین نہ رہے بلکہ کہیں کا نہ رہے یہ کون سی عقل کی بات ہے.اولاد کی تمنا کا مقصد حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام یہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ نیک اولاد ہو اور اگر نیک اولاد نہیں تو نہ ہو، یہ نتیجہ نکل رہا ہے اور یہ پہلوا کثر اولاد کی تمنا کرنے والوں کے ذہن میں نہیں ہوتا.جس کی وجہ سے اولاد کے ابتلاء میں مبتلا ہوکر اپنے ایمان کو بھی کھو دیتے ہیں.پس یہ طعنہ کہ اولاد نہیں ہے اس ضمن میں چونکہ ایک بڑی اہم بات تھی کہنے والی اس لئے
خطبات طاہر جلد۵ 109 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء تھوڑا سا گزیز کیا ہے میں نے اصل مضمون سے، کہ میں یہ رہا تھا کہ اولاد کا طعنہ بھی ہمارے معاشرہ میں روز مرہ کا طعنہ ہے.لڑکا نہ ہونا یا کوئی بچہ ہی نہ ہونا یہ انسان کے بس کی بات نہیں ہے.اس لئے ایسے طعنوں سے بھی گریز کرنا چاہئے اور بے وجہ ایسے لوگوں کی زندگیاں کیوں برباد کرتے ہیں جن کے بس میں کوئی چیز ہی نہیں ہے.چونکہ اب دیر ہو رہی ہے.میرا خیال تھا کہ گھنٹہ سے کم خطبہ ہونا چاہئے اس سے تھوڑا سا وقت تجاوز ہی کر گیا ہے اس لئے انشاء اللہ باقی مضمون آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.بہت ہی تکلیف دہ باتیں ہیں میرے لئے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے روز مرہ میرے علم میں یہ باتیں آتی ہیں اور جب میں ذکر کرتا ہوں خطبات میں بعض ایسی باتوں کا تو بعض لوگ یہ غلط رد عمل دکھاتے ہیں یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ حضرت صاحب کو خط ہی نہ لکھا کرو ایسے.یہاں لندن میں کچھ دن ہوئے تقریب ہوئی تھی عورتوں میں خاتون نے اپنی طرف سے مجھ سے محبت کا اظہار کیا.بڑی بے وقوف ہو تم عورتو ! چھوٹی چھوٹی باتیں لکھ دیتی ہو ، وہاں تکلیف پہنچاتی ہو.یہ تکلیف میرا حق ہے اور آپ کا فرض ہے کہ مجھے یہ تکلیف پہنچائیں کیونکہ میں جوابدہ ہوں جماعت کی حالت سے بے خبر رہ کر جو سکون ہے وہ مجھے نہیں چاہئے.مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ جماعت پر کیا گزر رہی ہے اور کس حالت میں سے گزررہی ہے اور کس طرف اس کا رخ ہے اس لئے ہر گز اس بات سے نہ رکیں چاہے کوئی آپ کو کیسی نصیحت کرے کہ ان باتوں کو مجھ سے چھپانے لگ جائیں.مجھے پتہ نہیں چلے گا تو میں کیسے اصلاح کی کوشش کروں گا.مجھے پتہ نہیں چلے گا تو میں ان فرائض کو کیسے ادا کرنے کی کوشش کروں گا جو خدا تعالیٰ نے میرے ذمہ ڈالے ہیں اس لئے بے تکلف ہو کر یہ تکلیف پہنچائیں، بے تکلف ہو کر کیا! آپ کے لئے لازم ہے فرض ہے آپ کے اوپر کہ جو بھی ایسی باتیں معاشرہ میں ملتی ہیں جو قرآن اور سنت کے خلاف ہیں جو ہمارے معاشرہ کو دکھ پہنچا رہی ہیں وہ ساری باتیں ،وہ سارے دکھ میرے دل میں منتقل کیا کریں.جتنا زیادہ یہ دکھ پہنچے گا اتنا ہی زیادہ مجھے دعا کی طرف بھی توجہ پیدا ہوگی، اتنی ہی زیادہ مجھے اصلاح کی طرف توجہ ہوگی اس لئے وہ بات جب ان کی سنی تو یہ مصرعہ میرے ذہن میں آگیا.
خطبات طاہر جلد۵ 110 خطبہ جمعہ ۳۱ /جنوری ۱۹۸۶ء تو مشق ناز کرخون دو عالم میری گردن پر بالکل پرواہ نہ کرو اس بات کی کہ مجھے کیا ہوتا ہے کیونکہ مجھے کچھ ہوگا تو جماعت کو فائدہ پہنچے گا.میں ہی تسکین میں بیٹھا رہوں گا تو تمہاری بیماری کا کیا بنے گا.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے اسپرینیں دے دے کر بعض دردوں کو دبا دیا جاتا ہے اور بیماری اپنی جگہ پنپتی رہتی ہے.ایسے سکون کی نہ آپ کو ضرورت ہے نہ مجھے ضرورت ہے.پس دعا کریں کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ ہمیں اصلاح معاشرہ کی تو فیق بخشے کیونکہ اصلاح معاشرہ کے بغیر حقیقت میں اسلام کا غلبہ دنیا پر نہیں ہو سکتا.بہت سی وجو ہات ہیں اس کی ، اس کی تفصیل میں میں اس وقت نہیں جا سکتا وقت پہلے ہی زیادہ ہو چکا ہے لیکن میں آپکو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ کو یہ محبت ہے کہ اسلام دنیا میں غالب آجائے ، اگر دلی تمنا ہے، اگر آپ اس آرزو میں جیتے ہیں کہ کسی طرح ساری دنیا پر دین محمد مصطفی عه غالب آجائے تو یا درکھیں اور اس بات کو کبھی نہ بھلائیں کہ اصلاح معاشرہ کے بغیر یہ بات نہیں ہوگی.آپ کو لازما معاشرہ کی اصلاح کرنی پڑے گی تب آپ حقدار بنیں گے کہ ساری دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچائیں.
خطبات طاہر جلد۵ 111 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۸۶ء گھر کی جنت میں حائل بعض معاشرتی برائیوں کا ذکر اور قوام کی پر معارف تفسیر (خطبہ جمعہ فرموده ۷ فروری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: قوموں کی تعمیر کا آغاز گھروں سے ہوتا ہے.اگر ہم گھروں کی تعمیر کی طرف پوری توجہ دیں اور وہ معاشرتی خرابیاں جو گھروں سے پیدا ہو کر قوم میں پھیلتی ہیں ان کی وقت پر بیخ کنی کی کوشش کریں تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کی مجموعی تصویر بہت ہی حسین ہو جائے گی.تمام دنیا میں سب سے زیادہ با اخلاق جماعت ، جماعت احمد یہ ہونی چاہئے.محض اس لئے نہیں کہ ہر جماعت کو ہر قوم کو اپنے متعلق بڑی بڑی باتیں کرنے کی عادت ہوا کرتی ہے بلکہ اگر ہم وہی جماعت ہیں یا جو ہمارا دعویٰ ہے تو اس کے سوا کوئی منطقی نتیجہ نکلتا ہی نہیں کہ جماعت احمدیہ کو دنیا کی سب سے زیادہ با اخلاق جماعت ہونا چاہئے کیونکہ ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ ہم حقیقی معنوں میں دنیا کے سب سے با اخلاق انسان کے ساتھ وابستہ ہیں.ساری کائنات میں کبھی ایسا حسین خلق کسی نے نہیں دیکھا تھا جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رونما ہوا اور آپ کے حقیقی غلام ہم ہیں آج.یہ ہے ہمارا دعویٰ ، اس کے بعد اس کے کوئی سوا منطقی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا.خواہ کوئی دنیا کی کسی بھی تہذیب سے وابستہ ہو، کسی قوم سے وابستہ ہو کسی مذہب سے وابستہ ہو، خواہ اس تہذیب کا نام کسی فلسفے کی بناء پر پڑا ہوا ہو یا کسی اقتصادی پالیسی کی بنا کے اوپر یا مادیت کی بناء پر یا روحانیت کی بناء پر.جس طرح
خطبات طاہر جلد۵ 112 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء چاہیں اس کو کروٹ بدل کر دیکھ لیں کسی بھی حیثیت سے کوئی قوم دنیا میں ابھری ہو یا موجود ہو.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں اگر وہ نہیں تو لازماً اس کے اخلاق میں کئی بنیادی نقائص نظر آئیں گے.یہ ہو ہی نہیں سکتا، یہ ایک ناممکن بات ہے، زمین و آسمان الٹ پلٹ سکتے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں بدل سکتی کہ اخلاق کا ملہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھے جاسکتے ہیں اور وہ قومیں جو آپ سے وابستگی سے محروم ہیں خواہ کسی ازم کے ساتھ ان کا تعلق ہو، کسی مذہب سے تعلق ہو ان کے اندر لا ز ما بنیادی اخلاقی نقائص نظر آئیں گے.پس ہم نے جب یہ دعویٰ کیا کہ ہم آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام اور حقیقی غلام ہیں تو اگر ہم اس دعویٰ میں سچے ہیں تو ساری دنیا کے اخلاق درست کرنے کا دعویٰ کیا ہے، ساری دنیا کے لئے نمونہ بننے کا دعویٰ کیا ہے اور اس پہلو سے بہت ہی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے.کسی کو یہ توفیق نہیں ملنی چاہئے کہ کسی احمدی کے خلق پر انگلی اٹھا کر دکھا سکے کہ اس میں یہ بھی ہے اور یہ بدی ہے.کسی غیر احمدی کے تصور میں بھی نہیں یہ بات آنی چاہئے خواہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ہو کہ مجھے حق پہنچتا ہے کہ میں کسی احمدی کے متعلق جائز شکایت کروں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ بعض اوقات بہت ہی تکلیف ہوتی ہے یہ معلوم کر کے کہ بعض احمدیوں نے بعض غیر احمدیوں سے بدخلقی کی بعض غیر مذاہب والوں سے بدخلقی کی، ان کے جائز حقوق دبائے ، ان کے ساتھ زیادتیاں کیں، ناانصافیاں کیں.بعض دفعہ ان کا تعلق نہیں بھی ہوتا جماعت احمدیہ سے تب بھی مجھے خط لکھتے ہیں اور جب میں تحقیق کرواتا ہوں تو یہ معلوم کر کے بہت ہی تکلیف پہنچتی ہے کہ شکایت کنندہ درست تھا.لین دین کے معاملات، دیگر معاملات کے علاوہ عام حسن خلق کے معاملے میں بھی بعض کمزوری دکھا جاتے ہیں.جلسوں کے موقع پر اجتماعات کے موقع پر تو یہ تمام باتیں جو بظاہر عوامی باتیں ہیں جن کا باہر کی دنیا سے تعلق ہے.اگر آپ غور کریں تو ان خرابیوں کا آغا ز گھروں میں ہوتا ہے.ماؤں کی کوکھ میں ہی جہنم بھی بن رہی ہوتی ہے اور جنت بھی بن رہی ہوتی ہے.گھروں ہی میں جرائم بھی پل رہے ہوتے ہیں اور جرائم کے انسداد کے لئے اصلاحی حالات بھی پیدا ہور ہے ہوتے ہیں.گھروں سے اچھل کر جب چیزیں باہر گلیوں میں جاتی ہیں تو شہروں کو بد بھی بنا دیتی ہیں اور شہروں کو اچھا بھی کر دیتی ہیں.اس لئے گھروں کی طرف بہت ہی ضرورت ہے کہ ہم توجہ دیں اور بڑی تفصیل کے ساتھ
خطبات طاہر جلد۵ 113 خطبہ جمعہ سے فروری ۱۹۸۶ء گھروں کے حالات درست کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے کہیں باہر جانے کی ضرورت نہیں.ہر مرد ذمہ دار ہے سب سے پہلے کہ وہ اپنے اخلاق درست کرے.ہر عورت ذمہ دار ہے کہ وہ اپنے اخلاق درست کرے.پہلی نسل کے جو لوگ ہیں ، بڑی نسل کے لوگ ذمہ داری وہاں سے شروع ہوتی ہے.پھر آگے اپنے بچوں کو اپنی بہوؤں کو ، اپنے دامادوں کو ، اپنے بیٹوں کو اور بیٹیوں کو ان کو بھی ویسے ہی اخلاق سکھانے کی کوشش کی جائے.یہ مضمون جوروزمرہ کے معاملات کا گھروں میں کیا ہوتا ہے؟ کیسے اخلاق بگڑتے ہیں؟ کیسے اخلاق بنتے ہیں؟ بہت وسیع مضمون ہے.میں نے آج کے خطاب کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات چنے ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جیسا کہ باریک نظر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوئی اس دور میں ویسی کسی اور کونصیب نہیں ہوئی اور آپ کسی ایک طرف کی بات نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ آپ کو خدا نے حکم و عدل بنایا تھا.آپ کا مزاج نرم تو تھا مگر ایسا نہیں کہ کسی ایک لڑکی کے رونے دھونے پر ساسوں کے خلاف ہی سخت فتوی دے دیں یا کسی ایک ماں کے رونے دھونے پر بہوؤں کے خلاف فتوے دے دیں.خالصہ قرآن اور سنت پر مبنی مزاج تھا جس کے نتیجے میں آپ کے مزاج سے ہر بات درست صادر ہوتی تھی.اس لئے بہت ہی اہم ہے کہ ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے اقتباسات پر آپکے ارشادات پر غور کریں اور ان کی روشنی میں اپنے گھروں کے حالات کو درست کرنے کی کوشش کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”والدہ کا حق بہت بڑا ہے اور اس کی اطاعت فرض.مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ اس کی ناراضگی کی تہہ میں کوئی اور بات تو نہیں.“ یہ جواب ایک ایسے استفسار کے نتیجے میں آپ نے دیا جس میں یہ پوچھا گیا تھا کہ میری والدہ میری بیوی سے ناراض ہے اور مجھے طلاق کے واسطے حکم دیتی ہے.اب یہ واقعات روز مرہ ہمارے معاشرے میں ملتے ہیں.ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئیے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو والدہ کا بہت بڑا حق ہے اس کی اطاعت فرض ہے مگر پہلے یہ دریافت کرنا چاہئے کہ آیا اس ناراضگی کی تہ میں کوئی اور بات تو نہیں ہے جو خدا
خطبات طاہر جلد۵ 114 خطبہ جمعہ سے فروری ۱۹۸۶ء کے حکم کے بموجب والدہ کی ایسی اطاعت سے بری الذمہ کرتی ہو مثلاً اگر والدہ اس سے کسی دینی وجہ سے ناراض ہو یا نماز روزہ کی پابندی کی وجہ سے ایسا کرتی ہو تو اس - کا حکم مانے اور اطاعت کرنے کی ضرورت نہیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ: ۴۹۷) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شریعت کے معاملات کے سوا جن میں خدا کے فرائض کے مقابل پر بظاہر والدہ کے حقوق آتے ہوں وہاں لازماًا اللہ کے حقوق ادا کرنے کی تعلیم دی لیکن اس کو چھوڑ کر باقی معاملات میں مرد پر یہ ذمہ داری ڈالی کہ اگر والدہ یہ کہے کہ بیوی کو طلاق دے دو اور اس کی وجہ بیوی کا نیک ہونا نہ ہو، عبادت گزار ہونا نہ ہو، پردہ دار ہونا نہ ہو، یہ وہ امور ہیں جن کا شریعت سے تعلق ہے تو پھر اس بحث میں پڑے بغیر کہ اس میں کیا نقص ہے بیٹے کو ماں کی بات ماننی چاہئے.بظاہر یہ بات اس زمانہ کے لحاظ سے بالکل دنیا کے رجحان سے برعکس بات ہے.آجکل کے زمانہ کی جو رفتار ہے اور آجکل کے جو حالات ہیں سوچ اور فکر کی جو نسج ہے یہ تو بالکل اس کے منافی بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب یہ فرماتے ہیں تو آگے اس کی حکمت بھی بیان فرماتے ہیں کہ ہر دفعہ یہ خیال کر لینا کہ ماں کا قصور ہے اور بہو ہمیشہ درست ہے یہ درست بات نہیں ہے.ماں کو بیٹے سے بہت محبت ہوتی ہے اور بیٹے کی بھلائی چاہتی ہے اور نہیں پسند کرتی الا ماشاء اللہ کے میرے بیٹے کا گھر اُجڑے.اس لئے جب ماں کی طرف سے کوئی شکایت پیدا ہوتی ہے تو اس کو اہمیت دینی چاہئے.فرماتے ہیں کہ بسا اوقات بعض عورتیں بہت چالا کی کے ساتھ اپنے مظالم کا شکوہ کرتی ہیں اس رنگ میں کہ دوسرا متاثر ہو جاتا ہے.لیکن لوگ یہ نہیں سمجھ سکتے کہ ان کے اندر بعض دفعہ شرارت بھی پائی جاتی ہے.ماں سے الگ کرنا بیٹے کو ، بہنوں سے الگ کرنا، اپنے دوسرے رحمی رشتوں سے الگ کرنا یہ بنیادی طور پر قرآنی ا تعلیم کے خلاف ہے اس لئے ہر وہ بات جس میں رحم پر حملہ ہوتا ہو اور قطع رحمی اس کا نتیجہ نکلتی ہو وہ نا جائز اور خلاف شریعت ہے.یہ بنیادی اصول ہے جس کو سمجھنا چاہئے.اس لئے بہوؤں کے حقوق اپنی جگہ موجود ہیں.اس سے کوئی انکار نہیں لیکن ماں کے ساتھ بیٹے کا رشتہ قطع کرنے کے لئے اگر کوئی بہو کوشش کرتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فیصلہ کے مطابق جو قرآن وسنت پر مبنی ہے ماں کو یہ بھی حق ہے کہ بیٹے کو کہے کہ اس کو طلاق دے دو.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد۵ 115 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء اصل میں بعض عورتیں محض شرارت کی وجہ سے ساس کو دکھ دیتی ہیں گالیاں دیتی ہیں ، ستاتی ہیں، بات بات میں اس کو تنگ کرتی ہیں.والدہ کی ناراضگی بیٹے کی بیوی پر بے وجہ نہیں ہوا کرتی.سب سے زیادہ خواہش مند بیٹے کے گھر کی آبادی کی والدہ ہوتی ہے اور اس معاملہ میں ماں کو خاص دلچسپی ہوتی ہے.بڑے شوق سے ہزاروں روپیہ خرچ کر کے خدا خدا کر کے بیٹے کی شادی کرتی ہے تو بھلا اس سے ایسی امید وہم میں بھی آسکتی ہے کہ وہ بے جا طور سے اپنے بیٹے کی بیوی سے لڑے جھگڑے اور خانہ بر بادی چاہے؟ ایسے لڑائی جھگڑوں میں عموماً دیکھا گیا ہے کہ والدہ ہی حق بجانب ہوتی ہے.“ پھر فرماتے ہیں: د بعض عورتیں اوپر سے نرم معلوم ہوتی ہیں مگر اندر ہی اندر وہ بڑی بڑی نیش زنیاں کرتی ہیں.پس سبب کو دور کرنا چاہئے اور جو وجہ ناراضگی ہے اس کو ہٹادینا چاہئے اور والدہ کو خوش کرنا چاہئے.دیکھو شیر اور بھیڑئیے اور اور درندے بھی تو ہلائے سے ہل جاتے ہیں اور بے ضرر ہو جاتے ہیں.دشمن سے ہی دوستی ہو جاتی ہے.اگر صلح کی جاوے تو پھر کیا وجہ ہے کہ والدہ کو ناراض رکھا جاوے.‘“ ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ ۴۹۷.۴۹۸) اس دوسرے اقتباس کو میں نے اس لئے اختیار کیا ہے کہ یہ مطلب نہیں ہے کہ جہاں والدہ اور بیوی کا اختلاف ہو وہاں فوراً بیوی کو طلاق دے کر الگ کر دیا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اصلاح کی تعلیم دی ہے.فرمایا ہے کہ جہاں تک ممکن ہواصلاح کی کوشش کی جائے.دیکھو درندے بھی رام ہو جایا کرتے ہیں اس لئے بدخوئی کو دور کرو.لڑنے کے اصل سبب کو معلوم کرو اور حکمت کے ساتھ اس سبب کو دور کرنے کی کوشش کرو اور جب انسان حکمت سے سبب کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ بھی ممکن ہے کہ بعض باتوں میں والدہ ہی قصور وار ٹھہرے.اس صورت میں بھی والدہ کا حق یہ ہے کہ والدہ کے معاملے میں نرمی سے اصلاح کی کوشش کی جائے اور بنیادی وجہ جس سے والدہ ناراض ہوتی ہے حتی المقدور اسے دور کرنے کی کوشش کی جائے.
خطبات طاہر جلد۵ 116 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء قوام کی جو تعریف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اس کی رو سے سب سے اہم اولین ذمہ داری گھر کے ماحول کو خوشگوار رکھنے کی مرد پر ہے اور مرد کے اوپر یہ ذمہ داری اس طرح پیدا نہیں ہوتی کہ وہ دوسروں کو زبردستی ٹھیک کرے.یہ تفسیر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کہ مرد پر یہ ذمہ داری اس طرح عائد ہوتی ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک کرے.یہ پہلی دفعہ یہ نئی تفسیر میری نظر میں گزری ورنہ جتنے بھی لوگ قوام والی آیت کو پیش کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ جیسے مرد کو عورت پر جابر بنا دیا گیا ہے، وہ زبر دستی جو چاہئے اس کے ساتھ کرے قوام ہے اس کے اوپر حاکم ہے ، اس کے اوپر سختی کرنے والا اور جبر کرنے والا ہے ، یہ تصور پیش کیا جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حقانی تفسیر سنئے بالکل اس کے برعکس تفسیر ہے، آپ فرماتے ہیں: عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت میں لوگوں نے غلطیاں کھائی ہیں اور جادہ مستقیم سے بہک گئے ہیں.قرآن شریف میں لکھا ب عَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء:۲۰) مگر اب اس کے خلاف عمل ہو رہا ہے.دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں.“ قوام والی بات بعد میں آئے گی لیکن لمبا اقتباس ہے اس لئے پہلے یہ دو باتیں بڑی اہم ہیں.توازن رکھنا فرماتے ہیں: وو دو قسم کے لوگ اس کے متعلق بھی پائے جاتے ہیں ایک گروہ تو ایسا ہے کہ انہوں نے عورتوں کو بالکل خلیج الرسن کر دیا ہے کہ دین کا کوئی اثر ہی ان پر نہیں ہوتا اور وہ کھلے طور پر اسلام کے خلاف کرتی ہیں اور کوئی ان سے نہیں پوچھتا.اور بعض ایسے ہیں کہ انہوں نے خلیج الرسن تو نہیں کیا مگر اس کے بالمقابل ایسی سختی اور پابندی کی ہے کہ ان میں اور حیوانوں میں کوئی فرق نہیں کیا جاسکتا.اور کنیز کوں اور بہائم سے بھی بدتران سے سلوک ہوتا ہے.مارتے ہیں تو ایسے بے درد ہو کر کہ کچھ پتہ ہی نہیں کہ آگے کوئی جاندار ہستی ہے یا نہیں.غرض بہت ہی بری طرح سلوک کرتے ہیں.یہاں تک کہ پنجاب میں مثل مشہور ہے کہ عورت کو پاؤں کی جوتی کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں کہ ایک
خطبات طاہر جلد۵ 117 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء ا تار دی دوسری بہن لی.یہ بڑی خطرناک بات ہے اور اسلام کے شعائر کے خلاف ہے.رسول اللہ ﷺہ ساری باتوں کے کامل نمونہ ہیں.آپ کی زندگی میں دیکھو کہ آپ تعورتوں کے ساتھ کیسی معاشرت کرتے تھے.میرے نزدیک و شخص بزدل اور نا مرد ہے جو عورت کے مقابلے میں کھڑا ہوتا ہے.“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد دوم صفحه: ۲۲۸) قوام کی یہ تفسیر ہے.اس کے بعد آگے مزید معلوم ہو گی کہ قوام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ عورت کے ساتھ مقابل پر کھڑا ہو اور بڑی بڑی شیخیاں مارے اور پھر اس کو دبائے اور گالی گلوچ کرے.یہ بالکل غلط بات ہے، ہرگز قوام سے اس کا تعلق نہیں.قوام کا مطلب ہے عدل پیدا کرنے والا ، توازن پیدا کرنے والا.ہر انتہاء سے پاک ہو خود اور اپنے گھر کو بھی مختلف انتہاؤں سے بچا کر رکھے.ایک طرف عورت کو ایسی چھٹی نہ دے کہ وہ بے حیائی شروع کر دے، آوارگی شروع کر دے اور اپنی اولاد کو بھی ساتھ برباد کرے اور ان کو بھی لے ڈوبے.اور دوسری طرف ایسی سختی نہ کرے کہ جس کے نتیجے میں ہر روز گھر جہنم کا نمونہ بنارہے.عملاً دونوں ہی جہنمیں ہیں اور دونوں جنموں کا مردذ مہ دار ہوگا.یہ دوسری جہنم جو ہے وہ دنیا کی جہنم ہے، اس دنیا میں جہنم پیدا کرتا ہے انسان اور جب بالکل کھلی چھٹی دے دیتا ہے تو آخرت میں اپنے لئے اور اپنی اولاد کے لئے جہنم پیدا کر رہا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ایک شخص کا ذکر ہے کہ ایک دفعہ عیسائی ہوا.تو عورت بھی اس کے ساتھ عیسائی ہوگئی.شراب وغیرہ اول تو شروع کی پھر پردہ بھی چھوڑ دیا.غیر لوگوں سے بھی ملنے لگی.خاوند نے پھر اسلام کی طرف رجوع کیا تو اس نے بیوی کو کہا کہ تم بھی میرے ساتھ مسلمان ہو اس نے کہا اب میرا مسلمان ہونا مشکل ہے.یہ عادتیں جو شراب وغیرہ اور آزادی کی پڑ گئی ہیں نہیں چھوٹ سکتیں.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ :۱۵۸) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” مرد اپنے گھر کا امام ہوتا ہے پس اگر وہی بداثر قائم کرتا ہے تو اس
خطبات طاہر جلد۵ 118 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء قدر بداثر پڑنے کی امید ہے.مرد کو چاہئے کہ اپنے قومی برمحل اور حلال موقع پر استعمال کرے.“ یہ قوام کی مزید تفسیر ہے یہ غور سے سننے والی.پہلے خود متوازن ہو، پہلے خود معتدل ہو، اپنے جذبات کو برمحل استعمال کرنا سیکھے.فرمایا: فرماتے ہیں: تو اس قدر بد اثر پڑنے کی امید ہے کہ مرد کو چاہئے کہ اپنے قومی کو برمحل اور حلال موقع پر استعمال کرے مثلاً ایک قوت غضبی ہے جس پر وہ اعتدال سے زیادہ ہو تو جنون کا پیش خیمہ ہو جاتی ہے.جنون میں اور اس میں بہت تھوڑا فرق ہے.جو آدمی شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے.“ (ملفوظات جلد سوم صفحہ : ۱۵۷) بہت ہی اہم معاملہ ہے جو شخص شدید الغضب ہوتا ہے اس سے حکمت کا چشمہ چھین لیا جاتا ہے.بلکہ اگر کوئی مخالف ہو تو اس سے بھی مغلوب الغضب ہو کر گفتگو نہ کرے.“ تبلیغ کے دوران بھی یہ بہت ہی اہم گر ہے.جب کوئی گالی گلوچ شروع کر دے،ایسی غلط زبان استعمال کرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یا اور رنگ میں جماعت کے خلاف تو خاموش ہو کر اس مجلس سے اٹھ آنا بہتر ہے کیونکہ مغلوب الغضب حالت میں انسان اس بات کا بھی اہل نہیں رہتا کہ کسی کو سچا پیغام پہنچا سکے.” مرد کی ان تمام باتوں اور اوصاف کو عورت دیکھتی ہے.وہ دیکھتی ہے کہ میرے خاوند میں فلاں فلاں اوصاف تقوی کے ہیں جیسے سخاوت حلم ،صبر اور جیسے اسے پر کھنے کا موقع ملتا ہے وہ کسی دوسرے کو نہیں مل سکتا اس لئے عورت کو سارق بھی کہا ہے کیونکہ یہ اندر ہی اندرا خلاق کی چوری کرتی رہتی ہے حتی کہ آخر کار ایک وقت پورا اخلاق حاصل کر لیتی ہے.( ملفوظات جلد سوم صفحہ: ۱۵۷) پھر فرمایا: 3-
خطبات طاہر جلد۵ 119 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۸۶ء کوئی زمانہ ایسا نہیں ہے جس میں اسلامی عورتیں صالحات میں نہ ہوں.گو تھوڑی ہوں مگر ہوں گی ضرور.جس نے عورت کوصالحہ بنانا ہووہ خود صالح بنے.ہماری جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اپنی پر ہیز گاری کے لئے عورتوں کو پرہیز گاری سکھا دیں ورنہ وہ گناہگار ہوں گی اور جبکہ اس کی عورت سامنے ہو کر بتلا سکتی ہے کہ تجھ میں فلاں فلاں عیب ہیں تو پھر عورت خدا سے کیا ڈرے گی.جب تقویٰ نہ ہو تو ایسی حالت میں اولاد بھی پلید ہو جاتی ہے.اولاد کا طیب ہونا تو طیبات کا سلسلہ چاہتا ہے اگر یہ نہ ہوتو پھر اولا دخراب ہوتی ہے اس لئے چاہئے کہ سب تو بہ کریں اور عورتوں کو اپنا نمونہ دکھلاویں.عورت خاوند کی جاسوس ہوتی ہے.وہ اپنی بدیاں اس سے پوشیدہ نہیں رکھ سکتا.نیز عورتیں چھپی ہوئی دانا ہوتی ہیں.یہ نہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ احمق ہیں.وہ اندر ہی اندر تمہارے سب اثروں کو حاصل کرتی ہیں.جب خاوند سیدھے رستے پر ہوگا تو وہ اس سے بھی ڈرے گی اور خدا سے بھی.ایسا نمونہ دکھانا چاہیئے کہ عورت کا یہ مذہب ہو جاوے کہ میرے خاوند جیسا اور کوئی نیک دنیا میں نہیں ہے اور وہ یہ اعتقاد کرے کہ یہ باریک سے باریک نیکی کی رعایت کرنے والا ہے.جب عورت کا یہ اعتقاد ہو جاوے گا تو ممکن نہیں کہ وہ خود نیکی سے باہر رہے.سب انبیاء اولیاء کی عورتیں نیک تھیں اس لئے کہ ان پر نیک اثر پڑتے تھے.جب مرد بد کار اور فاسق ہوتے ہیں تو ان کی عورتیں بھی ویسی ہی ہوتی ہیں.ایک چور کی بیوی کو یہ خیال کب ہوسکتا ہے کہ میں تہجد پڑھوں.خاوند تو چوری کرنے جاتا ہے تو کیا وہ پیچھے تہجد پڑھتی ہے؟ الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاء ( النساء: ۳۵) اسی لئے کہا ہے کہ عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں جس حد تک خاوند صلاحیت اور تقویٰ بڑھاوے گا کچھ حصہ اس سے عورتیں ضرور لیں گی.ویسے ہی اگر وہ بدمعاش ہوگا تو بدمعاشی سے وہ حصہ لیں گی.“ ( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۶۳ ۱۶۴)
خطبات طاہر جلد۵ 120 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء یہ ہے جہاں جا کر بات پوری کھل جاتی ہے کہ قوام کا کیا معنی ہے.قوام کا یہ معنی نہیں ہے کہ مرد خود جو چاہے کرتا پھرے ڈنڈے مار کر عورتوں کو سیدھا کرے.قوام کا یہ معنی ہے کہ مرد اپنی اصلاح کرے کیونکہ جو کچھ وہ کرتا ہے، عورتیں خاوندوں سے متاثر ہوتی ہیں.اور چونکہ وہ اثر قبول کرنے والی ہیں اس لئے خاوند کے لئے ضروری ہے کہ اپنی اصلاح کرے اور اس اصلاح کو تاثیر کے طور پر اپنی بیویوں میں رائج کرے.بعض دفعہ بعض مرد بد خلقی دکھاتے ہیں یا عورت سے متنفر ہوتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ کہتے ہیں کہ اس کی فلاں بات ہمیں پسند نہیں، اس کے اندر فلاں عادت جو ہے وہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.حالانکہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر کسی کی بدی کے نتیجے میں اسے چھوڑ نا ہو تو خدا کا تو بندے سے پھر تعلق قائم ہوہی نہیں سکتا.کوئی انسان نہیں ہے جو ہر کمزوری سے پاک ہو.اور خود وہ کمزوریوں سے پاک ہیں؟ کیا ان میں ایسی عادتیں نہیں ہیں جو عورتوں کو ناپسند ہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا: ایک مومن اپنی مومن بیوی کے ساتھ بغض و نفرت نہ رکھے.اگر اس سے اس کا کوئی خلق ناپسندیدہ ہے تو کوئی دوسرا اچھا اور پسندیدہ بھی تو ہے.اس کے ساتھ کیوں نہیں تعلق جوڑتا.(مسلم کتاب الرضاع حدیث نمبر: ۲۶۷۶) اس لئے یہ بہت ہی اہم ایک بہت ہی گہرا حکمت کا راز ہے معاشرے کی اصلاح کے لئے کہ ایک دوسرے کی بدیوں پر نظر ڈال کر متنفر ہونے کی بجائے اچھے پہلوؤں پر نظر رکھ کر محبت بڑھانے کی کوشش کیا کرو اور جس طرح کوئی انسان بھی ایسا نہیں جو بدی سے پاک ہو اسی طرح کوئی انسان بھی ایسا آپ کو نہیں ملے گا جوحسن سے خالی ہو.بدصورت سے بدصورت انسان میں بھی اور بدخلق سے بدخلق انسان میں بھی حسن کے کچھ پہلو ضرور موجود ہوتے ہیں.اس لئے یہ وہ راز ہے جس کے نتیجے میں باہمی معاشرہ محبت کے بندھنوں میں باندھا جاتا ہے ورنہ نقائص کو دیکھنے لگیں تو کسی دو شخص کے درمیان ہرگز محبت کا تعلق قائم نہیں رہ سکتا.عورتوں کے متعلق گزشتہ مرتبہ میں نے کہا تھا کہ مرد اس بناء پر کہ قرآن کریم نے بعض شرائط کے ساتھ عورتوں کو بدنی سزادینے کی اجازت عطا فرمائی ہے، اس کا غلط استعمال کرتے ہوئے مارنے
خطبات طاہر جلد۵ 121 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء رض میں نہ صرف یہ کہ جلدی کرتے ہیں بلکہ حد اعتدال سے تجاوز کر جاتے ہیں اور ان شرائط پر نظر نہیں کرتے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا.ہمیں بتاتا ہے کہ کسی ایک موقع پر بھی آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ عورت پر ہاتھ نہیں اٹھایا بلکہ جیسا کہ میں نے روایت بیان کی تھی حضرت ابو بکر حضرت عائشہ کو سزا دینے لگے تھے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو بکر کی سزا سے ان کی بیٹی کو بچایا.ایک اور بڑی دلچسپ روایت اس معاملے میں ملتی ہے.حضرت عمر کا اپنا ایک مزاج تھا.حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے مزاج میں بڑا فرق ہے.حضرت ابو بکر کا مزاج بے انتہا نرم تھا اس کے باوجود حضرت عائشہ پر ہاتھ اٹھانا بتاتا ہے کہ کس قدر ان کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق تھا.اور دوسروں کے متعلق ان کو خیال نہیں آیا کرتا تھا کہ ان پر سختی کی جائے یعنی حضرت ابو بکڑ سے کوئی ایسی حدیث ثابت نہیں کہ یہ مطالبہ کیا ہو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ فلاں پرختی ہونی چاہیئے اور فلاں پر سختی ہونی چاہئے.مگر حضرت عمر کا مزاج مختلف تھا اس لئے وہ معاشرے کی خرابیاں دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتے تھے اور جلد تریختی پر آمادہ بھی ہو جاتے تھے اور مشورے بھی یہی دیا کرتے تھے، ایک موقعے پر ابوداؤد، ابن ماجه، دارمی ، مشکوۃ وغیرہ کے حوالے سے روایت ہے: حضرت ایاز بن عبداللہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لا تضربوا اماء الله (ابوداؤد کتاب النکاح حدیث نمبر ۱۸۳۴) کہ دیکھو اللہ کی لونڈیوں کو نہ مارا کرو.کیسا پیارا طریق ہے نصیحت کا حیرت انگیز.فرمایا دیکھو اللہ کی لونڈیاں ہیں یہ اماءاللہ، ان پر ہاتھ نہ اٹھایا کرو.خدا کا خیال کیا کرو کہ خدا کی پیار کی نظر پڑتی ہے عورتوں پر، اس کی بندیاں ہیں.اس سے زیادہ حسین طریق مردوں کو عورتوں پر ہاتھ اٹھانے سے روکنے کا اور سوچاہی نہیں جاسکتا.اور اس کا اتنا گہرا اثر پڑا، اتنا گہرا اثر پڑا معاشرے پر کہ آپ بظاہر یہ چھوٹی سی بات سن کر یہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ جس جس تک یہ بات پہنچی ہے وہاں اس بات نے کیا کیا اثر دکھائے.اس کے چند روز بعد حضرت عمر آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ تعور تیں اپنے شوہروں پر غالب آگئیں ہیں.یہ چھوٹی سی بات سے جسے آپ بظاہر چھوٹی سمجھ رہے ہیں کہ دیکھو اللہ کی بندیوں پر ہاتھ نہ اٹھایا کرو تمام مدینہ میں مسلمانوں کا حال اس طرح بدلا اس طرح رنگ ان کا الٹا کہ حضرت عمر کو یہ شکایت کرنی پڑی کہ یارسول اللہ
خطبات طاہر جلد۵ 122 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء عورتیں شوہروں پر غالب آگئی ہیں ، ان کی جرات اور دلیری حد سے بڑھ گئی ہے.اس پر آپ نے بیویوں کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے کی اجازت دے دی مگر مارنے کا پھر بھی نہیں فرمایا.اس کے کچھ عرصہ کے بعد پھر بہت سی عورتیں ازواج مطہرات کے پاس آنے لگیں اور اپنے خاوندوں کی شکایتیں کیں.یہ سن کر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا: ”محمد کی بیویوں کے پاس بہت سی عورتیں اپنے خاوندوں کی شکایت لے کر آئی ہیں تم میں سے وہ شخص اچھا نہیں ہے جو اپنی بیویوں کے ساتھ بدسلوکی کرے ( ابو داؤد کتاب النکاح حدیث نمبر: ۲۱۴۵).اس رنگ میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاشرے کی تربیت فرمایا کرتے تھے اور تادیب کیا کرتے تھے.وہی رنگ ہیں جو آج بھی ہمارے کام آئیں گے کیونکہ یہ وہ رنگ ہیں جو پرانے نہیں ہو سکتے.نہ سورج کی تپش ان کو دھندلا سکتی ہے.نہ بارش ان رنگوں کو میلا کر سکتی ہے ہمیشہ کے لئے دائم رہنے والے رنگ ہیں اور دنیا کے ہر موسم میں یہ رنگ خوب چمکتے ہیں اور خوب حسن دکھاتے ہیں.اس لئے آج بھی یہی علاج ہے معاشرے کا.وہ توازن پیدا کریں جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیدا فرمانا چاہتے تھے اور اپنے گھر میں کر کے دکھایا.جہاں تک معاشرے کی اصلاح کا تعلق ہے اس کے باوجود بعض اوقات طلاق کی مجبوری ہوتی ہے اور ایسے مواقع آ جاتے ہیں کہ طلاق دینی پڑتی ہے یا طلاق عورت مانگتی ہے اس کو لینی پڑتی ہے لیکن دونوں معاملات میں جلدی کرنا نہایت نا مناسب ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے خلاف وعید بھی فرمائی.اس عورت کے مطلق جو طلاق کے معاملے میں جلدی کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے ( ترمذی کتاب الطلاق حدیث نمبر: ۱۱۰۷) یعنی ایسی عورت جو جائز وجہ کے بغیر حقیقی وجہ کے بغیر خاوند سے طلاق لینے میں جلدی کرے.فرمایا اس پر جنت کی خوشبو حرام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی طلاق میں جلدی کے بہت مخالف تھے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ کا اس زمانہ میں جس رنگ میں آپ نے احیاء کیا ہے، جس طرح دوبارہ جاری فرمایا ہے یہ تو خوش نصیبی ہے ہماری کہ وہ باتیں جو تاریخ میں پڑھا کرتے تھے اس دور میں آپ نے زندہ کر کے دکھا ئیں اور آج ہمیں اپنے معاشرے میں ان کو اسی طرح جاری کرنا ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۵ 123 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلاق کو جائز ہونے کے باوجو دسب سے زیادہ نا پسند فرماتے تھے.آپ فرماتے تھے کہ اللہ کے نزدیک سب حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے ( ابوداؤد کتاب الطلاق حدیث نمبر: ۱۸۶۲) سب سے زیادہ نا پسندیدہ چیز طلاق ہے تمام حلال چیزوں میں ایک موقع پر ایک شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ ! میری بیوی نشوز کرتی ہے اور یہ کرتی ہے اور وہ کرتی ہے.آپ نے فرمایا کہ پھر اس کو طلاق دے دو.اس نے پھر عرض کی یارسول اللہ میرے بچے بھی ہیں.آپ نے فرمایا: دیکھو ٹہر بچے بھی ہیں.پھر تمہیں اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.کوشش کرو جس حد تک بھی ممکن ہے اصلاح احوال ہو جائے.(ابوداؤد کتاب الطہارہ حدیث نمبر (۱۴۲) اس سے پتہ چلتا ہے کہ طلاق جب بچے ہو جائیں تو اور بھی زیادہ نا پسندیدہ ہو جاتی ہے.جن حالات کو سن کر آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فیصلہ فرمایا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم براہ راست اس عورت سے واقف تھے ورنہ یک طرفہ بات سن کر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فیصلے نہیں دیا کرتے تھے.یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ ایک طرف کی بات سنتے جبکہ حالات کا خود علم نہ ہوتا اور آپ فیصلہ صادر فرما دیتے.اس لئے وہ معروف عورت تھی ، اس کے اندر کوئی کبھی ہوگی ، کوئی ایسی بات ہوگی جس کے نتیجے میں آپ نے خاوند کو حق پر سمجھا لیکن جب بچوں کا خیال آیا تو پھر فیصلے کو بدل دیا اور فرمایا کہ دیکھو! نصیحت کرو اور حتی المقدور اصلاح کی کوشش کرو.اس لئے بچوں کی حالت میں تو طلاق بہت ہی زیادہ احتیاط کا تقاضا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی طلاق میں جلدی کو سخت نا پسند فرماتے تھے.ایک موقع پر ایک شخص کا معاملہ پیش کیا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو یہ لکھا ہے کہ اگر وہ بدیدن خط اس کی طرف روانہ نہ ہوگی تو اسے طلاق دے دی جاوے گی.یعنی اس زمانہ میں ایسے ایسے بھی بوالعجب لوگ ہوا کرتے تھے کہ یہ خط لکھا بیوی کو کہ میرا خط دیکھتے ہی اگر میری طرف روانہ نہ ہوگئی تو طلاق ہوگئی.سنا گیا ہے کہ اس پر حضرت اقدس علیہ السلام نے فرمایا جو شخص اس قدر جلدی قطع تعلق کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے تو ہم کیسے امید کر سکتے ہیں کہ ہمارے ساتھ اس کا پکا تعلق ہے.(ملفوظات جلد سوم صفحہ : ۳۴۵) کیسی حکمت کی بات ہے، کیسی گہری بات ہے.جو شخص اپنی بیوی سے قطع تعلقی کرنے میں جلدی کرتا ہے یا بیوی خاوند سے ایسے لوگوں کا مزاج ان کو نیکوں سے قطع تعلق کرنے میں بھی جلدی
خطبات طاہر جلد۵ 124 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء کرواتا ہے اور اچھی باتوں سے بھی اسی طرح محروم کر دیتا ہے.اس لئے اس پر نگاہ رکھنی چاہئے اور تعلق کو جہاں تک ممکن ہو نبھانا چاہئے.چھوٹی چھوٹی ادنی اردنی باتوں پر تعلقات کو منقطع نہیں کرنا چاہئے.دراصل ایسی باتیں جو ہمارے معاشرے کو خراب کر رہی ہیں ان کی بنیادی وجہ تکبر ہے.تکبر ایک ایسی چیز ہے جو اتنے بھیس بدل کر انسان میں آتا ہے کہ بسا اوقات انسان اس کو پہچان نہیں سکتا.سب سے زیادہ خطرناک تکبر نیکی کا تکبر ہوتا ہے اور جو کچھ اپنے پاس ہے اس کے نتیجے میں انسان جس کے پاس وہ چیز نہیں ہے اس کے خلاف بڑے بول بولنے لگتا ہے، اس کو طعنے دینے لگ جاتا ہے.اور جو باتیں انسان کے پاس نہیں ہوں ان میں کسی قدرا نکسار دکھاتا ہے.حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ انکسار کہتے ہی اس چیز کو ہیں کہ کچھ ہو اور پھر انسان انکسار دکھائے.اس کی بہت سی مثالیں دی جاسکتی ہیں.معاشرے میں تو بالعموم قانون کی طرح یہ بات کارفرما ہے کہ بہت سے فساد دنیا میں نیکی کے تکبر کے نتیجے پر ہوتے ہیں.مثلاً ایک شخص اگر نمازی ہے تو وہ غیر نمازی کو اتنی بری آنکھ سے دیکھتا ہے کہ گویا اس سے بڑا کوئی نقص ہی دنیا میں نہیں ہو سکتا اور ہوسکتا ہے وہ خود لین دین میں اتنا کمزور ہو کہ وہ لوگوں کے مال بھی کھا رہا ہو، حرام خوری کر رہا ہو ، رشوتیں بھی لے رہا ہو لیکن نماز چونکہ پڑھ رہا ہے اس لئے وہ سمجھتا ہے کہ نماز سے بڑھ کر نیکی اور کوئی نہیں اور جو غیر نمازی ہے وہ تو ہے ہی جہنمی.چنانچہ بے نمازوں کے ساتھ وہ نہایت ہی درشتی سے پیش آتا ہے ان کو بری نظر سے دیکھتا ہے، ان کو اپنے سے ادنیٰ سمجھتا ہے.اور ایسے خاوند اپنی بیویوں سے زیادتی کر رہے ہوتے ہیں بظاہر نیکی کے معاملے میں اور ایسے باپ اپنے بچوں سے سختیاں کر رہے ہوتے ہیں بظاہر نیکی کے نام پر.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان کے دوسرے مزاج ہمیں بتاتے ہیں کہ یہ محض نیکی کا تکبر تھا.نیکی سے محبت نہیں تھی کیونکہ اگر نیکی سے محبت ہوتی تو باقی باتوں میں بھی وہ نیک ہوتے.اپنا نقص جہاں ہے وہاں انسان نرمی دکھا دیتا ہے.ایک آدمی لین دین کے معاملے میں بالکل صاف ہے وہ بڑے زور زور سے حملے کرتا ہے دوسرے انسان پر لیکن دوسری بدیاں اس میں موجود ہیں ان سے وہ چشم پوشی کر لیتا ہے.غرضیکہ ہر جگہ نیکی کا تکبر دنیا میں بہت سے فسادات پھیلانے کا موجب بن جاتا ہے.بڑے بڑے پادریوں کے واقعات آپ کو تاریخ میں ملیں گے ان میں بعض نیکیاں پائی جاتی تھیں جن کو بڑے ظالمانہ طور پر انہوں نے اپنے معاشرے میں نافذ کرنے
خطبات طاہر جلد۵ 125 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء کی کوشش کی ہے اور جو کمزوریاں پائی جاتی تھیں ان سے وہ آنکھیں بند کر لیتے تھے.حقیقت یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ انکسار ہے ہی یہی کہ کوئی چیز موجود ہو اور پھر انسان اپنے آپ کو Humble بنائے یعنی دوسروں کے سامنے نرمی سے پیش کرے اپنے آپ کو ، عاجزی کے ساتھ دوسروں کے ساتھ معاملہ کرے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ساری نیکیاں اپنے حد کمال تک پہنچی ہوئی تھیں.اگر نیکی کے معاملہ میں نعوذ بالله من ذلك تكبر جائز ہوتا تو پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سارے بنی نوع انسان سے قطع تعلق ہو جانا چاہئے تھا اور ہر بات میں ہر ایک پر سختی کرنی چاہئے تھی اور آپ نے کسی سے کسی ایک معاملہ میں بھی سختی نہیں فرمائی.کون سی نیکی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنے پورے کمال اور عروج تک موجود نہیں تھی لیکن ان نیکیوں کو نافذ کرنے میں آپ نے انتہائی انکساری سے کام لیا ، نرمی سے کام لیا، محبت اور پیار سے کام لیا.اس لئے جب آپ طعنے دیتے ہیں دوسرے کو بدیوں کے تو ، بسا اوقات اگر آپ دل پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ اپنے نفس کے تکبر کی بناء پر وہ طعنہ دیا جارہا ہے.اس لئے نیکیاں نافذ کرنے کے لئے انکساری ضروری ہے.جو نمازی ہے وہ محبت اور انکسار کے ساتھ نماز کو رائج کرنے کی کوشش کرے، دوسرے کو اپنے سے ادنی اور ذلیل نہ سمجھے.جوراست گو ہے وہ سچائی کو انکساری کے ساتھ رائج کرنے کی کوشش کرے.جو معاملات کا صاف ہے وہ معاملات کے معاملے میں انصاف اور تقویٰ کی تعلیم انکساری کے ساتھ دے اور طعن آمیزی کا طریق اختیار نہ کرے.گھروں میں بھی بہت سی لڑائیاں اسی بناء پر ہوتی ہیں.ایک خاوند میں ایک خوبی ہے جو اس کی بیوی میں نہیں ہے وہ اس خوبی کے اوپر اپنا سر اتنا اونچا کر لیتا ہے کہ ادنی سی بھی کمزوری اس میں برداشت نہیں کر سکتا.اور جو برائیاں اس میں ہیں وہ اس کو نظر ہی نہیں آ رہی ہوتیں.اور ان معاملات میں پھر وہ نرمی کرنے پر بھی مجبور ہو جاتا ہے.برائیاں تو اس لئے راسخ ہو جاتی ہیں گھر میں وہ چونکہ خود برائیوں میں مبتلا ہے ان کو دور نہیں کر سکتا.نیکیاں اس لئے راسخ نہیں ہوتیں کہ نیکیاں راسخ کرنے کا طریق متکبرانہ ہوتا ہے اور اس سے رد عمل پیدا ہوتا ہے.میں نے کئی گھروں میں دیکھا ہے کہ جن کے بچے بالکل برعکس تصویر بنارہے ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 126 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء ایک باپ ہے جو سچ کے معاملے میں سختی کر رہا ہے بچے جھوٹے بن رہے ہیں.ایک باپ ہے جونمازوں کے معاملے میں سختی کر رہا ہے اور بچے بے نمازی ہورہے ہیں.ایک ماں ہے جو پردہ کے معاملے میں سختی کرتی ہے تو بیٹیاں بے پر د بن رہی ہوتی ہیں.یہ الٹ تصویر یں کیوں بن رہی ہوتی ہیں؟ جہاں بھی تصویریں برعکس بن رہی ہوں وہاں بنیادی نقص آپ کو یہی معلوم ہوگا کہ اس معاملے میں تکبر سے اور نخوت سے کام لیا گیا ہے اور نخوت اور تکبر رد عمل پیدا کرتے ہیں.اس لئے نیکیوں کو اگر نا جائز طریق پر نافذ کرنے کی کوشش کریں گے ، سوسائٹی میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے تو نیکیوں کی بجائے الٹ چیز پیدا ہوگی.اسی لئے قرآن کریم نے فرمایا: وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر :) کہ وہ حق بات ہی کی نصیحت نہیں کرتے بلکہ صبر کے ساتھ حق بات کی نصیحت کرتے ہیں اور صبر اور تکبر کا آپس میں کوئی جوڑ نہیں ہے.صبر تو اپنے دل پر دکھ لے کر پھر نیکی کو جاری کرنے کا نام ہے.اس لئے اصلاحی معاشرہ میں اس بات کو خوب اچھی طرح یا درکھیں کہ جن باتوں میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیکی عطا فرمائی ہے اور فضیلت بخشی ہے ان باتوں میں انکساری سے کام لیں.یہ ہے اسوه محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.اگر یہ اسوہ آپ اختیار کریں گے تو پھر انشاء اللہ آپ کی چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی گہرے اثرات پیدا ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: میں دو ہی مسئلے لے کر آیا ہوں.اول خدا کی توحید اختیار کرو دوسرے آپس میں محبت اور ہمدردی ظاہر کرو.وہ نمونہ دکھلاؤ کہ غیروں کے لئے کرامت ہو.یہی دلیل تھی جو صحابہ میں پیدا ہوئی تھی.كُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ (ال عمران :۱۰۴).یادرکھو! تالیف ایک اعجاز ہے.یا درکھو! جب تک تم میں ہر ایک ایسا نہ ہو کہ جو اپنے لئے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لئے پسند کرے وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.وہ مصیبت اور بلاء میں ہے اس کا انجام اچھا نہیں.میں ایک کتاب بنانے والا ہوں اس میں ایسے تمام لوگ الگ کر دیئے جائیں گے جو اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتے چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑائی ہوتی ہے مثلا ایک شخص کہتا ہے کہ کسی بازی گر نے دس
خطبات طاہر جلد۵ 127 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء گز کی چھلانگ ماری ہے دوسرا اس پر بحث کرنے بیٹھتا ہے اور اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے." یہ مثال تو بالکل چھوٹی سی ہے لیکن عملاً آپ گھروں کی لڑائیاں اور فسادات پر نظر کریں تو اسی طرح شروع ہوتے ہیں.ایک مجلس لگی ہوئی ہے خوش گپیوں کی ، بڑے اچھے ماحول میں چائے بھی پی جارہی ہے باتیں ہو رہی ہیں.اور انہی سے چھوٹی چھوٹی باتیں شروع ہو جاتی ہیں.ایک چھوٹی سی بات پر بحث اور وہاں بھی ہمیشہ تکبر ذمہ دار ہوتا ہے فساد کا.ایک آدمی نے ایک بات کہی دعویٰ کیا دوسرے نے اسے نیچا دکھانے کے لئے اس سے بڑی بات کہی یا اس کی بات کو جھٹلایا اور رد کیا اور اس سختی کے ساتھ رد کیا کہ اس نے اپنی تحقیر محسوس کی.خواہ بات کوئی بھی ہو، بازی گر کے تماشے کی بات ہو یا کوئی اور بڑی بات ہو یا علمی پہلو کی بحث ہو رہی ہو.ہمیشہ فسادات تکبر اور نخوت کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں.یا کہنے والا تکبر کے رنگ میں بات کر رہا ہوتا ہے اپنی بڑائی دکھانے کے لئے یا سننے والا احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتا ہے.تکبر کے نتیجے میں.فرمایا: اس طرح پر کینہ کا وجود پیدا ہو جاتا ہے.یادرکھو بغض کا جدا ہونا 66 مہدی کی علامت ہے کیا وہ علامت پوری نہ ہوگی.“ کیسا عجیب رنگ ہے نصیحت کا فرمایا تم میری طرف منسوب ہور ہے، میری سچائی کے دلائل دیتے ہو دنیا کو اور بغض کا دور ہونا تو مہدی کی علامتوں میں سے ایک ہے، کیا تم مجھے جھٹلاؤ گے، اپنے اعمال سے، کیا اس علامت کو پوری کر کے نہیں دکھاؤ گے.پھر فرمایا: جیسے طبی مسئلہ ہے کہ جب تک بعض امراض میں قلع قمع نہ کیا جاوے مرض دفع نہیں ہوتا.میرے وجود سے انشاء اللہ ایک صالح جماعت پیدا ہوگی.باہمی عداوت کا سبب کیا ہے؟ بخل ہے ، رعونت ہے، خود پسندی ہے اور جذبات ہیں.میں نے بتلایا ہے کہ میں عنقریب ایک کتاب لکھوں گا اور ایسے تمام لوگوں کو جماعت سے الگ کر دوں گا جو اپنے جذبات پر قابونہیں پاسکتے اور با ہم محبت اور اخوت سے نہیں رہ سکتے.جو ایسے ہیں وہ یادرکھیں کہ وہ چند روزہ مہمان ہیں جب تک کہ عمدہ نمونہ نہ دکھا ئیں.میں کسی کے سبب سے اپنے اوپر
خطبات طاہر جلد۵ 128 خطبہ جمعہ کے فروری ۱۹۸۶ء اعتراض نہیں لینا چاہتا.ایسا شخص جو میری جماعت میں ہوکر میرے منشاء کے موافق نہ ہو وہ خشک ٹہنی ہے اس کو اگر باغبان کاٹے نہیں تو کیا کرے.خشک ٹہنی دوسری سرسبز شاخ کے ساتھ رہ کر پانی تو چوستی ہے مگر وہ اس کو سر سبز نہیں کر سکتا بلکہ وہ شاخ دوسری کو بھی لے بیٹھتی ہے.پس ڈرو، میرے ساتھ وہ نہ رہے گا جو اپنا علاج نہ کرے گا.چونکہ یہ سب باتیں میں کتاب میں مفصل لکھوں گا اس لئے اب میں چند عربی فقرے کہہ کر فرض ادا کرتا ہوں.“ پھر فرمایا: ( ملفوظات جلد اول صفحه : ۳۳۶) پس یاد رکھو کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھائیوں کو دکھ دینا ٹھیک نہیں ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جمیع اخلاق کے متم ہیں اور اس وقت خدا تعالیٰ نے آخری نمونہ آپ کے اخلاق کا قائم کیا ہے.اس وقت بھی اگر وہی درندگی رہی تو پھر سخت افسوس اور کم نصیبی ہے.پر دوسروں پر عیب نہ لگاؤ کیونکہ بعض اوقات انسان دوسرے پر عیب لگا کر خود اس میں گرفتار ہو جاتا ہے.اگر وہ عیب اس میں نہیں لیکن اگر وہ عیب سچ مچ اس میں ہے تو اس کا معاملہ پھر خدا تعالیٰ سے ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ: ۵۷۳) یہ ایک بار یک فرق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیا ہے جس کو ملحوظ رکھنا چاہئے.آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ دوسروں پر غلط عیب نہ لگاؤ.آپ نے فرمایا ہے دوسروں پر عیب نہ لگاؤ.پھر آگے دو صورتیں ہیں اگر غلط عیب لگایا گیا ہے کوئی ایسی بدی بیان کی گئی ہے جو دوسرے میں نہیں ہے تو بسا اوقات اس کی سزا یہ مل سکتی ہے کہ وہ عیب تم میں ظاہر ہو جائے اور تم خود اس عیب میں مبتلا ہو جاؤ.اگر وہ عیب اس میں تھا تب بھی عیب نہ لگاؤ پھر اس کا معاملہ خدا کے ساتھ ہے خدا پر اس کے معاملے کو چھوڑو.فرماتے ہیں: بہت سے آدمیوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے بھائیوں پر معانا پاک الزام لگا دیتے ہیں.ان باتوں سے پر ہیز کرو.بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاؤ اور
خطبات طاہر جلد۵ 129 خطبہ جمعہ ے فروری ۱۹۸۶ء اپنے بھائیوں سے ہمددری ، ہمسایوں سے نیک سلوک کرو اور اپنے بھائیوں سے نیک معاشرت کرو اور سب سے پہلے شرک سے بچو کہ یہ تقویٰ کی ابتدائی اینٹ ہے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحہ ۵۷۳) پھر فرمایا: یہ بڑی رعونت کی جڑ اور بیماری ہے کہ دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے.“ بہت بڑی برائیاں ہمارے معاشرے کی اس طرح پھیلتی ہیں دوسرے کی تحقیر کرنا بلکہ اس کے عیب کو پکڑ کر پھر اس کو مشتہر کرنا اور مجالس میں اس کو مذاق کا نشانہ بنانا اس کے عیوب پر ہنسنا اور ٹھٹھے کرنا.فرمایا کہ یہ بڑی رعونت کی جڑ ہے کہ ( یعنی سارا تکبر اس گندی عادت سے پیدا ہوتا ہے ) دوسرے کی خطا پکڑ کر اشتہار دے دیا جاوے.ایسے امور سے نفس خراب ہو جاتا ہے اس سے پر ہیز کرنا چاہئے.غرض یہ سب امور تقویٰ میں داخل ہیں اور اندرونی بیرونی امور میں تقویٰ سے کام لینے والا فرشتوں میں داخل کیا جاتا ہے کیونکہ اس میں کوئی سرکشی باقی نہیں رہ جاتی.تقویٰ حاصل کرو کیونکہ تقویٰ کے بعد ہی خدا تعالیٰ کی برکتیں آتی ہیں.متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے خدا ان کا پردہ پوش ہو جاتا ہے.جب تک یہ طریق اختیار نہ کیا جاوے کچھ فائدہ نہیں.ایسے لوگ میری بیعت سے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے.فائدہ ہو بھی تو کس طرح جبکہ ایک ظلم تو اندر ہی رہا.اگر وہی جوش ، رعونت ، تکبر، عجب، ریا کاری، سریع الغضب ہونا باقی ہے.جو دوسروں میں بھی ہے تو پھر فرق ہی کیا ہے.پھر فرماتے ہیں: ( ملفوظات جلد سوم صفحه : ۵۷۳۵۷۲) میں دیکھتا ہوں کہ جماعت میں باہم نزا ئیں بھی ہو جاتی ہیں اور معمولی نزاع سے پھر ایک دوسرے کی عزت پر حملہ کرنے لگتا ہے اور اپنے بھائی
خطبات طاہر جلد۵ 130 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء سے لڑتا ہے ، یہ بہت ہی نامناسب حرکت ہے یہ نہیں ہونا چاہئے بلکہ ایک اگر اپنی غلطی کا اعتراف کرلے تو کیا حرج ہے.بعض آدمی ذراذراسی بات پر دوسرے کی ذلت کا اقرار کئے بغیر پیچھا نہیں چھوڑتے.ان باتوں سے پر ہیز کر نالازم ہے.خدا تعالیٰ کا نام ستار ہے.پھر یہ کیوں اپنے بھائی پر رحم نہیں کرتا اور عفو اور پردہ پوشی سے کام نہیں لیتا.چاہئے کہ اپنے بھائی کی پردہ پوشی کرے اور اس کی عزت اور آبرو پر حملہ نہ کرے.ایک چھوٹی سی کتاب میں لکھا دیکھا ہے کہ ایک بادشاہ قرآن لکھا کرتا تھا.ایک ملاں نے کہا کہ یہ آیت غلط لکھی ہے.بادشاہ نے اس وقت اس آیت پر دائرہ کھینچ دیا کہ اس کو کاٹ دیا جائے گا.جب وہ چلا گیا تو اس دائرہ کو کاٹ دیا.جب بادشاہ سے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو اس نے کہا کہ دراصل وہ غلطی پر تھا مگر میں نے اس وقت دائرہ کھینچ دیا کہ اسکی دل جوئی ہو جاوے.“ ( ملفوظات جلد سوم صفحه ۵۷۱-۵۷۲) یہ وہ باریک مثال ہے کسی نیکی کے ہوتے ہوئے اس میں انکسار کرنا، درست ہوتے ہوئے خوش خلقی سے پیش آنا اور انکساری سے پیش آنا.بچے ہوتے ہوئے جھوٹوں کی طرف تذلل اختیار کرنا.کہ ایک مولوی نے بادشاہ کی غلطی نکالی اپنی طرف سے اور غلطی نہیں تھی.وہ وقت ہے کہ جب انسان غلطی پر نہیں ہے کہ اس کو بتائے زور کے ساتھ ، شدت کے ساتھ اس کا مذاق اڑاتے ہوئے کہ تم خود غلط ہو.اس وقت اس نے ایک دائرہ کھینچ دیا اور جھوٹ بھی نہیں بولا.یہ نہیں کہا کہ تم ٹھیک کہتے ہو دائرہ کھینچ دیا جس سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ یہ اس لفظ کوکاٹ دے گا اور بادشاہ نے اس لئے دائرہ کھینچا کہ اس دائرہ کو میں کاٹ دوں گا اور اس طرح اس کی دل جوئی بھی ہوگئی.تو آخری تان حسن خلق پر ٹوٹتی ہے ہر بات کی اگر آپ کا خلق اعلیٰ درجے کا ہو، اگر آپ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ سیکھ لیں کہ جہاں نیکی میں درجہ کمال ہے و ہیں بجزر بھی ہے.اور بجز بتا بھی اس کو ہے جس کے پاس کچھ ہو جس کے پاس ہے کچھ نہیں اس بیچارے نے عجز کیا دکھانا ہے.ویسی ہی بات ہے جیسے کسی کے گھر میں دال پکی ہو اور وہ کہے کہ جی
خطبات طاہر جلد۵ 131 خطبہ جمعہ ۷/فروری ۱۹۸۶ء جو دال ہے وہ میں حاضر کرتا ہوں.اس کو بجز تو نہیں کہہ سکتے.وہ تو ہے ہی دال اس بیچارے کو اور کیا کہیں گے سوائے اس کے کہ وہ پاگل ہو بیچارہ بجز کے شوق میں اس کا نام بگاڑ دے جیسے کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک غریب آدمی کسی امیر دوست کے گھر گیا تو اس نے بہت ہی اعلیٰ کھانے پکائے ہر قسم کی خاطر مدارات کی اور جب دستر خوان پر بلایا تو نہایت ہی عمدہ قسم کے کھانوں کو سامنے پیش کرتے ہوئے کہا کہ معاف کردو بھائی جو دال دلیہ حاضر تھا میں نے پیش کر دیا.یہ تو انکسار ہوا بظاہر.عملا تو یہ انکسار نہیں ہے بلکہ دکھاوے کے رنگ میں یہ بات ہوتی ہے.مگر بہر حال اگر وہ اخلاص سے کی جائے تو انکسار ہے.اس کے بعد اس غریب دوست نے دعوت کی اور واقعہ دال تھی اس نے سوچا کہ اتنے اچھے کھانوں کا نام اس نے دال دلیہ رکھا تھا میں دال کو کیا کہوں؟ اس کو کیا نام دوں؟ تو اس نے دال پیش کرتے ہوئے کہا کہ حضور میرے پاس تو کچھ بھی نہیں جو گند بلا ہے وہ حاضر ہے.تو دال کا گند بلا ہی بنایا جاسکتا تھا.تو اگر تمہارے پاس کوئی نیکی نہیں ہے تو تکبر کیا کرو گے.گند کا نام اس سے بڑا گندا تو نہیں رکھ سکتے.انکسار کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ خوبی ہے اور اپنی خوبی سے چشم پوشی اسطرح کرنا کہ گویا وہ خوبی نہیں ہے.بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلیل دکھانا یا خدا کے پاک نبی بن کر یہ اس کے حضور یہ عرض کرنا کہ میں تو کرم خاکی ہوں بشر کی جائے نفرت ہوں ،انسانوں کی عار ہوں ، میرے میں کچھ بھی نہیں ہے.لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں تو نالائق بھی ہو کر پا گیا درگاہ میں بار (در مشین صفحه: ۱۲۶) اس کو انکسار کہتے ہیں، اس کو بجز کہتے ہیں.پس اپنی خوبیوں پر بجز کرو اور پھر دیکھو کہ معاشرہ کتنی تیزی کے ساتھ سدھرنے لگتا ہے.دوسرے کی بدیوں پر تکبر نہ کرو.اپنی کمزوریوں پر انکسار تو دکھا نا پڑتا ہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک انسانی کمزرویوں کا تعلق ہے جو شخص اپنی نیکیوں پر بھی انکسار دکھاتا ہے اپنی کمزوریوں پر تو اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ خدا کے حضور کٹ مرتا ہے.سوائے شرمندگی اور خدا کے حضور ندامت کے آنسو بہانے کے اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہتا.اور جو شخص اپنی
خطبات طاہر جلد۵ 132 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء نیکیوں پر تکبر کرتا ہے اس کو بدیوں پر شرمندگی کی توفیق بھی نہیں ملتی.ان دونوں باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے.ایک ایسا جوڑ ہے جس کو آپ الگ نہیں کر سکتے.یا درکھیں کہ جو شخص اپنی نیکی پر متکبر ہے.میں پھر اس بات کو دہرا دیتا ہوں کہ اس شخص کو اپنی کمز رویاں بسا اوقات نظر نہیں آتیں.اور یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہیں.اس کے نتیجے میں اس کو ندامت اور استغفار کی توفیق نہیں مل سکتی.ندامت اور استغفار کی توفیق اسی کو ملتی ہے جو اپنی نیکیوں کے اوپر بھی انکسار دکھاتا ہے اور پھر بدیاں اگر ہوں تو اس کا تو حال ہی کچھ نہیں رہتا بیچارے کا.وہ تو پانی ہو جاتا ہے اپنے خدا کے حضور.اس لئے یہ مسئلہ حل ہو گیا آج ہمارے سامنے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیوں استغفار کرتے تھے.اگر آپ ایک یا دو نیکیوں پر انکساری کریں تو آپ خدا کے حضور استغفار کے لئے ایک مزاج پیدا کر رہے ہوتے ہیں.اپنی کمزوریوں کے معاملے میں.وہ نبی جو نبی کامل تھا، جس کو ساری نیکیاں حاصل تھیں اور وہ بھی درجہ کمال تک حاصل تھیں.اس نے اس لئے سب سے زیادہ استغفار کیا کہ وہ نیکیوں کے معاملے میں متکبر نہیں تھا بلکہ منکسر المزاج تھا.اور اس نے انکسار کے اور استغفار کے پھر اور بہانے ڈھونڈے.اس نے یہ کہا کہ جو کچھ بھی مجھے حاصل ہے سراسر اول سے آخر تک خدا کا فضل ہے.اتنا خدا کا فضل ہے کہ میرے پاس اپنا کچھ بھی نہیں رہا، مجھے بھی وہ بخشے گا تو اپنے فضل سے بخشے گا.دیکھو! ایک انکسار نے پھر کتنے حسین رنگ دوسرے پیدا کر دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی یہی عرض کرتے ہیں اپنے رب کے حضور.یہ سراسر فضل واحساں ہے کہ میں آیا پسند ور نہ درگاہ میں تیری کچھ کم نہ تھے خدمت گزار در ثمین صفحه: ۱۲۵) پس معاشرے کی اصلاح شروع ہوگی تو آپ سے شروع ہوگی.گھروں کی اصلاح شروع ہوگی تو مرداول ذمہ دار ہیں.مردوں کو قوام بنا پڑے گا.لیکن قوام ان معنوں میں جن معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے بیان فرمایا ہے کہ دوسرے کی اصلاح اپنی اصلاح کے ذریعہ کریں.اور اپنی اصلاح کے ذریعہ دوسرے میں اس کی تاثیر جاری کریں.صحبت
خطبات طاہر جلد ۵ 133 خطبہ جمعہ۷ فروری ۱۹۸۶ء صالحین جس کو کہتے ہیں.یہ وہ تعریف ہے قوام کی.کہ مرد قوام ان معنوں میں ہے کہ وہ خود صالح بنتا ہے اور اس کی صالحیت میں تاثیر پیدا ہو جاتی ہے اور وہ تا بیر اس کے گھر میں اثر دکھاتی ہے.اور اس کے نتیجے میں اس کی عورت بھی خوبصورت بنی شروع ہو جاتی ہے اخلاقی لحاظ سے اور پھر اس کی اولاد میں بھی وہ تاثیر جلوہ گر ہو جاتی ہے.انکسار کا دامن پکڑ لیں کسی معاملے میں تکبر نہ کریں اگر آپ تکبر نہیں کریں گے تو آپ کے منہ سے دکھ کا کلمہ نہیں نکلے گا.خواہ وہ بحث ہورہی ہو یا کوئی معاملہ آپس میں کوئی انسانی معاملہ ہو.ہر معاملے میں تکبر اثر انداز ہورہا ہوتا ہے اس لئے انکسار سیکھیں اور انکسار سیکھیں حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیونکہ آپ کو درجہ کمال حاصل تھا.حقیقت یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انکسار کا اگر صحیح مفہوم انسان سمجھ جائے تو ساری دنیا کی دولتیں اس کو میسر آجاتی ہیں.بعض لوگ بیچارے انکسار کا مفہوم نہ سمجھنے کے نتیجے میں انکسار میں بھی تکبر کر رہے ہوتے ہیں.اتنا دھوکہ ہے اس مسئلے میں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ایک امیر آدمی اپنی عمارت کا رعب جتانے کے لئے کہتا ہے کہ جی میرا معمولی سا گھر ہے.پس چھوٹی سی کٹیا ہے آپ تشریف لائیں.میرے گھر میں اور انکسار نہیں ہورہا ہوتا.مراد یہ ہوتی ہے کہ دیکھو جی میری چھوٹی سی کٹیا دیکھو گے تم بڑے بڑے لوگوں کے محلوں سے بھی افضل ہے.اپنے کوکھانے جب وہ برا بھلا کہتا ہے بظاہر تو وہ بھی انکسار کی وجہ سے نہیں بلکہ دکھاوے کا ایک رنگ ہے، ایک برتری کے اظہار کا ایک طریق ہے.اس لئے عجیب بات ہے کہ ہمارے تو انکسار میں بھی تکبر پایا جاتا ہے.جب معاشرے بگڑتے ہیں تو یہ حال ہو جاتا ہے بیماریوں کا.اس لئے حکمت کے ساتھ آنکھیں کھول کر معاملہ کریں.بہت ہی بڑی ذمہ داری ہے جماعت احمدیہ کی کہ نہ صرف اخلاق پیدا کریں بلکہ اخلاق کو مکارم تک پہنچائیں اور مکارم سے آگے بڑھا کر مکارم اخلاق کو بھی زینت بخشیں.اگر ہم ایک با اخلاق جماعت بن جائیں جو بچے معنوں میں با اخلاق ہو جن اخلاق کی بنیاد تقویٰ پر ہوتی ہے ، حکمت پر ہوتی ہے.تو پھر دیکھیں کہ آپ کے دوسرے کام کتنے آسان ہو جاتے ہیں.سب سے پہلے تو اس کا اجر آپ کو اپنے گھروں میں ملنا شروع ہو جائے گا.وہ گھر جو جہنم
خطبات طاہر جلد۵ 134 خطبہ جمعہ سے فروری ۱۹۸۶ء بنے ہوئے ہیں ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لئے وہ جنت بن جائیں گے.بے وجہ لڑنا ، بے وجہ ایک دوسرے کو گالیاں دینا ، دکھ دینا ، طعنے دینا، مصیبت پڑی ہوئی ہے دونوں فریق کو ، نہ طعنے دینے والا خوش نہ وہ خوش جس کو طعنے دیئے جارہے ہیں.خواہ مخواہ گھر ٹوٹ رہے ہیں، جہنم کا نظارہ ہے.گھر تو تسکین کے لئے ہوتے ہیں.ان گھروں میں اپنے حسن خلق کے ذریعہ جنتیں پیدا کریں.اگر یہاں کی جنت نصیب نہ ہوئی تو وہاں کی جنت کے خواب بالکل جھوٹے نکلیں گے.یہ میں آپ کو بتادیتا ہوں.وہ معاشرے کی جنت جس کو ایک نبی دنیا میں پیدا کرنے کے لئے آتا ہے وہ پہلے اس دنیا میں اس کو نصیب ہوتی ہے پھر آخرت میں جا کر نصیب ہوتی ہے.جنتـان کا جو وعدہ ہے وہ انہی معنوں میں ہے کہ ہر مومن کے لئے دو قسم کی جنتیں ہیں.ایک اس دنیا میں وہ جنت جو وہ اپنے ہاتھ سے بنا رہا ہوتا ہے اور پھر ایک وہ جنت جو خدا اسے اس دنیا میں عطا کرتا ہے.بے انتہا بڑھا چڑھا کر اس کو اس پہلے کی جنت سے کوئی بھی نسبت باقی نہیں رہتی.اس لئے اپنے معاشرے کو حسین بنا ئیں.ایک پھل تو آپ کو اسی وقت ملنا شروع ہو جائے گا اور دوسرا پھل آپ کو یہ ملے گا کہ بڑی عظیم قوت آپ میں مقناطیسی رنگ کی پیدا ہوگی.حسین معاشرے کی طرف اردگرد کا معاشرہ کھیچتا چلا آتا ہے آپ کی تبلیغ میں عظمت پیدا ہو جائے گی ، آپ کی بات میں ایک رفعت پیدا ہوگی، بلندی پیدا ہوگی اور آپ اپنے ماحول کو کھینچ کر تیزی کے ساتھ احمدیت میں جذب کرنے لگیں گے اور اپنی ان ذمہ داریوں کو ادا کریں گے جو آج آپ کے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی نماز جمعہ کے بعد عصر کی نماز جمع ہوگی اور اس کے بعد انشاء اللہ دونماز جنازہ غائب پڑھائی جائیں گی.ایک تو فاطمہ بیگم حضرت سیٹھ محمد عبداللہ الہ دین کی صاحبزادی جو ہندوستان میں رہتی تھیں حیدر آباد دکن میں.وہاں سے تشریف لائیں ہوئی تھیں اپنے عزیزوں سے ملنے کے لئے لا ہور.وہاں ان کا انتقال ہو گیا.اپنے بزرگ باپ کی طرح بہت ہی نیک خو، نیک خلق ، عبادت گزار اور تقوی شعار خاتون تھیں.اور دوسرا نماز جنازہ عبدالرحیم صاحب ماریشس والے کہلاتے تھے ، یہاں انگلستان
خطبات طاہر جلد۵ 135 خطبہ جمعہ ۷ فروری ۱۹۸۶ء جماعت کے اولین کارکنوں میں سے ہیں.جب میں انگلستان میں کچھ عرصے کے لئے تعلیم کے لئے آیا تھا تو اس وقت عزیز دین صاحب اور یہ عبدالرحیم صاحب یہی روح رواں ہوا کرتے تھے یہاں جماعت میں اور کھانا پکانا راتوں کو اٹھ کر عیدوں وغیرہ کے موقع پر ، ان کاموں میں یہ دونوں بہت پیش پیش ہوا کرتے تھے.یہ ماریشس گئے تھے عزیزوں سے ملنے کے لئے.پہلے بھی دل کے مریض تھے لیکن وہاں بیماری عود کر آئی اور وہاں وفات ہوگئی اچانک.ان کا لندن کی جماعت پر خاص حق ہے اس لئے ان کی بھی نماز جنازہ غائب ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 137 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء دینی معاشرے کا قیام خوبصورت عائلی زندگی اور رحمی رشتوں کے خیال رکھنے سے ہوگا ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ فروری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَالَّذِيْنَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا أُولَيكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُوا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةً وَسَلَمَّا خَلِدِينَ فِيهَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِزَامَانَ (الفرقان: ۷۵-۷۸) اور پھر فرمایا: سورۃ الفرقان میں جہاں اللہ تعالیٰ رحمن خدا کے بندوں کی صفات بیان فرماتا ہے وہاں اسی تسلسل میں آخر پر رحمن خدا کے بندوں کی ازدواجی زندگی کے اعلیٰ تصورات کو ان الفاظ میں پیش فرمایا گیا ہے کہ ازدواجی زندگی کے متعلق ان کی تمناؤں کا منتہی کیا ہوتا ہے؟ کیا چاہتے ہیں اپنے رب سے فرمایا: والذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا هَبْ لَنا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَ ذَزِيتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وہ یہ عرض کرتے ہیں اپنے رب سے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے لئے ہماری بیویوں ہی
خطبات طاہر جلد۵ 138 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء میں سے اور ہماری اولا دہی سے آنکھوں کی ٹھنڈک نصیب فرماقَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا اور ہمیں متقیوں کا امام بنادے.فرمایا أُولَبِكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ یہی ہیں جن کو جنت میں بلند و بالا عمارتیں دومنزلہ عمارتیں عطا کی جائیں گی اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر سے کام لیا وَيُلَقَّوْنَ فِيهَا تَحِيَّةٌ وَ سَلمًا اور انھیں نیک تمناؤں اور سلامتی کے ساتھ خوش آمدید کہا جائیگا ، وہ ہمیشہ اسی حالت میں رہیں گے.حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّ مُقَامًا ان کی عارضی قیام گاہ بھی بہت خوبصورت حسین ہوگی اور ان کی دائمی قیام گاہ بھی بہت خوبصورت اور حسین ہوگی.تو ان سے کہہ دے مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّيٌّ لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ یعنی ان کے مخاطب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں فرمایا اے محمد ! تو ان سے کہہ دے یعنی عام بنی نوع انسان سے مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ اگر تمہاری دعا نہ ہو تو میرے رب کو تمہاری کچھ بھی پرواہ نہیں.فَقَدْ كَذَّبْتُمْ فَسَوْفَ يَكُونُ لِرَاما کیونکہ تم دعا کے نظام کو جھٹلا چکے ہو، خدا تعالیٰ سے لقاء کے مضمون کو جھٹلا چکے ہو.پس لازماً اسکے نتائج بلاؤں کی طرح تم سے وابستہ ہو جائیں گے.ایسی بلائیں جو ایک غلط فعل کے نتیجہ میں انسان کو لازم ہو جایا کرتی ہیں، چمٹ جایا کرتی ہی ہیں.ایسی چمٹنے والی مصیبتیں تمہیں آگھیریں گی.ان آیات میں جو عائلی زندگی کا اعلیٰ مقصد بیان فرمایا گیا ہے اس کا تعلق براہ راست تزوج کے مضمون سے ہے.کیوں ازدواجی زندگی خدا تعالیٰ نے قائم فرمائی اسکے مقاصد کیا ہیں؟ اور دراصل بنیادی مقصد جیسا کہ ہر معمولی فہم کا انسان بھی سمجھ سکتا ہے انسانی زندگی کا تحفظ ہے یا یوں کہنا چاہئے زندگی کا تحفظ اور بقائے نسل ہے تا کہ ہر چیز کی نسل باقی رہے، یہ بنیادی مقصد ہے.یہ بنیادی مقصد کن ذرائع سے حاصل ہو اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.یہ ایک لمبا مضمون ہے لیکن براہ راست یہاں اس م مضمون کا صرف اتنا تعلق ہے کہ انسان کے مقام تک پہنچتے پہنچتے انسانی زندگی اتنے بلند مقاصد حاصل کر لیتی ہے کہ اس کے نتیجے میں محض بقاء نسل مقصد ہی نہیں رہ جا تا بلکہ ایسی نسل کا بقاء مقصد بن جاتا ہے جو متقی ہو، جو نیک ہو، جو خداترس ہوا اور محض نسل کو جاری کرنا انسانی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتا.پس وہ مضمون جو بظاہر مشترک ہے ہر حیوانی زندگی میں اسے اس آیت نے ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا جہاں باقی حیوانی زندگی پیچھے رہ جاتی ہے اور انسان تمام حیوانی زندگی سے ممتاز ہو
خطبات طاہر جلد۵ 139 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء کے نظر آتا ہے کیونکہ بظاہر جنس کے نتیجے میں یا جنسی تعلقات کے نتیجہ میں صرف اولاد پیدا ہونی چاہئے اور اس سے زیادہ بظاہر کوئی مقصد نظر نہیں آتا.مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس مقام پر خدا اپنے رحمن بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے اور دیکھتا ہے اس مقام پر ان رحمن بندوں کے منہ سے یہ دعائیں نکلتی ہیں کہ اے خدا! ہمیں صرف اولا د نہیں چاہئے.ہمیں ایسی اولا دچاہئے جو متقی ہو.ہمیں صرف بیویاں نہیں چاہئیں ایسی بیویاں چاہئیں جو متقی ہوں اور ہماری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک کا سامان پیدا کرنے والی ہوں.آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان پیدا کرنے کی دعا کے بعد یہ فرماناقَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا یہ بتا تا ہے کہ مومن کی آنکھوں کی ٹھنڈک دراصل تقویٰ دیکھنے میں ہے، دین کو سدھرا ہوا دیکھنے میں - اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں.ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا (درمین صفحه : ۴۸) ہے.آخری وقت میں میری یہ تمنا ہے کہ جاتے ہوئے میری نظر جب اپنی اولاد پر پڑے تو وہ متقی ہوں.بعینہ اسی آیت کے مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اردو میں دعائیہ رنگ دیا ہے.فرمایا أُولَيكَ يُجْزَوْنَ الْغُرْفَةَ بِمَا صَبَرُ وا چونکہ ان لوگوں نے صبر سے کام لیا ہے اس لئے ان کو جنت میں بالا خانے عطا کئے جائیں گے اور وہاں انہیں نیک تمناؤں، دعاؤں اور سلامتی کے ساتھ خوش آمدید کہا جائے گا.دوسرا مقصد جو قرآن کریم سے ثابت ہے، وہ اعلیٰ رفاقت ہے اور تسکین قلب ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَمِنْ أَيْتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ (الروم :۲۲) يَتَفَكَّرُونَ کہ تمہارے اندر خدا تعالیٰ نے جو مودت اور رحمت کے جذبات رکھ دیے ہیں ان کی تسکین کے لئے بیاہ شادی کا نظام بنایا گیا تا کہ تم ایک دوسرے سے سکینت حاصل کرو اور ایک دوسرے کی
خطبات طاہر جلد۵ 140 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء رفاقت سے زندگی کا سفر زیادہ عمدہ طریق پر طے کر سکو.پھر قرآن کریم فرماتا ہے.وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ (النساء:۲) اور اللہ تعالیٰ کا تقویٰ اختیار کر والَّذِي تَسَاءَلُونَ بِہ جس کے واسطے دے دے کر تم ایک دوسرے سے خیر چاہتے ہو، جس کے نام پر استدعا کرتے ہو.وَ الْاَرْحَام اور رحمی رشتوں کو نہ بھولنا،خصوصیت کے ساتھ رحمی تعلقات کو فروغ دو.اس آیت سے اور بعض دیگر آیات سے ایک تیسری بنیادی وجہ بیاہ شادی کی یہ بھی معلوم ہوتی ہے کہ ایک ایسا معاشرہ قائم ہو جس میں عائلی زندگی کو ایک نمایاں مقام حاصل ہو اور خاندان کی بناء پر سوسائٹی قائم کی جائے انفرادیت کی بناء پر سوسائٹی کا قیام نہ ہو.باہمی رشتے داریوں کا مضبوط بندھن ، اس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے حسن سلوک ، ایک دوسرے سے پیار اور محبت گویا کہ خاندان کو بنیاد بنایا ہے اسلام کے سوشل سسٹم کا.ہرسوشل نظام کی ایک روح اور ایک فلسفہ ہوتے ہیں.اسلامی سوشل نظام کی روح اور فلسفہ خاندان کے نظام کو تقویت دینا ہے جس کی بنیاد ارحام پر ہے.چنانچہ وہاں جواز دواجی زندگی کے لئے دعا سکھائی وہ بھی رحمن خدا کے بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے سکھائی اور رحمی رشتوں کو تقویت دینے کا رحمان سے تعلق آنحضرت ﷺ نے یوں بھی کھول کر بیان فرما دیا کہ رحم اور رحمان دونوں ایک ہی مادے سے نکلے ہوئے لفظ ہیں.اس لئے وہ شخص جو رحمی رشتوں کو کاٹتا ہے اس کا رحمن خدا سے بھی تعلق کٹ جاتا ہے.پس یہ مضمون آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے.یہ تین بنیادی وجوہات ہیں جو قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کی عائلی یا ازدواجی زندگی کی بناء ہیں.اور جب ہم غور کرتے ہیں دنیا کے حالات پر تو ان کے سوا باقی ساری وجوہات سے شادیاں کی جاتی ہیں اور ان باتوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے اس نقشے کو جس طرح پایا، دنیا میں اس طرح یوں بیان فرمایا ہے.تنكح المرأة لا ربع لما لها و لحسبها و لجما لها و لدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك.( بخاری کتاب النکاح حدیث نمبر : ۴۷۰۰) عموماً لوگ جو دنیا میں شادیاں کرتے ہیں وہ دین کو سب سے آخر پر کر دیتے ہیں اور اولیت
خطبات طاہر جلد۵ 141 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء دیتے ہیں مال کو ، حسب و نسب کو اور جمال کو ، اس کے حسن کو فاظفر بذات الدین تم دین کو اولیت دو، دین کو غالب رکھو تَربَتْ يَدَ اک اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو نا کام اور نا مرادر ہو گے، بدنصیب ہو گے.یہاں ایک لفظ دین میں وہ تینوں مضمون بیان فرما دیئے گئے جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے یا پہلے ذکر کیا ہے یعنی قرآن کریم نے جو تین بنیادی وجوہات بیان فرمائی ہیں ، شادی کے محرکات بیان کئے ہیں وہ سارے دین سے تعلق رکھنے والے ہیں.پس آنحضرت ﷺ نے لفظ دین میں ان تمام مضامین کا خلاصہ بیان فرما دیا جو قرآن کریم نے مختلف آیات میں ہمارے سامنے کھول کر رکھے اور فرمایا کہ بدقسمتی سے لوگ دین کو آخر پر کرتے ہیں لیکن میں تمہیں کہتا ہوں کہ اگر تم ہلاکت سے بچنا چاہتے ہو تو تم دین کو فضیلت دو اور دین کو اؤل کرو.دین کا لفظ یہاں وسیع مضمون میں استعمال ہوا ہے اور اس میں عورت کا تقویٰ یا زوج کا تقوی کہنا چاہئے کیونکہ عورت کے لئے جب وہ مرد کو دیکھے یا مرد کی تلاش کرے تو وہاں بھی دین ہی کو ترجیح دینی چاہئے.اس لئے فریق ثانی کا تقویٰ دیکھنا ، اس کا حسن خلق دیکھنا ، اس کا اچھا مزاج دیکھنا جو رفاقت میں اس کے کام آسکے اور وہ تمام باتیں جو خلق اور دین سے تعلق رکھنے والی ہیں ان کو اولیت دینا ، یہ ہے اصل قرآنی نظریے کے مطابق وہ شادی جو خدا تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوتی ہے اور آخرت میں بھی کامیاب ہوتی ہے.کیونکہ اس مضمون کو مکمل کرتے ہوئے فرمایا کہ مستقر بھی ان کا اچھا ہوتا ہے اور مقام بھی اچھا ہوتا ہے.عارضی قیام گاہ بھی ان کی اچھی بنتی ہے اور مستقل قیام گاہ بھی اچھی بنتی ہے یعنی اس دنیا میں بھی وہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اجر پاتے ہیں اور بہت اچھے گھر کی بنیاد رکھتے ہیں، جو عارضی گھر ہے.اور مرنے کے بعد جب مستقل رہائش گاہ انکو نصیب ہوگی تو وہ بھی بالا خانوں والی بلند و بالا اچھی رہائش گاہ نصیب ہوتی ہے.عملاً چونکہ جیسا کہ حضوراکرم ﷺ نے فرمایا اس مضمون کو الٹ دیا جاتا ہے اس لئے دین کی بجائے ہر دوسرے مقصد سے شادی کی جاتی ہے اور شادی کے جب مقصد بگاڑ دئیے جائیں تو جیسا کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا.انما الاعمال بالنیات ( بخاری کتاب بدء الوحی حدیث نمبر۱۱) اعمال کے نتائج کا دارومدار نیتوں پر ہوا کرتا ہے اس لئے جب نیت بدل جائے ، جب مقصد بگڑ جائے تو نتیجہ بھی اسی طرح بگڑ جاتا ہے اور ایسی شادیاں عملاً کامیاب ہو ہی نہیں سکتیں.
خطبات طاہر جلد۵ 142 خطبه جمعه ۱۴رفروری ۱۹۸۶ء اب یورپ کے معاشرے میں وہ خرابیاں نہیں ہیں جو ہمارے معاشرے میں ہیں اور قسم کی خرابیاں ہیں لیکن وہاں بھی شادی کی نیتوں میں وہ قرآنی نیت شامل نہیں.اس لئے یہاں کا معاشرہ بھی جب ٹوٹتا ہے تو غلط نیتوں کی وجہ سے وہ معاشرہ ٹوٹا اور بکھرتارہتا ہے اور خاندان تباہ ہوتے رہتے ہیں.ہمارے ہاں الگ قسم کی بنیادوں پر معاشرہ قائم ہے اور وہاں بھی نیتیں اگر چہ بدلی ہوئی ہیں لیکن کچھ نہ کچھ فرق پائے جاتے ہیں یورپ کے معاشرے کے ہمارے معاشرے کے ساتھ.ہمارے معاشرے میں جب ماں باپ شادیاں کرتے ہیں اپنے بچوں کی تو یہ ایک نبیادی فرق ہے جو یورپ کے معاشرے سے ہے.یہاں عموماً لڑکا اور لڑکی آپس میں مل کر فیصلہ کرتے ہیں ہمارے ملک میں عموماً والدین فیصلہ کرتے ہیں مگر دونوں جگہ نیتوں کا فساد نظر آتا ہے.بہت سی شادی کی تباہی کی وجوہات میں ایک وجہ یہ ہے کہ ماں باپ حرص سے شادی کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں.ہمارے بچے کی خوشی اس بات میں ہے کہ امیر گھرانے کی لڑکی گھر میں آئے اور اس کے ساتھ دولت ہو، اس کے ساتھ وہ سب آرام ہوں جو دولت کے ذریعہ نصیب ہوتے ہیں.کاریں ہوں ، ریفریجریٹر ہوں، بچے کی اعلیٰ تعلیم کے لئے اخراجات مل جائیں.ان نیتوں کے ساتھ وہ لڑکی ڈھونڈتے ہیں اور بعض دفعہ بڑی بے شرمی کے ساتھ کھلے لفظوں میں مطالبہ بھی کرتے ہیں.تو آنحضرت ﷺ نے جب فرمایا کہ مال کے لئے شادی کی جاتی ہے تو امر واقعہ یہ ہے کہ یہ کوئی بعید بات نہیں ہے جو شاذ و نادر نظر آتی ہو.کثرت کے ساتھ روز مرہ ہمارے معاشرے میں مال کی شادیاں دکھائی دیتی ہیں اور مال کو حسب اور جمال پر اولیت دینے کی وجہ یہ ہے کہ عملاً ساری دنیا میں مال ہی کو اولیت دی جاتی ہے.جب تک کسی لڑکی کو یہاں یہ معلوم نہ ہو جائے کہ اس کے خاوند کے پاس کافی دولت ہے یا اچھا مقام اور مرتبہ ہے جس کے نتیجہ میں وہ سہولت سے زندگی بسر کر سکے گی ،وہ فیصلہ نہیں کرتی.لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ عموماً حسن کو مال پر فضلیت دی جاتی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ مرد حسن کو فضیلت دیتے ہونگے لیکن عورت بھی تو ایک فریق ہے ، عورت بسا اوقات مال کو فضیلت دیتی ہے یا جب ہم اپنے ملک کے معاشرے کو دیکھتے ہیں تو وہاں یہ کہیں گے عورت کے گھر والے مال کو فضیلت دیتے ہیں اور سب سے پہلے جائیداد دیکھی جاتی ہے اس کے دوسرے امکانات دیکھے جاتے ہیں کہ آئندہ مالی لحاظ سے اس کی ترقی کے کیا امکانات ہیں اور ایسی شادیاں شروع ہی سے جس کو کہتے
خطبات طاہر جلد ۵ 143 خطبه جمعه ۴ ار فروری ۱۹۸۶ء ہےDoomed ہو جاتی ہیں ان کے متعلق وہیں لکھ دیا جاتا ہے خدا کی تقدیر کی طرف سے کہ تم نے جو مقصد اختیار کیا ہے اس مقصد کے نتیجہ میں دل کی تسکین ، آنکھوں کی ٹھنڈک نیک اور پاکیزہ اولاد کا نصیب ہونا ایک بعید کی بات بن جاتی ہے.پھر حسد کی شادیاں بھی بڑی کثرت سے ہوتی ہیں.اچھا خاندان دیکھنا جس کے ساتھ نام ونمود ہو.بظاہر یہ خیال ہوتا ہے کہ شاید صرف بعض لوگ کرتے ہوں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ انسانی نفسیات میں اس کا بہت بڑا عمل دخل ہے.حسد کے متعلق میں جانتا ہوں میرے ساتھ رشتے ناطوں کا بڑی دیر سے تعلق ہے.لوگ بڑی دیر سے مجھے لکھتے چلے آتے ہیں کہ ہمارا رشتہ کرواؤ اور بہت جگہ میں نے اس خواہش کو اگر ظاہر نہیں تو دبا ہوا ضرور دیکھا ہے.اور بعض ماں باپ تو محض سوشل بلس Social status میں لڑکی دیتے ہیں یا لڑ کے محض سوشل سٹیٹس ( Social Status) اونچا کرنے کے لئے ایسی لڑکی ڈھونڈتے ہیں جس کے خاندان کو باہر سے دیکھا جائے تو بڑی اس میں چمک دمک نظر آئے اور ایک مقام اور ایک مرتبہ نظر آئے.اور ایسی شادیاں بھی اکثر ناکام ہوتی ہیں.پھر زینت، حسن کو دیکھا جاتا ہے.حسن کے نتیجے میں مودت اور رحمت جو مقاصد میں داخل ہے وہ ضرور آ جاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اسے دوام حاصل نہیں ہے.وجہ یہ ہے کہ حسن تو ایک فانی چیز ہے، ہمیشہ ایک حال پر نہیں رہتا اور نہ صرف فانی ہے بلکہ جتنا اس سے زیادہ واقفیت ہوتی چلی جائے ، جتنا قریب آجائے ، جتنا ہاتھ میں آئے اتنا ہی اس کی لذت کم ہوتی چلی جاتی ہے اور رفتہ رفتہ یہ ایک روز مرہ کی چیز بن جاتا ہے اور سیرت ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بھی اپنی کشش نہیں کھوتی.بالکل حسن کے برعکس نتیجہ پیدا کرتی ہے.جتنا زیادہ کسی صاحب سیرت انسان کے آپ قریب ہوں اتنا ہی زیادہ اس سے محبت بڑھتی چلی جاتی ہے اور اس میں گراف ہمیشہ اوپر کی طرف چلتا ہے.سیرت سے اکتا تا ہوا کبھی کوئی آدمی نہیں دیکھیں گے آپ.لیکن حسن سے اکتاتے ہوا ضرور آپ دیکھیں گے.اچھی سیرت وقت کے ساتھ حسین تر ہوتی چلی جاتی ہے کیونکہ سیرت میں بھی پختگی آتی ہے.سیرت میں بھی نفیس پہلو اور زیادہ اجاگر ہونے لگتے ہیں اور صاحب سیرت کبھی بھی ایک حال پہ آپ کو ہمیشہ نظر نہیں آئیگا.صاحب سیرت کی مثال تو فیض نے اس شعر میں دی ہے:
خطبات طاہر جلد۵ 144 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء.جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا کہ جب بھی تجھے دیکھتے ہیں ایک نیا عالم دکھائی دیتا ہے اور تجھ سے واقفیت اور تعارف کا مرحلہ کبھی بھی طے نہیں ہوتا ہے.حسن میں یہ بات نہیں ہوتی.ہوسکتا ہے شاعر نے اپنی غلط فہمی کی بناء پر حسن کو مخاطب کر کے یہ کہا ہو لیکن امر واقعہ یہ ہے حسن میں یہ بات نہیں ہوتی.اور پھر وقت کے ساتھ حسن ڈھلتا ہے، خصوصاً شادی کے بعد تو اس کا ڈھلنا ایک طبعی اور یقینی عمل بن جاتا ہے.بچے پیدا ہوتے ہیں ان کی دیکھ بھال ، ذمہ داریاں ، بیماریاں،عمر کا اپنے وقت کے مطابق گزرتے چلے جانا، کوئی ٹھہرا ہی نہیں سکتا اسکو.یہ ساری وہ باتیں ہیں جو ہر پہلو سے حسن پر اثر انداز ہو رہی ہوتی ہیں.پس اگر حسن سے ابتدائی قرب محبت کو چمکانے کا موجب بھی بنے تو ایک لمبا عرصہ اسی حسن کے ساتھ ٹھہرنے سے اکتاہٹ بھی پیدا ہوتی ہے اور حسن کے اندر قوت کشش کم ہوتی چلی جاتی ہے دن بدن.سیرت کے مضمون اور دین کا مضمون ایک ہی چیز ہیں اصل میں.پس جب آنحضرت علی نے فرمایا دین کو فضیلت دو، دین کو غالب رکھو تو اس میں وہ دین بھی آجاتا ہے جسے ہم عرف عام میں دین کہتے ہیں یعنی مذہب اور عربی کا وسیع لفظ دین بھی اپنے پورے معنی دیتا ہے اور اس میں کسی کا مزاج ، اس کی سیرت ، اس کی روش، اس کے چال چلن یہ ساری باتیں داخل ہیں.تو سیرت کو اولیت دینا اسکی بہت ہی اہمیت ہے لیکن بدقسمتی سے لوگ اس کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور سب سے آخر پر جا کر پھر سیرت کی تلاش کرتے ہیں.اس کے علاوہ بھی بگڑے ہوئے بہت سے مقاصد ہیں جو کسی نہ کسی جہت سے انسانی ذہن میں داخل ہوتے رہتے ہیں.بعض عورتیں بہو صرف نوکرانی کے طور پر لاتی ہیں اور جتنا غربت ہو کسی جگہ اتنا ہی زیادہ یہ نوکرانی کا تصور بیچ میں زیادہ عمل دخل کرتا ہے.اونچے کھانے پینے والے گھرانوں میں تو یہ تصور عموماً نہیں پایا جاتا.مغربی معاشرے میں بھی یہ تصور نہیں پایا جاتا لیکن ہمارے ہاں جہاں اقتصادی معیار کم ہیں وہاں اس کا بڑا بھاری دخل ہے.چنانچہ بعض مائیں جہاں Joint Family System ہیں وہاں بہو لاتی ہی اس لئے ہیں کہ اس سے خوب کام لیں گی صرف خاوند کی خدمت
خطبات طاہر جلد۵ 145 خطبه جمعه ۱۴ فروری ۱۹۸۶ء ہی نہیں کرے گی بلکہ اس کے بہن بھائیوں کی بھی خدمت کرے گی ، اس کے والدین کو بھی پالے گی.والدین تک تو بہر حال فرائض میں داخل ہے لیکن بہن اور پھر بہنوں کے خاوند یا بھائی اور ان کی بیویوں کی خدمتیں ، اس مضمون کو اتنا لمبا کھینچ دیا جائے تو یہ تو ایک بڑی سخت نا قابل برداشت صورتحال بن جاتی ہے اور بعض گھروں میں ہوتی ہی یہی ہے.مرد جو بگڑے ہوئے مقاصد رکھتے ہیں، ان میں عموماً جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا، حسن کو فضیلت ہوتی ہے اور اس کے بعد تہذیبی اقدار کو وہ فضیلت دیتے ہیں.آج کل کے زمانہ میں جسے تہذیب کہتے ہیں اسلامی اصطلاح میں اسے بدتہذیبی کہتے ہیں مگر میں جب تہذیب کہہ رہا ہوں تو عام اصطلاح میں بات کر رہا ہوں آج کل کی.تہذیب کی وہ اقدار جو عملاً دینی لحاظ سے نہایت ہی بدتہذیبی کی اقدار ہیں ان کی کشش میں مبتلا ہو کر بعض خاوند اس وجہ سے شادی کرتے ہیں کہ ہم اپنی بیوی کو پارٹیوں میں بلائیں گے، پارٹیوں میں لے کر جائیں گے ، گھروں میں پارٹیاں منعقد کریں گے، ان سے بے پردگیاں کروائیں گے، ملازمتوں میں ان سے ترقی حاصل کریں گے، پاپولر ہونگے، ہر دلعزیز ہونگے معاشرے میں کہ بڑی بھی دھجی بیوی ہے، بہت ہی سمارٹ جس کو کہتے ہیں ،سمارٹ بیوی لے کر آیا ہے اور خوب تعلقات رکھتی ہے ہر طرف.اور یہ نیت لے کر عملاً وہ بالکل اسکے برعکس نتیجہ پیدا کرتے ہیں جس کے لئے قرآن کریم شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے یعنی نیک اور پاکیزہ اولاد.جس خاوند کی نیت میں آغاز ہی میں یہ ظاہری معاشرتی اور تہذیبی حسن ہو اس کو شروع ہی سے اولا د کی نیکی سے ہاتھ دھو بیٹھنا چاہئے کیونکہ ان گھروں میں جو اولادیں پلتی ہیں وہ کئی طرح سے بیچاری بیمار ہو جاتی ہیں روحانی لحاظ سے بھی نفسیاتی لحاظ سے بھی.ایسی اولاد کی طرف ایسے معاشرے میں بہت کم توجہ دی جاتی ہے.جو میاں بیوی مغربی تہذیب کے حسن کا شکار ہو جائیں ان کو اپنی اولاد کے تقاضے پورے کرنے کا وقت ہی نہیں ملتا اور پھر اولا دمیں یہ ایک بنیادی بات پائی جاتی ہے انسانی فطرت کے لحاظ سے کہ ماں باپ کو جن رستوں پر چلتا دیکھتی ہے ان سے دو قدم آگے جانے کی کوشش کرتی ہے.اگر نیکی کا رستہ ہو تو شاید یہ تمنا اتنی شدت سے پیدا نہ ہولیکن ماں باپ کی بدیوں میں تو عموماً اولا د دو قدم چھوڑ کر چار قدم آگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے.اس لئے جس شادی کی تمنا میں بدی داخل ہو گئی ہو وہاں اولاد چار قدم ، آٹھ قدم ، دس قدم جتنی بھی اس کو توفیق ملے گی آگے بڑھائے گی
خطبات طاہر جلد۵ 146 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء اور بڑی تیزی کے ساتھ معاشرہ بگڑنے لگتا ہے اور بالآخر وہ خاندانی نظام جو اسلام پیدا کرنا چاہتا ہے وہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے اور مغربیت کی طرح کا انفرادی نظام قائم ہو جاتا ہے.کفو کا نہ ہونا یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے بیاہ شادی میں خرابی کی.کفو کیا چیز ہے؟ یہ اسلام میں ایک محاورہ ہے فقہ میں بہت کثرت سے استعمال ہوتا ہے.کفو سے مراد یہ ہے کہ جس قسم کی کسی کی حالت ہو ویسا ہی تلاش کیا جائے.اور کفو کا مضمون نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض دفعہ بہت سی غلطیاں ہو جاتی ہیں.جب کہا جاتا ہے دین کو فضیلت دو تو یہ مراد نہیں ہے کہ ایک شخص بے دین ہو اس کے لئے دین دار لڑکی لے آؤ کیونکہ جو خود بے دین ہے اس کے لئے دین دارلڑ کی لا نا دوسری طرف سے دیکھا جائے تو غلط مضمون بن جاتا ہے.اگر لڑکی کے رخ پر جا کر دیکھیں گے آپ تو یہ نتیجہ نکلا کہ ایک دین دار لڑکی کے لئے بے دین آدمی لایا گیا اور آنحضرت علیہ کی نصیحت کا بالکل الٹا نتیجہ نکالا اس لئے جہاں دورخ ہوں وہاں کفو کے بغیر مضمون صحیح بنتا ہی نہیں ہے.کفو کا مطلب ہے کہ جب دو فریق ہیں تو ان کے درمیان عدل پیدا کرو، ان کے درمیان توازن کو قائم کرو.اگر کوئی دین دار ہے تو جتنا دین داروہ ہے ویسا ہی دین دار ساتھی تلاش کرو.کچھ فرق تو مناسب بھی رہتا ہے اور وہ مشکل کا موجب نہیں بنتا لیکن جو نمایاں فرق ہیں وہ بڑی مشکل ڈال دیتے ہیں.چنانچہ بہت سے ایسے گھرانے بال آخر برباد ہوئے اور ٹوٹے جن میں خاوند بے دین تھا اور بیوی بہت دین دار تھی یا بیوی بے دین تھی اور خاوند بہت دین دار تھا.الا ماشاء اللہ یہ گھرانے قائم نہیں رہا کرتے.ان کی اولادیں بھی پھر تباہ ہوتی ہیں اگر بیوی بے دین ہے تو وہ اولادکو اپنی طرف گھسیٹتی ہے اور اولاد کے معاملہ میں ہمیشہ ادنی صفات غالب آتی ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نیکی کے تتبع میں اولا د کمزوری دکھا جاتی ہے مگر بدی کو اخذ کرنے میں بہت تیزی دکھاتی ہے.اس لئے ہمیشہ نتیجہ یہ نکلتا ہے سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ فضل فرمائے اور اس کا بھی طریقہ بیان فرما دیا ہے قرآن کریم نے کہ کیسے وہ فضل نازل ہو سکتا ہے.سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ فضل فرمائے اگر ماں اور باپ میں ایک میں ایک بدی پائی جاتی ہے اور دوسرے میں وہ بدی نہیں پائی جاتی تو اولا دعمو ما بدی والے حصہ کو اخذ کرے گی.اگر ماں بے پردہ ہے اور باپ دین دار ہونے کی وجہ سے پردے کا خواہاں ہے تو اولاد بے پرد ہوگی.اگر ماں باپردہ ہو اور خاوند آزاد ہو تب بھی اولا دبے پر دہوگی.اس لئے کفو کو
خطبات طاہر جلد۵ 147 خطبه جمعه ۴ ارفروری ۱۹۸۶ء ایک بہت بڑی اہمیت حاصل ہے.گھریلو زندگی کو جنت بنانے کے لئے دونوں طرف کے مزاج کو ان کی عادات کو ان کی دینی حالتوں کو توازن کے ساتھ برابر کرنا چاہئے اور جہاں جتنا جتنا یہ توازن برقرار ہوگا اتنا ہی زیادہ عمدگی کے ساتھ عائلی زندگی بسر ہوگی.اسی طرح بہت سی شکایات جو میرے علم میں آتی ہیں ان میں ایک بنیادی وجہ قرآن کریم کے ارشاد قول سدید کو نظر انداز کرنا ہوتا ہے.قرآن کریم جب فرماتا ہے قول سدید اختیار کرو، خصوصاً بیاہ شادی کے معاملہ میں کیونکہ نکاح کے موقع پر یہ آیت تلاوت کی جاتی ہے تو اس میں ایک خاص حکمت ہے یہ نہیں فرمایا سچ بولو.سچ بولنا اور قول سدید میں بعض مقامات پر اتفاقات ہیں بعض جگہ یہ دونوں الگ الگ مضمون بیان کرتے ہیں.عام طور پر ایک آدمی جب اپنی لڑکی کے متعلق بتا تا ہے کہ میری لڑکی میں یہ تعلیم ہے، فلاں فلاں خوبیاں ہیں تو یہ سچائی ہے اگر وہ بچی واقعہ باتیں ہیں.اس کو ہم کہہ سکتے ہیں کہ سچ اس نے بولا لیکن اگر وہ خدانخواستہ وہ مرگی کی مریضہ ہو یا اس کے اندر کوئی اور اندرونی ایسا نقص پایا جاتا ہو مثلاً وہ بچہ پیدا نہیں کر سکتی.تو اس کو چھپانا بظاہر سچائی کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس نے نہیں کہا کہ اس میں وہ نقص نہیں پایا جا تا لیکن قول سدید کے خلاف ہے.جب کہا جاتا ہے قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا (الاحزاب : اے ) تو مراد یہ ہے کہ معاملہ صاف رکھو اور معاملے میں کوئی بھی نہ آنے دو.جو باتیں کروان میں صاف گوئی پائی جاتی ہو یعنی اگر نقص ہے تو وہ بھی بیان کرو اور بتادو کہ یہ یہ کمزوریاں ہمارے اندر پائی جاتی ہیں.قول سدید کے نہ ہونے کے نتیجہ میں بھی ہمارے معاشرے میں بہت ساری خرابیاں پائی جاتی ہیں اور بہت سے گھر اسی وجہ سے ٹوٹتے ہیں.اور قول سدید کا نہ ہونا اتنا ایک وسیع عمل ہے جو ہر حصہ پر اثر انداز ہوتا ہے.یعنی بعض لڑکے والے آکر جھوٹی باتیں بتاتے ہیں وہ تو خیر جھوٹ میں چلا جائے گا لیکن بعض خامیوں پر پردہ ڈالتے ہیں اس لڑکے کی.بعض بد عادتیں اس لڑکے کو ہوتی ہیں جس کے متعلق وہ لڑکی والوں کو نہیں مطلع کرتے اگر یہ بتایا ہے کہ فلاں جگہ وہ ملازم ہے تو مثلاً یہ نہیں بتایا کہ اتنا مقروض بھی ہے.اگر یہ بتایا کہ ہماری اتنی جائیداد ہے تو یہ نہیں بتایا کہ اتنی جائیدا در بہن بھی ہوئی ہے اور اتنی جائیداد جھگڑے والی ہے اور اتنے جائیداد کے وارث بھی ہیں.تو بعض باتوں کا مخفی رکھنا یہ قول سدید کے خلاف ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 148 خطبه جمعه ۴ ار فروری ۱۹۸۶ء ایک بچی کے متعلق مثلاً مجھے پتہ ہے کہ اس کی بڑی دردناک حالت ہے اس کے میاں کو مرگی کا شدید دورہ پڑتا ہے اتنا کہ اگر اس لڑکی کے والدین کو پتہ ہوتا تو آنکھیں کھول کر وہ شادی نہ کرتے لیکن اس بات کو مخفی رکھا گیا ، وہ شادی چل رہی ہے لیکن بڑی تکلیف کی حالت میں ہے.تو ایک دو جگہ نہیں ہزار ہا مثالیں آپکو ہمارے معاشرے کی دکھوں کی ایسی ملیں گی جہاں قول سدید کو نظر انداز کر دیا گیا ہے.پھر رومان کا جو تصور ہمارے ہاں پایا جاتا ہے اس کو اگر ہم زیادہ اور وسعت دے دیں تو لڑکی بھی اور لڑکا بھی اپنی عائلی زندگی کے متعلق فرضی جنتیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور لڑ کی یہ سمجھ رہی ہوتی ہے کہ جب میری شادی ہو گی تو سوائے لطف کے اور اعلی نعمتوں کے اور عیش و عشرت کے کوئی بھی اور مصیبت مجھ پر نہیں پڑنے والی حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ باقی باتیں تو دور کی ہیں جس خاوند سے وہ عجیب و غریب تو قعات لے کر جاتی ہے اس خاوند کے بہت سے نقص ہیں جو طبعا اور فطرتاً ہر شخص میں ہوتے ہیں مگر الگ الگ ہوتے ہیں.بعض عادتوں کے نقص ہوتے ہیں، اسکو ان کے ساتھ بھی گزرا کرنا پڑے گا.بعض نقص ہیں جن کی اصلاح کی جاسکتی ہے اور بعض کی اصلاح کی نہیں جاسکتی ایسے بھی نقص ہوتے ہیں.اسی طرح لڑکی میں بھی کمزوریاں پائی جاتی ہیں اس کے اندر بھی بعض خصائل کے نقص پائے جاتے ہیں.بعض ایسے نقص ہیں جو اس کی فطرت ثانیہ بن چکے ہوتے ہیں جو دور ہی نہیں کئے جاسکتے ،ان کے ساتھ بھی انسان کو رہنا پڑتا ہے.پھر رشتے داروں کی ذمہ داریاں ہیں خاوند کے اپنے رحمی تعلقات ہیں جن کے حقوق ہیں اس کے اوپر ، وہ ادا کرنے ہیں اب جس بیوی نے ایک جنت بنائی ہوئی ہے فرضی کہ میں جاؤں گی تو میرے خاوند کو مثلاً چار ہزار ملتا ہے تو وہ سارا میرے ہاتھ میں آیا کریگا اور میں اس طرح خرچ کروں گی ، جب وہ دیکھتی ہے کہ بیوہ ماں پر بھی اسکو خرچ کرنا پڑتا ہے، اپنے یتیم بھانجے اور بھانجیاں بھی پالنے پڑتے ہیں تو شدید رد عمل اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے.حقیقت کی دنیا میں نہیں اتر تے لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ فرض کی دنیا ایک اور چیز ہے، تصورات کی دنیا ایک اور چیز ہے.حقیقت میں انسان کو تلخیوں کے ساتھ بھی گزارہ کرنے کی اہلیت پیدا کرنی چاہئے.اس لئے وہاں جا کر پھر لڑائیاں شروع ہو جاتی ہیں.مرد بھی اسی طرح اپنی بیویوں کی متعلق بعض ایسے تصورات باندھے ہوئے ہوتے ہیں کہ
خطبات طاہر جلد۵ 149 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء جب شادی ہوتی ہے تو انکوٹھوکریں لگتی ہیں.تو قرآن کریم نے جو تین بنیادی باتیں بیان فرمائی ہیں ان کو مدنظر رکھتے ہوئے جن کا خلاصہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے لفظ دین میں بیان فرما دیا ہے اگر ہم شادیاں کریں اور ان چیزوں کو فروغ دیں اور بار بار اپنے معاشرہ میں یہ باتیں پھیلائیں کہ یہ وہ ایسے اعلیٰ مقاصد ہیں شادی کے کہ جن کے نتیجے میں جیسا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے خدا وعدہ کرتا ہے تم سے کہ دنیا میں اس عارضی مقام میں بھی تمہیں جنت عطا ہوگی اور آئندہ دائی مقامات میں بھی تمہیں جنت عطا ہوگی اور پھر ایک ایسی اولا د کو پیچھے چھوڑ کر جاؤ گے جو متقی ہوگی اور لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا کی تمہاری تمنا پوری ہو جائے گی مگر افسوس ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ان سارے امور کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلامی معاشرہ کی ایک روح ہے اور وہ روح ہے خاندانوں کا رحمی رشتوں پر قیام اور رحمی رشتوں کو اہمیت دینا.خاندان کا جو تانا بانا بنا جاتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی مرکزی محرک پایا جاتا ہے.ہر سوسائٹی کا الگ الگ محرک ہوتا ہے.قرآن کریم وہ محرک یہ بیان فرما رہا ہے کہ تم نے رحمی رشتوں کو فروغ دینا ہے اور ان تعلقات کو آگے بڑھانا ہے اور مغربی دنیا میں اس کے بر عکس قطع رحمی بنیادی اصول دکھائی دیتی ہے.تمام مغربی معاشرے میں آپکو قطع رحمی کا رجحان نظر آئے گا.اتنا بڑھ جاتا ہے یہ رحجان کہ بیٹے کے ماں سے تعلقات نہیں رہتے ، بیٹی کے باپ سے تعلقات نہیں رہتے اور یہ بڑھے کثرت کے ساتھ جو آپ کو اکیلے تنہا زندگی بسر کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جو قومی خیرات پر پل رہے ہوتے ہیں یہ قطع رحمی کا نتیجہ ہے.ترس جاتے ہیں بعض لوگ پاگل ہو جاتے ہیں ، بعض خود کشیاں کر لیتے ہیں صرف اس وجہ سے کہ خاندان والے انکے اپنے بیوی، بچے ، بہو، بہنیں انکو ایک بوجھ سمجھنے لگتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں معاشرہ سنبھالے آپ ہی ان کو ، ہمارا کیا ہے، ہم تو اپنا عیش و عشرت میں وقت گزاریں گے اور بوجھ اٹھانے کے لئے تیار نہیں.تو قرآن کریم نے صلہ رحمی کو جو بنیاد بنایا مغربی معاشرے میں بالکل اس کے برعکس قطع رحمی پر اپنے معاشرے کی بنیاد ڈالی ہے.اس لئے اس حصہ کو نظر انداز کرنے سے بھی بہت سی خرابیاں ہمارے ہاں پیدا ہونگی اور بہت سی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں اگر صلہ رحمی کو ہم نے قائم نہ کیا تو بالآخر مغربی معاشرہ پر لازماتان ٹوٹے گی جا کر.یہ صلہ رحمی کا نتیجہ ہے کہ بہت سی بدخلقیوں سے ہم بچے رہتے ہیں.یہ اندرونی مضبوط
خطبات طاہر جلد۵ 150 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء خاندانی نظام کا فیض ہے کہ ہم بہت سی خرابیوں سے باز رہتے ہیں اور صرف ایک لذت کی پیروی کرنے کی بجائے متفرق کئی قسم کی لذتیں ہیں جو ہماری زندگی میں حاصل ہوتی رہتی ہیں.ایک دفعہ جرمنی میں ایک عورت نے جو اسلامی معاشرے کو بڑی نفرت کی نظر سے دیکھتی تھی، بڑی شدت سے مجھ سے یہ سوال کیا کہ آپ کے ہاں جو معاشرہ قائم ہے اس میں کیا لذت رہ جاتی ہے ، قیدیں ، پابندیاں اور ہر لذت یابی سے محرومی یہ بھی کوئی معاشرہ ہے ؟ اس کے جواب میں میں نے اس کو اس طرف متوجہ کیا.میں نے کہا ہمارا معاشرہ تو صلہ رحمی پر قائم ہے جس کے نتیجے میں صرف ایک لذت ہمیں نہیں ملتی بلکہ متفرق لذتیں نصیب ہوتی ہیں.تمہیں اپنی تسکین خاطر کے لئے اب جنس کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا اور جنسی پیروی تمہاری اتنی آگے بڑھ چکی ہے، جنسی خواہشات کی پیروی اتنی آگے بڑھ چکی ہے کہ اب کوئی تمیز تمہاری باقی نہیں رہی.بڑے نہیں تو چھوٹوں پر یہ ظلم کر کے تم اپنی اس جنسی تمنا کو پورا کرنے لگے ہو اور وہ ساری حدیں پھلانگ چکے ہو جو انسانیت اور حیوانیت کو الگ کرتی ہیں ایک دوسرے سے اور وہاں بھی تمہیں تسکین نہیں مل رہی.کس معاشرے کی طرف تم ہمیں بلا رہی ہو.میں نے کہا کہ اسلامی معاشرے میں صرف جنسی لذت نہیں ہے ماں اور بیٹے کی محبت کی بھی ایک لذت ہے اس کو وہ تقویت بھی دیتا ہے اس کی حفاظت کرتا ہے.بہن اور بھائی کی محبت میں بھی ایک لذت ہے.اسلامی معاشرہ اس کو تقویت بھی دیتا ہے اور اس کی حفاظت بھی کرتا ہے.بیٹی اور باپ کے تعلق میں بھی ایک پیار پایا جاتا ہے، ایک لذت پائی جاتی ہے اور اس کا بھی اسلامی معاشرہ نگران ہے اور ان قدروں کو وہ آگے بڑھاتا ہے.پھر ایک دوسرے کے رشتہ داروں کے ساتھ تعلقات کے قیام کو فروغ دیتا ہے.بیٹی جب بیاہی جاتی ہے تو پھر ایک ماں نہیں رہتی اسکی ، ارحام ہو جاتے ہیں، کئی قسم کے رحمی رشتہ دار اس میں زائد آجاتے ہیں اور خاوند کی ماں ، خاوند کا باپ ، خاوند کی بہنیں، خاوند کے دیگر عزیز جو اس کی ماں کے رحم کے نتیجے میں رشتے اس کو ملے ہیں وہ سارے اسکے رشتے دار بن جاتے ہیں.اسی طرح خاوند کے ساتھ بھی معاملہ ہوتا ہے.تو اس خاندانی نظام کو جس کی بنا صلہ رحمی پر ہے اسکو تقویت دینے کے نتیجے میں انسان بھوکا نہیں رہتا لذت کا اور جب وہ تنہائی محسوس کرے گا تو پھر پاگل نہیں ہوتا کیونکہ مغربی معاشرے میں
خطبات طاہر جلد۵ 151 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء ایک ہی لذت یابی کا تصور باقی رہ گیا ہے اور اگر وہ پورا نہ ہو تو پھر دوسرے اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اسکو تسکین قلب کے لئے.چنانچہ ایسی سوسائٹی میں پھر لوگ پاگل ہونے لگ جاتے ہیں.یہ جتنے جنسی مریض ہیں یہ پاگل پن جو اس معاشرے کا خود پیدا کردہ ہے.جس شاخ پر بیٹھے ہوئے ہیں یہ اس کو کاٹ چکے ہیں خود ہی ، اب ان کے لئے ہلاکت کے سوا کچھ بھی باقی نہیں.اس لئے قرآن کریم نے صلہ رحمی پر زور دیا اور آنحضرت ﷺ نے تو اس کثرت سے یہ مضمون بیان فرمایا ہے کہ اگر تمام ارشادات کو اکٹھا کیا جائے تو یہ ایک ضخیم کتاب بنتی ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو صلہ رحمی پر زور دینا چاہئے اور صلہ رحمی میں جہاں تک اپنے ماں باپ کا تعلق ہے اس میں تو زیادہ سکھانے کی ضرورت نہیں ہے، الا ماشاء اللہ عمو مالوگ یہ حقوق ادا کرتے ہی ہیں نسلاً بعد نسل ہمیں ماں باپ اور بہن بھائی کی محبت ورثے میں مل چکی ہے اور اس لحاظ سے ہمارا معاشرہ خدا کے فضل سے مضبوط ہے.ابتلاء آتا ہے شادی کے موقع پر.تبھی آنحضرت ﷺ نے نکاح کے موقع پر تلاوت کے لئے جو آیات اکٹھی کیں ان میں یہ آیت داخل فرمائی وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْاَرْحَامَ (النساء:۲) کہ دیکھو اپنے تمہارے رحمی رشتے جو ہیں ان کے سلسلہ میں تو تم ہو ہی واقف لیکن اب تم ایک ایسے تعلق میں باندھے جارہے ہو جہاں دوسرے کے رحم کا بھی خیال کرنا پڑے گا، دوسرے کے رحمی رشتوں کو بھی اپنا سمجھنا پڑے گا.اسکا فقدان ہے جس کے نتیجے میں ہمارا معاشرہ بہت سے دکھوں میں مبتلا ہے.لڑکی جب جاتی ہے اپنے سسرال میں تو بعض سسرال ایسے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ لڑکی کے اپنے ماں باپ بھائی بہن وغیرہ وہ سب گویا اس کے لئے پرائے ہو چکے ہیں اور اتنے پرائے ہو چکے ہیں کہ اس کو ملنے آئیں تو ان کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ ملنے جائے تو ان کو تکلیف ہوتی ہے ان کے طعنے دیئے جاتے ہیں، ان کے نقائص اسکے سامنے بیان کئے جاتے ہیں اور ہر طرح سے ان رشتوں کو اذیت کا موجب بنادیا جاتا ہے.اس کے برعکس بھی شکل نظر آتی ہے کہ بعض عورتیں اپنے خاوندوں کو کاٹتی ہیں اپنی بہنوں سے ، ماؤں سے، اپنے دوسرے عزیزوں سے وہ ہنس کے بات کر لیں تو ان کو تکلیف ہوتی ہے، وہ ان کی ذمہ درایاں ادا کریں تو ان کو تکلیف پہنچتی ہے ، گھر میں کوئی مہمان آجائے تو آگ لگ جاتی ہے اور عجیب حالت نظر آتی ہے.بعض گھروں میں میں نے دیکھا ہے کہ اپنے رشتہ دار
خطبات طاہر جلد۵ 152 خطبه جمعه ۴ ار فروری ۱۹۸۶ء جب بیوی کے آتے ہیں تو رونق آجاتی ہے گھر میں ، دوڑتی پھرتی ہے ، خدمتیں ہو رہی ہیں اور خوب لذتیں حاصل کی جارہی ہیں ہر طرح کی مجلسیں لگتی ہیں اور خاوند کی بہن آجائے یا اس کی ماں آجائے تو یوں لگتا ہے جس طرح موت کی خبر آگئی اور پھر وہ بد سلوکی کے سوطریقے اختیار کرتی ہے.عورت جہاں تسکین کا سامان بنتی ہے وہاں عدم تسکین کا بھی اتنا ہی سامان بن سکتی ہے.جس شخص میں تسکین پہنچانے کا مادہ خدا تعالیٰ نے رکھا ہوا ہو تسکین چھینے کا مادہ بھی اس میں اتنا ہی پایا جاتا ہے.اس لئے عورت اور مرد میں عورت جیسی تسکین نہیں پہنچا سکتا کوئی مرد اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ہے لیکن جب تسکین چھیننا چاہے تو مرد کے مقابلہ پر عورت کو بہت زیادہ طریقے معلوم ہیں کہ کس طرح تسکین چھینی جاتی ہے.تسکین کی آماجگاہ کی بجائے گھر کو بے چینیوں کی آماجگاہ بنادیتی ہے اور عذاب بن جاتی ہے.خاوند تو بہ کرتا ہے کہ خدا کرے کہ میرا کوئی رشتہ دار نہ آئے یہاں پر کبھی.عذاب الہی کی طرح اس کے رشتے دار اس گھر پر نازل ہونے لگتے ہیں.یہاں تو یہ سارا بنیادی قصور قرآن کریم کے بعض احکامات کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں ہے.آنحضرت ﷺ نے جو آیات چنیں سب سے پہلی یہ آیت ہے جو نکاح کے موقع پر پڑھی جاتی ہے.وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُوْنَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا تک فرمایا کہ اگر تم رحمی رشتہ در اوں کو نظر انداز کرو گے تو خدا تم پر نگران ہے، وہ تمہیں ضرور پکڑے گا.اس لئے ان تمام امور میں ہمیں لازماً قرآن کی پناہ میں واپس جانا پڑے گا.ہمارا معاشرہ جہاں جہاں قرآن کی حدود پھلانگ کے باہر نکل چکا ہے اس کو تسکین مل ہی نہیں سکتی جب تک وہ واپس نہ آ جائے اور یہ خیال کہ ہمارا گھر ہے کوئی ہمیں اپنے گھر کے اندر کیوں کچھ کہتا ہے یا ہم اپنے گھر میں آزاد ہیں جو چاہیں کریں یہ غلط خیال ہے.قرآن کریم اس تصور کو رد کر رہا ہے.قرآن کریم ملکیت صرف خدا تعالیٰ کی بتاتا ہے لِلهِ الْأَمْرُ (الرعد:۳۲) صرف اللہ کا حکم ہے اور ہمارے پاس ہر چیز امانت ہے عارضی طور پر ہے.یہ خیال ہی غلط ہے کہ ہم آزاد ہیں اپنے گھروں میں جو چاہیں کرتے پھریں ہم ہر گز آزاد
خطبات طاہر جلد۵ 153 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء نہیں ہیں ہم انسان کو جواب دہ نہیں ہیں خدا کو ضرور جوابدہ ہیں.اس لئے خاوند اگر اپنی بیوی کے حقوق ادا نہیں کرتا تو وہ جواب دہ ہے، بیوی اگر خاوند کے حقوق ادا نہیں کرتی تو وہ جوابدہ ہے.اور إِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا کی آیت عنوان بن گئی ہے اس جوابدہی کا ، ہر وقت یہ نگرانی ہو رہی ہے، ہر وقت جوابدہی ہو رہی ہے.اگر باپ اپنے بچوں کے حقوق ادا نہیں کر رہایا ان سے بدتمیزی کرتا ہے، بخت کرتا ہے ظلم کرتا ہے یہ سجھتا ہے کہ میری اولاد ہے جو چاہوں میں کروں وہ بھی جوابدہ ہے اور جو باپ کھلی ڈوریاں چھوڑ دیتا ہے کہ جی یہ زمانہ ہی نہیں ہے اولاد پر تختیوں کا اولا د آزاد ہے جو چاہئے کرتی پھرے،اسے کیوں میں نیکی کی تعلیم دوں، اس نے اپنی قبر میں پڑنا ہے میں نے اپنی قبر میں پڑنا ہے.جو اس حد تک بات کو پہنچادیتا ہے وہ بھی جوابدہ ہے.اپنی سختیوں کے بھی ہم خدا کے سامنے جوابدہ ہیں اپنی نرمیوں کے بھی جوابدہ ہیں اور لازماً ہمیں وہ توازن پیدا کرنا پڑے گا جو توازن قرآن اور سنت ہم سے چاہتے ہیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کلکم راع وكلكم مسؤل عن رعيته ( بخاری کتاب الاستقراض حدیث نمبر :۲۲۳۲) کہ دیکھو ہر ایک تم میں سے چرواہا ہے.یہ خیال مت کرو کہ تم مالک ہو بھیڑوں کے ہم چرواہے ہو اور چرواہا ایک ایک بھیڑ کا حساب دیتا ہے مالک کو گھر جا کر اسکو ثابت کرنا پڑتا ہے کہ فلاں بھیڑ اگر ضائع ہوئی تو اس وجہ سے ضائع ہوئی اسکا قصور نہیں اور پھر اس کے بعد آنحضرت علی تفصیل بیان فرماتے ہیں کہ کس طرح تم راعی بنتے ہو.کہتے ہیں گھر کا مالک جو ہے وہ بھی راعی ہے اپنی بیوی اور بچوں کے لحاظ سے وہ خدا کے حضور جوابدہ ہوگا اور بیوی بھی جوابدہ ہوگی اور پھر سارے کا سارا انسانی نظام اپنے اپنے دائرہ کار میں اس حدیث کی رو سے جوابدہ بن جاتا ہے.پس معاشرے کی اصلاح بہت ہی ضروری ہے لیکن ہو گی جیسا کہ میں نے بیان کیا گھروں کی اصلاح سے اور گھروں کی اصلاح میں جوابدہی کا تصور ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.انسان خدا کے نام پر ایک نصیحت کرتا ہے اور بعض دفعہ ایک سے زیادہ دفعہ بھی نصیحت کرتا ہے لیکن مستقل طور پر نہ وہ ساتھ رہ سکتا ہے ہر گھر میں نہ نصیحت کو قبول کرنے والے سارے ایک ہی طرح کے انسان ہوتے ہیں.پھر وقتی جوش آتا ہے بعض دفعہ معاشرے کی اصلاح پر دو خطبات ہو گئے.پھر تھوڑی سی تبدیلیاں پیدا ہونے کے آثار ظاہر ہوئے اور پھر وہ بھول گئے پھر اور باتیں شروع ہو گئیں.لیکن اگر یہ مضمون
خطبات طاہر جلد۵ 154 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء پیش نظر رہے کہ اِنَّ اللهَ كَانَ عَلَيْكُمْ رَقِيبًا.ایک ایسی ذات بھی ہے.جو ہر گھر میں ہے، ہر ذات میں ہے، ہر شخص کی رگ جان سے زیادہ قریب ہے اور وہ نگران ہے اس بات پر کہ تم اپنے ارحام کے حقوق ادا کر رہے ہو کہ نہیں.جن مقاصد کے لئے شادی بیاہ کا نظام جاری کیا گیا ہے ان مقاصد کو پورا کر رہے ہو کہ نہیں کر رہے تو پھر ساری کیفیت بدل جاتی ہے.پھر ہر سلوک اور عدم سلوک کے نتیجے میں انسان اپنے آپ کو ایک بالا ہستی کے حضور جوابدہ پاتا ہے اور اس ذمہ داری کے احساس سے اس کو بڑی فکر پیدا ہو جاتی ہے.پس جب تک خدا کو حاضر ناظر جان کر ہم اپنے معاشرے کی اصلاح کی کوشش نہیں کریں گے اس معاشرہ کی اصلاح نہیں ہوسکتی.کئی لوگ یہ کہتے ہیں جی آپ بہت ہی زیادہ بھیانک تصویر کھینچ رہے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ شاید میری ان باتوں سے غیر یہ فائدہ اٹھائے اور وہ سمجھے کہ نعوذ باللہ من ذلک احمدی خاندانوں کا یہ حال ہے جو میں یہ بھیانک نقشے کھینچتا ہوں اور گویا فرق کوئی نہیں.ہر گز یہ بات نہیں ہے میں جانتا ہوں کہ احمدی معاشرے کا غیر احمدی معاشرے سے،اسلامی معاشرے کا غیر اسلامی معاشرے سے بڑا نمایاں فرق ہے لیکن موجودہ صورت میں جتنی معاشرتی خرابیاں ہمارے اندر پائی جاتی ہیں ہماری جماعت کے مقام اور مرتبہ کے لحاظ سے ہرگز قابل برداشت نہیں ہیں.کسی قیمت پر بھی ہم ان کو ساتھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے.مستقبل کی نسلوں کو تباہ کرنے کے بیج بو دیئے گئے ہیں ان خرابیوں میں، آئندہ نسلوں کو اپنے ہاتھوں سے ضائع کرنے اور قتل کرنے کے سامان پیدا کر دیئے گئے ہیں.پھر میں کس طرح اس خوف سے کہ دشمن نہ ہنسے ان باتوں کو چھپا کر بیٹھ جاؤں.میں بھی تو جوابدہ ہوں اور آپ سب سے بڑھ کر اس لحاظ سے جوابدہ ہوں کہ ایک خاندان کی نہیں ساری جماعت کی ذمہ داری خدا نے میرے اوپر ڈالی ہے اور تمام جماعت کے حالات کے بارہ میں میں پوچھا جاؤں گا.اس لئے کیسے میں ان باتوں کو چھپا سکتا ہوں.میرا فرض ہے اور میں لازماً جب تک خدا مجھے توفیق دے گا اس فرض کو پورا کرتا رہوں گا کہ ہمارا معاشرہ دن بدن پہلے سے بہتر حالات میں داخل ہوتا چلا جائے.حسن ہی اس میں نہ پیدا ہو بلکہ ہر آن بڑھنے والا حسن اس میں پیدا ہوتا کہ غیر جب اس معاشرے کو دیکھیں تو بے اختیار ان کے دل سے یہ آواز نکلے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 155 خطبه جمعه ۱۴ار فروری ۱۹۸۶ء جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے مرحلہ طے نہ ہوا تیری شناسائی کا خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج تین خواتین کی نماز ہائے جنازہ غائب پڑھی جائیں گی.جمعہ اور عصر کی نمازیں جمع ہوں گی اس کے بعد یہ نماز جنازہ ہوگی.مکرمہ امتہ الحمید بیگم صاحبہ اہلیہ قاضی محمد رشید صاحب مرحوم وکیل المال - محترم عطاء المجیب صاحب راشد کی خوشدامنہ تھیں، صحابیہ تھیں ، لوائے احمدیت کے لئے سوت کات کر دھاگہ بنانے کی سعادت بھی ان کو نصیب ہوئی.خدا تعالیٰ کے فضل سے آپ کے چاروں بیٹے واقف زندگی ہیں اور تین بیٹیاں واقفین زندگی سے بیاہی ہوئی تھیں.اتنے بچوں کا واقف زندگی ہونا یا واقفین زندگی.بیا ہے جانا بہت بڑا اللہ کا فضل ہے اور اس ماں کو خدا کا یہ فضل نصیب تھا.مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ لاہور وفات پاگئیں ہیں یہ عبدالوحید خان صاحب ڈپٹی ڈائریکٹر لاہور کے مخلص احمدی ہیں، ان کی والدہ تھیں نیز مکرم محترم چوہدری عبد الحمید صاحب جنرل مینجر واپڈ لا ہور کی ہمشیرہ تھیں.مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکر ڈاکٹر محمد ین صاحب مرحوم وہاڑی.وہ مکرم چوہدری ظہور احمد صاحب مرحوم ناظر دیوان کی ہمشیرہ تھیں اور مکرم و دود احمد صاحب ہمارے ڈاکٹر مسعوداحمد صاحب کے بھائی یہاں سلسلہ کے بڑے اچھے کارکن ہیں ان کی خوشدامنہ تھیں.ان کی بھی وہاڑی میں وفات ہوگئی ہے ہیں.آج ہی اطلاع ملی ہے.تو عصر کی نماز کے بعد انشاء اللہ ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 157 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء ساہیوال بیت الذکر پر حملہ کی تفصیل، ملاں پیر تسمہ پا ہے ہم ہر قیمت پر کلمہ طیبہ کی حفاظت کریں گے ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَ لكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ أُولَبِكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ پھر فرمایا: قف (البقره:۱۵۴-۱۵۸) آج کے خطبہ میں میں احباب جماعت سے ساہیوال کیس کے متعلق کچھ باتیں کروں گا.
خطبات طاہر جلد۵ 158 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء ساہیوال کیس کے نام سے جو مقدمہ بعض احمدی مخلصین کے خلاف دائرہ کیا گیا تھا اس کا پس منظر پھر میں بیان کر دیتا ہوں کیونکہ ممکن ہے بعض نوجوانوں کو یا بعض بڑوں کو دوسروں کو بھی ان واقعات کا یا علم ہی نہ ہوا ہو پوری طرح یا ذہن سے اتر چکے ہیں.26 اکتوبر 1984 ء کا یہ واقعہ ہے کہ ساہیوال کی مسجد میں صبح نماز کے بعد بعض مولویوں نے اور ان کے مدرسوں میں پڑھنے والے طلباء نے مل کر ھلہ بول دیا اور اپنے ساتھ وہ برش اور پینٹ وغیرہ لے کر آئے تھے تاکہ مسجد سے جہاں جہاں کلمہ شہادۃ لکھا ہوا ہے اُس کو مٹا دیں.چنانچہ باہر کی دیواروں پر اور باہر کے دروازے پر تو وہ مٹانے میں کامیاب ہو گئے لیکن جب اندر مسجد کے دروازے میں جو اندر کا دروازہ ہے اس پر سے کلمہ مثانے لگے تو چند نو جوان جو وہاں اُس وقت موجود تھے انہوں نے مزاحمت کی اور یہ کہا کہ کسی قیمت پر بھی خواہ ہماری جان جائے ہم تمہیں اپنی مسجد سے کلمہ شہادہ نہیں مٹانے دیں گے.چونکہ اُن کی تعداد بہت زیادہ تھی ایک نوجوان کو تو انہوں نے وہیں پکڑ لیا اور باقیوں کو قتل کی دھمکی دیتے ہوئے مسجد پر حملہ کر کے اندر داخل ہونے کی کوشش کی.اس وقت وہاں ایک احمدی نوجوان نے بندوق سے دو فضائی فائر کئے تاکہ ڈر کے بھاگ جائیں اور ڈر کر کچھ عرصے کچھ دیر کے لئے وہ بھاگ کر باہر نکل گئے لیکن پھر انہی کے مولویوں نے ان کو کہا کہ یہ پٹاخے تھے تم کس بات سے ڈرے ہو.چنانچہ وہ دوبارہ ھلہ بول کے اندر گئے اُس وقت اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر یا اس اعلیٰ مقصد کے لئے کہ کسی قیمت پر بھی وہ مسجد احمدیہ سے کلمہ شہادۃ کو نہیں مٹنے دیں گے، اسی نوجوان نے دو فائر کئے اور اس کے نتیجے میں دو حملہ آور وہیں زخمی ہو کر گر گئے اور وہیں انہوں نے جان دے دی اور باقی بھاگ گئے.اور کچھ عرصے کے بعد جو وہاں واقعات گزرے اس کی تفصیل میں جانے کا تو ذکر نہیں مگر پولیس نے جو ملزم گرفتار کئے جن پہ الزام بتایا گیا وہ سات تھے لیکن مقدمہ گیارہ کے خلاف درج کیا گیا.ان سات میں سے چار نو جوان وہ ہیں جو یہاں موجود تھے.لیکن عملاً فائر کر نے والا صرف ایک نوجوان ہے اور باقی تین کی طرف سے حملہ آوروں کو کسی قسم کی کوئی گزند نہیں پہنچی باقی جتنے آدمی ہیں وہ موقعے پر موجود ہی نہیں تھے.ایک ہمارے مربی سلسلہ ہیں محمد الیاس منیر صاحب.وہ اوپر مسجد کے ملحقہ مکان میں اس وقت اپنے بیوی بچوں سے گفتگو کر رہے تھے یا تلاوت کر رہے تھے بہر حال گھر میں تھے اس وقت ان کو
خطبات طاہر جلد۵ 159 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء جب فائر کی آواز آئی بندوق کے چلنے کی تو وہ نیچے آئے اسوقت ان کو پہلی دفعہ معلوم ہوا کہ کیا واقعہ ہوا ہے اور کچھ لوگ ایسے تھے جو ساہیوال میں موجود نہیں تھے.ان گیارہ میں سے.وہ آٹھ آٹھ دس دس میل دور دیہات میں رہنے والے تھے مگر ان علماء نے جانتے ہوئے دیکھتے ہوئے کہ سارا جھوٹ ہے نہ صرف یہ کہ ان لوگوں کا نام پرچے میں درج کروایا جن کا کوئی دور سے بھی تعلق نہیں تھا بلکہ سارا سراسرالف سے ی تک پوری کی پوری جھوٹی کہانی بنائی.چونکہ دواحمدی جن کے خلاف الزام تھا کہ انہوں نے قتل میں حصہ لیا ہے وہ وکیل تھے اور بار کونسل کے ممبر اور ہر دلعزیز ممبر تھے.اس لئے ان مولویوں کے جھوٹ سے پردہ فاش کرنے کا ایک ذریعہ یہ بھی بن گیا کہ بار کونسل نے ایک بڑا شدید Resolution پاس کیا اور اس بات کی گواہی دی کہ یہ دو احمدی جو ممبر ہیں ہماری کونسل کے ان کے متعلق تو ہم قطعی طور پر جانتے ہیں کہ ان کا دور سے بھی اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں.اس لئے ہم اس کے خلاف احتجاج کرتے اور حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کا نام خارج کیا جائے.اتنا یہ جھوٹ مشہور ہوا اُس علاقے میں کہ بہت سے چوٹی کے شریف وکلاء جو Criminal Cases کے ماہرین تھے انہوں نے علماء کے مقدمہ کی پیروی سے کلیہ انکار کر دیا.انہوں نے کہا کہ اتنا جھوٹا مقدمہ، ایسا ظالمانہ الزام کہ معصوم لوگ جن کا کوئی دور سے بھی تعلق نہیں ان کو تم شامل کر رہے ہو اور پھر ساری کہانیاں الف سے کی تک جھوٹی ہے.کلمہ مٹانے جارہے ہو اور بیان یہ دے رہے ہو کہ ہم یہ سننے گئے تھے کہ مسجد میں اذان تو نہیں ہورہی اور یہ سننے کے لئے اس وقت گئے تھے جبکہ نمازیں بھی ختم ہو چکی تھیں اور نمازی اپنے اپنے گھروں کو بھی جاچکے تھے اور ہم اندر گئے بھی نہیں، یہ بھی مولویوں کا بیان ہے.ہم تو صرف کھڑے سن رہے تھے، اس پر فلاں فلاں شخص نے اس طرح فائرنگ کی اور اس طرح حملہ کر کے ہمیں قتل کیا اور پھر گھسیٹ کر اندر لے گئے ، یہ بتانے کے لئے گویا ہم اندر گئے تھے.چونکہ وکلاء جانتے تھے کہ یہ سارے کا سارا معاملہ جھوٹ ہے.ویسے تو جھوٹے مقدمات عدالتوں میں چلتے ہی ہیں اور پاکستان کی عدالتیں تو خوب اچھی طرح جھوٹے مقدمات سے آشنا ہیں.وہاں تو بچے مقدمے کی تلاش کرنی پڑتی ہے لیکن اس معاملے میں وکلاء کی کراہت اس بناء پر تھی کہ جھوٹ بولتے ہو یا گند کھاتے ہو تو دنیا کے نام پر جو چاہو کرو، اسلام کے نام پر جھوٹ بولتے
خطبات طاہر جلد۵ 160 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء ہوئے تم لوگوں کو حیا نہیں آتی اور ہمیں ملوث کرنا چاہتے ہو.تو ایک طرف علماء دین کی یہ جرات اور بے با کی تھی کہ خدا اور محمدمصطفی ہے کے نام کی قسمیں کھا کر اور قرآن اُٹھا اُٹھا کر اس کلیۂ بے بنیا واقعات کی شہادت دے رہے تھے اور دوسری طرف وہ جن کو دنیا دار کہا جاتا ہے یعنی عام وکلاء اپنی روزی کمانے والے جن کا ظاہری طور پر دین سے تعلق نہیں ہے، وہ حیا محسوس کر رہے تھے کہ اس مقدمے میں فیس لے کر بھی کسی طرح ملوث ہو جائیں.چنانچہ ان کو پھر ثانوی درجے کے بلکہ ثالثہ درجے کے وکیل ڈھونڈ نے پڑے اور وہ بھی ایسے جو پہلے ہی انہی کی طرح تعصبات کے شکار تھے.وکیل تو بہر حال حکومت ہی مقرر کرتی ہے ایسے مقد مات میں لیکن اُس کی مدد اور اعانت کے لئے کہانی بنانے کے لئے کس طرح کا پرچہ درج ہونا چاہئے ، کس طرح پیروی ہونی چاہئے ، ان ساری باتوں میں بہر حال ان کو وکلاء کی ضرورت تھی.چار آدمی ان میں سے چونکہ جاچکے تھے اُس علاقے کو چھوڑ کر، پہلے ان کو علم ہو گیا تھا اس لئے ان پر تو پولیس قبضہ نہیں کر سکی لیکن جو سات تھے ان کو طرح طرح کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور بہت لمبی کوئی ڈیڑھ سال کا عرصہ یا اس سے زیادہ عرصہ ہو گیا تقریباً بہت شدید تکلیفیں پہنچائی گئیں لیکن اللہ کے فضل سے وہ لوگ ثابت قدم رہے اور جو دو وکلاء بعد میں پیش ہوئے ان کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہاں کے وکلاء کا اتنا زور تھا.اتنا دباؤ تھا حکومت پر وہ غیر احمدی تھے ان کا احمد یوں سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا.انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے جو ظلم کرنے ہیں دوسروں پر کرو مگر ہم اپنی برادری پر ہاتھ نہیں ڈالنے دیں گے.تو یہ برادری کی روح جو ہے یہ وہاں ان کے کام آئی اور اس کے نتیجے میں اُن کو بری کر دیا گیا مگر چند مہینے کی قید کے مصیبت کے بعد.اس مقدمے کا جو فیصلہ سنایا گیا ہے اُس کی روح سے دو احمدیوں کو جن میں ایک ہمارے مربی سلسلہ بھی ہیں موت کی سزا سنائی گئی ہے اور باقی کو عمر قید چھپیں چھپیس سال قید با مشقت.یہ مقدمہ تو شروع سے آخر تک جھوٹ ہی جھوٹ ہے لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ اس فیصلے کی توثیق صدر نے خود کی ہے اور فخر کے ساتھ اس بات کا اعلان کروایا ہے اخباروں میں کہ اس قتل کے ذمہ دار جو احمدیوں کو قتل کرنے کا ہم ارادہ رکھتے ہیں اس کے ذمہ دارصدر پاکستان ہیں اور انہی کی توثیق سے یہ سزا جاری کی جارہی ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 161 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء یہ وہ پہلو ہے جو تعجب انگیز ہے اس لحاظ سے کہ دنیا بھر میں مقدمات ہوتے ہیں قتل ہو جاتے ہیں.واقعہ بچے مقدمات میں سزائیں ملتی ہیں مگر ملکوں کے صدر کبھی اپنے نام کو ان باتوں میں ملوث نہیں کیا کرتے.عدلیہ کارروائی ہوتی ہے بچی ہو یا جھوٹی ہولیکن ایک ملک کا صدرفخر سے یہ اعلان کرے کہ یہ جو قتل ہونے والے ہیں اس کا فیصلہ میں نے کیا ہے.یہ بات نہ صرف عموماً تعجب انگیز ہے بلکہ اس لئے بھی کہ یہ فیصلہ کرنے والے کی دہریت کی علامت بتاتی ہے، دہریت سے پردہ اٹھاتی ہے.دنیا کے نام پر مظالم کرنے والے بعض دفعہ خدا کے قائل بھی ہوتے ہیں تو غفلت کی حالت میں ظلم کر جایا کرتے ہیں مگر ایک شخض جو خدا کے نام پر ظلم کر رہا ہواور معصوم انسان کے متعلق قتل کا فیصلہ کر رہا ہو.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کو خدا پر ایمان ہو یا اس بات پر یقین ہو کہ وہ جوابدہ ہوگا قیامت کے دن.جوابدہی کے تصور سے تو دنیا لرزتی ہے.جتنے استبداد ہیں، دنیا میں جو قائم ہیں ،ان سب کی طاقت کا راز جوابدہی میں ہے.جتنے ڈکٹیٹر دنیا پہ مسلط ہیں اور معصوموں کے خون بہا رہے ہیں یا انسانی حقوق چھین رہے ہیں ان کی طاقت کا راز اس بات میں ہے کہ اگر کوئی شخص ان کے خلاف اٹھنے کی کوشش کرے اس کو یہ پتہ ہے کہ خواہ وہ ظالم ہے خواہ اس کا حکومت کرنے کا حق نہیں بھی ہے تب بھی اس کے سامنے میں جوابدہ ہوں اور ایک صاحب استبداد کے سامنے، صاحب جبروت کے سامنے انسان جواب دہی سے ڈرتا ہے.اس لئے کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل یقین رکھتا ہو کوئی شخص جانتا ہو کہ مرنے کے بعد اس کی گردن خدا کے ہاتھوں میں ہوگی اور وہ ذوالانتقام ہے اور اس کی پکڑ سے کوئی دنیا کی طاقت نہیں بچا سکتی ، بڑے اور جھوٹے ہر ایک کی گردان اس کے ہاتھ میں ہے.جو شخص اس کی جواب دہی کا یقین رکھتا ہو وہ آنکھیں کھول کر اتنا ظالمانہ بیبا کا نہ فیصلہ اس کے نام پر نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے بعد پھر اس کے بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی.دنیا کے ظلم بعض دفعہ معاف بھی ہو جاتے ہیں.انسان کے اندر جب پشیمانی ہو اور حیا پیدا ہوتو اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے لیکن خدا کے نام پر ظلم کرنے والے کے لئے بخشش کی کوئی راہ میں نہیں دیکھتا.نہ مذہبی تاریخ میں اس قسم کی بخشش کا کوئی ذکر ملتا ہے اس لئے سوائے اس کے کہ کوئی شخص پوری طرح دلیر ہو چکا ہو خدا کے متعلق اور یہ جانتا ہو کہ کوئی خدا نہیں ہے.جواب دہی نہیں ہے اس سے اوپر کوئی ہستی نہیں ہے.اس وقت تک جب تک یہ صورت حال نہ ہو کوئی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا ہے.اس لئے جہاں
خطبات طاہر جلد۵ 162 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے یہ معاملہ تو جماعت احمد یہ خدا کے ہاتھ میں دیتی ہے.قرآن سے یہ ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ایسے فیصلے ہوتے رہے ہیں.بعض ظالموں کو ظلم کا موقع بھی مل جاتا رہا ہے لیکن خدا کی پکڑ ضرور ظاہر ہوئی ہے اُن کے متعلق.آہستہ آئی ہو یا دیر سے آئی ہو خدا کی پکڑ نے ایسے صاحب جبروت لوگوں کو جو اپنے آپ کو صاحب جبروت سمجھتے تھے اور خدا تعالیٰ کو بے طاقت اور بے اختیار جانتے تھے یا اس کے وجود ہی کے قائل نہیں تھے اُن کے اس طرح نام و نشان دنیا سے مٹادیئے کہ عزت کا ہر پہلوان کے ناموں سے مٹ گئے اور ذلت کے سارے پہلوان کے ناموں کے ساتھ لگے ہوئے ہمیشہ کے لئے زندہ رہ گئے.رہتی دنیا تک رحمتوں کی بجائے لعنتوں سے یاد کرنے کے لئے وہ نام باقی رکھے گئے.اس لئے ہم تو اس خدا کو جانتے ہیں، اس صاحب جبروت کو جانتے ہیں کسی اور خدا کی خدائی کے قائل نہیں.اس لئے احمدیوں کا سران ظالمانہ سزاؤں کے نتیجے میں جھکے گا نہیں بلکہ اور بلند ہوگا اور بلند ہو گا یہاں تک کہ خدا کی غیرت یہ فیصلہ کرے گی کہ دنیا میں سب سے زیادہ سر بلندی احمدی کے سر کو نصیب ہوگی کیونکہ یہی وہ سر ہے جو خدا کے حضور سب سے زیادہ عاجزانہ طور پر جھکنے والا سر ہے.یہ جو دوبارہ باسی کڑھی میں ابال آرہا ہے اب میں اس کے پس منظر کے متعلق کچھ باتیں بیان کر کے احباب جماعت کو ان کی ذمہ دایوں کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں.کچھ عرصے سے حکومت کی طرف سے نہایت جابرانہ اور ظالمانہ مخالفت میں کچھ کمی محسوس ہورہی تھی.جیسے ایک آدمی تھک چکا ہو ایک ذلیل حرکت کرتے کرتے اور بالآخر اس کو چھوڑ رہا ہولیکن گزشتہ چند دنوں سے یہ ذلت اور یہ کمینگی پھر چمک اٹھی ہے.باسی کڑھی میں جیسے ابال آتا ہے ویسے ہی ایک دوبارہ اس احمدیت دشمنی میں ایک نیا ولولہ پیدا ہور رہا ہے.گورنر ز بیان دے رہے ہیں، وزرائے اعلیٰ بیان دے رہے ہیں ، جو کمی پیچھے رہ گئی تھی مارشل لاء کی طرف سے وہ اب ہم پوری کریں گے اور پہلے احمدیت نہیں مٹ سکی تھی تو اب ہم اسے مٹا کر چھوڑیں گے.اس کی وجہ کیا ہے؟ آخر کیوں اچانک بیٹھے بیٹھے ان کو دوبارہ سیہ جوش اٹھا ہے؟ اس کی وجہ تو بڑی واضح ہے.بات یہ ہے کہ ایک آمر جب بھی حکومت پر قبضہ کرتا ہے تو وہ جانتا ہے کہ اس سے اب پیچھے ہٹنے کی کوئی راہ نہیں ہے ، جانتا ہے کہ جب بھی وہ اترے گا اس کی گردن ان مظلوموں کے ہاتھ میں ہوگی جو پہلے اس کے ظلم کا نشانہ بن چکے ہیں.اس لئے عملاً وہ یہ
خطبات طاہر جلد۵ 163 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء فیصلہ کرنے کے بعد آمر بنتا ہے کہ اب میں نے کبھی اس طاقت کے مقام سے الگ نہیں ہونا اور کسی قیمت پر نہیں ہونا اور ایسے لوگ بسا اوقات اپنی ایک حقیر جان بچانے کے لئے لکھوکھہا انسانوں کے خون سے ہولی کھیلتے ہیں.سٹالن نے جتنے قتل کروائے ہیں اپنی جان بچانے کے لئے ، یہ جانتے ہوئے کہ اگر میں نے ذرہ بھی کمزوری دکھائی تو لازما میں گولی کا نشانہ بنایا جاؤں گا اور جو میں ظلم کر چکا ہوں اس کے بدلے اتارے جائیں گے.اتنے قتل و خون کروائے ہیں کہ اب اگر جب ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو یقین نہیں آتا کہ یہ ہو سکتا ہے؟ ابتداء میں جب میں نے سنے وہ اعداد وشمار تو میں یہی سمجھتا تھا کہ مغربی پرو پیگنڈہ ہے لیکن بعد ازاں جب روسی حکومتیں تبدیل ہوتی رہیں اور اس بات کی توثیق کرتی رہیں کہ سٹالن نے واقعہ لکھوکھبا انسانوں کو محض اس خوف سے قتل کروایا کہ اسکے خلاف کوئی بغاوت نہ کھڑی کر دیں.تو اس وقت مجھے سمجھ آئی کہ ایک ڈکٹیٹر (Dictator) کو اپنی جان کے بدلے میں دنیا کی کسی جان کی ، کسی قدر کی کوئی قیمت نہیں ہوتی ہے اور یہی وہ دہریت ہے، یہی وہ نمرودیت ہے جس کا ذکر قرآن میں بارہا ملتا ہے.ڈکٹیٹر خواہ مذہب کی دنیا میں ڈکٹیٹر ظاہر ہو یا غیر مذہبی دنیا میں ظاہر ہو وہ سوائے اپنے کے کسی اور کو خدا انہیں جانتا نہیں جان سکتا یہ اس کی نفسیات کے خلاف ہے.یہ ڈکٹیٹر بنا ایک دہریت کے ساتھ ایسا گہرا تعلق رکھتا ہے کہ گو یاد ہر یت اس کی ماں ہے جس کی آغوش میں ڈکٹیٹر شپ پلتی ہے.ورنہ مذہبی دنیا میں جہاں جواب دہی کا تصور موجو د ہے وہاں ڈکٹیٹر کا تصور قائم ہو ہی نہیں سکتا ہے.یہی بنیادی فرق ہے ایک نبی کے صاحب حکم ہونے میں اور ایک دنیا دار کے صاحب حکم ہونے میں ، ایک خلیفہ کے صاحب حکم ہونے میں اور ایک عام آمر کے صاحب حکم ہونے میں.نبی کی تو جان نکل رہی ہوتی ہے خدا کے خوف سے.وہ جوابدہ ہوتا ہے ایک بہت ہی بالا اور ذوالاقتدار ہستی کے سامنے اور اسی طرح اس سے بہت عاجز تر خلفاء کی بھی یہی دلی کیفیت ہوتی ہے.وہ تو سوچ بھی نہیں سکتے کہ اپنے اختیارات کو کسی رنگ میں بھی آمرانہ طور پر استعمال کریں.ان کا تو وہی حال ہوتا ہے جو حضرت عمر بستر مرگ پر تھا.بڑی بے قراری سے جان دی ، بہت تڑپ رہے تھے اور بار بار اپنے رب کے حضور یہ عرض کرتے تھے.لالی و لاعلی، لالی ولا علی اے خدا! میں تجھے جوابدہ ہوں، میرا آخری وقت آن پہنچا ہے،
خطبات طاہر جلد ۵ 164 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء میں نہیں جاتا کہ مجھ سے کیا سلوک کیا جائے گا ، اتنے میرے گناہ ہیں، اتنی میری کمزوریاں ہیں ایسی غفلتیں ہوئی ہوں گی مجھ سے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کہ ان کا خوف میری جان کو کھائے جا رہا ہے پس میں اپنی نیکیوں کا کوئی اجر تجھ سے طلب نہیں کرتا میرے آقا، میری غلطیوں سے پردہ پوشی فرمانا لا لى و لا على مجھے بے شک کچھ نہ دے مگر میرے خلاف کچھ نہ رکھنا.اس کیفیت کا آدمی جو اس کیفیت کے ساتھ زندہ رہا ہو اور اس کیفیت میں جان دے رہا ہو وہ کیسے آمر بن سکتا ہے.پس دنیا کی آمریت کا دہریت سے تعلق ہے اور مذہبی بظاہر آمریت کا گہر اخدا سے تعلق ہے اور دونوں میں تضاد اتنا زیادہ ہے کہ جیسے بعد المشرقین ہو.دونوں کے اظہار بالکل مختلف ہو جاتے ہیں ، دونوں کا طرز عمل بالکل بدل جاتا ہے اور کوئی دور کی بھی مشابہت ایک دوسرے کے ساتھ نہیں رہتی.پس میں جب دنیا کی آمریت کی بات کرتا ہوں تو یہ قطعی اور لازمی حقیقت ہے کہ یہ دہریت کی گود میں پلتی ہے، دہریت کا دودھ پی کر جوان ہوتی ہے اور دہریت کی قبر میں جان دیتی ہے اور ایسے موقع پر ایک مومن کے لئے سوائے اس کے کوئی بھی راہ باقی نہیں رہتی کہ وہ کلیہ ان معاملات کو اپنے رب کے سپر د کر دے اور یہ کہے کہ اے خدا! ہم ہٹ رہے ہیں بیچ میں سے، اب تو جانے اور تیرے یہ سرکش بندے جائیں جن کو بندہ ہوتے ہوئے بھی بندگی کی توفیق نہیں ملی ، جو مقدس نام لے لے کر نہایت بھیانک اور گھناؤنے کام کرتے رہے اور ایک لمحہ بھی ان کے دل میں خوف خدا نہ آیا.اب تو جانے ، تو مالک ہے اور تو خالق ہے اور یہ تیرے بندے کہلانے والے لوگ جانیں.پس جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے وہ یہی ایک صورت ہے.لیکن ایسا شخص جو خدا کو نہیں مانتا وہ دنیا کو تو ضرور مانتا ہے، جو خدا کا خوف نہیں کھاتا وہ دنیا سے ضرور خوف کھاتا ہے اور جتنا زیادہ اپنی سفا کی اور ظلم میں بڑھتا چلا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ دنیا کا خوف بڑھتا چلا جاتا ہے.یہی وجہ ہے کہ ان حالات میں دوبارہ اس باسی کڑھی کو اُبال آیا ہے.موجودہ آمریت خواہ کسی بھیس میں بھی پل رہی ہو.ایک سیاست دان کا جمہوری لبادہ لے کر آئے یا ایک مولوی کا لبادہ اوڑھ کر آئے ، جس شکل میں بھی ہو بنیادی طور پر تو وہی آمریت ہے.ع ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیں جو آئے
خطبات طاہر جلد۵ 165 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء وہی کیفیت ہے ، اس آمریت کی بنیادی طاقتوں کو اب یہ یقین ہو چکا ہے کہ زیادہ دیر تک یہ صورت حال باقی اب نہیں رہ سکتی.وہ غیور اور صاحب فہم سیاست دان جو حقیقہ ملک میں جمہوری آزادی لانا چاہتے ہیں اور غیرت بھی رکھتے ہیں اور بصیرت بھی رکھتے ہیں وہ تو حکومت سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں اور جتنا وقت گزر رہا ہے ان کی بے چینی بڑھتی چلی جارہی ہے.ساری قوم کو وہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا دیکھ رہے ہیں اور ان زنجیروں کے حلقوں کو زیادہ تنگ کیا جا رہا ہے اور وہ جانتے ہیں کہ اب جو آمریت ٹھونسی جائے گی یہ اسلام کے نام پر ملاں کی آمریت ہوگی اور اس آمریت سے پھر چھٹکارا پانا بہت ہی مشکل ہو جائے گا.اس لئے سارے پاکستان کے صاحب بصیرت سیاستدان بہت بے تاب ہو چکے ہیں اور بے چین ہو چکے ہیں.جماعت احمدیہ کے حق میں جو ان کے بیانات آتے رہتے ہیں اس وجہ سے نہیں کہ جماعت احمدیہ سے ان کو محبت ہے.وہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے نام پر ساری قوم کو پاگل اور بیوقوف بنایا جارہا ہے اور جس ملا کو اوپر لایا جارہا ہے ایک دفعہ اوپر آ گیا تو پھر اس کے پھندے سے نجات پانا قوم کے لئے مشکل ہو جائے گا.ان کی تاریخ عالم پر نظر ہے چنانچہ اصغر خان صاحب نے جو کتاب لکھی موجودہ حالات پر اُس میں اس بات کو کھول کر بیان کیا ہے کہ تاریخ عالم سے ثابت ہے کہ ملاں کی حکومت جب بھی قائم ہوئی ہے اس نے قوم کو برباد کیا ہے اور یہ اس طرح ختم نہیں ہوا کرتی کہ ملک کے کچھ اور لوگ ان سے عنان لے لیں ، یہ اس طرح ختم ہوا کرتی ہے کہ غیر ملک آ کر پھر ایسے ملکوں پر قبضہ کیا کرتے ہیں کیونکہ ان کی حکومتیں ہمیشہ غداریوں پر منتج ہوتی ہیں اور اپنے وطن کو غیروں کے سپرد کرنے پر ان کی حکومتوں کا انجام ہوتا ہے.پس ان کی بے چینی بڑھ گئی ہے اور وہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ ہر قیمت پر ہمیں ملائیت سے نجات حاصل کرنی ہوگی ورنہ یہ قوم کے لئے پیر تسمہ پا ثابت ہوگا.پیر تسمہ پا کا لفظ شاید انگلستان کے نو جوانوں کو سمجھ نہ آئے اس لئے میں اس کی مختصر سی تشریح کر دیتا ہوں.سند باد جہازی قصوں میں ایک یہ بھی قصہ ہے کہ ایک ایسے جزیرے پر اس کا جہاز ٹوٹا جہاں کہیں انسان کی تو کوئی خو بو نظر نہیں آتی تھی ، کوئی اس کا وجود نہیں ملتا تھا لیکن ویسے بہت زرخیز جزیرہ تھا ، بہت پھل ہر قسم کے خدا تعالیٰ کی طرف سے طبعی نعمتیں مہیا تھیں.وہ جزیرے میں بس گیا پھل ول ہر چیز اچھی ملتی تھی کھانے کو.اچھی زندگی
خطبات طاہر جلد۵ 166 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء گزر رہی تھی مگر تنہائی نے مصیبت ڈالی ہوئی تھی.ایک دفعہ گزرتے ہوئے اُس کو ایک انسانی آواز آئی اُس نے دیکھا تو ایک درخت کے نیچے ایک بہت ہی بوڑھا آدمی جس کی سفید ریش زمین کو چھورہی تھی اور سر کے بال بھی لمبے اور سفید تھے ، ہاتھ میں تسبیح پکڑی ہوئی اور ذکر الہی میں گویا بظاہر ذکر الہی میں مصروف تھا.اُس نے اس کو آواز دی اُس نے کہا میاں ذرا ادھر آؤ.دیکھوٹانگیں، ان ٹانگوں میں خود کھڑا ہونے کی طاقت نہیں ہے.اُس نے دیکھا تو واقعی جس طرح ربڑ کی کوئی چیز ہو اس طرح ٹانگیں لٹکی ہوئی تھیں ان میں واقعہ کوئی طاقت نہیں تھی.اُس نے کہا! میں تو دوسرے کے سہارے کا محتاج ہوں اس لئے تم اتنا مجھ پر احسان کرو کہ مجھے اپنے کندھے پر بٹھا لو تا کہ میں اپنے ہاتھ کے تازہ پھل تو ڑ کر کھاؤں اور یہ بھی مزہ لوں جو ٹانگوں والے مزے لیتے ہیں.اُس کو یہ کہانی سن کر بڑا رحم آیا اور اس نے کہا کہ اس میں تو کوئی بات نہیں میں آپ کو اپنے کندھے پر بیٹھا لیتا ہوں چنانچہ دونوں ٹانگیں اس نے ایک اس طرف اور ایک اُس طرف رکھ کے اس کو اپنے کندھے پر بٹھایا اور پھل کھلایا جب وہ پھل کھا چکا تو اس نے کہا کہ اچھا بابا میں آپ کو اتارتا ہوں تو اس نے کہا اب تو میں نہیں اتروں گا.اب تو مجھے جو مزہ پڑ گیا ہے کسی کے کندھے پر سوار ہو کر پھل کھانے کا ، میں اتنا ہی پاگل ہوں کہ اس مزے کو چھوڑ دوں اس سے محروم رہ جاؤں ، اب تو ہر حالت میں یہ ٹانگیں تمہاری گردن کا ہار بنی رہیں گی.چنانچہ اس نے کس کر اُن ٹانگوں کا پھندہ بنا کر اس کی گردن میں ڈال دیا، جب وہ اس کو گرانے کا ارادہ کرتا تھا تو وہ پھندہ اور زیادہ سخت ہو جاتا تھا اور کہانی کے مطابق وہ ہمیشہ کے لئے بڑھا اس نو جوان پر سوار ہو گیا.ملاں کی بھی کوئی ٹانگ نہیں ہے، حکومت کرنے کی کوئی ٹانگ نہیں ہے، کوئی جواز نہیں ہے کہ یہ حکومت پر آئے ، اس کو کوئی دنیا کے نظم و انصرام سے تعلق ہی نہیں ہے ، اس کو فہم ہی نہیں ہے کہ سیاست ہوتی کیا ہے، اس کو تقویٰ کا بھی علم نہیں، اس کو عدل کا بھی علم نہیں ، اسکو انصاف کا کوئی تصور نہیں، دنیا کے جغرافیہ تک سے ناواقف ہے.آج تک یہ بھی نہیں مانتا کہ چاند پر بھی کوئی انسان پہنچ چکا ہے.اس قسم کا ملاں جو نہ دین کا علم رکھتا ہو نہ دنیا کا علم رکھتا ہوں.قرآن کریم کی وہ تفسیریں پڑھتا ہو جو گزشتہ زمانے میں بڑے بڑے بزرگوں نے لکھی مگر حالات سے ناواقفیت کے نتیجے میں بہت سی غلط باتیں قرآن کی طرف منسوب کر چکے ہیں.انکی دنیا وہی وسطی از منہ کی دنیا ہے.اُس زمانے کے
خطبات طاہر جلد۵ 167 خطبہ جمعہ ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء انسان کی سوچ ان کی سوچ ہے اور چونکہ دل تقویٰ سے خالی ہیں اس لئے علم بجائے نیکی پھیلانے کے ظلم اور سفا کی پھیلانے کے لئے استعمال ہورہا ہے.اپنے برتے پر ملاں کبھی دنیا میں حکومت نہیں کر سکتا ہے کوئی قوم کبھی کسی ملا کی حکومت کو برادشت نہیں کر سکتی ہے اگر اسکو اختیار ہو چنے کا.اس لئے واقعہ یہ مثال ان پر صادق آتی ہے کہ ان کی اپنی ٹانگیں نہیں ہیں پھل کھانے کے لئے ، ہمیشہ سے اس طرح زندگی گزاری کہ گرا ہوا پھل کھاتے ہیں.ہمارے دیہات میں، ہمارے شہروں میں ان کی حیثیت صدقہ خیرات زکوۃ کھانے والوں کی سی رہی ہے.بہت سے بعض شرفاء بھی ہیں ، باغیرت بھی ہیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا بھی جانتے ہیں لیکن انفرادی حیثیت سے.Insitution کے لحاظ سے، ایک نظام کے اعتبار سے یہ ہمیشہ مرہون منت رہے ہیں دوسروں کی رحم دلی کا ، اور جو رزق ان کی جھولی میں ڈالا گیا اسی پر غنیمت کی.ان کا بھی تو دل چاہتا ہے کہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں لیکن پاؤں ہیں نہیں کھڑے کس پر ہوں.اس لئے اسلامی تاریخ میں ملاں نے جب بھی پھل پر براہ راست ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی ہے وہ دوسروں پر سوار ہوا ہے.اسلامی سیاستدانوں پر سوار ہوا ہے، اسلامی بادشاہتوں پر سوار ہوا ہے اور ان کے کندھے پر چڑھ کر اس نے پھلوں پر ہاتھ ڈالے ہیں.اور وہ تو یہ سمجھتے رہے کہ عارضی قصہ ہے ہماری طرف سے اتنے احسان ہورہے ہیں اس قوم پر تو کچھ اور سہی لیکن ہمیشہ ملاں پیر تسمہ پا بنا ہے قوموں کے لئے اور کبھی بھی اس نے پھر اپنے پھندے سے ان گردنوں کو آزاد نہیں کیا.کہانی کے مطابق وہ سیاح جو پیرے تسمہ پا کے پھندے میں جکڑا گیا تھا اسکی نجات کا تو بالآخر سامان ہوگیا لیکن بدقسمتی سے حقیقی دنیا میں ہم ان قوموں کی نجات کا کوئی سامان نہیں پاتے.جن لوگوں کی گردنیں ایک دفعہ ملاں کے پھندے میں جکڑی گئیں ہیں پھر وہ کبھی آزاد نہیں ہوئیں.اور یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا سیاست دان جو باشعور ہے اور باغیرت ہے اور باحیاء ہے جس نے اس حکومت کے سامنے سر جھکانے سے ہر قیمت پر انکار کر دیا ہے.وہ کلیۂ گفت وشنید سے مایوس ہو چکا ہے اور جانتا ہے کہ ساری قوم کو لے کے اسے گلیوں میں نکلنا پڑے گا.ایک خونی سے اپنے ملک کو آزاد کروانے کے لئے خون کی قربانی دینی ہوگی اور اس کے سوا اب کوئی چارہ باقی نہیں رہا.ان حالات کو موجودہ وقت کے حکمران بھی دیکھ رہے ہیں اور وہ سیاستدان بھی دیکھ رہے ہیں جنہوں نے
خطبات طاہر جلد۵ 168 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء اپنے اصول کو بیچا ہے، چند دن کی حکومت کے لئے اور آمر سے تعاون کیا ہے.اس لئے وہ مجبور ہیں اس توجہ کو مٹانے کے لئے ، اس کا رخ موڑنے کے لئے کچھ اور فساد کھڑے کئے جائیں گے اور جماعت احمدیہ سے بہتر ان کو اور کوئی سہارا نہیں مل رہا.ایک اور بھی ہے وہ ہے شیعہ ازم کا اور پاکستان کی اخبارات پر نظر ڈالنے سے معلوم ہو رہا ہے کہ شیعہ ازم کو بھی ابھارنے کے لئے پوری کوشش کی جارہی ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب تک احمدیوں کے متعلق جو بھی کچھ کھیل کھیلے گئے ہیں عوام باخبر ہو چکے ہیں اور پوری طرح اٹھ نہیں سکے جیسا کہ ان کو توقع تھی.لیکن یہ سمجھتے ہیں کہ ایرانی حکومت کی شیعہ حکومت کی سنی حکومتوں سے لڑائی کے نتیجے میں بالعموم شیعہ اور سنی عالم بٹے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کو نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں ، خوف کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ شیعہ سوال اگر اٹھایا جائے تو ہو سکتا ہے ہماری جان چند دن اور کیفر کردار تک پہنچانے والوں کے ہاتھ سے بچ جائے.اس لئے بے اختیار اور مجبور ہوئے ہیں اس بات کے لئے کہ کوئی بہانہ ڈھونڈیں ملک میں کوئی ایسے فساد برپا کریں جس کے نتیجے میں قوم کی توجہ ہٹ جائے اور قوم سیاست دانوں کے ہاتھوں میں آنے کے بجائے ہمارے ہاتھوں میں اور ملاں کے ہاتھوں میں کھیلے.اس کا کیا انجام ہوگا وہ تو واضح ہے کیونکہ ہماری تو قرآن کریم کی تاریخ پر نظر ہے ہم اس انجام کو اسی طرح دیکھ رہے ہیں جیسے ماضی کو دیکھا کرتے ہیں لیکن انکو نظر نہیں آرہا اور یہی کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح بھی ہو ہم ان بظاہر مذہبی سوالات کو اُٹھائیں اور اس کے نتیجے میں عوام کے جذبات کو انگیخت کر کے توجہ دوسری طرف منتقل کر دیں.اس لئے جماعت احمدیہ پاکستان کو بالخصوص میں نصیحت کرتا ہوں کہ جس طرح انہوں نے گزشتہ سال اور اس سے پیوستہ سال نہایت ہی صبر اور استقامت کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ ،عزم اور ہمت کے ساتھ عشق و وفا کے ساتھ ، خدا کی راہ میں تکلیفیں اٹھاتے ہوئے تسلیم ورضا کے ساتھ دن گزارے تھے اسی طرح ان روایات کو زندہ رکھیں اور ان سے چھٹے رہیں بلکہ آگے بڑھا ئیں اور کسی قسم کا ظلم بھی جس کی کوئی بھی انتہاء ہوسکتی ہے، وہ حکومت کی طرف سے تو ڑا جائے یا عوام کی طرف سے ظاہر ہو اس کو خدا کے نام پر خدا کی خاطر مردان مومن کی طرح برداشت کریں.
خطبات طاہر جلد۵ 169 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء ہم نہیں جانتے کہ خدا تعالیٰ ان کو یہ توفیق بخشے گا کہ نہیں کہ اپنے ظالمانہ فیصلے پر عمل پیرا ہو سکیں.خدا تعالیٰ نے انسان کے ہاتھ میں جو بھی تدبیریں رکھی ہیں ان تدبیروں سے بھی ہم کام لے رہے ہیں اور لیتے رہیں گے اور تقدیروں کے رخ بدلنے کے لئے جو دعا کے ہتھیار ہمیں عطا کیے ہیں ہم ان دعاؤں سے بھی کام لیتے رہیں گے کیونکہ دعاؤں کے ذریعہ تقدیریں بھی ٹل جایا کرتی ہیں لیکن اس کے باوجود خدا کی مرضی بہر حال غالب رہے گی اگر خدا نے کسی قوم کو شہادت کی سعادت عطا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو ہم اس کی ہر رضا پر راضی رہیں گے لیکن میں جماعت احمدیہ پاکستان کو یاد دلاتا ہوں کہ اگر یہ شہادت ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے تو پہلے سے زیادہ عزم اور حوصلے کے ساتھ اس بات کا عہد کریں کہ جس طرح ان نو جوانوں نے اپنے عہد کو پورا کیا اور خدا کی خاطر اپنے پیارے بیوی اور بچوں سے منہ موڑا، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کو دیکھا اور اُسے خدا کے نام پر قبول کرنے کے لئے تیار ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ کلمہ شہادت کی عزت اور ناموس پر حرف نہیں آنے دیں گے خواہ ان کی گردنیں تختہ دار پر لٹکا دیں جائیں اور یہ فیصلہ کیا کہ وہ اپنے بیوی اور بچوں کی بیوگی اور یتیمی کو قبول کر لیں گے لیکن یہ نہیں قبول کریں گے کہ خدا کی عبادت گاہوں کو دنیا کے ذلیل انسان اپنے گندے پاؤں تلے روندیں اور ان کی عصمت کے ساتھ کھیلیں.انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہر حال میں ہر قیمت میں ہر قربانی دیتے ہوئے ہم کلمہ طیبہ کی حفاظت کریں گے اور اپنی مسجدوں کی ناموس کی حفاظت کریں گے.پس انہوں نے تو اپنی راہیں متعین کرلیں فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب :۲۴) کے فیصلے کو پورا کر دیا.اے پیچھے رہنے والو! کیا تم ان راہوں سے پیچھے ہٹ جاؤ گے؟ اے پیچھے رہنے والو! کیا تم ان آگے بڑھنے والوں کو ہمیشہ کے لئے خالی چھوڑ دو گے؟ آج تم پر دو ہری ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ان خدا کی خاطر مصیبتیں برداشت کر نیوالوں کے ساتھ وفا کا تقاضا ہے، محمد ﷺ اور قرآن اور خدا کے ساتھ وفا کا تقاضا ہے کہ ان راہوں سے نہیں پیچھے ہٹنا ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹنا آگے بڑھنا ہے.اگر چالیس لاکھ احمدی کی لاشیں پاکستان کی گلیوں میں کتے گھسٹتے پھریں تب بھی میں تم کو تاکید کرتا ہوں کہ خدا کے نام کے کلمے اور محمد مصطفی ﷺ کے نام کے کلمے کو آنچ نہیں آنے دینی.پس آگے بڑھو اور یقین رکھو کہ آخر غلبہ تمہارا ہے آخر فتح تمہاری ہے کیونکہ خدا کے نام پر مرنے کے لئے تیار رہنے والوں کو کبھی موت مار نہیں سکی کبھی کوئی دشمن ان پر فتح یاب نہیں ہوسکا.اپنی الله
خطبات طاہر جلد۵ 170 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء دعاؤں میں التزام اختیار کرو کیونکہ قرآن کریم کی ایک آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں.” جو مانگتا ہے اس کو ضرور دیا جاتا ہے اسی لئے میں کہتا ہوں کہ دعا جیسی کوئی چیز نہیں دنیا میں دیکھو کہ بعض خر گدا ایسے ہوتے ہیں کہ وہ ہر روز شور ڈالتے رہتے ہیں ان کو آخر کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑتا ہے اور اللہ تعالیٰ تو قادر اور کریم ہے جب یہ اڑ کر دعا کرتا ہے یعنی بندہ تو پالیتا ہے.کیا خدا انسان جیسا بھی نہیں.( ملفوظات جلد سوم صفحه: ۶۰۲) پھر آپ فرماتے ہیں : آج اس موقعہ کے اثنا میں جبکہ یہ عاجز بغرض تصحیح کا پی کو دیکھ رہا تھا بعالم کشف چند ورق ہاتھ میں دیئے گئے اور ان پر لکھا ہوا تھا کہ فتح کا نقارہ بجے پھر ایک نے مسکرا کر ان ورقوں کی دوسری طرف ایک تصویر دکھلائی اور کہا کہ دیکھو کیا کہتی ہے تصویر تمہاری.جب اس عاجز نے دیکھا تو اس عاجز کی تصویر تھی اور سبز پوشاک تھی مگر نہایت رعب ناک جیسے سپہ سالار مسلح فتح یاب ہوتے ہیں اور تصویر کے یمین و یسار میں حجة الله القادر و سلطان احمد مختار لکھا تھا.(تذکرہ صفحہ :(۸۸) پھر آپ فرماتے ہیں، آپ کو اللہ تعالیٰ نے بطور وحی کچھ اسماء عطا فرمائے ، کچھ لقب دیئے ان میں سے ایک یہ تھا عبد القادر رضی الله عنه.ارى رضوانه الله اکبر ،اسکی تفسیر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: ” خدا کچھ اپنی قدرتیں میرے واسطہ ظاہر کرنے والا ہے، اس واسطہ میرا نام عبدالقادر رکھا.رضوان کا لفظ دلالت کرتا ہے کہ کوئی فعل دنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہو جائے اور دنیا پر روشن ہو جائے کہ خدا مجھ پر راضی ہے.“
خطبات طاہر جلد۵ 171 خطبه جمعه ۲۱ فروری ۱۹۸۶ء کوئی فعل دنیا میں خدا کی طرف سے ایسا ظاہر ہونے والا ہے جس سے ثابت ہو جائے اور دنیا پر روشن ہو جائے کہ خدا مجھ پر راضی ہے دنیا میں بھی جب بادشاہ کسی پر راضی ہوتا ہے تو فعلی رنگ میں بھی اس رضامندی کا اظہار ہوتا ہے.“ (تذکرہ صفحہ: ۴۶۵ ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جہاں فتوحات کی بڑی واضح اور قطعی اور عظیم الشان خوشخبریاں عطا فرمائی گئیں وہاں ان فتوحات کو حاصل کرنے کی چابی بھی عطا کر دی گئی اور الہام کے ذریعہ وہ راز سکھلایا گیا جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے پھر نصرت آتی ہے اور خدا کے پاک بندوں کے لئے پھر عظیم الشان کام کر کے دکھاتی ہے اور وہ الہام یہ ہے کہ.اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کے نمونے دیکھیں ( تذکر صفحہ ۵۰۷) پس میں احمدیوں سے کہتا ہوں کہ اٹھو اور نمازیں پڑھو یہی تمہارے ہتھیار ہیں تم ان روحانی ہتھیاروں کو استعمال کرو.پہلے سے بڑھ کر خدا کی عبادت میں شغف دکھاؤ.پہلے سے زیادہ بڑھ کر ان عبادتوں میں اپنے دلوں کو نرم کرو، اپنی روحوں کو گذرا کرو اور خدا کے حضور گریہ کا شور مچادو، خدا کے حضور اپنی عاجزی اور درد کی حالت اور بے کسی کی حالت کو پیش کرو اور پھر دیکھو کہ خدا کی قسم ! حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا یہ الہام تمہارے حق میں بھی پورا کر کے دکھایا جائے گا ” اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کے نمونے دیکھیں اپنے ان پاک بندوں کے لئے جو خدا کی عبادت کا حق ادا کرتے ہیں اللہ ضرور دنیا کو قیامت کے نمونے دکھایا کرتا ہے اور یہ وہ قیامت کے نمونے ہوتے ہیں جن میں پھر آراء تبدیل کر دی جاتی ہیں اور بڑے بڑے عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا کئے جاتے جاتے ہیں.دو پس اس دن کے منتظر رہو اور کامل یقین کے ساتھ اس دن کے منتظر رہو، دعا پر پنجہ مارو اور خدا پر توکل سے ایک لمحہ بھی کبھی متزلزل نہ ہو.یقین رکھو کہ رب محمد مصطفی آج ہمارے ساتھ ہے، ہمارے ساتھ ہے اور ہمارے ساتھ ہی رہے گا.
خطبات طاہر جلد۵ 173 خطبه جمعه ۲۸ / فروری ۱۹۸۶ء ہراک نیکی کی جڑ یہ انتقا ہے موصیان و چندہ دہندگان کو تقویٰ کی نصیحت (خطبه جمعه فرموده ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًان وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ إِنَّ اللَّهَ بَالِغُ أَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللَّهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرًا پھر فرمایا: (الطلاق: ۴۳) حضرت اقدس مسیح موعوعلیہ الصلوۃ والسلام ایک نظم لکھ رہے تھے جس کا موضوع تھا تقویٰ جب آپ اس مصرعہ پہ پہنچے کہ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے تو معا الہام ہوا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ( تذکرہ صفحہ ۳۳۴۲) اور بھی بعض حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایسے اشعار ہیں جن میں ایک مصرعہ آپ نے کہا تو دوسرا اللہ تعالیٰ نے فرمایا.یہ ایک بہت ہی گہری حکمت کی بات ہے کہ تقویٰ کی جڑا گر رہے تو سب کچھ رہا ہے.قرآن کریم اس مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے اَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم:۲۵) کہ مومن کی زندگی کا پاکیزہ درخت کلمہ طیبہ ایسا ہوتا ہے کہ اس کی جڑ زمین میں بہت گہری
خطبات طاہر جلد ۵ 174 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء پیوستہ ہوتی ہے وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاء اور اس کی شاخیں آسمان تک پہنچتی ہیں.اس میں ثابت کی تصویر کھینچی گئی ہے وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ کہہ کے.امر واقعہ یہ ہے کہ درخت کی جڑیں جتنی گہری اور مضبوط ہوں اسی نسبت سے اس کی شاخیں بلند ہوسکتی ہیں، اس کا تنا اونچا ہوسکتا ہے.وہ درخت جن کی جڑیں سطحی ہوں وہ بہت اونچا قد اختیار نہیں کر سکتے اور اگر کسی اونچائی تک پہنچ بھی جائیں تو ہوا کے معمولی تھیڑے سے ہی وہ اکھڑ جاتے ہیں.ثابت کہہ کر یہ بیان فرمایا کہ اتنی گہری ، اتنی گہری کہ وہ مومن کے وجود کا درخت اگر آسمان تک بھی بلند ہو جائے اور آسمان سے اس کی شاخیں باتیں کرنے لگیں تب بھی وہ جڑ نہیں ہلتی اور وہی تقویٰ کی جڑ ہے.تقویٰ کی جڑ اگر مضبوط ہو اور گہری ہو تو مومن کی ساری روحانی زندگی کی نشو ونما اسی پر مبنی ہے.اس کے وجود کا استحکام اس پر مبنی ہے ابتلاؤں سے بچنے کا گراسی میں واقعہ ہے کیونکہ ابتلا مثال تو ایسی ہے جیسے زلزے آئیں اور آندھیاں چلیں تو وہ درخت جن کی جڑیں کمزور ہوتی ہیں وہ اکھڑ جایا کرتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب خدا تعالیٰ نے الہاماً فرمایا کہ اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے تو اس میں سب کچھ بیان کر دیا جس کو معلوم کرنے کی ایک مومن کو حاجت ہوسکتی ہے.اس مضمون کا زندگی کے ہر شعبے سے تعلق ہے.صبح سے لے کے رات تک اور رات سے صبح تک ایک انسان کی زندگی پر جتنے بھی لمحات گذرتے ہیں ان سب لمحات میں یہ مضمون کسی نہ کسی رنگ میں یا جلوہ دکھا رہا ہوتا ہے یا نا کام ہو کر انسان پر کوئی داغ لگا رہا ہوتا ہے.اور کوئی زندگی کا ایسا لمحہ نہیں جس کا اس مضمون سے تعلق نہ ہو.کوئی انسانی دلچسپی کا شعبہ ایسا نہیں جس کا اس مضمون سے تعلق نہ ہو.مثلاً لوگ جو کثرت سے مالی معاملات میں لین دین میں جھگڑوں کے متعلق مجھے لکھتے ہیں.اس کا ایک علاج تو یہ ہے کہ قضاء کی طرف معاملہ کو پیش کیا جائے.امور عامہ سے یہ کہا جائے ، کہ وہ سمجھوتہ کرانے کی کوشش کرے.ناظر صاحب اصلاح وارشاد کولکھا جائے امیر جماعت کو توجہ دلائی جائے مگر یہ سارے علاج سطحی ہیں.لاز ماجر میں کوئی کمزوری ہے.لازماً کوئی بیماری ایسی ہے جس کا جڑ سے تعلق ہے اور وہ راز ہم پر کھلا کہ وہ تقویٰ کی جڑ ہے جس میں کوئی کمزوری پیدا ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں شاخیں بیماری دکھانے لگی ہیں.پس یہ علاج بھی سطحی ہیں جو میں نے بیان کئے جب تک ہم جڑ کی طرف توجہ نہ کریں اور گہرا اتر کر اس بیماری کو وہاں دور نہ کریں اس وقت تک ہم حقیقت میں
خطبات طاہر جلد ۵ 175 خطبه جمعه ۲۸ / فروری ۱۹۸۶ء جماعت کی مالی امور میں اصلاح کی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر سکتے.اس مضمون پر جب میں نے غور کیا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ یہاں بھی درجہ بدرجہ جڑ کی بیماریاں بھی مختلف مقامات پہ پھیلی پڑی ہیں.جڑ میں بھی کچھ سطحی بیماریاں ہیں کچھ نسبتا گہری کچھ اور گہری اور جوسب سے گہری جڑ کی بیماری ہے وہ ہے خدا تعالیٰ سے اپنے مالی معاملات کوصاف نہ رکھنا.جس طرح بعض دفعہ انسان سے مضمون چلتا ہے خدا تک پہنچتا ہے.اس طرح الٹ کر بعض دفعہ خدا سے مضمون چلتا ہے اور انسان تک پہنچتا ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا مَنْ لَّمْ يَشُكُرِ النَّاسَ لَمُ يَشْكُرِ الله ( ترمذی کتاب البر والصلہ حدیث نمبر : ۱۸۷۷) جس نے بندے کا شکر ادا نہ کیا، جس کا دل شکر گزار نہیں ہے اپنے ہم جنسوں کے لئے وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا.تو دیکھیں انسان سے بات چلی اور خدا تک پہنچی.اس کے برعکس یہ بھی ہوتا ہے کہ جو خدا کا حق رکھتا ہے مال میں اور خدا سے معاملہ صاف نہیں کرتا.وہ بندوں سے بھی معاملہ صاف نہیں کر سکتا یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے مالی معاملات صاف اور سیدھے نہ رکھے اور بندوں کے ساتھ سیدھے رکھے.اس کے برعکس یہ ہو سکتا ہے کہ بعض انسان اتنے گہرے بیمار نہ ہوں تقویٰ کے لحاظ سے کہ وہ بندوں کا حق بھی ماریں اور خدا کا بھی ماریں.وہ سمجھتے ہیں بندوں کے ساتھ تھوڑی سی بد دیانتی میں کوئی حرج نہیں ،کبھی کبھی اگر حق مار بھی لیا جائے تو کیا فرق پڑتا ہے لیکن خدا کے معاملے میں وہ سیدھا ہوتے ہیں.یہ نیکی ہو سکتا ہے ان کو بچالے اور آگے بڑھیں اور پھر بالآخر بندوں سے بھی معاملات کو ٹھیک کر لیں.چنانچہ ایسے بعض معاملات میرے ذہن میں ہیں جہاں لوگوں سے تو مالی معاملات میں جھگڑے کئے اور اگر ممکن ہوا تو کچھ نہ کچھ حق دبایا گیا لیکن بعض لوگ اپنے چندوں میں صاف تھے.لیکن اس کے برعکس عموماً یہ شکل بہت زیادہ دکھائی دیتی ہے کہ جو خدا تعالیٰ کے ساتھ مالی معاملات میں صاف نہ ہو وہ بندوں کے معاملہ میں بالکل بے پرواہ ہو جاتا ہے یا اس کی صفائی محض دکھاوے کی صفائی ہوتی ہے.جب اس پر ابتلاء آتا ہے تو لازماً ٹھو کر کھاتا ہے.یہ بسا اوقات دیکھنے میں آیا ہے تو چونکہ خدا تعالیٰ نے ہماری توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ تقویٰ کے مضمون میں جڑ تک اتر و.تقویٰ ہی تقویٰ جڑ ہے اور ہر معاملے کی تہہ تک پہنچ کر اس کی جڑ کو تلاش کرو.اگر جڑ رہ جائے تو پھر سب کچھ رہ جاتا ہے.تو یہ مضمون شعبه به شعبه اسی طرح یہی شکل اختیار کرتا چلا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۵ 176 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء جب ہم مالی معاملات میں تقویٰ کی بات کریں گے تو پہلے خدا سے بندے کے معاملہ کی بات کریں گے پھر بندوں سے بندے کے آپس کے معاملات کی بات کریں گے.اس پہلو سے میں غور کر کے جماعت کے سامنے آج دو تین باتیں رکھنا چاہتا ہوں.ان معاملات میں اگر جماعت تقویٰ کے اعلیٰ معیار کو حاصل کرے تو مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بندوں کے حقوق میں بھی غیر معمولی طور پر نمایاں اصلاح کی صورت پیدا ہوگی.انشاء اللہ تعالیٰ چندوں کے متعلق میں نے سپین کے خطبہ میں یہ ایک عام اعلان کیا تھا کہ وہ لوگ جو بعض مالی مشکلات کی بناء پر شرح کے ساتھ چندہ ادا نہیں کر سکتے ان کو چاہئے کہ وہ مجھے لکھ کر جماعت کی معرفت خواہ اکٹھی فہرستیں آجائیں ضروری نہیں کہ ہر ایک الگ الگ مجھے لکھے بہر حال اعلان یہ کیا تھا کہ وہ مجھے لکھ کر بتا دیں کہ ہماری شرح تو یہ بنتی ہے مگر ہم فلاں فلاں مجبوری کے باعث شرح کے مطابق چندہ ادا نہیں کر سکتے اور اس معاملہ کو تشہیر نہیں دی جائے گی اور بصیغہ راز معاملہ رکھا جائے گا اور میرے نزدیک ایسے لوگ بری الذمہ ہو جائیں گے کیونکہ حسب حالات تو فیق کے مطابق مالی قربانی اصل قربانی ہے اور خدا تعالیٰ یہ تقاضا ہی نہیں کرتا بندے سے کہ اپنی توفیق سے بڑھ کر وہ خدا کے حضور کچھ پیش کرے.چندہ عام کا جہاں تک تعلق ہے میرا یہ اعلان تھا کہ چونکہ مجھے اختیار ہے کہ چندہ عام کی شرح حسب حالات کم کر دوں اس لئے وہ میں کم کر سکتا ہوں لیکن جہاں تک وصیت کا تعلق ہے وصیت کی شرح اللہ تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق ، خدا تعالیٰ کی راہنمائی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقرر فرمائی ہے اور امام وقت وہ ہیں میں تو ان کا ایک ادنی غلام ان کی نیابت کرنے والا ہوں اس لئے اس میں مجھے قطعاً کوئی اختیار نہیں.موصی کے اگر مالی حالات خراب ہوتے ہیں اور وہ شرح کے مطابق چندہ نہیں دے سکتا تو اس کے لئے آسان بات یہ ہے کہ وہ وصیت منسوخ کرالے.اور اس میں کوئی گناہ نہیں.ایک آدمی نیک نیتی سے وصیت کرتا ہے فیصلہ کرتا ہے کہ میں خدا کی راہ میں ہمیشہ جو کچھ بھی مجھے خدا عطا فرمائے گا دسواں حصہ واپس کرتا چلا جاؤں گا.کسی موقع پر پہنچ کر اس کا حقوق العباد پر اثر پڑتا ہے اور خدا ہی کے حکم کے مطابق وہ یہ عرض کر سکتا ہے کہ اب میرے حالات اجازت نہیں دیتے اس لئے میں مجبور ہوں کہ اس وصیت کو ختم کروں لیکن جب تک کوئی موصی ہے اس
خطبات طاہر جلد۵ 177 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء کو قطعاً کوئی حق نہیں کہ خدا کی طرف سے عطا کردہ آمد کچھ اور ہو اور وصیت رکھتے ہوئے وہ پھر دسویں حصے سے جو کم از کم شرح ہے اس سے کم دے رہا ہو اور یہ سمجھ رہا ہو کہ جماعت کے علم میں چونکہ بات نہیں آئی اس لئے کوئی فرق نہیں پڑتا.جماعت کو تو وہ دے ہی نہیں رہاوہ تو خدا کو دے رہا ہے اور خدا کی تو لمحہ لمحہ اس کے حال پر نظر ہوتی ہے.دینے والا وہ ہے اس سے کس طرح چھپا سکتا ہے.کہا جاتا ہے دائیوں سے کس طرح بدن کے راز چھپ سکتے ہیں.دائیوں سے بہت بڑھ کر خدا جو قادر مطلق ہے اور خالق ہے اور عالم الغیب ہے اور عالم الشہادۃ ہے اور سمیع و بصیر ہے اس سے کیسے بندے کے راز چھپ سکتے ہیں.اس لئے جب بھی انسان ایسے معاملات میں تقویٰ سے گرتا ہے جن معاملات میں کسی پہلو سے اس کا کوئی اختیار نہیں تو وہیں وہ خدا کی پکڑ کے نیچے آجاتا ہے اس کے سارے معاملات بے برکت ہو جاتے ہیں.بعض بدیاں گھن کی طرح دوسری نیکیوں کو کھانے لگتی ہیں اور یہ ایک بہت ہی خطرناک زہر ہے جو جڑ کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا.اس لئے ان چیزوں کو معمولی نہ سمجھیں.خدا تعالیٰ کے معاملہ میں سب سے پہلے سیدھا ر ہیں سیدھا ہونے کی کوشش کریں اور اپنے نفس سے کھل کر بات کیا کریں.بعض دفعہ انسان کو دوسرے کی بجائے اپنے نفس سے کھل کر بات کرنی ہوتی ہے.بسا اوقات ایک انسان جرم میں آگے بڑھتا ہے اس لئے کہ وہ اپنے نفس سے شرماتا ہے اور آنکھ نہیں ملا تا اور اپنے نفس کی آواز کی طرف متوجہ نہیں ہوتا اور کھل کر اس سے معاملہ طے نہیں کرتا کہ میں کیا کر رہا ہوں اور کیوں کر رہا ہوں.مجھے کرنا چاہئے یا نہیں کرنا چاہئے.لیکن بعض اوقات اپنے نفس کے ساتھ خوب کھلے ہوتے ہیں جس طرح بعض دوسرے انسانوں سے کھل کر معاملہ طے کرتے ہیں ان کو عادت ہوتی ہے وہ اپنے نفس سے ایک ذہنی گفتگو کرتے ہیں اور خوب کھنگال کر چیزوں کو صاف ستھرا سامنے لا کر دیکھتے ہیں.تو اپنے نفس سے ایسے شخص کو کھل کر بات کرنی چاہئے کہ میں اگر اس لائق نہیں ہوں تو مجھے چھوڑ دینا چاہئے بجائے اس کے کہ میں زیادہ نیکی کے شوق میں جو ہاتھ میں آیا ہوا ہے اس کو بھی ضائع کردوں کتنی بیوقوفی کی بات ہے، مجھے تھوڑے پر راضی رہنا چاہئے ، جتنی نیکی کی مجھے توفیق ہے اتنے اس نیکی کے اندر رہوں اور اسی پر خدا کا شکر کروں اور اس سے زیادہ کی توقع رکھوں اور زیادہ مانگوں.یہ ہے اصل حکیمانہ طرز جو خدا تعالیٰ سے بھی اختیار کی جاتی ہے تو فائدہ ہوتا ہے، بندوں سے بھی اختیار کی جاتی ہے تو فائدہ
خطبات طاہر جلد۵ 178 خطبه جمعه ۲۸ / فروری ۱۹۸۶ء ہوتا ہے.ورنہ ایسے چندے جن کی جڑ میں بد دیانتی داخل ہو چکی ہو، بندے اور خدا کے معاملہ کے اندر بگاڑ آ گیا ہو وہ باقی سارے مال کی نیکی کو ضائع کر دیتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ہمارے سامنے یہ اصول کھول کر رکھا لَنْ يَنَالَ اللهَ لُحُومُهَا وَلَا دِمَاؤُهَا وَلَكِنْ تَنَالُهُ (امج : ۳۸) التَّقْوَى مِنْكُمُ کہ تم جو قربانیاں پیش کرتے ہو.اللہ تعالیٰ کوتو نہ ان کا خون پہنچتا ہے نہ ان کا گوشت پہنچتا ہے.یعنی جہاں تک مادی حصہ کا تعلق ہے خدا تعالیٰ تک کچھ بھی منتقل نہیں ہوتا.ہاں تقویٰ تم سے خدا کو پہنچتا ہے.پس اگر خدا کے حضور انسان تھوڑا پیش کر سکتا ہے اور تقویٰ کے ساتھ وہ پیش کیا جاتا ہے تو اس کی بہت قدر ہے اور تقویٰ روپوں میں نہیں گنا جایا کرتا.تقویٰ کے ماپنے کے پیمانے بالکل مختلف ہیں.اس سے یہ راز بھی ہمیں معلوم ہوا کہ جب ہم خدا کے حضور پیش کرتے ہیں اور اگر ہمیں توفیق ہے ایک کروڑ روپیہ دینے کی اور اگر ہم ایک لاکھ پیش کرتے ہیں تو جہاں تک دنیا کا پیمانہ ہے تو بہت بڑی رقم پیش کی گئی ہے لیکن جہاں تک خدا تعالیٰ کا پیمانہ ہے ۱۰۰ / تقویٰ اس کو پہنچا جتنا تقویٰ اس کو پہنچنا چاہئے تھا اس کے مقابل یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ تقویٰ کے پیمانے اس رنگ میں دیکھے جاتے ہیں حسب توفیق اور حسب نیت اور پھر اسی طرح ہی نہیں دیکھے جاتے اور بھی بہت سے اس کے پہلو ہیں جن پر بندے کی نظر پہنچ ہی نہیں سکتی.کس قدر محبت تھی اس پیش کرنے میں.کیا کیا قربانیاں شامل تھیں جذبات کی اس قربانی کو پیش کرنے میں.پیار اور تقدس کے کیا کیا پہلو اس میں شامل تھے.عجز کے کتنے پہلو اس میں شامل تھے ، قربانی کے بعد کا طرز عمل کیا تھا.مثلاً یہ بعد والا پہلو جو ہے یہ ساری باتیں تقویٰ کے مختلف پہلو ہیں جو ہر نیکی پر اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں، ہر نیکی کوگھیرے ہوئے ہوتے ہیں اور کسی ایک پہلو میں بعض دفعہ کمزوری ہو جائے تو اس پہلو سے دشمن داخل ہو جاتا ہے اور سب گھر کا مال لوٹ کے لے جاتا ہے.بعد کے پہلو کے لحاظ سے بعض لوگ خدا کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور بعد میں اگر نظام جماعت ان کے خلاف کوئی ایکشن لے کسی معاملہ میں تو وہ پھر گنانا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے تو خدا کی راہ میں یہ کیا تھا اور پھر یہ کیا تھا، یا بچے پھر گناتے ہیں کہ ہمارے
خطبات طاہر جلد۵ 179 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء ماں باپ نے تو اتنی اتنی قربانیاں دی تھیں اور آج ہمارے ساتھ یہ سلوک ہورہا ہے.قربانیاں دی تھیں تو خدا کے حضور پیش کی تھیں تمہارا تقویٰ خدا کو پہنچ گیا اگر کچھ تھا تو باقیوں سے کیا مانگ رہے ہواب تم.باقیوں کے معاملے میں تو صرف یہ دیکھا جائے گا کہ اگر تم مستحق تھے کسی اچھے سلوک کے اور انہوں نے نہیں کیا تو قطع نظر اس کے کہ تم نے قربانیاں دی تھیں یا نہیں دی تھیں تم سے بدسلوکی کرنے والا خدا کا مجرم ہے.اور اگر تم مستحق نہیں تھے اور جو سلوک کیا گیا وہ بدسلوکی نہیں بلکہ درست سلوک تھا.تو چاہے تم نے کروڑوں قربانیاں دی ہوں ہرگز ایسا شخص خدا کے حضور مجرم نہیں ٹھہرتا.تو بعد میں بِالمَنِ وَالْأَذى ( البقرہ: ۲۶۵) کا جو مضمون خدا نے ہمیں بتایا وہ عمل کر رہا ہوتا ہے یعنی بعض دفعہ من کے ذریعہ احسان جتا کر لوگ اپنی قربانیوں کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں بعض دفعہ دکھ کی بات کہہ کر طعن و تشنیع کے ذریعہ اپنی قربانیوں کو ضائع کر رہے ہوتے ہیں.تو تقویٰ کے مضمون کو اگر آپ سمجھیں تو آپ اپنی ہر قربانی پر نگران ہو جائیں گے ہر پہلو سے اس کی حفاظت کریں گے.جس طرح ایک مرغی اپنے بچوں کی حفاظت کرتی ہے اس طرح آپ اپنی ہر قربانی کی حفاظت کریں گے.تا کہ خدا تک جو کچھ بھی ہے اگر وہ کم ہے تب بھی اور زیادہ ہے تب بھی پورے کا پورا پہنچے اور صحیح حالت میں پہنچے.تو بہر حال بعض لوگ بد قسمتی سے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ چھپا سکتے ہیں ان باتوں کو.اور پھر آگے یہ مضمون پھیلتا ہے تو ہر شخص کے پیمانے میں جا کر الگ الگ شکلیں بنالیتا ہے.بعض موصی میں نے دیکھے ہیں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ خدا کوحق دیں جہاں شک کا معاملہ دیکھتے ہیں وہاں وہ خدا کے خانے میں زیادہ ڈال دیتے ہیں.اپنے خانے میں کم ڈالتے ہیں اور یہ ایک تقوی کی طرز عمل ہے جو زندگی کے ہر معاملہ میں ان کے ساتھ چلتی ہے.کئی ایسے وصیت کے معاملات میرے سامنے آتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی پوری جائیداد دے دی یعنی اس کی قربانی جتنا بنتا تھا وہ ادا کر دی اور اس کے بعد وہ جائیداد بیچی تو قیمت زیادہ ملی دفتر وصیت ان کو لکھتا ہے کہ آپ ایک دفعہ جائیداد کی قیمت دے بیٹھے ہیں اب مزید آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں وہ کہتے ہیں نہیں ہم نے جب قیمت ادا کی تھی اس وقت دس ہزار کی جائیداد تھی اب بیچی ہے تو بارہ ہزار میں کی ہے.اس دو ہزار پر آپ وصیت لیں اور پھر دے کر چھوڑتے ہیں.دس دفعہ مال تجارت کے چکر میں داخل ہو تو دس دفعہ وہ اس کی وصیت ادا کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ خوف رہتا ہے کہ کہیں اب بھی ہم نے
خطبات طاہر جلد۵ 180 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء کوئی خدا کا مال اپنے مال میں نہ رکھ لیا ہو اور اس کے باوجود وہ یہ نہیں سمجھتے کہ انہوں نے کوئی ایسی عظیم الشان نیکی کر دی ہے کہ ساری عمر اب جماعت پر احسان قائم رہے گا.ایسے لوگ انکسار میں بھی زیادہ ہوتے ہیں اور یہی تقویٰ کی خاص نشانی ہے.تقویٰ کی پہچان میں سے یہ ایک پہچان ہے کہ ہر وہ نیکی جو تقویٰ کے ساتھ کی جائے اس کے ساتھ تکبر نہیں آتا.ہر وہ نیکی جو تقویٰ سے عاری ہواس میں لازماً تکبر داخل ہو جاتا ہے.اور یہ اس کی تباہی کی پہلی نشانی ہے.بہر حال اس کے مقابل پر ایسے لوگ بھی دیکھنے میں آتے ہیں کہ جہاں شک کا پہلو ہووہ اپنے حق میں فیصلہ کرتے ہیں.اور اس کے درمیان درمیان بہت سی شکلیں بنتی ہیں جن کو ہم نے کئی دفعہ قانون کی صورت میں واضح کرنے کی کوشش کی لیکن اتنی مشکلات ہیں ان باریکیوں کو تہہ کر نے کہ بڑے بڑے صاحب تدبر اور صاحب فکر لوگ، زندگی کے ہر شعبہ کا تجربہ رکھنے والے وکلاء اور تجار اور زمیندار اور نوکری پیشہ اور حکومت کے ملازمین ہر قسم کے لوگ، انشورنس کے ماہرین مختلف علوم کے ماہرین وہاں اکٹھے کئے گئے اور بعض دفعہ دو دو سال کمیٹیوں نے غور کیا اور بالآخر اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے ادھوری رپورٹ پیش کر دی کہ اتنی مختلف شکلیں ہیں انسانی زندگی کی کہ کسی ایک قانون کے ذریعہ قطعی طور پر یہ واضح کرناممکن ہی نہیں ہے کہ فلاں معاملے میں مکان اگر تمہارا اپنا ہے تو وصیت کس طرح ادا کرو، اگر تم گورنمنٹ کے مکان میں رہتے ہو تو کس طرح ادا کرو ٹیکس دیتے ہو تو کس طرح ادا کرو، انشورنس دیتے ہو تو کس طرح ادا کر وہ کسی کمپنی نے تمہیں بعض سہولتیں دی ہوئیں ہیں تو کس طرح ادا کرو، کسی نے نہیں دی ہوئیں تو کس طرح ادا کرو، بے شمار زندگی کے معاملات کی شکلیں ہیں جو ادلتی بدلتی رہتی ہیں.زمینداروں کی آمدنیوں کے حساب مختلف ہیں ، تاجروں کی آمد نیوں کے حساب مختلف ہیں ان سارے معاملات کو قانون کے تابع لا کر وضاحت کے ساتھ جماعت کے سامنے نہیں رکھا جا سکتا کہ جس کے بعد ہر موصی کہہ سکے کہ ہاں اب مجھے علم ہو گیا ہے اور چونکہ یہ ممکن نہیں ہے کوشش کی بھی جائے تو ادھوری ہوتی ہے اس لئے درمیان میں آکر پھر تقویٰ اپنے مناظر دکھاتا ہے.ہر آدمی اپنے تقویٰ کے مطابق فیصلے کر رہا ہوتا ہے اور ہر فیصلہ ایک دوسرے سے الگ ہوتا چلا جاتا ہے.اور بعض دفعہ وہ ایسی زمین میں رہتے ہیں کہ جہاں نظام جماعت معلوم ہونے کے باوجود ہاتھ نہیں ڈال سکتا لیکن چونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ ایک قانون
خطبات طاہر جلد۵ 181 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء ہمارے سامنے رکھا کہ خدا کی چراگاہوں کے اتنا قریب نہ جایا کرو یعنی سرحدوں کے قریب کہ آخر ٹھوکر لگے اور تم سرحد پار کر جاؤ اور خدا کی زمین میں منہ مارنے لگو.تو کچھ دیر تک تو وہ جرأت اختیار کرتے کرتے سرحد کے قریب ہونے لگ جاتے ہیں.مشکوک معاملات میں اپنے حق میں فیصلے کرنے لگ جاتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد پھر پر لی طرف کا گھاس نرم و نازک اور سرسبز جو نظر آتا ہے تو برداشت نہیں ہوسکتا پھر وہاں بھی منہ جانا شروع ہو جاتا ہے.پھر قدم داخل ہوتے ہیں پھر خدا کی زمین اپنی زمین بن جاتی ہے.تو اس قسم کے جو معاملات ہیں ان میں بھی ایسی حد تک پہنچ کر پھر خدا سے بددیانتی کی باتیں ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور پھر وہ سمجھتے ہیں کہ اب کوئی فرق نہیں پڑتا یہ ہمارے نفس کا فیصلہ یہی ہے چنانچہ ایسے امور کئی دفعہ جب سامنے آتے ہیں تو انسان کو بڑی تکلیف ہوتی ہے بڑا سخت صدمہ پہنچتا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ انسان خدا سے اپنے معاملات چھپانے کی کوشش کر رہا ہو.بعض موصی ایسے ہوتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے بڑی بڑی جائیداد میں دی ہیں اور وہ جب وصیت کی تھی اس وقت انہوں نے تو تھوڑی جائیداد لکھوائی ہوتی ہے اس لئے وہ ان جائیدادوں کو بلا تکلف اپنے عزیزوں اور اقرباء میں تقسیم کرتے چلے جاتے ہیں اور بہانہ یہ ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو یہ فرمایا ہے کہ مرنے کے بعد جو چھوڑو گے اس پر صرف وصیت ہے اس لئے ٹھیک ہے کوئی فرق نہیں پڑتا.حالانکہ یہ بھول جاتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بات کو ساری جماعت کی مجلس شوری نے سمجھنے کی کوشش کی اور خلیفہ وقت نے ان تشریحات پر صادر کیا ہوا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے فرمودات کی ایک تشریح پر جماعت اکٹھی ہوچکی ہے ، اس سے اگر تمہیں اختلاف کا حق ہے تو پھر وصیت کے نظام کا ممبر رہنے کا حق بہر حال نہیں ہے.اختلاف ہے کوئی گناہ نہیں ہے کہ انسان مجبور اذہنی طور پر اختلاف کر سکتا ہے.تو پھر ان شرطوں کو پورا نہیں کر سکتا تو ممبر نہ بنے لیکن نظام جماعت کا نمبر ہو اور نظام جماعت کے خلاف ایک انفرادی فیصلہ کر رہا ہو اور اس پر بے دھڑک عمل کر رہا ہو یہ سمجھ کر کہ چونکہ میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتابوں کو جانتا ہوں اور تشریح میں خود کر سکتا ہوں اس لئے میری تشریح چلے گی اور فلاں کی نہیں چلے گی.جماعت کے معاملہ میں فرد کی کوئی تشریح نہیں چلے گی.اس کے لئے
خطبات طاہر جلد۵ 182 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء صرف دور ستے ہیں یا وہ وصیت کے نظام کا ممبر بنار ہے یا نہ رہے تیسرا کوئی رستہ نہیں.بعض دفعہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقام اتنا ہے، ہمارا مرتبہ اتنا ہے، ہماری پر انی جماعتی خدمات اتنی ہیں کہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ہمارا مردہ تدفین سے روکا جا سکے.میری حیثیت ہی کوئی نہیں ہے کہ میں کسی کے مردہ کو روک سکوں.جماعت میں کسی کی حیثیت نہیں لیکن یہ معاملہ اس طرح نہیں دیکھا جائے گا.میری حیثیت نہیں ہے کہ خدا کہے کہ نہیں داخل کرنا تو میں داخل کر دوں.میں اس طرح اس مضمون کو دیکھتا ہوں.میں ہوتا کون ہوں کہ میرے علم میں آجائے کہ اللہ نہیں چاہتا کہ یہ مردہ فلاں جگہ دفن ہواور میں اسے دفن کرنے کی کوشش کروں اس کے دنیاوی رعب سے ڈر جاؤں،اس کے کسی اور مرتبے کے رعب سے ڈر جاؤں.پس یہاں تقویٰ فیصلے کرنے والے کا تقویٰ بن جاتا ہے اور دونوں جگہ امتحان پیدا کر دیتا ہے تقوی.ایک جگہ مالی قربانی کرنے والے کا امتحان بنا ہوا تھا دوسری جگہ ان قربانیوں پر نظر ڈال کر جب بعض انتظامی فیصلے کرنے پڑتے ہیں تو ان کے لئے امتحان بن جاتا ہے.بہر حال بہت ہی تفصیلی مضمون ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صرف اشارے کر سکتا ہوں.لیکن آپ یہ کو بتا دیتا ہوں کہ وصیت کا معاملہ ہو یا چندہ عام کا معاملہ ہوا گر آپ اپنے تقویٰ کے مطابق مجرم ٹھہرتے ہیں تو جماعت کے علم میں وہ بات آئے یا نہ آئے خدا کو کچھ نہیں پہنچے گا.ساری عمر آپ کی قربانیاں بریکار جائیں گی.ہو سکتا ہے کروڑوں روپیہ آپ نے دیا ہو لیکن اگر وہ تقویٰ سے عاری ہے تو اللہ تعالیٰ نے تو پہلے ہی کھول کے اعلان کر دیا تھا کہ بدن مجھے پہنچتے نہیں تقویٰ مجھے پہنچتا ہے ، وہ تم نے بھیجا نہیں تھا اس لئے یہاں آکر اپنے کھاتے میں کیا تلاش کر رہے ہو.جو چیز چلی ہی نہیں گھر سے وہ وہاں پہنچے گی کیسے؟ اس لئے میں یہ بتا دیتا ہوں کہ اگر انسانی غلطی کی وجہ سے، انسانی علم کی کوتاہی کی وجہ سے ایسے لوگ دنیا میں نظر میں نہ بھی آئیں تو اللہ کی نظر سے غائب نہیں رہ سکتے اور خدا کا جوائل قانون ہے قرآن کریم میں بیان کردہ کہ یہ چیز پہنچے گی اور یہ نہیں پہنچے گی وہ قانون لازماً کام کرے گا اور پھر بہت دیر کے بعد آپ کو معلوم ہوگا کہ ہم تو کچھ بھی آگے نہیں بھیج کے آئے.اس لئے اتنی نیکی کریں جتنی توفیق ہے اور یہ بھی تقویٰ کا تقاضا ہے کہ اپنی حد سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرو.ڈروخوف کرو.وہ نیکی بہت اچھی ہے اگر چہ تھوڑی ہے جو اپنی حالت میں درست
خطبات طاہر جلد۵ 183 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء ہے اور صحت مند ہے اور وہ نیکی جو طاقت سے بڑھ کر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے اس میں اور بیماریاں پوشیدہ ہوتی ہیں.طاقت سے بڑھ کر نیکی کرنے والے کے اندر بسا اوقات ریاء داخل ہو چکی ہوتی ہے.طاقت سے بڑھ کر نیکی کی کوشش کرنے والے دو قسم کے ہی ہیں یا تو وہ جو کرتے ہیں اور اپنے نفس کو ہلاک کر دیتے ہیں نیکیوں میں یا وہ جو کرنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن خفیہ طور پر بچ جاتے ہیں.ایسے وہ لوگ ہیں جو لا زم ریاء کر رہے ہیں جو ظاہر یہ کر رہے ہیں کہ ہمیں نیکی کا شوق ہے اور دیکھو ہم اتنی نیکی کی کوشش کرتے ہیں اور جہاں جہاں اندر تو فیق ملتی ہے وہ اس نیکی کے نتیجہ میں اپنے مفادات کے جو خطرات ہیں ان کی پیش بندی بھی کرتے چلے جاتے ہیں.وصیت بھی کر دیتے ہیں ، جائیدادیں بھی کما لیتے ہیں بچوں میں تقسیم بھی کر دیتے ہیں اور خدا کو دینے سے بچ بھی جاتے ہیں.میں جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ یہ معاملات اگر خدا سے رہے تو بندوں سے معاملات کیسے سیدھے ہوں گے.کیسے قضاء ان معاملات کو درست کرے گی ، اصلاح وارشاد کی حیثیت کیا ہے کہ ایسے بندوں کے آپس کے معاملات درست کر دے جن کے خدا سے معاملے درست نہیں ہیں.ناظر امور عامہ کون ہوتا کہ ایسے لوگوں کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جائے جن کے مخفی تعلقات خدا سے بگڑے ہوئے ہیں.اس لئے جماعت کو چاہئے کہ پہلے اپنی خدا کے ساتھ اصلاح کرے اور یہ ایک لحاظ سے زیادہ آسان ہے.خدا کے معاملہ میں چونکہ انسان اپنے آپ کو بے بس اور بے اختیار پاتا ہے.صرف اس کو باشعور ہونا چاہئے اگر وہ باشعور ہو کے خدا سے معاملے کرے تو اس کا بہت کم امکان ہے کہ اتنی دلیری دکھائے خدا پر کہ شعور کے ساتھ خدا کے حق مارنے کی کوشش کرتا ہو.اسلئے ایسے آدمی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خود اپنے دماغ کو ایک غفلت کی نیند میں لے جاتے ہیں.وہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں جس طرح کبوتر بلی کو دیکھ کے آنکھیں بند کر لیتا ہے اس طرح یہ بعض حقائق سے آنکھیں بند کر کے زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں کہ کچھ نہیں پتہ چل رہا کچھ نہیں ہورہا اسلئے آنکھیں کھولوخدا کے معاملات میں.جب خدا سے معاملات میں آنکھیں کھولو گے تو تمہارے معاملات خود بخو دسیدھے
خطبات طاہر جلد۵ 184 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء ہونے شروع ہو جائیں گے اور جس کو خدا سے معاملہ سیدھا کرنے کی عادت پڑے اس کی برکت سے لازماً پھر بندوں پر بھی اس کے معاملات پر نیک اثر پڑتا ہے، بندوں کے ساتھ اس کے معاملات بھی ساتھ ساتھ سدھرنے لگتے ہیں.اس لئے میں اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں اور مثالیں تو بے شمار ہیں ایسی جن کو کھول کھول کر پیش کیا جا سکتا تھا لیکن ایک دو نمونہ بیان کرنی کافی ہیں.ہر موصی اور ہر غیر موصی کو اپنے معاملات میں صاف اور سیدھا چلنا چاہئے.جو بے شرح دیتے ہیں سولہواں حصہ، وہ بھی اس طرح قصور وار ہیں.اصل میں ہوتا یہ ہے کہ ان کا نفس وہاں بھی ان کے لئے بعض بہانے رکھ دیتا ہے وہ کہتے ہیں فلاں وقت سپین کے خطبے میں اجازت تو دے دی تھی نا اور یہ جو شرط ہے کہ ہم ان کو لکھ کے مانگیں اجازت یہ تو زائد چیز ہے عملا تو اجازت مل گئی ہے اور اس طرح وہ اپنے نفس کو دھوکہ دے کر ایک غلطی کے مرتکب ہونے لگ جاتے ہیں حالانکہ بالکل غلط بات ہے کہ وہ ایک زائد چیز ہے.انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے وہ بات کی تھی اور انسان کے خدا سے معاملات کوملحوظ رکھتے ہوئے وہ بات میں نے خطبہ میں بیان کی تھی.بات یہ ہے کہ ایک شخص اپنے طور پر اگر وہ 16000 میں سے ایک ہزار 1000 نہیں دے سکتا تو اگر وہ یہ بات میرے سامنے لائے تو جھجھکے گا.وہ کوشش کرے گا کہ بجائے اس کے کہ میں اجازت لوں کوشش کرتا ہوں زور لگا کے دیتا ہی رہوں.کھل کر میرے سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھے یہ بتائے کہ میری شرح کم ہونی چاہئے.اس کے لئے اس کا نفس حجاب محسوس کرتا ہے اور چونکہ حجاب محسوس کرتا ہے اس لئے وہ اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے کوشش کرتا ہے کہ بہت اچھا میں فلاں جگہ سے سمیٹ لیتا ہوں.فلاں کام کو سمیٹ لیتا ہوں فلاں خرچ کو کم کر لیتا ہوں.اور یہ تو بری بات لگتی ہے کہ میں لکھوں کہ مجھے یہ کم چندہ کیا جائے.میں تو باوقار آدمی ہوں، مجھے جانتے ہیں یا نہیں جانتے یا جو بھی شکل ہے ایک دل میں شرم محسوس ہوتی ہے.یہ شرم مددگار ہے جماعت کی.یہ شرم اس کی مددگار ہے، اس کو نیکی کی توفیق بخشتی ہے.اس کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے یہ لکھا تھا.پھر اس لئے بھی لکھا تھا کہ جب کوئی شخص لکھتا ہے تو بعض دفعہ معلوم ہو جاتا ہے کہ بیچارا بالکل مجبور ہو چکا ہے.بعض دفعہ ایسے درد سے اس کے لئے دعا اٹھتی ہے کیونکہ اس کی تحریر کا ایک ایک لفظ کہہ رہا ہوتا ہے کہ بڑے
خطبات طاہر جلد۵ 185 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء ہی غم میں ہے یہ شخص اپنی شرمندگی کی سرحد میں پھلانگ کر آیا ہے بیچارہ.مجبور ہو گیا ہے اپنے دل کا حال ظاہر کرنے پر نہیں چاہتا تھا مگر بے اختیار ہے اور اپنے آپ کو پابند سمجھتا ہے کہ جب تک میں اجازت نہ لوں میں نہیں شرح سے کم دے سکتا.اس کیلئے دل سے بے اختیار دعا اٹھتی ہے اور بسا اوقات اللہ تعالیٰ اس طرح قبول فرماتا ہے کہ کچھ عرصہ کے بعد ہی اس شخص کا خط آتا ہے کہ ہم نے اجازت تو لی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اتنا احسان فرما دیا ہے اتنی جلدی میرے حالات بدل گئے ہیں کہ اب مجھے اس اجازت کی ضرورت ہی کوئی نہیں رہی اور میں شرح کے مطابق دینے لگ گیا ہوں.تو یہ روحانی پہلو بھی ایسا تھا جس کوملحوظ رکھتے ہوئے میں نے یہ کہا تھا کہ اجازت لیں اور لکھ کرا جازت لیں.اکیلے اکیلے خط نہیں لکھنا تو اپنی جماعت میں معاملہ پیش کردیں امیر صاحب کی خدمت میں تو ان کی طرف سے فہرست آجائے اور وجو ہات لکھی ہوں.اس کے بعد جولوگ چھپاتے ہیں وہ جرم کر رہے ہیں خدا کا.میری نظر میں نہیں آتے تو نہ آئیں لیکن اللہ کی نظر سے کیسے بچ سکتے ہیں.اور پھر یہ سودا بیوقوفی کا ہے، اس قدر بیوقوفی کا سودا ہے کہ اس چیز سے ڈرتے ہیں جس چیز سے نہیں ڈرنا چاہئے اور اس سے نہیں ڈرتے جس سے ڈرنا چاہئے.یہ تو ایسی بات ہے جیسے انسان کسی پناہ گاہ سے بھاگ کر کسی شیر کی کچھار میں چلا جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا جو شخص مشکلات میں مبتلا ہے پھنسا ہوا ہے کسی قسم کی مصیبت میں اس کے نکلنے کی راہ یہ ہے کہ وہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرے.وَيَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ وہ اس طرح اس کو رزق پہنچائے گا کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہوگا کہ یہاں سے بھی مجھے رزق مل سکتا تھا.یعنی رزق کے رستے بھی اتنے مختلف ہیں خدا کی عطاء کے کہ انسانی ذہن وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتا.یہ تو وہ لوگ جو بچے تو کل کی جرات کرتے ہیں ان کو پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جب رزق عطا فرمانا شروع کرے تو کوئی روک ٹوک ہی نہیں ہے.وَمَنْ يَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ فَهُوَ حَسْبُهُ اس مضمون کو مزید خدا کھولتا چلا جارہا ہے کہ جواللہ وکل کرتا ہے تو وہ اس کے لئے کافی ہوتا ہے.جب ایک انسان کسی انسان پر سہارا کر لے اور کہے کہ دیکھو جی! اب میں نے تم پر سہارا کر لیا ہے تم قبول کرتے ہو یا نہیں اور وہ کہے کہ میں قبول کرتا ہوں.تو ایک انسان کو بھی دوسرے کے سہارے کی شرم اور حیا ہوتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 186 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء کہ جب تو نے مجھے سہارا بنالیا اور میری خاطر ایک تلخ گھونٹ بھرنے کی کوشش کی ہے تو کیسے ہوسکتا ہے کہ میں تمہیں چھوڑ دوں.جب تم مجھ پر توکل کرو گے تو صرف یہ نہیں کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا نہیں حسبہ اللہ ایسے تو کل کرنے والے کے لئے کافی بھی ہے.انسان تو بعض دفعہ تو کل کرنے والے کا ہاتھ نہ بھی جھٹکے تب بھی بے اختیار ہو جاتا ہے اس کے اپنے پاس ہی کچھ نہیں ہوتا اس کوسنبھالنے کے لئے لیکن اللہ تو بے اختیار نہیں ہے إِنَّ اللهَ بَالِغُ أَمْرِ؟ کتنی مزید قوت پیدا فرما دی خدا تعالیٰ نے اس معاملے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس امر کے بارے میں خدا فیصلہ کرتا ہے کہ میں یہ کروں گا.وہ کر کے چھوڑتا ہے اس معاملے کو انتہاء تک پہنچا کے چھوڑتا ہے.جس بات کو کہے کہ کروں گا میں ضرور ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے ( در این صفحه: ۱۵۸) یہ وہ مضمون ہے جو بیان ہو رہا ہے.قَدْ جَعَلَ اللهُ لِكُلِّ شَيْءٍ قَدْرً ا فر ماتا ہے ہر چیز کی ہم نے ایک تقدیر بنائی ہوئی ہے ایک اندازہ مقرر کیا ہوا ہے اگر دیر بھی ہو تو تم بدظنی نہ کرنا ہم پر بالآخر ہم اس بات کو پورا کر کے دکھائیں گے تمہارے حق میں.اگر کچھ دیر رزق کا ابتلاء ذرا لمبا بھی ہو جائے یا کچھ دیر کے لئے تم سمجھو کہ ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا تو ایسا سودا نہیں کرنا خدا سے.خدا سے سودا تو ایسا کرنا ہے کہ اس کی خاطر دے دیا اور پھر تو کل کر لیا کہ بس جس کو دیا ہے وہی ہمارا سہارا ہے.یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے دن انتظار کرنا شروع کر دو کہ چھت پھٹے اور اب پیسہ گرنا شروع ہو جائے.اگر اس طرح خدا کا معاملہ ہو تو جتنے بے ایمان ہیں وہ سب سے زیادہ چندے ادا کریں.جتنے دنیا کے حریص ہیں وہ مالی قربانیوں میں سب سے آگے بڑھ جائیں کیونکہ ان کو پتہ ہو گا کہ کل جتنا دیں گے ہم دوسرے دن اس سے زیادہ مل جانا ہے.تو ایسا قانون کوئی نہیں چلتا کہ بے وقوف انسان کو بھی نظر آجائے بلکہ دنیا دار کی آنکھ کے سامنے ایک پردہ رہتا ہے وہ نہیں دیکھتا ان چیزوں کو لیکن صاحب تقویٰ جان رہا ہوتا ہے کہ میری قربانی کے بعد کچھ آزمائشیں بھی آئیں گی لیکن بالآخر خدا نے وہاں سے دیا جہاں سے میری توقع نہیں تھی.اور یہ مضمون ایک خاص حقیقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 187 خطبه جمعه ۲۸ / فروری ۱۹۸۶ء مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ کا مطلب یہ ہے کہ روز مرہ کے جو عام تمہیں ملنے کے طریق ہیں اگر ان سے ہی خدا تمہیں واپس کرے تو تمہارا نفس یہ بھی بدظنی پیدا کر سکتا ہے کہ یہ تو ملا ہی کرتا تھا یہی ، تجارت ہماری تھی اس نے آخر چھپکنا ہی تھا، دنیا میں ترقی ہوتی رہتی ہے ، ترقی ہوگئی تو کیا فرق پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب میں معاملہ کرتا ہوں تمہارے تقویٰ کو قبول کرتا ہوں ، تمہارے تو کل کی شرم رکھتا ہوں تو میں پھر ایسے طریق کا معاملہ کرتا ہوں کہ تمہیں معلوم ہو جائے کہ یہ ملنے والا میرا عام دستور نہیں تھا جس رستہ سے مجھے عطا کیا گیا ہے یہ عام دستور کارستہ نہیں تھا، اس سے ہٹ کر بات ہوئی ہے، خدا کا خاص معاملہ ہوا ہے.اور یہ ہے وہ اصل نعمت جو متقی کے لئے بھی نعمت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ہے وہ تقویٰ کا پھل جس کی دنیا کے لحاظ سے کوئی قیمت مقرر ہی نہیں کی جاسکتی.ایک آدمی کو ہزار روپیہ کہیں سے اتفاقا مل جاتا ہے وہ آتا ہے اور خرچ بھی ہو جاتا ہے.اس کی لذت آئی اور ختم بھی ہوگئی.جب اس کو یہ پتہ چلتا ہے کہ میرے خدا نے اپنی رحمت اور خاص فضل سے یہ مجھے اس طرح عطا کیا تھا تو لا متناہی لذت ہوتی ہے اس کی.ایسی لذت ہے جس پر فتانہیں آتی.وہ اپنے بچوں کو سناتا ہے وہ واقعہ، اس کے بچے اس کے پوتوں کو وہ واقعہ سناتے ہیں اور نسلاً بعد نسل یہ واقعات چلتے ہیں کہ اس طرح ہمارے باپ دادا میں سے ایک شخص تھا جس نے خدا سے یہ معاملہ کیا تھا تھوڑ اسا اور پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ یہ معاملہ کیا.جولذت اس بات کی ہے مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ کی وہ تو لذت ہی بالکل ایک الگ لذت ہے.تو وہ شخص جو چند پیسے چند کوڑیاں ماررہا ہے خدا کے حق کی وہ ان ساری نعمتوں سے محروم ہو رہا ہے اور یہ نہیں جانتا کہ جو کچھ اس نے حاصل کیا ہے وہ سارا بے برکتی کے سوا کچھ بھی نہیں ہے.وہ بیماریاں حاصل کر رہا ہے، وہ مصیبتیں ، حادثات حاصل کر رہا ہے ، وہ ذہنی پریشانیاں حاصل کر رہا ہے ،وہ روزمرہ کی زندگی کی الجھنیں حاصل کر رہا ہے اور وہ روپیہ اس کے کام نہیں آرہا ہے اور جو خدا کی خاطر تقویٰ کے ساتھ قربانی کرتا ہے اس کے معاملات کو سیدھا رکھتا ہے اس کی ساری زندگی کا خدا حسب ہوتا ہے اس کے لئے چند پیسوں کا حسب نہیں رہتا.اس مضمون کو بھی سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے.یہ نہیں فرمایا کہ اس کو ضرور زیادہ پیسے دیتا ہے فرماتا ہے ، يَرْزُقْهُ مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ جیسا کہ قرآن کریم کا علم رکھنے والے جانتے
خطبات طاہر جلد۵ 188 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء ہیں کہ یرزق کا لفظ خدا تعالیٰ کی ہر عطا پر آتا ہے.ہر چیز جو بندے کو ملتی ہے وہ رزق کہلاتی ہے، یعنی خدا تعالیٰ جب پیار کی باتیں کر رہا ہوتا ہے بندے سے تو وہ بھی رزق ہے، کشوف دکھا رہا ہوتا ہے تو وہ بھی رزق الہی ہے ، روحانی رزق بھی اس میں شامل ہے اور جسمانی رزق بھی شامل ہے تو جب خدا یہ وعدہ کرتا ہے کہ میں اسے رزق عطا فرماؤں گا تو مراد یہ نہیں ہے کہ صرف دنیا کے پیسے دیگا.روحانی رزق سے بھی اس کو لذت آشنا کرے گا اور ایسے ایسے طریق پر اس کو روحانی رزق عطا فرمائے گا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ کیسے آیا جیسا کہ حضرت مریم کے معاملے میں قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ حضرت زکریا جب حضرت مریم کی محراب میں داخل ہوا کرتے تھے، آپ کے حجرے میں اور دیکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بڑے بڑے عظیم الشان رزق عطا ہوئے ہوئے ہیں تو حیرت سے پوچھا کرتے تھے کہ اے بچی! تیرے پاس یہ کہاں سے باتیں آگئیں.اس سے مراد یہی ہے یہ نہیں تھا کہ کچھ تھے پہنچ جاتے تھے جو ان کی نظر بچا کر پہنچ جایا کرتے تھے.مراد یہ ہے کہ حضرت مریم کو عشق الہی اور معرفت کی ایسی ایسی باتیں عطا ہوتی تھیں خدا کی طرف سے کہ ایک نبی کو بھی تعجب میں ڈالتی تھیں.جس کا اپنا مضمون تھا یہ ، جس کے گھر کی بات تھی ، وہ حیرت سے دیکھتا تھا کہ یہ تو ایک بچی ہے یہ تو خدا کی نبی بھی نہیں اور ایسے ایسے اعلیٰ رزق خدا اس کو عطا فرمارہا ہے.تو دنیا نہیں صرف سنورتی دین بھی سنور نے لگتا ہے اور اس رنگ میں سنور نے لگتا ہے کہ انسان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس اس طرح خدا تعالیٰ اس کے دین کو سنوارتا چلا جائے گا.بہر حال اس مضمون پر ایک خطبہ کافی نہیں ہے کیونکہ مالی معاملات کے بعض پہلوا بھی بیان ہونے والے ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے مضمون ہیں تقویٰ سے تعلق رکھنے والے جن پر میں سمجھتا ہوں کہ اس رنگ میں بات ہونی چاہئے کہ جڑ سے بات شروع کی جائے.خدا تعالیٰ سے معاملات درست کرنے کے متعلق بات ہوتا کہ پھر بندوں کے معاملات خود بخود اس کے نتیجہ میں درست ہونے لگیں.بہر حال جڑ کی طرف توجہ رکھے ہر احمدی اور یہ یادر کھے کہ خدا جس جڑ کی توقع رکھتا ہے وہ ثابت جڑ ہے.مضبوط اس قوت کے ساتھ گڑھی ہوئی کہ اس کے اوپر ایک عظیم الشان درخت تقویٰ کا تیار ہو اور ابتلاء سے بالا ہو جائے.جہاں تک اللہ تعالیٰ کی توقعات ہیں بندوں سے وہ تو ایسا درخت
خطبات طاہر جلد ۵ 189 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء بنانا چاہتا ہے کہ وہ آسمان تک بھی اس کی شاخیں چلی جائیں.تو اس کی جڑوں میں کسی قسم کا تزلزل نہ آئے کوئی نقصان نہ پہنچے.لیکن یہ اب ہر بندے پر اپنے اوپر منحصر ہے کہ وہ اپنے لئے کیسا درخت بنا رہا ہے.ایک کہانی آپ نے بہت سنی ہوگی.وہ غالبا سویڈن میں پہلی دفعہ بنی تھی مگر جہاں بھی بنی تھی سب دنیا میں مشہور ہو چکی ہے کہ ایک Bean( پھلی ) ایسی دیتا ہے کوئی کسی بچے کو کہ جب وہ اس کو کاشت کرتا ہے تو آسمان تک اس کی شاخیں پہنچ جاتی ہیں.وہ بیل چڑھتی ہے چڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ وہ آسمان تک پہنچ جاتی ہے.تو ہے تو وہ ایک کہانی اور لغوی بات ہے کبھی دنیا میں ایسا واقعہ نہیں ہوا لیکن قرآن کریم نے ایک ویسی ہی کہانی بیان فرمائی ہے لیکن وہ ہے سچی اور سوفی صدی کچی.اسBean کی کہانی کو پڑھ کر تو بچوں کے دلوں میں بڑی تحریک پیدا ہو جاتی ہے اور بڑے بھی بہت شوق سے سنتے ہیں لیکن یہ تقویٰ کی کہانی یہ پیج جو خدا نے قرآن کریم میں رکھ دیا ہے أَصْلُهَا ثَابِتُ وَفَرْعُهَا فِي السَّمَاءِ اس کو پڑھتے ہیں اس کو سنتے ہیں اور دل میں کوئی تحریک پیدا نہیں ہوتی.یہ جھوٹی زندگی ، جھوٹی زندگی کے تصورات جھوٹی زندگی کی دلچسپی ملمع کی باتیں ہوں تو اس کی طرف متوجہ ہو جا ئیں گے اور جہاں حقیقتیں ہیں اور سچائیاں بیان ہوں وہاں اگر ایسے درخت کا راز آپ کو بتایا جائے کہ آج اس کا بیج بوئیں تو کل بھی یہ ممکن ہے کہ اس کی شاخیں آسماں سے باتیں کر رہی ہوں اور پھر آسمان سے ایسا رزق عطاہور ہا ہو کہ وہ کبھی نہ چھوڑے وہ ایسا رزق نہ ہو جو کسی موسم میں ملنا بند ہو جائے.اور کسی موسم میں ملنا شروع ہو جائے.تُؤْتِى أُكُلَهَا كُلَّ حِيْنِ بِاِذْنِ رَيْهَا (ابراہیم :۲۲) اپنے رب کے حکم سے وہ ایک ایسار دخت بن جاتا ہے کہ ہر آن ہر حالت میں وہ پھل دتیا ہی چلا جاتا ہے یہ نقشہ جس درخت کا کھینچا گیا ہے اس کی طرف تو توجہ نہیں اور اس Bean کے قصے ساری دنیا میں ترجمے ہو ہو کر پھیل رہے ہیں کہ جو ایک فرضی Bean کی کہانی ہے وہ اگر بودی جائے تو اس بیل کی شاخیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں لیکن اس میں یہ بھی تو ساتھ لکھا ہوا ہے کہ پھر جب اس کو کاٹو تو کٹ بھی جاتی ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی آدمی آسماں سے باتیں کرتی ہوئی بیل پر چڑھا ہواور نیچے سے کوئی کاٹ دے اور وہ دھڑام سے زمیں پر آجائے.قرآن کریم نے فرمایا ہے أصلها ثابت وہ ایسی مضبوط رنگ میں پیوستہ ہوتی ہے کہ اس کے گرنے کا کوئی خطرہ
خطبات طاہر جلد۵ 190 خطبه جمعه ۲۸ فروری ۱۹۸۶ء نہیں ہوتا جب تقویٰ پر بنیاد ہو گی تو وہ درخت ہیں جو انسانیت کو ملیں گے اور یہ وہ پھل ہیں جو انسانیت کو عطا ہونگے.اس درخت کی طرف دوڑو! اور اس درخت کو حاصل کرو جس کی جڑیں زمین میں گہری پیوستہ ہیں اور شاخیں آسماں سے باتیں کر رہی ہیں اور خدا سے رزق حاصل کرتی ہیں بندے کے رزق کی خاطر وہ خدا سے دھوکہ نہیں کر رہی ہوتیں.دیکھو رزق کے مضمون کو بھی آسمان تک پہنچا دیا.فرمایا تم سمجھتے تھے کہ رزق تمہاری طرف سے خدا کو جاتا ہے اور یہ سمجھ کے تم نے خدا کے رزق مارنے شروع کئے.تم سمجھتے تھے کہ تم ہو جو خدا کو دیتے ہواور یہ سمجھ کر تم نے فیصلہ کرنا شروع کیا کہ کتنا خدا کو دینا ہے اور کتنا خدا کو نہیں دینا.لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اگر تمہارا تقویٰ درست ہو تو تمہیں بالکل کچھ اور دکھائی دینے لگے ، تمہارے رزق کے تصور کا جہان بدل جائے.تمہیں یہ معلوم ہو کہ زمین سے کچھ بھی نہیں آتا.جو کچھ بھی آتا ہے آسمان سے آتا ہے.جو پھل بھی عطا ہوتا ہے وہ آسمان سے عطا ہوتا ہے اور اسی میں سے کچھ امتحانا تم سے واپس مانگا جاتا ہے اور تمہارے پاس اپنا تو کچھ بھی نہیں ہے.اللہ ہے جو غنی ہے تم تو فقیر لوگ ہو.اس مضمون کو سمجھ کر مالی قربانی میں آگے بڑھیں گے تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی زندگی میں ایک انقلاب واقعہ ہو جاتا ہے اتنا عظیم الشان انقلاب بر پا ہوگا آپ کی زندگی میں کہ وہ زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والا انقلاب ہوگا، آپ کی اولاد پر اس کا صحت مند اثر ہوگا آپ کے انسانی معاملات پر اس کا صحت مند اثر ہو گا.نسلاً بعد نسل یہ آپ کی نیکی آپ کی اولاد کے خون میں منتقل ہوتی چلی جائے گی.ایک فرحت اور اطمینان اور تسکین آپ کو نصیب ہوگی جو ویسے آپ حاصل کرہی نہیں سکتے تو اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اس جڑ کو پکڑ لیں کہ جو ہر نیکی کی جڑ ہے.خدا اس جڑ کو باقی رکھے کیونکہ یہ جڑ باقی رہے تو سب کچھ باقی رہتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 191 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء سکھر کیس کے ظالمانہ فیصلے کی تفصیلات اسیران کا بلند حوصلہ اور ثبات قدم نیز پاکستان کے لئے دعا کی تحریک (خطبہ جمعہ فرموده ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِيْنُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ قَالُوا اُ وذِيْنَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَلَى رَبُّكُمْ أَنْ تُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ وَيَسْتَخْلِفَكُمْ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُوْنَ (الاعراف: ۱۲۹-۱۳۰) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللَّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ وَإِذْ يَمْكُرُ بِكَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِيُثْبِتُوكَ اَوْ يَقْتُلُوكَ اَوْ يُخْرِجُوكَ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ الله وَاللَّهُ خَيْرُ الْمُكِرِينَ (الانفال: ۳۰-۳۱)
خطبات طاہر جلد۵ اور پھر فرمایا: 192 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء گزشتہ جمعہ میں میں نے احباب جماعت کو تقوی کی تلقین کی تھی اور اسی مضمون کے میں آج اس دوسرے خطبہ میں مضمون کو آگے بڑھانا تھا لیکن اس دوران پاکستان سے ایک ایسی خبر موصول ہوئی جس کے نتیجہ میں اس مضمون کو میں آئندہ خطبہ کے لئے ملتوی کرتا ہوں اور اس خبر سے متعلق احباب جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں.ساہیوال کیس کے نہایت ظالمانہ فیصلہ کے بعد اب سکھر کیس کا بھی ایک ویسا ہی بلکہ بعض پہلوؤں سے اس سے بھی بڑھ کر ظالمانہ فیصلہ جاری کر دیا گیا ہے.احباب جماعت کو اختصار کے ساتھ تو اخبارات کے مطالعہ سے بھی اور جماعتی اطلاعات کے ذریعہ بھی اس فیصلے کا علم ہو چکا ہے لیکن اس سے متعلق کچھ مزید تفصیلات میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں تا کہ یہ پورا واقعہ اور اس کا پس منظر آپ کے ذہنوں میں محفوظ ہو اور جب دشمن غلط باتیں کرے یا بعض دوستوں کو صحیح حالات پہنچانا چاہتے ہوں تو آپ کو واضح طور پر علم ہو کہ کیا واقعہ، کیسے ہوا؟ سکھر میں سب سے پہلی بات جو نہایت ہی دردناک جماعت احمد یہ کو پیش آئی وہ ہمارے امیر ضلع مکرم قریشی عبدالرحمن صاحب کا نہایت سفا کا نہ قتل تھا اور اس قتل کے اوپر وہاں تمام مساجد میں خوشیاں بھی منائی گئیں اور بڑے نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے اور جن لوگوں نے قتل کیا ان کو عظیم الشان مجاہد بھی قرار دیا گیا لیکن جہاں تک عوام الناس کا تعلق ہے سکھر کے عوام نے اس بات کو بہت ہی بڑا منایا اور اگر چہ وہاں شرافت گونگی ہے مگر اتنی گونگی بھی نہیں کہ احباب جماعت کے سامنے بھی نہ بولے.چنانچہ وہاں یہ منظر دیکھنے میں آیا کہ خصوصاً حکومت کے کارندے اور دیگر عوام جن کو باشعور عوام کہا جاتا ہے وہ لوگ احباب جماعت کے سامنے تو اس معاملہ میں بڑی نفرت کا اظہار کرتے رہے لیکن اتنی جرات بھی نہیں تھی کہ کھل کر اس کے خلاف کوئی بیان دیں سوائے اس کے کہ بارایسوسی ایشن نے جرات مندانہ قدم اٹھایا اور اس واقعہ کے خلاف افسوس کا اظہار کیا.ان کا قتل اس طرح ہوا کہ یہ مغرب کی نماز پڑھ کے مسجد میں ہی بیٹھ گئے کیونکہ اس سے کچھ عرصہ پہلے ہی آرڈینینس جو نہایت ہی ظالمانہ اور اُتنا ہی احمقانہ آرڈینینس ہے ، وہ جاری ہو چکا تھا اور پولیس زبر دستی مسجد سکھر سے کلمہ طیبہ مٹا چکی تھی.اس کا ان کی طبیعت پر بہت گہرا اثر تھا.چونکہ عمر بھی
خطبات طاہر جلد ۵ 193 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء زیادہ تھی برداشت اس لحاظ سے کم تھی ، تقریباً اسی برس کے لگ بھگ ہو نگے.نظر بھی بہت کمزور ہو چکی تھی.اس لئے احباب جماعت کو انہوں نے کہا کہ تم جاؤ میں مسجد میں بیٹھ کر ہی اللہ کے حضور گریہ وزاری کرتا ہوں.چنانچہ احباب جماعت ان کو چھوڑ کر رخصت ہو گئے اور کافی دیر مغرب کی نماز کے بعد یہ وہاں بیٹھے رہے اور خدا کے حضور مناجات اور گریہ وزاری کرتے رہے.جب باہر نکلے تو قاتل بر چھیاں لے کر ان کا انتظار کر رہے تھے اور جن کی نظر ویسے بھی نہیں تھی، عمر بھی اتنی تھی کہ دوڑنے کی یا اپنے آپ کو بچانے کی طاقت نہیں تھی ، ان پر بار بار ہر چھیوں سے حملہ کیا اور ہر دفعہ غرہ تکبیر بلند کیا کہ اتنی عظیم الشان ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں.آٹھ زخم برچھیوں کے ان کے سینے پر اور ان کی پیٹ پر لگے اور وہ نعرے لگاتے ہوئے ، اسلام کی فتح کا جشن مناتے ہوئے دوڑ گئے اور دیکھنے والوں نے دیکھا لیکن کسی نے کوئی مزاحمت نہیں کی.پولیس نے کسی پر مقدمہ درج نہیں کیا، کوئی تفتیش نہیں کی اور نے نے ے پر مقدمہ درج نہیں کوئی کیاور جماعت احمدیہ کو ، ان کے پس ماندگان کو یہ تسلی دیتے رہے کہ ہم تحقیق کر رہے ہیں اور باوجود اس کے کہ قرائن بتا رہے تھے کہ بعد مساجد کے ملاں اس کے ذمہ دار ہیں لیکن کوئی پوچھ کچھ نہیں کی گئی.اس واقعہ کے کچھ عرصہ کے بعد وہاں ایک مسجد میں بم پھٹا اور اس بم کے نتیجہ میں دو طالب علم مسجد کے موقع پر ہلاک ہو گئے اور کچھ زخمی ہوئے.فوری طور پر سارے سکھر میں علماء نے اشتعال پیدا کرنے کی کوشش کی کہ یہ بم قریشی شہید کے بچوں نے چلایا ہے.اور پہلی ایف آئی آر میں دو نام درج کرائے یعنی محمد ناصر قریشی صاحب اور محمد رفیع صاحب.اُس پر جہاں تک میں نے بیان کیا ہے ، عوام الناس کا تعلق ہے چونکہ وہ پہلے بھی جانتے تھے کہ یہ علماء کس کردار کے ہیں اور جماعت احمدیہ مظلوم ہے اس لئے اُس جلوس میں جو انتہائی اشتعال انگیز نعرے لگا رہا تھا اور نہایت ہی خطرناک زبان استعمال کر رہا تھا.سلسلہ کے بزرگوں کے خلاف نہایت فحش کلامی میں ملوث تھا اور اس کے علاوہ قتل و غارت کی عام تعلیم دے رہا تھا.اس جلوس میں سوائے ڈیڑھ دوسو کے قریب مدرسوں کے طالب علموں یا پیشہ ور مولویوں کے اور کوئی شامل نہیں ہوا اور اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ اُس جلوس کی حیثیت اور نوعیت کیا تھی اور کس حد تک عوام الناس احمدیوں کو مجرم سمجھتے تھے.اگر سکھر کے عوام احمدیوں کو مجرم سمجھ رہے ہوتے تو کوئی احمدی گھر ایسا نہیں تھا جو اس وقت بچ سکتا.بہر حال جلوس نے اس کا انتقام اپنے ہاتھوں سے تو اس طرح لیا کہ بعض احمد یوں
خطبات طاہر جلد ۵ 194 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء کی دکانیں لوٹ لیں اور پولیس میں جو ایف آئی آر درج کروائی اس میں یہ لکھا کہ قریشی مرحوم کے دونوں بیٹے تو ہم نے اپنی آنکھوں سے بم پھینک کر دوڑتے ہوئے دیکھے ہیں.پولیس کی کارروائی فوری بعد یہ ہوئی کہ ان دونوں کو اپنے گھروں سے فوری طور پر اس طرح قید کیا گیا کہ سارے گھر کی چیزیں الٹ پلٹ کر دیں بیوی بچوں کو وہاں سے نکال دیا.اور ان کو قید کر کے جب لے گئے دوسری جگہ تو پیچھے سے گھر کا سارا سامان پولیس نے لوٹ لیا.تمام قیمتی چیزیں غائب کر دیں اور اس طرح عوام الناس کے ساتھ سکھر کی پولیس بھی اس عظیم الشان ثواب میں شامل ہوگئی.یہ تصور ہے ان لوگوں کے خدمت اسلام کا یہ تصور ہے، ان کا حق اور تقویٰ کا یہ تصور ہے نعوذ بالله من ذالک سنت کا.اس طرح یہ اسلام کی خدمت کرنے پر تلے ہوئے ہیں.پھر صرف ان دونوں ہی کو نہیں بلکہ اس کے علاوہ چھاپے مار کے دور دور سے لوگوں کو پکڑا.بڑوں کو بھی پکڑا ان کے بچوں کو بھی بعضوں کو ساتھ قید کیا.بعض بوڑھوں کو دور کے دیہات سے پکڑ کر لے آئے اور ان کو بھی جیل میں ٹھونسا.جو کراچی کے خدام ان لوگوں کی خدمت کرنے کے لئے وہاں پہنچے انکو بھی قید کیا گیا.ہر طرف ایک ظلم و ستم کا ایک بازار گرم کر دیا گیا اور یہ سب کا سب حکومت کے کارندوں کی طرف سے ہوا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عوام الناس کا جہاں تک تعلق ہے نہ ملاں کے ساتھ تھے اور نہ ہیں اور وہ سب جانتے تھے ، آج بھی جانتے ہیں کہ یہ سب جھوٹ کا پلندا ہے.یہ مقدمہ اتنا بودا تھا ایسا بے حقیقت تھا کہ علماء کو علم تھا کہ اگر سول کورٹ میں یہ مقدمہ چلایا - جائے تو ہر چند کہ وہاں بھی انصاف کا اور تقویٰ کا معیار ایسا بلند نہیں مگر بہر حال سول کورٹ میں کچھ نہ کچھ احساس ذمہ داری پایا جاتا ہے.مجسٹریٹ اور جج فیصلہ دیتے وقت حالات کو کلیۂ نظر انداز نہیں کر سکتے.اس پر اپیل بھی ہوئی ہوتی ہے.اس کے اوپر پھر اپیل ہوسکتی ہے.اس لئے بالا عدلیہ کی نگاہیں پڑنے والی ہوتی ہیں معاملہ پر ، ان ساری باتوں کا خوف اگر خدا کا خوف نہ بھی ہو تو ان کو اپنی عدود کے اندر کسی حد تک رہنے پر مجبور کرتا ہے.ان کو اتنا یقین تھا کہ ناممکن ہے کہ یہ مقدمہ عام عدالت میں ٹھہر سکے کہ اس بات پر بڑے بڑے احتجاجی جلوس نکالے گئے اور مساجد میں خطبے دیئے گئے کہ ہم سارے سکھر کو آگ لگا دیں گے اگر یہ مقدمہ فوجی عدالت میں پیش نہ ہوا اور فوج نے جو اپنی تصویر بنالی ہے اپنی آج پاکستان میں، بدقسمتی سے ایسی ہے کہ جو بد دیانتی سول (Civil) نہیں کر سکتی
خطبات طاہر جلد۵ 195 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء جو ظلم اور سفا کی پولیس سے نہیں ہو سکتی وہ فوج ضرور کر لے گی.اتنا کامل یقین تھا علماء کو اس بات پر کہ انہوں نے زور دیا اور وہ جانتے تھے کہ جو ہم چاہیں گئے فوج کے ذریعہ کروا سکتے ہیں.چنانچہ حکومت مجبور ہوئی اور فوج کے سپرد یہ مقدمہ کیا گیا.حکومت سے مراد ہے وہاں کی سول انتظامیہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ سب جھوٹ ہے فوج کے سپر د مقدمہ کرنے پر پابند کر دی گئی.اس عرصہ میں جماعت کے مختلف وفود وہاں کے بڑے افسران سے ملتے رہے.مثلاً ڈپٹی کمشنر سے، ایس ایس پی سے اور دیگر افسروں سے رابطہ کیا اور ساتھ ساتھ ان ملاقاتوں کی رپورٹیں مجھے بھجواتے رہے.ان سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تمام افسر بلا استثناء جماعت کے وفودکو یہ بتا رہے تھے کہ اس سارے کیس پر ہماری نظر ہے، ہم نے خوب اچھی طرح چھان بین کروالی ہے اور سو فیصدی ہمیں یقین ہے کہ کسی احمدی کا قصور تو کیا کوئی اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا کہ وہ اس جرم میں ملوث ہو.ایک سینئر افسر نے کہا کہ میں تو ساری جماعت احمدیہ کی تاریخ سے واقف ہوں ، ان کے مزاج اور کردار سے واقف ہوں اس لئے ویسے ہی اگر تحقیق نہ بھی کروائی ہوتی تو بھی میں یہی سمجھتا کہ کوئی شرارت ہوئی ہے، احمدی ایسی حرکت نہیں کر سکتے لیکن جب میں نے تحقیق کروائی تو اس تحقیق سے تو بالکل کھلم کھلا یہ بات سامنے آگئی کہ یہ ایک سازش ہے.اسی دوران ایک اور واقعہ پیش آیا اور وہ یہ کہ جماعت اسلامی کے سکول میں بھی ایک بم پھٹا لیکن اس وقت وہ بم چلانے والا پکڑا گیا اور وہ اسی سکول کا چوکیدار تھا.جب پولیس نے اس سے پوچھ گچھ کی تو اس نے بتایا کہ اس سکول کا جو ہیڈ ماسٹر ہے اس کے ایماء پر میں نے چلایا تھا اور ایسے وقت میں چلایا تھا کہ کوئی جانی نقصان نہ ہو.اس لئے میرا تو کوئی قصور نہیں ہے.جماعت احمدیہ کو جب یہ علم ہوا تو فوری طور پر رابطہ کیا گیا افسروں سے اور بتایا گیا کہ اب دیکھ لو یہ دوسری کڑی تھی سازش کی جو خود ظاہر ہوگئی ہے اور صاف پتہ چل رہا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے کس کا دماغ اور کن لوگوں کا ہاتھ ہے.لیکن علماء کو بھی پتہ چلا اس واقعہ کا اور ایک طرف علماء یہ جلوس نکال رہے تھے کہ یہ احمدی ہمارے مجرم ہیں ، انہوں نے بم چلایا ہے اس لئے ان کو گرفتار کیا جائے اور جتنے ہم کہیں اتنے گرفتار کرو، دوسری طرف یہ شور پڑ گیا کہ اس سکول والے بم کے معاملہ کو نظر انداز کر دو اور کچھ درج نہ کروں، کوئی واقعہ کی پورٹ ہی نہ درج کی جائے، بالکل کا لعدم سمجھا جائے.چنانچہ علماء کے دباؤ کے نتیجہ
خطبات طاہر جلد۵ 196 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء میں بعینہ یہی کارروائی ہوئی.اور سارے معاملہ کو فوری طور رفع دفع کر دیا گیا.جب احمدی و فودافسران سے ملے اور ان کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اب تو یہ معاملہ باکل کھل گیا ہے، اب تم کیا کر رہے ہو، کیوں مجرموں کو قید کیا ہوا ہے، کیوں اذیتیں دے رہے ہو تو انہوں نے کہا کہ ہم بے بس ہیں، لیکن ہم آپ کو یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم نے ان واقعات کی اطلاع اور اپنا تجزیہ افسران بالا تک پہنچا دیا ہے اور وہ خوب جان چکے ہیں، گورنر تک اور دوسرے بڑے افسران ،صدر کا انہوں نے نام تو نہیں لیا لیکن مقصد یہی تھا کہ اوپر تک، آخر تک بات پہنچا دی گئی ہے کہ جماعت احمدیہ کا قطعا کوئی قصور نہیں.ایک سازش کا شکار ہے اور اس کی کڑیاں خود بخود آہستہ آہستہ ظاہر ہورہی ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے معذرت کی کہ ہم بالکل بے اختیار لوگ ہیں ، ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے.چنانچہ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان سے مقدمہ لے لیا گیا.ورنہ آج کل جو پاکستان میں معیار ہے اس کے مطابق بہت شاذ ہیں ایسے شریف لوگ جو جرات بھی غیر معمولی رکھتے ہیں اور حکومت کے دباؤ کے بغیر انصاف پر قائم رہنے کی استطاعت رکھتے ہیں.اس لئے بہر حال ان کی تو جان اس طرح چھٹی کہ چونکہ ان کی رپورٹیں بڑی واضح تھیں کہ احمدی کا اس میں کوئی قصور نہیں اور خود احمدی شرارت اور ظلم کا نشانہ بنا ہوا ہے اس لئے حکومت نے اُن سے یہ سارا معاملہ اپنے ہاتھ میں لے لیا یعنی بالا حکومت نے اور فوج کے سپر د کر دیا.فوج نے جو تحقیق کی اور جو وہاں مقدمہ چلا اس کی پوری کا رروائی ہمارے پاس محفوظ ہے.اس کا رروائی سے ظاہر ہوتا ہے کہ بعض اوقات عدالت کے صدر جج نے بے ساختہ مولوی کے جھوٹ پر تعجب کا اظہار کیا اور یہاں تک کہا کہ ملاں ہو کے تم قرآن کریم اٹھا کر اتنا واضح اتنا قطعی جھوٹ بول رہے ہو لیکن یہ ساری باتیں اپنی جگہ، اس کے باوجود ہمیں ان سے انصاف کی کوئی توقع نہیں تھی کیونکہ فیصلے اُس سطح پر نہیں ہونے تھے جس سطح پر تحقیق ہو رہی تھی.اگر اس سطح پر فیصلے ہونے ہوتے تو پہلے عام عدلیہ کو عام انتظامیہ کو کیوں موقع نہیں دیا گیا کہ وہ اس معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لیتے.اس لئے یہ بات تو بہر حال ظاہر تھی کہ کوئی نہ کوئی ظلم ضرور کیا جائے گا.اور اب فیصلہ یہ ہے کہ عبدالرحمن صاحب شہید کے دو بیٹوں کومحمد ناصر صاحب اور محمد رفیع صاحب کو پھانسی کی سزا سنادی گئی ہے اور حد سے زیادہ سفا کی ہے کہ ایک بوڑھے باپ کو پہلے ظالمانہ طور پر شہید کرو.وہ تو عوام
خطبات طاہر جلد۵ 197 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء کریں یا عوام تو نہیں کہنا چاہئے ، مولویوں کا ایک ٹولہ کرے اور حکومت کہے کہ ہم کیوں پیچھے رہ جائیں.حکومت کے اوپر کے چوٹی کے افسران یہ سمجھیں کہ جب معمولی ، عام مولوی اتنا ثواب کما رہے ہیں تو ہم تو سربراہان مملکت ہیں ہم کیوں نہ ثواب میں حصہ لیں تو ایک کی بجائے وہ دو قتل کروا دیں اور وہ بھی بیٹے ان کے اور عجیب ہے کہ اس سے پہلے ان کو پوتا بھی بیچ میں شامل تھا وہ بھی قید میں رہا ہے.کوئی انصاف کا کوئی سایہ تک بھی ان کے دلوں پر نہیں پڑا.تقویٰ نام کی کوئی چیز باقی نہیں رہی اس کے بغیر تو اگر یہ بات نہ ہو تقوی کا ایک ادنی سا شائبہ بھی ہو تو ناممکن ہے کہ انسان اس جرات کے ساتھ ایسے ظالمانہ فیصلے کر سکے یا کروائے پہلے اور پھر ان کی توثیق کرے.یہ تو ایسا دل لگتا ہے جیسے گھونسلے سے پرندہ کوچ کر چکا ہو اور اسے خالی چھوڑ دے.تقویٰ بھی دل کی پاکیزگی کا ضامن ہوتا ہے اور انسانی فطرت جوں جوں ظلم یا بدیاں کرتی ہے اگر تقویٰ موجود ہوتو وہ ساتھ ساتھ دھوتا بھی رہتا ہے.جس طرح آباد گھونسلا گندا بھی ہوتا رہتا ہے اور صاف بھی ہوتا رہتا ہے.لیکن وہ گھونسلا جسے پرندہ چھوڑ چکا ہو اس میں تو سوائے تعفن کے کچھ باقی نہیں رہتا.سوائے گندگی کے اور دن بدن بڑھنے والی گندگی کے جس میں تعفن بڑھتا چلا جاتا ہے اور اس کے نصیب میں کچھ بھی نہیں لکھا ہوتا.اسی طرح انسان کے دل کی کیفیت ہے.اگر اس میں تقویٰ موجود نہ ہو تو پھر جو کچھ بھی تعفن اس میں ہوتا ہے وہ خود بخود مزید گندہ اور مزید متعفن ہوتا چلا جاتا ہے.اس مقدمے کے متعلق جہاں تک انسانی کوششیں ہوسکتی تھیں وہ تو جماعت نے پوری کیں اور جو کوششیں اب بھی ممکن ہیں بظاہر تو کوئی صورت نظر نہیں آتی کیونکہ اس سے پہلے مارشل لاء نے اس بات کی پیش بندی کر لی تھی کہ مارشل لاء ہٹنے کے بعد بھی مارشل لاء کے سارے جابرانہ فیصلے باقی رہیں اور جابرانہ ہتھکنڈے جاری رکھنے کے سامان مہیا ر ہیں اور صدر جب چاہے اور جس طرح چاہے فیصلے کر سکے اور کوئی عدالت اس کو پوچھ نہ سکے.یہ سارے فیصلے جب مارشل لاء ہٹایا گیا تو جمہوریت کے نام پر نافذ کئے جاچکے ہیں.اس لئے عوام الناس کو سنانے کے لئے یا غیر ملکیوں کو دکھانے کے لئے اگر چہ بظاہر مارشل لاء ہٹ گیا ہے لیکن مارشل لاء کے جتنے بھی ناپسند دیدہ مکروہ پہلو ہوتے ہیں جن سے قو میں نفرت کرتی ہیں وہ سارے پہلو باقی رکھ لئے گئے ہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 198 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء اس لئے جماعت کی جہاں تک دنیاوی کوششوں کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ساری دنیا میں جماعت کوشش بھی کر رہی ہے، احتجاج بھی کر رہی ہے، مختلف ذرائع استعمال کر رہی ہے.وہاں بھی ہمارے امراء اور ہمارے وکلاء اور جو بھی اثر رکھتے ہیں کسی رنگ میں وہ سر جوڑ کر بیٹھے ہیں اور کوششیں کر رہے ہیں لیکن یہ منزل وہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے تو تو اب خدا کے سامنے جھکنے کی ضرورت ہے.لیکن ایک بات میں کھول کر بتا دیتا ہوں کہ اللہ کی تقدیر سے راضی رہنے کا فیصلہ پہلے کرنا ہو گا.یہ بھی اُن تقدیروں میں سے ہے جو بظاہر مکر وہ بھی نظر آئے لیکن اس کراہت کے پردے میں بے انتہا حسن پوشیدہ ہے.جن لوگوں کے متعلق بھی سزائے موت سنائی گئی ہے امر واقعہ یہ ہے کہ پیچھے رہنے والوں کے لئے خواہ کتنا بھی دکھ ہو ان سے زیادہ خوش نصیب اس دور میں اور کوئی نہیں ہو سکتا جن کو محض لله موت کی سزا سنائی گئی اور لمبی تکلیفوں کے بعد لمبی قید کے بعد ان کو پھر یہ سعادت نصیب ہوئی کہ خدا کی نظر میں وہ ہمیشہ کی زندگی پا جانے والے ہوں.اس لحاظ سے ان پر رحم کا سوال نہیں ، ان پر رشک کا سوال ہے.قابل رحم وہ لوگ ہیں جو پیچھے رہ گئے ہیں، قابل رحم وہ لوگ ہیں جن کو کئی قسم کی حسرتیں ہیں.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے رد عمل سے میں بہت خوش ہوں.جیسا کہ میں بیان کرونگا ابھی بہت ہی عظیم الشان رد عمل کا اظہار کیا ہے جماعت احمدیہ نے.لیکن اس سے پہلے ان مظلوموں کے لئے ان کے اہل خاندان کے لئے جن کے متعلق ایک ظالمانہ فیصلہ سنایا گیا ہے لیکن ہم نہیں کہہ سکتے کہ خدا کی تقدیر کس رنگ میں ظاہر ہو.ضروری تو نہیں ہوا کرتا کہ اللہ تعالیٰ جان لے کر ہی شہادت کا مرتبہ عطا فرمائے.وہ لوگ جو خدا کی رضا کی خاطر خوشی سے جان دینے کے لئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں ان کو آزمائش میں ڈالے بغیر بھی خدا تعالیٰ شہادت بلکہ اس سے اعلیٰ مراتب عطا فرماسکتا ہے.اس لئے ابھی ہم کچھ نہیں کہہ سکتے لیکن اس خیال سے کہ ان کے لئے اور دعا کی تحریک خصوصیت کے ساتھ پیدا ہواور ان کے اہل وعیال اور عزیزوں کے لئے میں ایک خط کا ایک اقتباس سناتا ہوں جو پروفیسر ناصر احمد صاحب قریشی نے اس واقعہ سے کچھ عرصہ کے بعد لکھا.یہ تمبر 1985ء کی چار تاریخ کا لکھا
خطبات طاہر جلد۵ 199 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء ہوا خط ہے.اُس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کس قدر دردناک دور میں سے پاکستان کے احمدی گزر رہے ہیں اور کتنے دردناک مظالم ہیں جو مسلسل ان پر توڑے جارہے ہیں اور ان کے دلوں پر اور ان کے بچوں کے دلوں پر کیا بیتی ہے اور کیا بیت رہی ہے.وہ لکھتے ہیں: میں یہ خط صبح چھ بجے ایک نہایت ہی کرب کی حالت میں لکھ رہا ہوں.حضور ! جیل کی سلاخوں کے اندر تقریباً توے دن کا عرصہ ہو چلا ہے.بعض اوقات تو دل اس قدر بے قرار ہو جاتا ہے کہ آنسو نکل آتے ہیں اور خدا کے حضور سر بسجو د ہو کر عرض کرتا ہوں ع کیا میرے دلدار تو آئے گا مر جانے کے دن پیارے آقا! میری ساتھ میرا جوان لڑکا محمود احمد بھی ہے جو مجھ سے دن میں کئی بار یہ پوچھتا ہے کہ یہ ظلم ہم پر ناحق کیوں ہو رہا ہے.ایک میرا بھائی جس کی عمر تقریبا اپنا لیس ۴۵ سال ہے ( یعنی رفیع احمد ) وہ بھی خاموش نگاہوں سے یہی سوال کرتا نظر آتا ہے اس کا نام رفیع احمد ہے.میرے دوسرے ساتھی بھی کم و پیش آہوں اور سوالیہ نگاہوں سے یہی سوال پوچھتے ہیں.ان سب کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، جواباً یہی کہا جاتا ہے صبر کریں ،صبر کریں اور صبر کریں.حضور ! میرے پانچ لڑکے اور دولڑ کیاں ہیں جو اپنی والدہ کے ساتھ خدا کے آسرے پر رہ رہے ہیں.سب سے چھوٹا بچہ جس کی عمر چھ سال ہے جب بھی کبھی ملاقات کے لئے آتا ہے تو مجھے اور اپنے بھائی اور چچا سے جیل کی ڈبل جالیوں سے باہر سہم کر کہتا ہے اے ابا ! مجھ سے ملاقات نہیں کرنی.اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس جالی کو ہٹاؤ اور مجھے سینے سے لگاؤ، مجبوراً جیل کے جیلر صاحب سے عرض کر کے اسے اندر بلایا جاتا ہے تو وہ میرا منہ چومتا ہے، گلے لگتا ہے اور چاہتا ہے کہ وہ میری جان سے پیوست ہو جائے لیکن جلد ہی سکتی نگاہوں سے باہر جانے پر مجبور ہو جاتا ہے.یہ منظر بڑا ہی کرب انگیز ہوتا ہے.لڑکے ملاقات کے لئے آتے ہیں روز پوچھتے ہیں آپ کب آئیں گے.انہیں تسلیاں دی جاتی ہیں کہ بیٹا جلد آجائیں گے.بچیاں روز صبح سے انتظار کر کے رات کو رو رو کر سو جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کی قسم ! ہم بے گناہ ہیں.میں نے اٹھائیس سال کا عرصہ محکمہ تعلیم سے منسلک اسی صوبہ سندھ میں گزارا ہے اور گرفتاری کے وقت بھی سکھر ہی میں بی ایڈ کالج میں اسسٹنٹ پروفیسر تھا.میں نے نہایت ایمانداری اور خلوص سے سندھ کے اضلاع لاڑکانہ، دادو، نواب شاہ ، خیر پور اور سکھر میں خدمات انجام دی ہیں
خطبات طاہر جلد۵ اور میرا ریکارڈ اے ون ہے.200 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء اسی مضمون کا یہ خط آگے چلتا ہے اور اسی مضمون کے بہت سے خط اور بھی موصول ہوئے ہیں جو مختلف قیدیوں نے اپنے دل کے حالات بیان کئے ہیں، اپنے بیوی بچوں کے حالات بیان کئے اور راہ مولیٰ کے اسیر جن کے خطوط مجھے ملتے رہے ہیں وہ سینکڑوں کی تعداد میں ہیں، ایک دو نہیں.یہ وہ ہیں جن کے والد شہید ہوئے ، جن کے بھائی اور ان کو اب اس دنیا کی حکومت نے موت کی سزادی ہے اس لئے نمونیہ خصوصیت سے ان کے لئے دعا کی تحریک کے طور پر اس خط کا یہ اقتباس میں نے سنایا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے دور د عمل ہیں ایک تو انتہائی کرب اور غم کا اتنا شدید کرب کا اظہار کیا ہے ساری دنیا کی جماعتوں نے کہ وہ افریقہ میں بسنے والے یا نبی کے جزائر میں پیدا ہونے والے لوگ جنہوں نے کبھی کسی پاکستانی سے ملاقات بھی نہیں کی کجا یہ کہ پاکستان کے احمدیوں کو جانتے ہوں اور ان کو خصوصیت سے جانتے ہوں.پھر ٹرینڈ اڈ میں بسنے والے لوگ، امریکہ کے باشندے غرضیکہ دنیا کے کونے کونے پر بسنے والے احمدی جو پاکستان کے احمدیوں اور خصوصاً ان مظلوم احمدیوں کے ناموں سے بھی آشنا نہیں ، اس قدر بے چین ہیں کہ بسا اوقات وہ لکھتے ہیں کہ ہمیں سمجھ نہیں آتی کہ کس طرح اپنے درد کا اظہار کریں ، سوائے اس کے کہ خدا کے حضور ہم تڑپ رہے ہیں اور کوئی چارہ نہیں.یہ پہلو اس لحاظ سے بہت ہی خوش کن ہے کہ جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ نے وہ مقام عطا فرما دیا ہے جس کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ملالہ نے خبر دی تھی کہ مومن کی یہ علامت ہوتی ہے کہ اپنے بھائی کے لئے اسی طرح دکھ محسوس کرتا ہے، اس طرح کرب محسوس کرتا ہے جیسے ایک بدن کے حصے ہوں ، اگر ایک پاؤں کی انگلی کو بھی ذراسی تکلیف پہنچے تو سارا بدن اس کے لئے بے قرار ہو جاتا ہے.( بخاری کتاب الادب حدیث نمبر : ۵۵۵۲) پس اتنی عظیم الشان دنیا میں پھیلی ہوئی جماعت اس طرح ایک بدن بن چکی ہو.یہ اتنا بڑا خدا کا احسان ہے اور اتنا بڑا احمدیت کا معجزہ ہے کہ اگر اور کوئی سچائی کی علامت نہ بھی کسی کو نظر آئے تو یہی علامت ایک سعید فطرت انسان کے لئے کافی ہونی چاہئے.کوئی جماعت دنیا کی ایسی دکھائیں جس کے ایک کروڑ باشندے خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے والے اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے اس
خطبات طاہر جلد۵ 201 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء قدر شدت کے ساتھ بے چین ہوں.اس رد عمل کا دوسرا پہلو جو اس سے بھی حسین تر ہے وہ یہ ہے کہ باہر بیٹھے ہوئے اس بات پر خوش نہیں ہیں کہ وہ باہر ہیں اور ان کے بھائی تکلیفوں میں ہیں بلکہ شدید غم کا اظہار یہ بھی کیا جاتا ہے کہ کاش ان کی جگہ ہم وہاں ہوتے اور وہ ہماری جگہ آزاد پھر رہے ہوتے ، کاش خدا تعالیٰ نے یہ سعادت ہمیں بخشی ہوتی ، کاش ہم خدا کی راہ میں چنے جاتے کہ اس کی رضا کی خاطر دنیا میں تکلیفیں اٹھائیں.بعض لوگ شہادت کے لئے دعائیں کرنے کی درخواستیں کر رہے ہیں.بعض لوگ یہ درخواستیں کرتے ہیں کہ آخر کب تک ہمارے صبر کا امتحان ہوگا، ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم بھی اپنے دل کی بھڑاس نکالیں ، آخر ایک حد ہوتی ہے، کب تک ہم گالیاں سنیں گے اور ہمارے مظلوم بھائی دکھ اٹھائیں گے ، کب تک اپنے معصوم بھائیوں کے دکھ ہم اٹھا ئیں گے.ایسے خط بھی آتے ہیں.اُن سب کو فردا فردا بھی میں صبر کی تلقین کرتا ہوں اور اب جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان کو اسی لئے خصوصیت کے ساتھ چنا ہے تاکہ جماعت کو خدا تعالیٰ کا یہ پیغام پہنچاؤں کہ ان حالات میں صبر کا دامن کسی قیمت پہ بھی اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑنا اور یہ سعادت سمجھنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی خاطر دکھ اٹھانے کی توفیق بخشی ہے.تاریخ عالم میں یہ واقعات روز روز نہیں ہوا کرتے.تاریخ کے عالم میں قو میں اس طرح وسیع پیمانے پر نہیں روز روز آزمائی جاتیں اور روز روز قوموں کو یہ توفیق نہیں ملا کرتی ہے کہ خدا کے حضور دکھ اٹھانے کی آزمائش میں کامیابی سے گزرجائیں مسکراتے ہوئے اور ہنستے ہوئے دشمن کے سامنے ، روتے اور گریہ وزاری کرتے ہوئے خدا کے حضور لیکن اپنے سر کو سوائے خدا کے اور کسی کے سامنے نہ جھکانے والے ہوں اس حالت میں اپنی عزت نفس کو قائم رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کی آزادی کی حفاظت کرتے ہوئے ، اپنی اعلیٰ اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے ،شان کے ساتھ اور فخر کے ساتھ اس ابتلاء کے دور سے گزرنے والی قوموں پر اگر آپ نظر ڈالیں تو بہت کم آپ کو ایسی نظر آئیں گی جو اس شان کے ساتھ امتحان میں پوری اتری ہوں جس طرح جماعت احمد یہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ توفیق بخشی ہے.پس یہ عظیم الشان ایک رشک کا مقام بھی ہے.جہاں تک ہمتوں کا تعلق ہے یہ پہلو بھی بہت ہی تسکین بخش ہے کہ بکثرت احمدی یہ خط لکھ رہے ہیں کہ آپ ہمارے متعلق بالکل فکر نہ کریں ، ان واقعات نے ہماری ہمتوں کو کمزور کرنے کی
خطبات طاہر جلد۵ 202 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء بجائے اور بھی زیادہ مضبوط کر دیا ہے، اگر ہم پہلے لوہا تھے تو اب فولاد بن گئے ہیں ، اگر پہلے سونا تھے تو اب کندن بن کے نکل رہے ہیں.آپ نے جس حالت میں ہمیں چھوڑا تھا جب واپس آئیں گے تو انشاء اللہ اس سے بہت بہتر حالت میں نہیں پائیں گے.کبھی اتنی قربانی کی تمنا ہمارے دلوں میں پیدا نہیں ہوئی تھی، کبھی قربانی کے لئے اتنا عزم دلوں میں نہیں پیدا ہوا تھا، کبھی قدموں میں ایسا ثبات ہم نے نہیں دیکھا تھا جیسا کہ اب اس دور میں ہمیں نصیب ہوا ہے اور جتنا ظلم میں دشمن بڑھتا چلا جا رہا ہے اتنا اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ ہمارے دلوں کو ڈھارس دیتا چلا جارہا ہے اور ہمارے ارادوں کو بلند تر کرتا چلا جا رہا ہے، ہمارے قدموں کو مضبوط تر کرتا چلا جارہا ہے.اپنے اپنے رنگ میں ٹوٹی پھوٹی زبان میں کوئی شستہ زبان میں ہر احمدی یہ کوشش کر رہا ہے کہ خطوں کے ذریعہ مجھے ڈھارس دے اور مجھے تسلی دے کہ آپ ہماری فکر نہ کریں.یہ وہ نظارے ہیں جو آسمان کی آنکھ کم دیکھا کرتی ہے.اس پہلو کی طرف بھی نظر کریں.مرنے والے تو روز مرتے ہی چلے جاتے ہیں کوئی موٹر کے حادثے میں مرجاتا ہے، کوئی سائیکل سے گرتا ہے تو مر جاتا ہے، کسی کو ویسے گھر میں دہلیز پر ٹھوکر لگ جاتی ہے تو مر جاتا ہے، کوئی دھماکے سن کے مرجاتے ہیں، کوئی ہیضے کا شکار ہو جاتے ہیں، کوئی اپنے ہاتھوں بدنظمی کے نتیجے میں مارے جاتے ہیں.ہزار قسم کی موتیں ہیں کہیں کینسر ہے، کہیں اور بیماریاں ہیں، لمبی تکلیف دہ موتیں ہیں اور روزمرہ کا یہ سلسلہ ہے.کروڑوں انسان مر رہے ہیں لیکن اُن کروڑوں انسانوں کی موت پر آسمان میں کوئی جنبش نہیں ہوتی.وہ چند خوش نصیب جن کو ایسی موت نصیب ہو کہ آسمان لرز اٹھے ان کی موت سے اور ملائکہ ان پر درود بھیجنے لگیں یہ موتیں قابل رحم موتیں نہیں یہ تو قابل رشک موتیں ہیں اور جماعت احمد یہ اس مضمون کو خوب سمجھ رہی ہے اس لئے جماعت احمدیہ کوکسی طرح بے دل کرنا یا مایوس کر دینا یا اپنے بلند ارادوں سے باز رکھنا یہ اب جماعت احمدیہ کے دشمن کے بس میں ہی نہیں ہے.وہ کوتاہ ہے اس کی باز وکوتاہ ہیں، اُس کا تصور کو تاہ ہے، پست قامت ہے وہ اپنے حوصلے میں، اپنے مرتبے اور اپنے مقام میں ، اُس کا تصور بھی ان قدموں کو نہیں چھو سکتا جو جماعت احمدیہ کے عزائم کے قدم ہیں، کجا یہ کہ وہ ان بلندیوں کو حاصل کرے جن سے جماعت احمدیہ کے عزم کے سر باتیں کر رہے ہیں.اس لئے جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں یہ باتیں اس لئے بیان نہیں کر رہا کہ
خطبات طاہر جلد۵ 203 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء آپ بحیثیت جماعت اپنے اوپر رحم کرنے لگ جائیں.بحیثیت جماعت آپ قابل رشک ہیں.بحیثیت جماعت یہ جو دور جس میں سے ہم گزر رہے ہیں یہ جماعت کے لئے سعادتوں کا دور ہے.بہت سی سعادتیں ایسی ہیں جو نصیب ہو چکی ہیں اور ہورہی ہیں روز اور بہت سی ایسی ہیں جو ہمارا انتظار کر رہی ہیں.اس لئے جو کچھ بھی خدا کی تقدیر کر دکھائے ، ان بنیادی حقائق کو کبھی فراموش نہ کریں اور پہلی قوموں کی طرح نہ بنیں جنہوں نے تھوڑی تھوڑی آزمائشوں کے اوپر بھی ہمتیں ہارنی شروع کر دیں اور اس زمانے کے اولوالعزم انبیاء کو یہ مسئلہ در پیش تھا کہ کس طرح ان کے دلوں کو سہارا دیں.خوش نصیب ہیں آپ کہ آپ کے اوپر خدا تعالیٰ نے جو سر براہ مقرر فرمایا ہے اُس کو یہ فکر نہیں ہے کہ آپ کے دلوں کو وہ کیسے سہارا دے.حیرت انگیز نمونہ ہے، محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کے نمونے کی یاد تازہ کرنے والا نمونہ ہے.وہ مجھے خط لکھ رہے ہیں یہ بتانے کے لئے کہ ہرگز فکر نہ کریں، ہمارے دل مضبوط ہیں خدا کے فضل سے ہم ہر قربانی کے لئے پہلے سے بڑھ کر تیار ہیں.لیکن یہ برکت سراسر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے قدموں کی برکت ہے.پہلے انبیاء کی قوموں نے بھی بڑے اچھے نمونے دکھائے مگر وہ نصیب نہ ہو سکا جو محمد مصطفی ﷺ کی غلامی سے نصیب ہو سکتا ہے.حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم بھی آزمائی گئی اور ان کو بھی قسم قسم کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن جو نمونہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی قوم نے دکھایا ویسا نمونہ ان کو نصیب نہیں ہوا.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ اسْتَعِينُوا بِاللَّهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُوْرِثُهَا مَنْ يَّشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا اللہ سے صبر کے ذریعے سے استقامت مانگو یہ ساری زمین خدا ہی کی ہے جس کو چاہتا ہے وہ اس کا وارث بنادیتا ہے اور میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ عاقبت متقیوں کے لئے ہی ہے انجام کار متقی ہی کامیاب ہوں گے.قَالُوا أَ وذِيْنَا مِنْ قَبْلِ أَنْ تَأْتِيَنَا وَ مِنْ بَعْدِ مَا جِثْتَنَا یہ بات سن کہ ان کا جواب یہ تھا کہ اے موسیٰ “ ! تیرے آنے سے پہلے بھی ہم دکھوں میں مبتلا کئے گئے تھے اور تیرے آنے کے بعد بھی ہمارا یہ حال رہا ہمیں کیا فرق پڑا ہے.محمد
خطبات طاہر جلد۵ 204 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء مصطفی ﷺ کی قوم آپ کو یہ جواب نہیں دے سکتی تھی.محمد مصطفی ﷺ کے غلام وہم و گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ آنحضور عے ان کو صبر کی تلقین کر رہے ہوں اور آگے سے وہ یہ جواب دیں کہ آپ سے پہلے بھی ہم برے حال میں تھے آپ کے آنے کے بعد بھی ہم برے حال میں رہے.وہ تو واقعہ آپ بار بارسن چکے ہیں کہ بدر کے مقام پر کس طرح کس شان کے جواب تھے جو آنحضرت ﷺ کے غلاموں نے آپ کو دیئے.بہر حال حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اور دکھوں کے ساتھ ایک یہ بھی دکھ تھا کہ ان کی قوم بار بار ہمت ہارتی تھی ، بار بارا سے سنبھالنا پڑتا تھا،بار بار سے اٹھانا پڑتا تھا اور پھر بتانا پڑتا تھا قَالَ عَلَى رَبِّكُمْ أَنْ تُهْلِكَ عَدُوَّكُمْ دیکھو دیکھو ممکن ہے تمہارا رب عین ممکن ہے کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے وَيَسْتَخْلِفَكُمُ فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرَ كَيْفَ تَعْمَلُونَ اور تمہیں وارث بنادے زمین میں پھر دیکھے وہ تمہیں کہ تم کیسے عمل کرتے ہو.لیکن خدا کی شان ہے ، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو خدا نے تربیت کی ایسی عظیم الشان قوتیں عطا فرمائی تھیں اور تزکیہ نفس کی ایسی عظیم الشان قو تیں عطا فرما ئیں تھیں کہ آنحضور ﷺ کے زمانے کی بات تو بالکل ایک الگ بات تھی چودہ سو سال کا عرصہ گزرچکا ہے آج بھی وہ قوت قدسیہ اسی طرح کارفرما ہے.آج بھی وہ قوت قدسیہ اسی طرح زندہ ہے اور چودہ صدیاں بھی اس قوت کو کمزور نہیں کر سکی.وہ دل جو اُس قوت سے متاثر ہونے کے لئے تیار بیٹھے ہیں ، وہ دل جو اس قوت کو اپنے سینوں میں سمانے کے لئے اپنے دلوں کے دروازے کھولتے ہیں ، اُن دلوں میں وہ قوت آج بھی اسی طرح قوت کے ساتھ کارفرما ہے جس طرح چودہ سو سال پہلے آنحضور ﷺ کی یہ تزکیہ نفس کی قوت کام دکھارہی تھی.چنانچہ آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے غلام کے غلام در غلام کو ہر طرف سے یہی پیغام مل رہا ہے کہ تم ہماری فکر نہ کرو.ہم تو یہ غم کھارہے ہیں کہ ہم کیوں نہیں تھے جنہیں یہ توفیق ملی قربانی کی.ہم تو اس حسرت میں آنسو بہا رہے ہیں کہ کاش ہمیں یہ سعادت ملتی.ہم آگے بڑھ کر ان زنجیروں کو چومتے جن میں ہمارے بھائی جکڑے ہوئے ہیں.اس لئے آپ ہمارے لئے یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہمیں توفیق بخشے پہلے سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرنے کی اور سعادتیں عطا فرمائے.یہ حضرت محمد مصطفی ملتی ہے کے ایک نہایت ہی ادنیٰ اور حقیر غلام کو آپ کی قوم مخاطب ہو کر
خطبات طاہر جلد۵ یہ کہہ رہی ہے.205 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء پس جس پہلو سے بھی دیکھیں ان دکھوں میں بھی ایسے حسین لمحات ہمارے لئے خدا تعالیٰ نے مقید کر دیئے ہیں کہ ہر دکھ کے پردے میں ایک حسن لپٹا پڑا ہے، ہر مصیبت کے پردے میں خدا تعالیٰ کی رضا کے پیغام ہیں جو چھپے ہوئے ہیں اور اگر دیکھنے کی آنکھ ہو تو اس کو معلوم ہوگا کہ اتنا عظیم الشان سعادت کا دور بہت ہی شاذ کے طور پر قوموں کو نصیب ہوا کرتا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گائیں.اس دکھ کی بھی حفاظت کریں جو خدا کی راہ کا دکھ ہے لیکن اس دکھ کے ساتھ اس حمد اور شکر کی بھی حفاظت کریں جو اس سعادت کے نتیجے میں آپ کے دل میں پیدا ہونے چاہئیں.اور اگر محض دکھ ہے اور یہ دکھ شکووں میں بدل جاتا ہے تو پھر جو کچھ آپ نے حاصل کیا تھا وہ سب ہاتھ سے ضائع چلا جائے گا.مومن کے دکھ اور کافر کے دکھ میں یہی فرق ہوا کرتا ہے.کافر کا دکھ اُسے ہلاک کر دیتا ہے.اور مومن کا دکھ اس کے مقامات اور مراتب کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے اور مومن کا دکھ اُسے نئی زندگیاں عطا کرتا ہے.اس لئے میں یہ نہیں کہتا کہ اس دکھ کو محسوس نہ کریں.وہ تو ظالم اور سفاک انسان ہو گا جو اپنے بھائی کی تکلیف کے اوپر تکلیف محسوس نہ کرے لیکن اس دکھ کو یہ اجازت نہ دیں کہ وہ آپ کے نفس کو ہلاک کرے اور آپ اپنے خدا سے ناراض ہو جا ئیں ، آپ اپنے خدا سے شکوے شروع کر دیں، اپنے خدا کے حضور بے صبری دکھانے لگیں.اس سعادت پر نظر رکھیں جو آپ کو عطا ہوئی ہے جس کے آپ لائق نہیں تھے، میں لائق نہیں تھا.محض یہ خدا کا فضل ہے ورنہ میں جانتا ہوں کہ ہم بہت ہی کمزور لوگ ہیں.اتنے خوفناک مصائب کا سامنا ہے جماعت احمدیہ پاکستان کو کہ اگر اپنے نفس کی طاقت کے ذریعہ ان کا مقابلہ کرنا ہوتا تو کبھی کی یہ جماعت ٹوٹ کر پارہ پارہ ہو چکی ہوتی.لیکن چھوٹے، بڑے، بوڑھے، مرد اور عورتیں جتنے بھی وجود ہیں پاکستان میں احمدیت کے ، جتنے بھی نفوس ہیں، جس رنگ کی بھی وہ شکلیں اور صورتیں ہیں، ہر ایک میں خدا کا فضل سرایت کر چکا ہے اور نئے نئے وجود انہیں وجودوں میں سے پیدا ہورہے ہیں.ایک نئی تخلیق ہے خدا تعالیٰ کی جو جاری ہے اس وقت تمام احمدیوں کے ابدان پر.انہی بدنوں سے نئے بدن نکل رہے ہیں، انہی روحوں سے نئی روحیں نکل رہی
خطبات طاہر جلد ۵ 206 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء ہیں اور اتنا وسیع اور عام دور ہے یہ کہ جیسا کہ میں نے بار بار پہلے بھی توجہ دلائی ہے.واقعہ بغیر مبالغہ کے تاریخ میں اتنے وسیع پیمانے پر اس طرح روحانی تخلیق نو بہت کم ہوتی ہوئی دکھائی دے گی.اس لئے اس سعادت کا خیال کر کے خدا تعالیٰ کے شکر سے غافل نہ رہیں ، خدا تعالیٰ کی حمد سے غافل نہ رہیں اور اسی کے حضور یہ دعا کریں اور اسی سے التجا کریں کہ اگر اس کی آزمائش کے دن اور لمبے ہیں تو آپ کے صبر کے دن بھی اس سے زیادہ بڑھا دے.اگر آزمائش میں زیادہ سختی آنے والی ہے تو آپ کے حو صلے کو اس سے بھی زیادہ سخت کر دے.اگر ظلموں میں کچھ ابھی حصہ باقی ہے، ابھی ظلم اپنی انتہاء کو نہیں پہنچے تو اللہ تعالیٰ آپ کی استقامت کو اپنی انتہاء تک پہنچا دے.امر واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ ہو چکا ہے ہرگز بعید نہیں کہ اس سے زیادہ دشمن کے کچھ اور کرنے کے بھی ارادے ہوں.ہر گز بعید نہیں کہ ابھی اور بھی سینے کے کینے ، سینے کے بغض جو بھی مخفی دلوں میں کھول رہے ہیں وہ باہر آنے کے لئے زور مار رہے ہوں اور شاید ان کو تو فیق بھی مل جائے کیونکہ جب حکومت کے سر براہ خود فتنہ و فساد کو پرورش دینے کا تہیہ کر چکے ہوں تو جہاں تک سینوں کے بغضوں کا تعلق ہے وہ تو ہمیں معلوم ہے کہ وہ کس طرح کھول رہے ہیں ، ان کو اگر اجازت دی جائے ان کا دل بڑھایا جائے ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور کہا جائے کہ ہاں تم مانگو ہم تمہیں دیتے ہیں تو پھر یہ خیال کر لینا کہ بس جو کچھ ہو چکا بس یہی ہے شاید اس کے بعد کچھ نہ ہو یہ غلط خیال ہے.در اصل مومن ایک لحاظ سے سادہ بھی ہوتا ہے.وہ اپنے دل پر نگاہ کرتا ہے اور سوچ بھی نہیں سکتا کہ وہ دل جو ایمان کی حقیقت سے نا آشنا ہو اُس کی سوچ اس کے فکر کے تقاضے بالکل مختلف ہوتے ہیں.اُس کی عادات و اطوار بالکل مختلف ہوتے ہیں.مومن تو جب اُس کا دشمن بھی مارا جارہا ہو اُس کے لئے بھی دکھ محسوس کرتا ہے.اور کبھی یہ مومن کے متعلق سوچا بھی نہیں جاسکتا کہ جب وہ جائز بدلہ بھی لے رہا ہو تب بھی اُس بدلہ لیتے وقت اُس کے دل کو اطمینان نصیب نہ ہو بلکہ وہ اور کا مطالبہ کر رہا ہو کہ بس اور بھی مارا جائے اگر اس کو قتل کیا ہے تو اس کے بچوں کو بھی قتل کروں، بچوں کو قتل کیا ہے تو گھر بھی برباد کر دوں ، رشتہ داروں کو بھی فنا کر دوں.یہ جو خیالات ہیں یہ مومن کے دل میں پیدا ہو ہی نہیں سکتے.اس لئے مومن سوچ بھی نہیں سکتا کہ دشمن ظلم کے بعد مزید ظلم کی خواہش رکھتا ہوگا، ایک زیادتی کے بعد اور زیادتیاں کرنے کی سوچ رہا ہوگا، ایک دکھ پہنچا کر اور دکھ کے طریقے
خطبات طاہر جلد۵ 207 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء ایجاد کرنے میں محو ہوگا.مومن کے وہم میں بھی نہیں آسکتا.مگر اللہ تعالیٰ بتاتا ہے ہمیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو ان کے دل چھپائے ہوئے ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو تمہیں نظر آرہا ہے.اکبر ہے وہ، جو تمہیں نہیں دکھائی دے رہا وہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ بغض اور کینے جو وہ پال رہے ہیں تمہارے متعلق ، وہ سارے کے سارا ظاہر نہیں ہوا اس لئے نہیں کہ وہ خدا نے ظاہر نہیں ہونے دیا، خدا نے خدا کی تقدیر نے ہاتھ روکے ہوئے ہیں.مگر خدا جانتا ہے کہ جہاں تک بغضوں کے ذخیروں کا تعلق ہے.وہ اسی طرح بے پناہ جوش کے ساتھ اہل رہے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے ایسے دلوں کا نقشہ ایک اور آیت میں اس طرح کھینچا کہ جب خدا تعالیٰ جہنم سے کہے گا کہ کیا تو اب مطمئن ہوگئی ہے تو جہنم آگے سے جواب دے گی هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ (ق:۳۱) کہ یہ آگ جو ہے یہ تو پیٹ بھرنے والی چیز نہیں ہے.یا آگ ایسی چیز ہے جس کا پیٹ نہیں بھرا جا سکتا اس لئے هَلِ امْتَلَاتِ کا جواب کہ کیا تو بھر گئی ہے؟ میرا تو ہمیشہ یہی رہے گا کہ ہر دفعہ جب بھی میری جہنم کے اندر میرے جہنم کا پیٹ بھرنے کی کوشش کی جائے گی میں یہی آگے سے کہوں گی هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ، هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ کچھ اور بھی ہو تو لے آؤ ، کچھ اور بھی ہو تو لے آؤ.تو مومن کے برعکس وہ لوگ جن کو ایمان کی حقیقت کا علم نہیں ہوتا ان کے دلوں میں انتقام کی آگ اسی طرح جل رہی ہوتی ہے جیسے جہنم میں کوئی آگ جل رہی ہو وہ تو ہمیشہ هَلْ مِنْ مَّرِيدِ کا مطالبہ کرتے رہیں گے.چنانچہ آپ احمدیت کی دشمنی کی تاریخ پر نظر ڈالیں ہمیشہ آپ کو پہلے سے بڑھتے ہوئے مطالبات دکھائی دیں گے.ایک مطالبہ کے بعد جو بہت ہی لغو نظر آتا تھا قوم کو اور اس وقت اُس زمانے کی قوم کے سرداروں نے سمجھا کہ اتنا احمقانہ مطالبہ ہے اسے ہم کیسے منظور کر سکتے ہیں! جب آہستہ آہستہ دباؤ بڑھنے شروع ہوئے اور ادھر ایمانوں میں کمزوری آنی شروع ہوئی، اخلاق میں کمزوری آنی شروع ہوئی تو لغو مطالبات منظور کئے گئے کہ اس خیال سے کہ بس اب اس سے زیادہ کچھ ہو ہی نہیں سکتا.اگلے دور میں اس سے بھی زیادہ لغو مطالبات کہ بعض بدنصیبوں نے وہ بھی منظور کر لئے.پھر اگلے دور میں اس سے بھی زیادہ لغو مطالبات پھر بعض بد بختوں نے وہ بھی منظور کر لئے اور
خطبات طاہر جلد۵ 208 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء ایک دوراب ہے کہ اس سے بھی بڑھ کر اور مطالبات ہو رہے ہیں.اس لئے اگر آپ کا عزم بڑھ رہا ہے تو اس بڑھتے ہوئے عزم کی ضرورت بھی ہے آپ کو اگر آپ کے حوصلے بلند ہورہے ہیں تو ان بلند ہوتے ہوئے حوصلے کی آپ کی ضرورت بھی ہے اس لئے اس دعا سے غافل نہ رہیں کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَ إِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ (آل عمران: ۱۴۸) اے خدا ! ہم سے بخشش کا سلوک فرما عفو کا سلوک فرما اور ہمارے پائے ثبات کو مزید ثبات بخش کیونکہ اس کے بغیر ہم بغیر تیری نصرت کے تیرے انکار کرنے والوں پر فتح نہیں پاسکتے.یہ فتح تو نے عطا فرمانی ہے لیکن ہم تجھ سے ہی حوصلہ مانگتے ہیں، تجھ سے ہی صبر ما نگتے ہیں ، تجھ سے استقامت مانگتے ہیں.پس ان دعاؤں کے ساتھ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے ، ان کے اہل وعیال کے لئے اورساری جماعت کے لئے اور اسلام کے لئے کثرت سے دعائیں کریں اور اپنے ملک یعنی پاکستانیوں سے میں کہہ رہا ہوں کہ اپنے ملک کے لئے بھی دعا کریں.کیونکہ مجھے ڈر یہ ہے کہ اب اس مقام تک بات پہنچ چکی گئی ہے کہ جس کے بعد پھر واپسی کے رستے دکھائی نہیں دیتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے سورہ بروج میں یہ نقشہ کھینچا ہے: إِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ (البروج : 1) کہ وہ لوگ جنہوں نے میرے بندوں کو، مومنوں کو فتنے میں مبتلا کیا اور پھر راضی نہیں ہوئے کافی نہیں سمجھا اس کو ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا پھر دوبارہ انہوں نے تکرار کیا اور تو بہ نہیں کی فَلَهُمْ عَذَابَ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ اُن کے لئے بھی دوہرے عذاب کی خبر دی جاتی ہے.عَذَابُ جَهَنَّمَ بھی ہے ان کے لئے اور عَذَابُ الْحَرِيقِ بھی ہے یعنی آگ میں جلتے رہنے کا عذاب.اس کے بعد پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس طرح وہ ایک بات کرتے ہیں ظلم کی اور پھر اس کا اعادہ کرتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایک پکڑ کرتا ہے اور اس پکڑ کا اعادہ بھی کرنا جانتا ہے.اور یہ عجیب تو ارد ہے کہ اس گزشتہ تھوڑے سے دور میں اس آیت کی ایک ظاہری تفسیر
خطبات طاہر جلد۵ 209 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء ہمارے سامنے ظاہر ہوئی ہے، ہمارے سامنے کھلی ہے کہ ابھی ساہیوال کیس میں دو کلیۂ مظلوم مومن بندوں کے قتل کرنے کا فیصلہ حکومت نے کیا اور اس کے تھوڑے عرصہ کے بعد اس ظلم کا اعادہ سکھر میں جا کر کیا گیا اور وہاں بھی دو ہی خدا کے مظلوم اور خدا کے معصوم بندوں کو جن کا صرف یہ جرم تھا کہ وہ ایمان لے آئے ، ان کے قتل کا فیصلہ کیا گیا.تو قرآن کریم نے جس اعادہ کا نقشہ کھینچا ہے کہ باز نہیں آتے اور پھر کرتے ہیں ہم بھی انہیں دو ہری پکڑ کی بشارت دیتے ہیں ہم بھی جانتے ہیں کہ کس طرح ایک دفعہ پکڑا جاتا ہے اور پھر دوبارہ پکڑا جاتا ہے.تو چونکہ دوسری دفعہ یہی ظالمانہ حرکت کرنے کے بعض لوگ مر تکب ہو چکے ہیں اس لئے بظاہر تو مجھے کوئی راستہ نظر نہیں آتا ان کی نجات کا یا پیچھے ہٹنے کا.دعا یہ کریں کہ قوم کو ان کی نحوست سے خدا تعالیٰ بچائے.جتنا بڑا ظلم کرنے والا ہو اتنا ہی اس کی نحوست کا سایہ بھی بڑا ہوا کرتا ہے اور وہ قوم کا سر براہ ہو تو ساری قوم کو اس کی نحوست لپیٹ میں لے لیا کرتی ہے بسا اوقات.قرآن کریم فرعون کا ذکر کرتا ہے، فرماتا ہے فَأَوْرَدَ هُمُ النَّارَ (هور: ۹۹) فرعون نے اپنی ساری قوم کو آگ کے گھاٹ کا منہ دکھا دیا ان کو آگ کے گھاٹ میں لے اترا.تو بہت ہی بدقسمتی ہوتی ہے کہ قوم کی جس کے سربراہ کی نحوست کا سایہ بھی اتنا ہی بڑا ہو اوراتنابڑا ہو کہ بسا اوقات وہ ساری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے.اس لئے جو پاکستان سے تعلق رکھنے والے احمدی ہیں خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی بستے ہیں ان کا اولین فرض ہے کہ اپنے ملک کے لئے دعا کریں کہ اللہ انتہائی خوفناک ابتلاء سے اس ملک کو کامیابی سے بچا کر نکال لے جائے اور جو سعید فطرت لوگ ہیں ان کو ہدایت بخشے.وہ گھن کی طرح اس میں پیسے نہ جائیں اور صرف وہ چند ظالم جو خدا کی نظر میں ظالم ٹھہرتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ کی تقدیر پکڑے تا کہ دوسروں کے لئے عبرت کا نشان بن جائیں.لیکن جو احمدی پاکستان سے تعلق نہیں رکھتے ان کو بھی میں دعا کے لئے کہتا ہوں کہ پاکستان کے ساری دنیا کے بسنے والوں پر احسان ہے.ایک لمبا عرصہ پاکستان کے احمدیوں نے اسلام کے نور کو دنیا میں پھیلایا ہے اور ساری دنیا کے باشندوں کو امام وقت سے روشناس کروایا ہے.بڑی عظیم الشان قربانیاں دی ہیں ، سب سے زیادہ واقفین پیدا کئے ہیں.سب سے زیادہ قربانیوں والے پیدا
خطبات طاہر جلد۵ 210 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء کئے ہیں ، اس لئے ساری دنیا کے احمدی اگرچہ وہ پاکستانی نہیں ہیں اگر چہ حب الوطن کا تقاضا یہ نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے لئے دعا کریں لیکن حب الایمان کا یہ ضرور تقاضا ہے کہ پاکستان کو اپنی دعاؤں میں یا درکھیں کہ پاکستان ہی سے ان کے ملک تک نور پہنچانے والے نکلے تھے.پاکستان ہی سے وہ جیالے اٹھے تھے جنہوں نے دنیا کے کونے کونے میں محمد مصطفی ﷺ کی رسالت کا پیغام پہنچایا اور خدا کی توحید کے گیت گائے.پس دعا کریں کیونکہ مجھے اس ملک کے حالات اچھے نہیں دکھائی دے رہے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور ہمیں اس ملک کی اچھی تقدیر دکھائے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ جب میں یہ کہتا ہوں تو ایک ادنی بھی اس میں کسی قسم کے تصنع کا کوئی پہلو نہیں ہے.مجھے اس ملک سے دوہری محبت ہے اس لئے بھی کہ یہ ہمارا وطن ہے اور اس لئے بھی کہ اس وطن میں شرافت آج بھی زندہ ہے.کثرت کے ساتھ غیر احمدی اس معاملے میں آج کے زمانے میں احمدیت کی تائید کر رہے ہیں، کثرت کے ساتھ ایسے دیہات ہیں جہاں اذانیں دی جارہی ہیں اور وہ غیر احمدی وہاں کے شرفاء اپنے مولویوں کو للکارتے ہیں کہ تم نے اگر کچھ کیا تو ہم تمہیں پکڑیں گے.خدا کا نام ہم یہاں سے بند نہیں ہونے دیں گے.یہ نہیں ہے کہ حکومت نہیں چاہتی پکڑنا، حکومت چاہتی بھی ہے تو عوام الناس میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دین سے محبت کی وہ رمقیں باقی ہیں ابھی تک جن کے نتیجے میں وہ حکومت کے بدار ا دوں کو چلنے نہیں دیتے.ہر جگہ خیالات میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں ، ہمدردیاں پیدا ہورہی ہیں.تبلیغ جاری ہے، بیعتیں ہو رہی ہیں اور آئے دن غیر احمدیوں کے ایسے خط آتے ہیں کہ حیران ہو جاتا ہے انسان پڑھ کر کہ اتنی شدید مخالفتوں کے دور میں اُن کو خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی اور بڑی جرات عطا فرمائی اور بڑے حوصلے کے ساتھ وہ کہتے ہیں ہم نے فیصلہ کر لیا ہے بیوی چلی گئی ، بچے ہاتھ سے نکل گئے، جائیدادیں گئیں، ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں.تو جس ملک میں اس حد تک سعادت موجود ہو اس حد تک شرافت موجود ہوا اس کی تباہی کون شریف النفس دیکھ سکتا ہے.کیسے ممکن ہے کہ وہ ملک تباہ ہورہا ہو اور کوئی اپنے انتقام کی آگ کو ٹھنڈا ہوتے دیکھ کر مزے اُڑا رہا ہو.ہرگز ایسے انتقام کی آگ کو آپ نے اپنے دل میں نہیں بھڑ کنے دینا.یہ جہنم کی آگ ہے جو هَلْ مِنْ مَّزِيد کے مطالبے کیا کرتی ہے.آپ رحمۃ للعالمین کے غلام
خطبات طاہر جلد۵ 211 خطبہ جمعہ ۷ / مارچ ۱۹۸۶ء ہیں جو آگوں کو بجھانے والے تھے آگوں کو بھڑ کانے والے نہیں تھے.اس لئے بڑے زور کے ساتھ میں بار بار آپ کو توجہ دلاتا ہوں کہ دعا کریں اس ملک کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اس کی اکثریت کو اپنے عذاب اور اپنی ناراضگی سے بچالے اور ہدایت عطا فرمائے اور توفیق عطا فرمائے کہ آج جو مسیح موعود کو گالیاں دینے والے ہیں ان سے اور ان کی اولادوں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی عزت و ناموس کے لئے اپنے خون کا آخری قطرہ بہادینے کے لئے تیار ہوں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: اب چونکہ مغرب کی نماز دیر میں ہوا کرے گی نسبتاً اس لئے آج رات سے عشاء کی نماز کا وقت سات کی بجائے ساڑھے سات ہو گا.جو مجلس لگا کرتی ہے ہماری اس کی وجہ سے ہم نے وقت پہلے کیا ہوا تھا لیکن اب چونکہ وقفہ تھوڑا رہ گیا اس لئے آپ باخبر رہیں آج رات کو انشاء اللہ سات کی بجائے ساڑے سات بجے نماز پڑھیں گے.
خطبات طاہر جلد۵ 213 خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء اسیران ساہیوال اور سکھر کے بلند حو صلے کا ذکر اور سیدنا بلال فنڈ کا قیام ( خطبه جمعه فرموده ۱۴/ مارچ ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جب سے ساہیوال اور سکھر کے مقدمات کا جابرانہ فیصلہ سنایا گیا ہے اس وقت سے جماعت کی طرف سے جو خطوط مل رہے ہیں ان میں اکثر میں اس بارے میں بے چینی کا اظہار پایا جاتا ہے اور مختلف رنگ میں اپنے اپنے خیالات، اپنے اپنے اندازِ بیان کے مطابق اپنے درد کا بھی اظہار کرتے ہیں دعاؤں کا بھی ذکر کرتے ہیں اور بعض خطوں میں یہ بھی تحریک ہوتی ہے کہ جو ممکن کوشش ہو وہ کرنی چاہئے.لیکن اکثر خط ایسے ہیں جو اس بات میں بھی پوری طرح اطمینان کا اظہار کرتے ہیں کہ ہمیں علم ہے کہ ہم سے بہتر نظام جماعت کو ان کا اور ان کے اہل خاندان کا فکر ہوگا اور ہمیں پورا اطمینان ہے کہ جو کوشش بھی انسانی حد تک ممکن ہے وہ ان کے لئے کی جارہی ہوگی.یہ وہ لوگ ہیں جو تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر ہیں، جن کو کامل اعتماد ہے نظام جماعت پر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کام کرنے والے پیچھے چھوڑے ہیں ان کی صلاحیت پر لیکن کچھ لوگ اپنی بے چینی کے اظہار میں اس معیار پر پورے نہیں اترتے اور اشارۃ ایسی باتیں لکھتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو پورا اطمینان نہیں ہے کہ جماعت کیا کر رہی ہے.بعض خطوں میں تو مطالبے آتے ہیں کہ ہمیں بتایا جائے کہ جماعت کیا کر رہی ہے.ان لوگوں کے خطوں سے ایمان میں نقص کی بو آتی ہے
خطبات طاہر جلد۵ 214 خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء اور جوان کا مقام ہے اس سے بڑھ کر باتیں کرنے والے دکھائی دیتے ہیں.سب سے زیادہ قریبی وہ لوگ ہیں جو مصیبت زدگان کے رشتہ دار ہیں.ان کی بیوی، ان کے بچے ان کے بھائی ، ان کے خاوند ، ان کی بہنیں ، یہ وہ لوگ ہیں، خاوند تو جیلوں میں ہیں، میرا مطلب تھا کہ ان کی بیویاں اور انکے بھائی وغیرہ.جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے وہ پہلے گروہ سے بھی زیادہ ایمان اور تقویٰ کا عظیم الشان مظاہرہ کر رہے ہیں.ان کو دیکھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ والشبقُونَ الْأَوَّلُونَ (التوبه: ١٠٠) كن لوگوں کو کہتے ہیں.خود وہ جن پر خدا کی خاطر ، خدا کے نام کی خاطر مصائب تو ڑے جارہے ہیں اور وہ جوان کے قریب ترین ہیں.ان کے نمونے صبر و ثبات کے، تقویٰ کے، توکل کے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنے کے، ایسے عظیم الشان ہیں کہ وہ ہمیشہ تاریخ احمدیت میں سنہری حروف سے لکھے جائیں گے.ہمیشہ آنے والی نسلیں ان کو دعائیں دیں گی اور رشک کریں گی ان کے خلوص اور ان کے تقویٰ پر.یہ حالات دیکھنے کے بعد یہ حکمت بھی سمجھ آگئی کہ کیوں خدا نے ان لوگوں کو خاص قربانی کے لئے چنا تھا.قربانی کے لئے چنا جانا بھی ایک انعام ہے اور ایک بڑی عظیم سعادت ہے.اللہ تعالیٰ جب کسی کو چلتا ہے تو اس میں یا اس کے خاندان میں ضرور کوئی بات دیکھتا ہے جس کے لئے وہ انتخاب کیا جاتا ہے.جس طرح حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کا جو انتخاب کیا تھا ، وہ سارے افغانستان میں دل کی حیثیت رکھتے تھے، روح کی حیثیت رکھتے تھے بلکہ سارے مشرق میں ایک نمایاں امتیازی شان رکھتے تھے اور اسی لئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی شہادت کو غیر معمولی اظہار محبت کے لئے چنا.اس لئے اللہ تعالیٰ کے انتخاب کی بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ کیوں بعض خاندانوں اور بعض افراد کو قربانی کے لئے چتا ہے.ان کے اندر تقویٰ کی کوئی ایسی روح نظر آتی ہے، کوئی ایسی قربانی کی تمنا دکھائی دیتی ہے کہ جس کی وجہ سے ان کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے.لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ جو قربانی نہیں دے رہے یعنی جن سے قربانی نہیں لی جارہی.دینے کے لئے تو جماعت کی بھاری اکثریت تیار بیٹھی ہے ان میں کوئی نقص ہے.میرا ہر گز یہ مطلب نہیں، صرف یہ مطلب ہے کہ جب خدا کی نظر چنتی ہے کسی کو تو اس کی سعادت اُبھر کے سامنے آجاتی ہے، وہ تو چمک اٹھتی ہے.اور سعادت کے بغیر خدا کی نظر کسی کو نہیں چھنتی.ورنہ ایسے بہت سے ہیں جن کا
خطبات طاہر جلد۵ 215 خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء قرآن کریم خود ذکر فرماتا ہے فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب :۲۴) کہ جن کو ہم نے قربانی کے لئے چن لیا ہے صرف وہی نہیں ہیں جو میری نظر میں عزیز ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو انتظار میں بیٹھے ہیں اور وہ انتظار میں بیٹھے رہنے والے بھی میری محبت اور پیار کی نظر کے نیچے ہیں.یہ ہے دراصل اس اظہار کی روح.بہر حال آج کے خطبہ کے لئے میں نے بعض راہ مولیٰ میں دکھ اٹھانے والوں کے خطوط اور ان کے اعزاء و اقرباء کے خطوط کے چند اقتباسات چنے ہیں.جماعت کو یہ بتانے کے لئے کہ اس طرح خدا کی راہ میں عزم اور حوصلہ کے ساتھ قربانیاں دی جاتی ہیں اور ان کے نمونے نے آپ سے کیا تقاضے پیدا کئے ہیں.ان کے نیک اعمال نے آپ کے لئے کیا راہ متعین کی ہے اور اس لئے کہ تا آپ پہلے سے بڑھ کر ان کو دعاؤں میں یا درکھیں.سکھر جیل میں ہمارے دو بھائی برادرم ناصر احمد قریشی اور رفیع احمد قریشی ہیں پروفیسر ناصر احمد قریشی بڑے ہیں.ان کا خط ملا ہے پھانسی گھاٹ سینٹرل جیل سکھر 4/3/86.بڑی محبت اور پیار سے مجھے مخاطب کرنے کے بعد، السلام علیکم لکھنے کے بعد لکھتے ہیں کہ وو " حضور کے علم میں تو آچکا ہوگا کہ کل مورخہ تین مارچ کو ہم دو بھائیوں راقم الحروف ناصراحمد اور رفیع احمد کو سزائے موت کا حکم جیل سپرنٹنڈنٹ سکھر نے غالباً ساڑھے گیارہ بجے دن سنایا اور پھر ہمیں بند وارڈ پھانسی گھاٹ میں کھدر کے کپڑے اور ٹوپی پہنا کر بند کر دیا گیا.حضور ! ہماری جانیں ، مال ، عزت، اولاد، آبر وسب خدا کے حضور حاضر ہے.صرف وہ راضی ہو جائے.ظالم جتنا ظلم چاہیں کر لیں، تختہ دار پر بے گناہ لٹکا دیں.ہماری مسکراہٹ اللہ کی رضا کی خاطر قائم رہے گی.اور خدا اور قرآن کی جھوٹی قسمیں کھا کھا کر دروغ گوئی سے کام لینے والوں کو دعائیں دیتے ہوئے رخصت ہوں گے.کبھی تو ان کا ضمیر ان کو ملامت کرے گا.آخر سکھر کے لوگ ایک نہ ایک دن حقیقت کا اعتراف کریں گے کہ ہم بے گناہ تھے.باقی پانچ اسیران بشمول میرا لڑکا عمر اٹھارہ سال کا معاملہ ابھی التواء میں ہے.( یہ فیصلہ بعد میں
خطبات طاہر جلد۵ 216 خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء سنایا گیا تھا ) خدا تعالیٰ ان کو محض اپنے خاص فضل سے مزید تکلیف میں نہ ڈالے.میری اہلیہ اور آٹھ بچوں جس میں دو جڑواں بہنیں عمر بارہ سال کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں حوصلہ دے، ہمت دے اور وہ بھی خدا کی رضا پر راضی رہیں.یہ احمدیت کی پنیری ہے جس نے بڑھ کر بار آور درخت بننا ہے.ان کی دیکھ بھال اللہ کے فرشتے فرمائیں.ان کے بیٹے کا خط بھی ہے، وہ لکھتے ہیں: آج مورخه ۵ / مارچ ۱۹۸۶ء ( یعنی ایک دن کے بعد کا لکھا ہوا خط ہے ) کو جب بچے والد صاحب سے ملاقات کرنے جیل گئے تو ہم لوگوں کو وہاں لے جایا گیا جہاں پھانسی کے لوگوں کو رکھا جاتا ہے.وہاں والد صاحب اور چچا کو جس حالت میں دیکھا یعنی ان کے لباس کو تو یقین جانیں کہ دل خون کے آنسو رویا کہ ایسے دن بھی آسکتے ہیں.تمام لوگ رو ر ہے تھے لیکن آفرین ہے جماعت کے ان سپوتوں پر کہ کیا مجال کہ ان کی آنکھ سے ایک آنسو بھی نکلا ہو پھر لکھتے ہیں کہ: میں نے جب یہ منظر دیکھا تو کیا بتاؤں بیان نہیں کر سکتا کہ خدا اپنے بندوں کے کیسے کیسے امتحان لیتا ہے.لوگ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو تکلیف دے کر وہ ہمارا ایمان خرید لیں گے.خدا کی قسم یہ لوگ اگر ہم سب کو پھانسی دے دیں تو بھی ہم لوگ اف نہیں کریں گے.پہلے ان ظالموں نے میرے دادا کو شہید کیا اور اب ان کو بھی جھوٹے مقدمے میں ملوث کر دیا.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جلد ان لوگوں کو باعزت بری فرمائے اور وہ لوگ ہنسی خوشی واپس گھر آئیں اس سے دعاؤں پر اور خدا کی قدرت پر جماعت کو جو کامل یقین ہے اس کا بھی پتہ چلتا ہے.بچے کو علم ہے کہ سو فیصدی ظالم اور سفاک لوگ ہیں اور کوئی خدا کا خوف نہیں ہے.اور بظاہر کوئی آثار نہیں ہیں کہ ان کے دل میں کوئی تبدیلی پیدا ہو اس کے باوجود آخری لمحے تک مومن کو جو خدا
خطبات طاہر جلد ۵ 217 خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء پر تو کل ہے اس کا اظہار اس چھوٹی عمر کے بچے نے کیا ہے.محمد الیاس منیر کی ہمشیر لکھتی ہیں کہ: اس سے قبل میں نے آپ کو دو خط اپنے پیارے بھائی الیاس منیر واقف زندگی کی باعزت رہائی کے لئے لکھے تھے.جن میں بہت پریشانی کا اظہار کیا مگر اب ہمیں آپ کا ۲۱ فروری کا خطبہ پہنچ گیا ہے جس کو میں ابھی دوبارہ پڑھ کر بیٹھی ہوں اور دل کو ڈھارس ہوئی ہے“.ان کے والد مکرم محمد اسماعیل منیر واقف زندگی لکھتے ہیں: ہمیں خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے خاندان کو بھی ایک اہم قربانی پیش کرنے کے لئے چن لیا ہے اور اللہ تعالیٰ مزید فضل فرمائے اور پوری بشاشت سے اس کو پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائے.جو ہمارے رب کے ہاں بھی مقبول ہو اور ہم سب کا انجام بخیر ہو.جب سے یہ خبر سنی ہے حضور اید کم اللہ کی تکلیف کا تصور کر کے ہمارے رونگھٹے کھڑے ہو جاتے ہیں پھر ہم دعاؤں میں لگ جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ محض اپنے فضل سے ہمارے امام کی ہر تکلیف کو دور فرمائے اور اسلام اور احمدیت کی شاندار فتوحات عطا فرمائے.اس غرض کے لئے ہم ہر قسم کی قربانیاں پیش کرنے کے لئے ہر دم تیار ہیں.عزیزہ طاہرہ الیاس اور دونوں بچے طارق الیاس، خالد الیاس میری خوب مدد کر رہے ہیں اور ہم سب مل کر آنے والے احباب کی جسمانی اور روحانی خدمت کی توفیق پارہے ہیں.اور اس اہم جماعتی دکھ کو دور کرنے کے لئے دن رات دعاؤں میں لگے ہوئے ہیں“.پھر ایک اور خط میں لکھتے ہیں: ” ہم اسیران راہ مولیٰ سے فیصلہ کے بعد ۱۷ فروری کو ملے تھے.اس کے بعد بھی جو دوست مل کر آئے ہیں ان سب کی زبانی اسیران کے بلند حوصلوں کی خبریں ملی ہیں.اور وہ حضرت اسماعیل علیہ الصلواۃ والسلام کی طرح
خطبات طاہر جلد۵ 218 خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللهُ مِنَ الصُّبِرِينَ (الصافات: ١٠) کے نعرے بلند کر رہے ہیں.اللہ تعالیٰ انہیں ان کی خواہش کے مطابق حضرت عبداللطیف صاحب شہید جیسی استقامت عطا فرمائے اور ان کی اس قربانی کو قبول فرمائے اور جماعت کو اس کے شیر میں ثمرات سے نوازے.پھر لکھتے ہیں: کل دونوں اسیران راہ مولی ساہیوال سے ان کی پھانسی کی کوٹھڑیوں میں ہماری دوسری ملاقات ہوئی.الحمد للہ کہ ان کو ہشاش بشاش پایا اور گذشتہ ملاقات کی نسبت ان کی حالت ہر لحاظ سے بہتر تھی بلکہ انہوں نے ملاقات کرنے والے عزیزان خصوصاً عورتوں کے حوصلے بڑھائے مثلاً الیاس منیر کی بہن ناصرہ کے اور اُس کی نانی صاحبہ جو کل ملاقات کر کے آئی ہیں اُن کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہے ( یعنی اسیروں نے ان کے حوصلے بڑھائے ) اور خوشی خوشی دوسروں کو اپنے خوش کن تاثرات سنا رہی تھیں.اُس کی بیوی طاہرہ نے تو بہت ہی حو صلے کا مظاہرہ کیا ہے.اپنے دونوں بچوں طارق اور خالد کو سنبھالنے کے ساتھ ساتھ ملاقات کے لئے آنے والی سینکڑوں عورتوں کو ہر روز صبر وسکون کی تعلیم دیتی ہے.اللہ تعالیٰ اس کو ہمت دے اور اس کے والدین کو بھی“.آخر پر میں اپنے نہایت پیارے عزیزم الیاس منیر کا خط پڑھ کر سناتا ہوں.یہ لکھتے ہیں : ۱۵ / فروری کو جب ہمیں سہ پہر کے وقت ڈیوڑھی طلب کیا گیا تو ہمیں پورا علم تو نہیں تھا کہ ہمارا فیصلہ کیا ہونے والا ہے.تا ہم جس قسم کے انتظامات میں ہمیں لے جایا گیا اس سے کچھ کچھ اندازہ ہو گیا تھا.چنانچہ اس ضمن میں آپس میں باتیں ہو رہی تھیں اور میری زبان پر سید نا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا شعر جاری ہور ہا تھا:
خطبات طاہر جلد۵ 219 خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء اگر وہ جاں کو طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی بلا سے کچھ تو نپٹ جائے فیصلہ دل کا ( در ثمین صفحه: ۱۶۰) پھر ہمیں چار بجے کے قریب باری باری بلا کر فیصلہ سنایا جانے لگا.رانا صاحب سے پہلے مجھے بلا کر جب فیصلہ سنایا گیا تو مجھے یوں محسوس ہوا جیسے تسکین میرے سارے جسم میں بھر دی گئی ہے.بے اختیار الحمداللہ کے کلمات منہ سے نکلے اور یوں لگا جیسے سارے بوجھ اتر گئے ہیں.اردگر دسخت افسوس کا ماحول تھا اور ہم خوش ہورہے تھے.دیکھنے والے ہمیں خوش ہوتا دیکھ کر حیران بھی ہوتے ہوں گے مگر ہم تو افسانہ بنی ہوئی تاریخ کو زندہ کر رہے تھے.پھر ہمیں بظاہر جیل کی سخت ترین جگہ لے جایا گیا اور اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا اور درود شریف پڑھتے ہوئے دو تین دن گزارے اور اب پھانسی کی کوٹھریوں میں الگ الگ وارڈ میں ہیں اور دو تین دن کی بے قرار جد و جہد کے بعد اب میں آپ کو خط لکھنے میں کامیاب ہورہا ہوں.پیارے آقا! ہم جو خادم کے عہد میں جان قربان کرنے کا وعدہ کیا کرتے تھے آج وقت آیا ہے اس وعدہ کو نبھانے کا.بے شک ہم بہت کمزور ہیں بہت گنہگار ہیں لیکن آج جب ہمارے مولیٰ نے اسلام کے احیاء نو کے لئے ہمیں چنا ہے ہم اپنی پوری ہمت اور طاقت کے ساتھ لبیک لبیک کہتے ہوئے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر رہیں گے.انشاء اللہ العزیز.اور ہمیں یقین ہے کہ ہمارے ایک وجود کے بدلے میں ہزاروں ، لاکھوں وجودوں کو زندگی ملے گی جو قیامت تک دشمنوں کے لئے جلن اور سخت سوزش کا موجب بنی رہے گی.تو یہ ہیں ہمارے مصیبت زدگان بھائی ، جن کو عام اصطلاح میں مصیبت زدہ ہی کہا جاتا ہے لیکن مذہبی اصطلاح میں یہ وہ خوش نصیب ہیں جنہیں خدا نے ابدی زندگی کے لئے چن لیا ہے.وہ خوش نصیب ہیں جوارب ہا ارب انسانوں میں قسمت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں اور قسمت کے ساتھ
خطبات طاہر جلد۵ 220 خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء دنیا سے رخصت ہوتے ہیں.ان کی پیدائش پر بھی اللہ کے پیار کی نظریں پڑتی ہیں، جن کی موت پر بھی اللہ کے پیار کی نظریں پڑتی ہیں، جو خود بھی مبارک بنائے جاتے ہیں اور جن کے وجود اپنے ماحول کو بھی مبارک کر دیتے ہیں.جن کے خاندانوں پر نسلاً بعد نسل اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی رہتی ہیں اور خدا کی بے شمار برکتیں ان کے گھر بار پر برستی ہیں.یہ وہ خوش نصیب لوگ ہیں جو کامل طور پر رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً (الفجر: ۲۹) کی حیثیت سے جب بھی خدا ان بلاتا ہے خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کو ان کو ہمیشہ خاص دعاؤں میں یا درکھنا چاہئے اور ان کی اولادوں کو بھی اور اولاد در اولاد کو بھی اور جہاں تک جماعت کو توفیق ہے لازماًوہ ان کے تمام پسماندگان کا بہترین خیال رکھے گی.اس موقع پر میں جماعت کو یہ بھی تسلی دلانا چاہتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے جماعت احمد یہ میں کوئی خدا کی راہ میں مارے جانے والا ہر گز یہ وہم لے کر یہاں سے رخصت نہیں ہوتا کہ میرے بچوں کا، میری بیوی کا کیا بنے گا.جماعت احمد یہ میں ایسے لوگوں کے بچے یتیم نہیں ہوا کرتے.یہ ایک زندہ جماعت ہے اور ناممکن ہے یہ جماعت اپنے قربانی کرنے والوں کے اہل وعیال کو اور ان کے حقوق کو بھول جائے.اس ضمن میں پہلے بھی میں نے صدرانجمن کو اورتحریک جدید کو اور دیگر تعلق رکھنے والوں کو یہ ہدایت دی تھی کہ ان مشکلات میں مبتلا بھائیوں کے لئے یہ خاص طور پر خیال رکھیں کہ ان کے اہل وعیال کو ان کی عدم موجودگی کا دکھ یا تکلیف ان معنوں میں نہ ہو کہ وہ ہوتے تو ہماری یہ ضرورت پوری ہوتی اور وہ ہوتے تو ہمارا یہ کام بنتا.اس کے لئے جماعت ذمہ دار ہے اور جہاں تک مجھے اطلاعات ملتی رہی ہیں اگر چہ بعض دفعہ نا دانستہ کوتاہی ہوگئی ہے.مگر بالعموم خدا تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو ہر طرح ان کی ضروریات کو پورا کرنے کی توفیق بخشی ہے.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دور بیٹھے اس قسم کی تفصیلی نگرانی نہیں ہوسکتی جیسے قریب بیٹھ کر ہوسکتی ہے.اس لئے بعض شکایات بھی موصول ہوئیں اس پر میں نے فوری طور پر منتظمین کو سرزنش بھی کی اور بتایا کہ آپ نے قطعاً کوئی مالی لحاظ سے کسی پہلو سے کوئی فکر نہیں کرنا اور ہرگز ان لوگوں سے کوئی کنجوسی نہیں کرنی.خدا کا مال ہے، خدا کی امانت ہے ہمارے پاس اور یہ اول ترین استحقاق رکھنے والے لوگ ہیں.جماعتوں کی زندگی کی ضمانت اس بات میں ہے،الہی جماعتوں کی زندگی کی ضمانت کہ اُن
خطبات طاہر جلد۵ 221 خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء کے قربانی کرنے والوں کو اپنے پسماندگان کے متعلق کوئی فکر نہ رہے اور اتنی واضح ، اتنی کھلی کھلی یہ حقیقت ہر ایک کے پیش نظر رہے کہ ہم بطور جماعت کے زندہ ہیں اور بطور جماعت کے ہمارے سب دکھ اجتماعی حیثیت رکھتے ہیں.اگر یہ یقین پیدا ہو جائے کسی جماعت میں تو اس کی قربانی کا معیار عام دنیا کی جماعتوں سے سینکڑوں گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے.باہر تو پوچھتا ہی کوئی نہیں.بڑے بڑے سیاسی لیڈر ہم نے دیکھے ہیں جو تحریکیں چلا کر ہزار ہا کو مروا دیتے ہیں اور اس کے بعد خود عیش وعشرت کی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں.کوئی پتہ نہیں کرتا کہ ان یتیموں کا کیا بنا ، ان بیوگان کا کیا بنا، ان کے بچوں کی اخلاقی نگرانی کرنے والا بھی کوئی تھا کہ نہیں ، ان کے سر پر چھت بھی تھی کہ نہیں ، دو وقت کا کھانا بھی میسر تھا کہ نہیں اور عوام بے چارے اپنی سادگی میں پھر ہر دفعہ ایسی قربانیاں پیش کرتے ہیں لیکن جس جماعت میں قربانی کا معیار خدا کے فضل اور اس کے رحم کے نتیجے میں اس وجہ سے بلند ہو کہ وہ خدا کی خاطر قربانی کرتے ہیں اور ساتھ یہ بھی یقین کامل ہو کہ ہمارے بعد ہماری اولاد کی ساری جماعت نگران رہے گی بلکہ پہلے سے بڑھ کر ان کی ضروریات کا خیال رکھا جائے گا.تو ایسی جماعت کی قربانی کا معیار آسمان سے باتیں کرنے لگتا ہے.اس لئے اگر چہ جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے ان تمام باتوں کو اچھی طرح سمجھتی ہے اور اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی.لیکن بعض دوستوں کی طرف سے یہ اصرار ہوتا رہا ہے کہ شہدا کے لئے ایک مستقل فنڈ اکٹھا ہونا چاہئے.پہلے تو میری طبیعت میں یہ تر دور ہا اس خیال سے کہ یہ تو ان کے حقوق ہیں اور جماعت کی جو بھی آمد ہے اس میں یہ اولین حق ان لوگوں کا شامل ہے.اس لئے الگ تحریک کرنے سے کہیں یہ جذباتی تکلیف نہ ان کو پہنچے کہ ہمارا بوجھ جماعت اٹھا نہیں سکتی اس طرح ہمارے لئے جیسے صدقے کی تحریک کی جاتی ہے.اس طرح الگ تحریک کی جارہی ہے.اس لئے کافی دیر تر ددرہا اور دعا بھی کرتا رہا کہ اللہ تعالیٰ صحیح فیصلے کی تو فیق عطا فرمائے.لیکن اب مجھے پوری طرح اس بات پر شرح صدر ہو گیا ہے کہ چونکہ یہ ہرگز صدقے کی تحریک نہیں بلکہ جو شخص اس میں حصہ لے گاوہ اعزاز سمجھے گا اس بات کو کہ مجھے جتنی خدمت کرنی چاہئے تھی اتنی نہیں تو ایک بہت ہی معمولی خدمت کی توفیق مل رہی ہے اور اس لئے کہ بہت سے لوگوں کی طرف سے بے اختیار بار بارا ظہار ہو رہا ہے کہ ہم بے چین ہیں ہمیں موقع دیا جائے ہم کسی رنگ میں خدمت کرنا چاہتے ہیں اور چونکہ
خطبات طاہر جلد ۵ 222 خطبه جمعه ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء جماعت کی ایسی تربیت ہے کہ انفرادی طور پر ایسے لوگوں کو ایسے خاندانوں سے تعلق رکھ کر کچھ رقمیں دینے کو مناسب نہیں سمجھا جاتا.اس میں کئی قسم کی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں اور ہم یہ پسند نہیں کرتے کہ ذاتی طور پر یہ لوگ کسی کے احسان کے نیچے آئیں.اس لئے جن کی تمنا ہے جو اس بات کے لئے تڑپ رہے ہیں کہ ہمیں بھی موقع ملنا چاہئے ان کے لئے پھر یہی رستہ باقی رہ جاتا ہے کہ نظام جماعت ان کو موقع دے اور وہ جماعت میں اپنی توفیق اور اپنی خواہش اپنی تمنا کے مطابق کچھ نہ کچھ پیش کریں.اس لحاظ سے یہ سب باتیں سوچنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں.اس کے لئے میں اپنی طرف سے دو ہزار پونڈ سے اس کا آغاز کرنا چاہتا تھا.مگر انگلستان کی جماعت کے ایک دوست مجھ سے پہل کر گئے باقی تو مشورے دے رہے تھے انہوں نے ایک ہزار پونڈ کا ساتھ چیک بھیجوا دیا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے توفیق ان کو دے دی کہ وہ سبقت لے گئے ہیں.مگر بہر حال دوسرے نمبر پر میرا نام آجاتا ہے اور اب جس کو خدا تعالیٰ جتنی توفیق عطا فرمائے.پوری طرح شرح صدر اور محبت کے جذبے سے جو دینا چاہتا ہے وہ دے گا.ادنی سا بھی تر دریا بوجھ ہو تو ہرگز نہ دے.اس پر لازم ہے کہ وہ نہ دے کیونکہ یہ ایسی تحریک نہیں ہے کہ جس طرح چندوں میں بعض دفعہ بوجھ اٹھا کر بھی آپ دیتے ہیں.یہ ایک خاص نوعیت کی تحریک ہے اس میں بشاشت طبع ہی ضروری نہیں بلکہ طبیعت کا دباؤ ضروری ہے ، دل سے بے قرار تمنا اٹھ رہی ہو، ایک خواہش پیدا ہو رہی ہو کہ میں اس میں شامل ہوں.پھر خواہ کسی کو آنہ دینے کی بھی توفیق ہو وہ بھی بہت عظیم دولت ہے، وہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک بہت بڑی سعادت ہوگی.تو اس تحریک کا میں اعلان کرتا ہوں اور اسی پر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.لیکن ختم کرنے سے پہلے ایک دفعہ پھر آپ کو دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دعائیں کرنا اور دعا میں گریہ وزاری کرنا یا ان پیاروں کی یاد میں دل کو نرم پانا یہ کوئی کمزوری نہیں ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے.لیکن دشمن کے مقابل پر نظر نیچی کرنا اور اپنے مقاصد سے منہ موڑ لینا یا ان میں نرمی پیدا کر دینا یا اپنے عزائم میں کسی قسم کی کمی برداشت کر لینا کسی قسم کی کمزوری برداشت کر لینا یہ مومن کو زیبا نہیں ہے.ہر ٹھوکر کے بعد پہلے سے زیادہ عزم ہونا چاہئے ، پہلے سے بلند تر حو صلے ہونے چاہئیں، پہلے سے زیادہ بختی برداشت کرنے کے ارادے ہونے چاہئیں، اور اس کے مطابق دعائیں بھی پڑھنی چاہئیں ساتھ ساتھ.پس جہاں تک ان لوگوں اور دشمنوں کا تعلق ہے.اُن
خطبات طاہر جلد۵ 223 خطبہ جمعہ ۱۴ / مارچ ۱۹۸۶ء کے لئے یہ آنسو نہیں ہیں اُن کے لئے یہ دل کے درد نہیں ہیں.یہ ہمارا اپنے پیاروں کے ساتھ ایک تعلق ہے اور خدا کا اس کے ساتھ تعلق ہے.جہاں تک احمدیت کے دشمن کا تعلق ہے اُن کو ہمارا یہی پیغام ہے کہ جتنی ٹھوکریں تم ہمیں لگاؤ گے خدا کی قسم ہم پہلے سے بڑھ کر زیادہ طاقتور اور صاحب عزم ہوتے چلے جائیں گے.جتنا تم ہمیں دبانے کی کوشش کرو گے پہلے سے سینکڑوں گنا زیادہ قوت کے ساتھ ہم ابھریں گے.تم اگر حسد کرتے ہو کہ ہمارا مقام ہمالہ کی چوٹیوں تک پہنچ گیا ہے تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس مقام سے گرانے کی کوشش کرو گے تو ہم شریا سے باتیں کرنے لگیں گے.وہاں سے گرانے کی کوشش کرو گے تو ہفت اقلیم تک خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمدیہ کی شہرت ضرور پہنچے گی اور بلند تر مرتبے اور بلند تر مقامات پر جماعت کا قدم اوپر سے اوپر بڑھتا چلا جائے گا.اس لئے ہم دشمن کے مقابل پر اس قسم کا عزم رکھنے والی جماعت ہیں.وہ ہماری عاجزی اور انکساری سے کہیں دھوکہ نہ کھا جائے.اور یہ بھی بڑی خوشی کی بات ہے ، بڑے اطمینان کی بات ہے کہ جتنے خط جماعت کی طرف سے موصول ہورہے ہیں ان میں بیشتر میں اس بات کا اظہار پایا جاتا ہے کہ ہم اپنے لئے نہیں کہہ رہے، ہم ماحول میں تبدیلیاں دیکھ رہے ہیں.ایسے ایسے کمزور احمدی جن کے متعلق وہم و گمان بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ کسی قربانی کا نام لے لیں گے ان کے چہروں کے ہم رنگ بدلے ہوئے دیکھ رہے ہیں، ان کی پیشانیوں پر ہم نئے عزم کے آثار دیکھ رہے ہیں.ایک عظیم انقلاب برپا ہورہا ہے جماعت کے اندر.اس لئے بہت بہت مبارک ہو کہ ہر قربانی جو جب گزر جاتی ہے تو پیچھے مڑ کر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عملاً جو خدا کے فضل نازل ہوئے اس کے مقابل پر کچھ بھی نہیں تھی.ہر قربانی جو جماعت پیش کر رہی ہے اُس کے مقابل پر جو سعادتیں نازل ہو رہی ہیں.اللہ کی طرف سے جو عظیم روحانی انقلاب برپا ہو رہا ہے اُس کی تو قیمت ہی کوئی نہیں ہے.کوئی شکوہ نہیں ہے اپنے رب سے.جس قسم کا تلخ گھونٹ اس کی رضا ہم سے بھرنے کا تقاضا کرے گی ہنستے ہوئے ،مسکراتے ہوئے ،سر کو جھکاتے ہوئے اُس کے حضور ہم اُس کی رضا کے لئے ہر تلخ گھونٹ کو بھریں گے.لیکن ایک ایک تلخ گھونٹ لامتناہی میٹھے چشمے جاری کر دے گا اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور برکتوں کے کیونکہ ہمیشہ اُس کی رضا کی خاطر تلخ گھونٹ بھرنے والوں سے اُس کا یہی سلوک ہوا کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 225 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء تقویٰ کا نور حاصل کریں یہی حقیقی غلبہ ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ مارچ ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) / تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: قُلْ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ ، فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المائدة : ١٠١) اِنْ تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَ إِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوْا بِهَا وَ إِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطَن ( آل عمران: ۱۲۱) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اور پھر فرمایا: (الانفال: ۳۰) جماعت اس زمانہ میں جس عظیم الشان ابتلاء کے دور سے گزر رہی ہے اور عمد میں اسے عظیم الشان کہہ رہا ہوں غلطی سے نہیں.شاید کسی کو عظیم الشان کی بجائے اس پر دردناک دور کے لفظ کا
خطبات طاہر جلد ۵ 226 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء اطلاق زیادہ مناسب نظر آئے لیکن جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو مومنوں پر جتنے بڑے ابتلاء آتے ہیں اتنے ہی وہ زیادہ عظیم الشان ہوتے ہیں.گو درد کے بھی بے شمار پہلو ساتھ لئے ہوئے ہوتے ہیں لیکن ان دکھوں کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ماں پیدائش کی تکلیف میں سے گزرتی ہے اور پیدائش کی تکلیف تو تھوڑے عرصے کی تکلیف ہوتی ہے اور ماضی میں پیچھے رہ جاتی ہے لیکن اگر خدا اسے سعید بخت اور خوش نصیب بیٹا عطا فرمائے تو ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کی سعادتیں مستقبل میں آگے آگے چلتی ہیں.وہ اس بیٹے کی زندگی کے ساتھ بھی ختم نہیں ہو جاتیں بلکہ ان سعادتوں کو بسا اوقات خدا نافلہ کے ذریعے لمبا کر دیتا ہے اور پھر نافلہ کی سعادتوں کو اور آگے بڑھا تا چلا جاتا ہے.پس مومن کی زندگی کا ابتلا بھی کچھ ایسی ہی صورت رکھتا ہے کہ اگر چہ دکھوں کے ایک دور میں سے مومن کولاز ما گزرنا ہوتا ہے لیکن یہ دور اس کے لئے بہت ہی عظیم الشان دور ہوتا ہے کیونکہ نہ ختم ہونے والی عظیم الشان سعادتیں اور برکتیں پیچھے چھوڑ جاتا ہے.اس دور میں جہاں تک درد کی مختلف لہروں کا تعلق ہے گزشتہ دنوں ہمارے بہت ہی پیارے بھائیوں کے خلاف دردناک سزاؤں کا اعلان کیا گیا.جو درد کی سب لہروں سے بڑھ کر اس درد کی لہر نے جماعت کے دلوں کو مغلوب کیا ہے اور اس کثرت کے ساتھ سب دنیا سے درد کا اظہار ہو رہا ہے کہ شاید اس سارے دور میں کبھی چند بھائیوں کے دکھ کی خاطر اتنی عظیم تعداد میں انسانوں کے دل نہیں دکھے ہوں گے اور جب میں شاید کہتا ہوں تو میں یہ کہتا ہوں کہ غالباً ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوا ہوگا کہ کروڑ کے لگ بھگ انسانوں کے دل چند آدمیوں کی تکلیف میں اس قدر بے قرار اور بے چین ہو گئے ہوں.غالباً بھی نہیں میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے سوا آج اس دور میں اس کی کوئی اور مثال نظر نہیں آسکتی.در دبھی ایک قوت ہوتا ہے اور اس قوت کو آپ جس طرح چاہیں استعمال کریں، جس قسم کے خیالات چاہیں اس قوت سے اخذ کریں، جس قسم کے اعمال پیدا کرنا چاہیں اس قوت کے نتیجہ میں پیدا بھی کر سکتے ہیں.پس مختلف قلوب اور ذہنوں کے پیمانوں میں آج جب کہ یہ درد ڈھل رہا ہے تو خیالات بھی مختلف پیدا ہور ہے ہیں اور جذبات بھی مختلف پیدا ہور ہے ہیں اور ان کے نتیجے میں اعمال بھی مختلف ظہور میں آ رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 227 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء ایک رحجان یہ دیکھا گیا ہے کہ بکثرت احمدیوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے کہ ہمیں عددی اکثریت کب نصیب ہوگی اور عددی غلبہ کب میسر آئے گا.یہ درست ہے کہ خدا تعالیٰ الہی جماعتوں سے عددی غلبے کے بھی وعدے فرماتا ہے اور عددی کثرت بھی نصیب فرماتا ہے لیکن جب ہم قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو خدا کے نزدیک عدد کی کوئی بھی قیمت دکھائی نہیں دیتی.عدد کی بجائے خدا کے نزدیک کیفیت کی قیمت ہے اور کیفیت کی قیمت کا یہ حال ہے کہ بعض دفعہ چند کی خاطر اور بعض دفعہ ایک وجود کی خاطر کل عالم کو بھی ہلاک کر دے تو خدا تعالیٰ کے ہاں جو قیمتیں مقرر ہیں اس لحاظ سے کوئی بھی نقصان کا سودا نہیں ہوگا.خدا کی اقدار کے پیمانوں کے لحاظ سے یہ فیصلہ بالکل درست اور مناسب ہوگا.پس وہ تین آیات جو تقویٰ کے مضمون سے متعلق میں نے الگ الگ سورتوں سے اخذ - کر کے آج آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.ان میں یہی مضمون بیان ہوا ہے اور ان حالات کے نتیجے میں ہمیں کیا کرنا چاہئے ، ہماری سوچوں کو کون سا رخ اختیار کرنا چاہئے ، ہمارے اعمال کو کن صورتوں میں ڈھلنا چاہئے.یہ ساری باتیں قرآن کریم کی ان تین آیات میں بیان فرمائی گئی ہیں.پہلی آیت میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ كه اسے محمد ملا تو اعلان کر دے کہ لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ کہ خبیث یعنی گندا اور ناپاک ہرگز طیب یعنی پاکیزہ کے برابر نہیں ہو سکتا اس کا ہم مرتبہ نہیں ہوسکتا.کسی پہلو سے بھی اس کی برابری کا دعوی نہیں کر سکتا.وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ خواہ اسے مخاطب تجھے خبیث کی تعداد کی کثرت اچھی بھی لگے.تجھے بات پسند آئے کہ خبیث کی تعداد تو زیادہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ بات بھی اس کی اچھی نہیں اور تعداد کے لحاظ سے بھی خبیث کو جواکثریت حاصل ہے اس میں بھی حسن کا پہلو کوئی نہیں ، پھر بھی وہ چند طیب مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتا.فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ.پس اپنی قدر و قیمت بڑھانے کی طرف توجہ کرو اور اللہ کے تقویٰ کے معیار کو بڑھاؤ کیونکہ یہی ہے جو خدا کی نظر میں کوئی قیمت رکھتا ہے.یہ تقویٰ ہی ہے جو خدا کی نظر میں پیارا ہے.تقویٰ ہی ہے جس کے مقابل پر ہر دوسری چیز خدا کی نگاہوں میں بیچ ہے لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تاکہ تم پھر فلاح پاؤ اور نجات دہندوں میں شمار کئے جاؤ.
خطبات طاہر جلد۵ 228 خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء پس وہ لوگ، وہ احمدی احباب خصوصاً جن کے دل میں بار بار یہ حسرت پیدا ہورہی ہے کہ کاش ہمیں عددی اکثریت جلد حاصل ہو جائے.ان کو میرا یہ پیغام ہے کہ عددی اکثریت کی بجائے اپنے معیار تقویٰ کو بڑھانے کی طرف توجہ کریں.جہاں تک عددی اکثریت کا تعلق ہے یہ بھی قرآن کریم میں وعدے موجود ہیں لیکن عددی اکثریت کی حیثیت سے نہیں بلکہ صاحب تقویٰ لوگوں کی تعداد میں اضافے کی حیثیت سے.قرآن کریم میں جہاں غیروں پر غلبہ کا وعدہ فرمایا گیا ہے وہاں صلى الله فرمایا ہے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُله تا کہ وہ اسے غالب کرے یعنی محمد مصطفی ﷺ کو غالب کرے اور محمد مصطفی ﷺ کے غلبہ کا مطلب عددی اکثریت ہے ہی نہیں.جب کہا جاتا ہے کہ محمد کو دنیا پر غالب کرے تو مراد یہ ہے کہ ہر حسن کو دنیا پر غالب کر دے، ہر خوبی کو دنیا پر غالب کردے، ہر پاکیزگی کو دنیا پر غالب کر دے، ہر صفت باری تعالیٰ کو دنیا پر غالب کر دے.پس بظاہر لوگ اس کا یہی معنی لیتے ہیں کہ اسلام کی عددی اکثریت کا وعدہ کیا گیا ہے، ہر گز نہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلبہ کا وعدہ کیا گیا ہے اور وہ غلبہ حسن کے بغیر ممکن نہیں.پس اگر اس طرح احمدیت نے بڑھنا ہے کہ نور مصطفوی پھیل جائے تو یہ تمنا ایک پاکیزہ تمنا ہے، یہ تمنا یقیناً قرآن کریم کی کے مطابق ہے لیکن اگر مقابل کے جوش میں ، اگر ایک دوسرے پر بازی لے جانے کی تمنا میں آپ محض عددی اکثریت پر نظریں لگا کر بیٹھ جائیں تو یہ کوئی اچھا سودا نہیں ہو گا.اس ابتلاء کی صحیح قیمت آپ نے وصول نہیں کی.اس لئے اپنی توجہ کو قیمتوں اور قدروں کی طرف مرکوز رکھیں اور یہ فیصلہ کریں کہ ہر قربانی کے بدلے خدا سے سب سے زیادہ قیمت وصول کریں گے.دوسری بات جو بیان فرمائی گئی ہے اِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَ اِنْ تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ تَفْرَحُوا بِهَا اگر تمہیں کوئی اچھی بات پہنچتی ہے تو تمہارے دشمن اس سے بہت برا مناتے ہیں، بہت تکلیف محسوس کرتے ہیں اِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ہاں اگر تمہیں کوئی تکلیف کی بات پہنچ جائے يُفْرَحُوا بِهَا اس سے بہت خوش ہوتے ہیں.وَاِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّ كُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا اگر تم بچنا چاہتے ہوان کے شر سے تو طریق یہ ہے کہ تصبر وا صبر کر ووَتَتَّقُوا اور تقویٰ اختیار کرو.یہ دو ہتھیار ہیں مومن کے جن کے ذریعے غیر کے شر سے بچ سکتا ہے اور اس کے بعد خدا یہ وعدہ کرتا ہے
خطبات طاہر جلد ۵ 229 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ہرگز ان کی کوئی شرارت، ان کی کوئی سکیم تمہیں کو ئی نقصان نہیں پہنچا سکے گی اِنَّ اللهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيْط فرمایا اللہ ہے جو ان کا گھیرا کئے ہوئے ہے.تم تو کمزور ہو نا تو ان ہو تم میں یہ طاقت کہاں ہے کہ اپنے دشمن کے مقابل پر اس کے شر سے بچ سکو کجا یہ کہ تم اس پر کسی اور طرح سے غالب آجاؤ.تم میں اپنے دفاع کی بھی طاقت نہیں.اس کے باجود خدا تعالیٰ تمہیں دو ایسے ہتھیار عطا کرتا ہے کہ اگر تم ان کو پکڑ لوتو نہ صرف یہ کہ ان کے شر سے بچ جاؤ گے بلکہ خدا یہ وعدہ کرتا ہے کہ ان کی ہر تدبیر کو نا کام کر دے گا.ایک ذرہ بھی تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گی.إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحیط دلیل ہے اس بات کی کہ خدا اس بات پر قادر ہے کہ وہ ایسا کر سکے دلیل یہ ہے کہ اِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحيط - دو طرح سے شر سے بچنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں دنیا میں.ایک یہ کہ بعض لوگ قلعہ بند ہو جاتے ہیں اور ان کی حفاظت کی دیوار میں ان کو گھیرے میں لے لیتی ہیں.عام طور پر کمزور جب بچتے ہیں تو اسی طرح بچتے ہیں اور ایک اس کے برعکس یہ تدبیر ہوتی ہے کہ شرارت کو گھیرے میں لے لیا جائے اور اس کی ناکہ بندی کر دی جائے.چنانچہ آج کل کے زمانہ میں جو Quarantine کی اصطلاح نکلی ہے یہی وہ طریق ہے جو اختیار کیا جاتا ہے.غالب قو میں اور فہم والی قومیں اس نتیجہ پر پہنچی ہیں کہ بدی کو گھیرے میں لے لو.اب جبکہ تمہیں غلبہ حاصل ہے تمہیں قوت حاصل ہے پیشتر اس کے بدی اپنی حد سے باہر نکل جائے اور تمہیں مغلوب کرنے کا احتمال پیدا ہو جائے.اس سے پہلے پہلے بدی کو گھیرے میں لے لو.چنانچہ یہ تدبیر بہت ہی مؤثر ہے حفظ ما تقدم کے طور پر اس سے بہتر اور اس سے زیادہ یقینی کام کرنے والی اور کوئی تدبیر نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس دوسری تدبیر کا ذکر فرمایا ہے.فرمایا ہے تمہیں وہ گھیرے میں کیا لیں گے ہم ان کو گھیرے میں لئے بیٹھے ہیں.ہم ان کے ہر عمل کو گھیرے میں لئے بیٹھے ہیں.ایک عمل بھی ہمارے احاطہ تقدیر سے باہر نہیں ہے ان کا.پھر کیسے ان کو اجازت ہوگی کہ وہ اچھل کر خدا کی تقدیر سے باہر آکر تمہیں کوئی گزند پہنچاسکیں اور محیط کا ایک معنی ہے پارہ پارہ کر دینا.ٹکڑے ٹکڑے کر دینا تو دوسرے معنی اس کے یہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہر تد بیر کو صرف گھیرے میں ہی نہیں لئے ہوئے، ہر تد بیر کو پارہ پارہ کر دے گا اور ہر تد بیر کو ناکام کر دے گا.تو جہاں تک اس ابتلاء کے دور میں تمناؤں کا تعلق ہے قرآن کریم آپ کی تمنائیں بھی
خطبات طاہر جلد۵ 230 خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء درست کرتا ہے ، آپ کا قبلہ درست فرماتا ہے اور بتاتا ہے کثرت کی تمنا نہ کرو.یہ تمنا کرو کہ نیکی غالب آئے اور تقویٰ غالب آئے اور پاکیزگی غالب آئے اور تمام دنیا میں محمد مصطفی ﷺ کا غلبہ ہو.دوسرا یہ بیان فرماتا ہے کہ بچنے کا طریق خاص طور پر ایسے دور میں جب کہ شرارت کثرت میں ہو کیونکہ خبیث کی کثرت ہو تب ہی وہ اچھلتا ہے اور تب ہی وہ زیادتیوں پر اترتا ہے.تو فرمایا جہاں تک خبیث کے شر کا تعلق ہے ہم تمہیں ایسے بچنے کے طریق بتا دیتے ہیں کہ ان کے بعد اس کا شر تمہیں نہیں پہنچ سکے گا بلکہ خدا تمہاری طرف سے ان کا مقابلہ کرے گا اور ان کی ہر تد بیر کو نا کام کر دے گا اور پارہ پارہ کر دے گا.پھر ایک تیسری جگہ اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے بتاتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَلْ لَّكُمْ فُرْقَانَا وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَاتِكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہاں بعض تو ہمات کا ازالہ فرمایا گیا ہے.جب مومن کو یہ کہا جاتا ہے کہ تقویٰ کا معیار بڑھانے میں ہی تمہاری کامیابی ہے، خبیث کی کوئی حقیقت نہیں ، طیب ہی ہے جو خدا کی نگاہ میں اہمیت رکھتا ہے.اس لئے تقویٰ بڑھانے کی طرف توجہ کرو.تو طبعا انسانی کمزوری کے نتیجہ میں دل سے آواز اٹھتی ہے کہ ہمارے دل کا تقویٰ باہر کسی نے کیا دیکھا ہے.جہاں تک دشمن کا تعلق ہے اسے کیا پتہ کہ ہمارے دلوں نے اس دور میں کیا کچھ سیکھا ہے اور کیا کچھ کمایا ہے.وہ تو تمسخر کے ساتھ ہم پر ہنستا ہوا، مذاق اڑاتا ہوا یہاں سے رخصت ہوگا اور ہم لوگ اس خیال سے کہ ہمیں تقویٰ نصیب ہو گیا ہے اپنی فتح کے اندرونی شادیا نے تو بجارہے ہوں گے لیکن باہران شادیا نوں کی کوئی آواز سنائی نہیں دے گی.جہاں تک غیر کا تعلق ہے اسے اپنی شکست کا کوئی احساس نہیں ہوگا.اس لئے ایسی فتح عظیم بھی ہو تو لذت بخش اور تسکین بخش نہیں ہو سکتی.اس وہم کے جواب میں خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے.اِنْ تَتَّقُوا اللهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَانَا کہ اگر تم خدا کا تقویٰ اختیار کرو تو خدا تعالیٰ تمہیں ایک نمایاں چمکنے والا نشان عطا فرمائے گا ایسا امتیازی نشان دے گا کہ غیر اسے دیکھے اور اس کے رعب سے مرعوب ہو جائے جس طرح سورج چڑھ جاتا ہے ویسی فرقان نصیب ہوگی.جیسے قرآن ایک فرقان کے طور پر نازل ہوا ہے اور ہمیشہ کے لئے اپنی ذات میں غلبوں کا نشان رکھتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ تمہیں فرقان عطا فرمائے گا.تفریق
خطبات طاہر جلد۵ 231 خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء کرنے والا نشان غیر کو مغلوب کرنے والا نشان نمایاں امتیاز پیدا کرنے والا نشان.اس لئے یہ فکر مت کرو کہ تمہارے اندرونی تبدیلی کے نشان کو غیر نہیں دیکھیں گے.خدا کی تقدیر باہر بھی نشان ظاہر کرے گی تمہارے اندر بھی نشان پیدا کرے گی اور آفاق میں بھی نشان ظاہر کرے گی جو تمام دنیا کو نظر آئیں گے اور پھر معابعد اصل مضمون کی طرف توجہ پھیر دی کہ محض تماش بینی کے لئے خدا تعالیٰ یہ عظیم الشان ابتلاء جاری نہیں فرمایا کرتا جو اصل مقصد ہے وہ یہ ہے وَيُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَيَاتِكُمْ اصل بھلائی ، اصل فائدہ تمہارا اس بات میں ہوگا کہ تمہاری برائیاں دور ہورہی ہوں گی اور خدا تمہاری برائیوں کو دور کرے گا وَيَغْفِرْ لَكُمْ اور پہلے جو برائیاں کر چکے ہو ان سے صرف نظر فرمائے گا اور ان کو بخش دے گا وَ اللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑے فضل والا ہے بہت ہی عظیم فضلوں والا ہے.تو ابتلاء کا نتیجہ اگر صبر اور تقویٰ اختیار کیا جائے تو ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ خدا کی رحمتوں کے نیچے آنے کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے.اس لئے ابتلاء کے ایسے دور جو ذُو الْفَضْلِ الْعَظیم سے انسان کا تعلق باندھ دیں اس کی رحمتوں اور برکتوں اور رضا کی آنکھ کے نیچے انسان کو لے آئیں وہ یقینا عظیم الشان ابتلاء کہلانے کا مستحق ہوتا ہے.تقویٰ کیا ہے؟ اس مضمون پر میں نے گزشتہ سے پیوستہ جمعہ میں کچھ کہنا شروع کیا تھا اور خیال تھا کہ اس سلسلہ کو آگے بڑھاؤں گا لیکن پھر درمیان میں ایسی بعض اطلاعیں آئیں کہ وقتی طور پر اس مضمون کو چھوڑنا پڑا.اب پھر آج میں اسی مضمون کو پکڑتا ہوں اور جہاں چھوڑا تھا وہاں سے لینے کی بجائے از سر نو آغاز سے اس مضمون کو شروع کر رہا ہوں.جو حصے بیان ہو گئے ہیں وہ دوبارہ نہیں بیان ہوں گے لیکن اس مضمون سے یعنی اموال سے تعلق رکھنے والے بعض پہلوا بھی تشنہ ہیں انشاءاللہ ان پر میں بعد میں روشنی ڈالوں گا.آنحضرت ﷺ نے تقویٰ کی جو تعریف فرمائی ہے، وہ تعریف فرمانے کا انداز نہایت ہی پیارا اور بالکل عام دنیا کے دستور سے بالکل ہٹ کر ہے.شروع میں بظا ہر تقویٰ کا کوئی ذکر نظر نہیں آ رہا لیکن مضمون جب اپنے انتہائی مقام کو پہنچتا ہے تو وہاں جا کر پتہ چلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کیا بیان فرمارہے ہیں.صحیح مسلم کتاب البر میں یہ حدیث ملتی ہے فرمایا ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر بولی نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے کی
خطبات طاہر جلد۵ 232 خطبه جمعه ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء پیٹھ پیچھے باتیں نہ کرو، تم میں سے کوئی دوسرے کی بیچ پر بیچ نہ کرے.اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ.ایک مسلمان دوسرے کا بھائی ہے.وہ اس پر ظلم نہیں کرے گا ، نہ اسے رسوا کرے گا، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑے گا ، نہ اسے حقیر جانے گا.یہ تعلیم دینے کے بعد آپ ن فرمایا اپنا ہاتھ اپنے دل پر رکھ کر تین مرتبہ فرمایا تقویٰ یہاں ہے،تقویٰ یہاں ہے،تقویٰ یہاں ہے.(مسلم کتاب البر والصله حدیث نمبر : ۴۶۵۰ ) تقویٰ کے سرچشمہ سے یہ کلام نکل رہا ہے.میں جانتا ہوں کہ تقویٰ کیا ہوتا ہے، تقویٰ محض خدا کے فرضی خوف کا نام نہیں ، تقویٰ محض نیکی کی اونچی اونچی باتیں کرنے کا نام نہیں ہے.تقویٰ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دل میں چھپا رہتا ہے اور ظاہر نہیں ہوتا.تقویٰ ایسا ہے جو کہ نظر بھی آتا ہے غیروں کو، اپنوں کو بھی نظر آتا ہے اور غیروں کو بھی نظر آتا ہے.لیکن غیروں کو نظر آنے سے پہلے ، اپنوں کو تو دکھنا چاہئے ،اپنوں کو تو دکھائی دے.وہ تقویٰ جو تمہارے دلوں میں پوشیدہ ہے اور ظاہر نہیں ہورہاوہ تقویٰ تقویٰ نہیں ہے.فرمایا دیکھو میرے دل میں تقویٰ ہے، میرے دل میں تقویٰ ہے ، میرے دل میں تقویٰ ہے اور اس کے نتیجہ میں یہی اعمال مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں.پس تم جو تقوی کا دعویٰ کرنے والے لوگ ہو اگر ان اعمال سے خالی ہو تو پھر تقویٰ کی باتیں محض ریا کی باتیں، دھوکے کی باتیں ہیں اس سے زیادہ ان کی کوئی حیثیت نہیں.ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر بولی نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے کی پیٹھ پیچھے باتیں نہ کرو.کتنے ہیں ہم میں سے جو اس تعلیم پر کماحقہ عمل پیرا ہیں اور کتنے ہیں جو بار بار ٹھوکر کھا کر پھر انہی باتوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں اور کتنے ہیں جنہوں نے اس دور میں یہ بات سیکھی اس رنگ میں تقویٰ سیکھا کہ اپنی وہ اصلاح کریں جو حضرت محمد مصطفی یہ تقوی کی تعریف کے نتیجہ میں ضروری قرار دیتے ہیں.تم میں سے کوئی دوسرے کی بیچ پر بیچ نہ کرے.یہ چند باتیں جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہیں اکثر جھگڑے جو احمدیوں کے میری نظر میں آتے ہیں ، جن سے قضاء کے دفتر بھرے پڑے ہیں، جن کی شکائیتیں امور عامہ تک یا امراء تک پہنچتی ہیں.ان کا تعلق انہی باتوں سے ہے.سودوں میں زیادتیاں حرص و ہوا کے نتیجے میں ، ایک دوسرے کو شکست دینے کی کوشش میں اور جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے فرمایا بھائی بھائی
خطبات طاہر جلد۵ 233 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء ہو جاؤ ، ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے.اس سے مسلمانوں کے اندر جو نیکی کی روح آنحضور دیکھنا چاہتے ہیں اس کی اعلیٰ تعریف فرما دی.اس فقرہ کو بھلا کر ایک عام انسان کو یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ ایک آدمی بیچ کر رہا ہے مجھے اچھا موقع ملا ہے میں خفیہ طور پر اس سے بڑھ کر بات کیوں نہ کرلوں ، کیوں نہ اس سودے کے اندر داخل ہو کر اسے اپنالوں ، اس میں کیا نقصان کی بات ہے.وہ بھی سودا کر رہا ہے اس کی ملکیت نہیں، میں بھی سودا کر رہا ہوں میری ملکیت نہیں ہے.ایک تیسرا شخص ہے اس کا فائدہ ہی ہوگا ، اس کو زیادہ پیسے مل جائیں گے.انسانی نفس عام دنیا کے معیار تقویٰ کے مطابق اس کو کوئی بھی ایسی بات نہیں دکھاتا جو معیوب ہو بلکہ اس کو بہتر اور حسین کر کے دکھاتا ہے کہ ہاں بڑی اچھی بات ہے ایسا کرلو.لیکن بھائی بھائی میں جا کر سارا معاملہ کھول دیا ، ہر بات کی وضاحت فرما دی.دو سگے بھائی جو ایک دوسرے سے پیار کرنے والے ہوں وہ ایک دوسرے سے اپنے سودے چھپایا تو نہیں کرتے.وہ وہم بھی نہیں کر سکتے کہ ایک بھائی کوئی سودا کر رہا ہو اور دوسرا بھائی مخفی طور پر جاکے اس سے بڑھ کر بولی دے کر اس کے سودے کو اپنا لے.جب بھائی بھائی کے نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو اتنی اخلاق سے گری ہوئی اور کمینی حرکت نظر آتی ہے کہ خاندان کے ماحول میں یہ سوچا بھی نہیں جاسکتا.پس حضرت اقدس محمد مصطفی علے نے جب اپنے سینے پر ہاتھ رکھا، اپنے دل کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایا تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے، تقویٰ یہاں ہے تو مراد یہ تھی کہ اخلاق کے جوگر میں تمہیں سکھا رہا ہوں وہ میرے دل کے تقویٰ سے وابستہ ہیں ، میرے دل کے تقویٰ سے مناسبت رکھتے ہیں.دنیا کے بھلے آدمیوں کے ساتھ شاید تمہیں ان میں کوئی مناسبت نظر نہ آئے.عام انسان کے معیار کے مطابق تم شاید یہ سمجھو کہ یہ زیادہ بلند اور بے وجہ کا معیار مقرر کیا گیا ہے لیکن یا درکھنا جو تعلیم میں تمہیں دیتا ہوں وہ اپنے دل کے تقویٰ کے لحاظ سے تعلیم دیتا ہوں.اگر میرے جیسا بننا چاہتے ہو، اگر مجھ سے محبت کرتے ہو، اگر میری غلامی کا دعوی ہے تو پھر مجھ سے تقویٰ سیکھو، غیروں سے نہ تقویٰ سیکھو.وہ مذاہب جو ماضی کے قصے بن چکے ہیں، وہ انبیاء جو پرانے زمانوں میں کھوئے گئے ان کی تقویٰ کی تعلیم ان کے دلوں سے تعلق رکھتی تھی.اب آئندہ آنے والے زمانے میں تقویٰ کی تعلیم محمد مصطفی عملے کے دل سے تعلق رکھنے والی ہوگی اور ان دونوں میں یقیناً ایک نمایاں فرق ہے.پھر فرمایا حسب امراء من الشر ان يحقر اخاه المسلم ، كل المسلم على
خطبات طاہر جلد۵ 234 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء المسلم حرام دمه وماله وعرضه ( مسلم کتاب البر والصلہ حدیث نمبر :۱۴۶۵۰ یک شخص کے لئے اس کی ہلاکت کے لئے یہ شر بہت کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی مسلمان کو تحقیر کی نظر سے دیکھے اور سب گناہوں سے بچا بھی ہوا ہو.اگر ینقص بھی کسی میں ہو کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقارت اور تذلیل کی نظر سے دیکھتا ہے تو فرمایا اس کی ہلاکت کے لئے بس یہی کافی ہے.کـل المسلم على المسلم حرام مسلمان کی ہر چیز دوسرے مسلمان پر حرام ہے یعنی بلا اجازت تصرف حرام ہے.فرمایا دمه وماله وعرضہ اس کا خون بھی حرام ہے.اس کا مال بھی حرام ہے اور اس کی عزت بھی حرام ہے.اب جتنے بھی جھگڑے ہیں انسانی معاشرے میں اس خلاصہ سے باہر اس کو نکال ہی نہیں سکتے آپ.تمام اختلافات کی جڑیں ان تین باتوں میں ہیں، دم میں ، مال میں اور عرض میں.فرمایا یہ تین باتیں ایک مسلمان کی دوسرے مسلمان پر میں حرام کر رہا ہوں اور اگر یہ حرام ہو جاتی ہیں تو پھر یہ سوسائٹی لازماً جنت بن کے رہے گی.پھر مسلمان کے لئے جہنم کا تصور ہی باقی نہیں رہتا.پس اگر یہ تصورات موجود ہیں، اگر یہ تکلیفیں دکھائی دے رہی ہیں تو لازما تقویٰ کی ان جڑوں میں کہیں کوئی نقص ہے اور وہ تقویٰ نہیں ہے آپ کے اندر جو محمد مصطفی ﷺ کے مبارک مقدس وجود سے پھوٹتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ بعد اس کے کہ موٹی باتوں جیسے زنا ، چوری، تلف حقوق ، ریا ، عجب ، حقارت ، بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے.لوگوں سے مروت ، خوش خلقی، ہمدردی سے پیش آوے.خدا تعالیٰ کے ساتھ کچی وفا اور صدق دکھلاوے.خدمات کے مقام محمود تلاش کرے“ یہ بڑا عظیم الشان فقرہ ہے، بہت ہی پیارا خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.خدمت میں تو انسان بظاہر گرتا ہے اور نیچے ہو کر خدمت کرتا ہے اور مقام محمود وہ ہے جو سب سے اونچا مقام قرآن کریم وعدہ فرماتا ہے کہ خدا اپنے پیاروں کو عطا فرماتا ہے.تو فرمایا خدمتوں کے بھی بعض مقام محمود ہیں کس سلیقہ سے خدمت کر رہے ہو، کس انداز سے خدمت کر رہے ہو، کس طرح نکھار کر تحسین کے ساتھ خدمت کرتے ہو اس سے تمہیں مقام محمود نصیب ہوگا.
خطبات طاہر جلد۵ 235 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء پس جو خدمتوں کے مقام محمود نہیں پاتا اسے دوسرے مقام محمود کا خیال ہی چھوڑ دینا چاہئے.ہر مقام محمود کے ساتھ ایک تعلق رکھنے والی خدمت کا بھی مقام محمود ہے.خدا کی راہ میں چندہ دینے والے لاکھوں کروڑوں ہیں لیکن ضروری نہیں کہ ہر چندہ اگر مقدار میں برابر ہو تو مرتبہ میں بھی برابر ہو.یہاں خدمت کا مقام محمود ہے جو فیصلہ کرتا ہے فرق کر کے دکھاتا ہے.تو فرمایا ” خدمات کے مقام محمود تلاش کرے.اس فقرہ سے پتہ چلتا ہے کہ کیسے سچے اور پاکیزہ دل کا کلام ہے.جھوٹے آدمی کو ایسی بات نصیب ہو ہی نہیں سکتی ، اس کا تصور ان باتوں کے قدموں کو بھی نہیں چھو سکتا کبھی.ان باتوں سے انسان متقی کہلاتا ہے اور جو لوگ ان باتوں کے جامع ہوتے ہیں وہی اصل متقی ہوتے ہیں.یعنی اگر ایک ایک خلق فردا فردا کسی میں ہوں تو اسے متقی نہ کہیں گے جب تک بحیثیت مجموعی اخلاق فاضلہ اس میں نہ ہوں.) اور ایسے ہی شخصوں کے لهُ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرہ:۲۳) ہے.اور اس کے بعد ان کو کیا چاہئے.اللہ تعالیٰ ایسوں کا متولی ہو جاتا ہے جیسا کہ وہ فرماتا ہے وَهُوَ يَتَوَلَّى الصّلِحِينَ (الاعراف: ۱۹۷).حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے ہاتھ ہو جاتا ہے جس سے وہ پکڑتے ہیں، ان کی آنکھ ہو جاتا ہے جس سے وہ دیکھتے ہیں ، ان کے کان ہو جاتا ہے جس سے وہ سنتے ہیں ، ان کے پاؤں ہو جاتا ہے جس سے وہ چلتے ہیں.اور ایک اور حدیث میں ہے کہ جو میرے ولی کی دشمنی کرتا ہے میں اسے کہتا ہوں کہ میرے مقابلہ کے لئے تیار رہو.ایک جگہ فرمایا ہے کہ جب کوئی خدا کے ولی پر حملہ کرتا ہے تو خدا تعالی اس پر ایسے جھپٹ کر آتا ہے جیسے ایک شیرنی سے کوئی اس کا بچہ چھینے تو وہ غضب سے جھپٹتی ہے.وو ( ملفوظات جلد دوم صفحه : ۲۸۰-۲۸۱) دوزمانے متقی پر آتے ہیں ایک ابتلاء کا زمانہ اور دوسرا اصطفاء کا زمانہ.ابتلاء کا زمانہ اس لئے آتا ہے تا کہ تمہیں اپنی قدرومنزلت اور قابلیت کا
خطبات طاہر جلد۵ 236 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء پتہ مل جائے اور یہ ظاہر ہو جائے کہ کون ہے جو اللہ تعالیٰ پر راست بازوں کی طرح ایمان لاتا ہے.اس لئے کبھی اس کو وہم اور شکوک آکر پریشان دل کرتے ہیں.کبھی کبھی خدا تعالیٰ ہی کی ذات پر اعتراض اور وہم پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.صادق مومن کو اس مقام پر ڈرنا اور گھبرانا نہ چاہئے بلکہ آگے ہی قدم رکھے.کسی نے کہا ہے عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد هر که بیرونی بود الحکم جلد۵ ،نمبر۶ ۱۷رفروری ۱۹۰۱ء صفحہ:۱) تو دیکھو عشق شروع شروع میں بڑا باغی اور خونی دکھائی دیتا ہے.اس لئے کہ تا کہ ہر وہ شخص جو کو چہ عشق سے تعلق تک نہیں رکھتا اور اس شہر کا باشندہ نہیں ہے یعنی اس شہر میں بسنے کے لائق نہیں.ایسا بیرونی شخص ان باتوں کو دیکھ کر گریز پا ہو جائے اور بھاگ جائے اس کو چہ سے ،اس لئے یہ دکھاوے کی سرکشی ہے اور دکھاوے کا خون ہے حقیقت میں عشق تو ہر لذت کی آماجگاہ ہے.پھر فرماتے ہیں: شیطان پلید کا کام ہے کہ وہ راضی نہیں ہوتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے منکر نہ کرالے اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت سے روگردان نہ کر لے.وہ وساوس پر وساوس ڈالتا رہتا ہے.لاکھوں کروڑوں انسان ان وسوسوں میں مبتلا ہو کر ہلاک ہو رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب کر لیں پھر دیکھا جائے گا.باوجود اس کے کہ انسان کو اس بات کا علم نہیں کہ ایک سانس کے بعد دوسرا سانس آئے گا بھی یا نہیں.لیکن شیطان ایسا دلیر کرتا ہے کہ وہ جھوٹی امیدیں دیتا اور سبز باغ دکھاتا ہے.شیطان کا یہ پہلا سبق ہوتا ہے مگر متقی بہادر ہوتا ہے اس کو ایک جرات دی جاتی ہے کہ وہ ہر وسوسہ کا مقابلہ کرتا ہے.اسی لئے وَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ فرمایا.یعنی اس درجہ میں وہ ہارتے اور تھکتے نہیں اور ابتداء میں انس اور ذوق اور شوق کا نہ ہونا ان کو بے دل نہیں کرتا.وہ اسی بے
خطبات طاہر جلد۵ 237 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء ذوقی اور بے لطفی میں بھی نماز پڑھتے رہتے ہیں.یہاں تک کہ سب وساوس اور اوہام دور ہو جاتے ہیں.شیطان کو شکست ملتی اور مومن کامیاب ہو جاتا ہے.غرض منتقی کا یہ زمانہ ستی کا زمانہ نہیں ہوتا بلکہ میدان میں کھڑے رہنے کا زمانہ ہوتا ہے.وساوس کا پوری مردانگی سے مقابلہ کرے“ پھر آپ فرماتے ہیں: الحکم جلد ۵ نمبر ۶ ۱۷ فروری ۱۹۰۱ صفحه : ۲) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادِي لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُه لِلْحَرُب.جو شخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے“ ( یہ حدیث قدسی ہے ) اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے.تو خدا اس کا کس قدر معاون اور مددگار ہوگا.لوگ بہت سے مصائب میں گرفتار ہوتے ہیں جن سے متقی بچائے جاتے ہیں بلکہ ان کے پاس جو آ جاتا ہے وہ بھی بچایا جاتا ہے.مصائب کی کوئی حد نہیں.انسان کا اپنا اندر اس قدر مصائب سے بھرا ہوا ہے کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں.امراض کو ہی دیکھ لیا جاوے کہ ہزار ہا مصائب کے پیدا کرنے کے لئے کافی ہیں لیکن جو تقویٰ کے قلعہ میں ہوتا ہے وہ ان سے محفوظ ہے اور جو اس سے باہر ہے وہ ایسے جنگل میں ہے جو درندہ جانوروں سے بھرا ہوا ہے.( ملفوظات جلد اول صفحه : ۱۰) پس اس دور میں جو سب سے بڑا مال غنیمت آپ حاصل کر سکتے ہیں، سب سے بڑی فتح جو حاصل کر سکتے ہیں، وہ مال غنیمت تقویٰ کا مال غنیمت ہے اور وہ فتح اپنے دل کی اور اپنے نفس کی فتح ہے اور یہی وہ اندرونی فتح ہے جو بیرونی فتح پر منتج ہوا کرتی ہے یعنی یہی وہ اندرونی غلبہ ہے جو بیرونی غلبوں میں تبدیل ہوا کرتا ہے.پس وہ جو بظاہر بچے دل سے اپنے بھائیوں کی تکلیف پر رور ہے ہیں اور دکھ محسوس کر رہے ہیں اگر وہ ان کی خاطر اپنے اندرونے میں پاک تبدیلی پیدا نہیں کرتے ، اگر وہ انہی کی
خطبات طاہر جلد۵ 238 خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء ماطر اپنی روش میں نمایاں فرق پیدا نہیں کرتے تو وہ آنسو بھی جھوٹے ہیں، وہ در دبھی جھوٹا ہے، اس کی کوئی بھی قیمت نہیں.اس صورت حال سے دوہرے فائدے حاصل کرو.اس صورت حال سے جو کچھ تمہارے ہاتھ میں آسکتا ہے جو کچھ ممکن ہے تمہارے لئے حاصل کرنا سب کچھ حاصل کر لو اور وہ وہی کچھ ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے.قرآن و حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں بہت عظیم الشان سودوں کے وقت ہیں.اندرونی تبدیلی پیدا کریں پاک، ہمیشہ باقی رہنے والی تبدیلی اور اس کے نتیجہ میں بیرونی فتوحات بھی آپ کو نصیب ہوں گی اور وہ فتوحات محض عددی غلبے کی نہیں ہوں گی وہ فتوحات محمدی غلبے کی فتوحات ہوں گی نفس پاکیزہ کی فتوحات ہوں گی نفس خبیثہ کی فتوحات نہیں ہوں گی.وہ لوگ جو ظاہری پھلجھڑیوں کے کھیل کے دیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں، ظاہری پھلجھڑیوں کے کھیل بھی ان کو ضرور دکھائے جائیں گے.ضرور شادیانے بجیں گے احمدیت کی فتح کے لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان ظاہری پھلجھڑیوں کے کھیلوں کے مقابل پر اور ان ظاہری شادیا نوں کے مقابل پر نفس مطمئنہ کی فتح کے شادیانے بہت زیادہ غالب اور قوت والے ہوا کرتے ہیں، بہت زیادہ پر شوکت نے اپنے اندر رکھتے ہیں.اور اگر یہ دور آپ کو تقویٰ کا نور عطا کر دے تو یہ وہ پھلجھڑیاں ہیں جن کے مقابل پر اور کوئی پھلجھڑی نہیں.آپ کے دل میں اگر نور کے سوتے پھوٹنے لگیں ، آپ کے دل میں اگر تقویٰ کی وہ پھلجھڑیاں چلیں جن سے نور کے رقص آپ کے سینوں میں دکھا ئیں دیں، جن میں چاندنی پھوٹتی ہوئی دکھائی دے، جن میں اللہ کا پیار رقصاں ہو اور خدا کی محبت کے نغموں کی آوازیں پھوٹ رہی ہوں.ان جلوؤں کی کیوں تمنا نہیں کرتے.ان رقص وسرور کے پیچھے کیوں نہیں بھاگتے.ان غلبوں کے نغموں کے لئے آپ کے کان کیوں نہیں ترستے.یہ وہ غلبے ہیں جو حقیقی غلبے ہیں اور دائگی غلبے ہیں.جو اس دنیا میں آپ کو پیچھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ آپ کے ساتھ اس دنیا میں بھی جائیں گے.آپ کو پیچھے چھوڑ کر نہیں جائیں گے بلکہ آپ کے آگے آگے بھاگیں گے کیونکہ قرآن کریم ہمیں مطلع فرماتا ہے نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ (التحريم: 9) جب تقویٰ کا نور ان کو عطا ہوتا ہے تو وہ ان کو پیچھے نہیں چھوڑا کرتا بلکہ آگے آگے دوڑتا ہے روشنی کرتا چلا جاتا ہے.ان کو خدا نور فراست عطا فرماتا ہے اس دنیا میں بھی اور اُس دنیا میں بھی.ہر چیز کو دیکھتے اور سمجھتے ہیں اور صاحب بصیرت لوگوں
خطبات طاہر جلد۵ 239 کی طرح فیصلہ کرتے ہیں اور صاحب بصیرت لوگوں کی طرح قدم اٹھاتے ہیں.خطبہ جمعہ ۲۱ / مارچ ۱۹۸۶ء خدا کرے کہ ہمیں یہ تمام اجر عظیم جو اس دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے اور اس دنیا سے بھی تعلق رکھتا ہے، اس ابتلاء کے دور میں ہمیں نصیب ہو جائے.اگر یہ نصیب ہو جائے تو ہماری عاقبت تو بہر حال سنور جائے گی ، دشمن کے ہاتھ پھر کیا آیا یہ خدا جانے اور دشمن جانے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: غالباً اعلان کیا جا چکا ہوگا.اب تو یہ دن لمبے ہو گئے ہیں.سردیوں کے عذر کی وجہ سے نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع کی جاتی تھی، وہ آج سے بند ہے.آج نماز میں الگ الگ ہوں گی.اس لئے نو جوان خصوصاً مطلع رہیں کہ جمعہ کے بعد وہ اپنی سنتیں پوری کریں.
خطبات طاہر جلد۵ 241 خطبہ جمعہ ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء موصیان اور نظام وصیت کیلئے قیمتی نصائح مقامات مقدسہ قادیان کی ضرورت کیلئے چالیس لاکھ روپے کی مالی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ مارچ ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مَّا رَزَقْنَكُمْ مِّنْ قَبْلِ أَنْ يَأْتِيَ يَوْمُ ا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَّةٌ وَلَا شَفَاعَةُ وَالْكَفِرُونَ هُمُ الظَّلِمُونَ پھر فرمایا: b (البقره: ۲۵۵) یہ آیت کریمہ جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ یہ نصیحت فرماتا ہے کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو پیشتر اس کے کہ وہ دن آجائے جب نہ تو کوئی سودا بازی ہوگی ، نہ کوئی دوستی کام آئے گی ، نہ کوئی سفارش چلے گی تم اللہ کی راہ میں جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرو.اس آیت میں سودا بازی والا حصہ ہے اس کے سمجھنے میں کچھ اشکال ہیں کچھ مشکلات پیش آتی ہیں.جب اسی مضمون کو قرآن کریم کی دوسری آیات کی روشنی میں زیادہ وضاحت سے دیکھتے ہیں تو اور بھی زیادہ اس معاملے کو سمجھنے میں دقت پیش آتی ہے.دوسری جگہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اُس
خطبات طاہر جلد۵ 242 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء دن سے ڈرو جس دن تمہارے گناہوں کے بدلے میں کوئی بھی اس کے برابر وزن کا مال قبول نہیں کیا جائے گا.مطلب یہ ہے کہ تم اموال دے کر خدا سے اپنی جانوں کو چھڑا نہیں سکو گے.ایک اور جگہ یہ فرمایا کہ اگر پہاڑوں کے برابر سونا بھی پیش کرو تو وہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور رد کر دیا جائے گا.دو باتیں ذہن میں اُبھرتی ہیں.اول یہ کہ مرنے کے بعد تو انسان مادی دنیا کو پیچھے چھوڑ جاتا ہے اور کچھ بھی یہاں سے وہاں منتقل نہیں کر سکتا اس لئے کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ وہ کوئی عدل پیش کرے یا اس سے بڑھ کر کچھ پیش کرے یا سودابازی کا کسی قسم مگمان بھی اس کے دل میں پیدا ہو.دوسرے قرآن کریم تو خود وضاحت سے فرما رہا ہے کہ يَوْمُ الدِّينِ تو وہ دن ہے يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا وَالْأَمْرُ يَوْمَبِذٍ لِلَّهِ © (الانفطار :۲۰) کہ جو کچھ کسی کا تھا بھی وہ بھی اس کا نہیں رہے گا ، تمام ملکیت ، تمام کائنات کلیہ اپنے مالک رب کی طرف لوٹ چکی ہوگی.يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِنَفْسٍ شَيْئًا نہ کوئی اپنی جان کے لئے کسی چیز کا مالک ہوگا نہ کسی دوسری جان کے لئے کسی چیز کا مالک ہوگا.تو اس کے بعد اس بے چارے نے سودا بازی کیا کرنی ہے اور کیا پیش کرنا ہے، کیا عدل کا خیال، کیا اس سے بڑھ کر دینے کا تصور، یہ ساری باتیں موہوم اور بے تعلق ہی دکھائی دینے لگتی ہیں.اس لئے لازماً اس آیت کا کوئی ایسا مفہوم ہے جو اطلاق پاتا ہے، جو ایک حقیقت رکھتا ہے اور اسے سمجھے بغیر اس مضمون کا حق ادا نہیں کیا جا سکتا جس کی طرف خدا تعالیٰ توجہ دلا رہا ہے.جب ہم دنیا میں مالی قربانی پر نظر ڈالتے ہیں تو دو قسم کی مالی قربانی دکھائی دیتی ہے اور قسموں کے علاوہ ایک جہت سے اسے ہم دو قسموں میں تقسیم کر سکتے ہیں.اول وہ مالی قربانی جو خالصہ اللہ کی جاتی ہے، جو تقویٰ پر مبنی ہوتی ہے.اس کے متعلق الہی قانون یہ ہے کہ وہ تھوڑی بھی ہو تو خدا کی نظر میں بے شمار کے طور پر مقبول ہوگی اور ایک مالی قربانی وہ ہے جو دنیا کے دکھاوے کے لئے یا دیگر اغراض کی خاطر کی جاتی ہے.وہ اگر سونے کے پہاڑوں کے برابر بھی ہوتو وہ نا مقبول ہوگی.تو اس آیت میں اسی مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جب تک تمہیں دنیا میں خدا تعالیٰ نے خرچ کی توفیق بخشی تم اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا کہ تم نے سونے کے پہاڑوں کے برابر اس کی راہ میں خرچ کیا اگر کسی تقویٰ کی کمزوری کی وجہ سے کسی اندرونی گناہ کی وجہ سے خدا تعالیٰ کو دنیا میں وہ نا مقبول ہوا تو
خطبات طاہر جلد۵ 243 خطبہ جمعہ ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء آخرت میں بھی تمہارے حصے میں کچھ بھی لکھا نہیں جائے گا اور اس وقت تمہارا یہ اصرار کہ میں نے تو خدا کی راہ میں اتنا سونا خرچ کیا تھا، اتنے خزانے لٹائے تھے اس اعتراض کی ، اس وہم کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوگی.اس وقت خدا کے سامنے اپنی مالی قربانیاں پیش کرنا کہ فلاں گناہ کے بدلے یہ قربانیاں قبول فرما اور مجھے بخش دو.یہ خیال، یہ وہم رد کر دیا جائے گا.ایک تو اس کا یہ معنی ہے.دوسرا اس کا اور معنی بھی ہے کہ مرنے کے بعد جب انسان کا دارالعمل سے تعلق کٹ جاتا ہے تو اکثر صورتوں میں اس کی طرف سے پھر وہ قربانیاں پیش نہیں کی جاسکتیں جو اس نے خود اپنی زندگی میں نہیں پیش کیں اور اگر اس کی اولاد اس کے مرنے کے بعد کروڑ ہا روپیہ بھی خرچ کرے تو اکثر صورتوں میں وہ اس کو نہیں پہنچے گا.یہ مضمون کچھ مزید وضاحت چاہتا ہے کیونکہ ہمیں علم ہے کہ ماں باپ کے لئے اپنے مرحوم پیاروں کے لئے ہم خرچ کرتے ہیں، چندے بھی دیتے ہیں، زکوۃ بھی دیتے ہیں.تو وہ پھر کیوں مقبول ہوگا جب دارالعمل سے اس کا تعلق کٹ گیا ؟ اس مسئلہ کو خود حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کھول دیا ہے.پس اس استثناء کو بہر حال پیش نظر رکھا جائے گا جو استثناء اصدق الصادقین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود فرمایا ہے اور وہ استثناء یہ ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں یہ سوال کیا گیا کہ یا رسول اللہ ! میری والدہ جب زندہ تھی تو یہ یہ نیک خرچ کرنے کی تمنا رکھتی تھی ، نذر باندھے ہوئے تھی اور بہت اس کی خواہش تھی کہ میں خدا کی راہ میں اس اس طرح خرچ کروں لیکن پیشتر اس کے کہ اس کی یہ خواہش پوری ہوتی خدا نے اسے یہ خدا واپس بلا لیا.اب کیا یہ ممکن ہے کہ میں اس خواہش کو اس کے مرنے کے بعد پورا کر دوں اور اس کے نام پر صدقات دیتا رہوں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا درست ہے تم ایسا کر سکتے ہو.(مسلم کتاب النذ رحدیث نمبر:۳۰۹۲) اسی طرح اور بھی مختلف شکلوں میں یہ روایت آتی ہے جس سے قطعی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ نیکی جو انسان زندگی میں کرتا رہا ہو خصوصاً مالی قربانی اور اس کی حسرت پوری نہ ہوئی ہو، وہ چاہتا ہو کہ اور دے لیکن توفیق نہ پانے کی وجہ سے آگے اور مزید دے نہ سکا ہو.اس کی اولا د جب اس کے نام پر اس کی خاطر خدا تعالیٰ کے حضور کچھ پیش کرے گی تو اللہ تعالیٰ اسے پہنچا دے گا اور یہ وہ
خطبات طاہر جلد۵ 244 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء حصہ ہے جو مرنے کے بعد بھی اس کے لئے خرچ کیا جاسکتا ہے.لیکن جو شخص دنیا میں ناد ہند ہو، دنیا میں خدا کے مال کھاتا ہو یا بنی نوع انسان کے مال کھاتا ہو.اگر وہ مر جاتا ہے تو اس کی امیر و کبیر اولاد کے دل میں اگر یہ و ہم پیدا ہو جائے کہ وہ کروڑوں روپیہ دے کر خدا سے اس کی گردن چھڑا لیں گے یہ محض وہم ہے.وہ آیات جن کے مضمون کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اس کی راہ میں کھڑی ہو جائیں گی.لا بَيْعٌ فِيْهِ وَلَا خُلَةٌ وَ لَا شَفَاعَةٌ کی آواز آئے گی.نہ دوستی کام آئے گی نہ سودے بازی کام آئے گی ، نہ کسی قسم کی سفارش چلے گی.پس اس آیت کے مضمون کو اس رنگ میں سمجھنے کے بعد ہمیں اپنے چندوں کو نکھارنے کے لئے دو بہت ہی اہم گرمل گئے.اول یہ کہ جب ہم خدا کی راہ میں کچھ پیش کریں تو اپنے نفس کو خوب کھنگال کر ، ہر غیر اللہ کے تصور سے پاک کرنے کے بعد خدا کے حضور پیش کریں.نہ اس میں ریاء کا شائبہ ہونہ اور کسی قسم کی نفس کی ملونی ہو.کوئی دھوکہ نہ ہو، تقویٰ سے گری ہوئی کسی قسم کی کوئی بات نہ ہو صاف ستھرا کر کے جس طرح مالی اپنا پھل سجا کر منڈی میں لے کر جاتا ہے جس طرح زمیندار بعض دفعہ شلغم دھو دھو کر اس کی سفیدی نکھار کر منڈی میں لے کر جاتا ہے.اس طرح اپنے اعمال کو خوب نکھار کر اس کا گند دھو کر پھر خدا کے حضور میں مالی قربانی پیش کرو اور وہ جو یہاں مقبول ہو جائے گی وہ وہاں ضرور مقبول رہے گی.اس کے بدلے یقینا گناہ معاف کئے جائیں گے.اس کے بدلے یقیناً خدا تعالیٰ کے اور کثرت سے انعامات کی بارش نازل ہوگی لیکن جو قربانی یہاں رد کئے جانے کے لائق ٹھہرائی گئی اس نے آگے نہیں جانا.جو مردود ہوگئی وہ ہمیشہ کے لئے مردود ہوگئی.اس لئے وہ لوگ جو خدا کی راہ میں اموال خرچ کرتے ہیں ان کو جہاں یہ ایک عظیم سعادت نصیب ہوتی ہے وہاں ان کے لئے خوف کا بھی بہت مقام ہے.مال خرچ کرنا کافی نہیں مال کو صاف اور پاک نیتوں کے ساتھ خرچ کرنا ضروری ہے.رقم کے کوئی معنی نہیں ہیں.اس کے پیچھے قربانی کی روح کیا تھی ؟ کیا تناسب تھا اس قربانی میں؟ یہ وہ چیز ہے جو خدا کے نزدیک اہمیت رکھتی ہے.اور پھر اگر ایسی نیکیاں آپ کرتے ہیں جن کی نیکیاں کرتے کرتے حسرت لے کر اس دنیا سے اٹھ جاتے ہیں.اگر اولا داس نیت سے ان نیکیوں کو جاری رکھے کہ ہمارے والدین کی یہ حسرتیں رہ گئی تھیں تو قیامت تک کے لئے وہ خزانے آپ کے لئے جمع ہوتے رہیں گے اور اس مضمون کی راہ میں کوئی قرآن کریم کی آیت کا مفہوم حائل
خطبات طاہر جلد۵ 245 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء نہیں ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بہتر کوئی قرآن کریم کو سمجھ نہیں سکتا تھا.جس کے دل پر الہاما نازل ہورہا تھا قرآن کا اس سے بہتر کون سمجھ سکتا تھا.ان دو پہلوؤں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں آج وصیت سے متعلق چند باتیں احباب کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ دوراہنما اصول ہیں جن کے تابع ہمیں اپنے انتظامی معاملات کو بھی کھنگالنا ہوگا جو مال سے تعلق رکھتے ہیں اور دینے والوں کو اپنی انفرادی قربانی کو بھی اپنی انہی دوکسوٹیوں کے او پر پورا اترتے ہوئے دیکھنے کی تمنا کرنی چاہئے.یہ عموماً دیکھا گیا ہے کہ جب کوئی نظام کچھ پرانا ہونے لگتا ہے تو اس میں قانونی ایچ پیچ اور الجھنوں کا اضافہ ہونے لگتا ہے.قانون تو اس لئے بنایا جاتا ہے کہ کسی مقصد کی روح کی حفاظت کی جائے لیکن جب زیادہ قانون بننے شروع ہو جائیں تو بعض دفعہ چھلکا ہی چھلکا رہ جاتا ہے اندر سے گودا غائب ہونے لگتا ہے.بہت موٹے چھلکوں والے پھل بعض دفعہ اتنے موٹے چھلکوں والے ہو جاتے ہیں کہ اندر نام کا گودا باقی رہ جاتا ہے.تو تنظیموں کو وقتا فوقتا اس بات کی جانچ پڑتال کرنی چاہئے کہ قانون روح کی حفاظت کر بھی رہا ہے یا نہیں یا خودروح کو مارنے کا موجب بن رہا ہے.وصیت کے معاملہ میں بھی کچھ خرابیاں زائد قوانین بنانے کے نتیجہ میں پیدا ہوئیں.مثلاً عورتوں کی طرف سے یہ شکوہ پیدا ہوا کہ صاحب جائیداد کے لئے وصیت آسان ہے وہ چاہے تو جائیداد کی 1/10 کی وصیت کر کے اس نظام میں شامل ہوسکتا ہے.مگر اکثر عورتیں صاحب جائیداد نہیں ہوتیں اور آمد بھی ان کی براہ راست نہیں ہوتی بلکہ خاوند کی آمد ہوتی ہے.تو وہ بیچاریاں جو ویسے نیکی اور تقویٰ کے معیار میں اعلیٰ درجہ پر یا صف اول میں ہیں محض اس لئے کہ جائیداد نہیں ہے وہ کیوں اس نیکی عظیم الشان قربانی سے محروم کی جاتی ہیں؟ اس کے کئی پہلو سے جواب دیئے جاسکتے تھے لیکن ان کی مشکل حل کرنے کے لئے ایک یہ قانون بنا دیا گیا کہ حق مہر بھی عورت کی جائیداد متصور ہوگا.جو شخص کسی عورت کے لئے حق مہر مقرر کرتا ہے اس کی بیوی کو گو یا جائیدا دل گئی اور وہ چاہے تو اس کے 1/10 کی وصیت کر سکتی ہے.قانون تو اس لئے بنایا گیا تھا کہ جو علی مالی قربانی کی روح رکھنے والے لوگ ہیں وہ محروم نہ رہیں.مگر اس قانون کے چور دروازے سے وہ لوگ داخل ہونے لگ گئے جو اعلیٰ قربانی کی روح نہیں رکھتے تھے.کسی خاوند نے فرضی ایک تمہیں روپے کسی کا مہر رکھا ہوا ہے اور ویسے
خطبات طاہر جلد۵ 246 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء بہت صاحب حیثیت ہے.بعض دفعہ پرانے زمانوں میں دس، دس روپے مہر بھی رکھے گئے اور مہر رکھتے وقت بعض دفعہ خاوند کی حیثیت اور تھی اور بعد میں جب عورت نے وصیت کی اس وقت خاوند کی حیثیت اور ہو چکی تھی.بعض دفعہ اچھی حیثیت کے باوجود رسماً اور رواج یا ویسے ہی عورتوں کی حق تلفی کرتے ہوئے پورا حق مہر نہیں رکھا گیا.تو قانون جو بن گیا کہ حق مہر جائیداد متصور ہوگا تو کثرت سے ایسی وصیتیں آنی شروع ہو گئیں جن میں وصیت کی روح موجود نہیں تھی قانون کا تقاضا پورا ہورہا تھا.پھر اسی طرح اور بھی بہت سے ایسے معاملات سامنے آنے لگے جن سے معلوم ہوتا تھا کہ قانون کے لفظی پیمانے تو بھرے جا رہے ہیں مگر ان میں روح وصیت موجود نہیں ہے.ایک والدین ہیں مثلاً وہ ریٹائر ہو گئے.اگر بچوں کو اعلی تعلیم دی یا ریٹائر ڈ ہو گئے یا پنشن کمپیوٹ کرالی اور اس کے بعد ان کے پاس براہ راست کوئی آمد نہ رہی ، سب کچھ اپنے بچوں کو دے دیا اور اس کے بعد وصیت کر دی اور وصیت میں ہیں، پچھپیں چالیس روپے جو ان کو سمجھا کہ ہم اس کو تحفہ کے طور پر شمار کر سکتے ہیں وہ پیش کر دیا اور آنکھیں بند کر کے نظام وصیت نے وہ وصیتیں قبول کر لیں.کیونکہ یہ اصول تھا کہ جس کے پاس جو ہے اس کے مطابق وصیت کرے گا، اس کے پاس اتنا ہی تھا اس لئے انہوں نے اس وصیت کو قبول کر لیا.حالانکہ بچے ان کے بہت خوشحال.بعض ایسی صورتیں بھی میرے سامنے آئیں کہ لکھ پتی تھے لیکن والدین کے حساب جب دیکھے گئے تو ان میں سے کسی ایک فوت شدہ کا تو پتہ چلا کہ سال ہا سال سے ایک پیسہ بھی ادا نہیں ہوا.اس لئے کہ ہم بچوں کے پاس رہتے ہیں بس وہی ہمارا گزارہ تھا اور ہیں موصی.تو قانون کا تقاضا تو بظاہر پورا کر لیا لیکن جس مقصد کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے یہ تحریک عطا فرمائی تھی کہ وہ لوگ جو نفس کی قربانی میں پورے اترتے ہیں مال کی قربانی میں بھی اگر وہ نمایاں صورت اختیار کریں تو ان کو بہشتی مقبرہ میں دفن کیا جائے.نمازی ہوں دین میں ویسے اچھے ہوں ، ظاہری طور پر شریعت کے تقاضے پورے کرنے والے ہوں وہ بہر حال خدا کے نزدیک مقبول ہیں لیکن اگر مال کی قربانی میں بھی عام لوگوں سے بڑھ کر قربانی کرنے والے ہوں تو پھر وہ موصی بننے کے مستحق ہوں گے.تو یہ جو شکلیں ہیں یہ تو مالی لحاظ سے قربانی کے اعلیٰ معیار پر شمار کی ہی نہیں جاسکتی.پھر جب مزید چھان بین کی گئی بعض معاملات میں تو ایسی صورتیں بھی سامنے آئیں کہ
خطبات طاہر جلد۵ 247 خطبہ جمعہ ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء موصی کا چندہ وصیت تو ہزار روپیہ ہے لیکن وصیت آنہ بھی نہیں کیونکہ اس کی آمد کوئی نہیں.چندہ وقف جدید تو سو، دوسوروپے ہے لیکن وصیت کوئی نہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ اس کی آمد کوئی نہیں.ورثہ چھوڑا ہے اور اس میں سے وصیت ادا کی نقد رقم کی صورت میں اور حساب میں گذشتہ دس بارہ سال سے کوئی آمد نہیں ہے تو روپیہ کس طرح چھوڑ دیا پیچھے؟ اس قسم کے سوالات ایسے ہیں جن میں بہت سی وقتیں سامنے آنے لگیں.ایک رحجان تو یہ تھا کہ اور قانون بنائے جائیں لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثالث رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بات کا فیصلہ کیا کہ ایسی وصیتوں کو سرسری جائزہ لے کر معلق کر دیا جائے اور ان کی تحقیق کی جائے.یہ بھی اپنی ذات میں قانون بن گیا اور اس کا بھی غلط مفہوم سمجھ کر غلط طور پر اس پر عمل ہونے لگا.مثلاً ایک عورت جو فوت ہوگئی اس کے خاوند نے دس روپے مہر لکھوایا ہوا تھا اس کے بچوں نے کہا کہ ہم اس کا مہر پچاس روپے یا ہزار روپے یا لاکھ روپے کر دیتے ہیں وصیت منسوخ نہ کرو اور محکمے نے چپ کر کے منظور کر لیا یعنی سفارش کر دی.ایک فوت شدہ ماں یا باپ اپنی زندگی میں تو کچھ نہیں دے سکا اس عذر کے تابع کہ میں اپنے بچوں پر انحصار کرتا ہوں اس لئے مجھے مالی قربانی کی اولین صف میں ضرور شمار کر لیا جائے لیکن مالی قربانی کوئی پیش نہ کی اور فوت ہونے کے بعد جب رد کیا گیا تو وصیت والوں نے سفارشیں شروع کر دیں کہ بیٹے یا دوسرے ذی حیثیت عزیز لاکھ روپیہ دینے کے لئے بھی تیار ہیں، دس لاکھ روپیہ دینے کے لئے بھی تیار ہیں، ان کی وصیت مقبول ہو اور اگر گزشتہ نہیں دے سکے تھے تو اب قبول کر.لیں.یہ وہ معاملات ہیں جن پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ان سے کوئی عدل قبول نہیں کیا جائے گا.اگر سونے کے پہاڑ بھی پیش کریں گے تو وہ کوتاہی جو زندگی میں ہوگئی ہے اسکی وہ خامی دور نہیں ہو سکتی.وہ حق مہر جو زندگی میں مقررہی نہیں ہو اس کو اولاد کیسے مقرر کر سکتی ہے.تو جب میرے علم میں ایسی باتیں آئیں تو میں نے دفتر وصیت والوں کو بھی پکڑا جو ان کے منتظم تھے ان کو کہا کہ صرف موصی کے تقویٰ کا معیار اونچا ہونا ضروری نہیں تمہارے تقویٰ کا معیار اونچا ہونا بھی ضروری ہے.مال کون دیتا ہے یا کتنا دیتا ہے یہ بحث ہی نہیں ہے.اگر مال کی بحث ہوتی تو خدا تعالیٰ یہ نہ فرما تا کہ سونے کے پہاڑ بھی رد کر دیئے جائیں گے.بحث صرف یہ ہے کہ جو کچھ دیا گیا تھا اس کے پیچھے روح تقومی تھی کہ نہیں.اور اگر روح تقوی تھی تو پھر خواہ تھوڑا بھی تھا تو تمہیں رد کر نے
خطبات طاہر جلد ۵ 248 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء کا کوئی حق نہیں.لیکن اگر روح تقوی نظر نہیں آتی یا زندگی میں تو کچھ نہیں ہوسکا مرنے کے بعد اولاد اس کا تقویٰ پورا کرنے کی کوشش کر رہی ہو تو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.اس لئے میں موصیان کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی وقت ہے زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنے معاملات درست کر لینے کا.اگر اس دور میں آپ نے اپنے معاملات درست نہ کئے یا بعض باتیں مخفی رکھیں اور کسی پہلو سے بھی تقویٰ کے معیار پر پورا نہ اترے تو یہ وہم و گمان دل سے نکال دیں کہ قیامت کے دن آپ اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کے بدلے اس دنیا کی مالی قربانیاں پیش کریں گے.یہاں کھاتے میں جو کچھ مرضی لکھا ہوا ہو یہ دفتر وصیت کا کھاتہ وہاں منتقل نہیں ہوگا.وہاں تو كِرَامًا كَاتِبِينَ (الانفطار :ا) کے کھاتے اور ہیں.وہ جو خدا کے فرشتے کھاتے تیار کرتے ہیں ان کے لکھنے کا طر ز بھی اور ہے ان کی Accountancy کا نظام بھی بالکل مختلف ہے.انہوں نے کوئی Charted Accountancy تو نہیں کی یہاں بیٹھ کر کہ وہ ظاہری طور پر اعداد و شمار کے پیچھے جائیں.انہوں نے اللہ تعالیٰ سے وہ گر سیکھے ہیں کہ کس کی قربانی کو جس کے پیچھے خاص روح تھی کتنا بڑھا کر لکھنا ہے اور کس کی قربانی کو کتنا کم دکھا کے لکھنا ہے یا بالکل صفحہ ہستی سے ملیا میٹ کر دینا ہے.تو خدا کی Accountancy کے حساب اور ہیں ان کو پیش نظر رکھ کر اپنے معاملات درست کریں.دنیا کی Accountancy کے دھوکہ میں مبتلا نہ رہیں.بہر حال ایک دور تو وہ تھا جب اس قسم کی وصیتیں معلق کی گئیں اور ابھی تک معاملے لٹک رہے تھے.یہاں تک کہ وفات کے بعد بڑی افسوس ناک صورتیں سامنے آنے لگیں عزیزوں اور خاندانوں کے لئے ٹھوکر کا موجب بنیں یہ باتیں بعض لوگوں نے کہا کہ ہم اتنا چندہ دینے والے، ہماری والدہ اتنی بزرگ، ہمارے والد اتنے بزرگ، اتنے پرانے احمدی، اس قسم کے لوگ ، آپ ہوتے کون ہیں وصیت رد کرنے والے.ٹھیک ہے انسان کی کوئی حیثیت نہیں ہے کسی کی وصیت رد کرنے کی مگر انسان کی یہ حیثیت بھی نہیں ہے کہ جس وصیت کو خدا تعالیٰ کا قرآن رد کر رہا ہو اور اصول بیان کر چکا ہو کہ اس کو رد کرنا ہے اسے ادنی انسان قبول کر لے، میں تو اس پہلو سے ان باتوں کو دیکھتا ہوں.اس لئے اس میں کوئی تکبر نہیں ہے کہ کسی کی وصیت رد کی جارہی ہے، اس پر کوئی فضیلت کا اظہار نہیں ہے، اس کی کوئی تحقیر نہیں ہے.مجبوریاں اور بے اختیار یاں ہیں.قرآن کریم نے جو حساب
خطبات طاہر جلد۵ 249 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء مقرر کئے ہیں، جو معیار مقرر کئے ہیں ان کے پیش نظر فیصلہ ہوگا.یہ اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے کسی کا حال دنیا میں کھول دے اور کسی کا نہ کھولے.کسی کا کھول کر اسے معاف کر دے اور کسی کا نہ کھولنے کے باوجود معاف نہ کرے.یہ ایسے معاملات ہیں جن کے اوپر نہ میں فتوی دے سکتا ہوں نہ کبھی کوئی انسان فتویٰ دے سکے گا.ان کا اللہ سے تعلق ہے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے.لیکن بہر حال ایک اور پہلو بھی ہے کہ عموماً اب تک جو وصیتیں معلق ہوئیں ان کا تعلق زیادہ تر غرباء سے تھا اور امراء کی وصیت کے پہلو پر زیادہ نظر نہیں کی گئی.دوسرا وصیت کے مالی پہلو پر تو نظر کی گئی لیکن تقویٰ کے جو معیار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مالی پہلو کے تقویٰ کے علاوہ بھی بیان فرمائے ہیں ان کو زیادہ تر نہیں دیکھا گیا.اگر چھان بین ہوئی بھی تو یہ کہ جائیداد کتنی تھی ؟ واقعہ کوئی مخفی رکھی گئی یا نہیں رکھی گئی؟ اور یہ نہیں دیکھا گیا کہ جہاں تک عام انسانی نظر کا تعلق ہے دل کا تقویٰ تو خدا جانتا ہے.جہاں تک انسانی نظر کا تعلق ہے وہ تقویٰ کی ظاہری شرائط کو پورا کرنے والا تھا یا نہیں تھا.اس پہلو پر زور نہیں دیا گیا.چنانچہ میں نے دفتر وصیت کو اور انجمن کو یہ ہدایت کی ہے کہ ان دونوں استقام کو یعنی جو خامیاں رہ گئی ہیں ان کو دور کیا جائے.جو امراء ہیں ان کے وصیت کے نقائص اپنے رنگ کے اور ہیں.مثلاً بعض معاملات علم میں ایسے آتے ہیں کہ ایک شخص خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت صاحب جائیداد ہے لیکن وہ اپنی جائیداد کواپنی زندگی میں اپنے بچوں کے نام پر خرید رہا ہوتا ہے جو موصی نہیں ہے یعنی یہ نہیں کرتا کہ میں اپنے نام لے کر پھر منتقل کراؤں کیونکہ اس طرح وہ پکڑا جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے قانون کی زد میں آجاؤں گا اور کہا جائے گا تم نے وارث کے نام جائیداد منتقل کی ہے اس لئے اس میں حصہ وصیت دو.اس لئے شروع سے ہی خریدتے ہی دوسرے کے نام پر ہیں.لکھو کھا روپیہ کی جائیداد زندگی میں بن رہی ہوتی ہے لیکن بحیثیت موصی کے وہ یا تہی دامن رہتا ہے یا اور بہت معمولی سا جو اس نے پہلے لکھوایا تھا بس وہی کچھ اس کا خزانہ باقی رہتا ہے.عجیب بات ہے یہ وہم، یہ گمان کیسے اس کے دل میں پیدا ہوتا ہے کہ وہ پکڑا نہیں جائے گا.اللہ تعالیٰ نے معاملہ کرنا ہے قیامت کے دن اور اسی اصول کے تابع کرنا ہے جو میں نے آپ کے سامنے قرآن کریم کی زبان میں پیش کیا ہے.جس وقت اس نے یہ حرکت کی اور کبھی دکھائی تو وہ پکڑا گیا اور اگر نظام جماعت کے سامنے کوئی ایسا واقعہ آئے تو پھر بھی اس کے لئے کوئی بچنے
خطبات طاہر جلد۵ کی صورت نہیں ہے.250 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء اور بھی کئی قسم کے نقائص ہیں.تاجر یہ حرکت کرتے ہیں کہ اپنے سارے اخراجات تجارتی کمپنیوں پر ڈال دیتے ہیں اس سے ٹیکس بھی بچتا ہے اور وصیت بھی بچ جاتی ہے.اور اپنے نام ایک سرسری سی رقم رکھ لیتے ہیں کہ ہم مہینہ میں پانچ سوروپے گھر لے کر گئے تھے اور وصیت پانچ سوروپے پر لکھ پتی ہیں ، ہزار ہا روپیہ ان کا ہفتہ کا خرچ ہو رہا ہوتا ہے ، اولا دیں اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہوتی ہیں، ہر قسم کی نعمتیں حاصل ہیں مگر سب کے سب یا اکثر حصہ وہ کسی نہ کسی کمپنی کے نام کے اوپر کسی حساب میں وصول کیا جا رہا ہوتا ہے.حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ چاہے ڈائر یکٹر کے نام لکھ دو یا بچوں کے نام پر جو چاہو کرو، کمانے والے کی اپنی کمائی ہے.اللہ کو علم ہے کہ کس کی کمائی ہے اور وہ اگر دنیا کے قوانین سے استفادہ کی خاطر یہ حرکتیں کرتا ہے تو بعض دفعہ دنیا کا قانون اجازت بھی دیتا ہے لیکن خدا کے قانون کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا، وہ دنیا کے قانون کے تابع نہیں ہے ، وہ الگ معاملہ کرے گا.اس لئے ایسے لوگ بھی بعض دفعہ جب نظر پڑتی ہے ان خامیوں کی طرف تو یہ عذر پیش کر دیتے ہیں کہ اچھا جی اب ہم اپنا سابقہ دینے کے لئے تیار ہیں یا بعضوں نے تھوڑی جائیداد لکھوائی اور بعد میں جب جائیداد خفی معلوم ہوئی تو اولاد نے کہہ دیا کہ اچھا ہم اس جائیداد پہ بھی دے دیتے ہیں.اب نظام وصیت والے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصیت کے نظام پر ظلم کریں گے اگر ایسا کروڑ روپیہ بھی وصول کر لیں اور وصیت کو بحال کریں کیونکہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کسی نے عمداً اخفا کیا تھا تو تقویٰ کے اس معیار سے گر گیا جس پر وصیت قبول کی جاتی ہے.پھر یہ بحث ہی نہیں رہے گی کہ کتنا روپیہ اس کی اولا د دینے کے لئے تیار ہے.اگر یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی شخص اپنی زندگی میں مالی معاملات میں خدا تعالیٰ سے بد دیانتی کر رہا تھا، چھپا رہا تھا ، جو خدا نے اس کو دیا تھا اس سے کم ظاہر کر رہا تھا واپسی کے وقت تو پھر یہ بحث ہی نہیں ہے کہ اس نے روپیہ دیا ہے یا نہیں دیا پھر تو اس کی وصیت منسوخ ہونی چاہئے.اس لئے جب ایسے لوگوں کی وصیت منسوخ کی جاتی ہے تو پھر شور اٹھتا ہے.بڑا ظلم ہو رہا ہے جماعت میں اس نے ساری عمر اتنا دیا ، لاکھوں دیا اب فلاں ایک جائیداد تھی اس کی وجہ سے ایک جھگڑا کھڑا کر دیا گیا، خواہ مخواہ شور ڈالا گیا.تو یہ بد دیانتی ایک تو اس دنیا میں ہی ان کے لئے نقصان کا موجب بن گئی بہر حال.آئندہ
خطبات طاہر جلد۵ 251 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء اعلیٰ معیار کے اوپر پر کھے جانے کا تو کیا سوال دنیا میں اس بددیانتی نے اولا دکو ضائع کر دیا، رشتہ داروں کے ایمان کو ہلاک کر دیا.تو یہ تو دوہرے نقصان کا موجب بنی ہے.اس لئے تقویٰ اختیار کرو اور تقویٰ کا معنی یہ ہے ہر نقصان سے بچ کر چلو ایک یہ بھی معنی ہے.ہر دینی نقصان سے بچ کر چلو.اگر تم تقویٰ اختیار کرتے ہو تو پھر ہر جگہ فائدہ ہی فائدہ ہے ہر سودا ہی فائدے کا ہوگا اور اگر وہاں ٹھوکر کھا گئے تو پھر جتنا مرضی دنیا میں خرچ کرو یا مرنے کے بعد جتنا چاہیں تمہاری اولادیں پیش کرتی چلی جائیں اس کا کوئی بھی فائدہ تمہیں حاصل نہیں ہوسکتا.وصیت کو میں نے چونکہ ہدایت کی ہے کہ اب اس طرف بھی نگاہ کریں.وہ نظام جو امراء سے اور سلوک کرے غرباء سے اور سلوک کرے وہ روحانی اور الہی نظام نہیں کہلا سکتا.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فتوی ہی چلے گا.آپ کے دل کے جھوٹے خیال اور جھوٹے و ہم نہیں چلیں گے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تم سے پہلے قو میں اس لئے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کے بڑے لوگ جرم کرتے تھے تو ان سے اعراض کر لیا کرتے تھے.ان سے در گزر کا سلوک کرتے تھے اور جب غریب لوگ گناہ کرتے تھے تو بڑی سختی سے ان کو پکڑتے تھے.(مسلم کتاب الحدودحدیث نمبر : ۳۱۹۶) اس لئے نظام جماعت کی تو اس معاملہ میں صرف ایک آنکھ ہے اور وہ تقویٰ کی آنکھ ہے.تقویٰ کی آنکھ یہ فرق کر ہی نہیں سکتی اگر اس میں کوئی نقص نہ پیدا ہو گیا ہو.اس لئے نظام جماعت تو اب ہر ایک کے ساتھ وہی سلوک کرے گا جو خدا کا کلام ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ایک ہی طرح کا سلوک کیا جائے.اگر کسی کو ٹھوکر لگتی ہے تو میں ذمہ دار نہیں ہوں.وہ پہلا نفس کا کیٹر اذمہ دار ہے جس نے اس کی قربانیوں کو تباہ کیا اور اس نے اس وقت اس کی فکر نہیں کی.اگر کسی کی اولاد کو ٹھو کرلگتی ہے تو میں ہرگز ذمہ دار نہیں ہوں کیونکہ ذمہ دار خدا کا کلام ہے جس کے تابع میں ایک ادنی غلام سے بھی کم حیثیت رکھتا ہوں اور نظام جماعت کی بھی اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں ، یہ بے اختیار لوگ ہیں.اس لئے خدا کا کلام جاری ہوگا اور لازماً جاری ہوگا.وہ لوگ جو اپنے نفس کی بڑائی یا اپنی عظمتوں کی بڑائی لئے پھرتے ہیں ، دنیا کی عظمتوں کی بڑائی لئے پھرتے ہیں وہ دھوکہ میں نہ رہیں.یہ اس لئے کیا جارہا ہے تا کہ آپ بچیں.آپ کو نقصان پہنچانے کے لئے نہیں کیا جا رہا.اس لئے کیا جا رہا ہے دنیا
خطبات طاہر جلد۵ 252 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء میں آپ کو پتا چل جائے کہ آپ کیا کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ مرنے کے بعد یہ آواز میں بلند ہوں کہ آج تو سودوں کا دن نہیں رہا.آج تو کوئی شفاعت کام نہیں آئے گی.آج تو کسی قسم کی دوستی تمہیں فائدہ نہیں پہنچائے گی.اس لئے یہ کوئی نعوذ باللہ من ذالک دشمنی کی باتیں نہیں ہور ہیں یا سختی کی باتیں نہیں ہور ہیں.اس سے بہتر آپ کے حق میں یعنی احباب جماعت کے حق میں اور کوئی اچھا طریق نظام جماعت اختیار نہیں کرسکتا، اسی میں فائدہ ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ نظام کی نظر بعض خامیوں پر پڑے اور پھر وہ اس کو پکڑے.اپنے دل کا محاسبہ کریں، اپنے حالات کا محاسبہ کریں اور اپنی قربانی کو تقوی کے کم سے کم معیار کے اوپر تو لے کر آئیں.آگے بہت بلند معیار ہیں.آگے بہت ترقی کی منازل ہیں.تقویٰ کے اندر باریک در باریک راہیں ہیں ان کو اختیار کرنے کے نتیجہ میں معمولی بھی خدا کے نزدیک اتنا بڑھتا ہے کہ حیرت میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے.لیکن ادنیٰ معیار پر پورا اتر نا تو بہر حال ضروری ہے.اس مضمون کے اور بہت سے پہلو ہیں مال اور تقویٰ کے تعلق میں جو بیان ہونے والے ہیں باقی انشاء اللہ میں بعد میں بیان کروں گا.اس وقت ایک ضروری معاملہ کے متعلق جماعت کی سامنے بعض باتیں رکھنی چاہتا ہوں.قادیان سے جب ہجرت ہوئی تو اس وقت ہندوستان کی جماعتوں کی حالت بہت کمزور تھی الا ما شاء اللہ اور قادیان میں بھی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا.اس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ تحریک کی کہ ساری دنیا کی جماعتوں پر مرکز اول قادیان کی ذمہ داری ہے اس لئے وہ اس کے اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مالی قربانیاں کریں اور صرف ہندوستان والوں پر یہ ذمہ داری عاید نہیں ہوتی.مختلف ادوار میں اس بیرونی امداد کی مختلف شکلیں بنتی رہیں.یہاں تک کہ بالآخر الا ماشاء اللہ سوائے صدقہ و خیرات کے اور کوئی رقم باہر سے قادیان نہ بھجوائی گئی.یا قربانی کی کھالیں یا صدقہ کی رقوم.اس کے کئی قسم کے نقصانات پہنچے ہیں ان کی تفصیل میں اس وقت جانے کی ضرورت نہیں.جو قادیان کے درویشوں کے نفس کا وقار تھا، ان کی قربانی کی عظمت تھی وہ بھی مجروح ہوئی ان باتوں سے اور ہندوستان کی جماعتوں کی مالی قربانی کے معیار پر بھی برا اثر پڑا.مگر پہلے ایک وقت ایسا تھا جب کہ ہندوستان میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جو ان صدقہ و خیرات کے علاوہ بھی جماعت کی بڑی بڑی
خطبات طاہر جلد۵ 253 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء ضروریات پر خرچ کرنے پر تیار رہتے تھے.گو چند تھے گنتی کے لیکن اس معاملہ میں نمایاں حیثیت رکھنے والے لوگ تھے.اس کے فوائد بھی بہت ہوئے.قادیان کی اور ہندوستان کی جماعتوں کی ضرورتیں بڑی دیر تک ان قربانی کرنے والوں کے ذریعہ پوری ہوتی رہیں.لیکن اللہ تعالی ایک الہی جماعت تیار کرنا چاہتا ہے قربانی کرنے والوں کی.ایک یا دو یا چند آدمیوں کی قربانی سے جماعت کی قربانی کا فرض پورا نہیں ہوتا اور قربانی کا یہ مفہوم کہ ضرورت پوری ہو جائے یہ تو محض دنیاوی مفہوم ہے.دین میں قربانی پیش کرنے کا مفہوم صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی اہم ضرورت پوری ہو بلکہ ایک لازمی اثر اس کا یہ ہے کہ جو شخص قربانی کرنے والا ہے اس کا دل پاک اور صاف ہو.اس کا مرتبہ خدا کے نزدیک بلند ہو اور اس کے اندار ایک پاکیزگی پیدا ہو، اس کی روح میں ایک جلا آ جائے اسکے نتیجہ میں.چنانچہ اگر جماعت پوری کی پوری قربانی میں شامل نہ ہو یا اپنے معیار کو بلند نہ کر رہی ہو تو چند آدمیوں کی قربانی چاہے آسمان سے باتیں کر رہی ہو عمومی طور پر جماعت نقصان میں رہے گی.چنانچہ ان کی اس قربانی کا ایک نقصان عموماً یہ دیکھا گیا کہ ہندوستان کی جماعت کے بہت سارے دوستوں نے یہ سمجھ لیا کہ ضرورتیں تو فلاں صاحب پوری کر رہے ہیں فلاں سیٹھ صاحب کو خدا تعالیٰ توفیق دے رہا ہے، اب ٹھیک ہے ضرورت پوری ہو گئی اب ہمیں کیا ضرورت ہے خواہ مخواہ اپنے بچوں کو تکلیف میں مبتلا کرنے کی.دوسری طرف کچھ شریکے ہوتے ہیں کچھ اور رشک کے مادے یا حسد کے مواجہات ہوتی ہیں.نتیجہ یہ نکلا کہ ان برادریوں میں سے جن میں بڑی قربانی کرنے والے آئے بہت سے لوگ عام قربانی کے معیار سے بھی گر گئے.انہوں نے ان قربانی کرنے والے کی نیکی کا مقابلہ اس طرح شروع کیا کہ اس کے مال تو گندے مال ہیں.یہ جماعت بھی عجیب جماعت ہے پیسے کے پیچھے پڑی ہوئی ہے، یہ نہیں دیکھتی کہ اس شخص کے کتنے نیک اعمال ہیں اس نے پیسہ کسی طریق سے حاصل کیا تھا.کتنی ٹیکس کی چوری کی تھی کتنی فلاں چوری کی تھی اور کتنی فلاں چوری کی تھی؟ اب جماعت میں نہ اس بات کی استطاعت ہے اور نہ جماعتی روایات کا یہ تقاضا ہے کہ ہر چندہ دینے والے کی نفسی کمزوریوں کی جستجو کرے تجسس کر کے معلوم کرے.جب نظام کے سامنے باتیں آتی ہیں تو نظام ضرور پکڑتا ہے لیکن مالی کمزوریوں میں خصوصاً وہ جو دنیا کے اموال کے روز مرہ کے
خطبات طاہر جلد۵ 254 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء دستور سے تعلق رکھنے والی کمزوریاں ہیں ان میں نہ کبھی جماعت نے تجسس کیا ہے نہ جماعت کو یہ توفیق ہے کہ تجسس کر سکے اور اس کے پورے تقاضے پورے کرنے کے بعد فیصلہ دے کہ یہ مال حرام ہو گیا اور یہ مال حلال ہو گیا.بہر حال وہ زبانیں کھلنے لگیں اور اعتراض ہونے لگے جو صرف ان افراد تک نہ رہے بلکہ جماعت کے نظام تک پہنچے اور اس قسم کی باتیں شروع ہو گئیں کہ جور و پیہ زیادہ دے دے اس کی عزت ہے اور جو روپیہ نہیں دیتا اس کی عزت نہیں.حالانکہ ایسی باتیں کرنے والے خودان سب برائیوں میں مبتلا تھے.اگر وہ برائیاں اس شخص میں موجود تھیں.بعینہ ان کے وہی دستور تھے کمانے کے.کوئی فرق نہیں تھا اور کچھ نہ کچھ چندے وہ بھی دیتے تھے.پس اگر زیادہ مالی قربانی مال کمانے کے طریق میں کوتاہیوں کے نتیجہ میں حرام ہوگئی تو تھوڑی کس طرح حلال ہوگی.تو بجائے اس کے کہ رشک کا مقابلہ کرتے ، حسد سے مقابلہ شروع کر دیتے اور کثرت کے ساتھ بعض خاص گروہوں سے تعلق رکھنے والے لوگ جو تاجر پیشہ تھے ان کے دین کو بھی شدید نقصان پہنچا اور چندوں کے عمومی معیار کو بھی بہت بڑا نقصان پہنچا اور اس کی سزا بھی ان کو ملی ان کی اولادیں ضائع ہونی شروع ہوئیں کیونکہ جو نیکی کی وجہ سے نہیں بلکہ نفس کے حسد کی وجہ سے تنقید کرتا ہے، وہ خود اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے.جس پر تنقید کی جاتی ہے اس میں کمزوریاں بھی ہوں تو خدا تعالیٰ اس سے درگزر کا معاملہ کر لیتا ہے لیکن نفس کی خاطر تنقید کرنے والے کو ہم نے اکثر بچتے ہوئے نہیں دیکھا.جو نفس کی اندرونی خرابیوں کی وجہ سے یار عونت کی وجہ سے تنقید کرتا ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کی اولا دضائع ہو جاتی ہے.چنانچہ یہ نقصان بھی پہنچا.بہر حال اب صورت حال یہ ہے کہ ہندوستان کی جماعتی ضروریات تو بہت تیزی کے ساتھ بڑھ رہی ہیں اور ہندوستان کی جماعتوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تعداد کے لحاظ سے بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے اور اموال کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہر رنگ میں برکت کا سلوک ہوا ہے.اس کے باوجود ہندوستان کی جماعت اپنے پاؤں پر نہیں کھڑی.یہ سارے جو تاریخی پس منظر میں نے بیان کئے ہیں ان کے بداثرات ایسے پھیلے ہیں اور اب تک ان کا نقصان پہنچ رہا ہے جماعت کو.وہ ساری ضرورتیں جو میں جانتا ہوں کہ جماعت ہندوستان خود پوری کر سکتی ہے وہ دیکھتے ہوئے بھی نہیں کر رہی.چندہ عام کا معیار گر گیا ، وصیت کا معیار گر گیا، طوعی چندوں کا معیار گر گیا.تبلیغ کے
خطبات طاہر جلد۵ 255 خطبہ جمعہ ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء لئے جو دوسری تحریکات کی جاتی ہیں ان میں رد عمل بالکل مردہ سی کیفیت رکھتا ہے.درویشوں کی ضروریات پوری کرنے کا معیار گر گیا.وہی صدقہ خیرات ہی ہے.صدقہ و خیرات بھیج دو.حالانکہ درولیش تو ہماری سوسائٹی کی روح ہیں.وہ تو اصحاب الصفہ کی تمثیل ہیں.ان کے ساتھ یہ معاملہ کہ صرف صدقہ کی رقم وہاں جائے یہ تو بڑا اندھیر ہے، بڑا ظلم کا معاملہ ہے.اپنے نفس سے ظلم کرنے والی بات ہے.ان کو تو عزت کے ساتھ پیش کرنا چاہئے تھا جو کچھ بھی پیش کرنا چاہئے تھا.روپیہ اب جو جماعت کی طرف سے فوری ضروریات میرے سامنے آئی ہیں ان میں کچھ تو مقامات مقدسہ کی مرمتیں ہیں.اگر وہ تعمیری مرمتیں پوری نہ کی گئیں عمارتوں سے تعلق رکھنے والی مرمتیں تو بہت سی یادگار اور بہت ہی مقدس ایسے کمرے یا گھر ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة السلام چلتے پھرتے رہے، جہاں آپ پر الہامات کی بارش ہوئی ، جہاں آپ نے تصنیفات کیں ، جہاں آپ اور ذکر الہی میں مصروف رہے ان کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے.بہشتی مقبرہ ہے اس کی حفاظت کے تقاضے ہیں اور کئی قسم کے ہیں.جو انہوں نے اندازہ لگایا وہ قادیان سے تعلق رکھنے والے اخراجات کا پندرہ لاکھ روپے کا اندازہ تھا اور جو کل سرمایہ انجمن کے ہاتھ میں اس وقت ہر قسم کا اکٹھا کر کے یعنی اس میں صد سالہ جو بلی کا روپیہ بھی شامل ہے وہ دو تین لاکھ سے زیادہ نہیں بنتا اور اس کے علاوہ دلی میں ایک شاندار مرکز جو ہندوستان کی جماعتوں کے شایان شان ہو اور ضرورتیں پوری کر سکے وہاں بنے والا ہے.کانپور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ کی طرف رجحان ہے، مخالفت بھی ہے بڑی دیر کے بعد اللہ کے فضل سے وہاں تبلیغ کا غنچہ کھلا ہے اور رونق بنی شروع ہوئی ہے.نئے احمدیوں کے خطوط آرہے ہیں کہ خدا کے فضل سے ہم قربانی بھی دے رہے ہیں آگے تبلیغ کر رہے ہیں.مگر مرکز کوئی نہیں کہاں بیٹھیں ، کس جگہ ہم اجتماع کریں اور بھی بہت سی ضرورتیں ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں نے جو اندازہ لگایا تو میرے خیال میں چالیس پچاس لاکھ روپے تک کی ضرورت ہے.مگر میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ان کو واپس اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بیرون ہندوستان عام تحریک نہ کی جائے.اس لئے اس تحریک کی جو میں کرنے لگا ہوں اس کی دو تین صورتیں ہیں جن کو لحوظ رکھ کر جن لوگوں نے قربانی کرنی ہے وہ قربانی پیش کریں.
خطبات طاہر جلد۵ 256 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء 1.ہندوستان کی جماعتیں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کریں اور گذشتہ کوتاہیوں سے اور غفلتوں سے معافی مانگیں اور قربانی کے معیار میں دنیا کی باقی جماعتوں کے ساتھ چلنے کا عزم کرلیں.عزم کریں گے، دعا کریں گے تو اللہ تعالی توفیق بھی عطا فرما دے گا.میں جانتا ہوں کہ ہندوستان کی جماعتوں میں یہ توفیق ہے کہ اگر چاہیں تو بہت آسانی کے ساتھ یہ معمولی رقم پوری کر سکتے ہیں.بعض شہر ہی یہ رقم پوری کر سکتے ہیں.مگر بہر حال توفیق تو اللہ عطا فرماتا ہے اور یہ دل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.2.دوسرے درجہ پر وہ لوگ ہیں جو ہندوستان کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں لیکن باہر چلے گئے ہیں مثلاً امریکہ میں ڈاکٹر ہیں دوسرے پیشہ ور ہیں.ابوظہبی ، Middle East وغیرہ میں سعودی عرب کے ملحقہ ممالک میں اور یورپ میں بھی خود انگلستان میں بھی ہیں.اکثر وہ جو ہندوستان کے باشندے باہر گئے ہیں ان کی مالی حالت خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی تبدیل ہو چکی ہے.کوئی نسبت ہی نہیں رہی اس حالت سے جو ہندوستان میں چھوڑ کر آئے تھے اور اگر یہ سارے چاہیں تو چالیس لاکھ کیا سارے چندوں کے علاوہ بھی یہ کروڑوں روپیہ پیش کر سکتے ہیں.بعض ان میں سے ایک ایک شخص پر خدا کا اتنا فضل ہے کہ وہ بلا مبالغہ کروڑ پتی ہو چکے ہیں.اس لئے دوسرے نمبر پر ان کی ذمہ داری ہے.پہلے میں نے قادیان کو منع کیا تھا کہ وہ براہ راست باہر بسنے والے ہندوستانیوں کو کوئی اپیل نہیں کریں گے.ابھی بھی یہ جاری ہے اس کو میں منسوخ نہیں کر رہا.مگر میں اپیل کر رہا ہوں ان ہندوستان نژاد احمدیوں سے کہ وہ اس مالی قربانی میں آگے آئیں اور ہندوستان کی ساری ضرورتیں پوری کریں.3.اور تیسرے درجے پر میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ اگر کوئی انفرادی طور پر یہ حق جتلاے، جماعتی تحریک نہیں ہوگی کہ قادیان کا تعلق ساری دنیا کی جماعتوں سے ہے ہمیں بھی تعلق ہے، ہم اپنے دل کے جذبہ سے مجبور ہو کر انفرادی طور پر حق مانگتے ہیں کہ ہمیں شامل کر لیا جائے تو ایسے شخص کی قربانی کو رد نہیں کیا جائے گا.کسی جماعت کو یہ حق نہیں کہ یہ سمجھے چونکہ عام تحر یک ان سے نہیں کی گئی تھی اس لئے ان سے قبول ہی کچھ نہیں کرنا.ان تین اصولوں کے تابع میں اس تحریک کا اعلان کرتا ہوں کہ ہندوستان کی ضرورتوں اور
خطبات طاہر جلد۵ 257 خطبه جمعه ۲۸ / مارچ ۱۹۸۶ء فوری ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے جماعت کو کم از کم چالیس لاکھ رو پیدا کٹھا کرنا چاہئے اور ساتھ یہ بھی آپ کو ضمانت دیتا ہوں کہ ضرورتیں بہر حال پوری ہوں گی.اول تو مجھے یقین ہے انشاء اللہ کہ جس طرح آج تک ہمیشہ خدا نے سلوک فرمایا ہے.تنگی کے باوجود ہر قسم کے حالات کی خرابی کے باوجود جماعت مالی قربانی میں ایسا اعلیٰ معیار دکھاتی ہے کہ عقل ورطہ حیرت میں ڈوب جاتی ہے.یقین نہیں آتا کہ انہی جیبوں میں جن کو بظاہر خالی کر دیا گیا تھا ان سے پھر دوبارہ اللہ تعالیٰ نے یہ خزانے پیدا کر دیئے ہیں.بہر حال خدا کے کام ہیں وہ تو کرے گا.اگر بامر مجبوری یہ رقم پوری نہ ہوئی تو تحریک جدید انجمن احمد یہ ربوہ اور صدر انجمن احمد یہ ربوہ باقی ضرورتیں آسانی سے پوری کر دیں گی میں ضامن ہوں انشاء اللہ تعالیٰ.اس لئے قادیان والے اس کے مطابق اپنے پروگرام بنا ئیں.اپنی ساری ضروریات معین کریں اور بڑی تیزی کے ساتھ ان کو پورا کرنے کی طرف توجہ کریں.اللہ تعالیٰ کے فضل.روپیہ مہیا کر دیا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ایک اطلاع یہ پیش کرنی تھی کہ احباب جماعت کو علم ہے ساہیوال اور سکھر والے ہمارے مظلوموں کے ساتھ کیا سلوک ہوا ہے کیسا ظالمانہ فیصلہ کیا گیا ہے.ان کے متعلق آج صرف اتنا بتانا ہے کہ گزشتہ خطبات میں جو ان کا ذکر ہوا ہے وہ ساری باتیں اور عالمگیر جماعت کے ان کے لئے وہ جذبات ہیں ان تک پہنچ گئے ہیں اور انہوں نے یہ پیغام دیا ہے کہ سارے احباب جماعت کو ہمارا السلام علیکم پہنچایا جائے اور یقین دلایا جائے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی خوش ہیں اور غیر معمولی سعادت سمجھ رہے ہیں.اس لئے ہم پر رحم نہ کریں، ہمارے لئے صرف دعائیں کریں اور باہر والوں کو ہماری طرف سے تسلی دیں کہ ہمارا فکر نہ کریں ہم خدا کی تقدیر پر ہم خدا کے فضل سے راضی ہیں.یہ پیغام تو ٹھیک ہے مگر فکر کیسے نہ کریں.یہ ایسی چیز نہیں ہے کہ کسی کے کہنے سے کہ فکر نہ کرو فکر ہٹ سکتی ہے.ان کا یہی کام تھا، ان کو خدا نے یہی سعادت بخشی ہے یہی ان کے شایان شان تھا.تو پیغام ہمیں مل گیا ہے لیکن ہم اپنے طور پر جو خدا نے توفیق دی ہے ان کے لئے کریں گے اور دعائیں بھی کریں گے.ساری جماعت کی کے لئے وہ فرض کفایہ پورا کرنے والے لوگ ہیں ،ساری جماعت کی شہادت کی روح کو زندہ کرنے والے لوگ ہیں، اس لئے وہ تو دل سے نہیں اتارے جاسکتے.
خطبات طاہر جلد۵ 259 خطبه جمعه ۴ رامیریل ۱۹۸۶ء عہدیداران سلسلہ اور افریقہ کے ڈاکٹر ز جماعتی اموال خرچ کرنے میں تقویٰ کے معیار بلند کریں (خطبه جمعه فرموده ۴ را پریل ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اورسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے مالی قربانی کرنے والوں کے متعلق کچھ امور بیان کئے تھے اور اس بات پر زور دیا تھا کہ مالی قربانی کرتے وقت تقویٰ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اس سلسلہ میں اب صرف اتنا کہہ کر مضمون کے اس حصہ کو ختم کروں گا کہ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ چندہ عام وغیرہ میں شرح سے کم دینے والے وہ لوگ ہیں جو بوجہ غربت ایسا نہیں کر سکتے.میرا لمبا تجر بہ اس کے بالکل برعکس ہے.مختلف حیثیتوں سے میں نے سلسلہ میں مختلف خدمتیں سرانجام دی ہیں بحیثیت مجلس خدام الاحمدیہ کے رکن ہونے کی حیثیت سے بھی اور وقف جدید کے تعلق میں بھی اور نظام جماعت کے دیگر شعبوں سے تعلق کے لحاظ سے بھی اور ہر جگہ میں نے بالعموم یہ دیکھا ہے کہ غرباء اپنی مالی قربانی میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت آگے ہیں اور شرح کے مطابق چندہ دینے میں جو وہاں تناسب ملتا ہے وہ امراء کے ہاں نہیں ملتا.اور عجیب بات ہے کہ جتنا آپ او پر چلتے ہیں اتناہی صورت برعکس ہوتی چلی جاتی ہے.یہاں تک کہ وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے غیر معمولی فضل سے نوازا ہے اور بہت دولت عطا کی ہے ان کے لئے چندہ دینا تو مشکل نہیں لیکن شرح سے چندہ دینا بہت ہی بڑی مصیبت بن جاتا ہے.در اصل انسان نسبتوں کی بجائے رقم کی مقدار د یکھنے کا عادی ہوتا ہے اور یہ
خطبات طاہر جلد ۵ 260 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء انسانی فطرت ہے.ایک غریب آدمی جس کو سو روپے ملتے ہیں.وہ چھ روپے دیتا ہے تو اس کے نزدیک چھ روپے باوجود غربت کے چھ روپے ہی ہوتے ہیں اور اس کے لئے چھ روپے دینا نسبتاً آسان ہوتا ہے.صرف یہی بات نہیں اور بھی وجوہات ہیں.ایک بہت بڑی وجہ غریب کے معیار قربانی کا بلند ہونا ہے جو مقابلہ کی وجہ سے بھی اس میں پیدا ہوتی ہے.جب وہ امیروں کو غیر معمولی طور پر رقمیں دیتا ہوا دیکھتا ہے.جب وہ دیکھتا ہے کہ فلاں نے ہزار دیا اور فلاں نے دس ہزار دیا تو وہ اپنے چھ میں کمی کرنے کی پھر استطاعت ہی نہیں پاتا.ایسا شرمندہ ہوتا ہے وہ چھ روپے دیتے ہوئے بھی کہ ساتھ استغفار کر رہا ہوتا ہے کاش مجھ میں توفیق ہوتی تو میں اس سے زیادہ دیتا.تو نفسیاتی بہت سے پہلو ایسے ہیں جن کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے غریب کے تقویٰ کی حفاظت فرما دی ہے اور ان امور میں امیر غریب کے مقابل پر دل کا بہت زیادہ غریب ثابت ہوتا ہے.تبھی قرآن کریم نے جہاں مالی قربانی کا ذکر فرمایا، وہاں مالی غربت کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ دل کی غربت کا ذکر فرمایا.فرمایا وَمَنْ يُوْقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر : ۱۰) وہ لوگ جو دل کے بخل سے بچائے جاتے ہیں اور جو دل کے غریب نہیں ہوتے.وہی لوگ ہیں جو اللہ کے نزدیک بہت بڑی فلاح پانے والے ہیں.پس جہاں تک چندوں کا تعلق ہے وہاں فیصلہ کن امر یہ نہیں ہوتا کہ کسی کے پاس ظاہری دولت کتنی ہے بلکہ فیصلہ کن امر یہ ہوتا ہے کہ دل کی دولت کسی کے پاس کتنی ہے اور اس پہلو سے یہ عجیب بد قسمتی ہے امراء کے طبقہ کی کہ الا ماشاء اللہ امیر اپنی غیر معمولی توفیق کے باوجود شرح کے مطابق چندہ دینے سے ہچکچاتا ہے.ایک آدمی جس کی ایک سو ساٹھ روپے آمد ہے اس کے لئے کوئی مشکل نہیں کہ وہ دس روپے دے دے لیکن جس کی سولہ لاکھ روپے آمد ہو وہ ہر سال ایک لاکھ روپیہ دے اس کو اتنی بڑی رقم نظر آتی ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ تھوڑا بھی دے دوں تو دس ہزار ہیں ہزار بہت بڑی رقم ہے.اس لئے وہ تھوڑا دے کر بھی اپنے آپ کو بہت بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے کہ میں نے دین کے لئے بڑی قربانی کی ہے.اس لئے وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ نے اموال میں کشائش عطا فرمائی ہے، اموال میں وسعت بخشی ہے ان کو خصوصیت کے ساتھ اپنے تقویٰ کی حفاظت کرنی چاہئے.یہ محض ڈراوا ہے کہ مال کم ہو جائے گا.حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا مال جب خدا کو
خطبات طاہر جلد۵ 261 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء واپس کیا جا تا ہے تو کم نہیں ہوتا.خواہ خواہ دل میں گانٹھیں پڑی ہوتی ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ گانٹھ کھولنے کا جو مزہ ہے وہ نہ کھولنے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتا.جب بھی آپ خدا کی خاطر دل کی کوئی گانٹھ کھولتے ہیں اس وقت آپ کو دراصل وسعت عطا ہوتی ہے.اس وقت آپ کو فراخی ملتی ہے اور وہ فراخی مال کی فراخی کے مقابل پر بہت ہی زیادہ عظیم الشان اور بہت ہی زیادہ سرور بخشنے والی فراخی ہے.اس لئے ہمارے امراء خصوصیت کے ساتھ اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہیں.ایک اور ذریعہ سے بھی مجھے پتہ چلتا ہے کہ ان میں کچھ کمزوری باقی ہے.غریب آدمی جب کسی مجبوری کے پیش نظر شرح میں کمی کرنا چاہتا ہے تو وہ بے دھڑک معافی کے لئے خط لکھ دیتا ہے.اس کا معاملہ اتنا واضح ہے.اس کی ذمہ داریاں اتنی زیادہ ہوتی ہیں اس کی آمد کے مقابل پر کئی دفعہ مقروض ہو جاتا ہے، کئی دفعہ حادثات پیش آجاتے ہیں کہ وہ بے جھجھک ہو کر لکھتا ہے کہ میرے یہ حالات ہیں اس لئے میں 1/16 دینے کی توفیق نہیں پاتا.لیکن امیروں کی طرف سے ایسا کبھی کوئی خط نہیں آیا کیونکہ اگر وہ لکھیں تو ان کو شرمندگی ہوگی.اس لئے وہ نظام جماعت کو توڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.ایک اور گناہ سرزد کر رہے ہوتے ہیں.یعنی غریب آدمی تو جانتا ہے کہ میں لکھوں گا تو میرے لئے بلکہ دعا کی طرف توجہ پیدا ہوگی.میری غربت پر رحم آئے گا اور اس لئے اس کی طبیعت میں لکھنے پرطبعی آمادگی پائی جاتی ہے.لیکن امیر آدمی اپنا راز کھولتا ہے اپنی خساست کا راز کھولتا ہے اس لئے رک جاتا ہے.کبھی کسی امیر نے نہیں لکھا کہ مجھ میں توفیق نہیں ہے 1/16 دینے کی مجھے معاف کر دیا جائے.حالانکہ میں نے وعدہ کیا ہوا ہے کہ اگر کوئی لکھے تو میں معاف کر دوں گا.لیکن وہ لکھ سکتے ہی نہیں ان کو توفیق ہی نہیں اس بات کی.وہ سمجھتے ہیں ہمارے دل کا بخل ننگا ہو جائے گا.اس لئے ایک جرم ایک دوسرے جرم کرنے پر ان کو مجبور کر رہا ہے.دراصل اصل نگران تقویٰ ہی ہے جو دل کا نگران ہے.باہر سے نگرانی ممکن ہی نہیں ہے.یعنی حقیقی نگرانی باہر سے نہیں ہو سکتی.اس لئے میں اپنی جماعت کے امراء سے کہتا ہوں کہ اپنے تقویٰ کے معیار کو بڑھائیں اور خدا تعالیٰ کی راہ میں اموال پیش کرتے وقت اپنے تقویٰ کے نگران کو سامنے رکھا کریں.یہ نہ دیکھا کریں کہ باہر سے کوئی آنکھ دیکھ رہی ہے یا نہیں.دوسرا حصہ ہے وہ لوگ جو اموال خرچ کرنے کے ذمہ دار ہیں.یعنی سلسلہ عالیہ احمدیہ کے
خطبات طاہر جلد۵ 262 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء مختلف کارکن جو خدا کی راہ میں آنے والے اموال کو خرچ کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں.ان میں واقف زندگی بھی ہیں اور غیر واقف زندگی بھی ہیں.پاکستان میں کام کرنے والے بھی ہیں اور باہر کے ملکوں میں بھی.ایسے ممالک میں بھی ہیں جو خدا کے فضل سے بہت خوش حال ہیں اور کم سے کم معیار پر بھی اگر وہاں واقفین رہیں تب بھی ان کی حالت پاکستان میں بسنے والے واقفین کے مقابل پر اعلیٰ سے اعلیٰ معیار سے بھی اونچی ہے اور ایسے ممالک میں بھی ہیں جہاں اتنی غربت ہے ، اتنا معیار گرا ہوا ہے کہ بعض دفعہ ایک ہفتہ پہلے جب ہم ان کے وظائف میں اضافہ کا اعلان کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ اطلاع آتی ہے کہ اب اس مال کی قیمت یہاں آدھی رہ گئی ہے اور امر واقعہ ایسا ہو چکا ہے کہ چند دن کے اندر اندر جب وظائف میں اضافہ کیا گیا تو وہاں سے اطلاع ملی کہ اب تو یہاں روپے کی قیمت 1/3 رہ گئی ہے.بہر حال مختلف حالات میں واقفین زندگی ہوں یا غیر واقفین زندگی خدا کی راہ میں اس قربانی کی توفیق بھی پارہے ہیں اور کچھ بے احتیاطیاں بھی کر رہے ہیں.جو بے احتیاطیاں کرنے والے ہیں ان کو میں متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ بے احتیاطیاں رفتہ رفتہ بددیانتیوں میں بدل جایا کرتی ہیں.اس لئے اگر آپ بے احتیاطی سے بچیں گے اور شروع میں ہی تقویٰ کے معیار کو بڑھا کر سلسلے کے اموال خرچ کریں گے تو اس کا دہرا فائدہ پہنچے گا.اول یہ کہ آپ خدا تعالیٰ کی نظر میں زیادہ مقبول ٹھہریں گے.آپ کے ذاتی اموال میں بہت برکت ہوگی.آپ کی زندگی کے ہر شعبہ میں اللہ تعالیٰ برکت عطا فرمائے گا.آپ کی خوشیوں میں برکت بخشے گا ، آپ کے ایمان اور خلوص میں برکت بخشے گا اور دوسرا یہ کہ جماعت احمدیہ کے مالی قربانی کے معیار کو آپ اونچا کرنے والے ہوں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ خرچ کرنے والے کے تقویٰ کا پیسہ دینے والے کے تقویٰ سے گہرا تعلق ہوتا ہے.جہاں خرچ کرنے والوں کا تقویٰ اونچا ہو ، وہاں خدا کی راہ میں قربانی کرنے والوں کا تقویٰ بھی خود بخود اونچا ہوتا چلا جاتا ہے.چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ اکثر احمدیت سے باہر چندے مانگنے والوں کی یہی مصیبت ہے.بے شمار روپیہ پڑا ہوا ہے اور بے شمار ایسے دل بھی ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہتے ہیں مگر بد بختی ہے بعض قوموں کی کہ وہاں تقویٰ کے ساتھ خرچ کرنے والے نہیں ملتے.اس لئے دلوں میں گانٹھیں پڑ گئی ہیں.دینے والا ہاتھ کھلتا نہیں ہے کیونکہ وہ جانتا ہے لمبے تجربہ
خطبات طاہر جلد۵ 263 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء کی بناء پر کہ اس قوم کے لینے والوں نے کبھی دیانت کا مظاہر نہیں کیا.لیتے کسی اور نام پر ہیں اور خرچ کسی اور نام پر کرتے ہیں.ان کی شکلیں بتا رہی ہوتی ہیں کہ یہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے لوگ نہیں ہیں مانگنے والے ہیں.پس یہ بیماری جب بہت بڑھ جاتی ہے پھر تو قوم کے لئے ایک کوڑھ کی شکل اختیار کر جاتی ہے.لیکن آغاز بھی اگر اس کا ہو تب بھی نقصان پہنچتا ہے اور بالعموم مختلف اتار چڑھاؤ جو دینے والوں کے آپ کو نظر آئیں گے ان کا تعلق خرچ کرنے والوں کے تقویٰ کے اتار چڑھاؤ سے ضرور ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ سلسلہ کے اموال دنیا کے جس گوشہ میں بھی وصول ہو رہے ہیں اور جس کونے میں بھی خرچ کئے جارہے ہیں، وہاں تقویٰ کے معیار کو دونوں طرف سے اونچا کیا جائے.دینے والوں کے معیار کو ہی نہیں بلکہ خرچ کرنے والوں کے معیار کو بھی اونچا کیا جائے.جو بے احتیاطی کی صورتیں میرے سامنے آرہی ہیں، مختلف وقتوں میں توجہ بھی دلائی جاتی ہے لیکن اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہے کہ خطبہ میں بھی بالعموم ان کی طرف متوجہ کیا جائے.جہاں تک ہمارے مشنز کا تعلق ہے یا پاکستان میں جو ادارے کام کر رہے ہیں ان کا تعلق ہے.تین چارایسے شعبے ہیں جہاں بے احتیاطی کے آثار ظاہر ہورہے ہیں.بجلی کا خرچ ہے، ٹیلیفون کا خرچ ہے، مہمان نوازی کا خرچ ہے اور سفر خرچ.یہ وہ چار شعبے ہیں جہاں سے بے احتیاطی شروع ہوتی ہے اور جب یہ بے احتیاطی آگے بڑھ جائے تو پھر بددیانتی شروع ہو جاتی ہے جو پھر ہر شعبہ پر اثر انداز ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے الا ماشاء اللہ اگر خدا کسی کی پردہ پوشی نہ فرمائے تو میں کہہ نہیں سکتا مگر بظاہر بد دیانتی کی کوئی مثالیں میرے سامنے نہیں آئیں.بہت ہی شاذ کے طور پر بعض جماعت میں واقعات ہوتے ہیں بدیانتی کے مگر وہ ضروری نہیں کہ کارکنان ہی میں ہوں ، چندہ وصول کرنے والوں میں بھی ہوتے ہیں.وہ اتنا تھوڑا ہے کہ وہ ناممکن ہے عملا کہ کسی قوم کے معیار کو اتنا بلند کر دیا جائے کہ ایک فرد بشر بھی کوئی کمزوری نہ دکھائے.کوشش تو ہونی چاہئے مگر بہر حال ایک آئیڈیل ایسا ہے جسے انسان کبھی بھی حاصل نہیں کرسکتا.جہاں تک عام معیار کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے واضح بددیانتی موجود نہیں ہے لیکن بے احتیاطی کی بد دیانتی ضرور موجود ہے اور وقت ہے کہ ہم اسے سختی کے ساتھ دہا ئیں.ایک آدمی جو انگلستان بیٹھا ہوا یا امریکہ میں بیٹھا ہوا اپنے خرچ پر اپنے گھر فون نہیں کر سکتا
خطبات طاہر جلد ۵ 264 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء اگر اس کو یہ سہولت ہو کہ جماعت کے خرچ پر جبکہ کوئی نہیں دیکھ رہا جتنا چاہے فون کر لے اور ہرلمحہ جو گزرتا ہے اس کا فون پر اس کا دل اتنا نہ کٹ رہا ہو کہ جماعت کا اتنا خرچ ہو رہا ہے تو یہاں اس کو میں کہتا ہوں وہ بے احتیاطی جو بددیانتی پر منتج ہو جاتی ہے.خواہ انسان واضح طور پر اس بات کو سوچے یا نہ سوچے لیکن بہترین حل اس کا یہ ہے کہ ہر وہ خرچ جو اپنے طور پر وہ کر سکتا ہے اگر اس خرچ کے وقت اس کو تکلیف ہوتی ہے اور جماعت کے اسی قسم کے خرچ پر تکلیف نہیں ہوتی تو ایسا شخص تقویٰ کے معیار سے گرا ہوا ہے.بجلیاں جل رہی ہیں تو جلتی چلی جارہی ہیں، پرواہ ہی کوئی نہیں اور بے شمار خرچ اس کی وجہ سے ہو جاتا ہے.سردی کے موسم میں گرمی کی ضرورت پڑتی ہے، گیس جل رہی ہے اور بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ جل رہی ہے، کھڑکیاں بھی کھلی ہیں تب بھی کوئی پرواہ نہیں.ان چیزوں کو آپ بے احتیاطیاں کہیں گے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بے احتیاطیاں بے دردی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور بے دردی اور بے حسی اور تقویٰ اکٹھے نہیں رہا کرتے.ایسی بے در د دی اور ایسی بے حسی جو فرق کر کے دکھائے.جماعت کے خرچ میں تو موجود ہو اور ذاتی خرچ میں موجود نہ ہو وہ تقویٰ کے خلاف ہے اور یہ صورت حال بالآخر بددیانتی پر منتج ہو جاتی ہے.اسی لئے اب ہم نے آڈٹ کے انتظام کو زیادہ منظم کیا ہے اور بہت زور دیا جارہا ہے کہ ہر جگہ آزاد آڈیٹر یعنی حساب کرنے والے جو جماعتی نظام سے بالکل آزاد ہوں، وہ اپنی رپورٹیں براہ راست مجھے بھجوائیں اور ایک سرسری نظر ڈالنے سے ہی آڈٹ کی رپورٹ پر اندازہ ہو جاتا ہے کہ کس ملک میں کیا ہو رہا ہے.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایسے مواقع پیش نہیں آنے چاہئیں کہ آڈٹ کے نظام پر اتنا زور دینا پڑے کیونکہ آڈٹ کا نظام حقیقت میں اموال کی صحیح حفاظت یا پوری حفاظت نہیں کر سکتا.کوئی نگران جو بیرونی ہو وہ کچی اور حقیقی حفاظت اموال کی کر ہی نہیں سکتا.خدا تعالیٰ نے تقویٰ کا ایک اندرونی نگران مقرر فرما دیا ہے اور یہ وہ نگران ہے جس کا براہ راست عالم الغیب والشہادہ سے تعلق ہے کیونکہ تقوی خدا کی ذات سے پھوٹتا ہے.اس کا مستقل رشتہ ہمیشہ کا ایک رابطہ ہے اپنے رب کے ساتھ.اس لئے اس کو بھی خدا تعالیٰ نے عالم الغیب والشہادۃ کی صفات عطا فرما دی ہیں.تقویٰ کی آنکھ وہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے جو بیرونی آڈیٹر کو نظر آتا ہے اور وہ بھی دیکھ رہی ہوتی ہے جو بیرونی آڈیٹر کو نظر ہی نہیں آسکتا.ان باریکیوں تک بھی چلی جاتی ہے جو نیتوں کے پردوں میں چھپی ہوئی ہوتی
خطبات طاہر جلد۵ 265 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء ہیں.اس لئے تقویٰ کی بصیرت کو تیز کریں اور اسی کی اپنا نگران بنا ئیں.اگر آپ اس طرح کریں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آپ کے اموال میں بھی برکت پڑے گی اور جماعت کے اموال میں بھی ہر لحاظ سے برکت پڑے گی.اگر ایک آنہ آپ خرچ کریں گے تو تقویٰ کے ساتھ خرچ کیا جانے والا آنہ ایک آنے کی قیمت نہیں دیتا وہ بعض دفعہ لکھوکھہا روپے کی قیمت دے دیتا ہے.یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو اللہ پر ایمان لانے والے ہی سمجھ سکتے ہیں، دنیا دار کو اس بات کی سمجھ ہی نہیں آسکتی اور پھر بے شمار تقویٰ کے نتائج دور رس ظاہر ہوتے چلے جاتے ہیں جو آئندہ نسلوں تک بھی پہنچتے ہیں.اس لئے اس بارے میں جتنی بھی تاکید کی جائے کم ہے کہ خرچ کرنے والے تقویٰ کے معیار پر قائم ہوں اور اگر کسی کی آنکھ کے سامنے ان کے نقائص نہیں بھی آتے تب بھی خدا کا خوف اختیار کریں کیونکہ دنیا کے اموال کھانا بھی ایک بددیانتی ہے اور مکروہ چیز ہے لیکن وہ مال جو دینے والوں نے پتہ نہیں کس کس پاکیزہ نیت کے ساتھ ، کس پیار کے ساتھ کس محبت کے ساتھ کیا کیا قربانیاں کرتے ہوئے اپنے رب کے حضور پیش کیا.اس مال پر منہ مارنا تو نہایت ہی گندی حرکت ہے.عام معیار سے بہت زیادہ گری ہوئی حرکت ہے.واقفین کی ایک اور بھی قسم ہے ہمارے ہاں جو کماتی بھی ہے جماعت کے لئے اور خرچ بھی کرتی ہے اور میری مراد ڈاکٹر سے ہے.افریقہ کے مختلف ممالک میں ہمارے ایسے واقفین ڈاکٹر کام کر رہے ہیں اور بوہ میں بھی ہسپتال میں ایسے واقفین ڈاکٹر کام کر رہے ہیں کہ اگر وہ دنیا میں ویسے کمائی کے لئے نکلتے تو ہزار ہا اور بعض صورتوں میں لکھوکھا بھی کماسکتے تھے کیونکہ سرجن وغیرہ کی بہت بڑی قیمت ہوتی ہے.آج کل تو امریکہ اور انگلستان وغیرہ میں ایسے ماہر سرجن ہیں جن کی سالانہ آمد لکھوکھہا ڈالرز یا لکھوکھہا پاؤنڈ ز تک پہنچتی ہے اور عملاً یوں لگتا ہے جیسے سر جن سونے کی کان تک پہنچ گیا ہے.دوسرے ڈاکٹروں کی بھی بعض ملکوں میں بہت قیمت ہے.پاکستان میں بھی آج کل ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے علاج بہت مہنگے ہو گئے ہیں.اتنے مہنگے ہو گئے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ بیماری سے مرنا بہتر ہے بجائے اس کے کہ پیسے دے کر مرے ڈاکٹر کو آدمی.واقعی نا قابل برداشت ہے.ایسی صورت میں ڈاکٹروں کا وقف کرنا اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنے ہنر کو کمائی کا ذریعہ بنا کر پیش کر دینا ایک بہت عظیم الشان خدمت ہے، بہت اونچا مقام ہے یہ تقویٰ کا.لیکن اس کے تقاضے
خطبات طاہر جلد۵ 266 خطبه جمعه ۴ راپریل ۱۹۸۶ء پورے کریں تب.اگر پیش تو کر دیں لیکن تقاضے پورے نہ کریں تو پھر اسی حد تک یہ گری ہوئی بات بن جاتی ہے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے سرسری، مجھے بعض خطرات دکھائی دینے لگے ہیں.بعض دفعہ آڈٹ کی رپورٹ نہ بھی پہنچ رہی ہوں، عمومی بے برکتی سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ کچھ نہ کچھ خرابی ضرور موجود ہے.اور یہ ہسپتالوں میں عمومی بے برکتی کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.ہر جگہ جماعت کے ہسپتالوں میں یہ رجحان میں دیکھ رہا ہوں کہ جہاں پہلے غیر معمولی برکت تھی ، ایک خوشی اور بشاشت کا ماحول تھا ، سارے لوگ ارد گرد خوش تھے، تعریفوں کے خطوط آتے تھے اور شفا بہت تھی ان کے ہاتھوں میں.اس کے برعکس صورت پیدا ہو گئی ہے، اب شکایتیں آنی شروع ہوگئی ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آڈیٹر خواہ پکڑ سکے یا نہ پکڑ سکے جب عموماً خلق خدا ناراض ہونی شروع ہو جائے ، خلق خدا میں بے چینی پیدا ہو جائے تو اس کا مطلب ہے ضرور کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے اور کام کرنے والے کی نیتیں جب بگڑتی ہیں تو پھر بے برکتی ضرور پیدا ہوتی ہے.وہ آپ نے واقعہ سنا ہی ہوگا کہ ایک دفعہ ایک بادشاہ شکار میں بھٹک گیا اور ایک صحرا میں نخلستان ہوتے ہیں یا باغ تھا چھوٹا سا وہاں پہنچ گیا.شدید گرمی تھی وہاں ایک مالی کی بیٹی دیکھ بھال کر رہی تھی چیزوں کی.اس نے اس سے کہا کہ مجھے شدید پیاس لگی ہے.اس نے کہا تشریف رکھیں میں ابھی آپ کے لئے رس نکالتی ہوں.چنانچہ کچھ پھل اس نے توڑے اور اس کے سامنے ان کا رس نکال کر اس کو پیش کیا.تین یا چار پھلوں میں وہ گلاس بھر گیا.جب بادشاہ نے وہ گلاس پی لیا تو اسی دوران اس نے حساب بھی کرنا شروع کیا ہوا تھا.اس نے کہا کہ یہ باغ ہے اتنا بڑا اور اس میں فی درخت تقریباً اتنے پھل ہیں اور تین چار پھلوں کے اندرہی ایک گلاس جوس سے بھر گیا ہے.اگر اس کی قیمت اتنی ہو تو اس باغ کی تو اتنی قیمت بنتی ہے.اور حکومت تو اس سے بہت ہی تھوڑ اٹیکس لے رہی ہے، کم سے کم دس گنا ٹیکس ایسے باغوں کا ہونا چاہئے.جب وہ یہ حساب کر رہا تھا اور لڑکی اس کے لئے بے چاری پھل توڑ کر جوس بنا بنا کر پیش کر رہی تھی.بادشاہ نے کہا بیٹی ! بہت اچھا جوس ہے.مجھے ایک گلاس اور بنا دو.اس نے دوسرا گلاس بنانا شروع کیا تو پندرہ ہیں پھل لگ گئے تب جا کر مشکل سے وہ گلاس بھرا.بادشاہ نے بہت تعجب سے پوچھا کہ بیٹی ! یہ کیا قصہ ہے.ابھی میں نے دیکھا تھا کہ تین
خطبات طاہر جلد۵ 267 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء چار پھلوں کے اندر ہی گلاس بھر گیا تھا.اب پتا لگا ہے کہ پندرہ میں پھل ہو گئے ہیں اور بڑی مشکل سے گلاس بھرا ہے.تو اس نے جواب دیا آپ جو بھی ہیں مگر میں آپ کو ایک بات بتاتی ہوں کہ ملک کی برکت بادشاہوں کی نیت سے ہوا کرتی ہے.جب بادشاہوں کی نیتیں اچھی ہوں اپنی رعایا کے متعلق تو خدا تعالیٰ ملک کی فصلوں میں، اس کے پھلوں میں بہت برکت بخشتا ہے.جب بادشاہوں کی نیتیں بگڑ جائیں تو ملک کی ہر چیز پر نحوست طاری ہو جاتی ہے.اس کے پھل بھی بگڑ جاتے ہیں اس کی فصلیں بھی بگڑ جاتی ہیں یہ ایک ایسا گہر اسبق تھا اس بادشاہ کے لئے کہ اس نے اس کی زندگی میں اور اس کی سوچ میں ایک عظیم الشان انقلابی تبدیلی پیدا کر دی.تو بعض دفعہ بے برکتی کے نتیجہ میں بھی نیتوں کے فساد کا پتہ چلتا ہے.جب عمومی بے برکتی کہیں نظر آئے گی تو کوئی نہ کوئی رخنہ آپ کو دیکھنا پڑے گا، ضرور کہیں نہ کہیں کوئی رخنہ ملے گا.اس لئے پیشتر اس کے کہ زیادہ تفصیل کے ساتھ چھان بین کی جائے.تمام خدمت کرنے والے واقفین سے میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کو اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے کہ اپنے ہنر کے باوجود آپ نے اپنی زندگی جماعت کے سامنے پیش کی تو اس نیکی ، اس قربانی سے پورا پورا فائدہ اٹھائیں ورنہ اگر اس کے باوجود آپ نے دیانت داری سے کام نہ لیا اور یہ سمجھتے ہوئے کہ ہماری محنت ہے اس لئے اس میں سے ہم جتنا چاہیں لیں ہمارا حق بنتا ہے.دوسرے ڈاکٹر لکھ پتی ہیں تو ہم کیوں غربت میں رہیں.اس نیت سے اگر اپنے دل کو طفل تسلی دیتے ہوئے کچھ روپیہ کا نین شروع کیا تو ساری برکتیں آپ کی زندگی سے اٹھ جائیں گی.وقف کا ایک کوڑی کا ثواب بھی نہیں ملے گا.بلکہ الٹا خدا کی پکڑ کے نیچے آجائیں گے.ایسے ڈاکٹر جو فیسوں کے معاملہ میں بد دیانتی کر رہے ہوں.آدھی جیب میں ڈال لی اور آدھی حساب میں لکھی یا ادویات کے معاملہ میں بددیانتیاں کر رہے ہوں یا اخراجات لکھنے کے معاملہ میں بد دیانتیاں کر رہے ہوں.کئی قسم کے امکانات، احتمالات ہیں جن کے ذریعہ ڈاکٹر بددیانتی کرسکتا ہے.ان کو میں کہتا ہوں کہ آپ کا علاج صرف یہ ہے کہ وقف چھوڑ کر باہر چلے جائیں کیونکہ جب خدا نے آپ کو پاکیزہ رزق کمانے کی توفیق بخشی ہوئی ہے تو اسے حرام بنا کر کھانے کا فائدہ کیا ہے؟ نہایت ہی بیوقوفوں والی بات ہے.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے تقسیم ملک سے پہلے ایک دفعہ قادیان میں ہماری ایک بڑی باجی
خطبات طاہر جلد۵ 268 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء نے اپنی نوکر کے لئے کچھ کپڑے سلوائے.اس بے چاری کو یہ پتہ نہیں تھا کہ میرے لئے سلوائے گئے ہیں.وہ چوری کر کے لے گئی اور کسی اور چوری میں وہ پکڑی گئی تو وہ کپڑے بھی بیچ میں سے نکل آئے کیسی بیوقوفوں والی بات ہے.لیکن اس عورت کی بیوقوفی تو نا کبھی میں ہوئی تھی اس کو تو پتہ نہیں تھا کہ یہ کپڑے بغیر چوری کے بھی میرے لئے حلال تھے ، مجھے ہی ملنے تھے مگر وہ ڈاکٹر جو وقف کرتا ہے اپنی زندگی کو اس کو تو پتہ ہے کہ اگر میں وقف نہ کروں تو یہی کمائی میرے لئے حلال ہے میں اپنے چندے دوں میں جماعت کی خدمات اور طریقوں سے کروں، اپنا بھی گھر بھروں اور دوسروں کے بھی گھر بھروں اور بشاشت محسوس کروں.ایسا ڈاکٹر اس نوکر سے بہت زیادہ بے وقوف ہے.جو یہ دیکھنے کے با وجود که حلال رستہ موجود ہے پھر حرام کو اختیار کرتا ہے.نہ اس کے وقف کی کوئی قیمت رہتی ہے اور نہ اس کے روپے کی کوئی قیمت رہتی ہے.ساری کمائی اس کی گندی ہو جاتی ہے.تو سوائے اس کے میں اور کوئی مشورہ نہیں دے سکتا کہ ایسے لوگوں کو ہسپتالوں کو چھوڑ دینا چاہئے.خدا تعالیٰ کے فضل سے میں یقین رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو اس سے بہتر ڈاکٹر مہیا کر دے گا.یہ ناممکن ہے کہ سلسلے کے کام رک جائیں.ایک بات جس کی خدا نے ضمانت دے رکھی ہے وہ یہی ہے کہ سلسلہ کے کام ہمیشہ جاری رہیں گے اور برکتوں کے ساتھ جاری رہیں گے.اس لئے چند ڈاکٹر جن کے دل گندے ہو چکے ہیں ان کے بدلے خدا اگر ان سے زیادہ پاک ڈاکٹر مہیا کر دے تو سلسلہ کے لئے یہ کیسے نقصان کا سودا ہوسکتا ہے.اس لئے یا تو وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں فوری.ورنہ محاسبہ کے وقت پھر ان کو جماعت سے بھی خارج کرنا پڑے گا اور ان کے اوپر جو سرزنش خدا نے مقرر فرمائی ہے وہ ان کے اوپر جاری کرنی پڑے گی.لیکن نہ بھی پکڑے جائیں تو بڑی ہی بیوقوفی کا سودا کر رہے ہیں جو حلال کمائی کے امکانات رکھتے ہوئے بھی بے وجہ حرام کمائی میں منہ مار رہے ہیں اور اپنے ہاتھوں کی حلال کمائی کو اپنے ہاتھوں سے حرام بنا بنا کر کھا رہے ہیں.میں تو سوچ بھی نہیں سکتا اتنی بڑی حماقت کیسے کر سکتا ہے ایک باشعور انسان لیکن کرنے والے کر بھی جاتے ہیں.اس لئے جماعت خواہ دینے والی ہو یا خرچ کرنے والی ہو دونوں پہلوؤں سے ہمیں تقویٰ کے معیار کو بہت بلند کرنا چاہئے کیونکہ اصل زاد راہ ہمارا تقویٰ ہی ہے.تقویٰ رہے گا تو انشاء اللہ دینے والوں کے اموال میں بھی بہت برکت ہوگی اور جو خرچ کے ذمہ دار بنائے گئے ہیں ان کے اموال
خطبات طاہر جلد۵ 269 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء میں بھی بہت برکت ہوگی.ان دونوں کے ذاتی اموال میں بھی برکت ہوگی اور جماعتی اموال میں بھی برکت ہوگی اور غیر معمولی فضلوں اور رحمتوں کی بارشیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوں گی.خدا کی راہ میں کھلے دل کے ساتھ خرچ کرنے والے کبھی نقصان میں نہیں رہتے اور خدا کی راہ میں ہاتھ روک کر اس وجہ سے خرچ کرنے والے کہ سلسلے کے اموال ہیں ان میں زیادہ سے زیادہ احتیاط کی جائے وہ بھی کبھی نقصان میں نہیں رہتے.اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت ان دونوں امور کی طرف متوجہ ہوگی.مجھے خصوصیت کے ساتھ اس لئے یہ تحریک پیدا ہو رہی ہے کہ غیر معمولی طور پر جماعت کے دلوں کو چندے دینے میں فراخی عطا کی گئی ہے.اس کثرت کے ساتھ پاکیزہ روحانی تبدیلیاں نظر آ رہی ہیں کہ انسان دنگ رہ جاتا ہے اور روح سر بسجو د ہو جاتی ہے.ایک تحریک کے بعد دوسری کر کے دیکھی ، دوسرے کے بعد تیسری ، تیسری کے بعد چوتھی.ابھی پہلی تحریک کا حساب بھی نہیں سمٹا ہوتا کہ دوسری تحریک شروع ہو جاتی ہے اور ہر تحریک پر توقع سے حیرت انگیز طور زیادہ جماعت قربانی کرتی چلی جارہی ہے.قابل رشک ہے لیکن تبھی قابل رشک ہے اگر اسے قابل رشک رکھا جائے ہمیشہ کے لئے.اگر اس کے ساتھ تقویٰ کے معیار کو اور بلند کیا جائے ، اگر اس کے ساتھ ساتھ خرچ کرنے والے بھی استغفار کریں اور خدا کا خوف دلوں پر طاری کریں اور کوشش کریں کہ قربانی کرنے والوں کی محبت اور پیار کا ایک پیسہ بھی ضائع نہ ہو.ایسے لوگوں کی کمی بھی نہیں ہے.جب میں یہ بات کہتا ہوں تو کمزوروں کو پیش نظر رکھ کر کہہ رہا ہوں.ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ نعوذ بالله من ذلک جماعت میں ایسے متقی موجود نہیں.ایسے بھی ہیں جن کے متعلق مجھے فکر کرنی پڑتی ہے کہ یہ جماعت کی خاطر اتنی کنجوسیاں کرتے ہیں اپنے نفس کے اوپر کہ اپنے حق بھی مارتے ہیں اور ان کے متعلق کوئی اور بتا دے تو بتا دے ان کی زبان نہیں ہوتی اس معاملہ میں.اس لئے مجھے فکر کر کے ان کی ضرورتوں پر نگاہ رکھنی پڑتی ہے کہ کہیں خدا نخواستہ میری غفلت کے نتیجہ میں ان کو تکلیف نہ پہنچے.تو امر واقعہ یہ ہے یہ بھی اللہ کی عجیب شان ہے کہ جب انسان اپنے اندر کا نگران سخت کر دیتا ہے تو باہر سے شفیق دل بھی ان کے لئے پیدا کرتا ہے.جو باہر سے ان کا خیال کرتے ہیں.وہ اپنا درد نہیں کرتے تو خدا اور خدا کے فرشتے ان کا درد کرتے ہیں اور ان کے اولادوں کے اموال میں بھی برکت بخشتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 270 خطبه جمعه ۴ را پریل ۱۹۸۶ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اور حضرت داؤد علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ دیا ہے.اس کے علاوہ اولیا نے بھی کہا ہے کہ خدا کی خاطر تقویٰ اختیار کرنے والوں اور خدا کی خاطر قربانی کرنے والوں کی سات نسلیں تک بھوکی نہیں مرتیں.( ملفوظات جلد ۴ صفحه ۴۴۴) اتنا لمبا برکت کا اثر ان پر چلتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھی اپنی جماعت کے ساتھ یہی وعدے ہیں جو خدا نے آپ کو دیئے تھے.اس لئے بے خوف ہو کر ان مالی قربانی کی راہوں میں آگے بڑھیں.دیتے وقت بھی اپنے تقویٰ کے معیار بلند کریں اور خرچ کرتے وقت بھی اپنے تقویٰ کے معیار بلند کریں.اللہ تعالیٰ کی لامتناہی ، نہ ختم ہونی والی برکتیں آپ پر نازل ہوں.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: پاکستان میں جو نئی رو چلی ہے مظالم کی وہ اسی طرح جاری ہے اور خصوصیت کے ساتھ جو جماعت کے جوسر کر دہ خدمت کرنے والے ہیں ان کو تکلیف پہنچانے کے لئے حکومت با قاعدہ کوشش کر رہی ہے.چنانچہ ابھی کل ہی پتہ چلا ہے کہ ہمارے امیر ضلع سیالکوٹ چوہدری محمد اعظم صاحب جن کے لئے قبل از گرفتاری ضمانت حاصل کی گئی تھی.ان کی ضمانت حکومت نے منسوخ کروا کر پھر ان کو وہیں کورٹ سے زنجیریں پہنا کر قید خانے پہنچا دیا ہے اور خوشاب کے امیر ضلع کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوا تھا اور بھی ان کی نظر ہے کہ جماعت کے جہاں جہاں اچھے نمایاں کارندے ہیں ان کے اوپر ہاتھ ڈالا جائے بڑی بے وقوفی ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے جتنے بڑے لوگ ہیں یعنی دنیا کی نظر میں جو بڑے کہلاتے ہیں اور خدمت کے لحاظ سے بھی وہ واقعی بڑے بھی ہیں، ان پر ہاتھ ڈالیں گے جماعت کا دل بیٹھ جائے گا.یہ انتہائی بیوقوفوں والا اندازہ ہے.جہاں بھی جماعت کے بڑے لوگ تو چھوڑ کے چھوٹے لوگوں پر بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے جماعت کا دل پہلے سے کئی گنا بڑھ جاتا ہے.ہر تکلیف کے نتیجے میں ہزار ہا لوگ عزم کرتے ہیں کہ ہم خدا کی خاطر یہ تکلیف اٹھائیں گے ، کاش ہم ہوتے تو ہم اٹھاتے.اب ضلع سیالکوٹ میں آپ دیکھیں گے انشاء اللہ ایک نئی زندگی کی لہر دوڑ جائے گی اور میں اندازہ کر رہا ہوں ابھی سے کہ کس قدر وہاں جوش پیدا ہو چکا ہوگا.مجھے خط تو نہیں ملنے شروع ہوئے لیکن آنے شروع ہو جائیں گے.اور وہ گاؤں جو سور ہے تھے بڑی دیر سے، جو غفلت کا شکار تھے شیروں کی طرح اٹھیں گے اب انشاء اللہ.ہر ایک ان میں سے کہے گا کہ، ہمارا امیر
خطبات طاہر جلد۵ 271 جہاں چلا گیا اس سے بڑھ کر ہم اس کے لئے دکھ اٹھانے کے لئے تیار ہیں.خطبه جمعه ۴ برابریل ۱۹۸۶ء یہ بہت ہی بے وقوف حکومت ہے جو مجھتی ہے کہ خدا والوں کو ڈرا دیں گے.ان کی ہر ترکیب نا کام رہے گی.ہر تدبیر جو جماعت کو نا کام کرنے کی یہ سوچیں گے وہ ان کی ناکامی اور ذلتوں میں اضافہ کرتی چلی جائے گی.بہر حال اپنے ان پیارے بھائیوں کے لئے دعا کریں جو خدا کی خاطر تکلیف اٹھا رہے ہیں اور باہر کے لوگ میں جانتا ہوں بڑی دل میں تمنا اور بے قراری رکھتے ہیں کہ کاش ہم بھی ہوتے تو ہم یہ کرتے.مگر وقت ہیں بدلتے رہتے ہیں ایسا بھی زمانہ آئے گا کہ باہر کے لوگوں کو بھی خدا تعالیٰ ان چیزوں کے لئے چنے گا.اسی انگلستان کی سرزمین میں آپ دیکھیں گے کہ جب جماعت ترقی کرے گی تو یہاں بھی بڑے بڑے مظالم ہوں گے.کوئی دنیا کی زمین ایسی نہیں ہے جہاں خدا کی خاطر قربانی کرنے والوں کا خون نہیں ہے گا.کوئی دنیا کی ایسی زمین نہیں جہاں خدا کی خاطر اپنے نفسوں کو آزاد کرنے والوں کے ہاتھوں میں زنجیریں نہیں پہنائی جائیں گی.اس لئے تِلْكَ الأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ ( آل عمران : ۱۴۱) کہ جو باہر والے ہیں ان کی بھی باری آئے گی.لیکن پہلے کام تو کریں، پہلے کچھ پھیلیں، کچھ اپنا مقام پیدا کریں ، پھر باری آئے گی.دودھ پیتے بچے کی تو آزمائش نہیں کی جاتی تو اللہ تعالیٰ آپ کے اندر یہ عزم پیدا کرے اگر واقعی تمنا ہے کہ خدا کی خاطر قربانیاں کریں اور امتحانوں میں پورے اتریں تو پھر وہ مقام حاصل کر لیں جس کے بعد پھر وہ قربانیاں پیش کی جاتی ہیں.گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے چلنا تو سیکھیں پہلے پھر گرنے کی باری بعد میں آئے گی.
خطبات طاہر جلد۵ 273 خطبه جمعها اراپریل ۱۹۸۶ء نفسیر سورة نصر دلوں کی فتح حقیقی فتح - (خطبه جمعه فرموده ا ا ا پریل ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ النصر کی تلاوت کی : إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَتِكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًان پھر فرمایا: (اعصر :۴۲) I میں نے پہلے بھی کئی مرتبہ جماعت کو اس اہم حقیقت کی طرف متوجہ کیا ہے کہ دین کی اصطلاح میں جس چیز کا نام فتح ہے اور جس چیز کو نصرت قرار دیا جاتا ہے وہ دنیا کی اصطلاح میں فتح اور نصرت کہلانے والی چیز سے بالکل مختلف چیز ہے.ان دونوں کے مزاج مختلف ہیں ، ان کی نوعیت مختلف ہے ، ان کے رخ بالکل مختلف ہیں اور ایک کا کردار دوسرے کے کردار سے اتنا بعید ہے، اتنا فاصلہ رکھتا ہے جیسے بعد المشرقین ہو.چنانچہ قرآن کریم نے اس سورۃ میں جو فتح ونصر کا نقشہ کھینچا ہے اس کی ظاہری الفاظ میں جو شکل ظاہر ہورہی ہے اگر اس کی باطنی حقیقوں میں ڈوب کر غور نہ بھی کریں تو ظاہری شکل وصورت ہی دنیا کی فتح ونصر کی ظاہری شکل وصورت سے بالکل مختلف دکھائی دیتی ہے.دنیا میں تو فتح نام ہے
خطبات طاہر جلد۵ 274 خطبہ جمعہا اراپریل ۱۹۸۶ء دوسروں کی زمینوں کا سر کرنا ، ان کے ملکوں میں گھس کر ان کی زمینوں کو تہ و بالا کرنا اور فوج در فوج دوسرے ممالک پر قبضہ کر لینا.قرآن کریم جس فتح کا ذکر فرما رہا ہے اس کا رخ دیکھیں کتنا مختلف ہے.فرماتا ہے يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کہ جس فتح کی ہم بات کرتے ہیں اس میں دشمن جوق در جوق اور فوج در فوج تمہاری یعنی اسلام کی سرزمین میں داخل ہوگا.اس میں بہت سے لطیف اشارے ملتے ہیں جن میں سے بعض کا ذکر میں پہلے کر چکا ہوں اور ایک خصوصیت کے ساتھ آج بیان کرنا چاہتا ہوں کہ اس سورۃ میں جبر کی کلیہ نفی کر دی گئی ہے.يَدْخُلُونَ فِی دِینِ اللهِ اَفَوَاجًا میں ایک تو رخ مختلف ، یہ نہیں فرمایا کہ اسلامی فوجیں دندناتی ہوئی غیروں کی سرزمینیں فتح کر رہی ہوں گی بلکہ فرمایا دشمن کی فوجیں جوق در جوق اور فوج در فوج اسلام کی سر زمین میں داخل ہو رہی ہوں گی اور فوج کشی غیر کی طرف سے اسلام کی طرف ہے اور اسلام کی طرف سے جبراً ان کو گھسیٹ کر لانے کا کوئی تصور ہی اس میں نظر نہیں آتا.ولَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرہ:۲۵۷) میں جس آزادی مذہب اور آزادی ضمیر کا اعلان کیا گیا تھا اس کی عملی تصویر نہایت ہی حسین رنگ میں قرآن کریم نے اس چھوٹی سی سورۃ میں کھینچ دی اور فتح کے شادیانے کیسے بجائے جاتے ہیں کس طرح بیانگ دھل اعلان کئے جاتے ہیں کہ آخر ہم فتح یاب ہوئے ، اس کے متعلق فرماتا ہے: إذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا کہ جب تم یہ عظیم الشان فتح دیکھ تو اس فتح کے شادیانے اور نقارے اس طرح بجاؤ کہ تمہارے ہونٹوں پر خدا کی تسبیح ہو اور تحمید ہو اور بار بار استغفار کر رہے ہو، یہ کہتے ہوئے کہ اے خدا ہم تو اس لائق نہیں تھے کہ جو تو نے ہمیں عطا کیا ، ہماری ذاتی کوششوں سے ہمیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا، جو کچھ ہوا تیری عطا ہے.یہی نہیں بلکہ ہماری غلطیوں کے باوجود ہمیں عطا کیا گیا ہے کیونکہ تسبیح کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ جو کچھ ہے تیری ہی طرف سے ہے اور تو ہی ہے جو غلطیوں سے پاک ہے، تو ہی ہے جس کی تدبیر کامل ہے اور اس میں کوئی رخنہ نہیں اور تیری ہی تدبیر کے ذریعہ فتح حاصل ہوئی اور
خطبات طاہر جلد۵ 275 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء استغفار کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ ہم اس کے باوجود کہ تیری تد بیر غلطیوں سے پاک تھی اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ہم نے غلطیاں کیں.جو نقشے تو نے بنائے تھے اسلام کی فتح کے ان کی اینٹیں رکھنے والے معمار تو ہم تھے مگر ہم نے اینٹیں غلط رکھیں، بار بار نقشے کی خلاف ورزی کی ، بار بار ایسے رخ پر غلطی سے اینٹیں رکھ دیں کہ جس کے نتیجہ میں اس عمارت میں رخنے پیدا ہو سکتے تھے اس لئے ہم استغفار کرتے ہیں.تو ہمیں بخش، ہم اس فتح کے لائق نہیں، ہماری غلطیوں کے باوجود عطا ہونے والی فتح ہے.تو دیکھئے کتنا مختلف رخ ہے اور کتنا مختلف مزاج ہے، کتنے مختلف تقاضے ہیں فتح مند فوجوں کے ساتھ وابستہ.پس جماعت کو دینی فتح کو دنیا کی فتح کے ساتھ باہم دیگر اس طرح ملا نہیں دینا چاہئے کہ اشتباہ پیدا ہو جائے کہ گویا دین کی فتح اور دنیا کی فتح ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.میں سمجھتا ہوں کہ بعض اسلامی مؤرخین نے یہ غلطی کر کے اسلام کو شدید نقصان پہنچایا ہے.جب مسلمان بادشاہوں نے بعض دیگر ممالک کو فتح کیا وہ ان کی سیاسی فتوحات تھیں.وہاں يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ اَفَوَاجًا کا کوئی نقشہ آپ کو نظر نہیں آئے گا.اس کے برعکس وہ ایک سیاسی غلبہ تھا جہاں تلواروں کے زور سے اور تیر و تفنگ کے زور سے بعض فوجیں بعض دوسرے ملکوں میں داخل ہو رہی تھیں.وہاں بحث یہ تو اٹھائی جاسکتی ہے کہ سیاسی اقدار کے لحاظ سے، سیاسی اخلاقی تقاضوں کے اعتبار سے کسی ایک ملک کو کسی دوسرے ملک کے خلاف فوج کشی کا حق تھا کہ نہیں تھا.یہ تو جائز ہے لیکن ان سب جنگوں کو اسلامی جہاد کا نام قرار دینا اور ان سب فتوحات کو اسلامی فتوحات قرار دینا یہ درست نہیں ہے.دراصل اس زمانے میں جو فاتح اسلام تھے وہ تو بزرگ اور اولیاء اور فقیرا اور درویش تھے جو قطع نظر اس سے کہ سیاسی حالات کیا ہیں.دن رات اسلام کی خدمت میں مصروف تھے.ہندوستان کی تاریخ پر ہی نظر ڈال کر دیکھ لیں تو ہندوستان کا مسلمان فاتح تو بابر کو قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی فاتح قرار نہیں دیا جا سکتا.اسلامی فاتح کا نام پانے والے بزرگ تو نظام الدین اولیاء جیسے بزرگ تھے اور ایسے بے شمار لوگ جو دھونی رما کر بیٹھ گئے اور یہ عہد لے کے اپنی ساری زندگی اس عہد کی ایفاء میں صرف کر دی کہ ہم ان جاہلوں کو ، ان اندھیروں میں بسنے والوں کو خدا کی طرف سے علم اور عرفان عطا
خطبات طاہر جلد۵ 276 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء کریں گے اور قرآن کا جاری کردہ نور عطا کریں گے.پس جماعت احمدیہ کو کبھی بھی اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے.آنحضرت عے کو جب اسلامی فتوحات کے ساتھ یہ خوش خبریاں بھی دی گئیں کہ ان فتوحات کے ساتھ ان کے عقب میں لازماً سیاسی فتوحات بھی آئیں گی اور قیصر و کسریٰ کی چابیاں بھی بعد میں آنے والے مسلمان کے ہاتھ میں تھما دی جائیں گی اور یمن کے محلات کے دروازوں کو آپ نے دیکھا اور شام کے سرخ محلات کو اور ایران کے سفید محلات کو اپنی آنکھوں کے سامنے آپ نے دیکھا تو اس کے نتیجہ میں آپ فکرمند ہو گئے.خدا کی تکبیر بھی کی، خدا کی تسبیح وتحمید بھی فرمائی لیکن ایک گہرا فکر آپ کو لاحق ہو گیا.چنانچہ اس فکر کا اظہار آپ نے اس طرح فرمایا کہ ایک موقع پر صحابہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ تم پر نعمائے دنیا کے دروازے کھولے جائیں گے یہاں تک کہ تم اپنے گھروں کو اس طرح سجاؤ گے جیسے خانہ کعبہ کو سجایا جاتا ہے.یہ فرما کر آپ نے اپنے سامنے بیٹھے ہوئے راہ حق کے درویشوں سے فرمایا لیکن سنو تم جو میرے سامنے بیٹھے ہوئے ہو تمہاری حالت ان آنے والے لوگوں سے بدرجہ ہا بہتر ہے ( مسند احمد بن ضبل جلد ۲ حدیث نمبر ۱۹۲۰۵).پس آپ کے نزدیک فتح دین کی فتح تھی ، فتح اخلاق کی فتح تھی ، فتح کردار کی فتح تھی ، فتح اپنے نفس پر غالب آنے کا نام تھا اور وہ نعمتیں ہی نعمتیں تھیں جو روحانی نعمتیں تھیں اور ان کے مقابل پر بعد میں آنے والی دنیاوی فتح سے تعلق رکھنے والی نعمتوں کی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی نظر میں کوئی بھی قیمت نہیں تھی.اسی طرح حضرت ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جن چیزوں سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں ان میں سے دنیا کی زیب وزینت بھی ہے جو تم پر چاروں طرف سے کھول دی جائے گی.اس پر ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ کیا خیر شر کو بھی ساتھ لائے گا یعنی ایک طرف تو یہ خیر کی باتیں ہیں ، خوش خبریاں بھی بیان کی جاتی ہیں دوسری طرف آپ ڈرا رہے ہیں تو کیا خیر شر کو بھی ساتھ لائے گا.روایت کرنے والے بتاتے ہیں کہ اس پر حضور اکرم اے خاموش ہو گئے اور سوال کرنے والے کو جواب نہ دیا.جب ہم نے آپ کے چہرے کو دیکھا تو اس وقت محسوس ہوا کہ آپ پر وحی نازل ہو رہی ہے اور اسی حالت میں آپ نے اپنے ماتھے سے پسینہ پونچھا اور پھر پوچھا کہ وہ سوال کرنے والا کہاں ہے؟ اس پر ہم سمجھ گئے کہ محبت اور پیار سے اس کا نام
خطبات طاہر جلد۵ 277 خطبه جمعها ارایریل ۱۹۸۶ء لے رہے ہیں، پسندیدگی سے لے رہے ہیں، آپ کو سوال پسند آیا تھا اس کا جواب آگیا ہے.تو جب بتایا گیا تو آپ نے فرمایا دیکھو خیر شر کو جنم نہیں دیا کرتی ، خیر سے شر پیدا نہیں ہوتا لیکن تم دیکھتے ہو کہ جب بہار آتی ہے تو بہار میں اگنے والی فصلوں کے ساتھ ایسی جڑی بوٹیاں بھی تو اگ آتی ہیں جن کو کھانے سے لوگ مر جاتے ہیں یا مر سکتے ہیں ( بخاری کتاب الزکاۃ حدیث نمبر : ۱۳۷۲).تو معلوم ہوتا ہے کہ اس وحی میں خدا تعالیٰ نے آنحضرت علیہ کو اس سوال کا یہ جواب سکھایا.تو ظاہری فتح بھی جب مسلمانوں کو نصیب ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں بھی وہ خیر حاصل کر سکتے ہیں.ظاہری فتح کا نام شر نہیں رکھا گیا.شراس بات کا نام رکھا گیا ہے کہ ظاہری فتح کے ساتھ جو انسان کی روحانی زندگی کو مارنے والی اور مہلک جڑی بوٹیاں اگتی ہیں.نعمتوں کے نام پر بعض ایسی چیزیں حاصل ہوتی ہیں جو انسانی زندگی کو تباہ کرنے والی ہوتیں ہیں.اگر ان سے احتراز کرو تو ظاہری فتح بھی ایک رنگ میں دین کے تابع ہو سکتی ہے اور حقیقی نعمت شمار کی جاسکتی ہے.چنانچہ اسی موقع پر آنحضرت ﷺ نے پھر فرمایا کہ دیکھو مومن کو جو مال عطا ہوتا ہے، جو نعمتیں ملتی ہیں وہ نعمتیں بنتی ہیں جب وہ ان سے خدا کے حق ادا کرتا ہے.جب وہ اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے، غریبوں کے اوپر خرچ کرتا ہے، مصیبت زدگان پر خرچ کرتا ہے اور خرچ کی کئی اقسام بتائیں کہ اس طریق پر نعمتیں نعمتیں بھی رہ سکتی ہیں اور عذاب میں تبدیل نہیں ہوتیں.لیکن یہ ایک ثانوی چیز ہے.حقیقی نعمت حقیقی خیر حقیقی خوش خبری اسی بات میں ہے کہ دین کو غلبہ عطا ہو جو اجسام پر غلبہ نہیں ہوتا بلکہ دلوں پر غلبہ پر ہوتا ہے ، وہ دوسروں کی زندگیاں لے کر غلبہ نہیں ہوتا بلکہ دوسروں کو زندگیاں عطا کر کے غلبہ ہوتا ہے.اس لئے اسلام کا غلبہ از سرنو روحانی زندگی کا غلبہ ہے، اسلام کا غلبہ وہ قیامت ہے جس میں شیطان پر موت آتی ہے لیکن سچی اور سعید روحیں نئی زندگی پاتی ہیں.احمدیت کو ہمیشہ اپنی نظریں اس نکتہ کی طرف گاڑے رکھنی چاہئیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہئے ورنہ دنیا کی فتوحات، دنیا کے غلبے، دنیا کے انقلاب ان کو غلط راہوں پر ڈال دیں گے ، ان کی تو جہات کے رخ بدل دیں گے اور ان کو محسوس بھی نہیں ہوگا کہ خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں ان کو عطا فرمائی تھیں وہ کس طرح انہوں نے اپنے ہاتھ سے ضائع کر دیں.آج کل جو پاکستان میں نئے حالات پیدا ہو رہے ہیں اور بظاہر یوں معلوم ہو رہا ہے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 278 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء ایک سیاسی انقلاب کا بیج بویا جارہا ہے، اس کی بنیادیں استوار ہورہی ہیں.میں نہیں کہہ سکتا کہ کس حد تک یہ معاملہ آگے بڑھتا ہے اور کس رنگ میں یہ معاملہ ختم ہوتا ہے لیکن جماعت احمدیہ کو میں یہ توجہ دلا نا چاہتا ہوں کہ ان چیزوں پر لَفَرِح فَخُورٌ (هود:۱۰) والا طریق اختیار نہ کریں.ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر اچھل کے یہ نہ سمجھیں گویا کہ احمدیت کو فتح عطا ہوگئی.ایک پارٹی کی بجائے دوسری پارٹی غالب آجاتی ہے.اس سے جماعت احمدیہ کو فتح کیسے حاصل ہوسکتی ہے ، اس سے اسلام کو کیسے فتح حاصل ہو سکتی ہے.اگر آپ ان چھوٹی باتوں پر راضی ہو گئے تو خدا تعالیٰ نے جو رخ پھیرا ہے نہایت اعلیٰ اقدار کی طرف وہ رخ پھر ان سمتوں میں قائم نہیں رہے گا.وہ جد و جہد کا جو آغاز ہو چکا ہے ہر احمدی کے دل میں اور اس کے اعمال میں ڈھل رہا ہے وہ عزم ،اس میں کمزوری واقع ہو جائے گی.آپ سمجھیں گے کہ بس یہی تھی اللہ تعالیٰ کی فتح کہ ایک حکومت الٹ گئی اور ایک اور دوسری حکومت آگئی.ہرگز یہ فتح نہیں ہے.آپ کی فتح وہ ہے جو جنم لے چکی ہے آپ کے دلوں میں.وہ اسلام کے لئے یہ عزم اور یہ عزم صمیم کہ ہم سب کچھ اسلام کے لئے قربان کر دیں گے لیکن کسی قیمت پر بھی اسلام کی شکست کو برداشت نہیں کریں گے.اس کے نتیجہ میں جو اعمال میں تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں اور عبادتوں کی طرف جو لگاؤ بڑھ رہا ہے اور کسی حد تک آپس کے جھگڑوں سے بھی توجہ بٹ رہی ہے اور ایثار کی روح پیدا ہو رہی ہے یہ فتوحات ہی تو ہیں.اگر آپ نہیں دیکھتے ان کوفتوحات کے طور پر تو پھر اپنی نظر کا علاج کریں.صرف یہ فتوحات ہی نہیں بڑی عظیم الشان فتوحات کی داغ بیل ڈالی جارہی ہے.اگر یہ فتوحات مکمل ہو جائیں اور دنیا میں آنے والے عارضی انقلاب آپ کو ان کے رخ سے ہٹا نہ سکیں ، آپ کا رخ اسی طرح متعین رہے جس طرح مقناطیس کی سوئی کا رخ اس کے مقدر میں ہمیشہ کے لئے لکھا جاچکا ہے، لازماً ہمیشہ وہ Polestar کی طرف یا جہاں بھی مقناطیس کی قوت کا مرکز ہے اسی کی طرف رہے گا اس لئے اسی طرح صدق وصفا کے ساتھ اپنے قبلہ کو متعین کرلیں اور اس کی حفاظت کریں.تو پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ پہلے ہی فتح کے راستے پر گامزن ہو چکے ہیں ، آپ کا ہر قدم اس قبلہ کی طرف آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.آپ اسلام کی فتح کے خواب جو دیکھ رہے تھے وہ آپ کی ذاتوں میں پورا ہورہا ہے.وہ انقلاب عظیم برپا ہورہا ہے، وہ جماعت تیار ہو رہی ہے جس نے بالآخر اسلام کو دنیا میں پھیلا دیتا ہے.اس پر راضی رہیں اور اس کی قدر کریں اور اس پر خدا کی حمد کے
خطبات طاہر جلد ۵ 279 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء گیت گائیں اور استغفار سے کام لیں کیونکہ حقیقت میں یہی فتح ہے جس نے بچی فتح اسلام کو عطا کرنی ہے.اگر اس سے توجہ ہٹ گئی تو پھر اور طرف آپ کے رخ پھر جائیں گے.پھر آپ کے اوقات میں غیر اللہ کے حصے بڑھنے شروع ہو جائیں گے.مجھے تو یہ بھی خوف لاحق ہوا کہ ایک ایسا وقت بھی جماعت پر گزرا ہے ابتلا کا جس میں چونکہ سیاست میں حصہ لے ہی نہیں سکتے تھے اس لئے وہ لوگ جو پہلے سیاست میں لذتیں حاصل کرتے تھے انہوں نے دین کی طرف توجہ کی اور اپنے وقت دین پر قربان کرنے لگ گئے.مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ خدانخواستہ اگر سیاست احمدیوں پر دوبارہ کھولی گئی اور خدا کی تقدیر ایسا کرسکتی ہے تو پھر دوبارہ کہیں وہی غلط چسکے اور بگڑے ہوئے مزاج نہ پیدا ہو جائیں اور جو وقت احمدیت کے لئے دیا جاتا تھا کہیں نعوذ بالله من ذالک پھر سیاست میں نہ صرف ہونا شروع ہو جائے.کچھ نہ کچھ حصہ سیاست کا ایمان سے بھی تعلق رکھتا ہے اس میں کوئی شک نہیں کیونکہ اگر حب الوطن ایمان ہے تو حب الوطن کی خاطر سیاست کی اصلاح، سیاسی صحت مند دلچسپیوں میں کچھ نہ کچھ حصہ لینا یہ ایمان بھی بن سکتا ہے ایمان کا بھی ایک پہلو کہلا سکتا ہے ، یہ کرنے والے کی بات ہے کہ کس نیت سے کرتا ہے اور کس رنگ میں کرتا ہے لیکن امکان موجود ہے.لیکن اگر سیاست اس طرح کھینچے جس طرح میٹھا مکھی کو کھینچتا ہے یا بعض مکھیوں کو گند کھینچتا ہے اور مغلوب کر لے اور دین ایک ثانوی چیز نظر آنے لگے اور سیاسی نمبر داریاں اور سیاسی رعب اور سیاسی حیثیتیں بڑی ہو کر دکھائی دینے لگیں تو پھر یہ بہت ہی نقصان کا سودا ہوگا اس لئے ایک نہیں کئی قسم کے فکر بھی ان تبدیلیوں کے نتیجہ میں مجھے دامن گیر ہو گئے ہیں اور میں جماعت کو ابھی سے متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ جو بھی تبدیلی ظاہر ہو اس سے اپنے کردار پر غلط اثر نہ پڑنے دیں.جو راہیں آپ نے متعین اپنے لئے کرلی ہیں وہ سب سے اچھی راہیں ہیں ، ان سے بہتر کوئی راہ نہیں.بظاہر جن ذلتوں کو آپ پر وارد کیا گیا ہے وہ عزتوں کے مقام ہیں، وہ شرف کے مرتبے ہیں.انہی میں اپنی عزتیں سمجھیں اور انہی میں شرف کو ڈھونڈیں اور ہرگز دنیا وی عزتوں کو کوئی اہمیت نہ دیں، اپنے دلوں پر اپنے نفوس پر ان کو غالب نہ آنے دیں.یہ عہد باندھ کر ، آنکھیں کھول کر آگے بڑھیں.پھر جو نمبنی تعلقات ہیں سیاست کے ساتھ اور جو ایمانی تقاضوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں ان کو سرانجام دینا تو ہر گز اسلام کے یادین کے خلاف نہیں ہے.ان شرائط کے ساتھ ان پابندیوں کے
خطبات طاہر جلد۵ 280 خطبہ جمعہ اراپریل ۱۹۸۶ء ساتھ حصہ رسدی کچھ نہ کچھ وقت حب الوطن کی خاطر ہر احمدی کو اپنے اپنے وطن میں دینا ہوگا اور جو وقت کی قربانیاں ہیں وہ بھی کرنی ہوں گی لیکن دین بہر حال غالب ہے.دین کو بہر حال فضیلت حاصل ہے، سیاسی تقاضوں کو ہرگز اجازت نہ دیں کہ آپ کے دین کی صورت بگاڑ سکیں کسی رنگ میں بھی اس کے نقش کو خراب کر سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے مخاطب کر کے صاف لفظوں میں فرمایا ہے انا 66 الفتاح افتح لك.تری نصرا عجیبا و يخرون على المساجد میں فتاح ہوں.فتاح کہتے ہیں وہ ذات جو اندھیروں کو روشنی میں پھاڑ کر تبدیل کر دیتی ہے جو جہالت کو علم میں بدل دیتی ہے اور جو معاملات کو کھول دیتی ہے اور قضا جاری کرتی ہے.چنانچہ فتح الله علیہ کا ایک معنی عربی کی لغت کی رو سے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے اس کو علم وعرفان عطا کیا اور ایک معنی اس کا یہ بھی ہے کہ میں غلبہ عطا کرنے والا ہوں یعنی شرف اور بزرگی اور علم کی چابیاں رکھتا ہوں، ان کے دروازے کھولنے والا ہوں، روشنی کے باب کھولنے والا ہوں اور غلبہ بھی عطا کرنے والا ہوں.لیکن کس قسم کا غلبہ؟ فرمایاتری نصرا عجیبا.اے میرے پیارے بندے جو میں نصر تجھے عطا کرنے لگا ہوں وہ عام دنیا کی نصر سے مختلف ہوگی تری نصرا عجیبا تو عجیب ہی قسم کی نصرت دیکھے گا میری طرف سے اور وہ کیا ہے؟ ویخرون على المساجد وہ نصرت اس طرح ہوگی کہ احمدی اپنی مساجد پر اپنی سجدہ گاہوں پر اوندھے منہ گر جائیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو فتح ونصر کی تصویر اس وقت کھینچ کر دی گئی تھی اور یہ بتایا گیا تھا کہ ہم اس طرح کی فتح تمہیں عطا کرنے والے ہیں وہ فتح تو آپ کو حاصل ہو رہی ہے.جس کو خدا فتح کہ رہا ہے جس کو نصر عجیب قرار دے رہا ہے اس پر اگر آپ راضی نہ ہوں اور ادنی فتوحات کی طرف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھیں اور شادیانے بجائیں کہ احمد للہ یہ فتح حاصل ہوگئی تو بڑی ناقدری کرنے والے ہوں گے.یہ تو ایسی ہی بات ہوگی جیسے کوئی ہیرے اور جواہر پھینک کر کوئلے اور پتھر چن لے اور ان پر نازاں ہو جائے.پگلیاں تو ایسی حرکتیں کرتی ہیں مگر عقل والی عورتیں تو ایسا نہیں کیا کرتیں.وہ تو ہیرے جواہروں کو سینہ سے لگاتی ہیں اور پتھروں کو چھینکتی ہیں.پگلیوں کو آپ نے دیکھا
خطبات طاہر جلد۵ 281 خطبہ جمعہ ا ار اپریل ۱۹۸۶ء ہو گا وہ بے چاری بعض دفعہ اپنے ہیرے جواہر خود پھینک دیتی ہیں اور پتھر چن کر اور کوئلے اٹھا کر ان سے اپنے آپ کو سجانے لگتی ہیں.تو دنیا والوں کو سجانے دیں اپنے آپ کو ان چیزوں سے آپ کو دنیا والوں سے کیا غرض ہے.ان کو اگر پتھروں میں زینت نظر آتی ہے، اگر ان کو کوئلوں میں حسن دکھائی دیتا ہے تو کوئی زبردستی نہیں ہے جبراً ان کو آپ نہ اس سے روک سکتے ہیں نہ آپ کو یہ حق حاصل ہے.ان کو لطف اٹھانے دیں ان باتوں کا لیکن یہ آپ کو حق نہیں ہے کہ خدا نے جو آپ کو ہیرے عطا فرمائے ہیں اور خدا نے جو جواہر نازل کئے ہیں آپ ان کو ان پتھروں اور ان کوئلوں سے تبدیل کر لیں.اس لئے اپنے خزانوں کی حفاظت کریں، ان خزانوں کی حفاظت کریں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ہزاروں سال سے جو مدفون تھے اب خدا نے میرے ذریعہ ان خزانوں کو ظاہر کیا ہے اور میں ان کو بانٹ رہا ہوں.کیسا پیارا نقشہ کھینچا ہے.تری نصرا عجیبا و یخرون على المساجد ایسی عجیب نصر دیکھو گے تم کہ اس وقت خدا کے بندے اوندھے منہ سجدہ گاہوں پرگر پڑیں گے اور ساتھ یہ فرمایا، اس تحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور ایک الہام میں چند دفعہ تکرار اور کسی قدر اختلاف الفاظ کے ساتھ فرمایا کہ میں تجھے عزت دوں گا اور بڑھاؤں گا اور تیرے آثار میں برکت رکھ دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے“ آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد ۴ صفحه : ۳۴۲) پس بادشاہوں کو دیکھئے ایک ثانوی حیثیت دی گئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کے کپڑوں میں تو لعل و جواہر سکے ہوئے نہیں تھے، وہ تو کمخواب کے کپڑے نہیں تھے، وہ تو ریشم کے کپڑے نہیں تھے، وہی سادہ کپڑے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زیب تن فرمایا کرتے تھے وہ کپڑے ویسے ہی تھے بلکہ مدت کے ساتھ وقت کے گزرنے کے ساتھ انہوں نے بوسیدہ ہی ہونا تھا لیکن فرمایا کہ جن کپڑوں میں یہ عبادت گزار بندہ رہتا ہے.میرے نزدیک ان کی قیمت ہے ان کپڑوں میں میں برکت رکھوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.کتنی عظمت ہے نیکی اور تقویٰ کو اور اس کے مقابل پر بادشاہتوں کو کس طرح دست بستہ ان کے سامنے دکھایا گیا ہے.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد۵ 282 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء ” میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں بیچ پر ہوں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے ( یعنی سچ کے میدان میں.یادرکھیں آپ کی فتح سچ کے میدان میں ہے ) اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں“ کتنا عظیم الشان کلام ہے جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں.دور بین نظر نے بتایا کہ خدا کے فضل کے ساتھ آپ کے ساتھ بھی یہ وعدہ قائم ہے.اس میں عظیم الشان پیش گوئی ہے اور بہت ہی لطیف اور گہرا کلام ہے ”جہاں تک میں دور بین نظر سے دیکھتا ہوں ایک عظیم الشان خوش خبری ہے کہ مدتوں تک نسلاً بعد نسل جماعت احمد یہ سچائی پر قائم رہے گی اور یہ بھی بتادیا گیا.کہ اگر تم دنیا کو اپنے قدموں کے نیچے دیکھنا چاہتے ہو تو دنیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے قدموں کے نیچے آئے گی.اس لئے تمہارے قدم بھی اگر اسی سچائی پر ہوں گے تو تب دنیا تمہارے قدموں کے نیچے آئے گی ورنہ نہیں آئے گی.تو ادنی خواہشات دنیا کی رکھنے والے جو دنیا کی فتوحات پر راضی ہونا چاہتے ہیں ان کو بھی باندھ کر ، ان کو بھی مقید کر کے سچائی کے قدموں پر لا کھڑا کیا گیا تمہیں بھی اگر فتوحات حاصل ہونی ہیں تو اسی طرح فتوحات حاصل ہونی ہیں کیونکہ آئندہ دنیا کا نقشہ اسی طرح کھینچا گیا ہے.آئندہ دنیا کا مقدر اسی طرح تعمیر ہو گا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کے تحت اقدام آئے.فرمایا:: اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے.اور آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اس مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے.ہر یک وہ شخص جس پر تو بہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں.کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا
خطبات طاہر جلد۵ 283 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء کا احساس نہیں“.(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۳۰) حضرت رسول اکرم علیہ لفظ فتح کو ایک اور عظیم الشان رنگ میں بھی استعمال فرماتے ہیں.حضرت ابن عمر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا مَنْ فُتِحَ لَهُ مِنْكُمُ بَابُ الدُّعَاءِ فُتِحَتْ لَهُ، اَبْوَابُ الرَّحْمَةِ - ( ترندی - کتاب الدعوات حدیث نمبر : ۳۴۷۱) کہ تم میں سے جس پر دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیئے گئے.پس فتح کا اس سے بہتر تصور نہیں باندھا جاسکتا.پس اے احمد یو! تمہیں مبارک ہو کہ اس دور ابتلاء نے تم پر دعا کے دروازے کھول دیئے.وہ گھر جو دعاؤں سے نا آشنا ہو چکے تھے وہ گھر بھی دعاؤں کی آماجگاہ بن گئے.وہ دل جو دعاؤں سے غافل تھے ان کی گہرائیوں سے بلکتی ہوئی، درد میں ڈوبی ہوئی دعائیں اٹھتی ہیں.وہ آنکھیں جو آنسوؤں سے نا آشنا تھیں اس دور ابتلاء نے ان آنکھوں کو آنسو بخشے.یہ ایک فرضی قصہ نہیں ، ایک ایسی حقیقت ہے جو آج تاریخ کے پردوں پر ایسے حروف میں لکھی جا رہی ہے جو انمٹ حروف ہیں.بکثرت احمدیوں کے ایسے خطوط مجھے ملے ہیں جو لکھتے ہیں کہ آپ سوچ نہیں سکتے کہ ہمارا دل پہلے کیسے منجمد دل تھا.کبھی خدا کے نام پر اس میں تحریک پیدا نہیں ہوتی تھیں ،کبھی جنبش نہیں آتی تھی کبھی ہماری آنکھیں اللہ کا نام لے کر تر نہیں ہوتی تھیں اور اب تو حالت یہ ہے کہ بات بات پر رونا آتا ہے، خدا کے ذکر پر آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی ہے.دعاؤں کے دروازے جس قوم پر کھول دیئے گئے ہوں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ فرماتے ہیں کہ تم پر خدا کی رحمتوں کے دروازے کھولے جاچکے ہیں.پس وہ قوم جس پر خدا کی رحمتوں کے دروازے کھول دیئے گئے ہوں اگر وہ دنیا کی ادنیٰ فتوحات سے متاثر ہوکر ان کے سامنے جھکنے لگے اور ان کے رعب کو قبول کرنے لگے تو وہ بڑی ہی بدقسمت لوگ ہونگے.اس لئے خدا کی رحمتوں کی قدر کریں ، خدا کے فضلوں کی قدر کریں ، ان کو اپنے سینے سے لگائے رکھیں اور یہ عہد کریں کہ اگر خدا ان حالات کو بدل بھی دے گا تو یہ دولتیں جو آج ہمیں نصیب ہوئی ہیں ان کو ہم اپنے سینے سے چمٹائے رکھیں گے.ان صحابہ کی طرح جس نے اسلام کے علم کی حفاظت کی خاطر اپنے بازو کٹوائے ، اپنی گردنیں کٹوائیں اور جب بازو نہیں رہے تو دانتوں میں ان
خطبات طاہر جلد۵ 284 خطبہ جمعہ ا اراپریل ۱۹۸۶ء علموں کو تھام لیا اور گرنے نہیں دیا جب تک ان کی گردنیں نہ کٹیں اور سرنہ لڑھک گئے.اس طرح اے خدا ہم ان تیری رحمتوں اور فضلوں کی حفاظت کریں گے جو اپنی راہ میں پگھلنے والے دلوں کی صورت میں تو نے ہم پر عطا کئے.وہ باب رحمت جو تو نے کھولے ہیں ، اے خدا وہ دن ہم پر کبھی نہ لانا کہ ہم اپنے ہاتھوں سے ان بابوں کو بند کرنے والے ہوں.ان دروازوں کو اور کھول دے اور وسیع کر دے! ہر سمت سے ہر موسم میں تیری رحمت اور فضل کی ہوائیں ہم پر چلنے لگیں ہماری سمت میں جاری ہوں اور تیری برکتوں کی بارشیں ہم پر نازل ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی جمعہ کے معابعد سنتوں سے قبل میں چند نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.سب سے پہلے تو برادرم مکرم پر و فیسر خلیل احمد صاحب ناصر کی نماز جنازہ ہے.یہ اولین واقفین زندگی میں سے تھے، خصوصاً اس دور کے واقفین میں جب یہ دار المجاھدین قائم کیا گیا اور یورپ میں تبلیغ کے لئے خاص طور پر نو جوانوں کو پکارا گیا.ان میں سامنے آنے والوں میں یہ پہلے تھے جنہوں نے نام درج کروایا.بہت ہی خلیق، علم دوست اور بہت غیر معمولی ذہانت رکھنے والے تھے.سلسلہ سے بہت محبت اور پیار تھا اگر چہ بعض مشکلات کی وجہ سے وقف کے تقاضے کو من وعن نہیں نباہ سکے اور زندگی کے آخری حصہ میں با قاعدہ واقفین کی فہرست میں شامل نہیں رہے لیکن ایسا اجازت سے کیا.بھاگ کر یا باغی ہو کر نہیں اور اس کا بھی دل پر اتنا بوجھ تھا کہ گزشتہ سال ان کا ایک بہت ہی درد ناک خط مجھے موصول ہوا کہ میں اتنا تکلیف میں ہوں، دن بدن میرا یہ احساس بڑھتا جا رہا ہے کہ اگر چہ خلفاء نے مجھ سے شفقت کا سلوک فرمایا، مجھے قربانیوں سے محروم بھی نہیں رکھا اور دینی خدمت لینے کی اجازت بھی دی جماعت کو حسب توفیق حصہ بھی لیتا رہا لیکن پھر بھی میں اپنے آپ کو مجرم سمجھ رہا ہوں کہ جن وقف کی زنجیروں میں میں نے باندھا تھا اب میں ان میں بندھا ہوا نہیں ہوں.اس لئے میری ایک تمنا ہے کہ میرے مرنے سے پہلے اپنے ہاتھ سے مجھے ایک خط لکھ دیں کہ میں تمہیں دل سے معاف کرتا ہوں اور شرح صدر کے ساتھ تمہاری اس حرکت کو نظر انداز کر کے تمہارے لئے دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے.چونکہ میں جانتا تھا کہ بڑی خدا تعالیٰ کے فضل سے فدائی روح رکھتے تھے اور ہمیشہ جب بھی خدمت کے لئے بلایا گیا انہوں نے لبیک کہا اور پورے تن من دھن سے فدا ہوئے ہیں.میں نے پھر
خطبات طاہر جلد۵ 285 خطبہ جمعہ ا ار اپریل ۱۹۸۶ء ان کو اس قسم کی تحریر لکھ دی اور بہت ہی پھر خوشی اور تسکین کا خط آیا اور عجیب بات ہے کہ اس کے تھوڑی دیر بعد ہی پھر ان کو یہ مہلک بیماری ہوگئی جس کو ڈاکٹروں نے کہا کہ کینسر ہے اور اب اس سے بچنا محال ہے اور اللہ کا فضل ہے کہ اس مرض الموت میں تھے کہ اس سے پہلے پہلے ان کے دل میں یہ تحریک بھی پیدا ہوگئی اور میری طرف سے ان کو جواب بھی مل گیا.لیکن اس مرض میں بھی وہ جو پہلے وعدے کئے ہوئے تھے خدمت دین کے ان کو نبھایا.بعض لیکچرز میں شمولیت کا عہد کیا ہوا تھا، ان میں اس بیماری کی حالت میں بھی ہسپتال سے نکل کر گئے اور بالکل پرواہ نہیں کی تکلیف کی.ان کے لئے بطور خاص دعا کی تحریک کرتے ہوئے چندا اورمخلصین کے جنازے بھی ہیں جو اسی جنازے کے ساتھ پڑھائے جائیں گے.مکرمہ شگفتہ رانی صاحبہ بنت مکرم چوہدری عبدالعزیز صاحب، چھوٹی عمر میں بے چاری وفات پا گئیں ، دل کا دورہ پڑا ہے ان کو.ابوظہبی کے عبدالعزیز صاحب اچھے مخلص دوست ہیں ان کی بیٹی تھی جوان جو فوت ہو گئیں.مکرم محمد منیر ہاشمی صاحب ریٹائر ڈ ڈپٹی پوسٹ ماسٹر ایبٹ آباد.یہ ہمارے خدمت درویشاں کے پرانے کارکن ہیں مخلص مختار احمد ہاشمی ان کے والد.مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری محمد عظیم صاحب باجوہ بڑے معروف ہیں جماعت میں ، خدا تعالیٰ کے فضل سے جب تقسیم ہند کے دوران خطرات تھے مسلمانوں کو تو قادیان سے اردگرد کے دیہات میں جا کر مسلمانوں کا دفاع کرنے میں انہوں نے عظیم الشان خدمات سرانجام دی ہیں اور اس قدر دلیری کے ساتھ انہوں نے مسلمان دیہات کا دفاع کیا ہے کہ وہ تو Legends بن گئی ہیں بڑی حکمت کے ساتھ اور بڑی دلیری کے ساتھ.سارا خاندان ہی خدا کے فضل سے مخلص ہے لیکن یہ پہلو ان کا خاص ایسا تھا جو ان کو امتیاز بخشتا ہے.تو ان سب کی نماز جنازہ بعد نماز جمعہ ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 287 خطبه جمعه ۱۸ر ایریل ۱۹۸۶ء قَدَمَ صِدْقٍ کی تفسیر ہمیشہ صدق پر قدم ماریں خطبه جمعه فرموده ۱/۱۸اپریل ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن) محب تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ الرُ تِلْكَ أَيْتُ الْكِتَبِ الْحَكِيمِ أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قَالَ الْكَفِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسْحِرٌ مُّبِينٌ (يونس: ١-٣) اور پھر فرمایا: بسم اللہ کے علاوہ جو دو آیات ہیں ان کا مطلب یہ ہے، انسر میں ہوں اللہ خوب دیکھنے والا.تِلْكَ أَيْتُ الكِتبِ الْحَكِيمِ یہ آیات ایک بہت ہی حکمت والی کتاب کی آیات ہیں.کیا لوگوں نے اس بات پر تعجب کیا ہے، کیا لوگوں کے لئے یہ بات باعث تعجب ہے کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص پر وحی کرنی شروع کر دی، ایک شحض کو اپنی وحی کے لئے چن لیا اور تھا وہ اس سے پہلے انہی میں سے.کس مقصد کے لئے اُسے وحی کی خاطر چنا گیا ، وحی میں کیا کہا گیا ہے اَنْ اَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا اَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَرَ بِهِمْ کہ لوگوں کو تو ڈراؤ مگر اُن میں سے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اُن کو خوشخبری دو کہ اُن کا قدم اُن کے خدا کے نزدیک صدق
288 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء خطبات طاہر جلد۵ کا قدم ہے انہیں اللہ کی نظر میں سچائی کا قدم عطا فرمایا گیا ہے.قَالَ الْكَفِرُونَ إِنَّ هَذَا لَسْحِرٌ مُّبِین کا فر یہ بات سن کر کہتے ہیں.اِنَّ هَذَا لَسْحِرٌ مُّبِينٌ یہ تو یقیناً ایک بہت بڑا کھلا کھلا جادوگر ہے.اس آیت پر غور کرنے سے جس میں ایک تعجب کا اظہار بھی پایا جاتا ہے.انسان خود ایک قسم کے تعجب میں مبتلا ہو جاتا ہے.آكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا میں ایک تو وہ تعجب ہے جو کافروں کو اس واقعہ پر ہوا اور ایک اس طرز کلام میں ان پر تعجب ہے کہ تم پر تعجب ہے، تمہاری عجیب حالت ہے اس بات کو سمجھ نہیں سکتے کہ یہ کیسا واقعہ ہو گیا ہے لیکن اس کے علاوہ ایک اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جہاں تک مضمون کا تعلق ہے بظاہر اس مضمون کا جادو سے کوئی تعلق نہیں.مثلاً کسی انسان کا یہ کہنا کہ تم لوگوں کو میں ڈراتا ہوں تو ہلاکت سے ان بدیوں کے نتیجے میں جو تم میں پیدا ہو چکی ہیں اور وہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں اُن کو خوش خبری دیتا ہوں کہ اُن کا قدم اُن کے رب کے نزدیک سچائی کا قدم ہے.اس اعلان کا جادو سے کیا تعلق ہے؟ اس کے نتیجے میں اُن کا حیرت میں مبتلا ہو جانا اور یہ اعلان کرنا کہ اِنَّ هَذَا لَسحِرٌ مُّبِينٌ یہ اعلان کرنے والا تو بہت ہی بڑا گھلا کھلا جادوگر ہے.جب اس مضمون پر ہم غور کرتے ہیں تو بہت ہی لطیف اور حکیمانہ مضمون نگاہ کے سامنے اُبھرتا ہے اور ساتھ ہی دل بے اختیار یہ گواہی دیتا ہے کہ یقینا یہ کتاب حکیم ہی کی آیات ہیں بہت بڑی گہری حکمت والی کتاب کا مضمون ہے.سب سے بڑا تعجب تو یہ تھا کہ رَجُلٍ مِنْهُمْ ایک شخص جو ان لوگوں میں سے تھا اسے اللہ نے وحی کے لئے چن لیا ہے.وہ سوسائٹی جس میں انبیاء تشریف لاتے ہیں وہ تو فساد کا گڑھ بن چکی ہوتی ہے.جھوٹ اس میں اس طرح پنپتا ہے جیسے شاداب زمینوں میں سبزیاں پنپتی ہیں.ہر طرف گندگی، فساد، جھوٹ ، دغا بازی، دجل اس کی نشو و نما ہو رہی ہوتی ہے.اس زمین سے ایک کلمہ طیبہ کا نکل آنا، ایسی روئیدگی کا نمودار ہونا جو آسمانی روئیدگی ہو یہ تو واقعی بڑے تعجب کی بات ہے.تو پہلا تعجب تو یہ ہے کہ اَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِّنْهُمْ ان جیسے لوگوں میں سے خدا نے وحی کے لئے ایک بندہ کو چن لیا اور پھر ایسا چنا کہ جو ان جیسے لوگوں میں ویسی ہی تبدیلیاں پیدا کر رہا ہے جیسی اس کے اندر خدا کا ہاتھ لگنے کے نتیجے میں لوگ دیکھ رہے ہیں.یہ ہے وہ کھلا کھلا جادو جس کی وجہ سے ان کی
خطبات طاہر جلد۵ 289 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۶ء عقلیں ورطۂ حیرت میں ڈوب گئیں.یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ ہم میں سے ایک آدمی نکلے اور اتنا مقدس ہو جائے ، اتنا عظیم الشان ہو جائے کہ خدا کے پیار کی نگاہیں اس پر پڑنے لگیں اور وحی کے لئے خدا تعالیٰ اسے مختص فرمالے، مصطفی بنالے مرتضے بنالے اور پھر وہ آگے سے یہ جادو دوسروں پر چلانے لگے.یعنی اُسی گندی سوسائٹی سے گندے لوگوں کو ہاتھ میں لے اور ان کی کایا پلٹ دے اور وہ جن کا قدم ہمیشہ جھوٹ پر پڑا کرتا تھا، جن کی ہر روش جھوٹ کی روش ہوا کرتی تھی ، جن کا معاشرہ جھوٹا تھا، جن کی عدالتیں جھوٹی تھیں، جن کی زندگی کا ہر پہلوان کے اقتصادیات ، اُن کی بول چال ، ان کی سیاست ، ان کا رہن سہن ، ہر چیز جھوٹ پر مبنی تھی اس پر ہاتھ ڈالا محمد مصطفی ﷺ نے اس سوسائٹی کو ایسا تبدیل فرمایا کہ جو بھی اس پر ایمان لاتا ہے اس کا قدم خدا کے نزدیک قَدَمَ صِدْقٍ بن جاتا ہے.عِنْدَ رَبِّهِمْ نے اُس صدق کے مضمون کو کہیں سے کہیں پہنچا دیا ہے یعنی سوسائٹی کی نظر میں اچھے نہیں وہ صرف.اتنا گہرا صدق ہے، اتنا حقیقی صدق ہے کہ آسمان سے ان کا رب یہ گواہی دیتا ہے کہ اُن کا قدم صدق پر پڑ رہا ہے.صدق کے سوا ان کا قدم کسی اور چیز پر نہیں پڑ سکتا.اب سوال یہ ہے کہ یہ قَدَمَ صِدْقٍ ہے کیا چیز اور کیسے نصیب ہوتا ہے؟ کن لوگوں کو نصیب ہوتا ہے؟ یہ تو اللہ تعالیٰ نے یہاں کھول کر رکھ دیا کھول کر اس مضمون کو بیان فرما دیا کہ محمد مصطفیٰ یا کچی وحی پانے والوں کے غلاموں کو یہ قَدَمَ صِدْقٍ عطا ہوا کرتا ہے اور چونکہ یہ ایک ایسی حیرت انگیز تبدیلی ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.اس لئے یہ قَدَمَ صِدْقِ اس آقا کے صدق پر سب سے بڑا گواہ بن جاتا ہے جس کے قدموں کے طفیل ان سروں کو جو ان قدموں کو چھوتے تھے صرف ان کو ہی صدق عطا نہیں ہوا، ان کے قدموں کو بھی صدق عطا ہو گیا.کتنا بلند مقام ظاہر ہوتا ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا یہ نہیں فرمایا کہ ہم نے محمد مصطفیٰ کو قَدَمَ صِدْقٍ عطا فرمایا ہے.فرمایا ہم نے محمد مصطفیٰ کے غلاموں کو قَدَمَ صِدْقٍ عطا فرما دیا ہے.پس سب سے بڑی گواہی آقا کی سچائی کے لئے اس کے غلاموں کے قدم ہیں جو ہمیشہ صدق پر پڑتے ہیں.آج بھی بعینہ یہی صورت ہے.آج بھی احمدیت جو مختلف دنیاؤں میں جادو جگا رہی ہے اور گندی سوسائٹیوں سے لوگ نکل کر آتے ہیں اور حیرت انگیز طور پران میں پاکیزگی کی علامتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں.یہی سب سے بڑی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کی دلیل ہے اور
خطبات طاہر جلد۵ 290 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء اگر یہ دلیل کمزور ہوئی تو جماعت احمد یہ اس کی ذمہ دار ہوگی.جماعت احمد یہ خدا کے حضور اس کے لئے جوابدہ ہوگی.جب تک آپ قَدَمَ صِدْقٍ اختیار نہیں کرتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صدق کی گواہی دنیا پر ثابت نہیں کر سکتے اور اگر دنیا آپ کے قدم کو دیکھ کر ٹھوکر کھائے گی تو آپ بھی خدا تعالیٰ کے حضور اسی طرح جوابدہ ہوں گے.اس لئے ضروری ہے کہ ہم معلوم کریں کہ یہ قَدَمَ صِدْقٍ عطا کیسے ہوتا ہے.قَدَمَ صِدْقٍ کا تعلق یہ تو ایک بالکل واضح اور کھلی بات ہے نظر کی صفائی اور نظر کی سچائی سے ہے.جب تک نظر صاف اور ستھری نہ ہو ، جب تک نظر کچی نہ ہو قَدَمَ صِدْقٍ عطا ہو ہی نہیں سکتا.قدم تو ایک اندھی چیز ہے.قدم تو پیروی کرتا ہے اس نور کی جو نور نظر کہلاتا ہے.اگر وہ نور قدموں کی رہنمائی کر رہا ہے تو ہمیشہ وہ قدم صحیح جگہ پڑیں گے.دیکھیں وہ قدم جو دن کو صحیح رستہ پر پڑتے ہیں کیچڑ کی پہچان خشک رستے سے کر لیتے ہیں، صاف رستے کو غلاظت سے ممتاز کر کے دکھاتے ہیں تو اس کی وجہ نور نظر ہی ہے.دن کو چونکہ نور نظر واضح ہوتا ہے اس لئے قدم ہمیشہ سچائی پر پڑتا ہے.لیکن رات کے دھند لکے میں اور جوں جوں یہ اندھیرا گہرا ہوتا چلا جائے انسان کے لئے یہ امکان یہ احتمال بڑھتا چلا جاتا ہے کہ اس کا قدم غلط جگہوں پر ہی پڑے اس لئے براہ راست قدم صدق کا نور نظر سے تعلق ہے.جب تک نور درست نہ ہو اس وقت تک قدم درست نہیں ہو سکتے.اس لئے وحی سے بھی اس کا تعلق ہے.ساری چابی اس معمے کی ان الفاظ میں تھی.أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ.اگر محمد مصطفی عملے کو وحی کا نور عطا نہ ہوتا تو ہر گز یہ کثرت کے ساتھ قَدَمَ صِدْقٍ جو عطا ہوئے آپ کے غلاموں کو یہ عطا نہیں ہو سکتے تھے.وہ نور ہے جس نے آپ کی ذات کو نور بنا دیا اور قرآن کریم میں متعدد جگہ یہ ذکر ملتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نور بن چکے تھے.وہ کتاب جو آپ پراتاری گئی وہ بھی نور تھی اور وہ کتاب جس پر اتاری گئی وہ بھی نو رتھا.جس کا مجسم وجود نور ہو چکا تھا اور یہ وحی کی برکت سے ہے.لیکن یہ برکت آگے آپ کے غلاموں کو عطا ہوسکتی تھی اور آپ نے عطا فرمائی.یہ ہے وہ خوش خبری کا مضمون جس کو سمجھنے کے بعد انسان کو قَدَمَ صِدْقٍ کے اختیار کے راز معلوم ہو جاتے ہیں.یہ وحی کا نور حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کی ذات تک محدود نہیں رکھا گیا.بلکہ آگے آپ کے غلاموں کو بھی وہ نور عطا ہوا اور خدا تعالیٰ نے واضح اطلاع فرمائی آپ کو کہ آپ کے
خطبات طاہر جلد۵ 291 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء غلاموں کو بھی وہ نور میں عطا کر چکا ہوں.چنانچہ فرماتا: نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْلَنَا إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (التحريم:9) کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام ایسے ہیں کہ نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ ان کا نوران کے آگے آگے چلتا ہے وَ بِأَيْمَانِهِمْ اور ان کے دائیں ہاتھ پر ان کے ساتھ رہتا ہے.يَقُولُونَ رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا اور وہ یہ دعا کرتے ہیں کہ اے خدا! ہمارے لئے ہمارے نور کو مکمل فرمادے وَاغْفِرْ لَنَا اور ہماری بخشش فرما.اِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ يقينا تو ہر چیز پر قادر ہے.یہی وہ نور ہے جس کا ذکر حضرت اقدس محمد مصطفی علی ان الفاظ میں فرماتے ہیں: اتَّقُوا فِرَاسَةِ الْمُؤْمِنِ فَإِنَّهُ يَنْظُرُ بِنُورِ اللَّهِ (ترمذی کتاب التفسیر تفسیر سورة الحجر حدیث نمبر ۳۰۵۲) کہ اے لوگو! مومن کی فراست سے ڈرا کرو.یقینا وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.گذشتہ جو خطبے میں میں نے تقویٰ کی آنکھ کی بات بیان کی تھی کہ وہ اللہ کی آنکھ ہے یہی مراد ہے اس سے کہ مومن کی فراست سے، اس کے فہم سے اور اس کے حد ادراک سے ڈرو.اس کی نظر سے کوئی چیز بھی تمہاری پوشیدہ نہیں رہے گی کیونکہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے.لیکن جہاں تک اللہ کے نور کا تعلق ہے وہ تو لا محدود ہے اور وہ نور ایسی چیز تو نہیں ہے کہ جو ایک اور دوسرے کے ساتھ فرق فرق سلوک کرنے والا ہو.اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ ایک مومن کا نور بصیرت اور ہے دوسرے مومن کا نور بصیرت کچھ اور ہے.ایک کا مقام اور ہے اور دوسرے کا مقام اور ہے اور ان کے نوروں میں فرق ہے.یہ راز قرآن کریم کی آیت ہم پر کھول رہی ہے کہ در حقیقت اگر چہ اللہ کے نور سے مومن دیکھتا ہے لیکن ہر شخض کے اندر اس نور کو اختیار کرنے کی ایک استعداد عطا ہوئی ہے اور وہ استعداد ایک خاص حد تک نو کو اختیار کرنے کی توفیق بخشتی ہے اور اکثر لوگ اس استعداد کے ہوتے ہوئے بھی خدا تعالیٰ سے پورا نور حاصل نہیں کرتے اور اس بات سے بے خبر رہتے ہیں کہ وہ نور بصیرت ہمیں خدا کی طرف سے عطا ہو گا لیکن بعض لوگ جو زیادہ فراست رکھنے والے ہیں جو اس مضمون کی حکمت کو سمجھتے
خطبات طاہر جلد۵ 292 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء ہیں وہ باوجود اس کے کہ وہ اپنے اندر ایک نور کو دیکھ رہے ہوتے ہیں.مسلسل یہ دعا کرتے چلے جاتے ہیں رَبَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا کہ اے ہمارے رب ! ہمارے نور کو تمام فرمادے، مکمل کر دے.جتنا بھی ہمیں حاصل ہوا ہے اس سے زیادہ کی ہمیں ضرور تو نے استعداد بخشی ہوگی.اس لئے ہمیں ایک مقام پر نہ کھڑا رہنے دے بلکہ اس نور کا اتمام فرما دے ، اسے مکمل کردے.وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمُ نِعْمَتِی (مائدہ:۴) کے مضمون کا بھی پہلو سمجھ آ گیا.یعنی مومن تک جو مختلف درجات ہیں تعلق کے اُن میں آخری مقام ، مقام نبوت وہ مقام ہے جہاں انسان کا نور تمام ہو جاتا ہے اور اسے اپنی استعداد کے مطابق اللہ تعالیٰ کامل نور عطا فرما دیتا ہے.پھر استعدادوں کے فرق کی وجہ سے ان کے نور کی جلوہ گری میں بھی فرق دکھائی دینے لگتا ہے.لیکن اونچے نیچے درجے پر جتنے بھی مومن ہیں ان سب کو اپنی اپنی استعداد کے مطابق بھر پور نور عطا ہو تو سکتا ہے لیکن ان کی غفلتوں کی وجہ سے ان کی کوتاہیوں کی وجہ سے اکثر کا ظرف کچھ نہ کچھ خالی رہ جاتا ہے اور جوان میں سے صاحب فراست ہیں ، جن کو خدا خاص طور پر بصیرت کی آنکھ عطا فرماتا ہے.وہ مسلسل اس دعا میں لگے رہتے ہیں.رَبَّنَا اتْمِمْ لَنَا نُورَنَا.اور یہ دعا کرنے والے کون ہیں ؟ فرمایا نُورُهُمْ يَسْعَى بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمُ ان کے آگے بھی نور چل رہا ہے، ان کے دائیں بھی نور چل رہا ہے اور ان کے بائیں بھی.ایما نھم میں دایاں ہاتھ بھی مراد ہے اور دونوں ہاتھ بھی مراد ہیں یعنی ہر سمت انکی نور ہی نور ہے اور اس پر وہ تکبر اختیار نہیں کرتے.ایک اور لطیف نکتہ اس بات پر سمجھ آیا کہ نور میں ہر طرف سے گھرے ہوئے ہیں.جس طرف بھی جاتے ہیں انہیں قَدَمَ صِدْقٍ بھی عطا ہو رہا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ جانتے ہیں کہ ہماری کوئی بھی حقیقت نہیں ہے اور یہ نور وہ سارا نور نہیں ہے جو خدا بندہ کو عطا فرما سکتا ہے.اس کے علاوہ بھی نور ہے، اس کے علاوہ بھی جلا کے اور لطافتوں کے اور مراتب ہیں اور مقامات ہیں اور ایسی سمتیں ہیں جن سے ہوسکتا ہے ہم بالکل بے خبر ہوں.تو تقویٰ کے نور پر صیقل ہونا یہ ساری زندگی بڑی محنت کا کام ہے اور اس کا آخری مرتبہ صرف انبیاء کو نصیب ہوتا ہے.انبیاء سے نچلے درجے کے جتنے لوگ ہیں وہ اپنے اپنے نور کے مقام کو بھی پوری طرح حاصل نہیں کر سکتے جو ان کے لئے مقدر ہے بلکہ کچھ نہ کچھ اس سمت میں بڑھتے رہتے
خطبات طاہر جلد ۵ 293 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء ہیں اور ساری زندگی ان کے نور کے حصول کا سلسلہ جاری رہتا ہے.اگر نور مختلف ہے تو قَدَمَ صِدْقٍ بھی مختلف ہوگا.اس کا مقام، اس کا مرتبہ اس کا حجم ، اس کی وسعتوں میں ضرور فرق ہوگا اور یہ راز ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا دیا جب یہ فرمایا کہ میں ایک وسیع اور عظیم دنیا کو اپنے سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں کہ میری سچائی کے قدم اتنے وسیع ہیں.وہ قَدَمَ صِدْقٍ یا سچائی کے قدم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوا ہے.وہ اتنا بڑا ہے اتنا وسیع ہے کہ عالم کے عالم کو ایک وسیع دنیا کو ان قدموں کے نیچے دیکھ رہے ہوں.تو قَدَمَ صِدْقٍ بھی ایک قدم نہیں ہے کہ ہر مومن سمجھے کہ مجھے قَدَمَ صِدْقٍ عطا ہو گیا.قَدَمَ صِدْقٍ کے بھی مختلف مراتب ہیں مختلف حجم ہیں مختلف اس کی وسعتیں ہیں اور ان کا براہ راست تعلق اس نور کی وسعت سے ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے نصیب ہوتا ہے.اس لئے یہ لوگ جو راستباز کہلاتے ہیں جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ہمارا نور تمام فرما تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ نہایت منکسر المزاج بندے ہوتے ہیں، وہ اپنی راست بازی کے باوجود سمجھتے ہیں کہ ہمارے اندر بہت سی کمزوریاں ، بہت سے خلا ہیں، بہت سے اندھیرے ہیں جو باقی ہیں.جب تک خدا تعالیٰ کی طرف سے ہمارا نور کامل نہ ہو جائے ہماری زندگی کا ہر گوشہ منور نہیں ہوسکتا، ہمارا ہر قدم راست اقدام نہیں کہلا سکتا.اس لئے وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے خدا تعالیٰ کی رحمت کی طرف امید کی نگاہوں سے دیکھتے چلے جاتے ہیں اور انکسار کے ساتھ یہ التجا کرتے چلے جاتے ہیں اے اللہ ! ہمارے نور کو بڑھا.نور کی آنکھ جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے جسے حضرت اقدس محمد مصطفی علی فرماتے ہیں.ینظر بنور اللہ اس پر مزید غور کی ضرورت ہے.یہ کوئی ایسی فرضی چیز نہیں جیسا کہ نور کا تصور عموماً غیر احمدی سوسائٹی میں پایا جاتا ہے کہ کوئی ایسی فرضی ماوراء الطبیعات چیز ہے کہ جس کے متعلق ایک موہوم سا تصور تو ہو سکتا ہے لیکن اس کی حقیقت اس کی کنہ کو ہم پانہیں سکتے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ نور کا مضمون بہت ہی واضح ہے، بہت ہی کھلا کھلا ہے اور روز مرہ کی زندگی میں ہم میں.ہر شخص اگر چاہے تو اپنے نور کی پہچان کر سکتا ہے، اسے جان سکتا ہے، اور نور کی پہچان اس کے قدموں سے ہوگی.ان دونوں کا چونکہ آپس میں گہرا تعلق ہے جہاں وہ روزانہ غلط جگہ پر قدم رکھتا ہے وہیں اس کو محسوس ہو جانا چاہئے کہ یہاں میرے نور نے میرا ساتھ چھوڑ دیا ہے.جہاں وہ صحیح مقام پر قدم رکھتا
خطبات طاہر جلد۵ 294 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء ہے وہاں اسے احساس ہو جانا چاہئے کہ یہاں میرے نور نے میری رہنمائی کی ہے اور ایک ہی دن میں سارا دن کے حالات پر اگر انسان اپنی زندگی میں غور کرے تو بہت کھل کر نور میں تو کوئی اشتباہ کی بات ہی نہیں ہونی چاہئے.بہت کھل کر اسے اپنے نور کے حالات نظر آنے شروع ہو جائیں گے واضح طور پر وہ دیکھ لے گا کہ کہاں کہاں میرے قدم سچائی پر پڑ رہے تھے، کہاں کہاں کذب پر پڑرہے تھے.کتنا نور بصیرت میرے خدا کی طرف سے عطا ہوا اور کتنا نہیں ہوا.یہ تو خیر عام اور سادہ نظر آنے والی باتیں ہیں لیکن اس کے علاوہ کچھ نور کے معاملات ہیں جو بہت سے صاحب فراست لوگوں پر بھی مہم ہو جاتے ہیں اور جہاں سے پھر اگلے قدم شروع ہوتے ہیں.ایک تو روز مرہ کا ابتدائی نور ہے جو صالح کی ابتدائی زندگی سے تعلق رکھنے والا ہے.ایک نور کے بار یک در باریک پہلو ہیں جو اُس کو مختلف ترقیات کے مقام عطا ہوتے چلے جاتے ہیں یا جن کے نہ ہونے کی وجہ سے انسان مختلف ترقیات سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے.لیکن ان کی علامتیں بھی قدموں میں ملتی ہیں اور ہمیشہ ہمارے ہاتھوں کی پہنچ میں رہتی ہیں.ہم معلوم کر سکتے ہیں اگر چاہیں تو فراست کے ساتھ ہم ان کے نقوش پاسے معلوم کر سکتے ہیں کہ وہ نور کی لطافتیں کیا تھیں اور کس مرتبے پر کوئی انسان کھڑا ہوتا ہے اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قَدَمَ صِدقي فرما کر اس مضمون کو واضح فرما دیا ہے.قدم تو ہمیشہ زمین کے ساتھ چمٹتے ہیں اور لا زمازمین پر پڑتے ہیں.اس لئے نور کا جو دوسرا کنارا ہے اُس کا اہل دنیا سے گہراتعلق رہتا ہے.اہل دنیا یہ نہیں کہہ سکتے خدا تعالیٰ کو کہ اے اللہ ! ہم کیسے اس شخص کے نور کو پہچانتے کیونکہ نور تو ایک آسمانی چیز ہے.ہم زمینی لوگ تھے ، ہمارے پاس ذریعہ کوئی نہیں تھا کوئی استعداد نہیں تھی، کہ ہم یہ معلوم کر سکتے کہ تیرا نور کس کو نصیب ہوا ہے.لیکن قدم جونور کا دوسرا کنارا ہے وہ تو ہمیشہ زمین پر چلتے ہیں.اس لئے اہل زمین اُن قدموں کے سلوک سے پہچانتے ہیں کہ یہ کیسے قدم ہیں.اگر ایسے لوگوں کے معاملات اہل دنیا سے مختلف ہوں گے تو وہ پہچان لیں گے کہ یہ خدا کے نور کے معاملات نہیں ہیں.تب ہی تو وہ تعجب میں مبتلا ہوئے اہل عرب.باوجود انتہائی دنیا دار ہونے کے باوجود اس کے کہ ان کے سوسائٹی کالب لباب یہ تھا کہ آنحضرت ﷺ کو حکم دیا گیا کہ اُن کو ڈرا ؤ اور اُن کو بتاؤ کہ اگر تم ایمان کے ذریعے اپنے اندر تبدیلیاں نہ پیدا کر سکے تو لازماً ہلاک ہونے والے ہو ہلاکت کی ساری علامتیں بھی ظاہر ہو چکی
خطبات طاہر جلد۵ 295 خطبه جمعه ۱۸ار اپریل ۱۹۸۶ء تھیں.اس کے باوجود کچھ دیکھا تھا انہوں نے جو تعجب میں مبتلا ہوئے.اس لئے کہ آنحضرت اے اور آپ کے غلاموں کے قدم سچائی کے قدم تھے اور ان قدموں کا تعلق دنیا سے ہمیشہ رہا ہے.اہل دنیا ان قدموں کی چاپ سے پہچانتے تھے، اُن کی چال ڈھال سے پہچانتے تھے، ان کے رخ سے پہچانتے تھے کہ یہ کیسے لوگ ہیں اور تبدیلیاں دیکھتے تو تعجب میں مبتلا ہوتے تھے کہ یہ کیسے تعجب میں مبتلا ہوئے ، کیسے انہوں نے اتنا حیرت انگیز آنحضرت علی کو خراج تحسین پیش کیا بظاہر انکار ہے لیکن حیرت انگیز خراج تحسین پیش کیا کہ ساحر مبین ہے یہ تو حیرت انگیز کھلا کھلا جادوگر ہے کن لوگوں کو پکڑتا ہے اور کیا بنا کر رکھ دیتا ہے.تو وہ تبدیلیاں جو مومن کی ذات میں دنیا کے معاملات میں پیدا ہوتی ہیں وہی اُس کے نور کے پیمانے بن جاتی ہیں.وہ اہل دنیا کو بھی بتا دیتی ہیں کہ یہ شخص صاحب نور ہے یا صاحب نور نہیں ہے.اس پہلو سے جب میں جماعت کے مختلف حالات پر غور کرتا ہوں تو ہر جگہ کہیں نہ کہیں جہاں بھی کوئی خرابی دکھائی دیتی ہے.قَدَمَ صِدْقٍ کی کمی نظر آنے لگتی ہے بالکل صاف اور کھلی.یوں لگتا ہے جیسے کسی شاہراہ پر چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھ رہا ہوں یہاں اس کا قدم فلاں جگہ پر صحیح پڑا اور یہاں غلط جگہ پڑا.یہاں کانٹوں میں چلا گیا، یہاں پھولوں پر آ گیا.صاف ستھرا نظر آ رہا ہوتا ہے کہ کیا واقعہ گزررہا ہے اور اس کے پس منظر میں کسی نہ کسی جگہ نور کی کمی دکھائی دینے لگتی ہے اور روز مرہ کے معاملات ہیں یہ قدم کوئی فرضی قصے نہیں ہیں.آپس میں جب اختلاف پیدا ہوتے ہیں، جب آپس میں جھگڑے پیدا ہوتے ہیں تو پھر کیوں قدم غلط پڑتے ہیں؟ اس لئے کہ اُس کی نظریں بگڑی ہوئی ہوتی ہیں.ایک ہی واقعہ کو ایک نظر اور طرح دیکھ رہی ہے اور ایک نظر اور طرح دیکھ رہی ہے.حالانکہ نور اللہ کے ساتھ اگر دیکھا جاتا تو دونوں نگاہوں کو ایک ہی چیز نظر آنی چاہئے تھی.نوراللہ تو ایک حقیقت کو دو طرح سے دیکھ ہی نہیں سکتا ، ناممکن ہے.لیکن جتنے بھی اختلافات ہیں سب جگہ بھینگی آنکھیں آپ کو نظر آجائیں گی.معاملات کی آنکھیں بھینگی ہوں اور انسان یہ دعوی کرے کہ میں نور اللہ سے دیکھ رہا ہوں اس سے زیادہ تمسخر اور کیا ہوسکتا ہے اور آنکھیں بھینگی ہوں اور قدم درست پڑیں قدم تقویٰ اور صدق کے قدم ہوں یہ بھی ہو نہیں سکتا اس لئے معاملات سے قدم پہچانے جاتے ہیں اور قدموں سے آنکھوں کا معیار پتہ چلتا ہے.یہ محسوس ہو جاتا ہے کہ کس حد تک آنکھیں سیدھی نظر
خطبات طاہر جلد۵ 296 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء رکھنے والی تھیں اور کس حد تک بھیگی آنکھیں تھیں.ہر روز عام زندگی میں چھوٹی چھوٹی باتوں میں آنکھوں کا بھینگا پن بالکل صاف دکھائی دینے لگتا ہے.ایک خاندان ہے، اُس کی بچی کے اوپر ظلم ہورہے ہیں یعنی اس کے نزدیک اپنی بچی کے متعلق جو تو قعات رکھتا ہے اُس کو ایک خاص آنکھ عطا ہوئی ہے اس کے لئے اور وہ کہتا ہے کہ یہ بات بھی اُس پر ظلم ہے اور وہ بات بھی اُس پہ ظلم ہے، فلاں بات بھی اُس پہ ظلم ہے اُس کے بچے چھڑانا اُس پر ظلم ہے، اُس کے ساتھ یہ سلوک کرنا اس پہ ظلم ہے.لیکن جب دوسرے کی بچی کا معاملہ ہوتا ہے اور اپنے بیٹے کا معاملہ ہو تو یہ آنکھ بالکل بدل جاتی ہے اور کہتے ہیں ہمارے بیٹے پر یہ ظلم ہوا ہے بیٹے کا یہ حق ہے بچے اور بیٹے کا حق یہ ہے اور بیٹے کا حق وہ ہے اور دیکھو! وہ لڑکی کیسی ظالم اور شیطان لڑکی ہے یہ کام کر گئی.اب ان دونوں آنکھوں کو بیک وقت خدا کے نور کی آنکھیں کیسے قرار دیں کیونکہ اللہ کا نور تو بھینگا نور نہیں ہے.اللہ کا نور تو ایک حقیقت کو ایک ہی حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے.پس یہ قدم ہیں.یہی قرآن کریم میں مضمون ہیں اُن کو قَدَمَ صِدْقٍ عطا ہوتا ہے اور قَدَمَ صِدْقٍ ہمیشہ سیدھی راہ پر پڑتا ہے، غلط راہ پر نہیں پڑتا کہ کبھی گند پر پڑ جائے کبھی صحیح رستے پر پڑ جائے.جہاں وہ گند پر پڑے گا وہ قدم صدق رہے گا نہیں.تو دو مختلف رستے ہو گئے.دعویٰ یہ ہے کہ ہم ایک ہی نور سے دیکھنے والے ہیں.دعویٰ یہ ہے کہ ہماری آنکھیں حقائق کو اُسی طرح دیکھتی ہیں جیسے خدا ہم سے توقع رکھتا ہے اور جب اُن آنکھوں سے دیکھ کر راستے اختیار کرتے ہیں تو ایک مشرق کی طرف چل رہا ہوتا ہے اور ایک مغرب کی کی طرف چل رہا ہوتا ہے.دونوں کے قدم کے رخ ، اُن کی نہج اُن کی طرز بالکل مختلف ہو جاتی ہے.تو کون کہتا ہے کہ لطیف معاملات میں نور دکھائی نہیں دے سکتا.قرآن کریم ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ لطیف در لطیف در لطیف معاملات میں بھی بتا تا ہے آپ کو کہ کیسے دیکھو ان کو.قدموں کے ذریعے دیکھو، وہ تو تمہاری پہنچ سے باہر نہیں وہ تو کافروں کی بھی پہنچ میں تھے اس لئے اُن کی شناخت کے گر سیکھو تو تمہیں خدا تعالیٰ کے نور کی شناخت کے گر معلوم ہو جائیں گے.اسی طرح تنقید ہے.مختلف خطوط مجھے ملتے ہیں جن میں کثرت سے تنقید پائی جاتی ہے اور ہر تنقید کرنے والا یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ وہ قَدَمَ صِدْقٍ کے ساتھ معاملے میں آگے بڑھ رہا ہے بیچ رستے
خطبات طاہر جلد۵ 297 خطبه جمعه ۱۸ار اپریل ۱۹۸۶ء پر صحیح نہج پر وہ چل رہا ہے اور وہ بڑی سچائی سے اپنی طرف سے دیکھ رہا ہوتا ہے کہ یہ بات غلط ہے تو یہ بتانا چاہئے کہ یہ بات یوں ہے فلاں لوگ گندے ہیں فلاں قسم کے لوگوں کی حرکتیں خراب ہیں اور وہ مسلسل اس تنقید میں آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.لیکن چونکہ قدم صدق نہیں ہوتا اس لئے پہچاننے والی آنکھوں کو وہ معلوم ہو جاتا ہے کہ یہاں قدم صدق نہیں ہے.تنقید کی آنکھیں بھی ایک ہی قسم کے معاملات کو دو طریق سے نہیں دیکھ سکتیں اگر وہ خدا کے نور سے دیکھ رہی ہوں لیکن عجیب بات ہے کہ اکثر ناقدین کی آنکھیں ایک ہی قسم کے واقعات کو مختلف وقتوں میں مختلف طرح سے دیکھ رہی ہوتی ہیں.بعض لوگوں سے دل میں تعصب ہوتا ہے ان کی ہر حرکت میں وہ برائی ڈھونڈ رہی ہوتی ہیں.بعض لوگوں سے محبت کا تعلق ہوتا ہے وہاں وہی حرکتیں ہو رہی ہوتی ہیں.وہ نظر نہیں آ رہی ہوتیں اور جتنا جتنا تقویٰ کا معیار گرتا ہے یا نور خداوندی سے دوری ہوتی چلی جاتی ہے اتنا ن کی کمی کا دائرہ پھیلتا چلا جاتا ہے.سب سے پہلی بات اپنے نفس کے حالات کو نہ دیکھنا ہے.جن کو خدا کا نور عطا نہ ہو اُن کی نظر خواہ تنقیدی کی کیسی تیز کیوں نہ ہو وہ اپنی کمزوریوں کو نہیں دیکھ رہی ہوتی اور اس برائی میں اکثر انسان مبتلا ہیں.کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا ہے.یہ دنیا کے معاملات کے لئے تو ٹھیک ہے لیکن خدا کے نور کے چراغ تلے تو کوئی اندھیرا نہیں ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے سراج منیر کے نیچے تو کوئی اندھیرے کا سوال نہیں تھا بلکہ جتنا ان کے نیچے تھا اتنا ہی زیادہ وہ صاحب نور بنا.تو اللہ کے چراغ تلے آنا تو نور کے قدموں کے نیچے آنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرماتے ہیں سچائی کے قدموں کے نیچے دیکھتا ہوں دنیا کو تو چراغ تلے اندھیرا تو مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ جوان قدموں کے نیچے ہیں وہ سب سے زیادہ صاحب نور ہیں.اس لئے جو شخص اللہ کے نور سے دیکھ رہا ہوسب سے زیادہ اسے اپنا اندرونہ دکھائی دینا چاہئے.سب سے زیادہ اس کو اپنے نفس کی حقیقت سے آشنا ہونا چاہئے.اگر نور کامل نہیں ہے تو درست ہے کہ کچھ خامیاں بھی اُس کو نظر آئیں گی کچھ تاریک گوشے بھی دکھائی دیں گے لیکن دکھائی ضرور دیں گے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ صاحب نور ہو اور اپنے نفس کے حالات سے غافل ہو.اس لئے جماعت کو سب سے پہلے تو اپنے نفس کی طرف جھکنا چاہئے ان معنوں میں کہ اپنے نفس کی تنقید کو خدا کی آنکھ سے دیکھے.اپنے نفس کے ساتھ ویسا معاملہ کرے جیسے اللہ کا نور اُس کے
خطبات طاہر جلد۵ 298 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء نفس کو دیکھ رہا ہے اور خوب اچھی طرح اپنے اندرونے کو ٹولے اور محسوس کرے اور دیکھے اور کھنگالے.معلوم تو کرے کہ وہ ہے کیا چیز.اس حیثیت سے جو شخص اپنے نفس کو دیکھ لیتا ہے اس کو اپنے قریبی بھی اسی طرح دکھائی دینے لگتے ہیں جیسے اپنے دشمن دکھائی دینے لگتے ہیں.آنکھ کوئی فرق نہیں کرتی پھر.حسن اور بدی تو فرق کریں گے بہر حال حسن حسن نظر آئے گا اور بدی ، بدی نظر آئے گی.لیکن آنکھ فرق نہیں کرے گی کہ حسن کو بدی دیکھنے لگ جائے اور بدی کو حسن دیکھنے لگ جائے.پس آغاز اپنے نفس سے ہوگا.جو شخص اپنے نفس کی حقیقت سے غافل رہتا ہے اور آنکھیں بند رکھتا ہے اور فرضی طور پر اپنے اوپر جھوٹے رحم کرتا چلا جاتا ہے اور اپنے دشمن پر جھوٹے ظلم کرتا چلا جاتا ہے یعنی ایسے ظلم جن کی کوئی حقیقت کوئی وجہ جواز نہ ہو وہ شخص یہ کہے کہ میں خدا کے نور سے دیکھ رہا ہوں یہ ناممکن ہیں ، بالکل جھوٹا دعویٰ ہے اور جو شخص اپنے اندر مختلف سلوک کرتا ہے، اپنے باہر مختلف سلوک کرتا ہے اُس کی یہ ٹیڑھی آنکھ پھر ہمیشہ ٹیڑھی رہتی ہے.سارے معاملات میں ٹیڑھی جاتی ہے.یہ نہ ممکن ہے کہ اندر کی آنکھ ٹیڑھی ہو اور باہر کی آنکھ سیدھی ہو.چنانچہ اکثر معاملات میں خرابیاں فسادات غلط تنقیدات، ایک ظلم کو دوسری طرف منسوب کر دینا ، ایک اندھیرے کو روشنی کے منہ پر مارنا یعنی ہر چیز کو الٹ پلٹ کر کے سارے نظام کو تہس نہس کر دینا بر سارا مضمون تاریکی کا مضمون ہے.روشنی کا مضمون ہی نہیں ہے اور یہ جو تاریکی اور روشنی کا فیصلہ ہے یہ ہر شخص کی ذات کے اندر اس کی پنہائیوں میں ہوتا ہے.جو شخص اپنے نفس کی بصیرت اختیار کرلے پھر وہ دنیا میں چلنے کے قابل ہو جاتا ہے.جو صاحب بصیرت نہیں اپنے نفس کے متعلق ، جو اپنے آپ کو غلط نگاہوں سے دیکھتا ہے.جہاں وہ غلطیاں کرتا ہے وہاں وہ آنکھیں پھیر لیتا ہے.جہاں وہ غلطی نہیں کرتا وہاں بڑھا چڑھا کر دیکھتا ہے اس کا سلوک پھر اپنے دوستوں اور اپنے دشمنوں سے اسی طرح فرق والا سلوک ہوجاتا ہے.بعض لوگ میں نے دیکھے ہیں بظاہر بڑے نیک بھی ہیں، نمازی بھی ہیں.کئی خوبیوں کے مالک ہیں خدا کے فضل سے لیکن نور اللہ سے دیکھنے کی جو امتیازی شان ہے وہ پوری طرح عطا نہیں ہوتی ان کو.بعض لوگوں کے وہ دشمن ہو جاتے ہیں اور بعض لوگوں کے دوست ہو جاتے ہیں.جو دشمن ہے خواہ وہ ویسے کتنا ہی نیک ہو اس کی چھوٹی سی کمزوری بھی اتنی ان کو بڑی دکھائی دینے لگتی ہے کہ وہ
خطبات طاہر جلد۵ 299 خطبه جمعه ۱۸ر اپریل ۱۹۸۶ء اپنے غصے کو پھر میری ذات کی طرف منتقل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.مجھ سے توقع رکھتے ہیں کہ جس طرح ان کا دل چاہتا ہے کہ اس بدی کے نتیجے میں اس شخص کو پیس کر رکھ دیں، پاؤں تلے کچلیں اس کو ذلیل کریں، اسے خوار کریں.اسی طرح میں بھی کروں، اسی طرح نظام جماعت بھی کرے اور اگر نہیں کرے گا تو پھر دیکھ لیا کہ انصاف نہیں ہے کہ اپنی دشمنیوں کو اپنی نفرتوں کو جماعت کے ذمہ داروں کی دشمنیوں اور نفرتوں میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں اور ان کا قدم صدق کا قدم نہیں ہے.اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اس سے بہت زیادہ برائیاں ان کے دوستوں میں موجود ہوتی ہیں ان کو قطعاً کبھی و ہم بھی نہیں آیا کہ ان کو بھی سزاملنی چاہئے.اپنی اولاد میں ہوتی ہیں ان کو کبھی و ہم بھی نہیں آتا کہ ان کو سزا ملنی چاہئے ، اپنی بیویوں میں ہوتی ہیں اپنے بچوں میں ، اپنے اندر اور کوئی پرواہ نہیں کرتا.تو قَدَمَ صِدْقٍ کو درست کرو اُس کے بغیر تمہاری راہیں صحیح متعین نہیں ہوسکتیں.اس کے بغیر نہ تمہارے آپس کے معاملات درست ہوں گے.نہ خدا کے ساتھ تمہارے معاملات درست ہوں گے اور کوشش کرو کہ تمہارا قَدَمَ صِدْقٍ بڑا ہو اور اس کے فیض کے نیچے اور بھی لوگ آئیں تمہارے.قَدَمَ صِدْقٍ کی برکت سے اور قومیں برکتیں پائیں اور یہ قدم تمہارے نور کی نسبت کے ساتھ بڑا ہو گا.غالباً اس مفہوم کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں بعض پرانے بزرگوں کے مریدوں نے یہ غلطی کی کہ ان کے قدموں کے ظاہری نشان بڑے کرنے شروع کئے اور بعض جگہ ہم نے دیکھا ہے کہ یہ فلاں بزرگ کا قدم ہے اور پوری چٹان کے اوپر ایک قدم آیا ہوا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں کچھ حقیقت ضرور تھی سمجھانے کے لئے لوگوں کو بتانے کے لئے اُن بزرگوں نے کوئی ایسی بات کی ہوگی کہ جس کے نتیجے میں یا ان کے عارف مریدوں نے کچھ ایسی بات کی ہوگی کہ جس کے نتیجے میں یہ محسوس ہوا ہو کہ ان کے قدم بڑے تھے اور بعد میں دنیا داروں نے جن کی نظریں عرفان سے عاری تھیں انہوں نے سمجھا کہ واقعہ ظاہری قدم بڑے تھے حالانکہ بزرگی کو قدموں سے کیا نسبت ہے؟ ظاہری قدموں کو تو عقل سے بھی الٹ کی نسبت ہے.ہمارے ہاں کہتے ہیں کہ پاؤں بڑے گنواروں کے اور سر بڑے سرداروں کے.تو نیکوں کے پاؤں بڑے یہ تو عجیب سی بات ہے.وہ سمجھ نہیں سکے.یہ راز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن سے پا کر ہمیں سمجھایا کہ میں ایک عالم
خطبات طاہر جلد۵ 300 خطبه جمعه ۱۸ر اپریل ۱۹۸۶ء کے عالم کو اپنی سچائی کے قدموں کے نیچے دیکھتا ہوں.اتنا بڑا قدم صدق عطا فرمایا ہے خدا نے مجھے کہ دور دراز تک آنے والے لوگ ان قدموں کے نیچے سے برکت پائیں گے ان سے سچائی حاصل کریں گے.تو نہ صرف یہ کہ قدم صدق کو حاصل کریں آپ سے فیض پانے کے لئے تو آج کی دنیا ہی نہیں آئندہ قیامت تک آنے والی دنیا میں منتظر بیٹھی ہیں.آپ کے قدم بڑے ہونگے تو دنیا کے نصیب بڑے ہوں گے اور آپ کو قدم بڑے نہیں مل سکتے جب تک خدا کا وہ نور آپ کے اندر کامل نہ ہو جائے جس کے لئے اہل فراست بندے ہمیشہ یہ دعا کرتے ہیں رَبَّنَا اَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا.اے خدا! نور تو بہت تو نے دیا آگے بھی نور ہے اور پیچھے بھی.دائیں بھی اور بائیں بھی.لیکن ہمارے دل کو تسلی نہیں ہمارا ظرف اور بھی بڑا معلوم ہوتا ہے ، ہمارے نور کو کامل کر دے جس حد تک ہماری استطاعت ہے اُس حد تک ہمارے نور کو بڑھاتا چلا جا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج نماز ہائے جنازہ غائب بھی ہے اور نماز جنازہ حاضر بھی.باہراگر موسم اچھا ہے تو باہر نماز ہوگی پھر.باہر موسم کیسا ہے، ٹھیک ہے.ان کو کہیں کہ نماز کے معابعد جنازہ لے آئیں وہ سامنے رکھ لیں تو دونوں اکٹھی نماز جنازہ حاضر بھی ہو جائے گی اور نماز جنازہ غائب بھی ہو جائے گی.جمعہ کے معاً بعد ہوگی اس لئے دوست سنتیں بعد میں پڑھیں تا نماز کے فوراًبعد نماز جنازہ سے فارغ ہو جائیں لیکن میرا خیال ہے کہ آسانی اس میں ہے کہ پہلے سنتیں پڑھ لیتے ہیں پھر بعد میں جا کر نماز جنازہ پڑھ لیں گے.اس لئے سنتیں پڑھتے ہی نماز جمعہ کے بعد پھر باہر تشریف لے جائیں.یہ جو نماز جنازہ حاضر ہے یہ مکرم تاج دین صاحب جنہوں نے بڑے اخلاص سے اپنی خدمتوں کو اسلام آباد کے لئے وقف کر رکھا ہے اُن کے والد صاحب مکرم صدر دین صاحب کا نماز جنازہ ہے اور جو نماز جنازہ ہائے غائب ہیں ، وہ ہیں.ا.مکرمہ تمامہ صاحبہ اہلیہ مکرم ابوصالح صاحب فلسطین ۲.مکرم منیر الحق صاحب را مه ابن مکرم عبدالحق صاحب رامہ سابق ناظر بیت المال.یہ جوانی کی عمر ہی میں وفات پاگئے ہیں اور وہ یہاں ہماری جماعت کے ایک مخلص کارکن چوہدری رشید احمد صاحب کی اہلیہ ناصرہ بیگم کے بہنوئی تھے.۳.مکرم مولا نا محمد سلیم صاحب فاضل سابق مجاہد بلاد عر بیہ کے متعلق بھی قادیان سے اطلاع ملی ہے
خطبات طاہر جلد۵ 301 خطبه جمعه ۱۸ راپریل ۱۹۸۶ء وفات کی.۴.مکرم ملک محمد عبد اللہ خان صاحب یہ ریلوے میں ملازم تھے ان کے متعلق ان کے بیٹے نعیم احمد ملک نے اطلاع دی ہے کہ ان کی وفات ہو گئی ہے.۵.چوہدری نصر اللہ خان صاحب جو چوہدری ظفر اللہ خان امیر جماعت ضلع گوجرانوالہ کے بھائی کینیڈا میں ہیں ان کا بیٹا اختر بڑے ظالمانہ طریقے سے قتل کر دیا گیا ہے.آج کل یہاں کینیڈا میں خاص طور پر برٹش کولمبیا میں معلوم ہوتا ہے کوئی پاگل گروہ ہے جو لوگوں کو پکڑ کر بغیر کسی وجہ کے اور بظاہر بغیر کسی لالچ کے قتل کر دیتا ہے اور ان کی اطلاع کے مطابق وہاں سے پندرہ سو ایسے واقعات ہو چکے ہیں جن کی موت کے معمے پولیس حل نہیں کرسکی اور کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کون لوگ ہیں کیوں قتل کرتے ہیں.اس سے پہلے ایک دفعہ کیلی فورنیا میں شروع ہوا تھا تو پتہ چلا کہ Black Muslims کی ایک Organization ہے جن کے علماء ان کو بتاتے ہیں کہ جو بھی کسی شخص کو جو کافر ہے مارے تو وہ سیدھا جنت میں چلا جائے گا اور اس کے نتیجہ میں وہاں قتل ہور ہے تھے.اب یہ پتہ نہیں کہ اس قتل کا تعلق کسی ایسے ہی گروہ سے ہے یا ویسے کوئی سر پھرے لوگ ہیں.بہر حال یہ ان کا بیٹا بھی بے چارہ بڑا مخلص تھا اور 1974 ء میں اس نے گوجرانوالہ میں بڑی بہادری کے ساتھ جماعت کی خدمت سرانجام دی تھی.اس کو تو پہلے ان کے سر پر وار کر کے پتھروں سے کوٹ کر مار اور پھر دریا میں ڈبو دیا.اسے رسوں سے باندھ کر کسی بھاری چیز کے ساتھ لیکن یہ بات کے پولیس کے بیان کے مطابق دو مہینے تک لاش پانی میں ڈوبی رہی ہے لیکن جب با ہر نکلی ہے تو بالکل اسی طرح تھی جس طرح کوئی صحت مند آدمی آرام سے سویا پڑا ہو کوئی بھی خرابی کے آثار نہیں تھے.ان کے والدین کے لئے کچھ تسلی کی بات بس اتنی سی ہے ورنہ بے چارے بہت ہی تکلیف میں تھے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو رحمت کا نشان اس میں دکھائی دیا کہ بچے کی لاش بگڑی نہیں.آخری جنازہ بیٹی پونتو صاحب انڈونیشیا کا ہے.سلسلہ کے قدیم خدمت کرنے والے مختلف بڑے عہدوں پر فائز رہے اور ہر حالت میں ہمیشہ انکساری سے دین کی خدمت کی ہے.بہت ہی نیک طبیعت انسان.ان کا سارا خاندان ہی اخلاس میں ایک خاص مقام رکھتا ہے.ان کے متعلق بھی چند روز ہوئے اطلاع ملی ہے کہ دماغ کی رگ پھٹنے سے کچھ دن بیمار رہ کر اچانک وفات پاگئے.مکرم صدر دین صاحب کے جنازہ کے ساتھ ان سب کی نماز جنازہ ہائے غائب ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 303 خطبه جمعه ۲۵ / اپریل ۱۹۸۶ء پاکستان کے موجودہ حالات میں انقلاب کیلئے احمدی نئی زمین و آسمان پیدا کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ را پریل ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : وَ سَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللَّهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ (ابراہیم :۴۶-۴۹) اور پھر فرمایا: یہ چند آیات جو سورۃ ابراہیم کے آخر سے لی گئی ہیں ان میں پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ لے کے مخالفین کو مخاطب کر کے فرماتا ہے.وَ سَكَنْتُمْ فِي مَسْكِن الَّذِيْنَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ اس میں اول مخاطب تو حضرت اقدس محمد مصطفی میے کے مخالفین ہی ہیں لیکن وہ سارے مخالفین اس میں شامل ہیں جو قیامت تک اس ذیل میں پیدا ہوتے رہیں گے اور وہ سارے مخالفین مخاطب ہیں
خطبات طاہر جلد۵ 304 خطبه جمعه ۲۵ / اپریل ۱۹۸۶ء جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے اس سے پہلے تنبیہات پہنچ چکی ہیں اور عبرتوں کے سامان ان کے لئے مہیا کر دیئے گئے ہیں.اس کا ترجمہ یہ ہے کہ تم ان لوگوں کے مساکن میں رہ رہے ہو، ان بستیوں میں رہ رہے ہو، ان کے گھروں میں بس رہے ہو جن لوگوں نے اپنی جانوں پر ظلم کئے تھے.وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمُ اور خوب اچھی طرح تم پر روشن ہو چکا ہے کہ پھر ہم نے ان سے کیسا سلوک کیا تھا.وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ اور ہم نے تو مثالیں دے دے کر، کھول کھول کر یہ معاملات تمہیں خوب سمجھا دیئے.مگر اس کے باوجود یہ لوگ مکر سے باز نہ آئے.وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ جو کچھ ان سے ہو سکتا تھا وہ مکر کر گزرے.مَكَرُوا مَكْرَهُمُ کا مطلب ہے اپنے مکر کو اپنی حد استطاعت تک انتہا تک پہنچا دیا.وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ اور ان کا مکر اللہ کے پاس ہے.اس کا مطلب کہ اللہ کے پاس ان کا مکر ہے، یہ ہے کہ مکر اگر نظر اور احاطے سے باہر ہو تو پھر وہ خطرناک ہوتا ہے.عموماً مکر چھپ کر کئے جاتے ہیں ، تدبیروں پر اخفا کے پردے ڈالے جاتے ہیں تا کہ جب وہ اچانک ظاہر ہوتو زیادہ سے زیادہ نقصان اپنے دشمن کو پہنچا سکے.لیکن جو مکر اُس کی نظر سے اوجھل نہ ہو جس کے خلاف مکر کیا جا رہا ہے بلکہ یہی نہیں بلکہ وہ اس مکر کی ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہو.عِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ کا یہ مطلب بنا کہ ان کا مکر تو خدا کے حضور ایک ایسی معمولی سی چیز کی طرح پیش نظر ہے جس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.خدا کی تقدیر اُس مکر کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے ہے.چنانچہ آیت کا اگلا ٹکڑا اسی مضمون کو نمایاں کر رہا ہے.فرمایا وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ کہ خواہ اُن کے مکر کی حیثیت اتنی بڑی کیوں نہ ہو، خواہ ان کا مکر اتنا خطرناک ہی کیوں نہ ہو کہ پہاڑ اُس مکر سے ٹل جائیں اور اس کے بعد جو بظاہر ایک سوالیہ فقرہ ہے اور انسان توقع رکھتا ہے کہ جواب آئے گا.اس کے بعد اس کا جواب نہیں ہے.اِنْ كَانَ مَكْرُ هُمُ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ اگر اُن کا مکر اتنا بڑا بھی ہو کہ پہاڑٹل جائیں آگے کیا ہے اس کا جواب نہیں آیا.تو لازماً اس کا جواب پہلے دیا جا چکا ہے.اور یہ اسی کی تشریح ہے اور یہ جواب ہے عِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ کہ خواہ پہاڑ ان کو ٹلا دینے والے مکر بھی وہ اختیار کریں تب بھی ان کا مکر خدا کے حضور ایک معمولی سی چیز کے طور پر سامنے رہتا ہے.اس کی کوئی
خطبات طاہر جلد۵ 305 خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء حیثیت نہیں ہے اور اس کے معاً بعد کفار سے خطاب چھوڑ کر خدا تعالیٰ مومنوں سے مخاطب ہوتا ہے.فرماتا ہے فَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِم تو ہر گز یہ گمان نہ کر کہ اللہ رسولوں کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدوں کو ٹلا دے گا ، ان سے منحرف ہو جائے گا.ہرگز نہیں جو وعدے خدا تعالیٰ اپنے رسولوں سے کرتا چلا آیا ہے ان سے وہ کبھی منحرف نہیں ہوگا.اِنَّ اللهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ خدا تعالیٰ یقیناً بہت غلبے والا اور قوت والا ، انتقام لینے والا ہے.یہاں آنحضرت علی کو مخاطب فرما کہ خدا تعالیٰ وعدوں کو ٹالنے والا نہیں یہ نہیں فرمایا کہ تیرے ساتھ جو وعدے کئے گئے ہیں اُن کو نہیں ٹالے گا.اس لئے کہ یہاں ایک اللہ کی سنت کا بیان ہورہا ہے جو ہمیشہ سے چلی آرہی ہے.اس لئے یہ فرق نہیں دکھانا مقصود کہ جو وعدے خدا تعالیٰ نے صلى الله آنحضرت ﷺ سے فرمائے ہیں محض اس وجہ سے ان کو نہیں ٹالے گا بلکہ فرمایا کہ جو وعدے رسولوں سے میں کرتا ہوں خواہ ان کی کوئی بھی حیثیت ہو ، اول ہوں، آخر ہوں ، ادنی نظر آئیں یا اعلی دکھائی دیں، خدا کا یہ اٹل قانون ہے کہ اپنے رسولوں سے کئے ہوئے وعدوں کو کبھی وہ نہیں ٹالتا.اس میں ایک عظیم الشان قوت پیدا ہو جاتی ہے.کسی جگہ کسی حیثیت میں بھی کوئی رسول آیا ہو یا کسی جگہ کسی حیثیت سے بھی کوئی رسول آنے والا ہو.یہ اٹل قانون ہے خدا تعالیٰ کا کہ اس کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو وہ کسی صورت میں نہیں ٹالے گا اور عزیز بھی بنے گا اور ذ وانتقام بھی بنے گا.عزیز کا مطلب ہے جو غالب ہو اور قدرت رکھتا ہو غلبے پر اور اس کا غلبہ اس کے لئے عزت کے سامان بھی پیدا کرے یعنی تحقیر اس غلبہ کا حصہ نہ ہو جس کے نتیجے میں دنیا اس کو تحقیر کی نظر سے دیکھنے لگے.عزیز کے لفظ کو اس لحاظ سے سمجھنا ضروری ہے کہ غلبہ تو بڑے بڑے ڈکٹیٹروں کا بھی ہو جاتا ہے ، ہٹلر بھی غالب آگیا تھا، ہلاکو خان بھی غالب آگیا تھا.لیکن ان کا غلبہ عزیز کا غلبہ نہیں تھا کیونکہ اس غلبے کے ساتھ ذلتیں وابستہ تھیں، اس غلبے کے ساتھ ہمیشہ کی بعد میں آنے والی لعنتیں بھی ابستہ تھیں.جب تک ان یادوں کو زندہ رکھا جائے گا ان کے ساتھ ان لعنتوں کو بھی زندہ رکھا جائے گا جو بعض ظالموں نے اپنے وقت میں کمائیں اور ایسی کمائیں کہ نسلاً بعد نسل بھی وہ ختم نہیں ہوتیں.لیکن جب عزیز کا غلبہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ عزت کا مفہوم لازم ہے.اسی لئے عزت اور عزیز بظاہر دو الگ الگ چیزیں ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ اس طرح مل جل گئے ہیں یہ مفہوم کہ ایک ہی لفظ
خطبات طاہر جلد۵ 306 خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء ان دونوں کو ظاہر کرتا ہے.تو عزیز کا غلبہ ہوگا جو ذو انتقام ہے یعنی انتقام لینے والا خدا غالب آئے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ جو پہلے مخاطب تھے دشمن وہ اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے.باوجود اس کے کہ ان کو بار بار متنبہ کیا گیا ، با وجود اس کے کہ وہ لوگ وارث بنے.ان مکانوں میں رہے، اُن محلوں میں ٹھہرے جہاں اس سے پہلے بعض لوگوں کو سزا مل چکی تھی اور خدا تعالیٰ نے پھر کھول کھول کر مثالیں بھی ان کے سامنے رکھ دیں.ذوانتقام کے غلبہ سے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ان چیزوں سے عبرت حاصل نہیں کریں گے، فائدہ نہیں اٹھا ئیں گے اور لازما اللہ تعالیٰ ان کے ظلموں اور انکی زیادتیوں کا انتقام لے گا.آج کل جو پاکستان میں حالات ظاہر ہو رہے ہیں وہ انہی پیش خبریوں کے مطابق ظاہر ہورہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے انتقام کی چکی چل پڑی ہے اور بعض پہلوؤں سے اس قدر شدت کے ساتھ چل رہی ہے کہ اگر ذرا بھی کسی میں حیا اور غیرت ہو اور معمولی سی بھی اس کے اندر فراست ہو تو وہ خوب اچھی طرح محسوس کر سکتا ہے کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے.یہ وہ حکومت ہے موجودہ جس نے اپنے تمام ذرائع کو بروئے کار لاتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہانت کی انتہاء کر دی.کبھی پاکستان کی تاریخ میں کسی ملاں کے گروہ نے یا کسی حکومت کے کارندوں کے گروہ نے اس قدر ظلم اور زیادتی سے کام نہیں لیا تھا جس طرح موجودہ حکومت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نام پر گندا چھالنے میں بے حیائی اور زیادتی سے کام لیا اور اس وقت جو پاکستان کی گلیوں اور ہر شہر کی ہر گلی میں ہو رہا ہے وہ اتنی عبرت ناک تصویر ہے، اتنا خطرناک گندا چھالا جا رہا ہے موجودہ صدر کے اوپر اور یہ صدر جو سابق ڈکٹیٹر ہیں جو ذمہ دار ہیں اس سارے ظلم کے کہ لکھنے والے اخباروں میں بھی لکھ رہے ہیں اور رپورٹیں دوسرے ذرائع سے بھی پہنچ رہی ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی شخص واحد کو اتنی گندی گالیاں اس کثرت اور شدت کے ساتھ اور جوش اور جذ بے کے ساتھ نہیں دی گئیں.اتنے بڑے مجھے کبھی اکٹھے نہیں ہوئے ان شہروں میں اور ان سب مجمعوں میں لکھوکھہا انسانوں نے جن میں بعض دفعہ پندرہ ، پندرہ لاکھ انسان شامل ہوتے تھے بیک آواز شدید گندی زبان استعمال کی ہے موجودہ صدر کے خلاف اور یہ سلسلہ جاری ہے.ہر گلی میں ہو رہا ہے، ہر قصبے میں ہورہا ہے.طوفان ہے ایک نفرت کا جو اٹھ کھڑا ہوا ہے.لعنتوں کی ایک بوچھاڑ ہے جو بارش
خطبات طاہر جلد۵ 307 خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء کی طرح نازل ہو رہی ہے ان محلات پر.اب یہ اگر خدا کی تقدیر نہیں ہے تو اور کیا ہے.وہی خدا جس نے وعدہ کیا تھا کہ میں رسولوں کے ساتھ کئے گئے وعدوں کو کبھی ٹالا نہیں کرتا.اس کی پکڑ نے آخر ان کو آلیا.جس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت پر ہاتھ ڈالا ، خدا کی تقدیر نے اس کی عزت پر ہاتھ ڈال دیا ہے اور یہ جاری رہنے والا سلسلہ ہے، یہ رکنے والا سلسلہ نہیں.ان کی ذلت کی کوششیں تو چند سانس لے کر مر جائیں گی اور دن بدن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت دنیا میں زیادہ پھیلتی چلی جائے گی اور زیادہ بلند مرتبہ ہوتی چلی جائے گئی لیکن ان کی ذلتیں اور زیادہ تنزل کی راہیں دیکھنے والی ذلتیں ہیں اور زیادہ قعر مذلت میں گرنے والی ذلتیں ہیں اور دن بدن یہ بڑھتی چلی جائیں گی نسلاً بعد نسل لوگ اس ظلم کے دور پر لعنتیں بھیجیں گے اور بھیجتے چلے جائیں گے.یہ ہے خدا کی تقدیر جو ظاہر ہوتی ہے تو عبرت کے عجیب سامان پیدا کرتی ہے مگر جن کی آنکھیں نہ ہوں، جن کو بصیرت نہ ہو ان کو نظر نہیں آتا.پاکستان سے بہت سے لوگ لکھ رہے ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جن پر اس حکومت نے بناء کی تھی اور جن کو خوش کرنے کے لئے یا جن کو اپنے ساتھ ملانے کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کی گئی تھی یعنی ملاؤں کا ٹولہ، وہ بھی اب عوام کے ہمنوا ہو کر خوب گندا چھال رہے ہیں موجودہ صدر کے اوپر اور بعض صورتوں میں تو مولوی زیادہ گالیاں دے رہے ہیں اور دغا باز ، جو کچھ کہنا ہے وہ تو کہتے ہیں کچھ ایسی باتیں بھی کہتے ہیں کہ کوئی شریف انسان عام مجالس میں بھی اُن کو بیان نہیں کر سکتا کجا یہ کہ مساجد میں ان کا ذکر کیا جائے.اس لئے عبرت کا عجیب مقام ہے کہ جن کو اپنا سمجھ کر ، جن کو خوش کرنے کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مخالفت میں بے حیائی کی ساری حدیں توڑی گئیں تھیں وہ اب ان بے حیائی کی حدیں توڑنے والوں کے خلاف بے حیائی کی ساری حدیں توڑ رہے ہیں اور ہر قسم کے گندے ناموں سے ان کو یاد کر رہے ہیں اور ہر قسم کے گندے یک طرفہ الزام لگاتے چلے جارہے ہیں.کوئی طاقت نہیں رہی حکومت کے پاس اب ان کے جواب دینے کی اور یہ سلسلہ معلوم ہوتا ہے کہ ابھی اور چلے گا اور یہ جو انقلاب سے پہلے کے دور لمبے ہوتے ہیں اتنی ہی زیادہ وہ تکلیف پیدا کرتے ہیں.لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں گزشتہ ایک خطبہ میں بھی
خطبات طاہر جلد۵ 308 خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء میں نے بار بار مختلف رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی تھی کہ ایسے موقع پر ہمیں تھر دلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے ، پست ہمتی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے.ہم لوگ بلند باتوں کے لئے ، اونچی چیزوں کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.ہمارے حوصلے وسیع ہونے چاہئیں.گالیوں اور ذلتوں پر خوش ہونا تو خود کمینے لوگوں کا کام ہے.ہمارے لئے عبرت کا مقام ہے اور خوش ہونا اور کسی کے دکھ پر ناچنا اور شادیانے بجانے اس چیز میں اور عبرت میں بہت بڑا فرق ہے.چنانچہ قرآن کریم بار بار یہ توجہ دلاتا ہے فَاعْتَبِرُوا يَأُولِي الْأَبْصَارِ (الحشر :٣) يه نہیں فرمایا کہ خوشی سے اچھلو اور کو دو.فرمایا کہ عبرت حاصل کرو يأولِي الْأَبْصَارِ.اگر تم راہ حق سے ہٹو گے تو تمہارے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے گا.اگر تم اپنی حیثیتوں کو بھول جاؤ گے یا تمہاری آئندہ آنے والی نسلیں اس قسم کی غلطیاں کریں گی تو ان کے ساتھ بھی خدا کی تقدیر یہی سلوک کرے گی.اس لئے استغفار سے کام لو اور عبرت حاصل کرو، اپنی اصلاح کی طرف متوجہ ہو.ان باتوں کو اختیار کرو جوخدا کو پسندیدہ ہیں اور ان باتوں سے بچو جو خدا کے غضب کو کھینچنے والی باتیں بن جایا کرتی ہیں.تو جماعت احمدیہ کو اس دور سے گزرتے ہوئے ان اداؤں کے ساتھ یہ رستہ طے کرنا چاہئے جو أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحہ ) کے گروہ کی ادائیں ہیں ، جن کو قرآن کریم نے خوب کھول کر بیان فرمایا ہے.زیادہ استغفار سے کام لیں ، زیادہ منکسر مزاجی سے کام لیں ، زیادہ خدا کی طرف متوجہ ہوں اور ان ذمہ داریوں کی طرف بھی متوجہ ہوں جو ایسے ادوار کے بعد الہی جماعتوں پر پڑا کرتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے اس کے معابعد یہ فرمایا يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّموتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ کہ اس دن یا اس دور میں تُبَدَّلُ الْأَرْضُ زمین تبدیل کر دی جائے گی وَ السَّموات اور آسمان بھی تبدیل کر دیئے جائیں گے.وَبَرَزُوا لِلهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ اور خدائے واحد و قہار کی طرف یہ نکل کھڑے ہوں گے یعنی جوق در جوق لوگ اللہ کی طرف ،خدائے واحد و یگانہ کی طرف رخ کریں گے.اس مضمون سے اس کا کیا تعلق ہے؟ دراصل اگر آپ اس کو موجودہ واقعات پر چسپاں کر کے دیکھیں تو پھر آپ کو سمجھ آئے گی.جس قسم کے واقعات پاکستان کی سرزمین پر ہو رہے ہیں یہ تو ایسی زمین نہیں ہے جس پر
خطبات طاہر جلد۵ 309 خطبه جمعه ۲۵ / اپریل ۱۹۸۶ء مومن خوش ہو سکے.ان میں کیا ادائیں ہیں خدا کی جماعتوں کی ادائیں تو نہیں ہیں.یہ وہ ادا ئیں تو نہیں ہیں جو انبیا ء اپنے ماننے والوں میں پیدا کیا کرتے ہیں کہ سارے ملک کو گندگی سے بھر دو، خواہ دشمن کے خلاف ہی ہو.غلیظ زبان استعمال کرو، ماؤں بہنوں کی عزت کا کوئی احساس نہ کرو، جو معصوم ہیں ان کو بھی اپنے غضب کی چکی میں پیتے چلے جاؤ.یہ تو کوئی طریق نہیں ہے جو قرآن اور سنت ہمیں سکھاتے ہیں یا جو انبیاء کی سنت ہمیشہ سے چلی آئی ہے.اس لئے فرمایا کہ یہ جوز مین تم دیکھ رہے ہو اس زمین پر انقلاب برپا ہونے والا ہے، اس زمین کو تبدیل کرنا پڑے گا اور اس زمین کو تبدیل ہونا پڑے گا اور اس تبدیلی کی ساری ذمہ داری مومنوں پر عائد ہوتی ہے اور ان کے آسمان کو بھی بدلنا ہوگا کیونکہ ان کی روحانی حالت بھی خراب ہو چکی ہے.ان کی دنیاوی حالت بھی خراب ہو چکی ہے.ایک ایسی قوم جو بار بار ایسے ابتلاؤں کے دور سے گزرتی اور سنبھلنے کے بجائے ہر دفعہ پہلے سے زیادہ خراب حالت میں اپنے آپ کو پائے ، جس کے اخلاق کا دیوالیہ پن جس کے ساتھ دنیا کے ہر قسم کے مظالم توڑے جارہے ہوں اور اس کو پتہ نہ ہو کہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے، ان کی زمین بھی بدلانی ہوگی اور ان کے آسمان بھی بدلانے ہوں گے اور اس تبدیلی میں جماعت احمد یہ کوسب سے زیادہ اہم کردارادا کرنا ہے.زمین کے لحاظ سے ان لوگوں کو دیکھیں تو پاکستان کے عوام کتنے مظلوم ہیں.کتنی دفعہ یہ کہانی دہرائی گئی ہے کہ ملک کی اپنی فوج نے غیر قوموں سے بچانے کی بجائے خود اپنے ملک پر قبضہ کر لیا.اب بظاہر یہ کتنی بے وقوفوں والی بات نظر آتی ہے، سمجھ میں آنی والی بات ہی نہیں ہے کہ چوکیدار رکھے تھے کہ ڈاکوؤں سے بچاؤ اور وہ اپنے گھر کے مالک بن کے بیٹھ گئے اور ساری دولت پر قابض ہو گئے اور گھر کے مکینوں کو غلام بنا لیا.یہ ایک دفعہ نہیں ہوا دو دفعہ نہیں ہوا کئی دفعہ ہو چکا ہے اور دھمکی دی جا رہی ہے کہ اگر پھر تم لوگ باز نہیں آئے اپنا حق مانگنے سے تو پھر یہی کر سکتے ہیں ہم.اس لئے خاموشی اختیار کرو.ایسی قوم ہر دفعہ جب اس قبضہ سے نکلنے کی کوشش کرتی ہے تو گندی گالیوں کے ذریعہ نکلنے کی کوشش کرتی ہے اور اس کے مقابل پر خون ناحق کے ذریعہ ان کی تحریکات کو دبانے کی کوشش کی جاتی ہے.بہت سے عوام گالیاں دیتے شور مچاتے ، چھاتیاں پیٹتے ، بعض گورنمنٹ کے اداروں کو آگ لگاتے ہوئے ، بعض کھلم کھلا گولیوں کے منہ میں چھلانگیں مارتے ہوئے اپنے غیظ وغضب کا اظہار کر
خطبات طاہر جلد۵ 310 خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء دیتے ہیں اور ایک انقلاب برپا ہو جاتا ہے اور ان کی حالت وہی رہتی ہے بے چاروں کی.تُبَدَّلُ الْاَرْضُ وَالسَّمَوت کا کوئی نظارہ دنیا نہیں دیکھتی پھر جو معنی خیز انقلابات کا ایک لازمہ ہونا چاہئے.یہ ہے قرآن کریم کا اعلان کہ اگر ایسی تبدیلیاں واقع ہوں، اگر خدا کا انتقام ظاہر ہو اور پھر ان کے زمین آسمان نہ بدلائے جائیں تو وہ الہی انقلاب نہیں ہے، وہ کوئی اور ذلیل چیز ہے جس کا جو بھی نام رکھ اور کھ لولیکن اسے الہی انقلاب قرار نہیں دیا جا سکتا.حالت یہ ہے کہ پھر پہلے سے بھی زیادہ بدتر حالت میں یہ بے چارے لوٹ جاتے ہیں.قربانیاں دیتے ہیں ، اپنا خون بہاتے ہیں گلیوں میں عورتیں بیوہ ہو جاتی ہیں، بچے یتیم ہو جاتے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہوتا.اسی طرح مزدور ترستا ہے اپنے حقوق کے لئے جس طرح پہلے ترسا کرتا تھا.اسی طرح حکومت کا نوکر ہو یا غیر نوکر ہو، آزاد تجارت کرنے والا ہو یا زمیندار ہو، سب کی حالت پہلے سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے.سارا معاشرہ دکھوں سے بھر گیا ہے.کسی شہر کے Slums میں آپ جا کر دیکھیں اب تو اکثر آبادیاں شہروں کی Slums بن چکی ہیں.سڑکیں اکھڑی ہوئی ہیں کوئی پرسان حال نہیں ہے.نہروں میں پانی سوکھ گئے ہیں.جو تقسیم ہے اس میں ظلم شامل ہو گیا ہے.انصاف کی تقسیم کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہا.سڑکوں کے بجائے گھر بنے لگ جاتے ہیں.گھروں کی بجائے زمینیں خریدی جانے لگتی ہیں.یعنی وہ ادارے جنہوں نے حکومتوں کے گھر بنانے ہیں ان کی زمینیں بن رہیں گھروں کی بجائے.وہ ادارے جنہوں نے سڑکیں بنانی ہیں سڑکوں کی بجائے ان کے اپنے گھر بن رہے ہیں.کوئی ایک بھی کل سیدھی نہیں اور دن بدن زیادہ سے زیادہ بگڑتی چلی جارہی ہے.اتنے دکھی ہیں لوگ، اس قدر مصیبتوں میں مبتلا ہیں کہ روز مرہ کی زندگی ایک عذاب بن گئی ہے اور کوئی بیمار ہو تو پوچھنے والا کوئی نہیں.کوئی مرجائے تو کوئی ہمدردی کرنے والا نہیں ہے.چوری ہوڈا کہ ہو سب اپنے حال میں مگن ہیں.یہاں تک کہ غربت جو ہے وہ پھر کفر کی راہ اختیار کرتی ہے، بے حیائی بن کر بازاروں میں بکنے لگتی ہے.پاکستان کے کسی ایک شہر کے غریب علاقے میں آپ جا کے دیکھیں تب آپ کو اندازہ ہوگا کہ کتنا دکھی ملک ہے اور جب انقلاب آتا ہے گالیوں اور شور اور فساد اور ڈنڈے کے ذریعہ آتا ہے اور بعد میں پہلے سے زیادہ دکھ چھوڑ جاتا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کے اوپر بھاری ذمہ داری ہے.قرآن کریم کا پیغام آپ کو یہ ہے
خطبات طاہر جلد۵ 311 خطبه جمعه ۲۵ اپریل ۱۹۸۶ء کہ آپ نے نئی زمین اور نئے آسمان کے لئے کوشش کرنی ہے.آپ ہرگز کسی انقلاب سے راضی نہ ہوں جو دنیا کے حالات بدلانے والا انقلاب نہ ہو.جوان کی دنیاوی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے اور جوان کی روحانی زندگی میں بھی تبدیلی پیدا نہ کر سکے اس انقلاب پر مومن راضی ہو جائیں اور مومن خوش ہو جائیں یہ کیسے ممکن ہے؟ ایسے چھوٹے اور سطحی اور پست خیالات والوں کا رب عظیم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.رب اعلیٰ سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.اس لئے مومنوں کی جماعت کو ان حالات پر نظر ڈال کر عبرت حاصل کرنی چاہئے اور وہ عزائم پہلے سے زیادہ بلند کرنے چاہئیں ہمتیں پہلے سے زیادہ مضبوط کرنی چاہئیں.ان ارادوں میں مزید قوت پیدا کرنی چاہئے ، اپنے عمل کی طاقت کو بڑھانا چاہئے.جن کے ذریعہ دنیا میں دائگی اور حقیقی انقلاب برپا کئے جاتے ہیں.ان غربتوں کا علاج بھی جماعت احمدیہ کے پاس ہے اور جماعت احمدیہ ہی کے ذریعہ ہوگا.ان ناانصافیوں کا علاج بھی جماعت احمد یہ ہی کے پاس ہے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہوگا.ان کی روحانی بدحالی اور بے راہ روی کا علاج بھی جماعت احمدیہ ہی کے پاس ہے اور جماعت احمدیہ کے ذریعہ ہو گا.اس لئے ان عظیم کاموں کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں.یہ عبرت ہے جو ان حالات سے حاصل کی جاتی ہے اور نئے زمین و آسمان کے لئے کوشش بھی کریں اور دعائیں بھی کریں.اور اپنے زمین و آسمان تو ضرور بدلیں کیونکہ اگر آپ کے زمین و آسمان نہ بدلے گئے تو آپ نے دنیا کے زمین و آسمان کیسے تبدیل کرنے ہیں.انقلابی روحانی تبدیلیوں کا تقاضا کر رہا ہے یہ دور.ایسی تبدلیاں کہ جماعت کے اندرونی حالات، دنیاوی حالات بھی درست ہو جائیں اور بیرونی حالات اور روحانی حالات بھی درست ہو جائیں.میں جب بار بار زور دیتا ہوں عائلی جھگڑوں کو مٹانے کے لئے ،آپس میں محبت کا ماحول پیدا کرنے کے لئے ، مالی لحاظ سے اپنی دیانت داری کے معیار کو بڑھانے کے لئے ، اپنے تقویٰ کے معیار کو اونچا کرنے کے لئے.یہ سارے نئے زمین و آسمان جو ہم نے پیدا کرنے ہیں ، ان کا مضمون میرے سامنے ہوتا ہے اور میں فکر کرتا ہوں.اس لئے وہ احمدی جو مجھے خط لکھتے ہیں کہ الحمد للہ وہ سب کچھ ہو گیا جس کی ہم توقع کر رہے تھے مجھے ان پر رحم آتا ہے.یہ تو آرائش خم کا کل ہے یعنی جس طرح
خطبات طاہر جلد۵ 312 خطبه جمعه ۲۵ / اپریل ۱۹۸۶ء کوئی اپنے حسن میں مگن خود اپنی زلفوں کو سدھارتا ہے اور خوش ہوتا چلا جاتا ہے.لیکن کچھ ہیں جو اس کو دیکھ کر اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا ہو جاتے ہیں.پس وہ انقلاب جو نتائج سے خالی ہو، وہ انقلاب جن کے عقب میں روحانی تبدیلیاں اور پاکیزہ روحانی تبدیلیاں پیدا ہونے والی نہ ہوں ، وہ انقلاب جن کے بعد قوم کی حالت نہ سدھرے اور پھر آئندہ خطرات کے انتظار میں گویا وہ بیٹھے کہ کب پھر ماحول بگڑے اور کب پھر ہم اس دور سے دوبارہ گزرنا شروع ہو جائیں جن انقلابات کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہو.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ انقلاب نہیں ہیں.جن کا قرآن کریم کی ان آیات میں ذکر ہے کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ - پس اے احمد یو! اس عظیم الشان انقلاب کے لئے کوشش کرو اور راضی نہ ہوں اور ہر گز راضی نہ ہو اور ہرگز راضی نہ ہو جب تک اس انقلاب عظیم کا پیش خیمہ تم اپنی آنکھوں کے سامنے نہ دیکھ لو.جب تک اس انقلاب عظیم کے آثار تمہیں دکھائی نہ دینے لگیں ، جب تک اس انقلاب عظیم کی خوشبو تمہارے نتھنوں تک نہ پہنچے ہر گز راضی نہ ہو.اسی کے لئے کوشش کرتے چلے جاؤ اسی کے لئے دعائیں کرتے چلے جاؤ کیونکہ ہماری جماعت الہی جماعت ہے اور انہی اغراض کے لئے پیدا کی گئی ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج نماز جمعہ کے معابعد تین احمدی خواتین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.ایک ہمارے سلسلہ کے مبلغ محمد حنیف یعقوب صاحب جو گیانا میں آج کل مبلغ ہیں اور ٹرینیڈاڈ کے ہیں ان کی اہلیہ محترمہ وفات پاگئیں ہیں.ایک عائشہ مستن یہ ہمارے عبدالحمید جبر وصاحب ماریشس کے ایڈوکیٹ ہیں ان کی خوشدامنہ تھیں، یہ بھی وفات پاگئیں ہیں اور مبارک احمد خان صاحب نجی سیکرٹری تبلیغ کی والدہ کی وفات کی اطلاع بھی ملی ہے.ان تینوں کی نماز جنازہ غائب جمعہ کے معا بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 313 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء حسد کی بیماری اور اس سے بچنے کی نصیحہ خطبه جمعه فرموده ۲ مئی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ ۚ فَقَدْ أتَيْنَا آلَ إِبْرَهِيمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًان (النساء:۵۵) وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتُبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كَفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ اور پھر فرمایا: (البقره: ۱۱۰) یہ دو آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورہ النساء اور سورہ البقرہ سے لی گئیں ہیں پہلی آیت سورہ النساء سے ہے اور دوسری البقرہ سے.ان دونوں میں حسد کا ذکر ملتا ہے.قرآن کریم میں حسد کا ذکر اس کے علاوہ تین دوسری جگہوں پر آتا ہے ایک سورہ فتح میں اور دو مرتبہ سورہ فلق میں.ایک طرف تو تعجب ہوتا ہے کہ صرف پانچ دفعہ اس برائی کا ذکر ہے جو کہ بہت ہی خطرناک اور گہری امراض سے تعلق رکھنے والی برائی ہے.جس کے نتیجہ میں دنیا میں بکثرت فساد پیدا ہوتے ہیں.دوسری طرف خود قرآن کریم اس کو اہمیت بھی اتنی دیتا ہے کہ آخری تین سورتوں میں جن میں
خطبات طاہر جلد ۵ 314 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء عملاً سارے قرآن کریم کا خلاصہ ہے اور جن میں آخری زمانے کے نہایت ہی ہولناک عالمگیر فتنوں کا ذکر ہے اور ان کے خلاف متنبہ کیا گیا ہے، ان میں جو تین ہتھیار شیطان حق کے مقابل پر اختیار کرے گا ان میں سے ایک حسد بھی بیان فرمایا گیا ہے: وَ مِنْ شَرِ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ وَ مِنْ شَرِ النَّفْتُتِ فِي الْعُقَدِةُ وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَةً (العلق :۲۴) تو جہاں تک اہمیت کا تعلق ہے حسد کو غیر معمولی اہمت دی گئی ہے کہ اس نقطہ نگاہ سے آخری زمانہ میں جو حق و باطل کی آخری فیصلہ کن لڑائی ہونے والی ہے ان میں شیطان ان تین ہتھیاروں سے لیس ہو کر تمہارے سامنے آئے گا.در اصل صرف چند مرتبہ حسد کو ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ حسد خود ایک پوشیدہ بیماری ہے اور اس کا اظہار مختلف دوسری بیماریوں کی صورت میں ہوتا ہے.جن دوسری بیماریوں کی صورت میں حسد جلوہ دکھاتا ہے اُن کا ذکر بکثرت قرآن کریم میں موجود ہے اور حسد چونکہ خود مخفی رہتا ہے اس لئے حسد کو بھی بالعموم مخفی رکھا گیا.چنانچہ بغض حسد کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.حسد کے نتیجے میں ظلم اور تعدی پیدا ہوتے ہیں.حسد کے نتیجے میں اور بہت سی ایسی معاشرتی برائیاں وجود میں آتی ہیں جن کی تہہ میں حسد کا جذبہ کارفرما ہوتا ہے لیکن بالعموم دکھائی نہیں دیتا بلکہ بعض دفعہ ایسے مخفی طور پر کام کرتا ہے که خود حاسد کو بھی پتہ نہیں ہوتا کہ میں کیوں یہ حرکت کر رہا ہوں اور بسا اوقات وہ نیکی کے لباس میں وہ حرکت کرتا ہے حالانکہ دراصل اس کی پشت پر حسد زور مارتا ہے،حسد انگیخت کرتا ہے،حسدا سےاس بدی پر ترغیب دلا رہا ہوتا ہے.حسد کا جوحملہ قرآن کریم کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے وہ دوطرح پر ہے.ایک اندرونی طور پر یعنی مسلمانوں کے معاشرہ پر خفیہ طور پر حسد حملہ کرتا ہے اور اکثر برائیاں جو معاشرے کی ہیں ان میں اگر ساری نہیں تو بہت سی حسد کے اندر جڑیں رکھتی ہیں اور حسد کے ساتھ پیوستہ ہوتی ہیں اور بیرونی طور پر بھی مومنوں کی جماعت پر حسد حملہ کرتا ہے.بیرونی حملے کی نشاندہی جہاں فرمائی گئی ان میں سے یہ دو آیات ہیں.جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.فرمایا:
خطبات طاہر جلد۵ 315 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء أمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ کہ جب اللہ سوسائٹی میں سے کسی پر فضل فرماتا ہے یا چند بندوں کو یا چند قوموں کو یا چند نسلوں کو اپنے فضل کے لئے چن لیتا ہے تو لوگ اس بنا پر ان سے حسد شروع کر دیتے ہیں کہ خدا نے ان کو اپنے فضل کے لئے چن لیا ہے.لیکن ان کا یہ حسد اُن لوگوں کی ترقی پر ذرہ بھر اثر انداز نہیں ہوتا جن کو خدا نے اپنے فضل کے لئے چن لیا ہو.فرمایا: فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْرهِيْمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا ان حاسدوں کے باوجود اسکے کہ لوگ جلتے رہے اس آگ میں کہ کیوں ابراہیم پر ایسے فضل نازل ہوئے ، کیوں اس کی اولاد پر اتنے فضل نازل ہوئے ، کیوں دنیا میں ترقی کرتے چلے گئے.فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْرهِيْمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ ہم نے ابراہیم ہی پر نہیں اس کی آل پر بھی فضل نازل فرمائے.ان کو کتاب دی ان کو حکمت عطا فرمائی وَأَتَيْنَهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا اور انہیں عظیم روحانی سلطنت عطا فرمائی.ملک عظیم میں قرآن کریم کے محاورہ کے مطابق اول درجہ پر روحانی سلطنت مراد ہوتی ہے.دوسری جگہ قرآن کریم مومنوں کی جماعت سے بالعموم کفار کے حسد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے.وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتُبِ لَوْ يَرُدُّوْنَكُمْ مِّنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوْا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللَّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کہ اہل کتاب میں سے اکثر یہ چاہتے ہیں یا بہت بڑی تعداد ان کی یہ چاہتی ہے کہ کاش تم مرتد ہو کر ایمان سے ہٹ کر کفر کی طرف لوٹ جاؤ ایمان حاصل کرنے کے بعد پھر کفار میں شامل ہو جاؤ.ایسا کیوں ہے؟ فرمایا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِم یہ ان کے اندر جو حسد پایا جاتا ہے اس کی بناء پر ہے.یہاں اور باتوں کے علاوہ یہ امر قابل غور ہے کہ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ کہنے کی کیا ضرورت تھی؟ حسد کا ذکر کافی کیوں نہیں تھا؟ اپنے اندر کے حسد ہی سے انسان بدیاں کرتا ہے،
خطبات طاہر جلد۵ 316 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء مخالفتیں شروع کر دیتا ہے ، دوسرے کا برا چاہتا ہے.سب کے حسدان کے اندر ہوتے ہیں.تو حَسَدًا مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ میں اس بات پر زور کیوں دیا گیا.زور اس وجہ سے دیا گیا کہ بعض دفعہ حسد کسی ایسی دشمنی کے نتیجے میں جڑ پکڑتا ہے جس دشمنی کو پیدا کرنے میں فریق ثانی ذمہ دار ہوتا ہے اور جب ایک دفعہ دشمنی پیدا ہو جائے تو پھر اس کے نتیجے میں حسد اس پہلی دشمنی کے جواب میں پیدا ہوتا ہے.جب دشمنی چلی پڑتی ہے تو دونوں طرف ضد اور تعصب اورحسد کے معاملات چلتے ہیں.مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ کہہ کر مومنوں کی معصومیت کا اظہار فرمایا گیا ہے.ان کا کلیاً بری الذمہ قرار دیا گیا ہے.فرمایا کوئی بھی ایسی حرکت مومنوں کی طرف سے نہیں ہوتی جس کے نتیجے میں دشمن ان پر حسد شروع کرے اور نہ مومن ان سے حسد کرتے ہیں محض یک طرفہ معاملہ ہے.نہ وجہ جواز ہے نہ مومنوں کی یہ صفت ہے کہ وہ بھی حسد کریں اور یہ حسد یک طرفہ رہتا ہے، مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ ایک ہی طرف سے چلتا ہے.اس میں ایک اور پہلو بھی قابل غور یہ ہے کہ مومن اور کافر کی تبلیغ کا فرق دکھا دیا گیا.جب کا فرمومن کو تبلیغ کرتا ہے اور کہتا ہے ہماری ملت میں لوٹ آؤ تو اس کی محبت کی وجہ سے نہیں کرتا اس کو بچانے کی خاطر نہیں کرتا بلکہ حسد اور بغض کی بناء پر کرتا ہے اور یہ جو فتنہ ارتداد کہ کر بڑا عظیم الشان ایک فساد کھڑا کر دیا جاتا ہے کہ مرتدین کو واپس لاؤ نہیں تو قتل کرو نہیں تو گھروں سے نکالو، ان سب کی بناء حسد ہے.کوئی محبت یا فلاح و بہبود ہرگز اس کی بناء نہیں ہے، کسی کو فتنے اور ہلاکت سے بچانے کی خواہش اس کی بنا نہیں ہے.ایک جلن ہے کہ یہ لوگ پھیل رہے ہیں، یہ لوگ بڑھتے چلے جا رہے ہیں.چونکہ ہم مثبت ذرائع سے ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے کیونکہ ہم اس دوڑ میں ان سے آگے نہیں نکل سکتے اس لئے ان کو زبر دستی کم کرنے کا یہی طریقہ ہے کہ ان کو تلوار کے زور سے مرتذ کرو اور ان کو کم کرتے چلے جاؤ.اگر ہم نہیں بڑھ سکتے تو یہ کم ہو سکتے ہیں.یہ من عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ نے بتایا کہ محض ان کی تبلیغ کے پیچھے یہ جذبے کار فرما ہوتے ہیں.جہاں تک مومن کا تعلق ہے مومن کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں ہوتی کہ دشمن پر خدا کے کوئی فضل نازل ہورہے ہیں یا نہیں ہور ہے ، وہ بڑھ رہا ہے یا کم ہو رہا ہے.مومن کو تو صرف ایک لگن ہوتی ہے کہ جتنا زیادہ سے زیادہ بنی نوع انسان کو وہ ظلم اور ہلاکت کی راہ سے بچا سکتا ہے بچالے.جتنوں کو خدا کی راہ پر بھینچ کے لا سکتا ہے ان کو کھینچ لائے
خطبات طاہر جلد۵ 317 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء اور اس جذبے میں محبت اور فدائیت کارفرما ہوتے ہیں.اس جذبے میں ان کی بہبودز ور مارتی ہے اور دلوں کو مجبور کرتی ہے کہ دکھ اٹھا کر بھی غیروں کو اپنی طرف کھینچ کے لاؤ.چنانچہ دونوں کے ہتھیار بدل جاتے ہیں.حسد بھی گو پوشیدہ ہے اور محبت بھی دل میں پوشیدہ ہوتی ہے لیکن یہ دونوں جب ظاہر ہوتے ہیں تو اپنے ہتھیاروں کے ذریعے پہچانے جاتے ہیں.حسد کی ذریعے جو تبلیغ ہے اس میں ظلم اور ستم اور جبر اور تلوار یہ نمایاں ہتھیار ہیں.حسد تو دل میں چھپا ہوا ہے وہ نظر نہیں آرہا ہوتا.لیکن زور کے ساتھ ، آگ لگانے کی دھمکی کے ساتھ ، گھروں سے نکال دینے کی دھمکی کے ساتھ قتل کی دھمکی کے ساتھ ، جو تبلیغ کی جاتی ہے قرآن کریم کی رو سے وہ حسد کے نتیجے میں ہے اور یہ فتنہ ارتداداللہ کے نزد یک ایک مردو دفتنہ ہے.اس کے برعکس جب مومن تبلیغ کرتے ہیں کیونکہ وہ محبت کی بناء پر کرتے ہیں اس لئے لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقره: ۲۵۷) کا اطلاق ان کی ہر چیز میں ان کی ہر حرکت ، ان کی ہر سکون میں ملتا ہے.وہ دکھ دے کر کسی کو مومن نہیں بنا رہے ہوتے بلکہ دکھ اٹھا کر مومن بنارہے ہوتے ہیں.وہ دوسروں کی جانیں لے کر ان کو تبلیغ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ اپنی جانیں پیش کر کے تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں.کتنا زمین آسمان کا فرق ہے، کتنی دو مختلف متقابل راہیں ہیں ایک دوسرے کے.ایک کا دوسرے کے ساتھ اشتباہ کا کوئی سوال ہی باقی نہیں چھوڑا خدا تعالیٰ نے.ایسی عظیم کتاب ہے چھوٹے چھوٹے باریک اشاروں میں بڑے بڑے دقیق مضمون کھولتی چلی جاتی ہے.پھر فرمایا حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ یہ تو بہت بڑا اعلان ہے اور بہت بڑا دعویٰ ہے کہ ان پر حق خوب واضح ہو چکا تھا ، تبیّن ہو چکا تھا حق.پھر بھی اس کے باوجود انہوں نے کیوں اپنی ہلاکت کی راہ اختیار کی ؟ یہ سوال اُٹھتا ہے.قرآن کریم فرمارہا ہے انہوں نے یہ طریق مخالفت کا اس کے باوجود اختیار کیا کہ ان پر حق ظاہر ہو چکا تھا اور بظاہر یہ عجیب بات لگتی ہے کہ کسی پر حق ظاہر ہو گیا ہو اور پھر اس کے باوجود حق کی مخالفت کرے اور اس کے باوجود اپنے لئے ہلاکت کی راہ اختیار کرے.حسد اس مسئلہ کی کنجی ہے.جب آپ حسد پر غور کرتے ہیں تو یہ مسئلہ خود بخود حل ہو جاتا ہے.جب کسی دوسرے سے حسد شروع ہو جائے تو وہاں انتقام اور بغض کا جذ بہ اتنا غالب آجاتا ہے کہ اپنا نقصان کر کے بھی دوسرے کو نقصان پہنچایا جائے تو انسان پہچانے کی کوشش کرتا ہے.اگر ممکن
خطبات طاہر جلد۵ 318 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء ہو کہ خود بھی ڈوبے اور غیر کو بھی لے ڈوبے تو اگر حسد کا جذبہ پیچھے ہے تو بعض دفعہ یہ جذبہ بھی حسد دکھاتا ہے کہ غیر کے ساتھ اپنی ہلاکت بھی انسان مول لے لیتا ہے.چنانچہ اردو میں ایک محاورہ ہے شریکے کا دانہ سرد کھتے بھی کھانا کہ شریکے کو نقصان پہنچ جائے ، اس کا رزق کم ہو جائے اس لئے اپنے آپ کو ہضم نہ بھی ہو ، موافق نہ بھی آئے تو شریکے کا کھانا اس غرض سے ضرور کھانا ہے کہ وہ کم ہو جائے.تو قرآن کریم نے لفظ حسد کے تابع اس مضمون کو کھول دیا کہ حسد آنکھوں کو اندھا کر دیتا ہے حسدا اپنی بھلائی کی تمیز اٹھا دیتا ہے اور جب حسد غالب آجائے تو حسود کی آنکھ بنگ ہو جاتی ہے اور وہ اپنی بھلائی بھی نہیں دیکھ سکتے.اس لئے حق دیکھنے کے باوجود بھی پھر وہ اپنی ضد پر قائم ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم نے ضرور اس حق کو نقصان پہنچا کے چھوڑنا ہے.دوسرے معنی اس کے یہ ہوں گے من بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ اس وقت اس وجہ سے وہ ارتداد کا فتنہ شروع کرتے ہیں کہ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ وہ جان چکے ہوتے ہیں کہ اب اگر ہم نے زبر دستی ان کو نہ روکا تو یہ ضرور غالب آجائیں گے.حق کھل گیا سے معنی ہیں حق کا غلبہ کھل گیا.صاف نظر آنے لگ جاتا ہے روز روشن کی طرح کہ اب تو یہ آئے کہ آئے ، اب کوئی دنیا کی طاقت ان کے اس غلبہ کی حرکت کو روک نہیں سکتی سوائے اس کے کہ تلوار کا جبر اختیار کیا جائے ،حکومتوں کا جبر اختیار کیا جائے ،ضد اختیار کی جائے.ہر قسم کی دشمنی کے ذریعے فتنہ اور فساد کے ذریعے ان کو روکنے کی کوشش کی جائے.جہاں تک دلائل کا تعلق ہے جہاں تک منطق کا تعلق ہے جہاں تک کتابی اسناد کا تعلق ہے یہ لوگ تو بہر حال غالب آنے والے لوگ ہیں.تو حق سے مراد یہاں یہ حق بھی ہوسکتا ہے کہ حق و باطل کی جنگ میں یہ حق ان پر کھل جاتا ہے جب کہ اب یہ لوگ بہر حال غالب آ کر رہیں گے.اس وقت پھر وہ حسد کے ذریعے تمام مخالفانہ کوشش شروع کر دیتے ہیں جن کی تان ارتداد کی شش پر ٹوٹتی ہے.پس جہاں فتنہ ارتداد کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے وہاں ہر جگہ حسد کا ذکر نہیں.اس لئے آپ سمجھتے ہیں کہ حسد کا ذکر نہیں ہے حالانکہ یہاں بتا دیا کہ حسد اس کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے مخفی ہوتا ہے.جہاں غیظ و غضب کا ذکر ملتا ہے، جہاں عناد کا ذکر ملتا ہے، جہاں تعدی کا ذکر ملتا ہے وہاں ہر جگہ حسد کا ذکر نہیں لیکن حسد اس کے پیچھے کارفرما ہوتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 319 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء فرمایا: فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِہ مومن کی صفات کو کافر کی صفات سے کتنے نمایاں امتیاز کے ساتھ الگ کر کے دکھا دیا ہے.اس حسد کے مقابل پر مومن کو حسد کی اجازت نہیں دی گئی.اس جبر کے ذریعے مرتد کرنے کی مہم کے مقابل پر قرآن کریم نے جبر کے ذریعے مرتد کرنے کی مہم چلانے کی اجازت نہیں عطا فرمائی.فرمایا جب تم یہ دیکھو کہ حسد کے ذریعے تمہارے خلاف جبری ارتداد کی مہم چلائی جارہی ہے فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا تم درگزر کرو اور عفو سے کام لو عفو سے کام لو اور درگزر کر و حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِہ یہاں تک کہ اللہ اپنے امر کو غالب فرمادے.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ مومن کا کام بھلائیوں کے میدان سے ہٹنا نہیں.بھلائیوں کے میدان میں جو اُس کے قدم جمے ہوتے ہیں.ان میدانوں سے اگر اس کے قدم اکھڑ جائیں تو یہ اس کی شکست ہے.اس لئے نیکیوں کے میدان میں ثابت قدم رہنا یہی مومن کے ہتھیار ہیں اور اگر مومن اپنی نیکیوں کے میدان میں ثابت قدمی دکھاتا ہے تو پھر دشمن کی شکست یقینی ہے کیونکہ پھر انسانی کوششوں کے ذریعے دین کا غلبہ نہیں ہوتا بلکہ اللہ خود اپنے امر کو غالب فرماتا ہے.فرمایا پھر تم انتظار کر وشرط یہ ہے کہ نیکیوں کے اوپر تم نے ثابت قدمی دکھانی ہے ، نیکیوں کے اوپر استقلال دکھانا ہے، عفو سے کام لو در گزر سے کام لو اور جسم کے بیٹھ جاؤ اپنے موقف کے اوپر حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِ ؟ یہاں تک کہ اللہ اپنے حکم کو غالب کر دے.اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جہاں دور آخر میں حاسد کے حسد سے بچنے کی دعا سکھائی وہاں حاسد کے حسد کے اظہار کے طریقے بھی ہمیں قرآن کریم نے بتا دیئے کہ کس کس طرح یہ حسد ظاہر ہوگا اور کس طرح یہ حسد انکار پر منتج ہو گا اور خدا تعالیٰ جتنے تم پر فضل فرما تا چلا جائے گا اُتنا ہی غیظ و غضب دشمن کا بڑھتا چلا جائے گا اور اس سب کے پیچھے حسد کا جذبہ کار فرما ہوگا کہ کیوں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو بڑھاتا چلا جارہا ہے، کیوں ان پر فضل فرماتا چلا جا رہا ہے.اور علاج کیا ہے عفو سے کام لیں انتقام سے کام نہ لیں درگزر سے کام لیں اور کامل یقین کے ساتھ اللہ کی طرف سے فتح اور غلبہ کے آنے کا انتظار کریں اور اللہ سے ان کے شر سے پناہ مانگتے چلے جائیں.یہ مضمون تو بالکل کھلا کھلا اور واضح ہے.ہر انسان کو یہ بات سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ الہی جماعتوں کے خلاف ایک حسد پیدا ہوتا ہے اور وہ پھر بالآخر حد سے زیادہ ظلم کے طریقوں پر منتج ہو جاتا
خطبات طاہر جلد۵ 320 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء ہے لیکن حسد کا حملہ مومنوں کی جماعت کے اندر ہر طرف سے ان کے گھروں میں ان کی گلیوں میں ان کے آپس کے تعلقات کے ہر دائرہ میں شیطان کی طرف سے ہو رہا ہوتا ہے اور بسا اوقات انسان اس سے آنکھیں بند کر لیتا ہے.اس لئے جو دوسرا پہلو ہے حسد کے حملوں کا جماعتی تربیت کے لئے ضروری ہے کہ اس کی طرف بھی جماعت کو بار بار متوجہ کیا جائے.میں نے تقریباً تین سال پہلے ایک خطبہ میں اسی مضمون کی طرف جماعت کو متوجہ کیا تھا.آج پھر فَذَكِّرْ اِن نَفَعَتِ الذِّكْرى ( الاعلی :۱۰) کی ہدایت کے تابع اس مضمون کو چھیڑا ہے.جہاں تک غیروں کے حسد کا تعلق ہے.اللہ تعالیٰ کا آپ سے وعدہ ہے کہ ان کے شر سے وہ آپ کو محفوظ رکھے گا جہاں تک غیروں کے حسد کا تعلق ہے اللہ تعالی کا آپ سے وعدہ ہے کہ ان کے حسد کے باوجودخدا تعالیٰ آپ پر مزید فضل نازل فرماتا چلا جائے گالیکن حسد کرنے والی سوسائٹی سے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں، حسد کرنے والے دلوں سے اللہ کا کوئی وعدہ نہیں.پس اگر حسد کے جذبات مخفی طور پر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ایک مخفی جذبہ ہے اور ایسا ظالم ہے جو شیطان کی صفت کے مطابق چھپ کر حملہ کرتا ہے.اسی لئے بہت کم اس کا ذکر لفظ حسد کے ساتھ ملتا ہے.اس کے مظاہر کا ذکر بکثرت قرآن کریم میں موجود ہے.اس لئے حسد کے خلاف بار بار متنبہ کرنے کی ضرورت ہے اور کس طرح یہ بھیس بدل کر داخل ہوتا ہے یہ سمجھانے کی ضرورت ہے اور یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اگر آپ نے حسد کے خلاف اپنے دلوں کی اور اپنے گھروں کی حفاظت نہ کی تو حسد کی بیماری کا آخری نتیجہ انکار پر منتج ہوا کرتا ہے.حسد کے نتیجہ میں پھر وہ حرکتیں شروع ہو جاتی ہیں جو غیروں کی حرکتیں قرآن کریم نے کھول کر آپ کے سامنے بیان فرمائی ہیں.پھر وہ سوسائٹی جو حسد کی شکار ہو جاتی ہے بالاخر انہی لوگوں میں سے خدا کے منکرین ، اس کے پیاروں کے منکرین نیک بندوں کی مخالفت کرنے والے پیدا ہونے لگ جاتے ہیں اس لئے یہ ایک بہت ہی خطرناک زہر ہے جس کے خلاف ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے ، ہر طرح سے اپنی سوسائٹی کو اس بدزہر کے اثر سے بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور میں تو دیکھتا ہوں کہ بہت سی نیکیوں کے بھیس میں حسد کا جذبہ کارفرما دکھائی دے رہا ہوتا ہے.گھروں کے معاملات میں ، بہو اور ساس کے معاملات میں ، بھائی بہنوں کے معاملات میں، خاوند بیوی کے معاملات میں ، ایک خاندان کے دوسرے خاندان سے تعلقات کے معاملات میں ،
خطبات طاہر جلد۵ 321 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء تجارتوں میں ، نوکریوں میں کونسا زندگی کا شعبہ ہے جہاں آپ کو بہت سی بدیوں کے پیچھے چھپا ہوا کمین گاہوں میں مخفی حسد نظر نہ آئے.جماعت کے معاملات میں اب نیکیوں پر بھی حسد حملہ کر رہا ہوتا ہے اور نیکی کے لباس میں حسد حملہ کر رہا ہوتا ہے.بعض لوگوں کو اللہ تعالیٰ چندوں کی تو فیق عطا فرما تا ہے، بڑی کثرت سے مالی قربانی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں بعض دوسرے لوگ دعائیں کرتے ہیں انکسار کے ساتھ خدا کے حضور جھکتے ہیں کہ اے خدا! ہماری بھی تمنائیں پوری کر ہمیں بھی قربانی کی توفیق عطا فرما اور بعض دوسرے دوست انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کی کوئی برائی پکڑی جائے تو ہم پھر حملہ کریں.ہم بتائیں کہ اچھا یہ مالی قربانی والے اس قسم کے لوگ ہوتے ہیں اور پھر یہ کہیں کہ جماعت تو بس اموال کی حرص میں مبتلا ہے.جو مالی قربانی کر دے وہ نیکی سمجھی جاتی ہے اور دوسری چیزوں کی طرف پرواہ ہی کوئی نہیں ، نظر ہی کوئی نہیں باقی باتوں کی طرف.اب یہ دور د عمل کتنے مختلف ہیں.ایک حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ کا رد عمل ہے اور ایک تقویٰ کا رد عمل ہے.حسد سے خالی، رشک کا نیکیوں کے حصول کی تمنا کا رد عمل ہے.چنانچہ اکثر تنقید جس کو آپ تخریبی تنقید کہتے ہیں جب آپ اُس کی چھان بین کریں اُس کا تجزیہ کریں تو اُس کی جڑیں آپ کو ہمیشہ حسد میں دکھائی دیں گی.اگر ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے مالی قربانی کی توفیق دی ہے تو جن کے پاس وہ توفیق نہیں ، جن کو وہ تو فیق نصیب نہیں اُن کے لئے اگر وہ تقویٰ رکھتے ہوں تو سوائے اس کے کوئی راہ نہیں کہ اللہ سے یہ دعا مانگیں کہ اللہ ان کو بھی توفیق عطا فرمائے اور اُن کے لئے دعا مانگے کہ اللہ ان کی قربانیوں کو قبول فرمائے.لیکن حاسد آدمی یہ رد عمل نہیں دکھاتا.وہ اُس سے بھی جلتا ہے اور اُن لوگوں سے بھی جلتا ہے جو ان قربانیوں کے نتیجہ میں اُن سے محبت کرنے لگتے ہیں، اُن سے حسن سلوک کرتے ہیں اور اُس کی تمنا اُس کو بُرادیکھنا ہوتی ہے.حسد کرنے والا کسی کو خوش نہیں دیکھ سکتا، کسی کو اچھا نہیں دیکھ سکتا.یہ اس کی بنیادی صفت ہے جو ہر حسد میں آپ کو نمایاں طور پر دکھائی دیتی ہے.کسی کو بھلائی پہنچے تو یہاں تکلیف ہو جاتی ہے، کسی کو تکلیف پہنچے تو یہاں خوشی بن جاتی ہے.تو جب مضمون بالکل برعکس ہو جائے.ایک طرف اونچا ہے تو دوسری طرف نیچا ہو جائے ، ایک طرف نیچا ہے تو دوسری طرف اونچا ہو جائے، یہ کرشمہ حسد دکھایا کرتا ہے.پھر خدا تعالیٰ بعض سلسلہ کے کارکنوں کو خدمت کی توفیق بخشتا ہے.اُس کے نتیجے میں وہ
خطبات طاہر جلد ۵ 322 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء آگے آجاتے ہیں، اُن سے کام زیادہ لئے جاتے ہیں ، اُن پر زیادہ اعتماد کئے جاتے ہیں.کچھ لوگ ایسے ہیں جو اُن باتوں کو دیکھ کر اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں، اُن سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں حالانکہ بظاہر اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا.اُن کو پیار کے خطوط لکھتے ہیں ، اُن کی خدمت کی تمنا دل میں پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ دعا کرتے ہیں کہ کاش! ہمیں بھی توفیق ملے ، ہم بھی اسی طرح اپنی جانی قربانی کریں ، وقت کی قربانی کریں اور کچھ لوگ ہیں جو جلتے جاتے ہیں آگ میں، اپنی ہی آگ میں وہ دن رات بھسم ہو رہے ہوتے ہیں.یہ دیکھو ! ان لوگوں کو بڑا آگے کیا جارہا ہے، یہ تو بڑے ریا کار لوگ ہیں، ان کا کام سوائے اس کے کہ چودھراہٹ اختیار کریں ، آگے کاموں میں بڑھیں ہر چیز پر قبضہ کر لیں اور کوئی کام ہی نہیں ان کا اور پھر انتظار میں رہتے ہیں اُن بے چاروں سے جہاں کوئی غلطی ہو اُس کو پکڑ لیتے ہیں اُس کو پیتے ہیں اُس کو رگڑ رگڑ کے اس طرح ساری جماعت میں اُس کو مشتہر کرتے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ آخر کیا وجہ تھی.اُس سے بڑی غلطیوں میں خود مبتلا ہوتے ہیں لیکن سلسلے کے ایک کارکن کی چھوٹی غلطی بھی برداشت نہیں ہوتی.وجہ یہ ہے کہ حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمْ چونکہ حسد ہے دل کے اندر اس لئے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جہاں کوئی ایسا شخص جس پر خدا کا فضل ہوا ہو اُس کو نقصان پہنچایا جا سکے.اب کھول کر بیان کر دیا جائے تو سمجھ آنے لگ جاتی ہے بات لیکن جب کھول کر بیان نہ کیا جائے تو میخفی حالتیں رہتی ہیں.انسان سمجھتا ہے یہ تو بڑی اچھی تنقید کر رہا ہے، بالکل ٹھیک کہہ رہا ہے.فلاں عہدہ دار ہے، فلاں امیر ہے، فلاں قائد خدام الاحمدیہ ہے اور اُس سے یہ حرکت ہوئی ہے، اس کا حق ہے ساری دنیا میں اُس کو مشتہر کرے.حالانکہ یہ نہیں سوچتا سننے والا کہ اگر دل میں نیکی ہو، اگر دل میں پیار ہو اور اپنے بھائی کی محبت ہو تو اُس کی برائی سے خوش کیسے ہوسکتا ہے کوئی ، اُس کی برائی کا ڈھنڈورا کیسے پیٹ سکتا ہے.اپنے بچوں سے کوئی حرکت ہو تو لوگ پر دے ڈالا کرتے ہیں کہ اُن کے ڈھنڈورا پیٹا کرتے ہیں؟ اپنے بچوں میں سے کسی کا کوئی نقص ظاہر ہو جائے تو انسان چھپانے کی کوشش کرتا ہے ، انسان اُن کی تلافی مافات کی کوشش کرتا ہے، چاہے معافی مانگنی پڑے، چاہے جھکنا پڑے کسی کے سامنے اور مخفی طور پر چھپ کے اپنے بچوں کو سمجھانے کی کوشش کرتا ہے لیکن جب حسد ہو تو پھر بالکل برعکس رد عمل ہوتا ہے.تو اس قسم کے ناقدین گود و ہرا نقصان کا موجب بن جاتے ہیں جماعت کے لئے.
خطبات طاہر جلد ۵ 323 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء اول سادہ لوح انسان تو پہچان نہیں سکتے یہ کیوں ایسی حرکت کر رہے ہیں.اُن کو یہ نظر آتا ہے کہ ہاں غلطی درست ہے.اب حاسد کے لئے ضروری نہیں کہ جھوٹ بھی ساتھ بولے.بعض حاسد ایسے ہوتے ہیں جو جھوٹ نہیں بولتے ، واقعات بیان کرتے ہیں لیکن واقعات کا بیان دنیا کے لئے جماعت کے لئے شدید نقصان کو موجب بن رہا ہوتا ہے.نفرتوں کی آگ پھیلا رہے ہوتے ہیں اور اس کے علاوہ نیکیوں سے اُن کی نظریں ہٹا رہے ہوتے ہیں.ایک شخص کی نیکیاں قابل قبول ہیں اس کے بجائے اُس کی برائی کو نمایاں کر کے دکھاتے ہیں اور پھر عدم اعتماد پھیلا دیتے ہیں جماعت میں.لوگ کہتے ہیں اچھا جی! یہ عہدہ دار اس طرح کے ہیں تو باقی کیوں نہ اس طرح کریں.تو حسد کی آگ مخفی آگ کی طرح اندر ہی اندر پھیلتی ہے اور نیکی کو کھاتی چلی جاتی ہے.سوسائٹی کے اعتماد کو نقصان پہنچا رہی ہوتی ہے اور بظاہر نیکی کے نام پر حسد چل رہا ہوتا ہے.شریکا جس کو پنچاب میں کہتے ہیں.یہ سارا حسد کی بناء پر ہے.پوری سوسائٹی متاثر ہے اس سے، بڑے بڑے فساد ہوتے ہیں، بہت بڑی بڑی لڑائیاں ہو جاتی ہیں.خاندانی ناچاقیاں رشتے کٹ جاتے ہیں اور محض ” شریکے کی وجہ سے اور اس شریکے کو بجائے اسکے کہ ہمارے معاشرہ میں برا سمجھا جائے فخر کا موجب بنا لیا گیا ہے.چنانچہ بعض زمیندار مجھے بتاتے رہیں ہیں کہ ہم جب جاتے ہیں شادیوں پر تو ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ جس شریکے کے ہاں شادی ہو رہی ہوتی ہے اپنے گھر کے بچے یا بچی کی ، کہتے ہیں پوری کوشش ہوتی ہے کہ ان کا کھا ناختم ہو جائے ، چاہے الٹیاں کرنی پڑیں بعد میں، حکیموں کے پاس جانا پڑے، علاج کروانا پڑے، معدے تباہ ہو جائیں لیکن پورا زور لگاتے ہیں کہ اتنا کھاؤ کہ اُن کے اندازے ناکام ہو جائیں اور کھا ناختم ہو جائے اور ہم کہیں کہ تمہاری ناک کٹ گئی.ایسی جاہلانہ حرکتیں ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے کھول دیا مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ حق جاننے کے باوجود حسد حملہ کر دیتا ہے.حسد ایسی جہالت ہے کہ دکھاتا ہے کہ تمہارا نقصان ہے اس میں اور اس کے باوجود حسد غلط اقدام پر مجبور کر رہا ہوتا ہے.بعض دفعہ حسد ایسے حیرت انگیز لباس پہن کر آتا ہے کہ عام نظر اس کو محسوس بھی نہیں کر سکتی.ایک ساس بہو سے حسد کر رہی ہوتی ہے اس لئے کہ اُس کا بیٹا اپنی ماں کے پیار میں اپنی بیوی کو شریک کر رہا ہوتا ہے.اب بظاہر تو کوئی وجہ نہیں ماں کا پیار اور نوعیت کا ہے، اُس کی پاکیزگی اور چیز ہے،
خطبات طاہر جلد۵ 324 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء اُس کی مثال ہی کوئی نہیں اور بیوی کا پیار بالکل اور نوعیت کا ہے.لیکن حسد جب زور مارتا ہے تو ان دونوں پیاروں کا آپس میں مقابلہ کروا دیتا ہے اور ماں جلتی رہتی ہے کہ اس لڑکی کی طرف خاوند نے اتنی توجہ کی اور میں اب اس کی برائی دکھاتی ہوں اُس کو اور خود اپنا نقصان کرتی ہے.اپنے گھر کا ماحول تباہ کر لیتی ہے، اپنے بیٹے کے لئے ، اپنی بہو کے لئے دکھ کا موجب بن جاتی ہے اور بیویاں جب جلتی ہیں ماؤں سے یعنی اپنی ساسوں سے تو خاوند کے کان بھرتی رہتی ہیں.اُن کے دلوں میں ماں کے خلاف جذبے پیدا کرنے کی کوشش کرتی ہیں.تو حسد ہر جگہ کاٹنے والا کام کرتا ہے.وَ مِنْ شَرِّ النَّقْتُتِ فِي الْعُقَدِ کے بعد رکھا ہے اس کو وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَان کا آپس میں گہرا تعلق ہے.حسد کے نتیجے میں تعلقات ٹوٹتے ہیں اور جدائیاں پیدا ہوتی ہیں اور حسد کے فقدان کے نتیجہ میں یعنی اگر سچار شک ہو ، محبت ہو اور پیار ہو تو اُسکے نتیجے میں وصل پیدا ہوتا ہے اور جدائیاں ہٹتی ہیں.جتنے بھی معاشرے ہمارے میں باہمی تعلقات ہیں جدائیاں پیدا کرنے والے جذبات ہیں یا جدائیاں پیدا کرنے والی حرکات ہیں اُن کے پیچھے آپ کو بسا اوقات حسد کام کرتا ہوا دکھائی دے گا اور حسد انسان کو کمینہ بھی بنا دیتا ہے.حسد بالآ خر نظر کو اتنا تنگ کر دیتا ہے کہ کسی کی خوشی برداشت ہی نہیں ہوتی.چنانچہ آپ کو ایسے طعنے بھی ملیں گے کہ ایک غریب لڑکی کسی امیر گھر میں بیاہی آئی ہے اور وہ خوش ہوئی ہے آکر ، اُس کو اچھا ماحول ملا ، اُس کو آرام نصیب ہوا، اُس کو پہلے پورا کھانا ٹھیک نہیں ملتا تھا یہاں اچھا کھانا کھانے کو ملا.اب یہ بات ساس کو بھی تکلیف دے رہی ہے نندوں کو بھی تکلیف دے رہی ہے.اس کی کیا حیثیت تھی.ساس کہتی ہے یہ میرے بیٹے کی وجہ سے کھا رہی ہے اور نندیں کہتی ہیں ہمارے بھائی کی وجہ سے کھا رہی ہے.تو جب تک وہ اس کا بدلہ نہ اتار لیں جب تک اس خوشی کو دکھ میں تبدیل نہ کر دیں اُن کو چین نہیں آتا.بعض دفعہ تعریف کے بہانے بات کرتی ہیں کہ بڑی اچھی صحت ہوگئی ہے، بڑی موٹی ہوگئی ہے ، اس کے کپڑے تنگ ہو گئے ہیں.دوسرا کہے گا ہاں بھائی جو خیال رکھتا ہے کھانا کھلاتا پلاتا ہے پہلے کہاں نصیب تھیں اس کو یہ باتیں.اب وہ جو کچھ بے چاری کا کھایا پیا ہے وہ سب زہر میں بدل دیتے ہیں.تو حسد اچھی چیز کو پکڑتا ہے اور اس کو گندی چیزوں میں تبدیل کرتا چلا جاتا ہے.اس کے مقابل پر محبت سچی انسانی ہمدردی جو اللہ تعالیٰ سے پیار کے نتیجے میں خدا سے تقویٰ
خطبات طاہر جلد۵ 325 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.وہ بری چیزوں پر ہاتھ ڈالتی ہے اور اُن کو اچھی چیزوں میں تبدیل کرنا شروع کر دیتی ہے.آنحضرت ﷺ کے عشق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جو مدھیں گائی ہیں جو عجیب آسمانی گیت گائے ہیں ان میں اس بات پر بڑا زور دیا ہے کہ کیا گند تھا اس ماحول میں، گندگی کو اپنی مٹھی میں لیا ہے اور چمکتے ہوئے سونے کی ڈلیوں میں تبدیل کر دیا ، کندن بنا دیا.یہ تھے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ لیکن جو حسد کرنے والے لوگ ہیں وہ سونے کی ڈلیوں پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور اُن کو گندگی میں تبدیل کرتے چلے جاتے ہیں.پس ہر طرف ہر رشتے میں، ہر تعلق میں ، ہر معاملے میں نیکیوں میں بھی اور بدیوں میں بھی، دینی معاملات میں بھی ، دنیاوی روز مرہ کے انسانی تعلقات میں بھی ہر جگہ آپ کو حسد اپنی کمین گاہوں میں چھپا ہوا دکھائی دے گا اور حملہ کرے گا مختلف ناموں پر کبھی یہ سوکنا پن کے ظاہر ہو جائے گا، کبھی بغض و عناد بن کے ظاہر ہوگا، کبھی عظیم مذہبی تحریک کی شکل اختیار کر لے گا اور فتنہ ارتداد ہوگا لیکن بظا ہر فتنہ ارتداد مٹانے کے نام پر چل رہا ہوگا.عجیب وغریب بھیس بدلتا ہے اور نتیجہ بالآ خر جیسا کہ قرآن کریم نے بیان فرما دیا ہے ہر صورت میں یہ نکلتا ہے کہ حسد کرنے والے کا نقصان ہوتا ہے.حسد کرنے والا بالآخر مارا جاتا ہے.جہاں حسد ملتا ہے وہاں کس گھولا جاتا ہے اور زہر پھیل جاتا ہے.ایک افعی کی طرح ہے، سانپ کی طرح ہے حسد جو دل کے تاریک گوشوں میں بیٹھا کنڈل مارے بیٹھا رہتا ہے جب موقع ملے یہ اپنا زہر پھونکتا ہے اور دوسروں کے رگوں میں داخل کر دیتا ہے.اس لئے فرمایا وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ.نقشہ یہی کھینچا ہے کہ حاسد کمین گاہ میں انتظار میں بیٹھا رہے گا.روزمرہ کی زندگی میں ہر وقت اُس سے شرظاہر نہیں ہوتا.ایک حاسد خوبیوں کا مالک بھی ہوتا ہے بسا اوقات.ایک ایسا بھی حاسد ہم نے دیکھا ہے جو خود غریب کی خدمت کر رہا ہوتا ہے.کچھ ہمدردیاں بھی رکھتا ہے لیکن جن سے حسد ہے اُن کی ہر بات اس کو بری لگ رہی ہوتی ہے.اس لئے فرمایاوَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَا یسے فتنہ پرداز انتظار میں بیٹھے ہونگے بظاہر وہ نیک نظر آ رہے ہونگے ، بظاہر ان کی طرف سے کسی دوسرے کو شر نہیں مل رہا ہوگا لیکن اگر وہ تم سے حسد رکھتے ہیں تو خبر دار! کوئی ایسا وقت آئے گا جب اُن کو موقع ملے گا اور وہ ضرور حسد کی کچلیاں تمہاری رگوں میں داخل کردیں گے.اپنے رب سے دعا مانگو کہ وہ اس شر سے بچائے.اور
خطبات طاہر جلد۵ 326 خطبه جمعه ۲ رمئی ۱۹۸۶ء یہاں بھی یہ مضمون سارا Consistent چل رہا ہے یعنی ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت کھاتا ہے.چونکہ حسد کو خدا تعالیٰ نے ایک مخفی زہر کے طور پر ظاہر فرمایا اور چونکہ بسا اوقات انسان مخفی دشمن سے آگاہ نہیں ہو سکتا اکثر انسان یہ استطاعت نہیں رکھتے کہ چھپے ہوئے دشمن سے آگاہ ہو جائیں اس لئے فرمایا کہ مجھ سے دعا مانگنا اس کا اصل علاج یہ ہے کہ مجھ سے دعامانگو اور بار بار میری طرف متوجہ ہو اور یہ عرض کیا کروق مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَاے بچانے والے! ہمیں ہر حاسد کے شر سے بچا جب وہ حسد کرے کیونکہ ہمیں پتہ کوئی نہیں کہ حاسد کون ہے.ہمیں پتہ کوئی نہیں کہ وہ حسد کب کرے گا اور کس رنگ میں کرے گا.یہ عمومی تصویر جو حسد کی قرآن کریم سے ہمیں ملتی ہے اس کے پیش نظر میں جماعت کو متنبہ کرتا ہوں اگر وہ بیرونی حاسد سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کے لئے بھی ضروری ہے کہ وہ اندرونی طور پر حسد کا قلع قمع کریں ورنہ کوئی جواز نہیں ہے کہ آپ خود حاسد ہوں اور اللہ تعالیٰ آپ کو حاسدوں سے بچائے.حاسدوں سے بچانے کی شرط یہ رکھ دی فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا تم میں حسد کے بالمقابل صفات ہونی ضروری ہیں.حسد کے بالمقابل صفات ہیں : عفو اور صفح قلب یعنی انسان برائی کو بعض دفعہ دیکھتے ہوئے بھی اغماض کرتا ہے، اپنی آنکھیں پھیر لیتا ہے اور حسد اُن کو نمایاں کرتا ہے.حسد جرم کو بخش نہیں سکتا بلکہ انتظار کرتا ہے کہ کب کوئی جرم کرے اور پھر میں حملہ کروں اور حسد کے برعکس صفات یہ ہیں کہ انسان جہاں تک خدا اس کو اجازت دیتا ہے جرم کو معاف کرنے کی کوشش کرتا ہے.اُس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ شرط رکھی ہے کہ اگر تم ایسا کرو گے حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِہ پھر ضرور خدا اپنے امر کو لے کر آئے گا تمہیں غلبہ عطا کرے گا.اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.لیکن اس بیچ کے رستے سے گزرے بغیر ایک حاسد سے اس کے حسد سے بچنے کی توقع رکھنا ، خدا سے توقع رکھنا کہ وہ بچالے گا یہ درست نہیں.جو شرطیں قرآن کریم نے بیان فرمائیں ہیں اُن کو پورا کرنا پڑے گا.اس لئے آج کے دور میں جماعت احمدیہ پر پہلے سے بہت زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہر رنگ میں حسد سے بچیں.یہ وہ ایک برائی ہے جس کے پردے چاک کرنا نیکی ہے، یہاں ستاری نیکی نہیں ہے.جہاں جس بھیس میں لپٹا ہوا حسد دکھائی دے اس کے پردے پھاڑ دیں، اس کو ننگا کر کے دنیا کے سامنے ظاہر کر دیں کیونکہ بعض کیڑے ایسے ہیں جن کا علاج ہی دھوپ دکھانا اور ہوا
خطبات طاہر جلد۵ 327 خطبہ جمعہ ۲ رمئی ۱۹۸۶ء لگانا ہوا کرتا ہے.حسد کو اگر آپ ننگا کر کے ظاہر کر دیں گے تو یہ ایسا کیڑا ہے جو پھر بچتا نہیں.یہ جتنا پردوں میں چھپا ہوا ہو، جتنا اندھیروں میں رہے اتنا زیادہ طاقتور ہوتا چلا جاتا ہے اتنا زیادہ اس کا حملہ خطرناک ہو جاتا ہے ، اس لئے اس کا تجزیہ کرتے رہیں اپنے نفس کو کھنگالتے رہیں.اندرونی طور پر جہاں حسد کا جذبہ آپ کو کسی بات کے پیچھے محرک دکھائی دے وہیں اُس کا سر کچل دیں.اتنی بات کریں جو خالصہ نیکی کے نتیجے میں دل سے پیدا ہوتی ہے.اُن محرکات کو اختیار کریں جو تقویٰ کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور جہاں دوسرے کے اندر آپ تنقید میں حسد کا جذ بہ دیکھیں اُس کو پیار اور محبت سے سمجھا ئیں کہ تمہاری بات حق تو ہو گی مگر حق طریق سے نہیں کر رہے.اس کی وجہ اور ہے.ہمیں تمہارے اندر بغض دکھائی دے رہا ہے.یہی برائیاں ہے جب دوسروں میں دیکھتے ہو تو خاموش ہو جاتے ہو پر واہ بھی نہیں کرتے.فلاں شخص میں چونکہ یہ برائی آئی ہے اس لئے تم نے شور مچانا شروع کر دیا ہے.اگر تقویٰ ہے اگر خدا کا خوف ہے تو عفو سے کام لو اور درگزر سے کام لو.محبت اور پیار سے اُس کو سمجھانے کی کوشش کرو اور پھر اگر ضروری ہے تو پھر خدا تعالیٰ نے جو طریقے مقرر کئے ہیں برائیوں کے اصلاح کے اُن طریقوں کو با قاعدہ اختیار کرو اور اسی طرح اپنے معاشرے میں ، اپنے گھروں میں خوب غور سے دیکھیں کہ آپ کے تعلقات کیوں خراب ہورہے ہیں بسا اوقات حسد کے نتیجے میں تعلقات خراب ہو رہے ہوتے ہیں اور حسد تھڑ دلی پیدا کرتا ہے.بہت ہی چھوٹا اور کمینہ بنادیتا ہے انسان کو.اس لئے بڑے حوصلے والے انسان بنیں آپ نے ساری دنیا کو فضل عطا کرنے ہیں.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق عطا کرنے ہیں.وہ دور بہت دور نہیں ہے وہ قریب آرہا ہے.اُس کی تیاری کرنی پڑے گی آپ کو.اپنے گھروں سے ان سب گندوں کو صاف کرنا پڑے گا تا کہ آپ کے مہمان صاف ستھرے پاکیزہ ماحول میں مہمان بن کر آئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد۵ 329 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء انی قریب کے حقیقی معنی اور رمضان کی دعائیں خطبه جمعه فرموده ۹ رمئی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمُهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور پھر فرمایا: (البقرہ: ۱۸۶ ۱۸۷) رمضان المبارک کے متعلق جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا.ترجمہ میں اگر چہ ایک معنی اختیار کیا گیا ہے جس کے بارے میں قرآن نازل کیا گیا.لیکن اس کا یہ مطلب یہ بھی ہے جس مہینے
خطبات طاہر جلد۵ 330 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء میں قرآن نازل فرمایا گیا.بعض مترجمین اور بعض مفسرین اس ترجمہ میں یہ دقت محسوس کرتے ہیں کہ قرآن کریم تو تئیس (۲۳) سال کے عرصہ میں پھیلی ہوئی مدت میں نازل فرمایا گیا تو ایک مہینہ میں کیسے نازل ہوا؟ اور چونکہ یہ واقعہ کے خلاف بات ہے اس لئے ایسا ترجمہ نہیں کرنا چاہئے جس کی واقعات تصدیق نہ کرتے ہوں.فیہ کا چونکہ ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس کے بارے میں اس لئے یہ ترجمہ اخذ کر لیا گیا لیکن بعض دوسرے مفسرین اور مترجمین اگر چہ اس ترجمہ کو بھی درست سمجھتے ہیں کہ جس کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا لیکن ساتھ ہی دوسرے ترجمہ کی بھی تو جیہ پیش کرتے ہیں اور دو طرح سے اس مضمون کو حل کرتے ہیں.اول یہ کہ قرآن کریم کا آغاز رمضان مبارک کی راتوں میں ہوا.پہلی وحی جو نازل ہوئی ہے وہ رمضان مبارک میں ہوئی اس لئے اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرآن کا مطلب ہے جس میں قرآن کریم کے نزول کا آغاز ہوا.ایک دوسری توجیہ یہ کرتے ہیں کہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبرائیل ہر رمضان المبارک میں آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور جتنا قرآن اُتارا جا چکا ہوتا تھا اس کی دہرائی ہر رمضان میں کرتے تھے.گویا جب قرآن کریم مکمل ہوا تو اس کی بھی مکمل دہرائی ایک رمضان ہی کے مہینہ میں ہوئی.اس پہلو سے بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ لفظاً لفظاً بھی درست بنتا ہے کہ اس مہینہ میں گویا پورا قرآن کریم اتارا گیا.وہ قرآن جو تمام انسانوں کے لئے ہدایت بنا کے بھیجا گیا ہے اور جو کھلے دلائل اپنے اندر رکھتا ہے ایسے دلائل جو ہدایت پیدا کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی قرآن میں الہی نشان بھی ہیں اس لئے تم میں سے جو شخص اس مہینے کو اس حال میں دیکھے کہ نہ تو وہ مریض ہو نہ مسافر اُسے چاہئے کہ وہ اسکے روزے رکھے اور جو شخص مریض ہو یا سفر میں ہو تو اس پر اور دنوں میں تعداد پوری کرنی واجب ہوگی.اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا.اور یہ حکم اس لئے دیا گیا ہے کہ تم تنگی میں نہ پڑو اور تا کہ تم تعداد کو پورا کر لو اور اس بات پر اللہ کی بڑائی کرو کہ اُس نے تم کو ہدایت دی ہے اور تاکہ تم اُس کے شکر گزار بندے بنو.اور اے رسول یعنی آنحضور مخاطب
خطبات طاہر جلد۵ 331 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء تو ہیں اس لئے ترجمے میں ”اے رسول“ کر دیا گیا ورنہ لفظ رسول کا لفظ آیت میں استعمال نہیں ہوا.فرمایا: اے وہ جس کو مخاطب کرتا ہوں.یعنی اے رسول ! جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق پوچھیں تو تو جواب دے کہ میں ان کے پاس ہی ہوں.جب دعا کرنے والا مجھے پکارے تو میں اُس کی دعا قبول کرتا ہوں.تو چاہئے کہ وہ دعا کرنے والے بھی میرے حکم کو قبول کریں اور مجھے صلى الله پر ایمان لائیں تا وہ ہدایت پائیں.“ اس آخری آیت کے متعلق بھی بعض مترجمین اور بعض مفسرین کچھ دقت محسوس کرتے رہے ہیں اور مختلف رنگ میں اس کا حل بھی پیش کیا گیا.خدا تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب کہ اے محمد ﷺ جب میرے بندے میرے بارے میں سوال کریں تو میں قریب ہوں أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ جب پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی پکار کا جواب دیتا ہوں.اس کے متعلق یہ دقت محسوس کی گئی کہ ہر دعا تو قبول نہیں ہوتی در بہت سے پکارنے والے ایسے بھی ہیں جو جنگلوں میں ،شہروں میں ، ویرانوں میں اپنی دانست میں خدا کو پکارتے رہے اور کوئی جواب نہ پا کر بالآخر د ہر یہ ہو گئے.اس قسم کی مثالیں دنیا میں بکثرت ملتی ہیں.ایک انسان نے دعائیں کیں اور دعائیں قبول نہ ہوئیں.اپنی ماں سے پیار تھا، ماں کو بچانے کے لئے دعائیں کیں، بچے سے پیار تھا، بچے کو بچانے کے لئے دعائیں کیں.مصیبتوں میں مبتلا تھے مقروض تھے ان سب تکلیفوں سے نکلنے کے لئے دعائیں کیں اور کوئی جواب نہ پایا اور اس کے نتیجہ میں صلى الله جو بد قسمت تھے وہ خدا کے منکر ہو گئے.تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ اے محمد ملے تو یہ اعلان کر دے.جو سب سے زیادہ سچا ہے اگر اس کے منہ سے یہ اعلان کروا دیا جائے اور پھر دنیا اس بات کو پورا ہوتا نہ دیکھے تو کتنی بڑی ٹھوکر کا مقام بن جاتا ہے.اس کا ایک حل یہ پیش کیا گیا کہ یہ آیت ابھی جاری ہے اور یہ تو ابھی اس آیت کا ایک ٹکڑا ہے جس کو اس دوسرے ٹکڑے کے ساتھ ملا کر پڑھو تو مطلب سمجھ آئے گا.فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.پس چاہیے کہ پکارنے والا یعنی میرے حضور دعا کرنے والا میری باتوں کو بھی تو سنے ، جو ہدایت میں دیتا ہوں اس پر بھی تو عمل کرے وَلْيُؤْمِنُوا ئی اور
خطبات طاہر جلد۵ 332 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء مجھ پر ایمان بھی لائے.لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ تا کہ وہ ہدایت پائیں.بعض دفعہ جواب دراصل شرط کے معنی رکھتا ہے.فَلْيَسْتَجِيبُوا لِى بظاہر نتیجہ ہے کہ چونکہ میں دعاسنتا ہوں اس لئے وہ بھی میری بات سنیں.لیکن یہ خود شرط کے معنوں میں بھی استعمال ہوسکتا ہے اور یہ بھی ایک طرز کلام ہے.یعنی ترجمہ تو یہ ہوگا کہ میں دعا قبول کرتا ہوں بلکہ ہمیشہ قریب رہتا ہوں، کوئی ایسی حالت مجھ پر نہیں آتی کہ میں بندے سے دور ہوں اور اسے یہ خطرہ ہو کہ میری آواز اس تک نہیں پہنچے گی اور پیشتر اس کے کہ میری آواز اس تک پہنچ سکے میں ہلاک ہو جاؤں گا.فرمایا صرف جواب ہی نہیں دیتا ، دعا ہی قبول نہیں کرتا بلکہ ساتھ ساتھ رہتا ہوں.اس لئے کوئی ایک لمحہ بھی کسی انسان کے لئے وہم کا نہیں آسکتا کہ میں دعا کروں اور قبول بھی ہو لیکن پہنچنے میں دیر ہو جائے گی یا جواب آنے میں دیر ہو جائے گی.پس نتیجہ یہ نکالا گیا ہے فَلْيَسْتَجِوانِى فَلْيَسْتَجِبْوَالِی کا مطلب ہے مگر شرط یہ ہے کہ تم میری باتوں کوسنو اور میری باتوں کا جواب دو اگر تم جواب نہیں دیتے ، میں تمہیں پکارتا ہوں اور تم لبیک نہیں کہتے ، میں تمہیں ہدایت کے رستوں پر چلنے کا حکم دیتا ہوں اور تم منہ پھیر کر دوسری طرف چلے جاتے ہو تو مجھ سے کیا توقع رکھتے ہو کہ جب تمہیں ضرورت پڑے تو پھر میں جواب دوں.اللہ اور بندے کی جو نسبت ہے وہ تو بیان میں نہیں آسکتی یعنی زمین اور آسمان کی نسبت کہا جاتا ہے مگر بندے اور خدا کے درمیان ایک ایسی بعید کی نسبت ہے جولفظوں میں یا اعداد میں بیان نہیں کی جاسکتی لیکن مثال کے طور پر انسانی زبان میں ، انسانوں کو سمجھانے کی خاطر بعض دفعہ انسانی محاورے استعمال کئے جاتے ہیں.پس یہ جو مضمون بیان ہوا ہے اس کی صورت کچھ اس قسم کی ہے کہ نو کر تو مالک کا جواب نہ دے.غلام تو مالک کی باتیں سنے اور ان سنی کر دے اور اس کا کوئی حکم نہ مانے اور جب مالک کی نوکر کو ضرورت پڑے تو وہ یہ توقع رکھے کہ میری ایک ہی آواز پر وہ دوڑتا ہوا چلا آئے گا.اگر یہ ممکن ہے، اگر یہ صورت حال قابل قبول ہے تو پھر ایسے دعا کرنے والے بے شک خدا سے جو چاہیں تو قعات رکھیں.لیکن بندے کا سلوک یہ بتائے گا کہ کس حد تک دعا مستجاب ہونی ہے اور بندے کا قرب یہ بتائے گا کہ کس حد تک اُس کے خدا قریب ہے.یہ دو پہلو اگر اچھی طرح سمجھ لئے جائیں تو مضمون مکمل ہو جاتا ہے.پھر انسان مکمل طور پر ہدایت پا جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو بہت ہی تفصیل کے ساتھ دعا کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے اُس میں ان
خطبات طاہر جلد۵ 333 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء دونوں پہلوؤں سے اس قدر تجارب بھی بیان فرمائے ہیں اور اس قدر باریک نکات بھی بیان فرمائے ہیں کہ کوئی بھی تشنگی کا پہلو باقی نہیں چھوڑا.امر واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جن جن باتوں میں بندہ خدا کی باتوں کا جواب دیتا ہے.اللہ اتنا رحم کرنے والا ہے کہ جن باتوں میں جواب نہیں دیتا اُن کو نظر انداز فرما کر بھی ان باتوں میں اس کا جواب دینے لگ جاتا ہے جن میں وہ خدا کے سامنے سیدھا ہو چکا ہوتا ہے اور یہ انتظار نہیں کرتا کہ کامل طور پر میرا غلام ہو جائے تب میں اس کی باتیں سنوں حالانکہ بندہ اپنے سلوک میں ایسا نہیں کرتا.ایسے بھی مالک ہیں کہ جن کے نوکر ہر بات میں اطاعت کر رہے ہوتے ہیں اور پوری کوشش کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم کسی طرح ما لک کو خوش کریں لیکن ایک ادنی اسی غلطی پر مالک اس قدر ناراض ہو جاتا ہے کہ اُس کی ساری عمر کی خدمتوں کو ضائع کر دیتا ہے اور اس کا کوئی بھی بدلہ اُس کو نہیں دیتا.آپ تو بندہ بندے سے یہ سلوک کر رہا ہوتا ہے اور خدا سے یہ چاہتا ہے کہ اُس کی کوئی بات بھی نہ مانے اور پھر بھی خدا اس کی ہر بات مانے.لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اتنی وسیع ہے اُس کے معاملے اپنے بندوں سے ایسے کریمانہ ہیں کہ وہ بسا اوقات اس کے برعکس سلوک کرتا ہے جو بندہ بندے سے کرتا ہے اس کے غلام ہزار باتیں اُس کی نہیں مانتے بعض دفعہ ایک مان جاتے ہیں تو خدا کی کریمی اُس ایک مانی ہوئی بات کی بھی شرم رکھ لیتی ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایک موقع پر تین ایسے انسانوں کی مثال دی جو ایک غار میں بند ہو گئے ، جس کے دہانے پر زلزلہ سے یا کسی وجہ سے ایک پتھر آ گرا اور ان کے نکلنے کا کوئی رستہ نہیں تھا.اس پر اُن تینوں نے باری باری دعایہ کی اور دعا کی تفصیل حضور اکرم ﷺے بیان فرماتے ہیں کہ اے خدا! فلاں وقت جو میں نے ایک نیکی کی تھی ، اگر وہ تیری خاطر تھی تو اس ایک نیکی کے بدلے یہ پتھر اس سے سر کا دے.اب وہ ساری عمر کے حالات پر غور کرنے کے بعد یوں معلوم ہوتا ہے کہ اُس کو صرف ایک ہی نیکی ملی ہے.جو جس کے متعلق وہ یقین کے ساتھ خدا کے حضور پیش کر سکتا ہے کہ اس میں میری کوئی بد نیتی نہیں تھی، کوئی ریا کاری نہیں تھی، کوئی نفسانی خواہش نہیں تھی محض اللہ کی گئی تھی.اللہ تعالیٰ یہ جواب نہیں دیتا کہ تیری تو ساری عمر ضائع ہوئی پڑی ہے، کچھ بھی تیرے پلے نہیں.سب کچھ میں نے تجھے عطا کیا تو نے میری ہر بات کا انکار کر دیا اور آج وہ نیکی تجھے یاد آرہی
خطبات طاہر جلد۵ 334 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء ہے گویا اُس کا بدلہ ابھی باقی ہے.میرے احسانات کے نیچے تو دبا پڑا ہے ، کونسی چیز ہے جو تو اپنے گھر سے لایا تھا اور ابھی وہ بے قیمت کی نیکی تجھے یاد ہے کہ اس کی قیمت ابھی باقی پڑی ہے.یہ جواب نہیں دیتا خدا تعالیٰ کی کریمی اُس کی توقع کی شرم رکھتی ہے، اُس دعا کی شرم رکھتی ہے اور اللہ تعالیٰ اُس پتھر کو حکم دیتا ہے اور وہ پھر تھوڑا سا سرک جاتا ہے.آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ پھر دوسرے کو بھی ایک نیکی یاد آ گئی.ابھی اس پتھر کے سرکنے سے سب نکل نہیں سکتے تھے.اور اس میں جو لطیف مضمون آنحضور ﷺ نے بیان فرمایا ہے وہ یہی ہے جو عموماً اس حدیث پر غور کرنے والے یا اس سے لطف اٹھانے والے نظر انداز کر دیتے ہیں اگر ایک ہی شخص کے پاس ایسی تین نیکیاں ہوتیں تو پھر تین آدمیوں کو وہاں اکٹھا کر کے یہ مضمون بیان کرنے کی کیا ضرورت تھی.تمام عمر کا خلاصہ تھا اُس ایک آدمی کی نیکی اور وہ بھی اتنی بھاری نہیں تھی کہ اس کے نتیجے میں وہ ساری آفت ٹل سکے.پھر ایک دوسر آدمی اٹھتا ہے اور کہتا ہے ، اے خدا! مجھے بھی ایک نیکی یاد آئی ہے، میں نے بھی یہ حرکت کی تھی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ تیری خاطر کی تھی اور وہ پتھر پھر اور سرک جاتا ہے لیکن ابھی وہ اس سے نکل نہیں سکتے.اگر اس کے دامن میں بھی کوئی ایسی نیکی ہوتی کہ وہ سمجھتا کہ اس پتھر کو اور سرک جانا چاہئے تو وہ پیش کر دیتا لیکن کچھ پیش نہیں کر سکا.پھر ایک اور تیسرے بندے نے جو اسی غار میں قید تھا اپنی ایک نیکی یاد کی اور خدا کے حضور پیش کی.اور بعض نیکیاں اُن میں سے ایسی ہیں جنہیں نیکی شمار کرنا بھی تعجب انگیز ہے.بدیوں سے رکنے کا نام نیکی رکھا گیا ہے.یہ ایسی نیکی ہے جیسے کوئی کسی سے کہے کہ فلاں وقت میں تجھے قتل کر سکتا تھا میں نے نہیں کیا.دیکھو کتنی بڑی نیکی کی ہے تمہارے اوپر.فلاں وقت زہر کھا سکتا تھا میں نے نہیں کھایا دیکھوں کتنی بڑی نیکی کی ہے.اس قسم کی نیکیاں بھی شامل کر دی گئیں بیچ میں اور اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اُس نے اُن نیکیوں کو بھی قبول فرمالیا.( صحیح البخاری کتاب المزارعہ حدیث نمبر : ۲۱۶۵) پس میں اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہوں کہ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِی میں خدا تعالیٰ کی شان رحمت اور شان کریمی اتنی وسیع ہے کہ ہر بات میں اُس کی اطاعت نہ بھی کرو تب بھی قبولیت دعا کا فیض انسان کو پہنچ سکتا ہے اور پہنچتا رہتا ہے.ورنہ کروڑہا کروڑ بندے جو گناہوں میں ملوث رہتے ہیں اُن کی تو کبھی ایک دعا بھی قبول نہیں ہونی چاہئے.پس صاحب تجر بہ بیان کرتے ہیں، صاحب عرفان
خطبات طاہر جلد۵ 335 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء ہمیں بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعاؤں کے معاملے میں مایوسی کی ضرورت نہیں لیکن ادنی پر راضی نہ رہو.چابی حضوراکرم ﷺ نے ہمارے ہاتھوں میں تھما دی.اب اس عقدہ کشائی کا کام ہمارے ذمہ ہے.جتنا زیادہ ہم اللہ تعالیٰ کے حضور امنا و صدقنا سمعنا و اطعنا کہتے ہوئے حاضر ر ہیں گے.اُتنا ہی زیادہ ہماری دعاؤں میں قوت پیدا ہوتی چلی جائے گی ، جتنا ہی زیادہ ہم اللہ تعالیٰ کے ارشادات کی پیروی کے لئے مستعد اور تیار رہیں گے اسی قوت اور اسی تیزی کے ساتھ خدا تعالیٰ سے استجابت کے نمونے دیکھیں گے.یہی حال قریب کا بھی ہے.خدا تو جہاں تک جگہ کا تعلق ہے ہر جگہ موجود ہے یعنی اُس کے لئے تو نہ مشرق نہ مغرب نہ اونچ نیچ، کوئی سمت ہی نہیں ہے.وہ حاضر ہے اور جب ہم باتیں کرتے ہیں موجودگی کی تو ہمارے الفاظ اور معنے رکھتے ہیں کیونکہ ہم محدود ہیں اور ہم دوسری چیزوں کو بھی محدود د یکھتے ہیں.اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے کا مطلب اس کا حاضر رہنا ہے ہر وقت، وہی وجود ہے جس کی حاضری سے باقی کائنات بنتی ہے.اس لئے اس کو مشرق مغرب، بلند پستی ، دائیں بائیں، کے اعداد و شمار یا ان کے معنی سے ناپا نہیں جاسکتا.وہ ایک ہی چیز ہے جو حاضر ہے اگر حاضر نہ ہو تو کچھ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے ایسے قریب وجود سے محروم رہنے کا بظاہر تصور ہی کوئی نہیں لیکن اتنے قریب ہونے کے باوجود بھاری اکثریت انسانوں کی اُس سے محروم رہ جاتی ہے.اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ وہ قریب نہیں ہے.إنِّي قَرِيبٌ یہ بتانے کے لئے ہے کہ میں تو بہر حال قریب ہوں.اگر پھر بھی تمہاری بات نہیں مانی جاتی تو تم بعید ہو، تم مجھ سے دور ہو چکے ہو ، اس لئے اپنی فکر کرو، تم آ بھی سکتے ہو جا بھی سکتے ہو.میں تو اپنے ہر وجود کے ساتھ ہمہ وقت حاضر رہتا ہوں.اس لئے تم اگر میری طرف متوجہ ہو گے تو روحانی معنوں میں معنوی طور پر تم میرے قریب آجاؤ گے اور اگر تم مجھ سے عدم توجہ کرو گے تو تم معنوی لحاظ سے مجھ سے دور ہٹتے چلے جاؤ گے.لیکن اگر میرے قریب آنا چاہو تو فاصلے تمہیں ہی طے کرنے پڑیں گے.صرف تمہارے فیصلے کی بات ہے اور ایک ہی لمحے کا فیصلہ تمام فاصلے طے کر دے گا اور اچانک تم مجھے موجود پاؤ گے.یہ وہ مضمون ہے جسے یہ آیت بیان فرماتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس قرب کے مضمون کے متعلق بہت تفصیل سے مختلف مواقع پر روشنی ڈالتے ہیں اور یہ راز ہمیں سمجھاتے
خطبات طاہر جلد۵ 336 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء ہیں کہ خدا تعالیٰ کے قریب ہونے کے نتیجے میں نہ صرف یہ کہ دعائیں سنیں جاتی ہیں بلکہ اس کا قرب بذات خود أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کا ایک ثبوت ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نکتہ ہمیں بتایا کہ اس کا معنی بنیادی اور حقیقی معنی اور سب سے اعلیٰ معنی یہ نہیں ہے کہ تم خدا سے اپنی ضرورتیں مانگو تو وہ قریب ہے بلکہ یہ ہے کہ تم خدا سے خدا کو مانگو، اُس کی تمنا کرو، اسے چاہو تو تم پھر دیکھو گے کہ وہ تمہارے قریب ہے.اور جتنی تمنا ہوگی اتنا ہی زیادہ قرب محسوس کرو گے.سب کچھ مانگ لو گے اگر خدا سے خدا کو مانگ لو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو اپنے ہی ایک دعائیہ شعر میں یوں بیان فرماتے ہیں: در رو عالم مرا عزیز توئی وانچه میخواهم از تو نیز توئی کہ اے خدا دونوں جہان میں میرا تو تو ہی عزیز ہے، یہ دونوں جہان میں نے کرنے کیا ہیں.وانچہ میخوا ہم از تو نیز توئی، تجھ سے میں جو چاہتا ہوں وہ تُو چاہتا ہوں.تُو مجھے مل جائے اور یہی میرا مقصود ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کے نہایت اعلیٰ اور ارفع مضمون کو ہم پر روشن فرما دیا جب یہ بتایا کہ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں اپنی طرف ضمیر جو پھیری گئی کہ میں بندے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے بلاتا ہے تو مراد یہ ہے کہ میری طلب کرتا ہے اور جو خدا کی طلب کرنے والا ہوتا ہے اس کی ساری دعائیں قبول ہوتی ہیں.اس دعا میں ہر دوسری دعا شامل ہو جاتی ہے اور یہی قریب کا مضمون ہے.انسان قریب ترین ہو جاتا ہے خدا کے جب خدا سے خدا کو مانگے.( تفسیر مسیح موعود جلد اول سورۃ البقرہ زیر آیت اجیب دعوة الداع) پس اس رمضان مبارک میں سب دعاؤں سے بڑھ کر اس دعا کو اہمیت دیں کہ ہمیں خداوہ استجابت بخشے جس کے نتیجے میں وہ دعائیں قبول فرماتا ہے یعنی خدا کے ارشادات کی استجابت ہمیں عطا کرے تا کہ ہماری دعاؤں کو اُس کے حضور استجابت عطا ہو اور ہمیں یہ تو فیق عطا فرمائے کہ اُس کی تمنا کریں اور یہ تو فیق بھی اُسی سے مانگنی پڑے گی ، اس کے لئے بھی اُسی کے حضور دعائیں کرنی پڑیں گی کیونکہ بظاہر یہ کہہ دینا تو بہت آسان ہے کہ اے خدا! میں تجھ سے تجھے مانگتا ہوں لیکن حقیقت میں اس دعا میں مغز پیدا کرنا اس دعا میں جان پیدا کرنا ایک بہت ہی مشکل کام ہے.عام انسان تصور بھی نہیں
خطبات طاہر جلد۵ 337 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء کر سکتا کہ یہ کتنی مشکل دعا ہے.جو بظاہر ایک دو حرفوں پر مشتمل ہے، ایک دولفظوں پر مشتمل ہے.اے ہے.اے خدا میں تجھ سے مانگتا ہوں تجھی کو، ہر انسان کہہ دے گا مگر جس کو مانگتا ہو اس کی تمنا بھی تو ہونی چاہئے دل میں.بغیر محبت کے مانگو گے بھی تو آئے گا کون؟ بغیر پیار کے طلب بھی کرو گے تو اُس کے نتیجے میں جواب دینے والا جواب کیوں دے گا، اُس طلب کو پورا کیوں کرے گا ؟ لوگ تو محبوبوں کی بھی منتیں کرتے ہیں کہ ہمارے گھر چلے آؤ اور محبت رکھتے بھی ہیں تب بھی وہ نہیں آتے.لیکن بعض اوقات ایک ذہین آدمی یہ سمجھتا ہے کہ میری طلب میں کچھ کمی رہ گئی تھی اگر میں اپنی طلب کے معیار کو بڑھا تا تو ممکن نہیں تھا کہ وہ انکار کر سکتا اور اس بات میں حکمت ہے.چنانچہ غالب نے جب یہ کہا کہ : میں بلاتا تو ہوں اُس کو مگر اے جذ بہ دل اس پہ بن جائے کچھ ایسی کہ بن آئے نہ بنے (دیوان غالب صفحه ۲۹۶) اس میں گہری حکمت کی بات ہے کہ بظاہر تو شاعر یہ شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ ہماری طلب تو بہت ہے، ہمارے دل کی تمنا تو سچی ہے مگر محبوب سنتا ہی نہیں ہے، اُس پر اثر ہی نہیں ہوتا.لیکن ایک اُن میں ایسا بھی ہے جو کہتا ہے کہ میری طلب کا قصور ہے، میری طلب میں وہ شدت نہیں پائی جاتی، وہ قوت نہیں ہے، اگر میری طلب میں قوت ہو تو اس کا گزارہ ہی نہیں ہوسکتا بن آئے ہوئے.بے اختیار کشاں کشاں چلا آئے گا اگر میری طلب میں قوت پیدا ہو جائے.یہی مضمون زیادہ اعلیٰ اور نہایت ارفع رنگ میں اس آیت میں بیان ہوا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب یہ دعا کرتے ہیں واز چے.میں خوا ہم از تو نید مر توری تو اس لئے قبول ہوتی ہے کہ مسیح موعود کی دعا ہے ، اس لئے قبول ہوتی ہے کہ ایک انسان کی ساری زندگی گواہ ہے کہ اس دعا کا ایک ایک حرف اور اُس حرف کا ہر معنی سچا ہے.زندگی بھر ، بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اُس شخص نے کوئی اور طلب نہیں کی سوائے اس طلب کے.اور اپنا سب کچھ اس ایک طلب کی خاطر قربان کر دیا.تب یہ دعا پیدا ہوئی ، تب اس دعا میں وہ قوت پیدا ہوئی جس کے نتیجہ میں اِنِّي قَرِیب کے سوا کوئی جواب ہو ہی نہیں سکتا.ممکن ہی نہیں ہے کہ اس شان کی دعا اس سچائی کے جذبے کے ساتھ اس سچائی کے پس منظر کے ساتھ کی گئی ہو اور اس کا جواب اِنِّي قَرِیب نہ
خطبات طاہر جلد۵ 338 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء ہو تو انّي قَرِيب کے اندر بھی بہت سی بعید منازل ہیں لمبے فاصلے ہیں جنہیں طے کرنا پڑتا ہے وہ فاصلے طے کریں تو پھر قریب کا مضمون سمجھ آجائے گا.پس یہ دعا کریں کہ خدا تعالیٰ ہم میں وہ سچا جذبہ پیدا کرے خدا کی طلب کا اور اس سچے جذبے کے ساتھ وہ عمل صالح عطا کرے جس سے دعا رفعت پاتی ہے.اور قرآن کریم نے دعا کے اس مضمون کو ایک دوسری جگہ خوب واضح فرما دیا کہ کلمہ طیبہ خدا کے حضور پہنچتا تو ہے لیکن عمل صالح اس کو اٹھاتا ہے.انرجی کے بغیر کس طرح کوئی چیز رفعت پاسکتی ہے.ہوائی جہاز کتنا اچھے ڈیزائن کا ہو، کتنا عمدہ بنا ہوا ہوا گر اُس میں پٹرول نہیں ہے تو اونچا اڑے گا کیسے؟ وہ تو زمین پر چلنے کے بھی قابل نہیں.تو فرمایا اسی طرح تمہارے پاک کلمات تمہاری دعا ئیں تمہارے عمل سے قوت پاتی ہیں، عمل کی طاقت بخش تو پھر اُن کو دیکھو کہ کس طرح وہ بلندیوں پر پرواز کرنے لگیں گی.الله میں جب قرآن کریم کے ان پہلوؤں پر غور کرتا ہوں تو حیرت سے میرا سر اس عظیم کلام کے حضور جھک جاتا ہے.کوئی دنیا کا ایسا مذہب نہیں جو اتنا Scientific کلام خدا کی طرف اس کو منسوب کر کے پیش کر سکتا ہو.یہ درست ہے کہ دوسرے مذاہب کا نازل فرمانے والا بھی خدا ہی تھا.مگر ہر انسان کا ظرف دیکھ کر اس کو عطا کیا جاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ پر جو وحی نازل ہوئی ہے وہ حضور اکرم ﷺ کے طرف سے براہ راست تعلق رکھتی تھی.اس پہلو سے جب اس کلام کی شان دل کو مرعوب کر لیتی ہے اور دل پر حاوی ہو جاتی ہے تو شان محمد مصطفی ﷺ بھی اسی طرح دل کو مرعوب کر لیتی ہے اور دل پر حاوی ہو جاتی ہے.اتنا عظیم الشان کلام قلب محمد ﷺ کے سوا کسی چیز پر نازل ہو ہی نہیں سکتا اور اتنا کامل کلام.اتنی باریکی ہے اس میں، اتنی لطافتیں ہیں، اتنا ربط ہے کہ عقل دنگ ہو جاتی ہے جب اس مضمون پر غور کرتی ہے چنانچہ حقیقتہ یہ امر واقعہ ہے کہ جدید ترین سائنسی اصطلاحیں جو ایک لمبے سائنسی تجربے کی بناء پر بنائی گئیں ، چودہ سو سال پہلے روحانی دنیا میں اس قسم کی بلکہ اس سے بہتر مکمل اصطلاحیں ملتی ہیں اور وہ مضامین سادہ سی آیتوں کے پس منظر میں پوشیدہ ہیں.اگر آپ ذرا غور کریں اور توجہ کریں تو وہ آپ کو نظر آنے لگ جائیں گے.پس دعا کے مضمون کو سمجھنا ہو تو قرآن کریم ہی کی دوسری آیات اور حضور اکرم ﷺ کے ارشادات جن میں سے ایک میں نے نمونہ پیش کیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
خطبات طاہر جلد۵ 339 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء عارفانہ کلام پر غور کریں تو پھر دعا کا مضمون ایک پورا جہان بن کر آپ کے سامنے ظاہر ہوتا ہے اور بظاہر دو تین آیتوں کے اندر سارا مضمون سمیٹا ہوا دکھائی دے گا.تو یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دعا کی معرفت بھی عطا فرمائے.خدا تعالیٰ سے خدا تعالیٰ کو مانگنے کی توفیق عطا فرمائے، اس کا سلیقہ اور ذوق بخشے کیونکہ اس ذوق کے بغیر باقی ساری باتیں بے معنی ہو جائیں گی اور پھر ذوق کے ساتھ ذوق طلب ہی نہیں ذوق عمل بھی عطا فرمائے تا کہ طلب میں قوت پیدا ہو جائے.اس دعا کے ساتھ اگر رمضان گزارا جائے اور وہ لمحے نصیب ہو جائیں کہ جب دعا قبول ہوتی ہے تو پھر ایک ہی رمضان میں لکھوکھہا سال کی سعادتیں انسان کو نصیب ہوسکتی ہیں، کروڑ ہا سال کی سعادتیں انسان کو نصیب ہو سکتی ہیں.اور یہ بھی محض گنتیاں ہیں ان کی حیثیت کوئی نہیں کیونکہ جب میں نے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا ہے ،خدا کے تعلق میں جب ہم باتیں کرتے ہیں تو ہمارے انسانی الفاظ بے حقیقت ہو جاتے ہیں.وہ اس مضمون کو ساہی نہیں سکتے.صرف ایک انسانی تصور ہے جسے کسی نہ کسی حد تک سمجھانے کی خاطر ہم یہ الفاظ استعمال کرتے ہیں.ورنہ ایک لمحہ بھی اگر اس دعا کا مقبول ہو جائے کہ اے خدا! میں تجھ سے تجھے ہی مانگ رہا ہوں تو سب کچھ حاصل ہو گیا.اس لئے اول درجہ پر اس دعا کی طرف میں متوجہ کرتا ہوں اور اس کے بعد دوسری دعائیں جو خاص طور پر جماعت کو اس سارے رمضان میں کرنی چاہیں اور پہلے بھی جماعت کرتی ہے یاد دہانی کے طور پر محض میں گنا دیتا ہوں:.بنی نوع انسان کے لئے ، اسلام کے لئے ، عالم اسلام کے لئے ،احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے ان معنوں میں کہ دنیا میں اسلام اور احمدیت اسی طرح ہر ایک کو ایک نظر آنے لگیں جس طرح ہمیں ایک نظر آتے ہیں جس طرح خدا انہیں ایک دیکھتا ہے.واقفین زندگی کے لئے ، ان کے اعزاء و اقارب کے لئے ، دین کی خدمت کرنے والوں کے لئے ، خواہ وہ کسی رنگ میں بھی خدمت کی توفیق پارہے ہوں ، ان کے لئے جنہیں خدمت دین کا ابھی لطف میسر نہیں آیا اُن محروموں کے لئے بھی.اللہ کی دعوت دینے والوں کے لئے ، اُن کے لئے جن کو خدا کی طرف بلایا جاتا ہے، مالی قربانی کرنے والوں کے لئے بھی اور اُن کے لئے بھی جو مالی قربانی کی حسرت رکھتے ہیں اور اُن کے لئے بھی جو اس لذت سے ابھی تک لذت آشنا نہیں ہوئے.
خطبات طاہر جلد۵ 340 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء شہدائے احمدیت کے لئے اور اُن کے پس ماندگان کے لئے ، اسیران راہ مولیٰ کے لئے اور ان کے عزیزوں مہجوروں کے لئے.وہ جن کو دینی تعصبات کے نتیجہ میں حقوق سے محروم کیا گیا ہے اور وہ بھی جن کو دنیاوی تعصبات کے نتیجے میں حقوق سے محروم کیا گیا ہے.مصائب زمانہ کے شکار لوگوں کے لئے ، بیوگان کے لئے اور یتامیٰ کے لئے.ہر قسم کے مریضوں کے لئے خصوصاً ایسے بیمار بچوں کے لئے اور اُن کے عزیزوں واقرباء کے لئے جن کی جسمانی بیماری مستقل روگ بن جایا کرتی ہے اور تیمارداروں کے لئے وہ جسمانی لحاظ سے بھی ہمیشہ اذیت کا موجب رہتے ہیں اور اُس سے کہیں بڑھ کر روحانی لحاظ سے بھی ان کے لئے ایک مستقل بلا اور آزمائش بن جاتے ہیں.تجارتوں میں نقصان اٹھانے والوں کے لئے ، وہ جو فریب زدہ ہیں ، جن سے دھوکہ کے ساتھ اُن کے جائز حقوق لوٹ لئے گئے.چوری اور ڈاکے کے نتیجے میں جن کو نقصان پہنچے یا آسمانی آزمائشوں کے نتیجہ میں وہ معمولی نقصان میں مبتلا کئے گئے.محنت کے سوا ان کے پاس کچھ نہیں اور اس کے باوجود ان کو ذریعہ روزگار میسر نہیں آرہا.وہ جن کو خدا تعالیٰ نے دولتوں اور اموال سے نوازا ہے لیکن نہیں جانتے کہ اس کا بہترین مصرف کیا ہے.ان کے لئے بھی دعا کریں جن کے گھر عائلی جنت نہیں بلکہ جہنم کا نمونہ بنے ہوئے ہیں ، جہاں بیویاں خاوندوں کے حقوق تلف کر رہی ہیں ، جہاں خاوند بیویوں کے حقوق تلف کر رہے ہیں، جہاں سائیں بہوؤں کے لئے عذاب بنی ہوئی ہیں، جہاں بہوئیں ساسوں کے لئے عذاب بنی ہوئی ہیں، جہاں بھائی بہنوں کے رشتے کڑوے ہو چکے ہیں، جہاں عزیز واقارب محبت کی بجائے ایک دوسرے کو نفرت دشمنی اور حسد کی آنکھ سے دیکھ رہے ہیں ان سب کے لئے دعا کریں.اور اس ضمن میں تمام احمدی گھروں کو خصوصیت سے اس دعا کی طرف متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ: رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: ۷۵) کہ اے ہمارے رب ہمارے لئے ہمارے ازواج کو ، ہمارے جوڑوں کو اور ہماری اولا دوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے ، وَ اجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا اور ہمیں متقیوں کا امام بنا! اس دعا کو بسا اوقات سمجھنے میں غلطی کی جاتی ہے اور عموماً یہ تا ثر ملتا ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ
خطبات طاہر جلد۵ 341 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء مردوں کے لئے دعا ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں مانگ رہے ہیں حالانکہ یہ درست نہیں ہے.یہ بیویوں کے لئے بھی اُسی طرح دعا ہے جو خاوندوں کے لئے مانگ رہی ہیں.اور اس دعا کے نتیجے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہونگے وہاں اس مضمون کی روشنی میں یہ دعا کریں جو میں نے بیان کیا ہے.فَلْيَسْتَجِوانِی اگر دیانت داری اور تقوی سے ایک خاوند یہ دعا کرتا ہے تو اسے یہ سوچنا پڑے گا کہ میں اس دعا کا حق دار بن بھی رہا ہوں کہ نہیں ، خدا تعالیٰ نے جو عائلی ذمہ داریاں مجھے پر ڈالی ہیں کیا میں انہیں ادا کر رہا ہوں، اگر نہیں کر رہا تو پھر یہ دعا کس منہ سے مانگوں گا، پھر میں کیسے توقع رکھ سکتا ہوں ایک طرف تو خودا باحت کا شکار ہوں، واضح طور پر اللہ تعالیٰ کے حکموں کا انکار کر رہا ہوں اور دوسرے ہاتھ سے مانگ رہا ہوں کہ یہ کچھ مجھے دے.جو میرے اختیار میں تھا پھر بھی میں نے نہیں دیا ، جو کچھ میں لے سکتا تھا اُس کا تو میں انکار کرتا ہوں اور اُس کے باوجود اُس کے نتیجوں سے محروم نہیں رہنا چاہتا، ایسی نا معقول دعا کیسے قبول ہو سکتی ہے.پس خواہ عورت دعا کرے خواہ مرد دعا کرے، جب وہ اس بنیادی آیت کی روشنی میں جو میں نے تلاوت کی ہے دعا کرے گا یا دعا کرے گی تو اس کے نتیجہ میں حیرت انگیز طور پر گھروں میں پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہوں گی.ازواج کا وسیع تر مضمون جو ہے اس میں صرف میاں بیوی کا رشتہ نہیں ہر جوڑ از واج کے اندر آ جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس زوج کے لفظ کو نہایت وسیع معنوں میں استعمال فرمایا ہے اور جہاں جنسی فرق نہیں بھی ہے وہاں بھی زوج کا لفظ استعمال فرمایا ہے.دراصل کا ئنات کی ہر چیز میں خدا تعالیٰ نے زوجیت رکھ دی ہے.اس وسیع مضمون کے لحاظ سے ساتھیوں کے لئے بھی یہ دعا بن جاتی ہے، ایک گھروں میں رہنے والوں کے لئے بھی یہ دعا بن جاتی ہے اور اس دعا کا دائرہ بہت وسیع ہو جاتا ہے.فرمایا اُن کو ہمارے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک بنادے.اس میں ایسے مسائل بھی حل ہو جاتے ہیں جن کا بظاہر کوئی حل نظر نہیں آتا.ایک عورت کو خاوند کی بعض ادا ئیں بہت بُری لگتی ہیں، نفرت پیدا کرنے والی ہیں اس کا کوئی اختیار نہیں ہے کہ اُن کو تبدیل کر سکے.ایک مرد کو اپنی بیوی کی شکل یا اُس کی کوئی اور حرکتیں ایسی ناپسندیدہ ہیں جنہیں وہ ٹھیک نہیں کر سکتا نہ بیوی کے بس میں ہے کہ اُن کو ٹھیک کر سکے.تو قُرَّةَ أَعْيُنِ کی دعا جو ہے اس میں بڑی گہری حکمت ہے بعض دفعہ وہ اصلیت تبدیل نہ بھی ہو تب بھی اللہ دل پھیر دیتا ہے اور وہی چیز اچھی لگنے لگ جاتی ہے اور یہ کلیہ
خطبات طاہر جلد۵ 342 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء خدا تعالیٰ کے اختیار میں ہے اور دنیاوی رشتوں میں اس کی مثالیں موجود ہیں.چنانچہ ایک بادشاہ کے دربار کے متعلق بتایا جاتا ہے کہ وہاں یہ بحث چل نکلی کہ ماؤں کو اپنے بدصورت بچے بھی اچھے لگتے ہیں اور فی الواقعہ اچھے لگتے ہیں ایک اور فریق یہ کہہ رہا تھا کہ ہر گز نہیں ان کو بدصورت بدصورت ہی لگتے ہیں لیکن مامتا سے مجبور ہیں اس لئے وہ اُن سے پیار کرتی ہیں.جو لوگ اس بات کے قائل تھے کہ واقعہ اچھے لگتے ہیں انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ ہم ایک امتحان آپ کو بتاتے ہیں فلاں بشن جس کو وہ جانتے تھے وہ خادمہ ہوگی یا لونڈی ہوگی اس کا ایک انتہائی بدصورت بچہ ہے.آپ ایک قیمتی ہار اس کے سپرد کریں اور خوبصورت ترین بچے اکٹھے کر لیں محل میں اور اس کو یہ کہیں کہ تم نے یہ ہار اس کے گلے میں ڈالنا ہے جو سب سے زیادہ خوبصورت ہے، یہ نہیں کہ تمہیں اچھا لگتا ہے، جو واقعہ تمہیں نہایت ہی حسین و جمیل دکھائی دے رہا ہے اس کے گلے میں جا کر یہ ہار ڈال دو.چنانچہ شہزادے بھی سبج کر آئے اور امیروں کے بچے بھی اور دوسرے شہر کے خوبصورت بچے اکٹھے ہوئے اور ان میں ایک وہ بدصورت بچہ بھی تھا.وہ ہار لے کر کھڑی ہے صف بصف اور کوئی خوبصورت نظر نہیں آرہا تھا جب اپنا بچہ دکھائی دیا تو دوڑ کے اس کے گلے میں وہ ہار ڈال دیا.امر واقعہ یہ ہے کہ جب خدا محبت پیدا فرمادے ، خدا دل نرم کر دے تو بد زیب چیز بھی خوبصورت دکھائی دینے لگتی ہے.قُرَّةَ أَعْيُنِ مانگنی چاہئے.آنکھوں کی ٹھندک دے جس طرح چاہے دے دے.ادا کی بات ہوتی ہے اگر اللہ تعالیٰ محبت عطا فرمائے تو ہرا دا بھلی لگنے لگ جاتی ہے خواہ وہ دوسرے کو کیسی بُری لگ رہی ہو.ہم نے ایسی مائیں دیکھی ہیں جن کے بچوں کی نہایت بیہودہ ادا ئیں ہوتی ہیں اور مصیبت پڑی ہوتی ہے جس گھر میں وہ بچے لے کر جاتی ہیں اور وہ بار بار توجہ دلا رہی ہوتی ہیں شوق سے کہ یہ دیکھو اس نے یہ حرکت کی ، یہ دیکھو اس نے یہ حرکت کی.اعصاب ٹوٹ جاتے ہیں ان بیچاروں کے جن کو یہ حرکتیں دکھائی جارہی ہیں.لیکن وہ ماں ہے اس کو تسکین ہی نہیں مل رہی کہ پوری طرح اس کی ابھی داد نہیں دی گئی ، پوری طرح لطف اندوز نہیں ہوا کوئی.اللہ کے کرشمے ہیں یہ ، دل صرف خدا کے ہاتھ میں ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک مرتبہ فرمایا کہ یوں دو انگلیوں کے درمیان خدا نے دل پکڑے ہوئے ہیں ( ترمذی کتاب القدر حدیث نمبر ۲۰۶۶).وہی بدل سکتا جس طرف چاہے ان کو یوں پلٹا دے.تو یہ نفسیاتی کیفیات جتنی ہیں ان کے نتیجے میں بعض دفعہ
خطبات طاہر جلد۵ 343 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء نہایت خوفناک جھگڑے ہو جاتے ہیں، جہنم بن جاتے ہیں گھر لیکن اگر دعا کرے اور یہ شرط پوری کرے فَلْيَسْتَجِيبُوالی کچھ نہ کچھ تو کوشش کرتے کہ اس حسن و احسان کی تعلیم پر عمل کرے جو خدا تعالیٰ نے اسے کو عطا فرمائی ہے اُس کے اپنے فائدے کے لئے تو پھر دیکھیں کہ کس طرح خدا کی طرف سے برکتیں نازل ہوتیں ہیں، کیسی غیر معمولی تبدیلیاں آپس کے تعلقات میں پیدا ہوتی ہیں.آخر پر طلبہ کے لئے اور نوجوان نسلوں کے لئے دعا کی درخواست کرتا ہوں لیکن خصوصیت کے ساتھ میرے پیش نظر وہ بچے ہیں جو ایسے ممالک میں پرورش پارہے ہیں جہاں غیر اسلامی تہذیب غالب ہے اور اُس کے نتیجے میں نئی نسل کی آنکھیں بدل رہی ہیں.جب ہم شروع میں انگلستان آئے ہیں تو اس وقت خاص طور پر یہ محسوس کیا تھا کہ نئی نسل کی آنکھوں میں وہ اپنائیت نہیں ہے ، وہ قرب نہیں ہے جو احمدی نسلوں میں ہونا چاہئے ، یوں لگتا ہے غیر کے ہوتے چلے جارہے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی تبدیلی اللہ تعالیٰ نے پیدا فرما دی جو دلوں کا مالک ہے.اور اگر چہ بعض دور کی بسنے والی نوجوان نسلیں ابھی تک پوری طرح اس حد تک تبدیل نہیں ہوئیں کہ دل مطمئن ہو جائیں لیکن اکثر نوجوان لڑ کے کیا ، لڑکیاں کیا اللہ کے فضل سے غیر معمولی طور پر اپنے رحجان بدل چکے ہیں.دین کی محبت پیدا ہو چکی ہے ، خدمتوں کے شوق پیدا ہو چکے ہیں.ان کی دعاؤں میں غالب چیز یہ آنے لگ گئی ہے کہ ہمارے لئے دعا کریں کہ ہمیں اللہ کی محبت نصیب ہو ، خدا کا قرب نصیب ہو.حمد سے دل بھر جاتا ہے ایسی دعاؤں کی درخواستیں دیکھ کر.انگلستان میں پیدا ہونے والی نسلیں یہاں کے آداب اور یہاں کے اخلاق اور یہاں کے تمدن سے بظاہر مرعوب لیکن انہی کے دلوں سے خدا تعالیٰ نے معرفت کے چشمے بہانے شروع کر دیئے ہیں اور چھوٹی چھوٹی عمر کے بچے اور چھوٹی چھوٹی عمر کی لڑکیاں ایسی دعائیں لکھنے لگ گئی ہیں کہ جن کے نتیجے میں اللہ کی حمد سے دل بھر جاتا ہے.لیکن ابھی بہت سے حصے ایسے ہیں ، مغرب ہی کے نہیں مشرق کے بھی ، ہندوستان کے بھی ، بنگلہ دیش کے بھی، انڈونیشیا کے بھی ملائیشیا کے بھی دور دارز ممالک کے جہاں دہر یہ تہذیب یا مغربی تہذیب بڑی تیزی کے ساتھ اپنے جال پھیلا رہی ہے اور ہماری نسلوں کو بڑے خطرات درپیش ہیں.جہاں ہر قسم کی کوششیں کریں گے وہاں اس رمضان المبارک میں نئی نسلوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور رمضان المبارک کی برکتوں سے ان کو عملاً آشنا کرنے کی کوشش کریں.کچھ نہ کچھ لقمہ لقمہ
خطبات طاہر جلد۵ 344 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء کھلا ئیں ان کو ان نعمتوں کا، ساتھ لے کر چلیں لیکن سختی کر کے نہیں محبت اور پیار سے اور اس رمضان المبارک میں اُن کو دعا کی عادت ڈالیں.سب سے زیادہ مؤثر طریق نوجوان نسلوں کو دین کی طرف مائل کرنے کا یہ ہے کہ اُن کو دعا کی عادت ڈالی جائے ، ان کے لئے دعا کریں مگر یہ زیادہ بہتر طریق ہے کہ اُن کے لئے دعا کرنے کا کہ ان سے کہیں کہ اس بات کے لئے دعا کرو.اور آپ دعا ئیں یہ کریں کہ اے اللہ ! اُن کی دعا قبول کرلے.جو بچہ اس تجر بہ میں سے گزر جاتا ہے اس کے اندر حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوتی ہے.اور بچپن میں جس شخص کو قبولیت دعا کا لطف حاصل ہو جائے ساری زندگی بڑھاپے تک وہ لطف اس کا نہ بھول سکتا ہے، نہ اس کا پیچھا چھوڑتا ہے اسے چسکا پڑ جاتا ہے.اس لئے نئی نسلوں کو سنبھالنے کا اس سے بہتر طریقہ میں اور نہیں سوچ سکتا کہ اُن کو دعا کی عادت ڈالی جائے اور آپ دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اُن کی دعائیں قبول کرے اور اُن کو اپنا بنا لے.پس اس رمضان کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنا ئیں.اتنا مانگیں، اتناما نگیں کہ بظاہر آپ کا پیٹ بھر جائے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ کے فضل تو اتنے بے شمار ہیں آپ اُن کا تصور بھی نہیں کر سکتے.نہ سارے مانگ سکتے ہیں نہ اُن سے پیٹ بھر سکتا ہے کیونکہ جب وہ فضل نازل ہوتے ہیں تو ہاضمے کی قوت بڑھا دیتے ہیں ساتھ ہی ، مزید کی طلب خود ہی پیدا کر جاتے ہیں.ایک لا متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے خدا کی سمت حرکت کا.پس اگر ہم رمضان کے سارے تقاضے پورے کرنے والے ہوں، جو محروم ہیں رمضان کی دعاؤں سے ، عبادتوں سے ، ان کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں، اپنے غرباء کو یاد رکھیں ، اپنے امراء کو یاد رکھیں ، محروموں کو یاد رکھیں.خصوصیت سے پاکستان میں جو حالات ہیں اُن کو پیش نظر رکھ کر احمدیت کی فتح کی دعائیں کریں لیکن وہ فتح جو خدا کی اصطلاح میں فتح ہے، بندوں کا تماشا فتح نہیں چاہئے بلکہ وہ فتح جسے اللہ فتح کہتا ہے ، جسے اللہ ظفر قرار دیتا ہے.ان دعاؤں کے ساتھ رمضان گزاریں اور میں امید رکھتا ہوں کہ اس رمضان سے جب ہم نکلیں گے تو بالکل نئی کیفیت کے ساتھ نکلیں گے.- حقیقت یہ ہے کہ ہر موسم کے ساتھ ایک تبدیلی ہوا کرتی ہے اور روحانی تبدیلیوں کے لئے
خطبات طاہر جلد۵ 345 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء رمضان سے بہتر اور کوئی موسم نہیں.بعض لوگ خوفزدہ ہوتے ہیں اس مہینے سے بعض لطف اٹھانے کے باوجود پھر بھی اس لحاظ سے ضرور ڈرتے ہیں کہ ہم اس کی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں گے کہ نہیں.پس اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق بخشے.اور جو ہم ادا نہ بھی کر سکتے ہوں ہماری جھولی میں اُن کی خیرات بھی ڈال دے، ان کمیوں کے لحاظ سے بھی ہم پر فضل نازل فرما دے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: کچھ جنازہ ہائے غائب کی نماز ہوگی ان کا میں اعلان کر دیتا ہوں.نماز جمعہ کے معاً بعد صفیں بنالیں :.مکرم سرفراز احمد خان صاحب ابن ڈاکٹر ممتاز علی خان صاحب آف الہ آباد ضلع راجن پور.یہ آرمی میں بطور لانس نائیک ملازم تھے اور ایک حادثہ میں شہید ہو گئے.تدفین کے چند روز بعد باوجود اس کے کہ اس کے آبائی گاؤں کے اکثر غیر احمدی شرفاء نے خود ان کی الگ نماز جنازہ بھی پڑھی اور بے انتہا ہمدردی اور محبت کا سلوک کیا لیکن ارد گرد کے علماء نے شور کیا اور اس قدر فساد برپا کیا کہ حکومت نے زبر دستی بہت بڑی پولیس کی جمعیت بھیج کر چند روز کے بعد ان کی قبر کھدوا کر ان کی لاش کو زبر دستی قبرستان کی بجائے ان کی اپنی زمین میں دفن کر دیا.ان کے والد صاحب کا بڑا اس سلسلہ میں درد ناک خط موصول ہوا ہے اور خاص طور پر انہوں نے ان کے لئے دعا کی درخواست کی ہے لیکن ساتھ ہی یہ اللہ تعالیٰ کی شان بھی بیان کی ہے کہ کئی دن کے بعد جب کہ بظاہر مردہ گل سڑ جانا چاہئے تھا خصوصاً حادثے کا شکار ہو اور نو جوان ہواس کی لاش تو بڑی جلدی گلنا سڑنا شروع کر دیتی ہے لیکن جب قبر کھودی گئی تو بالکل صحیح سلامت اسی حالت میں تھی جس حالت میں وہ دفن کی گئی تھی.اس گاؤں کے غیر احمدی شرفاء خود کندھا دے کر اس کو لے کر گئے ہیں دوسری طرف اور وہاں جا کر اس کی تدفین کی.مکرم مرزا منور بیگ صاحب ہمارے للیانی ضلع لاہور کے بہت مخلص دوست تھے.میں بھی ان کے گاؤں میں گیا ہوں.غالباً یہ زعیم انصار اللہ بھی تھے.ان کے متعلق اطلاع ملی ہے کہ ان کو کسی نے گولی مار کر شہید کر دیا ہے اور چونکہ ان کی ذاتی دشمنی کوئی نہیں تھی اور کوئی قتل کی اور وجہ
خطبات طاہر جلد۵ 346 خطبه جمعه ۹ رمئی ۱۹۸۶ء نظر نہیں آتی اس لئے جماعت کے دوستوں کا خیال یہ ہے کہ یہ مذہبی دشمنی کے نتیجہ میں شہادت ہے جو عمل میں آئی ہے.مکرم نسیم احمد صاحب بھٹی 26 سال کی عمر میں ایک کار کے حادثے میں شہید ہوئے ہیں.ان کے والد مکرم محد فخر الدین صاحب بھٹی وہ ہیں جوا یبٹ آباد میں 1974 ء میں شہید ہوئے تھے اور بہت ہی بہادری اور دلیری کے ساتھ بڑی شان کے ساتھ انہوں نے اپنی زندگی کی قربانی پیش کی تھی.مکرمہ بی بی ساحرہ صاحبہ اہلیہ محمود نیپال صاحب مرحوم ان کی عمر 87 سال تھی ، ماریشس کے ابتدائی احمد یوں میں سے تھیں.مکرمہ فاطمہ بیگم صاحبہ یہ ہمارے نسیم سیفی صاحب وکیل التعلیم کی خوشدامنہ تھیں اور عبدالماجد طاہر صاحب کی بیگم کی دادی تھیں.عبدالمساجد طاہر مبلغ سلسلہ ہیں جو آج کل یہاں مرکزی کارکنوں میں کام کر رہے ہیں اور آخری جنازہ ہے مکرمہ حمیدہ بیگم صاحبہ زوجہ مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب باجوہ میر پور خاص سندھ.نماز جمعہ کے معابعد یہ جنازے ہونگے.میں بھول گیا تھاذ کر کرنا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ صرف چند گنتی کے رہ گئے ہیں اور ان میں خاص طور پر حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ، اللہ ان کی بابرکت زندگی کو بہت دوام بخشے.جس حد تک بھی ممکن ہے انسانی زندگی کے لئے ان کا بابرکت سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے.ان کی بیماری کی اطلاع ملی ہے ان کی انگلی پر کوئی تکلیف ہو گئی تھی جس کی وجہ سے ایک انگلی مڑ گئی اور اس میں کافی تکلیف تھی غالباً آپریشن ہو چکا ہوگایا ہونے والا ہے اس لئے ان کو خصوصیت کے ساتھ دعاؤں میں یا درکھیں.
خطبات طاہر جلد۵ 347 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء شہادت خدا کی عظیم نعمت ہے سکھر کے دو شہداء اور احمد یہ بیت الذکر کوئٹہ پر حملہ کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: لا وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءِ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ فَرِحِيْنَ بِمَا التهُمُ اللهُ مِن فَضْلِه وَيَسْتَبْشِرُوْنَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ مِّنْ خَلْفِهِمْ الَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ وَ أَنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ الَّذِينَ اسْتَجَابُ اللهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِينَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيمٌ نْ الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٍ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ ( آل عمران: ۱۷۰-۱۷۵) b اور پھر فرمایا:
خطبات طاہر جلد۵ 348 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء احباب جماعت کو پاکستان سے آنے والی دو خبروں سے اطلاع مل چکی ہوگی.ایک تو سکھر سے تعلق رکھتی ہے جس میں ہمارے دو نہایت ہی پیارے اور مخلص بھائیوں کو ان میں سے ایک کا نام قمر الحق تھا اور یہ ہمارے امیر ضلع نجم الحق صاحب کے چھوٹے بھائی تھے اور ایک اور مخلص نوجوان خالد سلیمان کو ارمئی ۱۹۸۶ء کو سکھر میں شہید کر دیا گیا.دوسری خبر کوئٹہ سے تعلق رکھتی ہے کہ وہاں پولیس کی معیت میں ایک ہزار ، ڈیڑھ ہزار کے مجمع نے مسجد احمدیہ کوئٹہ پر حملہ کیا اور باوجود اس کے کہ علماء بہت پہلے سے اپنے بدا را دوں کو کھلم کھلا ظاہر کر چکے تھے اس کے باوجود حکومت نے نہ صرف یہ کہ روکنے کی کوشش نہیں کی بلکہ کلی ان کا ساتھ دیا.پولیس کی معیت میں وہ مسجد کے قریب تک پہنچے.پولیس کی نگرانی میں انہوں نے پتھراؤ کیا.پانچ احمدی زخمی ہوئے اور باوجود اس کے کہ پولیس کی طرف سے ادنی مزاحمت بھی نہیں کی گئی.ہر دفعہ جب کوئی احمدی نوجوان زخمی ہوتا تھا تو اس شدت اور جوش کے ساتھ مسجد نعرہ ہائے تکبیر سے گونج اٹھتی تھی کہ اس کے رعب سے وہ مجمع دوڑ کر پیچھے ہٹ جاتا تھا.یہاں تک کہ جب وہ اپنے زور سے مسجد پر قبضہ نہیں کر سکے تو پولیس کے جو بھی وہاں افسران تھے اور ڈی سی نے امیر صاحب کوئٹہ کو یہ پیغام بھجوایا کہ اب آپ کے لئے تین ہی صورتیں ہیں یا تو آپ مسجد کو خالی کر دیں اور ان کے حوالے کر دیں یا پھر تیار ہو جائیں اس بات کے لئے کہ ہم ان کو کھلی چھٹی دیں وہ جس طرح چاہیں آپ پر حملہ آور ہوں لیکن ہم آپ کو متنبہ کرتے ہیں کہ آپ میں سے ایک بھی زندہ نہیں بچے گا اور تیسری صورت یہ ہے کہ حکومت زبر دستی آپ سے مسجد خالی کرائے ، 144 لگائے اور اس کا عذر رکھ کے آپ سب کو قید کرے اور مسجد خالی کر کے پھر جو چاہے اس سے کرے.امیر صاحب نے اور سب مقامی دوستوں نے جو اس وقت حاضر تھے ان کو جواب دیا کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم مسجد اپنے ہاتھ سے کسی کے سپر د کر دیں اس کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا قطعا یہ وہم ہی دل سے نکال دو.جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے ہمیں قبول ہے تم پہلے بھی کون سی ہماری حفاظت کر رہے ہو، تم بیچ میں سے ہٹ جاؤ اور ان کو آنے دو جو چاہیں کریں ، جتنی چاہے ہمیں قربانی دینی پڑے ہم ان لوگوں کو مسجد کو ہاتھ نہیں لگانے دیں گے اور موت سے تم ہمیں کیا ڈراتے ہو ہم تو پہلے ہی اس نیت کے ساتھ تیار ہو کر مسجد میں آئے تھے.اور جہاں تک تیسری صورت کا
خطبات طاہر جلد۵ 349 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء تعلق ہے اس میں ہمیں اختیار ہی کوئی نہیں ہے ہم سے پوچھتے کیا ہو.یہ تو بیوقوفوں والی بات ہے کہ اپنا جبر چلانا ہے اور ہم سے پوچھ رہے ہو کہ جبر چلائیں کہ نہ چلائیں.بہر حال پھر انہوں نے وہی حرکت کی جو آخری صورت میں انہوں نے پیش کی تھی اور ان سب کو قید کر کے تھانے میں پہنچا دیا اور مسجد کو مقفل کر کے سیل کر دیا گیا.یہ عجیب واقعہ ہوا ہے حیرت انگیز انصاف کا کہ حملہ آوروں میں سے کسی کو قید نہیں کیا جاتا ، پتھراؤ کرنے والوں میں سے کسی کو پکڑا نہیں جاتا اور جن کی مسجد پر پتھراؤ ہوا اور جو مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے تھے وہ تو دفعہ 144 کی خلاف ورزی کر رہے تھے اور جو پتھر جھولیوں میں بھر کے گندی گالیاں دیتے ہوئے خدا کے گھر پر حملہ آور ہورہے تھے وہ عین قانون کے مطابق کام کر رہے تھے.تو قانون کے سارے انداز بگڑ چکے ہیں وہاں، قانون کے تیور بدل چکے ہیں اور جس چیز کو اب وہاں قانون کہا جاتا ہے وہ عام دنیا کی اصطلاح میں اور معمولی عقل رکھنے والوں کی اصطلاح میں بھی لاقانونیت ہے.بہر حال یہ واقعہ بھی گذر گیا.ان دونوں کے متعلق قرآن کریم کیا مضمون بیان کرتا ہے اس سلسلہ میں میں نے ان آیات کا انتخاب کیا تھا جو ابھی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں اور ایک ہی تسلسل میں قرآن کریم نے ایک ہی مقام پر شہادت کے مضمون کو بھی بیان فرما دیا ہے اور ان لوگوں کے حال کو بھی کھول کے رکھ دیا جن کو ڈرایا جاتا تھا کہ ہم حملہ آور ہونے والے ہیں، تمہارے لئے خطرات لاحق ہیں اس لئے اپنے دین سے اور اپنے موقف سے ہٹ جاؤ.سب سے پہلے تو قرآن کریم یہ عظیم الشان اعلان فرماتا ہے وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوا فِي سَبِيْلِ اللهِ اَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَا عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَه که تو ہر گز یہ گمان نہ کر کہ جو خدا کی راہ میں قتل ہوئے وہ اموات ہیں ، مرچکے ہیں، مردے ہیں.بَلْ أَحْيَا عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ کے حضور رزق دیئے جاتے ہیں.فَرِحِينَ بِمَا هُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِم وہ تو بہت خوش ہیں ان چیزوں کو دیکھ کر ان نعمتوں کو دیکھ کر جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہیں اللہ کے بے شمار نازل ہونے والے فضلوں سے وہ بہت ہی خوش ہیں اور صرف خود اپنے بارے میں ہی خوش نہیں وَ يَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمُ
خطبات طاہر جلد۵ 350 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء مِنْ خَلْفِهِم وہ تو ان لوگوں کی بھی راہ دیکھ رہے ہیں خوشیوں کے ساتھ جو بھی ان سے نہیں ملے اور اس راہ میں ان سے ملنے والے ہیں یعنی وہ جو دنیا میں پیچھے رہ گئے اور ابھی شہید نہیں ہوئے لیکن ان کو علم دیا کہ وہ شہادت کا رتبہ پانے والے ہیں، ان کے متعلق غم کی بجائے وہ خوشیاں محسوس کر رہے ہیں اور بڑی خوشی سے ان کا انتظار کر رہے ہیں اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ اور ان کے دلوں کی اور ان کے وجودوں کی جو بھی کیفیت ہے ان کے اندر سے یہ آواز میں نکل رہی ہیں الَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ یہ ہمارے بھائی جو آنے والے ہیں یا جو پیچھے رہ گئے ہیں ہم سے ان کے لئے کوئی خوف اور کوئی حزن کا مقام نہیں ہے، کوئی غم کا مقام نہیں.يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللهِ وَفَضْلٍ وَأَنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ - يَسْتَبْشِرُونَ بِنِعْمَةٍ مِنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ وہ اللہ کی نعمتوں کی وجہ سے جو نعمت خدا نے نازل فرمائی ہے خوش ہیں.وَفَضْلٍ اور اللہ کے فضل کی وجہ سے خوش ہیں.وَ اَنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُؤْمِنِينَ اور اس وجہ سے خوش ہیں کہ اللہ مومنوں کا اجر ضائع نہیں فرمایا کرتا.الَّذِینَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرُحُ یہ عجیب لوگ ہیں کہ باوجود اس کے کہ خدا کی راہ میں بار بار دکھ اٹھا چکے ہیں پھر بھی ہر قربانی کے میدان میں خدا کی اور خدا کے رسول کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں - اسْتَجَابُوا لِلهِ وَالرَّسُولِ خدا اور رسول کی اس دعوت کو قبول کرتے ہیں جو قربانی کے میدانوں کی طرف ان کو بلانے والی ہے.مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ حالانکہ اس راہ میں پہلے دکھ پہنچ چکے ہیں انکے لئے کوئی نئی بات نہیں ہے.لِلَّذِینَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرُ عَظِیم اور وہ لوگ جنہوں نے احسان کا سلوک کیا ان لوگوں میں سے اور تقویٰ اختیار کیا ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے.یہ مضمون تو بڑا واضح ہے لیکن اس میں ایک دو ایسے پہلو ہیں جو وضاحت طلب ہیں.جہاں یہ فرمایا الَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ وہاں اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ کی تو بڑی کھلی کھلی سمجھ ایک مومن کو آجاتی ہے.آج سارے پاکستان کے احمدی بلا امتیاز خوف سے بالکل عاری ہیں اور جن پر یہ ابتلا کا دور گزر رہا ہے ان کی طرف سے بار بار بڑی شدت کے ساتھ اور اصرار کے ساتھ یہ اطلاعیں پہنچتی ہیں کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمارے دل پر کیا گزر رہی ہوگی ہرگز بالکل کسی
خطبات طاہر جلد۵ 351 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء قسم کا کوئی غم نہ کریں.بعض احمدی دوستوں نے لکھا ہے کہ اتنے کمزور ایمان والے لوگ جو معمولی باتوں سے بھی ڈر جایا کرتے تھے ان کے دلوں کی یہ کیفیت ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے دیکھ کر.دندناتے ہوئے خطرے کی گلیوں میں پھرتے ہیں اور ایک ذرہ بھی ان کو پروا نہیں.وہ سارے فیصلے کر چکے ہیں اور یہ عزم بٹھا چکے ہیں دلوں میں کہ خدا کی راہ میں جو کچھ قربان ہوسکتا ہے وہ ہم سب قربان کر دیں گے.پس جب ایک دفعہ کوئی قوم قربانی کے اس معیار پر پوری اتر چکی ہو کہ ہر قسم کے خطرات کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کی جرات رکھتی ہو اور پہلے سے ہی دل میں تہیہ کر چکی ہو کہ جو کچھ بھی اس راہ میں گزرے گی ہم اس کو اپنے سر پر لیں گے اور ہرگز پیچھے نہیں ہٹیں گے.ان کے مرد کیا اور ان کی عورتیں کیا ، ان کے بوڑھے کیا اور ان کے بچے کیا ، وہ سب اس عہد میں ایک جان اور یک قالب ہو چکے ہوں.ان کو موت یا کوئی اور خوف کیسے ڈرا سکتے ہیں.ان کی کیفیت تو بدر کے ان صحابہ کی سی کیفیت ہو جاتی ہے جن کے متعلق اس دشمن نے جو یہ اندازہ لگانے کے لئے بھیجا گیا تھا کہ دیکھو مسلمانوں کی فوج کی کیا حالت ہے اور ان کی طاقت کا کیا عالم ہے.اس نے واپس آکر ان کے متعلق یہ گواہی دی اور یہ ایسی عظیم الشان گواہی ہے کہ اگر چہ وہ کافر تھا لیکن اس کے منہ سے بات ایسی نکلی جو سنہری حروف میں لکھنے کے لائق ٹھہری.اس نے آکر اپنے بھیجنے والوں کو یہ بتایا کہ دیکھو میں وہاں تین سو تیرہ یعنی تین سو کے لگ بھگ آدمی دیکھ کر آیا ہوں بوڑھے بھی ہیں کمزور بھی ہیں، نہتے بھی ہیں، کسی کے پاس لکڑی کی تلوار ہے، کوئی لنگڑا ہے اور بہت ہی بظاہر کمزوری کی حالت ہے لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں کہ غالب وہ آئیں گے اور شکست تم کھاؤ گے.اس پر مکہ کے سرداروں نے تعجب سے اُس سے پوچھا کہ یہ کیا جاہلانہ باتیں کر رہے ہو، ایک ہزار عرب کے چنیدہ لڑنے والوں کے مقابل پر جو ہر قسم کے اسلحہ سے لیس ہیں.تم خود بتاتے ہو کہ نہایت ہی کمزور تین سو کے لگ بھک آدمی ہیں ، بوڑھے بھی، بچے بھی، کمزور بھی، بہار بھی لنگڑے بھی اور پوری طرح ہتھیار بھی ان کو میسر نہیں اور پھر کہہ رہے ہو کہ جیتیں گے وہی.تو اس نے کہا کہ بات یہ ہے کہ میں وہاں تین سو تیرہ زندہ نہیں بلکہ تین سو تیرہ موتیں گن کر آیا ہوں، ان میں سے ہر ایک کی پیشانی پر یہ عہد لکھا ہوا ہے کہ ہم اس راہ میں مر جائیں گے اور ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے.تو زندوں کو تو کوئی مار بھی سکتا ہے مردوں کو کوئی مار نہیں سکتا.(الطبقات الکبری جلد ۲ صفحہ ۶ باب غزوۃ البدر )
خطبات طاہر جلد ۵ 352 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء اس حد تک تو اس کی فہم پہنچ گئی لیکن ایک کافر کی فہم و بصیرت کی ایک حد ہوتی ہے اس سے آگے وہ نہ جاسکی.کہنا اس کو یہ چاہئے تھا کہ میں ایسے زندہ دیکھ کر آیا ہے جن کو ابدی زندگی کا پیغام مل چکا ہے، جن کو قیامت تک کوئی مار نہیں سکتا.وہ تمہاری طرح کے زندہ نہیں ہیں جن کے لئے دنیا کے معمولی خطرات بھی بعض دفعہ جان لیوا ثابت ہو جاتے ہیں وہ تو ایسی ابدی زندگی پانے والے لوگ ہیں جن کو کوئی موت کسی حالت میں بھی نہ ڈرا سکتی ہے نہ مار سکتی ہے.پس یہی کیفیت آج پاکستان کے احمدی بھائیوں کی ہے اللہ کے فضل سے ان میں سے ہر ایک شیر نر کی طرح بہادر ہے اور خدا کی راہ میں ایک ذرہ بھی کسی خوف سے نہ ہچکچاتا ہے اور نہ ڈر محسوس کرتا ہے.یہ بات تو بڑی کھلی کھلی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اَلَّا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ ان پر کوئی خوف نہیں ہے.وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ سے کیا مراد ہے.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ وہ شہداء یا وہ دیکھ اٹھانے والے جن کو خدا تعالیٰ یہ سعادت بخشتا ہے ان کے پسماندگان یا باقی مومنوں کی جماعت ان کے لئے دکھ محسوس کرتی ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں.اس لئے لَا يَحْزَنُونَ کا کیا معنی ہوا، یہ دکھ تو خود حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بھی محسوس فرمایا.چنانچہ بئر معونہ کے وقت جب ستر قراء صلى الله کوشہید کیا گیا تو صحابہ بیان کرتے ہیں آنحضور ﷺ کو اتنا صدمہ پہنچا کہ زندگی میں نہ کبھی پہلے ایسا صدمہ دیکھنا نصیب ہوا نہ اس کے بعد کبھی ایسا صدمہ دیکھنا نصیب ہوا.تمہیں دن تک بڑی گریہ وزاری کے ساتھ صبح کی نمازوں کے بعد ان کے لئے دعا اور دشمنوں کے متعلق بددعائیں کرتے رہے ( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر : ۳۷۸۷) تووَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ سے پھر کیا مطلب لیا جائے جو واقعات اور حالات کے مطابق درست ٹھہرے.اس کے دو پہلو ہیں جن سے یہ بظاہر تضاد دور ہو جاتا ہے یعنی اس عظیم اعلان کا اور واقعاتی دنیا کا تضاد.اور بھی کچھ پہلو تفصیلی ایسے ہیں جن پر غور کرنے سے اس کے مضمون کے اندر زیادہ گہرائی نظر آتی ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ جو بیان ہے یہ قربانی کرنے والوں کے متعلق ہے، پیچھے رہنے والوں کے متعلق نہیں.جو قربانی میں سے گزر رہے ہیں ، جن کو قربانی کی سعادت ملتی ہے ان کو کوئی خوف نہیں ہوتا اور ان کو کوئی غم نہیں ہوتا.وہ قربانی دیتے ہیں اور اس کے باوجود قربانی کا شوق پہلے سے بڑھ جاتا ہے.جس شخص کو نقصان کا زیاں کا احساس ہوا ہو وہ دوبارہ قربانی کرنے کی
خطبات طاہر جلد۵ 353 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء خواہش نہیں کر سکتا.اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ ان کے پسماندگان پر اللہ تعالیٰ اپنے فضل نازل فرماتا ہے اور ان کے غم کو عارضی کر کے دکھا دیتا ہے اور پھر ایسے فضل ان پر نازل فرما تا چلا جاتا ہے کہ وہ غم اس کے مقابل پر کچھ حیثیت بھی نہیں رکھتے یعنی چھوٹے ہو کر نظر آنے لگ جاتے ہیں.مثلاً خدا کی راہ میں ایک نقصان ہوا اس کے مقابل پر پھر اس کثرت سے فضل نازل ہونے شروع ہوئے کہ وہ نقصان ان فضلوں کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا.چنانچہ اس مضمون کو اجتماعی حیثیت سے قرآن کریم نے اس طرح بیان فرمایا کہ اگر ایک تم میں ارتداد اختیار کرے گا تو اس کی جگہ کثرت سے خدا دوسری جماعت عطا فر مادے گا.ایک جان کو شہادت نصیب ہوگی تو اس کثرت سے بڑھائے گا کہ شہادت کی برکت سے جو مومنوں کی جماعت کو وہ ایک کا نقصان نہ صرف یہ کہ پورا ہوگا بلکہ بے انتہا منافع میں تبدیل ہو جائے گا.پس مومن کی ساری زندگی پر اگر نظر ڈالی جائے تو یہی مضمون جاری وساری دکھائی دیتا ہے.جو مال وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتا ہے وہ بھی اسی دنیا میں دوسری دنیا کا تو الگ معاملہ ہے اسی دنیا میں اتنا بڑھا چڑھا کر اس کو اور اس کی اولادوں کو لوٹایا جاتا ہے کہ وہ شکر کے گیت گاتے گاتے تھک جاتا ہے لیکن شکر کا حق ادا نہیں ہوتا.مومنوں کی جماعت کو معمولی سا نقصان پہنچتا ہے ارتداد کی صورت میں یا بعض جانی نقصان کی صورت میں.اس کے مقابل پر اتنے زیادہ خدافضل نازل فرماتا ہے، فوج در فوج نئی جماعتیں ان کو عطا کرتا ہے نئے علاقوں میں بکثرت ان کا دین پھیلنے لگتا ہے اور اسے نئی تمکنت عطا ہونے لگ جاتی ہے، نئی قوموں میں وہ داخل ہو جاتے ہیں.جہاں تک خدا کے فضلوں کا تعلق ہے ان کو دیکھ کر اگر وہ ان نقصانات کا ہی رونا روتے رہیں تو بہت ہی زیادہ ناشکری ہوگی اور کم فہمی ہوگی ، بدذوقی ہوگی.اس لئے جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو قربانی دینے والے ہیں ان کو کوئی غم نہیں.جو پیچھے رہنے والے ہیں ان پر خدا بحیثیت جماعت اتنے فضل نازل فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کی اولا دوں پر نسلاً بعد نسل اتنے فضل نازل فرماتا ہے کہ ان کو جو محرومی کا احساس تھا وہ بہت جلد ختم ہوکر خدا تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کے سامنے ان کی روحیں ، ان کے وجود، ان کے سر، ان کی ساری زندگیاں جھکنے لگ جاتی ہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 354 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء ایک اور معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے پھر بعض دفعہ ان کو خوشخبریاں دیتا ہے ان لوگوں کے متعلق جن کی یاد میں وہ حزن محسوس کرتے ہیں اور ان کو بتاتا ہے کہ وہ کس حال میں ہیں.چنانچہ یہ عمومی خوشخبری بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی وجہ سے عطا ہوئی ہے کہ اگر کچھ لوگ بعض جدا ہونے والوں کا غم محسوس کریں تو اس بات پر بھی نظر کریں کہ جو جدا ہوئے ہیں فَرِحِينَ بِمَا أنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ وَيَسْتَبْشِرُونَ بِالَّذِينَ لَمْ يَلْحَقُوا بِهِمْ ان کا تو حال یہ ہے کہ وہ بے انتہا خوش ہیں.تو جن کو نعمتیں مل گئیں، جن کو خوشیاں عطا ہو گئیں ان کے لئے تم کیوں غم کرتے ہو، یہ مضمون ہے جو قرآن کریم کھول رہا ہے.اپنے رب کے حضور حاضر ہیں اور بلکہ وہ لوگ جو ابھی قربانیاں نہیں کر سکے جن کا قربانیوں کا وقت نہیں آیا وہ تو ان کی قربانیوں کی راہ میں نظریں بچھائے بیٹھے ہیں، وہ تو راہ دیکھ رہے ہیں کب ہمارے اور بھائیوں کو بھی شہادتیں نصیب ہوں اور وہ ہمارے ساتھ آکر آملیں.یہ کیفیت ہے جس کی تفصیل ایک حدیث میں آنحضرت ﷺ کی زبان سے اس طرح ملتی ہے کہ یہ واقعہ جو حضوراکرم بیان فرماتے ہیں.یہ حدیث قدسی کا درجہ رکھتا ہے.یعنی یہ حدیث آپ کی اپنی حدیث نہیں بلکہ خدا نے آپ سے بیان فرمائی اور وہ واقعہ پھر آگے آپ نے صحابہ سے بیان فرمایا.ترمذی میں جنگ احد کے متعلق یہ روایت آتی ہے ایک نوجوان صحابی جابر آپ کے سامنے آئے اور آپ نے دیکھا ان کا چہرہ باپ کی شہادت پر مغموم ہے.فرمایا جابر ! کیا میں تمہیں ایک خوشی کی خبر سناؤں ؟ جابر نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا جب تمہارے والد شہید ہوکر اللہ کے حضور پیش ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے بے حجاب ہو کر کلام فرمایا اور فرمایا جو مانگنا چاہتے ہو مانگو.تمہارے باپ نے عرض کیا اے میرے اللہ ! تیری کسی نعمت کی کمی نہیں لیکن خواہش ہے کہ پھر دنیا میں جاؤں اور تیرے دین کے راستے میں پھر جان دے دوں.خدا نے فرمایا ہم تمہاری اس خواہش کو بھی ضرور پورا کر دیتے لیکن ہم یہ عہد کر چکے ہیں اَنَّهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (الانبیاء: ۹۶) یعنی کوئی مردہ پھر زندہ ہو کر اس دنیا میں نہیں آسکتا.جابر کے والد نے عرض کیا پھر میرے بھائیوں کو میری اطلاع دے دی جاوے تاکہ ان کی جہاد کی رغبت ترقی کرے.اس پر یہ آیت اتری کہ جولوگ خدا کے رستے میں شہید ہوتے ہیں انہیں مردہ نہ سمجھا کرو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے خدا کے پاس خوشی کی زندگی گزار رہے
خطبات طاہر جلد۵ 355 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء ہیں.پس یہی آیت ہے جو میں نے پڑھ کر سنائی اس کی تفسیر میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے وہ واقعات بیان فرمائے جو براہ راست اللہ تعالیٰ نے آپ سے بیان فرمائے.(ترمذی کتاب التفسیر حدیث نمبر ۲۹۳۶) اس میں وہ سارے پہلو روشن ہو جاتے ہیں جن کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے.وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ سے اولاً وہ لوگ مراد ہیں جن کو قربانی کی توفیق مل جاتی ہے.جہاں تک پیچھے رہ جانے والوں کا تعلق ہے پر طبعی طور پر ، فطری طور پر ان کے دل پر کچھ نہ کچھ غم ضرور اثر کرتا ہے ورنہ آنحضرت ﷺ کی تربیت پانے والے صحابہ میں سے کوئی بھی کسی شہادت پر غم نہ کرتا اور خود حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ بھی بعض شہید ہونے والوں کی جدائی پر مغموم نہ ہوتے.لیکن ساتھ ہی اس کے دوسرے پہلو بھی روشن ہوئے کہ شہداء کا جہاں تک تعلق ہے ان کو نعمت مل چکی ہوتی ہے اس لئے نعمت پر ان کے مغموم ہونے کا سوال ہی کوئی نہیں.نعمت پر تو مزید کی حرص پیدا ہوتی ہے.اور ان کی یہ تمنا کہ پھر لوٹائے جائیں اور پھر خدا کے رستہ میں شہید ہوں اور پھر لوٹائے جائیں اور پھر خدا کے رستے میں شہید ہوں بتاتی ہے کہ حقیقتاً اس نعمت کی لذت کو وہ پاگئے ، اس کی معرفت کو انہوں نے حاصل کر لیا ورنہ مزید اس قربانی کی تمنا ان کے دل میں اس شدت سے پیدا نہیں ہو سکتی تھی.عجیب واقعہ ہے کہ جزا کے لئے خدا پوچھ رہا ہے اور جزا میں قربانی مانگی جارہی ہے.اس قربانی میں یقیناً بے انتہا لذت ہوگی اور نہ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں ہے کہ وقت جزا کا ہو اور جزا کے بدلے جس خدمت کی جزا دینے کے لئے پوچھا جارہا ہے وہی خدمت دوبارہ مانگی جارہی ہو.اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ شہادت اپنی ذات میں ایک انعام ہے.شہادت کا انعام اور جو ہو گا وہ ہو گا لیکن شہید کے لئے شہادت خود انعام ہے اور اس انعام کے ساتھ اس کو ایسا پیار ہو جاتا ہے کہ بار بار اسی انعام کا تقاضا کرتا ہے.دوسرے یہ کہ جو پیچھے رہنے والوں کا غم ہے اسے دور کرنے کی خاطر شہداء خود خدا سے یہ عرض کرتے ہیں کہ انہیں اس بات کی اطلاع کر دی جائے.اگر غم ہوتا ہی کوئی نہ اور غیر فطری بات ہوتی تو شہداء کو خدا کے حضور یہ عرض کرنے کی کیا ضرورت تھی اور کیوں اللہ تعالیٰ ان کی اس التجا کو قبول فرما کر ہمیں ان حالات سے مطلع فرماتا.یہ بھی حضرت جابر کے والد کو ایک عظیم الشان انعام ملا ہے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 356 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء اس آیت کی شان نزول میں ان کا ذکر ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو گیا.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم شان نزول سے مستغنی جو نازل ہونا تھا وہ بہر حال نازل ہونا تھا یہ واقعہ ہوتا یا نہ ہوتا.ان آیات میں جو لوح محفوظ میں لکھی جا چکی تھیں ہمیشہ کے لئے.انہوں نے ضرور قلب مطہر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر لکھا جانا تھا.یہ ایک ایسی تقدیر تھی جسے بدلا نہیں جا سکتا لیکن اس ضمن میں ایک شخص کو یہ سعادت بھی مل گئی کہ اس کا نام شان نزول کے طور پر لکھا گیا اور ہمیشہ کے لئے اس کا نام اس عظیم الشان آیت کے ساتھ منسلک ہو گیا.پس جہاں تک ہمارے شہید ہونے والے بھائیوں کا تعلق ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ ان کے لئے کوئی غم نہیں.اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ جو شہادت کی معرفت رکھنے والی قومیں ہیں وہ اس غم کو خواہ مخواہ دل سے لگا کر نہیں بیٹھ جایا کرتیں.وقتی طبی تقاضے بہر حال ہوتے ہیں جیسے آنحضرت ﷺ نے اپنے ایک بچپن میں فوت ہونے والے بیٹے کو قبر میں اتارتے وقت جب آنسو بہائے تو ایک صحابی نے نادانی میں یہ عرض کیا یا رسول اللہ ! آپ اور آنسو؟ آپ نے فرمایا یہ تو رحمت ہے اور مجھے رحمت سے حصہ دیا گیا ہے.جس بد قسمت کو رحمت کا علم نہیں میں اس کے لئے کیا کر سکتا ہوں.(مسلم کتاب الجنائز حدیث نمبر (۱۵۳) پس دل کا نرم ہونا اور اپنے پیاروں کے لئے آنسوؤں کا بہنا یہ وہ حزن نہیں ہے جس کی نفی یہاں فرمائی گئی ہے بلکہ جس حزن کی نفی پیچھے رہنے والوں کے متعلق فرمائی گئی ہے وہ حزن ہوتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے یا دل کے ساتھ لگ کر بیٹھ جاتا ہے ہمیشہ کے لئے اس کے ساتھ مایوسیاں چھٹ جاتیں ہیں، حسرتیں اس کے وجود کا حصہ بن جاتی ہیں.شہادت پانے والوں کے لئے اس قسم کا غم کوئی مومن نہ محسوس کر سکتا ہے نہ مومن کی شان ہے کہ ایسے جاہلا نہ غم میں مبتلا ہو.بہت ہی بڑا انعام ہے، بہت ہی بڑا مرتبہ ہے جو شہادت پانے والوں کو نصیب ہوتا ہے.اس لئے ان کے لئے جدائی کا غم یا ان کے پسماندگان کا احساس یا بعض دفعہ یہ احساس کہ ہم کیوں نہیں تھے اس کی جگہ.یا یہ احساس کہ ان کے بیوی بچوں کی بجائے ہمارے بیوی بچے کیوں ان قربانیوں سے محروم رہے یہ ایسے غم ہیں جو وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کی نفی نہیں کرتے.یہ آیت اپنی جگہ قائم رہتی ہے اور اس کے باوجود اس قسم کے رحمت سے تعلق رکھنے والے غم مومنوں کے وجود پر وقتی طور پر قبضہ بھی کر لیتے ہیں لیکن بالآخر یہ غم خوشیوں میں تبدیل کئے جاتے ہیں.بالآخر ان کو کھونے کا احساس،
خطبات طاہر جلد۵ 357 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء ان کی محرومی کا احساس بے انتہاء نازل ہونے والے فضلوں کے بوجھ تلے دب جاتا ہے اور عملاً اس کثرت سے خدا کی رحمت کی بارشیں اور فضلوں کی بارشیں ان پر نازل ہوتی ہیں کہ ان غموں کا وجود ہی مٹ جاتا ہے، دھل جاتا ہے ہمیشہ کے لئے.پس جہاں تک جماعت احمدیہ پاکستان یا جماعت احمد یہ عالمگیر کا تعلق ہے شہادتیں ہمارے جذبہ کو کم کرنے کی بجائے ہمارے جذبہ کو اکسانے کا موجب بن رہی ہیں اور ہمیشہ اکسانے کا موجب بنتی چلی جائیں گی.کوئی خوف نہیں ہے جو ہمیں اس راہ سے پیچھے ہٹا سکے.کوئی غم کا ایسا تصور نہیں ہے جو ہمارے پائے ثبات میں لغزش پیدا کر سکے.ہمارے عزم کا سر ہمیشہ بلند رہے گا اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو اس سر کو نیچا دکھا سکے.ایک ایک کر کے ہمارے دشمنوں کے سر جھکیں گے کچھ ندامت کے نتیجہ میں ، کچھ خدا کے غضب کے نازل ہونے کے نتیجہ میں.لیکن ہرگز احمدی کا سر نہیں جھکے گا اس راہ میں اور بلند تر ہوتا چلا جائے گا.یہ ہمارا مقدر ہے جس کی خبر قرآن کریم نے ہمیں دی ہے.یہ ہمارا مقدر ہے جس کی خبر اصدق الصادقین حضرت محمد مصطفی اللہ نے ہمیں عطا فرمائی ہے.پس ہم ان خبروں سے خوش ہیں اور خدا کی راہ میں ہر قربانی کے لئے تیار ہیں.جہاں تک شہید ہونے والے کے جذبات کا تعلق ہے ایک واقعہ میں نے شہادت کے بعد کا بیان کیا ہے.ایک شہادت کے عمل سے گزرتے ہوئے جو کیفیت شہید کی تھی اس کا واقعہ بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یہ جنگ احد ہی کا واقعہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت سعد بن ربیع کو نہ پا کر جو انصار کے رئیس تھے اور آنحضرت ﷺ سے بے انتہا عشق رکھتے تھے.آپ کو نہ دیکھ کر ان کے پیچھے آدمی دوڑائے کہ تلاش کر وسعد بن ربیع کہاں ہیں.وہ زندہ بھی ہیں یا شہید ہو چکے ہیں.آپ نے فرمایا آخری مرتبہ جب میں نے دیکھا تھا تو وہ دشمنوں کے نرغے میں بری طرح گھرے ہوئے تھے.ایک انصاری صحابی ابی بن کعب آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی تعمیل میں سعد کو تلاش کرتے پھر رہے تھے اور بار بار اونچی آوازیں دے رہے تھے کہ سعد ! تم کہاں ہولیکن کوئی جواب نہیں آتا تھا.مایوس ہو کر جب واپس لوٹنے لگے تو اچانک ان کے دل میں ایک عجیب خیال آیا کہ ہو سکتا سعد زندہ ہو لیکن اتنا کمزور ہو چکا ہو، اتنی نقاہت ہو کہ میری آواز پر وہ جواب دینے کی زحمت ہی نہ کرے یعنی اس کو ضرورت محسوس ہی نہ ہو کہ میں زور لگا کر جواب دوں ، میری آواز کے کیا معنی ہیں.چنانچہ اس خیال الله
خطبات طاہر جلد۵ 358 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء سے اور یہ عظیم الشان خیال ہے.صحابہ کا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے عشق تھا اور جوعظیم احترام تھا آپ کے لئے اس کی بھی یہ واقعہ پردہ کشائی کر رہا ہے.وہ کہتے ہیں کہ جب مجھے یہ خیال آیا تو میں نے بجائے اس کے یہ آواز دی کہ سعد ! تم کہاں ہو میں نے یہ آواز لگائی کہ سعد بن ربیع کہاں ہیں مجھے رسول اللہ اللہ نے آپ کی طرف بھیجا ہے.تو کہتے ہیں اس آواز نے سعد کے نیم مردہ جسم میں بجلی کی ایک لہر دوڑا دی اور انہوں نے چونک کر مگر بہت ہی دھیمی آواز میں جواب دیا ” کون ہے میں یہاں ہوں استَجَابُوا لِلهِ وَالرَّسُولِ کا ایک یہ بھی نقشہ ہے.انہی آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہی نے ایک محاورہ یہ بھی خدا تعالیٰ استعمال فرمایا ہے.الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ ایسے لوگ بھی ہیں جو شدید زخموں کی حالت میں ہیں، ایک یہ بھی معنی ہیں جنہیں زخموں نے ان کو نڈھال کر رکھا ہے مگر اللہ اور رسول کے نام پر جو آواز بلند ہوتی ہے تو وہ بے اختیار ہو کر اس کا جواب دیتے ہیں، کہتے ہیں ہم حاضر ہیں ، ہم حاضر ہیں.تو اس آیت کی بھی ایک عملی تصویر اس حسین رنگ میں ہمارے سامنے رکھی گئی کہ جب یہ آواز سنی کہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف سے بھیجا گیا ہوں اور آپ کی طرف سے تمہیں بلا رہا ہوں انہوں نے کہا ” میں یہاں ہوں ابی بن کعب نے غور سے دیکھا تو تھوڑے فاصلے پر مقتولین کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا.اس ڈھیر میں سعد کو جانکنی کی حالت میں پایا.ابی بن کعب نے ان سے کہا کہ مجھے آنحضرت ﷺ نے اس لئے بھیجا ہے کہ میں تمہاری حالت سے آپ کو اطلاع دوں.سعد نے جواب دیا کہ رسول اللہ سے میرا سلام عرض کرنا اور کہنا کہ خدا کے رسولوں کو جوان کے متبعین کی قربانی اور اخلاص کی وجہ سے ثواب ملا کرتا ہے خدا آپ کو وہ ثواب سارے نبیوں سے بڑھ چڑھ کر عطا کرے.اس فقرہ میں بہت گہرائی ہے اس میں ڈوب کر دیکھیں کتنی عظیم الشان محبت اور عشق اور معرفت کا مضمون آپ کو اس میں ملے گا.اول تو جو خدا کی راہ میں قربانی کرنے والا ہے اس کو اپنے ثواب کی فکر نہیں اس کی دلی تمنا یہ ہے کہ میرا بھی اور ساری دنیا میں جتنے بھی خدا کی راہ میں قربانی کرنے والے ہیں ان سب کا ثواب محمد مصطفی ﷺ کو پہنچے.عام نظر میں دیکھا جائے تو محض ایک محبت تو
خطبات طاہر جلد۵ 359 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والی تمنا ہے لیکن حقیقت میں یہ وہ بات نہیں اس میں گہرا عرفان ہے، گہری معرفت ہے.تمام دنیا میں خدا کی راہ میں قربانی کرنے والوں نے قربانی کا مضمون محمد مصطفیٰ سے سیکھا.آپ ہی کا فیض تھا کہ قربانی کے میدان خدا کی راہ میں کھولے گئے.آپ ہی کا فیض تھا جس کے نتیجہ میں ہزار ہا بلکہ لکھوکھہا انسانوں نے خدا کی راہ میں لبیک کہتے ہوئے بھیٹر بکریوں کی طرح اپنی گردنیں کٹوا دیں.پس یہ محمد مصطفی ﷺ کا فیض تھا اس لئے اس ثواب کے اولین حقدار صلى الله آنحضور ﷺ ہیں جن کی بدولت قربانیوں کا یہ سارا کارخانہ جاری ہوا.تو انہوں نے سچ کہا اور صحیح سوچا کہ سب سے اول حق داران سب قربانیوں کے مستحق حضرت اقدس محمد مصطفی ملے ہیں.پھر اس میں ایک اور بھی عظیم الشان مضمون یہ ملتا ہے کہ جب انسان کسی اور کو دعائیں دیتا ہے تو اپنے محسن کو دعائیں دیتا ہے اگر دکھ محسوس کر رہا ہو تو دکھ محسوس کر کے تو جس شخص کی طرف سے اس کو دکھ پہنچ رہا ہو اس کو دعا نہیں دیا کرتا.کوئی غیر معمولی نعمت ملے تو بے اختیار اور بے ساختہ دل سے دعائیں پھوٹ پھوٹ کر نکلتی ہیں.معلوم ہوتا ہے حضرت سعد کو اس قربانی کی ایسی لذت محسوس ہوئی ہے اس قربانی کی ، ایسی بے انتہا نا قابل بیان لذت تھی وہ انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے کب مجھے کوئی ملے تو آنحضرت عے کا شکریہ ادا کروں اور ان کو دعائیں دوں اور وارے وارے قربان جاؤں آپ کے اوپر کہ یا رسول اللہ ! آپ نے تو حد ہی کر دی آپ کا اتنا بڑا احسان کہ مجھے شہادت نصیب ہوئی میری قربانی ، ساری دنیا کی قربانیوں کے ثواب آپ کو ملیں.اس قدر شدت کے ساتھ یہ دعا دل سے پھوٹ ہی نہیں سکتی جب تک غیر معمولی طور پر دل کو لذت حاصل نہ ہوئی ہو.یہ مضمون بھی حل ہو گیا کہ فَرِحِيْنَ یہ لوگ بہت ہی خوش ہوتے ہیں، جان دینے سے پہلے بھی خوش ہوتے ہیں جبکہ سامنے بظاہر موت کھڑی نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن وہ جانتے ہیں کہ یہ ابدی زندگی کا رستہ ہے اور جان دینے کے بعد بھی ابدی زندگی پانے کے بعد بھی وہ لوگ خوش رہتے ہیں اور ان سب تجارب سے گذرنے کے بعد ان لوگوں کے لئے منتظر رہتے ہیں جو ان کے بعد اس سعادت سے حصہ پائیں اور خدا کی راہ میں جانیں دے کر ان خوش نصیب لوگوں میں جاملیں.(شروع الحرب ترجمه فتوح العرب صفحہ: ۳۸۹) پس یہ ہے وہ شہادت کا مضمون جس کو قرآن کریم کے بیان کے مطابق عظیم الشان نعمتوں میں سے ایک نعمت قرار دیا گیا ہے.پس یہ نعمتیں اگر چودہ سو سال کے بعد پھر ہمارے مقدر میں لکھ دی گئیں ہیں
خطبات طاہر جلد۵ 360 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء تو میں آپ کی طرف سے اور اپنی طرف سے ساری جماعت کی طرف سے خدا کے حضور یہی عرض کرتا ہوں کہ لبیک اللهم لبیک اے خدا ! تو ہمیں محمد مصلی امت کی اور اپنی آواز کے جواب میں پکار کو قبول کرنے والوں میں سے پائے گا.انکار کرنے والوں میں سے نہیں پائے گا ان لوگوں میں سے پائے گا جن کے متعلق تو نے گواہی دی الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ کہ باوجود بار باران راہوں میں دکھ اٹھانے کے جب بھی انہیں قربانیوں کی راہوں کی طرف بلایا گیا تو انہوں نے لبیک اللھم لبیک کرتے ہوئے قدم آگے بڑھایا ، پیچھے نہیں ہے.جہاں تک دوسرے واقعہ کا تعلق ہے یعنی مسجد کوئٹہ پرحملہ کرنا اور اسے مسمار کرنے کی کوشش کرنا یا ز بر دستی اس کا قبضہ لینے کی کوشش کرنا یہ بھی ایک ایسا واقعہ ہے جس میں دشمن نے خود ہی فتح کا جھنڈا ہمارے ہاتھوں میں تھما دیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کا یہ طریق تھا کا فر کی پہچان یہ رکھتے تھے کہ جس گاؤں سے اذان کی آواز نہ آئے وہ کافروں کا گاؤں ہے اور صحابہ کو یہ تاکید ہوتی تھی کہ اگر تم اذان کی آواز نہ سنو تو پھر بے شک حملہ کر دو.یہ مراد نہیں کہ جہاں سے اذان کی آواز نہ سنو وہاں حملہ آور ہو جاؤ.مراد یہ ہے کہ جنگ کے دوران جبکہ دشمن پہل بھی کر چکا ہو ، دشمن مسلمانوں کی جماعت کے خلاف تلوار اٹھا چکا ہو اور قتال شروع ہو چکا ہو، اس وقت بھی جوابی حملے کی صورت میں اگر کسی گاؤں سے اذان کی آواز آجائے تو آنحضرت عملے کے متعلق روایات آتی ہیں کہ ہر گز حملہ نہیں فرماتے تھے اور صحابہ کو بھی یہی تلقین تھی کہ جب تم اذان کی آواز سنو تو رک جاؤ.( بخاری کتاب الجہاد والسیر حدیث نمبر : ۲۷۲۵) یہ آنحضرت عل اللہ کا عظیم الشان اسوہ ہے جس میں آپ نے یہ بھی چھان بین نہیں فرمائی کہ جس گاؤں سے اذان کی آواز آرہی ہے وہاں سارے مسلمان ہیں یا کچھ مسلمان ہیں اور کچھ غیر مسلم ہیں یا اکثریت غیر مسلموں کی ہے اور کہ ایک چھوٹی جماعت مسلمانوں کی ہے جن کو اذان دینے کی اجازت ہے یہ بھی تو ہو سکتا ہے.جو شخص خون لینے میں جلدی کرنے والا ہو، جو انتقام لینے پر تلا بیٹھا ہو اس کا طبعی رجحان تو یہ ہونا چاہئے کہ یہ معلوم کرے کہ یہ جو اذان کی آواز آئی ہے یہ سارا مسلمان گاؤں ہی ہے.تھوڑے سے مسلمان ہیں جن کی طرف سے اذان کی آواز آرہی ہے.باقیوں کو کیوں معاف کیا جائے؟ لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یہ بھی پتا نہیں کیا ، نہ صحابہ کو اس کے متعلق ہدایت فرمائی کہ پتہ کر لیا کرو کہ کہیں کوئی اکیلا تو اذان نہیں دے رہا.یہی نہیں بلکہ یہ بھی
خطبات طاہر جلد۵ 361 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء تاکید نہیں فرمائی کہ معلوم کر لیا کہ تمہارے خوف سے تم سے جان بچانے کی خاطر تو کوئی اذان نہیں دے رہا.جھوٹے منہ سے اذان بلند کر کے وہ اپنی جان بخشی کی ایک ترکیب کر رہا ہو؟ ایک عام قانون تھا جو اسی طرح جاری رہا کہ جس گاؤں سے اذان کی آواز آئے گی ان کی جان اور مال مومن کے ذمہ ہے اور مومن پر فرض ہے کہ ان کی حفاظت کرے بجائے اس کے کہ ان میں دخل اندازی کر کے یا کسی طرح سے انہیں نقصان پہنچایا جائے.یہ تو اسوہ تھا.اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کی ایک واضح ہدایت یہ ہے.حضرت انس بن مالک سے روایت ہے اور بخاری کتاب الصلوۃ میں ہے.وہ عرض کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو وہ مسلمان ہے جس کے لئے اللہ اور اس کے رسول کی ضمانت ہے سو تم اللہ کی ضمانت میں خیانت مت کرو ( بخاری کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۳۷۸) یہ تعلیم تھی جو خدا تعالیٰ نے آپ کو واضح طور پر عطا فرمائی جس کے نتیجہ میں آپ کا یہ اسوہ جاری ہوا اور یہ عجیب بات ہے کہ اس دور میں پاکستان کے علماء کہلانے والوں نے اس کے بالکل برعکس صورت اختیار کر لی ہے.وہ طریق جو آنحضرت میہ کے زمانہ میں اسلام کے دشمنوں کا تھا اس کو تو اپنا لیا ہے اور وہ طریق جو محمد مصطفی می ﷺ کا تھا اسے ہمارے حصہ میں رہنے دیا ہے.اس کے برعکس کفار کا یہ طریق تھا کہ جن دیہات سے اذانوں کی آوازیں آتی تھیں ان پر وہ حملہ کیا کرتے تھے اور جن دیہات سے اذانوں کی آواز میں نہیں آتی تھیں وہ ان کے دیہات شمار ہوتے تھے.اب مولویوں نے یہ طریق اختیار کیا ہے کہ جس احمدی مسجد سے اذان کی آواز آئے اس پر بھر کر حملہ آور ہو جاتے ہیں.جس مسجد کا قبلہ محمد مصطفی ﷺ کا قبلہ ہو وہ مسجد ان کی آنکھوں کو نہیں بھاتی اور وہ ہر طرح اسے کو مٹانے کے درپے ہو جاتے ہیں.تو اپنے ہاتھ سے سنت محمد مصطفی میلے کو ہماری جھولی میں ڈال دیا وہ تو پہلے ہی ہماری تھی لیکن تسلیم کر لیا اور خود ان بدنصیبوں کی سنت پکڑ لی جو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کے دشمن تھے.پس کوئٹہ میں بھی یہی مطالبات ہیں.ان اسلام کا جامہ پہننے والوں کے بشدت مطالبات ہیں دو (۲) کہ اس مسجد کو ہم مسمار کر دیں گے اگر یہاں سے اذان کی آواز آئی اور اگر انہوں نے ہماری طرح نمازیں پڑھیں یہاں تو ہماری دل آزاری ہوتی ہے اور اگر ان کا قبلہ اس طرح رہا ، وہی قبلہ رہا
خطبات طاہر جلد۵ 362 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء جو محمد مصطفی ﷺ کا قبلہ ہے تو یہ ہمیں ایک آنکھ نہیں بھاتا ، ہم برداشت نہیں کر سکتے.اس لئے ہم زبر دستی اس مسجد کا قبلہ تبدیل کریں گے، کسی اور طرف اس کا رخ موڑ دیں گے، خدا کی عبادت کرنے والوں کا رخ زبر دستی پھیر دیں گے.تو اب یہ حالت ہو چکی ہے تو علمائے سوء کے متعلق حضور اکرم ﷺ نے جو نقشہ کھینچے تھے اس میں سے کون سا جزو باقی ہے جو پورا ہوتا ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ لیا.آنحضرت کی فراست پر حیرت ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ نے کتنی صفائی سے اور کتنی بار یکی سے ایک ایک چھوٹا چھوٹا جزو بھی حضور اکرم حے پر روشن فرمایا اور آئندہ کے سارے حالات کھول کر مو بمو آپ کے سامنے رکھ دیئے.صلى الله جہاں تک کوئٹہ کی جماعت کا تعلق ہے، یہ جماعت خدا کے فضل سے ہمیشہ سے ہی بڑی بہادر جماعت ہے.باوجود اس کے کہ ان کا ماحول بڑا سخت ہے اور بڑے کٹر قسم کے ایسے علماء سے ان کا واسطہ ہے جن کو اسلام کی معرفت یوں لگتا ہے چھو کے بھی نہیں گئی کبھی.ایسے سخت دل ہو چکے ہیں ان کی تو کیفیت بنی اسرائیل کے علماء جیسی نظر آتی ہے اور قطعاً جان کا کوئی احترام نہیں ہے اور قطعاً انسانی عزت کا کوئی احترام ان کے دلوں میں نہیں رہا.ان لوگوں سے واسطہ ہے اور اس کے باوجود اللہ کے فضل کے ساتھ ایک ذرہ بھی ان کے پاؤں میں کوئی لغزش نہیں آئی.اس سے پہلے امیر صاحب کو اپنی جماعت پر بدظنی تھی ، وہ سمجھتے تھے کہ یہاں کے حالات کو میں سمجھتا ہوں بہتر اور بڑے خطرناک حالات ہیں ، اس لئے بہت احتیاط کرنی چاہئے.جماعت چاہتی تھی کہ قربانی میں وہ باقی سب جماعتوں کے برابر شانہ بشانہ چلے اور بشدت مجھے شکایتیں ملتی تھیں کہ ہمارے امیر صاحب کو کیا ہوا ہوا ہے.ہم چاہتے ہیں کہ ہم قربانی دیں یہ ہم سے نہ قربانی لیتے ہیں اور نہ ہمیں قربانی دینے کی راہوں پر چلنے دیتے ہیں اور ایک دو یا تین چار نہیں بیسیوں خطوط مجھے موصول ہوتے تھے.یہاں تک کہ مجھے ایک موقع پر کمیشن بٹھانا پڑا کہ یہ ہو کیا رہا ہے؟ رفتہ رفتہ وہ امیر صاحب کو بزدل سمجھنے لگ گئے حالانکہ امیر صاحب اللہ کے فضل سے بزدل نہیں ہیں.بعض لوگوں کی احتیاط کچھ زیادہ ہی حد سے تجاوز کر جاتی ہے.تو ان کا یہ حال تھا، احتیاطیں ہو رہی ہیں اور مجھے بھی پیغام آتے تھے کہ آپ نہیں سمجھتے یہاں کے حالات میں سمجھتا ہوں، یہاں بہت احتیاط کی ضرورت ہے.اب خدا کی تقدیر میں جو ابتلا لکھے
خطبات طاہر جلد۵ 363 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء گئے ہوں وہ کبھی احتیاطوں سے بھی ملے ہیں، پہلے کب ملے تھے جواب مل سکتے تھے.کیسے ممکن تھا کہ خدا کوئٹہ کی جماعت کو کسی امیر کی احتیاط کے نتیجہ میں قربانیوں سے محروم رکھے اور ان کے دل کے تقاضے پورے نہ ہونے دے.آخر وہ وقت آگیا کہ جس چیز کو وہ بلا سمجھ کر ٹال رہے تھے وہ خدا کے فضل بن کر ان پر نازل ہوئی.ان کے اوپر سے بھی نازل ہوئی اور ان کے نیچے سے بھی نازل ہوئی.ان کے دائیں سے بھی نازل ہوئی اور ان کے بائیں سے بھی نازل ہوئی.وہ جماعت جو بظاہر پھٹی ہوئی معلوم ہوتی تھی ایک جان ہوگئی.اس امیر نے دیکھا کہ یہ مسیح کی بھیڑیں نہیں بلکہ مسیح محمدی ﷺ کے شیر ہیں جو ہر میدان میں گرجتے ہوئے اپنی جانیں دینے کے لئے تیار ہیں، ان میں سے ایک بھی لغزش نہیں دکھائے گا.حیرت کی بات ہے کہ جن سے وہ کمزوری کا خیال رکھتے تھے اپنے دل میں، ان کے بچے بچے نے اور بوڑھے بوڑھے نے اسلام کی راہ میں قربانی کے اس شان سے نمونے پیش کئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ان کو خطرات کے مقام پر باہر کھڑا کیا گیا، وہاں سے وہ ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے.ان کو مسجد کی حفاظت کے لئے مامور کیا گیا وہاں سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹے.موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالی ہیں انہوں نے اور دیکھا ہے اور اس کو دھتکارا ہے اور کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کی اور خدا نے یہ فضل فرمایا کہ وہی جماعت جو پھٹتی ہوئی نظر آرہی تھی وہ بالکل ایک جان ہوگئی.وہی امیر جس کو وہ سمجھتے تھے کہ یہ کمزوری دکھا رہا ہے وہ صف اول میں ان کے آگے کھڑا تھا.اس قربانی کی امارت پر امن کا امیر ہی نہیں نکلا بلکہ خطرات کا امیر بھی ثابت ہوا.ان کے ساتھ جیل میں گیا ان کے ساتھ بیٹھ کر تلاوتیں کیں.ان کو اجازت دی گئی کہ آپ یہاں سے چلے جائیں انہوں نے کہا ہم ہرگز نہیں جائیں گے.ہم اپنی مسجد کو آباد کریں گے.جہاں سے تم نے ہمیں اٹھایا ہے وہاں ہم جائیں گے وہاں اس مسجد کو آباد کریں گے تب ہم رخصت ہوں گے.چنانچہ باوجود اس کے کہ وہاں تالے نہیں کھولے گئے مسجد کے ساتھ جو کھلی جگہ تھی اب وہاں وہ دن رات بیٹھے تلاوتیں کرتے ہیں ،عبادتیں کرتے ہیں، تراویحیاں پڑھتے ہیں.بار بار حکومت ان کو ڈرا رہی ہے کہ اور بھی زیادہ تم اشتعال پھیلا رہے ہو.انہوں نے کہا عبادتوں سے اگر اشتعال ہوتا ہے تو پھر پھیلے جتنا چاہے اشتعال.جو لے سکتے ہیں ہم سے لے لیں ہم تو حاضر ہیں ، ہم کب تم سے حفاظت کی بھیک مانگ رہے ہیں.یہ ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کتنی عظیم الشان جماعت
خطبات طاہر جلد ۵ 364 خطبہ جمعہ ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء ہے.بعض دفعہ خوف محسوس ہوتا ہے میں اس لائق ہوں بھی کہ نہیں کہ مجھے اس جماعت کی سرداری سونپی گئی ہے.خدا کے حضور کانپتا ہوں، استغفار کرتا ہوں.عجیب متقیوں کی جماعت ہے.ایسی جماعت ہے جس کی مثالیں تاریخ ہمیشہ فخر کے ساتھ دیتی چلی جائے گی اور کبھی نہیں تھکے گی.آسمان روحانیت پر یہ ستارے بن کر چمکنے والی جماعت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ساری امنگیں پوری کرنے والی جماعت ہے.یہ عجیب ابتلا ہے جس میں پڑ کر یہ کندن بن کے نکل رہی ہے.سونا تو کندن بن کر نکلا ہی کرتا ہے، اس کے تو زنگ آلو دلو ہے کے ٹکڑے بھی سونا اور کندن بن کے اس میں سے نکل رہے ہیں.پس یہ بتلا ہمیں مبارک ہو.خدا کی رحمتوں اور فضلوں کا یہ ابتلا ہے.جب تک وہ چاہے ہم حاضر ہیں،اے خدا! ہم حاضر ہیں.ہر قربانی کے لئے حاضر ہیں.لیکن ساتھ یہ بھی دعا کرتے ہیں کہ ہماری کمزوریوں سے درگزر فرما، عفو فرما، ہماری ستاری فرما.جو کمزوریاں تیری ستاری نے ڈھانپ رکھی ہیں ان کو ڈھانپے ہی رہنے دے، ہمیں دشمن کے سامنے بنگانہ کرنا.جو وعدے تیری فتح کے ہمیشہ تیرے رسولوں کے ذریعہ دیئے جاتے رہے ہیں ان سارے وعدوں کو ہمارے حق میں پورا فرما اور ہمیں قیامت کے دن رسوا اور ذلیل نہ کرنا.اے خدا! ہم تو تیری راہ میں یہ قدم اٹھا چکے اب پیچھے ہٹنے والے نہیں لیکن یہ حوصلہ توفیق اور ہمت اور استقلال بھی تو نے ہی ہمیں عطا کرنا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے معا بعد تین مرحومین کی نماز جنازہ غائب ہوگی.اول تو وہ دو شہداء ہیں یعنی قمر الحق صاحب جو مکرم سید نجم الحق صاحب امیر ضلع سکھر کے چھوٹے بھائی ہیں جن پر پہلے بھی قاتلانہ حملہ، ان کے بھائی پر بھی ہو چکا ہے.خدا کے فضل سے یہ خاندان پوری طرح اس قربانی کی راہ پر ثابت قدم ہے.ایک خطبہ میں پہلے میں نے غلطی سے یہ کہ دیا تھا کہ جو اسیران سکھر کے متعلق وہاں کی بارایسوسی ایشن نے کوئی ریزولیشن پاس کیا تھا.لیکن وہ غلطی تھی، سید نجم الحق صاحب چونکہ خود وکیل ہیں اس لئے ان کے بھائیوں یعنی وکیل برادری نے ان کے حق میں اور مولویوں کی شرارت کے خلاف ایک ریز ولیشن پاس کیا تھا.دوسرے نوجوان خالد سلیمان ہیں.یہ تین سال قبل احمدی ہوئے تھے.جب 1984 ء
خطبات طاہر جلد۵ 365 خطبه جمعه ۶ ارمئی ۱۹۸۶ء میں،جس سال میں یہاں آیا ہوں.آنے سے دو ماہ پہلے کراچی میں تھا تو وہاں مجالس سوال و جواب لگا کرتی تھی بڑی دلچسپ اور احمدی اپنے دوستوں کو لے کر بڑے شوق سے آیا کرتے تھے ، وہیں اس نوجوان نے بیعت کی تھی ، یہ گوجرہ کے علاقے کے ہیں.ان کا خاندان بڑا شدید مخالف تھا اور یہ نوجوان بار بار مجھے دعا کے لئے لکھا کرتے تھے ، بڑے سخت بے قرار تھے کہ کسی طرح میرے والدین کو احمدیت نصیب ہو جائے.خدا تعالیٰ نے ان کے صدق کو ثابت کر دیا اور ان کی قربانی کی روح کو قبول فرمایا.بہت بڑا انعام ہے جو بہت جلد ہی ان کو اس راہ میں مل گیا.ان دونوں کی نماز جنازہ کے علاوہ ایک نماز جنازه قریشی فضل الحق صاحب در ولیش قادیان کی ہوگی.یہ قریشی محمد حنیف صاحب قمر مرحوم سائیکل سیاح کے نام سے مشہور تھے ،ان کے بھائی تھے.ان کے متعلق بھی ناظر صاحب اعلیٰ نے بڑا تعریفی خط لکھا ہے کہ بہت مخلص ، فدائی، کم گو اور بے لوث قربانی کرنے والے تھے.ان تینوں کی نماز جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے معا بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 367 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء اللہ اور اس کے رسول کا غلبہ یقینی ہے عبادت ہی اصل جہاد ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی : أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ كَانُوا مِنْ قَبْلِهِمْ كَانُوْا هُمْ أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةَ وَأَثَارًا فِي الْأَرْضِ فَأَخَذَهُمُ اللهُ بِذُنُوبِهِمْ وَمَا كَانَ لَهُمْ مِّنَ اللهِ مِنْ وَّاقٍ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ كَانَتْ تَأْتِيْهِمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَكَفَرُوْا فَأَخَذَهُمُ اللَّهُ إِنَّهُ قَوِيٌّ شَدِيدُ الْعِقَابِ اور پھر فرمایا: (المومن : ۲۲_۲۳) قرآن کریم کی یہ جو دو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں قرآن کریم یہ مضمون بیان فرما رہا ہے کہ آغاز ہی سے انبیاء کی مخالفت کرنے والوں کا گھمنڈ اپنی طاقت پر رہا ہے اور سب سے بڑی دلیل ان کی صداقت کی ان کی طاقت ہوا کرتی ہے اور وہ ہمیشہ کمزوروں پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور کمزوروں کے خلاف جہاد کی آواز بلند کرتے ہیں.اس مضمون کی متعدد اور آیات قرآن کریم میں مختلف جگہ پھیلی پڑی ہیں.بڑی کثرت کے ساتھ مختلف رنگ میں اس مضمون کو اللہ تعالیٰ تصریف
خطبات طاہر جلد۵ 368 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء آیات کے ساتھ یعنی مضمون کو پھیر پھیر کے بیان فرماتا ہے اور ان تمام آیات کا مرکزی نکتہ یہی ہے کہ انبیاء کی مخالفت کرنے والے ہمیشہ اپنی طاقت کے گھمنڈ پر مخالف کرتے ہیں.اس مضمون کو اگر پاکستان میں آج گزرنے والے حالات کے اوپر چسپاں کر کے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ مضمون کسی خاص وقت یا کسی خاص زمانے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ ایک ایسا مضمون ہے جو وقت سے آزاد ہے.ماضی سے بھی تعلق رکھتا ہے اور مستقبل سے بھی تعلق رکھتا ہے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے بچے اور جھوٹے کے درمیان تفریق کرنے والا مضمون ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں بھی آپ کو طاقت کے گھمنڈ پر جہاد کا تصور ملے گا وہ تصور جھوٹا ہوگا کیونکہ سارے قرآن کریم میں کہیں ایک جگہ بھی ایسا واقعہ بیان نہیں ہوا کہ وہ لوگ جو خدا کے انبیاء کے دشمن ہیں وہ کمزور ہونے کے باوجود ان کو جھوٹا سمجھ کر ان کے خلاف علم جہاد بلند کرتے ہیں.وہ نا تو ان اور ضعیف ہونے کے باوجود جس چیز کو سچا سمجھتے ہیں اس کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں بلکہ بلا استثناء ہر جگہ جہاں بھی انبیاء کی مخالفت کا ذکر ملتا ہے وہاں مخالفت کرنے والوں کی قوت کا بھی ذکر ملتا ہے.ان کی طاقت کا، ان کے گھمنڈ کا، ان کی قوم کی عظمت کا ، ان کی عددی اکثریت کا ، ان کے اموال کا ، ان کے مویشیوں کا ، ان کے جنگ وجدال کے سامانوں کا ، ان کے لاؤ لشکر کا مختلف انبیاء کے ذکر میں یہ سارے امور آپ کو نظر آئیں گے لیکن کسی ایک جگہ بھی یہ دکھائی نہیں دے گا کہ وہ دشمن ایسا دشمن تھا جو کمزور ہونے کے باوجود محض اس وجہ سے کہ انبیاء کو جھوٹا سمجھتا تھا ان کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا.اس کے برعکس جہاد کے مضمون کے ساتھ آپ کو طاقت کا مضمون کہیں نظر نہیں آئے گا.اول سے آخر تک جہاں جہاں قرآن کریم نے جہاد کا ذکر فرمایا ہے وہاں ساتھ کمزوری کا بھی ذکر فرمایا.یعنی جہاد کرتے ہیں کمزور جانتے ہوئے اپنے آپ کو ، اپنے آپ کو کمزور دیکھتے ہوئے ایک طاقتور دشمن کے خلاف جہاد کرتے ہیں.كَمْ مِنْ فِئَةٍ قَلِيْلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً (البقره: ۲۵۰) یہ مضمون مختلف شکلوں میں آپ کو سارے قرآن کریم میں دکھائی دے گا.جس کا گہرا اٹوٹ تعلق جہاد کے مضمون کے ساتھ ہے.پاکستان میں جو احمدیوں پر گزر رہی ہے اس کی خالص اور حقیقی اصل وجہ ہی یہی ہے کہ کچھ لوگ اپنے آپ کو طاقتور سمجھ رہے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اتنی بڑی قوت رکھتے ہیں ، عددی اکثریت
خطبات طاہر جلد۵ 369 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء رکھتے ہیں، مالی لحاظ سے قوت رکھتے ہیں اور ہتھیاروں کے لحاظ سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں ہوسکتا.ان کے جتھے بہت بڑے بڑے ہیں.حکومتیں مجبور ہو جاتی ہیں ان کی باتیں ماننے پر.اس قسم کے زعم ہیں طاقت کے جو ان کو اندھا کر دیتے ہیں اور وہ پھر یہ نہیں دیکھتے کہ وہ کس کی مخالفت کر رہے ہیں اور اس مخالفت کا حق بھی رکھتے ہیں یا نہیں.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کی مخالفت ہمیشہ ناحق ہوتی ہے.سوائے طاقت کے اور کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہوتی.عادکا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.فَأَمَّا عَادٌ فَاسْتَكْبَرُوا فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَقَالُوا مَنْ اَشَدُّ مِنَّا قُوَّةً أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِى خَلَقَهُمْ هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَكَانُوا بِايْتِنَا يَجْحَدُونَ کہ عاد نے بھی اسی طرح استکبار سے کام لیا تھا بِغَيْرِ الْحَقِّ کوئی حق نہیں تھا کوئی وجہ جواز نہیں تھی ان کے پاس.دعویٰ کیا تھا دلیل کیا تھی؟ وَقَالُوْا مَنْ اَشَدُ مِنَّا قُوَّةً کہتے یہ تھے کہ ہم ( حم السجدة : ١٦) سے زیادہ طاقتور ہے کون؟ کون ہو سکتا ہے جو کمزور ہو کر ہمارے تسلط کو چیلنج کر سکے ، ہمارے غلبہ کے خلاف آواز بلند کر سکے.قرآن کریم فرماتا ہے.اَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّ اللَّهَ الَّذِي خَلَقَهُمْ هُوَ اشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً کیا وہ یہ بات نہیں دیکھتے ، کیا اتنی بات بھی نہیں سمجھ سکتے کہ وہ خدا جس نے ان کو پیدا کیا ہے.هُوَ اَشَدُّ مِنْهُمْ قُوَّةً وہ یقیناً ان سے قوت میں بہت زیادہ سخت ہے، بہت زیادہ قوی ہے.وَكَانُوْا بِايْتِنَا يَجْحَدُونَ اور حال یہ ہے کہ باوجود اس کے پھر بھی وہ خدا تعالیٰ کی آیات کی مخالفت میں بضد ہیں اور انکار کرتے چلے جاتے ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ لَنَا وَ رُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ (المجادلہ :۲۲) کہ خدا تعالیٰ نے تو اپنے اوپر یہ فرض کر رکھا ہے كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَن کہ لازما میں غالب آؤں گا آنا میں خود غالب آؤں گاو رُسُلِی اور میرے رسول.إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ یقیناً اللہ قوی بھی ہے اور عزیز بھی ہے، طاقتور بھی ہے اور غلبہ ایسا حاصل کرتا ہے جس میں عزت کا مفہوم پایا جاتا ہے، جس میں کرم کا مفہوم پایا جاتا ہے.جو قابل تحسین غلبہ ہوتا ہے ، ظالموں والا غلبہ نہیں ہوتا.یہاں پہنچ کر ایک یہ عجیب بات بھی دکھائی دیتی ہے کہ اگر چہ دوسری جگہ غلبہ کے مضمون میں مومنوں
خطبات طاہر جلد۵ 370 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء کا ذکر بھی ملتا ہے لیکن یہاں سوائے اللہ اور سول کے کسی اور کا ذکر نہیں.كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَ اَنَا وَ رُسُلِی میں غالب آؤں گا اور میرے رسول غالب آئیں گے.دراصل اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ جہاں تک مومنوں کی جماعت کا تعلق ہے ان کی عددی حیثیت اس فیصلہ کن جہاد میں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی ، وہ ہزار ہوں یا لا کھ ہوں یا دس لاکھ ہوں یہ بے معنی ہے کیونکہ ان کے مقابل پر جو عددی اکثریت ہے وہ اس سے بہت ہی زیادہ ہے.ان کے مقابل پر جو مالی غلبہ ہے اس کو ان کی مالی حیثیت سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے، بہت ہی زیادہ ہے.ان کے مقابل پر جو ہتھیاروں کا غلبہ ہے وہ بھی ہر نسبت میں ان سے بہت زیادہ ہے اس لئے ان کو کسی پلڑے میں ڈالنے کے کوئی معنی نہیں رہ جاتے.وہ جتنے بھی ہوں تب بھی اگر خدا کی مدد ساتھ نہ ہو تولا ز ما شکست ان کے حصہ میں لکھی جائے گی.اللہ کا غلبہ ہے صرف اور رسول کا اس لئے کہ رسالت میں نیکیوں کا خلاصہ اکٹھا ہو گیا.مراد یہ ہے کہ خدا اور بندے جو اس کی خاطر نیکیاں کرتے ہیں ان کو غلبہ نصیب ہوگا اور رسول کا مضمون انسانی نیکیوں کے خلاصے کے طور پر بیان فرمایا گیا ہے اور اس لئے کہ اللہ تعالیٰ جن کو بھیجتا ہے ان کے لئے غیرت دکھاتا ہے.پس معلوم ہوا کہ جہاں تک غلبہ کا تعلق ہے اگر ایک بھی شخص کسی رسول پر ایمان نہ لائے تب بھی لا زمآ یہ بات پوری ہو کر رہے گی اور رسول در حقیقت اپنے ایمان لانے والوں کا بھی غلبہ میں محتاج نہیں ہے.ایک شخص بھی اگر اس پر ایمان نہ لائے تب بھی خدالا از ما اس کو غالب کرے گا یہ مضمون ہے کیونکہ وہ نیکیاں جن کو خدا پیار سے دیکھتا ہے رسول ان کا مجموعہ ہے.وہ ساری کائنات کے جواہر کا خلاصہ ہے.دوسرے یہ کہ خدا نے اس کو بھیجا ہے اور اس کی غیرت ہے جو خدا الا ز م دکھائے گا.اس لئے ہم سب تو طفیلی ہو جاتے ہیں انبیا میھم السلام کے.خدا نے اور خدا کے رسول نے بہر حال غالب آنا ہے اور یہ بات ثابت کر کے دکھانی ہے اِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ یقین اللہ ہی ہے جو طاقت رکھتا ہے اور عزیز ہے.اسی طرح اس مضمون کی دیگر آیات بھی یہ ظاہر کر رہی ہیں کہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو غلبہ عطا ہوا ہے وہ رسالت کی تائید میں غلبہ عطا ہوا ہے اور یہ ظاہر کرنے کے لئے کہ خدا ہی طاقتور ہے، اس کے خلاف ، اس کے علاوہ جتنے طاقت کی دعویٰ کرنے والے ہیں ان کی کوئی حقیقت نہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 371 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے خدا تعالیٰ مومنوں کا بھی ذکر فرمانا شروع کر دیتا ہے اور جہاں مومنوں کا ذکر فرماتا ہے اس کی حکمت بھی بیان فرما دیتا ہے.جہاں تک غلبہ کے فیصلہ کا تعلق ہے اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ مومن موجود بھی ہیں کہ نہیں لیکن اس کے باوجود مومنوں کا ذکر بھی چل پڑتا ہے، ان کی باتیں بھی خدا تعالیٰ شروع کر دیتا ہے اور حکمت یہ بیان فرماتا ہے: وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُةً (الحدید: ۲۲) کہ خدا تعالیٰ مومنوں کو جو موقعہ دیتا ہے دین کی خدمت کا وہ صرف اس غرض سے کہ وہ بھی یہ فیض پالیس اور جوغلبہ بہر حال مقدر ہے اس میں کچھ وہ بھی ہاتھ لگا لیں اور اس سے برکتیں حاصل کر لیں.اس کے نتیجے میں ان کو ثواب ملنا شروع ہو، اس کے نتیجہ میں اللہ کی رضا ان کو حاصل ہو.اللہ پہچان لے کہ وہ کون ہے جو اللہ اور اس کے رسول کی غیب سے مد کرتا ہے.إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ جہاں تک خدا تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے وہ مرد کی محتاج نہیں ہے قَوِيٌّ عَزِيزُ وہی قوی ہے، وہی غالب ہے، اس سے تمہیں مدد پہنچے گی.اس لئے تمہیں جو آزمائش میں ڈالا جاتا ہے یا تمہیں جو مدد کے لئے پکارا جاتا ہے مَنْ اَنْصَارِی اِلَى اللهِ (القف: ۱۵) کی آواز اٹھتی ہے تو مقصد یہ ہے کہ اس سے تم بھی فیض پالو اور تمہیں بھی کچھ برکتیں نصیب ہو جائیں.جیسے چلتی گاڑی کو دھکالگا دیتا ہے کوئی اور اس وہم میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ میرے دھکے سے یہ گاڑی چلی تھی حالانکہ انجن چل پڑا ہوتا ہے، جوخرابی تھی وہ دور ہو چکی ہوتی ہے.اسی طرح ماں باپ بچوں سے کھیلتے ہیں.خود کام کرتے ہیں اور بچوں کا ہاتھ لگا کر ان کو خوشی پہنچاتے ہیں.تو مومنوں کا جہاد میں حصہ لینا اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا.وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ میں ایک اور لطیف مضمون بیان ہوا.یہ نہیں فرمایا کہ وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بلکہ بِالْغَيْبِ فرما دیا.اس سے مومن کے جہاد کی ایک نہایت ہی حسین ادا کی طرف اشارہ ہے.مومن جو خدا کے رستہ میں جہاد کرتا ہے اس میں غیب کا مضمون دوطرح سے داخل ہوتا ہے.اول یہ کہ باوجود اس کے کہ غلبہ کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے.بظاہر مومن جانتا ہے کہ ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نکتا ہوا نظر نہیں آسکتا، دشمن اتنا طاقتور ہے، ہمارے مقابل پر اس کو اتنی
خطبات طاہر جلد۵ 372 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء زبر دست اکثریت اور قوت حاصل ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر لیں بظاہر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم غالب آجائیں.یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے وہ مدد کرتے ہیں باوجود اس کے کہ فتح غائب ہوتی ہے، فتح دکھائی نہیں دے رہی ہوتی ، ان کوششوں کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا ہوتا.اب جماعت احمد یہ ساری دنیا میں جو کوشش کر رہی ہے عملاً ہم جانتے ہیں کہ ہماری کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.ساری دنیا کی جماعت کی جتنی بھی تعداد ہے اگر وہ سارے مل کر کوشش کر لیں تو دنیا کی مخالفانہ طاقتوں کے مقابل پر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے، کسی پہلو سے کوئی حیثیت نہیں ہے.اتنا کمزوری کا حال ہے کہ ہمارے ساری دنیا کے سالہا سال کے بجٹ کا مجموعہ اتنا بھی نہیں بنتا جتنا ایک دن میں انگلستان کے لوگ شراب پر خرچ کر دیتے ہیں.تو ایسی جماعت جس کی کمزوری کا یہ حال ہو جس کے مقابل پر صرف ایک ایک عیسائی فرقہ کی طاقت کا یہ حال ہو کہ جتنی ہماری بعض ملکوں میں تعداد ہے اس سے زیادہ ، اس سے سینکڑوں گنا زیادہ ان کے مبلغ دنیا میں کام کر رہے ہیں.صرف ایک کیتھولک مشن کے سولہ لاکھ سے زائد مبلغ دنیا میں کام کر رہے ہیں اور جو پروٹسٹنٹ مشنز کے مبلغ ہیں، دوسرے بہت سے میتھوڈسٹ ہیں کئی قسمیں ہیں ان کی بہت سے فرقے ہیں ھر مارمنز ہیں یہ سارے اتنا دنیا میں تبلیغ کا کام کر رہے ہیں کہ ان کی مجموعی کوششوں کو آپ ایک پلڑے میں ڈال کے دیکھیں تو ساری جماعت احمدیہ کی تعداد دوسرے پلڑے میں ڈال دیں تب بھی دنیا کے لحاظ سے ان کا پلڑا بھاری رہے گا.پھر مولوی جو میدان میں کودا ہوا ہے جماعت کی مخالفت میں اور ان کے شاگر داور یہ سارے ان کی تعداد ذرا شمار کریں کتنے ہیں.سارا ہزارہ ضلع مولوی پیدا کر رہا ہے، آزاد کشمیر مولوی پیدا کر رہا ہے، اس کے علاوہ بہت سے علاقے ہیں جہاں اقتصادی بدحالی دینی برتری میں تبدیل ہو رہی ہے اور مجبور ہو کر اور ذریعہ معاش میسر نہیں آتا تو لوگ دین کو کمائی کا ذریعہ بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ساری دنیا میں مولوی پھیل رہے ہیں وہاں سے نکل نکل کر.ان کی تعداد ہی بے شمار ہے.ان سے مقابلہ ہماری جماعت کے چند سو واقفین زندگی کا اگر عددی طور پر دیکھا جائے تو ان کے مقابل پر ہمارے واقفین زندگی آئیں گے.اس لحاظ سے تو ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں بنتی.تو اگر آپ ساری کوششیں بھی یعنی مومنوں کی جماعت اپنی ساری کوششیں ایک پلڑے میں ڈال دے تو اس کے
خطبات طاہر جلد۵ 373 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء باوجود دشمن کی کوششوں کا عشر عشیر بھی اگر دوسرے پلڑے میں ڈالا جائے تو وہ اس سے زیادہ غالب آئے گا اور زیادہ قومی اور طاقتور ہوگا.اس کے باوجود وہ کوشش کر رہے ہیں کوئی کہے گا کہ پاگل پن ہے.اللہ تعالیٰ نے اس کا نام رکھا ہے وہ تنصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ اس کو خدا پاگل پن قرار نہیں دیتا.اس کو ایمان کی ایک خصلت قرار دیتا ہے فرماتا ہے بالغیب مدد کرتے ہیں پتہ ہے جو کچھ ہم ڈال رہے ہیں اس راہ میں وہ سب ضائع ہو جائے گا بظاہر دنیا کے لحاظ سے لیکن پھر بھی وہ یقین رکھتے ہیں.ان کو کامل ایمان ہے اس بات پر کہ جو کچھ ہم ڈال رہے ہیں یہ ضائع نہیں ہوگا بظاہر غائب ہو رہا ہے لیکن حقیقت میں اسی نے بالآخر غالب آجانا ہے اور اسی نے آخر رنگ دکھانا ہے.دوسرا بالغیب کا یہ مضمون اس آیت میں ملتا ہے کہ مومن صرف ظاہری طور پر مدد نہیں کرتے اور یہ بھی ایک امتیازی شان ہے مومن کی جو غیر مومن کے جہاد سے اس کے جہاد کو الگ کر کے دکھاتی ہے.جو دنیا دار خدا کے نام پر جہاد کرنے والے یا اپنی طاقت کے بل پر جہاد کرنے والے ہیں.ان کے جہاد میں دکھاوے کا مضمون آپ کو نمایاں نظر آئے گا.وہ قوم کو دکھا کر داد لینے کی خاطر بڑے بڑے دعوے بھی کرتے ہیں اور بڑے بڑے بظاہر ڈینگیں مارتے ہوئے کوششیں بھی کرتے ہیں لیکن مخفی طور پر ان کی طرف سے ان کے اعلیٰ مقصد کے لئے کوئی خیر جاری نہیں ہوتی.جہاں دنیا نہیں دیکھ رہی وہاں وہ ٹھہر جاتے ہیں، جہاں دنیا دیکھ رہی ہے وہاں ان کی کوششیں تیز ہو جاتی ہیں اور مومنوں کا یہ حال ہے کہ اس وقت بھی وہ خدا کی مدد کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے رسول کی جبکہ کوئی ان کے حال سے باخبر نہیں ہوتا.اعلانیہ بھی مدد کرتے ہیں اور چھپ کر بھی کرتے ہیں، دن کو بھی کرتے ہیں اور رات کو اٹھ کے بھی کرتے ہیں.لکھوکھا احمدی جب رات کو تہجد کے وقت اٹھتا ہے اور دعائیں کر رہا ہوتا ہے اور گریہ وزاری کر رہا ہوتا ہے اپنے پیارے محبوب اسیروں کو یاد کر کے یا وہ جن کے اوپر بظاہر دنیاوی موت کی تلوار لٹکائی گئی ہے ان کو یاد کرتا ہے ، ان کے لئے تڑپتا ہے، ان کے لئے بے قرار ہوتا ہے تو یہی مضمون صادق آتا ہے وَ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ.وہ اللہ اور رسول کی محبت میں غیب کے وقت اٹھ کر بھی کوشش کر رہے ہوتے ہیں اور جد و جہد کر رہے ہوتے ہیں.کوئی ان کے
خطبات طاہر جلد۵ 374 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء حال سے باخبر نہیں ہوتا صرف اللہ ہے جو ان کے حال سے باخبر ہوتا ہے.ان کے لئے پیغام ہے یہ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِیزُ وہ ٹھیک کہتے ہیں وہ سچ کہتے ہیں ان کی کوششیں ضائع نہیں جائیں گی.دنیا ان کو حقیر جانے ، دنیا ان کو حقیر اور بے طاقت سمجھے اس کے باوجود جس ذات کی خاطر وہ یہ کوشش کر رہے ہیں وہ قويٌّ عَزِيزٌ ہے اور وہ لازما غالب آئیں گے اور وہ لازماً اللہ کی عزت کے نشان دیکھیں گے.اس مضمون کے بعد پھر خدا تعالیٰ ان کو بھی فتح میں ایک حصہ پانے والا بنادیتا ہے.فرماتا ہے وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِیزُ کہ اللہ ان کی بھی مدد فرماتا ہے جو خدا کی مدد کرتے ہیں یعنی فتح کے اندر جو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہونے والی ہے اس میں ان کا حصہ ڈال دیتا ہے.فرماتا ہے صرف رسولوں ہی کی نہیں چونکہ یہ لوگ بھی مدد کے لئے آگئے تھے حالانکہ ضرورت بھی نہیں تھی.خدا کی خاطر یہ خدا اور رسول کی محبت میں چونکہ آگے بڑھے اور انہوں نے یہ کہا کہ اے خدا ! ہمارا بھی حصہ ڈال، ہم سے بھی قربانیاں لے.اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ خدا بھی پھر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان کی ضرور مدد کرے گا.میں نے جو یہ ذکر کیا کہ ہم مدد کرتے ہیں اللہ اور رسول کی عبادت کے ذریعہ تو دشمن شاید یہ نہیں سمجھ سکتا کہ یہ بھی کوئی مدد ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ سب سے اہم مد د عبادت ہے.خدا اور خدا کے دین کی امداد اور اس کی نصرت کے لئے اس سے بہتر اور کوئی ہتھیار اور کوئی ذریعہ نہیں ہے اور حقیقت میں یہ عبادت کرنے والے ہی ہیں جو خدا کی محبت کو پاتے ہیں ، خدا کی توجہ کے مستحق ہوتے ہیں اور جن کی خاطر دنیا میں عظیم الشان کام دکھائے جاتے ہیں.میں نے بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے اور بار بار جماعت کو اس مضمون پر غور کرنے کی طرف بلایا ہے کئی طریق پر کہ عبادت کے گر سیکھو، اسی میں تمہاری طاقت کا راز ہے.آنحضرت علی کی عظمت کا راز آپ کے عبد ہونے میں تھا.جتنے بھی دنیا میں انبیاء آئے ہیں ان سب کی طاقت کا راز ان کے عبد ہونے میں تھا اور عبد یا عبود بیت یا عبادت یہ ایسا مضمون ہے جس کے اندر طاقت آپ کو دکھائی دیتی ہی نہیں.کلیۂ طاقت سے خالی مضمون ہے.پس یہ عجیب بات ہے کہ جہاں کوئی طاقت دکھائی نہیں دیتی وہاں سب سے زیادہ خدا تعالیٰ نے طاقت بھر دی ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 375 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء عبد کا مطلب ہے غلام ، وہ جس کا اپنا کچھ بھی نہ رہے.نہ مال اپنا، نہ بیوی بچے اپنے ، نہ وقت اپنا، نہ سونے جاگنے کے فیصلے اپنے کوئی خیرہ ہی نہیں، کوئی اختیار ہی اس کو باقی نہیں ہوتا.کماتا ہے خون پسینہ کی کمائی سے کچھ گھر میں کما کر لاتا ہے تو وہ بھی مالک کا بن جاتا ہے اس کا نہیں رہتا.تو عبد سے زیادہ کمزور کوئی اور وجود تصور میں آہی نہیں سکتا اور عبودیت میں بھی وہی مضمون چل رہا ہے، عبادت میں وہی مضمون چل رہا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر سب کچھ قربان کر کے خدا کے در پہ پڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں بس یہی در ہے اور کوئی در ہمارا نہیں رہا، اپنا سب کچھ اس کے حضور پیش کر دیتے ہیں.بظاہر دنیا کے لحاظ سے ان سے زیادہ خالی ہاتھ اور ان سے زیادہ بے بس اور بے گس اور کون ہو سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ انہی کمزوروں ، انہی نہتوں ، انہی بے بسوں کو دنیا میں سب سے زیادہ طاقتور کر کے اس لئے دکھاتا ہے کہ ان کا طاقتور دکھایا جانا خدا کی طاقت کا مظہر ہو جاتا ہے.جن کے پاس اپنی طاقت کوئی نہ ہو جب وہ غالب آتے ہیں تو سوائے اس کے کوئی نتیجہ نکل ہی نہیں سکتا کہ خدا غالب آیا ہے جس کی خاطر وہ نہتے اور بے جان ہوئے تھے اور بے بس ہوئے تھے.وہ خالی برتن ہو جاتے ہیں.بھرتے ہیں تو خدا کی محبت سے بھرتے ہیں.وہ خالی ہاتھ ہوتے ہیں جن کو خدا کی طاقت مضبوط کرتی ہے اور توانائی بخشتی ہے.ان کی سوچیں ان کے دل کے جذبات ، ان کی حرکت، ان کے سکون ہر چیز میں خدا بولنے لگ جاتا ہے اور اس وجہ سے وہ طاقتور ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے وہ غالب آتے ہیں.پس جنگ بدر کا واقعہ ہو یا جنگ احد کا ساری اسلامی تاریخ میں جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے جہاد میں حصہ لیا ہے آپ کو یہ مضمون سب جگہ یکساں طور پر اطلاق پاتا ہوا دکھائی دے گا.پہلی بات یہ کہ جہاد کے ساتھ ذاتی طاقت کا کوئی تصور قرآن کریم میں نہیں ملتا ، نہ آنحضرت کی زندگی میں ملتا ہے.کمزور ہونے کے باوجود حق کی خاطر اٹھ کھڑے ہونا اور جد و جہد کرنا اس کا نام جہاد ہے اور پھر جو کچھ ہے وہ خدا کے حضور پیش کر دینا اور اپنی ذات کا کوئی بھی گھمنڈ باقی نہ رہنے دینا.کامل طور پر خدا کے حضور جھک جانا اور اس کی عبادت میں مصروف ہو جانا اور اس کو اپنے لئے سب سے بڑی طاقت کا ذریعہ سمجھنا یہ اس کا دوسرا پہلو ہے.چنانچہ جنگ بدر جب حضرت اقدس محمد شامل ہوئے.یہ عجیب ہے جنگ جس میں آنحضرت ﷺہ مومنوں کی صفوں میں شامل نہیں تھے
خطبات طاہر جلد۵ 376 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء بلکہ پیچھے ایک خیمہ میں جہاد کر رہے تھے اور عبادت کر رہے تھے اور واقعہ یہ ہے کہ اگر وہ اس خیمہ میں حضرت ﷺ عبادت نہ کر رہے ہوتے تو ناممکن تھا کہ اس طاقتور دشمن کے اوپر وہ چند مسلمان فتح یاب ہو جاتے جو ہر لحاظ سے ان کے مقابل پر کمزور تھے.پس بظاہر ایک دنیا کا مؤرخ یہ سوچنے کی کوشش کرتا ہے کہ جنگ بدر کا فیصلہ میدان جنگ میں ہوا تھا جہاں چند مسلمان کچھ نیم مسلح کچھ مسلح بہت بڑے طاقتور دشمن کے مقابلہ پر صف آرا تھے اور جب وہ یہ سوچنے کی کوشش کرتا ہے تو حیران بھی بہت ہوتا ہے اور حیران ہونے کے سوا اس کے لئے چارہ کوئی نہیں کیونکہ دنیا کے جتنے بھی فیصلہ کن عوامل ہوتے ہیں ان میں سے ایک بھی اس کو مسلمانوں کے حق میں نہیں ملتا.ایک وجہ بھی وہ نہیں پاتا کہ کیوں مسلمان جیت سکے.اس لئے سب سے زیادہ حیرت سے مستشرقین جنگ بدر اور اس کے نتائج کو دیکھتے ہیں کہ کیا واقعہ ہوا، کیوں آخر کیا پاگل ہو گیا تھا دشمن ، اس پہ کیا بنی، کیا بیتی ؟ کیوں اتنی زبر دست اور ذلت آمیز شکست اس نے چند نہایت کمزور دکھائی دینے والے لوگوں کے ہاتھوں کھائی؟ اس لئے کہ وہ نہیں جانتا کہ جنگ وہاں لڑی ہی نہیں جا رہی تھی ، جنگ تو اس خیمہ میں لڑی جا رہی تھی جہاں میرے آقا و مولی ، ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی امیہ عبادت میں مصروف تھے اور اس قدرگر یہ وزاری تھی اس قدر بکا تھی کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو خدمت میں حاضر تھے بار بار گرتی ہوئی چادر کو واپس آپ کے کندھوں پر ڈالتے تھے اور بے اختیار درد سے دعائیں دیتے صلى الله تھے کہ کیا ہو گیا ہے یا رسول اللہ ﷺ آپ کو؟ کیوں اپنے آپ کو اس طرح غم میں ہلاک کئے چلے جا رہے ہیں؟ اور آپ کی دعا کا خلاصہ یہ تھا کہ اے خدا! اگر آج اس میدان میں دشمن کو فتح ہوئی اور میرے غلاموں کو شکست ہوئی تو پھر قیامت تک تیری عبادت کرنے والا کوئی باقی نہیں رہے گا.(مسلم کتاب الجھاد باب الامداد بالملائکہ فی غزوہ بدرحدیث نمبر : ۳۳۰۹) آج یہی مضمون ہے جہاد کا جو پاکستان میں جاری وساری ہے.آج چند کمزور اور نہتے اور بے بس اور عام دنیاوی طاقتوں سے عاری لوگ محض عبادت کی خاطر اپنا سب کچھ ، اپنا تن من لے کر خدا کے حضور حاضر ہو چکے ہیں.اپنی بیوی بچوں، اپنی عزتوں ، اپنی جان اور مال کی قربانی لے کر وہ اس میدان میں نکل کھڑے ہوئے ہیں.اگر ان سے مسجدیں چھینی جا رہی ہیں تو مسجدوں کے باہر
خطبات طاہر جلد۵ 377 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء صحنوں میں بیٹھے ہوئے ہیں وہ ضعیف اور کمزور لوگ اور یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ عبادت کے میدان میں ہم نے کوئی شکست نہیں کھانی.جان اس راہ میں جاتی ہے تو بے شک جائے ، اموال لوٹے جاتے ہیں تو بے شک لوٹے جائیں ، ہم ذبح ہوتے ہیں اپنی بیوی بچوں کے سامنے تو بے شک ذبح ہوں، ہمارے بیوی بچے ہمارے سامنے ذبح ہوتے ہیں تو بے شک ذبح ہوں، ہماری عزتیں لوٹی جاتی ہیں تو لوٹی جائیں مگر خدا کی قسم ہم عبادت کی راہ سے ہرگز پیچھے قدم نہیں ہٹا ئیں گے.کسی قیمت پر اس میدان میں دشمن ہماری پیٹھ نہیں دیکھے گا.اور کس طرح تاریخ دہرائی جاتی ہے؟ اے صاحب بصیرت لوگو! دیکھو کہ پاکستان میں اسلام کی تاریخ دوبارہ زندہ کی جارہی ہے اور کمزوروں اور نہتوں اور بے بسوں کے ذریعہ زندہ کی جار ہی ہے.آج کوئٹہ اس نظارے کو پھر دیکھ رہا ہے کہ چند نہایت ہی کمزور چند سوانسان ہیں بوڑھے بھی ہیں، بچے بھی ہیں، نہتے ہیں، بے جان ہیں، بے بس ہیں.ایسے بھی ہیں جن سے دو قدم صحیح طریق پر چلا بھی نہیں جاتا ، اپنی جان، مال، عزتیں لے کر خدا کے حضور حاضر ہو گئے ہیں کہ اے خدا تیری عبادت سے ہم نے پیچھے نہیں ہٹنا.تو کیسے ممکن ہے کہ خدا ان کو چھوڑ دے گا ؟ محمد مصطفی ﷺ کا خدا عبادت گزار بندوں کو کبھی نہتا نہیں چھوڑ سکتا.وہ قوی اور عزیز تھا اور قومی اور عزیز ہے اور ہمیشہ قوی اور عزیز رہے گا اور ناممکن ہے کہ اس کے عبادت گزار بندے عبادت کے میدانوں میں شکست کھا جائیں اور خدا ان کو چھوڑ دے.پس جب میں آپ کو عبادت کے میدانوں کی طرف بلاتا ہوں تو ایک حقیقت کی طرف بلاتا ہوں.یہ کوئی فرضی مدد نہیں ہے یہی نصرت ہے اسلام کی جو آج آپ کر سکتے ہیں.اس کے اور بھی کئی نظارے ہمیں تاریخ اسلام میں ملتے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے اگر آپ غور کی نظر سے ان تاریخی واقعات کو پڑھیں کہ در اصل تمام مسلمانوں کی فتوحات کا مرکزی نکتہ ان کی عبادت تھی.غزوہ احزاب میں ایک واقعہ ہوا کہ آنحضرت ﷺ اور صحابہ اتنے مصروف رہے ایک دن که تمام دن دشمن ان پر حملہ کرتا رہا.اتنی بھی فرصت نہیں ملی ان کو کہ کوئی نماز پڑھ سکیں یعنی جنگ کی حالت میں جورعایتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہوئی تھیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے بھی نماز پڑھنے کے
خطبات طاہر جلد ۵ 378 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء قابل نہیں تھے.چنانچہ روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک دن ایسا گزرا ہے آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں پر کہ پانچ نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑیں.اس کے سوا تاریخ اسلام میں کوئی واقعہ اس کے قریب بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا اور اس کا اتنا دکھ تھا حضور اکرم ﷺ کو کہ آپ نے اس رات دشمنوں کو بد دعا دی یہ کہہ کر کہ برا ہو، ہلاک ہو یہ دشمن کہ آج ہمیں پانچ نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑیں، اتنا دکھ دیکھنا پڑا ہے.یعنی صحابہ کے قتل ان کی شہادتیں ان کے نقصانات ، ان کی بھوک ، ان کی تڑپ، یہ ساری چیزیں آپ کو بددعا پر مجبور نہ کرسکیں لیکن ایک دن پانچ نمازوں کا اکٹھا پڑھنا اتنے بڑا دکھ کا موجب بنا کہ آپ نے عرض کی اپنے رب کے حضور کہ اے خدا! اب تو حد ہوگئی ہے ظلم کی کہ پانچ نمازیں اکٹھی پڑھنی پڑی ہیں ہمیں.( بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر :۳۸۰۲) آج بھی دشمن آپ کی نمازوں پر حملہ آور ہوا ہے ، آپ کی عبادتوں پر حملہ آور ہوا ہے.اگر آپ کو اپنی عبادتوں سے پیار ہے، اگر اپنی نمازوں سے پیار ہے تو آپ کے دل کی آواز کبھی رائیگاں نہیں جائے گی جیسے محمد مصطفی اے کے دل کی صدا رائیگاں نہیں گئی تھی.روایت میں آتا ہے مسند احمد حنبل سے یہ میں نے لی ہے جنگ خندق میں ایک روز ہمیں نمازیں پڑھنے کا موقع نہ مل سکا حتی کہ مغرب کے بعد بھی کچھ وقت تک ہم دن کی نمازیں ادا نہ کر سکے.اس کے نتیجہ میں راوی بیان کرتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو وحی نازل ہوئی اور یہ آیت ہے جو قرآن کریم کی اس کی شانِ نزول یہ ہے اس آیت کی.وہ کہتے ہیں اس رات جو آنحضرت ﷺ کی یا صحابہ کی کیفیت تھی اس کو دیکھتے ہوئے خدا تعالیٰ نے وحی نازل فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی كَفَى اللّه الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللهُ قَوِيَّا عَزِيزًا (الاحزاب : ۲۶) کہ مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ خود کافی ہے کہ ان کی طرف سے لڑے وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا اور اللہ تعالیٰ قوی بھی ہے اور عزیز بھی ہے.اس پیغام سے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے یوں سمجھا کہ حضور نے دوسرے دن بلال کو حکم دیا کہ وہ ظہر کے لئے اقامت کہیں اور حضور نے اسی طرح ظہر پڑھائی جس طرح عام اوقات میں پڑھایا کرتے تھے ، پھر عصر کے وقت بھی نماز کا حکم دیا اور وہ بھی اپنے وقت پر پڑھی گئی اور مغرب کے وقت بھی اذان کا حکم دیا اور وہ بھی اپنے وقت پر پڑھی گئی اور یہ بیان فرمایا کہ اس آیت میں خدا نے وعدہ کر لیا ہے ہم سے کہ آئندہ تمہیں کوئی
خطبات طاہر جلد۵ 379 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء نمازوں کا دکھ نہیں پہنچے گا تم بے دھڑک ہو کر میری عبادتیں کرو.میں کافی ہوں تمہاری طرف سے دشمن کے لئے.(مسند احمد بن حنبل کتاب باقی مسند المشرکین حدیث نمبر : ۱۰۷۶۹) عجیب شان ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ایت اللہ کے ایمان کی بھی کہ جہاں تک میدان جنگ کا تعلق ہے جہاں تک دشمن کے حملہ آور ہونے اور حملہ آور ہونے پر ہمیشہ تیار رہنے کا تعلق ہے ایک ذرہ بھی کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی تھی.اسی طرح مسلمانوں کو خطرہ لاحق تھا.جس طرح ایک دن پہلے خطرہ لاحق تھا ، اسی طرح دشمن صف آرا تھا جس طرح ایک دن پہلے صلى الله صف آرا تھا اور خدا تعالیٰ نے جب یہ فرمایا کہ اللہ کافی ہے تو آنحضور علی سمجھ گئے کہ کیا مطلب ہے.آپ جانتے تھے کہ میرے خدا نے میرے دکھ کو دیکھ لیا ہے.عبادت کے نقصان سے جو مجھے صدمہ پہنچا تھا.یہ وعدہ ہے اس کے جواب میں خدا تعالیٰ کا کہ اے محمد اللہ عبادتیں کر تو اور تیرے ساتھی.میں کافی ہوں دشمن کو سنبھالنے کے لئے.تم عبادتیں کر رہے ہو گے کتنا میں تمہاری خاطر لڑ رہا ہوں گا.ناعظیم مقام ہے عبادت کو.پس آپ بھی عبادت پر قائم ہوں ، اگر آپ عبادت پر قائم ہو جائیں گے اور عبادت کے ضائع ہونے کا دکھ محسوس کرنے لگیں تو کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو آپ کو مغلوب کر سکے، کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو آپ پر غالب آسکے.اِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ.جس خدا کے آپ بندے بن رہے ہوں گے، جس کے حضور جھک رہے ہوں گے، جس کے حضور عبادتیں کر رہے ہوں گے وہی خدا آپ کے لئے کافی ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وہ خدا بڑا زبردست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے.دشمن کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے ان کو ہلاک کر دوں اور بداندیش ارادہ کرتا ہے کہ میں ان کو پچھل ڈالوں مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان کیا تو میرے ساتھ لڑے گا اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا.درحقیقت زمین پر کچھ نہیں ہو سکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا
خطبات طاہر جلد۵ 380 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء کیا گیا ہے.پس ظلم کے منصوبے باندھنے والے سخت نادان ہیں جو اپنے مکروہ اور قابل شرم منصوبوں کے وقت اس برتر ہستی کو یاد نہیں رکھتے جس کے ارادے کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا.لہذا وہ اپنے ارادوں میں ہمیشہ ناکام اور شرمندہ رہے ہیں.اور ان کی بدی سے راستبازوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا بلکہ خدا کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خلق اللہ کی معرفت بڑھتی ہے وہ قومی اور قادر خدا اگر چہ ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا مگر اپنے عجیب نشانوں سے اپنے تئیں ظاہر کرتا ہے.(کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۱۹) پس حقیقت یہ ہے کہ جہاں بھی دشمن اپنے ظاہری غلبہ کی وجہ سے اپنی عددی برتری کی وجہ سے خدا کی جماعتوں پر حملہ آور ہوتا ہے ان کا سب سے بڑا، سب سے مؤثر ہتھیار یہی ہے کہ وہ اپنے خدا کے حضور جھک جائیں ، اس کے آستانہ پر گریں، اس کے حضور دعائیں کریں ، اس سے گریہ وزاری کریں ، عبادت سے پیار کریں اور اپنا سب کچھ اسی کو سمجھیں.ان کی جان، ان کی عزت، ان کا مال سب کا مرکز ان کی عبادتیں ہیں.اپنی عبادتوں کا مقام اور اس کے مرتبے کو بڑھائیں یہاں تک کہ خدا کے پیار کی نگاہیں پڑیں ان عبادت کرنے والوں پر اور ان دلوں پر جن میں خدا کی محبت جنم لے رہی ہوتی ہے اور نئے نئے شگوفے پیار کے چھوڑ رہی ہوتی ہے.وہ مناجات کرتے ہیں غیب میں اور اس رنگ میں مناجات کرتے ہیں کہ جس طرح بہار میں کلیاں پھوٹتی ہیں اور کئی قسم کے رنگ مٹی سے ظاہر ہوتے ہیں اسی طرح انسانی مٹی سے خدا کی محبت کے نئے نئے پھول، نئے نئے شگوفے بن کے پھوٹ رہے ہوتے ہیں.یہ وہ چمن ہے جس کی خدا حفاظت کرتا ہے اور ہرگز دشمن کو اجازت نہیں دیتا کہ اس چمن کو برباد کر دے.پس اے میرے پیارے احمدی، میرے بھائیو! میری ماؤں ! میری بہنوں! میری بیٹیو! خدا کے حضور عبادت میں اپنی طاقتوں کو انتہا تک پہنچا دو.اپنے سینوں میں وہ گلزار کھلاؤ جس گلزار کو خدا پیار سے دیکھتا ہے اور محبت کی نگاہیں ڈالتا ہے.تم اگر ایسا کرو تو یقینا دنیا کی کوئی طاقت تم پر غالب نہیں آسکے گی.ہر وہ ہاتھ جو تمہاری طرف اٹھے گا آسمان اس کو للکارے گا یہ آواز دے گا.ع بترس از تیغ بران محمد
خطبات طاہر جلد ۵ 381 خطبه جمعه ۲۳ رمئی ۱۹۸۶ء اس شاخ کی طرف ہاتھ ڈالتے ہو.یہ تو شاخ مثمر ہے.اس پر تو خدا کی عبادت کے پھول اور پھل لگے ہوئے ہیں.محمد مصطفی ﷺ کو خدا نے جو جلال اور عزت کی تلوار دی ہے، وہ تلوار تمہارے ہاتھ پر چلے گی اور خدا اجازت نہیں دے گا کہ ان پر بہار شاخوں کو تم کاٹ سکو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد پانچ احباب اور خواتین کی نماز جنازہ ہوگی.اول مکرم محمد ابراہیم صاحب ابن مکرم محترم چوہدری حمید نصر اللہ خان صاحب امیر ضلع لاہور.یہ ان کا بہت ہی پیارا معصوم بچہ تھا جو بچپن سے ہی بیمار تھا اور غالبا سولہ سال کی عمر یا اس کے لگ بھگ عمر ہوگی جب وفات ہوئی ہے.دائم المریض تھا لیکن نہایت ہی نیک فطرت شریف صورت اور فرشتہ خصلت بچہ تھا.ایک ہمارے افریقہ کے دوست پا الفا شریف صدر جماعت احمد یہ ہو.یہ بھی وہاں کے فدائی مخلص احمدی جواولین احمدیوں میں سے تھے.مولانا نذیر علی صاحب کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کی تھی اور سلسلہ کے ساتھ عشق اور فدائیت کا ایک نمونہ تھے.مکرمہ زینب افزا بیگم صاحبہ اہلیہ سید خیر الدین صاحب مرحوم ، سیٹھ داؤ داحمد صاحب بھٹی جو یو.پی (U.P) میں تبلیغی منصوبہ بندی کے صدر ہیں ان کی والدہ ماجدہ تھیں.مکرمہ مریم بیگم صاحبہ والدہ مکرم محمود عبداللہ شبوتی صاحب.یہ عدن کے نہایت مخلص خاندان سے تعلق رکھنے والی ہیں اور وہاں کے اولین احمدیوں میں سے تھیں.مکرم عبدالکریم خالد صاحب ہو میو فزیشن آف گوجرہ.یہ مکرم عبد الباسط صاحب طارق بٹ آف گوجرہ کے والد ماجد تھے انھوں نے بھی نماز جنازہ کے لئے درخواست کی ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 383 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء احباب جماعت روزہ رکھنے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف توجہ کریں نیز فدیہ اور لیلۃ القدر کی لطیف تشریح خطبه جمعه فرموده ۳۰ مئی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ اور پھر فرمایا : (البقره: ۱۸۴-۱۸۵) b رمضان مبارک کا مقدس مہینہ اپنے اختتام کے آخری مراحل میں داخل ہو رہا ہے اور آج اکیسواں (۲۱) روزہ ہے.جماعت کو میں کچھ عرصہ سے عبادت کا حق ادا کرنے کی طرف متوجہ کر رہا ہوں.کمیت کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی.اس لحاظ سے بھی کہ عبادت کا معیار تعداد میں بھی بڑھایا جائے اور اس لحاظ سے بھی کہ عبادت کا معیار اس کے روح اور معنی کے لحاظ سے اس کے مرتبہ کے لحاظ
خطبات طاہر جلد۵ 384 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء سے بھی بڑھایا جائے.گزشتہ چند دن پہلے ایک صاحب نے میری توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ جماعت احمدیہ میں جب لفظ عبادت بولا جاتا ہے تو ذہن معا نمازوں کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور و ہیں ٹھہر جاتا ہے اور نمازوں سے آگے بڑھ کر جو عبادت کا مفہوم ہے اس کی طرف عموماً ذہن منتقل نہیں ہوتے.چنانچہ باوجود اس کے کہ ان خطبات کے نتیجہ میں ، اللہ کے فضل کے ساتھ کہنا چاہئے ، بکثرت لوگوں کی توجہ یعنی ان احمدی دوستوں کی توجہ یعنی جو پہلے نمازوں میں غافل تھے، نمازوں کی طرف ہوگئی ہے اور جونمازیں ادا کر تے تھے ان کا معیار بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بلند تر ہوا ہے لیکن روزوں کے لحاظ سے جماعت معیار سے ابھی تک بہت گری ہوئی ہے اور توجہ بھی پوری نہیں ہوئی اور کوئی ایسی غیر معمولی تبدیلی دکھائی نہیں دے رہی جس سے ہم اندازہ کرسکیں کہ وہ آپ کے مفہوم کو پوری طرح سمجھ رہے ہیں اور عبادت میں روزوں کو بھی داخل کر رہے ہیں.چونکہ اس سے پہلے رمضان کا مہینہ نہیں تھا اس لئے اس غلطی کی نشاندہی کی ہی نہیں جا سکتی تھی.اب جب کہ رمضان شریف کا مہینہ آیا ہے تو لکھنے والے نے محسوس کیا کہ اس طرف ابھی نمایاں کمی ہے اور میں نے بھی اپنے عمومی تجر بہ پر نگاہ ڈال کر دیکھا تو یہ ان کا توجہ دلانا بالکل برحق تھا.جماعت احمدیہ میں روزوں کی طرف بالعموم توجہ کم ہے اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ غیر احمدی علماء نے روزوں پر اتنا زیادہ ضرورت سے بڑھ کر اور اعتدال سے آگے نکل کر زور دیا ہے کہ اس کا رد عمل پایا جاتا ہے اور روزوں کے معاملہ میں چونکہ اتنی سختی نہیں کرنی اس لئے جتنی کرنی چاہیئے اس سے بھی گر گئے ہیں.اور یہ بہت ہی ایک تکلیف دہ شکل ہے کیونکہ در حقیقت روزہ تو عبادت کا معراج ہے.روزہ سب عبادتوں میں افضل ہے.اس میں ساری عبادتیں سمٹ جاتی ہیں اور تمام عبادتیں اپنے عروج تک پہنچ کر روزہ کی شکل اختیار کرتی ہیں.اس سے اوپر صرف ایک حج کا مقام ہے اور حج کے بعد روزہ کا مقام آتا ہے، باقی سب عبادتیں ان دونوں کے تابع آتی ہیں.پس اس پہلو سے روزوں میں غفلت ایک بہت ہی بڑا نقصان ہے جو جماعت احمدیہ برداشت کر رہی ہے اگر یہ نقصان ہر جگہ پایا جاتا ہے.میرا یہ اندازہ ہے کہ ہمارے خوش حال طبقہ میں یہ کی زیادہ ہے اور پاکستان سے باہر کی جماعتوں میں یہ کمی زیادہ ہے.مغربی تہذیب سے متاثر ہو کر نئی
خطبات طاہر جلد۵ 385 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء نسلوں نے عبادت کے معیار میں ویسے ہی کمزوری دکھائی مگر نمازوں میں نسبتاً کم روزہ میں بہت زیادہ.اب جب بار بار تاکید کی گئی تو بڑی خوش کن خبریں ساری دنیا کے ممالک سے آ رہی ہیں.صرف مغرب سے نہیں ، پاکستان ہندوستان سے نہیں بلکہ سب دنیا کے ممالک سے کہ نئی نسلوں میں نمازوں کا معیار خدا کے فضل سے بہت بلند ہوا ہے لیکن روزہ کے متعلق ایسی خوشخبری کسی نے ذکر نہیں کی.معلوم یہی ہوتا ہے کہ تجزیہ کرنے والے کی بات درست ہے.جب ہم عبادت کا لفظ کہتے ہیں تو سننے والے احمدی بالعموم عبادت سے نمازیں مراد لے کر اسی کو کافی سمجھ لیتے ہیں.حالانکہ عبادت میں اول حج ہے جو سب سے بڑی عبادت ہے اور پھر روزے ہیں جو حج سے نیچے تمام عبادتوں کا خلاصہ ہیں اور حواس خمسہ کی قربانیوں کا نچوڑ ہیں.اسی طرح پھر نماز ہے جو مستقل عبادت اور غذا کی طرح ہے مومن کے لئے بلکہ اس پہلو سے مرکزی حیثیت رکھتی ہے.تو روزوں سے متعلق میں آج کچھ کہنا چاہتا ہوں باوجود اس کے کہ اب صرف نو روزے باقی ہیں آج کے بعد پھر بھی رمضان کی برکتوں میں سے جتنا بھی حصہ کسی کو نصیب ہو جائے وہ بھی بہت بڑی غنیمت ہے.اور اگر آج کی گزری ہوئی رات لیلۃ القدر نہیں تھی تو پھر لیلۃ القدر بھی ابھی آنے والی ہے.جس کی تلاش میں چودہ سو سال سے امت ہمیشہ غیر معمولی توجہ کرتی رہی ہے اور غیر معمولی محنت دکھاتی رہی ہے.توجہ جستجو کے لحاظ سے کہ ان آخری دس راتوں میں سے کون سی رات وہ رات ہے اور محنت اس لحاظ سے کہ بعض لوگ راتوں کے اکثر حصہ کو جاگ کر گزارتے ہیں کہ ہمیں بھی لیلۃ القدر کی گھڑی نصیب ہو جائے.اس پہلو سے اس بات کا امکان چونکہ موجود ہے کہ بقیہ نو راتوں میں ہی لیلتہ القدر کی رات بھی ہو اس لئے اب بھی اگر توجہ دلائی جائے تو یہ بہت زیادہ تا خیر نہیں ہوئی اور بہت بڑا استفادہ کرنے کا امکان روشن ہے.آنحضرت ﷺ روزہ کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرماتے ہیں مگر اس سے پہلے جو قر آن کریم کی آیات میں نے تلاوت کی تھیں ان کا ترجمہ اور مفہوم آپ کے سامنے پیش کردوں فرمایا يُّهَا الَّذِينَ امَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ کہ اے وہ لوگوں جو ایمان لے آئے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کئے گئے ہیں جس طرح
خطبات طاہر جلد۵ 386 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا کہ تم تقویٰ کی باریک راہیں اختیار کرو اور تقویٰ کے اعلیٰ مضامین سمجھو.آیا ما مَعْدُودَتِ یہ تو گنتی کے چند دن ہیں اس لئے ان سے بھاگنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں اور وہ چند دن بھی ایسے ہیں جن میں تمہیں خدا تعالیٰ تمہاری تکلیف کے پیش نظر سہولتیں بھی دیتا جاتا ہے اور استثناء بھی مقرر فرماتا جاتا ہے.اَيَّا مَا مَّعْدُودَت باوجود اس کے کہ گنتی کے چند دن ہیں فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا اَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ اَيَّامٍ أُخَرَ ان چند دنوں میں بھی خدا تعالیٰ اتنی سہولت مہیا فرما رہا ہے کہ تم میں سے جو مریض ہو یا سفر پر ہو اس کے لئے ضروری قرار نہیں دیتا کہ اسی مہینے میں روزے رکھے بلکہ بعد ازاں جس وقت سہولت میسر آئے وہ روزے رکھ سکتا وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْکین ہاں وہ لوگ جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے ان پر ایک مسکین کو روزہ کا فدیہ دینا ضروری ہے.ہے.یہ جو آیت ہے یہ دو طرح سے ترجمہ کی جاسکتی ہے اطاق يُطِيقُ کا معنی مثبت میں بھی لیا جا سکتا ہے اور منفی میں بھی لیا جا سکتا ہے.اس باب میں یہ خاص خوبی ہے اور قرآن کریم نے اس ایک لفظ میں دونوں معنے بیان فرما دیئے ہیں اور جو بعد میں آنے والی آیت ہے وہ اس مضمون کو اور زیادہ کھول دیتی ہے.وَعَلَى الَّذِيْنَ يُطِيقُونَ کا ایک معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے ان کے لئے فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسکین ندیہ ہے ایک مسکین کا کھانا کھلانا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ لوگ جو روزہ کی طاقت رکھتے ہیں یاہ کی ضمیر ا گر فدیہ کی طرف لے جائیں تو یہ معنی ہوں گے کہ وہ لوگ جو فدیہ دینے کی طاقت رکھتے ہیں ان کے لئے چھوڑے ہوئے روزے کے بدلے ایک مسکین کا کھانا کھلانا بطور فدیہ مقرر ہو گیا.ان دونوں معنوں کو بعد میں آنے والی آیت کے ساتھ ملا کر جب دیکھیں فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ جو شخص طوعی طور پر نیکی اختیار کرے اور نفلی رنگ میں کوئی نیکی کرنا چاہے تو اس کے لئے بہتر ہے.اس آیت کے ساتھ ملا کر میں اس پوری آیت کا مضمون یہ سمجھتا ہوں کہ ایک معنی یہ بنیں گے وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِين کہ وہ لوگ جو روزہ کی طاقت ہی
خطبات طاہر جلد۵ 387 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء نہیں رکھتے یعنی رمضان گزرنے کے بعد بھی وہ روزہ نہیں رکھ سکیں گے اور مستقل مجبور ہیں یعنی ساری زندگی پھر وہ روزہ رکھ ہی نہیں سکتے.ایسے دائم المریض بھی ہوتے ہیں.وَعَلَى الَّذِيْنَ کا معنی ہے ان پر فرض ہے کہ وہ ضرور فدیہ دیں اور روزہ نہیں رکھ سکتے تو لازماً اس کے بدلہ فدیہ کے طور پر دیں.دوسرا معنی ہے وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَ، اور وہ لوگ جو روزہ کی طاقت رکھتے ہیں ان معنوں میں کہ مسافر ہیں ویسے طاقت موجود ہے مگر اللہ نے رخصت دی ہے.مریض ہیں مگر عارضی مریض ہیں کل کو خدا تعالیٰ صحت عطا فرمائے تو پھر وہ روزے رکھ سکتے ہیں یا اتنے مریض نہیں ہیں کہ روزہ رکھیں تو جان نکل جائے گی ، کچھ نہ کچھ طاقت ضرور رکھتے ہیں.اور چونکہ یہ دونوں بعد میں روزے رکھ سکتے ہیں تو ان کے متعلق فرمایا ان کا فدیہ دینا فَمَنْ تَطَوَّعَ کے تابع ہوگا.چونکہ روزہ بعد میں رکھ لیں گے اس لئے فدیہ ان کا نفلی کام بن جائے گا.اگر وہ نفلاً فدیہ دیں تو ان کے لئے بہت بہتر ہے کہ فدیہ بھی دیں رمضان کے دوران اور روزہ بھی رکھیں رمضان کے بعد جب بھی خدا توفیق دے.یہ بہتر اس لئے بن جاتا ہے کہ زندگی کا اعتبار کوئی نہیں جو شخص عارضی مریض ہے یا مسافر ہے اگر روزہ کی تمنا رکھتا ہے اور چاہتا ہے کہ یہ فرض اس کے سر سے اتر جائے یا ویسے روزہ سے محبت رکھتا ہے اور چاہتا ہے لیکن مجبور ہے.اس کو چونکہ یقین نہیں ہوسکتا کہ وہ روزوں کے بعد بھی زندہ رہے گا اور اس کو توفیق بھی ملے گی روزے رکھنے کی تو اگر وہ نفلی طور پر احتیاطاً روزہ کا حق فدیہ کے طور پر ادا کر دے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے تا کہ خدانخواستہ اگر بعد میں اس کی روزہ رکھنے سے پہلے وفات بھی ہو جائے تو کچھ نہ کچھ وہ روزہ کا حق ادا کر کے دنیا سے رخصت ہو رہا ہوگا.اس سے روزہ کے مضمون میں اور زیادہ اہمیت آجاتی ہے اور خدا تعالیٰ کا منشاء معلوم ہوتا ہے کہ وہ پسند فرماتا ہے کہ جس قدر جلد ہو سکے بندے اس فریضہ کو ادا کر دیں اور میرے حضور بری الذمہ ہو جائیں.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جن قید کر دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازوں کو بند کر دیا جاتا ہے اور کھولا نہیں جاتا.دوزخ کا کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہنے دیا جاتا اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور کوئی دروازہ بند نہیں رہنے دیا جاتا اور ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرتا ہے کہ اے نیکی کے طلب گارو! نیکی کی
خطبات طاہر جلد ۵ 388 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء طرف متوجہ ہوا اور اے برائی کا ارادہ رکھنے والو! برائی سے باز آجاؤ.اللہ بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزاد کرنے کا اعلان کرتا ہے اور ہر رات کو ایسا ہی ہوتا رہتا ہے جب تک کہ رمضان کی راتیں گزر نہ جائیں.( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر: ۱۷۶۶) یہاں جو یہ فرمایا گیا کہ دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اس سے مراد یہ تو نہیں ہے کہ دنیا میں کسی انسان پر بھی اس وقت اگر وہ مر جائے تو دوزخ حرام ہو جائے گی.مراد یہ ہے کہ جو رمضان کو قبول کرتے ہیں اور یہ حذف ہے اس میں، جو لوگ رمضان کو قبول نہ کریں ان کے متعلق یہ سوچنا کہ دوزخ کے دروازے ان پر بند کر دیئے جائیں گے یہ بالکل بے معنی بات ہے بلکہ الٹ اثر ظاہر ہونا چاہئے.جو رمضان سے گزر رہا ہو اور اس کے باوجو درمضان کے دوران اس پر دوزخ کے دروازے کھلے رہیں وہ بہت ہی بد قسمت انسان ہو گا.( بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۷۱) پھر آنحضور علیہ فرماتے ہیں اور یہ ابو ہریرہ کی روایت ہے صحیح بخاری میں کہ روزہ گناہوں کے لئے ڈھال ہے، نہ تو مخش کام کیا جائے اور نہ جہالت کی بات.اگر کوئی شخص اس روزہ دار سے جھگڑے یا گالی دے تو روزہ دار اس سے کہہ دے کہ میں روزہ سے ہوں.دوبارہ کہہ دے قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ میں روزے سے ہوں.روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی بہتر ہے.وہ کھانا پینا اور مرغوبات محض میرے لئے چھوڑتا ہے.(اللہ فرماتا ہے یعنی آنحضرت علیہ کی زبان میں خدا کی طرف منسوب کر کے یہ بات کہی گئی ہے ) کہ وہ کھانا پینا اور مرغوبات نفس محض میرے لئے چھوڑتا ہے روزہ خاص میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا صلہ دیتا ہوں اور ہر نیکی پر دس گنا ثواب ملتا ہے.( بخاری کتاب الصوم حدیث :۱۷۶۳) پھر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور یہ حضرت سہل سے روایت ہے یہ بھی صحیح بخاری سے لی گئی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے.قیامت کے دن اس دروازہ سے بجز روزہ داروں کے اور کوئی داخل نہ ہو سکے گا.کہا جائے گا روزہ دار کہاں ہیں اور ان کو آگے بلایا جائے گا اور اس دروازہ سے صرف انہی کو داخل ہونے کی دعوت دی جائے گی.(بخاری کتاب الصوم حدیث نمبر : ۱۷۶۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :
خطبات طاہر جلد۵ 389 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء ”حدیث شریف میں آیا ہے کہ وہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا اور رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے اور دوسرا وہ جس نے والدین کو پایا اور والدین گزر گئے اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے أحجم الكبير جلد ۱۹ باب کعب بن عمره صفحه ۱۴۴۰) یہاں رمضان کا وہی مفہوم بیان کیا گیا ہے جو قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں میں نے بیان کیا تھا کہ ہر شخص کے لئے جہنم کے دروازے بند نہیں ہوتے.مراد یہ ہے کہ جہنم کے دروازے بند ہونے کا ایک امکان پیدا ہو جاتا ہے اور بڑا ہی بدقسمت ہے وہ شخص جس کے لئے یہ امکان پیدا ہو کہ جہنم کے سب دروازے اس پر بند کر دیئے جائیں اور پھر بھی وہ ایسے اعمال بجانہ لا سکے جن کے نتیجہ میں وہ دروازے بند کئے جاتے ہیں.یہ مضمون کہ جہنم کے سب دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں یہ سمجھنے کے لائق ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا رمضان کا تعلق یا روزہ کا تعلق حواس خمسہ سے ہے اور کوئی ایک بھی انسانی حواس نہیں ہے جو روزہ سے متاثر نہیں ہوتا اور ہر ایک کے اوپر لگام آجاتی ہے، ہر ایک انسانی تمنا کے اوپر ایک پابندی عائد ہو جاتی ہے.اس لئے خالصہ سارے کا سارا انسان خدا کے حضور کچھ قربانی کر رہا ہوتا ہے چونکہ جہنم کے دروازے دراصل حواس خمسہ کے دروازے ہی ہیں.جب حس آزاد ہوتی ہے اور گناہ کی مرتکب ہوتی ہے تو حس کے دروازہ سے انسان جہنم میں داخل ہوتا ہے.جب مزہ آزاد ہوتا ہے اور ایسی چیز کی لذت حاصل کرتا ہے جو خدا نے اس پر حرام کر دی ہے تو مزہ کے دروازے سے انسان جہنم میں داخل ہو رہا ہوتا ہے.اسی طرح نظر آزاد ہو جاتی ہے،اسی طرح زبان آزاد ہو جاتی ہے، اسی طرح کان آزاد ہو جاتے ہیں، اسی طرح دیگر حواس ہیں.تو جہنم کے دروازوں سے مراد تو یہ ہرگز نہیں ہے کہ وہاں کوئی گیٹ لگے ہوئے ہیں جو مادی لحاظ سے دروازے ہیں اور ان کو بند کیا جاتا ہے یا ان کو کھولا جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ انسانی حسیں ہی ہیں چونکہ پانچ حسیں انسان کی ایسی ہیں جن سے لذت یابی ممکن ہے خدا کی مرضی کے مطابق بھی اور خدا کی مرضی کو چھوڑ کر بھی.گیٹ کرلیش (Crash) کر کے بھی انسان لذت حاصل کر سکتا ہے اور خدا کی رضا کے تابع رہ کر بھی لذت حاصل کر سکتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 390 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء پس رمضان میں دروازے بند کرنے سے مراد یہ ہے کہ مومن اپنے اوپر یہ سارے دروازے بند کر لیتے ہیں جن رستوں سے ان کے جہنم میں جانے کا احتمال ہوتا ہے.اور بڑا ہی بد قسمت انسان ہے وہ جس کو خدا تعالیٰ نے یہ موقع مہیا فرمایا ہو کہ اس کے سارے دروازے خدا کی رضا کی خاطر بند ہو جائیں یعنی جہنم میں جانے والے اور پھر بھی وہ زبردستی گیٹ توڑ کر جہنم میں داخل ہو جائے.اب کھانا پینا جائز ہے اور یہ دروازہ ایسا ہے اگر حدود کے اندر رہ کر انسان کھائے اور بیٹے اور جو جائز چیزیں ہیں صرف ان سے لذت یابی کرے تو یہ جہنم کا دروازہ نہیں بنتا.مگر رمضان کے دنوں میں جب روزہ شروع ہوتا ہے اس وقت سے لے کر جب روزہ ختم ہوتا ہے اس وقت تک یہ دروازہ خدا نے بند کر دیا اور ساری حلال چیزیں بھی اس وقت حرام ہو جاتی ہیں.تو جو اس دوران گیٹ تو ڑتا ہے اور بے وجہ ان لذتوں کے حصول کی کوشش کرتا ہے جو خدا نے عام حالات میں جائز رکھیں مگر بعض خاص حالات میں حرام کر دیں اس کی زندگی کے سارے کھانے عملاً حرام ہو جاتے ہیں اور اس طرف لوگ بہت کم توجہ کرتے ہیں گویا وہ ساری زندگی جو کھاتا رہا اس نے ثابت کیا کہ میں حلال کی وجہ سے نہیں کھا رہا تھا ، میں نے تو کھانا ہی کھانا تھا.خدا نے جب حرام کر دیا تب بھی میں نے کھا کر دکھایا ہے تب ، میں کونسا رک گیا ہوں.اس لئے یہ دروازہ واقعہ جہنم کے دروازہ بن جاتا ہے.اس کی ساری عمر کے کھانے اس کی ساری عمر کے مشروبات اور لذت یابی جو منہ کے رستے حاصل کرتا رہا ہے وہ ساری حرام کے زمرہ میں داخل ہو جاتی ہے.تو روزہ ترک کرنا ایک بہت ہی بڑا گناہ ہے اور بہت ہی خطرناک کمزوری ہے جو انسان دکھاتا ہے چند دن کی تکلیف سے بچنے کے لئے.اس سلسلہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جماعت احمد یہ چونکہ بہت زیادہ غلو سے بچنے کی کوشش کرتی رہی ہے ہر میدان میں، اس لئے یہاں غلو سے بچتے بیچتے اصل معیار سے بھی گر گئی.بعض علاقے ہیں مثلاً صوبہ سرحد میں پٹھانوں کے علاقے ہیں وہاں تو اتنا زیادہ زور دیا جاتا ہے روزہ پر کہ جن پر خدا نے فرض نہیں کیا ان پر بھی فرض کر دیتے ہیں اور بعض دفعہ زبر دستی روزہ رکھواتے رکھواتے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہو جاتے ہیں ، یعنی یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ بعض مسافر جو بے ہوش ہو جائیں ان کے منہ میں پانی نہیں ڈالتے جب تک پہلے مٹی ڈال کر نہ دیکھیں.اگر مٹی خشک نکل آئے تو کہتے ہیں اب اس کو پانی دیا جا سکتا ہے اور اگر مٹی میں ذرا بھی تراوت آ جائے تو سمجھتے ہیں کہ ابھی موقع
خطبات طاہر جلد۵ 391 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء نہیں آیا کہ اس کو پانی دیا جائے خواہ اس عرصہ میں اس کی جان نکل جائے.چھوٹے چھوٹے بچوں کو روزہ رکھوا دیتے ہیں اور مریضوں کے لئے بھی کھانا پینا کلیہ حرام ہو جاتا ہے.یہاں تک کہ بعض دفعہ اگر کوئی انسان پبلک جگہ میں اپنی مجبوری کی خاطر مثلاً ذیا بطیس کا مریض ہے اس کی جان نکل رہی ہے کمزوری کی وجہ سے کھاتا ہوا پکڑا جائے گا تو اس کو سنگسار کر دیں گے.بجائے اس کے کہ یہ خیال کریں کہ خدا نے اس کو اجازت دی ہے، ہم کون ہوتے ہیں اس اجازت کو چھینے والے.تو نیکی میں اتنا غلو ہے کہ وہ نیکی گناہ بن گئی ہے اور ان کے روزے بھی دراصل بے معنی ہو جاتے ہیں کیونکہ روزہ یا کوئی اور نیکی محض اس بناء پر نیکی بنتے ہیں کہ خدا کی رضا کی خاطر وہ کام کیا جارہا ہے.جب اپنی جہالت کو اور اپنے دل کی سختی کو دوسروں پر ٹھونسا جائے تو وہ رضائے باری تعالیٰ کی حد سے نکل جاتی ہے اور نیکی نہیں رہتی بلکہ ایک بدسرشت کے طور پر انسان سے خود بخود ظاہر ہوتی ہے.اس لئے اس قسم کے واقعات تشدد کے دیکھ کر احمدیوں میں جن کو تو ازن کی طرف بلایا گیا جن کو اسلام کی اصل روح کو قائم رکھنے کی ہدایت بار بار ملی ان میں رد عمل پیدا ہوا اور رد عمل مگر نہایت ہی غلط پیدا ہوا ، بجائے اس کے کہ توازن پر قائم رہتے وہ دوسری طرف نکل گئے اور روزے میں حد سے زیادہ نرمی شروع ہوگئی حالانکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ بہت ہی اہم عبادت ہے اور کھانے پینے کے معاملہ میں اپنے نفس کو سختی سے بچا لینا ساری عمر کے خدا تعالیٰ کے دیئے ہوئے رزق کی ناقدری کرنے کے مترادف ہو جاتا ہے.اس لئے بہت احتیاط کی ضرورت ہے.عموماً یہ دیکھا گیا ہے کہ مائیں اپنے بچوں پر یہ رحم کرتی ہیں کہ ان کی ابھی عمر نہیں آئی اس لئے روزہ نہ رکھنے دیا جائے اور بعض دفعہ بچے زیادہ شوق دکھاتے ہیں اور مائیں زبر دستی روکتی ہیں.یہ درست ہے کہ بچوں پر روزے فرض نہیں مگر بچپن سے ہی جب سے نمازیں شروع کرتے ہیں بچے اگر ان کو روزہ کے آداب نہ بتائے جائیں ان کو روزہ کے نمونے نہ دیئے جائیں یعنی ان کو روزہ کی عادت نہ ڈالی جائے تھوڑی تھوڑی تو ان کے اندر جب وہ بالغ ہوتے ہیں تو پھر روزہ کی اہمیت باقی نہیں رہتی.ہمیں تو یاد ہے قادیان کے زمانہ میں جب خدا کے فضل سے روزہ کا معیار بہت بلند تھا اور سوائے مجبوری کے کوئی احمدی روزہ نہیں چھوڑتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تربیت
خطبات طاہر جلد۵ 392 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء تھی ، صحابہ زندہ تھے ، اولین تا بعین زندہ تھے جنہوں نے صحابہ سے تربیت حاصل کی تھی اس لئے اس زمانہ میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ احمدی روزہ میں کمزور ہیں اور طریق یہی تھا کہ بچپن سے ہی مائیں گھروں میں تربیت دیتی تھیں اور 9، 10 سال کی عمر سے بچے روزہ رکھنا شروع کر دیتے تھے.اور بلوغت سے مراد انگریز کی مقرر کردہ بلوغت نہیں لی جاتی تھی کہ انگریز نے 21 سال کہہ دیا تو 21 سال میں بالغ ہوگا اور 21 سال میں شریعت فرض ہوگی.انگریز نے 18 مقرر کر دیئے تو 18 سال کے بعد شریعت فرض ہوگی بلکہ انسانی اصطلاح میں عام عرف عام میں جب بھی انسان بالغ ہوتا تھا وہ پورے روزے رکھنے کی کوشش کرتا تھا اور چونکہ روزہ کی بلوغت کے معاملہ میں کچھ اختلافات فقہاء میں بھی پائے جاتے ہیں اور نشو ونما کی عمر کے بچوں کے لئے نسبتاً سہولت بھی دے رہے ہیں بعض فقہاء،اس لئے اس معاملہ میں بھی سختی غیر معمولی نہیں کی جاتی تھی بلکہ جس کو کہتے ہیں Encourage کرنا ،حوصلہ افزائی کرنا.حوصلہ افزائی کے طور پر کوشش کی جاتی تھی کہ جو بچے بالغ ہو چکے ہیں یعنی 12 - 13 - 14 سال کی عمر میں داخل ہو جائیں وہ کوشش کریں کہ وہ زیادہ سے زیادہ رمضان کے روزے رکھیں اور جب وہ پختہ عمر میں پہنچتے تھے یعنی 18 - 19 سال کی عمر میں تو پھر تو وہ لازماً پورے کے پورے رمضان کے روزے رکھا کرتے تھے.اس پہلو سے رفتہ رفتہ خصوصاً تقسیم کے بعد میں نے دیکھا ہے کہ کمزوری آئی ہے.دوسری بات رمضان کے روزوں کے سلسلہ میں جو قادیان میں رائج دیکھی اور وہ بہت ہی ضروری اور مفید تھی جس کو میں نے دیکھا ہے کہ بعد میں بہت گھروں میں ترک کر دیا گیا.وہ یہ تھی کہ روزہ شروع ہونے سے پہلے بچوں کو اس وقت نہیں اٹھاتے تھے کہ صرف کھانے کا وقت رہ جائے بلکہ لازماً اتنی دیر پہلے اٹھاتے تھے کہ کم سے کم دو چار نوافل بچہ پڑھ لے اور مائیں کھانا نہیں دیتی تھیں بچوں کو جب تک پہلے وہ فضل سے فارغ نہ ہو جائیں.سب سے پہلے اٹھ کر وضو کرواتی تھیں اور پھر وہ نوافل پڑھاتی تھیں تا کہ ان کو پتہ لگے کہ اصل روزہ کا مقصد روحانیت حاصل کرنا ہے.تہجد پڑھیں، قرآن کریم کی تلاوت کریں پھر وہ کھانے پہ بھی آئیں اور اکثر اوقات الا ما شاء اللہ تہجد کا وقت کھانے کے وقت سے بہت زیادہ ہوتا تھا.کھانا تو آخری دس پندرہ منٹ میں بڑی تیزی سے بچے کھا کر فارغ ہو جاتے تھے اور تہجد کے لئے ان کو آدھا گھنٹہ پون گھنٹہ اتنا ضرور مہیا کر دیا جاتا تھا.
خطبات طاہر جلد ۵ 393 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء اب جن گھروں میں بچوں کو روزہ رکھنے کی ترغیب بھی دی جاتی ہے ان کو اس سلیقے کے ساتھ نہیں روزہ رکھایا جاتا کہ جو زیادہ اہم چیز ہے اس کی طرف متوجہ ہوں بلکہ آخری منٹوں میں جب کھانے کا وقت ہے ان کو کہہ دیا جاتا ہے آؤ روزہ رکھ لو اور اسی کو کافی سمجھا جاتا ہے.اس لئے درست ہے کہ اسلام توازن کا مذہب ہے ، میانہ روی کا مذہب ہے لیکن میانہ روی کا مذہب ہے کم روی کا مذہب تو نہیں.میانہ روی اختیار کرو.جہاں خدا نے فرض قرار دیا ہے وہاں اس کو فرض سمجھو.جہاں فرض نہیں قرار دیا وہاں اس رخصت سے خدا کی خاطر استفادہ کرو.یہ نیکی ہے،اس کا نام میانہ روی ہے.اس لئے جماعت کو اپنے روزہ کے معیار کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزے رکھوانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور روزہ کا معیار بڑھانے کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے.معیار میں ایک تو صبح کی تہجد کی نماز ہے، دوسرے روزہ کے دوران کے آداب ہیں.روزہ کے دوران لڑائی، جھگڑا، تیز گفتگو، نا جائز حرکات یہ ساری چیزیں بے معنی اور لغو ہو جاتی ہیں مومن کے لئے.اور یہ ایک تربیت کا دور ہے.جس شخص کو ایک مہینہ یہ تربیت ملتی ہے کہ اس نے اپنی زبان پر قابورکھنا ہے.اس سے یہ توقع کی جاتی ہے کہ وہ مہینہ گزرنے کے بعد بھی زبان پر قابو ہی رکھے گا.یہ مراد تو نہیں ہے کہ مہینہ کا انتظار ہو رہا ہے مہینہ ختم ہو تو پھر میں گالیاں شروع کروں.جس کو ایک مہینہ ذکر الہی کی عادت پڑ جائے ، جس کی زبان تر ہو اللہ کی محبت اور پیار سے، جس کا دل بھرا ہوا اللہ کے ذکر سے، ایک مہینہ کے بعد اس سے یہ توقع رکھنا کہ وہ واپس اپنی پرانی گندی عادتوں کی طرف لوٹ جائے گا یہ ایک بالکل لغو اور بے معنی توقع ہے.اگر لوقا ہے تو پھر وہ روزہ کو سمجھا ہی نہیں اور اس نے روزہ سے فائدہ ہی نہیں اُٹھایا.یہ تو ویسا ہی ہے کہ ایک مہینہ کسی کو اچھی غذا کھلائی جائے اور وہ انتظار کر رہا ہو کہ مہینہ ختم ہو تو پھر میں دوبارہ گند کھانا شروع کر دوں اور مہینہ ختم ہوتے ہی کہے کہ بہت اچھا شکر ہے اب موقع آگیا اچھی غذا ئیں جائیں جہنم میں اب میں گندگی شروع کرتا ہوں.تو روزہ تو باقی گیارہ مہینوں کی بھی ضمانت دینے کے لئے آتا ہے.باقی گیارہ مہینوں کے بھی آداب سکھانے کے لئے آتا ہے لیکن اس مہینہ میں آداب سکھائے جائیں تو باقی گیارہ مہینے ان آداب کا اثر پڑے ناں.اگر صرف بھوک کا نام روزہ ہے تو پھر تو انسان روزہ کی اکثر نیکیوں سے محروم
خطبات طاہر جلد۵ 394 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء رہ جائے گا ، اکثر فوائد سے محروم رہ جائے گا.اس لئے اپنے گھروں کو بقیہ دن جتنے بھی باقی ہیں ان کو آداب کی فیکٹریاں بنادو.اسلامی آداب اور اسلامی اخلاق جو جو کمزوریاں عام حالات میں بچوں میں الله پائی جاتی ہیں ان کو دور کرنے کی طرف متوجہ ہو اور روزہ کا واسطہ دے کر آنحضرت ﷺ کے ارشادات بتا بتا کر بچوں کو سمجھاؤ کہ تم پہلے زبان سے ایسی بے احتیاطی کر لیا کرتے تھے اب روزہ آگیا ہے اب بالکل نہیں کرنی.اور اسی طرح دیگر امور میں بھی تلاوت کی عادت ڈالنا ، ذکر الہی کی عادت ڈالنا ، دعاؤں کی عادت ڈالنا، حسن سلوک کی عادت ڈالنا، حقوق کی ادائیگی کی عادت ڈالنا، زبان کو جھوٹ سے کلیۂ پاک کرنے کی عادت ڈالنا، صاف اور سچی بات کی عادت ڈالنا ، قول سدید کی عادت ڈالنا، یہ سارے مواقع ہیں روزہ کے لئے.پس جب آنحضرت علہ فرماتے ہیں کہ جہنم کے سارے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں تو ساتھ یہ بھی فرماتے ہیں کہ جنت کے سارے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں.تو صرف منفی پہلو نہیں رکھنا بلکہ اس مثبت پہلو پر بھی نظر رکھیں.اور یہ دروازے کھولیں گے تو کھلیں گے.اگر آپ نے اپنے حواس خمسہ میں سے ہر ایک کے لئے اس عرصہ میں نیکی کے دروازے نہ کھولے تو جہنم کے دروازے تو بند کر رہے ہوں گے لیکن بے مقصد اس کے بدلے کوئی نیکی کا دروازہ نہیں کھول رہے ہوں گے.پس مراد یہ ہے کہ ہر بدی کے بدلہ ایک خوبی پیدا کرو.ہر بدصورتی کے بدلہ ایک حسن پیدا کرو اور تمیں (۳۰) دن مسلسل اس جدو جہد میں گزار دو کہ تمہاری بدیاں چھٹ کر پیچھے رہ جائیں اور تمہاری نیکیاں رمضان کی برکت سے بڑھتے بڑھتے نمایاں ہو کر غیر معمولی چمک کے ساتھ آگے بڑھیں اور ہر رمضان جو گزرتا ہے وہ پہلے سے بہتر حالت میں تمہیں پائے.یہ مقصد ہے روزے کا اور جماعت احمدیہ کو اس طرف خصوصیت کے ساتھ اب توجہ کرنی چاہئے بلکہ وقت ہے کہ اس کے متعلق جہاد شروع کیا جائے ، عالمی پیمانے پر.جس طرح عبادت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم باقی سب کو غیر معمولی طور پیچھے چھوڑ گئے ہیں اسی طرح روزہ کے میدان میں بھی انشاء اللہ یہ عہد کر کے اٹھیں کہ ہم نے لازماً باقی سب دنیا کے مسلمان کہلانے والے ہوں یا دوسرے ہوں سب کو پیچھے چھوڑ دینا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا روزوں کی طرف جورجحان تھا وہ آپ کے الفاظ میں
خطبات طاہر جلد۵ 395 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ” میری تو یہ حالت ہے کہ مرنے کے قریب ہو جاؤں تب روزہ چھوڑتا ہوں.طبیعت روزہ چھوڑنے کو نہیں چاہتی.یہ مبارک دن ہیں اور اللہ کے فضل و رحمت کے نزول کے دن ہیں.( ملفوظات جلد اول صفحه : ۴۳۹) پھر فرماتے ہیں: ایک دفعہ میرے دل میں خیال آیا کہ یہ فدیہ کس کے لئے مقرر کیا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ توفیق کے واسطے ہے تاکہ روزہ کی توفیق اس سے حاصل ہو.خدا تعالیٰ ہی کی ذات ہے جو توفیق عطا کرتی ہے اور ہر شے خدا ہی سے طلب کرنی چاہئے یہ ایک ایسا لطیف مضمون ہے جو سوائے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آج تک کسی مفسر نے روشن نہیں فرمایا.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مسکین بالکل ایک اور رنگ میں اس آیت کا مضمون کھل گیا کہ وہ لوگ جو روزہ کی طاقت نہیں رکھتے لیکن تمنا رکھتے ہیں اور حسرت رکھتے ہیں کاش ہم بھی روزہ رکھ سکیں ان کے لئے ترکیب یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ فدیہ دیں.ایک غریب کا پیٹ بھریں، اس کی دعائیں لگیں گی تو اللہ تعالیٰ روزہ کی تو فیق بھی عطا فرمائے گا.غرضیکہ حصول طاقت کے لئے فدیہ ہے جواب یہ ہے کہ جن لوگوں کے اندر وزہ رکھنے کی طاقت نہیں وہ بے قرار ہیں ان کو ہم بتاتے ہیں کہ اگر وہ فدیہ ادا کر دیں گے تو خدا تعالیٰ ان کی توفیق کو بڑھا دے گا.فرماتے ہیں: وو ہر شے خدا سے ہی طلب کرنی چاہئے.خدا تعالیٰ تو قادر مطلق ہے.وہ اگر چاہے تو ایک مدقوق کو بھی روزہ کی طاقت عطا کر سکتا ہے.تو فدیہ سے یہی مقصود ہے کہ وہ طاقت حاصل ہو جاوے اور یہ خدا کے فضل سے ہوتا ہے.پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان) دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور یہ کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کرسکوں یا نہ.اور اس سے توفیق طلب کرے تو مجھے یقین ہے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 396 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء میں ملا.ایسے دل کو خدا طاقت بخشے گا ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۵۶۳) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے ( کشف حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسلسل ایک دفعہ چھ ماہ کے روزے رکھے اور غذا کم کرتے کرتے یہاں تک کم کر دی کہ آپ فرماتے ہیں کہ عام طاقت کا انسان اگر اس غذا پر آتا تو مرجا تا لیکن اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طاقت عطا فرمائی اور غیب سے اس لحاظ سے بھی رزق عطا فر مایا کہ جس غذا پر عام انسان زندہ نہیں رہ سکتا.اس غذا پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کئی ماہ تک مجاہدہ فرماتے رہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے عبادت کے حقوق بھی ادا کرتے رہے، اتنی طاقت کے ساتھ رہے.تو فرماتے ہیں، جو خدا تعالیٰ نے اس زمانہ میں احسانات فرمائے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ انبیاء کا ایک گروہ مجھے ملا : اور انہوں نے کہا کہ تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے، اس سے باہر نکل.اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو وہ خود ماں باپ کی طرح رحم کر کے اسے کہتا ہے کہ 66 تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے ( ملفوظات جلد ۲ صفحه : ۵۶۴) اس کی مثال ویسے ہی ہے جیسے آنحضرت علی کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو کیوں اپنی جان کو ہلاک کر رہا ہے ان لوگوں کے غم میں : فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا (الکھف:۷) بِهَذَا الْحَدِيْثِ أَسَفًا پھر فرمایا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء: ۳) اے محمد یہ تو اپنے آپ کو اس غم میں کیوں ہلاک کر رہا ہے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لا رہے یعنی حضور اکرم ہے تو غم میں ہلاک ہو رہے ہیں اور اللہ روک رہا ہے جس کی خاطر ہلاک ہور ہے
خطبات طاہر جلد۵ 397 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء ہیں نہیں بس آگے قدم نہیں بڑھانا اتناہی بہت ہے اتنازیادہ غم نہ کر.تو جب انسان خدا کی خاطر اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتا ہے تو اللہ تعالیٰ خود اس کو مشقت سے روکتا بھی ہے اور اس پر اس معنی میں بھی اپنے رحم کی تجلی فرماتا ہے.پس رمضان کا جتنا بھی وقت باقی ہے اس سے فائدہ اٹھا ئیں اور یہ نہ ہو کہ آخر پر بہت سے لوگ حسرت سے یہ کہتے ہوئے اس رمضان سے گزریں کہ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے خدا کی طرف سے روحانی بہار کے دن آئے بھی اور ہم اس سے فائدہ نہ اٹھا سکے.جولوگ لیلتہ القدر کے خواہاں ہیں اور لیلتہ القدر کی تلاش میں رمضان کی آخری راتوں میں سعی کرنے والے ہیں ان لوگوں سے میں یہ کہتا ہوں کہ لیلۃ القدر کی جو علامتیں عام طور پر مشہور ومعروف ہیں وہ تو ایسی ہیں جو بعض دفعہ اتفاقات سے بھی پیدا ہو جاتی ہیں مثلاً بجلی کی کٹڑک ہے، ہلکی ہلکی رحمت کی بارش کا ہونا یا دل کی کیفیات کا کسی خاص وقت میں خاص موج میں آجانا اور اللہ تعالیٰ کی خاص محبت کا محسوس کرنا.یہ ساری کیفیات ہیں جو مختلف انسانوں پر مختلف حالتوں میں طاری ہوتی رہتی ہیں.اس لئے یقین کے ساتھ آدمی نہیں کہہ سکتا کہ جس تجربہ سے وہ گزرا ہے وہ ضرور لیلۃ القدر کا تجربہ تھا.لیکن ایک بات میں آپ کو یقین کے ساتھ بتا تا ہوں اگر وہ آپ کو نصیب ہوگئی تو لازماً آپ کو لیلتہ القدر نصیب ہو گئی.اس آخری عشرے میں جب بھی وہ رات آپ کو ملی جس رات آپ نے اپنے گناہوں سے ہمیشہ کے لئے کلیہ سچی توبہ کر لی اور ایسی توبہ کی کہ پھر آپ لوٹ کران گناہوں میں واپس نہیں جائیں گے تو یقین جانیں کے وہی آپ کے لئے لیلۃ القدر ہے اور وہ ہزار مہینوں سے بہتر رات تھی جو آپ کے اوپر آگئی ، اس کے بعد آپ کے لئے کوئی خوف نہیں.پھر اولیاء اللہ میں آپ کے داخل ہونے کے دن آنے والے ہیں.اس لئے ایسی رات کی تلاش کریں جو گنا ہوں سے تو بہ کی رات بن جائے اور ایسی توبہ کی رات بنے کہ اس کے بعد پھر آپ مڑکر ان گناہوں کی طرف نہ دیکھیں.پھر آپ کی جتنی بھی راتیں آئیں گی آپ کے لئے لیلتہ القدر ہی ہے اور خدا کی رحمتیں اور برکتیں ہمیشہ آپ پر نازل ہوتی رہیں گی.اس لئے ان دعاؤں کے ساتھ رمضان کا آخری عشرہ گزار ہیں اور اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعا کریں.
خطبات طاہر جلد۵ 398 خطبه جمعه ۳۰ رمئی ۱۹۸۶ء رمضان کے شروع ہونے سے ایک دو روز پہلے کی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک رات مجھے بار بار مسلسل اس دعا کی طرف متوجہ فرمایا: رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا اور یہ نظارہ بار بار میں دیکھتا رہا کہ ابھی کچھ آفات جماعت کے سامنے باقی ہیں ان آفات کو ٹالنے کے لئے میں مختلف دعائیں کرتا ہوں اور کچھ اثر پڑتا ہے اور پھر بھی وہ باقی رہتی ہیں.پھر میری توجہ اس طرف مبذول ہوتی ہے کہ رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ کی دعا کرنی چاہئے اور جب میں یہ دعا کرتا ہوں تو جس طرح تیزاب سے زنگ کھل جاتا ہے یا صبح صادق سے اندھیرے دھل جاتے ہیں اسی طرح وہ آفات بالکل زائل ہو جاتی ہیں ان کا کوئی نشان باقی نہیں رہتا.تو چونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے یہ بات صرف اپنے تک محدود رکھنے کے لئے نہیں بلکہ ساری جماعت کو بتانے کی خاطر مجھ پر ظاہر فرمائی ہے.اس لئے رمضان کے آخری عشرہ میں خصوصیت کے ساتھ اس دعا کا بھی ورد کریں.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو ایک موقع پر یہ فرمایا کہ یہ دعا اسم اعظم ہے رَبِّ كُلِّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظَنَى وَانْصُرْنِي وَارْحَمُنی اسم اعظم ہے اس سے بڑی اور کوئی دعا نہیں.جو ہر کیفیت پر حاوی ہے.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ: ۵۶۸) اس لئے باقی دعاؤں کے علاوہ جو قرآنی دعائیں ہیں ، انبیاء کی دعائیں ہیں ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعائیں سکھائی ہیں یا جو دل کی کیفیت سے خود بخود پھوٹتی ہیں ان کے علاوہ ان کو چھوڑ کر نہیں، اس دعا کی طرف بھی خصوصیت کے ساتھ توجہ کریں.خدا کرے ہمیں وہ لیلتہ القدر نصیب ہو جو دائمی صلح کی رات ہے یعنی خدا تعالیٰ کے ساتھ دائمی صلح کی رات ہے اور جس کے نتیجے میں پھر خدا تعالیٰ کے فضلوں کی ہمیشہ کے لئے ضمانت حاصل ہو جاتی ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے معا بعد مکرمہ محترمہ امتہ العزیز صاحبہ کی نماز جنازہ غائب ہوگی.یہ ہمارے سلسلہ کے ایک مخلص و مبلغ مربی نسیم احمد صاحب شمس کی والدہ تھیں اور ماسٹر محمد عبدالعزیز صاحب چک EB/245 ضلع وہاڑی کی اہلیہ تھیں.نسیم احمد صاحب شمس چونکہ اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے سیرالیون میں ہیں آج کل، اس لئے وہ اپنی والدہ کی بیماری یا وفات میں وہاں نہیں پہنچ سکے.اس لئے خصوصیت کے ساتھ ان کے لئے بھی اور ان کے پس ماندگان کے لئے بھی اور ہمارے اس مبلغ بھائی کے لئے بھی دعا کریں.نماز جمعہ کے معا بعد نماز جنازہ ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 399 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء جمعۃ الوداع کی حقیقت.اصل جمعہ خدا کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہنا ہے (خطبه جمعه فرموده ۶ جون ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَّوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور پھر فرمایا: (الجمد: ۱-۱۱) سال میں باون ہفتے ہوتے ہیں اور ہر ہفتے میں ایک جمعہ کا دن بھی آتا ہے اور ہر جمعہ کی اذان کے وقت قرآن کریم مومنوں کو یہ نصیحت فرماتا ہے.اِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کہ جب بھی جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لئے بلایا جائے فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ تو اللہ کے ذکر اللہ کی یاد کی طرف دوڑتے ہوئے چلے آیا کرو.وَذَرُوا البیع اور تجارتوں کو چھوڑ دیا کرو.ذلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ یہ تمہارے لئے بہتر ہے.کاش کہ تم اس بات کو جانتے.فَإِذَا قُضِيَتِ
خطبات طاہر جلد۵ 400 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء الصلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ ہاں جب نماز سے فارغ ہو جاؤ پھر دنیا میں بے شک پھیل جایا کرو.وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہ اور اللہ کے فضل کو چاہو.وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو تا کہ تم نجات پاؤ.یہ آواز باون مرتبہ ہر جمعہ کے دن اٹھتی ہے خواہ کوئی کان اس آواز کو سنے یا نہ سنے.مگر وہ آواز جس کو قرآن کریم نے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا کا ئنات کا ریکارڈ نگ سسٹم اسے ہر دفعہ بجاتا ہے اور جن کے کان سننے کے ہیں وہ اس آواز کو سنتے ہی ہیں اور اس کے باوجودا سے ان سنی کرنے والے بھی بہت سے ہیں.لیکن ایک جمعہ کا دن ایسا بھی آتا ہے جب کہ تمام سننے والے اس آواز کو سنتے بھی ہیں اور لبیک بھی کہتے ہیں اور وہ جمعہ کا دن آج کے جمعہ کا دن ہے جسے جمعۃ الوداع کہا جاتا ہے.ساری امت مسلمہ میں یہ دن بڑے خلوص اور بڑی عقیدت کے ساتھ منایا جاتا ہے اور اس جمعہ کے دن کے ساتھ بہت سی توقعات وابستہ کی جاتی ہیں، کچھ فرضی ہیں کچھ حقیقی ہیں لیکن بہر حال بہت سی نیک امیدیں اور بلند تو قعات اس جمعہ کے دن کے ساتھ وابستہ کی جاتی ہیں.یہاں تک کہ بعض سمجھنے والے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اکیاون دفعہ خدا کی آواز کو رد کرنے کے بعد اگر ایک دفعہ اس آواز پر لبیک کہہ کر ہم اس جمعہ کے دن حاضر ہو جائیں گے تو ہماری اکیاون نافرمانیاں بخشی جائیں گی اور اس ایک فرمانبرداری کو ان اکیاون نافرمانیوں پر بھاری قرار دیا جائے گا.یہ بھی ایک توقع ہے.کس حد تک اس توقع میں حقیقت ہے یہ تو عالم الغيب والشهادة خدا ہی بہتر جانتا ہے.وہی بہتر جانتا ہے جس نے جزاء سزا کے دن ہمارے اعمال کا فیصلہ کرنا ہے.مگر حقیقت یہ ہے کہ جب ایک پکارنے والا ،جس کی اطاعت کا انسان عہد کر چکا ہو، جس کی اطاعت سے باہر کوئی چارہ نہ ہو، کسی کو اپنی اطاعت کی طرف بلاتا ہے تو بندے کا یہی کام ہے ، غلام کا یہی فرض ہے کہ وہ اس آواز پر لبیک کہے اور اگر کچھ مجبوریاں حائل ہو جائیں ، بے اختیاری اور بے بسی کی صورت پیدا ہو جائے تو پھر ان کوتاہیوں پرانسان نادم ہو اور استغفار کرے اور شرمندگی کا اظہار کرے تو ایک معقول توقع کی وجہ بن جاتی ہے.انسان یہ سوچ سکتا ہے کہ چونکہ بعض بے اختیاریاں اور بعض کمزوریاں میری اطاعت کی راہ میں حائل ہو گئی تھیں اور پھر اطاعت نہ کرنے پر شرمندگی بھی مجھے بہت ہوئی اور اظہار ندامت بھی میں نے کیا اس لئے بعید نہیں کہ وہ عالی سرکار ہمارا رب رحمان و رحیم مجھے بخش دے اور میری کمزوریوں سے درگزر
خطبات طاہر جلد۵ 401 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء فرمائے.اس توقع میں ایک معقولیت پائی جاتی ہے اور ہرگز بعید نہیں کہ ایسے نادم دلوں کی توبہ قبول ہو اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ ان سے بخشش کا سلوک فرمائے.لیکن جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کا تعلق ہے اس کی چونکہ حد کوئی نہیں اس لئے اس پر یہ پابندی بھی نہیں لگائی جاسکتی کہ سال میں ایک دفعہ بلکہ ساری عمر میں ایک دفعہ لبیک کہنے والے کو بھی وہ بخش نہیں سکتا.اتنا بے پایاں اور بے کنار سمندر ہے اس کی رحمت کا کہ اس کا کوئی تصور ممکن نہیں ہے.اس لئے اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ عقل یہ تسلیم نہیں کر سکتی کہ اکیاون مرتبہ کوئی شخص نافرمانی کرے اور ایک دفعہ خدا تعالیٰ کی آواز پر لبیک کہہ دے تو اسے بخشا جا سکتا ہے.اس لئے انسان یہ فتویٰ بھی نہیں لگا سکتا.بالعموم یہ نتیجہ تو ضرور نکالا جا سکتا ہے کہ ممکن نہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے وفادار بندوں سے بھی وہی سلوک کرے جو بے وفاؤں سے کرے.یہ ہو نہیں سکتا کہ جو کان اطاعت کے عادی ہوں اور سمعا و طاعةً کی آواز بلند کرنے والے ہوں ان کے ساتھ وہی سلوک فرمائے جو بغاوت کے عادیوں سے فرمائے.یہ ایک بالکل الگ مسئلہ ہے لیکن ساتھ یہ کہہ دینا کہ ایک دفعہ آنے والا بخشا نہیں جاسکتا یہ بھی غلط ہے اور یہ بھی خدا تعالیٰ کی رحمت پر قدغن لگانے کے مترادف ہے.میرا تو ایمان ہے کہ سال میں ایک دفعہ چھوڑ کر اگر ساری زندگی میں ایک دفعہ ندامت کے دل کے ساتھ خدا کی آواز پر کوئی لبیک کہے اور پھر وفاداری اختیار کرے،اس ایک لبیک کے ساتھ بقیہ زندگی کی وفا کے وعدے شامل ہوں تو نہ صرف یہ کہ بعید نہیں بلکہ بھاری توقع اپنے رب کی رحمت پر یہی ہے کہ وہ اسے بخش دے گا، اس سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے گا.لیکن یہ دو انتہا ئیں ہیں.ان کے درمیان جب عموماً ہم نظر ڈالتے ہیں تو قرآنی تعلیم سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے لئے بہتر یہی ہے.اس کے لئے مقام محفوظ یہی ہے کہ ہر سانس اطاعت میں بسر کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ کوئی رات تم پر ایسی نہ گزرے جو تمہاری اطاعت پر گواہی نہ دینے والی ہو، کوئی دن غروب نہ ہو جو یہ گواہی دیتے ہوئے غروب نہ ہو کہ اس نے قرآن کریم کے احکام کی پابندی میں وقت بسر کیا.ایک یہ بھی قرآن کریم پر نظر ڈالنے سے نتیجہ نکلتا ہے اور ایک یہ منظر بھی سامنے آتا ہے کہ خدا کے عارف بندے جو تقویٰ اور عبادت میں غیر معمولی مقام رکھنے والے ہیں.جو انعام کے آخری
خطبات طاہر جلد ۵ 402 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء منازل تک پہنچنے کی سعادت پاگئے اور وہ انعام جو سب سے بالا انعام ہے خدا تعالیٰ نے ان کو نصیب فرمایا.وہ تو ڈرتے ڈرتے راتیں بسر کرتے رہے اور ڈرتے ڈرتے دن بسر کرتے رہے.ایک ایک لمحہ سے خائف رہے کہ کوئی ایک لمحہ بھی خدا کی اطاعت سے باہر نہ گزرے.تو پھر یہ تصویر بھی ایک بہت ہی دلکش تصویر سامنے ابھرتی ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح زندگی بسر ہونی چاہئے.پس جہاں کمزوروں اور گنہگاروں کا ایک منظر ہے اس میں بھی مایوسی کا کوئی سوال اس لحاظ سے نہیں کہ خدا کی رحمت سے بخشش بعید نہیں ہے.لیکن جہاں تک تقوی کے اعلیٰ تقاضوں کا تعلق ہے، فرمانبرداری کے حقوق کا تعلق ہے، بندگی کے حقوق کا تعلق ہے، آقا اور غلام کے تعلقات کے آداب کا تعلق ہے، بہتر اور صحیح صورت حال وہی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی کہ مومن کی راتیں بھی ڈرتے ڈرتے بسر ہونی چاہئیں اور اس کے دن بھی ڈرتے ڈرتے بسر ہونے چاہئیں اور کوشش یہی ہونی چاہئے کہ اطاعت سے باہر کوئی سانس نہ آئے اور اطاعت سے باہر کوئی قدم نہ جائے.ان دو تصویروں کے درمیان بے انتہا خدا کی مخلوق ہے.کوئی ایک کنارے پر کھڑی ہے کوئی دوسرے کنارے پر اور ہر ایک کے معاملات الگ الگ ہیں.انسان نہ اس انسان کے دل کی تہہ تک اتر سکتا ہے نہ اس لائق ہے کہ وہ کسی پر فتویٰ لگا سکے، نہ اسے یہ توفیق ہے کہ خود اپنے ہی دل کا راز معلوم کر سکے اور بسا اوقات غفلت کی حالت میں بسر کرنے والا اپنے آپ کو نیک سمجھتے ہوئے بسر کر رہا ہوتا ہے حالانکہ اندرون خانہ اس کے اندر اس کی نیتوں کی کجیاں اور نیتوں کے فتور اس کے اعمال کو کھا رہے ہوتے ہیں.تو ایک یہ پہلو بھی ہے جس کی وجہ سے دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور انسان کو یہ پہلوانکساری سکھاتا ہے.خدا ہی کے حضور جھکنا نہیں سکھاتا بلکہ بندوں کے مقابل پر بھی انکساری سکھاتا ہے.پس آج کے دن سب قسم کے لوگ وہ جو تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے والے ہیں وہ بھی خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اکٹھے ہو گئے ہیں اور وہ جن کو خدا کی رحمت پر امیدیں ہیں خواہ ان کے اعمال ان امیدوں کو جھٹلا بھی رہے ہوں تب بھی وہ اپنے رب کی رحمت سے بلند امید میں لے کر آج کے دن حاضر ہوئے ہیں، وہ بھی آج مسجدوں میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور ان دونوں کے درمیان جو خدا کی بے شمار مخلوقات ہیں، بے شمار ان کے مدارج ہیں ، بے شمار مراتب ہیں وہ سارے
خطبات طاہر جلد۵ 403 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء کےسارےاس کثرت کے ساتھ آج خدا کے گھروں میں اکٹھے ہوئے ہیں کہ سارا سال کبھی خدا کے گھر اس طرح آباد نہیں ہوئے تھے.یہ خاص دن ہے اور اس کی خصوصیت سے انکار ممکن نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت ایک عجیب شان دکھاتی ہے.اس کے عجیب جلوے ہیں اور بعض شان کے جلوے یہ بھی ہیں کہ گنہگار بندوں کے اجتماع پر بھی اس کو رحم آجاتا ہے جو اس کے نام پر اکٹھے ہوں ان کے اجتماع کو دیکھ کر وہ رحمت خاص طور پر جوش دکھاتی ہے اور غیر معمولی جلوہ کے ساتھ اپنے بندوں کے اوپر مغفرت اور عفو کے ساتھ جلوہ گر ہوتی ہے.ایسا ہی ایک نظارہ قرآن کریم نے ہمارے لئے محفوظ کیا تا کہ یہ منظر بھی ہماری نظر سے پوشیدہ نہ رہے.حضرت یونس کی قوم کی تصویر قرآن کریم کھینچتا ہے کہ کس طرح اس قوم کو باوجود اس کے کہ دن رات گناہوں میں اس درجہ ملوث تھی کہ خدا کی تقدیر نے اس ساری قوم کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور ایسا قطعی فیصلہ کیا کہ وقت کے نبی کو اس دن سے مطلع فرما دیا ، اس صبح سے آگاہ کر دیا جس صبح اس قوم کی صف پیٹی جانی تھی اور ہدایت فرمائی کہ تم اس جگہ کو چھوڑ کر یہاں سے ہجرت کر کے چلے جاؤ.اس کے باوجود وہ گنا ہوں سے آلودہ بستی تھی جس میں اس کثرت سے گناہ گار تھے کہ ان کے اندر شاید ایک بھی ایسا معصوم باقی نہیں تھا جس کے صدقے ان کو بخشا جا سکتا ہو.جو بچانے کے لائق قرآن کریم بیان فرماتا ہے وہ ایک ہی شخص خدا کا بندہ یونس تھا جو بستی کو چھوڑ کر الگ ہو گیا.اس سے زیادہ گنہ گار ہستی کا اور تصور ممکن نہیں ہے مگر جب وہ گنہگار لوگ بھی اپنی بیویوں ، اپنے بچوں کو لے کر ، بڑے اور چھوٹے اور مرد اور عورتیں اور بوڑھے اور جوان اور ان کے جانور بھی سارے خدا کی خاطر خدا سے بخشش مانگنے کے لئے ایک میدان میں اکٹھے ہوئے اور گریہ وزاری کا ایک طوفان برپا ہو گیا اور خدا کے حضور وہ ہر طرح سے روئے اور چلائے اور آہ و بکا کی اس کے حضور گرے اور تڑپے اور بے قرار ہوئے اور اپنے گناہوں پر ندامت کا اظہار کیا.تو ایک عجیب خدا کی رحمت کی شان ظاہر ہوئی کہ باوجود اس کے کہ وقت کے نبی کو مطلع فرما دیا گیا تھا کہ اس قوم کی ہلاکت کا دن آپہنچا ہے اور وہ منحوس صبح طلوع ہونے والی ہے جس صبح کو اس قوم کی صف لپیٹ دی جائے گی.اس کے باوجود خدا کی رحمت نے اس وعید کو ٹال دیا اور اس قوم کو نجات بخشی.
خطبات طاہر جلد۵ 404 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء تو بندوں کا ایک کثیر اجتماع جس میں ہر قسم کے لوگ شامل ہو جاتے ہیں اگر چہ گنہگاروں کی کثرت بھی ہو تب بھی بسا اوقات ایک ایسا درد ناک منظر پیش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس منظر کو قبول فرماتی ہے اور پیار کے ساتھ اس اجتماع پر جھکتی ہے اور ان کے گناہوں سے درگز رفرماتی ہے اور ان کی سابقہ لغزشوں کو نظر انداز فرماتے ہوئے ان سے بخشش کا سلوک فرماتی ہے.اس لئے خدا کی رحمت کی حد بندی کسی طرح ممکن نہیں.آج کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہمیشہ وفا کے ساتھ جمعوں پر بھی حاضر ہوتے ہیں اور پانچ نمازوں میں بھی کوشش کرتے ہیں.ان لوگوں کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اگر ان کے دل میں کبر کا یہ کیڑا پیدا ہو کہ یہ نی نئی شکلیں دکھانے والے لوگ یہ جو پہلے کبھی نظر نہیں آتے تھے ان کا کیا حق ہے اس جمعہ پر اصل حق تو ہمارا ہے.تو ان کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ بعض دفعہ ریاء کا یا تکبر کا، عجب کا ایک لمحہ بھی ساری زندگی کی نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے.اس لئے استغفار سے کام لیں اور تکبر کی نگاہ سے ان کو نہ دیکھیں اور تذلیل کی نگاہ سے ان نئے آنے والے مہمانوں کو نہ دیکھیں ، پیار کی نظر ڈالیں ان پر، محبت کی نظر ڈالیں.آخر اللہ کی محبت کے نام پر خدا کی عظمت کے نام پر، پیدا کٹھے ہوئے ہیں.یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں وفا نصیب کرے.یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس جمعہ کی برکت سے آئندہ جمعے نصیب فرمائے اور آئندہ نمازیں نصیب فرمائے اور اگر یہ نافرمانوں میں تھے تو اب اس کے بعد یہ فرمانبرداروں کی فہرست میں شمار کئے جائیں اور خوش ہوں کہ خدا کی مسجد میں آج خدا کی عبادت کرنے والوں سے بھر گئی ہیں.یہ چند لمحے بھی عزیز ہونے چاہئیں ان کو.اگر ان کو اللہ سے سچا پیار ہے اگر عبادت کی کوئی عظمت اپنے دل میں رکھتے ہیں تو وقتی طور پر بھی عبادت کے نام پر ایک خاص ہجوم بندوں کا نظر آرہا ہو تو ان کے دل خوشی سے بھر جانے چاہئیں.یہ چند لمحے کی سعادتیں بھی ان کے دلوں کو مسرت سے لبریز کردینی چاہئیں.حقیقت یہ ہے کہ اگر سچا پیار ہو خالق سے تو ناممکن ہے کہ مخلوق سے سچا پیار نہ ہو اور خدا کی طرف خدا کے بندوں کو واپس آتا دیکھا جائے تو یہ ایک ایسا پیارا نظارہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں خدا سے محبت کرنے والا اور مخلوق سے محبت کرنے والا کبر کا شکار نہیں ہوسکتا، عجب کا شکار نہیں ہو سکتا.اس کی آنکھیں اپنے اندر اپنی نیکیوں کی طرف نہیں جھکیں گی بلکہ ان آنے والے مہمانوں کی خواہ وقتی نیکی ہی سہی ان کی وقتی نیکی کو ہی پیار سے دیکھیں گی اور ان کی قدر
خطبات طاہر جلد۵ 405 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء کریں گی اور دل میں خوشی محسوس کریں گی اور واقعہ کچھ لوگ ایسا ہی محسوس کرتے ہیں.واقعہ ان مسجدوں کی رونق کو دیکھ کر کچھ ایسے بندے بھی ہیں جن کا دل خوشیوں سے بھر جاتا ہے.وہ چندلحوں کے لئے ایسی روحانی مسرت محسوس کرتے ہیں کہ ان کی ہر نظر جو نئے آنے والوں پر پڑتی ہے دعا بن کے پڑتی ہے.پیار اور محبت سے دیکھتے ہیں.خوش ہو رہے ہوتے ہیں کہ اجنبی لوگ دکھائی دے رہے ہیں.مگر دیکھو کس طرح سج دھج کر پہنچے ہیں، بعضوں نے ٹوپیاں مانگی ہوئی ہیں، کسی نے رومال باندھے ہوئے ہیں، کسی نے اور طرح سے خدا کی عزت اور احترام کا اظہار کرنے کا طریقہ ڈھونڈا ہے اور دلوں کی جو سعادت ہے وہ ان کے چہروں سے نظر آتی ہے محسوس کرتے ہیں کہ یہ دن واقعی عظمت کے لائق دن ہے.آنا چاہئے تھا اگر چہ ہم پہلے نہیں آسکے مگر اس ایک دن ہی حاضر ہو جائیں شائد خدا تعالیٰ کی رحمت ہمیں قبول فرمالے.یہ جذبے ان کے چہروں پر لکھے جاتے ہیں.چونکہ اس وقت ان کا عمل اس نیکی میں محمد بن رہا ہے آپ کی دعاؤں کا، اس لئے آج اگر آپ ان کے لئے دعائیں کریں تو زیادہ مقبول ہوں گی.اس لئے اس جمعہ کو غیر معمولی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی عبادت سے غافل ہوں اور خود ان کے دل میں کوئی تحریک پیدا نہ ہو اور وہ خود عبادت کی اہمیت کو اپنے عمل میں نہ ڈھالیں اور محض فرضی طور پر اس اہمیت کا تصور باندھیں.ایسے لوگوں کے لئے اگر آپ دعا کریں گے تو چونکہ ان کا عمل آپ کی دعا کے مخالف جا رہا ہو گا اس لئے دعا کو وہ تائیدی ہوا حاصل نہیں ہوتی جو عمل سے حاصل ہوتی ہے.یہ ایک ایسا نکتہ ہے جو قرآن کریم نے ہمیں سکھایا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ کلمہ طیبہ کو آسمان کی طرف بلند ہونے کے لئے نیک عمل کی طاقت کی ضرورت ہے.بعض دفعہ یہ نیک عمل، اپنا ہوتا ہے کلمہ طیبہ بلند کرنے والے کا اور بعض دفعہ جس کے لئے دعا کی جاتی ہے اس کا نیک عمل ضروری ہوتا ہے اس کلمہ طیبہ کو بلند کرنے کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عارفانہ نکتہ کو سمجھا اور سمجھایا اور آپ کے عظیم احسانات میں سے ایک یہ بھی احسان ہے.چنانچہ بعض دفعہ دعا کی تحریک کرنے والوں سے آپ نے فرمایا کہ میرے اکیلے کی دعا تمہارے لئے قبول نہیں ہوگی جب تک تم خود دعا نہ کرو میرے ساتھ.تمہاری دعاؤں کے نتیجہ میں میری دعاؤں میں رفعت پیدا ہوگی کیونکہ ثابت ہوگا کہ تمہارے نزدیک دعا کی اہمیت ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 406 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء یہ مفہوم تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی ان آیات سے سمجھا کہ دعاؤں کو بلندی عطا کرنے کے لئے یہاں تک کہ وہ آسمان کے کنگروں کو چھونے لگیں ضروری ہے کہ عمل ان کا مؤید ہو، ان کا مددگار ہو.بسا اوقات دعا کرنے والے کا عمل انسان کی دعاؤں کا مددگار بنتا ہے.اسی لئے جب کہا جاتا ہے مستجاب الدعوات ہے، وہ نیک ہے اس سے دعا کی درخواست کرو.تو یہی مفہوم ہے ورنہ دعا تو ہر ایک انسان کرتا ہے اور بعض دفعہ بدوں کی دعا بھی سنی جاتی ہے اس سے کوئی انکار نہیں.لیکن جس کا عمل مستقل دعا کی مدد کر رہا ہے وہ اس کو طاقت بہم پہنچا رہا ہے اس کی دعا واقعہ عرش تک پہنچ رہی ہوتی ہے.بعض دفعہ جس کے لئے دعا کی جاتی ہے اس کا عمل بھی ضروری ہوتا ہے.اگر وہ بے پرواہ ہے ان نیکیوں سے جن نیکیوں کے لئے اس کی خاطر دعا کی جاتی ہے تو اس کے حق میں قبول نہیں کی جاتی.اس مسئلہ کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض لوگوں نے بعض حدیثوں کے مفہوم کو سمجھا نہیں اور غلط اعتراضات پیدا ہوئے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے دو اشخاص کی ہدایت کی دعا خاص طور پر اپنے رب سے کی تھی ایک وہ جو ابو جہل کے نام سے مشہور ہوا اور ایک ان میں سے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے.( ترمذی کتاب المناقب حدیث نمبر: ۳۶۱۴) عمرؓ کے حق میں حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے کی دعا مقبول ہوئی اور بعض نادان یہ سمجھتے ہیں کہ ابو جہل کے حق میں مقبول نہیں ہوئی اور گویا آنحضرت علی کی ایک دعانا مقبول ہوگئی.آپ کی دعانا مقبول نہیں ہوئی ، یہ کلمہ گستاخی کا ہے.ابوجہل کا عمل نامقبول تھا اور اس عمل کی نا مقبولیت تھی جو اس صورت میں ظاہر ہوئی کہ وہ جاہل کا جاہل مر گیا بلکہ اجہل ہو کے مرا.اس لئے جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اس کے عمل کی صداقت اس کی سچائی ان دعاؤں کی مدد کر رہی ہوتی ہے جو دعا کرنے والا ہوتا ہے، اس کی دعاؤں کی مدد کر رہی ہوتی ہے.پس آج اس نکتہ کو سمجھ کر اس موقع سے فائدہ اٹھائیں اور اپنے ان بھائیوں کے لئے دعائیں کریں جن کا آج کا عمل آپ کی دعاؤں کی تائید کر رہا ہے.آج انہوں نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہے کہ عبادت کی کچھ نہ کچھ عظمت وہ ضرور اپنے دل میں رکھتے ہیں، کچھ نہ کچھ اطاعت کا جذ بہ ضرور ان کے دل میں زندہ موجود ہے.اگر وہ زندگی کی رمق نہ ہوتی تو آج کے دن بھی وہ خدا کے حضور حاضر نہ ہوتے.
خطبات طاہر جلد ۵ 407 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء پس سارا سال جو میں عبادت کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور کہتا رہا ہوں کہ آپ اپنے ان بھائیوں کے لئے کوشش کریں آج ایک بہت ہی سنہری موقع ہاتھ آیا ہے.آج ان کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھیں بلکہ محبت اور پیار کی نظر سے دیکھیں ، ان کے لئے درد محسوس کریں اور اپنی دعاؤں میں خاص طور پر ان نئے آنے والوں کو یا درکھیں آج کے دن اور دعا کریں کہ اے خدا آج کا عمل کس طرح تو جھٹلائے گا.آج تو یہ چل کر تیرے حضور حاضر ہو گئے ہیں، آج تو ہم یہ دعا منوا کر اٹھیں گے کہ ان کو ہمیشہ کا عبادت گزار بنادے، ہمیشہ کے لئے اپنا تابع اور فرمانبردار بنا دے، اپنے بندوں میں داخل کر لے، ان کو وفاداروں میں شمار کر اور ان کے دل میں ایک ایسی لگن لگا دے کہ بے اختیار ہوکر یہ تیرے حضور حاضر ہوا کریں.تیری محبت سے بندھے ہوئے بے بس ہو کر تیری مسجدوں کی طرف دوڑتے ہوئے آیا کریں اور نہ صرف یہ کہ یہ جمعہ کی ہر آواز پر لبیک کہیں بلکہ پانچ وقت کی اذانوں کی ہر آواز پر لبیک کہنے کی سعادت حاصل کریں.اس لئے اس جمعہ کی خاص اہمیت کے پیش نظر ایک تو اس دعا کی میں تحریک کرتا ہوں کہ کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے لئے بھی اور غیر احمدی مسلمانوں کے لئے بھی عبادت گزار بندے بننے کے لئے دعا کریں.دوسری دعا خصوصیت کے ساتھ آج کے دن کی مناسبت سے یہ کرنی چاہئے جس کی میں تحریک کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں کہ ایک عظیم الشان جمعہ وہ جمعہ ہے جس میں آنحضرت علیہ کے ایک غلام نے دوبارہ بنی نوع انسان کو خدا کی عبادت کی طرف بلانا ہے اور یہ جمعہ ایک ہفتے کےایک دن کا نام نہیں بلکہ یہ دور ہے جو احمدیت کا دور کہلاتا ہے ، جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ ہے.یہی سورہ جمعہ ہے جس میں آپ کے آنے کی پیش گوئی واضح الفاظ میں فرمائی گئی.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ b ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيْهِ مَنْ يَّشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( الجمعة :۵۴) کہ وہی خدا ہے جو آخرین میں پھر محمدمصطفی ﷺ کو ایک کامل غلام کی شکل میں ( یہ میں اس کی تفسیر کر رہا ہوں) جلوہ افروز فرمائے گا اور یہ خدا کا خاص فضل ہے ذَلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ
خطبات طاہر جلد۵ 408 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء مَنْ يشار جس کو چاہے وہ اس عظیم فضل سے نوازتا ہے، کوئی اس کے فضل پر قدغن نہیں لگا سکتا، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں کو دو اور فلاں کو نہ دوو الله ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ اور وہ بہت ہی بڑے فضا کا مالک خدا ہے.فضلوں تو ایک جمعہ یہ بھی جمعہ ہے، جس جمعہ میں بنی نوع انسان کو بالعموم اور امت مسلمہ کو خصوصیت کے ساتھ خدا کی عبادت کی طرف بلایا جائے گا اور اللہ کی طرف سے ایک آواز دینے والا ان کو پکارے گا کہ آؤ اور اس وسیع مسجد میں اکٹھے ہو جاؤ جو خدا نے تمہاری فلاح کے لئے تمہاری بہبود کے لئے قائم کی ہے اور یہاں مسجد کا معنی جماعت ہے.چنانچہ امر واقعہ یہ ہے کہ مسجد کو خواب میں دیکھنا تعبیر کے لحاظ سے جماعت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور علم التعبیر سے واقف لوگ مسجد کی تعبیر جماعت ہی لیتے ہیں.تو بہر حال جب خدا کے لئے اس عظیم جمعہ کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس وقت بھی بندے کا کام یہی ہے کہ اپنے سارے دیگر تجارتوں کے اور دیگر مشاغل جن میں وہ مصروف ہے ان کو ترک کر کے وہ خدا کی آواز پر لبیک کہے اور یہاں جب ہم کہتے ہیں تجارت تو ایک انفرادی تجارت کے مقابل پر ایک قومی رنگ میں بھی تجارت کے معنی کرنے پڑتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جب ایک عظیم الشان جمعہ کے دن ایک بلانے والے کی آواز اٹھتی ہے تو اس کی راہ میں بھی فی الحقیقت دنیا کی تجارتیں ہی بڑی روک بنا کرتی ہیں.دنیا کے دھندے ہیں جو بڑی روک بنتے ہیں اور یہ روک محض انفرادی تجارت نہیں بلکہ قومی تجارت کی شکل اختیار کر جاتی ہے.قومی تجارت سے مراد یہ ہے کہ ایسا ماحول پیدا ہو جاتا ہے کہ جو شخص بھی اس آواز پر لبیک کہے اس کے رزق کے رستے بند کئے جارہے ہوتے ہیں.جو شخص بھی اس آواز پر لبیک کہے ساری قوم اس کے ساتھ تجارتی انقطاع ان معنوں میں کرتی ہے کہ اس کے اموال کو نقصان پہنچاتی ہے ، اس کے روزمرہ کے معیشت کے ذرائع پر حملہ کرتی ہے، اس کا بائیکاٹ کرتی ہے، اسے الگ کر دیتی ہے اور ہر لبیک کہنے والا عملاً اپنی تجارت کے نقصان کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہوتا ہے.یہ جان کر فیصلہ کرتا ہے کہ اگر میں نے اس آواز پر لبیک کہا تو مجھے اپنی بیع کو چھوڑنا پڑے گا.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہاں چھوڑ نا پڑے گا.چھوڑ دو، یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم عقل رکھتے ہوا گر تم جانتے ہو تو یہ تمہارے لئے بہتر ہے اور اس سورۃ کا انجام اس
خطبات طاہر جلد۵ 409 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء معنوں میں جب ہم پڑھتے طرح پر فرمایا وَ اللهُ خَيْرُ الرُّزِقِينَ کہ اللہ سب سے بہتر رزق عطا کرنے والا ہے.اور ان ہیں وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرً ا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ تو دراصل یہ ایک وعدہ بن جاتا ہے کہ جب تم خدا کی خاطر اس عظیم جمعہ پر حاضر ہو گے اور اپنی تجارتوں کو بالائے طاق رکھ کر ، اس بات سے بے نیاز ہوکر کہ تمہاری تجارتوں پر حملہ کیا جائے گا، تمہاری رزق کی راہیں مسدود کر دی جائیں گی پھر بھی خدا کی آواز پر لبیک کہو گے تو اس جمعہ کے نتیجہ میں خدا کے فضل کم نہیں ہوں گے بلکہ بڑھیں گے.تم آکے دیکھو تو سہی وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ پھر جب خدا کے حضور لبیک کہہ کر خدا کی اجازت سے دنیا میں پھیلو گے تو خدا کے فضل کے مزید خواہاں ہو گے ہر طرف خدا کا فضل تمہارا انتظار کر رہا ہوگا.وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرَ العَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ اور خدا کے ذکر کو پہلے سے بھی بڑھ کر بلند کرو.یہ عجیب بات ہے کہ آغاز بھی اس دعوت کا ذکر کے لئے ہے اور اس کا انجام بھی ذکر پر کیا گیا ہے.اس لئے اس جمعہ کی حقیقت بھی بلکہ ہر جمعہ کی یہی حقیقت ہے کہ خدا کے ذکر کی طرف بلایا جاتا ہے اس لئے نہیں کہ چند لمحے ذکر کر کے پھر ذکر سے غافل ہو جاؤ بلکہ اس لئے بلایا جاتا ہے کہ چند لمحے کے ذکر کے نتیجہ میں تمہیں ذکر سے ایسی محبت پیدا ہو جائے کہ جب تم واپس لوٹو تو تمہاری تجارتیں بھی ذکر سے بھر چکی ہوں، تمہارا اٹھنا بیٹھنا ذ کر بن گیا ہو.اس روشنی میں جب آپ دوبارہ اس آیت کو پڑھتے ہیں تو ایک بہت ہی پیارا مضمون انسان کے سامنے ابھرتا ہے یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلى ذِكْرِ الله اے لوگو! جو خدا کے ذکر سے غافل ہو عملاً.یہاں معنی میں بڑے جمعہ کی بات کر رہا ہوں جہاں خدا دوبارہ ذکر الہی کی طرف بنی نوع انسان کو بلاتا ہے.یعنی بظاہر ذکر چل رہا ہے، بظاہر مساجد آباد ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کی پیش گوئی بھی پوری ہو رہی ہے وَهِيَ خَرَابٌ مِنَ الْهُدى ہدایت سے خالی ہیں (مشکوۃ کتاب العلم صفحہ: ۳۸).اس وقت یہ آواز اٹھتی ہے کہ اے لوگو ! جب خدا کی طرف سے ایک بلانے والا تمہیں عظیم جمعہ کے دن جبکہ تمام قوموں کو محمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے تلے جمع ہونے کی دعوت دی جائے گی تمہیں ذکر الہی کے لئے بلاتا ہے تو باوجود اس کے
خطبات طاہر جلد ۵ 410 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء تمہاری تجارتوں کو نقصان پہنچنے کے احتمالات ہیں، باوجود اس کے کہ تمہارے رزق کی راہیں تم پر تنگ کر دی جائیں گی اور بعید نہیں کہ جہاں تک دشمن کا بس چلے گا وہ تمہاری تجارتوں پر حملہ آور ہوگا اور انہیں کلی نابود کرنے کی کوشش کرے گا پھر بھی خدا کے ذکر کے نام پر اکٹھے ہو جاؤ.جب تم خدا کے ذکر کے نام پر اکٹھے ہو گے تو تمہیں اس ذکر کی ایسی لذت حاصل ہو جائے گی ، اس ذکر سے تمہیں ایسا پیار پیدا ہو جائے گا، ایسی محبت پیدا ہو جائے گی کہ پھر جب دنیا میں پھیلو گے تو تم وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ اللہ کا فضل مانگتے ہوئے ہر وقت ہر طرف پھیل رہے ہو گے یعنی اللہ کا فضل تم پر نازل ہوگا اور دنیا کی کوئی طاقت اس فضل کو نازل ہونے سے روک نہیں سکے گی.پہلے سے بڑھ کر تمہارے رزق میں برکت پیدا ہوگی.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا ذکر الہی کی طرف آئے تھے ذکر الہی سے واپس نہیں لوٹ رہے بلکہ ذکر الہی کو ساتھ لے کر لوٹ رہے ہیں، یہ منظر ہے جو خدا تعالیٰ نے کھینچا ہے.پس جمعہ کا یہ تصور کہ چند منٹ کے لئے ، چند لمحوں کے لئے خدا کے ذکر کی طرف بلایا جاتا ہے اور اس کے بعد چھٹی دے دی جاتی ہے کہ جاؤ چلے جاؤ اب تم فارغ ہو گئے ہو.قرآن کی یہ آیت اس تصور کو بالکل جھٹلا رہی ہے خواہ روز مرہ کے عام جمعہ کا تصور ہو یا اس عظیم جمعہ کا تصور ہو جس کا خاص طور پر سورہ جمعہ میں ذکر ملتا ہے دونوں صورتوں میں قرآن کریم کی یہ آیت اس تصور کو باطل قراردے رہی ہے کہ تمہیں چند منٹ کے لئے یا ایک گھنٹہ کے یا دو گھنٹے کے لئے ذکر الہی کے لئے بلایا جارہا ہے.یہ آیت تو یہ بتارہی ہے کہ تمہیں جب ذکر کی طرف بلایا جاتا ہے تو اس طرح سمعاً وطاعة کہتے ہوئے دوڑتے ہوئے آؤ ، لبیک کہتے ہوئے آؤ کہ اور کسی چیز کی کوئی پرواہ باقی نہ رہے اور جب اس جذبہ کے ساتھ تم آؤ گے تو پھر جب تمہیں خدا اجازت دے گا کہ دنیا میں دوبارہ پھیلو تو تمہارا ذکر تمہارے ساتھ جائے گا، تمہارا نور تمہاری آنکھوں کے سامنے بھی ہوگا تمہارے پیچھے بھی ہو گا تمہارے دائیں بھی ہوگا اور تمہارے بائیں بھی ہوگا اور ذکر الہی پھر تمہیں کبھی نہیں چھوڑے گا.یہ ہے حقیقی جمعہ جس کی طرف خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ہمیں بلاتا ہے اور یہ جمعہ آج احمدیت کے لئے ایک غیر معمولی اہمیت اختیار کر چکا ہے.پس اپنے ان بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں جو اس عظیم جمعہ سے غافل ہیں اور آج جبکہ حضرت رسول اکرم ہے کے ایک کامل غلام نے یہ آواز بلند کر دی ہے کہ محمد مصطفی علیہ کے جھنڈے
خطبات طاہر جلد۵ 411 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء تلے اکٹھے ہو جاؤ اور ذکر الہی کے آداب مجھ سے آکے سیکھو اور ذکر الہی کی لذتوں کو دوبارہ زندہ کرو، اس آواز کو سننے کے باوجود جو لوگ اس کی طرف پیٹھ پھیر کر واپس مڑ رہے ہیں یا استہزاء کی نظر سے اس آواز کو دیکھتے ہیں یا سنتے ہیں اور ان سنی کر دیتے ہیں ان کے لئے بھی دعا کریں.اصل جمعہ یہی جمعہ ہے کہ خدا کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہا جائے اور اس سے بڑا جمعہ اور کوئی جمعہ نصیب انسان کو نہیں ہو سکتا.اس لئے نہ صرف یہ کہ اپنے غیر احمدی بھائیوں کے لئے دعا کریں بلکہ اس مضمون کو آگے بڑھائیں اور یہ غور کریں کہ اصل منادی کرنے والے تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺے ہیں، اصل جمعہ تو آپ کا جمعہ ہے، اصل اذان تو آپ کی اذان ہے.اس لئے جب آپ اس مضمون پر غور کرتے ہیں تو پھر احمدیت غیر احمدیت کی حدود سے بات بہت زیادہ آگے وسیع ہو جاتی ہے، ساری دنیا پہ پھیل جاتی ہے اور انسان اس دعا پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اے اللہ تمام عالم کو یہ توفیق عطا فرما کہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اذان پر لبیک کہیں اور تمام بنی نوع انسان کے ایک ہاتھ پر جمع ہونے کے سامان پیدا فرما دے.پس آج کے جمعہ میں یہ تین دعائیں خصوصیت کے ساتھ کریں اول عبادت گزاروں کے لئے انفرادی طور پر ، دوسرے مسلمانوں کے لئے خصوصیت سے جن کا حق باقی بنی نوع انسان سے ہم پر زیادہ ہے کہ وہ خدا کی آواز پر لبیک کہنا سیکھیں اور ان کے لئے مستقل جمعہ کی صورت پیدا ہو جائے اور تیسرا تمام بنی انسان کے لئے کہ اللہ تعالیٰ انہیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھ پر جمع ہو کر اس ابدی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے سعید جمعہ میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائے.اس کے علاوہ ایک دعا وہ ہے جو ہر وقت آج احمدی کے دل کے ساتھ لگی ہوئی ہے کہ پاکستان کے مظلوم بھائیوں کے دن خدا پھیر دے اور ان کی تکلیفیں اگر چہ ایک غیر معمولی سعادت کا رنگ رکھتی ہیں لیکن پھر بھی تکلیفیں ہیں.ان تکلیفوں کو اجر میں بدل دے.اجر بھی تو ایک سعادت ہے اس لئے جب ہم کہتے ہیں کہ ان کی تکلیفیں دور فرما دے تو یہ مراد نہیں کہ سعادتیں دور کر دے.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ یہ امتحان بھی ایک سعادت ہے لیکن امتحان کا نتیجہ بھی تو سعادت ہے اس لئے اب دوسری سعادتیں عطا فرما.آزمائش کے دن ختم کر اور لامتناہی رحمتوں کے دن جاری فرما دے اور ان
خطبات طاہر جلد۵ 412 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء کے دل ٹھنڈے ہوں تا کہ ہمارے دل ٹھنڈے ہوں.وہ جو باہر بس رہے ہیں وہ ان کی تکلیفوں کو اپنے سینوں سے لگائے پھر رہے ہیں.اس لئے اے خدا! جب تک ان کی تکلیفیں دور نہیں ہوتیں ہمارے دل کیسے ٹھنڈے ہوں گے اس لئے ان پر اپنے خاص فضل اور رحمت کی نظر فرما.وہ احمدیت کی خاطر جیلوں میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں ، طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہیں، ان کو ہر قسم کے گھٹیا او باش لوگ سڑکوں میں گالیاں دیتے ہیں اور ذلیل کرتے ہیں اور اس جرم میں مارتے ہیں کہ تم کلمہ طیبہ اپنے منہ سے بلند کر رہے ہو اور کلمہ طیبہ سے پیار کا اظہار کر رہے ہو.ان کو مارا جاتا ہے ،ان کو گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے، ان کو طرح طرح کی اذیتیں دی جاتی ہیں ، ان پر آوازے گئے جاتے ہیں ان کو عام ہر ادنی شخص جس کو خدا کی عظمت کا تصور بھی کوئی نہیں، جس کی ساری زندگی اس کے اس دعوے کو جھٹلا رہی ہوتی ہے کہ وہ حقیقی مسلمان ہے، وہ اٹھتا ہے اور ان کو اٹھا کر گھسیٹتا ہوا اپنے ساتھ کچھ اور لوگ لگا کر تھانوں میں پہنچاتا ہے اور گورنمنٹ کے کارندوں کے ہاتھوں ان کو ذلیل و رسوا کرواتا ہے.مقدمے بنے ہوئے ہیں ان پر اور مقدمہ کا بڑا جرم یہ ہے کہ انہوں نے کلمہ طیبہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کا اقرار کیا تھا اور اس سے محبت کا اظہار کیا تھا اور اسے اپنے سینہ سے لگایا تھا.ایسی بدقسمتی ہے اس قوم کی کہ وہ تحریک جو کسی زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے بدترین دشمنوں نے شروع کی تھی.اسے آج محمد مصطفی صلے کی غلامی کا دعوی کرنے والوں نے اپنا لیا ہے اور کوئی حیا اس بات پر نہیں آ رہی کہ ہم کیا حرکت کر رہے ہیں.اس لئے ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اس لعنت سے نجات بخشے.یہ بہت ہی بڑی لعنت ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کا دم بھر کے آپ کے شدید ترین دشمنوں کا شعار اپنا لیا جائے اور اپنے مظلوم احمدی بھائیوں کے لئے بھی دعا کریں وہ ہم سب کا فرض کفایہ ادا کر رہے ہیں.عیسائیوں میں ایک تصور ہے کفارے کا.اسلام تو اس کو قبول نہیں کرتا لیکن کفارے کی بجائے اسلام کفایہ کا تصور پیش فرماتا ہے.کفایہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ ذمہ داری جو ساری قوم کے اوپر ڈالی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ رحمت کا سلوک فرماتے ہوئے یہ سہولت دے دیتا ہے کہ اگر قوم میں سے چند آدمی بھی اس ذمہ داری کو ادا کر دیں تو وہ ساری قوم کی طرف سے ادا ئیگی سمجھی جاتی ہے.فقہی اصطلاح میں اسے کفایہ کہتے ہیں یعنی چند آدمیوں کا عمل باقی لوگوں کی طرف سے کفایت کر جائے.چنانچہ
خطبات طاہر جلد۵ 413 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء جنازہ امت مسلمہ پر فرض ہے لیکن اگر امت مسلمہ کے چند افراد کسی مرحوم کا جنازہ پڑھ لیں تو وہ باقیوں کی طرف سے کفایہ ہو جاتا ہے اسے کہتے ہیں فرض کفایہ.تو ساری امت کے لئے خدا کی راہ میں ہر قسم کی قربانی دینا فرض ہے.صرف مال کی قربانیاں کافی نہیں ، جان کی قربانی بھی فرض ہے اور جان کی قربانی کی ہر نوع فرض ہے.لیکن اللہ کا احسان ہے کہ اس فرض کو اس نے فرض کفایہ بنا دیا ہے اور وہ لوگ جن کو خدا سعادت عطا فرماتا ہے وہ صرف اپنی طرف سے یہ قربانیاں پیش نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ساری قوم کی طرف سے یہ قربانیاں پیش کر رہے ہوتے ہیں اور ساری قوم اپنے قلبی دیکھ کے ذریعہ ان قربانیوں میں شامل ہو جاتی ہے اور اس طرح اللہ تعالیٰ ساری قوم کو جو عملاً جسمانی لحاظ سے قربانیوں میں نہیں بھی شریک ان کو بھی ثواب میں شریک فرمالیتا ہے.تو آپ کی خاطر ، سارے احمدیوں کی خاطر چند احمدی ہیں جو یہ فرض کفایہ ادا کرنے کی سعادت پا رہے ہیں ان کے لئے دعائیں آپ پر فرض ہیں، واجب ہیں.اگر ان کے لئے درد سے تڑپ کر آپ دعا ئیں نہیں کریں گے تو آپ کی زندگی کے کوئی معنی ہی نہیں رہیں گے.ان کی نیکیوں اور ان کی قربانیوں کا اجر پھر آپ کو نہیں نصیب ہوگا.اس لئے ضروری ہے کہ اس روحانی تکلیف میں ان کے ساتھ شامل ہو جائیں اور آپ کی زندگی کا ہر لمحہ خدا کے حضور یہ پکارے کہ اے خدا ہم اگر جسمانی تکلیف میں شامل نہیں ہیں تو ہم مجبور اور بے اختیار ہیں اس لئے کہ ہم اس امتحان میں ڈالے نہیں گئے مگر اس کے باوجود ہم طوعی طور پر اپنے بھائیوں کے لئے سخت دردمند اور بے قرار ہیں.اس لئے ہم پر رحمت کی نظر فرما اور ان کا دکھ دور کرتا کہ ہمارے دکھ دور ہوں.اس لئے خاص طور پر اس رمضان شریف کے اس جمعہ میں خصوصیت کے ساتھ جو خاص برکت کے لمحے ہیں اپنے ان بھائیوں کو بھی دعاؤں میں یا درکھیں اور جمعہ کے بعد جب ہم فارغ ہو جائیں گے تو یا درکھیں کہ خدا کا یہ حکم اور یہ ارشاد ہے کہ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا جب جمعہ سے فارغ ہو تو کثرت کے ساتھ پھر ذکر کرو اور آنحضرت معہ ہمیں بتاتے ہیں کہ جمعہ اور غروب کے درمیان بعض ایسے سعادت کے لمحات آتے ہیں کہ ان دعاؤں کو ضرور اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے.(مسلم کتاب الجمعہ حدیث نمبر : ۱۴۰۶) یہ اس لئے تحریض کی گئی تا کہ ان ساری گھڑیوں سے زیادہ سے زیادہ مومن استفادہ کریں اور وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا کی ایک تصویر بن جائیں اور جمعہ کے
خطبات طاہر جلد۵ بعد غروب تک مجسم ذکر الہی ہو جائیں.414 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء اس لئے جب یہاں سے فارغ ہوں گے تو فضول وقت ضائع کرنے کی بجائے باتوں میں خوش گپیوں میں.کچھ نہ کچھ تو انسان کے ساتھ باتیں تو لگی ہوئی ہیں ان سے تو کلیۂ کنارہ کشی نہیں کی جاسکتی.لیکن کوشش یہ کریں کہ حتی المقدور ذکر الہی میں دل بھی مصروف رہے اور زبان بھی مصروف رہے اور وہ گھڑی آپ کو نصیب ہو جائے جو آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ اگر نصیب ہو تو اس گھڑی کی ساری دعائیں خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ہو جایا کرتی ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: بقیہ خطبہ ثانیہ سے پہلے چند جنازوں کا اعلان کرنا ہے جنگی نماز جنازہ جمعہ کے معابعد پڑھی جائیگی.ایک مکرم قاضی حمید الدین صاحب کی اہلیہ انور حمید قاضی کراچی میں وفات پاگئی ہیں بڑی مخلص خاتون تھیں.قاضی صاحب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑے مخلص دعا گوانسان ہیں اور وقف بھی کیا تھا انہوں نے اپنے آپ کو جب تک سلسلہ نے ان سے خدمات لیں بڑی توجہ اور انہماک سے وفاداری کے ساتھ حق ادا کرتے رہے.دوسرا حلیمہ بی بی صاحبہ اہلیہ میاں اللہ دتہ خان صاحب وفات پاگئی ہیں.یہ ہمارے انگلستان کی جماعت کے ظہیر احمد صاحب آف کرائیڈن کی نانی تھی ان کی طرف سے درخواست آئی ہے.ایک مکرم چوہدری دین محمد صاحب ناصر آباد اسٹیٹ سندھ کے وفات پاگئے ہیں یہ ان دو تین بابوں میں سے ہیں جن کا میں پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں کئی دفعہ.جب میں ناصر آباد جایا کرتا تھا تو ایک موقع تھا شروع میں کہ جب نمازیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہوتی تھی وہاں مسجد جس سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی تو دو تین بابے مسجد میں بیٹھے ہوئے تھے بوڑھی عمر کے جن کو میں دیکھا کرتا تھا کہ اکثر آتے تھے ان کو میں نے کہا کہ اگر میں آپ کے سپر د ایک کام کروں تو آپ کریں گے کہ نہیں شوق سے؟ انہوں نے کہا کہ ہمیں اور کیا چاہئے ہم تو بے کار بیٹھے اپنا وقت کاٹ رہے ہیں.خدمت دین کا کوئی موقع آپ مہیا کریں ہمارے لئے غنیمت ہے.ان میں ایک یہ بھی تھے.تو ان سے میں نے کہا کہ آپ کے سپرد یہ ہے کہ آپ جس وقت مسجد آتے ہیں اس سے کچھ عرصہ پہلے چل پڑا کریں اور دو
خطبات طاہر جلد۵ 415 خطبہ جمعہ ۶ جون ۱۹۸۶ء تین گھر مقرر کر لیں، روزانہ ان کی کنڈی کھٹکھٹانی ہے اور ان کو آواز دینی ہے کہ خدا تمہیں مسجد کی طرف بلا رہا ہے تم گھر بیٹھے کیا کر رہے ہو؟ چنانچہ ان تینوں بابوں نے ( ہم پیار سے ان کو بابے کہا کرتے تھے ناصر آباد کے ) بہت اچھی طرح عہد کو نبھایا اور دیکھتے دیکھتے اتنی رونق پیدا ہوگئی مسجد میں کہ دیکھ کر لطف آتا تھا.صحن بھر جاتا تھا بچے کچھ شور بھی مچاتے تھے مگر وہ بھی اچھے لگتے تھے کہ آخر خدا کی خاطر آئے ہوئے ہیں مسجد میں بچوں والی حرکتیں بھی کریں گے بہر حال.تو یہ ایک خاص وہاں کے بزرگ تھے اس لحاظ سے ، بہت دعا گو اور ہمیشہ نماز میں حاضر ہونے والے.ان کے بیٹے عبدالحئی صاحب انصار اللہ کے زعیم بھی ہیں وہاں.ان کو بھی نماز جنازہ میں خاص طور پر دعاؤں میں یا درکھیں اور اس ضمن میں یہ دعا بھی کریں کہ جو نیک کام انہوں نے عبادت کے لئے جاری کئے ہوئے تھے جو کوشش کرتے تھے اس کوشش کو اللہ تعالیٰ بعد میں آنے والی نسلوں کو سنبھالنے کی توفیق عطا فرمائے.شیخ انور علی صاحب والد شیخ خالد جاوید، شیخ اعجاز احمد صاحب پیرس میں دو ہمارے دوست ہیں نوجوان شیخ خالد جاوید، شیخ اعجاز احمد صاحب ان کے والد ہیں، ان کی طرف سے درخواست آئی ہے.مکر مہ اہلیہ عبد المومن محمود صاحب PAF پشاور کے ہیں نہیں جانتا مگر بہر حال ان کی طرف سے بھی درخواست آئی ہے ، ان کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 417 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء پاکستان میں احمدیوں کے خلاف کارروائیاں احمدی کبھی اپنا قبلہ نہیں بدلیں گے (خطبه جمعه فرموده ۱۳/ جون ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَتُوْا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْتَونِى وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ (البقرہ:۱۵۱) وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اور پھر فرمایا: پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے ایک عالمی سازش کے مطابق وہابیت کو سارے ملک پر مسلط کرنے کی جو سازش جاری کی گئی تھی بظاہر مارشل لاء کے ختم ہونے کے باوجود وہ سازش اسی طرح بروئے کار ہے اور اس کے بدا را دوں میں بھی کوئی فرق نہیں ، اس کے طریق کار میں بھی کوئی فرق نہیں اور اس کی شدت میں بھی کوئی فرق نہیں.بظاہر مارشل لاء کا اختتام ہو چکا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ محض نام تبدیل ہوا ہے.فرق ہے تو صرف اتنا کہ پہلے فوجی سربراہ ملک کا صدر تھا اب ملک کا صدر فوجی سربراہ ہے.اس طرف سے پڑھ لیں اس کو یا اس طرف سے پڑھ لیں عملاً بات وہی رہتی ہے اور وہ وجود جن میں فوجی استبداد کا تصور اپنی تمام خامیوں کے ساتھ بجسم اختیار کر چکا تھا وہ وجود وہی ہیں،
خطبات طاہر جلد۵ 418 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء وہ مہرے وہی ہیں ، وہ مہرے چلنے والے ہاتھ وہی ہیں اور ان کے پیچھے جو عالمی سازش تیار کرنے والے دماغ ہیں وہ وہی دماغ ہیں جو اسی طرح کام کر رہے ہیں.اس سازش کا جو مرکزی نقطہ تھا اور ہے وہ یہی ہے کہ وہابی فرقہ کے علماء کو جماعت احمدیہ پر ہر طرح کے مظالم توڑنے پر مقرر اور مسلط کر دیا جائے اور ان کے لئے کوئی بھی آخری حد نہ ہو، نہ انسانی اخلاق کے لحاظ سے نہ مذہبی تقاضوں کے اعتبار سے.ان کے مطالبوں میں، ان کے عمل میں، ان کی مخالفت کی نوعیت میں کسی قسم کی کوئی حدیں باقی نہ رہیں اور اس زور اور شدت کے ساتھ وہ یہ آواز بلند کریں کہ سارے ملک کی توجہ ان وہابی علماء کی طرف مبذول رہے اور دیگر علماء کو جرات نہ ہو کہ ان کے غلط کام کو غلط کہہ سکیں.اور سیاستدان ان سے اس قدر مرعوب ہو جا ئیں کہ وہ آواز بلند کرنے کی طاقت نہ پائیں کہ یہاں تم مذہب کو چھوڑ کر مذہب کے مخالفانہ طرز عمل اختیار کر چکے ہو اس لئے اس حد سے آگے تمہیں نہیں بڑھنے دیا جائے گا.اتنا زیادہ بار بار ہٹلر کے جھوٹے پروپیگنڈے کے فلسفے کے مطابق انتنا بار بار جھوٹ بولا جائے اور اس شدت کے ساتھ احمدیت کے خلاف منافرت کی آواز بلند کی جائے کہ ساری ملکی سیاست مرعوب ہو کر ان کے تابع ہو جائے.تمام دیگر فرقے جو ویسے سخت نفرت کی نگاہ سے اس فرقے کو دیکھتے ہیں وہ بھی اس خوف سے کہ ہمیں احمدیت کا نمائندہ یا احمدیت کا پلیڈر نہ سمجھا جائے وہ بھی خاموش ہو جائیں اور کوئی ملک سے ایسی آواز نہ اٹھ سکے جو در حقیقت ان علماء کے طرز عمل کے خلاف آواز ہو اور مرکزی نقطہ اس کا یہی رہے کہ دن بدن یہ علماء زیادہ طاقت اختیار کرتے چلے جائیں اور ایسی پالیسی کے تابع ایسے طرز عمل کے تابع کہ ملک میں کسی کے لئے مخالفت کی گنجائش ہی باقی نہ چھوڑی جائے.چنانچہ یہ طرز عمل جہاں تک مارشل لاء کی سر پرستی کا تعلق ہے مارشل لاء کی سر پرستی میں بھی جاری رہی اور اب بدلی ہوئی مارشل لاء کی شکل میں بھی جبکہ صدر ، فوج کا نمائندہ ہے اب بھی اسی طرح جاری ہے بلکہ اپنی بھیا نک خدو خال کے اعتبار سے اور زیادہ خوست اختیار کرتی جارہی ہے اور زیادہ بے نقاب ہوتی چلی جارہی ہے.بے نقاب سے بہتر لفظ بے حجاب ہے اس موقع پر جو چسپاں ہوتا ہے تو اور زیادہ ہی بے حجاب ہوتی چلی جارہی ہے.حیاء کے سارے تقاضے توڑ ڈالے ہیں مذہبی اقدار کا کوئی حصہ بھی کوئی جرہ بھی باقی نہیں چھوڑا.
خطبات طاہر جلد۵ 419 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء ابھی چند دن ہوئے مذہبی امور کے وزیر جناب حاجی ترین صاحب کا ایک بہت ہی دلچسپ بیان شائع ہوا.اس میں احمدیوں کو بظاہر بڑے مہذب انداز میں ایک مشورہ دیا گیا ہے اور اس کے پیچھے لیٹی ہوئی دھمکیاں ہیں جو ہر معقول انسان کو دکھائی دے دیتی ہیں کیونکہ وہ مہذب زبان کی جو لمع کاری ہے وہ اتنی معمولی اور اتنی سطحی ہے کہ اس کے پرے اصل ارادوں کو بھانپ لینا کوئی مشکل کام نہیں ہے.وہ کہتے ہیں اور ان کا استدلال سنئے کہ ہم اپنے احمدی ہم وطنوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ جب ساری قوم نے اسمبلی کے فیصلہ کے ذریعہ آپ کو غیر مسلم قرار دے دیا ہے تو اسے قبول کرنے میں کیا حرج ہے اور اس کے خلاف ضد کرنا یہ تو ایک باغیانہ طریق ہے قوم کے خلاف.جب قوم آپ کو غیر مسلم قرار دے چکی ہے تو آپ اس کو قبول کر لیں ، اس میں کیا حرج ہے اور قبول کرنے کے نتیجہ میں ہم اور کچھ نہیں کہتے صرف یہ کہتے ہیں کہ اسلام کے تمام شعائر سے اپنا تعلق کاٹ لیں ، اپنی مساجد کا رخ بدل لیں، قبلہ اور کرلیں، کلمہ سے کوئی تعلق ظاہر نہ کریں اپنا اور کوئی تعلق نہ رکھیں ، بس اتنی سی بات ہے اور معقول وجہ یہ ہے کہ ایک سیاسی اکثریت نے آپ کے خلاف فیصلہ دے دیا ہے کہ آپ غیر مسلم ہیں ، جب آپ غیر مسلم ہو گئے تو پھر اسلام کے جتنے بھی بنیادی عقائد ہیں ان سے آپ کا تعلق خود بخود ٹوٹ گیا.جتنے بھی اسلام کے شعائر ہیں ان سے آپ خود بخود منقطع ہو گئے.اتنی سی معمولی عقل کی بات بھی آپ کو سمجھ میں نہیں آرہی.یہ ہے ان کا مشورہ جو بڑی بڑی شہ سرخیوں کے ساتھ پاکستان کی اخباروں میں شائع ہوا ہے ورنہ پھر آگے ”ورنہ“ ہے کہ جو ہم تم سے کر رہے ہیں وہ کرتے چلے جائیں گے.اس مشورہ کے نتیجہ میں اور باتیں جو قابل غور ہیں وہ تو ہیں ہی لیکن خود مشورہ دینے والے نے اپنے اسلام کو بے نقاب کر دیا ، اپنے اسلام کے تصور کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا عملاً.اس کے بہت سے پہلو ہیں.ایک تو تاریخی پس منظر ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ میں ندوہ میں اہل عرب کے چوٹی کے سرداروں کا ایک اجتماع ہوا.قریش سردار سارے جمع ہوئے اور بھاری اکثریت سے جس کے مقابل پر آنحضرت کے ساتھ گنتی کے چند غلام باقی تھے.حضرت علی کرم اللہ وجہہ ، حضرت ابوبکر صدیق اور ایک دو
خطبات طاہر جلد۵ 420 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء حضرت خدیجہ اور کچھ دلی ہمدرد، یہ اقلیت تھی ان عرب سرداروں کے مقابل پر چندلوگ غلام چند غریب لوگ ساتھی ، انہوں نے ایک اجتماعی فیصلہ دیا کہ ساری قوم کا یہ فیصلہ ہے کہ تم یہ کر سکتے ہو اور یہ نہیں کر سکتے اور وہ فیصلہ بنیادی طور پر یہی تھا کہ ہم تمہیں کلمہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ ہیں پڑھنے دیں گے.اتنی سی بات ہے.اس میں کونسا شدید مطالبہ ہے.اتنا معمولی چھوٹا سا مطالبہ ہے کہ اس کلمہ سے اپنا تعلق کاٹ لو اور قوم تمہارے لئے سختیوں کی بجائے اپنے سارے نرم پہلو تمہاری خدمت میں پیش کر دے گی اور جتنے مفادات دنیا کے تمہارے ساتھ وابستہ ہو سکتے ہیں وہ سارے مفادات تمہیں مہیا کر دیئے جائیں گے.یہ خلاصہ تھا اس پیغام کا جو حضرت ابوطالب کے ذریعہ آپ کو بھجوایا گیا اور ایک دفعہ نہیں چار مرتبہ مختلف شکلوں میں یہ اجتماعات ہوئے اور چار مرتبہ مختلف الفاظ میں یہی پیغام دہرایا گیا کہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ بس یہی جھگڑا ہے صرف اس سے اپنا تعلق کاٹ لو تمہارا اس کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.وہ جواب جو حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے دیاوہ تو ایک زندہ اور پائندہ جواب تھا.وہ ایسا جواب نہیں تھا کہ جسے وقت کے لمحے کسی وقت بھی کاٹ سکیں اور ختم کر سکیں.وہ امر تھا، گزرتا ہوا وقت اس پر کسی پہلو سے بھی اثر انداز نہیں ہوسکتا لا زوال تھا وہ جواب اور لا زوال ہے اور لازوال رہے گا.اور وہ یہی تھا کہ تمہاری ساری طاقتیں اپنے سارے کروفر کے ساتھ جو چاہیں کر گزریں اس پیارے کلمہ سے تم ہمارا تعلق نہیں توڑ سکتے.اس کلمہ سے ایک ذرۃ بھی انحراف کی ہمارے لئے گنجائش ہی موجود نہیں.آج بھی ہمارا یہی جواب ہے.تو یہ جو نرم سی بات بنا کر پیش کرتے ہیں ان کو وہ نرم بات بھول گئی ہے جو چودہ سو سال پہلے مکہ میں کی گئی تھی.آخر عالم بنتے ہیں تو یہ کیسے انکار کر سکتے ہیں کہ تاریخ اسلام میں یہ واقعہ پہلے گزر چکا ہے.جہاں تک دوسرے انکشاف کا تعلق ہے ان کی اس بات سے جو ہم پر انکشاف ہوا وہ یہ ہے کہ ان کا اپنا دین کا تصور ہی جمہوریت ہے.ہمارے دین کا تصور یہ ہے کہ ہم خدا کو جوابدہ ہیں وہ خالق ہے، وہ مالک ہے ، اس نے ہمیں پیدا کیا اور جو کچھ اس نے ہم پر فرض قرار دیا وہ ہم پر فرض ہو گیا.اس کے مقابل پر کسی انسان کو کوئی بھی حق نہیں خواہ وہ جمہوریت ہو یاوہ ڈکٹیٹرشپ ہو یا کسی اور شکل میں استبداد کا تسلط ہو کسی کو کوئی حق نہیں ہے کہ انسان کے مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی کرے یہ خدا اور بندے کا تعلق ہے.ہمارا تو یہ مذہب ہے.انہوں نے جب یہ مسلمہ پیش کیا کہ
خطبات طاہر جلد ۵ 421 خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۶ء چونکہ جمہوریت نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ تمہارا اسلام سے تعلق نہیں اس لئے اسلام سے تعلق کاٹ لو تو جمہوریت کو انہوں نے اپنا خدا قرار دے دیا اور اسی اصول کے تابع اب ان پر لازم ہو گیا اگر یہ ہندوستان میں بستے ہوں اور اگر ہندوستان کی بھاری اکثریت یہ فیصلہ کر لے کہ یہاں کے مسلمان کہلانے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.اس لئے اب ان کو کلمہ سے انحراف کر لینا چاہئے اور اپنے قبلے بدل لینے چاہئیں، اسلامی شعائر سے تعلق منقطع کر لینے چاہئیں تو یہ علماء جو آج ہمیں یہ کہہ رہے ہیں ان کا حق نہیں ہوگا کہ یہ ہندوستان کی حکومت کی اس بات کا انکار کرسکیں.ہندوستان میں بسنے والے کروڑوں مسلمان تو شائد اس بات پر جان دینے کے لئے تیار ہو جائیں اور غیرت کا مظاہرہ کریں اور مذہبی آزادی کا علم بند کریں اور ہندوستان کی حکومت کو کہیں کہ جو چا ہو کر گز روہم اس کلمہ سے تعلق نہیں توڑیں گے.لیکن یہ پاکستان میں آواز بلند کرنے والے علماء چونکہ ایک اصول کو تسلیم کر چکے ہیں اس لئے ان کا حق اب انحراف کا باقی نہیں رہا.دنیا کی کسی حکومت میں بھی اگر یہ جا کے بسیں یا ان کے ماننے والے جا کے بسیں اور وہ حکومت وہی ظالمانہ فیصلہ کرے جو پاکستان کی حکومت نے احمدیوں کے خلاف کیا ہے تو اپنے اس پیش کردہ مسلمے کے لحاظ سے یہ قابو آ جاتے ہیں.ان کے لئے انحراف کی گنجائش نہیں رہتی.ان کو وہ حکومت جواب دے سکتی ہے کہ تمہارے پاس انکار کی کیا گنجائش ہے؟ تم خود احمدیوں کو یہ بات کہ چکے ہو کہ چونکہ ایک ملک کی اکثریت نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہارا اسلام سے تعلق نہیں ہے اس لئے تم اسلام سے تعلق تو ڑلو.لہذا ہم نے بھی تو یہی بات کی ہے.ہم بھی تو یہی کہتے ہیں کہ ہم اکثریت میں ہیں ہمارا جمہوری اکثریتی فیصلہ یہ ہے کہ تم مسلمان نہیں ہو تم اسلام سے اپنا تعلق کاٹ لو، تو کاٹ لو تعلق.اس میں کونسی بڑی بات ہے.ایک اور بات جو اس کے اندر مخفی ہے اور نہایت ہی بھیا نک اور مکروہ ہے وہ یہ ہے کہ کلمہ سے تعلق کاٹنے کا مطلب کیا ہے؟ یہ کہتے ہیں تم کلمہ سے تعلق کاٹ لو.اس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ تم کلمہ کی نمائش نہ کرو.اگر وہ یہ کہیں کہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ تمہارے دل میں تو کلمہ ہے لیکن اس کی نمائش نہ کرو تو ویسے ہی بے معنی بات بن جاتی ہے.اس لئے یہ مفروضہ بھی ان کو ساتھ ہی بنانا پڑتا ہے کہ دلوں میں تو ہم بیٹھے ہوئے ہیں خدا کہاں ہے وہاں؟ دلوں میں تو علماء ہیں اور دلوں میں بیٹھے ہوئے علماء نے بتایا ہے ساری دنیا کو اور ہر احمدی کے دل میں ایک عالم بیٹھا ہوا ہے.وہ بتاتا
خطبات طاہر جلد ۵ 422 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء ہے کہ ان کا کلمہ سے کوئی تعلق نہیں ، اوپر اوپر سے کلمہ پڑھتے ہیں، بیچ میں سے کلمہ کا انکار کرتے ہیں اس لئے ان کو کلمہ سے محبت کے اظہار کا کوئی حق باقی نہیں رہتا اور ہمیں غصہ آتا ہے جب یہ کلمہ کی تائید کرتے ہیں.دوسرا پہلو اس کا ہے کہ پھر کہتے ہیں چونکہ تمہارے دل میں نہیں ہے اس لئے تم انکار کرو.یعنی اب غصہ اس بات پر آتا ہے کہ جب تم کہتے ہو خدا ایک ہے اور محمد مصطفی ﷺ اس کے رسول ہیں اور بندے ہیں تو چونکہ ہم سمجھتے ہیں تمہارے دل میں نہیں ہے اس لئے ہمیں اس تائید پر بہت ہی غصہ آتا ہے.ہاں اگر ہمارے دل ٹھنڈے کرنے ہیں تو یہ اعلان کرو کہ خدا ایک نہیں ہے اور محمد مصطفیٰ ہ نعوذ باللہ اس کے رسول اور بندے نہیں ہیں تو پھر دیکھو ہمارے دل کس طرح ٹھنڈے ہوتے ہیں ، پھر ہمیں کیسا سکون ملتا ہے، کیسی طمانیت نصیب ہوتی ہے پھر ہم تمہارے سارے حقوق دیں گے.اب یہ جنگ بن گئی ہے.کلمہ کا انکار ہے دعوئی ان کا اور دوسرا یہ ہے کہ اگر بفرض محال نـــعـــوذ بالله من ذالک ان کو کچھ دیر کے لئے عالم الغیب خدا تصور کر لیا جائے اور یہ دل میں بیٹھ گئے ہیں ہر احمدی کے اور جانتے ہیں کہ دل میں کلمہ نہیں ہے تو احمدیوں کے مسلمان ہونے کا تو طریقہ بتائیں کہ وہ کیسے ہوں گے.اس پر بھی تو غور فرمائیں کہ ایک احمدی نے بے چارے نے فرض کریں کہ اس کے دل میں نہیں ہے لیکن ایک دن خیال آجاتا ہے وہ ڈر جاتا ہے کہ اچھا اب مسلمان ہو ہی جاتے ہیں کیونکہ دوسری طرف یہ دھمکیاں بھی دی جا رہی ہیں کہ مسلمان ہو جاؤ ورنہ پھر اور بھی باتیں ہیں باقی.تو مسلمان ہوگا کیسے؟ جب کلمہ پڑھنا تو اس کو منع ہے.جب وہ کلمہ پڑھے گا وہ قتل ہو جائے گا.تو احمدی کے لئے مسلمان ہونے کا رستہ کونسا باقی رہا ہے؟ حماقت در حماقت، مرکب ہے حماقتوں کا جو ختم ہونے میں نہیں آتا اس کی آپ الجھنیں کھولتے چلے جائیں تو حیران ہوں گے کہ یہ کس قدر دلچسپ سفر ہے.کہتے ہیں اس لئے تمہیں کلمہ کا حق نہیں ایک مولوی صاحب کا ذرا سنئے.جانتے ہیں کہ یہ وہی تحریک ہے جو چودہ سو سال پہلے کفار مکہ کی طرف سے چلائی گئی تھی.اس کے خدو خال کو پہچانتے ہیں اور آنکھیں کھول کر جانتے ہوئے پھر ہم سے یہ مطالبہ ہورہا ہے چنانچہ یہ کی معمولی مولوی کا بیان نہیں ہے جو میں آپ کو پڑھ کر سنانے لگا ہوں.مولانا تاج محمد صاحب ناظم اعلی مجلس تحفظ ختم نبوت بلوچستان، سارے بلوچستان یا کوئٹہ کے سر براہ ہیں یہ اور ناظم اعلیٰ ہیں مجلس تحفظ ختم نبوت کے.
خطبات طاہر جلد۵ 423 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء عدالت میں جب ایک احمدی نوجوان کو پیش کیا گیا نوجوان کو جس کا جرم یہ تھا کہ اس نے کلمہ طیبہ کا بیج لگایا ہوا تھا اور لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کا ورد کر رہا تھا اور برسر عام آنحضرت پر درود بھیج رہا تھا اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہا تھا.اس پر اتنا جوش آیا علماء کو ، اتنا غیرت سے کٹ کرے کہ انہوں نے زبردستی پکڑ کر مارتے کوٹھے پولیس کے سامنے پیش کیا اور پھر پولیس نے جو ظلم کرنے تھے وہ کئے.پھر کچھ دیر تک وہ حوالات میں بند رہے (ہمارے فاروقی صاحب ہیں یہاں آڈیٹر جماعت کے ان کے چھوٹے بھائی کا واقعہ ہے.ان کے ساتھ اور بھی تھے نو جوان ا ) اور پھر اس سب ظلم وستم کے بعد ان کو قید میں رکھا گیا.جب ضمانت ہوئی تو اب مقدمہ چل رہا ہے.یہ ایک ملک ہے دنیا میں واحد اُس زمانہ کے مکہ کو چھوڑ کر جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.چودہ سو سال بعد یہ پھر وجود میں آیا ہے ایک ملک ہے جہاں کلمہ پڑھنا سب سے زیادہ شدید جرم بن چکا ہے جس کی ضمانت نہیں ہو سکتی.اگر کوئی مجسٹریٹ ضمانت دے، بیچارے دے دیتے ہیں کیونکہ عوام الناس کو کلمہ سے محبت ہے ابھی تک.وہ مولوی کی یہ دلیل سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کوئی کلمہ پڑھے تو اس پہ طیش آجائے اس لئے جو ضمانت دیتا ہے وہ اپنے مستقبل کے متعلق خطرے مول لے کر ضمانت دیتا ہے.اس کو پتہ ہے کہ اگر یہ Regime (حکومت) باقی رہی تو اب اس کی ترقیات بند لیکن قانون اجازت نہیں دیتا کہ وہ ضمانت دے سکے.بہر حال ان کی ضمانتیں کسی شریف النفس انسان نے قبول کر لیں.دیں بھی شریف النفس نے اور قبول بھی شریف النفس نے کیں.تو مقدمہ جاری ہے.اس مقدمہ میں جب مولانا تاج محمد صاحب ناظم اعلی مجلس تحفظ ختم نبوت سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اس سوال کے جواب میں یہ فرمایا: یہ درست ہے کہ حضرت رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں جو آدمی نماز پڑھتا تھا ، اذان دیتا تھا یا کلمہ پڑھتا تھا اس کے ساتھ مشرک یہی سلوک کرتے تھے جواب ہم احمدیوں سے کر رہے ہیں.عدالتی بیان ہے سر بمہر مجسٹریٹ کی اوپر تصدیق موجود ہے عدالت کی مہر موجود ہے.یہ ہمارے پاس پڑا ہوا ہے.عقلوں پر مہرلگی ہوئی ہے، اس بیان پر نہیں، یعنی کس قدر لے نوٹ: دراصل مذکورہ واقعہ کوئٹہ کے تین مربیان کے خلاف قائم کلمہ کیس میں پیش آیا جس میں مولوی تاج محمد نے یہ بیان دیا.اس مقدمہ کا ذکر کتاب FIR کے صفحہ ۹۰۶ پر موجود ہے.فاروقی صاحب کا نام سہو بیان ہوگیا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 424 خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۶ء جرأت سے.میں نے بے حجابی کا لفظ صحیح استعمال کیا.زمانہ آیا ہوا ہے بے حجابی کا ان کے لئے.اس قدر بے حجابی سے یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ مشرک جو کچھ بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں سے جو سلوک کیا کرتے تھے ان ان جرائم کی پاداش میں جرائم بھی گنائے ہیں نماز پڑھنا، اذان دینا، کلمہ پڑھنا.اتنے بڑے بڑے بھیانک جرم کیا کرتے تھے وہ لوگ.تو مشرکوں نے ہمیں طریقے سکھا دیئے کہ ان سے کس طرح نمٹا جاتا ہے.تو ہم انہی مشرکوں کے نقش قدم پر انہی سے طریقے سیکھ کر احمدیوں سے یہ سلوک کر رہے ہیں.پھر کہتے ہیں کہ اپنی مسجدوں کے رخ بدل دو یہ اسلامی شعائر کے خلاف ہے.جب ہم نے کہہ دیا ہے کہ اسلام سے تمہارا تعلق نہیں تو تمہاری مسجدوں کے رخ بدل جانے چاہئیں ، قبلے بدل جانے چاہئیں.در حقیقت پہلا دعوی بھی خدائی ہی کا دعویٰ ہے ، عالم الغیب ہونے کا دعویٰ بھی ہے.اور یہ دعویٰ بھی ہے کہ ہم تمہارا مذہب معین کریں گے اور جو مذہب ہم قرار دیں اس پر تمہیں چلنا لا زم ہوگا.اور ہمارے مذہب کا ان کے نزدیک اب خلاصہ یہ ہے کہ حضرت جل شانہ حضرت احدیت کا انکار کیا جائے اور توحید کا انکار کر دیا جائے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی رسالت اور عبدیت کا انکار کر دیا جائے.یہ مذہب ان کے دماغوں نے تجویز کیا جماعت احمدیت کے لئے.مذہب تو خدا بنایا کرتا ہے اور ہم تمہارے جیسے خداؤں کا انکار کرتے ہیں اور لاکھ مرتبہ نہیں کروڑوں مرتبہ ہر احمدی اپنے عمل کے ہر لمحے اس کے ہر جزء کے ساتھ تمہاری خدائی کا انکار کر رہا ہے.اس لئے جو چاہو کرو.مشرکوں سے سبق سیکھو یا ان سے آگے بڑھ جاؤ لیکن احمدیت تمہیں خدا قبول کرنے کے لئے کسی قیمت پر بھی کسی لمحہ بھی تیار نہیں ہوگی.تمہیں غیر اللہ کی عبادت کا شوق ہے یہ عادتیں پڑ چکی ہیں تو بے شک کرتے رہو.ہمارا یہ اصول نہیں کہ غیر کے مذاہب میں دخل دیں.تمہیں تمہارے مذہب مبارک ہوں لیکن احمدیت کا تو وہی مذہب ہے جو قرآن اور محمد مصطفی ﷺ کا مذہب تھا اور ہے اور رہے گا.اور کوئی دنیا کا مولوی اس مذہب کو تبدیل نہیں کر سکتا.کوئی دنیا کی استبدادی حکومت اس مذہب کو تبدیل نہیں کرسکتی.ان کی آواز یہ ہے کہ رخ بدلو مسجدوں کا ہمیں تسلی ہو جائے گی.تمہاری تسلی سے ہمیں غرض کیا ہے ہم تو اپنے خدا کی تسلی چاہتے ہیں، ہم تو اپنے نفوس کی تسلی چاہتے ہیں، اپنے قلوب کی تسلی چاہتے ہیں.تمہاری تسلی نہیں ہوتی تو نہ ہو.حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کب کفار مکہ کی تسلی کروائی
خطبات طاہر جلد۵ 425 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء تھی اور ان مشرکین کی تسلی کروائی تھی جو تمہارے نزدیک کلمہ پڑھنے والوں اور نماز پڑھنے والوں اور عبادت کرنے والوں سے یہ سلوک کیا کرتے تھے.کسی احمدی کے الفاظ نہیں ہیں جس پر تم غصہ کرو.تمہارے ناظم اعلیٰ مجلس تحفظ ختم نبوت بلوچستان کا یہ اعلان ہے کہ بعینہ ہم احمدیوں سے آج وہ سلوک کر رہے ہیں جو کسی زمانہ میں مشرکین مکہ حضرت اقدس محمد مصطفی مے سے کیا کرتے تھے.اس لئے تمہارا مذہب تمہیں مبارک ہو ہم تو دخل اندازی کے قائل نہیں ہیں اور تمہارے کہنے پر ہم تو اپنا مذہب نہیں بدلیں گے.قرآن ہمیں یہ فرماتا ہے: وَمِنْ حَيْثُ خَرَجْتَ فَوَلِ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَتُوْا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَيْكُمْ حُجَّةٌ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ (البقره: ۱۵۱) فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِى وَلِأُتِمَّ نِعْمَتِي عَلَيْكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ یہ تو لگتا ہے کہ بعینہ آج جماعت احمدیہ کے حالات کا نقشہ کھینچا گیا ہے.اس زمانے کے اہل کتاب کو یہ غصہ تو ضرور آیا تھا قبلہ بدلنے پر یعنی جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا تقلب اور توجہ فی السماء اللہ نے دیکھی اور آپ کو ارشاد فرمایا کہ اپنی مرضی کا قبلہ فلسطین کی بجائے مکہ کی طرف کرلو تو اہل کتاب کو اسی طرح غصہ آیا تھا جس طرح ان کے قول کے مطابق کلمہ پڑھنے پر مشرکین کو غصہ آتا تھا.لیکن اس زمانہ کے اہل کتاب نسبتاً زیادہ مہذب تھے.زیادہ با اخلاق لوگ تھے.غصہ تو کرتے تھے لیکن اس پر قتل و غارت وغیرہ انہوں نے نہیں کی ، ایک بھی مسلمان کو شہید نہیں کیا گیا، ایک بھی گھر نہیں لوٹا گیا، ایک بھی تیر نہیں چلایا گیا کسی مسلمان کی طرف اس جرم میں کہ انہوں نے قبلہ ملکہ کی طرف کر لیا ہے.لیکن آج کے علماء کے نزدیک اتنا بڑا جرم بن چکا ہے مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا کہ کہتے ہیں کہ اب تمہاری جان تمہارے مال تمہاری عزتیں ہم پر حلال ہو گئیں.ہمیں خدا نے ضامن بنایا ہے کہ ملکہ کی طرف منہ کر کے نماز نہیں پڑھنے دینی اس شخص کو جس کو تم غیر مسلم سمجھتے ہو.عجیب دین بنایا گیا ہے ایسا دین جس کا تصور ہی کہیں دنیا میں موجود نہیں.ساری دنیا تمسخر اڑائے گی اس Logic کا ، اس طرز فکر کا کہ کیا ہو گیا ہے ان لوگوں کو اور اسلام کا درحقیقت.دنیا تو
خطبات طاہر جلد ۵ 426 خطبه جمعه ۱۳ / جون ۸۶ ١٩٨٦ء بہانے ڈھونڈتی ہے اسلام پر حملہ کرنے کے اور باہر سے حملہ کے جو مواد ان کو مہیا نہیں ہوتے وہ اندر سے علماء بیٹھے بیٹھے ان کے لئے اسلحہ تیار کر کر کے مہیا کرتے چلے جارہے ہیں.کوئی ہوش نہیں کوئی فکر نہیں کہ ہم اسلام کے خلاف ایک اسلحہ کا کارخانہ بنا بیٹھے ہیں.ساری دنیا اس کو استعمال کرے گی اور اسلام پر حملہ آور ہوگی اور تمسخر اڑائے گی کہ یہ مذہب اسلام ہے کہ مکہ کی طرف منہ کرو گے تو ہمیں غصہ آئے گا اور ہم تمہیں ماریں گے.قرآن تو یہ کہتا ہے کہ تم نے مکہ ہی کی طرف منہ کرنا ہے.بیت الحرام کی طرف قبلہ کرنا ہے اور نہیں قبلہ کسی اور طرف کرنا وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَتُوْا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ - فرمایا تم لوگ اے مسلمانوں جہاں کہیں بھی ہو جس جگہ بھی تم موجود ہو ہمیشہ بیت اللہ کی طرف اپنا منہ کئے رکھنا تا کہ بنی نوع انسان کو تمہارے خلاف حجت نہ ہو.یہ ہے قرآن کی عظیم الشان گواہی اس زمانہ کے بنی نوع انسان کے حق میں.بنی نوع انسان کے حق میں تب حجت ہوتی ہے مسلمانوں کے خلاف اگر وہ اپنا قبلہ بدل لیتے ان کے دباؤ کے نتیجہ میں لیکن کمال کا خدا تعالیٰ نے ان کے خلق کا ایک پہلو بیان کر دیا مسلمانوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہ وہ اگر چہ دباؤ ڈال رہے ہیں تم پر کہ اس قبلہ کو بدل لولیکن اگر تم نے بدلا قبلہ تو تب حجت ہوگی بنی نوع انسان کو تمہارے خلاف.اس لئے تم نے ہرگز اس قبلہ کو تبدیل نہیں کرنا اور اگر قبلہ تبدیل نہیں کرو گے تو ان کو تمہارے خلاف کوئی حجت نہیں رہے گی.آج کے یہ بنی نوع انسان ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ قبلہ تبدیل کرو گے تو ہمیں کوئی حجت نہیں رہے گی.اگر قبلہ قائم رکھا تو ہماری حجت تم پر قائم ہوگی پھر ہم جو چاہیں تم سے سلوک کریں.کتنے زمانے بدل چکے ہیں چودہ سو سال میں انسان کہاں سے کہاں نکل آیا ہے بنی نوع انسان کی وہ تعریف ان لوگوں پر تو صادق نہیں آ رہی جو قرآن نے پیش کی تھی.قرآن تو فرماتا ہے کہ اگر تم نے قبلہ بدل لیا تو ان پر حجت ہو جائے گی اور جائز حجت ہوگی یعنی ان کی حجت تم پر ہو جائے گی اور یہ کہتے ہیں کہ نہیں، قبلہ بدلو گے تو کوئی حجت نہیں ہوگی ، قبلہ نہیں تبدیل کرو گے تو ہماری حجت تم پر قائم.صاف لگ رہا ہے کہ اس آیت میں پیشگوئی کا انداز ہے اور آئندہ زمانے میں اسلام کو جوا بتلا آنے والے تھے ان کا ذکر مل رہا ہے اس میں.چنانچہ ساتھ ہی فرمایا إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوْا مِنْهُمْ ہاں جوان میں سے ظالم ہیں ان کی حجت تم پر قائم رہے گی اگر تمہارا قبلہ قائم رہے گا.قبلہ بدلو گے تو ان
خطبات طاہر جلد۵ 427 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء کی حجت تم پر ٹوٹے گی تو جو اس زمانہ میں ظالم تھے وہ آج بھی ظالم ہیں کیونکہ قرآن ان پر گواہ کھڑا ہے اور قرآن کی گواہی کے مقابل پر ہر گواہی مردود ہو جائے گی.قرآن فرماتا ہے کہ قبلہ بدلانے والوں کی حجت تم پر قائم نہیں ہو سکتی اگر تم قبلہ نہیں بدلو گے ہاں سوائے ان لوگوں کے جو ظالم ہیں اگر تم قبلہ نہیں بدلو گے تو ان کی حجت تم پر قائم رہے گی.آج کچھ لوگ اپنے منہ سے اقرار کر رہے ہیں ، کھلے کھلے واشگاف الفاظ میں یہ بیان کر رہے ہیں کہ تم چونکہ قبلہ نہیں بدلتے اس لئے ہماری حجت تم پر قائم ہوگی.إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا کی آیت ہمیشہ ان کو متہم کرتی رہے گی اَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ آمْ عَلَى قُلُوبِ اقْفَالُهَا (محمد (۲۵) کیا یہ قرآن پر کبھی تدبر نہیں کرتے ، کبھی بخور نہیں کرتے یا کیا ان کے دلوں پر تالے پڑے ہوئے ہیں.فرمایا تمہیں ان سے خوف بھی ہوگا ، خطرہ بھی لاحق ہوگا.اسی لئے میں کہتا ہوں کہ اس میں ایک پیشگوئی کا رنگ تھا کیونکہ جہاں تک اس زمانہ کے مسلمانوں کا تعلق ہے قبلہ نہ بدلنے کے نتیجہ میں ان کو کوئی خوف نہیں ہوا کسی مد مقابل سے یعنی بیت اللہ کا قبلہ میری مراد ہے.جب بیت اللہ کا قبلہ مقرر ہو گیا اور اہل کتاب نے طعنے دیئے تو جہاں تک ان کے حملوں کا تعلق ہے ان کے عملی طریق پر مخالفت کو ظلم کی راہوں میں ڈھالنے کا تعلق ہے ایسا کوئی واقعہ ہمیں تاریخ میں نظر نہیں آتا.کسی مسلمان کو شہید نہیں کیا گیا اس جرم میں کہ وہ مکہ کی طرف کیوں منہ کر کے نماز پڑھ رہا ہے، کسی اذان دینے والے کو قتل نہیں کیا گیا، کسی کلمہ پڑھنے والے کو مدینہ میں اس بناء پر کہ تم کلمہ سے محبت کرتے ہو نہیں مارا گیا مگر بہر حال وہ تو زائد با تیں ہیں.مکہ کی طرف منہ کرنے کا سوال ہے.یہ تو قطعی طور پر تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک بھی مدنی مسلمان پر مکہ کی طرف منہ کرنے کے جرم میں کوئی سزاوار نہیں کی گئی اہل کتاب کی طرف سے.لیکن قرآن بتا رہا ہے کہ خوف کا مقام ہے کچھ ہونے والا ہے اس بارہ میں اس جرم کی سزا میں کچھ مصائب تم پر توڑے جانے والے ہیں اور قرآن غلط نہیں ہوسکتا.اگر اس زمانے میں یہ مظالم نہیں توڑے گئے تو لازماً آئندہ زمانوں میں توڑے جانے تھے.زمین و آسمان مل سکتے تھے مگر قرآن کی یہ پیشگوئی لا زما پوری ہونی تھی.مگر بڑے ہی بد نصیب وہ لوگ ہیں جو اس پیشگوئی کو پورا کرنے والے بنے اس قرآنی لیبل کے ساتھ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا تم ظالم ہو جو قبلہ تبدیل نہ کرنے والوں پر حجت قائم کئے بیٹھے ہو.پھر فرمایا:
خطبات طاہر جلد۵ 428 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ ہرگز ان سے نہیں ڈرنا مجھ سے ڈرو.اگر ان کے کہنے پر تم قبلہ تبدیل کرو گے تو پھر یہ تمہارے خدا بن جائیں گے.میرا قبلہ تو ڑو گے تو میرے ساتھ تمہارا کوئی تعلق باقی نہیں رہے گا.اس لئے آج یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ملاں کو خدا بنانا ہے یا رب العالمین کوخدا بنائے رکھنا ہے.پس میں جماعت احمدیہ کے ہر فرد بشر کی طرف سے ہر بڑے اور ہر چھوٹے کی طرف سے ہر مرد اور ہر عورت کی طرف سے ہر بوڑھے اور ہر جو ان کی طرف سے یہ اعلان کرتا ہوں اللہ رب العالمین ہمارا خدا ہے اور وہی ہمارا خدا ر ہے گا اور ملاں کی خدائی کے منہ پر ہم تھوکتے بھی نہیں.یہ ملاں کی خدائی جو چاہتی ہے اس جرم میں ہم سے کرے کہ تم اپنا قبلہ تبدیل کر لو ہم اپنا قبلہ ہرگز تبدیل نہیں کریں گے.پھر یہ دلیل قائم کرتے ہیں کہ خانہ کعبہ تو ہمارا ہے یعنی ان مسلمانوں کا جن کو یہ بعض علماء مسلمان سمجھتے ہیں اور بعض دوسرے علماء مسلمان نہیں سمجھتے لیکن وہ سارے مل کر ہمیں غیر مسلم قرار دے رہے ہیں اس لئے فی الحال یہ کہتے ہیں ہمیں اندرونی اختلافات کی بحث کی ضرورت نہیں.ہم کو کوئی شبہ نہیں کہ وہابی بریلوی کو پکا مشرک سمجھتے ہیں ایسا مشرک جس کے متعلق فتویٰ دے رکھا ہے ہمارے بزرگوں نے کہ اسلام سے ان کا دور کا بھی تعلق نہیں لیکن ملاں کو سیاست آتی ہے ملاں جانتا ہے کہ ہر وقت اندر کے معاملات نہیں کھولنے چاہئیں دنیا کے سامنے اس لئے بظاہر اس وقت یہی بات چلے گی کہ ہم سب نے مل کر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے رکھا ہے اس لئے غیر مسلموں کا خانہ کعبہ سے کیا تعلق.یہ اللہ کا وہ گھر ہے جو صرف مسلمانوں کے لئے خاص ہے.قرآن کریم سے ہم جب پوچھتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہے کیا ؟ خانہ کعبہ آخر کس کی خاطر بنایا گیا تھا ؟ تو قرآن کریم ہمیں آواز دیتا ہے إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَيَّةَ ( آل عمران :۹۷) کہ وہ پہلا گھر جو خدا کی عبادت کے لئے تمام بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا تھا وہ مکہ ہی میں تھا اور یہی وہ گھر ہے.پھر قرآن کریم ہماری ایک اور راہنمائی فرماتا ہے جب یہ کہتا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 429 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ الَّذِى جَعَلْنَهُ لِلنَّاسِ سَوَاءِ الْعَاكِفَ فِيهِ وَالْبَادِ وَمَنْ تُرِدْ فِيْهِ بِالْحَادِ بِظُلْمِ تُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ اليمن (الج ٣٦) کہ یقیناً وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ہے وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللَّهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وہ اللہ کی راہ سے اور مسجد حرام سے روک رہے ہیں لوگوں کو.مسجد حرام سے روکنا صرف یہ نہیں ہے کہ مسجد حرام تک پہنچنے نہ دیا جائے وہ بھی یہ روک بیٹھے ہیں ہمیں.اب معنوی طور پر ایک حصہ رہ گیا تھا اس سے بھی روک دیا اور کامل طور پر اس آیت کو اپنے حق میں چسپاں کر بیٹھے.پہلے حج بند کر کے روکا اور اب رخ اس طرف اختیار کرنے سے منا ہی کر دی گئی.حکم دیا گیا کہ منہ بھی ادھر نہیں کرنا.یہ تمہارا حکم ہے اور خدا کا ہمیں حکم یہ ہے کہ اسی طرف منہ کرنا ہے کسی اور طرف نہیں کرنا اور خدا تعالیٰ کا ان روکنے والوں کے متعلق حکم یہ ہے اِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيْلِ اللهِ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وہ لوگ جو کافر ہوئے ان کے سوا یہ حرکت کر کوئی نہیں سکتا.انہوں نے اللہ کی راہ سے روکا اور مسجد حرام سے روکا جس کو ہم نے جَعَلْنَهُ لِلنَّاسِ سَوَاءَ تمام بنی نوع انسان کے لئے برابر بنایا تھا.خواہ اس مسجد حرام کے پاس بسنے والا یا اس میں بیٹھ رہنے والا ہو یا بادیہ نشین ہوا اور صحراؤں میں بستا ہو.یہاں بھی دو باتیں اکٹھی بیان ہوئی ہیں جسمانی بھی اور معنوی بھی.جو وہاں بیٹھے ہوئے ہیں جسمانی طور پر وہاں پہنچ گئے ہیں ان کو بھی کو روکنے کا حق نہیں اور جو دور بیٹھے ہوئے تعلق ظاہر کر رہے ہیں اس مسجد سے ان کو بھی روکنے کا حق نہیں.دونوں کے لئے برابر ہے یہ.پس احمدیوں کو قرآن کی اس آیت کے ہر معنوں میں روکا جارہا ہے مسجد حرام سے تعلق رکھنے سے لیکن خدا فرماتا ہے وَمَنْ يُرِدْ فِيْهِ بِالْحَادِ بِظُلْمِ پھر وہی ظلم کا لفظ دہرایا ہے کہ جو کوئی بھی یہ حرکت کرے گا اپنی ذہنی کجھی کی بناء پر ، اپنے دل کی کبھی کی بنا پر اور ظلم کی راہ سے تُذِقْهُ مِنْ عَذَابِ اَلِيْهِ ہم ہیں جو اس کو دردناک عذاب میں مبتلا کریں گے.پس آج جو پاکستان میں وہابیت کو نافذ کرنے کی جنگ شروع کی گئی ہے یا چند سال پہلے شروع کی جا چکی ہے وہ اس لحاظ سے اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے کہ رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ ہمیں ایک طرف
خطبات طاہر جلد۵ 430 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء کرتا چلا جارہا ہے اور براہ راست ان لوگوں کو اپنے مد مقابل کھینچتا ہوالا رہا ہے جنہوں نے ہمیں ایک فریق بنا کر ہم سے جنگ کا اعلان کیا تھا.قرآن کی آیات کھول کھول کر ان کو بتا رہی ہیں کہ اب تمہارا اور احمدیوں کا جھگڑا ختم ہو چکا.اب تمہارا مجھ سے جھگڑا چلے گا.میرا قرآن تمہارے خلاف گواہ بن چکا ہے، وہ تمام باتیں جن سے مشرکین نے محمد مصطفی " کو روکا تھا ، وہ تمام باتیں جو قرآن کی رو سے تمام بنی نوع انسان پر فرض تھیں اور کسی کو حق نہیں تھا کہ وہ ان سے رو کے تم نے منفی صورت اختیار کرتے ہوئے محمد مصطفی عملے کے مخالفین کی تائید میں وہ سارے حربے استعمال کرنے شروع کر دیئے جو مخالفین حق کے شیدائیوں کے خلاف کیا کرتے تھے اور تم نے ان ساری باتوں سے روکنا شروع کر دیا جن کو کرنے کا میں نے حکم دیا تھا اور صرف ایک قوم کو ، ایک مذہب کو حکم نہیں دیا تھا تمام بنی نوع انسان کو خدا کے اس پہلے گھر کی طرف میں نے بلایا تھا ، عالم الغيب والشهادة قادر مطلق خدا نے بلایا تھا.جس نے پہلی مرتبہ بنی نوع انسان کی عبادت کے لئے مشترکہ طور پر وہ گھر تعمیر کروانے کا حکم دیا تھا.اور بالآخر بنی نوع انسان کے ارتقاء کو وہاں تک پہنچا کر چھوڑا.وہ ایک گھر جو تمام بنی نوع انسان میں آغاز میں مشترک تھا محمد مصطفی عمل کے ذریعہ بنی نوع انسان کو یہ خوش خبری دی گئی کہ وہی گھر بالآخر ساری دنیا کے انسانوں کا مجمع اور ماوی بنا دیا گیا ہے اور خدا کے اول اور آخر ہونے کا ایک عظیم مظہر ہے کہ جس طرح آغاز میں بیت اللہ کا آغاز ہوا تھا انجام بھی تمام بنی نوع انسان کے مشترک عبادت کے گھر کے طور پر یہاں ہو رہا ہے.تو تم نے اس کی بھی مخالفت کی اور بنی نوع انسان کو اس حق سے روکا جو ہم نے ان کو عطا کیا تھا.اس لئے اب تو میرا اور تمہارا معاملہ ہے اب احمدیوں کا اور تمہارا جھگڑا تو ختم ہو چکا ہے.اس لئے اب جس نے خدا کو چیلنج کیا ہے اور خدا سے جھگڑا مول لیا ہے، اب ہمارا خدا جانے اور وہ جانے.مجھے تو اس صورت حال پر وہی واقعہ یاد آ رہا ہے جو مکہ میں آنحضرت علی کے دادا کے ساتھ گزرا تھا.جب ابرہہ نے جو یمن کا گورنر تھا اس غصہ میں کہ اس نے جو خانہ کعبہ کے مقابل پر جو معبد تعمیر کیا تھا اس کو ایک عرب نے نجاست پھینک کر یا گندگی وہاں کر کے گندا کر دیا تھا.اس کا انتقام لینے کی خاطر اس نے ساٹھ ہزار مسلح سپاہیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر فوج کشی کی اور اہل مکہ اتنے کمزور تھے اس منظم اور تربیت یافتہ فوج کے مقابل پر جو تعداد میں بہت زیادہ تھی کہ کوئی صورت کوئی راہ ان
خطبات طاہر جلد۵ 431 خطبه جمعه ۱۳ / جون ۱۹۸۶ء کے لئے باقی نہیں رہی تھی کہ خانہ کعبہ کی حفاظت اس فوج کے مقابل پر کرسکیں.اس وقت عرب سرداروں نے سر جوڑے اور مشورہ کیا اور سوچا کہ عبدالمطلب ہم میں سب سے زیادہ وجیہ اور سب سے زیادہ معزز اور سب سے زیادہ سرداری کے سلیقے رکھنے والا انسان ہے.اس کو اگر ہم اپنا سفیر بنا کے بھیجیں تو ممکن ہے کہ ابرہہ کا دل نرم ہو جائے اور وہ خانہ کعبہ کے انہدام کا فیصلہ بدل لے.چنانچہ انہوں نے عبد المطلب کو اپنا اہل مکہ اور اہل عرب کا سفیر بنا کر ابرہہ کی طرف بھجوایا اس کا لشکر کچھ فاصلے پر خیمہ زن تھا.ابرہہ ان کی شکل وصورت ، ان کی وجاہت ، ان کی عقل مندی ، ان کی معاملہ نبی سے غیر معمولی طور پر متاثر ہوا.مؤرخین بتاتے ہیں کہ اس کا دل ان کے لئے نرم پڑ گیا.چنانچہ چونکہ وہ بہر حال ایک بڑا جابر بادشاہ تھا بادشاہ کا نمائندہ تھا گورنر لیکن خود بھی اپنے علاقہ میں بادشاہ ہی تھا اس لئے کلیہ اپنے اس فیصلہ سے انحراف تو اس کے لئے ممکن نہیں تھا کہ حملہ کرنے آیا ہے اور اچانک فیصلہ بدل لے لیکن شاہانہ انداز ہوتے ہیں اس نے ایک ایسی بات کہی عبدالمطلب کو کہ اس کے نتیجہ میں اس نے ہاتھ باندھ دیئے اور عہد کی پابندی کے بہانے عملاً ایسی صورت پیدا کر دی کہ اگر حضرت عبد المطلب اس سے یہ مطالبہ کرتے کہ خانہ کعبہ پر حملہ کا فیصلہ ترک کر دو تو وہ قول دے بیٹھا تھا اس لئے اسے لازماًوہ فیصلہ ترک کرنا پڑنا تھا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مجھ پر تاثر ہے کہ چونکہ سمجھدار آدمی تھا اور متاثر ہو چکا تھا قول دیا ہی اس لئے تھا کہ اب یہ آیا ہے نمائندہ بن کر مجھ سے یہ کہے گا کہ اب آپ مجھے قول دیتے ہیں اور مجھے اختیار دیتے ہیں کہ جو چاہوں مانگوں اس لئے میں کہتا ہوں کہ حملہ ختم کریں اور واپس چلے جائیں یہی نیت بظاہر معلوم ہوتی ہے اس گورنر کی جب اس نے یہ کہا اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ دیکھ کر کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد اس نے یہی بات کہی کہ اے عبدالمطلب ! میں تم سے خوش ہوں اور میں تمہیں اختیار دیتا ہوں کہ اپنے دل کی بات کہو جو چاہتے ہو مانگو میں وہ بات پوری کرونگا.عبدالمطلب نے کہا کہ اور تو کچھ نہیں مجھے ضرورت.میرے سواونٹ ہیں جو تمہارے قافلے والوں نے چرا لئے ہیں، تو میرے تو سو اونٹ واپس کر دیجئے.جتنا نیک تاثر قائم ہوا تھا عبدالمطلب کے متعلق اس کے دل میں اچانک صاف ہو گیا بلکہ سخت غصے سے بھر گیا.اس نے کہا اتنا اچھا نظر آنے والا انسان اتنا گھٹیا نکلا کہ خانہ کعبہ پر حملہ ہورہا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 432 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء اور قوم نمائندہ بنا کر بھجوا رہی ہے اور یہاں آ کر جب میں کہتا ہوں کہ مانگو جو مانگتے ہو میں تمہیں ضرور دوں گا تو خانہ کعبہ کو میرے حملہ سے بچانے کی بجائے مجھ سے اپنے سو اونٹ مانگ رہا ہے سو اونٹ.تو بڑی نفرت اور حقارت سے اس نے کہا کہ یہی تھی تمہارے دماغ کی بیچ، اپنے سو اونٹ مانگ رہے ہوا اور خانہ کعبہ کا ذکر بھی نہیں کیا.اس نے کہا اے بادشاہ! مجھے تو اتنا پتہ ہے کہ میں ان اونٹوں کا رب ہوں اور مجھے ان کی فکر ہے جن کا میں رب ہوں اور خدا کی قسم خانہ کعبہ کا بھی ایک رب ہے وہ جانتا ہے کہ کس طرح اپنے گھر کی حفاظت کرے.یہ کہ کر وہ چلے گئے اور خانہ کعبہ کے رب نے پھر وہ غیرت کا نمونہ دکھایا کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ابرہہ کا نام اور اس کے لشکر کا نام ان مرد و دلوگوں کی صف میں لکھا گیا جن کو آسمانی عذاب نے پارہ پارہ کر دیا.اور مردوں کے ساتھ کھیلنے والے اور ان کو بھنبھوڑنے والے اور ان کا گوشت کھانے والے جانوران پر مسلط ہوئے.اور وہ مٹی کے پتھروں کے ساتھ ٹکڑا ٹکڑا کر ان کو مارتے تھے اور بھنبھوڑ بھنبھوڑ کر ان کا گوشت کھاتے تھے اس طرح وہ ساٹھ ہزار کا لشکر اپنے انجام کو پہنچا.(سیرۃ حلبیہ اردوجلد اول صفحہ :۱۹۹) تو کیا یہ لوگ اصحاب فیل کے مضمون سے بھی واقف نہیں.کیا ان کو پتہ نہیں کہ جس خدا کی ہم عبادت کرتے ہیں اور جس کے نام پر خالصہ اس کی محبت میں ہم نے مساجد تعمیر کیں ہیں.ہم کیا ہیں اور ہماری حیثیت کیا ہے وہی ہے جو ان میں سے ہر ایک گھر کا رب ہے اور ہر ایک بیت جو ہم اس کی عبادت کے لئے تعمیر کرتے ہیں اس کا وہی خدا ہے.اس خدا کی غیرت آج بھی زندہ ہے جس خدا کی غیرت اس وقت زندہ تھی جب عبد المطلب نے ابرہہ کو اس کی غیرت سے ڈرایا تھا.اور ابر ہ کیا چیز تھا محمد مصطفی ﷺ تمہیں ہمیشہ کے لئے اس کی غیرت سے خبر دار کر چکے ہیں اور محمد مصطفیٰ کا قرآن آج بھی للکار رہا ہے اور آج بھی تمہیں ڈرا رہا ہے کہ خدا سے اس معاملہ میں ٹکر نہ لینا اور خدا کی خاطر تعمیر ہونے والی عبادت گاہوں کا رخ نہ کرنا.پس ہم کیا اور ہماری حیثیت کیا ہم تو تمہارے مقابل پر اس سے بھی بہت زیادہ کمزور ہیں جتنا ابرہہ کے لشکر کے مقابل پر مکہ میں بسنے والے قریش تھے بلکہ سارا عرب کمزور تھا.اس سے بھی کئی گنازیادہ ہماری کمزوری کی حیثیت ہے.لیکن قرآن کا خدا تمہیں للکار رہا ہے اور تمہیں متنبہ کرتا ہے اگر
خطبات طاہر جلد۵ 433 خطبه جمعه ۱۳ جون ۱۹۸۶ء تم ایک قدم بھی ان راہوں پر آگے بڑھے تو پھر میرے ساتھ تمہارا مقابلہ ہوگا اور جب میرے ساتھ قو میں مقابلہ کیا کرتی ہیں تو قصے اور کہانیاں بن جایا کرتی ہیں، آثار قدیمہ میں ان کو تلاش کیا جاتا ہے.وہ جو خدا بن کر لوگوں پر حکومت کرتی ہیں ان کو بندوں کی غلامی میں جکڑ دیا جاتا ہے اور بعض دفعہ سینکڑوں سال تک پھر وہ غلامی کے عذاب سہتی ہیں.اس لئے میں خدا کے نام پر اور خدا کے قرآن کے نام پر اور خدا کے محمد مصطفی ﷺ کے نام پر تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ ان ظالمانہ حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ خدا کے عذاب کا نشانہ بن کر رہ جاؤ گے.اللہ تعالیٰ تمہیں محفوظ رکھے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جنازہ ہوگی نماز جمعہ کے معا بعد.ایک ہمارے شعبہ شماریات تحریک جدید ربوہ کے کارکن ہیں چوہدری ناصر احمد صاحب ندیم ان کے والد مکرم چوہدری مظفر احمد صاحب وفات پاگئے ہیں.انہوں نے درخواست کی ہے کہ نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.ایک ہمارے نہایت مخلص نوجوان راولپنڈی کے سیف الرحمن 26 سال کی عمر میں Swimming pool میں روزہ کے دوران نہاتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے.بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے Dive کرتا ہے انسان تو پتھریلے فرش سے پہلے رک نہیں سکتا وقت پہ بدلتا نہیں اپنا رخ تو سرٹکڑا جاتا ہے یا ویسے ہی کوئی ان کو ( تفصیل تو نہیں ملی ) غوطہ آ گیا ہو تو بہر حال وہ روزہ کی حالت میں Swimming pool میں شہید ہو گئے ان کا خاندان بھی بڑے دکھ کی حالت میں ہے اور انہوں نے درخواست کی ہے.اسی طرح ہمارے ایک معروف دوست سلسلہ کے عبدالحئی صاحب گروپ کیپٹن کینیڈا کی اہلیہ محترمہ مکرمہ اقبال اختر صاحبہ کا آپریشن ہوا تھا یہ شیخ ناصر احمد صاحب جو سوئٹزر لینڈ میں ہیں آج کل واقف سلسلہ ان کی خالہ زاد بہن تھیں.آپریشن ہوا اور اس وقت تو ٹھیک تھا مگر کچھ دیر کے بعد وہ آپریشن بگڑ گیا اور پھر جانبر نہ ہوسکیں.ان تینوں کی نماز جنازہ جمعہ کے معابعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 435 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء مردان میں احمدی خاتون کی شہادت سیدنا بلال فنڈ سے اشاعت قرآن کا تحفہ نیز کلمہ کی حفاظت کے لئے جماعت کی شاندار قربانیاں ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ / جون ۱۹۸۶ء بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج کے خطبہ میں میں سب سے پہلے تو میں پاکستان سے آنیوالی ایک اور پر درد خبر سے جماعت کو مطلع کرنا چاہتا ہوں.یه خبر دردناک تو ضرور ہے مگر ویسی ہی درد ناک ہے جیسی اس سے پہلے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں دردناک سعادتیں نصیب ہوتی رہی ہیں.درد ناک اس پہلو سے کہ واقعہ جب راہ مولیٰ میں محض اللہ کی محبت کی خاطر کسی کی شہادت کی خبر سنی جاتی ہے تو ایک طبعی سچا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ دل کو دکھ پہنچتا ہے لیکن ایساد کھ نہیں جس کے ساتھ شکوے وابستہ ہوں.ایساد کھ نہیں جس کے ساتھ واویلے کا تعلق ہوتا ہے اور انسان سٹپٹا کر جو منہ میں آئے بکنا شروع کر دیتا ہے یا کوستا ہے یا زمانہ کو گالیاں دیتا ہے یا تقدیر کو برا بھلا کہتا ہے.یہ ویسا دکھ تو نہیں.ایک ایسا دکھ ہے جو دکھ بنتے ہوئے بھی مومن اپنے دل و جان سے اس طرح چمٹا لیتا ہے جیسے کسی پیارے کو چمٹایا جاتا ہے.ہر شہادت کا دکھ سعادت بھی ہوتا ہے.دکھ کا پہلوتو رفتہ رفتہ ختم ہو جاتا ہے لیکن سعادت کا
خطبات طاہر جلد۵ 436 خطبه جمعه ۲۰ / جون ۱۹۸۶ء پہلو زندہ رہتا ہے اور باقی رہتا ہے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کی آن بان اور چمک میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے.آج آپ جن نگاہوں سے سعادتوں کو دیکھ رہے ہیں.کل کے آنے والے جب ان کو دیکھیں گے تو ان کو پہلے سے زیادہ چمک دار پائیں گے اور دین کی راہ میں پائی جانے والی سعادتیں، ملنے والی سعادتیں یہ خصوصیت اپنے اندر رکھتی ہیں کہ زمانے کے گذرنے کے ساتھ نہ صرف یہ کہ ان کی چمک دمک میں اضافہ ہوتا رہتا ہے بلکہ زیادہ وسیع علاقوں میں ان کا نور دکھائی دینے لگتا ہے اور دیکھنے والوں کی نظروں میں بھی وسعت ہوتی چلی جاتی ہے اور ان روحانی سعادتوں کے لئے احترام اور عقیدت میں بھی گہرائی پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.لہذا یہ وہ سعادت ہے جس کی میں خبر آپ کو دینا چاہتا ہوں جو ایک امر، نہ مرنے والی نہ مٹنے والی سعادت ہے.لیکن اس کے باوجود مومن سچائی کو پسند کرتا ہے اور تصنع سے پاک ہوتا ہے اس لئے یہ کہنے میں بھی میں باک محسوس نہیں کرتا کہ اس خبر کے ساتھ جب میں نے سنا تو مجھے بھی دکھ پہنچا.جب آپ سنیں گے تو آپ کو بھی دکھ پہنچے گا اور اس کے دکھ والے پہلو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.ایک اور پہلو سے یہ شہادت جس کا میں ذکر کرنے والا ہوں ایک نئے باب کا اضافہ کر رہی ہے، ایک نیا سنگ میل رکھ رہی ہے اس دور کی قربانیوں میں کیونکہ خواتین میں سے یہ پہلی ہیں جنہیں اس دور میں اللہ کی خاطر جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی.ان کا نام رخسانہ تھا.ان کے خاوند طارق تو احمدی تھے لیکن ان کے بھائی بشارت احمدی نہیں.یہ خاندان اس طرح بٹا ہوا ہے کہ آدھے بھائی تقریباً احمدی اور آدھے غیر احمدی.مردان میں یہ لوگ تجارت کرتے ہیں اگر چہ پٹھان نہیں اور پنجابی ہیں.سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والا خاندان ہے جو سر گودھا میں بھی آباد ہے اور گویا دونوں ضلعوں کا واسطہ ہے اس خاندان سے یعنی دونوں ضلعوں کے ساتھ اس خاندان کا تعلق قائم ہے.لڑکی کے والد مرزا خان صاحب سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا میں ان دنوں رہائش پذیر ہیں.طارق جو احمدی ہیں، مخلص احمدی ہیں ان کا بھائی بشارت علماء کی بد کلامی کے نتیجہ میں دن بدن زیادہ بد گو ہوتا چلا گیا اور اخلاقی جرات کا یہ حال تھا کہ بھائی کے سامنے تو زبان نہیں کھول سکتا تھا لیکن اپنی مظلومہ بھابھی کے سامنے دل کھول کر دل کا غبار نکالتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتا تھا اور ہر قتم کی بد کلامی سے کام لیتا تھا اور مردانگی کا عالم یہ ہے کہ بھائی کو تو عبادت سے نہیں روک سکتا تھا لیکن اس
خطبات طاہر جلد۵ 437 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء مظلوم عورت کو قتل کی دھمکیاں دیتا تھا کہ اگر تم احمدی مسجد میں جا کر نمازیں پڑھو گی تو میں تمہیں قتل کر دوں گا.بہر حال یہی آداب ہیں اس دور کے ان مجاہدین کے جنہوں نے آنحضرت ﷺ کے دشمنوں سے حق کی مخالفت کے گر سیکھے ہیں.وہ سارا بنیادی کردار دہرایا جارہا ہے.بہر حال عید کے روز کا واقعہ ہے کہ طارق اور ان کی بیگم رخسانہ جب عید کی نماز پڑھ کر واپس آئے.طارق جب غسل خانے گئے تو پیچھے بچی کو اکیلا پا کر اس نے پھر نہایت بدکلامی سے کام لیا اور کہا میں نے تمہیں منع کیا تھا کہ تم نے احمدیوں کی مسجد میں نماز پڑھنے نہیں جانا.اس نے کہا تم کون ہوتے ہو مجھے منع کرنے والے.عبادت کا معاملہ ہے.میں مذہب کے معاملہ میں آزاد ہوں جو چاہو کرو میں بہرحال اپنے اس مذہبی حق کو اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑوں گی.جہاں جی چاہے گا نماز پڑھوں گی جہاں چاہوں گی عبادت کروں گی تمہیں میرے معاملات میں دخل دینے کا کوئی حق نہیں.چنانچہ اس پر اس نے پستول نکال کرو ہیں فائر کئے دو گولیاں تو سینہ چھید کر نکل گئیں اور ایک ٹانگ پر لگی.بہر حال تھوڑی دیر کے اندر ہی بچی نے دم توڑ دیا.خاوند جب باہر آئے تو وہ یہ نظارہ دیکھ کر بے ہوش ہو گئے اور دو دن تک بے ہوش رہے.چونکہ ان کی والدہ غیر احمدی ہے اور آدھے بھائی غیر احمدی ہیں اس لئے انہوں نے پولیس میں خاندانی اندرونی معاملہ درج اس طرح کرایا کہ کسی کو پکڑ نہ ہو سکے اور کہا یہ کہ گویا یہ کھیل رہے تھے پستول سے کہ اتفاق سے چل گیا لیکن ساتھ ہی بشارت آزاد علاقہ میں روپوش ہو گیا.جب مرزا خاں صاحب کو اطلاع ملی تو انہوں نے پولیس کو تارمیں دیں اور ابھی تک یہ معاملہ لڑکا ہوا ہے کسی کروٹ بیٹھا نہیں.انہوں نے تاریں دیں اور یہ ذکر کیا کہ میرے پاس بچی کے خطوط موجود ہیں جس میں بچی نے لکھا ہے کہ مجھے شدید روحانی اذیت دے رہا ہے یہ شخص اور سخت گندی گالیاں دے رہا ہے سلسلہ کے بزرگوں کو اور قتل کی دھمکیاں دے رہا ہے اس کے بعد اس کا کیا جواز ہے کہ اس مقدمہ کو ایک اتفاقی حادثہ کے طور پر درج کیا جائے.بہر حال جو بھی اس کا نتیجہ نکلتا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر کوئی شہادت ہوتی ہے تو اس کے نتیجہ میں دنیا والے اس قاتل کو پکڑیں یا نہ پکڑیں، دنیا کا قانون اس پر جاری ہو یا نہ ہو امر واقعہ یہ ہے کہ یہ معاملہ خدا کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے اور اس وجہ سے رشتہ داروں اور عزیزوں کو بے چین ہونے کی ضرورت نہیں کہ وہ قاتل آزاد پھر رہا ہے.تقریباً دس شہید ہو چکے ہیں سندھ میں
خطبات طاہر جلد۵ 438 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء جن کے قاتل آزاد پھر رہے ہیں.جب حکومت شامل ہو قتل میں، جب حکومت کی پوری سرپرستی حاصل ہو اور حوصلہ افزائی ہو رہی ہو جرائم کی اس وقت یہ توقع رکھنا کہ قاتل پکڑے جائیں گے یا پکڑے جائیں گے تو پھر انصاف کے مطابق ان کو سزادی جائے گی یہ ویسے ہی غلط بات ہے.اللہ تعالیٰ کا جو قانون ہے وہ بہر حال چلتا ہے اور اس کو چلنے سے کوئی دنیا کی طاقت روکا نہیں کرتی اس لئے ان معاملات میں جہاں تک انتقام کا تعلق ہے جماعت کو اس جذبہ سے الگ رہتے ہوئے اپنے درد کے جذبات کو بہتر سمتوں میں رواں کرنا چاہئے اور خدا تعالیٰ سے ہدایت کی دعا طلب کرنی چاہئے.اس درد کا بدلہ تو خدا نے بہر حال دینا ہے ان قربانیوں کی جزا تو آسمان سے بہر حال ملنی ہے سوال یہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں کیا بدلہ طلب کیا جائے اور کیا جزا مانگی جائے.جہاں تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ حسنہ کا تعلق ہے ہمارے لئے یہ بات ہمیشہ کے لئے کھل چکی ہے کہ آنحضرت اللہ نے اپنے اور اپنے ساتھیوں پر ہونے والے مظالم کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے قوم کے لئے ہدایت کی دعا مانگی اس لئے اس ظلم کے نتیجہ میں بھی میں جماعت کو یہی نصیحت کروں گا کہ وہ قوم کے لئے ہدایت کی دعا کریں.ظالموں کو اگر ہدایت نصیب ہو جائے تو اس سے بہتر جزا اور کوئی نہیں ہوسکتی.امر واقعہ یہ ہے کہ ہدایت سے بہتر جزا نہ اس دنیا میں مل سکتی ہے اور نہ اس دنیا میں نصیب ہو سکتی ہے.کوئی انتقام اس طرح دل کو ٹھنڈا نہیں کر سکتا جس طرح یہ نظارہ کہ وہ لوگ جو ظالم تھے ان کے سر شرم سے جھکے ہوئے ہیں اور ان کو نظریں ملاتے ہوئے حیا آتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ وہ ظالم تھے.اور اندر ہی اندر ایک اندرونی آگ میں ہر وقت جلتے رہتے ہیں کہ ہم سے یہ کیا غلطیاں سرزد ہوئیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ شیخو پورہ سے ایک وفد حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی خدمت میں آیا.ایک نوجوان نے تازہ تازہ بیعت کی تھی اور اسے بہت شوق تھا کہ میں خلیفہ اسیح سے ملوں.ملاقات کے وقت اس کی نظریں جھک گئیں اور مسلسل آنسوؤں کی موسلا دھار بارش تھی جو آنکھوں سے برس رہی تھی.ایک لمحہ کے لئے بھی وہ رکا نہیں مسلسل روتا رہا.باہر نکل کر ضلع کے امیر صاحب اور دوسروں نے کہا میاں ! تم اچھا شوق کا اظہار کیا کرتے تھے پیچھے پڑے ہوئے تھے کہ مجھے بھی لے کر جاؤ ، میں نے بھی ملاقات کرنی ہے.تمہیں ہوا کیا ؟ تم نے تو آنکھ اٹھا کر دیکھا بھی نہیں.اس نے اس کا جواب یہ دیا کہ 74ء میں جو احمدیوں پر مظالم کئے جارہے تھے میں اس گروہ کا سرغنہ تھا جو مظالم میں
خطبات طاہر جلد۵ 439 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء پیش پیش تھا، مسجد میں جلانے میں، احمدیوں کو زدوکوب کرنے اور مارنے پیٹنے میں اور ان کے گھر جلانے میں اور ان کو شہید کرنے میں جو لوگ بھی شامل تھے میں ان میں پیش پیش تھا.جب میں یہاں حاضر ہوا تو جرائم فلم کی طرح میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگے اور اس قدر میں مغلوب ہو گیا احساس ندامت سے کہ سوائے آنسو بہانے کے میرے پاس کچھ بھی باقی نہیں تھا.میں اس لائق نہیں سمجھتا تھا کہ ان آنکھوں سے جو کبھی نفرت اور غصے سے دیکھا کرتی تھیں احمدیوں کو ، احمدیوں کے امام کو انہی آنکھوں سے دیکھوں.یہ کیفیت تھی اس کی اور یہ وہی کیفیت ہے جس کا قرآن کریم ذکر فرماتا ہے فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيدٌ ( حم السجدة :۳۵) تم ہر بدی کو حسن سے تبدیل کرتے رہو، ہر ظلم کی جزاء نیکی سے دو.تم کیا دیکھو گے تم یہ دیکھو گے کہ جولوگ تمہارے خون کے پیاسے ہیں ایسے تمہارے دوست بن جائیں گے کہ تم پر جان چھڑ کنے لگیں گے ، فدا ہونے لگیں گے.پس کہاں یہ انتقام اور کہاں وہ انتقام کہ کسی ظالم کو دنیا کی سزا مل جائے اور قصہ ختم ہو.اس لئے یہ جو عظیم ترین اور حسین ترین انتقام قرآن اور حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے سکھایا ہے اس سیکھے ہوئے سبق کو بھلائیں نہیں اور اسی پر قائم رہیں.اس سے بہتر سبق آپ کو اور دنیا میں کہیں میسر نہیں آسکتا.آنحضرت مکہ کے مکتب میں پڑھنے والے غیروں سے سبق سیکھیں یہ ان کو زیب نہیں دیتا.جہاں تک اس سعادت کا تعلق ہے یہ خاتون تو عظیم سعادت پا گئیں.دوسری احمدی خواتین کے متعلق میں ایک بات کی وضاحت کرنی چاہتا ہوں.بڑی کثرت سے مجھے ہر شہادت کے بعد ایسے خطوط ملتے ہیں جس میں احمدی خواتین اس خواہش کا اظہار کرتی ہیں اور مجھے دعا کے لئے لکھتی ہیں کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں بھی شہادت نصیب کرے اور بعض بچیوں کے اتنے تڑپ کے خط ہوتے ہیں، اس قدر بے قرار کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ان کو زندگی سے نفرت ہوگئی ہے، ایک ایک لمحہ ان پر بوجھ بن کرگزررہا ہوتا ہے.ان بچیوں کو بھی اور ان عورتوں کو بھی جنہوں نے اس قسم کے خطوط لکھے یا دل میں تمنا تو پیدا ہوتی ہے لیکن خطوط نہیں لکھ سکیں ان کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ احمدی مستورات قربانیوں میں ہرگز اپنے مردوں سے پیچھے نہیں ہیں.شہادت میں وہ بیویاں جو بیوگی کی زندگی بسر کرنے کے لئے پیچھے رہ جاتی ہیں ان کے متعلق یہ گمان کرنا کہ ان کے خاوند تو ثواب پا گئے اور وہ محروم رہ گئیں ، وہ آگے نکل گئے اور یہ پیچھے رہ گئیں یہ بالکل غلط خیال ہے.مردوں کی شہادت کی عظمت کے اندر ان کی
خطبات طاہر جلد۵ 440 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء بیواؤں کی قربانیوں کی عظمت داخل ہوتی ہے.ان ماؤں کو آپ کیسے بھلا سکتے ہیں جن کے بچے شہید ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر وہ راضی رہیں اور بڑے حوصلے اور صبر کے نمونے دکھائے.ان بہنوں کو آپ کیسے فراموش کر سکتے ہیں جن کے ویر ہاتھ سے جاتے رہے.بہت ہی پیار سے ان کو دیکھا کرتی تھیں، بڑی محبت سے ان کا استقبال کیا کرتی تھیں اور جانتی ہیں کہ اب کوئی گھر میں واپس نہیں آئے گا.کون کہ سکتا ہے کہ یہ خواتین ، یہ بوڑھیاں ، یہ بچیاں، یہ جوان عورتیں یہ ساری قربانیوں سے محروم ہیں اور صرف شہید ہونے والے قربانیوں میں آگے نکل گئے.امر واقعہ یہ ہے کہ شہید ہونے والے تو قرآن کی گواہی کے مطابق اپنے رب کے حضور بہت ہی شاداں ہیں، وہ تو جنتوں میں داخل ہو چکے ہیں، وہ تو ہمیشہ کی زندگی پاچکے ہیں قربانیاں کرنے والے تو پیچھے رہ جایا کرتے ہیں.اس لئے احمدی خواتین سے میں کہتا ہوں کہ یہ ٹھیک ہے کہ آپ کو تمنا تھی اور اس لحاظ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کی تمنا پوری بھی کردی کہ ایک احمدی خاتون کو واقعہ خدا کی راہ میں جان دینے کی سعادت نصیب ہوئی لیکن یہ ہرگز خیال نہ کریں کہ آپ مردوں سے پیچھے ہیں.پیچھے رہنے والوں میں مرد بھی ہوتے ہیں رشتہ دار اور عورتیں بھی ہوتی ہیں اور میرا مشاہدہ یہ ہے کہ مردوں کی یادوں سے جدا ہونے والوں کے دکھ جلدی مٹتے ہیں بنسبت عورتوں کی یادوں کے.عورتیں خواہ وہ بوڑھی ہوں یا جوان ہوں ان میں وفا کا مادہ اس لحاظ سے بہت زیادہ پایا جاتا ہے.وہ جدا ہونے والوں کے غموں کو بہت زیادہ دیر تک پیار اور محبت سے سینوں سے لگائے پھرتی ہیں اور مردوں میں یہ غیر معمولی خلق نسبتا کم پایا جاتا ہے.اس لئے بچے بھی ہوں تو میں نے دیکھا ہے بیٹیاں زیادہ دیر تک یا درکھتی ہیں اور بیٹے جلدی بھول جاتے ہیں.تو احمدی خواتین ہرگز قربانیوں میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں اور دعا کے لئے جو خط لکھنے والیاں ہیں ان کو میں خاص طور پر تاکید کرتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا مانگیں کہ اللہ تعالی اس ابتلا کے دور کو اب قبول فرمالے اور ختم فرمادے.وہ قربانیاں جو ہم نے نہیں بھی دیں اور وہ جو دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں لیکن ان کو موقع نہیں مل رہا خدا چاہے تو واقعات گزرنے سے پہلے ہی ان کو اس طرح شمار فرمالے جیسے وہ واقعات گزر چکے ہیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ مومنوں سے اکثر ایسا ہی سلوک فرماتا ہے.بہت تھوڑی قربانیاں لے کر اس طرح رحمتیں نازل فرماتا ہے جیسے ساری قوم نے
خطبات طاہر جلد ۵ 441 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء پوری طرح وہ قربانیاں دے دی ہوں.تھوڑے وقت کی قربانیوں کو از لی قربانیوں کے طور پر شمار فرماتا ہے.اس لئے وہ یہی دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اس دور ابتلا کو اب ایسے دور انعام میں بدل دے کہ ابتلا خوابوں کی دنیا کے واقعات نظر آنے لگیں اور وہ رحمتیں جواب بھی نازل ہو رہی ہیں پہلے سے بہت بڑھ کر مزید ہم پر نازل ہوں اور نازل ہوتی رہیں.اس ضمن میں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی کرنا چاہتا ہوں.عید کے خطبہ میں میں نے سیدنا بلال فنڈ کا ذکر کرتے ہوئے جماعت کو یہ خوش خبری دی تھی کہ میرا ارادہ ہے کہ اس فنڈ سے کم از کم سوز بانوں میں قرآن کریم کے نمونے کے ترجمے شائع کر کے ان سب قربانی کرنے والوں کی طرف سے دنیا کے لئے یہ تحفہ پیش کیا جائے جن قربانی کرنے والوں نے خصوصاً اس دور میں پاکستان میں قربانی کی سعادت حاصل کی ہے.اس کے نتیجہ میں بعض دوستوں کو غلط نہی ہوئی کہ وہ لوگ جو ضرورت مند ہیں جن کے گھر جلائے گئے یا جن کے ذرائع معاش ختم کر دیئے گئے ، طرح طرح کی ان کو تکلیفیں پہنچائی گئیں ان کے نام پر ان کی خاطر ایک چندہ لیا گیا لیکن اس مقصد پر اس کو اب خرچ نہیں کیا جائے گا بلکہ بالکل دوسرے مقصد پر خرچ کیا جائے گا.یہ بات درست نہیں ہے.ہو سکتا ہے میں نے بیان کرنے میں غلطی کی ہو یا میری طرز بیان میں کوئی خامی رہ گئی ہو.یہ مقصد ہرگز نہیں تھا.میں نے یہ وضاحت کرنے کی کوشش کی تھی کہ قربانی کرنے والوں کی بہت سی قسمیں ہیں اور بلالی قربانیاں کرنے والے پاکستان میں ہزار ہا کی تعداد میں ہیں.کوئی علاقہ خالی نہیں ہے ان سے.ہر عمر کے لوگ ان میں شامل ہیں اور بہت بھاری اکثریت ان میں ایسی ہے جو یا تو اپنے آپ کو ضرورت مند سمجھتے ہی نہیں یا ضرورت مند ہیں بھی تو اپنی طبیعت کی مجبوری کی وجہ سے وہ جماعت سے کوئی امداد لینا نہیں چاہتے.آپ لاکھ تحفہ کہہ کر پیش کریں، لاکھ یہ کہیں کہ یہ ہماری سعادت ہوگی آپ قبول کر لیں لیکن بعض انسانوں کی طبیعتیں ایسی ہوتی ہیں کہ وہ نہیں قبول کر سکتیں.اس لئے اول تو وہ بہت سے ایسے ہیں جو اپنے آپ کو ضرورت مند سمجھتے بھی نہیں اور واقعہ بھی اللہ تعالیٰ نے اتنی توفیق عطا فرمائی ہے ان کو کہ ضرورت مندوں کے زمرہ میں شمار نہیں ہو سکتے اور جو ہیں ان میں سے ایک بڑی تعداد ہے جو بالکل پسند نہیں کرے گی کہ ہمیں کسی قسم کی کوئی امداد خواہ تحفہ کے طور پر ہی ہو پیش کی جائے.کچھ بیچ میں سے مجبور بھی ہیں.یہ تحفہ جو تھا یہ تو سب کے لئے تھا.
خطبات طاہر جلد۵ 442 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء میرے ذہن میں اس وقت دو باتیں تھیں اول یہ کہ اس تحفہ کو جو جماعت نے بڑی محبت سے ان سب اللہ کی راہ میں قربانی کرنے والوں کے لئے پیش کیا ہے کسی طریق سے سب تک پہنچایا جائے ، سارے اس میں شامل ہو جائیں.دوسرے یہ تھا کس طریق پر یہ کام کیا جائے ، اس کی سمجھ نہیں آرہی تھی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے پھر رہنمائی فرمائی کہ اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہے ان کو یہ تحفہ پہنچانے کا کہ تمام دنیا میں سو بڑی زبانوں میں جو قرآن کریم کے تراجم پیش کئے جائیں وہ ان کی طرف سے کل عالم کی اقوام کے سامنے تحفہ ہو اور یہ ایک ایسا تحفہ ہوگا جو ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری و ساری رہے گا.اس سے بہتر تحفہ نہ یہ دنیا کو پیش کر سکتے ہیں اور نہ ہم ان کو پیش کر سکتے ہیں.لیکن یہ مراد نہیں تھی کہ وہ دوست جو اتنے ضرورت مند ہیں اور بہت سے ایسے خاندان ہیں جن کے اور ذرائع معاش نہیں رہے.جماعت پر ذمہ داری ہے کہ ان کی ہر قسم کی ضرورتیں پوری کرے ان کو اس فنڈ کے فائدے سے محروم کر دیا جائے گا یہ ہرگز مراد نہیں تھی.ان کو تو جماعت پہلے ہی ضرورتیں مہیا کر رہی تھی.اور جب سے اس فنڈ کی تحریک ہوئی ہے میں نے ہدایت کی ہے کہ اسی فنڈ میں سے خرچ کیا جائے اور یہ بھی خاطر خواہ رقم ہے لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو قربانی کا ایک عظیم جذ بہ عطا کیا مسلسل بار بار کی تحریکات کے باوجود دنیا یہ بجھتی ہوگی کہ جماعت تھک گئی ہے اب اور نئی تحریک کے اوپر کہتے ہوں گے کہ اب کہاں تک ہم سے مانگتے چلے جاؤ گے مگر میں جانتا ہوں کہ کس طرح جماعت حیرت انگیز طور پر بظاہر خالی جیبوں میں سے اور پھر نکالتی چلی جاتی ہے.وہ اپنی جیبیں خالی کرتی چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ جیبیں بھرنے کے سامان پیدا کرتا چلا جارہا ہے.چنانچہ بلال فنڈ میں بھی اتنی رقم ابھی تک پیش ہو چکی ہے کہ موجودہ ضروریات سے وہ کہیں زیادہ ہے.اس لئے اس زائد از ضرورت کو بھی کسی جگہ استعمال کرنا تھا.ہے.بعض دوستوں کا یہ خیال تھا کہ ٹرسٹ قائم کر دیا جائے اور آئندہ بھی مختلف زمانوں میں مختلف ملکوں میں ضرورتیں پیش آتی رہیں گے اس ٹرسٹ سے ان راہ مولیٰ میں دکھ اٹھانے والوں کی ضروریات پوری کی جائیں اور وقتی طور پر میں بھی اس تجویز سے متاثر ہوا اور دماغ میں یہ خیال آیا بلکہ ربوہ میں میں نے ہدایت بھی دے دی لیکن اس کے باوجود اس معاملہ میں طبیعت میں بہت بے چینی پیدا ہوئی اور طبیعت نے اس تجویز کے خلاف سخت رد عمل دکھایا.غالب تو کہتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 443 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں یہ سوء ظن ہے ساقی کوثر کے باب میں (دیوان غالب صفحه : ۱۶۱) ہم جو حقیقت میں دین کی معرفت کو سمجھنے والے ہیں ہم کیسے یہ کر سکتے ہیں کہ آنے والے کل کے مخلصین کے حق میں یہ بدظنیاں کریں کہ جب اس زمانہ میں ضرورتیں پیدا ہوں گی تو وہ ان کو پورا نہیں کرسکیں گے.ہمارے ٹرسٹ ہی ہیں جو ان کے کام آئیں گے اور گویا خدا تعالیٰ ان ٹرسٹوں کے ذریعہ ان ضرورتوں کو پورا کرے گا اور جس طرح جماعت کو خدا تعالیٰ بے ساختہ آج تو فیق عطا فرما رہا ہے کل سر مخلصین کو یہ توفیق نہیں عطا فرمائے گا.یہ تو بہت بڑی بدظنی ہے اور بہت بڑی محرومی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ایسے واقعات دوبارہ بڑی سطح پر کہیں پیدا ہوں تو ناممکن ہے کہ جماعت کے دل ٹھنڈے ہو جا ئیں اس بناء پر کہ کسی ٹرسٹ کے ذریعہ اللہ کی راہ میں دکھ اٹھانے والوں کی ضرورتیں پوری ہورہی ہیں جب تک محبت کے ساتھ قربانی کی روح کے ساتھ خود شامل نہیں ہوں گے جب تک ان کو یہ توفیق نہ ملے کہ انہوں نے حصہ لیا ہے اس میں اس وقت تک ان کے جذبہ ایمان اور جذبہ خلوص کو تسکین مل ہی نہیں سکتی.تو ٹرسٹ سے دل اتر گیا فوری طور پر اور میں نے وہاں بھی ہدایت کر دی کہ اس ٹرسٹ کا خیال چھوڑ دیں جو رقم آتی ہے اللہ کی راہ میں خرچ کریں اور اللہ نے ہی پہلے ضرورتیں پوری کی تھیں آئندہ بھی کرتا رہے گا.آئندہ کے مخلصین پر بھی بدظنی نہ کی جائے.یہ رقم ختم ہوگی تو خدا اور مہیا فرمادے گا اس لئے ٹرسٹ کے خیال کو چھوڑ دیں.اوران سب باتوں کے باوجود ایک بڑی رقم ان ضرورتوں کو جو چند سال تک پیش نظر رکھی تھیں میں نے ، ایک بڑی رقم ان ضرورتوں سے بچ جاتی تھی.یہ وہ بچی ہوئی رقم تھی جس کے متعلق خیال تھا کہ اسے کس طرح اس مقصد میں خرچ کیا جائے اور کس طریق پر خرچ کیا جائے کہ سب قربانی کرنے والوں کو کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کا یہ محبت بھرا تحفہ پہنچ جائے.تو اس وضاحت کے بعد امید ہے کہ اگر کسی کے دل میں کوئی وہم کوئی غلط خیال پیداہور ہا تھا تو وہ ختم ہو جائے گا ہمیشہ کے لئے.امر واقعہ یہ ہے کہ قربانی کا یہ دور بہت ہی وسیع ہے وقتی طور پر ہماری نظریں کسی خاص قربانی کے حصہ پر مرکوز ہو جاتی رہی ہیں لیکن جس طرح Limelight بدلتی ہے، روشنی کے توجہ کا مرکز پھرتا
خطبات طاہر جلد۵ 444 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء رہتا ہے اسی طرح خدا تعالیٰ پاکستان میں قربانیوں کے دائرے بدلتا چلا جارہا ہے.کبھی ایک دائرہ میں قربانیوں کی توفیق مل رہی ہے پھر وہاں سے روشنی اللہ تعالیٰ کی تقدیر کی روشنی بہتی ہے تو کسی اور جگہ فوکس (Focus) کر دیتی ہے پھر وہاں بکثرت جماعت کو قربانیوں کی توفیق ملتی ہے.پھر وہاں سے وہ روشنی کسی اور سعادت مند جگہ کو عطا ہوتی ہے اور وہاں لوگ قربانیوں سے برکتیں حاصل کرتے ہیں.تو یہ ایک بہت ہی وسیع کہانی ہے اور گذشتہ دو تین سال کے اندر پاکستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہا جہاں اللہ تعالیٰ نے بڑے پیمانے پر جماعت کو خدمت اور قربانی کی توفیق عطانہ فرمائی ہو.سندھ میں دیکھئے ! تھر پار کر کے علاقہ میں ، کنری کی گلیوں میں کس طرح نوجوان ذلیل کئے گئے بظاہر گلیوں میں گھسیٹے گئے ، بے ہوش ہو کر گرے وہاں مار کھا کھا کر جیلیں بھر دی گئیں ان سے.عمرکوٹ کی جیل بھری گئی اور وہاں جگہ ختم ہو گئی تو مٹھی کی جیل میں پہنچایا گیا.میر پورخاص میں قیدی منتقل کئے گئے.بڑے وسیع پیمانے وہاں پر قربانی دی گئی.اب ان سب کو آپ کا یہ محبت بھرا تحفہ کیسے پہنچایا جاتا.اس ذریعہ سے اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ ان سب کو خدا تعالیٰ کی اس تقدیر نے آپ کا یہ تحفہ پہنچا دیا اور ہمیشہ ہمیش کے لئے ان کی طرف سے اقوامِ عالم کو قرآن کریم کا تحفہ ملتا رہے گا.پھر کراچی ہے ، نہ صرف یہ کہ کراچی نے باہر جا کر اس عظیم الشان دور میں بہت ہی غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی بلکہ کراچی میں بھی بکثرت نوجوان ہیں جنہوں نے قید و بند کی صعوبتیں محض اس وجہ سے برداشت کیں کہ کلمہ طیبہ سے ان کو محبت تھی اور اس محبت سے کسی قیمت پر بھی الگ ہونے کے لئے تیار نہیں تھے.سکھر میں جو واقعات ہوئے ہسکھر کی جیلوں میں جو واقعات ہوئے ان سے آپ واقف ہیں.آج بھی ہمارے دو نو جوان احمدی مخلصین یہاں موجود ہیں جنہوں نے نہایت ہی خوفناک اذیتیں کلمہ کی محبت کی وجہ سے سکھر کی جیلوں میں برداشت کی ہیں یا پولیس کی حوالات میں تکلیفیں برداشت کی ہیں.غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ انہیں حوصلے بخشتار ہا، صبر عطا فرما تا رہا اور سکھر کی گلیوں میں بار بار احمدی مخلصین کا خون بہایا گیا ہے.یہ سب لوگ ، ان سے تعلق رکھنے والے سارے لوگ اس بات کے حق دار تھے کہ جماعت ان کو ایک محبت بھرا پر خلوص تحفہ پہنچاتی اور اس ذریعہ سے یہ ان کو تحفہ اللہ تعالیٰ نے پہنچا دیا.
خطبات طاہر جلد۵ 445 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء پھر نوابشاہ ہے حیدر آباد ہے، خیر پور ہے.ایک کے بعد دوسرے ضلع کی طرف نگاہ کریں کسی نہ کسی رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ہر ضلع کو قربانیوں کی توفیق بخشی ہے اور ہر جگہ جماعت بڑے ہی صبر کے ساتھ اور استقلال کے ساتھ اور جوانمردی کے ساتھ قربانیاں پیش کرتی چلی جارہی ہے.پھر یہ جنوب سے چلنے والی ہوا شمال میں داخل ہوئی اور کبھی ایسا ہوا کہ شمال سے چلی اور جنوب کی طرف چل پڑی.تو یہ رخ قربانیوں کی ہواؤں کا اسی طرح جاری رہا ہے بڑے لمبے عرصے تک.لاہور کی جماعت کو اسی طرح قربانیوں کی توفیق ملی.ساہیوال کے واقعات تو آپ کو از بر ہو چکے ہیں اور کس طرح کثرت کے ساتھ اوکاڑہ میں بھی اور ساہیوال میں بھی اور ملتان بھی میں اور رحیم یارخاں میں بھی اور بہاولپور میں بھی اور بہاولنگر میں بھی اور ڈیرہ غازی خان میں بھی ، راولپنڈی میں ،اٹک میں ، گجرات میں ، گوجرانوالہ میں ، سرگودھا میں ، جھنگ میں ، سیالکوٹ میں ، لاہور کے علاوہ قصور میں، یہ سارے اضلاع ان پر نظر ڈال کر دیکھیں کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں جہاں جماعت کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر کلمہ طیبہ کی محبت میں قربانیوں کی توفیق نہ عطا فرمائی ہو.پھر صوبہ سرحد میں ہزارہ سے بڑا شاندار آغاز ہوا تھا.اسی لئے میں نے کہا کبھی تو یہ ہوا جنوب سے چلی ہے اور شمال کی طرف روانہ ہوئی کبھی شمال سے چلی ہے اور جنوب کی طرف چلی گئی.ہزارہ بھی شمالی علاقوں کا ایک حصہ ہے اور صوبہ سرحد میں ہزارہ کی جماعت کو اور ایبٹ آباد کی جماعت کو بہت ہی شاندار، بہت ہی عظیم الشان تاریخی قربانیوں کی توفیق عطا ہو چکی ہے.پھر بلوچستان رہتا تھا.کوئٹہ میں جو واقعات گذر گئے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے یہ فیصلہ کیا کہ بلوچستان کی جماعتیں کیوں اس سعادت سے محروم رہیں.چنانچہ کوئٹہ میں بھی جماعت کو جس شان کے ساتھ ، جس طرح سر کو بلند رکھتے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کے نام کی عزت اور ناموس کا علم بلند رکھتے ہوئے اپنا سب کچھ فدا کرنے کی توفیق ملی ہے، ایک بہت ہی سنہری باب ہے کوئٹہ کی جماعت کی تاریخ کا جو غیر معمولی شان رکھتا ہے.جہاں تک میرا علم ہے کوئٹہ کی جماعت کو اس سے پہلے بحیثیت جماعت اس طرح اجتماعی قربانی کی کبھی توفیق نہیں ملی تھی.چھوٹے کیا بڑے کیا، مرد کیا عورتیں کیا.وہ جن کو تیسری صف کا احمدی خواہ مخواہ ظلم کی راہ سے شمار کیا جاتا تھا یا بعض ان میں سے منافق کہلاتے تھے خواہ مخواہ بے وجہ، اس کو کہا
خطبات طاہر جلد۵ 446 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء جاتا تھا کہ ان پر پورا اعتبار نہیں کرنا ان میں فلاں رگ پائی جاتی ہے اور فلاں رگ پائی جاتی ہے.جب ابتلا کا وقت آیا تو ایک چٹان کی طرح، ایک بنیان مرصوص کی طرح ایک جان ہو کر ان سب نے قربانیاں دیں ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی جماعت کی عزت و ناموس کا سر جھکنے نہیں دیا.کلمہ کی محبت کے علم کو بلند رکھا ہے اور کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہے کہ ان کے سر پر کیا گذر جاتی ہے.ایسے حالات پیش آئے کہ جب تک واقعہ یہ خطرہ تھا کہ کلیۂ سارے کے سارے احمدی وہاں قتل و غارت اور شہید کر دیئے جائیں لیکن مجال ہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی ان کے پائے ثبات میں لغزش آئی ہو.پہلے سے بڑھ کر ان کے عزم بلند ہو گئے ، ان کی ہمتیں جوان ہو گئیں ، ان کے اندر غیر معمولی حوصلے پیدا ہوئے اور نظر پڑتی تھی تو رشک سے اور محبت سے نظر پڑتی تھی کہ خدا کی شان ہے کہ کوئٹہ سے خدا تعالیٰ نے ایسی شاندار جماعت عطا فرما دی ہے.وہ پہلے ہی تھی لیکن خدا کی تقدیر ان کے چھپے ہوئے جو ہروں کو نمایاں کرنا چاہتی تھی.چنانچہ اس دور میں وہ سارے چھپے ہوئے جو ہر نمایاں ہو گئے.پھر اب دوبارہ صوبہ سرحد کی طرف اس ہوانے رخ کیا اور مردان میں احمدی خاتون کو بڑی شاندار قربانی کی توفیق عطا ہوئی ہے.خالصہ اللہ عبادت کی خاطر وہ خاتون قتل کی گئی ہیں اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ مقتول نہیں ہیں، مردہ نہیں ہیں ، وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئی ہیں.اس ساری تاریخ کو اگر آپ سمیٹنے کی کوشش کریں تو سمیٹا نہیں جائے گا.دو تین سال کے اندر ایسی خدا نے حیرت انگیز جماعت کو قربانی کی توفیق عطا فرمائی ہے، ایسی عظمتیں عطا کی ہیں کہ ان کو دیکھنے کے لئے ہمیشہ آپ مڑ کر تاریخ میں ڈھونڈا کرتے تھے.اب آنے والی نسلیں آپ میں ڈھونڈا کریں گی اور تلاش کے لئے ان کو زیادہ کوشش نہیں کرنی پڑے گی.آپ تو آج آسمان کو قربانیوں کے ستاروں سے بھر چکے ہیں اور بھرتے چلے جارہے ہیں یہ زور بازو سے نصیب ہونے والی سعادت نہیں ہے یہ خدا کی خاص عطا ہے اور جتنا بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے.میں تو جب اس مضمون پر غور کر رہا تھا تو مجھے ولی دکنی کا یہ شعر یاد آ گیا کہ چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا مگر ایک شارخ نہالِ دل جسے غم کہیں سو ہری رہی امر واقعہ یہ ہے کہ یہ ہوا جو جنوب سے چلی یا شمال سے چلی.اس نے شمال کا رخ کیا یا
خطبات طاہر جلد۵ 447 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء جنوب کا رخ کیا ایک ایسی ہو تھی جس نے احمدی چمن کے سرور کو واقعی جلا دیا ، بہت ہی بے چینی پیدا کی ، بے کیف کر دیا زندگی کو ان معنوں میں کہ ہر روز جماعت اپنے کسی بھائی کبھی کسی بہن ، اپنے کسی جدا ہونے والے کے دکھ کو محسوس کرتی تھی اور اس سے بڑھ یہ کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو نہایت ہی گندی اور ذلیل گالیاں دی جاتی تھیں اور جماعت کو صبر کی تلقین تھی.کوئی اس کے مقابل پر کچھ نہ کہہ سکتا تھا نہ کر سکتا تھا.روزانہ احمدی گھروں تک یہ گندی آواز میں پہنچائی جاتی تھیں.اخباروں کے منہ کالے کر دیے جاتے تھے اور یہ ایک دن یا دو دن کا ابتلا نہیں تھا ، سالہا سال تک مسلسل روزانہ یہ ظلم ہوتا رہا ہے.پس یہ کہنا ہر گز بے جا نہیں کہ ایک ایسی ہوا چلی ہے جس سے جماعت احمدیہ کے سرور کا سارا چمن جل گیا لیکن ایک شارخ نہالِ دل باقی رہی ہے.وہ کلمہ طیبہ کی محبت کی شارخ نہال ہے.یہ ساری ہوائیں جنہوں نے سرور کے ہر چمن کو جلا کر خاکستر کر دیا.احمدی دلوں سے کلمہ طیبہ کی پاک شارخ نہال کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں.وہ شارخ نہال دل بڑھتی رہی، اس کی احمدی اپنے خون سے آبیاری کرتے رہے، اس پر آنچ نہیں آنے دی.اور آپ دیکھیں گے کہ یہی شارخ نہالِ دل ہے جو تمام دنیا میں ایک تنومند درخت کی صورت میں ابھرنے والی ہے.اس کی شاخیں سارے عالم سے باتیں کریں گی ، زمین کے کناروں تک پہنچیں گی.یہی ہے جو آپ کے مستقبل کی ضمانت ہے یہی وہ شاخ نہال ہے کلمہ طیبہ کی محبت کی شاخ نہال جس نے لازماً غالب آتا ہے اور ساری دنیا کو اپنی چھاؤں تلے لے لینا ہے.تمام دنیا کے پرندے اس کی شاخوں پر بیٹھیں گے ، اس سے روحانی رزق پائیں گے، گرمی اور سردی سے بچیں گے اور اللہ کی تسبیح اور تحمید کے گن گائیں گے اور جب ساری دنیا اس شاخ نہال کے عظیم الشان بنے والے درخت کی چھاؤں تلے آجائے گی تو ان سب کی دعائیں، ان سب کی حمد، ان سب کے خدا کی محبت میں گائے جانے والے گیتوں میں آپ کے دلوں کی آواز شامل رہے گی.خدا کی تقدیر کبھی آپ کو نہیں بھولے گی.ان کے ہر دل سے اٹھنے والے نغمہ میں آج کے احمدیوں کے دل کی گریہ وزاری شامل رہے گی اور خدا کے پیار کی نظر سب سے زیادہ ان گریہ وزاری کے رگوں پر پڑے گی جوان اٹھنے والے نغموں کے وجود میں شامل ہو چکی ہوں گی.بڑا ہی مبارک دور ہے بڑا ہی سعید دور ہے اور ایسی سعادتیں آپ کو نصیب ہو رہی ہیں جو
خطبات طاہر جلد۵ 448 خطبہ جمعہ ۲۰ /جون ۱۹۸۶ء کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں اس لئے ایک لحمہ کے لئے بھی حوصلہ نہیں ہارنا.یہ نہیں کہ میں کسی تھکاوٹ کے آثار دیکھ رہا ہوں.میں تو دن بدن پہلے سے زیادہ مضبوط تر ہونے والے عزم کو دیکھتا چلا جا رہا ہوں.میں جانتا ہوں کہ جماعت میں ایک حیرت انگیز انقلابی تبدیلی پیدا ہورہی ہے، نئی مضبوطی پیدا ہو رہی ہے، نئی توانائی آرہی ہے لیکن اس کے باوجود میرا کام ہے کہ وقتا فوقتا آپ کو پھر بھی یہ یاد دلاتا رہوں کہ صبر کے ساتھ قائم رہنا ہے اس راہ پر.ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے پائے ثبات میں لغزش نہیں آنے دینی.اپنے عزم کے سر کو جھکنے نہیں دینا، اپنی ہمتوں کو کوتاہ نہیں ہونے دینا.نہ تھکنا ہے نہ ماندے ہونا ہے جو کچھ دنیا کے بس میں ہے وہ کرتی چلی جائے.جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے شاہراہ اسلام کی ترقی کی راہ پر ہمیشہ ہمیش آگے بڑھتی چلی جائے گی اور آگے ہی بڑھتی چلی جائے گی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد کچھ مرحومین کی نماز جنازہ ہوگی.ان میں سب سے پہلے سر فہرست تو یہی ہماری عزیزہ بہن رخسانہ صاحبہ ہیں.ان کے بعد مکرم چوہدری سردار محمد صاحب فیصل آباد یہ جماعت کے مخلص کارکن ڈاکٹر ولی محمد صاحب ساغر کے والد تھے.پھر مکر مہ نور بی بی صاحبہ یہ مکرم چوہدری رحمت اللہ صاحب مرحوم آف چک نمبر 275 کرتار پورکی اہلیہ تھیں اور موصیبہ تھیں.پھر مکر مہ امینہ طاہر صاحبہ یہ مکرم مبشر احمد صاحب طاہر آف جرمنی کی اہلیہ تھیں، حال ہی میں جوانی میں وفات پاگئی ہیں.ان کے سر میں کوئی Tumer تھا جس کا آپریشن ہوا اور آپریشن کے بعد ساتھ ہی دل کا حملہ بھی ہوا جو جان لیوا ثابت ہوا.ان کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں خاص طور پر مبشر کا بہت ہی درد کا فون آیا تھا.خاص طور پر دعا میں ان کو یاد رکھیں.مکرمہ اقبال اختر صاحبہ ہیں یہ ہمارے پرانے معروف دوست کیپٹن عبد الحئی صاحب آف کینیڈا کی اہلیہ تھیں.مکرمہ رخسانہ صاحبہ کا تو پہلے اعلان کر چکا ہوں.ان سب کی نماز جنازہ غائب نماز جمعہ کے معابعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 449 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء جلسہ سالانہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو قیمتی نصائح ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: انگلستان ایک ایسا ملک ہے جس میں کروڑہا زائرین سیر و سیاحت کی غرض سے ہر سال آتے ہیں.اب جب کے ایک لمبی صبر آزما سردیوں کے بعد بالآخر موسم گرما آن پہنچا ہے تو کثرت سے سیاحوں کے آنے کے دن بھی آگئے ہیں.مگر امسال ان سیاحوں میں کچھ ایسے سیاح آنے والے بھی ہیں جن کو انگلستان کے سبزہ زاروں اور یہاں کی تجارتوں میں کوئی دلچسپی نہیں.ان کو سیر کی غرض دنیا کے ہر دوسرے سیر کرنے والے کی غرض سے مختلف ہوگی اور انگلستان کے بھاگ جاگ گئے ان کے آنے سے کیونکہ انگلستان جیسی سرزمین میں وہ محض اللہ ، اللہ کی رضا کی خاطر اور اس کے ذکر بلند کرنے کی خاطر آ رہے ہیں.یہ جلسہ یو.کے کے معزز مہمان ہیں جن میں ایسے بھی ہیں جن کو اتنا کبھی شوق بھی پیدا نہیں ہوا کہ اپنے گاؤں سے نکل کر قریب کے قصبے کی زیارت ہی کر لیں.ان میں ایسے بھی ہیں جن کے پاس کراچی واقعہ ہے یالا ہور واقعہ ہے یا حیدر آبا دسندھ واقعہ ہے یا پشاور ہے یا اسلام آباد ہے لیکن طبعا ان کو ان شہروں میں کبھی کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہوئی.وہ ایک لمبی صعوبت والا سفر اختیار کر کے اور ایک ایسا سفر اختیار کر کے جس کی بظاہر ان کو استطاعت نہیں تھی.سارا سال انہوں نے یا خود پیسے جوڑے یا اپنے
خطبات طاہر جلد۵ 450 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء باہر کام کرنے والے بچوں یا عزیزوں کو ایسے خط لکھے جن کے نتیجے میں ان کی بے قراری باہر بسنے والے عزیزوں کے دلوں کی بے قراری بن گئی اور انہوں نے اپنے پیٹ کاٹ کے اپنی ضرورتوں سے بچت کر کے ان کو ٹکٹ بھیجوائے.یہ خدا کے مہمان جو کبھی اسی ذوق شوق سے بلکہ بہت زیادہ ذوق شوق سے بہت زیادہ تعداد میں کثرت سے دنیا کے کونے کونے سے ربوہ میں جایا کرتے تھے یا اس سے پہلے قادیان جایا کرتے تھے چونکہ احمدیت کا مرکز یعنی حقیقی مرکز خلافت احمد یہ ہے اس لئے باوجود اس کے کہ U.K کا یہ جلسہ مرکزی جلسہ نہیں ہو سکتا نہ وہ کہلاتا ہے پھر بھی خلیفہ وقت کی موجودگی کی وجہ سے یہ سب لوگ اس جلسہ میں بڑے ذوق وشوق کے ساتھ حاضر ہونے والے ہیں.اس لئے میرا فرض ہے کہ انگلستان کی جماعت کو جو پہلے ہی خدا کے فضل سے نہایت ہی مخلص اور دین کے کاموں میں خدمت میں پیش پیش ہے ان کو پھر بھی کچھ ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کروں کیونکہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَذَكِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّكْرَى الاعلیٰ : ۱۰) نصیحت کرنے سے تھکنا نہیں نصیحت کرتے چلے جاؤ کیونکہ نصیحت ضرور فائدہ دیتی ہے.ذکری کا مطلب ہے یاد دہانی.پس وہ لوگ جو اچھی نیتیں بھی رکھتے ہوں بسا اوقات بعض کام کے پہلو، بعض ذمہ داریوں کے پہلوان کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں.اس لئے عربی میں جو نصیحت کے لئے لفظ استعمال ہوا ہے اور لفظوں کے علاوہ ان میں ایک ذکر ہے اور قرآن کریم میں زیادہ تر یہی لفظ استعمال فرمایا ہے.اس لئے یادہانی کے طور پر قرآنی روح کے پیش نظر میں آپ کو جو UK میں بستے ہیں آپ کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کروں گا اور وہ لوگ جو باہر سے آنے والے مہمان ہیں ان کوان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کروں گا.سب سے پہلے تو گھروں کی پیشکش ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ انگلستان میں جو طرزِ رہائش ہے جس قسم کے گھر یا جتنے جتنے حجم کے کمرے ہوتے ہیں ان میں اس کثرت سے تو مہمانوں کو نہیں بسایا جا سکتا جس طرح ربوہ یا قادیان کے مکانوں میں خواہ وہ غرباء کے مکان ہی کیوں نہ ہوں.وہاں چھوٹے سے چھوٹے غریبانہ مکان میں بھی عموماً برآمدے ہوتے ہیں اور وہ برآمدے کھلے کمروں کا کام دیتے ہیں اور بعض دفعہ ایسا دیکھا گیا ہے کہ ایک ایک برآمدے میں جو بظاہر چھوٹا سا گھر ہوتا
خطبات طاہر جلد۵ 451 خطبہ جمعہ ۲۷ /جون ۱۹۸۶ء ہے اس کا برآمدہ تھا ساٹھ ساٹھ ستر ستر مہمان بھی جلسے کے دنوں میں رات بسر کیا کرتے تھے.اس لئے ویسی سہولتیں اور گنجائشیں تو یہاں نہیں ہیں لیکن اکثر انگلستان میں بسنے والے احمدی قادیان یار بوہ کے تربیت یافتہ ہیں یا ان کو ان روایات سے کچھ نہ کچھ واقفیت ضرور ہے.اس لئے بیڈز اور بریک فاسٹ کے جھگڑوں میں نہ پڑیں اور اپنی پرانی عادتوں کی طرف لوٹ جائیں.اپنے بستر زمین پر بچھا دیں، سارا فرش سب کا بستر ہو جائے اور جتنے بھی کثرت سے آپ مہمانوں کو یہاں سماسکتے ہیں ان کوضرور خوشی سے اپنے گھروں کی پیش کش کر یں.گزشتہ سال کا میرا تجربہ ہے کہ انگلستان کی جماعت خدا کے فضل سے اس معاملے میں ہرگز پیچھے رہنے والی نہیں لیکن انگلستان کے خود باہر سے آنے والے اتنی تعداد میں ہوتے ہیں اور اس سال جو جلسے کی خبریں آرہی ہیں آنے والوں کی وہ تو غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں.اس لئے حتی المقدور سب کوشش کے باوجود بھی آپ ان ضرورتوں کو پورا نہیں کر سکیں گے لیکن جہاں تک ممکن ہے سعادت سے حصہ لیں اور اپنے گھروں کو خدا کی راہ میں پیش کر دیں.وہ مہمان جو آ کر آپ کے آرام میں مخل ہوں گے، اپنے پیچھے ہمیشہ کے لئے بکثرت برکتیں بھی چھوڑ جائیں گے اور تھوڑے دنوں کی تنگی آپ کے لئے لمبے عرصے کے لئے وسعتوں میں تبدیل ہو جائے گی.اس لئے اس خاطر نہیں کہ آپ اس تنگی کی خاطر وسعتیں حاصل کریں بلکہ اس تنگی کو سعادت جانتے ہوئے اگر آپ خدا کی خاطر اسے قبول فرمائیں گے تو وہ وسعتیں جو آنی ہی آتی ہیں اس کے عقب میں ، وہ اور زیادہ شاندار وسعتیں بن کر آئیں گی خدا کی رضا اور پیار کو ساتھ لے کر آئیں گی اور ہمیشہ کے لئے اللہ کی برکتوں کا سایہ آپ کے سر پر رہے گا.دوسری اہم ضرورت کارکنوں کی ہے.انگلستان کی جماعت خدمت کے سب مواقعوں میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہمیشہ پیش پیش رہتی ہے اور کبھی یہاں یہ شکایت پیدا نہیں ہوئی گزشتہ دو اڑھائی سال کے قیام کے دوران کہ خدمت کے مواقع تھے لیکن جماعت آگے نہیں آئی.انصار کیا ، خدام کیا، لجنہ کیا ، حیرت انگیز اخلاص سے انہوں نے ہر آواز پر لبیک کہا ہے لیکن جلسے کی ضرورتیں بظا ہر آپ کی طاقت سے زیادہ معلوم ہوتی ہیں اس وقت.صرف جلسہ کے دوران کی خدمات کا سوال نہیں بلکہ جلسہ سے پہلے اسلام آباد کی تیاری کا بھی سوال ہے.وہاں ایسے کام بھی ہمیں رضا کارانہ طور
خطبات طاہر جلد۵ 452 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء پر لینے پڑیں گے جو بالعموم پیشہ ور مزدور کیا کرتے ہیں اور رضا کارانہ کاموں کی روایات سے کچھ آگے نکل جاتے ہیں.یہ ٹھیک ہے کہ ربوہ میں بھی جلسہ کے دنوں میں بعض دفعہ کارکنان مسلسل چوبیں گھنٹوں میں سے ہیں میں اکیس اکیس گھنٹے جاگ کر گزارتے ہیں ، بہت محنت کرتے ہیں لیکن مزدوری کا کام پھر بھی ایک مزدور ہی کا کام ہے اور وہ زیادہ مشقت طلب ہوتا ہے.اسلام آباد میں جس طرح کے تعمیری کام در پیش ہیں مہمانوں کی آمد کے لئے تیاریاں شروع ہو چکی ہیں اور دقت محسوس ہو رہی ہے اس وقت ہاتھ سے کام کرنے والے نوجوانوں کی کیونکہ بعض فن کے ماہرین تو وہاں موجود ہیں لیکن ان کو مدد مہیا کرنے کے لئے جو، انگریزی میں کہتے ہیں Hands درکار ہیں، جتنے محنت کش چاہئیں ، ان کی کمی محسوس ہو رہی ہے.جو طلبا ءاب چھٹیاں پانے والے ہیں سکولوں یا کالجوں میں اور مضبوط ہیں، محنت کر سکتے ہیں وہ حسب توفیق اگر ہفتہ یا دس دن وقف کریں تو اسلام آباد میں ہر وقت دس پندرہ نو جوانوں کا ایک دستہ رہ سکتا ہے جو اگر اتنی مشقت نہ بھی کر سکے جتنی ایک مزدور کرتا ہے، آپس میں ایک دوسرے کا بوجھ بانٹ کر وہ انشاء اللہ وقت کی ضرورت کو پورا کر سکیں گے.اسی طرح انصار میں سے ریٹائر ڈ ہیں اور بڑی ہمت والے انصار ہیں یہاں کے.وہ بھی وقت دے سکتے ہیں.لجنات پہلے بھی وقت دے رہی ہیں آئندہ بھی انشاء اللہ دیں گی.ان کے لئے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ ہفتہ دس دن کے لئے وہاں جا کر ٹھہر جائیں.لیکن ہفتہ اور اتوار کوخدا کے فضل.بہت شوق و ذوق سے خدمتیں پیش کر رہی ہیں.ނ علاوہ ازیں جلسے کے لئے اپنے شریف النفس دوستوں کو دعوت دینے کا کام ابھی سے شروع کر دیں اور جن کو بھی آپ نے دعوت دینی ہے ان کے متعلق نظام جماعت سے پتہ کر کے ضروری پاس یا جو بھی نشان ان کو ملنے ہیں وہ حاصل کر لیں ورنہ بسا اوقات بڑی الجھن پیدا ہو جاتی ہے.دوست اپنے ذوق و شوق میں محبت کے نتیجے میں تبلیغ کے شوق کے نتیجے میں ، دوستوں کو دعوت دے دیتے ہیں اور پھر ان کو سنبھال نہیں سکتے.نتیجہ جب وہ آتے ہیں تو رضا کا راس خیال کے پیش نظر کہ کہیں کوئی فتنہ پرداز نہ ہو، کوئی شرارت کی نیت سے نہ آیا ہو کیونکہ واقعہ ان دنوں میں شرارت کی نیت سے آنے والے بھی آتے ہیں اور ان کو وہ روکتے ہیں ان کو پوچھتے ہیں تم کون ہو اور کس نے تمہیں بلایا تھا اور بعض دفعہ اس سے بہت برا اثر پڑتا ہے طبیعتوں پر.چنانچہ گزشتہ جلسہ کے بعد مجھے
خطبات طاہر جلد۵ 453 خطبہ جمعہ ۲۷ /جون ۱۹۸۶ء بعض غیر احمدی دوستوں کے خط آئے کہ ہمیں فلاں شخص نے دعوت دی تھی ہم بڑے شوق سے آئے لیکن وہاں جس طرح سختی کے ساتھ ہماری جانچ پڑتال کی گئی ، ہماری تلاشیاں لی گئیں ، ہمیں ہر قسم کی بدظنیوں کا نشانہ بنایا گیا.اس سے اتنی طبیعت میں کوفت پیدا ہوئی اور ہم بغیر جلسہ سننے کے واپس چلے گئے.میں نے تحقیق کی تو ایک دو آدمی ایسے تھے واقعہ جن سے اچھا سلوک نہیں ہوا جس کا مجھے بہت افسوس ہوا.لیکن بالعموم کچھ کوفت ہوئی، کچھ اس کے بعد سمجھ گئے دونوں فریق.پھر ایک دوسرے سے صلح بھی ہو گئی.پھر بڑی محبت کے ماحول میں ان لوگوں نے جلسے بھی سنے.مگر یہ موقع نہیں پیدا ہونا چاہئے.اصولاً یہ بات غلط ہے کہ آپ کسی کو دعوت دے بیٹھیں اور انتظامیہ سے اس کے لئے جو مناسب سہولتیں ہیں وہ پہلے حاصل نہ کی ہوں اور ان کو بے یار و مددگار وہاں چھوڑ دیں اپنے حال پر.یہ آپ کے لئے بھی درست نہیں ، اس مہمان کے لئے بھی درست نہیں اور نظام جماعت کے لئے دو طرح سے نقصان دہ ہے.ایک یہ کہ اگر کوئی مخلص دوست آتے ہیں تو بجائے اس کے کہ وہ سلسلہ کے اور قریب آئیں وہ ٹھو کر کھا کر بہت دور بھی جا سکتے ہیں.دوسرے یہ کہ اگر نرمی کرے جماعت تو پھر بعض فتنہ پردازوں کے لئے شرارت کے رستے کھل جاتے ہیں اور دونوں طرح سے نقصان کا موجب بنتی ہے بات.اس لئے اس بارے میں بھی نظام جماعت کو بھی چاہئے جو بھی جلسے کا نظام ہے انگلستان کی جماعت کے سب دوستوں کو خوب اچھی طرح مطلع کر دیں کہ طریق کار کیا ہوگا تا کہ بغیر کسی دقت کے بغیر کسی خطرے یا نقصان کے ایسے مہمان ہمارے عزت اور شرف کے ساتھ بٹھائے جائیں.ان کے ساتھ محبت اور حسن کا سلوک ہوا اور وہ دل برداشتہ ہونے کی بجائے گرویدہ ہوکر یہاں سے واپس جائیں.جلسے کے دنوں میں یہاں کچھ ایک اور قسم کے سیاح بھی آتے ہیں.وہ ایسے سیاح ہیں کہ ان کو بھی خاص سیر و سیاحت سے نہ کوئی شغف ہے نہ اس کا سلیقہ اور مذاق رکھتے ہیں اور وہ تعاقب کے نام پر یہاں آنے والے ہیں.جہاں جہاں جماعت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ ترقی کے رستے کھولتا ہے وہاں وہاں یہ دوسرے طبقے کے لوگ بھی کشاں کشاں ضرور پہنچتے ہیں.ایک رستوں کو بلانے والے ہیں ایک رستوں سے روکنے والے ہیں.یہ دونوں نظام کائنات کا ایک جزو ہیں اور مذہبی کائنات کا تو ایک لازمی جزو ہیں.جتنا آپ دعوت الی اللہ کو تیز کرتے چلے جائیں گے، جتنا آپ خدا
خطبات طاہر جلد۵ 454 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء کے رستوں کی طرف بلائیں گے اتنا ہی شدت کے ساتھ ان رستوں سے روکنے والے بھی پیدا ضرور ہوں گے.اس لئے قدرت کے حصے کے طور پر انہیں آپ کو قبول کرنا ہوگا.لیکن یہ رستے سے روکتے وقت Foul بھی کھیلتے ہیں یعنی ایک تو رستے سے روکنا یہ ہے کہ آپ بلا رہے ہیں کہ ادھر آؤ خدا کی طرف اور یہ پاس بیٹھے آوازیں دے رہے ہیں بالکل نہیں جانا یہ خدا کا رستہ نہیں ہے یہ شیطان کا رستہ ہے، یہ فلاں رستہ ہے، یہ فلاں رستہ ہے.آوازیں دیتے رہیں جتنا مرضی قافلے تو چلتے رہیں گے.وہ تو رک نہیں سکتے لیکن بعض دفعہ پھر یہ بیچ میں روکیں ڈالتے ہیں.بعض دفعہ پتھراؤ کی کوشش کرتے ہیں ، بعض دفعہ رستہ چلنے والوں پر حملہ بھی کرتے ہیں اور کھلم کھلا یہ اعلان کرتے ہیں کہ جس طرح بھی ہماری پیش گئی جو بھی ہمارے بس میں ہوا ہم نے ہر طرح سے جماعت احمدیہ کو جانی مالی عزت کا ہر قسم کا نقصان ضرور پہچانا ہے.انہی کی وجہ سے دراصل بعض لوگوں سے اخلاق کے اعلیٰ تقاضے پورا کرنے میں کوتاہی ہو جاتی ہے.اگر یہ طبقہ نہ ہو دنیا میں تو جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے سو بسم اللہ ہزاروں لاکھوں کروڑوں جتنے آئیں شوق سے آئیں سر آنکھوں پر آئیں کوئی کسی سے کچھ نہ پوچھے.لیکن ان کے جلائے ستائے ہوئے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو یہ فیصلہ کر کے آتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو جماعت کے جلسے کو نقصان پہنچایا جائے اور وہ کئی قسم کے بھیس بدل کر آتے ہیں اور ابھی سے انہوں نے رابطے شروع کر دیئے ہیں.چنانچہ ہماری اطلاعات کے مطابق بعض مساجد اس کام کے لئے وقف ہو چکی ہیں کہ وہاں نہایت ہی گندے اور جھوٹے الزامات لگا کے ناواقف لوگوں کو طیش دلائیں اور اتنا انگیخت کریں کہ وہ سر دھڑ کی بازی لگا بیٹھیں اور وہ سمجھیں کہ ایک آدمی کا قتل یا دس احمدیوں کو نقصان پہچانا ان کے لئے ساری عمر کی نیکیوں سے زیادہ بہتر ہے.اب آپ کو علم ہی ہے کہ آج کل نیکیوں کا معیار کتنا گر چکا ہے.عام طور پر جو آپ کو مسلمان کہلانے والے نظر آتے ہیں ان میں الا ماشاء اللہ مغرب کی ساری بدیاں جو یہاں بسنے والے ہیں ان میں داخل ہو چکی ہیں اور ہر قسم کے عیوب سے ان کی اسلامی صورت داغدار ہے.اس کے باوجود بلکہ شاید اسی وجہ سے اسی احساس کے پیش نظر جب ان کو جنت کا آسان رستہ دکھایا جاتا ہے.ان کو کہا جاتا ہے اگر تم ساری عمر بے شک شرا میں پیو، جو مرضی ہے کھاؤ ، جس طرح مرضی زندگی بسر کرو کوئی فرق نہیں پڑتا اگر تم ایک احمدی کو مار دو گے تو نہ صرف یہ کہ سیدھا جنت میں جاؤ گے بلکہ بڑی بڑی بزرگ ہستیاں
خطبات طاہر جلد۵ 455 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء تمہارے استقبال کے لئے آئی ہوں گی اور اگر پکڑے جاؤ گے تو ہم پیسہ لگا ئیں گے، تمہارے مقد مے لڑیں گے تم فکر نہ کرو، ہم تمہاری پشت پر کھڑے ہیں.بعد میں پشت پر کھڑے رہیں یا نہ رہیں یہ الگ مسئلہ ہے.یعنی ایک دفعہ تو انگیخت کر کے لوگوں کو نہایت ہی غیر اسلامی حرکتوں پر آمادہ کر دیتے ہیں.تو اس لئے نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے، بیدار مغزی کی بھی ضرورت ہے اور یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ یہ جو رسمی پہرے ہیں یہ کبھی بھی دنیا میں کامیاب نہیں ہوتے.ضروری ہوتے ہیں ایک رعب کی خاطر، ایک شرارت کو پرے رکھنے کی خاطر.اگر یہ رسمی پہرے نہ ہوں تو شرارت زیادہ بے دھڑک ہو کر قریب آجاتی ہے اور بالکل بے حیائی کے ساتھ پھر وہ حملہ کرتی ہے.تو یہ رسمی پہرے کا فائدہ تو ضرور ہے کہ شرارت کو Discourge کرتی ہے اور اس کی حوصلہ شکنی کرتی ہے لیکن اگر کوئی ہوشیاری کے ساتھ رسمی پہروں کو شکست دے کر اپنی بدنیت کو پورا کرنا چاہے تو President of United States کا بھی رسمی پہرہ ہو وہ بھی بے کار چلا جاتا ہے.پوپ کا پہرہ ہو اس کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی.دنیا کی ریاستوں کے بڑے بڑے فرمانروا ہیں یا Democratic Head ہیں مختلف ملکوں کے فرماں روا ہیں ان سب کے پہرے Intelligent Planning کے نتیجے میں نا کام ہو جاتے ہیں.اس کے برعکس ایک ایسا پہرہ ہے جو سوائے جماعت احمدیہ کے اور کسی کو نصیب نہیں ہے.اور جب میں یہ کہتا ہوں تو بلا استثناء بڑی جرات کے ساتھ یہ اعلان کر رہا ہوں کہ یہ ایک خصوصیت ہے جو جماعت احمدیہ کے سوا ساری دنیا میں کسی جماعت کو نصیب نہیں کہ اس جماعت کا ہر فردنگران بن جاتا ہے.اس جماعت کا ہر فرد ذمہ داری کے ساتھ خطرات کو بھانپتا بھی ہے ان کے دفاع کے لئے تیار بھی رہتا ہے اور اپنی ذمہ داری کی طرف جب اس کی توجہ دلائی جائے تو اس طرح سمجھتا ہے گویا سارے دفاع کی ساری ذمہ داری اس پر پڑی ہوئی ہے.بعض دفعہ جلسے کے ایام میں یا دیگر مشاورت وغیرہ کے مواقع پر یا خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں بڑے بڑے دلچسپ نظارے ایسے دیکھے ہیں کہ بوڑھے کمزور اور بعض دفعہ بچے یہاں تک کہ نیم فاطر العقل لوگ بھی کونوں میں کہیں کھڑے ہیں.کہیں رات کے وقت بھی نگرانی ہو رہی ہے، کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کیا کر رہے ہیں یہاں؟ جی ہم دیکھ رہے ہیں کوئی شرارت نہ ہو، کوئی غلط آدمی نہ آجائے.بعض جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسے
خطبات طاہر جلد۵ 456 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء نو جوان بھی ہیں بیچارے دماغ کے لحاظ سے وہ معذور ہیں لیکن جلسے کے ایام میں مشاورت کے دنوں میں بعض دفعہ ساری ساری رات پھرتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں کہ ساری ذمہ داری نظام جماعت کی حفاظت کی اور شرارت سے بچانے کی انہیں کے اوپر آپڑی ہے.ایک دنیا دار ان کو دیکھتا ہے تو اس کو تو شاید اس پرندے کی مثال یاد آ جاتی ہوگی جس کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے سوتا ہے پنجابی میں ہم اسے ٹیٹری کہتے تھے پتہ نہیں یہاں اس کا کیا نام لیا جاتا ہے یا اردو میں کیا نام ہے لیکن ٹیٹری ایک پرندہ ہے.جو ہمیشہ ٹانگیں آسمان کی طرف کر کے سوتا ہے.کہتے ہیں کسی نے اس سے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے تم آسمان کی طرف ٹانگیں کر کے کیوں سوتے ہو.اس نے جواب دیا کہ مجھے خطرہ ہے آسمان گر کر دنیا کو تباہ نہ کر دے.اس لئے اگر میرے سوتے ہوئے بھی گرا تو میں اپنی ٹانگوں پر لے لوں گا اس کو.اب کیا وہ ٹیری اور کیا اس کی ٹانگیں اور کیا آسمان کا گرنا اور دنیا کو اس سے بچانا جانا لیکن ایسے ایسے بیچارے کمزور اور نا تو ان احمدی بھی آپ کو نظر آئیں گے جو اسی ٹیٹری کی طرح ساری دنیا کا بوجھ اپنے دل پر لئے یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے حفاظت کرنی ہے.اب دنیا کی نظر میں تو واقعی ان کی مثال ایک ٹیری کی سی ہوگی لیکن خدا کی نظر میں ان کا اور معاملہ ہوتا ہے، خدا کی نظر میں ان کے مراتب اور قسم کے ہوتے ہیں.بسا اوقات ان میں ایسے بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کے تقویٰ اور انہیں کی نیکیوں کی وجہ سے آسمان گرنے سے روکا جاتا ہے اور زمین والوں کی حفاظت کی جاتی ہے.نیکی اور تقویٰ کے معاملات دنیا کے معاملات سے بالکل مختلف ہیں.پس ان کی بیدار مغزی فائدہ پہنچائے یا نہ پہنچائے.ان کا اخلاص، ان کی خلوص نیت ، ان کی محبت ، ان کی فدائیت ، ان کا ہر دم، سب کچھ تن من دھن ، خدا کی جماعت کے لئے قربان کر دینے کی نیت اور فیصلہ ، یہ جب درگاہ الہی میں قبول ہو جاتے ہیں تو پھر ان کو بڑی عظمتیں عطا ہوتی ہیں اور ان کی یہ کوششیں بے کار اور رائیگاں نہیں جاتیں اور ان حفاظتوں میں جو زمینی کوششیں ہیں ان میں آسمان کی کوششیں داخل ہو جاتی ہے.پس کون کہہ سکتا ہے آج کہ میرے اس اعلان میں کو ئی مبالغہ تھا یا ہوسکتا ہے کہ اس پہلو سے جماعت احمدیہ کے سوا دنیا کے پردے پر آپ کو اور کوئی جماعت نظر نہیں آئے گی.ایک اور صرف ایک جماعت ہے جس کے افراد ایسی روح رکھتے ہیں، ایسے جذ بے رکھتے ہیں.پس آپ میں سے ہر ایک اسی طرح نگران ہو جائے حفاظت کا، اسی طرح بیدار مغزی سے جائزے لے.اپنے دائیں اور بائیں
خطبات طاہر جلد۵ 457 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء کا وہی نگران ہو اور وہی محافظ ہو تو اچانک یہ کمزور جماعت کا حفاظتی نظام حیرت انگیز حفاظتی نظام میں تبدیل ہو جائے گا.اور کسی بادشادہ کو ایسا حفاظتی نظام نصیب نہیں ہوسکتا جیسا اس جماعت کو حفاظتی نظام نصیب ہو چکا ہے اور اگر وہ بیدار مغزی سے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو مزید صیقل ہو سکتا ہے.مقامی دوستوں کی ذمہ داریاں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ بھی ہیں اور بھی ہیں لیکن میرا گزشتہ سال کا تجربہ یہ ہے کہ اتنے شوق اور محبت سے پہلے ہی جماعت اپنی توفیق کی انتہائی حدوں تک ذمہ داریوں کو ادا کرتی ہے کہ مزید اور ذمہ داریاں گنوانے کی سر دست ضرورت نہیں سمجھتا.جو اہم چند باتیں تھیں وہ یاددہانی کے طور پر میں نے پیش کر دیں.اب میں آنے والوں کی کچھ ذمہ داریاں بیان کرنا چاہتا ہوں.آنے والے مہمانوں میں سے بہت سے پچھلے سال بھی غفلت کا شکار ہوئے اس دفعہ بھی اسی طرح غفلت سے کام لے رہے ہیں.باوجود اس کے کہ انگلستان کی انتظامیہ نے کئی ماہ پہلے سے تمام دنیا کی جماعتوں کو لکھ کر مطلع کیا ہے کہ اپنی یہاں رہائش کے انتظام کے سلسلہ میں کتنے دن آپ نے قیام کرنا ہے.کہاں ٹھہرنے کا ارادہ ہے، ہمیں اچھی طرح مطلع کریں اور اگر ہماری خدمات کی ضرورت ہے تو ہمیں پہلے بتا ئیں.لیکن سوائے ایک دو گنتی کے آدمیوں کے نہ جماعتوں کی طرف سے اجتماعی طور پر ان خطوں کا جواب دیا گیا نہ انفرادی طور پر اس قسم کا رابطہ قائم کیا گیا.یا تو امراء جماعت ان چٹھیوں کو پڑھ کر اپنے درازوں میں بند کر دیتے ہیں اور جماعت میں اعلان نہیں کرتے یا عادت ہے ہمارے اکثر دوستوں میں خصوصاً مشرق میں بسنے والوں کی کہ وہ کہتے کہ دیکھا جائے گا جو ہو گا ٹھیک ہوگا.موقع پر پہنچیں گے کہیں نہ کہیں تو جگہ مل جائے گی اور کہیں نہ کہیں جگہ ملنے کی توقع رکھ کر آنے والے پھر اتنی مصیبت میں پڑتے ہیں یہاں آکے کہ بعض دفعہ چار چار، پانچ پانچ گھنٹے ائر پورٹ پر کھڑے ہیں کچھ سمجھ نہیں آتی جانا کہاں ہے اور اپنے قصور کو پھر میزبانوں کے سر پر تھوپتے ہیں.پچھلے سال ایک بڑے ذمہ دار دوست نے آپ اطلاع نہیں دی کسی کو بتایا نہیں میں کون ہوں کب آرہا ہوں اور مجھ سے آکر شکوہ کیا کہ جی میں کمزور آدمی ہوں امیر جماعت اور میں چار گھنٹے یا پانچ گھنٹے وہاں ائر پورٹ پر خراب ہوتا رہا ہوں کسی نے نہیں پوچھا.پتہ لگا کہ اچھا بھلا پوچھا تھا وہاں جو دوست گئے تھے انہوں نے پوچھا ان کو کہ آپ کون ہیں؟ ہمارے ساتھ چلیں لیکن چونکہ تعارف نہیں
خطبات طاہر جلد۵ 458 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء تھا اس لئے غیر معمولی توجہ نہیں کر سکے.ان کا سامان دیر سے نکلنا تھا اس لئے باقی جو Van نے جانا تھا، باقی لوگوں کو جلدی تھی ان کو چھوڑ کر چلے گئے کہ اگلی دفعہ آ کر لے جائیں گے.اگلی دفعہ وہ اپنی جگہ چھوڑ کر کہیں اور جاچکے تھے.تو اس طرح اتنا بڑا ائر پورٹ ہے، لاکھوں آدمی روزانہ آتے ہیں اس پر.کیسے ممکن ہے کہ بغیر اطلاع کے بغیر واقفیت کے ہر آدمی کی طرف اس قسم کی ذاتی توجہ ہو سکے.تو پھر تکلیفیں بھی اٹھاتے ہیں اور نا واجب پھر مقامی جماعت کو کوستے بھی ہیں.اس لئے ابھی بھی دو تین ہفتے باقی ہیں یہ خطبہ تو بہت جلد پہنچ جائے گا جماعتوں تک.میں اس خطبہ کے ذریعے متنبہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے خطبہ سنتے ہی منتظمین نے آگے اطلاع نہ کی اور سننے والوں نے خود اپنی ذمہ داری کو نہ سمجھا اور لندن کی جماعت جس کے افسر جلسہ اس وقت ہدایت اللہ صاحب بنگوی ہیں ان کو یا امام صاحب لندن کو یا امیر صاحب لنڈن کو انہوں نے اپنی ضروریات، اپنے پروگرام سے مطلع نہ کیا تو پھر وہ خالصہ اپنی تکلیف کے خود ذمہ دار ہوں گے.جہاں تک انتظامات کا تعلق ہے سارے مہمانوں کو تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا انگلستان کی جماعت Accomodate کر ہی نہیں سکتی ، ان کو جگہ مہیا کر ہی نہیں سکتی یعنی ان کی توفیق میں نہیں ہے.اور جہاں تک دوسری جگہوں کا تعلق ہے ان ہوٹلوں اور Bed and Break Fast جگہوں کا.ان دنوں میں ایک ایسی تقریب ہونے والی ہے یہاں جلسے کے دنوں میں کہ جس کی وجہ سے اگر پہلے آنے والے مہمانوں نے اپنی جگہ کا انتظام نہ کیا تو ہوسکتا ہے ان کو باہر سٹرکوں پر سونا پڑے پھر Royal Wedding ہو رہی ہے یعنی شاہی خاندان میں ایک شادی ہو رہی ہے ان دنوں میں اور دنیا کو ایک قسم کا Craze ہے ایک دیوانگی ہے اس بات کی کہ شاہی شادی دیکھیں اور ڈھول ڈھمکا یا روشنیاں جو یہاں جلیں گی اس کو دیکھنے کے لئے ہزار ہا میل سے لوگ سفر کر کے بڑی کثرت سے یہاں پہنچنے والے ہیں.تو جہاں ایک طرف خدا کی خاطر آنے والوں کا ہجوم ہوگا وہاں اس سے بہت ہی زیادہ دنیا کے لئے آنے والوں کا ہجوم بھی تو ہو گا اور ان کی استطاعتیں آپ سے زیادہ ہیں.ان کے اموال دولتیں آپ سے بہت زیادہ ہیں.وہ ہر قیمت پر زیادہ سے زیادہ رقمیں خرچ کر کے بھی اپنے لئے جگہ مہیا کر سکتے ہیں مگر احمدی جو چندے بھی دیتے ہیں عام طور پر درمیانی حالت کے لوگ ہیں ، ان کو کہاں توفیق ہوگی کہ ان کا مقابلہ کر کے وہ زیادہ قیمت دے کر پھر رہائش کا انتظام کریں.
خطبات طاہر جلد۵ 459 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء اس لئے اس سال خصوصیت کے ساتھ آپ کو میں متنبہ کرتا ہوں کہ اگر آپ نے پہلے مناسب انتظام نہ کیا یا مقامی جماعت کی خدمات سے جو بڑے خلوص سے وہ پیش کر رہی ہیں استفادہ نہ کیا تو پھر ہر قتم کی تکلیف کے لئے ذہنی طور پر تیار ہو کر آئیں.ایک انتظام اجتماعی خیموں کا انتظام ہے وہ غالباً دو ہزار مہمانوں یا کم وبیش اس سے کچھ زیادہ یا کم کا انتظام اسلام آباد میں انشاء اللہ تعالیٰ ہو جائے گا.اس کے لئے تیاریاں ہو رہی ہیں پوری طرح لیکن بہت سے آنے والے ایسے بھی ہیں جو ان وقتوں کے ساتھ شاید نہ ٹھہر سکیں خاص طور پر غیر ملکوں سے، پاکستان کے علاوہ جو ممالک ہیں ان سے آنے والے ان کو عادت نہیں ہوتی اس طرح بڑے مجمع میں بستر کے ساتھ بستر لگا ہوا جس میں مشکل سے کروٹ کی جگہ ملتی ہے کثرت کے ساتھ لوگوں کے اندر ٹھہر سکیں.ان کی عورتیں الگ ہوں گی مرد الگ ہوں گے اور ان کا آپس میں ملنے جلنے کا انتظام کرنا، پیغام بھیجنا.ان کا Hygine کا معیار یعنی صفائی کا معیار یہ ساری چیزیں کافی دقت طلب ہیں.جو لوگ خلوص اور محبت سے خدا کی خاطر آنے کے عادی ہیں یعنی ربوہ اور قادیان کے جلسوں میں وہ تو خوب برداشت کر لیتے ہیں آرام سے مگر یہاں بہت سے نئے آنے والے بھی ہونگے ان کو تجربے نہیں ہیں ان چیزوں کے.اس لئے دوبارہ میں بتا تا ہوں کہ اگر اس انتظام میں بھی ٹھہرنا ہے تو پہلے یہ لکھنا چاہئے کہ ہم جماعت کے اجتماعی انتظام میں ٹھہرنے کی درخواست کر رہے ہیں.ورنہ یہ نہ ہو کہ یہ انتظام بھی اپنی حد استطاعت تک پہنچ جائے اور مزید وہاں ٹھہرانے کی گنجائش ہی کوئی نہ ہو اور آپ یہ خیال کر کے آجائیں کہ ہمیں وہاں جگہ مل جائے گی.اس ضمن میں ایک یہ بات بھی ضروری ہے بتانے والی کہ ربوہ اور قادیان کے جلسوں کی جو روایات تھیں ان روایات کو جہاں تک ممکن ہے پورا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور یہ کوشش کی گئی ہے باوجود اس کے کہ یہاں اخراجات غیر معمولی طور پر زیادہ ہیں یعنی کم سے کم دس گنا زیادہ اخراجات ہیں مہمانوں پر آنے والے جور بوہ کی اسی تعداد کے مہمانوں پر آسکتے تھے.اس کے باوجود یہ کوشش کی گئی ہے کہ سہولتیں کم نہ ہوں کچھ زیادہ ہی ہوں مگر پھر بھی وہ واجبی سہولتیں ہیں.ان سہولتوں میں سے ایک ایسی سہولت ہے جو جماعت مہیا نہیں کر سکی تھی یعنی ہر ایک آنے والے کو بستر مہیا کرنا.ربوہ اور قادیان کے جلسوں میں تو سارے بستر خود لے کر آتے ہیں اور ان کے لئے وقت بھی کوئی
خطبات طاہر جلد۵ 460 خطبہ جمعہ ۲۷ جون ۱۹۸۶ء نہیں.یہاں وہ ہوائی جہازوں پر کہاں بستر اٹھا اٹھا کر ساتھ لئے پھریں گے بڑا مشکل ہے.تو یہ مسئلہ در پیش تھا اس پر میں نے جماعت کو یہ ہدایت کی کہ اگر ہم ایک مناسب سائیز (Size) کا بستر خود خدام اور انصار اور لجنات کی مدد سے بنالیں تو کتنے میں بنتا ہے یہ پوچھا ان سے.چنانچہ غور وفکر کے بعد پتہ لگا کہ دس پاونڈ میں خدا کے فضل سے نہایت اچھا مناسب بستر مل جاتا ہے.تو جو اتنا خرچ کر کے باہر سے آتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ چالیس پچاس پونڈ کرایہ دے کر اپنا بستر ساتھ اٹھا کر پھریں ، وہ بھی مصیبت.وہ یہاں آکر دس پونڈ میں بستر خرید سکتے ہیں اور یہ بستر اس طرح کا ہوگا کہ آسانی سے واپس بھی لے جایا جا سکے گا اور ہلکا پھلکا ہو گا.عموماً آنے والے یہاں کے خاص قسم کے لحاف جو دھل سکتے ہیں بار بار وہ خریدا ہی کرتے ہیں.تو اسی قسم کا بستر بنایا جارہا ہے.اس میں چادر اور تکیہ اور تو شک اور لحاف یہ چار چیزیں ہیں غالباً.چادر کا مجھے یقین نہیں لیکن باقی چیزیں ہیں.تو جو بھی دوست یہاں اجتماعی مہمان خانے میں ٹھہر نا چاہیں وہ یہ بات سمجھ کر آئیں کہ یہاں آکر بحث نہ شروع کر دیں کہ جی مجھے بستر دوورنہ میں شکایت کرتا ہوں.یہاں اگر 10 پونڈ دیں گے تو بستر ملے گا اور پھر وہ آپ کا ہو جائے گا.یہ اسلئے نہیں کہ آپ کو بستر بیچا جا رہا ہے بلکہ اس لئے رکھا جا رہا ہے کہ اگر آپ نہیں لا سکتے تو آپ کو بازار نہ جانا پڑے.اس پس منظر میں اس کو سمجھیں اور یہ سمجھیں کہ آپ کو بستر تو بہر حال مہیا نہیں کئے جا سکتے جماعت کی طرف سے نہ روایات کے مطابق ہے.بستر خرید نے کی نہایت عمدہ سہولت وہاں مہیا کر دی جائے گی.صفائی کے متعلق یہاں کے رہنے والوں کو بھی اور باہر سے آنے والوں کو بھی بار بار نصیحت کی ضرورت ہے.ہم جس ملک میں آرہے ہیں اگر چہ گزشتہ ہیں، پچیس سال کے مقابل پر اس کا اپنا صفائی کا معیار بہت گر چکا ہے.انفرادی رہن سہن کا بھی ، طرز بود و باش کا بھی اور عام بازار میں چلتے پھرتے صفائی کی جو عادات ہوتی ہیں ان سب لحاظ سے اس ملک کا معیار بدقسمتی سے بہت گر چکا ہے.لیکن ابھی بھی پاکستانی یا ہندوستانی یا بنگلہ دیشی یا دیگر ممالک کے معیار سے بہت اونچا ہے اور یہ لوگ خود کوئی گندی حرکت کریں تو اس کو یہ لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں.اگر آنے والا مہمان جس کو یہ Coloured کہتے ہیں.جس کا رنگ ان کے رنگ کی نسبت ذرا سانولا ہو، اس کی تو چھوٹی سے چھوٹی غلطی کو بھی نظر انداز نہیں کرتے اور Tilford کا علاقہ Conservatives کا علاقہ ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 461 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء وہاں قدامت پسند لوگ ہیں اور نسبتاً امیر لوگ ہیں اور باقی انگلستان کے شہروں کے مقابل پر Tilford کے اردگرد بسنے والی آبادی کا اپنا صفائی کا معیار کافی اونچا ہے اور میں نے ان کو دیکھا ہے وہ خود جب سیر کی پارٹیوں پر جائیں تو رستہ میں وہ کوک کے خالی ڈبے بھی پھینک دیتے ہیں، اس اچھے میعار کے باوجود اور سگریٹ کی ڈبیاں اور دوسری چیزیں کئی آپ کو نظر آئیں گی پھینکی ہوئی.باہر کی نسبت کم لیکن پھر بھی نظر آتی ہیں لیکن لجنہ کی واک کے موقع پر.کسی نے ایک ڈبہ گرا ہوا دیکھ لیا تھا تو اس پر اعتراض شروع ہو گئے اور ایک صاحب نے اخباروں میں بھی خط لکھ دیا کہ یہ لوگ آتے ہیں گند پھیلا دیتے ہیں ہمارے علاقے میں.حالانکہ وہ اس طرح رہ گیا تھا کہ میں نے فوری طور پر اس سیر کے بعد وہاں آدمی دوڑا کر ، آدمی بھجوا کر سارے ڈبے اور سارے کاغذ کے ٹکڑے، لفافے ، پلاسٹک کے تھیلے جو پھینکے گئے تھے سب اکٹھے کروا لئے تھے لیکن چونکہ رات جلدی آگئی اس لئے ایک آدھا رہ گیا پیچھے اور اس کو بھی اعتراض کا نشانہ بنالیا گیا.اب جب کہ ہزار ہا آدمی کثرت سے آئیں گے اور نسبتا ادنی صفائی کے معیار کے ملکوں سے تعلق رکھنے والے آئیں گے تو خطرہ ہے کہ اگر وہاں انہوں نے صفائی کے معیار کا خیال نہ کیا تو علاقے کے لئے بہت سے اعتراضات کے نشانے چھوڑ جائیں گے.آنے والے تو آکر چلے جائیں گے پیچھے مقامی لوگوں کے لئے مصیبت بنی رہے گی.کوئی نہ کوئی مضمون اخبار میں آئے گا.کوئی کونسل والا باتیں کرے گا کہ یہ لوگ گندے ہیں ہم کہا نہیں کرتے تھے کہ ایشیائیوں کو جگہ دے دی تو گند پھیلے گا.تو ایشیائیوں کی غیرت کا سوال نہیں ہے احمدیوں کی غیرت کا سوال ہے.اسلام کی غیرت کا سوال ہے ہم تو کسی ملک سے تعلق رکھنے کی حیثیت سے یہاں نہیں آئیں گے.جب افریقن آئے گا، جب امریکن آئے گا، جب نائجیر ئین آئے گا، جب انڈونیشین آئے گا، جب میجین آئے گا ، جب ماریشین آئے گا، پاکستانی یا بنگلہ دیشی آئے گا تو وہ سارے کسی ملک کی نمائندگی میں نہیں بلکہ احمدیت کی نمائندگی میں آئیں گے.وہ سارے اسلام کی نمائندگی میں آئیں گے.وہ حضرت محمد مصطفی اے کے سفیر بن کر یہاں آئیں گے اور اسلام کا معیار صفائی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ساری دنیا کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ قوموں کے معیار صفائی سے اونچا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت پر آپ غور کر کے دیکھیں.اس زمانے میں آج
خطبات طاہر جلد۵ 462 خطبہ جمعہ ۲۷ جون ۱۹۸۶ء سے چودہ سو برس پہلے جس طرح کی صفائی آپ نے اپنی رکھی اور جس طرح کی صفائی کی تعلیم دی، حیرت سے سر جھک جاتا ہے آپ کی عظمت کے سامنے حیران ہو جاتا ہے انسان کہ کتنا عظیم انسان تھا صرف صفائی کے نکتہ نگاہ سے ہی دیکھ لیں.عرب کا جاہلیت کا چودہ سوسال پہلے کا زمانہ اتنی نفیس، اتنی نظیف تعلیم ہے اتنی باریکیوں میں اتر کر تعلیم دی گئی ہے.جو بظاہر اپنی تعلیم تہذیب پر نازاں ہیں وہ آج بھی اسلامی تعلیم کا مقابلہ نہیں کر سکتے صفائی کے معیار کے لحاظ سے.کثرت سے ایسی چیزیں ہیں جو ان کو مغربی تہذیب نے نہیں عطا کیں اور اسلام سے لا بلد ہیں اس لئے ان کو ملی نہیں.کاغذ کی صفائی ، پیشاب کر رہے ہیں اور اسی طرح کپڑے پہن لیتے ہیں، گند اور بدبو کا اجتماع ساتھ لئے پھرتے ہیں اور اس کو وہ صفائی سمجھتے ہیں.اور منہ گورا چٹا کر لیا تو معیار صفائی کا پورا ہو گیا.یہ اعتراض کی خاطر نہیں بتا رہا، موازنے کی خاطر بتارہا ہوں.ہر چند کہ ان کا عام معیار صفائی کا بہت بلند ہے لیکن جب اسلام کی تعلیم کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھتے ہیں تو ان میں بہت بڑے خلا دکھائی دیں گے.پس آپ کو اسلام کے نمائندے کے طور پر صفائی کا معیار ساتھ لے کر آنا ہے اور ان کو سکھا کر جانا ہے نہ کہ ان کے اعتراض کا نشانہ بن کر.اس لئے جہاں اندرونی صفائی میں آپ کا پاکیزگی کا معیار بہت بلند ہے وہاں بیرونی صفائی میں اپنی خامیوں پر نظر رکھیں اور سنت سے جہاں جہاں احتراز کر کے آپ نقصان اٹھا بیٹھے ہیں وہاں سنت کی طرف واپس لوٹیں.حضرت محمد مصطفی ﷺ نے رستوں کے حق مقرر فرمائے اور رستوں کے حقوق میں سے ایک حق یہ تھا کہ کوئی چیز بھی جو کسی طرح بھی انسان کے لئے آزار کا موجب بن سکتی ہے اسے رستے سے دور کر دو اور اس تعلیم کو ایمانیات میں داخل فرمایا، اتنا بڑا مرتبہ دیا.فرمایا ایمان کے ستر شعبے ہیں اور سب سے ادنی شعبہ ایمان کا یہ ہے کہ رستوں کے حقوق ادا کرو اور کوئی ایسی چیز جو کسی رنگ میں بھی تکلیف کا موجب بنے اس کو دور کر دو.(مسلم کتاب الایمان حدیث نمبر :۵۱) اب یہاں جگہ جگہ انسانوں کی نہیں تو جانوروں کی غلاظتیں آپ کو ملیں گی رستوں میں اور کوئی ان کی پرواہ نہیں کرتا.اگر اسلامی تعلیم کو ملحوظ رکھا جائے تو ہر وہ چیز جو نظر کو تکلیف دے، جو انسانی طبیعت کی نفاست کو تکلیف دے، جو اس کے پاؤں کو تکلیف دے یا ہا تھ کو تکلیف دے یا بدن کے کسی حصے کو تکلیف دے ہر اس تکلیف دہ
خطبات طاہر جلد۵ 463 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء چیز کا دور کرنا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے ایمان میں داخل فرما دیا.اس سے زیادہ صفائی کی اور تعلیم کیا دی جا سکتی تھی یعنی زور کیسے دیا جا سکتا تھا، یہ میرا مطلب ہے تعلیم تو بڑی وسیع ہے، بڑی کثرت سے باریک حصوں تک اترتی ہے.اس لئے اب منہ کی بات ہے.جہاں منہ سے بد بوچھٹ رہی ہو ،کھایا ہے جو کچھ اس پر کلی کسی نے کی ہے یا نہیں کی ، منہ کے اندر ٹکڑے خوراک کے گل سڑ رہے ہیں اور بو کے بھبا کے چھٹتے ہیں.شراب پی کر تمباکو نوشی کے ذریعے اور ذرائع سے اور چیزوں کے استعمال سے، کوئی پرواہ نہیں.آنحضرت ﷺ نے اتنی تعلیم دی کہ دن میں پانچ مرتبہ وضو کے ذریعے منہ کی صفائی ضروری قرار دینا تو الگ رہا یہ بھی فرمایا کہ میں تو یہ توقع رکھتا ہوں کہ جس سے ممکن ہو پانچ دفعہ مسواک بھی کیا کرے.( بخاری کتاب الجمعہ حدیث نمبر : ۸۳۸) یعنی صرف کلی نہ کیا کرے.بلکہ مسواک کیا کرے اور پھر فرمایا کہ کوئی ایسی چیز کھا کر نہ آؤ مسجد میں یا پبلک جگہوں پر جس سے تمہارے منہ سے بد بو آتی ہو اور بدن پر بھی خوشبو لگا کر رکھو.(مسلم کتاب المساجد ومواضع الصلوۃ حدیث نمبر : ۸۷۰) اب اندازہ کریں یہ چودہ سو سال پہلے کی تعلیم معلوم ہوتی ہے یا دوسوسال بعد آنے والے کی تعلیم معلوم ہوتی ہے.اس لئے اس تعلیم کے معیار کو سامنے رکھ کر آنے والے بھی اور مقامی دوست بھی صفائی کے تقاضوں کو اس رنگ میں پورا کریں کہ یہاں کے رہنے والے دیکھیں یقین جانیں کہ آپ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان سے بہتر قوم ہیں، ایک بہتر رہنما کے غلام ہیں اور ہر لحاظ سے خدا کے فضل آپ کو نمونہ بننا چاہئے نہ کہ گرا ہوا معیار پیش کرنا ہو.باہر سے آنے والوں کے لئے بھی حفاظت کے معاملے میں وہی تعلیم ہے جو میں پہلے مقامی دوستوں کو دے چکا ہوں اور رضا کارانہ خدمت کے لحاظ سے بھی باہر والوں کو بھی اپنے نام دینے چاہئیں.عموماً قادیان اور ربوہ کے جلسوں میں باہر سے آنے والی جماعتوں کے دوست بھی شوق سے اپنے نام پیش کیا کرتے ہیں اور ان کو قبول بھی کر لیا جاتا ہے.یہاں کے رضا کاروں کی کمی بہت حد تک اس طرح پوری ہو جائے گا کہ دنیا کی باہر کی جماعتوں کے لوگ جو شوق اور جذبہ رکھتے ہیں وہ پہلے نام بجھوا دیں.وقت پر آکر اگر وہ نام دیں گے تو ضروری نہیں کہ پھر ان کی خواہش کو پورا کیا جاسکے
خطبات طاہر جلد۵ 464 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء پہلے بھیجیں تا کہ انتظام میں ان کو مناسب جگہوں پر مقرر کر دیا جائے اور با قاعدہ نظام کا حصہ بن کر پھر وہ کام کریں.اس سلسلہ میں جو پاکستان سے آنے والے دوست ہیں جو محنتی ہیں اور مزدوری کا کام بھی کر سکتے ہیں وہ اگر جلدی سے جلدی یہاں پہنچ سکیں تو بہتر ہے تا کہ دو ہفتے ، اڑہائی ہفتے دس دن جتنا بھی ان کو توفیق ملے اسلام آباد کی ضرورتوں کو پورا کر سکیں.اسی طرح روٹی لگانے والے بھی اور لنگر کا کام کرنے والے محنت کرنے والے بھی جو اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں اور وقت سے پہلے ذرا جلسے سے پہلے تشریف لا سکتے ہوں تو بڑی یہ ان کی مقبول خدمت ہوگی.اپنی نقدی اور قیمتی سامان وغیرہ کی حفاظت کا خیال رکھیں.انگلستان میں اب وہ معیار اخلاقی نہیں رہا جو پہلے کسی زمانے میں ہوتا تھا.چوریاں تو اس وقت بھی ہوتی تھیں لیکن اب تو حد سے بڑھ گئی ہیں اور رستہ چلتے اچکنے والے اچک لیتے ہیں چیزوں کو.عورتیں ہوں یا مرد ہوں کوئی بھی محفوظ نہیں ہے اس لحاظ سے تو بہت ہی حفاظت سے اپنی چیزوں کو رکھیں.خصوصاً کاغذات پاسپورٹس وغیرہ ان کی حفاظت کریں اپنے اندر کی جیبوں میں رکھیں یا اس طرح ہاتھ میں پکڑیں کہ کوئی اچانک جھپٹا مار کے چھین کے نہ لے جائے آپ سے.یہاں پچھلی دفعہ اس قسم کا ایک واقعہ ہوا اس طرح ہمارے ایک بزرگ دوست جارہے تھے.ایک کار کی اس میں سے حملہ آوروں نے باہر نکل کر ایک دم حملہ کیا اور ان کے شور مچانے کی آواز آئی لیکن معاملہ نکل چکا تھا ہاتھ سے.ان کا بیگ لے کر بھاگ گئے.اس میں ان کے روپے، ان کا پاسپورٹ ، ان کے سارے قیمتی کا غذات سب چیزیں شامل تھیں.اور ایک چیز احمدیوں کو نصیب ہے جو دوسروں کو نصیب نہیں ہے وہ ان کے کام آگئی اللہ کے فضل سے.وہ سیدھا بجائے پولیس کے پاس جانے وہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری پہنچے اور دعا کے لئے کہا اور جماعت میں پہنچے اور کہا کہ میرے لئے اعلان کر دود عا کا.اب یہ جو پولیس رپورٹنگ ہے یہ بھی ایک احمدی کی شان ہے اور دنیا میں کسی کو نصیب نہیں.پہلا خیال ہی دل میں یہی آتا ہے کہ دعا کروانی چاہئے اللہ مدد کرے گا اور اس کے نتیجے میں ایک معجزہ بھی ایسا ہوا کہ دوسرے لوگوں کے نصیب میں دیکھا نہیں گیا ایسا معجزہ.دوسرے دن پولیس کا فون آیا کہ ایک بیگ ملا ہے.ایک پاکستانی کا ہے.اس میں پاسپورٹ بھی ہے اس میں یہ یہ چیزیں ہیں اور چونکہ وہ ایشین ہے پاکستانی ہے اس لئے ہم سمجھتے ہیں
خطبات طاہر جلد۵ 465 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء آپ کی مسجد کو اس کا پتہ ہوگا وہ بتائیں ، وہ ان کا نکلا.جب وہ لینے گئے تو اصل جو لطف کی بات ہے وہ یہ ہے ایک آنہ بھی اس میں سے نہیں نکالا گیا تھا.تمام کاغذات اسی طرح ، ایک ایک پیسہ، ہر چیز اسی طرح تھی اور وہ لے جانے والے نے ایک ایشین کی دکان کے سامنے رکھ دیا اور آپ وہاں سے غائب ہو گیا.اس کے دل میں پتہ نہیں خدا نے کیا بات ڈالی ہے حالانکہ وہ بھاگ چکا تھا کوئی اس کے پکڑے جانے کی کوئی صورت نہیں تھی لیکن خدا کے فرشتوں نے اس کے دل کو کچھ ایسا قائل کر لیا کہ دوسرے دن مجھے ان کی طرف سے اطلاع ملی کہ ہر چیز اس طرح مجھے خدا کے فضل سے مل گئی ہے.تو یہ واقعات بھی ہوتے ہیں لیکن چونکہ یہ ہوتے ہیں اس لئے آپ اپنی چیز میں گانا شروع کر دیں.یہ تعلیم میں نہیں دے رہا چیزوں کی حفاظت آپ کا ذمہ ہے.آنحضرت ﷺ نے تو کل کی ایک تعریف فرمائی ہے اس کو پیش نظر رکھیں اور کبھی کسی نے تو کل کی ایسی تعریف نہیں فرمائی.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں تو کل یہ نہیں ہے کہ اونٹ کو صحرا میں کھلا چھوڑ دو اور پھر تو کل کرو کہ وہ نہیں گے گا.تو کل یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھ دو پھر بے شک چلے جاؤ اور پھر ہر وقت وہموں میں مبتلا نہ رہنا.پھر تو کل کرو جو تم نے کرنا تھا کر لیا.(ترمذی کتاب صفۃ القیامہ حدیث نمبر: ۲۴۴۱) پھر خدا کی تقدیر نے جو کرنا ہے وہ تمہارے لئے کرے.اس کا نام تو کل ہے.آپ اگر یہ تو کل کریں گے جو اسلامی تو کل ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے اعجازی نشان بھی دیکھیں گے.مگر جاہلانہ تو کل اگر کریں گے جس کا اسلام سے تعلق نہیں ہے تو کوئی نشان آپ کو نہیں دکھایا جائے گا.بچوں کی حفاظت کا خیال رکھیں.ان کے گلوں میں تختیاں لٹکا دیں پتوں کی لکھ کر، انگریزی زبان میں اور یہ بھی خیال رکھیں کہ یہاں بچوں کا گم ہونا بہت ہی خطرناک ہے.پاکستان میں یا ہندوستان میں بھی بعض جرائم بچوں کے معاملے میں نظر آتے ہیں لیکن یہاں کوئی اخلاقی حد نہیں ہے اس معاملے میں.چھوٹے چھوٹے بچوں کو بعض دفعہ انتہائی بہیمانہ ظلموں کا نشانہ بنا کر، ہوس پرستیوں کا نشانہ بنا کر قتل کر کے پھینک دیا جاتا ہے اور یہ واقعات اتفاقی کبھی کبھی ہونے والے نہیں.آئے دن یہاں یہ واقعات ہورہے ہیں.شاذ ہی کوئی ہفتہ کوئی مہینہ ایسا گزرتا ہو کہ جبکہ اس قسم کے بھیانک واقعات سامنے نہ آتے ہوں.تو اپنے بچوں کی خاص طور پر حفاظت کا خیال کریں.تبلیغ کے جتنے مواقع میسر آئیں اس سے فائدہ اٹھائیں.لٹریچر اگر وہاں سے مل سکتا ہے
خطبات طاہر جلد ۵ 466 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء انگریزی زبان میں ، دوسری زبانوں میں تو ساتھ لے کر آئیں.اپنے حسن خلق سے اپنے آپ کو لوگوں کی نگاہوں کی دلچسپی کا مرکز بنا دیں.نگاہیں پڑیں اور استفہام کے ساتھ پڑیں، کون ہیں یہ؟ مختلف ہے عام لوگوں سے، ان کی طرز ، انکی ادا الگ ہے.لوگ خود آگے بڑھ کر آپ سے پوچھیں کہ تم کون ہو.تو پھر آپ کو توفیق ملے ، موقع ملے کہ آپ نہایت حسین انداز میں اسلام اور احمدیت کا تعارف کرائیں.ایک اور بات یاد رکھیں قرآن فرماتا ہے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن :۶۱) کہ احسان کا بدلہ احسان سے دینا چاہئے.جب آپ یہاں تشریف لائیں گے تو مقامی جماعت للہی جو آپ کی خدمت کرے گی اللہ کی خاطر اور شوق اور محبت سے اپنی سعادت جانتے ہوئے آپ کی میزبانی کرے گی اس کے ساتھ اگر آپ احسان کا معاملہ ویسے نہیں کر سکتے تو دعا تو کر سکتے ہیں.لیکن یہ نہ کریں کہ آکر ان پر بوجھ بن کر بیٹھے ہی رہیں، ان کی حیا کی آزمائش کرنے لگ جائیں.تنگی میں رہنے والے لوگ ہیں، عورتوں کو خود محنت کرنی پڑتی ہے ، بعضوں کو کمانا بھی پڑتا ہے پھر گھر کا بھی خیال رکھنا پڑتا ہے.بچوں کو سنبھالنا محنت طلب ہے اور اوپر سے پھر مہمان نوازیاں اور پھر مہمان ایسا کہ جو آ کر پھر جانے کا نام ہی نہ لے، بیٹھ ہی رہے اور شکریہ ادا کرتار ہے اور اس کے بعد جانے کی بات ہی نہ کرے کبھی.جلسے کی مہمانی زیادہ سے زیادہ دس دن کی ہے.عام مہمانی تو تین دن کی ہوتی ہے، ہم نے دس دن کی مقرر کر دی ہے.دس دن کے بعد سوائے اس کے کہ آپ کے رشتہ دار ایسے عزیز اور قریبی ہوں جو آپ کو روک رہے ہوں زبر دستی آپ کا کوئی حق نہیں ہے وہاں رہنے کا.اس لئے یا واپس جائیں یا اپنا انتظام خود کریں.اگر آپ اس کے بغیر رہیں گے تو آپ زیادتی کرنے والے ظلم کرنے والے ہونگے هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ پر عمل کرنے والے نہیں ہوں گے.ایک اور بات کا خیال رکھیں کہ یہ بیماری بعض لوگوں میں پائی جاتی ہے کہ یہاں آتے ہیں مہمان بھی بنتے ہیں اور اس کے بعد کہتے ہیں کہ جی اگر آپ ہمیں ہزار پاؤنڈ دے دیں تو ہم آپ کو واپس جا کر بھجوا دیں گے آپ فکر نہ کریں.یہ ضرورت پیش آگئی ہے، وہ ضرورت پیش آگئی ہے.اس کے بعد پھر نہ وہ چٹھیوں کا جواب دیتے ہیں نہ ان کا پتہ لگتا ہے کہ کہاں غائب ہو گئے اور پھر مجھے
خطبات طاہر جلد۵ 467 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء چٹھیاں آئیں ہیں تو پتہ چلتا ہے.بڑا ہی ظلم ہے، بہت ہی اخلاق سے گری ہوئی بات ہے.یہاں کسی جماعت میں جا کر مہمان بنے اور پھر خدمت کرنے کی بجائے ان سے پیسے مانگ کر بھاگ آئیں وار پھر ان کو پیسوں کی ادائیگی کا خیال کرے گا اور اس کا کردار اس کی ضمانت ایسی موجود ہے پھر بے شک ورنہ آپ اس کی مدد کریں اور اپنے ایمان پر زخم لگالیں یہ کونسا سودا ہے عقل کا.دونوں جگہ نقصان پہنچتا ہے.یہ تو بے ایمان بن ہی جاتے ہیں خدا کی نظر میں جو پیچھے رہ جانے والے ہیں بے چارے ان پر بڑا برا اثر پڑتا ہے کہ اچھے لوگ تھے ، یہ کہاں سے آئے تھے،کس قسم کی مخلوق ہیں؟ احمدیت کے بھائی چارے کی خاطر ، احمدیت کی محبت کے لئے ہم نے ان سے یہ یہ کچھ کیا اور بجائے اس کے ہم سے پیار اور محبت کا سلوک کر کے جاتے ہمیں مصیبت میں مبتلا کر گئے ہیں.بعض لوگوں نے قرض لے کر دیئے لوگوں سے، بنکوں سے اور جانے والا بھول گیا.تو مقامی دوستوں کو تو میں نصیحت کرتا ہوں ہر گز قرض مانگنے والوں کی طرف توجہ ہی نہ دیں اس معاملے میں.اگر کوئی خطرناک ضرورت ہے تو اس سے کہیں نظام جماعت کی طرف رجوع کرو.اگر تمہاری ضمانت کوئی ایسی ہے جس پر نظام جماعت کو تسلی ہو اور وہ سفارش کرے تو پھر ہم دینے کے لئے تیار ہیں ورنہ ہم ہرگز نہیں دیں گے.اپنے طور پر اگر آپ کو شرم آتی ہے تو میرے اس کہنے کے بعد مجھ پر ذمہ داری ڈالیں آپ کہیں کہ ہمیں ہدایت یہی ہے کہ کوئی قرضہ نہیں دیا جائے گا جب تک کے نظام جماعت سے تسلی نہ کر لی جائے.پھر آپ دیکھیں کس طرح ان کی حوصلہ شکنی ہوگی اس غلط رجحان کی حوصلہ شکنی ہوگی.آخری بات جس کی طرف توجہ دلانا ضروری ہے وہ دعا ہے.اول اور آخر دعا کو اپنا سہارا، اپنا اوڑھنا بچھونا بنا ئیں ، آفات سے بچنے کے لئے اپنی ڈھال بنا ئیں، دنیا میں اسلام کا پیغام پہنچانے کے لئے اس کو اپنا ذریعہ بنالیں اور آپس میں محبتوں کے تعلق بڑھانے کے لئے ، مشکلات میں آسانیاں حاصل کرنے کی خاطر ، ان ذمہ داریوں کو عمدگی کے ساتھ ادا کرنے کے لئے تو فیق پانے کی خاطر دعا کو ہمیشہ یاد رکھیں.یہ اتنی ٹھوس حقیقت ہے کہ اس سے زیادہ ٹھوس حقیقت سوچی نہیں جا سکتی کہ خدا اور بندے کے تعلق کے لئے دعا سے بڑھ کر اور کوئی ذریعہ نہیں.مانگنے والا ہاتھ آپ کا ہو اور عطا کرنے والا ہاتھ خدا کا ہو.یہ وہ تعلق ہے جو سب سے زیادہ پیارا اور دائمی تعلق ہے جو آقا اور غلام کے درمیان قائم ہوتا ہے تو پھر کبھی ٹوٹتا نہیں خدا کے فضل کے ساتھ اور بڑھتا رہتا ہے اور اس
خطبات طاہر جلد۵ 468 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء میں لذتیں بہت ہیں اور یہ انانیت اور تکبر سے بچانے والا ایک ذریعہ ہے.آپ کی کوششوں کو جتنے پھل لگیں گے.اگر آپ دعا نہیں کریں گے تو آپ کے اندر تکبر کا کیڑا پیدا ہوگا، آپ یہ سمجھیں گے کہ ہماری چالاکی سے یوں ہوا ، ہماری کوشش سے یوں ہوا، ہماری محنت سے یوں ہوا اور اگر آپ کو دعا کی عادت ہو گی تو آپ تدبیر کو خواہ انتہا تک بھی پہنچا دیں، جب بھی آپ کی کوشش کو پھل لگے گا آپ کو اپنے اللہ کا پیارا ہاتھ اس میں کام کرتا دکھائی دے گا.آپ کو یقین ہوگا کہ یہ محض خدا کا فضل تھا یہ اسی کی عطا تھی اور پھر اس کے نتیجے اتنے ٹھوس اور واضح نکلتے ہیں کہ دعا کرنے والوں اور دعا نہ کرنے والوں کی کوششوں کے نتائج میں زمین آسمان کا فرق ہے.ایک لمحہ کے لئے بھی دعا کرنے والے جب دعا بھولتے ہیں تو خدا ان کو یاد دلاتا ہے اس طرح کہ اچانک ان کے کام سے برکت اٹھتی ہے اور پھر وہ شرمندگی سے استغفار کرتے ہوئے دعا کی طرف مائل ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے مانگنے لگ جاتے ہیں.تو یہ جو تعلق ہے خدا کے حضور فقیر رہنے کا تعلق ہمیشہ فقیر بنے رہنے کا تعلق.جتنی ذمہ داریاں زیادہ بڑھیں اتنا ہی آپ کی فقیری میں بھی زیادہ بجز اور زیادہ انکسار پیدا ہو جانا چاہئے اور زیادہ اپنے رب کی احتیاج دل میں پیدا ہونی چاہئے.اس لئے دعا کریں اپنے لئے بھی ، آنے والوں کے لئے بھی ، سارے ماحول کے لئے ،اس ملک کے باشندوں کے لئے ، جلسے کی عمومی برکتوں کے لئے ، دشمن کی شرارتوں سے بچنے کے لئے ، اپنے گھر بار کے لئے ، اپنی ذاتی ضروریات کے لئے ، جلسہ کی برکتوں کے ساتھ کہ جلسہ کے خاص ایام میں آپ کے ذاتی کاروبار میں آپ کی خوشیوں میں برکتیں پڑیں.یہ بہت ہی اچھا موقع ہے اللہ تعالیٰ سے رحمتیں لوٹنے کا اور جب آپ دعاؤں سے کام لیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ سارے ٹیڑھے کام بھی آپ کے سیدھے ہوتے چلے جائیں گے اور سب مشکلات سے اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی حفاظت میں رکھے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی نماز جمعہ کے معا بعد دوست جلدی سنتوں سے فارغ ہو کر باہر جا کر ایک جنازے کیلئے صف بندی کر لیں.یہ جنازہ مکرمہ محترمہ آپا آمنہ کرامت اللہ کا ہے.چوہدری کرامت اللہ صاحب بابوا کبر علی صاحب کے صاحبزادے، کرنل عطاء اللہ صاحب مرحوم کے بھائی ، یہ خود بھی فوت ہو چکے
خطبات طاہر جلد۵ 469 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء اور ہیں.ان کی بیگم آپا آمنہ کرامت اللہ یہاں اپنی بیٹی کے پاس تشریف لائی ہوئی تھیں.چند دن پہلے مجھے ملنے آئیں تھیں.ویسے دل کی تکلیف تو تھی مگر بڑی اچھی صحت تھی دیکھنے میں بظاہر، پہلے کی نسبت بہتر تھیں اور بڑا خوشی کے ماحول میں ہنس ہنس کر باتیں کر کے گئیں.اچانک چند دن بعد اطلاع ملی کہ آپ کا ہارٹ فیل ہو گیا ہے.بہت ہی مخلص، فدائی پیار کرنے والی ،سلسلہ کے کاموں میں پیش پیش.لجنہ اماءاللہ کراچی میں بڑی محبت سے ، بڑے استقلال سے انہوں نے خدمت کی ہے.خاص طور پر یہ دعاؤں کی محتاج ہیں.ان کا خاندان بھی دعاؤں کا محتاج ہے کیونکہ اولا داکثر دنیا میں پھیل گئی ہے رپھیلنے کی برکتیں بھی ہوتی ہیں اور پھیلنے کے خطرات بھی ہوتے ہیں.بعض دفعہ انسان اپنی غالب تحریک کو لے جا کر معاشرے کو بڑی برکتیں بخشتا ہے اور بعض دفعہ کسی دوسری تحریک سے متاثر ہو کر ان کی بے برکتیاں حاصل کر لیتا ہے.تو مخلص خاندانوں کے افراد کے جب جنازے پڑھے جائیں تو اس میں چونکہ نماز جنازہ میں آنحضرت ﷺ نے پیچھے رہنے والوں کے لئے دعا سکھائی ہے اس لئے یا درکھا کریں.پیچھے رہنے والوں کے لئے بھی صرف جانے والوں کے لئے نہیں.لا تحرم علينا اجره، اجرها یا اجرھم کی دعا اسی لئے بتائی گئی ہے کہ ہمیں ان کے اجر سے، ان سے جدا ہونے کے بعد محروم نہ رکھنا.ان کی نیکیاں، ان کی دعاؤں کی برکتیں جو زندگی میں ملا کرتی تھیں، تھا تو ان کا اجر لیکن عطا ہمیں بھی ہوتا تھا اب ان کے بعد ہمیں اس سے محروم نہ رکھنا اور اسی طرح حفاظت اور رحم کا سلوک رکھنا جس طرح ان کی زندگی میں ان کی دعاؤں اور نیکیوں کی برکت سے رکھتا تھا.تو اس دعا میں ان کے بچوں کو بھی اور دوسرے جو جنازے پڑھائے جائیں گے ان کے اہل وعیال کو بھی یاد رکھیں اور اس میں باقی سب چھ جنازے دوسرے ہیں، یہ غائب جنازے ہیں.اس حاضر جنازے کے ساتھ شامل کر لئے جائیں.مکرم میاں محمد یوسف صاحب والد ماجد بشیر احمد صاحب صدر جماعت ہائیڈل برگ یہ یہاں پر بھی تشریف لائے تھے پیچھے اور وہاں اپنے بیٹے کے پاس آئے ہوئے تھے.اچانک بہت زیادہ طبیعت خراب ہوگئی اور بیماری سے جانبر نہ ہو سکے.امتہ الکئی صاحبہ اہلیہ مکرم حافظ محمد عمر صاحب آف ڈیرہ غازی خان.ان کے متعلق بھی امیر جماعت نے بہت سفارشی خط لکھا ہے کہ بہت نیک خاتون اور فدائی تھیں سلسلہ کی اسی طرح باقی سب بھی جو آنے والے ہیں سبھی کسی نہ کسی رنگ میں
خطبات طاہر جلد۵ 470 خطبہ جمعہ ۲۷ / جون ۱۹۸۶ء خاص اخلاص کا نمونہ رکھنے والے تھے ، سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں.والدہ صاحبہ مکرم منظور احمد صاحب آف کھاریاں اہلیہ صاحبہ مکرم بشیر احمد صاحب ایڈوکیٹ واقف زندگی ریٹائرمنٹ کے بعد میں، دفتر وصیت میں کام کرتے ہیں.یعنی ان کی اہلیہ صاحبہ کی وفات ہوگئی ہے.وہ بھی بڑی غیر معمولی طور پر فدائی عورت تھیں.مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ حافظ عبد السلام صاحب آف کراچی.حافظ عبدالسلام صاحب کو بھی جانتے ہوں گے.بڑا لمبا عرصہ واقف زندگی کے طور پر تحریک جدید میں خدمت کی ہے.مکرم میاں خان صاحب آف چک 45 مرت ضلع شیخو پورہ.یہ سب بھی انشاء اللہ نماز جنازہ میں شامل ہوں گے بطور نماز جنازہ غائب کے.
خطبات طاہر جلد۵ 471 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء مالی قربانی کی برکات اور جماعت کی ذمہ داریاں ( خطبه جمعه فرموده ۴ جولائی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنْبُلَةٍ مِائَةُ حَبَّةٍ وَاللَّهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِيمُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ ثُمَّ لَا يُثْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوْا مَنَّا وَلَا أَذًى لَهُمْ جُرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ قَوْلٌ مَّعْرُوفُ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى وَاللهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَتِكُمُ بِالمَنِ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٍ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلَدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ (البقرة ۲۶۳ ۲۶۵) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی یہ چند آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں مالی قربانی کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں اور مقبول مالی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو فضل نازل ہوتے ہیں
خطبات طاہر جلد۵ ان کا بھی ذکر فرمایا گیا ہے.472 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء پہلی آیت جو آج میں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال ایک دانے کی سی ہے جس میں سے سات بالیاں لگیں سَبْعَ سَنَابِلَ جن میں سات بالیاں لگیں اور ان سات بالیوں میں سے ہر بالی کے اندر ایک سو دانے ہوں وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیم اور اللہ تعالیٰ جس کے لئے چاہتا ہے اس سے بھی زیادہ اور بڑھا دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ بہت ہی وسعتوں والا اور وسعتیں عطا کرنے والا اور بہت زیادہ جاننے والا ہے.اس آیت میں جو تصویر کھینچی گئی ہے مومن کے انفاق فی سبیل اللہ کی عموماً اس کا ترجمہ پڑھتے وقت اور اس کے مضمون پر غور کرتے وقت ذہن اسی طرف جاتا ہے کہ یہاں مومن کے اموال کی مثال دی گئی ہے ، مومن کی مثال نہیں دی گئی اور مومن کے اموال خدا کی راہ میں قربانی کے نتیجہ میں بڑھتے ہیں ، صرف اسی قدر ذکر ہے حالانکہ یہ بات درست نہیں ہے ، مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أمْوَالَهُمْ فی سبیل اللہ فرمایا گیا ہے مَثَلُ نَفَقَاتِ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ نہیں فرمايا مثل ما ينفقون نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا ہے مَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ وہ لوگ جواللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال یہ ہے اور اس طرح مضمون میں وسعت پیدا ہو جاتی ہے یعنی یہ مثال ان لوگوں پر بھی صادق آتی ہے جو خرچ کرتے ہیں اور ان چیزوں پر بھی صادق آتی ہے جو وہ خرچ کرتے ہیں یعنی وہ سارا منظر ان کے خرچ کرنے کا اس طرح پیش فرما دیا گیا کہ خرچ کرنے والے بھی اور ان کی تصویر بھی آنکھوں کے سامنے ابھر آتی ہے اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اور جس طرح خرچ کرتے ہیں وہ نقشہ بھی انسان کی آنکھوں کے سامنے ابھر آتا ہے.اور اس کے بعد کی آیات میں ی فرمایا گیا کہ وہ کس طرح خرچ نہیں کرتے کیا ادا ئیں ان کی ہیں وہ بھی بیان فرما دی گئیں اور اس کے نتیجے میں اللہ کے فضل ان پر کس طرح نازل ہوتے ہیں یہ بھی بیان کر دیا گیا اور بعد میں آنے والی آیات میں یہ بتایا کہ یہ یہ باتیں وہ نہیں کیا کرتے.تو خرچ کے مثبت پہلو بھی بیان فرما دیئے گئے اور منفی پہلو بھی بیان فرما دیئے گئے.اس مثال پر جب اس طرح غور کرتے ہیں تو لفظ حبة کی پہلے کی نسبت زیادہ بہتر طور پر سمجھ آنے لگتی ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 473 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں بعض پھل ایسے ہوتے ہیں جن کے بیج رڈی اور پھینک دینے کے لائق سمجھے جاتے ہیں اور انسان کو ان کے بیجوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی.وہ غلاف اور وہ مواد جو بیجوں کو اپنی لپیٹ میں لئے ہوتا ہے اس میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں، اس کو پھل کہتے ہیں اور بعض پھل ایسے ہوتے ہیں جن میں بیج کھانے کے لائق سمجھا جاتا ہے اور اردگرد کا غلاف اور اس کی دیگر چیزیں جو بیج کے ساتھ متعلق ہوتی ہیں وہ ردی سمجھ کر پھینک دی جاتی ہیں.مثلاً بادام ہیں بادام کا چھلکا کسی لائق نہیں سمجھا جاتا اور بادام کھایا جاتا ہے.اس کے برعکس آم ہے اس کی گٹھلی میں آپ کو کوئی دلچسپی نہیں ہوگی لیکن آم کے پھل میں دلچسپی ہے.حَبَّة وہ دانے ہیں جو اپنی ذات میں پھل بھی ہیں اور بیج بھی ہیں اور ان کے اندر پھل اور بیچ کے لحاظ سے کوئی بھی تفریق نہیں ہوسکتی.کلیۂ سارے کا سارا کھانے کے لائق اور سارے کا سارا بیج بھی ہے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال کے طور پر اس سے بہتر مثال چینی نہیں جاسکتی تھی.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو وہ خرچ کرتے ہیں اس کا پھل بھی ان کو ملتا ہے لیکن پھل ایسے پیج کی صورت میں ملتا ہے جو خود آگے بڑھنے والا پیج ہے.یعنی ایک پہلو سے ان کو ان کی کوششوں کا ان کی قربانیوں کا پھل مل رہا ہوتا ہے دوسرے پہلو سے ایسا پھل مل رہا ہوتا ہے جو آگے بڑھنے والا ہے اور مزید پھل پیدا کرنے والا ہے اور مزید پیج پیدا کرنے والا ہے.ان کے نفوس میں بھی برکت ملتی ہے، ان کے رزق میں بھی برکت ملتی ہے اور ایک ہمیشہ جاری رہنے والا معاملہ ان کے ساتھ کیا جاتا ہے.یعنی خدا کا فضل ایک پھل کی صورت میں عطا ہو کر وہاں ٹھہر نہیں جاتا بلکہ خدا کا فضل ایک ایسے جاری پھل کی صورت میں ملتا ہے جسے کو ثر بھی کہا گیا ہے.نہ ختم ہونے والا فضلوں کا سر چشمہ ان کو عطا ہو جاتا ہے اور پھر جتنا جتنا وہ خدا کے فضلوں میں سے خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اتنا اتنا ان کا پھل بھی بڑھتا جاتا ہے اور ان کا بیج بھی بڑھتا چلا جاتا ہے.مزید اپنے رزق کو بڑھانے کی استطاعت بھی ان میں پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور مزید اپنے نفوس کو بڑھانے اور پھیلانے کی استطاعت بھی ان میں پیدا ہوتی چلی جاتی ہے.یہ وہ نقشہ ہے جو الہبی جماعتوں پر بڑی تفصیل کے ساتھ صادق آتا ہے اور الہی جماعتوں کے انفاق فی سبیل اللہ کو ہر دوسرے انفاق فی سبیل اللہ سے الگ اور ممتاز کر کے دکھاتا ہے.مذہب کی تاریخ کا مطالعہ کر لیجئے اور غیر مذہبی تحریکات یا مذہب کے نام پر لا مذہبی تحریکات
خطبات طاہر جلد۵ 474 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء کا مطالعہ کر لیجئے انفاق فی سبیل اللہ میں فرق کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور مثال نظر نہیں آسکتی.یعنی انفاق فی سبیل اللہ کو غیر فی سبیل اللہ کے خرچ سے ممتاز کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی مثال نہیں آسکتی.جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا اخرجات کے معاملہ میں یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے معاملہ میں یہی سلوک چلا آ رہا ہے.اور دوسری جگہ اللہ تعالیٰ اس مضمون کو آگے بڑھا کر یہ فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے انفاق فی سبیل اللہ کی مثال ایسی ہے جیسے وَمَثَلُ الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ وَتَثْبِيتًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍ بِرَبُوَةٍ أَصَابَهَا وَابِلٌ فَأَتَتْ أَكُلَهَا ضِعْفَيْنِ ۚ فَإِنْ لَّمْ يُصِهَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللهُ بِمَا (البقرة: ۲۶۶) تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ یہ جو خرچ کرتے ہیں آگے اس کو بڑھانے کے لئے اور اس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ سامان مقر فرماتا ہے اور اللہ کی تقدیر اس کی حفاظت کرتی ہے اور یہ دیکھتی ہے کہ ہر حال میں ان کی محنتیں بڑھیں اور نمو پائیں اور بکثرت انمار پیدا کریں.چنانچہ مثال دی کہ جواللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں ان کی مثال ایسی ہے ایسے ٹیلہ پر ایسے ربوہ میں وہ قربانیاں بوئی گئی ہیں بیج کی صورت میں کہ اگر ان پر تیز مینہ برسانے والی ہوائیں چلیں اور موسلا دھار بارش برسائی جائے تب بھی وہ زمین ایسی لکھی نہیں ہے کہ تیز بارش کے نتیجہ میں اس کی فصل برباد ہو جائے اور یہاں ربوہ کا لفظ استعمال فرما کر یہ وجہ بھی بیان فرما دی کہ کیوں تیز بارش یہاں نقصان نہیں پہنچاسکتی کیونکہ ربوہ سے مراد ٹیلے قسم کی چیز ہے پہاڑی قسم کا علاقہ یعنی بڑے بلند پہاڑ نہیں بلکہ سطح مرتفع میں عموماً جو شکل نظر آیا کرتی ہے چھوٹے چھوٹے ٹیلے جہاں پانی ٹھہر نہیں سکتا.بلند پہاڑوں میں بڑی بڑی چٹانیں ہوتی ہیں وہاں کاشت کے لحاظ سے موزوں موسم نہیں ہوا کرتا نہ موزوں زمین مہیا ہوتی ہے پوری طرح لیکن ایسا علاقہ جسے ربوہ کہتے ہیں یہ Plateau Like سطح مرتفع ایسے علاقہ میں کاشت کی سہولتیں بھی ہوتی ہیں اور کثرت سے زمین مناسب حال مل جاتی ہے اور وہاں پانی ٹھہرتا نہیں اس لئے تیز بارش بھی ہو تو وہ ایسی فصل کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی جو ربوہ کے اوپر آباد ہواور اگر تیز بارش نہ ہوتو فرمایا کاتی
خطبات طاہر جلد ۵ 475 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء ایسی زرخیز زمین ہے جو مومنوں کو مہیا کی جاتی ہے کہ شبنم سے بھی وہ پودے نشو ونما پا جاتے ہیں.اگر بارش نہیں تو شبنم ہی سہی لیکن خدا کی تقدیر اس بات کی ضمانت دیتی ہے کہ ان کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی.یہاں ربوہ کا لفظ ویسے بھی ذومعنی ہے اور بعید نہیں کہ اہل ربوہ کی طرف بھی اشارہ ہو یعنی لوگ جور بوہ سے وابستہ ہیں.ایک زمانہ آنے والا ہے کہ ایسے قربانی کرنے والوں کے لئے کہ جن کی قربانیوں کا محورر بوہ ہوگا اور جو قربانیاں ربوہ کے ارد گرد کی جائیں گی یعنی ربوہ کی مرکزیت کے تابع کی جائیں گی اللہ تعالیٰ ان میں غیر معمولی برکتیں ڈالے گا اور اگر بارش کا سماں نہ بھی پیدا ہوا تو شبنم بھی ان کے لئے بارش کی طرح نشو ونما کا موجب بن جائے گی.آج کا خطبہ نئے مالی سال کا پہلا خطبہ ہے اس لحاظ سے میں نے ان آیات کا انتخاب کیا تاکہ مالی قربانیوں کے سلسلہ میں جماعت کو جہاں مختصراً ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کروں وہاں ایک خوش خبری بھی دوں کہ آپ کے حق میں بہر حال قرآن کریم کی یہ پیش خبری پوری ہو چکی ہے اور اللہ تعالیٰ کا بے انتہا فضل ہے کہ جماعت احمدیہ کی مالی قربانی پر یہ آیت اپنے ہر پہلو کے ساتھ اور ہر تفصیل کے ساتھ چسپاں ہو رہی ہے.پاکستان میں جو حالات ہیں جماعت کے اوپر پابندیوں کے اقتصادی لحاظ سے، قانونی لحاظ سے، اخبارات کے رجحان کے تعلق سے یا علماء کے جلسے جلوسوں اور فحشاء کلامی کے لحاظ سے جس پہلو سے بھی دیکھیں وہاں جماعت کے جہاں تک مالی حالات کا تعلق ہے اور قربانیوں کی استطاعت کا تعلق ہے ان کے لئے وہ موسم تو نہیں جسے موسلا دھار بارش کا موسم قرار دیا جاسکتا ہے.وہاں تو دنیاوی لحاظ سے حل کا سا موسم ہے یعنی شبنم پر گزارہ کرنے والی بات ہے.لیکن خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ جماعتیں جو ربوہ کے ساتھ منسلک ہوں یعنی اس ٹیلے کے ساتھ جو خدا کی برکتوں کا ٹیلا ہے ان کے لئے کل بھی بہت کافی ثابت ہوگی.تو انتہائی نامساعد حالات کے سال میں بھی خدا تعالیٰ نے وہاں جماعت کو غیر معمولی مالی قربانی کی توفیق بخشی.ہے.تقریب دو مہینے پہلے کی بات ہے کہ ناظر صاحب بیت المال کا بہت سخت گھبراہٹ کا خط ملا کہ تقریباً ایک کروڑ روپیہ وصولی سے ہم پیچھے ہیں اور بہت تھوڑا وقت رہ گیا ہے.ان کو میں نے لکھا کہ آپ گھبرا کیوں رہے ہیں اللہ نے پہلے کب چھوڑا تھا ہمیں جواب چھوڑے گا.خدا کی ذات پرحسن
خطبات طاہر جلد۵ 476 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء ظن رکھیں بے انتہا فضل کرنے والا خدا ہے، کام کریں، محنت کریں آپ کا صرف اتنا کام ہے، دعا کے لئے بزرگوں کو خط لکھیں اور اس کے بعد تو کل کریں.تقریباً دو تین ہفتے پہلے کی بات ہے کہ ان کا سخت گھبرایا ہوا ایک اور خط آ گیا کہ آپ نے کہا دعا کرو اور توکل رکھو بزرگوں کو خط لکھو میں سب کام کر بیٹھا ہوں اور صرف تھوڑے سے دن رہ گئے ہیں اور ابھی ستر لاکھ روپے کی کمی رہ گئی ہے (میں نے خط نکلوانے کی کوشش کی ہے مجھے مل نہیں سکا ابھی مل جائے گا چند دن تک لیکن ستر نہیں تو بہت بڑی رقم تھی بہر حال پورا صحیح مجھے یاد ہیں لیکن جو مجھے یاد ہے وہ یہ ہے کہ تقریباً ستر لاکھ انھوں نے بتایا کہ کمی ہے اور سخت گھبراہٹ ہے اس لئے.چنانچہ ان کو میں نے یہ خط لکھا کہ آپ کو میں نے پہلے بھی لکھا تھا آپ نے اپنا کام کر لیا ہے بالکل گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں آپ کے لئے چند دن رہ گئے ہیں خدا کی تقدیر کے لئے تو چند دن کا کوئی سوال نہیں ہے.وہ آزاد ہے وہ واسع عَلِیم ہے، وہ جانتا ہے کہ کہاں سے اس نے عطا کب کرنا ہے اور بڑی وسعتوں والا خدا ہے چنانچہ کل رات فون کے ذریعے اور آج با قاعدہ خط بھی مل گیا یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ بجٹ جس کے پورا ہونے میں ان کو شدید مشکلات نظر آ رہی تھیں وہ دو کروڑ پندرہ لاکھ روپے کا بجٹ تھا جو جماعت نے ابتداء جو پاس کیا تھا.ناظر صاحب بیت المال کو گھبراہٹ یہ تھی کہ دو کروڑ پندرہ لاکھ بھی زیادہ تھا اس پر دوران سال کارکنان کی تنخواہیں بڑھانے کے نتیجہ میں دس لاکھ کا مزید اضافہ کر دیا گیا تو دو پندرہ کی بجائے وہ دو پچپیس بن گیا اور یہ وہ کہہ رہے تھے کہ اس بجٹ کا پورا ہونا بظا ہر ممکن نظر نہیں آتا ، چند دن رہ گئے ہیں اور لکھو کھبا روپیہ ایسا ہے جوا بھی قابل ادا ہے.آج ناظر صاحب بیت المال کا اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ناظر صاحب اعلیٰ نے بھجوایا ہے جس میں لکھا ہے کہ جون کے آخر تک اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو کروڑ پینتالیس لاکھ چوبیس ہزار روپے کی وصولی ہو چکی ہے اور میں لاکھ روپیہ اس بڑھے ہوئے بجٹ سے زیادہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیا ہے اور انہی چند دنوں میں عطا فر ما دیا ہے جن دنوں میں وہ کہتے تھے کہ اب ممکن ہی نظر نہیں آرہا کہ سب کو لکھ دیا، بزرگوں کو بھی لکھا ، سب کوششیں کیں لیکن افسوس کہ کوئی ہماری دوا کارگر ثابت نہ ہو سکی.ٹھیک ہے دوا تو کارگر نہیں ہوا کرتی لیکن دعا ئیں تو ضرور کارگر ہو جایا کرتی ہیں اور وہ جو دعاؤں کو قبول کرنے والا خدا ہے وہ کبھی بھی مومن کی توقعات کو رد نہیں فرمایا کرتا بلکہ توقعات سے بڑھ کر عطا کیا کرتا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 477 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء اور ابھی یہ ۳۰ جون کا جو سال ہے اس کی وصولی ۳۰ جون پر ختم نہیں ہوا کرتی بلکہ ہمیشہ سے یہ طریق چلا آ رہا ہے کہ ۳۰ جون تک جو وصولیات ہیں ان میں سے بہت سی بعد میں آتی رہتی ہیں.بعضوں کی اطلاعات بعد میں آتی ہیں اور بعض جماعتیں اگلے چند دن میں یعنی جولائی کے شروع کے دو تین ہفتے میں کوشش کر کے گزشتہ سال کا بقایا وصول کر لیا کرتی ہیں.تو دیکھیں جہاں موسلا دھار بارش کا موسم نہیں تھا وہاں طل نے کیا نمونے دکھائے ہیں اللہ کے فضل طل نے.خدا کے فضل کی شبنم بھی جب پڑتی ہے تو اس قدر حیرت انگیز نشو ونما دکھاتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا میں اس کو پھل نہیں سمجھ رہا بلکہ بیج سمجھ رہا ہوں اور یہ پیج جماعت کے نفوس کا بیج بھی سمجھ رہا ہوں اور جماعت کے اموال کا بیج بھی سمجھ رہا ہوں.اس لئے یہ سو سے ایک دانے کے سات سو بننے والے دانے ایسے دانے نہیں ہیں جو پھل کے طور پر کھالئے جائیں گے بلکہ وہ سات سودانے ہیں جو پھر بیج کے طور پر دوبارہ پھل اگائیں گے اور جتنی مرتبہ جماعت ان کا ایک حصہ دوبارہ خدا کے فضلوں کی زمین میں پھینکتی رہے گی اسی طرح کثرت کے ساتھ سینکڑوں گنا بن کر یہ دوبارہ جماعت کو عطا ہوتے رہیں گے اور پھر وہی پھل اور وہی پیج بنتے چلے جائیں گے.یہ ہے اللہ کی رضا کا معاملہ اپنے ان بندوں سے جن کی قربانیوں کو وہ قبول فرماتا ہے اور خدا کی راہ میں سچی اور خالص قربانی کرنے والوں کے ساتھ ہمیشہ بلا استثناء یہی سلوک ہوا ہے.اب جن کے ساتھ خدا کا یہ سلوک ہو ان کے متعلق کوئی یہ کہے کہ ہم غالب آجائیں گے یعنی وہ مخالف غالب آ جائے گا ، یہ کیسے ممکن ہے؟ یہ خدا کے فضلوں کی تقدیر ہمارے اوپر ظاہر ہورہی ہے عملی دنیا میں یہ خوابوں کی بات نہیں ہے اور ہر دفعہ اگر دشمن نے یہ آواز اٹھائی کہ ہم غالب آئیں گے تو خدا کی یہ تقدیر ان کو یہ کہے گی افَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبیاء: ۴۴) بڑھ تو یہ رہے ہیں ہر سمت میں ہر طرف پھیلتے چلے جا رہے ہیں.تم کیسے غالب آجاؤ گے؟ وہی غالب آیا کرتے ہیں جو بڑھ رہے ہوں اللہ کے فضلوں کے سہارے جن کی ادنی کوششوں کو بھی خدا تعالیٰ پھل لگارہا ہو جن کی اعلیٰ کوششوں کو بھی خدا تعالیٰ پھل لگا رہا ہو.جنہیں بہار میں بھی پھل لگ رہے ہوں ، جنہیں خزاں میں بھی پھل لگ رہے ہوں.جنہیں موسلا دھار بارشیں بھی بکثرت نشو و نما عطا کر رہی ہوں اور جنہیں ہلکی پھلکی نہ نظر آنے والی شبنم بھی بکثرت پھل عطا کر رہی ہو.
خطبات طاہر جلد ۵ 478 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء پس الحمد للہ کہ خدا کی رحمت اور فضلوں کا یہ سلوک جو ہمیشہ سے جاری ہے آج بھی جاری ہے اور اگر آپ اپنے معاملات کو خدا کے ساتھ تبدیل نہیں کریں گے تو کل بھی جاری رہے گا اور یہی وہ آخری بات ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.چند عرصہ پہلے ایک جمعہ میں میں نے یہ ایک اعلان کیا تھا کہ جماعت کے انفاق فی سبیل اللہ کو ان لوگوں کے تقویٰ سے ایک براہ راست نسبت ہے جو ان اموال کے بطور امین خرچ کرتے ہیں.اگر ان اموال کو جو خدا کی خاطر قربانی کرنے والے محض اللہ سلسلہ کے حضور پیش کر رہے ہوتے ہیں، خرچ کرنے والے اللہ کے تقویٰ کے ساتھ خرچ کریں اور ان کی امانت کا حق ادا کریں تو کئی طرح سے جماعت میں بے شمار بڑھتی چلے جانے والی برکتیں عطا ہوں گی.میری اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ امید ہے کہ جو تقویٰ سے خرچ کرنے والے ہیں ان کے ساتھ خدا تعالیٰ ایسا ہی سلوک فرمائے گا جیسے انہوں نے مال اپنی جیب سے نکال کر دیا ہو.ان کے گھر بھی برکت سے بھرے گا، ان کے اموال میں بھی برکت دے گا، ان کے نفوس میں بھی برکت دے گا اور ان کے ساتھ ثواب کے معاملہ میں بھی ویسا ہی سلوک فرمائے گا کہ گویا انہوں نے خود یہ مالی قربانی کی تھی اور اس کے نتیجہ میں وہ اموال جہاں خرچ کئے جائیں گے ان اخراجات میں بے شمار برکت ہوگی اس کے نتائج بہت زیادہ شاندار نکلیں گے.خرچ کرتے وقت اگر بد دیانتی کی ملونی ہو جائے تو وہ خرچ برکتوں سے محروم رہ جاتا ہے اور ایسے لوگ بڑے ہی بدنصیب ہوتے ہیں جو پاک اموال کو برکتوں سے محروم کر رہے ہوں.قربانی کرنے والا جب خدا کی خاطر اپنے حلال رزق میں سے کچھ پیش کرتا ہے تو ایک پاک مال ہے جو اس نے خدا کے حضور پیش کیا اور وہ مال اس بات کا حق دار ہے کہ اسے بکثرت برکت عطا ہو جیسا کہ اس آیت میں وعدہ کیا گیا ہے.لیکن اگر کاشت کار دیانت داری سے کاشت کاری نہیں کرتا.بجائے محنت کر کے زمین میں بیج کو دبانے کے اوپر پھینک کر واپس آ جاتا ہے اس کے نفس میں کچھ بد دیانتی کی ملونی ہو خواہ وہ اپنے کام کے لئے ہو یامالک کے کام کے لئے ہو تو اس پیج پر یہ مثال صادق نہیں آئے گی جو قرآن کریم نے پیش کی ہے.تو یہی میرا مطلب ہے کہ خرچ کرنے والا اگر دیانت داری کے تقاضوں کو پورا کرے گا اور تقویٰ سے خرچ کرے گا تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی اخراجات میں غیر معمولی برکت عطا فرمائے گا
خطبات طاہر جلد۵ 479 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء اور جو خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے ہیں اخلاص اور تقویٰ سے ان کے ساتھ تو خدا کا معاملہ ہونا ہی ہونا ہے ان کے متعلق تو بعض بزرگوں کے اقوال سے پتہ چلتا ہے کہ سات سات نسلوں تک ان کی اولادیں ان کی قربانیوں کا فیض کھاتی ہیں.اس لئے اس مثال کو ان تین جہتوں سے دیکھیں تو دیکھیں معاملہ کتنا پھیلتا چلا جاتا ہے اور مزید جہتیں بھی اس میں تلاش کریں تو سات بالیوں کی مثال بھی سمجھ آ جاتی ہے کہ ایک دانہ کس قسم کی سات بالیاں اگاتا ہے.خرچ کرنے والے، ان کی اولادیں، ان کی بیویاں وہ جو پیش کر رہے ہیں ان کی اولادیں ان کی بیویاں اور وہ خود ، اور اسی طرح اگر آپ دعائیں کرنے والوں کو بھی ساتھ شامل کر لیں جو کچھ کر نہیں سکتے مگر بڑے درد دل کے ساتھ اللہ کی راہ میں ان لوگوں کے لئے دعائیں کرتے ہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے سات کا عدد تو ایک صرف تکمیل کے عدد کے طور پر ہے اس کی شاخیں نکلتی چلی جائیں گی وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ کا مفہوم بھی سمجھ آنے لگتا ہے.سات کی تعداد کوئی ایسی تعداد نہیں ہے آپ سات کا عدد پورا کر کے سمجھیں کہ خدا کے فضلوں کے عدد پورے ہو گئے بلکہ یہ خوشخبری ہے کہ تم گنوسات تک تمہیں ایک دانہ سات بالیوں پر منتج ہوتا دکھائی دے گا لیکن اگر اپنے رب پر حسن ظن رکھو گے اور اگر تم قربانیوں کے تقاضے پورے کرو گے تو ایک دانہ سات بالیاں نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بالیاں اگائے گا اور وہ تعداد بڑھتی چلی جائے گی اور جب خدا تعداد غیر معین کر دیتا ہے تو پھر وہ غیر معین ہی رہتی ہے.پھر اس میں اس تعداد کی حد بندی ہماری محنتوں کی حد بندی کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے، ہمارے خلوص کی حد بندی کے ساتھ وابستہ ہو جاتی ہے،خدا کے فضل کی پھر کوئی حد بندی نہیں رہتی.تو اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو ایسے رستے پر ڈال چکا ہے جو بکثرت بڑھتے چلے جانے والا رستہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ مالی قربانی کے اس معیار پر قائم ہو چکی ہے جسے چوٹی کی مالی قربانی کہا جا سکتا ہے، جسے ربوہ کی مالی قربانی کہا جاسکتا ہے ،اونچے پہاڑی علاقوں کی مالی قربانی سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.اب جو فکر ہے وہ کل کی فکر ہے آج کی تو کوئی فکر نہیں رہی اور کل کی فکر مجھے اس پہلو سے ہے کہ مال خرچ کرنے والے متقی پیدا ہوں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ تقویٰ رکھنے والوں کے ہاتھ میں جماعت کی قربانیوں کے اموال دے.انہی کو برکت دے، انہی کو تو فیق عطا فرمائے کہ ان جگہوں پر بیٹھیں جن جگہوں سے خرچ ہونے کے لئے ان اموال نے گزرنا ہے اور ان
خطبات طاہر جلد۵ 480 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء کی نگرانی رکھیں خدا کے فرشتوں کی طرح.اگر ایسا ہوا اور خدا کرے کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو تو پھر آپ دیکھیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے اموال اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا مضمون اس مثال کے مطابق لا متناہی پھل اور لا متناہی بیجوں کا مضمون بن جائے گا.دوسرا پہلو ایک ضمناً یہ بھی بیان کرنے کے قابل ہے کہ جو لوگ جماعت کے مالی قربانی کرنے والے با قاعدہ رجسٹر ڈ ہیں یعنی جن کو چندہ دہندگان کے طور پر شمار کیا جا چکا ہے ان میں بھی کئی قسمیں ہیں اور وہ سارے کے سارے اپنے آخری اعلیٰ معیار تک نہیں پہنچے ہوئے.ایک بڑا طبقہ ان میں سے ایسا بھی ہے جو چندہ اگر شرح کے مطابق دیتا بھی ہے تو شرح مقرر کرتے وقت کچھ غفلتیں کر جاتا ہے.بہت سے اندرونی ایسے معاملات ہیں جن کا تعلق بیرونی آنکھ سے نہیں ہوا کرتا.صرف اندرونی تقویٰ کی آنکھ سے ہوتا ہے.ایک انسانی اپنی آمد مقرر کرتے وقت کئی قسم کے پیمانے استعمال کر سکتا ہے اور وہ کئی قسم کے پیمانے ایسے ہوتے ہیں بسا اوقات کہ ان میں سے ہر پیمانہ باہر کی آنکھ سے دیکھنے والے کے لئے ایک جائز پیمانہ ہوگا.اس پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ تم نے اس پیمانے سے اپنے مال کو تو لا ہے تم نے جھوٹ بولا ہے، تم نے دھوکا کیا ہے لیکن اندرونی تقوی کا مضمون ایک ایسا دلچسپ مضمون ہے کہ جوں جوں تقویٰ کا معیار بڑھتا ہے خدا تعالیٰ نئے پیمانے بھی دکھانے لگتا ہے انسان کو اور انسان سمجھتا ہے کہ پہلے جب میں نے خدا کی راہ میں مال دینے کے لئے جو پیمانہ چنا تھا وہ تو چھوٹا تھا.اگر اس پہلو سے دیکھوں تو اتنی مزید گنجائش اس میں موجود تھی وہ نہیں میں نے بھری ،اس پہلو سے دیکھوں تو اتنی اور بھی گنجائش موجود تھی وہ خانہ بھی خالی ہی رہا.تو بعض لوگ تو اپنے اموال کے پیمانے تنگ کرنے کا رحجان رکھتے ہیں اور یہی سوچیں سوچتے رہتے ہیں کہ کس بہانے کم دوں اور جھوٹا بھی ثابت نہ ہوں اور بعض لوگ ہیں جو زیادہ دینے کے بہانے ڈھونڈتے رہتے ہیں اور وہی ہیں جو حقیقی متقی ہیں.ان کے اموال میں، ان کے ساتھ خدا کے فضلوں کے سلوک میں ایک ایسی شان پائی جاتی ہے جو دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی اور وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ کا پوری طرح مضمون ان کے حق میں صادق آتا ہے.کچھ ایسے بھی قربانی کرنے والے ہیں جو شرح کے مطابق ویسے ہی نہیں دے سکتے.بعض ظاہری طور پر استطاعت نہیں رکھتے بعض باطنی طور پر استطاعت نہیں رکھتے.بعضوں کے اخراجات
خطبات طاہر جلد۵ 481 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء اتنے ہوتے ہیں آمد کے مقابل پر کہ بے چارے مجبور ہوتے ہیں اور بعضوں کے دل اتنے چھوٹے ہوتے ہیں آمد کے مقابل پر کہ وہ بھی بے چارے مجبور ہو جاتے ہیں.جانتے ہیں نیکی کا کام ہے، جانتے ہیں اچھی بات ہے، محبت بھی رکھتے ہیں سلسلہ سے مگر مٹھی نہیں کھلتی.کیسے ہوسکتا ہے کہ ایک سیٹھ کو اللہ تعالیٰ ایک کروڑ روپیہ عطا کر رہا ہے اور اس میں سے وہ چھ لاکھ روپیہ سالانہ دینا شروع کر دے.اس لئے وہ دل کے غریب ہوتے ہیں بے چارے.جیسا کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے الغنى غنى النفس ( بخاری کتاب الرقاق حدیث نمبر : ۵۹۶۵) کہ تم امیری کو دولت گننے کے طریق پر نہ معین کیا کرو، امیری تو دل سے تعلق رکھنے والی چیز ہے یا دل امیر ہوتے ہیں یا دل غریب ہوتے ہیں اور ظاہری دولت کا پیمانہ درست نہیں بلکہ اس اندرونی دولت کے پیمانے پر خدا کی نظر میں یا کچھ لوگ امیر ٹھہرتے ہیں یا کچھ لوگ غریب ٹھہرتے ہیں.مگر ان کا معاملہ بھی لا علاج نہیں ہے.بار بار کی تذکیر، بار بار کا توجہ دلانا تو ان پر ضرور اثر کرتا ہے اور میں نے دیکھا ہے کہ جب بھی اموال کے معاملہ میں میں خطبہ دیتا ہوں تو کثرت کے ساتھ ایسے خطوط ملتے ہیں جو اعتراف کرتے ہیں اس بات کا کہ ہمیں پہلے توفیق نہیں تھی ، ہمت نہیں پڑتی تھی مگر خطبہ سنا ہے دل میں ایک تبدیلی پیدا ہوئی ، چند دن غور کیا اور آخر فیصلہ کر لیا ہے کہ جو کچھ بھی ہوگا اللہ تعالیٰ کے ساتھ سیدھامعاملہ کرنا ہے اور بعض جو اپنے راز کھولتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیا کیا بہانے بنا کر بے چارے بیٹھے ہوئے تھے نیکی سے محروم اور صرف یہی نہیں اس خط کے بعد جو بعد میں خط آتے ہیں ان کا رنگ ہی اور ہو جاتا ہے تھوڑے ہی عرصہ کے بعد اس فیصلہ کے بعد کہ ہم نے خدا کے ساتھ اپنے معاملات سیدھے کر لئے ہیں ان کے دلوں میں ایسی بشاشت پیدا ہو جاتی ہے، ایسا نور ان کو عطا ہوتا ہے کہ بعض لکھنے والے کہتے ہیں کہ ہمیں تو زندگی کا اب مزہ آنا شروع ہوا ہے.پہلے گھٹن سی تھی ، ایک بے چینی اور ایک بدمزگی سی تھی زندگی میں لیکن جب سے ہم نے اپنے دل کو صاف اور سیدھا کیا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑے لطف کی زندگی بسر کرنے لگ گئے ہیں.تو وہ بھی ہیں جن میں ابھی گنجائش موجود ہے اور اس کے علاوہ بہت سی تعداد ایسے احمدیوں کی ہے جو تربیت کی کمی کی وجہ سے یا سلسلہ کے نظام میں محنت کرنے والوں کی کمی کی وجہ سے چندہ دے ہی نہیں رہے.ہر جگہ اس کی گنجائش موجود ہے، بڑے شہروں میں بھی موجود ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 482 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء ایک دفعہ مجھے یاد ہے انصار اللہ کے دورے پر کراچی گیا تو کراچی کی جماعت تو بڑی منظم اور بڑی خدا کے فضل سے سائنٹفک بنیادوں پر یعنی سائنسی طریق پر مربوط کام کرنے والی جماعت ہے ان کی تجنید کا معیار بھی اسی لحاظ سے بہت اونچا ہے.تو میں نے جب انصار اللہ کی تعداد دیکھی تجنید کی تو میں نے ان سے کہا یہ تو ہے نہیں پوری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے انصار ہیں آپ کے جو آپ کی نظر سے اوجھل پڑے ہوئے ہیں آپ نے شمار ہی نہیں کئے.انہوں نے کہا جی یہ کیسے ہوسکتا ہے آپ کو کیا پتہ ہم یہاں کام کرتے ہیں، کراچی میں تو ایک گوشہ ایسا نہیں ہے جو کارکنوں کی آنکھ سے الگ رہ جائے سب پورے کے پورے گنتی میں ہیں بتائیں کس طرح کوئی رہ سکتا ہے الگ.میں نے کہا آپ کی بات بھی درست ہوگی مگر میری بھی درست ہی ہے، آپ کوشش کریں محنت کر کے دیکھیں تو آپ کو آدمی مل جائیں گے.تو پہلی رپورٹ جو تھی ایک محلے کی جن کے متعلق میں بات کر رہا تھا اس کے مطابق ۴۲ کی بجائے ۶۲ ہو گئے تھے یعنی پچاس فیصدی سے زائد ان کے آدمی چھپے ہوئے تھے یا پچاس فیصد کے قریب ان کے آدمی چھپے ہوئے تھے اور وہ کہہ رہے تھے کہ یہاں کوئی ایک بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جو نظر سے باہر رہ گیا ہو اور بعد میں جو رپورٹیں آئیں اس میں تو بعض جگہ سو فیصدی قریباً اضافہ ہوا بعض جگہ بہت کم بھی ہوا لیکن ایسے گوشے رہ جاتے ہیں جو ان کارکنوں کی نظر سے پوشیدہ رہتے ہیں.اموال کی قربانی کے نظام میں میں نے یہ بڑا تفصیلی تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ جہاں تک کارکنوں کی محنت کا تعلق ہے اس کا بڑا گہر اواسطہ ہے اس نظام کی کامیابی سے اور تنظیم کا اعلیٰ ہونا یہ بھی ایک بہت اہم ایسا Factor ہے ایک اہم چیز جو اس میں کردار ادا کرتی ہے.چنانچہ تنظیمی لحاظ سے ہمحنت کے لحاظ سے، رسل و رسائل کے لحاظ سے اگر اس نظام کو بہتر کیا جائے تو جو آج ہمارا بجٹ ہے اس میں قربانی کرنے والے جتنے شامل ہیں اگر وہ اپنی قربانی کے معیار میں ایک رتی بھی اضافہ نہ کریں تو جماعت کا مجموعی بجٹ خدا کے فضل سے اس سے بھی کئی گنا زیادہ بڑھ سکتا ہے کیونکہ یہاں جو مثال دی ہے خدا تعالیٰ نے اس مثال کا مطلب یہ ہے کہ آج کے بیج نے اگر تمہیں اتنا پھل دیا ہے تو کل کا بیج تمہاری ضرورتوں سے بہت زیادہ ہوگا کیونکہ یہی پھل تمہارا پیج بھی بننے والا ہے کل کا.اس لئے تمہاری استطاعت بڑھتی چلی جائے گی قربانیوں کی.پس ہر سال جب جماعت خدا تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے زیادہ چندہ دیتی ہے تو ہر پہلو
خطبات طاہر جلد ۵ 483 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء سے اس کی استطاعت بھی بڑھتی چلی جاتی ہے، استطاعت کم نہیں ہوتی اور یہ بھی ایک خاص امتیازی شان ہے الہی جماعتوں کی جو دوسروں کو عطا نہیں ہوتی.وہ جب خرچ کرتے ہیں کسی کام پر تو ان کی استطاعت تھوڑی ہوتی جاتی ہے پھر، یہاں تک کہ وہ خرچ ، وہ ٹیکس بوجھ بن جاتا ہے اور اس کے خلاف بغاوت پیدا ہو جاتی ہے.الہی جماعتوں میں اس کے برعکس مضمون دکھائی دیتا ہے جتنا ان کی استطاعت خرچ کی بڑھتی ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی اتنا خدا تعالیٰ ان کی استطاعت میں مزید وسعتیں عطا کرتا چلا جاتا ہے اور آنے والے کل میں استطاعت پہلے سے کئی گنا بڑھ چکی ہوتی ہے.پس جس پہلو سے بھی دیکھا جائے ابھی کام کی گنجائش ہے اور خصوصاً بیرونی ملکوں میں تو بہت زیادہ کام کی گنجائش ہے.پاکستان کی جماعتیں تو چونکہ قربانی کے دور سے گزر رہی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہے ان کے اوپر کہ ان کا قربانی کا معیار باہر کی جماعتوں کی نسبت غیر معمولی طور پر اونچا ہے.لیکن باہر کچھ لوگ غیر معمولی معیار پر قائم ہیں لیکن اکثریت بہت پیچھے رہ جاتی ہے.میں انگلستان کو صرف مخاطب نہیں ہوں میرے نزدیک افریقہ کی ساری جماعتیں ہیں، امریکہ کی جماعتیں ہیں، نجی آئی لینڈ کی جماعتیں ہیں ، جاپان، چین ساری دنیا میں جہاں جہاں جماعتیں ہیں وہ ساری میری مخاطب ہیں.اس لئے اگر ان سب جماعتوں کو محوظ رکھ کر آپ غور کریں تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ ہماری جماعت کا ایک بہت بڑا حصہ ایسا ہے جو ابھی مالی قربانی میں شامل نہیں ہوا.نظام جماعت اگر محنت کرے اور ان کو شامل کر لے خواہ وہ شروع میں تھوڑا دیں تو چونکہ خدا کا یہ وعدہ ہے کہ جو دے وہ آئندہ کے لئے پھل ہی نہیں بیج بھی بنے گا.اس لئے دینے والا بھی خواہ تھوڑا دے کر شروع کرے اللہ کے فضل کے ساتھ وہ آئندہ زیادہ دینے کی استطاعت پا جاتا ہے، اس کی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی وسعت بڑھ جاتی ہے.تو امید ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا شکر ادا کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کے کارکنان خواہ وہ کسی ملک سے بھی تعلق رکھتے ہوں ایسے آدمیوں کو خصوصیت سے تلاش کریں گے جو خدا کے ان فضلوں سے محروم ہیں جن کی زندگیاں بے کار اور بے لذت گزر رہی ہیں.ان کو خدا نے اموال تو دیئے ہیں لیکن ان اموال میں برکت نہیں.ان کی نسلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی کوئی ضمانت موجود نہیں.اس لئے ان کی خاطر آپ محنت کریں اور ان کو سلسلہ کے ساتھ اس طرح وابستہ کریں کہ
خطبات طاہر جلد۵ 484 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء وہ بھی مالی قربانی کرنے والوں کی صف میں ایک باقاعدہ مستقل حصہ بن جائیں.جو ایسا کریں گے تو نئے شامل ہونے والوں کی مالی قربانیوں میں خدا ان کو بھی حصہ دار بنادے گا.ایک غریب سیکرٹری مال اگر سو چندہ دہندہ پیدا کرتا ہے تو حضرت اقدس محمد مصطفی حملے کے ارشاد کے مطابق جتنے وہ نیکی کرنے والے پیدا کرتا چلا جاتا ہے ان کی نیکیوں کا ثواب اس کو بھی ملتا چلا جاتا ہے اور نیکی کرنے والوں کے ثواب میں خدا کوئی کمی نہیں کرتا یعنی ان کا حصہ لے کر ان کو نہیں دیتا بلکہ مزید عطا کرتا ہے.تو مالی قربانی پیدا کرنے والے لوگ بھی ایک لا محدودترقیات کا میدان اپنے سامنے کھلا پاتے ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اور خدا کے بچے شکر گزار بندے بنتے ہوئے شکر کے حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ہم خدا تعالیٰ کے مزید لا متناہی فضلوں کا وارث بنتے چلے جائیں.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: قادیان سے ناظر صاحب اعلیٰ نے یہ درخواست بھجوائی ہے کہ وہاں کے ایک مخلص جو شیلے در ولیش مرز امحمود احمد صاحب ایک لمبے عرصے کی بیماری کے بعد وفات پاگئے ہیں.جو قافلے وہاں جایا کرتے تھے ان کو خوب یاد ہوگا وہاں سب سے زیادہ جوش کے ساتھ قافلوں کا استقبال کرنے والے اور نعرہ لگانے والے ایک مرزا محمود صاحب ہوا کرتے تھے.تو ان کے متعلق خاص طور پر نماز جنازہ غائب کی درخواست کی گئی ہے اور دعا کی درخواست کی ہے.ان کے علاوہ کچھ موصیان یا غیر موصیان جو وفات پاگئے ہیں ان کے بچوں نے ان کی جنازہ غائب کی درخواست کی ہے ایک مکرم چوہدری رحمت اللہ صاحب ولد چوہدری عنایت اللہ صاحب گھنو کے حجہ ضلع سیالکوٹ.ایک ہیں مکرمہ مہراں بی بی صاحبہ اہلیہ عمر الدین صاحب مرحوم مرحومه موصیبہ تھیں گوجرہ کی رہنے والی تھیں.ایک سید حامد مقبول صاحب ویسٹ جرمنی سے اطلاع دیتے ہیں کہ ان کی والدہ سید مقبول احمد صاحب کی اہلیہ وفات پاگئی ہیں.مکرم محمد الدین صاحب ناز پروفیسر جامعہ احمدیہ لکھتے ہیں کہ ان کے والد صاحب جو خاص سلسلہ کے فدائی اور عاشق تھے وہ بھی وفات پاگئے ہیں.نور بی بی صاحبہ اہلیہ چوہدری رحمت اللہ صاحب چک ۷۲۵ آر.بی کرتار پور ضلع فیصل آباد وفات پاگئی ہیں.ان کے علاوہ ہمارے ایک معلم وقف جدید ہیں محمد حسین صاحب ان کی والدہ بھی کافی بڑی
خطبات طاہر جلد۵ 485 خطبہ جمعہ ۴ جولائی ۱۹۸۶ء عمر میں وفات پاگئی ہیں.میرا خیال ہے کہ اسی سے کچھ اوپر ہوں گی.وقف جدید میں جب میں تھا میرے پاس علاج کے لئے بھی آیا کرتی تھیں، معمر خاتون.لیکن ان کے خلوص کی جو خاص ادا مجھے بہت اچھی لگی جس کی وجہ سے میں خاص طور پر ان کے لئے تحریک کر رہا ہوں یہ آزاد کشمیر میں تھیں بہت شدید بیمار ہو گئیں اور بظاہر بچنے کی کوئی امید نہیں تھی آخری عمر تھی تو ان کے بیٹے نے ان سے کہا کہ آپ مجھے اجازت دیں تو وقف جدید سے میں چھٹی لے لیتا ہوں کیونکہ والدہ کی خدمت کا حق ادا کرنا فرض ہے اور وہ شوق سے مجھے رخصت بھی دے دیں گے تو ان کی والدہ بیماری کی حالت میں اٹھ کے بیٹھ گئیں انہوں نے کہا بیٹا ! اگر تم دنیا کے نوکر ہوتے اور جو مرضی کما رہے ہوتے تو میں تمہیں کبھی اپنے سے الگ نہ ہونے دیتی لیکن تم خدا کے نوکر ہو اور میں ایک لمحہ کے لئے بھی پسند نہیں کرتی کہ خدا کی نوکری چھوڑ کر تم میری نوکری شروع کر دو آ کے.اس کے بعد پھر ان کو خدا نے شفا بھی عطا فر مادی پھر ربوہ بھی آگئیں اور ان کے بیٹے کی اس قربانی کو اصل میں تو ان کا اخلاص ہی تھا جس نے پھر اس کو بھی ہمت دی، اس نے درخواست ہی نہیں دی پھر.تو خدا نے اس کو قبول فرمایا اور لمبی عمر انہوں نے پائی.تو ان سب کی نماز جنازہ غائب انشاء اللہ جمعہ کے معا بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 487 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں خطبہ جمعہ فرموده اار جولائی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ دَمَّرَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكْفِرِينَ أَمْثَالُهَا ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَانَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ اور پھر فرمایا: (محمد : ۱۱-۱۲) سورۃ محمد (ﷺ) کی جن دو آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ آیات فتح مکہ سے پہلے کی ہیں اور مدنی ہیں.اس سورۃ کی سوائے ایک آیت کے جو اس وقت نازل ہوئی جب حجۃ الوداع کے موقع پر آنحضرت ﷺ آخری بار مکہ سے جدا ہورہے تھے اور آپ کی آنکھوں سے اس وقت آنسو رواں تھے اس وقت نازل ہوئی ، باقی تمام آیات سورۃ محمد کی مدنی دور میں مختلف وقتوں میں پھیلی پڑی ہیں لیکن جہاں تک ان کے مضمون کا تعلق ہے وہ مضمون مکی دور سے زیادہ تعلق رکھتا ہے جبکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ یکہ وتنہا تھے اور کوئی بھی آپ کا مددگار نہیں تھا.اس کے مقابل پر آپ کے دشمنوں کے بہت سے مددگار تھے اور صرف مکی دور سے ہی یہ آیات تعلق نہیں رکھتیں بلکہ آغاز نبوت سے جب سے دنیا میں نبوت کا آغاز ہوا ہے اس وقت سے لے کر آنحضرت ﷺ کے دور تک کے جتنے انبیاء ہیں ان سب کے واقعات کا ان آیات میں حوالہ دیا گیا ہے.جوان پرگزری، جس حال میں خدا نے ان کو پایا
خطبات طاہر جلد۵ 488 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء اور کس طرح ان کی فتح کے سامان فرمائے خلاصہ یہ مضمون ان دو آیات میں بیان ہو گیا ہے.چنانچہ فرمایا اَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا یعنی صرف مکہ سے تعلق رکھنے والے یا مدینہ سے تعلق رکھنے والے واقعات کا ذکر نہیں تم روئے ارض پر جہاں کہیں بھی پھر و گے، جہاں کہیں بھی جستجو کرو گے تمہیں یہ واقعات تاریخ عالم پر ہر جگہ بکھرے پڑے نظر آئیں گے.كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ کہ وہ لوگ جو حضرت اقدس محمد مصطفی عے سے پہلے گزر گئے اور جنہوں نے حق کی مخالفت کی تھی ان کا انجام کیا ہوا ، اس پر نظر دوڑاؤ.دَمَّرَ اللهُ عَلَيْهِمُ اللہ نے ان کو ہلاک اور برباد کر دیا.وَلِلْكُفِرِيْنَ أَمْثَالُهَا اور کا فرجب بھی جس زمانے کے بھی ہوں گے ان پر ویسے ہی واقعات گزریں گے جس طرح پہلے زمانہ کے کافروں پر گزرتے رہے اور خدا تعالیٰ کے سلوک میں تم کوئی بھی فرق نہیں پاؤ گے.یہ بیان فرما کر فرمایا ذلِكَ بِأَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَانَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمُ ایسا اس لئے ہوگا یا ہوتا رہا ہے کہ مومنوں کا تو ایک مولیٰ ہے یعنی اللہ اور کافروں کا کوئی مولی نہیں.جہاں تک اس آیت کے پہلے حصے کا تعلق ہے کہ مومنوں کا ایک مولیٰ ہے یہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے اور ویسے بھی جس کا دنیا میں کوئی نہ ہو وہ یہی دعویٰ کیا کرتا ہے کہ میرا خدا ہے.جب سارے دنیا کے سہارے ٹوٹ جاتے ہیں تو ایسے لوگ جو اپنے آپ کو بے دست و پا پاتے ہیں وہ ہمیشہ یہ دعوی کر دیا کرتے ہیں کہ ہمارا خدا ہے لیکن اس سے تصویر مکمل نہیں ہوتی اور ہر دعویدار کے دعویٰ پر یقین کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی.اس آیت نے ایک اور بھی دعوئی ساتھ کر دیا.وَاَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَولى لَهُمْ کہ جو انکار کرنے والے ہیں ان کا کوئی مولیٰ نہیں ہے.یہ دعویٰ بہت ہی گہرائی سے مطالعہ کے لائق ہے اور بظاہر ایک ایسی بات پیش کر رہا ہے جو تاریخ عالم سے درست ثابت نہیں ہوتی بظاہر یعنی کیونکہ جن قوموں کا حوالہ دیا گیا ہے، جن میں انبیاء کو سب دنیا نے چھوڑ دیا ، جن کا صرف خدا رہ گیا.ان قوموں کے مولیٰ تو ضرورت تھے اور بڑے بڑے طاقتور مولی ان کو نصیب تھے.آنحضرت علی کو جب اہل مکہ نے چھوڑا تو ان کے بھی مولیٰ تھے وہ ایک دوسرے کے مددگار تھے، ایک دوسرے کے نصیر تھے، تمام عرب قبائل ان کی مدد کے لئے ان کی پشت پناہی پر تیار بیٹھے تھے اور ہر قسم کے جتنے بھی مددگار انسانی لحاظ سے مہیا ہو سکتے ہیں وہ سارے حضرت
خطبات طاہر جلد۵ 489 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء اقدس محمد مصطفی ﷺ کے دشمنوں کو نصیب تھے.اس سے پہلے فرعون کے وقت حضرت موسی کی کہانی کا مطالعہ کریں کہ کس طرح حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون یہ دونوں اکیلے بغیر کسی مددگار کے رہ گئے اور آپ کے مخالفین کو حکومت کی مدد حاصل تھی.بہت بڑا ایک غالب اور طاقتور اور جابر بادشاہ آپ کی مخالفت کی پشت پناہی کر رہا تھا.تو ایسے موقع پر اس آیت کا یہ حصہ کیسے چسپاں ہوگا کہ وَاَنَّ الْكَفِرِيْنَ لَا مَوْلى لَهُمْ کہ کافروں کا کوئی مولیٰ تم نہیں دیکھو گے.اس کا سوائے اس کے اور کوئی معنی نہیں کہ یہ ایک عظیم الشان پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہے یعنی یہ آیت اور اس کا خصوصیت کے ساتھ یہ حصہ عظیم الشان پیشگوئی کا رنگ رکھتے ہیں اور بتایا یہ گیا ہے کہ وہ لوگ جو تم ان کے مددگار دیکھ رہے ہو یا ماضی میں تم نے ان کے مددگاروں کو دیکھا ، انجام کار چونکہ وہ خدا سے ٹکر لینے والے ہوں گے اس لئے اس طرح وہ ہواؤں میں بکھر جائیں گے جیسے ان کا وجود ہی کوئی نہیں تھا اور جب وقت آئے گا تو اس وقت حقیقت میں انبیاء کے دشمنوں کا کوئی بھی مددگار نہیں پاؤ گے.پس نقشہ اس آیت نے یہ کھینچا کہ ایک وقت ایسا ہے جبکہ بظاہر بکثرت انبیاء کے دشمنوں کو مددگار نصیب ہیں اور خدا کے انبیاء کے پاس اللہ کے نام کے سوا کچھ بھی باقی نہیں رہا اور پھر ایک ایسا وقت بھی آنے والا ہے کہ جب اللہ ہی کا نام ہر جگہ غالب آنے والا ہے اور وہ دشمن جو بکثرت نظر آتے تھے ایک دوسرے کے مددگار ان کا کوئی وجود بھی تم باقی نہیں دیکھو گے، کوئی حیثیت نہیں پاؤ گے.انجام کاران کی ساری کوششیں بے کا رثابت ہوں گی گویا کہ دشمن نبوت کا کوئی بھی مددگار باقی نہیں رہا.یہ جو کہانی ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہر باردہرائی جاتی ہے اور آنحضرت علی کے زمانہ کے لوگوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ وہی خدا جس کی تقدیر ہر دفعہ اسی طرح ظاہر ہوتی ہے وہ چونکہ زندہ خدا ہے اس کی تقدیر اس دفعہ بھی اسی طرح ظاہر ہوگی.اگر تمہارے اطوار اور تمہارے کردار صداقت کے دشمنوں کے اطوار اور صداقت کے دشمنوں کے کردار بن کر ظاہر ہوئے تو خدا کی وہ تقدیر جو پہلے ان حالات میں ظاہر ہوتی رہی ہے اس دفعہ بھی اسی طرح ظاہر ہوگی اور تمہیں نیست و نابود کر دے گی.حق کے مقابل پر تم اپنے آپ کو بالکل بے اختیار اور نہتے پاؤ گے اور وہ طاقتیں جن کا تمہیں زعم ہے جب وقت آئے گا تو تمہیں یہ محسوس ہوگا کہ تمہارا کوئی بھی مولیٰ نہیں تھا، نہ کوئی مولیٰ ہے، کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا.
خطبات طاہر جلد۵ 490 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء یہ اعلان جس طرح اس وقت سچا تھا جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر یہ وحی نازل فرمائی جارہی تھی آج بھی اسی طرح سچا ہے اور گزرے ہوئے کل میں بھی ویسا ہی سچا تھا.یہ ایک ایسا اعلان ہے جس کو وقت کے ہاتھ مٹانہیں سکتے ، گزرتا ہوا زمانہ جس کی شان کو مدھم نہیں کر سکتا.جس کے اندر جو بنیادی حقیقت بیان ہوئی ہے وہ ایک لازوال حقیقت ہے.آج جماعت احمدیہ پر جو دور گزر رہا ہے اس پر بھی یہ آیات اسی شان کے ساتھ چسپاں ہو رہی ہیں جس طرح اس سے پہلے ہر سچائی کے دور میں چسپاں ہوتی رہی ہیں اور جو تصویر میں بن رہی ہیں وہ ہو بہو نقش به نقش ، موبمو وہی بن رہی ہیں جو اس سے پہلے بنتی رہی ہیں.ہماری مخالفت کے انداز وہی ہیں جو سچائی کی مخالفت کے ہمیشہ سے انداز رہے ہیں.وہی ادا ئیں ہیں، وہی طریق ہیں، وہی بعض کھونٹوں کے زور پر ناچنا ہے، وہی دنیاوی سہاروں کے تکبر ہیں اور لفظ بلفظاً تاریخ اسی طرح دہرائی جارہی ہے جیسے پہلے ہر دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کے آنے کے وقت دہرائی جاتی رہی ہے اور جماعت احمدیہ کی طرف سے بھی اسی شان کے ساتھ یہ تاریخ دہرائی جارہی ہے جس شان کے ساتھ صداقت کو ماننے والوں نے ہمیشہ اس تاریخ کو دہرایا ہے.مخالفت کے جو انداز ہیں ان میں ایک نمایاں چیز جو پاکستان میں ظاہر ہو رہی ہے وہ ہے کلمہ طیبہ جس کا اصل نام کلمہ شہادۃ ہے اور پاکستان اور ہندوستان میں کلمہ طیبہ کے نام سے معروف ہے یعنی یہ گواہی دینا ہے کہ اللہ ایک ہے اور محد مصطفی ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں.کلمہ طیبہ کو جرم سمجھ کر کلمہ طیبہ سے محبت کا اظہار کرنے والوں اور اس کو اپنی چھاتی سے لگانے والوں کو طرح طرح کی اذیتیں دینا اور ہر قسم کے جبر اور تشدد کے ساتھ ان کو کلمہ طیبہ سے پیار کے اظہار سے روک دینا.یہ ایک نمایاں انداز ہے ہماری مخالفت کا جو پاکستان میں ابھرا ہے اور گزشتہ چودہ سو سال میں سوائے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں آغاز اسلام کے سوا آپ کو یہ طرز مخالفت اور کہیں دکھائی نہیں دے گی.یا اس دور اول میں تھی یا اس دور آخر میں ہے یا اولین کے ساتھ یہ معاملہ گزرا تھا یا اب آخرین کے ساتھ یہ معاملہ گزر رہا ہے.بزور ، بشدت، با جبر کلمہ طیبہ سے روکنا اور پھر کلمہ طیبہ سے تعلق رکھنے کے نتیجہ میں شدید سزائیں دینا ، یہ ہے وہ مخالف کی ادا اور مومنوں کی ادا یہ ہے کہ بڑی خوشی کے ساتھ ، بڑے صبر کے ساتھ ، بڑی ہمت کے ساتھ ہر قسم کی تکلیفوں کو برداشت کرتے چلے جارہے ہیں لیکن
خطبات طاہر جلد۵ 491 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء کسی قیمت پر بھی کلمہ سے تعلق توڑنے پر آمادہ نہیں ہور ہے.کوئی دنیا کی طاقت ان کو اس سے باز نہیں رکھ سکتی.ابھی کوئٹہ میں ایک مقدمہ چل رہا تھا چار احمد یوں پر کہ انہوں نے کلمہ طیبہ سینہ سے لگایا ہوا تھا اور پاکستان میں چونکہ یہ ایک نہایت ہی بھیانک اور شدید جرم ہے اس لئے بڑے زور کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ ہمارے مخالفین اس مقدمہ کی پیروی کر رہے تھے.بڑے بڑے علما دور دور سے آتے تھے ہر دفعہ حاضری دینے کے لئے اور عدالت کو مرعوب کرنے کے لئے کہ اتنے بڑے جرم کی اگر تم نے سزا نہ دی تو پھر ہم دیکھیں گے کہ ہم تمہارے خلاف کیا مہم چلاتے ہیں.بہر حال کل ہی اس مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا ہے تو تین احمدیوں کو ایک ایک سال قید با مشقت اور ایک ایک ہزار روپیہ جرمانہ کی سزا اور ایک احمدی کو چھ ماہ کی قید با مشقت اور دس ہزار یا اس کے لگ بھگ جرمانہ کی سزا سنائی گئی.ان میں سے ایک نے سزا سنتے ہی بڑے زور کے ساتھ اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدَارَّسُوْلُ اللہ اور وہیں عدالت نے اس جرم کے نتیجہ میں کہ تم پھر بھی کلمہ پڑھنے سے باز نہیں آرہے چھ مہینہ اس کی سزا میں اضافہ کر دیا.یہ وہ تاریخ دہرائی جارہی ہے جو کھلے لفظوں میں صاف صاف بتا رہی ہے کہ مومنوں کے اطوار کیا ہیں اور کافروں کے اطوار کیا ہیں اور قرآن کریم ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ جب بھی کفر کے اطوار اس طرح ظاہر ہوں گے تو اللہ تعالیٰ کی تقدیر بھی اسی طرح ظاہر ہوگی جیسے ہمیشہ ظاہر ہوتی چلی آرہی ہے اور آج تمہارے متعلق جو سمجھا جا رہا ہے کہ تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ، ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ اللہ تمہارا مولیٰ ہے اور وہ جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ دنیا والے سارے ان کے مولیٰ ہیں تم دیکھو گے کہ کوئی مولیٰ ان کا ساتھ دینے والا باقی نہیں رہے گا.ایک ہی مولی باقی رہے گا جو خدا ہے.اس کے سوا اور کوئی مولیٰ نہیں جو ایسے موقعوں پر کام آسکے.ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوْاوَ انَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ دراصل لا إله إلا اللہ ہی کی تشریح ہے.جب کہا جاتا ہے اللہ مولیٰ ہے تو غیر اللہ کی کلی نفی بھی ضروری ہے ساتھ.اگر اللہ مسلمانوں کا مولیٰ ہے اور مسلمانوں ہی کا مولیٰ ہے تو لا إِلهَ إِلَّا الله نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ اس کے سوا پھر تمہیں کوئی نظر ہی نہیں آنا چاہئے.سب کچھ تو تم نے لے لیا کیونکہ اللہ کے سوا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 492 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء ہی کچھ نہیں تو جب سب کچھ تمہارے پلڑے میں پڑ گیا تو پھر لازمی نتیجہ یہ نکلنا چاہئے وَ أَنَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلى لَهُمْ اور اللہ تم نے سنبھال لیا تو ان کے پاس کیا باقی رہا.اس کے سوا تو کوئی معبود نہیں ہے اور کوئی مولیٰ ہے ہی نہیں ، وجود ہی کوئی نہیں.اس لئے خواہ وہ کتنے ہی بڑے دعوے کریں ، کتنی بڑی قسمیں کھائیں اس حکومت کی طاقت کے بل بوتے پر ہم مٹا دیں گے اور یہ کر دیں گے اور وہ کر دیں گے.یہ ساری فرضی کہانیاں ہیں، پہلے بھی ایسی باتیں کرنے والے لوگ موجود تھے اور ان سب کو خدا کی تقدیر نے فنا کر دیا.اس سے پہلے ہمیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ فرعون کے مقابلہ کی جو داستان قرآن کریم میں ملتی ہے اس میں ہم یہ بھی پاتے ہیں.فَالْقَوْا حِبَالَهُمْ وَعِصِيَّهُمْ وَقَالُوا بِعِزَّةِ فِرْعَوْنَ إِنَّا لَنَحْنُ الْغَلِبُونَ ( الشعر ا: ۴۵) ان لوگوں کا بظاہر ایک مولیٰ تھا اور وہ فرعون تھا اور فرعون کے بل بوتے پر اس کی طاقت کے سہارے وہ بڑے بڑے دعوے کیا کرتے تھے اور یہ اعلان کر رہے تھے ، وہ جادو گر کہ ہم فرعون کی عزت کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم ضرور غالب آئیں گے.اب پاکستان میں بعینہ یہی ہورہا ہے.آج کل علماء ایک دوسرے کو یہ خوشخبریاں دے رہے ہیں کہ وقت کا جابر ہمارے ساتھ ہے اور یہی وقت ہے احمدیت کو مٹانے کا اگر یہ جابر مٹ گیا تو پھر احمدیت بھی نہیں مٹ سکے گی اور تمہارا بھی کچھ باقی نہیں رہے گا اور یہ بات یاد دلانے کی خاطر مرکز میں اسلام آباد میں یعنی پاکستان میں جو اسلام آباد ہے اس میں با قاعدہ وزیر مذہبی امور نے علماء کی ایک میٹنگ بلائی اور جیسا کہ میں نے پہلے ہی بیان کیا تھا کہ علما خواہ وہ مخفی اجلاسوں میں شامل ہوں یا کھلے اجلاسوں میں شامل ہوں، وہ بات روک ہی نہیں سکتے.یہ فخر کہ وزیر نے ہمیں بلایا اور مشورے میں ہمیں شامل کیا یہ اتنا ز بر دست فخر ہوتا ہے کہ وہ اس کا کھلے منہ سے اعلان شروع کر دیتے ہیں بتانے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے کیا کیا ، کیا کیا حصہ لیا ، ہمارے فلاں رقیب نے کیا باتیں کہیں اور دیکھتے دیکھتے وہ ساری باتیں پھیل جاتی ہیں.تو بظاہر یہ ایک بڑی مخفی اور بڑی اہم میٹنگ تھی جو بصیغہ راز منعقد کی گئی مگر چند گھنٹے کے اندراندر اس کے متعلق باتیں عام پھیلنی شروع ہوگئیں.اس میٹنگ کی رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ وزیر مذہبی امور نے کہا کہ علماء تم کیوں ہوش نہیں کرتے، کیا تمہیں علم نہیں ہے کہ اس حکومت کے ہوتے ہوئے جو کچھ تم کر سکتے ہوکر لواگر یہ حکومت نہ
خطبات طاہر جلد۵ 493 خطبہ جمعہ امر جولائی ۱۹۸۶ء رہی تو تمہارا بھی کچھ باقی نہیں رہے گا اور پھر تمہارے یہ خواب کہ ہم احمدیوں کو مٹادیں ، احمدیوں کو نقصان پہنچا دیں یہ بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکیں گے.تو آج اس وقت کے فرعون کی عزت کی قسم کھاؤ اور یہ اعلان کرو کہ ہم نے اس کی حمایت سے دستبردار نہیں ہونا اور لوگوں کو بھی جا کر یہی تلقین کرو.ان میں بھی اعلان کرو کہ یہی ایک ہمارا سہارا ہے.اگر یہ سہارا ٹوٹ گیا تو پھر ہماری ساری سکیمیں احمدیت کے خلاف نا کام اور نامراد جائیں گی.ان کو بھی یہی آیت مخاطب ہو کر کہہ رہی ہے کہ جس طرح خدا کی تقدیر نے اس سے پہلے ایک فرعون کی عزت کی قسم کھانے والوں کو ناکام و نامراد کر دیا تھا آج بھی اسی خدا کی تقدیر جلوہ گر ہوگی.آج بھی اسی خدا کی تقدیر غالب آئے گی اور اس زمانہ کے فرعون کی عزت کی قسم کھانے والے بھی یقینا نا مراد اور ناکام رہیں گے، ان کی ساری تدبیریں باطل جائیں گی.ایک اور ان کی ادا یہ ہے کہ مظلوم ، نہتے ، کمزور اور بوڑھے احمدیوں پر چھپ کر قا تلانہ حملے کر رہے ہیں.عورتوں پر حملہ سے بھی باز نہیں آتے اور کوئی حیا نہیں کرتے اور بوڑھوں پر ہاتھ اٹھانے سے بھی شرم نہیں کھاتے.حالانکہ ویسے ہی مردانگی کے خلاف بات ہے مگر جہاں تک سنت انبیاء کا تعلق ہے، آپ کبھی بھی انبیاء اور ان سے تعلق رکھنے والے، ان کے غلاموں اور ان سے محبت کرنے والوں میں یہ بدا دا نہیں پائیں گے کہ مقابلے کے وقت بوڑھوں پر ہاتھ اٹھا ئیں یا عورتوں کو شہید کریں یا معابد کا رخ کریں اور ان کو مٹانے کی کوشش کریں.اس کے بالکل برعکس آنحضرت ﷺ کی یہ ایک سنت مؤکدہ تھی اور بخاری اور موطا اور مسلم اور ابو داؤد کی مستند احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر دفعہ جب حضور اکرم یہ کسی مہم کو سریہ پر بھجواتے تھے دشمن سے مقابلہ کے لئے تو جو نصیحتیں فرمایا کرتے تھے ان میں یہ صیحتیں شامل تھیں کہ دیکھو تم نے کسی بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھانا کسی بچے کو سخت نظر سے نہیں دیکھنا کسی عورت کی جان نہیں لینی اور وہ لوگ جو معابد سے تعلق رکھتے ہیں خواہ وہ کسی دنیا کے مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں، کسی خدا کی عبادت گاہ سے تعلق رکھنے والے لوگ ہوں، ان کو کچھ نہیں کہنا.(ابوداؤ د کتاب الجہاد حدیث نمبر: ۲۲۴۶) آج یہ ساری چیزیں بالکل الٹادی گئیں ہیں اسلام کے نام پر.آج نصیحت کرنے والے علماء پاکستان کے لوگوں کو یہ نصیحت کر رہے ہیں کہ ان کے بوڑھوں پر حملہ کرو اگر تمہیں جوانوں پر حملہ کرنے کی ہمت نہیں ہے، ان کی عورتوں پر ہاتھ اٹھاؤ،
خطبات طاہر جلد۵ 494 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء ان کے معاہد سے تعلق رکھنے والوں کو قتل و غارت کرو اور ان کے معابد کو مسمار کردو.آنحضرت ﷺ کے بعد آپ کے خلفاء کی بھی یہی سنت رہی کہ شدید مخالفت کے دوران جبکہ دشمن نے پہلے حملہ کیا اور جارحانہ کاوشوں کے بعد پھر بالآخر خلفاء نے دفاعی جنگیں لڑیں.ایسی صورتوں میں جبکہ بظاہر اسلام کمزور تھا اس وقت بھی ان اعلیٰ اخلاقی قدروں میں سے کوئی ایک قدر بھی خلفائے راشدین نے نہیں چھوڑی اور آنحضرت عیﷺ کی سنت اور آپ کی نصائح پر بڑی سختی سے کار بندر ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق بھی یہی آتا ہے کہ جہاد پر روانہ ہونے سے پہلے آپ سرداران لشکر کو یہ نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ کسی بوڑھے پر ہاتھ نہیں ڈالنا، کسی عورت پر ہاتھ نہیں ڈالنا کسی بچے کو کچھ نہیں کہنا اور ان عمارتوں پر بھی ہاتھ نہیں ڈالنا جن کا تقدس کیا جاتا ہے یعنی جن عمارتوں کو تقدس کی نظر سے دیکھا جاتا ہے ان عمارتوں کو بھی نہیں چھیڑنا.(موطا امام مالک کتاب الجہاد حدیث نمبر : ۸۵۷) کہاں وہ اسلام اور کہاں یہ آج کا اسلام کہ نصیحتوں میں یہ بات داخل کر لی گئی کہ حملہ کرنا ہے تو عبادت گاہوں پر حملہ کرنا ہے، مارنا ہے تو ان کو مارنا ہے جو عبادت گاہوں سے متعلق ہو چکے ہیں، قتل کرنا تو بوڑھوں کو کرنا ہے یا عورتوں کو کرنا ہے ، چھپ کر وار کرنا ہے، بزدلی کے ساتھ حملہ کرنا ہے اور وہاں حملہ کرنا ہے جہاں تمہیں پوری طرح غلبہ نصیب ہو ، جہاں تم کمزور ہو یا مستضعفین کہلانے والوں میں شمار ہو سکتے ہو وہاں تم نے کوئی ہاتھ نہیں اٹھانا اور ان بدا داؤں کا نام اسلام رکھ لیا گیا ہے.ابھی پرسوں ہی یہ خبر ملی کہ حیدر آباد کے ہمارے ایک پرانے معزز بزرگ جو ایک لمبا عرصہ حیدر آباد میں امیر بھی رہے یعنی با بوعبد الغفار خاں صاحب، ان کی اسی سال کی عمر تھی ان کو آنکھوں سے نظر بھی نہیں آتا تھا، ان کو ظالمانہ طور پر چھریاں مار مار کر شہید کر دیا گیا.بڑے وہ با اخلاق انسان تھے، اس علاقہ میں بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے.دور دور تک معززین ان کی بات کا احترام کرتے تھے اور چونکہ ہمیشہ سے انہوں نے خدمت کی علاقہ کی اور نہایت پیارے اخلاق رکھتے تھے اس لئے اپنوں غیروں میں سب میں بہت ہر دلعزیز تھے.ایک دفعہ ایک شخص کو کسی ڈاکو نے اغوا کر لیا اور غریب آدمی تھا لیکن کئی لاکھ روپے کا اس سے مطالبہ شروع کیا.بابوعبدالغفار صاحب کے پاس وہ آئے انہوں نے کہا کہ فلاں جو سندھ کا بڑا معزز آدمی ہے اس کہنے سے یہ ڈا کو باہر نہیں جا سکتے تو
خطبات طاہر جلد۵ 495 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء آپ جا کے سفارش کریں.اتنا ان کا خدا کے فضل سے اثر ورسوخ تھا کہ اس کے پاس گئے اور اس نے اسی وقت ان کو کہا کہ آپ یہ میرا آدمی لے جائیں ، یہ آپ کو وہاں پہنچائے گا جہاں وہ ڈاکو ہیں اور جہاں وہ آدمی قید ہے تو سوال ہی نہیں کہ وہ اس کو چھوڑیں نہ.چنانچہ بابو صاحب نے مجھے پھر سارا واقعہ لکھا.وہ کہتے ہیں کہ میں اس کو لے کر گیا.تو ڈاکوؤں نے جب دیکھا کہ کس کا آدمی ساتھ آیا ہے تو انہوں نے کہا جی کیا ہم سے غلطی ہوئی ، فرمائیے کیا حکم ہے؟ جواباً انہوں نے بتایا کہ ان کا کوئی دوست ہے، کوئی عزیز ان کو آپ نے پکڑا ہوا ہے.انہوں نے کہا کہ ابھی حاضر انکوابھی ہم نکالتے ہیں لیکن شرط یہ ہے کہ ہم کھانے کے بغیر آپ کو نہیں جانے دیں گے اور جب تک ہم مہمان نوازی کا حق ادا نہ کر لیں اس وقت تک آپ واپس نہیں جاسکتے اس وقت تک چھوڑ نا بھی نہیں اس کو.وہ اکیلا قید نہیں تھا ایک اور بھی تھا.جب اس کے ساتھی کو پتہ چلا کہ اس کی قید کو چھوڑانے والے آئے ہیں اور اتنی عزت اور احترام سے ان کے ساتھ سلوک ہو رہا ہے تو اس نے سلاخوں میں سے آواز دی میں بھی ہوں یہاں، میری بھی سفارش کر دو.تو انہوں نے کہا اچھا جی اس بیچارے کو بھی چھوڑ دو، تو انہوں نے کہا حاضر اس کو بھی چھوڑ دیتے ہیں.بڑا احسان کرنے والے لوگوں پر اور لوگ بھی ان کے اعلیٰ خلق کی وجہ سے ان سے بڑے متاثر تھے.اب ان کو ایسی حالت میں اتنی سال کی عمر ، بوڑھا آدمی دکان پر اکیلا بیٹھا ہوا.جب ان کا دکان کا جو ملازم تھا کام کرتا تھا.اس وقت تک وہ انتظار کرتے رہے ، جب وہ باہر گیا تو پھر ان کو آکرا کیلے چھریاں مار کر ہلاک کر دیا.میان کا دین ہے، یہ ان کی بہادری ہے، یہ ان کا تقویٰ ہے اور شرم نہیں کرتے کہ اس دین کا نام اسلام رکھ رہے ہیں اس دین کو حضرت محمد مصطفی می ﷺ کی طرف منسوب کر رہے ہیں اور حیا نہیں کھاتے.نقوش وہی ہیں جو ابھر رہے ہیں ہمارے دشمنوں کے بھی اور ہمارے بھی اور یہ تصویر میں صاف پہچانی جارہی ہیں.اندھا بھی ہو تو ٹول کر دیکھ لے گا کہ یہ نقوش کس کے نقوش ہیں.انبیاء کے مخالفین کے نقوش انبیاء کے نقوش سے مل ہی نہیں سکتے ، یہ ہو ہی نہیں سکتا.دن اور رات جس طرح جدا جدا چیزیں ہیں اسی طرح انبیاء اور ان کے ماننے والوں کی سنتیں اور ان کی ادائیں ان کے مخالفین کی سنتوں اور اداؤں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں.ان کا جہاد کا یہ تصور تو ہے کہ جہاں غلبہ ہو جہاں طاقت ہو وہاں جھوٹے الزام لگا کر کمزوروں پر حملہ کرو اور اس کا نام اسلام ہے اور غیرت اور محبت رسول وہاں دکھاؤ
خطبات طاہر جلد۵ 496 خطبہ جمعہ امر جولائی ۱۹۸۶ء جہاں تمہارا جھوٹ بھی بیچ مانا جائے.جہاں غیر کو غلبہ نصیب ہے وہیں ان کی غیر تیں مرجاتی ہیں.اب ہندوستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے وہاں بارہا ایسے واقعات ہوئے ہیں کہ شدید گستاخی کی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اور قرآن کریم کی اور اسلام کی اور کسی کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگتی ، ساری غیر تیں وہاں مرجاتی ہیں.دہر یہ ملک ساتھ ہیں جہاں خدا کی بے عزتی اور گستاخی کی جاتی ہے، کوئی غیرت جوش میں نہیں آتی.امریکہ میں ، انگلستان میں ، دوسرے ممالک میں بار بار ایسی کوششیں ہوتی ہیں کہ کھلے بندوں دشمنان اسلام آنحضرت ﷺ کی شدید ہتک کرتے ہیں.وہاں ان کے جذ بہ جہاد کو ہوش ہی نہیں آتی ، آنکھ ہی نہیں کھلتی اس جذبے کی اور وہ جذ بہ وہاں اٹھتا ہے جہاں آنحضرت ﷺ سے محبت کرنے والے اور آپ کے عشق میں مبتلا لوگ پائے جاتے ہیں.ان کو کمزور دیکھ کر جھوٹے الزام لگا کر ان پر حملے کرتے ہیں کہ ہماری غیرت رسول برداشت نہیں کر سکتی کہ یہ اسلام کا جہاد ہے.کوئی ایک بھی رگ نہیں جسے سیدھی رگ کہا جاسکے.ہرادا میں ہر طرز میں کبھی پائی الله جاتی ہے اور اس ٹیڑھی طرز فکر ٹیڑھی طرز عمل کا نام انہوں نے اسلام اور محبت رسول رکھ لیا ہے.بہر حال جو کچھ بھی ان کا کام ہے وہ کرتے رہیں جو کچھ ہمیں سکھایا گیا ہے اور جس کی ہمیں نصیحت کی گئی ہے ہم اسی پر عمل کرتے رہیں گے.ہمارے پیشوا اور مولیٰ اور ہمارے مطاع اور ہمارے سید و آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی رہے ہیں اور ہمیشہ وہی رہیں گے.ہم تو کسی قیمت پر کسی پہلو سے بھی آنحضور ﷺ کا دامن چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.یہ ہاتھ کاٹے جاتے ہیں تو کاٹے جائیں یہ سرقلم ہوتے ہیں تو قلم ہوں لیکن محمد مصطفی ﷺ ہمارے آقا اور مطاع اور موٹی تھے ، ہیں اور ہمیشہ رہیں گے اور کوئی نہیں جو ہمیں آپ سے جدا کر سکے.جس طرح یہ ہمیں جدا کرنے کی کوشش کریں گے، خود جدا ہوتے چلے جائیں گے اور یہ جو ادائیں ان کی ظاہر ہورہی ہیں یہ جدائی ہی کی تو علامتیں ہیں.ان تصویروں کے بعد جو خود نقوش کھینچ رہے ہیں اپنے چہروں کے اور اپنے اخلاق کے.کون کہہ سکتا کہ ان کے چہرے اور ان کے اخلاق محمد مصطفیٰ علیہ کے ماننے والوں کے چہروں اور ان کے اخلاق سے ملتے ہیں؟ اس لئے یہ خود دور ہٹتے چلے جارہے ہیں حضور اکرم ﷺ سے اور پرے ہوتے چلے جارہے ہیں.جہاں تک ان کا یہ خیال ہے کہ ان کا ایک مولیٰ ہے اور حکومت وقت ان کی پشت پناہی
خطبات طاہر جلد۵ 497 خطبہ جمعہ ا ار جولائی ۱۹۸۶ء کر رہی ہے اور دنیا کی طاقتوں کے جتنے سرچشمے ہیں وہ ان کے ہاتھ میں ہیں تو ان کو میں یہ بتا رہا ہوں کہ یہی وقت ہے اس اعلان کا جبکہ بظاہر ان کو مولی دکھائی دے رہے ہیں کہ لَا مَوْلى لَهُمْ میں قرآن کریم کے الفاظ میں اعلان کرتا ہوں کہ ان کا کوئی مولیٰ نہیں اور وہ جماعت جس کے متعلق یہ سمجھ رہے ہیں کہ ان کا کوئی مولیٰ نہیں ہے میں خدا کی عزت کے تمام ناموں کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ ہمارا مولی ہے اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور یہ وہ مولیٰ ہے جس نے کبھی بھی اپنے غلاموں کا ساتھ نہیں چھوڑا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد سنتوں سے فارغ ہوتے ہی احباب باہر تشریف لے جائیں اور وہاں صف بندی کر لیں.اکثر تو نماز جنازہ غائب ہی ہونی ہے مگر ہماری ایک مخلص خاتون شہناز اختر صاحبہ اہلیہ مبارک احمد صاحب کھوکھر صدر جماعت آکسفورڈ وفات پاگئیں ہیں.مرحومہ موصیہ تھیں اور اچا نک نمونیہ ہونے کی وجہ سے وفات پاگئیں.اللہ تعالیٰ انہیں غریق رحمت فرمائے.ان کا جنازہ باہر آ گیا ہے تو ان کا جنازہ پڑھتے ہوئے پھر ہم ساتھ ہی نماز جنازہ غائب بھی پڑھیں گے.جن میں سب سے پہلے تو با بوعبدالغفار صاحب شہید کی نماز جنازہ ہوگی اور پھر ڈاکٹر فاروق احمد صاحب فانی بردار نسبتی بشارت احمد صاحب بشیر مبلغ بمبئی.یہ جوانی کے عالم میں ہی عمر چھبیس سال کی تھی وفات پاگئے.اس کے علاوہ ہماری مکر مہ مبارکہ بیگم صاحبہ اہلیہ پیر عبدالرحمان صاحب فیصل آبا د وفات پاگئی ہیں، یہ بھی موصیہ تھیں.ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.تو جمعہ کے بعد سنتیں پڑھتے ہی دوست تشریف لے جائیں باہر اور صف بندی کر لیں.
خطبات طاہر جلد۵ 499 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء گستاخی رسول کے قانون کی حقیقت نیز حضرت مسیح موعود اور آپ کی جماعت کا عشق رسول (خطبہ جمعہ فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت کی : وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(الانعام: ۱۰۹) اِنَّ اللهَ وَمَلَيكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلَّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللهَ وَ رَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينَّا وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًان (الاحزاب: ۵۷-۵۹) اور پھر فرمایا: اعمال کے حسن کی بنیاد نیک ارادوں اور نیک دعاوی کے اظہار پر نہیں ہوا کرتی بلکہ نیک نیات پر ہوتی ہے جو حسین عمل میں ڈھل جاتے ہیں.لیکن بسا اوقات انسان نیک دعاوی ہی کو اپنی نجات کا ذریعہ سمجھ لیتا ہے اور نیک دعاوی کو اپنے اعمال کو حسین دکھانے کے لئے ایک ذریعہ کے طور
خطبات طاہر جلد۵ 500 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء اختیار کرتا ہے.اس پہلو سے جب ہم انسانی اعمال کا جائزہ لیتے ہیں تو بسا اوقات ایسا بھی دکھائی دیتا ہے کہ بہت بڑے بڑے نیک دعاوی نیک اعمال پر منتج ہونے کی بجائے ایسے اعمال پر منتج ہو جاتے ہیں جو جنت کی بجائے جہنم کی طرف لے جانے والے ہوتے ہیں.اس لئے دعاوی کی کوئی حقیقت نہیں.حقیقت ان نیتوں کی ہے جو انسان کے اعمال کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں اور اعمال کے اندر صالح خون بن کے دوڑتی ہیں.انہی سے اعمال میں حسن پیدا ہوتا ہے ، انہی نیک نیتوں سے اعمال میں زندگی آتی ہے.آج کل پاکستان میں اسی قسم کا ایک نیک دعوی کیا جا رہا ہے.عشق محمد مصطفی ﷺ کے حسین نام پر اور اس دعوئی کے نتیجہ میں ایک قانون بھی اس ملک میں پاس کیا گیا ہے جو ناموس رسول کی حفاظت کا قانون ہے.بیان یہ کیا گیا ہے کہ ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی ع سے ایسا عشق ہے کہ آپ کی کسی قسم کی بھی گستاخی برداشت نہیں کر سکتے اس لئے جو بھی ایسی گستاخی کا مرتکب قرار پائے اسے موت کی سزادی جائے یا کم سے کم عمر قید کی سزادی جائے.ع اس دعویٰ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ قرآن اور سنت کی روشنی میں یہ فیصلہ جو بھی اختیار کیا گیا ہے اس کی کیا حیثیت ہے.اس پہلو سے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو سب سے پہلے تو میری توجہ اس آیت کی طرف مبذول ہوئی جس کی میں نے آج کی آیات میں سے پہلے تلاوت کی تھی.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ كَذَلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَى رَبِّهِمْ مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّتُهُمْ بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لانے والے ہو! اے محمد مصطفیٰ علیہ کے غلامو! جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو اگر تم ایسا کرو گے تو اس کے رد عمل میں مشتعل ہو کر وہ تمہارے بچے خدا کو بھی گالیاں دینے لگیں گے.اس طرح اللہ تعالیٰ بعض لوگوں کو ان کے اعمال حسین کر کے دکھاتا ہے جبکہ واقعہ وہ حسین نہیں ہوتے اور حقیقت میں تمہارے اعمال کا فیصلہ تو اسی وقت ہوگا جب تم خدا کے حضور لوٹائے جاؤ گے اور وہ تمہیں مطلع فرمائے گا کہ تمہارے اعمال کی حیثیت کیا تھی.گویا یہ فیصلہ کہ نیتیں صاف تھیں
خطبات طاہر جلد۵ 501 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء یا نہیں ، دعوے بچے تھے یا جھوٹے تھے اور ان کے نتیجہ میں حسین اعمال پیدا ہوئے یا بد اعمال نے جنم لیا اس فیصلہ کا دن قیامت کا دن مقررفرمایا گیا اور اس فیصلہ کا اختیار اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں لیا.لیکن جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے وہ بالکل واضح ہے اور حیرت انگیز تعلیم ہے کہ سب سے پہلے اللہ کی عزت اور احترام کے قیام کے لئے یہ تعلیم دی گئی کہ ان جھوٹے خداؤں کو بھی گالیاں نہ دو جن کا یا تو وجود کوئی نہیں یا وہ خواہ مخواہ خدا کی خدائی پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں اور قابل نفرت وجود ہیں.دونوں صورتوں میں خواہ وہ فرضی خدا ہوں یا دنیا کے کیڑے مکوڑے جنہیں خدا بنا دیا گیا ہو دونوں صورتوں میں اگر گالیاں کھانے کا حق ہے تو ان کا ہے لیکن خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ان کو بھی گالیاں نہیں دینی اور یہ گالیاں نہ دینے کی وجہ اللہ کی محبت بیان فرمائی.کیسا گہرا فلسفہ ہے، کیسی گہری حکمت ہے جو محبت کے پس منظر میں کار فرما ہے اور محبت کی سچائی کا مظہر بن جاتی ہے.اگر کسی کو اللہ سے محبت ہے تو اس کی محبت کی خاطر غیر اللہ کو بھی گالیاں نہ دے کیونکہ اگر غیر اللہ کو گالیاں دے گا تو اشتعال پیدا ہوگا اور غیر اللہ اس کے بدلے میں اس کے پیارے، اس کے محبوب آقا کو گالیاں دینے لگے گا.کیسی عجیب تعلیم ہے کہ اللہ کی ناموس کی حفاظت غیروں کی ناموس کی حفاظت کے ذریعہ کرائی جارہی ہے.اس سے زیادہ شاندار، اس سے زیادہ عالمگیر امن کی متحمل تعلیم کا تصور ہی ممکن نہیں اور جس چیز کو اولیت ہے اسے اولیت دی جا رہی ہے.رسول کی عزت تو خدا سے بنتی ہے.رسول کا وجود تو خدا کی محبت کے نتیجہ میں متشکل ہوتا ہے.اگر خدا کی محبت نہ ہو اور خدا کی عزت اور خدا کا احترام نہ ہوتو رسالت کا کوئی وجود نہیں ہے.پس قرآن کریم نے جہاں ناموس کا ذکر فرمایا اور اس کی خاطر دل آزاری سے روکا وہاں اللہ کی ذات کو پکڑا جو ہر چیز کی بنیاد ہے جو ہر روح کا سر چشمہ ہے اور ہر سچائی اس سے پھوٹتی ہے ،سب عزتیں اس سے پیدا ہوتی ہیں اور اس کے سوا کوئی بھی حقیقت نہیں.پس یہ قانون مجھے عجیب لگا کہ ناموس رسول کی باتیں تو ہو رہی ہیں مگر وہ رسول جس کا سارا وجود اللہ کی ناموس کے قیام کی خاطر تھا جس کی ساری محبتیں اللہ کی خاطر تھیں اس رسول کے محبوب کا کوئی ذکر ہی نہیں.اس آقا و مولیٰ واحد خدا کی عزت و احترام کے لئے کوئی قانون نہیں اور پھر اس آیت سے یہ حکمت بھی نہ سیکھی کہ اگر قرآنی تعلیم کی روشنی میں اور قرآنی اصول کی روشنی میں تم حقیقتاً حضرت محمد مصطفی ﷺ سے محبت رکھتے ہوئے آپ کے احترام کا قیام چاہتے ہو تو اس طرح بات
خطبات طاہر جلد۵ 502 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء شروع کرو کہ آنحضرت عملے کے مقابل پر جتنے بھی غیر مذاہب کے انبیاء موجود ہیں، مقابل پران معنوں میں کہ آج کل کی دنیا میں مقابل پر ہیں ورنہ حقیقت میں تو کوئی بھی نبی دوسرے نبی کے مقابل پر نہیں ہوا کرتا.مگر آج کے زمانہ میں دنیا میں جتنے بھی مذاہب ہیں سچے مذاہب تو الگ رہے جن کو تم یقیناً جھوٹا سمجھتے ہو ان کے سربراہوں کی بھی عزت کی تعلیم دوان کی ناموس کے متعلق قانون پاس کرو اس بناء پر کہ تمہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے سچی محبت ہے اور تم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کہیں کوئی شخص کسی مذہب کے راہنما کا دل دکھائے اور اس کے نتیجہ میں وہ حضرت رسول اکرم علی کی گستاخی کرنے پر آمادہ ہو جائے.یہ ہے قرآنی تعلیم ، یہ ہے اس کا عالمگیر حسن.اس کی کوئی مثال دنیا میں کہیں نظر نہیں آسکتی.آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعوی اگر سچا ہے تو قرآنی اصول کے مطابق پہلے یہ قانون پاس ہونا چاہئے کہ اس ملک میں ہم کسی مذہب کے راہنما کو بے عزت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور وجہ یہ نہیں ہے کہ ہم اس راہنما کو سچا سمجھتے ہیں ، خواہ وہ سچا ہو خواہ وہ جھوٹا ہو ، جھوٹے خداؤں سے بدتر وہ بہر حال نہیں ہو سکتا.زیادہ سے زیادہ اسے ایک جھوٹا خدا کہہ سکتے ہو.قرآنی تعلیم کے مطابق ہم ہرگز اس ملک میں اجازت نہیں دیں گے کہ کسی مذہب کے راہنما کسی مذہب کے سردار، کسی مذہب کے بانی کی کسی رنگ میں بھی بے عزتی کی جائے کیونکہ اس کے نتیجہ میں یہ خدشہ ہے کہ ہمارے آقاو مولا حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے خلاف جذبات مشتعل ہو جائیں اور کوئی گستاخی کا کلمہ منہ سے نکل جائے.اگر فطرتا دیکھیں تب بھی یہی قانون ہے جو دراصل کام کر سکتا ہے اور محبت کے تقاضوں کو اگر کسی طرح کوئی قانون پورا کر سکتا ہے تو یہی قانون ہے جو پورا کر سکتا ہے.وجہ یہ ہے کہ جس سے پیار ہو، جس سے محبت ہو انسان یہ تو نہیں چاہتا صرف کہ وہ اس کے خلاف منہ سے کچھ نہ بولے اور دل میں اس کو گالیاں دیتار ہے.دل کی گالیوں کو کیا کریں گے.جب تک ان موجبات اور محرکات کو دور نہ کریں جو دل میں اشتعال پیدا کرتے ہیں اور دلوں میں گالیاں بناتے ہیں.تو جس سے سچا عشق ہو اس کی خاطر انسان ہر وہ کام کرتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں اس محبوب کی دشمنی کم ہو جائے.شریفانہ تہذیب کی حدود کے اندر آ جائے.جس کے بعد مخالفت گالی گلوچ پر منتج نہیں ہوا کرتی.ایسی حیرت انگیز تعلیم ہے کہ اگر آج اسے دنیا اپنا لے تو مذہبی لحاظ سے ساری دنیا میں امن کی ضمانت دی جاسکتی ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 503 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء یہی وجہ ہے کہ قادیان میں جماعت احمدیہ کی طرف سے پیشوایان مذاہب کے جلسوں کا انعقاد کیا گیا.اس زمانہ میں ہندو اکثریت کے علاقوں میں جہاں صرف یہی نہیں کہ ہندو اکثریت میں تھے بلکہ عیسائی راج ہونے کی وجہ سے عیسائیوں کی بھی زبانیں کھلی ہوئی تھیں ، سکھ بھی بعض علاقوں میں بڑے متشدد تھے اور وہ ان محدود علاقوں میں مسلمانوں پر غالب اکثریت بھی رکھتے تھے.بعض علاقوں میں بدھ غالب تھے، بعض علاقوں میں اور دیگر مذاہب کے لوگ غالب تھے.جس طرح چاہتے وہ اسلام کی ہتک کرتے اور رسول اسلام کے خلاف گستاخی سے پیش آتے تھے اور کتاب اللہ کی بے عزتی سے بھی نہیں چوکتے تھے اور اسلام کے خدا کا بھی تمسخر اڑاتے تھے.جماعت احمدیہ کو چونکہ اللہ اور رسول اور کتاب اور ملائکہ اور ان سب مقدس باتوں سے حقیقی پیار تھا جو ہمارے ایمان کا جزو ہیں اس لئے وہی ترکیب سوجھی جماعت احمدیہ کے خلیفہ کو جو قرآن نے سکھائی تھی ، وہی اصول تھا جو قرآن سے لیا اور اس کی روشنی میں ایک لائحہ عمل طے کیا گیا اور تمام ہندوستان میں بانیان مذاہب کی عزت کا دن منایا جانے لگا.مسلمان دوسرے مذاہب کے بزرگوں کی تعریف کرتے تھے اور دوسرے مذاہب کے بزرگ مسلمان بزرگوں کی تعریف کرتے تھے اور ایسا لطف آتا تھا کبھی عیسائی کے منہ سے کبھی ہندو کے منہ سے کبھی سکھ کے منہ سے حضرت اقدس محمد مصطفی یا اے کا سیرت کا کلام سن کر روح وجد میں آجاتی تھی اور جب ان سے کہا جاتا تھا کہ آپ نے آنحضرت علی کی سیرت کے گن گانے ہیں ہم حضرت کرشن کے حسن اخلاق پر روشنی ڈالیں گے یا حضرت بابا گرو نانک کی اعلیٰ سیرت بیان کریں گے تو پھر وہ لوگ محنت کرتے تھے ، توجہ سے ،غور سے سیرت کا مطالعہ بھی کرتے تھے اور اس زمانہ میں ان جلسوں کی جو روئیداد موجود ہے، پڑھ کر دل درود بھیجتا ہے حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کہ کیسی عظیم کتاب آپ کو اللہ نے عطا فرمائی اس کتاب کی روشنی ہی میں یہ ساری روشنی جماعت احمدیہ کو دنیا میں پھیلانے کی توفیق مل رہی ہے.نہایت ہی پیارا ماحول تھا امن اور آشتی کا اور محبت کا.ہماری نظر تو اس بات پر رہتی تھی کہ کب کوئی غیر حضوراکرم ﷺ کی تعریف کرے.یہ دن بھی آج دیکھنے پڑے ہیں کہ جو محبت کرنے والے ہیں ان کے منہ سے بھی تعریف لوگوں کو تکلیف دینے لگی ہے.عجیب عشق ہے یہ کہ عشق کے سارے پیمانے الٹ دیئے گئے ہیں، عشق کے سارے اسلوب بدل دیئے گئے ہیں.اب تو عشق کے تقاضے ان لوگوں کے یہ رہ گئے ہیں کہ جس
خطبات طاہر جلد۵ 504 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء سے ہمیں محبت ہے اس کا تم محبت سے نام لو گے تو ہمیں اتنا طیش آئے گا کہ ہم تمہیں رسوا کریں گے، ہم تمہیں گلیوں میں گھسیٹیں گے ، ہم تمہیں قید کریں گے ، اگر بس چلے گا تو ہم تمہیں منجر ماریں گے اور جب تک تمہیں ذلیل اور رسوا اور نیست و نابود نہ کرلیں ہمارے دل کو ٹھنڈ نہیں پڑے گی کہ تم نے حضرت رسول اکرم ﷺ کی محبت کا اظہار کیا ہے.پس قرآن کی بنیاد کو چھوڑا تو ہر بنیاد پاؤں تلے سے نکل گئی.یہی وہ تعلیم ہے جس کو آنحضرت کو مخاطب کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے اس طرح بھی بیان فرمایا کہ اگر تم ایک انچ بھی سر کے اس تعلیم سے جو ہم نے تمہیں دی ہے تو تم کسی بات پر بھی قائم نہیں رہو گے.ایسا کھڑو گے کہ نہ تمہاری دنیار ہے گی نہ تمہارا دین باقی رہے گا.پس بچی حقائق پر مبنی تعلیمات کی ایک یہ خوبی بھی ہے، اور یہ پہچان ہے جو وجہ امتیاز ہے ان کے اندر اور دوسری تعلیمات کے اندر کہ ان میں سے اگر ایک اصول کو آپ چھوڑتے ہیں تو شجرہ خبیثہ بن جاتے ہیں.اختُنَّتْ مِنْ فَوْقِ الْأَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ (ابراہیم ۲۷) جسے زمین سے اکھیڑ کر پھینک دیا گیا ہو ہوا میں کبھی ایک طرف دھکیل کر لے جاتیں ہیں اور کبھی دوسری طرف لے جائیں اور کوئی قرار اس کو نصیب نہ رہے.پس اس بنیادی حقیقی ، سچی تعلیم کو چھوڑ کر کہ وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللهَ عَدُوًّا بِغَيْرِ عِلْمٍ دیکھئے پاکستان کے مسلمان علماء کہاں سے کہاں پہنچ گئے اور پاکستان کی حکومت کو کیسے کیسے عجیب قوانین بنانے پر مجبور کر دیا.جہاں تک آنحضرت عمﷺ کی ہتک یا گستاخی کا تعلق ہے اس ضمن میں بھی قرآن کریم میں آیات موجود ہیں اور کثرت سے آیات موجود ہیں.صرف آپ ہی کی گستاخی کا ذکر نہیں آپ سے قبل گزشتہ انبیاء کو دکھ دینے کا اور ان کی گستاخیوں کا بھی ذکر ہے.مگر یہ عجیب بات ان آیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتی ہے کہ کسی ایک جگہ بھی انسان کو یہ اختیار نہیں دیا کہ ان گستاخیوں کی سزا اس دنیا میں ان گستاخوں کو دے.گستاخیوں کا ذکر ہے، دل دکھانے کا ذکر ہے،شدید اذیت پہنچانے کا ذکر ہے لیکن ایک مقام پر بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ اختیار نہیں دیا کہ میرے محبوب بندوں کی گستاخی کے نتیجہ میں تم ان کو سزا دو.صبر کی تعلیم دی ہے اور یہ وعدہ کیا ہے کہ میں ان کی گستاخی کی سزا دوں گا.اگر یہ بات تمہیں تسلی نہیں دیتی کہ قیامت کے دن دوں گا تو میں یہ وعدہ کرتا ہوں کہ اس دنیا میں بھی ان کو
خطبات طاہر جلد۵ 505 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء ذلیل کروں گا اور آخرت میں بھی ذلیل کروں گا لیکن یہ فیصلہ میں اپنے ہاتھ میں رکھوں گا ، اس پر عمل درآمد میں اپنے ہاتھ میں رکھوں گا تمہیں کوئی اختیار نہیں.تو جب قرآن اختیار نہیں دیتا تو پھر غیر اللہ کو اختیار کیسے حاصل ہو گیا کہ جو قرآن نے اختیار نہیں دیا وہ اپنے ہاتھ میں لے لیں؟ بعض آیات جو میں نے چنی ہیں ان میں سے ایک کی آج میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ وَمَلَبِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلَّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا کہ یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے اس نبی یعنی محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجتے ہیں.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا تم بھی بکثرت اس پر درود بھیجو اور اس پر سلام بھیجو اور اپنے سارے وجود کو اس کے سپرد کر دو.إِنَّ الَّذِيْنَ يُؤْذُونَ اللهَ وَرَسُولَهُ یقینا وہ لوگ جو اللہ کو دکھ پہنچاتے ہیں وَ رَسُول اور اس کے رسول کو لَعَنَهُمُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ الله ان پر لعنت فرماتا ہے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا اور سزا کے طور پر ان کے لئے رسوا کن عذاب مقرر فرما دیا ہے.وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنتِ لیکن اللہ تو اپنے پیاروں کی اتنی غیرت رکھنے والا ہے کہ صرف نبیوں کو دکھ پہنچانے والوں کے خلاف اقدام نہیں فرما تا بلکہ تم عام مومنوں کے لئے بھی وہ غیرت رکھتا ہے.تم سے بھی ایسا پیار کرتا ہے.وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِه لوگ جو مومنوں یعنی عام ایمان لانے والوں اور عام ایمان لانے والیوں کو دکھ پہنچاتے ہیں بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا ایسے دکھ پہنچاتے ہیں جن کا جواز کوئی نہیں کسی ایسے فعل کے نتیجہ میں دکھ نہیں پہنچاتے جوان سے سرزد ہوا ہو.فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا انہوں نے بہت ہی بڑا بہتان اٹھالیا اپنے سر پر اور بہت ہی بڑا کھلا کھلا گناہ اٹھا لیا یعنی اس کی بھی سزا اللہ تعالیٰ ان کو دے گا.اس آیت میں یہ ایک بات زائد فرمائی گئی بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا بغیر اس کے کہ انہوں نے کوئی ایسا کسب کیا ہو جس کے نتیجہ میں ان کو دکھ پہنچایا جانا چاہئے.یہ وہ تفریق ہے جو رسولوں اور مومنوں کے درمیان ہے اور یہ تفریق ہمیشہ قائم رہے گی.جہاں رسولوں کو دکھ پہنچانے کا ذکر ہے یا
خطبات طاہر جلد۵ 506 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء الله آنحضرت ﷺ کو دکھ پہنچانے کا ذکر ہے وہاں اس بات کا ذکر ہی نہیں فرمایا کہ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا کیونکہ ناممکن ہے کہ رسول سے کوئی ایسا فعل سرزد ہو جس کے نتیجہ میں کسی فرد بشر کے لئے یہ جائز ہو جائے کہ وہ اس کو تکلیف پہنچائے.یہ ہو ہی نہیں سکتا خصوصاً حضور اکرم ہے جو رحمت للعالمین تھے ان کے متعلق اشارۃ یہ ذکر کرنا بھی ان کی شان کے خلاف ہے کہ آنحضرت ﷺ سے کسی کو تکلیف پہنچی ہو.ہاں مومنوں سے ایسا ممکن ہے فرمایا کہ اگر مومنوں سے تمہیں تکلیف پہنچے تو میں ان کی ناجائز حمایت نہیں کروں گا.کیسا عظیم الشان انصاف کا تصور پیش فرمایا جار ہا ہے ،کوئی انصاف کے معاملہ میں مذہبی تفریق نہیں ہے.فرمایا اگر تم دکھ دو گے مومنوں کو تو میں یہ ضرور دیکھوں گا کہ مومنوں کی غلطی کی وجہ سے تو تمہیں تکلیف نہیں پہنچی اور اس کے نتیجہ میں تو کوئی دکھ نہیں پہنچایا جارہا.اگر ایسا ہوگا تو میں ان کا ضامن نہیں ہوں لیکن اگر بغیر جرم کے بغیر ارتکاب جرم کے تم نے ان کو کوئی تکلیف پہنچائی تو میں ان کا ولی ہوں اور لازما میں تم سے ان کا انتقام لوں گا.ی تعلیم ہے اور اس سارے عرصہ میں کہیں بھی بندوں کو یہ اختیار نہیں دیا گیا کہ ایسے موقع پر تم فرمانروائی کے اختیار اپنے ہاتھ میں لے لو اور خود میری طرف سے ایسے لوگوں کو سزائیں دینی شروع کرو.پھر فرمایا: وَمِنْهُمُ الَّذِينَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنَّ قُلْ أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوْا مِنْكُمْ ۖ وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ يَحْلِفُوْنَ بِاللهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللهُ وَرَسُولُةَ اَحَقُّ اَنْ تُرْضَوْهُ إِنْ كَانُوا مُؤْمِنِيْنَ أَلَمْ يَعْلَمُوا اَنَّهُ مَنْ يُحَادِدِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَاَنَّ لَهُ نَارَ جَهَنَّمَ خَالِدًا فِيهَا ذَلِكَ الْخِزْى الْعَظِيمُ.(التوبہ: ۶۳۶۱) فرماتا ہے وَمِنْهُمُ الَّذِيْنَ يُؤْذُونَ النَّبِيَّ وَيَقُولُونَ هُوَ أُذُنَّ اس آیت میں ان اعتراض کرنے والے اور آنحضرت ﷺ کی گستاخی کرنے والوں کو جو آپ کے دور میں زندہ وجود تھے جن کا صحابہ کوعلم تھا، ان کی نشاندہی مزید فرما دی.گویا کہ اب یہ ابہام نہیں رہا کہ وہ کون لوگ
خطبات طاہر جلد۵ 507 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء ہیں جو آنحضرت عمل سے گستاخی سے پیش آتے ہیں اور اس کے باوجود ان کے لئے کوئی دنیا کی سزا ایسی تجویز نہ فرمائی جس کا جاری کرنا انسان کے اختیار میں ہو.بلکہ دوبارہ اس عہد کو دہرایا کہ میں ضامن ہوں ان کا اور میں ان کے لئے غیرت رکھتا ہوں ، میں ان کے لئے سزا تجویز کروں گا اور میں ہی اس سزا پر عمل کرواؤں گا.فرمایا ایسے لوگ بھی تھے بد بخت جو حضرت رسول کریم ﷺ کے متعلق عام پروپیگنڈا کرتے تھے.هُوَ أُذُن کہ یہ تو ہر وقت لوگوں کی باتیں سنتا رہتا ہے اور کان کا کچا ہے.عربی میں محاورہ ہے اذن جس کا مطلب ہے کان ہے، مجسم کان ہے اردو میں ہم کہتے ہیں کان کا کچا ہے.تو رسول کریم لے کے متعلق منافقین یہ کہتے تھے کہ ایسا کان کا کچا ہے نعوذ باللہ من ذالک کہ جو چغلی کھائے اس کی بات سن کر دوسرے پر ناراض ہو جاتا ہے.ہمارا قصور ہو یا نہ ہو ہمارے خلاف یک طرفہ باتیں سن کر بعض فیصلے صادر فرما دیتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہاں کان تو ہے لیکن أذُنَ خَيْرٍ نَّكُم تمہارے لئے بدی کا کان نہیں بھلائی کا کان ہے.جب اچھی باتیں سنتا ہے تو بڑی محبت سے جھک کر سنتا ہے اور بہت پیار سے ان کو قبول فرماتا ہے لیکن جب بدی کی باتیں سنتا ہے تو اس کان میں یہ فطرت ہی نہیں ہے کہ ان کو قبول کر لے.صرف اذن خیر ہے اذن بد نہیں ہے.يُؤْمِنُ بِاللهِ وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ اللہ پر ایمان لاتا ہے اور مومنوں کی خاطر ایمان لاتا ہے اور مومنوں کی باتوں پر ایمان لاتا ہے یہاں صلہ بدل کر مضمون بدل دیا.فرمایا يُؤْمِنُ بِالله ایمان باللہ کا مطلب ہے اللہ کی ذات پر ایمان لاتا ہے وَيُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِينَ.ل نے یہ مضمون پیدا کیا کہ ایمان لاتا ہے مومنوں کی خاطر یعنی جو چیز میں مومنوں کی بھلائی کی ہیں ان کو قبول فرمالیتا ہے جو چیزیں تو مومنوں کی برائی کی ہیں ان کو رد فرما دیتا ہے.وَرَحْمَةٌ لِلَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ اور وہ لوگ جو تم میں سے ایمان لائے ہیں ان کے لئے مجسم رحمت ہے.وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ رَسُولَ اللهِ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيم اور وہ لوگ جو اللہ کے رسول کو دکھ پہنچاتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب مقرر ہے.یہ نہیں فرمایا کہ اٹھو اور ان کو قتل کردو، اٹھو اور ان کو عمر قید کی سزا دو، اٹھو اور ان کو ذلیل کر دیا ان کے گھروں کو آگ لگا دو.پھر فرمایا:
خطبات طاہر جلد۵ 508 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء وَمِنْهُمْ مَّنْ يَلْمِزُكَ فِي الصَّدَقْتِ فَإِنْ أَعْطُوا مِنْهَا رَضُوا وَاِنْ لَّمْ يُعْطَوْا مِنْهَا إِذَاهُمْ يَسْخَطُونَ.(التوبہ:۵۸) ایک اور گروہ کا ذکر فرمایا کوئی طریق ایسا نہیں تھا جو دکھ دینے کا ہو اور آنحضرت ﷺ کے خلاف استعمال نہ کیا گیا ہو.ایک الزام آپ پر یہ لگاتے تھے کہ یہ نعوذ باللہ من ذلک صدقات کھا جاتا ہے یا اپنوں کو دے دیتا ہے اور جن سے تعلق نہ ہو ان کو نہیں دیتا، انصاف سے تقسیم نہیں کرتا.حیرت انگیز بات ہے آنحضرت علہ تو نبوت کے دعوئی سے پہلے بھی عرب میں امین کہلاتے تھے، گندے سے گندا دشمن بھی انگلی نہیں رکھ سکتا کہ ایک موہوم سا واقعہ بھی ایسا گزرا ہو جس پر آنحضرت ﷺ کی امانت پر الزام لگایا جاسکے اور یہ بد بخت دعوی نبوت کے بعد جبکہ امین کو اپنی امانت میں اور زیادہ محتاط ہونا پڑتا ہے پھر یہ الزام لگانے سے نہیں چوکتے تھے کہ نعوذ باللہ من ذلک اموال کی تقسیم میں امین نہیں ہیں ، خیانت کرنے والے ہیں.فرمایا ان کا تو یہ حال ہے یہ کمینے لوگ ہیں جب ان کو کچھ پل جاتا ہے تو راضی ہو جاتے ہیں اور جب نہیں ملتا تو ناراض ہو جاتے ہیں ان سے کیا معاملہ کرنا ہے اس دنیا میں اور یہ کہہ کر اس مضمون کو چھوڑ دیا گیا.خدا جو سلوک فرمائے گا وہ فرمائے گا.جہاں تک مومنوں کا تعلق ہے ان کی تسلی کے لئے یہی ان کی خصلت کا اظہار کافی سمجھا گیا کہ خدا فرماتا ہے کمینے لوگ ہیں، گھٹیا لوگ ہیں.جب ان کو ملتا ہے تو راضی ہو جاتے ہیں ، جب نہیں ملتا تو ناراض ہو جاتے ہیں.نہ ان کی ناراضگی کے کچھ معنی ہیں نہ ان کی رضا کے کچھ معنی ہیں.پھر کچھ اور قسم کے بھی الزام لگاتے تھے جن کا بڑی لطافت سے ذکر فر مایا گیا ہے.آنحضرت کی مقدس ذات کے متعلق وہ الزام دوہرائے نہیں گئے لیکن ایک ماضی کے شیشہ میں ان کی Reflection دکھائی گئی ہے.یہ بھی قرآن کی فصاحت و بلاغت کا ایک کمال ہے فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ أَذَوْا مُوسَى فَبَرَّاهُ الله مِمَّا قَالُوا وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وَجِيْمان (الاحزاب : ۷۰) کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو لَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ أَذَوْا مُوسَى ہرگز ان لوگوں کی طرح نہ ہونا جنہوں نے موسی کو تکلیفیں دی تھیں.فَبَرَّاهُ اللهُ مِمَّا قَالُوا اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد۵ 509 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء نے موسی کو ان تمام الزامات سے بری فرما دیا جو اس پر لگائے جاتے تھے.وَكَانَ عِنْدَ اللهِ وجيها اور اللہ کے نزدیک و ہبہت صاحب مرتبت انسان تھا.حضرت موسی“ پر جو الزام لگائے گئے ان کی تفصیل بائیبل میں ملتی ہے اور وہ کئی قسم کے گندے الزام تھے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان الزامات کو دوہرانے کی بجائے ایک ماضی کے شیشہ میں ان الزامات کی تصویر اتار دی جو حضوراکرم عے پر اس زمانہ میں لگائے جارہے تھے اور مومنوں کو نصیحت فرمائی کہ ویسے نہ بن جانا جیسے موسی کی قوم تھی.اب ان سب جگہوں میں عجیب بات ہے صاحب ایمان لوگ مخاطب ہیں اور مسلمان سوسائٹی کا ذکر ہو رہا ہے اور عجیب بات ہے کہ ان لوگوں کو نصیحت کی جارہی ہے کہ تم آنحضرت علی کی گستاخی سے باز رہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان سوسائٹی کے اندر ایسے منافق لوگ موجود تھے جن کے متعلق مسلمان سوسائٹی کو علم تھا کہ یہ بد خلق لوگ ہیں، بدتمیز لوگ ہیں اور ان کے ایمان کھو کھلے ہیں اور اس قدر بے حیا ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ مقدس وجود پر الزام تراشی سے بھی باز نہیں آتے.ان سب باتوں کا ذکر ہے لیکن ایک جگہ بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان کا قتل و غارت شروع کر دو، ان کو تباہ کر دو ، ان کے گھر لوٹ لو، ان کے اموال چھین لو ، ان کو زندہ رہنے کا حق نہ دو کیونکہ حضرت رسول اکرم ﷺ کی خاطر تو کائنات بنائی گئی ان لوگوں کا کیا حق ہے کہ آنحضرت ﷺ پر طعن کریں اور آپ کو کسی قسم کا دکھ پہنچا ئیں.ان سب کے علاوہ ایک عجیب ذکر قرآن کریم میں یہ بھی ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ایک غزوہ سے لوٹتے ہوئے ایک بد بخت انسان نے دنیا کا سب سے ذلیل انسان کہا.اتنا شدید لفظ ہے کہ اس سے زیادہ حضرت اقدس محمد مصطفی ملنے کے لئے بے عزتی اور گستاخی کا کوئی تصور ممکن ہی نہیں.قرآن کریم اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إلَى الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ الْاَذَلَّ وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ (المنافقون: ۹) یعنی وہ یہ کہتے ہیں لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں
خطبات طاہر جلد۵ 510 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء لَيُخْرِجَ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلُّ تو مدینہ سے سب سے زیادہ معزز انسان سب سے زیادہ ذلیل انسان کو نکال دے گا اور یہ بھی قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت ہے کہ یہاں نام نہیں لیا بلکہ اس الزام کو بغیر واضح کئے اسی طرح پیش فرما دیا.اس میں حکمت کیا تھی.اس حکمت کے متعلق واقعہ بھی آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں فرمایا وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنْفِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ.اس آیت کا پس منظر یہ ہے کہ غزوہ بنی مصطلق کے بعد مدینہ واپس آتے ہوئے ایک جگہ پڑاؤ ڈالا ہوا تھا وہاں حضرت عمر کے ایک غلام کی انصار کے حلیف قبیلہ کے ایک شخص سے تو تو میں میں ہوگئی.پانی پر عربوں کے جھگڑے چل پڑا کرتے تھے ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر.وہ چونکہ انصار کے حلیف قبیلہ سے تعلق رکھتا تھا اس نے عرب دستور کے مطابق دہائی دی کہ اے انصار میں دہائی دیتا ہوں کہ تمہارے حلیف قبیلے کی بے عزتی ایک ایسے شخص نے کی ہے جو ہمارا حلیف نہیں ہے یعنی مکہ کا رہنے والا ہے.وہ تو مسلمان نہیں تھا.اس نے تو پرانے عرب طریق کے مطابق اس غیرت کو اکسایا جوعر بوں میں معروف تھی اور جس کے نتیجہ میں بڑی تیزی کے ساتھ عرب قبائل مشتعل ہو جایا کرتے تھے.چنانچہ وہی نتیجہ نکلا.انصار بڑی تیزی سے اس آواز کو سن کر دوڑتے ہوئے اس پانی پلانے کی جگہ پر اکٹھے ہو گئے اور جب مہاجرین کو پتہ چلا کہ اس طرح انصار اپنے حلیف قبیلہ کی مدد کے لئے پہنچے ہیں تو بطور مسلمان کے نہیں بطور مہاجرین کے وہ حضرت عمرؓ کے غلام کے گردا کٹھے ہونا شروع ہو گئے اور قریب تھا کہ شدید کشت و خون ہو جائے.اس وقت بعض صاحب فہم، صاحب ادراک اعلی درجہ کے مومنین نے ہوش سے کام لیتے ہوئے لوگوں کو سمجھایا کہ تم جاہلیت کی باتوں کی طرف لوٹ رہے ہو.اسلام اس قسم کی تعلیم نہیں دیتا.چنانچہ انصار اور مہاجرین کی یہ لڑائی جس کے شدید احتمال تھا اس طرح ٹل گئی.لیکن اس واقعہ کا آنحضرت ﷺ کی طبیعت پر بھی بہت اثر پڑا اور منافقین نے بھی اس سے استفادہ کی کوشش کی.چنانچہ عبداللہ بن ابی بن سلول جو منافقوں کا سردار تھا وہ بھی اس غزوہ میں اپنے ایک ٹولے کے ساتھ شامل تھا.اس کو اس سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل گیا اور اس نے یہ باتیں شروع کر دیں کہ دیکھو یہ نتیجہ نکلا ہے غیروں کو پناہ دینے کا.ہمارے پرانے دوستوں سے ہمیں الگ کر دیا اور پھر باہر سے آکر ہمارے دوستوں کو ذلیل کیا جارہا ہے گویا ہمیں ذلیل کیا جارہا ہے.عام طور پر یہ
خطبات طاہر جلد ۵ 511 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء بیان کیا جاتا ہے کہ یہ بات عبداللہ نے کہی لیکن قرآن کریم یہاں جمع کا صیغہ استعمال فرمارہا ہے اور یہ بات بھلا دی جاتی ہے.فرمایا: يَقُولُونَ لَبِنْ رَّجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ نہیں فرمایا يَقُول بلکہ فرمایا وہ لوگ کہہ رہے ہیں یعنی ایک سے زیادہ آدمی یہ کہنے لگ گئے تھے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایک پورا جتھا تھا.ابتداء تو عبداللہ ہی نے یہ بات کہی مگر اس بات میں اتنی طاقت پیدا ہوگئی تھی نعوذ باللہ من ذلک کہ وہ بات عام لوگوں میں کہی جانے لگی تھی.منافقین کا ایک گروہ تھا جو اس بات کو لے اڑے اور یہ کہنے لگ گئے اور کھلم کھلا گستاخی کا کلمہ آنحضرت علیہ کے متعلق استعمال کرنے لگے کہ جب ہم مدینہ لوٹیں گے تو جو ہم میں سے سب سے معزز ہے وہ نعوذ باللہ من ذلک آنحضرت ﷺ کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے، ہم میں سے جو سب سے ذلیل ہے اس کو مدینہ سے نکال دے گا.یہ بات سن کر صحابہ میں شدید رد عمل پیدا ہوا اور بعض صحابہ نے آنحضرت ﷺ سے یہ بھی پیشکش کی کہ ہمیں اجازت دی جائے کہ ہم اسے قتل کر دیں.یہ تو خیر ایک لمبا واقعہ ہے اس کا دلچسپ حصہ یہ ہے کہ عبداللہ کا بیٹا اپنے باپ کی طرح منافق نہیں تھا.آنحضرت ﷺ سے غیر معمولی محبت رکھتا تھا اور اخلاص رکھتا تھا.اس نے جب یہ باتیں سنیں کہ اتنا بڑا جرم میرے باپ سے سرزد ہوا ہے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت مے اس کے قتل کا حکم دے دیں تو وہ خود رسول اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میرے باپ سے ایک ایسی بڑی بد بختی ہوئی ہے کہ اس کے نتیجہ میں بعید نہیں ہے کہ آپ اس کے قتل کا حکم صادر فرما دیں.یہ درست ہوگا ، اس فیصلہ پر مجھے کوئی اعتراض نہیں ، میری صرف یہ خواہش ہے کہ مجھے حکم دیں کہ میں اپنے باپ کا سرا تا ر کر آپ کے قدموں میں لا کے رکھ دوں.ایسی غیرت ایسی جوش میں آئی تھی اس کے ایمان کی، کہ ایسا عظیم اس نے اخلاص کا نمونہ دکھلایا.مگر آنحضرت ﷺ نے اس کے جواب میں بھی صبر کی تلقین فرمائی ، اس کے جرم سے اعراض فرمایا اور فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ لوگ یہ کہیں کہ محمد ایسا نبی تھا کہ اپنے ساتھیوں کو قتل کرواتا رہتا تھا.عجیب ہے کہ جس کے متعلق خدا بھی گواہی دیتا ہے کہ وہ منافق ہے اور ذلیل ترین انسان ہے.جس کے منافقوں کا سردار ہونے کے بارے میں بھی کوئی شک نہیں ہے، جس کے متعلق اللہ تعالیٰ متنبہ فرماتا ہے کہ اگر تو اس کے بارہ میں ستر دفعہ بھی استغفار کرے گا تب بھی میں نہیں سنوں گا.ایسے شخص کے متعلق آنحضرت ﷺ کا دل اتنا نرم اور اتنا گداز ہے کہ شدید ترین گستاخی کا مرتکب
خطبات طاہر جلد۵ 512 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء ہونے کے باوجود ، طلب کے ہوتے ہوئے بھی کہ اس کا سر اڑا دینا چاہئے پھر بھی آپ انکار فرماتے ہیں اس کا اور شفقت اور رحمت کی انتہاء دیکھئے آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں لوگ یہ نہ کہیں اپنے ساتھیوں کو مرواتا ہے.وہ اس لائق نہیں تھا کہ آنحضرت علی کا ساتھی کہلائے.آنحضرت ﷺ کے ساتھیوں کی جو صفات قرآن میں بیان فرمائی گئی ہیں ان میں سے تو کوئی ایک صفت بھی اس شخص میں پائی نہیں جاتی تھی.یہ صرف رحمت اور شفقت کا ایک انتہائی اظہار تھا.فرمایا کہ کہیں یہ نہ کہیں لوگ کہ اپنے ساتھیوں کو مروا دیا کرتا تھا.اگر قرآن کا کوئی حکم ہوتا ، اگر خدا کا کوئی واضح حکم ہوتا کہ نبی کی گستاخی پر اس کی قوم پر لازم ہے کہ وہ اسے قتل کرے تو کیا اس حکم کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ک تو اطلاع نہیں ہوئی تھی اور آج چودہ سو سال کے بعد پاکستان کے ملاؤں کو یہ اطلاع ملی ہے.یعنی شارع نے تو محمد کو اطلاع دے دی آپ کو اس کا علم بخشا ، آپ کو اس کی حکمت عطا فرمائی لیکن آپ تو اس بات کو سمجھ نہیں سکے نعوذ باللہ من ذالک اور آج چودہ سو سال کے بعد آج کے ملاں یہ سمجھ گئے کہ نہیں ، اصل شریعت یہی ہے اور یہی شریعت کا حکم ہے.یہ ہے گستاخی رسول اکرم ﷺ کی ، اگر گستاخی کی سزا ہے تو ان گستاخوں کو ملنی چاہئے جنہوں نے آنحضور ﷺ سے آگے قدم رکھا ہے.آپ سے آگے تو کوئی قدم نہیں رکھ سکتا لیکن آپ سے آگے قدم رکھنے کا دعوی کیا ہے اور یہ دعوی ہی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی شدید گستاخی ہے.پس سب سے پہلے تو ان گستاخوں کو سزاملنی چاہئے جنہوں نے شریعت کے کاروبار اپنے ہاتھوں میں لے لئے اور اپنے آپ کو خدائی کا مقام بھی دے دیا کہ جس طرح چاہیں ہم شریعت میں تبدیلی پیدا کریں.صلى الله صلى الله حقیقت یہ ہے کہ جہاں تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ سے پہلے جتنے انبیاء تھے ان کے گستاخوں کا تعلق ہے قرآن کریم میں ہر جگہ جہاں جہاں بھی ذکر ملا ہے وہاں خدا کی طرف سے ان کو سزا دینے کے عہد کی تکرار کی گئی ہے اور کسی جگہ بھی بندوں کو اس بات پر مامور نہیں فرمایا گیا کہ اس سزا کے معاملہ کو اپنے ہاتھ میں لے لو.کیا وجہ ہے جبکہ دوسرے ادنی جرائم کے نتیجہ میں حدود قائم کر دی گئیں کھلی کھلی تعلیم دے دی گئی.چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا ہے، زنا کی سزا سو کوڑے لگانا ہے غرضیکہ اور اس قسم کی حدود قائم فرما دی گئیں ہیں.اتنے بڑے جرم کے متعلق کوئی سزا مقر ر نہیں فرمائی.
خطبات طاہر جلد۵ 513 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء اس کے پیچھے حکمت ہے، حکمت یہ ہے کہ اس قسم کی سزا کا اختیار دینا اصلاح کی بجائے فساد کو بڑھانے کا موجب بن جاتا.جرائم میں ایک بات واقعہ ہوتی ہے اور گستاخی کا جو فعل کسی کی طرف منسوب ہوتا ہے اس میں عملاً کچھ واقعہ نہیں ہوتا بلکہ ہر شخص کو یہ اختیار ہے کہ بجائے کسی واقعہ کا ثبوت پیش کئے کسی کی طرف کوئی گستاخی منسوب کر دے.دنیا سے امن اٹھ جائے اگر اس قسم کی گستاخیوں کی کوئی بھی سزا مقرر کی جائے.جتنی سوسائٹی گندی ہو اتنا ہی زیادہ بدامنی کا موجب ہو جائے گی یہ سزا.اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب جانتا ہے.ان کی کمزوریوں پر بھی اس کی نظر ہے.وہ جانتا ہے کہ خواہ میری یا میرے نبی کی ناموس کی خاطر ان کو اجازت دی جائے مگر ان کے دل اس اجازت سے استفادہ کرنے کے اہل نہیں ہیں ، اگر آج ہیں تو کل نہیں رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ میری ناموس کے نام پر بالکل برعکس نتائج بھی نکالے جائیں یا میرے رسول کی ناموس کی حفاظت کی خاطر گستاخان رسول ناموس رسول کی حفاظت کرنے والوں کو سزائیں دینے لگیں.یہی وہ خطرہ تھا جو آج حقیقت بن چکا ہے پاکستان میں اور دن بدن اس کی بھیانک صورت مزید ظاہر ہوتی چلی جائے گی.جہاں تک پاکستان کے فرقوں کا تعلق ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ آج اس قانون کو پاس کرتے وقت آپس میں انہوں نے یہی باتیں کی ہیں کہ ہم نے تو احمدیوں کو جھوٹا کرنے اور ذلیل کرنے کی خاطر ایک ہتھیار بنایا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں، تمہیں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے ہمیں نپٹنے دو.احمدیوں کی جان، مال اور عزت تمام پاکستان کے مسلمانوں پر اس قانون کے ذریعہ ہم حلال کر دیں گے.ہر کس و ناکس جو چاہے گا جس عاشق رسول پر جب چاہے گا الزام لگائے گا کہ اس نے نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت ﷺ کی گستاخی کی تھی اور اس کے نتیجہ میں یا اسے موت کی سزا دی جائے گی یا اسے ہیں سال قید کی سزادی جائے گی اور اگر کوئی خود اپنے ہاتھ میں یہ قانون لے بیٹھے گا تو اسے معمولی سی سرزنش کے بعد معاف کر دیا جائے گا کہ عملاً اس نے قانون کی روح کے مطابق کام کیا ہے.یہ سازش ہے جو انہوں نے آپس میں پکائی ہے.مگر اس سازش نے یہاں تو نہیں ٹھہرنا.انہی فرقوں کا جب آپ جائزہ لیں تو بہت کھلی ہوئی ایسی حقیقت ہے جس پر پردہ ڈالا ہی نہیں جاسکتا کہ بریلوی شدت کے ساتھ اس وہابی فرقے پر جو اس قانون کے بنانے میں سب سے زیادہ عمل پیرا
خطبات طاہر جلد۵ 514 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء رہا ہے یہ الزام لگاتے رہے ہیں اور آج بھی لگا رہے ہیں کہ تمام اسلامی فرقوں میں سب سے زیادہ گستاخ رسول یہ لوگ ہیں.بعض جگہ تو ذکر کر کے باقی فرقوں کا پھر نام لیا گیا ہے.احمدیوں کو بھی اس میں شامل کیا گیا ہے کہ یہ سارے فرقے نعوذ باللہ من ذالک گستاخ رسول ہیں.لیکن ان کی گستاخی سب سے بڑھ کر ہے اور واقعہ یہ ہے کہ بعض ایسے ایسے کلمات ان کے علماء نے آنحضرت عیہ کے متعلق اپنے مناظروں میں استعمال کئے ہیں کہ ان کو پڑھ کر دل دہل جاتا ہے کہ کس طرح آنحضرت سے محبت کا کرنے والا شخص ایسی زبان استعمال کرسکتا ہے.اسے یہاں دہرانا تو مناسب نہیں یہاں اس کا موقع نہیں ہے لیکن یہ ساری کتابوں میں لکھی ہوئی باتیں ہیں اور عام عوام میں مشہور بھی ہیں.ان کے علماء جہاں جہاں جوش دکھاتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف وہاں ان باتوں کو بڑی کثرت سے دہراتے ہیں اور لہلہا لہلہا کر دہراتے ہیں.ہم تو کفر کی بات کو دہراتے ہوئے بھی حیا محسوس کرتے ہیں مگر ان کی تقریریں سنیں بعض ان میں سے ٹیپ ریکارڈ ہو کر میرے پاس پہنچتی ہیں، میرے پاس موجود بھی ہیں.اس قدر لہک لہک کر بار بار گستاخی رسول کی باتیں دہراتے ہیں بکثرت بار بار کہ دل ہلا اٹھتا ہے کہ کاش اب بس کریں اس بات کو ، ایک دفعہ کہہ دیا کہ دیا اب کیوں بار باراس گستاخی کے کلمہ کو آنحضرت ﷺ کے متعلق بیان کرتے ہیں اور وہ اس لئے کرتے ہیں تاکہ لوگوں میں اشتعال پیدا ہو کہ فلاں دیو بندی نے یہ کہا، فلاں دیو بندی نے یہ کہا ، فلاں دیوبندی نے یہ کہا اور ہم کسی قیمت پر بھی اس گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتے.ہمارا تو ایک ولی ہے ہمارا تو ایک مولا ہے یعنی اللہ.جو خدا سے ہٹ چکے ہوں ان کا تو کوئی مولا نہیں ہوتا.جہاں تک ہماری حفاظت کا تعلق ہے وہ خدا کے ذمہ ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کا یہ ذمہ قائم ہے اور انشاء اللہ قائم رہے گا اور خدا کی راہ میں جو تکلیفیں پہنچیں گی ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے اور اس تعلیم کو ہماری فطرت میں رچا دیا گیا ہے کہ ہم ہنتے ہوئے صبر و شکر اور رضا کے ساتھ ہر اس تکلیف کو برداشت کریں گے جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں ہمیں اٹھانی پڑے.مگر ان کا کیا بنے گا جب یہ آپس میں لڑیں گے.اس ملک میں اس قدر بدامنی پھیلے گی اس قانون کے نتیجے میں کہ آئے دن فسادات کا محور یہ قانون بن جائے گا کہ فلاں نے گستاخی رسول ﷺ کی تھی.مسجدیں جلائی جائیں گی ، گھر لوٹے جائیں گے، عورتیں بیوائیں بنائی جائیں گی، بچے یتیم کئے جائیں گے محض
خطبات طاہر جلد۵ 515 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء اس لئے کہ ایک مولوی نے اپنی مخالفت کے نتیجہ میں دوسرے مولوی پر یہ الزام لگا دیا کہ اس نے گستاخی رسول کا کلمہ بولا تھا اور ایسا ملک جہاں سچائی عنقا ہو چکی ہو، جہاں سر براہ سے لے کر ادنیٰ چپڑاسی تک سارے جھوٹ بولتے ہوں اور بے دھڑک بولتے ہوں اور اس میں حیا بھی محسوس نہ کرتے ہوں، جہاں نوے دن کے وعدے کئے جائیں اور نو سال گزرنے پر بھی کہیں ابھی کچھ سال باقی ہیں نوے دن پورے نہیں ہوئے.وہاں عوام الناس کے جھوٹ کا کیا حال ہوگا.وہاں عدالتوں میں کیا کارروائیاں ہوتی ہیں؟ کیا یہ بات لوگوں کو معلوم نہیں ہے؟ کیا اہل پاکستان اس سے باخبر نہیں ہیں؟ کوئی دو جھوٹے شخص اکٹھے ہو کر کسی ایک شریف النفس انسان کے متعلق یہ الزام لگا سکتے ہیں کہ اس نے گستاخی رسول کی تھی.اب یہ شرعی عدالت کے اوپر منحصر ہے کہ یہ دیکھے کہ دونوں میں کس کا کس فرقے سے تعلق ہے قطع نظر اس کے کہ ان گواہوں کی کیا حیثیت ہے قطع نظر اس کے کہ وہ شخص بشدت احتجاج کرے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی محبت تو میرے رگ وریشہ میں پیوست ہے، میری جان کا جزو ہے.ان سب باتوں سے قطع نظر فیصلہ اس بات پر کیا جائے گا کہ الزام کس فرقے پر لگایا جارہا ہے اور الزام لگانے والے کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں اور حج خود کس فرقے سے تعلق رکھتے ہیں یا ان کی ہمدردیاں کس فرقے سے ہیں اور اس طرح ناموس رسول کے نام پر ہرگز بعید نہیں آنحضرت علی سے بے انتہا عشق رکھنے والے اور محبت کرنے والوں کو گستاخی رسول کے خنجر سے ذبح کیا جارہا ہو.اس سے زیادہ بدامنی کا تصور ممکن نہیں ہے کہ رحمتہ للعالمین کے نام پر دنیا میں ظلم کے چشمے جاری کر دئے جائیں.سورج کے نام پر دنیا میں اندھیرے اتار دیئے جائیں.یہ ہونے والا ہے اس ملک میں اور یہ ہورہا ہے اس کے لئے بنیاد میں قائم کی جارہی ہیں اور نام رکھا گیا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کی محبت سے مجبور ہوکر ہم یہ ایک قانون بنارہے ہیں.ایک اور پہلو سے بھی آپ دیکھیں تو حقیقی محبت کے تقاضے تو قربانی پیدا کرتے ہیں.حقیقی محبت کے تقاضے ایک ایسی غیرت پیدا کرتے ہیں جس میں کمزور یا طاقتور کا فرق باقی نہیں رہتا پھر اگر کسی شخص میں کسی شخص کے لئے حقیقی محبت اور غیرت ہے اور اس کا مزاج ایسا ہے کہ وہ اس کی گستاخی برداشت نہیں کر سکتا.تو جب گستاخی ہو، اس وقت وہ تھانے میں رپورٹ درج کروانے کے لئے نہیں
خطبات طاہر جلد۵ 516 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء دوڑے گا اور نہ یہ دیکھے گا کہ جو گستاخی کرنے والا ہے وہ طاقتور ہے یا وہ کمزور ہے، میرے ملک کا باشندہ ہے یا کسی اور ملک کا باشندہ ہے.اگر اس کی جبلت ایسی ہے اس کی سرشت ایسی ہے کہ وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں پاسکتا تو اس کے عواقب سے بے نیاز ہوکر ایک قدم اٹھالے گا.اب بھی انگلستان میں بارہا ایسے واقعات ہوتے ہیں، ایسی فلمیں بنائی جاتی ہیں ، ایسے ریڈیو پروگرام ہوتے ہیں، ایسی کتابیں چھپتی ہیں جن میں حضرت محمد مصطفی علیہ کی شدید گستاخی کی جاتی ہے اور اس گستاخی پر فخر کیا جاتا ہے کوئی معذرت نہیں ہوتی اور وہ سارے غیرت مند جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم گستاخی برداشت نہیں کر سکتے اور اس گستاخی کی سزا موت ہے اپنے اپنے وطنوں میں آرام سے بیٹھے رہتے ہیں.ان کے ہمنوا یہاں بھی موجود ہوتے ہیں اور کوئی قدم نہیں اٹھاتے.اس کا مطلب ہے کہ یہ غیرت کا دعویٰ جھوٹا ہے.غیرت کا دعوی ہو اور ساتھ یہ بھی شرط ہو کہ غیرت تب دکھائیں گے کہ دوسرا شخص انتہائی کمزور ہو اور چڑیا کے بچہ کی طرح ہمارے پنجہ میں آجائے.اس کی گردن تو ہم مسلیں گے اپنی غیرت کے اظہار کے طور پر.اگر ہم خود کسی کے پنجہ میں چڑیا کے بچہ کی طرح ہوں گے تو ہم ہرگز غیرت نہیں دکھا ئیں گے، ہم چوں بھی نہیں کریں گے اس وقت.یہ کون سی غیرت ہے، یہ کون سی محبت ہے؟ دوسرے غیرت کا سچا تقاضہ تو خود قربانی دینا ہے نہ کہ کسی کو قتل کرنا.محبت کے نتیجہ میں انسان کا دل کہتا ہے اور دردمند ہوتا ہے.وہ دردمندی نہ ہو تو محبت کا دعویٰ ہی جھوٹا ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ کی محبت اس کسوٹی پر اس چودہ سوسال میں جس شان سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پورے اترے ہیں اس کی کوئی نظیر آپ کو نظر نہیں آئے گی.ادنی سی بھی گستاخی آنحضرت ﷺ کی کسی سے سرزد ہوتی تھی تو آپ کا دل کٹ جاتا تھا، شدید دکھ محسوس کرتے تھے.جتنے آپ نے غیروں سے مقابلے کئے ہیں ان میں بنیادی وجہ محبت محمد مصطفی اس تھی.امریکہ بیٹھے اتنی دور ڈوئی نے گستاخی کی اور یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بے قرار اور بے چین ہو گئے اور اس کو مقابلے کا چیلنج دیا اور صرف چیلنج ہی نہیں دیا بلکہ راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور روئے اور گڑ گڑائے اور نہیں چین پایا جب تک کہ خدا کی غیرت کی چھری نے ڈوئی کو ذلیل ورسوا نہیں کر دیا.یہ ہے محبت.لیکھرام نے گستاخی کی، دیکھیں خدا کا یہ شیر کس طرح للکارتا ہوا اس پر ٹوٹ پڑتا ہے اور دعائیں کرتا ہے، اپنے خنجر سے نہیں، اپنی غیرت کو خدا کی غیرت کے خنجر میں تبدیل کر کے اس کو
خطبات طاہر جلد۵ 517 خطبہ جمعہ ۱۸؍جولائی ۱۹۸۶ء ہلاک کرتا ہے اور اس سارے عرصہ میں خود غم کا شکار رہتا ہے.یہ ہے سچی محبت اور یہ ہے سچی غیرت اور یہ ہے سچی محبت کا اظہار اور سچی غیرت کا اظہار.یہ تو کر کے دکھائے کوئی ؟ مگر کسی میں ہو تو کر کے دکھائے.یہ ہے اسلام کیسی حسین تعلیم ہے کہ انسان کو انسان پر محبت کے دعوی کے نتیجہ میں یا غیرت کے دعوی کے نتیجہ میں جبر کا اختیار نہیں دیا گیا مگر چونکہ خدا خود ضامن بن گیا ہے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فراست کو دیکھیں کہ اس خدا کی ضمانت کو اکسایا ہے.فرمایا اے اللہ ! میرے بس میں تو کچھ نہیں تو نے چھوڑا، اگر میرے بس میں ہوتا تو میں ہرگز پرواہ نہ کرتا جو کچھ میری جان پر گزر جاتی میں اس کا انتقام لیتا مگر تیری اعلیٰ اور پاک تعلیم نے مجھ سے یہ قدرت چھین لی.ہاں میں یہ ضرور دیکھتا ہوں کہ تو عہد کرتا ہے اور بار بار اس عہد کود ہراتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ کے دشمنوں اور آپ کے گستاخوں کو میں ذلیل کروں گا اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ، میں اس تیرے عہد کی پاک یاد تجھے دلاتا ہوں اور دیکھ میری جان ہلاک ہورہی ہے اس غم میں کہ کیوں تو اس عہد کو پورا نہیں کر رہا.اس قدر دردناک دعائیں کی ہیں یہاں تک کہ خدا کی غیرت وہ چنجر بن کر اتری جس نے لیکھرام کا پیٹ پھاڑ دیا اور گوسالہ کی طرح اس کے منہ سے وہ آوازیں نکلیں جواس کی ذلت اور رسوائی کو بڑھانے والی تھیں.اس پاک تعلیم پر یہ عمل کیوں نہیں کرتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنحضرت ﷺ سے محبت اور عشق کا تو یہ حال تھا کہ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں.آئینہ کمالات اسلام صفحہ ۵۱ ۵۲ پر یہ عبارت ہے.اس زمانہ میں جو کچھ دین اسلام اور رسول کریم ﷺ کی توہین کی گئی اور جس قدر شریعت ربانی پر حملے ہوئے اور جس طور سے ارتداد اور الحاد کا دروازہ کھلا.کیا اس کی نظیر کسی دوسرے زمانہ میں بھی مل سکتی ہے؟“ اس زمانہ میں چونکہ انگریز کی غالب حکومت تھی اس لئے دوسرے مسلمان علماء کوتو نہ یہ تو فیق ملی کہ ارتداد کا کوئی قانون پاس کروا سکیں نہ غیرت رسول ان کی اس طرح جوش میں آئی کہ ان کا مقابلہ کرتے.وہ ایک شخص جس کو نعوذ باللہ من ذلک آج آنحضرت ﷺ کا گستاخ قرار دیا جارہا ہے اس کے دل کی یہ آواز ہے، سنیں اور غور سے سنیں ، آپ فرماتے ہیں: کیا یہ سچ نہیں کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اس ملک ہند میں ایک لاکھ
خطبات طاہر جلد۵ 518 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء کے قریب لوگوں نے عیسائی مذہب اختیار کرلیا.اور چھ کروڑ اور کسی قدر زیادہ اسلام کے مخالف کتابیں تالیف ہوئیں اور بڑے بڑے شریف خاندانوں کے لوگ اپنے پاک مذہب کو کھو بیٹھے.یہاں تک کہ وہ جو آل رسول کہلاتے تھے وہ عیسائیت کا جامہ پہن کر دشمن رسول بن گئے اور اس قدر بد گوئی اور اہانت اور دشنام دہی کی کتابیں نبی اکرم ﷺ کے حق میں چھاپی گئیں اور شائع کی گئیں کہ جن کے سننے سے بدن پر لرزہ پڑتا اور دل رو رو کر یہ گواہی دیتا ہے کہ اگر یہ لوگ ہمارے بچوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے قتل کرتے اور ہمارے جانی اور دلی عزیزوں کو جو دنیا کے عزیز ہیں ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالتے اور ہمیں بڑی ذلت سے جان سے مارتے اور ہمارے تمام اموال پر قبضہ کر لیتے تو واللہ ثم واللہ ہمیں رنج نہ ہوتا اور اس قدر کبھی دل نہ دکھتا جوان گالیوں اور اس تو ہین سے جو ہمارے رسول کریم ع کی گئی دکھا ( آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵۱:۵-۵۲) تو محبت تو جبر کا انتظار نہیں کیا کرتی.محبت کے نتیجہ میں تو انسان سب سے پہلے محبت کی چھری سے اپنے آپ کو ذبح کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں پھر وہ پاک قو تیں جوش میں آتی ہیں جن کے نتیجہ میں یہ محبت پاکیزہ راہیں اختیار کرتی ہے اور نیک تبدیلیوں پر منتج ہوتی ہے.یہ کوئی دنیا کی محبت تو نہیں ہے کہ جو دل میں ولولہ اٹھائے اور جوش دکھائے اور اس کے بعد ختم ہو جائے.پاک وجودوں کی محبت پاک نتائج پیدا کیا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت چونکہ بچی تھی اس لئے اس محبت کے نتیجہ میں کثرت کے ساتھ آپ نے آنحضرت علی اور آپ کے پاک دین کا دفاع کیا.کثرت کے ساتھ کتابیں لکھیں اور سب دشمنوں کو ذلیل اور رسوا کر دیا.کثرت کے ساتھ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجے اور درود بھیجنے والے پیدا کئے.تمام دنیا میں تبلیغ کا جال بچھا دیا اور عیسائی ہونے والے مسلمانوں کا انتقام اس طرح لیا کہ کلیسیاؤں کے گھروں میں اذانیں دلواد میں اور عیسائیوں کو جو کبھی رسول اکرم ﷺ کو گالیاں دیتے تھے آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنے والا اور آپ کی محبت میں آنسو عملے بہانے والا بنادیا اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے.یہ محبت کا ہی فیض تھا کہ آپ کو اس مقام پر مامور فرمایا گیا جس مقام پر خدا نے آپ کو مامور فرمانے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الله
خطبات طاہر جلد۵ 519 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء الصلوۃ والسلام کا وہ کشف جو آپ کو ماموریت کی وجہ بتا تا ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ان فرشتوں کو دیکھتے ہیں جو فرشتے دنیا میں مامور کی تلاش کے لئے بھیجے گئے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھ کر وہ ٹھہر جاتے ہیں اور آپس میں باتیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ ہے وہ شخص جو اس زمانہ کا مامور بنائے جانے کے لائق ہے اس لئے کہ یہ رسول کریم ﷺ سے سب سے زیادہ محبت کرتا ہے.ھذار جـل يـحـب رسول اللہ ”سب سے زیادہ “ کا لفظ استعمال نہیں فرمایا لیکن اس میں بھی ایک عظیم خراج ہے گویا ایک ہی شخص ہے یـــحـــب رســول اللــه گویا ساری دنیا میں تلاش کیا مگر محبت کرنے والا صرف ایک ہی نکلا.یہ تو مراد نہیں کہ اس وقت کسی اور کو رسول اکرم ﷺ سے محبت نہیں تھی مگر آپ کی محبت کو نمایاں کرنے کے لئے ایک نہایت ہی حسین ، فصیح و بلیغ طریق اختیار فرمایا گیا ہے کہ مسیح موعود کی محبت کو اگر باقی محبتوں کے مقابل پر رکھا جائے تو ایسے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے وہ محبت ہی کوئی نہیں تھی.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے وہ شعر اس مضمون کو بیان کرتا ہے.رات محفل میں تیرے حسن کے شعلہ کے حضور شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا کہ تیرا حسن ایسا حسن ہے ایسا فراواں حسن ہے کہ وہ شمع جو تیرے حسن کو دیکھنے سے پہلے روشن نظر آیا کرتی تھی تیرے آنے کے بعد وہ شمع پھیکی پڑگئی اور اس کے چہرے پر کوئی نور کا نشان باقی نہ رہا.اتنا بڑا خراج تحسین ہے حضرت محمد مصطفی علی لے کے اس عشق کو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے دل میں موجزن تھا کہ فرشتوں نے یہ نہیں کہا کہ یہ شخص سب سے زیادہ محبت کرتا ہے بلکہ فرمایا کہ اس کو دیکھا تو یوں لگا کہ ایک ہی ہے جو محبت کرتا ہے اور کوئی باقی نہیں رہا.پس آپ کی ماموریت کی بناء ہی محبت رسول ﷺ ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں اور یہی ہماری گھٹی میں ہمیں پلائی گئی ہے، یہی ہماری سرشت ہے.کوئی دنیا کی طاقت ہمیں اس محبت سے باز نہیں رکھ سکتی.اگر اس محبت کے جرم میں گستاخی رسول کی چھری سے ہی ہمیں ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے.تو میں آج تمام جماعت کی طرف سے ببانگ دہل یہ اعلان کرتا ہوں کہ جو چا ہو کرتے پھرو.محبت محمد مصطفی ﷺ کو ہمارے دلوں سے نہیں نوچ سکتے اور نہیں نوچ سکتے اور نہیں نوچ سکتے اور میں یہ
خطبات طاہر جلد۵ 520 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جولائی ۱۹۸۶ء بھی بتا تا ہوں کہ یہ محبت زندگی کی ضامن ہے.یہ محبت رکھنے والوں کو بھی تم دنیا میں ناکام ونامراد نہیں کرسکو گے.تمہاری ہر کوشش خائب و خاسر رہے گی.تمہارا ہر ذلیل الزام تمہارے منہ پر لوٹا یا جائے گا اور محبت محمدمصطفی ﷺ زندہ رہنے کے لئے بنائی گئی ہے اور زندہ رکھنے کے لئے بنائی گئی ہے.اس سے جو زندگی ہم حاصل کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے کوئی تمہاری طاقت نہیں، کوئی تمہاری استطاعت نہیں ہے کہ اس زندگی کے دل پر پنجہ مارسکو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: دو درخواستیں آئی ہیں نماز جنازہ غائب پڑھانے کے لئے.ایک مکرم ماسٹر غلام رسول صاحب مبشر مرحوم کے لئے ان کے بیٹے ماسٹر دل محمد صاحب نے درخواست کی ہے یہ چک E-B/363 ضلع وہاڑی کے مخلص دوست تھے.اور ایک مکرمہ آمنہ بی بی صاحبہ کے لئے مکرم مبارک احمد صاحب ساہی جو ہمارے سیکیورٹی کے افسر ہیں ان کی پھوپھی تھیں ، ان کے متعلق مبارک احمد ساہی صاحب نے درخواست کی ہے.آج چونکہ نماز جمعہ کے ساتھ نماز عصر جمع ہوگی اس لئے نماز عصر کے معاً بعد انشاء اللہ نماز جنازہ پڑھائی جائے گی.
خطبات طاہر جلد۵ 521 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء منصب خلافت اور قبولیت دعا پیر پرست نہیں بلکہ خدا کے دوست بنیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ / جولائی ۱۹۸۶ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنی کی تلاوت کی: أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءِ الْأَرْضِ وَ إِلَهُ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ (النمل:۶۳) اور پھر فرمایا: سورہ نمل کی جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ سوالیہ رنگ میں اس حقیقت کا اظہار فرما رہا ہے کہ کون ہے جو خدا کے سوا بھی تمہاری بے قرار دعاؤں کو یعنی تم میں سے بے قراروں کی دعاؤں کو سنتا ہے جو مجبور اور لاچار ہو چکے ہوں اور پھر ان سے برائی اور تکلیف کو دور فرما دیتا ہے؟ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ اور وہ تمہیں زمین میں خلفاء بنانے والا ہے، تم زمین کے وارث بننے والے ہو.عاله مع الله کیا خدا کے سوا بھی کوئی ہے جو یہ سب کچھ کر سکے.قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ تم تو ادنی سا بھی تدبر نہیں کرتے ، کوئی نصیحت نہیں پکڑتے.اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف مضطر کے ساتھ دعا کے تعلق کو وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا بلکہ ساتھ ہی مسلمانوں کو ایک عظیم الشان خوشخبری مستقبل کے متعلق دی کہ بالآخر زمین کے
خطبات طاہر جلد۵ 522 خطبہ جمعہ ۲۵/ جولائی ۱۹۸۶ء وارث تم بننے والے ہو.يَجْعَلُكُمُ میں ایک مستقبل کی خبر ہے ،صرف ایک شرط کا جواب نہیں یعنی یہ نہیں فرمایا گیا کہ کون ہے جو خدا کے سوا تمہیں بنا سکتا ہے بلکہ معین خبر دی جا رہی ہے وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ تم لازماً اس زمین میں خلفاء بننے والے ہو.اور خلفاء الارض سے مراد یہ ہے کہ بالآخر زمین کے وارث تم ہی بنائے جاؤ گے اور اس دنیا کی تقدیر کا فیصلہ تمہارے ذریعہ ہوگا.آج کی دنیا میں یہ اعلان بہت عجیب معلوم ہوتا ہے لیکن چودہ سو سال پہلے تو بہت ہی عجیب تھا.عرب کے ایک ایسے ملک میں جہاں جہالت پرورش پارہی تھی خدا تعالیٰ نے دنیا کا سب سے بڑا معلم پیدا فرما دیا.اور اس وقت جبکہ دنیا کی تہذیب عرب کے دائیں سے بھی گزر جاتی تھی اور بائیں سے بھی گزر جاتی تھی اور عرب کی بے آب و گیاہ صحراؤں کو تہذیب سے کوئی دور کا بھی علاقہ نہیں تھا، اس وقت جبکہ سیاست بھی مشرق میں نشو و نما پا رہی تھی یا مغرب میں نشو و نما پارہی تھی اور سیاست سے خالی ایک جزیرے کی طرح یہ جزیرہ نما عرب واقع تھا، عرب قوم کی کوئی بھی حیثیت نہیں تھی ، کسری کی حکومت بھی اسے تذلیل کی نگاہ سے دیکھ رہی تھی اور قیصر کی حکومت بھی اسے تخفیف کی نظر سے دیکھتی تھی.یہی نہیں بلکہ جس وقت خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو یہ خوشخبری عطا فرمائی.خود عرب میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی کوئی بھی حیثیت مسلم نہیں تھی.مضطر کی دعا سے اس کلام کا آغا ز فرمانا ظاہر کرتا ہے کہ اس وقت ابھی مسلمانوں کی اضطرار کی کیفیت تھی.اس وقت یہ دعویٰ کرنا کہ بالآ خر تم ساری زمین کے وارث اور خلفاء بنائے جاؤ گے، ایک بہت ہی عجیب مگر بہت ہی عظیم الشان دعویٰ تھا.پس آج بھی اس دعوی سے تعجب ہوتا ہے تو گزرے ہوئے کل میں تو یہ تعجب اور بھی زیادہ ناممکنات کی حدود میں داخل ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.مگر ایسا ہی ہوگا کیونکہ خدا کا کلام بہر حال پورا ہوتا ہے اور کوئی دنیا کی تقدیر، کوئی دنیا کی طاقت کوئی دنیا کی تدبیر سے بدل نہیں سکتی.پس آج جبکہ دنیا میں ایک طرف سیاست کے دھارے رواں دواں ہیں اور دنیا کی قومیں یہ سمجھ رہی ہیں کہ بالآخر انسانوں کی تقدیر ان کے باہمی جنگ و جدال کے بعد ان میں سے ایک کے غلبہ پانے کے بعد طے ہوگی اور انسانوں کی تقدیر کی کنجیاں ان کے ہاتھوں میں تھمائی جائیں گی ، قرآن اس کے برعکس ایک اعلان کر رہا ہے اور قرآن کے اعلان کے مطابق آج وہی لوگ خدا کی زمین کے
خطبات طاہر جلد۵ 523 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء وارث ہیں اور کل وارث بننے والے ہیں جو خدا تعالیٰ سے دعاؤں کا تعلق جوڑتے ہیں اور قبولیت دعا کے نشان پاتے ہیں.آج جس قوم میں بھی یہ علامتیں پائی جاتی ہیں لا زم وہی ہے جس کے ساتھ آئندہ انسانیت کا مستقبل وابستہ ہو چکا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کے تجربے کا تعلق ہے یہ تجربہ ایک یادواشخاص تک محدود نہیں، یہ تجر بہ اس نوع کا تجربہ نہیں کہ بعض جماعتیں اپنے پیروں کی روحانیت سے زندہ ہوں اور ان کی قبولیت دعا کے نشان دیکھ کر ان کی روحانیت پلتی ہو.جماعت احمد یہ عالمگیر روحانی لحاظ سے ایک ایسی زندہ جماعت ہے کہ زمین کے کناروں تک جہاں بھی جماعت احمد یہ پائی جاتی ہے خدا تعالیٰ کے براہ راست تعلق کے نشان دیکھ رہی ہے.وہی اس کی زندگی کی غذا ہیں اور وہی آئندہ مستقبل میں ان کے لئے یقین کا سامان پیدا کرتے ہیں.دنیا جس قسم کی مخالفتیں بھی چاہے کر لے، جیسے جیسے اندھیرے بھی ہمارے سامنے ہماری راہ روکتے ہوئے دکھائی دیں، دعا کا تعلق ایک ایسا تعلق ہے، یہ ایک ایسا ہتھیار ہے جو ہر قسم کی مخالفتوں پر بالآخر غالب آنے والا ہے اور ہر قسم کے اندھیروں کے سینے چیرنے کی طاقت رکھتا ہے.روزانہ جو مجھے سینکڑوں خطوط موصول ہوتے ہیں ان میں بکثرت قبولیت دعا کے نشانات کے اظہار پر مبنی خطوط بھی ہوتے ہیں.کہیں کوئی نجی کے دور دراز جزیرے میں بیٹھا رات کو دعا کرتا ہے اور صبح اس کی قبولیت کا نشان دیکھتا ہے اور قلم اٹھاتا ہے اور مجھے لکھنے لگتا ہے کہ احمد للہ کہ میرا ایمان آج کل کی نسبت زیادہ مضبوط ہے.کہیں کوئی امریکہ کے مادہ پرست علاقوں میں جو بظاہر آبا دلیکن در حقیقت روحانیت کے لحاظ سے سنسان علاقہ ہے، وہاں کسی ذاتی ضرورت کے لئے یا کسی جماعتی ضرورت کے لئے دعا کرتا ہے اور خدا تعالیٰ اسے رویا میں وقت سے پہلے معین طور پر اطلاع دیتا ہے کہ ہاں میں نے تمہاری دعا کو سنا اور ایسا ہی ہوگا.چنانچہ اس کے بعد جب وہ اس پیغام کو عملاً تعبیر کی صورت میں ڈھلتا ہوا دیکھتا ہے تو قلم اٹھاتا ہے اور مجھے لکھتا ہے کہ آج میں نے خدا کے قرب کا یہ نشان پایا اور یہ سب احمدیت کی برکت سے ہے.یہ واقعات دنیا میں ہر جگہ ہور ہے ہیں.پاکستان میں بھی ہورہے ہیں اور پاکستان سے باہر بھی ہو رہے ہیں، مشرق میں بھی ہو رہے ہیں اور مغرب میں بھی ہو رہے ہیں، یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی کوئی دنیا کا خطہ ایسا نہیں جو احمدیت کے نور سے منور ہو چکا
خطبات طاہر جلد۵ 524 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء ہواور وہاں اللہ تعالیٰ قبولیت دعا کے ذریعہ اپنے قرب کے نشان ظاہر نہ فرمارہا ہو.چند واقعات محض گنتی کے چند واقعات نمونہ کے طور پر آج میں نے چنے ہیں تا کہ آپ کو بتاؤں اور یقین دلاؤں کے قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے آپ ہی ہیں جن کے ذریعہ انسان کی تقدیر بنائی جائے گی کیونکہ آپ کے اندر قبولیت دعا کے نشان پائے جاتے ہیں اور لامحدودنشان پائے جاتے ہیں.دنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں بھی احمدی آباد ہیں.اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ خدا تعالی براہ راست اس سے تعلق رکھتا ہے، کبھی اس کی دعائیں سنتا ہے کبھی اس کے لئے دعائیں سنتا ہے.ڈھاکہ کے ایک احمدی دوست اپنے ایک زیر تبلیغ دوست کے متعلق جو احمدی نہیں یہ لکھتے ہیں کہ میں ان کو سلسلے کا لٹریچر بھی دیتا رہا اور ٹیسٹس بھی سنا تا رہا جس سے رفتہ رفتہ ان کا دل بدلنے لگا اور جماعت کے لٹریچر سے ان کو وابستگی پیدا ہوگئی اور وہ شوق سے مانگ کر پڑھنے لگے.اس دوران ان کی آنکھوں کو ایک ایسی بیماری لاحق ہوگئی کہ ڈاکٹروں نے یہ کہہ دیا کہ تمہاری آنکھوں کا نور جاتا رہے گا اور جہاں تک دنیاوی علم کا تعلق ہے کوئی ذریعہ ہم نہیں پاتے کہ تمہاری آنکھوں کی بصارت کو بچاسکیں.اس کا حال جب ان کے غیر احمدی دوستوں کو معلوم ہوا تو انہوں نے طعن و تشنیع شروع کر دی اور یہ کہنے لگے کہ اور پڑھو احمدیت کی کتابیں، یہ احمدیت کی کتابیں پڑھ کر تمہاری آنکھوں میں جو جہنم داخل ہو رہی ہے اس نے تمہارے نور کو خاکستر کر دیا ہے.یہ اسی کی سزا ہے جو تمہیں مل رہی ہے.انہوں نے اس کا ذکر بڑی بے قراری سے اپنے دوست سے کیا.انہوں نے کہا تم بالکل مطمئن رہو تم بھی دعائیں کرو میں بھی دعائیں کرتا ہوں اور اپنے امام کو بھی میں دعا کے لئے لکھتا ہوں اور پھر دیکھو کہ اللہ تعالیٰ کس طرح تم پر فضل نازل فرماتا ہے.چنانچہ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد چند دن کے اندراندران کی آنکھوں کی کایا پلٹنی شروع ہوئی اور دیکھتے دیکھتے سب نور واپس آ گیا.جب دوسری مرتبہ وہ ڈاکٹر کو دکھانے گئے تو انہوں نے کہا اس خطر ناک بیماری کا کوئی بھی نشان میں باقی نہیں دیکھتا.عبدالباسط صاحب مبلغ جرمنی لکھتے ہیں کہ نیورن برگ (Nurun Burg) میں ایک دلچسپ واقعہ ہوا.ایک احمدی دوست مجھے (حضور کو لکھا ہے انہوں نے ) خط لکھ رہے تھے دعا کے لئے.تو ایک عرب دوست نے پوچھا کہ آپ کیا کر رہے ہیں کس کو خط لکھ رہے ہیں ؟ انہوں نے کہا
خطبات طاہر جلد۵ 525 خطبہ جمعہ ۲۵ / جولائی ۱۹۸۶ء کہ میرا کیس جو عدالت میں چل رہا ہے اس کے فیصلے کا دن قریب آ رہا ہے اور میں بہت پریشان ہوں اور ہم اپنے امام کو دعاؤں کے لئے خط لکھتے ہیں وہ ہمارے لئے دعائیں کرتے ہیں اللہ فضل فرماتا ہے.اس لئے میں نے دنیا کی تدبیریں تو کر لیں اب میں یہ تدبیر بھی کر رہا ہوں.اور دوسرے یا تیسرے دن ہی اس کیس کا فیصلہ ہوا تو ان کے حق میں ہو گیا اور اس عرب دوست نے متاثر ہوکر ان سے کہا کہ میرے لئے بھی دعا کے لئے خط لکھو.چنانچہ انہوں نے مجھے یہ واقعہ لکھا اور اپنے عرب دوست کے لئے بھی دعا کے لئے خط لکھا اور کچھ دن کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کا کیس بھی منظور ہو گیا.دنیا کی نظر میں تو یہ ایک اتفاقی واقعہ بھی ہو سکتا ہے لیکن دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ نے ان کے قلب کے اطمینان کی خاطر یہ بھی کیا کہ جس دن پہلے احمدی دوست کو میرا جواب کا خط ملا ہے اسی دن ان کا کیس منظور ہوا اور جس دن اس عرب دوست کو میری طرف سے اطمینان کا پیغام ملا اسی دن ان کا کیس منظور ہوا.جہاں تک ان دونوں کے دل کا تعلق ہے وہ تو اپنے رب سے بہت راضی ہوئے اور کامل طور پر ان کے دل اس یقین سے بھر گئے کہ آج دنیا کا ایک خدا ہے جو مضطر کی دعا کوسنتا ہے.کبھی اس کی اپنی دعا کو اپنے لئے کبھی کسی اور منظر کی دعا کو ان کے لئے سن لیتا ہے.یہ بات وہ کہتے ہیں جب مشہور ہوئی تو ایک اور غیر احمدی دوست نے اپنے پاکستانی احمدی دوست سے یہ درخواست کی کہ ہمارے خاندان کا ایک فرد ایک لمبے عرصہ سے بیمار چلا آ رہا ہے اور ڈاکٹروں کو کچھ سمجھ نہیں آرہی کہ اس کی بیماری ہے کیا اور دن بدن پریشانی بڑھتی چلی جارہی ہے اس لئے میرے لئے بھی دعا کا لکھو.چنانچہ انہوں نے ان باتوں کا حوالہ دیتے ہوئے مجھے اس دوست کے لئے بھی دعا کے لئے لکھا.اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور ایک دن ڈاکٹروں نے اس بیماری کی تشخیص کی اور دیکھتے دیکھتے وہ مریض شفا پا گیا اور اس میں بھی لطف کی بات یہ تھی کہ جب میرا خط ان کو ملا تو دعا کرنے کی تاریخ وہی تھی جس دن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان ڈاکٹروں کو صحیح تشخیص کی تو فیق عطا فرما دی.ان واقعات کے اظہار سے میرا مقصد یہ نہیں کہ میں جماعت کو ایک ایسی پیر پرستی کی تعلیم دوں جس کو جماعت احمد یہ نہ صرف یہ کہ قبول نہیں کرتی بلکہ جس کے خلاف جہاد کی تعلیم دیتی ہے.خلیفہ وقت کو جب دعا کے لئے خط لکھتے ہیں تو اول تو یہ ضروری نہیں کہ خلیفہ وقت کی ساری دعائیں
خطبات طاہر جلد۵ 526 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء ضرور قبول ہوں.دوسرے یہ کہ خلیفہ وقت کی ذاتی بزرگی سے زیادہ اس میں منصب خلافت کے اس وقار کا تعلق ہے جسے اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم فرمانا چاہتا ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد نہیں کہ آپ اپنی دعاؤں کو، اپنے مسائل کو دعا کا خط لکھ کر خلیفہ وقت کی طرف منتقل کر دیں اور ذاتی طور پر دعا سے غافل ہو جائیں.میر المبا تجر بہ مجھے بتاتا ہے کہ میری دعا کی قبولیت میں دعا کے لئے لکھنے والے کا خلوص اور اس کے ایمان کے معیار کا گہرا تعلق ہوتا ہے اور اس کی اپنی دعاؤں کا بھی بہت دخل ہوتا ہے.اگر سچے خلوص اور پیار اور محبت کے ساتھ منصب خلافت سے وابستگی کے اظہار کے طور پر کوئی دعا کے لئے لکھتا ہے تو بسا اوقات اس کے حق میں غیر معمولی طور پر دعائیں قبول ہوتی ہیں اور اگر اس معیار میں کمی پیدا ہو جائے یا کچھ اور عناصر ایسے داخل ہو جائیں جن کو خدا تعالیٰ پسند نہیں فرماتا تو پھر ایسے لوگوں کے حق میں دعاؤں کی قبولیت اس شان کے ساتھ ، اس وضاحت کے ساتھ جلوہ افروز نہیں ہوتی.ایران سے ڈاکٹر فاطمہ زہرہ لکھتی ہیں کہ میرا اکلوتا بیٹا دائیں ٹانگ کی کمزوری کی وجہ سے بیمار ہوا اور دن بدن حالت بگڑنے لگی یہاں تک کہ وہ لنگڑا کے چلنے لگا اور ماہر امراض کو دکھایا گیا لیکن کوئی تشخیص نہ ہو سکی اور انہوں نے اس کی صحت سے متعلق مایوسی کا اظہار کیا.وہ کہتی ہیں کہ مجھے اچانک دعا کا خیال آیا اور اس خیال کے ساتھ میں نے خود بھی دعا کی اور آپ کو بھی دعا کے لئے خط لکھا اور اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ وہ مریض جسے ڈاکٹروں نے لاعلاج قرار دے دیا تھا اسی دن سے روبصحت ہونے لگا اور باوجود اس کے کہ ڈاکٹروں کو اس کی بیماری کی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی اس لئے علاج سے بھی معذور تھے، بغیر علاج کے اس دن سے دیکھتے دیکھتے اس کی حالت بدلنے لگی اور اللہ تعالیٰ کے فضل.اب وقت تحریر وہ بالکل صحیح ہے.بنگلہ دیش کے امیر صاحب ایک دلچسپ واقعہ لکھتے ہیں.کہتے ہیں ایک احمدی دوست کا چندہ بقایا تھا اور وہ غربت کی وجہ سے وہ ادا نہیں کر سکتے تھے لیکن احساس بہت تھا، سخت بے قرار تھے.چنانچہ ایک دفعہ مجھے آکر انہوں نے یہ کہا کہ چندہ میرے سر پر ہے اور میں سخت بے قرار ہوں اور کوئی صورت نظر نہیں آتی اس کی ادائیگی کی.ایک میرے پاس ناریل کا درخت ہے اور وہ سوکھ چکا ہے،اس کی وہ شاخیں جو پھل دیتی ہیں وہ مرجھا گئی ہیں اور میں نے آج یہ نیت کی ہے کہ اے خدا! اگر تو اس درخت کو زندہ کر دے تو جو بھی آمد ہوگی میں تیری جماعت کے سامنے چندے کے طور پر پیش کر دوں ނ
خطبات طاہر جلد۵ 527 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء گا.امیر صاحب لکھتے ہیں کہ پتہ نہیں کس نیت اور جذبے کے ساتھ اس نے یہ دعامانگی تھی کہ وہ مدتوں سے مرا ہوا درخت دیکھتے دیکھتے ہرا ہونا شروع ہوا اور اس قدر پھل سے لد گیا کہ سارے چندوں کے بقائے اسی کے پھل سے پورے ہوئے اور پھر بھی اس کے لئے کچھ بچ گیا.نائیجریا سے سیف اللہ صاحب چیمہ تحریر فرماتے ہیں کہ گزشتہ مرتبہ جب میں آپ سے ملنے آیا میری بیوی بھی ساتھ تھی.ہم نے ذکر کیا کہ ایک عرصے سے ہماری شادی ہوئی ہے اور کوئی اولاد نہیں.اس وقت آپ نے بے اختیار یہ فقرہ کہا کہ ” بشری بیٹی آئندہ جب آؤ تو بیٹا لے کر آنا‘ وہ کہتے ہیں کہ الحمد للہ میں آپ کو یہ خوشخبری دے رہا ہوں کہ اب جب ہم آپ سے ملنے آئیں گے تو بیٹا لے کر آئیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ وہ بیٹا عطا فرما چکا ہے.اسی طرح ایک غانین خاتون لکھتی ہیں: میری اولاد پیدائش کے دو ہفتے کے اندراندرفوت ہو جاتی تھی.میں نے آپ کو دعا کے لئے خط لکھا اور مجھے یہ عجیب جواب ملا کہ بچے کا نام امتہ احتی رکھنا‘ جو بیٹی کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا نشان دیکھ کر میں حیران رہ گئی کہ خدا نے مجھے بیٹی عطا فرمائی جس کا نام میں نے امتہ الحی رکھا اور ایک سال ہو چکا ہے وہ خدا کے فضل سے صحت مند اور ہشاش بشاش ہے.یہ جود و واقعات میں نے آخر پر بیان کئے ہیں ان سے متعلق بھی میں جماعت کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی حمید اللہ نے اپنی امت کو خوشخبری دی کہ بسا اوقات ایسے بھی ہیں میری امت میں جن کے سر خاک آلودہ ہیں, جن کی کوئی بھی حیثیت نہیں لیکن لو اقسم على الله لا بره (سنن ابی داؤد کتاب الدیات حدیث نمبر: ۳۹۷۹) اگر وہ خدا کی قسم کھا کر ایک بات کہہ دیں تو اللہ ان کے لئے ایسی غیرت رکھتا ہے کہ اس بات کو پورا کر دیتا ہے.آنحضرت ﷺ کو اپنی امت کا جو مقام دکھایا گیا آج میں ہی نہیں جماعت میں بکثرت ایسے لوگ ہیں جو آنحضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اس عظیم خوشخبری کو بارہا پورا ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن انسانیت کا ایک مقام ہے جو عبدیت کا مقام ہے، اسے کسی قیمت پر بھی خدائی کے مقام میں تبدیل نہ ہونے دیں.اور اپنے مقام انکسار سے ہر گز نہ ہٹیں ، نہ یہ کوشش کریں کہ مجھے اس مقام سے جس مقام کے سوا میرا اور کوئی مقام نہیں یعنی عبدیت کا مقام ، اس سے سرکانے کی کوشش کریں اور مجھ
خطبات طاہر جلد ۵ 528 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء سے ایسی توقعات رکھیں گویا میرا کہنا ہر صورت میں خدا کا کہنا بن جاتا ہے.یہ جو دو واقعات میں نے لکھے ہیں.ایسے بہت سے اور واقعات بھی ہیں لیکن ہمیشہ یہ واقعات تب درست ثابت ہوتے ہیں جب ان پر میرا اختیار نہ ہو.بلا ارادہ بغیر تکلف کے بعض دفعہ دل کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ بے اختیار منہ سے ایک کلمہ نکلتا ہے اور وہ کلمہ کہنے کے بعد دل محسوس کرتا ہے کہ اس کے پیچھے خدائی قوت تھی اور دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے ضرور پورا فرمائے گا.لیکن ان واقعات کو سن کر بعض دفعہ لوگ یہ لکھتے ہیں کہ آپ ہمارے بیٹے کے لئے ایک نام تجویز کریں اور ایک ہی نام تجویز کریں یا ہم بیٹی چاہتے ہیں اور آپ بیٹی تجویز کریں.خدا کی تقدیر وہ تو نہیں بنا سکتے نہ میں بناسکتا ہوں اور اگر میں ایسا کروں تو میں تکبر کا مرتکب ثابت ہوں گا.اور تکبر سے بڑا اور مکروہ گناہ اور کوئی نہیں.ہرگز تکلف کے ساتھ کسی انسان سے یہ توقع رکھنا ، خواہ آپ کی نظر میں اس کا کوئی مقام ہو کہ وہ بالا رادہ خدا کے اوپر ایک بات کہے اور پھر یہ اعلان کر دے کہ یہ بات ضرور پوری ہوگی، یہ عبدیت کا نہیں بلکہ خدائی کا دعویٰ کرنے کے مترادف ہے.میں تو یہ جانتا ہوں کہ ایسی بھی دعائیں ہوتی ہیں جو بڑی بے قراری سے کرتا ہوں اور بعض دفعہ قبول نہیں ہوتیں.اور ایسی بھی دعائیں ہوتی ہیں جو بے اختیاری سے دل سے نکلتی ہیں، کوئی ان میں تکلف نہیں پایا جاتا ، کوئی زور نہیں لگایا جا تا لیکن دل سے اٹھتی ہوئی بھی محسوس ہوتی ہیں کہ لازما عرش الہی تک جا پہنچیں گی اور لازما مقبول ہوں گی.تو یہ کیفیتیں بندے اور خدا کے تعلقات کی کیفیتیں ہیں.صرف مجھ میں یہ کیفیتیں دیکھنے کے خواہاں نہ ہوں.اپنی ذات میں یہ کیفیات دیکھنے کی تمنا کریں.احمدیت اس طرف آپ کو بلا رہی ہے.احمدیت آپ کو پیر پرستی کی طرف نہیں بلکہ خدا کا دوست بنے کی طرف بلا رہی ہے.آج ایک شخص سے ساری دنیا کی تقدیر کو وابستہ نہیں کیا جاسکتا ہے.ہاں خلفاء الارض ہیں جن کے ساتھ خدا تعالیٰ کی رحمت کو وابستہ کیا جاسکتا ہے.پس آپ سب خلفاء الارض ہیں یعنی خدا کی نظر میں آپ کو خلفاء الا رض بننا پڑے گا.اگر آپ اپنے اندر وہ صفات حسنہ پیدا نہیں کریں گے جو آپ کو خدا کی نگاہ میں خلفاء الارض بنادیں اس وقت تک دنیا کے اندر عظیم الشان روحانی انقلاب پیدا کرنے کے خواب محض ایک احمقانہ بڑ کی حیثیت رکھتے ہیں اس سے زیادہ کوئی نہیں.
خطبات طاہر جلد ۵ 529 خطبہ جمعہ ۲۵ / جولائی ۱۹۸۶ء اس لئے یہ سارے واقعات سنانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہمارا اوڑھنا اور بچھونا دعا ہی ہے اور دعا ہی ہمارا اوڑھنا اور بچھونا ہمیشہ رہنی چاہئے.خدا سے ذاتی تعلق میں جماعت احمدیہ کی زندگی ہے اور یہ تعلق کسی ایک انسان کے تعلق کے نتیجے میں کافی نہیں ہوسکتا بلکہ بکثرت دنیا کے کونے کونے میں ہر احمدی کو یہ تعلق ذاتی طور پر قائم کرنا ہوگا اور اپنے علاقہ کے لئے اس الہی تعلق کا نشان بننا ہوگا.جب تک بکثرت تمام دنیا میں احمدیت کی صداقت کا یہ نشان ظاہر نہیں ہوتا آج دلائل کی رو سے آپ دنیا کے دل جیت نہیں سکتے.دنیا اتنی تیزی کے ساتھ مادہ پرستی کی طرف دوڑ رہی ہے کہ اور نقد سودوں کی عادی ہو چکی ہے.مشاہدات کی دنیا میں رہتے رہتے انسان محض اس چیز کا قائل ہونے کا دماغ رکھتا ہے جسے وہ آنکھوں کے سامنے پورا ہوتا دیکھے.اس لئے دلائل کی دنیا ماضی کی باتیں ہیں.ہاں بعض انسانوں پر دلائل بھی اثر کرتے ہیں لیکن انسان کے مستقبل کی تعمیر کے لئے ہرگز دلائل کافی نہیں.جہاں تک خدا کی ہستی کا تعلق ہے اس کا یقین خدا والوں کی ہستی سے ہوگا.جب تک دنیا بکثرت خدا والے نہیں دیکھ لیتی خدا کی ہستی پر کامل یقین دنیا پیدا نہیں کرسکتی اور جب تک خدا کی ہستی پر کامل یقین پیدا نہیں ہو جاتا اس وقت تک اسلام کے عظیم الشان پیغام کو حقیقی گہرائی کے ساتھ صمیم قلب کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو سکتی.دنیا ترک کرنا ایک مشکل کام ہے دنیا کی لذتیں ایک موہوم خیال کے پیچھے چھوڑ دینا ایک بہت ہی مشکل کام ہے.بسا اوقات آپ دیکھیں گے کہ دلائل کی قوت کے ساتھ آپ بڑے بڑے مفکرین کا منہ بھی بند کر دیں گے مگر ان کے دل جیتنے کی طاقت آپ نہیں پائیں گے.دل جیتنے کے لئے آپ کو لازماً خدا والا بنا ہوگا ، لازماً خدا کے تعلق کے نشان اپنے گرد و پیش اپنے ماحول میں دکھانے ہوں گے.اور یہ ایک مشکل کام نہیں بلکہ سب کاموں سے زیادہ آسان ہے.آج یہ میدان خالی پڑا ہے.آج ارب ہا ارب خدا کے بندے ایسے ہیں جو خدا کی طرف پیٹھ کر کے اور دنیا کی لذتوں کو منہ کے سامنے رکھ کر چل رہے ہیں.کتنے ہیں اس میدان میں جو خدا کو خدا مان کر پکارنے والے ہیں.پس ہر وہ آواز جو خدا کو صمیم قلب سے یاد کرے گی ، ہر وہ آواز جو کامل یقین کے ساتھ اپنے رب کو پکارے گی میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ آواز ضرور سنی جائے گی.آپ کی کمزوریوں کے باوجود اللہ آپ سے پیار کا سلوک فرمائے گا اس لئے یہ مشکل کام نہیں.ہر جگہ ہر احمدی کو روحانی قوتوں کو
خطبات طاہر جلد۵ 530 خطبہ جمعہ ۲۵ جولائی ۱۹۸۶ء نمایاں کرنے کے لئے ، روحانی قوتوں کو چمکانے کے لئے کسی بڑے چہروں کی ضرورت نہیں ہے.میری ساری زندگی کے تجربے کا نچوڑ یہ ہے کہ خلوص اور پیار کے ساتھ ، درد کے ساتھ اپنے رب کو پکار کر دیکھیں کس طرح خدا آپ کے پیار کا آپ سے بڑھے ہوئے پیار کے ساتھ جواب دیتا ہے.بارہا آزمائی ہوئی باتیں ہیں.اس میں کون سی مشکل ہے.کونسے بڑے ایسے تکلیف دہ آزمائش کے دور ہیں جن سے گزرنا ہوگا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ آزمائش کے اور تکلیف کے ہر دور کا علاج اس میں ہے.جتنی دنیا کی تکلیفیں آپ کے سامنے منہ پھاڑے ظاہر ہوتی ہیں، جتنے مصائب اور جھمیلے آپ کو گھیر تے ہیں ان سب کا ایک ہی جواب ہے اور وہ وہی جواب ہے جس کا قرآن کریم اس آیت میں ذکر فرماتا ہے أَمَّنْ يُجِيْبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ وَ إِلَةٌ مَّعَ اللَّهِ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ
خطبات طاہر جلد۵ 531 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۶ء خدا کے دین کی حفاظت میں ہی آپ کی زندگی ہے ( خطبه جمعه فرموده یکم اگست ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کی تلاوت کی: لَهُ مُعَقِّبْتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللهِ إِنَّ اللَّهَ لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءٍ فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالِ پھر فرمایا: (الرعد: ۱۲) قرآن کریم کی جس آیت کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ الرعد سے لی گئی ہے.کہنے کو تو یہ ایک ہی آیت ہے مگر بہت سے وسیع مطالب پر پھیلی پڑی ہے.اس کی وسعتیں حال ہی سے نہیں، ماضی سے بھی اور بہت دور کے ماضی سے تعلق رکھتی ہیں اور مستقبل سے ہی نہیں بلکہ بہت دور کے مستقبل تک اس کا اثر چلتا چلا جاتا ہے اور اس کے مضمون کا تعلق ہمہ گیر ہے.دنیوی امور سے بھی تعلق رکھنے والی آیت ہے اور دینی امور سے بھی.حفاظت کا مضمون بالعموم بھی بیان کرتی ہے اور بالخصوص بھی.یعنی دنیوی حفاظت کا بھی ذکر ہے اور دینی حفاظت کا بھی.وہ مضمون بھی اس آیت میں بیان ہوا جس سے جماعت بہت دیر سے معروف چلی آتی ہے یعنی مجددیت کا مضمون کہ کیسے خدا تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کی حفاظت فرمائے گا اور فرماتا چلا جائے گا.جیسے ماضی میں توریت نے اس نبی کے پیغام کی حفاظت کی کوشش کی اور حفاظت کے مضمون باندھے اور
خطبات طاہر جلد۵ 532 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۶ء اس کی بنیاد میں قائم کیں، ویسے ہی مستقبل میں اس کی حفاظت کے لئے خدا تعالیٰ آئندہ بھی معقبات بھیجے گا.بہر حال یہ ایک بہت ہی وسیع اورتفصیلی مضمون ہے.میں صرف ایک خاص حصے سے متعلق کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں اور ایک خاص حصے پر آپ کی توجہ مرکوز کروانی چاہتا ہوں.یہاں اللہ تعالیٰ نے یہ فرمایا لَهُ مُعَقِّبْتُ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ وہاں ایک تو عام مضمون ہے یعنی ہر وہ ذات جو زندہ ہے وہ یونہی از خود زندہ نہیں ہے بلکہ قیوم خدا کی طرف سے اس کی حفاظت کے ایسے گہرے انتظام ہیں جو اس کی پیدائش سے پہلے سے چلے آرہے ہیں اور جو اس کے مرنے کے بعد تک بھی جاری رہیں گے.اس کے پیچھے بھی اس کی حفاظت ہے اور اس کے آگے بھی اس کی حفاظت ہے اور اس کی زندگی کے دوران بھی آگے اور پیچھے اللہ تعالیٰ کی حفاظت کرنے والے اس کی حفاظت کا انتظام کر رہے ہیں ورنہ زندگی کا از خود قائم رہنا ممکن ہی نہیں.لکھوکھا ایسے محرکات موجود ہیں لکھوکھا ایسے اسباب موجود ہیں جن کو اگر زندگی پر غلبہ پانے کی اجازت دے دی جائے تو ان میں سے ایک بھی زندگی کو فنا کرنے کے لئے کافی اور تفصیلی مضمون ہے صرف اشارہ میں اس کا ذکر کر کے اب ہے.بہر حال یہ ایک بہت ہی وسیع دوسرے حصے کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرواتا ہوں اور وہ ہے روحانی حفاظت.یہاں خصوصیت کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کا پیغام بھی مراد ہے.لَهُ مُعَقِّبت میں سب سے زیادہ اہل حفاظت کا حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرار دیا اور فرمایا گیا کہ آپ کے پہلے سے ہی ، آپ کی نبوت کے آغاز سے بھی پہلے سے خدا تعالیٰ نے آپ کے مضمون کی جس مضمون کو آپ نے دنیا میں پیش کرنا تھا اس کی حفاظت کا پہلے سے انتظام کر رکھا تھا اور جتنے انبیاء آئے ہیں وہ اسی مضمون کی حفاظت کرتے چلے آئے تھے اور اس مضمون کو حفاظت کے ساتھ آگے بڑھاتے چلے گئے.جس طرح ریلے ریس ہوتی ہے اس طرح ایک نبی سے دوسرے نبی اور دوسرے نبی سے تیسرے نبی تک مضمون منتقل ہوتے رہے اور بالآخر مقصد یہ تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو امین ہیں.جن کے متعلق خدا نے فرمایا کہ آپ امانت کے اہل تھے آپ ہی اکیلے تھے جو امانت کا حق ادا کرنے کے لئے آگے بڑھنے کے اہل تھے چنانچہ آپ آگے بڑھے.ان تک با حفاظت یہ دین کی امانت منتقلی کی گئی جس کے پیچھے ایک بہت ہی لمبا گہر ا حفاظت کا
خطبات طاہر جلد۵ 533 خطبہ جمعہ یکم اگست ۱۹۸۶ء گے مضمون چلتا ہے جس کی تفصیل بہت بڑی ہے.کئی پہلوؤں سے جب اس مضمون پر آپ غور کریں تو بڑے ہی دلچسپ مطالب سامنے روشن ہوتے چلے جاتے ہیں.اور فرمایا کہ اس مضمون کی بعد میں بھی یعنی جو پیغام آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر آ کے کامل ہوگا جس کے یہ امین ٹھہرائے گئے ہیں ان کی قیامت تک اس پیغام کی حفاظت کا انتظام خدا تعالیٰ نے فرما دیا ہے اور ایسے معقبات خدا تعالیٰ بھیجتا چلا جائے گا کہ جب بھی اس پیغام کی روح کو یا اس کے جسم کو خطرہ لاحق ہو گا تو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ معقبات اس کی حفاظت فرمائیں گے.یہاں ایک اور دلچسپ پیغام بھی ہے جو خاص طور پر آپ کے لئے ہے.فرمایا لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ اس کے معابعد فرمایا إِنَّ اللهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ یہاں اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ خدا تعالیٰ ہر گز ایسی قوم کی حالت نہیں بدلا کرتا یعنی اپنی نعمتیں اس سے نہیں چھینتا، اپنے پیار کا سلوک اس سے ترک نہیں فرماتا جو اس چیز کی حفاظت کرتیں ہیں جو ہم نے ان کو دی ہوئی ہے.اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ میں یہاں وہ امانت آگئی جو امانت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وساطت سے ایک قوم کے سپرد کی گئی.خدا یہ وعدہ کرتا ہے کہ اگر وہ قوم اس امانت کی حفاظت کرے گی تو خدا تعالیٰ اس قوم سے اپنی نعمتوں کو نہیں چھینے گا.یہاں لفظ نعمت کا ذکر نہیں مگر اسی مضمون کی آیت دوسری جگہ ہے جہاں نعمت کا واضح ذکر موجود ہے.یعنی جتنی نعمتیں بھی خدا تعالیٰ نے اس قوم کو عطا کی ہوں جو وفاداری کے ساتھ خدا تعالیٰ کی امانت کی حفاظت پر مستعد ہو جائے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان میں سے ایک بھی واپس نہیں لی جائے گی بلکہ جب تک وہ اس امانت کی حفاظت پر مستعدر ہیں گے خدا تعالیٰ کے فرشتے ان کے آگے اور پیچھے ان کی حفاظت کرتے چلے جائیں گے.تو یہاں مضمون حفاظت، ظاہری حفاظت سے دینی حفاظت کی طرف منتقل ہوا اور دینی حفاظت سے پھر دوبارہ دنیاوی حفاظت کی طرف منتقل ہوا ہے اور جامع بن جاتا ہے.صرف ظاہری نہیں بلکہ دینی دونوں مضامین پر مشتمل ہو جاتا ہے.تو ہمیں جتنے بھی خطرات اس وقت در پیش ہیں بحیثیت جماعت احمدیہ، ان پر دیکھیں کس طرح واضح طور پر تفصیل سے چسپاں ہونے والی آیت ہے.ہمارے جتنے خطرات ہیں ان میں سے
خطبات طاہر جلد ۵ 534 خطبہ جمعہ یکم اگست ۱۹۸۶ء ایک بھی ایسا نہیں جو ہماری ذات سے تعلق رکھتا ہو.تمام خطرات کا تعلق حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کی حفاظت کی کوشش سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کی غرض و غایت ہی یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کو از سرنو زندہ کریں.وہ تمام حصے جوز وائد بعد میں داخل ہوئے ان کو نکال دیں اور جو کمیاں کر دی گئی تھیں اس پیغام میں، اندھیری صدیوں کے دوران ان کو دوبارہ بحال کریں اور پوری شان کے ساتھ ، اس کامل حسن کے ساتھ جس حسن کے ساتھ اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل فرمایا گیا، اس کے نوک پلک درست کر کے اسی شکل میں دوبارہ دنیا کے سامنے پیش کریں ، اس کا نام مجددیت ہے.اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ایک ہزار سال کے مجددیت کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سونپا گیا.بہت بڑا کام تھا کیونکہ چودھویں صدی سے پہلے تقریباً ہر صدی میں کچھ نہ کچھ نقائص ایسے رہے جن کو مجددین نے دور تو کیا مگر کچھ باقی رہ گئے اور وہ نقائص جمع ہوتے رہے.چنانچہ یہ ایسی شکل نہیں ہے کہ ہر صدی کے مجدد نے پچھلے سارے نقائص ، ساری دنیا کے نقائص دور کر دیئے اور از سرنو بالکل اسی طرح اسلام کو شروع کر دیا یہ غلط تصویر ہے.حقیقی تصویر اگر آپ تاریخ پر نظر ڈال کے دیکھیں تو یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ نقائص مجدد کی چھانی سے نکلے ہیں اور اگلی صدی میں بھی چلے گئے ہیں اور پھر کچھ اور جمع ہوگئے اور پھر وہ اس سے اگلی صدی میں منتقل ہو گئے.یہاں تک کہ پہلی تین صدیوں کی جو فضیلت تھی وہ جاتی رہی اور آخری جو صدیاں شروع ہوئیں ان کے متعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رات سے مثال دے دی.اگر سو فیصدی اسلام کا نور قائم رہتا بغیر کسی نقص کے اور بغیر کسی زیادتی کے تو ممکن ہی نہیں تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے کہ میرے بعد پہلی نسل پھر دوسری اور پھر تیسری نسل یہاں تک تو روشنی ہے اور اس کے بعد اندھیرے کا زمانہ شروع ہو جائے گا یہ ممکن ہی نہیں تھا.پس جب میں کہتا ہوں کہ مجددین کے آنے کے باوجود اگر چہ روشنی کی حفاظت ضرور ہوئی مگر تمام روشنی کی نہیں ہوئی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر دجو کام ہوا وہ صرف ایک صدی کے دکھ دور کرنے کا کام نہیں تھا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد لمبے زمانے تک اسلام پر جتنے بھی دکھ نازل ہوئے ان کے مجموعی طور پر ان کی شفا کا کام حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلد۵ 535 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۶ء علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد کیا گیا اور جتنے بھی غلط تصورات اسلام کی طرف منسوب ہوئے ان کو صاف کرنے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپرد کیا گیا.جتنی کمیاں کر دی گئی تھیں انہیں دوبارہ بحال کرنے کا کام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سپر د کیا گیا، اور ہر احمدی جانتا ہے کہ اس کے سوا اس کا کام ہی کوئی نہیں ، دعوی ہی اور کوئی نہیں ، زندگی کا مقصد ہی اور کوئی نہیں.پس آپ جو تکلیف اٹھا رہے ہیں یا آپ کو جو خدشات ہیں وہ خالصہ دین اسلام کی حفاظت کے لئے درپیش ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ سے وعدہ کرتا ہے کہ تم اگر میرے پیغام کی حفاظت پر مستعد رہے تو میں تمہاری حفاظت کروں گا.مولویوں نے آکے شور مچایا کہ ہم تعاقب کرنے آئے ہیں ان لوگوں کا جہاں جہاں جائیں گے تعاقب کریں گے.تم جتنا چاہو تعا قب کر لو.ہمیں تو چودہ سوسال پہلے خدا تعالیٰ نے یہ خبر دے دی تھی اور فرمایا تھا کہ تمہارا تعاقب کرنے والے تمہارے پیچھے دوڑیں گے ہم تمہیں بتاتے ہیں لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ تمہارے آگے بھی خدا کے حفاظت کر نیوالے دوڑ رہے ہوں گے، تمہارے پیچھے بھی خدا کے حفاظت کرنے والے دوڑ رہے ہوں گے.کون ہے تمہارا تعاقب کر کے تمہیں نقصان پہنچا سکے.پس شرط یہ ہے اس عہد کے ساتھ لوٹنے والے واپس لوٹیں کہ جس عظیم امانت کی حفاظت کا عہد لے کر وہ ڈٹے ہوئے ہیں خدا کی راہ میں اور فیصلہ کر چکے ہیں کہ موت قبول کر لیں گے لیکن ایک انچ بھی اس کی حفاظت کے کام سے پیچھے نہیں ہٹیں گے.اس عہد پر قائم رہیں اسی میں ان کی حفاظت ہے.اگر آپ خدا کے دین کی حفاظت پر مستعد ہیں اور وفادار ٹھہریں تو اللہ تعالیٰ کے فرشتے لازماً آپ کے آگے اور پیچھے آپ کی حفاظت کریں گے اور جماعت احمدیہ کوکسی قیمت پر نہیں مٹنے دیں گے بلکہ ان تمام نعمتوں سے جماعت احمد یہ متمتع فرمائی جائے گی جو نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے غلاموں کو عطا ہوئی تھیں اور خدا فرماتا ہے ان میں سے کوئی نعمت بھی میں واپس نہیں لوں گا.اس خطاب کے بعد میں عمومی دعا کی تحریک کر کے اب اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کیونکہ بہت سے دوست ہمارے باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں جو صرف خطبہ کی خاطر یہاں ٹھہرے ان کے جانے کے مختلف پروگرام ہیں اور ہو سکتا ہے بعضوں کے فلائیٹس کا وقت بھی قریب آرہا ہو، کسی نے انگلستان ہی دور کی جگہ جانا ہے لیکن چونکہ آئے ہوئے تھے اس لئے جمعہ یہاں پڑھنے کی خاطر ٹھہر
خطبات طاہر جلد۵ 536 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۶ء گئے.کچھ میرا خیال ہے ابھی کھانا کھانے والے بھی ہوں گے اس لئے اتنا ہی مضمون آج کے لئے کافی ہے.دعا کے لئے میں یہ تحریک کرتا ہوں، جاتے ہوئے بھی دعا کرتے چلے جائیں.بد نیتیں کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہیں، ارادوں میں اصلاح کی بجائے بدی اور شرارت زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے اور یہ سمجھا جارہا ہے کہ جماعت احمدیہ کو نقصان پہنچانے میں ہماری زندگی ہے اور اتنے خود غرض لوگ ہیں کہ اگر اپنی بد جان کی حفاظت کےلئے ہزار ہا معصوم جانیں ہلاک کرنی پڑیں تو ان کو قطعا کوئی فرق نہیں پڑے گا.ایسی خود غرضی اور ایسا ظلم طبیعتوں میں داخل ہو چکا ہے.ایسے لوگوں سے آپ کا واسطہ ہے اس لئے بہت زیادہ آپ کو خدا کی حفاظت کی ضرورت ہے اور قرآن کریم نے آپ کو راز بتا دیا ہے خدا تعالیٰ کی حفاظت کا کہ تم دین اسلام کی حفاظت پر کمر بستہ ہو جاؤ اور اپنی حفاظت کا فکر خدا تعالیٰ کے فرشتوں کے اوپر رہنے دو.اس کے فرشتے تمہاری حفاظت فرمائیں گے آگے اور پیچھے اور اتنی دور تک ان کی حفاظت کے اثرات جائیں گے کہ تمہارے خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتا.لیکن ساتھ ہی معین طور پر دعائیں بھی کریں.ہم یہاں آپ کے لئے دعا گو ہیں اور جس حد تک پیش جاتی ہے خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں اللہ ہمارے سب بھائیوں اور بہنوں اور بڑوں اور چھوٹوں کو اپنے پیار اور حفاظت میں رکھے اور ان کی طرف سے خوشیوں کی خبریں پہنچائے اور غم کی خبر میں نہ دکھائے.بہر حال اللہ کی رضا پر ہمیں راضی رہنا ہے.اس کا فضل ہو، اس کا ابتلاء ہو جو کچھ بھی ہو ہم اس پر راضی رہیں گے انشاء اللہ اور کبھی بھی ناشکری کے کلمات زبان پر نہیں جاری ہوں گے لیکن اپنے پیاروں کا دکھ بہر حال بعض دفعہ نا قابل برداشت ہو جاتا ہے.اس لئے ہم آپ کے لئے دعا گو ہیں، آپ ہمارے لئے دعا کرتے رہیں اور انگلستان کے جو احمدی جنہوں نے آپ کی خدمت کی ، آپ سے پیار اور محبت کا سلوک کیا ان کو بھی دعاؤں میں یادرکھیں اور یہ عہد کر کے جائیں کہ کسی قیمت پر ایک انچ بھی خدا کے دین کی حفاظت سے پیچھے نہیں ہٹنا ، اسی میں آپ کی زندگی ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: جمعہ کے ساتھ نماز عصر بھی جمع کرائی جائے گی اور نماز عصر کے معاً بعد جو احباب مسجد میں ہیں وہ باہر جا کر صف بندی کر لیں جو باہر ہیں وہ وہیں سے صف بندی میں شامل ہو جائیں.پانچ نماز
خطبات طاہر جلد۵ 537 خطبہ جمعہ یکم اگست ۱۹۸۶ء جنازہ پڑھی جائیں گی اور ان میں سے ایک حاضر ہیں یعنی احتجاج علی صاحب زبیری ، یہ اٹک سے تشریف لائے تھے.ان کے مجھے بار بار بڑے دردناک پیغام مل رہے تھے.لکھ رہے تھے کہ مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب ہے اور مگر میری بڑی شدید تمنا ہے کہ آپ آئیں تو میں وفات پاؤں یا آپ میرا جنازہ پڑھائیں.تو اللہ کے فرشتے ان کو یہاں لے آئے اور یہاں آکران کی وفات ہوئی.معلوم ہوتا ہے اپنی اس تمنا میں بہت ہی صادق تھے اور بہت بے قراری تھی چنانچہ خدا تعالیٰ نے ان کو جلسہ کے بہانے یہاں بلایا اور پھر یہیں ان کی وفات کا وقت آیا.غائبانہ چار جنازے مکرمہ صفیہ سلطانہ صاحبہ ملک عبدالقادر صاحب لاہور میں دارالذکر کے پاس رہتے تھے ان کی بیگم تھیں موصیہ تھیں.ان کے بچے بھی بڑے مخلص خدام الاحمدیہ کے کاموں میں پیش پیش ، ایک بچہ ان کا وہاں گھو کہلاتا تھا وہ دارالذکر میں مہمان نوازی کے کاموں میں بہت پیش پیش ہوا کرتا تھا.اسی نے لکھا ہے اپنی والدہ کے لئے.مکرم خائف احمد صاحب ہمارے مبارک احمد صاحب پانی پتی لاہور کے مخلص احمدی ہیں ان کے داماد ہیں لیق ان کے بھائی نو جوانی کے عالم میں بالکل یہ دل کے حملے سے فوت ہو گئے.غالباً حکیم صاحب مرہم عیسی (والے) کے پوتے تھے.لئیق بھی اپنے خسر مبارک احمد صاحب پانی پتی کیسا تھ جلسے کی شمولیت کے لئے آرہے تھے تو کراچی میں جن احمدیوں کو روکا گیا ہے اسلام کی خدمت کے اظہار کے طور پر ان میں ایک یہ بھی شامل ہیں.ان کے لئے بھی دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا دے اس تکلیف کی.چوہدری نواب خان صاحب کوٹ ہر اسنگھ ضلع گوجرانوالہ نوے سال کی عمر میں وفات پائی.ابتدائے جوانی میں ہی احمدیت کو قبول کیا اور پھر کافی ارد گرد تبلیغ کر کے بہت سے دوسروں کے لئے ہدایت کا موجب بنے.غلام احمد صاحب بشیر ہیگ کے کسی زمانہ میں واقف زندگی تھے پھر ابتلاء بہت سخت آیا پھر پیچھے ہٹے پھر پیغامی ہو گئے.اخراج از جماعت بھی ہوا.آخری دور میں اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے فضل سے بچالیا اور بہت گریہ وزاری سے استغفار بھی کرتے رہے اور معافی کا خط لکھتے رہے جماعت سے رپورٹ منگوائی تو انہوں نے کہا کہ واقعہ خدا تعالیٰ ن بچی تو بہ کی توفیق بخشی ہے اور کبھی بھی شرارت
خطبات طاہر جلد۵ 538 خطبه جمعه یکم اگست ۱۹۸۶ء نہیں کرتے بلکہ ہر کام میں ممدو معاون ہیں.پھر میں نے ان کو معاف کیا اور اس تھوڑے عرصے میں جود یکھا ہے خدا کے فضل سے بڑی تیزی سے اخلاص میں ترقی کر رہے تھے اور خدمت کے کاموں پر کمر بستہ رہتے تھے.ان کا بھی ان کے مبلغ نے لکھا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے وفات ہوگئی ہے.ان کو بھی نماز جنازہ غائب میں شامل کر لیا جائے.انشاء اللہ عصر کی نماز کے معا بعد باہر جا کر صف بندی کرلیں اور وہاں ایک حاضر جنازے کیساتھ یہ چار غائب جنازے ہوں گے.
خطبات طاہر جلد۵ 539 خطبه جمعه ۸/اگست ۱۹۸۶ء احمدی اور غیر احمدی جلسوں میں فرق اشاعت قرآن، تعمیر بیوت الذکر کے منصوبے اور جلسہ ہائے سیرۃ النبی کروانے کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۸/اگست ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللهَ يُضِلُّ مَنْ يَّشَاءُ وَيَهْدِى مَنْ يَّشَاءُ ۖ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَاتٍ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ وَاللَّهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقُنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيْتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَيكَ هُوَ يَبُورُ (فاطر : 119 اور پھر فرمایا: أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنا وہ شخص جس کو اس کا عمل حسین
خطبات طاہر جلد۵ 540 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء ہے.دکھائی دیتا ہو یا بعض ایسے عوامل کی وجہ سے جن کو وہ جانتا نہیں اسے حسین کر کے دکھایا جا رہا ہو، اس کا کیا حال ہوگا.فَاِنَّ اللهَ يُضِلُّ مَنْ تَشَاءُ وَيَهْدِى مَنْ يَشَاءُ یقینا اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے گمراہ قرار دے دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے اسے ہدایت عطا فرماتا ہے.فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ ایسے لوگوں کے متعلق ان کے بد انجام کا تصور کر کے یا ان کے مکر وہ اعمال پر نظر کرتے ہوئے، ایسا نہ ہو کہ تیرا دل حسرتوں میں مبتلا ہو جائے ، ایسا نہ ہو کہ حسرتوں سے تیرا دل ہاتھ سے جاتا رہے.اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ يَقينا اللہ تعالیٰ ان کاروں سے جن میں وہ مبتلا ہیں ، جو گندے کام وہ کرتے ہیں خوب واقف وَاللهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيَّتٍ اللہ تو وہ ہے جس نے ہواؤں کو بھیجا جو بادلوں کو اٹھائے لئے پھرتی تھیں اور اس سے مردہ زمینوں کو سیراب فرمایا.فَسُقنہ میں ضمیر خدا تعالیٰ نے اپنی طرف پھیر دی حالانکہ پہلے غائب میں ذکر ہو رہا تھا جہاں غیر معمولی اللہ تعالیٰ کی رحمت کو نمایاں کر کے دکھانا ہو وہاں ضمیروں کی تبدیلی وہ کام کر دکھاتی ہے جو عام ایک ہی نہج پر ضمیروں کا استعمال نہیں کر سکتا.تو فرمایا اللهُ الَّذِي أَرْسَلَ الرِّيحَ دیکھو وہ خدا جو ہواؤں کو بھیجتا ہے جو بادلوں کو اٹھائے لئے پھرتی ہیں.فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيِّتِ ہم نے ان بھیگی ہوئی ہواؤں سے مردہ زمینوں کو سیراب فرمایا.فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا اور زمین کو موت کے بعد زندہ کردیا - كَذلِكَ النُّشُورای طرح احیاء نو کا نظام جاری ہے.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا اگر کوئی عزت چاہتا ہے تو تمام عزت خدا ہی کے ہاتھ میں ہے.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ پاکیزہ کلام اسی کی طرف رفع کرتا ہے، اسی کی طرف بلند ہوتا ہے.وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ اور نیک کام کو بلندی بخشنے والا اور خدا تک پہنچانے والا نیک عمل ہوتا ہے.وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُونَ السَّيَّاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدُ وہ لوگ جو گندے کام کر رہے ہیں ان کے لئے ایک شدید عذاب مقدر ہے.وَمَكْرُ أو ليكَ هُوَ يَبُورُ اور جہاں تک ان کے مکروں کا تعلق ہے وہ بالکل باطل اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے.ابھی حال ہی میں وہ نیا سال جو جولائی سے شروع ہوا ہے، اس نئے سال کے پہلے مہینہ میں
خطبات طاہر جلد۵ 541 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء انگلستان میں دو انٹر نیشنل کانفرنسیں منعقد ہوئیں.ایک جماعت احمدیہ کی طرف سے اور ایک جماعت احمدیہ کے معاندین اور مخالفین کی طرف سے.دونوں میں جہاں تک نیتوں اور مقاصد کا تعلق تھا دونوں کے مقاصد بظاہر نہایت نیک اور بلند پرواز تھے.اللہ اور رسول کی محبت کے نام پر یہ دونوں جلسے کئے گئے.اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ جب دونوں ارادے یا دونوں ادعا کہنا چاہئے ایک جیسے ہوں یعنی ایک کا عمل بھی بظاہر حسین اس کو نظر آرہا ہو اور دوسرے کا عمل بھی اس کو حسین نظر آرہا ہو تو بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ عمل تو حسین نظر آرہا ہوتا ہے لیکن درحقیقت عمل حسین نہیں ہوتا.ایسی صورت میں سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو گمراہ قرار دے دے اور ان کے لئے کوئی اور عاقبت مقدر نہیں ہوسکتی.جو لوگ بدی کریں نیک کاموں پر، نیک ناموں پر، نیک ادعا لے کر اور سمجھ رہے ہوں کہ وہ بہت ہی حسین کام کر رہے ہیں ان کی ہلاکت خدا تعالیٰ کے نزدیک یقینی ہے اور اتنی یقینی کہ جب اس کی خبر حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کو دی گئی تو ساتھ ہی بڑے پیار اور محبت سے یہ فرمایا کہ اس خبر کے نتیجہ میں تیرا دل غموں سے گھلنے نہ لگے، اس قدر حسرت تیرے دل سے اٹھے گی یہ خبرسن کے کہ ڈر ہے کہ دل ہاتھ سے جاتا رہے.فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتٍ.پر ایسا نہ کرنا إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ ایسے لوگ جو غلط فہمیوں میں مبتلا ہوکر بدیاں کرتے ہیں اور بدیوں کا نام حسین رکھ دیتے ہیں اور بعض دفعہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اچھے کام کر رہے ہیں، ان کے کاموں سے خدا تعالیٰ واقف ہے اور وہی ان کو جزا دے گا وہی ان کے نتیجے پیدا فرمائے گا.یہ دعوئی ہے تو بہت عظیم اور نفسیات کا ایک گہرا نکتہ بیان فرمارہا ہے اور روزمرہ کی زندگی میں ہم دیکھتے ہیں کہ ایسا ہی ہوتا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ایک خطرے کی گھنٹی بھی بجاتا ہے.ہر دعویٰ کرنے والا کہ میں نیک عمل کر رہا ہوں ، وہ جب اس بات کو سنتا ہے تو اس کا دل خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے ، خطرات محسوس کرنے لگتا ہے.سوچتا ہے کہ کہیں خدانخواستہ میں تو ان لوگوں میں سے نہیں.نیک ارادے کرنے والے ہر قسم کے لوگ دنیا میں موجود ہیں ، اپنے عمل کو اچھا دیکھنے والے ہر قسم کے موجود ہیں تو پھر تفریق کیا ہوگی؟ کیا اس دنیا میں کوئی اطمینان کی صورت نہیں ہے کہ ایک اچھے عمل والا یقینی طور پر کہہ سکے کہ ہاں میرے عمل اچھے ہیں اور خدا کی نظر میں اچھے ہیں اور ایک بداعمال والا معلوم کر سکے اگر ایسا کوئی نظام مقرر نہ ہو تو یہ آیت تو سوائے اس کے کہ خطرے کی گھنٹیاں بجائے اور
خطبات طاہر جلد۵ 542 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء ہر ایک کو ہول میں مبتلا کر دے اس کا اور کوئی بھی نتیجہ پیدا نہیں ہوسکتا.اس لئے خدا تعالیٰ نے اس کے ساتھ ہی اس طبعی طور پر اٹھنے والے سوال کا جواب دے دیا اور معاملے کو اس طرح کھول دیا ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی کوئی دور کی بھی گنجائش باقی نہیں رہتی.ہر وہ شخص جو اپنے اعمال کو حسین دیکھ رہا ہو اس کے لئے ساتھ ہی کسوٹی رکھ دی کہ اگر تم خطرہ محسوس کرتے ہو گے کہ کہیں ان لوگوں میں تو نہیں جو حسین تو دیکھتے ہیں اپنے اعمال کو لیکن خدا کی نظر انہیں بد دیکھ رہی ہوتی ہے تو یہ کسوٹی ہے، اس کو دیکھو وَاللهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيْتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وہ لوگ جو اللہ کی خاطر نیک اعمال کرتے ہیں جو خدا کے نام پر نکلتے ہیں اور واقعہ وہ خدا کے نام پر نکل رہے ہوتے ہیں.وہ تو زندگی بخش لوگ ہوتے ہیں.وہ تو ایسے رحمت کے بادلوں کی طرح پھرتے ہیں دنیا میں جو زندگیاں برساتے پھرتے ہیں.مردوں کو حیات نو عطا کر دیتے ہیں اور ان سے فضل اور رحمت جاری ہوتی ہے نہ کہ ظلم اور ہلاکت اور تعدی اور موت کی دھمکیاں.ان دونوں پہلوؤں سے جب ہم موازنہ کرتے ہیں ان کا رروائیوں کا جو خدا کے نام پر منعقد کرنے والے عظیم انٹر نیشنل اجلاسات میں کی گئیں تو بات کھل کر سامنے آجاتی ہے.اللہ اور محمد مصطفی ﷺ کی ناموس کے نام پر جو انٹر نیشنل کانفرنس پاکستان سے اور بعض دیگر ممالک سے آنے والے علماء نے کی اس کی رپورٹ میں نے کل ہی مطالعہ کی ہے.اول سے آخر تک نہایت گندے مغلظات ہیں.ان کی ریکارڈنگ بھی ہمارے پاس موجود ہے.اتنا گند بولا گیا ہے کہ وہ لاہور یا بعض دوسرے شہروں کے گندے علاقے جن کی بد زبانی مشہور ہے وہ بھی شاید اس کلام کو سن کر شرما جائیں جو خدا اور رسول کے نام پر آنحضرت علیہ کی طرف منسوب ہونے والے منبروں پر چڑھ کے بولا گیا ہے.اور ر پورٹ یہ ہے اور اس رپورٹ کی تصدیق اس ریکارڈنگ سے ہوتی ہے جو ہمارے پاس موجود ہے کہ جتنی گندی گالیاں دینے والا مولوی آیا اتنی ہی زیادہ اس کی واہ واہ ہوئی، اتنے ہی زیادہ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے یعنی گندی گالیوں کے نام پر اللہ کی تکبیر بلند ہورہی ہے.خبیث نہ الزامات کے نتیجہ میں خدا یاد آ رہا ہے.یہ کیا مذہب ہے اور جو اس مذہب کو حسین بنا کے حسین سمجھ رہا ہے اس بے چارے کے اوپر سوائے اس کے کہ ہمارے دل میں حسرتیں پیدا ہوں اور اس کے لئے ہم کچھ نہیں کر سکتے اور ہر تقریر کا آخری مدعا یہ تھا کہ ہر احمدی کو ہم ہلاک کر دیں گے اور لیڈر سے لے کے نام لے کر چھوٹے سے چھوٹے
خطبات طاہر جلد۵ 543 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء آدمی کو ایک ایک کو ہم خاک میں ملا دیں گے یہ ہمارا ادعا ہے اور یہی ہمیں اسلام سکھاتا ہے.اب اپنے جلسہ کی طرف آئیں تو آپ کو یاد ہے اس کی تاثیرات ابھی تک آپ کے دلوں میں رس گھول رہی ہیں.کس طرح اللہ کے ذکر بلند ہوئے ، کس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی عظمت کے گیت گائے گئے ، آپ کے پیارا اور محبت کی باتیں ہوئیں کس طرح قرآن اور اسلام کے عشق میں جماعت احمد یہ جو خدمتیں سرانجام دے رہی ہے ان کے ذکر چلے.عجیب بادۂ عرفان تھی جو ان تین دنوں میں بٹتی رہی اور جماعت احمدیہ کے وہ ممبران جو دور دراز سے وہاں شامل ہونے کے لئے آئے ہر ایک نے یہ محسوس کیا کہ اس سے بہتر نہ اس کے پیسے کی قیمت مل سکتی تھی نہ اس کے وقت کی قیمت مل سکتی تھی اور پروگرام یہ بیان ہوئے کہ ہم ساری دنیا کو زندگی بخشنے کے لئے آئے ہیں.ساری دنیا کو حیات نو عطا کرنا ہمارے مقاصد میں سے اولین مقصد ہے اور اسی پروگرام کو لے کر ہم دنیا کے کونے کونے میں جائیں گے اور دنیا کے کونے کونے میں مردہ قوموں کو اسلام کے حیات بخش جام پلا پلا کے زندہ کریں گے.یہ ہمارے پروگرام کا خلاصہ تھا.تو جب میں نے موازنہ کرنا شروع کیا تو یہ آیات میرے سامنے ابھر آئیں.یوں معلوم ہوا جیسے آج میرے دل میں جو سوال پیدا ہو رہے تھے ان کا جواب چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس محمد مصطفی علی کو عطا فرما دیا تھا اور اتنا یقینی او قطعی جواب تھا کہ جسے پڑھ کر کوئی وہم کا شائبہ بھی دل میں باقی نہیں رہتا، کوئی ابہام باقی رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.وَاللهُ الَّذِی اَرْسَلَ الرِّيحَ اللہ تو زندگی بخش ہے، اللہ کی طرف سے آنے والے تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے نہ کہ یہ کہ ہم زندوں کو مردہ کر دیں گے.ہر محنت ان کی الٹ گئی ہے، ہرا د عا غلط ہو گیا ہے.کل ہی ہمارے ایک بھائی بتا رہے تھے کہ جب 74 ء میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دینے کے نتیجہ میں چراغاں کیا گیا تو کراچی کی ایک بہت معزز شخصیت کے پاس علماء کا ایک وفد گیا کہ آپ چراغاں نہیں کر رہے، کیا بات ہے؟ دور نزدیک ہر جگہ چراغاں ہو رہا ہے اور آپ کے گھر پہ ہم کوئی چراغاں نہیں دیکھتے ؟ انہوں نے کہا کہ مجھے حیرت ہے کہ تم کس طرح یہ سوال لے کے میرے پاس آئے ہو؟ کیا اس خوشی میں چراغاں کروں کہ ایک کروڑ مسلمان غیر مسلم ہو گئے ہیں.مجھے اپنا ایک مسلمان بنایا ہوا بتا دو تو میں چراغاں کرنے کے لئے تیار ہوں، کتنے ظالم لوگ ہو تم یہ خوشخبری لے کے
خطبات طاہر جلد۵ 544 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء میرے پاس آئے ہو کہ آج یہ فیصلہ ہوا ہے کہ وہ ایک کروڑ مسلمان جو کل تک مسلمان تھے ، آج سے غیر مسلم ہوگئے ہیں اور اس خوشی میں مجھے چراغاں کرنے کے لئے کہتے ہو.سر پھینک کے وہ لوگ واپس چلے گئے.فَبُهِتَ الَّذِى كَفَرَ ( البقرہ:۲۵۹) والی کیفیت ان کی ہوئی.لیکن افسوس کہ ان کو اس حقیقت کی سمجھ نہ آسکی.آنحضرت ﷺ کے نام پر اگر یہ ادعا کرتے کہ ہم مردوں کو زندہ کریں گے اور صرف ہمیں اگر مردہ سمجھتے ہیں تو یہ چاہئے تھا کہ احمدی مردوں کو بھی زندہ کریں گے اور غیر مسلم مردے جتنے بھی دنیا میں دکھائی دیتے ہیں ہم اس حیات بخش پیغام یعنی اسلام کے ذریعہ ان کو زندہ کرتے چلے جائیں گے.تو پھر اس آیت کی رو سے ہم ان پر حرف نہیں رکھ سکتے تھے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ دعوی سچا ہوتا یا جھوٹا ہوتا، کس حد تک ان کے اس دعوئی میں سچائی تھی.اس کا فیصلہ اسی نے کرنا ہے جو فرماتا ہے اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُونَ لیکن ظاہری طور پر ہمیں حق نہ رہتا کہ ہم ان پر انگلی رکھ سکیں.لیکن وہ تو اس کے برعکس دعویٰ لے کر اٹھے ہیں اور اگر پھر بھی اپنے عمل کو حسین دیکھتے ہیں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سوائے اس کے کہ ہم ان پر حسرتیں کر یں.اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں.اور نہایت ہی غلیظ زبان استعمال کی گئی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اور بزرگان سلسلہ کے متعلق حضرت ام المومنین کے متعلق، خواتین کے متعلق.کوئی حیا کوئی شرم قریب تک نہیں پھٹکی تھی ان لوگوں کے اور یہ مجھ رہے تھے کہ ہم نے بے عزتی کر دی، دیکھو گالیوں کے ذریعہ ہم نے ان کو ذلیل و رسوا کر دیا.اس سوال کا جواب اس سے اگلی آیت میں موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا تمہارے ہاتھ میں عزتیں کہاں سے آگئیں ، تمہارے ہاتھ میں تو اپنی عزتیں بھی نہیں ، جب چاہے خدا تمہیں ذلیل ورسوا کر سکتا ہے.تم دنیا میں عزتیں بانٹنے والے کہاں سے نکلے ہو یا عزتیں چھیننے والے کہاں سے نکلے ہو.فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا عزت صرف خدا ہی کے ہاتھ میں ہے اور ساری عزتیں اس کے ہاتھ میں ہیں.فرمایا صرف نیک کلام سے خدا تعالیٰ راضی ہو کر عزتیں نہیں بخش سکتا محض بلند بانگ دعا وی کسی کو رفعتیں عطا نہیں کر سکتے.اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ ہر پاک کلام اس کی طرف بلند ہوتا ہے لیکن وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ نیک اعمال سے طاقت پا کر وہ بلند ہوتا ہے اس کے بغیر اڑ ہی نہیں سکتا.وہ پتنگ جو کیسے ہی مہارت
خطبات طاہر جلد۵ 545 خطبہ جمعہ ۸/اگست ۱۹۸۶ء سے بنائی گئی ہوا گر ہوا ہی نہ چل رہی ہو ، ساکن ہو سب کچھ تو بالکل نہیں اڑ سکتی.وہ جہاز جو بالکل مکمل ہو ہر پہلو سے لیکن نہ اس میں جیٹ کی طاقت کام کر رہی ہو نہ اس کے پنکھے ہوں ہوا تیز چلانے والے تو نہیں اڑ سکے گا خواہ کیسا ہی کامل ہو.تو ڈیزائن سے یا صنعت سے زندگی پیدا نہیں ہوتی.زندگی پیدا کرنے کے لئے کوئی اور صورت ہونی چاہئے.چنانچہ روحانی زندگی کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محض بلند اور شاندار پروگرام پیش کرنے سے زندگی نہیں ملے گی ، جب تم عزتیں نہیں پاؤ گے آسمان پر، تمہارا نام آسمان تک بلند نہیں ہو سکتا وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ عمل صالح کرو گے تو پھر تمہارے نام آسمان تک پہنچیں گے اور آسمان کے روشن ستاروں میں تم شمار کئے جاؤ گے.اس پہلو سے بھی ان کے بلند بانگ دعاوی کی حقیقت سامنے آگئی ، ان کی عزتوں کی یا ذلتوں کی باتیں کرنے کی حقیقت سامنے آگئی.اور ان تین آیات میں ان کے پروگراموں اور ان کے حالات کا ہمارے پروگراموں اور ہمارے حالات سے ایک مکمل مواز نہ ہو گیا.اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ تسلی دے دی.وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيَّاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أو ليكَ هُوَ يَبُورُ کہ جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ان کو اپنی بداعمالیوں کے نتیجہ میں شدید عذاب ملے گا، ہو سکتا ہے بعض لوگ کہیں کہ ملے گا تو ہمیں کیا یا ہمیں اس کی بھی تکلیف ہے.ہمیں تو اس بات کا تعلق ہے کہ جو ہمارے متعلق وہ شرارتیں کر رہے ہیں ان کا کیا ہوگا.اس کا جواب ساتھ ہی فرمایا وَ مَكْرُ أُولَيكَ هُوَ يَبُورُ ہم تمہیں ضمانت دیتے ہیں کہ ان کے سارے مکر تمہارے متعلق باطل اور بے نتیجہ ثابت ہوں گے اور ہر گز ان کو کوئی پھل نہیں لگے گا.تو جس جماعت کے ذکر خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں چودہ سو سال پہلے محفوظ کر دیئے ہوں ، جس کے نقوش نقطہ بنقطہ ، مو بموقرآن کریم کی چند آیات میں موجود ہوں.جس کے خطرات کے جواب بھی ہوں ، جس کی امیدوں کے لئے یقین دہانیاں بھی ہوں ، جس کے دشمنوں کے نقشے بھی کھینچے گئے ہوں اور انکی لازماً انجام کار نا کامی کی تحدی کے ساتھ خبر میں دے دی گئی ہوں، اس.جماعت کو کیا خطرہ ہے.صرف ایک بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ ان تمام آیات کا مرکزی نقطہ عمل صالح ہے.اگر ہم اپنے عمل صالح میں ترقی کریں گے اپنے اعمال کو بہتر سے بہتر بناتے چلے جائیں گے تو یہ سارے وعدے ہمارے حق میں پورے ہونگے اور ہمارے پاس یقین دہانی کی وجہ ہوگی کہ ہاں ہم ہی
خطبات طاہر جلد۵ 546 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء وہ جماعت ہیں جس کا بڑے پیار کے ساتھ آنحضرت علیہ کے غلاموں کے زمرہ میں ذکر کیا گیا ہے.اس پہلو سے جو سال نو کے پروگرام ہیں وہ تو بہت تفصیلی ہیں اور انشاء اللہ جماعت کو وقتاً فوقٹا دیئے بھی جاتے رہیں گے اور پہلے بھی بہت سے حصے کھول کر بیان ہو چکے ہیں.جس قسم کے کام ہم پچھلے سال کرتے رہے ہیں اسی قسم کے کام ہم نے اب بھی کرنے ہیں.پہلے سے زیادہ شدت سے کرنے ہیں ، پہلے سے زیادہ اخلاص اور محبت سے کرنے ہیں، پہلے سے زیادہ ذمہ داری کے احساس سے کرنے ہیں، پہلے سے زیادہ دعائیں کرتے ہوئے وہ کام کرنے ہیں.ان میں تین چار ایسے بنیادی کام ہیں جن کی طرف میں آپ کو آج توجہ دلا دیتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ نیک اعمال میں سب سے زیادہ زور ہم ان باتوں پر اس سال دیں گے.اول اشاعت قرآن کریم، کیونکہ اشاعت قرآن کریم میں عالم اسلام عالم عیسائیت سے بہت ہی پیچھے رہ گیا ہے اور جب بھی نظر پڑتی ہے اس موازنہ پر تو شرم سے دل کٹنے لگتا ہے.کروڑ ہا کروڑ مسلمان موجود ہو اور خدا تعالیٰ نے دولت کی ریل پیل کردی ہو بعض ممالک میں اور قرآن کریم کی اشاعت سے غافل ہوں.تو قرآن کریم کی اشاعت کا کام بھی ہم نے سنبھالنا ہے.مساجد کو ایسے ملکوں میں بنانا جہاں پہلے اس سے خدا تعالیٰ کی توحید کے گیت نہیں گائے جاتے رہے، جہاں پہلے اذانیں بلند نہیں ہوئیں.تو دراصل یہ ان کے منفی کردار کا ایک مثبت جواب ہے جو خدا تعالیٰ نے ہمیں سکھایا ہے.قرآن کریم کی اشاعت پر وہ جتنی پابندیاں لگارہے ہیں خود نہ کرنے کے باوجود دوسروں کو بھی روک رہے ہیں.اس کا ایک ہی جواب ہے جماعت احمدیہ کے پاس کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ مضبوط ارادوں اور مخلصانہ اور عاجزانہ دعاؤں کے ساتھ اور تمام تر ایثار اور قربانی کے ساتھ اشاعت قرآن کریم کی طرف توجہ دیں اور پچھلے سال جو خدمت کی توفیق ملی ہے اس سے زیادہ اس سال خدمت کرنے کا عزم لے کر اس سال کو شروع کریں اور مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اس سے بڑھ کر خدمت کی توفیق ملے گی.دوسرا مساجد کے متعلق بھی ایک ایسا پروگرام ہے جو جماعت کا ہمیشہ سے جاری ہے لیکن اس پروگرام میں ان کے منفی رویہ کو بھی ایک دخل ہے.انہوں نے مساجد پر حملہ کرنا شروع کیا ہے.قرآن کے بعد مساجد پر حملہ ہے، ہر اسلام کی بنیاد پر حملہ ہے.اس لئے اس کے مقابل پر ہم مساجد کو انشاء اللہ
خطبات طاہر جلد۵ 547 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء تعالیٰ مزید وسعتیں دیں گے.گزشتہ سال بھی مساجد کی توسیع اور مساجد کی تعمیر کا سال تھا یہ سال بھی انشاء اللہ تعالیٰ اس پہلو سے اس کام کو آگے بڑھانے کا سال ہوگا اور مساجد کے ساتھ مشنز ہیں.بعض خدا کے فضل سے بہت عظیم الشان مشنز خدا تعالیٰ نے پچھلے سال بنانے کی توفیق عطا فرمائی.امسال بھی خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے گا تو ہمارا منصوبہ یہ ہے کہ بالکل نئے ممالک میں جہاں پہلے مشن اور مساجد قائم نہیں تھیں وہاں انشاء اللہ تعالیٰ مشن اور مساجد کی تعمیر کی کوشش کی جائے گی.تیسرا دعوت الی اللہ ہے.اس میں ابھی تک ہم خواہش کے مطابق داعین الی اللہ پیدا نہیں کر سکے تو یہ سال اس پہلو سے دعوت الی اللہ پر زور دینے کا سال ہونا چاہئے اور چوتھا جو نیا پروگرام ہے یہ تین پروگرام پہلے سے چل رہے ہیں.چوتھا جو نیا پروگرام ہے.وہ ہے تو بہت ہی پرانا لیکن وہ عام طریق پر جاری ہے، غیر معمولی شدت اور قوت کے ساتھ اسے ہم نے گزشتہ سال میں اپنایا نہیں، وہ ہے سیرت کے جلسوں کو فروغ دینا.حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ کی سیرت ہی سے دنیا نے نجات پانی ہے.اگر صرف قرآن کریم کا پیغام ہم دیں اور ساتھ سیرت کا نمونہ پیش نہ کریں تو وہ پیغام نامکمل ہوگا ، آدھا ہوگا.ہے تو مکمل لیکن انسان زندہ انسانوں کے ساتھ رابطے میں آکر ایک پہلو سے وہ آدھا نظر آتا ہے.وہ پیغام جو کمل ہو اور اسے مکمل طور پر مل کے سانچے میں ڈھالنے والے وجود نہ ہوں اس پہلو سے وہ آدھا رہ جاتا ہے کہ پروگرام تو بہت اچھا ہے لیکن واقعۂ انسانوں کی زندگی پر اثر انداز ہو بھی سکتا ہے کہ نہیں.واقعہ انسان اس قابل ہیں بھی کہ نہیں کہ اس کے متحمل ہو سکیں ، اس پروگرام کو اپنے اعمال میں جاری کریں، اپنی سیرت میں ڈھالیں، ی ممکن ہے کہ نہیں.اس کے لئے ایک عملی نمونہ کی ضرورت ہے اور قرآن کریم نے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی ذات میں وہ نمونہ ہمارے سامنے پیش کر دیا.سیرت کے جلسوں پر اس سال غیر معمولی زور دینا ہے اور قرآن کریم کی اشاعت کے ساتھ یہ مضمون ایسا ایک ازلی ابدی رابطہ رکھتا ہے کہ پوری طرح بات مکمل ہو جائے گی اور جو آیت میں نے پڑھی ہے اس آیت کی ایک تصویر ہم کھینچ دیں گے.یعنی اس کی تفسیر کی ایک تصویر کھینچ رہے ہوں گے دنیا میں.فرماتا ہے اِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ قرآن کریم کی اشاعت کلام طیب کی اشاعت ہے اور حضرت محمد مصطفی علیہ کے سیرت کے مضمون کو شہرت دینا اور دنیا میں پھیلانا اس عمل صالح ہی کی ایک تصویر کھینچنا ہے جس سے کلام طیب میں جان پڑ جاتی ہے.ایک فرض
خطبات طاہر جلد ۵ 548 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء حقیقت کے روپ میں آجاتا ہے، ایک تصور حقیقت کے روپ میں آجاتا ہے.یہ وہ کام ہے جو ہم نے اس سال غیر معمولی طور پر کرنا ہے اور اس سلسلہ میں ہمارے دوسرے بہت سے مسائل خود بخو دحل ہوتے چلے جائیں گے.جب ہم سیرت پر زور دیں گے تو جہاں جہاں احمدی سیرت کے مضمون تیار کریں گے یا سیرت کے مضمون سنیں گے، خود بخود طبعی طور پر ان کے نفس اپنے حالات سے اس سیرت کا موازنہ بھی کرتے رہیں گے.اس لئے تربیت کا اس سے بہتر اور کوئی پروگرام جماعت کے لئے ممکن نہیں ہے اور اس کے علاوہ رسول اکرم ﷺ سے بار بار محبت کے جوش اٹھنے کے نتیجہ میں جب سیرت کا مضمون سنتے ہیں تو محبت تو ہر جگہ ہوتی ہے اس میں ایک نیا ہیجان پیدا ہو جاتا ہے.بعض اوقات تو ایسی ایسی بڑی لہریں اٹھتی ہیں کہ جو سارے وجود کو ڈھانپ لیتی ہیں.اس وقت جو درود آپ کے منہ سے نکلیں گے اس کے نتیجہ میں اللہ اور اس کے فرشتے جو درود بھیجیں گے ساری جماعت پر ان کی غیر معمولی برکتیں ہمیں نصیب ہوں گی.اس لئے قرآن کریم کی اشاعت کے ساتھ میں نے غور کے بعد اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے مطابق یہ فیصلہ کیا ہے کہ سیرت کے مضمون کو باندھ کر ساری دنیا میں اس کو پھیلایا جائے.اس ضمن میں مجھے خیال آیا کہ قرآن کریم کی آیت کتنی کامل اور کتنی حیرت انگیز وسعتیں رکھتی ہے کہ یہ سارے نقشے جو آج ہم بھینچ رہے ہیں یہ سارے پہلے ہی حضور اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیئے تھے، اس کی تصویریں قرآن کریم نے پہلے سے کھینچ رکھی ہیں اور یہ موازنہ مکمل ہے.آنحضرت ﷺ کی محبت میں ان کا ادعا آج یہ ہے کہ اس محبت کے نتیجہ میں ان لوگوں کو قتل کرو ان کی جانیں لے لو اور ہمارا ادعا یہ ہے کہ اس محبت کے نتیجہ میں لوگوں کو زندہ کرو اور آنحضرت مے کی حیات بخش سیرت کو دنیا میں پھیلا دو.تو دیکھیں کتنی تفصیل کے ساتھ ہمارا عمل حسن ایک حقیقی عمل حسن ہے اور کس تفصیل کے ساتھ ان کا بظاہر عمل حسن ایک عمل قبیح ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کو رد کرے گا اور اس کے نیک نتائج کبھی ظاہر نہیں ہو سکتے.کڑوی ہیل کو کڑوے پھل ہی لگتے ہیں.اس لئے خدا تعالیٰ نے ہمیں نہ صرف یہ خبر دی یہ مضمون بیان فرما دیا تفصیل سے کہ کس طرح تم یقین کے مقام پر کھڑے ہو سکتے ہو کہ تمہارے اعمال درست ہیں اور حسین ہیں اور خدا کی نظر میں حسین ہیں اور نتیجہ خیز ثابت ہوں گے وہاں یہ بھی بتا دیا کہ ان نیک اعمال کے نتیجہ میں وہ لوگ جلیں
خطبات طاہر جلد۵ 549 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء الله گے اور حسد میں مبتلا ہوں گے اور مکر وہ منصوبے بنائیں گے اور تم پر حملہ آور ہوں گے، ہم تمہیں یہ خبر بھی ساتھ دیتے ہیں وَ مَكْرُ أُولَبِكَ هُوَ يَبُورُ کہ یقیناً ان کے مکر ضائع جائیں گے اور باطل ثابت ہوں گے، ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے، ان میں کوئی نتیجہ خیزی نہیں.شرارتیں ہوں گی فساد ہوں گے دکھ دیئے جائیں گے.مگر اپنے آخری مقصد میں ناکام ہوں گے.یہ مراد ہے یبور کی.ورنہ مکر کے کچھ اثرات تو پڑتے ہیں.اس لئے مکر کے نتیجہ میں جو کچھ دکھ پہنچے گا جماعت کو اس کے لئے صبر سے کام لینا چاہئے.اللہ تعالیٰ ہمیں صبر اور ہمت عطا فرمائے اور خدا کی خاطر ان دکھوں کو برداشت کرنے کی توفیق ملے.مگر جہاں تک جماعت کی ترقی کا تعلق ہے لا زما او قطعی طور پر ان کے سارے منصوبے نامراد ثابت ہوں گے اور جماعت سے ان کو کوئی خطرہ نہیں ہے.پس میں آپ کو اس نیک پروگرام کی طرف بلاتے ہوئے دوبارہ اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ آپ اسلام کا زندگی بخش پیغام لے کر دنیا میں نکلنے والے ہیں ، آپ اسلام کی مئے عرفان بانٹنے والے ہیں ، آپ مردہ دلوں کو ایک حیات نو بخشنے والے ہیں.آپ مردہ زمینوں کو دوبارہ زندہ کرنے والے ہیں اس لئے کہ آپ وہ بادل ہیں جو آج دنیا میں مردہ زمینوں کو زندہ کرنے کے لئے خدا کی پاک ہواؤں نے چلائے ہیں.بادلوں کی طرح رحمت بن کر دنیا پہ برستے رہیں اور اس رحمت کا اس سے بہتر کوئی تعارف نہیں ہو سکتا کہ قرآن ایک ہاتھ میں ہو اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سیرت آپ کی جان آپ کی زندگی آپ کے وجود کے انگ انگ میں گھلی ہوئی ہو اور اس طرح عمل صالح کے ساتھ اپنے نیک پیغام کو اور نیک کلام کو رفعتیں عطا کرتے رہیں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: سیرت کے مضمون کے سلسلہ میں ایک بات کہنی بھول گیا تھا، اب مجھے یاد آئی کہ ہم نے مغربی مفکرین کے اعتراضات مرتب کر لئے ہیں.یہ کام جاری ہے اور بھی ہوتے رہیں گے اور خیال یہ ہے کہ ان سیرت کے جلسوں میں جہاں تک مغربی دنیا کا تعلق ہے ان اعتراضات کو بھی پیش نظر رکھ کر ان کے اچھے جواب تیار ہونے چاہیں اور ہر ملک میں الگ الگ کوشش ہوتی رہے مثلا فرانس کی جماعت خصوصاً فرانس کے مستشرقین کے گندے اعتراضات کو پیش نظر رکھ کر وہاں ان کے جواب دے سیرت کے جلسوں میں اور انگلستان کی جماعت انگریز مستشرقین کے سوالات کو یا اعتراضات کو پیش نظر رکھے خصوصیت کے
خطبات طاہر جلد۵ 550 خطبه جمعه ۸/ اگست ۱۹۸۶ء ساتھ ، اسی طرح جرمن ہیں، ڈچ ہیں، امریکن ہیں، جتنے مستشرقین ہیں کہیں انہوں نے کھلی کھلی خباثت کا اظہار کیا ہے، کہیں دبی دبی خباثت کا اظہار کیا ہے، کبھی کبھی میٹھے میں کڑواہٹ پیٹ کر پیش کی ہوئی ہے تو جہاں تک ہمارے پاس یہ اعتراض مرتب ہو چکے ہیں ان کو چھپوا کے یا فوٹو سٹیٹ نکلوا کر بڑی بڑی جماعتوں میں تقسیم کر دیئے جائیں گے تاکہ مختلف اہل علم کے سپرد کر کے سال بھر کے پروگرام میں ضروری نہیں کہ اکٹھا ایک ہی دفعہ ہو مختلف جتنے بھی جلسے ہوں گے ان میں کوئی نہ کوئی اعتراض لے کر ان کا مؤثر جواب ہو اور جو جواب تیار کیا جائے وہ پہلے ایک مرکزی کمیٹی کو دکھا لیا جائے جو مبلغ یا مربی کے زیر نگرانی ہوگی یا امیر جماعت کی زیر نگرانی ہو گی اور وہ اپنے دوسرے ماہرین کی کمیٹی میں ان کو دیکھیں اور اس میں مزید ا اصلاح کریں ، خامیوں کو دور کریں اور پھر وہ تقریر یا پڑھی جائے یا زبانی کی جائے جیسی بھی صورت ہو اور باقی جگہ دنیا میں اگر کوئی ایسے اعتراض یا غلط فہمیاں ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات سے متعلق جو زیادہ تر مقامی حالات سے تعلق رکھتی ہیں تو ان کا ذکر ضروری ہے اور ان کا موثر جواب ضروری ہے.اب چند جنازوں کا اعلان کرنا ہے، یہ جنازہ غائب پڑھے جائیں گے.جنت بی بی صاحبہ اہلیہ قاری غلام یاسین صاحب دارالنصر ربوہ 94 سال ان کی عمر تھی اور بذریعہ خط 1905 ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بیعت کی تھی.داؤ د احمد صاحب ظفر دبئی کے والد صاحب ان کا نام نہیں لکھا ہوا انہوں نے غالباً یہی لکھا ہوگا کہ میرے والد وفات پاگئے ہیں ان کے لئے نماز جنازہ غائب پڑھی جائے.مکرم ملک عبدالکریم صاحب تر گڑی ضلع گوجرانوالہ یہ مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب ناصر جو قادیان کے درولیش ہیں ان کے والد تھے.مستری محمد حسین صاحب درویش قادیان میاں غلام احمد صاحب زرگر کے چھوٹے بھائی تھے.بشیر احمد خاں صاحب یہ مکرم محبوب عالم صاحب نیلا گنبد لا ہور کے بیٹے تھے اور ہمارے مولوی جلال الدین صاحب شمس کے صاحبزادے صلاح الدین شمس جو ڈاکٹر ہیں امریکہ میں ان کے خسر تھے.رانا عبدالرحیم خان صاحب چک 68 ضلع فیصل آباد، شریف احمد خان صاحب سکوارڈن لیڈ ریٹائرڈ کرنل مبارک احمد صاحب کے بھائی، مکرمہ روشن بخت صاحبہ عبد العلی صاحب ایڈووکیٹ کی بیٹی تھیں.مکرم منیر احمد صاحب امریکہ، نیاز محمد صاحب کے بیٹے تھے یہ ہسپتال میں داخل ہوئے تھے آپریشن ہونا تھا.گلٹیاں تھیں کچھ ایسی غالباً کینسر کی تھیں تو ان کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.بہر حال ان سب کی نماز جنازہ غائب جمعہ کی نماز کے معابعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 551 خطبه جمعه ۵ ار اگست ۱۹۸۶ء دعا کا صبر اور صلوٰۃ سے گہرا رشتہ صابر کی جزاء معیت الہی ہے ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ اگست ۱۹۸۴ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّبِرِينَ اور پھر فرمایا: (البقرة : ۱۵۴) سورة البقرة کی یہ آیت میں نے جو تلاوت کی ہے صبر کے مضمون پر ایک حرف آخر کا مقام رکھتی ہے.صبر کے جتنے پہلو ہیں اس کی حقیقت ، اس کا طریق، اس کا بہترین مصرف ،اس کے مقاصد اور کیا کچھ صبر تمہیں عطا کر سکتا ہے.یہ ساری باتیں اس مختصر سی آیت میں بیان ہوگئی ہیں.جہاں تک صبر کا عام مفہوم ہے یعنی غیر مذہبی عام دنیاوی تصور ، اس میں بیچارگی کے معنی نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں اور بے اختیاری کے معنی نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں.ایسا غم اور ایسی مصیبت جو کسی کو مغلوب کرلے اور جن کے مقابلے کی کوئی انسان طاقت نہ پاتا ہو اور کوئی چارہ نہ پائے کہ کس طرح اس کے مصائب کے چنگل سے نکل سکے.اس وقت جو کیفیت ہوتی ہے اسے دنیاوی مفہوم میں صبر کہتے ہیں.ایسے صبر کا نتیجہ عموماً ایک اندرونی آگ ہوتا ہے جو رفتہ رفتہ انسان کو جلاتی رہتی ہے اور اس کے نقصانات تو ہیں، اس کے فوائد پہنچنے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.ایسا صبر جو
خطبات طاہر جلد۵ 552 خطبه جمعه ۵ ار اگست ۱۹۸۶ء بے اختیاری کا صبر ہو وہ بعض دفعہ مصیبتوں میں اضافہ کر دیتا ہے اور مصیبتوں کی یاد اس کے ساتھ پیوستہ ہو جاتی ہے اور بجائے اس کے کہ ایک دکھ آئے اور گذر جائے ایسے صبر کے نتیجہ میں وہ دکھ ایک مستقل زندگی کا حصہ بن جاتا ہے، ایک روگ بن جاتا ہے.پس قرآن کریم نے صبر کا جو مفہوم بیان فرمایا ہے وہ اس عام مفہوم سے بالکل الگ کر کے بیان فرمایا اور صبر کے مضمون کو انتہائی بلند مقام تک پہنچا دیا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو عام دنیاوی مفہوم ہے اس میں صبر اور عمل کا کوئی جوڑ نہیں ہے.عام طور پر جن حالات میں دنیا والے صبر کرتے ہیں ان کو عمل کی کوئی راہ ہی نہیں دکھائی دیتی اور صبر بالعموم مایوسی کا پہلو رکھتا ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے صبر کو ایک فعال قوت میں تبدیل کرتے رہو.استعینوا صبر کے نتیجہ میں خدا سے دعا مانگو اور مدد چاہوا گر مایوسی ہو تو مدد چاہنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.ہمیشہ تمہارے صبر کے ساتھ ایک امید کا پہلو زندہ رہنا چاہئے اور صبر کے نتیجہ میں خدا کی طرف مدد کا ہاتھ بڑھاتے رہو اس کامل یقین کے ساتھ کہ کسی نہ کسی وقت اللہ تعالیٰ کی مدد آکر تمہاری مشکلات کو دور فرما دے گی.اللہ سے استعانت کے مضمون نے مایوسی کو ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا اور انتہائی ناممکن حالات میں بھی امید کی ایک لو روشن کردی ، امید کی ایک کرن مومن کو دکھا دی کہ ایک نجات کا رستہ باقی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگنے کا رستہ ہے.پس مصیبت خواہ کتنی گہری ہو اس کا گھیرا کتنا ہی کڑا کیوں نہ ہو مومن کا صبر ا سے ہمیشہ امید کی طرف متوجہ کرتارہتا ہے.اور خدا تعالیٰ سے مدد مانگنے کے مضمون میں اس امید کو ایک زندہ فعال قوت میں تبدیل کر دیا ہے.دوسرا معنی استَعِينُوا بِالصَّبْرِ یہ بھی ہے اور اسی مضمون کو آگے بڑھانے والا معنی ہے کہ جب خدا سے مدد مانگا کرو تو صبر کے ساتھ مددمانگا کرو.چند دن مدد مانگ کے چھوڑ نہیں دینا ، دعا میں جلدی نہیں کرنی ، جلدی نتیجے نکلنے کی تمنار کھتے ہوئے دعائیں نہیں کرنی بلکہ دعا میں بھی صبر کے مضمون کو داخل کر دو.اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ خدا سے اس طرح مدد مانگو کہ ہمیشہ مانگتے ہی چلے جاؤ اور مدد مانگتے ہوئے کبھی بھی تجھکو اور مدد مانگنے کے طریق کو مستقل پکڑ کے بیٹھ رہو.صبر کا معنی اس پہلو سے وفا کے ساتھ کسی چیز پر قائم ہو جاتا ہے.تواسْتَعِينُوا بِالصَّبر کا مطلب ہے کہ کامل وفا کے ساتھ دعا پر لگے رہو اور کسی حالت میں بھی دعا نہیں چھوڑنی کسی حالت میں بھی یہ خیال نہیں کرنا کہ ہماری دعا
خطبات طاہر جلد ۵ 553 خطبه جمعه ۵ ار اگست ۱۹۸۶ء چونکہ قبول نہیں ہوئی اس لئے اب دعا کرنا عبث ہے.چنانچہ انبیاء کی جو دعائیں قرآن کریم میں ملتی ہیں ان میں یہ مضمون بھی بیان ہوا ہے کہ صبر کے ساتھ دعائیں کرنے والے نبی بعض ایسے تھے جنہوں نے آخر خدا کو پکار کے یہ کہا کہ ہماری دعاؤں میں اتنا صبر ہے کہ ہمارے بال سفید ہو گئے ، ہماری ہڈیاں گل گئیں اور بظاہر ناممکن ہے کہ اس حالت میں اولا دعطا ہولیکن اے خدا! دیکھ میری دعا کا صبر کہ آج بھی اس یقین کے ساتھ دعا کر رہا ہوں کہ کبھی میں تجھ سے دعائیں مانگتے ہوئے بے بخت ثابت نہیں ہوا ، بد نصیب ثابت نہیں ہوا.تو صبر کے اس مضمون کو اس نے اور بھی کئی چاند لگا دیئے.محاورہ تو چار چاند لگانے کا ہے مگر میں نے عمداً کئی چاند کہا ہے.حیرت انگیز طور پر یہ مضمون لامحدود ہو جاتا ہے.صبر کر واستعانت کے ساتھ ، خدا سے دعا مانگتے ہوئے یعنی ہمیشہ اس یقین پر قائم رہو کہ تمہاری مصیبت تمہیں مغلوب نہیں کر سکے گی.دوسرے دعا میں صبر کرو اور دعا کا دامن کبھی نہ چھوڑو.یہ دو باتیں جب ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ ہوتی ہیں، ایک دوسرے کو طاقت دیتی ہیں تو صبر کا مضمون جو ہے عظیم الشان بن جاتا ہے اور لامحدود ہو جاتا ہے.اس کے ساتھ ہی فرمایا وَ الصلوۃ صلوۃ اور صبر کا کیا تعلق ہے؟ اس کے کئی تعلق ہیں.صلوۃ کے معنی بھی مختلف ہیں ان مختلف معانی کے ساتھ صبر اور صلوٰۃ کا تعلق نئے نئے روپ دھارتا رہتا ہے، نئی شکلوں میں سامنے آتا ہے.صلوۃ کا ایک معنی کوشش اور جد و جہد اور ورزش بھی ہے.چنانچہ اس پہلو سے جب ہم اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ پڑھتے ہیں تو مراد یہ ہے کہ محض دعائیں نہ کرو بلکہ عمل بھی ساتھ کرو.محض دعا پر اس طرح انحصار نہیں کرنا صبر میں کہ اے خدا ! ہم تو اب کچھ بھی نہیں کر سکتے سب کچھ تجھ پر چھوڑ کر بیٹھ گئے ہیں اس کو ہاتھ تو ڑ کر بیٹھ جانا کہتے ہیں.فرمایا نہیں مومن کی یہ شان نہیں ہے جتنی طاقت ہے اس طاقت کو ساتھ ساتھ استعمال کر کے اپنی قوت عمل کو مرنے نہیں دینا بلکہ ہمیشہ اسے بھی زندہ رکھنا ہے.تو دعا اور صبر اور صلوٰۃ کا یہ رشتہ مومن کی زندگی کی ایک عجیب تصویر کھینچتا ہے جو دنیا کے صبر کرنے والوں میں کہیں دکھائی نہیں دیتی.دعائیں کرتے رہنا ہے دعاؤں کے ساتھ یقین رکھنا ہے کہ تم نا کام نہیں ہو گے.اس یقین کے ساتھ جس حد تک بھی تمہیں خدا تعالیٰ نے توفیق بخشی ہے اس توفیق کے مطابق عمل کو زندہ رکھنا ہے اور ہر میدان میں ہر جہت سے جہاں بھی تمہیں کوئی امکان نظر
خطبات طاہر جلد۵ 554 خطبه جمعه ۵ اراگست ۱۹۸۶ء آئے کوشش کا اس کوشش کو نہیں چھوڑ نا کیونکہ صلوۃ میں جو مفہوم پایا جاتا ہے عمل کا اس میں صرف عام عمل نہیں بلکہ ورزش ہے.ورزش کا مفہوم کوشش کو انتہاء تک پہنچانے کے معنی رکھتا ہے.اتنی کوشش کرنا کہ بدن تھک جائے اور اس سے زیادہ کوشش انسان کو ہلاک کرنے کا موجب بن سکتی ہو اور اتنی کوشش کرنا کہ جو اپنی استطاعت کی حد کے اندر ہو اس سے آگے نہ بڑھے کیونکہ وہ ورزش جو استطاعت سے آگے بڑھ جائے وہ مار دیا کرتی ہے، نقصان پہنچاتی ہے، اسے صلوۃ کہتے ہی نہیں.ورزش کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ اتنی کوشش کہ تھکا تو دے مگر جسم کو نقصان نہ پہنچا سکے.اگر نقصان پہنچانے والی ورزش ہے تو اس کا نام ورزش رہے گا ہی نہیں ، اس کا نام تو سزا ہو جائے یا بیگار ہو جائے گا.اس لئے صلوۃ کا معنی یہاں یہ بنے گا کہ حد استطاعت تک کوشش کرو، ایسی کوشش کرو جو تمہاری طاقت بڑھاتی رہے، تمہارے اندر مزید قوت عمل پیدا کرتی رہے.تمہیں عمل سے متنفر کرنے والی یا تمہاری عملی طاقتوں کو کمزور بنانے والی کوشش نہ ہو.صبر کے مفہوم میں غم کا پہلو بھی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک اندرونی آگ میں جلنا بھی اس کے مفہوم میں داخل ہے اور اکثر دنیا والے اس سے خوب واقف ہیں.اسی لئے بعض ماہرین نفسیات صبر کے خلاف تلقین کرتے ہیں.وہ یہ کہتے ہیں کہ صبر کرنا یعنی اپنے غم کو اپنے دکھ کو اپنی ذات میں محدود رکھ کر اس پر بیٹھ رہنا یہ نفسیاتی لحاظ سے انسان کے لئے مضر ہے بلکہ مہلک بھی ثابت ہوسکتا ہے.اس لئے وہ لوگ جوصبر کرتے ہیں ان کے نزدیک وہ کئی قسم کی بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس لئے بعض دفعہ اگر غیر معمولی صبر کرنے کی کوشش کی جائے مثلاً آنسو نہ نکلیں یا واویلا نہ کرے کوئی شخص تو کہتے ہیں وہ پتھر ہو گیا اور اس کے نتیجہ میں اسے گہری نفسیاتی بیماریاں لگ جاتی ہیں جو بعد میں جسمانی عوارض میں بھی تبدیل ہو جاتی ہیں.اس کا کیا علاج خدا تعالیٰ مومن کو بتاتا ہے؟ ایک علاج تو استَعِينُوا کے لفظ میں ہمیں دے دیا کہ واویلا تو نہیں کر نالیکن مر ضرور مانگتی ہے اور بڑے زور کے ساتھ مانگتی ہے اور مستقل ما نگتے چلے جانا ہے.مدد مانگنا واویلے کا بدل ہے.مایوسی کے نتیجہ میں واویلا پیدا ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ جو مومن کوصبر سکھاتا ہے اس کے نتیجہ میں دعا نکلتی ہے دل سے اور خدا سے مدد مانگنے کی طرف توجہ مبذول ہوتی ہے.ایک اس کا Outlet، ایک نکاس کا رخ اول رکھ دیا ہے اس آیت کے شروع میں اور ایک
خطبات طاہر جلد۵ اس کے آخر پر میں رکھ دیا لفظ صلوۃ.555 خطبه جمعه ۵ ار اگست ۱۹۸۶ء فرمایا استَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة صلوۃ کا معنی بھی جلنا ہے مثلاً امام راغب مفردات میں لکھتے ہیں کہ بعض اہل علم کے نزدیک وہ نماز جسے ہم صلوٰۃ کہتے ہیں یعنی عبادت اس کا اصل صَلَّى يَصْلی صلیا ہے یعنی وہ جلا ، یا آگ میں داخل ہوایا آگ میں بھتارہا.صلیا آگ میں داخل ہونے ، آگ میں جلنے اور آگ میں بھنتے رہنے کو کہتے ہیں.تو اس میں بھی ایک جلنے کا مفہوم ہے اور اسی سے عبادت کا مفہوم اس طرح نکلا کہ بعض سابق علماء کے نزدیک صلی کہہ کر گویا آگ سے دفاع کے معنے پیدا کر دئے.جب صلی کو صلی میں تبدیل کیا جائے تو اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں ایک ان معنوں میں شدت بھی پیدا ہو جائے یعنی باب تفعیل میں آکر معنوں میں شدت بھی آجاتی ہے اور بعض دفعہ پہلے معنی کی نفی پیدا ہو جاتی ہے.یعنی یہ ان معانی کو دور کر نے والا باب ہے.تو گزشتہ علماء نے اس کا یہ مطلب لیا ہے کہ صلَّی کا مطلب ہے اس نے آگ کو اپنے سے دور کر دیا یعنی نماز پڑھ کر عبادت کر کے جہنم کی آگ سے بچ گیا یا دنیا میں جلنے کے جو بھی مواقع ہیں ان سے اس نے نجات پائی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور مفہوم لیا ہے جو بہت ہی زیادہ شاندار اور بہت ہی زیادہ پاکیزہ اور حسین ہے.آپ فرماتے ہیں اللہ کی محبت کی آگ میں جلنا ہے اور شدت کے ساتھ جلنا ہے.یعنی جلنے کی نفی نہیں ہے بلکہ جلنے کے مضمون میں شدت پیدا ہوئی ہے اور فرمایا جس کے دل میں خدا کی محبت کی آگ بھڑک اٹھتی ہے ہر دوسری آگ اس پر حرام کر دی جاتی ہے.محبت الہی کی آگ غالب آجاتی ہے ہر دوسری آگ پر اور اس میں جلنے کے بعد دوسری آگ بے معنی دکھائی دینے لگتی ہے، اس کی کوئی حقیقت ہی باقی نہیں رہتی.اس آیت میں بعد میں جب صلوٰۃ کا ذکر فرمایا تو یہ بتایا کہ ہم جانتے ہیں کہ نفسیاتی لحاظ سے تم جلو گے تمہیں لازماً جلنا ہے، ایک دکھ میں مبتلا ہو.ہم یہ نہیں کہتے کہ اس کا ڈھکنا بند کر کے بیٹھ رہو او پر بلکہ یہ کہتے ہیں اس آگ کو محبت الہی کی آگ میں تبدیل کر دو استعینوا جس سے مدد مانگو گے اگر محبت کے ساتھ اس سے مدد مانگو گے تو اس میں اور بھی زیادہ قوت پیدا ہو جائے گی.اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃ ایک طرف واویلا کی بجائے دعا کا مضمون سکھا کر کہ شدت کے ساتھ پکار کے
خطبات طاہر جلد۵ 556 خطبه جمعه ۵ اراگست ۱۹۸۶ء اپنے دل کے بوجھ کو ہلکا کرنے کے سامان پیدا فرما دئے اور دوسری طرف اس آگ کی نوعیت تبدیل کرنے کا گر سکھا دیا اپنی جلن کو اللہ کی محبت کی آگ میں تبدیل کرتے رہو اور اس کے نتیجہ میں تمہاری استعانت میں بھی مزید قوت پیدا ہو جائے گی اور تمہاری جلن میں لطف پیدا ہو جائے گا بجائے اس کہ تم بیماریوں میں مبتلا ہو تم تو شفا گر بن جاؤ گے.تمہارا سینہ دوسروں کے لئے شفا پیدا کرنے کا موجب بن جائے گا.پس یہ ہے ایک تعلق صبر اور صلوٰۃ کے درمیان اور یہ تینوں لفظ ایک دوسرے کے ساتھ باندھے جاتے ہیں.ایک اور مفہوم اس کا یہ ہے کہ جن دنوں میں بھی مصائب کا زور ہو تم اپنی عبادتوں کو زیادہ بڑھاؤ غم اور فکر تمہیں عبادتوں سے غافل کرنے والے نہ بنیں بلکہ عبادتوں کی طرف متوجہ کرنے والے بنیں.اس نصیحت کی اس لئے بھی ضرورت ہے اور خاص طور پر یاد کرانے کی ہے کہ بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگوں پر جب مصائب آتے ہیں یا امتحانوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو وہ نمازیں چھوڑ کر بیٹھ جاتے ہیں بجائے اس کے کہ نمازوں کو زیادہ کریں اور بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ اب تو ہمارا نماز میں بھی دل نہیں لگتا.پہلے عادت تھی اب ایسے غم پڑے ہیں کہ ہم بالکل چھوڑ بیٹھے ہیں نماز کوکوئی مزہ نہیں آتا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہی وقت ہے نمازیں بڑھانے کا یہی وقت ہے نمازوں میں زیادہ توجہ کرنے کا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے ہیں کہ ہمیں تو جب بھی کوئی مشکل پڑے کوئی مصیبت ہو ہم دروازے بند کر لیتے ہیں اور نماز میں گریہ وزاری کر کے اپنے سارے بوجھ ہلکے کر لیتے ہیں.نماز میں اِنَّمَا اَشْكُوا بَى وَحُزْنِ إِلَى اللهِ (یوسف:۸۶) کا مضمون ہے کہ جب تمہارا غم بڑھے تو صبر کے ساتھ خدا سے مدد مانگو.عبادتوں کا معیار بھی بلند کرو اور عبادت میں زیادہ وقت گزارا کرو اور عبادت میں کی جانے والی استعانت زیادہ مفید ثابت ہوگی اس کا یعنی استعانت سے بھی تعلق ہے.کہ استعانت تم بغیر عبادت کے بھی کر سکتے ہو اور عبادت کے ساتھ بھی کر سکتے ہو ہم تمہیں بتاتے ہیں اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ اپنی استعانت جہاں تک ممکن عبادت میں کیا کرو اور عبادت میں تم خدا سے جو مدد مانگو گے وہ زیادہ مقبول ثابت ہوگی اور تمہارے لئے زیادہ فائدہ مند ثابت ہوگی.ہو صبر میں ایک اور بھی مضمون پایا جاتا ہے کہ صبرا کیلے کرنا بڑا مشکل ہے.اسی لئے دنیا میں
خطبات طاہر جلد ۵ 557 خطبه جمعه ۵ اراگست ۱۹۸۶ء جتنے شعرا ہیں وہ غمگسار کی طلب کرتے ہیں اور یہ خیال کر لینا کہ اکیلا انسان صبر کرتا رہے یہ ایک محض فرضی بات ہے.حقیقت یہ ہے کہ صبر ہوتا نہیں اگر انسان تنہا ہواور اکیلا ہو.ضرور چاہتا ہے کسی کو جتنا زیادہ دکھ میں مبتلا ہو اور صبر کے ساتھ کسی دکھ پر قائم رہنا چاہے اتنا زیادہ وہ محتاج ہو جاتا ہے کسی ذریعہ کا کسی مونس کسی غم خوار کا.تو خدا تعالیٰ نے اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں فرمایا.فرمایا اِنَّ اللهَ مع الصبِرِينَ اگر تم ہم سے مدد مانگو گے اور عبادتوں کی طرف متوجہ ہو گے تو ہم یقین دلاتے ہیں اپنی معیت کا.ہم تمہارے ساتھ ساتھ رہیں گے، تم تنہا نہیں پاؤ گے اپنے آپ کو اور خدا کی معیت میں جس آسانی سے دکھ کٹ سکتے ہیں اس آسانی سے کسی اور معیت میں دکھ کٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ویسے عقلاً بھی یہ بات درست ہے، یہ ظاہر بات ہے لیکن اس میں ایک بہت ہی پیار کا مضمون داخل ہو گیا ہے.اِنَّ اللهَ مَعَ الصّبِرِینَ کا ایک اور مطلب ہے عموماً اس مطلب کی طرف توجہ جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کی مدد کرتا ہے ،صبر کرنے والے آخر کامیاب ہوں گے یہ درست ہے.یہ مضمون لازماً اس آیت میں شامل ہے اور بظاہر اسی کی طرف توجہ دلائی گئی ہے.لیکن میرے نزدیک اس میں پیار کا مضمون داخل ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، تمہیں کیا غم ہے، اکیلے تو وقت نہیں کاٹو گے.اکیلے کاٹنے کے لئے کہا جائے تو پھر تمہارے لئے بہت مشکل ہے لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہم ایسی حالت میں تمہارے ساتھ رہا کریں گے ،تمہیں کوئی تکلیف نہیں ہوگی.یہ مضمون اس مضمون سے بلند ہے جو فرشتوں کی معیت کا مضمون ایک اور آیت میں بیان ہوا ہے.اس میں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں پر فرشتے اترتے ہیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں فِي الدُّنْيَا وَ الْآخِرَةِ (بقره: ۲۱۸) دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی.لیکن اس کا تعلق استقامت سے رکھا گیا ہے.جہاں صبر کے ساتھ خدا کی معیت کا وعدہ ہے اور ہمیشہ جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں صبر کا مضمون آیا ہے وہاں خدا کی معیت کے معنی بھی اگر ہر جگہ نہیں تو بعض جگہ نمایاں طور پر یہ معنے بیان ہوئے ہیں ہر جگہ ان معانی کا مضمون داخل ہے.اللہ تعالیٰ کا ساتھ اور صبر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ پیوستہ مضامین ہیں.اس سے میں سمجھتا ہوں کہ صبر کا پھل ہے زیادہ بلند محض استقامت کے پھل سے.استقامت میں یہ بات داخل ہے کہ آدمی بے وفائی نہ کرے
خطبات طاہر جلد۵ 558 خطبه جمعه ۵ اراگست ۱۹۸۶ء اور اپنے مقصد کو چھوڑے نہیں لیکن صبر کے مضمون میں کچھ اور باتیں ایسی داخل ہوگئی ہیں جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس کا پھل خود اپنے آپ کو قرار دیا اور وہی پیار کا مضمون میرے نزدیک اس میں داخل ہے.اپنی آگ کو محبت الہی کی آگ میں تبدیل کرنا، اللہ کے پیار کی آگ بڑی قوت کے ساتھ دل میں بھڑک اٹھنا غموں کے وقت.اس کے نتیجہ میں لازماً خدا کا اپنا آنا ضروری ہو جاتا ہے.اگر غم محض مدد مانگنے کی ایک قوت بن جائیں تو اس کے نتیجہ میں فرشتوں کا آنا کافی ہے.مدد کے لئے آئے ہیں ہم.تمہاری مدد کریں گے فکر نہ کرو تمہارے غم بھی دور ہو جائیں گے تمہیں خوشخبریاں بھی دیتے ہیں لیکن اگر غموں کی آگ خالصہ اللہ کے پیار کی آگ میں بھڑک اٹھے تو اس کا جواب یہ ہے ہی نہیں کہ ہم تمہاری مددکریں گے یہاں بھی اور وہاں بھی تم فکر نہ کرو.اس کا جواب یہ ہے کہ جس کی محبت میں تم اب جل رہے ہو وہ آگیا ہے تمہارے پاس اور وہ تمہارے ساتھ رہے گا.اس لئے میں نے کہا تھا کہ صبر کے مضمون میں یہ آیت حرف آخر ہے.آخری اور سب سے بلند تر مقصد بھی بیان ہوا اور بہترین پھل جو صبر کے نتیجہ میں انسان کومل سکتا ہے اس کا ذکر فرما دیا.پس اس دور میں جس میں سے ہم گزر ہے ہیں یہ آیت ایک کافی آیت ثابت ہونی چاہئے.ہر وہ بات جو اس دور سے تعلق رکھنے والی ہمیں سکھانے کے لائق ہے قرآن کریم کی یہ آیت وہ ہمیں سکھا رہی ہے.اس لئے یہ وقت تو گزر جائے گا لیکن اگر اس وقت کے گذرنے کے باوجوداگر ہم نے اس آیت سے فائدہ نہ اٹھایا ہو تو بڑی بدقسمتی ہوگی.وقت گذرے گا اور فتح کے ساتھ گزرے گا اس میں کوئی بھی شک نہیں، خدا کے وعدے لازماً پورے ہوں گے.مگر اس آیت میں جو وعدہ ہے وہ اور ہے وہ یہ ہے کہ میں تمہارا بن جاؤں گا.اس وعدہ کی تمنا کریں ، اس مقصد کے حصول کی طرف متوجہ ہو کر یہ وقت گزارنے کی کوشش کریں کہ اس ابتلاء میں سے جب ہم گزریں تو ان سب باتوں کا ماحصل آخری یہ ہو کہ خدا ہمارا ہو چکا ہو اور ہمارے ساتھ رہنے والا بن جائے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: کچھ جنازہ غائب پڑھانے کے لئے درخواستیں آئی ہوئی ہیں.پانچ ایسے جنازے ہیں
خطبات طاہر جلد۵ جن کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.559 خطبه جمعه ۵ ار اگست ۱۹۸۶ء بعض دوست اس بات سے گھبرا گئے ہیں کہ اب تو قریباً ہر جمعہ میں نماز جنازہ غائب ہونے لگی ہے تو ان کے لئے میں یہ بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر چہ یہ عام دستور نہیں ہے مگر موجودہ حالات میں پاکستان میں جو احمد کی وفات پاتے ہیں یا حادثوں کا شکار ہوتے ہیں.احساس محرومی کا ایک خطرہ ان کے اوپر لٹکا رہتا ہے.ان کی عموماً یہ خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا جنازہ ربوہ جائے اور وہاں خلیفہ وقت نماز جنازہ پڑھائے.عام حالات میں ضروری نہیں ہوتا کہ ہر ایک کی نماز جنازہ خلیفہ وقت ہی پڑھا رہا ہو لیکن یہ احساس کہ نہیں پڑھا سکتا اس وقت ، اس خیال سے احساس محرومی کو زیادہ عام کر دیا ہے جتنا عملاً ہے یعنی ربوہ میں جب میں تھا تو اس سے بہت کم جنازے پڑھائے جاتے تھے لیکن اب چونکہ ہر ایک کو یہ احساس ہے کہ شاید یہاں ہوتا تو ہمارا جنازہ وہ بھی پڑھا سکتا.بعض لوگ مجھے لکھتے رہتے ہیں کہ اگر ایسا واقعہ ہو تو یوں ہونا چاہئے اور بعض کے ورثاء لکھتے ہیں کہ انکی خواہش تھی.بعض ورثاء اپنی خواہش کے طور پر لکھتے ہیں کہ ہماری خواہش ہے کہ آپ پڑھا ئیں.اس لئے دل میں نرمی تو ہے ہی لیکن نسبتاً اس موقع پر عام دستور سے ہٹنے پر دل آمادہ ہو جاتا ہے.اس لئے جو دوست ہر بار جمعہ پر جنازہ پڑھتے ہیں تو وہ گھبرائیں نہیں صبر سے کام لیں.کیا فرق پڑتا ہے چند منٹ کی بات ہے.جنازے میں ثواب ہی ہے ان کے لئے بھی اور ہمارے لئے بھی.پھر بعض ایسے ہوتے ہیں جن کا ذاتی طور پر استحقاق بھی ہوتا ہے مثلاً ایک درویش ہے اس نے ساری عمر وفا سے قادیان میں قید خانے میں وقت کاٹا.اگر چہ اب ویسا قید خانہ نہیں رہا لیکن ایک لمبے عرصے تک ساری جماعت کے لئے فرض کفایہ کے طور پر انہوں نے قید برداشت کی ہے اور بھی بعض صحابہ ہیں، بعض مظلوم ہیں حادثوں کا شکار ہیں.ان کی نماز جنازہ غائب پڑھنی تو ویسے ہی مستحب ہے.ا.مکرم قریشی عبداللطیف صاحب ابن قریشی محمد جان صاحب اوکاڑہ.یہ ہمارے قادیان کے ایک درویش کے برادر نسبتی ہیں.۲.قادیان کے ایک درویش مرزا اعظم علی بیگ ہیں.انکے متعلق مکرم ناظر صاحب اعلیٰ قادیان نے نماز جنازہ غائب پڑھانے کی بشدت درخواست کی ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 560 خطبه جمعه ۵ اراگست ۱۹۸۶ء مکرم خالد نصر اللہ صاحب ہمارے ایک نو عمر مخلص نو جوان موٹر سائیکل کے حادثے میں شہید ہو گئے ہیں، حلقہ شالا مارٹاؤن لاہور سے کے تھے.نانا تھے..ڈاکٹر عبدالغفور صاحب انڈونیشیا کے یہ مکرم محموداحمد خان صاحب آف مغربی جرمنی کے ۵ - صابرہ بیگم صاحب اہلیہ مکرم اقبال الدین امینی صاحب کی اچانک وفات ہو گئی تھی.مرحومہ مکرم انوارالدین صاحب امینی ہڈرزفیلڈ کی والدہ تھیں.اچھے مخلص بچے ہیں ان کے، بڑے دعا گو اور نیک،سلسلہ کے کاموں میں آگے آگے.ان کی والدہ کی وفات بھی ایک شہادت کا رنگ رکھتی ہے.جلسہ سالانہ یو کے پر گئی تھیں بہت زیادہ Emotional ہوگئی تھیں اور پہلے دن ہی Brain Hambridge ہوا، دماغ کی رگ پھٹ گئی اور وفات ہوگئی.ان سب کی نماز جنازہ جمعہ کے معاً بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 561 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء ہندوستان میں تحریک شدھی کے خلاف اعلان جہاد نیز بیت الذکر مردان کی شہادت کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: فَاصْبِرُ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِلْ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوْعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِنْ نَّهَارٍ بَلْةٌ : فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَسِقُوْنَ (الاحقاف : ۳۶) اور پھر فرمایا: ۱۹۲۲ء، ۲۳ء اور ۲۴ ء کے دور میں جو مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں ایک انتہائی دردناک دور تھا ملکانے کے علاقہ میں ایک شدھی کی تحریک چلائی گئی تھی اور کثرت سے راجپوتوں کو یہ کہہ کر دوبارہ ہندو بنایا جا رہا تھا کہ تمہارے آباؤ اجداد تو ہندو تھے اور تمہیں مسلمان بادشاہوں نے زبر دستی مسلمان بنالیا تھا اس لئے تمہارا اصل مقام تمہارا دائگی مقام ہندوسوسائٹی میں ہے اور اگر تم دوبارہ ہندو بن گئے تو تمہیں اور بہت سی ایسی مراعات حاصل ہو جائیں گی جو اس سے پہلے حاصل نہیں ہیں.روپیہ کا بھی لالچ دیا گیا اور روپیہ خرچ بھی کیا گیا اور بعض جگہ جبر سے بھی کام لیا گیا اور ایسے تنگ حالات کر دیئے گئے ہندوؤں کی طرف سے اس علاقہ میں کہ بہت سے مسلمان مجبور ہوکر اس
خطبات طاہر جلد۵ 562 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء دباؤ کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ پا کر ہندو ہونے شروع ہوئے.اس وقت جماعت احمدیہ ہی کو یہ توفیق ملی کہ اس انتہائی خوفناک سازش کو بے نقاب کرے اور حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے اس شدھی کی تحریک کے خلاف ایک انتہائی کامیاب جہاد شروع کرنے کی توفیق عطا فرمائی.تمام ہندوستان کے مسلمان علماء کو خطوط بھی لکھے گئے ، وفود بھیج کر ان سے ملاقاتیں کی گئیں ، ان کی غیرت کو ابھارا گیا، ان کی حمیت کو اکسایا گیا ، ان کی منتیں بھی کی گئیں، ان کو طرح طرح سے اسلام کی محبت کے واسطے دے کر اس بات پر آمادہ کیا گیا کہ اپنے وقتی اختلافات کو چھوڑ دو اور سارے مل کر اسلام کے خلاف اس انتہائی خوفناک سازش کا مقابلہ کرنے کے لئے متحد ہو جاؤ.کچھ عرصہ تک یہ کام بہت اچھا چلا اور چونکہ اس وقت کے اہل بصیرت مسلمان علماء یہ سمجھتے تھے کہ جماعت احمد یہ جب تک اس تحریک میں مرکزی کردار ادا نہ کرے یہ تحریک کامیاب نہیں ہوسکتی اس لئے انہوں نے جماعت احمدیہ کی تائید کی اور ہر طرح سے اس معاملہ میں جماعت سے تعاون بھی کیا بلکہ حضرت مصلح موعودؓ کو خطوط لکھ کر کھلم کھلا اس بات کا بھی اقرار کیا کہ اگر آپ نے اس تحریک کی پشت پناہی نہ کی اور بھر پور حصہ نہ لیا تو ہمیں ڈر ہے کہ یہ تحریک مر جائے گی.اس کی تفصیل دہرانے کا تو وقت نہیں، یہ تاریخ کی باتیں ہیں اور مختلف اخبارات اور رسائل اور کتب کی زینت بن چکی ہیں.آج میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حال ہی میں ہندوستان میں دوبارہ ایک نہایت ہی خوفناک شدھی کی تحریک شروع کی گئی ہے اور وہی ملکانے کا علاقہ اس کے لئے منتخب کیا گیا ہے اور اس دفعہ غالباً ہندوستان کے بعض انتہا پرست ہندوؤں کو جن میں آریہ بھی پیش پیش ہیں یہ شبہ ہے کہ وہ جماعت جو اس معاملے میں اسلام کا فعال دفاع کر سکتی تھی ، جو مسلسل بے خوف قربانیاں دے سکتی تھی، اس کی اکثریت تو یہاں سے ہجرت کر کے پاکستان جا چکی ہے اور پاکستان میں وہ خود ایسے مصائب میں مبتلا ہے کہ اسے اس بات کی ہوش ہی نہیں ہوسکتی کہ ہندوستان کی سرزمین میں آکر یہاں اس شدھی کی تحریک کے خلاف کسی جہاد کا آغاز کرے.اور جہاں تک ہندوستان کی جماعتوں کا تعلق ہے وہ جانتے ہیں کہ اس زمانے کی نسبت جب یہ شدھی کی تحریک بائیس تنیس چوبیس کے سالوں میں آغاز پائی اور پھر انجام کو پہنچی.اس زمانے میں ہندوستان میں جماعت کو جو طاقت حاصل تھی اب اس کا عشر عشیر بھی حاصل نہیں ہے.اس وجہ سے بھی ان کی حوصلہ افزائی ہوگئی.
خطبات طاہر جلد۵ 563 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کچھ پاکستان میں جماعت کے حالات کی بنا پر ان کو اس بات کی جرات ہوئی لیکن میں ہندوستان کے ان انتہا پسند آریوں اور دیگر مذہبی جنونیوں کو بتادینا چاہتا ہوں کہ کسی قیمت پر بھی جماعت احمد یہ اس جہاد سے باز نہیں آئے گی.حضرت ابو بکر صدیق کی سنت، آپ کا اسوہ ہمارے لئے کافی ہے.اس معاملہ میں وہ سنت اور وہ اسوہ بعینہ ان حالات پر چسپاں ہو رہا ہے.جب ہر طرف اسلام کے خلاف اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت پھیل گئی اور تمام عرب میں قبائل نہ صرف مرتد ہونے لگے بلکہ مرکز اسلام پر حملہ آور ہونے لگے.بہت ہی درد ناک طریق پر مسلمانوں کو جو چند مسلمان ان کے علاقوں میں ایسے تھے جنہوں نے ارتداد کا انکار کیا ان کو قتل کیا گیا ، انکے گھر جلائے گئے ، ہر طرح کی اذیتیں دی گئیں یہاں تک کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سارا عرب اسلام کا باغی ہو کر مدینہ پر حملہ آور ہو گا.اس وقت حضرت ابوبکر صدیق نے جو حیرت انگیز اسلامی حمیت اور غیرت کا نمونہ دکھایا اور انتہائی کمزور ہونے کے باوجود بڑی کامیابی اور عزم کے ساتھ اور کامل تو کل کے ساتھ ، دعاؤں کیساتھ ، اس تحریک کے مقابلہ پر مسلمانوں کو صف آراء کیا اور انتہائی کامیابی کے ساتھ اس مہم کو آخر تک پہنچایا یہاں تک کہ سارے عرب میں ایک بھی باغی باقی نہیں رہا.اور یہ عظیم الشان واقعہ چند سالوں کے اندر اندر ہوا ہے اور حضرت ابوبکر صدیق کی طبیعت کا حلم اور بظاہر جو کمزوری تھی اور نرمی اور رفق پایا جاتا تھا اس کے پیش نظر آپ کا یہ اسوہ اور بھی زیادہ حیرت انگیز دکھائی دینے لگتا ہے.کیسا عزم اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا، کیسی ہمت بخشی کہ اتنے زیادہ غالب دشمن کے مقابل پر اتنے تھوڑے مسلمانوں کے ساتھ جنگی لڑنے کی اہلیت رکھنے والی اکثریت ایک ایسے سریہ پر بھجوائی جارہی تھی جو عرب کے شمال میں عالم اسلام کی سرحدوں پر واقع ہونے والا تھا.اور باوجود اس کے کہ اس کی شدید ضرورت تھی مدینہ میں چونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے وہ سر یہ مقرر فرمایا تھا اس لئے آپ نے اس لشکر کو بھی نہیں روکا.گویا کمزوری کی حالت اس سے بہت زیادہ خطر ناک تھی جو ویسے بھی مؤرخین کو صاف دکھائی دیتی ہے.اگر وہ لشکر باہر نہ بھی بھجوایا جاتا تو مدینہ کے مسلمانوں کی حالت ایسی نہیں تھی کہ سارے عرب کے قبائل کا مقابلہ کر سکے.اگر وہ لشکر نہ بھی بھجوایا جاتا تب بھی ان عرب قبائل کے مقابلہ کے لئے صف آراء ہو جانا ایک عظیم ہمت کا مظہر ہے لیکن جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اکثر لڑنے والے بہادر جنگجو جوان عمر سے تعلق رکھنے والے صحابہ کرام کو سریہ پر بھجوایا جار ہا تھا تو پیچھے
خطبات طاہر جلد۵ 564 خطبه جمعه ۲۲ / اگست ۱۹۸۶ء بظاہر کچھ بھی باقی نہیں رہتا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ آپ کو عظیم الشان کامیابی عطا فرمائی.پس قطع نظر اس کے کہ جماعت احمد یہ ہندوستان میں اس سے بھی بہت ہی زیادہ کمزور ہے جتنی عرب کے دل میں مدینہ کی کیفیت تھی.باوجود اس کے کہ پاکستان میں بھی جماعت احمدیہ کو عظیم الشان مسائل اور مصائب کا سامنا ہے.میں ہندوستان میں شدھی کی تحریک کے خلاف جہاد کا اعلان کرتا ہوں اور اس سلسلہ میں پہلے ہی ناظر صاحب اعلیٰ قادیان کو ہدایات دی جا چکی ہیں اور وہ طریق جو پہلے رائج تھے اگر سو فیصدی ان کی پیروی نہیں ہوسکتی تو نئے طریق سوچے جائیں.بہر حال جب تک یہ شدھی کی تحریک وہاں چلتی رہے گی اس کے دفاع کا جھنڈا انشاء اللہ تعالیٰ جماعت احمد یہ کے ہاتھ میں رہے گا.اس وقت تک کی اطلاعوں کے مطابق جو انتہا پرست ہندو مذہبی تحریکات اس تحریک کی سر براہی کر رہی ہیں ان کا اعلان یہ ہے کہ ہم چالیس ہزار راٹھ مسلمانوں کو دوبارہ ہندو بنا چکے ہیں اور حکومت نے اپنے ذرائع سے جائزہ لینے کے بعد دس ہزار کی تعداد تسلیم کی ہے.انتہائی خوفناک حالت ہے لیکن جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے یہ بات نظر انداز نہیں کرنی چاہئے کہ ہم پہلے ہی ایک شدھی کی تحریک کے خلاف نبرد آزما ہیں.23-1922 ء کے مقابل پر آج ہمیں دو شدھی کی تحریکوں کا مقابلہ کرنا ہے.ایک وہ تحریک جو ہندوؤں نے مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کی چلائی ہے اور ایک وہ تحریک جو پاکستان کے ملانوں نے مسلمانوں کو غیر مسلم بنانے کی چلائی ہے.دو ملکوں میں دو کبھی لڑائی ہمیں لڑنی ہے.ایک ملک میں انتہائی کامیابی کے ساتھ ہم اس جہاد میں پہلے ہی مصروف ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جب آپ ان دونوں تحریکات کے Features یعنی ان کے نقوش کا موازنہ کریں تو کئی لحاظ سے پاکستان میں چلائی جانے والی شدھی کی تحریک ہندوؤں کی چلائی جانے والی شدھی کی تحریک سے زیادہ ظالمانہ اور زیادہ خطرناک ہے.1923ء میں جوتحریک اپنے عروج کو پہنچی تھی اس تحریک میں مسلمانوں کو جب تک ہندو بنا نہیں لیا جاتا تھا اور وہ اقرار نہیں کرتے تھے کہ ہم ہندو ہو گئے اس وقت تک ان کی مسجدوں کی شکل نہیں بدلائی جاتی تھی ، ان سے ان کے مسلمان ہونے کے حقوق چھینے نہیں جاتے تھے، ان کی کتب مقدسہ کی بے حرمتی نہیں کی جاتی تھی.ان سے قرآن چھین چھین کر ان کو گلیوں میں نہیں پھینکا جاتا تھا ، ان کی مساجد مسمار نہیں کی جاتی تھیں ، ان کو اس حق سے
خطبات طاہر جلد۵ 565 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء محروم نہیں کیا جاتا تھا کہ وہ اللہ کا نام لیں اور خدا کی توحید کے گن گائیں ، ان کو زبر دستی آنحضرت علی کے انکار پر اس طرح مجبور نہیں کیا جاتا تھا کہ اگر انکار نہیں کرو گے تو تمہیں گلیوں میں گھسیٹا جائے گا اور مارا جائے گا اور قید خانوں میں پہنچایا جائے گا.پس پاکستان میں چلائی جانے والی وہابی علماء کی شدھی کی تحریک ان تمام نقوش میں، ان تمام تفاصیل میں ہندوؤں کی چلائی جانے والی اس تحریک سے بھی زیادہ بھیانک ہے اور آج کی چلائی جانے والی تحریک سے بھی زیادہ بھیا نک ہے.چنانچہ مردان میں ہونے والا جو واقعہ ہے وہ اس بات کا مظہر ہے کہ ہمیں پاکستان کی سرزمین میں کسی قسم کی شدھی کی تحریک کا مقابلہ کرنا ہے.مردان میں عید کے دن جب مردان کی عید کی نماز مرد، عورتیں اور بچے عید پڑھ کر فارغ ہوئے ہی تھے پیشتر اس کے کہ ان میں سے کوئی باہر جاتا پولیس اور وہابی مولوی اور ان کے شاگرد چیلے چانٹے قریباً دو تین سو کی تعداد میں مسجد پر حملہ آور ہوئے اور پولیس نے اندر داخل ہو کر پہلے تو یہ اعلان کیا کہ آپ کے چار ایسے رہنما ہیں یعنی جماعت میں سر کردہ دوست ایسے ہیں جن کو ہم گرفتار کریں گے.وہ سازش بڑی بھیانک تھی اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل کے ساتھ اس کے بعض ایسے حصوں کو پورا نہیں ہونے دیا جن کی تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں ہے.خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب ان کو قید کرنے کی کوشش کی گئی تو تمام موجود احمدی مردوں ، عورتوں اور بچوں نے یہ اصرار کیا کہ ان کو تم اگر قید کرو گے تو ہم سب کو ساتھ قید کر کے لے جانا پڑے گا ہم اکیلے نہیں جانے دیں گے.چنانچہ کوئٹہ میں جس غیرت کا مظاہرہ کیا تھا جماعت نے اسی قسم کی غیرت کا مظاہرہ مردان میں بھی کیا اور خود طوعی طور پر ساری کی ساری جماعت پولیس کی حراست میں پہنچ گئی اور حوالات میں داخل کر دی گئی.عورتیں بھی ، بچے بھی ، مرد بھی یہ سارے عید کے دن ، یہ ان کی عید منائی جارہی تھی اور اس کے بعد پولیس کے سمیت وہ ملاں جو حملہ آور ہوئے تھے پولیس کی معیت میں اور اسکی حفاظت میں انہوں نے پولیس سمیت مسجد کو منہدم کرنا شروع کیا.منہدم کرنے سے پہلے انہوں نے یہ دیکھ لیا کہ وہ قالین جو احمدیوں کی عبادتوں سے ناپاک ہوئے ہوئے ہیں ان کو تو بہر حال اپنی مسجدوں میں لے جا کر پاک کرنا چاہئے.وہ پنکھے جو ان کو ہوا دے دے کر گندے ہوئے ہوئے ہیں ان کو اپنی مساجد میں یا اپنے گھروں میں لگا کر مقدس بنانا چاہئے اور ہر قیمتی چیز جو مسجد میں موجود ہے اس کا گند دور کرنا چاہئے.چنانچہ انہوں نے یہ ساری چیزیں سمیٹیں اور جس کا داؤ چلا جو چیز
خطبات طاہر جلد۵ 566 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء ہاتھ میں آئی وہ لے کر اڑ گیا.یہاں تک کہ پیچھے صرف پولیس اور چند ملاں اور ان کے چیلے چانٹے مسجد مسمار کرنے کیلئے رہ گئے.ایک وقت میں ان کی تعداد میں رہ گئی تھی صرف اور باقی پولیس ساتھ تھی اور وہ پورے تعاون کے ساتھ پولیس نے مسلسل محنت کی ہے سارا دن مسجد گرانے میں.یہ شدھی کی تحریک اب دیکھ لیجئے اس تحریک سے کتنی زیادہ خوفناک اور بھیا نک اور ذلیل اور کمینی تحریک ہے.ہندوستان کی حکومت مسلمان حکومت نہیں ہے لیکن باوجود اس کیہندوستان کی حکومت اپنی پولیس کو یہ اجازت نہیں دے سکتی کہ مسلمانوں کے عبادت خانوں کو مسمار کرے اور زبر دستی ان کی چیزوں کو چوری کروانے میں ان کو مدد دے اور پولیس کے سائے تلے کھلم کھلا چوری اور ڈاکے کے واقعات ہوں اور سارے شہر کے دیکھتے میں یہ سارا واقعہ ہورہا ہے اور سارا دن ہوتا چلا گیا ہے.جب جماعت نے اس عرصہ میں بڑا وقت ملا، مختلف افسروں سے ملاقاتیں کیں ، حکومت صوبہ سرحد کے سیکریٹریٹ میں پہنچے، سیکریٹریوں سے ملاقات کیں، وزراء سے ملاقاتیں کیں ، گورنر سے ملے تو یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ صوبہ سرحد کی حکومت کو پتہ ہی نہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے.اور سب لوگ بات بتانے سے گھبراتے تھے کہ اصل واقعہ کیا ہے لیکن آپ جانتے ہیں کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بار بار بیان کیا ہے، ملا کا پیٹ بظاہر بھاری بھی ہو لیکن بات چھپانے میں بہت ہلکا ہے.خاص طور پر جو اس تحریک کے سرکردہ ہیں وہ فخر لینے کے لئے اور یہ بتانے کے لئے کہ ہم اس کارستانی میں اوّل اوّل تھے وہ بات چھپاتے نہیں اور بات نکل جاتی ہے.چنانچہ جستجو کے بعد جو حقیقت سامنے آئی وہ یہ تھی کہ صوبہ سرحد کی حکومت اس مؤقف میں حق بجانب تھی کہ ہمیں علم نہیں ہے.واقعہ ان کوعلم نہیں تھا.گزشتہ دنوں جب سیاسی حالات بگڑنے شروع ہوئے تو جماعت احمدیہ کے ایک ایسے دشمن کو جو اپنی سفلہ صفات میں معروف و مشہور ہے اور جو پہلے صدر صاحب کا مشیر تھا اسی بات کے لئے کہ جماعت احمدیہ کو کس طرح گزند پہنچایا جائے جب وہ الیکشن میں ناکام ہوگیا تو اسے Ambassador بنا کر باہر بھجوایا دیا گیا اور باوجود اسکے کہ ہر طرف سے احتجاج ہوئے بلکہ غیر ملکی اخباروں نے بھی اس بات پر تعجب کا اظہار کیا کہ وہ شخص جو بری طرح ذلت کے ساتھ اپنے علاقہ میں الیکشن جیتنے میں ناکام رہا ہو جبکہ اس کا سر پرست، اسکا سر براہ اسکو پوری تقویت دے رہا ہو.مارشل لاء نافذ ہوا ہو اور اس کی ساری طاقتیں اس کی مدد کر رہی ہوں.علماء کو کھلم کھلا اس بات کی حکومت کی
خطبات طاہر جلد۵ 567 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء طرف سے تحریک کی گئی ہو کہ آجاؤ اور اس کی مدد کرو.وہ نا کام ہونے کے بعد یہ رتبہ کیسے پا گیا ہے کہ وہ اس حکومت کی نمائندگی کرے کسی جگہ.اس شخص کو دوبارہ وزیر اعظم کا اس بات کے لئے مشیر بنا کر بلایا گیا کہ احمدیوں کے خلاف تحریک چلانے میں وہ انکو مشورے دے تا کہ جس قیمت پر بھی ہو سکے سیاسی رجحانات کو مذہبی رجحانات میں تبدیل کر کے مذہبی جنون میں تبدیل کر کے، احمدیوں کی طرف توجہ مرکوز کر وادی جائے.چنانچہ سب تحقیق کے بعد جو بات نکلی ہے وہ یہ ہے کہ براہ راست وز یر اعظم پاکستان اور ان کے مشیر کا یہ کارنامہ تھا کہ انہوں نے ڈی سی اور اے سی سے بغیر حکومت صوبہ سرحد کو بیچ میں شامل کئے رابطہ پیدا کیا اور ان کو یہ حکم دیا اور اسی وجہ سے وہ اس قدر شیر ہوئے تھے.جب پولیس کو یہ پتہ ہو کہ حکومت کا سربراہ یہ کہتا ہے کہ جاؤ اور ان کی مسجد میں مسمار کرو اور ان کے گھر لوٹو اور جو چاہو جا کر ان سے کرو تو ہمارے ملک کی جس قسم کی پولیس ہے وہ آپ جانتے ہی ہیں کہ ان کا کیا معیار ہے.تو مولوی اور پولیس دونوں میں مقابلہ تھا کہ کون زیادہ حکومت کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے خدا کے گھر کو برباد اور مسمار کرتا ہے.یہ بھی ایک تحریک ہے جو شدھی کی جس کا مقابلہ ہم بڑی کامیابی سے کر رہے ہیں.لیکن اگر ہندوستان کی حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اتنے خوفناک حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے جماعت اس طرح پھنس چکی ہے کہ وہ ہماری تحریک کو نظر انداز کر دے گی تو اس خواب و خیال کی دنیا سے باہر آجائیں.کسی قیمت پر بھی اسلام کے خلاف ہونے والے حملے کو جماعت احمدیہ ہرگز نظر انداز نہیں کرسکتی.کہیں بھی یہ حملہ ہوگا کہیں بھی اسلام کو بری آنکھ سے دیکھا جائے گا تو صف اول پر لڑنے کے لئے ہمیشہ جماعت احمدیہ کے خدام اور انصار اور ضرورت پڑی تو مستورات بھی سامنے آئیں گی.اس لئے میں ہندوستان میں شدھی کی تحریک کے خلاف جہاد کا ایک عام اعلان کر رہا ہوں.اور اس وقت ناظر صاحب اعلیٰ بھارت حسن اتفاق سے یہیں موجود ہیں اور ایڈیشنل ناظر صاحب امور عامہ بھی یہاں موجود ہیں اس لئے ان کو اب جلد سے جلد واپس چلے جانا چاہئے مجھ سے ہدایات لے کر اور بڑی تیزی کے ساتھ اتنا نمایاں خدمت کا کام کرنا چاہئے کہ دشمن کی زبان سے اسکی پکار ہم سنے لگیں.دشمن کے قلم سے ان واقعات کو پڑھنے لگیں اور اس کی گونج سارے بھارت میں سنائی دینے لگے.اس شدت کے ساتھ اس تحریک کے خلاف جماعت احمدیہ نے انشاء اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد۵ 568 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء مقابلہ کرنا ہے اور باقی ساری دنیا کی جماعتیں جس طرح دعاؤں کے ذریعہ پاکستانی جماعتوں کی مدد کر رہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے سہارے ان کو اپنی دعاؤں کے ذریعہ مہیا کرنے میں اپنی پوری سعی کر رہی ہیں اور ہم ان دعاؤں کے اثرات دیکھ بھی رہے ہیں.خدا کے فضل تو ویسے بھی نازل ہونے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ ایک عجیب خاص بندے سے پیار کا سلوک ہے کہ جب ان کاموں میں بھی جن کاموں میں خدا نے بہر حال یہ فیصلے کئے ہوتے ہیں کہ میں ان کو کر کے رہوں گا ان کاموں میں بھی بندہ کہتا ہے کہ اے اللہ ! میں بھی چاہتا ہوں کہ یہ ہو جائے تو وہ اور زیادہ شان کے ساتھ ان کا موں کو کرتا ہے یہ بتانے کے لئے کہ ہاں میں نے تیری آواز کو بھی سنا تیری کوشش کا بھی دخل ہو گیا ہے.جب آپ دھکیل رہے ہوتے ہیں کا رکو تو ایک کمزور اور نا تو ان آدمی اور لنگڑا بھی ہو بے چارہ وہ بھی اگر ہاتھ لگا دے تو لوگ یہ تو نہیں کہا کرتے کہ جاؤ بھا گو تمہاری ضرورت نہیں ہے.اگر شرافت ہو، اگر حیاء ہو تو کہتے ہیں ہاں ہاں ہم تمہیں جگہ دیتے ہیں آؤ تم بھی شامل ہو اور تحسین سے اسکو دیکھتے ہیں.اللہ تو سب شکر یہ ادا کرنے والوں سے زیادہ شکر یہ ادا کرنے والا ہے.ہر خدمت کرنے والے کو زیادہ احسان مندی کی نگاہ سے دیکھنے والا ہے.یہ حکمت ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمیں تاکید فرمائی کہ محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجا کرو.اب یہ ظاہری بات ہے کہ آنحضرت ﷺ پر رحمتیں اور شفقتیں فرمانے کے لئے اور فضل نازل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کو ہماری پکار کی کیا ضرورت تھی کہ تم دعائیں کرو گے تو میں بھیجوں گا اور نہ نہیں بھیجوں گا.وہ تو خدا نے بھیجنا ہی بھیجنا تھا اس پر رحمتوں اور فضلوں اور برکات کو.اس کثرت سے کہ جس کثرت سے خدا تعالیٰ کسی بندے پر فضل نازل فرما سکتا ہے، ان فضلوں نے بہر حال آنحضرت ﷺ پر نازل ہونا ہے.پھر یہ کیا حکمت ہوئی کہ تم بھی درود بھیجو اور خدا بھی بھیجتا ہے اور فرشتے بھی بھیجتے ہیں.اس کے بعد کی کیا ضرورت ہے بندوں کے درود بھیجنے کی؟ اور حکمتوں کے علاوہ ایک یہ بھی ہے تا کہ خدا آپ کی دعاؤں کو سنے ، آپ کے درود کو قبول فرمائے اور اور زیادہ فضل یہ کہہ کر نازل فرمائے کہ دیکھو میں نے تمہارا حصہ بھی ڈال لیا ہے.آنحضرت عملے کے یک طرفہ احسانات اتنے تھے تم پر کہ کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی تمہیں کہ کسی طرح بھی ان احسانات کو ادا کرنے کا تصور بھی باندھ سکو لیکن ہماری
خطبات طاہر جلد۵ 569 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء معرفت ، ہماری رحمت کے صدقے تمہیں یہ موقع مل گیا کہ کم سے کم احسان مندی کا اظہار تو کرو اور درود بھیجو.اور خدا فرماتا ہے میں اسے قبول کروں گا، میں فضلوں کو اور بھی بڑھاؤں گا.پس جب میں کہتا ہوں کہ بیرونی جماعتوں کی دعاؤں سے لازماً فائدہ پہنچ رہا ہے تو یہ مراد نہیں ہے کہ اگر یہ دعائیں نہ ہوتیں تو نعوذ باللہ پاکستان کی جماعت برباد ہو جاتی.وہ تو خدا کا وعدہ ہے، قول ایسا ہے جو کسی قیمت پر بدل نہیں سکتا ممکن نہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو خواہ کسی ملک میں کوئی ابتلا پیش آئے اور خدا اسے چھوڑ دے.اس لئے پاکستان کی جماعت نے بہر حال برومند اور فتح مند ہونا ہے.ہاں آپ کی دعائیں ان کو پھر بھی لگتی ہیں اور ان دعاؤں کے نتیجہ میں مزید فضل ان پر نازل ہوتے ہیں.پس ہندوستان کی جماعت کے لئے بھی اس عظیم دور میں جس جہاد کے دور میں داخل ہونے لگی ہے آپ کثرت سے دعائیں کریں اور یہ دعا کریں کہ اے خدا! پہلے بھی ہم کمزور تھے بظاہر آج کے مقابل پر طاقتور تو تھے مگر دشمن کے مقابل پر اتنے کمزور تھے کہ اگر تیر افضل اس وقت بھی نہ ہوتا تو تب بھی ہم لا زمانا کام ہو جاتے.تو تیرے فضل کے مقابل پر یہ کمزوری اور طاقتوں کی نسبتیں کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتیں.آج بھی ہم کمزور ہی ہیں.یہ تو انسان دیکھ رہا ہے کہ اس کی نسبت پہلے سے زیادہ کمزور ہیں مگر جہاں تک تیرے حصہ کی شمولیت کا تعلق ہے تیری مددکا، تیری نصرت کا حصہ جب شامل ہو جائے تو پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کتنا کمزور تھا اور کتنا طاقتور تھا.وہ ہر کمی کو پورا کرنے والا حصہ بن جاتا ہے اور غلبے کی یقینی خوشخبری لے کر آتا ہے.اس لئے میں ہندوستان کی جماعتوں کو یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ ہر گز خوف نہ کھائیں، ہرگز اپنی کمزوری پر نظر نہ رکھیں.وہ قادر اور قدیر اور توانا خدا جس نے پہلے جماعت احمدیہ کے اس جہاد میں مدد فرمائی تھی آج بھی وہ مددفرمائے گا اور یقیناً آپ ہی فتح مند ثابت ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ.جائیں اور اس میدان میں سب کچھ جھونک دیں اور اسلام کا دفاع کریں کیونکہ جماعت احمدیہ کا قیام اسی غرض سے ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: حسب سابق آج بھی کچھ دوستوں کی اور کچھ خواتین کی نماز جنازہ غائب ہوگی جمعہ کے بعد اس سلسلہ میں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ پرائیویٹ سیکریٹری صاحب نے فرض سمجھ لیا ہے کہ ہر نماز جنازہ
خطبات طاہر جلد۵ 570 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء غائب جمعہ کے دن ہی ہو.چھ دن اور بھی تو پڑے ہوتے ہیں اوراگر یہ خیال ہو کہ دوستوں کی خواہش ہے زیادہ افراد نماز جنازہ پڑھیں تو اکثر صورتوں میں تو جتنے ہم یہاں پڑھ رہے ہیں ان سے زیادہ وہاں پڑھ چکے ہوتے ہیں.اصل مقصد نماز جنازہ غائب کا یہاں ان دنوں کے حالات میں ہے کہ خلیفہ وقت نماز جنازہ پڑھے اور اس کے ساتھ بہت زیادہ ہوں یا چند ہوں یہ کوئی ایسی اہمیت کی بات نہیں ہے.ان لوگوں کی دلی تمنا پوری ہو جاتی ہے کہ خلیفہ وقت نے ان کی یا ان کے عزیزوں کی نماز جنازہ پڑھائی ہے.تو جمعہ پر اس کو مسلسل پیش نہیں کرنا چاہئے.اس سے پھر بعض بد عادتیں بھی پیدا ہوسکتی ہیں، مثلاً ریا کاری بھی داخل ہوسکتی ہے.بعض لوگوں کے عزیزوں کا نام جب جمعہ کے دن پڑھا جاتا ہے کہ ان کے فلاں کی نماز جنازہ غائب ہوئی تو اس سے ایک نفسانیت کا کیڑا بیچ میں کلبلانے بھی لگتا ہے بعض دفعہ.وہ سنتے ہیں اور اس بات کا مزہ لیتے ہیں کہ ہمارا نام مشتہر ہوا کیسٹوں میں اور ساری دنیا میں وہ نام سنا گیا.اور بعید نہیں کہ اگر اسی طرح جاری رہا تو بعض دلوں میں صرف اسی وجہ سے یہ خیال پیدا ہو یعنی تقویٰ کی بجائے دکھاوے کی خاطر کہ ہمارا نام بھی آئے کہ فلاں شخص کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور ہم اس کے عزیز تھے ، یہ تھے ، وہ تھے.تو ہر نیکی کے ساتھ بعض خطرات بھی لاحق ہوتے ہیں اسے اگر آپ آنکھیں بند کر کے دوام دے دیں تو اس سے نقصانات کا خطرہ ہوتا ہے.اس لئے ان باتوں کو بعض دفعہ بدل دینا چاہئے.یعنی بعض اگر دوسرے خطرات نہ بھی ہوں تب بھی بعض سنت حسنہ بھی حضرت رسول اکرم علی وقتی طور پر ترک فرما دیا کرتے تھے کہ بوجھ نہ بن جائے دوسروں کے لئے.مثلاً تہجد کی نماز با قاعدہ باجماعت پڑھاتے پڑھاتے آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اب نہیں پڑھاؤں گا کیونکہ اس طرح سے عادت پڑ جائے گی لوگوں کو اور بوجھ بن جائے گا.تو بوجھ بھی بن جاتا ہے بعض دفعہ ہر دفعہ نماز جنازہ جمعہ ہی کو ہورہی ہے.اس لئے آئندہ سے یہ طریق رکھیں کہ جب بھی نماز جنازہ کی درخواست موصول ہو جو بھی دن ہے اس دن نماز جنازہ ہونی چاہئے.ان کو اطلاع ہو جانی چاہئے ، اخبار میں چھپ جایا کرے زیادہ سے زیادہ یہی ہے کہ دعا کی تحریک اس طرح ہو جائے گی.اور اگر کوئی ایسا غیر معمولی معاملہ ہے جسے خلیفہ وقت خود سمجھے کہ یہ ایسی قربانی والے وجود تھے، ایسے دیرینہ خدمت کرنے والے تھے کہ ان کا جمعہ میں ذکر ضروری ہے تو وہ خود فیصلہ کرے گا.اس لئے پرائیویٹ
خطبات طاہر جلد۵ 571 خطبه جمعه ۲۲ را گست ۱۹۸۶ء سیکریٹری صاحب تو جب بھی آیا کرے درخواست تو اس وقت پیش کر دیا کریں.اس تمہید کے بعد اب جو آچکے ہیں ان کی نماز جنازہ تو بہر حال آج پڑھائی جائے گی.سید عابد حسین صاحب گیلانی پسر سید منظور حسین شاہ صاحب جھنگ موٹر سائیکل کے حادثہ میں وفات پائی، مکرمہ صفیہ سلطانہ صاحبہ اہلیہ ملک عبدالقادر صاحب لاہور، مکرم عبدالرشید نیاز صاحب در ولیش قادیان ، مکرم ڈاکٹر عبدالغفور خان صاحب کڑک ، مکرم محمد سلطان صاحب ابن محمد رمضان صاحب خادم مرحوم ربوہ بس سٹاپ پرایکسیڈنٹ میں وفات پا گئے ،مکرم ڈاکٹر مرزا آدم علی بیگ صاحب نیا گڑھ اور پیسہ انڈیا ، مکرمہ حاکم بی بی صاحبہ مکرم داؤ د حنیف صاحب مبلغ سلسله گیمبیا کی دادی تھیں.ان سب کی نماز جنازہ جمعہ کے معابعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 573 خطبه جمعه ۲۹ را گست ۱۹۸۶ء تلقین بیت الذکر مردان کے انہدام کے حالات اور صبر کی تلخ احمدیت نے ضرور غالب آنا ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ را گست ۱۹۸۶ء بمقام بیت النور اوسلو، ناروے) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے مردان میں ہونے والے ایک نہایت ہی دردناک واقعہ کا ذکر کیا تھا کہ کس طرح بعض مسلمان کہلانے والے جنونی ملانوں نے حکومت کی سرپرستی میں، حکومت کے نمائندوں ،ان کے افسران ان کی پولیس کے ساتھ مل کر اور ان کی حفاظت میں ،مسجد احمد یہ مردان کو مسمار کرنا شروع کیا اور جتنے بھی نمازی وہاں اس سے پہلے نماز پڑھ رہے تھے یعنی عید کی نماز ان سب کو پولیس نے اپنی حراست میں لے کر اور ویگن بھر بھر کے حوالات میں داخل کرنا شروع کیا اور جب مسجد خالی ہوگئی ، جب ملانوں کو کوئی خوف نہیں رہا کہ اندر سے کسی قسم کی جوابی کارروائی ہوگی تو پھر انہوں نے نعرہ ہائے تکبیر بلند کر کے مسجد پر ہلہ بول دیا.یہ ان کا ایمان ہے، یہ ان کے تصور کی اڑان ہے.اور اب جو تفصیلات وہاں سے معلوم ہوئی ہیں حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر کہ ہر دفعہ جب وہ مسجد پر ہلہ بولتے تھے اور اسے مسمار کرتے تھے تو نعرہ ہائے تکبیر بھی بلند کرتے تھے اور لبیک اللھم لبیک کہتے تھے کہ اے اللہ ! ہم تیری آواز پر لبیک کہتے ہوئے تیری عبادت گاہوں کو مسمار کر رہے ہیں.وہ کونسا اللہ ہے جس کو مخاطب کر کے وہ کہتے تھے اللھم لبیک.وہ محمد مصطفی ﷺ کا اللہ تو نہیں جو غیروں کی عبادت گاہوں کی بھی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے، وہ خدا جو عیسائیوں کے معبد کی حفاظت کی
خطبات طاہر جلد۵ 574 خطبه جمعه ۲۹/ اگست ۱۹۸۶ء بھی تعلیم دیتا ہے ، وہ خدا جس نے تمام دنیا کے معابد کی حفاظت کی تعلیم دی بلکہ مسلمانوں کو ان کا ذمہ دار ٹھہرایا ، اس خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے یہ خدائے واحد کی توحید کے لئے ، خالصتہ اس کی عبادت کے لئے قائم کی گئی مسجد کو شہید کر رہے تھے.اور حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ سب لوگ جن کو پولیس نے پکڑا ان پر فردجرم یہ عائد کی گئی کہ فلاں شخص نے اذان کہی اور فلاں شخص نے اس کے بعد با قاعدہ نماز پڑھی ، اتنا بڑا جرم ادا کیا ہے اور مربی کے متعلق لکھا گیا کہ حد یہ ہے کہ نماز کے بعد اس نے درس بھی دیا قرآن شریف کا اور ایک شخص کے او پر مقدمہ درج ہے کہ اس کے پاس سے بسم اللہ برآمد ہوئی.یعنی افیون برآمد کر رہی ہے ساری قوم اور افیون درآمد کر رہی ہے ایک ملک سے یہ درآمد کرتی ہے اور ایک ملک کو یہ برآمد کرتی ہے.دنیا جہان کے گند پھیل چکے ہیں ، سوسائٹی کراہ رہی ہے دکھوں سے ، بددیانتی عام ہو گئی ہے، فساد ہر طرف پھیل گیا ہے، ڈاکو اتنے کہ آئے دن جو فساد کی خبر میں ملتی ہیں حکومت بڑے فخر سے اعلان کرتی ہے کہ نہیں یہ ہمارے خلاف کوئی تحریک نہیں ہے ملک ڈاکوؤں سے بھر گیا ہے.یعنی سارے سندھ میں جتنے فساد ہو رہے ہیں حکومت کے نزدیک یہ ڈا کے پڑ رہے ہیں اور یہ ڈاکوؤں کی وجہ سے ہو رہا ہے سب کچھ.اس کی کوئی فکر نہیں ہے.بددیانتی سے عدالتیں بھر گئیں.تمام محکمے ذلیل و خوار ہو گئے.جگہ جگہ غریب عوام الناس دکھوں میں مصیبتوں میں مبتلا ہیں، رشوت کے بغیر کوئی کام نہیں چل رہا، یہ سارے جرائم جو کثرت سے ملک میں پھیلتے چلے جارہے ہیں جس کے نتیجہ میں قوم کا انگ انگ دکھ رہا ہے.ان سب جرائم کی اسلام کو کوئی بھی پرواہ نہیں ہے یعنی ان ملانوں کے اسلام کو.صرف ملانوں کے اسلام کو خطرہ یہ ہے کہ فلاں شخص سے بسم اللہ نہ برآمد ہو جائے ، فلاں شخص عبادت نہ کرنی شروع کر دے اور عبادت کے بعد قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے کوئی.یہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بھیانک جرائم کی وہاں سے یہ اطلاع ملی ہے کہ ان لوگوں نے جنہوں نے اسلام کے نام پر مسجد کو شہید کرنا شروع کیا.مسجد احمدیہ سے جتنے قرآن کریم نکلے ان کو پھاڑ کر وہاں گندی نالیوں میں پھینکا ، ان کو پاؤں تلے کچلا اور بعض بد بختوں نے اس پر پیشاب کیا اور ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہورہے تھے اور ساتھ یہ اللھم لبیک اللھم لبیک کہا جار ہا تھا.اس
خطبات طاہر جلد ۵ 575 خطبه جمعه ۲۹ /اگست ۱۹۸۶ء سے بڑی بد بختی کبھی کسی قوم کے ماتھے پر نہیں لکھی گئی تھی جتنی آج کے بد بخت صدر اور اس کے ملانوں کے ماتھوں پر یہ کلنک کے ٹیکے لگائے گئے ہیں.اپنے ہاتھوں سے انہوں نے ہمیشہ کے لئے اپنے آپ کو ذلیل و خوار کر لیا ہے.قیامت تک تاریخ بھی ان پر لعنت ڈالے گی اور آسمان کے فرشتے بھی ان پر لعنت ڈالتے چلے جائیں گے.یہ اسلام کا حال کرنے کے لئے ایک فوجی استبداد کی حکومت اٹھی تھی جس نے آج قوم کو اس طرح ہلاکت کے کنارے تک پہنچا دیا ہے.اور مردان کے کسی غیور پٹھان کو غیرت نہیں آئی کہ یہ ہو کیا رہا ہے.وہ احمدی جو حراست میں تھے اگر ان میں سے کوئی ہوتا تو وہ اپنی جان کی بازی لگا دیتا ، وہ خون کا آخری قطرہ بہا دیتا مگر یہ ذلت قرآن کریم کی برداشت نہ کر سکتا تھا لیکن سارا شہر آباد تھا غیور پٹھانوں سے اور کسی کو غیرت نہیں آئی.کسی کو خیال نہیں آیا کہ ان لوگوں کو جا کر پکڑیں پوری طرح باز پرس کریں ان سے.ہر قیمت پر ان کو اس بے حیائی سے روکیں کہ اسلام کے نام پر اسلام کی سب سے مقدس کتاب بلکہ کائنات میں جتنی بھی کتابیں نازل ہوئیں ان سب کی سرتاج، ان سب سے زیادہ مقدس کتاب کی ایسی بے حیائی کے ساتھ مسلمان بے عزتی اور رسوائی کر رہے ہوں اور کسی کو کچھ خیال نہ آرہا ہو.صرف اس لئے کہ جماعت احمدیہ کی مساجد میں وہ قرآن کریم ملتا تھا اس لئے اس قرآن کریم کی کوئی عظمت اور کوئی حرمت باقی نہیں رہی انکے نزدیک.میں نے ذکر کیا تھا گزشتہ مرتبہ کہ یہ سب کچھ ایک طرف جہاں اسلام کے نام پر ہو رہا ہے اور تحریک کا آخری مقصد یہ ہے کہ زبر دستی مسلمانوں کو غیر مسلم بنا کے چھوڑیں گے.جب تک ہم یہ نہ کرلیں چالیس لاکھ مسلمان کلمہ گو کلمہ سے تو بہ نہ کر لیں ، خدا کی توحید کا انکار نہ کر لیں ، حضرت محمد مصطفیٰ کی تکذیب نہ کریں اس وقت تک ان کے دل کو چین نہیں آئے گا ، اس وقت تک ان کے سینے ٹھنڈے نہیں ہوں گے اور اگر نہیں کریں گے تو وہ ان کے گھروں کو آگیں لگائیں گے، ان کی مساجد مسمار کریں گے ، ان کو قید خانوں میں ڈالیں گے، ان پر جھوٹے قتل کے مقدمے چلا ئیں گے.جو کچھ ان سے بن سکا بنا ئیں گے لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ چالیس لاکھ مسلمان آنحضرت ﷺ کا کلمہ پڑھ رہے ہوں اور خدا تعالیٰ کی وحدت کے گیت گا رہے ہوں.میں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ یہی کچھ ہندوستان میں بھی ہو رہا ہے اور ہندوستان
خطبات طاہر جلد۵ 576 خطبه جمعه ۲۹ را گست ۱۹۸۶ء میں ان باتوں سے بڑی شہ ملی ہے اور پہلے جب مسلمان ممالک احتجاج کیا کرتے تھے تو اس احتجاج کی کچھ قیمت ہوا کرتی تھی ہندوستان کے نزدیک.اب ان ملانوں نے احتجاج کے رستے بھی بند کر دیئے ہیں.شدھی کی تحریک جو چل رہی ہے بڑے زور سے آج کل ہندوستان میں چالیس ہزار مسلمانوں کو وہ دوبارہ ہندو بنا چکے ہیں.اس لئے کہ کسی زمانہ میں ان کے آباؤ اجداد ہندوؤں میں سے مسلمان ہوئے تھے.اس تحریک کے نتیجہ میں مولوی کے کان میں جوں بھی نہیں رینگ رہی.اس تحریک کے نتیجہ میں اگر مسلمان ممالک آج احتجاج کریں تو ہندوستان ان کو جواب دے سکتا ہے کہ پاکستان جو دنیا میں اسلام کی سب سے بڑی عظیم الشان مملکت ہے اس میں کیا ہورہا ہے.اس میں بھی تو زبر دستی مسلمانوں کو غیر مسلم بنایا جارہا ہے اگر ہم یہ کرتے ہیں تو ہم نے کونسا جرم کر لیا.اس کا جواب یہ دے سکتے ہیں کہ نہیں ، اس میں فرق ہے.ہم ان کو غیر مسلم بنارہے ہیں جن کو ہم غیر مسلم سمجھتے ہیں وہ اپنے منہ سے اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ہمارے نزدیک اس اقرار کی کوئی قیمت نہیں ہے ہم ان کو سمجھتے ہی غیر مسلم ہیں اس لئے ہم زبر دستی ان کو بنارہے ہیں.ہندوستان کی حکومت بھی یہی کہ سکتی ہے کہ ہاں ہم بھی تو یہی کر رہے ہیں.اپنے منہ سے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں ہم ان کو ہند و سمجھتے ہیں اس لئے ہم زبردستی جب تک ان کو وہ نہ بنالیں جو ہم سمجھتے ہیں اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے.اب بتائیے ان دونوں باتوں میں فرق کون سارہ گیا.ایک ادنیٰ ایک ذرہ کا فرق بھی باقی نہیں رہا.دونوں جگہ حکومتوں کا یہی دعویٰ ہے کہ یہ اپنے آپ کو فلاں سمجھتے ہیں ہم ان کو یہ نہیں سمجھتے ، جب تک وہ نہ بن جائیں جو ہم سمجھتے ہیں ہم ان کو نہیں چھوڑیں گے.پس پاکستان کے ملاں اور پاکستان کی حکومت بھی احمدیوں کو اس بہانے زبر دستی غیر مسلم بنا رہی ہے کہ ہم ان کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اس لئے غیر مسلم بن کے دکھائیں ورنہ ہم ان کو آرام سے نہیں رہنے دیں گے.ہندوستان کی حکومت بھی یہی کہہ سکتی ہے لیکن ایک فرق ہے.ہندوستان کی حکومت میں کچھ شرافت اور حیا زیادہ ہے.ہندوستان کی حکومت براہ راست اس میں ملوث نہیں ہو رہی، ہندوستان کی حکومت اپنی پولیس کو کھلے بندوں اس میں ملوث نہیں ہونے دیتی.وہاں کے جوسر پھرے انتہا پرست ہندور ہنما ہیں بعض آریہ سماج کے لیڈر یا بعض دوسری انتہا پسند ہندو جماعتوں کے لیڈروہ یہ کر رہے ہیں لیکن جہاں تک حکومت کا تعلق ہے ان واقعات سے آنکھیں بند تو کر رہی ہے لیکن کھلے
خطبات طاہر جلد۵ 577 خطبه جمعه ۲۹/اگست ۱۹۸۶ء بندوں فخر کے ساتھ اس میں شامل نہیں ہورہی لیکن پاکستان کی موجودہ حکومت کی بدقسمتی ہے کہ بڑے فخر کے ساتھ اعلان ہو رہے ہیں.وزیر مذہبی امور یہ اعلان کر رہے ہیں خاص مشیر وزیراعظم کے با قاعدہ ڈسی سی کو حکم دے رہے ہیں، ٹیلیفون پر اسلام آباد سے رابطہ ہے کہ ان کو اور مارواور تنگ کرو.جو آخری خبریں آئی ہیں ان کے مطابق گیارہ آدمی جو ابھی تک ان ”جرموں میں قید ہیں براہ راست بسم اللہ پڑھنے کے جرم میں یا کلمہ پڑھنے کے جرم میں یا قرآن کریم پڑھنے کے جرم میں.ان جرائم کو حکومت اتنی بھیا نک نظر سے دیکھ رہی ہے کہ ایک وکیل نے جب ان سے ملنے کی کوشش کی تو یہ کہ کر پہلے انکار کر دیا گیا کہ یہ قیدی اتنے سنگین جرائم کی پاداش میں قید ہوئے ہیں کہ ہم ان کو وکیل سے ملنے کی بھی اجازت نہیں دے سکتے.وہ چونکہ انگلستان کے پڑھے ہوئے ایڈووکیٹ تھے انہوں نے شور مچایا انہوں نے کہا کہ تم مجھے قانون سکھا رہے ہو کون سے جرائم ہیں یہ ؟ بسم اللہ پڑھنے کے جرم میں ، قرآن کریم پڑھنے کے جرم میں، میں اپنا حق لے کر چھوڑوں گا اور یہ میرا حق ہے قانونی.میں ان کا وکیل ہوں اس لئے میں ان سے ملوں گا.چنانچہ بہت لمبے احتجاج کے بعد ان کو ملنے کی اجازت دی گئی اور ان کی اطلاع کے مطابق ان کے ساتھ یہ سلوک ہو رہا ہے کہ روزانہ صبح ان کو چھ اور پانچ گیارہ آدمیوں کو پھانسی کی تنگ کو ٹھڑی میں قید کیا جاتا ہے شدید گرمی میں اور رات کو نو بجے وہاں سے ان کو نکالا جاتا ہے اور حکومت کا حکم یہ ہے ان جیلروں کو کہ اس عرصہ میں جتنی اذیتیں دے سکتے ہو ان کو دو کیونکہ ”جرم“ بہت بڑا بھیا نک ہے.یہ حالات ہیں اس ملک کے جہاں یہ ساری باتیں عام ہیں.یعنی اس میں کوئی راز کی بات نہیں ہے، اخباروں میں چھپتی ہیں فخر کے ساتھ ان کے وزیران باتوں کو بیان کرتے ہیں اور جب احمدی ان باتوں کو دوسرے ملکوں میں پہنچاتے ہیں یا آگے ان کی تشہیر کرتے ہیں تو اس کے بعد یہ خبریں بھی چھپتی ہیں کہ دیکھو کتنے بڑے ملک دشمن ہیں یہ لوگ، کتنا خطر ناک پاکستان کے خلاف پرو پیگنڈا کر رہے ہیں.پروپیگینڈ اوہ کر رہے ہیں جن کو فخر کے ساتھ اپنے اخباروں میں چھاپتے ہو اور جب اخباروں میں چھپی ہوئی خبروں کو احمدی با ہر پہنچاتا ہے تو کہتے ہیں یہ ملک کے دشمن ہیں، ملک کے خلاف سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور نہایت گندا اور بھیا نک پرو پیگنڈا کر رہے ہیں، یعنی وہ فعل جو اپنی ذات میں جرم نہ ہو، وہ فعل جو اپنی ذات میں بھیا نک نہ کہلائے اس کا ذکر باہر اس فعل کو
خطبات طاہر جلد۵ 578 خطبه جمعه ۲۹/اگست ۱۹۸۶ء بھیانک اور گندا بنا دیتا ہے.حماقت کی بھی حد ہونی چاہئے کوئی.یہ تو ویسی ہی بات ہے جیسے کسی بچی کے متعلق بتایا گیا کہ اس نے روزہ رکھا پہلی دفعہ.اس کو روزے کے آداب کا پتہ نہیں تھا چنانچہ وہ چھپ کر کھانا کھا رہی تھی کسی دوسرے بچے نے اس کو دیکھ لیا تو بڑی ناراض ہوئی کہ تم نے دیکھ کر میرا روزہ توڑ دیا ہے.وہ یہ بجھتی تھی کہ جو کھانا چھپ کر کھایا جائے روزہ کے دوران اس سے تو روزہ نہیں ٹوتا ، اگر کوئی دیکھ لے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے.حکومت پاکستان اور ان ملانوں کا اس وقت یہی حال ہے.وہ کہتے ہیں جو چاہیں بدکرداری کریں ، جو چاہیں بھیانک مظالم کریں انسانیت پر، اگر باہر کے ملکوں کو نہ پتہ لگے تو کوئی جرم نہیں.اگر با ہر خبر چلی گئی تو پھر یہ جرم بن جاتا ہے.ہمیں کہتے ہیں کہ تم نے جرم بنا دیا ہے ہمارا، ہم تو اچھے بھلے معصوم بیٹھے تھے.ملک کے اندر یہ حرکتیں کر رہے تھے.تم نے ان کی خبریں باہر پہنچائیں اور ہمیں مجرم بنا کے دنیا کو دکھا دیا اس کی بھی ہم تمہیں سزا دیں گے.چنانچہ اخباروں میں یہ خبریں چھپی ہوئی ہیں میرا نام لکھ کر کہ وہ چونکہ وہ باتیں باہر بتا رہا ہے جو تم ملک کے اندر کر رہے ہو.اس لئے اسے بلایا جائے اور سر عام پھانسی دی جائے.اتنا بڑا ملک دشمن ہے کہ جو کچھ تم کرتے ہو اور جو کچھ ہمارے اخباروں میں چھپتا ہے ان کا ذکر باہر کر رہا ہے.یہ ایک نیا دستور بن گیا ہے.کوئی کل اس ملک کی اس وقت سیدھی نہیں رہی.ان سب حالات کو دیکھ کر ایک احمدی کا دل دکھتا ہے، اس سے جو دعائیں نکلتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس کا ثمرہ بھی پارہے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہورہے ہیں اور جماعت ہر روز ترقی کر رہی ہے، ہر رات ترقی کر رہی ہے.ایک لمحہ بھی جماعت کا ایسا نہیں آتا جس میں جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کے بے شمار فضل نازل نہ ہوئے ہوں.اور جتنے فضل نازل ہوتے ہیں اتنی ہی زیادہ وہاں تکلیف بڑھتی چلی جارہی ہے.چنانچہ در حقیقت مسجدوں پر حملے کی جو بھیانک سازش ہے.وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضلوں پر غیظ کھانے کی ایک مثال ہے.گزشتہ جلسہ پر میں نے جماعت کو مطلع کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل.اس ایک سال کے اندر دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کو دوسونئی مساجد بنانے کی توفیق ملی ہے اور اس خبر کو پاکستان کے اخباروں میں شہ سرخیوں کے ساتھ اس طرح شائع کیا گیا کہ ظلم کی حد ہے، اندھیر نگری
خطبات طاہر جلد ۵ 579 خطبه جمعه ۲۹ / اگست ۱۹۸۶ء ہے کہ جماعت احمدیہ نے دو سو مسجدیں بنالیں ہیں ایک سال کے اندر اندر.اس لئے انتقام ان کا لینا ہے اس طریق پر کہ ان کی مسجد میں منہدم کرتے چلے جاؤ ، ان کی مسجد میں مسمار کر دیا ان سے چھین لو.چنانچہ ہم پر طیش نہیں خدا کے فضلوں پر طیش کھا رہے ہیں.ہم پر غصہ نہیں خدا کے رحمتوں پر غصہ ہے کیوں نازل کر رہا ہے خدا اپنے بعض بندوں پر رحمتیں.اس کے نتیجہ میں ایک طبعی جوش ہے جو ان کے دلوں میں پیدا ہوتا چلا جا رہا ہے اور اپنی بد بختیوں میں بڑھتے چلے جا رہے ہیں.اس لئے اب معاملہ در حقیقت وہاں تک جا پہنچا ہے جہاں ہمارے لئے صبر اور انتظار کے سولا اب کچھ بھی باقی نہیں رہا.جب ایک قوم خدا کے فضلوں پر طیش کھانے لگتی ہے.خدا کی رحمتوں کے مقابل پر نکلتی ہے اور یہ چیلنج کرتی ہے خدا تعالیٰ کو کہ تو کون ہوتا ہے فضل کرنے والا ، ہم تیرے فضلوں کو نا کام اور نا مراد بنا کے دکھائیں گے تو ان کو مسجدیں عطا کرنے والا کون ہوتا ہے؟ ہم ان کی مسجد میں مسمار کر کے دکھائیں گے.اب تو مقابلہ خدا اور ان بندوں کے درمیان ہے.جو بندے کہلاتے ہیں مگر بندگی کے کوئی آداب ان کو میسر نہیں.بندے کہلاتے ہیں خدا کے لیکن طاغوت کو مخاطب کر کے اللھم لبیک کہنے والے لوگ ہیں.وہ سارے کردار وہی ہیں جو خدا کے دشمنوں کے ہمیشہ سے کردار چلے آرہے ہیں.اس لئے اب ہمارا کام تو جس طرح پہلے بھی یہی تھا کہ صبر کریں.اب اس سے بھی زیادہ میں آپ کو صبر کی تلقین کرتا ہوں کہ ہمارا کام صبر ہے اور دعا ہے اور خدا تعالیٰ پر اس معاملہ کو چھوڑ دینا ہے.آنحضرت ﷺ کو بھی جب انتہا سے زیادہ دکھ دیئے گئے تو خدا نے آپ کو بھی یہی تلقین فرمائی تھی کہ اے محمد! عہ تو اس طرح صبر کر جس طرح تجھ سے پہلے اولوا العزم انبیاء صبر کیا کرتے تھے.میں جب اس آیت کو پڑھتا ہوں تو مجھے ایک پہلو سے بڑا تعجب ہوتا ہے کہ آنحضرت علی تو سب اولوا العزم سے بڑھ کر اولوا العزم تھے ، آپ سے تو دوسرے انبیاء عزم کے گر سیکھتے تو تب بھی ان کے لئے زیبا یہی تھا.ہر خلق میں ، ہر دوسرے نبی سے آپ اتنا آگے قدم بڑھا گئے تھے کہ آپ کے سامنے زانوئے ادب تہ کرتا یا زانوئے تلمذ تہ کرتا تو یہ اس نبی کے لئے عزت کا موجب تھا، اس کے لئے بے ادبی کا موجب نہیں تھا.پھر آپ کو مخاطب کر کے یہ کیوں فرمایا گیا فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ (الاحقاف :۳۵) صبر
خطبات طاہر جلد۵ 580 خطبه جمعه ۲۹/اگست ۱۹۸۶ء کر اس طرح جس طرح انبیاء میں سے اولوالعزم نے پہلے صبر کیا تھا.غور کے بعد میں اس کا صرف یہی مطلب سمجھا کہ یہ ایک محض پیارا اور محبت اور تسلی کا ایک طریق تھا اس سے زیادہ اس کے کوئی معنی نہیں.آنحضرت عہ کو یہ نہیں بتانا تھا کہ تو پچھلے نبیوں سے صبر کے سبق سیکھ کیونکہ آنحضرت ﷺ کسی نبی سے ﷺ کوئی سبق نہیں سیکھ سکتے تھے.آپ سکھانے والے تھے، آپ پاکیزہ لوگوں کو بھی پاکیزہ بنانے آئے تھے، متقیوں کو مزید تقویٰ سکھانے کے لئے آئے تھے.تمام انبیاء کے تمام خلق جوا جماعی طور پر سارے انبیا میں تھے آنحضرت ﷺ کی ذات میں اکیلے میں وہ سارے خلق جمع تھے اور ہر خلق اپنی ہرشان میں پہلے انبیاء کے خلق سے بڑھ کر تھا.یہ ہما را دعوی ہی نہیں بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ ہم مقابلہ ہر نبی کے اعلیٰ ترین خلق کو لے کر آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے سامنے رکھ کر یہ ثابت کر سکتے ہیں.اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ اس آیت کا یہ مطلب تو بہر حال نہیں لیا جا سکتا کہ اے محمد ! تو گزشتہ انبیاء سے صبر کے گر سیکھ ، تو پھر اس کا مطلب سوائے اس کے کچھ نہیں رہتا جس طرح پیار سے کوئی کسی سے کہے کہ تم اس بات میں اکیلے نہیں ہو، پہلے بھیم سے لوگ گزرے ہیں اور تم سے تو زیادہ توقع ہے تم تو آگے بڑھنے والوں میں سے ہو.یا درکھو تم سے پہلے بھی نبی گزرے تھے جو اولوا العزم تھے، ان کی طرح صبر کرو یعنی صبر میں ان سے آگے بڑھ کر دکھاؤ، اولوالعزمی میں ان سے آگے قدم رکھو.یہ تحریض تھی اور یہ بتانا مقصود تھا کہ تم اکیلے نہیں ہو اس میدان میں، پہلے بھی گزر چکے ہیں اور چونکہ تم ہر میدان میں آگے بڑھنے کے لئے پیدا کئے گئے ہو اس لئے تمہارا فرض ہے کہ ہر صبر کے ادا میں پہلے نبیوں سے آگے بڑھ جاؤ اور عزم میں بھی آگے بڑھ جاؤ.یہ مضمون صرف ہماری محبت اور عشق کے نتیجہ میں نہیں پیدا ہوتا بلکہ قرآن کریم سے قطعی ثبوت ملتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو ہر حلق میں پہلوں سے آگے بڑھنے کی خاطر پیدا کیا گیا تھا اور آپ کی امت کو بھی اسی لئے پیدا کیا گیا تھا کہ ہر خلق میں پہلی امتوں سے آگے بڑھ جائے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ ( آل عمران:۱).اے محمد مصطفی ﷺ کی امت ! تم تمام امتوں میں سے سب سے بہتر امت ہو، تم سے بہتر کبھی کوئی امت پیدا نہیں ہوئی.پھر فرمایا.وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلَّيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ (البقرہ: ۱۴۹) ہر قوم کے لئے ہم
خطبات طاہر جلد۵ 581 خطبه جمعه ۲۹ / اگست ۱۹۸۶ء نے ایک نصب العین مقررفرمایا ہے اور اے محمد مصطفے کے غلامو! تمہارے لئے ہم یہ نصب العین مقرر کرتے ہیں.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ ہر نیکی میں ہر دوسرے سے آگے نکل جاؤ.پس یہ کیسے ممکن ہے کہ امت کو تو خدا یہ حکم دیتا ہو کہ ہر نیکی میں ہر دوسری امت کے ہر فرد سے آگے نکل جاؤ اور محمد مصطفی عمل ہے جو امت کے سردار ہیں ان کو یہ حکم دے کہ تم غیروں سے گزشتہ انبیاء سے صبر کے گر سیکھو پس ہرگز یہ مفہوم نہیں لیا جاسکتا کیونکہ قرآن کریم کی کھلی تعلیم کے مخالف ہے.مراد یہ ہے کہ اس طرح صبر کر کے دکھاؤ مگر آگے بڑھ کر دکھاؤ جس طرح ان سب نے صبر کیا تم اکیلے اس سارے صبر کو اپنی جان میں سمیٹ لو اور اس میں نئی جلا پیدا کر دو.پس آنحضرت علﷺ کی امت کہلاتے ہوئے اور حقیقت میں آپ کی امت ہوتے ہوئے ہمیں یہ دیکھ دیکھنے تھے اور ہمارے مقدر میں تھا اور ہمارا فرض ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عملے نے جس طرح مسلسل صبر کیا اور انتہائی دکھ اٹھا کر بھی صبر کیا اسی طرح ہم صبر کا دامن اپنے ہاتھ سے نہ چھوڑیں اور آنحضرت علی کی طرح اولوا العزمی کی شاہراہ پر آگے سے آگے قدم بڑھاتے چلے جائیں.اگر ہم ایسا کریں گے اور یقیناً ہم ایسا کریں گے.اس لئے کہ ہم ایسا کر رہے ہیں اور آج بھی ہم صبر کی دنیا میں نئے ابواب کھول رہے ہیں، صبر کا تاریخ میں نئے روشن بابوں کا اضافہ کر رہے ہیں.تو پھر یقین رکھیں کہ جس طرح اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو صبر کا بے انتہا شیریں پھل عطا فرمایا، جماعت احمدیہ کو بھی آنحضرت ﷺ کی غلامی کی برکت سے ویسا ہی پھل عطا فرمائے گا.اور کبھی آپ کے صبر کو ضائع نہیں ہونے دے گا.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک موقع پر فرمایا تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے بادل آفات ومصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو (کلام محمود صفحه: ۱۵۴) پہلے بھی ایسے دور گزرے ہیں بھیانک گوشدت میں اس سے کم تھے مگر بہر حال گزرتے رہے اور پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے کہ ان خوفناک بادلوں سے جو خون برسانے والے تھے بالآ خر رحمت کے قطرے برسنے لگے اور پھر وہ موسلا دھار رحمت کی بارشوں میں تبدیل ہو گئے.یہ بادل جو بھیانک
خطبات طاہر جلد۵ 582 خطبه جمعه ۲۹ راگست ۱۹۸۶ء اٹھے ہیں، یہ جو خون برسا رہے ہیں آپ کے او پر لیکن خدا کی قسم ! آپ کا صبران پر غالب آئے گا اور آپ کی آہیں ان بادلوں کی صفات کو تبدیل کر کے رکھ دیں گی.یہ خون برسانے والے بادل ایک دن آپ دیکھیں گے کہ رحمتیں برسانے والے بادلوں میں تبدیل ہو جائیں گے اور آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ کی برکت سے جسے ہم اختیار کر رہے ہیں اور آئندہ بھی اختیار کرتے رہیں گے، انشاء اللہ تعالی ساری مصیبتیں آسانیوں اور آسائشوں میں تبدیل ہو جائیں گی ، سارے دکھ تسکین جان اور طمانیت قلب میں بدل جائیں گے اور بالآخر احمدیت لازماً غالب آئے گی.اس میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک نہ کریں ہے.یہ وہ جماعت نہیں ہے جو مٹنے کے لئے بنائی جاتی ہے.یہ جماعت وہ نہیں ہے جس کی سرشت میں کسی قسم کی ناکامی کا خمیر ہو.ہم نے لازماً غالب آتا ہے ایک ملک میں نہیں ہر ملک میں غالب آتا ہے.اس سرزمین میں بھی غالب آتا ہے جس میں ہم آج بیٹھے ہوئے ہیں اور ہماری کوئی بھی بظاہر حیثیت نہیں ہے.اس لئے آپ اس جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں ایک لمحہ کے لئے بھی، ایک لمحہ کے ہزارویں حصہ کے لئے بھی کسی قسم کا خوف اپنے دل میں نہ آنے دیں، کسی قسم کی مایوسی کو اپنے اوپر قابض نہ ہونے دیں.سابقہ تاریخ پر نظر کریں.ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ یہ تاریخ دہرائی گئی ہے.پھر کیا وہم ہے جو آپ کے دل میں خوف پیدا کر سکتا ہے.ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ یہ تاریخ دہرائی گئی اور ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ خدا والے ہمیشہ غالب آتے رہے ہیں اور خدا کے منکرین اور خدائی طاقتوں کا مقابلہ کرنے والے ہمیشہ خائب و خاسر اور نا مراد ہوتے رہے ہیں.پس آپ کے مقدر میں فتح و ظفر لکھی جاچکی ہے.ہر دفعہ یہ فتح و ظفر آسمان پر خدا کے پاک انبیاء اور ان کی جماعتوں کے لئے لکھی گئی ہے.آج آپ کے لئے لکھی جارہی ہے اور آپ کے مخالفین کے لئے مقدر میں وہی کچھ لکھا گیا ہے جو ایک لاکھ چوبیس ہزار مرتبہ خدا کے پاک انبیاء کے مخالفوں کی قسمت میں، بد قسمتی ان کی کے لکھا گیا.پس ان کے لئے دعا کریں اور ان کے لئے رحم کریں اور استغفار سے کام لیں اور کوشش یہ کریں کہ خدا کے عذاب کے فرشتوں سے پہلے آپ کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ رحمت کے فرشتے بھیج دے اور اس قوم کی تقدیر کو بدل دے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: پاکستان سے چند دن ہوئے یہ اطلاع ملی کہ ہماری چچازاد بہن حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
خطبات طاہر جلد۵ 583 خطبه جمعه ۲۹/ اگست ۱۹۸۶ء کی دوسری صاحبزادی امتہ الحمید بیگم صاحبہ کراچی میں وفات پاگئی ہیں.ان کے بیٹے کیپٹن محمود احمد خان صاحب نے درخواست کی ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.چنانچہ نماز جمعہ کے معاً بعد انشاء اللہ نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے گی.حضور نے امام صاحب سے نمازوں کے جمع ہونے کے بارہ میں استفسار کیا کہ لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیں انہوں نے جانا ہو گا اور پھر فرمایا : آپ کے مقامی امیر صاحب کا خیال ہے کہ نمازیں جمع کر لی جائیں جمعہ کے ساتھ ہی یعنی عصر کی نماز بھی.اس میں انتظامی لحاظ سے سہولت رہے گی.اس لئے جمعہ کے معابعد نہیں بلکہ نماز عصر جو ساتھ جمع ہوگی اس کے معا بعدا نشاء اللہ ان کی نماز جنازہ پڑھائی جائے گی.
خطبات طاہر جلد ۵ 585 خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء پاکستان میں جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں جماعت کو صبر اور دعاؤں کی تحریک خطبه جمعه فرموده ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء بمقام ناروے) تشہد وتعوذ اورسورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پاکستان میں جوں جوں سیاسی عدم استحکام بڑھتا جا رہا ہے اور عوام الناس میں شدید بے چینی پیدا ہو رہی ہے.اس عدم استحکام اور بے چینی کی جھلک حکومت کی حرکتوں میں نمایاں ہوتی جارہی ہے.موجودہ حکومت سخت ہراساں ہے اور خوفزدہ ہے اور اپنے بچاؤ کے لئے ہر ایسی حرکت کرنے کے لئے بھی تیار ہے جو عام دنیاوی سیاسی اصولوں سے خواہ کس حد تک گری ہوئی کیوں نہ ہو اور انسانی اخلاقی اقدار سے خواہ کس حد تک گری ہوئی کیوں نہ ہو.اگر چہ مذہب کا نام بہت استعمال ہو رہا ہے لیکن اس حکومت کی اداؤں میں ہر چیز ہے صرف مذہب نہیں کیونکہ مذہب کی بنیاد تو اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور خدا کے خوف پر ہوا کرتی ہے.خواہ مذہب کسی شکل کا بھی ہو، دنیا کے کسی خطے سے بھی تعلق رکھتا ہو اس کا مرکزی نقطہ خدا ہی کی ذات ہے اور خدا سے تعلق اور خدا کی ناراضگی کا خوف یا خدا سے تعلق کی تمنا اور خدا سے ناراضگی کا خوف یہ دو قو تیں ہیں جو ہر مذہب کے رگ وپے میں دوڑتی ہیں.اس نقطہ نگاہ سے موجودہ حکومت کے سابقہ کردار کو آپ لے لیں یا موجودہ حرکتوں کو دیکھ لیں ان میں ہر دوسری چیز تو پائی جائے گی، مذہب کا کوئی نشان نظر نہیں آتا.یہی وجہ ہے کہ سیاسی عدم استحکام کے بڑھنے کے نتیجے میں اور عدم
خطبات طاہر جلد۵ 586 خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء تحفظ کا احساس بڑھنے کے نتیجے میں یہ دن بدن جماعت احمدیہ کی طرف عوام کی توجہ مبذول کرانے کی خاطر اوچھے سے اوچھے ہتھیار استعمال کرتے جارہے ہیں.مردان میں جو واقعہ پیچھے گزرا اس کے عقب میں اب اور ایسی اطلاعیں ملی ہیں کہ بڑی شدت اور بے قراری کے ساتھ موجودہ حکومت یہ چاہتی ہے کہ صرف مردان ہی میں یہ معاملہ آگے نہ بڑھے بلکہ اور دوسری جگہوں پر بھی یہ بات پھیل جائے اور عوام الناس کی توجہ خصوصاً صوبہ سرحد اور صوبہ پنجاب میں جماعت احمدیہ کی طرف منتقل ہو جائے اور اس کے نتیجے میں سیاسی بے قراری اور بے چینی کا رخ جماعت احمدیہ کی طرف پھیر دیا جائے.کل ہی جو اطلاع ملی ہے اس کے مطابق مردان میں علماء نے یعنی مبینہ طور پر جو علماء کہلاتے ہیں انہوں نے یہ اعلان کیا ہے کہ اب ہم گھر گھر جا کر ہر احمدی کو یہ نوٹس دیں گے کہ یا تو وہ مرتد ہو جائے اپنے دین سے اور جس کو ہم مذہب سمجھتے ہیں اس میں داخل ہو جائے ورنہ پھر اسے مردان میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور اس کے لئے ایک با قاعدہ پر فارما بنا کر اس پر دستخط کروانے کی مہم کا اعلان ہوا ہے.اسی طرح کی اور کمینی حرکتیں دوسری جگہ بھی کچھ سوچی جارہی ہیں، کچھ منظر عام پر آگئی ہیں.ان حرکتوں میں سے جو بعض گہری سازشوں کا نتیجہ ہیں ،ایک یہ ہے کہ سیالکوٹ میں اس جگہ جہاں سے وہ So-called یعنی مبینہ طور پر جو مولوی سمجھا جاتا ہے، اسلم قریشی وہ غائب ہوا تھا اس کے متعلق دو غیر احمدی مقامی لوگوں کو وعدہ معاف گواہ بنانے کی سکیم کی اطلاع ملی ہے یعنی منصوبہ یہ ہے دو غیر احمدیوں کو جن کو پکڑا جا چکا ہے ان کو وعدہ معاف گواہ بنایا جائے اور ہمارے ایک معز ز دوست، نہایت شریف النفس اور با حوصلہ جو پہلے بھی حکومت کے عتاب کا نشانہ بن چکے ہیں اور شروع میں ہی اس کیس میں پولیس نے ان کو پکڑ کر ان پر کافی تشدد بھی کیا اور پہلی تحقیق کی رپورٹ میں ہی جس میں پورے تشدد کے ناکام ہونے کے بعد رپورٹ کرنے والی اتھارٹی نے حالات کا جائزہ لیا ہے، اس رپورٹ میں ہی یہ بات کھول دی گئی تھی کہ نہ اس دوست کا جن کا نام مشتاق ہے نہ ان کا کوئی تعلق ہے اس معاملے میں نہ جماعت احمدیہ کا کوئی دور کا تعلق ہے بلکہ یہ بھی پتہ نہیں کہ اسلم قریشی خود بھاگ کر کسی غیر ملک گیا ہوا ہے یا بعض کسی سازش کے نتیجے میں اس کو چھپا دیا گیا ہے ملک
خطبات طاہر جلد۵ 587 خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء کے اندر اور یہ جو الزام لگایا جاتا ہے کہ قتل ہو گیا ہے اس کا کوئی ثبوت ہی نہیں ہے.ان سب باتوں کے با وجود ان کو یعنی مشتاق احمد صاحب کو یا جو بھی نام ہے مجھے اس وقت مشتاق نام یاد ہے ، ان کو دوبارہ پکڑا گیا ہے.اور غالبا وہ جو دو وعدہ معاف گواہ بنائے جا رہے ہیں ان سے تعارف کروادیا گیا ہو گا یا ان کو دکھا دیا گیا ہوگا اور کہانی یہ بنائی جا رہی ہے کہ مشتاق احمد صاحب چوہدری مشتاق احمد ، مجھے پورا نام یاد نہیں یا محمد مشتاق یا جو بھی ہے، ان کو اور چوہدری محمد اعظم صاحب کو جو سابقہ MPA رہے ہیں ان کو ملوث کیا جائے اور دو وعدہ معاف گواہ یہ کہہ دیں کہ ان دونوں نے ہمیں کہا تھا کہ تم یہ کام کرو اور یہ مسئلہ کہ اگر کوئی مرا ہی نہیں تو اس کی لاش کہاں سے مہیا کی جائے گی ، یہ مسئلہ پاکستانی پولیس کے لیے غالب حل کرنا کوئی مشکل نہیں.کسی گڑھے مردے کو اکھاڑا جا سکتا ہے اور جب حکومت کے اعلیٰ ترین نمائندوں کی طرف سے ہدایات جاری کی جا رہی ہوں اور سازشیں وہاں پنپ رہی ہوں تو ایسی صورت میں پولیس یہ بجھتی ہے کہ ہم بے خوف ہیں ہمیں کوئی ایسی حرکتوں کا خمیازہ نہیں بھگتنا پڑے گا.اگر موجودہ حکومت کی وہ کہانی درست ہے جو بھٹو صاحب کے متعلق بنائی گئی اور جس کے نتیجے میں ان کو پھانسی دی گئی تو اس زمانے کی پولیس بھی یہی سمجھتی تھی ، اگر یہ واقعہ درست ہے، تو ان کو بھی یہی خیال تھا کہ جب حکومت کی طرف سے ہمیں یہ ہدایت دی جارہی ہے تو حکومت ہمیں خود ہی سنبھال لے گی.اس لئے یہ بعید نہیں ہے کہ پولیس کے بعض افسر اپنی اعلی ترقی کی خاطر ایسی گری ہوئی حرکتوں میں اور ایسی خطرناک حرکتوں میں حکومت کے منشاء کے مطابق ملوث ہو جائیں.علاوہ ازیں اور بھی بہت سی ایسی اطلاعیں مل رہی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ حکومت ہر اوچھا ہتھیار استعمال کر کے جماعت احمدیہ کو مزید ظلموں کا نشانہ بنانا چاہتی ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کی بقاء کا تعلق ہے اور جماعت احمدیہ کے اندرونی استحکام کا تعلق ہے یہ بات تو اسی طرح شک سے بالا ہے جس طرح ہم اس وقت سورج کو آسمان پر دیکھ رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ کے استحکام کو خواہ موجودہ حکومت ہو یا دنیا کی کوئی حکومت ہو ہرگز متزلزل نہیں کرسکتی.کوئی حکومت دنیا کی متزلزل نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے استحکام کی ضمانت خود اللہ تعالیٰ نے دی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے اور اسی کا بنایا ہوا کارخانہ ہے اور اس کی بنیا دیں تو مستحکم ہیں.جہاں تک انفرادی طور پر چند ا حمدیوں کو مزید اذیت دینے کا تعلق ہے، یہ ہمیشہ سے ہوتا چلا
خطبات طاہر جلد۵ 588 خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء آیا ہے اور مذہبی جماعتوں میں سے بعض افراد کو قربانی دینی پڑتی ہے اور پہلے بھی جماعت احمد یہ بڑے حوصلے کے ساتھ اور سر بلندی کے ساتھ اور کامل وفا کے ساتھ یہ قربانیاں دے رہی ہے، آئندہ بھی خدا کی تقدیر میں جہاں تک بھی لکھا گیا ہے قربانیاں جماعت دیتی چلی جائے گی لیکن جہاں تک ان ذرائع کا موجودہ حکومت کے استحکام کو حاصل کرنے کا تعلق ہے تو یہ استحکام حاصل نہیں ہوگا.کبھی دنیا میں ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ بچوں کی جماعت کو ، جھوٹے ظلم کا نشانہ بنا کر ان کے خون چوس کر پنپ سکیں ، ان کی قوت حاصل کر کے اپنے اندر استحکام پیدا کر سکیں.یہ واقعہ بھی نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے.چند دن اور ظلم کا نشانہ بنا سکتے ہیں اس سے زیادہ نہیں لیکن اس سے بہت زیادہ بڑھ کر خود ظلموں کا نشانہ بننے والے ہیں کیونکہ خدا تعالیٰ غاصبوں اور ظالموں پر ان سے بڑھ کر غاصب اور ظالم مسلط کر دیا کرتا ہے.اور خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر ہے کہ بعض دفعہ فرشتوں کو مسلط کرتا ہے اور نیک لوگوں کو مسلط کرتا ہے، سزا دینے کی خاطر اور بعض دفعہ بدوں کو مسلط کرتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ ان کے اوپر کسی قسم کے لوگ مسلط کئے جائیں گے.اگر خدا تعالیٰ اس ملک کو بچانا چاہتا ہے اور ہماری دعائیں سن لے اور اس ملک کی تقدیر بہتر رنگ میں بدل دے تو پھر بعید نہیں کہ بہتر اور منصف لوگ ان پر مسلط ہوں اور ایک ایک کر کے ان کی بد کرداری کی ان کو سزا دیں اور اگر خدا تعالیٰ اس ملک سے ناراض ہو چکا ہے اور اس کی تقدیر کچھ اور فیصلہ کر چکی ہے ، تو ہوسکتا ہے ان سے بڑھ کر، آمران سے بڑھ کر غاصب، ان سے بڑھ کر بددیانت اور ظالم لوگ، ان سے بڑھ کر سفاک لوگ اگر چہ بظاہر ممکن نظر نہیں آتا کہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں مگر خدا تعالیٰ کی تقدیر جو فیصلہ چاہے وہ ہو کے رہتا ہے.تو ممکن ہے ایسے لوگ ان پر مسلط ہو جائیں جو ان سے کم رحم کرنے والے ہوں بنی نوع انسان پر جتنا یہ کر سکتے ہیں اور ان سے زیادہ سفاک اور ظالم ہوں اور پھر ان کے جرموں کی بھی ان کو سزاد یں اور جو جرم انہوں نے نہیں کئے ان کی بھی ان کو سزاد یں کیونکہ خدا تعالی منتقم ہے اور منتم میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ عام جرم سے بڑھ کر سزا اور اس میں شدت پیدا کر دے.اس لئے جہاں خدا تعالیٰ کی تقدیر بعض اوقات برابر کا سلوک کرتی ہے اور بعض دفعہ جب خدا کی غیرت کو جب زیادہ کچوکے دیئے جائیں تو وہ منتقم بن کر بھی اپنی کا ئنات کے بعض لوگوں کو سزا دینے کے لئے مقررفرما دیتا ہے اور کائنات کی ساری قو تیں پھر اس جہت میں کام کرتی ہیں.صرف انسانی قوتیں نہیں بلکہ قانون قدرت بھی ہر سمت سے
خطبات طاہر جلد ۵ 589 خطبه جمعه ۵ ستمبر ۱۹۸۶ء ایسی قوم کو گھیر تا ہے اور ہر طرح سے اس کو سزا دیتا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ اگر چہ بعض تکلیفوں کے دن کچھ لمبے بھی ہو سکتے ہیں اور صبر کا امتحان کچھ آگے بھی بڑھ سکتا ہے لیکن ہر تکلیف کے لمبے دن سے بھی جماعت احمدیہ اور زیادہ طول قامت ہو کر نکلے گی اور ہر مصیبت اور ابتلاء کے وقت سے جماعت احمد یہ زیادہ مستحکم ہو کے نکلے گی.یہ وہ تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی.کل بھی آپ نے یہی دیکھا ہے، پرسوں بھی یہی دیکھا تھا، آج بھی یہ دیکھ رہے ہیں اور کل اس سے بڑھ کر یہ بات دیکھیں گے اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جو ظالم ہیں وہ سزا کے بغیر نہیں رہیں گے.اس لئے جو احتجاج دنیا میں پہنچتے ہیں مختلف ملکوں سے یا مختلف کوششیں جماعت احمد یہ کر رہی ہے، ان پر بناء رکھیں یہ محض اس لئے کیا جاتا ہے کہ امتثال امر ہے، اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ دنیاوی کوششیں کرو.ہمارا احتجاج تو اسی وقت ہو جاتا ہے اور وہاں پہنچ جاتا ہے جہاں اسے پہنچنا چاہئے.جب ہمارے دل میں اپنے پیارے بھائیوں کے لئے ایک ٹیس اٹھتی ہے اور خدا کو وہ دل کا درد پکارتا ہے، وہی ہمارا احتجاج ہے اور وہی سب سے بڑی کارروائی ہے جو ہم کر سکتے ہیں.اس لئے سب دعائیں کریں اور زیادہ درد کے ساتھ اپنے معصوم اور پیارے بھائیوں کے لئے دعائیں کریں کہ خدا کے فرشتے ان کے آگے سے بھی حفاظت کریں، ان کے نیچے سے بھی حفاظت کریں ، ان کے دائیں سے بھی حفاظت کریں اور ان کے بائیں سے بھی حفاظت کریں، ان کے اوپر سے بھی حفاظت کریں اور ان کے نیچے سے بھی حفاظت کریں اور ان پر بکثرت نازل ہوں اور ان کو تسلیاں دیں کہ ہم دنیا میں بھی تمہارے ساتھ ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھ رہیں گے.
خطبات طاہر جلد۵ 591 خطبه جمعه ۱۲ رستمبر ۱۹۸۶ء آنحضور کے اخلاق کے قریب تر رہنے کی کوشش کریں جو خلق عظیم پر فائز تھے ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ ستمبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی:.نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ مَا أَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونٍ 8 وَإِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونٍ ، وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ بِايْكُمُ الْمَفْتُونُ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُوْنَ وَلَا تُطِعْ كُل حَلافِ مهينن (القلم: 11) سورۃ القلم کی پہلی گیارہ آیات کی میں نے تلاوت کی ہے.اس صورت کا آغا ز لفظن سے ہوتا ہے.ن کے بہت سے مفاہیم ہیں لیکن علماء عموماً اس بات پر متفق ہیں کہ یہاں اول طور پر ان سے مراد دوات ہے یعنی وہ ظرف جس میں روشنائی ڈالی جاتی ہے.وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ اور وہ قلم اور وہ تحریر جو دوات اور قلم لکھتے ہیں یا لکھنے والے لکھتے ہیں ، ان سب کو خدا تعالی گواہ ٹھہرا رہا ہے.کس بات کا گواہ مَا اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ اے محمد و تو خدا تعالیٰ کی نعمت کے نتیجے میں ہرگز مجنون نہیں ہے.وَ اِنَّ لَكَ لَأَجْرًا غَيْرَ مَمْنُوْنِ اور یقیناً تیرے لئے نہ ختم ہونے
خطبات طاہر جلد۵ 592 خطبه جمعه ۱۲ ر ستمبر ۱۹۸۶ء والا ایک اجر ہے.وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور یقینا تو بہت بڑے اخلاق پر قائم ہے.فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُونَ پس تو بھی دیکھے گا اور وہ بھی دیکھیں گے.بِآيَكُمُ الْمَفْتُونَ کہ تم میں سے کون ہے جو مفتون ہے، کون ہے جس کا دماغ پھر گیا ہے.اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَا عْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ یقینا تیرا رب ہی ہے جو بہتر جانتا ہے کہ کون ہے جو رستے سے گمراہ ہو چکا ہے اور کون ہے جو ہدایت پر ہے فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ پس جھٹلانے والوں کی پیروی مت کر.وَدُّوا لَو تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ وہ چاہتے ہیں کہ تم تھوڑا سا اپنے موقف سے سرک جاؤ تو پھر مقابل پر وہ بھی کچھ نرمی اختیار کریں گے.وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلَّافٍ مَّن لیکن ہر جھوٹی قسمیں کھانے والے، حد سے زیادہ لغو تمیں کھانے والے اور مھین ، ذلیل انسان، کمینہ صفت انسان کی پیروی نہ کر.یہاں سب سے پہلی بات جو انسانی توجہ کوکھینچتی ہے اور غور کو دعوت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ مَا انْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُونِ یہ کہنے کیلئے ان اور قلم یعنی دوات اور قلم اور اس تحریر کو جو دوات اور قلم سے لکھی جاتی ہے گواہ کیوں ٹھہرایا گیا ہے، اس کا کیا تعلق ہے؟ در حقیقت سب سے اہم تعلق ان دو بیانات کا یہ ہے کہ عقل کا معراج قلم اور دوات کے ذریعے ہوا ہے اور علم کا معراج قلم اور دوات کے ذریعے ہوا ہے.اگر آپ انسانی ترقی سے دوات اور قلم کے دور کو نکال دیں اور ہر چیز کو زبانی رہنے دیں.تو انسانی فکر خواہ کتنی ہی تیز ہو جاتی اور بظاہر کتنا ہی صیقل ہو جاتی وہ علوم جو آج دنیا پر منکشف ہوئے ہیں اُس کا لاکھواں حصہ بھی دنیا پر منکشف نہیں ہو سکتا تھا.سوانسانی فکر و علم کا معراج ہے قلم اور دوات اور اسے علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور قلم اور دوات بھی وہ نہیں جس سے عام کوئی لکھنے والا لکھتا ہے بلکہ وہ قلم اور دوات جو لوح و قلم کی مظہر ہیں یعنی خدا تعالیٰ کا قلم اور خدا تعالیٰ کی تحریر.وَمَا يَسْطُرُونَ سے میں یہ معنی لیتا ہوں اور تقدیر کے فرشتے جو لکھتے ہیں یا قوانین قدرت پر خدا تعالیٰ نے جن فرشتوں کو مامور کیا ہے وہ جو تحریر کرتے ہیں ان کو میں گواہ ٹھہراتا ہوں کہ تو اپنے رب کی نعمت کے نتیجے میں ہرگز مجنون نہیں ہے.اس گواہی نے بتایا کہ محض یہ اعلان نہیں کیا جارہا کہ تو مجنون نہیں ہے بلکہ یہ اعلان بھی کیا جارہا ہے کہ تو معرفت کے انتہائی مقام پر پہنچا ہوا ہے کیونکہ علم وفکر کے ارتقاء کا موجب جو چیزیں بنیں ان کو گواہ ٹھہرا دیا اور تحریروں میں سے بھی سب سے اعلیٰ پائے
خطبات طاہر جلد۵ 593 خطبه جمعه ۲ ار ستمبر ۱۹۸۶ء کی تحریر جو علم کی مظہر ہے یعنی خدائی تقدیر کی تحریر اسے گواہ ٹھہرایا.تو مطلب یہ ہے کہ تو علم وفکر کے انتہائی بالا مقام تک پہنچا ہوا ہے کجا یہ کہ تجھے مجنون کہتے ہیں اور اس کا ایک ثبوت یہ دیا کہ وَ إِنَّ لَكَ لَاَجْرًا غَيْرَ مَمْنُونِ پاگل آدمی تو مرفوع القلم ہوا کرتا ہے.وہاں بھی لفظ استعمال کیا جاتا ہے کہ اس سے قلم اٹھالی گئی ہے، نہ اسے کوئی سزا نہ کوئی جزا ،ہاں اپنے کئے کی خود بخود ایک قانونِ قدرت کے طور پر سزا پاتا چلا جاتا ہے.ہر نیکی ، ہر فائدہ سے محروم ہوتا چلا جاتا ہے.اس کے برعکس وہ جو نیک عمل کر نیوالا ہو اور عمداً آنکھیں کھول کر نیکی کے میدان میں قدم رکھنے والا ہو اس کے ساتھ ایک اجر کا قانون بھی چلتا ہے اور ہر انسان جو بالا رادہ کوئی نیکی کا فعل کرے اور حکمت کے ساتھ نیکی کا فعل کرے، صاحب عقل و فہم بھی ہو اور با عمل بھی ہو اس کو اجر ملتا ہے.تو فرمایا کہ تیرا اجر تو غَيْرَ مَمْنُونٍ ہے.تیرے چھوٹے سے چھوٹے فعل کا بھی ایسا اچھا ہم نتیجہ نکالتے ہیں اور ایسا دائمی نتیجہ نکالتے ہیں کہ جو منقطع ہونے والا نہیں.دشمن بھی بظاہر ایک کوشش کر رہا ہے اور تو بھی ایک کوشش کر رہا ہے لیکن اس کی کوششیں بے پھل اور بے ثمر ثابت ہوتی ہیں، تیری ادنی سی کوششوں کو بھی ایسے پھل لگتے ہیں کہ جو ختم ہونے میں نہیں آتے.لامتناہی سلسلہ انعامات کا چلتا ہے تو تجھے یہ کیسے مجنون کہہ سکتے ہیں.مجنون تو اپنے پائے ہوئے کو کھو دیا کرتا ہے.مجنون کی تو انتہائی کوشش بھی بے ثمر ہوتی ہے کجا یہ کہ معمولی معمولی ، ادنی ادنی کوششیں بھی ایک نگاہ میں باشمر ثابت ہو جائیں.تو فرمایا کہ تیری ذات کے ساتھ ایک اجر غیر ممنون وابستہ ہو چکا ہے نہ ختم ہونے والا اجر ہے.وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ اور تیرا خلق بہت عظیم ہے.اردو میں تو یہ ترجمہ کیا گیا ہے کہ تیرا خلق بہت عظیم ہے یہ درست نہیں عربی میں لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِيمٍ کا متبادل اردو محاورہ کوئی نہیں ورنہ لفظا یہ ترجمہ کرنا چاہئے کہ تو عظیم خلق پر ہے.عظیم خلق پر ہونے کا مفہوم خلق کے اوپر غالب آنے کے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے.یعنی یہ نہیں کہ محض تیرے اخلاق اچھے ہیں بلکہ جس طرح ایک اعلیٰ گھڑ سوار گھوڑے کو قابو میں رکھتا ہے.اُس کی باگ دوڑ اس کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس کے اشارے پر چلتا ہے.اس طرح تو اخلاق کا سوار قرار دیا گیا ہے.اخلاق تیری قدرت سے باہر نہیں ہیں تو پوری طرح ان پر فائز اور قائم ہے.پس لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمِ میں ایک بہت ہی بڑا خراج تحسین حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق کو دیا گیا ہے کہ گویا جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بات تو تیری لونڈی ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 594 خطبه جمعه ۱۲ار تمبر ۱۹۸۶ء تو اس طرح فرمایا کہ تو تو اخلاق کا شہسوار ہے، عظیم اخلاق پر خدا تعالیٰ نے تجھے مقدرت بخشی ہے.ان تین صفات میں سے لَعَلَى خُلُقٍ عَظِیمِ والی صفت کو حضرت خدیجہ بھی پاگئیں اور اس سے ان کی بصیرت کا پتہ چلتا ہے.جب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اپنے متعلق فکر لاحق ہوئی کہ مجھ سے کیا واقعہ ہو گیا ہے.تو اس وقت حضرت خدیجہ نے آپ کو یہ کہہ کر تسلی دلائی تھی کہ آپ میں یہ عظیم اخلاق پائے جاتے ہیں اور اتنے عظیم اخلاق کے مالک کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کر سکتا.پس جو کچھ بھی واقعہ ہوا ہے اس کا یہ معنی بہر حال نکالنا غلط ہے کہ اس سے آپ کو کوئی نقصان پہنچ سکے گا.آپ محفوظ مقام پر ہیں کیونکہ آپ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہیں اور جولوگ اعلیٰ اخلاق پر فائز ہوں خدا انہیں ضائع نہیں کیا کرتا.پس حضرت خدیجہ کونَ وَالْقَلَمِ وَ مَا يَسْطُرُونَ کو پہچاننے کی تو کوئی مقدرت نہیں تھی کیونکہ یہ تو خدا تعالیٰ جو راز دان تھا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی اعلیٰ فکری اور علمی ترقی کا وہی بتا سکتا تھا.آپ کو ابھی تک یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ خدا تعالیٰ کی کتنی عظیم الشان نعمت آپ کو ملنے والی ہے یا میسر آ چکی ہے اور نہ اجر غیر ممنون کا سلسلہ ابھی آپ نے دیکھا تھا.لیکن خلق عظیم ایک ایسی چیز ہے جو ظاہر ہوتی ہے جسے ہر انسان دیکھ سکتا ہے اور ہر صاحب بصیرت پہچان سکتا ہے.پس آپ نے جود یکھا اس کا نتیجہ بالکل صحیح اخذ کیا.ب یہ صفات پائی جائیں کسی میں اس کے بعد یہ ممکن نہیں کہ خدا تعالیٰ اسے ضائع کر دے.پس فرمایا فَسَتُبْصِرُ وَ يُبْصِرُونَ بِاَتِكُمُ الْمَفْتُونُ یہ بات بتاتی ہے کہ یہ صفات جہاں عقلِ کل اور انتہائی اعلیٰ فکر وتدبر اور زینت اخلاق کی مظہر ہیں ان کے ہوتے ہوئے جنون کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یعنی جنون کے منافی صفات ہیں یہ ساری.جس کسی کو بادشاہ قلم قرار دے دیا جائے ، کسی کو تحریر کا سلطان قرار دے دیا جائے ، کسی کو عقل و فہم اور خلق عظیم کا شہسوار قرار دے دیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے لامحدود احسانات کا مورد قرار دے دیا جائے اور کسی شخص کو یہ ضمانت دے دی جائے کہ تیرے ہر فعل کا بہترین لامتناہی اجر ملتا چلا جائے گا.یہ ساری باتیں آنحضرت مے کے متعلق بیان فرما دی گئیں.اس کے بعد یہ فرمانا کہ فَسَتُبْصِرُ وَيُبْصِرُونَ.بِأَسْكُمُ الْمَفْتُونُ دو باتوں کو ظاہر کر رہا ہے.اول یہ کہ یہ ساری باتیں جنون کی نفی کرنے والی ہیں.مجنون میں یہ صفات اکٹھی ہو ہی نہیں سکتیں بلکہ ان میں سے ایک صفت بھی مجنون میں نہیں ہوتی
خطبات طاہر جلد۵ 595 خطبه جمعه ۱۲ رستمبر ۱۹۸۶ء اور ساتھ ہی یہ اعلان کیا گیا کہ تیرے مخالفین میں ان ساری صفات کا عدم پایا جاتا ہے.اس کے برعکس صفات پائی جاتی ہیں اور جس میں ان صفات کے برعکس صفات پائی جائیں وہ لازماً مجنون ہوا کرتا ہے.جن کا ہر عمل بریکار ثابت ہو، جن کی ہر کوشش بے ثمر ہو.جن کو اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تعارف ہی کچھ نہ ہو کہ خدا کس طرح قدم قدم پر اپنے پیاروں پر فضل نازل فرمایا کرتا ہے.یہ مزہ نہ چکھا ہو جن لوگوں نے.جن لوگوں کو علم و فہم سے کوئی واسطہ نہ ہو اور بدخلق لوگ ہوں ،اخلاق حسنہ سے عاری ہوں یہ سب مجنون کی علامت ہوا کرتی ہے.تو فرمایا کہ تو مجنون نہیں ہے، تیرے مخالف سارے لازماً مجنون ہیں اور یہ بات ہم کھولنے والے ہیں تو بھی دیکھے گا اور یہ بھی دیکھیں گے اور بالآخر روز روشن کی طرح یہ حقیقت دنیا کے سامنے آ جائے گی کہ محمد مصطفی ہے ہر اس صفت سے مزین تھے جو جنون کے برعکس صفت کہلاتی ہے، اس کی ضد ہے اور آپ کے مخالفین ہر وہ صفت رکھتے تھے جس کے نتیجے میں جنون پیدا ہوتا ہے یا جو جنون کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے.اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ وَهُوَ اعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ 0 پھر فرمایا تیرا رب ہی ہے جو بہتر جانتا ہے کہ راہ حق سے کون ہٹا ہوا اور گمراہ ہے اور کون ہے جو ہدایت یافتہ ہے.پس رب کے بیان کے مطابق یہ وہ صفات ہیں جو ظاہر کریں گی کہ کون ہدایت پر ہے اور کون ہدایت سے دور ہے.یہ مراد نہیں کہ یہ سب کچھ بیان کرنے کے باوجود بھی ابھی تک تیرا معاملہ مشکوک ہے.یعنی ان سب صفات کے حامل ہونے کے باوجود خدا تعالیٰ کہتا ہے کہ میں ہی بہتر جانتا ہوں کون ہدایت پر ہے.ہر گز یہ مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ ہم جو جانتے ہیں کہ کون ہدایت پر ہے اور کون گمراہی پر ہے.ہم بتا رہے ہیں کہ جو ہدایت پر ہوتے ہیں ان کی یہ صفات ہوا کرتی ہیں اور جو گمراہ ہوتے ہیں وہ ان صفات سے عاری ہوتے ہیں.فَلَا تُطِعِ الْمُكَذِّبِينَ اس نے اس مضمون کی تصدیق کر دی.پس چونکہ تو خدا تعالیٰ کے نزدیک ہدایت پر ہے.اس لئے ان جھٹلانے والوں کی کسی بات کی پیروی نہیں کرنی.وَدُّوا لَوْ تُدْهِنُ فَيُدْهِنُونَ یہ ہوشیاری کرتے ہیں اور دھوکہ دینے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں بس اتنی سی ہماری بات مان جاؤ تو ہم تم سے نرمی کریں گے اور خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اتنی سی بات بھی ان کی ماننے کے لائق نہیں.جو مجنون ہو جو کلیۂ مفتون ہو، جس کی عقل پر خبط سوار ہو چکا ہو اس شخص کی ایک ذرہ سی ، ادنی سی بات بھی ماننے
خطبات طاہر جلد۵ 596 خطبه جمعه ۲ ار ستمبر ۱۹۸۶ء کے لائق نہیں.وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ مَّهِينٍ صرف اس لئے نہیں کہ یہ مجنون ہیں بلکہ اس لئے کہ جھوٹے بھی بہت ہیں ، بڑی بڑی لفاظی کے ساتھ جھوٹی قسمیں کھانے والے لوگ ہیں اور کمینہ صفت لوگ ہیں.اس لئے کمینے آدمی جو مجنون بھی ہوں اور جو خدا تعالیٰ کی جھوٹی قسمیں کھانے والے ہوں ہر خلق حسن اور حسن خلق سے عاری ہوں.ان لوگوں کی بات مان کر سوائے اس کے کہ کوئی اپنا نقصان کرے اس سے زیادہ تو اس کو کچھ حاصل نہیں ہو سکتا.احمدیوں کے لئے ان آیات میں بہت گہرا سبق ہے.یہ وہ کسوٹی ہے جس پر ہم اپنے حسن و فتح کو ہر وقت دیکھ سکتے ہیں.یہ وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنا چہرہ دیکھ کر معلوم کر سکتے ہیں کہ کس حد تک ہم حضرت اقدس محمد اللہ کے نقش قدم پر ہیں اور ہدایت پر ہیں اور کس حد تک ہم گمراہوں کے نقش قدم پر ہیں اور ان کی پیروی کر رہے ہیں.اور یہی وہ صفات ہیں جو فیصلہ کن ثابت ہوں گی.ان کے ہاتھ میں ن اور قلم پکڑائے جائیں گے جو ان صفات کے حامل ہوں.خدا کی تحریر میں ان کے حق میں جاری ہوں گی جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ان صفات کی پیروی کرنے والے ہوں.پس ن اور قلم اور وَ مَا يَسْطُرُونَ کی قسم کھانے کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ ہم تو اسے مالک تقدیر اور مالک تحریر بنانے والے ہیں.ہماری تقدیر اور تحریر گواہ ہے کہ یہی ہے بالآخر جو ہماری تقدیر کا نمائندہ بننے والا ہے اور تم اسے اپنی حماقت اور جہالت میں مجنون قرار دے رہے ہو.چنانچہ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے خدا تعالیٰ نے پھر آنحضرت ﷺ کو مزید خوشخبریای عطا فرمائیں اور آپ کے دشمنوں کی بعض اور صفات بیان فرمائیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنے راہ حق سے دور ہوچکے ہیں اور ان کے عمل اور ان کے کردار کو ان کے ایمان کے لئے کسوٹی قرار دے دیا.چنانچہ اسی مضمون کی برعکس صورت دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِينَ مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ (القلم: ۳۵) اس آیت کا عموماً پہلی آیت جو میں نے پڑھی ہے اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِینَ اس کا عموماً آپ اردو میں یہ ترجمہ دیکھیں گے کہ کیا ہم مسلمانوں سے مجرموں والا سلوک کریں گے یا کرسکتے ہیں.مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ تمہیں کیا ہو گیا ہے.تم کیسے فیصلے کرتے پھر رہے ہو.یہ معنی بھی بامحاورہ ہے اور درست ہے لیکن پہلا معنی جو لفظاً اس آیت کا ظاہر ہوتا ہے وہ اور ہے.وہ یہ ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۵ 597 خطبہ جمعہ ۱۲ رستمبر ۱۹۸۶ء افَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِمِيْنَ بھلا ہو سکتا ہے کہ ہم مسلمانوں کو مجرموں کی شکل میں بنائیں یا مجرموں کو مسلمان قرار دے دیں.تم کیا باتیں کر رہے ہو، کیسے فیصلے کر رہے ہو.مجرم تم ہو تمہارے اعمال داغدار ہیں، ہر قسم کے گناہوں کے مرتکب ہو اور تم مسلمان بنے بیٹھے ہو اور جولوگ مجرم نہیں ہیں ان کو تم غیر مسلم قرار دے رہے ہو.اتنا نہیں سوچتے کہ ہو کیسے سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو مجرموں کی شکل پر بنا رہا ہو اور اس بات سے تو دنیا کا کوئی انسان بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بعض ایسی سوسائٹیاں جو احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے رہی ہیں ہر قسم کے جرموں میں مبتلا ہو چکی ہیں.سربراہان مملکت اقرار کر رہے ہیں کہ ہر قسم کے گناہ ، ہر قسم کی بدیاں ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوگئی ہیں اور ہم باوجود قوت رکھنے کے، باوجود اس کے کہ ہر قسم کی حکومت اور طاقتیں ہمارے ہاتھ میں تھیں اور ہم نے ان کو استعمال کرنا شروع کیا پھر بھی ہم قوم کے اخلاق بدلنے میں نا کام ہو چکے ہیں.یہ اقرار بھی کرتے ہیں کہ نہ صرف نا کام ہو چکے ہیں بلکہ جس حالت میں ہم نے قوم پر قبضہ کیا تھا ساری کوششوں کے باوجود اخلاق کو بہتر بنانے کے بجائے ہم آج قوم کو بدتر حالت میں دیکھ رہے ہیں.ہر شعبہ ہائے زندگی تباہ ہو چکا ہے.یہ اقرار ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں اور وہ لوگ جن کے اخلاق بہتر ہیں، جن کو خدا تعالیٰ نے شرافت نجابت بخشی ہے اور اپنے عمل میں اور اپنے کردار میں وہ بعض ایسی صفات کے حامل ہیں کہ ان کے دشمن بھی یہ کہنے پر ضرور مجبور ہوتے ہیں کہ ہیں با اخلاق لوگ.تو وہی مضمون جو اخلاق کا چلا تھا وہ یہاں پھر نمایاں ہو گیا اور اس کو اکیلا بیان فرمایا گیا ہے مقابل پر اس لئے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اخلاق تو دنیا کو نظر آ جاتے ہیں اور وہ جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی باقی صفات بیان ہوئی تھیں وہ اتنی اعلیٰ ہیں کہ عام دنیا کی نظر میں وہ بعض دفعہ غیر مرئی ہو جاتی ہیں.نہایت ہی لطیف صفات ہیں اور نہایت ہی لطیف خدا تعالیٰ کے سلوک ہیں آپ کی ذات کے ساتھ ، ہو سکتا ہے کہ ایک عام دنیا دار کو نظر ہی نہ آتے ہوں.پس ممکن ہے کہ احمدیوں کے ساتھ بھی جب خدا کے وہ سلوک ہوں درست ہے کہ ہمارے ساتھ اس سلوک کو وہ نسبت ہوگی جیسے آقا اور غلام کے ساتھ سلوک میں فرق ہوتا ہے.لیکن اچھے آقا کے اچھے غلام کے ساتھ ملتا جلتا سلوک ضرور ہوا کرتا ہے.اسلئے میں یہ نہیں کہتا کہ ہم سے وہی سلوک خدا کا ہوتا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ سے ہوا مگر
خطبات طاہر جلد۵ 598 خطبه جمعه ۱۲ار تمبر ۱۹۸۶ء ایک اچھے آقا اور اچھے غلام کے ساتھ جو سلوک ہونا چاہئے وہ تو ہم سے ضرور ہوتا ہے.اس لئے وہ صفات جو دیگر ہیں وہ تو ان لوگوں کو نظر نہیں آسکتیں.لیکن خلق عظیم ضرور نظر آجاتا ہے اور خلق عظیم کا فقدان بھی نظر آنے والی چیز ہے جس کو مجرمین کے طور پر پیش کیا گیا.فرمایا تمھاری عقلیں کہاں گئیں تمھارا مفتون ہونا تو اسی سے ثابت ہو جاتا ہے کہ وہ جو خلقِ عظیم کے حامل کی پیروی کرنے والے ہیں ان کو تو تم مجنون اور مفتون قرار دے رہے ہو اور گمراہ قرار دے رہے ہو اور تم جو سراسر جرموں میں ڈوبے پڑے ہو تم ان کے مقابل پر مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہو.کم سے کم اتنا ہی خیال کرو اتنی ہی حیا کرو کہ خدا تعالیٰ کی طرف تم کیا بات منسوب کر رہے ہو.اس شکل کے مسلمان بنایا کرتا ہے خدا تعالیٰ ؟ کیا ایسے مسلمان بنائے جاتے ہیں؟ یہ ہے اعلان اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِينَ كَالْمُجْرِ مِينَ تم کیوں نہیں یہ بات دیکھتے مَا لَكُمْ كَيْفَ تَحْكُمُونَ پاگل ہو گئے ہو، ہو کیا گیا ہے تمہیں ؟ یہ فیصلے کر رہے ہو آج؟ أَمْ لَكُمْ كِتُب فِيهِ تَدْرُسُونَ إِنَّ لَكُمْ فِيْهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ کیا تمہارے پاس کوئی ایسی تحریر ہے خدا تعالیٰ کی کوئی ایسی کتاب ہے جس میں یہ لکھا گیا ہو کہ اِنَّ لَكُمْ فِيْهِ لَمَا تَخَيَّرُونَ کہ تمہیں خدا تعالیٰ نے اس بات کی رخصت دے دی ہے، اس بات کا حق دے دیا ہے کہ جو چاہو پسند کرتے پھرو اور جو تم پسند کرو وہی خدا تعالیٰ کی تقدیر بن جائے.یہ تو نہیں ہو سکتا.تمہاری پسند اور خدا تعالیٰ کی پسند میں فرق ہے.خدا کی پسند چلے گی اور تمہاری پسند نہیں چلے گی.آمْ لَكُمُ اَيْمَانُ عَلَيْنَا بَالِغَةٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيمَةِ إِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ کیا تمہارے پاس خدا کا کوئی عہد ہے یعنی خدا نے تم سے کوئی عہد باندھ رکھا ہے جو قیامت تک اب چلتا چلا جائے گا.اِنَّ لَكُمْ لَمَا تَحْكُمُونَ کہ جو چاہو فیصلے کرتے پھرو، خدا تمہیں اختیار دے بیٹھا ہے اب کہ ہمیشہ کے لئے تم ہی فیصلے کیا کرو گے.ہر گز نہیں.نَ وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ میں بتایا کہ قلم اور دوات اور تحریریں خدا کے قبضہ میں ہیں اور تمہیں اختیار نہیں ہے کہ تم خدا کی تحریروں کو بدلو اور خدا کے فیصلوں کو تبدیل کرو.سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِيمُ اگر وہ اصرار کریں کہ ہاں ایسے ہی ہوگا ہم جو چاہیں کریں گے اور جو چاہیں لکھیں گے اور وہی بات خدا کی بات ہو جائے گی.تو کہو کہ پھر کون ہے تم میں سے جو اس بات کا ضامن ہے.مطلب یہ ہے کہ ہم ان چیزوں کو الٹانے والے ہیں.ہم حق
خطبات طاہر جلد۵ 599 خطبه جمعه ۱۲ ر ستمبر ۱۹۸۶ء اور باطل کو ممتاز کر کے دکھانے والے ہیں، ہم دکھانے والے ہیں کہ دنیا کی نظر میں بھی تم پاگل ثابت ہو گے، تمہاری حرکتیں مجنونانہ حرکتیں ثابت ہوں گی اور جن کو تم مجنون اور پاگل سمجھ رہے ہو وہی صاحب فہم قرار دئیے جائیں گے.پس جماعت احمدیہ کے لئے اس سے زیادہ اور کیا ضمانت ہو سکتی ہے کہ قرآن کریم میں صاحب لوح و قلم نے یہ ضمانت عطا فرما دی ہے کہ تم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق کا دامن پکڑ لو اور اس پر قائم ہو جاؤ اور اس پر صبر کر کے بیٹھ جاؤ ، پھر خدا قسم کھاتا ہے لوح و قلم کی قلم اور دوات کی اور ان تحریروں کی جو تقدیر کی تحریریں ہوتی ہیں کہ لازما تم غالب آؤ گے اور تم میں اور تمہارے مخالفوں میں فرق کر کے دکھایا جائے گا.یہ ضمانت تمہارے پاس قرآن کریم کی ضمانت ہے اس کے مقابل پر اگر ان کا دعویٰ اس سے مختلف ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سَلْهُمْ أَيُّهُمْ بِذلِكَ زَعِید اگر اس کے مخالف دعوی کرتے ہو تو بتاؤ تمہارا کون ضامن ہے، ہمارا تو خدا ضامن ہے، ہماری تو کتاب الہی ضامن ہے.پس آپ خلق عظیم پر قائم ہوں.باقی سب باتیں نہ نظر آنے والی ہیں.لیکن ایک علامت آپ کی ایسی ہے خلق عظیم پر قائم ہونا جسے دنیا دیکھ سکتی ہے.جسے احمدی دیکھ سکتا ہے جسے نظام جماعت دیکھ سکتا ہے.اگر آپ خلق عظیم کی نظر آنے والی صفات سے عاری ہوں گے تو یہ دعویٰ کر لینا کہ جو غیر مرئی صفات اس سے پیچھے ہیں وہ ہمارے پاس ہیں ہم ان پر قائم ہیں صرف خلق عظیم سے عاری ہیں یہ کہنا غلط اور جھوٹ ہے.خلق عظیم بنیاد ہے ان ساری نعمتوں کی جن کا ذکر آنحضرت ﷺ کے متعلق تفصیل سے کیا گیا ہے اور خلق عظیم ہی وہ کسوٹی ہے جس پر دنیا پر کھ سکتی ہے.پس آپ خلق عظیم پر قائم ہوں اور خلق عظیم سے مراد عام روزمرہ کی بول چال میں نرم ہونا نہیں ہے خلق عظیم کا مضمون تو بہت ہی عظیم الشان اور بہت ہی وسیع مضمون ہے اور وہاں بھی یہ مضمون جاری ہوتا ہے جہاں کوئی نہیں دیکھ رہا ہوتا.وہاں بھی جاری ہوتا ہے جہاں سب دیکھ رہے ہوتے ہیں.بہت بار یک مضمون ہے خلق عظیم کا جس کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سیرت کے مطالعہ سے ہی سیکھا جا سکتا ہے.اسی لئے میں نے جماعت کو تلقین کی تھی نئے مالی سال کے آغاز پر کہ اپنے پروگراموں میں آنحضرت ﷺ کی سیرت کے مضمون پر بہت غیر معمولی زور دیں اور اب ہماری
خطبات طاہر جلد۵ 600 خطبه جمعه ۱۲ رستمبر ۱۹۸۶ء تو بقا، ہماری تو زندگی کا تو انحصار اس بات پر ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ خلق عظیم والے کی پیروی کرو تو ہم ضامن ہیں کہ خدا کی تقدیر تمہارے ساتھ چلے گی.تمہاری حفاظت کرے گی تمہیں ہلاک نہیں ہونے دے گی.تمہارے مخالفوں سے فرق کر کے دکھائے گی اگر خلق عظیم سے عاری ہو جاؤ گے تو پھر کوئی ضمانت باقی نہیں رہتی.اس لئے غیر معمولی طور پر ہمیں اخلاق حسنہ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.جو گہرے اخلاق ہیں محض ظاہری نہیں.عائلی زندگی کے اخلاق ، بیویوں سے سلوک ، بچوں سے سلوک، برعکس ان کے بچوں کا اپنے والدین سے سلوک ، بیویوں کا اپنے خاوندوں سے ، اپنے ماحول سے، اپنے لین دین میں، اپنے معاملات میں، اپنے قول میں، یہ سب خلقِ عظیم کے وہ پہلو ہیں جن میں آپ کو درست ہونا چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے قریب تر پہنچتے رہیں.قریب پہنچنا تو ایک نسبتی معاملہ ہے لیکن قریب تر پہنچتے رہنا یہ سب سے زیادہ اہم ہے.یعنی کسی مقام پر بھی کھڑے ہو جانا غلط ہے.جب میں یہ کہتا ہوں کہ قریب تر پہنچتے رہیں تو مراد ہے کہ ہر خلق کو ہمیشہ صیقل کرتے رہیں ، یہ سمجھتے ہوئے کہ چونکہ آنحضرت عملے کے خلق جیسا کامل نہیں ہو سکا اس لئے مزید گنجائش ہے اور خلق عظیم کا نمونہ ہمیں دے کر ایک لا متناہی سفر دے دیا ہے اخلاق کو مانگنے کا اور اپنے حسن کو سنوارنے کا اور نکھارنے کا کوئی ایک بھی خلق ایسا نہیں جس میں آپ کے پاس بہتری کی گنجائش موجود نہیں ، یہ اعلان ہو رہا ہے یہاں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے سوا کبھی کسی کے متعلق خدا تعالیٰ نے یہ گواہی نہیں دی کہ وہ خلق عظیم پر واقع ہے.بہت ہی بڑی گواہی ہے.اسلئے آنحضرت ﷺ کی پیروی جب لازم فرما دی تو ساتھ اس کا ایک طبعی نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ بعینہ آنحضرت ﷺ کی طرح خلق عظیم پر اور کوئی واقع نہیں.اسلئے ہم پر کوشش فرض ہے اور یہ انکسار بھی ضروری ہے کہ ساری کوششوں کے باوجود ہم پھر بھی خلق عظیم سے نیچے رہ جائیں.یہ ضرور کر سکتے ہیں کہ خلق عظیم کی طرف ہمیشہ بڑھتے رہیں اور ہمارے لئے ہمیشہ بڑھتے رہنے کا امکان کھل گیا ہے.ایک موقع پر بھی ہم Still نہیں ہو سکتے ، ایک موقع پر بھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب ہم انتہاء کو پہنچ گئے ہیں اب ہم دوسرے کاموں کی طرف توجہ کریں.فرمایا محمد مصطفی ﷺ کی پیروی شروع کرو ساری زندگی تم اس کام میں مصروف رہوتب بھی تمہارے لئے مزید گنجائشیں خدا پیدا کرتا رہے گا.تو صرف یہ اعلان
خطبات طاہر جلد۵ 601 خطبه جمعه ۱۲ رستمبر ۱۹۸۶ء نہیں ہے کہ تم آگے نہیں بڑھ سکتے، ہر گز یہ مراد نہیں ہے.Emphasis اس بات پر ہے، زوراس بات پر ہے کہ تم آگے بڑھ سکتے ہو اور ہمیشہ آگے بڑھ سکتے ہو ایک بھی زندگی کا دن تم پر ایسا نہیں آئے گا آگے بڑھتے ہوئے کہ جہاں تم یہ کہ سکو کہ اب بس کافی ہو گئی.جہاں تک تمہاری کوششوں کا تعلق ہے چونکہ تم حضرت محمد مصطفی حملے کے قریب جانے کی کوشش کر رہے ہو اس لئے سفر اتنا لمبا ہے کہ تم زندگی میں ختم نہیں کر سکتے مگر آگے ضرور بڑھ سکتے ہو.اس لئے میں نے یہ کہا تھا کہ آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے قریب تر ہوتے رہنے کی کوشش کرنا اس پر جماعت کو زور دینا چاہئے اور جہاں تک مخالفین کے بلند بانگ دعوے ہیں، ان کی گیدڑ بھبھکیاں ہیں، ان کے خوف دلانے کے عزائم ہیں ، یہ ساری چیزیں بے کار اور بے معنی ہیں.اللہ آپ کا ضامن ہے، اللہ آپ کا محافظ ہے، خدا آپ کا وکیل ہے، خدا آپ کا نصیر ہے.کھلے کھلے لفظوں میں آپ کو وعدے دے رہا ہے، آپ کو تسلیاں دے رہا ہے، آپ کو گر سکھا رہا ہے کہ کس طرح آپ دنیا میں باقی رہنے والے بنیں گے.آپ کو کس بات کا خوف ہوسکتا ہے.اس لئے کامل تو کل کے ساتھ خدا تعالیٰ نے جو رستے سکھائے ہیں آگے بڑھنے کے اور دوام پانے کے اور ہمیشہ کی زندگی پانے کے اور خدا کی تقدیر کا مظہر بننے کے، ان رستوں پر چلیں.اللہ تعالیٰ آپ کا حافظ و ناصر ہو.آمین.
خطبات طاہر جلد۵ 603 خطبه جمعه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۸۶ء چند معاشرتی برائیوں سے بچنے اور اپنے معاشرے کو جنت نظیر بنانے کی نصیحت ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ ستمبر ۱۹۸۶ء بمقام ٹورانٹو کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْم مِنْ قَوْمٍ عَلَى أَنْ يَكُوْنُوْا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَانِسَاءٍ مِنْ نِّسَاءِ عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيْمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَيكَ هُمُ الظَّلِمُوْنَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ اَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمُه يَاَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأَنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ
خطبات طاہر جلد۵ 604 خطبہ جمعہ ۱۹ ر ستمبر ۱۹۸۶ء أكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ اَتُقُكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيْمٌ خَبِيرٌ ) اور پھر فرمایا: (الحجرات: ۱۱-۱۴) قرآن کریم کی یہ چند آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں حسن معاشرت کے تمام بنیادی اصول بیان فرما دیئے گئے ہیں اور ان تمام باتوں سے روکا گیا ہے جس سے انسانی معاشرہ کسی نہ کسی رنگ میں بیمار پڑ جاتا ہے اور خوشی کی بجائے دکھوں اور تکلیفوں کا موجب بن جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ معاشرت کی بنیاد ہی اس تصور پر ہے کہ ایک انسان جوا کیلے ایک بھلائی کو نہیں پاسکتا اجتماعی کوشش سے وہ بھلائی اس کو نصیب ہو جائے.ورنہ فی الحقیقت تو انسان ایک خود غرض جانور ہے.اگر اکیلا رہ کر اس کا بس چل سکتا کہ سب خیر اس کو حاصل ہو جاتی تو وہ کسی دوسرے کی خاطر کسی تکلیف کو بھی برداشت نہ کرتا اور اپنے آرام میں کسی دوسری چیز کو خل نہ ہونے دیتا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ نے ایک فرد کو دوسرے فرد پر انحصار کرنے والا بنایا ہے اس لئے کہ خدا کے سوا کوئی نہیں جو کسی دوسرے کی احتیاج سے بالا ہو اس لئے ایک انسان کو دوسرے انسان کی احتیاج رہتی ہے لیکن اس احتیاج کی بنیاد خیر پر واقع ہوئی ہے.اس کا مقصود یہ ہے کہ خیر بڑھے نہ یہ کہ تکلیف بڑھے.پس معاشرہ میں جب بھی کوئی ایسا عمل جاری ہو یا کوئی ایسا فعل انسان سے سرزد ہو جس کے نتیجہ میں دکھ پیدا ہوتا ہے تو یہ معاشرت کے اصول کے بالکل بر عکس چیز ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ آج کی دنیا میں معاشرہ بالعموم بدیاں پھیلانے کا موجب بن چکا ہے اور خیر پھیلانے کا اور خیر کے حصول کا ذریعہ کم رہ گیا ہے.قرآن کریم چونکہ بنیادی اصولوں سے تعلق رکھنے والی کتاب ہے اور ہر زمانے پر حاوی ہے اس لئے قرآن کریم نے حسن معاشرت کے اصول بیان فرمائے اور ان چیزوں سے رکنے کی تاکید فرمائی جن کے نتیجہ میں معاشرہ خراب ہو سکتا ہے.پہلی بات معاشرہ کی تباہی کی موجب افتخار بیان فرمائی گئی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرُ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُوْنُوْا خَيْرًا مِّنْهُمْ دیکھو ایک قوم دوسرے پر بڑائی محسوس کر کے اس رنگ میں اس کی تحقیر نہ کرے، اس رنگ میں اس پر نہ ہنسے گویا وہ اس سے
خطبات طاہر جلد۵ 605 خطبہ جمعہ ۱۹ ر ستمبر ۱۹۸۶ء ادنی ہے.بظاہر تو یہ ایک چھوٹی سی بات ہے لیکن آج کی دنیا میں خصوصاً مغربی دنیا میں اس آیت کا یہ ٹکڑا بڑی شدت کے ساتھ عمل دکھا رہا ہے.ساؤتھ افریقہ میں جتنے بھی دکھ پھیلے ہیں اور بھی تک ساؤتھ افریقہ جن دکھوں سے گزر رہا ہے اس کی بنیاد یہی قومی تفاخر ہے.ایک قوم کو خیال ہے کہ وہ دوسری قوم سے بہتر ہے.اسرائیل کے قیام کے تصور بھی اسی غلط خیال کا نتیجہ ہے.اسرائیلی قوم کو بھی یہ گمان ہے کہ وہ خدا کے دوسرے بندوں سے بہتر ہے.اس لئے محض قومیت کی بناء پر انہوں نے اپنا ایک عالمی مرکز قائم کرنے کا حق دنیا سے تسلیم کروایا اور محض نسلی امتیاز کی بنا پر وہ اکٹھے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہودیت میں سے مذہب کا حصہ اب تقریباً عنقا ہو چکا ہے.ایک نسل کے فخر کا ایک احساس ان کے دلوں میں ایسا شدت کے ساتھ پایا جاتا ہے کہ آج دنیا پر جو تفوق چاہتے ہیں، جو تسلط پیدا کرنا چاہتے ہیں.خالصیۂ نسلی امتیاز کے نظریہ پر یہ کوشش کی جارہی ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ایسی اعلیٰ نسل کے لوگ ہیں کے تمام دنیا پر حکومت کا حق رکھتے ہیں اور عجیب بات ہے کہ نازیوں کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تقدیر نے ان کو مار پڑوائی جن کا اپنا یہی نظریہ تھا.بعض کے ذریعہ بعض کو جب خدا سزا دلواتا ہے تو ویسے ہی بعض چتا ہے ان کے لئے.لوہا لوہے کو کا تا ہے اور یہ ممکن نہیں ہے کہ لکڑی سے آپ لوہا کاٹیں اس لئے جب ایک بد کو دوسرے بد سے سزا دلوانی ہو تو ان میں ا یک ہی جیسی خصلتیں پائی جاتی ہیں ایسی خصلتوں کے لوگ خدا اختیار فرماتا ہے جو کسی دوسرے بد کے پہلے کے ہوں.اسے جس طرح خدا کی تقدیر چاہے سزا دے بھی سکتے ہوں.اسی طرح مغربی ممالک میں جو نسلی امتیاز کے نتیجہ میں آئے دن لڑائیاں ہوتی ہیں اور قتل و غارت ہوتے ہیں.انگلستان میں کیا ہو رہا ہے؟ مغربی جرمنی میں کیا ہو رہا ہے؟ دیگر ممالک میں کیا ہورہا ہے.ان سب کی بنیاد یہی نسلی تفاخر کا تصور ہے.اشترا کی دنیا جو دو نیم ہو چکی ہے اور یورپین اشترا کی نظریہ بنیادی طور پر اگر چہ مشرقی اشترا کی نظریہ کے مطابق ہے، اس سے ہم آہنگ ہے.اس کے باوجود چین میں اشتراکیت اور روس میں اشتراکیت میں ایک نمایاں فرق پیدا ہو گیا ہے.چینی اشتراکیت روسی اشتراکیت کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر نہیں آگے بڑھ سکتی.اتنے شدید بنیادی اختلاف پیدا ہو چکے ہیں کہ ایک دوسرے کے
خطبات طاہر جلد۵ 606 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء دشمنوں کے ساتھ وہ دوست بن سکتے ہیں لیکن آپس میں نظریہ کے اشتراک کے باوجود ایک دوسرے کے دوست نہیں بن سکتے.اس کے پس منظر میں بھی یہی نسلی امتیاز کا تصور ہے جو کارفرما ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ روس اگر چہ دنیا میں اشتراکیت کا غلبہ چاہتا ہے لیکن زردرنگ کی اشتراکیت کا غلبہ نہیں چاہتا بلکہ سفید فام اشتراکیت کا غلبہ چاہتا ہے جیسا کہ غالب نے کہا ہے : آئیں وہ یاں خدا کرے، پر نہ کرے خدا کہ یوں آئیں تو سہی لیکن اس طرح نہ آئیں کہ رقیب کے ساتھ آئیں.پس روس بھی زرد فام قوموں کے غلبہ کو ، خواہ اشتراکیت کے نام پر ہواشتراکیت کی وجہ سے ہو، کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتا.پس نظریات کی دنیا ہو یا سیاست کی عام دنیا ہوکسی پہلو سے آپ دیکھیں آج دنیا میں بڑے بڑے اختلافات جونہایت ہی خوفناک جنگوں پر منتج ہو سکتے ہیں جو عالمگیر تباہیوں پر منتج ہو سکتے ہیں ان کی بنیاد نسلی افتخار کے تصور پر قائم ہے.پس قرآن کریم نے فرمایا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْهِ کہ ایک قوم اپنے آپ کو دوسری قوم سے بڑا سمجھتے ہوئے اس کی تحقیر نہ کرے، اس کو اپنے سے ادنیٰ نہ جانے.اسکے معابعد قرآن کریم فرماتا ہے کہ کوئی عورت کسی عورت کے اوپر تفاخر اختیار نہ کرے اور اس سے مذاق ان معنوں میں نہ کرے کہ اس کی تحقیر کر رہی ہو.قوموں کے مقابل پر عورت کو بھی رکھ دینا بظا ہر یہ ایک بے جوڑ بات دکھائی دیتی ہے.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ قومی تفاخر کا ذکر ہے عالمی حیثیت سے اور معاشرتی تفاخر کے طور پر عورت کو پیش کیا گیا ہے ایک نمائندہ کے طور پر.کیونکہ معاشرے میں جتنی بھی برائیاں پھیلتی ہیں ایک دوسرے پر بڑائی دکھاتے ہوئے وہ عورت کی طرف سے زیادہ تر رونما ہوتی ہیں اور عورت کا مزاج اس بات سے قریب تر ہے کہ وہ دوسرے کے اوپر ، دوسرے خاندانوں کے اوپر ، دوسری عورتوں اور لڑکیوں کے اوپر اپنی بڑائی خاندانی طور پر ظاہر کرے اور اپنے آپ کو بہتر سمجھے.بہت کم آپ کو مرد ایسے نظر آئیں گے جو خاندانی طور پر اپنی فوقیت جتانے کے نتیجہ میں کسی لڑائی کو پیدا کرنے والے بنے ہوں لیکن معاشرہ کی اکثر لڑائیاں عورتوں کے ان طعنوں کے نتیجہ میں ہوتی ہیں کہ تم کس خاندان کی ہو اور وہ کس خاندان کا ہے اور اس کی ذات کیا ہے اور اس کی قومیت کیا ہے اور رشتے ڈھونڈتے وقت بھی یہ ساری باتیں چلتی ہیں اور اگر رشتہ ہو جائے تو پھر بھی مسلسل یہ سلسلہ جاری رہتا ہے.تو جہاں
خطبات طاہر جلد ۵ 607 خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۸۶ء برائی زیادہ شدت کے ساتھ پائی جاتی تھی اسے نمایاں کرنے کی خاطر مرض پر انگلی رکھ دینے کی خاطر خدا تعالیٰ نے معاشرے کی برائی کا ذکر کرتے ہوئے عورت کو بطور مثال پیش فرمایا اور اسے تنبیہ کی کہ دوسری عورتوں کے اوپر فوقیت نہ دکھایا کرو.ان دونوں جملوں کے ساتھ عَلَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ ، عَلَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں.اس میں خدا تعالیٰ ایک عظیم الشان قومی تغیرات کا راز بیان فرماتا ہے.جس طرح رات دن میں بدلتی ہے اور دن رات میں اسی طرح یہ قومی تفاخر بھی تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور یہ خیال غلط ہے کہ ایک قوم ہمیشہ کے لئے دوسری قوم پر ایسی فضیلت اختیار کر جائے کہ ان کے اندر ایک تفاخر کی وجہ پیدا ہو جائے.ذاتوں کے فخر بھی بدلتے رہتے ہیں.قوموں کے فخر بھی بدلتے رہتے ہیں.ان کے بدلنے کی رفتار اتنی آہستہ ہے کہ عموماً انسان اپنی زندگی میں ان کو محسوس نہیں کر سکتا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر پیچھے مڑ کے دیکھے تو خود اپنے زمانے میں ہی ان تغیرات کو پیدا ہوتا ہوا محسوس کر سکتا ہے.آج سے چالیس سال پہلے یا پچاس سال پہلے ہندوستان میں ذات پات کی جس قدر تمیز پائی جاتی تھی آج اس کا عشر عشیر بھی باقی نہیں رہا.انگلستان میں جو نوابی کے تصورات سوسال پہلے پائے جاتے تھے آج اس کا سوواں حصہ بھی باقی نہیں.وہ قومیں وہ لوگ وہ پیشے جن کو بہت تحقیر سے دیکھا جاتا تھا آج وہ معزز ترین پیشے بن گئے ہیں، معزز ترین قومیں بن گئی ہیں.پس قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ تو مراد یہ ہے کہ یہ قدریں کوئی باقی رہنے والی قدریں نہیں ہیں.اگر خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہوتا کہ ایک نسل کو دوسری نسل پر فوقیت دی ہوتی اور ایک قوم اور ذات کو دوسری قوم اور ذات پر فوقیت دی ہوتی تو ان کے تبدیل ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.اللہ کی بنائی ہوئی چیزیں، اللہ کی بنائی ہوئی تقدیر کو تو کوئی بدل نہیں سکتا.خدا کی سنت تو غیر محول اور غیر مبدل ہوتی ہے.تو فرمایا کہ ان کے جھوٹا ہونے کا اور ان کے بے معنی اور بے بنیاد ہونے کا ثبوت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے کہ یہ چیزیں بدل جائیں گی.آج وہ لوگ جو فخر کر رہے ہیں دوسروں پر.عین ممکن ہے کہ کل وہی لوگ ان پر فخر کر رہے ہوں اور ان کو تحقیر سے دیکھ رہے ہوں، حقیر جان رہے ہوں.تو یہ جو عالمی تصورات ہیں جو رفتہ رفتہ رونما ہونے والے ہیں اور بعض
خطبات طاہر جلد۵ 608 خطبه جمعه ۱۹ ر ستمبر ۱۹۸۶ء دفعہ سینکڑوں سال میں بعض دفعہ ہزاروں سال میں بالکل نظریات کی کایا پلٹ دیتے ہیں ان تصورات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ باقی رہنے والی چیزیں نہیں ہیں.فخر کی چیز تو وہی ہوسکتی ہے جو باقی رہنے والی ہو.یہ تو عارضی واقعات ہیں عارضی رونما ہونے والے عوارض ہیں ان سے بڑھ کر ان کی کوئی حیثیت نہیں.پھر قرآن کریم فرماتا ہے.وَ لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ کہ ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کیا کرو، طعنے نہ دیا کرو.لمز کا مطلب ہے طعن کرنا کسی کو کاٹنا زبان سے، چر کے پہنچانا ، دکھ پہنچانے کی خاطر بات کرنا.لَا تَلْمِزُوا تم ایک دوسرے کو دکھ پہنچانے والی باتیں نہ کیا کرو.وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ اور نام اس خاطر نہ رکھا کرو کہ ناموں کے ذریعہ کسی کی تحقیر ہو اور یہ جو بیماریاں ہیں یہ بھی قوموں میں بھی پائی جاتی ہیں اور افراد میں بھی پائی جاتی ہیں ، عالمی سطح پر بھی پائی جاتی ہیں اور معاشرتی سطح پر پائی جاتی ہیں.بعض لوگ بعض قوموں کے نام رکھتے ہیں یہ بتانے کی خاطر کہ یہ ذلیل و ادنیٰ لوگ ہیں.چنانچہ نیگر (Nigger) جب حبشی کو کہا جاتا ہے، سیاہ فارم قوموں کو تو نیگر (Nigger) کا لقب بھی تکلیف دینے کی خاطر ہے.اور جب امریکہ یا کینیڈا میں ”پیکی (Paki) کہتے ہیں کسی کو یعنی پاکستانی تو ایک بڑی شدید گالی سجھی جاتی ہے.یعنی بدقسمتی سے پاکستانیوں کا وہاں کردار ایسا رہا ہے یا کوئی اور وجو ہات پیدا ہوئی ہیں کہ اس کے نتیجہ میں ایک سفید فام قوم نے ہماری قوم کا نام پیکی (Paki) رکھ دیا ہے اور یہ بھی تَنابَزُوا بِالْأَلْقَابِ کی ایک ذلیل مثال ہے.نیچے سکھوں کو بھی پیکی (Paki) کہتے ہیں.جو بے ہودہ کام کر رہے ہوں ہندو ہوں تب بھی ان کو پیکی کہیں گے.کسی اور قوم سے تعلق رکھتے ہوں برائی کی نشانی پیکی بن گئی ہے.گویا نعوذ باللہ پاکستانی ہر برائی کا مرجع اور منبع ہے، ہر برائی اسی سے پھوٹتی اور اسی میں لوٹ کر آتی ہے اور انفرادی طور پر غلط نام رکھنے یہ تو عام رواج ہمارے ملک میں پایا جاتا ہے.سکولوں میں تو یہاں تک رواج تھا کہ ہر استاد کا ایک ایک نام رکھا ہوتا تھا اور اصل نام سے بعض لوگ استادوں کو جانتے ہی نہیں تھے اس برے نام سے جانتے تھے اور یہاں تک کہ کئی سال گزرنے کے بعد ایک نسل بوڑھی ہوگئی تب بھی استاد کا اصل نام تو یاد نہیں رہا ، یہ لقب یا درہ گیا کہ فلاں صاحب یہ تھے اور فلاں صاحب یہ تھے.تو یہ معاشرہ کی برائیاں ہیں جن
خطبات طاہر جلد۵ 609 خطبہ جمعہ ۱۹ ر ستمبر ۱۹۸۶ء کے نتیجہ میں ہر طرف گس گھولی جاتی ہے، زہر پھیلتا ہے ، خاندان خاندانوں سے لڑتے ہیں ، بیوی خاوند سے لڑتی ہے، ساس بہو سے لڑتی ہے اور سارے گھر کا امن برباد ہو جاتا ہے.پھر فرمایا: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمُ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو بے وجہ خیال آرائیاں نہ کیا کرو اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظرت تم وہموں میں مبتلا رہ کر ہی زندگی گزار دو گے؟ سوچتے رہتے ہو کہ فلاں نے یہ بات کیوں کی ہوگی ، کس کے لئے کی ہوگی ، کس بری نیت سے کی ہوگی یا فلاں کا یہ فعل کیوں ہوا ہوگا اور اس کے نتیجہ میں اپنے ذہنوں میں ہی کہانیاں بنتے رہتے ہو اور ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پالتے رہتے ہو.چنانچہ معاشرہ میں بہت سی برائیاں گھروں میں كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.یہ نہیں فرمایا کہ ظن بالکل نہ کرو کیونکہ استنباط ایک ظن کا حصہ ہے.بعض مواقع پر بعض علامتیں ظاہر ہوں تو ظن کے بغیر چارہ نہیں.لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظنوں میں مبتلا نہ ہو جاؤ اپنی زندگی کوظنوں کے سپرد نہ کر دو گویا کہ تم ظنوں کے ہو کر رہ گئے ہو تو ہمات، بے بنیاد باتیں سوچنا اور یہ نہیں فرمایا کہ ہر فن گناہ ہے بلکہ فرمایا اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِتھ بہت زیادہ ظن کی عادت ڈالو گے تو بعض ظن ایسے ہوں گے ، بعض گمان ایسے ہوں گے جو گناہ بھی ہو جائیں گے.اسی لئے ہمارے محاورے میں حسن ظن اور سوء ظن دو محاورے پائے جاتے ہیں.تو جب فرمایا اجْتَنِبُوا كَثِيرَامِنَ الظَّنِ تو مراد یہ ہے کہ سوءظن سے بچو اور یہ کہنے کی بجائے کہ سوءظن سے بچو جب یہ فرمایا کہ اکثر ن نہ کیا کر تو مراد یہ ہے کہ عموما ظن کی عادت اچھی نہیں ہے.ایک بہت ہی لطیف رنگ ہے.یہ بات کو بیان کرنے کا اگر آپ جدید رحجانات سائنس کے دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بہت ہی گہری سچائی ہے اس طرز بیان میں.جولوگ ظن پر مائل ہوتے ہیں وہ شواہد کے تلاش چھوڑ دیتے ہیں اور جو لوگ شواہد کی فوقیت دیتے ہیں وہ بطن سے اکثر بچتے ہیں.مجبور ہو جائیں تو ظن کرتے ہیں ورنہ وہ شواہد کے پیچھے چلتے ہیں ، شواہد کے جستجو میں رہتے ہیں.تو یہ ایک بنیادی اصول ہے جو قوموں کے لئے بہت ہی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے اگر وہ اس کی کنہ کو پا جائیں.
خطبات طاہر جلد۵ 610 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء سائنس نے تمام ترقی اس بات پر کی ہے کہ شواہد کی تلاش کی ہے اور اگر کوئی ظطن پیدا بھی ہوا ہے تو اس کا نام وہ Hypothesis رکھتے ہیں اور ظن پیدا ہونے کے بعد وہ اس پر انحصار نہیں کرتے بلکہ شواہد کی جستجو شروع کر دیتے ہیں اور جب شواہد ، کسی حد تک گواہ مل جائیں کہ ہاں اس ظن کے صحیح ہونے کا امکان موجود ہے تو پھر وہ اسے کہتے ہیں کہ اس کا نام تھیوری (Theory) یا نظریہ ہے.اور پھر بھی شواہد کی تلاش نہیں چھوڑتے یہاں تک کہ اور بڑھتے ہیں اور وسیع نظر کرتے ہیں ماضی کے شواہد بھی دیکھتے ہیں، حال کے شواہد بھی دیکھتے ہیں، مستقبل میں جو رخ اختیار کر سکتے ہیں تجارب، ان پر بھی نظر ڈالتے ہیں اور جب دیکھتے ہیں کہ ہر لحاظ سے ہر پہلو سے وہ نظر یہ درست تھا اور اس کے بدلنے کا کوئی امکان نہیں تو اس کا نام Law رکھ دیا جاتا ہے ، یہ سائنس کا قانون ہے.اگر اس کے برعکس ظن پر راضی رہنے والی قو میں ہوتیں جیسا کہ مشرق میں بدقسمتی سے یہ بیماری پائی جاتی ہے تو اپنے ظن کے مطابق وہ شواہد کو موڑنے کی کوشش کرتے اور جس طرح روحانی دنیا میں گناہ ہوتے ہیں مادی میں دنیا میں بھی گناہ ہوتے ہیں.مادی دنیا میں بھی بعض ظن ، سوء بن جاتے ہیں.چنانچہ جتنا کیمیا گروں نے مشرق کی دولتوں کو لٹایا ہے اور خاک کے سوا ان کے پلے کچھ بھی نہیں پڑا.یہ سارا اسی گناہ کی پاداش ہے کہ وہ بطن میں مبتلا ہوئے ، كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِ کے عادی ہو گئے اور بعض ظن جو غلط تھے ان کو درست کرنے کی بجائے وہ ان کی پاداش انہوں نے دیکھی قوموں کو بلندی سے تنزل کی راہ پر اتار دیا.تو ظن کی عادت بڑی بری چیز ہے.قرآن کریم نے اسی لئے یہ نہیں فرمایا کہ براظن کیا نہ کر وہ فرمایا کہ نظن سے بچنے کی کوشش کرو.جہاں تک ممکن ہے جستجو کرو اور جہاں تک ممکن ہے حقائق کی تلاش کرو.حقائق کی جستجو تمہاری عادت ہونی چاہئے اور ظن تمہاری عادت نہیں ہونی چاہئے.اگر ظن تمہاری عادت بن گیا تو پھر لازما تم بعض برے ظنوں میں بھی مبتلا ہو گے جن کی پاداش دیکھو گے اور بدقسمتی سے مشرقی دنیا میں معاشروں کی تباہی کا ایک بڑا موجب ظن کی کثرت ہے.وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا یہ اسی کی پیداوار ہے.حقائق کا سامنا کرنے کی جن قوموں کو عادت نہیں رہتی.وہ منہ پر بات کرنا بھی نہیں جانتے تھے.وہ Escapeاختیار کرتے ہیں شواہد سے اور یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ ان کی بات چیلنج ہو جائے گی.اسی لئے فرضی باتوں کے عادی پیٹھ پیچھے باتیں کرتے ہیں، چھپ کر باتیں کرتے ہیں، چھپ کر طعن و تشنیع کرتے ہیں اور لمز کی
خطبات طاہر جلد۵ 611 خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۸۶ء ط یہ انتہاء ہے لمز کہتے ہیں طعن و تشنیع جو منہ پر کی جائے.جب یہ بدی بڑھ جاتی ہے اور ناسور بن جاتی ہے یا کینسر ہو جاتی ہے تو اس سوسائٹی میں پھر سامنے کی طعن و تشنیع کو چھوڑ کر پھر غیب میں باتیں کی جاتی ہیں ، دوسرے کو اپنے دفاع کا کوئی موقع ہی نہیں ملتا.یہ سب سے بڑھی ہوئی بدصورت اس بیماری کی ہے اور اس کا ظن سے گہرا تعلق ہے.فرماتا ہے اَیحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ " اس کے متعلق میں ایک گزشتہ خطبہ میں تفصیلی گفتگو کر چکا ہوں.عجیب مثال دی ہے قرآن کریم نے يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ کہ کیا تم اپنے لئے یہ بات پسند کر لو گے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہو.چونکہ اس مضمون کا عنوان یہ باندھا گیا تھا اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمُ دیکھ مومن بھائی بھائی ہیں اس لئے بھائیوں کے درمیان اصلاح کی کارروائی کرو، ہرایسی بات کرو جس سے بھائی ایک دوسرے پر راضی رہیں.اس لئے یہاں بھائی سے مراد سگا بھائی نہیں ہے ہر مومن بھائی ہے اور بھائی کہہ کر اس کے گوشت کی طرف توجہ دلانے کا مطلب یہ ہے کہ مردہ بھائی کا گوشت اول تو بھائی کا گوشت کھانا ویسے ہی مکروہ چیز ہے.مردہ کہ کر اس طرف توجہ دلائی کہ وہ اپنا دفاع نہیں کرسکتا ، جو مرضی اس سے کرو اس کو کچھ پتہ نہیں.چنانچہ اس کراہت کو نمایاں کر کے دکھا دیا ور نہ خالی یہ کہہ دیا جاتا کہ تم اپنے بھائی کو گوشت کھانا پسند کرتے ہو؟ مردہ بھائی کا گوشت کہہ کر اس کی بیچارگی کو بھی ظاہر کیا جس کے خلاف باتیں کی جارہی ہیں اور اس کی لذت کی حقیقت کو بھی ظاہر کیا کہ جسے یہ طیب غذا اپنے لئے سمجھ رہا ہے کہ کسی کے خلاف غیب میں باتیں کر کے اس کی برائیاں کر کے ایک مزہ اٹھا رہا ہے یہ ایسی مکروہ چیز ہے کہ مردے کا گوشت کھانے والی بات ہے اور بھی بھائی مردہ ہو.ایسی فصاحت و بلاغت کا مرقع ہے یہ کلام کہ ایک بات کو جب بیان فرماتا ہے تو انتہاء تک پہنچا دیتا ہے اور کتنے چھوٹے سے جملے میں اس برائی کی کتنی تفصیل کے ساتھ مذمت فرما دی گئی.الله وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو، وہ بہت بار بار تو بہ کو قبول کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے.یا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ و أنثى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا ہم نے تو تمہیں اے انسانو! اس لئے پیدا کیا تھا مرد اور عورت میں وَ جَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ اور تمہیں قبائل میں اور قوموں میں
خطبات طاہر جلد۵ 612 خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۸۶ء ہے.اس لئے تفریق کیا تھا لِتَعَارَفُوا تا کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو.اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أَنقُكُمْ یقینا تم میں سے سب سے معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ متقی ہے اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ اللہ بہت جاننے والا اور بہت خبر رکھنے والا ہے.اس آیت میں عموماً مختلف علماء شُعُوبًا وَقَبَائِل کو اپنے خطابات کے لئے نمایاں حیثیت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمہیں جو تفریق کیا گیا قوموں میں اس کی وجہ یہ نہیں کہ تم میں سے ایک دوسرے پر عزت پائے بلکہ اس کی اور وجہ ہے اور پہلے حصہ کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے جہاں اللہ تعالی فرماتا ہے.اِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ اُنٹی ہم نے تمہیں مرد اور عورت پیدا کیا.اس لئے اسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے کہ ترجمہ کرنے والا یا تقریر کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا لِتَعَارَفُوا سے تعلق کوئی نہیں ، یہ گویا کہ ضمنا ہی ذکر چل پڑا ہے اس کا اس مضمون سے تعلق کوئی نہیں.مرد اور عورت کو اس لئے تو نہیں پیدا کیا کہ تا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو ، ہاں شُعُوبًا وَقَبَابِلَ اس لئے پیدا کیا کہ ایک دوسرے کو پہچان سکو.امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم کا یہ انداز ہے کہ بعض مضامین جو واضح ہوتے ہیں ان کا ذکر چھوڑ دیتا ہے اور ایک مضمون کے تسلسل میں ایک بات نتیجہ نکالے بغیر بیان فرما دیا کرتا ہے.چونکہ مضمون یہ چل رہا ہے کہ ایک دوسرے پر بڑائی نہ کرو ایک دوسرے کے اوپر اپنی فضیلت نہ جتاؤ ایک دوسرے کو حقیر نہ جانو اس لئے پہلا حصہ اس جملے کا اِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَ انٹی یہ معنی رکھتا ہے کہ جس طرح قوموں میں کوئی فخر نہیں ہے اس طرح مرد اور عورت ہونے میں بھی کوئی فخر نہیں ہے.محض اس بنا پر کہ کوئی مرد ہے اسے کوئی فضیلت نہیں ہے کسی دوسرے انسان پر یا محض اس بنا پر کہ کوئی عورت ہے اسے کسی دوسرے انسان پر فضیلت نہیں ہے.یہ جو آج کل مغربی دنیا میں یہ بحث چل رہی ہے کہ عورت بہتر کہ مرد بہتر یا دونوں میں برابری ہو.قرآن کریم اس مضمون کو اس رنگ میں پیش نہیں فرماتا جس رنگ میں مغربیت کا رخ جارہا ہے لیکن بنیادی طور پر عورت اور مرد کے برابر حقوق کو ضرور تسلیم کرتا ہے اور یہاں یہ ذکر اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ مرد کو عورت پر بھی کوئی فضیلت نہیں ہے.یہ نہ سمجھنا کہ چونکہ تم مرد ہو اس لئے تمہیں حق ہے کہ کسی عورت کی تحقیر کرو اور اس کی تذلیل کرو.جس طرح بعض قوموں میں بعض محاورے پائے جاتے ہیں جو عورت کی برائیوں کے اظہار پر وقف ہوتے ہیں یعنی یہ
خطبات طاہر جلد۵ 613 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء سمجھا جاتا ہے کہ عورت ذات ہے تو اس میں یہ بات ضرورت پائی جاتی ہے.مقابل پر عورتوں نے بھی شاید مردوں کے لئے کچھ ایجاد کئے ہوں مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس حیثیت سے ہرگز کوئی تفریق نہیں ہوسکتی.عزت کے لحاظ سے بلند مرتبے کے لحاظ سے صرف اور صرف ایک معیار ہے اِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللهِ آنقكُم وہی تم میں سب سے معزز ہے جو سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھنے والا ہے.اِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے اور خوب خبر رکھتا ہے اس بات کی کہ تم لوگ کیا کرتے ہو ، کیوں کرتے ہو، تمہارے اعمال کی کننہ کیا ہے ، مقصد کیا ہے تمہاری باتوں اور تمہارے افعال کا ، ہر بات سے اول سے آخر تک خوب باخبر ہے اور ان کے پیدا ہونے والے نتائج سے بھی باخبر ہے، دور دراز اثرات جو ان کے مرتب ہوں گے ان پر بھی نگاہ رکھتا ہے.آنحضرت معہ چونکہ صفات باری کے مظہر اتم تھے ان معنوں میں کہ انسان کو جتنی بھی استطاعت ہے خدا کی صفات میں رنگین ہونے کی اس کو آنحضرت ﷺ نے درجہ کمال تک پہنچا دیا.اور درجہ کمال تک پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ صفات حسنہ میں سب سے آگے بڑھ گئے اور صلى الله قرآن کریم نے بھی اسی مضمون کو آنحضرت علیہ کے حق میں باندھا اور حضرت رسول اکرم ﷺ نے بھی اس مضمون کو اپنے الفاظ میں بیان فرمایا.چنانچہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں.انما بعثت لاتمم مكارم الاخلاق الکبرای کتاب الشهادة باب بیان مکارم الاخلاق) ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اعلیٰ ترین اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں.حضرت امام مالک موطا میں یہی روایت درج فرماتے ہیں مگر ایک لفظی فرق کے ساتھ.وہ فرماتے ہیں کہ ہمیں تو یہ بات پہنچی ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا بعثت لاتمم حسن الاخلاق (موطا کتاب الجامع باب فی حسن الخلق ) کہ میں اس لئے مبعوث فرمایا گیا ہوں کہ میں اخلاق کے حسن کو اس کے درجہ کمال تک پہنچا دوں.بنیادی طور پر مضمون ایک ہی ہے.پس صفات باری پر تعالیٰ میں رنگین ہونے کا مطلب جہاں ایک طرف الوہیت سے تعلق قائم کرنا ہے وہاں دوسری طرف عبدیت سے تعلق قائم کرنا بھی ہے اور اخلاق کا بہترین ہونا اس کا ایک طبعی اور لازمی نتیجہ ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی انسان با خدا تو بن رہا ہو خدا کی صفات میں تو رنگین ہو رہا ہولیکن دنیا کے لحاظ سے
خطبات طاہر جلد۵ 614 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء نہایت بدخو ہو اور انسانوں کے لئے اس کا گوشہ نرم نہ ہو.اس لئے صفات باری تعالیٰ کا جو مضمون میں بیان کر رہا ہوں اس کا یہ مقصد ہے کہ جماعت احمد یہ ان صفات میں اس طرح رنگین ہو کہ اس کا ایک رنگ بنی نوع انسان پر بھی ظاہر ہو رہا ہو ساتھ ساتھ.یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اندرونی طور پر انسان میں کوئی پاک تبدیلی ایسی پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ سے اس کا تعلق بڑھ رہا ہو اور اس کے باوجود بنی نوع انسان سے اس کا تعلق کم ہورہا ہو، خدا تعالیٰ کے لئے اس کا دل نرم ہو رہا ہو اور بنی نوع انسان کے لئے اس کا دل سخت ہو رہا ہو.یہ متضاد باتیں ہیں یہ ایک وقت میں ممکن ہی نہیں.اس لئے صفات باری تعالیٰ کے سب سے کامل ،سب سے حسین مظہر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو دیکھیں تو یہ عقدہ حل ہو جائے گا جتنا زیادہ خدا کی صفات میں آپ رنگین ہوئے اتنا ہی زیادہ حسن اخلاق کی دولت آپ کو عطا فرمائی گئی بلکہ یہاں تک عظمت آپ کو عطا کی گئی کہ خدا تعالیٰ نے خود فرمایا کہ تجھے ہم نے عظیم اخلاق پر قائم فرمایا ہے.عظیم سے بڑھ کر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اخلاق کے لئے کوئی اور لفظ استعمال نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں.اللہ جل شانہ ہمارے نبی ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: ۵) یعنی تو ایک بزرگ خلق پر قائم ہے.سو اسی تشریح کے مطابق اس کے معنی ہیں یعنی یہ کہ تمام قسمیں اخلاق کی سخاوت، شجاعت ، عدل ، رحم ، احسان ، صدق، حوصلہ وغیرہ تجھ میں جمع ہیں.غرض جس قدر انسان کے دل میں قو تیں پائی جاتی ہیں.جیسا کہ ادب ، حیا، دیانت، مروت، غیرت ، استقامت ، عفت، زہادت، اعتدال ، مواسات یعنی ہمدردی ، ایسا ہی شجاعت، سخاوت،عفو صبر ، احسان ،صدق ، وفا وغیرہ جب یہ تمام طبعی حالتیں عقل اور تدبر کے مشورہ سے اپنے اپنے محل اور موقع پر ظاہر کی جائیں گی تو سب کا نام اخلاق ہوگا.اور یہ تمام اخلاق در حقیقت انسانی کی طبعی حالتیں اور طبعی جذبات ہیں اور صرف اس وقت اخلاق کے نام سے موسوم ہوتے ہیں کہ جب محل اور موقع کے لحاظ سے بالا رادہ ان کو استعمال کیا جائے“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد نمبر، اصفحه ۳۳۳)
خطبات طاہر جلد ۵ 615 خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۸۶ء پس آنحضرت ﷺ کے متعلق قرآن کریم نے جب فرمایا إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ تو ان تمام صفات حسنہ کا ذکر فرما دیا جو انسان میں جمع ہوسکتی ہیں جس کے چند نمونے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تفسیر فرمائی محض ان اخلاق کا ، ان صفات حسنہ کا آنحضرت عمل کو جمع قرار نہیں دیا بلکہ یہ فرمایا کہ یہ اخلاق اپنے اپنے محل پر حضرت رسول کریم ﷺ کو عطا کئے گئے.ایک بزرگ خلق پر قائم ہے، یہ ایک ایسا عظیم الشان ترجمہ ہے کہ اس ترجمہ کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو سلطان القلم بنارہا تھا یا کس طرح آپ کو سلطان القلم اس نے بنایا تھا.آپ ترجمے اٹھا کر دیکھ لیں جہاں جہاں بھی خلق عظیم کا ترجمہ آئے گا وہاں لفظ بزرگ کی طرف کسی کا خیال نہیں جائے گا.مگر امر واقعہ یہ ہے کہ اس سے بہتر اس محل اور موقع پر خلق عظیم کا ترجمہ ممکن نہیں.تجھے بزرگ خلق پر قائم کیا گیا ہے.بڑی عظمت ہے اس لفظ بزرگ میں ، بڑی گہرائی ہے اور عظیم کا اس سے بہتر اور ترجمہ ممکن نہیں.پس آنحضرت ﷺ کو بزرگ خلق پر قائم فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر خلق جو اپنی انتہا کو پہنچا ہے جو بلند مرتبے تک پہنچ چکا ہے، اس خلق پر آنحضرت ﷺ کو قائم فرمایا گیا اور خود حضور کے اپنے الفاظ انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق اسی بات کے مظہر ہیں کہ مجھے مبعوث فرمایا گیا کہ میں مکارم اخلاق کا اہتمام کروں ، ان کو انتہا تک پہنچاؤں.مکارم اخلاق سے کیا مراد ہے؟ مکارم اخلاق سے مراد ہے وہ خلق جو عزت کے اعلیٰ ترین منصب پر فائز ہو.معزز ترین اخلاق ، بزرگ ترین اخلاق، جو بزرگ ترین مقام تک دنیا کے لحاظ سے پہنچ چکے تھے اور آج تک کوئی دوسرا اس سے آگے ان کو نہیں بڑھا سکا تھا، میں انہیں بھی کامل کر کے دکھا دوں، انہیں نئی بلندیوں تک پہنچا کے دکھاؤں اور بتاؤں کہ کچھ حصہ باقی رہ گیا تھا جو میر امنتظر تھا کہ محمد مصطفی ﷺ دنیا میں ظاہر ہوں اور اخلاق کو ان چوٹیوں سے اٹھائیں جن پر ان کو گزشتہ بزرگوں نے قائم کیا تھا اور نئے بلند تر مقامات تک ان کو پہنچا دیں.یہ منصب ہے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ کا اور ہم ایک ایسی قوم ہیں ایسی خوش نصیب قوم ہیں جو ایسے بلند صاحب اخلاق انسان کے غلام کہلانے کے مستحق ٹھہرے.لیکن مستحق ٹھہرے یا نہیں یہ ایک الگ سوال ہے.مستحق ٹھہر نا چاہئے
خطبات طاہر جلد۵ 616 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء جن کو کیونکہ آنحضرت علی کی پیروی کا دعوی کرنے کے بعد آج مسلمان جو اخلاق میں دنیا میں سب سے ذلیل ترین قوموں میں شمار ہونے لگا ہے.یہ اتنا بڑا اتضاد ہے، اتنا بڑا ظلم ہے کہ اس ظلم کا اگر آپ تصور کریں تو آپ کا رواں رواں خدا کے خوف سے کانپنے لگے.ایک معمولی ماں باپ کے بیٹے سے جب کوئی غلطی سرزد ہو جاتی ہے تو لوگ اسے طعنہ دیتے ہیں کہ دیکھتے نہیں تم کس باپ کے بیٹے ہو اور اس طعنے پر بعض لوگ کٹ مرتے ہیں.اس باپ کی حیثیت کیا ہے محمد مصطفی علیہ کے بزرگ اخلاق کے مقابل پر اور عظمتوں کے مقابل پر.یہ طعنہ آج اسلام کو مل رہا ہے، یہ ظلم کیا جارہا ہے آج اسلام پر کہ مسلمانوں کو نمایاں کر کے مسلمانوں کو مخاطب کر کے کہا جاتا ہے کہ تم وہ مسلمان ہو جو کہتے ہو کہ تمام دنیا میں بلند ترین اخلاق پر فائز کئے گئے تھے تم وہ مسلمان ہو جو یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تمہارے آقا و مولیٰ تمام دنیا میں سب صاحب خلق لوگوں سے افضل اور سب پر سبقت لے جانے والے تھے.اپنا منہ دیکھو، اپنے اعمال دیکھو، اپنی حرکتیں دیکھو اور پھر سوچو کہ اپنے آقا کی کیا تصویر تم دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہو.اتنا خوفناک طعنہ ہے، اتنا دل ہلا دینے والا طعنہ ہے کہ اس کے باوجود اگر کوئی غیرت نہ دکھائے یا اس کے اندر ایک حیرت انگیز تبدیلی پیدا نہ ہو، بیدار ہو کر اگر کوئی غور سے دیکھے نہ کہ میں کون ہوں اور کیا ہوں اور مجھ سے کیا توقعات کی جارہی تھیں تو ایسا آدمی تو معلوم ہوتا ہے یا وہ غفلت کی نیند میں سو یا پڑا ہے کہ اٹھ نہیں سکتا اور یا پھر وہ مردہ ہو چکا ہے.جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ وہ اس کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرے.جماعت احمد یہ آج اس مقام پر فائز کی گئی ہے ، اس غرض سے قائم کی گئی کہ ان کھوئی ہوئی عظمتوں کو حاصل کرے.جو محد مصطفیٰ کے غلاموں کو زیبا ہیں.جن کے بغیر عمل کی دنیا میں ہم حضرت محمد مصطفی نے کی عظمت کو ثابت ہی نہیں کر سکتے.کروڑ ہا سیرت کی آپ کتابیں لکھ دیں لیں ، ارب ہا میلا دمنا ئیں ، ہر دن کو ایک میلاد شریف میں تبدیل کر دیں اور ہر رات کو سیرت کے نغمے گاتے ہوئے گزار دیں مگر حقیقت میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی عظمت اخلاق کا دنیا کو قائل نہیں کر سکتے جب تک آپ صاحب خلق نہ بن کر دکھا ئیں اور پھر یہ فخر کے طور پر پیش نہ کریں کہ سب کچھ ہم نے آقا سے پایا ہے.تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے یہ گیت تو تب زیب دیتا ہے اگر آپ کے قدم آگے بڑھتے ہوئے نظر آرہے ہوں.
خطبات طاہر جلد ۵ 617 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء لیکن بد قسمتی کی انتہا ہے ، ایک عجیب دردناک المیہ ہے کہ اس آقا کے غلام ہو کر جسے مکارم اخلاق کو آگے بڑھانے کے لئے قائم کیا گیا تھا، بلند ترین چوٹیاں جو اخلاق کی آپ سے پہلے تمام بنی نوع انسان نے قائم کی تھیں محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس لئے مبعوث کیا گیا کہ ہر خلق کی چوٹی سے اس خلق کو اٹھاؤں اور بلند تر مقام پر کھڑا کر کے دکھا دوں کہ یہ ہے اصل مقام.ان کے غلام ہو کر ان کی طرف منسوب ہو کر آج امت مسلمہ کے اخلاق کا یہ عالم ہو کہ ہر دنیا کی ایرہ غیرہ عام دنیا کی لا مذہب تو میں بھی ان کے اوپر تمسخر کریں اور تشنیع کریں اور کہیں کہ ہاں یہ اخلاق ہیں.دہر یہ پہ بھی ہنس رہے آج ، بگڑے ہوئے مذاہب والے بھی ہنس رہے ہیں اور مشرک بھی ہنس رہے ہیں، فلسفی دان بھی ہنس رہا ہے اور دنیا وی Civilization اور تہذیب و تمدن کے علم بردار بھی ہنس رہے ہیں.کیا جماعت احمدیہ نے اس میدان میں آگے قدم بڑھایا ہے یا نہیں؟ یہ وہ سوال ہے.میں یہ سمجھتا ہوں کہ اتنے گوشے ابھی خلا کے باقی ہیں، اخلاق کی طرف توجہ دینے کا اتنا بڑا کام ابھی باقی ہے کہ اگر ہم نے اس کی طرف توجہ نہیں دی تو ہم دنیا کے معلم قرار نہیں دیئے جاسکیں گے.اگر اس کے باوجود ہمیں دنیا کا مربی بنا دیا گیا تو یہ دنیا پر احسان نہیں ہوگا.اس لئے جوں جوں فتح کے دن قریب آرہے ہیں ان گوشوں پر میری نظر پڑتی ہے اور میں خدا کے سامنے ہول سے کانپنے لگتا ہوں کہ اے خدا محض تیرا فضل ہے جو ان حالات کو تبدیل فرما دے اور ہمیں وہ عظمتیں عطا فرمائے جن عظمتوں کی خاطر تو نے ہمیں پیدا کیا ہے.ورنہ ہر قدم پر کمزوریاں ہیں، ہر قدم پر رخنے ہیں.ایک خلا تو نہیں ہر سمت میں کئی خلا ہیں.جب ہم غیروں کے مقابل پر اپنے آپ کو دیکھتے ہیں تو یقیناً ایک عظمت کا احساس پیدا ہوتا ہے، جب ہم دوسروں کے مقابل پر اپنے اخلاق پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک طمانیت کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے لیکن میں آج جو بات کہہ رہا ہوں وہ یہ نہیں کہ نعوذ بالله من ذالک جماعت احمد یہ دوسری قوموں کے مقابل پر دوسرے مذاہب اور فرقوں کے مقابل پر آج کم اخلاق رکھنے والی ہے.میری نظر تو محمدمصطفی ع کے خلق عظیم پر ہے.میں اس لئے یہ موازنہ کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ ادنی پر راضی ہو کر نہ بیٹھ جائیں.اپنے سے نیچے کے اخلاق کے ساتھ آپ نے موازنہ کیا تو آپ ترقی نہیں کر سکیں گے کیونکہ آپ سمجھیں گے کہ آپ کو سب پر فوقیت حاصل ہوگئی.اگر دیکھنا ہے ترقی کی نظر سے آگے بڑھنے کی خاطر تو ہمیشہ محمدمصطفی ﷺ کے اخلاق پر اپنی نظریں مرکوز رکھیں.پھر
خطبات طاہر جلد۵ 618 خطبه جمعه ۱۹ر تمبر ۱۹۸۶ء دیکھیں گے آپ کہ آپ کو کتنا محرومی کا احساس بڑھے گا، کیا کچھ پانے کی نئی تمنا ئیں آپ کے دل میں پیدا ہوں گی.ہر وقت ایک لگن لگی رہے گی کہ ہمیں یہ بھی بنا تھا اور وہ بھی بنا تھا اور وہ بھی بننا تھا اور وہ بھی بنا تھا.ابھی تو ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے.پس یہ وہ نظریہ ہے جس کی خاطر مجھے چند باتیں آپ کے سامنے پیش کرنا ہوں گی.آج چونکہ خطبہ کا وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے میں اس مضمون کے دوسرے حصے کو آئندہ جمعہ تک اٹھا رکھتا ہوں.بہت سی ایسی معاشرتی خرابیاں جماعت میں پیدا ہو چکی ہیں جس نے جماعت کی عائلی زندگی کو بھی تباہ کر دیا ہے اور آئندہ نسلوں پر بہت برے رنگ میں اثر انداز ہوسکتی ہیں.بیسیوں خط مجھے ا روزانہ ملتے ہیں ایسی باتوں کے جن کو پڑھ کر شدید تکلیف پہنچتی ہے کہ احمدی گھروں میں خاوند ایسے ہیں اور بیویاں ایسی ہیں اور بہود کیں ایسی ہیں اور سائیں ایسی ہیں، نندیں ایسی ہیں اور نندوئی ایسے ہیں.گھروں میں وہ فیکٹریاں ہیں در حقیقت جہاں سے گلیاں سنورتی بھی ہیں اور بگڑتی بھی ہیں.گلیوں میں جو جرم پلتے ہیں وہ بھی دراصل گھروں سے نکل کر گلیوں میں جمع ہوا کرتے ہیں.گلیوں میں جو نیکی کے کام جاری ہوتے ہیں وہ بھی پہلے گھروں میں بنتے ہیں پھر گلیوں میں ظاہر ہوا کرتے ہیں.اس لئے اگر آپ نے معاشرہ کو درست کرنا ہے سب سے چھوٹے یونٹ یعنی گھر پر نظر کرنی ہوگی.گھر کو جنت میں تبدیل کئے بغیر آپ نہ اپنے شہر کو جنت میں تبدیل کر سکتے ہیں نہ عالم کو جنت میں تبدیل کرنے کا دعوی کر سکتے ہیں.اس لئے انشاء اللہ حسب توفیق آئندہ خطبہ میں خصوصیت کے ساتھ چند معاشرتی بیماریوں کا ذکر کر کے میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ جلد تر ان سے اجتناب کریں اور استغفار کریں اور اپنے معاشرے کو حسین بنانے کی کوشش کریں.دنیا تو آپ کو جہنم میں مبتلا کرنے کے لئے ہر کوشش کر رہی ہے، کم سے کم آپ خود اپنے لئے تو جنت پیدا کریں، خود تو ایسے معاشرہ میں بسیں جس کا نام قرآن کی رو سے جنت ہے اور جس کا شجر ، شجرہ طیبہ ہے جس کو حسین پھل لگتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد۵ 619 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء اپنے اندر قوت مؤثرہ پیدا کریں، پردہ کی روح اور اہمیت نیز خاتمیت محمد علی کی پر معارف تشریح ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء بمقام مونٹریال کینیڈا) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيْنَ وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمان (احزاب: ۴۱) اور پھر فرمایا: آج کے خطبہ کے لئے میں نے ایک تربیتی مضمون چنا ہے اور گو بظاہر اس آیت کا جس کی میں نے تلاوت کی ہے تربیت سے تعلق دکھائی نہیں دیتا لیکن در حقیقت یہ آیت امت محمدیہ کی تربیت سے ایک بہت ہی گہراتعلق رکھتی ہے اور اس مضمون کو میں انشاء اللہ اس خطبہ کے دوسرے حصہ میں واضح کروں گا.چند دن پہلے ٹورانٹو میں مجلس سوال و جواب کے دوران ایک احمدی بچی نے پردہ سے متعلق سوال کیا.وہ بہت مخلص خاندان کی بچی ہے اور خود بھی پردہ کا نہایت عمدگی کے ساتھ اہتمام کرتی ہے اور اس کے بھائیوں کی تربیت بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی اعلیٰ درجہ کی ہے.لیکن سوال کی طرز میں کچھ طعن کا کا نشا داخل ہو گیا تھا اور اس کے نتیجہ میں میں نے اس بچی سے ناراضگی کا بھی اظہار کیا اور اسے بتایا کہ اس طرح طعن و تشنیع سے تربیت نہیں کی جاتی.لیکن در حقیقت اس بچی نے جو سوال اٹھایا
خطبات طاہر جلد۵ 620 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء تھا وہ اپنی ذات میں اس لائق ہے کہ اس پر توجہ کی جائے.چنانچہ بعد میں میں نے سوچا کہ آئندہ خطبہ میں اس مضمون پر نسبتا زیادہ وضاحت سے روشنی ڈالوں گا.اس کا سوال یہ تھا کہ پردہ پر جو زور دیا جاتا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ بعض خواتین یہاں جب مشن ہاؤس میں آتی ہیں تو سر ڈھانپ لیتی ہیں اور بظاہر یوں محسوس ہوتا ہے کہ کم سے کم پردہ کا ادنیٰ معیار ضرور پورا کر رہی ہیں اور جب باہر بازاروں میں نکلتی ہیں یا اپنے سوشل تعلقات پورا کرنے کے لئے ایک دوسرے کے گھروں میں جاتی ہیں تو نہ صرف یہ کہ پردے کا خیال نہیں کرتیں بلکہ خوب سج دھج کر اور زینت کو ابھار کر باہر آتی ہیں جو پردہ کی روح کے سراسر منافی ہے.یہ میں نے اپنے الفاظ میں اس بچی کے سوال کا مفہوم بیان کیا ہے جس میں کچھ طرز میں تلخی پائی جاتی تھی.حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ چند سال سے میں نے متعدد مرتبہ پردہ کی طرف جماعت کو متوجہ کیا ہے اور اس مضمون پر بڑی تفصیل سے مختلف خطبات میں اور بعض خواتین کے خطابات میں روشنی ڈالی ہے لیکن یہ ایک مضمون ایسا مضمون ہے جو خصوصاً مغربی دنیا میں بار بار یاد دہانی کے لائق ہے.عورتیں اس مضمون میں بحث کرتے ہوئے دو گروہوں میں بٹ جاتی ہیں.ایک وہ گروہ ہے جو خود پردہ کا انتہائی پابند بلکہ پاکستانی طرز کا پردہ جو برقع کہلاتا ہے.برقع اور بھی کئی قسموں کا ہے مثلاً افغانستان میں بھی برقع ہے، عربوں میں بھی برقع کا رواج ہے، ترکی میں بھی برقع کا رواج ہے لیکن میں جس برقع کی بات کر رہا ہوں وہ پاکستانی برقع ہے.تو ایسی خواتین بھی ہیں جو پاکستانی طرز کے پر دے اور برقع میں ملبوس پوری طرح احتیاط کے ساتھ اپنی زندگی بسر کرتی ہیں اور اس بات سے بالکل قطع نظر کہ وہ کس ملک میں رہ رہی ہیں جس پر دے کو سچا پر دہ بجھتی ہیں اسے اختیار کرتی ہیں اور کچھ ایسی خواتین ہیں جو پردہ سے باہر نکلنے کے آخری کنارے پر کھڑی رہتی ہیں اور جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے تو بعض ان میں سے برقع بھی سلوا لیتی ہیں.جب نصیحت میں کچھ دیر ہو جاتی ہے تو برقعے اتر کر پھر چادریں سروں پر آجاتی ہیں.جب کچھ اور دیر ہو جاتی ہے تو چادریں سرکنے لگتی ہیں اور بے احتیاطی بڑھنے لگتی ہے.تو ایسی بین بین کیفیت میں وہ زندگی گزارتی ہیں کہ ان کا دل پر دے پر مطمئن نہیں ہوتا اور وہ یہ سمجھتی ہیں کہ جس سوسائٹی میں ہم زندگی بسر کر رہی ہیں یہاں عورت آزاد ہے اور یہاں ویسے مسائل نہیں ہیں جیسے مسائل پاکستان یا تیسری دنیا کے بعض ممالک میں پائے جاتے ہیں.ادب کے
خطبات طاہر جلد۵ 621 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء تقاضوں کے پیش نظر، بیعت کے تقاضوں کے پیش نظر گوہ باغیانہ مزاج کا اظہار تو نہیں کرتیں مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ دل بہر حال مطمئن نہیں کیونکہ اگر دل مطمئن ہوتا تو وہ بے پردگی سے پردے کی طرف لوٹتے ہوئے ثبات قدم دکھاتیں اور جس چیز کو اچھی چیز سمجھ کے پکڑا تھا اس پر قائم رہتیں لیکن بار بار پہلی حالت کی طرف لوٹنے کا رحجان بتاتا ہے کہ ان کے دل حقیقت میں پوری طرح مطمئن نہیں.جو پہلے گروہ کی خواتین ہیں ان میں سے آگے دو حصے ہیں ایک وہ جو پردہ کرتی ہیں لیکن دوسری خواتین کو حقارت کی نگاہ سے نہیں دیکھتیں ان کے لئے دعائیں بھی کرتی ہیں ان کو نیک نصیحت بھی کرتیں ہیں اور خود اپنی زندگی استغفار کی حالت میں گزارتی ہیں کہ ایک نیکی کی خدا نے ہمیں توفیق بخشی ہوسکتا ہے کہ دوسری نیکیوں میں ہم اپنی بے پر دبہنوں سے پیچھے ہوں.تو ان کی یہ نیکی ان کو تکبر کی حالت میں داخل نہیں کرتی بلکہ ان کے انکسار کو بڑھاتی ہے.یہی ہیں جو سابقات کہلانے کی مستحق ہیں، یہی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے تزکیہ کے لئے چن لیا ہے اور اگر نیکی کے ساتھ آپ تکبر کے پہلو کو داخل نہ ہونے دیں تو حقیقی فلاح کا یہی رستہ ہے.یا دوسرا گروہ ان میں ایسا ہے جو بعض دفعہ نادانی کے نتیجہ میں بعض دفعہ نیکی کے تکبر میں مبتلا ہو کر اپنی دوسری بہنوں کو طعن و تشنیع کے ساتھ چر کے لگاتی ہیں اور اگر ان کو جماعت کے نظام میں کوئی مقام دیا جائے تو اس کی سخت تکلیف محسوس کرتی ہیں اور ایسی حالت میں زندگی بسر کرتی ہیں گویا انہوں نے تو ایک بہت مشکل قدم اٹھایا تھا ایک تکلیف اٹھائی جماعت کے لئے اور نہ تکلیف اٹھانے والوں کو ان کے برابر کر دیا گیا گویا ان کی نیکی میں ایک اور بھی بیماری کا پہلو پایا جاتا ہے وہ اپنی نیکی کوگویا اسلام پر ایک احسان سمجھتی ہیں اور اسلام کا احسان نہیں سمجھتیں اپنی ذات پر کہ جس نے ان کو اس اعلیٰ نیکی کی راہ پر ڈال دیا اور خدا کا احسان نہیں سمجھتیں جس نے توفیق بخشی کہ بظاہر ایک مشکل کام تھا لیکن اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ان کو یہ توفیق ملی اور خدا ہی کی طرف سے ملی کہ وہ اس مشکل راہ پر خدا کی خاطر قدم اٹھا ئیں.اگر ان کو یہ احساس ہوتا یا یہ احساس ہو کہ نیکی کی توفیق پانا اپنی ذات میں اللہ تعالیٰ کا ایک بہت ہی بڑا احسان ہے تو اس کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو بہتر سمجھتیں اور خوش حال سمجھتی ہیں اور اپنی کمزور بہنوں پر نفرت کی نگاہ ڈالنے کی بجائے ان کو محبت سے دیکھتیں، ان کو پیار سے دیکھتیں مگر درد اور دکھ کے ساتھ.
خطبات طاہر جلد۵ 622 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء یہ وہ بنیادی فرق ہے جس کی تفصیل بیان کرنی بہت ضروری ہے کیونکہ اس کا تعلق صرف پردے سے نہیں بلکہ ہماری اور بھی بہت سی اچھی اور بد عادات سے ہے بلکہ ہر نیکی اور بدی کے ساتھ اس مسئلے کا گہرا تعلق ہے اسے سمجھنا بڑا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ کی ذات ہر نیکی سے مرصع تھی اور نیکی کے انتہائی مقامات پر آپ کو فائز فرمایا گیا.وہ گہری نیکیاں جن کا بندے اور خدا سے تعلق ہے وہ نیکیاں تو ایسی نیکیاں ہوتی ہیں جن میں سے اکثر باہر سے دیکھنے والے انسانوں کو دکھائی نہیں دیتیں اور حقیقت میں خدا اور بندے کا تعلق دنیا کی نظر سے پردے میں رہتا ہے.وہ مثبت فیصلہ کرے کسی کی حالت دیکھ کر وہ بھی غلط ہوسکتا ہے، منفی فیصلہ کرے وہ بھی غلط ہوسکتا ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اندرونی طور پر کسی کا اپنے رب سے کیا تعلق ہے لیکن کچھ نیکیاں ایسی ہوتی ہیں جو باہر سے نظر آتی ہیں اور دکھائی دیتی ہیں جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا اخلاق ان میں سے ایک ہیں.تو آنحضور ﷺ نے فرمایا انی بعثت على مكارم الاخلاق (موطا امام مالک کتاب الجامع ) کہ دیکھو خدا تعالیٰ کی طرف سے میں اخلاق سے بھی چوٹی کے جو انتہائی عزت کے مقام پر فائز اخلاق ہیں ان پر میں فائز کیا گیا ہوں.تو اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے وہ لطیف اور باریک پہلو جو ہمیں دکھائی نہیں دیتے ان کو سر دست نظر انداز بھی کر دیں تو وہ پہلو جو دکھائی دینے والے ہیں یعنی اخلاق کی انتہائی بلندیاں ان پر تو ہم ہر حال میں اگر توجہ کریں تو آنحضور ﷺ کوفائز دیکھ سکتے ہیں.اگر آپ کی سیرت کا مطالعہ کریں تو اکثر سیرت کے مطالعہ کے دورانیہی پہلو ہے جو ہمیں دکھائی دیتا ہے اور اس کے پس منظر میں بہت سے پہلو ہیں جو مخفی رہتے ہیں.اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے مقابل پر ہر دوسرا انسان بداخلاق تھا کیونکہ اخلاق ایک نسبتی چیز ہیں، اخلاق کا سفر ادنیٰ سے اعلیٰ کی طرف ایک لا متناہی سفر ہے اور کم اخلاق والا انسان بعض دفعہ اعلیٰ اخلاق والے انسان سے اتنا دور ہوتا ہے کہ جیسے تحت الثر کی ثریا سے دور ہے.اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اگر وہی طریق اختیار کرتے جو میں نے بیان کیا ہے کہ بعض ہم میں سے کم فہم انسان اختیار کر لیتے ہیں یعنی اپنے سے کمزور کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تو آنحضرت علے کسی ایک فرد بشر کی تربیت کے بھی اہل نہ رہتے.اپنے سے ہر چھوٹے کو آپ نے محبت اور رحمت کی نظر سے دیکھا ہے.اسی لئے قرآن کریم نے آپ کو رحمتہ للعالمین قرار دیا اور
خطبات طاہر جلد ۵ 623 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء عالمین میں انسانوں کے علاوہ بھی تخلیق کو داخل فرما دیا اور انسان سے ادنی تخلیق آنحضرت عے سے اور بھی زیادہ دور تھی کیونکہ تخلیق میں سب سے اوپر انسان ہے.تو آپ کے انتہائی انکسار کے پہلو کو ظاہر فرمانے کے لئے اور آپ کے خدا تعالیٰ کی تخلیق سے گہرے لامتناہی تعلق کو ظاہر کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو رحمتہ للعالمین قرار دیا کہ انسان تو انسان وہ ادنی مخلوقات بھی جو آنحضرت علیہ سے اپنے مقام اور مرتبے کے لحاظ سے بہت ہی گہرائی میں ہے اور بظاہر کوئی بھی ان کا تعلق نہیں ان پر بھی آپ رحمت کی نظر ڈالتے ہیں اور پیار کی نظر سے ان کو دیکھتے ہیں اور ان کی کمزوریوں سے تکلیف اٹھاتے ہیں ان کی سہولت سے آپ کا دل خوش ہوتا ہے اور آپ راحت پاتے ہیں.پس آپ کی زندگی میں ایسے بکثرت واقعات ملتے ہیں جن سے آپ کا رحمتہ للعالمین ہونا اور اس مضمون کے وسیع ہونے کا پتہ چلتا ہے.جاندار چیزیں تو جاندار ہیں بظاہر جو بے جان چیزیں ان پر بھی آپ کی رحمت عام تھی اور ان کے لئے بھی آپ دکھ محسوس فرماتے تھے اگر وہ دکھ میں مبتلا ہوں.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں دو دور ہیں ایک وہ جب آپ ایک درخت کے تنے کے ساتھ سہارا لے کر خطبہ دیا کرتے تھے اور ایک بعد کا دور ہے جبکہ آپ کے لئے منبر بنایا گیا اور آپ منبر پر کھڑے ہو کر خطبہ دیا کرتے تھے.پہلی مرتبہ جب آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے تو کچھ دیر کے بعد منبر چھوڑ کر اس درخت کے پاس آگئے اور اس پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور آپ نے بتایا کہ میں جب منبر پر کھڑا ہوا تو اس درخت سے درد کی چیچنیں اور کراہنے کی آواز میں نے سنی اور مجھے پتہ لگا کہ یہ تکلیف میں مبتلا ہے کہ کیا شان تھی ایک وقت میری کہ محمد مصطفی ﷺ مجھ پر ہاتھ رکھ کر خطبہ دیا کرتے تھے اور آج مجھے سے جدا ہو گئے.خطبہ کے دوران جب کشفی حالت میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ نظارہ دکھایا تو منبر کو چھوڑ کر اس درخت کے پاس تشریف لے آئے اور دوبارہ اس پر ہاتھ رکھ کے خطبہ دیا.( بخاری کتاب البيوع حدیث نمبر : ۱۵۹۲) یہ ایک کشفی نظارہ تھا جو ہمارے لئے ایک گہر اسبق رکھتا ہے کہ کس درجہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ادنیٰ سے ادنی چیز کے لئے پیار تھا اور اس کے لیے محبت تھی اور اس کے لئے درد محسوس فرماتے تھے اور جب ہم سنتے ہیں کہ آپ رحمتہ للعالمین تھے تو یہ ایک فرضی بات نہیں ہے بلکہ یہ ایک بہت ہی گہرا مضمون ہے جس کا حقیقت سے تعلق.ہے.پس اگر تربیت سیکھنی ہے تو آنحضرت ﷺ ہی سے سیکھنی پڑے گی اور تربیت میں نفرت
خطبات طاہر جلد۵ 624 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء اور غصے کا کوئی بھی کردار نہیں.تربیت سے نفرت اور غصے کا کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.تربیت حقیقت میں رحمت سے تعلق رکھتی ہے اور اگر آپ اس مضمون کو سمجھ جائیں تو پھر آپ تربیت کی طرف پہلا قدم اٹھانے کے اہل ہو جائیں گے اور یہ راستہ ایک بہت ہی وسیح راستہ ہے.صرف ایک ہی قدم نہیں آتا اور بھی قدم آتے ہیں اور بھی دشواریاں پیش ہوتی ہیں.اگر آپ تربیت کا مفہوم ہی نہ سمجھیں تو آپ تو پہلا قدم بھی نہیں اٹھا سکتے اور ہمیں تو بہت لمبے سفر کرنے ہیں.اس مضمون کو سر دست ترک کرتے ہوئے میں واپس پردہ کی طرف آتا ہوں اور دوبارہ پھر انشاء اللہ اس خطبہ کے آخر پر اسی مضمون کو دوبارہ پکڑوں گا تا کہ اس کا تعلق خاتم سے واضح طور پر آپ کو دکھاؤں.جہاں تک پردہ کا تعلق ہے احمدی خواتین پر اس مغربی دنیا میں بہت ہی گہری ذمہ داری ہے اور حقیقت میں وہ اپنی اولادوں کو بنا بھی سکتی ہیں اور بگاڑ بھی سکتی ہیں.ایک ایسے ماحول سے آتی ہیں اکثر ہم میں سے کچھ تو ایسی خواتین ہیں جن کی پرورش آزاد ملکوں میں اور ترقی یافتہ ملکوں میں ہوئی لیکن بہت سی ایسی خواتین ہیں جو یہاں تشریف لائیں اور اس ملک کو یا ان ممالک کو اپنا دوسرا ملک بنا لیا.جن کا اقتصادی پس منظر بھی مختلف ہے اور اکثر حالات میں مشکل زندگی بسر کرنے والیاں تھیں اور معاشرتی اور تمدنی پس منظر بھی اتنا مختلف ہے کہ وہاں ادنی سی آزادی پر انگلیاں اٹھا کرتی تھیں اور طعن سنا کرتی تھیں اور بعض دفعہ شکایات ہوا کرتی تھیں.نظام کی آنکھ بھی زیادہ وسیع طور پر نظر رکھنے والی تھی اور نظام کی پکڑ بھی بسا اوقات کڑی ہوا کرتی تھی.اس لئے وہاں جو زندگی انہوں نے بسر کی وہ زندگی آزاد زندگی نہیں تھی.ان کی نیکیوں کے لئے پرورش پانے اور پینے کا ایسا ماحول نہیں تھا کہ ہم ان کی نیکیوں کو حقیقی نیکی سمجھ سکتے.بہت سی ایسی نیکیاں تھیں جو دباؤ کے تابع تھیں اور بہت سی ایسی نیکیاں تھیں جو غربت کے نتیجہ میں خود بخود پیدا ہو جاتی ہیں.حالانکہ نیکی تو وہ نیکی ہے جس میں دوام ہو، جس میں باقی رہنے کی صلاحیت ہو جو وقتی دباؤ کے تابع نہ ہو بلکہ ایک آزاد رو نیکی ہوجس کا وقتی حالات سے کوئی بھی تعلق نہ ہو جغرافیائی حالات سے کوئی بھی تعلق نہ ہو ، ہر حالت میں وہ نیکی رہے.اسی لئے قرآن کریم نے نیکی کے ساتھ باقیات کا لفظ استعمال فرمایا البقِيتُ الصّلِحُتُ (کہف: ۴۷ ).بلکہ باقیات کو پہلے رکھا کہ نیکی کی بنیادی تعریف یہ ہے کہ وہ باقی رہنے والی ہے.ماحول سے متاثر نہ ہو بلکہ ماحول کو متاثر کرنے والی ہو.ہر حال میں زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہو.اسی لئے
خطبات طاہر جلد۵ 625 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے باقیات کے لفظ کو پہلے استعمال فرماتا ہے قرآن کریم کہ نیکی تو ہے ہی وہی جس میں بقا کی طاقت موجود ہو ، جو زندہ رہنے کی اہلیت رکھتی ہو.وہ نیکی جو جگہ بدلنے سے مر جائے یا مرجھا جائے یا نیم جان ہو جائے اسے قرآن کریم کی اصطلاح میں نیکی نہیں کہا جاتا.تو ایسی خواتین جو پردہ میں ملبوس رہا کرتی تھیں یا بعض دیگر امور میں اسلامی پابندیوں کو اختیار کیا کرتی تھیں جب ان سے وہ سارے دباؤ اٹھ گئے اور جب دوسرے محرکات بھی ان کو نصیب ہو گئے جو دوسرے رستوں کی طرف ان کو بلانے والے تھے.اگر وہ نیکیاں جو وہ پہلے وطن میں کیا کرتی تھیں وہ قرآنی اصطلاح میں نیکیاں ہوتیں تو ہرگز اس تبدیلی حالات کا ان کی نیکیوں پر کوئی بھی اثر نہیں پڑنا تھا.لیکن اگر وہ مجبوری کی نیکیاں تھیں، عصمت بی بی بے چارگی کا سا حال تھا ( یہ ایک اردو کا محاورہ ہے ) تو پھر اس صورت میں لازماً ان کے اوپر اثر پڑنا چاہئے تھا اور یہ اثرات کم و بیش بہت سی صورتوں میں ہمیں پڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.پردہ پر جو اس کا اثر پڑا وہ ایسا اثر نہیں ہے جو ان کی ذات تک محدود رہے.اس سے قومی کردار کے بنے یا بگڑنے کا تعلق ہے، آئندہ نسلوں کے سنبھلنے یا ٹھوکر کھانے کا تعلق ہے اور بہت ہی اہم مضمون ہے کیونکہ یہاں جو سب سے بڑا مقابلہ ہے وہ مذہبی دلائل کا نہیں بلکہ تہذیب کی برتری یا تہذیب کے ادنیٰ ہونے کا مقابلہ ہے.مذہبی دلائل بعد کی باتیں ہیں اس دنیا میں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام کی نکر تہذیب کے میدان میں ہو رہی ہے.ایک مغربی تہذیب ہے جس نے اوڑھنی اوڑھ رکھی ہے عیسائیت کی حقیقت میں وہ عیسائیت نہیں ہے ایک فرضی نام ہے عیسائی تہذیب.عیسائیت کا اس تہذیب سے دور کا بھی تعلق نہیں اور ایک اسلامی تہذیب ہے اس کے مقابل پر.ان لوگوں کو جو مادہ پرست ہو چکے ہیں ان کو اگر تہذیب کی برتری دکھائی دے گی اور طمانیت قلب کسی تہذیب میں نظر آئے گا اور کسی تہذیب میں زندہ رہنے کی صلاحیت اور طاقت دکھائی دے گی تو پھر تو یہ اسلام سے مرعوب ہو سکتے ہیں.اگر یہ ان کو دکھائی نہیں دے گا تو آپ کے دلائل کچھ بھی اثر نہیں دکھائیں گے.تو ایک معمولی مضمون نہیں ہے ایک بہت ہی بڑا اور وسیع مضمون ہے اور اس کے مختلف پہلوؤں پر میں بار بار پہلے توجہ دلا چکا ہوں.پردہ ضروری نہیں ہے کہ برقع کی صورت میں اختیار کیا
خطبات طاہر جلد ۵ 626 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء جائے لیکن وہ خواتین جو ایسے ماحول میں پرورش پاچکی ہیں جہاں برقع اور پردہ ہم آہنگ ہو چکے تھے.ایک ہی چیز کے دو نام سمجھے جاتے تھے ، وہاں ان کا برقع چھوڑ نا عملاً پردہ چھوڑنے کے مترادف ہو جاتا ہے اور بسا اوقات برقع چھوڑ نا احساس کمتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.ہزار بہانے وہ نفس کے تلاش کریں کہ نہیں یہاں تو برقعے کی ضرورت نہیں ، یہاں دوسرا پردہ بھی تو ہوسکتا ہے، کم سے کم پر وہ بھی تو کوئی چیز ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ اپنے دل کو ٹول کے دیکھیں تو ان کو محسوس ہوگا کہ یہ سارے نفس نے بہانے بنائے تھے اور سجا کر ایک بات کو دکھایا تھا جو حقیقت میں ایک بد زیب بات تھی.عملا وہ برقع سے نہیں پردہ سے بھاگنا چاہتی تھی اور شرم محسوس کرتی تھی ان گلیوں میں برقع پہن کر کہ کوئی دیکھنے والا کیا کہے گا کہ دقیانوسی عورت کہاں سے آگئی ہے.عورتیں آزاد پھر رہی ہیں ناچ رہی ہیں اور ہر قسم کی دنیا کی لذتیں حاصل کر رہی ہیں.ٹی وی پر دیکھو تو تب کیا اور گلیوں میں جا کر دیکھو تو تب کیا بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اسی دنیا میں رہنا اور یہیں مرجانا ہے اور یہی کچھ مدعا ہے انسانی تخلیق کا.ان باتوں پر جب وہ نظر ڈالتی ہیں اور پھر برقع پہن کر باہر جاتے ہوئے دیکھتی ہیں اپنے آپ کو، لوگوں کی نظروں کو دیکھتی ہیں جو ان پر پڑتی ہیں تو شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں.کہتی ہیں یہ کیا بات ہے ہم کیوں پرانی اور دقیانوسی محسوس ہوں ، کیوں نہ نسبتا ادنی پر دہ کی طرف لوٹ جائیں.ایک یہ طبقہ ہے.شروع میں بظاہر بدی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ شرمندگی کے نتیجہ میں یہ برقع اتارنے والی خواتین ہوتی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ قدم پہلا قدم تو ہوتا ہے آخری قدم نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ تہذیبی اثرات ان پر غالب آنے لگ جاتے ہیں جب ایک دفعہ سر جھکا دیا ایک تہذیب کے سامنے تو وہ سر پھر جھکتا ہی چلا جاتا ہے.کچھ دوسری خواتین ایسی ہیں جن کا نفس بہانے ڈھونڈتا ہے اور وہ یہ کہتی ہیں کہ برقع ثابت کرو کہاں سے آیا ہے قرآن کریم میں.یہ تو برقع ہے ہی نہیں اور پھر کم سے کم پر دہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلامی اصول کی فلاسفی میں واضح فرما دیا ہے تو اس کے بعد ہم پر برقع ٹھونسنا زیادتی ہے.یہ درست ہے کہ برقع جب بھی ایجاد ہوا تھا میں نہیں جانتا کس نے ایجاد کیا تھا، اس کے کچھ پہلو یقینا تکلیف دہ ہیں اور ہو سکتا ہے برقع کی بعض قسمیں اور عملاً ہوتا بھی ہے کہ برقع کی بعض قسمیں پرانی پابندیوں سے بہت بڑھ کر ہیں جو قرآن عورت پر عائد کرتا ہے لیکن جس نے بھی یہ
خطبات طاہر جلد۵ 627 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء پابندیاں قرآن کے نام پر یا اسلام کے نام پر عائد کیں جب وہ ایک سوسائٹی کا حصہ بن گئیں تو ان سے باہر نکلنے میں بعض ایسی احتیاطوں کی ضرورت ہے جو ہمارے اپنے فائدہ میں ہیں.اگر ہم ان احتیاطوں کو چھوڑ دیں گے تو گہرا نقصان اٹھانے والے ہوں گے.کیونکہ ایک لمبی نسلاً بعد نسل تربیت کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ ہم نے برقع کو پردہ سمجھ لیا تھا حالانکہ جیسا کہ میں بیان کیا ہے حقیقت یہی برقع پردہ نہیں ہے پردہ کا ایک ذریعہ ہے اور بعض بہت سی صورت میں اس پردہ سے زیادہ سخت ہے جو اسلام عائد کرتا ہے.مثلاً صوبہ سرحد میں اگر آپ چلے جائیں تو وہاں ایک تنمو قسم کا برقع آپ کو نظر آئے گا اور نہایت ہی ایک خوفناک شکل ہے اس برقع کی.باریک سوراخ آنکھوں کے سامنے ہوتے ہیں اور سارا سر سے پاؤں تک یوں معلوم ہوتا ہے تمبو میں لپٹی ہوئی عورت پھر رہی ہے اور اس کی زندگی ایک تکلیف کی زندگی رہتی ہے ہمیشہ.وہ حتی المقدر باہر ہی نہیں جاتی بے چاری کہ جب بھی جاؤ گی اس مصیبت میں مبتلا ہو کر باہر نکلوں گی.تو بعض اور بھی شدتیں اختیار کرلیں برقع نے جو پنجاب میں عموما نہیں پائی جاتیں اور احمدیت میں جو برقع رائج ہے وہ پنجاب میں رائج دوسرے برقعوں سے بھی نسبتاً آسان ہے.ہم نقاب میں آنکھوں کی جگہ چھوڑ دیتے ہیں عورتیں آنکھیں نیچے کر کے نقاب لیتی ہیں اور بہت بہتر اور زیادہ سہولت والی شکل ہے اور قرآنی تعلیم کے مخالف بھی نہیں.جہاں تک نظر کا تعلق ہے مرد اور عورت میں قرآنی تعلیم میں کوئی بھی فرق نہیں.اگر کوئی یہ کہے کہ عورت کی آنکھ چھپانی ضروری ہے جب کہ مرد کی آنکھ چھپانی ضروری نہیں تو وہ قرآنی تعلیم کو نہیں جانتا.یا اگر جانتا ہے تو کسی اور مصلحت کے پیش نظر ایسی بات کر رہا ہے.جہاں تک حقیقی قرآنی تعلیم کا تعلق ہے مرد اور عورت کی آنکھ میں تعلیم میں فرق نہیں.دونوں کو جھکنا چاہئے ، دونوں کو آزادانہ نہیں پھرنا چاہئے.تو آنکھ کا پردہ تو یہ پردہ ہے.باقی جو چہرے کا پردہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تشریح کے بعد احمدی خواتین میں جو برقع رائج رہا یا اب بھی رائج ہے وہ دوسرے تہذیبی برقع سے نسبتاً آسان تر ہے اور الا ماشاء اللہ اس کی روز مرہ کی زندگیوں میں کوئی دقت پیدا نہیں کرتا.تو جب اس برقع کو چھوڑ کر بعض خواتین یہ کہہ کر کہ برقع پردہ نہیں باہر آنے کی کوشش کرتی ہیں تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض اوقات تو وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو کر ایک دوسری تہذیب
خطبات طاہر جلد ۵ 628 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء کے نیچے سر جھکا کر یہ عذر پیش کرتی ہیں اور بعض دفعہ ان کو نفس آزادی کے تقاضے کرتا ہے جو بے راہ روی کی طرف مائل ہوتی ہے اور پھر اپنے خاوندوں اور اپنے بڑوں کو کہتی ہیں کہ دکھاؤ قرآن کریم سے برقع کہاں لکھا ہوا ہے.بہر حال اگر وہ برقع چھوڑ دیں اور پردہ کی تعریف کے مطابق پردہ کریں تو کسی کو بھی کوئی حق نہیں کہ ان پر انگلی اٹھائے اور ان پر اعتراض کرے.ہم نصیحت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ پتہ ہے کہ اکثر برقع چھوڑنے کے بعد پھر قدم آگے بڑھنے شروع ہو جایا کرتے ہیں اور اولا دوں پر اس کا برا اثر پڑتا ہے.اس لئے بطور نصیحت کے بار بار ان کو توجہ دلائی جاتی ہے اور اگر وہ سختی سے یہ کہیں کہ نہیں ہم اسلامی کم سے کم تعریف پر پورا اتریں گی تو ان کا حق ہے.ہم ان کو زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے کہ اگر تم کم سے کم کی بجائے زیادہ سے زیادہ کی کوشش کرو تو یہ زیادہ نیکی ہوگی.ایک نفلی کام ہے جو قوم کے لئے ممد اور معاون ثابت ہوگا جو ہماری تہذیب کی حفاظت کے لئے بہت ہی کار آمد ہوگا اور اس دنیا میں اسلامی معاشرہ کو غالب کرنے کے لئے اور غالب آنے والی نسلیں پیدا کرنے کے لئے تمہاری یه قربانی بہت دور تک اثر دکھائے گی.اس رنگ میں نصیحت تو ہم کر سکتے ہیں مگر یہ نہیں کہہ سکتے کہ چونکہ تم کم سے کم پردہ کرتی ہو اس لئے تمہارا سوشل بائیکاٹ ہوگا.تمہیں ادنی سمجھا جائے گا.تمہیں بدتر کہا جائے گا.یہ کسی کو کہنے کا حق نہیں.اس لئے بعض خواتین یا جو برقع میں ملبوس رہتی ہیں جب مجھے یہ کہتی ہیں کہ آپ یہ کیوں کہہ دیا کرتے ہیں پھر کہ کم سے کم پردہ بھی کر لو تو کوئی حرج نہیں اور مجھ سے بعض بحثیں کرتی ہیں.میں ان کو یہی کہتا ہوں کہ یہ کہتا تو ہوں لیکن دوسری ساری باتیں سمجھانے کے بعد کہتا ہوں اور یہ اس لئے کہتا ہوں کہ میرا ہر گز کوئی حق نہیں ہے کہ اسلامی شریعت میں دخل اندازی کروں.اسلام کی شریعت کی دو انتہا ئیں معین ہیں اور واضح ہیں ہمیشہ کے لئے ان کی وضاحتیں کرنا انبیاء کا کام ہے.سب سے اول حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کا کام تھا اور آپ نے وضاحت فرمائی اور لمبے دور میں جو حدیثیں بگڑیں یا بعض نا قابل اعتماد ہو گئیں اس کے نتیجہ میں دوبارہ جب وضاحت کی ضرورت پیش آئی تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وضاحت فرما دی.اس وضاحت میں دخل اندازی کرنے والا میں ہوتا کون ہوں.کس ماں کا بیٹا ہے جو وقت کے امام کو جس کو
خطبات طاہر جلد ۵ 629 خطبه جمعه ۲۶ / تمبر ۱۹۸۶ء خدا نے بنایا ہواس کو شریعت کا وضاحت کرنے والا نہ سمجھے اور اس پر اضافے کر دے یا اس میں کمی کر دی.اس لئے جو کچھ بھی کوئی کہے میں ہر گز اس کم سے کم معیار کو بدلنے والا انسان نہیں ہوں، نہ میری طاقت ہے نہ میری حیثیت ہے.اس لئے وہ تو میں ضرور بیان کروں گا لیکن وہ معیار بھی جسے آپ کم سے کم سمجھتی ہیں ایک بہت ہی اعلیٰ معیار ہے کیونکہ اس کے پیچھے پردے کی ساری روح قائم ہے.وہ سارے تقاضے جو پردے کے ہیں ان کو نظر انداز کرنے کے بعد وہ کم سے کم معیار نہیں رہتا بلکہ ان کوملحوظ رکھنے کے بعد پھر وہ کم سے کم معیار بنتا ہے اور یہ ایک بہت بڑا مطالبہ ہے.ایسی خواتین جو چہرہ اتنا ڈھا نہیں صرف جتنا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلامی اصول کی فلاسفی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہاتھ سے ایک تصویر بنا کر دکھایا ہے تو بالکل کافی ہے لیکن اس کے ساتھ جو روح بیان فرمائی ہے اس کو بھی تو ملحوظ رکھیں.اگر اس کی روح مار دیں گے تو پردہ کا بت تو قائم ہو جائے گا ایک زندہ پر دہ قائم نہیں ہو سکتا.اس صورت میں ان خواتین کو چاہئے کہ باہر جب نکلیں تو ہر گز سنگھار نہ کریں.اپنی آسائش کو بڑھا کر نہ دکھائیں، اپنی چال ڈھال میں ایک وقار پیدا کریں، اپنے جسم کو سمیٹ کر رکھیں اور ہرگز ایک بیمار آدمی کو یہ احساس نہ ہو کہ یہ ہمیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں بلکہ ان کی نظر ایک غلط نظر کو دھتکار کر پیچھے پھینکے.اگر یہ روح ہے پردہ کی تو وہ کم سے کم معیار جسے آپ کم سے کم سمجھ رہی ہیں وہ کم سے کم رہتا ہی نہیں در حقیقت ایک بہت بلند معیار بن جاتا ہے اور کسی کا حق نہیں کہ اس کے اوپر اعتراض کر سکے.لیکن ظاہری طور پر کم سے کم صورت کو اختیار کر لینا اور اندرونی طور پر کم سے کم کو کلیۂ نظر انداز کر دینا اور ہر اس چیز کو جو روح کہلاتی ہے اس کو بھلا دینا یا پرے پھینک دینا حقارت سے یہ تو پردہ نہیں ہے.اس کے کچھ اثرات ایسے ہیں جو ذاتی ہیں مجھے اس وقت ان سے زیادہ بحث نہیں ہے.انفرادی نیکیاں، انفرادی بدیاں ہر ایک کا معاملہ اپنے رب سے ہے وہ جس کو چاہے گا بخشے گا ،جس کو چاہے گا پکڑے گا لیکن میں بحیثیت قومی نگران کے خصوصیت کے ساتھ وہ پہلو آپ کے سامنے لانا چاہتا ہوں جو ساری قوم پر اثر انداز ہوتے ہیں اور اس زمانے کے احمدیوں پر نہیں بلکہ آئندہ آنے والے احمدیوں پر بھی شدید اثر انداز ہوں گے.یہ تمدنی تقاضے اگر آپ چھوڑ دیں گے، اسلام کے تمدنی تقاضے اور یہ معاشرتی تقاضے اگر آپ چھوڑ دیں گے جو اسلام کے معاشرتی تقاضے
خطبات طاہر جلد۵ 630 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء ہیں تو اس کے بہت ہی گہرے اثرات آپ کی اولا دوں پر مترتب ہوں گے.ایک بنیادی اصول ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے جس کو بھلانے کے نتیجہ میں قو میں بعض دفعہ شدید نقصان اٹھاتی ہیں اور قوموں کی ترقی اور تنزل میں یہ بنیادی اصول ہمیشہ کارفرما رہتا ہے اور وہ اصول یہ ہے کہ جب آپ نیکی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو یہ اوپر کا رستہ ہے جس کے لئے دقت ہوتی ہے اور مشکل پڑتی ہے.up hill task یعنی چڑھائی پر چڑھنے کا رستہ ہے اور جب آپ بدی کی طرف قدم بڑھاتے ہیں تو وہ اترائی کا رستہ ہے جو نسبتاً آسان ہے اور آپ کے قدموں میں تیزی پیدا کرنے والا رستہ ہے.اس لئے جب ماں باپ نیک ہوں تو ہر گز ضروری نہیں کہ اولا دبھی خود بخود نیک بنے.ماں باپ کا نیکی کا رستہ ایک مشکل رستہ ہے.اس لئے وہ دس قدم چلیں گے تو ایک قدم اولا د آئے گی.سوائے اس کے کہ وہ دس گنا محنت کریں اپنی اولاد پر.اس لئے صرف نیک ماں باپ کی اولاد نیک نہیں ہوا کرتی.ان نیک ماں باپ کی اولا دنیک ہوتی ہے جو اپنی نیکی کے علاوہ اپنی اولا د پر دس گنا محنت کرتے ہیں اور بدی کا رستہ اترائی کا رستہ ہے.اگر ماں باپ ایک قدم بدی کی طرف اٹھائیں گے تو اولا د دس قدم آگے بڑھائے گی.اور صرف ایک قدم پر نہیں ٹھہرے گی.اس لئے وہ بے احتیاطیاں جو آپ معاشرتی لحاظ سے یا تمدنی لحاظ سے یا اخلاقی لحاظ سے یا مذ ہب کے اعلیٰ تقاضوں کے لحاظ سے کر جاتے ہیں ان کا اولاد پر اثر مترتب ہوتا چلا جاتا ہے.وہ مائیں جو مغربی تہذیب سے مسحور ہو جاتی ہیں اور متاثر ہو جاتی ہیں ان کے بالوں کے کٹنے کے انداز میں ، ان کے گفتگو کے انداز میں، ان کے اپنے بدن کو سمیٹنے یا نہ سمیٹنے کے انداز میں ، ان کی چال ڈھال میں نظر آنے لگ جاتا ہے کہ یہ ہاتھ سے نکل رہی ہیں، مسحور ہو چکی ہیں ایک دوسری تہذیب سے.مجبور ہیں زیادہ قدم اس لئے نہیں اٹھا سکتیں کہ دیکھنے والی آنکھیں ایسی ہیں جن کے دیکھنے کو یہ نظر انداز نہیں کر سکتیں.ان کے بزرگ ہیں، ان کے بھائی ہیں، ان کے خاوند ہیں ،ان کے دوسرے عزیز ہیں جو جب ان کو دیکھتے ہیں تو ان کی حفاظت کرتے ہیں.اگر یہ ساری آنکھیں ہٹ جائیں ، یہ ساری نگرانی ختم ہو جائے تو جہاں وہ کھڑی ہیں اس سے کئی گنا زیادہ آگے ایک غلط راستے کی طرف جاتی ہوئی دکھائی دیں گی.اس لئے ایسی خواتین جب پردہ تو ڑتی ہیں یا پردے سے بے پردگی کی طرف رفتہ رفتہ بھی قدم بڑھاتی ہیں تو یہ سمجھ لینا کہ ان کی اولا دان کی حقیقت کو سمجھ نہیں رہی
خطبات طاہر جلد۵ 631 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء ہوتی اس پس منظر کو نہیں سمجھ رہی ہوتی یہ بہت ہی سادگی ہے، بہت ہی بھولا پن ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے بچوں کو بہت ہی ذہین بنایا ہے.جب وہ دیکھتے ہیں اپنے ماں اور اپنے باپ کا انداز تو اس کی روح کو دیکھ رہے ہوتے ہیں ، ظاہر کو نہیں دیکھ رہے ہوتے اور اگر انہوں نے بدی کی طرف ایک قدم اٹھایا ہے تو دس گنا زیادہ تیزی سے اس کی طرف بڑھتے ہیں اور اگلی نسل کی آنکھیں بدلنے لگتی ہیں اور جو لوگ اس راز کو نہیں سمجھتے کچھ دیر کے بعد ان کی اولا دان کے لئے معمہ بن جاتی ہے.وہ کہتے ہیں ہم تو ایسے برے نہیں تھے.ہم نے تو ظاہری طور پر سب تقاضے پورے کئے، جماعت میں تعلق رکھا، نمازیں بھی پڑھیں، چندے بھی دیئے یہ اولاد کی نظریں بگڑ گئیں ہیں.ان کو کیا ہو گیا ہے ان کے لئے پھر وہ بے چین بھی ہوتے ہیں حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ چند بے احتیاطیاں انہوں نے ایسی کی ہوتی ہیں جو دراصل غیر تہذیب سے مرعوب ہونے کے نتیجہ میں وہ کرتے ہیں اور اولاد جان لیتی ہے کہ ہمارے ماں باپ اس معاملہ میں شکست کھا چکے ہیں.روکیں ٹوٹ چکی ہیں اور پھر وہ تیزی کے ساتھ بے دھڑک آٹھ دس گنا زیادہ رفتار کے ساتھ ان رستوں پر چل پڑتے ہیں اور جب وہ اپنے سے بہت آگے بڑھتا ہوا ان بدیوں میں دیکھتے ہیں تو حیران ہوتے ہیں کہ ہم نے تو نہیں کہا تھا.ہم تو روکتے ہی رہے ان کو ، ہم تو یہی تعلیم دیتے رہے کہ ٹھیک بنو، ان کو کیا ہو گیا ہے.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے قوموں کی زندگی اور ترقی کا راز اس مسئلہ میں ہے.اس کو سمجھیں اور اس کو زندہ رکھیں ، یا درکھیں کہ نیکیوں میں اگر آپ دس قدم اٹھا ئیں گے تو آپ کی اولا د ایک قدم اٹھائے گی.سوائے اس کے کہ دس گنا محنت سے آپ اس اولا د کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کریں اور بدیوں میں اگر ایک قدم آپ اٹھا ئیں گے تو آپ کی اولا د دس قدم اٹھائے گی.سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اور بعض اور محرکات اس اولا دکوروک لیں یا نظام جماعت کا غالب اثر ان کو بچالے لیکن جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے یہ قانون کی شکل میں جاری قانون ہے جسے آپ روک یا بدل نہیں سکتے.اس پہلو سے جو سب سے بڑا خطرہ مجھے در پیش ہے ہم جماعتی لحاظ سے اس کو دیکھتے ہیں تو یہ شکل نظر آتی ہے کہ ایک نسل باہر سے آئی یہاں آباد ہوئی.ان کے ماں باپ نے یہ دعوے کئے تھے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 632 خطبه جمعه ۲۶ / تمبر ۱۹۸۶ء ہم اسلام کو از سرنو دنیا پر غالب کرنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.وہ بلند بانگ دعوے کرتے تھے اور کرتے ہیں کہ ہم نے امریکہ کو بھی فتح کرنا ہے اور روس کو بھی فتح کرنا ہے اور چین کو بھی فتح کرنا ہے اور جاپان کو بھی فتح کرنا ہے اور کینیڈا کو بھی فتح کرنا ہے اور انگلستان کو بھی فتح کرنا ہے اور جرمنی کو بھی کرنا ہے اور یورپ کے دیگر ممالک کو بھی اور یہ سارے اسلام کے زیر نگیں لانے ہیں.یہ دعوے لے کر جو قوم اٹھی ہو اور ان دعووں میں سچا ایمان رکھتی ہو اور ان دعووں میں سنجیدہ ہو.جب اس قوم کے نمائندے سفیر بن کر ان غیر قوموں میں جا کر آباد ہوتے ہیں تو دیکھنا یہ ہے کہ وہ مؤثر ہیں یا متاثر.اگر آج وہ متاثر نہیں بھی دکھائی دیتے نمایاں طور پر لیکن ایسے اعمال کر رہے ہیں کہ ان کی اولادیں متاثر ہو جائیں.تو از ما گلی نسل ہم ان لوگوں کے سامنے ہار بیٹھیں گے اور ہمارا رخ فتح کی طرف نہیں بلکہ شکست کی طرف ہوگا.قرآن کریم کی اس آیت کو نظر انداز کرنے والے ہوں گے کہ: أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا (الانبیاء: ۴۵) أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ ) محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں کے لئے تو قرآن نے یہ معیار پیش کیا تھا.ان کے مقابل پر فتح کے دعوی کرنے والوں کو یہ بیان فرمایا، یہ کہ کر متوجہ کیا کہ یہ بڑھ رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں اور تمہاری تہذیب کو ہر طرف سے چاٹتے چلے جارہے ہیں اور ختم کرتے چلے جارہے ہیں.جس طرح سیلاب کناروں کو کھا جاتا ہے اس طرح یہ ایسے موثر لوگ ہیں ایسے غالب اثر رکھنے والے لوگ ہیں کہ دن بدن اردگرد سے تمہاری زمینیں کم کرتے چلے جارہے ہیں اور پھر تم یہ دعوی کرتے ہو کہ تم غالب آؤ گے.جن کی زمینیں گھٹ رہی ہوں جن کے کنارے ٹوٹ رہے ہوں وہ تو غالب نہیں آیا کرتے.وہ جو پھیلتے ہیں اور اثر انداز ہوا کرتے ہیں وہ غالب آیا کرتے ہیں.تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ کیسے غالب آجائیں گے.محمد مصطفی ﷺ اور ان کے ساتھی جو دن بدن ان کی زمینیں کاٹ رہے ہیں اور گھیر تے چلے جارہے ہیں ان کو اور کہتے یہ ہیں کہ ہم غالب آئیں گے.تو کیا یہی صورت ان احمدیوں کی بھی ہے جو غیر قوموں میں جا کر آباد ہوئے ، جن کی فتح کا دعوئی لے کر وہ اٹھے تھے اور جن کی فتح کا دعویٰ لے کر آج بھی وہ زندہ ہیں.اگر ان کی تہذیب غالب آ رہی ہے، اگر ان کے کنارے منہدم کر رہے ہیں اور ان کا اثر پھیلتا چلا جارہا ہے تو یقیناً یہ قرآن کریم
خطبات طاہر جلد ۵ 633 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء کا بیان ہم پر چسپاں ہوتا ہے اور اگر یہ نہیں ہوتا ہے اور ہم دن بدن ان کی تہذیب کے نیچے مغلوب اور متاثر ہوتے چلے جارہے ہیں تو پھر یہی غالب آئیں گے.پھر اس دعوی میں کوئی بھی سچائی نہیں کہ ہم غالب آنے والے ہیں.کم سے کم ان نسلوں کے ذریعہ اسلام یہاں غالب نہیں ہوسکتا جو مغلوب ہو جا ئیں ان سے اور جو متاثر ہو جائیں.اس مضمون کا خاتمیت کے ساتھ ایک بہت گہرا تعلق ہے اور خاتمیت کے صحیح معنوں کے ساتھ اس کا تعلق ہے.قرآن کریم کے مضمون کو اگر آپ صحیح سمجھیں تو اس میں عظیم الشان فوائد ہیں.اگر غلط سمجھیں تو اسی حد تک نقصانات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خاتمیت کی تفسیر فرمائی اس کو ہم اس لئے بھی چھٹے ہوئے ہیں اور مجبور ہیں اس سے چھٹے رہنے پر کہ اس میں امت محمدیہ کے لئے عظیم مصالح ہیں اور عظیم فوائد اس تفسیر سے وابستہ ہیں اور جو تفسیر آج کے ظاہری علماء ہم انسنا چاہتے ہیں وہ شدید نقصان کے پہلو ر کھنے والی تفسیر ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ، آنحضرت علیہ کی خاتمیت کا امت کی تربیت سے ایک بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اٹوٹ تعلق ہے جو سمجھتا ہی نہیں اس تعلق کو وہ اسے مناظروں اور کج بحثیوں کے لئے استعمال کرتا ہے اور جو سمجھتا ہے اس کے لئے اس میں عظیم الشان فوائد ہیں اور زندہ رہنے کے راز ہیں.قرآن کریم فرماتا ہے: مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّنَ کہ ہاں یہ ٹھیک ہے کہ محمد مصطفی علی تم جیسے بے اثر اور بے تاثیر مردوں کے باپ نہیں ہیں جن کی تہذیب مٹ جانے والی ہے.ہاں انبیاء کے باپ ہیں جو غالب آیا کرتے ہیں.انبیاء کی مہر ہیں یعنی انبیاء کی بھی تشکیل کرنے والے ہیں.انبیاء کو دیکھ کر اپنی شکل نہیں بنار ہے بلکہ ان کی شکل میں انبیاء ڈھلنے والے ہیں.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان تفسیر ہے جس کا اسلام کے مستقبل سے گہرا تعلق ہے.اس کے مقابل پر وہ علماء جو نعوذ باللہ من ذالک اپنی تحریک کو تحفظ ختم نبوت کی تحریک کہتے ہیں ان کی تفسیر اس سے بالکل الٹ مضمون رکھتی ہے.چنانچہ مولانا مودودی صاحب نے ایک بظاہر بہت دور کی کوڑی لاتے ہوئے ہمیں بتایا کہ دیکھو خاتم تو اس مہر کو کہتے ہیں جو ڈاک کے لفافے پرلگتی ہے اور اسی رنگ
خطبات طاہر جلد۵ 634 خطبه جمعه ۲۶ ر ستمبر ۱۹۸۶ء میں اور بھی علماء آجکل ایسی باتیں کرتے ہیں اور جب وہ بند کر دیتی ہے تو اس میں نہ کوئی جاسکتا ہے اور نہ کوئی باہر آ سکتا ہے.اس لئے ہر قسم کی نبوت ہمیشہ کیلئے ختم ہوگئی.حالانکہ وہ اس بات کو نہیں سمجھتے کہ پرانے علماء اور بزرگ علماء نے بڑی وضاحت سے یہ بات لکھی ہے کہ خاتم کے دو معنے ہیں ایک وہ مہر جو اپنی تصویر بناتی ہے اور ایک وہ تصویر جو مہر سے بنتی ہے.آنحضرت علی تصویر بنانے والے ہیں.بنی ہوئی تصور نہیں ہیں وہ مہر نہیں جو لفافے پر نقش ہو جاتی ہے بلکہ وہ مہر ہیں جو نقش بناتی ہے.اگر آپ یہ معنی لیں کہ لفافے والی مہر مراد ہے تو نعوذ بالله من ذالک انتہائی خطرناک رسول اکرم الله ﷺ کی گستاخی ہوگئی ہے.اس کا مطلب بنے گا کہ انبیاء نے یہ مہر لگائی ہے یعنی محمد مصطفی عملے کو انبیاء نے پیدا کیا ہے اور ان کی تاثیر کے نتیجہ میں محمد رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے ہیں کیونکہ انبیاء کی مہر سے مرادا گر وہ مہر ہے جو لفافے پر نقش ہوگئی تو انبیاء نے بنائی وہ مہر اور اگر وہ مہر مراد ہے جو نقش کرتی ہے تو پھر وہ مہر تو ہمیشہ الگ رہتی ہے اور آزاد رہتی ہے اس نقش سے جو وہ پیدا کرتی ہے اور انبیاء کی مہر سے انبیاء پیدا کرنے والا مراد ہوگی پھر یعنی فاعلی حالت میں آپ اس کے معنی کر سکتے ہیں یا مفعولی حال میں کر سکتے ہیں.اگر آنحضرت کے خاتم ان معنوں میں ہیں کہ آپ خاتمیت کی تاثیر رکھنے والے ہیں.آپ اپنی سیرت کو دوسرے میں منتقل کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں تو مراد یہ ہوگی کہ یہ تو نبی گر ہے.ایسی عظیم الشان اس کی تاثیر ہے کہ عام مرد تو کیا انبیاء بھی اس کے سامنے آئیں تو اس کے رنگوں میں مبتلا ہو جائیں اس کے نقوش اختیار کر لیں اور اپنی صورتیں بدل لیں.کوئی بھی اہمیت ان کے نزدیک پہلی شکلوں کی باقی نہ رہے اپنے اخلاق کو اخلاق نہ سمجھیں.اپنی خوبیوں کو خو بیاں نہ سمجھیں محمد مصطفی معے کے رنگ میں رنگین ہونے کو ہی اپنی زندگی کا سب سے بڑا فخر سمجھیں اور عملاً جو خوبیاں انبیاء میں پائی جاتی ہیں وہ بھی آپ کے دائمی نقش سے تعلق رکھنے والی ہیں جو ماضی پر بھی اثر انداز ہوتا ہے اور مستقبل پر بھی اثر انداز ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کے بیان کرنے کے معا بعد فرمایا وَكَانَ اللهُ بِكُلِّ شَيْ ءٍ عَلِیماً یعنی یہ جو مضمون ہے اس کا خدا تعالیٰ کے علم سے گہرا تعلق ہے.جب خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد مصطفی ﷺ ہی خاتم الانبیاء ہیں تو وہ ماضی کا علم رکھنے والا بھی خدا ہے اور مستقبل کا علم رکھنے والا خدا ہے.جانتا ہے کہ یہ وہ وجود ہے جو اثر قبول نہیں کرتا بلکہ اثر پیدا کرنے والا وجود ہے اور انبیاء کو
خطبات طاہر جلد۵ 635 خطبه جمعه ۲۶ / تمبر ۱۹۸۶ء بھی گھڑتا ہے.غیر کا اثر تو غیر کا اثر ہے سب سے زیادہ مؤثر ہستی دنیا میں انبیاء کی ہستی ہوتی ہے جو غیر معاشرے سے متاثر نہیں ہوتے اور معاشرے کو اپنے رنگ میں ڈھالتے ہیں، یہی نبوت کی سب سے بڑی شان ہے اور فرمایا یہ نبیوں کو بھی متاثر کرنے والا ہے.تو آپ تو اس کے غلام ہیں اور ان معنوں کو سمجھتے ہوئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا اثر تمام غیر انبیاء پر پڑ سکتا ہے اور غیر انبیاء اپنے اثر کو آنحضرت ﷺ میں جاری نہیں کر سکتے.تو آپ کا اثر سب قوموں پر پڑنا چاہئے اور کسی قوم کا اثر آپ پر نہیں پڑنا چاہئے.یہ فاتحانہ مضمون ہے جو خاتم کے لفظ میں بیان ہوا ہے اور جس کو نظر انداز کر کے جوظاہری علماء نے اس کا مفہوم پیش کیا ہے اس کے نتیجہ میں وہ ہر دوسری قوم سے متاثر ہو جائیں گے اور کسی ایک قوم کو بھی متاثر نہیں کرسکیں گے.کیونکہ آنحضرت علہ کو نبیوں کی وہ مہر قرار دے رہے ہیں جو نبی گویا لگا دیتے ہیں، مفعولی حالت ہے.نبی بنانے والی مہر یا نبیوں کا اثر قبول کرنے والی مہر یہی تو فیصلہ کن بات ہے ساری.پس ہم جس مہر کے قائل ہیں جس خاتم کے قائل ہیں وہ ایسا خاتم ہے جو اپنی صفات کو اپنے اخلاق کو اپنے کردار کو دوسروں میں جاری کرنے کی اہلیت رکھتا ہے اور ان کی صفات اور ان کے اخلاق اور ان کے کردار کو یکسر بدلنے کی اہلیت رکھتا ہے.تو اس پہلو سے جب آپ دوبارہ اس آیت کو پڑھیں تو مراد یہ ہوگی.مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّن تم کون سے مرد لئے پھرتے ہو کہ جن کا باپ نہیں تم ایسے مرد ہو کو اپنی اولادوں میں بھی اپنے نقوش جاری نہیں کر سکتے.عقبہ کی بھی جو اولاد ہوگی اس پر بھی حمد مصطفی ﷺ کا رنگ غالب آنے والا ہے اور شیبہ کی جو اولاد ہوگی اس پر بھی محمد مصطفی علی ﷺ کا رنگ غالب آنے والا ہے اور ابوجہل کی جو اولاد ہوگی اس پر بھی محمد مصطفی ﷺ کا رنگ غالب آنے والا ہے اور ولید کی جو اولا د ہوگی اس پر بھی محمد مصطفی ﷺ کا رنگ غالب آنے والا ہے.یہ تو نبیوں کا باپ ہے تمہارے جیسے مردوں کی حیثیت کیا ہے کہ اس کے ساتھ مقابلہ کرو اور اس کی تہذیب پر غالب آنے کی کوشش کرو.یہ ہے زحل کا مفہوم جس میں رجولیت پائی جاتی ہے.غیر معمولی عظیم الشان قوت مؤثرہ پائی جاتی ہے.اس پہلو سے احمدیوں کا زندہ رہنا ہے.اگر آپ حقیقہ آنحضرت ﷺ کا یہ مقام سمجھے
خطبات طاہر جلد۵ 636 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء چکے ہیں اور اسی مقام کو سمجھنے کے نتیجہ میں آپ کو قتل کیا جا رہا ہے، آپ کا خون بہایا جارہا ہے، آپ کو قیدوں میں پھینکا جارہا ہے، آپ کے اموال لوٹے جارہے ہیں ، آپ کو حقوق سے محروم کیا جا رہا ہے.تو اس مقام کو سمجھ کر اس کی قیمت تو وصول کریں.کیسا نقصان کا سودا ہوگا کہ اس وجہ سے آپ کو دکھ دیئے جائیں اور آپ کا پاس جو کچھ ہے وہ لوٹ لیا جائے کہ آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو تمام انبیاء سے بڑھ کر غالب اثر رکھنے والا یقین کرتے تھے اور یہی آپ کا ایمان تھا اور آپ اپنی ذات میں اس مضمون کو بھول جائیں اور غیر انبیاء کی قوموں سے اثر قبول کرنے لگ جائیں.ہر غیر نبی حضرت حمد مصطفی ﷺ کے زیر نگیں آنے والا ہے اور ہر غیر بی کی قوم آنحضرت ﷺ کی قوم کے زیرنگیں آنے والی ہے.یہ ہے خاتمیت کا پیغام جو آپ کو دیا گیا اور اس پیغام کی خاطر آپ نے بے انتہاء قربانیاں دی ہیں اور دیتے چلے جائیں گے.اس کے فوائد سے کیوں محروم رہتے ہیں ، کیوں اپنے آپ کو مغلوب بنا لیتے ہیں، کیوں آپ اپنے آپ کو متاثر کر لیتے ہیں ، کیوں آپ کی عورتیں بھی یہ میدان چھوڑ دیتی ہیں اور آپ کے مرد بھی یہ میدان چھوڑ دیتے ہیں؟ برقع کے مضمون میں محض عورتوں کا قصور نہیں ہے.مردوں نے خاتمیت کے مضمون کو بھلایا ہے تو عورتوں نے یہ حرکتیں کی ہیں.مرد اگر مؤثر رہتے تو ممکن نہیں تھا کہ ان کی عورتیں بے پرواہی کرتیں اور بے راہ روی اختیار کرتیں یا دوسری تہذیبوں سے مغلوب ہو جاتیں اور ان کے سامنے آنکھیں جھکا لیتیں.آپ کو سر اٹھا کر چلنا چاہئے تھا اور اس شان کے ساتھ سراٹھا کر چلنا چاہئے تھا کہ آپ بتاتے دنیا کو اور دکھاتے کہ آپ کی قدریں غالب قدریں ہیں آپ کے پاس جو کچھ ہے یہی اعلیٰ ہے اور یہی اس بات کا مستحق کرتا ہے آپ کو کہ آپ شان کے ساتھ سراٹھا کر چلیں لیکن آنحضرت مے کی تہذیب کو لے کر چوروں کی طرح سر جھکا کر اور جسم بچا کر چلنے لگ جائیں اور شرما کر ان کی گلیوں سے گزریں تو یہ کیسے آپ کا اثر قبول کریں گے.اپنی تہذیب کی قدروں کو سمجھیں ان پر غور کریں اور سمجھیں کہ آپ کی فلاح بھی اسی میں مضمر ہے اور آپ کے دل کا سکون بھی اسی میں مضمر ہے اور ان قوموں کی جو خیر آپ سے وابستہ ہے وہ اسی صورت میں ان کو نصیب ہوگی اگر آپ پوری طرح کامل اطمینان کے ساتھ اپنی تہذیب پر یقین رکھیں گے اور اپنے اعمال میں اس یقین کو دکھائیں گے اور ثابت کریں گے کہ آپ کو خاتم کے غلام کے طور پر زندہ
خطبات طاہر جلد۵ 637 خطبه جمعه ۲۶ / تمبر ۱۹۸۶ء رہنا ہے اور آنحضرت محلے کے مقابل پر ہر دوسری قوم پر آپ کی قوم کے غلبے کو ثابت کر کے دکھانا ہے.یہ وہ مضمون ہے تربیت کا جس میں آج اسلام کی زندگی اور موت کا سوال ہے.محاورۃ ہم کہتے ہیں کہ زندگی اور موت کا سوال ہے عملاً تو زندگی ہی کا سوال ہے اسلام کے لئے اور آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ نے جو یہ خوش خبریاں دی ہیں کہ لازماً اسلام غالب آئے گا.یہ ضرور ہو کر رہے گا ، اس میں کوئی شک نہیں لیکن سوال اتنا اہم ہے کہ اسے زندگی اور موت کا سوال کہا جا سکتا ہے.ان معنوں میں کہ جو لوگ اس سوال کی اہمیت کو نہیں سمجھیں گے وہ خشک شاخوں میں تبدیل ہو جائیں گے.ان کے اثرات مٹ جائیں گے.غیر قو میں ان پر غالب آجائیں گی اور ان کی نسلیں ان کے دیکھتے دیکھتے ان کے ہاتھوں سے نکل جائیں گی.پھر حسرت کے ساتھ وہ وقت یاد کریں گے کہ جب وہ اثر کر سکتے تھے اور اثر کرنے سے محروم رہے.پس پردہ ہو یا دیگر اخلاقی تقاضے ہوں یا تمدنی تقاضے ہوں ان کو آپ معمولی نہ سمجھیں.یہی وہ میدان ہے جہاں پہلی فتح اور شکست کا فیصلہ ہوگا.اگر اس میدان کو آپ نے مارلیا تو یقیناً آپ یہ امید رکھنے کے اہل ہیں کہ آئندہ انشاء اللہ تعالیٰ آپ اس قوم پر غالب آجائیں گے.اگر اس میدان سے آپ بھاگ گئے تو یہ پیٹھ دکھانے والے پھر کبھی فتح کا منہ نہیں دیکھیں گے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جسے دنیا کی کوئی طاقت بدل نہیں سکتی، یہ ایک ایسا قانون ہے جو سنت اللہ کا مقام رکھتا ہے.اس لئے آنحضرت ﷺ کی خاتمیت کا حق ادا کریں آپ ہی ہیں تحفظ ختم نبوت کے پاسبان.آپ ہی ہیں جنہوں نے خاتمیت کے حقیقی مضمون ، اس کی روح کی حفاظت کرنی ہے.اس غرض سے آپ دنیا کی قوموں میں نکلیں.اس غرض سے آپ اسلام کے سفیر بنائے گئے ہیں.اس لئے اس کی اہمیت کو سمجھیں اور یاد دلاتے رہیں ایک دوسرے کو اور اپنی خواتین کو بھی بتائیں کہ یہ معمولی باتیں نہیں ہیں.اگر ان کو نظر انداز کریں گی تو غیروں کو بچانے کا کیا سوال اپنی اولاد کو اپنی آنکھوں کے سامنے ہلاک ہوتے دیکھیں گی اور کوئی نہیں پھر ان کو جو بچا سکے گا.خدا کا قانون ان معاملات میں ہرگز رعایت نہیں کیا کرتا.نوح کے بیٹے کو یاد کریں جو خدا کے پیارے انبیاء میں ایک عظیم مقام رکھتا تھا، کس طرح اس کی آنکھوں کے سامنے اس کا بیٹا ہلاک ہوا اور کس طرح خدا تعالیٰ نے اس کی دعا کو قبول کرنے کی بجائے اس کی سرزنش فرمائی کہ دیکھ یہ جاہلوں والی باتیں نہ کر یہ تیرا بیٹا نہیں ہے کیونکہ
خطبات طاہر جلد ۵ 638 خطبہ جمعہ ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء تیرے اعلیٰ اخلاق سے عاری ہے، تیری صفات حسنہ اس میں موجود نہیں.بیٹا تو وہ ہوتا ہے جو باپ کا اثر قبول کرے جو باپ کی خاتمیت کا نقش ہو.پس آپ کو خاتم بنتا ہے.ان معنوں میں بھی خاتم بننا ہے.آپ کی اولاد نے اگر آپ کا نقش قبول کر لیا تو پھر آپ باپ بننے کے اہل ہیں ورنہ اگر آپ کا قصور ہے تو آپ پکڑے جائیں گے اور اگر اولاد کا قصور ہے تو اولا د پکڑی جائے گی.اس لئے کم سے کم اپنا دامن تو بچائیں.حضرت نوح کے معاملے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ حضرت نوع کا قصور نہیں تھا.آپ خاتم ہی تھے اپنے چھوٹے دائرے میں لیکن یہ اولاد کی بد قسمتی تھی لیکن ایسے واقعات اتفاقی ہیں اور قرآن کریم نے جو تاریخ انبیاء کی محفوظ کی ہے اس میں خوف کا پہلو کم ہے اور امید کا پہلو بہت غالب ہے.اس ایک مثال کے مقابل پر بکثرت ایسے انبیاء کی مثالیں دیں جن کی نیکیاں ان کی اولادوں میں بڑی شان کے ساتھ اور بڑے وفور اور جذ بہ کے ساتھ جاری ہوئیں یہاں تک کہ نبیوں کی اولاد در اولاد نبی بنتی رہی.تو خدا تعالیٰ نے مایوس کرنے کے لئے یہ خبر نہیں دی نہ حضرت نوع کو نعوذ باللہ متہم کرنے کے لئے یہ خبری دی ہے بلکہ یہ بتایا ہے کہ خاتمیت اپنے اپنے دائرہ میں اثر دکھانے کے لئے پیدا کی گئی ہے اور حقیقت میں بیٹا اور باپ کا تعلق خاتمیت اور مختومیت کا تعلق ہے.اگر تم اس لائق ہو کہ اپنی اولاد میں اپنی صفات جاری کرد و، نیک صفات تو بہت محنت کا کام ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن پھر تم مرد کہلانے کے مستحق ہو گے اور نیک خواتین کہلانے کی مستحق ہو گی اگر تم ایسا کرو گی تو پھر یہ حدیث تمہارے متعلق ضرور پوری آئے گی کہ ماؤں کے قدموں کے نیچے اولاد کے لئے جنت ہے.کتنی عظیم الشان تمنا کتنی عظیم الشان توقع ہے جو آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کی خواتین سے وابستہ فرمائی ہے کبھی یہ بھی تو سوچیں.اتنا پیارا کلام ہے، ایسا محبت کا کلام ہے، ایسی نیک ظنی ہے امت محمدیہ کی خواتین پر کہ نگاہ پڑتی ہے تو رشک آتا ہے کہ کیسی مقدس خواتین ہیں جن کے متعلق محمد مصطفی ﷺ نے یہ الفاظ فرمائے کہ آئندہ آنے والی نسلیں خواہ مرد ہوں خواہ عورتیں ہوں، اپنی ماؤں کے پاؤں سے جنت حاصل کریں.کتنی بدقسمتی ہوگی کہ آپ کی اولادیں آپ کے پاؤں سے جنت لینے کی بجائے جہنم لینے والی ہوں.پس آپ پر ایک بہت ہی عظیم ذمہ داری عائد ہوتی ہے دعائیں کریں اور کوشش کریں اور ایک دوسرے کو نصیحت کرتی چلی جائیں لیکن تکبر کی نصیحت نہ ہو، طعن و تشنیع کی نصیحت نہ ہو بلکہ
خطبات طاہر جلد ۵ 639 خطبه جمعه ۲۶ / تمبر ۱۹۸۶ء ہمدردی کی ہوایسی ہمدردی کی کہ آپ کا دل زخمی ہوان کے لئے پھر آپ ضرور دیکھیں گی کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ نصیحت ضرور اثر دکھائے گی اور مرد بھی اگر خاتم بن کر زندہ رہیں گے اور جبر اور سختی کے ساتھ نہیں بلکہ گہرے دلی جذبے کے ساتھ خواتین پر رحمت کا ہاتھ رکھتے ہوئے ان کی تربیت کی کوشش کریں گے تو یقینا اللہ تعالیٰ آپ کو بھی اپنے اپنے دائرہ میں خاتم بنادے گا اور یہی حقیقی مضمون ہے خاتمیت کا کہ دیکھو جس طرح محمد مصطفی ﷺ کو کل عالم میں سب سے بہترین وجودوں کا خاتم بنایا گیا اگر اس وجود کی طرف تم منسوب ہونے کا دعویٰ کرتے ہو تو تم بھی اپنے اپنے دائرہ میں خاتم بن کر زندہ رہو یہی حقیقی زندگی ہے اس کے سوا کوئی زندگی زندگی کہلانے کی مستحق نہیں ہے خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: خطبات میں اردو میں اس لئے دیتا ہوں کہ اکثر احمدی ایسے ملک سے تعلق رکھتے ہیں جن کی زبان اردو ہے اور براہ راست میری زبان سے خطبات سننے کی ان کی خواہش بھی ہے اور ان دنوں خصوصیت سے حق بھی ہے لیکن ساتھ ہی میں ہمیشہ تاکید کرتا ہوں کہ ان دوستوں کے لئے ترجمہ کی انتظام ہونا چاہئے جو اردو نہیں سمجھ سکتے اس سلسلے میں یہاں کچھ کوتاہی ہوئی ہے.ایسے احمدی احباب ہمارے سامنے بیٹھے ہوئے ہیں جن کو اردو نہیں آتی اور بڑے صبر اور خاموشی کے ساتھ خدا کی رضا کی خاطر اس مجلس میں بیٹھے رہے لیکن ایک لفظ بھی نہیں سمجھ سکے.تو آئندہ جو ایک خطبہ یہاں ہو گا ٹورنٹو، کینیڈا میں امیر صاحب کو چاہئے کہ خواہ دو آدمی بھی ہوں یا ایک بھی ہو اس کے لئے بھی ان کو ترجمہ کا انتظام کرنا چاہئے جیسا کہ انگلستان میں ہوتا ہے.ہر وہ خطاب جو اردو میں ہو اس کا انگریزی میں ترجمہ کا نہایت ہی مؤثر انتظام وہاں کی جماعت کرتی ہے اور اللہ کے فضل کے ساتھ بڑی محنت کے ساتھ اس طرف توجہ کر رہی ہے.تو کینیڈا کی جماعت کو بھی یہ چاہئے کہ عام مجالس میں جہاں غیر ایسے شامل ہوں جن کو اردو نہیں آتی وہاں خواہ وہ عمومی خطاب ہو یا چند آدمیوں کی مجلس ہو وہاں حتی المقدور وہ زبان بولیں جو سب کو آتی ہو.ورنہ بہت سارے احمدی احباب جو نئے احمدی بنتے ہیں وہ اس وجہ سے ہی ٹھوکر کھا کر پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ احمدیت گویا پاکستانی معاشرے کا نام ہے اور یہ لوگ اپنی زبان میں مگن ہو جاتے ہیں اور ہماری پرواہ نہیں کرتے.تو اس لئے بھی ضروری ہے لیکن اگر ایسی زبان ممکن نہ ہو،
خطبات طاہر جلد۵ 640 خطبه جمعه ۲۶ ستمبر ۱۹۸۶ء ایک سے زیادہ Multiple Society ہے ، Multi-Racial یا Multi-Lingual society ہے انتظام جہاں آپ بیٹھے ہوئے ہیں تو حتی المقدور ایسی زبان استعمال کرنی چاہئے جو زیادہ کو سمجھ آ رہی ہو اور اگر ممکن ہو اور جماعتی صورتوں میں ایسا انتظام ممکن ہے تو پھر ترجمہ کا انتظام ہونا چاہئے اور آئندہ امید ہے اس امر کو آپ اپنی روز مرہ کی زندگی میں بھی یادرکھیں گے اور انتظامی، جماعتی امور میں خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھیں گے.
خطبات طاہر جلد۵ 641 خطبه جمعه ۳ /اکتوبر ۱۹۸۶ء جماعت ولایت الہی کا رستہ اختیار کرے جو سچی محبت اور پیار کا رستہ ہے خطبه جمعه فرموده ۳ اکتوبر ۱۹۸۶ء کیلگری، کینیڈا) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: اِنَّ فِي اخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَ مَا خَلَقَ اللهُ فِي السَّمَواتِ وَالْأَرْضِ لَايْتٍ لِقَوْمٍ يَتَّقُونَ إِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَاتُوْا بِهَا وَالَّذِينَ عَنْ ابْتِنَا غُفِلُونَ أُولبِكَ مَأ وبُهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ اور پھر فرمایا: (یونس: ۹۷) سورۃ یونس کی یہ تین آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں اور اس ہر چیز میں جو خدا تعالیٰ نے آسمان اور زمین میں پیدا فرمائی ہے ان لوگوں کے لئے نشانات ہیں جو خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہیں اور تقویٰ اختیار کرتے ہیں.اِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا لیکن اس کے برعکس کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو ہماری ملاقات یعنی خدا تعالیٰ کی طرف لوٹ جانے پر یقین نہیں رکھتے.وَرَضُوا بِالْحَيُوةِ الدُّنْیا اور دنیا کی زندگی پر راضی ہو چکے ہیں.وَاطْمَا تُوْا بِهَا اور انہیں اطمینان نصیب ہو گیا ہے وَالَّذِينَ هُمُ
خطبات طاہر جلد۵ 642 خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۸۶ء عَنْ ابْتِنَا غُفِلُونَ اور جو ہمارے نشانات سے غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں أو ليك ماونهُمُ النَّارُ یہی وہ لوگ ہیں جن کا انجام جن کا ٹھکانا جہنم کی آگ ہوگا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ان باتوں کی وجہ سے جو وہ کرتے ہیں.ان تین آیات میں مغربی تہذیب کے محرکات اور جن عوامل پر وہ تہذیب بنائی گئی ہے ان کا ذکر کیا گیا ہے اور چونکہ اس وقت یہ تہذیب بڑی شدت کے ساتھ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہی ہے اس لئے ضروری ہے کہ بروقت ان قوموں کو جن کی ہلاکت کا وقت بہت دور نہیں رہا جماعت احمدیہ کی طرف سے بار بار متنبہ کیا جاتا ہے اور احمدی اپنے گردو پیش، اپنے ماحول میں ان کو متنبہ کرتے رہیں اور متنبہ رکھیں کہ تمہاری تہذیب قرآن کریم کے بیان کے مطابق آخر مٹنے کے قریب آچکی ہے اور وہ آگ جو تم نے خود اپنے ہاتھوں سے بھڑکائی ہے اس آگ میں تمہارے جلنے کے دن قریب آرہے ہیں لیکن جو تنبیہ کرنے والا ہوتا ہے اس میں خود وہ محرکات نہیں پائے جانے چاہئیں جن کے نتیجہ میں تنبیہ کرنے والے کے خیال میں ایک بات کا انجام بد ہونے والا ہے یا کوئی چیز اپنے بد نتیجہ تک پہنچنے والی ہے.اس لئے مغربی تہذیب کے وہ کون سے عوامل ہیں ، وہ کون سے محرکات ہیں جن کے نتیجہ میں یہ تو میں ہلاکت کا منہ دیکھنے والی ہیں اور ان کے لئے مقدر ہو چکا ہے.ان عوامل اور محرکات سے ہر احمدی کو واقفیت ہونی چاہئے اور جب تک ان سے واقفیت نہ ہو نہ خود بچ سکتا ہے اور نہ وہ کسی اور کو بچانے کا اہل ہوسکتا ہے.اس پہلو سے یہ تین آیات ہمارے لئے بہت ہی بڑی اہمیت رکھتی ہیں کیونکہ تھوڑے الفاظ میں بہت گہری حکمت کی باتیں ان آیات میں بیان فرمائی گئی ہیں.پہلی بات یہ ہے کہ جو لوگ رات اور دن کے بدلنے میں اور خدا تعالیٰ کی تخلیق میں غور کرتے ہیں ان میں سے صرف تقویٰ اختیار کرنے والوں کے لئے نشانات ہیں.یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے جو قرآن کریم پہلے مختلف الفاظ میں بھی پیش فرما چکا ہے.جہاں تک ہم دنیا میں جائزہ لیتے ہیں ہمیں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے کائنات کی تخلیق میں غور کرنے کے نتیجہ میں بہت زیادہ نشانات ہیں.ان لوگوں کی محنت کے نتیجہ میں ان کے ہاتھ خدا تعالیٰ کی قدرت کے بہت سے راز آ گئے ہیں اور ان کو ہر قدم پر خدا تعالیٰ کی عظمت کا کوئی نہ کوئی نشان ملتا ہے اور اس پہلو سے وہ لوگ جو غیر متقی ہیں وہ متقیوں سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں اور عملاً جب ہم یہ دیکھتے ہیں، تو قرآن کریم کی اس آیت کا پھر کیا
خطبات طاہر جلد۵ 643 خطبه جمعه ۳ /اکتوبر ۱۹۸۶ء مطلب ہے کہ یقیناً ان لوگوں کے لئے نشانات ہیں جو متقی ہیں.اگر عمومی حیثیت سے مسلمانوں کو متقی قرار دیا جائے عیسائیوں کے مقابل پر تو جو نقشہ ہمیں نظر آرہا ہے وہ تو بالکل برعکس ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ متقیوں کے لئے تو اس کائنات میں نشان ہی کوئی نہیں.آنکھیں بند کر کے گذررہے ہیں اور جو غیر متقی ہیں انہوں نے بے انتہا نشان پالئے اور وہ قدم قدم پر خدا کی عبرت نمائی کے نشان دیکھ بھی رہے ہیں اور ان سے استفادہ بھی کر رہے ہیں.تو اس کے دو پہلو ہیں جن پر غور کرنے سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے.اول یہ کہ جن کو ہم متقی سمجھتے ہیں اگر خدا کے قدرت کے نشانات پر ان کی آنکھیں کھلتی نہیں اور ان کو کچھ پیغامات نہیں ملتے جو دنیا سے بھی تعلق رکھتے ہیں اور آخرت سے بھی تعلق رکھتے ہیں تو ان کو تقی قرار دینے میں ہم نے غلطی کھائی کیونکہ قرآن کریم بہر حال غلطی نہیں کھا سکتا.اس لئے مومن کی اور متقی کی ایک یہ نشانی بھی بیان فرما دی گئی ہے کہ جب وہ خدا تعالیٰ کی کائنات پر غور کرتے ہیں تو انہیں ہر قسم کے نشانات ان میں دکھائی دیتے ہیں، آنکھیں بند کر کے اندھوں کی طرح خدا تعالیٰ کی قدرت کے اوپر سے سطحی طور پر نہیں گذر جاتے بلکہ اس میں ڈوبنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کی تہہ سے موتی نکالنے کی کوشش کرتے ہیں.جہاں تک دوسرے پہلو کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ اگر تقویٰ کی یہ تعریف ہے تو پھر عیسائیوں کو بھی متقی قرار دینا چاہئے اور دہریوں کو بھی متقی قرار دینا چاہئے اور ان تمام مذاہب کے ماننے والوں کو بھی جو خدا تعالیٰ کی قدرت میں غور کرنے کے بعد ان سے نتائج اخذ کرتے ہیں تو اس کا کیا جواب ہے؟ اس کا جواب قرآن کریم نے اس سے اگلی آیت میں خود دے دیا ہے.اِنَّ الَّذِينَ لَا يَرْجُوْنَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَاطْمَأَثُوا بِهَا وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ أُولَبِكَ مَأُونَهُمُ النَّارُ بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) کہ ان غور کرنے والوں میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جو غور کے باوجوداند ھے رہتے ہیں لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا وَرَضُوا بِالْحَييُوةِ الدُّنْيَا وہ ہماری ملاقات سے منکر رہتے ہیں اس لئے معلوم یہ ہوتا ہے ان کا غور اور ان کا تدبر محض دنیا کے معاملات میں ہے اور جہاں
خطبات طاہر جلد۵ 644 خطبه جمعه ۳ /اکتوبر ۱۹۸۶ء تک روحانی رہنمائی کا تعلق ہے وہ خدا تعالیٰ کی تخلیق سے کوئی روحانی رہنمائی حاصل نہیں کرتے.اس مضمون کو مزید کھولا گیا ہے.ایک اور آیت میں جہاں فرمایا: إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا ( آل عمران : ۱۹۰-۱۹۱) عَذَابَ النَّارِ کہ وہ لوگ جو حقیقی غور کرنے والے ہیں جن کو خدا اہل عقل قرار دیتا ہے وہ صرف سرسری نتیجے نہیں نکالتے یا دنیا سے تعلق رکھنے والے نتیجے نہیں نکالتے بلکہ ان کا غور انہیں یہ ماننے پر مجبور کر دیتا ہے کہ اتنا عظیم الشان قانون قدرت، اتنا عظیم الشان کارخانہ جس کے اندر تہ بہ تہ حکمتیں کارفرما ہیں، یہ بے کار اور عبث نہیں ہو سکتا اس کا ضرور کوئی مقصد ہوگا.تو فرمایا کچھ غور کرنے والے ایسے ہیں جو غور کے نتیجے میں دنیا کی حد تک ہی رہتے ہیں اور اُخروی نتیجے اخذ کرنے سے عاری ہو جاتے ہیں.باوجود یہ سمجھنے کے کہ عظیم الشان حکمتیں اس سارے کارخانہ قدرت کے پیچھے کارفرما ہیں، باوجود یہ جاننے کے کہ ارب ہا ارب سال کی بہت باریک ڈیزائننگ، بہت ہی بڑا دور رس اور دیر تک قائم رہنے والا کارخانہ قائم کیا گیا ہے اور اس کا ایک رخ ہے، اس کی ایک منزل ہے، اس کا ایک مقصد ہے.وہ ان سب باتوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں اور اپنے قریب کے فائدہ کی چیزوں کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کی قدرت کو سمجھتے اور اس سے استفادہ کرتے ہیں.ایسی صورت میں ان کے ساتھ بھی خدا تعالیٰ کا انصاف کا سلوک ہونا چاہئے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ ان کے ساتھ بھی انصاف کا سلوک ہوتا ہے.قانون قدرت ہر ایک کے لئے کھلا ہے.کچھ ایسے لوگ ہیں جو کوئی فائدہ نہیں اٹھاتے نہ دنیا کا نہ آخرت کا.کچھ ایسے لوگ ہیں جو آخرت کا فائدہ تو نہیں اٹھاتے دنیا کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور دنیا کے لحاظ سے خدا تعالیٰ کے قانون کو سمجھتے ہیں اور اس پر غور کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْحَيُوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ فِيهَا وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ (هود: ۱۶)
خطبات طاہر جلد۵ 645 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء کہ ان لوگوں سے بھی خدا نا انصافی کا سلوک نہیں کرے گا.جس حد تک یہ قانون قدرت پر غور کریں گے، جس حد تک یہ استفادہ کرنا چاہیں گے اس حد تک خدا تعالیٰ ان کو ضرور اجر دے گا.مگر چونکہ یہ دنیا کے اجر پر راضی ہو چکے ہیں وَاطْمَا تُوا بِهَا اور ان کا دل دنیا کی زمینوں اور دنیا کی لذتوں پر اطمینان پکڑ گیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ ان کی خواہش کے مطابق ان سے سلوک کرے گا اور دنیا میں ان کو سب کچھ دے دے گا.نُوَفِّ إِلَيْهِمْ أَعْمَالَهُمْ کا مطلب ہے بھر بھر کے پیمانے بھر پور جزاء د دے گا ان کو اس دنیا میں وَهُمْ فِيهَا لَا يُبْخَسُونَ تو ان سے دنیا کے معاملہ میں کسی قسم کی کوئی کنجوسی نہیں کی جائے گی ، کوئی کمی نہیں کی جائے گی.بعینہ اس وقت آپ مغرب کی یہی حالت دیکھ رہے ہیں جو قرآن کریم کی حکمتوں کو نہیں سمجھتا، اس کے ذہن میں عجیب عجیب سوال اٹھتے ہیں.امت مسلمہ کا تو یہ حال ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے سب سے اونچی امت ، سب سے بڑی امت.لیکن نہایت ہی بدحالی کی حالت میں زندگی گذار رہی ہے ،مفلوک الحال ہے، مغربی قوموں سے بلکہ دہریہ قوموں سے بھی وہ اپنی بقا کی بھیک مانگ رہے ہیں.خوراک بھی ان سے مانگتے ہیں اور ہتھیار بھی ان سے مانگتے ہیں.بقا کے یہی دو ذریعے ہیں اور اس کے باوجود وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ تثلیث پرست کہہ کر اندھا یا نصف دیکھنے والا قرار دیتا ہے وہ دنیا کی ہر قسم کی لذتیں حاصل کر رہے ہیں ، عظیم الشان ترقیات حاصل کر رہے ہیں.باریک در بار یک ان کی نگاہ ہے اور اتنی عظمتیں حاصل کر چکے ہیں کہ انسان اگر ان کی سائنس اور ان کی محنت کے نتیجہ میں ان کے ماحصل کو دیکھے تو واقعی اس طرح سراٹھا کر ان کی بلندیوں کو دیکھنا پڑتا ہے کہ پگڑی گرتی ہے.یہ کیفیت ہے ان کی سر بلندیوں کی تو آخر کیا وجہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان غلط اور گمراہ لوگوں کے ساتھ یہ سلوک فرما رہا ہے اور جو خدا کے نیک بندے ہیں ان سے وہ سلوک فرما رہا ہے؟ ان آیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ہرگز خدا کسی سے بھی کوئی ناجائز سلوک نہیں کرتا، کسی بندے سے کوئی نا انصافی کا سلوک نہیں کرتا.امت مسلمہ کے لئے بھی یہ دونوں راستے کھلے تھے، ایک نہیں دور ہیں کھلی تھیں.امت مسلمہ بھی اس کا ئنات پر غور کر سکتی تھی اور غور کے نتیجہ میں دنیا کا بھی فائدہ اٹھا سکتی تھی اور آخرت کا فائدہ بھی اٹھا سکتی تھی.لیکن انہوں نے دیکھا اور اس باوجود سمجھنے سے انکار کر دیا.دیکھا اور جستجو کی کوئی دلچسپی ان کے دل میں پیدا نہ ہوئی ،سرسری سطحی نظر سے اس دنیا سے گذرنا
خطبات طاہر جلد۵ 646 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء ان کی عادت بن گیا.پس قانون قدرت نے کامل انصاف کا سلوک کیا نہ ان کی دنیا رہی نہ ان کا دین رہا اور یہی کیفیت ہے آج جو ہمیں عالم اسلام میں الا ماشاء اللہ اکثر صورتوں میں دکھائی دیتی ہے.جہاں تک ان مغربی قوموں کا تعلق ہے ان کے ساتھ بھی خدا نے انصاف کا سلوک کیا ہے.فرمایا میری کائنات کا آدھا پیغام یہ سمجھے ہیں اور جو کچھ سمجھے ہیں اس پر راضی ہو چکے ہیں، اس پر ان کا دل اطمینان پکڑ چکا ہے تو میں وہ ان کو ضرور دوں گا جس پر ان کا دل اطمینان پکڑ چکا ہے ، لیکن کائنات کا جو اصل مقصد تھا اس کا یہ انکار کر بیٹھے ہیں.ان کے نزدیک یہ کائنات صرف دنیا میں ان کے زندہ رہنے اور ان کے عیش و عشرت کی خاطر پیدا کی گئی ہے اس کے زیادہ اس کا مقصد ہی کوئی نہیں.اس لئے یہ تو ان کو ضرور ملے گا لیکن کائنات کا جو بھی مقصد ہے اس سے یہ عاری رہ جائیں گے.اس کے متعلق قرآن کریم مزید فرماتا ہے.أُولَبِكَ الَّذِينَ لَيْسَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ إِلَّا النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِيهَا وَيُطِلُّ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ.(ہود: ۱۷ ).یہی وہ لوگ ہیں جن کے لئے آخرت میں کچھ نہیں ہوگا سوائے آگ کے وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا جو کچھ انہوں نے محنتیں کیں اور عظیم الشان کارخانے بنائے.صَنَعُوا کا لفظ وہی ہے جو صنعت کے لئے استعمال ہوتا ہے ( انڈسٹری ).جو کچھ انہوں نے انڈسٹری قائم کی جو کچھ عظیم الشان کارخانے بنائے ان کا پھل اسی دنیا میں رہ گیا ، حبط یہیں گر گیا، اس میں اوپر جانے کی طاقت نہیں تھی، اس میں اخروی دنیا میں ان کا ساتھ نبھانے کی کوئی طاقت نہیں تھی ، نہ اس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا، نہ وہ اس مقصد کو پورا کر سکتا تھا.بطل ما كَانُوا يَعْمَلُونَ اور اس دنیا میں ان کے عمل باطل ہو گئے.باطل کہتے ہیں بے نتیجہ جو اصل مقصد سے ہٹ کے ہو.چنانچہ قرآن کریم کی دوسری آیت جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی تھی اس میں اہل عقل کا یہ نتیجہ نکالنا بتایا گیا ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.باطل کہتے ہیں ایک ایسی چیز کو جو بے مقصد ہو، اپنی ذات میں کچھ لذتیں دے جائے لیکن اس کا نتیجہ بعد میں کوئی نہ نکلنے والا ہو.تو اس دنیا کو انہوں نے باطل کے طور پر ہی دیکھا.اس لئے ان کے اعمال باطل گئے ، یعنی ان کا کوئی نتیجہ نہ نکلا اور اس میں کوئی نا انصافی نہیں.فرمایا ان کی فلاسفی یہ ہے یا وہ کہتے ہیں کہ جب بھی ان کو کہا جائے کہ ایک بعد کی دنیا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 647 خطبه جمعه ۳ /اکتوبر ۱۹۸۶ء اس کی بھی تیاری کرو، اس کی طرف بھی دیکھو تو ان کا جواب یہ ہوتا ہے.آيَعِدُكُمْ أَنَّكُمْ إِذَا مِتُّمْ وَكُنْتُمْ تُرَابًا وَعِظَامًا أَنَّكُمْ مُّخْرَجُونَ هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ اِنْ هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوْثِينَ (المومنون: ۳۶ - ۳۸) کہ یہ ڈرانے والا ، یہ مومن ، یہ خدا کی ہستی پر ایمان لانے والا کیا تمہیں اس بات سے ڈراتا ہے کہ جب تم مر جاؤ گے وَكُنْتُمْ تُرَابًا اور تم مٹی ہو جاؤ گے وَعِظَامًا اور ہڈیاں بن جاؤ گے أَنَّكُمْ مُّخْرَجُونَ تم پھر نکالے جاؤ گے، کیسی باتیں کرتا ہے یہ بیان کرنے والا یعنی یہ لوگ جو دنیا پر راضی ہو جاتے ہیں اور مطمئن ہو جاتے ہیں، آخرت کے فلسفے کا انکار کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ لِمَا تُوعَدُونَ بہت ہی بعید از عقل بات ہے.هَيْهَاتَ ایک محاورہ ہے عرب کا دور کی بات.جیسے ہم اردو میں بعید از عقل بات کہتے ہیں اسی کا عربی محاورہ ہے هَيْهَاتَ هَيْهَاتَ کہ بڑی بعید از عقل بات ہے.جس کا یہ تم سے وعدہ کرتا ہے کچھ بھی نہیں ہونا.تم مر جاؤ گے مٹی بن جاؤ گے تمہاری ہڈیاں گل سڑ جائیں گی اور اس سے پہلے پہلے کی جو زندگی ہے تم نے جو کچھ کرنا ہے کر لو اِن هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا نَحْنُ بِمَبْعُوثِينَ وہ کہتے ہیں اس دنیا کے سوا جو ہم اس میں زندگی گزار رہے ہیں اور کچھ بھی نہیں ، اسی میں ہم نے مرنا ہے اسی میں ہم زندہ رہتے ہیں اور ہم ہرگز دوبارہ نہیں اٹھائے جائیں گے ، ہماری کوئی جواب طلبی نہیں کی جائے گی.تو دو مختلف فلسفہ ہائے حیات ہیں جو یہاں آکر کھل کر ایک دوسرے کی مد مقابل کھڑے ہو جاتے ہیں.ایک طرف یہ دنیا کی قومیں ہیں جنہوں نے دنیا میں بے انتہا ترقیات کی ہیں.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ نے ان کی محنت کا ان کو اجر دیا ہے اور ان کا اجر پا نا خدا کی ہستی کے خلاف دلیل نہیں بلکہ خدا کی ہستی کا ثبوت ہے اور مومنوں کے لئے اس میں نصیحت تھی وہ یہ تھی کہ جو خدا اتنا مہر بان ہے اتنا رحمان اور رحیم ہے کہ اپنے انکار کرنے والے کی محنت کو بھی ضائع نہیں کرتا.اس فلسفہ حیات کے
خطبات طاہر جلد۵ 648 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء خلاف بغاوت کرنے والے کی محنت کو بھی ضائع نہیں کرتا.جس کی خاطر خدا تعالیٰ نے کائنات کو پیدا کیا ہے.ان مقاصد کا انکار کرنے والے کی محنت کو بھی ضائع نہیں کرتا، جس حد تک محنت کرتا ہے قرآن کے بیان کے مطابق جام بھر بھر کے ان کا اجر اُن کو عطا فرماتا چلا جاتا ہے.یہ ساری مغربی دنیا اور ان کی عظیم الشان ترقیات قرآن کے بیان کے ایک ایک لفظ ایک ایک حرف کی گواہی دے رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر گز کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا ، اگر ہم جو آخرت کے قائل ہیں ، اگر ہم جو اخروی زندگی پر کامل یقین رکھتے ہیں، اگر ہم اس کی راہ میں کوئی محنت کریں گے اور کوشش کریں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ خدا جو غیر کی محنت کا پھل پورا دیتا ہے وہ اپنوں کی محنت کا پورا پھل نہ دے، یہ ہو ہی نہیں سکتا.یہ نتیجہ نکالنا چاہئے اُن کی ترقیات کو دیکھ کے نہ کہ دین کے متعلق مایوسی اور اپنے فلسفہ حیات کے متعلق عدم اعتمادی.اس لئے حقیقت یہ ہے کہ مومن اس وقت تک مومن ہے جب تک خدا تعالیٰ کی کائنات پر غور اور تدبر کر کے صحیح نتائج اخذ کرتا ہے.جب وہ صحیح نتائج اخذ کرنے چھوڑ دے اور آنکھیں بند کر کے کسی راہ پر چل پڑے تو غفلُونَ کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے یہ مومن نہیں.فرمایا یہی لوگ ہیں جو غُفِلُونَ ہیں وَالَّذِينَ هُمْ عَنْ أَيْتِنَا غُفِلُونَ یہ کافروں کے متعلق فرمایا ہے.ان کی ساری زندگی غفلت کی حالت میں بسر ہو جاتی ہے.یہ مضمون میں اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ میں یہ سمجھتا ہوں اور بڑے جائزے کے بعد اس افسوس ناک نتیجہ تک پہنچا ہوں کہ اکثر مسلمان جو مغرب میں آکر زندگی بسر کرتے ہیں.وہ زیادہ تر غفلت کی حالت میں بسر کرتے ہیں اور ان کی راہ میں بہہ رہے ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ان میں سے ان کی دنیاوی ترقیات سے متاثر ہو جاتے ہیں اور متاثر ہونے کے بعد ان کو ایک احساس کمتری ہر حقیقی اور دائمی نعمت سے محروم کرتا چلا جاتا ہے.دلوں پر ایک رعب بیٹھ جاتا ہے اور اس رعب بیٹھنے کے نتیجہ میں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ تو بہت غالب لوگ ہیں.ان کو دنیا کی ہر چیز میسر آ گئی ہے ، ہم لوگ جاہل ہیں، بیوقوف ہیں شاید اس لئے کہ ہم غلط رستوں پر بیٹھے رہے.شاید اس لئے کہ ہم نے انہونی باتوں پر ایمان لا کر اپنی قوت عمل کو ختم کر دیا ہے.اس لئے جو کچھ بھی ہے اس دنیا میں ہی ہے کیوں نہ ہم ان کے پیچھے چپ کر کے چلتے رہیں اور ان کے غلبے اور اثر کو قبول کر لیں.الفاظ میں کوئی کہے یا نہ کے لیکن نفسیاتی کیفیت اکثر لوگوں کی یہی ہوتی ہے.نتیجہ ان کی تہذیب ان سے پیچھے رہنے لگ جاتی
خطبات طاہر جلد۵ 649 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء ہے.وہ آگے بڑھتے ہیں لیکن اپنی قدروں کو پیچھے چھوڑ کر اور ان سے زیادہ نقصان اٹھانے والے بن جاتے ہیں کیونکہ نہ وہ اس دنیا میں اس طرح محنت کرنے کے اہل ہوتے ہیں جس طرح ان لوگوں نے محنتیں کیں ، جن کی ساری کی ساری کوششیں دنیا کے لئے وقف ہیں.نہ وہ دین کے رہتے ہیں کیونکہ دین کے نتیجہ میں تو ان کو دو ہری محنت کرنی پڑے گی.دنیا کا فلسفہ بھی سیکھنا تھا آخرت کا بھی سیکھنا تھا، دنیا کے نتائج بھی اخذ کرنے تھے آخرت کے نتائج بھی اخذ کرنے تھے اور ایک متوازن زندگی بسر کرنی تھی.تو ان کے اوپر تو وہی مثال صادق آتی ہے.نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے اور یہ جو کیفیت ہے یہ ایک فرضی بات نہیں ہے.آپ اپنے گردو پیش پر نظر دوڑائیں ، آپ کے اندر ہلکی ہلکی جو تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں نفسیاتی طور پر ان پر غور کریں تو آپ معلوم کریں گے کہ لازماً ہم ایک پلیٹ فارم پر بیٹھے ہوئے ہیں جو آہستہ آہستہ ایک سمت کو بڑھتا چلا جا رہا ہے.بعض دفعہ ہمیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ ہم حرکت کر رہے ہیں.لیکن ہمارا سارا نظریہ حیات تمام رحجانات، تمام احساسات رفتہ رفتہ ان کی کشتی میں بیٹھ کر ان کے ساتھ ایک سمت میں حرکت کر رہے ہوتے ہیں.اس لئے بڑے شعور کے ساتھ ایک دوٹوک فیصلہ کرنا ہے، یہ فیصلہ کرنا ہے کہ فلسفہ حیات کون سا درست ہے اور کون سا سچا، حقیقی اور دائمی ہے.کیا یہی زندگی ہے جس میں ہمیں زندہ رہنا ہے اور عیش و عشرت کرنے ہیں اور پھر مزے اٹھا کر مر کر مٹی ہو جانا ہے.یہ ایک جواب دہی ہے.اس کائنات میں اور بھی پیغامات ہیں جو اخروی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں اگر یہ فیصلہ قطعی ہواور ہوش مندی کے ساتھ کیا جائے تو اس کا ساری زندگی کے اعمال پر اثر پڑتا ہے بالکل نظریہ حیات ہی بدل جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوْا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمة (یونس : ۶۳-۶۵)
خطبات طاہر جلد۵ 650 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اولیاء اللہ کا ذکر فرمایا ہے.اللہ کے ولی اللہ کے دوست ایسے ہوتے ہیں که لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ان پر نہ دنیا کا خوف ہے نہ آخرت کا خوف ہے.نہ دنیا کا غم ہے نہ آخرت کا غم ہے کیونکہ خدا کے ولی بن جاتے ہیں اس لئے دنیا بھی ان کی ہو جاتی ہے اور آخرت بھی ان کی ہو جاتی ہے.ہر قسم کے دنیا کے اندیشے بھی ختم ہو جاتے ہیں اور آخرت کے اندیشے بھی ختم ہو جاتے ہیں.یہ مضمون جس فلسفہ حیات کو پیش کرتا ہے وہ عام مولویا نہ فلسفہ حیات سے بالکل مختلف ہے.عام طور پر بعض مذہبی انتہا پسند یہ سمجھتے ہیں یا یہ سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ خدا تب ملے گا جب دنیا ترک کر دو گے اور خدا ملنے کا تعلق یہ ہے کہ دنیا بالکل چھوڑ دو.احتراز کرو یا دنیا سے بھا گو اور دنیا کی لذتیں صرف ان گندے لوگوں کے لئے ہیں جو دنیا کے پیچھے دوڑ رہے ہیں تمہارے لئے کچھ نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے یہ بالکل غلط ہے.مومنوں کے لئے دنیا بھی ہے اور آخرت بھی ہے.اگر مومن دنیا میں بھی محنت کرتا ہے اور آخرت میں بھی محنت کرتا ہے تو دونوں اس کے قبضہ میں چلی جائیں گی کیونکہ فرمایا اللہ کے اولیاء بن جاتے ہیں یہ لوگ.جو اللہ کا دوست ہو جب اللہ کی دنیا بھی ہے اور اللہ کی آخرت بھی ہے تو وہ آدھے سے اسے کیوں محروم رکھے گا.یہ بنیادی چیز ہے جو سمجھنے کے قابل ہے.آپ کا کوئی دوست ہو اور آپ کو سچا اس سے پیار ہو تو آدھا سنبھال کر الگ تو نہیں رکھ لیا کرتے آپ اس کو دونوں دے دیتے ہیں.قرآن کریم سے بھی پتہ چلتا ہے اور بعض دوسری آیات میں مزید وضاحت ہے اس بات کی کہ اللہ تعالیٰ دنیا کی لذتوں سے مومن کو کلی محروم نہیں کرنا چاہتا.یہ فلسفہ بالکل غلط ہے.ہاں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے.اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ دنیا اس کی ثانوی رہے اور دین اول رہے.اگر یہ تناسب قائم رہے گا تو دنیا بھی اس کی ہے اور دین بھی اس کا ہے.اگر تناسب بگڑ جائے اور دین نیچے چلا جائے اور دنیا اوپر آجائے تو سب کچھ دنیا کا ہو جاتا ہے.اس لئے اس مضمون کو سمجھنا چاہئے.فرمایا لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ بات کو کھول دیا خوب اچھی طرح.فرمایا ان کے لئے اس دنیا میں بھی خوش خبری ہے وَ فِي الْآخِرَةِ اور آخرت میں بھی خوشخبری ہے اور یہ خدا کا ایسا وعدہ ہے جس میں کسی قسم کی کوئی تبدیلی تم نہیں دیکھو گے لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمٰتِ اللہ.اتنی قوت کا بیان ہے کہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.
خطبات طاہر جلد ۵ 651 خطبه جمعه ۳ /اکتوبر ۱۹۸۶ء اس لئے آپ کو خدا تعالیٰ اس مغرب میں بسنے والوں کو خدا تعالیٰ جس راستے پر بلا رہا ہے ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ آپ دنیا بالکل ترک کر دیں اور فقیروں کی طرح لنگوٹے کس کر خدا کے دین کی طرف دوڑیں.خدا تعالیٰ آپ کو آدھے سے بھی محروم نہیں رکھنا چاہتا.خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ جو کچھ بھی خدا کا ہے اگر تم خدا کے ہو جاؤ تو وہ سب تمہارا ہو سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اولیاء اللہ بنا پڑے گا اور اولیاء اللہ بننے کی ایک تعریف یہ ہے کہ تم خدا سے وہ سلوک تو کرو کہ جو کچھ تمہارا ہے وہ خدا کا ہو جائے.اس طرح اولیاء نہیں بنا کرتے کہ جو کچھ تمہارا ہے وہ میرا ہے اور جو کچھ میرا ہے وہ میرا ہے.اولیا تو اس طرح بنا کرتے ہیں کہ پہلے آپ اپنے محبوب ، اپنے دوست کے لئے یہ چاہتے ہیں کہ جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ اسے لے لے اور جب آپ کا دوست آزمائش میں ڈالے تو واقعہ آپ دینے کے لئے تیار ہو جائیں.پھر اگر وہ زیادہ فنی ہے اور آپ سے زیادہ خوش حال اور متمول ہے آپ سے زیادہ صاحب قوت ہے تو وہ اس پیار کے یقین کے بعد پھر آپ کو نہ صرف سب کچھ واپس کرتا ہے بلکہ اس سے زیادہ واپس کرتا ہے.دنیا کے معاملات میں تو یہ بات شاذ شاذ کے طور پر دیکھی جاتی ہے لیکن خدا کے معاملہ میں ہر وہ بندہ جو خدا سے یہ سلوک کرے وہ اسی دنیا میں دیکھ لیتا ہے اللہ کے سلوک کو اور کچھ بھی ادھار باقی نہیں رہتا.اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ اگر آپ نے باقی دنیا کو یعنی مغرب کو ان کی ہلاکتوں سے بچانا ہے تو پہلے اپنے اندر اولیاء اللہ والی خود اعتمادی تو پیدا کریں.جب تک آپ خدا کے ساتھ محبت اور ولایت کا تعلق پیدا نہیں کرتے ، نہ آپ اس دنیا کے اثر سے بچ سکتے ہیں اور نہ اس دنیا کو کسی بداثر سے بچا سکتے ہیں اور ولایت کا تعلق پیدا کرنا سب سے آسان کام ہے.میں نے جب اس مضمون پر غور کیا تو بہت سی باتیں میرے ذہن میں آتی رہیں آپ کو سمجھانے کے لئے.ایک یہ تھا کہ کسی طرح مغربی تہذیب سے بچنے کی کوششیں کرنی ہیں، کیا کچھ آپ نے اپنے بچوں کو بتانا ہے، کن کن چیزوں سے احتراز کرنا ہے کیا کیا اور کام کرنے ہیں.اتنی لبی فہرست بن گئی اور بنتی چلی گئی کہ میں نے سوچا کہ ایک خطبہ تو کیا کئی خطبوں میں بھی پوری نہیں ہو سکتی یہ بات.تب قرآن کریم کی اس آیت کی طرف میری نظر گئی اور مجھے یوں معلوم ہوا کہ جیسے میرے سوال کا جواب اللہ تعالیٰ نے دے دیا ہے.ایک ہی بات میں آپ کو بتادوں اور اس کے اندر ساری باتیں آجائیں گے اور وہ بات یہ ہے کہ
خطبات طاہر جلد۵ 652 خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۸۶ء خود بھی اولیاء اللہ بنے کی کوشش کریں اور اپنے بچوں کو بھی اولیاء اللہ بنانے کی کوشش کریں.اور یہ کام جتنا بڑا ہے اتنا ہی آسان بھی ہے کیونکہ سب سے آسان راستہ محبت کا راستہ ہے.ہر دوسرا راہ مشکل راہ ہے.اس نکتے کو اگر کوئی سمجھ جائے تو اس کی ساری زندگی کے مسائل حل ہو جاتے ہیں.کتنا بڑے سے بڑا کٹھن مقام ہو عاشق کے لئے وہ آسان ہو جاتا ہے کیونکہ اس کو ایک مقصد سے یا ایک وجود سے پیار ہوتا ہے اور اس کے لئے جتنی بھی تکلیف اٹھاتا ہے اس میں لذت پانے لگ جاتا ہے.اس لئے انبیاء کی اتنی مشکل زندگیاں کہ دور سے دیکھنے کے باوجود ہزاروں سال دور بیٹھے ہوئے ، ان کی زندگیوں کا تصور کریں تو انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری باتیں جو ہمیں یہاں نہایت ہی دردناک دکھائی دیتی ہیں ان کے لئے لذت کا موجب تھیں کیونکہ محبت کے نتیجہ میں تھیں تصنع کے نتیجہ میں نہیں تھیں ، بناوٹ کے نتیجہ میں نہیں تھیں ، زبر دستی ذہن کے حل کئے ہوئے مسائل کے نتیجہ میں نہیں تھیں، بلکہ یہ دل کا مسئلہ تھا.اس لئے خدا تعالیٰ نے سب سے بنیادی نکتہ یہاں بیان فرما د یاور نہ دنیا میں رہ کر خدا کا بننا بہت مشکل کام ہے ورنہ لازماً دنیا غالب آجاتی ہے.فرمایا تم اپنے رب سے دوستی کا تعلق بناؤ ، اس سے پیار کا تعلق قائم کرو، روز مرہ کی زندگی میں اس سے باتیں کیا کرو اور اس کی طرف دیکھا کرو، ایک خوبصورت چیز دیکھو تو پہلے اللہ یاد آیا کرے بعد میں دوسری چیزوں کا خیال آئے.کوئی اچھی چیز دیکھو.مثلاً اچھی کار ہے تو دوطرح کے رد عمل ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ دل میں ایک آگ لگ جائے کہ جب تک میں نہ لے لوں یہ کار مجھے مزہ نہیں آئے گا.دوسرا یہ کہ خدا تعالیٰ کی صنعتوں کی طرف دھیان چلا جائے کہ عجیب اللہ کی شان ہے.ایک معمولی سی صنعت ہے کار، اس پر یہ لوگ سفر کرتے پھر رہے ہیں لیکن اللہ کی عظیم الشان صناعی ہے جس کو ہم ہر روز دیکھتے ہیں ، ہمارے اپنے وجود میں موجود ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا کی طرف کوئی توجہ پیدا نہیں ہوتی.اس جہت میں کئی رد عمل ہو سکتے ہیں اور انسان کا دل سرور سے بھی بھر سکتا ہے لذت سے بھر سکتا ہے اور پھر ایک اور طرح بھی خدا کی طرف توجہ ہوسکتی ہے.دل چاہتا ہے لینے کو تو اللہ سے کہہ سکتے ہیں اے خدا! میں تو تیرا ہوں اس لئے بظاہر تو میرے پاس کچھ نہیں ہے.اگر میرے دل کی یہ تمنا پوری کرنی ہے تو یہ کار مجھے دے دے.مکانوں کے متعلق ، دنیا کی چیزوں کے متعلق ایک یہ زندگی کا رحجان ہوسکتا ہے اور یہ رجحان ہے جو دراصل ولایت کا رحجان ہے اور اس رحجان میں کچھ بھی
خطبات طاہر جلد۵ 653 خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۸۶ء مشکل نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایک جوتی کا تسمہ کی بھی ضرورت پڑے تو خدا سے مانگو.پہلی توجہ انسان کی ضرورت کے وقت دوست کی طرف ہوا کرتی ہے اس لئے ولایت سیکھنے کے لئے سب سے پہلے اپنی ضرورتوں سے بات شروع کریں اور واقعہ ہر ضرورت کے وقت خدا کو یاد کرنا شروع کر دیں.یہ ولایت کا پہلا قدم ہے.دوسرا قدم یہ ہو گا جب آپ خدا سے مانگنا شروع کریں گے ، ہر وقت خدا کی طرف دیکھیں گے تو کسی دن یہ بھی دل میں خلش پیدا ہوگی کہ اللہ کی بھی تو ضرورتیں ہیں، اس کے دین کی بھی تو ضرورتیں ہیں اور قدم قدم پر یہ ضرورتیں پیدا ہو رہی ہیں.میں نے تو کبھی ضرورت پوری نہیں کی پھر میں کیسا دوست ہو گیا یک طرفہ دوستی تو کوئی چیز نہیں ہے.یک طرفہ تو غلامی کا معاملہ ہوا کرتا ہے، نوکری کا معاملہ ہوتا ہے.نعوذ باللہ خدا کسی کا غلام تو نہیں ہے کہ وہ یک طرفہ چیزیں پوری کرتا چلا جائے.تو اس رستے پر چلنے کے نتیجہ میں جو ولایت کا رستہ ہے یہ رستہ خود اپنے آپ کو مکمل کرتا چلا جاتا ہے ، خود آپ کے قدم درست کرتا چلا جاتا ہے.اس لئے سب سے آسان ایک بات جو میں آپ کو کہہ سکتا ہوں اور آپ کے لئے اور آپ کی نسلوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت اور پیار کا تعلق قائم کریں اور اس کے لئے محنت کریں.کوشش کر کے باریک بینی کے ساتھ اس رستے پر قدم اٹھانے کی کوشش کریں.جب تک آپ کے دل میں محبت الہی لہریں بن کر دوڑ نے نہ لگ جائے اس وقت تک محض خشک تعلق کے خیال کو پیار قرار نہ دیں.بڑا آسان رستہ ہے اور لذت والا رستہ ہے.اس کی پہچان بھی کوئی مشکل نہیں.جوں جوں یہ پیار بڑھے گا آپ کے اعمال کے اوپر اس پیار کا اثر نمایاں ہوتا چلا جائے گا.کسی بیرونی نصیحت کرنے والے کے محتاج آپ نہیں رہیں گے.کسی خشک مولوی کی نصیحت کے آپ محتاج نہیں رہیں گے.پیار تو خود سکھاتا ہے رستے.ان راہوں میں قدم اٹھانے کی تلقین بھی خود کرتا ہے اور جنون کا لباس پہنا دیتا ہے.دنیا کے عاشق مثلاً لیلیٰ کا عاشق ایک مجنوں تھا.اس کے متعلق سوچیں کتنی ادنی سی چیز تھی جس کا عشق اس کے دل میں پیدا ہوا.عارضی اور ایسی چیز جو جوابا اس کی محبت کو لوٹا بھی نہیں سکتی تھی نہ لوٹا رہی تھی ، نہ اس میں یہ طاقت تھی کہ اتنی شدید محبت کا جواب دے سکے اور اس محبت کو کوئی دوام نہیں ہے.اس کے باوجود اس نے مجنوں کی ساری زندگی کی کایا پلٹ دی.ہر وقت اس کو یہ
خطبات طاہر جلد۵ 654 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء تمنا تھی کہ جو لیلیٰ کی خواہش ہے میں بھی ویسا ہی کروں اور لیلی نام اس لئے تھا کہ اس کا رنگ کالا تھا ظاہری طور پر بھی اس میں جو حسن کا بنیادی جز سمجھا جاتا ہے رنگ کا اچھا ہونا ، وہ بھی موجود نہیں تھا.لیکن کہتے ہیں اس کو لیلی کے کتے سے بھی پیار تھا.کتا جب نظر آتا اسے تو کہتا یہ لیلیٰ کا کتا ہے تو جھپٹتا تھا اس کی طرف کہ میں اس کو بھی پیار کرلوں.تو محبت پھر عجیب معجزے دکھاتی ہے.سب سے زیادہ انسانی زندگی میں کارفرما قوت محبت کی قوت ہے.اسی لئے خدا تعالیٰ نے اولیاء اللہ کہہ کے ہمیں ہمارے راستے کو آسان فرما دیا.فرمایا کہ تم اگر میری ولایت اختیار نہیں کرو گے تو تم پر ہر وقت کچھ خوف غالب رہیں گے اور ہر وقت کسی نہ کسی غم میں مبتلا رہو گے.جو دنیا کے خوف بھی ہوں گے اور آخرت کے خوف بھی ہوں گے.دنیا کے غم بھی ہوں گے اور آخرت کے غم بھی ہوں گے اس لئے زندگی کو آسان کرنے کے لئے اور دونوں جہانوں کی نعمتیں حاصل کرنے کے لئے ، میں تمہیں ولایت کی طرف بلاتا ہوں، اللہ کے پیار کی طرف بلاتا ہوں ، اگر خدا کا پیارا ختیار کر لو یعنی خدا فرماتا ہے میرے ولی بن جاؤ تو پھر یہ سارے رستے دونوں جہان تمہارے ہیں.جس طرح ہم دنیا میں کہتے ہیں دونوں جہاں تمہارے ہیں یہی بیان فرمایا گیا لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ - خوشخبری ہو ان کو کہ دنیا بھی ان کی ہوگی اور آخرت بھی ان کی ہوگی.تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کو یہی رستہ اختیار کرنا چاہئے ورنہ ان کا مستقبل تاریک ہو جائے گا.دنیا کے خوف بھی ہوں گے اور آخرت کے خوف بھی ہوں گے اور یہ ایسی چیز ہے جس کے لئے آپ کو بچپن سے کوشش کرنی چاہئے اور اپنے بچوں کو سنبھالنے کے لئے سب سے زیادہ اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے.آپ جو چاہیں ذرائع اختیار کر لیں اس سے زیادہ قوی ذریعہ اور کوئی نہیں ہے.ایک چھوٹے سے بچے کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت پیدا کر دیں اور اس سے زیادہ آسان ذریعہ اور کوئی نہیں ہے.ہر دوسری محنت آپ سے کئی گنا زیادہ وقت مانگے گی ، کئی گنا زیادہ توجہ اور استقلال مانگے گی لیکن خدا کے متعلق چند پیار کی باتیں روزانہ بچوں سے کر دینا وہ ایک ایسا نکتہ ہے.جس سے آپ بھی فائدہ اٹھائیں اور وہ بھی فائدہ اٹھائیں گے.جس طرح بعض دفعہ مائیں بچوں کو اچھی چیز کھلا رہی ہوتی ہے تو اس میں سے ایک ایک چمچہ آپ بھی کھاتی جاتی ہے اور وہ نظارہ آپ نے دیکھا ہوگا بڑا مزا آتا ہے دیکھ کے کہ بچے کا چہرہ بھی لذت سے بھرا ہوتا ہے اور ماں کا چہرہ بھی لذت
خطبات طاہر جلد۵ 655 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء سے بھرا ہوتا ہے.اسی طرح خدا کی محبت لقمہ لقمہ ان کو کھلائیں ، یہ اس کے محتاج ہیں اور ایک ایک لقمہ آپ بھی ساتھ کھاتی رہا کریں.جب بچوں کی تربیت کریں گے تو پھر آپ کی بھی ساتھ تربیت ہوگی.جب خدا سے پیار ہو گیا تو پھر خدا کے نام پر قربانیاں مانگی جائیں ، خدا کے نام پر آپ کو بلایا جائے تبلیغ کی تلقین کی جائے اور اس وقت آپ اس کو یاد رکھ کر آگے بڑھ رہے ہوں گے.ہر قدم اٹھانے کی لذت آپ کو اس لئے آئے گی کہ آپ جانتے ہوں گے میرا ایک دوست ہے جو دیکھ رہا ہے.جب چندہ دیں گے تو ذہن میں کبھی یہ نہیں آئے گا کہ فلاں سیکر یٹری مال کو دے رہے ہوں یا کسی اخبار میں چھپوانے کی خاطر دے رہا ہوں بلکہ چندہ دیں گے تو دماغ میں ہوگا کہ اللہ ہے ایک میرا اسی کی ضرورت پوری کر رہا ہوں میں، اس کے دین کی اور وہ دیکھ رہا ہے تو اس کو مزہ آرہا ہوگا.زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے.کام وہی ہیں جو عام لوگ کرتے ہیں لیکن اس کا رخ بھی بدل جاتا ہے سارا.قبلہ بدل جاتا ہے اور قبلہ درست ہو جاتا ہے.پس خدا کی محبت قبلہ درست کرتی ہے.یہ آپ کی ہر نیکی کا قبلہ درست کر دے گی.چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بھی اور بڑی سے بڑی نیکی کا بھی اور نیکیاں سب آسان ہو جائیں گی.اب بعض دوست ایسے ہیں جن کو خدا توفیق بھی دیتا ہے لیکن چندہ دیتے ہوئے ان کو اتنی تکلیف ہوتی ہے اس لئے کہ ان کا قبلہ درست نہیں ہوتا.اگر ایسے لوگ یہ سمجھتے کہ وہ اپنے بچوں کی ضرورت کے مقابل پر میں جماعت کی ضرورت پوری کر رہا ہوں اور بوجھل دل میں اس کے نتیجے میں محرومیاں پیدا ہوں گی.اگر محبت پیدا ہو جائے اور خدا کے ولی بن جائیں تو ذہن میں یہ ہوگا کہ سب کچھ میرے پیارے نے دیا ہوا ہے اُس کی ضرورت ہے، اس کے دین کی ضرورت ہے میں جو کچھ بھی دوں گا اس کے نتیجہ میں اس کا پیار مجھے ملے گا اور وہ مالی قربانی آسان بھی ہو جائے گی اور لذیذ بھی ہو جائے گی اور اس کی قوت بھی بڑھ جائے گی.اور اس کے نتیجہ میں جہاں تک ثواب کا تعلق ہے خدا کا یہ وعدہ لازماً آپ کے حق - میں پورا ہوگا.لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ.ایسے لوگ جو میرے ولی بن کر نیکیاں کرتے ہیں.ان کے متعلق میرا وعدہ یہ ہے کہ دنیا بھی اُن کی خراب نہیں ہونے دوں گا.ان کی نیکیوں کا پھل لازماً دنیا میں بھی دوں گا اور آخرت میں بھی دوں گا.لَا تَبْدِيلَ لِعلمیت اللہ اور یہ ایک ایسی بات ہے جس میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں ہوگی.یہ ایک
خطبات طاہر جلد۵ 656 خطبه جمعه ۳/اکتوبر ۱۹۸۶ء اتنا عظیم الشان اور قوی وعدہ ہے کہ ایک عاشق کے لئے کیا جاسکتا ہے ورنہ عام ملاں کی نیکی کے نتیجہ میں تو اتنے عظیم الشان پیار کا اظہار خدا کی طرف سے نہیں ہو سکتا.گر یہی ہے کہ آپ خدا کا ولی بننے کی کوشش کریں.پھر آپ کو کچی خوا میں بھی آئیں گی.پھر آپ کے ساتھ خدا تعالیٰ کے مکاشفہ کا تعلق بھی پیدا ہوسکتا ہے، مکالمہ کا تعلق بھی پیدا ہو سکتا ہے کیونکہ ولایت کے رستے پھر آسان سے آسان اور وسیع تر اور ہر قدم آسان ہو جاتا ہے.اس پہلو سے آپ اس سبق کو یا درکھیں گے تو پھر مجھے یقین ہے کہ یہ جو فکریں ہیں کہ یہاں کا معاشرہ نعوذ باللہ آپ پر غالب نہ آجائے یہ ساری فکریں میری انشاء اللہ ختم ہو جائیں گے لیکن ہر دل میں یہ یقین ہونا ضروری ہے.وہ جو ایک آیت میں نے پڑھی تھی جس میں یہ میں نے پڑھا تھا کہ اس دنیا پر وہ لوگ اطمینان پا جاتے ہیں وَاطْمَا نُوا بِهَا اس دنیا پر طمانیت پا جاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں دنیا کے ہو کر رہ جاتے ہیں ان کا آخرت سے تعلق کلیڈ کٹ جاتا ہے.ولایت کے مضمون میں بھی ایک اطمینان کا ذکر ہے وہاں فرمایا گیا أَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ (الرعد: ۲۹) - طمانیت تو بہر حال انسان چاہتا ہے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ اطمینان قلب کے بغیر انسان زندہ رہ سکے.فرمایا فرق یہ ہے کہ بعض لوگ دنیا کی نعمتیں پاتے ہیں تو ان کا دل لگتا ہے کہ بس یہیں کے لئے تھا اور ان کو سکون آجاتا ہے وہ دنیا کی نعمتوں کے ساتھ چمٹ کر بیٹھ جاتے ہیں، لیکن کچھ خدا کے اور بندے ہوتے ہیں.جو خدا کی محبت میں مبتلا ہوتے ہیں ان کو جب تک خدا کی یاد نہ آئے ان کو تسکین قلب نہیں ملتی.اَلَا بِذِكْرِ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ - توجيها کہ آیات میں نے پڑھیں تھیں ہر بات میں ان کو ہر بات سے خدا کی یاد آنے لگ جاتی ہے، ہر بات ان کے لئے طمانیت کا موجب بن جاتی ہے.پس یہ بہت ہی پیارا ، صاف اور سیدھا رستہ ہے اور محنت طلب نہیں ہے بلکہ محنت کی طاقتیں بھی خود بخشتا ہے.خود آگے بڑھتا ہے جوں جوں رفتار بڑھاتا ہے اُسی رفتار کے ساتھ سفر کو آسان سے آسان تر کرتا چلا جاتا ہے اور لذیذ تر کرتا چلا جاتا ہے.پس ہمیشہ کوشش کریں کہ خدا تعالیٰ سے سچا اور دائمی پیار پیدا ہو جائے.اور بچوں کے دل میں بھی ، آپ کی بیویوں کے دل میں بھی ، بہنوں اور ماؤں کے دل میں بھی اور برعکس اس کے عورتوں کو بھی یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اپنے بچوں میں خدا کا پیار گوندھ گوندھ کر داخل کر دیں.اگر وہ دودھ پلاتی ہیں تو اپنے دودھ کے ذریعہ ان کے اندر خدا کا پیار
خطبات طاہر جلد۵ 657 خطبه جمعه ۳ اکتوبر ۱۹۸۶ء داخل کریں وہ بچوں کو لوریاں دیتی ہیں اور کہانیاں سناتی ہیں تو لوریوں اور کہانیوں کے ذریعہ اللہ کا پیار بچوں کے اندر داخل کریں.اور وہ اپنے خاوندوں کے دل میں بھی خدا کا پیار داخل کرنے کی کوشش کریں اور اپنے بھائیوں کے دل میں بھی.تو دونوں طرف سے ایک بڑی قوت کے ساتھ مہم چلنی چاہئے اور جہاں تک میں نے بیان کیا ہے، اس سے انشاء اللہ تعالیٰ عظیم الشان نتائج ظاہر ہوں گے.آپ کی زندگی کی کیفیت بدل جائے گی.تو اس وقت صرف بتانے کی باتیں ہیں اس لذت میں سے جو گذرے ہیں ان کو پتہ ہے یا جو گزریں گے وہی جانتے ہیں کہ سب سے زیادہ آسان اور لذت کا رستہ یہی رستہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: نماز جمع ہونگیں یعنی جمعہ کے بعد عصر کی نماز جمع ہوگی اور جو مقامی دوست ہیں یا جو بچے سن رہے ہیں وہ غور کریں کہ سلام نہیں پھیرنا عصر کی نماز میں میرے ساتھ.میں دوگانہ ( دورکعت ) پڑھوں گا.مقامی دوستوں نے چار پوری کرنی ہیں اور سلام پھیرے بغیر اٹھ کھڑے ہونا ہے جب رکعات پوری کر لیں تو پھر سلام پھیر ہیں.
خطبات طاہر جلد ۵ 659 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء دورہ کینیڈا کے ایمان افروز حالات، یہ ملک دین کے مستقبل میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ راکتو بر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ تین جمعوں کے ناغہ کے بعد یعنی ان معنوں میں ناغہ کہ مجھے گزشتہ تین جمعے انگلستان میں پڑھنے کی توفیق نہیں ملی بلکہ اس کی بجائے یہ تین جمعے کینیڈا کے سفر میں پیش آئے.پس اس ناغہ کے بعد آج میں تقریباً اکیس (۲۱) دن کے بعد دوبارہ یہاں جمعہ کے لئے حاضر ہوا ہوں.اگر چہ اس عرصہ میں انگلستان سے دوری کا احساس رہا اور کئی وجوہات کے علاوہ ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ جس طرح یہاں با قاعدگی سے ڈاک ملتی ہے اور ساری دنیا کی جماعتوں سے رابطہ رہتا ہے اس طرح کینیڈا میں یا اور دیگر ممالک میں رابطے کی ایسی سہولت اور ایسی با قاعدگی نہیں اور خصوصاً اس سفر میں تو ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے یہاں آکر گزشتہ ڈاک دیکھنے کا موقع ملا ہے.اس لحاظ سے اول تو میں سب خط لکھنے والوں سے معذرت خواہ ہوں کہ اس اکیس دن کے عرصہ میں جو ڈاک کی طرف توجہ میں کمی آئی ہے اس کے کچھ اثرات لازماً مختلف صورتوں میں ظاہر ہوں گے.مثلاً بعض دوستوں نے بعض اہم اور فوری کاموں کی طرف متوجہ کیا تھا ، کچھ احباب نے اپنے بچوں کے ناموں کے لئے لکھا تھا، کچھ نے بعض اہم مشورے طلب کئے تھے غرضیکہ بہت سے متفرق کام تھے جن کے لئے وہ میرے جواب کے منتظر ہوں گے.اس لئے اب جہاں تک ممکن ہے انشاء اللہ کوشش کر کے اس
خطبات طاہر جلد۵ 660 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء سابقہ ڈاک کو نکالوں گا اور کچھ تاخیر سے اگر جواب جائیں تو میں سب احباب سے اس کے لئے معذرت خواہ ہوں.دوسرے اس کے علاوہ جماعتی خبروں سے جو کچھ تعلق کٹ جاتا رہا ہے اگر چہ ہم جہاں بھی ہوتے تھے ، اہم خبریں ٹیلیفون کے ذریعہ سے ملتی رہتی تھیں مگر ٹیلیفون کا رابطہ اور نوعیت کا ہوتا ہے، باقاعدہ تفصیلی رپورٹوں کا ملنا ایک اور بات ہے.اس کی وجہ سے بھی ایک محرومی اور بنیادی طور پر ہلکا سا کٹ جانے کا احساس رہا.پھر جس کثرت سے مختلف دنیا سے احباب یہاں تشریف لاتے ہیں، وہ رابطہ بھی کینیڈا جیسے دور دراز ملک میں ممکن نہیں لیکن اس کے علاوہ جہاں تک جماعت کینیڈا کے دورے کا تعلق ہے یہ دورہ اپنی ذات میں نہایت ہی ضروری تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے نتیجہ میں انشاء اللہ آئندہ جماعت کی ترقی کے بہت سے سامان پیدا ہوں گے.دورہ خدا کے فضل سے نہایت مصروف تھا اور اس خیال سے کہ بار بار موقع نہیں مل سکتا جماعتوں نے حتی المقدور میرے وقت کا بہترین استعمال کرنے کی کوشش کی.اندرونی رابطے کے لحاظ سے بھی اور بیرونی رابطے کے لحاظ سے بھی اور دونوں لحاظ سے کینیڈا کے سفر کا میرے دل پر بہت ہی اچھا اثر پڑا ہے.جماعتی طور پر تو میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کینیڈا نے گزشتہ چند سالوں میں خدا کے فضل سے تربیتی لحاظ سے غیر معمولی ترقی کی ہے.1978 ء میں جب میں انفرادی طور پر وہاں گیا تو کینیڈا کی جماعتوں کا اچھا اثر لے کر واپس نہیں آیا تھا.اندرونی اختلافات بھی تھے اور مغربی معاشرے سے ایک طبقہ متاثر بھی ہو چکا تھا اور خصوصاً ہماری خواتین پر اس کے بداثرات ظاہر ہورہے تھے.اس کے نتیجہ میں خطرہ تھا کہ آئندہ نسلیں خدانخواستہ ہاتھ سے نہ نکل جائیں.علاوہ ازیں بھی نظم و ضبط کی وہ کیفیت نہیں تھی جو ہر جگہ جماعت میں ہونی چاہئے اور جب یہ حالات ہوں تو لازماً ترقی پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور جماعتوں میں جا کر جو غیر معمولی خوشی کا احساس پیدا ہونا چاہئے اس کا وہاں فقدان تھا.اب جب میں وہاں گیا ہوں تو خدا کے فضل سے ہر پہلو سے میری طبیعت میں خوشی کا احساس پیدا ہوا اور اللہ تعالیٰ کے شکر کی طرف طبیعت مائل ہوئی کیونکہ مشرق سے مغرب تک جوسفر اختیار کیا تقریباً ساڑھے تین ہزار میل سے زائد کا سفر تھا صرف ملک کے اندر ہی اور وقت کے لحاظ سے تین گھنٹہ کا فرق پڑ گیا تھا مشرقی کنارے سے مغربی کنارے تک.اس تمام عرصہ میں ہر جماعت
خطبات طاہر جلد۵ 661 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیداری کی ایک نمایاں روح دیکھی ہے اور بہت احساس پایا جاتا ہے کہ ہم جس حد تک بھی ممکن ہو اپنی اولاد کی تربیت کریں، اکٹھے رہیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر محبت کے ساتھ دین کے کام کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں اور یہ احساس جو عموماً پایا گیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی خاص رحمت کی ہوا چلی ہے ورنہ بہت بڑا کام تھا سارے ملک کی ہر جماعت کی تربیت کرنا.جہاں تک مرکزی مربی کا تعلق ہے ملک اتنا وسیع ہے کہ اس کا ہر جگہ پہنچنا ویسے ہی ممکن نہیں ، شاذ کے طور پر کبھی وہ جاسکتے ہیں.اس سے مجھے اندازہ ہوا ہے کہ دراصل پاکستان میں جو حالات گزر رہے ہیں تکلیف دہ، یہ محض ان کا پھل ہے.اللہ تعالیٰ کی رحمت کی ہوائیں جو چل رہی ہیں اس کا تعلق ان تکلیفوں سے ہے اور ان دعاؤں سے ہے جو ان تکلیفوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں اور ساری دنیا میں خدا کی رحمت غیر معمولی طور پر خوشخبریاں لے کے آ رہی ہے اور اس کے جو چھینٹے ہیں وہ مردہ دلوں میں ایک نئی جان پیدا کر رہے ہیں، نئی تازگی عطا کر رہے ہیں، نیا ولولہ عطا کر رہے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ صرف کینیڈا ہی میں نہیں ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسی قسم کی رحمتوں کا نزول ہو رہا ہوگا.پس جماعت احمدیہ کو اس پہلو سے خوشخبری ہو کہ جماعت ایک نئے ترقی کے دور میں داخل ہو چکی ہے اور اس دور کے نتائج بہت دور رس ہیں ، بہت دیر تک نکلتے رہیں گے اور اگر ان نتائج کو ہم سنبھالیں تو آئندہ عظیم الشان اور عظیم تر نتائج کے لئے وہ مزید بنیادیں مہیا کریں گے اور بلند تر نئے پلیٹ فارم قائم کریں گے.پس جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات کے نیچے دیتی چلی جارہی ہے اور جتنا یہ احساس ہمارا بڑھتا جائے گا اتنا ہی خدا کا یہ وعدہ پورا ہوتا چلا جائے گا کہ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراهیم : ۸) تم شکر ادا کرتے چلے جاؤ اور میں اس شکر کے نتیجہ میں اپنے فضلوں اور رحمتوں اور برکتوں کو بڑھاتا چلا جاؤں گا.جہاں تک بیرونی واسطے کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کینیڈا کی ہر شاخ میں بیرونی دنیا سے تعلق زیادہ واضح اور مضبوط ہوا ہے.واضح ان معنوں میں کہ پہلے اس تعلق میں کچھ ابہام سا پایا جا تا تھا اور دونوں طرف نمایاں احساس کے ساتھ ایک دوسرے کے وجود کی پوری خبر نہیں تھی یعنی جماعت احمد یہ کے افراد یہ سمجھتے تھے کہ کینیڈا کی دنیا الگ ہے اور ہم الگ ہیں اور کینیڈا جماعت احمدیہ کے وجود سے
خطبات طاہر جلد ۵ 662 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء عملا بے خبر تھا ایک معمولی سا احساس تھا کہ یہاں کچھ اور قسم کے لوگ بھی رہتے ہیں لیکن اب یہ تعلق واضح ہو گیا ہے اور اس کثرت کے ساتھ جماعت احمدیہ نے اپنے آپ کو اپنے ماحول پر واضح کیا ہے اور احمدیت کا تعارف کروایا ہے کہ جس جس جگہ بھی میں گیا ہوں مجھے یہ احساس ہوا کہ جماعت احمدیہ کے متعلق ابتدائی تعارف کی ضرورت نہیں رہی.یہاں تک کہ پریس میں بھی جماعت احمدیہ کے بارے میں خاصا تعارف موجود تھا.وہاں کے مختلف حکام سے بھی رابطہ رہا Intelegencia سے بھی رابطہ رہا اور اکثر جگہ یہ دیکھ کر تعجب ہوتا تھا کہ وہ جماعت کے حالات کے متعلق باخبر ہیں اور گزشہ دو تین سال کے اندر اس پہلو سے جماعت نے بڑے منظم طور پر کام کو آگے بڑھایا.یا ہے.پس اب کینیڈا میں جماعت ایک معین ٹھوس وجود کے طور پر ابھر آئی ہے اور جماعت میں یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہم ان سے کٹ کر نہیں رہیں گے بلکہ ان کے ساتھ شامل ہوں گے، ان کے ساتھ تعلقات بڑھائیں گے اور سارا کینیڈا در اصل خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اسلام کے لئے ایک مستقبل کی سرزمین بننے والا ہے.جہاں اسلامی نفوذ کو ہم نے معین طور پر بڑی کوشش محنت اور دعاؤں کے ساتھ پھیلاتے چلے جانا ہے.پہلے یہ احساس اگر تھا بھی تو انفرادی طور پر پایا جا تا تھا مگر ساری جماعت کا یہ احساس کہ ہم نے تبلیغ کرنی ہے ، اسلام کا پیغام پہنچانا ہے، اس ملک کو آنحضرت کے لئے اور آپ کے دین کے لئے فتح کرنا ہے، یہ احساس اس شدت کے ساتھ پہلے مجھے محسوس نہیں ہوا تھا.پس ان سب پہلوؤں سے جب میں غور کرتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کے شکر سے میرا دل بھر جاتا ہے کہ یہ دورہ خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مطمئن کرنے والا اور اللہ تعالیٰ کے احسانات کی طرف مزید متوجہ کرنے والا تھا.اس دوران بعض مزید آئندہ جماعت کی ترقی کے پروگرام بھی ذہن میں ابھرے اور اللہ تعالیٰ نے ایسے امور کی طرف نشاندہی بھی کروائی جن کے نتیجہ میں میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت کی ترقی پہلے سے بہت زیادہ تیز ہو جائے گی اور جن جن جگہوں پر ان امور کا ذکر ہوا ہے وہاں میں نے محسوس کیا کہ جماعت میں خود ایک بڑا ولولہ پایا جاتا ہے کہ ہمیں عمل کی نئی راہیں بتاؤ ہم آگے بڑھنے کے لئے تیار ہیں.چنانچہ جن جن دوستوں سے بعض تجاویز کے متعلق مشورے طلب کئے گئے انہوں نے نہایت ہی محبت اور خلوص کے ساتھ نہ صرف مشورے دیئے بلکہ کام کی
خطبات طاہر جلد۵ 663 خطبه جمعه ۱۰/اکتوبر ۱۹۸۶ء ذمہ داریاں بھی قبول کیں.اس لئے ان کی تفصیلات میں تو یہاں جانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سفر کے دوران جماعت احمد یہ کینیڈا کے مستقبل کے بارہ میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی نئی تجاویز سوجھا ئیں اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے غور اور فکر کی تو فیق عطا فرمائی اور عمل درآمد کرنے کے لئے انصار مہیا فرمائے جو پورے ولولے اور خلوص نیت کے ساتھ اس بات پر تیار ہیں کہ عنقریب انشاء اللہ تعالیٰ جو جو راہیں ان کو دکھائی گئی ہیں ان میں بڑی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے.اس پہلو سے ساری دنیا کی جماعتوں کو جس جس تک میری یہ آواز پہنچے کینیڈا کو خصوصیت سے اپنی دعاؤں میں شامل کر لینا چاہئے.میں سمجھتا ہوں کہ اسلام کے مستقبل کے لئے کینیڈا ایک بہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے.ایک خاص نوعیت کا یہ ملک ہے جس کو شمالی امریکہ ہونے کے باوجود شمالی امریکہ کی بعض برائیوں سے بچنے کی توفیق ملی ہے اور شمالی امریکہ کی بہت سی ترقیات سے حصہ پانے کی بھی توفیق ملی ہے اگر چہ شمالی امریکہ میں جو United States of America ہے یعنی ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اس کے مقابل پر بہت پیچھے ہے لیکن اس کے اندر Potential موجود ہے.خدا تعالیٰ نے غیر معمولی اس ملک کو ایسی صلاحیتیں بخشی ہیں کہ اگر ان سے استفادہ کیا جائے تو دنیاوی طاقت کے لحاظ سے بھی بہت ہی عظیم ملک بن سکتا ہے.مذہبی طور پر اگر چہ اس ملک پر بھی مادہ پرستی کا اثر ہے لیکن ہر جگہ میں نے محسوس کیا کہ مادہ پرستی کا جو اثر امریکہ پر ہے اس کا عشر عشیر بھی ابھی کینیڈا پر نہیں اور ان کا مادہ پرستی کا اثر Skin Deep یعنی بڑا سطحی ہے.ہر گفت و شنید کے نتیجہ میں میں نے محسوس کیا کہ ان کے اندر مذہب کی لگن ہے اور جذبہ پایا جاتا ہے انسانیت کے لئے.وہ چاہتے ہیں کہ ٹھوس اقدار پر زندگی بسر کریں اور اس کے لئے ایک بے چینی اور جستجو ہے.اگر چہ دہریت بھی ہے اور جیسا کہ سارے مغربی ملکوں میں ہے لیکن دہریت میں بھی وہ شدت نہیں ہے بلکہ Agnosticism جس کو کہتے ہیں یعنی لاعلمی کی دہریت اس قسم کی دہریت, زیادہ ہے شرارت کی دہریت نہیں ہے اور بات کو جلدی قبول کرتے ہیں، بہت جلدی اثر لیتے ہیں اور دلیل کو سمجھتے ہیں، متحمل مزاج لوگ ہیں.ان کی دہریت کے متعلق ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ سناتا ہوں.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے ٹیلی ویثرن کے پروگراموں میں بھی شرکت کی توفیق ملی.ٹیلیویژن کا ایک پروگرام تقریباً پچاس
خطبات طاہر جلد۵ 664 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء منٹ کا تھا اس کا ایک حصہ سوال و جواب پر پر مشتمل تھا ہر قسم کا سوال جو چاہیں وہ کریں.وہ Live پروگرام تھا یعنی ساتھ ساتھ وہ پروگرام دکھایا جارہا تھا.اس میں کوئی ردو بدل نہیں کر سکتے تھے اور اس کا ایک حصہ ٹیلیفون پر سوالات کے لئے وقف تھا.جو چاہے ٹیلیفون پر سوال کرے اس کو اسی وقت جواب دیا جاتا ہے.اس کے دوران مشن کا نمبر بھی لکھا ہوا دکھایا اور بول کر بھی بتایا کہ اگر کسی کو دلچسپی ہو تو اس مشن سے اس نمبر سے وہ رابطہ کر کے آئندہ اپنی سوالات کی پیاس بجھا سکتے ہیں.اس پروگرام کے دوران ہی مشن ہاؤس میں فون آیا اور فون کرنے والے نے بتایا کہ میں تو پکا ہر یہ تھالیکن یہ پروگرام دیکھتے ہی میرے اندر تبدیلی پیدا ہوگئی ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے موقع دیں اور میرے سوالات کا جواب دیں.تو میں گہری دلچسپی لینا چاہتا ہوں.اس مسئلہ میں ایسی اچھی اور فوری Respons ایک دہریہ کی طرف سے بڑا تعجب انگیز ہے اور خوش آئند ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی دہریت بھی سطحی ہے.ورنہ اتنی جلدی ایک ایسے پروگرام سے متاثر ہو جانا جس کا براہ یت سے تعلق نہیں تھا یعنی مذہبی پروگرام تو تھا لیکن خاص طور پر دہریوں کے اعتراضات کے جوابات سے تعلق رکھنے والا پروگرام نہیں تھا، متفرق سوال تھے اور اس کا اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک اور فائدہ یہ بھی ہوا کہ پاکستانی سوسائٹی جس کو یک طرفہ پراپیگنڈے نے جماعت احمدیہ سے دور پھینکا ہوا تھا وہ بھی اس پروگرام کو دلچسپی سے سنتی رہی اور اس کے نتیجہ میں دوسرے دن کی ہماری جو مجلس تھی اس میں ایسے لوگ بھی شامل ہوئے جنہوں نے گویا حلف اٹھا رکھے تھے کہ ہم نے جماعت احمدیہ کی بات کبھی سنی ہی نہیں.ایک خاتون نے بتایا کہ میرے میاں اتنے دشمن،اتنے شدید قسم کے متنفر تھے جماعت سے کہ گھر میں بھی ذکر تک نہیں چلنے دیتے اور وہ پروگرام دیکھنے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں ان کی کل کی مجلس میں ضرور شامل ہوں گا اور جب وہ شامل ہوئے تو مجلس ختم ہونے کے بعد بھی واپس نہیں گئے پھر مغرب وعشاء کی نماز پر بیٹھے رہے.پھر اس کے بعد جو ہماری اندرونی ایک مجلس لگی اس میں بھی شامل ہوئے اور ان کے رویہ سے اور ان کے ساتھیوں کے ان کے اور بھی بہت سے اہم ساتھی جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے وہ بھی تشریف لائے ہوئے تھے ، ان کے رویہ سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے اندر شرافت موجود ہے اور سعادت ہے.بات کو محض ضد کی وجہ سے نہیں ٹالتے بلکہ
خطبات طاہر جلد۵ 665 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء یک طرفہ پراپیگنڈے سے متاثر ہوئے ہیں اس لئے جماعت کے خلاف نفرت تھی.یہ جو پروگرام تھے ان کا بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مزید فائدہ یہ ہوا کہ جو رابطہ تھا وہ اور زیادہ وسیع ہو گیا.لیکن ایسے کئی پروگرام تھے ایک ہی پروگرام نہیں تھا.ان کا ایک بہت ہی پاپولر (Popular) ریڈیو ہے جس میں اسی طرح ٹیلیفون پر سوالات کرنے کی اجازت ہوتی ہے.جو ریڈیو پروگرام چلاتے ہیں وہ بھی وہاں کی بہت ہی معروف اور ہر دلعزیز شخصیت ہیں.ان کا پروگرام لوگ بڑے شوق سے دیکھتے ہیں.اس پروگرام میں بھی اللہ تعالیٰ نے موقع عطا فرمایا.وہ بھی تقریباً پچاس منٹ تک جاری رہا اور ہر موضوع پر ہر قسم کے سوالات انہوں نے کئے بعد میں جو جائزہ لیا ان کی رپورٹ یہ تھی کہ پرائم منسر بھی ایک پچھلے ہفتہ اس پروگرام میں شامل ہوئے تھے ان کے سننے والوں کی تعداد کم تھی اور اب یہ جو پروگرام ہوا ہے اس میں تعداد زیادہ تھی.تو مذہبی امور میں اگر دلچسپی نہ ہوتی کسی قوم کوتو یہ مکن ہی نہیں ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کی مذہب سے دوری بھی سطحی ہے ورنہ اس کثرت کے ساتھ ایک ایسے پروگرام کو جس کا تعلق نہ ان کے مذہب سے ہے اور نہ ان کو کسی مذہب سے دلچسپی ہے، اس کثرت کے ساتھ اس پروگرام میں دلچسپی کا اظہار کرنا بھی اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے اور ان کی طبیعت کی سعادت کی بھی عکاسی کرتا ہے.ایسے پروگرام اور پریس کا توجہ دینا یہ سب بتاتا ہے کہ وہاں کی جماعت اس عرصہ میں فعال رہی ہے اور اپنے بیرونی رابطے کو مضبوط تر کرتی رہی ہے.ورنہ ایک ایسا شخص جو بالکل غیر متعارف ہو کہیں یا ایسی جماعت جو غیر متعارف ہو اس کے راہنما کو اس طرح خوش آمدید کہنا اور اتنے اہم پروگراموں میں اتنی نمایاں حیثیت دینا یہ ممکن ہی نہیں ہے جب تک کہ پہلے سے جماعت نے محنت نہ کی ہو.پھر ان کی محنت کا اس سے پتہ چلتا ہے کہ مجالس میں اس جگہ کی اہم ترین شخصیات آتی رہی ہیں وزراء بھی آئے اور میئر ز بھی آئے اور سیاستدان اور دانشور ، پروفیسر ہر قسم کے طبقہ کے لوگ شامل ہوتے رہے اور ان سے گفتگو کے دوران پتہ چلتا رہا کہ وہ خدا کے فضل سے پہلے سے ہی جماعت سے واقف ہیں.فعال جماعت کا رابطہ اگر بیرونی دنیا سے ہو تو وہ اثر دکھاتا ہے اور رپورٹوں میں ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں.جب آپ وہاں جائیں تو آپ کو خود وہاں کے حالات بول کر بتاتے ہیں کہ ہم کیا ہیں اور کسی جماعت نے کام کیا ہے یا نہیں کیا.تو جس جس جماعت میں بھی میں گیا
خطبات طاہر جلد۵ 666 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء ہوں خدا کے فضل سے وہاں بیرونی رابطے کو میں نے نہایت ہی مؤثر دیکھا ہے اور جن پروگراموں میں شامل ہوئے ہیں ان کے بعد وہ رابطہ بڑھا ہے اور مضبوط تر ہوا ہے خدا کے فضل سے.اس لئے جو موجودہ ترقی کی انتہا ہے وہ آئندہ ترقی کے لئے قدم رکھنے کی جگہ بن جائے گی اور مزید بلندتر چھلانگ لگانے کی اس جماعت کو تو فیق مل سکتی ہے اگر وہ اس کام کو خلوص اور صبر کے ساتھ آگے بڑھاتے رہیں.یہ جو ریڈیو پروگرام تھا اس میں بھی ایک صاحب تھے، ان کا مجھے اب نام یاد نہیں ، لیکن بڑے مشہور وہاں کے ہر دلعزیز دوست تھے.ان کے متعلق یہ تاثر عام تھا کہ یہ سوال و جواب میں اتنے سخت ہیں کہ ان کو شوق ہے کہ جس سے سوال کریں اس کو نیچا دکھا ئیں اور اس کو لا جواب کریں اور اسی بناء پر ان کی زیادہ شہرت ہے.ان کے متعلق مجھے بعد میں بعض دوستوں نے بتایا کہ ان کے غیر احمدی یا Canadian کینیڈین دوست ان سے کہہ رہے تھے کہ ہمیں تعجب ہوا ہے کہ اس شخص کی لگتا ہے کیفیت ہی بدلی ہوئی تھی اور ساتھ تائید کرتا چلا جاتا تھا اور وہ مزاج ہی نہیں تھا جو پہلے سختی کا مزاج اس کے متعلق ہم جانتے تھے یا جس کی وجہ سے وہ معروف تھا.اس پروگرام کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ کچھ دیر پروگرام چلتا ہے پھر بیچ میں اشتہارات آتے ہیں اور اشتہارات کے دوران پھر ان کو عام بات کرنے کا موقع مل جاتا ہے.جب اشتہارات کا وقفہ آیا تو اس سوال کرنے والے نے مجھے کہا کہ یہ پروگرام تو صرف ایک گھنٹے کا ہے ، آپ سے چند باتیں میں نے کی ہیں اب میرا دل چاہتا ہے کہ کئی گھنٹے کا آپ کا پروگرام کروں اور سوال کرتا ہی رہوں.اس سے بھی اندازہ ہوتا ہے کہ وہاں کے جو باقاعدہ منجھے ہوئے Professional ٹیلیویژن یا ریڈیو سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ان کے اندر بھی صرف مشین والی باتیں نہیں بلکہ انسانی قدریں ہیں.ورنہ یورپ کے دیگر ممالک میں آپ جیسے چاہیں جواب دیں انسانی لحاظ سے اس قسم کے متعصب ہوتے ہی نہیں کیونکہ ان کی تربیت ایسی ہے کہ تم نے مشین کی طرح رہنا ہے اور انسانی تاثر اس شدت کے ساتھ ان ممالک میں نظر نہیں آتا نہ امریکہ میں آپ کو دکھائی دے گا.تو کینیڈا میں ہر طرف خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کے ذریعہ اسلام کو پھیلا نے کے عظیم الشان مواقع میسر ہیں.تو احباب جماعت کو چاہئے کہ دعاؤں کے ذریعہ ان کی مدد کریں اور جو دوست کبھی سفر میں جاسکیں یا جن دوستوں کو توفیق ملے اور ان کو قانون اجازت دیتا ہو وہاں Settle ہونے کی وہ بھی
خطبات طاہر جلد۵ 667 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء بیشک وہاں جا کر آباد ٹھہریں کیونکہ اس سے جماعت کو بھی تقویت حاصل ہوگی اور اسلام کو عظیم الشان تقویت حاصل ہوگی.یہ ملک ایک ایسا ملک ہے کہ اس میں مجھے امید کے بہت سے نمایاں پہلو دکھائی دیئے ہیں.وہاں جا کر رہنا یا دوستوں کا وہاں سفر کرنا عام طور پر تو بہت ہی مشکل ہے.دوری کے نتیجے میں وہاں کے فاصلے اور آج کل جو جماعت کے حالات ہیں ان میں چندوں کے مطالبے اتنے زیادہ ہیں کہ زائد سفروں کے لئے پیسے بچنے بہت ہی بعید کی بات ہے.اس لئے امریکہ اس لحاظ سے چونکہ قریب تر ہے ان کے لئے موقع ہے کہ وہ کینیڈا کی طرف خصوصی توجہ کریں اور اس سفر کے دوران امریکن جماعتیں بڑی کثرت کے ساتھ وہاں پہنچی ہیں اور ان کے لئے مشکل نہیں ہے ، نہ قانونی روکیں ہیں ، نہ اخراجات کے لحاظ سے مشکل ہے.دونوں طرف یعنی امریکہ کے مشرقی کنارے اور مغربی کنارے میں کینیڈا کے ساتھ ساتھ جماعتیں موجود ہیں اور اس کے پر لی طرف کینیڈا میں بھی اس طرح ان کے قریب قریب جماعتیں موجود ہیں.تو ان کا آپس میں رابطہ بڑھنا چاہئے.لیکن جو کام ہر احمدی دنیا میں ہر جگہ کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ جہاں جہاں کینیڈین ہیں وہاں ان سے رابطہ کریں اور ان سے خوشی کا بھی اظہار کریں اور ان کا شکریہ بھی ادا کریں کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے ساتھ محبت کا سلوک کیا اور ان میں تبلیغ کرنے کی کوشش کریں.مجھے یاد ہے پچھلے سال افریقہ سے ایک کینیڈین دوست تشریف لائے تھے اور انہوں نے تعارف کروا بتایا کہ میں انگلستان صرف اس غرض سے آیا ہوں کہ وہاں احمدیوں سے میرا تعارف ہوا اور وہ مجھے ایسے اچھے لوگ لگے اور ایسے با اخلاق لوگ لگے کہ مجھے دلچسپی پیدا ہوئی اور جب آپ کے متعلق پتہ چلا کہ آپ انگلستان میں ہیں تو میں نے فیصلہ کیا کہ آپ سے ملے بغیر واپس کینیڈا نہ جاؤں اور کوئی مقصد میرا یہاں آنے کا نہیں.چنانچہ وہ بڑی محبت سے ملے اور کافی دیران سے تبادلہ خیال ہوا.اس لئے میں سمجھتا ہوں باہر کی دنیا میں جہاں کینیڈین موجود ہے وہاں اگر جماعت ان سے رابطہ کرے تو انشاء اللہ وہ زیادہ محنت کے بغیر تھوڑی محنت پر بہت ہی اچھے نتائج نکل سکتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو اس ملک کے بچنے کے لئے بڑا ضروری ہے کہ جلد سے جلد اسلام کی گود میں آجائے اور اسلام کی ترقی کے لئے بھی یہ ملک عظیم الشان کام کر سکتا ہے کیونکہ اس کے اندر Potentials موجود ہیں.
خطبات طاہر جلد ۵ 668 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء پس اگر چہ کئی پہلوں سے یہ تین ہفتے احساس محرومی بھی رہا لیکن دوسری طرف خدا تعالیٰ نے جو اس رابطہ کے نتیجہ میں اندرونی طور پر اور بیرونی طور پر جو بہترین نتائج نکالے اور آئندہ کے لئے امکانات روشن فرمائے اس کی وجہ سے میں بہت ہی مطمئن ہوں کہ وقت کا بڑا بھاری حصہ صحیح مصرف پر استعمال ہوا اور اللہ تعالیٰ نے توفیق بخشی کہ وقت ضائع نہیں ہوا.اس کے بعد میں اس امر کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ مولویوں کی ایذا رسانی جو بڑھتی جارہی ہے.اس سے تکلیف تو ہے اور جماعت شدید اضطراب میں ہے ، بے چینی محسوس کرتی ہے اور ہر وقت ایک سوال اٹھتا رہتا ہے کہ کب آخر خدا ان کو پکڑے گا.کب ہمارے دل اس لحاظ سے ٹھنڈے ہوں گے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سب دنیا میں نا کام اور رسوا کر کے دکھائے گا.تو میں اس پہلو سے یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جو نیک اثرات میں دیکھ کے آیا ہوں ان پر ضر ور نظر رکھیں.ان کی کوششوں کے جماعت پر کوئی بداثرات ظاہر نہیں ہو رہے بلکہ اتنے زیادہ نیک اثرات ظاہر ہورہے ہیں کہ اگر آپ تکڑی کے دونوں پلڑوں میں ڈال کے دیکھیں اور دیانت داری سے موازنہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جو تکلیفیں یہ پہنچا رہے ہیں اس کے مقابل پر جو اللہ تعالیٰ انعامات عطا فرمارہا ہے وہ بہت ہی زیادہ ہیں، کوئی نسبت ہی نہیں آپس میں.اس لئے بے صبری نہ دکھا ئیں اس بارہ میں.دعا ئیں ضرور کریں لیکن یہ یقین رکھیں کہ ان کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے اور با مراد نہیں ہوتی اور جولوگ ان کے پس پشت طاقتوں کو یہ مشورے دیتے ہیں کہ ان کو پیچھے بھجواؤ، یہ تعاقب کریں اور اس کے نتیجہ میں جہاں جہاں جماعت پھیلتی ہے اسے نقصان پہنچانے کی کوشش کریں.وہ نہایت ہی احمقانہ مشورے دیتے ہیں کیونکہ جہاں جہاں مولوی جاتے ہیں وہاں اپنی ناکامی کے سامان کر کے آتے ہیں اور جماعت احمدیہ کی ترقی کے لئے نئے دروازے کھول کر آتے ہیں.چنانچہ کینیڈ میں بھی میں نے دیکھا کہ جہاں جہاں مولوی گئے تھے وہاں سب سے پہلی بات تو یہ محسوس کی کہ کینیڈین سوسائٹی میں ان کے آنے کو اور ان کی حرکتوں کو نہایت نفرت کی نگاہ سے دیکھا ہے اور وہاں کے اخباری نمائندے سارے واقف تھے ، جس جس نے بھی سوال کیا ہے، ٹیلیویژن والے بھی ، ریڈیو والے بھی ، انہوں نے ان کے متعلق بھی سوال کیا ہے کہ یہ کیا کرتے پھرتے ہیں.کیسی احمقانہ باتیں کر رہے ہیں کیسی بیوقوفوں والی باتیں کر رہے ہیں.یہ کر کیا رہے ہیں یہاں؟ آپ ہمیں بتائیں ! میں ان کو کیا بتا تا کہ یہ کیا کرنے آئے
خطبات طاہر جلد۵ 669 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء تھے ان کے پریس نے ہی بتا دیا تھا سارے ملک کو تو ایسے متنفر ہوئے وہ مولویت سے کہ جماعت احمدیہ کے لحاظ سے یہ خدا کے فضل سے ایک بہت ہی شاندار کامیابی ہے.دوسرے اس سے پہلے ان کو اگر شک تھا بھی کہ جماعت احمدیہ پر پاکستان میں مظالم ہورہے ہیں تو ان مولویوں نے وہ رہا سہاشک دور کر دیا ، ہر کسر کو نکال دیا سب و ہم دور کر دیئے ہیں ان کے.ان کا یہ تاثر ہے ، بعض پرائیویٹ ملاقاتوں میں انہوں نے بتایا کہ جو یہاں آکر یہ حرکتیں کر رہے ہیں وہاں کیا کرتے ہوں گے.ایک طبعی نتیجہ ہے جو ان کی عقلوں نے نکالا اور یہ درست بات ہے.چنانچہ اس پہلو سے بھی کینیڈین کا رد عمل دنیا کے دیگر ممالک کی نسبت بہت ہی زیادہ نمایاں تھا.انگلستان میں بھی علماء آتے ہیں اور بہت زیادہ یہاں آکر گند بولتے ہیں اور شدید گالیاں دیتے ہیں ،فساد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور جو بھی ان کے اندر طاقت ہے اس کو استعمال کرتے ہیں تا کہ جماعت احمدیہ کو کسی طرح نقصان پہنچ جائے لیکن انگریزوں میں ایسا نمایاں ردعمل نہیں دیکھایا یہ ہمیشہ سے ہی ان معاملات میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے اوپر کوئی ان باتوں کا اثر ہی نہیں پڑتا، Conservative قوم ہے یا بیچ میں سے خوش ہوتے ہوں گے کہ مسلمان لڑ رہے ہیں آپس میں ہم Enjoy کرتے ہیں ہمیں کیا اس سے لیکن جو طبعی ردعمل ہونا چاہئے وہ یہاں ظاہر نہیں ہوا.لیکن کینیڈا میں حالانکہ جماعت احمدیہ کی تعداد یہاں کے مقابل پر بہت تھوڑی ہے لیکن جہاں بھی میں گیا ہوں وہاں پریس نے بھی ، ریڈیو نے بھی، ٹیلیویژن نے بھی یہ سوال اٹھایا ہے اور خوب اچھی طرح واقف تھے.ایک پریس کانفرنس میں ایک سردار صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے انہوں نے آخر پر کہا کہ سوال تو نہیں بنتا لیکن ایک بات پر میرے دل میں تعجب پیدا ہو رہا ہے اور بڑی حیرت ہورہی ہے مجھے ایک بات پر.میں نے کہا کیا بات ہے؟ کہنے لگے بات یہ ہے کہ ہندو بڑی کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سکھ بھی ان کے کھاتہ میں شمار ہو جائیں اور سکھ کوشش کرتے ہیں کہ دوسرے جتنے بھی آسکتے ہیں ان کے کھاتہ میں شمار ہو جائیں اور عیسائی بڑی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تعداد بڑھے، یہ پاکستان کو کیا ہو گیا ہے کہ وہ اپنا کھاتہ کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں سارا زور اس بات پر لگا رہے ہیں کہ مسلمانوں کی تعداد کم ہو زیادہ نہ ہو.کہنے لگے یہ مجھے سمجھ میں نہیں آرہی.ان معنوں میں یہ سوال تو
خطبات طاہر جلد۵ 670 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء نہیں تھا کہ کوئی جواب دیا جاتا، سننے والے سارے ہنس پڑے.تو وہاں اس کثرت کے ساتھ ان علماء نے خودا پنی شکست کے انتظام کئے ہیں اور ان کا جواب دینے کی مزید اب ضرورت ہی کوئی نہیں رہی.جہاں تک غیر احمدی سوسائٹی کا تعلق ہے انگلستان کی غیر احمدی سوسائٹی کے مقابل پر کینیڈا کی غیر احمدی سوسائٹی کا رد عمل بھی بہت ہی زیادہ شریفانہ اور صحیح خطوط پر ہے.چنانچہ وہاں کے بہت سے احمدی دوستوں نے حالات سنائے ان سے پتہ چلتا ہے کہ جو لوگ ان کی تقریروں میں شامل ہوئے ہیں، نہایت متنفر ہو کر واپس آئے ہیں بعضوں نے کھڑے ہوکر و ہیں احتجاج کئے کہ تم کیا باتیں کر رہے ہو کیسی بے ہودہ لغو باتیں کرتے ہو! وہ لوگ دلیلیں دیتے ہیں، قرآن اور حدیث پیش کرتے ہیں تمہیں گالیوں کے سوا آتا ہی کچھ نہیں اور دوسرے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض تو ٹیلیویژن وغیرہ کے پروگرام کے بعد آئے.لیکن علاوہ ازیں بھی جہاں جہاں بھی میں گیا ہوں وہاں کی مجالس میں غیر احمدی پاکستانی دوستوں نے نہ صرف شمولیت کی بلکہ غیر معمولی تعلق کا اظہار کیا اور آخری سفر میں وینکوور (Vancouver) میں تو ساتھ امریکہ کے شہروں سے بھی بعض غیر احمدی دوست تشریف لائے ہوئے تھے.وہاں وینکور میں بسنے والے جو بھی پاکستانی سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ہیں ان میں معزز ترین وہ سارے تشریف لائے ہوئے تھے اور مجلس کے بعد اس قدر محبت کا انہوں نے اظہار کیا کہ میں حیرت سے دیکھ رہا تھا کہ مولوی یہ کر کے گئے ہیں، یہ اثر ان کے اوپر چھوڑ کے گئے ہیں.بجائے متنفر ہونے کے اور زیادہ قریب آئے ہوئے تھے.اور ایک دوست جو امریکہ سے تشریف لائے ہوئے تھے ان کو دیکھ کر ان کی جو طر ز تھی ان پیار اور محبت کی اس کو دیکھ کر میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ آج ہی یہ بیعت کرلیں اور اتفاق ایسا ہوا کہ دو نجیئن دوست ایک ان میں سے کویتی ہیں اور ایک مسلمان نجیئن تھے، ان دونوں نے فیصلہ کیا کہ آج ہم مغرب کی نماز کے وقت بیعت کریں گے.چنانچہ جب انہوں نے بیعت شروع کی پھر میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ وہ دوست کہاں گئے ، ان کے چہرے پر بڑی سعادت اور شرافت تھی اور ان میں بڑا محبت کا طبعی جذبہ پایا جاتا تھا وہ بھی ساتھ شامل ہو جاتے تو کتنا اچھا ہوتا اور جب میں نے سراٹھایا تو تیسرے آدمی وہ تھے جو ہاتھ رکھ کے بیعت کر رہے تھے اور بیعت ختم ہوتے ہی
خطبات طاہر جلد۵ 671 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء مجھے کہا کہ میری صرف ایک درخواست ہے.میں نے کہا کیا ہے؟ کہ اب مجھے گلے لگنے دیں اور اس محبت سے گلے لگایا.میں نے ان سے کہا کہ آپ تو میری دعا کا جواب ہیں.صبح بھی میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی تھی اور اب بھی بیعت کے دوران میں سوچ رہا تھا کہ کاش وہ بھی ہوتے تو وہ بھی ہاتھ رکھ لیتے اور وہ بھی شامل ہو گئے.وہاں صرف کینیڈین دوستوں میں ہی سعادت نہیں بلکہ وہاں جو پاکستانی بس رہے ہیں ان میں بھی سعادت پائی جاتی ہے.بہت جگہ ہے کام کی، بہت گنجائش ہے اور جو مولوی جاتے ہیں وہ الٹا اثر چھوڑ کر آتے ہیں.اس لئے بہت دعا میں یا درکھیں کینیڈا کی سرزمین کو.ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ ان کی سعادت کو بڑھائے اور جو نیکی انہوں نے جماعت سے کی اس کی جزاء دے.ایسا ایک طبعی رد عمل ہے جس کا آپ اندازہ نہیں کر سکتے جو محسوس کرے جو ان باتوں سے گزرا ہواس کو اندازہ ہوتا ہے کہ عام قوموں سے مختلف ہے.میں ایک مثال دیتا ہوں چھوٹی سی لیکن اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان لوگوں کے مزاج میں ایک ایسی سعادت اور شرافت پائی جاتی ہے.ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے تک تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ کا سفر تھا جہاز کا.جب جہاز کے کپتان کو پتہ چلا کہ جماعت احمدیہ کا سر براہ سفر کر رہا ہے.وہاں الگ بیٹھنے کے لئے کیبن وغیرہ نہیں ہوتا تو انہوں نے کہا کہ ہم آپ کو وی.آئی.پی میں بٹھانا چاہتے ہیں ،آپ ہمارے ساتھ وہاں تشریف لے آئیں اور وہاں ٹھہریں.اب یہ بات مجھے تو قطعا کوئی فرق نہیں پڑتا.میں نے بہت سفر کئے ہیں چاہے تھرڈ کلاس ہو یا کسی قسم کی ہو میرا مزاج ہی نہیں ان باتوں کو اہمیت دینے کا کہ سیٹ کیسی ہے.جہاں بیٹھیں لطف اٹھاتے ہیں اللہ تعالیٰ کی قدرت کے اور ملنے کا بھی مزہ آتا ہے.لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان کی سعادت کا یہ حال ہے کہ ویسے وہ مذہب سے دور ہیں عام طور پر لیکن مذہب کا احترام بھی ہے ان کے دل میں.یہ واقعہ ابھی ختم نہیں ہوتا اس سے اگلا حصہ نہیں اور زیادہ حیرت انگیز ہے.ان کی شرافت کے نتیجے میں ہمارے ایک ساتھی نے سوچا کہ واپسی کا کپتان پتہ ایسا ملے یا نہ ملے کہ ان سے ہی کہہ دیں کہ واپسی کے لئے جو بھی کپتان ہواس کو بھی درخواست کر دیں ہماری طرف سے.اب یہ بات سخت شرمندہ کرنے والی تھی میرے لئے.انہوں نے تھوڑی سی بات کی تھی کہ واپسی پے تو ہمارا، شاید فلاں وقت ہو.تو میں سمجھ گیا.میں نے کہا
خطبات طاہر جلد۵ 672 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء ان کو ہرگز نہیں کہنا اور کوئی وقت نہیں بتانا.میں نے ان کا شکریہ ادا کیا میں نے کہا جزاک الــلــه بہت بہت شکریہ بس بات ختم ہو گئی.واپسی پر ہم نے ایک عجیب وغریب اعلان سناجور یڈیو کے ذریعہ سب جہازوں کو Message اس کپتان کی طرف سے جا رہا تھا اور Message تھا کہ غالباً فلاں وقت سے لے کر فلاں وقت تک جماعت احمدیہ کے سربراہ وکٹوریہ سے وینکورواپس جارہے ہوں گے.جس جہاز کے کپتان کو یہ سعادت ملے کہ ان کے ساتھ وہ سفر کریں میں درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان کو V.I.P Treatment دیں اور ان کے ساتھ ہر قسم کا حسن سلوک کریں اور اس کے ساتھ ہی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ کپتان صاحب تشریف لے لائے اور انہوں نے کہا کہ آپ آ جائیں اوپر کا کمرہ آپ کے لئے حاضر ہے اور جو جہاز کی طرف سے ہمارے سارے عملہ کی خاطر مدارت ہو سکتی تھی وہ انہوں نے کی.اسی عرصہ میں وہ پہلا جہاز بھی پاس سے گزرا اور نیوی کے طریق کے مطابق جو Salute دینے کا جو طریقہ ہے وہ بھی اختیار کیا.اب کوئی حکومت کا نمائندہ نہیں ہوں، کوئی حکومت کی طرف سے ان کو ہدایت نہیں تھی.یہ ساری باتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ اس قوم کے مزاج میں ایک سعادت ہے.خود بے مذہب سے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کے دل میں مذہب کے لئے احترام پایا جاتا ہے ، انسانی قدریں بھی پائی جاتی ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کو خصوصیت کے ساتھ کینیڈین قوم کا شکر یہ دعا کے ذریعہ ادا کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ ان کو دنیاوی لحاظ سے بھی ہر قسم کے فتنوں اور خطروں سے بچائے اور روحانی لحاظ سے بھی تیزی کے ساتھ اسلام کی گود میں آ کر خدا تعالیٰ کی رحمت کے سایہ تلے آنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ایک افسوسناک خبر یہ ہے کہ مکرم مسعود احمد صاحب جہلمی جو واقف زندگی ہیں اور سوئٹزر لینڈ کے مبلغ ہیں ان کے والد صاحب پرسوں رات انتقال فرما گئے.بہت مخلص فدائی دوست تھے اور سلسلہ کے احکامات کے لئے پابہ رکاب رہنے والے.خلافت کی طرف سے کوئی تحریک ہو، کوئی آواز کان میں پڑے تو بلا تاخیر ردعمل دکھاتے تھے.قادیان کے لئے آواز پہنچی تو اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر فوراوہاں چلے گئے.واپس آئے تو پتہ لگا کہ کشمیر کے لئے جانا ہے تو وہاں چل پڑے.ہمیشہ اخلاص کا مرقع اور اطاعت شعار، صرف اطاعت شعار نہیں بلکہ ولولہ کے ساتھ ، شوق کے ساتھ آگے
خطبات طاہر جلد۵ 673 خطبه جمعه ارا کتوبر ۱۹۸۶ء بڑھ کر اطاعت کرنے والے اور اس کا نیک اثر اولاد پر بھی خدا کے فضل سے بہت ہی اچھا مترتب ہوا.ساری اولاد ہی سلسلہ کی فرمانبردار اور خدمت کرنے والی اور نیک راہوں پر آگے بڑھنے والی ہے.میری خواہش تو یہ تھی کہ جمعہ کے وقت ان کا جنازہ آجاتا تو یہیں پڑھا دیتے.مگر اب مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ تاخیر سے آئے گا یا شاید کچھ عزیزوں کا انتظار ہے.تو آج عصر کے بعد یا پھر مجلس سوال و جواب مغرب کے بعد ہوتی ہے جس طرح بھی انہوں نے مناسب سمجھا ان کی نماز جنازہ ہوگی.ساتھ ایک دونما ز جنازہ غائب بھی ہونے والی ہے.اس کے علاوہ خوشی محمد صاحب سلسلہ کے پرانے کارکن تھے.وہ بڑا لمبا عرصہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی کے باڈی گارڈ رہے.ان کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.ان سب کی نماز جنازہ غائب اکٹھی اسی وقت ادا کی جائے گی جب مسعود احمد صاحب جہلمی کے والد صاحب کی جنازہ ہوگا.
خطبات طاہر جلد۵ 675 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء برائی کا مقابلہ نیکی کے ہتھیار سے کریں اپنے گھروں کو مغربی غیر دینی اثرات سے بچائیں نیز ایلسلواڈور کے یتامیٰ کی کفالت کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۱۷ اکتو بر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دنیا میں جب بھی دوفریقوں میں تصادم ہو بمحاربت ہو، خواہ وہ دنیاوی رنگ کی ہو یا نظریاتی رنگ کی یا مذہبی رنگ کی کسی پہلو سے بھی جب فریقین میں کوئی مقابلہ ہو تو اس کا نتیجہ جانچنے کے لئے مختلف انداز فکر سے غور ہو سکتا ہے اور ضروری نہیں کہ ایک جنگ جب اپنے اختتام کو پہنچے تو اسی وقت معلوم ہو کہ کون سا فریق غالب آنے والا فریق تھا بلکہ اہل بصیرت آثار سے ہی جانچ لیا کرتے ہیں کہ کس فریق نے بہر حال غالب آجانا ہے.دنیا میں جنگ کے نتیجے معلوم کرنے کے لئے جو طریق رائج ہیں ان میں سے ایک کی طرف قرآن کریم نے بھی اصولی طور پر انگلی اٹھائی ہے اور ایک ایسا بنیادی نکتہ پیش فرمایا ہے جس کی روشنی میں جنگ کے اختتام سے بہت پہلے ہی یہ فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ کونسا فریق غالب آنے والا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيْشَةِ رَاضِيَةٍ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ ) فَامُهُ هَاوِيَةٌ وَمَا أَدْرِيكَ مَا هِيَهُ نَارُ حَامِيَةٌ نَ (القارعة : ۱۱۷)
خطبات طاہر جلد ۵ 676 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِینہ ایک ترجمہ جو معروف ہے وہ یہ ہے کہ ”جس کے اعمال میں وزن زیادہ ہوگا اور ایک ترجمہ اس کا یہ ہے کہ جس کے پلڑے میں زیادہ ساز وسامان ہوگا ، زیادہ قوی ساز و سامان ہوگا ، زیادہ مضبوط سازوسامان ہوگا اور یہ دونوں پہلو ہر جدو جہد کے فیصلے کے لئے بہت ہی اہمیت رکھتے ہیں.درحقیقت اگر اعمال کا ترجمہ بھی کیا جائے تو اس کا ترجمہ بنیادی نقطہ نگاہ سے یہ بھی بن سکتا ہے کہ وہ قو میں جو ٹھوس عمل کرنے والی ہیں، مسلسل محنت کرنے والی ہیں، جو اپنے وقت کو ضائع نہیں کرتیں ، جن کے پلڑے میں بہت ہی مفید اور باقی رہنے والے اعمال ہوں، ان کی جب بھی لڑائی ایسی قوموں سے ہو جوست اور غافل ہوں، جو صناعی سے ناواقف ہوں ، اچھے کام کرنے کی اہلیت نہ رکھتی ہوں محنت کی عادت نہ رکھتی ہوں، ایسی قوموں کے ساتھ جب ان کا مقابلہ ہو گا تو وہ جو محنت کرنے والی قومیں ہیں جنہوں نے اپنے لئے بہت کچھ بنالیا ہے وہ بہر حال غالب آئیں گی.دوسرے پہلو کے لحاظ سے جیسا کہ حضرت مصلح موعودؓ نے اسی سورۃ کی تفسیر میں فرمایا کہ وہ قومیں جن کے ہتھیار زیادہ مضبوط ہوں گے اور زیادہ وزنی ہوں گے.وزن سے مراد یہاں تول کا وزن نہیں.ور نہ ہوسکتا ہے کہ پرانے زمانہ کے گزر سے آج کل کے زمانہ کی رائفل بہت ہی ہلکی ہو تو یہاں ثَقُلَتْ مَوَازِينه اور خَفَّتْ مَوَازِینه کا جو مقابلہ کیا گیا ہے.اس سے ہرگز ظاہری وزن مراد نہیں بلکہ حقیقی وزن ہے یعنی ایسا ہتھیار جس میں قوت زیادہ ہے.تو قوت والے ہتھیار جس کے پاس زیادہ ہوں گے وہ غالب آجائے گا اور محض جوش و خروش کام نہیں آئے گا.تو آئندہ زمانے کی جنگوں کا نقشہ حضرت مصلح موعود کی تفسیر کے مطابق اسی سورۃ کی اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ آئندہ جب بھی دنیا میں ہولناک جنگیں ہوں گی تو جس فریق کے پاس بھی وزن دار ہتھیار ہوں گے ، قوت والے ہتھیار ہوں گے، غالب آنے والے ہتھیار ہوں گے وہ فریق غالب آجائے گا اور عملاً یہ دونوں ترجمے ایک دوسرے سے گہراتعلق رکھتے ہیں.جو قو میں محنت کرتی ہیں جن کے اعمال کا پلڑا بھاری ہے خواہ وہ دنیا میں ہو خواہ وہ دین میں ہو اس کے نتیجے میں یہ دونوں باتیں ان کو حاصل ہو جاتی ہیں.ان کے اعمال ان قوموں کی زندگی بنادیتے ہیں، ان میں بقا پیدا کر دیتے ہیں، باقی رہنے کی صلاحیتیں ان کی اجاگر ہو جاتی ہیں اور ان کے دفاع کے ہتھیار مضبوط سے مضبوط تر ہوتے چلے جاتے ہیں.کیونکہ یہ ایک ایسا اٹوٹ تعلق ہے اقتصادی ترقی اور دفاعی
خطبات طاہر جلد۵ 677 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء صلاحیت کا کہ اس کو دنیا میں کبھی کوئی نظر انداز نہیں کر سکتا.جو بھی اس کو نظر انداز کرتا ہے وہ ہلاک ہو جاتا ہے.جتنا زیادہ کوئی قوم اقتصادی لحاظ سے ترقی کرے گی صنعتی لحاظ سے ترقی کرے گی اتنا زیادہ اس کو لازماً اپنا دفاع مضبوط کرنا پڑے گا.ویسی ہی بات ہے جیسا ایک امیر آدمی گھر کے پہرے بھی مقرر کر دیا کریا ہے ، تالے بھی مضبوط کرتا ہے، دروازے بھی مضبوط کرتا ہے.جس کے پاس ہو ہی کچھ نہ اس کو ان چیزوں کی ضرورت پیش نہیں آتی.رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہنرن کو والا معاملہ ہو جاتا ہے.جس کے گھر میں بیچارے کے پاس ہے ہی کچھ نہیں اس نے اپنا دفاع کیا مضبوط کرنا ہے؟ تو مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی یہ اصول اُسی طرح برابر کارگر نظر آتا ہے اور مذہبی قوموں میں بھی بالآخر یہی امر فیصلہ کن ثابت ہوگا.وہ مقابلے جو مذہبی نقطہ نگاہ سے ہورہے ہیں ان میں بھی فریقین کو دو طرح سے جانچا جا سکتا ہے کس کے ہاں اچھے اعمال زیادہ کثرت کے ساتھ ہیں؟ کون نیکی میں محنت کرنے والے ہیں؟ کون میشہ مسلسل اپنے آپ کو سنوارنے پر لگے ہوئے ہیں اور کون وہ ہیں جن کے پلڑے اعمال حسنہ سے خالی ہیں ، جن کے دامن میں کچھ بھی نہیں بلکہ اس کے برعکس جھکنے والے اعمال ہیں.مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُه یعنی ہلکی چیزیں ہیں جو بجائے اس کے کہ وزن پیدا کریں وہ ہلکی ہو جاتی ہیں اور منفی قو تیں پیدا کر دیتی ہیں.تو خَفَّتْ مَوَازِینہ کا یہ معنی اعمال کی دنیا میں بنے گا کہ جن کے عمل میں کوئی وزن نہیں ہے، بقا کی قوت نہیں ہے جو قوموں کو خفیف کر دیتے ہیں اور ہلکا کر دیتے ہیں اور ان میں زندہ رہنے کی صلاحیت نہیں رہنے دیتے وہ لوگ لازماً شکست کھا ئیں گے.جن کے پاس اعمال صالح ہیں اور جن کے ساتھ قرآن کریم نے باقیات کی شرط لگائی ہوئی ہے.صالحیت کا باقی رہنے کے ساتھ ایک گہرا جوڑ ہے.جتنی زیادہ صالحیت کسی قوم میں بڑھے گی اتنا زیادہ اس کے باقی رہنے کی ضمانت ہوتی چلی جائے گی اور اس کے علاوہ ان کے ہتھیاروں کا موازنہ بھی اسی آیت کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے.وہ لوگ جو مقابلے میں اچھے ہتھیار رکھتے ہیں زیادہ قوی ہتھیار رکھتے ہیں وہ لوگ لازماً غالب آئیں گے اور وہ جن کے ہتھیار خفیف نوعیت کے ہیں، ہلکے اور اوچھے اور کمینے ہتھیار ہیں ان کے مقدر میں لازماً شکست ہے.اس قانون قدرت کو کوئی بدل نہیں سکتا.
خطبات طاہر جلد ۵ 678 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء چنانچہ جماعت احمدیہ کے ساتھ اس وقت جماعت احمدیہ کے دشمن کا جو شدید مقابلہ ہورہا ہے اور خاص قوت اور زور کے ساتھ ، جیسے کہتے ہیں گھمسان کا رن پڑا ہوا ہے.اس مقابلہ میں بھی فتح و شکست کا فیصلہ قرآن کریم کی یہ آیت کرے گی اور یہ فیصلہ ہو چکا ہے اور کھلا کھلا نظر آنے لگ گیا ہے.کوئی بھی شک کی گنجائش باقی نہیں رہی.ان کے ہتھیار کیا ہیں؟ پہلے آپ پاکستان سے سنا کرتے تھے اب اس ملک میں بھی آپ نے دیکھ لئے ہیں.ابھی کچھ دن پہلے بریڈ فورڈ میں جماعت احمدیہ پر بڑا شدت کے ساتھ حملہ ہوا تھا اور حملہ تھا گندی گالیوں کا فحش کلامی کا ، انتہائی بدخلقی کے مظاہرے کا، بھنگڑے ڈالنے کا اور آنحضرت عمل کی طرف منسوب ہوتے ہوئے شرافت کے ہر تقاضے کو کلیاً چھوڑ دینے کا یہ حملہ تھا اور مذہب میں جبر اور تشد د استعمال کرنے کے دعویٰ کا حملہ تھا.سارے ہتھیا روہ ہیں جو دیکھے بھالے، جانے پہچانے تاریخی نوعیت کے ہتھیار ہیں.قرآن کریم نے آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے تک جو تاریخ ہمارے سامنے رکھی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہی وہ ہتھیار تھے جو ازل سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے آخری دور نبوت تک دشمن نے استعمال کئے اور کبھی بھی ان میں کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.پس یہ ہتھیا ر ایسے ہیں جن کے متعلق قرآن کریم کا فتویٰ ہے مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ یہ خفیف ہتھیار ہیں اور خفیف کر دینے والے ہتھیار ہیں.یہاں خفیف سے مراد ہے جو ہلکے ہو جائیں ، جن کو زمین قبول نہ کرے، جن کو ثبات قدم نصیب نہ ہو، جو شجرہ خبیثہ کی طرح اکھڑ جائیں اور جن کو ہوائیں بکھیر دیں یہاں سے اٹھا کر ادھر لے جائیں، کبھی وہاں سے لے کر دوسری طرف دھکیلتی ہوئی لے چلیں، غرضیکہ ان کوکوئی قرار نہ رہا ہو، ان کے اندر کسی جگہ ثابت قدم ہونے کی صلاحیت موجود نہ ہو.تو یہی وہ ہتھیار ہیں جو اس ملک میں انہوں نے آکر استعمال کئے ہیں.یہی وہ ہتھیار ہیں جو ایک لمبے عرصہ سے بڑی شدت کے ساتھ اور بڑی سفا کی کے ساتھ وہ پاکستان میں استعمال کر رہے ہیں.کل سے ربوہ میں ختم نبوت کے نام پر ایک جلسہ ہو رہا ہے اور وہ شہر جہاں نناوے فیصد آبادی احمد یوں کی ہے وہاں احمدیوں کو تو اجازت نہیں کہ قرآن کریم کا درس بھی لاؤڈ سپیکر پر دے سکیں ، نیکی کی بات کر سکیں.وہاں ان نام نہاد علماء کو کھلی آزادی دے دی گئی ہے کہ وہ اور ان کے چیلے چانٹے اکٹھے ہو کر جس قدر بھی مغلظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بک سکیں بکتے
خطبات طاہر جلد ۵ 679 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء چلے جائیں ، جس حد تک دشنام طرازی کر سکیں وہ کرتے چلے جائیں ، جس زبان میں وہ اشتعال انگیزی کرنا چاہیں ان کو کھلی اجازت ہے، کوئی باز پرس نہیں کھلم کھلا اہل ربوہ کے قتل کی تلقین کر میں مسجد میں مسمار کرنے کی تلقین کریں، کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ مٹانے کا وعظ کریں.ان سب کی ان کو چھٹی ہے اور ہتھیار یہ وہی ہیں جن کو قرآن کریم فرماتا ہے : مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ کہ جن کے ہتھیار ہلکے ہوں گے لازماً ان کا انجام بد ہوگا.دنیا کی کوئی طاقت ان کو بد انجام سے بچا نہیں سکتی.اب یہ ہتھیار لے کر کوئی اسلام کی خدمت کر سکتا ہے؟ حیرت ہوتی ہے ان کی عقلوں پر، ان کی فراست پر! فراست تو گہرا معاملہ ہے ظاہری نظر پر یہ تو اتنی واضح بات ہے کہ ایک معمولی سی نظر رکھنے والا انسان خواہ وہ آنکھ کا بیمارہی ہو اگر روشنی اس کی آنکھ تک کسی طرح پہنچ جاتی ہے اس کو بھی نظر آ جانا چاہئے کہ یہ ہتھیار اسلام کی خدمت کے لئے استعمال نہیں ہو سکتے.جھوٹ بولنا ، بہتان تراشی کرنا ، گندے الزام لگانا ، گندی زبان استعمال کرنا، مغلظات بکتے چلے جانا ، فرضی باتیں گھڑ گھڑ کے فرضی جرائم دوسروں کے سر تھوپتے چلے جانا یہ تو کوئی طریق نہیں ہے جو کبھی بھی انبیاء یا ان کے تربیت یافتہ امتیوں سے ثابت ہوا.سارے مذہب کی تاریخ پر نظر ڈال لیں ایک واقعہ بھی آپ کو ایسا نظر نہیں آئے گا کہ انبیاء یا ان کے صحابہ یا ان کے صحابہ کے تربیت یافتہ لوگوں نے یہ ہتھیار لے کر دین کی خدمت کی ہو.ان کے ہتھیار تو بالکل مختلف ہوتے ہیں.وہ کیا ہیں ؟ ان کے متعلق میں ابھی بتا تا ہوں لیکن تفصیل سے بتانے کی بھی دراصل ضرورت نہیں ، ساری دنیا جانتی ہے.ان علماء کو بھی وہ معلوم ہیں.یہ دل کے اندھے ہیں آنکھ کے اندھے نہیں کیونکہ آنکھ کے اندھے ہوتے تو ان کو یہ معلوم ہی نہ ہوتا.ان کو معلوم ہے ، دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بے خبر بن رہے ہیں ، اس کے باوجود انجان ہو رہے ہیں.کیا ان کو علم نہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے کون سے ہتھیار سجا کر دشمن کا مقابلہ کیا تھا ؟ معلوم ہے اور جانتے ہیں کہ قرآن کریم تمام بنی نوع انسان کی تاریخ کا خلاصہ یہی بیان کرتا ہے کہ نیک لوگوں متقی لوگوں نے تقویٰ کے ہتھیار سجا کر مقابلے کئے ہیں ، جھوٹ کے نہیں بلکہ سچ کے ہتھیار لگا کر مقابلے کئے ہیں، بد اعمالیوں کے نہیں بلکہ نیک اعمال کے ہتھیا رسجا کر مقابلے کئے ہیں اور دعاؤں کے ہتھیار لے کر انہوں نے مقابلے کئے ہیں.غرضیکہ قرآن کریم میں پاکیزہ ہتھیاروں کی بڑی تفصیل ہے جو محفوظ کی گئی ہے جن سے پتہ چلتا ہے کہ بعض لوگوں کے یہ ہتھیار ہیں اور بعض لوگوں
خطبات طاہر جلد۵ 680 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء کے وہ ہتھیار ہیں.تو یہ ہتھیار ہیں ان کے جن سے جماعت پر حملے کر رہے ہیں اور دعوے کر رہے ہیں کہ یہ جیتیں گے.یہ جیتیں گے تو نعوذ باللہ قرآن ہار جائے گا اور قرآن کو دنیا کی کوئی طاقت ہرا نہیں سکتی.ساری کائنات کی قوتیں اکٹھی ہو جائیں تو قرآن کی ایک آیت کو بھی نہ تبدیل کر سکتی ہیں نہ شکست دے سکتی ہیں.پس فتح و شکست کا فیصلہ تو اس آیت نے کرنا ہے فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيْشَةِ رَاضِيَةٍ پاکیزہ زندگی خدا کی رضا والی زندگی اسی کو نصیب ہوگی جس کے ہتھیاروں میں وزن ہوگا.وَاَقَا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ جن لوگوں کے ہتھیار خفیف ہیں یعنی قرآنی اصطلاح میں خفیف ہیں ان کے مقدر میں هَاوِيَةٌ کے سوا کچھ نہیں جسے ہم اردو میں تو قعر مذلت کہہ سکتے ہیں.ذلتوں اور ناکامیوں کا گڑھا، وہ گڑھا جس میں آگ جلتی ہے، حسرتوں کی آگ جلتی ہے.نَارُ حَامِيَةٌ ہے وہ جو سر سے پاؤں تک جلا کے رکھ دیتی ہے.یہ ان کا مقدر قرآن کریم نے لکھ دیا ہے اور اس مقدر کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا اور دن بدن جماعت احمد یہ پہلے سے زیادہ وضاحت کے ساتھ اس لڑائی کے انجام کو دیکھ رہی ہے.وہ دعائیں کرتے ہیں ، وہ خدا کی مدد کو پکارتے ہیں لیکن اس خوف سے نہیں کہ مبادا ہم ہار جائیں گے.اس لئے کہ ان کے دل ٹھنڈے ہوں اور دنیا دیکھے کہ یہ جو سچائی کی مخالفت کرنے والے لوگ ہیں یہ بھی کامیاب نہیں ہوا کرتے.اس انجام کو اپنی آنکھوں سے اپنی زندگی میں دیکھنے کی تمنالے کر وہ روتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں.لیکن جہاں تک احمدیت کے شاندار مستقبل اور یقینی اور آخری فتح کا تعلق ہے کسی احمدی کے وہم وگمان کے گوشے میں بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ کبھی کسی پہلو سے بھی جماعت احمد یہ ہارسکتی ہے کیونکہ قرآن کریم اس کی پشت پر کھڑا ہے قرآن کریم کی تمام آیات اپنی تمام تر صداقتوں کے ساتھ ، جماعت احمدیہ کی پشت پناہی کر رہی ہیں.پس جن کے پاس قرآن کریم کی صداقتیں ہوں جن کو قرآن کریم کی ایک ایک آیت حوصلہ دیتی ہو اور ڈھارس دیتی ہو ان کے لئے اس وہم کا تو سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ وہ کسی طرح ہار جائیں گے یا شکست کھا جائیں گے اور جو دن بدن اپنے ہتھیاروں میں ننگے ہو کر زیادہ گندے ہو کر کھل کر سامنے آتے چلے جارہے ہیں اور خود جانتے ہیں کہ ہمیشہ سے انبیاء کے مخالفین نے یہ ہتھیار استعمال کئے تھے ان کے بد انجام کے متعلق کسی کو وہم بھی نہیں کرنا چاہئے.ہاں دعا کرنی
خطبات طاہر جلد۵ 681 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے بد انجام سے بچائے.اس ضمن میں اس مقابلہ کی فتح وشکست کے فیصلے پر غور کرتے ہوئے جب اس آیت پر میری نظر پڑی اور میں نے تفصیل سے اس مضمون پر غور کیا تو صرف یہی بات نہیں تھی جو میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ مجھے یقینی علم ہوا، پہلے سے زیادہ میرا ایمان اس بات پر قوی ہوا کہ لازماً جماعت احمدیہ جیتنے والی ہے اور ان کے ہتھیاروں کی کمزوری دن بدن زیادہ ظاہر ہوتی چلی جارہی ہے بلکہ ایک اور امر کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی اور وہ یہ ہے کہ قرآن کریم اس مقابلہ کی مزید تفصیل بھی بیان کرتا ہے کہ جب بدی سے حملہ ہورہا ہو تو مومن کو کیا کرنا چاہئے.چنانچہ ان ذرائع کو خوب اچھی طرح نگاہ کے سامنے رکھ کر ہمیں اختیار کرنا چاہئے چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: جَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : ١٣٦) پھر فرماتا ہے: اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ السَّيِّئَةَ (المومنون : ۹۷) کہ جب بھی تم مقابلہ کرو تو بدی کا مقابلہ بدی سے نہیں کرنا.اگر غلطی سے تم نے یہ سمجھ لیا کہ ان کے ہتھیاروں سے ان کو شکست دو تو لا ز ما تم اس میں مار کھا جاؤ گے کیونکہ بدی سے بدی کا مقابلہ کرنے کی تمہارے اندر صلاحیت ہی موجود نہیں، یہ تو ان کا جیتا ہوا میدان ہے اس میں اتنے قوی ہیں، اتنے غالب ہیں کہ تم چاہو بھی تو ناممکن ہے کہ تم بدی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرسکو تمہیں خدا نے بدیوں کی استطاعت ہی عطا نہیں کی.تمہارا مضبوط قلعہ حسنہ ہیں یعنی نیکیاں ، حسنات ہیں.حسنات کو اختیار کرو اور ہر بد ہتھیار جسے وہ ہاتھ میں لیتے ہیں اس کے مقابل کا احسن ہتھیارا ٹھا لو.جب اس آیت پر آپ غور کرتے ہیں تو بہت ہی دلچسپ اور تفصیلی ایک لائحہ عمل سامنے آجاتا ہے.جب یہ آپ کے خلاف جھوٹ بولتے ہیں تو آپ کو تکلیف ہوتی ہے.اس کا علاج قرآن کریم نے کیا فرمایا ہے کہ اس بدی کے برعکس نیکی یعنی سچائی.اگر اس کے مقابل پر جماعت احمد یہ سچائی کی طرف متوجہ نہیں ہوتی اور پہلے سے زیادہ اپنے معاشرے کو سچ پر قائم نہیں کرتی اپنے بچوں کو سچ بولنے کی عادت نہیں ڈالتی تو مقابل پر جو کامیاب ہونے والا ہتھیار تھا اس کو تو آپ نے ہاتھوں میں اٹھایا نہیں.پھر قرآن کریم کا یہ وعدہ آپ کے حق میں کیسے پورا ہوگا کہ یقیناً چونکہ تمہارے ہتھیار زیادہ وزن دار ہیں تم غالب آؤ گے.
خطبات طاہر جلد۵ 682 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء عمومی طور پر اگر دیکھا جائے تو یقیناً جماعت احمد یہ نظریاتی لحاظ سے بیچ پر قائم ہے.لیکن یہاں صرف اس کی بحث نہیں ہو رہی، قرآن کریم یہ فرمارہا ہے کہ تمہارا مقابلہ ہورہا ہے ،شدت کے ساتھ لڑائی ہو رہی ہے ، دشمن نے بد ہتھیار اٹھائے ہیں اس پر تم نے کیا کرنا ہے.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا مطلب ہے کہ اپنا دفاع کرو کسی بد ہتھیار سے اسی نوعیت کا بیچنے والا نیک ہتھیار اٹھا کر.اگر جھوٹ کے ذریعہ حملہ ہوا ہے تو لازماً سچائی سے اس کا مقابلہ ہوگا.سچائی میں آگے بڑھنے سے مقابلہ ہوگا.اگر بد کرداری سے حملہ کیا گیا ہے تو نیک کرداری اختیار کرنے کے ذریعہ مقابلہ ہوگا.اگر گندی زبان کے ذریعہ حملہ کیا گیا ہے تو پاکیزہ زبان اختیار کرنے کے ذریعہ مقابلہ ہوگا.اگر ہماری سوسائٹی میں لوگوں کو گند بولنے کی عادت ہے، مرد اپنے گھروں میں بھی غلیظ زبان استعمال کرتے ہیں.اپنی بیویوں پر اور اپنے بچوں پر یا مائیں بچوں کے والد کے متعلق استعمال کرتی ہیں یا اپنے بچوں کے لئے استعمال کرتی ہیں یا بچے ایک دوسرے کو گندی گالیاں دیتے ہیں اور ان کو روک کوئی نہیں رہا تو قرآن کریم کی اس آیت کے مضمون کو آپ نے نظر انداز کر دیا ہے.آپ پر بد کلامی سے حملہ ہورہا ہے اور بدکلامی کا جواب قرآن کریم نے محض خاموش رہنا نہیں بتایا اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اس کے برعکس جو ہتھیار ہے، اس کے مقابل کا ہتھیار ہے، اسے اختیار کرلو.اپنی زبان کو زیادہ شائستہ بناؤ ، اپنے کلام کو پہلے سے زیادہ حسین بناؤ ، روز مرہ کی زندگی سے بدکلامیاں اور زشت روئی کے اظہار کوختم کرتے چلے جاؤ.تمہارے کلام میں زیادہ نفاست ہونی چاہئے اور زیادہ پاکیزگی آجانی چاہئے اور اپنے گھروں میں اپنے بچوں کو اپنے بڑوں کو اس کی عادت ڈالو.پھر وہ حملہ کرتے ہیں آپ سے قرآن کریم چھیننے کا ادعا لے کر تو بالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن سے زیادہ شدت کے ساتھ چمٹ جائیں.وہ حملہ کرتے ہیں وہ آپ سے تو حید باری تعالیٰ چھینے کے لئے ، آپ کو اس کا جواب قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں یہ دینا پڑے گا کہ زیادہ موحد بن جائیں.دنیا میں شرک کی جتنی بھی قسمیں ہیں کوشش کر کے اور تلاش کر کے اپنے آپ کو شرک کی ان تمام قسموں سے بچائیں اور اگر کوئی آلودگی نظر آئے تو اپنے آپ کو اس سے دھوئیں اور پاک کریں اور یہ جو مضمون ہے تو حید خالص کا یہ ایک لامتناہی مضمون ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ توحید خالص اور قرآنی اعمال کا سارا نظام ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 683 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء اس لئے جب میں یہ کہتا ہوں کہ شرک کا مقابلہ توحید سے کریں وہ آپ کو مشرک بنانا چاہتے ہیں آپ زیادہ موحد بن جائیں تو صرف یہ مراد نہیں ہے کہ کلمہ کا بیج لگا کر اس کے لئے قربانیاں دیں.صرف ہرگز یہ مراد نہیں ہے کہ جہاں کلمہ سے روکا جارہا ہے وہاں بلند آواز میں کلمہ پڑھیں اور بلالی سنتوں کو زندہ کریں بلکہ مراد یہ ہے کہ کلمے کے اوپر غور کریں، اس سے زیادہ پیار کریں، اس کے مضمون کو اپنے نفس پر جاری کریں اور توحید کے نئے نئے سبق سیکھیں اور شرک کی ہر قسم سے بیزار ہو جائیں اور شرک کے ہر پہلو کا دفاع کریں اور اپنے دامن کو شرک کی آلودگیوں سے پاک کر دیں.یہ ایک بڑا عظیم جہاد ہے جس میں اگر آپ مصروف ہو جائیں تو ادفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے مضمون کو سمجھنے والے اور اس پر عمل کرنے والے ہوں گے.محمد مصطفی ﷺ کو آپ سے چھینا جا رہا ہے، محمد مصطفی علیہ سے زیادہ چھٹنے کی ضرورت ہے.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا یہ تقاضا ہے اور زیادہ پیار کریں اور زیادہ محبت کریں اور زیادہ عشق کریں اور زیادہ چمٹ جائیں آپ کے حسن سیرت کے ساتھ اور اسے اپنے وجود میں اس طرح سمو لیں کہ وہ آپ کی فطرت ثانیہ بن جائے.یہ ایک بہت ہی عظیم الشان مضمون ہے جو قرآن کریم کی اس آیت نے ہمیں سکھا دیا اور اسی کا نام ہے وہ اعمال جو باقی رہنے والے ہیں ، جو وزن دار ہیں وہ ہتھیار جن میں قو تیں پائی جاتی ہیں.یہ تو میں جوان ہتھیاروں سے لیس ہوں مذہبی جنگوں میں کبھی ہارا نہیں کرتیں ،لا ز مافتح یاب ہوا کرتی ہیں.اس پہلو سے میں ایک خاص امر کی طرف مزید توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جب میں نے کینیڈا کا دورہ کیا تو جہاں بہت سے خوش کن پہلو بھی نظر آئے جماعت میں بیداری کے آثار، ان کا رابطہ، ان کا اسلام کو غیروں تک پہنچانے کا نہ صرف عزم صمیم بلکہ دن بدن زیادہ منہمک ہوتے چلے جانا اور ماحول کو متاثر کرتے چلے جانا یہ سارے پہلو ایسے تھے جن سے بہت خوشی ہوئی.لیکن ایک پہلو بعض جگہ کمزوری کا بھی تھا اور اس سے طبیعت میں نہ صرف یہ کہ پریشانی ہوئی بلکہ اس پر میں نے سوچا کہ ساری جماعت کو مطلع کرنا چاہئے کہ اس پہلو کی طرف خصوصیت سے وہ لوگ توجہ دیں جو مغربی معاشرہ میں زندگی بسر کر رہے ہیں.بعض بچے جو ملاقات کے وقت سامنے آتے تھے ان کی بول چال سے،ان کی طرز سے ایک بات صاف معلوم ہو جاتی تھی کہ ان کے گھروں میں عبادتوں کا ماحول نہیں
خطبات طاہر جلد۵ 684 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء ہے اور ان کے گھروں میں قرآن کریم سے تعلق اور پیار کی باتیں نہیں ہیں بلکہ اگر ہے تو مغربی موسیقی ہوگی ، اگر ہے توٹی وی کے پروگرام ہوں گے یاد نیا کی تعلیم کی باتیں ہوں گی.ماں باپ کے چہروں سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی تھی لیکن اولاد کے چہروں سے یہ بات ظاہر ہو جاتی تھی کیونکہ ماں باپ کی تربیت اور قسم کے ماں باپ نے کی ہوئی تھی اور اس اولاد کی تربیت وہاں اور قسم کے ماحول نے کی ہے اور ماں باپ نے اس ماحول سے بچانے میں غفلت کی اور اپنے معاشرہ کو خود اپنے گھروں میں راسخ نہیں کر سکے، اپنے گھروں میں رائج نہیں کر سکے.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر چہ وہ بھی مغربی رو میں بہہ رہے ہیں لیکن ان پر پرانی تربیت کے آثار ابھی تک باقی ہیں اور جو بچے ہیں ان کے چہرے بتارہے ہیں کہ وہ ان اثرات سے آزاد ہو کر کسی اور سمت میں چل رہے ہیں.یہ ہے وہ نہایت ہی خطرناک بات جس کی وجہ سے میرا دل وہاں بہت گڑھا اور ایک موقع پر مسجد میں جب میں نے دیکھا کہ بعض بچوں نے بہت ہی زیادہ ہلڑ مچایا اور باقیوں کی بھی نماز خراب کی تو میں نے بڑی شدت کے ساتھ اس تکلیف کا جماعت کے سامنے اظہار کیا.یہ واقعہ ہر جگہ نہیں ہوا صرف ایک ہی جگہ ہوا ہے.بعد میں اس جماعت کی طرف سے مجھے چھٹیاں آنی شروع ہوئیں.مردوزن کے انتہائی تکلیف میں مبتلا ہوکر معذرت کے خط آنے شروع ہوئے.میں نے ان کو جوا با بتایا یا جن سے بھی میری بات ہوئی کہ اس میں میری معافی کا سوال ہی کوئی نہیں ہے، تم اس ناراضگی کو سمجھے ہی نہیں ، یہ اس قسم کا معاملہ نہیں ہے کہ تم نے معافی مانگ لی ، میں نے کہا معاف ہو گیا اور معاملہ ختم ہو گیا.اس تجربے سے ایک بہت ہی دردناک اور تکلیف دہ تصویر میرے سامنے ابھری ہے جو سالہا سال کے ماضی سے تعلق رکھتی ہے.ایسے گھر میری آنکھوں کے سامنے آئے ہیں جہاں نہ نمازیں ہوتی ہیں اور نہ تلاوتوں کی آواز سنائی دیتی ہے.وہ جو دین کا رخ ہے، دین کا پیار ہے وہ ان گھروں میں رچا بسا نہیں اور بچے اس طرح پرورش پا رہے ہیں جیسے بے چھت کے ہوں اور ان کے اوپر کوئی امن کا سایہ نہیں ہے.لازما وہ بچے پیدا آپ کر رہے ہیں اور وہ بن کسی اور کے رہے ہیں.اس انتہائی تکلیف دہ ماضی کا یہ علاج تو نہیں ہے کہ آپ مجھ سے معافی مانگ لیں اور میں کہوں کہ اچھا الحمد للہ معافی ہوگئی اور ہم دونوں مصافحہ کر لیں یا گلے لگ جائیں.یہ تو اس کا نہایت ہی بچگانہ حل ہے.اس کی معافی تو تلافی مافات کے ذریعہ ہو سکتی ہے.اس کی معافی تو
خطبات طاہر جلد۵ 685 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء خدا سے مانگنی پڑے گی اعمال میں تبدیلی کے ذریعہ، ہر گھر میں ایک پاکیزہ ماحول قائم کر کے اس کی تلافی ہو سکتی ہے وہی اس کی کچی معافی ہوگی.کیا اس دور میں جو ہم نے حسنہ سے غیروں کا مقابلہ کرنا ہے اس میں سب سے زیادہ لڑائی کا میدان اپنی آئندہ نسلوں کا میدان چن لیں؟ اور یہ فیصلہ کر لیں کہ یہ مقابلہ بداخلاقیوں کے ذریعہ، بدکلامیوں کے ذریعہ، گندے ناچ ناچ کر حق پھیلانے کی کوششوں کے ذریعہ، بھنگڑے ڈال ڈال کر مذہبی فتح حاصل کرنے کی کوشش کے ذریعہ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو تباہ کر رہے ہیں.ان کے مزاج بگاڑ رہے ہیں ان کے اخلاق بگاڑ رہے ہیں ، ان کو دین کا ایک ایسا غلط پیغام دے رہے ہیں کہ جس کے بعد ہمیشہ وہ لادینی میں پرورش پائیں گے، اُن کو پتہ ہی نہیں کہ دین ہوتا کیا ہے.اس کا جواب آپ یہ دیں کہ اپنی آئندہ نسلوں کو سنبھالیں اور ان کو ایساد بیندار بنادیں اور ایسے اعلیٰ اخلاق عطا کریں کہ ان کی آئندہ نسلوں اور آپ کی آئندہ نسلوں کے فاصلے اس طرح بڑھتے چلے جائیں کہ گویا آپس میں کوئی تعلق ہی نہیں رہا.ایک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی جانب چلنے والی نسل ہو اور ایک پیٹھ دکھا کر تمام غیر اسلامی قدروں کی طرف بھاگنے والی نسل ہو.میں یہ نہیں کہہ رہا کہ ایسا چاہیں کہ ان کے ساتھ ایسا ہو جائے ، ہرگز نہیں یہ ہمارا نقصان ہے.میرا مطلب ہے کہ ان کی حرکتیں اپنی اولاد کو قتل کر رہی ہیں.ان کی حرکتیں یہ نقشہ کھینچ رہی ہیں جو بہت بھیانک ہے.آپ اپنے گھروں میں اس کا بر عکس نقشہ کھینچیں.اپنی اولادوں کے ساتھ بالکل برعکس معاملہ کریں.ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ پر عمل درآمد کرنے کا ایک یہ طریق ہے.پس اس کو آئندہ کے لئے اپنے لئے ایک خصوصی جہاد بنالیں.اب آپ یہ سوچیں گے کہ بظاہر اس کا فوری طور پر ہمارے اس مقابلہ سے تعلق نہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ یہی وہ میدان ہے جس میں ہم نے فتح حاصل کرنی ہے یا شکست حاصل کرنی ہے، اسی میدان میں یہ بازی ہاری جائے گی یا جیتی جائے گی.ہم مذہبی اقدار کو لے کر اٹھے ہیں، ہم سچائی کو لے کر اٹھے ہیں، ہم اس اسلام کو لے کر اٹھے صلى الله ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسلام ہے.عددی غلبہ اگر آئے بعد میں اور جیسا کہ آئے گا تو ہوسکتا ہے کہ ہماری بعد کی نسلیں اس عددی غلبے کو دیکھیں لیکن ایک غلبہ جو بہت زیادہ قیمت رکھتا ہے، جو بہت زیادہ قدر رکھتا ہے.در حقیقت جس غلبہ کی خاطر مذہبی قو میں اپنی تمام جانوں کو مٹا دینے کے لئے تیار ہو جایا کرتی ہیں، اپنے اموال کو فدا کرنے کے لئے تیار ہو جایا کرتی ہیں وہ روحانیت کا غلبہ ہے، وہ
خطبات طاہر جلد۵ 686 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء سچائی کا غلبہ ہے، وہ حق کی قدروں کا غلبہ ہے، وہ ان اخلاق حسنہ کا غلبہ ہے جن کی خاطر مذہب آیا کرتے ہیں ، وہ تعلق باللہ کا غلبہ ہے.اس عددی غلبہ کو ہم نے کیا کرنا ہے جو ایسے وقت میں نصیب ہو کہ جب ہماری اولادیں اصل میدان میں بازی ہار چکی ہوں اور ان کے عدد کی حیثیت خدا کے نزدیک کچھ بھی نہ ہو.اس لئے عددی غلبہ کا انتظار اس طرح نہ کریں کہ گویا وہی آپ کا یوسف ہے.آپ کا یوسف تو روحانی غلبہ ہونا چاہئے اور اس فتح کو آپ نے پہلے اپنے گھروں میں حاصل کرنا ہے.اگر گھر میں یہ میدان ہار دیا تو با ہر بھی آپ کی بازی ہاری گئی.جہاں تک آپ کی ذات کا تعلق ہے آپ فتح کا منہ دیکھ ہی نہیں سکتے پھر.اس لئے روح کو سمجھیں اور خصوصیت کے ساتھ اس دور سے یہ فائدہ اٹھائیں.کہتے ہیں جب لوہا گرم ہوتا ہے اُس وقت نرم ہوتا ہے وہی وقت ہوتا ہے اسے مولڈ کرنے ، اسے مختلف شکلیں دینے کا.جتنا زیادہ شدت کے ساتھ غیر حملہ کر رہا ہے اتنا ہی زیادہ جماعت نفسیاتی لحاظ سےاس بات کے لئے تیار ہو رہی ہے کہ وہ اپنی تربیت کرے اور جو رستے پہلے مشکل نظر آیا کرتے تھے وہ آسان ہوتے چلے جارہے ہیں.عبادتیں جہاں لوگوں کو پہلے بھاری دکھائی دیا کرتی تھیں اب وہ ان کے لئے ہلکی ہوتی جا رہی ہیں اور آسان ہوتی چلی جاتی رہی ہیں.مسلسل شاید ہی کوئی ایسا دن ہو کہ جس میں یہ اطلاع نہ ملی ہو کہ ہمارا خاندان پہلے بے نماز تھا اب نمازی ہو گیا ہے اور وجہ ہمیشہ یہ ہوتی ہے کہ غیر نے جو دکھ پہنچائے ہیں ان کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس اصلاح کی توفیق بخشی ہے.نمازوں کی کیفیتیں بھی مسلسل بدل رہی ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سینکڑوں خط مجھے روزانہ آتے ہیں شاید ہی کوئی دن ہو مجھے یاد نہیں کہ کوئی ایک بھی دن ایسا ہو جس میں اس قسم کی خوش کن خبریں نہ ملتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اصلاح اعمال کی توفیق عطا فرمائی ، نمازوں میں غفلت تھی وہ دور کرنے کی توفیق عطا فرمائی ، نمازوں کا معیار بڑھانے کی توفیق عطا فرمائی وہ روحانی لذت اور سرور بخشا جس سے ہم پہلے نا آشنا تھے.در حقیقت اس کی وجہ یہی ہے کہ اس وقت دل نرم ہیں اور نیکیوں کی شکل میں ڈھلنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.ایسے وقت میں آپ کو پوراستفادہ کر کے ان حالات سے اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا ایسا قوی جواب دینا چاہئے کہ دشمن کو بھی محسوس ہو جائے کہ اب یہ اتنا آگے نکل چکے ہیں کہ ان کا
خطبات طاہر جلد۵ 687 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء تعاقب ہی نہیں ہوسکتا.اسلامی قدروں کو انہوں نے ایسا اپنا لیا ہے اور اخلاق میں اس قدر نمایاں ہو گئے ہیں کہ لاکھ ہم جھوٹ بولیں اب دنیا مانے گی نہیں کہ ان کا اسلام سے تعلق نہیں ہے.یہ فتح ہمیں اس وقت پاکستان میں بہت سی جگہوں پر نصیب ہو چکی ہے.یہ بے وقوف دشمن ہے اس کو پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جو خطوط آتے ہیں ان میں پاکستان کے طول وعرض سے اس قسم کی نہایت دلچسپ خبریں بھی مل رہی ہیں کہ جو ہماری مخالفت کرنے والے لوگ تھے بعض اب وہ بھی آکر یہ کہنے لگے ہیں کہ جہاں تک تمہارے اخلاق کا تعلق ہے تم مسلمان ہو اور ہم غیر مسلم.جہاں تک تمہاری عادات کا تعلق ہے تم مسلمان اور ہم غیر مسلم جہاں تک قرآن اور حق کے لئے قربانیاں دینے کا تعلق ہے تم مسلمان ہو اور ہم غیر مسلم یہ مراد نہیں کہ وہ اب غیر مسلم ہونے کا سچ مچ اعلان کرتے ہیں مراد یہ ہے کہ ہمارے مولوی تمہیں غیر مسلم کہتے ہیں لیکن اگر عملاً دیکھیں تو تمہاری تصویر میں اسلام سے زیادہ ملتی ہیں اور ہماری تصویر میں اسلام سے کم ملتی ہیں.پس یہ جو دو تصویروں کی دوری ہے یہ زیادہ واضح ہوتی چلی جارہی ہے.زیادہ تین ہوتی چلی جارہی ہے.لِيَمِينَ اللهُ الْخَيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ (الانفال: ۳۸) کا مضمون اور زیادہ کھلتا چلا جارہا ہے کہ حق نظر کر ایک طرف ہو رہا ہے اور گندگیاں الگ ہو کر دوسری طرف سمٹتی چلی جارہی ہیں اور دیکھنے والی آنکھیں دیکھنے لگ گئی ہیں.چنانچہ یہ ہے وہ فتح جو حقیقی فتح ہے.اگر اس کے عقب میں عددی غلبہ غلاموں کی طرح آئے تو وہ یقینا اس لائق ہے کہ اسے قبول کیا جائے اور اسے تحسین کی نظر سے دیکھا جائے لیکن اگر اس پس منظر کے بغیر عددی غلبہ آئے تو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.پس عددی غلبہ آنے کے دن بھی بہت دور نہیں لیکن وہ اس طرح آئے گا اور اس کو اس طرح آنا چاہئے کہ آپ کے اندر ایسا بے پناہ حسن پیدا ہو جائے ،اسلام اتنا زیادہ گہرائی کے ساتھ آپ کے اندر راسخ ہو جائے ، آپ کی شکلیں ان پاکیزہ لوگوں سے اتنی زیادہ ملنے لگ جائیں جن کو ہمیشہ خدا کی نظر نے بھی تحسین سے دیکھا ہے.وہ جو بے پناہ کشش آپ کے اندر پیدا ہوگی اگر وہ عددی غلبہ کے باعث بنتی ہے تو وہی غلبہ ہے جو قدر کے لائق ہے اور اگر پاکستان میں یہ عددی غلبہ بھی نصیب ہو اور خدا کرے کل کی بجائے آج نصیب ہوا گر چہ اس معاملہ میں ابھی ہمیں بہت سے قدم آگے بڑھانے ہیں، بہت لمبے فاصلے ابھی طے کرنے والے ہیں.ہوسکتا ہے کہ یہ ایک
خطبات طاہر جلد۵ 688 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء نسل کا کام نہ ہو، اس سے اگلی نسل بھی انہی راہوں پر ماری جائے ، انہی راہوں پر فدا ہوتب جا کر خدا کی طرف سے آخری فتح کا دن نصیب ہو.لیکن یہ فتح جو ہو رہی ہے اس کی قدر کریں یہی قدر کے لائق فتح ہے اس کی غلامی میں جو فتح نصیب ہوگی وہ ہمیں قبول ہے کیونکہ وہی خدا کو قبول ہوا کرتی ہے.اس فتح سے چنگل چھڑا کر ، اس سے آزاد ہو کر اگر عددی فتح ملتی ہے تو اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں.اس لئے باہر کی جماعتیں بھی اس مضمون پر غور کریں خصوصاً مغرب میں بسنے والی.جیسا کہ میں نے متوجہ کیا ہے شدت کے ساتھ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم اپنی اگلی نسلوں کو سنبھالیں اور جو گندے حملے باہر سے ہوتے ہیں اور آپ کو برے لگتے ہیں وہی میدان آپ کے جیتنے کے میدان ہیں.وہاں آپ حسن خلق سے یا برائی کو حسن سے بدل کر اپنے اندر بھی پاکیزہ تبدیلی پیدا کریں، اپنی اولاد میں خصوصیت کے ساتھ تبدیلی پیدا کریں اور اس ضمن میں میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی اور خصوصاً اس دنیا کی جماعتیں جو مغربی دنیا کہلاتی ہے یا وہ علاقے بھی جو مشرق کے ہیں اور دور دراز کے ہیں اور مرکز کی آنکھ سے ذرا پرے رہتے ہیں ان سب کی جماعتیں بھی خصوصیت کے ساتھ مجالس عاملہ کے اجلاس بلائیں اور مختلف پہلوؤں سے غور کریں کہ کس طرح اپنے گھروں کے ماحول کو پاکیزہ بنانا ہے.ہر گھر سے تلاوت کی آواز اٹھنی چاہئے.بچوں کو ہوش آئے اس طرح آنکھیں کھولیں کہ گھروں میں سے تلاوت کی آواز آ رہی ہو ،لوگ نمازوں کا اہتمام کر رہے ہوں.وضو بتانا نہ پڑے بلکہ وہ دیکھ کر سیکھ لیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جن گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہوا ور تلاوت کا اہتمام ہو وہاں بچوں کو کہہ کہہ کر سکھانا نہیں پڑا کرتا بلکہ بعض دفعہ انہیں روکنا پڑتا ہے کہ یہ بے موقع بات ہے اس وقت اس بات کو چھوڑو ، جن گھروں میں نمازیں ہو رہی ہوتی ہیں بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی چلتے چلتے سڑک پر بھی اللہ اکبر کہ کر سجدہ کر دیتے ہیں.چنانچہ یہی انگلستان میں ایک موقع پر ہم ونڈسر کاسل دیکھتے ہوئے ہم باہر سڑک پر آئے تو ایک چھوٹی سی بچی جو ایسے گھر کی جہاں نماز ہوتی ہے اس نے اللہ اکبر کہہ کر زمین پر سجدہ کر دیا.اس کو یہ بتانا پڑا کہ یہ جگہ نہیں ہے.جہاں گھروں میں عبادت سے پیار ہو، اللہ تعالیٰ کا تعلق ہو، تلاوتیں ہورہی ہوں وہاں یہ تو نہیں کہنا پڑتا کہ یہاں کرو بلکہ بچوں کو سمجھانا پڑتا ہے کہ یہاں نہ کرو اور میرا یہ عام تجربہ ہے کہ چھوٹے سے چھوٹے بچے بھی جو اللہ سنتے رہتے ہیں ان کو
خطبات طاہر جلد۵ 689 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء کے ذہن پر اللہ ہی یا در ہتا ہے.وقت بے وقت وہ اللہ کی آواز اٹھاتے رہتے ہیں، اور سب سے زیادہ لفظ جوان پر نقش ہو جاتا ہے وہ اللہ ہے.یہ باتیں اگر بچپن میں ذہنوں میں نقش نہ کی گئیں تو بڑے ہو کر آپ سے نہیں سکھائی جائیں گی.بڑے ہو کر غیر معاشرہ اتنا غالب آچکا ہوگا ،ایسے رنگ چڑھا چکا ہوگا کہ اس کے بعد پھر اللہ کا رنگ چڑھنا مشکل ہو جائے گا پہلے رنگوں کو مٹانا پڑے گا اور ان رنگوں میں ایسی شدت پائی جاتی ہے، مادہ پرستی کی ایسی سختی پائی جاتی ہے کہ پھر ان کو مٹانا بہت مشکل کام ہو جائے گا.اس لئے ساری دنیا کی جماعتیں خصوصاً مغربی تہذیب سے متاثر جماعتیں یہ پروگرام بنائیں ، اپنی ساری دماغی صلاحیتوں کو کام میں لائیں ، اپنی قلبی صلاحیتوں کو کام میں لائیں، منصوبہ بندی کریں اور مقصد صرف یہ ہو کہ گھروں میں پاکیزہ ماحول پیدا ہو جائے اور بچے اس ماحول میں پرورش پا کر اٹھیں اور ان کے لئے قرآن کریم کی تلاوت سکھانے کے انتظام بھی موجود ہوں اور قرآن کریم کا ترجمے سکھانے کے بھی انتظام موجود ہوں.یہ دوڑ ہے مسابقت کی دوڑ جو دو طرح سے ہوگی.ایک تو یہ کہ جہاں غیر ہم پر حملہ کر کے مزعومہ فتح کے اعلان کرتا پھر رہا ہے کہ یہ فاتح ربوہ آ گیا ہے ، اس نے زیادہ گالیں دی تھیں اس لئے بڑا فاتح یہ بن گیا ہے.وہاں آپ دیکھ رہے ہوں گے کہ وہ مغلوب نسلیں پیدا کرنے والے لوگ ہیں ، ان کی اپنی نسلیں ہاتھ سے نکلتی چلی جا رہی ہیں اور غیر اسلامی قدروں میں آگے بڑھ رہی ہیں.وہاں آپ پہلے سے بہت زیادہ عزم کے ساتھ مسلمان بچے پیدا کرنے کا عہد کریں جو مسلمانوں کے طور پر بڑے ہو رہے ہوں اور غالب آنے والے مسلمانوں کے طور پر بڑے ہو رہے ہوں.گھروں میں اگر آپ نے یہ فتح حاصل کر لی تو آپ ایک ایسی نسل پیچھے چھوڑ کر جائیں گے جو دوسروں کے گھروں میں بھی فتح حاصل کر سکے گی.جو غیر معاشرے پر بھی قبضہ کر سکے گی.اگر آپ نے گھروں میں یہ میدان چھوڑ دیا اور یہاں اس میدان سے بھاگ گئے تو وہم ہے، مجنون کی خواب ہے کہ آپ دنیا پر غالب آجائیں گے ، یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے آپ الٹا نہیں سکتے کہ فَا مَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيْشَةٍ رَّاضِيَةٍ كهہ جس کے اعمال میں وزن ہوگا وہی جیتے گا دوسرا ہر گز جیت نہیں سکتا.وَمَنْ خَفَّتْ مَوَازِینہ ہاں جس کے اعمال ہلکے یعنی بے معنی اور کھو کھلے اور بے وزن ہوں گے اس کے مقدر میں ہاویہ کے سوا اور کچھ نہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 690 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء چونکہ بچوں سے تعلق رکھنے والا مضمون تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے ایک اور بات بھی مجھے سمجھائی اور وہ یہ کہ جس نیکی کا فیصلہ کرتے ہیں اس سے ملتا جلتا صدقہ بھی دیا کرتے ہیں، خیرات بھی کیا کرتے ہیں تا کہ اس کام میں برکت پڑے.اگر آپ اپنے بچوں کو بچانا چاہتے ہیں تو بچوں پر رحم کا کوئی طریق سوچیں.بچوں سے حسن سلوک کی کوئی راہ سوچیں تا کہ وہ آپ کی طرف سے صدقہ بن جائے اور آپ کے بچوں کی حفاظت کرنے والا ہو جائے.اس پر مجھے خیال آیا کہ ایل سلواڈور میں جو بڑی تباہی آئی ہے اور سینکڑوں بچے یتیم رہ گئے ہیں یا جو ماں باپ سے الگ ہو چکے ہیں کچھ پتہ نہیں کہ وہ کون ہیں اور کہاں چلے گئے ہیں.حکومتیں اب ایسے بچوں کو اپنا رہی ہیں اور جماعتی سطح پر تو یہ فیصلہ نہیں ہوسکتا کہ ہم براہ راست یونائیٹڈ نیشنز سے کہیں کہ ہمیں بھی بچے دیں یا ایلسلواڈور کی حکومت سے کہیں.مگر جس جس حکومت میں احمدی رہتا ہے وہاں وہ اپنی حکومت سے یہ درخواست کر سکتا ہے کہ جماعت احمدیہ اتنے بچوں کو گھر مہیا کرنے کے لئے تیار ہے، والدین مہیا کرنے کے لئے تیار ہے تربیت کی ساری ذمہ داریاں قبول کرنے کے لئے تیار ہے اور جس حد تک بھی توفیق ہے بہترین تعلیم دینے کی ذمہ دار ہے.یہ فیصلے ہر ملک میں اپنے طور پر ہو سکتے ہیں پہلے وہ اپنا جائزہ لیں اور پھر اپنے اپنے ذرائع سے وہ حکومت سے رابطہ پیدا کر کے پہلے اپنا جائزہ لیں اور پھر یہ پیشکش کریں کہ ہم اتنے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں.یہ جو احسان ہوگا بنی نوع انسان کے بچوں پر یہ آپ کے بچوں کے حق میں ایک صدقہ جاریہ بن جائے گا.آپ کی کوششوں میں اتنی برکت پڑے گی کہ آپ حیران رہ جائیں گے کہ پہلے اگر ایک کے نتیجہ میں دس نعمتیں ملتی تھیں اب ایک کے نتیجہ میں سو نعمتیں مانی شروع ہو جائیں گی.کیونکہ یتامی کے مضمون کو جس طرح قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور اسے جتنی اہمیت قرآن کریم نے دی ہے آپ ساری دنیا کی مذہبی کتابوں سے اس مضمون کے حوالے اکٹھے کر لیں اس کے برابر وزن نہیں ہوگا.یہ بھی ایک مضمون ہے قرآن کریم کے وزن کا فَا مَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ مسلمانوں پر غیر کس طرح غالب آ سکتے ہیں.قرآن کریم میں ایک ایک حسن کا مضمون اتنے وزن کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ اگر مسلمان اس تعلیم کو اپنے اندر رائج کر لیں تو اس سے زیادہ وزن دار قوم دنیا میں کوئی اور ہو ہی نہیں ہوسکتی.دنیا کی کوئی ہلکی قوم اس کو اکھاڑ کر پھینک نہیں سکتی.پس جو انتہائی وزن
خطبات طاہر جلد۵ 691 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء دار مضمون قرآن کریم میں بیان ہوئے ہیں وہاں یتامی کی کفالت کا مضمون بھی شامل ہے.اتنا زور ہے اس پر کہ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملہ میں ہمیں جو حق ادا کرنا چاہئے تھا اس کا بہت کم حصہ ابھی تک ہم ادا کر سکے ہیں.چنانچہ اس سلسلہ میں میں نے ایک یتیم خانے کے متعلق ہدایت دی تھی جو خدا کے فضل سے مکمل بھی ہو چکا ہے.ایک اور وسیع یتیم خانہ ربوہ میں بنانے کا پروگرام ہے انشاء اللہ اور اگر ربوہ کا ماحول سازگار نہ ہو تو کسی اور ملک میں بنالیں گے.یتامیٰ کی جو ضرورت تو عالمگیر ہے.ضروری نہیں کہ مرکز احمدیت میں ہی ہو.افریقہ کے ممالک میں بھی ہو سکتے ہیں، دوسری جگہ میں بھی ہو سکتے ہیں.چنانچہ ہمارے ایک مخلص احمدی دوست نے تمہیں چالیس لاکھ روپے کی پیشکش کی ہے کہ میری طرف سے ایک نہایت اعلیٰ یتیم خانہ اپنی مرضی کا بنوالیں.وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ بنے گا لیکن جن گھروں کو توفیق ہو وہ گھر اپنے آپ کو پیش کریں کہ ہم ایک یتیم ایلسلو اڈور کا پالنے کے لئے تیار ہیں اور اگر تربیتی مشکلات پیش نظر ہوں گھر کے ماحول پر ایسے بچوں کے بداثر پڑنے کا خطرہ ہو جو بالکل غیر اسلامی ماحول سے آرہے ہیں جن کی تربیت اور طرح سے ہوئی ہے تو اس سلسلہ میں جماعت یہ بھی کر سکتی ہے کہ اجتماعی طور پر یتیم خانے کا انتظام کرے.ہم اسلام آباد کو بھی اس ضمن میں استعمال کر سکتے ہیں.صرف انگلستان کی جماعت کے لئے ہی نہیں بلکہ بعض دوسری جماعتوں کی طرف سے بھی.مثلاً یہ ہو سکتا ہے کہ انگلستان کے بعض خاندان یہ ذمہ داری قبول کر سکیں کہ ہم یتیم کو پالیں گے بھی اور بہترین تربیت بھی کریں گے اور تعلیم بھی اعلیٰ دیں گے اور بعض سمجھیں کہ ہم یہ تو نہیں کر سکتے مگر ایک گھر ایک یتیم کا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں.یا ایک جگہ کے دس گھر مل کر یتیم کا خرچ دینے کے لئے تیار ہیں، وہ خرچ کیا ہوگا؟ یہ جماعت فیصلہ کر کے بتائے گی پھر.ایسی صورت میں ہم اسلام آباد میں پچاس یا سویتامی کے لئے انتظام کر سکتے ہیں.انگلستان کی جماعت خواہ انگلستان سے مانگے یا باہر کی جماعتیں اپنے اپنے طور پر مانگیں مگر یہ وضاحت کر کے کہ ان بچوں کو ہم انگلستان میں بھجوائیں گے.اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر اپنے اپنے ملک میں جماعتی انتظام کے تابع چھوٹے چھوٹے یتیم خانے بنائے جاسکتے ہیں.ایسی احمدی خواتین ہیں جو اپنی زندگی اس معاملہ میں خوشی کے ساتھ پیش کریں گی.ایسے بوڑھے بزرگ ہیں جو بڑی خوشی کے ساتھ اس نیک کام میں اپنے آپ کو پیش کریں گے.کہ وہ ماں باپ
خطبات طاہر جلد۵ 692 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء کے طور پر ان معنوں میں ماں باپ کہ وہ ان کو ماں کا پیار بھی دینے والے ہوں اور باپ کی نگرانی بھی کرنے والے ہوں.جماعت ان کو ایسے بزرگ مہیا کر دے گی.ایک چھوٹا سا گھر کرایہ پر لے لیا جائے گا یا اگر توفیق ہے تو خرید لیا جائے گا اور جتنے یتامی کو وہاں پالا جا سکتا ہو وہاں ان کے لئے حکومت سے پیش کش کر کے ، حکومت سے گفت و شنید کر کے فیصلہ کریں اور مطلع کریں کہ ہم خدا کے فضل سے اتنے یتامی کی پرورش کی ذمہ داری قبول کر چکے ہیں.خدا نے یہ جو نیکی کی ایک اور راہ دکھا دی ہے یہ جواب ہے ربوہ کے اس گندے جلسہ کی گندی گالیوں کا.اس لئے ان لوگوں نے تو ہارنا ہی ہارنا ہے.ان کے پہلے سوائے گند کے ہے کچھ نہیں اور جتنا زیادہ گند بولتے ہیں ہمیں اور زیادہ حسین بناتے چلے جارہے ہیں اور زیادہ ہمیں نیکی کی را ہیں دکھاتے چلے جارہے ہیں.اس لئے لازماً قرآن کریم کے فیصلے کے مطابق احمدیت جیتے گی، اس کے مقدر میں شکست ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ آپ کی نظر حسن پر ہے اور دائمی حسن پر پڑی ہوئی ہے.ہمیشہ اپنے نظریات کو بھی حسین تر اور اعمال کو بھی حسین تر بنانے کی کوشش میں آپ مصروف ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں نصرت عطا فرما رہا ہے اور آئندہ بھی فرما تا چلا جائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج دو جنازہ غائب کا اعلان کرنا ہے اور یہ دونوں خصوصاً پہلا اس نوعیت کا جنازہ ہے کہ جسے میں اپنے ایک طبعی جوش کے ساتھ خود پڑھنے کی تمنا رکھتا ہوں.بابو قاسم دین صاحب رضی اللہ عنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابی اور سابق امیر جماعت ضلع سیالکوٹ.سیالکوٹ کے بہت پرانے بزرگ تھے.ہمیشہ بڑی وفا کے ساتھ ہر حالت میں انہوں نے جماعت کے ساتھ بہت اخلاص اور غلامانہ وابستگی کا تعلق رکھا ہے.بہت ہی منکسر المزاج، نیک ، بزرگ ، دعا گو اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچی خبریں پانے والے تھے.اپنے خاندان پر بھی ان کا بہت ہی اچھا اثر پڑا ہے.بہت سے حصے ان کے خاندان کے ایسے تھے جو ویسے جماعت سے اتنے متعلق نہ ہوتے مگر ان کے خاص اثر سے ، خاص تعلق کی بناء پر اخلاص میں آگے بڑھے.ان کی عمر 90 سال سے اوپر تھی لیکن ہوش قائم تھے اور چلتے پھرتے تھے.صحت کمزور تو ہو گئی تھی لیکن ویسے سارے دینی اور دنیاوی فرائض ادا کرنے والے تھے.دوسرا جنازہ ہے مکر مہ رحمت خاتون صاحبہ کا.یہ ہمارے ایک مخلص مبلغ سلسلہ عبدالرشید یحیی
خطبات طاہر جلد۵ 693 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء صاحب کی والدہ تھیں.ان کے متعلق بھی اطلاع ملی ہے کہ وفات پاگئی ہیں.ان کو کینسر تھا اور اسی حالت میں ان کے بیٹے نے بڑے اخلاص کا ثبوت دیا جب ان کی ضرورت امریکہ میں تقرری کی تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں میری والدہ بیمار تو ہیں اور بیماری بھی خطرناک ہے لیکن سلسلہ کی خدمت کو ترجیح دیتا ہوں.یہ مطلب نہیں تھا کہ والدہ کی خدمت پر ترجیح دے رہے ہیں، مراد یہ تھی کہ خدمت کرنے والے موجود ہیں جذباتی لحاظ سے جو مجھے تکلیف پہنچے گی میں اس کی پرواہ نہیں کرتا ، اور سلسلہ مجھے بے شک خدمت کے لئے بھجوا دے.چنانچہ ان کی عدم موجودگی میں ہی والدہ کی وفات ہوئی.ان دونوں کی نماز جنازہ غائب ہوگی.پچھلے جمعہ میں نے ایک اعلان کیا تھا اس کی تصحیح ضروری ہے اور اس سلسلہ میں ایک تنبیہ بھی ضروری ہے.ایک اعلان میں میں نے یہ کہا تھا کہ ایک احمدی نوجوان جو یہاں قید میں تھے وہ قتل کر دیئے گئے اس لئے ان کی نماز جنازہ غائب میں بعد میں شام کو پڑھاؤں گا.افسوس ہے کہ یہ خبر جو ان کے ایک بیٹے نے دی تھی غلط تھی اور وہ قتل نہیں کئے گئے.بلکہ آخری فیصلہ عدالت میں ہوگا قانونی لحاظ سے جو بھی ہو گا اس وقت تک جو بھی قطعی خبریں ملی ہیں اور پولیس نے اور جیل والوں نے جو بیان دیا ہے وہ خود کشی کا کیس تھا اور میں تحقیق کروارہا ہوں.اس وقت تک جو کوائف سامنے آئے ہیں جس نے مجھے اطلاع دی تھی اس نے عمد أغلط بیانی سے کام لیا اور اپنے بھائی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی.خدا تعالیٰ ستار ہے.پردہ ضرور ڈالنا چاہئے مگر جھوٹ کا پردہ تو نہیں ڈالنا چاہئے.ضرورت ہی نہیں تھی.ایسے بچے کی بے چارہ قابلِ رحم حالت ہے اس کی اس میں کوئی شک نہیں پتہ نہیں کس تکلیف میں خود کشی کی ہے.پاگل تھا تو اللہ تعالیٰ مغفرت فرما سکتا ہے.ضروری تو نہیں کہ جھوٹ بول کے جنازہ پڑھوایا جائے.خاندان کی جو قابل رحم حالت ہے اس سے بھی انکار نہیں.لیکن پردہ پوشی اس رنگ میں ہوسکتی تھی کہ میں ذکر ہی نہ کرتا اور یہ بات جماعت کی سامنے آتی ہی نہ.خلیفہ وقت کو جھوٹی خبر دینا ایک بہت ہی خطرناک غلطی ہے اور میں جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس خبر کو اگر خطبوں میں استعمال کر لیا جائے یا جماعت کی تاریخ کا حصہ بنا دیا جائے تو اس جھوٹ کی ذمہ داری اطلاع دینے والے پر ہوگی مجھ پر نہیں ہوگی ، نہ آئندہ کسی خلیفہ پر ہوگی.جہاں تک عام طور پر طریق ہے، بعض تحقیق طلب باتوں کی تحقیق کی جاتی ہے مگر پھر بھی احمدیوں پر حسن ظن
خطبات طاہر جلد۵ 694 خطبہ جمعہ ۷ ارا کتوبر ۱۹۸۶ء لب رہتا ہے.بعض لوگوں کے متعلق آدمی وہم بھی نہیں کر سکتا کہ عمدا جھوٹ بولیں گا یا ویسے ہی کچی خبر دیں گے.لیکن بعض لوگ یہ ظلم کرتے ہیں کہ سچی خبر دے دیتے ہیں، ایک غلط بات پہنچا دیتے ہیں.جہاں تک اس جنازے کا تعلق ہے خدا کے نزدیک اس کی حیثیت ہی کوئی نہیں جو غلط خبر کی بنا پر ہے.اس لئے نہ جنازہ پڑھنے والوں کی ذمہ داری نہ ان کا اس سے تعلق.جیسا کہ کالعدم چیز ہو ویسی ہی کیفیت ہے.مگر اس کے باوجود یہ جو مسئلہ ہے خود کشی کرنے والے کا جنازہ نہ پڑھنے کا.میں سمجھتا ہوں کہ اس کے اوپر بھی کچھ تھوڑی سی روشنی ڈالنی ضروری ہے.یہ مراد ہرگز نہیں کہ نعوذ باللہ ہر وہ شخص جہنم میں جائے گا کیونکہ اس کے بہت سے کوائف ہماری نظر سے اوجھل ہیں لیکن یہ فعل اتنا مکروہ ہے کہ ہوش وحواس میں کسی نے کیا ہے تو اس کی سزا بہر حال خدا تعالیٰ کی طرف سے اس کو ملے گی کیونکہ زندگی لینے کا نہ دوسرے کا حق نہ اپنا حق قتل کی سزا ہے یہ جو ایسے شخص کو ملنی چاہئے اور خدا کی رحمت سے مایوسی کی سزا اس کے علاوہ ہو جائے گی.تو یہ دو ہرا بھیا نک قتل ہے.اب ہر قاتل کے متعلق بھی ہم نہیں کہہ سکتے کہ وہ جہنمی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے.بعض پاگل پن میں کرتے ہیں.بعض نفسیاتی الجھنیں ایسی ہیں جو پاگل پن تک تو نہیں پہنچتیں مگر اللہ کے نزدیک ہوسکتا ہے وہ شخص مرفوع القلم ہو چکا ہو اور یہ کہ وہ جذباتی لحاظ سے ایسا مغلوب ہو جائے کسی وقت کہ بے وقوفی اور نادانی کی حرکت کر بیٹھے تبھی قرآن کریم نے قتل کے بعد وہ ذرائع بیان کئے ہیں جن سے تلافی ہوسکتی ہے.گناہ کس طرح دھل سکتے ہیں.لیکن جہاں تک جنازے کا تعلق ہے، جنازے کا ہمیں منع کر دیا گیا ہے کہ اس کا جنازہ نہیں پڑھنا کیونکہ اس نے خدا سے مایوسی کی تھی.قتل ہی نہیں کیا بلکہ اللہ تعالی کی رحمت سے مایوسی کا اظہار کیا.ایک احتجاج ہے امت کا کہ ہم تیرا جنازہ نہیں پڑھیں گے.مگر جہاں تک ہماری دلی تمنا کا تعلق ہے اپنے ہر بھائی کے لئے دل میں رحم کا جذبہ ہونا چاہئے.استغفار پیدا ہونا چاہئے.جنازہ نہ پڑھنے میں تکبر نہیں ہے بلکہ جنازہ نہ پڑھنے کے ساتھ دل زخمی بھی ہوتا ہے.خود کشی کرنے والے پر بھی ایک رحم آنا چاہئے کہ پتہ نہیں کس حال میں اس نے جان دی ہے اور اگر اس دنیا میں بھی بد رہا تو خدا آئندہ اسے نجات بخشے اور اپنی مغفرت جو تام ہے اور ہر چیز پر غالب آنے والی ہے اس کی چادر میں اس کو لپیٹ دے لیکن یہ ایک تمنا ہے جسے ہم مجبور ہیں کہ جنازے کی دعا میں تبدیل نہیں کر سکتے.
خطبات طاہر جلد ۵ 695 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ کی پر معارف تشریح احمدی اسلام کے امن کو اپنی سوسائٹی میں راسخ کر دیں ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ /اکتوبر ۱۹۸۶ء بمقام ناصر باغ ، فرینکفرٹ ، جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ قف (آل عمران: ۲۰) وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخُسِرِينَ اور پھر فرمایا: ( آل عمران : ۸۶) قرآن کریم کی یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے نزدیک سچا اور حقیقی دین اسلام ہی ہے.پس جو چاہے کسی اور دین کی طرف رغبت کر کے دیکھ لے فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وه دین اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا.وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ اور بالآخر آخرت میں وہ یقیناً نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا.جیسا کہ قرآن کریم کا اسلوب ہے جو وہ آخرت کے متعلق قرآن کریم پیشگوئیاں فرماتا ہے وہ اس رنگ میں نہیں فرماتا کہ انسان کو ایک موہوم آئندہ دنیا کا وعدہ دے دے اور اس کے لئے کوئی ثبوت مہیا نہ کرے بلکہ قرآن کریم کا اسلوب یہ ہے کہ آخرت سے تعلق رکھنے والی ہر پیشگوئی کا اطلاق ایک رنگ میں اس دنیا میں بھی ہوتا ہے، اس دنیا کے حالات پر بھی ہوتا ہے اور اس دنیا میں اس حصے کو
خطبات طاہر جلد ۵ 696 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء پورا ہوتے ہوئے دیکھ کر انسان کا دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ وہ آئندہ دنیا کی پیشگوئی بھی کوئی موہوم خیال نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت پر مبنی پیش گوئی تھی جو اسی طرح پوری ہوگی جس طرح اس دنیا سے تعلق رکھنے والی پیشگوئی پوری ہو چکی ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اس اسلوب کو ہر قسم کے آئندہ کے ت سے تعلق رکھنے والی پیشگوئیوں میں اختیار فرمایا ہے اور قیامت کی باتیں بھی کی ہیں.دنیا میں قیامت سے پہلے رونما ہونے والے حالات بیان فرمائے ہیں اور تہذیبوں کے فتنے کی باتیں بیان کی ہیں وہ اس رنگ میں بیان کیں کہ کچھ حصے ان کے یا تو ماضی میں پورے ہو چکے تھے یا آئندہ عنقریب پورے ہونے والے تھے انہیں دیکھ کر آئندہ کے متعلق باتوں کا بھی دل میں یقین بیٹھ جائے.ایک عظیم الشان اسلوب ہے جو قرآن کریم کا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جس کے متعلق بڑی تفصیل سے ہمیں آگاہ فرمایا اور اس کی مثالیں دے کر خوب سمجھایا کہ دنیا کے عام عجمین کی پیشگوئیاں یا دنیا کے عام خواب بینوں یا دیگر تعلق باللہ کا دعوی کرنے والوں کی پیشگوئیاں قرآن کریم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں رکھتیں.قرآن کریم کی پیش گوئیاں اپنی ذات میں ایک واضح، قطعی یقینی ثبوت رکھتی ہیں اور محض پیشگوئیوں کا رنگ اس طرح کا نہیں کہ اگر کوئی اس وقت تک زندہ رہا تو دیکھ لے گا بلکہ وہ اپنی ذات میں ایسے شواہد رکھتی ہیں جن کا تعلق دو قسم کے مضامین سے ہے: اول نظریاتی لحاظ سے ان کے اندر وہ مواد موجود ہوتا ہے جو عقلوں کو مطمئن کرنے والا ہے، دوسرے مشاہداتی لحاظ سے کسی دور کی پیشگوئی سے پہلے انسان اپنی آنکھوں کے ساتھ اس پیشگوئی کا پہلا حصہ پورا ہوتا دیکھ لیتا ہے جسے دیکھنے کے بعد دل اس یقین سے بھر جاتا ہے کہ جو دور کے زمانے کی پیشگوئی ہے وہ بھی پوری ہوگی.پس آخرت سے متعلق پیشگوئیوں میں قرآن کریم نے ہمیشہ دنیا کے متعلق رونما ہونے والے واقعات کا ذکر اس لئے فرمایا تا کہ انسان یہ نہ سمجھے کہ ایک محض دور کا وعدہ ہے، مرنے کے بعد خدا جانے کیا ہو، خدا ہے بھی یا نہیں.اس لئے خواہ مخواہ اخروی زندگی کو انسان اس دنیا کی زندگی پر کیوں اثر انداز ہونے دے.اس عمومی قرآنی پیشگوئیوں کے تعارف کے بعد میں اس آیت کی طرف واپس آتا ہوں جو میں نے ابھی تلاوت کی تھی یعنی اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَام کہ اسلام تو وہ دین ہے
خطبات طاہر جلد۵ 697 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء جو خدا نے اختیار کر لیا ہے بندوں کے لئے.اس کے سوا اب کوئی دین نہیں رہا اور جو بھی اس دین کورد کر دے گا اور کسی غیر دین میں پناہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے گا چاہے تو ایسا کر سکتا ہے فَلَنْ تُقْبَلَ مِنْهُ وہ قبول نہیں کیا جائے گا.اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ یہ تو ایک دعویٰ ہے ہر مذہب یہ دعویٰ کر سکتا ہے پھر اسلام کی اس پیشگوئی کا فَلَن تُقْبَلَ مِنْهُ ما بہ الامتیاز کیا ہے دوسری اس کی پیشگوئیوں سے.اس کا ایک اور آخری حصہ یہ ہے کہ وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ وہ آخرت میں یقینا گھاٹا پانے والا ہوگا.اگر تو اس سے مراد یہ ہے اس آیت سے کہ آخری زندگی میں دنیا کے بعد جب ہم مر چکے ہوں گے اور ایک نئی زندگی پائیں گے تو اس وقت ہمیں معلوم ہوگا کہ یہ دین جو ہم نے اختیار کیا تھاوہ قبول نہیں ہوارد کرنے کے لائق تھا ، وَ هُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخُسِرِيْنَ کا مطلب یہ ہے کہ بہت بعد میں جب مرنے کے بعد آنکھ کھلے گی تو اس وقت پتہ لگے گا کہ ہم تو گھاٹا کھانے والے تھے.اگر اس مضمون کو اسی معنی میں محدود کر دیا جائے تو کوئی مابہ الامتیاز اس پیشگوئی کا اسی قسم کی دوسری پیشگوئیوں سے باقی نہیں رہتا.ایک عیسائی بھی ایسی پیشگوئی کر سکتا ہے ، ایک سکھ بھی ایسی پیشگوئی کر سکتا ہے.ایک ہندو بھی ، بدھ بھی اور زرتشی بھی سارے یہ کہہ سکتے ہیں کہ مرنے کے بعد جب آنکھ کھلے گی تو اس وقت تمہیں یہ پتہ چلے گا کہ تم گھاٹا پانے والے ہو اس لئے آج دنیا میں اپنی روش تبدیل کر.اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مرنے کے بعد آنکھ کھلے گی بھی یا نہیں اور اس بات کی کیا دلیل ہے کہ مرنے کے بعد اگر آنکھ کھلی تو ہم یقینا اس پیشگوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھیں گے اور واقعی گھاٹا پانے والوں میں سے ہوں گے.یہ پہلو دوسرا پہلو ہے جس کے متعلق ہمیں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس آیت ہی میں سے شواہد ڈھونڈ نے چاہئیں.یہ آیت اپنی ذات میں کیا دلیل رکھتی ہے.سو وہ دلیل یہ ہے کہ اس آیت کا اطلاق صرف آخری دنیا میں نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ہونا ہے اور انسان اس دنیا میں اس آیت کی سچائی کو دیکھ لے گا اپنی آنکھوں سے، یہ پیشگوئی کی جارہی ہے.اور فِي الْآخِرَةِ کا ایک معنی یہ ہے کہ بالآخر سارے دینوں کے تجربوں کے بعد انسان ایک ایسے مقام پر پہنچے گا کہ اسے اپنا گھاٹا دکھائی دے دے گا.اسے اپنے مرنے کی ضرورت نہیں ہے نقصان کو دیکھنے کے لئے.مرنے
خطبات طاہر جلد۵ 698 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء کے بعد کا نقصان تو ہوگا ہی لیکن اسی دنیا میں اپنے جیتے جی اپنی آنکھوں سے ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ اسلام کو چھوڑنے والا ہر دین اپنے متبعین کو چھوڑ دے گا یعنی اپنے کئے ہوئے وعدے ان کے ساتھ پورے نہیں کرے گا اور سارے اہل دنیا دوسرے دینوں کو اختیار کر کے ان پر عمل کرتے کرتے تھک جائیں گے اور ایک ایسے مقام پہنچے گا جہاں انسان بحیثیت مجموعی اپنے گھاٹے کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ رہا ہوگا اور تسلیم کرے گا کہ میں گھاٹا پانے والا ہوں.اس وقت انسان پر جو حالات گزر رہے ہیں قرآن کریم کی اس پیشگوئی کے عین مطابق گزر رہے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخُسِرِینَ کی خود جو تشریح فرما دی دوسری جگہ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ یہ واقعہ صرف آخرت میں ہونے والا نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے جہاں انسان اپنے گھاٹے کو خود دیکھ لے گا.چنانچہ دوسری سورت میں قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح کھول دیا: وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (اصر :٢-٢) کہ زمانہ گواہ ہے اب تو کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں رہی ، پورا زمانہ گواہ بن چکا ہے إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرِ کہ انسان یقینا گھاٹے میں جارہا ہے.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت سوائے ان چند لوگوں کے جو ایمان لے آئے اور نیک اعمال کر رہے ہیں.وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وہ حق کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں اور صبر کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں.یہاں میں نے سوائے ان چند لوگوں کے کا ترجمہ کیا ہے.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا میں تو چند لوگوں کا ذکر نہیں.ذکر صرف اتنا ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لے آئے.تو یہ چند کا ترجمہ میں نے کیسے کیا؟ در حقیقت دو وجوہات ہیں جس کے نتیجہ میں انسان یہاں چند لوگوں کا ترجمہ کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے.اول یہ کہ اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ ایک ایسی Statement ہے، ایک ایسا بیان ہے جو تقریباً ساری انسانیت کو لپیٹ رہا ہے.انسان بحیثیت مجموعی گھاٹے میں چلا جائے گا.یا ہم یہ
خطبات طاہر جلد۵ 699 خطبه جمعه ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۶ء کہہ سکتے ہیں کہ انسان یہاں بحیثیت نوع نا کام ہو چکا ہے اور گھاٹے کے سوا اس کے مقدر میں کچھ نہیں.یہ فقرہ ، یہ بیان اس وقت استعمال ہو سکتا ہے جب بہت بڑی بھاری اکثریت پر یہ اطلاق پاتا ہو.ورنہ اگر اکثر لوگ ایمان لانے والے اور نیک اعمال کرنے والے ہوں تو اس وقت یہ فقرہ بولا ہی نہیں جاسکتا کہ یقیناً انسان بحیثیت مجموعی یا بحیثیت نوع گھاٹے میں جا چکا ہے.اس لئے پہلی Statement اتنی قوی ہے، اتنی پر اثر ہے پہلا بیان اتنا قوی اور پر اثر ہے اور اتنی وسعت رکھتا ہے کہ اس کے بعد إِلَّا الَّذِینَ آمَنُوا کا ترجمہ اس کے سوا کیا ہی نہیں جا سکتا کہ سوائے ان چندلوگوں کے جو ایمان لے آئیں اور نیک اعمال کریں.ایک تو اس کے آغاز میں دلیل اس بات کی ہے کہ وہ چند لوگ ہوں گے اور گنتی کے چندلوگ اور ایک دلیل اس کے آخر پر بھی رکھی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.صبر کا مضمون بتاتا ہے کہ بہت تھوڑے لوگ ہوں گے اور مظلوم لوگ ہوں گے.صبر کی ضرورت تو فاتح اور غالب کو نہیں ہوا کرتی.صبر کا مضمون خود بتاتا ہے کہ ان لوگوں کی حالت نہ صرف یہ کہ تھوڑے ہوں گے بلکہ مظلومیت کے دن گزار رہے ہوں گے.کوئی ان کو پوچھے گا نہیں ، کوئی ان کو وقعت نہیں دے گا اور باتیں بھی ان کی رد کی جائیں گی عموماً، لوگ ایک کان سے سنیں گے اور دوسرے کان سے نکال رہے ہوں گے لیکن باوجود اس کے کہ اتنی معمولی حیثیت ان کی ہوگی اور بظاہر سارا انسان ان کے مقابل پر کھڑا ہوگا پھر بھی وہ اپنی نصیحت سے باز آنے والے نہیں ہوں گے، اپنے کام سے پیچھے ہٹنے والے یا مایوس ہونے والے نہیں ہوں گے بلکہ صبر کے ساتھ وہ نصیحت کرتے چلے جائیں گے.ان کی باتوں کا انکار کیا جائے گا، اس کا دکھ محسوس کریں گے، اس پیغام حق کے نتیجہ میں جو تکلیفیں دی جائیں گی وہ بھی برداشت کرتے چلے جائیں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ انسان بحیثیت کلی ایک نوع کے اعتبار سے بظاہر اسلام کور د کر چکا ہے اور بظاہر اس کی کوئی امید نظر نہیں آتی کہ وہ اپنے فیصلہ کو بدلے اور اسلام کو قبول کر لے.بظاہر کلیہ مایوسی کا سامنا ہوگا اس کے باوجود وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ پھر بھی وہ کامل صبر کے ساتھ وفا کے ساتھ اپنے پیغام پر قائم رہیں گے اور پیغام دیتے چلے جائیں گے.وہ آیت جس کی میں نے پہلے تلاوت کی تھی وہاں جب خدا تعالیٰ نے یہ فرمایا
خطبات طاہر جلد۵ 700 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ تو اس سے محض اخروی زندگی کا گھاٹا مراد نہیں بلکہ اس دنیا میں جسے Latter Days یعنی آخری زمانہ کہا جاتا ہے وہ بھی اس آخرت سے مراد ہے.یہ واقعہ آخری زمانہ میں رونما ہوگا جبکہ انسان بحیثیت مجموعی اپنے گھاٹے کو پہچان لے گا، جان لے گا کہ میں گھاٹے میں جا چکا ہوں.اس بیان کی تفصیل کو جانچنے کے لئے ہم اس آیت کے مضمون پر ذرا نسبتاً زیادہ گہرا غور کرتے ہیں.فرمایا إِنَّ الذِيْنَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ یقیناً اسلام ہی ایک وہ دین ہے جو خدا نے بندوں کے لئے چن لیا ہے.اسلام کا مطلب کیا ہے؟ اسلام کا معنی ہے کہ اول اپنے آپ کو کسی کے سپرد کر دینا اور کلیہ تابع مرضی مولا ہو جانا یہاں اسلام کا مطلب یہ ہے اور دوسرا اسلام کا مطلب ہے امن بخش تسکین بخشنے والا ، طمانیت عطا کرنے والا ، امن دینے والا.اس لحاظ سے جب ہم اس آیت پر غور کرتے ہیں تو مضمون بالکل کھل کر سامنے آجاتا ہے اور انسان کے گھاٹے کی نوعیت بھی ظاہر ہو جاتی ہے.مراد یہ ہے کہ اسلام کے سوا خدا تعالیٰ کی خاطر کلیہ اپنی مرضی کو چھوڑ دیناممکن نہیں.ہر غیر دین کی پیروی کر کے دیکھ لو تمہیں رفتہ رفتہ خدا کی عائد کردہ پابندیوں سے آزادی کی طرف لے جائے گا اور تم دیکھو گے کہ انجام کا رتم خدا کی عمومی بغاوت پر منتج ہو جاتے ہو.وہاں تک پہنچتے ہو جہاں عموماً بغاوت کا ماحول تمہاری سوسائٹی میں ظاہر ہو جاتا ہے.تم Submission کے نام سے ناواقف ہو جاتے ہو تم اس کی روح سے نابلد ہو جاتے ہو تمہیں پتہ نہیں ہوتا کہ کسی ایسی طاقت کے سامنے سر جھکانا کس کو کہتے ہیں جو ظاہری نظر نہیں آرہی جو بے شمار پردوں کے پیچھے چھپی ہوئی ایک طاقت ہے لیکن ہر پردے سے وہ جھلکتی بھی ہے.اس لئے اسلام کے سوا کوئی اور یہ کامل اطاعت کی روح بخش نہیں سکتا اور چونکہ تم خدا کی کامل اطاعت سے دیگر مذاہب میں دن بدن باہر نکلتے چلے جاؤ گے اس لئے تمہیں وہ سودمند زندگی نصیب نہیں ہو سکتی جو اطاعت کے نتیجہ میں ہوتی ہے.بے فائدہ زندگی گزار رہے ہو گے، لا حاصل زندگی گزار رہے ہو گے، یہ مراد ہے گھاٹے سے.اس پہلو سے آپ دنیا پر نظر ڈال کر دیکھ لیں تو ہر دین آج اطاعت سے باہر لے کے جارہا ہے، ہر دین آپ کو آج خود سری کی تعلیم دے رہا ہے.گولفظوں میں نہیں لیکن عملاً اپنے ماننے والوں کو اس مقام تک پہنچا چکا ہے جہاں اتھارٹی کے خلاف بغاوت کی روح دن بدن زیادہ قوت پاتی
خطبات طاہر جلد۵ 701 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء چلی جارہی ہے.پہلے اس کا آغاز خدا کی اتھارٹی یعنی خدا کی حاکمیت کے انکار سے شروع ہوا اور زمانہ رفته رفته آزادی کی طرف مائل ہوا یعنی خدا تعالیٰ نے جو پابندیاں انسان پر لگائی تھیں معاشرتی ،تمدنی اور اخلاقی ان سے انسان آزاد ہونا شروع ہوا اور دنیا کا کوئی دین ایسا نہیں جس نے انسان کو سنبھال لیا ہو، کوئی دین بھی ایسا نہیں جس نے آزادی کا رخ موڑ دیا ہو.نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ مغربی تہذیب جسے آپ کہتے ہیں یا مشرقی تہذیب جہاں جہاں بھی جو بھی تہذیب شکلیں اختیار کر رہی ہے ان دونوں میں قدر مشترک یہ بن گئی ہے کہ انسان اپنے ہر معاملے میں اب آزاد بلکہ مادر پدر آزاد ہو چکا ہے، جو چاہے وہ کرتا پھرے اس کے لئے کوئی روک نہیں ، جو اس کی خواہش ہے جس طرح وہ پوری کر سکتا ہے کرتا چلا جائے ، اس پر کوئی پابندی نہیں.جو تہذیبیں مذہب کے نام پر جاری ہیں ان کا بھی یہی حال ہے اور جو مذہب سے بیگا نہ ہو کر کلیپ بغاوت کر چکی ہیں ان کا بھی یہی حال ہے اور یہ جو آج کل انسان کے رہن سہن کا اسلوب دکھائی دے رہا ہے وہ صرف مغرب میں ہی آزاد نہیں ہے بلکہ مشرق کا بھی آزاد ہو چکا ہے.بدھ ازم میں بھی آزاد ہو چکا ہے ہندو ازم میں بھی آزاد ہو چکا ہے، زرتشتی ازم میں بھی آزاد ہو چکا ہے اور اگر آپ تفصیل سے جائزہ لینا چاہیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جو بدھ ، بدھ کی تعلیم پر عمل کرتے ہیں بظاہر اپنے روز مرہ کی زندگی میں اس تعلیم کو مداخلت نہیں کرنے دیتے.جہاں بھی ان کے مفادات بدھ کی تعلیم سے ٹکراتے ہیں وہ بدھ کی تعلیم کو چھوڑ دیتے ہیں اور اپنے مفادات کو اہمیت دیتے ہیں.وہاں تک بدھ ازم چل رہا ہے جہاں تک بدھ ازم ان کی اپنی مرضی کے مطابق ان کے ساتھ ساتھ قدم بڑھا رہا ہے.جہاں وہ انہیں رستہ بدلنے پر مجبور کرے وہ اسے دھکا دے کر کہتے ہیں تو اپنے رستے پر چلو ہمارا رستہ وہی ہے جو ہم اپنی مرضی کے مطابق اختیار کریں گے.سیلون (سری لنکا ) میں دیکھ لیجئے بدھ ازم آج کس شکل میں ظاہر ہو رہا ہے.وہ مذہب جو کامل طور پر انسان کو دنیا کی لذتوں، دنیا کی خواہشوں سے اس طرح ہٹ جانے کی تعلیم دیتا تھا اور کامل طور پر بے ضرر ہونے کی ایسی تعلیم دیتا تھا کہ ایک ذرہ بھی، ایک شوشہ بھی تمہارے طرف سے کسی کوزد نہ پہنچے، ضرر نہ پہنچے.جانور کے لئے بھی احساسات رکھو اس کو بھی دیکھ نہ دو.بدھ ازم میں یہ تعلیم اس درجہ کمال تک پہنچی ہوئی ہے کہ بعض لوگ جو انتہا پسند ہیں وہ قدم بھی پھونک پھونک کر رکھنے والے
خطبات طاہر جلد۵ 702 خطبه جمعه ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۶ء ہیں کہ ہمارے پاؤں کے نیچے کوئی معمولی سا کیڑا بھی نہ آجائے.لیکن جب ان کے مفادات دوسرے انسانوں کے مفادات سے ٹکراتے ہیں تو ایسے ظالم ہو جاتے ہیں کہ اس کی بھی کوئی مثال دکھائی نہیں دیتی.سیلون میں آج جو ظلم و تشدد ہورہا ہے بعض حصوں پر اس میں یہ بحث نہیں ہے کہ حق پر کون ہے یا کون نہیں ہے.یہ فیصلہ جب تک کوائف سامنے نہ ہوں انسان نہیں کر سکتا.یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس ظلم کا آغاز کس طرف سے شروع ہوا تھا لیکن یہ بہر حال کہا جا سکتا ہے کہ ظلم کے نتیجہ میں ، ایک ظلم کے نتیجہ میں بدھ مذہب نے جو لائحہ عمل تجویز کیا تھا وہ لائحہ عمل اختیار نہیں کیا جارہا.جو رد عمل ہونا چاہئے تھا ایک بدھ سوسائٹی کا وہ رد عمل ظاہر نہیں ہورہا اور یہ بات صرف سیلون تک محدود نہیں پچھلی عالمی جنگ میں جتنی بدھ اقوام ہیں ان سب نے بدھ ازم کو بالائے طاق رکھ کر کلیۂ وہی مسلک اختیار کیا جو سادہ حیوانی قدریں ان کے لئے تجویز کر رہی تھیں.عیسائی دنیا کو دیکھ لیجئے جنگوں کے دوران اور آزمائشوں کے دوران جب بھی ان کے مفادات سے عیسائیت کی تعلیم ٹکرائی تو انہوں نے عیسائیت کی تعلیم کو اس طرح اٹھا کر پھینک دیا جس طرح ردی کی ٹوکری میں کوئی گندا کاغذ پھینک دیا جاتا ہے.ایک ذرہ بھر بھی اس کی پرواہ نہیں کی.ایک طرف اگر ان کے منہ پر چپیڑ ماری گئی تو انہوں نے ہزار چپیڑ میں اس کے مقابل پر ماریں کجا یہ کہ اپنے چہرے کا دوسرا حصہ اس کے سامنے پیش کر دیتے کہ آؤ اور اس پر بھی تھپڑ مار لو یہ تو عمومی رحجانات ہیں قومی سطح کے او پر لیکن انفرادی سطح پر بھی بالکل یہی آزادی کا عالم ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلام یا عالم اسلام میں ہمیں وہ Peace نظر آ رہی ہے یا وه Submission نظر آ رہی ہے جس کا دعویٰ کیا گیا ہے کہ صرف اسلام میں ملے گی اور غیر مذاہب میں نہیں ملے گی.لیکن اس مضمون پر آنے سے پہلے اس آیت کے مضمون کا تھوڑا سا مزید جائزہ لیا جائے کہ کیا نقشہ ابھر رہا ہے دنیا میں اس آیت کی روشنی میں.دوسرا پہلو ہے امن.امن کا تعلق اندرونی زندگی سے بھی ہے اور بیرونی زندگی سے بھی ہے.آج انسان کا امن جس طرح اندرونی طور پر برباد ہوا ہے اس سے پہلے کوئی ایسا زمانہ آپ نہیں دیکھیں گے جہاں عالمی سطح پر آپ یہ اعلان کر سکیں کہ امن کلیۂ اٹھ چکا ہے.ہر گھر میں بدامنی ہو چکی ہے ، ہر روح بے قرار ہوگئی ہے اور امن کی
خطبات طاہر جلد ۵ 703 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء ا تلاش میں انسان ایسی ایسی جاہلانہ حرکتیں کر رہا ہے کہ وہ بالآخر ایک قومی خود کشی پر منتج ہو سکتی ہیں.Drug's Trafficking کا نام جو سنا ہے آپ نے بارہا اس کے پس منظر میں یہی بدامنی ہے.اس قدر تیزی کے ساتھ انسانی زندگی کا امن برباد ہو رہا ہے کہ انسان مصنوعی ذرائع سے امن پیدا کرنا چاہتا ہے حالات کو بھلا کر.جس طرح کبوتر بلی کے سامنے آنکھیں بند کر کے ایک قسم کا امن حاصل کرتا ہے اسی طرح آج کا باشعور انسان جو کہتا ہے کہ میں بلوغت کے مقام کو پہنچ چکا ہوں اور اب امجھے کسی بیرونی تعلیم کی ضرورت نہیں کسی بیرونی طاقت کی ضرورت نہیں جو مجھے سمجھائے اور قدم قدم چلائے اس انسان کا یہ حال ہے کہ ایک جانور کبوتر کی طرح جس کی مثال بے وقوفی کی دی جاتی ہے اس طرح آنکھیں بند کر کے حالات سے امن حاصل کرنا چاہتا ہے.پس Drug Trafficking کا اس کے سوا اور کوئی ترجمہ نہیں ہوسکتا.حقیقت یہ ہے کہ اس طرح تیزی کے ساتھ جوارب ہا ارب روپیہ ایسے نشوں میں ضائع کیا جا رہا ہے جس کو آج کل ڈرگ کا نام دے رہے ہیں ویسے تو ڈرگ ہر دوائی کو کہتے ہیں لیکن یہاں میں اصطلاحی ڈرگ کا لفظ استعمال کر رہا ہوں ارب ہارب روپیہ ضائع کیا جا رہا ہے اور ہزاروں جانیں تلف ہوتی ہیں ہر سال اس جرم کے نتیجہ میں اور دن بدن یہ زیادہ شدت کے ساتھ پھیلتا چلا جا رہا ہے، دن بدن زیادہ گہرائی کے ساتھ انسانی زندگی میں اترتا چلا جا رہا ہے اور بڑی بڑی قو میں جو عظیم الشان طاقتیں رکھتی ہیں وہ بھی اپنے سارے ذرائع کو بروئے کار لا کر اس کا مقابلہ نہیں کرسکیں.بنیادی وجہ کیا ہے؟ بنیادی وجہ وہی اندرونی بدامنی ہے جس کا انسان دن بدن زیادہ سے زیادہ شکار ہوتا چلا جارہا ہے اور آج یہ جس کیفیت کو پہنچ چکا ہے یہ کیفیت برملا اس بات کا اقرار کر رہی ہے.وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِی خُسْرٍ وہ زمانہ جس کی پیشگوئی کی گئی تھی کہ اسلام کو چھوڑنے کے نتیجہ میں وہ لازماً آئے گا اور آخر کا ر انسان دیکھ لے گا کہ وہ گھاٹے میں ہے.یہ وہ زمانہ ہے جو پہنچ چکا ہے اور دن بدن اس کے بدامنی کے آثار زیادہ ظاہر ہوتے چلے جارہے ہیں.اندرونی امن کی بربادی کو جانچنے کے لئے اور بھی ذرائع ہیں.خاندانی تعلقات آج کس مقام پر پہنچے ہوئے ہیں.خاندانی تعلقات کے نتیجہ میں انسان کس حد تک لذت یا سکینت پا رہا ہے یا طمانیت قلب حاصل کر رہا ہے؟ عام معاشرتی کیفیت میں انسان کے انسان سے روزمرہ کے تعلقات
خطبات طاہر جلد۵ 704 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء جو خاندان سے باہر کے ہوتے ہیں ان میں کس حد تک امن کی کیفیت ہے؟ اس پہلو سے اگر آپ امریکہ کے امن کا جائزہ لیں یا افریقہ کے امن کا جائزہ لیں یا یورپ کے امن کا جائزہ لیں یا ایشیا کے امن کا جائزہ لیں تو بلا استثناء ہر سوسائٹی میں نہ صرف یہ کہ بدامنی ہے بلکہ بدامنی بڑھتی چلی جارہی ہے.اگر بین الاقوامی تعلقات کے اوپر جائیں تو دن بدن انسان ایک دوسرے سے زیادہ خوف کھانے لگا ہے ، دن بدن انسان ایک دوسرے سے بداعتماد ہوتا چلا جا رہا ہے.کسی وعدے کا نہ کوئی پاس رہا ہے نہ کسی وعدے پر یقین رہا ہے اور جتنی بڑی بڑی طاقتیں ہیں، اونچی سطحوں پر ملتی ہیں اور کوششیں کرتی ہیں کہ ہم کسی طرح سمجھوتوں کے ذریعہ امن حاصل کر لیں.وہ بڑی طاقتیں جانتی ہیں کہ ہم بھی جھوٹے ہیں اور مد مقابل بھی جھوٹا ہے.جب بھی جس کو بھی طاقت نصیب ہوئی ، جب بھی جس کو بھی موقع ملا وہ دوسرے انسانوں کو ، دوسرے گروہ کے انسانوں کو کلیۂ ہلاک کرنے سے باز نہیں آئے گا.اس بدامنی کے نتیجہ میں نئی ئی تحریکات نے جنم لیا ہے کہیں Pacific تحریک چل رہی ہے کہیں گرین موومنٹ ہے کہیں کسی ایک اور نام سے یہ تحریک کسی ملک میں سر اٹھا رہی ہے اور ہر تحریک امن کا مطالبہ تو کرتی ہے لیکن امن کیسے نصیب ہوگا اس کے لئے کوئی حل نہیں کرتی.جو حل پیش کئے جاتے ہیں وہ ایسے یک طرفہ اور بے معنی ہیں کہ جب تک مقابل کی طاقتیں ان حلوں کو تسلیم نہ کر لیں اور ان پر عمل نہ کرنا شروع کر دیں اس وقت تک وہ حل بے معنی اور لغوصل ہیں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں.چنانچہ ایک دفعہ جب جرمنی میں Peace March شروع کی گئی بڑی وسیع ، تو ایک تبصرہ نگار نے یہ لکھا، پچیس مارچ کا مطالبہ یہ تھا کہ سارے ایٹمی ہتھیار جو مغربی دنیا میں پائے جاتے ہیں وہ کلیۂ غرق کر دیئے جائیں اور ختم کر دیئے جائیں.صرف یہی ایک حل ہے ایٹم کی ہلاکت سے بچنے کا.تبصرہ نگار نے یہ لکھا کہ حل تو ہوگا یہ لیکن یہ پیس مارچ جس دن مشرقی جرمنی کاBarrier کراس کر کے آگے تک پہنچے اور روس تک بھی یہ آواز پہنچا دے اس دن ہم تسلیم کر لیں گے کہ واقعی یہ حل ہے.لیکن اگر یہ برلن کی دیواروں سے سر ٹکر اٹکرا کے مرجائے اور پر لی طرف یہ آواز سنائی نہ دے تو پھر ہم کیسے تسلیم کر سکتے ہیں کہ دنیا کے امن کا یہ واحد حل ہے اور اس میں حقیقت ہے.حل جس طرف سے بھی اٹھائے جاتے ہیں وہ یک طرفہ حل ہوتے ہیں.روس جو حل پیش کرتا ہے وہ بھی یک طرفہ حل ہے اور وہ اس Barrier سے جسے ہم Iron Curtain Barriers کہتے ہیں یا آزاد دنیا کے.Barrier کہتے ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۵ 705 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء آواز پر لی طرف نہیں جاتی ، جاتی ہے تو ان کانوں میں پڑتی ہے جو اسے ان سنی کر دیتے ہیں اور کسی قیمت پر بھی اسے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں.پس دونوں طرف سے ایک ہی حال ہے.کامل طور پر آج ایک انسان دوسرے انسان کا اعتماد کھو چکا ہے اور اسی وجہ سے عالمی بدامنی بڑی شدت کے ساتھ Potentially بڑھ رہی ہے Potentially کا مطلب ہے اندر نی صلاحیت کے لحاظ سے بڑھ رہی ہے.یعنی اگر چہ ابھی بظاہر جنگ شروع نہیں ہوئی لیکن جب ہم کہتے ہیں Potential Danger ہے تو مراد یہ ہے کہ حالات جس طرف حرکت کر رہے ہیں کہ دن بدن عالمی جنگ کے خطرات بڑھتے چلے جارہے ہیں.پس یہ تو یقینا قطعی بات ہے کہ قرآن کریم نے یہ جو فرمایا تھا: إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الإِسْلَامُ * قت وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ آخرت کا دور ہم نے دیکھ لیا ہے ہم اس دور تک پہنچ چکے ہیں.پس اگر اسلام کی یہ باتیں آج اس دنیا میں پوری ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں تو اس آیت کے مضمون کا جو اخروی دنیا سے تعلق ہے وہ بھی یقیناً اسی طرح سچا ثابت ہوگا.یہ ہے قرآن کریم کا اسلوب.یہاں تک تو یہ درست ہے لیکن ذرا آگے قدم بڑھائیں اور اسلام کی طرف جب ہم نے بیرونی دنیا کا جائزہ لیا اور وہاں اس آیت کے مضمون کو پورا ہوتے دیکھا تو آئیے اب ہم عالم اسلام پر بھی نظر ڈالیں کہ کیا عالم اسلام کو امن نصیب ہے.کیا عالم اسلام اس آیت کے مضمون کا پورا پورا عملی نقشہ کھینچ رہا ہے.کیا عالم اسلام میں ہمیں خدا تعالیٰ کے حضور کامل اطاعت کا رنگ دکھائی دے رہا ہے.کیا وہاں Submission پائی جاتی ہے یعنی خدا تعالیٰ کے حضور اپنے سر کو جھکا دینا اور مرضی مولیٰ کے تابع ہو جانا.کیا عالم اسلام میں اندرونی امن دکھائی دے رہا ہے.کیا ہر سینہ وہاں مطمئن ہے اور سکینت پانے والا ہے.کیا خاندانی عائلی تعلقات میں اسلام کی دنیا امن کو پیش کر رہی ہے یا نہیں کر رہی.کیا شہری تعلقات میں ایک انسان کے دوسرے انسان کے تعلقات میں ہم امن کی وہ تصویر دیکھ رہے ہیں جس کے متعلق قرآن کریم نے پیشگوئی کی تھی کہ غیر اسلام میں تمہیں دکھائی نہیں دے گی اور اسلام میں
خطبات طاہر جلد۵ 706 خطبه جمعه ۲۴ اکتوبر ۱۹۸۶ء دکھائی دے گی.کیا اسلام بین الاقوامی تعلقات میں ایسے مناظر پیش کر رہا ہے کہ دنیا کسی حد تک معقولیت کے ساتھ یہ امید باندھ بیٹھے اسلام سے کہ اگر اسلام کو ترقی ہوئی تو عالمی امن پیدا ہوگا.اگر قف نہیں ہے تو پھر اس آیت کا کیا مطلب ہے کہ اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ.کیونکہ دنیا میں ہمیں تو پھر یہ دکھائی دے گا کہ نہ اسلام قبول ہوا نہ غیر اسلام قبول ہوا.نہ اسلام دنیا کو وہ امن دے سکا جس کا دعویٰ کر رہا تھا نہ غیر اسلامی طاقتیں وہ امن دے سکیں.تو الَّا الَّذِينَ آمَنُوا کا پھر کیا مطلب ہے.پھر تو یہ کہ دنیا چاہئے تھا اِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ سارا انسان گھاٹے میں چلا گیا اور کوئی الا و لا نہیں، کوئی بھی استثناء نہیں، کلیۂ سارا عالم ہلاک ہونے والا ہے.لیکن یہ تو قرآن کریم نہیں فرما رہا بلکہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ کا ذکر فرماتا ہے.لیکن تعجب کی بات ہے یہاں الا الَّذِينَ أَسْلِمُوا نہیں کہہ رہا، یہاں یہ نہیں فرمایا کہ الا المسلمون کہ وہ لوگ جو مسلمان ہوں گے وہ بچ جائیں گے بلکہ از سر نو ایمان کا ایک نیا تازہ نقشہ کھینچ رہا ہے.إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور شرط باندھ دی ہے کہ وَعَمِلُوا الصّلِحُتِ اور نیک اعمال کرنے والے صرف وہی ہیں جو بچیں گے اور باقی سب ہلاک ہو جائیں گے.پس عالم اسلام میں وہ چیز کیوں دکھائی نہیں دے رہی بلکہ اس کے برعکس چیز کیوں دکھائی دے رہی ہے؟ اس مضمون پر نسبتا کچھ زیادہ غور کی ضرورت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام میں اگر یہی اسلام ہے جس اسلام کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے تو پھر عالم اسلام میں اس اسلام کی صداقت کے کوئی آثار ہمیں دکھائی نہیں دیتے.ہر انسان جو تعصبات سے بالا ہو کر غیر اسلام کا مقابلہ آج کے اسلام سے کرے اور آج کی اسلامی دنیا کا موازنہ غیر اسلامی دنیا سے کرے اگر اس میں کوئی ادنی سا بھی تقوی پایا جاتا ہے ، اگر ادنی سی بھی سچائی پائی جاتی ہے تو وہ یہ اعلان کرنے پر مجبور ہو جائے گا کہ بہت سی صورتوں میں اسلام میں ان صفات کا زیادہ فقدان ہے جو لفظ اسلام میں بیان کی گئی ہیں.بدامنی وہاں بھی ہے جیسی یہاں ہے مگر جیسی لاقانونیت آج اکثر مسلمان ممالک میں دکھائی دیتی ہے.ویسی لاقانونیت مغربی دنیا میں ہمیں دکھائی نہیں دیتی.جیسی رشوت ستانی بدقسمتی سے ان مسلمان ممالک کے اندر ہمیں دکھائی دے رہی ہے ویسی رشوت ستانی
خطبات طاہر جلد۵ 707 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء مغربی جرمنی یا یورپ یا دیگر ممالک میں ہمیں دکھائی نہیں دیتی.گندگی یہاں بھی ہے اور وہاں بھی ہے، جرائم یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی ہیں.لیکن اگر آپ موازنہ کر کے دیکھیں تو وہاں کے جرائم کئی صورتوں میں بہت زیادہ بھیانک ہیں.مثلاً بچوں پر جو مظالم بعض مسلمان کہلانے والے ممالک میں ہورہے ہیں اس کا عشر عشیر بھی آپ کو یہاں دکھائی نہیں دے گا.لمبے عرصہ سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو قبائل ہیں وہ بچوں کی تجارت کرتے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں.بچے یا اغوا کر لیتے ہیں یا خرید لیتے ہیں اور ان سے ظالمانہ کام لیتے ہیں اپنے Labour Camps میں اور دیگر جرائم کا بھی ان کو نشانہ بناتے ہیں.کہ نہایت ہولناک زندگی ہے ان معصوم بچوں کی.جو آج کی بات نہیں بیسیوں سال سے پاکستان اور ہندوستان کے لوگ برداشت کرتے چلے جارہے ہیں اور کوئی توجہ اس طرف نہیں ہو رہی.پہلے تو ہندوستان تھا، جب ہندوستان ختم ہوا اور پاکستان ایک عالم اسلام کا ایک نمائندہ بن کر ابھرا اور اسلام کی سب سے زیادہ کثیر التعداد سلطنت کے طور پر ابھرا.سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان ایک وقت میں کہا جاتا ہے کہ یہیں آباد تھے.اب شاید یہ توازن بدل چکا ہو مگر بہر حال ابھی بھی سب سے زیادہ کثیر تعداد میں مسلمان جس ملک میں آباد ہیں ان میں ایک پاکستان بھی ہے.لیکن وہ جرائم نہ صرف یہ کہ جاری ہیں بلکہ بڑھتے چلے جارہے ہیں.یہاں تک بعض علاقے پاکستان میں موجود ہیں بدقسمتی سے کہ جہاں بچپن سے بچوں کے اعضا کو ایسے شکنجوں میں جکڑ دیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں وہ اعضا ٹیڑھے رہیں اور نہایت مکر وہ شکل اختیار کر جائیں تا کہ پھر ان کو ریڑھیوں پر ڈال کر بھیک مانگنے کا ذریعہ بنایا جائے اور یہ واقعہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے، گزر رہا ہے سب کے سامنے لیکن کوئی پرواہ نہیں.تو جرائم یہاں بھی ہیں اور وہاں بھی ہیں.لیکن بعض صورتوں میں انتہائی بھیا نک جرائم ہیں جو وہاں رونما ہورہے ہیں اور پرورش پارہے ہیں.اس تفصیل میں جانے کا موقع نہیں نہ میرا مقصد یہ ہے کہ اس پہلو سے تفصیلی موازنہ کروں.میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر تقویٰ کی آنکھ سے دیکھا جائے حقائق کی آنکھ سے دیکھا جائے تو جو امن ساری دنیا میں برباد ہوتا ہوا دکھائی دے رہا ہے وہ اسلامی دنیا میں بھی تو برباد ہوتا دکھائی دے رہا ہے.جو سینے سکینت سے یہاں خالی ہیں ویسے ہی سینے وہاں بھی خالی ، جس طرح عائلی
خطبات طاہر جلد۵ 708 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء زندگی کا امن یہاں برباد ہو چکا ہے اسی طرح عالم اسلام کی عائلی زندگی کا امن بھی برباد ہو چکا ہے بلکہ بہت سی صورتوں میں بہت زیادہ دکھ اٹھا رہی ہے وہاں کی عائلی زندگی.اگر چہ طلاقیں کم ہیں لیکن عورت ظالموں کی چکی میں پستی چلی جارہی ہے اور اسے اتنا بھی اختیار نہیں کہ وہ طلاق کی صورت میں ہی اپنا حق لے لے.ہر قسم کے مصائب کا شکار ہر قسم کے دکھوں کا شکار یہاں تو کم سے کم ساس کے طعنے تو اس کو نہیں سننے پڑتے ، نندوں کی طرف سے تو اسے کوئی تکلیف کے تیر نہیں پہنچتے لیکن وہاں کی دنیا میں ہر طرف سے عورت ظالموں کا نشانہ بھی بنی ہوئی ہے اور ظلم کرنے کی مشین بھی بنی ہوئی ہے.خود مظالم سہتی ہے اور شور مچاتی ہے جہاں تک بھی مچا سکے کہ ہم مظلوم ہیں اور اپنی زندگی برباد کر رہی ہوتی ہے اور جب وہ اس مقام پر پہنچتی ہے جہاں دوسری عورتوں کو امن بخش سکتی ہے وہ ان کو امن بخشنے کی بجائے ان کا امن چھیننے لگ جاتی ہے.پس مردوں کے مظالم کا بھی شکار ہے وہاں کی عورت اور عورتوں کے مظالم کا بھی شکار ہے اور جتنی بے اطمینانی کا منہ بعض مسلمان ممالک کی عورت دیکھ رہی ہے ویسی بے اطمینانی تو آپ تلاش کر کے دیکھ لیں دنیا میں آپ کو کہیں اور نظر نہیں آئے گی.پھر یہ دعوی کیسا کہ: اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ قت مَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ ۚ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَسِرِينَ کہ اب صرف دین اسلام ہی رہ گیا ہے خدا کے نزدیک جو اطاعت کے گر سکھائے گا جو فرمانبرداری کی راہیں دکھائے گا جو تمہیں اندرونی امن بھی نصیب کرے گا، عائلی امن بھی عطا کرے گا اور بین الاقوامی امن بھی عطا کرے گا.بین الاقوامی امن کی حالت میں دیکھیں تو آج عالم اسلام میں جس طرح اندرونی جنگیں مسلمان ممالک کی مسلمان ممالک سے ہورہی ہیں.دنیا کے کسی مذہب میں بھی یہ منظر آپ کو دکھائی نہیں دے گا.امر واقعہ یہ ہے کہ جتنی لڑائیاں آج عالم اسلام میں ہو رہی ہیں، فرقہ بازی کی شکل میں دیکھ لیں یا قوموں کی قوموں سے لڑائی کی شکل میں دیکھ لیں ، آپ کو دنیا کے کسی مذہب کے پیروکار میں یہ بد نصیب نقشہ نظر نہیں آئے گا بلکہ باہر تو تقریباً امن ہی ہو چکا ہے اب.بین الاقوامی امن کو خطرات تو ضرور ہیں لیکن ایسے خطرات ہیں جو مستقبل سے تعلق رکھنے والے ہیں جو
خطبات طاہر جلد ۵ 709 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء Potential خطرات ہیں جیسا کہ میں نے کہا، صلاحیت کے خطرات ہیں واقعاتی نہیں ہیں فی الحال لیکن عالم اسلام تو بڑے لمبے عرصہ سے ایک دوسرے سے جنگ میں مبتلا ہے اور وہ جنگ فرقہ بازی کی شکل میں بھی ہو رہی ہے اور حکومتی سطح پر بھی ہورہی ہے.پس آج اگر بدامنی کا گہوارہ ہے تو بدقسمتی سے وہ عالم اسلام ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے دعویٰ کیا تھا کہ اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ بر غیر اسلامی دین کو دھتکار دیا جائے گا اور انسان کو کسی قسم کا امن دینے میں ناکام ہو جائے گا لیکن اسلام ایک ایسا دین ہے جو ان تمام خواص کا حامل رہے گا اور اس کے سوا باقی سب گھاٹے میں جائیں گے.یہ دعوئی تو پھر بھی پورا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا.پھر اس کا کیا حل ہے؟ امر واقعہ یہ ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس مضمون کو جب تک ہم سورہ عصر کے مضمون کے ساتھ ملا کر نہیں پڑھتے اس وقت تک یہ مسائل حل نہیں ہو سکتے ، اس وقت تک یہ گتھیاں سلجھائی نہیں جاسکتیں.یہاں تو قرآن کریم نے یہ دعوی فرمایا کہ آخرت میں یعنی بالآخر تم دیکھو گے کہ اسلام کے سوا ہر طرف بے اطمینانی پھیل چکی ہوگی ، کوئی امن نہیں رہے گا.لیکن دوسری طرف اس آخری زمانہ کا نقشہ کھینچتے ہوئے فرمایا: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِة اس وقت در حقیقت اسلام کے نمائندہ وہ چند لوگ ہوں گے جو اپنے ایمان کو تازہ کر رہے ہوں گے.امنوا وہ گویا دوبارہ ایمان لانے والے ہوں گے وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ اور نیک اعمال کے ذریعے ثابت کریں گے کہ جس دین کو انہوں نے اختیار کیا ہے وہ سچے دل سے اختیار کیا ہے اور فرضی طور پر اختیار نہیں کیا.بہت قلیل ہوں گے، اتنے تھوڑے ہوں گے کہ آٹے میں نمک کو معمولی حیثیت حاصل نہیں ہوتی جتنی ان کو دنیا کے مقابل پر حیثیت حاصل ہوگی کیونکہ فرمایا وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ گویا سارا عالم گواہ ہو جائے گا کہ سارا انسان گھاٹے میں چلا گیا ہے ان کا شمار ہی نہیں ہوگا اتنے معمولی لوگ ہوں گے ، اتنی کم تعداد میں ہوں گے مگر فرمایا دیکھنا وہی ہوں گے جن کے متعلق خدا گواہی دیتا ہے کہ وہ گھاٹا پانے والے نہیں ہوں گے اور اسلام نے جتنی
خطبات طاہر جلد۵ 710 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء پیشگوئیاں ان کے امن کے متعلق کی ہیں وہ ان کو نصیب ہوں گی.نہ صرف یہ کہ وہ خود امن میں ہوں گے بلکہ دوسروں کو امن کی طرف بلانے والے ہوں گے.اور دوسروں کو امن عطا کرنے والے ہوں گے.اگر آج جماعت احمدیہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحُتِ کی مصداق جماعت نہیں ہے تو پھر اور کون سی جماعت ہے اور اگر یہ جماعت اس آیت کا مصداق ہے اور حقیقتاً مصداق ہے تو پھر گھاٹا پانے والوں اور اس جماعت کے کردار اور اعمال اور سیرت اور طرز عمل میں اتنا نمایاں امتیاز ہونا چاہئے کہ دنیا آپ کو حقیر سمجھتے ہوئے بھی یہ دیکھنے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہو یہ پہنچانے کا اختیار رکھتی ہو کہ ہاں یہ وہ لوگ ہیں جو واقعہ امن میں ہیں ، یہ وہ لوگ ہیں جن سے دنیا کا مستقبل کا امن وابستہ کیا جا سکتا ہے لیکن اگر خدانخواستہ جماعت احمدیہ اپنی عملی تصویر میں یہ نقشہ پیش ہی نہ کر سکے اور الا کے استثناء میں آنے کی بجائے ان لوگوں میں داخل ہونا شروع ہو جائے جن کی بدامنی کا زمانہ گواہ ہو چکا ہوگا تو پھر نعوذ باللہ من ذالک قرآن کریم کی یہ آیت غلط ثابت ہوگی ، قرآن کریم کی یہ پیشگوئی بالکل بے معنی ہو جائے گی.اس لئے آج قرآن کریم کی پیشگوئیوں کی صداقت کا انحصار آپ کے عمل پر ہے.آپ اگر آج نیک اعمال بن کر دنیا کو دکھا سکتے ہیں، آج اگر آپ گھاٹا پانے والی دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے گھاٹوں سے بچ کر ایک سودمند زندگی گزار سکتے ہیں تو پھر یقینا قرآن کریم کی یہ آیت آپ کے حق میں پوری ہوگی اور بڑی شان کے ساتھ پوری ہوگی پھر یقینایہ توقع وابستہ کی جاسکتی ہے کہ آپ دنیا کی تقدیر بدلنے والے ہوں گے اور دنیا کا امن آپ کی ذات سے وابستہ ہو چکا ہے.اگر یہ نہیں تو پھر محض دعووں کے ذریعہ یا نظریات کی برتری ثابت کرنے کے ذریعہ آپ دنیا پر قطعاً کوئی فتح نہیں پاسکتے.یہ ایک ایسی قطعی اور یقینی بات ہے کہ جس کے متعلق ایک ذرہ شک کی بھی گنجائش نہیں.اگر نیک اعمال کے بغیر دنیا پر آپ فتح یاب ہو سکتے تھے تو قرآن کریم کو یہ شرط لگانے کی ضرورت نہیں تھی کہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے.پس ایمان لانے والے اسلام پر تو کروڑہا کروڑ موجود ہیں ، اس کثرت سے ہیں کہ بڑی بڑی سلطنتوں پر بھی قابض ہیں، بڑے بڑے علاقوں میں ان کو اکثریت حاصل ہے.مگر قرآن نے ان کو مستی نہیں فرمایا کیونکہ شرط یہ لگادی إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ صرف ایمان
خطبات طاہر جلد ۵ 711 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء لانے والے مراد نہیں ہیں مسلمان بلکہ ایمان لا کر اس ایمان کو اپنے اعمال میں سچا کر دکھانے والے ہیں.اپنے نیک اعمال سے یہ ثابت کرنے والے ہیں کہ جن باتوں پر ہم ایمان لائے تھے حقیقہ ان پر ایمان لائے ہیں عملی زندگی میں ان باتوں کو کر دکھانے والے ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ آج اسلام کی سچائی کا دارو مدار بھی ان چند لوگوں پر ہے جو إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ کی تعریف کے نیچے آتے ہیں.آج تمام دنیا کے امن کے امکانات ان چند لوگوں سے وابستہ ہو چکے ہیں جو الَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ کے استثنا کے نیچے آتے ہیں.آج خدا اور بندے کے تعلقات میں امن کی کوئی ضمانت دینے والی بات اگر ہے تو یہی ہے کہ یہ چند لوگ کم سے کم اپنے اور اپنے رب کے تعلقات میں امن حاصل کر چکے ہیں اور جو شخص اس دین کا رستہ اختیار کرے گا وہ بھی بالآخر اس امن کی حالت کو پہنچ جائے گا.پس اپنی کیفیت کو پہلے جانچیں اور پھر فیصلہ یہ کریں کہ آیا دنیا کو وہ امن نصیب ہوگا یا نہیں جو اسلام کے لفظ کے تابع جس کا وعدہ کیا گیا ہے.اگر آپ کے اندرونے میں وہ امن موجود نہیں ہے، اگر آپ کے اندر طمانیت نہیں ہے اور سکینت نہیں ہے اور یہ یقین نہیں ہے کہ آپ امن کے رستے پر روانہ ہوئے ہیں ،امن کے رستوں کو پکڑے ہوئے ہیں.اگر اندرونی طور پر آپ با مقصد زندگی نہیں گزار رہے اور ایک اندرونی بے چینی ہے جو آپ کو بے قرار رکھتی ہے تو پھر اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْاِسلام کے دعوے کی سچائی ثابت کرنے کے آپ اہل نہیں ہیں.اگر آپ کے عائلی تعلقات بدامنی کا شکار ہو چکے ہیں اور اسی طرح کے دکھ آپ کی عائلی زندگی میں بھی ہیں جیسے بیرونی عائلی زندگی میں پائے جاتے ہیں اگر آپ کے گھر جنت کا گہوارہ نہیں ، اگر آپ کے گھر کی عورت مظلوم ہے اسی طرح جس طرح غیر کے گھروں کی عورتیں مظلوم ہیں اگر اسی طرح آپ بے وفا ہوچکے ہیں اور عورتیں بے وفا ہو چکی ہیں.اگر اسی طرح آپ ظالم ہو چکے ہیں اور جواب میں عورتیں بھی ظالم ہو چکی ہیں اگر گھر کے بندھن اندرونی تعلقات کے بندھن ٹوٹ چکے ہیں اگر بچوں کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں گھر ایک محض ظاہری طور پر اکٹھے ہونے کی جگہ ہے جیسے ہوٹل میں اکٹھے ہو جاتے ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر ، ایک دوسرے کو دکھ پہنچانے کی جگہ بن چکا ہے تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ اِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْإِسْلَامُ اسلام کے سوا اور کوئی دین نہیں.کم سے کم
خطبات طاہر جلد۵ 712 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء اس صورت میں جن لوگوں کے گھروں کے امن بر باد ہیں وہ یہ دعوی نہیں کر سکتے.اگر آپ سوسائٹی کے تعلقات میں، اگر آپ Citizen Ship یعنی شہریت کے تعلقات میں اس آیت کا مصداق نہیں تو پھر آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے سوا دنیا میں اور بھی کوئی نہیں کیونکہ اسلام کے از سرنو احیاء کا دعویٰ لے کر اٹھنے والی جماعت آج آپ کے سوا اور کوئی جماعت نہیں ہے جو اپنے اس دعویٰ میں سچی ہے اور اس دعویٰ میں خالص ہے اور اس دعویٰ میں انتہائی مخلص ہے.پس اگر اس دعوے کے باوجود اور اس سچے دعوی کے باوجود، اس مخلصانہ دعوے کے باوجود عمل کی زندگی میں یہ دعویٰ ڈھلتا ہوا نظر نہ آیا تو پھر مستقبل میں اسلام کی فتح کے گیت گانے کا بھی آپ کو کوئی حق نہیں.پھر آگے بڑھیں اگر آپ بین الاقوامی تعلقات میں مثلاً یہاں جب جرمنی میں جاتے ہیں یا امریکہ میں جاتے ہیں یا کینیڈا میں جا کر بستے ہیں بہترین اسلام کے نمائندہ ثابت نہیں ہوتے اگر آپ اپنے بین الاقوامی تعلقات میں ان سوسائٹیوں کے لئے امن مہیا نہیں کرتے جن سے آپ رابطے میں آتے ہیں اور ان کی بدامنی کو قبول کر لیتے ہیں ، ان کے رنگ میں ڈھل جاتے ہیں ، اپنا امن کا رنگ ان کو دینے میں ناکام رہتے ہیں تو ان معنوں میں بھی آپ نے اسلام کو نا کام کر کے دکھایا ہے نہ یہ کہ اس کی کامیابی کا ثبوت دنیا کو مہیا کیا.پس یہ جو دنیا میں نظریات کی جنگیں ہو رہی ہیں یا آئندہ دنیا کے نقشوں کی باتیں ہو رہی ہیں اس میں فتح وشکست کا فیصلہ نظریات کی دنیا میں نہیں ہو گا عمل کی دنیا میں ہوگا اور عمل کی دنیا میں خواہ ایک جماعت چھوٹی بھی ہو اگر وہ اسلام کے نظریات کو اپنے اعمال کی دنیا میں ڈھال لے گی، اگر اسلام صرف قرآن کا اسلام نہیں رہے گا یا نام کا اسلام نہیں رہے گا بلکہ کسی جماعت کے اندر راسخ اور رائج ہو جائے گا اس کے خون میں گھل مل جائے گا، اس کے اعمال میں ڈھل جائے گا ، اس کی صورتوں سے ظاہر ہونے لگے گا.اگر خود اس جماعت کو امن نصیب ہوا اندرونی طور پر بھی اور بیرونی طور پر بھی تو پھر یقیناً ایسی جماعت إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُو الصّلحت کے استثناء کے تابع دنیا میں بالآخر برومند اور فتح مند ہونے والی جماعت ثابت ہوگی اور اگر خدانخواستہ ایسا واقعہ نہ ہو تو قرآن تو بہر حال سچا نکلے گا مگر وہ جماعتیں ضرور مٹادی جائیں گی اور ان کی جگہ خدا اور جماعتیں لے آئے گا جن کے ذریعہ خدا تعالیٰ نے قرآن کی سچائی کو بہر حال دنیا میں ثابت کرنا ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 713 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء جرمنی میں بسنے والے احمدی ہوں یا یورپ کے دیگر جماعتوں کے بسنے والے احمدی ہوں جو آج اس خالصہ دینی اجتماع کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں یہی میرا ان کے نام پیغام ہے کہ آج آپ امن کے محافظ کے طور پر دنیا میں قائم کئے گئے ہیں.آج اسلام کے نمائندہ اور ایمبیسیڈر (Embassider) اور سفراء کے طور پر آپ دنیا میں نکلے ہیں جہاں کہیں سے بھی آپ آئیں ، جہاں کہیں بھی آپ جانے والے ہیں ، آپ کی یہ حیثیت اولین حیثیت ہونی چاہئے کہ آپ اسلام کے سفیر ہیں یعنی امن کے سفیر ہیں اور اس امن کے سفیر ہیں جو واقعاتی طور پر آپ نے پالیا ہے آپ کی زندگیوں میں راسخ ہو چکا ہے.اس امن کی تلاش کرتے رہیں جب تک وہ امن آپ کو نصیب نہ ہو اور دنیا کو موقع دیں کہ وہ امن آپ سے حاصل کرے.اس حیثیت میں زندہ رہیں گے تو آپ یقیناً ایک فاتح کی حیثیت میں زندہ رہیں گے اور قرآن کریم کے اسلوب سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب بھی خدا ایسے استثناء بناتا ہے إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ تو مراد یہ نہیں ہوتی ہے کہ یہ تھوڑے لوگ ہمیشہ تھوڑے رہیں گے.مراد یہ ہوتی ہے کہ یہ تھوڑے ہونے کے باوجود دنیا میں غالب آنے والے ہیں، ایک ایسا زمانہ بھی آنے والا ہے کہ یہ غالب آجائیں گے اور گھاٹے والا انسان دنیا کی صف سے پیچھے دھکیل دیا جائے گا.گویا کہ ایک ڈرامہ میں ایک کردار نے اپنے پارٹ ادا کیا، اپنا کھیل کھیلا اور غائب ہو گیا اور ایک نیا کردارا بھرا.توإِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت ایک نئے کردار کو دکھانے کا دروازہ کھول رہا ہے.ایک نئے کردار سے پردہ اٹھانے والی آیت ہے اور وہ آپ کا کردار ہے.اے احمدی نوجوانو! اے مستقبل کے محافظو! جو آئندہ دنیا میں اسلام کے فتح مند ہونے کے لئے آج خدا تعالیٰ کی طرف سے اس بات کے لئے مقرر کئے گئے ہو.آج تم اسلام کو سیکھو تا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تم اسلام سکھا سکو.آج اسلام کے امن کو اپنی سوسائٹیوں میں راسخ کر دو تا کہ آئندہ آنے والی سوسائیٹیوں کے امن کی ضمانت دے سکو یتم مراد ہو اس آیت کے اگر تم اس مقصد میں کامیاب ہو گئے تو پھر دنیا کا مستقبل یقیناً پر امن ہوگا اور اگر تم اس مقصد میں ناکام ہو گئے تو بالآخر اسلام تو غالب آئے گا مگر تمہارے ذریعہ نہیں.ان لوگوں کے ذریعہ جو اپنے اس دعوی میں سچے ہوں گے.وہ اسلام پر ایمان بھی لائیں گے اور اسلام پر عمل کر کے بھی دکھائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں
خطبات طاہر جلد۵ اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.714 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء یہ باتیں بظاہر ایسی ہیں جو ہر آدمی سن کر قبول کر سکتا ہے.ہر احمدی کے لئے ان باتوں کوسن کر ان پر عمل کرنا بظاہر مشکل نہیں ہے، معمولی بات دکھائی دیتی ہے مگر میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ یہ بہت محنت کا کام ہے.صبر کا مضمون اس طرف متوجہ کر رہا ہے کہ میرے ایک خطبے سے یہ مقصد حاصل نہیں ہوگا میرے دس خطبوں سے بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا.ہزار ہا نصیحت کرنے والے آپ پر آکر نصیحت کا رنگ چڑھاتے چلے جائیں تب بھی یہ مقصد حاصل نہیں ہوسکتا.اس کے لئے ہر دل کے اندر ایک غیر معمولی تبدیلی کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور یہ توفیق دل کی سچائی سے نصیب ہوتی ہے کسی بیرونی سچائی کو سننے سے نصیب نہیں ہوا کرتی ، اس بات کو یا درکھیں.کئی سال ہو گئے مجھے عائلی زندگی کے امن کے او پر مختلف رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے.بعض جگہ نیک اثر بھی پیدا ہوئے ہیں لیکن آج بھی میں کم سے کم خدا کی قسم کھا کر دنیا میں یہ اعلان نہیں کر سکتا کہ احمدی گھر آج جنت کا نمونہ بن چکے ہیں.میں کسی ایک ملک میں بھی یہ اعلان نہیں کر سکتا، نہ پاکستان میں کر سکتا ہوں ، نہ ہندوستان میں کر سکتا ہوں ، نہ انگلستان میں کر سکتا ہوں نہ چین یا جاپان یا جرمنی میں کرسکتا ہوں کیونکہ روزانہ مجھے کثرت کے ساتھ ایسے خطوط موصول ہوتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ یا مرد عورت کے مظالم کا شکار ہے.یا عورت مرد کے مظالم کا شکار ہے ، یا مرد کسی دوسرے مرد کے مظالم کا شکار ہے یا عورت کسی دوسری عورت کے مظالم کا شکار ہے.پس منہ سے کہہ دینا کہ ہاں عائلی امن ہمیں نصیب ہوگا تو دنیا میں ہم امن پیدا کر دیں گے.ہم دنیا پر اسلام کی برتری ثابت کر دیں گے آسان کام نہیں ہے لیکن جتنی محنت یہ کام چاہتا ہے اس محنت کا نقشہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوا بالصبر میں صبر کے حصے نے ہمارے سامنے کھول دیا ہے.بڑے صبر کی ضرورت ہے مجھے بھی صبر کی ضرورت ہے کہ میں جو نصیحت کروں وہ کرتا جاؤں اور نہ تھکوں اور نہ مایوس ہوں اور آپ کو بھی صبر کی ضرورت ہے کہ اپنی کوششوں میں صبر اختیار کریں ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہیں اور اگر آپ کے گھروں میں بدامنی کے آثار پائے جاتے ہیں تو چین سے نہ بیٹھیں جب تک اس بدامنی کے آثار کو زائل نہ کر لیں، ان کو ملیا میٹ نہ کر دیں.آپ نے اسلام کی وہ جنت جو اسلام دنیا میں بنانے کا دعویٰ کرتا ہے پہلے اپنے گھروں میں بنا کر دکھانی ہے.اگر
715 خطبه جمعه ۲۴/اکتوبر ۱۹۸۶ء خطبات طاہر جلد ۵ یہ جنت آپ کے گھروں کو نصیب نہ ہوئی تو یقیناً دنیا کو آپ سے کسی قسم کی جنت کی امید رکھنا ایک امید باطل کا قصہ ہوگا، ایک موہوم خیال ہوگا.دنیا پاگل ہوگی اگر آپ سے امن کی توقع رکھے اگر آپ نے خود اپنے گھروں کو امن عطا نہیں کیا.اس لئے ایک نہایت ہی اہم بات ہے، ایک ایسا نکتہ ہے جسے سمجھ کر اس پر عمل کرنے کے نتیجہ میں آپ عظیم الشان فتوحات حاصل کر سکتے ہیں.لیکن اسے نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں جس طرح بار ہا آپ نظر انداز کرتے رہے ہیں اور کرتے چلے جارہے ہیں آپ اسی جگہ ڈھونڈتے پھرتے رہیں گے اور ترقی کی وہ نئی راہیں آپ پر نہیں کھلیں گی جن راہوں پر چلنے کے بعد آپ ایک ایسے مقام پر پہنچ کر دنیا کو دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا آپ کو اپنی فتوحات کے قدموں کے دامن میں بچھی ہوئی دکھائی دے.اس لئے دعائیں کریں اور استغفار کریں اور دیانت داری کے ساتھ ان نظریاتی بلند باتوں کو سادہ عام عمل کی دنیا میں اتارنے کی کوشش کریں.جب تک روزمرہ کی زندگی میں یہ باتیں رائج ہوتی دکھائی نہیں دیتیں اس وقت تک اسلام کا یہ دعویٰ کہ وہ دنیا کو امن عطا کر دے گا یہ دعوی سچا ثابت نہیں ہو سکتا.
خطبات طاہر جلد۵ 717 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء تحریک جدید کے سال نو کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء بمقام ہالینڈ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اور پھر فرمایا: (التوبة : ۱۱۱) قرآن کریم یہ اعلان فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں.کس قیمت پر ؟ فرمایا اس قیمت پر کہ اللہ تعالیٰ ان سے جنت کا وعدہ فرماتا ہے.آج جماعت احمدیہ کا نظام خواہ مرکزی انجمنیں ہوں یا ذیلی تنظیمیں ،تمام کا تمام اس آیت کریمہ کا مصداق نظر آتا ہے.صدر انجمن میں بھی اور تحریک جدید میں بھی اور وقف جدید میں بھی اور انصار اللہ میں بھی ، خدام الاحمدیہ اور لجنات میں بھی ، اطفال میں بھی اور ناصرات میں بھی جانیں پیش کرنا اور وقت کی قربانی پیش کرنا اور اموال پیش کرنا اور اپنی عزیز متاع کو خدا کے حضور قربان کر دینا.ہر رنگ میں بہت ہی حسین منظر کے ساتھ دکھائی دے رہا ہے اور انفرادی طور پر بھی بہت ہی خوبصورت اور دلکش جانی اور مالی قربانی کے واقعات نظر کے سامنے آتے رہتے ہیں اور اجتماعی طور پر جماعت احمدیہ کی ہر تنظیم کی طرف سے بھی ان دونوں پہلوؤں سے مسلسل اللہ تعالیٰ کے فضل سے کا قدم آگے سے آگے بڑھتا چلا جارہا ہے.مگر جہاں تک با قاعدہ وقف زندگی کا تعلق ہے ، تحریک جدید انجمن
خطبات طاہر جلد۵ 718 خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء احمد یہ وقف زندگی کے نظام کی سب سے نمایاں مظہر ہے اور مالی قربانی کے لحاظ سے بھی دوسری تنظیموں سے مقابلہ پیچھے نہیں ہے.آج بفضلہ تعالیٰ 31 را کتوبر کوتحریک جدید کے دور اول کا 52 واں سال ختم ہو رہا ہے اور دفتر دوم کا 32 واں سال ختم ہو رہا ہے اور دفتر سوم کا 21 واں سال ختم ہو رہا ہے اور دفتر چہارم جس کا گذشتہ سال میں نے اعلان کیا تھا اس کا پہلا سال ختم ہو رہا ہے اور دستور کے مطابق جو سابقہ روایات ہیں ان کو ملحوظ رکھتے ہوئے اکتوبر کے آخری جمعہ میں تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے.پس آج میں اس خطبہ کے ذریعہ تحریک جدید کے دفتر اول کے 53 ویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور تحریک جدید کے دفتر دوم کے 33 ویں سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دفتر سوم کے 22 ویں سال کے آغاز کا اعلان اور دفتر چہارم کے دوسرے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.عمومی طور پر جن تنظیموں کے سپر د بعض سالوں کی نگرانی سپرد کی گئی تھی.انہوں نے بفضلہ تعالیٰ بڑی عمدگی کے ساتھ اور بڑی محنت کے ساتھ دوران سال کام کو آگے بڑھایا اور مختلف وقتوں میں مجھے رپورٹیں بھی بھجواتی رہیں.ان کے کام کی تفصیل کا ذکر تو یہاں نہیں کیا جاسکتا لیکن جو نتائج ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ کیا تحریک جدید کے کارکنان جن کا مال سے تعلق ہے اور کیا دیگر تنظیمیں انہوں نے بفضلہ تعالیٰ بڑی تندہی اور جاں فشانی سے سارا سال جو محنت کی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو بہترین پھل لگائے ہیں اور صرف ان کی محنت کا اس میں دخل نہیں.جماعت احمدیہ کو خدا تعالیٰ قربانیوں کے ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے اور قربانیوں کے پھل کا جو وعدہ ہم سے اخروی دنیا میں کیا گیا ہے اس پر کامل یقین پیدا کرنے کے لئے اس دنیا میں بھی کثرت سے جماعت احمدیہ کی قربانیوں کو پھل لگا رہا ہے کہ کسی شک یا وہم کی گنجائش باقی نہیں رہتی.وہ خدا جو اس دنیا میں غیر معمولی طور پر ہماری قربانیوں سے بہت بڑھا کر ایسے پھل عطا کرتا ہے جنہیں ہماری محنت سے کوئی نسبت نہیں ہوتی تو لازما وہی خدا اخروی دنیا میں بھی ہمارے اجر کو ضائع نہیں فرمائے گا بلکہ توقعات سے لامتناہی طور پر زیادہ اجر حسنہ فرمائے گا.تحریک جدید کے جو کوائف اس وقت میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ان میں سے جو اس وقت میرے سامنے ہیں، چند چن کر رکھوں گا ورنہ بہت تفصیلی کوائف مجھے مہیا کئے گئے ہیں مرکز
خطبات طاہر جلد۵ 719 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء کے مختلف دفاتر کی طرف سے ان سب کو پڑھنے کا نہ یہاں وقت ہے نہ عموماً دوست کوائف کی زبان کو پوری اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.نتیجہ اگر وہ کوائف پڑھنے شروع کر دیئے جائیں تو سننے والوں کو نیند آنی شروع ہو جاتی ہے اور کوائف پڑھ کر سنانے کا مقصد یہ نہیں کہ نیند آ جائے بلکہ یہ مقصد ہوا کرتا ہے کہ جاگیں اور ہوشیار ہوں اور سمجھیں کہ کیا وہ کر چکے ہیں اور آئندہ انہیں کیا کرنا ہے.اس لئے میری کوشش یہی ہوگی کہ چیدہ چیدہ ایسے کوائف آپ کے سامنے رکھوں جو سلانے کی بجائے جگانے کا کام دیں.سال گذشتہ 51 واں سال ، جو موجودہ سال گزر رہا ہے آج اس سے پہلے کا سال تھا.اس میں کل وعدہ جات پاکستان کی طرف سے 44,20,000 روپے کے موصول ہوئے تھے اور 52 ویں سال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بڑھ کہ 55,64,000 روپے کے وعدے بن گئے گویا فیصد اضافہ 26 فیصد ہوا.پاکستان کے موجودہ حالات میں جماعت جس قسم کی مشکلات کا شکار ہے اس میں اقتصادی مشکلات بھی بہت نمایاں طور پر کر سامنے آرہی ہیں.بے وجہ احمدی ہونے کے جرم میں نوکریوں سے نکالے جانا ، با وجود اول حق رکھنے کے نوکریاں نہ دلوانا ، تجارتوں میں نقصانات اور دیگر کئی قسم کی مخالفانہ کوششیں جو اقتصادیات پر برا اثر ڈالتی ہیں مثلاً بعض دکانوں کے بائیکاٹ بعض تجارتوں کے بائیکاٹ ان سب باتوں کے باوجود مسلسل خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ پاکستان کی قربانی کا قدم آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے اور ایک ہی سال میں 26 فیصد اضافے کے ساتھ وعدہ جات پیش کرنا خدا تعالیٰ کے خاص فضل کے بغیر ممکن نہیں.وصولی کی رفتار کے متعلق بھی وہاں کی اطلاع یہی ہے کہ ہم امید یہ رکھ رہے ہیں کہ انشاء اللہ جب سب کو ائف اکٹھے ہو جائیں گے کیونکہ آخری دن تک سب جماعتوں کی طرف سے اطلاعیں نہیں ملا کرتیں.تو ان کی توقع یہ ہے کہ وعدوں سے بھی انشاء اللہ وصولی آگے بڑھ جائے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ امید لگا رہے ہیں گزشتہ سال کی تدریجی آمد سے موازنہ کر کے کہ اگر چہ وعدے تو پچپن لاکھ کچھ کے ہیں لیکن توقع یہی ہے کہ وصولی انشاءاللہ ساٹھ لاکھ تک پہنچ جائے گی.وعدوں میں جن جماعتوں نے نمایاں قربانی کا نمونہ دکھایا ہے اور خدا کے فضل سے بہت نمایاں طور پر آگے قدم بڑھایا ہے ان میں کراچی، ملتان، ساہیوال، پشاور اور راولپنڈی اور بہاولنگر کا
خطبات طاہر جلد۵ نام خاص طور پر قابل ذکر ہے.720 خطبه جمعه ۳۱ اکتوبر ۱۹۸۶ء آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ سال سے میں اس بات پر زور دے رہا ہوں کہ وہ بزرگ جنہوں نے دفتر اول کی بنیاد ڈالی تھی یعنی تحریک جدید کے پہلے سال میں جو تحریک جدید میں شامل ہوئے تھے ان کی قربانیوں کا ہی یہ پھل ہے کہ آج ساری دنیا میں جماعت احمدیہ کی اتنی غیر معمولی ترقی ہو رہی ہے.اور سو سے زائد ممالک میں جماعت احمد یہ قائم ہو چکی ہے.اس لئے ان کے کھاتوں کو تو ہمیں بہر حال زندہ رکھنا چاہئے اور ان کی یاد کو دعاؤں کی خاطر قیامت تک آگے بڑھاتے جانا چاہئے.ہر نسل ان کو یاد رکھے اور آنے والی نسلیں ان کے لئے دعائیں کرتی رہیں اور ان پر سلام بھیجتی رہیں کہ ان کی ابتدائی قربانیوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا میں اسلام کے غلبہ کی داغ بیل ڈالی.چنانچہ اس دفعہ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین سال میں بفضلہ تعالیٰ 1150 کھاتے بحال ہو چکے ہیں اور گزشتہ سال کے دوران 337 کھاتے بحال ہوئے.مشکل یہ ہے کہ بہت سے بزرگ ایسے ہیں جنہیں فوت ہوئے 30-40 سال بھی ہو چکے ہیں اور ان کی اولادوں کا پتہ نہیں لگ رہا کہ وہ کہاں چلی گئیں ، کس ملک میں جا کر سیٹل ہو گئیں اور جب پتہ ہی نہیں ہے تو کس کو لکھیں کہ وہ اپنے بزرگ باپ دادا کے کھاتوں کو زندہ کریں اسلئے میں نے ان سے یہ کہا تھا کہ آپ ان اسماء کی فہرست شائع کریں، کتاب شائع کریں اور کثرت سے جماعتوں میں بھجوائیں اور آگے امراء تمام جماعت کے احباب کو یہ تاکید کریں کہ وہ نام پڑھیں اپنے پرانے آباؤ اجداد کے نام تلاش کرنے کی خاطر سارے نام پڑھیں اور خصوصاً اگر انکو یاد ہو کہ وہ پرانے کس علاقے سے تعلق رکھتے تھے تو اس علاقے کی جماعت کے کوائف کو خاص طور پر ملحوظ رکھیں اس طرح نظر ڈالنے سے ہوسکتا ہے کہ ان کو یاد آ جائے کہ ہمارے دادا فلاں تھے یا پڑدادا فلاں تھے، انہوں نے تحریک میں حصہ لیا تھا اور ان کی اس نیکی کو زندہ رکھنے کی خاطر اور ان کے احسانات کا بدلہ اتارنے کی خاطر ان کے نام کے کھاتوں کو زندہ کیا جائے.اس سلسلہ میں بیرون پاکستان میں چونکہ انتشار ہے جماعت کا بہت زیادہ انتشار غیر منظم ہونے کے معنوں میں نہیں بلکہ بہت زیادہ پھیلاؤ ہے.اس لئے وہاں پوری توجہ سے اس کام کا تنتبع نہیں کیا گیا اور ایک قابل فکر بات یہ ہے کہ ان ممالک میں جب میں نے نوجوان نسلوں سے پوچھا ہے کہ تمہارے دادا کون تھے یا تم کس ملک کے رہنے والے ہو تو اکثر جواب میں Blank چہرہ نظر
خطبات طاہر جلد۵ 721 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء آیا.ان کے چہرے پر آثار ہی ظاہر نہیں ہوئے پتہ ہی نہیں کہ دادا کون ہے اور کس جگہ سے تعلق رکھنے والے تھے کس خاندان کے تھے ابتدا میں انہوں نے کیا قربانیاں پیش کیں.تو سوالات کا مقصد تو یہی تھا کہ کہ پتہ لگے کہ نئی نسل کو اپنے محسنوں کا پتہ ہے کہ نہیں.ضمناً مجھے خیال آیا کہ جب ان کو پتہ ہی نہیں ہے تو ان بے چاروں نے پرانے کھاتے کیا زندہ کرنے ہیں اس لئے یہ بہت ہی اہم بات ہے کہ اپنی نسلوں کو اپنے خاندان کے بزرگوں کے واقعات بتائیں اور ان کو پوری طرح روشناس کرائیں کہ احمدیت کس طرح ان خاندانوں میں داخل ہوئی کس قسم کی قربانیاں انہوں نے دیں ؟ کیا ان کا مقام اور مرتبہ تھا، اللہ تعالیٰ نے اپنے کیا کیا نشانات ان پر ظاہر فرمائے ، کیسا ان کو جماعت سے عشق تھا.کیسا والہانہ تعلق تھا اور ان کا اثر رسوخ علاقہ میں کیا تھا ، کیسے معزز لوگ تھے وہ.یہ سارے واقعات ایسے ہیں جن کا ذکر عام ہوتے رہنا چاہئے.اگر یہ ذکر چلے گا تو آپ کی اگلی نسلوں کا پہلی نسلوں کے ساتھ گہرا تعلق قائم ہوتا چلا جائے گا اور یہ جو خطرہ درپیش ہے باہر کے رہنے والوں کو کہ ہماری آئندہ آنے والی نسلوں کو یہاں کا معاشرہ ہم سے چھین نہ لے اس کے دفاع کے لئے یہ جو بندھن باندھیں گے آپ ان کے اور اپنے پرانے آباء واجداد کے درمیان یہ بہت ہی مفید کام سر انجام دیں گے.اس لئے یہ بھی کریں اور ان کے دل میں یہ محبت پیدا کریں کہ اپنے ان بزرگوں کے احسانات کا بدلہ اتارنے کی خاطر تلاش کر کے ان کے تحریک جدید کے دور اول کے کھاتوں کو زندہ کریں.میں نے یہ ٹارگٹ دیا تھا تحریک جدید کو کہ دفتر اول کے کھاتوں کو جو زندہ کرنا ہے انہوں نے مطلب یہ ہے کہ وہ تو ہمیشہ کے لئے زندہ ہیں خدا کے فضل سے مگر ان معنوں میں زندہ کہ ان کی طرف سے جو رقمیں دی جانی بند ہوگئی تھیں ، وہ دوبارہ شروع ہو جائیں.اس میں آپ نے اس سال سات لاکھ کا اضافہ کرنا ہے.تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ سات کے بجائے ساڑھے گیارہ لاکھ روپیہ کا اضافہ ہو گیا ہے یعنی ساڑھے گیارہ لاکھ روپیہ وہ ہے جو سارے کھاتے کا سالہا سال تک بھی نہیں بنا تھا.ٹوٹل کا ٹوٹل دفتر اول بھی بہت دیر کے گیارہ لاکھ کی حد کو پہنچا تھا اور اب ایک سال میں ان کے نام پر اضافہ کرنے والے اللہ کے فضل سے قربانی کا جو مظاہرہ کر رہے ہیں وہ ایک سال میں گیارہ لاکھ سے اوپر ان کی طرف سے دیا جا چکا ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 722 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء ایک اور بات کی طرف میں نے خصوصی توجہ دلائی تھی کہ جماعت احمدیہ کو ہمیشہ اس عہد کے دونوں پہلو لوظ رکھنے چاہیں.اللہ تعالیٰ جب یہ فرماتا ہے اِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ نْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ صرف اموال خرید نے کا اعلان نہیں فرمایا اللہ تعالیٰ نے جانیں خریدنے کا بھی اعلان فرمایا ہے.اس لئے وقف میں بھی آگے بڑھیں اور مالی قربانیاں کرنے والوں کی تعداد بھی بڑھائیں.صرف مالی قربانی کا معیار ہی اونچانہ کریں بلکہ تعداد بڑھائیں.آئندہ نسلوں میں سے جن کو بھی آپ براہ راست تحریک جدید میں شامل کر دیتے ہیں یا کسی اور جماعتی چندے میں وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ جاتی ہیں ، خدا کی حفاظت کے نیچے آجاتی ہیں اور الا ماشاء اللہ شاذ کے طور پر کبھی ہو تو ہو ورنہ چندہ دینے والا احمدی ضائع نہیں جاتا.اس کے اخلاص میں خدا تعالیٰ ترقی دیتا رہتا ہے اس کو اپنے فضل کے نمونے دکھاتا رہتا ہے ، مشکلات میں اس کی مدد فرماتا ہے.اس لئے براہ راست اس کا تعلق قائم ہو جاتا ہے.اس لئے اپنی آئندہ نسلوں پر احسان کے طور پر اور اپنے فرض کی ادائیگی کے طور پر ان کو براہ راست تحریک میں شامل کرنا چاہئے.چنانچہ میں نے تحریک جدید کو یہ ہدایت دی کہ آپ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ کے لئے بھی اسی طرح توجہ سے کوشش کریں جس طرح آپ کل آمد میں اضافے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک سال کے لئے ان کو چودہ ہزار مجاہدین بڑھانے کا ٹارگٹ دیا تھا اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ، اگر یہ چودہ ہزار بڑھاتے تو ساٹھ ہزار تک تعداد پہنچ جانی تھی.اب ان کی طرف سے اطلاع ملی ہے کہ ساٹھ کے بجائے چھیاسٹھ ہزار تعداد ہو چکی ہے اور خدا کے فضل سے جو میں نے ان کو ٹارگٹ دیا تھا اس سے بھی چھ ہزار زائد نئے مجاہدین اس سال تحریک جدید کے مالی نظام میں شامل ہو گئے ہیں.دفتر چہارم میں جس کا اعلان گزشتہ سال کیا تھا ایک ہی سال میں اب تک 12150 نئے معاونین اب تک شامل ہوئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ جو بالکل چھوٹی نسل کے بچے ہیں یہ وہی آئے ہوں گے بیچ میں یا نوجوان جو پہلے رہ گئے تھے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے تحریک جدید کے ذریعہ جماعت کی آئندہ نسلوں کی حفاظت کا انتظام بھی ساتھ ساتھ جاری ہے.بیرون پاکستان کی شکل یہ بنتی ہے کہ کچھ تو حصے بیان کئے ہیں میں نے ٹارگٹ بڑھانے کے ان میں بیرون پاکستان شامل ہے لیکن مالی لحاظ سے جو میں نے کوائف پیش کئے تھے وہ صرف
خطبات طاہر جلد۵ 723 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء پاکستان کے تھے.سال گزشتہ یعنی جو 51 واں سال تھا اس میں اسوقت وعدے 76,28,740 روپے کے تھے اور سال رواں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ وعدے بڑھ کر 1,00,54,050 روپے ہو چکے ہیں.یہ تعداد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چہ غیر معمولی اضافے پر دکھائی دیتا ہے یعنی 31 فیصد کا لیکن بعض ایسے اعداد وشمار ہیں اس ضمن میں جو صحیح صورت حال پیش نہیں کر سکتے.مثلاً افریقہ میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے لیکن اس اضافے کے ساتھ ہی ان کے روپے کی قیمت اتنی گری ہے اس تیزی کے ساتھ کہ جو اضا فہ تھا وہ مدغم ہوگیا.چونکہ ہم نے اس کو پاکستانی روپوں میں تبدیل کیا ہے اس لئے ان کے اضافہ کی مثال ایسی ہے جیسے آپ نہر کے مخالف تیرنے کی کوشش کریں ، جتنا مرضی زور لگا ئیں اکثر اوقات تو آپ بجائے آگے بڑھنے کے پیچھے جاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں.اس لئے ان کے اضافہ کی قدر اس طرح آپ کے سامنے آئے گی کہ جس تیزی کے ساتھ روپے کی قیمت گری تھی اس سے کئی گنا تیزی سے وہ آگے بڑھے ہیں اور قیمت گرنے کے باوجود بھی وہ آگے نکل گئے ہیں لیکن اگر پچھلے سال کی قیمت شمار کی جاتی تو اضافہ میں 48لاکھ روپیہ مزید جمع ہو جاتا.اس کے برعکس یوروپین کرنسیز میں بعض کی قیمت بڑھی ہے اور اس لحاظ سے کچھ اضافہ ایسا نظر آتا ہے یوروپین تحریک جدید کے کوائف میں جو حقیقی اس طرح نہیں ہے بلکہ مثلاً اگر ہزار پونڈ ہے تو پہلے اگر ہزار پونڈ کے انہوں نے روپے بنائے تھے 22 ہزار اب 26 ہزار بنائے ہیں.اس لئے اگر اضافہ نہ بھی ہو تب بھی وہ اضافہ نظر آئے گا.اس لئے انہوں نے یہ وضاحت کی ہے تحریک جدید نے کہ ہم اس اضافہ کو شمار نہیں کرتے.تب بھی خدا کے فضل سے مغربی ممالک کی قربانی میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور دونوں کو ملا کر یعنی ان کے اموال کے نقصان کو ملا کر اور یہاں کی بڑھوتی کو نظر انداز کر کے جو حقیقی اضافہ ہے وہ ایک سال میں 63 فیصد بنتا ہے.تو اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے غیر معمولی قربانی کا مظاہرہ کر رہی ہیں بیرونی جماعتیں اور اس میں بھی پاکستان کے حالات کا براہ راست دخل ہے یعنی جتنے دنیا کے ملاں ہیں وہ سارے مل جائیں اور جماعت احمدیہ کو تباہ کرنے کی کوشش کریں.آپ کو خدا یہ یقین دلا رہا ہے کہ ہر کوشش کے نتیجہ میں آپ آگے بڑھیں گے اور آگے بڑھیں گے اور آگے بڑھتے چلے جائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.وصولی کی رفتار میں بھی بیرونی ممالک میں حیرت انگیز طور پر اضافہ ہوا ہے یعنی گزشتہ سال
خطبات طاہر جلد۵ 724 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء 15 اکتوبر تک کی وصولی -/39,46,000 روپے تھی اور امسال 15 اکتوبر تک کی وصولی -/63,86,000 روپے ہو چکی تھی.تو خدا کے فضل سے وصولی کے لحاظ سے بھی جماعت ہائے بیرون غیر معمولی تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہیں.وعدوں میں جو نمایاں اضافہ کرنے والی بیرونی جماعتیں ہیں ان میں جرمنی صف اول میں ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے.وہاں نوجوان اگر چہ زیادہ تعلیم یافتہ نہیں اور کئی لحاظ سے بعض کمزوریاں بھی پائی جاتی ہیں مگر عمومی طور پر بہت ہی مستعد اور مخلص اور فدائیت کا جذبہ رکھنے والے نوجوان ہیں اور اکثر جماعت جوانوں ہی پر مشتمل ہے اور ان میں قربانی کا مادہ بڑا نمایاں ہے.چنانچہ مالی لحاظ سے بھی وہ حالانکہ بہت سے ایسے بھی ہیں جو آج کل غریب Lodgers میں رہ رہے ہیں بہت معمولی گزارے ان کو ملتے ہیں اتنے کہ بمشکل زندہ رہ سکیں.اس سے بھی بچا بچا کر وہ مالی قربانی میں بڑا نمایاں حصہ لے رہے ہیں.نمبر دو پر کینیڈا کی جماعت ہے جو گزشتہ چند سال سے مسلسل جاگ رہی ہے.وہ بھی اللہ کے فضل سے آگے بڑھ کر نمایاں ترقی کرنے والی جماعتوں میں شامل ہو گئی ہے.تیسرے نمبر پر ہالینڈ ہے.ہالینڈ بھی مالی قربانی کے لحاظ سے تعداد کم ہونے کی وجہ سے بہت ہی پیچھے تھا لیکن اب گزشتہ چند سال سے بڑی تیزی سے بیدار ہو رہا ہے کچھ تعداد بھی بڑھ رہی ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ مالی قربانی کا معیار کا بڑھنا زیادہ ذمہ دار ہے اس علاقے میں.برطانیہ کی جماعت بڑی Steady یعنی مستقبل مزاج اور ترقی کی رفتار بھی ان کی بڑی متوازن ہے اللہ کے فضل سے.اس لئے ان کا جو غیر معمولی اضافہ ہے وہ اتنا دکھائی نہیں دے گا.اضافہ ان کا با قاعدہ ہو رہا ہے.لیکن چونکہ شروع ہی سے اچھی حالت ہے اللہ کے فضل سے اس لئے ان کا اضافہ اتنا نمایاں دکھائی نہیں دیتا، وہ چوتھے نمبر پر ہے.امریکہ پانچویں نمبر پر ہے.غانا چھٹے نمبر اور پھر آئیوری کوسٹ ، یوگنڈا ، تنزانیہ، کینیا، ملائیشیا وغیرہ یہ ساری وہ جماعتیں ہیں جنہوں نے اسی ترتیب سے اس سال قربانیوں کو آگے بڑھانے میں غیر معمولی رفتار دکھائی ہے.امسال میں نے جو ٹارگٹ ان کو دیا تھا، تحریک جدید کو وہ یہ تھا کہ سال کے آخر تک ایک کروڑ روپیہ آپ نے پہنچا دینا ہے بیرون پاکستان کا تو ان کی طرف سے خوشکن اطلاع ملی ہے کہ سارے نقصانات کو نظر انداز بھی کر دیا جائے جو کرنسی گرنے سے پیدا ہوا ہے تو اس کے باوجود
خطبات طاہر جلد۵ 725 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء -/1,00,54050 روپے تک وعدے خدا تعالیٰ کے فضل سے پہنچ چکے ہیں اور 85ء کے ریٹ لگائیں جائیں، گزشتہ سال کے ریٹ لگائے جائیں اور مغرب کے وہ کم کر دیئے جائیں اور افریقہ کے ریٹس گزشتہ سال کی طرح بڑھا دیئے جائیں تو پھر 1,24,00,000 (ایک کروڑ چومیں لاکھ روپے کی رقم بنے گی.اب اس کا میں خلاصہ آپ کو سنا دوں ایک اور پہلو سے.انہوں نے لکھا ہے کہ خلافت رابعہ کے دوران چار سال میں جس طرح غیر معمولی طور پر دشمن کی مخالفت بڑھی ہے اسی طرح غیر معمولی طور پر جماعت کے اندر مالی قربانی کا جذبہ بڑھا ہے اور یہ مالی قربانی مظہر ہے اخلاص کے اضافے کی اور ایمان کی اضافے کی.آج کل کی دنیا میں جو مادہ پرست دنیا ہے، اس میں آسانی کے ساتھ پیسہ چھوڑتا کون ہے.اندرونی دباؤ بڑھتا ہے یعنی اخلاص کا اندرونی دباؤ بڑھتا ہے تو انسان کا بے اختیار اس کی کمائی کا پیسہ اچھل اچھل کر باہر آتا ہے خدا کے رستہ میں قربان ہونے کے لئے.تو جب ہم روپے کی بات کرتے ہیں تو اصل جو پیش نظر بات ہے وہ یہ رکھنی چاہئے کہ دشمن نے آپ کے ایمان پر حملہ کیا تھا اور بڑی شدت کے ساتھ حملہ کیا تھا.بہت کم تاریخ میں اس طرح مستعدی کے ساتھ حکومت کی پشت پناہی کے ساتھ کسی چھوٹی سی جماعت کے اخلاص اور ایمان پر حملہ ہوا ہوگا اور اس حملے کے جواب میں اخلاص اور ایمان کے دوسرے پیمانے جو ہیں ان کا ذکر تو میں کرتا رہتا ہوں کہ کس طرح نت نے نمازوں میں ترقی کی ، عبادات الہی کی طرف توجہ پیدا ہوئی ، اپنے اخلاق میں ترقی کی، اپنے معاشرہ کو زیادہ درست کرنے کی کوشش کی، اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے پیار میں غیر معمولی طور پر آگے بڑھی.ان سب کو جانچنے کا ایک پیمانہ مالی قربانی ہے.تو مالی قربانی کے لحاظ سے آپ یہ دیکھ لیجئے کہ 83-1982 میں خلافت رابعہ کے آغاز پر پاکستان میں کل وعدے 28,35,000 (اٹھائیس لاکھ پینتیس ہزار روپے کے تھے اور 1985-86 میں بڑھ کر 55,65,000 ( پچپن لاکھ پینسٹھ ہزار روپے ہو گئے یعنی اس چار سالہ ابتلا کے دور میں مالی قربانی دگنی ہوگئی ہے پاکستان کی.اور جہاں تک بیرون پاکستان کا تعلق ہے اس کے کوائف یہ ہیں کہ 83-1982 میں گیارہ لاکھ روپے کا وعدہ تھا ساری دنیا میں تحریک جدید کا اور 86-1985 میں ایک کروڑ چون ہزار کا ہو چکا ہے.یعنی دس گنا رفتار آگے بڑھ گئی ، حیرت انگیز
خطبات طاہر جلد۵ 726 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء ہے.اللہ تعالیٰ کے احسانات کا جتنا بھی ہم شکر ادا کریں کم ہے، ادا ہو ہی نہیں سکتا.چار سال کے اندر دس گنا رفتار کے ساتھ بیرون پاکستان جماعتوں نے مالی قربانی کا مظاہرہ کیا ہے اور یہ مالی قربانی کل مالی قربانی کا ایک عشر عشیر بھی نہیں ہے.تحریک جدید کا جو چندہ ایک کروڑ روپے کا ہے اس سے کئی گنا زیادہ بیرون پاکستان جماعتیں دوسرے چندوں میں آگے بڑھ چکی ہیں اور اپنے لازمی چندوں میں بھی اور چندہ عام میں بھی وصیت کے چندوں میں بھی ، اور جو بھی تحریک کی جاتی ہیں اس میں خدا کے فضل سے اس طرح حیرت انگیز طور پر جماعت اپنا سب کچھ پیش کرنے پر آمادہ ہو جاتی ہے کہ وہ لوگ جو نہیں دے سکتے ان کے درد ناک خطوط ملتے ہیں، بے حد تڑپتے ہیں.اس سے پتہ چلتا ہے کہ صرف روپے کا سوال نہیں ہے.اخلاص کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے.جماعت کے ساتھ محبت اور عشق کا معیار اتنا بڑھ گیا ہے کہ جو دے سکتے ہیں وہ تو اپنے دل کو ٹھنڈے کر لیتے ہیں، جو نہیں دے سکتے وہ تڑپتے ہیں اور بے قرار ہوتے ہیں کاش ہمیں بھی توفیق ملے اور مسلسل ملاقاتوں کے دوران بھی اور خطوط کے ذریعے بھی بعض لوگ اس درد کا اظہار کرتے ہیں اور خطوں سے بھی ان کی سچائی ظاہر ہو جاتی ہے.ملاقاتوں کے وقت تو چہرے بتا دیتے ہیں کہ کس حد تک ان کو بے قراری ہے کہ ہماری یہی خواہش ہے ہماری یہی تمنا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دے اور ہم خدا کی خاطر قربان کریں.وقف کے لئے جماعت احمدیہ میں اب دوبارہ پھر غیر معمولی توجہ پیدا ہوگئی ہے.نہ صرف یہ کہ وقف کی جو دوسری عام صورت ہے یعنی اپنے وقت کو جماعت کے لئے زیادہ پیش کرنا اس میں غیر معمولی اضافہ دکھائی دے رہا ہے.طوعی کارکنان بڑے زور کے ساتھ ، بڑے جذبے کے ساتھ آگے آرہے ہیں ، ہر قسم کے وقف کا جب بھی ان سے مطالبہ کیا جاتا ہے وہ خوشی سے پیش کرتے ہیں لیکن اس کے علاوہ مستقل وقف زندگی کی خواہش بھی دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو بچے نئے پیدا ہوتے ہیں بعض دفعہ مائیں اور بعض دفعہ باپ بڑی محبت اور شوق سے یہ کہتے ہیں کہ ہم نے یہ منت مانی ہوئی تھی کہ بچہ ہو گا تو ہم پیش کر دیں گے.ایک ماں نے اس دفعہ جرمنی میں ایک چھوٹی بچی دکھائی کہ میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ بیٹا ہو یا بیٹی میں نے جماعت کو دینا ہے، تو یہ بیٹی آپ کی ہے اور اس قدر خوشی ہوتی ہے ان کے چہروں پر اس بات سے اور اتنا خدا کا شکر ان کی
خطبات طاہر جلد۵ 727 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء آنکھوں سے، ان کے چہروں کے آثار سے برستا ہے کہ صاف پتہ چلتا ہے کہ جماعت احمد یہ ہی آج وہ جماعت ہے جو قرآن کریم کی اس آیت کی مصداق ہے إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ كه يقينا اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں بھی خرید لی ہیں اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں اس وعدے پر کہ یقیناً ان کے لئے جنت ہوگی.پس وہ جنت تو بعد میں آئے گی اس دنیا میں خدا ہمیں روحانی قربانیوں کی لذتوں کی جنت عطا کرتا چلا جارہا ہے جو روحانی قربانیوں میں شامل ہو گئے ہیں ان کا معیار پہلے سے ہر لحاظ سے بڑھ رہا ہے اور جو زندگی کا سکون ان کو ملا ہے، جو طمانیت نصیب ہوئی ہے، جن لذتوں میں اب وہ وقت گزار رہے ہیں اس سے پہلے کی حالت کے ساتھ اس کا کوئی موازنہ ہی نہیں کیا جاسکتا.مالی قربانی میں اگر کوئی تکلیف ہوتی یا جانی قربانی میں اگر کوئی دکھ پہنچتا تو ایک دفعہ تجربہ کرنے کے بعد جماعت کو پیچھے ہٹ جانا چاہئے تھا.جو لوگ آگے بڑھتے وہ اگلی دفعہ تو بہ کرتے اور کہتے کہ بس ہو گیا جو ہم سے ہونا تھا اب آئندہ ہم سے یہ توقع نہ رکھیں.ایک سال بڑی مشکل سے گزارہ کر لیا.اس کے برعکس اگلے سال پہلے سے بڑھ کر اور اس سے اگلے سال اس سے بڑھ کر وہ دونوں قسم کی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں اور پھر یہ دعائیں کرواتے ہیں کہ خدایا ہمیں اور تو فیق عطادے ،ابھی ہمارے دل کی حسرت پوری نہیں ہوئی.پس یہ عجیب قسم کا پانی ہے جو سمندر کے پانی کا سامزاج بھی رکھتا ہے اور اس کے برعکس نتیجے بھی پیدا کرتا ہے.دنیا میں اس پانی کی مثال نہیں ملتی.سمندر کا پانی پیاس بڑھانے میں مشہور ہے.پیاسا جتنا بھی اس کو پٹے پیاس بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن ساتھ ہی وہ ایک آگ بھی لگا تا چلا جاتا ہے، بے چینی اور بے قراری بھی بڑھاتا چلا جاتا ہے.مگر خدا کی راہ میں قربانیوں کا پانی ایک عجیب پانی ہے کہ جتنا آپ اسے پیتے چلے جاتے ہیں پیاس تو آپ کی بڑھتی چلی جاتی ہے مگر بے چینی کم ہوتی چلی جاتی ہے، بے قراری کم ہوتی چلی جاتی ہے اور لذت اور طمانیت اور سکینت بڑھتی چلی جاتی ہے.پس یہ عجیب پیاس ہے جس کی کوئی مثال نہیں اور یہ عجیب پانی ہے جس جیسا کوئی پانی دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا.پس اللہ کے فضل کے ساتھ اس آب حیات کو پیتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا کے ان وعدوں پر یقین رکھو کہ تم ہی ہو جنہوں نے اس ساری کائنات کا نقشہ بدلنا ہے اور تمہارے سوا اور کوئی نہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 728 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: میں نے بار ہا یہ تاکید کی ہے کہ جن ملکوں میں ہم رہتے ہیں اگر مقرران کی زبان جانتا ہے تو خواہ ٹوٹی پھوٹی ہی ہوا سے وہی زبان استعمال کرنی چاہئے.اور مبلغین کو خصوصیت کے ساتھ مقامی ملکوں کی زبان استعمال کرنی چاہئے اور اگر ان کو ابھی نہیں آتی اور اتنی بھی نہیں آتی کہ وہ اس میں مافی الضمیر بالکل ادا ہی نہیں کر سکتے تو جب تک خدا ان کو اس کی توفیق نہیں بخشتا ان کے خطبات کا ترجمہ ساتھ ساتھ ضرور کروانا چاہئے.میں نے اپنے خطبات کے متعلق بھی بارہا تاکید کی ہے کہ جس جماعت میں میں جاؤں وہاں مقامی باشندوں کا حق ہے کہ ساتھ ساتھ ان کے لئے اس کا ترجمہ ہو لیکن معلوم ہوتا ہے کہ مقامی جماعت سے یہ فروگزاشت ہوتی ہے.آج یہاں ترجمہ کا کوئی انتظام نہیں تھا اور یہ بہت ہی افسوسناک بات ہے کہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہوں وہاں اس زبان کے ترجمہ کا کوئی انتظام نہ ہو.دوسری بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اب اگر فوری طور پر ترجمہ کر کے کیسٹ کی صورت میں ان کو مہیا کر دیا جائے تو اس سے کسی حد تک انشاء اللہ تشنگی کم ہو جائے گی.لیکن آئندہ یا درکھیں کہ ہر قیمت پر اس کا ڈچ زبان میں ترجمہ ضروری ہے اور جماعت کے فارمل جلسوں میں یعنی با قاعدہ جو جلسے ہوتے ہیں ان میں بھی جب بھی آپ کو مجبوراً اردو استعمال کرنی پڑے تو لازماً اس کا ڈچ زبان میں ترجمہ کریں.اور نئے آنے والے احمدی نوجوان جو ڈچ نہیں جانتے ان کے فائدہ کی خاطر اردو میں بھی ڈچ سے ترجمہ کریں تو یہ بھی بہت اچھی بات ہوگی لیکن زیادہ ضروری امر یہ ہے کہ ڈچ زبان پرزور دیں جماعتی کاروائیاں ڈچ زبان میں کریں تا کہ ڈچ نواحمدیوں کو ہرگز یہ شکوہ پیدا نہ ہو کہ ہمارے ملک میں رہ کر کوئی اور زبان استعمال کرتے ہیں.اب دو نماز جنازہ غائب کا اعلان کرتا ہوں.ایک حافظ عبدالغفور صاحب جو پرانے زمانہ میں کسی وقت جاپان میں مبلغ کے طور پر گئے تھے، مولوی ابوالعطا صاحب جالندھری مرحوم و مغفور کے چھوٹے بھائی تھے ، 13 اکتوبر کو وفات پاگئے ہیں.عطاء المجیب راشد صاحب کی طرف سے درخواست ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے.دوسری نماز جنازہ غائب ہالینڈ کے ہمارے ایک مخلص دوست مسٹر عبداللطیف دی
خطبات طاہر جلد۵ 729 خطبه جمعه ۳۱ را کتوبر ۱۹۸۶ء لیون (De Lyon) کی ہے جو نہایت سعید فطرت انسان تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی طور پر حق کو قبول کرنے کی توفیق بخشی.یہ ہالینڈ کی نیوی میں ریر ایڈمرل تھے جو بہت بڑا مقام ہوتا ہے چونکہ بڑی سعید فطرت رکھتے تھے اس لئے دو سال قبل خدا تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی طور پر احمدیت میں داخل ہونے کی توفیق بخشی.اس کے بعد جماعت کے اجتماعات اور جمعوں میں شامل ہوتے رہے.مالی قربانیوں میں بھی آگے بڑھے.باقاعدہ سنجیدگی کے ساتھ اور پوری وفا کے ساتھ انہوں نے احمدیت کے ساتھ آخری دم تک تعلق قائم رکھا.تو ان کے متعلق امیر صاحب نے بتایا ہے، بہت ہی خوشی ہوئی میں ان سے مل چکا ہوں.گزشتہ سال کی بات ہے جب میں یہاں آیا تھا اسوقت یہ بڑا المبا سفر کر کے ٹیکسی کروا کے یہاں پہنچے تھے ملاقات کی خاطر بھی اور جمعہ میں شامل ہونے کے لئے بھی.بہت شریف النفس انسان تھے اللہ تعالیٰ ان کو اعلیٰ علیین میں جگہ عطا فرمائے.جب انہوں نے احمدیت قبول کی تو میں نے امیر صاحب سے کہا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہالینڈ میں سعید روحوں پر نظر رکھ رہا ہے اور بھی بہت سی سعید روحیں ہیں جن پر آپ نظر نہیں رکھ رہے.اس سے پہلے ایک دوست تھے جو کینسر کے مریض تھے ان کو بھی خدا تعالیٰ نے وفات سے چند سال پہلے جماعت میں شامل ہونے کی توفیق بخشی اور پھر غیر معمولی طور پر انہوں نے قربانی میں بھی قدم آگے بڑھایا بہت ہی مخلص اور اللہ تعالیٰ کی یا درکھنے والے انسان تھے.یہاں بہت سی سعید روحیں ہیں.اس کا اندازہ مجھے اس سے بھی ہوتا ہے کہ ہالینڈ میں جو احمدی ہوئے ہیں وہ سارے کے سارے سنجیدہ ہیں اور اخلاص اور قربانی کے لحاظ سے ایک بلند مقام رکھتے ہیں.ایسا آدمی یہاں نہیں آتا جو سرسری طور پر آئے اور بھاگ جائے.اس لئے یوروپین ممالک میں جس طرح جرمن قوم میں بھی سنجیدگی اور اخلاص پایا جاتا ہے.ہالینڈ کی قوم میں بھی مذہب کے معاملہ میں غیر معمولی طور پر سنجیدگی اور اخلاص پایا جاتا ہے.اس لئے ان کی نوجوان نسلوں کو سنبھالیں اور بہت زیادہ توجہ کریں کہ مقامی ہالینڈش احمدیوں کی تعداد ہمیشہ باہر سے آنے والوں سے نمایاں طور پر زیادہ رہنی چاہئے ورنہ وہ Atmosphere جو ہالینڈ کا ہے وہ جماعت میں پیدا نہیں ہونے پائے گا.امید ہے میں نے جو ضمنا بات کی ہے اس پر بھی جماعت توجہ کرے گی.جمعہ اور عصر کی نماز میں دونوں جمع ہوں گی نمازوں کے معا بعد انشاء اللہ یہ دونوں نماز ہائے جنازہ پڑھی جائیں گی.
خطبات طاہر جلد۵ 731 خطبہ جمعہ ۷ نومبر ۱۹۸۶ء عالمی تو حید کو بیدار کرنے کے لئے عالمی تمدن پیدا کریں خودسردار بنیں تا دنیا کی سیادت کرسکیں (خطبہ جمعہ فرموده ۷ نومبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ابھی جرمنی، بیلجیئم اور فرانس کے ایک مختصر دورے سے واپس آیا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ دورہ کئی پہلوؤں سے مفید ثابت ہوا.بہت سے امور کا قریب سے دیکھنے کا موقع ملا.کئی امور خوشی والے تھے، کئی قابل توجہ تھے جو دور بیٹھے نظر نہیں آتے مگر قریب آنے سے، رابطہ سے دوستوں کے ساتھ ملاقاتوں کے نتیجہ میں کئی کئی رستے نئے نئے کھلتے چلے جاتے ہیں.اس لحاظ سے یہ دورے اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی مفید ثابت ہورہے ہیں.جرمنی میں میرا تا ثریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ترقی کے غیر معمولی امکانات پیدا ہو گئے ہیں کیونکہ جہاں تک جماعت کا تعلق ہے اس کا ایک بڑا حصہ نوجوان ہے اور ان کے اندر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جوش پایا جاتا ہے اور قربانی کا بہت مادہ ہے اور اگر ان کو اچھی طرح سنبھال لیا جائے اور یہی زیادہ قابل توجہ بات ہے تو جرمنی کا مستقبل بنانے میں یہ ایک بہت ہی عظیم کردار ادا کر سکتے ہیں.اسی طرح جرمن نوجوان بھی اور جرمن خواتین بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ معیار کے احمدی ہیں بلکہ بعض صورتوں میں تو ان کا معیارا تنا بلند ہے کہ ان کو دیکھ کر بعض پاکستانی احمدی جو باہر سے آئے ہوئے ہوتے ہیں وہ ان کے مقابل پر صف دوم کے احمدی نظر آنے
خطبات طاہر جلد۵ 732 خطبہ جمعہ ۷ نومبر ۱۹۸۶ء لگتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ تشویشناک صورتحال بھی پیدا ہو جاتی ہے.دو جرمن احمدیوں نے ذکر کیا کہ پاکستان سے آنے والے بعض احمدیوں کا رویہ افسوسناک ہے اس کے نتیجہ میں جر من احمدیوں کے لئے ٹھوکر کا سامان پیدا ہوتا ہے.ان امور پر غور کرتے ہوئے کئی امور ایسے ہیں جو میرے سامنے آئے جن کا تعلق عالمی نظام جماعت احمدیہ سے ہے اور اس تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئے میں سمجھتا ہوں کہ ساری دنیا کی جماعتوں کو اس طرف متوجہ کرنا چاہئے.جہاں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مقامی جماعتیں عطا ہو رہی ہیں یعنی ایسی جماعتیں جن میں مقامی دوست اس ملک کے باشندے زیادہ نمایاں تعداد میں نظر آنے لگے ہیں اور نمایاں دلچسپی لینے لگے ہیں ایسی جگہوں میں ہمیں تربیت کی طرف دو طرح سے متوجہ ہونا پڑے گا.اول یہ کہ مجالس عاملہ کو FOLLOW UP GROUP یعنی مبلغین کے پیچھے پیچھے چلنے والا تربیت کا ایک گروپ تیار کرنا چاہئے اور وہ اس بات کے ماہر ہوں اور خصوصیت کے ساتھ ان کے سپرد یہ کام کیا جائے کہ آپ یہ سوچتے رہیں کہ نئے آنے والوں کی تربیت میں کس کس چیز کی ضرورت ہے اور ہر ملک کی ضرورت الگ الگ ہوگی.اس لئے مرکز سے تحریک جدید بھی کوئی معین ہدایت نہیں دے سکتی اور نہ معین طور پر ہر ملک کی ضروریات کی تعیین یہاں بیٹھے کرسکتا ہوں.دورے کے دوران جو چیزیں سامنے آتی ہیں ان کے متعلق تو ہدایات دی جاتی ہیں مگر یہ تو ممکن نہیں ہے کہ انسان لٹو کی طرح ہر وقت تمام دنیا کی جماعتوں میں گھومتار ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے سوسے زائد ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور جماعتوں کی کل تعداد آپ شمار کریں تو عملاً دس سال میں بھی ایک ایک دن کا دورہ پورا نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے زیادہ وقت چاہئے.اس لئے ان معاملات میں مقامی جماعتوں کو اپنی ذمہ داری کو خود ادا کرنا چاہئے اور بالغ نظری کے ساتھ ان معاملات کو سلجھانا چاہئے کیونکہ اگر ابھی ان کی طرف متوجہ نہ ہوئے تو آئندہ زیادہ دقتیں پیش آجائیں گی.میں سب سے زیادہ اہم بات جس کو تمام دنیا کی مجالس عاملہ کو لحوظ رکھنا چاہئے وہ تو حید ہے تو حید خالص کسی آسمان پر بسنے والی چیز کا نام نہیں ہے.خدا جو اسلام پیش کرتا ہے وہ آسمانوں کا بھی خدا ہے اور زمینوں کا بھی خدا ہے.اس سے کائنات کا کوئی حصہ بھی خالی نہیں.وہ نور السموات والارض ہے.اس لئے اس کی توحید کے دائرہ سے کوئی چیز بھی باہر نہیں اور اس کی توحید کے اثر اور نفوذ سے کوئی چیز بھی
خطبات طاہر جلد۵ 733 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء خالی نہیں ہونی چاہئے.اس لئے جماعت احمدیہ جو حقیقی توحید پرست جماعت ہے.اسے بھی تو حید کا منظر پیش کرنا چاہئے اور اگر جماعت احمدیہ نے اس طرف سے غفلت کی اور ایسا ہونے دیا کہ انگلستان کی جماعت ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہو اور افریقہ کی جماعتیں ایک الگ کردار لے کر اٹھ رہی ہوں اور یورپ اور امریکہ کی ، چین اور جاپان کی ، انڈونیشیا اور ملائشیا کی اور اسی طرح دیگر ممالک کی جماعتیں اپنا اپنا ایک الگ کردار بنا رہی ہوں تو تو حید قائم نہیں ہوسکتی.توحید عمل کی دنیا میں دکھائی دینی چاہئے.خدا کے نام پر اکٹھے ہونے والے ایک محمد مصطفی اللہ کے نام پر جمع ہونے والے ایک ہو جانے چاہئیں اور وحدت کا منظر پیش کرنا چاہئے.وحدت کے مناظر مختلف زاویوں سے دیکھے جاتے ہیں.ایک وحدت کا منظر ہے آپس میں ایک ہو جانا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، جغرافیائی تفریقات کو بھلا دینا، رنگ اور نسل کے امتیازات کو فراموش کر دینا اور ایک جان اور ایک وجود ہو جانا.اس پہلو سے بھی وہاں تو حید کو دنیا میں قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے اور یہ محض تلقین سے نہیں ہوسکتی بلکہ با قاعدہ اس سلسلہ میں منصوبہ بندی ہونی چاہئے.اس پہلو پر غور کرتے ہوئے جو فوری چیز سامنے آتی ہے وہ ہر ملک کے مختلف نسل مختلف رنگوں اور مختلف قوموں سے آنے والے لوگوں کے باہم امتزاج کا مسئلہ ہے اور ہر جگہ یہ مسئلہ اب سراٹھانے لگا ہے اور بعض غلط فہمیاں پیدا ہو رہی ہیں اس وقت ابھی بھی اور بعض خطرات سامنے ابھر رہے ہیں.اس لئے فوری طور پر جماعتوں کو اس طرف متوجہ ہونا چاہئے کہ اگر انگلستان میں انگریز احمدی ہوتے ہیں تو آپ حسن خلق سے ان سے پیار کر کے، ان کو اپنے معاشرے میں جذب کرنے کی پوری کوشش کرتے ہوئے اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ تنہا ہو گئے ہیں.اس بات کا احساس نہ ہونے دیں کہ وہ ایک مغربی معاشرہ سے ایک ایسے معاشرہ کی طرف آئے جہاں مذہبی اقدار تو ملیں لیکن متبادل معاشرہ نصیب نہیں ہوا.یہ توفیق نہیں ملی کہ جس Civilization کو، جس تمدن کو چھوڑ کر آئے تھے اس کے بدلے میں کوئی تمدن پالیسں اور جو کچھ انہیں دیا جاتا ہے اگر اسلام کے نام پر پاکستانی تمدن دیا جائے تو یہ تو نہ ان کے ساتھ انصاف ہے، نہ اسلام کے ساتھ انصاف ہے.حقیقت میں ہر قوم کے کچھ تمدنی پہلو ہیں جو اس قوم کی زندگی کا جزو بن چکے ہوتے ہیں اور کچھ مذہبی پہلو ہیں جو تمدن بن چکے ہیں.جہاں تک اسلام کے تمدن کا تعلق ہے ان دونوں
خطبات طاہر جلد۵ 734 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء دھاگوں کو الگ الگ کرنا پڑے گا.مقامی تمدن کے سیاہ دھاگوں کو اسلام کے تمدن کے سفید دھاگوں سے الگ کرنا پڑے کا اور قوموں کو یہ پیغام دنیا پڑے گا کہ جہاں تک اسلامی تمدن کا تعلق ہے یہ وہ خطوط ہیں جن سے تم تجاوز نہیں کر سکتے.جن راہوں سے ہٹو گے تو اسلام کی راہوں سے ہٹو گے اور یہ وہ خطوط ہیں جن میں تمہیں اختیار ہے لیکن عمومی اسلامی ہدایات کے تابع رہ کر اپنے لئے تمدن کی راہیں تلاش کرو یا مقامی تمدن میں سے اچھی چیزیں اخذ کر لو.پاکستانی احمد یوں کو بھی اپنے تمدن میں اسی حد تک تبدیلی پیدا کرنی چاہئے جس حد تک اسلام اجازت دیتا ہے یا جس حد تک دوسری قوم کو اپنے اندر شامل کرنے کے لئے ان کی خاطر کچھ تمدنی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے جے Give and Take کہا جاتا ہے.اگر آپ حکمت کے ساتھ بالغ نظر کے ساتھ آپ دونوں سوسائٹیوں کی بری باتیں چھوڑ دیں اور ان کی اچھی باتیں اختیار کرلیں دونوں سوسائٹیوں کی اور اسلام کے تمدن کی روح کو غالب رکھیں تو اس پہلو سے جو بھی تمدن دنیا میں احمدی تمدن کے نام پر پیدا ہو گا اس میں ایک تو امتزاج پایا جائے گا، دوسرے اسلامی تمدن کے پہلو کے لحاظ سے ایک عالمی قدر مشترک پائی جائے گی اور وہی ملت واحدہ بنانے کے لئے نہایت ضروری ہے.ایک بھاری حصہ تمدن کا ایسا ہے جو مذہب سے اثر انداز ہوا ہوتا ہے اور اس حصہ کی حفاظت کرنا اور اسے نکھار کر دنیا کے سامنے پیش کرنا یہ نہایت ہی اہم ضرورت ہے وقت کی جس کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے.ورنہ جیسا کہ یہاں گزشتہ تجربہ نے بتایا کہ محض اس توجہ کے فقدان کے نتیجہ میں بہت سے خاندان ایک رستہ سے آئے اور دوسرے رستہ سے چلے گئے.محض اس توجہ کے فقدان کے نتیجہ میں جو مخلص تھے ان کے ایمان داغدار ہونے لگے، ان کے دل افسردہ ہونے لگے وہ مایوس ہونے شروع ہوئے کہ ہم کس ویرانہ میں چلے آئے ہیں.جن لوگوں نے ہمیں خدا کی طرف بلایا تھاوہ خدا کا نمائندہ بن کر ہمیں چھاتی سے لگانے والے ثابت نہیں ہوئے بلکہ تنہا دنیا میں چھوڑ دیا ہے یہ کہہ کر کہ تم اپنے تمدن سے باغی ہو جاؤ اور ہم تمہارے لئے کوئی تمدن پیش نہیں کر سکتے تم اپنے تعلقات تو ڑ لو ہم تمہارے لئے کوئی متبادل تعلقات مہیا نہیں کر سکتے تم اردو سیکھو لیکن ہم انگریزی نہیں سیکھیں گے، ہم جب بات کریں گے پنجابی یا اردو میں کریں گے ، خواہ تم بیٹھے رہو تمہاری طرف کوئی متوجہ نہیں ہوں گے اور جب بھی ہم آپس میں ملیں گے تم سرکتے سرکتے ایک طرف کو نہ میں لگ جایا کرو گے اور ہم اپنی اجتماعی شکل
خطبات طاہر جلد۵ 735 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء میں آپس میں خوش گپیوں میں مصروف ہو جایا کریں گے.اگر یہ پیغام آپ اسی طرح دیتے رہے تو ہر جگہ جتنے سفر آپ طے کریں گے وہ سارے فاصلے اپنے ہر قدم کے ساتھ منقطع بھی کرتے چلے جائیں گے.زمینیں سر نہیں ہوں گی بلکہ سر شدہ زمینیں دوسروں کے سپر د کر تے چلے جائیں گے.ایک ایسا سفر ہے جس میں آپ کی زمین وہی ہے جہاں آپ کھڑے ہیں یا جہاں آپ قدم مارر ہے ہیں.گزشتہ زمینیں فتح کر کے حاصل کر کے غیروں کے سپرد کرتے چلے جاتے ہیں.یہ تو کوئی ترقی کا طریق نہیں ہے، یہ تو کوئی زندہ رہنے کا فیشن نہیں ہے اس لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا الہام ہوا.زندگی کے فیشن سے دور جا پڑے ہیں ( تذکرہ: ۴۲۶ ) آپ زندگی کے فیشن سے دور نہ جائیں کبھی.زندہ رہنے کے اسلوب سمجھیں، سوچیں اور ان کو چمٹ جائیں.اور عالمی تو حید کو پیدا کرنے کے لئے عالمی تمدن کے امتزاج کا ہونا بڑا ضروری ہے اور اس کی طرف جماعتوں کو خصوصیت کے ساتھ توجہ دینی چاہئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسے گروہ ایسے چیدہ چیدہ صائب الرائے لوگوں کو اکٹھا کر کے ان کی مجالس قائم کرنی چاہئیں خواہ وہ مجلس عاملہ میں سے چنے جائیں خواہ باہر سے اختیار کئے جائیں.جن کے سپرد یہ کام ہو اور ان کی رپورٹیں اگر وہ باہر سے ہیں مجلس عاملہ میں پیش ہوں.اگر وہ لوگ مجلس عاملہ کے ممبر ہیں تب بھی مجلس عاملہ میں پیش ہوا کریں اور جو کچھ بھی لائحہ عمل تجویز ہووہ ملکی طور پر مجھے بھجوا دیا جایا کرے تاکہ میں ایک نظر ڈال لوں.ایک تو اس کے نتیجہ میں مجھے علم ہوتار ہے گا کہ کونسا ملک بیدار مغزی سے یہ کام کر رہا ہے اور توجہ سے یہ کام کر رہا ہے اور جو ملک غافل ہیں ان کو متوجہ کر سکوں گا.دوسرے ان حقائق کی روشنی میں جو انہوں نے جمع کئے ہوں گے میں ان کے لئے مزید راہنمائی کا موجب بن سکوں گا.اس لئے وہ ساری جماعتیں جو ان مسائل پر غور کریں اور وہ اپنی رپورٹیں مجھے بھجوائی شروع کریں اور انشاء اللہ تعالیٰ اسکے نتیجہ میں ایک اور فائدہ یہ ہوگا کہ رپورٹیں چونکہ ساری دنیا سے آرہی ہوں گی اس لئے جو اسلامی تمدن کی جو تو حید قرآن اور حدیث کی روشنی میں میں قائم کرنا چاہتا ہوں وہ ساری دنیا کی رپورٹیں یکجائی طور پر نظر میں آنے کے نتیجہ میں زیادہ آسانی سے کر سکوں گا ، زیادہ اس بات کا اہل ہوں گا.دوسرا پہلو ہے پاکستانی احمدیوں کی تربیت کرنا جو باہر گئے ہوئے ہیں اور انکو استعمال کرنا
خطبات طاہر جلد۵ 736 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء ابتدائی تعلیم کے لئے.یہ بہت ہی اہم کام ہے جو خاص طور پر جرمنی میں سامنے آیا.جب میں ملاقاتیں کرتا رہا ہوں یا گفت و شنید کرتارہا ہوں تو صرف حال احوال پوچھنا تو مقصد نہیں تھا کہ انہوں نے میرا حال پوچھ لیا اور میں نے ان کا حال پوچھ لیا.ان کے تمدنی حالات پوچھتا رہا ہوں ، مسائل پوچھتا رہا ہوں اور دینی حالت کے متعلق تو کچھ شکلیں بتا دیتی تھیں اور کچھ سوالات کے بعد چیزیں سامنے آجاتی تھیں.ایک چیز جو افسوسناک سامنے آئی وہ یہ تھی کہ نو جوانوں میں جہاں اخلاص کا معیار بلند ہے وہاں علم کا معیار بہت کم ہے.بعض صورتوں میں تو بعض احمدی نوجوانوں کو نماز کا ترجمہ نہیں آتا تھا، وہ گھر سے سیکھ کر ہی نہیں چلے.بہت سے ایسے احمدی نوجوان بھی دیکھے جو وہاں نظر بھی کبھی نہیں آتے تھے اور یہاں آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ جماعت کے ساتھ منسلک ہو گئے اور انہوں نے اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے کہ اب جو چاہو ہم سے کرو اور جس طرح چاہو ہمیں اچھا بنا دو.پہلے وہ اپنے آپ کو پیش نہیں کرتے تھے اور جو لوگ ان کے پاس جاتے تھے وہ ان سے دور بھاگتے تھے.ایسا عنصر خاص طور پر جو وہاں بھی جماعت کی نظر سے الگ رہا اور جماعتی تربیت کے ہاتھ سے پیچھے ہٹتا رہا ہے وہ یہاں آکر بھی جماعت سے متعلق تو ہو گیا لیکن علمی لحاظ سے اور تربیتی لحاظ سے اسی طرح ابھی پیچھے ہے اور خطرہ یہ ہے کہ ان کا اخلاص اور ان کا تعلق ضائع نہ ہو جائے یا نقصان کا موجب نہ بن جائے.ضائع تو ان معنوں میں ہو سکتا ہے کہ یہ اب اپنے آپ کو پیش کر رہے، تعلق بڑھا رہے ہیں اور ان کو سلجھانے کے لئے ان کے اخلاق درست کرنے کے لئے ان کی اعلیٰ تربیت کے لئے کوئی کارروائی نہ کی جائے.اتنا اچھا موقع اللہ تعالیٰ مہیا کرے اور جماعت اس موقع سے استفادہ کرنے سے غافل رہ جائے یہ بہت ہی بڑا نقصان ہے.دوسرا پہلو اس کا یہ ہے کہ ان نوجوانوں نے جوتعلق قائم کیا ہے اگر ان کے اخلاق وہی رہے اگر ان کا علمی معیار اور تربیتی معیار وہی رہا تو مقامی دوست خصوصیت کے ساتھ ان کو اسلام کا ایمبیسڈر، اسلام کا سفیر سمجھتے ہوئے دیکھ رہے ہوں گے اور پاکستانی احمدیوں کے معیار کو اس طرح جانچ رہے ہوں گے اور واقعہ یہی ہوا بھی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دو جرمن دوستوں نے بڑی تفصیل سے کھل کر مجھ سے گفتگو کی اس دن بڑا اچھا موقع تھا.ان میں سے ایک دوست ہمارے ساتھ سیر پر جاتے رہے.سیر کے دوران ان سے بات کرنے کا ان سے بڑی لمبی گفتگو ہوئی.تو
خطبات طاہر جلد۵ 737 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء انہوں نے جو باتیں بتا ئیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت ہی بڑا اور حقیقی خطرہ ہے.ان کو اندازہ نہیں تھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو وہاں سے آئے ہیں اور کس کس قسم کے لوگ ہیں.جو بھی آنے والا تھا وہ سمجھتے تھے کہ خدا کے گھر سے آرہا ہے ، وہاں سے آرہا ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا ہوئے ، جہاں صحابہ نے نئی نسلوں کی تربیت کی وہ احمدیت کے نمائندہ کے طور پر ہر شکل کو دیکھتے تھے.بعض دفعہ شکل وصورت ، طرز رہنے سہنے کی ، اوڑھنے بچھونے کی ،لباس کی، باتوں کی ایسی طرز ہوتی ہے جو بتا دیتی ہے کہ اس میں دین نہیں ہے اور جب آپ ایسے لوگوں کو اسلام کے نمائندہ کے طور پر دیکھیں آپ کو پتہ نہ ہو کہ وہاں بھی یہ نمائندہ نہیں تھے، وہاں بھی پیچھے ہٹنے والوں میں سے تھے بھاگنے والوں میں سے تھے، تو آپ یہی اثر لیں گے کہ ہمیں تو کچھ اور باتیں بتائی جاتی تھیں، ہم سے تو کچھ اور توقعات رکھی جاتی ہیں اور وہاں کچھ اور باتیں ہو رہی ہیں.بہر حال بڑی تفصیل سے ان کو رفتہ رفتہ سمجھانے کی کوشش کی اور پھر وہ سمجھ گئے بڑے ذہین آدمی تھے انہوں نے ان فرقوں کو دیکھا اور سمجھا.ان کو میں نے آخر پر یہ بتایا کہ ان کی غلطی کردار کی لیکن آپ کی غلطی اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے.آپ نے خدا کو پاکستان کا خدا سمجھ لیا ہے اور جرمنی کا خدا نہیں سمجھا اور اسلام کو پاکستان کا اسلام سمجھ لیا ہے اور جرمنی کا اسلام نہیں سمجھا.آپ کو تو ہم نے خدا سے روشناس کرایا ہے جو کل عالم اور کل کائنات کا خدا ہے، آپ کو تو ہم نے اسلام سے روشناس کروایا ہے جو سارے عالم کا اسلام ہے.اس لئے جب آپ نے حاصل کر لیا تو اس کے بعد کسی دوسرے کے محتاج کیوں ہیں اپنی تربیت کے لئے؟ کیا اس کے پھر جانے سے آپ پھر جائیں گے.کیا اگر غیر خدا کو چھوڑتا ہے تو آپ بھی اس خدا سے دامن تو ڈلیں گے؟ یہ رجحان سب سے زیادہ خطرناک ہے.آپ اس کے بدلے ایک اور ردعمل دکھا سکتے تھے.آپ ان خطوط پر بھی سوچ سکتے تھے کہ ان لوگوں نے بڑی مالی اور جانی قربانیاں کیں اور بڑی لمبی جدوجہد کی اور بڑی سخت مشکلات میں اپنے ایمان کی حفاظت کرتے رہے اور ہم تک پیغام پہنچایا اور کامیابی سے پیغام پہنچا دیا.اس عرصہ میں ان میں کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے ، کچھ بیمار ہوئے اور کچھ خودان مقاصد سے دور جا پڑے.ہم اور طرح توان کے احسان کا بدلہ نہیں دے سکتے کیوں نہ ان کی تربیت کر کے احسان کا بدلہ دیں، کیوں نہ ان کو بتائیں کہ جو اسلام تم
خطبات طاہر جلد۵ 738 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء نے ہم کو پہنچایا تھا ہم نے اس کو بہت حسین پایا ہے.ہم نے اس پر عمل کر کے دیکھا جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا نور ہے نور اٹھو دیکھو سنایا ہم نے (در متین: ۱۶) تو تم یہی اعلان کر سکتے تھے کہ ہم نے تو اسے اچھا پایا ہے اس نے ہماری زندگیوں میں پاک تبدیلیاں پیدا کر دی ہیں ، ہمارے کردار بدل کر رکھ دیئے ہیں، ہمیں گندگیوں سے نجات بخشی ہے اور روحانی تسکین عطا کی ہے تم کیا ظلم کر رہے ہو اپنی جانوں پر کہ ہمیں بچا کر خود ہلاکت میں مبتلا ہور ہے ہو.میں نے اسے سمجھایا کہ اگر تمہاری طرف سے یہ آواز ان پاکستانی نوجوانوں کے کانوں میں پڑے تو وہ بہت زیادہ مؤثر ہوگی اور بہت زیادہ ان کو شرمندہ کرنے والی اور ان کی غیرت کو چر کہ لگانے والی ہوگی اور واقعہ تم ایک احسان کا بدلہ اتارنے والے ہو گے.اگر ان رستوں پر چلتی رہیں تمہاری سوچیں جن رستوں پر چل رہی ہیں تو خود بھی نقصان اٹھا جاؤ گے ان کو بھی نقصان میں ڈال دو گے.تو یہ وہ طریق ہے جس میں دونوں طرف کی تربیت کی ضرورت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جس قوم کو خدا تعالیٰ نے دنیا کی اصلاح کے لئے چن لیا ہے اس کی اولیت کو کوئی چھین نہیں سکتا اور اس کی ضرورت کے احساس سے کوئی عقل مند انکار نہیں کرسکتا.وہ اولین طور پر ہندوستان میں جو ایک خطہ پنجاب ہے اس سے تعلق رکھنے والی قوم ہے اور اسی دائرے کو جب بڑھاتے ہیں تو ہندوستان بحیثیت مجموعی جس میں پاکستان بھی ہے آج کا اور ہندوستان بھی ہے، یہ خطہ سرزمین جسے ہندو پاکستان کا برصغیر کہا جاتا ہے اس علاقے کے لوگوں پر خدا تعالیٰ نے اولین ذمہ داری ڈالی اور اولین طور پر ان میں کوئی مادہ دیکھا ہے اصلاحی.ان میں بعض مخفی خوبیاں دیکھی ہیں جن کو خدا تعالیٰ کی نظر نے پہچانا ہے.اس لئے ان کو چنا ہے، خدا جانتا تھا کہ دنیا کی اصلاح کے لئے ان کے اندر مادہ ضرور موجود ہے.اس علاقہ کے لوگ جو سو سال سے مسلسل قربانیاں پیش کر رہے ہیں اور بڑی وفا کے ساتھ حق کو چھٹے ہوئے ہیں یہ بات بتاتی ہے کہ یقینا خدا تعالیٰ کی نظر نے صحیح شناحت فرمائی.
خطبات طاہر جلد۵ 739 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء بہر حال ساری دنیا میں سے اس علاقہ کے لوگوں کا دین پھیلانے کے لئے استعمال ہونا دنیا کے آئندہ نقشہ کا ایک لازمی حصہ ہے.لازماً ہر ملک میں آغاز میں ابتداء میں اسی علاقہ کے لوگوں کو تبلیغ میں مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا اور لمبے عرصہ تک کرنا ہوگا اور تربیت میں بھی ایک نہایت مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا.اس لئے جماعتوں کو اس پہلو سے غافل نہیں ہونا چاہئے.ہمیں لازماً مجبوراً پاکستانی اور ہندوستانی احمدیوں کے کردار کو خصوصیت کے ساتھ پیش نظر رکھنا ہوگا کیونکہ خدا نے انہیں استعمال کرنے کے لئے چنا ہے.اگر یہ کھوٹے پیسے بن گئے تو ہم انہیں استعمال نہیں کر سکیں گے اور اگر یہ اچھے پیسے بنے تو غیر معمولی اسلام کی خدمت دنیا میں کر سکتے ہیں.پھر دوسرا پہلو ہے ان کی اگلی نسلوں کو سنبھالنے کا لیکن وہ پہلے پہلو کا بچہ ہی ہے.جس طرح اگلی نسل موجودہ نسل کے بچے ہوتے ہیں اسی طرح موجودہ نسل کو آپ سنبھالیں اور صحیح خطوط پر چلا ئیں تو روحانی طور پر اگلی نسل بھی لازما بچ جاتی ہے.نقائص ڈھونڈنے کے لئے آپ دوسری نسل کی شکلوں کو نہ دیکھیں، جب بھی کوئی نقص ہو تو پہلی نسل کی شکلوں کو دیکھیں.وہاں سے ابتداء ہوئی ہے.یاد رکھیں یہ قرآن کریم نے ہمیں نکتہ عطا فرمایا ہے کہ آئندہ نسلوں کی تربیت کے لئے موجودہ نسلوں کو سنبھالو.فرمایا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ (الحشر : ۱۹) اس کے وسیع معانی میں ایک معنی یہ بھی ہے کہ اے آج کے بسنے والے مسلمانو ! اے ایمان والو! جن کو ہم مخاطب ہیں اگلی نسلوں کی تربیت کے تم ذمہ دار ہو.اس لئے تم پوچھے جاؤ گے کل کیا پیچھے چھوڑ کر جانے والے ہواس کا سوال تم سے کیا جائے گا.اس لئے یہ نہایت ہی اہم بات ہے کہ موجودہ نسل کے احمدیوں میں جو دنیا کے کسی خطہ میں بھی آباد ہوں ان کی تربیت کی طرف فوری توجہ کریں.اگر وہ متوازن ہو جائیں تو ان کی نسلیں خود بخود ٹھیک ہونی شروع ہو جائیں گی اور بھی غیر معمولی پاک تبدیلیاں ان کے اندر پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی.اس ضمن میں اور بھی بہت سے امور سامنے آتے رہے جن کے متعلق مختلف وقتوں میں.
خطبات طاہر جلد۵ 740 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء جماعتوں کو ، مجالس عاملہ کو ہدایات دیتا رہا ہوں.لیکن مختصر جماعتوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب وہ سر جوڑ کے بیٹھیں گے اور پروگرام بنا ئیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ خودان کے ذہن میں بھی بہت سی باتیں ابھریں گی.نئے نئے رستے اللہ تعالیٰ ان پر روشن فرمائے گا.دوسرا اہم پہلو جس کی طرف ساری دنیا کی مجالس عاملہ کو توجہ دینی چاہئے وہ تربیتی لٹریچر کی تیاری ہے.ہر ملک کے لحاظ سے اس کی ضروریات کو مد نظر رکھتے ہوئے تربیتی لٹریچر تیار ہونا ضروری ہے اور اس میں اسلام کے بنیادی تقاضوں کو محوظ رکھا جائے.کم سے کم طور پر ایک شخص مسلمان کیسے بنتا ہے؟ اسے کیا معلوم ہو تو وہ مسلمان بن جاتا ہے جب یہ باتیں آپ سکھائیں گے لٹریچر میں بھی اور تربیت کے ذریعہ بھی تو آپ کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی پڑے گی کہ اسلام میں محض مقتدی بنانے کا تصور نہیں بلکہ امام بنانے کا تصور ہے ، لیڈرشپ پیدا کرنے کا تصور ہے.اسی لئے کوئی پیشہ ور ملاں اسلام میں موجود نہیں ہے.ہر شخص سے اسلام توقع رکھتا ہے کہ اگر جماعتیں اس کو چنیں ، عوام اس پر اعتماد کریں تو وہ قیادت کی صلاحیتیں بھی اپنے اندر رکھتا ہو اور قیادت کے سلیقے جانتا ہو.نماز کیسے پڑھائی جاتی ہے یہ بھی ہر مسلمان کے لئے جاننا ضروری ہے.صرف نماز پڑھنا ضروری نہیں بلکہ نماز پڑھانے کا علم ضروری ہے.محض یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ مسلمان ہو کر اپنی پیدائش اور اپنی موت کو بعض علماء کے سپر د کر دے کہ جس طرح چاہیں وہ سلوک کریں.اس کو اہل ہونا چاہئے اس بات کا یہ سب مسائل کا علم ہونا چاہئے کہ بچے کس طرح پیدا ہوتے ہیں ان کے کیا حقوق ہیں اور لوگ جب مرتے ہیں تو ان کے کیا حقوق ہیں، بیاہ شادی کس طرح کئے جاتے ہیں.ہر احمدی اس بات کا اہل ہونا چاہئے کہ اسلام میں جو کم سے کم سیادت کی ضرورتیں ہیں ان سے وہ پوری طرح واقف اور آشنا ہو اور اسے تجربہ بھی ہو محض دیکھنے سے یہ بات حاصل نہیں ہوتی.مجھے یاد ہے وقف جدید میں ہم نماز ظہر و ہیں پڑھا کرتے تھے کیونکہ کام کے وقت دوسری جگہ جانا مشکل ہوتا تھا باہر مسجد میں چھوٹی تھیں بالکل نزدیک کی ایک جو مسجد تھی اس سے زیادہ نمازی وہاں آجاتے تھے.چنانچہ با قاعدہ وہیں مسجد بنائی ہوتی تھی نماز ظہر کیلئے ، وہاں ایک کمرہ وقف تھا.ایک دفعہ وہاں ایک اچھے خاصے مخلص دوست خدام الاحمدیہ کے کاموں میں بڑے پیش پیش اور واقف تھے وہ تشریف لائے تو میں نے ان کو کہا کہ آج آپ نماز پڑھائیں.ظہر کی نماز تھی تو انہوں نے
خطبات طاہر جلد۵ 741 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء کہا مجھے نماز پڑھانی نہیں آتی.اگروہ ویسے کہ دیتے کہ میں جھجھکتا ہوں تو اور بات تھی.میں نے کہا کہ نماز پڑھانی نہیں آتی کیا مطلب؟ آپ کو بلکہ ہر احمدی کو نماز پڑھانی آنی چاہئے.یہ کیا مطلب ہے کہ نماز پڑھانی نہیں آتی.انہوں نے کہا جی دیکھی ہوئی ہے لیکن کبھی پڑھائی نہیں.میں نے کہا پھر پڑھانے میں کیا حرج ہے، اگر آپ کو پڑھانی نہیں آتی تو آپ نے بار ہاد یکھا ہوا ہے ساری عمر اس میں گزاری ہے پڑھا ئیں آگے جاکے.چنانچہ نماز پڑھانے کے بعد مجھے محسوس ہوا، ان کو کہنے کے بعد، مجبور کرنے کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ غلطی کی تھی ان کی پہلے کچھ تربیت ہونی ضروری تھی.کیونکہ وہ شاید میرے کہنے کی وجہ سے ایسا اثر پیدا ہو گیا کچھ نروس ہو گئے یا پہلی دفعہ نماز پڑھانے کے نتیجہ میں ایسا ہو کہ اللہ اکبر کی بجائے سمع الله لمن حمدہ.سمع اللہ کی بجائے اللہ - اکبر ،سجدے میں جاتے وقت ربنا و لک الحمد کہہ رہے ہیں.وہ ایسی اکھڑی نماز کہ پچھلے نمازیوں کے لئے ہنسی برداشت کرنی مشکل.بڑی مشکل سے نماز کا وقت گزارا.اس وقت بھی خاص طور پر مجھے خیال آیا تھا کہ ہم ایک بات سے غافل ہو گئے ہیں.اسلام ہم سے نقاضے کرتا ہے سید پیدا کرنے کے سردار پیدا کرنے کے ، امام پیدا کرنے کے اور ہم مقتدی پیدا کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے ذمہ داریاں ادا کر دیں.یہ تو ایک ایسا عظیم الشان راز ہے قوموں کی ترقی کا جس کو اہل اسلام نے بھلا دیا لیکن بعض غیر قوموں کے غیر معمولی لیڈروں نے اختیار کیا اور اس سے بڑا فائدہ اٹھایا.اگر چہ یہ ظلم کیا کہ اس سے منفی رنگ میں فائدہ اٹھایا یعنی فائدہ تو اٹھایا لیکن اس سے فائدہ اٹھانے کے بعد دنیا کی ہلاکت کے لئے استعمال کیا لیکن بنیادی طور پر راز یہی تھا.جب جنگ عظیم اول ہوئی تو عالمی طاقتوں نے یہ غور کیا کہ جرمنی کے متعلق ایسی کارروائیاں کرنی چاہئیں کہ پھر کبھی اٹھ ہی نہ سکے اور اس کو پھر کبھی یہ خیال نہ آسکے کہ میں بھی دنیا میں کوئی فوجی کردارادا کر سکتا ہوں.چنانچہ جو انہوں نے جو بہت سے اقدامات کئے ان میں ایک یہ بھی اقدام تھا کہ ان پر پابندی لگ گئی کہ غالباً ایک لاکھ یا اس کے لگ بھگ سے زیادہ تم فوج نہیں رکھ سکو گے اور اس سے زیادہ آدمیوں کو فوجی ٹرنینگ تم دے ہی نہیں سکتے.ان کا خیال تھا کہ جنگیں ایک دم تو نہیں شروع ہو جاتیں جس قوم کی فوج صرف ایک لاکھ ہو یورپ جیسے ترقی یافتہ علاقے میں اس سے
خطبات طاہر جلد ۵ 742 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء ہمیں کوئی خطرہ نہیں ہوگا اور بھی بعض ذرائع اختیار کئے لیکن ایک یہ تھا.ہٹلر کو ایک بہت قابل جرنیل نے مشورہ دیا کہ اس مسئلہ کو حل کرنا تو بہت آسان ہے.ہم ایک لاکھ سپاہی پیدا کرنے کی بجائے ایک لاکھ افسر تیار کرتے ہیں.جہاں تک تعداد کا تعلق ہے ان کو کیا پتہ کہ عملاً اس تعداد میں پھیلنے کی غیر معمولی طاقت آگئی ہے.لیکن میرا مشورہ یہ ہے کہ بجائے سپاہی کی ٹرینگ کے مجھے اجازت دو میں فوجی تربیت کا ایسا منصوبہ تیار کرتا ہوں کہ ہم ہر ایک افسر تیار کریں گے اور افسر بھی ایسا جو انسٹرکٹر بننے کا اہل ہو.چنانچہ انہوں نے ایک لاکھ انسٹرکٹر ز تیار کر دیئے بجائے سپاہی بنانے کے.دوسری ترکیب انہوں نے یہ کی کہ ان کو تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد چھٹی دینی شروع کر دی.دس ہزار آج نکال دیئے جو تربیت یافتہ تھے اور ان کی بجائے دس ہزار اور بھرتی کرلئے.دس ہزار کل نکال دیئے اور ان کی جگہ دس ہزار اور بھرتی کر لئے.جہاں جہاں وہ گئے ان کو تعلیمی اداروں میں مقرر کیا اور کہا کہ اب تم طلباء تیار کرو.چنانچہ چند سال کے اندر اندر اتنی عظیم الشان فوجی طاقت بن گئی کہ جب چرچل نے توجہ دلائی ، پہلا شخص یورپ میں چرچل تھا جس نے اس خطرہ کو بھانپا تو اس نے توجہ بھی ان الفاظ میں دلائی کہ الارم کی گھنٹی تو بجارہا ہوں لیکن میں جانتا ہوں کہ میں بھی لیٹ ہو چکا ہوں.اب ہمارا اختیار ہی کوئی نہیں رہا.اب تو جو کچھ نقصان ہو چکا ہے اب یہ غور کرنا ہے کہ اس کی تلافی کیسے کی جاسکے گی مگر نقصان ہو چکا ہے، جو کچھ جرمنی نے کرنا تھا کر لیا ہے اب سارے اتحادیوں کی اجتماعی طاقت بھی اکیلے جرمنی کے برابر نہیں ہے.تو اسلام نے جو گر سکھایا تھا سید بنانے کا اس کو مسلمانوں نے تو بھلا دیا اور غیر قوموں نے اختیار کیا اور مسلمانوں کو تو اسلام نے دنیا کے فائدہ کے لئے یہ گر سکھایا تھا.غیر قوموں نے دنیا کو نقصان پہنچانے کے لئے یہ گر استعمال کیا کیونکہ اسلام کے تقویٰ کی تعلیم سے یہ لوگ عاری تھے.آج دنیا کی سیادت آپ کے سپر د ہے اور جب تک آپ خود سید نہیں بنیں گے آپ دنیا کی سیادت کیسے کریں گے؟ کیسے نئے آنے والوں کو سردار بناسکیں گے.اس لئے بہت ہی ضروری ہے کہ ہم اپنے Follow up کی تربیت میں ایسا پروگرام شامل کریں کہ جس کے نتیجہ میں ہر احمدی کو کم
خطبات طاہر جلد۵ 743 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء سے کم سیادت کی تعلیم دی جائے یعنی کم از کم ایسی سیادت جس کے بغیر مسلمان کی تصویر مکمل نہیں ہوتی اور اس کو راہنمائی کے اصول بتائے جائیں.اس پر جب اعتماد کیا جاتا ہے تو اس کو اپنے اعتماد کی کن پہلوؤں سے خصوصیت کے ساتھ حفاظت کرنی چاہئے.جب اس طرف آپ آئیں گے تو نظام جماعت بھی اس کو بتانا پڑے گا.اس کو بتانا پڑے گا کہ ہم پر تمام دنیا کے احمدی بعض آدمیوں پر مالی لحاظ سے اعتماد کرتے ہیں اور جب تک یہ اعتماد قائم رہے گا مالی نظام میں برکت رہے گی ، جب یہ اعتماد کھویا گیا تو مالی نظام ٹوٹ جائے گا.اسی طرح باقی نظام میں یہ یہ توقعات کی جاتی ہیں اور تمہیں ہم صرف ایک احمدی کے طور پر نہیں بلکہ مجلس عاملہ کے رکن کے طور پر تیار کرنا چاہتے ہیں تا کہ جب تم پر یہ ذمہ داریاں ہوں تو تم اس طرح ادا کرو.محض ایسے احمدی نہ بنو جو باہر بیٹھ کر مجلس عاملہ پر تبصرے کر رہا ہو.بلکہ ایسے احمدی بنائیں جو وہاں بیٹھے ہوں جن پر لوگ تبصرے کرنے کی کوشش کریں اور ان کے پاس مؤثر جواب ہوں.پھر ہر پہلو سے انکے حقوق کیا ہیں، ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں ، خلافت کا نظام کیا ہے، انصار اللہ کا نظام اور خدام الاحمدیہ کا نظام یعنی ذیلی تنظیموں کا کام کیا ہے، ان سارے امور سے ان کو واقف کرانا اور پھر جماعت کی تاریخ سے ان کو آگاہ کرنا اور ایسے موثر کردار ادا کرنے والے احمدیوں کی صفات یا انکی زندگیوں کے حالات سے مطلع کرنا جن کا کردار آج بھی زندہ ہے.جب اس کردار پر آپ نظر ڈالتے ہیں تو وہ آپ کو مرتعش کر دیتا ہے.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید رضی اللہ عنہ کی زندگی کے واقعات ہیں.انہوں نے احمدیت میں بہت مختصر زندگی دیکھی لیکن ایسی عظیم زندگی تھی کہ رشک سے ہمیشہ دنیا کی نگاہ سے دیکھتی رہے گی کہ کاش ہمارے سینکڑوں سال کے بدلے وہ مختصر زندگی ہمیں نصیب ہو جاتی.جب ان کے کردار پر نظر آپ ڈالتے ہیں ان کے واقعات سے نئے آنے والوں کو آگاہ کرتے ہیں تو آپ کو کسی زور لگانے کی ضرورت نہیں کیونکہ آپ کی باتوں سے زیادہ زندہ وہ کردار آج بھی ہے، آج بھی اس میں اس بات کی اہلیت ہے کہ دلوں کو متحرک کر دے اور خون کو گرم کر دے اور نئے حوصلے پیدا کرے انسانوں میں اور نئے عزم بلند کرے ان کے سینوں میں.ایسے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھی تھے انہوں نے کیا کیا کیا.کس طرح دنیا میں قربانیاں پیش کیں، کس طرح دنیا کو تبدیل کیا، کس طرح قول اور فعل کے سچے ثابت ہوئے، صادق القول
خطبات طاہر جلد۵ 744 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء تھے ، صادق العمل تھے، ان کی باتوں سے آگاہ کرنا جب ان سب باتوں پر آپ نظر ڈالیں گے تو معلوم ہوگا کہ اتنا بڑا کام کرنے والا ہے کہ اس کے لئے مسلسل کئی سال کی محنت چاہئے ورنہ ساری دنیا کی زبانوں میں اس قسم کا لٹریچر تیار کرنا اور ایسے احمدی پیدا کرنا جو ساتھ ساتھ واقف ہوتے چلے جائیں اور زبانی ان باتوں کو آگے پھیلانے کے اہل ہوں.بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے.جرمنی کے چند روز کے قیام میں جو اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں منصوبے ڈالے وہ تو کافی وسیع ہیں ان میں سے ایک یہ ہے اور بہت سی باتیں ہیں جو وقتاً فوقتاً جماعتوں کو ہدایتوں کی صورت میں بھجوائی جاتی رہیں گی.صرف فکر یہ ہوتی ہے کہ اگر اکٹھی زیادہ ہدایتیں دی جائیں تو ہمت بعض دفعہ ٹوٹ جاتی ہے.آدمی سمجھتا ہے کہ اتنی باتیں میں کر ہی نہیں سکتا چلو چھوڑ دو.اس لئے مجھے بھی بڑا صبر کرنا پڑتا ہے.ایک وقت میں تھوڑی تھوڑی غذا دینے کی کوشش کرتا ہوں تا کہ یہ ہضم ہو پھر آگے چلیں پھر آگے چلیں، تا کہ رفتار میں زیادہ تیزی آتی جائے اور رفتار تیز کرنے والی غذا ساتھ ساتھ ملتی جائے.سر دست میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں.ان دو پروگراموں کو آپ جاری کرنے کی کوشش کریں، ساری دنیا کی مجالس میں جاری کرنے کی کوشش کریں اور اس طرح کریں کہ جو پچھلے منصوبے تھے ان کو چھوڑ کر نہیں ان کے پہلو بہ پہلوان کو جاری کریں.اس لئے میں بار بار اس طرف متوجہ کرتا ہوں کہ ہمیں ٹیمیں تیار کرنی پڑیں گی ، ہمیں مختلف کاموں کے لئے سپیشلسٹ ٹیمیں تیار کرنی پڑیں گی جو پہلے منصوبے ہیں وہ بعضوں کے سپر د کریں وہ بیدار مغزی سے ان کی پیروی کرتے رہیں.یہ منصوبہ نیا کچھ اور لوگوں کے سپر د کریں.اس کے دو پہلو ہیں اس کے لئے الگ الگ دو کمیٹیاں بنانی پڑیں گی اور بعض دفعہ مجبوراً چھوٹے علاقوں میں خصوصیت کے ساتھ ایک شخص ایک سے زائد کمیٹیوں کا ممبر بھی ہوسکتا ہے.اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اگر ہر کام کی الگ الگ کمیٹیاں ہوں تو اس کو اپنی اس شخصیت کا احساس ہمیشہ پیش نظر رہے گا کہ میری ایک شخصیت یہ ہے اور ایک شخصیت وہ ہے.اس سے اسے کام یا درکھنے میں آسانی رہے گی.بہر حال اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خدا کی تو حید آسمانوں سے ہم نے زمین پر لانی ہے اور اس کو فرضی تو حید نہیں رہنے دینا اسے اپنے سنیوں سے چمٹانا ہے، اپنے خون میں جاری کرنا ہے.ایک ایسی جماعت پیدا کر کے دکھانی ہے جو موحد ہو حقیقی عمل کی دنیا میں موحد ہو صرف نظریات کی دنیا میں موحد نہ ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرماتے.آمین.
خطبات طاہر جلد۵ 745 خطبہ جمعہ ۷ نومبر ۱۹۸۶ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: مجھے متوجہ کیا گیا ہے کہ میں نے جرمنی بھیم اور ہالینڈ کی بجائے جرمنی چاھیئم اور فرانس کا دورہ کہہ دیا تھا یہ غلط ہے فرانس نہیں گئے تھے ہم ہالینڈ گئے تھے.واپسی پر جس طرح مجھے جرمنی سے وہاں کے مقامی لوگوں کے کردار اور اسلام میں سنجیدگی کے پیش نظر بہت سی توقعات وابستہ ہیں انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح ہالینڈ کے متعلق بھی اتنا میں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہالینڈ نے اب تک جتنے بھی احمدی پیش کئے ہیں خدا تعالیٰ کے فضل سے نہایت اعلیٰ معیار کے ہیں.نہایت مخلص سلجھے ہوئے متوازن ذہن والے، انتہاء پسندی سے خالی اور بہت ہی سچے دل سے اسلام کو قبول کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر قسم کی قربانیوں میں بھی پوری طرح شامل ہیں.ان کے لئے خصوصیت کے ساتھ دعا کی ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے ان کو کہ وہ جلد سے جلد پھیلیں اور ہالینڈ کی قوم کو ا سلام کی پُر امن آغوش میں لے آئیں.ہالینڈ کے متعلق ضمناً ایک بات اور بیان کرنی ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ یورپ کی جتنی قومیں ہیں ان میں اخلاص کے ساتھ عیسائیت کو قبول کرنے والی جیسی ہالینڈ کی قوم ہے اور کہیں ہم نے نہیں دیکھی.ہالینڈ کے بعض ایسے خطے ہیں جہاں آج بھی وہ لوگ اپنی عیسائیت میں بچے ہیں.عیسائیت غلط ہو تو یہ الگ مسئلہ ہے لیکن وہ لوگ عیسائیت کے ساتھ خلوص میں بچے ہیں اور اس پر عمل کرنے کی پوری دیانتداری سے کوشش کرتے ہیں.وہاں کا معاشرہ یورپ کے باقی معاشرہ سے بہت زیادہ صاف ہے اور ان لوگوں کے اخلاق بہت اچھے ہیں.اس لئے ہالینڈ خصوصیت کے ساتھ ہمارے پیش نظر ہونا چاہئے کیونکہ اصل بات خلوص ہے اگر کوئی قوم کسی مذہب کو سچا سمجھ کر اس سے خلوص اختیار کر رہی ہے تو اس کے اندر سچائی کو قبول کرنے کا بنیادی جو ہر موجود ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ان کو بھی جلد از جلد اسلام کے دامن میں لے آئیں.بہر حال یہ درستی کرنی تھی فرانس کی بجائے ہالینڈ کا ذکر کرنا چاہئے تھا.دوسرا اعلان ہے کہ ہمارے ایک بہت ہی پرانے واقف زندگی مبلغ سلسلہ ( محمد حنیف یعقوب صاحب)
خطبات طاہر جلد۵ 746 خطبہ جمعہ کے نومبر ۱۹۸۶ء جوٹرینیڈاڈ سے تعلق رکھتے تھے آج کل گی آنا میں مبلغ سلسلہ تھے ، وہ وفات پاگئے ہیں اناللہ وانا الیہ راجعون - محمد حنیف یعقوب صاحب ( مرحوم موصی تھے ) ان کی نماز جنازہ غائب ہو گی ان کے ساتھ اور بھی جو آج تک فہرست پڑی ہوئی تھی جنگی کی نماز جنازہ غائب ادا نہیں ہوسکی وہ بھی شامل کرتا ہوں.مکرمہ کبری خانم صاحبہ اہلیہ مفتی عبدالسلام صاحب وفات پاگئی ہیں.یہ حضرت مفتی محمد صادق صاحب رضی اللہ عنہ کی بہو تھیں.مکرم شیخ فضل محمد صاحب یہ ہمارے شیخ ناصر شہید آف اوکاڑہ کے والد تھے.مکرم میاں محمد ادریس صاحب چغتائی یہ حکیم محمد حسین صاحب مرہم عیسی مرحوم کے بیٹے تھے.مکرم محمود احمد بشارت صاحب عبد الغفار ڈار صاحب راولپنڈی کے بھانجے تھے.مستری نذر محمد صاحب نصیر الدین صاحب بلال کے والد تھے اور موصی تھے.مکرمہ عنایت بیگم صاحبہ موصیہ تھیں.محمد حنیف یعقوب صاحب بھی موصی تھے ).مکرم چوہدری رشید احمد صاحب باجوہ ، بشیر احمد باجوہ صاحب نے مسقط سے ان کے لئے درخواست کی ہے.چوہدری علی محمد صاحب گوندل شادیوال سے، شیخ محمد بشیر صاحب اعظم کلاتھ مارکیٹ لاہور.ان سب کی نماز جنازہ غائب انشاء اللہ نماز جمعہ کے معا بعد ادا کی جائے گی.ہاں ایک اور بات جمعہ کی نماز کے بعد جب تک یہ سردی کے خاص دن چل رہے ہیں اور یہ بدلا ہوا وقت ہے عصر کی نماز ساتھ جمع ہوا کرے گی.آج سے شروع ہوگا اور جب یہ وقت بدلیں گے پھر میں آپ کو بتادوں گا یعنی دن جب اتنے لمبے ہو جائیں کہ ظہر اور عصر کے وقتوں کو الگ الگ کیا جاسکے پھر انشاء اللہ یہ جمع چھوڑ دی جائے گی.
خطبات طاہر جلد۵ 747 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء حسد کی آگ کو محبت کی نصیحت سے ختم کریں (خطبه جمعه فرموده ۱۴رنومبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: اَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوْا سَبِيلًا أُولَبِكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللَّهُ وَمَنْ يَلْعَنِ اللَّهُ فَلَنْ تَجِدَ لَهُ نَصِيرَاقُ أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَّا يُؤْتَوْنَ النَّاسَ نَقِيْرَاثُ أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَتْهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْرهِيمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُّلْكًا عَظِيمًا فَمِنْهُمْ مَّنْ أَمَنَ بِهِ وَمِنْهُمْ مَّنْ صَدَّ عَنْهُ وَكَفَى بِجَهَنَّمَ سَعِيرًا اور پھر فرمایا: ج (النساء:۵۲.۵۶) انسانی اخلاق پر بہت مضر اثرات رکھنے والی جو بیماریاں ہیں ان میں سب سے نمایاں حیثیت حسد کو ہے اور حسد کی بیماری صرف اخلاق کو ہی گھن کی طرح نہیں چاٹ جاتی بلکہ اس کے اثرات بہت ہی وسیع ہیں اور اخلاقی دنیا کے علاوہ اقتصادی دنیا پر بھی اس کے اثرات بہت دور تک مار کرتے چلے جاتے ہیں اور مذہبی دنیا پہ بھی اس کے بڑے گہرے اثرات مترتب ہوتے ہیں یہاں
خطبات طاہر جلد۵ 748 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء تک کہ انبیاء کا انکار بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور پر حسد کے نتیجہ میں ہوتا ہے.حسد کیا چیز ہے؟ اس سے عموماً تمام وہ لوگ جو اردو سے واقف ہیں وہ اس کا مضمون جانتے ہیں کہ کسی کو اچھا دیکھنے پر اس کی تکلیف محسوس کرنا اور ہر زبان میں اس سے ملتا جلتا مفہوم پایا ہی جاتا ہے اور دنیا کے ہر کونے میں ، ہر مذہب وملت میں، ہر رنگ میں، ہر جغرافیائی حدود میں رہنے والوں میں حاسد ملتے ہیں اور وہ بھی ملتے ہیں جن سے حسد کیا جاتا ہے.جب تک دنیا کی سوسائٹی میں کسی قسم کا زیر و بم ہے اورنچ اور نیچ ہے حسد کو کلیۂ مٹایا جا نہیں سکتا.اشترا کی دنیا میں بھی باوجود اس کے کہ اقتصادی لحاظ سے یہ دعویٰ ہے کہ ہم نے تمام سوسائٹی کو برابر کر دیا.قطع نظر اس سے کہ سوسائٹی حقیقہ اقتصادی لحاظ سے برابر ہوئی ہے یا نہیں ہوئی اگر سو فیصد برابر بھی ہو چکی ہو تب بھی حسد کا قلع قمع اس سوسائٹی سے نہیں کیا جاسکتا کیونکہ جیسا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے حسد محض اقتصادی برتری کے نتیجہ میں پیدا نہیں ہوتا بلکہ حسد ہر برتری کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.حکومت کی برتری کے نتیجہ میں بھی پیدا ہوتا ہے اور دین میں برتری کی نتیجہ میں بھی ہوتا ہے.صرف ان چیزوں پر انہیں ہوتا ہے جن کا دینا صرف بندے کے اختیار میں ہے بلکہ ان چیزوں پر بھی ہوتا ہے جن کا دینا محض خدا کے اختیار میں ہے.نبوت سے بھی حسد پیدا ہوتا ہے.خلافت سے بھی حسد پیدا ہوتا ہے، امارت سے بھی حسد پیدا ہوتا ہے دین کے ہر شعبہ میں حسد کارفرمائی کرتا ہوا دکھائی دے گا یا اپناز ہرگھولتا ہوا دکھائی دے گا.اگر کوئی انسان یہ محسوس کرے کہ فلاں شخص دین کے کسی مقام میں مجھ سے بہتر نظر آ رہا ہے.تو انسانی زندگی کا کوئی ایک بھی شعبہ ایسا نہیں ہے جہاں آپ کو حسد کا وجود دکھائی نہ دیتا ہو، جہاں آپ کہہ سکتے ہوں کہ یہاں حسد کا کوئی کام نہیں ہے اور باوجود اس کے کہ اس کثرت کے ساتھ ملنے والا جذ بہ ہے، جتنا یہ جذ بہ خفی رہتا ہے اور چھپ کر حملہ کرتا ہے اتنا شاید ہی دنیا میں کوئی اور جذ بہ چھپ کے حملے کرتا ہو.سب سے زیادہ پائی جانے والی بدی جس نے نہ خشکی کو چھوڑا نہ تری کو چھوڑا نہ دنیا کو چھوڑا نہ دین کو چھوڑا اور سب سے زیادہ مخفی رہنے والی بدی ہے.اسی کے نتیجہ میں وہ خناس پیدا ہوتا ہے جس کا قرآن کریم کی آخری سورۃ میں ذکر ہے اور اسی لئے سورۃ الناس سے پہلے سورہ الفلق کی آخری آیت وَ مِنْ شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ (فلق :۶) کے کے مضمون سے متنبہ کر رہی ہے اور یہ دعا سکھاتی ہے کہ اے اللہ تعالیٰ اے ہمارے خدا
خطبات طاہر جلد۵ 749 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء ہمیں حاسد کے حسد سے بچانا جب وہ حسد کرے.اس مضمون پر اس سے پہلے ایک خطبہ میں نے ربوہ میں دیا تھا لیکن یہ مضمون اتنا وسیع ہے اور اتنا اہم ہے کہ وسعت کے لحاظ سے ایک خطبہ میں یا کئی خطبوں میں بھی اس مضمون کا احاطہ نہیں کیا جاسکتا اور اہمیت کے لحاظ سے بار بار جماعت کو یاد کروانے کی ضرورت ہے.خصوصیت کے ساتھ اس لئے کہ جس زمانہ سے ہم گزر رہے ہیں اس زمانہ میں سب سے زیادہ نقصان انسان کو حسد نے پہنچایا ہے اور اس زمانہ کے جتنے فتنے ہیں وہ حسد پر مبنی فتنے ہیں تبھی قرآن کریم کی آخری دوسورتوں میں یہی مضمون مختلف پہلوؤں سے بیان ہوا ہے اور یہ بات اہل علم پر روشن ہے جن کو قرآن کریم کا ادنی سا بھی علم ہے وہ بھی جانتے ہیں کہ قرآن کریم کی آخری سورتوں کا آخری زمانہ سے گہرا تعلق ہے.چونکہ حسد ظاہری طور پر دکھائی نہیں دیتا اور چھپ کر حملہ کرنے والا ہے اس لئے اس کی آخری شکل کو قرآن کریم نے خناس قرار دیا ہے.خناس ایسے فتنہ گر کو کہتے ہیں، ایسے فساد پھیلانے والے کو کہتے ہیں جو حملہ کر کے اپنی کمین گاہ میں جا کے چھپ جائے.جو دکھائی نہ دیتا ہو، پتہ نہ لگے کہ وہ کہاں سے حملے کر رہا ہے اور چونکہ شیطان بھی حسد کی پیداوار ہے جیسا کہ قرآن کریم کی ابتدائی آیتوں سے پتہ چلتا ہے کہ خالصہ حسد کی ہی نتیجہ میں شیطانیت کی آگ بھڑ کی ہے.اس لئے شیطان کے متعلق بھی قرآن کریم یہی بیان کرتا ہے کہ وہ چھپ کر حملہ کرتا ہے تم پر تم اس کو دیکھ نہیں سکتے وہ تمہیں دیکھ رہا ہوتا ہے، تم جانتے نہیں کہ وہ کیسے اور کہاں سے حملہ آور ہوگا.پس اس پہلو سے شیطانیت کا خلاصہ حسد ہے.وہ آگ جس سے شیطان کو پیدا کیا گیا اس نے تو اپنی برتری کے طور پر اس آگ کی طرف اشارہ کیا مگر چونکہ در حقیقت وہ حسد کی آگ بن گئی تھی اس لئے وہ دھتکار دیا گیا.پس ساری شیطانیت کا خلاصہ قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ حسد ہی ہے.میں اس سے بہتر تھا اس کو کیوں انعام کا مستحق قرار دیا؟ مجھے کیوں اس کے تابع کر دیا؟ ساری انسانی زندگی کی تاریخ ، انسانی دلچسپیوں کی تاریخ ، انسانی حکومتوں کے اوپر آنے اور نیچے گر جانے کی تاریخ ، انسانی معاشرے کی تاریخ خلاصہ اسی محور کے گرد گھوم رہی ہے.پس اس لئے ضروری ہے کہ جماعت کو بار بار اس کی طرف متوجہ کیا جائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس زمانہ میں حسد دنیا کے لحاظ سے بھی ہولناک فتنوں پر منتج ہو چکا ہے.صرف اس
خطبات طاہر جلد ۵ 750 خطبه جمعه ۱۴/ نومبر ۱۹۸۶ء لئے نہیں کہ اشتراکیت حسد کی پیداوار ہے بلکہ یہ اس لئے ہولناک فتنہ ہے کہ اشتراکیت اور دہریت اب ایک ہی چیز کے دو نام بن چکے ہیں اور دہریت کے بغیر اشترا کی فلسفہ آگے نہیں بڑھ سکتا اور یہ خالصة حسد کے نتیجہ میں پیدا ہوا ہے.جہاں تک دین کا تعلق ہے قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کا انکار بھی حسد کے نتیجہ میں ہوتا ہے اور اس زمانہ میں بھی وہ آیات جنگی ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی ہے وہ آیات اسی مضمون کو بتارہی ہیں کہ نبوت کے انکار کی ایک بہت بڑی اور اہم بنیادی وجہ حسد ہے اور جو نقشہ کھنچا گیا ہے وہ اس زمانہ پر بہت عمدگی کے ساتھ اور تفصیل کے ساتھ پورا اترتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَبِ يُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوْا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوْا سَبِيلًا کہ کیا تو نے نہیں دیکھا ایسے لوگوں کو جن کو کتاب دی تو گئی مگر فی الحقیقت کتاب کا محض ایک حصہ دیا گیا.یعنی وہ شریعت سے وابستہ تو ہیں ایک الہی کتاب کے ماننے والے تو ہیں لیکن عملی طور پر ان کو کلیۂ کتاب کا ماننے والا نہیں کہا جا سکتا بلکہ کتاب کی تعلیم میں سے ایک حصہ کو وہ اپنائے ہوئے ہیں اور باقیوں کو ترک کر چکے ہیں اور جس حد تک وہ کتاب کو ترک کر چکے ہیں اس حد تک ان میں دو خرابیاں نمایاں طور پر دکھائی دیں گی يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ کتاب کی تعلیم کے ایک حصہ کو ترک کر کے وہ لغویات میں مبتلا ہو گئے ہیں اور رسوم کے پجاری بن گئے ہیں، بے ہودہ لغو رسومات کو انہوں نے دین قرار دے دیا ہے وَالطَّاغُوتِ یا اعتدال پسندی سے نکل کر حد سے زیادہ بڑھنے والا دین اختیار کر لیا ہے.طاغوت اس کو کہتے ہیں ایسی طاقت جو اعتدال پر نہ رہے بلکہ انتہا پسند ہو جائے.بغاوت بھی طاغوتیت کا ایک مظہر ہے اس لئے طاغوت لفظ کے ساتھ باغی کا مفہوم بھی شامل ہے ہر انتہاء پسند وجود طاغوت کے لفظ کے تابع آجاتا ہے.تو فرماتا ہے يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وہ انتہا پسند ہو جاتے ہیں یعنی ایک طرف یہ حال ہے کہ ان کا ایک حصہ لغویات کے پیچھے لگ جائے گا اور دوسرا دین میں اتنا تشدد کرنے لگ جائے گا کہ انتہا تک پہنچ جائے گا اور وسطی حالت باقی نہیں رہتی.
خطبات طاہر جلد۵ 751 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء ان کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی يَقُولُونَ لِلَّذِيْنَ كَفَرُوا هَؤُلَاءِ أَهْدَى مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِیلا کہ یہ لوگ ان لوگوں کو جو خدا کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے خدا کے کسی نمائندہ کو سچا سمجھتے ہوئے اس پر ایمان لے آتے ہیں ان کے متعلق کہتے ہیں کہ ان سے تو وہ لوگ بہتر ہیں جو کتاب کے بھی منکر ہیں جن کا کلیۂ اس دین سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے.یہ بہت ہی بار یک مضمون ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا یعنی وہ یہ نہیں کہتے کہ یہ لوگ جو ایمان لے آئے ہیں خدا کی طرف سے کسی بلانے والے پر چونکہ یہ اسی کتاب پر ایمان لاتے ہیں، جس پر ہم لاتے ہیں اس کے مصدق تو ہیں اس لئے جو کلیہ منکر ہیں ان سے بہتر ہیں یہ نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ باوجود اس سے کہ یہ لوگ بظاہر ہمارے ساتھ ہیں یا ایک حصہ میں ہمارے ساتھ ہیں ،خدا پر ایمان لاتے ہیں.رسالت پر ایمان لاتے ہیں ، ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں، کتب پر ایمان لاتے ہیں، یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں مگر چونکہ یہ ایک ایسے شخص پر بھی ایمان لے آئے ہیں جسے ہم نہیں مانتے اس لئے یہ ان سے بدتر ہیں جو ان سب ایمان کے بنیادی تقاضوں کا انکار کرنے والے ہیں اور یہ آواز جماعت احمدیہ کے متعلق آپ نے بار ہاسنی ہوگی.پہلے تو پاکستان میں ایسی آوازیں سنی جاتی تھیں اب ساری دنیا میں تعاقب کے نام پر مولوی یہی آواز میں دیتے پھرتے ہیں کہ کافروں سے بدتر ہیں عیسائیوں سے بدتر ہیں، یہود سے بدتر ہیں ، دہریوں سے بدتر ہیں، یعنی احمدی ایسے ظالم ہیں ان کے نزدیک کہ خدا کا انکار کرنے والے احمدیوں سے بہتر ہیں، آنحضرت ﷺ کو نعوذ باللہ جھوٹا اور مفتری قرار دینے والے احمدیوں سے بہتر ہیں.یہ نقشہ قرآن کریم کھینچ رہا ہے کہ ان کی ایک علامت یہ ہے کہ ایمان لانے والوں کو وہ کلیہ انکار کرنے والوں سے بھی بدتر قرار دینے لگ جاتے ہیں.أو لَكَ الَّذِيْنَ لَعَنَهُمُ اللهُ جس قوم میں یہ تین صفات پائی جائیں یعنی کتاب پر ایمان تو لاتے ہوں مگر ایک حصہ پر اور ایک حصہ کی بجائے وہ رسموں اور رواج میں پڑ گئے ہوں اور نہایت حقیر اور معمولی معمولی باتوں پر ایمان لاتے ہوں، انہیں اپنی زندگی کا حصہ قرار دے چکے ہوں یا ان میں طاغوتیت پائی جائے، انتہا پسندی پائی جائے ، وہ لوگ جو مومنوں کو کفار سے بدتر قرار دینے لگ جائیں.فرمایا ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا حکم یہ ہے کہ یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی لعنت ہے اور جس پر خدا کی لعنت پڑے تو ہرگز ان کا کوئی مددگار نہیں پائے گا.لازماً یہ لوگ شکست کھانے والے ہیں،
خطبات طاہر جلد ۵ 752 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء نامراد رہنے والے ہیں، اپنے مقاصد میں یقیناً نا کام ہوں گے.اس لئے نہیں کہ دنیا میں ان سے زیادہ طاقتور لوگ ان کا مقابلہ کریں گے.فرمایا اس لئے کہ خدا تعالیٰ ان کا مخالف ہو چکا ہے اور جس کا خدا مخالف ہو جائے اس کا دنیا میں کوئی مددگار نہیں بن سکتا.ایک اور علامت یہ بیان فرمائی آن لَهُمُ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذًا لَّا يُؤْتُوْنَ النَّاسَ نَقِيرًا حال ان کا یہ ہے کہ اگر ان کو کچھ مل جائے خدا کی طرف سے تو لوگوں کو دینے کے لئے تیار نہیں ہوتے ، اگر حکومت پر قابض ہو جائیں تو چمٹ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم نے اس میں سے کسی کو حصہ نہیں دینا نَصِيبٌ مِنَ الْمُلْكِ جب خدا کی طرف سے ان کا حکومت نصیب ہوتی ہے تو چاہتے ہیں ایک ذرہ بھی اس کا کسی اور کو نہ دیا جائے ،ساری کی ساری حکومت پر ہم قابض ہو کر بیٹھ جائیں أمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ جائیدادیں تقسیم کرنے پر تو بے شک حسد کریں کچھ نہ کچھ سمجھ آنے والی بات ہے.فرمایا: أَمْ يَحْسُدُوْنَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِم کیا یہ بیوقوف لوگ اس فضل پر بھی حسد کرنے لگ گئے ہیں جو خدا عطا فرماتا ہے اپنے بندوں کو.اگر یہ بات ہے تو سن لیں فَقَدْ أَتَيْنَا آلَ إِبْراهِيمَ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَأَتَيْنَهُمْ مُلْكَا عَظِيمًا کہ اس سے پہلے ہم آل ابراھیم کو کتاب بھی دے چکے ہیں اور حکمت دے چکے ہیں اور ملک عظیم بھی عطا فرما چکے ہیں پس خدا کے فضلوں کو کوئی چھین نہیں سکتا جب وہ دینا چاہے.یہاں ایک نہایت ہی لطیف نکتہ قرآن کریم نے بیان فرمایا کہ ابراھیم کو کتاب کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ آل ابراھیم پر نعمتوں کا ذکر فرمایا اور درود شریف کی طرف توجہ مبذول فرما دی کــمــا اصــلیـت علی ابراهیم و علی آل ابراهیم مراد یہ تھی کہ آل محمد سے حسد کرنے والے بھی ہوں گے.آنحضرت کے فیض کے نتیجہ میں جن پر خدا فضل فرمائے گا ان پر حسد کرنے والے ہوں گے.فرمایا کہ پہلے ابراھیم کی آل سے تو کچھ چھین نہیں سکے جب ہم نے اس کو عطا کرنا چاہا تھا تو محمد مصطفی ﷺ کی آل سے کیسے چھین لو گے جب خدا عطا کرنا چاہے گا.جو بچے آل محمد ہوں گے انہی پر خدا فضل نازل فرمائے گا جو نبوت کے فضل ہیں اور وہ سارے فضل عطا فرمائے گا جو اس سے پہلے ابراھیم کی آل پر فرما چکا
خطبات طاہر جلد۵ 753 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء ہے.تم کوتاہ دست ہو.تم ابراھیم کی آل سے تو وہ فضل چھین نہیں سکے جل کر خاک ہو گئے مگر کچھ بگاڑ نہیں سکے.اب تم یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہو کہ محمد مصطفی ﷺ کی آل سے خدا کے فضلوں کو چھین لو گے.اللہ ان فضلوں کو دینے والا ہے.آمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلَى مَا أَنهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ یہ ہے حسد کی انتہائی ماردنیا کی معمولی سے معمولی مراتب سے شروع ہوتا ہے، اموال کی تقسیم سے شروع ہوتا ہے، دنیا کی ادنی فضیلتوں کے نتیجہ میں یہ بعض دلوں میں جنم لیتا اور کس گھولنے لگتا ہے لیکن ایسی بیماری ہے جو بڑھتی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ پھر آخر لوگوں کے دین پر حملہ آور ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر بھی لوگ حسد کرنے لگ جاتے ہیں اور نبوت کا انکار اس حسد کے نتیجہ میں ہوتا ہے کیسے کیسے بار یک مسائل قرآن کریم کی چند آیات ہم پر کھول دیتی ہیں اور اس فصاحت و بلاغت کے ساتھ مضمون کو بیان کرتی ہیں کہ کوئی پہلو باقی نہیں رہنے دیتیں لیکن بدقسمتی ہے کہ اس کے باوجود نقصان اٹھانے والے نقصان اٹھاتے چلے جاتے ہیں.پھر ارتداد کی جو تحریک ہے کہ زبر دستی مرتد بنایا جائے تلوار کے زور سے اس کی وجہ بھی قرآن کریم حسد ہی بیان فرماتا ہے فرماتا ہے.نہ صرف یہ کہ انکار کرتے ہیں بلکہ تمہارے ایمان پر حملہ کریں گے اور تمہیں زبر دستی واپس اپنے میں شامل کرنے کی کوشش کریں گے کیونکہ یہ بڑھتے ہوئے اور پھولتے ہوئے اور پھلتے ہوئے تمہیں نہیں دیکھ سکتے.فرمایا : وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتُبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِّنْ بَعْدِ اِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا کہ بہت ہیں اہل کتاب میں سے جو چاہتے ہیں.وہ ایسی خواہش کو کہتے ہیں جو محبت میں تبدیل ہوگئی ہو حد سے زیادہ خواہش غیر معمولی خواہش وَذَكَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتُبِ اہل کتاب میں سے ایک بڑا طبقہ ہے جو شدید خواہش اس بات کی رکھتا ہے لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِّنْ بَعْدِ إِيْمَانِكُمْ كُفَّارًا کہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد پھر کفار میں تبدیل کر دیں، انکار کرنے والوں میں داخل کر دیں.حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِّنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ (البقره:۱۱۰) اس کی وجہ کیا ہے حسد ہے.اب اس جگہ حسد کی طرف اشارہ فرما کر ایک نہایت ہی لطیف نکتہ بیان فرما دیا.تبلیغ تو مومن بھی کرتا ہے اور منافق بھی کرتا ہے اور فاسق بھی کرتا ہے یعنی اپنے اپنے پیغام کی
خطبات طاہر جلد۵ 754 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء طرف بلاتا ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جب مومن کسی کو بلاتا ہے خدا کی طرف یا اس دین کی طرف جسے وہ سچا سمجھتا ہے تو کسی حسد کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس شخص سے پیار اور محبت کے نتیجہ میں جس کو بلا رہا ہوتا ہے.رحمة للعالمین ہونے کے نتیجہ میں دنیا کو بلاتا ہے نہ کہ زحمة للعالمین ہونے کے نتیجہ میں.چنانچہ بظاہر دعوئی ایک ہی ہے، بظاہر ایک ہی نام پر ایک پیغام کی طرف بلایا جا رہا ہے لیکن چونکہ بنیادی طور پر دل میں بلانے کی تحریک کرنے والی طاقت بدل چکی ہے.اس لئے ایک بلا نا لعنت بن جاتا ہے اور ایک بلانا رحمت بن جاتا ہے.ویسے تو آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلام بھی ان لوگوں کو جو دین اسلام سے مرتد ہو گئے ہیں واپس اسلام کی طرف بلاتے ہیں پھر فرق کیا ہوا؟ فرق یہ ہوا کہ وہ ان سے پیار اور محبت کے نتیجہ میں ان کے بچانے کی خاطر بلاتے ہیں اور بعض لوگ اس لئے بلاتے ہیں کہ یہ طاقتور ہورہے ہیں، یہ بڑھ رہے ہیں اور پھیل رہے ہیں اور قوی تر ہوتے چلے جارہے ہیں.حَسَدًا کا مضمون یہ بھی بتا رہا ہے کہ جن لوگوں سے حسد کیا جارہا ہے وہ ویسے تعداد میں تھوڑے تھے اگر اتنے ہی رہتے ہیں تو کوئی فرق نہیں پڑنا تھا ان کو.اگر وہ تبلیغ چھوڑ دیں اور پھیلنا چھوڑ دیں لوگوں کو پیغام پہنچانا چھوڑ دیں تو ان کے خلاف ارتداد کی تحریک بھی خود بخود مر جائے گی کیونکہ ان سے محبت کوئی نہیں ان کو.اگر ان کو اتنا پتہ لگ جائے کہ جس مقام تک پہنچ گئے ہیں اسی پر ٹھہرے رہیں گے اور جس طرح (Stagnant Water) کھڑا ہوا پانی آہستہ آہستہ گندا ہو کر فاسد پانی ، گندا پانی ہو جاتا ہے اسی طرح ان کی تحریک خود بخو دا پنی موت مر جائے گی تو ان کو تم سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی.ہر گز وہ پھر اپنی طرف تمہیں بلائیں گے ہی نہیں، انھیں ضرورت ہی کوئی نہیں تمہیں اپنی طرف بلانے کی لیکن جب یہ دیکھتے ہیں کہ تم پھیل رہے ہو تم رسوخ بڑھارہے ہو تم زیادہ طاقتور ہوتے چلے جا رہے ہو تو چونکہ تم سے انہیں محبت نہیں ہے بلکہ دشمنی ہے اس لیے حسد کے نتیجہ میں ان کی ارتداد کی تحریکیں جنم لیتی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ ہم تمہیں زبردستی اپنے اندر واپس لے کر آئیں گے.تو کتنا نمایاں فرق ہو گیا ہے ایک تبلیغ کا دوسری تبلیغ سے کیونکہ محرکات بدل گئے ہیں.اب عجیب بات ہے بعینہ اسی آیت کی تفسیر میں یوں معلوم ہوتا ہے جس طرح کوئی اس زمانے کے حالات کو سامنے رکھ کر یہ بات بیان کر رہا ہے اور یقیناً خدا تعالیٰ کا کلام ہے جو زمانے کے حالات کو سامنے رکھ کر یہ بیان فرمارہا تھا.جس طرح ان امور کا اطلاق اولین دور پر ہوا اسی طرح آخرین کے دور پر بھی ہو رہا ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 755 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء کھلم کھلا مطالبے یہ کئے جارہے ہیں کہ تم پھیلنا بند کر دو ہم تمہیں زبر دتی واپس لا نا بند کر دیں گے.یعنی تم اتنے ہی رہو چاہے جہنم میں جاؤ، ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے.چاہے ہلاک ہو جاؤ ہمیں ذرا کوڑی کی بھی فکر نہیں ہوگی.لیکن اگر پھیلو گے تو پھر ہم تمہیں سزا دیں گے، پھر تمہیں زبر دستی چھین کر اپنی طرف واپس لے کر آئیں گے.تو ان کی تبلیغ کا محرک حسد ہے.فرمایا اس کا جواب کیا ہے: فَاعْفُوا وَاصْفَحُوْا حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى (البقره: ۱۱۰) كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ کہ اے مومنوں جن کو حسد کی بنا پر ان کی نشو و نما کو دیکھ کر جلتے ہوئے لوگ زبر دستی تلوار کے زور پر ظلم و تعدی کے ذریعہ ہوا پس اپنے دین میں کھینچ کے لانے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو خدا تعالیٰ فرماتا ہے میرا پیغام یہ ہے فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا ان سے اعراض کرو اور درگزر سے کام لو، ان کے خلاف کوئی انتقامی کارروائی نہ کرو یہاں تک کہ خدا تعالیٰ اپنا فیصلہ ظاہر فرما دے.اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ حقیقت میں غلبہ دینا خدا تعالیٰ ہی کا کام ہے.ایسے کمزور لوگ جن کو ہر کس و ناکس اٹھ کر مٹا دینے کے دعوی کرنے شروع کر دیتا ہے، ایسے کمزور لوگوں کا آج یہ دعوی کہ ہم غالب آجائیں گے محض ایک احمق کی خواب قرار دیا جا سکتا ہے اس سے زیادہ اس کو نہیں قرار دیا جا سکتا لیکن اگر اللہ ان کے ساتھ ہو، اگر تائید سماوی ان کو حاصل ہو، اگر خدا کی پشت پناہی انھیں نصیب ہو تو پھر بات بالکل بدل جاتی ہے پھر ان کو خدا بیچ میں سے ہٹا دیتا ہے فرماتا ہے حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِأَمْرِهِ تم بٹ جاؤ بیچ میں سے فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا کا ایک یہ بھی معنی ہے کہ اچھا پھر تم راہ سے ہٹ جاؤ ، تم اس سے درگزر کرو اور ایک طرف ہو جاؤ اور انتظار کرو کہ خدا اپنے فیصلے کو صادر فرمائے گا.اِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ تم کسی چیز پر قادر نہیں ہومگر خدا ہر چیز پر قادر ہے.ط وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَاتُوا الزَّكُوةَ ، وَمَا تُقَدِّمُوا لأَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
خطبات طاہر جلد۵ 756 خطبه جمعه ۱۴/ نومبر ۱۹۸۶ء وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُوْدًا أَوْ نَطَرُى تِلْكَ آمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (البقرہ: ۱۱۱ ۱۱۳) ان آیات کا مضمون یہ ہے کہ جہاں تک تمہارا تعلق ہے تم عبادتیں قائم کر وخدا تعالیٰ کے لئے نماز کو قائم کرو اور خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہو اور جو کچھ بھی تم اپنی طرف سے اموال کی قربانی کے طور پر خدا کے حضور پیش کرو گے مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ یقینا اس کو اللہ کے حضور موجود پاؤ گے.مراد ہے اس کے اجر کو ، خدا اسکے اجر کو ضائع نہیں کرے گا إِنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيرَ اللہ تعالیٰ تمہارے اعمال کو بہت دیکھ رہا ہے اور جہاں تک ان کا یہ دعویٰ ہے کہ جو ہمارے دین سے الگ ہیں ہمارے خیال کے مطابق دوسرے ادیان سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں، ان کو خدا تعالیٰ جنت میں داخل نہیں کرے گا.فرمایا تِلْكَ آمَانِيُّهُمُ یہ ان کی خواہشات ہیں.یہ فیصلہ کہ کون جنت کے قابل ہے کون جہنم کے قابل ہے.یہ تو اللہ کا فیصلہ ہے اور اس پر بندوں کی خواہشات اثر انداز نہیں ہو سکتیں.جہاں تک خدا کے فیصلہ کرنے کا طریق ہے وہ ایک ہی ہے بَلَى مَنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ فَلَةَ أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ خبر دار جو شخص خدا کے لئے اپنے وجود کو سپرد کردے خدا کے حضور وَهُوَ مُحْسِن اور ہر کام میں تحسین کرنے والا ہو، اپنے پر عمل کو حسن بخشنے والا هو فَلَة أَجْرُهُ عِنْدَ رَبِّهِ اس کا اجر یقیناً اس کے رب کے حضور ہے وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ نہ ان کے لئے کوئی خوف کی جگہ ہے نہ کوئی غم کا مقام ہے.پس جماعت احمدیہ کے حالات کو اس تفصیل سے قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ اس کے بعد کچے اور جھوٹے کی پہچان میں ایک ادنیٰ سے تدبر کے نتیجہ میں بھی فرق واضح ہو جاتا ہے.یعنی اگر کسی میں معمولی سی بھی عقل ہو اور قرآن کریم کی ان آیات کو غور سے اور تفصیل سے بڑھے تو اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں رہتی اشتباہ کی کہ میں نہیں جانتا کہ بچے کون ہیں اور جھوٹے کون ہیں کیونکہ اتنے تفصیلی فرق ہیں کہ ساری کی ساری علامتیں بعض لوگوں میں پائی جائیں گی اور بعض لوگوں میں ان علامتوں میں سے ایک بھی نہیں پائی جائے گی اس کے برعکس علامتیں پائی جائیں گی.دن اور رات کی
خطبات طاہر جلد۵ 757 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء طرح یہ آیات فرق نمایاں کر دیتی ہیں مگر دونوں جگہ بنیادی طور پر جس خوفناک مہلک بیماری سے متنبہ کیا گیا ہے وہ حسد تھی.حسد نبوت کے انکار پر منتج ہوتا ہے اور حسد کے نتیجہ میں نبوت کے مقاصد میں دخل اندازی کی جاتی ہے اور خدا تعالیٰ کے کاموں کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے اور حسد ہی کے نتیجہ میں دہریت کی بہت ہی خوفناک عالمگیر مہلک تحریکات چلتی ہیں اور حسد ہی کے نتیجہ میں انسان کا اقتصادی نظام بھی ختم ہو جاتا ہے اور اس کا معاشی نظام بھی تباہ ہو جاتا ہے، اس کی گھریلو زندگی بھی تباہ ہو جاتی ہے.تو ایک ایسی بیماری ہے جو بہت ہی وسیع الاثر ہے ورنہ قرآن کریم آخری بات جاتے جاتے یہ نہ کہتا کہ حسد کے خلاف ہم تمہیں متنبہ کر رہے ہیں.یہ اللہ سے دعا مانگو کہ و ہمیں حاسد سے بچائے.اہم باتیں انسان جس طرح دنیا میں جاتی دفعہ دہراتا ہے یاد دہانی کراتا ہے یا سفر پہ جانے والا ہو باپ تو جاتے جاتے وہ ساری نصیحتیں دہر انہیں سکتا، مرکزی نکتے بیان کر دیتا ہے کہ دیکھو جو میں نے تمہیں کہا تھا یہ بات خاص طور خیال رکھنا.تو قرآن کریم ختم کے بالکل قریب پہنچ گیا ہے، آخری چند سطریں رہ گئیں اور اس وقت آپ کو متنبہ کرتا ہے کہ ہاں یا درکھنا ، دعائیں کرنا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حاسد کے حسد سے بچائے.تو اگر یہ اتنی خوفناک چیز ہے اور اگر یہ ہمارے مقابل پر سب سے زیادہ ظلم پھیلانے والی چیز حسد ہے، تو کیا ہمارے لئے ضروری نہیں کہ ہم اپنے اندراس کو ہمیشہ تلاش کرتے ر ہیں کہ کہیں مخفی طور پر یہ ہمارے اندر داخل نہیں ہو چکی.کیونکہ جیسا کہ میں نبیان کیا تھا حسد مخفی رہتا ہے.حسد کرنے والے کو پتہ نہیں لگتا ہے کہ میں کیوں کر رہا ہوں.بڑی بڑی نصیحتیں کرنے والے آپ دیکھیں گے جو خالصہ جل کر آگ بگولہ ہو کر نصیحتیں کر رہے ہوتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ بڑا نیکی کا کام کر رہے ہیں اور جو کوئی ان کو کہتا ہے کہ یہ تخریبی نصیحت ہے تو وہ اس سے لڑ پڑتے ہیں اور کہتے ہیں تم کون ہوتے ہو ہمیں تخریبی کہنے والے تمہیں بات سننے کا حوصلہ ہی کوئی نہیں.ہم تو نصیحت کرتے ہیں اور تم اسے تخریبی تنقید کہ رہے ہو حالانکہ اگر وہ دل میں ٹولتے تو ضرور پہچان جاتے کہ نصیحت کرنے کا آغاز جذبہ حسد سے ہوا تھا کسی محبت کے نتیجہ میں نہیں ہوا تھا.بعض دفعہ جب ایسے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے الــديــن النصيحة (بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر: ۸۲) تم کون ہوتے ہو آ نحضرت علیہ کی نصیحت کے رستے میں حائل ہونے والے ہمارا کام ہے ہم نصیحت کریں گے اور کوئی ہمیں اس نصیحت سے روک
خطبات طاہر جلد ۵ 758 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء نہیں سکتا ہے.پس حسد آپ پیچھے ہٹ جاتا ہے اور نصیحت کے نام پر آگ اگلنے لگتا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ کلام الہی میں اور کلام محمد ﷺے میں رخنہ ڈالنے کی خدا اجازت ہی نہیں دیتا ایسا کامل کلام ہے کہ جو اپنے اندر تمام دفاعی نظام رکھتا ہے.انگریزی میں لفظ Admonishment اگر نصیحت کا ترجمہ کیا جائے تو بالکل ایک کھوکھلا اور بے معنی ترجمہ ہے یہ کیونکہ لفظ نصیحت ایک ایسا حیرت انگیز لفظ ہے کہ اسے اختیار کرنا ہی حضرت رسول اکرم ﷺ کی صداقت اور فصاحت و بلاغت پر دلالت کرتا ہے.نصیحت کا بنیادی معنی کسی کو پر چار کرنا نہیں ہے بلکہ نصیحت کا بنیادی معنی اپنی محبت کو خالص کرنا ہے اور اسی لئے لفظ نصیحہ مختلف شکلوں میں عربی میں پایا جاتا ہے.خالص شہد بھی ناصح شہد کہتے ہیں اور خالص مکھن کو اور خالص گھی کو بھی ناصح گھی اور ناصح مکھن قرار دیں گے.قرآن کریم بھی غریب مومن جو کسی طرح قربانیوں میں حصہ نہیں لے سکتے نہ جسمانی نہ مالی ان کے متعلق فرماتا ہے اِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ (التوبہ:۹۱) ان پر کوئی حرف نہیں ہے ان کو کوئی فکر کی ضرورت نہیں ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ نصیحت کا معاملہ کریں.اب نصح له کا عام ترجمہ جو سمجھا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کو نصیحت کریں.اب کون ہوتا ہے اللہ اور اس کا رسول کو نصیحت کرنے والا وہاں یہی معنی ہے کہ اگر وہ صرف اتنا کریں کہ خدا تعالیٰ سے اپنی محبت کو خالص کرلیں اور محمد مصطفی ﷺ سے اپنی محبت کو خالص کر لیں تو اور کچھ بھی نہ کرسکیں یہی ان کی بخشش کے لئے کافی ہو جائیگا ان کو کسی فکر کی ضرورت نہیں.نَصحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ کا یہ مطلب ہے.پس نصیحت کا معنی ہے خالص محبت اور جب خالص ہو تو اس کے طبعی نتیجے کے طور پر غلط بات سے روکنے کی تمنا پیدا ہوتی ہے.ہر وہ چیز جو نقصان پہنچانے والی اپنے محبوب کو دل چاہتا ہے کہ اس کو ہٹا دیں.پس عربی میں لفظ نصیحت کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ کلام جو کسی کو اس کی خیر خواہی کی خاطر کہا جائے اور جو بنیادی طور پر شدید اور خالص محبت کے نتیجہ میں پیدا ہو.اب ہر انسان اپنے دل میں ٹٹول کر دیکھ سکتا ہے کہ میں نے جو بات کی تھی وہ عربی کے لحاظ سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قول کے لحاظ سے نصیحت کہلانے کی مستحق بھی ہے کہ نہیں.اگر وہ جذ بہ محبت سے مجبور ہو کر کہی گئی ہے تولازماً وہ نصیحت ہے وہ دین ہے اس کا.اس میں کوئی شک نہیں ، اس کا حق ہے اس دین کو زندہ رکھنے کا اس کی حفاظت کرنے کا لیکن اگر اس کے پیچھے جذبہ حسد ہے کوئی دشمنی کوئی عداوت، کوئی جلن تو اس کا نام
خطبات طاہر جلد ۵ 759 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء نصیحت رکھنا یہ ایک بیوقوفی ہے، وہ بے شک اسے نصیحت کہتا چلا جائے الـديـن الـنـصـيـحـة میں وہ نصیحت شمار نہیں ہو سکتی.پس جماعت احمدیہ نے چونکہ نصیحت کرنی ہے ، بیرونی بھی اور اندرونی بھی اس لئے جماعت احمدیہ کو اس مضمون کو خوب سمجھنا چاہئے اگر جماعت احمدیہ کی نصیحت میں حسد شامل ہو گیا یہ ہمیشہ چھپ کر شامل ہوا کرتا ہے.تو جماعت کا اندرونی نظام بھی تباہ ہو جائے گا اور بیرونی تبلیغی نظام بھی تباہ ہو جائیگا.اسی رستہ پر جماعت چل پڑے گی جن رستوں کے چلنے والوں سے دکھ اٹھا رہی ہے جن رستے پر چلنے والوں کے غضب کا نشانہ بنی ہوئی ہے آج.انہی رستوں پر خود چل پڑے گی اور پتہ بھی نہیں چلے گا کہ ہم کیا کر بیٹھے ہیں اور کیا کر رہے ہیں.اس لئے نہایت گہری نظر کی ضرورت ہے، نہایت فکرمندی کے ساتھ ان باتوں کا جائزہ لینا چاہئے اور اپنے دلوں کو ٹولنا چاہئے ، اپنے گھروں کی حفاظت کرنی چاہئے کہ کسی طریق سے بھی حسدان میں داخل نہ ہو اور حسد عجیب عجیب طریقوں سے انسان میں داخل ہوتا ہے ایسے ایسے بھیس بدل کے آتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.بسا اوقات ہم نے دیکھا ہے عام روزمرہ کی زندگی میں تو کسی خاندان کو خدا تعالیٰ نے دولت عطا فرما دی ہے تو اس کی برائیوں کی طرف تو انگلیاں اٹھنے لگ جاتی ہیں اور ان کے اگر ساتھ نظام جماعت ذرا سا بھی حسن سلوک کرے تو سب یہ کہنے لگ جائیں گے کہ دیکھا! امیر لوگ تھے اس لئے ایسا ہوا.کوئی جماعت کا نمائندہ کسی امیر کے گھر ٹھہر جائے اور امیر لوگوں کو بھی اپنی محبت اور اخلاص میں خواہش ہوتی ہے کہ ہم جماعت کے نمائندوں کو ٹھہرائیں.جو خالصۂ محبت رکھنے والے لوگ ہیں وہ پسند کرتے ہیں اس بات کو وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے پاس آئیں لیکن تکلیف نہ اٹھا ئیں اور جو ہم میں سے نسبتاً متمول ہیں جو ان کے آرام کا خیال رکھ سکتے ہیں ان کے پاس ٹھہریں اور بسا اوقات مجھے بہت لمبے سفروں کا تجربہ ہے غرباء کی طرف سے یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ ہمارے گھر بھی قدم رکھیں لیکن آپ کا آرام مقدم ہے اس لئے فلاں گھر میں آپ کے ٹھہرنے کا انتظام کیا گیا ہے.امیر جماعت ہے وہ خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ میرے گھر ٹھہر ولیکن کہتا ہے کہ نہیں مجھے پتا ہے کہ آپ کو تکلیف پہنچے گی نسبتاً اس لئے میں چاہتا ہوں کہ فلاں جگہ ٹھہریں اور بعض لوگ جن کا جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، قربانیوں میں شامل نہیں ہوتے وہ ان دوروں کے بعد چٹھیاں لکھنا
خطبات طاہر جلد۵ 760 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء شروع کر دیتے ہیں کہ فلاں جماعت کا نمائندہ فلاں گھر ٹھہرا تھا آرام سے چند دن مرغے کھا کر چلا گیا واپس اور وہ سمجھتا ہے کہ یہ لوگ مخلص ہیں اور ہم لوگ غریب ہیں اس لئے ہم مخلص نہیں ہیں.اکثر ان الزامات میں کوئی بھی سچائی نہیں ہوتی ، جو جانے والے ہیں بہت سے میں جانتا ہوں جن کے متعلق شکایت آتی ہے نہایت مخلص فدائی خود قربانی کرنے والے ان کا اگر بس چلے تو وہ غریب سے غریب آدمی کے بھی پاس جا کے ٹھہریں.چونکہ وہ نظام جماعت کا احترام کرنے والے ہوتے ہیں، روایات سلسلہ کو جانتے ہیں جہاں امیر جماعت نے کہہ دیا وہیں وہ ٹھہریں گے اور پھر دیکھنے والے حاسد کی آنکھ کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ وہ دل میں یہ تمنالے کر جاتے ہیں کہ جس طرح بھی ہو سکے چاہے غریبانہ طور پر ہی سہی ہم ان کی مہمان نوازی کا بدلہ ضرور ا تاریں.چنانچہ قادیان کا بھی مجھے یاد ہے، ربوہ کا بھی تجربہ ہے اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے واقفین زندگی غریب لوگ جب باہر جا کر امیروں کے گھر ٹھہرتے ہیں تو جب بھی وہ ربوہ میں قدم رکھتے ہیں تو یہ منتیں کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں سے چائے کی ایک پیالی پی لو.دل میں ایک احسان کا اور قدرشناسی کا جذبہ ہوتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ اس طرح کچھ نہ کچھ ان کا احسان کا بدلہ اتارا جائے.وہ احسان لینے کے بھو کے نہیں ہوتے احسان سے زیر بار محسوس کرتے ہیں اپنے آپ کو.وہ شرمندہ ہو کر واپس آتے ہیں لیکن حاسدان کے خلاف بھی باتیں کرتا رہتا ہے.خاندان کے متعلق بعض دفعہ اور طرف کے حسد ہوتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان کا مجھے تجربہ ہے مختلف قسم کے لوگوں سے تعلقات کا اور ان کے اظہار خیال کا اور یہ بات بھی ایسی ہے جو وقتا فوقتا دہرائی جانی چاہئے اور جماعت کا اصل آداب سے اور سچائی سے بار بار مطلع رکھنا چاہئے ورنہ حسد یہاں بھی داخل ہو جاتا ہے اور کئی قسم کی خرابیاں پیدا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان سے جماعت کی بھاری اکثریت محض اس لئے محبت رکھتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ان کا تعلق ہے اور یہ طبعی محبت ایسی گہری ہے کہ آنحضرت ﷺ کے خاندان کو بنے ہوئے جو بیٹی کی طرف سے تھا چودہ سوسال ہو گئے ہیں لیکن آج تک امت مسلمہ سے اس خاندان کی محبت اور عزت دل سے نہیں نکلی.ایک طبعی چیز ہے لیکن اگر اس محبت کو بے روک ٹوک آگے بڑھنے دیا جائے تو اس کے نتیجہ میں بھی نقصان پہنچ جاتا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 761 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء اور بعض دفعہ شدید نقصان پہنچتا ہے.اگر اس محبت سے جل کر نصیحت کے نام پر طعن کئے جائیں تو اس سے بھی انسان کو بہت شدید نقصان پہنچتا ہے.اس لئے مومن کا کام ہے کہ بیدار مغزی سے اپنے سارے جذبات کا تجزیہ کرتے ہوئے چلے اور اس زندگی میں محسوس کرے کہ میں یہاں بھی پل صراط سے گز رہا ہوں بہت باریک فیصلے ہوتے ہیں جو روز مرہ زندگی میں مجھے کرنے پڑنے ہیں اگر ان میں غلطی کرونگا تو اس کے نتیجہ میں آخرت میں بڑے نقصان کا موجب میری یہاں کی ٹھو کر بن سکتی ہے اور وہی پل صراط کی لغزش ہے جو دراصل ایک تمثیل کی شکل میں بیان فرمائی گئی ہے.مختلف ادوار میں ہم نے دیکھا ہے بعض لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اولاد سے محبت کرتے ہیں لیکن جاہلا نہ محبت نہیں کرتے.اگر کوئی ان میں سے سچائی سے ہٹنے لگے ، اس کے اعمال خراب ہو جائیں، لین دین میں وہ گندا ہو جائے ، دین کی ذمہ داریوں میں پیچھے ہٹ جائے تو وہ اس کے نتیجہ میں اس کے لئے تکلیف تو محسوس کرتے ہیں مگر اسے عزت میں نیک خاندان کے افراد کے ساتھ ملاتے نہیں پھر لیکن ان کے دل میں ایسے ان محروموں کے لئے تکلیف ضرور ہوتی ہے جیسے اپنے بچوں کے لئے تکلیف ہوتی ہے.اپنے بچوں میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض سعادت مند ہیں بڑی خدمت کرتے ہیں ماں باپ کی اور بعض ظالم بن جاتے ہیں.کون ماں باپ ہے جو ہوش مند ہو اور دونوں سے بالکل ایک ہی طرح سلوک کرے جو خدمت کرنے والے ہیں جو بچے ہیں جوا خلاص رکھنے والے ہیں ان سے وہ پیار کرتا ہے اور جو دوسرے ہیں ان سے وہ دشمنی نہیں کرتا مگر اپنی تکریم میں فرق کر دیتا ہے.اس کے لئے دکھ محسوس کرتا ہے لیکن دکھ جو ہے وہ عداوت میں نہیں بدلا کرتا.پس قرآن کریم میں جو ایتائے ذی القربیٰ کا حکم ہے اس میں ایک یہ مضمون ہے جو بیان ہوا ہے کہ جب تم مومنوں سے سلوک کرو تو اپنے قریبیوں کے ساتھ جس طرح سلوک کرتے ہو اس پر نظر رکھو وہ سلوک تمہاری راہنمائی کرے گا کہ کون سا درست سلوک ہے کونسا غلط سلوک ہے.قرآن کریم فرماتا ہے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے کہ ان سے کہہ دے کہ میں تم سے کوئی جز انہیں چاہتا ہوں إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى اقرباء کی جو تم مودت رکھتے ہو وہ تمہارے لئے رہنما اصول ہو جانا چاہئے تمہیں خدا نے یہ سب باتیں سکھا دی ہیں.اسی طرح کا مجھ سے اور میرے قریبیوں سے سلوک کرو یہی کافی ہے تمہارے لئے اور میں تم سے کسی جزا کی تمنا نہیں رکھتا یہ تمہارے
خطبات طاہر جلد۵ 762 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء سمجھانے کے لئے تمہاری بہتری کے لئے بتا رہا ہوں کہ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبي (الشورى :۲۳) کا سلوک کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں بھی ہم نے دیکھا بکثرت وہ چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی پیار کرتے تھے لیکن ان کو وہ پیر نہیں بنایا کرتے تھے جو غلط کام کرتے ہیں تو ان کو نصیحت کیا کرتے تھے.کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ غلطی کریں اور ان کو سمجھایا نہ ہو انہوں نے اور تکلیف محسوس کرتے تھے.لیکن طعن آمیزی نہیں کرتے تھے.اس سے پتہ چلا کہ ان کی نصیحت محبت کے نتیجہ میں تھی حسد کے نتیجہ میں نہیں تھی حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے بھی بار ہا مختلف وقتوں میں خطبے میں اس مضمون پر مختلف رنگ میں روشنی ڈالی.بعض دفعہ جب دیکھا کہ بعض بچوں کی عادتیں بگڑ گئی ہیں لوگوں نے ان کو صاحبزادہ صاحب،صاحبزادہ صاحب کہہ کہہ کے ان کو بالکل بے وقوف بنا دیا ہے ، وہ سمجھتے ہیں عزت ہمارا ذاتی حق بن گئی ہے.اس کے نتیجہ میں وہ دین کی ذمہ داریاں ادا نہیں کر ر ہے تو بڑے سخت خطبے بھی دیئے اور بڑے جلالی خطبے دیئے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے حکم دے رہے ہیں کہ ان کے بخیے ادھیڑ کے رکھ دو ان لوگوں کے لیکن دوسری دفعہ ایسے خطبے بھی دیئے جن سے پتہ لگتا تھا کہ احترام اور محبت اور ادب یہ اپنی جگہ ایک مقام رکھتے ہیں ان چیزوں کو نہیں چھوڑ نا چاہئے.ایسے خطبوں کے بعد میں چونکہ خود تجربہ سے گزرا ہوں میں آپ کو بتاتا ہوں کہ کس قسم کے رد عمل دیکھے گئے.بعض لوگ ایسے تھے جو ہمیشہ جلا کرتے تھے ان کو حسد ہوتا تھا کہ ان کی عزت کیوں کی جاتی ہے انہوں نے پھر نیک اور بد کی بھی تمیز اڑا دی.ہر ایک کے ساتھ انہوں نے ظلم کا سلوک شروع کر دیا، طعن کا سلوک شروع کر دیا اور جب انہیں کوئی سمجھاتا تھا تو کہتے دیکھو حضرت صاحب نے خطبہ دیا ہے تم کون ہوتے ہو ؟ ان کے ساتھ یہی سلوک ہونا چاہئے.چنانچہ حسد پھر یزیدیت کو جنم دے دیتا ہے اور کچھ لوگ ایسے تھے انہوں نے فرق کیا ہے.جن کے متعلق جانتے تھے کہ وہ مخلص ہیں دین سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کو اپنی شوق نہیں ہے عزت کروانے کا ان کے ساتھ انہوں نے اسی طرح محبت کا تعلق جاری رکھا اور جن کے متعلق نشاندہی کی گئی تھی اس سے بے تعلق ہو گئے لیکن نفرت کے نتیجہ میں نہیں ، اس بے تعلقی میں بھی دکھ محسوس کرنے لگ گئے.
خطبات طاہر جلد۵ 763 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء چنانچہ میں نے بعض خط پڑھے ہیں اتنے درد ناک بعض ہمارے اپنے بھائیوں کے نام بچپن کی باتیں ہیں لیکن ایسا گہرا مجھ پر اثر چھوڑ گئیں کہ آج تک وہ اثر مٹ نہیں سکتا کہ ہمیں تم سے بہت محبت ہے لیکن تمہاری یہ جو باتیں ہیں یہ باتیں ہمارے دل میں ایک تکلیف کا تلاطم برپا کر رہی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ تم سے پیار کریں اور محبت کریں مگر تم نہیں کرنے دیتے اور خلیفہ وقت کا ارشاد روک بن گیا ہے ہماری راہ میں.اس لئے نہ سمجھنا کہ ہم تم سے دور ہٹ گئے ہیں تم دور ہٹ رہے ہو تم واپس آؤ اپنے رستوں پر جو مقام ہے اس کو حاصل کرو.ان خطوط نے بعض گھر کے افراد پر بہت ہی گہرا اور نیک اثر ڈالا ، ان کی کیفیت ہی بالکل بدل گئی.چنانچہ بظاہر دونوں جگہ ادعا ایک ہی تھا کہ ہم نصیحت کر رہے ہیں لیکن ایک نصیحت بغض کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے، ایک نصیحت محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے، نصیحت وہی ہے جو دین کہلانے کی مستحق ہے جو آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق دین کہلانے کی مستحق ہے جو محبت کی پیداوار ہو.دشمنی اور عناد کی پیداوار کبھی نصیحت نہیں کہلا سکتی اور ہر کہنے والا اگر اپنے دل کو ٹولے تو اسے محسوس ہو سکتا ہے معلوم ہو سکتا ہے، کہ یہ نصیحت تھی یا بغض کا اظہار تھا اور یہ بغض کا اظہار پھر کسی مقام کو بھی نہیں چھوڑتا.کبھی امارت کو حقوق دیئے جاتے ہیں یہ کہہ کر کہ امیر کا حق ہے اور صرف خلیفہ کا حق نہیں، کبھی اسی آواز سے خلیفہ کے حق بھی چھینے جاتے ہیں گویا کہ ایسے لوگ اپنے دل میں کس گھولتے رہتے ہیں جس کروٹ سے بھی انکے بغض کو تسکین ہو وہ اس کو دیتے چلے جاتے ہیں اور اس کا نام رکھا ہوتا ہے صداقت،اظہار صداقت، سچائی کا بیان ،نصیحت.نصیحت ایک ایسا لفظ ہے جو سب سے زیادہ خطر ناک شکل اختیار کر سکتا ہے اگر آپ اس کو پہچانتے نہ ہوں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آنحضرت علیہ نے لفظ نصیحت استعمال کر کے اس کے حقیقی مضمون کی طرف توجہ دلا دی اور بڑی واضح پہچان ہے ہر گز دھوکہ کھانے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.اگر آپ کی نصیحت جس کو ہم اردو میں نصیحت کہتے ہیں عربی نصیحت کے ساتھ ہم آہنگ ہے یعنی محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے تو مبارک ہو آپ کو کہ آپ کو جنت کی طرف لے کر جائے گی اور آپ دین میں ترقی کریں گے اور یہی نصیحت آپ کا دین بن جائے گی لیکن اگر اس کی پیدا ہونے کی جگہ، اس کا محرک بغض ہے خواہ وہ مالدار لوگوں سے ہو یا دیندارلوگوں سے ہو خواہ وہ امیر سے ہو خواہ وہ خلیفہ سے ہو، خواہ وہ کسی خاندان سے ہوا اگر بغض کے نتیجے میں کوئی نصیحت پیدا ہوئی ہے تو اس کو وہ
خطبات طاہر جلد۵ 764 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء فائدہ پہنچائے یا نہ پہنچائے نصیحت کرنے والے کے لئے جہنم کے سامان ضرور پیدا کرے گی اور یہی وہ چیز ہے بالآ خر جو دنیا کی عاقبت کو خراب کر دیتی ہے.ایسی ہی نصیحت کے نتیجہ میں پھر وہ تحریکات چلتی ہیں جو دین کو مٹانے کے لئے اٹھتی ہیں اور اس کا نام وہ نصیحت رکھتے ہیں.یہی وہ جھوٹی نصیحت ہے جو ظلم اور تشد د بن کر آج آپ کی راہ میں کھڑی ہوئی ہے کہ ہم نے تمہیں حق نہیں پھیلانے دینا.تو آج جس نصیحت کا ظالمانہ پھل کھانے لگے ہیں غیروں کے ہاتھ اسے آپ خود اختیار کر لیں اور اپنی ہلاکت کا موجب بن جائیں یہ کون سی عقل کی بات ہے اس لئے میں حسد سے متنبہ کرتا ہوں، خبر دار کرتا ہوں.باریک راہیں تقویٰ کی نصیب ہی نہیں ہو سکتیں جب تک حسد کی باریک راہوں سے آپ متنبہ نہیں ہوں گے.حسد کی باریک راہوں سے آگاہ ہوں تو تقویٰ کی باریک راہیں آپ کو ضرور نصیب ہوں گی.اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو اس کا پھل آپ کو دنیا میں بھی ملے گا اور گندہ پھل ملے گا.میرا ایک جائزہ ہے عمومی اور اس جائزہ سے میں بڑا خوف کھاتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو نصیحت کرتے ہیں بغض کی بناء پر ان کی اولاد میں ضائع ہو جاتی ہیں.اگر وہ نصیحت دین تھی تو کیسے ممکن ہے کہ ان کی اولادوں کا دین جاتا رہے اس نصیحت کے نتیجہ میں.کیسی خدا کی پکڑ ہے جو ادھار نہیں رکھتی.بڑے بڑے ناصح آپ اس دنیا میں دیکھیں گے جنہوں نے ساری عمر بظاہر نصیحت میں صرف کی ہے لیکن ان کی اولادیں بے دین ہو گئیں، ظالم ہوگئیں، ہاتھ سے نکل گئیں کوئی ان کو روک نہیں سکا.آنحضرت مع ضرو ریچے ہیں اور ہمیشہ بچے رہیں گے.آپ فرماتے ہیں الــديــن النصيحة تولا ز ما نصیحت دین پر منتج ہونی چاہئے نہ کہ ظلم اور بے دینی پر.اس لئے ایسے لوگ جھوٹے ہیں جو بظا ہر ناصح بن کر زندگی بسر کرتے ہیں مگر ان کی اولادیں ان کے ہاتھوں سے نکلتی چلی جاتی ہیں کیونکہ خدا کا قانون ہے کہ اولاد جانتی ہے کہ ماں باپ کے دل میں اصل کیا بات تھی.کسی کی محبت کے نتیجہ میں بات کر رہا تھا.یا کسی کے بغض کے نتیجہ میں بات کر رہا تھا بظاہر وہ جب دنیا سے باتیں کر رہا تھا تو اس کا بغض نظر نہیں آتا لیکن گھر میں بچے دیکھ رہے ہوتے ہیں، بچوں سے وہ چھپانے کی کوشش بھی زیادہ نہیں کرتا باہر نصیحت کر کے آتا ہے بڑی ملمع سازی کے ساتھ اور بڑے پیارے شریفانہ مہذب الفاظ میں لپیٹ کر اور گھر میں آکر کہتا ہے کہ دیکھو جی فلاں آدمی فلاں بنا پھرتا ہے یہ تو اس کا حال ہے بیچ میں سے جب اس کا بغض گھر میں ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے کچھ اس وجہ سے کچھ بچوں کو
خطبات طاہر جلد۵ 765 خطبه جمعه ۴ ارنومبر ۱۹۸۶ء خدا تعالیٰ نے بڑی فراست عطا فرمائی ہوتی ہے، وہ اپنے ماں باپ کے دل کے حال سے خوب واقف ہوتے ہیں ، ان کی اولادیں ضائع ہو جاتی ہیں.تو ہر پہلو سے آپ دیکھیں تو حسد کا کیڑا ایک نہایت ہی خطرناک کیڑا ہے جو چھپ کے حملے کرتا ہے اور زندگی کی ہر دلچپسی پر حملہ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے انسان کی زندگی کے ہر شعبے پر حملہ کرنے کی استطاعت رکھتا ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگتے ہوئے اس برائی کی احمدیت میں سے بیخ کنی کریں اس کو پنپنے نہ دیں.جہاں اس کے کیڑے کو سراٹھا تا دیکھیں وہاں اس کو دبانے کی کوشش کریں نصیحت کے ذریعہ دشمنی کے ذریعہ نہیں.یہ نفرت کا کیڑا محبت سے مارا جائے گا آپ کے دل سے جو سچا پیارا ٹھے گا اس شخص کے لئے جس کے دل میں یہ کیڑا پنپ رہا ہے وہ اس کی شفا کا موجب بنے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فر مائے گا.
خطبات طاہر جلد۵ 767 خطبہ جمعہ ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء جماعت احمد یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا جہاد کرے جو خیر امت کی بنیادی شرط ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللَّهِ وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُ هُمُ الْفَسِقُوْنَ لَنْ يَضُرُّ وكُمْ إِلَّا أَذًى وَإِنْ تُقَاتِلُوكُمْ يُوَتُوكُمُ الْأَدْبَارَ ثُمَّ لَا يُنْصَرُونَ اور پھر فرمایا: ( آل عمران : ۱۱۱ ۱۱۲) دنیا میں اس وقت جتنے بھی مذاہب پائے جاتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ پر ایمان قدر مشترک ہے ان سب کے درمیان ایک دعاوی کی جنگ ہو رہی ہے.استدلال کی جنگ تو ایک الگ چیز ہے ایک دعاوی کی جنگ بھی ہوا کرتی ہے جس میں ہر فریق یہ آواز بلند کرتا ہے کہ میں بہتر ہوں، میں بہتر ہوں ، میں بہتر ہوں اور بعض دفعہ یہ آواز میں اتنی بلند ہو جاتی ہیں اور ایک ایسا ہنگامہ برپا ہو جاتا ہے کہ مذہب کے اکھاڑے میں کہ دلائل کی آواز اگر ہو بھی تو وہ ان بلند آوازوں میں دب جاتی ہے اور
خطبات طاہر جلد۵ 768 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء جہاں تک دنیا کے کان ہیں ان کو سوائے اس کے کوئی اور شور سنائی نہیں دیتا ہے کہ میں بہتر ہوں میری طرف آؤ.اسلام بھی اس مذہب کے اکھاڑے میں ایک پہلوان کی طرح اس باہمی جدال میں حصہ لے رہا ہے اور اسلام کا بھی یہی دعویٰ ہے..تو سوال یہ ہے کہ اس دعوئی میں اور دوسرے شور میں فرق کیا ہے.جب سب مذاہب یہ کہتے ہیں کہ ہم بہتر ہیں تو اسلام بھی ان میں سے ایک ہوا.کیوں دوسرے مذاہب کو چھوڑ کر لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں اور اس آواز کو اہمیت دیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو روز مرہ کی زندگی میں ایک مسلمان سے بسا اوقات پوچھا بھی جاتا ہے.جب آپ ایک عیسائی کو تبلیغ کریں یا ایک ہند و کو تبلیغ کریں یا ایک سکھ کو تبلیغ کریں تو وہ یہی جواب دیتا ہے کہ ہم بہتر ہیں اور اگر یہ جواب نہ بھی دے تو یہ ضرور دیتا ہے کہ سب اپنی اپنی جگہ بہتر ہیں.ہر ایک اپنے آپ کو اچھا سمجھ رہا ہے.اس لئے ہم صلح کل حکمت عملی کے قائل ہیں ہم یہ نہیں چاہتے ہیں کہ دنیا میں فساد ہو آپ اپنی جگہ اچھے ہم اپنی جگہ اچھے آپ بھی بہتر اور ہم بھی بہتر.تو بجائے اس کے کہ امتیاز پیدا ہو بچے اور جھوٹے میں، روشنی اور اندھیرے میں اس جواب کے نتیجہ میں ایک اور ابہام پیدا ہو جاتا ہے.پس اگر واقعی اسلام اچھا ہے، اگر واقعی قرآن سچا ہے تو اس کے دعوئی میں اور دوسرے ایسے ملتے جلتے دعاوی میں ایک ما بہ الامتیاز ہونا چاہئے ، ایک ایسا واضح فرق ہونا چاہئے جو تاریک کو روشن سے اور روشن کو تاریک سے جدا کرے.چنانچہ قرآن کریم جب یہ دعویٰ کرتا ہے تو اس کے ساتھ بعض ایسی علامتیں بھی پیش کرتا ہے جس کے نتیجے میں یہ فرق خود بخود کھل جاتا ہے.فرماتا ہے كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ کہ اے مسلما نو ! اس دعاوی کی جنگ میں سب یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم بہتر ہیں ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم بہتر ہو اوران تمام قوموں سے بہتر ہو جو کبھی بھی خیر کے نام پر دنیا کی بھلائی کے لئے نکلی تھیں لیکن وہ کون سی علامتیں ہیں جو تم میں پائی جانی ضروری ہیں جن کے بغیر تم بہتر نہیں کہلا سکتے ہو.اس کے لئے تین شرطیں واضح طور پر شروع میں بیان کیں اور کچھ شرطیں جو دشمن کے ساتھ امتیاز کے لئے دشمن کی صفات کو ظاہر کرنے والی ہیں وہ بھی بیان فرما دیں.اس مجموعی تصویر پر جوصرف دو آیات میں مکمل کر دی گئی ہے غور کرنے کے بعد بچے اور جھوٹے میں اشتباہ کا کوئی دور کا بھی احتمال باقی نہیں رہتا.
خطبات طاہر جلد ۵ 769 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء پہلی بات یہ فرمائی گئی كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم اس لئے بہتر نہیں ہو کہ دنیا تمہارے سامنے سر جھکائے اور دنیا تمہاری خدمت کرے، اس لئے بہتر ہو کہ تم دنیا کی خدمت کے لئے قائم کئے گئے ہو.اگر تم میں یہ بنیادی صفت موجود ہے اور یہ زندہ رہتی ہے اگر محض یہ دعوی نہیں بلکہ عملاً تم بہبود بنی نوع انسان کے لئے وقف رہتے ہو تو پھر جان لو کہ بہتری کی ایک بنیادی شرط تم میں پوری ہوگئی.اب دیکھئے بہتری کے تصور کو کیسا یکسر پلٹ کر رکھ دیا ہے جب ایک شخص یہ اعلان کرتا ہے کہ میں بہتر ہوں تو بسا اوقات اس اعلان کا مقصد یہ ہوتا ہے میری خدمت کرو میرے سامنے سر جھکاؤ اور ان دعووں کا ہمیشہ یہی رخ رہتا ہے.شیطان نے بھی کہا تھا میں بہتر ہوں.چنانچہ مذہب خواہ سچا ہو خواہ جھوٹا ہو، خواہ رحمانی ہو خواہ شیطانی ہو ان میں دعویٰ کی جنگ بہر حال ایک رہتی ہے.اسی لئے شیطان نے دعوی کیا کہ یہ میرے سامنے سر جھکائے.آدم نے یہ اعلان نہیں کیا کہ تو میرے سامنے سر جھکا.آدم کے متعلق خدا نے اعلان کیا تھا کہ میں نے بہتر بنایا ہے اس لئے تو اس کے سامنے سر جھکا.پس قرآن کریم میں جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے، بنی نوع انسان کا تعلق ہے ان کو یہ زبان سکھائی ہی نہیں کہ چونکہ تم بہتر ہو اس لئے دنیا کو اپنی خدمتوں کے لئے مجبور کر دو اور اپنے سامنے ان کے سر جھکاؤ ، اپنی انا کے سامنے ان کی گردنیں خم کر دو کیونکہ ہم نے تمہیں بہتر بنایا ہے.کیسی حیرت انگیز کیسی لطیف تعریف فرمائی.بہتری کے دعاوی میں ایک ایسا ما بہ الامتیاز پیدا کر دیا جسے ایک متکبر اور جھوٹا آدمی اختیار کر ہی نہیں سکتا.كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اے محمد مصطفی ﷺ کی امت! تم یقیناً بہتر ہو اس لئے کہ تم دنیا کی خدمت کے لئے نکالے گئے ہو، دنیا کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہو.دوسری بات یہ فرمائی تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ دوسری شرط یہ ہے کہ جب بھی تم کہتے ہو، تو بھلائی کی بات کہتے ہو نہ صرف یہ کہ خدمت کرتے ہو بلکہ بھلائی کی طرف بلاتے ہواور برائیوں سے روکتے رہتے ہو تمہارا شعار یہ بن گیا ہے اور یہ تمہاری فطرت ثانیہ یہ ہو چکی ہے.اب اس میں قابل غور بات یہ ہے کہ مذہب کی تفصیل کا کوئی ذکر نہیں ، نہ اسلام کا ذکر ہے، نہ کسی اور مذہب کا ذکر ہے نہ ان کی تعلیم کی تفصیل کا ذکر ہے بلکہ بنیا دی ان صفات کا ذکر ہے جو تمام
خطبات طاہر جلد۵ 770 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء بنی نوع انسان میں پائی جانی ضروری ہیں.چنانچہ معروف سے یہ مراد نہیں کہ جو قرآن کریم کے احکامات ہیں ان کی طرف لوگوں کو بلاتے ہو، نہ اس سے یہ مراد ہو سکتی ہے کہ یہودیت نے جو تعلیم دی ہے اس کی طرف بلاتے ہو.معروف سے مراد یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کی نگاہ میں خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوں، کسی رنگ سے تعلق رکھتے ہوں، کسی قوم سے تعلق رکھتے ہوں.جو نیکیوں کا تصور خدا تعالیٰ نے فطرت میں پیدا کر دیا ہے، جو بھلائی کا ایک خاکہ ان کی تعمیر کے اندر داخل کر دیا گیا ہے وہ ان کی تخلیق کے نقشہ میں شامل ہے اس کو معروف کہتے ہیں.ہندو سے پوچھیں تب بھی وہ اسے بھلائی کہے گا عیسائی سے پوچھیں تب بھی وہ اسے بھلائی ہی کہے گا، ایک دہریہ سے پوچھیں تب بھی وہ اسے بھلائی ہی کہے گا.اَلَستُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلی (الاعراف :۱۷۳) سے اس کا تعلق ہے.فطرت انسانی میں سموئی ہوئی خوبیاں، وہ نیکیاں جو بلا شرط مذہب بلا اختلاف ہر انسان میں قدر مشترک کے طور پر پائی جاتی ہیں فرمایا تم ان نیکیوں کی طرف بلاتے ہو.اس میں ایک گہر اسبق ہے داعین الی اللہ کے لئے بھی کسی قوم کی مذہبی نظریاتی تعمیر نہیں ہو سکتی جب تک پہلے اس کی اخلاقی تعمیر کی طرف متوجہ نہ ہوں اور نظریاتی تعمیر کے لئے جب آپ کوشش کرتے ہیں تو شدید مخالفت پیدا ہوتی ہے اور آپ ایک فریق بن جاتے ہیں لیکن جب آپ اخلاقی تعمیر کے لئے کوشش کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ کوئی کہاں ہے اور اس کے ماتھے پر کیا لیبل لگا ہوا ہے تو آپ ایک انسانی قدر مشترک کی بات کرتے ہیں.اس لئے بظاہر اس کے اوپر ناراض ہونے کی کسی کے لئے کوئی وجہ نہیں ہے.میں نے بظاہر کہا ہے اس لئے کہ عملاً جنہوں نے ناراض ہونا ہو وہ اس بات پر بھی ناراض ہو جاتے ہیں مگر بہر حال جہاں تک ظاہری تعلق ہے آپ جب کسی کو کہتے ہیں کہ تم سچ بولو، تم رشوت نہ لو تم ظلم نہ کرو تم لوگوں کے مال نہ کھاؤ ہم غریبوں کے حقوق نہ غصب کرو، تم بیتا می سے رحم کا سلوک کرو تم غربیوں کی پرورش کرو تم بیواؤں کا خیال رکھو.یہ وہ ساری چیزیں ہیں جوامر بالمعروف میں داخل ہیں.تہذیب سے بات کرو، انسانیت کے سلیقے سیکھو.یہ سارے امور کسی ایک مذہب کی تعلیم سے وابستہ نہیں بلکہ ایک عمومی تعلیم ہے جو انسانی فطرت میں داخل ہے.تو فرمایا تم اس
خطبات طاہر جلد۵ 771 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء لئے بہتر ہو کہ تم اس بات کا انتظار نہیں کرتے کہ کوئی مسلمان ہو جائے، کوئی تمہارے رسول پر ایمان لے آئے تب تم اس کی بھلائی کی باتیں کرو.اگر تمہیں فطرتا ہر انسان سے محبت اور پیار ہے اگر تمہارے دل میں ایک طبعی جوش ہے کہ تم سے غیروں کو بھلائی پہنچے.تو اس بات کا کیوں انتظار کرتے ہو کہ وہ پہلے تمہارے اندر داخل ہو جائیں پھر ان کی بھلائی کے کام کرو.یہ تو کوئی جدید دنیا کے سیاسی بلاک تو نہیں ہیں کہ جب تک کوئی امریکن بلاک میں نہ آ جائے امریکہ کا فیض اس کو نہ پہنچے.جب تک کوئی روسی بلاک میں نہ آجائے روس کا فیض نہ پہنچے فرمایا کہ خیر امت ہونے کے لئے یہ لازمی شرط ہے تم خیر الناس بن جاؤ اور ہر انسان کو بلا تمیز مذہب ان بنیادی نیکیوں کی طرف بلانا شروع کر دو جو اس کی بھلائی کے لئے ، اس کی بقاء کے لئے ضروری ہیں.وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ نیکیوں کی طرف بلاؤ اور برائیوں سے منع کرنا شروع کردو.منکر میں بھی وہی برائیاں داخل ہیں جو تمام بنی نوع انسان کے درمیان قدر مشترک رکھتی ہیں.پس اس تعریف کی رو سے جب آپ قرآن کریم میں معروف کا ذکر پڑھیں گے اور منکر کا ذکر پڑھیں گے اور قرآنی تعلیم کے علاوہ بھی معروف کی باتیں پڑھیں گے تو پھر سمجھ آئے گی کہ یہ کیوں فرق کیا گیا ہے.معروف ہرانسان کی مشترک بھلائی کے تصور کو کہتے ہیں اور منکر تمام بنی نوع انسان کے مشترک بدی کے تصور کو کہتے ہیں، نا پسندیدہ چیز ، مکر وہ بات.غلاظت ہے یہ بھی منکر میں داخل ہیں ، گلیوں میں شور کرنا ، ہمسایوں کو تنگ کرنا یہ بھی منکر میں داخل ہیں.یہاں مسجد کے باہر آپ نکلیں اور اونچی آواز میں باتیں شروع کر دیں، ہمسائے آپ سے تنگ آنے لگ جائیں اور کبھی کبھی مجھے شکائتیں لکھنے لگ جائیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ نے منکر کی طرف توجہ نہیں دی منکر سے نہ خود بچے اور نہ دوسروں کو بچانے کی کوشش کی.باتیں سنیں اور پرواہ نہیں کی اس بات کی حالانکہ محبت اور پیار سے آگے بڑھ کر ان کو بتانا چاہئے تھا کہ یہ منکر ہے.یہ ایسی بات نہیں ہے جس سے صرف خدا تمہیں پکڑے گا بلکہ یہ ایسی بات ہے جن پر ہر انسانی سوسائٹی تم کو پکڑے گی اور تم اپنے آپ کو انسانیت سے دور پھینکنے والے بن جاؤ گے.تمہارے اندر جذب کی طاقت کم ہو جائے گی تمہارے اندر نفوذ کی طاقت کم ہو جائے گی.تو معروف اور منکر بظاہر ابتدائی نیکیاں ہیں جو انسانیت سکھانے والی نیکیاں ہیں اور منکر وہ بدیاں
خطبات طاہر جلد۵ 772 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء ہیں جو انسانیت سکھانے کے لئے ضروری ہے کہ ان سے بچا جائے.لیکن اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر یہ دو بنیادی باتیں نہ ہوں یعنی معروف بات کی ہدایت کرنا اور منکر سے روکنا تو اگلا رنگ جو مذہب کا رنگ ہے اس کے لئے بنیادی طور پر زمین تیار نہیں ہوسکتی ہے.باوجود اس کے کہ مذہب بنیادی اخلاق کی تعلیم دیتا ہے اور معروف کی اعلیٰ چیزیں بیان کرتا ہے اور منکر میں سے ایسی تعلیم ، ایسی باتیں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہے بچنے کے لئے جو برائی کے طور پر عام انسانی نظر سے اوجھل رہتی ہیں جو ان کے نزدیک برائی نہیں ہوتی لیکن یہ چیزیں تب ایک سوسائٹی کو قبول ہوتی ہیں تب ایک سوسائٹی ان باتوں کو قبول کرنے کی اہل بنتی ہے جب معروف پر قائم ہو جائے اور منکر سے بچنے لگ جائے اور کوئی مذہب اپنی تبلیغ میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے جب تک پہلے جہاں سے آغاز ہے وہاں سے آغاز نہ کرے دوسری منزل پر آپ چھلانگ لگا کر نہیں چڑھ سکیں گے.ضروری ہے کہ جہاں سیٹرھیوں کا پہلا قدم ہے وہاں سے قدم رکھیں اور قرآن کریم نے یہ قدم خود بیان فرما دیئے ہیں.آغاز کس طرح ہوگا مذہب کا اس لڑائی میں دعویٰ کرنے کے بعد کہ ہم سب سے بہتر ہیں یا خدا نے ہمیں بہترقرار دیا ہے.کیا کیا صفات تمہیں فوراد کھانی پڑیں گی ان کے بغیر تم اگلا قدم اٹھا نہیں سکو گے.وہ یہ ہیں کہ تم وقف ہو بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے اپنے اندر یہ جذبہ بیدار رکھو ہمیشہ باشعور طور پر اس احساس کو زندہ رکھو کہ ہم بنی نوع انسان کی خدمت کے لئے ہیں ہم سے خیر پہنچنی چاہئے اور خیر پہنچانے میں سب سے اہم چیز ہے امر بالمعروف نیکی کی تعلیم دینا نہی عن المنکر ، برائیوں سے روکنا اور بعد میں فرمایا تو مِنونَ بِالله اور تم اللہ پر ایمان لاتے ہو.اب یہ عجیب بات ہے کہ اللہ کا ذکر جو پہلے ہونا چاہئے قرآن کریم میں ایمان باللہ سب سے پہلے آتا ہے اس کا ذکر آخر پر کیا ہے پھر ایک اور بات خاص قابل ذکر ہے کہ رسولوں کا کوئی ذکر نہیں تُؤْمِنُونَ بِاللہ کہہ کر بات چھوڑ دی ہے اور رسولوں کا کوئی ذکر نہیں فرمایا کیونکہ تُؤْمِنُونَ بِاللہ کے بعد اگر رسولوں کا ذکر ہو تو پھر تفریق پیدا ہو جاتی ہے انسانی سوسائٹی پھر مذاہب میں بٹ جاتی ہے، صرف انسانی سوسائٹی کو دوحصوں میں تقسیم کیا ہے تُؤْمِنُونَ بِاللهِ کہہ کر کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے تم خدا کے قائل لوگ ہود ہر یہ نہیں ہو.یعنی انسانیت کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا ایک وہ لوگ جو بظاہر نیک کاموں کی طرف بلاتے ہیں اور برائیوں سے
خطبات طاہر جلد ۵ 773 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء روکتے ہیں لیکن خدا پر ایمان نہیں لاتے دوسرے وہ لوگ جن میں یہ صفات پائی جاتی ہیں لیکن خدا پر ایمان لاتے ہیں.ایمان لانا بہتر ہونے کے لئے ایک لازمی شرط قرار دے دی ہے.اس پر اگر آپ غور کریں تو اس میں آپ کو بہت ہی گہری حکمتیں نظر آئیں گی کہ کیوں یہ کافی قرار نہیں دیا کہ تم لوگوں کی خدمت کرتے ہو، لوگوں کو اچھی باتوں کی طرف بلاتے ہو، برائیوں سے روکتے ہو یہی کافی ہے فرمایا نہیں.خیر ہونے کے لئے ایک اور شرط بھی ہے کہ تُؤْمِنُونَ بِاللهِ.اس وقت اس کی تفصیل کا موقع نہیں.جب اشتراکیت کی تعلیم کا اسلام کی تعلیم سے موزانہ کیا جائے گا جب بھی کیا جائے اس وقت یہ مضمون آپ کو کام دے گا، اس وقت یہ آیت ایک حیرت انگیز اور لطیف تجزیے کی طرف اشارہ کرے گی.ان کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں اور مومنوں کے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں ایک نمایاں فرق پیدا ہو جاتا ہے اور وہ فرق صرف اس لئے پیدا ہوتا ہے کہ ایک دعویٰ کے علمبر دار خدا کے قائل ہیں اور ایک دعوی کے علمبر دار خدا کے قائل نہیں ہیں.یہ بیان کرنے کے بعد فرمایاوَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ کاش اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا.اب یہ عجیب اچنبھا ہے کہ ایک طرف اہل کتاب کہا جارہا ہے دوسری طرف فرمایا جارہا ہے کاش وہ ایمان لے آتے اگر وہ ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر ہوتا اور ایمان کون سا تُؤْمِنُونَ بِاللہ کا پہلے ذکر ہے.یہاں کسی رسول پر ایمان لانے کا ذکر ہی نہیں چل رہا ہے.تُؤْمِنُونَ بِاللہ کہنے کے بعد اہل کتاب کو یہ کہنا کہ کاش وہ ایمان لے آتے اس کا کیا موقع ہے اور کیا تعلق ہے پچھلے مضمون سے؟ اس کا تعلق یہ ہے کہ اہل کتاب ہونا کسی کتاب کی طرف منسوب ہونا کافی نہیں اگر کوئی کتاب کی طرف منسوب ہوتا ہے الہی کتب کی طرف منسوب ہوتا ہے اور واقعہ اللہ پر ایمان لاتا ہے تو اس میں یہ پہلی خوبیاں ہونی چاہئیں.یہ ہو نہیں سکتا کہ حقیقہ کوئی کسی کتاب کی طرف منسوب ہواس کی تعلیم پر چلنے کا دعوی کرے اور واقعہ اللہ پر ایمان لاتا ہو اور ان تین خوبیوں سے محروم ہو جو بیان فرمائی گئی ہیں أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ یہ کہ کر فرما دیا گیا کہ اہل کتاب میں یہ خوبیاں نہیں پائی جاتیں اور اس کی تفصیل کئی جگہ پہلے بھی قرآن کریم میں مختلف جگہوں پر آچکی ہے اور احادیث میں بھی اس کا تفصیل سے ذکر ملتا ہے کہ پہلی قو میں کیوں ہلاک
خطبات طاہر جلد۵ 774 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء ہوئیں.اسلئے کہ انہوں نے امر بالمعروف چھوڑ دیا تھا اور نہی عن المنکر ترک کر دی تھی.پس یہاں لَوْا مَن میں اشارہ اس طرف کر دیا گیا کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے تُؤْمِنُونَ بِاللهِ کہہ کر یہ مضمون کھول دیا تھا کہ یہ خوبیاں ایمان باللہ پانے والوں میں حقیقی طور پر پائی جاتی ہیں.اللہ پر ایمان نہ رکھنے والوں میں نہیں پائی جاتیں.اس لئے کاش اہل کتاب بھی ایمان لے آتے اگر وہ ایمان لاتے تو ان میں یہ تینوں خوبیاں پائی جانی ضروری تھیں اور ساتھ ہی فرما دیا مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُونَ ہاں کلیہ وہ ایمان سے خالی نہیں ہیں ان میں کچھ مومن بھی ہیں.اس سے مزید یہ مضمون واضح ہو گیا کہ یہاں آنحضرت ﷺ پر ایمان کا ذکر نہیں ہے کیونکہ آپ پر ایمان لانے والوں کو اہل کتاب نہیں کہا گیا جب قرآن کریم نازل ہور ہا تھا تو پر اہل کتاب سے مراد واضح طور یہودی اور عیسائی تھے آنحضرت ﷺ کے ماننے والوں کو صرف ايها المومنون کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے یا يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے اور واضح فرق کیا گیا ہے ان اصطلاحوں میں.قرآن کے نزول کے وقت اہل کتاب گزشتہ کتابوں پر ایمان لانے والے تھے اور قرآن کریم پر ایمان لانے والے اگر چہ عموعی تعریف کے اندر داخل ہیں وہ بھی اہل کتاب ہیں لیکن ایسے اہل کتاب جن کا ایمان تازہ ہو چکا ہے جو آنحضرت ﷺ پر ایمان لے آئے ہیں ان کو مومن کے نام سے مخاطب کیا گیا ہے.تو فرمایا مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُوْنَ اگر یہ مراد ہوتی کہ ان میں سے بعض لوگ رسول اللہ ﷺ پر ایمان لے آئے تو ان کو مِنْهُم نہیں کہنا چاہئے تھاوہ تو پھر آنحضرت ﷺ کے گروہ میں شامل ہو گئے.تو مراد یہ ہے کہ ان میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جب لَوْ آمَنَ أَهْلُ الكتب کہہ کر نفی فرمائی گئی تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ یک قلم خدا تعالیٰ نے ان کو رد کر دیا ہے ان میں کوئی بھی اللہ پر ایمان لانے والا نہیں.فرمایا بالعموم ان میں اللہ پر ایمان اٹھ گیا ہے نتیجہ یہ نکلا ہے وَاَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُونَ وہ لوگوں کو بھلائی کی طرف کیسے بلائیں لوگوں کو برائیوں سے کیسے روکیں وہ خود تو فاسق ہو چکے ہیں.پس ایمان کا عمل صالح کے سے ایک گہرا رشتہ ہے جو ان آیات میں خوب کھول کر بیان فرمایا گیا اور اس رشتہ کے ثبوت کے طور پر جو تین بنیادی باتیں بیان فرمائی گئیں وہ ہر اللہ پر ایمان لانے والے میں ضرور پائی جانی چاہئیں.اگر کسی میں نہیں پائی جاتی تو قرآن کریم فرماتا کہ
خطبات طاہر جلد۵ 775 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء لَوْا مَنَ کہ کاش وہ ایمان لے آتا.تو محض اہل کتاب کہلا نا یا کسی الہی تعلیم کی طرف منسوب ہو جانا اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ کوئی خدا پر ایمان لاتا ہے.خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے میں سچی ہمدری پائی بنی نوع کی جانی ضروری ہے.خدا تعالیٰ پر ایمان لانے والے میں امر بالمعروف کی صفت پائی جانی چاہئے.وہ لازماً اچھی باتوں کی طرف بنی نوع انسان کو بلاتا ہے اور یہ ہرگز انتظار نہیں کرتا کہ اس کے گروہ میں شامل ہوں تب ان کو بلائے اور بدیوں سے روکتا ہے.یہ دعوت الی اللہ کے لئے پہلا بنیادی ایک طریق ہے جو قرآن کریم سمجھا رہا ہے اور بہت سی جگہ احمدی داعین الی اللہ اس طریق کو اختیار نہ کر کے بہت نقصان اٹھا رہے ہیں.پاکستان کے حالات دیکھ لیجئے جولوگ وہاں سے آتے ہیں بتاتے ہیں کہ اس قد را خلاقی گراوٹ تیزی سے پیدا ہورہی ہے کہ کوئی انسانی زندگی کی دلچسپی کا ایسا حصہ نہیں، کوئی ایسا دائرہ نہیں رہا جہاں تیزی کے ساتھ بدیاں گھر نہ کر رہی ہوں اور رچ نہ گئی ہوں اندر ہر قسم کی اخلاقی قدریں اٹھ رہی ہیں.جھوٹ ، چوری، دغابازی،ڈاکہ، فساد، ایک دوسرے پر ظلم وستم.ہر قسم کی انسانی قدریں جو آپ سوچ سکتے ہیں، امانت ہے، دیانت ہے وہ غائب اور ہر قسم کی برائیاں داخل ہو رہی ہیں اور نہایت ہی تکلیف دہ حالت ہے.وہاں جماعت احمد یہ اگر ان کو صرف جماعت احمدیہ کے دعوی کی طرف بلائے تو یہ ہرگز کافی نہیں ہے کیونکہ یہ امر واقعہ یہ ہے کہ جو شخص بعض انسانی قدروں کو کچلنے والا بن جاتا ہے اس کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کو نیکی قبول کرنے کی توفیق نہیں ملتی ہے، اس کو یہ سعادت نصیب نہیں ہوتی ہے.آنحضرت علیا سے پتہ چلتا ہے کہ بعض عام نیکیوں کے نتیجہ میں مثلاً جانوروں کے رحم کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے کسی گم کردہ راہ کو ہدایت عطا فرما دی.تو نیکیاں نیکیوں کے بچے پیدا کرتی ہیں اور بدیاں بدیوں کے بچے پیدا کرتی ہیں اس لئے اگر آپ سوسائٹی کو کسی اعلیٰ مقصد کی طرف اعلی پیغام کی طرف بلانا چاہتے ہیں تو اس دعوت کا آغاز ان بنیادی انسانی قدروں سے ہونا چاہئے.جو سوسائٹی انسانیت کے معیار سے گر رہی ہے اسے روحانیت کی طرف آپ کیسے لا سکتے ہیں جب تک وہ انسانیت کی پہلی منزل پر قدم نہ رکھے اس سیڑھی کو پھلانگ کر گزر نہیں سکتی وہ قوم اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جس کی فطرت نیک ہے آئے گا وہ انجام کار ( در شین : ۱۳۷)
خطبات طاہر جلد ۵ 776 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء فطرت کی نیکی ضروری ہے.یہ پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے جماعت کو.صرف پاکستان کا ذکر نہیں ساری دنیا میں یہ حال ہے اس وقت.برائیاں مختلف نوع کی ہیں.امیر سوسائٹی کی برائیاں اور ہیں اور غریب سوسائٹیوں کی اور ہیں، نئے آزاد ہونے والے ممالک کی برائیاں اور ہیں دیر سے آزاد ہونے والے ممالک کی برائیاں اور ہیں، غلاموں کی برائیاں اور ہیں آقاؤں کی اور ہیں.لیکن ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: ۱) کا نقشہ ہر جگہ نظر آتا ہے.کسی کا نام آپ تری رکھ لیں کسی کا خشکی رکھ لیں لیکن وہ بنیادی گند جس نے ساری انسانی سوسائٹی کو نا پاک اور گندا کر دیا ہے.جس نے انسانی تعلقات کے درمیان زہر گھول دئے ہیں.وہ بنیادی خرابیاں آپ کو ہر جگہ ملیں گی.کون کہہ سکتا ہے کہ انگلستان امن میں ہے.دن بدن یہاں ہولناک جرائم بڑھتے چلے جارہے ہیں، انتہائی انسانیت سوز جرائم بڑھتے چلے جارہے ہیں.چھوٹے بچوں پر، آپ کو یقین نہیں ہے کہ جب یہ سکول جائیں گے تو کسی ظالم کی دستبرد سے محفوظ رہیں گے یا نہیں رہیں گے.تو صرف ایک ملک کا قصہ نہیں ہے تمام دنیا میں، افریقہ میں بھی، نائیجیر یا میں بھی اور غانا میں بھی جو اطلاعیں مل رہی ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ انسانی سوسائٹی گر رہی ہے اور یہ ایک تنبیہ ہے بڑی خطرناک کہ وہ آخری خوفناک عذاب الہی جس کی قرآن کریم میں بار بار خبر دی گئی ہے اس کے دن بھی قریب آرہے ہیں.اس لئے اگر آپ نے ان لوگوں کو بچانا ہے، بنی نوع انسان کی سچی ہمدری ہے آپ کے دل میں تو دعا ئیں ضرور کریں، دعاؤں کے بغیر یہ کام نہیں ہو گا مگر قدم اٹھا ئیں ساتھ تب دعائیں قبول ہوں گی ورنہ آپ کی دعائیں جھوٹی ہو جائیں گی.ایک آدمی کو روٹی میسر آسکتی ہوا گر وہ چار قدم چل کر روٹی کی طرف جائے اور وہ بیٹھا رہے اور دعا کرتا رہے اے خدا مجھے روٹی یہاں پہنچا دے کبھی اس کی دعا قبول نہیں ہوگی.اگر روٹی نہیں بھی ہوگی اور دعا کرے گا اور ساتھ روٹی کی تلاش میں قدم اٹھائے گا تو اس کو روٹی مہیا ہو سکتی ہے لیکن اگر قدم نہیں اٹھائے گا روٹی موجود ہے اس کی دعا اس کے کچھ کام نہیں آسکتی.اس لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ دعا ئیں ضرور کریں دعاؤں کے بغیر ہمارے اعمال میں برکت نہیں پڑ سکتی ہے اور دعاؤں کے بغیر ہم وہ حاصل نہیں کر سکتے ہیں جو ہماری طاقت سے باہر ہے.لیکن دعاؤں کو مقبول کرنے کے لئے عمل صالح ضروری ہے جو کلمات کو رفعت عطا فرماتا
خطبات طاہر جلد۵ 777 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء ہے دعاؤں کو آسمان کے کناروں تک پہنچا دیتا ہے.وہ عمل صالح وہی ہے جس کا ان آیات میں بیان ہے کہ جماعت احمد یہ کونیکیوں کی تعلیم کا اور برائیوں سے روکنے کا عالمی جہاد شروع کرنا چاہئے.بجائے اس کے کہ آپ کسی کا دروازہ کھٹکھٹا کر پہلے اس کو یہ کہیں کہ آؤ میں تمہیں اسلام کی طرف بلا رہا ہوں یا احمدیت کی طرف بلا رہا ہوں آپ اس کو کہیں تمہیں احساس نہیں کہ تم سے کیا ہورہا ہے.تم لوگ جھوٹے ہو گئے ہو، تم لوگ ظالم اور گندے ہو چکے ہو ، امن اٹھ چکا ہے، تمہاری سوسائٹی خراب ہو گئی ہے، آؤ ہم مل کر اس سوسائٹی کو ٹھیک کرنے کے لئے کوشش شروع کرتے ہیں.ہم نیکیوں کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں اور اللہ پر ایمان کی آواز دیتے ہیں کیونکہ خدا پر ایمان لائے بغیر کوئی سوسائٹی بھی حقیقت میں سدھر نہیں سکتی.اگر اس طرح کی آواز آپ بلند کریں تو آج آپ کو جو احساس ہوتا ہے کہ ہم پر دروازے بند کئے جاتے ہیں کل آپ خوشی کے ساتھ یہ محسوس کریں گے کہ دروازے کھل رہے ہیں آپ پر بند نہیں ہورہے کیونکہ آپ نے بنی نوع انسان کو قرآن کی تعلیم کے مطابق بلا نا شروع کیا ہے.قرآنی تعلیمات کو نظر انداز کر کے نہیں بلا رہے.حقیقت یہ ہے کہ جن سوسائٹیوں میں ہم رہ رہے ہیں اگر ہم نے ان کی اصلاح نہ کی تو خود ہماری اصلاح پر اس کے نہایت بد اثرات پڑیں گے اور پڑرہے ہیں.جتنا زیادہ درجہ حرارت کا فرق ہواتنا ہی زیادہ ٹھنڈی چیزیں اگر گرمی ہے تو گرمی کی طرف ڈوریں گی اگر سردی ہے تو سردی کی طرف ڈوریں گی.سردیوں میں چائے کا گرم رکھنا مشکل ہوتا ہے اور گرمیوں میں آئس کریم کا منجمد رکھنا مشکل ہو جاتا ہے.آپ کا درجہ حرارت اور ہے، آپ خدا تعالیٰ کی جماعت ہیں اور اس درجہ حرارت کی حفاظت کے لئے بہت سے طریق ہیں.ان میں ایک یہ ہے کہ ماحول کا درجہ حرارت تبدیل کریں اس کو اپنی طرف مائل کریں اور اس کے لئے قرآن کریم فرماتا ہے کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کی جنگ ضروری ہے اور اس جنگ سے پہلے بنیادی طور پر دل کو اس طرف مائل کرنا پڑے گا کہ میں بنی نوع انسان کی ہدایت کے لئے نکلا ہوں.یہ صفات اگر پیدا ہو جائیں تو بظا ہر کسی کے لئے دشمنی کی کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بظا ہر کوئی وجہ نہیں ہونی چاہئے.یہ صفات اگر پیدا ہوجائیں تو انسان یہ خیال کرتا ہے، یہ اندازہ لگاتا ہے کہ پھر کسی کے پاس کوئی عذر نہیں رہے گا میری مخالفت کرنے کا عذر نہیں رہے گا.لیکن افسوس کہ ایسا نہیں اور میں آپ کو متنبہ کرتا ہوں کہ اس بنیادی
خطبات طاہر جلد۵ 778 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء تعلیم کے باوجود بھی آپ کو دکھ ضرور دیا جائے گا.خصوصاً ایسے ممالک میں دکھ ضرور دیا جائے گا جہاں بعض طبیعتیں ٹیڑھی ہو چکی ہیں جو اس بات کا تہیہ کر چکی ہیں کہ انہوں نے حق کی لاز ما مخالفت کرنی ہے کیونکہ اس آیت کے بعد اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَن يَضُرُّ وكُمْ إِلَّا أَذًى اس کے بعد سزا کیسی؟ کیوں تکلیف دیئے جاؤ گے؟ اس ذکر کی ضرورت کیا تھی اگر تکلیف نہیں دئے جاؤ گے.فرماتا ہے دیکھو ! تم ایسی قدروں کی طرف بلا تو رہے ہو جو انسان کے درمیان قدر مشترک ہیں، جن کے خلاف کوئی انگلی نہیں اٹھا سکتی ایمان باللہ بنیاد ہوگی تمہاری کوشش کی لیکن اس کے باوجود کیونکہ ہماری خاطر تم کرو گے.اس لئے ایمان باللہ کے نتیجہ میں جو حرکت ہوتی ہے اس کی ضرور مخالفت کی جاتی ہے اور یہ فرق ہے عام تحریک میں اور مومن کی تحریک میں تمہیں دنیا نہیں چھوڑ گے گی پھر بھی.لَنْ يَضُرُّ وَكُمُ لیکن ہماری خاطر ایسا کر رہے ہو اس لئے ہم اعلان کرتے ہیں لَنْ يَضُرُّ وَكُمُ وہ ہرگز تمہیں گہرا نقصان نہیں پہنچا سکیں گے إِلَّا أَذًى جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں Pinpricks اڈی کا مطلب ہے کوئی چٹکی کاٹ دیں، کوئی مکا مار دیں تھوڑے بہت Bruises تمہارے چہرے پر آجائیں گے کالے نیلے نشان پڑ جائیں گے.معمولی نقصانات ہیں لیکن تمہاری ترقی کی راہ کو وہ نہیں روک سکیں گے، تمہاری عظمت کو نقصان نہیں پہنچا سکیں گے، تمہاری قوت کو کم نہیں کر سکیں گے کسی قیمت پر بھی.اجتماعی طور پر جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں حشمت اور عظمت عطا فرمائی ہے وہ اسی طرح قائم رہے گی بلکہ آگے بھی بڑھتی رہے گی.من حیث الجماعت تم زندہ رہو گے خدا کی طرف سے زندہ رکھے جاؤ گے اور بہتر زندگی کی طرف تمہاری حرکت رہے گی، اعلیٰ اقدار کی طرف تمہارا سفر جاری رہے گا.تمہیں مقاصد میں وہ نا کام نہیں کر سکیں گے.لَن يَضُرُّوكُمْ إِلَّا أَذًى ہاں تکلیفیں ضرور پہنچائیں گے، دل آزاریاں کریں گے، گالیاں دیں گے، عجیب و غریب بل پاس کریں گے.کہیں گے کہ ان کو قرآن کی اشاعت نہیں کرنے دینی ، ان کو قرآن سے استدلال نہیں کرنے دینا.ہر نیکی کی راہ میں وہ روڑے اٹکانے شروع کر دیں گے لیکن اس کے باوجود ہم ضمانت دیتے ہیں کہ تمہارا نقصان نہیں کر سکیں گے.یہاں اول نقصان سے مراد مقاصد کا نقصان ہے.تمہارے رخ سے تمہیں نہیں موڑ سکیں گے، تمہارے اعلیٰ مقاصد سے تمہیں باز نہیں رکھ سکیں گے اور تمہاری محنتوں کے پھل سے تمہیں محروم
خطبات طاہر جلد۵ 779 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء نہیں کر سکیں گے تم علی الرغم بڑھتے ہی چلے جاؤ گے اور پھیلتے چلے جاؤ گے اور نئی نئی ترقیات اور کامیابی تمہیں نصیب ہوتی چلی جائیں گی.وَ اِنْ يُقَاتِلُوكُمْ يُوَلُوكُمُ الْأَدْبَارَ ہوسکتا ہے کہ پھر ایسا وقت بھی آئے کہ تلوار تمہارے خلاف اٹھا ئیں اور تمہیں زبر دستی نیست و نابود کرنے کی کوشش کریں.فرمایا اگر ایسا وقت بھی آیا تو ہم یقین دلاتے ہیں کہ تم خدا کی حفاظت کے نیچے رہو گے ثُمَّ لَا يُنصَرُونَ لیکن ان کو کوئی مدد نہیں دے سکے گا، کوئی نہیں دنیا میں جو ان کی مدد کو آسکے گا.کتنی عظیم الشان ضمانت ہے بظاہر کتنی ادنی اوٹیسی نیکیوں کی.صرف اتنا فر مایا اوروہ کچھ فرمایا جو فطرت کے عین مطابق ہے جو فطرت کے لئے سہل ہے.جسے اختیار کرنا عین انسانی فطرت سے ہم آہنگی رکھتا ہے.فرمایا تم اچھی باتیں کہو ، بری باتوں سے روکو، اس میں ڈرنے کی کیا ضرورت ہے؟ جاؤ اور دروازے کھٹکھٹاؤ اور اعلان کرتے چلے جاؤ گلیوں گلیوں میں بھی ،گھر گھر جائے کہ دیکھو تم ڈوب رہے ہو تم ہلاک ہونے والے ہو ہم تمہیں بچانا چاہتے ہیں تمہیں ان برائیوں کو چھوڑنا پڑے گا.یہ سب کچھ کرو لیکن ایمان باللہ کے نتیجہ میں اس لئے کہ خدا تمہارا ایک ہے اس لئے کہ تم جانتے ہو کہ یہ خدا کی مخلوق ہے.جس خالق سے تمہیں محبت ہے اس کی مخلوق کی خدمت اپنا شعار بنالو.یہ ہے وہ تعلیم جو کوئی مشکل تعلیم کوئی ڈرانے والی تعلیم تو نہیں لیکن فرمایا اس کے نتیجہ میں ضرور يَضُرُّ وَكُمُ تمہیں تکلیف دینے کی کوشش کریں گے لیکن لَن يَضُرُّ وَكُمُ تکلیف نہیں دے سکیں گے الا انی ایک معمولی سی تکلیف ہے.یہ تکلیف کہاں سے شروع ہوئی اس کا ذکر کہاں سے آیا.پہلی آیت کا آخری حصہ دراصل اس مضمون کو چھیڑ چکا تھا فرمایا وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ کہ اکثر اہل کتاب میں سے بد ہو چکے ہیں فسق اختیار کر چکے ہیں اور فاسق ٹیڑھا ہو جاتا ہے.جب اسے اس کی برائی کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے تو اسے غصہ آتا ہے، اسے جب نیکی کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ ناراض ہو جاتا ہے اور صرف اس لئے مخالفت نہیں کرتا کہ تمہارا مذ ہب اور ہے اور اس کا مذہب اور ہے، تمہارا عقیدہ اور ہے اور اس کا عقیدہ اور ہے بلکہ فاسق کی طبیعت میں یہ بات داخل ہو جاتی ہے کہ جو اسے بدی میں آگے بڑھانے کی باتیں کرے وہ اس کا دوست بن جاتا ہے.اس کے ساتھ وہ صحبت اختیار کرتا ہے، اس کی رفاقت اختیار کر جاتا ہے ، اسے ایسا آدمی اچھا لگتا ہے جو ہم جنس بن جائے، شرا ہیں ساتھ پئے ، برائیاں کرے ، برائیوں کی نئی نئی تجویزیں سوچے، رشوت کھائے اور رشوت کی
خطبات طاہر جلد۵ 780 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء باتیں بیان کرے اور طریقے سکھائے بہت اچھا لگے گا.لیکن ایک رشوت لینے والی سوسائٹی میں ایک دانہ ہورشوت نہ لینے والا ایسا تکلیف دے گا آنکھوں کو ، نظر کو، ایسی اس سے طبیعت منغض ہوگی کہ یہ مصیبت آکہاں سے گئی؟ اوپر سے وہ دانہ بولنے والا بن جائے ، اس کو زبان لگ جائے اور وہ معاشرہ کو منع کرنا شروع کر دے کہ بھئی رشوت نہیں لینی.فرماتا ہے کہ تم یہ نہیں سمجھ لینا کہ اس آسان راستہ پر چلتے ہوئے جو فطرت کے عین مطابق ہے تکلیف نہیں پہنچے گی تمہیں لا زما پہنچے گی کیونکہ اکثر ان میں فاسق ہو چکے ہیں اور فاسقوں کا رد عمل یہی ہوا کرتا ہے اور ایمان کی شرط اس لئے تھی کہ جب ایک انسان کسی کو نصیحت کرے اگر وہ آگے برا منائے تو اکثر اس کا رد عمل یہی ہوتا ہے کہ جاؤ پھر نہیں تو نہ سہی ہم تو تمہیں اچھی باتوں کی طرف بلاتے تھے تم اچھے انسان ہو یہ کیا شرافت ہے کہ آگے سے گالیاں دینے لگ گئے ہو.یہ رد عمل مومن کا اس لئے نہیں پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ کی خاطر کرتا ہے اور اپنی ہر حرکت اور اپنے ہر سکون پر خدا کی نظر میں پڑتی ہوئی دیکھ رہا ہوتا ہے.ایمان باللہ سے مراد ایسا زندہ ایمان ہے کہ جس کے نتیجہ میں وہ خدا کی نظر میں رہتا ہے اس کے سامنے چلتا ہے، اس کے سامنے رکتا ہے.جب یہ صفات پیدا ہو جائیں تو پھر معاشرہ کے مقابلے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.فرمایا کہ چونکہ تم ہماری خاطر کرو گے اس لئے ہم تمہیں یہ بتا دیتے ہیں کہ کوشش ضرور ہوگی لیکن ہم تمہیں ہلاک نہیں ہونے دیں گے.اس لئے تمام دنیا میں جماعتوں کو ، جماعت احمدیہ کے ہر فرد کو اس عالمی جہاد میں حصہ لینا چاہئے جو خود ہماری بقاء کے لئے ضروری ہے ، ہماری نسلوں کی حفاظت کے لئے ضروری ہے، ہمارے ایمان کی حفاظت کے لئے ضروری ہے اور اس بات کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کہ دوسری سوسائٹی آپ کو قبول کر لے، آپ کے پیغام کے دائرہ میں داخل ہو جائے تب آپ اس کو نصیحت کریں.انسانی بقاء کے لئے یہ بہت ضروری ہے ورنہ جس تیزی کے ساتھ فسق کی طرف یہ دنیا بڑھ رہی ہے یہ دنیا ہلاک کر دی جائے گی، اس کے بچنے کا جواز باقی نہیں رہا.اس کے علاوہ آپ کی تبلیغ کی کامیابی کے لئے ضروری ہے اس آغاز کے بغیر آپ حقیقت میں کامیاب مبلغ نہیں بن سکتے ہیں جہاں تک ان کی تکلیفوں کا تعلق ہے ان کی مخالفتوں کا تعلق ہے یہ اگر کوشش کریں کہ آپ سے قرآن چھین لیں تو نہیں چھین سکیں گے، ناممکن ہے.جتنا کوشش کریں گے اتنا جماعت احمدیہ کو خدا تعالی زیادہ توفیق عطا فرما تا چلا جائے گا کہ دنیا کے کونے کونے
خطبات طاہر جلد۵ 781 خطبه جمعه ۲۱ نومبر ۱۹۸۶ء میں قرآن اور قرآن کی تعلیم پھیلاتی چلی جائے.ہمیں ان لوگوں سے کوئی خوف نہیں ہے.ہم خدا کے بندے ہیں ، ہم خدا کے مومن بندے ہیں.ہم ہلاکتوں سے زندگیاں نچوڑ نا جانتے ہیں.اس لئے جتنی ہلاکتیں یہ ہمارے لئے تجویز کریں گے اتنی ہی زیادہ زندگی کا رس ہم ان ہلاکتوں سے نچوڑ لیں گے اور وہ رس ہمیں مزید زندہ کرتا چلا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: آج نماز جمعہ اور عصر کے بعد کچھ نماز جنازہ غائب ہوں گی.ایک زلیخا جوا ہیر صاحبہ جو حنیف جوا ہیر مرحوم سابق پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس کی والدہ تھیں ان کی وفات کی اطلاع ملی ہے.یہ غالبا وہاں اولین احمدیوں میں سے تھیں.مکرم اعجاز احمد صاحب انسپکٹر تحریک جدید احمد نگر کے نو جوانی کے عالم میں وفات پاگئے ہیں.ان کی بیماری کی اطلاع جہاں تک مجھے ملی ہے یہ انسپکٹر تھے اور گرمیوں میں دورے کے نتیجہ میں انہیں سن سٹروک ہوا اور پھر لمبا عرصہ چلا اور بگڑ گیا اسی سے وفات ہوئی تو خدمت دین میں انہوں نے وفات پائی ہے.مولوی احد اللہ صاحب آف شوپیاں کشمیر انڈیا.ثریا صادق یہ ہماری لجنہ کی بہت اچھی کارکن ہیں ان کے چا سید محمد شاہ سیفی کے متعلق پرائیویٹ سیکرٹری نے اطلاع دی ہے کہ حادثے میں وفات پاگئے ہیں.مکرمہ امتہ الحق صاحبہ اہلیہ غلام حیدر بھٹی صاحب یہ عبدالغفور زعیم انصار اللہ فرینکفرٹ کی والدہ تھیں.شعبان احمد نسیم سیکرٹری مال گوجرانوالہ اپنی والدہ کی نماز جنازہ غائب کی درخواست کرتے ہیں.مولوی عبدالمالک صاحب صدر جماعت کو ٹلی لوہاراں وفات پاگئے ہیں.با بومحمد شفیع صاحب آف کنری جو محد سمیع صاحب جرمنی کے والد تھے ان کی درخواست ہے کہ ان کو بھی نماز جنازہ غائب کی فہرست میں شامل کر لیا جائے.
خطبات طاہر جلد ۵ 783 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء پاکستان میں جبری دین نافذ کرنے اور جبری دین سے روکنے کی ناکام کوشش ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَى ۚ فَمَنْ يَكْفُرُ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنَ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ اور پھر فرمایا: (البقره: ۲۵۷) قرآن کریم کی یہ آیت لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ان آیات میں سے ہے جو خصوصاً اس زمانے میں دنیا میں غیر معمولی شہرت پاگئی ہیں یعنی ان معنوں میں کہ وہ لوگ جن کو قرآن کا علم بھی نہیں ان کے کانوں تک بھی اس آیت کی آواز پہنچی ہے خواہ مثبت رنگ میں ہو خواہ منفی رنگ میں ہو.دین اور جبر ان دونوں کا کیا تعلق ہے اس مضمون پر یہ آیت روشنی ڈال رہی ہے اور اسی آیت سے استنباط کرتے ہوئے بعض لوگ دین میں جبر کو جائز ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ، خواہ کسی رنگ میں محدود رنگ ہی میں کیوں نہ ہو اور اسی آیت سے بعض لوگ دین میں جبر کے ہر قسم کے دخل کو ناجائز قرار دینے کا ثبوت فراہم کرتے ہیں.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جماعت احمد یہ اس آیت کو اپنے وسیع ترین معانی میں کلی تسلیم کرتی ہے اور حد امکان تک اس لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کا اثر جہاں جہاں پہنچتا ہے وہاں
خطبات طاہر جلد ۵ 784 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء وہاں جماعت احمدیہ اس آیت کے اثر کے سامنے سر تسلیم خم کرتی ہے اور جتنی وسعت سے جماعت احمد یہ اس آیت کے مضمون سے آگاہ ہے، جتنی گہرائی سے جماعت احمد یہ اس آیت کے مضمون سے آگاہ ہے اس کا کوئی تصور باہر نظر نہیں آتا.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کے متعلق جب بحث کی جاتی ہے تو عموماً اسی پہلو سے بحث کی جاتی ہے کہ دین میں جبر کرنے کی اجازت ہے یا نہیں ہے اور بڑے بڑے غیر احمدی علماء نے بھی دونوں طرح کے مضامین پر قلم اٹھایا ہے مثبت بھی اور منفی بھی، لیکن ان سب کی بخشیں اس دائرہ میں محدود ہیں کہ گویا اس آیت کا انطباق صرف اسی حصے تک ہو کر ختم ہو جاتا ہے کہ دین میں جبر کی اجازت ہے یا نہیں.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ آیت وسیع تر مضامین سے تعلق رکھتی ہے اور اس کا دوسرا پہلو جس کا ذکر جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں ملتا ہے اور باہر نہیں ملتا وہ یہ ہے کہ جبر کو یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ کسی قسم کا دین بھی دنیا میں نافذ کر سکے.لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ کا یہ عنی کہ دین میں جبر کو استعمال کی اجازت نہیں درست ہے لیکن یہ ساری سچائی نہیں.یہ آیت اس مضمون کو آگے بڑھاتی ہے اور یہ اعلان کرتی ہے کہ کسی قسم کا جبر دین میں ممکن ہی نہیں ہے.کر کے دیکھ لو ہم یقین نا کام ہو جاؤ گے اور کبھی بھی جبر کے ذریعہ دنیا کے دین تبدیل نہیں کئے جاسکے.پھر اس کے بھی دو پہلو ہیں ایک یہ کہ دین کو جبر کے ذریعہ نافذ کرنا یعنی سچائی کو ز بر دستی کسی کے اوپر ٹھونس دینا اور اس سلسلہ میں تلوار کا استعمال کرنا.مسلمان علماء کی بھاری اکثریت اسی حصہ پر بحث کرتی ہے لیکن اس کا ایک دوسرا پہلو ہے جسے نظر انداز کر دیا جاتا ہے اور وہ اس آیت کریمہ کی رُو سے زیادہ اہم پہلو ہے اور وہ پہلو یہ ہے کہ زبر دستی کسی سے کسی کا دین چھینا نہیں جاسکتا.اسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا.حق کے خلاف جو جہاد ہو گا وہ ضرور نا کام ہو جائے گا.یعنی اس آیت کا رخ جیسا کہ یہ آیت خود اس مضمون کو واضح کر رہی ہے اس طرف زیادہ نہیں کہ غیر کو ز بر دستی اسلام نہ سکھاؤ بلکہ زیادہ اس طرف ہے کہ تم سے زبر دستی اسلام چھینے کی کوشش کی جائے گی اور دشمن ناکام رہے گا اور کبھی تم سے زبر دستی اسلام چھین نہیں سکے گا کیونکہ اس آیت سے جو مضمون اٹھتا ہے وہ اس موقع پہ جا کر رکتا ہے بڑے زور کے ساتھ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا کہ وہ لوگ جن کا ہاتھ ایک مضبوط کڑے پر پڑ چکا ہو، جسے کاٹ کر الگ کیا ہی نہ جا سکتا ہو.کیسے ممکن ہے کہ ان کے دین کو تم تبدیل
خطبات طاہر جلد ۵ 785 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء کر لو گے.تو یہ ہے اس آیت کا اصل منطوق اور اس میں بڑی وسعت ہے.یہ جو دوسرا پہلو ہے کہ جبر کے ذریعہ دین نافذ ہو ہی نہیں سکتا یا جبر کے ذریعہ دین چھینا جاہی نہیں سکتا.زور لگا کر دیکھ لولا ز ما تم نا کام ہو گے کیونکہ وہ لوگ جو رُشد و ہدایت کور شد و ہدایت سمجھ کر پاگئے ہوں ، ان کا ہاتھ سچائی کے کڑے سے کاٹ کر الگ نہیں کیا جاسکتا.اس دعوے کو جب ہم تاریخ پر اطلاق کر کے دیکھتے ہیں تو ساری انسانی تاریخ قرآن کریم کی اس آیت کی سچائی کی گواہ بن کر کھڑی نظر آتی ہے اور حالاتِ حاضرہ پر جب اس کو منطبق کر کے دیکھنا چاہتے ہیں تو انسان کی عصرِ حاضر کی تاریخ بھی کلیہ بلا استثناء اس آیت کے حق میں گواہی دیتی ہوئی معلوم ہوتی ہے.پاکستان میں آج کل ایک یہی کوشش ہورہی ہے اور دونوں طریق پر کوشش ہو رہی ہے.یعنی اگر چہ بحثوں میں تو صرف اتنا ہی ہے کہ زبر دستی دین اسلام کو نافذ کیا جاسکتا ہے یا نہیں اور یہ پہلو نہیں ہے کہ زبر دستی دین اسلام چھینا جا سکتا ہے کہ نہیں.مگر واقعہ یہ دونوں کوششیں پاکستان میں اس وقت ہو رہی ہیں اور عصر حاضر کے جو واقعات ہیں یہ آئندہ زمانے میں ایک عجیب تاریخ بننے والے ہیں.آپ اس تاریخی دور میں سے گذر رہے ہیں اور ساتھ چل کر زمانے کے ان باتوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں جنہیں آئندہ آنے والا مورخ بڑی محنت سے تلاش کر کے نکالے گا اور پھر ان واقعات پر مبنی بڑی بڑی کتابیں لکھی جائیں گی.تاریخ کا ایک بہت اہم باب ہے جس میں سے ہم اس وقت گذر رہے ہیں.پاکستان میں یہ دونوں کوششیں ہورہی ہیں اور فوجی اقتدار کے ذریعہ اور جبر کے ذریعہ یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ ملک کے ایک حصے کو لازماًز بر دستی اسلام پر عمل کروایا جائے گا، اور ایک حصے کو اسلام پر عمل کرنے سے روکا جائے گا یہ ہے اسلام کا نفاذ.قطع نظر اس کے کہ ایسا احمقانہ حیرت انگیز اسلام کے نظام کا تصور کبھی چودہ صدیوں میں ایک موقع پر بھی دکھائی نہیں دے گا کہ بیک وقت یہ دوارا دے لے کر کوئی قوم یا کوئی حکومت اٹھی ہو کہ ہم اسلام اس طرح نافذ کریں گے اس دفعہ کہ بعض لوگوں سے زبر دستی اسلام پر عمل کروائیں گے اور بعض لوگوں کو ز بر دستی اسلام پر عمل کرنے سے روک دیں گے ٹکڑوں میں یہ واقعات آپ کو تاریخ میں ملتے ہیں مثلاً بعض مسلمان بادشاہوں کے دور میں زبر دستی عمل کی جھلکیاں نظر آتی ہیں لیکن زبر دستی روکنے کی جھلکی سوائے آنحضرت ﷺ کے زمانے کے اور کہیں دکھائی نہیں دے گی اور وہاں ہمیشہ ایک
خطبات طاہر جلد ۵ 786 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء ہی رخ ہے اس کوشش کا یعنی اسلام کے دشمن اسلام پر عمل کرنے سے روک رہے تھے اور اسلام کے حامی اس راہ میں قربانیاں دے رہے تھے.پس اُس دن کے بعد یا اُس دور کے بعد آج دنیا نے یہ دور دوبارہ دیکھا ہے لیکن دیکھا عجیب طریق سے ہے کہ اسلام کو نافذ کرنے کے ارادہ لے کر جولوگ تلوار ہاتھ میں لے کر اٹھے تھے یا ارادہ تو کچھ اور لے کر اٹھے تھے لیکن دنیا کو یہ بتایا کہ ہمارے طاقت کے سرچشموں پر قابض ہونے کا مقصد سوائے اس کے کچھ نہیں کہ ہم ثابت کر دیں کہ زبر دستی اسلام کسی دنیا کے ملک میں نافذ کیا جا سکتا ہے.یہ تھا ان کا ادعا خواہ ارادہ ابتدا میں کچھ اور ہی ہو یا نیتیں کچھ اور ہوں لیکن دعویٰ بہر حال یہی تھا اور ابھی تک یہی ہے.سکیم اس کی ہمنصوبہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دوٹوک، دو نقطوں کا منصوبہ ہے کہ کچھ ملک کے باشندوں کو زبردستی اسلام پر عمل کروایا جائے کچھ ملک کے باشندوں سے اسلام پر عمل کرنے کا حق چھین لیا جائے اور انہیں عمل کرنے سے روک دیا جائے.دونوں صورتوں میں یہ منصوبہ کلیہ ناکام ہو چکا ہے.نہایت ذلیل اور خاسر و خائب ہو چکا ہے اور اس طرح ناکام ہوا ہے کہ عمل کروانے کا دعویٰ کرنے والے خود اقرار کر رہے ہیں کہ ہم ان تمام پہلوؤں میں بُری طرح ناکام ہو گئے ہیں لیکن پھر بھی عقل نہیں کرتے.اتنی عظیم الشان آیت ہے یہ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ اتنی اس میں قوت ہے اتنی حشمت اور شوکت ہے، ایسی عظمت ہے اس آیت میں کہ کوہ ہمالہ سے ٹکرا کر تو کوئی قوم بچ سکتی ہے مگر اس آیت سے ٹکرا کر کوئی قوم نہیں بچ سکتی.ہر طاقت جو اس آیت سے ٹکر لے گی وہ لازما چکنا چور ہو جائے گی.یہ ایک ایسی ابدی سچائی ہے جو ہر زمانے میں دنیا کے ہر حصے میں عمل درآمد دکھاتی رہی ہے اور اس کے عمل کو کوئی دنیا کی طاقت روک نہیں سکتی.اب میں آپ کے سامنے مثالیں دے کر معاملہ کھولتا ہوں.ایک کوشش یہ ملک میں کی گئی کہ زبر دستی نمازیں پڑھائی جائیں.اس کے لئے پہلے تو قانون یہ بنایا گیا کہ حکومت کے جو ملازمین ہیں ان کو ز بر دستی نماز پڑھائی جائے اور اس کے لئے کچھ وقت بڑھا دیا گیا ، چھٹی کا درمیان کا وقت، جس کو Lunch Hour کہتے تھے، اسے نماز کا گھنٹہ بنادیا گیا اور وقت زیادہ دے دیا گیا کیونکہ کھانے کے علاوہ نمازیں بھی پڑھنی تھیں.چند دن کے اندر اندر سارے ملک کو اس اقدام کی شکست
خطبات طاہر جلد ۵ 787 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء اس طرح دکھائی دینے لگی کہ ہر جگہ جہاں یہ گھنٹے کی چھٹی ہوتی تھی وہاں کھانے میں وقت بڑھا دیا گیا اور نماز کی طرف کوئی توجہ نہ ہوئی.چند دن لوگ دوڑے مسجدوں کی طرف یا مصلے جو بنائے گئے تھے اس کے بعد جو پہلے طبعی خودہی نمازی تھے وہ باقی رہ گئے اور یہ عارضی زبردستی کے جو نمازی تھے واپس اپنے اپنے اپنے حالات پر لوٹ گئے.پھر حکومت نے یہ کوشش کی کہ اس دائرہ کو بڑھا دیا جائے اور حکومت کے کارندوں پر حکم نافذ کرنا مشکل ہے اس لئے غریب عوام پر نافذ کرنا چاہئے.حکومت کے کارندے تو صاحب حکومت ہوتے ہیں ان کو کس طرح زبر دستی حکومت کسی نیک اقدام پر مجبور کرسکتی ہے بیچاری لیکن عوام الناس دیہات میں بسنے والے وہ شاید زیادہ جلدی اس حکم کو قبول کر لیں.چنانچہ قصبہ قصبہ بستی بستی محلہ محلہ نمازیں پڑھانے والے آدمی مقرر کئے گئے اور جہاں کہیں کوئی دوسرا نمازی نہیں ملتا تھا یعنی کوئی ایک بھی ایسا نمازی نہیں تھا جو دوسروں کو نمازیں پڑھا سکے وہاں احمدیوں کو مقرر کیا گیا.جن کی نمازیں رو کی جارہی ہیں ان کو نماز پڑھانے پر مقرر کیا گیا اور حیرت انگیز اس میں اطلاعیں ملتی ہیں.بہت سی جگہ احمدیوں نے کہا بھئی ہم تو احمدی ہیں اور ہمیں تو تم کہتے ہو کہ تمہیں نماز پڑھنے کا حق نہیں تو ہم دوسروں کو کس طرح نمازیں پڑھائیں گے.تو انہوں نے کہا کہ ہمیں تو تم سے بہتر نماز پڑھانے والا کوئی ملتا ہی نہیں، اس لئے قطع نظر اس کے کہ حکومت کیا کہتی ہے ہم تو تمہیں ہی مقرر کریں گے.چنانچہ احمدی داروغے غیر احمدیوں کو نماز پڑھانے پر مقرر کئے گئے.لیکن بنیادی طور پر اصولاً یہ بات غلط تھی.جبر کے ذریعہ دین نافذ نہیں کیا جا سکتا قرآن کریم یہ اعلان کر رہا تھا اور کوشش ہو رہی تھی کہ نہیں ہم جبر کے ذریعہ دین نافذ کر کے دکھائیں گے نا کام ہو گئے اور صرف ایک معمولی سی جھلکی ذہنوں میں باقی رہ گئی ہے ورنہ عملاً یہ نظام کلیۂ مفقو دو نابود ہو چکا ہے.دوسری طرف احمدیوں کو ز بر دستی نماز سے روکنے کی کوشش کی گئی کیونکہ اسلام مکمل طور پر نافذ ہو ہی نہیں سکتا جب تک بعض لوگوں کا نمازوں سے روکا نہ جائے.خلاصہ یہ نکلا کہ جو نمازیں نہیں پڑھتے ان کو پڑھائی جائیں اور جو پڑھتے ہیں ان کو نہ پڑھنے دی جائیں.یہ ہے اسلام کا پیغام جو موجودہ حکمرانوں نے سمجھا اور نا کام ہو گئے.اس طرح ناکام ہوئے کہ بکثرت ایسے احمدی جو پہلے نمازوں میں سستی دکھا جاتے تھے وہ نمازوں میں اور زیادہ مضبوط ہو گئے.جو باجماعت نماز
خطبات طاہر جلد ۵ 788 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء کے عادی نہیں تھے انہوں نے باجماعت نمازیں شروع کر دیں.جو تہجد نہیں پڑھتے تھے، انہوں نے تہجد پڑھنا شروع کر دی اور جو بے نمازی تھے وہ نمازی بننے لگ گئے اور اس کا رد عمل اس آیت کے ساتھ ٹکرانے کا ایسا وسیع ہے، اتنا پر شوکت ہے کہ صرف پاکستان میں نہیں ہوا یہ رد عمل ، انگلستان میں بھی ہوا، جرمنی میں بھی ہوا، چین میں بھی ہوا ، جاپان میں بھی ہوا، امریکہ میں بھی ہوا ،افریقہ میں بھی ہوا، کوئی دنیا کا ملک ایسا نہیں ہے جہاں پاکستان کے حکمرانوں کی اس ناپاک کوشش کارد عمل اس صورت میں دنیا میں ظاہر نہ ہوا ہو کہ انہوں نے وہاں احمدیوں کونمازوں سے روکنے کی کوشش کی ہو اور دنیا کے کونے کونے میں احمدی نمازوں پر زیادہ قائم نہ ہو گئے ہوں.تعداد کے لحاظ سے بھی ، نماز کے مزاج کے لحاظ سے بھی ، روحانیت کی شیرینی کے لحاظ سے بھی ، خشوع و خضوع کے لحاظ سے بھی غرضیکہ ہر پہلو سے اس کوشش کا نتیجہ سوائے اس کے کچھ نہیں نکلا کہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے نماز کا معیار ہر صورت میں ہر پہلو سے اب پہلے کی نسبت بہت اونچا ہو گیا.مسجدیں آباد کرنے کی کوشش بھی اسی کا ایک دوسرا پہلو ہے جس کے مقابل پر مسجدیں ویران کرنے کی کوشش ، یہ اسلام تھا.کلمہ تو حید کو احمدیوں کے دلوں سے نوچ لینا اور اس کے لئے اس محبت کے جرم میں ان کو سزائیں دینا، یہ ایک پہلو تھا ” اسلام کے نفاذ کا اور بعض دوسرے لوگوں کو کلمہ تو حید پر قائم کرنا اور کلمہ توحید سے محبت پیدا کرنا اور شرک کا قلع قمع کرنا یہ دوسرا پہلو تھا.دونوں زبر دستی کی کوششیں بری طرح ناکام ہو گئیں.آج تو پاکستان میں عوام تو عوام پڑھے لکھے سمجھدار لوگ بھی کلمہ کے نام سے ڈرنے لگ گئے ہیں اور بکثرت ایسے واقعات ہو رہے ہیں کہ جب احمدی کسی کو کلمہ سینے پر لگانے کی تلقین کرتا ہے یا پیش کرتا ہے کہ آپ بھی لگائیں آپ بھی محبت کے دعویدار ہیں تو وہ کانوں کو ہاتھ لگاتا ہے کہ مجھے نہ اس معاملے میں لے کر آنا.مجھ میں نہیں طاقت کہ میں ماریں کھاؤں لوگوں سے یا جیل میں ڈالا جاؤں اس لئے تمہیں کلمہ مبارک ہو.شروع شروع میں نادانی اور انجانی میں لاہور یا کراچی وغیرہ میں جب احمدیوں نے کلمہ کے Stickers کاروں پر لگانے شروع کئے تو لوگ بڑے مسکرا کر اور شوق سے قبول کرتے تھے.اب تو وہ کلمہ دیکھ لیں تو ان کی جان نکلتی ہے.کوئی احمدی لے جا رہا ہو کسی کار کی طرف کلمہ تو وہ کار تیز کرلے گا یا اگر کھڑی ہے تو چلا دے گا تا کہ پہنچنے ہی نہ مجھے تک.ایسا خوف طاری ہو گیا ہے بلکہ اس کے نتیجہ
خطبات طاہر جلد ۵ 789 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء میں بعض جگہ بڑی مشکلات پیدا ہوئیں.ایک کچہری میں ایک احمدی نے چھوٹے افسروں میں سے بعضوں کو کلمہ پیش کیا اور انہوں نے اپنی نادانی میں یہ سمجھا کہ کلمہ لگانے میں کیا حرج ہے انہوں نے لے کر لگالیا.Mobbing ہوئی ان کے اوپر ، ان کے افسروں نے ان کی جواب طلبیاں کیں تو بڑی سختی کے دن آگئے.اگلی دفعہ جب عدالت میں وہی احمدی پیش ہوئے اور انہوں نے پھر آگے بڑھ کر کلمہ پیش کیا تو انہوں نے کہا کہ معاف رکھو ہمیں کافی ہوگئی جو ہم سے ہوئی تھی.اب نہ دوبارہ کلمہ ہمارے سامنے لے کر آنا.تو جن سے کلمہ چھیننا چاہتے تھے ان کو تو کلمہ سے محبت اتنی گہری پیدا ہو گئی تھی تو پہلے ہی لیکن اور زیادہ ابھر گئی جس طرح بچہ بیمار ہو تو ماں کو پتہ چلتا ہے کہ مجھے اس سے کتنی محبت تھی کتنا پیار تھا.احمدیوں کو معلوم ہو گیا، اُن کا شعور بیدار ہو گیا ، ان کے دل میں جو کلمہ کا عشق تھا اس نے جوش مارنا شروع کیا اور ابھر نے لگا.آنکھوں سے برساوہ ، خون بن کر ان کے جسموں سے نکلا لیکن جس چیز کو دبانے کی کوشش کی گئی وہ پوری قوت کے ساتھ اور زیادہ ابھری اور بُری طرح یہ حکومت احمدیوں سے کلمہ چھیننے میں ناکام ہو چکی ہے.یہاں تک مثالیں ہیں قربانیوں کی ، ایک لمبی داستان ہے.سب سے زیادہ احمدی پاکستان میں جیل میں کلمہ لگانے اور کلمہ سے پیار کرنے کے جرم میں گئے.سینکڑوں گئے ہیں اور بار بار گئے ہیں اور کوئی پیچھے نہیں ہٹا.بعض جگہ بعض اضلاع میں جب یہ تحریک عام ہونے لگی تو ضلعی حکام نے زبر دستی حکومت کے منشاء کو ٹالتے ہوئے اس بات کو روک دیا کہ اب ان کو مزید نہیں پکڑا جائے گا کیونکہ وہ کہتے تھے ہمیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا.اس کثرت سے احمدی ہیں بعض اضلاع میں کہ ان کی جیلوں سے اگر سارے مجرم نکال دیئے جاتے سوائے کلمے کے مجرموں کے تب بھی وہ جیلیں ان کو سنبھال نہیں سکتی تھیں اور چونکہ ساتھ ساتھ دوسرا جرم بھی بڑھتا جا رہا ہے.اس لئے اب عدلیہ کے لئے بھی اور انتظامیہ کے لئے بھی یہ فیصلہ کرنا تھا کہ کلمہ کے مجرموں کو پہلے رکھا جائے جیلوں میں یا دوسرے مجرموں کو رکھا جائے.قاتلوں ، زانیوں ، شرابیوں اور دھوکے بازوں ان کے لئے جیل میں جگہ بنائی جائے یا کلمہ والوں کے لئے جگہ بنائی جائے.لیکن اگر وہ کلمہ والوں کے لئے صرف بناتے تب بھی ممکن نہیں تھا کہ جیلیں ان کو سما سکتیں.اس لئے بعض اضلاع میں با قاعدہ ایک پالیسی کے طور پر خواہ وہ پالیسی اوپر سے منظور شدہ ہو یا نہ ہو اس سے قطع نظر، مقامی اضلاع کے حکام نے عقل.
خطبات طاہر جلد ۵ 790 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء سے کام لیا سمجھ بوجھ سے کام لیا انہوں نے کہا کہ یہ ناممکن ہے اس لئے ہم اس معاملہ میں آگے نہیں بڑھیں گے تو وہاں یہ تحریک نظر آنی بند ہوگئی ، لیکن جہاں نسبتا تھوڑے احمدی تھے مثلاً ضلع خوشاب ہے وہاں یہ نمایاں ہو کر نظر آنے لگی.بعض جگہ جہاں زیادہ طاقت تھی احمدیوں کی اور یہ تحریک بے انتہاء شدت اختیار کرنے لگی.چھوٹے، بڑے، بوڑھے، جوان ،مرد عورتیں، بچے یہ دوڑے کلمے لگالگا کر کہ اگر اس جرم میں سزا ہے جیل کی تو ہم حاضر ہیں.تو وہاں انتظامیہ نے ایک قدم اٹھایا بھی تھا تو اس کو واپس لے لیا لیکن خوشاب میں ابھی بھی یہ تحریک پورے زوروں پر چل رہی ہے اور اس میں ضلع سرگودھا کے بہت سے شریر، حکومت کی مدد کر رہے ہیں.وہاں ہمارے ضلع خوشاب کے امیر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی بہادر انسان ہیں اور غیر معمولی کلمہ توحید سے محبت رکھنے والے انسان ہیں.ان کے متعلق اطلاعیں جومل رہی ہیں، مسلسل بار بار ان کو نہ صرف یہ کہ ان کو قید کیا گیا بلکہ قید کرتے وقت ان پر مولوی چھوڑے گئے اور مولویوں کے چیلے چھوڑے گئے ان کو شدید طور پر مجروح کیا گیا اور اس حال میں بیڑیاں پہن کے ان کو قید میں ڈالا گیا کہ سارا جسم زخموں سے چور تھا لیکن اعلان انہوں نے پھر بھی یہی کیا ہر جگہ یہی کیا کہ جب تک میری زندگی ہے ہزار بار تم مجھے جیل میں ڈالو گے مگر کلمہ سے محبت تو در کنار میں نے کلمہ لگانا بھی نہیں چھوڑنا.ان کا عجیب واقعہ ان کے ساتھی جو تھے جیل کے، انہوں نے لکھا ہے کہ جب ان کو جیل میں ڈالا گیا تو کلے نوچ لئے گئے تھے ان کے جسم سے تو انہوں نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ کوئی لکھنے کی چیز ہے تو میری قمیض پر لکھ دو.چنانچہ انہوں نے ان کی قمیض پر کلمہ لکھ دیا.جیلر کی جب نظر پڑی تو اس نے کہا اس جرم میں تو تم اندر آئے ہو خبر دار! اتار قمیض.انہوں نے کہا یہ قمیض تو میں نہیں اتار سکتا اس پر اس نے پھاڑ کرنوچ کر وہ قمیض الگ کر دی.انہوں نے اپنی چھاتی پر کلمہ لکھوالیا کہ اب میری جلد بھی نوچ لو.جہاں تک چلتے چلے جاؤ گے میں دوبارہ کلمہ لکھتا چلا جاؤں گا.میرے دل سے جب تک تم کلمہ نہیں نوچ سکتے تمہیں طاقت ہی نہیں ہے کہ اس کلمہ کو مجھ سے جدا کر دو.ان پر اور ان کے ساتھیوں پر بار بار ایسے ظالمانہ اقدامات کرنے کی حکومت نے اجازت دی ان معنوں میں اجازت دی، کہ کچہری میں پولیس کی موجودگی میں چندملاں اور ان کے ساتھی ان
خطبات طاہر جلد ۵ 791 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء پر حملہ آور ہورہے ہیں، ان کو زدوکوب کر رہے ہیں، ان کی آنکھوں میں مرچیں ڈالی جارہی ہیں اور لٹا کر ٹھڈوں سے اور ڈنڈوں سے مارا جارہا ہے اور عدالت میں پیش ہونے کے لئے آئے ہیں یہ موقع ہے.اس لئے یہ کہنا کہ حکومت اس سے بے خبر ہے یا بے قصور ہے یہ تو بالکل احمقانہ بات ہے.عملاً حکومت اس کو انگیخت کرتی ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جن کو ماریں پڑتی ہیں ان کو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور جو مارنے والے ہیں وہ سارے آزاد ہیں.ہر دفعہ یہی واقعہ ہوا ہے ہر دفعہ جب وہ عدالت میں پیش ہوئے ہیں کلمہ کی محبت والے، تو پہلے ان کو مارا گیا پھر جیل میں ڈالا گیا اور ہر دفعہ مارنے والے آزاد ہوئے اور جن کو مارا گیا تھا ان میں سے جنہوں نے کلمہ نہیں بھی لگایا ہوا تھا ان کو بھی جیل میں ڈالا گیا.غرضیکہ جو کچھ انہوں نے کرنا تھا کیا، جو کر سکتے ہیں کر رہے ہیں، لیکن احمدیت سے کلمہ طیبہ محمدیہ کو نہیں نوچ سکے نہیں چھین سکے.احمدیوں کے دلوں میں اس محبت کو کم کرنے کی بجائے مٹانے کی بجائے ، انہوں نے اس کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا.جبر وتشدد کے ذریعہ خوف دلانے کی بجائے انہوں نے بزدلوں کو بھی شیر بنا دیا، کمزوروں کو بھی طاقتور کر دیا ہے.پس لا إِكْرَاهَ فِي الدِّینِ کی آیت ہمیں اس پہلو سے بھی وہاں عمل کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور وہ لوگ جن کے متعلق یہ دعوی تھا کہ ان کو کلمہ سکھائیں گے اور ان میں تو حید پیدا کریں گے نہ وہ کلمہ سیکھ سکے نہ ان میں توحید کی باتیں باقی رہیں ایک دوسرے سے لڑنے لگے، ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی کرنے لگے ملک پھٹنے لگا، تو حید باری تعالیٰ تو در کنار وحدت ملی بھی باقی نہیں رہی.ایسا انتشار کا شکار ہوا کہ بہت کم ایسے بدنصیب ملک ہیں آج دنیا میں جو اس حد تک انتشار کا شکار ہو چکے ہوں.اور بھی کوششیں کی گئیں: سچائی کی عادت ڈالنا، دیانت داری سکھانا ، حب الوطنی پیدا کرنا، چادر اور چار دیواری کی حفاظت، ملک میں امن و امان اور سلامتی پیدا کرنا، یہ ساری اسلام کی مثبت کوششیں ہیں جو حکومت نے دعویٰ کیا کہ ہم مسلمانوں میں ان اسلامی اخلاق کو اور اسلامی اقدار کو رائج کر کے دکھا ئیں گے لیکن اس سے چونکہ اسلام کی خدمت مکمل نہیں ہوتی تھی اس کے برعکس احمدیوں کو ہر قرآنی حکم سے رکنے کی تاکید کی گئی اور متنبہ کیا گیا کہ تمہارا چونکہ قرآن کریم سے کوئی تعلق نہیں اگر تم قرآنی سچائیوں پر عمل کرو گے تو ہم بزور شمشیر تمہیں اس عمل سے باز رکھیں گے.چنانچہ اس کے برعکس
خطبات طاہر جلد ۵ 792 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء صورت یہ بنتی ہے کہ احمدیوں کو جھوٹا بنانے کی زبر دتی کوشش کی گئی اور غیر احمد یوں کو زبردستی سچا بنانے کی کوشش کی گئی.خلاصہ یہ ہے اسلام کی خدمت اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ زبردستی جھوٹا بنانے کی کوشش کی گئی تو مراد کوئی محاورہ نہیں ہے.امر واقعہ یہی ہوا ہے اور ہو رہا ہے اس وقت.ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کو ایک سچا دین سمجھ رہا ہے.ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا تعالیٰ کی توحید کا قائل ہے اور دل کی گہرائیوں سے اس کے اوپر کامل ایمان رکھتا ہے.ہر احمدی اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت محمد مصطفی ﷺ کواللہ تعالیٰ کا پاکیزہ بندہ اور سچارسول سمجھتا ہے اور دل کی گہرائیوں سے اس بات پر ایمان رکھتا ہے.اس سے زبر دستی، اس سے یہ کہلوانا کہ اسلام جھوٹا ہے اور میرا اس جھوٹے مذہب سے کوئی تعلق نہیں اور خدا ایک نہیں ہے اور محمد رسول اللہ علے سچے نہیں ہیں، یہ زبردستی جھوٹ بلوا نانہیں تو اور کیا چیز ہے بلکہ جھوٹ بھی بدترین اور مکروہ ترین کہ اس سے زیادہ لعنتی جھوٹ متصور نہیں ہوسکتا.یہ جو کچھ ہو رہا ہے یہی ہو رہا ہے کہ احمدی سے کہا جا رہا ہے کہ تم دل میں جو کچھ چاہو یقین رکھتے ہو، تمہیں ہم مجبور کریں گے، مار مار کر سزائیں دے دے کر، جیلوں میں گھسیٹ کر ، جرمانے کر کر کے کہ تم یہ اعلان کرو کہ خدا ایک نہیں ہے پھر تم ہماری سزا سے بچ جاؤ گے.یہ اعلان کر دو کہ محمد مصطفیٰ سے نہیں ہیں.اگر یہ نہیں کرو گے تو ہم سمجھیں گے تم اسلام کی گستاخی کر رہے ہو ، رسول اللہ ہے کی گستاخی کر رہے ہو اور اگر یہ اعلان کرو گے کہ نعوذ باللہ خدا ایک نہیں ہے اور رسول اللہ علے سچے نہیں ہیں تو ہم کہیں گے ہاں اب ٹھیک ہے اب تم گستاخی سے باز آ گئے ہو.یہ ہے نفاذ اسلام کی ایک کوشش کہ احمدیوں کو سچائی سے روک دیا جائے اور قانون بن چکا ہے کہ احمدی کو سچ بولنے نہیں دینا اگر سچ بولے گا تو اس کی سزا ملے گی ہر احمدی اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمان سمجھتا ہے.آپ کو پتہ ہے کہ جب گذشتہ جلسہ سالانہ پر احمدیوں نے کثرت کے ساتھ یہاں آنا شروع کیا اللہ تعالیٰ کے فضل سے تو اس کے نتیجہ میں ایک حسد پیدا ہوا اور تو کچھ نہیں کر سکتے تھے مگر جن احمد یوں نے پاسپورٹ پر مسلمان لکھوایا ہوا تھا ان کو یہاں آنے کی بجائے قید میں ڈال دیا گیا.انہوں نے کہا ہمارا جرم کیا ہے انہوں نے کہا جرم یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہو.انہوں نے کہا ہم تو سمجھتے ہیں اپنے آپ کو مسلمان ہم اور کیا کہیں؟ کہا سمجھتے جو مرضی ہو گے قانون مجبور کر رہا ہے
خطبات طاہر جلد ۵ 793 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء کہ جھوٹ بولواس لئے سچ کی سزا ملے گی تمہیں اور جہاں تک غیر احمدیوں کا تعلق ہے زور لگا کر تھک گئے کہ ان کو سچ کی عادت ڈالیں ، سچ کی عادت نہیں ڈال سکے.اس بُری طرح ناکام ہوئے ہیں کہ اپنے بیانات میں وزراء بھی کہہ رہے ہیں اور پریذیڈنٹ صاحب بھی کئی مواقع پر اس ناکامی کا اظہار کر چکے ہیں کہ ہم نے زبر دستی اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی تھی مگر یہ قوم ہمارے قابو نہیں آئی.اسلام نافذ کرنے میں اس قوم پر ہم بُری طرح ناکام ہوئے ہیں.ہر معاملے میں بد دیانتی اتنی بڑھ چکی ہے کہ ابھی دو تین دن کی بات ہے صدر صاحب کا بیان آیا تھا کہ ہسپتالوں میں جہاں بنی نوع انسان کی سے ہمددری میں جہاں بیماری اور موت کو دیکھ کر خدا کا خوف بڑھ جاتا ہے یا بنی نوع انسان کی ہمدردی میں انسان کا دل نرم پڑ جاتا ہے، ان ہسپتالوں کے متعلق صدر مملکت کا یہ بیان آیا ہے کہ ہمارے اندازے کے مطابق جتنا روپیہ مریضوں پر خرچ کرنے کے لئے ہسپتالوں کو دیا جاتا ہے اس میں سے کم از کم پچاس فی صدی خورد برد کر دیا جاتا ہے اور یہ تو اقرار ہیں اور وہ لوگ جو پاکستان سے ہو کر آتے ہیں مشاہدہ کر کے آتے ہیں وہ بتاتے ہیں، اس قدر بے اطمینانی ہے سارے ملک میں اخلاقی معیار گرنے کے نتیجہ میں کہ ہر طرف یہی باتیں ہو رہی ہیں، یہی شکوے ہو رہے ہیں کہ اس قوم کا کیا بنے گا، ہر پہلو سے اس قوم کے اخلاق کا دیوالیہ پٹ چکا ہے.امن وامان کا وعدہ کرتا ہے اسلام.انہوں نے کہا کہ ہاں ہم اسلام کے نام پر آئے ہیں ہم امن و امان قائم کر کے دکھائیں گے امن وامان کی حالت یہ ہے کہ آج تک کبھی پاکستان کی تاریخ میں بعض گزشتہ حکومتوں کے سارے دور میں اتنے ڈاکے نہیں پڑے تھے جتنے اس حکومت کے دور میں ایک ایک ہفتے میں ڈا کے پڑ جاتے ہیں.صدر ایوب کے زمانے کے ساری تاریخ کے ڈاکے اکٹھے کر لیں اور ایک ہفتہ میں اس مبینہ اسلامی حکومت کے دور میں جو ڈا کے پڑتے ہیں ان کی آپ مقابلہ کر کے دیکھ لیں ، فی ہفتہ یہاں ڈا کے زیادہ پڑ رہے ہیں.کلیۂ امن اٹھ چکا ہے.ایسے بھیانک اغوا کے واقعات جن کا پہلے پاکستانی سوسائٹی تصور نہیں کر سکتی تھی ، اب روز مرہ کی باتیں ہو چکی ہیں.جب ایک وزیر صاحب کی توجہ دلائی گئی کہ یہ امن وامان کی حالت خراب ہے اور اتنے ڈا کے پڑرہے ہیں کیا وجہ ہے؟ آپ تو اسلامی حکومت سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں آپ کا فرض
خطبات طاہر جلد ۵ 794 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء ہے کہ پاکستان میں امن و امان قائم کریں.تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ تو سیاسی لوگ ہیں ہم کیا کر سکتے ہیں.یہ جو اپنا دین ایمان بیچنے والے سیاستدان ہیں، اسلام کے بھی دشمن ہیں اور ملک وقوم کے بھی دشمن ہیں اور پاکستان کے دشمن یہ وہ کروا ر ہے ہیں.ایک موقع پر سوال یہ کیا گیا کہ یہ جو ڈا کے پڑ رہے ہیں صاف بتاتا ہے کہ آپ لوگ ہر دلعزیز نہیں رہے اور سیاسی اظہار ہے بے چینی کا.جس قوم میں سیاسی طور پر امن وامان ہو یا تسکین پائی جائے ، جہاں سیاست سچی ہو اور عوام کی جڑوں سے اٹھ رہی ہو وہاں اس قسم کی بدامنی کی حالت نہیں ہوتی.تو اس کا جواب یہ دیا گیا کہ یہ تو سیاست ہے ہی نہیں ، اس میں سیاسی لوگوں کا کیا دخل یہ تو خالص ڈاکو ہیں جو یہ کام کر رہے ہیں.ایک پہلو سے وہ ڈاکو سیاستدان بن جاتے ہیں، ایک پہلو سے وہ سیاستدان ڈاکو بن جاتے ہیں.غرضیکہ صرف زبانی عذر تراشیاں ہیں جس کے ذریعہ یہ اپنی بداعمالیوں کو چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں.سارا ملک اس منحوس سائے کے نیچے گندا ہو چکا ہے اور گندا ہوتا چلا جا رہا ہے.بعض لوگ جو ابھی پاکستان سے ہو کر آئے ہیں وہ بتا رہے ہیں کہ اب تو اگر سیاست کی بات کریں تو لوگ کہتے ہیں چھوڑ دوسیاست کی بات.ہم نے رہنا ہے کہ نہیں رہنا ان حالات میں ہمارا کیا بنے گا ؟ ہمارے بچوں کی حفاظت، ہماری بچیوں کی حفاظت، اب یہ سوال اٹھ چکا ہے.کوئی تعلیم ہوگی بھی کہ نہیں اس ملک میں اب.انسانی شرافتیں اور اخلاقی قدریں باقی رہیں گی کہنہیں.اس وقت تو ہم یہ سوچ رہے ہیں.تجارتیں چلیں گی اسی طرح یا انار کی کا شکار ہو جائیں گی.ہر طرف بدامنی بڑھتی چلی جارہی ہے اور لوگوں میں اب عدم تحفظ کا اتنا زیادہ پیدا ہو چکا ہے کہ باقی سارے مسائل اس کے نیچے دب گئے ہیں.تو جس چیز کو مثبت سمجھ کر انہوں نے جبر نافذ کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کلیہ ناکام ہیں اور جس چیز کو نفی پہلو سے انہوں نے اسلام کے نام پر جبر انا فذ کرنے کی کوشش کی اس میں بھی کلیہ ناکام ہو گئے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس دور میں احمدیوں کا دیانت کا معیار بھی بڑھا، امن پسندی کا معیار بھی بڑھا ، جرائم سے بچنے کا معیار بھی بڑھا اور نیکی اور تقویٰ کی راہوں پر زیادہ مضبوطی سے قدم مارنے کا معیار بھی بڑھا.تو دونوں صورتوں میں یہ کلیہ نہ صرف نا کام ہو چکے ہیں بلکہ آج تک پاکستان کی تاریخ میں کوئی حکومت بھی اپنے دعووں میں اس بُری طرح ناکام نہیں ہوئی جتنا یہ مزعومہ طور پر یا مبینہ طور پر اسلام کے نام پر قائم ہونے والی آمریت ناکام ہوئی ہے.
خطبات طاہر جلد ۵ 795 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء زیادہ تر علماء دین میں سے ان کے دو ساتھی ہیں.ایک جماعت اسلامی اور ایک دیو بندی علماء اور اہل حدیث اور ان کے متعلق ج کہ کیوں وہ ساتھی ہیں، اس کا پس منظر کیا ہے اس میں میں نہیں جانا چاہتا لیکن عام سیاستدانوں کا بھی اور عام دوسرے علماء کا بھی اندازہ یہ ہے کہ دیو بندیوں کی حیثیت ثانوی ہے اس میں ، ان کو صرف احمدیوں پر استعمال کرنے کے لئے رکھا گیا ہے.درحقیقت یہ سازش ہے حکومت کو مود و دیوں کے قبضہ میں دینے کی اور ایک زبر دستی کا اسلام جو نافذ کرنے کا پروگرام بنایا گیا ہے اس میں بالآخر مود و دیوں کو اوپر لانے کا پروگرام ہے.اب شریعت بل کی بحثوں میں یہ بات کھل کر سامنے آچکی ہے.اس قسم کے اسلام کے متعلق مودودی صاحب کا اپنا کیا خیال تھا وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مودودی صاحب فرماتے ہیں، حضرت سید محمد اسمعیل صاحب شہید اور سید احمد صاحب بریلوی شہید کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے یعنی دونوں بزرگوں نے جو انقلاب لانے کی کوشش کی اسے ایک ناکام کوشش قرار دیتے ہوئے مولانا مودودی ان کے حالات کا ، ان کی ناکامی کا تجزیہ کرتے ہیں اور فرماتے ہیں : دونوں لیڈ رغالبا اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ سرحد کے لوگ چونکہ مسلمان ہیں اور غیر مسلم اقتدار کے ستائے ہوئے بھی ہیں اس لئے وہ اسلامی 66 حکومت کا خیر مقدم کریں گے.“ یہ آج سے سو سال سے زائد عرصہ سے پہلے سرحد کے مسلمانوں کا تجزیہ ہورہا ہے اور ان کے اسلام کا تجزیہ ہورہا ہے.مولانا فرماتے ہیں کہ ان کو یہ غلط فہمی ہو گئی تھی حضرت سید احمد صاحب شہید کو اور حضرت سید اسماعیل صاحب شہید کو کہ شاید یہ لوگ مسلمان نظر آ رہے ہیں مسلمان ہی ہوں یعنی وہ دیو بندی جتنے بھی تھے ان کے متعلق یہ مولانا مودودی کا فتویٰ ہے کہ دیکھنے میں مسلمان نظر آرہے تھے.ان بزرگوں نے بیچاروں نے سمجھ لیا کہ شاید سچ مچ ہی مسلمان ہیں پھر غیروں کے اقتدار کے ستائے ہوئے بھی تھے اس لئے وہ اسلامی حکومت کا خیر مقدم کریں گے.اس وجہ سے انہوں نے جاتے ہی وہاں جہاد شروع کر دیا اور جتنا ملک قابو میں آیا اس پر اسلامی خلافت قائم کر دی.“
خطبات طاہر جلد ۵ 796 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء اس صورت حال کا اس دور کے ساتھ ذرا موازنہ تو کر کے دیکھیں.وہاں تو تھوڑ اسا ملک قابو آیا تھا لیکن متقی لوگوں کے قابو آیا تھا مولانا مودودی فرمارہے ہیں کہ اس تھوڑے سے حصے میں بھی جہاں اسلام پر عمل درآمد کا معیار آج سے بہت زیادہ اونچا تھا اور اس وقت بھی سارے ہندوستان میں سب سے زیادہ اونچا تھا، وہ متقی فرمانروا بھی نا کام ہو گئے اور اسلام نافذ کرنے کی جو کوشش انہوں نے شروع کی اس میں وہ کلیہ ناکام رہے اور بالآخر اس کا ایک نہایت ہی خوفناک اور ہولناک نتیجہ نکلا.آج کا حکمران ایک تھوڑے حصے پر نہیں سارے ملک پر قابض ہے اسلام کے نام پر اور سارے ملک پر قابض وہ لوگ ہیں جو تقویٰ میں سید احمد صاحب شہید کی جوتیوں کی خاک کے برابر بھی نہیں بلکہ حضرت سید احمد صاحب شہید اور سید اسماعیل صاحب شہید کی جوتیوں کی خاک سے موازنہ کرنا بھی ان کی گستاخی بن جاتا ہے.وہ نافذ کرنے لگے ہیں اسلام کے نام پر دیانت جو دیانت سے نا آشنا ہیں.وہ تقویٰ زبردستی دلوں میں داخل کرنا چاہتے ہیں جو تقویٰ کے نام سے ہی ناواقف ہیں، یہ چیز ہوتی کیا ہے.اس کا کوئی تصور ہی نہیں ان کے دلوں میں کوئی نہیں.جتنی ملک میں الاٹمنٹس ہوئی ہیں حکمرانون کی طرف سے، جتنی خورد برد ہوئی ہے جتنی رشوت بڑھی ہے، جتنی عدالتیں قائم ہوئیں اور اس کے فیصلے ہوئے ، یہ باتیں تفصیل سے دہرانا میرا کام تو نہیں ہے لیکن ساری قوم جانتی ہے، بچہ بچہ قوم کا جانتا ہے.جن کی ساری عمر کی تنخواہیں اگر اکٹھی کر لی جاتیں اور ایک آنہ بھی اس میں سے خرچ نہ کیا جاتا تو بمشکل ایک چھوٹی سی کوٹھی بنتی اس سے.ان کے اپنے اخراجات بھی شاہانہ رہے اور محلات قائم ہو گئے، ایک سے زائد محلات قائم ہو گئے.ان لوگوں کے ہاتھوں میں اسلام کا نفاذ تھا.اب.ان حضرت سید احمد صاحب شہید رحمۃ اللہ علیہ کے ساتھ ان کا کوئی مقابلہ ہوسکتا ہے بھلا؟ لیکن مولانا مودودی صاحب فرماتے ہیں کہ جب اسلام کا معیار بہت بلند تھا اور اُس صوبہ میں جہاں سب سے زیادہ بلند تھا وہاں ایسی عظیم ہستی نے جس کو کروڑوں مسلمان اپنے وقت کا مجد د مانتے ہیں، اس نے بھی زبر دستی اسلام نافذ کرنے کی کوشش کی تو وہ نا کام ہو گیا : بالآخر تجربہ سے ثابت ہوگیا کہ نام کے مسلمان کو اصلی مسلمان سمجھنا اور ان سے وہ تو قعات رکھنا جو اصلی مسلمان ہی سے پوری ہوسکتی ہیں محض ایک دھوکا تھا.وہ خلافت کا بوجھ سہارنے کی طاقت نہ رکھتے تھے جب ان پر یہ
خطبات طاہر جلد ۵ 797 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء بوجھ رکھا گیا تو وہ خود بھی گرے اور اس پاکیزہ عمارت کو بھی لے گرے.“ اب کیا ارادے ہیں مودودیت کے پھر ؟ اب کیا زعم لے کر اٹھی ہے؟ اب کیوں سازشوں اور چالبازیوں کے ذریعہ موجودہ حکمرانوں کے ساتھ مل کر اسلام کے نام پر ملک پر قبضہ کر کے کچھ کرنا چاہتی ہے؟ اگر سو سال پہلے بہت زیادہ متقی لوگوں کا یہ تجربہ اگر مولانا مودودی کے بیان کو مانا جائے تو ایسے صوبے میں ناکام ہوا جہاں اسلام پر عمل درآمد کا معیار آج بھی سب دوسرے صوبوں سے زیادہ ہے اور سو سال پہلے آج کے اس صوبے سے بھی بہت زیادہ اونچا تھا یعنی آج جو صوبہ سرحد کا مسلمان ہے اس کا کوئی مقابلہ ہی نہیں سو سال پہلے کے صوبہ سرحد کے مسلمان سے.ان کے ماں باپ کا تقویٰ بھی آج ان موجودہ نسلوں کے تقویٰ سے بلند تر تھا، وہ تو دادے پڑ دادے تھے ان کے اور بڑے خالص ایمان کے ساتھ اسلام پر عمل درآمد کرنے والے لوگ تھے.اگر مولانا مودودی کا یہ تجزیہ درست ہے اور تاریخ یہ بتاتی ہے کہ کچھ ہوا ضرور ایسا ہے کہ زبردستی یہ لوگ مسلمان نہیں بن سکے تو پھر آج کے یہ لوگ تو آج کے مولانا مودودی کے شاگرد ( حضرت سید احمد صاحب شہید کے شاگرد نہیں مودودی صاحب کے شاگرد ) اور ان کے شاگردوں کے شاگرد کسی جبر کے ذریعہ کسی قوم کو مسلمان بنا دیں گے؟ یہ تو جنت الحمقاء میں بسنے والی بات ہے.وہم و گمان بھی اس کا چھوڑ دیجئے.لیکن ان کا محاسبہ اس بات پر ہونا چاہئے اور قوم کو کرنا چاہئے کہ یہ پڑھنے کے باوجود مودودی صاحب کا یہ تجزیہ کہ اس پاکیزہ عمارت کو بھی لے گرے“ جو کچھ پاکستان کا باقی رکھا ہے کیوں اس کولے گرنے پر تیار بیٹھے ہو، کیوں بار بار کے تجربوں کی ناکامی سے فائدہ نہیں اٹھار ہے؟ پھر مودودی صاحب فرماتے ہیں: تاریخ کا یہ سبق بھی ایسا ہے جسے آئندہ ہر تجدیدی تحریک میں ملحوظ رکھنا ضروری ہے.“ مجدد کا دعوی اس طرح تو نہیں کیا لیکن اپنی تحریک کو تجدیدی تحریک کہا اور لوگوں کو تحریص کی کہ ان سے وہ کہیں کہ ہاں آپ نے یہ تحریک چلائی آپ مجد دوقت ہیں.فرماتے ہیں: ہر تجدیدی تحریک کوملحوظ رکھنا ضروری ہے.اس حقیقت کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے کہ جس سیاسی انقلاب کی جڑیں اجتماعی ذہنیت ، اخلاق
خطبات طاہر جلد ۵ 798 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء اور تمدن میں گہری جھی ہوئی نہ ہوں وہ نقش بر آب کی طرح ہوتا ہے.کسی عارضی طاقت سے ایسا انقلاب واقعہ ہو بھی جائے تو قائم نہیں رہ سکتا اور جب مٹتا ہے تو اس طرح ملتا ہے کہ اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا.“ (تجدید و احیائے دین مولفہ مودودی طبع چہارم (75) اس سارے بیان سے مجھے اتفاق ہے صرف آخری حصے کے سوا یعنی اپنا کوئی اثر چھوڑ کر نہیں جاتا.کیوں اثر چھوڑ کر نہیں جاتا ؟ کل جو آپ تجزیہ کر رہے تھے تو اس میں تو یہ کہا کہ اثر یہ چھوڑا کہ پاکیزہ عمارت کو بھی ساتھ لے گرے.صرف خود نہیں ملتا ایسا انقلاب بلکہ اعلیٰ قدروں کو بھی ساتھ مٹادیتا ہے.کیوں کچھ چھوڑ کر نہیں جاتا پیچھے، ایک نحوست کا ایسا لمباسا یہ چھوڑ جاتا ہے جو بعض دفعہ صدیوں تک قوموں کی بربادی کا موجب بنا رہتا ہے.ایٹمی سائنس سے آج دنیا خوف کھارہی ہے مگر وہ سایہ تو چند سال یا ۲۰ ہوں یا ۳۰ ہوں یا ۴۰ یا ۵۰ سال ہوں آخر اس سایے کی نحوست ان چند سالوں میں مٹ جائے گی پر قوموں کی تاریخ پر آپ جب نظر ڈالتے ہیں تو آپ یہ ماننے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اس قسم کے مذہب میں جبر کے قائل لوگوں نے جب اپنی نحوست کے سایے کسی قوم پر ڈالے تو عظیم الشان حکومتوں کے ٹکڑے ہو گئے اور یہ نحوست کے سایے صدیوں صدیوں تک جاری رہے اور آج بھی ان سایوں کا اثر ہم عالم اسلام پر دیکھ رہے ہیں.وہ شاندار سلطنتیں جو اسلام کے نام پر قائم ہوئی تھیں، جو محد مصطفی ﷺ کی سچائی کی طاقت سے قائم ہوئی تھیں وہ اسی قسم کے لوگوں نے مٹائیں اور برباد کر دیں اور آج ان کے کھنڈرات ہمیں دکھائی دیتے ہیں.پس کیسے کہا جاسکتا ہے کہ یہ اس طرح مٹ جائیں گے کہ کوئی اثر باقی نہیں رہے گا.مٹیں گے تو ضرور کیونکہ سچائی سے ٹکرانے والے ہمیشہ مٹا کرتے ہیں مگر نحوست کے سایے ضرور لمبے ہوں گے.اس لئے جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے کہ اس ناپاک انقلاب کی راہ میں روک بن جائے جو پاکیزہ نام لے کر، پاکیزگی کا نام لے کر جاری کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.ہر کوشش کو آپ نے ناکام بنایا ہے اور نا کام بنانا ہے آئندہ بھی.جس طرح آپ کے دلوں سے اسلام نوچ نہیں سکے، آپ کے اعمال سے اسلام نوچ نہیں سکے ، آپ کی زبان سے اسلام نوچ نہیں سکے ، آپ کے
خطبات طاہر جلد ۵ 799 خطبه جمعه ۲۸ نومبر ۱۹۸۶ء سینوں سے اسلام نوچ نہیں سکے ، اسی طرح حب وطن بھی آپ کے ایمان کا حصہ ہے.یہ پوری کوشش کر رہے ہیں اس وطن کو مٹانے کی آپ اس راہ میں کھڑے ہو جا ئیں اور نہ مٹنے دیں اور حب الوطنی کے گیت گائیں اور ساری قوم کو بھی سمجھائیں کہ ان لوگوں کی بداعمالیوں کے نتیجہ میں جو چند دنوں ، چند مہینوں ، چند سالوں کا قصہ باقی ہے، ان کی کے نتیجہ میں اپنے پاؤں پر کیوں کلہاڑی مارتے ہو.اس لئے اپنے حب الوطن کو زخمی نہ ہونے دو ، ساری قوم ایک ہو جائے اور وطن کی محبت میں ایک آواز کے ساتھ اٹھنا اور ایک آواز کے ساتھ بیٹھنا سیکھیں.یہ باتیں ترک کر دیں کہ فلاں صوبہ فلاں صوبے کے مخالف ہے فلاں صوبہ فلاں صوبے کے مخالف ہے.یہ بد خیالات یہ منحوس خیالات قوموں کی تباہی پر منتج ہو جایا کرتے ہیں.اس لئے جماعت احمدیہ کو یہ بھی جہاد کرنا چاہئے کہ پاکستان میں حب الوطن کے احساس کو نمایاں کریں اور بیدار کریں اور زخمی نہ ہونے دیں، جو زخمی ہو چکا ہے اسے مندمل کرنے کی کوشش کریں.ہر قسم کے ایسے خیالات یا ایسے ازم یا ایسے تصورات جو پاکستان کو کسی طرح نقصان پہنچا سکتے ہیں ، ان کے خلاف کوشش کرنا بھی جماعت احمدیہ کا کام ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اتنی تعداد میں جماعت موجود ہے کہ اگر وہ سرگوشیاں بھی شروع کرے کہ اٹھو اور ملک کی خاطر ایک ہو جاؤ اور ملک پر آنچ لانے والی ہر طاقت کو مقابلہ کرو تو اس کا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت نیک اثر ظاہر ہوسکتا ہے.اگر دعا ئیں اس کوشش کو تقویت دیں تو پھر یقیناً انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی نصیب ہوگی اور میں امید رکھتا ہوں اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو ہمیشہ سلامت رکھے کیونکہ آخر اسلام کے نام پر لیا ضرور گیا تھا.عمل مخالف ہو چکے ہوں یا نہ ہوں اس سے بحث نہیں ایک ملک ہے آج کے زمانے میں جو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا اور کونسا ملک ہے دکھا ئیں جو صرف اسلام کے نام پر بنایا گیا ہو؟ اس لئے اس مقدس نام سے پیار اور محبت ہے تو پھر ہر دنیا کے احمدی کو کوشش کرنی چاہئے کہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی ہر کوشش کو ناکام بنادیا جائے.
خطبات طاہر جلد۵ 801 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء ثبات قدم کی دعا کی پر معارف تشریح نیز آزادی ضمیر کے جہاد میں آنحضور کا اسوہ ( خطبه جمعه فرموده ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور پھر فرمایا: ( آل عمران: ۱۴۸) یہ دعا جس کے متعلق میں کئی مرتبہ تلقین کر چکا ہوں کہ اسے احمدیوں کو ان دعاؤں میں شامل رکھنا چاہئے جو موجودہ حالات میں خصوصیت کے ساتھ ہمیں اللہ تعالیٰ کے حضور پوری عاجزی کے ساتھ اور تضرع اور خشوع کے ساتھ کرنی چاہئیں.اس دعا کو آج کے خطبہ کے لئے میں نے اس لئے چنا ہے کہ اس میں بعض ایسے مضامین بیان ہیں جن کی طرف عموماً دعا کرنے والے کا ذہن منتقل نہیں ہوتا اور اس سلسلہ میں وہ مدد کا محتاج ہے.چونکہ اکثر احمدی میں توقع رکھتا ہوں اس دعا کا ورد کرتے ہوں گے اگر کبھی بھول بھی گئے ہوں تو یاد آجاتی ہوگی یا جماعتیں ان کو یاد کر وا دیتی ہوں گی اور اب تک اگر کوتاہی ہوئی بھی ہے تو آئندہ میں توقع رکھتا ہوں کہ خصوصیات کے ساتھ اسے پیش نظر رکھیں گے.جو باتیں قابل توجہ اس آیت میں ایسی بیان ہوئی ہیں جو دعائیہ آیت ہے، جن کے متعلق
خطبات طاہر جلد۵ 802 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء میں نے کہا ہے عموماً توجہ نہیں جاتی وہ یہ ہیں کہ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا سے آغاز ہوا ہے دعا کا جو جہاد پر نکلتے وقت کی دعا ہے ثَبِّتُ أَقْدَامَنَا وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ جو آخرى پکار ہے اس دعا میں اس سے پتہ چلا کہ اس دعا کا ایک گہرا تعلق اور براہ راست تعلق جہاد سے ہے خواہ کسی نوع کا جہاد ہو.اُس جہاد پر نکلتے وقت پہلی دعا یہ سکھائی رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا اے خدا ہمارے گناہ بخش دے.یہ جہاد دو قسم کا ہو سکتا ہے.ایک وہ جہاد کی قسم ہے جسے قتال کہتے ہیں ، جب دشمن پہل کرے تلوار کے ذریعے کسی کے دین کو دبانے کی کوشش کی.جب دشمن تحدی سے کام لینے کا فیصلہ کر لے اور زیادتی سے شروع کر چکا ہو، اس وقت مومن جو دفاعی لڑائی کرتا ہے اس کا نام بھی جہاد ہے.پس اگر یہاں جہاد کا مضمون ظاہری لیا جائے یعنی قبال اور وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کی دعا سے یہ مفہوم لیا جائے کہ ہمیں اس قتال ، اس تلوار کی جنگ میں ظالم پر فتح نصیب فرما جو ظالم بھی ہے اور مغرور بھی ہے اور ہم سے بہت زیادہ طاقتور ہے کیونکہ کمزور دشمن پہل نہیں کیا کرتا اور جہاد کی شرط یہ ہے کہ دشمن نے پہل کی ہو، جس کا مطلب یہ ہے کہ ظالم بھی ہے اور طاقتور بھی ہے.بڑی جسارت کر دکھاتا ہے اور بغیر وجہ کے اس یقین کے ساتھ حملہ آور ہوا ہے کہ اس کے خلاف جوابی کارروائی موثر ہو ہی نہیں سکتی.اس موقع پر رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا کا یہ معنی ہوگا کہ اے خدا! ہم تو جان کا نذرانہ لے کر نکلے ہیں اور اس سابقہ زندگی میں ہم سے بڑی کوتاہیاں ہوئی ہوں گی پھر بخشش طلب کرنے کا وقت ہمیں میسر نہیں آسکتا اس لئے ہماری ان قربانیوں کو قبول فرمالے اور ہمارے گناہوں سے صرف نظر فرما کیونکہ اب تو بقیہ زندگی ہم تیرے سپر داس طرح کر بیٹھے ہیں کہ گویا اپنے ہاتھ سے دے دی.تو اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا سے آغاز کرنا مومن کے جہاد کے عظیم خلوص پر بھی دلالت کرتا ہے اس دعا کے الفاظ بتاتے ہیں کہ جو بھی خدا کی راہ میں جہاد کرنے نکلتے ہیں اپنا کچھ رہنے نہیں دیتے اور اس ارادے سے نکلتے ہیں کہ سب کچھ قربان کر کے لوٹیں گے یا نہیں لوٹیں گے.لوٹیں گے تو خدا کے حضوران معنوں میں لوٹیں گے کہ لوٹیں گے تو خدا کے حضور لوٹیں گے..پس ذُنُوبَنَا سے استغفار یہ ایک بہت ہی برمحل بات ہے جو اس دعا میں ہمیں سکھائی گئی.وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا یہی مضمون ہے جو اور آگے بڑھ جاتا ہے ہم نے اپنے معاملات میں
خطبات طاہر جلد۵ 803 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء اسراف سے بھی کام لیا ہو گا.یہ مضمون ذنوب کے مضمون سے زیادہ گہر از یادہ وسعت رکھنے والا مضمون ہے.وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا اے خدا ہمیں ثبات قدم عطا فرما وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِيْنَ اور انکار کرنے والوں پر ہمیں فتح نصیب فرما.یہ ظاہری معنی اس طرح بنیں گے.اگر روحانی معنوں کا جہاد مراد ہے تو خواہ وہ تربیت کا ہو یا تبلیغ کا ہو یہاں خصوصیت سے تبلیغ کا جہاد پیشِ نظر ہے کیونکہ وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِيْنَ فرمایا وَانْصُرْنَا عَلَى القوم الفاسقین نہیں فرمایا تو خصوصیت سے یہ آیت تبلیغ کے مضمون پر بحث کر رہی ہے اور یہاں اگر یہ معنی لیں گے تو اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا کا یہ مطلب بنے گا کہ اے خدا ! ہم تو لوگوں کو گناہوں سے پاک کرنے کا عزم لے کر نکلے ہیں، یہ ارادہ لے کر اُٹھے ہیں کہ بدسوسائٹی کو گناہوں سے پاک کر دیں گے لیکن اپنے حال پر جب نظر کرتے ہیں تو ہم تو خود گناہگار ہیں ، ہم سے کئی غلطیاں ہوئی ہیں،اس لئے تو ہمارے گناہوں کو بخش دے تا کہ صاف سختی لے کر ہم دنیا کو نیکیوں کی طرف بلانے والے ہوں.ہم اس غرض سے اس ارادے سے باہر نکل رہے ہیں کہ دنیا کو اپنے نفوس پر اپنی ذاتی جانوں پر بھی اور اپنے ماحول میں دوسروں کی جانوں پر بھی اسراف سے باز رکھیں ، زیادتیوں سے روکیں ،حق تلفیوں سے منع کریں لیکن کوئی بعید نہیں کہ ہم خود اس کا شکار ہو چکے ہوں.ہم نے اپنے نفس کی بھی حق تلفی کی ہو اور اپنے نفوس ، اپنے ماحول میں بسنے والوں ، اپنے اقرباء، اپنے عزیزوں، اپنے دوستوں اپنے سوشل تعلقات رکھنے والوں کے ساتھ زیادتی کی ہو، ان کے حقوق مارے ہوں.تو اے خدا ہم تجھ سے معافی طلب کرتے ہیں اور عاجزانہ عرض کرتے ہیں کہ ہمارے اسراف کو بھی معاف فرمادے تا کہ صاف دل اور صاف ضمیر کے ساتھ ہم تبلیغ کر سکیں.جہاں یہ دعا اس لحاظ سے برمحل ہے وہاں انکساری کا بھی عظیم سبق دیتی ہے.تبلیغ کرنے والے اس زعم کے ساتھ نہیں جاتے کہ دنیا ساری بد ہے اور ہم پاک ہیں.تبلیغ کرنے والے کسی رعونت اور تکبر اور انانیت کا شکار ہو کر باہر نہیں نکلتے بلکہ غرور اور تکبر اور انانیت کے شکاروں کو ان کے ظلموں سے باز رکھنے کے لئے نکلتے ہیں اور خود یہ اقرار کر کے جاتے ہیں کہ ہم خود بھی گناہگار اور خود بھی کمزور ہیں مگر خلوص نیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے ہم دنیا کو ان بیماریوں سے پاک کرنے کا ارادہ لے کر نکلے ہیں.ان کے طریق تبلیغ میں ، ان کے رجحان میں ایک نمایاں تبدیلی پیدا
خطبات طاہر جلد۵ 804 خطبہ جمعہ ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء ہوتی ہے اس دعا کے نتیجہ میں ، رعونت مٹ کر ایک خاک میں بچھا ہوا انکسار بن جاتی ہے اور ایک ایسی عاجزی سکھاتی ہے یہ دعا جس کے بعد انسان کا ذاتی نفس کا بھروسہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا بلکہ کلیۂ معاملہ خدا کے سپرد ہو جاتا ہے.اسی لئے پھر فرمایا کہ یہ دعا کرووَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا.کیونکہ تمہیں ثبات قدم نصیب ہی نہیں ہو سکتا تبلیغ کے مضمون میں اگر گناہ گار ہو اور اسراف کرنے والے ہو.چونکہ تم تسلیم کرتے ہو کہ تم سے یہ کمزوریاں سرزد ہوئی ہوں گی یا ہو چکی ہیں واقعہ اس لئے اب خدا سے دعا مانگو کہ وہ تمہیں ثبات قدم عطا فرمائے ورنہ اپنی طاقت کے بھروسہ پر اپنی نیکیوں کے بل بوتے پر تمہیں ہرگز ثبات قدم نصیب نہیں ہو سکتا کیونکہ تم کمزوریوں کا پتلا ہوا اور کمزوریوں سے پاک نہیں ہو.وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِینَ اور اے خدا! تو ہی ہے جو ہمیں انکار کرنے والوں پر فتح اور نصرت عطا فرمائے.و انصرنا میں فتح کا مضمون داخل ہے ویسے تو اس کا معنی صرف یہ ہے کہ ہماری مددفرمالیکن جس کی خدا مد دکرے اس کے لئے فتح تو ایک لونڈی کی طرح اس کے حضور چلی آتی ہے اس لئے نصرت الہی کے ساتھ فتح و ظفر کا مضمون پیوستہ ہے، اس طرح بندھا ہوا ہے کہ اس کو الگ کیا ہی نہیں جاسکتا.اس دعا میں ثبات قدم کا لفظ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس کے مضامین میں جو وسعت ہے اس کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں.ثبات قدم سے عموماً صرف اتنا مفہوم سمجھا جاتا ہے کہ ہمارے پاؤں لڑکھڑائیں نہیں گویا کہ ایک ظاہری لڑائی کا نقشہ ہے کسی کے پاؤں ڈگمگا جائیں یا بھاگنے کو دل چاہنے لگے اس وقت انسان یہ سمجھتا ہے کہ ثبات قدم کی نفی ہو رہی ہے.یہ درست ہے یہ معنی غلط نہیں لیکن ثبات قدم کا مضمون ایک وسیع تر مضمون ہے.اگر اس کے سارے پہلوؤں کو پیش نظر رکھ کر یہ دعا کی جائے تو یہ دعا زیادہ کامل، زیادہ خوبصورت اور زیادہ نفع بخش بن سکتی ہے.یہ دعا ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا جو مضمون اپنے اندر رکھتی ہے اس کا تعلق باب تفعیل ہے ثَبَّتَ يُثَبِّتُ تَشِياً جس کا مطلب یہ ہے کہ ایک چیز کو دوسرے میں جاری کر دینا.تو اس کا معنی یہ بنے گا کہ اے خدا! ثبت ثبوت ثباتة ، ثبات جتنے بھی مادے ہیں جن کا تعلق اس تثبیت سے ہے ان سارے مادوں کا مضمون ہماری ذات میں ہمارے داخل فرمادے اور ہمارے اقدام کو وہ سب چیزیں بخش جن کا تعلق اس لفظ کے مادے سے ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 805 خطبہ جمعہ ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء جب ہم اس کے مادے پر غور کرتے ہیں تو یہ فعل ثلاثی مجرد ہے یعنی اس کے آغاز میں اس کے مادے میں صرف تین حرف ہیں ث.باورت اور اس کا ماضی دو طرح سے استعمال ہوتا ہے ع کلمہ کی ضم کے ساتھ اور ع کلمہ کی فتح کے ساتھ بھی.ثبت بھی کہتے ہیں عرب اور ثَبَت بھی کہتے ہیں اور دونوں کے مضمون میں تھوڑا سا فرق آ جاتا ہے لیکن پھر بھی ملتے جلتے اور حقیقت میں ایک ہی مضمون کو دو طرح سے بیان کرنے کے رنگ ہیں.جب ع کلمہ کی ضم یعنی پیش کے ساتھ ثبت پڑھا جائے تو اس کا مادہ ہو گا ثباتة اور اس کا معنی ہے شجاعت، بہادری.کسی شخص کو جب ثبیت کہا جائے تو اس کا مطلب ہے بہت ہی دلیر ہے اور بہادر شاہسوار کے لئے بھی عرب تثبیت کا لفظ استعمال کرتے ہیں.تو صرف ایک منفی پہلو نہیں ہے اس لفظ میں کہ ہمیں لڑکھڑانے سے باز رکھ بلکہ جرات کی دعا ہے، بہادری کی دعا ہے، شاہسواروں والی دلیری کی دعا ہے.دوسرا ثَبَتَ ثَباتاً وثَبُوتاً یہ ثَبَتَ جو ہے ع کلمہ کی زبر کے ساتھ اس کا معنی ہے استقرار اور وہ مفہوم جسے ثبات قدم کہا جاتا ہے اور صرف یہی معنی نہیں اس میں اور بھی بہت سے معنی ہیں مثلاً ثبوت بھی اسی مادے سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے برہان قاطعہ ،قطعی دلیل جو ایک مضمون کو کلیاً بغیر شک کے ثابت کر دے.اسی طرح لفظ ثبت میں معرفت حق بھی داخل ہے ایک استعمال اس لفظ کا جب حق کے معاملہ میں ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہمیں حق کا عرفان اور معرفت عطا فرما.اسی طرح اس میں ایک کہنے والے کے لئے جس کے متعلق یہ لفظ بولا جائے اس کی بات کی وقعت کی طرف بھی اشارہ کیا ہوتا ہے.اشبات وہ لوگ ہیں جو وقیع ہیں، جن کی باتیں غلط نہیں ہوتیں ، جن کی باتوں میں وزن ہوتا ہے اور جب بات کرتے ہیں حق کی بات کرتے ہیں.اب یہ بظاہر الگ الگ معنی ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ ان سب کا گہرا تعلق ہے.وہ شخص جو حق پر قائم ہو اور حق کا عرفان بھی رکھتا ہو، اس کے لئے لازمی ہے کہ وہ بہادر بھی ہو کیونکہ دلیری سچائی سے پیدا ہوتی ہے اور صرف سچائی سے نہیں بلکہ سچائی کے عرفان سے پیدا ہوتی ہے اور دلائل میں جب گفتگو ہورہی ہو تو وہ شخص جس کے پاس حق ہو جس کے پاس مضبوط اور قاطع دلیل ہو جو شخص اس مضمون کا عرفان رکھتا ہو جس میں گفتگو کر رہا ہے تو اس کی بات میں ایک عجیب شوکت پیدا ہو جاتی ہے، اس کی بحث میں ایک ایسی طاقت آجاتی ہے کہ اس کے نتیجہ میں اس کا دلیر
خطبات طاہر جلد۵ 806 خطبہ جمعہ ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء ہونا اس کا طبعی اور لازمی نتیجہ ہے.اسی لئے مومن اپنی گفتگو میں کامل یقین رکھتا ہے اور اس کے لئے ڈگمگانے کا سوال ہی نہیں.ہمیشہ دلائل میں اور گفتگو میں وہ شخص ڈگمگاتا ہے جو کہیں جا کر خود ابہام کا شکار ہو جائے.دلیل دیتے وقت کہیں وہ پہنچتا ہے اور اچانک اسکو خیال آتا ہے کہ کہیں یہ مطلب تو نہیں ، کہیں وہ مطلب تو نہیں یا غیر نے جو بات کہی ہے وہ درست بھی ہے کہ نہیں ہوسکتا ہے اس کی بات درست ہو، میں اس کا انکار کر دوں اور غلط کر دوں.تو لا علمی اور مضمون کی معرفت میں کمی ، دلائل کی دنیا میں قدم کو ڈگمگاتی ہے اور اسی حد تک اس سے ثبات قدم چھین لیتی ہے.پس جب اس مضمون کو روحانی اور علمی اور مذہبی اور دینی جہاد میں اطلاق کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ اے خدا ! ہمیں ثبات قدم عطا فرما ! یعنی ہمیں وہ ساری صفات عطا کر جو د لیری پیدا کرتی ہیں جن کا اس مضمون سے تعلق ہے.ان میں ایک بات یہ ہے کہ ہم ثقہ بات کرنے والے ہوں، شک والی بات کرنے والے نہ ہوں.ہمیں گہرا علم عطافرما ! اس علم کا عرفان عطا فرما! ہمیں ایسے دلائل نصیب فرما جو قاطع ہوں ، جن کا دشمن کے پاس کوئی جواب نہ ہو اور ہمیں حق پر قائم رہنے کی توفیق بخش اور کبھی بھی ہم ناحق بات کرنے والے نہ ہوں.اس کے علاوہ ثبات میں مثبت پہلو اسی لئے اردو میں مثبت کے معنی استعمال کرتے ہیں م ، ث ، ب ، ت سے بنا ہوا لفظ ہے.مثبت مدمقابل ہے منفی کے، جس طرح جمع کے مد مقابل ہے تفریق کے.تو ثبات قدم میں ایک معنی یہ ہے کہ ہمیں اس جہاد میں ہر منفی حرکت سے بچا! ہر ایسی حرکت سے بچا جو تیرے نزدیک غلط معنی رکھتی ہے اور تخریبی حیثیت رکھتی ہے ، اس کی بجائے ہمیں تعمیری کردار عطا کر ، ہمارے دلائل تعمیری ہوں ، ان میں اثبات ہو مثبت باتیں ہوں منفی تحریک نہ ہو.یہ سارا مضمون ایک مومن کے طریق گفتگو کو ایک کافر کے طریق گفتگو سے اس طرح ممتاز کر دیتا ہے جیسے اندھیرے سے روشنی جدا ہو جائے ، کوئی بھی دونوں کے اندرا بہام باقی نہیں رہتا اور اس مضمون میں داخل ہو کر ثبات قدم کی دعا کے یہ معنی ہو جائیں گے کہ اے خدا ! ان صفات سے ہمارے قدم نہ اکھڑنے دے، دشمن زور لگائے گا کہ ہمیں اپنے طریق پر کھینچ لائے دشمن زور لگائے گا کہ ہم سے ہماری مثبت صفات چھین کر ہمیں بھی منفی طریق اختیار کرنے پر مجبور کر دے.جس قسم کا گند وہ بولے اسی طرح کا گند ہمیں بلوانے لگے.جس قسم کا جبر وہ دین میں استعمال کرنا چاہے اسی قسم کا جبر
خطبات طاہر جلد۵ 807 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء ہم سے استعمال کروانا چاہیے.اس میدان میں کھینچ لائے جہاں وہ غالب ہے اور ہم کمزور ہیں.جس میدان کے داؤ پیچ ہم جانتے نہیں.اس لئے اے خدا! ہمیں ثبات قدم عطا فر ما ہمیں ہرگز اس میدان میں جانے پر مجبور نہ ہونے دینا اور اگر ہمارا دل چاہے بھی اور طبیعت کی کمزوری کی وجہ سے ہم دشمن کی عادات اختیار کرنے کے لئے بے قرار بھی ہو جائیں بعض دفعہ اور دل ٹھنڈا نہ ہو جب تک اپنے طیش کا بدلہ نہ اتاریں.جو اس نے ہمیں طیش دلایا ہے اس کا بدلہ نہ اتاریں تب بھی اے خدا ہمیں ثبات قدم عطا فرمانا ! ہمیں اُن صفات حسنہ پر قائم رکھنا جو تیرے نزدیک جہاد میں مثبت اقدامات ہیں تعمیری اقدامات ہیں ان میں کوئی بھی تخریبی حرکت نہیں.ایک مبلغ جب اس مضمون سے آگاہ ہو کر دعا کرتا ہے تو اس کی دعا بہت ہی وسعت اختیار کر جاتی ہے اور منفی قدم میں پیچھے ہٹنا بھی مثبت قدم ہو ہی نہیں سکتا جب تک مزید زمین نہ جیتی جا رہی ہو.قدم آگے بڑھے گا تو مثبت اقدام ہوگا، قدم پیچھے ہٹے گا تو وہ منفی اقدام ہے.تو یہ غلبہ کی دعا بھی ہے اس لے وانصُرْنَا کی دعا اس کے نتیجہ میں طبعا ذہن میں ابھرتی ہے.اے خدا! ہمیں پیش قدمی عطا فرما یہ بھی معنی ہیں کیونکہ پیچھے ہٹنا اور بھا گنا منفی اقدام ہے اور آگے بڑھنا اور آگے بڑھتے رہنا یہ ایک مثبت اقدام ہے.اس پہلو سے جب ہم اس مضمون کے سارے گوشوں پر نظر رکھ کر دعا کریں تو نہ صرف یہ کہ ہماری دعا بہت زیادہ نفع مند بن جائے گی یعنی ہم خدا سے بہت زیادہ مانگ رہے ہوں گے یہ نسبت اس چھوٹی سی چیز کے یعنی کہ ہمارے پاؤں نہ ڈگمگائیں.یہ تو بہت معمولی دعا ہے اس وسیع تر دعا کے مقابل پر.دوسرے ہماری تربیت ہوگی ہمیں وہ سارے اسلوب سمجھ آجائیں گے جو جہاد کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہیں جن کے بغیر جہاد حقیقی معنوں میں مومنانہ اور اسلامی ہو ہی نہیں ہوسکتا.مثبت جہاد کیا چیز ہے اس کی صفات کا جہاں تک نظریاتی تعلق ہے اس آیت میں مجتمع کر دی گئی ہیں، اکٹھی کردی گئی ہیں لیکن جب تک اس کے ساتھ اس کی عملی تصویر نظر نہ آئے Demonstration نہ ہو حقیقی معنوں میں ایک مضمون پوری طرح سمجھ نہیں آتا.اسی لئے تعلیم کا جدید طریقہ دنیا میں ہر جگہ یہی ثابت اور معروف ہو چکا ہے کہ جہاں نظریات بتا ؤ وہاں اس کے نمونے بھی ساتھ دکھاؤ.اسی پہلو سے اسلام دنیا کا سب سے زیادہ کامل سائنٹیفک مذہب ہے اور اپنے
خطبات طاہر جلد۵ 808 خطبہ جمعہ ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء اسلوب میں جدید ترین ہے کہ قرآن کریم میں یہ ہے کہ ہماری ساری تعلیم جو ہم دے رہے ہیں اس کا اسوہ محمد مصطفی ﷺ کو بنا کر تمہیں دکھا دیا.کوئی چیز بھی مہم نہیں رہنے دی.کوئی چیز بھی نظریاتی ایسی نہیں رہنے دی جس کا عملی نمونہ تمہیں پیش نہ کر دیا ہو یہاں تک کہ منفی اقدار کا یہ ملی نمونہ مد مصطفی ہے کے مخالفین کی صورت میں تمہارے سامنے رکھ دیا.اب جو چاہو طریق اختیار کرو.آنحضرت علی کے جہاد کا مضمون تو بہت ہی وسیع ہے.تو آج میں نے یہ مضمون اس لئے اختیار کیا ہے کہ گزشتہ چند خطبات میں میں جماعت کو مختلف رنگ میں جہاد کی طرف بلا رہا ہوں، بعض دوستوں کے ذہن میں آتا ہوگا ، ایک خط میں تو اس کا ذکر بھی تھا کہ آپ بار بار جہاد جہاد کیا کہتے ہیں.واقعہ یہ ہے کہ اسلام کا تصور ہر شعبہ زندگی میں جہاد کا ہے.اس لئے جہاد کے سوا کوئی لفظ میرے ذہن میں ابھرتا ہی نہیں ، جب میں کوئی مضمون بیان کرتا ہوں تو طبعاً از خود رفتہ مضمون جہاد کے مضمون میں داخل ہو جاتا ہے.ہر وہ کوشش جو اللہ کی خاطر کی جائے اور ان صفات حسنہ سے مزین ہو ، جن کا بیان اس آیت میں کیا گیا ہے وہ جہاد ہے اور کوئی کوشش بابرکت اور کامیاب ہو نہیں سکتی جو ان صفات حسنہ سے مزین نہ ہو.اس لئے جب میں کہتا ہوں شدھی کے خلاف ہندوستان میں جہاد کرو، جب میں کہتا ہوں سچائی کے حق میں جھوٹ کے خلاف جہاد کرو، بدرسموں کے خلاف جہاد کرو اور اس قسم کے دوسرے مضامین میں لفظ جہاد بولتا ہوں تو جہاد تو اسلام کی ساری زندگی پر ایک حاوی مضمون ہے.اس کے سوا کوئی اور لفظ پھبتا ہی نہیں ہے یہاں، لیکن جہاد میں کیا کیا چیزیں اختیار کرنی چاہئیں.ان میں سے چند صفات حسنہ جہاد کی ، اس آیت میں بیان کی ہیں اور اس لئے میں ان کے متعلق جماعت کو وضاحت سے بیان کرنا چاہتا تھا.ثبات قدم کا مضمون مثبت پہلو سے آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ میں پھیلا پڑا ہے اور منفی پہلو سے یعنی ثبات نہ ہو تو کیا ہوتا ہے منفی پہلو سے آنحضرت علیہ کے دشمنوں کے کردار میں پھیلا پڑا ہے اور قرآن کریم نے دونوں طرف واضح طور پر انگلیاں اٹھا کر ان دونوں کیفیتوں کو دکھایا ہے کہ دیکھ لو جو ہم کہتے ہیں اس طرح ہوا کرتا ہے.حق کی مخالفت کرنے والے یہ طریق اختیار کیا کرتے ہیں حق کی تائید کرنے والے حق کو دنیا میں پیش کرنے والے یہ طریق اختیار کیا کرتے ہیں.ان میں سے ایک مضمون کا حصہ بلاغ ہے یعنی پیغام کو دوسرے تک پہنچانا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا پہلے بھی یہ مضمون
خطبات طاہر جلد۵ 809 خطبہ جمعہ ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء بہت وسیع ہے اور اس کے سارے پہلوؤں پر ایک خطبے میں کوئی گفتگو ہو ہی نہیں سکتی لیکن میں نے آج کے خطبہ کے لئے ایک پہلو چنا ہے سیرت محمد مصطفی ﷺ کا جس کی طرف متوجہ کرنا ضروری ہے.آنحضرت ﷺ نے ایک جہاد آزادی ضمیر کے لئے کیا تھا اور وہ جہاد ہے جو بنی نوع انسان کی خاطر کیا گیا ہے،صرف اسلام کی خاطر نہیں کیا گیا.ہمیشہ سے جب سے انسان انسانیت کو پاؤں تلے روندنے والوں سے مقابلہ کرتا چلا آرہا ہے.جب سے آزادی ضمیر کی خاطر کسی نوع کی جنگ بھی جاری ہے.سب سے زیادہ اس مضمون میں عظیم الشان اور کامل جہاد حضرت اقدس محمد مصطفیٰ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا.آپ کے مطالبات اس مضمون میں یہ تھے کہ سب سے پہلے آپ نے سوسائٹی کو اس طرف متوجہ کیا کہ ہر شخص اپنی سوچوں اور اپنے ایمان میں آزاد ہے کوئی حق نہیں ہے کسی کا کہ کسی کی سوچ پر اور اس کے ایمان پر ، اس کے نظریات پر کسی قسم کی قدغن لگائے اور جبرا ان کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے.یہ جو اعلان ہے یہ اسلام کے لئے نہیں ہے ، بڑی جہالت ہے کہ اگر اسے سمجھا جائے کہ یہ صرف اسلام کی خاطر ہے یہ تو آزادی ضمیر کا جہاد ہے ، شرف انسانی کو قائم کرنے والا جہاد ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان حق نہیں رکھتا کہ کسی اور انسان کے نظریات کو، اس کے خیالات کو ، اس کی سوچوں کو زبر دستی تبدیل کرے یا اس پر جبر کے تالے لگا دے اور اس کو ان سوچوں کے اظہار کا حق نہ ہو.تو یہ دوسرا جہاد کا پہلو یہ تھا کہ آپ نے یہ فرمایا اور قرآن کریم اس مضمون کو کثرت سے بیان کرتا ہے کہ صرف یہ نہیں کہ انسان کو خود اپنی سوچوں میں آزادی نصیب ہے بلکہ اس کو یہ بھی حق حاصل ہے کہ وہ جو کچھ سوچتا ہے یا دیکھتا ہے یا سمجھتا ہے اسے دوسروں کو بیان کرے اور اس کا نام بلاغ ہے، پہنچانا.جب وہ بیان کر دے تو پھر لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُضَيْطِرِ (الغاشية : ۲۳) کا مضمون شروع ہو جاتا ہے بیان کرنا مبین طریق پر، کھول کھول کر.یہ تو فرض ہے ہر انسان کا اس کا حق ہے، لیکن جبر کو اس میں دخل نہیں ہو گا کسی قسم کے جبر کی اجازت نہیں ہوگی.چوتھا پہلو اس جہاد کا یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اسکے نتیجے میں کسی کی بات مان لے اور اپنے خیالات تبدیل کر دے تو ہرگز کسی دوسرے کا حق نہیں ہے کہ وہ زبر دستی اس کو اس تبدیلی خیال سے رو کے اور کہے کہ ہرگز تمہیں اپنا خیال تبدیل نہیں کرنے دیں گے اور اس کے نتیجہ میں خیال تبدیل کروانے والے کو سزائیں دے اور اس کو بھی مارے اور اس کی مخالفت بھی جسمانی طور پر کرے.ہر قسم
خطبات طاہر جلد۵ 810 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء تعزیری کاروائی اس کے خلاف کرے کہ چونکہ تم ہماری سوسائٹی کے خیال تبدیل کر رہے ہو اس لئے ہم حق رکھتے ہیں کہ تمہارے گھر لوٹیں تمہارے گھر جلائیں تمہارے اموال لوٹیں تمہیں ذبح کریں، تمہیں ہر قسم کی اذیتیں پہنچائیں ، قانونی روکیں ڈالیں ، قید میں تمہیں دھکیلیں کیونکہ تمہیں کوئی حق نہیں کہ سوسائٹی کے خیال تبدیل کرو.تو پہلا حصہ مضمون کا ایسے خیالات سے تعلق رکھتا ہے جو طبعا ہر انسان کے دل میں پیدا ہوتے ہیں یا وہ لے کر پیدا ہوا ہے ان کو ، اپنے ماں باپ سے ورثے میں پائے ہیں ، اس میں تبدیلی کا کوئی تعلق نہیں.کسی قسم کے کوئی خیالات ہوں سچ ہوں ، جھوٹ ہوں، نورانی ہوں یا ظلماتی ہوں اس سے بحث ہی کوئی نہیں ہے.اعلان آپ کا یہ تھا اور یہ قرآن کریم نے بار بار بڑی تحدی سے اعلان فرمایا کہ ہر انسان آزاد ہے اپنی سوچوں میں ، اس کی سوچوں پر کوئی پہرے نہیں لگائے جاسکتے.دوسرا اعلان یہ کہ اپنی سوچوں کو بیان کرنے میں آزاد ہے.تیسرا اعلان یہ کہ اس بیان کو سن کر اگر کوئی اپنی سوچیں تبدیل کرے تو اس پر کسی کو دخل دینے کا کوئی حق نہیں.چوتھا یہ کہ اس بات کو جرم نہیں سمجھا جائے گا کہ کوئی اپنے خیالات کو بیان کر کے کسی دوسرے کے خیالات کو تبدیل کر رہا ہے اور اس کے نتیجہ میں اسے کوئی سزا نہیں دی جائے گی.یہ عظیم الشان آزادی ضمیر کا جہاد ہے جو آج بھی تمام انسان کو متوجہ کر رہا ہے اپنی طرف.آج جتنی جد و جہد ہے انسانی زندگی میں ، اس میں جتنی خرابیاں نظر آ رہی ہیں ان خرابیوں کا آپ تجزیہ کریں تو ہر جگہ آپ کو ان بنیادی ہدایات سے روکشی نظر آئے گی تب وہ خرابی پیدا ہوئی.کوئی شخص ان حقوق میں دخل اندازی کرنے کی کوشش کرتا ہے، کوئی حکومت دخل اندازی کرنے کی کوششیں کرتی ہے.اس کے نتیجہ میں فساد پیدا ہوتا ہے، دکھ پیدا ہوتا ہے.ظلم پیدا ہوتا ہے،نظریاتی جد و جہد ، خون خرابے کی جدو جہد میں تبدیل ہو جاتی ہے اور پھر جھوٹے اور مصنوعی اعلان کرنے والے یہ اعلان کرتے ہیں کہ نہیں ! نہیں نہیں ! ہم تو آزادی ضمیر کی خاطر لڑائی کر رہے ہیں اور دوسرے مقابل پر یہی اعلان کرتے ہیں کہ نہیں نہیں! ہم تو آزادی ضمیر کی خاطر جہاد کر رہے ہیں، تم زبر دستی بدلا رہے ہو.وہی پہلے فریق پر الزام لگاتا ہے وہی الزام پہلا فریق دوسرے پر لگا دیتا ہے.تو بنیادی طور پر جہاں بھی نظریات میں کسی قسم کے جبر کی اجازت دی جائے اور نظریات تبدیل ہونے کا جو منظر ہے یہ برداشت
خطبات طاہر جلد۵ 811 خطبہ جمعہ ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء نہ ہو سکے کسی سے.اپنے بچوں کو دیکھ رہا ہے کہ کسی کی بات سن کر وہ متاثر ہور ہے ہیں اور اپنے خیالات بدل رہے ہیں.اس کے سینے میں ایک آگ لگ جائے وہ کہے کہ یہ نہیں میں ہونے دوں گا.ہر ایسے شخص کے مقابل پر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا جہاد کھڑا ہو جائے گا آزادی ضمیر کے نام پر جو آپ نے جہاد کیا تھا اور ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اس کی تائید کرے جس نے واقعہ دلائل کے نتیجہ میں اپنا مذہب تبدیل کیا یا اپنے خیالات تبدیل کئے اور ہر ایسی جبر کی کوشش کا مقابلہ کرے جو ان بنیادی انسانی حقوق میں مداخلت کرتی ہے.ایسا شخص اگر بدنی جہاد پر بھی مجبور ہو، جسمانی جہاد پر بھی مجبور ہوتو اسلام کے نزدیک وہ بھی جہاد ہی ہے.ثانوی حیثیت کا ہو مگر بہر حال جہاد وہ بھی ہے اور جہاد کی اصل یہ تعریف ہے.چنانچہ آج جماعت احمدیہ کو عملاً ایسے حالات درپیش ہیں جن میں یہ مضمون خوب کھل کر ہمارے سامنے آچکا ہے.آنحضرت ﷺ نے جو چار بنیادی حقوق انسان کے تسلیم کروائے اور جن کے لئے آپ نے اور آپ کے غلاموں نے بے انتہا قربانیاں دیں.آج آپ سے وہ چاروں بنیادی حقوق زبردستی چھینے جارہے ہیں.آج آپ کے متعلق یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ آپ وہ سوچیں ، وہ عقیدہ رکھیں جو آپ رکھتے ہیں اور آپ کو یہ کہا جا رہا ہے کہ اگر آپ عقیدہ رکھتے بھی ہیں تو اپنی ذات کے اندر چھپا کر، لپیٹ کر رکھ لیں.جس بات کو آپ حق سمجھتے ہیں، جس کو آپ سچ سمجھتے ہیں اسے بیان کرنے کا آپ کو کوئی حق نہیں اور پھر یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ اگر اس بیان کو کوئی سنے تو اسے اپنے خیالات تبدیل کرنے کا بھی حق کوئی نہیں اور اگر وہ کرے تو ہم اسے قتل کی سزا دیں گے اور آخری بات یہ کی جارہی ہے کہ صرف اس کو قتل کی سزا نہیں ملے گی تم جو خیالات تبدیل کروانے والے ہو تمہیں بھی سزا دی جائے گی.یہ چاروں بنیادی حقوق جو انسانی حقوق ہیں محض مذہبی حقوق نہیں ہیں، جن کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ رسول اکرم ﷺ نے ساری عمر جہاد کیا اور جن امور کے لئے آپ نے اپنے خدام اور غلاموں کو جہاد سکھایا ان سب کی کلیہ نفی آج کی جارہی ہے بدبختی اور بد قسمتی سے اسلام کے نام پر کیسی دردناک تصویر کھینچ رہی ہے کہ آنحضور ﷺ کی سیرت کا تو یہ خلاصہ ہے کہ ساری زندگی آپ نے اور آپ کے غلاموں نے اس آزادی ضمیر کے لئے انتہائی دکھ اٹھائے ، جانیں لٹائیں ،خون
خطبات طاہر جلد ۵ 812 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء بہائے اپنے گھروں سے بے گھر کئے گئے اور ہر قسم کی تکلیفوں کا منہ دیکھنا پڑا، گلیوں میں گھسیٹے گئے ، پتھراؤ کیا گیا ، گندی گالیاں دی گئیں، سروں میں خاک ڈالی گئی، عبادتوں سے روکا گیا ہر قسم کے حقوق سے محروم کیا گیا اور مسلسل آپ قربانیاں دیتے رہے ان حقوق کی خاطر آج آپ کے نام پر ایک عجیب اسلام کی چھاپ لے کر کچھ لوگ اٹھے ہیں جو یہ اعلان کر رہے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقابل پر جو جو ذرائع اختیار کئے گئے تھے انسانی ضمیر کو دبانے کے لئے وہ ہم اسلام کے نام پر کسی ایک جماعت کے خلاف استعمال کریں گے اور ان سے وہ سارے حق چھین لیں گے جو سید ولد آدم علے کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے تھے اور ان کے لئے جہاد کرنے کی تعلیم دی تھی.اب بتائیے کہ دونوں میں سے کون مسلمان ہے اور کون کا فر ہے، کون مومن ہے اور کون کا فر ہے، کون مسلم اور کون غیر مسلم ہے.ایک جماعت کی تصویر بن رہی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی علی اور آپ کے غلاموں کی سی موبمو، نقطه به نقطه نقش به نقش انہیں قدموں پر چل رہی ہے جماعت جن قدموں پر آنحضرت ﷺ نے اپنے غلاموں کو چلا یا تھا.وہ قدم تھے جن کے متعلق ثبات قدم کا مضمون پورا آتا ہے.وہ ثبات قدم کے تمام پہلوؤں پر حاوی قدم تھے اور کچھ وہ لوگ ہیں جو قدم بقدم مخالف سمت میں روانہ ہیں اور پھر یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ مسلم ہیں، کوئی اتنا بھی تو عقل کا اندھا نہیں ہوسکتا کہ ان دونوں تصویروں کو دیکھے اور سمجھ نہ سکے کہ مَا أَنَا عَلَيْهِ وَ اصَحَا بِي ( ترندی کتاب الایمان حدیث نمبر : ۶۵۲۵) کا بیان کس کے حق میں پورا آ رہا ہے اور کس کے حق میں نہیں آ رہا.اس لئے جب آپ ثبات قدم کی دعا کریں تو یہ دعا خصوصیت سے کریں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی عالی کے قدم آزادی ضمیر کی جنگ میں جو نقوش پا چھوڑ گئے ہیں اے خدا! ہمیں تو فیق عطا فرما کہ ان نقوش پا کو چومتے ہوئے اپنی جان، مال، عزت اور نفس کی قربانیاں دیتے ہوئے اس راہ میں آگے بڑھتے چلے جائیں اور ہمیشہ ہمارا قدم آگے بڑھے اور منفی طرف واپس نہ ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج چند ایسی اطلاعیں ملی ہیں وفات کی جن کے متعلق میں سمجھتا ہوں کہ خصوصیت کے ساتھ جمعہ کے بعد نماز جنازہ ہونی چاہئے.ایک تو ہمارے دو بڑے مخلص نو جوان جو جرمنی میں آئے ہوئے تھے وہاں ایک کار کے
خطبات طاہر جلد۵ 813 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء حادثہ میں شہید ہو گئے ہیں.مکرم عطاء الحق صاحب رامہ دارالرحمت وسطی ربوہ کے تھے اور ظفر محمود وڑائچ صاحب یہ چک 78 سرگودھا کے تھے.یہ دونوں بڑے مخلص نوجوان اور تبلیغ میں پیش پیش.ان کی رپورٹیں براہ راست مجھے آتی رہتی تھیں خطوں کی صورت میں.بہر حال مرضی مولا جو بھی ہے ہم اس پر راضی ہیں.دوسرا مکرمہ زینب بیگم صاحبہ بنت مکرم و محترم ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب ان کی اچانک وفات کی میر پور خاص سندھ سے اطلاع ملی ہے.ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب کا ایک خاص مقام تھا صحابی ہونے کے لحاظ سے تو تھا ہی اس کے علاوہ بھی ان کو ساری عمر حضرت مصلح موعود کی بڑی خدمت کی توفیق ملی ہے اور بڑی قربانیوں کے ساتھ اور بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے خدمت کی ہے اس لئے جماعت پر ان کی اولاد کا خصوصیت سے حق ہے.ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بیان ہے وہ دلچسپ ہے ہو سکتا ہے سارے اس بیان کو نہ مانیں مگر ان کا جو تاثر ہے وہ بڑے یقین کی حد تک تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو الہام ہوا تھا اطعموا الجائع والمعتر ( تذکرہ: ۶۳۱) وہ الہام آپ کہا کرتے تھے کہ میرے متعلق ہوا تھا اور میرے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شامل ہو گئے.کہتے تھے کہ میں آیا تھا، ذرا دیر سے پہنچا تھا اور مجھے شدید بھوک لگی ہوئی تھی اور کھانا ختم ہو گیا تھا لنگر میں اور میں نے صبر کیا لیکن ساتھ ہی یہ دعا بھی کی کہ اے خدا! میرا انتظام کر اور اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام ہوا اطعموا الجائع و المعتر کہ جو بھوکے ہیں اور تکلیف میں مبتلا ہیں ان کو کھانا کھلا ! چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے (رات کو بارہ بجے کے قریب یا آدھی رات کو جو بھی وقت تھا ) اسی وقت اعلان عام کروا دیا کہ جو جو بھوکا ہے وہ آ جائے اور اسی وقت لنگر کھلوا دیا.چند آدمی ایسے تھے جن میں ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب بھی شامل تھے اور یہ ہمیشہ بڑے خاص فخر کے ساتھ اور جائز نیکی کے فخر کے ساتھ ، ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میرا ذکر الہام میں موجود ہے.اس کے علاوہ بھی کچھ وفات کی اطلاعیں ہیں چوہدری عبید اللہ صاحب سیکرٹری صنعت و تجارت ضلع راجن پور.یہ بھی بڑے مخلص دوست تھے جماعت کے کارکن ،ٹریفک کے حادثہ میں شہید ہوئے.چوہدری حاکم علی صاحب ورک آف چک نمبر 261 بہاولنگر.
خطبات طاہر جلد۵ 814 خطبه جمعه ۵/ دسمبر ۱۹۸۶ء حافظاگر بار عارف صاحب یہ مبلغ سلسلہ تھے کسی زمانے میں حضرت خلیفہ اسیح الثالث کے کلاس فیلو بھی تھے اور ان کا بڑا تعلق تھا گہرا حضرت خلیفتہ امسیح الثالث سے اور جماعت کی بھی ایک لمبے عرصہ تک کافی خدمت کی توفیق پائی.مکرمہ مسعودہ خاتون صاحبہ ہمارے مکرم داؤ د احمد صاحب گلزارلندن کی ہمشیرہ تھیں جو لا ہور میں وفات پاگئیں ہیں.مکرم ملک اللہ دتہ صاحب کھوکھر غربی ضلع گجرات.مکرم فضل احمد صاحب بھی کنری ضلع تھر پارکر سندھ وفات پاگئے ہیں.ان سب کی نماز جنازہ غائب انشاء اللہ نماز عصر کے معابعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد۵ 815 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء پاکستان میں جماعت کے مخالفانہ حالات کلمہ کے لئے قربانی اور قتل مرتد کی حقیقت (خطبه جمعه فرموده ۱۲ر دسمبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِايْتِنَا سَوْفَ نُصْلِيْهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَهُمْ جُلُوْدًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ إِنَّ اللهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا اور پھر فرمایا: (النساء۵۷) پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے پاکستان اور اسلام کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کی ملی بھگت سے جو سازش رفتہ رفتہ آگے بڑھ رہی ہے اس کے کچھ پہلو عملاً بے نقاب ہو چکے ہیں اور جہاں تک اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کی طاقت ہے وہ ان پر عمل درآمد کرنے کی پوری کوشش کرتے چلے جار ہے ہیں.اب یہ تحریک اور یہ سازش اپنے منطقی نقطہ عروج کی طرف کچھ اور آگے بڑھ رہی ہے.اس سازش کے بہت سے پہلو ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا یہاں وقت نہیں.کچھ امور کے متعلق میں اس سے پہلے ذکر کر چکا ہوں اور کچھ امور ایسے ہیں جن کا خطبات میں ذکر بے محل ہوگا.بہر حال جماعت احمدیہ کو جس حد تک بھی اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ہے اور فرما تا چلا جائے گا ہم ہر قیمت پر اپنی طاقت کے آخری قطرے تک ، آخری سانس تک اسلام کے دفاع کے لئے مستعد رہیں گے اور ہر
خطبات طاہر جلد ۵ 816 خطبه جمعه ۱۲ار دسمبر ۱۹۸۶ء قربانی کے لئے تیار رہیں گے اور ہم میں سے جو پاکستانی ہیں وہ اسلام کے بعد اپنے وطن کی خاطر بھی ہر قربانی کے لئے تیار رہیں گے.اور اس ضمن میں اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی راہ عمل دکھائی اور بجھائی اس کے ہر پہلو پر عمل کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے انشاء اللہ.اس وقت جو میں نے یہ کہا ہے کہ آخری منطقی نقطہ عروج کی طرف آگے بڑھ رہی ہے تو اس سے مراد خاص طور پر اس سازش کا وہ حصہ ہے جو جماعت احمدیہ سے متعلق ہے.جماعت احمدیہ کے متعلق تمام دنیا کی اسلام دشمن طاقتیں بخوبی واقف ہیں اور اس بات کا برملا اظہار بھی کر چکی ہیں کہ سب سے زیادہ وفادار، اسلام کا دفاع کرنے والی جماعت ، جماعت احمد یہ ہے.اور سب سے زیادہ وطن سے محبت رکھنے والی جماعت ، جماعت احمد یہ ہے.یہاں حال ہی میں جو بعض مذہبی جنونیوں نے فساد کی کوشش کی اس ضمن میں جو ہم نے جوابی کارروائیاں شروع کیں اور لوگوں کو عقل دینے اور سمجھانے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ ایک عیسائی چرچ نے جس کا سب سے زیادہ یہاں اثر ہے کھلم کھلا جماعت کے خلاف ان مولویوں کے حق میں بیانات جاری کئے جو فساد پیدا کرنا چاہتے تھے اور ایسے سرکلر ان کی طرف سے جاری ہوئے جن میں چرچ کو متنبہ کیا گیا کہ ہماری ساری دنیا میں سب سے بڑی دشمن جماعت احمد یہ ہے اور سب سے زیادہ خطرہ ہمارے چرچ کو یا عیسائیت کو جماعت احمدیہ سے ہے.تو اس سازش کا مرکزی نقطہ یہ ہے اور ہمیشہ سے رہا ہے کہ پاکستان میں جس حد تک ممکن ہو سکے جماعت احمدیہ کو نیست و نابود کیا جائے کیونکہ سب سے زیادہ دنیا میں مضبوط اور فعال جماعت پاکستان میں پائی جاتی ہے.پاکستان ایک اسلامی ملک ہے یعنی ان معنوں میں کہ یہاں مسلمانوں کی بھاری اکثریت ہے اور اس پہلو سے پاکستان میں جماعت احمدیہ کو کام کرنے کے لئے ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا ہو چکا ہے کہ جس کے نتیجہ میں ساری دنیا جماعت احمدیہ کو اسلام کا نمائندہ سمجھنے کا حق رکھتی ہے اور رجحان رکھتی ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان اسلامی مملکتوں میں سے ایک عظیم ترین مملکت ہے.وہاں ایک گہری بنیا د رکھنے والی اور دن بدن بڑھنے والی جماعت جب اسلام کا پیغام لے کر دنیا میں نکلتی ہے تو لازماً یہی اسلام کا نمائندہ ہوگی.یہ تجزیہ کرنے کے بعد انہوں نے دوسرا عقلی تجزیہ یہ کیا کہ اگر پاکستان ہی سے احمدیت کی بنیادیں اس طرح اکھیڑی جائیں کہ اول حکومت پاکستان یہ اعلان
خطبات طاہر جلد۵ 817 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء کرے کہ جماعت احمدیہ کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے.تو جماعت احمدیہ کو جو فوقیت حاصل تھی اور جو ایک برتری حاصل ہوگئی تھی ساری دنیا پر، وہ بالکل بر عکس شکل اختیار کر جائے گی اور اسلام دشمن طاقتیں دنیا میں یہ پراپیگنڈا کر سکیں گی کہ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت یا سب سے طاقتور اسلامی مملکت ہے اور اس مملکت میں جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے.اس لئے اس جماعت کا اسلام کی نمائندگی کا کوئی حق ہی نہیں ہے.اس طرح آئے دن جو جماعت احمدیہ کے غیر اسلامی طاقتوں پہ حملے ہیں ان میں غیر معمولی کمزوری واقع ہو جائے گی.دوسرے ان کی بقا پر حملہ کیا جائے اور عملاً جماعت احمد یہ کے قتل وغارت کی تعلیم دی جائے اور اسلام کے نام پر یہ تعلیم دی جائے اور بالآخر بڑھاتے بڑھاتے نفرتوں کو ایسے مقام تک پہنچا دیا جائے کہ پاکستان میں ہراحمدی کی جان ، مال ،عزت خطرے میں مبتلا ہو جائے.اور جس طرح ایک طوفان میں کشتی ڈولتی ہے اسی طرح یہ جماعت اپنی بقا کی جد و جہد میں مصروف ہو جائے اسے غیر مذاہب پر اسلام کی نمائندگی میں حملے کرنے کی ہوش ہی نہ رہے اور جب یہ حالات پیدا ہو جائیں اور اشتعال بڑھتے بڑھتے ایک خاص حد تک پہنچ جائے اس وقت جماعت احمدیہ کے قتل عام کا ایک حکم جاری کیا جائے.یہ وہ آخری منطقی نقطہ عروج ہے جس کا میں نے اشارۃ ذکر کیا تھا.اس حصے تک پہنچنے سے پہلے ضروری تھا کہ عوام کی نظر میں جماعت احمدیہ کو اسلام سے کھلم کھلا کاٹنے کی جتنی کوششیں ہوسکتی ہے وہ کر لی جائیں تا کہ جب قتل عام کا حکم جاری ہو تو اس سے پہلے سارے پاکستان کے عوام اور دنیا کے عوام کم سے کم اس بات کے قائل ہو چکے ہوں کہ یہ مرتد ہیں نہ صرف یہ کہ غیر مسلم بلکہ مرتد ہیں اور دوسری بات یہ ثابت ہو چکی ہو کہ مرتد کی سزا قتل ہے.یہ وہ رخ ہے جو آغاز ہی سے ان دشمنوں نے سامنے رکھا پہلے حصہ پر عمل کیا لیکن ناکام رہے.اس طرح ناکام رہے کہ ساری دنیا میں احمدیت کی اسلام کی خاطر جنگ پہلے سے کئی گناہ زیادہ شدت اختیار کر چکی ہے.کوئی نسبت ہی نہیں رہی.جب سے انہوں نے شرارت شروع کی ہے اس وقت سے لے کر اب تک اس تیزی کے ساتھ احمدیت اسلام کے لئے جہاد میں مصروف ہوگئی ہے اور یہ جہاد اتنی وسعت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس جہاد کو ایسی حیرت انگیز کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں کہ ہر گزرے ہوئے دن پر جب نگاہ ڈالتے ہیں تو پہلی سیڑھی کی طرح نیچے دکھائی دیتا ہے اور ترقی کی لامتناہی منازل ہیں جو باہیں کھولے جماعت احمدیہ کو مزید تیزی کے
خطبات طاہر جلد ۵ 818 خطبه جمعه ۱۲ار دسمبر ۱۹۸۶ء ساتھ اپنی طرف بلا رہی ہیں.ایک منزل ترقی کی طے کرتے ہیں تو دوسری منزل سامنے کھڑی ہو جاتی ہے دوسری طے کرتے ہیں تو تیسری کھڑی ہو جاتی ہے.ہمالہ کی قدم بقدم چوٹیاں تو پھر ختم ہو جاتی ہیں لیکن اسلام کی ترقی کی طرف جو چوٹیاں ہمیں دعوتیں دے رہی ہیں اور دن بدن ہماری امنگیں بڑھا رہی ہیں وہ چوٹیاں لامتناہی ہیں، کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں.اس لئے اس کوشش میں دنیا پاکستان کے اسلام دشمنوں سمیت ساری دنیا کے اسلام دشمن مل کر بھی کلیہ نا کام اور نا مراد ہو چکے ہیں اور برعکس نتیجہ نکلا ہے.اس بات کی تشہیر کی کوشش کی گئی ہے.یہاں عیسائیوں نے یہ باتیں کی ہیں کہ جماعت احمد یہ ہم سے کیا مقابلہ کرتی ہے وہ تو مسلمانوں کی جماعت ہی نہیں.ناروے میں پادریوں کی طرف سے یہ اعلان کیا گیا کہ آئندہ سے ہماری ان سے کوئی بحث ہی نہیں رہی اب یہ پہلے مسلمان ہونے کا سرٹیفیکیٹ لائیں جب یہ مسلمان ہونا ثابت کریں گے تو پھر ان سے گفتگو کریں گے لیکن دنیا عقل و فہم کے ایک ایسے مقام تک پہنچ چکی ہے کہ ان سارے لغو اعتراضات کو خود عیسائی دنیا نے جو عوام الناس ہیں نے رد کر دیا ہے اور دن بدن ان کے اندر یہ احساس بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ حقیقت میں اسلام کی حقیقی اور سچی نمائندہ اور اسلام کی طرف سے بات کرنے کا حق رکھنے والی جماعت ، جماعت احمدیہ ہی ہے.اس لئے یہ کوشش تو بہر حال بہت ہی ذلیل اور کمپنی کوشش تھی اور بہت ہی بھیا نک کوشش تھی، بہت ہی خطرناک مضمرات رکھنے والی کوشش تھی مگر اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے ساتھ جماعت احمدیہ نے اس کو بالکل نامراد کر دیا ہے.یہاں تک کہ ابھی حال ہی میں پاکستان کے ایک ملاں جو احمدیت کی مخالفت میں سب سے زیادہ منہ پھٹ ہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے پاکستان ہی میں بہت ہی ہر طرف سے ذلیل ورسوا بھی کیا لیکن پھر بھی وہ باز نہیں آتے اور ابھی ان کی آنکھیں نہیں کھلیں.حال میں ہی وہ باہر کے ملکوں کا دورہ کر کے گئے ہیں.زبان وہی گندی ہے جو پہلے استعمال کیا کرتے تھے اور وہی اشتعال انگیزی جو وہ پہلے کیا کرتے تھے.لیکن کچھ نئے انکشاف بھی ان کو کرنے پڑے انہوں نے جا کر یہ بتایا کہ آپ لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ پچھلے چند سالوں میں جماعت احمدیہ کس تیزی کے ساتھ ترقی کے ہر میدان میں آگے بڑھ چکی ہے.حیرت انگیز ہے ان کی ترقی آنکھیں چندھیا دینے والی.یہ اقرار خدا تعالیٰ نے ان سے کروا کے چھوڑا اور اس کی سب سے زیادہ ذلت اور نا مرادی اس اقرار میں ہے دراصل.اس مولوی کی طرح باقی لوگوں نے بھی گالیاں
خطبات طاہر جلد۵ 819 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء دے دیں یا اسمبلی نے ان کو غیر مسلم کہہ دیا یا ان کے نکاح حرام کر دیئے، تو یہ معمولی باتیں ہیں جماعت احمدیہ کو اس میں کوئی دلچسپی نہیں.بہت ہی گھٹیا اور کمینی باتیں ہیں لیکن ایک احمدیت کے دشمن مولوی کا اپنی زبان سے یہ اقرار کر لینا کہ گزشتہ چند سالوں میں ہماری ساری کوششوں کے باوجود یہ جماعت اس تیزی کے ساتھ ترقی میں آگے بڑھی ہے اور ہر میدان میں آگے بڑھی ہے.انہوں نے مختلف میدانوں کا ذکر کیا تفصیل سے کہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ جماعت کس تیزی کے ساتھ آگے قدم بڑھاتی چلی جارہی ہے.یہ اقرار ہے جو اصل ذلت ہے اور اصل رسوائی ہے خدا کے نزدیک.دشمن ساری کوششوں کے باوجود خودا اپنی نا کامی کا اقرار کرنے پر مجبور ہو گیا.جو دوسری کوشش ہے اس کے لئے سب سے پہلا قدم ان کا یہ تھا کہ جماعت احمدیہ کوظلم اور تعدی کے ساتھ اور جبراً کلمہ طیبہ لا اله الا الله محمد رسول اللہ سے توڑنے کی کوشش کی جائے اور اس ضمن میں علماء اور حکومت کے درمیان جو ملی بھگت ہوئی وہ یہ تھی کہ حکومت سارے قانونی ذرائع اختیار کرے اور حکومت کی طرف سے جو بھی سختیاں کی جاسکتی ہیں وہ جماعت احمد یہ پر روا رکھی جائیں سینکڑوں کو جیلوں میں پھینکا جائے.پولیس کو کہا جائے ان کو زدو کوب کرے اور ہر طرح کی تنگیاں اور تکلیفیں پہنچائی جائیں اور مولوی اپنے چیلے چانٹے لے کر اس حالت میں کہ احمدی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں ان کو ماریں، کوٹیں اور انھیں ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کریں.یہ وہ دور باؤ تھے عوام کا دباؤ تو وہ پیدا نہیں کر سکے لیکن چند مولوی اپنے چند چیلے چانٹوں کے ساتھ احمد یوں پر ایسی حالت میں کہ وہ کوئی دفاعی کا رروائی نہیں کر سکتے تھے ہر قسم کے ظلم و تشد دروار کھتے رہے اور حکومت نے بھی نہ صرف یہ کہ کھلم کھلا بار بار اس بات کا اعلان کیا کہ حکومت احمدیوں کے خلاف اس تحریک کی مددگار اور معاون ہے بلکہ با قاعدہ رسمی طور پر گورنروں کو اور دوسرے عہدے داران کو بار بار حکومت کی طرف سے سنجیدہ ہدایتیں بھی دی جاتی رہیں.پہلی قسم کے اعلانات کو بعض لوگ سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے ، وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت کی سیاسی کارروائیاں ہیں وہ لوگوں کو خوش کرنے کے لئے مولویوں کو خوش کرنے کے لئے ایسی باتیں کر دیتی ہے حکومتیں اس طرح کرتی رہتی ہیں.اس لئے جو سول سروس ہے یا پولیس وغیرہ کے عہدیداران ہیں وہ عموماً ایسی باتوں کو نظر انداز کر دیا کرتے ہیں لیکن جو حکم رسماً با قاعدہ سیاہ وسفید میں جاری ہو اور گورنروں کی طرف سے نزول کرتا ہو چھوٹے عہد یداران تک پہنچے
خطبات طاہر جلد۵ 820 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء اس کی غیر معمولی اہمیت ہو جاتی ہے.چنانچہ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار بارا ایسے احکامات جاری کئے گئے اور بار بار بھول جانے والے گورنروں کو یاد دہانیاں کروائی گئیں کہ اور اس ظلم کو تیز کرو اور اس ظلم کو تیز کرو ابھی یہ ظلم پوری شدت اختیار نہیں کر سکا ہے اور ذلیل کرو.لیکن جو کوششیں حکومت کر سکتی تھی اور کر رہی ہے اور جو ظلم و تعدی بعض مولویوں اور ان کے چیلے چانٹوں کی طرف سے روا رکھی جاسکتی تھی وہ سب رکھی گئی.کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی لیکن کلیہ نا کام و نامراد ہو گئے اس بات میں کہ جماعت احمدیہ کے دل سے تو در کنارسینوں سے ہی کلمہ طیبہ نوچ کے پھینک سکیں.جیلوں میں ڈالا گیا.جب کلمہ کے بیج ان سے چھین لئے گئے تو جو بھی لکھنے کا ذریعہ ان کے پاس میسر تھا انہوں نے اپنی قمیضوں پر کلے لکھ لئے.جب قمیض پھاڑ کر پھینک دی گئی تو اپنی چھاتی پر کلمے لکھ لئے اور کھلم کھلا اعلان کیا تم چھید تے چلے جاؤ اور نوچتے چلے جاؤ گوشت مگر جو حصہ بھی نگا ہو گا ہم کلمہ طیبہ جس حد تک خدا ہمیں توفیق دے گا لکھتے چلے جائیں گے اور سارے پاکستان میں ایسی دلیری کے ساتھ ایسی مجاہدانہ شان کے ساتھ جماعت احمدیہ کلمہ طیبہ ، کلمہ شہادۃ سے لیٹی رہی اور چمٹی رہی کہ دشمن بالآخر اس بات پر مجبور ہو گیا اور یہ ماننا پڑا کہ ہم اس تحریک میں نامراد ہو گئے ہیں.جماعت احمد یہ کوکلمہ طیبہ سے الگ نہیں کر سکے اور الگ نہیں کر سکے تو مرتد کی سز اقتل کا بہانہ کیسے بنائیں گے.یہ اگلا سوال تھا.اب انہوں نے دوسری لائن اختیار کی اپنے دفاع کی اور معلوم ہوتا ہے کہ یہی ان کی شکست کا اعلان ہے.چنانچہ 20 نومبر کو گزشتہ ماہ پاکستان کی ٹیلیویژن پر ایک ملاں مجیب الرحمن نامی نے تقریر کی اور اس تقریر کا لب لباب یہ تھا کہ ٹھیک ہے کلمہ کے انکار سے انسان مرتد ہوتا ہے لیکن اصل بات یہ نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ کلمہ طبیہ کے کچھ اور بھی اثرات ہیں جن میں سے کسی ایک پہلو کو بھی نظر انداز کر دیا جائے تو اس سے بھی مرتد ہو جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں آنحضرت ﷺ کی جو صفات بیان ہوئی ہیں ان میں سے کسی ایک صفت کا انکار بھی کر دے تو کلمے کا بھی انکار ہے پس جو شخص بھی ختم نبوت کا منکر ہو جائے وہ مرتد ہے اور جو اجرائے نبوت کا قائل ہو جائے وہ مرتد ہے.یہ دلیل انہوں نے قائم کرنے کی کوشش کی.اب سوال یہ ہے کہ اس میں کتنی اور تنقیحات ہیں جن کے ساتھ ان کی کہانی مکمل ہوئی تھی.پہلی بات یہ کہ جماعت احمدیہ مرتد ہے.یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ جماعت
خطبات طاہر جلد۵ 821 خطبه جمعه ۱۲ ردسمبر ۱۹۸۶ء احمدیہ کلمہ لا الہ الا الله محمد رسول اللہ کی دل سے قائل ہے.اگر یہ بات ان کے نزدیک بھی ثابت نہ ہوتی تو وہ اسی بات سے شروع کرتے اور اسی پر ختم کر دیتے کہ یہ کلمہ جماعت احمدیہ کا کلمہ ہی نہیں ہے.حکومت کا پروردہ ملاں اور ریڈیو اور ٹیلیویژن پر کھلم کھلا یہ اعلان کرنے پر مجبور ہوا ہے کہ جماعت احمدیہ کو ہم کلمہ سے الگ نہیں کر سکے اور واقعہ یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں جماعت احمدیہ کا نام ہی کلمہ والے پڑ گیا ہے.چنانچہ مجھے مختلف جیلوں سے بعض احمدیوں کے جو خط آتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ہماری تو پہچان ہی کلے والے بن گئی ہے جب کسی افسر نے بلانا ہو یا کسی عدالت میں آواز پڑے تو کہتے ہیں کہ کلمے والوں کو بلا ؤ اور کلے والے صرف ہم ہی ہیں.کوئی دوسرا سامنے آتا ہی نہیں کیونکہ کلمے والا بننے سے مار پڑتی ہے.مصیبت میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے.جیلوں کا منہ دیکھنا پڑتا ہے.کلے والے تو تب بنیں جب کلمہ کے نتیجہ میں حلوہ ملے، کھیر ملے کھانے کی چیزیں اچھی ملیں ، ہار پہنائے جائیں اچھے کپڑے ملیں پھر تو آدمی شوق سے کلمے والا بنے لیکن جہاں کلمہ کے نتیجہ میں مار پڑے، سزا ملے آنکھوں میں مرچیں ڈالی جائیں، بال نوچے جائیں ،گلیوں میں گھسیٹا جائے ، ہر قسم کے انسانی حقوق سے محروم کیا جائے وہاں کلے والا بننے کے لئے دل گردہ چاہئے اور وہ صرف مومن کا دل گردہ ہے.یہ جماعت احمدیہ کو ہی نصیب ہے.اس لئے جب یہ بات ملک میں عام ہوگئی کہ کلمے والے ہیں ہی احمدی.تو ٹیلیویژن پر آکر کوئی ملاں یہ پوزیشن لے ہی نہیں سکتا تھا کہ احمدی کلمہ چونکہ نہیں پڑھتے اور کلمہ سے تعلق نہیں رکھتے اس لئے یہ مرتد ہیں.دوسری لائن پر آگے ہیں اس جہاد میں جو جماعت احمد یہ اسلام کے لئے جہاد کر رہی ہے اس میں دشمن کے قدم پیچھے ہٹے ہیں.یہ بڑی کھلی کھلی بات ہے اور وہ اب بہانہ تلاش کرنے کے لئے دوسری لائن پر آ گیا ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی دوسرے قدم میں کہ جماعت احمد یہ نعوذ بالله من ذلک ختم نبوت کی قائل نہیں.اب یہ جو منطق نکالی گئی ہے وہ مرتد ہوتا ہے جو ختم نبوت کا قائل نہ ہو اور اسی کے اوپر اسلام میں جہاد فرض ہوا تھا اس کی تفصیل تو انہوں نے جس طرح بیان کی اس کا ذکر تو آگے چل کر کروں گا لیکن یہ دوسری تنقیح بھی بالکل غلط بے معنی اور لغو ہے.جماعت احمدیہ سے زیادہ ختم نبوت کا دنیا میں کوئی بھی قائل نہیں.ہر معنی میں ہر تفسیر
خطبات طاہر جلد۵ 822 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء میں جماعت احمد یہ ختم نبوت کی قائل ہے اور جس عرفان کے ساتھ اور جس گہری معرفت کے ساتھ جماعت احمدیہ ختم نبوت کی قائل ہے دنیا کی ساری جماعتیں مل کر بھی اتنی قائل نہیں اور اس ضمن میں مختلف خطبات میں بھی روشنی ڈال چکا ہوں ، جلسہ سالانہ کی تقریر میں بھی سوال و جواب کی محافل میں بھی اس کے سارے پہلو جس حد تک بھی ممکن تھے ان کو خوب کھول کھول کر میں جماعت کے سامنے بھی اور غیر احمدی سوال کرنے والوں کے سامنے بھی پیش کر چکا ہوں بار بار.اس لئے اس وقت اس بحث کو تو یہاں کھولنے کی گنجائش نہیں.دوسرے یہ بحث تو سارا دن گفتگو کے بعد بھی ختم نہیں ہوسکتی ہے لیکن ایک بات قطعی ہے کہ ہر احمدی کامل یقین کے ساتھ ہر مخالف کو یہ چیلنج کر سکتا ہے کہ بحث کا عنوان یہ نہ رکھو کہ ہم قائل ہیں یا نہیں، بحث کا عنوان یہ ہوگا کہ ”ہم تم سے زیادہ قائل ہیں اور یہ ثابت کرنا ہماری ذمہ داری ہے.انصاف اور تقویٰ سے کسی غیر جانبدار پینل کو مقرر کر لو اور جب یہ غیر جانبدار پینل مقرر ہوتے ہیں تو دلائل سن کر فیصلہ ہمارے حق میں ہی دیتے ہیں.ابھی کراچی میں ایک ہمارے بڑے مخلص نوجوان جن کو تبلیغ کا جنون ہے اور جنون سے مراد یہ ہے کہ ولولہ کے لحاظ سے جنون، ویسے بڑی حکمت کے ساتھ کرتے ہیں.انہوں نے بعض اپنے محکمہ کے دوسرے مولوی نما لوگوں سے جب بحث اٹھائی اس معاملہ پر تو انہوں نے آخر مجبور کیا کہ پہلے ثالث مقرر کرو اور وہ فیصلہ کرے پھر اس کے فیصلہ کو تسلیم کرو تو پھر ہم بحث کریں گے.اب ایک بظاہر یہ Tactical یعنی فن جہاد میں ایک غلط قدم اٹھانے والی بات تھی کہ ایک ایسے ثالث کو تسلیم کیا انہوں نے جو احمدی ہی نہیں اور غیر مسلم بھی نہیں تھا.وہ مسلمان تھا جو احمدیوں کے مقابل پر آیت خاتم النبین کی وہ تشریح کرنے والے ہیں جو غیر احمدی علماء کرتے ہیں.اس کی بڑی جرأت کہہ لیں یا سادگی کہہ لیں کہ اس نے ان صاحب کو ثالث بنالیا اور مجھے دعا کے لئے خط لکھنے شروع کر دیئے.میں نے ان سے کہا کہ پہلے پوچھ تو لیا ہوتا.یہ اصولاً غلط بات ہے کہ ایک ایسے شخص کو ثالث بنالینا جو دوسرے کا ہم عقیدہ ہے اور تمہارے مخالف.لیکن بہر حال اگر تم نے کر لیا ہے تو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد فرمائے گا.وہ بھی دعا کرتا رہا کوشش کرتا رہا اور میں بھی دعا کرتا رہا.ابھی کل ہی اس کا خط ملا ہے کہ ثالث نے نہ صرف ہمارے حق میں فیصلہ دیا بلکہ مجھے کہا ہے کہ میں بیعت کرنا چاہتا ہوں.دلائل اس قوت کے ساتھ جماعت احمدیہ کے ساتھ ہیں کہ جس میں تقویٰ کی رگ ہوگی وہ اگر ثالث بنے تو لازماً
خطبات طاہر جلد۵ 823 خطبه جمعه ۱۲ار دسمبر ۱۹۸۶ء ہر دنیا کا ثالث جس میں تقویٰ کی کوئی بھی رگ ہو تو وہ جماعت احمدیہ کے حق میں فیصلہ دینے کے لئے مجبور ہوتا ہے.اتنے مخالفانہ ماحول میں جہاں مرتد کی سزا قتل کی باتیں ہورہی ہوں وہاں ایک معزز مسلمان جو دوسرے فریق کا ہم خیال اور ہم عقیدہ ہو اور ایسے ماحول میں جہاں مخالفت کے طوفان برپا ہوں ہر ایک کے بعد دوسرا اٹھتا ہو وہاں اس جرات سے اعلان کر دینا کہ احمدی سچے ہیں اور تم غلط کہہ کر رہے ہو بڑی بات ہے.ہم تو اس معاملہ میں بالکل بے خوف ہیں بلکہ خوف ہی نہیں کامل یقین کی بنیادوں پر قائم ہیں غیر متزلزل بنیا دوں پر قائم ہیں، تمام قرآن ہمارے ساتھ ہے، تمام سنت ہمارے ساتھ ، ہے تمام عقلی شواہد ہمارے ساتھ ہیں کہ آیت خاتم النبین پر جس معرفت کے ساتھ ، جس گہرائی کے ساتھ جماعت احمد یہ ایمان رکھتی ہے ویسا دنیا کی کوئی اور جماعت ایمان نہیں رکھتی.مگر بہر حال اس میں تو ان کے منہ کی بات ہی کافی ہے.صرف لوگوں کو یہ کہہ دینا کہ جماعت احمد یہ ختم نبوت کی قائل نہیں یہ اعلان ہی کافی تھا پھر اس سے آگے دلیل کی ضرورت نہیں کبھی گئی.چونکہ حکومت کا ملاں یہ کہہ رہا ہے کہ یہ قائل نہیں اس لئے دنیا اسے صحیح مان لے گی.پہلے بھی پراپیگنڈا بہت ہو چکا ہے اور ہمیں جوابی کارروائی کی اجازت ہی نہیں دی جاتی.تیسرا پہلو یہ تھا کہ اب اگر ختم نبوت کی قائل نہیں ہے تو پھر ان کے خلاف جہاد کس طرح فرض ہوتا ہے اور حکومت کو کیا کرنا چاہئے.اس کے لئے بھی انہوں نے یہ دلیل قائم کی کہ حضرت رسول اکرم ﷺ کے زمانے میں اگر چہ آنحضور ﷺ کی زندگی نے وفا نہیں کی اس لئے آپ جھوٹے دعویداران نبوت کے خلاف خود جہاد نہیں کر سکے.بات یہاں سے شروع ہوئی.پہلا قدم ہی وہ قدم اٹھایا جس نے ان کی بات جھوٹی کر دی.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب نے کئی سال آپ کی زندگی میں دعوی کئے رکھا اور اسود عنسی نے آپ کی زندگی میں دعویٰ کیا اور آنحضر نے کوئی فوج کشی ان کے خلاف نہیں کی.مولوی صاحب فرمانے لگے ٹیلیویژن پر کہ رسول اکرم ﷺ آخری وقت میں یہ ہدایتیں تو دے گئے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور دوسرے بزرگ صحابہ کو ان کا قتل و غارت کر ولیکن آپ کی زندگی نے وفا نہیں کی اس لئے آپ خود نہیں کر سکے.حالانکہ مورخین یہ لکھتے ہیں کہ
خطبات طاہر جلد۵ 824 خطبہ جمعہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۸۶ء.آنحضرت ﷺ نے جو آخری لشکر تیار کر وایا خود جس کا سردار اسامہ بن زید کو مقررفرمایا.اگر کسی لشکر کشی کا مقصد یہ تھا کہ خاتمیت نبوت کے منکرین یا نبوت کے جھوٹے دعویداران کے خلاف جہاد کیا جائے اور ان کا قتل کیا جائے تو یہ ہدایت تو اسامہ بن زید کو ملنی چاہئے تھی.یہ مولوی اتنے جھوٹے ہیں کہ جانتے ہیں کہ اشارہ یا کنایہ بھی اسامہ بن زید کو یہ ہدایت نہیں ملی بلکہ فوج کے کسی سپاہی کو نہیں ملی اور وہ لشکر کشی اندرونی عرب کے لئے تھی نہیں.وہ ایک ایسی مہم کے ساتھ تعلق رکھنے والی لشکر کشی تھی جس کا آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد بجھوانا عالم اسلام کے لئے خطرناک ہوسکتا تھا مگر آخری وقت تک آنحضرت ﷺ نے اس لشکر کو اپنے اس مقصد سے نہیں ہٹایا جس کے لئے وہ قائم کیا گیا تھا.جس کا کوئی دور کا تعلق کسی جھوٹے مدعیان نبوت سے نہیں تھایا ارتداد سے اس کا کوئی بھی دور کا تعلق نہیں تھا.حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ میں جولشکر کشی کی گئی وہ آنحضرت ﷺ کے وصال کے بعد رونما ہونے والے واقعات کے نتیجہ میں تھی اس لئے اتنا بڑا جھوٹ ، اتنا بڑا افترا آنحضرت علی پر کہ آنکھیں بند کرنے سے پہلے آپ نے حضرت ابو بکر صدیق کو جو ہدایتیں دی تھیں ان کے نتیجہ میں حضرت ابو بکر صدیق نے وہ جہاد شروع کیا جو مرتدین کے خلاف تھا ، مرتدین نہیں منکرین ختم نبوت کے خلاف جہاد.اجرائے نبوت کا عقیدہ رکھنے والوں کے خلاف جہاد تھا حضرت ابوبکر کا ان کے نزدیک اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اس بات کا نہ حضرت علیؓ کو پتہ چلا ، نہ حضرت عمر کو پتہ چلا اور نہ خود حضرت ابو بکر صدیق کو پتہ چلا کہ میں کس لئے جہاد کر رہا ہوں کیونکہ تمام تاریخیں مسلمہ طور پر گواہ ہیں اور اس بات میں ایک بھی اختلاف نہیں کہ جب بعض کبار صحابہ نے مختلف وجوہات سے حضرت ابوبکر صدیق کو منکرین زکوۃ کے خلاف تلوار اٹھانے سے منع کیا منکرین ختم نبوت کا اشارہ کہیں ذکر نہیں ملتا ہے.قائلین اجرائے نبوت کا کوئی خیال، وہمہ بھی ساری گفتگو میں موجود نہیں تھا جب بعض کبار صحابہ نے جن میں ایسے بھی تھے جو بعد میں خلفاء بنے انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق کو مشورہ دیا کہ ایسانہ کریں.اس کی وجوہات یہ تھیں کہ اسلام میں جبر نہیں ہے.یہ کہا حضرت عمرؓ اور حضرت علی نے بھی کہ اسلام میں چونکہ جبر نہیں ہے اگر وہ منکر ہو رہے ہیں تو آپ جبراً کیوں اسلام میں ان کو داخل کرتے ہیں.اس کا جواب حضرت ابو بکر صدیق نے یہ نہیں دیا کہ چونکہ وہ ختم نبوت کے منکر ہیں اور چونکہ آنحضرت ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی تھی کہ میرے بعد فوراً یہ کام ہو گا تم یہ جہاد شروع کر دینا ہے اس
خطبات طاہر جلد۵ 825 خطبه جمعه ۱۲ر دسمبر ۱۹۸۶ء لئے میں مجبور ہوں بلکہ حضرت ابو بکر صدیق کا جواب یہ تھا کہ یہ زکوۃ دے رہے تھے آنحضرت علی کے زمانہ میں یہ ریاست کا حق ہے اور آنحضرت علﷺ کی نصیحت یہ تھی کہ جو شخص کسی کا حق چھینے اس سے جبراً حق چھینا جہاد ہے، واپس لینا جہاد ہے.اس لئے اسلامی ریاست میں جولوگ زکوۃ دے رہے تھے اگر وہ ایک کجھور کی گٹھلی کے برابر بھی اس کی لکیر کے برابر بھی زکوۃ روکیں گے تو میں ان سے لڑائی کروں گا.کہاں ہے وہ اجرائے نبوت کا ذکر، کہاں ہے ختم نبوت کا ذکر ؟.اس کا کوئی دور کا تعلق بھی اس جدو جہد کا جو عظیم جدوجہد تھی اجرائے نبوت کے تصور سے ہے ہی نہیں کہیں اشارہ بھی اس کا ذکر نہیں.وہ باغی جنہوں نے زکوۃ رو کی ان میں مسیلمہ کذاب بھی تھا اور ایک شاعرہ عورت سجاح بھی شامل تھی جس کے ساتھ اس سے پہلے مسلمہ نے شادی کر لی تھی اور ایک دو اور لوگ بھی تھے.اس موقع پر حضرت ابوبکر صدیق نے حضرت خالد بن ولید کو اس ساری مہم کا سردار بنایا اور سردار بنا کر کچھ نصیحتیں فرمائیں.فرمایا کہ تم نے جنگ کرتے چلے جانا اس وقت تک جب تک یہ پانچ باتیں نافذ نہ ہو جائیں.ایک اور روایت میں ہے کہ اس وقت حضرت ابوبکر صدیق نے پانچ بنیادی باتیں اسلام کی بیان فرما ئیں فرمایا کہ کوئی شخص بھی لا اله الا الـلـه مـحـمـد رسول الله کا اقرار کرے، کوئی شخص پانچ وقت نماز کا قائل ہو، رمضان کے روزے رکھے ، حج بیت اللہ کرے اور زکوۃ کی ادائیگی کرے تو پھر جنگ ختم ہو جائے گی لیکن کہیں بھی نہ اجرائے نبوت کے انکار کے انکار کا ذکر.نہ جھوٹے مدعیان نبوت کا ذکر اشارہ بھی کسی ہدایت میں نہیں ملتا.یہ بحث الگ ہے کہ آپ نے یہ پانچ باتیں کیوں بیان فرما ئیں میں اس وقت یہ گفتگو نہیں کر رہا.میں یہ بتانا چاہتا ہوں یہ سراسر افتراء ہے جو رسول حضرت پاک ﷺ پر باندھا گیا کہ آپ نے آخری یہ ہدایت فرمائی اور حضرت ابوبکر صدیق پر باندھا گیا کہ آپ نے یہ ساری لڑائی اجرائے نبوت کا عقیدہ رکھنے والوں کے خلاف ، کی تھی.پھر تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ سارے قبائل ان جھوٹے مدعیان نبوت کے قائل ہی نہیں تھے.بھاری اکثریت قبائل کی وہ تھی جو صرف زکوۃ کے منکر ہوئے تھے.بعض دوسری روایات میں ان پانچ باتوں کا ذکر نہیں ملتا بلکہ جیسا کہ حضرت عمر کی روایت ہے اور اس میں حضرت ابو بکر صدیق صاف فرماتے ہیں اور یہ وہی تاریخ جو دونوں حوالے دے رہی
خطبات طاہر جلد۵ 826 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء ہے.ایک ہے تاریخ الخلفاء حضرت امام جلال الدین سیوطی کی جس کے اردو تر جمہ کے۹۰.۹۱صفحہ پر یہ روایت جس میں لا اله الا الله محمد رسول اللہ اور دیگر چارا سلام کے ارکان کا ذکر ہے کہ جو یہ کہے گا اس کے خلاف تمہیں کوئی جنگ کا حق نہیں ہے.وہیں تلوار چھوڑ دو ، تلوار گرا دو اور دوسری روایت بھی تاریخ الخلفاء کی ہے اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان ہے جو گفتگو اور بحث ان کی حضرت ابو بکر صدیق سے ہوئی اس میں حضرت ابو بکر نے سوائے زکوۃ کے کسی اور چیز کا ذکر نہیں کیا اور بہت ہی ایک معقول استدلال پیش کیا کہ زکوۃ صرف ایک دینی مسئلہ نہیں ہے.زکوۃ ریاست کا حق ہے اور یہ سارے وہ لوگ ہیں جو اسلامی ریاست کو تسلیم کر چکے تھے اور زکوۃ دے رہے تھے.اس لئے آپ کا اصرار یہ تھا کہ جس نے آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں زکوۃ دی ہے اور وہ اسلامی ریاست کی بالا دستی کو تسلیم کر چکا ہے.اب وہ اس سے پیچھے نہیں ہٹ سکتا ہے.اس لئے اصل زور اسی بات پر ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق کی ساری لڑائی منکرین زکوۃ سے تھی چنانچہ اسی لئے تاریخ پر تاریخ اٹھا کر دیکھیں وہاں اس مہم کا نام ہی منکرین زکوۃ کے ساتھ حضرت ابو بکر صدیق کی لڑائی رکھا گیا ہے اور ان مخالفین کا نام ہی منکرین زکوۃ رکھا گیا ہے اور وہ سارے کے سارے نہ آنحضرت ﷺ کے علاوہ کسی کی نبوت کے قائل تھے اور جو قائل تھے ان میں سے کسی پر بھی یہ شرط نہیں لگائی گئی کہ جب تک کوئی کسی جھوٹے نبی کا کا انکار نہیں کرے گا اس وقت تک تم نے اس سے لڑائی جاری رکھنی ہے کیونکہ وہ مسئلہ ہی نہیں تھا.پھر جھوٹے دعویداران میں سے بعض اس وقت لڑائی کے دوران قتل نہیں ہوئے اور وہ بعد میں مسلمان بھی ہوئے.اگر ان کا قتل واجب ہو گیا تھا اور یہی ان مولویوں کے نزدیک فتویٰ بھی ہے کہ ایک دفعہ ارتدار اختیار کر لو پھر تو بہ کر ہی نہیں سکتے.تو بہ بھی کر لو گے تب بھی قتل کر دئے جاؤ گے کیونکہ یہ فیصلہ کرنا خدا کا کام ہے کہ تو بہ سچے دل سے کی ہے یا نہیں.کتنا بڑا جھوٹ ہے.آنحضرت ﷺ پر پہلے افترا باندھا گیا پھر حضرت ابوبکر صدیق پر افترا باندھا گیا.ساری تاریخ اسلام کو جھٹلایا گیا اور سخ کیا گیا صرف یہ ثابت کرنے کی خاطر کہ احمدی مرتد ہیں اور جو الزام لگایا گیا ہے وہ ویسے احمدیوں پر صادق ہی نہیں آتا یعنی اگر یہ سارا جہاد تھا ہی اس لئے کہ ختم نبوت کے کچھ لوگ منکر تھے تو احمدی تو ختم نبوت کے منکر نہیں.وہ جو جھوٹے دعویداران نبوت تھے وہ تو آنحضرت کے شریک بنے ہوئے تھے.آپ کی شریعت کو مسخ کرنے کے لئے آئے تھے.
خطبات طاہر جلد۵ 827 خطبه جمعه ۱۲ر دسمبر ۱۹۸۶ء ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے کامل طور پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کا دعوی کیا ہو.یہ لوگ تو وہ ہیں جن کو تو پتہ ہی نہیں کہ عشق محمد مصطفی ﷺ ہوتا کیا ہے.ان کے آباؤ اجداد پشت در پشت شمار کرلیں اور ان کی نسلاً بعد نسل پشتیں بھی شمار کر لیں تو سارے مل کر حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں وہ گیت نہیں گا سکتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گا چکے ہیں.سارے مل کر آج بھی زور لگا لیں وہ پیار وہ عشق وہ سچائی وہ گہرائی پیدا تو کر کے دکھلائیں اپنے کلام میں جو خالصہ سچے عاشق کو نصیب ہوا کرتی ہے.اس لئے الزام نہ صرف جھوٹا بلکہ اتنا کر یہ افتراء ہے کہ اس کا کوئی دور کا تعلق بھی نہیں ہے جماعت احمدیہ کے ساتھ.لیکن صاف پتا چلا کہ جب یہ حکومت کا ملاں اوپر آکر کھلم کھلا ٹیلیویژن میں یہ اعلان کر رہا ہے تو کچھ ایسے ارادے ہیں شرارت اور خباثت کے کہ اس تحریک کے دوسرے پہلو کو بھی جلد از جلد اپنے منطقی نقطہ عروج تک پہنچایا جائے.اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان دشمنوں کے اپنے ذلیل اور اسلام دشمن ارادوں کو نافذ کرنے میں کس قدر کامیابی ہوگی.ارادوں میں تو کبھی کامیابی نہیں ہوسکتی.یہ تو لکھے ہوئے نامراد اور ذلیل ارادے ہیں جن کو خدا کی تقدیر لازم رد کر دے گی اس لئے اس کی تو بحث ہی کوئی نہیں ہے.ارادوں میں تو نا کام ہوں گے لیکن ان ارادوں کے نتیجہ میں جو سازشیں بنا رہے ہیں ان سازشوں پر عمل کرنے میں کس حد تک ان کو کامیابی حاصل ہوتی ہے یہ آئندہ کے حالات بتائیں گے.لیکن ایک بات کے متعلق میں ابھی بتا دیتا ہوں کہ اس بات میں وہ ناکام ہو چکے ہیں.اگر ان کا یہ خیال ہے کہ احمدی خوف کے نتیجہ میں ، ملاں کے ڈر سے اپنے خالصہ للہ دین کو تبدیل کر دیں گے یعنی خدا کے مقابل پر ملاں کا خوف ان کے دل پر زیادہ غالب آجائے گا.تو یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ یہ لازماً ابھی سے ردشدہ اور نامرادلوگ ہیں.ناممکن ہے کہ اس ارادے میں ان کو کسی قسم کی بھی کامیابی نصیب ہو.جو چاہیں فیصلے کریں ، جو چاہیں بدار ادے رکھیں جس طرح چاہیں ان پر عمل درآمد کرائیں جماعت احمدیہ ملاں کے خوف کے سامنے سر جھکا کر اپنی گردن بچانے کے لئے تیار نہیں ہے.کسی قیمت پر تیار نہیں.اگر حد سے زیادہ سوچا جائے ، بھیا نک سے بھیانک تصویر سوچی جائے تو یہ بن سکتی ہے کہ پاکستان میں 30 سے 40 لاکھ احمدیوں کا اپنے دین پر قائم رہنے کے نتیجہ میں، خدا تعالیٰ پر ایمان لانے کے
خطبات طاہر جلد ۵ 828 خطبه جمعه ۱۲ر دسمبر ۱۹۸۶ء نتیجہ میں قتل عام ہو.اگر خدانخواستہ ایسا ہو تو اس کے نتیجہ میں جماعت احمد یہ مٹ جائے گی؟ اس معاملہ میں بھی کلیہ نامراد ہوں گے.پہلی بات میں بھی اگر کہا ہے اس کی طرف دوبارہ واپس آؤں گا.لیکن بفرض محال یہ کلیہ سو فیصدی بھی اس میں کامیاب ہوجائیں تو ہر گز کسی قیمت پر بھی یہ اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکتے کہ جماعت احمدیہ اس کے نتیجے میں مٹ جائے گی.ہر احمدی شہید کا جو ایک ایک قطرہ زمین پر گرے گا اس کے نتیجہ میں قو میں اسلام احمدیت میں داخل ہوں گی اور اس کثرت سے خدا تعالیٰ اس کا اجر عظیم عطا فرمائے گا.جیسا کہ قرآن کریم کا دعوی ہے کہ اس کا یہ ملاں تصور بھی نہیں کر سکتا ہے.پاکستان کو اگر عام رفتار کے مطابق ہزار سال کے بعد احمدی بننا ہو خدانخواستہ اگر یہی رفتار رہے اور یہ اپنے اس بد ارادے میں کامیاب ہو جائیں تو ہزار سال کے بجائے ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے احمدی ہونے میں ایک سال بھی نہ لگے کیونکہ اگر یہ خوفناک ارادہ اگر واقعۂ عمل کا جامہ پہن لے تو یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ خدا کی تقدیر اس کے نتیجہ میں کتنی حیرت انگیز ردعمل دکھاتی ہے.ساری انسانی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ ایسے واقعات رائیگاں نہیں جایا کرتے.چند معصوموں کے قتلوں کا خون بھی قوموں کو ہضم نہیں ہوا کرتا.کجا یہ کہ خالصہ خدا کے نام پر قائم ہونے والی جماعت کے ہر بڑے چھوٹے مرد اور عورت اور بچے کو صرف اس لئے شہید کر دیا جائے کہ وہ دین میں استقامت دکھا رہے ہیں.یہ تو ایسا واقعہ ہی نہیں ہے جو رونما ہو اور دنیا میں سب سے بڑا انقلاب بر پانہ کر دے.شہادتوں کے نتیجہ میں دو قسم کے رد عمل خدا تعالیٰ کیظا ہر ہوا کرتے ہیں ایک ظالموں کو سزا دینے اور پکڑنے کا رد عمل اور ایک جس مقصد کے لئے بد ارادہ رکھنے والے از راہ ظلم معصوموں کو شہید کرتے ہیں.اس مقصد کو کلیۂ دنیا کو نا کام کر کے دکھا دینا ہے.یہ دوسرار عمل ہوا کرتا ہے الہی تقدیر کا.چنانچہ قرآن کریم میں یہ دونوں وعدے موجود ہیں.سزا کا ایک طرف اور انعام کا دوسری طرف.ایک وعدہ یہ ہے کہ تم یہ ظلم کرو گے جس حد تک بھی کرو گے اللہ تعالیٰ تمہیں پکڑے گا اور تمہیں نہیں چھوڑے گا اور سزا پر سزا دیتا چلا جائے گا.تکرار کرے گا اپنی سزا میں اور دوسری طرف یہ انعام کا وعدہ کہ تم میں سے ایک شہید ہو گا تو خدا قو میں لا کے داخل کرے گا اور وہ پہلے سے زیادہ قوی ہوں گی قو میں ایمان میں.حالانکہ اگر مرتد کی سزا قتل کے نتیجہ میں قتل عام کیا گیا ہو تو جو احمدی ہوگا اس کو نسبتاً
خطبات طاہر جلد۵ 829 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء ڈرپوک احمدی ہونا چاہئے کیونکہ وہ دیکھے گا کہ یہ تو بڑا جرم ہے کہ اس کی ایسی خطرناک سزا ملتی ہے یہ کلام الہی کی شان ہے کہ وعدہ یہ کر رہا ہے کہ جو اس ظلم کے بعد مسلمان ہوں گے، جو اللہ پر ایمان لانے والے ہوں گے ارتداد کے نتیجے میں یہاں قتل کا ذکر نہیں بلکہ ارتداد کا ذکر ہے جبر اتم کسی کو مرتد کر لو اس کے نتیجہ میں جو مسلمان ہوں گے وہ قوم در قوم ہوں گے اور پہلوؤں سے بڑھ کر زیادہ بہادر اور خدا کی راہ میں قربانیاں دینے والے ہوں گے.جہاں تک قوم کے مٹنے کا تعلق ہے قرآن کریم مقتولوں کو شہید کہہ رہا ہے ، زندہ کہہ رہا ہے فرماتا ہے تم جن کو مار رہے ہو وہ زندہ ہو گئے ہیں اور تمہیں عقل نہیں ہے.اس زندہ کے لفظ میں بھی کامیابی اور کامرانی کی پیشگوئی ہے.پس جماعت احمد یہ جو خالصہ اللہ پر ایمان لانے والی ہے جس کا دین خالص ہے جو خدا کی خاطر ہر قربانی پر تیار ہے اس کو تم نا کام نہیں کر سکتے جو چا ہو کر لو.تمہاری عقل کی حد تمہارے دین کا منتہا تو صرف اتنا ہی ہے نا کہ بکرے سجا کر قربانی کے لئے پیش کر دو.اگر تم نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ احمدیوں کی قربانی کرنی ہے.تو مائیں اپنے بچے سجا کر اس قربانی کے لئے خدا کے حضور پیش کریں گی ، بیویاں اپنے خاوند سجا کر پیش کریں گی.بہنیں اپنے لعل اپنے ویر سجا کر پیش کریں گی.تمہاری قربانیوں کی کیا حیثیت ہے خدا کے نزدیک؟ یہ قربانی ہے جو خدا کو مقبول ہوا کرتی ہے لیکن اس کے علاوہ میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں کہ تم نامراد اور رسوا ہو گے جس طرح پہلے تم اپنی ہر کوشش کے پھل سے محروم کئے گئے ہو یہ ذلت اور رسوائی بھی تمہارے مقدر میں لکھی گئی ہے کہ اس کوشش کے پھل سے بھی محروم کئے جاؤ.کیونکہ خدا تعالیٰ نے قرآن شریف کے شروع میں یہ وعدہ دیا ہے فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمْ وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمةٍ لَّا يُبْصِرُونَ ) (البقرہ: ۱۸) آگ بھڑکاتے ہیں دشمنیوں کی اور خباثتوں کی اور سمجھتے ہیں کہ شعلے بھڑک اٹھے ہیں اور اب ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب وہ سمجھیں گے کہ اب کامیابی ہمارا منہ چومنے لگی اور ہم کامیابی کو پاگئے ہیں.اس وقت اللہ تعالیٰ ان کا نور لے جائے گا اور ان کے مقاصد میں نامراد کر دے گا.وہ اندھیروں میں بھٹکتا ہوا اپنے آپ کو پائیں گے اور کوئی سمجھ ہی نہیں آئے گئی کہ ہم سے.
830 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء خطبات طاہر جلد۵ ہوا کیا ہے.پس اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا جہاں تک تعلق ہے اس کا تو یہ فیصلہ لکھا ہوا موجود ہے اس فیصلے کو تو آپ تبدیل نہیں کر سکتے ہیں جو چاہیں کر لیں.جہاں تک جماعت احمد یہ کے عمومی رد عمل کا تعلق ہے یہ میں آپ کو اصولاً بتا دیتا ہوں جیسا کہ میں نے بتایا کہ اللہ اپنے وفادار بندوں کے ساتھ بے وفائی نہیں کیا کرتا اور اللہ کے وفادار بندے بھی اپنے وفادار بندوں سے بے وفائی نہیں کیا کرتے.تم جو چاہو کرو جس ملک میں تمہارا زور چلتا ہے.خدا کی قسم ساری عالمگیر جماعت اپنے پیاروں سے وفا کر کے دکھائے گی اور جو کچھ قرآن کی تعلیم نے انہیں سکھایا ہے اسی طرح وہ اپنا انتقام لے گی.ایک ایک قطرہ کا انتقام لے گی لیکن اس اصول کے مطابق لے گی جو اصول قرآن کریم نے اس پر واضح کیا ہے اور جو خدا نے اسے سمجھایا ہے.مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ میں اس کی تفصیل تمہیں بتاؤں لیکن یہ میں جانتا ہوں اور خدا نے قرآن کا فہم جتنا مجھے عطا کیا ہے ہمارے سامنے کھلا اور روشن لائحہ عمل موجود ہے اور ایسا عظیم الشان لائحہ عمل ہے کہ اس سے ٹکرا کر تم پاش پاش اور ریزہ ریزہ ہو جاؤ گے لیکن کبھی تمہیں کامیابی نصیب نہیں ہوگی.اس لئے جہاں بھی احمدی مظلوم ہے ساری دنیا کے احمدی اس کے ساتھ ہیں، خدا کی تقدیر اس کے ساتھ ہے اس کو کیا خوف ہے اور تاریخ عالم اس کے ساتھ ہے.کسی قیمت پر بھی احمدیت کو نیست و نابود کرنے میں یہ ذلیل ورسوا دشمن کا میاب نہیں ہوسکتا.ان کو جلدی اور افراتفری صرف اس بات کی پڑی ہوئی ہے کہ باوجود اس کے کہ موجودہ سربراہ جس نے حکومت کو از راہ غصب قبضے میں لیا ہوا ہے یہ سمجھتے ہیں کہ اس کے دن کہیں تھوڑے نہ رہ گئے ہوں حالانکہ اس کے آقاؤں نے وعدہ کیا ہے کہ 1990ء تک تمہیں ضرور رکھیں گے.اس کے خداؤں نے یقین دلایا ہے اس کو کہ ابھی تمہارے چند سال باقی ہیں لیکن اس بد نصیب کو اپنے خداؤں پر یقین ہو یا نہ ہو ان مولویوں کو اس کے خداؤں پر بھی یقین نہیں ،اس پر بھی یقین نہیں.اس لئے یہ چاہتے ہیں کہ جس حد تک بھی ممکن ہو اس ظالم شخص کے دور کے اندر اور ہم جو کچھ کر سکتے ہیں ہم کر گزریں.اس لئے ان کو جلدی ہے.ان کو جلدی اس لئے ہے کہ دنیا کے خداؤں کا زمانہ محدود ہوا کرتا ہے.ان کی طاقت کا عرصہ، ان کی طاقت کا دائرہ بھی محدود ہوا کرتا ہے لیکن احمد یوں کو کوئی جلدی نہیں.
خطبات طاہر جلد۵ 831 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء دنیا میں تمہارے خدا کی طاقت کا دائرہ لازماً محدود ہے اس لئے تم بے شک جلدی کرو اور اس محدود دائرے میں جو کچھ کر سکتے ہو کر گزرو.تمہارے خدا کی کرسی کے دو پاؤں ایک ملک ہیں اور دو پاؤں بعض اسلام دشمن طاقتوں کے بیرونی ملکوں میں ہیں.لیکن ہمارے خدا کی کرسی تو زمین و آسمان پر محیط ہے وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ اس کی کرسی کے پائے ساری کائنات پر وسیع ہیں.تمہیں جلدی اس لئے ہے کہ اس کا وقت تھوڑا ہوگا کیونکہ دنیاوی خداؤں کی کرسیاں زیادہ دیران کے قبضہ میں نہیں رہا کرتیں.لیکن ہمیں کوئی جلدی نہیں کیونکہ ہمارے خدا کی کرسی ہمیشہ ہمیش کے لئے اس کے قبضہ میں ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس کرسی سے اس کو ہٹا نہیں سکتی ہے.جیسا کہ فرمایا وَلَا يَتُودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرہ: ۲۵۶) وہ نہ صرف یہ کہ اپنی کرسی کی حفاظت کرنا جانتا ہے بلکہ وہ حفاظت اس کو کبھی بھی نہیں تھکاتی.ایک لمحہ کے لئے بھی وہ اس حفاظت کے تقاضوں سے غافل نہیں رہتا.پس کہاں تمہارا خدا جس کا دائرہ اثر محدود اور جس کا زمانہ بھی محدود آج نہیں تو کل اس کی کرسی نے بہر حال جانا ہی جانا ہے.اس لئے جو افراتفری کے نمونے دکھاتے ہو، جو جلدی کرتے ہو کرتے چلے جاؤ.جماعت احمدیہ نے بہر حال جیتنا ہے آخر کار لا زم جیتنا ہے کیونکہ ہمارا خدا جیتنے والا خدا ہے ہمیں کوئی جلدی نہیں کیونکہ اس کی کرسی ساری دنیا پر ہی نہیں کل عالم پر، کل کائنات پر محیط ہے.اور ہمیں اس لئے جلدی کوئی نہیں کہ اس خدا کا وقت ہمیشہ ہمیش کے لئے ہے وہ ابد الا باد ہے اور ابد الآباد تک رہے گا پس ہم جس ابدی طاقت سے وابستہ ہیں ہم جانتے ہیں کہ ہمارے انتقام ہمارے بعد بھی وہ لیتا رہے گا.ضروری نہیں کہ ہر انتقام وہ ہماری زندگی میں خدا تعالیٰ لے.دیکھو ایک عبد اللطیف کو افغانستان میں تم نے شہید کیا تھا آج تک وہ بد نصیب قوم اپنے دکھوں کے ذریعہ اس شہادت کی قیمت ادا کرتی چلی جارہی ہے.تم کیسے سوچ سکتے ہو کیسے وہم کر سکتے ہو، کہ 30لاکھ احمدی مسلمانوں کو جو حقیقی اور سچے مسلمان ہیں جو بچے عاشق رسول ﷺے ہیں جو سچے عاشق قرآن ہیں، ان کا قتل و غارت کرو گے اور تم سے حساب نہیں لیا جائے گا.اس دنیا سے نکل جاؤ اور اس دنیا میں تم سے حساب لیا جائے گا لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ دونوں جگہ لیا جائے گا.یہاں بھی لیا جائے گا اور وہاں بھی لیا جائے گا اور بالآخر لازماً مومنوں کے سینے ٹھنڈے ہوں گے اور ہمیشہ ٹھنڈے رہیں گے.الله
خطبات طاہر جلد۵ 832 خطبہ جمعہ ۱۲؍ دسمبر ۱۹۸۶ء تمہارے دل میں جو آگ جل رہی ہے یہ جلتی رہے گی.تم تو بار بار آگ جلانے کی ہر کوشش کرتے ہو اور قرآن کریم کی یہ آیت بار بار تم پر ثابت ہوتی چلی جارہی ہے اور تم اقرار کرنے پر مجبور ہو جاتے ہو کہ اس آگ کے نتیجہ میں ہم جو یہ سمجھتے تھے کہ دشمن جل جائے گا.یعنی وہ جس کو دشمن سمجھ رہے ہیں اور ہمیں تسکین نصیب ہوگی وہ نہیں ہو سکی.جتنی کوششیں اب تک یہ جماعت احمدیہ کے متعلق کر چکے ہیں ہر کوشش کے بعد یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ وہ بات نہیں بنی ، وہ نتیجہ پیدا نہیں ہوا اور پھر ایک اور آگ لگ جاتی ہے دوبارہ کہ اب ہم ماریں گے.اب ہمیں چین آجائے گا اس سے زیادہ بڑھتے ہیں پھر وہ مارنے کی کوشش کرتے ہیں پھر بد نصیب رہتے ہیں اور چین نصیب نہیں ہوتا ہے اس لئے کہ ذَهَبَ اللهُ بِنُورِهِمُ الله ان کا نور لے جاتا ہے وَتَرَكَهُمْ فِي ظُلُمتٍ لَّا يَبْصِرُونَ اور ان کو ایسے اندھیروں میں چھوڑ دیتا ہے کہ ان کو کچھ سمجھ نہیں آتی کہ ہم سے ہوئی کیا؟ بظاہر ہم غالب آگئے تھے، بظاہر ہم کامیاب ہو گئے تھے مگر ہمیں تسکین نہیں ملی اور ہمارا دشمن جل کر خاکستر نہیں ہوسکا.یہ جو بار بار کی آگ لگتی ہے ان کے دل میں اور بار بار اس کو بجھا کر اپنے دل کو تسکین چاہتے ہیں ، ان کے مقدر میں یہ کبھی نہیں ہے.اس مسئلہ پر غور کرتے ہوئے قرآن کریم کی ایک اور آیت کا مفہوم بھی مجھےسمجھ آ گیا اور وہ وہی آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے یہ جو قرآن کریم میں بیان فرمایا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُمْ بَدَّلْنَهُمْ جُلُوْدًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ اتنا سخت فیصلہ کیوں فرمایا ؟ انسان کسی کو آگ میں ڈالتا ہے جلاتا ہے اس لئیکہ وہ سزاوار ہے اور اگر اس جلن اور تپش کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ اس کے اندر دفاعی طاقت پیدا ہو جائے یا دکھ کم محسوس کرنے لگے تو دوبارہ ان زخموں کو چھیلا تو نہیں کرتا.یہ کوشش تو نہیں کرتا کہ پھر اس کی جلد کچی کروں اور پھر اس کو سزا ہو یہ تو بہت ہی سخت انتظامی کا روائی ہے اور اللہ تعالیٰ منصف کامل ہے اور اللہ تعالیٰ تو خود عدل ہے.اس لئے کیسے اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں خود اس قدر سخت یعنی اس قسم کی کارروائی کی وعید دے رہا ہے، یہ مضمون میں سوچا کرتا تھا.اب مجھے سمجھ آئی کہ جس قسم کے لوگوں کے لئے وعید ہے ان کے لئے یہی عدل کا تقاضا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کو ایک دکھ دیتے ہیں اور اس دکھ کے نتیجہ میں جب وہ بندے اس دکھ کے عادی بن جاتے ہیں تو ان کے اندر ایک اور آگ بھڑک اٹھتی ہے جس طرح بندر اپنے زخم کھرچتا
خطبات طاہر جلد۵ 833 خطبہ جمعہ ۱۲/ دسمبر ۱۹۸۶ء رہتا ہے اور کبھی مندمل نہیں ہوتے.ان کے انتقام کا جذ بہ مندمل ہی نہیں ہوتا ہے اور یہ پھر اپنے انتقام کے زخم کھرچتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں دوبارہ پھر ایسی سزا دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ دوبارہ مومن کو تکلیف ہو ان کی ساری زندگیاں تعذیب کیلئے وقف ہیں.آنحضرت علیہ رحمۃ للعالمین تھے.ایسے لوگ وہ ہیں جو زحمۃ للعالمین ہوتے ہیں جن کو لطف ہی عذاب دینے میں آتا ہے.اس کے سوا لطف ہی نہیں آتا اور ہر عذاب کے بعد دوسرے عذاب کی سوچتے ہیں.اگر خدا واقعہ عدل ہے اور وہ مجرم کو اس کے کیفر کردار تک پہنچاتا ہے اور اسی طریق پر اس سے سلوک کرتا ہے جس طرح وہ خدا کے معصوم بندوں سے سلوک کرتا رہا تو ان کے لئے اس کے سوا کوئی نقشہ بنتا ہی نہیں کہ اس دنیا میں تم میرے پیاروں سے یہ سلوک کیا کرتے تھے.اب حق ہے میرے پیاروں کا مجھ پر کہ میں تم سے وہ سلوک کروں.پس کوئی نا انصافی نہیں کلام الہی میں.یہ ان لوگوں کی سزا ہے صرف جو خدا کے بندوں کو دکھ دینے میں اعادہ کرتے چلے جاتے ہیں اور خصوصیت سے ان کی سزا کا ذکر ہے.تو تم اس دنیا میں بھی ہارے ہوئے ہو اور اس دنیا میں بھی ہارے ہوئے ہو اور خدا کی قسم ہم اس دنیا میں بھی کامیاب ہیں اور بفضلہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی کامیاب ہوں گے.
خطبات طاہر جلد۵ 835 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء کم سن بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری کم عمر بچے کسی تنظیم کے سپردنہ کرنے کی حکمت (خطبه جمعه فرموده ۱۹ / دسمبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَيكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُونَ ) (التحریم:۷) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں مومنوں کو اس امر کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے اور بڑی قوت اور زور کے ساتھ محض نصیحت کے رنگ میں نہیں بلکہ انذار کے رنگ میں اس امر کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنی اولادوں کو آگ کے عذاب سے بچاؤ وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ ایسی آگ کے عذاب سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان بھی ہوں گے اور پھر بھی.عَلَيْهَا مَلَئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمُ
خطبات طاہر جلد ۵ 836 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء اس آگ پر خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسے فرشتے نگران مقرر ہیں جو بہت ہی مضبوط ہیں اور بہت ہی سخت ہیں لا يَعْصُونَ اللهَ مَا اَمَرَهُم وہ اللہ کے فرمان سے سرمو بھی انحراف نہیں کرتے.وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ اور جو کچھ ان سے کہا جاتا ہے وہ اسی طرح کرتے ہیں.اس خطبہ کے لئے جس کے لئے میں اس وقت کھڑا ہوں میرا ارادہ تھا کہ تربیتی مضمون اختیار کروں کیونکہ بار بار بعض تربیتی پہلو ایسے ہیں جن کا جماعت کو بتانا اور اس کی یاددہانی کروانا بہت ضروری ہو جاتا ہے.وقتاً فوقتاً مختلف قسم کے مضامین میں چنتا ہوں اور پھر کوشش کرتا ہوں کہ ان کے کچھ پہلوؤں پر اچھی طرح روشنی ڈالوں.کچھ پہلو بچ جاتے ہیں پھر ان کو میں آئندہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں اور وقتی ضروریات کے خطبے بھی بیچ میں آتے رہتے ہیں.بہر حال اس مرتبہ میں نے یہی ارادہ کیا تھا کہ تربیت سے متعلق جو عمومی رنگ ہے اس کے او پر میں کچھ بیان کروں گا لیکن اس عرصہ میں پشاور سے ہمارے ایک احمدی مخلص دوست جو خود احمدی ہوئے ہیں.جوانی سے ذرا آگے بڑھ کر درمیان کی جو عمر ہے اس میں اور بڑا عملی ذوق رکھتے ہیں نفسیات ان کا مضمون رہا ہے، جماعتی دینی معاملات میں سوچ بچار پر ان کے نفسیات کے مضمون کا بھی اثر پڑتا رہتا ہے ان کی طرف سے ایک ایسے ہی مضمون سے متعلق خطبہ دینے کے لئے یا جماعت کو عمومی نصیحت کرنے کے لئے مجھے متوجہ کیا گیا ہے اور نصیحت کا ایک خاص پہلو ہے جو ان کے پیش نظر تھا.ان کو چونکہ سوچ بچار کی عادت ہے مختلف تربیتی مسائل پر غور کرتے رہتے ہیں اس لئے وہ لکھتے ہیں کہ میں نے جماعتی نظام پر بہت غور کیا اور کرتارہتا ہوں اور جتنا غور کیا میں حیرت میں ڈوبتا چلا گیا کہ حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے کیسا عظیم الشان اور کامل تربیتی نظام قائم کرنے کی توفیق بخشی ہے لیکن ایک پہلو ایسا ہے جس کے متعلق میرا ذہن پوری طرح مطمئن نہیں ہو سکا اور بار ہا خیالات میرے دل کو کریدتے رہے کہ یہ پہلو کیوں تشنہ ہے اور وہ ہے پیدائش سے لے کر سات سال کی عمر تک بچوں کو کسی نظام کے سپردنہ کرنا.وہ لکھتے ہیں کہ انسانی عمر کے جو مختلف ادوار میں نفسیاتی لحاظ سے سب سے اہم دور یہ ابتدائی دور ہے اس دور میں بچہ جو سیکھ جائے وہ سیکھ جاتا ہے اور پھر مزید سیکھنے کی اہلیت اس میں پیدا ہو جاتی ہے اور اگر اس دور میں کسی پہلو سے اس کی تعلیم میں تشنگی رہ جائے تو بسا اوقات بڑی عمر میں جا کر وہ تشنگی پوری ہو ہی نہیں سکتی اور وہ پہلو ہمیشہ کے لئے ایک خلا بن
خطبات طاہر جلد۵ 837 خطبه جمعه ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء جاتا ہے جس طرح بعض دفعہ شیشہ ڈھالتے وقت اندر بلبلے رہ جاتے ہیں اس طرح انسانی دماغ میں بھی بعض علمی پہلوؤں سے بلبلے رہ جاتے ہیں اور یہ بات ان کی درست ہے.میں نے بھی جہاں تک مطالعہ کیا ہے بعض سائنسدان تو اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ چھوٹی عمر میں ہی اگر زبان سکھائی نہ جائے اور لمبا خلا مثلاً سات آٹھ سال تک مسلسل خلا چلا جائے تو اس کے بعد بچہ کوئی زبان سیکھ ہی نہیں سکتا.یعنی پھر جتنا چاہیں آپ زور لگا ئیں جتنی چاہیں کوشش کر لیں وہ مستقل خلاء پیدا ہو جائے گا.اسی طرح بعض علوم یا بعض ذوق ایسے ہیں جو بچپن میں پیدا نہ ہوں تو پھر آگے پیدا نہیں ہوتے.تو ان کو یہ خیال آیا کہ کیوں ان کو کسی تنظیم کے سپرد نہیں کیا گیا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس عمر میں بچے ماں اور باپ کے سپرد ہیں اور اس پہلو سے قرآن کریم بھی روشنی ڈالتا ہے اور احادیث میں بھی کثرت سے اس کا ذکر ملتا ہے.ہاں ان کو اس طرف متوجہ کرنے کی ضرورت ہے ، بار بار یاد دہانی کی ضرورت ہے.چند لمحات کے بعد بچے کے کان میں اذان دینا اور دوسرے کان میں تکبیر کہنا یہ ایک بہت ہی عظیم الشان اور گہرا حکم ہے اور یہ بتانے کے لئے ہے کہ بچے کی عمر کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جو تربیت سے خالی رہے اور کوئی لمحہ ایسا نہیں ہے جس کے متعلق تم جوابدہ نہیں ہو گے.عملاً جب ہم اذان دیتے ہیں تو بچہ تو اس اذان کے لئے جوابدہ نہیں ہے نہ اس تکبیر کے لئے جوابدہ ہے نہ ان باتوں کو سمجھ رہا ہے.ماں باپ کو متوجہ کیا جارہا ہے جوابدہ تم نے پہلے دن سے دینی رنگ میں تربیت کرنی ہے.اگر نہیں کرو گے تو تم جوابدہ ہو گے اس میں اور بھی بہت سی حکمتیں ہیں لیکن ایک بڑی اہم حکمت یہ ہے.تو قرآن کریم میں جب فرماتا ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيْكُمُ نَارًا تو اس میں جہاں تک اولاد کا تعلق ہے یہ بچانے کا عمل پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور اگر سات سال کی عمر خصوصیت کے ساتھ اہمیت رکھتی ہے جیسا کہ سائنسدان کہتے ہیں اور بعض فرق بھی کرتے ہیں بعض سات سال کو کچھ بڑھا دیتے ہیں بعض کچھ کم کر دیتے ہیں لیکن عموماً اس پر یہ اتفاق ہے کہ سات سال کے لگ بھگ عمر بہت ہی اہمیت رکھتی ہے وہاں پہنچ کر بچہ نفسیاتی لحاظ سے پختگی میں داخل ہو جاتا ہے یعنی پختگی کی جانب قدم اٹھانے لگتا ہے تیزی سے اور وہ کچی عمر نفسیاتی جواثر کو قبول کرنے والی عمر ہوتی ہے وہ سب سے زیادہ حساس سات سال سے پہلے پہلے ہی ہے.
خطبات طاہر جلد۵ 838 خطبه جمعه ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء اس لئے جہاں تک اس کی اہمیت کا تعلق ہے اس سے تو کوئی انکار نہیں ہے لیکن جب ہم آنحضرت ﷺ کے ارشادات کو دیکھتے ہیں تو جہاں تک فرائض کا تعلق ہے ان کا آغاز سات سال کی عمر سے نرمی کے ساتھ ہوتا ہے اور تربیت کا جو ظاہری رسمی دور ہے وہ سات سال کے بعد ہی شروع ہوتا ہے.دس سال کی عمر کے بعد بچوں کو مارنے کی اجازت بھی مل جاتی ہے اور بارہ سال کی عمر کے بعد پھر ان کو اتنا پختہ سمجھا جاتا ہے کہ اب وہ بالکل آزاد ہیں نصیحت کرو لیکن ان پر ہاتھ نہیں اٹھانا.جو کچھ تم نے کرنا تھا تم کر چکے ہو اس خیال سے جماعتی نظام میں اطفال کی عمر سات سال کے بعد مقرر کی گئی کیونکہ آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے اس عمر کی یہ اہمیت تو بہر حال مالتی تھی کہ اس کے بعد تربیت رسمی طور پر بھی باقاعدہ شروع کر دی جائے لیکن دوسرے ارشادات سے یہ پتہ چلتا ہے کہ تربیت کا دور پہلے بھی جاری تھا.اس کے کچھ اور پہلو ہیں اور اس دور کے بعد کچھ اور پہلو ہیں.اس نقطۂ نگاہ سے جب ہم مزید غور کرتے ہیں تو بعض اور ایسے ارشادات نظر آتے ہیں جس کا اس مضمون سے تعلق ہے مثلاً بچے کی خیار کی عمر کیا ہے؟ یہ ایک ایسی بحث ہے جو فقہاء میں چل رہی ہے کہ اگر بچے سے یہ پوچھنا ہو کہ تم نے ماں کے پاس رہنا ہے یا باپ کے پاس جانا ہے علیحدگی کی صورت میں تو وہ کون سی عمر ہے.بہت سے فقہاء سات سال کی عمر بتاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جونو سال یا دس سال کی عمر بتاتے ہیں لیکن سات سال سے کم نہیں کوئی بتاتا ہے.سات سال کا یقینا کوئی تعلق ضرور ہے اور سات سے دس سال کی عمر اس لحاظ بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے کہ یہ ایک موڑ کا دور ہے.سات سال سے پہلے کچا دور ہے اثر پذیر ہونے کا.سات سال کی عمر تک اپنے فیصلے کا کچھ نہ کچھ اختیار بچے کو ہو جاتا ہے، کچھ شعور پیدا ہو جاتا ہے اور اسی لئے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ سات سال کی عمر سے اس کو نصیحت کر کے نمازیں پڑھاؤ (ابو داؤد کتاب الصلوۃ حدیث نمبر : ۴۱۷) عبادات کے مزے چکھانے شروع کر دو.معلوم ہوتا ہے اس میں یہ فیصلے کی قوت پیدا ہو چکی ہے کہ ہاں میں نے کچھ کرنا ہے.اس لئے اس اختیار سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس کو بتانا شروع کر دو لیکن Passive یعنی ایسے رنگ میں اثر کو قبول کرنا کہ جس میں ارادے کا نمایاں دخل نہ ہو یہ عمر جتنی چھوٹی ہو اتنا ہی اس عمل میں زیادہ شدت پائی جاتی ہے.اس لئے جتنا چھوٹا بچہ ہو اتنا زیادہ اثر پذیر ہوتا ہے قوت فیصلہ کے ذریعہ نہیں بلکہ طبعی طور پر Instinctive طور پر.وہ جب ماں باپ
خطبات طاہر جلد۵ 839 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء کو مسکراتے دیکھ رہا ہوتا ہے تو بعض دفعہ ماں باپ کی مسکراہٹ کی ایک جھلک بلا ارادہ اس کی مسکراہٹ میں اس طرح داخل ہو جاتی ہے کہ وہ بڑھاپے تک قائم رہتی ہے.ماں باپ کی باتیں کرنے کا طریق ، ان کے غصے کا اظہار کیسے ہوتا ہے، وہ خوش کیسے ہوتے ہیں.یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو بچہ قبول کر رہا ہے لیکن ارادہ کے ساتھ نہیں کر رہا اور چونکہ ارادے کے ساتھ نہیں کر رہا اس لئے ایک طبعی فطری عمل کے طور پر چیزیں اس کے اندر داخل ہورہی ہیں.جو چیز میں اس دور میں طبعی فطری عمل کے طور پر اس کے اندر داخل ہو جائیں بعد میں ان کو بالا رادہ طور پر ڈھال لینا اور ان کو زیادہ خوبصورت بنادینا یہ ممکن ہے لیکن جو اس عمر میں اس کے اندر داخل ہی نہ ہوئی ہیں وہ خلا ہیں جو پھر بعد میں بھرے نہیں جاسکتے.اس لئے جب ہم سات سال کی عمر سے پہلے بچے کو تنظیموں کے سپرد نہیں کرتے ہیں تو دوسری حکمتوں کے علاوہ ایک حکمت یہ ہے کہ آنحضرت علی نے ارادے کو ڈھالنے کے لئے تو اجازت دی ہے اس طرح کیونکہ شریعت میں اپنا ارادہ شامل ہونا ضروری ہے.شریعت میں صرف دوسرے کا ارادہ کافی نہیں ہے.اس لئے جہاں شرعی فرائض یا منا ہی آجاتے ہیں وہاں سات سال سے پہلے بچے کو احکام جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے.ایسے احکام جاری کرنے کی اجازت نہیں ہے جن احکام میں اس کے ارادے کا دخل ہو پس یہ وہ فرق ہے جس کوملحوظ رکھنا چاہئے.دوسری اہمیت اس بات کو بہت ہے کہ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ماں باپ کے سوا کسی دوسرے کے زیر اثر لانا یہ خود ایک غیر نفسیاتی حرکت ہے.اگر آپ بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ان کے ماں باپ سے علیحدہ کر دیں یا ماں باپ کے متعلق یہ سمجھیں کہ ان کو ان بچوں کی تربیت کا حق نہیں بلکہ اس سے زیادہ کسی تنظیم کو حق ہے تو یہ عملاً اشتراکیت کی طرف ایک نہایت ہی سنگین قدم ہے اور واقعہ اشترا کی نظریہ کے ساتھ اس کا گہرا جوڑ ہے.یعنی ایسا نظریہ جو سطحی اشتراکیوں کا نظریہ نہیں بلکہ جوان کے فلسفے کی جان ہے اس نظریے کی روح سے اگر آپ دیکھیں تو ان کے نزدیک سوسائٹی بالغ ہی تب ہوگی جب پہلے دن کا بچہ بھی سٹیسٹ کے زیر اثر آجائے.وہ فلسفہ یہ کہتا ہے کہ جب ماں اور باپ بچوں پر اثر ڈالنا شروع کریں ابتدائی عمر میں اس کے بعد سٹیٹ پھر اپنی مرضی میں ان کو پوری طرح ڈھال ہی نہیں سکتی ہے.وہ بھی یہ جانتے ہیں، اس
خطبات طاہر جلد۵ 840 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء حقیقت سے واقف ہیں کہ ابتدائی دور بہت اہمیت رکھتا ہے.اس لئے وہ کہتے ہیں کہ پہلے دن کا بچہ ہی سٹیٹ کا بچہ ہے ، ماں باپ کا ہے ہی نہیں اور ماں باپ کا ہونا یہ ایک تصور پایا جاتا ہے کہ اس ماں باپ کا بچہ ہے، اس تصور کی جڑ ضرور کاٹنی ہے.اس لئے شادی کا نظام ہی اٹھ جانا چاہئے.یہ ہے ان کی آخری تھیوری یعنی اس نظریے کا آخری قدم.مذہبی سوسائٹی میں جب وہ باتیں کرتے ہیں تو اس طرح پوری تفصیل سے وہ اپنے اس نظریے سے واقف نہیں کرواتے.ان کو یہ ڈر ہے کہ اگر مثلاً پاکستان کے غرباء میں خواہ وہ کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں یہ بتایا جائے کہ بالآخر جب تم کیمونسٹ ہو جاؤ گے اور اشتراکیت کا یہاں قبضہ ہو جائے گا ہم یہ سلوک تم سے کریں گے، تمہارا شادی کا نظام ختم کر دیں گے تمہیں اپنے بچوں کا پتہ بھی نہیں لگنے دیں گے ہسپتالوں میں جا کر بچے کرواؤ گے اور ہسپتالوں کے جو بچے ہیں وہ حکومت اٹھالے گی.ماں کو فارغ کر کے پھر کارخانے بھیج دیا جائے گا یا جہاں بھی اس کو بھجوانا ہوگا.یہ ایسا بنیادی نظریہ ہے جس کو ٹالا نہیں جا سکتا ہے.جب پوچھا جائے کہ آپ اس پر عمل کیوں نہیں کر رہے تو کہتے ہیں کہ ابھی ہم پختہ نہیں ہوئے ،ابھی اشتراکیت کا بہت سا حصہ ایسا ہے جو عمل کی دنیا میں نہیں ڈھالا گیا ہے کیونکہ ہم ابھی اس کو پوری طرح قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوئے.لیکن لازما آخری قدم یہ اٹھنا ہے ورنہ اس کے بغیر اشتراکیت کا نظام مستحکم نہیں ہوسکتا ہے، اس کے اندر تضادات رہ جائیں گے.تو اس پہلو سے بھی دیکھا جائے تو سات سال تک کی عمر کی اہمیت یعنی پہلے دن کے بچے کی اہمیت ان لوگوں کے ذہن میں بھی واضح ہے لیکن اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ کلیہ بچوں کو اپنالو یعنی نظام کے سپر د کر دو.ہاں ماں باپ کے اوپر ذمہ داریاں بڑھا تا چلا جاتا ہے اور ان کو بار بار توجہ دلا تا چلا جاتا ہے.اسلام میں چونکہ عائلی نظام ہے اور عائلی نظام کا اس سوشلسٹ تصور سے ایک براہ راست ٹکراؤ ہے ، بیک وقت دونوں قائم نہیں رہ سکتے.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ جو دین کی گہری فراست رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی تائید اور ہدایت کے تابع خواہ وہ لفظوں میں ہو یا عملاً ہو ، اس کے تابع جماعت احمد یہ کیلئے ایک اصلاح کا نظام قائم فرمارہے تھے اور چونکہ آپ کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان مقبول دعاؤں کا سایہ تھا جو آپ کی پیدائش سے بھی پہلے کی گئی تھیں اور آپ کی پیدائش سے بھی پہلے ان کی مقبولیت کے متعلق آپ کو کھلے لفظوں میں مطلع کر دیا گیا تھا کہ جس طرح کا تم چاہتے ہو ویسا
خطبات طاہر جلد۵ 841 خطبه جمعه ۱۹ ؍ دسمبر ۱۹۸۶ء ہی بیٹا میں تمہیں عطا کروں گا.اس لئے حضرت مصلح موعودؓ سے اس بنیادی معاملہ میں غلطی ہو ہی نہیں سکتی تھی.یہ حکمت تھی سات سال کے بعد بچوں کو نظام کے سپرد کرنے کی اس سے پہلے دخل دینے کی اجازت نہ دینے کی اور اس نظام کو جو بڑے گہرے شرعی فلسفے پر مبنی ہے کوئی خلیفہ بھی آئندہ تبدیل نہیں کر سکتا لیکن جوان کو خلا نظر آرہا ہے وہ خلا اپنی جگہ موجود ہے اس کی طرف توجہ دلا نا خلفاء کا کام ہے اور ماں باپ کو یاد دہانی کروانا جن کے بچے ہیں اور جن کے سپرد ہیں اور جو پوچھے جائیں گے جن کے متعلق قرآن کریم کا حکم ہے قُوا أَنْفُسَكُمْ وَاَهْلِيكُمْ نَارًا اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو آگ کے عذاب سے بچاؤ.تو سوسائٹی ان بچوں سے زیادہ پیار رکھتی ہے زیادہ ، ہمدردی رکھتی ہے، زیادہ ان پر حق رکھتی ہے، بہ نسبت ان کے جنہوں نے بچپن کے زمانہ میں بڑی مصیبتیں جھیل کر اور بڑی قربانیاں دے کر اپنی اولا د کو پروان چڑھایا ہے جو ان کے خون سے بنے ہیں ، ان کی ہڈیوں کے حصے ان میں داخل ہوئے ہیں.ان کے عملاً جگر گوشے ہیں ان سے ان کو الگ نہیں کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی ذمہ داریوں کی طرف ان کو متوجہ کیا جا سکتا ہے.پھر یہ زمانہ محنت طلب بہت ہے.اس وقت سوسائٹی کی نظر میں جو بچے ہیں چھوٹی عمر کے بچے ان کو تو بچے صرف اس وقت اچھے لگتے ہیں جب وہ تیار ہوکر سج دھج کر باہر نکل آئیں جب وہ بیمار نہ ہوں ، جب وہ ضد نہ کر رہے ہوں، جب وہ شور نہ مچارہے ہوں ، جب کوئی چیز نہ تو ڑ رہے ہوں اس وقت وہ سوسائٹی کو بڑے پیارے لگتے ہیں.جب ان میں سے کوئی حرکت شروع کر دیں تو دیکھنے والوں کے اچانک تیور بدلنے لگتے ہیں.آپ کے گھر میں بچہ کسی دوست کا آجائے تو آپ دیکھیں آپ کو کتنا پیارا لگے گا اگر وہ بڑا سجا دھا اچھی اچھی باتیں کر رہا ہے لیکن جس وقت اس نے آپ کے گلدان پر توڑنے کے لئے ہاتھ ڈالا تو پھر دیکھیں آپ کے تیور کیسے بدلتے ہیں.جس وقت اس کا کوئی فضلہ نکلا ، بد بو پھیلی اور پھر اسی حالت میں کرسیوں پر بیٹھنے لگا یا کھانے میں ہاتھ ڈال کر اس نے آپ کے کپڑوں سے ملنے کی کوشش کی پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ بچے کیا ہوگا.اس عمر میں بچوں کو غیروں سے سپر د کر دینا جو اتنا حوصلہ ہی نہیں رکھتے کہ ان کے منفی پہلوؤں میں بھی حوصلے کے ساتھ چل سکیں جن میں استطاعت ہی نہیں ہے کہ وہ ان کے تکلیف دہ حصوں کو
خطبات طاہر جلد۵ 842 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء کشادہ پیشانی کے ساتھ اور مسکراہٹ کے ساتھ برداشت کرسکیں.یہ تو ماؤں کا جگرا ہے کہ رات کو بھی اٹھتی ہیں اور ان کی ہر مصیبت اور ہر تکلیف کے وقت ان کا ساتھ دیتیں اور ان کو صاف ستھرا بناتی.جب وہ تیار ہو کر باہر آجائیں تو ان سے پیار کر لینا یہ تو کوئی اتنی بڑی انسانیت نہیں ہے یہ تو ایک طبعی اور فطری چیز ہے پھول سے بھی تو آپ پیار کر لیتے ہیں.کانٹے سے پیار، یہ ہے امتحان اور اس امتحان پر مائیں پورا اترا کرتی ہیں یا باپ پورا اترتے ہیں کسی حد تک.سوسائٹی اس بات کی اہل ہی نہیں ہے کہ وہ اس حالت میں ان بچوں کو پکڑے.جب شعور کی دنیا میں وہ داخل ہور ہے ہو نگے پھر وہ آپ کی دنیا ہو جائے گی پھر آپ بھی شعور کی دنیا میں رہنے والے ہیں آپ ایسی باتیں ان سے کر سکتے ہیں جس کی زبان وہ سمجھیں اور اس زبان میں وہ آپ کو جواب دیں.پس اسلام کا نظام ایک بہت ہی گہرا اور مستحکم نظام ہے اس میں خلا کوئی نہیں ہے لیکن ذمہ داریاں الگ الگ ہیں اور معین کی گئی ہیں.اس لئے جہاں تک اس ضرورت کا تعلق ہے جو ہمارے اس مخلص دوست کو محسوس ہوئی ہے اس سے ایک ذرہ کا بھی مجھے اختلاف نہیں.ہاں جو طرزان کے ذہن میں ابھری اس سے مجھے اختلاف ہے جس کے دلائل میں نے بیان کئے کہ کیوں اختلاف ہے.لیکن میں ماں باپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پر بہت بڑی ذمہ داری ہے خصوصاً ایسے علاقوں میں بسنے والے ماں باپ پر جیسے یہ علاقہ ہے جہاں ہم آج کل بس رہے ہیں اور آج کل زندگی کے دن گزار رہے ہیں ، جیسے یورپ کی اور ریاستیں ہیں، جیسے مشرق بعید کی بعض ریاستیں ہیں جیسے ہندوستان کے بعض علاقے ہیں.ان سب علاقوں میں غیر معمولی طور پر غیر اسلامی قدرمیں غالب ہیں.سکول جانے کی بچے کی جو عمر ہے وہ سات سال سے پہلے شروع ہو جاتی ہے اور اس عمر میں جو نہایت ہی حساس عمر ہے یعنی چار سال یا ساڑھے چار سے لے کر سات سال کا زمانہ یہ خصوصیت کے ساتھ خطرے کی گھنٹی بجاتا ہے.جو بچے وہاں ننگے بچوں کو کھیلتے دیکھتے ہیں ننگی لڑکیوں کو نہاتے دیکھتے ہیں اور اس قسم کی بہت سی حرکتیں ناچ گانے.آپ یہ نہ سمجھیں کہ وہ بچے ہیں ان کے اوپر بہت ہی گہرے اثرات مترتب ہورہے ہیں اور بعض دفعہ اس رنگ میں احساسات ان کے ذہنوں کے نقش و نگار بن رہے ہوتے ہیں کہ بعد میں آپ کھر چنے کی کوشش کریں تو زندگی کھرچی جاسکتی ہے مگر وہ نقش و نگار نہیں کھر چے جاسکتے ہیں.مستقلاً انکے نفسیاتی وجود کا ایک حصہ بن چکے ہوتے ہیں جس طرح کسی
خطبات طاہر جلد۵ 843 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء سانچے میں کوئی چیز پچھلی ہوئی ڈال دی جائے جب وہ جم جائے گی تو پھر توڑی جاسکتی.ہے پھر وہ ڈھالی تو نہیں جاسکتی اس لئے نہایت ہی اہم دور ہے اس دور میں ماں باپ کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ وہ ایسے بداثرات کے مقابل پر بالا رادہ نیک اثرات پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس میں ان کے لئے بہت سے ایسے پہلو ہیں جن پر ان کو خود عمل کرنا پڑے گا.اپنی زندگی کی نہج بدلے بغیر وہ اس عمر میں بچے پر نیک اثر نہیں ڈال سکتے.وہ سننے سے زیادہ دیکھ کر اثرات قبول کر رہا ہے.سن کر بھی کرتا ہے تو لاشعوری طور پر کر رہا ہے.سمجھ کر نہیں کر رہا طبعا فطرتا جس کو Instinct کہتے ہیں Instinct کے ذریعہ جو چیز اس کو اچھی لگ رہی ہے وہ اسے قبول کر رہا ہے اور Instinct کے ذریعہ جو چیز سے بری لگ رہی ہے وہ اس سے دور ہٹ رہا ہے.کھانے کے معاملہ میں آپ دیکھ لیں اس عمر میں آپ بچے کو لاکھ کوشش کریں گے کہ یہ چیز اچھی سے یہ کھاؤ وہ کہے گا کہ نہیں مجھے نہیں اچھی لگتی لیکن جب وہ سات سال یا اس سے بڑا ہو جائے یا کم و بیش اس عمر کو پہنچے تو پھر وہ بات کو سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہاں میں کوشش کرتا ہوں اور کچھ دیر کوشش کے بعد اس کو اچھی بھی لگنے لگ جاتی ہے بعض بیوقوف مائیں جو چیز ان کے نزدیک اچھی ہوتی ہیں وہ بچے کو مار مار کے کھلا رہی ہوتی ہیں یہ سوچ ہی نہیں سکتیں کہ یہ بہت بھیانک حرکت ہے.بعض دفعہ اس سے ہمیشہ کے لئے نفرت پیدا ہو جاتی ہے بعض دفعہ نفسیاتی بیماریاں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں اس لئے ہرگز کبھی ایسی حرکت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے.تو زبردستی کی عمر بہر حال نہیں، پیار کی عمر ہے اور پیار کی عمر بھی ایسی کہ دلکشی کی عمر ہے اگر آپ دلکشی کے ذریعہ سے اس بچے کی فطرت پر اثر انداز ہوں گے تو بچہ اثر کو قبول کرے گا.بھیانک بن کر آپ اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتے.طوعا و کرھا دو ہی پہلو ہیں.اسکو بھیا نک بنیں تو دور بھاگے گا ہر اس قدر سے جس کے لئے آپ بھیانک بن کر کوشش کرتے ہیں اس میں آپ نا کام ہو جائیں گے اور دور بھاگے گا.اس چیز سے جس کی طرف آپ اس کو لانا چاہتے ہیں اس کو پیار ہونا ضروری ہے اور وہ دلکشی سے ہوسکتا ہے زبر دتی کا پیار کبھی ممکن ہی نہیں ہے.اس کے لئے ماں باپ کو بڑی ذہانت کے ساتھ اور بیدار مغزی کے ساتھ اپنے بچوں میں اس عمر میں دلچسپی لینی چاہئے.اگر نماز کی محبت پیدا کرنی ہے تو اگر اپنے ماں باپ کو سج دھج کر با قاعدہ پیار کے ساتھ ، سلیقہ کے ساتھ نماز پڑھتے دیکھیں گے تو شروع میں ہی بیشتر اس کے کہ وہ سکول جانے
خطبات طاہر جلد۵ 844 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء لگیں ان کے دل میں نماز کی محبت پیدا ہو چکی ہوگی اگر بعض اور آداب دیکھیں گے تو ان کے دل میں بھی ان کا پیار پیدا ہو چکا ہوگا.ٹیلیویژن کے پروگرام ہیں ان کے متعلق بہت سی باتیں کہنے والی ہیں وہ بعد میں کسی وقت انشاء اللہ وقت ملا تو کہوں گا.لیکن اس میں بھی اختیار کی باتیں ہیں شروع میں چھوٹی عمر میں آپ ان کو ٹیلیویژن سے نوچ کر الگ تو پھینک نہیں سکتے لیکن کس حد تک ٹیلیویژن دیکھنے دینا ہے، کیا دیکھنا ہے ان کے ساتھ بیٹھ کر کیا تبصرے کرنے ہیں.کس طرح فطرتا آہستہ آہستہ بعض اچھی چیزوں کا پیار بڑھانا ہے بعض بری چیزوں سے روکنا ہے.یہ تو ایک بہت ہی گہرا حکمت کا کام ہے بڑی جان سوزی بھی چاہتا ہے اور دماغ سوزی چاہتا ہے اور ان سارے امور میں قرآن کریم اور سنت نبوی نے ہمارے لئے راستے روشن کئے ہوئے ہیں.کوئی ایک بھی راستہ ایسا نہیں ہے ایک بھی ڈنڈی ایسی نہیں جس پر آپ قدم رکھنا چاہیں اور اندھیرے آپ کو ڈرائیں اگر آپ نے قرآن اور سنت کا مطالعہ کیا ہو کیونکہ جہاں بھی اور جس ڈنڈی پر بھی آپ قدم رکھنا چاہیں گے وہاں قرآن اور سنت کی کوئی نہ کوئی مشعل روشن ہوگی وہ آپ کی رہنمائی کر رہی ہوگی.تو اس لئے میں نے یہ سوچا کہ چونکہ بہت سے ماں باپ بلکہ اکثر ماں باپ ان باتوں میں خود نابلد ہیں کہ ان کو کیا کرنا چاہئے اور اس بات کی اہلیت نہیں رکھتے اور بچوں کی تربیت ہم براہ راست کر نہیں سکتے اس لئے اس کا ایک ہی علاج ہے کہ اس عمر کے بچوں کی تربیت کے لئے ماں باپ کی تربیت کی جائے اور اس کے لئے یہ کام ہم تنظیموں کے سپرد کر سکتے ہیں.یہ پروگرام انصار اپنے ہاتھ میں لیں ، خدام اپنے ہاتھ میں لیں اور بجنات اپنے ہاتھ میں لیں.ان کا کام یہ نہیں ہے کہ بچوں کے معاملہ میں والدین کے کام میں براہ راست دخل دیں بلکہ ایسے پروگرام بنا ئیں جو جلسوں کی شکل میں بھی ہوں عملی پروگراموں کی شکل میں بھی ہوں اور تربیتی رسالوں اور کتب کی شکل میں بھی ہوں اور ان کا صطح نظر یہ ہو کہ ہم نے ماں باپ کی تربیت کرنی ہے کہ وہ چھوٹے بچوں کی تربیت کر سکیں اور ایسے پروگرام اس طرح بنانے چاہئیں کہ وہ خشک نہ ہوں ان میں دلچسپی ہو.بعض ماؤں کو اللہ تعالیٰ نے بڑا سلیقہ دیا ہوتا ہے بچوں کی تربیت کا اور وہ گہری نظر کے ساتھ مطالعہ بھی کرتی چلی جاتی ہیں.اس طرح بعض باپوں کو بھی اللہ تعالیٰ خاص شعور بخشتا ہے اور اس قسم کے واقعات تاریخ انبیاء میں بھی پھیلے
خطبات طاہر جلد۵ 845 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء پڑے ہیں.قرآن کریم نے انبیاء کی جو تاریخ محفوظ کی ہے اس میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں.اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کی سیرت میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں اور خود آپ کے بچپن میں یہ واقعات پھیلے پڑے ہیں آپ اگر اپنے بچپن کی یادیں تازہ کریں کسی دن تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ جب بہت چھوٹے ہوتے تھے تو کن چیزوں نے آپ پر بد اثرات ڈالے تھے اور کن چیزوں نے آپ پر نیک اثرات ڈالے تھے.کون سی چیزیں جن کی یاد میں آج بھی دل مہک اٹھتا ہے اور وہ آپ کے بعض نیکیوں کے ساتھ متعلق ہیں.قرآن کریم جو فرشتے مقرر فرماتا ہے ان کا ایک نہایت ہی لطیف نظام ہماری فطرت کے اندر جاری ہے.ہم اکثر اس کو محسوس نہیں کرتے ہیں اگر آپ بیدار مغزی کے ساتھ ان فرشتوں سے تعلق جوڑنے کی کوشش کریں تو آپ کا تعلق ان سے قائم بھی ہوسکتا ہے.ہر انسان کے اندر کچھ خوبیاں ہیں، کچھ بدیاں ہیں اور ان کی ایک تاریخ اس کے ذہن میں محفوظ چلی آرہی ہے.اگر اس کو اپنے اندر ڈوبنے کا سلیقہ ہو، عادت ہوسو چنے اور غور کرنے کی تو بسا اوقات یہ ممکن ہے کہ اگر سب نہیں تو اکثر بدیوں کے ساتھ سفر کرتا ہوا بچپن کے اس مقام تک پہنچ سکتا ہے جہاں پہلی دفعہ وہ بدی پیدا ہوئی اور اس کے لئے دل میں کشش پیدا ہوئی ، کیوں ہوئی تھی اور وہ بدی کا فرشتہ جو اس کے ساتھ ہے اس کو شیطان کہا جاتا ہے.پتہ ہے کہ کون سا شیطان تھا کس وقت آیا تھا کس وقت اس نے میرے ذہن کے کس حصہ پر قبضہ کر لیا تھا اور آج تک وہ چل رہا ہے ساتھ اور اسی طرح اس بدی کو زندہ رکھے ہوئے ہے اور آگے بھاگتا چلا جاتا ہے.تَو زُهُمْ أَذًا ( مریم :۸۴) آگے بڑھاتا ہے اور اکساتا چلا جاتا ہے اور اسی طرح اگر وہ اپنی نیکیوں کا تجزیہ کرے تو اس کو معلوم ہوگا کہ بچپن میں کسی زمانہ میں کسی خاص چیز کے ساتھ کسی خاص وجہ سے پیار ہو گیا تھا اور وہ وجہ اس کی نیکی کا فرشتہ ہے وہ اس کی اس نیکی کی حفاظت کرتا ہے، ہمیشہ اور اس کے قدم آگے بڑھاتا ہے.اگر آپ Consciously آنکھیں کھول کر ذہن کو روشن کر کے انبیاء کی سیرت اور سنت کا مطالعہ کریں اور پھر خود اپنے واقعات پر غور کریں اور اپنے نفس میں ڈو میں تو آپ کے اندر سے ایک نہایت ہی شاندار مربی رونما ہو گا.آپ کی ذات کے اندر سے وہ شخص پیدا ہوگا جو اللہ کے فضل سے نہایت ہی عمدہ تربیت کے طریقے جاننے والا ہوگا اور خدا کے فضل سے عملاً ایک اچھی نسل پیدا کرنے کی اہلیت رکھتا ہو گا لیکن چونکہ بہت سے دوست بد قسمتی سے ان علمی، روحانی ، نفسیاتی سفروں
خطبات طاہر جلد۵ 846 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء کے قابل نہیں ہوتے ، قابل تو خدا نے سب بنائے ہیں لیکن عادت نہیں پڑی اور غالبا یہ بچپن ہی کا خلا ہے.پہلے سات سال یا چھوٹی عمر میں ان کا ذہن دوسری طرف مائل رہا سطحی چیزوں کی طرف مائل رہا.مثلاً آج کل جو ٹیلیویژن دیکھنے والے جو بچے ہیں ان کا دماغ اس دنیا کی بجائے Space میں زیادہ رہتا ہے.فرضی جن، فرضی کائنات کے مالک اور قابض لوگ اور فرضی ہتھیاروں کے ساتھ حملہ کرنے والے.اس قسم کی چیزوں میں وہ بسنے لگ گئے ہیں.روزمرہ کے انسانی مسائل سے ان کو الگ کر دیا گیا ہے.شاذ و نادر بچوں کا کوئی پروگرام دیکھیں گے جن میں انسانی ہمدردی سے تعلق رکھنے والے، انسانی برائیوں سے تعلق رکھنے والے، انسانی خوبیوں سے تعلق رکھنے والے، پروگرام اس طرز سے دیئے گئے ہوں کہ بچے کو برائیوں سے نفرت اور خوبیوں سے پیار ہونے لگے.سکول کے سلیپسز میں بھی اس قسم کی نہایت ہی خوفناک تبدیلیاں آچکی ہیں.اس پہلو سے بھی دیکھیں تو جماعت کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے.بہت باشعور مربیوں کی ضرورت ہے اور چونکہ عملاً واقعہ ایسا ہونا فوری طور پر ممکن نظر نہیں آرہا.جب سچائی کی نظر سے دیکھیں تو اکثر دوستوں کو بدقسمتی سے اس سے محروم پاتے ہیں.اس لئے ان لوگوں کی تربیت کے لئے یعنی ہر فرد بشر کی تربیت کے لئے نظام جماعت کو یہ کام اپنے ہاتھ میں لینا چاہئے.ان میں باشعور لوگ بھی ہوں گے، ان میں اچھی اور دلچسپ سوچیں رکھنے والے لوگ بھی ہوں گے.ہر قسم کی عورتیں بھی ملیں گی، ہر قسم کے مرد بھی ملیں گے.تو اپنی اپنی تنظیم کے Pool بنا ئیں ان کے خیالات، ان کے تجارب کا.وہ کتا بیں بھی لکھیں لیکن پیش نظر ماں باپ ہوں اور ماں باپ پیش نظر ہوں خاص عمر کے بچوں کی خاطر.اس نقطہ نگاہ سے آپ کوشش کریں اور جن ماں باپ تک میری بات ویسے ہی براہ راست پہنچ رہی ہے ان کو انفرادی طور پر بھی اپنی ذمہ داری کو قبول کرنی چاہئے اور بیدار رہنا چاہئے کیونکہ یہ وہ معاملہ ہے جس میں تنظیمیں کوشش تو ضرور کریں گی آپ کی مدد کی لیکن تنظیموں سے نہیں پوچھا جائے گا.آپ سے پوچھا جائے گا اس عمر کے بچوں پر جو نقش آپ نے مرتسم کر دیئے اگر وہ جہنم میں لے جانے والے نقش ہیں تو بچوں ہی سے نہیں آپ سے بھی پوچھا جائے گا اور اگر ایسے نقش مرتسم کر دیئے جو جنت میں رہنے والوں کے نقوش ہوتے ہیں تو آپ بڑے خوش نصیب ہیں کیونکہ آپ کی اولاد در اولاد در اولاد کی نیکیاں بھی آپ کے نام پر ہمیشہ لکھی جائیں گی جو آپ کے درجات کی بلندی کا موجب بنتی رہیں گی.
خطبات طاہر جلد۵ 847 خطبہ جمعہ ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: پرائیویٹ سیکرٹری نے ایک فہرست دی ہے بعض مخلصین جماعت کی فہرست ہے جو وفات پاگئے ہیں.ان کے متعلق ان کے عزیزوں نے بھی اور بعض دوسروں نے بھی جو جماعتی طور پر ان کے حالات سے واقف تھے انہوں نے پر زور درخواست کی ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.مکرم ایم عبدالرشید صاحب ہندوستان سے تعلق رکھتے تھے، ساتھ لکھا ہوا ہے کہ تعارف منسلک ہے لیکن وہ صفحات الگ کہیں رہ گئے ہیں.مکرم مہر اللہ یار صاحب جو اوصاف احمد صاحب آف مظفر گڑھ کے والد تھے اور مرحوم شدید مخالفت کے زمانہ میں ڈیرہ غازی خان میں رویا کے ذریعہ احمدی ہوئے اور پھر اللہ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ ہی کچی رؤیا دیکھنے والے بہت ہی بزرگ، دعا گو تھے انہوں نے بہت شاندار استقامت دکھائی ہے.غلام احمد مصطفیٰ صاحب کماس ضلع لاہور کے رہنے والے تھے.کماس کی جماعت کے پریذیڈنٹ بھی رہے ہیں.میاں محمد اسماعیل صاحب موصی تھے.ہمارے عبد الحمید غازی کے چھوٹے بھائی کے خسر تھے مڈھ رانجھا کے رہنے والے تھے.جمشید خان صاحب یہ ہمارے بیت المبارک ربوہ کے ایک موذن بشیر احمد کا نوجوان بیٹا جسے شہید کر دیا گیا تھا ان کی نماز جنازہ غائب پہلے نہیں ہو سکی.پروفیسر محمد طفیل ناز صاحب ایم.اے سرگودھا سابق منگل اور وٹرنری ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے خسر تھے.میاں محمد داؤ د صاحب یہ میاں محمد یوسف صاحب سابق پرائیویٹ سیکرٹری حضرت مصلح موعودؓ کے صاحبزادہ تھے.مکرمہ شیریں بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم میر نور احمد صاحب تالپور.ان کی دو بیگمات تھیں.شیریں بیگم صاحبہ پچھلی دفعہ جلسہ پر آئیں ہوئی تھیں دوسری بیگم یہاں تھیں.ان کی دوسری بیگم کی بہن مریدہ بیگم جو واقف زندگی ہیں اور اسلام آباد میں رہتی ہیں ان کے پاس ٹھہری ہوئی تھیں ابھی حال ہی میں وہ واپس گئی ہیں.میر نور احمد تالپور کا خاندان بھی سندھیوں میں سے
خطبات طاہر جلد۵ 848 خطبه جمعه ۱۹ رد سمبر ۱۹۸۶ء ایک بہت ہی مخلص اور وفادار خاندان ہے.ان سب کی نماز جنازہ غائب ہوگی انشاء اللہ نماز جمعہ اور نماز عصر کے بعد پڑھاؤں گا.
خطبات طاہر جلد۵ 849 خطبہ جمعہ ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء فلسفہ حیات کا پر معارف بیان اپنے وقت کو ضائع نہ ہونے دیں (خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ تلاوت کی: وَقَالُوْا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَالَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ ۚ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ پھر فرمایا: (الجاثیه: ۲۵) قرآن کریم کی یہ آیت جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے مادی فلسفہ حیات کا خلاصہ پیش کرتی ہے.مادی اقوام یعنی مادہ پرست قو میں خواہ وہ مشرق سے تعلق رکھتی ہوں یا مغرب سے اُن دونوں میں قدر مشترک یہی فلسفیہ زندگی ہے.اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ : وَقَالُوْا مَا هِيَ إِلَّا حَيَانَا الدُّنْیا سوائے اس کے کچھ بھی نہیں ہے جو ہماری دنیا کی زندگی ہے نَمُوتُ وَنَحْيَا اس میں ہم مرتے بھی رہتے ہیں اور زندہ بھی ہوتے رہتے ہیں وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ سوائے زمانے کے کوئی طاقت ہمیں مارتی نہیں.اور یہ خیال کہ بیرونی ایک طاقت ہے جس کا نام خدا ہے، جو ذ والاقتدار ہے، وہی زندہ بھی
خطبات طاہر جلد۵ 850 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء کرتی ہے اور وہی مارتی بھی ہے یونہی ڈھکو سلے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَالَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ خود ان کو علم نہیں ہے کہ زندگی اور موت کا فلسفہ ہے کیا، کیوں موت سے زندگی بنتی ہے زندگی سے موت إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ محض ظنی باتیں کر رہے ہیں.آج میں نے اس آیت کا مضمون اس لئے موضوع سخن بنایا ہے یعنی اپنے خطاب کے لئے چنا ہے کہ یہ سال ختم ہو رہا ہے اور ایک نئے سال کا آغاز ہونے لگا ہے.اس خاص وقت کا اس مضمون سے بھی ایک تعلق ہے لیکن بیشتر اس سے کہ میں وہ تعلق بیان کروں یہاں ایک ضمنی بات بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں قرآن کریم نے جو یہ فرمایا وَمَالَهُمْ بِذَلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ اس میں احمدی مفکرین اور احمدی سائنس دانوں کے لئے ایک تحقیق کے میدان کی طرف اُنگلی اُٹھائی گئی ہے اور ایک بہت بڑا کھلا تحقیق کا میدان پڑا ہوا ہے جس کی طرف اب تک مغربی اقوام کی نظر نہیں گئی.وہ فلسفہ حیات اور فلسفہ موت ہے اس پہلو سے کہ کیا زمانہ خود بخود مار دیتا ہے یا مرنے کا جو اصول ہے وہ کچھ اور ہے، کوئی اور وجوہات ہیں جو موت کے پیچھے کارفرما ہیں اور ان وجو ہات میں ایک منظم منہ را یک مقصد ہے اس کا.یہ وہ پہلو ہے جس کی طرف ابھی تک دنیا کے کیمسٹ اور فز زسٹ اور بیالوجسٹ نے توجہ نہیں کی کیونکہ اس فلسفہ حیات کی پیروی خدا کے تصور کا اس سے پہلے تقاضا کرتی ہے.اگر خدا ہے ہی نہیں اور کوئی بیرونی چیز ایسی نہیں ہے جس نے دنیا کو ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کیا ہو تو ایسے عقیدہ رکھنے والوں کے لئے یہ سائنس پیدا ہو ہی نہیں سکتی.اس کا جنم لینافی ذاتہ بے مقصد بن جاتا ہے کیونکہ اگر کوئی خدا ہے ہی نہیں جس نے اس کائنات کو تنظیم دی ہے، ترتیب دی ہے اس کو درجہ بہ درجہ آگے بڑھایا ہے.طباقاً اس کا قدم ترقی کی طرف بڑھنے کے التزام کئے ہیں اور ایک مقصد کی پیروی کی طرف اسے آگے بڑھایا ہے.اگر یہ فلسفہ حیات درست نہیں ہے، اگر یہ نظریہ بنیادی طور پر غلط ہے تو زندگی کے بعد موت کی وجو ہات تلاش کرنا بے معنی ہو جاتا ہے سوائے اس کے کہ وہ فوری وجو ہات تلاش کی جائیں جنہیں دور کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے.چنانچہ ان کا علم طب خواہ اس کا کوئی نام بھی رکھ لیں اس کا صرف اس حصے سے تعلق ہے کہ فوری طور پر موت کیوں واقع ہوتی ہے لیکن موت کے لئے جو نظام مقرر ہے، ہر چیز کی ایک طبعی عمر مقرر ہے ، وہ کیا وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں نشو و نما کے پورے سامان موجود ہونے کے باوجود
خطبات طاہر جلد۵ 851 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء ایک زندہ چیز ایک عرصے کے بعد لازماً موت کی طرف حرکت کرنا شروع کر دیتی ہے اور ہر زندہ چیز کے لئے ایک عرصہ حیات مقرر ہے اور وہ اسکی جینز میں Coded Message کی شکل میں موجود ہے.اس پیغام سے وہ چیز تجاوز کر ہی نہیں سکتی.پابند ہے، غلام ہے اس پیغام کی.یہ جو پہلو ہیں کیوں ایسا ہوا؟ کیوں زندگی کی جو شکل ہے اس کی عمر ایک خاص طبعی عمر ہے جو دوسروں سے اختلاف رکھتی ہے اور اگر وہ طبعی عمر مقرر نہ ہو تو کیا ہو جائے.اس پہلو پر تھوڑی سی روشنی سائنس دانوں نے ضرور ڈالی ہے.مثلاً وہ یہ کہتے ہیں کہ Insect یعنی وہ جانور جو کیڑے مکوڑے کہلاتے ہیں ہماری اردو زبان میں اُن جانوروں میں، بڑھنے اور پھیلنے کی اتنی قوتیں موجود ہیں کہ اگر اُن کو بغیر کسی روک ٹوک کے آگے بڑھنے دیا جائے تو ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ وہ لازماً چند سالوں کے اندراندر زندگی کی ہر قسم پر قبضہ کر لیں.کیڑی کیوں ایک وقت تک بڑھنے کے بعد رک جاتی ہے وہاں اور پھر آگے بڑھنے کی بجائے وہ موت کی طرف حرکت شروع کر دیتی ہے، پروانے ہیں کئی قسم کے، اسی طرح بے شمار Insects میں مختلف قسموں کے ان سب میں بڑھنے کی ایسی طاقتیں موجود ہیں اور ان کا اندرونی نظام اتنا مضبوط ہے کہ وزن کے لحاظ سے سب سے زیادہ طاقتور چیز کیٹری اور اس قسم کے دوسرے جانور ہیں.اپنے سے اتنا گنا زیادہ وزن لے کر یہ جانورسیدھا عمودی چھت کی طرف دیوار کے اوپر چل سکتے ہیں کہ انسان اپنے سے دسواں حصہ، ہزاروں حصہ وزن لے کر بھی نہیں چل سکتا بلکہ اپنا وزن لے کر بھی نہیں چل سکتا.کوئی دنیا کا جانور اتنا طاقتور نہیں ہے اپنے وزن کی نسبت سے جتنے یہ چھوٹے چھوٹے کیڑے مکوڑے ہیں ، حشرات الارض بھی کہتے ہیں ان کو اردو میں اور ان کے لئے جوموت کا نظام مقدر ہے وہ ہمارے حیات کے نظام سے براہ راست تعلق رکھتا ہے.اگر ان کی موت کا نظام مقرر نہ ہوتا تو باقی زندگی کی ہر قسم کے لئے حیات کا بھی کوئی نظام مقر نہیں ہوسکتا تھا.اور یہ وجہ کیا ہے کہ جب ان کے پاس غذا پوری موجود ہو موسم اچھے ہوں جن میں ان کی پرورش ہوتی ہے تو خود بخود بڑھتے بڑھتے ایک موقع پر پہنچ کر یہ موت کی طرف حرکت شروع کر دیتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ پاگل ہیں جو مذہبی لوگوں کو کہتے ہیں کہ تم بڑے بے وقوف ہو یہ تو زمانہ مارتا ہے.اتنی ترقی کے باوجود ، علمی ترقی کے باوجود ابھی تک ان کو یہ نہیں پتا لگا کہ زمانہ نہیں مارتا ایک
خطبات طاہر جلد۵ 852 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء قانون مقرر ہے اور ہر قانون جو اس سے تعلق رکھنے والا قانون ہے وہ ہر جگہ ایک طرح اثر نہیں دکھا رہا.مختلف قوانین کے مجموعے ہیں جو ہر زندگی کی ایک قسم کے لئے الگ الگ مقرر ہیں اور ان کا اجتماعی اثر پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ایک زندگی کی شکل کی عمر اور بن جاتی ہے دوسری کی اور بن جاتی ہے تیسری کی اور بن جاتی ہے.اس لئے وہم ہے یہ کہ محض زمانہ مارتا ہے.بہر حال اس فلسفہ حیات کے رد میں چونکہ قرآن کریم نے واضح طور پر فرمایا ہے یہ لوگ جو مادہ پرست قومیں ہیں یہ ان مضامین میں اپنی علمی ترقی کے باوجود غور نہیں کر رہیں.اس لئے نہیں کرتیں کہ بنیادی طور پر یہ خدا کی ہستی کی قائل نہیں ہیں.فرضی طور پر قائل بھی ہوں مثلاً عیسائی دنیا فرضی طور پر قائل ہے، یہودی دنیا فرضی طور پر قائل ہے لیکن ان کی سائنسیں خدا سے خالی ہیں.آپ ساری سائنسز کا مطالعہ کر لیں.انفرادی طور پر اگر ایک سائنس دان خدا کی ہستی کو موجبات میں داخل کر دے، محرکات میں داخل کر دے تو فورا اس کو پاگل کہنا شروع کر دیں گے، اس کی ساری ریسرچ بے معنی ہو جائے گی.اگر وہ یہ تیسرا فیکٹر یعنی خدا کا فیکٹر ڈال دے.یہی وجہ ہے کہ آج کل ایولوشن Evolution کے اوپر جو نئے نظریات آکر ایک مقام پر پھنس گئے ہیں اُس میں خدا کا فیکٹر ڈالے بغیر بات آگے بنتی ہی نہیں ہے اور اس کے لئے یہ تو میں تیار نہیں ہیں.اس لئے لا نیل کے طور پر ان مسائل کو رہنے دیتی ہیں لیکن یہ سوچ کر آگے قدم نہیں بڑھا تیں کہ اگر خدا ہو تو یہ ہونا چاہئے.تو اسی لئے قرآن کریم نے ایک نہایت ہی عمدہ بنیادی مسئلے کی طرف ہماری توجہ دلا دی کہ ہر تحقیق کے میدان میں جہاں ایک مقام پر پہنچ پر خدا کی ہستی کو تسلیم کرنالازم ہو جاتا ہے.وہاں سے آگے یہ قو میں قدم نہیں اُٹھائیں گی اس سے آگے مومنوں کا کام ہے اور مومن سائنسدانوں کے لئے یہ سارے میدان کھلے پڑے ہیں.ان میں ایک یہ میدان ہے کہ موت کا نظام ہے کیا ؟ کون سے محرکات ، کون سےموجبات ہیں جو ہر زندگی کی شکل کے لئے خاص موت کا پیغام رکھتے ہیں اور ان کا آپس میں پھر کیا تعلق ہے.اگر کسی خاص قسم کی زندگی کے لئے خاص عرصہ حیات یا موت کا آنا مقدر نہ ہوتا تو با قیوں پر اس کا کیا اثر پڑتا یہ پہلو ہے جو بہت بڑا عظیم الشان علم کا میدان ہے، اللہ تعالیٰ توفیق دے تو احمدی سائنس دانوں کو اس پر کام کرنا چاہئے.اس مضمون کا آج کے خطبہ سے جو تعلق ہے وہ یہ ہے کہ سال کے آخر پر انسان یہ سوچتا ہے
خطبات طاہر جلد ۵ 853 خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۸۶ء ہر قسم کے دائرہ زندگی سے تعلق رکھنے والا انسان یہ سوچتا ہے کہ میری عمر کا ایک معین عرصہ ختم ہو رہا ہے اور اس قسم کا ایک معین عرصہ سامنے کھڑا ہے اگر خدا توفیق دے بعض لوگ تو خدا کا نام بھی نہیں لیتے مگر ہم بطور مومن کے اس کا ذکر کئے بغیر بات آگے بڑھا نہیں سکتے.تو اگر خدا توفیق دے اور ہم اس حصے میں قدم رکھیں تو کیا ہوگا.ہمیں یہ سال کس طرح ختم کرنا چاہئے اور آئندہ زندگی کا آغا ز کیسے کرنا چاہئے.ایک طالب علم جب اس پر غور کرتا ہے تو اس کا سال دسمبر میں ختم نہیں ہوتا اور جنوری میں شروع نہیں ہوتا بلکہ اس کا سال اپنے ایک اور وقت میں شروع ہوتا ہے، ہر طالب علم کا اپنا اپنا سال ہے تو اس وقت کی سوچ خالصہ علمی ہو جاتی ہے.ایک مالی نظام کا سال بھی مختلف وقت میں شروع ہو کر مختلف وقت میں ختم ہو جاتا ہے تو اس کی سوچ بھی ایک خاص دائرہ سے تعلق رکھتی ہے کہ ہم نے اس گزشتہ سال میں کیا کھویا کیوں کھویا کیا پا سکتے تھے جو نہیں پایا ان امور پر بحث اور پھر ہمارے مالی حساب درست بھی ہیں کہ نہیں ، اعداد وشمار ٹھیک ہیں یا غلط.ایک خاص ہنگامہ آپ دیکھتے ہیں سال کے آخر پر لیکن یہ سال جو ہے جو جنوری سے شروع ہو کر دسمبر میں ختم ہو جاتا ہے یہ سب انسانوں کے لئے مشترک ہے اور اس لحاظ سے ایک عمومی مشترک انسانی رد عمل اس وقت پیدا ہوتا ہے.جہاں تک مادہ پرست قومیں ہیں ان کے رد عمل، ان کی توجہ کا مرکز اس موقع پر جو بنتا ہے ان کا ذکر اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کا مقصد زندگی کا مقصد سوائے عیش وعشرت کے اچھی دلچسپ لذتوں سے بھری ہوئی زندگی گزارنے کے اور کچھ نہیں ہے کیونکہ خدا نہیں ہے.اگر خدا ہے تو فرضی ہے چونکہ ہم جوابدہ نہیں ہیں کسی کے سامنے.خواہ تصور کی دنیا میں مانیں بھی تب بھی عملا اگر گہرائی سے ان کے اعمال اور ان کے اخلاق اور ان کے باہمی ایک دوسرے سے سلوک اور غیر قوموں سے سلوک کا مطالعہ کریں تو یہی جواب ملے گا کہ جس خدا پر یہ ایمان رکھتے ہیں وہ سنجیدگی سے اس کو جواب لینے والا خدا نہیں سمجھتے.چنانچہ ان کی تمام تر توجہات زندگی کی لذتوں کے حصول کی طرف ہو جاتی ہیں.ان کی ساری ایجادات کا رُخ اسی طرف ہے.جہاں تک تخریبی ایجادات ہیں ان کی وجہ اپنے عیش کی زندگی کی حفاظت ہے چنانچہ جس کو آپ دفاعی دنیا سے تعلق رکھنے والی ایجادات کہہ سکتے ہیں ان سب کا تعلق بھی عملاً اسی زندگی کی حفاظت کے لئے ہے جو ان کو زندگی میں غیر قوموں پر برتری حاصل ہو چکی ہے.عیش وعشرت کے زیادہ سامان اکٹھے ہو چکے ہیں.چونکہ یہ نہیں چاہتے کہ یہ تقسیم ہو جا ئیں سب
خطبات طاہر جلد۵ 854 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء دنیا میں اور ساری دنیا ان سے برابر استفادہ کر سکے اسلئے دفاعی نظام ہے.کسی کے پاس کھانا زیادہ ہوگا اور دوسرے کے پاس کم ہوگا تو دفاعی نظام ضرور بنانا پڑے گا.اگر دونوں کے پاس برابر کھانا ہوتو احمق ہوگا کوئی جو دفاعی نظام قائم کرے گا.آخری خلاصہ اس ساری زندگی کی جدو جہد کا یہ ہے کہ بعض قو میں اپنے عیش وعشرت کے نظام میں آگے بڑھی ہوئی ہیں بعض پیچھے ہیں بعض بالکل سامان خور و نوش سے عاری ہیں بے چاری.ان کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں اس لئے کئی قسم کے خطرات ہیں ایک دوسرے سے چھینے کے اگر موقع ملے تو اس لئے ایک دفاعی نظام ہے.دوسرا نظام ہے ایجادات کا جو خالصہ لذتوں کو آگے بڑھانے والا نظام ہے اور کوئی بھی اس کا مقصد نہیں.اخروی دنیا سے تعلق رکھنے والا کوئی عملی نظام ایسا آپ کو اس دنیا میں نظر نہیں آئے گا جس میں ایک انسان کی سوچ کا ماحاصل اس لئے خرچ ہو رہا ہو کہ ہم اپنی آخری زندگی کو بعد میں آنے والی زندگی کو سدھار میں اور اس کو سنوارنے کا انتظام کریں.ٹیلی وژن دیکھ لیں آپ یہاں کے ، یہاں کے ریڈیو دیکھ لیں، یہاں کھانے پینے کے سامان ، یہاں موٹر گاڑیاں، یہاں کی موٹر اور ایجادات کے جتنے بھی نقشے ہیں ویڈیو وغیرہ یہ سارے ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہیں اور یہاں تک حالت پہنچ گئی ہے کہ اگر ان کی ساری انکم ساری آمد جو ہے سارے سال کی اس کا آپ تجزیہ کریں تو ان کے زندہ رہنے کے لئے جو ضروری چیزیں ہیں ان پر کل آمد کا 1/10 بھی خرچ نہیں ہوتا بلکہ بعض ملکوں میں 1/100 بھی خرچ نہیں ہوتا.شریفانہ زندگی بسر کرنے کے لئے جتنی ضرورت ہے دولت کی اس سے بہت تھوڑا حصہ ہے جو یہ کماتے ہیں، اس کا بہت تھوڑا حصہ ہے جو یہ خرچ کرتے ہیں یا ان کے لئے کرنا ضروری ہے.بھاری روپے کی اکثریت آمد کی بھاری اکثریت انہی چیزوں میں خرچ ہو رہی ہے اور جو غریب ہیں، جو نسبتاً غریب طبقے ہیں ان کی کیفیت یہ ہے کہ وہ مکانوں سے اس لئے محروم ہیں جائیدادوں سے اس لئے محروم ہیں ، بہت سی بنیادی ضرورتوں سے اسلئے محروم ہیں کہ عیش و عشرت کی طرف توجہ بہت زیادہ مبذول ہو چکی ہے اور بظاہر آپ کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس تو رہنے کے مکان نہیں ہیں، گورنمنٹ مکان دے رہی ہے یا کرائے پر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن اگر آپ عملاً ان کی آمدنوں کا ، خاندانوں سے نسلاً بعد نسل جائزہ لے کر دیکھیں تو پتہ یہ لگے گا کہ آمد کا بیشتر حصہ جو بچتا ہے
خطبات طاہر جلد۵ 855 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء روٹی کے بعد وہ تو شراب میں غرق ہو جاتا ہے یا ایسی دلچسپیوں میں غرق ہوتا ہے جن کے بغیر زندگی ممکن ہے بلکہ اچھی بھلی زندگی کٹ سکتی ہے.اس وجہ سے ان کا سال کا آخر بھی یہیں پر آکر، اسی مرکزی نقطہ پر آ کر ختم ہوتا ہے کہ شرا ہیں جو ہم پہلے نہیں پی سکے تھے وہ اب پی جائیں.جو عیش وعشرت پہلے نہیں کر سکے تھے وہ اب کر جائیں.سال ختم ہو رہا ہے اس سال کو ہم شرابوں میں غرق کر دیں اور ڈبو دیں.چنانچہ جتنا خرچ کرسمس کے دنوں میں یا جن علاقوں میں عیسائی نہیں ہیں اور مادہ پرست قومیں ہیں، وہ کرسمس کے بغیر بھی دسمبر میں شراب پر خرچ ہوتا ہے اتنا شاذ کے طور پر کسی اور مہینہ میں خرچ ہوتا ہو یا پھر جنوری کی پہلی تاریخ میں ہوتا ہے یعنی نئے سال کا آغا ز تو جن کا فلسفہ حیات یہ ہے کہ یہی دنیا ہے اسی میں ہم نے زندہ رہنا ہے، اسی میں مرجانا ہے، کوئی جواب طلبی نہیں ہے.ان کے سال کا آخر بھی شراب میں غرق ہو جاتا ہے، ان کے سال کا آغاز بھی شراب میں غرق ہو جاتا ہے اور تعجب کی بات ہے جہاں تک کرسمس کا تعلق ہے ایک نبی کی پیدائش کہا جاتا ہے کہ اس دن ہوئی اور ان قوموں کے نزدیک اس دن خدا کے اکلوتے بیٹے کی پیدائش ہوئی.اُس دن کو یہ اس طرح مناتے ہیں کہ اس دن اتنی شراب پیتے ہیں کہ کبھی بعض لوگ مہینوں میں اتنی شراب نہیں پیتے ہوں گے جتنی اس دن پی جاتی ہے یعنی نہ پینے والے بھی پیتے ہیں اس دن.ہم چند دن ہوئے ایک مارکیٹ میں گئے دو تین دن پہلے کی بات ہے آخری دن تھا شا پنگ کا کرسمس سے پہلے کا ہم نے کچھ چیزیں خریدنی تھی.تو تعجب سے میرے بچوں نے دیکھ کے مجھے کہا کہ عجیب بات ہے کہ ان کا جو سٹاک اکٹھا کر رہے ہیں، زیادہ شراب ہی اکٹھی کر رہے ہیں یعنی تین چاردن کے لئے ٹرالیاں بھری ہوئی تھیں بوتلوں سے.تو سوال یہ ہے کہ اس موقع پر ایک احمدی کو کیا سوچنا چاہئے اور اسے کس طرح یہ آخری دن گزار نے چائیں ہمارا فلسفہ حیات تو یہ نہیں ہے مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ کہ ہم تو دنیا میں از خود زندہ ہوتے ہیں اور مرتے ہیں اور زمانہ ہی ہمیں مارتا ہے ہمارا کوئی کوشش کرنے والا خدا نہیں ہے، کوئی پیدا کرنے والا خدا نہیں ہے.کوئی مارنے والا خدا نہیں ہے.ہمارا نظریہ حیات تو اس سے بالکل برعکس ہے.اسلئے سال کا آخر ہمیں کس طرح
خطبات طاہر جلد۵ 856 خطبه جمعه ۲۶ دسمبر ۱۹۸۶ء صرف کرنا چاہئے اور سال کا آغاز ہمیں کس طرح شروع کرنا چاہئے.میں نے شروع میں مثال دی تھی کہ جو خاص ایسے طبقے کے لوگ ہیں جو خاص کسی مضمون سے تعلق رکھنے والے ہیں ان کا جب سال ختم ہو رہا ہوتا ہے تو وہ شرابیں پی کے ختم نہیں کرتے یا سال شروع ہوتا ہے تو شرابیں پی کے شروع نہیں کرتے بلکہ بڑا ایک معنی خیز انجام ہو رہا ہوتا ہے اس سال کا.ایک اکا ؤ سمٹنٹ ہے اس کا سال جب ختم ہو رہا ہوتا ہے تو اسے بعض دفعہ گھر آنے کی بھی فرصت نہیں ملتی دفتر سے ، اپنے حسابات کی چھان بین کر رہا ہوتا ہے.ایک طالب علم ہے اگر سارا سال اس نے نہ بھی پڑھا ہو تو ان چند دنوں میں راتیں جاگ کر گزار رہا ہوتا ہے اور سال کا آغاز اس طرح کرتے ہیں کہ دوبارہ کتا بیں ٹھیک کرتے ہیں ، غلطیاں اپنی دیکھ کر ان سے استفادہ کرتے ہیں کہ آئندہ یہ غلطیاں نہ دہرائی جائیں ،حروف کے کالم درست ہوں ، ہندسوں کے کالم درست ہوں، کتابوں پر بچے ورک چڑھاتے ہیں، کا پیاں بناتے ہیں نئی.تو جہاں تک سنجیدہ لوگوں کے سالوں کے آغاز یا انجام کا تعلق ہے جو سنجیدہ مضامین سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں ان کا طبعی فطری رد عمل تو یہ ہوتا ہے.اس لئے دسمبر کا مہینہ جماعت احمدیہ کے لئے ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور اس اہمیت کو اللہ تعالیٰ نے از خود ہم پر اس طرح روشن کر دیا بغیر ہماری کسی سکیم کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی رہنمائی فرمائی کہ دسمبر ۲۶ ۲۷ ۲۸ تین تاریخوں میں سالانہ مذہبی اجتماع کیا کریں.چنانچہ یہ وقت جو آج چھپیں ۲۶ ہے ۲۶ سے کچھ پہلے اور ۲۸ کے کچھ بعد تک ساری جماعت احمدیہ کی توجہ روحانی اور دینی اور علمی امور کی طرف مرکوز ہو جاتی ہے.کچھ خدا کی خاطر سفر کر رہے ہوتے ہیں، کچھ خدا کی خاطر سفر سے آنے والوں کے لئے تیاریاں کر رہے ہوتے ہیں ، کچھ علماء تقریریں تیار کر رہے ہوتے ہیں، کچھ سننے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں.ایک عجیب ماحول ان دنوں میں قادیان میں ہوا کرتا تھا اور بوہ میں بھی ، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری جماعت کسی مقتدر اور مد بر خدا کے ہاتھ میں ہے.وہ اتفاقاً پیدا ہونے والی جماعت نہیں ہے یعنی انسان کی زندگی جس طرح نہ اتفاقاً پیدا ہوئی نہ اتفاقا ختم ہوگی اسی طرح جماعت احمدیہ کی باگ دوڑ بھی اور جماعت احمدیہ کا نظام حیات اور نظام ممات بھی ایک مقتدر، کارساز ہستی کے ہاتھوں میں ہے اور اس نے ہمیں از خودان رستوں پر چلا دیا ہے جن رستوں پر باشعور اور بالغ نظر تو میں چلا کرتی ہیں.اس لئے ہمیں اپنے موت
خطبات طاہر جلد۵ 857 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء کے نظام سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئے اور اس پر بھی غور کرتے رہنا چاہئے.ہمارے لئے بھی ایک موت کا نظام مقدر ہے اور وہ اسباب وہی ہیں جو پہلی قوموں کی موت کے اسباب بنا کرتے تھے.ان پر بھی غور ضروری ہے، ہم یہ تو نہیں کہتے کہ یہ ساری فرضی باتیں ہیں اس لئے قرآن کریم کے فیصلے کے نیچے نہیں آنی چاہئیں اِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ کہ محض فرضی ڈھکو سلے بنارہے ہیں یہ لوگ ، ان کو کچھ بھی حقیقت حال کا علم نہیں.جماعت احمدیہ کا اندرونی نظام شہادت دے رہا ہے کہ اس جماعت کے قیام کا ایک مقصد ہے ، ایک خاص رخ ہے.خاص ترتیب سے یہ جماعت قائم فرمائی گئی ہے اور اعلیٰ مقاصد کی پیروی کے لئے خدا تعالیٰ کے فرشتے اس کو جیسے ہانک کر لے جاتے ہیں اس طرح باندھ کر ایک خاص مقصد کی طرف ، ایک خاص رخ کی طرف لے جا رہے ہیں.تو جہاں حیات کا ایسا اعلیٰ نظام موجود ہے وہاں اس خیال سے غافل ہو جانا کہ موت کا بھی نظام ہوگا ، یہ بڑی بے وقوفی ہوگی.جو قو میں زندہ کی جاتی ہیں جن کو ارتقاء کے رستے پر چلایا جاتا ہے ، ان کے موت کے بھی اسباب مقدر ہوتے ہیں اور معین ہوتے ہیں اور قرآن کریم نے ان اسباب پر کثرت سے روشنی ڈالی ہے.ان میں کچھ اسباب یہاں آپ آج دیکھ رہے ہیں یعنی مغربی دنیا میں بسنے والے، یا مشرقی دنیا میں مادہ پرست قوموں میں بسنے والے، جاپان میں بھی دیکھ رہے ہوں گے، دوسری قوموں میں بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ ان کی زندگی کا مقصد سوائے دنیا طلبی کے اور عیش پرستی کے اور کچھ بھی نہیں.اگر ہمارا یہ مقصد نہیں ہے تو پھر ہمارا مقصد کیا ہے ہم نے کس حد تک اس کی پیروی کی ؟ کس حد تک اس سال میں اس کی پیروی سے غافل رہے؟ کون سے موجبات ہیں جو ہمیں پیروی سے غافل رکھنے میں عمل پیرا ہیں؟ کون سے ایسے محرکات ہیں جن کے نتیجے میں ہم پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ سکتے ہیں؟ یہ سارا جائزہ ہونا چاہئے.یہ جائزے انفرادی بھی ہونے چاہئیں اور اجتماعی بھی ہونے چاہئیں.جہاں تک اجتماعی جائزوں کا تعلق ہے آج سے لے کر سال کے آخر تک مجالس عاملہ اس موضوع پر بیٹھیں ساری دنیا میں کہ ہم نے اس سال میں کیا کھویا ہے اور کیا پایا ہے.ہم سے کیا ایسی غلطیاں ہوئیں جو وہ تو میں کیا کرتی ہیں جن کا قدم موت کی طرف روانہ ہو.کون سے ہم نے ایسے اچھے کام کئے جو زندہ قوموں کے اسلوب ہوا کرتے ہیں اور کس طرح اُن
خطبات طاہر جلد۵ 858 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء غلطیوں سے بچنا چاہئے اور کس طرح ان اچھی باتوں کی طرف پہلے سے زیادہ توجہ کرنی چاہئے.جماعت کی کل تعداد کا جائزہ لینا، جو تحریکات خلفاء نے کی ہیں جو آج کل جاری ہیں خواہ وہ پہلے خلفاء نے کی ہوں یا موجودہ خلیفہ نے کی ہوں ، جو اس وقت واجب العمل ہیں.ان تحریکات کا جائزہ لینا ، ان سے کس حد تک استفادہ ہوا ، کس حد تک ہم نے ان کو فراموش کر دیا اور اس حوالے سے آئندہ سال کا ایک معین پروگرام مرتب کرنا.یہ ہے ایک زندہ باشعور قوم کا رد عمل سال کے اختتام پر اور سال کے آغاز پر اس کو پھر آگے رائج کرنا اس پروگرام کو اور بڑی ہمت اور محنت اور توجہ اور دعا کے ساتھ یہ کوشش کرتے چلے جانا کہ یہ پروگرام صرف فرض کی دنیا میں خیالی دنیا میں نہ رہے، تصورات کی دنیا میں نہ رہے بلکہ عمل کی دنیا میں ڈھل جائے.یہ ہے ایک باشعور زندہ قوم کا کام.جہاں تک انفرادی تعلق ہے ہر شخص کا اپنے نفس کا محاسبہ الگ الگ ہوگا.کئی ایسے دوست ہوں گے جنہوں نے گزشتہ سال اس طرح شروع کیا غفلت کی حالت میں کہ کوئی نیک ارادہ باندھا ہی نہیں.وہ بھی اس حرکت کرتے ہوئے پلیٹ فارم پر حرکت رہے ہیں جو مادہ پرست قوموں کا پلیٹ فارم ہے.از خود وہ ایک سال سے دوسرے سال میں داخل ہو جاتے ہیں ، ان کو پتہ ہی نہیں کہ ان کا رخ کس طرف ہے.ایسے لوگوں تک اگر میری آواز پہنچے تو اُن کو اگلے سال کا آغاز کرنے سے پہلے اپنے اس سال کا اس نقطۂ نگاہ سے جائزہ لینا چاہئے کہ سارا سال کون سی ایسی بدیاں تھیں جن سے وہ غافل رہے ہیں ، کون سی ایسی نیکیاں تھیں جنہیں وہ اختیار کر سکتے تھے لیکن نہیں کیں ، نظام جماعت میں ان کا کیا مقام ہے؟ خدمت کے کون سے مواقع تھے جو انہوں نے ضائع کئے ہیں.کس حد تک وہ تحریکات پر عمل کرتے ہیں اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں؟ کس حد تک اُن کا وجود جماعت کے لئے مفید ہے اور غیروں کے لئے مفید ہے؟ کس حد تک وہ بنی نوع انسان کو اللہ کی طرف بلانے میں کامیاب رہے ہیں یا اپنی اولاد کو خدا کی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہے ہیں.اس لحاظ سے جب آپ جائزہ لیں گے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مختلف افراد کا انفرادی طور پر الگ الگ جائزہ ہوگا اور الگ الگ جواب ہوں گے اور اس کے متعلق ایک ہی کوئی جواب ایسا پیش کیا ہی نہیں جا سکتا جو سب کے لئے یکساں ہو.فرد فرد سے اس کے بدلتے ہوئے حالات کے نتیجے میں مختلف قسم کے سوال ہونے چاہئیں اور اگر وہ سب سوالات خود اُٹھائے اپنے اوپر تو اس کے جواب بھی مختلف ہوں گے لیکن
خطبات طاہر جلد ۵ 859 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء جس امر کی طرف میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں وہ ایک سوال ہے جو سب کے لئے مشترک ہے کہ کس حد تک ہم نے اپنے وقت کو ضائع کیا اور کس حد تک ہم نے اپنے وقت کی بالا رادہ قیمت وصول کرنے کی کوشش کی.اگر اس سوال کو ہم ہر ایک سے پوچھیں یا ہر ایک اپنے آپ سے پوچھے تو حیران ہوگا یہ جواب پا کر اپنے نفس سے کہ میں نے اپنے وقت کی قیمت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی.کبھی سوچا ہی نہیں کہ میرے وقت کی ایک قیمت ہے سوائے اس قیمت کے جو اپنے پروفیشن میں ، اپنے شعبے میں مجھے خود بخود ملتی ہے، وہ قیمت تو بالکل اور چیز ہے میں اس کی بات نہیں کر رہا.میں اس وقت کی بات کر رہا ہوں جو انسان کا اپنا وقت ہو جاتا ہے.ڈاکٹر کا ڈاکٹری سے فارغ ہونے کے بعد، طالب علم کا کتابوں کے مطالعہ سے فارغ ہونے کے بعد وغیرہ وغیرہ.اس پہلو سے ہم جائزہ لیتے ہیں تو عموماً ایک بات ضرور سامنے آتی ہے کہ ہم اپنے وقت کا اکثر حصہ یعنی بچے ہوئے وقت کا جس پر ہمارا اختیار تھا ضائع کر دیتے ہیں اور نیک مقاصد پر ان کو استعمال نہیں کرتے.یہ ضیاع مختلف جگہوں پر مختلف شکل میں ہو رہا ہے.پسماندہ اقوام میں یہ ضیاع زیادہ تر گپیں مار کر ہو رہا ہے اور کچھ نہیں بس چلتا ان کا تو پھر وہ آپس میں بیٹھ جاتے ہیں بازاروں پر، گلیوں کے کونوں میں جن کو خدا نے توفیق دی ہے گھروں میں، اپنے گھروں میں یا کسی دوسرے کے گھر میں جا کر اور وہ ان گپوں میں بیٹھے مصروف رہتے ہیں کسی طرح ان کا وقت ٹلتا ہی نہیں وہ کیا کریں بے چارے.وقت گزارنے کے لئے کوئی نہ کوئی ترکیب کرنی پڑتی ہے.مجالس لگاتے ہیں ایک دوسرے کے گھر پر جا کر اور بچوں کو بھی وقت کے ضائع کرنے کی عادت ڈالتے ہیں اور مادہ پرست قوموں میں بسنے والے احمدی خاندانوں میں سے بھی ایک طبقہ ایسا ہے چونکہ وہ دوسرے گندے کاموں میں نہیں پڑتے اس لئے نسبتاً کم گندے کام میں پڑتے ہیں یعنی وقت کا ضائع کرنا وہ سمجھتے ہیں کہ گندہ کام ہی نہیں ہے چونکہ ہم نے شرا میں نہیں پینی چونکہ ہم نے ڈانسنگ ہالز میں نہیں جانا اور سوشل کا لز اس قسم کی نہیں کرنی جن میں گندگی میں ملوث ہونا پڑتا ہے.اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے بہتر اور کیا وقت کا مصرف ہے کہ ہم ایک دوسرے کے گھروں میں جائیں اور باتیں کریں اور گئیں ماریں اور چغلیاں کریں اور حالات کا جائزہ لیں، کھیلوں پر تبصرے کریں اور پھر تھکے ماندے گھر واپس آجائیں اور پیچھے بھی لوگوں کو تھکا ہوا چھوڑ آئیں پھر دوسرے دن صبح نماز کے لئے نہ کسی سے اُٹھا
خطبات طاہر جلد۵ 860 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء جائے ، بچوں کو سکول سے دیر ہو رہی ہو، بڑی مشکل سے بے چاری مائیں اُٹھیں اور ان کو تیار کریں.ایک مصیبت کا چکر ہے جو ہر وقت ، قریبا ہر روز ہی ایسے لوگوں کے سامنے رہتا ہے اس چکر میں پڑے رہتے ہیں وہ بے چارے.ایک حصہ اس میں سے ایسا ہے جس کو Unavoidable کہہ سکتے ہیں چونکہ تھکے ہوئے آدمی نے لازماً اپنی فرحت کا بھی کچھ سامان کرنا ہے، ایک سوشل آدمی نے اپنے تعلقات بھی قائم رکھنے ہیں اس پہلو سے تو یہ چیز نہایت ہی مفید ہے اور انسان کے فرائض میں بھی داخل ہو جاتی ہے لیکن جب ہم ملنے جاتے ہیں تو وہاں موضوع سخن کیا ہے یہ ایک بڑی اہم بات ہے.ملنے تو جانا ہے اور لوگوں نے ملنے آنا بھی ہے، اس وقت ہم کیا باتیں کرتے ہیں؟ کیا خدا کی بات کرتے ہیں؟ کیا دین کی بات کرتے ہیں؟ کیا مادہ پرست لوگوں پر ایسا تبصرہ کرتے ہیں جس کے نتیجے میں ہمارے بچوں کی رہنمائی ہو؟ کیا خدا تعالیٰ کے ساتھ خاص تعلقات کی باتیں کرتے ہیں؟ کیا نیک لوگوں کی سیرت کا ذکر چلتا ہے؟ کیا دعاؤں کی قبولیت کا ذکر چلتا ہے؟ کیا ایسے مسائل کا ذکر چلتا ہے جن سے بچنا ہماری اگلی نسلوں کے لئے ضروری ہے.اگر یہ سارے ذکر چلتے ہوں تو تفریح بھی ہو جاتی ہے اور اس وقت کا بہترین مصرف بھی ہو جاتا ہے.اس لئے یہ تو ناممکن ہے کہ ہم جائزہ لینے کے بعد یہ کہیں کہ آئندہ سے بالکل ایک دوسرے سے ملنا بند کر دیا جائے.ہر شخص اپنے گھر میں بیٹھ جائے اور ہر شخص اپنے گھر کے ہر کمرے میں بند ہو کے بیٹھ جائے.یہ تو ناممکن ہے لیکن وقت کا جو بھی مصرف ہے اس میں اچھا بھی ہے اور برا بھی ہے.اچھا مصرف اختیار کرنا چاہئے.اس کا جائزہ آپ لیں کہ گزشتہ سال جو آپ نے بہت سا وقت ضائع کیا اور اپنی اگلی نسلوں کو بھی ایسی سمت میں دھکیلا ہے جہاں سے بعد میں آپ ان کو بلانا بھی چاہیں گے تو نہیں آسکیں گے واپس.اس کی بجائے آئندہ ایک باشعور بالغ نظر قوم کے انداز میں اپنے وقت کا جائزہ لیں اور آئندہ کے لئے بہتر پروگرام بنا ئیں.دوسرا حصہ جو وقت کے ضیاع کا ہے وہ اس وقت کی سب سے بڑی لعنت ٹیلی وژن ہے.ٹیلی وژن میں اتنا وقت ضائع ہوتا ہے کہ اگر ضائع ہونے والے وقت کا اندازہ کریں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ یہ مغربی قو میں بھی عموماً مصروف کہلاتی ہیں، جو عموماً اپنے وقت کی قیمت
خطبات طاہر جلد۵ 861 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء وصول کرنا جانتی ہیں ان کا ایک جائزہ میرے علم میں آیا ہے کہ تقریباً روزانہ ایک ہاؤس وائف (House Wife 5 گھنٹے ٹیلی وژن پر ضائع کرتی ہے.اگر یہ جائزہ درست ہے ،اگر درست سو فیصدی نہ بھی ہو تو تین گھنٹے بھی سمجھ لیں.تو تین گھنٹے ٹیلی وژن کے ساتھ بندھنا ایک بہت ہی بھاری وقت کی قربانی ہے.لیکن صرف یہ بات نہیں ہے اس کے اندر اور بھی ایسے خطرات ہیں جن کی طرف خصوصاً امیر ملکوں میں بسنے والے احمدیوں کو متوجہ کرنا ضروری ہے.ٹیلی وژن ایک دلچسپ چیز ہے یعنی دلچسپ ہوسکتی ہے کئی پہلوؤں سے.اس میں علمی پروگرام بھی ہوتے ہیں اس میں کہانیاں بھی ہوتی ہیں جو معصوم ہوں، کارٹون بھی ہوتے ہیں بچوں کے لئے اور تحقیقاتی مضامین بھی ہوتے ہیں، سیاسی مباحث بھی ہوتے ہیں، لیکن بالعموم ان سارے پروگراموں کا رحجان اسی فلسفہ حیات کی طرف ہے جس کا ذکر قرآن نے اس آیت میں فرمایا ہے یعنی جو سنجیدہ باتیں کرتے بھی ہیں وہ بھی اس احتیاط کے ساتھ کہ لوگ بور نہ ہو جائیں.اس لئے اس سے پہلے بھی گندہ پروگرام رکھیں گے فضول ، اس کے بعد بھی رکھیں گے بیچ میں اشتہار ہی گندے کر دیں گے اور کچھ نہیں تو عمومی تاثر جو ٹیلی وژن کا پڑتا ہے وہ یہ ہے کہ بچے دن بدن زیادہ پابندیوں اور ذمہ داریوں سے آزاد ہوتے چلے جاتے ہیں.بہت سے ایسے جرائم ہیں جوان سوسائٹیوں میں بڑھ رہے ہیں جو براہ راست ٹیلی وژن سے سیکھے جاتے ہیں.خاص ادائیں ہیں بدمعاشوں کی چلنے کی اور معصوم بچہ جب اس قسم کی اداؤں کو دیکھتا ہے تو ضروری نہیں ہے کہ وہ صحیح فیصلہ کرے کہ ہیرو کون ہے مجھے وہ بننا چاہئے یا ولن بننا چاہئے.ایک طبقہ ایسا ہے جن کے ساتھ ماں باپ کے سلوک اچھے نہیں ہیں ان کے اندر رد عمل پایا جاتا ہے اور ہر ایسا بچہ جس کے اندر کوئی نفسیاتی رد عمل پایا جاتا ہے وہ زیادہ اس کے لئے امکان ہے کہ وہ ہیرو کی بجائے ولن یعنی جو نیک انسان کا کردار ہے اس کی بجائے بدمعاش کے کردار کو اختیار کرے اور ان لوگوں کی آنکھوں کے سامنے ان کی نسلیں ولن بننے کی طرف زیادہ متوجہ ہوتی چلی جارہی ہیں اور ان کو پتہ نہیں لگ رہا کہ ہم کیوں کر رہے ہیں ایسا اور کیا کر رہے ہیں.احمدی بچے بھی جب دیکھیں گے تو ان میں سے بھی جو ایسے گھروں میں ہیں جن کے اندر نفسیاتی توازن نہیں پایا جاتے ان کے اندر کرائم (Crime) کا، جرم کا رحجان بڑھے گا اور جن کے اندر نہیں بھی بڑھے گا اس وجہ سے بعض دوسرے پروگرام براہ راست گندگی سکھانے والے ہیں ان میں سب کا ہی رد عمل
خطبات طاہر جلد۵ 862 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء تقریباً ایک جیسا ہی ہوگا اور اس کے لئے کوئی چھان بین نہیں.اس کے لئے تمیز کرنے کا کوئی انتظام ہی نہیں ہے گھروں کے اندر.اس لئے بہت حد تک مغرب کے زہر کو آپ اپنی نسلوں میں رائج کرنے کے سامان خرید لیتے ہیں بازار سے اور ان سے بچنے کا کوئی انتظام نہیں کرتے.صرف یہی نہیں بلکہ اس کے بعض ایسے مخفی بداثرات ہیں جو بہت ہی دیر پا اثر کرنے والے نہایت ہی خطرناک اور مہلک ہیں.دن بدن جوں جوں ٹیلی وژن کا رواج بڑھتا جا رہا ہے مطالعہ کا رواج کم ہوتا جارہا ہے.آپ اس دور کا تصور کریں جبکہ ٹیلی وژن موجود نہیں تھے اس وقت ہر روز ایک تعلیم یافتہ آدمی کا جتنا وقت مطالعہ میں خرچ ہوا کرتا تھا آج اس کا دسواں حصہ بھی نہیں خرچ ہوتا.پہلے تھکاوٹ کا علاج مطالعہ تھا، اب مطالعہ تھکاوٹ پیدا کرنے کا موجب سمجھا جاتا ہے اور مطالعہ کا علاج ٹیلی وژن ہے.دفتر میں کام کر لیا ، بچوں نے پڑھائی کر لی ، مطالعہ ہو گیا تھک گئے ، اب ہمیں ٹیلی وژن دیکھنا چاہئے اور مطالعہ میں اور ٹیلی وژن میں ایک بڑا نمایاں فرق ہے اور فرقوں کے علاوہ وہ فرق یہ ہے کہ مطالعہ اپنے اختیار سے ہوتا ہے اس میں جو چاہیں آپ وہی چیز اُٹھا کے پڑھ سکتے ہیں.ٹیلی وژن آپ پر ٹھونسی جاتی ہے اور مضامین کا اختیار غیروں کا ہے.آپ یہ کہہ سکتے ہیں ہاں ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں ہم فرق کر سکتے ہیں لیکن کتنے ہیں جو کرتے ہیں اور فرق کی گنجائش کہاں تک ہے.زمین آسمان کا فرق ہے ٹیلی وژن میں آپ کا اختیار ہی اتنا محدود ہوتا ہے کہ بعض دفعہ بعض خاندان ٹیلی وژن دیکھ بھی رہے ہیں بور بھی ہو رہے ہیں رات بھی جاگ رہے ہیں اور نہایت ہی بدمزگی کے ساتھ اس طرح پھر سوتے ہیں جاکے جس طرح ایک بدمزہ کھانا کھانے والا پیٹ بھرتا چلا جاتا ہے لیکن سمجھتا ہے کہ پیٹ نہیں بھر رہا زیادہ بھی کھا جاتا ہے تب بھی پیٹ بھرنے کا احساس نہیں ہوتا.اسی طرح ایسے ٹیلی وژن دیکھنے والے ایسے خاندان ملیں گے جو بیچارے بیٹھے ہوئے ہیں کہ کہیں سے تو لذت ملے ایک پروگرام بدلتے ہیں، دوسرے بدلتے ہیں، چوتھا بدلتے ہیں جہاں چار ہیں اور امریکہ میں تو ہمیں ہیں، چھپیں چھپیں، چھپیں چھپیں بھی ہیں.ان کو سمجھ نہیں آتی کیا کریں، لذت لینا چاہتے ہیں مل نہیں رہی اور تھک ہار کے سارا وقت ضائع کر کے پھر آخر وہ لیٹ جائیں گے پھر صبح نمازوں میں دیر اور پھر عبادتوں میں بداثرات پڑتے ہیں اس کے، وہ تو لازماً پڑیں گے ہی.مطالعہ میں اور اس میں تو زمین آسمان کا فرق ہے.جوں جوں یہ سہل انگاری پیدا ہورہی ہے طبیعتوں میں ٹیلی
خطبات طاہر جلد۵ 863 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء ویژن کی وجہ سے، ساتھ ساتھ مطالعہ مشکل اور مشکل ہوتا چلا جارہا ہے.یہاں تک کہ مذہبی مطالعہ تو ایک بہت بڑی مصیبت بن گئی ہے ہماری اگلی نسلوں کے لئے.آپ ان کو مذہبی مطالعہ کے لئے کتاب دیں گے تو حیران ہو کر دیکھیں گے کہ یہ کر کیا رہے ہیں یہ کوئی زمانہ ہے، تھکا ہوا میں سکول سے آیا ہوں، اپنی کتابوں سے فارغ ہوا ہوں اب مجھے ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھنے دیں، یہ کہتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب پڑھو فلاں خطبہ سنو یا فلاں خطبہ پڑھو یا یہ مطالعہ کر دیا عیسائیت اور اسلام کا موازنہ کرو.اتنی مصیبت بو جھل چیزیں تھوڑا سا پڑھیں گے تو بچے کہیں گے ہمیں سمجھ نہیں آرہی چھوڑ دیں بس اور ماں باپ بھی زور نہیں دیتے کہ کہیں بچے بالکل ہی ہاتھ سے نہ نکل جائیں.خود بے اختیار ہوتے چلے جارہے ہیں کیونکہ مطالعہ کی عادت نہیں ہے.مطالعہ کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے دنیاوی نقصان بھی بے شمار ہو رہے ہیں اور مذہبی اور روحانی اور تمدنی نقصانات تو بے شمار ہیں.رفتہ رفته انسان چند با شعور شرارت کرنے والوں کے قبضے میں جا رہا ہے بحیثیت مجموعی.اس بات کا آپ کو پورا احساس نہیں ہے امریکہ میں بارہا ایسے جائزے ہوتے رہے ہیں جن کے نتیجہ میں یہ بات زیادہ کھل کے سامنے آتی جارہی ہے کہ دن بدن انسان یعنی امریکہ کا انسان ایسی چند کمپنیوں کے ہاتھ میں جا رہا ہے جو جس طرف چاہیں اس کے دماغ کا رخ بدل دیں.یہاں تک کہ امریکن پریذیڈنٹ بھی اپنے آپ کو اس معاملے میں بالکل بے اختیار پارہے ہیں.چند سال ہوئے غالباً پریذیڈنٹ نکسن جو سابق پریذیڈنٹ تھے ان کی کتاب تھی جس کا میں نے مطالعہ کیا انہوں نے اپنے Presidency کے حالات اور بہت سی باتیں اور متعلقہ لکھی تھیں.اس میں وہ ضمنا ذکر کرتے ہیں کہ پولیٹکس اب ہمارے ہاتھوں سے نکل کر ان لوگوں کے ہاتھوں میں جارہی ہے جن کے ہاتھ میں ایسی دولتیں ہیں جن کے ذریعے وہ ٹیلی وژن پر کنٹرول کر رہے ہیں یعنی دولتوں کے مختلف مصارف ہیں، ان میں سے ایک باشعور مصرف یہ ہے کہ ٹیلی وژن اور میڈیا پہ قبضہ کیا جائے اور وہ لوگ اکثر یہود ہیں اور ان کی جو کتابیں بعض پرانی شائع ہوئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ صدی کے آخر پر ہی انہوں نے یہ منصوبہ بنایا تھا کہ دنیا کو اس طرح عیش و عشرت اور لہو ولعب میں مصروف کر دینا ہے اور ایسی نئی نئی ایجادات کرنی ہیں ان کے لئے لذت طلبی کی کہ وہ جو کچھ کمائیں ساری نعمتیں ان کی عیش وعشرت پر خرچ ہوں اور وہ روپیہ پھر واپس لوٹ کر ہمارے پاس آتا چلا
خطبات طاہر جلد۵ 864 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء جائے.ان کے خیالات کو رُخ دینا، ان کے زندگی کے رُخ خاص سمتوں میں پھیرنا ان باتوں کا اب ٹیلی ویژن کا بڑا بھاری اثر ہو چکا ہے.چنانچہ اگر مجھے صیح یاد ہے نکسن کی کتاب تھی تو اس میں یہ درج تھا کہ ٹیلی وژن کے متعلق ہم اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ ہم جو بات کہہ سکتے ہیں اپنے فعل کے جواز میں وہ محدود ہے ہم ساری قوم کو ان تمام وجوہات سے مطلع کر ہی نہیں سکتے جن کے نتیجے میں ہم نے یہ قدم اُٹھایا ہے ٹیلی وژن پر ایک مبصر آجاتا ہے جس کو پورے حالات کا بھی پتا نہیں اور وہ آکر جس طرح پنجابی میں کہتے ہیں نہ پھینٹے خان بنا وہ بہت بھاری آدمی بن کر تبصرے شروع کرتا ہے اور وہ آزاد ہے ہر بات کرنے پر اور ذمہ دار لوگ ہر بات بتانے پر آزاد نہیں ہیں.نتیجہ عوام الناس کے خیالات پر وہ اس سے زیادہ اثر پیدا کر جاتا ہے بعض مواقع پر، جتنا ایک سنجیدہ پریذیڈنٹ یونائیٹڈ سٹیٹس (United States) کا اثر کر سکتا ہے اور ڈبیٹ (Debate) میں وہ ہارتا ہے یہاں تک کہ وہ مجبور ہو جاتا ہے غلط پالیساں اختیار کرنے پر.وہ یہ نتیجہ نکال رہے تھے کہ اتنا خطرناک ہے اور آگے جا کر اتنا خطرناک اور ہو جائے گا کہ کچھ عرصے بعد ہماری حیات و ممات چند پروفیشنل ٹیلیوژن چلانے والوں کے ہاتھ میں چلی جائے گی، جس طرف چاہیں ہمارے خیالات کا رخ پھیریں کیونکہ ہم سب ایڈ کٹ (Addict) ہو چکے ہیں ٹیلی وژن کے، ٹیلی وژن کے نشے کے غلام بن چکے ہیں.اس لئے اس نقطہ نگاہ سے بھی دیکھا جائے تو رفتہ رفتہ یہ جو چیزیں ہیں، یہ جو بظاہر اعلیٰ مقصد کے لئے ایجادات تھیں، اعلیٰ مقاصد کے لئے نہیں رہیں بلکہ اس مقصد کی پیروی کے لئے ہوگئی ہیں جس کا ذکر قرآن کریم نے فرمایا تھا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا ہمیں کچھ پرواہ نہیں آئندہ زمانے پر کیا بنتی ہے، آئندہ ہماری نسلیں کیا بن کر اُٹھیں گی دنیا کے سامنے ، زندہ رہیں گی یا مریں گی کوئی پرواہ نہیں.زمانہ ہے جو پیدا کرتا ہے، زمانہ ہے جو مارتا چلا جاتا ہے.آباؤ اجداد کے زمانے سے ہم یہی دیکھتے چلے آرہے ہیں آئندہ بھی ہوتا رہے گا، کوئی رُخ نہیں، کوئی مقصد نہیں.اس لئے یہ تھوڑی سی زندگی جو ہمیں میسر ہے اس میں جو چاہتے ہو ، جس قسم کی عیش چاہتے ہو کرتے چلے جاؤ اور عیش کے حصول کے لئے ، لذت طلبی کے لئے ہر دوسری قدر کو قربان کیا جا سکتا ہے، یہ ہے فلسفہ حیات.اسی لئے جرم بڑھتے ہیں، اس لئے رفتہ رفتہ ٹیلی وژن والے جرائم دکھانے پر مجبور ہوتے چلے جارہے ہیں کیونکہ فلسفہ حیات اس کا مطالبہ کر رہا ہے یہ بات بھول گئے ہیں بعض مبصرین.
خطبات طاہر جلد۵ 865 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء وہ گندی فلمیں اس لئے دکھانے پر مجبور ہیں کہ یہ فلسفہ حیات فطرتا گند کا مطالبہ کر رہا ہے اور جو ٹیلی وژن گند نہیں دکھائے گا وہ اس دور میں زندہ نہیں رہ سکے گا، اس کو باہر نکال کے پھینک دیا جائے گا اور جو گند ایک دفعہ دکھا دے وہ اسی گند پر قائم رہے ایک دو سال تو وہ بھی اس باہمی دوڑ میں مات کھا کے مر جائے گا کیونکہ ایک گند کے بعد طبیعت سیر ہو جاتی ہے پھر نیا گند دیکھنا چاہتی ہے.اس لئے آپ گزشتہ ہیں، پچیس سال میں ٹیلی وژن کا جائزہ لے کر دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے دیکھ کر کہ اتنی زیادہ بے حیائی کی طرف تیزی سے اب ٹیلی وژن آگے قدم بڑھا رہا ہے کہ کچھ عرصے کے بعد وہ سب حدیں پھلانگ لے گا اور پھر کچھ بھی نہیں رہے گا.ہر قسم کی بے حیائی ہوگی لیکن اس سے بھی لوگ بور ہو جائیں گے.پھر وہ رد عمل ہوتا ہے جس کے بعد پاگل پن آتا ہے معاشرے کا بعض دفعہ Bohemianism اس سے پیدا ہوتا ہے ، بعض دفعہ ہیپی ازم پیدا ہوتا ہے، بعض دفعہ Drugs Addictioin پیدا ہوتی ہے، بعض دفعہ سارے فلسفہ حیات سے ایمان اُٹھ جاتا ہے، انسان کہتا ہے کیا سولائزیشن، کیا ایٹم بم ، کیا یہ کیا وہ کچھ بھی باقی نہیں رہتا.انار کی کی طرف انسان قدم بڑھاتا ہے اور انار کی کی طرف بہت سارے قدم بڑھ چکے ہیں کہ جن سے ان قوموں کی واپسی اب ممکن نہیں رہی اس طرف جا رہے ہیں جہاں ایک اور قانون قدرت جو قومی موت کے لئے ذمہ دار ہے وہ ان کو دھکیلتا ہوا قومی موت کی طرف لے جا رہا ہے اور یہ کہتے ہیں نہیں ہم اتفاقا ہی پیدا ہوتے ہیں اتفاقاہی مرجاتے ہیں، زمانہ ہمیں مارتا ہے یا زمانہ زندہ کرتا ہے.یہ حرکتیں جو ہو رہی ہیں آج دنیا میں یہ بھی خدا کے قوانین ہیں جو ایک قومی اجتماعی موت کے قوانین ہیں یہ ان کی طرف لے جارہے ہیں اور ایسی حرکتیں کرنے والے نہیں زندہ رہا کرتے زیادہ دیرہ.لازماً یہ اپنی قبر کھودر ہے ہیں خود آج نہیں تو کل اس میں گریں گے.تو ہمیں اپنے سال کا مطالعہ اس پہلو سے بھی کرنا چاہئے کہ کس حد تک ہم جن کی قومی زندگی کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کم سے کم ایک ہزار سال کا وعدہ کیا ہے کس حد تک ہم اس وعدہ کے مطابق اپنے قدم اُٹھا رہے ہیں، کس حد تک ہم وقت کو ضائع کر رہے ہیں ان کے ساتھ مل کر اور اپنے ذہنوں کو اندھا دھند بعض لوگوں کے غلام بناتے چلے جار ہے ہیں، کس حد تک ہم آزاد
خطبات طاہر جلد۵ 866 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء ہیں ، اپنے وقت کے خود مالک ہیں، کس حد تک ہم حیثیت یہ رکھتے ہیں کہ اپنے بچوں کے وقت کا مصرف ان کو بتائیں اور ان کو اپنے وقت کا بہترین مصرف کرنے پر آمادہ کریں ذہنی طور پر.جتنا آپ ٹیلی وژن کے معاملے میں بے خوف ہوتے چلے جائیں گے اتنازیادہ آپ کے اپنے وقت پر بھی آپ کے اختیارات کم ہوتے چلے جائیں گے، اپنی اولاد کے وقت پر اختیارات کم ہوتے چلے جائیں گے.پھر اس طرح چنگل میں پھنس جائے گی آپ کی اولاد کہ جب یہ بڑی ہوگی آپ کا کوئی اختیار نہیں رہے گا کہ ان کو واپس کھینچ کے لے آئیں.اس پہلو سے بھی اپنے گھروں میں باتیں کریں، جائزہ لیں مطالعے کی طرف توجہ دلائیں، خود مطالعہ کر کے ان کو بتائیں.آج اگر آپ جائزہ لیں سارے انگلستان کے خاندانوں کا تو آپ حیران ہوں گے یہ سن کر میں نے جائزہ نہیں لیا مگر مجھے پتہ ہے کہ یہی ہے کہ بھاری اکثریت خاندانوں کی ایسی ہے جہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی کتاب کا سال میں چند دن بھی مطالعہ نہیں ہوتا اور ایسے خاندان شاذ نظر آئیں گے جہاں ماں باپ مطالعہ میں اپنے بچوں کو شامل کر رہے ہیں.بچوں کا جائزہ لینے والے کہ دینی کتابیں کونسی پڑھ رہے ہیں، کتنی پڑھتے ہیں؟ کتنے خاندان ہیں یہاں ؟ انگلیوں پر گن کے بتائیے مجھے، چند ہیں گنتی کے.بھاری اکثریت یہی ہے جو وقت کی غلام بن کر ساتھ بہتی چلی جارہی ہے.حالانکہ مومن وقت کا خدا کی طرف سے ما لک قرار دیا جاتا ہے، اپنے وقت کا ، اسی لئے اس سے جواب طلبی ہوتی ہے.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو عظیم الشان تاریخی کلمات جو خدا تعالیٰ نے فرمائے ان میں ایک یہ تھے اَنتَ الشيخ المسيح الذى لا يُضَاعُ وَقْتُه ( تذکره صفحه: ۳۱۸) کہ اے معز مسیح تو وہ شخص ہے جس کا وقت ضائع نہیں ہو رہا.معلوم ہوتا ہے اس وقت بھی دنیا کی بھاری اکثریت کا وقت بے شمار ضائع ہورہا تھا اور ایک ایسا شخص خدا کو نظر آیا ہے جو حیرت انگیز تھا، جس کی کوئی مثال نہیں تھی اس دنیا میں یعنی ایک ایسا شخص جس کا وقت ضائع نہیں ہو رہا.تو آپ اس شخص کے غلام ہیں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انت الشيخ المسيحُ الذى لا يُضَاعُ وَقْتُه الی گواہی سوفی صدی آپ کے اوپر نہ بھی صادق آتی ہو دنیا کی نسبت سے تو نمایاں طور پر آپ کے حق میں صادق آنی چاہئے.کچھ وقت بے شک تھکاوٹ کے نتیجے میں آرام طلبی کی نظر کر دیں لیکن حتی المقدور کوشش کریں کہ زیادہ سے زیادہ وقت
خطبات طاہر جلد۵ 867 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء بچا ئیں اعلیٰ مقاصد کی خاطر، اعلیٰ مقاصد کی پیروی کے لئے تا کہ آپ کی آئندہ نسلیں آزاد نسلیں پیدا ہوں اور دن بدن مغربیت خود اپنے داموں کی اسیر ہوتی چلی جارہی ہے اور دن بدن جو اجتماعی غلامیوں کے قبضہ میں جارہے ہیں یہ لوگ ان سے آپ تو آزا در ہیں کم سے کم.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما یہ بھی خبر دی ہے کہ تیرے غلام آزاد رہیں گے، آزاد رکھیں جائیں گے.اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.جس زمانے میں Masonry کا ابھی تعارف ہورہا تھا دنیا میں، 1905ء میں پہلی دفعہ انگریزی زبان میں یہ کتاب ترجمہ ہوئی پروٹو کال آف ایلڈرز آف زائن Protocol of Elders of Zion) یعنی Zionism جو ہے یہودیوں کی تحریک اس کے بڑے لوگوں نے اپنے لئے کیا لائحہ عمل مرتب کیا ہے؟ دنیا کو اپنے چنگل میں لینے کے لئے.اس کتاب میں کھلے کھلے لفظوں میں وہ سارا پروگرام لکھا ہوا ہے.جس کے ذریعے ہم دنیا پر قبضہ کریں گے یعنی وہ یہود ایلڈرز کہتے ہیں ہم قبضہ کریں گے.اس میں یہ عیش پرستی کے نئے نئے سامان پیدا کرنا اور رفتہ رفتہ قوموں کو زندگی کے سنجیدہ چیزوں سے غافل کر کے ان بے ہودہ امور کی طرف متوجہ کرتے چلے جانا اور فضول وقت کے ضیاع کی طرف دنیا کی توجہ پھیر دینا، یہ سارے پروگرام کھلے کھلے لفظوں میں انہوں نے لکھے ہوئے ہیں اور جو بات کھولی ہے آخر پر وہ یہ ہے کہ ہم ان سب چیزوں کی پیروی کے لئے Freemasonry کواستعمال کریں گے اور فری میسنز کے ذریعے دنیا پر قبضہ کریں گے.عجیب بات یہ ہے Freemason کے متعلق بار ہا مختلف ملکوں میں خطرات محسوس ہونے کے نتیجے میں تحریکات بھی چلی ہیں اس کو توڑنے کے لئے یا اس چنگل سے نکلنے کے لئے لیکن سب لوگ ناکام رہے ہیں.انگلستان میں ہی فری میسنری کے متعلق بعض کتابیں بھی شائع ہوئیں، ٹیلی وژن پر پروگرام آئے ، دونوں طرف لوگوں کو موقع دیا گیا اور کھلم کھلا یہ بات ایک فریق نے ثابت کی کہ ہماری انگلستان کی زندگی میں فری میسنز کا اتنا قبضہ ہو چکا ہے کہ اس سے اب نکلنا مشکل ہو چکا ہے عرب دنیا فری میسنز کے قبضے میں جا چکی ہے تمام عرب خواہ کسی ملک سے تعلق رکھتے ہوں، الا ماشاء اللہ کسی نہ کسی طرح فری میسنز سے تعلق رکھے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو 1905ء میں جب کہ یہ تذکرے چل رہے تھے کہ ہم آئندہ دنیا کو فری میسنز کے ذریعے اپنا غلام بنا ئیں گے.اللہ تعالیٰ نے (۱۹۰۱ء میں الہام فرمایا فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں
خطبات طاہر جلد۵ 868 خطبه جمعه ۲۶ / دسمبر ۱۹۸۶ء گئے ( تذکرہ: ۳۳۶) اگر اس الہام کا عمومی مطلب لیں تو پھر تو یہ خبر نعوذ بالله غلط نکلی کیونکہ ساری دنیا پر فری میسنز مسلط ہو چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو الہام کیا گیا وہ آپ کی جماعت کے متعلق تھا اور یہ وعدہ تھا فری میسن تم پر مسلط نہیں کئے جائیں گے.ساری دنیا ان کی غلام بن جائے گی تم آزاد مسیح ہو تمہارے وقت پر میں فری میسن کا قبضہ نہیں ہونے دوں گا.اس الہام کی روشنی میں ہی جماعت کو اپنا پروگرام مرتب کرنا چاہئے اور ہر اس دجال کے چنگل سے آزاد ہونے کی کوشش کرنی چاہئے جس میں رفتہ رفتہ غیر شعوری طور پر خود بخود ہماری نسلیں ان کی غلام بنتی چلی جارہی ہیں، کچھ تو دنیا میں ایسے ہوں جو آزاد ہوں سوائے خدا کے کسی اور کی غلامی میں وہ سر نہ جھکاتے ہوں اور آپ نے چونکہ دنیا کو آزاد کرانا ہے اس لئے بہت ہی ذمہ داری ہے.تو اس سال کے آخر پر اس لحاظ سے اپنے گزشتہ سال کا جائزہ لیں کہ آپ نے اور آپ کے بچوں نے اپنے آپ کو آزا در رکھنے کی کیا کوشش کی ، اپنے وقت کو بہترین مصرف میں استعمال کرنے کی کیا کوشش کی سنجیدہ کتابوں کے مطالعہ کی طرف کیا توجہ کی ، آئندہ کے لئے اس روشنی میں کیا پروگرام مرتب کرنا چاہئے جس سے ہم آئندہ سال فائدہ اُٹھائیں اور سال کے آخر پر پھر جائزہ لیں کہ کس حد تک ہم اس میں کامیاب ہوئے.ان امور کی طرف اپنے گھروں میں مجالس لگا کر توجہ کریں، جس طرح جماعت کی مجالس عاملہ بیٹھی ہوں گی.اس طرح اب احمدی گھروں میں یہ تذکرے چلیں تا کہ آپس یہ میں باتیں کریں گے تو پھر دماغ اور زیادہ کھلیں گے اور روشن ہوں گے اور خیالات نشو و نما پائیں گے.اکیلا بیٹھا آدمی بعض دفعہ اتنی سنجیدہ باتیں نہیں سوچ سکتا.اکیلا سوچنے کی کوشش کرے تو بعض دفعہ بور بھی ہو جاتا ہے اور نیند بھی اس کو جلدی آجاتی ہے.اس لئے آپ کو چاہئے کہ اپنے گھروں میں مجالس میں موضوع سخن بنائیں، ان پر گفتگو کریں اور پھر بچوں کو ساتھ شامل کریں.ان کو سمجھائیں کہ یہ سنی ہیں ہم نے باتیں جن کی روشنی میں ہمیں آئندہ کے لئے کچھ کرنا چاہئے تم کس حد تک تعاون کرو گے، کس حد تک ہم پروگرام کو بدلیں کہ زندگی کی لذتیں جو جائز ہیں وہ بھی حاصل کریں مگر اپنے وقت کو ضائع نہ ہونے دیں گے.اللہ ہمیں اس کی توفیق دے.(آمین)
اشاریہ
20- فہرست اشاریہ 1--- ---4 | ص.21 22-- 9 ض 9---- 22 22 22--- 24 -b9 10 -E 11--- i 12- 12---- 25- ----12 | ف.-2 25 - 13 13- & 26 13---- 2 28--- 16 28---- 17---- 29 17………….32 --18 ن.34.18 35 35 0 19 -----19 | ی..
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ آئیوری کوسٹ آؤٹ اصل نگران تقویٰ ہے آڈٹ ایک حد تک کام کر سکتا ہے 263 آڈٹ کی رپورٹوں کا نظام 265 آخرت آخرت سے متعلق قرآنی پیشگوئیوں کا مقصد آخرت اور قرآن کریم آخرین آخرین کے ساتھ مصائب کا دور گزر رہا ہے آزاد کشمیر آزادی ضمیر آزادی ضمیر کے جہاد میں حضور کا اسوہ آکسفورڈ آل ابراہیم 696 695 490 485 811.801 497 آیت خاتم النبین آیات قرآنیہ البقرة 724 822, 823 ود كثير من اهل الكتاب لو يردوكم (۱۱۰) 753، 313,315 وقالوا لن يدخل الجنة الامن كان هودا (البقرة ١ ١ ١ ) صبغة الله ومن احسن من الله صبغة (۱۳۹) ولكل وجهة هو موليها (۱۴۹) ومن حيث خرجت فول وجهک (۱۵۱) يايها الذين امنوا استعينوا بالصبر (۱۵۴) يايها الذين أمنوا انفقوا مما رزقناكم (۱۵۵) يايها الذين أمنواكتب عليكم الصيام (۱۸۴.۱۸۵) شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن (۱۸۷،۱۸۶) مثل الذين ينفقون اموالهم (۲۶۵،۲۶۲) آل عمران ان الدين عند الله الاسلام (۲۰) درود بھیجنے کا مطلب یہ تھا کہ حاسدین بھی ہوں گے 752 آل محمد درود بھیجنے کا مطلب یہ تھا کہ حاسدین بھی ہوں گے 752 آمنه بی بی آمنه بیگم 520 155 ومن يبتغ غير الاسلام (۸۶) ان اول بيت وضع للناس للذي ببكة (۹۷) كنتم اعداء فالف بين قلوبهم (۱۰۴) كنتم خير امة اخرجت للناس (١١١) ان تمسسكم حسنة تسؤهم (۱۲۱) تلک الايام نداولها بين الناس (۱۴۱) آمنه کرامت اللہ 467 756 70 580 417,425 157,551 241 383 329 471,474 695 695 428 126 767,580 225 271
ان الله اشترى من المومنين انفسهم بان لهم الجنة (ااا) 717 يونس الرتلك آيات الكتاب انزلناه الیک (۳۰۱) ان في اختلاف الليل والنهار (۷۹) ان الذين لا يرجون لقاء نا( ١٠ ) الا ان اولياء الله لا خوف عليهم (۶۴) هود من كان يريد حيواة الدنيا ( ٦١ ) فاوردهم النار (۹۹) 287 643 645 651 646 209 556 531 303 681 32 178 429 649 681 137,340 يوسف انما اشکو بثی و حزنی (۵۶) الرعد له معقبات من بین یدیه و خلفه (۱۲) ابراهيم وسكنتم في مساكن الذين ظلموا (۴۶) النحل جادلهم بالتي هي ا من (۱۲۶) الكهف قل لو كان البحر مداد الكلمات ربی (۱۱۰) الحج لن ينال الله لحومها ولا دماء ها (۲۸) ان الذين كفروا ويسدون عن سبيل الله (۲۶) مومنون أيعدكم انكم اذا متم (۳۸.۳۶) ادفع بالتي هي احسن (۹۷) الفرقان ربنا هب لنا من ازواجنا وذرياتنا (۷۵) 2 1 801 646 648 283 140,151 747,750 313 2 225 1 57 499 12 191,203 26 260 6,64 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ ربنا اغفر لنا ذنوبنا و اسرافنا فی امرنا(۱۴۸) لله ملك السموات و الارض (۱۹۰) ان في خلق السموات والارض ( ١٩١) ربنا ما خلقت هذا باطلا (۱۹۲) لا اکراه فی الدین (۲۵۷) النساء واتقوا الله الذي تسالون به والارحام (۲) ألم تر الى الذين اوتوا نصيبا من الكتاب (۵۲) ام يحسدون على اتاهم الله من فضله (۱۵۵) المائده يا اهل الكتاب قد جاء کم رسولنا (۲۰) قل لا يستوى الخبيث والطيب ( ١١٠ ) لله ملك السموات و الارض وما فيهن (۱۲۱) انعام قل هو القادر على ان يبعث عليكم (۶۶) لا تسبوا الذين يدعون من دون الله ( ۱۰۹) ما قدروا الله حق قدره (۹۲) اعراف قال موسى لقومه استعينوا بالله (۱۲۹) رحمتی وسعت كل شئ (۱۵۷) ومن يوق شح نفسه (۱۰) انفال وما رميت اذ رميت ولكن الله رمی (۱۸) يايها الذين أمنوا ان تتقوا الله يجعل لكم فرقانا (۳۰) 191,225,230 506 508 214 التوبه ومنهم الذين يوذون النبي (١٣.١١ ) و منهم يلمزک فی الصدقات (۵۸) والسابقون الاولون (۱۰۰)
اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ النمل امن يجيب المضطر (۶۳) العنكبوت والذين جاهدوا فينا لنهدينهم سبلنا (۷۰) الروم ومن آياته ان خلق لكم من انفسكم (۱۲۲) ظهر الفساد في البر والبحر (۴۱) احزاب فمنهم من قضى نحبه منهم من ينتظر (۲۴) ما كان محمد ابا احد من رجالکم (۴۱) ان الله وملائكته يصلون على النبي (۵۸) قُولُوا قولا سديدا (۷۱) يايها الذين أمنوا لا تكونوا كالذين اذوا(۷۰) فاطر افمن زين له سوء عمله (۱۱۹) يس اوليس الذي خلق السموات والارض (۸۲.۸۴) الصافات افعل ما تؤمر ستجدوني ان شاء الله (۱۰) حم السجده فاذا الذی بینک و بینه عداوة كانه ولی(۳۵) الزخرف فاما نذهبن بک فانهم منتقمون ( ۴۲) الاحقاف اولم يروا ان الله خلق السموات (۳۴) فاصبر كما صبر اولو العزم من الرسل (٣٦) 521,531 24 139 776 169,215 519 505 147 509 539 27,38 218 439 ,412 36 561,579 3 محمد افلا يتدبرون القرآن ام على قلوب اقفالها (۲۵) 427 الفتح يد الله فوق ايديهم ( ا ا ) محمد رسول الله والذين معه (۳۱) الحجرات 6 6 انما المومنون اخوة فاصلحوا بين اخويكم (۱۴.۱۱) 603 القمر ولقد جاء آل فرعون النذر (۴۲) الرحمن 28,40 الرحمن علم القرآن خلق الانسان (۵۲) هل جزاء الاحسان الاحسان(۶۱) 31 466 الحشر يايها الذين أمنوا اتقوا الله ولتنظر نفس(۱۹) الجمعه و آخرین منم لما يلحقوا بهم (۴) يايها الذين أمنوا اذا نودى لصلوة (١٠) المنافقون يقولون لئن رجعنا الى المدينة (۹) التغابن يسبح لله ما في السموات وما في الارض (۲) الطلاق ومن يتق الله يجعل له مخرجا (۴.۳) التحريم يايها الذين أمنوا قوا انفسکم و اهلیکم (۷) الملک تبارك الذي بيده الملک (۲) 739 406 399 509 173 1 835 1
314 314,324-326 ومن شر غاسق اذا وقب (۴) ومن شر حاسد اذا حسد (۶) اللہ تعالی رہستی باری تعالیٰ ہر تحقیق کے میدان میں یک مقام پر پہنچ پر خدا کی ہستی کو تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے 851 خدا تعالی کی شان رحمت اور شان کریمی اتنی وسیع ہے کہ ہر بات میں اُس کی اطاعت نہ بھی کرو تب بھی قبولیت دعا کا فیض انسان کو پہنچ سکتا ہے 334 جب تک دنیا بکثرت خدا والے نہیں دیکھ لیتی خدا کی ہستی پر 528 کامل یقین دنیا پیدا نہیں کرسکتی جب تک خدا کی ہستی پر کامل یقین پیدا نہیں ہو جاتا اس وقت تک اسلام کے پیغام کو دنیا صمیم قلب کے ساتھ قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوسکتی 528 جماعت احمدیہ کا نظام حیات اور نظام ممات بھی ایک مقتدر کارساز ہستی کے ہاتھوں میں ہے 856 محنت کا اجر پانا خدا کی ہستی کے خلاف دلیل نہیں بلکہ خدا کی ہستی کا ثبوت ہے 647 851 284 432 282 406 728 276 420 عیسائیت فرضی طور پر ہستی باری کی قائل ہے ابوظہبی ابرہہ خانہ کعبہ پر لشکری کشی کرنا حضرت ابن عمرؓ ابو جہل مولانا ابوالعطا جالندھری حضرت ابوسعید خدری ابوطالب 4 27,38 27,36 27,37 32 32 243 208 39 320 220 31 31 675,689 698 709 126 اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ المعارج فلا أقسم برب المشارق (۴۱۱) القيامة أيحسب الانسان الن يجمع عظامه (۴.۵) الم يكن نطفة من مني يمنى (۳۸.۴۰) عبس خلقه فقدره ثم السبيل يسره (١٢.٢٠) الانفطار يوم لا تملك نفس لنفس عن شيئا (۲۰) البروج ان الذين فتنوا المومنين ( ا ا ) الطارق فلينظر الانسان مم خلق (۹.۶) الاعلى فذكر ان نفعت الذكرى (۱۰۱) راضية مرضيه (۲۹) الفجر الشمس والارض وما طحها (۷۱) ونفس وما سوها(۹.۸۱) القارعه فاما من ثقلت موازينه (۷) العصر والعصر ان الانسان لفي خسر (العصر ۴.۲) الا الذين آمنوا وعملوا الصالحات (۴) وتواصوا بالحق (۴) الفلق
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ حضرت ابو ہریرة حضرت ابوبکر صدیق 388, 613 97, 376, 419, 494, 563, 823, 824-826 5 86 اسلام اور مسلمانوں کے اخلاق انسانی اخلاق پر بہت مضر اثرات رکھنے والی جو بیماریاں ہیں ان میں سب سے نمایاں حیثیت حسد کو ہے ایک دوسرے پر الزام تراشی نہ کیا کرو 747 78 آپ کا حضور اور حضرت عائشہ کو دیکھ کر فرمانا کہ مجھے اپنی صلح ایک قوم دوسری قوم کی بڑائی کی وجہ سے تحقیر نہ کرے 74 میں شریک کرلو آپ نے منکرین زکوۃ کے خلاف تلوار اٹھائی استحکام خلافت کیلئے کاوشیں عشق رسول عله اجرائے نبوت اٹلی احد اللہ آف شوپیاں کشمیر انڈیا احمدی معاشرہ 97 824 826 97 820,824,825 781 حسن کامل یعنی اخلاق کا حسن کامل حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں رونما ہوتا ہے 101 ہر انسان کے اندر کچھ خوبیاں ہیں کچھ بدیاں ہیں اوران کی ایک تاریخ اس کے ذہن میں محفوظ چلی آرہی ہے 845 برائی کا مقابلہ نیکی کے ہتھیار سے کریں 675 متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ موٹی باتوں جیسے زنا چوری تلف حقوق ریا اور بخل کے ترک میں پکا ہو تو اخلاق رذیلہ سے پر ہیز کر کے ان کے بالمقابل اخلاق فاضلہ میں ترقی کرے ارتداد 234 اپنے گھروں کو مغربی غیر دینی اثرات سے بچائیں 675 احمدیت احمدیت کا پیدا کردہ انقلاب 316, 318, 319, 325, 353, 517, 563, 753,754, 829 288 احمدیت کی دشمنی کی تاریخ پر نظر ڈالیں ہمیشہ آپ کو پہلے سے بڑھتے ہوئے مطالبات دکھائی دیں گے.207 احمدیت نے بڑھنا ہے کہ نور مصطفوی پھیل جائے 228 احمد یہ مشن جنوبی امریکہ احمدیہ اخلاق اخلاق حسنه 3 اڑیسہ حسد کے نتیجہ میں ارتداد کی تحریکیں جنم لیتی ہیں از دواجی زندگی عائلی زندگی اور سورہ فرقان کے تصورات ازواج مطہرات 754 571 137 حضور اکرم نے ایک مرتبہ بھی ازواج مطہرات میں سے کسی کو اخلاقیات کی اقسام 595, 600, 686 84 اعلی خلق محض کوئی جذباتی نرمی کا نام نہیں ہے 100 نہیں مارا اسرائیل حضور کی پیروی کا دعوی کرنے کے بعد آج مسلمان اخلاق میں دنیا میں سب سے ذلیل ترین قوموں میں شمار ہونے لگے اسرائیکی قوم ہیں 86 سے بہتر ہے آنحضرت نے عائلی خرابیوں سے بچنے کے لئے سب سے بنیادی تعلیم یہ بیان فرمائی اور جس پر عمل کر کے دکھایا کہ اپنے اسلام خلق کی حفاظت 33 93 96 75,362,605 اسرائیلی قوم کو بھی یہ گمان ہے کہ وہ خدا کے دوسروں بندوں 75
اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ 6 اب صرف دین اسلام ہی رہ گیا ہے جو اطاعت کے گر کی محبت کی بھی ایک لذت ہے سکھائے گا جو فرمانبرداری کی راہیں دکھائے گا جو تمہیں اسلامی نظام اندرونی امن بھی نصیب کرے گا 708 150 اسلامی سوشل نظام کی روح اور فلسفہ خاندان کے نظام کو آج تم اسلام کو سیکھو تا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تم اسلام تقویت دینا ہے سکھا سکھ اسلام اور مسلمانوں کے اخلاق 713 86 حضرت اسماعیل علیہ السلام اسلام کا نظام ایک بہت ہی گہرا اور مستحکم نظام ہے 842 سید اسماعیل شہید اسلام کے مستقبل کیلئے کینیڈا اہم کردارادا کر سکتا ہے 663 575 اسیران راه مولی پاکستان میں اسلام کے نام پر احمد یوں پر مظالم اسیران ساہیوال جب تک خدا کی ہستی پر کامل یقین پیدا نہیں ہو جاتا اس وقت اسیران سکھر تک اسلام کے پیغام کو دنیا صمیم قلب کے ساتھ قبول کرنے 528 اشتراکیت پر آمادہ نہیں ہوسکتی جماعت احمدیہ کا یہ کام ہے کہ وہ اس کھوئی ہوئی عظمت کو دوبارہ حاصل کرے ہر احمدی اسلام کو ایک سچا دین سمجھ رہا ہے اسلام آباد 86 792 140 217 795 217-218, 340 213,257 213 5, 75, 76, 605, 606, 750, 839, 840 اشتراکیت حسد کی پیداوار ہے اشعار 750 300, 449, 451, 452, 459, 464, 492, 521, 691, 847 702 اسلام اور امن عالم اسلام کے معانی آئیں وہ یہاں خدا کرے پر نہ کرے خدا کہ یوں اک کرشمہ اپنی قدرت کا دکھا اگر وہ جاں کو طلب کرتے ہیں تو جاں ہی سہی پر تو خور سے ہے شبنم کو تا کی تعلیم 76 46 219 34 تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے 581 تیری رحمت ہے میرے گھر کا شہتیر اسلام یہ ہے کہ اول اپنے آپ کو کسی کے سپر د کر دینا اور کلیڈ تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے تابع مرضی مولا ہو جانا اسلامی فاتح نظام الدین اولیاء اسلامی فتوحات جب قیصر و کسری کے محلات دکھائے گے اسلامی معاشرہ 700 275 276 46 87 جب بھی دیکھا ہے تجھے عالم نو دیکھا ہے 144155 جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود جس بات کو کہے کہ گرونگا میں یہ ضرور 18 44,45,186 چلی سمت غیب سے اک ہوا کہ چمن سرور کا جل گیا 446 حریفوں کے لگے ہر سمت سے تیر حق پرستی کا مٹا جاتا ہے نام حیلے سب جاتے رہے اک حضرت تو اب ہے اسلامی معاشرہ کی روح خاندانوں کا رحمی رشتوں پر قیام اور خدا نے ان کی عظمت سب اڑادی رحمی رشتوں کو اہمیت دینا ہے 149 در دو عالم مراعز یز توئی اسلامی معاشرے میں صرف جنسی لذت نہیں ہے ماں اور بیٹے رات محفل میں تیرے حسن کے شعلہ کے حضور 46 46 198 47 336 519
اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہنرن کو سر سے لے کر پاؤں تک وہ یا ر ہے مجھ میں نہاں عشق اول سرکش و خونی بود کل کے لئے کر آج نہ خست شراب میں 7 677 اقبال اختر 236 اقبال الدین امینی 6 کیا میرے دلدار تو آئے گا مر جانے کے دن گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں لوگ کہتے ہیں کہ نالائق نہیں ہوتا قبول میں بلاتا تو ہوں اُس کو مگر اے جذ بہ دل نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہیں محصور ہر گز راستہ قدرت نمائی کا ہراک نیکی کی جڑ یہ انقا ہے ہم نے اسلام کو خود تجربہ کر کے دیکھا ہوا آخر وہی جو تیری تقدیر 443 199 271 131 337 652 44 173 738 433, 448 559 اقتدار اقتدار سے مراد یہ ہے کہ عام تقدیر سے ہٹ کر ایک غیر معمولی تقدیر الہی ظاہر ہو 68 اقتداری نشانات مولوی محمد علی صاحب ایم اے کی گلٹی کا غائب ہو جانا 66 اقتداری نشانات کے ظہور کے لئے انسان کے اندر ایک ایسی تبدیلی ہونی چاہئے جو مافوق العادت ہو با بوا کبر علی 68 468 یہ سراسر فضل و احساس ہے کہ میں آیا پسند یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں یہ ہو میں دیکھ لوں تقومی سبھی کا اصلاح 46 اللہ تعالیٰ نیز دیکھئے صفات الہیہ 132 18 139 خدا تعالیٰ کے بارہ میں قدر اور رزق کے الفاظ کا مفہوم 9 اللہ ہمارا مولیٰ ہے اور تمہارا کوئی مولیٰ نہیں ملک اللہ دتہ جماعت کوسب سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح کی طرف جھکنا الہامات حضرت اقدس مسیح موعود چاہئے اصلاح معاشرہ 297 عربی انا الفتاح افتح لك جب تک خدا کو حاضر ناظر جان کر ہم اپنے معاشرے کی اصلاح تری نصرا عجيبا و يخرون على المساجد 487 814 من فتح له منكم باب الدعاء فتحت له ابواب الرحمة نہیں کریں گے اس معاشرہ کی اصلاح نہیں ہوسکتی 154 280 280 283 اطفال الاحمدیہ شیخ اعجاز احمد مرزا اعظم علی بیگ اعمال 717 418 571 انت الشيخ المسيح الذي لا يضاع وقته انی احافظ كل من في الدار انى مع الافواج اتیک بغتة اردو 866 66 49 اٹھو نمازیں پڑھیں اور قیامت کے نمونے دیکھیں 171 فری میسن مسلط نہیں کئے جائیں گے اعمال کے حسن کی بنیاد نیک ارادوں اور نیک دعاوی کے حضرت سیدہ امتہ الحفیظ بیگم اظہار پر نہیں ہوا کرتی بلکہ نیک نیات پر ہوتی ہے 499 افریقہ 259 امة الحق 867 346 781
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ امته الحمید بیگم البیه قاضی محمد رشید امر بالمعروف جماعت احمد یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر امریکہ 155 8 انگلستان 75, 77, 165, 222, 263, 265, 271, 343, 372, 414, 449, 450, 451, 453, 457, 458, 461, 464, 483, 496, 516, 535, 536, 540, 549, 577, 605, 607, 639, 659, 667, 669, 670, 688, 691, 714, 733, 776, 788, 866, 867 767 3,4,78,256,263,265,483,496,516,523, 550,608,632,663,666,667,670,693, 704,712,724,771,788,862,863,864 جنوبی امریکہ امینہ طاہر انبیاء ایسا ملک ہے جس میں کروڑ با زائرین سیر و سیاحت کی غرض 2,3,5 سے ہر سال آتے ہیں 447 انوارالدین امینی شیخ انور علی 449 558 414 573 انبیاء کا انکار بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور اوسلو پر حسد کے نتیجہ میں ہوتا ہے ایک لاکھ چو میں ہزار انبیاء دنیا میں زیادہ موثر ہستی انبیاء کی ہستی ہوتی ہے 748 32 634 اوصاف احمد آف مظفر گڑھ اوکاڑہ انبیاء غیر معاشرے سے متاثر نہیں ہوتے اور معاشرے کو اپنے رنگ میں ڈھالتے ہیں یہی نبوت کی سب سے بڑی اولیاء اللہ شان ہے 634 301,343, 559,733 571, 781 847 445, 558, 746 جماعت کیلئے ضروری ہے کہ اگر آپ نے باقی دنیا ہلاکتوں سے بچانا ہے تو پہلے اپنے اندر اولیاء اللہ والی خود اعتمادی تو پیدا کریں 652 خدا فرماتا ہے میرے ولی بن جاؤ تو پھر سارے رستے دونوں انڈونیشیا انڈیا حضرت انس بن مالک انسانی نظام حیات انفاق فی سبیل اللہ اللہ کے حضور سات سو گنا بڑھتا ہے انفاق فی سبیل اللہ اور اس کے فضائل 361 851 472-473,47 473 472 خرچ کرنے والا اگر دیانت داری کے تقاضوں کو پورا کرے گا 655 315, 425, 427, 753, 773, 774, 775 جہان کے تمہارے ہیں اہل کتاب حضرت ایاز بن عبد الله ایبٹ آباد ایجادات 121 285,347,445 تو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی اخراجات میں غیر معمولی برکت ایجادات لذتوں کو آگے بڑھانے والا نظام ہے عطا فرمائے گا انکساری اور اسوہ رسول 478 125 854 ایجادات کے جتنے بھی نقشے ہیں ویڈیو وغیرہ یہ سارے ایک ہی سمت میں حرکت کر رہے ہیں 854
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 9 ایلسلواڈور حضرت بابا گرونانک بانیان مذاہب کی عزت بدظنی بدظنی اور غیبت سے بچیں 675,690 بشیر احمد باجوہ بشیر احمد ایڈووکیٹ بشیر احمد خاں 503 بشیر احمد موذن 503 ڈاکٹر بشیر احمد ناصر 73 701 746 470 550 847 550 حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفہ السیح الثانی 67, 252, 562, 581, 673, 676, 762, 813, آئندہ زمانے کی جنگوں کا نقشہ اور آپکی تفسیر 847 776 حضرت بدھ علیہ السلام بدھ مت سری لنکا میں بدھ ازم کی موجودہ صورت حال 701 بدیاں دور کرنا بلوچستان بہاولنگر 422, 424, 445 445, 719, 813 ہر بدی کو حسن سے تبدیل کرنا ہر ظلم کی جزائیکی سے دینا 439 بیت اللہ برائیاں بیت اللہ کا قبلہ مقرر ہونے پر اہل کتاب نے طعنے دیئے 427 برائی کا مقابلہ نیکی کے ہتھیار سے کریں 675 | بيلجيئم 731, 745 سب برائیوں کی جڑ سنت نبوی سے گریز ہے معاشرتی برائیاں اور جماعت کی ذمہ داریاں 92 88 گھر کی جنت میں حائل بعض برائیوں کا ذکر 91,111 معاشرتی برائیاں اور ان سے بچنا برازیل احمد یہ مشن کے قیام کا ذکر جنوبی امریکہ کا بیڑ املک 603 24 4 برٹش کولمبیا برلن بریلوی بشارت احمد رخسانہ شہید خاتون کے بھائی پاکستان 159, 160, 168, 169, 191, 192, 194, 196, 199, 200, 205, 209, 210, 262, 263, 265, 270, 303, 306, 307, 308, 309, 310, 344, 348, 350, 352, 357, 361, 368, 376, 377, 385, 411, 417, 419, 421, 429, 441, 444, 459, 464, 465, 475, 483, 490-493, 500, 504, 512, 513, 515, 523, 542, 558, 562, 563, 564, 565, 567, 569, 576, 577, 578, 582, 585, 620, 661, 669, 678, 687, 707, 714, 719-726, 732, 738, 2,4 301,301 704 428, 513, 795 436, 437
10 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ ,789 ,788 ,785 ,783 ,776 ,775 751 تاج محمد ناظم اعلیٰ ختم نبوت 793, 794, 797, 799, 815-821, 827, 828, 840 تاریخ اسلام 423 احمدیوں کو زبر دستی نماز سے روکنے کی کوشش کی گئی 787 اس زمانے میں جو فاتح اسلام تھے وہ تو بزرگ اور اولیاء اور کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں جہاں جماعت کو اللہ نے کلمہ طیبہ فقیر اور درویش تھے 445 274 ایسے لوگ بھی تھے جو حضرت رسول کریم کے متعلق عام کی محبت میں قربانیوں کی توفیق نہ عطا فرمائی ہو ملاؤں کے ہاتھوں حکومت آنے کا انجام اور پاکستان 168 پرو پیگنڈا کرتے تھے پاکستانی Paki ایک گالی سمجھا جاتا ہے پاکستانی حکومت 78 تبلیغ 506 تبلیغ کے جتنے مواقع میسر آئیں اس سے فائدہ اٹھائیں 465 روحانیت ،تربیت اور تبلیغ کا جہاد تحریک جدید پاکستان میں جماعت کے خلاف انتقامی کارروائیاں 804 257, 433, 470, 717, 718, 720, 721, 722, 723, 724, 725, 726, 781 721 722 717 561 دفتر اول کے کھاتوں کو جو زندہ کرنا ہے 585-588 420 421 احمدیوں کے خلاف کارروائیاں پاکستانی علماء دفتر چهارم علماء کا کہنا کہ اپنی مسجدوں کے رخ بدل دو یہ اسلامی شعائر کے سال نو کا اعلان تحریک شدهی تحریک شدھی کے خلاف اعلان جہاد تحقیق 423 4 415,450,719 خلاف ہے پرتگال پشاور 53, 116, 586, 627, 738 415 پیرس پیشگوئیاں قبلہ بدلنے کے بارہ میں قرآنی پیشگوئی ہر تحقیق کے میدان میں یک مقام پر پہنچ پر خدا کی ہستی کو تسلیم کرنا لازم ہو جاتا ہے تخلیق 851 نشو و نما تخلیق کا ایک دوسرا پہلو ہے 19 35 تخلیق عالم کے متعلق جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں ذکر 426 تخلیق عالم آخرت سے متعلق پیشگوئیوں میں قرآن کریم نے ہمیشہ دنیا تخلیق عالم اور قدمیر کے متعلق رونما ہونے والے واقعات کا ذکر کیا 696 33 37 35 835 ہے وہاں قدیر کا لفظ ملتا ہے تخلیق کائنات تربیت بچوں کی تربیت اور والدین کی ذمہ داری 300 تاج دین
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 11 تربیتی نقطہ نظر سے حسد کی غیر معمولی اہمیت روحانیت، تربیت اور تبلیغ کا جہاد عورت کی تربیت اور جماعتی ذمہ داری تربیت اولاد 231 314 804 جھگڑے ختم کرنے کیلئے تقویٰ کا معیار بڑھائیں 311 تقویٰ کی حضور کی بیان فرمودہ تعریف 119 تلاوت قرآن کریم جن گھروں میں نمازوں کا اہتمام ہو اور تلاوت کا اہتمام ہو 688 آئندہ نسلوں کی تربیت کیلئے موجودہ نسلوں کو سنبھالیں 739 وہاں بچوں کو کہہ کہہ کر سکھانا نہیں پڑا کرتا بچے کی عمر کا ایک لمحہ بھی ایسا نہیں ہے جو تربیت سے خالی رہے گھروں میں خصوصیت سے اہتمام کی ضرورت 688 837 تمامہ اہلیہ مکرم البوصالح بہت چھوٹی عمر میں بچوں کو ماں باپ کے سوا کسی دوسرے کے زیر اثر لانا یہ خود ایک غیر نفسیاتی حرکت ہے سات سال تک کی عمر کی اہمیت تفسیر القرآن نیز دیکھئے آیات قرآنیہ 839 840 تنزانیہ تنقید تخریبی تنقید آخری تین سورتیں قرآن کریم کا خلاصہ ہیں 313 توحید باری تعالیٰ تفسیر سورۃ نصر تقدیر 273 تہجد عالمی تو حید کی بیداری کیلئے عالمی تمدن پیدا کریں تقدیروں کے رخ بدلنے کیلئے دعا کے ہتھیار ہمیں عطا کیے گئے تہجد اور رمضان ہیں 169 تقدیر عام یہی تعلیم عام ہے جو ہماری فطرت کے اندر لکھی ہوئی ہے 33 تورات توکل اقتدار سے مراد یہ ہے کہ عام تقدیر سے ہٹ کر ایک غیر معمولی آنحضور کی بیان فرمودہ تعریف تقدیر الہی ظاہر ہو قدرت ثانیہ ہے خدا تعالیٰ کی تقدیر کانیا اظہار ہے تقوی 68 39 174 اصل نگران تقویٰ ہے آڈٹ ایک حد تک کام کر سکتا ہے 263 تقویٰ ایک انمول اور قیمتی پھل ہے تقویٰ کا نور حاصل کریں قرآن کریم ، نور تقومی اور اس کا حصول تقویٰ اور نور 187 225 226-235 292 300 724 322 731 393-394 11 465 تو کل یہ کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر بے شک چلے جاؤ 465 تھر پارکر تیجا سنگھ مندر ٹرینیڈاڈ ٹورانٹو اصل اصل نگر ان تقومی ہی ہے جو دل کا نگران ہے 261 اصل زاد راہ ہمارا تقویٰ ہی ہے، تقویٰ رہے گا تو انشاء اللہ ٹیلی ویژن دینے والوں کے اموال میں بھی بہت برکت ہوگی 268 تقومی کی بصیرت کو تیز کریں اور اسی کو اپنا نگران بنا ئیں 265 444,814 62 312 603 821,827,844,854, 860, 861, 862, 863,
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ ٹیلی ویژن پر بچوں پر اس کے اثرات 864, 865, 866, 867 ٹیلی وژن ایک دلچسپ چیز ہو سکتی ہے جس سے غیر معمولی وقت کا ضیاع ہوتا ہے منفی اثرات اور اس کے نتائج ثریا صادق 862 861 860 864 781 58,355 で 483, 632, 714, 728, 788, 857 732 حضرت جابر بن عبد اللہ جاپان جر من احمدی جرمنی 75,150,448,484,524,559,605,632, 695,704,707,712,713,714,724,726, 731, 741, 742, 744, 745, 781,812 704 12 جماعت احمدیہ ابتلاء کا دور 460 آپ نے ساری دنیا کو فضل عطا کرنے ہیں حضور ﷺ کے 328 اخلاق عطا کرنے ہیں آج دنیا کی سیادت آپ کے سپرد ہے جب تک خود سید نہیں بنیں گے دنیا کی سیادت کیسے کریں گے 743 احمدیت کے دشمن کا تعلق ہے ان کو ہمارا یہی پیغام ہے کہ جتنی ٹھوکریں تم ہمیں لگاؤ گے خدا کی قسم ہم پہلے سے بڑھ کر زیادہ 224 طاقتور اور صاحب عزم ہوتے چلے جائیں گے احمدیوں کو ز بر دستی نماز سے روکنے کی کوشش کی گئی 788 تقدیروں کے رخ بدلنے کیلئے دعا کے ہتھیار ہمیں عطا کئے گئے 169 ایک زندہ جماعت ہے جو حقوق العباد کا خیال رکھتی ہے 220 پاکستان کا کوئی حصہ ایسا نہیں رہا جہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت کو خدمت اور قربانی کی توفیق عطا نہ فرمائی ہو جماعت احمدیہ کا اندرونی نظام شہادت دے رہا ہے کہ اس جماعت کے قیام کا ایک مقصد ہے 444 857 جماعت احمدیہ کا نظام حیات اور نظام ممات بھی ایک مقتدر کارساز ہستی کے ہاتھوں میں ہے 856 جماعت احمدیہ کو اس پہلو سے خوشخبری ہو کہ جماعت ایک نئے ترقی کے دور میں داخل ہو چکی ہے 661 جرمنی میں پیس مارچ کے نتائج جرنی میں اللہتعالیٰ کے فضل سے ترقی کے غیر معمولی امکانات جماعت احمدیہ کو اپنی صفات کو دوسروں میں جاری کرنے کی 731 23 پیدا ہو گئے ہیں اہلیت بھی اختیار کرنی چاہئے جنگ عظیم اول میں عالمی طاقتوں نے یہ غور کیا کہ جرمنی کے جماعت احمدیہ کے لئے ضروری ہے کہ اگر آپ نے باقی دنیا متعلق ایسی کارروائیاں کریں کہ پھر کبھی اٹھ ہی نہ سکے 741 کو یعنی مغرب کو ان کی ہلاکتوں سے بچانا ہے تو پہلے اپنے اندر علامہ جلال الدین سیوطی حضرت مولانا جلال الدین شمس جلسہ سالانہ جلسہ اور صفائی کا نظام کارکنان جلسه میز بانوں کو نصائح 826 550 449, 559, 792, 822 460 452 449 اولیاء اللہ والی خود اعتمادی تو پیدا کریں جماعت احمد یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر 652 767 کسی احمدی کے وہم و گمان میں بھی یہ خیال نہیں گزرتا کہ کبھی کسی پہلو سے بھی جماعت احمد یہ ہار سکتی ہے حفاظت کا نظام اور جماعت احمد یہ 680 456,463 ساری دنیا کے اخلاق درست کرنا جماعت کی ذمہ داری 112 کراچی کی جماعت کا ذکر خیر 482
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ جماعت احمد یہ اور اسلام 13 713 آج تم اسلام کو سیکھو تا کہ آئندہ آنے والی نسلوں کو تم اسلام سکھا سکو جماعت اسلامی سکھر جماعت اسلامی کے سکول میں بم پھٹنا چک 68 ضلع فیصل آباد 713 چک 45 مرڈ 195 چنده 550 470 ہر موصی اور ہر غیر موصی کو اپنے معاملات میں صاف جمشید خان جمعۃ الوداع 847 اور سیدھا چلنا چاہئے چندہ عام اصل جمعۃ الوداع خدا کی طرف بلانے والے کی آواز پر لبیک کہنا ہے جمعۃ المبارک اور دس تاریخ 400 50 چندہ وصیت جنت بی بی جنگ جنگیں آئندہ زمانے کی جنگوں کا نقشہ مصلح موعودؓ کی تفسیر جنگ عظیم اول 550 776 حاکم بی بی حاکم علی سید حامد مقبول ویسٹ جرمنی حبة 184 176 176 571 812 484 جنگ عظیم اول ہوئی تو عالمی طاقتوں نے یہ غور کیا کہ جرمنی کے لفظ حبہ کی تشریح متعلق ایسی کارروائیاں کرنی چاہئیں کہ پھر کبھی اٹھ ہی نہ سکے حج جنگ کے نتائج 741 دنیا میں جنگ کے نتیجے معلوم کرنے کیلئے جو طریق رائج ہیں ان میں سے ایک کی طرف قرآن کریم نے بھی اصولی طور پر 675 حج بند کر کے روکنا حدیث 474 429 12,65,94,97,99,121,140-141,153,231, 235-238,330,334,354,388,638,670,795 احادیث مبارکہ انگلی اٹھائی ہے جہاد جہاد کی اقسام روحانیت، تربیت اور تبلیغ کا جہاد ضمیر کا جہاد جھنگ 802 804 810 445, 571 اتقوا فراسة المومن فانه ينظر بنور الله اعوذ بوجهک 291 58 ان من أكمل المومنين ايما نا احسنهم.خلقا ا والطفهم با هله 94 انما الاعمال بالنيات انی بعثت على مكارم الاخلاق إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتِمِّمَ مكارم الاخلاق الْغَنِي غِنَى النَّفس 141 622 83,613 481
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ بُعِثْتُ لِأُتِمِّمَ حُسُنَ الْأَخْلَاقِ 613 تنكح المراة لاربع لما لها و لحسبها و لجما لها و لدينها فاظفر بذات الدين تربت يداك - حسب امراء من الشر ان يحقر اخاه المسلم خير كم خير كم لا هله وانا خير كم لاهلى الدين النصيحة كل المسلم على المسلم حرام كلكم راع وكلكم مسئول عن رعيته لا تحرم علينا اجره لا تضربوا اماء الله ما انا عليه و اصحابی مَنْ عَادِي لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنتُهِ لِلْحَرْبِ مَنْ لَّمْ يَشْكُرِ النَّاسَ لَمْ يَشْكُرِ الله واذا ما ت صاحبكم فادعوه هَذَا أَهْوَنُ أَوْقَالَ هَذَا أَيْسَرُ احادیث بالمعنى 140 233 93 757, 759 234 153 469 121 812 237 175 94 58 58 14 بیویوں کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ 94 تین ایسے انسانوں کی مثال جو ایک غار میں بند ہو گئے 322 تم سے پہلے قو میں اس لئے ہلاک ہوگئیں کہ جب ان کے بڑے لوگ جرم کرتے تھے تو ان سے اعراض کرتے تھے 251 تم نے ایک ایسا کلمہ کہا ہے کہ اگر اس کو دریا میں ملا دیا جائے تو وہ دریا پر بھی غالب آجائے تو کل یہ ہے کہ اونٹ کا گھٹنا باندھو پھر بے شک چلے جاؤ 465 جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے تو شیطان اور سرکش جن قید کر دیئے جاتے ہیں 99 387 جبرائیل ہر رمضان میں آنحضور کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے اور جتنا قرآن اتارا جا چکا ہوتا تھا اس کی دہرائی ہر رمضان میں کرتے تھے 330 جس سے ممکن ہو پانچ دفعہ مسواک بھی کیا کرے 463 جن چیزوں سے میں تمہارے متعلق ڈرتا ہوں ان میں سے دنیا کی زیب وزینت بھی ہے جنت کا ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے 276 388 اس عورت پر جنت کی خوشبو حرام ہے جو جائز وجہ کے بغیر جو رمضان سے گزر رہا ہو اور اس پر دوزخ کے دروازے کھلے 122 خاوند سے طلاق لینے میں جلدی کرے اللہ کے نزدیک سب حلال چیزوں میں سب سے زیادہ مبغوض چیز طلاق ہے 123 231 رہیں وہ بہت ہی بد قسمت انسان ہو گا 388 جوتی کا تسمہ کی بھی ضرورت پڑے تو خدا سے مانگو 654 جو شخص ہماری طرح نماز پڑھے اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہمارا ذ بیچہ کھائے تو وہ مسلمان ہے 361 ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے سے بڑھ بڑھ کر بولی نہ دو، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو رمضان گزر گیا اور اس کے گناہ بخشے نہ گئے ایک شخص آنحضور کی خدمت میں حاضر ہونا کہ یارسول اللہ دو آدمی بڑے بد قسمت ہیں ایک وہ جس نے رمضان پایا اور 123 میری بیوی نشوز کرتی ہے ایک صحابی کا عرض کرنا کہ میں والدہ کے نام پر صدقہ دے سکتا ہوں؟ 243 388 دیکھو تم نے کسی بوڑھے پر ہاتھ نہیں اٹھانا کسی بچے کو سخت نظر 493 سے نہیں دیکھنا کسی عورت کی جان نہیں لینی رستوں کے حقوق ادا کرو اور کوئی ایسی چیز جوکسی رنگ میں بھی تکلیف کا موجب بنے اس کو دور کر دو ایک عورت کا حضور صلم کی خدمت میں اپنا بچہ لیکر حاضر ہونا کہ یہ بولتا نہیں ایک مسلمان دوسرے کا بھائی ہے آپس میں بھائی بھائی ہو جاؤ بدن پر خوشبولگا کر رکھو 65 232 232 463 462 آپ کا فرمانا کہ سات سال کی عمر سے اس کو نصیحت کر کے 838 نمازیں پڑھاؤ رمضان میں دوزخ کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں 388
اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ روزہ گنا ہوں کیلئے ڈھال ہے 388 15 حسد کے خلاف بار بار متنبہ کرنے کی ضرورت ہے 320 غزوہ خیبر میں حضور صلعم کا حضرت علی کی آنکھوں میں لعاب حسد کے نتیجہ میں ان کی ارتداد کی تحریکیں جنم لیتی ہیں 754 دنیا کے ہر کونے میں ہر مذہب و ملت میں ہر رنگ میں ہر کوئی ایسی چیز کھا کر نہ آؤ مسجد میں یا پبلک جگہوں پر جس سے جغرافیائی حدود میں رہنے والوں میں حاسد ملتے ہیں 748 مبارک ملنا 66 463 شیطانیت کا خلاصہ حسد ہے 749 تمہارے منہ سے بد بو آتی ہو مومن کی یہ علامت ہوتی ہے کہ اپنے بھائی کے لئے اسی طرح قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کا انکار بھی حسد کے نتیجہ دکھ محسوس کرتا ہے 200 میں ہوتا ہے 750 آنحضرت نے فرمایا کہ یہ بات بظاہر چھوٹی ہے لیکن اگر سمندر قرآن کریم مومنوں کی جماعت سے بالعموم کفار کے حسد کا 105 ذکر 315 322 میں بھی ڈالی جاتی تو اس پر غالب آجاتی میرے بعد پہلی نسل پھر دوسری اور پھر تیسری نسل یہاں تک کام کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا حسد تو روشنی ہے اور اس کے بعد اندھیرے کا زمانہ شروع ہو جائے نبوت سے بھی حسد پیدا ہوتا ہے.خلافت سے بھی حسد پیدا 534 ہوتا ہے امارت سے بھی حسد پیدا ہوتا ہے حسد اور محبت 748 761 حسد اس کے نتیجہ میں انتقام اور بغض پیدا ہوتا ہے اشتراکیت حسد کی پیداوار ہے 317 750 قرآن کریم نے دور آخر میں حاسد کے حسد سے بچنے کی دعا سکھائی 320 آنحضرت حسن خلق پر بہت ہی زور دیا کرتے تھے 94 اگر وہ بیرونی حاسد سے بچنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے بھی ضروری حسن خلق ہے کہ وہ اندرونی طور پر حسد کا قلع قمع کریں انبیاء کا انکار بھی قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ بنیادی طور حسن کامل یعنی اخلاق کا حسن کامل حکمت کا ملہ کے نتیجہ میں 326 748 رونما ہوتا ہے پر حسد کے نتیجہ میں ہوتا ہے انسانی اخلاق پر بہت مضر اثرات رکھنے والی جو بیماریاں ہیں عورت اور حسن خلق کی تعلیم 101 95 ان میں سب سے نمایاں حیثیت حسد کو ہے تربیتی نقطہ نظر سے حسد کی غیر معمولی اہمیت حاسد کے حسد سے بچنے کی دعا 747 ہر بدی کو حسن سے تبدیل کرو ہر ظلم کی جزا نیکی سے دو 439 ہر 314 حسن معاشرت 319 حسد بالآ خر نظر کو اتنا تنگ کر دیتا ہے کہ کسی کی خوشی برداشت ہی نہیں ہوتی حسد کا پانچ مرتبہ قرآن میں ذکر 324 بیویوں کے ساتھ ایسا سلوک کرو کہ جب تم کھاؤ تو اس کو بھی کھلاؤ حسن معاشرت اور قرآن کریم کے بنیادی اصول 94 604 حسد کا حملہ دو طرح ہوتا ہے 313 314 حضور اکرم نے ایک مرتبہ بھی ازواج مطہرات میں سے کسی کو نہیں مارا 96 حسد کا کیڑا ایک نہایت ہی خطرناک کیڑا ہے جو چھپ کے عورتوں اور بچوں کے ساتھ تعلقات اور معاشرت 116 حملے کرتا ہے حسد کی آگ کو محبت کی نصیحت سے ختم کریں حسد کی بیماری سے بچنے کے طریق حسد کی تعریف 765 747 313 748 فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برادشت کرنی چاہئیں قرآن کریم اور حسن معاشرت کے بنیادی اصول 95 74
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 16 ڈاکٹر حشمت اللہ خاں حفاظت الہی 813 سب سے زیادہ حفاظت کا اہل حضور کو قرار دیا گیا 532 ہے دنیا کی ساری جماعتیں مل کر بھی اتنی قائل نہیں 822 خدام الاحمدیہ 40 ,537,717 ,455 ,322 ,259 حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا خسرو پرویز 420, 594 حقوق زوجین حقوق زوجین کی اہمیت حکومت و سیاست 153 لیکھرام کا حال کسری سے یعنی خسرو پرویز سے مشابہ ہے 60 خلافت احمدیہ ملاؤں کے ہاتھوں حکومت آنے کا انجام اور پاکستان 168 احمدیت کا حقیقی مرکز خلافت احمد یہ ہے حلیمہ بی بی قاضی حمید الدین حمیدہ بیگم زوجہ چو ہدری محمداسلم با جوه حمیدہ بیگم حنیف جوا ہیر آف ماریشس حیات فلسفہ حیات ہر زندہ چیز کے لئے ایک عرصہ حیات مقرر ہے حیدر آباد خ 413 413 346 154 781 849 851 445, 494 450 خلافت رابعہ کے آغاز پر پاکستان میں کل وعدے اٹھائیں لاکھ پینتیس ہزار روپے کے تھے اور 86-1985 میں بڑھ کر چپن لاکھ پینسٹھ ہزار روپے ہو گئے 725 521 منصب خلافت اور قبولیت دعا منصب خلافت سے وابستگی کے اظہار کے طور پر کوئی دعا کے لئے لکھتا ہے تو بسا اوقات اس کے حق میں غیر معمولی طور پر دعائیں قبول ہوتی ہیں خلفاء الارض 526 خدا کی نظر میں جماعت احمدیہ کو خلفاء الارض بننا پڑے گا528 خلفائے راشدین خلفائے سلسلہ احمدیہ حضرت خلیفہ اسح الثالث خلیفہ وقت 494 247, 438, 814 شیخ خالد جاوید خالد نصر اللہ خانہ کعبہ ختم نبوت 414 558 276, 428, 430-432 422, 423, 425, 633, 637, 678, 820, 821,822, 823, 824, 825, 826 جس گہری معرفت کے ساتھ جماعت احمد یہ ختم نبوت کی قائل خلیفہ وقت کی ذاتی بزرگی اور منصب خلافت کا وقار 526 خلیفہ وقت کو دعا کا خط لکھنا اور ذاتی طور پر دعا سے غافل ہو جانا 526 یو کے کا جلسہ خلیفہ وقت کی موجودگی کی وجہ سے مرکزی جلسہ بننے والا ہے 450 خلیفہ وقت کو جھوٹی خبر دینا ایک بہت ہی خطرناک غلطی ہے اور 693 میں جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں عام حالات میں ضروری نہیں ہوتا کہ ہر ایک کی نماز جنازہ خلیفہ وقت ہی پڑھا رہا ہو 558
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ خلیل احمد ناصر خودگشی خودکشی کیوں حرام ہے 284 694 17 قبولیت دعا کے نشانات 522 جب خلیفہ وقت کو دعا کا خط لکھیں تو خود دعا سے غافل نہ ہو جائیں 526 دعاؤں کو مقبول کرنے کیلئے عمل صالح ضروری ہے 776 اس کا جنازہ نہیں پڑھنا کیونکہ اس نے خدا سے مایوسی کی 694 رمضان میں سب دعاؤں سے بڑھ کر اس دعا کو اہمیت دیں خوشاب خوشی محمد (باڈی گارڈ ) خیرامت 790 673 کہ ہمیں خداوہ استجابت بخشے جس کے نتیجے میں وہ دعائیں قبول فرماتا ہے 336 اللہ نے ہمیں تقدیروں کے رخ بدلنے کیلئے دعا کے ہتھیار ہمیں عطا کیے ہیں خیر امت کی بنیادی شرط اور جماعت احمدیہ 769-768 ثبات قدم کی دعا کی تفسیر خیر پور دار الیتامی 199, 445 دعا کو اپنا سہارا اپنا اوڑھنا بچھونا بنا ئیں 169 805 467 خدا تعالی کی شان کریمی اتنی وسیع ہے کہ ہر بات میں اُس کی اطاعت نہ بھی کرو تب بھی قبولیت دعا کا فیض انسان کو پہنچ سکتا ہے 334 قرآن کریم نے دور آخر میں حاسد کے حسد سے بچنے کی دعا سکھائی دار الیتامی کی تعمیر کے بارہ میں ہدایات 691 | دعوت الی اللہ داؤد احمد حنیف دینی داؤ داحمد ظفر درود شریف آل ابراہیم اور آل محمد کا ذکر دسمبر 571 550 550 752 مادہ پرست قو میں کرسمس کے بغیر بھی دسمبر میں شراب پر خرچ ہ پرست بغیر بھی دسمبر کرتی ہیں دعا 856 320 775 دعوت الی اللہ اور قرآن کریم کا بیان کردہ اصول داعین الی اللہ کیلئے بھی کسی قوم کی مذہبی نظریاتی تعمیر نہیں ہو سکتی جب تک پہلے اس کی اخلاقی تعمیر کی طرف متوجہ نہ ہوں دعوۃ الی اللہ کے بنیادی گر ماسٹر دل محمد دورہ جات خلیفہ مسیح الرابع جرمنی، بیلجیئم اور فرانس کا دورہ 1978 کا دورہ کینیڈا 1986 میں کینیڈا کا دورہ دعا اور صبر اور صلوٰۃ کا یہ رشتہ مومن کی زندگی کی ایک عجیب چوہدری دین محمد 770 775-776 520 731 660 659-672 451 تصویر کھینچتا ہے منصب خلافت اور قبولیت دعا 553 521 ز
445 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 18 ذوالفقار علی بھٹو 584 رحیم یارخاں رحیمیت خدا تعالی کی شان رحمت اتنی وسیع ہے کہ ہر بات میں اس کی اطاعت نہ بھی کروتب بھی قبولیت دعا کا فیض انسان کو پہنچ سکتا 334 436,437,448 9-10 9-11 10 746 } ڈاکٹرز ہے واقفین ڈاکٹر ز کو نصائح 265-267 رخسانہ بی بی ڈکٹیٹر مردان میں احمدی شہید خاتون ڈکٹیٹر بننے کا دہریت کے ساتھ ایسا گہراتعلق رکھتا ہے 163 رزق ڈھا کہ 524 رزق اور قدر کے مضامین ڈیرہ غازی خان 445,469,849 رزق کی تقسیم کا نظام رزق کی تنگی کا مفہوم رشید احمد باجوہ چوہدری رشید احمد رفیع احمد قریشی رمضان روز صیام 300 215 جماعت احمدیہ میں روزوں کی طرف بالعموم توجہ کم ہے 384 385 روزہ گنا ہوں کیلئے ڈھال ہے رمضان کو ہر لحاظ سے خیر و برکت کا موجب بنا ئیں اتنا مانگیں کہ بظاہر آپ کا پیٹ بھر جائے 344 رمضان میں سب دعاؤں سے بڑھ کر اس دعا کو اہمیت دیں کہ ہمیں خداوہ استجابت بخشے جس کے نتیجے میں وہ دعائیں قبول فرماتا ہے 336 رمضان وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا 329 رمضان المبارک میں ان کو دعا کی عادت ڈالیں 344 رمضان اور استجابت دعا رمضان اور دعاؤں کی اہمیت روزہ رکھنے کی عمر رمضان المبارک اور لیلۃ القدر 336 343 392 397 345, 813 433, 444, 719, 746 را جن پور راولپنڈی ربوه 5, 257, 265, 433, 442, 450, 451, 452, 459, 463, 474, 475, 479, 485, 558, 571,678, 679, 689, 691, 692, 749, 760, 813, 847,856 475 450 458-462 473 448, لفظ ربوة کی لغوی تشریح ربوہ کے تربیت یافتہ ربوہ کے جلسے ربوہ سے مراد ٹیلے اور پہاڑی قسم کا علاقہ چوہدری رحمت اللہ 484 692 114 چوہدری رحمت اللہ گھنو کے حجہ رحمت خاتون رحمی رشتوں کی ذمہ داریاں
اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ 19 بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ ترجمہ لفظاً لفظاً بھی درست بنتا ہے احمد یہ مسجد ساہیوال کے واقعات کہ اس مہینہ میں گویا پورا قرآن کریم اتارا گیا 330 157-158 ساہیوال کی مسجد میں صبح نماز کے بعد بعض مولویوں اور طلباء جب انسان بنیادی طور پر بد خلق ہو تو رمضان کا مبارک مہینہ نے مل کر ھلہ بول دیا بھی اس کو فتنہ وفساد سے بچا نہیں سکتا 93 وہ مبارک ماہ جس میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا 330 ہر شخص کیلئے جہنم کے دروازے بند نہیں ہوتے 389 سپین سردار 158 176, 184 روس 5, 76, 605, 606, 632, 704, 771 روشن بخت 550 ریوڈی جنیر و 3 ز زلیخا جوا ہیر سابق پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ ماریشس کی والدہ ) 781 زندگی فلسفیہ حیات از روئے قرآن زینب بیگم بنت حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ ساؤتھ افریقہ س اس ملک میں دکھ پھیلنے کی بنیاد قومی تفاخر ہیں بی بی ساحره سائنس اور وجود باری تعالیٰ ساہیوال 653-645 813 73,605 75 346 852 157, 158, 159, 192, 209, 213, 218, 257, 445, 719 ساہیوال مسجد اسلام نے سید بنانے کا جو گر سکھایا اسے مسلمانوں نے بھلا دیا چوہدری سردار محمد 742 447 سرفراز احمد خان ابن ڈاکٹر ممتاز علی خان سرگودھا سری لنکا 345 436, 445, 847 701 191,192,193,194,199,209,213,215, 257,347,348,364,444 جماعت اسلامی کے سکول میں بھی ایک بم پھٹنا حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سنت نبوی سب برائیوں کی جڑ سنت نبوی سے گریز ہے سندباد سندھ 195 66 92 165 99,346,437,444,449,494,574,813,814 سوشل نظام اسلامی سوشل نظام کی روح اور فلسفہ خاندان کے نظام کو تقویت دینا ہے سویڈن Bean کی کہانی حضرت سہل رضی اللہ عنہ 140 189 189 388
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ سیادت آج دنیا کی سیادت آپ کے سپرد ہے اور جب تک آپ خود سید نہیں بنیں گے دنیا کی سیادت کیسے کریں گے 742 سیالکوٹ سید احمد بریلوی سیدنا بلال فنڈ 62, 270, 436, 445, 484, 586, 692 795,796 212,434,441 20 شادی شادی کی اغراض ش شادی کیلئے اچھا معیار سیرت ہے شادی کیلئے شرائط شادی کی غرض و غایت بلال فنڈ میں بھی اتنی رقم ابھی تک پیش ہو چکی ہے کہ موجودہ ضروریات سے وہ کہیں زیادہ ہے سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ازواج مطہرات سے حسن سلوک 442 99 شادی اور قول سدید شادی بیاہ کا نظام 142 143 141 140 147 154 شادی کی تباہی کی وجوہات میں ایک وجہ یہ ہے کہ ماں باپ حرص سے شادی کرتے ہیں آنحضرت حسن خلق پر بہت ہی زور دیا کرتے تھے 94 شجرہ طیبہ آنحضرت ملے جمیع اخلاق کے متمم تھے 128 حسد کی شادیاں بھی بڑی کثرت سے ہوتی ہیں شجرہ طبیہ اور حسین معاشرہ کا قیام آنحضرت ﷺ جب خود بیمار ہوتے تھے تو اپنی بیگمات پر شجرہ طیبہ اور رزق زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے تھے جب وہ بیمار ہوتیں تو ان کے ساتھ حسن سلوک فرماتے 102 شادیوال آنحضرت ﷺے طلاق کو جائز ہونے کے باوجود سب سے شدھی کی تحریک زیادہ نا پسند فرماتے تھے 123 142 143 618 189 746 561,562,564-567,576 564 آپ کی سیرت کا یہ خلاصہ ہے کہ ساری زندگی آپ نے اور 1923ء میں یہ تحریک اپنے عروج کو پہنچی تھی 811 آپ کے غلاموں نے اس آزادی ضمیر کیلئے انتہائی دکھ شراب اٹھائے رحمۃ اللعالمین رحمت عالم گھر کی جنت اور اسوہ رسول 515,754,833 58-60 مادہ پرست قو میں کرسمس کے بغیر بھی دسمبر میں شراب پر خرچ کرتی ہیں 91 شریف احمد خان سکوارڈن لیڈر 856 550 781 323 64 285 شعبان احمد نسیم شریکا شق القمر اقتداری نشان شگفت رانی 433 527 701-702 سیف الرحمن سیف اللہ چیمہ سیلون نیز دیکھئے سری لنکا
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ شہدائے احمدیت عبد الرحمن شہید حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف شہید مردان کی رخسانہ شہید خاتون کا ذکر شیخ ناصر شہید آف اوکاڑہ شہناز اختر شهید 196 214, 743 436 746 497 93,196,200,214,216,218, 345,346, 348,350,352,354,355,356,357,425, 427,433,437,439,440,446,493,494, 497,559,574,743,795,813,828,829, 847 847 شیر یں بیگم اہلیہ میر نوراحمدنا پور 21 صفات باری تعالیٰ 5-7, 15, 22, 26, 28, 83, 84, 613, 614 اللہ کی صفات کا رنگ اختیار کریں صفت رزاق صفت عزیز 25 8-13 305 عزیز کا مطلب ہے جو غالب ہو اور قدرت رکھتا ہو 305 صفت غفران صفت قادر قدر کی لغوی تشریح صفت قدیر 25 27 12-25 1,13,14, 19,20-41 تخلیق عالم کے متعلق جہاں جہاں بھی قرآن کریم میں ذکر ہے وہاں قدیر کا لفظ ملتا ہے 36 جہاں بھی تعجب کا مضمون آتا ہے وہاں قدیر کی بجائے قادر کا لفظ استعمال فرماتا جاتا ہے د وصفات قادر اور مقتدر 35 27-47 شیطانیت شیطانیت کا خلاصہ حسد ہے صابرہ بیگم 749 559 لفظ قدیر پر لغوی بحث 9 خدا تعالیٰ کی صفات میں قدیر ایک بکثرت استعمال ہونے والی صفت ہے 8 قرآن کریم بسا اوقات صفت علیم اور قدیر کو جوڑ کر پیش کیا گیا ہے 12 صفت المقتدر 42,48-8,27,28,35,36,39 49,57-61,856 دعا اور صبر اور صلوٰۃ کا یہ رشتہ مومن کی زندگی کی ایک عجیب حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا تصویر کھینچتا ہے صبر کے مفہوم میں غم کا پہلو بھی ہے صدردین صدقات وفات یافتہ کے نام پر صدقہ دینا صحابہ حضرت مسیح موعود 553 554 حضرت سے صفیہ سے حضور کی ایک دوسری زوجہ کا کہنا کہ یہ یہودی کی بیٹی ہیں 101 300 صفیہ سلطانہ 243 حضرت مسیح موعود کے صحابہ میں ہم نے دیکھا بکثرت وہ صلاح الدین شمس صله رحمی جماعت احمدیہ کو صلہ رحمی پر زور دینا چاہیئے 537 550 151 چھوٹے چھوٹے بچوں سے بھی پیار کرتے تھے 762
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی طلاق میں جلدی کے بہت مخالف تھے 122 301 813 414 22 22 ظ ظفر اللہ خان امیر جماعت ضلع گوجرانوالہ ظفر محمود وڑایچ ظہیر احمد آف کرائیڈن 161 860 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ جنرل ضیاء الحق ضیاع وقت ض سب سے بڑی لعنت ٹیلی ویژن ہے b طارق رخسانہ شہید خاتون کے خاوند طاعون طاغوت طاغوت، ایسی طاقت جو اعتدال پر ندر ہے حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ امسیح الرابع 436 66 750 ع حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا 93, 97-100, 103, 103, 121 ایک موقع پر حضور علیہ سے خفگی 98 جب ایک موقع پر آپ نے حضور کی دوسری اہلیہ کا بھیجا ہوا سالن گرا دیا اللہ تعالیٰ نے ایک رات مجھے بار بار اس دعا کی طرف متوجہ عائشه مستن فرمايارب كل شيء خادمک رب فاحفظنا 397 آپ کا ارشاد کہ حضرت مسیح موعود کتابوں کو جانتا ہوں اور تشریح عائلی زندگی میں خود کرسکتا ہوں آپ کا انصار اللہ کے دورہ پر کراچی جانا جرمنی ، بیلجیئم اور فرانس کا دورہ خلافت سے قبل 1978 کا دورہ کینیڈا کینیڈا کا دورہ 181 482-483 731 660 659-672 100 312 88,138,140,147,148,600,618,708, 711,714 حضور نے عائلی خرابیوں سے بچنے کیلئے سب سے بنیادی تعلیم یہ بیان فرمائی اور جس پر عمل کر کے دکھایا کہ اپنے خلق کی حفاظت کرو آپ کا فرمانا کہ وقف جدید میں ہم نماز ظہر و ہیں پڑھا کرتے جھگڑے ختم کرنے کیلئے تقویٰ کا معیار بڑھائیں تھے کیونکہ کام کے وقت دوسری جگہ جانا مشکل ہوتا تھا 740 جہاں تک ممکن ہو اصلاح کی کوشش کی جائے دینی معاشرے کا قیام خوبصورت عائلی زندگی طلاق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طلاق کو جائز ہونے کے سورہ فرقان میں بیان شدہ اصول حقوق زوجین کی اہمیت باوجود سب سے زیادہ نا پسند فرماتے تھے 123 ایک شخص آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے عائلی مسائل 93 311 115 137 138 153 92 92 ساس بہو کے جھگڑے 123 کہا کہ یا رسول اللہ میری بیوی نشوز کرتی ہے
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ عابد حسین گیلانی عبدالحمید جنرل مینیجر واپڈلا ہور قریشی عبدالرحمن 23 571 ملک عبد القادر 537 155 امیر ضلع سکھر جنہیں سفا کا نہ طور پر قتل کیا گیا خواجہ عبدالغفار ڈار عبدالمومن محمود 192,196 192 747 عبدالکریم ترگڑری ضلع گوجرانوالہ عبد اللطیف خان قریشی عبد اللطیف 550 728 559 عبدالغفور عبدالحئی عبدالحق رامه عبدالحمید جبر و عبدالحمید غازی 415 781 415, 433 حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید 214743 جنہوں نے احمدیت میں بہت مختصر زندگی دیکھی لیکن ایسی عظیم زندگی تھی کہ رشک سے ہمیشہ دنیا کی نگاہ سے دیکھتی رہے گی 743 وہ سارے افغانستان میں دل کی حیثیت رکھتے تھے 214 300 عبداللہ بن ابی بن سلول حضرت منشی عبداللہ سنوری 312 847 کیپٹن عبد الحئی 510 67 448 عبدالرحمن شہید 196 عبدالعلی ایڈووکیٹ 550 عبدالرحیم 135 بابو عبد الغفار خاں بابوعبدالغفار 494,497 را نا عبدالرحیم خان 550 عبد الماجد طاہر مبلغ سلسلہ 346 عبدالرحیم ماریشس عبدالرشید یحیی 692 پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام 847 حافظ عبد السلام مفتی عبدالسلام عبدالعزيز عبدالغفور سابق مبلغ سلسلہ جاپان عبدالغفور خان کڑک عبدالغفور انڈونیشیا 134 مولوی عبد المالک کو ٹلی لوہاراں 470 746 285 781 431, 432 آپ کا فرمانا کہ کعبہ کا مالک آپ اس کی حفاظت کرے گا 31 عددی غلبه 227, 685, 686, 687 خدا تعالیٰ الہی جماعتوں سے عددی غلبے کے بھی وعدے فرماتا ہے اور عددی کثرت بھی نصیب فرماتا ہے عزیز دین 726 عطاء الحق 571 کرنل عطاء اللہ 559 مولانا عطاء المجیب راشد 227 135 813 468 155,728 حضرت عبدالمطلب
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ علم التعبير مسجد کی تعبیر جماعت ہوتی ہے حضرت علی کرم اللہ وجہہ چوہدری علی محمد گوندل 408 408 66,419,824 746 14 24 غانا غزوات النبی غ 724, 776 59 حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ 121, 163, 824, 825 غزوہ خیبر میں حضور صلعم کا حضرت علی کی آنکھوں میں لعاب مبارک ملنا حضرت عمر " کا بستر مرگ پر اپنے رب کے حضور عرض کرنا غلام احمد بشیر لالی و لاعلى 163 آپ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول میاں غلام محمد زرگر اللہ عورتیں اپنے شوہروں پر غالب آگئیں ہیں 121 غلام احمد مصطفیٰ کماس ضلع لاہور عمر الدین عمل صالح 482 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام 66 537 550 847 دعاؤں کو مقبول کرنے کیلئے عمل صالح ضروری ہے 776 چوہدری عنایت اللہ گھنو کے حجہ عنایت بیگم عورت 29, 30, 33, 34,42,45,48-54, 62, 67, 69, 84,85, 94-96,106-108,117,139, 170,171,198, 204, 211,213,214, 234, 238, 246, 249, 250, 255, 270, 280-282, 289-293, 297, 299, 306, 307, 332-337, 363, 364,379, 388, 391-398, 401-407,436,447,516-519, 534-535, 544, 550, 555-556, 569, 614-615, 626-629,633, 678, 692, 696,738, 760- 762,775,813,827, 840, 856, 863-867 45 آپ کی دعائیں 484 745 95 119 95 عورت اور حسن خلق کی تعلیم عورت کی تربیت اور جماعتی ذمہ داری فحشاء کے سوا باقی تمام کج خلقیاں اور تلخیاں عورتوں کی برادشت کرنی چاہئیں عیسائیت عیسائیت فرضی طور پر ہستی باری کی قائل ہے 851 یورپ کی جتنی قو میں ہیں ان میں اخلاص کے ساتھ عیسائیت آپ نے اس بات پر زور دیا کہ بحث مباحثے ختم کئے جائیں پیشگوئیاں 30 53,60 کو قبول کرنے والی جیسی ہالینڈ کی قوم ہے اور کہیں ہم نے الہامات کے ذریعہ آئندہ کی خبروں کی اطلاع دی جانا 69 نہیں دیکھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام 745 16 صفات الہیہ اور آپکی تحریرات اقتداری نشانات اقتداری معجزات 5-7 62,63 مولوی محمد علی صاحب کو گلٹی نکلنا اور آپ کے ہاتھ لگانے سے
16, 40, 209, 489, 492-493 493 781 867, 868 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ دور ہو جانا اقتداری نشان اور دعائیں سرخ چھینٹوں کا کشفی واقتداری نشان 25 66 | فرعون 67 67-68 حضرت مسیح موعود کا عارف باللہ ہونا آپ کی ہر تحریر سے ثابت آج کے دور کا فرعون فرینکفرٹ 47 فری میسنز مسیح وقت پر فری میسن کا قبضہ نہیں ہونے دیا جائے گا 868 814 365 746 850 فضل احمد بھٹی قریشی فضل الحق شیخ فضل محمد فلسفه زندگی اور موت کا فلسفہ فلسفہ حیات 648,649-651,850,852,855,861,864,865 849 653-645 550 انسانی فلسفہ حیات کا بیان فلسفہ حیات از روئے قرآن فیصل آباد ق قادیان 66,252-257,267,300, 365,391,392,450,451,459,484,503, 550,558,564,571,672,760,856 255 692 مقامات قادیان کی حفاظت و مرمت با بو قاسم دین قبائل افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو قبائل ہیں وہ بچوں کی 708 تجارت یا اغوا کر لیتے ہیں 85 781 520 550 225 575 346 134 526 ہے سلطان القلم کا خطاب غلام حیدر بھٹی ماسٹر غلام رسول قاری غلام یاسین غلبہ تقویٰ کا نور حاصل کریں غیر مسلم کلمہ گو مسلمان کو غیر مسلم بنانے کی مہم ف فاطمہ بیگم فاطمہ بیگم بنت حضرت سیلم محمدعبدالله اله دین ڈاکٹر فاطمہ زہرہ فتح دین کی اصطلاح میں جس چیز کا نام فتح ہے وہ دنیا کی اصطلاح میں فتح اور نصرت کہلانے والی چیز سے بالکل مختلف چیز ہے 272 276 386, 387, 395 385 50 549, 745 ظاہری و روحانی فتح فدیہ فدیہ اور رمضان فرائیڈے دی ٹینتھ فرانس
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ قبلہ قبلہ بدنے کے بارہ میں قرآنی پیشگوئی 426 تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک بھی مدنی مسلمان پر مکہ کی طرف منہ کرنے کے جرم میں کوئی سزاوار نہیں کی گئی قبولیت دعا منصب خلافت اور قبولیت دعا قبولیت دعا کے نشانات 427 521 522 26 قرآنی پیشگوئیاں اپنی ذات میں ایک واضح یقینی ثبوت رکھتی ہیں 696 آج قرآنی پیشگوئیوں کی صداقت کا انحصار آپ کے عمل پر ہے قرآنی معارف 710 دنیا میں جنگ کے نتیجے معلوم کرنے کیلئے جوطریق رائج ہیں ان میں سے ایک کی طرف قرآن نے بھی اصولی طور پر انگلی اٹھائی ہے خداتعالی کی شان رحمت اور شان کریمی اتنی وسیع ہے کہ ہر بات میں اُس کی اطاعت نہ بھی کرو تب بھی قبولیت دعا کا قربانی 675 فیض انسان کو پہنچ سکتا ہے قدرت ثانیہ 334 27, 39, 55 اللہ تعالیٰ کی طرف تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے قربانی کی حقیقت قدرت ثانیہ جاری ہے اور جب تک اس قدرت کے ساتھ قرة اعين جماعت وابستہ رہے کی خدا کی قدرت جماعت کے ساتھ قرة امین کی حقیقت وابستہ رہے گی 54 قرض قدرت ثانیہ خدا تعالی کی تقدیر کا نیا اظہار ہے 39 مہمانوں کا قرض لیکر واپس نہ کرنا قرآن کریم قصور قرآن کریم ملکیت صرف اللہ کی بتاتا ہے قرآن کریم اور حسن معاشرت کے بنیادی اصول 152 74 قضاء قرآن کریم چونکہ بنیادی اصولوں سے تعلق رکھنے والی قضاء میں اکثر جھگڑوں کی بنیاد تقویٰ کی کمی ہے کتاب ہے قرآن کی بنیاد کو چھوڑانے کا نقصان 604 503 قوام قوام کی حقیقت قرآن کریم کا یہ ایک انداز ہے کہ بعض مضامین جو واضح قومی تفاخر ہوتے ہیں ان کا ذکر چھوڑ دیتا ہے اور ایک مضمون کے تسلسل میں ایک بات نتیجہ نکالے بغیر بیان فرما دیا کرتا ہے مضامین قرآن بیان کرنے کا انداز قربانی اور قرآن کریم قرآن کریم اور بتائی گستاخی رسول اور قرآن و حدیث کا موقف قرآنی اصطلاحات قرآنی پیشگوئیوں 82 82 758 690 504 774 696 178 178 342 466 445 232 116 اسرائیلی قوم کو بھی یہ گمان ہے کہ وہ خدا کے دوسروں بندوں سے بہتر ہے ساؤتھ افریقہ میں دیکھ پھیلنے کی بنیاد قومی تفاخر ہیں قیصر و کسری 75 75 276 کافر
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 27 کافر کا دکھ اُسے ہلاک کر دیتا ہے اور مومن کا دکھ اس کے رسالہ الوصیت مقامات اور مراتب کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے 205 مجموعه اشتہارات جلد دوم کانپور کانفرنسز 255 مجموعہ اشتہارات جلد سوم ملفوظات جلد اول انگلستان میں دو احمدی و غیر احمدی کانفرنسز کا ذکر 539 کبری خانم اہلیہ مفتی عبد السلام کتابیات 746 ابوداؤد کتب حدیث و تاریخ 122,123,493 جامع صحیح بخاری 153,154 ,141 ,140 ,66 ,58 334, 361, 388, 463,482 20,55 2 49 52 128, 237, 395 ملفوظات جلد دوم صفحہ: ۳۹۹ 43 ملفوظات جلد سوم :۵۷۳ ملفوظات جلد چهارم 128 235 متفرق تجدید و احیائے دین 798 دیوان غالب 18, 34, 76, 337, 443 نسخہ ہائے وفا 145 اخبارات ورسائل الحاکم قادیان 170,171, 236, 237 کراچی جامع ترمذی سنن ابن ماجه سنن دارمی 95,102,124,283, 292,293,355,408 466 65,66 121 صحیح مسلم مشكوة المصابيح موطا امام مالک مسند احمد حنبل تاريخ الخلفاء 121 83,493,494,613 380 826 121,464,493 چوہدری کرامت اللہ کرتار پور 365,414,444,449,469,470,481,482, 537,543,583,719,822 467 484 کرسمس کتب حضرت مسیح موعود آسمانی فیصلہ آئینہ کمالات اسلام اربعین نمبر ۳ 281 65, 517, 518 51 ازالہ اوہام اسلامی اصول کی فلاسفی تذکرہ مجموعہ الہامات و کشوف تریاق القلوب تفسیر مسیح موعود حقیقۃ الوحی در مشین 283 85,612, 626, 629 49,868 61 336 54,67 42, 47, 219, 738, 775 مادہ پرست قو میں ہیں وہ کرسمس کے بغیر بھی دسمبر میں شراب پر خرچ ہوتا ہے سری 855 لیکھرام کا حال کسری سے یعنی خسرو پرویز سے مشابہ ہے 60 حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی کو کشفی رنگ میں ہستی باری تعالیٰ کا مضمون بلیک بورڈ پر سمجھایا جانا كفو کفو اور شادی 18 146 کلام الہی
78,433,448,608,632,639,659,660, 661,662,663,666,667,668,669,670, 683,712,724 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 28 کلام الہی میں اور کلام محمد میں رخنہ ڈالنے کی خدا اجازت ہی کینیڈا نہیں دیتا ایسا کامل کلام ہے کہ جو اپنے اندر تمام دفاعی نظام 758 رکھتا ہے كلمات الہیہ اللہ کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے کلمه طیبه 32 420 جو چاہیں کر گزریں اس پیارے کلمہ سے تم ہمارا تعلق نہیں توڑ سکتے.اس کلمہ سے ایک ذرہ بھی انحراف کی ہمارے لئے گنجائش ہی موجود نہیں آج کے علماء کے نزدیک اتنا بڑا جرم بن چکا ہے 420 425 احمدی دلوں سے کلمہ طیبہ کی پاک شاخ نہال کو کوئی نقصان نہیں پہنچاسکیں اور ساری دنیا کو اپنی چھاؤں تلے لے لینا ہے اسلام کے مستقبل کیلئے کینیڈا اہم کردار ادا کر سکتا ہے 663 کینیڈا میں جماعت ایک معین ٹھوس وجود کے طور پر ابھر آئی ہے گجرات 447 گستاخی رسول گ کلمہ طیبہ کی محبت کی شاخ نہال جس نے لازماً غالب آنا ہے قرآن وحدیث کا موقف 443 گستاخی رسول قانون کوئی ایک بھی ضلع ایسا نہیں جہاں جماعت کو اللہ تعالیٰ نے کلمہ گستاخی رسول کے قانون کی حقیقت طیبہ کی محبت میں قربانیوں کی توفیق نہ عطا فرمائی ہو 445 کلمہ گو کلمہ گو مسلمان کو غیر مسلم بنانے کی مہم سماس کنری 575 847 444, 781, 814 662 445, 814 504 499 حضور کی محبت کا دعوی اگر سچا ہے تو پہلے یہ قانون پاس ہونا چاہئے کہ اس ملک میں ہم کسی مذہب کے راہنما کو بے عزت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے گوجرانوالہ گوجره 502 301, 445, 550, 781 484 312 571 کوئٹہ ,347,360-363,377,422,445,446,491 گی آنا 565 537 گیمبیا 134, 155, 381, 445, 449, 537, 542, 550, 559, 571, 746, 814, 847 لاہور 470 814 781 301 کوٹ ہراسنگھ ضلع گوجرانوالہ کھاریاں کھوکھر غربی ضلع گجرات کوٹلی لوہاراں کیلی فورنیا
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 29 لجنہ اماء الله لذت 452, 460, 717,844 اسلامی معاشرے میں صرف جنسی لذت نہیں ہے ماں اور بیٹے کی محبت کی بھی ایک لذت ہے لقاء الہی 150 مالی قربانی مالی قربانی کی برکات اور جماعت کی ذمہ داریاں مالی قربانیوں کے فضائل کرنل مبارک احمد مبارک احمد ساہی لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ مبارک محمود پانی پتی جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہی 63 مبارکہ بیگم اہلیہ پیر عبدالرحمن لندن 27, 57, 73, 91, 109, 111, 137, 157, 173, 191, 213, 225, 241, 259, 273, 287, 303, 313, 329, 347, 367, 383, مباحث 471 474-478 550 520 536 497 حضرت اقدس نے اس بات پر زور دیا کہ بحث مباحثے ختم کئے جائیں ,471,487 ,458 ,449 ,39941735 | مبشر احمد طاہر متقی نیز دیکھئے تقویٰ 499, 531, 539, 551, 561, 591, 659, 675, 731, 747, 767, 783, 801, 814, 815, 835, 849 60, 516, 517 60 30 448 متقی بننے کے واسطے یہ ضروری ہے کہ موٹی باتوں جیسے زنا چوری تلف حقوق ریا اور بخل کے ترک میں پکا ہو 234 متقی دنیا کی بلاؤں سے بچایا جاتا ہے لیکھرام پیشاوری لیکھرام کا حال کسری سے مشابہ ہے لیلة القدر لیلۃ القدر اور رمضان لیڈر 398 38597 مجددین امت 397 بیویاں متقی ہوں تو اولا د بھی متقی ہوگی مجددین اور تجدید دین مجددین امت اور مسیح موعود کی بعثت اسلام نے سید بنانے کا جو گر سکھایا تھا اسے مسلمانوں نے مجلس شوریٰ بھلا دیا 742 129 139 534 534,535 181 ماریشس مال 135, 312, 346, 781 محاسبه نفس ہر شخص کا اپنے نفس کا محاسبہ الگ الگ ہو گا 858 محبت سب سے زیادہ انسانی زندگی میں کارفرما قوت محبت کی قوت ہے 655 خدا کی محبت قبلہ درست کرتی ہے 656 اصل زاد راہ ہمارا تقویٰ ہی ہے تقومی رہے گا تو دینے والوں محبت الہی کے اموال میں بھی بہت برکت ہوگی 268
746 559 484 550 746 312 365 847 155 484 196 571 571 300 781 781 781 66,746 847 301 301 284 66 99 30 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ خدا کی محبت ہر نیکی کا قبلہ درست کر دے گی.چھوٹی سے چھوٹی شیخ محمد بشیر نیکی کا بھی اور بڑی سے بڑی نیکی کا بھی اور نیکیاں سب آسان کا اور ویسے بڑی کا بھی اور کیا آمان ہو جائیں گی حضرت منشی محبوب عالم نیلا گنبد 658 550 قریشی محمد جان اوکاڑہ محمد حسین معلم وقف جدید حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم مستری محمد حسین درویش قادیان ,97 ,84-88 ,68 ,66 ,59 ,24 حضرت حکیم محمد حسین مرہم عیسی 101-104, 110,111,122,138,149,169, 171,200-204, 210, 228-233, 243, 251, 276,289,290,291,293, 303, 325, 327, محمد حنیف یعقوب قریشی محمد حنیف میاں محمد داؤد ڈاکٹر محمد دین 333,338, 352,355-361, 375, 376, 377, 378,381,406-412,419-425, 430-439, 461-463,484,488-496, 500-505,512, ,515-522,527,532,534,541-543,547 | مرز امحمد الدین ناز 549,550,563,568,573,575,581,593-601 ,614-617,622-628,632- 639,678,679, محمد رفیع 683,685,752,753,758,769,792,808-811,812 محمد رمضان اقتداری معجزات آنحضرت کے اقتداری نشانات 68 62 63 محمد سلطان جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلانا مولانا محمد سلیم سابق مبلغ بلا دعر بیہ حجۃ الوداع پر ایک عورت کا اپنے بچے کے ہمراہ آپ کی محمد سمیع آف جرمنی خدمت میں حاضر ہونا اور عرض رہا کہ یہ بولتا نہیں شق القمر کا اقتداری نشان آزادی ضمیر کے جہاد میں حضور کا اسوہ 65 63 سید محمد شاہ سیفی 801 بابو محمد شفیع حضور " کی سیرت کا تو یہ خلاصہ ہے کہ ساری زندگی آپ نے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق اور آپ کے غلاموں نے اس آزادی ضمیر کیلئے انتہائی دیکھ اٹھائے جائیں 811 پروفیسرمحمد طفیل ناز 746 | حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان میاں محمد ادریس چغتائی مولانا محمد اسماعیل منیر 217 محمد عبد اللہ خان میاں محمد اسماعیل چوہدری محمد عظیم 847 محمد الیاس منیر 218 158,159,217 مولوی محمد علی صاحب ایم اے
424 550 خلاف ہے مستشرقین نگلستان کی جماعت انگریز مستشرقین کے سوالات کو یا اعتراضات کو پیش نظر رکھ کر جوابات تیار کرے 549 جماعتی طور پر مغربی مفکرین کے اعتراضات مرتب کے 549 429 155 672 814 746 823, 825 842 847 31 469 346 285 196 جوابات کی تیاری 814 مسجد حرام 847 مسعود احمد 346 مسعود احمد جہلمی 746 مسعودہ خاتون 559 مسقط مسیلمہ کذاب 495 مشرق بعید 285 مظفر گڑھ معاشرتی برائیاں معاشرتی برائیاں اور جماعت کی ذمہ داریاں 88 91 گھر تباہ کرنے والی بعض معاشرتی برائیوں کا ذکر گھر کی جنت میں حائل بعض معاشرتی برائیوں کا ذکر 111 معاشرتی برائیاں اور ان سے بچنا 603 معاشرہ دینی معاشرے کا قیام خوبصورت عائلی زندگی معاشرے کا توازن گھروں سے پیدا ہوتا ہے 137 122 مغربی مفکرین جماعتی طور پر مغربی مفکرین کے اعتراضات مرتب کے جوابات کی تیاری سید مقبول احمد 549 484 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ حافظ محمد عمر محمد فخر الدین بھٹی محمد منیر ہاشمی محمد ناصر محمد یار عارف میاں محمد یوسف محمود نیپال ماریشس محمود احمد بشارت محمود احمد خان مخالفین انبیاء انبیاء کے مخالفین کے نقوش انبیاء کے نقوش سے مل ہی نہیں 852 817, 820, 821, 828 سکتے مختار احمد ہاشمی مذہب اور ہستی باری تعالیٰ مرتد کی سزا مردان 168,435, 436,446, 565, 573, 575,586 573 582 437 484 847 494 بیت الذکر مردان کے انہدام کے حالات حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد مرزا خاں مرز امحمود احمد مریدہ بیگم مساجد عبادت گاہوں پر حملہ نا جائز ہے علماء کا کہنا کہ اپنی مسجدوں کے رخ بدل دو یہ اسلامی شعائر کے مکارم اخلاق
اشاریہ خطبات طاہر جلد۵ 32 مکارم اخلاق سے مراد ہے وہ خلق جو عزت کے اعلی ترین موصیان نیز دیکھئے وصیت منصب پر فائز ہوں حضور اور مکارم اخلاق مکه مکرمه 84 84-85 موصیان کو نصیحت کرتا ہوں کہ زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنے معاملات درست کرلیں موصیان اور نظام وصیت 248 241 420, 422, 423, 424, 425, 426, 427, 428, 430, 431, 432, 487, 488, 510 724,733,743 ملائشیا ملا کہ اللہ رفرشتے مومن کے دکھ اور کافر کے دکھ میں یہی فرق ہوا کرتا ہے کہ مومن کا دکھ اس کے مقامات اور مراتب کو پہلے سے بھی زیادہ بڑھا دیتا ہے ہمارے پیچھے خدا تعالیٰ کی حفاظت کرنے والے قانون جاری مہر اللہ یار کرنے کے لئے فرشتے موجود ہیں ملتان مناظرہ 22 مہراں بی بی اہلیہ عمرالدین 445, 719 مهمان نوازی احسان اور مہمان نوازی حضرت مسیح موعود کا آریوں اور عیسائیوں سے مناظرے میں مہمان نوازی کا بدلہ عظیم الشان موقف منصب خلافت نیز دیکھئے زیر عنوان خلافت 29 میاں خان 205 847 484 263, 466, 495, 537 465 759 470 جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں سید منظور حسین منصب خلافت کے وقار کا کو اللہ تعالیٰ دنیا میں قائم فرمانا چاہتا ہے 526 جب خلیفہ وقت کو دعا کا خط لکھیں تو خود دعا سے غافل نہ ناروے ہو جائیں کو دعا کا 526 خلیفہ وقت کو جھوٹی خبر دینا ایک خطرناک غلطی ہے اور میں ناصر آباد اسٹیٹ سندھ 692 چوہدری ناصر احمد 571 شیخ ناصر احمد شہید آف اوکاڑہ 573, 585, 818, 819 414 432 746 مرزا منور بیگ للیانی 345 ناصر احمد قریشی 215 منیر احمد آف امریکہ 550 ناصرہ بیگم اہلیہ چو ہدری رشید احمد 299 منیر الحق رامه ابوالاعلیٰ مودودی 300 نبوت قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ نبوت کا انکار بھی حسد کے نتیجہ 632, 794, 795, 796, 797 میں ہوتا ہے مستری نذر محمد 749 746
151 152 537 445 847 293 448,484 نکاح نکاح اور تقویٰ نکاح پر پڑھی جانے والی آیات میں حکمت چوہدری نواب خان نواب شاہ میر نوراحمد تالپور نور الله نور بی بی نور مصطفوی 33 605 75 605 346 346 301 اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ نسلی امتیاز نسلی امتیاز کے نام پر مغربی ممالک کی لڑائیاں مغربی ممالک میں نسلی امتیاز نسلی تفاخر مغربی ممالک کی لڑائیوں کی بنیاد نسلی تفاخر ہے نسیم احمد بھٹی مولانا نسیم سیفی چوہدری نصر اللہ خان کینیڈا نصیحت انصائح حضور کا فرمان کہ سات سال کی عمر سے بچے کو نصیحت کر کے احمدیت نے بڑھنا ہے کہ نور مصطفوی پھیل جائے 228 838 نمازیں پڑھاؤ موصیان کو نصیحت کہ زندگی میں خدا تعالی سے اپنے معاملات نیا گڑھ اوڑیسہ 248 نیاز محمد 571 550 نیت اعمال کے حسن کی بنیاد نیک ارادوں اور نیک دعاوی کے اظہار پر نہیں ہوا کرتی بلکہ نیک نیات پر ہوتی ہے 499 اعمال کے نتائج کا دارومدار نیتوں پر ہوا کرتا ہے اس لئے جب نیت بدل جائے تو نتیجہ بھی اسی طرح بگڑ جاتا ہے 141 دعاوی کی کوئی حقیقت نہیں.حقیقت ان نیتوں کی ہے جو 763 265-267 746 275 درست کر لیں نصیحت کی حقیقت واقفین ڈاکٹرز کو نصائح نصیر الدین بلال نظام الدین اولیاء اسلامی فاتح کا نام پانے والے بزرگ نظام حیات و ممات انسان کے اعمال کے پیچھے کارفرما ہوتی ہیں اور اعمال کے اندر جماعت احمدیہ کا نظام حیات اور نظام ممات بھی ایک مقتدر صالح خون بن کے دوڑتی ہیں کارساز ہستی کے ہاتھوں میں ہے نظام وصیت 856 نیک نیتوں سے اعمال میں زندگی آتی ہے 500 500 رشتہ ناطہ میں نا کامی کی وجہ نیتوں کا فساد نظر آتا ہے 142 صرف موصی کے تقویٰ کا معیار اونچا ہونا ضروری نہیں معاشرہ بھی جب ٹوٹتا ہے غلط نیتوں کی وجہ سے ٹوٹتا اور بکھرتا تمہارے تقویٰ کا معیار اونچا ہونا بھی ضروری ہے نظام وصیت اور موصی وصیت میں نیک نیتی کا بڑا دخل ہے مستری نذر محمد 247 241 176 746 رہتا ہے 142 مال خرچ کرنا کافی نہیں مال کو صاف اور پاک نیتوں کے ساتھ خرچ کرنا ضروری ہے 244 ملک کی برکت بادشاہوں کی نیت سے ہوتی ہے.بادشاہوں کی نیتیں اچھی ہوں تو خدا تعالی ملک کی فصلوں میں اس کے
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ پھلوں میں بہت برکت بخشتا ہے وصیت میں نیک نیتی کا بڑا دخل ہے نیترائے نیکی برائی کا مقابلہ نیکی کے ہتھیار سے کریں 267 177 675 3 34 حضور اکرم کی خدمت میں حاضر ہونا اور عرض کیا کہ یہ بولتا نہیں 65 حضرت صفیہ کو حضور صلعم کی ایک دوسری زوجہ کا کہنا کہ یہ یہودی کی بیٹی ہیں 101 حضرت عمر بستر مرگ پر تھا.بڑی بے قراری سے جان دی بہت تڑپ رہے تھے اور بار بار اپنے رب کے حضور یہ عرض ہر بدی کو حسن سے تبدیل کرو ہر ظلم کی جزا نیکی سے دو 439 کرتے.لالی و لاعلی لالی ولاعلی خدا کی محبت ہر نیکی کا قبلہ درست کر دے گی واقعات ابرہہ کا خانہ کعبہ پر لشکر کشی کرنا 658 431 163 حضرت عمر آپکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا یا رسول اللہ عورتیں اپنے شوہروں پر غالب آ گئیں ہیں 121 حضرت مسیح موعود کے ایک صحابی کو کشفی رنگ میں ہستی باری تعالی کا مضمون سمجھایا گیا سرخ چھینٹوں والا کشفی نشان 17 67 طاعون کے ایام میں مولوی محمد علی صاحب کو گلٹی نکلنا اور حضور کے ایام میں محمدعلی اور ایک بادشاہ کے دربار کا واقعہ جہاں یہ بحث چل نکلی کہ ماؤں کو کے ہاتھ لگانے سے گلٹی غائب ہو جانا اپنے بدصورت بچے بھی اچھے لگتے ہیں پھلوں کا رس پیش کیا 342 66 ایک بدبخت کا حضور ﷺ کو ایک غزوہ سے لوٹتے ہوئے دنیا ایک دفعہ ایک بادشاہ شکار میں بھٹک جانا جسے مالی کی بیٹی نے کا سب سے ذلیل انسان کہنا 267 واقفین ڈاکٹر ایک یہودی عالم کا آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونا اور واقفین ڈاکٹر ز کو نصائح 12 509 265-267 113 اپنے علم جتانا ایک شخص کا معاملہ پیش کیا گیا کہ اس نے اپنی بیوی کو دیکھا ہے والدین کے حقوق کہ اگر وہ بدیدن خط اس کی طرف روانہ نہ ہوگی تو اسے طلاق والدہ کا بہت بڑا حق ہے اس کی اطاعت فرض ہے 112 123 دے دی جاوے گی ایک شخص حضور کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے کہا کہ یا رسول اللہ میری بیوی نشوز کرتی ہے 123 ود ود احمد وزیر مذہبی امور جب ایک موقع پر حضرت عائشہ صدیقہ نے ایک ایسی بیوی وصیت نیز دیکھئے نظام وصیت کا بھیجا ہوا سالن گرا دیا 99 155 492 اگر کسی نے عمداً اخفاء کیا ہو تو اس کی وصیت منسوخ ہونی چاہئے جرمنی میں ایک عورت نے جو اسلامی معاشرے کو بڑی نفرت کی نظر سے دیکھتی تھی بڑی شدت سے مجھ سے یہ سوال کیا کہ تدفین کا معیار آپ کے ہاں جو معاشرہ قائم ہے اس میں کیا لذت رہ جاتی حصہ جائیداد ادا کرنا ہے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلانا 150 63 خواتین اور نظام وصیت 250 182 179 245 موصیان کو نصیحت کرتا ہوں کہ ابھی وقت ہے زندگی میں خدا حجۃ الوداع کے موقعہ پر ایک عورت اپنے بچے کے ہمراہ تعالی سے اپنے معاملات درست کر لیں 248
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ 35 کو قبول کرنے والی جیسی ہالینڈ کی قوم ہے اور کہیں ہم نے 745 28, 53,77,252, 253,254, 255, 256,275, وصیت اور تقوی کا گہرا تعلق ہے 251 وصیت کی شرح اللہ تعالی کے ارشاد کے مطابق خدا تعالی کی نہیں دیکھی راہنمائی میں حضرت مسیح موعود نے مقرر فرمائی ہے 176 وصیت کے معاملہ میں بھی کچھ خرابیاں زائد قوانین بنانے کے ہندوستان نتیجہ میں پیدا ہوئیں وصیت اور صدقات 245 243 وقت وقت کے ضیاع کے نقصانات 866 وقف جدید 343,385,421,465,490,496,503,561,562, 563,564,566,567,569,575,576,607, 707,714,796,808,842,847 251 ابتداء میں یہاں احمدی جماعتوں کی حالت ہندوستانی جماعتوں کی ضرورتیں اور دیگر جماعتی قربانی 252 247, 2598, 484, 485, 740 جہاں اب ذات پات کی تمیز کم ہوگئی ہے 77 حضور کا فرمانا کہ قف جدید میں نماز ظہر وہیں پڑھا کرتے تھے ہنگری کیونکہ کام کے وقت دوسری جگہ جانا مشکل ہوتا تھا 741 جنگ عظیم سے پہلے ہنگری میں جماعت متعارف ہو چکی تھی وقف زندگی ہنگری میں جماعت کی تاریخ کو محفوظ کرنا چاہئے ڈاکٹروں کا وقف کرنا اور اللہ کی راہ میں اپنے ہنر کو کمائی کا ذریعہ بنا کر پیش کر دینا ایک عظیم الشان خدمت ہے 265 ہڈرزفیلڈ وقف کیلئے جماعت احمدیہ میں اب دوبارہ پھر غیر معمولی توجہ ہیگ 4-5 5 559 537 پیدا ہوگئی ہے ڈاکٹر ولی محمد ساغر وہابی وہاڑی ہائیڈل برگ ہالینڈ 726 448 418, 428, 513, 565 155, 398, 520 469 یتامی ی یتامی کے مضمون کو جس طرح قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے ساری دنیا کی مذہبی کتابوں سے اس مضمون کے حوالے اکٹھے کر لیں اس کے برابر وزن نہیں ہوگا دار الیتامی کی تعمیر کے بارہ میں ہدایات بیٹی پونتو 717, 724, 728, 729, 745 یہاں کا معاشرہ یورپ کے باقی معاشرہ سے بہت زیادہ صاف ہے.745 یورپ کی جتنی قو میں یں ان میں اخلاص کے ساتھ عیسائیت یمن 690 691 301 430
اشاریہ خطبات طاہر جلد ۵ یورپ 142, 256, 284, 523, 632, 666, 704, 707, 713, 742, 745, 842 یورپین اشترا کی نظریہ یوگنڈا یہود 36 یہودی ایک یہودی عالم کا آنحضرت کی خدمت میں حاضر ہونا اور به 12 اپنے علم جتانا Black Muslims 301 605 Bohemianism 804 724 Drugs Addictioin 865 Zionism 867 اسرائیلی قوم کو بھی یہ گمان ہے کہ وہ خدا کے دوسرے بندوں سے بہتر ہے 605