Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ ۱۹۸۵ء فرمودة سیدنا حضرت مرزاطا برای خلیفی است الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالى جلد ۴
نام کتاب اشاعت خطبات طاہر جلد 4 طبع اول ( جولائی 2005ء)
=:
1 ۲۱ ۳۵ ۴۹ ۶۷ ۹۳ ۱۲۳ ۱۴۹ ۱۷۳ ۲۰۳ ۲۲۷ ۲۴۵ ۲۷۹ ٣٠٣ ۳۲۱ ۳۴۷ ۳۷۳ ۳۹۱ فہرست خطبات عنوان نمبر شمار خطبه فرموده 4 جنوری 1985 ء | جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی اور افضال الہی ، وقف جدید کے سال نو کا اعلان 11 جنوری 1985ء کلمہ کی حفاظت کرنے والے کبھی مٹائے نہیں جاسکتے 18 جنوری 1985ء احمدیت زندہ رہے گی اور دشمن خائب و خاسر ہوں گے 25 جنوری 1985 ء قرطاس ابیض کا جواب : کذب و افتراء کی دلآزار مہم اور اس کا پس منظر یکم فروری 1985ء خود کاشتہ پودے کی حقیقت 8 فروری 1985ء ہندوستان میں انگریزوں کے مفادات اور ان کے اصل محافظ 15 فروری 1985ء اسلام کا نظریہ جہاد اور جماعت احمدیہ 22 فروری 1985 ء | مسلمانان ہندوستان کا قومی تحفظ اور جماعت احمدیہ یکم مارچ 1985ء 1 ۲ २ ۵ ۶ 4 < ۹ 1.11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ مسلمانان ہند کے مفادات کا تحفظ اور جماعت احمدیہ 8 / مارچ 1985ء کشمیر فلسطین کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات 15 / مارچ 1985ء 22 / مارچ 1985ء مسئلہ فلسطین کیلئے خدمات کلمہ توحید کی حفاظت علماؤهم.امت مسلمہ کے لئےلمحہ فکریہ 29 مارچ 1985ء حضرت بانی جماعت احمدیہ پر چند اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات 5 اپریل 1985ء مہدی آخر الزمان کا مقام 10 12 اپریل 1985 ء پر حکمت تاویلات پر مضحکہ خیز رد عمل حضور کا پر شوکت کلام مشاہیر کی نظر میں ۱۶ 1 19 اپریل 1985 ء ظالمانہ تکفیر کے مقابلہ میں حضرت بانی سلسلہ کا صبر وتحمل ، حوصلہ او را بلاغ حق 26 اپریل 1985ء اسلام کی عالمگیر ترقی کے منصوبہ کو سازش کہنا اسلام دشمنی ہے 1 ۱۸ 3 مئی 1985ء مسلمانوں کے باہمی اختلافات وبگڑے عقائد اور حکم و عدل کی خدمات
صفحہ نمبر ۴۲۵ ۴۴۹ ۴۶۹ ۴۸۷ ۵۰۳ ۵۲۹ ۵۵۱ ۵۶۳ ۵۸۳ ۶۲۷ ۶۴۱ ۶۵۵ ۶۶۹ ۶۸۹ ۷۰۷ ۷۲۹ ۷۴۵ ZAZ ا عنوان خطبہ جمعہ ۱۹ 10 مئی 1985ء گلاسکومشن کا افتتاح ،سورۃ جمعہ اور Friday the 10th کی تشریح *1985 17 ۲۰ ۲۱ ۲۲ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ عددی اکثریت کا غیر شرعی فیصلہ اور احمدیت کی فتح 24 مئی 1985 ء رمضان بعسر ویسر رضا ولقا کا مضمون نیز پاکستانی احمدیوں کے دکھ اور ان کیلئے دعا 31 مئی 1985ء ایک نشان اور قوم کو انتباہ 17 جون 1985ء اسلامی حکومتوں کی تباہی کا باعث ملائیت جو پاکستان کیلئے بھی سب سے بڑا خطرہ 14 / جون 1985ء جماعت پر لیلتہ القد کا دور نیز سندھ میں احمدیوں پر مظالم کا ذکر 21 جون 1985ء Friday the 10th کے دونشان اور قوم کی ہدایت کے لئے دعا کی نصیحت 28 جون 1985ء مذہبی تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے 5 جولائی 1985ء دینی تاریخ میں قدر مشترک عمل پر پہلی بار مخالفت، موجودہ دورموسوی ۲۸ 12 جولائی 1985 ء جماعت کی مالی قربانیاں اور اردو رسم الخط کمپیوٹر کے لئے مالی تحریک ۲۹ 19 جولائی 1985 ء | ہر احمدی تبلیغ کے ذریعہ دنیا میں انقلاب پیدا کرے ۳۰ 26 جولائی 1985 ء جماعت احمدیہ نے تقدیر الہی سے بہر حال بڑھنا ہے ۳۱ ۳۲ ۳۳ 2 اگست 1985ء ظالم قوم پر اللہ کی پکڑ ضرور آئے گی 9 اگست 1985ء ختم نبوت کانفرنس برطانیہ اور جماعت احمد یہ کارڈ عمل جماعت کی مخالفت پر ہمارا رد عمل 16 اگست 1985ء 23 /اگست 1985ء احمدیوں کی قربانیوں کا ذکر اور قانت کی تفسیر 30 اگست 1985ء دنیا بھر میں جماعت کونئی وسعتیں عطا ہو رہی ہیں 6 ستمبر 1985ء کلمۃ اللہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وفات پر ان کا ذکر 13 ستمبر 1985ء ہالینڈ میں ایک نئے اور وسیع جماعتی مرکز کا افتتاح 20 ستمبر 1985ء جرمنی میں دعوت الی اللہ کے مواقع اور افضال الہی کا تذکرہ ۳۴ ۳۵ } ۳۶ ۳۷ ۳۸
۷۹۹ ۸۱۵ ۸۳۱ ۸۵۱ ۸۷۳ ΑΛΙ ۸۹۹ ۹۲۱ ۹۳۵ ۹۵۳ ۹۹۳ 10+9 عنوان نمبر شمار خطبه جمعه ۳۹ ۴۰ ام ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ 27 ستمبر 1985ء دورہ جرمنی میں نصرت الہی کا تذکرہ اور دعوت الی اللہ کرنے کی نصیحت 4/اکتوبر 1985ء دورہ سوئٹزر لینڈ، اٹلی اور سپین، ہر احمدی کو مبلغ بننے کی تحریک 18 اکتوبر 1985 ء دورہ یورپ، فرانس ، پین کے تفصیلی حالات اور سپین میں احیائے دین کا عزم 25 /اکتوبر 1985ء تحریک جدید : دفتر اول کے کھاتے جاری کرنے کی تحریک اور دفتر چہارم کا اجراء یکم نومبر 1985ء 8 نومبر 1985ء دکھ میں صبر کرنے والوں کے لئے الہی خوشخبری قیام نماز کے ذریعہ غلبہ احمدیت کی تیاری کریں 15 رنومبر 1985ء معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لئے تقویٰ کے ساتھ قول سدید کا دامن پکڑیں 22 نومبر 1985ء تو حید خالص اور قیام نماز نیز ولایت نوافل سے حاصل ہوتی ہے 29 رنومبر 1985ء نمازوں کی حفاظت اور اس سے لذت حاصل کرنا 6 دسمبر 1985ء نمازوں کو سنوار کر اور سوز و گداز پیدا کر کے ادا کریں 13 / دسمبر 1985ء توجہ اور حضوری سے پڑھی جانے والی مقبول نمازیں ۴۶ ۴۷ گے ۴۹ ۵۱ 20 دسمبر 1985ء اللہ کی صفت عظیم اور اعلیٰ کا بیان نیز حضور کی رؤیا کہ میں حمید الرحمن بن گیا ہوں 27 دسمبر 1985ء وقف جدید کے مقاصد ، نئے سال اور اسے عالمگیر کرنے کا اعلان نوٹ : ارا کتوبر ۱۹۸۵ء کو دوران سفر مختصر خطبہ جمعہ ہوا جس کی ریکارڈنگ نہیں ہوئی.
خطبات طاہر جلدم 1 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۵ء جماعت احمدیہ کی حیرت انگیز ترقی اور افضال الہی نیز وقف جدید کے سال نو کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۴/جنوری ۱۹۸۵ء بمقام بیت فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں: أَفَمَنْ أَشَسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقُوى مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٍ خَيْرٌ أَمْ مَّنْ أَسَّسَ بُنْيَانَهُ عَلَى شَفَا جُرُفٍ هَارِ فَانْهَارَ بِهِ فِي نَارِ جَهَنَّمَ وَاللهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ لَا يَزَالُ بَنْيَانُهُمُ الَّذِى بَنَوْارِيْبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوْبُهُمُ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ نْفُسَهُمْ وَاَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيْلِ وَالْقُرْآنِ وَمَنْ أَوْ فِى بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُمْ بِهِ وَذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ) (التوبہ: ۱۱۰۹.۱۱۱) پھر فرمایا: قت جو آیات قرآن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں یہ سورۃ توبہ سے لی گئی ہیں
خطبات طاہر جلدم خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء آیت ۱۰۹ تا الا ان میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو خدا کے تقوی پر اپنے کاموں کی بنیادیں استوار کرتے ہیں، جن کی تمام عمارات ، جن کے تمام منصوبے جن کے سارے کاروبار اللہ کے تقویٰ کی بنیادوں پر قائم ہوتے ہیں اور خدا کی رضا سے طاقت حاصل کر کے آگے بڑھتے ہیں کیا ایسے شخص بہتر ہیں یا وہ جن کی بنیادیں ایک ایسے کمزور کنارے پر ، ریت کے کنارے پر قائم کی گئی ہوں جو آگ کا کنارہ ہو.پس وہ ایسے کنارے پر قائم کردہ بنیا د میں اپنے اوپر قائم کرنے والی عمارتوں سمیت اور ان کے مکینوں سمیت ان کو لے کر جہنم میں جا پڑتی ہیں.وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ اور اللہ تعالی ظالموں کی قوم کو ہدایت نہیں دیتا.یہاں خدا تعالیٰ نے اَشَسَ بُنْيَانَهُ عَلَى تَقْوٰی نہیں فرمایا بلکہ تَقْوَى مِنَ اللَّهِ وَ رِضْوَانٍ فرمایا ہے جو عام قرآنی اسلوب سے ایک مختلف اسلوب ہے اور اس میں ایک بڑی گہری حکمت ہے.یہاں مراد یہ نہیں ہے کہ انسان اس تقویٰ پر بنیا دیں قائم کرتا ہے جو تقوی کسی حد تک اس کے اختیار اور بس میں ہے بلکہ یہاں ایک خوشخبری کے رنگ میں مومنوں کا نقشہ یہ کھینچا گیا ہے کہ عَلَى تَقْوَى مِنَ اللہ انکی عمارتیں ایسے تقویٰ کی بنیاد پر قائم ہوتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا ہوتا ہے یعنی انسان کی طرف سے اُس میں کسب کا کوئی اتنا حصہ نہیں ہوتا جتنا خدا تعالی کی عطا اور رحمت کا حصہ ہوتا ہے.اس مضمون پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ قوموں پر دو قسم کے حالات آتے ہیں ایک وہ جس میں تقویٰ محنت اور کسب سے کمایا جاتا ہے اور ایک وہ حالات جبکہ خدا کے فضل کی طرح خدا کی رحمت کی بارش کی طرح تقومی آسمان سے برستا ہے.جماعت احمد یہ اس وقت ایسے ہی دور میں داخل ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے احسانات کے جو کرشمے ہم دیکھ رہے ہیں، جو نیکیاں دلوں کو عطا ہو رہی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضوان کی محبت دلوں میں بڑھ رہی ہے، جو عبادات کا ذوق وشوق پیدا ہورہا ہے، جو حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں جماعت میں اس میں جماعت کے کسب کا کوئی حصہ نہیں، کسی انتظامی کوشش یا جدو جہد کا کوئی حصہ نہیں یہ تقویٰ من اللہ ہی ہے، خالصہ آسمان سے خدا کے فرشتے وہ تقوی قلوب پر نازل فرمارہے ہیں جس کے نتیجہ میں خدا تعالی نئی نئی عظیم الشان عمارتوں کی خوشخبری دے رہا ہے.ایسے عظیم الشان کاموں کی بنیادیں قائم کر رہا ہے اس تقویٰ کے اوپر جس کے
خطبات طاہر جلدم خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء نتیجہ میں جماعت خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک بالکل نئے انقلابی دور میں داخل ہو جائے گی پس تَقْوَى مِنَ اللهِ وَرِضْوَانٍ ، ان دونوں کو اکٹھا اس طرح بیان کرنا صاف ظاہر فرماتا ہے کہ یہ دور جب قوموں پر آتا ہے کہ تقوی برسنے لگتا ہے ان پر اور خدا کی رضا نازل ہو رہی ہوتی ہے ایسے دور میں بعض ایسے بدقسمت بھی پیدا ہو رہے ہوتے ہیں جو خدا کے ان پاک بندوں کو مٹانے کی کوشش کرتے ہیں.ایک طرف یہ جماعت خدا کی طرف سے نازل کردہ تقویٰ پر اپنے سارے منصوبوں کی بنیا د رکھتی ہے اور دوسری طرف ان کو مٹانے کے ناپاک منصوبے اس حسد کی آگ پر مبنی ہوتے ہیں جو ان کی ترقی کو دیکھ کر دلوں میں بھڑک رہی ہوتی ہے اور اس آگ ہی میں یہ جاپڑتے ہیں بالآخر اسی آگ کا ایندھن بنادیئے جاتے ہیں.تو فرمایا ان دونوں حالتوں میں سے کون سی تم قبول کرو گے یہ تو انسان کے بس میں ہے کہ جب دو راستے اس کو دکھا دیئے جائیں تو جو اپنے لئے پسند کرےاسے اختیار کر لے.ان آیات نے اتنا کھلا کھلا نقشہ کھینچ دیا ہے.آج کل کے حالات کا کہ ایک انسان جس میں کچھ بھی بصیرت ہو اس کے لئے اپنے لئے نجات کا رستہ اختیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا لیکن جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے بدقسمتی سے جب ایسے وقت آتے ہیں تو لوگوں کی آنکھوں کا نور بھی زائل ہو جاتا ہے اور وہ آگ کی تپش ان کے دل و دماغ کی طاقتوں کو بھسم کر دیتی ہے نتیجہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَا يَزَالُ بُنْيَانُهُمُ الَّذِى بَنَوَارِيْبَةً فِي قُلُوبِهِمْ إِلَّا أَنْ تَقطَّعَ قُلُوبُهُمْ کہ پھر وہ جو منصوبے بناتے اور عمارتیں تعمیر کرتے ہیں ان کے اندراندرونی طور پر رخنے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں ان کے اندر دراڑیں آنے لگ جاتی ہیں اور شکوک ان کے اندر سے جنم لینے لگتے ہیں اور ان کے یقین کی حالت شک وشبہ میں تبدیل ہونے لگتی ہے ایک ایسا وقت آتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم غالباً اب کامیاب نہیں ہوسکیں گے.اور وہ جو کیفیت ہے وہ بڑھتے بڑھتے اتنا خوفناک دبا ؤا اختیار کر لیتی ہے اندرونی طور پر کہ فرماتا ہے إِلَّا أَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ کہ قریب ہوتا ہے کہ پھر ان کے دل اس اندرونی دباؤ سے پھٹ پڑیں.تو ان کے لئے محض آسمان سے نازل ہونے والی آفات ہی نہیں قلبی حالتوں سے پیدا ہونے والی آفات بھی ہیں ، ان کا باہر بھی بدنصیب ہے اور انکا باطن بھی بدنصیب ہے.اور بظاہر جو لوگ دیکھتے ہیں کہ یہ کامیابی کی طرف
خطبات طاہر جلد۴ خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء جار ہے ہیں یا کامیابی کے نشے میں مگن ہیں امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی باطن پر نظر ہے اور وہ یہ گواہی دیتا ہے کہ ان مخالفین کو جو بظاہر تمہیں خوش و خرم نظر آرہے ہیں بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنی کامیابی پر یقین رکھتے ہیں ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کو اپنی کامیابی کا کوئی یقین نہیں.ان کے دلوں میں شکوک پیدا ہو چکے ہیں اور جو بڑھتے چلے جائیں گے اندرونی طور پر اپنی ناکامیوں کا دباؤ اتنی شدت اختیار کر جائے گا کہ قریب ہے کہ یہ دل پھٹ جائیں.وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ تمہیں علم نہیں ہے اللہ جانتا ہے اور وہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی ہے، باخبر بھی ہے اور اس کی در پردہ حکمتیں کارفرما ہوتی ہیں جو ظاہری آنکھ کو نظر نہیں آرہی ہوتیں اور اندرونی طور پر وہ نئے نئے کام دکھا رہی ہوتی ہیں.ان حالات پر اگر غور کیا جائے جو ان آیات میں بیان ہوئے ہیں تو مومن کے لئے اس میں عظیم الشان خوشخبریاں ہیں اور ایسے وقت میں بھی تسکین کے سامان ہیں جب کہ بظا ہر مومن کے لئے اندھیرا ہے اور اس کے مخالف کے لئے روشنی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارے لئے اندھیرے کا کوئی جواز نہیں ہے تم خدا کے نور میں پلنے والے لوگ ہو، خدا کی رحمتوں کا سایہ تمہارے اوپر ہے، تم اپنے دلوں کو دیکھو کہ ہر روز ان پر خدا کی رحمتیں تقویٰ کی صورت میں اور طہارت اور پاکیزگی کی صورت میں نازل ہوتی ہیں تم نئے نئے روحانی سفر کر رہے ہو بنتی روحانی فضاؤں میں پرواز کرنے لگے ہو، اگر تم ذرا سا بھی غور کرو تو تم جان لو گے کہ اس میں تمہاری کوشش کا دخل کو ئی نہیں محض خدا کا فضل ہے جو تم پر نازل ہورہا ہے اس کے بعد تمہارے لئے مایوسی کی کون سی گنجائش ہے اور جن کو تم خوش سمجھ رہے ہو اور جن کو تم فخر کرتا ہوا دیکھتے ہو ان کے دل کی حالت ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا یہ حال ہے اور دن بدن وہ اپنی تباہی کی طرف بڑھ رہے ہیں.گذشتہ سال کے حالات اور واقعات کا جائزہ لیا جائے تو ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہر جہت سے ہر سمت میں جماعت احمدیہ کا قدم آگے بڑھایا ہے.کوئی ایک بھی شعبہ زندگی نہیں ہے جس میں جماعت احمدیہ نے گذشتہ سال نمایاں ترقی نہ کی ہو.کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جس میں جماعت احمدیہ نے نمایاں ترقی نہ کی ہو.پاکستان جیسے ملک میں جہاں جماعت کی ہر آزادی پہ پہرے بٹھا دیئے گئے ہیں وہاں بھی جماعت کی ہر تحریک نشو و نما پا رہی ہے اور پہلے سے آگے بڑھ رہی ہے.
خطبات طاہر جلدم 5 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۵ء چنانچہ وقف جدید بھی ایک ان غربیانہ تحریکوں میں سے ہے جو جماعت احمدیہ نے اسلام کے احیائے نو کی خاطر جاری کیں اور دیہاتی جماعتوں میں ایک روحانی تبدیلی پیدا کرنے کی خاطر مصلح موعود نے اس کی بنیا درکھی.چنانچہ ایک بہت ہی غربیانہ اور درویشانہ ہی جماعت ہے جس کا بہت معمولی بجٹ ہے لیکن گذشتہ سال اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جہاں باقی انجمنوں نے ترقی کی وہاں خدا تعالیٰ نے اس غریبانہ انجمن کو بھی نمایاں ترقی کی توفیق بخشی اور بجٹ توقع سے بہت بڑھ کے پورا ہوا بلکہ عملاً جہاں تک مجھے یاد ہے دو یا تین لاکھ روپے کا زائد بجٹ ہوا جو پہلے سات لاکھ ہوا کرتا تھا وہ دس لاکھ تک پہنچ گیا اور نسبت کے لحاظ سے ایک بہت نمایاں ترقی ہے اور اس دفعہ کا بجٹ انہوں نے گیارہ لاکھ سے زائد رکھا تھا غالباً تیرہ لاکھ کے قریب اور جور پورٹیں آرہی ہیں وہ خدا کے فضل سے بہت خوش کن ہیں کہ یہ بجٹ بھی حسب سابق توقع سے بڑھ کر پورا ہوگا.تعجب ہوتا ہے کہ ایک طرف تو دشمن جماعت کی آمد کے ذرائع پر ہاتھ ڈال رہا ہے، نوکریوں سے سبکدوش کئے جا رہے ہیں لوگ ، تجارتوں میں رخنے ڈالے جارہے ہیں، انکم ٹیکس کے جھوٹے مقدمے بنائے جارہے ہیں، کوئی ایک بھی پہلو ایسا نہیں ہے جس سے جماعت کو تنگ نہ کیا جا رہا ہواور جماعت کی اقتصادی حیثیت کو نقصان نہ پہنچایا جارہا ہوا اور اس کے باوجود ہر جہت میں خدا کی راہ میں جماعت مالی قربانی میں آگے قدم بڑھا رہی ہے.اور جہاں تک وقف جدید کے کاموں کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے اس پاک تبدیلی میں جو دیہات میں نظر آتی ہے ان کارندوں کی دعاؤں کا بھی دخل ہے، ان کی محنتوں کا بھی اس لحاظ سے دخل ہے کہ نہایت غریبانہ گزاروں میں رہ کر بھی یہ بچوں کو قرآن پڑھاتے ،نمازوں کی طرف توجہ دلاتے اور بڑی محنت کے ساتھ بڑے مشکل حالات میں صبر اور شکر کے ساتھ گزارہ کر رہے ہیں تو اللہ تعالی اس تحریک کو اور بھی ترقی دے.چونکہ ہمیشہ یہی دستور رہا ہے کہ جلسہ سالانہ کے اٹھائیسویں تاریخ کو یانئے سال کے پہلے جمعہ کو وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کیا جائے اس لئے اس جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور دعا کی تحریک کرتا ہوں جماعت کو کہ یہ دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جہت سے اس تحریک کو بھی غیر معمولی نشو و نما عطا فرما تار ہے اور وہ عظیم الشان کام جو خدا تعالیٰ نے اِن عاجز بندوں کے سپر دفرمائے ہیں ان میں اس تحریک کے کارندے بھی
خطبات طاہر جلد۴ خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء حتی المقدور کوشش کرتے رہیں.اسی کے ساتھ ہی میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد بھی دیتا ہوں اور نئے سال کی مبارک باد کے طور پر کچھ اچھی خبریں بھی آپکو سناتا ہوں جو پاکستان سے باہر سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور پاکستان کے اندر سے بھی تعلق رکھتی ہیں.جہاں تک جماعت کے اوپر اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کا تعلق ہے ان کا تو شمار ممکن نہیں ہے اور جتنے شعبے جماعت کے کام کر رہے ہیں ان سب کا ذکر کر کے اگر خدا تعالیٰ کے بے شمار فضلوں کو سمیٹنے کی کوشش کی جائے تو وہ بھی ایک خطبہ جمعہ میں تو ممکن ہی نہیں ہے.اس سے پہلے جب جلسہ سالانہ کی اجازت ہوتی تھی تو دوسرے دن کی تقریر میں جماعت احمدیہ کی مختلف جہت میں ترقیات کا ذکر ہوا کرتا تھا اور اس میں بھی میں نے دیکھا ہے کہ انتہائی کوشش کے باوجود بھی پچھلے دو سالوں کا تجربہ تو یہ ہے کہ کبھی بھی پورے واقعات نوٹس (Notes) کے مطابق بیان نہیں کر سکا حالانکہ دو تین گھنٹے کی کھلی تقریر ہوتی ہے بڑھایا بھی جاسکتا ہے لیکن بار بار نوٹس چھوڑ کر بعض جگہوں سے آگے گذر کے جلدی میں ہی باتیں بیان کرنی پڑتی تھیں تا کہ کچھ اور اہم نکتے جو بعد میں آنے ہوتے ہیں وہ رہ نہ جائیں تو یہ تو ممکن ہی نہیں ہے کہ ایک جمعہ کے محمد ودعرصہ میں میں یہ ساری باتیں بیان کرسکوں لیکن بعض پہلوؤں سے میں نے چند چیزیں صرف اخذ کی ہیں تاکہ جماعت احمدیہ کو جو شوق ہے ہمیشہ خوشخبریاں سنے کا اللہ تعالیٰ ان کے دل راضی کرے اور ان کو بتائے کہ یہ جو گذشتہ سال گزرا ہے یہ کسی لحاظ سے بھی پہلے سالوں سے کم نہیں آیا بلکہ بہت ہی زیادہ برکتیں لے کر آیا ہے.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ تبلیغ کے معاملہ میں جماعت میں ایک عظیم الشان ولولہ پیدا ہو گیا ہے پچھلے سال اور کوئی ایک بھی ملک ایسا نہیں ہے جہاں نئے نئے داعی الی اللہ پیدا نہیں ہورہے اور کثرت کے ساتھ ان کی کوششوں کو پھل لگنے لگے ہیں.نئی نئی جماعتیں خدا تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں ، نئے نئے ملکوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت کا پودا لگایا ہے اور بعض ملکوں میں تو جماعتوں کے طور پر جس کو فوج در فوج کہتے ہیں اس طرح لوگ داخل ہوئے ہیں اور چونکہ یہ صورت حال یعنی تبلیغ میں ایک نیا ولولہ اور نیا جوش ساری دنیا میں نمایاں ہے اس لئے کسی ایک ملک کا نام تو نہیں لیا جا سکتا لیکن آپ چونکہ یورپ میں رہنے والے ہیں اس لئے آپ کو آپ کے ملکوں کے متعلق میں بتاتا ہوں کیونکہ
خطبات طاہر جلدم 7 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۵ء آپ میرے اولین مخاطب ہیں کہ انگلستان میں بھی یہ پاک تبدیلی بڑے نمایاں طور پر سامنے آرہی ہے اور یورپ کے دیگر ممالک میں بھی.میرا یہ ارادہ تھا خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق کہ کوشش کروں کہ ہر جہت سے گذشتہ سالوں کے مقابل پر اس سال دس گنا زیادہ تبلیغ کی رفتار ہو جائے تو جہاں تک یورپ کا تعلق ہے وہاں تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل پوری طرح حساب سے بھی بڑھ کر عطا فرما دیا.انگلستان میں بھی گذشتہ سال کی نسبت دس گنا سے زیادہ تبلیغ میں اضافہ معلوم ہوا اور جرمنی میں بھی گذشتہ سال کے مقابل پر دس گنا زیادہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا اور دیگر ملکوں کی تمام تفاصیل تو میرے سامنے نہیں ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ میں ابھی یورپ کے سفر سے بھی آیا ہوں حیرت انگیز طور پر نو جوانوں میں تبلیغ کی لگن اور جوش ہے اور طبیعتیں مائل ہو رہی ہیں اس طرف اس لئے میں خدا کے فضل سے امید رکھتا ہوں کہ یہ جس کام کی بنیاد پڑ گئی ہے کہ ہر احمدی تبلیغ کرے اس کے نتائج اب انشاء اللہ تعالیٰ اس طرح نہیں آگے بڑھیں گے کہ ایک سے دو ہو جائیں اور دو سے تین اور تین سے چار بلکہ جیسا کہ میری دلی تمنا ہے اور دعا ہے یہ آپس میں ضرب کھانے لگ جائیں گے انشاء اللہ.دو سے چار اور چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ اس رفتار سے ہمیں آگے بڑھنا ہے اور اس کے بغیر ہمارا چارہ نہیں ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ رفتار خواہ کتنی بھی تیز ہو رفتاروں کے ذریعہ دنیا میں انقلاب بر پا نہیں ہوا کرتے بلکہ ایکسلا ریشن (Acceleration) کے ذریعہ انقلاب ہوا کرتے ہیں.ایکسلا ریشن (Acceleration) کہتے ہیں ترقی پذیر رفتار کو یعنی آج اگر دس میل کی رفتار سے آپ چل رہے ہیں تو کل دس میل کی رفتار سے نہیں بلکہ گذشتہ دس میل + اور دس میل یعنی ہیں میل کی رفتار سے آپ چل رہے ہوں اور اس سے اگلے سال میں میل کی رفتار سے نہیں چلیں بلکہ میں + دس میل اور تو اس تدریجی رفتار کو انگریزی میں Acceleration کہتے ہیں.اور دنیا میں جتنا بھی کارخانہ قدرت چل رہا ہے اس کی بنیاد خدا تعالیٰ نے Acceleration پر رکھی ہے کیونکہ بنیادی طور پر آخری انرجی کی جوصورت ہے وہGravitation ہے یعنی زمین کی قوت جاذ بہ یا مادہ کی قوت جاذ بہ جس کو کششِ ثقل بھی کہا جاتا ہے.اُس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ Acceleration پیدا کرتا ہے اور جتنی انرجیز (Energies) کی مختلف شکلیں ہیں خواہ وہ بجلی ہو یا مقناطیس یا کوئی اور شکل ہو وہ بالآخر اسی آخری.
خطبات طاہر جلدم خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۵ء شکل کی مرہون منت ہیں اور دراصل اسی کی بدلی ہوئی مختلف صورتیں ہیں.تو جب خدا تعالیٰ نے اپنے نقشہ کی بنیاد Acceleration پر رکھی ہے اور ہمیں متوجہ فرمایا ہے کہ تم قانونِ قدرت پر غور کرو اور اس سے نصیحت پکڑو اور میری سنت کے راز معلوم کرو اور میرے طریق سیکھو تو روحانی دنیا میں بھی نئی عظیم الشان تخلیقات کے لئے نئے نئے کارخانے جاری کرنے کیلئے لازم ہے کہ ہم خدا کی اس جاری کرده سنت پر غور کریں اور اُسی کو اپنائیں.پس آئندہ سال کے لئے اگر یہاں انگلستان میں مثلاً ایک سال میں ساٹھ ہوں اور جرمنی میں ایک سو دس یا ایک سو میں اور ہو جائیں تو یہ تو Stagnation کی علامت ہوگی ہے ایک مقام پر کھڑے ہو جانیوالی بات ہے.اگر دس داعی الی اللہ یہاں پیدا ہوئے تھے تو اگلے سال کم سے کم ہیں ہونے چاہئیں یا اس سے بھی زیادہ اور جرمنی میں اگر پچاس پیدا ہوئے تھے تو اگلے سال سو یا اس سے بھی زیادہ ہونے چاہئیں.اسی طرح باقی ملکوں کو بھی میں یہی پیغام دیتا ہوں کہ نئے سال میں یہ عہد کریں اپنے رب سے کہ اے خدا تو نے محض اپنے فضل سے ہمیں جو تیز رفتاری بخشی ہے اس تیز رفتاری کو Acceleration میں تبدیل فرما دے.ہمارے ہر کام میں غیر معمولی سرعت ہی نہ ہو بلکہ ہمیں بڑھتی رہنے والی سرعت عطا ہو.دنیا ہر سال ہمیں ایک نئے دور میں داخل ہوتا دیکھے، تیری راہ میں قدم بڑھانے کی مزید توانائی ہمیں نصیب ہو اور تیری طرف حرکت کیلئے نئے نئے پر ہمیں عطا ہوتے رہیں.ان دعاؤں کے ساتھ ہمیں نئے سال کا آغاز کرنا چاہئے.جہاں تک اس تبلیغ کے نتائج کا تعلق ہے اور روحانی طور پر جو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ عطا فر مایا ہے اور اپنی رضا بخشی ہے ہمیں اسکا تعلق ہے اس کے نتیجہ میں ظاہری لحاظ سے کچھ مشکلات بھی دکھائی دیتی ہیں اور وہ مشکلات بھی دراصل اللہ کا فضل ہیں مشکلات یہ ہیں کہ وہ مساجد جو پہلے ہمارے لئے کافی ہوا کرتی تھیں اب کافی نہیں رہیں.کچھ نئے آنے والے آئے ہیں کچھ پرانے جو غافل تھے وہ بڑی تیزی کے ساتھ جماعت کی طرف دوبارہ پلٹے ہیں، باہر جانے کی بجائے ان کا رخ اندر کی طرف ہو گیا ہے.چنانچہ وہ مساجد جو گذشتہ دوروں میں مجھے کافی محسوس ہوتی تھیں اب تو بالکل اتنی چھوٹی دکھائی دی ہیں کہ حیرت ہے کہ ان سے ہمارے کام کیسے چل سکیں گے.چنانچہ میں نے تو دو یوروپین مشنرز کی تحریک کی تھی لیکن اب معلوم ہو رہا ہے کہ دو تو نہیں یہ تو لمبا سلسلہ چلنے والا ہے.چنانچہ انگلستان
خطبات طاہر جلد۴ خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء کا جہاں تک تعلق ہے خدا تعالیٰ نے آپکو تو ایک بڑا وسیع مشن بھی عطا فرما دیا لیکن پھر بھی جو دوسری ضروریات ہیں وہ پوری نہیں ہو سکتیں.اس لئے یہاں بھی ہمیں جگہ جگہ نئی جگہیں خریدنا پڑیں گی اور اس کا ہم جائزہ لے رہے ہیں.ایک خوشخبری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے گلاسگو میں ہمیں ایک بہت عظیم الشان عمارت خریدنے کی توفیق مل گئی ہے جو وہاں کی جماعت کا ایک حصہ سمجھتا ہے کہ بہت دیر تک ہماری ضروریات پوری ہوتی رہیں گی.لیکن میں سمجھتا ہوں وہ یہ بدظنی کر رہے ہیں اپنے رب پر.اگر بہت دیر تک ان کی ضروریات پوری ہوتی رہیں گی تو پھر وہ بڑھ نہیں رہے.اس لئے میری تو دعا ہے کہ کل ضروریات ان کی پوری نہ ہو سکیں ، اتنی جلدی وہ پھیلیں اور نشو ونما پائیں اور اس تیزی سے آگے قدم بڑھا ئیں کہ ہم دیکھتے رہ جائیں کہ یہ عمارت چھوٹی ہوگئی اور جماعت اس سے بڑی ہوگئی.اس لئے اب گلاسگو کی جماعت کو میری خاص نصیحت یہ ہے کہ خدا کی اس نعمت کا شکر اس رنگ میں ادا کریں کہ اس عمارت کو بھرنے کی کوشش کریں جلد سے جلد اور خدا کی رحمت پر توقع رکھیں کہ جب وہ بڑھیں گے تو خدا اور عمارتیں بھی عطا کر دے گا.خدا تعالیٰ نے اس لحاظ سے جماعت کو کبھی بھی محروم نہیں رکھا.جرمنی کا سفر میرا خصوصیت کے ساتھ اس لئے تھا کہ وہاں دوسرا ایور و پین مشن خریدنے کیلئے جائزہ لیا جائے.لیکن جب ہم ہالینڈ میں اترے وہاں کی مسجد کو دیکھ کر ہمیں تعجب ہوا کہ ہالینڈ کی مسجد بھی چھوٹی ہوگئی ہے.بہت سے لوگ جو پہلے تعلق نہیں رکھتے تھے وہ کثرت کے ساتھ تعلق رکھنے لگے نئے نئے احمدی ان میں داخل ہوئے اور اللہ کے فضل سے وہ جو پہلے بڑی کھلی جگہ دکھائی دیا کرتی تھی بالکل چھوٹی ہو کے رہ گئی ہے.چنانچہ وہاں بھی خدا تعالیٰ نے توفیق دی اگر چہ دو، تین دن کا قیام تھا لیکن جماعت نے بھی بڑی بھاگ دوڑ کی نئی جگہیں تلاش کیں اور اس جگہ کو بھی نئی وسعت دینے کیلئے آرکیٹکٹ بُلا کر ان کے ساتھ معاملات طے ہوئے.تو امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جلد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہالینڈ میں بھی دو طرح ہمارے مشن وسعت پذیر ہوں گے ایک موجودہ عمارت کی توسیع کی جائے گی اور دوسرے ایک نیا مشن وہاں قائم کرنا ہے انشاء اللہ.جب جرمنی پہنچے تو پتہ چلا کہ وہاں تو ہیمبرگ میں بھی ضرورت ہے ، وہاں کولن ایک جگہ ہے وہاں بھی ضرورت ہے اور میونخ میں بھی ضرورت ہے.وہاں تو جماعتیں شور مچا رہی تھیں کہ ہماری
خطبات طاہر جلدم 10 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء ضرورتیں پوری کرو، آپ ایک مشن کی بات کر رہے ہیں یہاں تو جگہ جگہ خدا کے فضل نئے مشنوں کے تقاضے کر رہے ہیں.چنانچہ یہی فیصلہ کرنا پڑا کہ ایک تو بڑا مرکز قائم کیا جائے فرینکفرٹ کے قریب اور وہاں خدا کے فضل سے ایک بہت اچھی با موقع جگہ پسند کر لی گئی ہے اور Negotiations کے لئے کہہ دیا ہے.بہر حال جو قیمت بھی اس کی طے ہو گی ہم انشاء اللہ دیں گے.اور ہیمبرگ مشن کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے.دو تین ان کی جو تجاویز تھیں وہ سامنے بھی آئیں لیکن وہ بھی پوری نہیں تھیں.ان سے میں نے کہا تھا کہ بڑی جگہ بنا ئیں تو ان کے جو حوصلہ کی چھلانگ تھی اسی وجہ سے کہ شاید اگلی پانچ سال کی یا دس سال کی ضرورتیں ہماری پوری ہو جائیں گی اُنہوں نے چھوٹی جگہ تجویز کر دی.ان سے میں نے کہا ہے کہ آپ کتنے سال پھل کھاتے رہے ہیں گذشتہ لوگوں کی محنت کا ، اب ان کا شکر یہ ادا کرنے کا تو یہ طریق ہے کہ آئندہ ارادہ یہ کریں کہ گویا آئندہ ہیں یا تھیں سال تک کی ضروریات کے لئے آپ نے کشادہ جگہ لینی ہے اور دعا یہ کریں کہ خدا کرے اگلے سال ہی ہمیں اور جگہ لینی پڑے.یہ ڈھنگ ہیں جو قدرت نے ہمیں سکھائے ہیں اس طریق پر خدا تعالیٰ نے دنیا میں نشو ونما فرمائی ہے.اور یہ جاری قوانین ہیں اللہ تعالیٰ کے جن کے نتیجے میں تمام کائنات ترقی پذیر ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی اس جاری سنت کو دیکھ کر ان سے جب ہم زندہ رہنے کے اسلوب سیکھتے ہیں تو پھر یہی نتائج سامنے آتے ہیں جو میں آپ کے سامنے سُنا رہا ہوں.سوئٹزرلینڈ گئے تو وہاں بھی جگہ بہت چھوٹی نظر آئی.اگر چہ وہاں بہت زیادہ مہنگائی ہے لیکن پھر بھی ہمیں جو فوری ضروریات ہماری ہیں وہ تو بہر حال پوری کرنی ہیں.یعنی سوئٹزر لینڈ میں انگلستان کے مقابل پر دس گنا سے بھی زیادہ قیمتیں ہیں جائیدادوں کی.بہر حال ایک جگہ تو زمین کے متعلق انکا مطالبہ تھا کہ ہمیں جلد لے کر دی جائے.اُن سے تو میں نے کہا ہے کہ آپ لوگ چونکہ تبلیغ میں ست ہیں اس لئے ابھی آپ کا حق نہیں ہے ، آپ پہلے اپنا حق قائم کریں ، ہر احمدی میں ایک جذ بہ اور جوش پیدا ہو پھر انشاء اللہ تعالیٰ چاہے جہاں سے مرضی روپیہ لانا پڑے ہم آپ کی ضرورت پوری کر دیں گے.لیکن ابھی ان کو ایک سال کی میں نے مہلت دی ہے اس لئے فی الحال سوئٹزر لینڈ میں سوائے پرانے مشن کی کچھ توسیع کے اور کوئی پروگرام نہیں ہے.جب فرانس آئے تو معلوم ہوا کہ وہاں بھی جماعت میں ایک حیرت انگیز تبدیلی ہے.ہم تو
خطبات طاہر جلدم 11 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۵ء سمجھا کرتے تھے کہ وہاں دس پندرہ کی ایک کمزورسی جماعت ہوگی لیکن جب جمعہ پہ ہم اکٹھے ہوئے تو صرف مرد ہی 65 تھے خدا کے فضل سے اور عورتیں اس کے علاوہ بھی تھیں اور جو خدمت کرنے والی خواتین تھیں جو سب کا خیال رکھ رہی تھیں اور کھانا وغیرہ پکاتی تھیں اور ہر قسم کی خدمت کر رہی تھیں ان میں ایک یوروپین خاتون بھی تھیں جو حیرت انگیز اخلاص سے دن رات محنت کر رہی تھیں وہاں.تو وہاں تو بالکل ایک نیا نقشہ نظر آیا جماعت کا.وہاں خدا کے فضل سے پیرس کے ایک بہت اچھے علاقے میں جو صاف ستھرا اور معاشرہ کے لحاظ سے بھی صحت مند علاقہ ہے وہاں ایک بہت اچھا مشن خرید لیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو یہ مبارک فرمائے اور انشاء اللہ تعالیٰ اس کی جو قانونی Transaction ہے وہ بھی ایک دو مہینہ کے اندر ہو جائے گی اللہ تعالیٰ کے فضل سے.سودا ہو چکا ہے پختہ ، رقم کا ایک حصہ ادا کر دیا گیا ہے اور دوسرا موجود ہے.اسی طرح ایک اور جگہ بھی وہاں جائزہ لینے کی بھی ہدایت کر دی گئی ہے تا کہ فرانس میں ایک نہیں بلکہ دومشن قائم کئے جائیں.تو جہاں تک بیرونی دنیا کا تعلق ہے اخلاص کا حال دیکھیں تبلیغ کا ذوق وشوق دیکھیں ، عبادتوں کا شوق دیکھیں، نئے نئے مشنز کا قیام دیکھیں، کس لحاظ سے یہ سال بُرا گذرا ہے؟ امر واقع یہ ہے کہ اتنے غیر معمولی فضل ہر سمت سے خدا تعالیٰ کی طرف سے ہوئے ہیں کہ اس کا شکر ادا کرنے کی طاقت ہم نہیں رکھتے.یہ حق ادا نہیں ہو سکتا ہم سے اس لئے خدا کی رحمت کے سامنے سر جھکاتے ہوئے پرانے سال کی دہلیز سے گذریں اور نئے سال میں داخل ہوں اور خدا کی رحمت کے حضور یہ سر پھر بلند اٹھیں نہ کبھی.کیونکہ جو خدا کے حضور شکرانہ کے طور پر اپنے سر جھکاتے ہیں انہی کو ہمیشہ سر بلندیاں عطا ہوا کرتی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ خدا کے فضلوں میں بھی اسی طرح Acceleration آئے گی انشاء اللہ جتنی آپ اپنی کوششوں میں ایکسلا ریشن (Acceleration) کریں گے.اللہ کی ہمیشہ سے یہ تقدیر جاری ہے کہ بندے کے تھوڑے کے مقابل پر اپنا بہت زیادہ ڈالتا ہے.ایک غریب آدمی کچھ تھوڑا سا جب پیش کیا کرتا ہے کسی امیر کو تو اتنا تو نہیں لوٹا یا کرتا.اتنا تو اگر وہ لوٹائے تو یہ بڑا ہی گھٹیا کام سمجھا جاتا ہے اور بہت ہی حقیر بات سمجھی جاتی ہے.تو اللہ نے اپنے بندوں کو اگر یہ فطرت عطا فرمائی ہے تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ خدا تعالیٰ کا رد عمل کس قسم کا ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ نے مختلف طریق پر ہمیں سمجھایا اور خلاصہ اس کا یہ ہے کہ آپ ایک معمولی سی حرکت کرتے ہیں اس کو خدا
خطبات طاہر جلدم 12 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء تعالیٰ ایک لامتناہی حرکت میں تبدیل کر دیتا ہے اتنے فضل جاری فرماتا ہے کہ اس کو آپ گن نہیں سکتے ان کو آپ سمیٹ نہیں سکتے.جہاں تک پاکستان کے حالات کا تعلق ہے ان کے فیض سے بھی یہاں آپ کے اندر روحانی تبدیلیاں ہو رہی ہیں یعنی اگر آپ غور کریں تو ان ساری ترقیات کا منبع اور مرکز پاکستان میں پیدا ہونے والا دُکھ ہے اس لئے وَعَسَى أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرہ: ۲۱۷) کا ایک عجیب منظر ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں.جس طرح تمام دنیا کی توانائی جو اس نظام سمسی میں ہم دیکھتے ہیں یہ سورج سے نازل ہو رہی ہے اسی طرح ہر قسم کی توانائی کے بعض مراکز ہوا کرتے ہیں.یہ جو توانائی ساری دنیا میں جماعت احمدیہ میں پھیل رہی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کا مرکز پاکستانی احمدیوں کے دکھوں میں ہے.وہیں فرانس میں ایک فرانس کے مقامی باشندے جو خدا کے فضل سے مخلص احمدی ہیں انہوں نے ایک سوال کیا جس کے نتیجہ میں میں ان کو سمجھا رہا تھا کہ اس دور میں خدا تعالیٰ نے کس کس قسم کے فضل کئے ہیں.میں نمونے ان کو بتا رہا تھا تو ایک میں نے ان کو یہ بتایا کہ بڑی کوششیں کی گئیں کبھی خدام الاحمدیہ کی طرف سے کبھی انصار اللہ کے طرف سے مختلف نظاموں کی طرف سے لیکن کئی ایسے تھے بیچارے نوجوان جو قابو ہی نہیں آتے تھے تربیت کے لحاظ سے، کبھی نماز کے قریب نہیں پھٹکا کرتے تھے.ہر قوم میں کمزور ہوتے ہیں، ہمارے اندر بھی کمزور تھے لیکن کوشش کے باوجود ہماری پیش نہیں جاتی تھی ان پر.میں نے ان کو بتایا کہ اب یہ دیکھیں کہ کیسے ہم یہ کر سکتے تھے، ہمارا تو اختیار ہی نہیں تھا کہ ایسے ایسے نوجوان مجھے خط لکھتے ہیں اور سینکڑوں کی تعداد میں بلکہ ہزار کے لگ بھگ ابتک خط ہو چکے ہوں گے ایسے کہ جنہوں نے یہ اطلاع دی ہے کہ ہم جو نماز کے قریب بھی نہیں پھٹکا کرتے تھے ہم اب تہجد گزار ہو گئے ہیں.جب میں یہ واقعہ ان کو بتارہا تھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے از دیا دایمان کا یہ سامان پیدا فرما دیا کہ میرے پہلو میں دائیں طرف جو نو جوان بیٹھا ہوا تھا وہ ایک دم بول پڑا کہ میں بھی ان میں سے ہی ہوں، میرا بھی یہی حال تھا.اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں تہجد پڑھتا ہوں میں چندوں میں آگے آگیا ہوں ، ہمیں قربانیوں میں آگے ہوں ، تبلیغ کا شوق مجھ میں پیدا ہو گیا ہے.حیران رہ گیا وہ فرانسیسی احمدی نوجوان یہ دیکھ کر کہ کس طرح خدا تعالیٰ فوراً گواہ بھی پیدا
خطبات طاہر جلد۴ فرما دیتا ہے.13 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء اور پاکستان کے اندر جو تبدیلیاں ہیں وہ اس سے بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہ اس توانائی کے مرکز کے قریب تر بسنے والے لوگ ہیں.غموں کی جو شدّت وہ محسوس کرتے ہیں ، جو تمازت ان کے دلوں پر پڑ رہی ہے آپ تو دور سے اس کا نظارہ کر کے اپنے اندر یہ تبدیلیاں محسوس کر رہے ہیں اور تصور نہیں کر سکتے کہ ان کے دلوں پر کیا گزر رہی ہے اور کس طرح یہ آگ ان کے قلبی جو ہروں کو کندن بناتی چلی جارہی ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ آسمان سے کثرت کے ساتھ فضل نازل ہو کر ہر جگہ ان کے ایمان کو بڑھانے کا موجب ہورہے ہیں.صرف کردار کی پاک تبدیلی نہیں ہے بلکہ نشانات بھی اُن پر نازل ہو رہے ہیں.عزم کے نئے نئے پہاڑ سر کر رہے ہیں اور ہر پہاڑ پر خدا کی رحمت اور اس کی رضا کی تجلیات بھی دیکھ رہے ہیں.بے شمار ایسے واقعات ہیں جن میں سے کچھ میں بیان کر چکا ہوں.سارے بیان کرنا تو بہر حال ممکن نہیں ہیں لیکن چند میں نے آج کے خطبہ کے لئے چنے ہیں نمونہ آپ کے سامنے رکھنے کے لئے.جہاں تک احمدی مردوں کے کردار کا تعلق ہے ہمارے وہاں ایک ایسے ضلع میں جہاں جہالت بہت زیادہ ہے.وہاں چند نو جوانوں کو محض اس جرم میں پکڑا گیا کہ انہوں نے اذانیں دیں یا انہوں نے السلام علیکم کہایا انہوں نے مسلمانوں کی طرح Behave کیا یا تبلیغ کی.یعنی وہاں کے جرائم کی اب یہ فہرست ہے پاکستان میں قتل و غارت، زنا، بدکاریاں ظلم ،سفا کی ، آنکھیں نکال لینا، اعضاء کاٹ دینا محرموں کے ساتھ نامحرمانہ تعلقات، یہ تو اب ادنی ادنی با تیں ہوگئی ہیں.بڑے جرائم جو پاکستان کی کورٹ میں اس وقت نمایاں حیثیت اختیار کر گئے ہیں جن کے متعلق صدارتی آرڈینینس نازل ہورہے ہیں وہاں ، جن کے متعلق گورنروں کو احکام جاری ہور ہے ہیں کہ خبر دار اتنے سنگین جرائم کو کبھی معاف نہیں کرنا یہ احمدی بیچارے ان جرائم کے مرتکب ہو گئے تھے، خدا کا نام لے رہے تھے کھلم کھلا اپنے دشمنوں کو السلام علیکم کہ رہے تھے اور اُن کے لئے دعائیں کرتے تھے اور مسلمانوں کی طرح Behave کر رہے تھے، یہ جُرم کیسے معاف ہو سکتا تھا.ان کو جو پکڑ کر جیل میں پھینک دیا گیا اور ایک گھر کی جو حالت تھی اس کا ذکر میں بعد میں کروں گا ، اس وقت میں یہ بتا تا ہوں کہ جن کو جیل میں پھینکا گیا اس جیل میں جا کر اُن کے کردار میں ایک نئی چمک آ گئی.وہ لکھتے ہیں کہ ہمارے اندر
خطبات طاہر جلدم 14 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء ایسی پاک تبدیلیاں تھیں اور ایسا لطف آرہا تھا خدا کی خاطر قید ہونے میں کہ ارد گرد جتنے قیدی تھے ان کے اندر بھی تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں ان کو احمدیت میں دلچسپی پیدا ہوئی ، انہوں نے عزت و احترام کے ساتھ ان کے ساتھ سلوک کرنا شروع کیا.ان کے اندر خدا تعالیٰ نے بعض ایسی روحانی تبدیلیاں پیدا کر دیں کہ اگر یہ واقعات نہ ہوتے یعنی ان احمدیوں سے اتنا قریب کا انکو واسطہ نہ پڑتا تو بد قسمتی سے شاید وہ جہالت کی موت ہی مرجاتے.چنانچہ ایک صاحب نے خودان کو بتایا کہ تم لوگوں کو دیکھنے کے نتیجہ میں، وہ ایک ساٹھ سالہ عمر کو پہنچے ہوئے صاحب تھے جن کے اوپر بڑے سفا کا نہ جرائم کے نتیجہ میں مقدمہ چل رہا تھا اور جس شخص کے اندر ساٹھ سال میں تبدیلی نہیں پیدا ہوئی، چند دن خدا کے ان بندوں کی صحبت کے نتیجہ میں اس کے اندر تبدیلی پیدا ہو گئی اور اس نے بتایا کہ ایک دن میں نے بہت دعا کی اپنے رب سے کہ اے خدا! مجھے تو یہ تیرے اچھے بندے نظر آرہے ہیں اگر یہ حق پر ہیں اور واقعہ تیرا ان سے تعلق ہے تو مجھے بھی ایک نشان دکھا کہ یہ دوستید بھائی جو قید میں ہیں مظلوم کل ان کو رہا کروادے تو پھر میں مانوں گا کہ ہاں ان کا بھی کوئی خدا ہے اور پھر میں مانوں گا کہ واقعی یہ تیرے مقرب بندے ہیں.رات وہ دعا کر کے سوئے اور صبح ساڑھے پانچ بجے اٹھ کر جا کر ان کو خوشخبری دی کہ آج تم آزاد ہو جاؤ گے اور دس بجے اُسی دن جیل کا دروازہ کھلا ہوا تھا اور وہ جیل سے باہر جارہے تھے.اس پر لکھنے والا وہ بھی احمدی قید تھا ساتھ اس نے کہا کہ میں ان کے پاس گیا اور میں نے ان سے سوال کیا کہ یہ کیسا عجیب واقعہ ہوا ہے؟ تو اس نے کہا کہ رات مجھے خدا تعالیٰ نے خواب میں خبر دے دی تھی کہ ہم نے تیری دعاؤں کو قبول کر لیا ہے اور صبح تو یہ رحمت کا نشان دیکھے گا چنانچہ مجھے کامل یقین تھا اور میں نے جو صبح ساڑھے پانچ بجے جا کر خبر دی تو خدا کی اطلاع کے نتیجہ میں خبر دی تھی اپنی طرف سے نہیں دی تھی.تو عجیب بات ہے، عجیب حال ہے ان لوگوں کا بیچاروں کا جو قطبوں کو چور بنا کر جیلوں میں پھینک رہے ہیں اور یہ جیلوں میں معصوم جانے والے اُن کے چوروں کو بھی قطب بنا رہے ہیں.یہ ہے عظیم الشان روحانی انقلاب جو بر پا ہو رہا ہے اس ملک میں.یہ صاحب جو اُس قید میں تھے یہ بتاتے ہیں کہ ہم چار بھائی ہیں تین بالغ اور ایک چھوٹا ہے اور تینوں کو اسی قسم کے الزامات کے نتیجہ میں پکڑ کر جیل بھیج دیا گیا اور ماں کا ایک بھائی ہے اس کو بھی ساتھ ہی جیل بھیج دیا گیا یعنی ان کے ماموں
خطبات طاہر جلد۴ 15 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء کو چنا نچہ وہ رستا بستا گھر اسطرح خالی ہو گیا اور سوائے ماں کے اور ایک نابالغ بچے کے اس گھر میں کوئی نہیں رہا یعنی کوئی مرد ایسا نہیں تھا جو ان کی دیکھ بھال کر سکتا.کہتے ہیں اس وجہ سے جب آخر خدا تعالیٰ نے جب ہمیں قید سے نجات بخشی تو ہم ڈرتے ڈرتے گھر میں داخل ہوئے کہ ماں کو پتہ نہیں کس حال میں دیکھیں گے.جب گھر میں گئے تو دیکھا کہ ماں تو پہلے سے بھی زیادہ خوش تھی اور بڑی اچھی صحت اور بڑے حوصلہ میں تھی.تو وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنی ماں سے پوچھا کہ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں کہ تین جوان بیٹے تیرے اندر ( قید میں چلے گئے اور بھائی قید ہوگیا اور تیرے چہرہ پر کوئی اثر ہی نہیں عجیب ماں ہے.تو اس نے کہا کہ بیٹا تجھے علم نہیں کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے.جب تمہیں پکڑ کر لے گئے تو وہ رات ایک ایسی درد ناک عذاب کی رات تھی اس کا پہلا حصہ کہ تم تصورنہیں کر سکتے.میں رو رو کر ہلاک ہو رہی تھی گریہ وزاری کر رہی تھی واویلا کر رہی تھی کہ کیا ہو گئی اس گھر کے ساتھ اور اسی طرح روتے روتے میری آنکھ لگ گئی تو خواب میں اللہ تعالیٰ نے ایک بزرگ صورت انسان کو بھجوایا اور اس نے پیار اور دلداری کا سلوک نہیں کیا بلکہ اس نے آتے ہی بڑی سختی سے مجھے ڈانٹا کہ اے عورت! تو کیا کر رہی ہے خبر دار! جو آئندہ ایک بھی آنسو بہایا ، تو مجاہدوں کی ماں ہے اور تیرے ساتھ خدا ہے ، پھر یہ حرکتیں؟ وہ کہتی ہیں کہ خواب نہیں تھی کوئی ایسی طاقت تھی جس نے میرے دل پر قبضہ کر لیا اور اس کے بعد تو ایک لمحہ کے لئے بھی نہ مجھ پر اداسی آئی نہ خوف پاس پھٹکا میں تو مزے کی زندگی گزارتی رہی ہوں تم مجھے کس حال میں دیکھنا چاہتے تھے.پس جن کے مردوں کا یہ حال ہو اور خدا اس طرح ان کے لئے رحمت کے نشان دکھا رہا ہوں اور جن کی عورتوں کا یہ حال ہو اور خدا اس طرح ان کیلئے رحمت کے نشان دکھا رہا ہو ان کا کون سے نقصان کا سودا ہے.اور بچوں کا حال بھی کسی سے پیچھے نہیں رہا، ان کے اندر بھی عجیب و غریب معصوم تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں اور ان میں بھی نہ ماں باپ کا دخل ہے، نہ میرا، نہ آپ کا اور کسی تنظیم کی کوشش کا دخل نہیں.محض خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کے دلوں پر تقوی برس رہا ہے اور خدا کی رضا نازل ہو رہی ہے.ایک احمدی ماں نے اپنے بچوں کی کھیلوں کا قصہ سنایا اور مجھے بڑا لطف آیا اور میں نے کہا کہ دیکھو! ہمارے بچوں کی کھیلیں بھی باقی سب بچوں سے مختلف ہوگئی ہیں.کہتی ہیں کہ ایک اُن کے بچے کھیل رہے تھے اور انہوں نے جمعہ کے لئے قافلہ بنایا ہوا تھا کا روں کا جس طرح قافلہ جایا کرتا تھا
خطبات طاہر جلدم 16 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء اور سارے مستعد ہو کر کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ کب جمعہ پر خلیفہ وقت آئیں اور پھر اذان کی آواز بلند ہو.اتنا انہاک تھا ان کے چہروں پر کہ ماں کہتی ہے کہ میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اتنی سنجیدگی تھی اتنا احترام تھا کہ میں حیران تھی کہ اللہ نے میرے بچوں کو کیا کر دیا ہے.بیٹی گڑیوں سے کھیل رہی تھی ہمسایوں کی بچیوں کو بلا کے تین سال کی عمر کی بچی ہے چھوٹی سی ، اچانک اس کو کچھ خیال آیا اور اس نے کہا کہ ٹھہر جاؤ! اب ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے جماعت کے ابتلاء دور کرے اور فتوحات نازل فرمائے اور ہمارا امام واپس آجائے اور اس چھوٹی سے بچی نے ہاتھ اُٹھائے دعا کے لئے اور ان ساری بچیوں نے دعائیں شروع کر دیں.وہ عورت کہتی ہیں کہ میں حیران تھی کہ اس گھر میں کیا واقعہ ہو رہا ہے.میں نے نہیں سکھایا ، نہ میرے خاوند نے سکھایا ، یہ آسمان سے ہی کچھ تربیت ہو رہی ہے اور کہتی ہیں کہ یہ مجھ سے برداشت نہیں ہوا پھر میں روتے روتے جاکے اپنے رب کے حضور سجدے میں گر گئی کہ اے اللہ ! تیری کیسی فضلوں کی بارش ہورہی ہے، ہم میں کہاں طاقت تھی کہ ہم اپنے بچوں کی اس طرح تربیت کر سکیں ، ان کے دل میں تو کھس گیا ہے، تو بیٹھ گیا ہے ان کے سینوں میں اور تو اپنے فضل سے خود انکی تربیت کر رہا ہے.پھر ایک احمدی بچے کا ایک عجیب واقعہ ہے اور اس کے ساتھ بھی ایک عجیب رحمت کا نشان وابستہ ہے.ایک صاحب کہتے ہیں کہ مجھے محض احمدیت کی بناء پر گھر کے مالک نے نکلنے کا نوٹس دے دیا اور بہت منتیں کیں سمجھایا مگر وہ کسی طرح مانا نہیں اور جب گھر تلاش کئے تو کوئی گھر نہیں ملتا تھا.تو ایک دن میں نے اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور ان سے کہا کہ دیکھو! ہمیں یہ کہتے ہیں کہ " تم احمدیت کو چھوڑ دو تو ہم تمہیں اچھے مکان دیں گے تمہیں محل عطا کریں گے اور اگر نہیں تو پھر جھونپڑوں میں جا کر رہو ، تمہارے لئے گھروں میں کوئی جگہ نہیں.کہتے ہیں کہ میں بڑی سنجیدگی سے بچوں کو مخاطب کر کے ان سے پھر یہ سوال کیا کہ اب میں تم پر چھوڑتا ہوں کہ تم فیصلہ کرو کہ احمدیت کو چھوڑ کر اچھے محل چاہئیں یا تم میرے ساتھ اور اپنی ماں کے ساتھ جھونپڑیوں میں رہنا پسند کرو گے.کہتے ہیں کہ ابھی منہ سے بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ بچے چیخ اُٹھے کہ ہم جھونپڑیوں میں رہیں گے ، خدا کی قسم ہم جھونپڑیوں میں رہیں گے ، ہم احمدیت کو کبھی نہیں چھوڑیں گے.کہتے ہیں کہ اس وقت خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ایسا یقین پیدا کر دیا کہ میں ان کی ماں کے پاس گیا اور میں نے کہا کہ میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ
خطبات طاہر جلدم 17 خطبه جمعه ۲۴ جنوری ۱۹۸۵ء سارا مکان کا فکر تمہارا ختم ہو گیا ، آج ان بچوں کے دلوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جسے آسمان نے قبول کر لیا ہے اور تم دیکھنا کہ خدا ان کو کبھی جھونپڑیوں میں نہیں جانے دے گا.اس کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا وہ واقعہ خود اپنی ذات میں ایک نشان ہے اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ پھر مکان کا ملنا کوئی حادثاتی چیز نہیں تھی بلکہ خالصہ اللہ تعالیٰ کے تصرف کے نتیجہ میں ایک اور نشان پر بناء کرتے ہوئے ان کو وہ مکان ملا.کہتے ہیں کہ ایک دو دن کے اندر ہمارے ہمسایوں کا ایک بچہ اغوا ہو گیا اور ماں کی حالت دیکھی نہیں جاتی تھی ، وہ ہمارے گھر آئی اور خوب روئی اور گریہ وزاری کی بڑی سخت پریشان تھی.چنانچہ انہوں نے اس سے کہا کہ میں تمہیں ایک تجر بہ بتا تا ہوں ہمیں جب بھی مشکل پڑتی ہے تو ہم خلیفہ وقت کو دعا کے لئے خط لکھتے ہیں، خود بھی دعا کرتے ہیں اور وہاں سے بھی دعا کی امید رکھتے ہیں، تو بسا اوقات اللہ تعالیٰ ہمارے مشکل کام نکال دیتا ہے.تو تمہیں یقین تو نہیں ہے لیکن تجربہ ایک دفعہ کرلو، میں منت کرتا ہوں غم تو تمہارا ہے مگر مجھے تکلیف ہے.کہتے ہیں کہ میں نے اتنی سنجیدگی سے کہا کہ اس عورت کے دل میں یقین آگیا اور اس نے کہا لا ؤ پھر ابھی خط لکھو اور میں دستخط کرتی ہوں.وہ خط لکھا دستخط کئے لیکن اس دن ڈاک نکل چکی تھی ڈاک میں نہیں ڈال سکے.دوسرے دن بارہ ایک بجے کے قریب انہوں نے خط ڈاک میں بجھوایا.اور کہتے ہیں کہ مجھے یقین تھا کہ دعا تو اللہ تعالیٰ نے قبول کرنی ہے اس کے لئے ماضی کیا اور مستقبل کیا، اس لئے خط اب چلا گیا ہے تو ضرور خدا تعالیٰ کوئی رحمت کا نشان دکھائے گا اور ڈیڑھ گھنٹہ کے اندراندر اسی گھر سے فون پر اطلاع آئی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے فلاں شہر سے ہمارا بچہ مل گیا ہے اور اب دیکھیں اس کا نتیجہ کہ بچہ تو مل گیا ان کو بھی خدا تعالیٰ نے اپنے قرب کا نشان دکھایا جماعت کے لئے لیکن ان کے والد کا جو باہر رہتے تھے کسی جگہ انکا اس جگہ سے اطمینان اُٹھ گیا اور انہوں نے وہاں سے آرڈر دیا کہ فوراً یہ گھر خالی کر دو اور میرے پاس آجاؤ، اب میں تمہیں یہاں نہیں چھوڑ سکتا اور وہی ماں گھر کی چابی لے کر اُن کے پاس آگئی اور کہا کہ یہ مکان آپ نے رکھنا ہے تو رکھ لیں اور وہ مکان اتنا عمدہ اور کھلا تھا.صرف یہی نہیں بلکہ اس میں ایک اور عجیب واقعہ ہوا کہ اُنکی بچی نے ، بعد میں جب جھونپڑے والی بات ہوئی.انکی چھوٹی سی بچی ہے ، تو تلی زبان میں بولتی ہے اُس نے یہ دعا کی اے خدا ! مجھے کو ٹھے والا مکان دے جس کے کوٹھے پر صحن ہوں اور اسطرح چار صحن ہوں دو نیچے اور دو او پر ان قسم کا کوئی نقشہ
خطبات طاہر جلدم 18 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء اُس نے بنا کر دعائیں شروع کر دیں اور وہ کہتے ہیں کہ جب ہم اس گھر میں داخل ہوئے تو حیران رہ گئے یہ دیکھ کر اور میری بیوی کی تو خدا کے حضور جذبات تشکر اور حمد سے روتے ہوئے چیخیں نکل گئیں کہ جن لفظوں میں بیٹی دعائیں مانگ رہی تھی اُسی طرح بالکل اسی نقشہ کا مکان اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا فر ما دیا.تو جماعت احمد یہ تو خدا تعالیٰ کے فضلوں کے سائے تلے آگے بڑھنے والی جماعت ہے.ایک جگہ تم ظلم کا سایہ ڈالتے ہو تو چاروں طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کا سایہ روشنی کر دیتا ہے، ہمارے لئے ایک جگہ تم آگ بھڑکاتے ہوتو ہر طرف خدا تعالیٰ کی رضا کی جنتیں ہمیں عطا ہونے لگتی ہیں تمہاری تلواروں کے سائے کے نیچے بھی ہمارے لئے تسکین قلب رکھ دی گئی ہے.تم کون ہوتے ہو ہمیں مٹانے والے تمہاری حیثیت کیا ہے.خدا کے کاروبار تو کبھی بندوں سے رکے نہیں اور نہ رک سکتے ہیں.ایک طرف جماعت احمد یہ ہے کہ جس کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اور مبارک ہو اس جماعت کو کہ آج جماعت اس دور میں داخل ہو رہی ہے کہ واقعی ان الفاظ کوسن کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو دیکھ کر اپنے سامنے رکھ کر یہ الفاظ فرمائے ہیں آپ فرماتے ہیں: ”اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلۂ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہوں“ کیسا سچا اور پاکیزہ کلام ہے کیسا محبت میں ڈوبا ہوا ہے اور آج جماعت احمدیہ کے افراد کے اوپر کس شان کے ساتھ یہ پورا ہورہا ہے:.”اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلۂ بیعت میں 66 داخل ہو“ تقویٰ من اللہ کا کیسا اچھا نقشہ ہے خدا تعالیٰ کی رحمت جو تم پر ہے اسکی وجہ سے تم داخل ہو اسکی وجہ سے تمہیں یہ قربانیوں کی توفیق مل رہی ہے.
خطبات طاہر جلدم 19 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء اور اپنی زندگی ، اپنا آرام ، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہوا.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اُسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.مجھے کون پہچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں اور مجھے اُس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.دنیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دنیا میں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اس عالم کا حصہ دیا گیا ہے وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اُس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے.اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اُس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا مگر جو شخص و ہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.اس زمانہ کا حصن حصین میں ہوں.جو مجھ میں داخل ہوتا ہے وہ چوروں اور قزاقوں اور درندوں سے اپنی جان بچائے گا مگر جو شخص میری دیواروں سے دور رہنا چاہتا ہے ہرطرف سے اس کو موت در پیش ہے اور اُس کی لاش بھی سلامت نہیں رہے گی پھر آپ فرماتے ہیں (فتح اسلام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۰) ”اے مسلمانو! جو اولوا العزم مومنوں کے آثار باقیہ ہو اور نیک لوگوں کی ذریت ہوا نکار اور بدظنی کی طرف جلدی نہ کرو اور اس خوفناک وبا سے ڈرو جو تمہارے ارد گرد پھیل رہی ہے (فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ نمبر ۳۱ )
خطبات طاہر جلدم 20 خطبه جمعه ۴ /جنوری ۱۹۸۵ء یہ بھی بالکل یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اہل پاکستان کو آج مخاطب کر کے ان کے شرفاء کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن بہر حال ہم نے تو ہمیشہ سے دیکھا اور اس دور میں پہلے سے بھی بڑھ کر دیکھا کہ ہر مصیبت اور ہر آفت کے وقت خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو نئی تقویت، نیا ثبات قدم ہمیں عطا فرمایا.اللہ تعالیٰ نے ہمیں ہر بلا سے محفوظ رکھا اور ہر روک ہمارے راستے سے دور کر دی اور ہمارے قدم پہلے سے زیادہ تیزی رفتاری کے ساتھ آگے بڑھتے رہے.جہاں تک ہمارے مخالفین کا تعلق ہے ان کو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں مخاطب کر کے یہ کہتا ہوں کہ:.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں“ روک سکتے ہو تو روک کے دیکھ لو تمہاری کچھ پیش نہیں جائے گی.وہ سعید روحیں جو خدا کے فضل سے اس کے فرشتوں کی تحریک پر جماعت کی طرف مائل ہو رہی ہیں اور پہلے سے بڑھ کر مائل ہو رہی ہیں وہ جوق در جوق اس راہ میں آتی چلی جائیں گی اور کوئی نہیں ہے جو اُن کے قدم روک سکے.آسمان پر ایک شور برپا ہے اور فرشتے پاک دلوں کو کھینچ کر اس طرف لا رہے ہیں.اب اس آسمانی کارروائی کو کیا انسان روک سکتا ہے؟ بھلا اگر کچھ طاقت ہے تو روکو.وہ تمام مکر و فریب جو نبیوں کے مخالف کرتے رہے ہیں وہ سب کرو اور کوئی تد بیراٹھا نہ رکھو.ناخنوں تک زور لگاؤ اتنی بددعا ئیں کرو کہ موت تک پہنچ جاؤ پھر دیکھو کہ کیا بگاڑ سکتے ہو؟“ اربعین نمبر ۴ ، روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ نمبر ۴۷۳) خدا کی قسم تم کچھ بھی جماعت احمدیہ کا نہیں بگاڑ سکتے.تمہاری نسلیں مخالفتوں پر ایک دوسرے کے بعد نا کامی کی موت مرتی رہیں گی لیکن جماعت احمدیہ ہمیشہ اللہ کے فضلوں اور رحمتوں کے سائے کے نیچے آگے سے آگے ، آگے سے آگے ، آگے سے آگے بڑھتی رہے گی.
خطبات طاہر جلدم 21 خطبہ جمعہ اارجنوری ۱۹۸۵ء کلمہ کی حفاظت کرنے والے کبھی مٹائے نہیں جاسکتے (خطبه جمعه فرموده اار جنوری ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی درج ذیل آیات تلاوت کیں.أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَأَهُ حَسَنًا فَإِنَّ اللَّهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَاتٍ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ بِمَا يَصْنَعُوْنَ.وَاللَّهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيْرُ سَحَابًا فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيِّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ اور پھر فرمایا: (فاطر : ۹-۱۰) گذشتہ چند سالوں سے پاکستان میں چند بے شعور ملا نوں نے اور حکومت نے لکھوکھا احمدی مسلمانوں کو بزور شمشیر اسلام سے برگشتہ کرنے کی جو نا پاک کوشش شروع کر رکھی ہے اب یہ کوشش اپنے انجام کو پہنچ رہی ہے.بڑا ہی یہ بدقسمت دور ہے اسلام کے لئے کہ گذشتہ تیرہ سو بلکہ چودہ سوسال میں اس سے پہلے یہ واقعات تو نظر کے سامنے آتے رہے کہ بعض لوگوں نے اسلام کا پیغام صحیح نہ سمجھا اور اسلام کی روح کو اور اُس کے مغز کو نہ پاسکے اور اسلام کے لئے یہ جائز سمجھ لیا کہ بزور شمشیر غیر مسلموں کو مسلم بنایا جا سکتا ہے اور تلوار کے زور سے کسی کے دل میں ایمان بھی داخل کیا جا سکتا ہے.یہ بدقسمت دور ایک
خطبات طاہر جلدم 22 22 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء لمبے عرصہ تک ہمیں تاریخ میں نظر آتا ہیکہ اسلام کے پاک نام کی طرف جبر منسوب کیا گیا.لیکن جہاں تک مقصد کا تعلق ہے وہ مقصد اپنی ذات میں اعلیٰ اور پاک تھا اس مقصد کے حصول کا ذریعہ بہت ہی مکروہ تھا لیکن مقصد بہر حال یہی تھا کہ اسلام کا نام بلند کیا جائے اور تمام عالم میں اسلام کو پھیلایا جائے.اگر دلائل سے نہیں پھیل سکتا تو تلوار کے زور سے پھیلایا جائے اور تو حید کو قائم کیا جائے اگر برہان اور حجت کے ساتھ تو حید قائم نہیں ہو سکتی تو پھر بزور بازو یا نیزے کی آنی میں پرو کر بھی اگر تو حید دلوں میں داخل کی جاسکتی ہو تو دلوں میں داخل کی جائے.تو یہ ایک عجیب مثال ہے ایک نہایت پاک اور اعلیٰ مقصد کی خاطر ایک برے ذریعہ کو اختیار کرنے کی جس سے اسلام کلیۂ مبرا ہے مگر بہر حال آج کے دور میں ایک بالکل نیاواقعہ آپ کی آنکھوں کے سامنے گزر رہا ہے.تاریخ اسلام میں کسی اسلامی حکومت کی طرف سے پہلی بار یہ کوشش ہورہی ہے کہ بزور شمشیر مسلمانوں کو مرتد کیا جائے ، بزور شمشیر مسجدوں کو بے آباد کیا جائے، بزور شمشیر دلوں سے اسلام کی محبت نکالی جائے اور تلوار کے زور سے کلمہ طیبہ کے ساتھ روحوں کے تعلق کو منقطع کر دیا جائے.یہ درد ناک واقعہ اس سے پہلے کبھی عالم اسلام میں نہیں گزرا تھا.ایک کر بلا تو وہ تھی جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی پاکیزہ اولاد پر انتہائی مکروہ مظالم کئے گئے اور آج تک اسلام اس واقعہ کی یاد سے یا اہل اسلام اس واقعہ کی یاد سے روتے اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور ایک یہ کر بلا کا دور ہے کہ حضرت محمد مصطفی مے کے پیغام اس اعلیٰ مقصد کو ذبح کیا جا رہا ہے.جس مقصد کی خاطر لاکھوں مسلمان اُس زمانہ میں بھی ذبح ہونے کے لئے تیار تھے اور آج بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیوں کی شکل میں یہ ہر کر بلا کو قبول کر لیں گے لیکن کلمہ پر آنچ نہیں آنے دیں گے.آپ تصور کیجئے کہ آئندہ کا مؤرخ کس طرح ان واقعات کو دیکھے گا اور کس تعجب سے ان واقعات پر نگاہ کرے گا کہ یہ اسلامی حکومت خواہ وہ بزور شمشیر ہی آئی ہو، خواہ وہ آمریت کے ذریعہ ہی مسلط کی گئی ہومگر بہر حال وہ ایک اسلامی حکومت کہلاتی تھی ، وہ ملاں خواہ وہ اسلام کی روح اور مغز سے ناواقف ہو چکے ہوں مگر بہر حال اسلام ہی کی طرف منسوب ہوتے تھے، وہ کیسے اس بات پر آمادہ ہوئے کہ کلمہ تو حید کو زبر دستی مٹانے کا بیڑہ اٹھا لیں اور اپنی ساری طاقتیں اس بات پر خرچ کر دیں کہ بعض لوگوں کو کلمہ کے ساتھ وابستہ نہیں رہنے دیا جائے گا اور کلمہ توحید کو جہاں تک بس چلے مٹا کر چھوڑا
خطبات طاہر جلدم 23 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء جائے گا.یہ واقعہ ایک انوکھا واقعہ ہے جو اس سے پہلے کبھی رونما نہیں ہوا اور بڑے ہی بدنصیب وہ لوگ ہیں جن کا تاریخ میں نام کلمہ مثانے والوں کے طور پر لکھا جائے گا.اس سے پہلے بھی کلمہ مٹانے والے گزرے تھے لیکن ان میں یہ اخلاقی جرات ضرور تھی کہ وہ کہتے تھے کہ ہم کلمہ کے دشمن ہیں اور کلمہ مٹانا ہمارا مقصود زندگی ہے.لیکن اس قسم کی منافق قوم پہلے کبھی کسی نے نہیں دیکھی کہ کلمہ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہوئے کلمہ کو مٹانا اپنی زندگی کا شعار بنالے کلمہ کے نام پر ایک ملک قائم کیا گیا ہو.کلمہ کا واسطہ دے کر لوگوں سے ووٹ مانگے جا رہے ہوں اور کلمہ کومٹانا اپنی زندگی کا شعار بنالیا گیا ہو.یہ واقعہ اسلام کی تاریخ کا ایک ایسا منفرد اور ایسا مکروہ واقعہ ہے کہ آپ چاروں طرف نظر دوڑا کے دیکھیں آپ کو کہیں اس قسم کے واقعہ کا شائبہ بھی نظر نہیں آئے گا.ان امور پر نگاہ کر کے بسا اوقات بعض احمدی یہ سوچتے ہیں اور طبعا ان کی یہ سوچ جائز معلوم ہوتی ہے کہ ان دو باتوں میں اتنا تضاد ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ایک انسان واقعۂ مومن ہو خدا پر اور اسلام پر ایمان رکھتا ہو اور ایسی مکروہ حرکات کرنے کا تصور بھی کر سکے اس لئے وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ یہ سارے لوگ کلیہ یقینی طور پر دہر یہ ہیں اور محض ایک فریب کاری ہے.اسلام کا نام اپنے مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے.نہ اسلام سے ان کا تعلق ہے نہ خدا سے تعلق ہے لیکن اتنا بڑا الزام دھرنا کسی کی ذات پر یا کسی گروہ پر کہ وہ دل سے اس بات کا کلیہ منکر ہے جس کا ادعا کر رہا ہے یہ جرات اختیار کرنے کی بھی اسلام اجازت نہیں دیتا.نہ ہم اپنے لئے یہ پسند کرتے ہیں نہ کسی اور کے لئے یہ پسند کرتے ہیں کہ جو وہ دعوی کرتے ہیں اسکے برعکس کوئی دعوئی ان کی طرف منسوب کریں.اگر چہ عقل کے لحاظ سے بظاہر یہی نتیجہ نکلتا ہو کہ ایسے لوگ اپنے دعوی میں یقیناً جھوٹے ہوں گے کیونکہ خدا کی ہستی پر ایمان لانے والے ایسا متضا د طریق اختیار نہیں کر سکتے.ناممکن ہے کہ کلمہ کی محبت کا بھی دعویٰ ہواور کلمہ مٹانا اپنی زندگی کے عزائم میں داخل کر لیا گیا ہو.ان باتوں پر غور کرتے ہوئے قرآن کریم کی ایک آیت پر میری نظر پڑی تو یہ مسئلہ حل ہوا اور یہ وہی آیت ہے جس کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے.أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنًا کہ دنیا میں بعض ایسے بھی بیوقوف ہوتے ہیں جو نہایت مکر وہ کام کرتے ہیں لیکن ان کا عمل اُن کو حسین دکھائی دیتا ہے.ان کا ہر براعمل زینت دیا جاتا ہے، خوبصورت بنادیا
خطبات طاہر جلدم 24 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء ہے، جاتا ہے فَرَأَهُ حَسَنا اور وہ اس کو حسین دیکھنے لگتے ہیں.جہاں تک انسانی فطرت کا تعلق.عام انسانی مشاہدہ کا تعلق ہے ایسے واقعات بھی ہمیں نظر آتے ہیں مگر پاگلوں میں نظر آتے ہیں یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ ایک آدمی دل کو بہلانے کے لئے کبھی یہ کہ دیتا ہے کہ میرا یہ گھر محل کی طرح ہے، یہ جو میں نے کپڑے پہنے ہوئے ہیں یہ شاہی لباس ہے یا بچوں کو بہلانے کی خاطر ٹھیکریاں پکڑا کر اُن کو ہیرے اور جواہر بھی کہہ سکتا ہے لیکن یہ ساری باتیں ہوش وحواس رکھنے والے بھی یا خود اپنے نفس کو دھوکہ دینے کی خاطر استعمال کرتے ہیں یا دوسروں کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور ہم عرف عام میں کہتے ہیں کہ یہ دل کا بہلاوا ہے اور اس میں حقیقت کچھ نہیں.لیکن بعض پاگل ہم نے ایسے بھی دیکھے ہیں کہ لوہے کی تار باندھی ہوئی ہے انگلی پر اور کہہ رہے ہیں کہ یہ ایک ملکہ کی انگوٹھی ہے جو ہمارے مقدر میں لکھی گئی تھی جو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے ورثے میں پائی تھی.پھٹے پرانے چیتھڑے پہنے ہوئے ہوتے ہیں اور اُن کو خلعت شاہی قرار دے رہے ہوتے ہیں.سر کے اوپر ایک بوسیدہ بد بودار ٹوپی پڑی ہوگی اور وہ بڑی عزت اور احترام سے اس کو ہاتھ لگائیں گے اور کہیں گے یہ شاہی تاج ہے جو ہمارے سر پر ہے.نہایت بوسیدہ حال میں ، نہایت پراگندہ حال میں آپ کو ایسے بھی پاگل نظر آئیں گے جو بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتے پھرتے ہیں کہ ہم ساری دُنیا کے بادشاہ ہیں اور ساری دنیا کے تاج اور مملکتیں اور ان کے تمام خزائن ہمارے قبضے میں دیئے گئے ہیں تو پاگل پن میں ایسا ہوتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ بعض دفعہ مذہبی جنون یہ شکل اختیار کر لیا کرتا ہے اور تم یہ نہ سمجھو کہ یہ لوگ جھوٹے ہیں بظاہر جھوٹے نظر آئیں گے یعنی ان معنوں میں جھوٹے کہ خود بھی جان بوجھ کر دھو کہ دے رہے ہیں، فرماتا ہے یہ خود اتنے پاگل ہو چکے ہوتے ہیں کہ ان کو نہایت مکر وہ کام خوبصورت دکھائی دیتے ہیں اور یہ جو ان کا فعل ہے یہ بظاہر خواہ کتنا ہی حسین ان کو دکھائی دے رہا ہو خدا کی نظر میں ایک گمراہ کا فعل ہے اور اس کی پاداش سے یہ بچائے نہیں جائیں گے.یہ اعلان ہے جو قرآن کریم میں کیا جارہا ہے.تو اس لئے میں ان احمدیوں کو جو اس فیصلے میں جلدی کرتے ہیں کہ عملاً دھوکہ دینے کی خاطر کلیۂ دھر یہ لوگ ہیں جو محض اسلام کا نام استعمال کر کے دھوکہ دے رہے ہیں اور ان کے دل میں کچھ بھی نہیں ، اتنا بڑا فتویٰ ان لوگوں کے متعلق صادر نہ کیا کر یں.میں ان سے یہ کہتا ہوں کیونکہ دلوں
خطبات طاہر جلدم 25 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء کا حال تو اللہ بہتر جانتا ہے اور اسی دلوں کے حال جاننے والے نے ہمیں خبر دے دی ہے، اپنے پاک کلام میں کہ جہاں تک دعوی کا تعلق ہے تم وہیں تک رہا کرواس سے آگے نہ بڑھا کرو.دلوں کا حال میں بہتر جانتا ہے اور میں تمہیں باخبر کرتا ہوں کہ مذہبی دیوا نے بعض ایسے بھی پاگل ہوتے ہیں کہ نہایت مکروہ اور بد کام کرتے ہیں ، نہایت بھیانک اعمال رکھتے ہیں اور سمجھ رہے ہوتے ہیں اپنی بیوقوفی میں کہ ہم بہت ہی اچھے کام کر رہے ہیں.پس مذہبی دنیا کی تاریخ پر جب آپ نظر ڈالتے ہیں اور حق اور باطل کی جنگ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دونوں طرف اسی قسم کے دیوانے دکھائی دینگے اور یہ عجیب منظر نظر آئے گا کہ ہر شخص دوسرے کو دیوانہ کہہ رہا ہوتا ہے.انبیاء کو ان کے مخالفین دیوانہ کہہ رہے ہوتے ہیں اور خدا کہتا ہے کہ انبیاء کے مخالفین دیوانے ہیں اور اسی مضمون کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ یوں بھی بیان فرماتا ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ أُمِنُوْا كَمَا أَمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ كَمَا أمَنَ السُّفَهَاءُ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءِ وَلَكِنْ لَّا يَعْلَمُوْنَ (البقره:۱۴) کہ جب انہیں کہا جاتا ہے کہ ایمان لے آؤ جس طرح لوگ ایمان لا رہے ہیں تو جواب میں یہ کہتے ہیں کہ کیا ہم اُسی طرح ایمان لے آئیں جیسے یہ بیوقوف، یہ پاگل ایمان لا رہے ہیں ،ان سے کہہ دو کہ تم خود ہی دیوانے ہو تم خود ہی بیوقوف ہو أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَاءُ خدا یہ اعلان کرتا ہے کہ خبردار یہ خود ہی بے وقوف اور دیوانے لوگ ہیں لیکن ان کو علم نہیں.تو وہاں بھی لَّا يَعْلَمُونَ کہہ کر اُن کے دعوی کو اس رنگ میں نہیں جھٹلایا کہ جھوٹ بول رہے ہیں بلکہ یہ فرمایا کہ ہیں دھو کے میں مبتلا ، بیوقوف تو بہت بڑے ہیں لیکن پتہ نہیں کہ ہم بیوقوف ہیں.تو ایسا بیوقوف جس کو یہ نہ پتہ ہو کہ میں بیوقوف ہوں اس کا انجام اس سے زیادہ بد ہوا کرتا ہے جس کو پتہ ہو کہ میں ایک غلط کام کر رہا ہوں اور اس بد انجام سے وہ اس لئے بچ نہیں سکتا کبھی کہ مجھے علم نہیں تھا کہ میں بیوقوف ہوں.بیوقوفی کی لاعلمی ایک بہت بڑی بلا ہے.اپنی جہالت کا شعور نہ رکھنا جہالت میں اضافہ کرنے کا موجب بنا کرتا ہے.جولوگ بیچارے سادہ مزاج ہوں اور منکسر مزاج بھی ہوں بسا اوقات وہ جانتے ہیں کہ ہم سادہ مزاج ہیں اور تسلیم کر لیتے ہیں کہتے ہیں بھئی ہمیں تو زیادہ پتہ نہیں اگر ہم سے غلطی ہوگئی تو معاف
خطبات طاہر جلد۴ 26 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء کر دینا غلطی ہوگئی تو ہماری رہنمائی کر دینا.لیکن بعض بد قسمت بیچارے نہایت بیوقوف ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھ رہے ہوتے ہیں اور ان کا انجام ہمیشہ عام بیوقوفوں کی نسبت بہت زیادہ بد ہوتا ہے.تو قرآن کریم ایک عظیم کتاب ہے، حیرت انگیز ہے عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ کا کلام ایسا دل کی باریکیوں پر نگاہ رکھتا ہے اور ایسے ایسے رازوں سے ہمیں مطلع کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اور روح عش عش کر اٹھتی ہے اور بعض غلطیوں سے ہمیں بچاتا ہے جو بڑی خطرناک ہیں.ایک طرف ہم جب کہتے ہیں کہ ہم کلمہ پڑھتے ہیں، جب ہم کہتے ہیں کہ ہم حضرت محمد مصطفی عملے کے عاشق اور دیوانے ہیں تو تمہیں کیا حق ہے یہ کہنے کا کہ ہم نہیں ہیں اور دوسری طرف جلدی میں ان لوگوں کو جو اسلام کے علمبردار ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جھوٹے اور دھریہ اور مرتد اور ہر بات کہہ دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے دل میں کچھ بھی نہیں ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دل میں ضرور کچھ ہے ہم تمہیں بتا دیتے ہیں کہ وہ کیا ہے.تمہیں یہ حق کوئی نہیں ہے کہ دعوئی کا انکار کرو لیکن انسانی فطرت کے راز ہم تمہیں سمجھاتے ہیں ان کو سجھ لو اور پھر صحیح بات کیا کرو.ان کو یہ بتاؤ کہ تم ان بدقسمتوں میں سے ہو أَفَمَنْ زُيِّنَ لَهُ سُوءُ عَمَلِهِ فَرَاهُ حَسَنًا بڑے ہی بیوقوف ہو گند کے اوپر بیٹھے ہوئے ہو اور سمجھتے ہو کہ ہم عطر کی دکان سجائے بیٹھے ہیں ، بوسیدہ چیتھڑے پہنے ہوئے ہو اور سمجھ رہے ہو کہ خلعت فاخرہ میں ملبوس ہیں، سر میں گند پڑا ہوا خاک آلودہ بال اور چیتھڑے کی ٹوپی پہنی ہوئی ہے اور سمجھ رہے ہو کہ تاج شاہی ہمارے سر کا لباس ہے.تو فرمایا یہ ان بدنصیبوں میں ہیں تم ان کے اوپر اپنے فیصلوں میں جلدی نہ کرو، اللہ ان کے حال سے باخبر ہے اور ان کا انجام وہی ہوگا جوا ایسے دیوانوں کا ہمیشہ ہوا کرتا ہے.انجام کی خبر عجیب رنگ میں دی.یہاں آیت کے اس حصہ کے بعد یہ نہیں فرمایا کہ یہ بڑے صل الله بدانجام کو پہنچیں گے، یہ نہیں فرمایا کہ یہ لوگ تباہ و برباد کر دیئے جائیں گے بلکہ اچانک آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : فَلَا تَذْهَبْ نَفْسُكَ عَلَيْهِمْ حَسَرَاتِ اے محمد ! تیرانفس ان پر حسرتیں کرتا ہوا ہلاک نہ ہو جائے.اتنا شدید غم ہے تجھے ان لوگوں کا اور ان کی حرکتوں کا کہ تو اپنی فکر کر ، مجھے تیری فکر ہے.یہ تو ہلاک ہوں گے بہر حال تو ان کی ہلاکت کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک کر رہا ہے.کتنا عظیم کلام ہے کس طرح پیچ کے ایک طبعی نتیجہ کو چھوڑ کر حضرت محمد
خطبات طاہر جلدم 27 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء مصطفی اے کے دل پر نگاہ کر کے اللہ تعالیٰ اپنے پیار اور محبت کا اظہار فرماتا ہے اور ایک عظیم الشان داد تحسین دیتا ہے.فرماتا ہے جب ہم ان لوگوں کی باتیں کرتے ہیں تو ہمارے اس بندے کو اس بات سے خوشی نہیں ہوتی کہ یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے، اتنا شدید غم پہنچتا ہے ان صلى الله کی ہلاکت کے متعلق جو ایک طبعی نتیجہ کے طور پر ظاہر کیا گیا ہے یعنی یہ تو سوال ہی نہیں کہ ہلاک نہیں ہوں گے ہلاکت تو مقدر ہے، فرمایا محمد مصطفی میں کہ ہمارے اس بندے کا حال یہ ہے کہ ان کی ہلاکت کے تصور سے وہ غمگین ہو جاتا ہے، اس کے دل میں حسرتیں اٹھتی ہیں کاش یہ لوگ کسی طرح سمجھ سکیں.کاش یہ لوگ ہلاکت کی طرف اس طرح نہ بڑھ رہے ہوتے جس طرح یہ با گئیں تڑوا کر کوئی جانور بھٹکتا ہوا ایک ہلاکت کے گڑھے کی طرف جارہا ہو.لیکن ساتھ ہی اگلی آیت میں ایک نہایت لطیف اشارہ اس بات کی طرف بھی فرما دیا کہ ضروری نہیں کہ یہ لوگ ہلاک ہو جائیں اور انہیں ہدایت نصیب نہ ہو جیسا کہ پہلی آیت میں ہی فرمایا تھا فَإِنَّ اللهَ يُضِلُّ مَنْ يَشَاءُ وَيَهْدِي مَنْ يَشَاءُ.آگے ایک خوشخبری بھی عطا فرمائی.فرمایا ہوسکتا ہے کہ یہ لوگ بچالئے جائیں یعنی ان معنوں میں بچالئے جائیں کہ ان میں سے بہتوں کو سمجھ آجائے وہ اپنی ان بیوقوفیوں سے باز آجائیں وہ ہلاکت کے رستہ پر چلنے سے رک جائیں چنانچہ فرمایا: وَاللهُ الَّذِى اَرْسَلَ الرِّيحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيّتٍ فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا كَذَلِكَ النُّشُورُ (فاطر: ۱۰) اے محمد ! ہم تیرے دل کے حال سے خوب واقف اور آشنا ہیں اور تیرے دل کی جو حسرتیں ہیں ان کو ہم اس طرح قبول فرماتے ہیں اور ان کا اس طرح ازالہ کریں گے کہ ہم تجھے بتاتے ہیں کہ بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک شہر ایک بستی مر چکی ہوتی ہے پانی کے بغیر ، کوئی اس میں زندگی کے آثار نظر نہیں آتے.پھر اللہ تعالیٰ رحمت کی ہوائیں چلاتا ہے اور ان رحمت کی ہواؤں کے نتیجہ میں فضا میں بادل اُڑتے ہوئے اس بستی کی جانب بڑھتے ہیں.فَسُقْنُهُ إِلَى بَلَدٍ مَّيِّتِ ہم ان کا رخ ان مردہ بستیوں کی طرف پھیر دیتے ہیں ان ہواؤں کا اور ان رحمت کے بادلوں کا.
خطبات طاہر جلدم 28 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء فَأَحْيَيْنَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا پھر اُس علاقے کو جسکے مقدر میں ہم نے زندگی رکھ دی ہو، جسے ہم نے اپنی رحمت سے دوبارہ زندہ کرنے کا فیصلہ فرمالیا ہو، وہ بادل سیراب کرتے ہیں اور دیکھتے دیکھتے تمہاری نظر کے سامنے یہ عجیب معجزہ گذرتا ہے کہ مردہ لوگ جی اُٹھتے ہیں اور صدیوں سے جو قبروں میں پڑے ہوئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نئی زندگیاں پا کر قبروں سے باہر نکلنے لگتے ہیں.فرمایا كَذلِكَ النُّشُورُ اسی طرح ان مردہ لوگوں کا نشور ہوگا، ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں.عظیم الشان محبت اور پیار کا اظہار ہے اور کیسے پیار سے تسلی دے دی گئی کہ ہم تجھے جو یہ کہتے ہیں کہ غم نہ کر تو محض اس لئے نہیں کہ مرنے دو ان کو اور غم نہ کرو بلکہ ہم یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم نے تمہاری گریہ وزاری کو سنا، تمہارے دل کے غم پر نگاہ فرمائی اور اسے قبولیت کا درجہ بخشا اور ہم تجھ سے وعدہ کرتے ہیں کہ ہم اس بات پر قادر ہیں کہ مردوں کو زندہ کریں اور دراصل یہ تیرے دل کی آہوں کا اثر ہے کہ جس کے نتیجہ میں رحمت کے بادل ان پر برسنے والے ہیں.پس زندگی کا نسخہ بھی ساتھ ہمیں بتا دیا.قوم کی نفسیات کا تجزیہ بھی کر دیا اور صحیح طریق بتایا کہ کس طرح اس قوم کی تم مدد کر سکتے ہو.پس جماعت احمدیہ کے لئے بھی کوئی مایوسی کی وجہ نہیں ہے.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللهِ (الزمر:۵۷) لَا تَايْسُوا مِنْ رَّوْحِ اللهِ (یوسف: ۸۸) ہرگز اپنے رب کی رحمت سے مایوس نہ ہو.ہرگز یہ وہم بھی دل میں نہ لاؤ کہ معاملہ ہاتھ سے اس طرح نکل چکا ہے کہ اب اس قوم کے بچنے کی کوئی امید باقی نہیں رہی.جو لوگ اس قسم کے فیصلوں میں جلدی کر دیتے ہیں وہ بہت بڑی بڑی کامیابیوں سے محروم رہ جایا کرتے ہیں اس لئے مومن کا یہ کام ہے کہ آخر وقت تک اپنی جدو جہد کو جاری رکھے اور اپنی امیدوں کو منقطع نہ ہونے دے اور دعاؤں کے ذریعہ اور صبر کے ذریعہ اور نیک نصیحت کے ذریعہ اپنی ذمہ داریوں کو آخر دم تک ادا کرتا رہے جس طرح سپاہی وہی اچھا لگتا ہے جو آخر وقت تک لڑتا ہوا میدان میں مارا جاتا ہے پھر اس کی موت بھی زندگی بن جاتی ہے اور اس کی زندگی بھی زندگی ہوا کرتی ہے.پس الہبی جماعتوں کی بھی یہی شان ہوا کرتی ہے کہ وہ آخر وقت تک اپنے پیغام سے غافل نہیں رہتے.اپنے فرائض کو ادا کرتے چلے جاتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ ہم میں سے ہر ایک ان اعلیٰ نتائج کو دیکھ سکے گا یا نہیں جن کے وعدے ہم سے کئے جاتے ہیں اس لئے اس دور میں
خطبات طاہر جلدم 29 29 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء جماعت احمدیہ کا یہ فرض ہے کہ وہ تمام دنیا میں کلمہ توحید کی برتری کے لئے ، اس کی سر بلندی کے لئے اپنے وجود کا ذرہ ذرہ صرف کر دے.کلمہ کا ورد کرے ہر وقت اللہ تعالیٰ کی توحید کے گن گائے.حضرت اقدس محمد مصطفی ملے پر بکثرت درود بھیجے اور توحید کے قیام کے لئے اپنی کوششوں کو تیز تر کر دے.یہی جواب ہے اور جب عملاً ہم کلمہ سے محبت کا اس رنگ میں اظہار کریں گے کہ اگر ایک جگہ کوشش کی جارہی ہے کہ ہم سے کلمہ کو چھین لیا جائے تو ہزار جگہ ہم کلمے کے جھنڈے کو بلند کر کے اس کوشش کو نا کام کر رہے ہوں گے اور اگر ہمارے دلوں میں واقعۂ حسرتیں ہوں گی ان لوگوں کے لئے.ان کی ناپاک کوششوں پر تکلیف تو ہوگی لیکن ان کی ہلاکت پر پھر بھی حسرت نہیں ہوگی ، اگر ہم اس نیک جذبے کو اپنا ئیں گے اور اس سنت محمد مصطفی ﷺ کو زندہ کریں گے تو یقین رکھیں کہ سنت محمد مصطفی کو زندہ کرنے والوں کو خدا نے کبھی مرنے نہیں دیا، آپ کے ساتھ بھی یہی ہوگا.یہ عجیب دور ہے کہ تضاد پر تضاد بڑھتا چلا جارہا ہے اس ملک میں اور ان کو کوئی سمجھ نہیں آرہی کہ ہم کہہ کیا رہے ہیں اور کر کیا رہے ہیں.ابھی چند دن ہوئے ایک یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس ملک میں یعنی پاکستان میں مشرکوں کی کوئی جگہ نہیں.بالکل سچ ہے جو ملک کلمہ تو حید کی خاطر بنایا گیا ہواس میں مشرکوں کی کوئی جگہ نہیں ہونی چاہئے لیکن مشرک کون تھا وہ جو کلمہ کی خاطر جانیں دے رہا تھا یا وہ جو کلمہ مٹانے کے درپے تھا.مشرک دو قسم کے ہوتے ہیں کچھ وہ مشرک جو بُت بناتے ہیں اور اُن کی پوجا کرتے ہیں ، اپنے نفس کی خواہشوں کو خدا بنالیا کرتے ہیں اور ان کی عبادت کرتے ہیں لیکن اپنے کام سے کام رکھتے ہیں وہ لوگ بھی یقیناً خدا کے غضب کا مورد بنتے ہیں لیکن کچھ بد قسمت ایسے بھی مشرک ہوا کرتے ہیں جو شرک کے انتہائی مقام پر پہنچ جاتے ہیں.وہ صرف بچوں کی عبادت نہیں کرتے ، وہ صرف خود اپنے آپ کو خدا بنوانے کی کوشش نہیں کیا کرتے بلکہ بچے خدا کی بادشاہی کو تباہ کرنے کے در پے ہو جاتے ہیں.وہ کلمہ توحید کو برداشت نہیں کر سکتے اور اپنی ساری کوششیں اس بات پر خرچ کرتے ہیں کہ کسی طرح کلمہ تو حید کو مٹایا جائے ایسے مشرکوں کا حال بدتر ہوا کرتا ہے.پس آج یہ عجیب واقعہ گزرا ہے کہ تو حید کے نام پر کلمہ کی حفاظت کا کام تو ہمارے سپرد کر دیا گیا ہے اور کلمہ کو مٹانے کا کام حکومت نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور کثرت کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں کہ حکومت کے دباؤ کے نتیجے میں حکومت کے کارندے زبر دستی احمد یہ مساجد
خطبات طاہر جلدم 30 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء اور احمد یہ گھروں سے کلے مٹا رہے ہیں بلکہ اب تو دکانوں پر بھی کہیں کلمہ لکھا ہوا نظر آجائے تو حکومت کے کارندے پہنچ جاتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں ہمیں ہمارے خدا کا یہ حکم ہے کہ کلے کو مٹا کے چھوڑو.کہتے تو نہیں ہیں کہ ہمارے خدا کا حکم ہے لیکن یہ کہتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں.ہم اپنی روزی سے مجبور ہیں.ہمیں ہمارے سر براہ حکومت کا حکم ہے کہ کلمہ مٹا کے رہو.دوسرے لفظوں میں وہ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ تمہارا رازق خدا ہوگا لیکن ہمارا رازق تو یہ سربراہ حکومت ہے جس کے حکم سے ہم سرمو بھی انحراف نہیں کر سکتے اگر ہمیں کلمہ مٹانے کے لئے بھی کہے گا تو ہم کلمہ مٹائیں گے لیکن بہر حال اس حکومت کی اطاعت سے باہر نہیں جائیں گے.یہ عجیب فیصلہ ہے، نہایت ہی بد قسمتی کا فیصلہ ہے لیکن بہر حال یہی فیصلہ ہے جوا کثر جگہ ہورہا ہے.بہت کم ایسے واقعات آرہے ہیں نظر کے سامنے جہاں بالآخر حکومت کے کارندے نے کھلم کھلا اعلان کر دیا کہ ٹھیک ہے اگر یہی بات ہے تو پھر جو چاہے حکومت کر لے ہم واپس جا رہے ہیں ہم اس کلمہ کو نہیں مٹائیں گے کسی اور کو بھجوا دو اور ہمیں فارغ کر دو.ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں پاکستان میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ لیکن ایسے واقعات تھوڑے ہیں.زیادہ تر تعداد بہت بڑی تعداد میں حکومت کے کارندے کلمہ مٹانے کو برا سمجھتے ہوئے ، جانتے ہوئے کہ ایک نہایت مکروہ فعل ہے، نہایت ہی شیطانی فعل ہے، مشرکانہ فعل ہے پھر بھی وہ حکومت کے دباؤ کی مجبوری سے یا اپنے رزق کی فرضی حفاظت کے لئے وہ اس بد عمل پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور یہ عجیب حکومت ہے کہ جو بظاہر یہ کہہ رہی ہے کہ مشرکوں کی یہاں جگہ نہیں مگر ساری قوم کو مشرک بنا رہی ہے.جب یہ صورتِ حا ہو کہ سر براہ حکومت کے حکم کے نتیجہ میں انسان کلمہ توحید کو بھی مٹانے پر مجبور ہو جائے تو اس سے بڑا شرک اور کیا ہوسکتا ہے.جب ان باتوں کی طرف نگاہ جاتی ہے تو تاریخ اسلام کا ایک بڑا ہی عجیب واقعہ نظر کے سامنے آجاتا ہے اور وہ واقعہ یہ ہے کہ جب ایران کی حکومت نے بہت بڑ الشکر تیار کرنا شروع کیا تا کہ وہ عرب پر حملہ کر کے اسلام کو وہاں سے نیست و نابود کر دے اور یزدگرد جو بادشاہ تھا اس وقت کا کسری اس نے رستم کے سپرد یہ کام کیا.وہی رستم جو اپنی پہلوانی میں ضرب المثل بن چکا ہے.اور بہت بڑا لشکر تیار کیا جارہا تھا.اس بات کی اطلاع جب حضرت سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلدم 31 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء عنہ کی خدمت میں بھجوائی تو حضرت عمر نے جوابا یہ فرمایا کہ تمہیں گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں.تم ایک وفد بھجواؤ اس بادشاہ کے دربار میں اور اس کو ساری صورت حال سے آگاہ کرو اور بتاؤ کہ اسلام یہ چاہتا ہے اور جبر جب اسلام کو مٹانے کی کوشش کی گئی تو ہم نے خدا تعالیٰ کی اجازت سے جوابی کارروائی کی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان علاقوں پر فتوحات عطا فرمائی ہیں اس لئے اسلام ایک امن کا مذہب ہے، خدا کی تو حید کا علمبر دار مذہب ہے، تمہیں بے وجہ اس سے دشمنی کی کوئی ضرورت نہیں ہے.بہر حال وہ وفد بھجوایا گیا جس میں ایک روایت کے مطابق عاصم بن عمرو اس کے سر براہ تھے اور اُن کے ساتھ نعمان بن مقرن اور اشعث بن قیس اور قیس بن زرارہ اور عمرو بن معدیکرب وغیرہ یہ سب اس وفد میں شامل تھے.کسری کے دربار میں جب یہ وفد پہنچا اور گفت و شنید شروع ہوئی تو شروع میں کسری ، یزدگرد نے بہت ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی اور کہا کہ تمہارا بد انجام ہوگا اسی طرح ہوگا جس طرح اس سے پہلے عرب کے جاہل قبائل کا ہوتا رہا ہے اور تمہیں اپنی تاریخ سے واقفیت ہو گی کس طرح بار بار ہم سے پہلے کسراؤں نے ایسے جاہل باغیوں کو شدید سزائیں دیں ہیں تم تو اپنی عاقبت کا فکر اور ہوش کرو اور ان باتوں سے باز آجاؤ اور ہم تمہیں اس کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ تم پر ہم ایک نرم دل بادشاہ مقرر کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں.اگر تم ہماری شرطیں مانتے ہو تو ہم ایک نرم دل بادشاہ تمہیں دیں گے جو تمہارا ہر طرح سے خیال رکھے گا اور اگر تم بھوکے ہو تو ہم تمہیں روزی کا سامان بھی مہیا کر دیتے ہیں اگر تم نگے ہو تو ہم تمہیں کپڑے دے دیں گے لیکن یہ جو سلطنت بنالی ہے اسلام کے نام پر اس کا خیال دل سے مٹا دو.یہ سلطنت اب ہمارے دامن میں نہیں رہ سکتی.جواب میں ان میں سے ایک نمائندے نے کہا، عاصم بن عمرو تو نہیں تھے وہ ایک دوسرے نمائندہ تھے، قیس بن زرارہ.انہوں نے اجازت لی کہ میں جواب دیتا ہوں انہوں نے کہا کہ بات یہ ہے کہ ہم تو یہ پاک دین رکھتے ہیں اور تم نے جو باتیں بھی اہل عرب کے متعلق بیان کی ہیں ان سب کو درست تسلیم کرتے ہیں.لیکن وہ زمانے گئے جس زمانے میں عرب جاہل اور بدو ہوا کرتے تھے اور ہوائے نفس کی خاطر لڑا کرتے تھے.اب تو ایک عظیم روحانی انقلاب آچکا ہے اب ہم وہ لوگ نہیں رہے اس لئے تم ہوش کرو اور سمجھو کہ کن لوگوں سے مخاطب ہواب تو ہم میں خدا کا ایک ایسا پیغمبر ظاہر ہو چکا ہے جس نے ہماری کایا پلٹ دی ہے.اس لئے ہم وہ قوم نہیں ہیں جس کو تم سمجھ کے آج
خطبات طاہر جلدم 32 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء ذلیل اور رسوا کرنا چاہتے ہو.ایک نئی قوم ہے جسے اللہ تعالیٰ فتوحات پر فتوحات عطا فرماتا ہے.اس لئے اپنی عاقبت کا فکر کر و بجائے اس کے کہ ہماری عاقبت کے بارہ میں پریشان ہو.مورخین کہتے ہیں کہ یہ جواب سن کے غصہ سے کچھ دیر تو وہ کانپتا رہا اور اپنے ہونٹ چبا تارہا اور کوئی جواب نہیں نکلتا تھا غصہ کی شدت کے نتیجہ میں.آخر اس نے اپنے ایک ملازم کو کہا کہ مٹی کی ایک ٹوکری بھر کے لاؤ اور جب مٹی کی ٹوکری دربار میں پہنچی تو اس نے ان کو مخاطب کر کے یہ کہا کہ سنو ! اپنے امیر سے یا جو بھی اس کو تم کہتے ہو اسکو جا کر میرا یہ پیغام پہنچا دو کہ اگر تاریخ ایران اس بات کی مانع نہ ہوتی اور میرے آباؤ اجداد کی عزت کا سوال نہ ہوتا جنہوں نے کبھی کسی سفیر کو قتل نہیں کیا تو میں ان سب کو قتل کروا دیتا لیکن چونکہ مجھے اپنے آباؤ اجداد کی روایات کی عظمت کا احترام ہے اس لئے میں یہ فعل نہیں کروں گا لیکن تمہارے مقدر میں اس مٹی کے سوا اور کچھ نہیں ہے جو تمہیں میں بھجوا رہا ہوں اور جہاں تک تمہارے انجام کا تعلق ہے اس کے بعد کیا ہونے والا ہے تو میں رستم کو تمہاری سرکوبی کے لئے بھجواؤنگا اور وہ تم سب کو قادسیہ کی خندق میں دفن کرے گا اور عرب کی سرزمین کو سابور کی طرح پامال کر دے گا اور وہاں سے زندگی کا نام ونشان مٹادے گا.یہ میرا جواب ہے تم یہ جواب لے کر روانہ ہو جاؤ.ایک روایت میں آتا ہے کہ عمرو بن معدیکرب نے اس ٹو کرے سے مٹی اپنی چادر میں اُلٹ دی تا کہ آسانی کے ساتھ پھر اس سے سفر ہو سکے اور وہ مٹی لے کر نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے ہوئے وہاں سے روانہ ہوئے اور یہ کہتے چلے گئے کہ الحمدللہ کہ کسری نے خود اپنے ہاتھوں سے اپنی سرزمین ہمارے سپر د کر دی ہے.پہلے تو کسری کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ پاگل کیسے ہیں اور اس نے یہی کہا رستم کو مخاطب کر کے کہ میں نے عربوں سے زیادہ وحشی اور پاگل لوگ کبھی نہیں دیکھے.اتنا ذلیل ورسوا کر کے سر میں خاک ڈال کے میں ان کو بھجوا رہا ہوں اور یہ نعرے مارتے ہوئے اس طرح جارہے ہیں جیسے ملک فتح کر لیا ہو.کیونکہ وہ مشرک لوگ تھے اور تو ہم پرست بھی تھے ، رستم نے اس کو سمجھایا کہ بادشاہ! یہ بات نہیں ہے.وہ تو ایک اور فال نکال گئے ہیں اور وہ فال یہ نکالی ہے کہ تم نے اپنے ہاتھ سے اپنے ملک کی مٹی اُن کے سپرد کر دی ہے اپنی سرزمین ان کے حوالے کر دی ہے.اس بات پر وہ خوش ہو کر جارہے ہیں، میں تو اُن کو بڑا زیرک پاتا ہوں.بعض روایتوں میں آتا ہے اس پر اس نے اُن کے پیچھے آدمی دوڑائے لیکن وہ سر پٹ گھوڑے اُن کے قابو نہ آئے اور وہ نکل چکے تھے.تو بسا اوقات جہالت میں ایک آدمی
خطبات طاہر جلد۴ 33 خطبہ جمعہ اار جنوری ۱۹۸۵ء ایسی بات بھی کر دیتا ہے جس کو وہ اپنا دشمن سمجھتا ہے اس کے لئے نیک فال ثابت ہوتی ہے.پس اگر ایک مٹی کا ٹوکرا ایک نیک فال بن سکتا ہے تو ہمارے سروں پر جو کلمہ کی حفاظت کا ٹو کرا رکھا گیا ہے یہ ذمہ داری ڈالی گئی ہے ، اس سے بڑی نیک فال اور کیا ہوسکتی ہے.خدا کی قسم ! کسری کی مٹی کو تو اس کلمہ کی حفاظت کی ذمہ داری کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت حاصل نہیں، اس سے ہزاروں لاکھوں گنا بڑھ کر یہ نیک فال ہے ہمارے لئے کہ آج خدا کی تقدیر نے کلمہ کی حفاظت کا کام ہمارے سپر د کر دیا ہے، ہمارے سپرد کر دیا ہے اور ہمارے سپرد کر دیا ہے اور کلمہ کو مٹانے کی ناپاک اور منحوس ذمہ داری تمہارے اوپر ڈالی گئی ہے لیکن ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں اور خدا کی قسم ہمارا بوڑھا اور بچہ اور ہماری عورتیں اور جوان اور کم سن سارے اس عہد کے اوپر ہمیشہ پورے رہیں گے کہ کلمہ توحید کی ہم حفاظت کریں گے اور کلمہ توحید کو نہیں مٹنے دیں گے، نہ ظاہر میں نہ باطن میں کوئی نہیں ہے جو کلمہ سے وابستگی کا حق ہم سے چھین سکتا ہو.ہم یہ پسند کریں گے کہ ہمارے وجود مٹا دیئے جائیں لیکن یہ پسند نہیں کریں گے کہ کلمہ توحید کو دنیا سے نا پید کیا جائے.یہ تو ہماری پسند ہے لیکن خدا کی پسند اور ہے اور خدا کی پسند یہ ہے کہ کلمہ کی حفاظت میں اپنے نفسوں کو مٹانے والے، اپنے وجود کو ملیا میٹ کرنے والے کبھی دُنیا سے نہیں مٹائے جاتے اور ہمیشہ وہی لوگ مٹائے جاتے ہیں جو خدا کی توحید پر ہاتھ ڈالتے ہیں اور خدا کی توحید کو مٹانے کے درپے ہو جاتے ہیں.پس وہ تمہارا مقدر ہے اور یہ ہمارا مقدر ہے.لیکن پھر بھی ہمارے دلوں میں تمہارے لئے حسرات ہیں اور ہماری یہی دعا ہے کہ اے خدا! جس نے محمد مصطفی میلے کے پاک دل کی دردناک آہوں پر نظر کر کے گناہوں کو ان رحمتوں کے بادلوں میں تبدیل کر دیا تھا جو مردہ بستیوں کی طرف روانہ ہوئے تھے ہواؤں کے دوش پر اور جنہوں نے رحمتوں کی اور زندگی کی بارشیں برسادیں تھیں.اے خدا! ہم محمد مصطفیٰ کے عاجز غلاموں پر بھی ویسے ہی رحم کی نظر فرما.ہمارے دل کی آہوں کو بھی ہماری قوم کے لئے رحمتوں کے بادلوں میں تبدیل فرما دے.اس مردہ بستی کو ہمارے دل کے خون کا ہر قطرہ پھر زندہ کر دے اور سارا ملک کلمہ توحید کے ایسے نعروں سے گونج اٹھے جن کے مقدر میں کبھی مرنا نہ ہواور ہمیشہ پھیلتے چلے جائیں اور تمام دنیا پر یہ آواز غالب آتی چلی جائے خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.
خطبات طاہر جلدم 35 خطبه جمعه ۱۸/جنوری ۱۹۸۵ء احمد بیت زندہ رہے گی اور دشمن خائب و خاسر ہوں گے ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) / تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں : أَوَلَمْ يَهْدِلَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِي مَسْكِيهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَأَيْتِ أَفَلَا يَسْمَعُوْنَ أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ أَفَلَا يُبْصِرُونَ ) وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْفَتْحُ إِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِينَ كَفَرُوا إِيْمَانُهُمْ وَلَا هُمْ ينظُرُونَ (السجده: ۲۷-۳۰) اور پھر فرمایا: یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں سورہ السجدہ کی آخری چند آیات ہیں اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کے مخالفین کو عموماً اور بالخصوص حضرت اقدس محمد مصطفی اے کے منکرین کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے یعنی خطاب تو ان سے نہیں براہ راست لیکن ان کے متعلق ہے فرماتا ہے.أَوَلَمْ يَهْدِلَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ کیا یہ چیز انہیں ہدایت دینے کے لیے کافی نہیں
خطبات طاہر جلدم 36 36 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء ہے کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی بستیاں ہلاک کر دیں يَمْشُونَ فِي مَسْكِتِهِمْ بستیوں سے مراد اہل بستی ہوتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ محاورہ ایک سے زیادہ مرتبہ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے کہ جب قریہ کہا جاتا ہے تو مراد اہل بستی ہیں.تو جب فرماتا ہے کہ ہم نے بستیاں ہلاک کر دیں تو مراد ہے اہل بستی کو ہلاک کر دیا.يَمْشُونَ فِي مَسْكِيهِمْ اس کے دو معانی ہیں اول یہ کہ وہ بھی تمہاری طرح امن کے ساتھ اپنے گھروں میں پھرا کرتے تھے، کوئی ان کو خوف نہیں تھا، وہ سمجھتے تھے کہ خدا کا عذاب ان کو نہیں پکڑ سکے گا اور دوسرا معنی یہ ہے يَمْشُونَ فِي مَسْكِنهھ کہ یہ لوگ جو آج تیرا انکار کر رہے ہیں یہ اُنہی گھروں میں تو بس رہے ہیں، انہی بستیوں میں تو رہتے ہیں جن بستیوں میں اس سے پہلے کچھ لوگ رہا کرتے تھے اور وہ ہلاک ہو گئے اور خدا کے عذاب نے ان کو پکڑ لیا.إِنَّ فِي ذَلِكَ لَايَتِ أَفَلَا يَسْمَعُونَ اس میں یقیناً نشانات ہیں پس کیا وہ سنتے نہیں ! چونکہ ماضی کے قصے بیان ہو رہے ہیں اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ کیا وہ دیکھتے نہیں کیونکہ بسا اوقات ایک قوم تبھی خدا کے عذاب سے غافل ہوتی ہے جب وہ خدا کی پکڑ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے نہیں وہ سمجھتے ہیں کچھ نہیں ہوتا ، کوئی فکر کی بات نہیں ، یونہی ڈراوے ہیں کہ خدا تعالیٰ پکڑ لیا کرتا ہے منکرین کو.تو فرماتا ہے اگر تم نے اپنی آنکھوں کے سامنے قوموں کو ہلاک ہوتے نہیں دیکھا أَفَلَا يَسْمَعُونَ پھر وہ کیا سنتے بھی نہیں کیا اُن کے کان نہیں ہیں کہ وہ پرانے قصے سنیں کہ اس طرح ہوتا چلا آیا ہے.اَوَلَمْ يَرَوْا اَنَّا نَسُوقُ الْمَاءَ إِلَى الْأَرْضِ الْجُرُزِ کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ہم پانی کو ہانکتے ہوئے خشک زمینوں کی طرف لے چلتے ہیں فَنُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا پھر ہم اس پانی کے ذریعہ اُن سے کھیتیاں نکالتے ہیں.تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمُ اُسی سے وہ خود بھی کھاتے ہیں اور ان کے جانور بھی کھاتے ہیں اَفَلَا يُبْصِرُونَ کیا وہ دیکھتے نہیں ! اور کیا وہ نصیحت نہیں پکڑتے بصیرت حاصل نہیں کرتے.اس آیت میں بظاہر پہلے مضمون سے کوئی جوڑ نظر نہیں آتا اور کوئی آپس کا تعلق دکھائی نہیں دیتا.ایک ماضی کی تاریخ کی طرف ذہن کو منتقل فرمایا گیا جو انکار کرنے والی قوموں کی ہلاکت کی تاریخ تھی اور انسان کو متوجہ کیا کہ اس سے پہلے بھی خدا کی طرف سے بھیجے ہوؤوں کا انکار کرنے
خطبات طاہر جلدم 37 خطبه جمعه ۱۸/جنوری ۱۹۸۵ء والے خدا کی پکڑ کے نیچے آتے رہے اور بسا اوقات اپنی بستیوں سمیت اپنے علاقوں سمیت ہلاک ہو جاتے رہے اور پھر اچانک اس کے بعد یہ فرمانا کہ کیا تم نے بادلوں کو نہیں دیکھا، کیا تم نے بارش کو نہیں دیکھا اس پانی کو نہیں دیکھا جسے خدا ہانکتا ہوا ایک بستی کی طرف لے آتا ہے.ان دونوں آیات کا کیا تعلق ہے؟ تعلق یہ ہے کہ دونوں جگہ مذہب کی بات ہو رہی ہے مذہب میں جب خدا تعالیٰ کسی کو بھیجتا ہے اپنا نمائندہ بنا کر تو مذہبی دنیا میں دو قسم کے واقعات رونما ہوتے ہیں.ایک ہلاکتوں کے پیغام ہوتے ہیں منکرین کے لئے اور ایک زندگی کے پیغام ہوتے ہیں ماننے والوں کے لئے تو قرآن کریم چونکہ اسی کے متعلق ذکر فرما رہا ہے کہ جب اللہ اپنے انبیاء بھیجتا ہے تو پھر ا ختیاریل جاتا ہے قوموں کو یا تو انہیں تسلیم کر لیں اور اپنے لئے زندگی کے سامان پیدا کریں یا ان کا انکار کر دیں اور ہلاک ہو جائیں.چونکہ یہ اسی ضمن میں خدا تعالیٰ تمثیلات کے ذریعہ مختلف رنگ میں آیات کو پھیر پھیر کر انسان کو متنبہ اور متوجہ فرمانا چاہتا ہے اس لئے ماضی سے اچانک حال میں اور حال میں بھی بظاہر ایک بے تعلق قانونِ قدرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ایک مضمون کے نئے جہاں میں داخل ہو جاتا ہے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ مضمون کا کوئی نیا جہاں نہیں کھلا کوئی نیا دروازہ نہیں کھلا بلکہ وہی مضمون ہے جو جاری ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے قوموں کے لئے ہلاکت کا ذکر کر دیا اور بعد میں زندگی کا.انکار کے بعد اگر ہلاک ہی ہو جانا ہے تو پھر زندہ کیسے ہوں گی اس میں حکمت کیا ہے؟ حکمت یہ ہے کہ جہاں تک ماضی کا تعلق ہے ماضی میں جو تو میں مرگئیں اور انکار کی صورت میں ہلاک ہوگئیں وہ تو اب زندہ نہیں ہو سکتیں لیکن اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ یہ کوئی تقدیر مبرم نہیں ہے کہ تم ضرور ہلاک ہو جاؤ، کوئی ایسی لکھی ہوئی بات نہیں ہے جو ٹل نہیں سکتی ، انبیاء ہلاکت کی خاطر نہیں آیا کرتے ، انبیاء نئی زندگیاں بخشنے آیا کرتے ہیں.جس طرح خدا تعالیٰ پانیوں کوگھیر کے لاتا ہے مردہ زمینوں کی طرف نبوت تو ایک انعام ہے وہ مردوں کو نئی زندگی بخشنے کے لئے تم پر کیا جاتا ہے.اس لئے اس انعام سے منہ نہ موڑ و کیونکہ اگر تم منہ موڑو گے تو پیچھے دیکھو ماضی میں کیا ہو چکا ہے.چنانچہ جو خوف تھا ہلاکت کا اس میں ایک امید کی روشنی نمودار ہوگئی ایک دروزاہ کھل گیا زندگی کا بھی اور جہاں تک حال کے لوگ مخاطب ہیں ان کو اسی طرف متوجہ فرماتا ہے کہ تم ماضی سے نصیحت تو پکڑ ولیکن تمہارے لئے مایوس ہونے کی کوئی وجہ نہیں تمہاری ہلاکت یقینی نہیں ہے کیونکہ نبوت تو زندگی بخشنے کے لئے آیا کرتی ہے تم
خطبات طاہر جلدم 38 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء اس سے وابستہ ہو جاؤ گے تو تم زندہ ہو جاؤ گے اور یہاں ایک اور بہت لطیف مضمون یہ بھی داخل فر ما دیا تَأْكُلُ مِنْهُ أَنْعَامُهُمْ وَأَنْفُسُهُمْ که جب خدا تعالیٰ کی طرف سے فضلوں اور رحمتوں کا پانی برستا ہے تو صرف انسان ہی فائدہ نہیں اٹھایا کرتے بلکہ جانور بھی فائدہ اٹھا لیتے ہیں.أُولبِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ اللہ تعالیٰ ایک اور جگہ فرماتا ہے منکرین کے لیڈروں کا ذکر کرتے ہوئے کہ وہ انعام کی طرح ہیں بَلْ هُمْ أَضَلُّ بلکہ اُن سے بھی بدتر ہیں ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں.تو مذہبی محاورہ میں خصوصاً قرآنی محاورے میں انعام یعنی چوپائے کا لفظ ایسے انسانوں کے متعلق بھی بولا جاتا ہے جو سرزمین کی طرف رکھتے ہیں نظریں زمین کی طرف گاڑے رکھتے ہیں اور آسمان کی طرف نہیں دیکھ سکتے یعنی کلیۂ ہدایت سے عاری رہتے ہیں تو یہاں چونکہ روحانی ذکر چل رہا ہے اس لئے اس پر غور کرنا ہو گا کہ اس کا کیا مطلب ہے کہ جب ہم پانی لے کر آتے ہیں تو انسان بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انعام بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہ مضمون کئی طرح سے غور کے نتیجہ میں انسان پر کھلتا چلا جاتا ہے.اوّل یہ کہ جب خدا تعالیٰ کی رحمت نازل ہوتی ہے تو صرف مومنوں کو فائدہ نہیں پہنچتا بلکہ ایک ایسا ترشیح ہوتا ہے نور کا کہ کل عالم اس سے فائدہ اٹھا جاتا ہے.صرف روحانی لوگ ہی نبوت سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ مادی دنیا میں بھی عظیم الشان انقلابات آجاتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ جب اللہ تعالیٰ نور نبوت کو نازل فرماتا ہے تو مؤمن تو غیر معمولی فوائد اٹھاتے ہیں دنیا کے بھی اور آخرت کے بھی ، لیکن علوم وفنون کا ایک نیا دور بھی ان کے آنے کے ساتھ شروع ہو جاتا ہے دنیا کی عقلیں روشن ہونی شروع ہو جاتی ہیں کیونکہ نور نبو تو ایک شخص پر اتر تاہے اور وہ قوم خصوصیت سے فائدہ اٹھاتی ہے جو اس کو مان جاتی ہے پنجس طرح ایک نور کی شعاع صرف اپنے رستے کو روشن نہیں کرتی بلکہ اس سے روشنی منعکس ہو کر ماحول کو بھی روشن کر دیا کرتی ہے اس طرح مادی دنیا میں بھی ایک روشنی کا دور شروع ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ہر بڑی نبوت کے ساتھ جو خاص ایک اہمیت رکھتی ہو علوم وفنون کے نئے دور میں انسانیت داخل ہو جاتی ہے.آنحضرت ﷺ جب تشریف لائے تو یہ آپ ہی کے نور کی بدولت تھا کہ ساری دنیا میں ایک علم کی روشنی پھیلی ہے اور براہ راست پہلے مسلمانوں کے ذریعہ پھیلی ہے اور یہ انہی کا فیض تھا جس نے یورپ
خطبات طاہر جلدم 39 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء کو بھی روشن کیا ہے، جس نے مشرق کو بھی روشن کیا اور مغرب کو بھی روشن کیا.تو فرمایا اَنْعَامُهُم ان کے انعام بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں یعنی وہ جانور جو یہ عقل نہیں رکھتے کہ وہ خدا کے پیغام کو سمجھ سکیں جونو رنبوت سے استفادہ کر سکیں براہ راست.یہ ایک ایسی رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی کہ اس کے نتیجہ میں عام روشنی پھیل جاتی ہے عام زندگی بھی ایک عطا ہوتی ہے جس سے انسان تو انسان انعام بھی فائدہ اٹھا جاتے ہیں.ایک تو یہ مضمون نظر آتا ہے.دوسرے انعام میں بدترین انعام وہ ہوتے ہیں جو سمجھتے نہیں ، دیکھتے نہیں اور مخالفت میں اپنا ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے دوسری آیت میں واضح طور پر ایسے لوگوں کا ذکر فرمایا ہے کہ یہ انعام بلکہ ان سے بھی اصل ہیں چنانچہ یہ انعام بھی فائدہ اٹھا جاتے ہیں اور ان کو بھی رزق ملتا ہے.اگر چہ بظاہر انکار کے نتیجہ میں رزق مل رہا ہوتا ہے لیکن مادی رزق کے معاملہ میں اللہ تعالیٰ ان سے بھی کوئی کنجوسی نہیں کرتا.چنانچہ آپ یہ دیکھیں گے کہ وہ مولوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے پہلے صرف گاؤں میں بٹنے والی روٹیوں پر پلا کرتے تھے اور جن کو گھر میں جو بچ جاتا تھا وہ تقسیم کیا جاتا تھا بلکہ دروازے کھٹکھٹا کھٹکھٹا کے وہ اپنی روٹی مانگا کرتے تھے کہ کچھ بچا ہوا سالن ہو تو دے دو ایک طرف مغرب کے وقت فقیروں کی آواز میں آیا کرتی تھیں کہ راہ مولا کچھ دے دو اور دوسری طرف مولوی صاحب بیچارے یا اُن کے بچے جوان سے پڑھا کرتے تھے وہ دروازے کھٹکھٹا رہے ہوتے تھے.اور ایک طرف یہ حال ہوا کہ مولوی کے رزق کا دروازہ احمدیت کے انکار میں گھل گیا جتنی بڑی مخالفت کرے اتنے زیادہ اس کو پیسے نصیب ہوں.چنانچہ آج بھی جو روٹیاں تقسیم ہورہی ہیں بے شمار یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خیرات ہے.أَنْعَامُهُم قرآن کریم منکرین کو انعام فرما رہا ہے خود اور فرماتا ہے کہ جب ہم پانی بھیجتے ہیں رحمت کا تو صرف ماننے والے یعنی انسان ہی فائدہ نہیں اٹھاتے منکرین بھی اس سے استفادہ کرنے لگ جاتے ہیں.ان کو بھی فیض پہنچ جاتا ہے.عجیب شان ہے خدا تعالیٰ کی رحمت کی اگر چہ عارضی ہے اس کے بعد شدید نقصان بھی پہنچتے ہیں یعنی عقبی کے لحاظ سے.لیکن جہاں تک دنیا کا Phenomenon ہے اس میں خدا پھر یہ تفریق نہیں کرتا.چنانچہ کئی پہلوؤں سے اس آیت کو ہم بڑی شان کے ساتھ اپنی آنکھوں کے سامنے پورا ہوتے دیکھتے ہیں.پھر فرماتا ہے اَفَلَا يُبْصِرُونَ
خطبات طاہر جلدم 40 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء لیکن یہ اس وجہ سے تو نہیں ہم فضل نازل فرمایا کرتے ، روحانی زندگی عطا کرنے کیلئے پانی لاتے ہیں کہ وہ صرف روٹی کھالیں اور کھا کے مر جائیں ان کا نور بصیرت تیز کرنے کی خاطر یہ واقعہ رونما ہوتا ہے.لیکن عجیب بد بخت اور بدقسمت لوگ ہوتے ہیں جو فائدے تو اُٹھا ر ہے ہیں مگر انکا نور بصیرت صیقل نہیں ہوتا وہ کچھ دیکھ نہیں سکتے ، کیوں نہیں دیکھتے وہ کیوں سمجھتے نہیں کہ کیا رونما ہورہا ہے ان کے سامنے.جواب میں وہ یہ کہتے ہیں جب ان کو متوجہ کیا جاتا ہے وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْفَتْحُ اب اس آیت نے اس مضمون کو پوری طرح کھول دیا کہ ہم تمام ذکر بظاہر دنیا کی باتوں کا کر رہے تھے یعنی پانی کا آنا اور کھیتیوں کا نکلنا لیکن دراصل روحانی باتیں ہو رہی تھیں.اور اُس زمانہ کے جو انعام تھے وہ زیادہ عقل رکھتے تھے اس لحاظ سے کیونکہ وہ بات سمجھ گئے فوراً.اس زمانہ کے انعام کی تو بالکل ہی عقلیں ماری گئیں ہیں بیچاروں کی ان کو ان تمثیلات کی سمجھ ہی کچھ نہیں آتی لیکن آنحضرت ﷺ کے جو مخاطبین تھے وہ فورا سمجھ گئے کہ کیا بات ہورہی ہے.انہوں نے کہا یہ تو اپنی فتح کی باتیں کر رہا ہے، یہ تو یہ کہہ رہا ہے کہ میرے منکرین ہلاک ہو جائیں گے اور جو زندہ رہے گا مجھ سے زندگی پائے گا ، اُس پانی سے فیض یاب ہوگا جو مجھ پر اتر رہا ہے آسمان سے.تو فوراً وہ پوچھتے ہیں ان آیات کے جواب میں مَتَى هُذَا الْفَتْحُ اِنْ كُنْتُمْ صَدِقِينَ کب ہوگی وہ فتح کب وہ دن آئے گا.اگر تم سچے ہوتو بتاؤ پھر.اس کے جواب میں قرآن کریم فتح کا کوئی دن معین نہیں فرماتا ، بالکل نہیں بتا تا کہ فلاں تاریخ کو فتح ہو جائے گی یا اتنے سال کے بعد فتح ہو جائے گی یا اتنے مہینے کے بعد فتح ہو جائے گی.پوچھ تو وہ یہ رہے تھے کہ وَيَقُولُونَ مَتَى هُذَا الفَتح جواب ان کو یہ ملتا ہے قُلْ يَوْمَ الْفَتْحِ لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِيْمَانُهُمْ وَلَا هُمْ يُنْظَرُونَ ) کہ اسے محمد اعو تو ان سے یہ کہہ دے کہ تم کس دن کے متعلق پوچھ رہے ہو تمہارا اس سے کیا تعلق کیونکہ جس دن فتح کا وقت آئے گا اس دن وہ لوگ جو اس سے پہلے انکار کر چکے ہیں ان کو ان کا ایمان کوئی فائدہ نہیں دے گا وَلَا هُمْ يُنظَرُونَ اور کچھ ان میں سے ایسے ہوں گے جو پکڑے جائیں گے اور ایمان لائیں گے بھی تو بچ نہیں سکیں گے اس ایمان کے نتیجہ میں کیونکہ وہ اپنی شرارتوں.میں اس سے پہلے حد سے بڑھ چکے ہوں گے.تو فرمایا تمہیں تو یہ پوچھنے کا حق ہی نہیں کہ فتح کب ہوگی ، جہاں تک تمہارا تعلق ہے تمہیں وہ دن کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا.
خطبات طاہر جلدم 41 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء رہتے چنانچہ آج بھی اسی قسم کی باتیں بکثرت پاکستان میں ہو رہی ہیں اور لوگ مجھے لکھتے ہیں.بعض بڑے لوگ بعض دنیا کی نظر کے چھوٹے لوگ، کچھ درمیانے سبھی یہ سوال کر رہے ہیں احمدیوں سے کہ تم ہمیں یہ بتا دو کہ فتح کب ہوگی اور اگر ہوگئی تو پھر ہم ایمان لے آئیں گے یعنی پاکستان کے تمام طبقات شامل ہیں اس بات میں اور بکثرت شمال سے لے کے جنوب تک اور مشرق سے مغرب تک، ہر جگہ یہ سوال ہورہے ہیں.عامۃ الناس جو مولوی نہیں ہیں اس کو تو سمجھ آنے لگ گئی ہے کہ کوئی واقعہ ہو رہا ہے ہمارے سامنے اور ان کو یہ بھی پتہ چل گیا ہے کہ اس دفعہ اگر خدا تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کے معاندین کو رسوا اور ذلیل کیا تو یہ یقیناً احمدیت کی وجہ سے ہوگا جہاں تک ہمارا زور چلتا تھا ہم تو لگا بیٹھے ہیں ہم تو کچھ نہیں کر سکے.اتنی بصیرت ان میں ضرور پیدا ہو چکی ہے اور وہ اگلا سوال کرتے ہیں اب ہمیں یہ بتا دو کہ کب فتح ہوگی پھر اگر ہوگئی اس دن یا اس مہینہ میں یا اس سال میں تو پھر ہم ایمان لے آئیں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب فتح کا دن آئے گا لَا يَنْفَعُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فتح سے پہلے جو منکر ہو چکے تھے جو انکار کر چکے تھے ان کو فتح کا دن کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گا.ان کا ایمان لا طائل ہوگا، بریکار اور بے فائدہ ہوگا.سوال یہ ہے کہ ایمان فائدہ کیوں نہیں پہنچائے گا.ایک آدمی فتح دیکھ کر ایمان لے آتا ہے تو اس کو ایمان کا تو فائدہ پہنچنا چاہئے بظاہر.اس سے مراد وہ لوگ نہیں ہیں جو فتح کے بعد قدرتی طور پر طبعا اپنے نفس کی شرافت کی وجہ سے خدا تعالیٰ کے نشانات دیکھ کر ایمان لاتے ہیں بلکہ یہاں مراد وہ لوگ ہیں جو غلبہ کے پجاری ہوتے ہیں اور غلبہ کی عبادت کرتے ہیں اس سے پہلے ان کو نشانات نظر آچکے ہوتے ہیں صداقت کے اور یہ جو سوالات دل میں اُٹھتے ہیں یہ سوالات ہی اس لئے اٹھتے ہیں کہ دل کے اندر احساس پیدا ہو چکا ہوتا ہے کہ ہے جماعت کچی لیکن منتظر رہتے ہیں کہ جب غلبہ ہو گا تب ہم شامل ہوں گے اس وقت فوائد اٹھا ئیں گے ، اب مصیبت میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے.تو اول تو ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ کے اوپر انکا کوئی اجر نہیں ہے.وہ پنے نفس کی پہلے بھی عبادت کرتے رہے بعد میں بھی نفس ہی کی عبادت کریں گے جب وہ ایمان لائیں گے پہلے بھی دنیا کے غالب لوگوں یعنی جھوٹے خداؤں کی عبادت کیا کرتے تھے بعد میں بھی غالب آنے پر بھی بچے خدا کو پہچانیں گے مگر اس لئے نہیں کے وہ خدا ہے اس لئے کہ وہ غالب آ گیا ہے ان کی نظر میں.تو اگر آپ تجزیہ کریں ان کی نفسانی کیفیات کا اور نفسیاتی کیفیات کا تو وہ اپنے نفس
خطبات طاہر جلدم 42 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء کے غلام ہیں اور نفس کو جہاں سے فائدہ پہنچتا ہے وہاں وہ سر جھکانے کے لئے تیار ہیں.تو کیسے ان کو فائدہ پہنچے گا پھر اگر وہ فتح کے بعد ایمان لائیں گے.دوسرا اس میں ایک اور بھی مضمون ہے اور وہ یہ کہ فتح سے پہلے کے ایمان کے نتیجہ میں انسان.دکھوں اور مصیبتوں میں مبتلا ہوتا ہے اور ایمان کا ثواب اس چیز سے براہ راست تعلق رکھتا ہے اور دو طرح سے، کم سے کم دو طرح سے ایمان ایسے انسان کو فائدہ پہنچاتا ہے اول تو یہ کہ خدا کے منہ کی خاطر وہ دکھ اٹھا رہا ہوتا ہے.آپکی خاطر کوئی ذراسی تکلیف اٹھائے تو آپ میں سے جو شرفاء ہیں ، شریف النفس لوگ ہیں بعض دفعہ آپ کا دل چاہتا ہے کہ ہم سب کچھ اس پر فدا کر دیں.تو خدا کے متعلق تصور بھی آپ نہیں کر سکتے کہ وہ اپنی خاطر دکھ اٹھانے والوں سے کتنا پیار کرتا ہے.تو وہ وقت جو خدا کا پیار حاصل کرنے کا تھا وہ تو کھو دیا انہوں نے.جب خدا کی خاطر اپنے آرام چھوڑنے کا وقت تھا وہ تو انہوں نے ضائع کر دیا، اب جب وہ وقت ہاتھ سے نکل گیا غلبہ کے وقت تمہیں کون دکھ پہنچائے گا ، اس وقت تمہارا ایمان تمہیں فائدہ نہیں دے سکتا.دوسرا یہ کہ اندرونی اصلاح کے لئے بھی دکھ ضروری ہے جب تک انسان کسی اعلیٰ مقصد کی خاطر تکلیف نہیں اٹھا تا اس کے نفس کی اصلاح نہیں ہوتی.چنانچہ ہمارا بھی تجربہ ہے کہ جماعت پہ جب آسائش کے دور آتے ہیں تو کچھ سستیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور جب تکلیف اور تنگی کے دور آتے ہیں تو اسی جماعت میں سے نئے نئے ہیرے چمکتے ہوئے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں، کیفیت بدلنے لگ جاتی ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ جو قدرتی ایک خدا تعالیٰ نے کارخانہ بنا رکھا تھا تمہاری اصلاح کا وہ تو بند ہو گیا وہ دکھوں کے زمانے تو لڑ گئے اب تو فتح کے زمانے آگئے اب تم کس طرح اپنے نفس کی اصلاح کرو گے ان آزمائشوں میں سے گذرے ہی نہیں ہو جو آزمائشیں نفس کی اصلاح کیا کرتی ہیں.وَلَا هُمْ يُنْظُرُونَ اور پھر بہت سے اُن میں سے ایسے بھی ہوں گے جن کو مہلت نہیں دی جائے گی یعنی ایمان فائدہ دے نہ دے یہ الگ بحث ہے، اس وقت تو اُن کے پکڑے جانے کا وقت آئے گا اور جب پکڑے جانے کا وقت آپہنچے تو پھر یہ کہنا کہ اب میں ایمان لے آتا ہوں اس کے تو کوئی معنی ہی نہیں رہتے ، کوئی حقیقت ہی نہیں ہے.فَاعْرِضْ عَنْهُمُ اس لئے اے محمد اعلی ہے ان سے اعراض فرما اور وہ جو فتح کا دن پوچھتے ہیں ان کو یہ جواب نہ دے کہ کب دن آئے گا ان کو صرف اتنا کہنا کافی ہے کہ تمہیں وہ دن فائدہ
خطبات طاہر جلدم 43 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء نہیں پہنچائے گا.وانتظر اور تُو انتظار کر اِنَّهُمْ مُنتَظِرُونَ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں وہ بھی کچھ دیکھنا چاہتے ہیں اب انتظار کا حکم تو فرما دیا لیکن کتنا انتظار کر ، کب تک دیکھ ، کب وہ وقت آئے گا کہ یہ صبح طلوع ہوگی اس کے متعلق ذکر نہیں فرمایا کہ کب ہوگا.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جماعت احمد یہ بھی اس وقت ایسے ہی دور سے گذر رہی ہے کہ انتظار ہی کا ہمیں حکم ہے اور انتظار ہم کرتے چلے جائیں گے لیکن جہاں تک خوشخبریوں کا تعلق ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلسل جاری ہیں اور تمام دنیا میں حیرت انگیز طور پر ایک دوسرے سے انطباق رکھتی ہوئی، ایک دوسرے سے مطابقت رکھتی ہوئی رؤیا اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے جماعت کو اور حیرت کے ساتھ انسان دیکھتا ہے کہ بعض مہینوں میں ایک ہی مضمون کی رؤیا مشرقی ممالک میں بھی دکھائی جارہی ہے اور مغربی ممالک میں بھی دکھائی جارہی ہیں اور ایسی زبان میں دکھائی جاتی ہیں جن کو دیکھنے والا سمجھ بھی نہیں رہا ہوتا اور یہ جو سلسلہ ہے یہ ایک خاص اپنے اندراندرونی حکمت اور منطق رکھتا ہے اس کی اپنی ایک زبان ہے اور جب وہ اکٹھی ہوتی ہیں ساری دنیا سے رویا اور بعض کشوف اور بعض الہامات تو ایک تصویر نکھرتی چلی جارہی ہے.اس کے ساتھ ہی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بار بار اللہ تعالیٰ نے مبشرات بھی عطا فرمائیں ، کشوف دکھائے ، الہا ما تستی دلائی اس لئے میں گذشتہ چند ماہ سے جماعت کو بار بار خوشخبریاں دے رہا ہوں کہ تم بالکل مطمئن رہو، اللہ تعالیٰ اپنی قدرت کے نشان دکھائے گا اور تمہیں کبھی ضائع نہیں کرے گا، یہ بات تو دنیا میں کوئی ٹال ہی نہیں سکتا، یہ تقدیر تو بدل سکتی ہی نہیں کہ جماعت احمدیہ غالب آئے گی اس لئے کوئی غم اور کوئی فکر نہیں.ان امور کو دیکھ کر بعض لوگ پریشان ہو گئے ہیں اور بعضوں نے مجھے کچھ پیار سے محبت سے اور ادب کے ساتھ سمجھانے کی بھی کوشش کی ہے کہ تم فتح کی باتیں کر رہے ہو، خوشخبریاں دے رہے ہو جماعت کو پتہ نہیں وہاں کیا حالات ہیں.چنانچہ بعض ان میں سے یہ کہہ رہے تھے مجھے اور انہوں نے حالات کا ایک اندازہ لگایا ہے دنیا کے لحاظ سے وہ کہتے ہیں کہ دیکھو پاکستان میں ریفرنڈم کے نام پر جو کچھ بھی ہوا بہر حال پانچ سال کے لئے ایک ضمانت مل گئی ہے اور ہم اپنی قوم کو جانتے ہیں ، ہم اپنی قوم کی نفسیات سے باخبر ہیں اس وقت ان کی اخلاقی حالت مسلسل استبداد کے نیچے رہ کر، مسلسل آمروں کے نیچے وقت گزار کر ایسی گر چکی ہے کہ ان میں طاقت نہیں رہی ہے مقابلہ کی اور وہ
خطبات طاہر جلدم 44 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء دھاندلیوں کے باوجود بھی اُٹھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے اُن سے آپ کیا توقع رکھ سکتے ہیں.کھل کر بعض مجھے کہتے ہیں، کہتے ہیں ہم اپنی قوم کی نفسیات سے باخبر ہیں ہوگا یہ کہ چونکہ یہ اقتدار بظاہر پانچ سال کے لئے پختہ ہو چکا ہے خوب گڑھ گیا ہے اس لئے اب جتنی بھی قوم ہے اس میں سے ہر پارٹی کے لوگ بھیڑ چال کے طور پر آگے دوڑیں گے اور ہر ایک یہ سوچے گا کہ میں اس موقع سے پیچھے نہ رہ جاؤں.اس سے پہلے جنہوں نے تعاون کیا تھا پانچ ، چھ سال ہو گئے سات سال ہو گئے کسی کو ابھی تک وہ موجیں لوٹتے رہے اور ہم باہر بیٹھے خواہ مخواہ منہ دیکھتے رہ گئے اب ایک اور موقع خدا نے دیا ہے کیوں نا آگے بڑھو اور اس پارٹی کے ساتھ شامل ہو جو حکومت کے ساتھ ہے.اگر ان کو ملاں چاہیئے تو ملاں کے بھیس میں سامنے آؤ ، اگر ان کو جھوٹے لوگ چاہیں تو جھوٹے لوگ بن کرسامنے آؤ اگر ان کو بد کردار چاہئے تو بدکردار ہو کر سامنے آؤ ہر چیز کو قربان کرد و مگر اپنے نفس کو قربان نہ کرو، ہوش کرو.عقل کرو آگے بڑھو اور جو وقت کا آمر کہتا ہے اس کے مطابق عمل شروع کردو.یہ ہے قوم کی نفسیات ان کہنے والوں کے نزدیک اور جو تازہ تازہ دیکھ کر آئے ہیں وہاں کے حالات وہ کہتے ہیں کہ بالکل یہی کیفیت ہے تم دیکھو گے کہ اچانک ایک بند ٹوٹ جائے گا ہر ایک ، ایک دوسرے سے خوشامد میں سبقت کرنے لگے گا.ہر ایک اپنے سابقہ دعاوی سے منہ موڑلے گا اور کہے گا کہ غلطی ہوگئی تھی اب ہمیں ہوش آگئی ہے آپ تو بچے مسلمان دنیائے اسلام کے حسن اعظم ، آپ تو اس لائق ہیں کہ آپ کو امیر المؤمنین کہا جائے ، خلیفہ المسلمین کہا جائے آپ سے عدم تعاون کر کے ہم نے اپنی دنیا اور عاقبت دونوں بگاڑنے ہیں؟ یہ کہتے ہوئے تو بہ کرتے ہوئے لوگ آگے آئیں گے اور ٹکٹ مانگنا شروع کر دیں گے اور اُس وقت پھر عوام کو روک کوئی نہیں سکے گا یہ جب ایک دفعہ بندٹوٹ جائے اور ہلا بولا جائے تو ریفرنڈم والا حال نہیں ہوگا.اس وقت ایک آدمی کا انٹرسٹ (Interest) تھا ریفرنڈم کے وقت اب وہ کہتے ہیں ساری قوم کے اندر چھوٹے چھوٹے حلقوں میں ہر مقامی لیڈر کی دلچسپی اس بات میں ہوگی کہ وہ آگے آجائے.تو ایک آدمی کی دفعہ تو وہ بیٹھے رہے تھے عدم دلچسپی کے ساتھ گھروں میں ان کو پرواہ ہی کوئی نہیں تھی کوئی ان کو ووٹ ڈالتا ہے یا نہیں ڈالتا لیکن اب جبکہ وہ آچکے ہیں اب تو ساروں کو پرواہ ہو گئی ہے ان کی اور اپنی خاطر ہر حلقے میں کچھ حصہ وقت کی حکومت کے پجاری پیدا ہو جائیں گے اور ان کو روک نہیں سکے گا پھر کوئی.چنانچہ اگر اخبارات کی خبریں درست
خطبات طاہر جلد۴ 45 خطبه جمعه ۱۸ جنوری ۱۹۸۵ء ہیں تو اس قسم کا ماحول پیدا بھی ہو چکا ہے.تو انہوں نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی یہ کوئی وقت ہے ایسی باتیں کرنے کا خوشخبریوں کا ؟ مگر ان کو پتہ نہیں کہ یہی تو وقت ہوا کرتا ہے مذہب کی دنیا میں تو یہی وقت ہوا کرتا ہے باہر کی دنیا کا مجھے علم نہیں جب رات خوب بھیگ جاتی ہے اور ٹھہر جاتی ہے، جب وقت رینگنا بھی بند کر دیتا ہے یوں لگتا ہے کہ اب مصائب کبھی ختم نہیں ہوں گے اس وقت خدا کی رحمتیں جلوہ دکھاتی ہیں اور بڑی قوت کے ساتھ دلوں پر الہام کرتی ہیں کہ تمہاری فتح کی صبح طلوع ہونے والی ہے اس لئے مایوس نہیں ہونا.اس لئے یہی تو وقت ہے ورنہ تو ہم دنیا کے بندے ہوں گے ، پھر ہم میں اور خدا کے بندوں میں فرق کیا ر ہے گا.میں نے کہا کہ تم دنیا کی علامتیں پڑھتے رہو اور فیصلے دیتے رہو میں تو وہی کہوں گا جو خدا مجھے کہتا ہے.اللہ کی حکمت بالغہ زیادہ جانتی ہے کہ وہ وقت کب آئے گا مگر خوشخبریوں کا وقت بہر حال آچکا ہے ورنہ وہ کبھی خوشخبریاں نہ دیتا.ان کے پورا ہونے کے دن کب ہوں گے یہ میں نہیں جانتا لیکن یہ میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کو علم ہے کہ خوشخبریاں دینے کا وقت آچکا ہے.یہ وقت ہے کہ قوم کولاز ما بتانا پڑے گا کہ خدا تمہارے ساتھ ہے اور خدا تمہارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا اس لئے اسی خدا نے جس نے حضرت محمد مصطفی ﷺ سے فرمایا فَاعْرِضْ عَنْهُمْ وَ انْتَظِرُ أى خدا کے کلام میں میں آپ سے عرض کرتا ہوں اور آپ کو سمجھاتا ہوں کہ ان لوگوں سے اعراض کریں اور انتظار کرتے رہیں یہ تقدیر تو بہر حال کوئی ٹال نہیں سکتا کہ آپ نے لاز ما فتح یاب ہونا ہے کوئی دنیا کی طاقت اس تقدیر کو ٹال نہیں سکتی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمنوں نے لازماً ذلیل اور رسوا ہونا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے در مشین صفحه: ۹۴) اس لئے یہ باتیں کہنے کا تو ابھی وقت ہے.مگر جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ امیدیں بندھ جائیں اور لوگ جلدی سمجھنے لگ جائیں اور کچھ تاخیر ہو جائے اور پھر دلوں کو ٹھوکر لگے اور پھر آپ کو بھی صدمہ پہنچے کہ او ہو یہ کیا ہو گیا.بعض لوگوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا ہے یعنی مجھے سمجھاتے ہیں
خطبات طاہر جلدیم 46 خطبہ جمعہ ۱۸؍ جنوری ۱۹۸۵ء کہ تمہیں ٹھوکر نہ لگ جائے ، صدمہ نہ پہنچ جائے ان کو علم نہیں ہے کہ میں تو اس مٹی کا بناہی نہیں ہوا.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اللہ سے میرا عاجزی اور انکسار کا جہاں تک تعلق ہے خدا سے ناراضگی اور مایوسی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.جہاں تک امنگوں کا تعلق ہے اپنے رب کی رحمت سے امیدوں کا تعلق ہے اپنے استحقاق کے نتیجہ میں نہیں محض اس لئے کہ وہ رحمن اور رحیم ہے میری امیدوں کی انتہا ہی کوئی نہیں ہے، امنگوں کا کوئی آخری کنارہ نہیں ہے.لیکن جہاں تک رضا اور تسلیم کا تعلق ہے میرا سر تو اس کے پاؤں کی خاک سے اٹھ ہی نہیں سکتا کبھی اس لئے اس سے کس طرح کا صدمہ ہوسکتا ہے، اس سے کیسے انسان ٹھوکر کھا سکتا ہے حضرت مصلح موعود نے جو بات کہی تھی وہی بات آج بھی بچی ہے آپ فرماتے ہیں: وہ میرے دل کو چٹکیوں میں مل مل کر یوں فرماتے ہیں عاشق بھی کبھی معشوق کا شکوہ اپنی زبان پر لاتے ہیں میں ان کے پاؤں چھوتا ہوں اور دامن چوم کے کہتا ہوں دل آپ کا ہے جاں آپ کی ہے پھر آپ یہ کیا فرماتے ہیں (کلام محمود صفحه ۱۷۳۰) پس اے میرے خدا! اگر ساری زندگی مجھے بیابانوں میں سفر کرتے بسر ہو جائے اور ایک لمحہ بھی چین نہ رہے تب بھی خدا کی قسم میں تیری رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوں گا اور یہ جماعت تیری رحمت سے انشاء اللہ بھی مایوس نہیں ہوگی تو خوشخبریاں دے رہا ہے ہم ایمان لاتے چلے جارہے ہیں تو کہتا ہے کہ تمہاری فتح کے دن آرہے ہیں ہم کہتے ہیں امنا و صدقنا وہ ضرور آئیں گے اور کوئی نہیں جو ان کو ٹال سکتا ہے مگر جہاں تک انتظار کا تعلق ہے تو نے جتنا انتظار کروانا ہے کروا اور دیکھے گااے خدا! اور تُو ہی ہمیں توفیق بھی عطا فرمائے گا کہ ہم انشاء اللہ تعالیٰ اس انتظار میں کبھی کوئی شکوہ کا کلمہ زبان پر نہیں لائیں گے.یہ تو ہے تسلیم و رضا کی کیفیت اور جہاں تک امنگوں اور امیدوں کا تعلق.ان میں ایسی سر بلندی خدا نے بخشی ہے کہ کوئی دنیا کی طاقت ان کا سر جھکا ہی نہیں سکتی ، ناممکن ہے، مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہر روز میں خدا کی فتح کو قریب آتے دیکھ رہا ہوں ، ان علامتوں کی وجہ سے نہیں جو برعکس نتیجے ظاہر کر رہی ہیں بلکہ ان مبشرات کے نتیجہ میں ، ان کشوف کے نتیجہ میں تمام دنیا پر جو ترشح ہے
خطبات طاہر جلدم 47 خطبه جمعه ۱۸/جنوری ۱۹۸۵ء ہور ہا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خوشخبریوں کا ان کے نتیجہ میں اس لئے میں امید یہ رکھتا ہوں خدا سے کہ ہم لوگ زندہ رہیں گے جب خدا تعالیٰ کی طرف سے عظیم الشان معجزات کو رونما ہوتے دیکھیں گے اور احمدیت کے دشمنوں کو خائب و خاسر اور نا کام اور یقیناً نامراد ہوتے دیکھیں گے.لیکن اگر اُس کی تقدیر نے کچھ اور فیصلہ فرمایا ہے، اگر لمبی آزمائش کے دن ہیں اور بہت بڑی بڑی فتوحات نے بعد میں آنا ہے تو ہم تو کم فہم لوگ ہیں ، ہم تو اس کی تقدیر کے اندرونی معاملات کو سمجھ نہیں سکتے، اتنا یقین ہے کہ جس کے ہاتھ میں ہم نے ہاتھ دیا ہے وہ کبھی ہمیں نامراد اور نا کام نہیں چھوڑے گا ، وہ ایک یقینی ہاتھ ہے جو کبھی بھی اس کو جو امید کے ساتھ اور محبت اور یقین کے ساتھ تھامتا ہے اسے کبھی بھی رسوا اور نامراد نہیں کیا کرتا ، وہ کسی بے وفا کا ہاتھ نہیں ہے، وہ ایک قادر و توانا سب وفاداروں سے بڑھ کر وفاداری کرنے والے کا ہاتھ ہے اس لئے اس ہاتھ کو تھامے رہیں اپنی عبودیت کے مقام کو سمجھتے رہیں اور اس خدا کی عظمت کو دیکھیں تو اپنی امیدوں کو بلند کریں اور اپنی عبودیت کی طرف نگاہ کریں تو زمین میں بچھ جائیں اور خاک بن جائیں اس کے پاؤں کی اور وہم و گمان بھی نہ کریں کہ آپ بھی کسی رنگ میں کوئی شکوہ کا حق رکھتے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 49 49 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء کذب و افتراء کی دل آزار مہم اور اس کا پس منظر خطبه جمعه فرموده ۲۵ / جنوری ۱۹۸۵ء بمقامبیت الفضل لندن ) ط ط تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : وَقَالَتِ الْيَهُودُ عَزَيْرٌ ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصْرَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللهِ ذُلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُ وا مِنْ قَبْلُ قَتَلَهُمُ اللهُ أَنى يُؤْفَكُونَ اِتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهَا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَنَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبة: ۳۰-۳۳) اور پھر فرمایا : پاکستان کی موجودہ حکومت نے احمدیت کی تکذیب کی جو مہم چلا رکھی ہے اس کی کئی شکلیں ہیں.ایک تو ملک کے معصوم عوام پر یہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور ان کے مفادات کو اس شرط کے ساتھ مشروط کر دیا گیا ہے کہ جب تک وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب نہیں کریں
خطبات طاہر جلد۴ 50 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء گے اُن کے کام نہیں چل سکیں گے.چنانچہ اس طرح پاکستان کی موجودہ حکومت نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کو ایک عوامی شکل دے دی ہے.تاہم یہ کوئی ایسی عوامی تحریک نہیں کہ جس میں لوگوں کے دل سے از خود یہ خواہش اُٹھے بلکہ یہ ملک کا موجودہ قانون ہے جو ہر پاکستانی شہری کو مجبور کر رہا ہے کہ یا تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کرے یا بعض مفادات سے محروم رہ جائے.یہاں تک کہ اب ووٹ دینے کا حق بھی کسی پاکستانی کو نہیں مل سکتا جب تک کہ وہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب نہ کرے اور بکثرت ایسی مثالیں پاکستان کے اندر بھی اور پاکستانی شہریوں میں سے اُن کی جو باہر بستے ہیں ہمارے سامنے آتی ہیں کہ وہ اس پر احتجاج کرتے ہیں اور کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ ہم نہیں جانتے کہ مرزا صاحب کیا تھے اور کیا واقعۂ خدا تعالیٰ نے انہیں بھیجا بھی تھا کہ نہیں.اس لئے یہ گناہ ہمارے سر پر نہ رکھو.لیکن چونکہ اس کے بغیر اُن کے کام نہیں چل سکتے اور اُن کو مجبور کیا جاتا ہے اس لئے اُن میں سے بھاری تعداد تکذیب پر دستخط کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے.تکذیب کا ایک دوسرا طریق یہ اختیار کیا جا رہا ہے کہ احمدیوں کو اُن کے مفادات سے محروم رکھا جا رہا ہے، اُن پر مظالم توڑے جار ہے ہیں ، اُن پر ظلم کرنے والوں کی تائید کی جارہی ہے.احمدیوں کے مال لوٹنے والوں کو تحفظ دیا جارہا ہے اور اُن کی جان پر حملے کرنے والوں کو حکومت کی چھتری کے تلے امن مل رہا ہے جبکہ احمدیت کے حق میں گواہوں کو یا احمدیوں کے حق میں آنے والے گواہوں کو جھٹلایا جاتا ہے اور مخالف فریق کے فرضی گواہوں کو بھی تسلیم کر لیا جاتا ہے.غرضیکہ اس نوع کے بکثرت دباؤ ہیں مثلاً ملازمتوں سے محروم کر دیا جاتا ہے ، طلباء کو تعلیم کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ اور اسی قسم کے بعض دوسرے دباؤ روز مرہ کی زندگی میں اس کثرت سے ڈالے جارہے ہیں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طریق پر احمدی بھی بالآخر تنگ آکر احمد بیت کو چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں گے.لیکن جیسا کہ تمام دنیا جانتی ہے اور پاکستان میں بھی اب یہ احساس بڑی شدت سے پیدا ہو رہا ہے کہ یہ سارے ذرائع احمدیوں کو احمدیت سے ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوئے بلکہ اس کے بالکل برعکس نتیجہ نکلا ہے.خدا کے فضل سے اتنی شدت اور قوت کے ساتھ ایمان اُبھرے ہیں اور اخلاص میں ترقی ہوئی ہے اور قربانیوں کی نئی امنگیں پیدا ہوئی ہیں کہ اس سے پہلے اس قسم کی کیفیت اور
خطبات طاہر جلد۴ 51 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء شدت نظر نہیں آتی تھی.اب خدا کے فضل سے جماعت میں ایسا حوصلہ ایسا عزم اور پھر قربانیوں کے ایسے بلند ارادے پیدا ہو گئے ہیں جو پہلے نظر نہیں آتے تھے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ اس پہلو سے بھی حکومت مخالفانہ کوشش میں ناکام ہوگئی ہے.جہاں تک پہلی کوشش کی ناکامی کا تعلق ہے امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت کے دوستوں کی طرف سے جتنی بھی اطلاعات ملتی ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ ہر وہ پاکستانی جو احمدی نہیں ہے جب وہ تکذیب پر دستخط کرتا ہے تو اس کے اندر خوف کا ایک احساس جاگتا ہے.وہ اپنے دل میں یہ سوال اٹھتا ہوا محسوس کرتا ہے کہ جس شخص کی میں تکذیب کر رہا ہوں اس کے دعوئی کی جانچ پڑتال میں نے کر بھی لی تھی کہ نہیں.میں نے اس کے دعویٰ کے بارہ میں تحقیق کر کے پورے اطمینان سے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ شخص جھوٹا ہے یا محض اپنے دنیوی مفاد کی خاطر مجبور ہوکر اور ذلت کے ساتھ تکذیب پر دستخط کرنے پر پابند کیا گیا ہوں.یہ ایک عام احساس ہے جو لوگوں میں پیدا ہو رہا ہے.چنانچہ ضمیر کو جھنجھوڑنے کا جو سامان ہم نہیں کر سکتے تھے وہ اللہ کی تقدیر نے اس طرح کروا دیا ہے.ورنہ اس سے پہلے احمدیت کے بارہ میں عدم دلچپسی عام تھی ، لا علمی عام تھی اور امر واقعہ یہ ہے کہ گومختلف فرقوں میں مسلمان بٹے ہوئے ہیں لیکن ان میں سے ایسے بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو جانتے ہیں کہ اُن کے عقائد کیا ہیں، ان کی اسلامی نظریاتی بنیاد کیا ہے، اسلام کے وہ کون سے عملی تقاضے ہیں جن کو انہوں نے پورا کرنا ہے.غرض ایک قسم کی غفلت کی حالت ہوتی ہے جس میں بظاہر مختلف فرقوں میں بے ہوئے لوگ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں اور چونکہ ان کو جماعت احمدیہ کے متعلق بھی علم نہیں تھا اس لئے ان میں جماعت کے بارہ میں کوئی دلچسپی پیدا نہیں ہو رہی تھی.اُن میں بہت کم لوگ تھے جو اس وجہ سے مخالفت کرتے تھے کہ وہ سمجھتے تھے کہ جماعت احمدیہ ( نعوذ باللہ ) جھوٹی ہے.جبکہ بڑی بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو مولویوں کے ڈر سے اور عوام الناس کے دباؤ کے پیش نظر خاموش تماشائی بنے بیٹھے تھے.لیکن اب پاکستان کے کونے کونے میں احمدیت کا چرچا ہے.ایسے علاقوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام پہنچ گیا ہے جہاں کسی احمدی نے کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھا تھا.وہاں نہ صرف احمدیت سے لوگ متعارف ہورہے ہیں بلکہ انسانی ضمیر کو کچوکے دیئے گئے ہیں کیونکہ کلیہ لاعلم آدمیوں کو بھی ایک ایسے فیصلہ پر مجبور کیا گیا ہے جس کے وہ مجاز نہیں تھے.پس
خطبات طاہر جلدم 52 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء اس کے نتیجہ میں احمدیت کو سمجھنے اور پہچاننے کے بارہ میں جو دلچسپی پیدا ہوسکتی تھی وہ خدا کے فضل سے پیدا ہو رہی ہے اور اس کے اثرات ابھی سے ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں.احمدیت کے خلاف ان دنوں تیسری کوشش اشاعت لٹریچر کے ذریعہ کی گئی ہے جو بڑے وسیع پیمانے پر شائع کر کے تقسیم کروایا گیا ہے.تمام دنیا میں مختلف زبانوں میں بعض پمفلٹ تقسیم کروائے گئے پاکستان کے سفارت خانوں کے ذریعہ بھی اور براہ راست بھی جن میں سراسر کذب اور افتراء سے کام لیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کردار کشی کی کوششیں کی گئی ہیں جو عالمگیر جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی تکلیف کا موجب ہیں.خصوصاً پاکستان کے احمدیوں کے لئے جہاں دن رات اخباروں میں بھی یہی چرچا ہورہا ہے اور حکومت وقت کروڑوں روپیہ خرچ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دلوا رہی ہے اور خود بھی دے رہی ہے اور اس تکذیب میں کسی بھی دنیاوی عقلی ، انسانی اور اخلاقی قانون اور ضابطے کا قطعاً کوئی پاس نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف مختلف زبانوں میں ایسے ایسے فرضی قصے بنا کر شائع کئے جا رہے ہیں اور تمام دنیا میں انکی تشہیر کی جارہی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے انسان حیران ہو جاتا ہے کہ اس مہذب دور میں بھی ایسی اخلاقی گراوٹ کے نمونے دیکھے جاسکتے تھے! ایک عام انسان میں بھی اگر وہ چیزیں پائی جائیں تو ایک انتہائی اخلاقی گراوٹ کی نشاندہی کرتی ہیں چہ جائیکہ حکومتی سطح پر اخلاق سے گری ہوئی باتیں رونما ہوں.حکومتیں تو خواہ دہر یہ ہی کیوں نہ ہوں وہ ذمہ داری کا ثبوت دیا کرتی ہیں، ان کی زبان میں کچھ وقار اور اسلوب حکمرانی میں کچھ شائستگی ہوتی ہے جس کی وہ بالعموم پیروی کرتی ہیں اور خواہ کسی فریق کو وہ کتنا ہی برا اور دشمن سمجھتی ہوں پھر بھی وہ دنیا کے رسمی تقاضوں کو ہمیشہ ملحوظ رکھتی ہیں.لیکن دنیا میں ایک پاکستان ہے جہاں نمونے کی ایک ایسی حکومت قائم ہوگئی ہے جس نے تمام اخلاقی تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا ہے اور تمام اخلاقی قیود کو توڑ کر پھینک دیا ہے اور احرار کی ایک ایسی عامیانہ زبان اختیار کر لی ہے جو کبھی موچی دروازہ لاہور یا امرتسر کے بازاروں میں سنی جاتی تھی یا پھر ان دنوں سنائی دیتی تھی جب ان کے فرضی فاتح قادیان پر حملے کیا کرتے تھے.اب وہ زبان حکومت پاکستان کی زبان بن گئی ہے اور اس حکومت کے مزاج پر ، اس کے کردار پر اور ان کے طرز حکومت پر احراریت کا پوری طرح رنگ آچکا ہے.چنانچہ یہی وہ تصویر ہے جو
خطبات طاہر جلدم 53 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء ساری دنیا میں اس حکومت کی ابھر رہی ہے.ان دنوں احمدیت پر اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات پر من گھڑت الزام لگا کر حملے کرنا حکومت کا معمول بن چکا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں ایک چھوٹا سا رسالہ ہے جس کا نام ہے قادیانیت.اسلام کے لئے سنگین خطرہ اسے وائٹ پیپر یعنی قرطاس ابیض کے سے اہتمام کے ساتھ شائع کر کے ساری دنیا میں بڑی کثرت سے تقسیم کیا گیا ہے.ایک گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ میرا خود ارادہ ہے انشاء اللہ اس کے متعلق ایک ایک اعتراض کو سامنے رکھ کر کچھ بیان کروں گا.لیکن اس عرصہ میں جماعت کے مختلف علماء اور لکھنے والوں نے اپنے طور پر بھی کوششیں کیں.بعض دوستوں کو میں نے پیغام بھجوائے تھے انہوں نے بہت اچھے اور عمدہ مضامین تیار کر کے بھجوائے ہیں.ان میں سے کچھ مضامین اشاعت کے لئے تیار بھی ہو چکے ہیں.تاہم ان مضامین کا ایک تو ہر احمدی تک پہنچنا مشکل ہے.دوسرے جماعت کا ایک حصہ غیر تعلیم یافتہ بھی ہے اور ایک حصہ ایسا بھی ہے جہاں پڑھنے کا رواج ہی نہیں ہے اور بعض لوگوں کے مزاج میں پڑھنے کی عادت بھی نہیں ہوتی اس لئے خطبات کے ذریعہ جتنا کثیر اور گہرا رابطہ جماعت سے ممکن ہے اتنا کسی اور ذریعہ سے ممکن نہیں ہے.چنانچہ خطبہ کی کیسٹ (Cassette) کے ذریعہ رابطہ اور پھر کیسٹ کا مختلف زبانوں میں ترجمہ کر کے مربیان مختلف جماعتوں سے جو رابطہ قائم کرتے ہیں اس کے میں نے بہت فوائد دیکھے ہیں.رابطہ کا یہ ذریعہ بہت ہی مؤثر ثابت ہوا ہے.گو اس سلسلہ میں جو علمی کوششیں کی گئی ہیں وہ اپنی جگہ بڑی عمدہ اور نہایت مفید ہیں ، ان سے بھی استفادہ کیا جائے گا.لیکن جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا میں خود بھی انشاء اللہ اس موضوع پر کچھ نہ کچھ کہوں گا.تاہم آج کے خطبہ میں پہلے تو میں اس مخالفت کا پس منظر بیان کرنا چاہتا ہوں اور پھر مختصراً ان اعتراضات کولوں گا جو اس مبینہ قرطاس ابیض میں دہرائے گئے ہیں اور بعد میں اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے یا تو خطبات میں سلسلہ وار جواب دوں گا یا پھر کسی جلسہ کے موقع پر جب زیادہ وقت مہیا ہو بعض مضامین کو انشاء اللہ بیان کرنے کی کوشش کروں گا.جہاں تک اس مخالفت کے پس منظر کا تعلق ہے احباب جماعت کو معلوم ہونا چاہئے کہ یہ ایک با قاعدہ گہری سازش کا نتیجہ ہے اور اس سلسلہ میں جو لمبی کوششیں ہو رہی ہیں اُن کو یہ پس منظر
خطبات طاہر جلدم 54 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء ظاہر کرتا ہے.دوستوں کو عموماً ربط کے ساتھ معلوم نہیں کہ کیا ہوتا رہا ہے اور اب کیا ہو رہا ہے اور موجودہ واقعات کی کون سی کڑیاں ہیں جو 1974 ء کے واقعات سے ملتی ہیں.چنانچہ موجودہ مخالفت کا کچھ پس منظر تو اس رنگ میں سامنے آتا ہے کہ اس وقت جماعت کے خلاف جو جد و جہد ہو رہی ہے وہ مربوط شکل میں کس طرح آگے بڑھی ہے اور اب کس شکل میں ظاہر ہوئی ہے.پھر اس پس منظر کا ایک پہلو اور بھی ہے جس کا غیر ملکی طاقتوں سے تعلق ہے یا غیر مذاہب سے تعلق ہے.بڑی بڑی استعماری طاقتیں ہیں جو ان کوششوں کی پشت پناہی کر رہی ہیں اور ان کے بہت برے ارادے ہیں جو با قاعدہ ایک منصوبے کے طور پر آج سے سالہا سال پہلے بلیو پرنٹ (Blue Print) کی شکل اختیار کر چکے تھے، باقاعدہ تحریر میں باتیں آچکی تھیں.آپس میں باقاعدہ معاملات طے ہو چکے تھے.چنانچہ اربوں روپیہ ایک منصوبے کے تحت جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال ہو رہا ہے کم از کم 20 سال سے تو میں بھی جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے.یہی نہیں بلکہ ہماری مخالف جماعتوں کو باقاعدہ تربیت دی گئی اور پاکستان کے جو ملکی حالات ہیں ان میں دخل اندازی کا بھی اس کو ذریعہ بنایا گیا.اس کی بہت سی تفاصیل ہیں اگر موقع پیدا ہوا یا ضرورت محسوس ہوئی تو انشاء اللہ بعد میں ان کا ذکر کروں گا.پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے ہمارے خلاف اٹھنے والی اس موجودہ مہم کا 1974ء کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اور 1974 ء کے واقعات کی بنیاد دراصل پاکستان کے 1973ء کے آئین میں رکھ دی گئی تھی.چنانچہ آئین میں بعض فقرات یا دفعات شامل کر دی گئی تھیں تا کہ اس کے نتیجہ میں ذہن اس طرف متوجہ رہیں اور جماعت احمدیہ کو باقی پاکستانی شہریوں سے ایک الگ اور نسبتا ادنی حیثیت دی جائے.میں نے 1973ء کے آئین کے نفاذ کے وقت اس خطرہ کو بھانپتے ہوئے حضرت خلیفتہ المسیح الثالث کی خدمت میں عرض کیا اور آپ کو اس طرف توجہ دلائی.بعد ازاں جس طرح بھی ہو سکا جماعت مختلف سطح پر اس مخالفانہ رویہ کے اثرات کو زائل کرنے کی کوشش کرتی رہی.لیکن ان کوششوں کے دوران یہ احساس بڑی شدت سے پیدا ہوا کے یہ صرف یہاں کی حکومت نہیں کروا رہی بلکہ یہ ایک لمبے منصوبے کی کڑی ہے اور اس معاملہ نے آگے بڑھنا ہے.بہر حال 1974ء میں ہمارے خدشات پوری طرح کھل کر سامنے آگئے.1974ء میں پاکستان کو جو حکومت نصیب تھی ، اس میں اور موجودہ حکومت میں ایک نمایاں
خطبات طاہر جلدم 55 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء فرق ہے.وہ حکومت حیادار تھی.اسے اپنے ملک کے باشندوں کی بھی حیا تھی اور بیرونی دنیا کی حکومتوں کی حیا بھی تھی.تاہم احمدیت کی دشمنی میں کمی نہیں تھی.یعنی جہاں تک منصوبے کا تعلق ہے اور جماعت کی بنیادوں پر سنگین حملہ کرنے کا تعلق ہے دونوں میں یہ دشمنی قدر مشترک ہے اور بھٹو صاحب کے زمانہ کی حکومت اور موجودہ حکومت میں اس پہلو سے کوئی فرق نہیں لیکن جہاں تک حیا کا تعلق ہے اس میں نمایاں فرق ہے.بھٹو صاحب ایک عوامی لیڈر تھے اور عوام کی محبت کے دعویدار بھی تھے اور وہ چاہتے تھے کہ اپنے ملک کے عوام میں ہر دلعزیز لیڈر بنے رہیں اور عوام کو یہ محسوس نہ ہو کہ وہ دھاندلیاں کر کے اور آمرانہ طریق اپنا کر حکومت کرنے کے خواہاں ہیں سوائے اس کے کہ اشد مجبوری ہو.چنانچہ انہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف اقدامات کرنے سے پہلے ایک عوامی عدالت کا رنگ دیا اور قومی اسمبلی میں معاملہ رکھا گیا اور اس میں جماعت کو بھی اپنے دفاع کا ایک موقع دیا گیا تا کہ بیرونی دنیا کو اعتراض کا موقع نہ ملے.دراصل اس طرح وہ بیرونی دنیا میں اپنا اثر بڑھانا چاہتے تھے.بیرونی دنیا میں بھی ان کی تمنا ئیں بہت وسیع تھیں.وہ صرف پاکستان کی رہنمائی پر راضی نہیں تھے بلکہ اپنا اثر و رسوخ اردگرد کے علاقے میں پھیلانا چاہتے تھے جیسے پنڈت نہر وا بھرے تھے اس طرح وہ مشرق کے لیڈر کے طور پر ابھرنے کی تمنار کھتے تھے.وہ چاہتے تھے کہ صرف پاکستانی رہنما کے طور پر ہی نہیں بلکہ مشرق کے ایک عظیم رہنما کے طور پر ابھریں اور دنیا سے اپنی سیاست کا لوہا منوائیں.پس اس وجہ سے بھی چونکہ ان کی آنکھوں میں بیرونی دنیا کی شرم تھی.وہ چاہتے تھے کہ اندرون اور بیرون ملک جماعت کا معاملہ اس رنگ میں پیش کیا جائے کہ گویا وہ بالکل مجبور ہو گئے تھے، ان کے اختیار میں نہیں رہا تھا ، بایں ہمہ انہوں نے عوامی دباؤ کو براہ راست قبول نہیں کیا بلکہ جماعت احمدیہ کے سر براہ اور ان کے ساتھ چند آدمیوں کو بلا کر ایک موقع دیا کہ وہ اپنے مسلک کو پیش کریں.چنانچہ ایک لمبا عرصہ قومی اسمبلی نے اس سلسلہ میں وقت خرچ کیا اور بھٹو صاحب کو قومی اسمبلی کا عذر ہاتھ آ گیا اور انہوں نے یہ کہہ دیا کہ اب میں کیا کر سکتا ہوں.لیکن اس حیا کا موجودہ حکومت میں فقدان ہے اس لئے کہ یہ نہ عوامی حکومت ہے نہ اسے بیرونی دنیا میں کسی رائے عامہ کی پرواہ ہے.ایک آمر بہر حال ایک آمر ہی ہوتا ہے اس لئے بظاہر وہ جتنی مرضی کوششیں کرے لیکن آمریت کا یہ لازمی تقاضا ہے کہ جو کچھ بھی ہو ، جو کچھ بھی دنیا کہے اس کی پرواہ نہیں کرنی.آمریت کے مزاج میں یہ بات داخل ہے کہ
خطبات طاہر جلد۴ 56 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء کوشش کر دیکھو مفت میں دنیا کی ہر دلعزیزی ہاتھ آجائے تو ٹھیک ہے لیکن نہ بھی آئے تو آمریت تو پیچھے نہیں ہٹا کرتی.اس لئے آمریت میں جو بے پرواہی پائی جاتی ہے وہ ہمارے خلاف موجودہ مہم میں بھی بالکل ظاہر وباہر ہے.1974ء میں حکومت نے اپنے فیصلے کے دوران جماعت کو موقع تو دیا اور چودہ دن قومی اسمبلی میں سوال و جواب ہوتے رہے.جماعت نے اپنا موقف تحریری طور پر بھی پیش کیا لیکن ساتھ ہی چونکہ وہ بڑی ہوشیار اور چالاک حکومت تھی اُس نے قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران ہی یہ محسوس کر لیا تھا کہ اگر یہ باتیں عام ہوگئیں اور سوال و جواب پر مشتمل اسمبلی کی کاروائی اور اس کی جملہ روئیداد دنیا کے سامنے پیش کر دی گئی تو حکومت کا مقصد حل نہیں ہو سکے گا بلکہ برعکس نتیجہ نکل سکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ بجائے اسے سراہنے کے کہ جماعت کو ہر قسم کا حق دینے کے بعد ایک جائز فیصلہ ہوا ہے دنیا بالکل برعکس نتیجہ نکالے اور کہے کہ جماعت تو اس کارروائی کے نتیجہ میں بہت ہی زیادہ مظلوم ثابت ہوتی ہے.کیونکہ جماعت نے اپنے موقف کی تائید میں اتنے مضبوط اور قوی دلائل پیش کئے جو عقلی بھی ہیں اور نعلی بھی اور اُن کے پیش نظر کوئی یہ نتیجہ نکال ہی نہیں سکتا کہ جماعت احمد یہ مسلمان نہیں ہے.چنانچہ اس وقت کی حکومت نے اس خطرہ کی پیش بندی اس طرح کی کہ جماعت کو قا نو نا اور حکما پابند کیا گیا کہ قومی اسمبلی میں جو بھی کارروائی ہو رہی ہے اس کا کوئی نوٹ یا کوئی ریکارڈنگ اپنے پاس نہیں رکھیں گے اور یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ حکومت اس کا رروائی کو دنیا میں ظاہر نہیں ہونے دے گی.اس کارروائی کا نتیجہ کیا تھا وہ اس واقعہ سے ظاہر ہو سکتا ہے کہ ایک دفعہ قومی اسمبلی کے ایک ممبر سے ایک موقع پر یہ سوال ہوا کہ آپ اس کا رروائی کو شائع کیوں نہیں کرواتے ، ساری قومی اسمبلی نے آپ کے بیان کے مطابق متفقہ فیصلہ دے دیا ہے کہ جماعت احمد یہ غلط ہے اور اپنے عقائد کے لحاظ سے اس کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تو پھر اسمبلی کی کارروائی شائع کر کے ان کا جھوٹ دنیا پر ظاہر کریں.انہوں نے ہنس کر جواب دیا کہ تم کہتے ہو شائع کریں شکر کرو کہ ہم شائع نہیں کرتے اگر ہم اسے شائع کر دیں تو آدھا پاکستان احمدی ہو جائے.میں سمجھتا ہوں یہ کہنا ان کی کسر نفسی تھی اگر پاکستان کے شریف عوام تک جماعت احمدیہ کا موقف حقیقہ پہنچ جائے تو کوئی وجہ ہی نہیں کہ سارا پاکستان احمدی نہ ہو جائے سوائے ان چند بد نصیب لوگوں کے جو ہمیشہ محروم رہ جاتے ہیں.ہدایت
خطبات طاہر جلدم 57 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء ان کے مقدر میں نہیں ہوتی کیونکہ مَنْ يُضْلِلِ الله فَلَا هَادِ لَهُ جن لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں دینا چاہتا دنیا کی کوئی طاقت ان کو ہدایت نہیں دے سکتی.پس ایسے استثناء تو موجود ہیں ،لیکن مجھے پاکستان کی بھاری اکثریت سے حسن ظن ہے کہ اگر ان تک جماعت احمدیہ کا موقف صحیح صورت میں پہنچ جائے خصوصاً موجودہ دور کی نسلوں تک جو نسبتاً زیادہ معقول رنگ رکھتی ہیں اور تقلید کی اتنی قائل نہیں ہیں جتنی پچھلی نسلیں قائل تھیں تو یقیناً ان کی بھاری اکثریت بفضلہ تعالیٰ احمدی ہو جائے گی.چنانچہ موجودہ حکومت نے اس کی پیش بندی یوں کی کہ جماعت احمدیہ پر یک طرفہ حملے تو کئے لیکن جواب کی اجازت ہی نہیں دی.دفاع کا موقع ہی پیدا نہیں ہونے دیا.چنانچہ جماعت کے خلاف حملوں سے پہلے ہی حکومت نے ایسا رویہ اختیار کر لیا کہ جماعت کا وہ لٹریچر ضبط کر لیا جائے جس میں ان کے آئندہ کئے جانے والے حملوں کا جواب موجود ہے.حکومت کی پالیسی میں یہ جو تضاد پایا جاتا ہے اس سے بظاہر ایک بے عقلی کی بات بھی نظر آتی ہے لیکن بے عقلی سے زیادہ اس میں شرارت اور چالا کی پائی جاتی ہے.ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا لٹریچر اس لئے ضبط کیا جا رہا ہے کہ اس سے پاکستان کے لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے اور دوسری طرف اس میں سے صرف وہی جملے نکال کر شائع کئے جارہے ہیں جن سے بقول ان کے دل آزاری ہوتی ہے.کیسی احمقانہ بات ہے تم کہہ یہ رہے ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتابیں ہم اس لئے ضبط کر رہے ہیں کہ ان سے مسلمان عوام خصوصاً پاکستانی عوام کی دل آزاری ہوتی ہے اور اس دل آزاری کا علاج یہ کیا ہے کہ وہ حصے جن سے دل آزاری نہیں ہوتی اُن کا شائع کرنا تو قا نو نا بند کر دیا اور جن سے تمہارے زعم میں دل آزاری ہوتی ہے ان کو گورنمنٹ کے خرچ پر بصرف کثیر ساری دنیا میں پھیلا رہے ہو.پس بظاہر تو یہ ایک تضاد ہے لیکن یہ تضاد ایک چالا کی کے نتیجہ میں ہے.انہوں نے ایک ظالمانہ اور ناپاک حملہ کرنا ہی تھا کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب میں اعتراضات کے جوابات موجود ہیں اور ہر شریف النفس انسان جو ان کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے اور سیاق وسباق کو دیکھتا ہے تو اعتراض خود بخود دور ہو جاتا ہے.چنا نچہ قومی اسمبلی کی کارروائی کے دوران بھی یہی ہوتا رہا.حضرت خلیفۃالمسیح الثالث" نے مجھے بھی ساتھ جانے کا موقع دیا تھا.اسمبلی کی کارروائی کے دوران میں نے اور میرے دوسرے
خطبات طاہر جلدم 58 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء ساتھیوں نے یہ بات بڑی حیرت کے ساتھ مشاہدہ کی کہ جب بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب پر کوئی حملہ کیا گیا تو حضرت خلیفہ اسیح الثالث اس حوالہ کا کچھ حصہ پہلے سے پڑھ کر اور کچھ حصہ بعد کا پڑھ کر سنا دیتے تھے اور اس کے بعد کسی جواب کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی ، سننے والوں کے چہروں پر اطمینان آجاتا تھا کہ یہ حملہ فرضی ہے، کتر بیونت کا نتیجہ ہے، سچائی سے اس کا کوئی بھی تعلق نہیں ہے اور بعض جگہ وضاحت کی ضرورت پڑتی تھی تو وضاحت بھی فرما دیتے تھے.لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اپنی ذات میں ہی اپنے اندر کا فی جواب رکھتی ہیں.اگر سیاق وسباق سے الگ کر کے صرف ایک ٹکڑے کو نکال کر غلط رنگ میں تحریف کے طور پر پیش کیا جائے تو اس سے دل آزاری ہو سکتی ہے حالانکہ تحریر کا وہ مقصد نہیں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ بات کہنا ہی نہیں چاہتے تھے جو آپ کی طرف منسوب کی جارہی ہے لیکن اسے دل آزاری بنا کریا اپنی طرف سے گھڑ کر شائع کیا جارہا ہے اور اس کا جواب عوام سے چھپالیا گیا.پس یتھی اس حکومت کی حکمت عملی.چنانچہ اس کے نتیجہ میں اس واقعہ سے پہلے ہی کتابیں ضبط ہونی شروع ہوگئی تھیں.اسی پر بس نہیں کی پریس بھی ضبط ہو گئے ، رسالے اور اخبار بھی بند ہو گئے.یہ بزدلی ہے جو ہمیشہ کمزوری کی نشانی ہوا کرتی ہے اور اس طرح انہوں نے اپنی شکست تسلیم کر لی ہے.دنیا کی کوئی طاقت جو دلائل میں قوی ہو وہ بہتھیار نہیں اٹھایا کرتی اور دوسرے کی بات کے بیان کرنے کی راہ میں قانونی روکیں نہیں ڈالا کرتی.یہ عقل کے خلاف ہے اور ان کے اپنے مفاد کے خلاف ہے.اس لئے تمام قانونی کوششیں جو اس بات میں صرف کی جارہی ہیں کہ کسی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف تو حملے ہو جائیں لیکن جماعت احمدیہ کو جواب کا موقع نہ ملے ، یہ شدید بزدلی کی علامت ہے اور شکست کا آخری اعتراف کہ اُن کے پاس دلائل کا فقدان ہے.چنانچہ ایک طرف جماعت احمدیہ کو اتنا کم تعداد بتایا جارہا ہے کہ ستر اسی ہزار نفوس سے زیادہ ان کی حیثیت ہی کوئی نہیں اور دوسری طرف یہ پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے کہ احمدیت عالم اسلام کے لئے خطرہ ہے اور خطرہ بھی ایسا کہ اس سے پہلے عالم اسلام کے لئے ایسا خطرہ کبھی پیدا نہیں ہوا تھا اور اسی پرو پیگنڈہ پر بس نہیں کی بلکہ احمدیت کا لٹریچر بھی ضبط کیا گیا.ان تمام اقدامات پر بڑے فخر سے یہ کہا جا رہا ہے کہ دیکھا اس خطرہ کا ہم نے حل کر دیا ہے.
خطبات طاہر جلدم 59 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء چنانچہ گذشتہ حکومت کے اقدامات سے موازنہ کرتے ہوئے موجودہ حکومت نے جو مبینہ رسالہ شائع کیا ہے اس میں لکھتے ہیں کہ گذشتہ قومی اسمبلی کا واقعی یہ بڑا کارنامہ ہے لیکن باوجود اس کے کہ وہ قومی اسمبلی ان کو Dissolve کرنی پڑی اور اس پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس کے سارے ممبران (إِلَّا مَا شَاء الله ) گندے اور بد کا رلوگ ہیں.مگر پھر بھی انہوں نے قومی اسمبلی کے کارنامہ کو تسلیم کیا.کیونکہ ان کی سوچ ان کے ساتھ ملتی تھی.ایک ہی رنگ کی ادائیں تھیں اس لئے وہ کارنامہ تو تسلیم کرنا پڑتا تھا اور تسلیم کیا کہ اس اسمبلی کا یہ ایک بہت بڑا اور عظیم الشان کارنامہ تھا جس کی رو سے بظاہر سوسالہ مسئلہ حل کر دیا گیا لیکن اُن سے یہ سوسالہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوسکا کیونکہ اس سلسلہ میں جو قوانین بنانے رہتے تھے وہ ہمارے مقدر میں لکھے ہوئے تھے.چنانچہ ہم نے وہ قوانین اختیار کر کے اب اس جماعت کا ہمیشہ کے لئے قلع قمع کر دیا ہے اور اب عالم اسلام کو کوئی خطرہ نہیں رہا.سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ وہ مسئلہ کس طرح حل ہوا، مسلمان خطرہ سے کس طرح بچائے گئے اس کے متعلق مبینہ سرکاری کتا بچہ کے آخر پر لکھا ہے کہ ہم نے یہ مسئلہ یوں حل کیا کہ ایک حکم نافذ کر دیا جس کی رو سے جماعت کی طرف سے اذان دینی بند ہوگئی ، مسلمان کہلا نا بند ہو گیا، اب کلمہ پڑھ اور لکھ نہیں سکتے اور مسجدوں کو مسجد میں نہیں کہہ سکتے اور مسلمانوں والی ادا میں اختیار نہیں کر سکتے اور قرآن کریم کے احکامات پر عمل نہیں کر سکتے، دیکھو اب ہم کتنے راضی ہیں.ہم نے کتنا عظیم الشان مسئلہ حل کر دیا.گویا یہ وہ نتیجہ ہے جو انہوں نے آخر میں نکالا ہے.لیکن حماقت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.یعنی چالاکی کے اندر بھی بعض دفعہ حماقتیں ہوتی ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جس آدمی کے پاس سچائی نہ ہونے کے نتیجہ میں چالاکی کے اندر ایک بیوقوفی شامل ہو جاتی ہے اور وہ اپنے آپ کو ضرور ظاہر کرتی ہے.اس لئے یہ اندرونی تضاد اور یہ بیوقوفیاں سبھی ایک جھوٹی چالا کی کا نتیجہ ہیں ورنہ بچی عقل کے نتیجہ میں یہ تضاد پیدا نہیں ہوسکتا.پس موجودہ حکومت نے یہ طریق اختیار کیا اور اپنے آپ کو بھٹو حکومت سے زیادہ چالاک سمجھا اور کہا کہ اُن کی تو بیوقوفی تھی کہ قومی اسمبلی میں سوال و جواب کا موقع دے دیا گیا تھا.چنانچہ وائٹ پیپر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ دراصل نبوت کا جو دعویٰ کرے اُس سے تو گفت و شنید کرنی نہیں چاہئے دلائل سے اس کو شکست دینے کی کوشش کرنا ہی بیوقوفی ہے.اس لئے جو علاج ہم نے تجویز کیا
خطبات طاہر جلدم 60 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء ہے اس کے سوا کوئی علاج ہی نہیں ہے.لیکن اس کے باوجود ساری دنیا میں الزام تراشیوں کا ظالمانہ سلسلہ جاری کر دیا.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ظالموں کی کوششیں اُن کو کبھی فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں.فرماتا ہے: وَقَالَتِ الْيَهُودُ عُزَيْرُ ابْنُ اللهِ وَقَالَتِ النَّصْرَى الْمَسِيحُ ابْنُ اللهِ ذلِكَ قَوْلُهُمْ بِأَفْوَاهِهِمْ ۚ يُضَاهِوْنَ قَوْلَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَتَلَهُمُ اللَّهُ أَنِّى يُؤْفَكُوْنَ اِتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَهَا وَاحِدًا لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ سُبْحَنَهُ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ.يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِئُوا نُوْرَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبة :۳۰-۳۳) ایسے لوگ جو منافقانہ رنگ رکھتے ہیں ، دعوے کچھ اور کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے اعمال کچھ اور ہوتے ہیں.حکمت کی باتیں کرتے ہیں مگر حکمت کے ساتھ ساتھ نہایت ہی احمقانہ حرکتیں بھی جاری رہتی ہیں.ان کی کوششیں کبھی اُن کو فائدہ نہیں پہنچایا کرتیں.وہ آگ تو ضرور بھڑکا دیا کرتے ہیں لیکن آگ سے جو تما شادیکھنا چاہتے ہیں خدا تعالیٰ ان کو اُس تماشے سے محروم کر دیا کرتا ہے، ان کا نور بصیرت چھین لیتا ہے.آگ تو وہ جلانے کے لئے بھڑکاتے ہیں لیکن وہی آگ ان کو نور بصیرت سے بھی محروم کر دیتی ہے اور پھر ان کو ایسے ظلمات میں چھوڑ دیتا ہے کہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے.چنانچہ موجودہ حکومت کی مخالفانہ کوشش بھی عملاً جماعت احمدیہ کے فائدہ کا موجب بنی ہے اور انشاء اللہ فائدہ کا موجب بنتی چلی جائے گی.اس وقت جماعت احمد یہ عملاً ایسے دور سے گزر رہی ہے جس کے متعلق قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : وَعَلَى اَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (البقره: ۲۱۷) که با
خطبات طاہر جلد۴ 61 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء اوقات ایسا ہوتا ہے اور تم سے بھی ایسا ہوگا کہ تم ایک چیز کو نا پسند کرتے ہو، تمہارے دل دکھتے ہیں، تمہیں تکلیف پہنچتی ہے ، مَنْ يُضْلِلِ اللهُ فَلَا هَادِيَ لَہ جبکہ وہ تمہارے لئے خیر کا موجب ہوتی ہے.تم بچوں کو کڑوی دوائیاں پلاتے ہو، ان کو ٹیکے کرواتے ہو، وہ چیختے چلاتے ہیں تم ان کے ہاتھ پکڑ لیتے ہو ، ان کی کوئی پیش نہیں جانے دیتے.بچوں سے یہ سلوک اس لئے کیا جاتا ہے کہ اس میں اُن کا فائدہ مضمر ہوتا ہے.اسی طرح اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم بھی تمہارے لئے بعض دفعہ ایسی تدبیریں کریں گے کہ جن سے تمہیں انتہائی تکلیف پہنچے گی.لیکن وہ تمہارے لئے فائدہ کا موجب ہوں گی.چنانچہ جماعت احمدیہ کے متعلق پاکستان کی حکومت نے ساری دنیا میں جولٹریچر شائع کروایا ہے.اس کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ساری دنیا میں جماعت کی طرف توجہ پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے.بعض لوگوں کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ دنیا میں جماعت احمد یہ بھی کوئی جماعت ہے.اب ان تک یہ اطلاعات پہنچیں ، ساری دنیا کے اخباروں نے ان معاملات کا نوٹس لیا.چنانچہ احمدیت اپنی شہرت کے لحاظ سے اور معروف ہونے کے اعتبار سے آج اس آرڈینینس کے جاری ہونے سے قبل کے وقت سے کم سے کم ہیں گنا زیادہ معروف ہو چکی ہے.امریکہ بلکہ انگلستان میں بھی لوگوں کی بھاری اکثریت جماعت سے بالکل ناواقف تھی.ظاہر ہے ایک دومشنز کے ذریعہ کروڑوں کی آبادی کو ہلایا تو نہیں جاسکتا، لوگ دلچسپی نہیں لیتے.لیکن موجودہ مخالفت میں جماعت جن حالات سے گذری اور مصائب سے دو چار ہوئی اس کے نتیجہ میں ایک انسانی ہمدردی پیدا ہوئی اور اس ہمدردی کی وجہ سے جماعت کے معاملہ میں دلچسپی پیدا ہوئی.لوگوں نے جماعت کے لٹریچر کو پڑھنا شروع کیا اور پوچھنے لگے کہ تم ہو کیا؟ پھر اس کے علاوہ جو کسر رہ گئی تھی وہ حکومت پاکستان کے غیر منصفانہ لٹریچر نے پوری کر دی کیونکہ ان کے لٹریچر کی طرز ہی ایسی ہے جس سے ایک معقول آدمی کو یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ ضرور دال میں کا لا ہے.کوئی ایسی بات ہے کہ ایک طرف جماعت احمدیہ کے متعلق یہ لوگ کہتے ہیں کہ بس تھوڑے سے ہیں سوسال میں زور لگانے کے باوجود ستر ہزار سے زیادہ نہیں بڑھ سکے اور ادھر ان سے کتنی بڑی کروڑوں کی حکومت خائف ہو جائے نہ صرف یہ بلکہ سارے عالم اسلام کے لئے خطرہ قرار دیا جائے ، یہ اتنی نا معقول بات ہے جسے ہر آدمی تو ہضم نہیں کر سکتا اس لئے اس مضمون کو پڑھنے کے نتیجہ میں ایک ایسا آدمی بھی جس کو جماعت کے
خطبات طاہر جلد۴ 62 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء متعلق کچھ بھی علم نہ ہو اپنے اندر ایک ہمدردی محسوس کرتا ہے.کم سے کم جماعت سے متعلق معلوم کرنے کی بجستجو اس میں ضرور پیدا ہو جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے لئے ایک اور بہت اچھا موقع ہاتھ آ گیا جسے ہم پہلے کھو چکے تھے.قصہ یہ ہے کہ گذشتہ حکومت نے اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے تھے، انہوں نے وہ ہاتھ ایک طرح سے کھول دیئے اور ہمیں جوابات کا موقع دیا.گذشتہ حکومت نے ہمیں پابند کر دیا تھا کہ تم نے یہ سوالات اور یہ جوابات دنیا کو نہیں بتانے.لیکن اس حکومت نے سوالات کی چوری وہیں سے کی ہے کیونکہ میں تو ان حالات سے گذرا ہوں مجھے پتہ ہے ، تمام سوالات من وعن وہی ہیں جو قو می اسمبلی میں اُٹھائے گئے تھے.البتہ طریق یہ اختیار کیا گیا ہے کہ اُن میں سے کچھ تو وائٹ پیپر میں شامل کر لئے گئے اور بیشتر ایک رسالہ کے سپر د کر دیئے گئے جو ہے تو ایک چیتھڑا لیکن بہر حال رسالہ کے نام سے مشہور ہے قومی ڈائجسٹ کہلاتا ہے.اس کو پتہ نہیں کتنے لاکھ روپیہ دیا گیا.یہ رسالہ سارے کا سارا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر سراسر جھوٹے الزامات کا ایک پلندہ ہے جسے شائع کیا گیا.اس میں تہذیب سے گری ہوئی باتیں آپ کی طرف منسوب کی گئی ہیں اور ایسے عامیانہ انداز سے پیش کی گئی ہیں کہ شریف آدمی ان باتوں کو پڑھ ہی نہیں سکتا اور اگر پڑھے بھی تو بے اختیار ہو کر اس بازاری انداز صحافت کے شاہکار کو نفرت سے پھینک دے.لیکن بصرف کثیر اُسے ایک نہایت شاندار اور عظیم الشان رسالے کی شکل بنا کر شائع کیا گیا اور سرکاری کتا بچہ سے جو اعتراض باقی رہ گئے تھے وہ سارے اس کے اندر شامل کر دیئے.اور یہ با قاعدہ ایک منصوبہ تھا اور اب احرار کے بعض نہایت ہی ذلیل قسم کے چیتھڑے ہیں جو اشتہارات کی شکل میں آئے روز شائع ہوتے رہتے ہیں جن کی طرف پاکستان کے شریف عوام کبھی توجہ ہی نہیں کرتے.اُن کو اتنی اہمیت دی جارہی ہے کہ وزارت اطلاعات ان کو خرید خرید کر ساری دنیا میں پاکستانی سفارت خانوں میں بھجوا رہی ہے.گویا وزارت اطلاعات یہ بجھتی ہے کہ پاکستانی سفارت خانے صرف اسی کام کے لئے وقف ہیں.وہ کسی دن دیکھیں تو سہی کہ سفارت خانوں میں جماعت احمدیہ کے خلاف لٹریچر کا بنتا کیا ہے.آج کل تو سردی کا موسم ہے کوئی بعید نہیں کہ سفارت خانوں میں اُسے جلا کر ہاتھ سینکے جار ہے ہوں اور اس طرح اس کا بہتر مصرف کیا جا رہا ہو.پس سفارت خانوں کے عملہ کو تو اپنی ہوش نہیں ہوتی، وہ دوسری
خطبات طاہر جلدم 63 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء دلچسپیوں میں محو ہوتے ہیں.یورپ اور امریکہ کے عیش وعشرت سے آنکھیں بند کر کے اور اپنے مفادات سے منہ موڑ کر جماعت احمدیہ کے متعلق یک طرفہ اور جھوٹی باتیں پڑھنے میں وہ کیوں وقت ضائع کریں.جولوگ ڈپلومیٹک ( Diplomatic) سروس میں رہ چکے ہیں ان کو پتہ ہے کہ باہر سفارت خانوں میں ہوتا کیا ہے اور اس قسم کے لٹریچر کی حیثیت کیا ہوتی ہے.صرف ٹائٹل پر ایک سرسری سی نگاہ ڈالتے ہیں اور بس.لیکن اس کے ساتھ ایک قسم کی یاددہانی ہو جاتی ہے کہ جماعت احمد یہ بھی ضرور کوئی قابل توجہ جماعت ہے پس ہمارے خلاف چھپنے والے لٹریچر کی اس سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں یا پھر وہ جلتا ہے تو کوئی چائے گرم کر لیتا ہوگا یا ہا تھ سینک لیتا ہوگا.پس حکومتِ وقت کی طرف سے نہایت ہی گندہ اور مکروہ شکل کا لٹریچر با قاعدہ خرید کر باہر کے سفارت خانوں کو بھجوایا جا رہا ہے اور یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ عظیم الشان کارنامہ سرانجام دے رہے ہیں.انشاء اللہ تعالیٰ اس قسم کے لٹریچر کا بھی جواب دیا جائے گا.ویسے بیشتر جوابات تیار ہو چکے ہیں.لیکن جہاں تک خطبات کا تعلق ہے ان میں بہت سی ضروریات پیدا ہوتی رہتی ہیں اس لئے تسلسل لازماً تو ڑنا پڑے گا.لیکن جہاں تک خدا توفیق دے کچھ حصہ خطبات کی شکل میں اور کچھ حصہ نسبتا لمبی تقریروں کی صورت میں میں بیان کروں گا.اور وہ جو موقع ہاتھ سے نکل گیا تھا کہ ساری دنیا تک اپنی بات ایک مناظرہ کی شکل میں پہنچائی جائے اور یہ بتا کر پہنچائی جائے کہ حکومتِ پاکستان کا یہ مطلب تھا، یہ وجوہات ہیں جن کی بناء پر وہ ہمیں کا فرسمجھتے ہیں یا غیر مسلم سمجھتے ہیں.چونکہ پہلے تو وہ وجوہات ہم بتا ہی نہیں سکتے تھے.قانون نے ہمارے ہاتھ باندھے ہوئے تھے اور ہم اپنے وعدہ کے پکے ہیں اس لئے ہم مجبور تھے ہم اپنے جواب شائع نہیں کر سکتے تھے.اب اُس پر موجودہ حکومت کی مہر لگ گئی ہے.انہوں نے اپنا موقف بتا دیا ہے.اب ہمارا جو موقف ہے وہ ہم ہی بتائیں گے انشاء اللہ تعالیٰ اور جس رنگ میں چاہیں گے بتائیں گے اور ساری دنیا کو بتائیں گے اور ہر زبان میں بتائیں گے.یہ تو مقابلہ کر ہی نہیں سکتے ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.دلائل کے سامنے اگر ٹھہر نا ہوتا تو اپنے ملک میں ہمیں دفاع کا موقع نہ دے دیتے ؟ دلائل کے سامنے ٹھہر نے کا حوصلہ ہوتا تو ہماری کتابیں ضبط کرنے کی کیا ضرورت تھی.یہ بُزدل گروہ ہے.ان کے تو پاؤں ہی کوئی نہیں.ان میں ادنی سی بھی جرات ہوتی تو جماعت کو موقع دیتے کہ وہ بھی جواب دے.لیکن موقع تو ہم سے چھین نہیں سکتے.ہم
خطبات طاہر جلدم 64 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء تو ان کے گندے لٹریچر کے جواب کو ہر جگہ پہنچائیں گے اور پاکستان میں بھی پہنچائیں گے انشاء اللہ تعالی.دنیا کی کوئی طاقت جماعت احمدیہ کی ترقی کو روک نہیں سکتی کیونکہ یہ خدا کی قائم کردہ جماعت ہے.رہا یہ سوال کہ جماعت احمدیہ کے خلاف یہ حالات کب تک رہیں گے تو جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا ہے اس کے متعلق تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے لیکن میں صرف اتنا کہہ کر آج کا یہ خطبہ ختم کروں گا کہ بعض لوگوں کے خطوط سے کچھ مایوسی کا سارنگ جھلک رہا ہے جو مجھے بہت تکلیف دیتا ہے.مایوسی تو نہیں کہنا چاہئے مایوسی کے سوا کوئی اور نام ہونا چاہئے کیونکہ ایسے احباب خدا کی رحمت سے مایوس تو نہیں ہیں لیکن جو نتیجہ وہ نکال رہے ہیں اس میں بہت جلدی کی جاری رہی ہے، بڑی عجلت سے کام لیا جا رہا ہے.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ تقدیر گذشتہ مخالفتوں سے اس رنگ میں بھی مختلف ہے کہ اب غالبا اس ملک سے ہمارے مرکز کو ہجرت کرنی پڑے گی اور مشکلات کا ایک لمبا عرصہ سامنے ہے.بایں ہمہ وہ یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں عظیم الشان فتوحات نصیب ہوں گی جیسا کہ ہمیشہ سے ہوتا رہا ہے.لیکن میں سمجھتا ہوں یہ نتیجہ بہت جلدی نکال لیا گیا ہے.میں تو بالکل یہ نتیجہ نکالنے پر رضا مند نہیں ہوں.ویسے یہ کہنا صحیح ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دُہرایا کرتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ لفظاً لفظ دہرائی جاتی ہے کہ گویا وہی شکلیں ، وہی صورتیں ، وہی نام سو فیصد ظاہر ہو جائیں.تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے لیکن اصولوں کے طور پر دُہراتی ہے اور وہ اصول قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے محفوظ فرما دیئے ہیں.پس وہ اصول تو ضرور دہرائے جائیں گے کیونکہ وہ سنت اللہ کہلاتے ہیں اور سنت انبیاء بن جایا کرتے ہیں.لیکن ان اصولوں کے نقوش مختلف بھی ہو سکتے ہیں.یعنی عملاً وہ جس طرح جاری ہوں اُسی طرح ان کی شکلیں بدل سکتی ہیں اور پھر یہ فیصلہ کر لیا کہ اب یہ واقعہ یوں ظاہر ہو گیا ہے، یہ تو صحیح نہیں.کیونکہ جب تک اللہ تعالی خود واضح طور پر خبر نہ دے دے یا تقدیر اس طرح کھل کر سامنے نہ آجائے کہ اُسے تسلیم کئے بغیر چارہ نہ ہو، اس میں جلدی نہیں کرنی چاہئے.خدا کی کسی تقدیر سے مفر نہیں.خدا کی کسی تقدیر سے ہم ناراض نہیں ہو سکتے لیکن اس کے باوجود میں آپ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس فیصلہ میں جلدی نہ کریں کیونکہ جب آپ یہ فیصلہ کریں گے تو آپ کی دعاؤں میں کم ہمتی آجائے گی ، آپ کی دعاؤں کی بے قراری کچھ کم ہو جائے گی.آپ سمجھیں
خطبات طاہر جلدم 65 خطبه جمعه ۲۵ جنوری ۱۹۸۵ء گے کہ لمبا معاملہ ہے کوئی فرق نہیں پڑتا ، اسی طرح ہوتا آیا ہے.ایسی صورت میں پھر جو بے تابی اور بے قراری کی دعائیں ہوتی ہیں اُن میں وہ شدت نہیں رہتی.یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے جس سے الہی جماعت کے لئے بچنا ضروری ہے.اس لئے تقدیر تو وہی چلے گی جو خدا کی تقدیر ہے، اس کو تو کوئی بدل نہیں سکتا.لیکن اپنی دعاؤں اور التجاؤں کا حوصلہ کیوں نیچا کرتے ہیں.سپاہی تو وہ ہوتا ہے جو میدان میں لڑتا رہتا ہے، سینے پر گولی کھاتا ہے اور پیچھے نہیں ہٹتا.الله پس خدا کی تقدیر سے کوئی لڑ نہیں سکتا.خدا کی تقدیر نے خود ہی اپنی تقدیر کے مقابلہ کا ہمیں ایک گر بھی سکھایا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم عاجزانہ رنگ میں دعائیں کرتے رہیں کیونکہ عاجزانہ دعاؤں کی تقدیر بھی ایک الگ تقدیر ہے جو اپنا کام کر رہی ہوتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقدیر بعض دفعہ ایسی قوی ہو جاتی ہے کہ اس کے لئے میں اپنی دوسری تقدیر بدل لیا کرتا ہوں اور دعاؤں کی تقدیر کو غالب کر دیا کرتا ہوں.وہ عظیم الشان معجزہ جو عرب میں رونما ہوا اس کا تجزیہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا قوم نے آنحضرت ﷺ سے جو سلوک کیا اُس کا نتیجہ تو صرف یہ نکلنا چاہئے تھا کہ ساری قوم ہلاک ہو جاتی اور تہ و بالا کر دی جاتی.نوح کی قوم سے زیادہ وہ اس بات کی سزا وار تھی کہ اُن مخالفین میں سے ایک فرد بشر باقی نہ چھوڑا جاتا.وہ جو طائف کے سفر میں انتہائی دکھ دہ واقعہ گذرا تھا اور اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ آنحضرت ﷺ کو پیغام بھیجا تھا اس میں یہی تو حکمت ہے جو ظاہر کی گئی ہے کہ ہر گندے سلوک پر خدا کی تقدیر یہ چاہتی ہے کہ معاندین کو ہلاک کر دے.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد اع یہ تیرے دل کی آرزو بھی ایک تقدیر بنارہی ہے.خدا کے نزدیک تیری عاجزانہ دعائیں اور پر زور التجا ئیں بھی ایک تقدیر بنارہی ہیں اور وہ بھی خدا ہی کی تقدیر کا حصہ ہیں.پس اے رسول اے تیرے جذبات، تیری دعائیں ہر دوسری تقدیر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اس لئے تیرے منشاء کے بغیر ، تجھ سے پوچھے بغیر کہ اس قوم کے ساتھ میں کیا سلوک کروں، میں اپنی دوسری تقدیر ظاہر نہیں کروں گا.لیکن دوسری تقدیر کیا تھی؟ وہ یہی تو تھی کہ اگر تیرا دل چاہتا ہے.اگر تو اتنا بے قرار اور دکھی ہو چکا ہے کہ ان کو مٹانے پر آمادہ ہو گیا ہے تو میں اپنے فرشتوں کو حکم دوں گا کہ وہ دو پہاڑوں کو اس طرح اکٹھا کر دیں کہ طائف کی بستی کا نشان ہمیشہ کے لئے دنیا سے
خطبات طاہر جلدم 66 خطبه جمعه ۲۵/جنوری ۱۹۸۵ء الله مٹ جائے.یہ تو ایک چھوٹا سا واقعہ تھا جومخفی تقدیر الہی کے اظہار کے طور پر ہمارے سامنے آیا مگر آنحضرت معہ صرف اُسی وقت تو خدا کے پیارے نہیں تھے، صرف وہی ایک دور تو نہیں تھا جس میں آپ نے اللہ کی راہ میں دُکھ اُٹھایا.ہر آن آپ کے دل پر ایک قیامت ٹوٹا کرتی تھی.اور ہر روز آنحضور خدا کی خاطر اپنی جان قربان کرتے چلے جاتے تھے.چنانچہ اس آیہ کریمہ: قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام:۱۶۳) کی رُو سے آپ خدا کی خاطر ہر روز مرتے تھے اور خدا ہی کی طرف سے ہر روز زندہ کئے جاتے تھے.اس لئے یہی وہ تقدیر تھی جو مسلسل جاری رہی اور اس کے مقابل پر آپ کی دعائیں بھی مسلسل جاری رہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ محمد مصطفی اللہ کی دعاؤں کی تقدیر غالب آگئی اور آسمان پر سنی گئی اور وہ قوم جس کی ہلاکت مقدر ہو چکی تھی اس کو ہمیشہ کی زندگی عطا کی گئی.اس آقا کی غلامی کے آپ دعویدار ہیں اسی کے نقش قدم پر چلیں اور قوم کی ہلاکت چاہنے میں جلدی نہ کریں بلکہ اس کے احیاء کے لئے خدا تعالیٰ سے دعائیں کریں.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور قوم جلد تر سمجھ جائے.جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے میں تو یہی سمجھتا ہوں کہ ۱۹۸۴ء کا سال احرار کا سال تھا اور انشاء اللہ تعالیٰ ۱۹۸۵ ء کا سال جماعت احمدیہ کا سال ثابت ہوگا.
خطبات طاہر جلدم 67 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء قرطاس ابیض کے الزامات کا جواب خود کاشتہ پودا کی حقیقت خطبه جمعه فرموده یکم فروری ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں : وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ افْتَرَبهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَاء وَظُلْمًا وَ زُورًا وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِيْنَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا قُلْ أَنْزَلَهُ الَّذِي يَعْلَمُ السِّرَّ فِي السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ إِنَّهُ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا (الفرقان: ۵-۷) پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ انشاء اللہ تعالیٰ اپنے ایک پرانے وعدہ کے مطابق حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کردہ مزعومہ White Paper کے متعلق ذکر کروں گا اور اس کا ایک ایک اعتراض لے کر جواب دوں گا.گزشتہ خطبہ جمعہ سے پہلے جو میں نے تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ جو لوگ آنحضرت ﷺ پر اعتراض کرتے ہیں وہ کوئی ایک بھی نئی بات نکال کر نہیں لا سکتے بلکہ سب کچھ اپنے سے پہلوں کی نقل کرتے ہیں.آنحضور ﷺ سے پہلے کے انبیاء پر جو اعتراض ہوئے وہی صلى الله
خطبات طاہر جلدم 68 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء اس زمانہ کے لوگ آپ پر کرتے ہیں.اور یہ ایک قاعدہ کلیہ ہے کہ ہر زمانہ کے نبی پر جو اعتراض ہوتے ہیں وہ دراصل پرانے اعتراضات ہی ہوتے ہیں جن کو ہر بار دہرایا جاتا ہے.سب سے پہلے نبی پر اعتراضات کی تفصیل تو معلوم نہیں مگر بہر حال وہ اعتراض تو پہلی دفعہ ہی ہوئے ہوں گے لیکن بعد ازاں یہ دستور ہمیشہ سے چلا آرہا ہے اور اسی کی طرف قرآن کریم اشارہ فرماتا ہے.جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں ایک ایسے ہی اعتراض کا معین ذکر فرمایا گیا ہے.آنحضرت ﷺ کا انکار کرنے والے کیا اعتراض کرتے ہیں فرمایا: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ افْتَرَيَهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَاءُ وَظُلْمًا وَ زُورَان کہ یہ لوگ کہتے ہیں کہ محمد یا اللہ نے محض ایک جھوٹ بنالیا ہے اور اس معاملہ میں اس کے پیچھے کوئی دوسری قوم ہے جو اس کی مدد کر رہی ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کی مدد کا جس قوم کے بارے میں الزام لگایا گیا اس سے متعلق ایک اور جگہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اسے عجمی کہتے تھے.چنانچہ جواب میں فرمایا کہ اگر کوئی عجمی اس کی مدد کرتا ہے اور اس کو لکھ کر دیتا ہے اور ایک عجمی کی مدد سے آپ دعویٰ نبوت کر بیٹھے ہیں تو آپ کے کلام میں کوئی عجمیت تو نظر نہیں آتی پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ مدد گار تو عجمی ہو لیکن اس کا طرز کلام عجمی سے بالکل مختلف ہو.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو اعتراضات ہوئے وہ بھی بعینہ وہ قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں پرانے اعتراضات ہی ہیں جو د ہرائے جارہے ہیں اور ایک بھی نئی بات ایسی نہیں جو گزشتہ انبیاء کے متعلق نہ کہی گئی ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہی گئی ہو اور بسا اوقات جو اعتراضات حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر کئے جاتے تھے وہی آپ کے عاشق صادق ، محبت کرنے والے پاکیزہ غلام پر بھی دہرائے جا رہے ہیں.چنانچہ حکومت پاکستان نے جو مزعومہ وائٹ پیپر شائع کیا ہے اس میں بھی بہت زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور انگریز کا بنایا ہوا نبی ہے چنانچہ ان کے الفاظ یہ ہیں کہ : جدید محققین نے ثابت کر دیا ہے کہ احمدیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو برطانوی سلطنت کے مفادات کے تحفظ کی خاطر لگایا گیا.
خطبات طاہر جلدم وہ جدید 69 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء حققین کون سے ہیں ان کا کوئی ذکر نہیں ، ان کی تحقیق کیا بتاتی ہے اس کا بھی کوئی ذکر نہیں بلکہ محض ایک فرضی الزام گھڑ کر پیش کر دیا گیا ہے لیکن طرز زبان ایسی اختیار کی گئی ہے جسے مغربی دنیا یا آج کل کے تعلیم یافتہ دوسرے لوگ عموماً قبول کر لیں کہ واقعی یہ ایک بڑی محققانہ زبان ہے کہ آج کے جدید تحقین نے ثابت کر دیا ہے“.ایک تحقیق جو اس ضمن میں ان کی طرف سے شائع کی گئی تھی اس میں ایک ایسی کتاب کا نام لیا گیا جو ان کے بیان کے مطابق انگلستان کے کسی پریس سے شائع ہوئی: The Arrival of) British Empire In India:Cited by Ajami Israil,p.19) اس میں یہ اقرار کیا گیا تھا کہ انگریزوں نے اپنی پارلیمنٹ میں یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہندوستان کو قابو کرنے کے لئے وہاں ایک جھوٹا نبی کھڑا کیا جائے اور اس کا نام ظلمی نبی رکھا جائے.گویا مظلمی نبی انگریزی محاورہ ہے اور انہوں نے کہا کہ اصل علاج تو یہ ہے کہ ہندوستان میں ایک ظلی نبی پیدا کر دیا جائے اور پھر اس کے ذریعہ سارے مسلمانوں کو قابو کر لیا جائے چنانچہ جب میں نے ( یہ بہت پرانی بات ہے میں اس زمانہ میں وقف جدید میں تھا ) یہاں لنڈن کے امام صاحب کو لکھا کہ اگر چہ یہ واضح جھوٹی بات ہے لیکن پھر بھی آپ وہ کتاب دیکھیں کہ اس میں کوئی ایسی بات ہے بھی کہ نہیں یا ممکن ہے کہ کسی اور قسم کا ذکر ہوا ہو جسے تو ڑمروڑ لیا گیا ہو تو امام صاحب نے جواب دیا کہ اس نام کی تو کوئی کتاب ہی نہیں ہے.میں نے کہا پھر تحقیق کریں اور پریس والوں سے پوچھیں تو جواب یہ ملا کہ ہم نے بہت تحقیق کی ہے کتاب تو در کنار اس نام کا پریس ہی کوئی نہیں.پھر اس ضمن میں برٹش میوزیم اور بعض دوسرے اہم اداروں سے پتہ کیا گیا تو سب نے کورا جواب دیا کہ ایسی کوئی کتاب ہی نہیں ہے نہ اس نام کا کوئی پر لیں ، نہ اس نام کی کوئی کتاب ، نہ یہ ذکر کہیں، ہم آپ کو کیا حوالہ دیں.تو یہ ہیں حکومت پاکستان کے وہ ” جدید محققین جن کی یہ تحقیق ہے.اس کے لئے تو تحقیق“ کا لفظ استعمال ید یہ کرتے ہوئے شرم آتی ہے.بہر حال حکومت پاکستان کی طرف سے اس کو جدید تحقیق کا نام دے کر بڑے فخر سے دنیا کے سامنے پیش کیا گیا ہے اور اس میں متفرق جگہ جو طعن و تشنیع سے کام لیا گیا ہے اس کا خلاصہ یہ بنتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انگریز کی حد سے زیادہ تعریف اور چاپلوسی کی ہے پس ایک تو یہ دلیل ہوئی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کی اور ایک دلیل یہ کہ ایک موقع پر
خطبات طاہر جلدم 70 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء بانی جماعت احمدیہ نے خود تسلیم بھی کر لیا ہے جو کہ چھپی ہوئی تحریر موجود ہے کہ میں (یعنی جماعت احمدیہ کا بانی) اور جماعت احمد یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہیں چنانچہ ان دونوں امور سے متعلق میں چند حقائق جماعت کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واقعی انگریز کی تعریف فرمائی اور متعدد بار فرمائی ہے لیکن ہر جگہ یہ ذکر کیا گیا ہے کہ میں اس لئے تعریف کرتا ہوں کہ ہندوستان کے مسلمانوں خصوصاً پنجاب کے مسلمانوں کی حالت زار اس درجہ تک خراب ہو چکی تھی کہ ان کا کوئی بھی حق باقی نہیں رہا تھا اور سکھوں کی حکومت نے ایسے ایسے مظالم توڑے تھے کہ اس کی کوئی نظیر دوسری جگہ نظر نہیں آتی ، اس جلتے اور دہکتے ہوئے تنور سے انگریزی حکومت نے آکر ہمیں نکالا اور ہمارے جملہ حقوق بحال کئے، یہ وجہ ہے کہ میں اس حکومت کی تعریف کرنے پر مجبور ہوں کیونکہ نہ صرف یہ سنت انبیاء ہے بلکہ عام انسانی شرافت کا بھی یہی تقاضا ہے کہ احسان کو احسان کے ساتھ یاد کیا جائے.سکھوں کے دور میں مسلمان بہت ہی خطرناک حالت میں تھے یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بیان ہے لیکن ہندو جو مسلمانوں کے مقابل پرسکھوں کے ساتھ بہت زیادہ گہرے مراسم رکھتے ہیں ان کے محققین نے بھی بعینہ اس بات کو تسلیم کیا ہے.چنا نچہ آج کے اس خطبہ میں میں نے دو حوالے چنے ہیں جن میں سے ایک حوالہ غیر مسلم کا اور ایک غیر احمدی مسلمان کا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ جس زمانہ میں انگریزوں نے آکر مسلمانوں کو اس مصیبت سے نجات دی اس وقت مسلمانوں کی کیا حالت تھی.تلسی رام صاحب اپنی کتاب ”شیر پنجاب مطبوعہ ۱۸۷۲ء میں لکھتے ہیں.ابتدا میں سکھوں کا طریق غارت گری اور لوٹ مار کا تھا جو ہاتھ آتا تھا لوٹ کر اپنی اپنی جماعت میں تقسیم کر لیا کرتے تھے مسلمانوں سے سکھوں کو بڑی دشمنی تھی.اذان یعنی بانگ بآواز بلند نہیں ہونے دیتے تھے.مسجدوں کو اپنے تحت میں لے کر ان میں گرنتھ پڑھنا شروع کرتے اور اس کا نام موت کڑا رکھتے تھے.اور شراب خور ہوتے.دیکھنے والے کہتے ہیں کہ جہاں وہ پہنچتے تھے جو کوئی برتن مٹی استعمالی کسی مذہب والے کا پڑا ہوا ان کو ہاتھ آجا تا پانچ چھتر مار کر
خطبات طاہر جلدم 71 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء اس پر کھانا پکا لیتے تھے یعنی پانچ جوتے اس پر مارنا اس کو پاک ہونا سمجھتے تھے.“ یہ وہ سکھ راج والے تھے جن کے چنگل سے انگریز نے آکر مسلمانوں کو نجات دی ہے اور مختلف تاریخوں میں ان سے متعلق بڑے تفصیلی اور دردناک حالات ملتے ہیں.”سوانح احمدی ( مؤلفہ محمد جعفر تھانیسری ) میں حضرت سید احمد صاحب بریلوی ( جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے مجدد ہیں ) کا ایک بیان شائع شدہ ہے آپ فرماتے ہیں: ”ہم اپنے اثناء راہ ملک پنجاب میں ایک کنویں پر پانی پینے کو گئے تھے.ہم نے دیکھا کہ چند سکھنیاں (سکھوں کی عورتیں ) اس کنویں پر پانی بھر رہی ہیں.ہم لوگ دیسی زبان نہیں جانتے تھے ہم نے اپنے مونہوں پر ہاتھ رکھ کر ان کو بتلایا کہ ہم پیاسے ہیں ہم کو پانی پلاؤ.تب اُن عورتوں نے ادھر ادھر دیکھ کر پشتو زبان میں ہم سے کہا کہ ہم مسلمان افغان زادیاں فلانے ملک اور بستی کی رہنے والی ہیں یہ سکھ لوگ ہم کو زبردستی لائے“.(سوانح احمدی صفحه ۲۴) پس یہ تو حضرت سید احمد صاحب بریلوی کی سوانح حیات میں ذکر ہے.علاوہ ازیں انسا ئیکلو پیڈیا میں سکھوں کے مظالم سے متعلق جو تفصیلات دی گئی ہیں وہ بھی بہت ہی دردناک ہیں جن میں کثرت کے ساتھ مسلمان عورتوں کی بے حرمتی کا ذکر کیا گیا ہے.مسجدوں کو برباد کرنا ، ان میں گدھے باندھنا، مسلمانوں کا قتل عام اور اذان دینے پر قتل کر دینا.یہ ساری باتیں اس میں مذکور ہیں.پس یہ وہ زمانہ تھا جس میں مسلمانوں کو سکھوں کی طرف سے زندگی کے ہر حق سے محروم کیا گیا تھا.خیر ! اذان دینے سے تو آج بھی محروم کیا جارہا ہے یہ اب پرانی بات نہیں رہی.اس زمانہ میں بھی ایسے نئے لوگ پیدا ہو گئے ہیں کہ جنہیں اذان کی آواز تکلیف دیتی ہے.حال ہی میں ہندوستان کے ایک سکھ نے اخبار میں ایک خط شائع کروایا ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ ہمیں بڑا لطف آیا کیونکہ مسلمان کسی زمانہ میں سکھوں کو چھیڑا کرتے تھے کہ تم ایسی جاہل قوم ہو کہ مسلمانوں کی اذان سے تم بھرشٹ ہو جایا کرتے تھے اور تم نے زبر دستی مسلمانوں کی اذانیں بند کر وا دی تھیں.تو وہ کہتے ہیں کہ آج ہمارا دل ٹھنڈا ہوا ہے کہ مسلمانوں نے بھی مسلمانوں کی اذانیں بند کروائی ہیں.آج ہم پر وہ
خطبات طاہر جلدم 72 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء الزام ختم ہو گیا اور آج ہماری کلیہ بر بیت ہوگئی ہے.زندگی میں یہ دور تو آتے جاتے ہیں.جب بھی جہالت بڑھتی ہے تو اس قسم کی حرکتیں ہوتی رہتی ہیں، اس لئے بحث یہ نہیں کہ سکھ بہت برا کرتے تھے بحث یہ ہے کہ اس مصیبت سے جس قوم نے مسلمانوں کو نجات دلائی ہو اس کا اگر شکر یہ ادا نہ کیا جائے تو یہ کون سی انسانیت ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک الزام ہے کہ آپ اپنے آپ کو خود کاشتہ پودا کہتے ہیں اور پھر یہ بھی الزام ہے کہ آپ کو انگریز نے جہاد موقوف کرنے کے لئے کھڑا کیا.ان سب باتوں کا میں الگ الگ جواب دوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ سے ایک بات تو بڑی واضح طور پر ملتی ہے کہ آپ کسی خوشامد کی غرض سے یہ تعریفیں نہیں کرتے تھے بلکہ اسلامی فرض کے طور پر اعتراف حقیقت تھا اس سے بڑھ کر اس کی کوئی اور شکل وصورت نہیں نکلتی.آپ فرماتے ہیں: " پس سنواے نادانو ! میں اس گورنمنٹ کی کوئی خوشامد نہیں کرتا بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ایسی گورنمنٹ سے جو دین اسلام اور دینی رسوم پر کچھ دست اندازی نہیں کرتی اور نہ اپنے دین کو ترقی دینے کے لئے ہم پر تلوار میں چلاتی ہے.قرآن شریف کی رو سے جنگ مذہبی کرنا حرام ہے کیونکہ وہ بھی کوئی مذہبی جہاد نہیں کرتی.“ کشتی نوح حاشیه روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه: ۷۵) پھر فرماتے ہیں: ” میری طبیعت نے کبھی نہیں چاہا کہ ان متواتر خدمات کا اپنے حکام کے پاس ذکر بھی کروں کیونکہ میں نے کسی صلہ اور انعام کی خواہش سے نہیں بلکہ ایک حق بات کو ظاہر کرنا اپنا فرض سمجھا.“ (کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۴۰) یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا موقف تھا لیکن وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ چونکہ آپ نے انگریزوں کی تعریف کی ہے اس لئے انگریز کا ایجنٹ ہونا ثابت ہو گیا.اب ان کے کلمات سنئے.ان میں سے سب سے زیادہ اہم شخصیت جسے حکومتی رسالہ میں اچھالا گیا وہ علامہ سر محمد اقبال کی شخصیت ہے.آپ اس زمانہ میں
خطبات طاہر جلدم 73 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء انگریزوں کے متعلق کیا کہا کرتے تھے اور کیا لکھا کرتے تھے ، ان کے جذبات اور خیالات کیا تھے وہ ملاحظہ ہوں.ملکہ وکٹوریہ کی وفات پر آپ نے ایک مرثیہ لکھا اس میں فرماتے ہیں: میت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کے لئے اقبال اُڑ کے خاک سررہ گزار ہو صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا دیتے ہیں نام ماہ محرم کا ہم تجھے یعنی جس مہینے میں ملکہ وکٹوریہ فوت ہوئیں اقبال کہتے ہیں کہ اس مہینہ کا نام جو مرضی رکھ لو حقیقت میں یہ محرم کے واقعہ سے مختلف نہیں ہے، محرم میں جو دردناک واقعہ گزرا تھا یہ واقعہ اس کی ایک نئی صورت ہے.چنانچہ مزید فرماتے ہیں: کہتے ہیں آج عید ہوئی ہے ہوا کرے اس عید سے تو موت ہی آئے خدا کرے یہ ہیں مجاہد ملت علامہ سر محمد اقبال جو احمدیت کی مخالفت میں سر فہرست شمار کئے جاتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الزام لگانے میں آگے آگے ہیں کہ چونکہ آپ انگریز کی تعریف کرتے تھے اس لئے آپ انگریز کا پودا ہیں.پھر لکھتے ہیں : ع اے ہند تیرے سر سے اُٹھا سایۂ خدا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگایا جاتا ہے کہ آپ نے انگریزوں کو سایہ خدا کہا ہے جب کہ خود علامہ اقبال نے اس مرتبہ میں سایہ خدا کا لفظ استعمال کیا ہے.اے ہند تیرے سر سے اٹھا سایہ خدا اک غمگسار تیرے مکینوں کی تھی، گئی ہلتا ہے جس سے عرش یہ رونا اسی کا ہے زینت تھی جس سے تجھ کو جنازہ اسی کا ہے
خطبات طاہر جلد۴ 74 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء ( باقیات اقبال.مرتبہ سید عبدالواحد معینی ایم.اے.آکسن.شائع کردہ آئینہ ادب.انارکلی لاہور بار دوم صفحه ۹۰،۸۱،۷۶،۷۳) اہل حدیث اور دیوبندی فرقہ جو اس وقت جماعت احمدیہ کی مخالفت میں سر فہرست ہے اور آج کل حکومت کے دراصل یہی دست و بازو ہیں ان کے چوٹی کے عالم اور بزرگ شمس العلماء مولانا نذیر احمد دہلوی فرماتے ہیں: سارے ہندوستان کی عافیت اسی میں ہے کہ کوئی اجنبی حاکم اس پر مسلط رہے جو نہ ہندو ہو نہ مسلمان ہو کوئی سلاطین یورپ میں سے ہو (انگریز ہی نہیں جو بھی مرضی ہو یورپ کا ہو سہی ) مگر خدا کی بے انتہا مہربانی اس کی مقتضی ہوئی کہ انگریز بادشاہ آئے“ پھر فرماتے ہیں: مجموعه لیکچر ز مولانا نذیر احمد دہلوی صفحہ نمبر۴ - ۵ مطبوعہ ۱۸۹۰ء) کیا گورنمنٹ جابر اور سخت گیر ہے تو بہتو بہ ماں باپ سے بڑھ کر شفیق“ (ایضا صفحہ ۱۹) پھر فرماتے ہیں: میں اپنی معلومات کے مطابق اس وقت کے ہندوستان کے والیان ملک پر نظر ڈالتا تھا اور برما اور نیپال اور افغانستان بلکہ فارس اور مصر اور عرب تک خیال دوڑاتا تھا اس سرے سے اس سرے تک ایک متنفس سمجھ میں نہیں آتا تھا جس کو میں ہندوستان کا بادشاہ بناؤں (یعنی اگر میں نے خیالات میں بادشاہ بنانا ہوتا تو کس کو بناتا ) امیدواران سلطنت میں سے اور کوئی گروہ اس وقت موجود نہ تھا کہ میں اس کے استحقاق پر نظر کرتا پس میرا اس وقت فیصلہ یہ تھا کہ انگریز ہی سلطنت ہندوستان کے اہل ہیں سلطنت انہی کا حق ہے انہی پر بحال رہنی چاہئے.ایڈیٹر رسالہ چٹان شورش کا شمیری صاحب لکھتے ہیں : (ایضاً صفحه ۲۶) جن لوگوں نے حوادث کے اس زمانہ میں نسخ جہاد کی تاویلوں کے
خطبات طاہر جلدم 75 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء علاوه اَطِيْعُوا اللَّهَ وَاَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ کا مصداق انگریزوں کو ٹھہرایا ان میں مشہور انشاء پرداز ڈپٹی نذیر احمد کا نام بھی ہے".وو کتاب " عطاء اللہ شاہ بخاری صفحه ۱۳۵) اب سنئے مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی کے انگریزی سلطنت کے متعلق خیالات.وہ لکھتے ہیں : سلطان روم ایک اسلامی بادشاہ ہے لیکن امن عامہ اور حسن انتظام کے لحاظ سے ( مذہب سے قطع نظر ) برٹش گورنمنٹ بھی ہم مسلمانوں کے لئے کچھ کم فخر کا موجب نہیں ہے اور خاص گروہ اہل حدیث کے لئے تو یہ سلطنت بلحاظ امن و آزادی اس وقت کی تمام اسلامی سلطنتوں (روم ، ایران ، خراسان) سے بڑھ کر فخر کا محل ہے“ (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد ۶ نمبر ، اصفحه ۲۹۳-۲۹۲) ی تھی کل تک ان لوگوں کی زبان ! پھر فرماتے ہیں: اس امن و آزادی عام وحسن انتظام برٹش گورنمنٹ کی نظر سے اہل حدیث ہند اس سلطنت کو از بس غنیمت سمجھتے ہیں اور اس سلطنت کی رعایا ہونے کو اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں.“ (رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد ۶ نمبر، اصفحه: ۲۹۳-۲۹۲) یہ لوگ آج کہہ رہے ہیں کہ احمدیوں کو چونکہ اسلامی سلطنتیں پسند نہیں اس لئے یہ انگریزی راج میں پینے ، وہیں بڑھے اور چاہتے تھے کہ وہی حکومت ہمیشہ کے لئے رہے لیکن خودان کے آباء واجداد تو کل تک یہ فرمایا کرتے تھے کہ اسلامی سلطنتوں کی رعایا ہونے سے بہتر جانتے ہیں“ اب دیکھ لیجئے ان تحریروں میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے جیسا کہ حکومت کی تعریف سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وجہ بیان فرمائی ہے کہ سکھوں کے مظالم سے نجات بخشی، مذہبی آزادی دی اس لئے ہم تعریف کرتے ہیں مگر ان لوگوں کو تو ایسی وجوہات کے بغیر ہی انگریزی حکومت اسلامی سلطنتوں سے کل تک بہتر نظر آرہی تھی اور اہل حدیث جہاں کہیں وہ رہیں اور جائیں ( عرب میں خواہ روم میں خواہ اور کہیں ) کسی اور ریاست کی محکوم رعایا ہو نا نہیں چاہئے سوائے انگریز کے.
خطبات طاہر جلدم 76 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء جہاں تک شیعوں کا تعلق ہے وہ بھی ایسی ہی تحریر میں پیش کرتے رہے.علامہ علی حائری کا ایک اقتباس ہے جو موعظہ تحریف قرآن ، لا ہور اپریل ۱۹۲۳ء مرتبہ محمد رضی الرضوی اتھی پر درج ہے اس میں بھی اسی مضمون کی باتیں بیان کی گئی ہیں.مولانا ظفر علی خان جو ایک وقت میں احرار کے ساتھ منسلک تھے اور بعد میں ان کو ملک و وطن اور اسلام کا غدار قرار دیا وہ ایک لمبے تجربہ کے بعد لکھتے ہیں: مسلمان.....ایک لمحہ کے لئے بھی ایسی حکومت سے بدظن ہونے کا خیال نہیں کر سکتے (یعنی انگریزوں سے.ناقل )......اگر کوئی بد بخت مسلمان، گورنمنٹ سے سرکشی کرے تو ہم ڈنکے کی چوٹ سے کہتے ہیں کہ وہ مسلمان، مسلمان نہیں، اخبار زمیندار لا ہوراا نومبر ۱۹۱۱ء) یہ ہے فتویٰ کہ حکومت برطانیہ کی سرکشی کرنے والا مسلمان مسلمان ہی نہیں رہتا.پھر فرماتے ہیں: ”اپنے بادشاہ عالم پناہ کی پیشانی کے ایک قطرے کی بجائے اپنے جسم کا خون بہانے کے لئے تیار ہیں اور یہی حالت ہندوستان کے تمام مسلمانوں کی ہے“ اخبار ”زمیندار“ لاہور ۲۳ / نومبر ۱۹۱۱ء) یہ حالت تھی جسے بدلنے کے لئے انگریزوں نے یہ خود کاشتہ پودا کھڑا کیا تھا؟ پھر نظم کی صورت میں فرماتے ہیں: سے جھکا فرط عقیدت سے میرا سر ہوا جب تذکرہ کنگ ایمپرر کا جلالت کو ہے کیا کیا ناز اس پر کہ شاہنشاہ ہے وہ بحر و بر کا زہے قسمت جو ہو اک گوشہ حاصل ہمیں اس کی نگاہ فیض اثر کا (اخبار زمیندار ۱۹ اکتوبر ۱۹۱۱ء)
خطبات طاہر جلدم 77 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء پس یہ تو ہے ان لوگوں کا اپنا کردار اور ان کا ماضی جو آج احمد بیت پر بڑھ بڑھ کر الزام لگا رہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو صرف یہی ضرورت نہیں تھی کہ حسن خلق کے نتیجہ میں ایک محسن حکومت کا شکریہ ادا کریں بلکہ بعض ایسی وجوہات بھی تھیں جو خود مخالفین کی پیدا کردہ تھیں.ایک طرف تو یہ علماء مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھڑکاتے تھے کہ آپ انگریز کی تعریف کرتے ہیں اور جہاد کے منکر ہیں جبکہ یہ حکومت اس لائق ہے کہ اس سے جہاد کیا جائے اور اسے ختم کیا جائے ، تباہ و برباد کر دیا جائے.دوسری طرف انگریزوں کی تعریف میں وہ کلمات لکھ رہے تھے جو میں نے پڑھ کر سنائے ہیں اور تیسری طرف انگریزوں کو خفیہ بھی اور شائع شدہ درخواستیں بھی پیش کر رہے تھے کہ یہ نہایت ہی خطرناک آدمی ہے اس کی باتوں میں نہ آجانا ، یہ امام مہدی ہونے کا دعویدار ہے اور خونی مہدی ہے جو ساری انگریزی سلطنت کو تباہ کرنے کے لئے اٹھا ہے.اس قدر منافقت، ظلم اور جھوٹ کہ ایک طرف مسلمانوں میں یہ اعلان ہو رہا ہے کہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے اور دوسری طرف انگریز کو یہ خبریں پہنچائی جارہی ہیں کہ یہ تو تمہاری قوم کا دشمن ہے اور تمہیں تباہ و برباد کرنے کے لیے اٹھا ہے اس لئے اس کو ہلاک کر دو.چنانچہ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی رسالہ اشاعۃ السنہ جلد ۶ حاشیہ صفحہ پر رقم طراز ہیں: رہی تھی.اس کے ( یعنی مرزا غلام احمد صاحب قادیانی.ناقل ) دھوکہ باز ہونے پر یہ دلیل ہے کہ دل سے وہ گورنمنٹ غیر مذہب کی جان مارنے اور اس کا مال لوٹنے کو حلال اور مباح جانتا ہے“ دلیل بھی کیسی کمال کی ہے کہ دل سے جانتا ہے“ وو لہذا گورنمنٹ کو اس کا اعتبار کرنا مناسب نہیں اور اس سے پر حذر رہنا ضروری ہے ورنہ اس مہدی قادیانی سے اس قدر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے جو مہدی سوڈانی سے بھی نہیں پہنچا.ی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ دلی تصویر جو ان کے دلوں پر روشن ہو منشی محمد عبد اللہ صاحب انگریزوں کو مخاطب کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے
خطبات طاہر جلد۴ خلاف متنبہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 78 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء ایسے ہی دیگر آیات قرآنیہ اپنے چیلوں کو سنا سنا کر گورنمنٹ سے 66 جنگ کرنے کے لئے مستعد کرنا چاہتا ہے.شہادت قرآنی صفحه ۲۰ مطبوعہ ۱۹۰۵ ء اسلامیہ ٹیم پریس لاہور ) مخالفین کے ان تاثرات کو بڑی سنجیدگی سے لیا گیا چنانچہ اس زمانہ کا واحد انگریزی اخبار جو نہایت مؤقر سمجھا جاتا تھا اور بڑی دیر تک چلتا رہا یعنی سول اینڈ ملٹری گزٹ لا ہور اس میں ایک ادار یہ شائع ہوا جس میں انگریز قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بھڑ کایا گیا اور حکومت کو متنبہ کیا گیا کہ یہ نہایت خطرناک آدمی ہے اس کی باتوں میں نہ آئیں اس کی صلح پسندی صرف ظاہری ہے ورنہ یہ انگریزی حکومت کو تباہ و برباد کر کے رکھ دے گا.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے آپ کو خود کاشتہ پودا تسلیم کرنے کا تعلق ہے اس الزام میں بھی ایسے دجل سے کام لیا گیا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ انہیں کوئی خدا کا خوف نہیں ہے اور وہ تاثر یہ دیتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ذات اور جماعت احمدیہ کے متعلق انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونا تسلیم کر لیا ہے نعوذ باللہ من ذلک کہ میں انگریز کا لگایا ہوا پودا ہوں اور یہ سلسلہ انگریز کا ہی سلسلہ ہے حالانکہ اس تحریر کا یعنی جس میں خود کاشتہ کا ذکر ہے ، جو موقع پیدا ہوا وہ ان تحریروں سے واضح ہے جو میں نے آپ کو پڑھ کر سنا ئیں.لیفٹیننٹ گورنر سرولیم میکورتھ سینگ جو شدید متعصب عیسائی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عیسائیت کے ساتھ جو شدید جنگ جاری تھی اس کو وہ بڑی بری نظر سے دیکھ رہا تھا اسی گورنر کو مخالفین نے شکایتیں پہنچائیں اور کہا کہ مرزا غلام احمد قادیانی، انگریزی حکومت اور عیسائیت کا بڑا شدید دشمن ہے اسے ہلاک کر دو چنانچہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” مجھے متواتر اس بات کی خبر ملی ہے کہ بعض حاسد بداندیش جو بوجہ اختلاف عقیدہ یا کسی اور وجہ سے مجھ سے بغض اور عداوت رکھتے ہیں یا جو میرے دوستوں کے دشمن ہیں میری نسبت اور میرے دوستوں کی نسبت خلاف واقعہ امور گورنمنٹ کے معزز حکام تک پہنچاتے ہیں اس لئے اندیشہ ہے کہ ان کے وو
خطبات طاہر جلدم 79 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء ہر روز کی مفتریانہ کاروائیوں سے گورنمنٹ عالیہ کے دل میں بدگمانی پیدا ہوکر وہ تمام جانفشانیاں.....ضائع اور برباد نہ جائیں، (کتاب البریہ.روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ: ۳۴۹) جانفشانیوں کی جو لمبی تحریر ہے اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ ذکر فرمایا ہے کہ ہمارے خاندان نے سکھوں کے خلاف اور بعض دوسری لڑائیوں میں بھی تمہارا (انگریزوں کا ) ساتھ دیا ہے اور اپنے خرچ پر تمہیں فوجی دستے مہیا کئے.ان ساری باتوں کو بھلا کر تم یہ کیسے کہہ سکتے ہو کہ یہ تمہارے کسی دشمن خاندان کی کارروائیاں ہیں جو تمہیں تباہ کر دیں گی.ان تمام تحریرات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جماعت احمدیہ کا کوئی ذکر نہیں فرمایا بلکہ نام بھی نہیں لیا اور دوسری طرف واقعہ یہ تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق جب یہ باتیں انگریزوں تک پہنچائی گئیں تو آپ کا خاندان جو نہ صرف غیر احمدی بلکہ مخالف تھا اس کو اور شکووں کے علاوہ ایک یہ شکوہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پیدا ہوا کہ آپ ہمیں مذہبی لحاظ سے بھی دنیا میں ذلیل کروا رہے ہیں کیونکہ آپ نے ایک ایسا دعویٰ کر دیا ہے جسے ہم تسلیم نہیں کر سکتے مزید برآں اس حکومت کی نگاہ میں بھی ہمیں ذلیل و خوار کروا ر ہے ہیں اور اس کی دشمنی مول لے رہے ہیں اس پس منظر میں اس خاندان کی خاطر آپ نے ایسا لکھا اور حکومت کو مخاطب کرتے ہوئے ان چٹھیات کا ذکر کیا جو اس خاندان کے بزرگوں کو ان کی وفاداری اور جاں نثاری سے متعلق حکومت نے لکھی تھیں چنانچہ آپ فرماتے ہیں: جس کو پچاس برس کے متواتر تجربہ سے ایک وفادار جاں نثار خاندان ثابت کر چکی ہے ( جماعت احمدیہ کا کوئی ذکر نہیں صرف خاندان کا ذکر ہے ) اور جس کی نسبت گورنمنٹ عالیہ کے معزز حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے پکے خیر خواہ اور خدمت گزار ہیں اس خود کاشتہ پودا کی نسبت نہایت حزم اور احتیاط اور تحقیق اور توجہ سے کام لے.(کتاب البریہ روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحه: ۳۵۰) در حقیقت احمدیت کا وجود ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شروع ہوتا ہے اور
خطبات طاہر جلدم 80 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء آپ جن کی بریت فرما رہے ہیں وہ اس خاندان کے لوگ ہیں جو نہ صرف یہ کہ احمدیت سے پہلے کا ہے بلکہ وہ سب خدمات بھی احمدیت کے آغاز سے بہت پہلے کی ہیں اور ان کا احمدیت سے کوئی تعلق ہی نہیں تھا چنانچہ خود حکومت پاکستانی اسی مزعومہ وائٹ پیپر (White Paper) میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف ایک دلیل یہ بھی پیش کرتی ہے کہ آپ کے قریبی رشتے دار آپ کے شدید دشمن تھے.پس وہ خاندان جس کو خود کاشتہ پودا کہا گیا ہے وہ آجکل کی اصطلاح میں اہل سنت (سنی ) تھے ورنہ اصل اہل سنت تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ہم ہی ہیں.پس اس سے نتیجہ تو یہ نکلنا چاہئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کاستی خاندان جس سے آپ نے قطع تعلق کر لیا، جو احمدیت کی وجہ سے آپ کا مخالف ہو گیا وہ انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا اگر وہ تھا تو ہوتا پھرے ہمیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.جماعت احمدیہ کا اس خاندان سے کیا تعلق ہے؟ جہاں تک اس خاندان کے ساتھ انگریزوں کے سلوک کا تعلق ہے وہ بھی سن لیجئے.باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خاندان کی خدمات بتا کر اور ان سرٹیفکیٹس کے نتیجہ میں جو انگریزی حکومت کی طرف سے جاری ہوئے اسے خود کاشتہ پودا قرار دیا لیکن خود کاشتہ پودا کیسے بنا، کیا احسان تھا ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جگہ انگریز کے کسی احسان کا ذکر نہیں فرمایا.صرف اس خاندان کی خدمات کا ذکر کیا گیا ہے.وہ احسان کیا تھا ؟ سوائے اس کے کچھ نہیں تھا کہ اس سکھ حکومت سے ان کو نجات بخشی تھی جس نے اس خاندان پر متواتر حملے کر کے اسے کمزور کر دیا تھا اور بعض دفعہ شہر بدر بھی کیا چنانچہ یہ خاندان سکھوں کی وجہ سے سالہا سال تک بے وطن رہا اور پھر انگریزی حکومت کے زمانہ میں امن کی حالت میں یہ خاندان واپس آکر قادیان میں آباد ہوا.پس یہ وہ احسان ہے جس کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو خود کاشتہ پودا قرار دے رہے ہیں لیکن جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ نعوذ باللہ کوئی خدمات ایسی تھیں جن کے نتیجہ میں ان کو انعام ملنا چاہئے تھا.اس کی کوئی حقیقت نہیں.بہر حال انہوں نے جو انعام دیا ہے اس کا ذکر بھی سن لیجئے.پنجاب چیفس یعنی پنجاب کے چیفس کے متعلق انگریزی حکومت کی طرف سے شائع کردہ مشہور کتاب ہے جو تاریخی سند ہے اس کتاب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس
خطبات طاہر جلدم 81 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء خاندان سے انگریزوں کے سلوک سے متعلق درج ہے: پنجاب کے الحاق کے وقت اس خاندان کی تمام جا گیریں ضبط کر لی گئیں کچھ بھی باقی نہیں چھوڑ ا سوائے (چند گاؤں کے ) دو تین گاؤں پر مالکانہ حقوق تھے اور مرزا غلام مرتضی اور ان کے بھائیوں کے لئے سات سوروپے کی ایک پینشن مقرر کر دی گئی.“ چیفس اینڈ فیمیلیز آف نوٹ ان دی پنجاب.لاہور جلد ۲ صفحہ۸۵) اس میں درج نہیں لیکن وہ بھی بعد ازاں رفتہ رفتہ کم کر کے ختم کر دی گئی ) یہ تھا انگریز کا خود کاشتہ پودا اور اس کے ساتھ انگریزوں کے تعلقات.سوائے اس مجبوری کے کہ سکھوں کی لڑائی کے دوران انہیں لازماً سکھوں کو کمزور کرنا تھا اور جو خاندان اپنے اپنے وطنوں سے نکلے ہوئے تھے ان کو واپس آباد کرنا تھا اس کے سوا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس خاندان پر انگریز کا کوئی احسان نہیں.ہاں! یہ ضرور ہے کہ انہوں نے ستر گاؤں کی جائیداد چھین لی جس کے لئے اس خاندان کے بزرگ مقدمے لڑتے رہے اور جو کچھ رہا سہا تھا وہ بھی ضائع کر دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے والد صاحب کو مسلسل توجہ دلاتے رہے کہ آپ اس بات کو چھوڑ دیں اور خدا سے دل لگائیں اور اس حکومت سے کوئی توقع نہ رکھیں اور متنبہ کیا کہ آپ کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ بھی آپ ضائع کر دیں گے اس لئے مقدمات چھوڑ دیں لیکن آپ کے والد صاحب کو جائیداد ہاتھ سے نکل جانے کا ایسا غم تھا کہ انہوں نے آپ کی بات نہیں مانی اور نتیجہ یہ نکلا کہ بقیہ ساری جائیداد یا جو آمد پہلے سے اکٹھی کی ہوئی تھی وہ بھی انہوں نے ان مقدمات میں ہار دی لیکن انگریز نے ایک گاؤں بھی دوبارہ واگزار نہیں کیا.اس کے برعکس وہ علماء جو احمدیوں پر الزام لگاتے ہیں کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے انہوں نے جو تعریفیں (جن کا میں نے ذکر کیا ہے ) کیں وہ بلاوجہ نہیں تھیں بلکہ ان تعریفوں کے نتیجہ میں انہیں جاگیریں ملی ہیں چنانچہ مولوی محمد حسین بٹالوی کو انگریز کی خوشامد کے نتیجہ میں چار مربع زمین الاٹ ہوئی جبکہ خاندان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک انچ بھی زمین نہ ملی اور نہ ہی جماعت پر انگریزوں نے کسی رنگ میں کوئی احسان کیا.ساری دنیا میں کوئی انسان ایک کوڑی بھی ثابت نہیں
خطبات طاہر جلدم 82 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء کرسکتا کہ جماعت احمدیہ پر انگریز نے خرچ کی ہو یا خاندانِ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر خرچ کی ہو یا انہیں کوئی خطاب ہی دیا ہو جب کہ علامہ اقبال ”سر“ بن گئے اور ان کے علماء بڑے بڑے خطابات سے نوازے گئے اور جائیدادیں حاصل کرتے رہے، مرادیں پاتے رہے، انگریزوں سے تنخواہیں لیتے رہے.یہ سارے تو گویا انگریز کے دشمن اور مجاہد اول تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت جو خدا کی خاطر انتہائی قربانیاں کرتے ہوئے صرف اپنے Resources اور اپنے اموال پر انحصار کر رہی ہے اور کبھی کسی حکومت سے ایک آنہ بھی اس نے حاصل نہیں کیا یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ٹھہرے؟ حقیقت حال تو کبھی چھپی نہیں رہتی اللہ تعالیٰ نے خود مخالفین ہی کی زبانوں سے ان کے اپنے فرقوں سے متعلق یہ الفاظ استعمال کروا دیئے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان میں تو جماعت کے متعلق کوئی ذکر ہی نہیں ہے لیکن ان لوگوں نے ایک دوسرے کے فرقوں سے متعلق یہی محاورہ استعمال کرنا شروع کیا چنانچہ خدا کی طرف سے عجیب انتقام ہے کہ چٹان (لاہور ) اپنی اشاعت ۱۵ اکتوبر ۱۹۶۲ء میں بریلویوں کے متعلق لکھتا ہے : انگریزوں کے اولی الامر ہونے کا اعلان کیا اور فتویٰ دیا کہ ہندوستان دارالاسلام ہے انگریز کا یہ خود کاشتہ پودا کچھ دنوں بعد ایک مذہبی تحریک بن گیا“ اب بتائیے! کچھ شک و شبہ ہے کہ یہ ذاتی بات ہو رہی ہے یا ایک جماعت کی بات ہو رہی ہے؟ اس کا جواب سنئے جو ایڈیٹر صاحب’طوفان نے لکھا:.انگریزوں نے بڑی ہوشیاری اور چالا کی کے ساتھ تحریک نجدیت کا پودا ( یعنی اہل حدیث جسے وھابی تحریک یا تحریک نجدیت بھی کہتے ہیں ) ہندوستان میں بھی کاشت کیا اور پھر اسے اپنے ہاتھ سے ہی پروان چڑھایا.پندرہ روزہ طوفان ملتان کے نومبر ۱۹۶۲ء) پس یہ تو اور خود کاشتہ پودے نمودار ہو گئے جہاں تک الزام تراشی کا تعلق ہے یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے جس طرح ہمارے خلاف جب الزام تراشی کرتے ہیں تو ہم اس کو دلیل نہیں سمجھتے اسی طرح
خطبات طاہر جلد۴ 83 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء ان کا ایک دوسرے کو خود کاشتہ کہنا یہ بھی ہمارے نزدیک بے معنی ہے اور ہم اسے کچھ بھی ثابت شدہ نہیں سمجھتے لیکن تاریخی واقعات کی اپنی ایک زبان ہوتی ہے اگر وہ کچھ بولے تو وہ یقینا سننا پڑے گا دیو بندی فرقہ کے ندوۃ العلماء کے متعلق تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ انگریزوں نے اسے قائم کیا تھا وہی ان کو مشاہرے دیتے رہے جن پر یہ مولوی پہلے ہیں جو آج انگریز کے دشمن بلکہ مجاہد اول کہلا رہے ہیں.ندوۃ العلماء کی بنیاد بھی ایک انگریز ہی نے رکھی.چنانچہ الندوہ ان کا اپنا رسالہ ہے کسی غیر ندوی کا نہیں.اس میں درج ہے: ہر آنر لیفٹیننٹ گورنر بہادر ممالک متحدہ نے منظور فرمایا تھا کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کا سنگ بنیاد اپنے ہاتھ سے رکھیں گے.یہ تقریب ۲۸ نومبر ۱۹۰۸ء کو عمل میں آئی." ( الندوة ، دسمبر ۱۹۰۸، نمبر جلد ۵ صفحه ۲) (صفحہ ۴ پر عربی ایڈریس ہے جس میں سرجان برسکاٹ کے سی ایس آئی ای کا ندوہ کا سنگ بنیاد رکھنے کی درخواست کو قبول کرنے پر شکریہ ادا کیا گیا ہے.(ایضاً) یہ ذکر کرنے کے بعد اب اگلا حصہ قابل غور ہے.معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دل میں یہ چھن پیدا ہوئی کہ مسلمان لوگ پڑھیں گے تو کیا کہیں گے کہ جس ندوہ کی بنیاد انگریز گورنر نے رکھی ہے وہ آگے جا کر کیا بنے گا اور اس کے کیا مقاصد ہیں؟ چنانچہ وہ ایک نہایت ہی خطرناک بات کہہ گئے اور وہ اس سے بالکل نہیں شرمائے وہ بات تو تمام مسلمانوں کے دل پر خطر ناک چرکہ ہے.ایک انگریز سے سنگ بنیا در کھوانے کی تائید میں اور اس کی توجیہ پیش کرتے ہوئے کہ کیوں ایسا ہوا فر ماتے ہیں: یہ پہلا ہی موقع تھا کہ ایک مذہبی درسگاہ کا سنگ بنیاد ایک غیر مذہب کے ہاتھ سے رکھا جا رہا تھا ( مسجد نبوی کا منبر بھی ایک نصرانی نے بنایا تھا)‘ (الندوۃ لکھنو دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۲۱) چونکہ نَعُوذُ بِاللهِ مِنْ ذَلِكَ ان کے نزدیک مسجد نبوی کے منبر بھی نصرانی بناتے رہے اس لئے اگر ندوۃ کی بھی تعمیر نصرانی نے کر دی تو کیا فرق پڑتا ہے مگر ساتھ ہی پھر یہ بھی ماننا پڑا کہ: اصل عربی عبارت یوں ہے:
خطبات طاہر جلدم 84 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء و نحن على يقين من ان المسلمين كما يسلم اذعانهم لحكومتهم يزيد ون من هولاء العلماء الناشئين طاعة و انقيادا للحكومة ـ و الان نقدم الى جنابکم از کی التشكرات حيث - تفضلتم علينا بقطيعة من الارض لنرفع عليها قواعد مدرستنا بہر حال یہ مشہور مذہبی درسگاہ ایک انگریز کی مرہون منت ہے ( الندوة ، دسمبر ۱۹۰۸ء صفحہ ۷ جلد ۵ نمبر ۱۱) دیکھ لیجئے خود کاشتہ پودا کس طرح بولتا ہے کہ میں ہوں خود کاشتہ پودا.ندوۃ العلماء مسلمانوں کی چوٹی کی مذہبی درسگاہ ہے اور وہیں سے وہ سارے مولوی آرہے ہیں جو احمدیوں کی مخالفت کے لئے دساور بھیجے جاتے ہیں اس کا اصل مرکز وہی ہے.اس وقت پاکستان میں جس اسلام کی چھاپ لگائی جارہی ہے اس میں دراصل اسی نجدی فرقہ کو اوپر لایا جارہا ہے اور یہی وہ گروہ ہے جو ندوہ سے بھی تعلق رکھتا ہے اور اہل حدیث بھی کہلاتا ہے یعنی دوا لگ الگ فرقے ہیں لیکن بنیادی طور پر عملاً ایک ہیں.الندوۃ جولائی ۱۹۰۸ء جلد ۵ صفحہ میں یہ بات کھل کر کہی گئی ہے کہ اس کے مقاصد کیا ہیں.فرماتے ہیں: ندوۃ اگر چہ پالیٹکس سے بالکل الگ ہے لیکن چونکہ اس کا اصلی مقصد روشن خیال علماء کا پیدا کرنا ہے اور اس قسم کے علماء کا ایک ضروری فرض یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ کی برکات حکومت سے واقف ہوں اور ملک میں گورنمنٹ کی وفاداری کے خیالات پھیلائیں یہ ہے جسے انگریزی میں کہتے ہیں ” Cat is out of the bag‘ کہ بلی تھیلے سے باہر آ گئی.تو یہ ان کی حالت ہے.کیسے جھوٹ اور مکر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمدیہ پر حملے کرتے ہیں مگر اپنا اندرونہ چھپاتے ہیں جسے انہوں نے خود تسلیم کیا ہے اور بتایا ہے کہ مقاصد کیا ہیں؟ کس نے بنیا درکھی؟ یہ سارے ثبوت تاریخی طور پر موجود ہیں کسی احمدی کا اس میں کوئی دخل نہیں اور نہ ہی کوئی رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے.یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جسے تحریک نجدیت کہا جاتا ہے اسے مسلسل انگریز کی حمایت حاصل رہی ہے اور ان کے وہ معاہدے تاریخ
خطبات طاہر جلدم 85 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء کی کتب میں چھپے ہوئے موجود ہیں جن کی اصل تحریرات یہاں لندن کی لائبریریوں میں موجود ہیں اور ان میں آپ ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ انگریزوں نے با قاعدہ معاہدہ کر کے اہل حدیث کی تحریک یعنی وھابی تحریک اور موجودہ سعودی حکومت کے بانی کا آپس میں ایک تعلق قائم کروایا اور جہاد کی ایک موومنٹ چلوائی.انگریز کے خلاف نہیں ، وہ تو ان کا سربراہ تھا اور انہیں پانچ ہزار پاؤنڈ کی سالانہ مدد بھی دے رہا تھا.تو وہ جہاد کی موومنٹ کس کے خلاف چلائی تھی وہ ترکی کی مسلمان حکومت کے خلاف تھی.اس طرح یہ تحریک نجدیت انگریز کی حمایت میں وہاں بھی نافذ کی گئی اور پھر ہندوستان میں بھی اس کا پودا لگایا گیا اور یہی تحریک ہے جو آج سارے پاکستان پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہی ہے.یہی تحریک ہے جو کبھی بریلویوں کو بھی انگریز کا خود کاشتہ پودا کہ دیتی ہے، کبھی احمدیوں کو کہ دیتی ہے، کبھی شیعوں کے پیچھے پڑ جاتی ہے اور اس وقت مغربی طاقتوں ہی کی ایک سازش کے تابع پاکستانی فوج کے ذریعہ اسے پاکستان میں ہمیشہ کے لئے مسلط کیا جا رہا ہے اور عام سادہ لوح مسلمان سمجھ نہیں رہے کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.وہی ساری کڑیاں ہیں جو ملتی چلی جارہی ہیں جو کل انگریز کا پودا تھے وہ آج بھی انگریز کا پودا ہیں اور جن کا انگریز سے کل کوئی تعلق نہیں تھا آج بھی ان کا کوئی تعلق نہیں.پس پاکستان کے عوام کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ جماعت احمدیہ کی حیثیت کیا ہے، اس کو دیکھیں تو سہی، اگر آپ یک طرفہ جھوٹے الزامات کو تسلیم کریں گے تو پھر انہوں نے تو کسی کو بھی نہیں چھوڑا.اگر صرف تاریخی حقائق تک محد و در ہیں تو تاریخی حقائق تو واضح طور پر کھلے الفاظ میں یہ بتارہے ہیں کہ اگر آج دنیا میں کوئی انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے تو وہ دیو بندی اور اہل حدیث ہیں یعنی اہل حدیث کا وہ فرقہ جو نجدی حکومت کے قیام میں ان کے ساتھ ملوث تھا جسے وھابی بھی کہتے ہیں.یہ فرقہ انگریز سے مدد اور تقویت پا کر ایک حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوا اور یہ تاریخی حقائق ہیں.میرے نزدیک اس کے باوجود مذہبی نقطہ نگاہ سے انہیں انگریز کا پودا کہنا غیر معقول اور غیر منصفانہ حرکت ہے اس لئے ان حقائق کے باوجود میں انکو انگریز کا پودا نہیں کہتا.وجہ یہ ہے کہ یہ آزاد مذہبی تحریک تھی اس سے استفادہ کر کے ایک حکومت قائم کی گئی جو انگریز کے تابع تھی اور اس معاہدہ میں یہ بات شامل تھی کہ آئندہ سے تمہاری فارن پالیسی آزاد نہیں ہوگی بلکہ تم سو فیصد ہماری فارن پالیسی کے غلام رہو گے اور اندرونی طور پر تم ان ان باتوں میں آزاد ہو، اس کے نتیجہ میں ہم تمہیں اتنی
خطبات طاہر جلدم 86 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء رائفلیں دیں گے اور اتنے ہزار پونڈ دیں گے اور یہ یہ تمہارے حقوق ہیں اور یہ یہ ہمارے حقوق ہیں.پس یہ لوگ جلد بازی سے جو نا واجب حرکتیں کرتے ہیں ہمیں نہیں کرنی چاہئیں بلکہ جواب میں بھی انصاف سے کام لینا چاہئے اس لئے میرے نزدیک فرقہ کے لحاظ سے خواہ یہ اپنے منہ سے تسلیم بھی کریں دوسری قومیں اس طرح فرقوں کی بنیاد نہیں ڈالا کرتیں اس کی اپنی ایک آزاد تاریخ ہے.مولا نا محمد بن عبدالوھاب صاحب نے شرک کے خلاف جہاد شروع کیا اور پھر اس پر زور دیتے دیتے دوسری انتہا تک بھی پہنچ گئے لیکن تحریک وہابیت کو جب یہ دوسرے لوگ اس وجہ سے انگریز کا خود کاشتہ پودا کہتے ہیں کہ ان کو ایک تاریخی دور میں انگریزوں کی حمایت حاصل رہی ہے یہ درست نہیں ہے.مذہبی نقطہ نگاہ سے یہ آزاد ہیں مگر انگریزوں نے ان سے استفادہ ضرور کیا ہے اور آج بھی کر رہا ہے، کل بھی کر رہا تھا.کانگریس کے دوران ہندو بھی ان سے استفادہ کرتے رہے ہیں لہذا یہ لوگ ان کے آلہ ء کار ضرور بنے ہیں اور اب بھی بن رہے ہیں.وہی سازش ہے وہی لوگ ہیں جو دوسروں کے آلہ کار بن جایا کرتے ہیں لیکن یہ کہ مذہبی عقیدہ کی بنیاد انگریز نے ڈالی ، یہ غلط ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ اگر یہ باتیں درست ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے واقعہ اپنے خاندان کو انگریز کا خود کاشتہ پودا کہا تھا احمدیت کو نہیں کہا تھا تو اس کا کیا ثبوت ہے کیونکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ خود کاشتہ پودا کا حوالہ موجود ہے تم کہتے ہو خاندان کی بات ہورہی تھی.ہم یہ سمجھتے ہیں کہ خاندان، جماعت احمد یہ اور آپ خود سارے اس میں شامل تھے اس لئے کوئی قطعی ثبوت ہونا چاہئے کہ جماعت احمدیہ کس کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا اعتراف کرتے ہیں وہ تحریر میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: دنیا مجھے کونہیں پہچانتی لیکن وہ مجھے جانتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا........اے لوگو ! تم یقیناً سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جو اخیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے
خطبات طاہر جلدم 87 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعائیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جائیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرلے........پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.خدا کسی امر کو بغیر فیصلہ کے نہیں چھوڑتا......جس طرح خدا نے پہلے مامورین اور مکذبین میں آخر ایک دن فیصلہ کر دیا اسی طرح وہ اس وقت بھی فیصلہ کرے گا.خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو ! یہ تمہارا کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.(تحفہ گولر و سید روحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ ۴۹-۵۰) (چونکہ وقت زیادہ ہورہا ہے اس لئے اس مضمون کا دوسرا حصہ انشاء اللہ تعالیٰ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.بہت سے حوالے میں نے چھور دیئے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ مضامین ایسے ہیں جن کے بیان کرنے سے خطبات لازماً لمبے ہو جائیں گے اس لئے ضروری نہیں کہ ہر مضمون جس کو میں لوں وہ ایک ہی خطبہ میں ختم بھی ہو جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بعض خطبوں میں دو تین نکات جو چھوٹے ہوں اکٹھے بیان ہو جائیں.بہر حال میرا اندازہ ہے کہ ایک دو مہینہ کے اندر یہ سلسلہ مکمل ہو جائے گا.) پس جہاں تک خود کاشتہ پودے کا الزام اور انگریز کی تعریف کا تعلق ہے یہ بات تو اب کھل کر جماعت کو معلوم ہو جانی چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی اشارہ بھی جماعت احمدیہ کے متعلق انگریز کا خود کاشتہ پودا“ کے الفاظ استعمال نہیں فرمائے بلکہ جس خاندان کا ذکر کیا وہ سنی اور اہل حدیث خاندان تھا یعنی ملے جلے لوگ تھے اور اس کے متعلق بھی مذہبی طور پر نہیں بلکہ خاندانی لحاظ سے اسے خود کاشتہ پودا کہا.اس کے متعلق بھی سو فیصد قطعیت کے ساتھ ثابت ہے کہ انہیں انگریز سے ایک ذرہ بھی مالی منفعت نہیں پہنچی بلکہ انگریزی حکومت ان کی جائیدادوں کو غصب
خطبات طاہر جلدم 88 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء کرنے والی ثابت ہوئی اور الزام لگانے والوں کا اپنا یہ حال ہے کہ زبانیں پوری طرح بے باک ہو چکی ہیں ، خدا کا خوف نہیں رہا اور وہ ایک دوسرے کے فرقوں کو احمدیت کے علاوہ بھی خود کاشتہ پودا قرار دیتے چلے جاتے ہیں.یہ محاورہ ان کو ایسا پسند آیا ہے کہ چھوڑتے ہی نہیں اور بعض جگہ خود اپنے متعلق تسلیم کرتے ہیں اور لوگوں کو بتاتے ہیں کہ ہاں ہماری بنیاد انگریزوں نے رکھی تھی اور یہ ایسے تاریخی حقائق ہیں جن کو آپ بدل نہیں سکتے پھر وہ اپنی زندگی اور اپنے قیام کے مقاصد بھی بیان کرتے ہیں اور انہیں تسلیم کرتے چلے جاتے ہیں.آج یہی ٹولہ ہے جس کے متعلق تاریخی حقائق سے ثابت ہے کہ انگریز نے ہمیشہ اس کو خاص مقاصد کی خاطر استعمال کیا ہے اور انہیں مالی فوائد پہنچا کر ان سے بعض تاریخی کام لئے ہیں.یہی فرقہ آج پاکستان پر مسلط کیا جارہا ہے اور باقی فرقے جو بھاری اکثریت میں ہیں انہیں ہوش نہیں آنے دی جارہی کہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اس قدر گند اچھالا جارہا ہے کہ لوگ بیچارے ایک ہی طرف دیکھ رہے ہیں ان کو کوئی اور شکل وصورت نظر ہی نہیں آ رہی اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہر خطرہ ، ہر ظلم احمدیت کی طرف سے ہو رہا ہے اور یہی ایک خطرہ رہ گیا ہے اور تو کوئی خطرہ ہی نہیں رہا چنانچہ اس جھوٹے شور شرابے کے نتیجہ میں وہ اپنی حالتوں سے غافل ہو گئے ہیں اور انہیں کچھ پتہ نہیں کہ ہمارے ساتھ کیا سازش ہورہی ہے اور کیا ہمارے ساتھ ہونے والا ہے.چنانچہ آپ دیکھیں گے کہ کچھ عرصہ کے اندر اگر یہ صورت حال اسی طرح جاری رہی تو پاکستانی فوج کی طاقت سے ایک مذہبی فرقہ پاکستان پر ہمیشہ کے لئے مسلط کر دیا جائے گا اور اسی کا نام ”اسلام“ رکھا جائے گا اور اس کے خلاف جو کچھ بھی عقائد ہیں انہیں کسی نہ کسی رنگ میں مطعون کیا جائے گا.شیعوں کے خلاف جو کچھ وہاں ہو چکا ہے وہ آپ کے علم میں ہے اور اخباروں میں چھپا ہوا ہے اور جو کچھ اندر ہی اندر تیاریاں ہو رہی ہیں اس کو وہی لوگ زیادہ بہتر جانتے ہیں جو کر رہے ہیں لیکن میں آپ کو بتا تا ہوں کہ وہ بھی امن میں نہیں ہیں.جھوٹے خیال میں بیٹھے ہیں اگر وہ سمجھتے ہیں کہ وہ امن میں ہیں.بریلویوں کے متعلق جو کچھ ہوتارہا ہے وہ آپ کے علم میں ہے کیونکہ اخبارات میں شائع ہوتا
خطبات طاہر جلدم 89 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء رہا ہے اور صدر مملکت اپنے ایک بیان میں یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ یہاں مشرکین کی بھی کوئی گنجائش نہیں.بریلویوں اور دیوبندیوں یا نجدیوں اور بریلویوں کی اصل لڑائی اسی بات پر ہے.بریلوی کہتے ہیں ہمیں مشرک کہا جاتا ہے حالانکہ ہم مشرک نہیں ہیں اور وہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ تم مشرک ہو.چنانچہ یہ ایک معنی خیز کلمہ ہے.یہ تو نہیں کہ صدر کی زبان سے یونہی نکل گیا ہے یہ ایک سوچی سمجھی سکیم کے مطابق آئندہ کی پالیسی کا اظہار کیا گیا ہے.احمدیوں کو معین کرنے کے بعد کہ احمدیوں کی بھی یہاں کوئی جگہ نہیں ساتھ ہی یہ بھی فرمایا گیا ہے کہ مشرکین کی بھی یہاں کوئی جگہ نہیں.پس اس تاریخی پس منظر سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ نجدی حکومت کے قیام میں بھی یہی بحث جاری ہوئی تھی اور ترکی حکومت کے خلاف بھی انگریزوں نے مسلمانوں کو اسی بنا پر لڑایا تھا کہ یہ مشرک لوگ ہیں اور مشرک حکومت کی مدد کرنے والا ٹولہ ہے جو اس وقت تم پر نافذ ہو چکا ہے، اس لئے شرک کے خلاف جہاد کا جو اعلان تھا اسے انگریز نے اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کر لیا اور مسلمانوں کی ایک عظیم مملکت پر اتنی بڑی ضرب لگائی گئی کہ اس کے بعد مشرق وسطی میں انگلستان یا فرانس کا داخلہ ایک طبعی نتیجہ تھا.سلطنت ترکیہ جسے سلطنت عثمانیہ کہتے ہیں یہ اگر نہ ٹوٹتی تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کہ مشرق وسطی میں انگریز یا مغربی طاقتوں کا دخل ہو جاتا.تو اسی قسم کی ایک ہولناک سازش عالم اسلام میں آج دنیا کی بڑی طاقتوں کی طرف سے کی جارہی ہے وہی مغربی طاقتیں ہیں جو صرف آپس میں بعض مفادات کو ایک دوسرے کی طرف منتقل کر دیا کرتی ہیں کبھی مشرق وسطی کو انگریز سنبھال لیتا ہے کبھی امریکہ سنبھال لیتا ہے اور کبھی کسی اور ملک کے ذریعہ سے یہ چالیں چلی جاتی ہیں لیکن بنیادی مفادات ان سب کے مشترکہ ہیں.پس وہی اہل حدیث اور دیو بندی فرقہ کے لوگ جنہیں پہلے استعمال کیا گیا تھا انہیں آج بھی استعمال کیا جارہا ہے.لیکن ہمارا تو ایک خدا ہے جس پر ہمارا کامل انحصار ہے جس نے ہمیں کبھی نہیں چھوڑا جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس نے وفا کے ہاتھ سے میری مدد کی ہے اور وہ وفا کا ہاتھ مجھے کبھی نہیں چھوڑے گا لیکن ان لوگوں کا کیا بنے گا جو سادگی اور لاعلمی میں احمدیت کی دشمنی میں پاگل کر دیئے گئے ہیں اور ان کو ہوش نہیں رہی کہ اصل حملہ خودان پر ہورہا ہے.ان کی حفاظت کی تو پھر کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.اس لئے اس قوم کے لئے دعا کریں
خطبات طاہر جلدم 90 90 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہوش دے اور عقل دے.مسلمان ممالک پر اسلام کے نام پر ایک غیر ملکی سازش کا کامیاب ہو جانا یہ ایک بہت ہی بڑا دردناک ظلم ہوگا اور اس کے چکر سے پھر یہ مسلمان ممالک کبھی نکل نہیں سکیں گے.یہی واقعات لڑکی میں ہو رہے ہیں، انڈونیشیا میں بھی رونما ہونے لگ گئے ہیں، ملائشیا میں بھی رونما ہونے لگ گئے ہیں، سوڈان میں بھی یہی واقعہ ہوگزرا ہے.اگر آپ اردگر دنظر دوڑائیں تو سب جگہ اسلام کے نام کو استعمال کر کے بعض طاقتیں اپنے مفاد کی حکومتیں اوپر لا رہی ہیں.جہاں تک روس کا تعلق ہے وہ بھی کسی سے پیچھے نہیں ہے.مشرقی طاقتیں بھی جہاں ان کا داؤ چلتا ہے بیچارے اسلام کے نام پر کوئی ایسی سیاسی حکومت نافذ کر دیتی ہیں کہ جس سے پھر قوم چھٹکارا حاصل نہیں کر سکتی.پس دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ غلط کارلوگوں سے مسلمان حکومتوں کو نجات بخشے اور مسلمان قوم کو نجات بخشے اور اس سازش کو اپنے فضل سے نا کام کر دے پس امر واقعہ یہ ہے ( جو اطلاعیں آ رہی ہیں ) کہ پاکستان کے لوگوں کی نظریں آج احمدیت پر ہیں کیونکہ اب ان کے سارے حیلے جاتے رہے ہیں اور وہ آپکی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ رہے ہیں اور بہت سے باشعور غیر احمدی لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو صرف اب اتنی ہوش رہ گئی ہے کہ پہلے بھی جب کبھی کسی نے تمہاری مخالفت کی ہے وہ بامراد نہیں ہوا اس لئے خدا کرے کہ اب بھی ایسا ہو جائے کیونکہ ہم میں اب ان ظالموں کے چنگل سے رہائی کی کوئی طاقت نہیں ہے، تمہاری وجہ سے اگر ہم نجات پا جائیں، تمہاری وجہ سے ہم اسیران اگر رہائی پا جائیں تو یہ ایک راستہ ممکن ہے اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں.پس ہم میں تو کوئی طاقت نہیں ہے ہم تو ایک نہایت ہی کمزور جماعت ہیں، نہ سیاست سے ہمارا تعلق ، نہ کبھی ہم ان جھگڑوں میں ملوث ہوئے.حکومت وقت کے خلاف اٹھنا اور تحریک چلانا یا بغاوت کر نا یہ تو نہ ہماری سرشت میں ہے نہ ہماری تعلیم میں یہ بات داخل ہے لیکن ہمیں یہ یقین ہے اور یہ علم ہے کہ ہمارا خدا ہمیں کبھی اکیلا نہیں چھوڑا کرتا ، ہمارے دشمنوں کو ہمیشہ ذلیل ورسوا کیا کرتا ہے.جس کسی نے بھی احمدیت پر ہاتھ ڈالا ہے وہ ہاتھ ہمیشہ کاٹے گئے ہیں.پس دعائیں کریں اور اسی کی طرف جھکیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے وسیلہ سے باقی ملک کو بھی نجات بخشے اور ہمیشہ کے لئے اس سازش کو ختم کر دے جو عالم اسلام کے خلاف کی
خطبات طاہر جلدم 91 خطبه جمعه یکم فروری ۱۹۸۵ء جارہی ہے اور ان طاقتوں کو نا کام بنادے جو اسلام کے نام پر اپنی حکومتوں کا تسلط زیادہ گہرا اور زیادہ وسیع اور مستقل کرتے چلے جارہے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے نجات بخشے.آمین.
خطبات طاہر جلدم 93 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء ہندوستان میں انگریزوں کے مفادات اور ان کے اصل محافظ ( خطبه جمعه فرموده ۸ فروری ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں پاکستان کی حکومت کی طرف سے شائع کردہ مزعومہ قرطاس ابیض میں سے ایک الزام کے متعلق ذکر کیا تھا جس کے الفاظ یہ ہیں کہ جدید تحقین نے ثابت کر دیا ہے کہ احمدیت انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو برطانوی سلطنت کے مفادات کے تحفظ کی خاطر لگایا گیا تھا.اس الزام کے پہلے حصہ کا جواب میں نے گزشتہ خطبہ میں دیا تھا اور بتایا تھا کہ خود کاشتہ پودے کی حقیقت کیا ہے، کون خود کاشتہ پودا ہے اور جدید محققین کیا چیز ہیں اور یہ بھی ثابت کیا تھا کہ جہاں تک مفادات کا تعلق ہے جماعت احمدیہ کے اپنے مفادات تھے ہی نہیں جو انگریزوں سے وابستہ ہوں نہ کبھی وابستہ رہے نہ آئندہ کبھی وابستہ ہوں گے لیکن جہاں تک انگریزوں کے مفادات کا تعلق ہے.جماعت احمدیہ سے کیسے وابستہ ہیں اور جماعت اُن مفادات کی حفاظت کیسے کر رہی ہے اور اگر جماعت احمدیہ سے انگریزوں کے مفاد وابستہ نہیں تو کون لوگ ہیں جن سے انگریزوں کے مفادات وابستہ ہیں یا یوں کہئے کہ استعماری طاقتوں کے مفادات کن لوگوں سے وابستہ ہیں اس کے متعلق میں آج احباب کو مخاطب کروں گا.سب سے پہلی بات جو تحقیق طلب ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان میں انگریز کے مفادات کیا
خطبات طاہر جلدم 94 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء تھے؟ ظاہر بات ہے کہ ہندوستان میں سلطنت برطانیہ کے استحکام سے بڑھ کر انگریزی حکومت کا اور کوئی مفاد نہ تھا اور بجائے اس کے کہ خود اندازہ لگایا جائے کہ انگریزی حکومت کے مفادات کیا تھے کیوں نہ انگریزوں کی حکومت سے وابستہ ان کے سرکردہ لوگوں کی اپنی زبان میں اُن کے مفادات کا میں آپ کے سامنے ذکر کروں کیونکہ انگریزوں کے مفادات تو بہر حال انگریز ہی بہتر جانتے تھے.انگریزوں کے مفادات تو بہر حال وہی لوگ بہتر جانتے تھے جن کا انگریزی حکومت سے تعلق تھا اور وہ طاقت کے سرچشمہ پر بیٹھے ہوئے تھے.آج کے احرار یا کل کے احرار کو کیا پتہ کہ انگریز کے مفادات کیا تھے.پس جب تک خود انگریز سے نہ پوچھا جائے ان کے مفادات کے متعلق ہم کچھ نہیں جان سکتے.چنانچہ لارڈ لارنس بہت معروف آدمی ہیں ہندوستان کے وائسرائے بھی رہے ہیں انگلستان کی خدمات بجالانے میں ان کی شخصیت بہت نمایاں ہے چنانچہ لارڈ لارنس کی زندگی سے متعلق ایک کتاب Lord Laurence's Life کے نام سے بہت مشہور ہے اس کی دوسری جلد صفحہ نمبر 313 پر ان کے کچھ خیالات کا ذکر کرتے ہوئے مصنف لکھتا ہے: لارڈ لارنس نے کہا: کوئی چیز بھی ہماری سلطنت کے استحکام کا اس امر سے زیادہ موجب نہیں ہو سکتی کہ ہم عیسائیت کو ہندوستان میں پھیلا دیں پنجاب میں جہاں قادیان واقع ہے اور جہاں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اسلام کی دفاعی جنگیں لڑنے کی خاطر مامور فرمایا وہاں کے لیفیٹینٹ گورنر سر ڈونلڈ میکلوڈ اس بارہ میں اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں : میں اپنے اس یقین کا بھی اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم سرزمین ہند میں اپنی سلطنت کا تحفظ چاہتے ہیں تو ہمیں انتہائی کوشش کرنی چاہئے کہ یہ ملک عیسائی ہو جائے“ (The Mission by R.Clark p.47, London 1904) اسی طرح اُس زمانہ کے وزیر ہندسر چارلس ڈ ڈنے یہ اعلان کیا: ” میرا ایمان ہے کہ ہر وہ نیا عیسائی جو ہندوستان میں عیسائیت قبول کرتا ہے، انگلستان کے ساتھ ایک نیا رابطہ اتحاد بنتا ہے اور ایمپائر کے استحکام
خطبات طاہر جلدم 95 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء کے لئے ایک نیا ذریعہ ہے“ (The Mission p.234) یہ 1862ء کی بات ہے جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عنفوان شباب کے دن تھے.1862 ء ہی میں لارڈ پا مرسٹن وزیر اعظم انگلستان نے اس بارہ میں اپنے خیال کا اظہار ان الفاظ میں کیا : میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم سب اپنے مقصد میں متحد ہیں یہ ہمارا فرض ہی نہیں ، بلکہ خود ہمارا مفاد بھی اس امر سے وابستہ ہے کہ ہم عیسائیت کی تبلیغ کو جہاں تک ہو سکے فروغ دیں اور ہندوستان کے کونے کونے میں اس کو پھیلائیں“ (The Mission, p.234) پس یہ تھے انگریزی حکومت کے مفادات ہندوستان میں جن کے متعلق آج یہ کہا جارہا ہے کہ یہ مفادات جماعت احمدیہ کے سپرد کئے گئے کہ وہ ان انگریزی مفادات کی حفاظت کریں.حالانکہ یہ وہ دور ہے جس میں بڑی تیزی کے ساتھ ہندوستان میں شمال سے جنوب اور مشرق سے مغرب تک عیسائی مشنریوں کا ایک جال پھیلا دیا گیا تھا.یہوہ دور ہے جبکہ مسلمانوں کی دفاعی قوت بالکل ختم ہو چکی تھی اور کوئی نہیں تھا جو مسلمانوں کی طرف سے عیسائیت سے ٹکر لے اور ان پادریوں کے دجل کا پردہ چاک کر سکے.یہ وہ دور تھا جبکہ بڑے بڑے معزز خاندان حتی کہ بعض سید زادے اور بڑے بڑے علماء اور سجادہ نشین اور پیر فقیر بھی حلقہ بگوش عیسائیت ہورہے تھے اور اسلام کے خلاف نہایت گندی کتابیں لکھنے لگے تھے.یہ وہ دور تھا جبکہ پادری فنڈر نے نیز پادری عمادالدین اور بعض دوسرے عیسائی پادریوں نے جو اسلام سے مرتد ہو کر عیسائیت قبول کر چکے تھے ( مثلاً مولوی حمید اللہ خان، مولوی عبداللہ بیگ ،مولوی حسام الدین بمبئی ، مولوی قاضی صفدر علی اور مولوی عبد الرحمن وغیرہ ) اسلام کے خلاف اتنی گندی کتابیں شائع کیں اور بانی اسلام کے خلاف ایسا خوفناک زہرا گلا کہ جس نے بعض ہندو اخبارات ( مثلا شمس الاخبار لکھنو ۱۵ اکتوبر ۱۸۷۵ء جلد نمبر ۵ ) کو بھی یہ لکھنے پر مجبور کر دیا کہ ایک غدر تو 1857ء کا تھا اب اگر اس دور میں کوئی غدر ہوا تو وہ ان پادریوں کے ان گندے حملوں کا نتیجہ میں رونما ہوگا جو یہ لوگ اسلام پر کر رہے ہیں مثلاً امہات المؤمنین کے نام سے ایک انتہائی دل آزار اور گندی کتاب شائع ہوئی جس میں آنحضرت ﷺ اور آپ کی ازواج مطہرات کے
خطبات طاہر جلد۴ 96 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء خلاف گندے اتہامات لگائے گئے ہیں.اس کے مصنف ہیں ڈاکٹر احمد شاہ شائق سابق میڈیکل آفیسر لیہ.لداخ ملک تبت خورد اور یہ کتاب پر شوتم داس عیسائی نے گوجرانوالہ شعلہ پر لیس سے شائع کی.اس دور کے بارہ میں اسلام کے ان نام نہاد مجاہدین اسلام کو یہ عجیب و غریب بات سو جبھی ہے کہ عیسائیت اور انگریزی سلطنت کے مفاد کی حفاظت کا الزام ایک ایسے شخص پر عائد کرتے ہیں جس نے انگریزوں کے خدا ہی کو مار دیا اور جس نے عیسائیت کی بنیادوں پر ایسے حملے کئے کہ عیسائیت کو اپنی جان چھڑانی ممکن نہ رہی.کیا یہ ترکیب ہے احمدیت کے دشمنوں کے نزدیک انگریزی حکومت کی جس سے اس عظیم مفاد کی حفاظت اور عیسائیت کے فروغ کی توقع کی گئی تھی اور جس سے عیسائی حکومت کی جڑیں مضبوط ہونے اور استحکام حاصل ہونے کی انگریز کو امید تھی ؟ کیا ان اغراض کے لئے انگریزوں نے اپنے ہاتھ سے ایک ایسا پودا لگایا جس نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ اُن کے خدا کے مزعومہ اکلوتے بیٹے ہی کے متعلق یہ اعلان کر دیا کہ وہ طبعی وفات پاچکے ہیں اور اس طرح صلیب کو توڑ کر پارہ پارہ کر دیا اور پھر عیسائیت کے خلاف ایک ایسا عظیم جہاد شروع کیا کہ وہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں رہا.وہ تمام دنیا میں پھیلتا چلا گیا اور آج تک پھیلتا چلا جا رہا ہے.حیرت کی بات ہے کوئی نہیں جو عقل سے کام لے اور اس الزام پر غور کرے تو معلوم ہو کہ اس کا احمدیت سے دُور کا بھی واسطہ نہیں لیکن عقل سے کام لیں تو معلوم ہو، یہ الزام تو خالی دماغوں کی پیداوار ہے....آخر اتنی سی بات تو سوچ لینی چاہئے کہ ہم جو بات کہہ رہے ہیں اُس سے نتیجہ کیا نکلتا ہے....انگریز نے اپنے مفاد کی حفاظت کی خاطر حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کو کھڑا کیا اور انہوں نے کام یہ کیا کہ انگریزی مذہب پر حملے شروع کر دیئے ، انگریزی سلطنت کے مفادات جن چیزوں سے وابستہ تھے اُن کا قلع قمع شروع کر دیا.انگریز تو ایک بہت ہی گہری چال چلنے والا حکمران تھا ، وہ سیاست کو خوب سمجھتا تھا.وہ نہ صرف اپنے مفادات ہی سے پوری طرح آگاہ تھا بلکہ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ ان کو کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے.یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے اپنی ڈپلومیسی (Diplomacy) اور ہوشیاری کے ذریعہ دنیا کے اکثر ممالک پر قبضہ کر لیا تھا اور یہ وہ زمانہ تھا جب انگریزوں کے اقتدار کا.سورج نصف النہار پر تھا.چنانچہ یہ کہا جاتا تھا کہ انگریزی حکومت اتنی وسیع ہے کہ اس پر سورج غروب
خطبات طاہر جلدم 97 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء نہیں ہوتا.مشرق سے مغرب تک 24 گھنٹے میں ایک بھی لمحہ ایسا نہیں آتا تھا جب کہ اُن پر سورج غروب ہورہا ہو.سیاسی چالوں میں ایسی ہوشیار قوم کی طرف ایسا لغو خیال منسوب کرنا ایک ایسی بات ہے جس کا عقل سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے دیکھنا یہ ہے کہ اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرما رہے تھے اور دنیا کو کس زبان میں مخاطب کر رہے تھے اور اہل اسلام کو کس طرح جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگا رہے تھے.ایک طرف لندن سے یہ آواز اٹھ رہی تھی کہ انگریزوں کے مفادات اس بات سے وابستہ ہیں کہ ہندوستان میں عیسائیت کو جتنی جلد ہو سکے پھیلا دیا جائے تو دوسری طرف قادیان کی ایک چھوٹی سے بستی سے خفتگان اہل اسلام کو جگانے کے لئے یہ صور پھونکا جارہا تھا کہ : ”دیکھواے غافلود یکھو! کہ اسلامی عمارت کو مسمار کرنے کے لئے کس درجہ کی یہ کوشش کر رہے ہیں اور کس کثرت سے ایسے وسائل مہیا کئے گئے ہیں اور اُن کے پھیلانے میں اپنی جانوں کو بھی خطرہ میں ڈال کر اور اپنے مال کو پانی کی طرح بہا کر وہ کوششیں کی ہیں کہ انسانی طاقتوں کا خاتمہ کر دیا ہے.یہاں تک کہ نہایت شرمناک ذریعے اور پاکیزگی کے برخلاف منصوبے اس راہ میں ختم کئے گئے اور سچائی اور ایمانداری کے اُڑانے کے لئے طرح طرح کی سرنگیں طیار کی گئیں اور اسلام کے مٹا دینے کے لئے جھوٹ اور بناوٹ کی تمام بار یک باتیں نہایت درجہ کی جان کا ہی سے پیدا کی گئیں..........لہذا اس بات پر قطع اور یقین کرنا چاہئے کہ وہ مسیح دجال جو گر جا سے نکلنے والا ہے یہی لوگ ہیں جن کے سحر کے مقابل پر معجزہ کی ضرورت تھی.اور اگر انکار ہے تو پھر زمانہ گزشتہ کے دجالین میں سے ان کی نظیر پیش کرو.(ازالہ اوہام حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۳۶۵-۳۶۶) یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے عیسائی مذہب کو دجالیت قرار دیا اور عیسائیت پر بڑے شدید حملے کئے اور یہ اُس زمانہ کی بات ہے جب انگلستان سے یہ آواز اُٹھ رہی تھی کہ صرف ہندوستان ہی میں نہیں ہم نے مشرق سے مغرب تک
خطبات طاہر جلد۴ 98 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء صلیب گاڑ دینی ہے.اور بعض آواز میں تو یہاں تک بلند ہو رہی تھیں کہ افریقہ سے چلیں گے اور مکہ تک پہنچیں گے اور اس وقت تک چین نہیں لیں گے جب تک صلیب کا جھنڈ ا مسجد حرام پر گاڑ نہ دیں.اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے سوا کون تھا جو ان کو دجال قرار دے رہا تھا ، وہ کون تھا جس نے عیسائیت کا قلع قمع کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگارکھی تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جو عیسائیت کے خلاف جس طرح بھی ممکن ہو سکا سینہ سپر ہو گئے ور نہ علماء میں سے تو کئی عیسائی ہوکر اور اسلام کو ترک کر کے عیسائیت کی تائید میں اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے خلاف نہایت ہی نا پاک حملے کر رہے تھے.یہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جو عیسائیت پر کاری ضربیں لگا رہے تھے چنانچہ آپ فرماتے ہیں: خوب یاد رکھو کہ بجز موت مسیح صلیبی عقیدہ پر موت نہیں آسکتی سواس سے فائدہ کیا کہ برخلاف تعلیم قرآن اُس کو زندہ سمجھا جائے اُس کو مرنے دوتا یہ دین زندہ ہو (کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۹اص ۱۷) اسی طرح آپ نے سالانہ جلسہ قادیان میں تقریر کرتے ہوئے فرمایا: وفات مسیح اور حیات اسلام یہ دونوں مقاصد باہم بہت بڑا تعلق رکھتے ہیں.اور وفات مسیح کا مسئلہ اس زمانہ میں حیات اسلام کے لئے ضروری ہو گیا ہے“ پھر فرماتے ہیں: حیات مسیح سے جو فتنہ پیدا ہوا ہے وہ بہت بڑھ گیا ہے.حضرت عیسی" کی حیات اوائل میں تو صرف ایک غلطی کا رنگ رکھتی تھی مگر آج یہ غلطی ایک اثر دھا بن گئی ہے جو اسلام کو نگلنا چاہتی ہے.....اسلام تنزل کی حالت میں ہے اور عیسائیت کا یہی ہتھیار حیات مسیح ہے جس کو لے کر وہ اسلام پر حملہ آور ہو رہے ہیں اور مسلمانوں کی ذریت عیسائیوں کا شکار ہو رہی ہے......اس لئے خدا تعالیٰ نے چاہا کہ اب مسلمانوں کو متنبہ کیا جاوے.( ملفوظات جلد چہارم ص ۶۳۲۶۲۶)
خطبات طاہر جلد۴ پھر فرمایا کہ: 99 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء تم عیسی" کو مرنے دو کہ اس میں اسلام کی حیات ہے ایسا ہی عیسی ،، موسوی کی بجائے عیسی محمدی آنے دو کہ اس میں اسلام کی عظمت ہے.دے گا.( ملفوظات جلد پنجم صفی ۶۹۴ حاشیه ) پھر آپ عربی کلام میں فرماتے ہیں: وقد جاء يوم الله فاليوم ربنا يدقق اجزاء الصليب ويكسر یقیناً اب خدائی جنگوں کا دن آگیا ہے پس آج ہمارا رب صلیب کو تو ڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد ۷ ص ۷۹ ) و ابغى من المولى نعيما يسرنى وما هو الا في الصليب يكسر میری ایک ہی خواہش اور مراد ہے جس پر میری خوشی موقوف ہے اور وہ خواہش یہ ہے کہ صلیب پارہ پارہ ہو جائے.پھر آپ فرماتے ہیں: اعجاز احمدی روحانی خزائن جلد ۱۹ص۱۸۲) و والله انی اکسرن صليبكم ولو مزقت ذرات جسمی و اکسر اور اے عیسائیو! خدا کی قسم میں تمہاری صلیب کو پارہ پارہ کر کے رہوں گا خواہ اس راہ میں میرے جسم کی دھجیاں اڑ جائیں اور میں ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جاؤں.کرامات الصادقین روحانی خزائن جلد ۷ ص ۷۹ ) یہ ہے اسلام کا وہ بطل جلیل جسے گویا ان نادانوں کے نزدیک انگریز نے خود اپنی سلطنت کے استحکام اور مفادات کی حفاظت کی خاطر کھڑا کیا تھا در آنحالیکہ وہ جس صلیب کو توڑنے کے درپے
خطبات طاہر جلدم 100 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء تھا اس زمانہ کے علماء عیسائیوں کی تائید اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مقابلہ کر رہے تھے.چنانچہ شدید مخالفتوں کے وقت جب کہ ایک طرف عیسائیت اور دوسری طرف اسلام کا جھگڑا تھا، ایک طرف بڑے بڑے عیسائی پادری تھے اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھے جو اسلام کے جرنیل کے طور پر اسلام کی تائید میں عیسائیوں سے ٹکر لے رہے تھے.ایسے نازک وقت میں بھی احمدیت کے مخالف علماء کا یہ کردار رہا ہے کہ جب کبھی انہیں موقع ملتا تو وہ ہرگز عیسائی مناظرین کی تائید سے گریز نہ کرتے....چنانچہ امرتسر میں ڈاکٹر ہنری کلارک کے ساتھ جو مشہور مباحثہ ہوا تو اُس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ اس بات سے ہندوستان کے تمام مسلمانوں کو آگاہ کرتے ہوئے فرمایا: ایک مجمل پیغام مجھ کو امرتسر سے پہنچا کہ بعض مولوی صاحب کہتے ہیں کہ اس مباحثہ میں اگر مسیح کی وفات حیات کے بارہ میں بحث ہوتی تو ہم اس وقت ضرور ڈاکٹر کلارک صاحب کے ساتھ شامل ہو جاتے.لہذا عام طور پر شیخ جی اور ان کے دوسرے رفیقوں کو اطلاع دی جاتی ہے ( شیخ جی سے مراد اہل حدیث کے مشہور مولوی محمد حسین صاحب ہیں.ناقل ) بلکہ قسم دی جاتی ہے کہ یہ بخار بھی نکال لو.( سچائی کا اظہار، روحانی خزائن جلد نمبر ۶ ص ۷۴ ) بہر حال یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی تھے جو ایک طرف عیسائیوں سے برسر پیکار تھے اور صلیبی عقائد پر تابڑ توڑ حملے کر رہے تھے جبکہ دوسری طرف مسلمان علماء تھے جو آج احمد یوں کو گردن زدنی سمجھتے ہیں اور جھوٹے الزام لگا رہے ہیں کہ انگریز کی حمایت کے لئے کھڑے ہوئے تھے لیکن اُس وقت ان کا کردار اسلام کی پشت پر خنجر گھونپنے کے مترادف تھا.وہ بڑی شدومد کے ساتھ حضرت مسیح علیہ السلام کو زندہ قرار دے رہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قتل کو بار بار مباح قرار دے رہے تھے اور بڑے فخر کے ساتھ اعلان کرتے پھرتے تھے کہ انہوں نے ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس شخص کے خلاف شدید مخالفت اور نفرت کی ایک آگ لگا دی ہے اور صرف ہندوستان ہی میں نہیں بلکہ کہتے تھے مکہ اور مدینہ کے علاوہ عرب کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک اس شخص کے خلاف نفرت اور عناد اور بغض کی فضا پیدا کر دی ہے کہ کیوں اس نے
خطبات طاہر جلد۴ 101 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء مسیح علیہ السلام کی موت کا اعلان کیا ہے.غرض مسیح کی موت کا یہی اعلان تھا جس نے برصغیر میں آپ کی مخالفت کی آگ بھڑ کا دی.تو کون تھا انگریز کا حمایتی، ان کے خدا کو زندہ کرنے والا یا اُن کے خدا کو مارنے والا ؟ اتنی چھوٹی اور معمولی سی بات بھی جن عقلوں میں نہ آئے ان عقلوں کے متعلق انسان کیا کہہ سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پادریوں کی تکذیب انتہا تک پہنچ گئی تو خدا نے حجت محمد یہ پوری کرنے کے لئے مجھے بھیجا.اب کہاں ہیں پادری تا میرے مقابل پر آویں.میں بے وقت نہیں آیا، ہمیں اُس وقت آیا کہ جب اسلام عیسائیوں کے پیروں کے نیچے کچلا گیا.........بھلا اب کوئی پادری تو میرے سامنے لاؤ جو یہ کہتا ہو کہ آنحضرت ﷺ نے کوئی پیشگوئی نہیں کی.یاد رکھو وہ زمانہ مجھ سے پہلے ہی گزر گیا اب وہ زمانہ آ گیا جس میں خدا یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ وہ رسول محمد عربی مجس کو گالیاں دی گئیں جس کے نام کی بے عزتی کی گئی، جس کی تکذیب میں بدقسمت پادریوں نے کئی لاکھ کتابیں اس زمانہ میں لکھ کر شائع کر دیں.وہی سچا اور بچوں کا سردار ہے.پھر فرماتے ہیں: (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ ص ۲۸۶) سو بہت ہی خوب ہوا کہ عیسائیوں کا خدا فوت ہو گیا اور یہ حملہ ایک برچھی کے حملہ سے کم نہیں جو اس عاجز نے خدائے تعالیٰ کی طرف سے مسیح ابن مریم کے رنگ میں ہو کر ان درقبال سیرت لوگوں پر کیا ہے جن کو پاک چیزیں دی گئی تھیں مگر انہوں نے ساتھ اس کے پلید چیزیں ملا دیں اور وہ کام کیا جو د قبال کو کرنا چاہئے تھا“.(ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد ۳ ص ۳۶۱-۳۶۲) غرض یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اعلان ہے کہ میں نے صلیب کو توڑ دیا اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کے جو مخالفین ہیں جو بیرونی نظر سے آپ کو دیکھ رہے ہیں کیا اُن کے نزدیک بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ حربہ کامیاب رہا یا نہیں.اور کیا مسیح علیہ السلام کا
خطبات طاہر جلدم 102 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء طبعی وفات پا جانے کا اعلان کر کے آپ نے عیسائیت کی کمر توڑ دی یا نہیں اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو میں انہی علماء کا ایک حوالہ پڑھتا ہوں جو نہ صرف یہ کہ احمدی نہیں بلکہ احمدیوں کے شدید مخالف گروہ سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ وہ زمانہ تھا جبکہ علماء میں حق کا کچھ پاس موجود تھا اور بعض حق بات کہنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے.چنانچہ انہی علماء میں سے مولوی نور محمد صاحب نقش بندی چشتی ہیں جنہوں نے مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کے ترجمہ معانی القرآن قرآن کریم کا ایک طویل دیباچہ لکھا ہے وہ اس دیباچہ کے صفحہ 30 پر رقم طراز ہیں: اسی زمانہ میں پادری لیفر ائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اٹھا کر ولایت سے چلا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا.ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدہ کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہو کر بڑا تلاطم برپا کیا (دیکھئے یہ ہے انگریز کا مفاد! پتہ نہیں کتنے لاکھ روپیہ اُس زمانہ میں انہوں نے خرچ کیا اور بہت بڑا پہلوان تیار کر کے ہندوستان بھیجا اور اُس نے مسلمان علماء کے نزدیک وہ کام کر دکھائے کہ سارے ہندوستان میں تلاطم برپا کر دیا.ناقل ) حضرت عیسی کے آسمان پر جسم خا کی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اس کے خیال میں کارگر ہوا تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے (وہ بیچارے مولوی صاحب ہیں اس لئے مولوی کہہ رہے ہیں مگر اپنی طرف سے احتراماً کہہ رہے ہیں اس میں غصہ کی کوئی بات نہیں ہے.اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام کچھ نہ کچھ ادب سے لینے والے لوگ بھی موجود تھے ہر قوم میں ہر قسم کے لوگ ہوتے ہیں.حق پرست بھی ہوتے ہیں چنانچہ مولانا نورمحمد صاحب نقش بندی کا میں احترام کرتا ہوں وہ فرماتے ہیں ) مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں اور جس عیسی کے آنے کی خبر ہے وہ میں ہوں
خطبات طاہر جلدم 103 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھے کو قبول کر لو اس ترکیب سے اس نے لیفر ائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اس کو پیچھا چھڑانا مشکل ہو گیا اور اس ترکیب سے اس نے ہندوستان سے لے کر ولایت تک تمام پادریوں کو شکست دے دی.(دیباچہ ترجمہ معانی القرآن از مولانا تھانوی ص۳۰) یہ ہے انگریزوں کا مفاد جو جماعت احمدیہ سے وابستہ تھا.اگر یہی مفاد ہے تو پھر آپ لوگ بھی اس مفاد میں جماعت احمدیہ کی مدد کیوں نہیں کرتے کیونکہ اس سے انگریز کا نہیں اسلام کا مفاد وابستہ ہے.اس سے عیسائیت کا نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے دین کا مفاد وابستہ ہے.چنانچہ یہ بات جو آج کے مولوی کو سمجھ نہیں آرہی یہ تو کل کے ہندو کو بھی سمجھ آرہی تھی.وہ اس معاملہ میں مولویوں سے زیادہ عقل مند تھا اور سمجھتا تھا کہ احمدیت کی حقیقت کیا ہے اور یہ کس مقصد کی خاطر قائم ہوئی ہے اگر چہ احمدیت کی مخالفت میں اس نے ہندو اخبار میں اداریہ لکھا ہے جس سے میں ایک اقتباس لے رہا ہوں اور اس میں اُس نے ہندوؤں کو احمدیوں کے خلاف متنبہ کرنے کی خاطر یہ اداریہ لکھا ہے اور بتایا ہے کہ جن کو تم معمولی سمجھ رہے ہو وہ تو بڑی بلا ہیں یہ تمہارے لئے مصیبت کا ایک پہاڑ بن جائیں گی لیکن ذہین آدمی سمجھتا ہے کہ احمدیت کی حقیقت کیا ہے اس لئے احمدیت کی گزشتہ تاریخ پر نظر ڈال کر اور اس کا جور د عمل عیسائی دُنیا میں ہوا ہے اس کو مد نظر رکھ کر لکھتا ہے: " آج سے تمیں چالیس سال پہلے پیچھے ہٹ جائے جبکہ یہ جماعت اپنی ابتدائی حالت میں تھی اور دیکھئے اس زمانہ میں ہندو اور مسلمان دونوں اس جماعت کو کس قدر حقیر اور بے حقیقت سمجھتے تھے....مگر واقعات یہ کہہ رہے ہیں کہ ان پر ہنسی اڑانے والے خود بے عقل اور احمق تھے.اس بارے میں عیسائی مشنریوں نے نہایت عقل مندی سے کام لیا.احمدیوں نے ابھی یورپ اور امریکہ میں قدم رکھا ہی تھا کہ تمام پادری اُن کے مقابلے کے لئے تیار ہو گئے.“ (اخبار تیج دہلی ۲۵ جولائی ۱۹۲۷ء) رہا عیسائی دنیا کا معاملہ تو دیکھنا یہ ہے کہ اس میں احمدیت کس طرح متعارف ہوئی اسلام کے خلاف ایک خوفناک تحریک کے طور پر جیسا کہ معاندین احمدیت پرو پیگنڈہ کرتے ہیں یا اس کے
خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء 104 خطبات طاہر جلدم برعکس عیسائیت کے خلاف ایک خوفناک تحریک کے طور پر یہ کہانی بھی جدید اور قدیم عیسائی محققین ہی کی زبان سے سنئے.متفرق حوالے اس وقت میرے سامنے ہیں جن کو میں نے تاریخی لحاظ سے مرتب نہیں کیا لیکن احباب کی دلچسپی کی خاطر اور یہ سمجھانے کے لئے کہ تحریک احمدیت کی اصل حقیقت کیا ہے اور اس کے مقاصد کیا ہیں میں بعض عیسائی مفکرین کی زبان میں احمدیت کے بارہ میں اُن کے اس تاثر کو پیش کرتا ہوں جو انہوں نے احمدیت سے ٹکر لینے کے بعد قائم کیا.اسلام کے دفاع میں احمدیت کی طرف سے دندان شکن کارروائی کو محسوس کرتے ہوئے مختلف عیسائی چرچوں کے ایک کمیشن نے 1969ء میں ایک رپورٹ شائع کی.یہ کمیشن تحریک احمدیت کے بارہ میں غور کرنے کے لئے قائم کیا گیا تھا اس کمیشن کے ایک ممبر Bertil Weberg کہتے ہیں: وو عیسی ( علیہ السلام ) کے ابن اللہ ہونے کے سلسلہ میں جو اعتراضات احمدیت کی طرف سے پیش کئے جاتے ہیں اُن سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ احمد یہ جماعت عیسائیت کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتی ہے.عیسائیت نے جو عالمگیر مذہب کی حیثیت اختیار کر رکھی ہے احمد یہ جماعت سب سے زیادہ اس کے در پے ہے اور چاہتی ہے کہ اسلام کی کھوئی ہوئی عظمت واپس لائی جائے یعنی وہ عظمت جو محمد (ع) کی وفات کے بعد سے لے کر ایک سوسال تک اسلام کو حاصل تھی جب کہ یہ مذہب بحرالکاہل کے اردگرد کے ملکوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہا تھا اور یورپ میں بھی کافی دُور تک پہنچ گیا تھا.دعویٰ تو بہت بڑا ہے لیکن مستقبل ہی بتا سکے گا کہ اس میں کامیابی ہوسکتی ہے یا نہیں.احمد یہ جماعت نے اب تک جو تبلیغی کوششیں کی ہیں اُن سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اُن کے دعاوی کی پشت پر عمل کی طاقت موجود ہے یہ ہے با عمل اسلام“.(Report on Christian Churches, Scandinavia 1969 Herbert Gotts Chalk)
خطبات طاہر جلدم 105 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء یہ ایک یوروپین عیسائی مفکر ہیں اور پادری ہیں انہوں نے تو جماعت احمدیہ کی پشت پر ایک عمل کی طاقت دیکھی ہے ان کو انگریز کی کوئی طاقت نظر نہیں آئی لیکن اگر وہ عارف باللہ بھی ہوتے اور ان کو روحانیت کی آنکھ بھی نصیب ہوتی تو وہ احمدیت کی پشت پر صرف ایک عمل کی طاقت نہ دیکھتے بلکہ ان کو احمدیت کی پشت پر ایک قادر مطلق عظیم خدا کی طاقت نظر آتی جس نے اپنے ہاتھ سے احمدیت کا پودا قادیان میں لگایا تھا.یہ وہ پودا ہے جسے کسی اور ہاتھ نے لگایا نہ کسی اور ہاتھ کی یہ مجال ہے کہ وہ اس پودے کو اکھاڑ سکے.اس پودے کو لگانے والا بھی خدا تھا اور اس کو زندہ اور قائم رکھنے والا اور اس کو نشو ونما دینے والا بھی ہمارا زندہ خدا ہے.ایک اور عیسائی مصنف کا اعتراف بھی سنئے.وہ اپنی کتاب ویلٹ بیویگینڈے ماخٹ اسلامز میں لکھتے ہیں : " آج اسلام عقائد کی اشاعت کے لئے تلوار استعمال نہیں کر رہا.مقدس جنگ کا رخ صرف باقی استعماری طاقتوں کی طرف ہے لیکن امن پسند جماعت احمد یہ کرہ ارض کے تقریباً تمام ممالک میں تبلیغی مہمات میں مصروف ہے.....یہی جماعت ہے جو مسیحیوں کو حلقہ اسلام میں کھینچ لانے کے لئے پر زور تبلیغ کر رہی ہے.ہم نے قبل ازیں مسلمانوں کے اندر مسیحیت کی تبلیغ میں مشکلات کا ذکر کیا ہے اب اس جماعت کی تبلیغی مساعی کا ہدف خود مسیحیت بن گئی ہے.اس جماعت نے یورپ، امریکہ، افریقہ، ایشیا اور آسٹریلیا کے تقریباً تمام بڑے شہروں میں مشنوں کے قیام کے ذریعہ مسیحی دنیا میں ایک رخنہ ، خواہ وہ کتنا ہی چھوٹا ہو ڈال دیا ہے.یہ جماعت موثر پرو پیگنڈہ کا نظام رکھتی ہے.تقاریر کی جاتی ہیں.اخبارات شائع کئے جاتے ہیں اور ریڈیو کو اپنے 66 خیالات کی اشاعت کے لئے استعمال کیا جاتا ہے.اسی طرح ایک جرمن مستشرق پروفیسر کیلر ہال (Keeler Hall) نے جماعت احمدیہ کا تذکرہ ان الفاظ میں کیا ہے.
خطبات طاہر جلدم 106 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء جماعت احمدیہ کی مثال بالکل مختلف ہے.اسے موجودہ دور کی ایک تبلیغی تحریک کہا جا سکتا ہے.یہ خود اپنے دعوے کے مطابق بچے اور اصل اسلام کو تمام دنیا میں پھر سے قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے اور اسے آخری آسمانی تعلیم کے طور پر پھیلانے میں کوشاں ہے.احمدیت عالم اسلام میں وہ پہلی غیر معمولی تحریک ہے جو ایک باقاعدہ نظام کے ماتحت غیر مسلم ممالک میں تبلیغی جد و جہد کر رہی ہے.وہ مسیحی مشنوں کی طرح اپنے با قاعدہ تیار کئے ہوئے مبلغ بھیجتی ہے،سکول جاری کرتی ہے اور کتب اور رسائل کی مدد سے اسلام کو پھیلانے اور لوگوں کو مسلمان بنانے میں سرگرم عمل ہے.ہالینڈ کے ایک مشہور پادری مشرق بعید کے دورہ پر جاتے ہوئے قادیان بھی ٹھہرے.یہ ڈچ پادری ، جن کا نام ڈاکٹر کریمر ہے.وہ جماعت کی تنظیم اور جذ بہ تبلیغ دیکھ کر بہت متاثر ہوئے.بعد میں انہوں نے مسلم ورلڈ اپریل 1931ء میں اپنے تاثرات جن الفاظ میں شائع کئے.جو آج مجاہدین اسلام بن بیٹھے ہیں اور احمد بیت کو غدار کہ رہے ہیں وہ ذرا دیکھیں تو سہی کہ احمدیوں کے متعلق عیسائیوں کے کیا تاثرات تھے جو اسلام کے مد مقابل لڑ رہے تھے اور آج کیا تاثرات ہیں؟ چنانچہ پادری کریمر کے الفاظ میں ملاحظہ کریں پادری صاحب لکھتے ہیں : ”ہندوستانی مسلمانوں پر عام طور پر مایوسی کا عالم طاری ہے برخلاف اس کے جماعت احمدیہ میں نئی زندگی کے آثار پائے جاتے ہیں اور اس لحاظ سے یہ جماعت قابل توجہ ہے.یہ لوگ اپنی تمام توجہ اور طاقت تبلیغ اسلام پر خرچ کر رہے ہیں اور سیاست میں حصہ نہیں لیتے.ان کا عقیدہ ہے کہ انسان جس حکومت کے ماتحت ہواس سے وفادار رہے.اور وہ صرف اس بات کی پرواہ کرتے ہیں کہ کون سی حکومت کے ماتحت ان کو تبلیغ اسلام کے مواقع اور سہولتیں حاصل ہیں.اور وہ اسلام کو ایک مذہبی گروہ یا سیاسی نقطہ نگاہ سے نہیں دیکھتے بلکہ اس کو محض صداقت اور خالص حق سمجھ کر تبلیغ کے لئے کوشاں ہیں اس لحاظ سے یہ جماعت فی زمانہ مسلمانوں کی نہایت عجیب جماعت ہے اور مسلمانوں میں
خطبات طاہر جلدم 107 صرف یہی ایک جماعت ہے جس کا واحد مقصد تبلیغ اسلام ہے.خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء اس جماعت کا اثر اس کے اعداد و شمار سے بہت زیادہ وسیع ہے.مذہب میں ان کا طرز استعمال بہت سے تعلیم یافتہ مسلمانوں نے اختیار کر لیا ہے.اور وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں میں رہتے ہوئے احمد یوں کا علم کلام عقلا مانا پڑتا ہے یہ باہر کی آزاد دنیا کے تاثرات ہیں.یہ اس دنیا کے تاثرات ہیں جو جانتی تھی کہ مذہبی جنگوں میں آج کیا ہورہا ہے.یہ اس دنیا کے تاثرات ہیں جو جماعت کے متعلق بھی جانتی ہے اور اس کے مخالفین کے متعلق بھی جانتی ہے جو اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں بنا کر دنیا کے حالات سے یکسر غافل اندھیروں میں بیٹھے ہوئے ہیں جو سوء ظن سے کام لینے والے ہیں جن کو دنیا کا کوئی علم نہیں ان کو یہ پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے.وہ تو بیٹھے یہ الزام تراشی کر رہے ہیں کہ جماعت احمد یہ انگریز کا لگایا ہوا پودا تھا جو اس غرض سے قائم کیا گیا کہ انگریزی حکومت کے مفادات کا تحفظ کرے.ہالینڈ میں جب جماعت احمدیہ کا مشن قائم ہوا تو وہاں کا ایک کیتھولک اخبار جو 66.M کہلاتا ہے اس نے بھی جماعت کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کیا.لیکن اس کی رائے بیان کرنے سے پہلے یہ بتانا ضروری ہے کہ اس نے یہ اظہار کیوں کیا اسے اس کی ضرورت کیوں پیش آئی.جماعت احمدیہ کی طرف سے ہالینڈ میں مشن کے قیام کے دوران ایک صاحب ڈاکٹر ھیو بن (Houben) نے جماعت کے خلاف الزام تراشی کا ایک نہایت ہی خطرناک سلسلہ شروع کر دیا اور عالم عیسائیت کو بیدار کیا اور متنبہ کیا کہ یہ جماعت ایک انتہائی خطرناک جماعت ہے اس سے بچ کے رہو اور اس سے بچنے کی حکمت عملی بھی ان کو بتائی اور وہ حکمت عملی یہ تھی کہ مسلمان تو ان کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے اس لئے ان کا علاج یہ ہے کہ ان کو غیر مسلم کہا جائے کہ تم ہوتے کون ہوا سلام کی نمائندگی کرنے والے؟ تمہارا اسلام سے تعلق ہی کیا ہے اور خود اسلام کے متعلق انہوں نے لکھا کہ یہ تو کوئی طاقت ہی نہیں رہی.یہ تو ایک خوابیدہ چیز ہے اور جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے یہ تو مسلمان ہی نہیں ان سے تو واسطہ ہی تو ڑ لینا چاہئے ، ساری دنیا کو یہ سوچنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ یہ غیر مسلم ہیں لہذا ان سے کوئی فرق نہیں پڑتا.
خطبات طاہر جلدم 108 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء پس یہ وہ ترکیب تھی جسے کل ایک انگریز نے ایجاد کیا یا یورپ نے اختیار کیا اور آج مسلمان اس کو استعمال کر رہے ہیں.چنانچہ جب ڈاکٹر ھیو بن نے احمدیت کے خلاف الزامات شائع کئے اور نئی حکمت عملی پیش کی تو باوجود اس کے کہ 66.M ایک کیتھولک اخبار تھا پھر بھی وہ حق بات کہنے پر مجبور ہو گیا.اس نے ڈاکٹر ھیو بن کو مخاطب کر کے لکھا: ” پروفیسر ڈاکٹر ھیو بن کا اسلام کے متعلق یہ لکھنا کہ وہ ایک جابر اور قہار خدا کا تصور پیش کرتا ہے ( اس لئے یہ بے معنی ہے.یہ ایک ایسے خدا کا تصور پیش کرتا ہے جو ماضی کے قصے بن کر رہ گئے ہیں.آج کی دنیا میں کوئی معقول آدمی ایسے جابر اور قہار خدا کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.اس لئے جہاں تک عقل کا تعلق ہے، جہاں تک دلائل کا تعلق ہے اسلام ایک مردہ قوت بن گیا اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اخبار لکھتا ہے ) سراسر مغالطہ انگیز ہے اور یہ کہنا کہ اسلام میں تجدید و احیاء کی قوت کا فقدان ہے، دور از حقیقت ہے.کیونکہ خود جماعت احمدیہ تجدید و احیاء اسلام کا ایک زندہ ثبوت ہے.اور شاید اسی لئے وہ عیسائی علماء کے لئے خوف و ہراس کا باعث بنی ہوئی ہے.کچھ عرصہ ہوا پر و فیسر ڈاکٹر کیمپس (Camps) نے بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا اور اس جماعت کی طرف سے ہوشیار رہنے کی طرف توجہ دلائی تھی پھر اخبار لکھتا ہے: احمدیت اسلام کی مختلف شکلوں میں سے ایک شکل ہے مگر یہ اسلام کی ایک ایسی ہی صورت ہے جو اسلام کی نمائندگی کرنے کا پورا پورا حق رکھتی ہے.اس تحریک کو یقیناً مخالف خیالات رکھنے والے مسلمانوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے.مگر یہ مخالفت کرنے والے علمی رنگ میں بات کرنے سے تہی اور کیتھولک ذہنیت ہی کے مظہر نظر آتے ہیں جو اپنے خیالات سے اختلاف رکھنے والوں کو کافر اور دائرہ مذہب سے خارج قرار دیتے ہیں.یہ اخبار کا تجزیہ ہے، خود کیتھولک ہے لیکن بڑی سچی بات کہہ گیا ہے اور کہتا ہے کہ اے
خطبات طاہر جلد۴ 109 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء احمدیوں کے مخالفو! تمہارا تو ہمارے والا حال ہے جس طرح ہم لوگ بے حوصلہ اور تنگ نظر ہیں اور اپنے ہر مخالف کو کافر سمجھتے اور دائرہ عیسائیت سے خارج قرار دے دیتے ہیں تم یہی معاملہ احمدیوں کے ساتھ کر رہے ہو.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ دراصل عیسائی دنیا ہی ہے جس نے احمدیت کے خلاف یہ لقمے آج کے مسلمان علماء کے منہ میں ڈالے ہیں اور یہ انہی کی سکھائی ہوئی ترکیبیں ہیں.چنانچہ پروفیسر ڈاکٹر ھیو بن کے اس آرٹیکل میں جس کا اخبار نے ذکر کیا ہے یہ بات بڑی واضح طور پر پیش کی گئی ہے.ایک طرف وہ کہتا ہے کہ اسلام معاذ اللہ ایک مردہ مذہب ہے، اسلام صرف تلوار کا مذہب تھا اسلام میں اب تلوار نہیں رہی اس لئے اسلام کی طاقت اس زمانہ میں چل ہی نہیں سکتی.دوسری طرف وہ احمدیوں پر متعدد اعتراض کرتا ہے اور ساتھ ہی جماعت احمدیہ کو خطرناک بھی قرار دیتا چلا جاتا ہے اور ساتھ یہ بھی کہتا چلا جاتا ہے کہ یہ جماعت مسلمانوں کی نمائندہ ہی نہیں کہلا سکتی اس لئے عالم اسلام اس کو اس لئے رو کر دے گا کہ یہ مسلمان نہیں ہے اور عیسائیت اس لئے اس سے صرف نظر کرے گی کہ یہ جماعت اسلام کی نمائندہ ہی نہیں لہذا اسے اسلام کے دفاع کا حق ہی کیا ہے.چنانچہ انہبی خیالات نے ایک با قاعدہ سازش کی صورت اختیار کی اور عیسائیت کا احمد بیت کے مخالف علماء سے گٹھ جوڑ ہوا ہے اور عیسائیوں کے ایماء ہی پر احمدیوں کے خلاف جب تحریک اٹھی تو اس وقت دلی سے چھپنے والے ایک ہفت روزہ نے ایسے ایک گٹھ جوڑ کا انکشاف کیا تھا جدید اردو ر پورٹر بمبئی نے اپنی ۲۰ دسمبر ۱۹۸۴ ء کی اشاعت میں اس کا ذکر کرتے ہوئے لکھا." آج سے دس سال قبل دہلی کے ہفت روزہ اخبار ”نئی دنیا نے مندرجہ ذیل انکشاف کیا : چونکہ قادیانی ( یا بقول خود احمدی) مبلغ یورپ اور افریقہ میں عیسائیت کا زور توڑنے میں لگے ہوئے ہیں اور مشنری ان کے مقابلے میں عاجز آچکے ہیں اس لئے ہمارا خیال ہے کہ پاکستان کی خانہ جنگی میں ان کا ( یعنی عیسائی مشنریوں کا.ناقل ) بڑا ہاتھ ہے.عیسائی مشنری چاہتے ہیں کہ خود مسلمانوں کے ہاتھوں قادیانی فرقے کو اس قدر کمزور کر دیا جائے کہ ان میں عیسائیوں کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ رہے.عیسائی مشنری اپنے سرمائے کے زور سے ہر قسم کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں اور مسلمانوں کو پتہ ہی نہیں
خطبات طاہر جلدم 110 66 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء چلتا کہ ان کے نیچے سازش کا بارود بچھانے والا کون ہے....نئی دنیا دہلی 26 جون 1974ء) اس انکشاف پر تبصرہ کرتے ہوئے خود روز نامہ جدیدار دور پورٹ لکھتا ہے: یہ عجیب بات ہے کہ جماعت احمد یہ یورپ یا افریقہ میں جب کوئی تبلیغ کا اہم کام سر انجام دے رہی ہوتی ہے تو پاکستان میں عیسائی دنیا خود مسلمانوں کے ہاتھوں جماعت احمدیہ کے خلاف کوئی ہنگامہ کروادیتی ہے“.روزنامه جدید اردو رپورٹر بمبئی ۲۰ دسمبر ۱۹۸۴ء شماره ۲۲ جلد ۵ ) وو یہ تو ہندوستان کے ایک اخبار کا تبصرہ ہے خود پاکستان میں اس بات کا مزید ثبوت یوں ملتا ہے کہ آج کی عیسائی دنیا خصوصاً پاکستان میں بسنے والے عیسائیوں کا موجودہ حکومت کی کوششوں کے متعلق اور جماعت احمدیہ کے خلاف پروپیگنڈے سے متعلق کیا تاثر ہے انہی کی زبان میں سنئے.محمد ہارون ایڈیٹر روز نامہ امروز لا ہور اپنی 22 جون 1984ء کی اشاعت میں یہ خبر دیتا ہے: لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان نیشنل مسیحی کاشت کار پارٹی کے چیئرمین مسٹر پطرس گل کی رٹ 2 دسمبر 83ء کو دائر کی گئی تھی جس میں استدعا کی گئی ہے کہ مرزائیوں کے قادیانی اور لاہوری گروپوں کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں سے پاکستان کے مسیحیوں کو بچایا جائے اور حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ تمام مرزائیوں کو غیر پسندیدہ سیاسی پارٹی قرار دے کر ان کا تمام لٹریچر ضبط کرے اور ان کے تمام مراکز اور عبادت گاہوں کو بند کرئے“.تعجب ہے ان کو عدالت کی معرفت حکم دلوانے کی کیا ضرورت تھی یہ بات جو ان کی طرف سے شائع ہوئی یہی حکومت کے لئے حکم کا درجہ رکھتی تھی.چنانچہ بعینہ ان کی خواہش کے مطابق جماعت احمدیہ کے خلاف یہی کارروائی کی گئی جو عیسائی نمائندہ مسٹر پطرس گل صاحب چاہتے تھے.انہوں نے ہائی کورٹ میں جماعت احمدیہ کے خلاف جو مقدمہ دائر کیا تھا اور عدالت سے یہ استدعا کی تھی کہ حکومت کو حکم دیا جائے کہ وہ احمدیوں کے خلاف اقدام کرے وہی کام حکومت نے احمدیوں کے خلاف کر کے دکھا دیا.
خطبات طاہر جلدم 111 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء چنانچہ حکومت نے جب یہ کارنامہ سرانجام دیا تو اس وقت پاکستان کے عیسائیوں کی طرف سے اس کا جو پر جوش خیر مقدم کیا گیا وہ بھی سن لیجئے : راوالپنڈی ۳۰ را پریل پاکستان مائناریٹیز کونسل اور اصلاح معاشرہ کمیٹی کے چیئر مین چودھری سلیم اختر ( یہ بڑے کٹر عیسائی ہیں.ناقل ) نے مرزائیوں کے بارے میں صدر پاکستان کی طرف سے جاری شدہ حالیہ آرڈینینس کا پر جوش خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے جرأت مندانہ اقدام کر کے نہ صرف امت مسلمہ بلکہ پاکستان میں رہائش پذیر اقلیتی فرقوں کے دل بھی جیت لئے ہیں.چودھری سلیم اختر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انگریزوں کے کاشتہ اس فرقے کی مذموم سرگرمیاں صرف اسلام کے ہی نہیں عیسائیت کی تعلیمات کے منافی بھی تھیں احمدیت کو انگریز کا خود کاشتہ پودا قرار دینے والے ذرا پھر اس عبارت کو پڑھیں.آج کے ایک دیسی عیسائی کو بھی بخوبی علم ہے کہ احمدیت عیسائیت کے خلاف ایک سنگین خطرہ ہے تو کیا سلطنت برطانیہ کو اس کا علم نہ ہو سکا کہ خود اپنے ہاتھوں ایسا پودا لگا دیا جو عیسائیت کونا بود کرنے والا ہو.انگریزوں کے کا شتہ اس فرقے کی مذموم سرگرمیاں صرف اسلام کے ہی نہیں عیسائیت کی تعلیمات کے منافی بھی تھیں اور ان سے اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائیت کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا تھا دیسی عیسائی یہ کہہ رہا ہے ادھر یوروپین عیسائی یہ کہہ رہا ہے کہ جماعت احمدیہ کی تبلیغی سرگرمیوں کی وجہ سے عیسائیت کو نقصان اور اسلام کو فائدہ پہنچ رہا ہے.اسلام کے ہاتھ مضبوط ہورہے ہیں.اسلام ایک عظیم الشان قوت بنتا چلا جارہا ہے.آج کا یوروپین عیسائی پادری تو یہ کہ رہا ہے کہ احمدیوں سے یورپ کی عیسائیت کو بھی خطرہ ہے اور افریقہ کی عیسائیت کو بھی خطرہ ہے لیکن چاپلوس لوگ بہر حال حکومت کا مزاج اور اس کی آنکھ، ناک دیکھ کر بات کرتے ہیں اس لئے یہ عیسائی چودھری ساتھ ساتھ یہ بھی رٹ لگائے جا رہا ہے کہ اسلام کو بھی خطرہ ہے(نعوذ باللہ من ذلک ) اور اسلام کے ساتھ ساتھ عیسائیت کو بھی شدید نقصان پہنچ رہا تھا.بات یہیں پرختم نہیں ہو جاتی بلکہ لکھا ہے:
خطبات طاہر جلدم 112 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء چودھری سلیم اختر نے صدر مملکت سے اپیل کی ہے کہ مرزائیوں کے تمام لٹریچر کو خلاف قانون قرار دے کر ضبط کرنے کے بعد نذر آتش کر دیا جائے اور آئندہ اس کی اشاعت پر سخت ترین سزادی جائے.(روز نامہ جنگ لاہور یکم مئی ۱۹۸۴ء) چنانچہ وہ تو صدرمملکت کو مبارک بادیں دے رہے ہیں میں سلیم اختر کو مبارک باد دیتا ہوں کہ صدر مملکت نے آپ کی خواہش اور احترام کے عین مطابق یہ کام کرنا شروع کر دیا ہے اور بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں.کثرت کے ساتھ احمد یہ لٹریچر ضبط بھی ہو رہا ہے اور نذرآتش بھی کیا جارہا ہے اور کثرت کے ساتھ ان احمدیوں کو جن کی تحویل سے یہ لٹریچر نکلتا ہے، کوتوال کے حوالے کیا جاتا ہے اور جیلوں میں ڈالا جاتا ہے اور صرف یہی نہیں کہ ضبط ہونے کے بعد اگر یہ لٹریچر ان کے قبضہ سے نکلے تو پھر ان کو قید کیا جاتا ہے بلکہ ضبط ہونے سے پہلے بھی اگر وہ لٹریچر ان کے قبضے میں ہو تو اس جرم میں بھی ان کو قید کیا جاتا ہے کہ یہ لٹریچر ہمارے ضبط کرنے سے پہلے بھی تمہارے پاس کیوں تھا.تو سلیم اختر صاحب کے تصور سے بھی آگے بڑھ کر حکومت پاکستان بزعم خویش اسلام کی اور عیسائیوں کے اعتراف کے مطابق عیسائیت کی عظیم الشان خدمت میں مصروف ہے.پس یہ الزام بالبداہت غلط ہے کہ احمدیت نعوذ بالله من ذالک انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے جو انگریزی حکومت نے اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر لگایا تھا.ظاہر ہے کہ استعماری طاقتوں کے مفادات کا تحفظ تو لوگ کر رہے ہیں جو عیسائیت کو فروغ دے رہے ہیں، جو عیسائیت کے مفاد کے لئے جماعت احمدیہ کو نیست و نابود کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور جو ساری دنیا میں یہ اشتہار دے رہے ہیں کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا تھا اس لئے ہم اسے اکھاڑنے کے لئے مامور کئے گئے ہیں.لیکن دیکھنا یہ ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جو فی الحقیقت عیسائیت کے مفاد کی حفاظت کے لئے کھڑے کئے گئے ہیں وہ کل بھی یہی لوگ تھے جو احمدیت پر الزام لگا رہے ہیں اور آج بھی یہی لوگ ہیں.بسا اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ ایک چور چوری کی سزا سے بچنے کے لئے کوتوال کا نام لے دیا کرتا ہے اور پکڑے جانے کے خوف سے کوتوال ہی کو ڈانتا ہے اور اسی کو چور بنایا کرتا ہے.چنانچہ اردو میں یہ محاورہ ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے اور بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک نوکر آقا بن جاتا
خطبات طاہر جلدم 113 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء ہے اور آقا کے حقوق غصب کر کے اس پر حکومت کرنے لگتا ہے.وہ طاقتیں جو ملک کی بقاء کے تحفظ کی خاطر قائم کی جاتی ہیں اور جو اہل ملک کے ہاتھوں سے روٹی کھاتی ہیں اور ان کے تحفظ کی قسمیں کھا کر عہدے حاصل کرتی ہیں بدقسمتی سے بعض ملکوں میں یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ کھاتی تو اپنے ملک کی روٹی ہیں لیکن آقا بن کر کھاتی ہیں نو کر بن کر نہیں کھاتیں اور اپنے آقا یعنی اہل ملک کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں.دنیا میں ایسا تو ہوتارہتا ہے بالکل اسی طرح یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں کہ احمدیت جو اسلام کے دفاع کی خاطر ایک عظیم الشان تحریک ہے جسے خدا نے خود قائم فرمایا تھا اسے ایک بالکل برعکس صورت میں پیش کیا جائے اور پیش بھی ان لوگوں کی طرف سے کیا جائے در حقیقت جو خود اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ میں ہمیشہ آلہ کار بنے رہے ہیں اور آج بھی آلہ کار بنے ہوئے ہیں.چنانچہ کسی کو اگر میری باتوں پر یقین نہ آئے اور میری باتوں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہ ہو تو وہ خود غیر احمدی علماء کے اقرار سے معلوم کر سکتا ہے کہ کون لوگ در حقیقت مختلف وقتوں میں استعماری طاقتوں کا آلہ کار بنتے آئے اور اس کا اعتراف کرتے رہے اور یہی نہیں بلکہ ملکی عدالتوں کی زبان سے سنہیں کہ ان کے نزدیک وہ کون تھا جو اسلام دشمن طاقتوں کے ہاتھ میں ہمیشہ آلہ کار بنتا رہا ہے اور آج بھی بن رہا ہے مثلاً مجلس احرار ہے یہ دیو بندی اور اہل حدیث کا ایک ملغوبہ ہے جو ہمیشہ سے جماعت احمد یہ کے خلاف آلہ کار بنی رہی ہے اور ہمیشہ ہی غیروں کے ہاتھ میں کھیلتی رہی ہے.اسلام دشمن اور پاکستان دشمن طاقتوں نے ہمیشہ اس کو استعمال کیا ہے.1935ء میں جب مسجد شہید گنج کے موقع پر لاکھوں مسلمان سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے اور لاہور کی گلیوں میں شہیدوں کا خون بہہ رہا تھا اس وقت یہی احرار کا ٹولہ تھا جس نے مسلمانوں کے مفادات کو اپنے کانگرسی آقاؤں کی خاطر بیچ دیا.یہ وہی احرار تھے جنہوں نے انگریز گورنر کے ہاتھ پر مسلمانوں کے ایمان اور ان کی عزت کا سودا کیا اور عملاً مسجد ان کے ہاتھ پر بیچ دی اور پھر بڑی بے غیرتی کے ساتھ اخباروں میں یہ بیان دیا کہ مسجد کے شہید ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے ہم غلام قوم ہیں غلام قوموں کی مسجدیں کیسے آزاد ہوسکتی ہیں اس لئے کیا فرق پڑتا ہے اگر ہماری ایک مسجد غلام ہوگئی، ہم تو وہ قوم ہیں جو ساری کی ساری غلام ہے اس لئے کوئی فکر نہیں ،سکھوں کو لینے دو اور اسے منہدم کرنے دو بعد میں آپ ہی واپس کر دیں گے.چنانچہ ان لوگوں کی یہ وہ تحریرات ہیں جو چھپی ہوئی
خطبات طاہر جلد۴ 114 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء موجود ہیں اور اس زمانہ میں ہندوؤں نے بھی نہ صرف تسلیم کیا کہ ان کے مفاد کی حفاظت کی خاطر احرار نے یہ قدم اٹھایا تھا بلکہ کھلم کھلا اخبارات میں ان کے شکریے بھی ادا ہوئے.چنانچہ ” بندے ما تم جو ہندوؤں کا مشہور اخبار ہے اور ہندوستان سے شائع ہوتا ہے اس نے 13 اکتوبر 1935ء میں مجلس احرار کا ان الفاظ میں شکریہ ادا کیا: د میں مجلس احرار کے کام سے بہت خوش ہوں اور انہیں مبارک باد دیتا ہوں کہ انہوں نے نہایت جرات اور استقلال سے اپنے ہم مذہبوں سے بھی قوم اور ملک کے مفاد کی خاطر ٹکر لے لی.اور یہ سب سے بھاری قربانی ہے جو ہمارے احراری دوستوں نے سرانجام دی ہے.اور مجلس احرار یقیناً ملک کے 66 شکریہ کی مستحق ہے یہ کل تک تو ہندوؤں کے شکریہ کی مستحق تھی مگر کیا پاکستان بننے کے بعد بھی شکریے کی مستحق ہے یا نہیں؟ یہ دیکھنے والی بات ہے کیونکہ مودودی صاحب تو یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ قیام پاکستان سے پہلے ہم نے جو زور لگا نا تھاوہ تو لگا لیا لیکن جب پاکستان بن گیا تو ہم نے اس کو تسلیم کر لیا اس لئے اب ہماری گزشتہ غلطیاں معاف کرو لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ نہ احرار نے تو بہ کی ہے اور نہ مودودیوں نے تو بہ کی ہے.پس مجلس احرار ہو یا جماعت اسلامی یہ آج بھی ویسے ہی پاکستان کے دشمن ہیں جیسے کل تھے.چنانچہ 1953 ء میں منیر انکوائری رپورٹ شائع ہوئی ، اس کو پڑھ کر دیکھ لیجئے.عدالت نے بار بار بڑے دکھ کے ساتھ اس قطعی رائے کا اظہار کیا ہے کہ ان لوگوں نے پاکستان کو نہ پہلے قبول کیا تھا نہ ہی آج قبول کرتے ہیں اور ان کی پاکستان دشمنی میں آج تک کوئی کمی نہیں آئی.چنانچہ فاضل جج لکھتے ہیں: احرار کے رویے کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں.ان کا طرز عمل بطور خاص مکروہ اور قابل نفرین تھا.اس لئے کہ انہوں نے ایک دنیاوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلے کو استعمال کر کے اس مسئلہ کی تو ہین کی.رپورٹ منیر انکوائری.تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۲۷) ہمیشہ سے احرار کا یہی وطیرہ رہا ہے.پھر فاضل جج لکھتے ہیں: مولوی محمد علی جالندھری نے 15 فروری 1953 ءکو لاہور میں
خطبات طاہر جلد۴ 115 خطبه جمعه ۸ فروری ۱۹۸۵ء یہ کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ احرار پاکستان کے مخالف تھے.......اس مقرر نے تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد بھی پاکستان کے لئے پلیدستان کا لفظ استعمال کیا اور سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے اپنی تقریر میں کہا، پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے“.(رپورٹ منیر انکوائری - تحقیقاتی عدالت صفحه ۲۷۴) یہ ہے ان لوگوں کا کردار جو آج جماعت احمدیہ پر غیر ملکی طاقتوں کے ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو آج ایک عظیم اسلامی مملکت کی فوج پر مسلط ہو چکے ہیں اور فوج پر انہی کا حکم چل رہا ہے.یہ وہ ہیں جو کل بھی پاکستان کے مخالف تھے پر سوں بھی مخالف تھے اور آج بھی مخالف ہیں.یہ وہی ہیں جو پاکستان کو پہلے بازاری عورت سمجھتے تھے اور آج بھی بازاری عورت سمجھ رہے ہیں اور پاکستان کے ساتھ بازاری عورتوں والا سلوک کر رہے ہیں.یہ ان کا کردار ہے یہ ان کی زبان ہے.کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والی مملکت کو انہوں نے بازاری عورت سمجھ کر قبول کر لیا ہے.جہاں تک مسلمانوں کے مفاد کا تعلق ہے اس میں احراریوں کو کوئی دلچسپی نہیں ہے کہ ان کے طرز عمل اور ان کے طرز فکر کے نتیجے میں مسلمانوں پر کیا بیتا ٹوٹتی ہے ان کے دل میں عالم اسلام کے لئے ایک ذرہ بھی رحم موجود نہیں ہے.چنانچہ اسی عدالت جس کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے اس کے جوں نے احراری مولویوں کے سامنے یہ مسئلہ خوب کھول کے رکھا اور کہا کہ تم تو یہاں غیر مسلموں کے انسانی حقوق اسلام کے نام پر تلف کرنے کے دعویدار ہو.تم اس ملک کی چاردیواری میں حفاظت میں ہو جس کو تم نے ایک بازاری عورت کے طور پر قبول کر لیا ہے.اس ملک کی حفاظت کے برتے پر تم بڑے بڑے بول بول رہے ہو اور کہہ رہے ہو کہ بہت اچھا پاکستان بن گیا ہے تو اب غیر مسلموں کے لئے اس میں کوئی جگہ نہیں اور ہم ان کے تمام انسانی حقوق تلف کرلیں گے تو فاضل جوں نے احراری مولویوں سے پوچھا: اگر ہم اسلامی دستور نافذ کریں گے تو پاکستان میں غیر مسلموں کا موقف کیا ہوگا.ممتاز علماء کی رائے یہ ہے کہ پاکستان کی اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کی حیثیت ذمیوں کی سی ہوگی اور وہ پاکستان کے پورے شہری نہ ہوں
خطبات طاہر جلدم 116 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء گے کیونکہ ان کو مسلمانوں کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہوں گے.وضع قوانین میں ان کی کوئی آواز نہ ہوگی.قانون کے نفاذ میں ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اور انہیں سرکاری عہدوں پر فائز ہونے کا کوئی حق نہ ہوگا“.مولا نا حامد بدایوانی صاحب نے کہا کہ رپورٹ منیر انکوئری تحقیقاتی عدالت صفحه ۲۲۹) پاکستان کے غیر مسلم نہ تو شہری ہوں گے نہ انہیں ذمیوں یا معاہدوں کی حیثیت حاصل ہوگی“.اس پر فاضل جوں نے یہ سوال کیا کہ اگر یہ بات درست ہے تو بتائیے کہ وہ مسلمان غریب جو ہندوستان میں بس رہے ہیں آپ کے نزدیک ان سے اگر یہی سلوک ہندوستان کی حکومت کرے اور منو کی شریعت ان پر نافذ کرنے کی کوشش کرے تو ان کو اس کا حق ہوگا یا نہیں؟ اس پر جمعیۃ العلماء پاکستان کے صدر محمد احمد صاحب قادری نے یہ جواب دیا: ”ہندوؤں کو جو ہندوستان میں اکثریت رکھتے ہیں ہندو دھرم کے ماتحت مملکت قائم کرنے کا حق ہے اور اگر اس نظام حکومت میں منو شاستر کے ماتحت مسلمانوں سے ملیچھ یا شودروں کا سا سلوک کریں تو ان پر مجھے کوئی اعتراض نہ ہوگا“.(رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۴۵) گویا ہندوستان میں جب مسلمانوں کا قتل عام ہو یا فلسطین میں مسلمانوں کو تہ تیغ کیا جائے یا دنیا کے دوسرے ممالک میں مسلمانوں پر قیامت توڑی جائے تو مسلمان کہلانے والے ان مولویوں کی زبان سے آپ کوئی ایسا کلمہ نہیں سنیں گے جس سے اظہار غم تو در کنار انسانی دُکھ کا احساس ہی جھلکتا ہو.یہ لوگ کبھی ایک لفظ بھی نہیں بولے کہ انہیں دوسرے ممالک میں مسلمانوں کے مصائب سے تکلیف ہوئی ہے اور ہندوستان میں مسلمانوں سے جو کچھ ہوتا ہے اس سے بھی بے نیاز ہیں کیونکہ خود یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا جب ہم پاکستان میں غیر مسلموں سے یہ سلوک کر رہے ہیں تو ظاہر بات ہے کہ غیر مسلموں کا بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے ملک میں مسلمانوں پر مظالم توڑیں پس جہاں ہمارا زور چلے گا ہم زور لگائیں گے اور جہاں ہندوؤں کا مسلمانوں کے خلاف زور
خطبات طاہر جلدم 117 خطبه جمعه ۸؍ فروری ۱۹۸۵ء چل سکتا ہے بے شک چلتا ر ہے ہمیں اس کی قطعا کوئی پرواہ نہیں.مولا نا مودودی صاحب سے بھی عدالت میں یہی سوال کیا گیا جس کے جواب میں انہوں نے کہا: یقیناً مجھے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا کہ حکومت کے اس نظام میں مسلمانوں سے ملیچھوں اور شودروں کا سا سلوک کیا جائے.ان پر منو کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں حکومت میں حصہ اور شہریت کے حقوق قطعاً نہ دیئے جائیں“.( رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحہ نمبر ۲۴۵) سوال یہ ہے کہ غیر ملکوں اور غیر طاقتوں کے یہ لوگ ایجنٹ ہیں یا ہم ہیں جنہوں نے ہمیشہ مسلمان کے ہر خطرہ مین صف اول میں قربانیاں پیش کی ہیں.عالم اسلام میں کہیں بھی مسلمانوں کو کوئی دکھ اور تکلیف پہنچے تو اس کے نتیجہ میں سب سے زیادہ چوٹ احمدی کے دل پر پڑتی ہے.مولویوں کا تو یہ حال ہے کہ ہندوستان کے کروڑوں مسلمان جو پاکستان کی کل آبادی سے بھی زیادہ تعداد میں ہیں ان کے متعلق کہتے ہیں ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا ہمارے کانون پر جوں تک نہیں رینگے گی ، ہماری کوئی رگ حمیت نہیں پھڑ کے گی، ہمارا دل نہیں چلے گا ، ہمارا جگر خون نہیں ہوگا.امت محمدیہ کی طرف منسوب ہونے والوں پر ظلم سے کوئی تکلیف نہیں ہوگی چاہے ان سے غیر ہندوؤں کے متعلق منو شاستر والا سلوک کیا جائے.اور سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری نے تو اعداد و شمار بھی ظاہر کئے جو ان کے نزدیک غیر مسلم ممالک میں مسلمانوں کے ہیں.چنانچہ حج طنز یہ کہتے ہیں کہ یہ ہمارے اعدادو شمار نہیں یہ ان کے جمع کردہ اعداد و شمار ہیں لیکن اس سے اس بات کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مسلمانوں کی کتنی بڑی تعداد ہے جو غیر مسلم طاقتوں کے نیچے بس رہی ہے اور ان سے کیا سلوک ہوگا اس رویہ کے نتیجہ میں جو مسلمان مملکتوں میں غیر مسلموں سے روا رکھا جائے گا.چنانچہ اس ضمن میں سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کہتے ہیں : باقی 64 کروڑ کو اپنی تقدیر کا خود فیصلہ کرنا چاہئے“ ( رپورٹ تحقیقاتی عدالت صفحه ۳۲۳) کہ ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہم تو انسانی حقوق غصب کرنے کے لئے مامور کئے
خطبات طاہر جلدم 118 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء گئے ہیں ہم تو غصب کریں گے چاہے اس کے نتیجہ میں کروڑوں مسلمانوں کو ، غیر مسلم حکومتوں میں ظلم و ستم کا نشانہ ہی کیوں نہ بننا پڑے.اب منو کے قوانین سن لیجئے وہ کیا ہیں جن کے متعلق مولوی مودودی ، عطاء اللہ شاہ بخاری اور حامد بدایونی صاحب کہتے ہیں کہ مسلمانوں پر بے شک منوشاستر کے قوانین چلیں انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.منوجی ویدوں کی رو سے فرماتے ہیں کہ: اگر رذیل کی دختر سے کوئی شریف برہمن وغیرہ زنا کر بیٹھے تو کوئی دوش کی بات نہیں اور کسی قسم کا مواخذہ نہیں“ یعنی غیر ہندو یا چھوٹی ذات والا رذیل کہلاتا ہے ان کی عورتوں کی برہمن بے حرمتی کرے تو کہتے ہیں کوئی دوش کی بات نہیں اور ان سے کسی قسم کا مواخذہ نہیں ہوگا اور ادھر مولوی مودودی ،سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور حامد بدایونی یہ کہہ رہے ہیں کہ اگر مسلمان عورتوں سے ہندوستان میں یہ سلوک ہو تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہمارے دل کی دھڑکن تیز نہیں ہوگی اور خون تو در کنار ہم دو آنسو تک نہ بہائیں گے.حیف در حیف کہ امت محمدیہ کی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی اتنی بھی غیرت ان مولویوں کے دلوں میں نہیں بلکہ ان کا جذبہ اسلام تو بس یہیں تک ہے کہ احمدیوں کی جان، مال اور عزت کے درپے ہو جائیں.منوجی کی زبان میں مزید سنئے.شلوک نمبر ۳۸۱،۳۸۰ میں لکھا ہے: برہمن خواہ کتنے ہی بڑے جرم کا مرتکب ہو ہر گز قتل نہ ہونا چاہئے.برہمن کے قتل کے برابر کوئی گناہ نہیں.برہمن پہنچ ذات کی لڑکی کو اپنی زوجیت میں لاسکتا ہے اور اگر کسی نیچ ذات کے پاس سونا چاندی یا خوبصورت چیز ہو تو برہمن انہیں اپنے تصرف میں لاسکتا ہے.لیکن اگر کوئی نیچ ذات ایسا فعل کرے تو جلتے ہوئے لوہے کی چادر پر جلا کر مارا جائے.ایسا ہی اگر برہمن کسی شودر کو وید پڑھتا ہو اسن پائے تو اس کے کانوں میں پگھلا ہوا سکہ اور جلتی ہوئی موم بتی ڈالی جائے.آج کل پاکستان میں جو شریعت نافذ کی جارہی ہے وہ قرآن کریم سے تو نہیں لی گئی کیونکہ
خطبات طاہر جلدم 119 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء قرآن کریم تو ایک نہایت ہی حسین اور پر حکمت کتاب ہے جو شرف انسانی کو قائم کرتی ہے، انسانی مساوات کی علمبر دار ہے اور رحمت اور رافت کی تعلیم دیتی ہے.اس میں تو انسان کے بنیادی حقوق کو تلف کرنے کی ایسی کوئی تعلیم نہیں لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ منوجی سے شریعت لے لی ہے اور اب یہ لوگ منو کی تعلیم کو وہاں مسلمانوں کے خلاف اور یہاں بھی مسلمانوں کے خلاف نافذ کرنا چاہتے ہیں.منوجی کے قوانین میں پھر یہ بھی لکھا ہے: ” ( اونچی ذات کا ہندو اگر ) اپنی حاجت کی چیزیں کسی ولیش یا شودر کے گھر سے خود چرالے یا چوری کروا لے.بادشاہ کو ایسے مظلوم کی فریاد کو نہیں پہنچنا چاہئے.شودر کی مکتی اسی میں ہے کہ برہمن کی خدمت کیا کرے اور سب کام بے فائدہ ہیں.نیچ ذات کو روپیہ جمع کرنے کی اجازت نہیں مبادا وہ مالدار ہو کر اونچی ذات کے لوگوں پر حکم کرے.( منوسمرتی ادھیائے ۸ شلوک ۳۸۰ ،۳۸۱) اب دیکھ لیجئے کہ عیسائیوں کے ایجنٹ کون ہیں اور ہندوؤں کا ایجنٹ کون ہے اور غیر مذاہب اور غیر طاقتوں کا ایجنٹ کون ہے.مسجدیں بیچ کر کھا جانے والے علماء کا یہ ٹولہ مسلمان عورتوں کی عزت و ناموس سے ایسے بے پرواہ کہ ان پر کسی قسم کا بھی ظلم ہو یہ کہتے ہیں ہمیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے استعماری طاقتوں کی شہہ پر نہتے فلسطینیوں پر گولیاں چلانے سے دریغ نہیں کیا تھا.یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہمیشہ اسلام کے مقابل پر عیسائیت کی تائید کی اور حضرت عیسی علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرنے کے لئے صدیوں سے وقف ہوئے پڑے ہیں.پس استعماری طاقتوں اور اسلام دشمن تحریکوں کے ایجنٹ یہ لوگ ہیں یا جماعت احمدیہ ہے جس نے ہمیشہ اسلام کی برتری اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے کو سر بلند کرنے کے لئے اپنی ہر چیز داؤ پر لگا رکھی ہے اور اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے کبھی ایک لحظہ کے لئے تر در اختیار نہیں کیا.ان لوگوں کا تو یہ حال ہے کہ بیچارے وہ مسلمان جن کو خود بھی مسلمان تسلیم کرتے ہیں ان پر انتہائی مظالم ہورہے ہوں تب بھی ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اس کے برعکس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جن پر الزام لگاتے ہوئے اور گند اچھالتے ہوئے ان کی زبانیں نہیں تھکتیں ان کے دل کی یہ کیفیت تھی کہ اپنے
خطبات طاہر جلدم 120 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء شدید ترین دشمنوں کے متعلق بھی جو اسلام کے نام لیوا اور مسلمان ہونے کے دعویدار تھے فرماتے ہیں.اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کاخر کنند دعوی حب پیمبرم فرمایا یہ لوگ مجھے گالیاں دیتے ہیں مجھے کا فر اور مرتد قرار دیتے ہیں اور بھی نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں ان کے نزدیک میرا خون مباح ہو گیا ہے، میرے ماننے والوں کا خون مباح ہو گیا ہے.ان کے نزدیک نہ ہماری عزت کی کوئی قیمت ہے نہ ہمارے مال کی کوئی قیمت ہے، نہ ہماری جان کی کوئی قیمت ہے پھر بھی اے خدا ! میں ان پر بھی بددعا نہیں کرتا ، کیوں بددعا نہیں کرتا اس لئے کہ میرے محبوب آقا محمد مصطفی ﷺ کی محبت کے دعویدار ہیں.یہ جھوٹے ہی سہی ، ان کا کردار کیسا ہی بگڑ چکا ہے.ان کے ایمان میں کیسے ہی رخنے پڑ چکے ہیں مگر اے میرے دل ! تو ہمیشہ اس بات کی لاج رکھنا کہ یہ لوگ میرے محبوب، میرے آقا، میری محبتوں کے مرکز و منتہاء محمد مصطفی ﷺ کے نام لیوا اور آپ کی محبت کا دعویٰ کرتے ہیں اس لئے ان کے خلاف کبھی بددعا نہیں کرنی.پس یہ کیسی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں کے لئے گداز دل رکھنے والا یہ وجود اور اس کی جماعت تو نعوذ باللہ من ذالک اسلام کے غدار ہیں لیکن مولویوں کا یہ ٹولہ ہے جو بزعم خویش اسلام کے ہمدرد، اسلام کی خاطر لڑنے والے اور اسلام کے مجاہدین بنے پھرتے ہیں یہ اسلام کے خیر خواہ ہیں.آخر وہ کون سا کردار ہے جسے یہ لوگ قیامت کے دن خدا کے حضور پیش کریں گے اور بتائیں گے کہ انہوں نے اسلام کی سربلندی کے لئے اور اس کے دفاع میں یہ یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا.کل تک صورت حال مختلف تھی اس وقت ابھی مسلمان علماء اور مفکرین میں حق بات کہنے کی جرات تھی حق بات کہنے سے وہ شرمایا نہیں کرتے تھے.یہ وہ زمانہ تھا کہ کبھی مولانامحمد حسین صاحب بٹالوی کے قلم سے بھی یہ بات نکل جاتی تھی کہ اسلام کے دفاع میں سب سے زیادہ شاندار لڑنے والا اگر کوئی پیدا ہوا ہے تو وہ مرزا غلام احمد قادیانی ہے.کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ مرزا صاحب کے دعوی سے پہلے کی بات ہے لیکن مولوی نور محمد صاحب نقش بندی کا جو حوالہ میں نے پڑھا ہے وہ تو دعوئی سے پہلے کی بات نہیں وہ تو دعوی مسیحیت کے بہت بعد کی تحریر ہے..
خطبات طاہر جلدم 121 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء ایک اور تحریر بھی اس ضمن میں قابل ذکر ہے جو ایک مشہور مسلمان عالم دین اور سیاسی شخصیت کی ہے، اسے میں پڑھ کر سناتا ہوں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد کا مقصد کیا تھا اور اس کو آپ نے کس طریق پر حاصل کیا.یہ تحریر مولانا ابوالکلام آزاد کی ہے وہ کہتے ہیں: وو......غرض مرزا صاحب کی یہ خدمت آنے والی نسلوں کو گراں بار احسان رکھے گی کہ انہوں نے قلمی جہاد کرنے والوں کی پہلی صف میں شامل ہو کر اسلام کی طرف سے فرضِ مدافعت ادا کیا اور ایسالٹریچر یادگار چھوڑ ا جو اس وقت تک کہ مسلمانوں کی رگوں میں زندہ خون رہے اور حمایت اسلام کا جذبہ ان کے شعار قومی کا عنوان نظر آئے ، قائم رہے گا“.(اخبار وکیل امرتسر جون ۱۹۰۸.اخبار ملت لاہور 7 جنوری 1911 ء ) پس آج میں مسلمانان پاکستان کو اور مسلمانان عالم کو مولانا ابوالکلام آزاد کے اس حسن ظن کی یاد دلاتا ہوں اور میں تمہیں یہ یاد دلاتا ہوں کہ یہ تمہارا ہی ایک بہت بڑا رہنما ہے جس نے تم سے یہ حسن ظن رکھا تھا اور اس کا برملا اظہار کیا تھا اور یہ سمجھ کر کیا تھا کہ اگر تمہاری رگوں میں اسلام کی حمیت اور غیرت موجود ہے اور اگر تمہاری رگوں میں اسلام کی حمایت کا زندہ خون دوڑ رہا ہے تو جب تک یہ خون زندہ رہے گا اس وقت تک حضرت مرزا صاحب کی اسلام کی خدمات کے اعتراف کرنے پر تم اپنے آپ کو مجبور پاؤ گے.تمہاری زبانیں یہ تسلیم کرنے پر مجبور کر دی جائینگی کہ اسلام کے دفاع میں حضرت مرزا صاحب نے جو خدمات سرانجام دی ہیں ویسی خدمات کسی اور جگہ تمہیں نظر نہیں آئیں گی.جب تک تمہارا حمایت اسلام کا جذبہ تمہارے شعار قومی کا عنوان رہے گا اس وقت تک مولا نا ابوالکلام آزاد کے نزدیک تم حضرت مرزا صاحب کے متعلق یہ اعتراف کرنے پر مجبور ہو گے کہ مسلمانوں کی طرف سے عیسائیت کے خلاف جو کامیاب جہاد کیا گیا ہے وہ قادیان میں پیدا ہونے والے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی نے کیا ہے اور صف اول میں رہ کر کیا ہے.آپ ان مجاہدین اسلام میں سے ہیں جو سب سے آگے بڑھ کر دشمنانِ اسلام پر حملہ کرنے والے تھے.پس میں اپنے مسلمان بھائیوں سے پوچھتا ہوں اور ہر احمدی ان سے پوچھنے کا یہ حق رکھتا
خطبات طاہر جلدم 122 خطبه جمعه ۱۸ فروری ۱۹۸۵ء ہے کہ وہ زندہ خون کہاں گیا، اس اسلامی حمیت و غیرت پر کیا بنی کہ آج تم بالکل الٹ باتیں کر رہے ہو.عیسائیت کے مقابل پر اسلام کے اس بطل جلیل کے خلاف آج تم یہ الزام لگا رہے ہو کہ یہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے، عیسائیت نے اپنے مفاد کی خاطر اس پودے کی آبیاری کی تھی.کہاں گئیں تمہاری وہ غیر تیں! کہاں گیا تمہارا وہ زندہ خون بھی غور تو کرو اور سوچو تو سہی کہ یہ خون کس نے چوس لیا ہے.بسا اوقات ایک Vampire یعنی ایسی چمگادڑ کے قصے سننے میں آتے ہیں جو سوتے ہوئے انسان کی رگوں کے ساتھ چمٹ کر اس کا خون چوس لیا کرتی ہے، وہ انسان کی گردن میں اپنے پنجے پیوست کر کے اپنے دانت اس کی رگ جان میں گاڑ کر انسان کا خون چوس لیتی ہے.تو وہ کون سی چمگادڑ ہے وہ کون سی ظالم Vampire ہے جس نے آج تمہاری رگوں میں اپنے دانت گاڑے ہوئے ہیں اور اسلامی حمیت کا خون چوس رہی ہے اور تمہیں اس کا احساس ہی نہیں ہو رہا.اگر آج بھی تمہاری رگوں میں اسلامی غیرت و حمیت کا زندہ خون دوڑ رہا ہوتا تو جیسا کہ مولانا ابو الکلام آزاد نے فرمایا ہے خدا کی قسم تم حضرت مرزا صاحب پر لعنتیں بھیجنے کی بجائے ہمیشہ سلامتی بھیجتے چلے جاتے تم ہمیشہ داد تحسین پیش کرتے چلے جاتے اسلام کے اس بطل جلیل کو جس نے اپنی جان ، اپنی عزت ، اپنے مال ، اپنی اولاد، اپنے ماں باپ سب کچھ اسلام کے نام پر قربان کر دیا اور صرف ایک امید لے کر اٹھا صرف ایک امید لے کر جیا اور صرف ایک امید کے پورا ہونے کی آرزو لئے دنیا سے رخصت ہوا کہ کاش دنیا سے عیسائیت کی تعلیم ہمیشہ کے لئے مٹادی جائے.ایک ہی تعلیم ہو اور وہ میرے آقا و مولا محمدمصطفی ﷺ کی تعلیم ہو اور ایک ہی کتاب ہو جو میرے آقا و مولا محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہونے والی کتاب ہو اور ایک ہی رسول ہو جو عزت سے یاد کیا جائے یعنی محمد عربی.مگر آج یہ تمہارے نزدیک اسلام کا سب سے بڑا غدار ہے اور وہ تم ہاں تم جو مسلمانوں کی رگ حمیت کا خون چوس رہے ہو بزعم خویش اسلام کے بطل جلیل بن کر دنیا کے سامنے پیش ہورہے ہو.خدا کی قسم تمہارا یہ دھوکا نہیں چلے گا ہم تمہارا دھوکا نہیں چلنے دیں گے.ہم دنیا کو دکھا کر چھوڑیں گے کہ غدار کون ہے اور اسلام کا مجاہد اول کون !
خطبات طاہر جلدم 123 خطبه جمعه ۱۵ر فروری ۱۹۸۵ء حکومتی قرطاس ابیض کے الزامات کے جواب اسلام کا نظریہ جہاد اور جماعت احمدیہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ / فروری ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں: أذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا وَإِنَّ اللَّهَ عَلَى نَصْرِهِمْ لَقَدِيرُ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍ إِلَّا أَنْ تَقُولُوا رَبُّنَا اللهُ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوتُ وَ مَسجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُ ( سورة الحج : ۳۰-۴۱) اور پھر فرمایا: حکومت پاکستان کے شائع کردہ رسالہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف جو بہتان لگائے گئے ہیں اور الزام تراشیوں سے کام لیا گیا ہے ان میں ایک اہم الزام یہ ہے کہ آپ نعوذ باللہ من ذالک انگریزوں کے خود کاشتہ پودا تھے.گویا جماعت احمد یہ انگریزوں کی ہی قائم کردہ ایک جماعت ہے.اس سلسلہ میں گزشتہ خطبہ میں اس الزام کے ایک پہلو سے متعلق میں نے احباب جماعت کو مخاطب کیا تھا اور اس کے مختلف زاویوں اور مختلف حصوں پر روشنی ڈالی تھی اب
خطبات طاہر جلدم 124 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء میں بعض اور پہلوؤں سے اس الزام کی مختلف شاخوں پر گفتگو کروں گا.اس الزام کے ساتھ تعلق بناتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جہاد کا منسوخ کرنے والا قرار دیا گیا اور یہ دلیل قائم کی گئی ہے کہ چونکہ آپ انگریز کے مقاصد کی خاطر انگریزوں ہی کی طرف سے کھڑے کئے گئے تھے اس لئے ان مقاصد میں سے ایک اہم مقصد جہاد کی تنسیخ تھا اور چونکہ آپ نے اپنے کلام میں اس بات کو (قرطاس ابیض کے مطابق ) بکثرت تسلیم کیا ہے کہ آپ انگریز کے مقصد کو پورا کرنے کی خاطر انگریز ہی کی طرف سے ایک نمائندہ بن کر کھڑے ہوئے.اگر اس دلیل کا قریب سے بغور مطالعہ کیا جائے تو اس کے بہت سے پہلو ہیں جن کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کا جائزہ لینا ہوگا.سب سے پہلے یہ کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انگریز کے مقاصد کی خاطر تنسیخ جہاد کا اعلان کیا تو وہ مقاصد کیا تھے اور وہ آپ کی ذات سے کیسے پورے ہوئے؟ دوئم یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تنسیخ جہاد کا اعلان کن حالات میں کیا.کون سے خطرات تھے جو انگریزوں کو حقیقہ در پیش تھے؟ اس کا سیاسی پس منظر کیا تھا ؟ اس کے علاوہ اور بہت سے امور ہیں جن کو میں نے نکتہ بہ نکتہ ذہن میں رکھا ہوا ہے اور میں انشاء اللہ ان میں سے ہر پہلو پر روشنی ڈالوں گا.اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو یہ بات دیکھنے والی ہے کہ اگر انگریز نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جہاد کی منسوخی کا اعلان کروانا تھا اور مسلمانوں کو اس خیال سے باز رکھنا تھا تو یہ ناممکن تھا کہ آپ سے ایسا دعویٰ بھی ساتھ کر وادیتے جن سے ساری قوم آپ کی دشمن ہو جاتی.کہاں وہ دن تھے کہ علماء آپ کو عظیم الشان خراج تحسین پیش کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ عالم اسلام میں حضور اکرم ﷺ کے وصال کے بعد سے لے کر آج تک اس قسم کا عظیم مجاہد اسلام پیدا نہیں ہوا اور کہاں وہ دعاوی جن کے نتیجہ میں اچانک ساری کایا پلٹ گئی.غیر تو غیر اپنے بھی دشمن ہو گئے ، خونی رشتے دار خونی دشمنوں میں تبدیل ہو گئے اور ایک ہی دعویٰ کے ساتھ ایک ہی رات میں ایسی کا یا بیٹی کہ تمام دنیا میں گویا ایک بھی آپ کا حمایتی نہ رہا.ایسا دعوی کروادینا جس کے نتیجہ میں ساری دنیادشمن ہو جائے اس کے بعد انگریز کو یا توقع تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بات کون مانے گا.یعنی تنسیخ جہاد کے اعلان کے لئے
خطبات طاہر جلدم 125 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء کھڑا کیا جا رہا ہے اور دعاوی وہ کروائے جارہے ہیں کہ جن کے بعد وہ لوگ جو کچھ تعلق رکھنے والے تھے وہ بھی خون کے پیاسوں میں تبدیل ہو جائیں ایسی جہالت کی بات کسی ایسے شخص کی عقل میں آ جائے جس قسم کے اشخاص آج کل احمدیت کی دشمنی میں نمایاں ہیں تو یہ ممکن ہے.لیکن دنیا کا کوئی معقول آدمی اسے تسلیم نہیں کر سکتا.یعنی آپ کے ہاتھوں اپنا مصنوعی خدا مر والیا اور نبوت یعنی امتی نبی کا دعوی کروا کر تمام مسلمانوں کو آپ کا دشمن بنوا دیا.حضرت بابا نانک کے متعلق اعلان کرا کے ان تمام سکھوں کو جو پنجاب میں ارد گرد بستے تھے دشمن بنا دیا.آریوں سے ٹکر لگوائی اور سارے آریہ سماج کو دشمن بنادیا.سناتن دھرمیوں سے ٹکر لگوائی اور سارے سناتن دھرمیوں کو دشمن بنوا دیا، بدھوں کے متعلق وہ اعلان کروایا جو انہیں قبول نہ تھا، زرتشتیوں کے متعلق وہ اعلان کروایا جو انہیں قبول نہیں تھا اور تمام دنیا میں جتنی قو میں بھی مذہب کی طرف منسوب ہوتی ہیں ان سب کو چیلنج دلوا دیا اور ہر ایک کے متعلق ایسی بات کہلوائی جو سب کے دل کو کڑوی لگتی تھی اس قسم کا مدعی تو کبھی دنیا میں کسی نے نہیں دیکھا کہ باتیں وہ کہے جو کڑوی ہوں اور ہر ایک کو تکلیف پہنچاتی ہوں اور مقصد اس کا یہ ہو کہ لوگوں کو اپنے پیچھے چلائے اور ان کے خیالات تبدیل کرے.اس قسم کے اشخاص تو سوائے نبوت کے کبھی منصہ شہود پر نہیں ابھرا کرتے.قرآن کریم کی تاریخ اٹھا کر دیکھئے تو اس سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ واقعہ نبوت کے سوا ایسا واقعہ کبھی نہیں ہوتا کہ ایک شخص ساری دنیا کو اپنی طرف بلانے والا ہو اور دعوئی ایسا کر دے جو ساری دنیا کو قبول نہ ہو اور یہ ایک حقیقت ہے کہ وقت کا سب سے کر وا دعویٰ یہ ہوا کرتا ہے کہ ”خدا نے مجھے بھیجا ہے جس کے نتیجہ میں غیر تو غیر اپنے بھی ساتھ چھوڑ دیا کرتے ہیں.پس ایسا دعوئی انگریز نے کروا دیا جو ان مخالفین کے نزدیک قطعاً جائز نہیں اور پھر توقع یہ رکھی کہ جب یہ شخص کہے گا کہ جہاد کا خیال چھوڑ دو تو سارے مسلمان ایک دم جہاد کا خیال چھوڑ دیں گے اور انگریزی حکومت کی ساری سر دردی ختم ہو جائے گی ، سارے مسائل حل ہو جائیں گے کیونکہ حضرت مرزا صاحب نے جو اعلان کر دیا.یہ بات ان لوگوں کی عقل میں آجائے تو آجائے کوئی معقول انسان ایسی الٹی بات کا تصور بھی نہیں کرسکتا.پھر حالات کیا تھے جن سے انگریزوں کو خطرہ تھا.آئیے ! اب ہم ان حالات اور اس سیاسی پس منظر کا جائزہ لیں جس وقت انگریز ہندوستان میں داخل ہوا اور اس نے اپنی حکومت مستحکم کی ہے.
خطبات طاہر جلدم 126 خطبه جمعه ۱۵ر فروری ۱۹۸۵ء اس وقت مسلمانوں کے کس قسم کے حالات تھے، کیسی طاقت کا دور دورہ تھا جس سے انگریز خائف تھا.مولوی مسعود عالم صاحب ندوی اس دور کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: دسکھوں کے مظالم ان کے سامنے تھے.مسلمان عورتوں کی عصمت و آبر ومحفوظ نہ رہی تھی.ان کا خون حلال ہو چکا تھا.گائے کی قربانی ممنوع تھی مسجدوں سے اصطبل کا کام لیا جارہا تھا.غرض مظالم کا ایک بے پناہ سیلاب تھا.“ اس وقت پنجاب میں سکھا شاہی کا دور تھا جو پانچ دریاؤں کی مسلم آبادی کو بہائے لئے جارہا تھا.آنکھیں سب کچھ دیکھتی تھیں مگر قوائے عمل مفلوج ہو چکے تھے.(ہندوستان کی پہلی تحریک صفحه: ۴۵،۳۷) سارا ہندوستان پس رہا تھا مگر قوائے عمل مفلوج ہو چکے تھے اور شمال سے جنوب تک کے مسلمانوں کو یہ توفیق نہیں تھی کہ اپنے مسلمان بھائیوں کے خون کی حرمت کا اعلان کریں اور ان لوگوں کے خلاف جہاد کریں جنہوں نے اس کو حلال کر دیا تھا.ان کے نزدیک گائے کا خون حرام تھا لیکن مسلمان کا خون حلال ہو چکا تھا ، ان کے نزدیک مسلمان عورتوں کی عصمت و آبرو کی کوئی بھی قدرو قیمت نہ تھی.ان ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی آبرو کی حفاظت کے لئے تو کوئی بھی ہاتھ نہیں اٹھا.ان کو اس دور سے کس نے نجات دی وہ انگریزی حکومت ہی تھی.جب وہ آئی تب مسلمانوں کے لئے امن آیا.کیا پھر ان مسلمانوں سے وہ انگریز خوف کھا رہے تھے جو دتی میں ایک حکومت بنا کر بیٹھے ہوئے تھے جن کی دتی بھی جشن منا رہی تھی ، تمام ہندو ریاستیں آزاد ہو چکی تھیں.ہر طرف سے خونخوار بھیڑیوں کی طرح ان مسلمانوں کو ظلم وستم کا نشانہ بنایا جار ہا تھا جن میں اپنی حفاظت کی بھی طاقت نہیں تھی اور جن سے صرف ایک کمپنی نے ہی حکومت چھین لی تھی کیا ان سے انگریزوں کو خوف تھا کہ وہ انہیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیں گے.اور اس جہاد میں معقولیت کیا ہوتی ؟ ذرا غور تو کریں کہ انگریز آیا اور سکھوں کے مظالم سے نجات دی ، ہندو راجوں اور مرہٹوں کے ظلم و ستم اور استبداد سے مسلمانوں کو بچایا اور پھر اچانک مسلمان اٹھ کھڑے ہوتے کہ اچھا! اب تم نے ہمیں بچالیا ہے تو ہم تمہیں ٹھیک کرتے ہیں اور سزا دیتے ہیں اور تمہیں بتاتے ہیں کہ کیسے مظلوموں کو بچایا جاتا ہے.یہ تھا تمہارا تو
خطبات طاہر جلد۴ 127 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء جہاد؟ کوئی عقل کی بات کرو، کوئی ہوش کے ناخن لو، کیا دعوے کر رہے ہو، دنیا کو کیا منہ دکھاؤ گے کہ یہ ہمارے دعوے ہیں، اس انگریز کے خلاف ہم جہاد کرنا چاہتے تھے جس نے سکھوں کے مظالم سے ہمیں رہائی دلائی.لیکن ہوا یہ کہ انگریز نے ایک ایسے شخص کی زبان سے جہاد کے حرام ہونے کا اعلان کرا دیا جو ہمارا دشمن اور انگریز کا ایجنٹ تھا اس لئے ہم نے انگریز سے جہاد نہ کیا.کیا ایسی نامعقول باتیں کوئی تسلیم کر سکتا ہے؟ اس کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کون سے جہاد کو حرام قرار دیا ہے.جہاد کے تو مختلف پہلو ہیں مثلاً تلوار کا جہاد ہے ، وقت کی قربانی پیش کرنے کا جہاد ہے تبلیغ اسلام کا جہاد ہے وغیرہ یہ بڑا اوسیع مضمون ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس جہاد کو حرام کہا؟ کیا اسلامی جہاد کے تصور کو حرام کہا یا لوگوں کے بگڑے ہوئے تصور کو حرام قرار دیا؟ تو جس نے کہا اس کی زبان سے سنو اور غور کرو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے کس چیز کو حرام کہہ رہا ہے اور کس چیز کو حلال بتا رہا ہے.اس سے پہلے کہ میں آپ کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پڑھ کر سناؤں اس میں جس پادری کا ذکر ہے اس کا پس منظر بتا دیتا ہوں.آپ کے زمانہ میں پادری ( خصوصاً وہ جو مسلمانوں سے مرتد ہوئے تھے ) اسلام پر شدید حملے کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ اسلام تلوار کے جہاد کی تلقین کرتا ہے اور ادھر انگریزی حکومت کو متنبہ کر رہے تھے کہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دو، ان میں اٹھنے کی طاقت نہ رہنے دو.یہ وہ دور تھا جب کہ عیسائی پادری بڑھ بڑھ کر انگریزوں کو مسلمانوں کے عقیدہ جہاد کی وجہ سے بھڑ کا نا چاہتے تھے.گوانگریزوں کے غلبہ کے بعد مسلمان بیچاروں میں تو کوئی جوش آہی نہیں رہا تھا.ان کی باتیں میں آپ کو سناؤں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ وہ اس کے نتیجہ میں کیا سوچ رہے تھے اور کس طرح انگریزوں سے مخاطب ہور ہے تھے اور انہیں کیا درخواستیں دے رہے تھے.لیکن یہ پادریوں کا یکطرفہ ظالمانہ حملہ تھا اور ان کی اسلام دشمنی کا ثبوت تھا.وہ چاہتے تھے کہ اس بہانے سے مسلمانوں کو ہندوستان میں کچل دیا جائے اور ہندو طاقت کی سر پرستی کی جائے اور اسے ابھارا جائے جبکہ ہندوؤں کا بھی یہی طریق تھا کہ وہ بار بار انگریز حکام کو مخاطب کر کے توجہ دلاتے تھے کہ اصل خطرہ تمہیں مسلمانوں سے ہے اس لئے ان مرے مٹوں کو اور بھی بالکل مٹادو، برباد کر دو، اٹھنے کی طاقت کا خیال ہی ان کے دل سے نکال دو.پادری عمادالدین
خطبات طاہر جلدم 128 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء سابق واعظ و خطیب جامع مسجد آگرہ جس کا پہلے بھی ذکر آچکا ہے اس کے ایسے ہی الزامات کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس نکتہ چین نے جو جہاد اسلام کا ذکر کیا ہے اور گمان کرتا ہے کہ قرآن بغیر لحاظ کسی شرط کے جہاد پر انگیختہ کرتا ہے سو اس سے بڑھ کر اور کوئی جھوٹ اور افتراء نہیں.قرآن شریف صرف ان لوگوں کے ساتھ لڑنے کا حکم فرماتا ہے جو خدا کے بندوں کو اس پر ایمان لانے اور اس کے دین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں اور اس بات سے کہ وہ خدا کے حکموں پر کار بند ہوں اور اس کی عبادت کریں اور وہ ان لوگوں سے لڑنے کے لئے حکم فرماتا ہے جو مسلمانوں سے بے وجہ لڑتے ہیں اور مومنوں کو ان کے گھروں سے اور وطنوں سے نکالتے ہیں اور خلق اللہ کو جبرا اپنے دین میں داخل کرتے ہیں اور دین اسلام کو نابود کرنا چاہتے ہیں اور لوگوں کو مسلمان ہونے سے روکتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا تعالیٰ کا غضب ہے.اور مومنوں پر واجب ہے کہ ان سے لڑیں اگر وہ باز نہ آویں“.نور الحق حصہ اول روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۶۲۰ ترجمه از عربی عبارت ) یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دو تنسیخ جہاؤ“.اب اور سنئے ! کس چیز کو حرام قرار دیا، کس چیز کے خلاف آپ نے جہاد کا علم بلند کیا.سو واضح ہو کہ بعض جاہل علماء اور پادریوں کے غلط تصورات تھے جن کے خلاف آپ نے آواز بلند کی ہے.ان علماء کے غلط تصورات کے نتیجہ میں اسلام کو تو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچنا تھا کیونکہ ان میں لڑنے کی کوئی طاقت ہی نہیں تھی ہاں نقصان کے بہت سے اندیشے اور خطرات تھے جو ان کو ہر طرف سے گھیرے ہوئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: " سبحان اللہ !وہ لوگ کیسے راست باز اور نبیوں کی روح اپنے اندر رکھتے تھے کہ جب خدا نے مکہ میں ان کو یہ حکم دیا کہ بدی کا مقابلہ مت کرو اگر چہ ٹکڑے ٹکڑے کئے جاؤ.پس وہ اس حکم کو پاکر شیر خوار بچوں کی طرح عاجز اور
خطبات طاہر جلدم 129 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء کمزور بن گئے گویا نہ ان کے ہاتھوں میں زور ہے نہ ان کے بازوؤں میں طاقت.بعض ان میں سے اس طور سے بھی قتل کئے گئے کہ دو اونٹوں کو ایک جگہ کھڑا کر کے ان کی ٹانگیں مضبوط طور پر ان اونٹوں سے باندھ دی گئیں اور پھر اونٹوں کو مخالف سمت میں دوڑایا گیا.پس وہ ایک دم میں ایسے چر گئے جیسے گاجر یا مولی چیری جاتی ہے.مگر افسوس کہ مسلمانوں اور خاص کر مولویوں نے ان تمام واقعات کو نظر انداز کر دیا ہے اور اب وہ خیال کرتے ہیں کہ گویا تمام دنیا ان کا شکار ہے اور جس طرح ایک شکاری ایک ہرن کا کسی بن میں پتہ لگا کر چُھپ چُھپ کر اس کی طرف جاتا ہے اور آخر موقع پا کر بندوق کا فائر کرتا ہے یہی حالات اکثر مولویوں کے ہیں.انہوں نے انسانی ہمدردی کے سبق میں سے کبھی ایک حرف بھی نہیں پڑھا بلکہ ان کے نزدیک خواہ نخواہ ایک غافل انسان پر پستول یا بندوق چلا دینا اسلام سمجھا گیا ہے.وہ لوگ کہاں ہیں جو صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرح ماریں کھائیں اور صبر کریں.کیا خدا نے ہمیں یہ حکم دیا ہے کہ ہم خواہ خواہ بغیر ثبوت کسی جرم کے ایسے انسان کو کہ نہ ہم اسے جانتے ہیں اور نہ وہ ہمیں جانتا ہے غافل پا کر چھری سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں یا بندوق سے اس کا کام تمام کریں.کیا ایسا دین خدا کی طرف سے ہو سکتا ہے جو یہ سکھاتا ہے کہ یونہی بے گناہ، بے جرم ، بے تبلیغ خدا کے بندوں کو قتل کرتے جاؤ، اس سے تم بہشت میں داخل ہو جاؤ گے.افسوس کا مقام ہے اور شرم کی جگہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس سے ہماری کچھ سابق دشمنی بھی نہیں بلکہ روشناسی بھی نہیں وہ کسی دوکان پر اپنے بچوں کے لئے کوئی چیز خرید رہا ہے یا اپنے کسی اور جائز کام میں مشغول ہے اور ہم نے بے وجہ بے تعلق اس پر پستول چلا کر ایک دم میں اس کی بیوی کو بیوہ اور اس کے بچوں کو یتیم اور اس کے گھر کو ماتم کدہ بنا دیا.یہ طریق کس حدیث میں لکھا ہے یا کس آیت میں مرقوم ہے؟ کوئی مولوی ہے جو اس کا جواب دے؟ نادانوں نے جہاد کا نام سن لیا ہے اور پھر
خطبات طاہر جلدم 130 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء اس بہانہ سے اپنی نفسانی اغراض کو پورا کرنا چاہا ہے.گورنمنٹ انگریزی اور جہادروحانی خزائن جلد۷ اصفحہ :۱۲.۱۳) پس یہ وہ جہاد کا تصور ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حرام قرار دیا ہے.علماء میں سے آج کون ہے جو اس کو آج بھی حلال کہ سکتا ہے.اس لئے جھوٹے الزام لگا رہے ہیں.جس چیز کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حرام کیا ہے وہ مخالفین کے اپنے تصورات تھے.لیکن ان کے یہ تصورات اب ظاہر ہورہے ہیں، اس وقت وہ خفیہ باتیں کیا کرتے تھے اور جہاں تک انگریزی حکومت کا تعلق ہے اس کو مخاطب کر کے جہاد کا وہی تصور بتاتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے.میں اس مضمون کے متعلق ابھی چند اقتباس پڑھوں گا تب آپ کو پتہ چلے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کیسے کیسے مخالفین سے واسطہ پڑا تھا.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کو یونہی تو نہیں چنا کرتا اور ان سے پیار کیا کرتا بلکہ وہ انہیں نہایت ہی دکھوں اور مصیبتوں کے ابتلاء میں ڈالتا ہے، انہیں نہایت ہی ظالموں کے ساتھ واسطہ پڑتا ہے اور وہ صبر سے کام لیتے ہیں تب خدا کے حضور مقدس اور پاکیزہ گنے جاتے ہیں اور ان لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جو خدا کو پیارے ہوا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : فرفعت هذه السنة برفع اسبا بها في هذه الايام کہ تلوار کے ساتھ جہاد کے شرائط پائے نہ جانے کے باعث موجودہ ایام میں تلوار کا جہاد نہیں رہا.پھر فرمایا: وا مرنا ان نعد للكافرين كما يعدون لنا ولا نرفع الحسام قبل ان نقتل بالحسام.اور ہمیں یہی حکم ہے کہ ہم کافروں کے مقابل میں اس قسم کی تیاری کریں جیسی وہ ہمارے مقابلہ کے لئے کرتے ہیں یا یہ کہ ہم کافروں سے ایسا ہی سلوک کریں جیسا وہ ہم سے کرتے ہیں اور جب تک وہ ہم پر تلوار نہ اٹھائیں اس وقت تک ہم بھی ان پر تلوار نہ اٹھا ئیں.“
خطبات طاہر جلدم 131 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء پھر فرماتے ہیں: (حقیقة المهدی روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۴۵۴ ) اس زمانہ کا جہاد روحانی صورت سے رنگ پکڑ گیا ہے اور اس زمانہ میں جہاد یہی ہے کہ اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں“ البدر نمبر ۳۰، جلد ۲، ۱۴ اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳۹) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے صرف جہاد کا وہ تصور منسوخ فرمایا ہے جو علماء نے اپنی طرف سے گھڑ لیا تھا.جب تک شرائط جہاد پوری نہ ہوں اس وقت تک جہاد کرنا منع ہے.اور وہ بھی جہاد کا صرف ایک حصہ ہے جو شرط پوری نہ ہونے کی وجہ سے منع ہے.جہاں تک جہاد کے وسیع تر مضمون کا تعلق ہے جہاد فی ذاتہ تو کبھی منسوخ ہو ہی نہیں سکتا وہ ہر حال میں لازماً ہمیشہ جاری رہے گا اور اس کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور ایسی ہوگی جسے مومن سرانجام دے سکتا ہے.چنانچہ آپ مزید فرماتے ہیں: البدر نمبر ۳۰ جلد ۲ ۱۴ /اگست ۱۹۰۳ء صفحه ۲۳۹) اعلاء کلمہ اسلام میں کوشش کریں، مخالفوں کے الزامات کا جواب دیں، دین متین اسلام کی خوبیاں دنیا میں پھیلا دیں آنحضرت ﷺ کی سچائی دنیا پر ظاہر کریں.یہی جہاد ہے جب تک خدا تعالیٰ کوئی دوسری صورت دنیا میں ظاہر کرے“ یعنی جہاد کی یہ صورت ہمیشہ کے لئے نہیں.دوسری صورت سے مراد یہ ہے کہ جب دشمن اسلام مذہب کے خلاف جبر سے کام لے گا تو تمہیں بھی اجازت ہو جائے گی لیکن جب تک ایسی صورت ظاہر نہیں ہوتی اس وقت تک جہاد کی دوسری شکلیں ہیں جو تمہارے سامنے ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں.”اب سے تلوار کے جہاد کا خاتمہ ہے ( ہر جہاد کا نہیں وہ کیوں؟ اس کی وضاحت پہلے فرما چکے ہیں.ناقل ) مگر اپنے نفسوں کے پاک کرنے کا جہاد باقی ہے.یہ بات میں نے اپنی طرف سے نہیں کی بلکہ خدا کا یہی ارادہ ہے.صحیح بخاری کی اس حدیث کو سوچو جہاں مسیح موعود کی تعریف میں لکھا ہے کہ يضع
خطبات طاہر جلدم 132 الحرب یعنی مسیح جب آئے گا تو دینی جنگوں کا خاتمہ کر دے گا“ خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء گورنمنٹ انگریزی اور جہادروحانی خزائن جلد ۷ اصفحہ : ۱۵) پس یہ تو آنحضرت ﷺ کا ہی ارشاد ہے پھر آپ تحفہ قیصریہ میں تحریر فرماتے ہیں: اور دوسرا اصول جس پر مجھے قائم کیا گیا ہے وہ جہاد کے اس غلط مسئلہ کی اصلاح ہے جو بعض نادان مسلمانوں میں مشہور ہے.سو مجھے خدا تعالیٰ نے سمجھا دیا ہے کہ جن طریقوں کو آج کل جہاد سمجھا جاتا ہے وہ قرآنی تعلیم سے بالکل مخالف ہیں.بے شک قرآن شریف میں لڑائیوں کا حکم ہوا تھا جو موسیٰ کی لڑائیوں سے زیادہ معقول اور یشوع بن نون کی لڑائیوں سے زیادہ پسندیدگی اپنے اندر رکھتا تھا اور اس کی بناء صرف اس بات پر تھی کہ جنہوں نے مسلمانوں کے قتل کرنے کے لئے ناحق تلوار میں اٹھائیں اور ناحق کے خون کئے اور ظلم کو انتہا تک پہنچایا ان کو تلواروں سے ہی قتل کیا جائے“.تحفہ قیصر یہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۲۶۲) یہ ہے خلاصہ اس قرآنی تعلیم کا جس کا ذکر اس آیت کریمہ میں ملتا ہے جس کی میں نے خطبہ سے پہلے تلاوت کی تھی.کوئی عالم دین ہے؟ جو ان باتوں میں سے آج بھی کوئی غلط ثابت کر کے دکھائے اور بتائے کہ کہاں اعتراض کی گنجائش ہے.محض ایک فرضی اور جھوٹی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف دیدہ دانستہ منسوب کرتے ہیں حالانکہ انہوں نے خود آپ کی کتابوں کو پڑھا ہوا ہے مگر پھر بھی یہ سارے پہلو چھپاتے ہیں اور یہ ظاہر کرتے ہیں کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو انگریزوں نے جہاد کی تنسیخ کے لئے کھڑا کیا تھا اور اگر آپ کھڑے نہ ہوتے تو انگریز مارا جاتا اور مسلمانوں نے سلطنت انگریزی کو تباہ کر کے رکھ دینا تھا اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام ان سے جہاد کرنا منع نہ فرماتے.اب ان علماء کا حال سنئے جو آج بڑھ بڑھ کر یہ الزام لگا رہے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس وقت یہی باتیں مسلمانوں میں خفیہ طور پر پھیلایا کرتے تھے...جہاں تک دنیا کے سامنے باتوں کا تعلق ہے وہ کچھ اور کہا کرتے تھے لیکن انگریزی حکومت کو اپنے عقائد سے بالکل مختلف زبان
خطبات طاہر جلدم 133 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء میں آگاہ کرتے تھے، ان کے سامنے ان کے عقائد بالکل کچھ اور نظر آتے تھے.مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سب سے بڑے دشمن اور جہاد کے معاملہ میں معترض تھے لکھتے ہیں: مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہ گار اور با حکم قرآن وحدیث وہ مفسد ، باغی، بدکردار تھے پھر فرماتے ہیں: اس گورنمنٹ سے لڑنا یا ان سے لڑنے والوں کی (خواہ ان کے بھائی مسلمان کیوں نہ ہوں ) کسی نوع سے مدد کر نا صریح غد ر اور حرام ہے“.(اشاعۃ السنة النبویہ جلد ۹ نمبر ۱۰ صفحه: ۳۰۸) پھر اپنی کتاب "اقتصاد فی مسائل الجہاد کے صفحہ نمبر 4 اپر رقم طراز ہیں: اس مسئلہ اور اس کے دلائل سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ملک ہندوستان باوجود یکہ عیسائی سلطنت کے قبضہ میں ہے دارالاسلام ہے اس پر کسی بادشاہ کو عرب کا ہو خواہ عجم کا مہدی سوڈانی ہو یا حضرت سلطان شاہ ایرانی خواہ امیر خراسان ہو مذہبی لڑائی و چڑھائی کرنا ہرگز جائز نہیں.“ یعنی ملک کے اندر جو بستے ہیں ان پر تو بادشاہ وقت کی اطاعت کرنا اور حکومت وقت کی بات ماننا فرض ہے ہی لیکن مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی یہ فتویٰ دوسرے ممالک کے لئے بھی دے رہے ہیں کہ تم جو انگریزی حکومت سے باہر بس رہے ہو تم بھی اگر انگریزی حکومت سے لڑو گے تو یہ تمہارے لئے بھی حرام ہے.پھر فرماتے ہیں: ”اہل اسلام کو ہندوستان کے لئے گورنمنٹ انگریزی کی مخالفت اور بغاوت حرام ہے.‘ ( اشاعۃ السنہ جلد ۶ نمبر، صفحہ : ۲۸۷) اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرائط امامت موجود ہے.( الاقتصاد فی مسائل الجهاد صفحه: ۷۲)
خطبات طاہر جلدم 134 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء پس آج یہ امام کہاں سے آگیا؟ کیا اس امامت کے لئے فوجی حکومت درکار ہوا کرتی ہے؟ خدا تعالیٰ نے مذہبی دنیا میں فوجی حکومتوں کے ذریعہ کب امام قائم کروائے تھے؟ پھر فرماتے ہیں: اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات وشرائط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت جمعیت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کر سکیں.(الاقتصاد فی مسائل الجہاد صفحہ ۷۲۰) سرسید احمد خان صاحب نے ۱۸۵۷ء کے غدر میں جو لوگ شریک ہوئے ان کے متعلق فرمایا کہ: البتہ چند بد ذاتوں نے دنیا کی طمع اور اپنی منفعت اور اپنے خیالات پورا کرنے اور جاہلوں کے بہکانے کو اور اپنے ساتھ جمعیت جمع کرنے کو جہاد کا نام لے دیا.پھر یہ بات مفسدوں کی حرام زدگیوں میں سے ایک حرام زدگی تھی نہ واقع جہاد“ (رسالہ بغاوت ہند مؤلفه سرسید احمد خان صفحه : ۱۰۴) اعلیٰ حضرت سید احمد رضا خان صاحب بریلوی امام اہل سنت بریلوی فرقہ فرماتے ہیں: ہندوستان دارالاسلام ہے اسے دارالحرب کہنا ہر گز صحیح نہیں، وو نصرت الابرار صفحہ : ۲۹ مطبوعہ لاہور ) حضرت سید احمد صاحب بریلوی شہید جنہوں نے جہاد کیا اور جہاد کے لئے آپ سرحد کی طرف روانہ ہوئے اور سکھوں سے بھی لڑائی کی وہ ایک مقدس دل ضرور تھا جس میں مسلمانوں کی غیرت موجزن تھی لیکن جہاں تک انگریزی حکومت کا تعلق ہے اس کے متعلق وہ کیا سمجھتے تھے اس بارہ میں آپ کے سوانح نگار محمد جعفر تھانیسری کی زبانی سنئے.وہ ”سوانح احمدی کلاں“ کے صفحہ نمبر اے پر لکھتے ہیں: د کسی شخص نے آپ سے پوچھا کہ آپ اتنی دور سکھوں پر جہاد کرنے کیوں جاتے ہو؟ انگریز جو اس ملک پر حاکم ہیں اور دین اسلام سے کیا منکر نہیں ہیں.گھر کے گھر میں ان سے جہاد کر کے ملک ہندوستان کو لے لو.آپ نے فرمایا...سرکار انگریزی گومنکر اسلام ہے مگر مسلمانوں پر کچھ ظلم اور تعدی نہیں
خطبات طاہر جلدم کرتی...135 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء..اور نہ ان کو فرض مذہبی اور عبادت لازمی سے روکتی ہے ہم ان کے ملک میں اعلانیہ وعظ کہتے ہیں اور ترویج مذہب کرتے ہیں وہ کبھی مانع اور مزاحم نہیں ہوتی.ہمارا اصل کام اشاعت توحید الہی ہے اور احیاء سنن سید المرسلین ہے سو ہم بلا روک ٹوک اس ملک میں کرتے ہیں.پھر ہم سرکار انگریزی پر کس سبب سے جہاد کریں اور خلاف اصول طرفین کا خون بلا سبب گرادیں یہ جواب باصواب سن کر سائل خاموش ہو گیا اور اصل غرض جہاد کی سمجھ لی.66 لیکن ان علماء کو جو آج احمدیت کے خلاف بول رہے ہیں ان کو آج تک سمجھ نہیں آئی.علامہ شبلی نعمانی فرماتے ہیں: "رسول اللہ علیہ کے عہد زریں سے لے کر آج تک مسلمانوں کا ہمیشہ یہ شعار رہا کہ وہ جس حکومت کے زیر سایہ رہے اس کے وفادار اور اطاعت گزار رہتے یہ صرف ان کا طرز عمل نہ تھا بلکہ ان کے مذہب کی تعلیم تھی جو قرآن مجید، حدیث ، فقہ سب میں کنایہ اور صراحۃ مذکور ہے“ مقالات شبلی جلد اول صفحہ: اے مطبع معارف اعظم گڑھ ۱۹۵۴ء) خواجہ حسن نظامی صاحب فرماتے ہیں: وو جہاد کا مسئلہ ہمارے ہاں بچے بچے کو معلوم ہے.یعنی جب تک انگریزی حکومت تھی اس وقت بچے بچے کو وہی مسئلہ معلوم تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمایا کرتے تھے لیکن جس دن سے وہ حکومت گئی اس دن سے سارا مسئلہ ہی بدل گیا ہے اور اب ہر بچے کو کچھ اور ہی بتایا جا رہا ہے کہ ہمارے ماں باپ یہ کہا کرتے تھے.بچے بچے کو کیا معلوم تھا.خواجہ صاحب فرماتے ہیں: وہ جانتے ہیں کہ جب کفار مذہبی امور میں حارج ہوں اور امام عادل جس کے پاس حرب و ضرب کا پورا سامان ہولڑائی کا فتویٰ دے تو جنگ
خطبات طاہر جلدم 136 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء ہر مسلمان پر لازم ہو جاتی ہے.مگر انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں اور نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں ، نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے، ایسی صورت میں ہم ہرگز ہرگز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے“.(رساله شیخ سنوسی صفحہ: ۱۷ مؤلفہ خواجہ حسن نظامی ) چنانچہ احمدیت کے دور حاضر کے معاندین میں سے بھی بعض یہی بات تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے.ملک محمد جعفر صاحب ایڈووکیٹ نے احمدیہ تحریک“ کے نام پر ایک کتاب لکھی تھی وہ فرماتے ہیں : ”مرزا صاحب کے زمانہ میں ان کے مشہور مقتدر مخالفین مثلاً مولوی محمد حسین بٹالوی، پیر مہر علی شاہ گولڑوی ، مولوی ثناء اللہ صاحب اور سرسید احمد خان سب انگریزوں کے ایسے ہی وفادار تھے جیسے مرزا صاحب.یہی وجہ ہے کہ اس زمانہ میں جو لٹریچر مرزا صاحب کے رد میں لکھا گیا اس میں اس امر کا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ مرزا صاحب نے اپنی تعلیمات میں غلامی پر رضا مند رہنے کی تلقین کی ہے.( شائع کردہ سندھ ساگرا کیڈمی لاہور صفحہ ۲۴۳) پس بعض مخالفین نے بھی یہ تسلیم کر لیا ہے کہ مسلمان علماء پر دو دور آئے ہیں ایک وہ جو انگریزی حکومت کا دور تھا اور ایک بعد کا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں وہ کچھ اور مسئلے پیش کیا کرتے تھے یعنی سارے علماء جہاد سے متعلق وہی مسائل پیش کرتے تھے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے تھے مگر آج ان کے مسائل بالکل بدل چکے ہیں مشرق سے مغرب کی طرف رخ کر بیٹھے ہیں.حوالے تو بہت زیادہ ہیں لیکن اب میں بعض تازہ حوالوں پر ختم کرتا ہوں : شورش کاشمیری صاحب جو احمدیوں کے شدید معاندین میں سے تھے کتاب ”سید عطاء اللہ شاہ بخاری صفحہ نمبر ۴۱ اپر یہ بات تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے کہ: ” جمال دین ابن عبداللہ شیخ عمر حنفی مفتی مکہ معظمہ ، احمد بن ذہنی شافعی
خطبات طاہر جلدم 137 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ سے بھی فتاویٰ حاصل کئے گئے جن میں ہندوستان کے دارالاسلام ہونے کا اعلان کیا گیا تھا“.تو کون سی بات باقی رہ گئی ہے کہاں کے مولوی بولیں گے اب ! مولوی مودودی جنہوں نے ”حقیقت جہاد ، لکھی اور اپنی بعض اور کتب میں بھی جہاد کے متعلق ایسی تعلیم دی جس کا کوئی ہوش و حواس والا مسلمان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ آنحضرت ﷺ کے جہاد کے متعلق ایسے ظالمانہ خیالات کا اظہار ہو سکتا ہے.جہاد سے متعلق سب سے منتشدّ دنظریہ رکھنے والے آج مولوی مودودی ہیں (یعنی مراد یہ ہے کہ اس وقت ان کا فرقہ ہے جو ان کی باتوں کو تسلیم کرتا ہے آپ خود تو فوت ہوچکے ہیں ) جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کے ہندوستان کا تعلق ہے مولوی مودودی اپنی کتاب ” سود حصہ اول میں اس کے متعلق فرماتے ہیں:.”ہندوستان اس وقت بلاشبہ دارالحرب تھا“ دار الاسلام نہیں کہہ رہے.کس وقت دار الحرب تھا؟) رہی تھی.” جب انگریزی حکومت یہاں اسلامی سلطنت کو مٹانے کی کوشش کر بعینہ یہی تعلیم جماعت احمدیہ کی ہے کہ جب کوئی غیر پہلے حملہ کرتا ہے تو اس سے لڑو، اپنی عزتوں کی حفاظت کرو، اپنے مال کی حفاظت کرو، اپنے دین کی حفاظت کرو اور ایک ایک بچہ بھی کٹ کر مر جائے تو تم نے ہتھیار نہیں ڈالنے، اس وقت دارالحرب ہوتا ہے اس وقت ہر قسم کا دفاع جہادِ اسلام کہلا سکتا ہے چنا نچہ مولوی مودودی بھی یہی بات کہتے ہیں ) اس وقت مسلمانوں پر فرض تھا کہ یا تو اسلامی سلطنت کی حفاظت میں جانیں لڑاتے یا اس میں نا کام ہونے کے بعد یہاں سے ہجرت کر جاتے لیکن جب وہ مغلوب ہو گئے اور انگریزی حکومت قائم ہو چکی اور مسلمانوں نے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کی آزادی کے ساتھ یہاں رہنا قبول کر لیا تو اب یہ ملک دار الحرب نہیں رہا سود حصہ اوّل شائع کردہ مکتبہ جماعت اسلامی لا ہور صفحہ ۷۷-۷۸)
خطبات طاہر جلد۴ 138 خطبه جمعه ۵ ار فروری ۱۹۸۵ء جلالتہ الملک شاہ فیصل نے ۱۳۸۵ ہجری حج کے موقع پر رابطہ العالم الاسلامی مکہ مکرمہ کے اجتماع میں فرمایا: ”اے معزز بھائیو! تم سب کو جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند کرنے کے لئے بلایا گیا ہے.جہاد صرف بندوق اٹھانے یا تلوار لہرانے کا نام نہیں بلکہ جہاد تو اللہ کی کتاب اور رسول مقبول ﷺ کی سنت کی طرف دعوت دینے ، ان پر عمل پیرا ہونے اور ہر قسم کی مشکلات ، دقتوں اور تکالیف کے باوجود استقلال سے اس پر قائم رہنے کا نام ہے.( ام القری مکہ معظمه ۲۴ را پریل ۱۹۶۵ء) پھر فرماتے ہیں: ان ( غیر مسلم حکومتوں میں رہنے والے مسلمانوں ) پر جو خدمت دین اور اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اتباع واجب ہے انہیں اسے ادا کرنا چاہئے.ہم ان بھائیوں کو ہرگز یہ نہیں کہتے کہ اپنی حکومتوں کے نظام کے خلاف کھڑے ہو جائیں اور بغاوت کریں.ہاں انہیں باہمی طور پر اپنے عقائد اور نیتوں کی حد تک اللہ تعالیٰ کی کتاب اور سنت نبوی کو حکم ٹھہرانا چاہئے نیز جو حکومتیں انہیں امن دیتی ہیں انہیں ان سے صلح سے رہنا چاہئے وہ اپنے ممالک میں نظام کو توڑنے والے یا تخریبی عنصر ہر گز نہ بنیں“ (ام القری مکہ معظمه ۲۴ / اپریل ۱۹۶۵ء) پس وہ علماء کہاں ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جہاد کا منکر اور منسوخ کرنے والے اور نعوذ بالله من ذالک انگریزوں کے خوشامدی اور ان کی خاطر ایک فساد کھڑا کرنے والے بتاتے ہیں.لیکن جو باتیں آپ نے بیان فرمائیں وہ ساری باتیں آپ کے زمانہ کے علماء اس وقت کہہ رہے تھے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو بات دوسروں سے کہتے تھے وہی بات اپنوں سے بھی کہتے تھے اور جو انگریزوں سے کہتے تھے وہی اپنی جماعت کو بھی مخاطب کر کے کہتے تھے.آپ کی ذات یا جماعت میں کوئی دوغلا پن یا کوئی دورنگی نہیں تھی اور جس جہاد کا اعلان کرتے تھے اس پر قائم بھی تھے اور جہاد کے اس تصور پر صرف زبانی جمع خرچ نہیں تھا بلکہ آپ نے اپنی ساری
خطبات طاہر جلدم 139 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء زندگی، اپنا سارا وجود اس جہاد کی پیروی میں خرچ کیا اور تمام جماعت کو بھی اس کی تلقین فرمائی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ملکہ وکٹوریہ کی تعریف اور اسے رحمت کا سایہ قرار دینے کا جو علماء الزام لگاتے ہیں.کون ہے ان علماء میں سے جن کے نام میں نے پڑھ کر سنائے ہیں یا کوئی اور مخالف عالم جس نے ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کا پیغام پہنچایا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی جرات کے ساتھ عیسائیت پر کھلی تنقید کرتے ہوئے اور اسے ایک جھوٹا اور ایک مردہ مذہب قرار دیتے ہوئے اس وقت کی ملکہ کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی.جس ملکہ کی حکومت پر سورج غروب نہیں ہوا کرتا تھا ایک طرف اس کے انصاف کی تعریف فرمائی تو دوسری طرف اسے کھلم کھلا اسلام کی طرف آنے کی دعوت دی.اب دیکھئے دیگر علماء کا کیا کر دار تھاوہ ہندوستان کو دارالاسلام قرار دیتے تھے جب کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عارف باللہ نگاہ نے اسے دارالاسلام کے طور پر نہیں دیکھا بلکہ دار الحرب سمجھا کیونکہ آپ جہاد کا حقیقی عرفان رکھتے تھے، آپ جانتے تھے کہ جہاد کس کو کہتے ہیں کیونکہ جہاں جہاد فرض ہے وہ دارالاسلام نہیں ہوسکتا وہ تو دارالحرب ہے لیکن کن معنوں میں؟ اس کی آپ خود تشریح فرماتے ہیں: یہ مقام دارالحرب ہے پادریوں کے مقابلہ میں.اس لئے ہم کو چاہئے کہ ہرگز بریکار نہ بیٹھیں.مگر یاد رکھو کہ ہماری حرب ان کے ہم رنگ ہو.جس قسم کے ہتھیار لے کر میدان میں وہ آئے ہیں اسی طرز کے ہتھیار ہم کو لے کر نکلنا چاہئے اور وہ ہتھیار ہے قلم.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عاجز کا نام سلطان القلم اور میرے قلم کو ذوالفقارعلی فرمایا ہے.اس میں یہی ستر ہے کہ یہ زمانہ جنگ وجدل کا نہیں بلکہ قلم کا زمانہ ہے.(ملفوظات جلد اول صفحہ ۱۵۱) پھر آپ ملکہ معظمہ وکٹوریہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: 66 ”اے معز ملکہ ! مجھے تعجب ہے کہ تو باوجود کمال فضل اور علم و فراست کے دین اسلام کی منکر ہے ( کیا یہ خوشامدی کی زبان ہوا کرتی ہے اگر تم خوشامدی نہیں تھے تو تمہیں ایسے الفاظ کی تو فیق کیوں نہ ملی اور جس
خطبات طاہر جلدم 140 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء غور وفکر کی آنکھ سے سلطنت کے امور سرانجام دیتی ہے اس آنکھ سے اسلام کے بارے میں غور کیوں نہیں کرتی.سخت تاریکی کے بعد اب جبکہ آفتاب طلوع ہو چکا ہے تو کیا اب بھی تو نہیں دیکھتی.تو جان لے اللہ تیری مددکرے ) یقینا دین اسلام ہی انوار کا مجموعہ ہے ، نہروں کا منبع اور پھلوں کا بستان ہے.تمام ادیان اسی کا ایک حصہ ہیں.پس تو اس کی خوبصورتی کو دیکھا اور ان لوگوں میں سے ہو جا کہ جو اس سے با فراغت رزق دیے جاتے ہیں اور اس کے باغات سے کھاتے ہیں.یقینا یہ دین ہی زندہ ہے، برکات کا مجموعہ اور نشانات کا مظہر ہے جو پاکیزہ باتوں کا حکم دیتا ہے اور بدیوں سے روکتا ہے اور جو کوئی اس کے خلاف کہتا ہے یا نافرمانی کرتا ہے وہ نامراد رہتا ہے.اے معزز ملکہ! دنیاوی نعماء کے لحاظ سے خدا کا بہت بڑا افضل تجھ پر ہے.پس اب تو آخرت کی بادشاہت میں بھی دلچسپی پیدا کر اور توبہ کر اور اس خدائے واحد ویگانہ کی فرمانبرداری اختیار کر کہ نہ تو اس کا کوئی بیٹا ہے اور نہ ہی بادشاہت میں اس کا کوئی شریک.پس تو اسی کی بڑائی بیان کر.کیا تم اس کے علاوہ معبود بناتے ہوان کو جو کوئی چیز پیدا نہیں کر سکتے اور وہ خود پیدا کئے گئے ہیں.پس اگر تو کسی شک میں ہے تو آ! میں اس کی سچائی کے نشانات دکھانے کو تیار ہوں.وہ ہر حال میں میرے ساتھ ہے.جب میں اسے پکارتا ہوں تو وہ میری پکار کا جواب دیتا ہے اور جب اسے بلاتا ہوں تو میری مددکو پہنچتا ہے اور جب اس سے مدد کا طلبگار ہوتا ہوں تو میری نصرت فرماتا ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ وہ ہر مقام پر میری مدد فرمائے گا اور مجھے ضائع نہیں کرے گا.پس کیا تو جزاء وسزا کے دن کے خوف سے میرے نشانات اور صدق وسداد کے ظہور کو دیکھنا پسند کرے گی.اے قیصرہ ! تو بہ کر توبہ کر اور سن تا کہ خدا تیرے مال میں اور ہر اس چیز میں جس کی تو مالک ہے برکت بخشے اور تو ان لوگوں میں سے ہو جائے جن پر خدا کی رحمت کی نظر ہوتی ہے.( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۵۳۰ تا ۳۳ ۵ ترجمه از عربی عبارت)
خطبات طاہر جلدم 141 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام اور یہ ہے آپ کا تصور جہاد اور پھر اس پر عمل درآمد.اس زمانہ کے کسی عالم دین کی ایک آواز بھی آپ کو نہیں ملے گی جس کو اتنی جرات ہو کہ ملکہ وکٹوریہ کو سوائے خوشامدی الفاظ کے خطاب کر سکے.پس تو بہ کر“ کے الفاظ تو اس زمانہ کی سلطنت کے لئے ایک بم کا درجہ رکھتے تھے.یہ بہت عظیم الشان کلام ہے اور بڑے واضح الفاظ میں ملکہ وکٹوریہ کو اسلام کی دعوت دی ہے اور اس جھوٹے دین سے تو بہ کرنے کی دعوت دی ہے اور اسلام کی طرف بلایا ہے اور یہی وہ جہاد کا جذبہ ہے ، یہی وہ روح جہاد ہے جس کو سمجھنے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت کو ایک نہ ختم ہونے والے جہاد کے رستہ پر ڈال دیا ہے اور دن رات بلکہ ہمارا ہر لحہ جہاد بن گیا ہے.چنانچہ پاکستان کے ایک نامور مؤرخ شیخ محمد اکرام صاحب اس بات کو محسوس کرتے ہوئے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں: وو دنیا کے مسلمانوں میں سب سے پہلے احمدیوں..نے اس حقیقت کو پایا کہ اگر چہ آج اسلام کے سیاسی زوال کا زمانہ ہے لیکن عیسائی حکومتوں میں تبلیغ کی اجازت کی وجہ سے مسلمانوں کو ایک ایسا موقع بھی حاصل ہے جو مذہب کی تاریخ میں نیا ہے اور جس سے پورا پورا فائدہ اٹھانا چاہئے“.پھر فرماتے ہیں: ” عام مسلمان تو جہاد بالسیف کے عقیدے کا خیالی دم بھرتے ، نہ عملی جہاد کرتے ہیں نہ تبلیغی جہاد لیکن احمدی.......دوسرے جہاد یعنی تبلیغ کو فریضہ مذہبی سمجھتے ہیں اور اس میں انہیں خاصی کامیابی حاصل ہوئی ہے.( موج کوثر صفحه : ۱۷۹) آخر پر میں آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تصور جہاد اور مولوی مودودی صاحب کے تصور جہاد کا ایک موازنہ کر کے دکھاتا ہوں.ایک بات تو یہ ہے کہ ان علماء کے دو تصور ہیں.انگریزی حکومت کے دوران جو باتیں وہ کرتے تھے وہ اور ہیں اور جب وہ حکومت ختم ہوگئی تو پھر وہ جو باتیں کرتے ہیں وہ اور ہیں ، گویا ان کے ہر چیز میں دو پیمانے ہیں.آنحضرت ﷺ کی طرف وہ ایسا خوفناک تصور جہاد منسوب کرتے ہیں کہ ایک غیرت مند مسلمان اس کو سن کر اذیت میں
خطبات طاہر جلدم 142 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء مبتلا ہو جاتا ہے، ان کا تصور جہاد اعصاب شکن ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف باتیں کرنے اور الزام تراشی میں آج یہ مودودی گروہ سب سے آگے ہے.مگر اس سے پہلے کہ مولوی مودودی کا تصور جہاد ان کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھوں میجر آسبرن کی کتاب ” Islam Under The Arab Rule “ اسلام زیر حکومت عرب کا ایک اقتباس میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وہ لکھتے ہیں کہ جب آنحضرت علی کو تکلیفیں دی جاتی تھیں تو اس وقت : ”جو اصول آپ نے تجویز کئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ مذہب میں کوئی زبردستی نہیں ہونی چاہئے........مگر کامیابی کے نشے نے آپ کے بہتر خیالات کی آواز کو (نعوذ بالله من ذالک) بہت عرصہ پہلے ہی خاموش کرایا تھا........(انہوں نے ) جنگ کا ایک عام فرمان جاری کر دیا تھا (جس کا نتیجہ یہ تھا کہ ) اہل عرب نے ایک ہاتھ میں قرآن اور دوسرے ہاتھ میں تلوار لے کر جلتے ہوئے شہروں کے شعلوں اور تباہ و برباد شدہ خاندانوں کی چیخ و پکار کے درمیان اپنے دین کی اشاعت کی.( صفحه ۴۶ مطبوعہ لانگ مین گرین اینڈ کمپنی لندن) غلبہ اسلام کا کیسا ظالمانہ اور کیسا ناپاک تصور ہے.جو ایک اسلام دشمن مستشرق پیش کر رہا ہے اسی تصور کو مولوی مودودی لگی لپٹی باتوں میں گویا ریشم کے کپڑے میں لپیٹ کر اور اپنی فصاحت اور بلاغت کے پردوں میں چھپا کر اس طرح پیش کرتے ہیں: " رسول اللہ علہ تیرہ برس تک عرب کو اسلام کی دعوت دیتے رہے.وعظ و تلقین کا جو موثر سے موثر انداز ہوسکتا تھا اسے اختیار کیا.مضبوط دلائل دیئے، واضح حجتیں پیش کیں ، فصاحت و بلاغت اور زور خطابت سے دلوں کو گرمایا ، اللہ کی جانب سے محیر العقول معجزے دکھائے ، اپنے اخلاق اور اپنی پاک زندگی سے نیکی کا بہترین نمونہ پیش کیا اور کوئی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جو حق کے اظہار و اثبات کے لئے مفید ہو سکتا تھا.لیکن آپ کی قوم نے آفتاب کی طرح آپ کی صداقت کے روشن ہو جانے کے باوجود آپ کی دعوت قبول کرنے
خطبات طاہر جلدم 143 خطبه جمعه ۵ ارفروری ۱۹۸۵ء سے انکار کر دیا.حق ان کے سامنے خوب ظاہر ہو چکا تھا.انہوں نے برایِ العین دیکھ لیا تھا کہ جس راہ کی طرف ان کا ہادی انہیں بلا رہا ہے وہ سیدھی راہ ہے.اس کے باوجود صرف یہ چیز انہیں اس راہ کو اختیار کرنے سے روک رہی تھی کہ ان لذتوں کو چھوڑ نا انہیں نا گوار تھا جو کافرانہ بے قیدی کی زندگی میں انہیں حاصل تھیں.لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد “ 66 الجہاد فی الاسلام.بار سوم ۱۹۶۲ء صفحہ ۱۴۱ -۱۴۲) یعنی نعوذ بالله من ذالک آنحضرت علی وعظ و تلقین میں نا کام ہو گئے.کیسی جاہلانہ ، خوفناک اور ظالمانہ بات ہے جو مولوی مودودی کے قلم سے جاری ہو رہی ہے اور وہ کوئی خوف نہیں کر رہے.اس آواز کو سنیں اور قران کریم کی اس آواز کوسنیں فَذَكِّرُ انْ نَفَعَتِ الذِّكْرى (الاعلیٰ :۱۰) اے محمد! تو نصیحت کرتا چلا جا کیونکہ یقینا تیری نصیحت نا کام نہیں ہو سکتی تیرے انداز اور ہیں ، تیری نصیحت میں ایک ایسی قوت ہے جو نا کامی کا منہ نہیں دیکھ سکتی اور اگر تیری نصیحت کے باوجود کوئی نہیں مانتا تو ہم تجھے زبردستی کی اجازت نہیں دیتے.إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرَ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَةٌ فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَةُ (الغاشية : ۲۲-۲۵) کہ تیری نصیحت میں حسن ہے، پیار ہے، ملاحت ہے، تیری باتیں دل نشین ہیں اور ہو نہیں سکتا کہ وہ اثر نہ کریں ہم تجھے اس بات کا یقین دلاتے ہیں لیکن اگر کوئی بدقسمت ان سے منہ موڑے اور انہیں قبول نہ کرے تو ہم تجھے زبر دستی کرنے کی اجازت نہیں دیتے ، ہم نے تجھے دارونہ نہیں بنایا، تو صرف مذکر ہے إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ پھر جو کوئی انکار کرے گا ہم اسے پکڑیں گے اور اسے سزا دیں گے.یہ تو کلام اللہ ہے اور وہ کلام مودودی ہے جو یہ کہہ رہا ہے کہ جب وعظ و تلقین کی نا کامی ( اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ.دکھ کے باعث یہ فقرہ پڑھا نہیں جاتا) دو لیکن جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد داعی اسلام نے ہاتھ میں تلوار لی اور الا كل مأثرة أودم أو مال يُدعى فهو تحت قد مي هاتين 66
خطبات طاہر جلدم 144 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء اس کا ترجمہ یہ ہے کہ خبر دار ہر قسم کے امتیازات اور خون اور مال جس کی طرف بلایا جاتا تھا یعنی جس کی وجہ سے لڑائی کی طرف بلایا جاتا تھا وہ آج میرے دونوں پاؤں کے نیچے ہیں.آپ جانتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نے یہ اعلان کب فرمایا تھا.آپ ﷺ نے یہ اعلان حجتہ الوداع کے موقع پر فر مایا تھا اور یہ آپ کا آخری اعلان ہے.پس دیکھئے کس طرح باتوں کو توڑ مروڑا گیا ہے.یہ ناممکن ہے کہ ایک عالم دین کو اس کی خبر نہ ہو کہ یہ اعلان کس موقع کا ہے اور وہ کس زمانہ میں لے جا کر اس کو چسپاں کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.کا اعلان کر کے تمام موروثی امتیازات کا خاتمہ کر دیا.عزت واقتدار کے تمام رسمی بتوں کو تو ڑ دیا ، ملک میں ایک منظم اور منضبط حکومت قائم کر دی، اخلاقی قوانین کو بزور نافذ کر کے اس بدکاری و گناہگاری کی آزادی کو سلب کر لیا جس کی لذتیں ان کو مدہوش کئے ہوئے تھیں اور وہ پرامن فضا پیدا کردی جو اخلاقی فضائل اور انسانی محاسن کے نشو و نما کے لئے ہمیشہ ضروری ہوا کرتی ہے.( الجہاد فی الاسلام صفحہ ۱۴۲) اسی بات کو آسبرن یوں کہتا ہے کہ بیواؤں اور یتیموں کی دردناک چیخوں کے درمیان اپنے دین کی اشاعت کی اس کے بعد تو رونے اور چلانے والوں کو آخر نیند آ جایا کرتی ہے.اس کا نام مودودی صاحب نے رکھا ہے تسکین ( یعنی کہ گویا اب کوئی مخالف آواز نہیں اٹھ رہی ) چنانچہ مودودی صاحب آگے چل کر کہتے ہیں: تو دلوں سے رفتہ رفتہ بدی و شرارت کا زنگ چھوٹنے لگا، طبیعتوں سے فاسد مادے خود بخود نکل گئے ، روحوں کی کثافتیں دور ہو گئیں.قوت قدسیہ سمجھانا، تذکیر، دعا ئیں جب اثر پیدا کرنے میں کلیہ ناکام ہوگئیں (نعوذ بالله من ذالک) تو بقول مودودی صاحب اس وقت تلوار چلی جس نے یہ سارے کام کر دکھائے اور صرف یہی نہیں کہ آنکھوں سے پردہ ہٹ کر حق کا نورصاف عیاں ہو گیا.کونسا پردہ؟ اس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلدم 145 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء خَتَمَ اللهُ عَلى قُلُوبِهِمْ وَعَلَى سَمْعِهِمْ وَ عَلَى أَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) (البقرة: ٨) یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لائیں گے سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ وَأَنْذَرْتَهُمْ أَمْ لَهُ تُنذِرْهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ (البقره: (سَوَاءٌ عَلَيْهِمُ والوں کی تصویر کھینچی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ظلم اور سفاکی کے پردے چاک نہیں ہوا کرتے لیکن مودودی صاحب کہتے ہیں اللہ کو کیا پتہ میں جانتا ہوں کہ جب تک تلوار استعمال نہیں ہوئی پر دے چاک نہیں ہوئے.اللہ تعالیٰ اس وقت نیک صحیح فرمارہا تھا جب تک تلوار نہیں اٹھی مگر جب تلوار چلی تو پھر یہ سارے پردے چاک ہو گئے.بلکہ گردنوں میں وہ بختی اور سروں میں وہ نخوت بھی باقی نہیں رہی جو ظہور حق کے بعد انسان کو اس کے آگے جھکنے سے باز رکھتی ہے.عرب کی طرح دوسرے ممالک نے بھی (سنئے ! ) جو اسلام کو اس سرعت سے قبول کیا کہ ایک صدی کے اندر چوتھائی دنیا مسلمان ہوگئی تو اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ اسلام کی تلوار نے ان پر دوں کو چاک کر دیا جو دلوں پر پڑے ہوئے تھے“ ( الجہاد فی الاسلام صفحہ ۱۴۱-۱۴۲) ایسی تحریر تو تاریخ سے کلیہ ناواقف شخص کی ہو سکتی ہے.اس اعلان کے ایک ایک لفظ کو انڈونیشیا کا ہر مسلمان جھٹلا رہا ہے، اس اعلان کے ایک ایک لفظ کو چین کے وہ چار صوبے جو تمام تر مسلمان ہو چکے ہیں وہ سب جھٹلا رہے ہیں.اسلام کی کوئی تلوار نہ انڈو نیشیا پہنچی نہ ملایا اور نہ چین.ان کا ایک ایک بچہ ، ان کی ایک ایک عورت، ان کا ایک ایک مرد ایک ایک جوان اور ایک ایک بوڑھا مودودی صاحب کے اعلان کو جھٹلا رہا ہے اور اعلان کر رہا ہے کہ خدا کی قسم محمد کی تلوار نے نہیں محمد کے حسن نے ہمیں فریفتہ بنایا تھا اور اس کے حسن اور قوت قدسیہ نے ہمارے دل جیتے ہیں.انقلاب کیسے بر پا ہوا، کون سا جہاد تھا جس کے نتیجہ میں آنحضرت عے کو عظیم الشان غلبہ نصیب ہوا اس سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا انقلاب دعاؤں کے ہی نتیجہ میں رونما ہوا تھا.آپ فرماتے ہیں: وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں
خطبات طاہر جلدم 146 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء مردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الہی رنگ پکڑ گئے اور آنکھوں کے اندھے بینا ہوئے اور گونگوں کی زبان پر الہی معارف جاری ہوئے اور دنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہوا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا کچھ جانتے ہو کہ وہ کیا تھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے دنیا میں شور مچا دیا اور وہ عجائب باتیں دکھلا ئیں کہ جو اس امی بے کس سے محالات کی طرح نظر آتی تھی اللهم صل وسلم و بارک علیه و آله.بركات الدعار وحانی خزائن جلد 4 صفحہ : ۱۰-۱۱) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر کے مقابلہ پر مودودی صاحب کی تحریر پڑھ کر دیکھ لیجئے دونوں میں ایک فرق بین ہے ، بعد المشرقین یعنی مشرق اور مغرب کا فرق ہے.ایک طرف روح حق اور روح اسلام بول رہی ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قلب مطہر پر جلوہ افروز ہوئی اور پاک کلام کی صورت میں آپ کی زبان مبارک سے جاری ہوئی.یہ وہ آواز ہے جس نے ہمیں غلبہ اسلام کی قوت کے سرچشمہ کی راہ دکھائی اور ہماری تشنہ روحوں کو سیراب کیا ، جس نے اس ازلی و ابدی صداقت سے ہمیں روشناس کرایا کہ محمد رسول اللہ علیہ کے غلبہ اور قوت ،شوکت اور سطوت کا راز آپ کی قوت قدسیہ میں نہاں تھا.جو مقبول دعاؤں کی صورت میں ایک گھٹا بن کر اٹھی اور مخالف کی ہر اس آگ کو ٹھنڈا کر دیا جو صحرائے عرب میں بھڑ کائی گئی تھی اور خشک وتر اور بحر و بر کو سیراب کیا اور ایک ایسا آب حیات برسایا جس نے صحراؤں کو سبزہ زاروں میں اور ویرانوں کو چمنستانوں میں تبدیل کر دیا اور مردہ زمینوں کو زندہ کر دیا.پس ایک طرف یہ ہے کہ روح حق اور روح اسلام کی آواز اور دوسری طرف مودودیت کی روح ہے جو مودودی صاحب کے الفاظ میں بول رہی ہے اور ظلم وستم کے عجیب گل کھلا رہی ہے.اسلامی تعلیم کے مطالعہ کے بعد ان کی عمر بھر کی عرقریزی کا نچوڑ یہ ہے جو وہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں ”جب وعظ و تلقین کی ناکامی کے بعد..انا لله و انا اليه راجعون! کیا یہ مزاج شناس نبوت کی آواز ہے جو ہم سن رہے ہیں.نہیں! نہیں ! مزاج شناس نبوت نہ کہو یہ تو معاندین اسلام کے
خطبات طاہر جلدم 147 خطبه جمعه ۱۵ار فروری ۱۹۸۵ء مزاج سے ہم آہنگ آواز ہے، یہ تو وہی آواز ہے جو میجر آسبرن کے خون میں آتش غضب بن کر دوڑا کرتی تھی ، یہ تو وہی نجس آتش سیال ہے جس نے ہزار ہا معاندین اسلام کو آنحضرت ﷺ کے خلاف آتش حسد میں بریاں رکھا.میرے وجود پر تو اس تحریر کو پڑھ کر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.تن بدن میں آگ سی لگ جاتی ہے، الفاظ نہیں یہ تو بے رحم پتھر ہیں، کلام نہیں یہ تو سفاک اور تیز دھارنشتر ہیں جو ہر عاشق رسول کے دل پر چلتے ہیں.یہ وہ نشتر ہیں جن کے زخم گہرے اور پر درد اور سخت اذیت ناک ہیں.کیا یہ مزاج شناس نبوت کی آواز ہے جو ہم سن رہے ہیں نہیں انہیں ! یہ تو آسبرن اور پادری عمادالدین کی باتیں ہیں جو مسلمانوں کے دل کو خون کرنے والی ہیں.خدا کے لئے اسے روح اسلام نہ کہوا سے روح مودودیت کہو.تف ہے ان پر جو اس آواز کو روح اسلام کہتے ہیں.کہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا عارفانہ تصور غلبہ اسلام اور تصور جہاد اور کہاں یہ بھیس بدلی ہوئی لاکھ پر دوں میں لپٹی ہوئی باتیں جو ان پردوں میں رہ کر بھی اپنے زہر کو چھپا نہیں سکتیں ،ان کا نشتر ان پردوں کو چاک کر کے پھر بھی ہمارے دلوں پر حملہ کر رہا ہے.پس یہ وہ باتیں ہیں جو آنحضرت علیہ اور اسلام پر سب سے زیادہ بھیا نک الزامات اور ہیں.ہم کیسے تسلیم کریں اس تصور جہاد کو.یہ تو مٹنے اور رد کئے جانے کے لائق تصور ہے.ہمارے آقاو مولی حضرت محمد ﷺ کی طرف ایک لحظہ کے لئے بھی اس تصور کو منسوب نہیں کیا جاسکتا.ہم اس کو کسی صورت میں ماننے کے لئے تیار نہیں.پس ان علماء کے حالات کو دیکھیں دل پر ایک عجیب سی کپکپی طاری ہو جاتی ہے.اسلام کے نام پر مگر اس کی روح سے یکسر غافل یہ لوگ خدا کے مقدس وجودوں پر ظالمانہ حملے کرنے والے وقت وقت کی آواز میں بدلتے رہتے ہیں اور کوئی خوف نہیں کھاتے کہ ہم کیا کہہ ہے ہیں اور کیا کر رہے ہیں.ہماری زبان کیا ہے اور ہمارا عمل کیا ہے.جہاں تک اس مضمون کے بقیہ حصہ کا تعلق ہے کہ جب کبھی عالم اسلام پر مصیبتوں کے وقت آئے تو کون تھا جو اس کی خاطر صف اول میں سینہ سپر ہو گیا اور اسلام کے دکھ اپنے سینے پر لئے ، کیا وہ احمدی مسلمان تھے یا یہ علماء جو سادہ لوح مسلمانوں کو ہمیشہ بیوقوف بناتے رہے اور آج بھی بنا رہے ہیں.چونکہ وقت بہت زیادہ ہو چکا ہے اس لئے جہاں تک اس حصہ کا تعلق ہے اس پر انشا اللہ تعالیٰ میں آئندہ خطبہ میں روشنی ڈالوں گا.
خطبات طاہر جلدم 149 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء قرطاس ابیض کے الزامات کا جواب مسلمانان ہندوستان کا قومی تحفظ اور جماعت احمدیہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ وَاللَّهُ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الظَّلِمِينَ يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّهُ مُتِمُّ نُورِ؟ وَلَوْكَرِهَ الْكَفِرُونَ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ & پھر فرمایا: ( الصف : ٨-١٠) حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کردہ مزعومہ قرطاس ابیض کی بات ہو رہی ہے.اس میں ایک یہ الزام بھی بار بارد ہرایا گیا ہے کہ نعوذ بالله من ذالک جماعت احمد یہ اسلام کی بھی دشمن ہے، قوم اور وطن کی بھی دشمن ہے اور اس کی غداری سے قوم ، وطن اور ملت کو بڑا شدید خطرہ ہے.یہ صرف اسلام ہی کے لئے ایک Threat اور خطرہ کا باعث نہیں بلکہ ساری ملت اسلامیہ اور مسلمان ممالک کے لئے بھی خطرہ کا موجب ہے اور دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ چونکہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ اسلامی
خطبات طاہر جلدم 150 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء ممالک میں پنپ نہیں سکتے اس لئے لازماً ان کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ تمام اسلامی ممالک تباہ و برباد ہو کر غیر اسلامی طاقتوں کے ہاتھ میں چلے جائیں.جہاں تک اس الزام کے تاریخی جائزہ کا تعلق ہے یہ ایک بہت وسیع مضمون ہے.اس کی تفصیل میں جانا اس مختصر سے وقت میں ممکن نہیں صرف اس بات کا تجزیہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اسلام یا مسلمانوں کو جب بھی کوئی خطرہ پیش آیا تو اس وقت صف اول میں جہاد کرنے والے جماعت احمدیہ کے افراد تھے یا جماعت پر الزام لگانے والے لوگ؟ اس سلسلہ میں تاریخ کے مختلف اوراق میں سے بعض چیدہ چیدہ اہم واقعات پیش کرتا ہوں.جہاں تک اس دلیل کا تعلق ہے کہ مسلمان ممالک میں احمدی پنپ نہیں سکتے اس لئے وہ ان ممالک کو مٹانا چاہتے ہیں تو یہ ایک عجیب دلیل ہے جو سراسر غلط مفروضوں پر قائم کی گئی ہے اور اس میں شدید تضاد پایا جاتا ہے مثلاً یہ کہ مسلم ممالک میں جماعت ترقی نہیں کر سکی.اس لئے جماعت انتقاماً ان ممالک کو تباہ کرنا چاہتی ہے.اس مفروضہ کو اگر درست تسلیم کیا جائے تو اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ چونکہ پاکستان میں جماعت نے ترقی کی ہے اس لئے اسے جماعت سے کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہئیے.مگر پھر تمہاری قدغنوں کا کیا جواز ہے جو تم پاکستان میں جماعت پر عاید کر رہے ہو.چنانچہ نام نہاد شرعی عدالت میں بھی مختلف وکلاء یہی دلیل پیش کرتے ہیں کہ یہ جماعت تبلیغ کے ذریعہ پھیلتی چلی جارہی ہے ، اسے ہم برداشت نہیں کر سکتے.۱۹۷۴ء کی تحریک میں بھی اور اُس سے پہلی تحریکات میں بھی جس بات پر سب سے زیادہ واویلا کیا گیا تھا وہ یہی تھی کہ احمدی روکے سے رکتے نہیں، پھیلتے چلے جار ہے ہیں.پس جماعت احمدیہ کو کسی ملک سے خطرہ کیسے پیدا ہو گیا کہ وہ اس سے پھیل نہیں سکیں گے اور اس میں پنپ نہیں سکیں گے یا پھر تم یہ فیصلہ کرو کہ پاکستان اسلامی ملک نہیں ہے اس لئے جماعت احمد یہ اس میں پھیل رہی ہے.اگر یہ اسلامی ملک نہیں ہے تو تم کہاں سے پیدا ہو گئے پھر اسلام کے محافظ اور دعویدار ! تمہارا تعلق ہی کوئی نہیں، غیر اسلامی ملک ہے اس میں جو ہوتا ہے ہوتا رہے، تمہیں اس سے غرض ہی کوئی نہیں اور اگر اسلامی ملک ہے اور چونکہ اسلام کے نام پر یہ ملک قائم ہوا ہے اس لحاظ سے یقیناً اسلامی ملک ہے تو ساری دنیا میں سے جس ملک میں کثرت کے ساتھ اور ملک کے ہر طبقہ میں جماعت احمد یہ پھیلی ہے.اس ملک یعنی پاکستان سے جماعت کو یہ خدشہ کیسے
خطبات طاہر جلدم 151 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء ہوسکتا ہے کہ وہ وہاں پنپ نہیں سکے گی.پس تمہارے اس مفروضہ کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے کہ جماعت احمد یہ مسلم ممالک میں پنپ نہیں سکتی اس لئے ان ممالک کو تباہ کرنا چاہتی ہے.اب میں تاریخی واقعات کو لیتا ہوں دنیا کو بڑے ٹھنڈے دل سے ان پر غور کرنا چاہئے.یہ وہ واقعات ہیں جو تاریخ کے صفحات پر ایک دفعہ ایسی قلم سے لکھے جاچکے ہیں جنہیں اب مٹایا نہیں جاسکتا.زمانہ کا قلم جب واقعات لکھتا ہوا گذر جاتا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت واپس جا کر اس قلم کے لکھے ہوئے کو مٹا نہیں سکتی.اب یہ لوگ ساری دنیا میں جتنا چاہیں واویلا کرلیں ، نئی سے نئی تاریخ بنانے کی جتنی چاہیں کوششیں کر لیں لیکن جو واقعات منصہ شہود پر ایک دفعہ ابھر آئے ہیں اب کوئی ہاتھ نہیں جوان کو مٹا سکے.چونکہ یہ داستان بہت لمبی ہے اور اختصار کی کوشش کے باوجود بھی میں سمجھتا ہوں کہ یہ مضمون بہت زیادہ لمبا ہو جائے گا اس لئے ہو سکتا ہے کہ آئندہ خطبہ میں بھی اسی مضمون کو جاری رکھا جائے اور پھر شاید تیسرے خطبہ میں بھی یہ تسلسل قائم رہے.اس لئے اگر کچھ خطبہ اس وجہ سے لمبے بھی ہو جائیں تو امید رکھتا ہوں کہ دوست صبر و تحمل کا مظاہر کریں گے کیونکہ اب جماعت کی بقا اور اس کے مفاد کے لئے یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم بڑی تفصیل کے ساتھ معترضین کو موثر جواب دیں اور اس رنگ میں جواب دیں کہ ان کے عامۃ الناس بھی سمجھ سکیں اور ان پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہو جائے کہ جھوٹا کون ہے اور سچا کون ہے.میں احباب کو تحریک خلافت (Khilafat Movement) کی طرف لے کر جاتا ہوں.پہلی جنگ عظیم کے بعد نہ صرف سیاسی تبدیلیاں رونما ہوئیں بلکہ بعض بڑی اہم جغرافیائی تبدیلیاں بھی ہوئیں ان میں سے ایک اہم تبدیلی ترکی میں آئی جس نے جنگ اول میں جرمنوں کے ساتھ مل کر اتحادیوں کے خلاف جنگ کرنے کا فیصلہ کیا تھا.اس جنگ میں جرمن ہار گئے ، اتحادیوں کو فتح ہوئی تو ترکی کے سلطان عبدالحمید کو معزول کر دیا گیا.اس کے بعد وہاں ایک زبر دست انقلاب برپا ہوا جس کے نتیجہ میں کمال اتاترک بر سر اقتدار آ گئے اس طرح ترکی میں ایک سلطنت جو خلافت کے نام پر جاری تھی اس کا خاتمہ ہو گیا تو ہندوستان میں مسلمانوں نے خلافت کے احیاء کی تحریک چلا دی جو دراصل انگریزوں کے خلاف تھی کہ انہوں نے ایک مسلمان خلافت کا خاتمہ کیا ہے اس لئے مسلمانوں کو خصوصاً ہندوستان کے مسلمانوں کو انگریزوں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے.مگر اس جہاد کی آواز عرب
152 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء خطبات طاہر جلدم شخصیتوں پر کے کسی ملک سے نہیں اٹھی.ہندوستان سے ایک وفد ترکی بھجوایا گیا جو مسلمان علماء اور بعض سیاسی پر مشتمل تھا وفد نے کمال اتاترک سے ملاقات کی اور انہیں خلافت کی پیش کش کی اور کہا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں.کمال اتاترک نے بڑے تعجب سے باتیں سنیں اور اس پیش کش کو یہ کہتے ہوئے رد کر دیا کہ تم کیا باتیں لے کر میرے پاس آئے ہو میں نے بڑی مصیبت سے ترکی کو ان بوسیدہ خیالات سے باہر نکالا ہے اور اس کی بے وجہ پھیلی ہوئی سرحدات کو سمیٹ کر ملک کو داخلی اور خارجی طور پر محفوظ کیا ہے تو اب کس زعم میں اور کیا خیال لے کر میرے پاس آئے ہو.چنانچہ کمال اتاترک نے اس پیشکش کو کلیۂ رد کر دیا.لیکن ہندوستان میں اس وقت ایک ایسا جوش تھا اور علماء جن کو کل کی بھی خبر نہیں ، جن کو اپنے ماحول کا کچھ علم نہیں کہ کیا ہو رہا ہے.کل کی خبر تو کیا ان کو آج کی خبر نہیں ، ان کے ماضی کی خبر نہیں ، زمانہ کے لکھے ہوئے سبق کو پڑھ نہیں سکتے ایسے علماء بڑے جوش و خروش سے مسلمانوں میں اپنی طرف سے ایک عظیم تحریک چلا رہے تھے جبکہ اس تحریک کی باگ ڈور ہندو کے ہاتھ میں تھی.اس وقت ایک آواز تھی جو قادیان کی آواز تھی.وہ آواز بڑی شدت اور زور سے اٹھی اور مسلمانوں کو بار بار نصیحت کی کہ تمہیں اس تحریک سے اتنا شدید نقصان پہنچے گا کہ پھر تم مدتوں سنبھل نہیں سکو گے.یہ ایک بے معنی تحریک ہے ، عقل کے خلاف ہے اس لئے تم اس سے باز آجاؤ.نتیجہ یہ نکلا کہ اس کلمہ حق کے کہنے کی وجہ سے احمدیوں پر اس قدر شدید مظالم توڑے گئے کہ احمدیوں کے خلاف بھی ایک پوری تحریک چل گئی اور بڑے درد ناک واقعات رونما ہوئے.جگہ جگہ احمدیوں کے بائیکاٹ کئے گئے ، شدید گرمی کے دنوں میں پانی بند کئے گئے ، رات کو باہر سوتے تھے تو پتھراؤ ہوتے تھے.اس زمانہ میں پنکھوں وغیرہ کا تو زیادہ رواج بھی نہیں تھا.لوگ بھی نسبتا غریب تھے چنانچہ شدید گرمیوں میں کمروں کے اندر بچوں سمیت بند ہو کر سونا پڑتا تھا یا سونے کی کوشش کرنی پڑتی تھی کیونکہ یہ لوگ احمدیوں کے خلاف تحریک چلا رہے تھے کہتے تھے تم نے تحریک خلافت اور ترک موالات کی مخالفت کیوں کی ہے؟ ہم اسلام کی خدمت کر رہے ہیں تم کچھ اور باتیں کر رہے ہو.اس لئے تمہاری سزا یہی ہے کہ تمہارے ساتھ بھی انگریزوں کی طرح سلوک کیا جائے اور تمہیں بھی مارا پیٹا جائے.لیکن اس وقت قادیان سے اٹھنے والی ایک تنہا آواز تھی جس نے بار بار مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ تم خطر ناک غلطی کر رہے ہو.یہ ترک موالات تھی کیا؟ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس میں ہندوستان کے مسلمانوں کو ترک
خطبات طاہر جلدم 153 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء موالات پر ابھارا گیا تھا.یہ تحریک در اصل مہاتما گاندھی کے دماغ کی ایک ایجاد تھی.کانگریس نے جن ملاؤں کو نوازا ہوا تھا، ان کے ذریعہ یہ تحریک چلائی گئی اور پھر یہ اتنی شدت پکڑ گئی کہ تمام بڑے بڑے علماء اور تمام مسلمان سیاسی رہنما اس کی لپیٹ میں آگئے اور پھر کانگرسی اور غیر کانگرسی کا فرق نہ رہا.اس تحریک کے بارہ میں مسٹر گاندھی نے خود جا کر مسلمان علماء سے فتوے لئے کہ دیکھو انگریز نے کتنا ظلم کیا ہے ، خلافت مٹادی ہے تو اے مسلمان علماء تمہارا کیا فتویٰ ہے کہ اگر مقابلہ ممکن نہ ہو تو جہاد کیسے کیا جا سکتا ہے.یعنی ہندو لیڈر مسلمانوں کی بھلائی کے لئے فتوے لے رہے ہیں.چنانچہ جب گاندھی جی نے مسلمانوں سے فتویٰ پوچھا تو چوٹی کے پانچ سو مسلمان علماء نے گاندھی کو یہ فتویٰ دیا کہ اب تو مسلمانوں کے لئے ایک ہی راستہ رہ گیا ہے اور وہ یہ ہے کہ انگریزوں کے ساتھ رہن سہن کلیپ ترک کر دیا جائے اور اپنا وطن چھوڑ کر مسلمان کسی اسلامی ملک میں ہجرت کر جائیں اور پھر وہاں سے حملہ کر کے بڑی شان کے ساتھ واپس آئیں اور انگریزوں کو مار مار کر ہندوستان سے نکال دیں.غرض یہ وہ فتویٰ تھا جس کو بنیاد بنا کر ترک موالات کی تحریک چلائی گئی.چنانچہ اس تحریک کی کامیابی کے لئے جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ ہندوستان کے ایک سرے سے دوسرے سے تک مسلمان مرنے مارنے پر تیار ہو گئے.اس حالت کا ذکر کرتے ہوئے مولانا عبدالمجید سالک اپنی کتاب سرگزشت میں لکھتے ہیں، یہ ان کا آنکھوں دیکھا حال ہے.وہ کہتے ہیں: اسی رات کانگرس کے پنڈال میں خلافت کانفرنس کا اجلاس ہوا.اس وقت بھولتا ہوں کہ صدر گاندھی جی تھے یا مولا نا محمد علی.بہر حال تمام اکابر اس میں شریک ہوئے.اسٹیج پر گاندھی جی ، تلک مسز اینی بسنٹ ، جیکر ، کیلکر ، محمد علی ، شوکت علی ، ظفر علی خان، سید حسین ، مولانا عبدالباری، مولانا فاخر الہ آبادی، مولانا حسرت موہانی اور بہت سے دیگر رہنما موجود تھے.مولانامحمد علی نے پہلے انگریزی میں تقریر کی اور کہا کہ میں کچھ دیر تک انگریزی تقریر کروں گا تا کہ جوا کابر ملک اردو نہیں سمجھے وہ خلافت کے متعلق مسلمانوں کے موقف کو سمجھ لیں اس کے بعد اردو میں تقریر کروں گا.مولانا کی تقریر بے نظیر تھی.نہ صرف زبان اور اندازِ بیان کے اعتبار سے بلکہ مطالب کے لحاظ سے بھی پورے مسئلے پر حاوی تھی اور
خطبات طاہر جلدم 154 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء جذبات انگیزی کی کیفیت اس فقرہ سے معلوم ہوتی ہے کہ ہمیں اب ملک سے ہجرت کر جانے کے سوا اور کوئی شرعی چارہ باقی نہیں ہے“.(بار دوم صفحہ 11) یہ وہ شرعی فتویٰ تھا جو مہاتما گاندھی نے مسلمانوں کی خاطر لیا تھا.مولانا عبدالمجید سالک صاحب کہتے ہیں کہ مولا نا محمد علی نے دوران تقریر کہا: ” اب اس ملک سے ہجرت کر جانے کے سوا اور کوئی شرعی چارہ باقی نہیں ہے اس لئے ہم اس ملک کو چھوڑ جائیں گے اور اپنے مکانات اور اپنی مساجد ( مساجد کا یہ لفظ خاص طور پر یا در کھنے کے قابل ہے.ناقل ) ،اپنے بزرگوں کے مزارات سب بطور امانت اپنے ہندو بھائیوں کو سونپ جائیں گے.تا آنکہ ہم پھر فاتحانہ اس ملک میں داخل ہو کر انگریزوں کو نکال دیں اور اپنی امانت اپنے بھائیوں سے واپس لے لیں.مجھے یقین ہے کہ ہندو بھائی جن کے ساتھ ہم ایک ہزار سال سے زندگی بسر کر رہے ہیں ہماری اتنی خدمت سے پہلو تہی نہ کریں گئے“.(بار دوم صفحہ ۱۱۱) یہ ہندو بھائی بھی بڑا دلچسپ محاورہ ہے.یہ پہلے بھی استعمال ہوتا رہا ہے، آج کل بھی پاکستان میں استعمال ہورہا ہے.احمدی بھائی نہیں مگر ہندو اور عیسائی بھائی ہے.آخر کیوں نہ ہو ہزار سال سے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے.مولا نا عبدالمجید سالک صاحب لکھتے ہیں: ان کے بعد بریلی کے ایک بنسی دھر پاٹھک کھڑے ہوئے ، ان کی تقریر بہت پر جوش اور بے حد دلچسپ تھی.انہوں نے مولانا محمد علی کے ” نہلے پر دہلا یوں مارا کہ اگر مسلمان بھائی اپنی شریعت کے احکام کے تحت اس ملک سے ہجرت کر جانے پر مجبور ہیں تو ہندو بھی یہاں رہ کر کیا کریں گے (کتنا دردناک فقرہ ہے ) اگر مسلمان چلے (جائیں ) تو ہندو جاتی بھی ہجرت میں مسلمانوں کا ساتھ دے گی اور ہم اس ملک کو ایک بھا ئیں بھا ئیں کرتا ہوا ویرانہ بنادیں گے تا کہ انگریز اس ویرانے سے خود ہی دہشت کھا کر بھاگ جائیں مولا ناسا لک صاحب لکھتے ہیں: (سرگزشت بار دوم صفحه ۱۱۱ ۱۱۲)
خطبات طاہر جلدم 155 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء کس قدر عقل سے دُور باتیں ہیں.لیکن جذبات کی دنیا نرالی ہے.اس وقت جلسہ کا یہ عالم تھا کہ بعض لوگ چنیں مار مار کر رو رہے تھے اور خلافت کا نفرنس مجلس عزا بن گئی تھی (سرگزشت صفحه: ۱۰۸) گاندھی جی ان دنوں صرف ہندوؤں کے ہی نہیں مسلمانوں کے بھی مہاتما بن چکے تھے اور شہدائے اسلام کے معاملات غور و خوض کے لئے ان کے سامنے پیش ہوا کرتے تھے.چنانچہ مولانا عبدالمجید سالک صاحب اسی کتاب میں آگے چل کر لکھتے ہیں : گاندھی جی جلسہ شروع ہونے سے پہلے دفتر زمیندار میں تشریف لائے وہ بعض خلافتی رہنماؤں سے گفتگو میں مصروف تھے اور میں چل کوٹ گورمے اور حبیب اللہ خان مہاجر شہید کے متعلق کا غذات لئے گاندھی جی کے سر پر کھڑا تھا.بڑی مشکل سے جب وہ فارغ ہوئے تو میں نے سارا معاملہ انہیں سمجھایا.(سرگزشت صفحه: ۱۲۸) یعنی مسلمان شہیدوں کے متعلق کا غذات گاندھی جی کے دربار میں پیش ہورہے ہیں ! مولانا سالک لکھتے ہیں : اتنے میں ہزار ہا حاضرین جلسہ بھی تکلیف انتظار سے مضطرب ہو کر دفتر زمیندار کے سامنے سڑک پر جمع ہو گئے.(سرگزشت صفحہ ۱۲۸) زمیندار اخبار کا دفتر اس وقت احرار کا مرکز اور جماعت احمدیہ کی مخالفت کا گڑھ تھا.مولانا سالک لکھتے ہیں کہ لوگ دفتر زمیندار کے سامنے سڑک پر آگئے.اور فلک شگاف نعرے لگانے لگے مہاتما گاندھی جی کی جے، ہندوستان کی جے ! ہندو مسلمان کی جے ! بندے ماترم ! اللہ اکبر ! ست سری اکال (سرگزشت صفحه : ۱۲۴) ان لوگوں کا ہمیشہ سے یہی دستور رہا ہے آج احمدیوں کی مساجد اور درودیوار پر کلمہ طیبہ لکھا ہوا دیکھ کر درد سے ان کی چیخیں نکلتی ہیں اور غیرت سے ان کی جان پھٹ رہی ہے.اس لئے کہ یہ لوگ ہمیشہ سے ہی مختلف مزاج رکھتے ہیں.احمدی اپنے امام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جے کا
خطبات طاہر جلدم 156 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء نعرہ لگائیں تو یہ لوگ ہمیں ہزار ہا طعنے دینے لگتے ہیں اور ہماری مساجد اور درودیوار پر لکھا ہوا اور ہمارے سینوں پر سجا ہوا کلمہ طیبہ ان کو برا لگتا ہے.اس میں خدا کی تو حید کا جو اعلان ہوتا ہے.اس میں حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ کی صداقت کا جو اعلان ہوتا ہے.بہر حال گاندھی جی مہاراج کی مسلمانوں کے جلسہ میں آنے پر مسلمانوں کی پذیرائی کے بارہ میں ذکر کرتے ہوئے مولا نا عبدالمجید سالک رقم طراز ہیں: آخر گاندھی جی اٹھے اور جلسہ میں شامل ہونے کے لئے چلے.رضا کاروں نے ہجوم میں سے راستہ نکالا.گاندھی جی جلسہ گاہ میں پہنچے تو جوش وخروش کی انتہا نہ تھی.پہلے دوسرے لیڈروں نے تقریریں کیں اس کے بعد گاندھی جی نے مجمع کو خطاب کیا اور مولانا ظفر علی خان کی گرفتاری پر احتجاج کرتے ہوئے وہ فقرہ کہا جو یار لوگوں کی محفلوں میں مدت تک سرمایہ قہقہہ بنا رہا.( یہ فقرہ میں چھوڑ دیتا ہوں ) چند ہفتوں کے بعد گاندھی جی پھر تشریف لائے اس مرتبہ ان کے ساتھ رہنماؤں کی پوری جماعت تھی...سکھ مولانا ابوالکلام کے ہاتھوں کو بوسے دیتے تھے.ہندو مولانا کی چرنوں کی دھول آنکھوں سے لگاتے تھے اور مسلمان گاندھی جی کی پذیرائی یوں کرتے تھے گویا کسی خدا رسیدہ ولی نے لاہور کو اپنے قدوم سے مشرف فرمایا ہے.66 (سرگزشت صفحه: ۱۲۹) ان باتوں نے مسلمانوں کے دل میں جو جذبات پیدا کر دیئے تھے وہ بہت شدید تھے اسی لئے اس جاہلانہ تحریک کے خلاف احتجاج کرنے کی سزا میں جماعت احمد یہ کو سارے ہندوستان میں شدید سزائیں مل رہی تھیں.تا ہم مسلمانوں کے جذبات کا جو عالم تھا اس کا نقشہ مولانا سالک صاحب نے ان الفاظ میں کھینچا : عامتہ المسلمین میں یہ جذ بہ عام ہو رہا تھا کہ اب ہندوستان سے ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہیں اس لئے آزاد علاقے اور افغانستان میں چلے جاؤ اور وہاں رہ کر اس جنگ کی تیاری کرو جو تمہیں انگریزوں پر فتح دلا دے اور
خطبات طاہر جلدم 157 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء ہندوستان کو آزاد کرا دے.امیر امان اللہ خان نے ایک تقریر میں کہہ دیا کہ ہندوستان سے جو بھائی ہجرت کر کے آئیں گے افغانستان حتی الوسع ان سے برادرانہ سلوک کرے گا (سرگزشت صفحہ : ۱۱۵) ہاں وہ کونسی آواز تھی جو اس تحریک کے خلاف اٹھی اور جس نے مسلمانوں کی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی اور بڑی وضاحت کے ساتھ بار بار صورت حال کا تجزیہ کر کے بتایا کہ عدم تعاون اور ترک موالات کی تحریک ہر پہلو سے غلط ہے اور پھر مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ شریعت اسلامیہ کا نام اس میں استعمال نہ کرو.اس طرح یہ اسلام سے بھی گستاخی ہے اور رسول اسلام سے بھی شدید گستاخی ہے.اگر سیاسی غلطی نہ بھی سہی تب بھی اس گستاخی کے نتیجہ میں تم ضرور سزا پاؤ گے.اس لئے تم ہمارے خلاف جو چاہو مخالفت کے حربے استعمال کر لو میں تمہیں لازم بتا کر اور سچ بات کہہ کر چھوڑوں گا کیونکہ مجھے مسلمانوں سے سچی ہمدردی ہے.کیونکہ عدم تعاون اور ترک موالات کی تحریک میں بار بار کالفظ استعمال ہو رہا تھا اور مسلمانوں کو یہ بتایا جارہا تھا کہ یہ شرعی فتوی ہے اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثانی ( اللہ آپ سے راضی ہو) نے اس موقع پر مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: "مسٹر گاندھی کے قول کو قرآن کریم کیوں قرار دیا جاتا ہے.شریعت اس کا نام کہاں رکھا جاتا ہے.اگر یہ بات ہے تو لوگوں سے یہ کہو کہ چونکہ مسٹر گاندھی اس طرح فرماتے ہیں اس لئے اسی طرح تم کو عمل کرنا چاہئے.یہ کیوں کہتے ہو کہ شریعت اسلام کا فتویٰ ہے.پھر فرمایا: اگر ترک موالات کے حامی اسے شریعت کا فرض مقرر کرتے ہیں تو پھر اس طرح عمل کریں جس طرح کہ شریعت نے کہا اور اگر اسے گاندھی کا ارشاد قرار دیتے ہیں تو عوام کو قرآن کے نام سے دھوکا نہ دیں اور اسلام کا تمسخرنہ اُڑائیں.(ترک موالات اور احکام اسلام صفحه : ۵۸-۵۹) پھر فرمایا: ” کیا تم کو یہ نظر نہیں آتا کہ تم ایک صحیح راستے کو ترک کر کے کہاں کہاں
خطبات طاہر جلدم 158 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء دھکے کھاتے پھرتے ہو.اوّل تو تمام علماء اور فضلاء کو چھوڑ کر ایک غیر مسلم کو تم نے لیڈر بنایا ہے.کیا اسلام اب اس حد تک گر گیا ہے کہ اس کے ماننے والوں میں سے ایک روح بھی اس قابلیت کی نہیں ہے کہ اس طوفان کے وقت میں اس کشتی کو بھنور سے نکالے اور کامیابی کے کنارے تک پہنچائے.کیا اللہ تعالیٰ کو اپنے دین کی اس قدر غیرت بھی نہیں رہی کہ وہ ایسے خطرناک وقت میں کوئی ایسا شخص پیدا کر دے جو محمد رسول اللہ ﷺ کا شاگرد اور آپ کے خدام سے ہو اور جو اس وقت مسلمانوں کو اس راستے پر چلائے جو اُن کو کامیابی کی منزل تک پہنچائے.آہ ! تمہاری گستاخیاں کیا رنگ لائیں.پہلے تو تم محمد رسول اللہ ﷺ کو سیح ناصری کا ممنون منت بنایا کرتے تھے اب مسٹر گاندھی کا مرہون احسان بناتے ہو؟“.پھر فرمایا: حضرت مسیح ناصری علیہ السلام تو خیر ایک نبی تھے اب جس شخص کو تم نے اپنا مذہبی رہنما بنایا ہے وہ تو ایک مومن بھی نہیں ہے.پس محمد رسول اللہ علے کی اس ہتک کا نتیجہ پہلے سے بھی زیادہ سخت دیکھو گے اور اگر باز نہ آئے تو اس جرم میں مسٹر گاندھی کی قوم کی غلامی اس سے زیادہ تم کو کرنی پڑے گی.جتنی کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی امت کی غلامی تم کہتے ہو کہ ہمیں کرنی پڑی ہے“ (ایضاً صفحہ: ۸۷-۸۲) یہ ہے نعوذ باللہ من ذالک اسلام اور وطن کے غدار جماعت کی لیڈرشپ کا کردار.یہ ہے ان کے رہنما کا کردار.اس کے برعکس وہ لوگ جو اسلام اور وطن کے ہمدرد بنے بیٹھے تھے ان کا کردار کیا تھا وہ قبل از میں بیان ہو چکا ہے.لیکن زیادہ دیر تک مسلمانوں کا یہ خواب جاری نہ رہ سکا.ہجرت ہوئی ہزار ہا سادہ لوح مسلمان اپنی ساری عمر کی پونجیاں لٹا کر ہندوستان سے ہجرت کر گئے.وہ اپنی جائیدادیں اپنے ہاتھوں سے اپنے ہندو بھائیوں کے سپر د کر گئے ، مسجد میں ویران کر گئے ،تجارتوں کوٹھوکریں ماریں اور حکومت کے مختلف محکموں میں ملازموں نے استعفے دے دیئے.ایسا درد ناک منظر دکھائی دیتا ہے کہ وہ جو کہتے تھے کہ ہم تمہارے بغیر یہاں رہ کر کیا کریں گے.ان کا اس وقت
خطبات طاہر جلدم 159 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء فوری رد عمل یہ ظاہر ہوا کہ ایک مسلمان ملازمت سے استعفیٰ دیتا تھا تو اس اسامی کو پر کرنے کے لئے دس ہندوؤں کی درخواستیں پہنچ جایا کرتی تھیں.کسی ایک ہندو نے بھی مسلمانوں کے ساتھ ہجرت نہیں کی.اس کے برعکس وہ شخص جو ان کو راہ راست دکھا رہا تھا اور مسلمانوں سے سچی ہمدردی کا اظہار کر رہا تھا اس کو اور اس کے ماننے والوں کو مسلمانوں کی طرف سے شدید سزائیں دی جارہی تھیں.یہ ان علماء کی تحریک اور ان کی رہنمائی کا نتیجہ تھا جو آج بھی پاکستان پر انہی بد نیتوں کے ساتھ قابض ہوئے ہوئے ہیں.لیکن ہوش آیا تو بہت دیر کے بعد آیا.چنانچہ اس وقت مولانا ابوالکلام آزاد جو عدم تعاون اور ترک موالات کی تحریک میں پیش پیش تھے کانگرسی علماء میں ان کا ایک بہت بڑا مقام ہے اور احراری مولویوں کا ان کے ساتھ بڑا گہرا رابطہ تھا، یہی مولانا صاحب لکھتے ہیں: کارفرما دماغوں کے لئے نازک گھڑیاں روز نہیں آتیں لیکن جب آتی ہیں تو انہی میں اصلی آزمائش ہوتی ہے.ایسی ہی ایک گھڑی تھی جب پہلے پہل انقلاب خلافت کی خبریں ہمارے دماغوں سے ٹکرائیں.یہی اس بات کی آزمائش کا وقت تھا کہ کہاں تک ہم میں دماغی قوت فعال پیدا ہوئی ہے؟ کہاں تک ہم نے ایسے معاملات کو سوچنا سمجھنا اور ان کی نزاکتوں سے عہدہ برآ ہونا سیکھا ہے؟ کہاں تک ہم میں یہ طاقت پیدا ہوئی ہے کہ دوستوں کی غلطی اور دشمنوں کی شماست میں پھنس کر راہ عمل گم نہ کریں؟ ضرورت تھی کہ ہم میں جولوگ صاحب فکر و عمل تھے کامل حزم و احتیاط سے کام لیتے ، دل اور زبان دونوں کی لگا میں کھنچی رہتی ( تبرکات آزاد مرتبہ غلام رسول مہر صفحه: ۲۳۸) لیکن پھر آگے جا کر بڑی حسرت سے کہتے ہیں: د لیکن جلد بازی اور بے لگامی سے خطرناک اور لا علاج ٹھوکریں لگ سکتی ہیں.فرانسیسی ضرب المثل ہے ”جو گولی چل چکی وہ آدھے راستے سے واپس نہیں آئے گی اگر چہ واپسی کے لئے تم کتنے ہی بلاوے بھیجو.افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ گولی چل گئی اور آزمائش کے نتیجہ پر ہمارے لئے کوئی مبارک باد نہیں (ایضاً)
خطبات طاہر جلدم 160 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء ایک کتاب ہے ”مسلمانان ہند کی حیات سیاسی‘ اس میں محمد مرزا دہلوی صاحب اس تحریک کی نا کامی پر کف افسوس ملتے ہوئے لکھتے ہیں : ”یہ ہندوؤں کا پروگرام تھا“ (کل جب تمہیں جماعت احمدیہ یہ کہ رہی تھی کہ ہندوؤں کا پروگرام ہے اس وقت تو تم جماعت کے امام کو نعوذ بالله من ذالک غدار اعظم کہہ رہے تھے.اس وقت تو تم یہ بات سننے کے لئے تیار نہیں تھے.اس وقت تو کلمہ حق کہنے کے نتیجہ میں مظلوم احمد یوں کو سزائیں دی جارہی تھیں لیکن جب وہ طوفان گزر گیا تو پھر خود ہی یہ لکھنے لگے کہ یہ تو ہندوؤں کا پروگرام تھا ) ”ہندو ہی اس کے رہنما تھے.مسلمانوں کی حیثیت اس ایجی ٹیشن میں ان کے آلہ کار سے زیادہ نہیں تھی.اس وقت تک اُن سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت رہی اور اس وقت ایجی ٹیشن بند کر دیا جب ان کی ضرورت ختم ہو گئی.مولانا عبدالمجید سالک اپنی کتاب ”سر گزشت میں اس تحریک کے انجام کا ذکر یوں کرتے ہیں : جذبات انسانی کی کیفیت عجیب ہے ، یہ مخلص اور جو شیلے مسلمان کس جوش و خروش سے ایک دینی حکم پر عمل کرتے ہوئے اپنے وطن کو ترک کر رہے تھے اور پھر چند ماہ بعد جب امیر امان اللہ خاں کی حکومت نے اس لشکر جرار کی آباد کاری سے عاجز آکر اس کو جواب دے دیا تو ان مہاجرین کی عظیم اکثریت بادل بریاں و با دیده گریاں واپس آگئی اور اس تحریک کا جو محض ہنگامی جذبات پر مبنی تھی نہایت شرمناک انجام ہوا.(سرگزشت صفحہ ۱۱۳۰) پس مسلمانوں کی یہ عجیب حالت ہے کہ کانگرسی ملاؤں سے بار بارزک اٹھاتے ہیں پھر بھی دوست و دشمن کی تمیز اور فرق کرنے کی اہلیت نہیں پاتے.جماعت احمدیہ کے خلاف انہی ملاؤں کی طرف سے بار بار جھوٹ بولا جاتا ہے اور ہر اہم موقع پر جماعت کی خدمت ، بر وقت اور پر حکمت رہنمائی اور جماعت کی دوستی کے ہاتھ سے یہ ملا لوگ مسلمان عوام کو ہمیشہ محروم کرنے کی کوشش کرتے ہیں.چنانچہ تحریک خلافت کا بھی وہی انجام ہوا جس کے متعلق جماعت احمدیہ نے ان کو متنبہ کر دیا تھا.وہ قافلے جوان علماء کو دلائی ہوئی جھوٹی آرزؤوں کے قافلے تھے وہ اس حال میں ہندوستان سے روانہ
خطبات طاہر جلدم 161 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء ہوئے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے عمر بھر کی کمائیاں لٹا دیں جائیدادیں اونے پونے بیچ دیں یا ہندؤوں کے پاس ایسی امانتوں کے طور پر رکھواد میں جو کبھی واپس نہ ہوئیں اور جوز ادراہ لے کر وہ چلے تھے اس کے متعلق مؤرخین لکھتے ہیں کہ جب وہ واپس ہوئے تو ان پر جگہ جگہ قبائل کی طرف سے چھاپے مارے گئے اور جو کچھ بھی بچا کھچا سرمایہ ان کے پاس تھا وہ بھی لوٹ لیا گیا.شدید بیماریاں پھیل گئیں.کچھ لوگ فاقوں سے مر گئے ، کچھ اپنی متاع کی حفاظت میں لڑتے ہوئے مارے گئے.چنانچہ انتہائی دردناک حالت میں مسلمانوں کے قافلے واپس پہنچے.ان میں بعض ایسے لوگ بھی تھے جو بڑے تنعم کی زندگی بسر کرنے والے تھے وہ پھٹے ہوئے چیتھڑوں میں ملبوس ایسے حال میں واپس پہنچے کہ ان کا کچھ بھی ذریعہ معاش باقی نہ رہا.یہ تھے مسلمانوں کے ہمدرد علماء جن کا یہ مشورہ تھا اور یہ تھا ان کے مشورے کا نتیجہ ادھر نعوذ بالله من ذالک اسلام اور وطن کے غدار جماعت احمدیہ کے فرزند ان کی پر خلوص نصیحت اور ہمدردانہ مشورہ تھا جس کو نظر انداز کر کے مسلمان شرمناک انجام سے ہمکنار ہوئے.اب بھی جھوٹ اور فریب کاری کی وہی آواز ہے جو پاکستان میں اُٹھ رہی ہے جو کل عدم تعاون اور ترک موالات کی تحریک کی صورت میں اٹھی تھی اور نہایت شرمناک انجام پر منتج ہوئی تھی.اب میں تحریک شدھی سے متعلق بتاتا ہوں کہ جب ہندوستان میں تحریک شدھی کے نتیجہ میں اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہوا تو اس وقت جماعت احمدیہ کا کردار کیا تھا اور احراری ملاؤں کا کردار کیا تھا جو اس وقت بدقسمتی سے پاکستان پر مسلط کر دئے گئے ہیں.تحریک شدھی نے بتادیا کہ کون اسلام کا سچا ہمدرد تھا اور کون جھوٹا تھا، کون بچی ماں کی طرح اسلام سے پیار کرتا ہے اور کون پیچھے کٹنی کی طرح باتیں بنا رہا تھا.شدھی کی تحریک کیا تھا ؟ یہ وہ تحریک تھی جس کے نتیجہ میں ہندوستان کے ایک ایسے علاقے میں جو آگرہ کے ماحول میں ہے اور ملکانوں کا علاقہ کہلاتا ہے وہاں ۱۹۲۳ء میں اور اس سے کچھ پہلے اور کچھ بعد ہندؤوں نے یہ تحریک چلائی کہ یہاں کے جتنے مسلمان ہیں وہ سارے چونکہ پہلے ہندو تھے اس لئے ان کو اپنے مذہب میں واپس لے کر آنا ہے.یہ تحریک اندر ہی اندر بڑی دیر تک چلتی رہی اور ایک عرصہ تک مسلمانوں کو اس کا علم ہی نہیں ہوا.چنانچہ پہلی بار جب اس کے متعلق بعض خبریں اخباروں میں چھپیں اور بعض غریب مسلمانوں کی طرف سے دیو بند اور دارالندوہ لکھنو کو بھی مدد
خطبات طاہر جلدم 162 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء کے لئے پکارا گیا تو اس وقت ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا اور ہر طرف سے آوازیں اٹھنے لگیں کہ ہندؤوں کی اس کوشش کو ناکام بنانا چاہئے اور مسلمانوں کو اسلام پر قائم رکھنے کے لئے ایک جہاد شروع کرنا چاہئے.چنانچہ اس وقت قادیان میں اس کا جو رد عمل ہوا وہ عظیم الشان تھا.قادیان میں جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک ایسی مضبوط اور زبر دست تحریک چلی کہ اس نے شدھی کی تحریک کا رخ پلٹ دیا اور ہندؤوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا.اس سلسلہ میں باقی تمام تحریکات جو ہر طرف سے اٹھیں خصوصاً احرار کی تحریک جو شدھی کے نام پر اٹھی تھی اس کا کیا حشر ہوا اور احراریوں نے اس تحریک میں کیا کارنامے سرانجام دیئے ، ان کا ذکر میں غیر احمدی مسلمان اور ہندو اخباروں کے حوالوں کی روشنی میں کرنا چاہتا ہوں.قبل اس کے کہ میں جماعت احمد یہ اور اس کے مخالفین کے کردار کا ذکر کروں میں پہلے ہندو ارادوں کو خود ان کے الفاظ میں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں.چنانچہ ہندؤوں کے ایک مشہور اخبار تیج، دہلی نے یہ اعلان کیا اور بڑے عزم کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ: بلا شدھی کے ہندو مسلم ایکتا نہیں ہوسکتی“ یعنی وہ لکھتے ہیں کہ ہندو مسلم اتحاد کا کیا مطلب؟ ایک ہی صورت ہے کہ سارے مسلمان ہندو ہو جائیں اس سے بہتر ایکتا کی کوئی صورت نہیں.جس وقت سب مسلمان شدھ ہو کر ہندو ہو جائیں گے تو سب ہندو ہی ہندو نظر آئیں گے.( یہ ایک جلسے کی رپورٹ ہے اور لکھا ہوا ہے خوب تالیاں بجیں ) پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کو آزادی سے نہیں روک سکتی.اگر شدھی کے لئے ہم کو بڑی سے بڑی مصیبت اٹھانی پڑے تو بھی اس اندولن کو آگے بڑھانا چاہئے.(روز نامہ تیج دہلی ۲۰ مارچ ۱۹۲۶ء) پھر اخبار پرتاپ یہ خبر دیتا ہے: نواح آگرہ میں راجپوتوں کو تیز رفتاری سے شدھ کیا جا رہا ہے اور اب تک چالیس ہزار تین سو راجپوت، ملکانے ، گوجر اور جاٹ ہندو ہو چکے ہیں.ایسے لوگ ہندوستان کے ہر حصہ میں ملتے ہیں.یہ پچاس ساٹھ لاکھ سے
خطبات طاہر جلدم 163 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء کم نہیں.اگر ہند وسماج ان کو اپنے اندر جذب کرنے کا کام جاری رکھے تو مجھے تعجب نہ ہوگا کہ ان کی تعداد ایک کروڑ تک ثابت ہو جائے“.یہ تھا وہ خوفناک حملہ جو اسلام پر کیا گیا تھا.اُس وقت رگ حمیت کس کی پھڑ کی تھی ، وہ کون تھا جو اپنا سب کچھ راہ محمد میں قربان کرتا ہوا میدان جہاد میں کو د گیا تھا.یہ احرار اور ان کے لگے بندھے لوگ تھے یا جماعت احمدیہ تھی.آئیے تاریخ کے آئینہ میں دیکھیں کہ برصغیر میں مسلمانوں کی تاریخ کے اس نازک مرحلہ پر اسلام کی نمائندگی کا حق کس نے ادا کیا.اس وقت جبکہ ہندؤوں نے ایک علاقے میں مسلمانوں کو ہندو بنانے کا بازار گرم کر رکھا تھا قادیان سے اس کے خلاف آواز بلند ہوئی.چنانچہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی اللہ آپ سے راضی ہو ) نے ۹؍ مارچ ۱۹۲۳ءکو بید اعلان فرمایا: اس وقت ہمیں فوری طور پر ڈیڑھ سو آدمیوں کی ضرورت ہے جو اس علاقے میں کام کریں.اس ڈیڑھ سو میں سے ہر ایک کو فی الحال تین مہینے کے لئے زندگی وقف کرنی ہوگی.ہم ان کو ایک پیسہ بھی خرچ کے لئے نہ دیں گے.اپنا اور اپنے اہل وعیال کا خرچ ان کو خود برداشت کرنا ہوگا.جولوگ ملا زمتوں پر ہیں وہ اپنی رخصتوں کا انتظام خود کریں اور جو ملازم نہیں اپنے کاروبار کرتے ہیں ، وہاں سے فراغت حاصل کریں اور ہمیں درخواست میں بتائیں کہ وہ چار سہ ماہیوں میں کس سہ ماہی میں کام کرنے کے لئے تیار ہیں.یعنی کم سے کم ایک سال کا پروگرام فوری طور پر شروع کیا گیا تو پہلی سہ ماہی کے لئے ڈیڑھ سو آدمی چاہئے تھے.پھر اگلی سہ ماہی کے لئے اور ڈیڑھ سو چاہئے تھے.چنانچہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) فرماتے ہیں: اس سکیم کے ماتحت کام کرنے والوں میں سے ہر ایک کو اپنا کام آپ کرنا ہوگا.اگر کھانا آپ پکانا پڑے تو پکائیں گے اور اگر جنگل میں سونا پڑے تو سوئیں گے.جو اس محنت اور مشقت کی برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں وہ آئیں ان کو اپنی عزت اپنے خیالات قربان کرنے پڑیں گئے.(الفضل ۱۵/ مارچ ۱۹۲۳ء)
خطبات طاہر جلدم 164 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء جماعت احمدیہ نے اپنے امام کی آواز پر جو والہانہ لبیک کہا وہ ایسا حیرت انگیز ہے کہ قربانی کرنے والی مذہبی جماعتوں اور قوموں میں ہمیشہ کے لئے ایک یادگار رہے گا اور جماعت احمدیہ کی تاریخ کا وہ ایک ایسا باب ہے جسے سنہری حروف سے لکھا جائے گا.چنانچہ بوڑھے کیا اور جوان کیا ،مرد کیا اور عورتیں کیا ، بچے کیا اور جوان کیا، امیر کیا اور غریب کیا ، ہر ایک نے ایسی شاندار قربانی اس راہ میں پیش کی ہے کہ ان واقعات کے متعلق سینکڑوں صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے.تاہم وقت کی طوالت کے خوف سے میں صرف ایک آدھ نمونہ پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہوں: ایک احمدی خاتون نے لکھا کہ ”حضور میں صرف قرآن مجید جانتی ہوں اور تھوڑ اسا اردو.میں نے اپنے بیٹے سے سُنا ہے کہ مسلمان مرتد ہورہے ہیں اور حضور نے وہاں جانے کا حکم دے دیا ہے.مجھے بھی اگر حکم ہو تو فوراً تیار ہو جاؤں ، بالکل دیر نہ کروں گی.خدا کی قسم اٹھا کر کہتی ہوں کہ ہر تکلیف اٹھانے کو تیار ہوں.“ چھوٹی چھوٹی بچیوں نے اور کچھ نہیں تھا تو اپنی چنیاں اتار کر پیش کر دیں.غریب عورتوں نے جن کا ایک بکری پر گزارہ تھاوہ بکری پیش کر دی.وہ بوڑھی عورتیں جو جماعت احمدیہ کے وظیفوں پر پلتی تھیں اور اُن وظیفوں سے بچا کر دو روپے رکھے ہوئے تھے (اس زمانہ میں دو روپے بڑی چیز ہوا کرتے تھے ) لمبے عرصہ میں دو روپے بچائے ہوئے وہ آئیں اور حضرت خلیفہ المسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کے سامنے پیش کرتے ہوئے ان دوروپوں کے متعلق یہ کہا : کہ دیکھیں یہ سر کا جو دوپٹہ ہے، یہ بھی جماعت کا ہے ، یہ میرے کپڑے بھی جماعت کے وظیفے سے بنے ہوئے ہیں، میری جوتی بھی جماعت کی دی ہوئی ہے کچھ بھی میرا نہیں میں کیا پیش کرتی.حضور ! صرف دو روپے میں جو جماعت کے وظیفے سے ہی میں نے اپنے لئے اپنی کسی ضرورت کے لئے جمع کئے ہوئے تھے یہ میں پیش کرتی ہوں کہ کسی طرح اس شدھی کی ظالمانہ تحریک کا رخ پلٹ جائے.“ (کارزار شدھی صفحہ : ۴۶) یہ تھا جماعت احمدیہ کی قربانی کا وہ جذبہ جس کا جماعت نے مظاہرہ کیا.شدھی کی تحریک
خطبات طاہر جلدم 165 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء کے خلاف اٹھنے والی آواز کے جواب میں جماعت ہر چیز قربان کرنے پر تیار ہوگئی.چنانچہ ایک بنگالی دوست نے حضور کی خدمت میں خط لکھا ان کا نام قاری نعیم الدین صاحب تھا.انہوں نے ایک بوڑھے باپ کی حیثیت سے حضور کی خدمت میں عرض کیا: گو میرے بیٹے مولوی ظل الرحمن صاحب اور مطیع الرحمن صاحب متعلم بی اے کلاس نے مجھ سے کہا نہیں مگر میں نے اندازہ کیا ہے کہ حضور نے جو کل راجپوتانے میں جا کر تبلیغ کرنے کے لئے زندگی وقف کرنے کی تحریک کی ہے اور جن حالات میں وہاں رہنے کی شرائط پیش کی ہیں شاید ان کے دل میں ہو کہ اگر وہ حضور کی خدمت میں اپنے آپ کو پیش کریں گے تو مجھے جو ان کا بوڑھا باپ ہوں تکلیف ہوگی لیکن میں حضور کے سامنے خدا تعالیٰ کو گواہ کر کے کہتا ہوں کہ مجھے ان کے جانے اور تکلیف اٹھانے میں ذرا بھی غم یار نج نہیں.میں صاف صاف کہتا ہوں کہ اگر یہ دونوں خدا کی راہ میں کام کرتے کرتے مارے بھی جائیں تو اس پر ایک بھی آنسو نہیں گراؤں گا بلکہ خدا تعالیٰ کا شکر ادا کروں گا.پھر یہی دونوں نہیں میرا تیسرا بیٹا محبوب الرحمن بھی ہے اگر خدمت اسلام کرتا ہوا مارا جائے اور اگر میرے دس بیٹے ہوں اور وہ بھی مارے جائیں تو بھی میں کوئی غم نہیں کروں گا.شاید یہ خیال ہو کہ بیٹوں کی تکلیف پر خوش ہونا کوئی بات نہیں بعض لوگوں کو ایسی بیماری ہوتی ہے کہ وہ اپنے عزیزوں کی موت پر ہنستے رہتے ہیں مگر میں کہتا ہوں کہ اگر میں بھی خدا کی راہ میں مارا جاؤں تو میرے لئے عین خوشی کا باعث ہوگا“.(الفضل ۱۵ / مارچ ۱۹۲۳ء) یہ تھے غدار اسلام کے اور وطن کے؟ جو کل بھی اسی طرح کے غدار تھے اور آج بھی اسی طرح کے غدار ہیں ان کی سرشت نہیں بدلی.نہ تمہاری تلواروں سے ان کی سرشت بدل سکتی ہے، نہ تمہارے نیزوں سے بدل سکتی ہے ، نہ ان تیز دھار زبانوں سے بدل سکتی ہے جو دن رات احمدیت کے دل پر چر کے لگا رہی ہیں.جس قسم کی غداریاں ہم کل کر رہے تھے آج بھی ویسی ہی کرنے والے ہیں اور تم جس قسم کی خدمت اسلام کل کرنے والے تھے آج بھی ویسی ہی کر رہے ہو دونوں
خطبات طاہر جلد۴ کے رویے میں کوئی فرق نہیں پڑا.166 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ مذہبی لڑائی کیا تھی اور اس لڑائی میں کون تھا جس سے ہندو جاتی کو خطرہ لاحق ہوا اور یہ کون تھا جس نے ہندؤوں کی طرف سے چلائی جانے والی تحریک شدھی کا رخ پلٹ دیا.اس کے متعلق ان لوگوں کی زبان سے سنئے جن کو چوٹیں پڑ رہی تھیں.ہندؤوں کا مشہور اخبار تیجے، دہلی جو کل تک بڑے بڑے اعلان کر رہا تھا کہ کس طرح ہند و تحریک شدھی کے ذریعہ پچاس ساٹھ لاکھ کی بجائے ایک کروڑ مسلمانوں کو ہندو بنالیں گے وہ یہ لکھنے پر مجبور ہوا: وید الہامی ہے اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہے اور مکمل گیان ہے.قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین ہیں.اس کد و کاوش کا نتیجہ یہ ہوا کہ کوئی عیسائی یا مسلمان اب مذہب کی خاطر آریہ سماج میں داخل نہیں ہوتا“.(اخبار تیج دیلی ۲۵/ جولائی ۱۹۲۷ء) دیکھئے ! اس اخبار کو میدان جہاد میں اسلام کی طرف سے لڑنے والا قادیانیوں کے سوا اور کوئی نظر نہیں آیا.اس وقت کہاں تھے یہ احراری ملاں جب ہندوؤں کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف کارزار شدھی گرم تھا اس وقت اس میدان میں صرف احمدی ہی تھے جنہوں نے اس تحریک کا پانسہ پلٹ کر رکھ دیا.یہی اخبار تیج پھر لکھتا ہے: ، ” میرے خیال میں تمام دنیا کے مسلمانوں میں سب سے زیادہ ٹھوس، مؤثر اور مسلسل کام کرنے والی جماعت احمد یہ جماعت ہے اور میں بیچ کہتا ہوں کہ ہم سب سے زیادہ اس کی طرف سے غافل ہیں اور آج تک ہم نے اس خوفناک جماعت کو سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کی.(اخبار تیج دہلی ۲۵ / جولائی ۱۹۲۷ء ) اب دیکھیں ہندو تو تھر تھر کانپ رہا تھا اس زمانہ میں بھی جب کہ وہ کروڑہا کروڑ کی اکثریت رکھتا تھا اور جماعت احمدیہ کی تعداد آج کے مقابلہ میں بہت تھوڑی تھی لیکن بایں ہمہ نہایت بے شرمی کے ساتھ احراری مولویوں اور پاکستان کی موجودہ حکومت کی طرف سے جماعت کو کبھی ہندوؤں کا ایجنٹ کہ دیا جاتا ہے، کبھی عیسائیوں کا ایجنٹ کہہ دیتے ہیں اور کبھی یہودیوں کا آلہ کار کہنے لگ جاتے
خطبات طاہر جلدم 167 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء ہیں.کچھ خدا کا خوف بھی کرو.آخر جھوٹ بولنے کی بھی تو کوئی حد ہونی چاہئے.ہند دھرم اور اصلاحی تحریکیں ایک کتاب ہے اس کا مصنف لکھتا ہے : آریہ سماج نے شدھی یعنی نا پاک کو پاک کرنے کا طریقہ جاری کیا ( مسلمانوں کو ہندو بنانا.ناقل ) ایسا کرنے سے آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقے سے تصادم ہو گیا.اس وقت کیا کر رہے تھے یہ اسلام کے علمبردار، وفادار اور جانیں فدا کرنے والے اور جماعت احمدیہ پر دن رات یہ الزام لگانے والے کہ تم جہاد کے خلاف فتوے دے کر اسلام کے غدار ثابت ہو چکے ہو.سوال یہ ہے کہ جب دین کی خاطر عملی جہاد کے میدان کھلے ہیں تو ان میدانوں میں دند نا تا ہوا پھرنے والا کون تھا، احمدی شیر تھے.یا وہ تم لوگ تھے جو احمدیت پر الزام لگاتے ہو.دشمن کو میدان کارزار میں تمہارا کوئی نشان نظر نہیں آیا.ان کو مقابل پر نظر آئے تو احمدی نظر آئے.چنانچہ مصنف لکھتا ہے: آریہ سماج کا مسلمانوں کے ایک تبلیغی گروہ یعنی قادیانی فرقے سے تصادم ہو گیا.آریہ سماج کہتی تھی کہ وید الہامی ہے اور سب سے پہلا آسمانی صحیفہ ہے اور مکمل گیان ہے.قادیانی کہتے تھے کہ قرآن شریف خدا کا کلام ہے اور حضرت محمد خاتم النبین ہیں“.(صفحہ ۴۳ ۴۴) اس اقتباس کا آخری حصہ میں پہلے پڑھ کر سنا چکا ہوں اسے دوبارہ میں نے اس لئے پڑھا ہے یہ بتانے کے لئے کہ کتنی واضح حقیقت ہے جو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آج بھی ان لوگوں کو متنبہ کر رہی ہے کہ تم چاہے جو کچھ کہو مگر اسلام پر جب بھی کوئی مشکل وقت آئے گا اور خطرات کے بادل منڈلانے لگیں گے تو صرف ایک جماعت احمدیہ ہی ہے جو اس سے پہلے بھی مقابلے کے لئے آگے بڑھتی رہی ہے ، آئندہ بھی ہمیشہ اسلام کے دفاع میں سب سے بڑھ کر قربانیاں پیش کرے گی.تحریک شدھی کے بارہ میں اخبار آریہ پتریکا بریلی یکم اپریل ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: اس وقت ملکانے راجپوتوں کو اپنے پرانی راجپوتوں کی برادری میں
خطبات طاہر جلدم 168 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء جانے سے باز رکھنے کے لئے جتنی اسلامی انجمنیں اور جماعتیں کام کر رہی ہیں اُن میں احمد یہ جماعت قادیان کی سرگرمی اور کوششیں فی الواقعہ قابل داد ہیں“.اخبار مشرق“ گورکھپور جو ایک مسلمان اخبار تھا اور غالباً ابھی بھی ہوگا مجھے یاد نہیں.اس اخبار نے ۱۵ مارچ ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں لکھا ہے: جماعت احمدیہ نے خصوصیت کے ساتھ آریہ خیالات پر بہت بڑی ضرب لگائی ہے اور جماعت احمدیہ جس ایثار اور درد سے تبلیغ و اشاعت کی کوششیں کرتی ہے وہ اس زمانہ میں دوسری جماعتوں میں نظر نہیں آتی.بہر حال جماعت احمدیہ نے تحریک شدھی کے خلاف زبردست مہم چلائی اور ملکی پر لیس میں اس کا خوب چرچا ہوا تاہم میرے کہنے کا یہ مطلب نہیں کہ دوسری جماعتیں میدان میں نکلی نہیں ہیں.مختلف علماء کی جماعتیں مختلف فرقوں کی جماعتیں میدان میں کو دی ضرور ہیں لیکن دشمن کو ان کی چوٹ محسوس نہیں ہوئی اور ان کے باہمی اختلافات بھی ایسے تھے کہ میدان میں جا کر زیادہ تر وہ اپنے ہی جھگڑوں کو چکاتے رہے ہیں.چنانچہ زمیندار اخبار اپنی ۲۴ جون ۱۹۲۳ء کی اشاعت میں ان واقعات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: وو ” جو حالات فتنہ ارتداد کے متعلق بذریعہ اخبارات علم میں آچکے ہیں ان سے صاف واضح ہے کہ مسلمانان جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.اب جبکہ کارزار شدھی گرم ہے تو احمدی مسلمان ہو گئے ہیں، لڑ جو ر ہے ہیں اسلام کی خاطر، کھلم کھلا نظر آرہے ہیں، دھوکا دینے کی گنجائش کوئی نہیں رہی.یہ وہی اخبار ہے جو مختلف وقتوں میں احمدیوں کو بار بار مسلمانوں سے باہر پھینکتا رہا ہے اس وقت احمدیوں کو مسلمان تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا.اگر وہ ایسا نہ کرتا تو دنیا اس پر لعنت ڈالتی.چنانچہ اخبار مذکور نے لکھا: مسلمانان جماعت احمد یہ اسلام کی انمول خدمت کر رہے ہیں.جو ایثار اور کمر بستگی ، نیک نیتی اور تو کل علی اللہ ان کی جانب سے ظہور میں آیا ہے وہ اگر ہندوستان کے موجودہ زمانہ میں بے مثال نہیں تو بے اندازہ عزت
خطبات طاہر جلدم 169 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء اور قدردانی کے قابل ضرور ہے“.یہ دیکھئے غیر مسلموں کے عادات و خصائل! کیا عمدہ خصائل ہیں غیر مسلموں کے ایثار کمر بستگی ، نیک نیتی اور تو کل علی اللہ.اگر یہی غیر مسلم خصائل ہیں تو پھر تم بھی ان کو اپناؤ کیونکہ یہ زندگی کے خصائل ہیں ان کے بغیر قومیں زندہ نہیں ہوا کرتیں.آخر تم ہوش کے ناخن کیوں نہیں لیتے.حقائق کی دنیا میں کیوں نہیں اترتے.زندہ رہنے کے کیا گر اور آداب ہیں ، ہم سے سیکھو.پس انہی خصائل کے مالک وہ لوگ تھے جو دشمن کو بھی نظر آرہے تھے.لیکن کیا تمہارے اپنے مسلمان جنہوں نے احمدیت کی مخالفت میں زندگیاں وقف کی ہوئی تھیں وہ دشمن کو نظر آ رہے تھے؟ نہیں ہرگز نہیں.اخبار ”زمیندار“ مزید لکھتا ہے: ”جہاں ہمارے مشہور پیراور سجادہ نشین حضرات بے حس وحرکت پڑے ہیں اس اولوالعزم جماعت نے عظیم الشان خدمت کر کے دکھا دی.اب بدل دو اس ساری تاریخ کو، یہ تو لکھی گئی.واقعات کے قلم نے اسے لکھ دیا.تمہارے اپنے ہاتھوں سے نکلے ہوئے تمہارے اپنے قلم سے لکھے ہوئے الفاظ نے ان حقائق کی تصدیق کردی ہے.اب جتنا چاہو واویلا کرتے چلے جاؤ، ان تاریخی حقائق کو تم کبھی بھی صفحہ عالم سے مٹا نہیں سکتے.شیخ غلام حسین صاحب جہلم کے ایک غیر احمدی دوست تھے وہاں مختلف جماعتوں کی طرف سے جو لوگ کام کر رہے تھے یہ بھی ان میں شامل تھے انہوں نے وہیں اخبار زمیندار کو ایک خط لکھا جسے اخبار نے اپنی اشاعت ۲۹ جون ۱۹۲۳ء میں شائع کیا.شیخ غلام حسین صاحب اخبار ”زمیندار“ کے ایڈیٹر کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں : قادیانی احمدی اعلیٰ ایثار کا اظہار کر رہے ہیں.ان کا تقریباً ایک سو مبلغ امیر وفد کی سرکردگی میں مختلف دیہات میں مورچہ زن ہے.ان لوگوں نے نمایاں کام کیا ہے.یہ جملہ مبلغین بغیر تنخواہ اور سفر خرچ کے کام کر رہے ہیں.ہم گو احمدی نہیں لیکن احمدیوں کے اعلیٰ کام کی تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے.جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے اس کا نمونہ سوائے متقدمین کے مشکل سے ملتا ہے“.
خطبات طاہر جلدم 170 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرماتے ہیں.صحابة ملا جب مجھ کو پایا (در نمین صفحه ۵۶) تو مولویوں کو بڑا طیش آتا ہے اور بڑے مشتعل ہو جاتے ہیں کہ یہ کیا بات کہہ دی لیکن جب عملاً اسلام کے دفاع کا مرحلہ درپیش ہوا اور اسلام کی حمایت کا وقت آتا ہے تو وہی باتیں اور وہی فقرے کہنے پر تم مجبور کر دیئے جاتے ہو.خدا کے فرشتے تمہارے قلم سے وہی فقرے نکلواتے ہیں کہ ہاں احمدی وہ لوگ ہیں جن کو دیکھ کر متقدمین یاد آتے ہیں.یعنی احمدیوں کے بے لوث خدمت اور جذ بہ قربانی کو دیکھ کر وہ بزرگ اسلاف جنہوں نے حضرت محمد مصطفی علیہ کے زمانہ کو پایا وہی متقدمین کہلاتے ہیں.چنانچہ شیخ غلام حسین صاحب لکھتے ہیں : " جس اعلیٰ ایثار کا ثبوت جماعت احمدیہ نے دیا ہے اس کا نمونہ سوائے متقدمین کے مشکل سے ملتا ہے.ان کا ہر ایک مبلغ غریب ہو یا امیر بغیر مصارف سفر و طعام حاصل کئے میدان عمل میں گامزن ہے.شدید گرمی اور لوؤں میں وہ اپنے امیر کی اطاعت میں کام کر رہے ہیں.بیان شیخ غلام حسین صاحب ہیڈ ماسٹر ہائی سکول جہلم) ایسے اور بھی بہت سے اقتباسات اور حوالے ہیں جو متفرق مسلمان اخبارات کی طرف سے مسلمان مشاہیر کی طرف سے اس بات کے کھلم کھلا اعتراف پر مشتمل ہیں کہ جماعت احمدیہ نے تحریک شدھی میں اسلام کی خدمت کا حق ادا کر دیا.لیکن جب جماعت احمدیہ کے شدید دباؤ کے نتیجہ میں وہ متکبر آریہ سماجی لیڈر جو کبھی مسلمانوں سے اس معاملہ میں بات کرنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے اور اسلام پر یک طرفہ حملے کئے جارہے تھے.جب وہ گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گئے تو انہوں نے سمجھا کہ اب صلح کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا.چنانچہ انہوں نے صلح کے لئے جو کا نفرنس بلائی اس میں فریقین کے چوٹی کے رہنما اکٹھے ہوئے تو اس وقت ایک عجیب لطیفہ یہ ہوا کہ اس مجلس میں سوائے جماعت احمدیہ کے سب فرقوں کو دعوت دی گئی.اگر اس میں نہیں تھا تو جماعت احمدیہ کا ہی نام نہیں تھا.چنانچہ ہندو اور مسلمان رہنما جب صلح کی شرائط
خطبات طاہر جلدم 171 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء طے کرنے کے لئے ایک ہال میں اکٹھے ہوئے تو ہندوؤں نے جب احمدیوں کا کوئی نمائندہ نہ دیکھا تو انہوں نے مسلمان رہنماؤں سے کہا تم یہ کیا باتیں کر رہے ہو.لڑنے والے تو ہال سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں تم سے صلح کر کے ہم کیا کریں گے تم تو وہ لوگ ہو جو ہمیں ملکانے کے میدانوں میں نظر نہیں آیا کرتے تھے.جن لوگوں سے ہمیں خوف ہے اور جن سے ہمیں مار پڑنے کا خطرہ ہے وہ تو آزاد بیٹھے رہیں گے اور پھر بھی ہم پر حملے کرتے چلے جائیں گے.چنانچہ فوری طور پر کانفرنس ملتوی کی گئی اور حضرت خلیفۃالمسیح الثانی (اللہ آپ سے راضی ہو ) کی خدمت میں قادیان تار کے ذریعہ معذرت کی گئی اور درخواست کی گئی کہ فوری طور پر اپنا نمائندہ بھجوائیں اس کے بغیر یہ کانفرنس کا میاب نہیں ہوسکتی.یہ ہے تاریخ اسلام جو ہمیشہ کے لئے بن چکی ہے.یہ تو اب نہیں مٹے گی اور نہ مٹائی جائے گی.کوئی آمر وقت یہ طاقت نہیں رکھتا کہ ان لکھی ہوئی تحریروں اور خدا کی تقدیروں کو بدل دے.یہ خدا کی قدرت کی ایسی تقدیریں ہیں جو ظاہر ہو چکی ہیں.ایک فوج کیا ساری دنیا کی فوجی طاقتیں اکٹھی ہو جا ئیں تب بھی ان لکھی ہوئی تحریروں کو مٹا نہیں سکتیں کیونکہ یہ صفحہ ہستی پر ہمیشہ کے لئے نقش ہو چکی ہیں.یہ ہے کردار جماعت احمدیہ کا، کل بھی ایسا تھا، آج بھی ایسا ہی ہے اور آنے والے کل بھی ایسا ہی رہے گا.اے مخالفو! تم نے ہمارے ساتھ جتنی دشمنیاں کرنی ہیں کرلو، جتنے ناشکرے پن کے ثبوت دینے ہیں دیتے چلے جاؤ مگر میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے کہ کل جو تم پر مصیبت ٹوٹے گی اس میں بھی جماعت احمدیہ صف اول میں کھڑی ہوگی اور تمہارے خلاف چلنے والے تیر اپنے سینوں پر لے گی.ہم سے بڑھ کر اسلام کا اور کوئی وفادار نہیں ، ہم سے بڑھ کر مسلمان قومیت کا اور کوئی ہمدرد نہیں، ہم سے بڑھ کر دین محمد مصطفی ﷺ کا اور کوئی شیدائی اور فدائی نہیں ہے.ماضی بھی تمہیں یہی بتا تار ہا مگر تم ہر دفعہ اس سبق کو بھول جاتے رہے اور کل آنے والا وقت بھی تمہیں یہی بتائے گا.اے کاش ! تمہاری آنکھیں کھلیں اور تم دیکھو کہ کون تمہارا دوست ہے اور کون تمہارا دشمن ہے.لیکن یہ واقعات تو بڑے طویل ہیں.میرا خیال تھا کہ پاکستان کے قیام سے پہلے کے واقعات اختصار کے ساتھ بیان کرنے کے قابل ہو جاؤں گا لیکن ابھی تو یہ داستان آدھی بھی ختم نہیں ہو پائی.میرا خیال ہے کہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں کوشش کروں گا کہ اس مضمون کے بقیہ حصہ کو
خطبات طاہر جلدم 172 خطبه جمعه ۲۲ فروری ۱۹۸۵ء نمٹا دوں اور پھر اس سے آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ پاکستان بننے کے بعد کے واقعات کولوں گا اور بتاؤں گا کہ خدمت اسلام یا خدمت وطن کے جو مواقع پیش آتے رہے ہیں پاکستان میں یا پاکستان کے باہران میں جماعت احمدیہ کا کردار کیا رہا ہے اور احمدیت پر الزام لگانے والوں کا کردار کیا تھا.واقعات کی روشنی میں یہ دلچسپ موازنہ انشاء اللہ آئندہ خطبات میں پیش کروں گا.
خطبات طاہر جلدم 173 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء قرطاس ابیض کے الزامات کا جواب مسلمانان ہند کے مفادات کا تحفظ اور جماعت احمدیہ ( خطبه جمعه فرموده یکم مارچ ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) لا تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں: وَاَنْذِرِ النَّاسَ يَوْمَ يَأْتِيهِمُ الْعَذَابُ فَيَقُولُ الَّذِينَ ظَلَمُوا رَبَّنَا أَخْرْنَا إِلَى أَجَلٍ قَرِيبٍ نُّجِبْ دَعْوَتَكَ وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ اَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ مَا لَكُمْ مِنْ زَوَالٍ وَ سَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ وَتَبَيَّنَ لَكُمْ كَيْفَ فَعَلْنَا بِهِمْ وَضَرَبْنَا لَكُمُ الْأَمْثَالَ وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمْ وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ وَإِنْ كَانَ مَكْرُهُمْ لِتَزُولَ مِنْهُ الْجِبَالُ فَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ إِنَّ اللهَ عَزِيزٌ ذُو انْتِقَامٍ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ وَالسَّمَوتُ وَ بَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَةٍ مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْأَصْفَادِةٌ سَرَابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرَانٍ وَ تَغْشَى وُجُوهَهُمُ النَّارُ اليَجْزِى الله كُلَّ نَفْسٍ مَّا كَسَبَتْ إِنَّ اللهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ هَذَا بَلغ
خطبات طاہر جلدم 174 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء لِّلنَّاسِ وَلِيُنْذَرُوا بِهِ وَلِيَعْلَمُوا أَنَّمَا هُوَ الهُ وَاحِدٌ وَلِيَذَّكْرَ أُولُوا الْأَلْبَابِ (ابراہیم : ۴۵-۵۳) پھر فرمایا: یہ آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ ابراہیم کی آخری چند آیات ہیں.اس خطبہ میں ان آیات کی تفصیل پیش کرنے کا تو موقع نہیں ہوگا اس لئے میں صرف ترجمہ پر اکتفا کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے محمد ے گو نام نہیں لیا گیا لیکن آپ ہی مخاطب ہیں تو لوگوں کو اُس دن کے عذاب سے ڈرایا اُس دن سے ڈرا جس دن ایک عذاب آئے گا اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم کئے ہیں وہ اپنے رب کے حضور یہ عرض کریں گے کہ اے ہمارے خدا اس مدت کو یا اس مقدر کو کچھ عرصہ کے لئے ٹال دے.اس صورت میں أوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِّنْ قَبْلُ ہم ضرور تیری دعوت کو قبول کریں گے اور دل کی پیروی کریں گے.اَوَلَمْ تَكُونُوا أَقْسَمْتُمْ مِنْ قَبْلُ کیا تم وہی لوگ نہیں ہو جو اس سے پہلے قسمیں کھایا کرتے تھے کہ تمہارے لئے کوئی زوال نہیں ہے.یہاں وَنَتَّبِعِ الرُّسُلَ الفاظ خاص طور پر قابل ذکر ہیں اگر چہ اس کی تفصیل کا تو وقت نہیں لیکن اس آیت کے ان الفاظ کا ایک دوسری پیشگوئی سے ایک گہرا تعلق ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے وَإِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ (المرسلت : ۱۲) ایک وقت آنے والا ہے جب کہ رسولوں کو وقت مقررہ پر لایا جائے گا.مفسرین یہ سمجھتے ہیں کہ یہ قیامت کے دن کی بات ہے لیکن اس مکالمہ سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ یہ اسی دنیا کی بات ہے اور اسی دنیا میں عذاب سے مہلت مانگی جائے گی اور یہ کہا جائے گا کہ اگر ہمیں مہلت ملے تو ہم استغفار کریں گے اور دل کی پیروی کریں گے.اسی ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام بھی یاد رکھنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپکو مخاطب کر کے ان الفاظ کا ذکر فرمایا جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ ( تذکر صفحہ: ۶۳) اللہ کا پہلوان نبیوں کے لبادہ میں.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے و سَكَنْتُمْ فِي مَسْكِنِ الَّذِينَ ظَلَمُو تم انہی لوگوں کے مساکن میں رہتے ہو یا رہتے رہے ہو جنہوں نے اپنی جان پر ظلم کیا تھا اور تم پر خوب گھل چکا ہے
خطبات طاہر جلد۴ 175 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء کہ ہم نے ان کے ساتھ کیسا سلوک کیا اور ہم نے تمہارے سامنے بہت سی مثالیں کھول کھول کر پیش کیں مگر افسوس وَقَدْ مَكَرُوا مَكْرَهُمُ ان لوگوں نے اپنے مکر کو انتہا تک پہنچا دیا وَعِنْدَ اللهِ مَكْرُهُمْ لیکن اللہ کے علم میں ان کے مکر کی ہر کیفیت ہے اور ان کے ہر مکر کا جواب خدا کے پاس ہے.خواہ ان کے نزدیک اُن کے مکر ایسے ہوں کہ جو پہاڑوں کو بھی اپنی جگہوں سے ہلا دیں.فَلَا تَحْسَبَنَّ اللهَ مُخْلِفَ وَعْدِهِ رُسُلَهُ تو ہر گز یہ گمان مت کر کہ اللہ اپنے رسولوں کے ساتھ جو وعدے کیا کرتا ہے وہ انہیں ٹال دیتا ہے اور وعدہ خلافی سے کام لیتا ہے.یقیناً اللہ تعالیٰ بہت غالب اور انتقام لینے والا ہے.يَوْمَ تُبَدَّلُ الْاَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ کہ جس دن زمین ایک اور زمین میں تبدیل کر دی جائے گی اور آسمان بھی بدل دیا جائے گا.وَبَرَزُوا لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ اور وہ خدائے واحد وقتہار کے حضور نکل کھڑے ہوں گے.يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الْأَرْضِ کے الفاظ کہ زمین تبدیل کر دی جائے گی، انہی الفاظ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی الہام ہوا.وہ الہام زیادہ الفاظ پر مشتمل ہے.اس کے ایک حصہ کے الفاظ یہ ہیں یوم تبدل الارض غير الارض ( تذکرہ صفحہ: ۱۸۹) جس کا تفصیلی ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا کہ زمین کے باشندوں کے خیالات اور رائیں بدلائی جائیں گی.وَتَرَى الْمُجْرِمِينَ يَوْمَةٍ مُّقَرَّنِيْنَ فِي الْأَصْفَادِ سَرَابِيلُهُمْ مِنْ قَطِرَانٍ یعنی ان کے کرتے اور قمیصیں تارکول کی بنی ہوئی ہوں گی اور تو ان کے چہروں پر سیاہی کو چڑھتا ہوا دیکھے گا تا کہ خدا تعالیٰ ہر جان کو اس کے مطابق جزا دے جو اس نے کمایا اور اللہ بہت جلد حساب لینے والا ہے.یہ لوگوں کے لئے پیغام ہے تا کہ وہ اس کے ذریعہ ڈرائے جائیں اور تا کہ وہ جان لیں کہ اللہ اللہ واحد ہے اور تا کہ وہ جو عقل رکھتے ہیں وہ ان باتوں سے نصیحت پکڑیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان آیات پر تفصیلی گفتگو کا تو وقت نہیں ہے لیکن جو خطبہ آج دیا جائے گا اس کا ایک حصہ عملاً ان آیات کی تفسیر ہی ہے اور اولوا الالباب پر اس کا روشن ہونا کوئی مشکل نہیں ، اہل بصیرت ان حصوں پر سے گزرتے ہوئے خود سمجھ جائیں گے کہ قرآن کریم کی ان آیات کا اس مضمون کے ساتھ گہرا تعلق ہے.اس سلسلہ خطبات میں میں یہ بیان کر رہا تھا کہ جماعت احمدیہ کو حکومت پاکستان کے
خطبات طاہر جلدم 176 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء قرطاس ابیض میں اسلام اور مسلمان ممالک کی غدار جماعت کے طور پر پیش کیا گیا ہے.جہاں تک مسلمانان ہند کی تاریخ کا تعلق ہے اس کے دو حصے ہیں ایک پاکستان کے قیام سے قبل اور ایک پاکستان کے قیام کے بعد.قیام پاکستان سے قبل کے جو اہم واقعات ہیں اُن میں سے چند ایک میں نے گزشتہ خطبہ میں نمونہ پیش کئے تھے اور چند ایک کا آج کے لئے انتخاب کیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں پر کوئی بھی مصیبت ٹوٹی یا کسی رنگ میں ان کی مذہبی دل آزاری ہوئی تو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ ان مشکلات کو دور کرنے میں اور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کے لئے صف اول کے قربانیاں کرنے والے لوگوں میں شامل تھی بلکہ بسا اوقات یہ جدو جہد جو مختلف وقتوں میں شروع ہوتی رہی اس کا سہرا کلیۂ جماعت احمدیہ کے سر تھا اور وہی اس جہاد کی علمبردار رہی.گو دوسرے مسلمان شرفاء نے بھی شرکت کی اور جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت تعاون کیا.لیکن وہ عظیم تحریکات جو حقیقہ مسلمانوں کی خدمت کے لئے گزشتہ دور میں برصغیر پاک و ہند میں چلائی گئیں ان میں زیادہ تر را ہنمائی اور زیادہ سے زیادہ خدمت کی توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمد یہ کوملتی رہی.ہندوستان میں جن سالوں میں خاص طور پر مسلمانوں کی دل آزاری کی گئی ہے اُن میں سے ۱۹۲۷ء کا سال خاص طور پر قابل ذکر ہے.یہ وہ سال ہے جس میں بدنام اور نہایت ہی رسوائے عالم کتاب ”رنگیلا رسول لکھی گئی اور آنحضرت ﷺ کی مقدس ذات پر اس قدر خوفناک اور کر یہ حملے کئے گئے کہ اُن کے تصور سے بھی مسلمان کا خون کھولنے لگتا ہے اور ابھی یہ صدمہ کم نہیں ہوا تھا بلکہ اس کے مصنف راجپال کے خلاف ایک مہم جاری تھی کہ ایک اور آریہ رسالہ ”ورتمان میں ایک ہندو عورت نے آنحضرت ﷺ کے متعلق ایک ایسا نا پاک مضمون لکھا کہ کوئی شریف النفس انسان اس کو پڑھ بھی نہیں سکتا.مسلمان تو مسلمان کوئی دوسرا بھی اس کو پڑھے تو حیران ہو کہ یہ کیسی سیاہ کار عورت ہے جس کے قلم سے ایسے حیثا نہ کلمات ایک مذہب کے بانی کے متعلق نکل رہے ہیں.ایک عام مذہب کے بانی کے متعلق بھی کوئی شریف انسان اس قسم کے کلمات نہیں کہہ سکتا مگر سید ولد آدم کے متعلق جو سب پاکوں سے بڑھ کر پاک تھے ، جو سب سیدوں سے بڑھ کر سید تھے ، سب سرداروں سے بڑھ کر سردار
خطبات طاہر جلدم 177 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء تھے ، جن کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا گیا اور جو نہ صرف خود پاک بلکہ دوسروں کو پاک بنانے والے تھے جوز کی ہی نہیں بلکہ مزکی بھی تھے، جن کی برکت اور فیض سے انبیاء پاک بنائے گئے ان کے متعلق ایسے نا پاک حملے تھے کہ قلم میں یارا نہیں کہ ان حملوں کا ذکر بھی کر سکے.ایسے موقع پر ان مخالفانہ حملوں کے خلاف جو تحریک اٹھی اور مسلمانوں کو اس سلسلہ میں جو عظیم الشان جد و جہد کرنا پڑی.سوال یہ ہے کہ اس کا سہرا کانگر یہی علماء کے سر تھا یا مودودی علماء کے سر تھا یا جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے یہ تو فیق عطا فرمائی کہ اس نے عظیم جدوجہد میں نہ صرف غیر معمولی طور پر حصہ لیا بلکہ اس کی سیادت کی توفیق پائی.مضمون چونکہ لمبا ہونے کا خطرہ تھا اس لئے میں نے مختصر اہندوستان کے ایک مسلمان اخبار کا ایک اقتباس آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے چنا ہے اور اسی طرح میں آپ کے سامنے دو ہندو اخبارات کے اقتباسات بھی رکھتا ہوں.ان سے یہ بات خوب کھل جائے گی کہ عالم اسلام کے ان درد ناک لمحات میں سب سے زیادہ درد کس جماعت کو تھا اور کس کے رہنما نے غیر معمولی شدت کے ساتھ جوابی حملے کئے.اخبار مشرق“ گورکھپور اپنی اشاعت ۲۳ رستمبر ۱۹۲۷ء میں لکھتا ہے.” جناب امام جماعت احمدیہ کے احسانات تمام مسلمانوں پر ہیں“ دور حاضر کے قدرناشناس اگر ان کو بھول جائیں تو یہ ان کی مرضی ہے لیکن اخبار مشرق“ گورکھپور لکھتا ہے کہ مسلمانوں پر تو بہر حال احسان ہے جو دائرہ مسلمانی سے نکلنا چاہتا ہے اس کی مرضی ہے کہ وہ نکل جائے لیکن قیامت تک ان احسانات کا ذکر مسلمانوں پر احسانات کے طور پر چلتا رہے گا.اخبار مذکورلکھتا ہے: ” آپ ہی کی تحریک سے ورتمان پر مقدمہ چلایا گیا.آپ ہی کی جماعت نے ”رنگیلا رسول“ کے معاملہ کو آگے بڑھایا، سرفروشی کی اور جیل خانے جانے سے خوف نہیں کھایا.آپ ہی کے پمفلٹ نے جناب گورنر صاحب بہادر کو انصاف اور عدل کی طرف مائل کیا.آپ کا پمفلٹ ضبط کر لیا گیا مگر اس کے اثرات کو زائل نہیں ہونے دیا اور لکھ دیا کہ اس پوسٹر کی ضبطی محض اس لئے ہے کہ اشتعال نہ بڑھے اور اس کا تدارک نہایت ہی عادلانہ فیصلے سے کر دیا اور اس وقت ہندوستان میں جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے
خطبات طاہر جلدم 178 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۸۵ء انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہورہے ہیں یہ آپ کے آزاد اخبارات کی کل کی باتیں ہیں، ان شرفاء کی جن کو انصاف کا کچھ پاس تھا جو تاریخ کو سخ کرنے کے قائل نہیں تھے جو حق بات کو حق کہنے کی جرات رکھا کرتے تھے وہ یہ کہہ رہے تھے.اخبار مذکور مزید لکھتا ہے: جتنے فرقے مسلمانوں میں ہیں سب کسی نہ کسی وجہ سے انگریزوں یا ہندوؤں یا دوسری قوموں سے مرعوب ہو رہے ہیں صرف ایک احمدی جماعت ہے جو قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی طرح کسی فرد یا جمعیت سے مرعوب نہیں ہے اور خاص اسلامی کام سر انجام دے رہی ہے یہ تو مسلمان اخبار لکھ رہے تھے.ہندو اخبارات کے نزدیک بھی اس دور میں سب سے زیادہ شدید جوابی حملہ کرنے والے احمدی ہی تھے.یعنی جن کے ساتھ مقابلہ تھا اب ان کی آواز سنئے اور وہ ہندو اس سے استفادہ کر کے وہی کام کر رہے تھے جو آج احرار کر رہے ہیں.اس زمانہ میں ہندو مسلمانوں کو احمدی مسلمانوں سے لڑانے کے لئے بھر پور کوشش کر رہے تھے اور ان کو بار بار یہ بتارہے تھے کہ احمدی غیر مسلم ہیں.یعنی احرار کا کام اس وقت آریہ سماجیوں نے سنبھالا ہوا تھا اور وہ مسلمانوں کو کہہ رہے تھے.بے وقوفو! احمدی تو غیر مسلم ہیں ان کے پیچھے کیوں لگتے ہو.ان کے پیچھے لگ کر اپنے رسول کی غیرت کیوں دکھا رہے ہو، یہ جانیں قربان کرتے ہیں تو انہیں مٹنے دو تمہارا(نعوذ بالله من ذالک) اس رسول سے کیا تعلق جس کی خاطر احمدی سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں.چنانچہ اس اخبار کے الفاظ سنیں : ”مرزائیوں یا احمدیوں اور دوسرے مسلمانوں میں اس قدر اختلاف رائے ہے کہ مرزائی مسلمانوں کو مسلمان مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہیں.ابھی کل کا ذکر ہے کہ ایک مسلمان نے مولوی کفایت اللہ صدر جمعیت العلماء دہلی سے مرزائیوں کے متعلق فتویٰ طلب کیا تھا.آپ نے جوفتوی دیا وہ جمعیت علماء کے آرگن ”الجمعیۃ دہلی کے کالموں میں شائع ہوا.اس میں مولانا کفایت اللہ نے مرزائیوں کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ زیادہ میل جول بڑھانے کو
خطبات طاہر جلدم بُرا قرار دیا ہے“ 179 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی گستاخی کرنے والے یہ لوگ مسلمانوں کو احمدیوں کے خلاف انگیخت کر رہے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ہم تم تو بھائی بھائی ہیں اس لئے ان احمد یوں کے پیچھے پڑو جو حضرت محمد رسول کریم ﷺ کی غیرت رکھتے ہیں.ایک آواز آج اٹھ رہی ہے کہ ہم تم بھائی بھائی ہیں اور ایک آواز کل بھی اٹھی تھی کہ ہم تم بھائی بھائی ہیں.آج بعض نادان مسلمانوں کی طرف سے یہ آواز اٹھی ہے جبکہ پہلے آریہ صاحب ہوش لوگوں کی طرف سے یہ آواز اٹھی تھی اور فتنہ پھیلانے کے لئے استعمال کی گئی تھی.اخبار لکھتا ہے کہ یہ مولانا کفایت اللہ کا فتویٰ ہے جو ہم تمہیں بتا رہے ہیں اور جس کا تمہیں علم نہیں کہ احمدیوں سے میل جول بھی منع ہے.مگر مرزائیوں کی چالا کی ، ہوشیاری اور خوش قسمتی ملاحظہ ہو جو مسلمان ان کو کا فرقرار دیتے ہیں ان کے ہی لیڈر مرزائی بنے ہوئے ہیں اس وقت لاہور کے بدنام اخبار مسلم آؤٹ لک کے ایڈیٹر اور پرنٹر پبلشر کے قید ہونے پر تمام ہندوستان کے مسلمان ایک غیر معمولی مگر فرضی جوش کا اظہار کر رہے ہیں اور مسلم آؤٹ لک“ کی پیروی کے لئے بے قرار ہوئے پھرتے ہیں.اخبار مسلم آؤٹ لک کے متعلق ہمیں یہ معلوم کر کے از حد حیرت ہوئی ہے کہ اس کے ایڈیٹر مسٹر دلاور شاہ بخاری احمدی تھے.( جنہوں نے ورتمان کے مضمون پر جوابی حملہ کیا تھا) اور جب ہائیکورٹ کا نوٹس اُن کے نام آیا تو وہ مرزا قادیانی کے پاس گئے تا کہ اپنے ڈیفنس یا طرز عمل کے متعلق اس کی رائے لیں.مرزا نے انہیں مشورہ دیا کہ معافی مانگنے کی بجائے قید ہو جانا بہتر ہے.( محمد مصطفی ﷺ کی غیرت کی خاطر اگر تم قید ہوتے ہو تو کوئی پرواہ نہیں.چنانچہ واقعہ یہی ہوا اور انہیں قید با مشقت کی سزادی گئی اور انہوں نے بڑی خوشی سے اُسے قبول کیا.چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ وہ مرزا قادیانی کے پاس گئے اور انہوں نے یہ مشورہ دیا ) غرضیکہ ہر پہلو سے یہ ایک احمدی تحریک ہے.“ (اخبار گورو گھنٹال لا ہورا / جولائی ۱۹۲۷ء) کہاں ہیں آج کے مؤرخ پاکستان جو ساری اسلامی تاریخ کا حلیہ بگاڑنے کے درپے ہیں
خطبات طاہر جلدم 180 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء اور ان کے ہاتھوں سے لکھی ہوئی تاریخ پاکستان تو پہچانی نہیں جارہی.وہ تحریک جو آنحضرت ﷺ کی غیرت ، محبت اور عشق میں اٹھی تھی اس میں جن لوگوں کے ساتھ مقابلہ تھا اور جن پر چوٹیں پڑ رہی تھیں وہ یہ کہہ رہے تھے غرضیکہ ہر پہلو سے یہ ایک احمدی تحریک ہے.“ اسی طرح ”پرتاپ “ اور دوسرے اخباروں نے بھی اس مضمون پر قلم اٹھائے اور کھلم کھلا یہ تسلیم کیا کہ اصل جوابی حملہ جس سے ہمیں شدید خطرہ ہے اور ہمیں نقصان پہنچ رہا ہے وہ جماعت احمدیہ کی طرف سے ہے.دوسرا اہم موقع جو مسلمانان ہند کے لئے ایک نہایت ہی تکلیف دہ اور دردناک موقع تھا اور جس سے مسلمانوں کی سیاسی جمعیت اور سیاسی بقا کے خلاف ایک بہت بڑا خطرہ درپیش تھا اس کا آغاز کشمیر سے ہوا.جب کہ کشمیر کے ڈوگرہ مہاراجہ نے مسلمانوں کے حقوق تلف کرنے شروع کئے اور ایک نا پاک مثال قائم کی کہ جہاں بھی ہندو اکثریت ہے وہاں مسلمانوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کر دیا جائے.اس موقع پر مسلمانوں میں شدید بے چینی کی لہر دوڑ گئی اور ہندوستان کے شمال سے جنوب تک اہل فکر و نظر نے یہ سوچنا شروع کیا کہ اس کا کوئی علاج ہونا چاہئے.چنانچہ اس زمانہ کے بڑے بڑے مفکرین اور سیاسی راہنماؤں کی نظریں قادیان کی طرف اٹھنے لگیں اور انہوں نے حضرت خلیفة المسیح الثانی کو خطوط کے ذریعے اور پھر پیامبر بھجوا کر توجہ دلائی کہ اگر آپ ہی اس کام کو سنبھالیں گے تو چل سکے گا ورنہ آپ کے بغیر یہ کشتی کنارے لگتی نظر نہیں آتی اور ان لوگوں میں ایک وہ بھی تھے جن کو آج جماعت احمدیہ کی مخالفت کرنے والے مسلمان لیڈروں میں سر فہرست پیش کیا جا رہا ہے.یعنی ڈاکٹر علامہ سرمحمد اقبال ، جنہوں نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے پرائیویٹ سیکرٹری شیخ یوسف علی صاحب کے نام ایک خط ۵ ستمبر ۱۹۳۰ء کو لکھا.چونکہ اس قسم کے حوالہ جات زیادہ تر جماعت احمدیہ کے اخباروں میں چھپے تھے اس لئے عموماً غیر احمدی علماء عام مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ یہ جھوٹے حوالے ہیں جو ان کے اپنے اخبارات میں چھپے ہوئے ہیں.اس لئے میں نے ان حوالوں کی بجائے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے سر علامہ اقبال کا یہ خط چنا ہے جو ان کے اپنے ہاتھ سے لکھا ہوا ہے اور جس پر ان کے دستخط بھی موجود ہیں وہ لکھتے ہیں : چونکہ آپ کی جماعت منتظم ہے اور نیز بہت سے مستعد آدمی اس
خطبات طاہر جلدم 181 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء جماعت میں موجود ہیں اس واسطے آپ بہت مفید کام مسلمانوں کے لئے انجام دے سکیں گے.باقی رہا بورڈ کا معاملہ سو یہ خیال بھی نہایت عمدہ ہے.میں اس کی ممبری کے لئے حاضر ہوں.صدارت کے لئے کوئی زیادہ مستعد اور مجھ سے کم عمر کا آدمی ہو تو زیادہ موزوں ہو گا لیکن اگر اس بورڈ کا مقصد حکام کے پاس وفود لے جانا ہو تو ہمیں اس سے معاف فرمایا جائے.وفد بے نتیجہ ثابت ہوتے ہیں.اس کے علاوہ مجھ میں اس قدر چستی اور مستعدی بھی باقی نہیں رہی بہر حال اگر آپ ممبروں میں میرا نام درج کریں تو اس سے پہلے باقی ممبروں کی فہرست ارسال فرمائیں.حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے اس خط اور بعض دوسرے خطوط کے نتیجہ میں جو دوسرے مسلمان علماء اور سیاسی راہنماؤں کی طرف سے آپ کی خدمت میں لکھے گئے ، ایک کانفرنس بلوانے کی تجویز کی.اس کانفرنس کا انعقا د شملہ میں نواب سرذ والفقار علی صاحب کی کوٹھی پر ۱۹۳۱ء میں ہوا.اس کا نفرنس میں جو بڑے بڑے راہنما شامل ہوئے ان میں سے چند نام میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.شمس العلماء خواجہ حسن نظامی ،سرمیاں فضل حسین صاحب ، سر محمد اقبال صاحب، سر ذوالفقار علی خان صاحب، جناب نواب صاحب کنج پوره، خان بہادر شیخ رحیم بخش صاحب ، سید محمد محسن شاہ صاحب ایڈووکیٹ ، مولوی محمد اسماعیل صاحب غزنوی (امرتسر ) ، مولوی نورالحق صاحب مالک، مسلم آؤٹ لک ، سید حبیب صاحب ایڈیٹر ”سیاست“ وغیرھم.اس کے علاوہ مولوی میرک شاہ صاحب سابق پروفیسر دیو بند نمائندہ کشمیر کی حیثیت سے اور اللہ رکھا صاحب ساغر نمائندہ جموں کی حیثیت سے اس میں شامل ہوئے.اس کا نفرنس کے آخر پر علامہ سرمحمد اقبال نے حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا نام پیش کیا اور کہا کہ: میں یہ تجویز پیش کرتا ہوں کہ اگر اس کشمیر موومنٹ کو کامیاب بنانے کے ارادے ہیں تو جماعت احمدیہ کے امام مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کے سوا اور کوئی اہل نہیں.
خطبات طاہر جلدم 182 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء یہ آواز اُٹھتے ہی ہر طرف سے تائیدی آوازیں بلند ہونے لگیں اور بالا تفاق حضرت خلیفہ المسیح الثانی کو اس کا نفرنس کا صدر منتخب کر لیا گیا.ڈاکٹر علامہ اقبال نے فرمایا: حضرت صاحب! جب تک آپ اس کام کو اپنے ہاتھ میں صدر کی حیثیت سے نہ لیں گے یہ کام نہیں ہوگا“ (رسالہ لاہور ۵ راپریل ۱۹۶۵ء صفحہ: ۱۲ کالم۲) یہ تو ایک لمبی داستان ہے کہ جماعت احمدیہ نے مسلمانان ہند کے مفادات کے تحفظ کے لئے کتنی عظیم الشان قربانیاں دی ہیں.کشمیر میں ہر طرف، ہر گل بوٹے میں اس کی یادیں بکھری پڑی ہیں.جماعت کے بڑے بڑے عالم کیا اور ان پڑھ کیا ، امیر کیا اور غریب کیا سبھی اپنے خرچ پر وہاں جاتے تھے اور مسلمانوں کی بے انتہا خدمت کرتے تھے اور ان پر کوئی بوجھ نہیں بنتے تھے.لٹریچر تقسیم کرتے اور کشمیر کے اس وقت کے راجہ کے مظالم کا شکار ہوتے تھے اور قید کئے جاتے.پھر وکلاء کے قافلے وقف کر کے جاتے اور ان مسلمان بھائیوں کی خاطر مقدمے لڑتے تھے جنہیں سزائیں ملتی تھیں.پس یہ ایک بہت بڑی داستان ہے اور سینکڑوں صفحات کی کتا ہیں اس مضمون پر لکھی گئی ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ تاریخ کشمیر کا ذکر اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات کے بغیر وہ تاریخ تاریخ کہلا سکے.اس وقت میں یاد دہانی کے طور پر آپ کے سامنے اس وقت کے بعض مسلمان اخبارات اور رسائل کے دو تین اقتباس پیش کرتا ہوں.اخبار ”سیاست“ کے مدیر مولانا سید حبیب صاحب اپنی کتاب ”تحریک قادیان میں لکھتے ہیں: مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے صرف دو جماعتیں پیدا ہوئیں.“ سید حبیب کی اس کتاب کے نام سے ہی پتہ چلتا ہے کہ یہ مخالفانہ کتاب ہے لیکن اس زمانہ میں مخالفوں میں بھی کچھ نہ کچھ خدا کا خوف پایا جاتا تھا اور بسا اوقات حق تسلیم کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے تھے.مدیر موصوف یہ وضاحت کر رہے ہیں کہ یہ لوگ آخر کیوں جماعت احمدیہ کے ساتھ شامل ہوئے اور اس تحریک میں حصہ لیا جس کی سربراہی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب کر رہے تھے.وہ لکھتے ہیں کہ: مظلومین کشمیر کی امداد کے لئے صرف دو جماعتیں پیدا ہوئیں.
خطبات طاہر جلد۴ 183 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء ایک کشمیر کمیٹی ، دوسری احرار، تیسری جماعت نہ کسی نے بنائی نہ بن سکی.احرار پر مجھے اعتبار نہ تھا اور اب دنیا تسلیم کرتی ہے کہ کشمیر کے یتامی ، مظلومین اور بیواؤں کے نام سے روپیہ وصول کر کے احرار شیر مادر کی طرح ہضم کر گئے ( یہ وہی احرار ہیں جو آج پاکستان پر مسلط کئے جا رہے ہیں ) ان میں سے ایک لیڈر بھی ایسا نہیں جو بالواسطہ یا بلا واسطہ اس جرم کا مرتکب نہ ہوا ہو.کشمیر کمیٹی نے انہیں دعوت اتحاد و عمل دی مگر اس شرط پر کہ کثرت رائے سے کام ہو اور حساب با قاعدہ رکھا جائے.انہوں نے دونوں اصولوں کو ماننے سے انکار کر دیا.لہذا میرے لئے سوائے از میں چارہ نہ تھا کہ میں کشمیر کمیٹی کا ساتھ دیتا اور میں بانگ دہل کہتا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب صدر کشمیر کمیٹی نے تندہی ، محنت ، ہمت ، جانفشانی اور بڑے جوش سے کام کیا اور اپنا روپیہ بھی خرچ کیا اور اس کی وجہ سے میں ان کی عزت کرتا ہوں“.(صفحہ :۴۲) مولا نا عبدالمجید سالک مدیر انقلاب اپنی کتاب ”سرگزشت میں لکھتے ہیں کہ: ” جب احرار نے احمدیوں کے خلاف بلاضرورت ہنگامہ آرائی شروع کر دی اور کشمیر کی تحریک میں متخالف عناصر کی ہم مقصدی و ہم کاری کی وجہ سے جو قوت پیدا ہوئی تھی اس میں رخنے پڑ گئے تو مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفیٰ دے دیا اور ڈاکٹر ا قبال اس کے صدر مقرر ہوئے کمیٹی کے بعض ممبروں اور کارکنوں نے احمدیوں کی مخالفت محض اس لئے شروع کر دی کہ وہ احمدی ہیں.یہ صورت حال مقاصد کشمیر کے اعتبار سے سخت 66 نقصان دہ تھی.“ (سرگزشت صفحه: ۳۳۸) اب سنئے کہ اس وقت ہندو پریس کیا لکھ رہا تھا اور ہندوؤں کو مسلمانوں کی کس جماعت سے خطرہ نظر آرہا تھا اور ان کے نزدیک کون تھا جو مسلمانان کشمیر کے لئے بے قرار ہو کر میدانِ عمل میں کو د پڑا تھا.اس بارے میں اخبار ” ملاپ یکم اکتو بر ۱۹۳۱ء صفحہ ۵ پر لکھتا ہے: " مرزا قادیانی نے آل انڈیا کشمیر کمیٹی اس غرض سے قائم کی ہے تا کہ
خطبات طاہر جلدم 184 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء کشمیر کی موجودہ حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے اور اس غرض کے لئے انہوں نے کشمیر کے گاؤں گاؤں میں پرو پیگنڈا کیا.......انہیں روپیہ بھیجا ، ان کے وکیل بھیجے ، شورش پیدا کرنے والے واعظ بھیجے.شملہ میں اعلیٰ افسروں کے ساتھ ساز باز کرتا رہا.پاکستان کے سربراہوں سے میں یہ پوچھتا ہوں کہ تم جس جماعت کو آج مسلمانوں کے خلاف ساز باز کر نے والے قرار دے رہے ہو اس کے متعلق کچھ خدا کا خوف کرو، اس جماعت پر غیر تو یہ الزام لگاتے ہیں اور ہمیشہ لگاتے رہے ہیں کہ یہ جماعت مسلمانوں کے حق اور خیر خواہی میں ساز باز کرنے والی جماعت ہے اور قرآنی الفاظ میں اگر یہ جماعت اذن ہے تو ا ذُنُ خَيْرٍ لَكُمْ (التوبه (1) یعنی تمہاری بھلائی اور خیر خواہی کے کان رکھتی ہے نہ کہ تمہاری بدی کے کان.حضرت خلیفہ المسیح الثانی کا ذکر کرتے ہوئے اخبار ”ملاپ‘۳۰ ستمبر ۱۹۳۱ء کی اشاعت میں لکھتا ہے کہ : کشمیر میں قادیانی شرارت کی آگ لگائی.واعظ گاؤں گاؤں گھومنے لگے.چھوٹے چھوٹے ٹریکٹ چھپوائے گئے ، اردو میں بھی اور کشمیری زبان میں بھی اور انہیں ہزاروں کی تعداد میں چھپوا کر مفت تقسیم کیا گیا.مزید برآں روپیہ بھی بانٹا گیا“.(صفحہ:۵) برصغیر کی تاریخ میں سب سے اہم دور جو مسلمانوں کی تقدیر بنانے والا دور کہلاسکتا ہے، جس میں بقا کی جدو جہد اور بقا کی جنگ بڑی شدت کے ساتھ لڑی جارہی تھی وہ قیام پاکستان سے قبل کی تاریخ کا دور ہے.اُس وقت مسلمان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے.اُس وقت مسلمانوں کو ایک ایسی پناہ گاہ چاہئے تھی جہاں وہ مخالفانہ طاقتوں کے استبداد سے محفوظ رہ سکیں، جہاں نہ ان کے دین کوکوئی خطرہ ہو، نہ اُن کی سیاست کو کوئی خطرہ ہو، نہ ان کی معیشت کو کوئی خطرہ ہو.چنانچہ اس پناہ گاہ کی تلاش میں مختلف وقتوں میں مختلف مسلمان اہل فکر نے کچھ تصورات باندھے، کچھ خواہیں دیکھیں، کچھ نقشہ تعمیر کئے اور رفتہ رفتہ پاکستان کا نقشہ یوں ابھرنے لگا کہ گویا وہ ساری ملت اسلامیہ کی آواز تھی.اس انتہائی اہم دور میں جماعت احمدیہ کا کردار کیا تھا.جن کے متعلق آج یہ کہا جارہا ہے کہ
خطبات طاہر جلدم 185 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء احمدیوں کے لئے مسلمان ممالک مہلک ثابت ہوتے ہیں اس لئے وہ برداشت نہیں کر سکتے کہ کوئی مسلمان ملک قائم رہ جائے.کجا یہ کہ وہ کسی مسلمان ملک کے بنانے میں ساتھ دیں.چنانچہ اس انتہائی اہم دور میں جماعت احمد یہ کیا کر رہی تھی اور وہ جماعتیں جو آج پاکستان پر مسلط کی جارہی ہیں ان کا کردار کیا تھا.اس سلسلہ میں میں چند اقتباس غیر احمدی اخباروں سے نکال کر پیش کر رہا ہوں تا کہ آج تاریخ کا جو حلیہ بگاڑا جا رہا ہے مسلمانان پاکستان اور مسلمانان عالم دیکھیں تو سہی کہ اصل ظالم کون تھا اور مسلمانوں کے ساتھ سچی ہمدردی رکھنے والا ، پیار کرنے والا ان کی خاطر جان و مال قربان کرنے والا کون تھا.سید رئیس احمد جعفری اپنی کتاب ”حیات محمد علی جناح مطبوع ۱۹۷۴ ء زیر عنوان اصحاب قادیان اور پاکستان“ لکھتے ہیں:.” اب ایک اور دوسرے بڑے فرقہ اصحاب قادیان کا مسلک اور رویہ پاکستان کے بارے میں پیش کیا جاتا ہے اصحاب قادیان کی دونوں جماعتیں مسلم لیگ کی مرکزیت، پاکستان کی افادیت اور مسٹر جناح کی سیاسی قیادت کی معترف اور مداح ہیں“.(صفحہ: ۴۵۱) اس زمانہ میں مسلمانوں کو اس جدو جہد کے دوران جو غیر معمولی مصائب کا سامنا کرنا پڑا اس کی تاریخ تو بہت دردناک ہے.مشرقی پنجاب کے علاقے میں مسلمانوں کے خون سے اس کثرت کے ساتھ ہولی کھیلی گئی ہے کہ اس ساری تاریخ کا احاطہ کرنا تو ممکن ہی نہیں اور نہ ہی کوئی دل ان دردناک داستانوں سے دوبارہ گزرنے کو گوارا کرے گا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جب عملی جہاد کا وقت آیا تو اس وقت مسلمان فرقوں میں سے احرار اور جماعت اسلامی کا کردار کیا تھا اور جماعت احمدیہ کا کردار کیا تھا.وہ وقت ایسا نہیں تھا جو صرف تبلیغی جہاد کا ہو.وہ وقت ایسا تھا جب کہ بدنی جہاد کا وقت تھا اور تلوار کے جہاد کا وقت بھی آچکا تھا.مسلمان عورتوں کی عزت و حرمت کے ساتھ ظلم کی ایک ہولی کھیلی جارہی تھی اور بچوں کو اچھال کر نیزوں میں پر دیا جارہا تھا.الغرض لئے ہوئے قافلوں اور ان کے ساتھ مظالم کے اتنے درد ناک مناظر ہیں کہ زبان کو یارا نہیں کہ ان کا تفصیل سے ذکر کر سکے.بہر حال سب مسلمانوں کو بالعموم اس تاریخ سے واقفیت ہے.میں صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب عملی جہاد کا وقت آیا تو کون تھا جو مسلمانوں کی خاطر جہاد کی صف اول میں لڑ رہا تھا.اخبار احسان“ جو ایک احراری
خطبات طاہر جلدم 186 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء اخبار تھا ( اب بند ہو چکا ہے ) ۲۵ ستمبر ۱۹۴۷ء کے شمارہ میں لکھتا ہے: قادیان کے نوجوان ملٹری کے جبر و تشدد کے باوجود خوفزدہ نہیں.وہ صرف اس بات کے خواہش مند ہیں کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو یہاں سے نکال دیا جائے.وہ خوب جانتے ہیں کہ اب وہ آہستہ آہستہ موت کے گھیرے میں آتے جاتے ہیں اور نہرو کی حکومت جو کہتی تھی کہ کسی مسلمان کو مشرقی پنجاب سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا وہ قادیان کے مسلمانوں کو وہاں سے زبر دستی نکلوانے اور انہیں تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے.“ ( آج یہ کہا جارہا ہے کہ احمدی ہندوستان کے ایجنٹ ہیں ) محکمہ حفاظت قادیان“ کے ماتحت کام کرنے والے نو جوان بعض اوقات چوبیں چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ادا کرتے اور رات دن پہرہ دیتے ہیں.66 اس مرحلہ پر حضور نے فرمایا: میں خود بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں شامل تھا اور مجھے یاد ہے کہ بعض دفعہ اڑتالیس گھنٹے نیند نہیں آسکتی تھی کیونکہ حالات ہی ایسے تھے علاوہ ازیں خدام تھوڑے تھے اور کام بہت زیادہ تھا اور بعض دفعہ اگر چند لمحے بھی نیند کے لئے مل جاتے تو یوں لگتا تھا کہ ہم گناہ کر رہے ہیں اور یہ احساس ہوتا کہ ہم سوئے کیوں یعنی یہ اس وقت کے احمدی نوجوانوں کے احساسات تھے اور پھر صرف قادیان میں ہی نہیں بلکہ اس کے اردگرد جتنے بھی مسلمان دیہات تھے انہیں بچانے اور ان کی خاطر لڑنے کے لئے قادیان سے مجاہد جایا کرتے تھے یہ اس زمانہ کا ذکر ہے.چنانچہ اخبار لکھتا ہے: ر بعض اوقات چوبیس چوبیس گھنٹے کی ڈیوٹی ادا کرتے اور رات دن پہرہ دیتے ہیں.گونیند اور بے آرامی کی وجہ سے ان کی صحت کمزور ہو چکی ہے مگر وہ موت کے ڈر سے بھاگنے کی بجائے موت سے مقابلہ کرنے پر آمادہ ہیں.وہاں کوئی ملٹری مسلمان نہیں ہے.ہند و ملٹری اور سکھ پولیس انہیں ڈراتی دھمکاتی ہے.ہندو کیپٹن بھرا ہوا پستول ہاتھ میں پکڑے دہشت پھیلانے کے لئے ادھر ادھر پھرتا رہتا ہے.
خطبات طاہر جلدم 187 پھر یہی اخبار ۲ را کتوبر ۱۹۴۷ء کی اشاعت میں مزیدلکھتا ہے: خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء لمبی چوڑی باتیں لکھنے کا وقت نہیں........( یعنی اس اخبار میں کسی غیر احمدی مسلمان کا خط چھپا ہے جو ان دنوں قادیان میں پناہ لئے ہوئے تھا وہ لکھتا ہے کہ ) اس وقت ہم کم و بیش پچاس ہزارافراد قادیان میں پناہ لئے بیٹھے ہیں ہمیں احمدیوں کی طرف سے زندہ رہنے کے لیے کھانامل رہا ہے.بعض کو مکان بھی مل چکے ہیں.مگر اس قصبہ میں اتنی گنجائش کہاں ، ہزاروں آسمان کی چھت کے نیچے زمینی فرش پر پڑے ہیں جنہیں دھوپ بھی کھانا پڑتی ہے اور بارش میں بھی بھیگنا پڑتا ہے“.(احسان لا ہور۲ اکتوبر ۱۹۴۷ء) علاوہ ازیں حکومت پاکستان کی طرف سے ایک کتاب” کاروان سخت جان“ کے نام سے شائع ہوئی اس میں تقسیم ملک کی تاریخ کا ذکر ہے.حکومت پاکستان کے محکمہ دفاع کی طرف سے شائع شده یه کتاب قادیان کا ذکر کرتے ہوئے بھتی ہے: یہ مقام علاوہ اپنی صنعتی اور تجارتی شہرت کے جماعت احمدیہ کا مرکز ہونے کی وجہ سے مشہور ہے.اس کے گرد ونواح میں تمام تر سکھوں کی آبادی ہے.چنانچہ فسادات کے ایام میں بیس بیس میل دور کے مسلمان بھی قادیان شریف میں پناہ لینے کے لئے آگئے.کل تک تو ” قادیان شریف تھا مگر آج تم ربوہ کو بھی دنیا کا نا پاک ترین شہر بنا رہے ہو، نعوذ بالله من ذالک اور کہتے ہو کہ جس طرح یہودیت کا اسرائیل ہے اسی طرح ربوہ بھی مرزائیل ہے نعوذ بالله من ذالک.اس وقت تو تمہاری زبانوں سے حق جاری ہوا تھا کہ قادیان نہ کہو یہ تو قادیان شریف ہے.یہاں خدا کے پیارے بستے ہیں.خدا کے پیاروں نے یہ بستی آباد کی ہے اور اسلام کے فدائی اس بستی میں آباد ہیں.جب تک یہ یادیں اس بستی سے وابستہ رہیں گی شرفاء اسے ہمیشہ قادیان شریف کے نام سے ہی یاد کرتے رہیں گے.اس وقت کی حکومت پاکستان کی شرافت کی بھی داد دینی پڑتی ہے کہ اس نے حق کا اظہار کرتے ہوئے ان احراری مولویوں کی کوئی پرواہ نہیں کی.یہ تعداد بڑھتے بڑھتے پچھتر ہزار نفوس تک پہنچ گئی وو
خطبات طاہر جلدم 188 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۸۵ء مجھے یاد ہے کہ ان پناہ گزینوں کو با قاعدہ کھانا دیا جا تا رہا چونکہ خطر ناک حالات نظر آرہے تھے اس لئے حضرت مصلح موعود نے بڑی حکمت عملی کے ساتھ حالات کو جانچ کر جلسہ سالانہ کی ضروریات سے کہیں زیادہ گندم اکٹھی کی ہوئی تھی.چنانچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایک بھی مسلمان کو فاقوں نہیں مرنے دیا گیا بلکہ حاجتمندوں کی ضروریات کوترجیح دیتے ہوئے جمیزوں کے قیمتی کپڑے بھی ان میں تقسیم کئے گئے.حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نے خودا اپنی بیگم کے قیمتی کپڑے تقسیم کر کے اس کام کا آغاز کیا.حضرت بیگم صاحبہ چونکہ نواب مالیر کوٹلہ کے خاندان سے تعلق رکھتی تھیں اس لئے ان کپڑوں میں بعض اتنے قیمتی اور پرانے خاندانی ملبوسات چلے آرہے تھی کہ وہ ان کوخود بھی نہیں پہنا کرتی تھیں کہ کہیں خراب نہ ہو جائیں لیکن حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمۃ اللہ علیہ نے سب کے سامنے اور سب سے پہلے اپنے گھر سے کپڑوں کے بکس کھولنے شروع کئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان غرباء کو جن کے خواب و خیال میں بھی ایسے کپڑے نہیں آسکتے تھے تقسیم کر دیئے.لینے والے تقریباً سارے غیر احمدی مسلمان تھے.پھر اس کے بعد تو ہر گھر کے ہر کمرہ کے ہر بکس کے منہ کھل گئے اور جو کچھ تھا وہ سارا اپنے مصیبت زدہ غیر احمدی مسلمان بھائیوں میں تقسیم کر دیا.میں جب آخر میں قادیان سے نکلا ہوں تو میرے پاس ایک خا کی تھیلا تھا جس میں صرف ایک جوڑا تھا.یہ نہیں کہ کوئی چیز لا نہیں سکتے تھے بلکہ ہمارے سارے گھر خالی پڑے ہوئے تھے اور جو کچھ تھا وہ سب تقسیم کر دیا گیا تھا.چونکہ ان پناہ گزینوں کو ظالم اور سفاک سکھوں نے بالکل مفلس اور تلاش کر دیا تھا.لہذا قادیان کے باشندگان نے ان بیچاروں کی کفالت کا بیڑا اٹھایا.ظاہر ہے اتنی بڑی جمعیت کے لئے خوراک اور رہائش کا بار اٹھانا کوئی معمولی کام نہیں ہے اور خصوصاً ایسے ایام میں جب کہ ضروریات زندگی کی اتنی گرانی ہو چنانچہ یہ نا خواندہ مہمان قادیان کی کفالت میں اُس وقت تک رہے جب تک حکومت نے عمداً ان کو ایسا کرنے سے روک نہ دیا.کاروان سخت جان صفحه: ۱۴۳-۴۴ ناشر اداره رابطه قرآنی دفتر محاسبات دفاع پاکستان مارچ ۱۹۵۱ء) اخبار ”زمیندار اپنی اشاعت ۲ اکتو بر ۱۹۴۷ء میں لکھتا ہے کہ:
خطبات طاہر جلدم 189 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء ضلع گورداسپور میں یوں تو متعدد مقامات پر مسلمان محصور ہیں مگر تین کیمپ بہت بڑے ہیں (۱) بٹالہ کے پناہ گزینوں کی حالت بہت خراب ہے جسے کل تک بٹالہ شریف کہا کرتے تھے لیکن جب عملاً امتحان کا وقت آیا تو منہ سے لفظ ” شریف نہیں نکلا کیونکہ وہاں مسلمانوں کا پرسان حال ہی کوئی نہیں تھا.اس سے متعلق کہتے ہیں کہ بٹالہ کے پناہ گزینوں کی حالت بہت ہی خراب ہے.نہ سر چھپانے کے لئے کوئی پناہ گاہ ہے ، نہ کھانے کے لئے کوئی چیز ہے.ہندو فوجیوں نے قیامت برپا کر رکھی ہے زیورات اور سامان پر ڈاکے ڈالتے ہی جاتے تھے.اب تو خواتین کی عصمت و عزت پر بھی ہاتھ ڈالا جاتا ہے.دوسرا کیمپ سری گوبند پورہ میں ہے.وہاں کی صورت حال بھی بٹالہ سے کم خوفناک نہیں.تیسرا کیمپ قادیان میں ہے.اس میں شک نہیں مرزائیوں نے مسلمانوں کی خدمت قابل شکریہ طریقے پر کی.اخبار ”زمیندار“ پھر لکھتا ہے: اس وقت ہزاروں پناہ گزین احمدیوں کے گھروں سے روٹیاں کھا رہے ہیں.قادیان کے مسلمانوں نے حکومت سے راشن کے لئے درخواست نہیں دی اور حکومت (جس کا نام ایک تھانیدار اور چند سکھ سپاہی ہے ) قادیان سے غلہ غصب کر کے وہاں کے باشندوں اور پناہ گزینوں کو بھوکوں مارنا چاہتی ہے.کیا دنیا میں کسی قوم پر اس سے بڑھ کر بھی ظلم و ستم کیا جا سکتا ہے.( زمیندار ۱۶ /اکتوبر ۱۹۴۷ء) ہاں میں کہتا ہوں کہ اس سے بھی بڑھ کر ظلم و ستم کیا جا سکتا ہے.یہ ایک حقیقت ہے کہ غیروں کے ہاتھوں ظلم خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس سے اتنا دکھ نہیں پہنچا کرتا جتنا اپنوں کے ہاتھوں تکلیف پہنچے تو دکھ محسوس ہوتا ہے.جب وہ ہاتھ جن سے یہ امیدیں وابستہ ہوں کہ وہ حفاظت کریں گے اور وہ زبانیں جن سے یہ امیدیں وابستہ ہوں کہ وہ تائید میں چلیں گی مگر وہ ہاتھ مخالفت میں اٹھنے لگیں اور وہ زبانیں چر کے لگانے لگیں اور اپنوں ہی کی مخالفت کرنے لگیں.میں ”زمیندار“ کے اس
خطبات طاہر جلدم 190 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء کالم نویس سے کہتا ہوں کہ ہاں وہ دکھ اس سے بہت زیادہ ہوا کرتا ہے اور وہ دکھ تم لوگوں سے پہنچا ہے.وہ دکھ مجلس احرار سے مسلمانوں کو پہنچا ہے اور مبینہ جماعت اسلامی سے وہ دکھ مسلمانوں کو پہنچا ہے.کوئی دکھ کسی ہندو یا سکھ کے ہاتھ سے پہنچا ہو اتنا شدید نہیں ہے جتنا شدیدا پنوں سے پہنچا ہوا کھ.اگر آپ بھول چکے ہوں تو آپ کی یاد دہانی کے لئے میں جماعت اسلامی سے متعلق غیر احمدی مسلمانوں کے چند حوالے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.لیکن ان سے پہلے میں ایک حوالہ مولوی مودودی کا ہی پیش کر رہا ہوں بعد ازاں دوسروں کے حوالے ان کے متعلق پیش کروں گا.وہ دور جو تحریک قیام پاکستان کا نہایت ہی اہم دور تھا جبکہ مسلمان زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھے.اس وقت جماعت احمد یہ تو قربانیوں میں حصہ لے رہی تھی اور اس تحریک کے نتیجہ میں جو پاکستان تعمیر ہورہا تھا اس کے متعلق مودودی صاحب کا تصور کیا تھا اور ان کے فتوے کیا تھے؟ ان سے متعلق مولانا موصوف لکھتے ہیں :.اگر میں اس بات پر خوش ہوں کہ یہاں رام داس کی بجائے عبداللہ خدائی کے منصب پر بیٹھے گا تو یہ اسلام نہیں ہے بلکہ نرا نیشنلزم اور یہ مسلم نیشنلزم“ بھی خدا کی شریعت میں اتنا ہی زیادہ ملعون ہے جتنا ہندوستانی نیشنلزم“.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم صفحہ: ۸۱) دیکھیں کیسے کیسے بہانے تراشے جا رہے ہیں کہ مسلمانوں کو کانگریس کا غلام بنا دیا جائے اور کانگریسی نیشنلزم کی تائید میں تو سارے مسلمان زور لگائیں لیکن مسلم نیشنلزم بڑا ملعون ہے اس کے قریب تک نہیں جانا چاہئے.پھر فرماتے ہیں: نہ ہندوؤں سے ہمارا کوئی قومی جھگڑا ہے نہ انگریزوں سے، وطنیت کی بنیاد پر ہماری لڑائی ہے (احمدیوں کے خلاف جہاد کے فتوے دینے والوں کے اپنے فتوے یہ ہیں ) نہ ان ریاستوں سے ہمارا کوئی رشتہ ہے جہاں نام نہاد مسلمان خدا بنے بیٹھے ہیں.جب تک ان ریاستوں میں تیل نہیں نکا تھا اس وقت تک تو کوئی رشتہ نہیں تھا.اب تیل کا رشتہ جو نکلا ہے تو یہ بیچارے کیا کریں.یہ تو ایسا ہی واقعہ ہے جیسا کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول فر مایا
خطبات طاہر جلدم 191 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۸۵ء کرتے تھے کہ ایک دفعہ ایک ملاں نے نکاح پر نکاح پڑھ دیا.حضرت خلیفتہ امسیح الاول کے دل میں اس کی بڑی عزت تھی کیونکہ وہ نیکی میں مشہور تھا.آپ نے کہا کہ میں نہیں مان سکتا کہ ایسا واقعہ ہوا ہو.لوگوں نے عرض کیا کہ واقعہ ایسا ہی ہوا ہے آپ اس ملاں کو بلا کر دیکھ لیں.چنانچہ آپ نے اُسے بلوایا اور دریافت فرمایا کہ مولانا صاحب! آپ سے پوچھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ نے نکاح پر نکاح پڑھ دیا ہو، مگر لوگ کہتے ہیں.تو ملاں نے عرض کیا کہ آپ یونہی مجھے متہم کر رہے ہیں پہلے میری بات تو سن لیں.آپ نے فرمایا ہاں بتاؤ کیا بات ہے.ملاں نے عرض کیا کہ میں بھی اس بات کا قائل ہوں کہ نکاح پر نکاح نہیں ہوسکتا.اور پھر پنجابی میں کہا ”لیکن جدوں دوجے نے چڑی جڈ اردو پہیہ میرے ہتھ تے رکھ دتا تے فیر میں کیہ کردا یعنی ٹھیک ہے نکاح پر نکاح نہیں ہوسکتا لیکن اگر ایک پارٹی چڑیا کے برابر رو پیہ ہاتھ پر رکھ دے تو مولوی بیچارا کیا کرے.تو یہ ہے جماعت اسلامی جس کا ان مسلمان ممالک سے کل تک کوئی رشتہ نہیں تھا اور جہاں ان کے نزدیک مسلمان خدا بنے بیٹھے تھے.اب وہاں تیل نکل آیا ہے تو یہ بیچارے کیا کریں بالکل بے اختیار ہیں.دین الگ معاملہ ہے اور دولت الگ چیز ہے.بہر حال جب دولت کا معاملہ سامنے ہو تو پھر مولوی بیچارہ کیا کرے.چنانچہ مولوی مودودی کہتے ہیں: نہ اقلیت کے تحفظ کی ہمیں ضرورت ہے ( مجاہدین اسلام کے عجیب تصورات ہیں ) نہ اکثریت کی بنیاد پر ہمیں قومی حکومت مطلوب ہے.....جو کچھ جاتا ہے جانے دو.سیدنا مسیح کے قول کے مطابق جبہ جاتا ہے تو گر تہ بھی چھوڑنے کے لئے تیار ہو جاؤ“.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۹۷-۹۹) : اے ظالم ! تجھے اس وقت سیدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعلیم کیوں یاد نہیں آئی کہ جو مسلمان اپنی جان، مال اور عزت کی حفاظت کے لئے لڑتا ہوا مارا جاتا ہے وہ شہید ہوگا تمہیں کیوں خیال نہیں آیا کہ اس وقت کتنی مسلمان عورتوں کی عزتیں خطرہ میں تھیں ، ان کی عصمتیں خطرہ میں تھیں، حضرت محمد مصطفی مے کے نام کی حرمت خطرہ میں تھی ، مسلمان قوم کے احیاء کا سوال تھا، مسلمان قوم کی بقاء کا سوال تھا.اس وقت تمہیں سیدنا محمد مصطفی ﷺ کا کوئی قول یاد نہیں آیا.اس وقت اگر کوئی قول یاد
خطبات طاہر جلدم 192 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء آتا ہے تو سیدنا مسیح کا یہ قول کہ جبہ جاتا ہے تو گر یہ بھی چھوڑ دینے پر تیار ہو جاؤ اور آج ہمارے متعلق یہ باتیں کرتے ہو کہ ہم جہاد کے خلاف ہیں.پھر فرماتے ہیں: جو لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ اگر مسلم اکثریت کے علاقے ہندو اکثریت کے تسلط سے آزاد ہو جائیں اور یہاں جمہوری نظام قائم ہو جائے تو اس طرح حکومت الہی قائم ہو جائے گی ، ان کا گمان غلط ہے.دراصل اس کے نتیجہ میں جو کچھ حاصل ہوگا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی ( آج جس حکومت کی تائید میں یہ کہتے ہیں کہ فرمان الہی جاری ہو رہا ہے کل تک وہ یہ کہہ رہے تھے کہ ) جو کچھ بھی حاصل ہو گا وہ صرف مسلمانوں کی کافرانہ حکومت ہوگی.اس کا نام حکومت الہی رکھنا اس پاک نام کو ذلیل کرنا ہے“.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم صفحہ : ۱۷۷) ” نوائے وقت“ کے بانی ایڈیٹر حمید نظامی صاحب نے جماعت اسلامی سے متعلق سچ کہا اور اس خیال کا بڑے زور سے اظہار کیا کہ : ” ہم الزام لگاتے ہیں کہ قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے خلاف مولانا مودودی کا بغض آج بھی اسی طرح قائم ہے.ہم الزام لگاتے ہیں کہ مولانا کی تحریک ہرگز ایک اسلامی اور دینی تحریک نہیں.وہ حسن بن صباح کی طرح سیاسی ڈھونگ رچائے ہوئے ہیں اور ان کا مقصد دین کی سر بلندی کی بجائے سیاسی اقتدار کا حصول ہے (نوائے وقت ۱۵ / جولائی ۱۹۵۵ء صفحہ ۳۰) جب مولوی مودودی صاحب کی اپنی تحریروں سے یہ باتیں ثابت ہیں تو پھر اس الزام کورد کرنے کی کوئی گنجائش تو نظر نہیں آتی لیکن صرف اسی پر انحصار نہیں بلکہ ان معاملات پر غور کرنے کے لئے کہ کون پاکستان کا سجن اور کون دشمن ، کون سگا اور کون سوتیلا ہے.حکومت پاکستان نے ۱۹۵۳ء میں اینٹی احمدیہ تحریک پر ایک عدالت قائم کی جس کے منصفین میں ایک جسٹس منیر تھے جن کا نام ساری دنیا میں مشہور ہے اور آپ ایک بہت اعلیٰ پائے کے قانون دان کے طور پر معروف ہیں اور ایک جسٹس کیانی
خطبات طاہر جلدم 193 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء تھے.آپ دونوں ممبر تھے.آپ نے اپنی رپورٹ کے صفحہ ۲۲۱ پر جماعت اسلامی کے متعلق لکھا: جماعت (اسلامی ) مسلم لیگ کے تصور پاکستان کی علی الاعلان مخالف تھی اور جب سے پاکستان قائم ہوا ہے جس کو نا پاکستان“ کہہ کر یاد کیا جاتا ہے، یہ جماعت موجودہ نظام حکومت اور اس کے چلانے والوں کی مخالفت کر رہی ہے.ہمارے سامنے جماعت کی جو تحریریں پیش کی گئی ہیں ان میں سے ایک بھی نہیں جس میں مطالبہ پاکستان کی حمایت کا بعید سا اشارہ بھی موجود ہو“.آج کل بھی پاکستان کے اخباروں میں شائع کیا جا رہا ہے اور آج سے پہلے بھی جماعت اسلامی اپنی بعض تحریریں پیش کیا کرتی تھی کہ ہم دراصل قیام پاکستان کے خلاف نہیں تھے.چنانچہ تحقیقاتی عدالت میں جماعت اسلامی کی طرف سے وہ ساری تحریر میں پیش ہوئیں تو ان سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ میں لکھا جا رہا ہے کہ: ان میں سے ایک بھی نہیں جس میں مطالبہ پاکستان کی حمایت کا بعید سا اشارہ بھی موجود ہو اس کے برعکس یہ تحریریں جن میں کئی مفروضے بھی شامل ہیں تمام کی تمام اس شکل کی مخالف ہیں جس میں پاکستان وجود میں آیا اور 66 جس میں اب تک موجود ہے.یہ تو تھا جماعت اسلامی کا کردار جو جماعت احمدیہ کی اولین دشمن جماعت ہے دوسرے نمبر پر مجلس احرار ہے.جو اس وقت ہماری بدقسمت حکومت پر مسلط کئے گئے ہیں.اس مسلم مملکت (پاکستان) کی تعمیر کے وقت جماعت احرار کا کردار کیا تھا.اس وقت جب کہ مسلمانوں کی ہندوؤں کے خلاف قومی جدو جہد تھی اور مسلمان کی بقاء کے لئے ایک بڑی شدید جنگ لڑی جارہی تھی اس وقت احراری علماء مسلمانوں کو جو سبق دے رہے تھے اس کے متعلق چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.رئیس الاحرار جناب حبیب الرحمان صاحب لکھتے ہیں : تم ہندوؤں سے ڈرتے ہو کہ ہمیں کھا جائیں گے (ان سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی کسی الگ ملک کی ضرورت ہے ) ارے ! جو مرغے کی ایک ٹانگ نہیں کھا سکتا وہ تمہیں کیا کھا جائے گا، ڈرنا ہندوؤں کو
خطبات طاہر جلد۴ 194 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء چاہئے کہ تم سے کمزور ہیں وہ صرف چھ صوبوں میں ہیں تمام سرحدات پر تم رہتے.......بھائی پر مانند اگر بزدلی کی بات کرتا ہے تو وہ سچا ہے.(رئیس الاحرار صفحه: ۲۰۵) پھر امیر شریعت عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری فرماتے ہیں: " سبحان اللہ ! کہتے ہیں ہندو ہم کو کھا جائے گا.مسلمان پورا اونٹ کھا جاتا ہے پوری بھینس کھا جاتا ہے اس کو ہندو کیسے کھا سکتا ہے جو چڑیا بھی نہیں کھا 66 سکتا.( تقریر سیّد عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری بمقام ایبٹ آباد رسالہ ترجمان الاسلام لا ہو ر ۲۲ ستمبر ۱۹۶۱ء صفحه : ۱۲) 66.99 یہ ہے ان کا جہاد.” کے ساتھ غذا کے غازی تو ہیں، بھینس اور اونٹ کھانے والے تو ہیں لیکن جب دوسری قومیں واقعہ ان کو کھانے کے لئے آتی ہیں تو اس وقت کوئی جہاد باقی نہیں رہتا.اُس وقت اگر کوئی ان کے دفاع کے لئے اپنی جان اور مال قربان کرنے کے لئے آتا ہے تو وہ جماعت احمد یہ ہی کے نوجوان اور مجاہدین ہوتے ہیں.ہر دور میں یہی واقعہ ہوا ہے اور اسے بار بار دہرایا گیا ہے.آپ کو میدان جہاد میں کوئی احراری یا جماعت اسلامی کا آدمی دور تک بھی نظر نہیں آئے گا.کتنے ہیں جوفلسطین میں جا کر خدمتیں کر رہے ہیں؟ کتنے ہیں جنہوں نے کشمیر موومنٹ میں حصہ لیا؟ کتنے ہیں جنہوں نے کشمیر کی بعد کی جنگ میں حصہ لیا؟ کوئی ایک مقام تو دکھا ئیں جہاں اسلام یا مسلمان کو خطرہ ہو اور یہ لوگ صف اوّل تو کجا آخری صف میں ہی جا کر لڑے ہوں.اقبال کا نام آج جیا جا رہا ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ پاکستان کا بنانے والا ہے اور اس کا تصور ایک الہامی درجہ رکھتا تھا.لیکن کل یہی لوگ کیا کہہ رہے تھے.یہی احراری کہتے تھے : بلاشبہ پاکستان کا یہ خیل سیاسی الہام ہے مگر ربانی الہام نہیں ہے بلکہ قصر بکنگھم کا الہام ہے جو ڈا کٹر اقبال کو بھی جب ہی ہوا تھا....جب وہ لندن سے قریب ہی زمانہ میں واپس تشریف لائے تھے."تحریک پاکستان پر ایک نظر صفحه: ۱۸-۱۹ از حضرت علامہ الحاج مولانا محمد حفظ الرحمن صاحب سیوهاری ناظم اعلی مرکز یہ جمعیۃ علماء ہند )
خطبات طاہر جلدم 195 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء الہام کس کی طرف سے ہوتا ہے اور کیا ہوتا ہے اس کا سارا را ز تو احراریوں کو معلوم ہے.وہ الہام اللہ کی طرف سے تھا یا قصر بکنگھم میں ہوا دونوں جگہ ان کے پہرے دار موجود ہیں اس لئے انہیں فوراً پتہ لگ جاتا ہے چنانچہ یہ الہام پاکستان جس کے متعلق آج کہتے ہیں کہ علامہ اقبال کے دل پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا تھا کل تک اس کے متعلق یہ کہ رہے تھے کہ یہ قصر بکنگھم کا الہام ہے.مولانا ظفر علی خان صاحب چمنستان میں ایک مشہور و معروف احراری لیڈر مولوی حبیب الرحمان صاحب ( جو اس زمانہ میں صدر مجلس احرار تھے ) کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کے مقابل پر ہندوؤں کی کیسی خدمات کیں اور ہندو راہنماؤں کو مسلمانوں میں دوبارہ ہر دلعزیز بنانے کے لئے کیسے حیرت انگیز کارنامے سرانجام دئے ان میں سے ایک کارنامہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: میرٹھ میں مولوی حبیب الرحمن لدھیانوی صدر مجلس احرار اس قدر جوش میں آئے کہ دانت پیستے جاتے تھے ، غصہ میں آکر ہونٹ چباتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ دس ہزار جینا اور شوکت اور ظفر جواہر لال نہرو کی جوتی کی نوک پر قربان کئے جاسکتے ہیں.یہ تھا ان کا جذبہ جہاد اور جوش و خروش.پھر مولوی حبیب الرحمن صاحب جب عمل کے میدان میں کو دے تو اس وقت چشم فلک نے کیا کیا نظارے دیکھے، وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں.یہ اقتباس کتاب ”رئیس الاحرار ، صفحہ ۷۴، ۷۵ سے لیا گیا ہے لکھا ہے کہ: وو (چمنستان صفحه: ۱۶۵) ۱۹۲۸ء میں آل انڈیا مسلم کشمیر کا نفرنس لدھیانہ میں ہوئی اس کی صدارت کے لئے مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی نے خواجہ محمد یوسف صاحب کے ذریعہ پنڈت موتی لعل نہرو کو کشمیر کا نفرنس کا صدر بنایا ( یہ بات سننے سے تعلق رکھتی ہے کہ پنڈت موتی لعل جو پنڈت جواہر لعل نہرو کے والد تھے کو کانفرنس کا صدر بنایا ) پھر لکھتے ہیں : کانفرنس میں بڑے بڑے مسلمان کشمیری تاجروں نے پنڈت
خطبات طاہر جلدم 196 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء موتی لعل کی گاڑی اپنے ہاتھ سے کھینچی.ایک لاکھ ہندو اور مسلمان نے اس کانفرنس میں شرکت کی.یہ وہ وقت تھا جب کہ نہرورپورٹ کی وجہ سے پنجاب میں پنڈت موتی لعل نہرو کی ہندوؤں ،سکھوں اور مسلمانوں میں سخت مخالفت ہو رہی تھی لیکن رئیس الاحرار مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی کی اس تدبیر سیاست نے ہوا کا رُخ پلٹ دیا.دیکھئے احرار نے کیسے کیسے عظیم الشان مجاہدین اسلام پیدا کئے ہیں ! صرف یہی نہیں اس زمانہ میں مشرقی بنگال میں کیا ہو رہا تھا اس کی داستان اگر آپ رسالہ ” طلوع اسلام ( کراچی ) ۲۶ / مارچ ۱۹۵۵ء صفحہ اسے پڑھ کر دیکھیں تو حیرت ہوگی کہ یہ لوگ اس وقت وہاں کیا کر رہے تھے.چنانچہ لکھا ہے کہ: ۱۹۴۶ء کے الیکشن کا اعلان ہو گیا جو پاکستان کے نام پر لڑا جارہا تھا.الیکشن کے سلسلہ میں کلکتہ اور بھارت کے دوسرے مقامات کے بہت سے مسلم لیگی لیڈروں نے مشرقی بنگال کا دورہ کیا اور لوگوں پر پاکستان کی اہمیت واضح کرنی شروع کر دی.مسلم لیگی لیڈروں کا اثر اور عوام کو پاکستان کی حمایت پر آمادہ دیکھ کر ہندوؤں نے اپنے اجیر مولویوں کو مسلم لیگی لیڈروں کا زور توڑنے کے لئے بھیجا.روح جعفر کے ان تازہ پیکروں نے اپنی تقریروں میں مسلم لیگی لیڈروں پر کفر کے فتوے لگائے.پاکستان کی تحریک کو انگریزوں کا خود کاشتہ شگوفہ بتایا اور ہر ممکن کوشش کی کہ یہ تحریک مقبول عام نہ ہونے پائے“.اب میں احرار سے متعلق جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کی رپورٹ میں سے ایک دو اقتباسات پڑھ کر سناتا ہوں جن سے آپ کو یہ اندازہ ہوگا کہ انہوں نے جماعت اسلامی کی طرح کوئی تو بہ نہیں کی اور پاکستان کے تصور کو نہ پہلے قبول کیا تھا نہ بعد میں بلکہ لوگوں کو پہلے کی طرح دھو کہ اور فریب دیتے رہے اور اپنے ناپاک ارادوں کی تکمیل کے لئے اسلام کا مقدس نام استعمال کرتے ہیں.چنانچہ جسٹس منیر ، کیانی رپورٹ صفحہ ۱۴۹.۱۵۰ میں درج ہے: ان ( احراریوں) کے ماضی سے ظاہر ہے کہ وہ تقسیم سے پیشتر
خطبات طاہر جلدم 197 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء لکھتے ہیں: کانگریس اور ان دوسری جماعتوں سے مل کر کام کرتے تھے جو قائد اعظم کی جدو جہد کے خلاف صف آراء ہو رہی تھیں......اس جماعت نے دوبارہ اب تک پاکستان کے قیام کو دل سے گوارانہیں کیا“ احرار کے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ کہتی ہے: ان لوگوں کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کے درمیان اختلافات پیدا کریں اور پاکستان کے استحکام کے متعلق عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچائیں.اس شورش کا یہ مقصد بالکل واضح ہے کہ مذہب کا لبادہ اوڑھ کر فرقہ وارانہ اختلافات کی آگ کو بھڑ کا یا جائے اور مسلمانوں کے اتحاد کو تباہ کر دیا جائے“.انکوائری رپورٹ صفحه: ۱۵۰) پھر اسی رپورٹ کے صفحہ ۲۷۸ پر احرار کا ذکر ان الفاظ میں ہوتا ہے: احرار کے رویے کے متعلق ہم نرم الفاظ استعمال کرنے سے قاصر ہیں.ان کا طرز عمل بطور خاص مکروہ اور قابل نفرین تھا اس لئے کہ انہوں نے ایک دنیاوی مقصد کے لئے ایک مذہبی مسئلہ کو استعمال کر کے اس مسئلہ کی تو ہین کی“.پھر اسی رپورٹ کے صفحہ ۲۷۵ پر احراری لیڈر مولوی محمد علی جالندھری کا ذکر کرتے ہوئے وو مولوی محمد علی جالندھری نے ۱۵ فروری ۱۹۵۳ء کو لاہور میں تقریر کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ احرار پاکستان کے مخالف تھے......اس مقرر نے تقسیم سے پہلے اور تقسیم کے بعد بھی پاکستان کے لئے پلیدستان کا لفظ استعمال کیا اور.........عطاء اللہ شاہ بخاری نے......ایک تقریر 66 میں کہا، پاکستان ایک بازاری عورت ہے جس کو احرار نے مجبوراً قبول کیا ہے.“ یہ ہیں مجاہدین اسلام کے کارنامے لیکن ان کارناموں کی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی بلکہ انکی جد و جہد اب ایک نازک دور میں داخل ہو چکی ہے.احراریوں نے پاکستان کے خلاف مختلف وقتوں
خطبات طاہر جلدم 198 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۸۵ء میں ہر حربہ استعمال کیا کبھی جماعت احمدیہ کو بہانہ بنایا اور کبھی اور بہانے تلاش کر کے پاکستان کو نیست دو نابود کرنے کی جو کوششیں یہ کر سکتے تھے کر چکے ہیں اور ہر بار اللہ تعالیٰ کے فضل نے پاکستان کو بچایا اور ان کو ذلت آمیز شکست ہوئی اور اپنے ارادوں میں نا کام اور نامرادر ہے.لیکن اب یہ تحریک ایک انتہائی خطرناک دور میں داخل ہو رہی ہے بلکہ ہو چکی ہے.اب ان بدقسمتوں نے آخر یہ فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کی جان تو کلمہ توحید لا اله الا اللہ میں ہے اسی کی طاقت سے پاکستان بنایا گیا اور اس کلمہ تو حید کو مٹانے سے ہی یہ پاکستان مٹے گا.یہ بات تو ان کی درست ہے لیکن اقدام نہایت ہی ناپاک اور ذلیل و رسوا کن ہے.معلوم یہی ہوتا ہے کہ اب ایک منصوبہ کے تحت وہ یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اس ملک کو مٹانے کے لئے اگر کلمہ تو حید کو بھی نیست و نابود کرنا پڑے تو ہم ایسا کر کے چھوڑیں گے.چنانچہ پاکستان میں اس غرض سے ایک عام تحریک چلائی گئی ہے اور اس ملک کی یہ انتہائی بدقسمتی ہے کہ وہ لوگ جو ملک کی حفاظت کے لئے مامور تھے، جن کے سپرد یہ کام تھا کہ پاکستان اور پاکستان کی روح کو جس طرف سے بھی خطرہ ہوگا وہ اس کے مقابل پر لڑیں گے اور اس کے دفاع کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہو جائیں گے.آج ان کو ہی آلہ کار بنا کر کلمہ توحید یعنی پاکستان کی جان پر حملہ کیا جا رہا ہے.اس سلسلہ میں ہمارے سامنے جو مختلف واقعات رونما ہورہے ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک الہام کے پورا ہونے کا دور آ گیا ہے اور زمین میں بسنے والوں کی آراء اور خیالات تبدیل ہو رہے ہیں.چنانچہ کلمہ مثانے کی تحریک کے سلسلہ میں بکثرت ایسے خطوط اور ایسی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں کہ حکومت پاکستان کے افسران نے جب پولیس کو حکم دیا کہ وہ کلمہ مٹائیں تو وہ مسجدوں میں پہنچے لیکن احمدیوں کی گریہ وزاری کے نتیجہ میں ان کے دل کانپ گئے اور بعضوں نے کلمہ مٹانے سے بالکل صاف انکار کر دیا.چنانچہ ایک موقع پر ایک مجسٹریٹ نے اپنے ساتھ آئی ہوئی پولیس فورس کی طرف دیکھا اور کہا کہ یہ (احمدی ) بغیر یونیفارم کے تو کسی شخص کوکلمہ نہیں مٹانے دیں گے، یہ تو سر دھڑ کی بازی لگائے بیٹھے ہیں لیکن اگر حکومت مٹائے تو احمدی کہتے ہیں کہ ہم مزاحمت نہیں کریں گے.اس صورت میں اللہ جانے اور حکومت.جب وہ مجسٹریٹ اتنی بات کہہ رہا تھا تو الیں.ایچ.او نے کہا کہ جناب یہ باتیں تو بعد میں طے ہوں گی پہلے یہ بتائیں کہ مٹائے گا کون؟ اس نے کہا کہ لاز ما تم ہی مٹاؤ گے تمہیں اسی
خطبات طاہر جلدم 199 خطبہ جمعہ یکم مارچ ۱۹۸۵ء لئے ساتھ لایا ہوں.اس پر الیں.ایچ.او نے کہا یہ میری بیٹی ہے اور یہ میرا Star ہے جہاں مرضی لے جائیں مگر خدا کی قسم میں کلمہ نہیں مٹاؤں گا اور نہ ہی میری فورس کا کوئی آدمی کلمہ مٹائے گا.اس لئے جب تک یہ فیصلہ نہ کر لیں کہ کلمہ کون مٹائے گا اس وقت تک یہ ساری باتیں فضول ہیں کہ کس طرح مٹایا جائے.اس قسم کا ایک واقعہ نہیں ہوا پاکستان کے طول و عرض میں ایسے کئی واقعات رونما ہورہے ہیں کہ پولیس جو پاکستان میں سب سے زیادہ بدنام انتظامیہ مشہور ہے اور جسے ظالم ، سفاک، بے دین اور بے غیرت کہا جاتا ہے اور ہر قسم کے گندے نام دیئے جاتے ہیں لیکن کلمہ کی محبت ایسی عظیم ہے، کلمہ کی طاقت اتنی عجیب ہے کہ ان کے دلوں میں بھی تبدیلی پیدا ہورہی ہے اور ایک جگہ سے نہیں متعدد جگہوں سے بارہا یہ اطلاعات مل رہی ہیں کہ پولیس نے کلمہ مثانے سے صاف انکار کر دیا ہے اور یہ کہا کہ کوئی اور آدمی پکڑو جو کلمہ مٹائے ہم اس کے لئے تیار نہیں.اسی طرح بعض مجسٹریٹس کے متعلق اطلاعیں مل رہی ہیں کہ وہ بڑے ہی مغموم حال میں سر جھکائے ہوئے آئے ، معذرتیں کیں اور عرض کیا کہ ہم تو مجبور ہیں، ہم حکومت کے کارندے ہیں تم ہماری خاطر کلمہ مٹا دو.احمدیوں نے کہا کہ ہم تو دنیا کی کسی طاقت کی خاطر بھی کلمہ مٹانے کے لئے تیار نہیں ہیں، اگر تم جبر امٹانا چاہتے ہو تو مٹاؤ.پھر مجسٹریٹ نے کہا کہ اچھا سیڑھی لا ؤ تو جواب میں کہا گیا کہ ہمارے ہاتھ سیڑھی بھی نہیں لے کر آئیں گے.پھر انہوں نے کسی اور سے سیٹرھی منگوائی اور ایک آدمی کلمہ مٹانے کے لئے اوپر چڑھا.اس وقت احمد یہ مسجد سے اتنی دردناک چینیں بلند ہوئیں کہ یوں لگتا تھا کہ جیسے ان کا سب کچھ برباد ہو چکا ہے اور کوئی بھی زندہ نہیں رہا.اچانک کیا دیکھتے ہیں کہ خود مجسٹریٹ کی بھی روتے روتے ہچکیاں بندھ گئیں اور ابھی کلمہ پر ایک ہتھوڑی پڑی تھی کہ مجسٹریٹ نے آواز دی کہ واپس آجاؤ ہم یہ کلمہ نہیں مٹائیں گے حکومت جو چاہتی ہے ہم سے سلوک کرے ہم اس کے لئے تیار نہیں.پس ایسے واقعات حیرت انگیز طور پر رونما ہورہے ہیں اور جب بھی کوئی ایسا واقعہ ہوتا ہے تو مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام یاد آ جاتا ہے کہ يَوْمَ تُبَدَّلُ الْأَرْضُ غَيْرَ الأرضِ ( تذکرہ صفحہ: ۱۸۹) کہ زمین پر بسنے والوں کی رائیں تبدیل کر دی جائیں گی اور ان کے خیالات میں انقلاب برپا کیا جائے گا.اگر چہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کے دل میں کلمہ کا
خطبات طاہر جلدم 200 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء احترام اکثر صورتوں میں موجود ہے اور وہ اس معاملہ میں حکومت سے تعاون کرنے کے لئے تیار نہیں لیکن بعض صورتوں میں نہایت ہی مکر وہ واقعات سامنے آرہے ہیں اور انہیں دیکھ کر دل میں خوف پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان ظالموں کی وجہ سے کہیں اس ملک کو سزا نہ دے.ایک موقع پر ایک طالب علم کو ایک پولیس مین نے بس سے گھسیٹ لیا اور اس جرم میں کہ اس نے کلمہ کا بیج لگایا ہوا تھا تھانے لے گیا اور وہاں کلمہ لگانے پر پانچ سو روپے اس کی سزا مقرر ہوئی اور اسے زدوکوب بھی کیا گیا.اس طالب علم نے کہا کہ میرے پاس پانچ سوروپے تو نہیں صرف تین سو روپے ہیں لیکن جہاں تک کلمہ کا تعلق ہے میں تو اسے نہیں اتاروں گا ، اگر تم میں طاقت ہے تو بے شک نوچ لو لیکن میرے دل سے کس طرح کلمہ نوچو گے ، وہ تو پھر بھی دل ہی میں رہے گا.اس پر پولیس والوں نے کہا کہ اچھا ہم تمہیں ابھی سمجھا لیتے ہیں کہ کس طرح نوچیں گے.چنانچہ وہ اسے تھانے سے باہر لے گئے اور ایک پل کے نیچے شدید مارا اتنا مارا کہ جسم کا کوئی حصہ بھی ضرب سے خالی نہ رہا اور وہ تین سوروپے لے لئے اور کہا کہ اچھا تین سو روپے جرمانہ اس طرح وصول ہو گیا اور دوسوروپے مارنے سے وصول ہو گیا ، ہم نے تو پانچ سوروپے پورے کر لئے.تو ایسے ظالم طبع لوگ بھی وہاں موجود ہیں.پس جماعت احمدیہ سے کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے.جماعت احمد یہ پاکستان تو اپنے ملک کے لئے جانیں نثار کرنے والی جماعت ہے اور اسی طرح ہر ملک کی جماعت احمد یہ اپنے اپنے ملک کی وفادار ہے.خطرہ تو ان بدقسمتوں سے ہے جو کلمہ کی توہین کرنے والے ہیں اور کلمہ بیچ کر کھا جانے والے ہیں.ایک اور انتہائی دردناک واقعہ جو ہمارے علم میں آیا وہ اس سے بھی زیادہ ظالمانہ ہے کہ ایک موقع پر جب پولیس نے بھی کلمہ مثانے سے انکار کر دیا اور اس گاؤں کے سب مسلمانوں نے بھی صاف انکار کر دیا کہ ہم ہرگز یہ کلمہ نہیں مٹائیں گے تو اس بدبخت مجسٹریٹ نے سوچا کہ میں ایک عیسائی کو پکڑتا ہوں کہ وہ کلمہ مٹائے.چنانچہ اس نے ایک عیسائی سے کہا کہ وہ کلمہ مٹائے.اس نے کہا کہ میں اپنے پادری صاحب سے پوچھ لوں.پادری نے یہ فتویٰ دیا کہ دیکھو! اللہ سیتو ہمیں کوئی دشمنی نہیں ہے خدا کی وحدانیت کا تو ہم بھی اقرار کرتے ہیں اور وہ بھی.اس لئے کسی عیسائی کا ہاتھ لا اله الا اللہ کو نہیں مٹائے گا ، ہاں جاؤ اور (نعوذ بالله من ذالک ) محمد رسول اللہ علیہ کے نام کو مٹا دو.اس
خطبات طاہر جلد۴ 201 خطبه جمعه یکم مارچ ۱۹۸۵ء بد بخت اور لعنتی نے یہ گوارا کر لیا کہ ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ کا نام ایک عیسائی کے ہاتھ سے مٹوا دے.مگر میں ان کو متنبہ کرتا ہوں اور خبر دار کرتا ہوں کہ ہمارے خدا کو جس طرح اپنے نام کی غیرت ہے اسی طرح ہمارے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ " کے نام کی بھی غیرت ہے.محمد مصطفی سے خود مٹنے کے لئے تیار ہو گئے تھے مگر خدا کے نام کو مٹنے نہیں دیتے تھے.ہمارا خدا نہ خود مٹ سکتا ہے، نہ محمد کے پاک نام کو کبھی مٹنے دے گا.اس لئے اے اہل پاکستان ! میں تمہیں خبر دار اور متنبہ کرتا ہوں کہ اگر تم میں کوئی غیرت اور حیا باقی ہے تو آؤ اور اس پاک تحریک میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ.کلمہ، اس کی عزت اور اس کی حرمت کو قائم کرو اور دنیا کے کسی آمر اور کسی آمر کی پولیس اور فوج سے خوف نہ کھاؤ.یہ وقت ہے اپنی جان کو خدائے جان آفرین کے سپرد کرنے کا، یہ وقت ہے خدا کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں پیش کرنے کا، یہ وقت ہے یہ ثابت کرنے کا کہ ہم محمد مصطفی اللہ کے آگے بھی لڑیں گے اور پیچھے بھی لڑیں گے اور دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور آپ کی عزت اور ناموس پر کسیکو حملہ نہیں کرنے دیں گے.پس اے اہل پاکستان ! اگر تم اپنی بقا چاہتے ہو تو اپنی جان، اپنی روح ، اپنے کلمہ کی حفاظت کرو.میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ اس کلمہ میں جس طرح بنانے کی طاقت ہے اس طرح مٹانے کی بھی طاقت موجود ہے.یہ جوڑنے والا کلمہ بھی ہے اور توڑنے والا بھی مگر ان ہاتھوں کو توڑنے والا ہے جو اس کی طرف توڑنے کے لئے اٹھیں.اللہ تمہیں عقل دے اور تمہیں ہدایت نصیب ہو“.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک اعلان کرنا تھا جو بھول گیا مرزا ظفر احمد صاحب جو حضرت مرزا شریف احمد صاحب کے منجھلے صاحبزادے تھے.چند دن ہوئے کراچی میں حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے ہیں.انا لله وانا الیه راجعون.نماز جمعہ وعصر جمع ہوں گی اس کے بعد میں صاحبزادہ مرزا ظفر احمد صاحب مرحوم کی نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.احباب ان کی مغفرت کی دعا میں ساتھ شامل ہوں.
خطبات طاہر جلدم 203 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء شمیر و فلسطین کی تحریک آزادی اور جماعت احمدیہ کی عظیم الشان خدمات (خطبه جمعه فرموده ۸ مارچ ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت تلاوت کی : قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ ۖ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ (سوره آل عمران: ۶۵) اور پھر فرمایا: یہ سورہ آل عمران کی ۶۵ ویں آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے : اے رسول! تو اہل کتاب سے کہہ دے کہ تم اس کلمہ کی طرف ہی آجاؤ جو ہم دونوں کے درمیان مشترک ہے یعنی ہم اس بات پر ا کٹھے ہو جائیں کہ اللہ کے سوا کسی اور کی عبادت نہیں کریں گے اور اس کا کوئی شریک نہیں ٹھہرا ئیں گے اور ہم میں سے بعض بعض دوسروں کو خدا کے سوا دوست نہیں بنائیں گے.پس اگر یہ سن کر بھی وہ پیٹھ پھیر لیں اور توجہ نہ دیں تو ان سے کہہ دو کہ اب تم گواہ ٹھہرنا کہ ہم مسلمان ہیں یعنی اس اشتراک کی دعوت کو سن کر بھی پیٹھ پھیر نے والوں کا پھر دین سے کوئی تعلق نہیں رہتا اور اس وقت اشتراک کی ایسی دعوت دینے والوں
خطبات طاہر جلد۴ 204 خطبہ جمعہ ۸ مارچ ۱۹۸۵ء کا یہ حق بن جاتا ہے اور یہ حق قرآن کریم ہی عطا کرتا ہے کہ انہیں کہہ دیں کہ اب تم گواہ رہو گے کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس اعلان کے مطابق ہم تمہیں اشتراک وحدانیت خدا تعالیٰ کی طرف بلا رہے ہیں.قرآن کریم ایک عجیب پر حکمت کلام ہے جو ہر دوسرے اختلاف کو نظر انداز کر کے ایک ایسے اتحاد کی طرف بلاتا ہے جو اہل کتاب اور قرآن کریم میں ایک نکتہ کی حیثیت رکھتا ہے.قرآن کریم اس بات کو نظر انداز کر دیتا ہے کہ اہل کتاب آنحضرت عمﷺ کو معاذ اللہ جھوٹا اور مفتری سمجھتے ہیں.قرآن کریم اس بات کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے کہ اہل کتاب آپ کی جان کے دشمن ، آپ کے پیغام کے دشمن، آپ کے پاک سلسلے کو تباہ و برباد کرنے پر ہر آن تلے بیٹھے ہیں اور کوئی کسر اس بات کی اٹھا نہیں رکھتے اور ایسا کوئی موقع ہاتھ سے گنواتے نہیں جس کے نتیجہ میں اسلام اور بانی اسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہو.اتنی شدید عداوت کے باوجود قرآن کریم ان کو اشتراک کی طرف بلا رہا ہے اور اختلافات سے نظریں پھیرنے کی طرف بلا رہا ہے.اس لحاظ سے بھی کیسی حیرت انگیز کتاب ہے اور کیسا عظیم کلام ہے جو سچائی کی روح سے پھوٹا ہے.جب تک ایک طرف بنی نوع انسان کے ساتھ ایک گہرا لگاؤ نہ ہواور دوسری طرف خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک گہرا تعلق نہ ہو اس وقت تک ناممکن ہے کہ اس قسم کا کلام کسی زبان پر جاری ہو سکے اور خدائے تعالیٰ جو اپنے بندوں سے بلا امتیاز رنگ ونسل اور بلا امتیاز مذہب و ملت ایک ایسا گہرا تعلق رکھتا ہے جو مذہب سے بھی بالا ہے یعنی خالقیت اور مخلوقیت کا تعلق.تو جب تک اس عظیم ہستی کی طرف سے یہ آواز نہ نکلے دنیا والوں کے تصور میں ایسی بات آہی نہیں سکتی.یہ وہ کلام ہے جس کی اطاعت اور پیروی کے نتیجہ میں دنیا کے سارے اختلافات مٹ سکتے ہیں.قدر مشترک کی طرف بلانا دراصل بنی نوع انسان کو بھلائیوں اور نیکیوں کی طرف بلانا ہے اور اسی طرح برائیوں اور فلموں سے احتراز کرنا اور نظریں پھیر لینا اور اس بات کی پروا نہ کرنا کہ کوئی شخص دشمنی میں کس حد تک بڑھ چکا ہے درحقیقت اس بات کا مظہر ہے کہ جہاں بھی کوئی اچھی قد رمل جائے کوئی ایک بھی مقام اشتراک پیدا ہو جائے اس کی طرف بلانا شروع کر دیا جائے.یہ ایک ایسا عظیم سبق ہے جو صرف مذہبی دنیا ہی میں نہیں بلکہ سیاسی دنیا میں بھی اور معاشی اور تمدنی دنیا میں بھی ہر قسم کے اختلافات کو حل کرنے کے لئے ایک ایسی چابی (Master Key) کے مترادف ہے جس سے ہر قسم کے
خطبات طاہر جلدم 205 خطبہ جمعہ ۸ مارچ ۱۹۸۵ء تالے کو کھولا جا سکتا ہے لیکن یہ بدقسمتی ہے انسانوں کی اور بدقسمتی ہے قوموں کی کہ قرآن کریم کی اس عظیم الشان تعلیم کو بھلا کر لوگ مصیبتوں کی زندگی میں پڑے ہوئے ہیں اور ایک جہنم بنا رکھی ہے اپنے لئے بھی اور دوسروں کے لئے بھی، اپنے دوستوں کے لئے بھی اور اپنے دشمنوں کے لئے بھی.حقیقت یہ ہے کہ آج دنیا کے سب مسائل کا حل قدر اشتراک پر اکٹھے ہو جانے پر منحصر ہے لیکن غیر قوموں کو تو چھوڑیئے بد قسمتی یہ ہے کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے پاکستان میں بھی جہاں اسلام کی محبت کی دعویدار حکومت ہے وہ بھی اس بنیادی اور اصولی سبق کو سمجھ نہیں رہی.چنانچہ جماعت احمدیہ کے خلاف آج کل جو ہم بڑے زور وشور سے چلائی جا رہی ہے اس مہم کا خلاصہ یہی ہے کہ ہر قدر اشتراک کو مٹا دو.قرآن کریم کے پیغام کا خلاصہ تو یہ ہے کہ ہر قد راختلاف کو نظر انداز کر دو اور ہر قدراشتراک کی طرف بلاؤ لیکن پاکستان میں جماعت احمدیہ کے خلاف چلنے والی مہم اس کے بالکل برعکس ہے.ہمارے مخالفین وہ باتیں کر رہے ہیں جو آسمان والے نہیں کر رہے.وہ بات کر رہے ہیں جو بر خلاف شہر یار ہے، خدا کی تقدیر کے خلاف ہے.چنانچہ معاندین احمدیت یہ عزم لے کر اٹھے ہیں کہ وہ ہر قدر اشتراک کو مٹاتے چلے جائیں گے اور ہر قد راختلاف کو ہوا دیتے چلے جائیں گے، گویا احمدیت کی دشمنی میں وہ اندھے ہو گئے ہیں اور جماعت احمدیہ کے خلاف ایسے ایسے الزامات لگا رہے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.چند مثالیں میں نے گزشتہ خطبہ میں دی تھیں اور یہ واضح کیا تھا، محض اپنی زبان سے نہیں بلکہ غیر کی زبان سے اور اس میں بھی ان لوگوں کی زبان سے جو آج ہم پر الزام لگا رہے ہیں یہ ثابت کیا تھا کہ جماعت احمد یہ ہمیشہ اسلام کی بھی وفادار رہی ہے اور مسلمانوں کے مفادات کی بھی حفاظت کرتی آئی ہے جبکہ ہم پر الزام لگانے والے نہ صرف یہ کہ غلط بیانی کرتے ہیں بلکہ خود ملزم ہیں خود مجرم ہیں اور مجرم بھی اقراری مجرم ! چنانچہ غیر احمدی اخبارات اور کتب کے حوالوں سے اور قیام پاکستان سے قبل کی تاریخ سے کچھ حوالے میں نے دیئے تھے اب اس سلسلہ میں میں بعض دیگر امور کو لیتا ہوں یہ بتانے کے لئے کہ ہر ایسے موقع پر جبکہ اسلام یا عالم اسلام کو کوئی خطرہ در پیش آیا جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسے مواقع پر اسلام اور مسلمانوں کے دفاع میں ہمیشہ صف اول میں کھڑی ہوئی اور پوری طاقت اور پوری ہمت کے ساتھ کمر بستہ ہو کر ہر دشمن کا مقابلہ کیا اس کے برعکس مجلس احرار اور
خطبات طاہر جلدم 206 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء جماعت اسلامی کا کردار اسلامی مفاد کے خلاف رہا ہے.اس میں شک کا سوال نہیں ہے، کوئی الزام تراشی کا سوال بھی نہیں ہے، تاریخی حقائق بتا رہے ہیں کہ اسلام اور عالم اسلام کے ہراہم موقع پر ان کا کردار مسلمانوں کے مجموعی مفاد کے خلاف رہا ہے.سرکاری رسالہ میں جن بہت سی باتوں کی طرف اشارے کئے گئے ہیں ان کی تفصیل بیان نہیں کی گئی مثلاً یہ کہہ دینا کہ جماعت احمد یہ عالم اسلام اور اسلام کے خلاف ہے اس میں وہ سارے الزامات آجاتے ہیں جو مختلف وقتوں میں مختلف شکلوں میں احرار اور جماعت اسلامی کی طرف سے بالخصوص جماعت احمدیہ پر لگائے گئے ہیں اور حالیہ دور میں پاکستان میں جو مختلف جرائد چھپتے رہے ہیں، مختلف اشتہارات شائع ہوتے رہے، کتابیں شائع ہوئیں حکومت پاکستان کی طرف سے ان کی پوری سرپرستی ہوئی.ان کو زکوۃ فنڈ سے اور دوسری مدات کے پیسوں سے بھر پور مدد دی گئی اور اس بات پر فخر کیا گیا کہ ہم اس تحریک کی سر پرستی کر رہے ہیں اور جو الزامات لگائے گئے وہ بھی بڑے عجیب و غریب ہیں.چنانچہ ایک الزام یہ بھی لگایا گیا ہے کہ جماعت احمد یہ ہندوستان کی بھی ایجنٹ ہے اور یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ ہندو ازم یعنی ہندوؤں کی بھی ایجنٹ ہے.یہ بھی الزام لگایا ہے کہ احمدی اشتراکیت کے نمائندہ ہیں اور تمام اشتراکی ممالک کے ایجنٹ ہیں اور یہ بھی الزام لگایا گیا ہے کہ وہ استعماریت کے نمائندہ ہیں اور تمام استعماری ممالک کے ایجنٹ ہیں گویا مخالفین احمدیت کی عقلیں ماری گئی ہیں جو کہتے ہیں کہ بیک وقت روس کے بھی ایجنٹ ہیں اور اسرائیل کے بھی ایجنٹ ہیں.دنیا کی ہر طاقت کے ایجنٹ ہیں خواہ وہ آپس میں ایک دوسرے کے کتنے ہی مخالف ہوں لیکن جب ہم واقعات پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک بالکل مختلف کہانی ابھرتی ہوئی سامنے آتی ہے اور وہ کہانی کہانی نہیں رہتی بلکہ ایک تاریخی حقیقت بن جاتی ہے.جہاں تک ہندوازم یا ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کا تعلق ہے یہ الزام محض لغو ہے اس میں چھوٹے چھوٹے دماغوں کی خود ساختہ کہاوتوں اور کہانیوں کو بنیاد بنایا گیا ہے، اس سے زیادہ ان الزامات کی کوئی بھی حیثیت نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ قرآن کریم اور سنت نبوی کے مطابق ایک واضح مسلک رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس ملک میں احمدی رہتا ہے، جس ملک کا وہ نمک کھاتا ہے، جس کی مٹی سے اس کا خمیر گوندھا گیا ہے وہ اس کا وفادار ہے اور وفادار رہے گا ، اس اعتبار
خطبات طاہر جلدم 207 خطبہ جمعہ ۸ مارچ ۱۹۸۵ء سے ہندوستان کا احمدی لازماً ہندوستان کا وفادار ہے اور ہمیشہ وفادار رہے گا، انگلستان میں رہنے والا احمدی لازماً انگلستان کا وفادار ہے اور ہمیشہ وفادار رہے گا، پاکستان میں بسنے والا احمدی لازماً پاکستان کا وفادار ہے اور ہمیشہ وفادار رہے گا.یہ ہے حقیقت حال باقی سب جھوٹ ہے.اگر یہ لوگ یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کے مفاد کے لئے دنیا کے ہر ملک میں بسنے والا احمدی اپنے اپنے ملک کا مفاد بیچ دے تو یہ اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے اور اس طرح پاکستان کے سوا احمدیوں کو ساری دنیا میں غدار بنانے کے مترادف ہے اور الزام لگانے والے خود بھی یہ نہیں کرتے.کیا انگلستان میں بسنے والے مسلمان اور عرب میں بسنے والے مسلمان اور افریقہ میں بسنے والے مسلمان اور دیگر براعظموں میں بسنے والے مسلمان تمام کے تمام اپنے اپنے ملکوں کے غدار ہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس لئے یہ ایک فرضی قصہ ہے ایک جذباتی روداد بنا کر پیش کی گئی ہے.واقعہ یہ ہے کہ اس قسم کے الزام لگانے والے خود ہی غدار ہیں.دنیا جانتی ہے کہ اس وقت پاکستان کی حکومت پر دو بھوت سوار ہیں ایک جماعت اسلامی کا اور دوسرا مجلس احرار کا.جب باہر کی دنیا سے سوال اٹھتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں تمہیں کیا ہو گیا ہے تم پاگل ہو گئے ہو اس قسم کی جاہلانہ حرکتیں کیوں کر رہے ہو تو کہتے ہیں یہ جود و مصیبتیں ہیں نا، یہ ہمارا پیچھا نہیں چھوڑتیں یہ ہماری پیش نہیں جانے دیتیں.انہوں نے عوام کو خلاف کر دیا ہے عوامی دباؤ کی وجہ سے احمدیوں کے خلاف اقدامات کرنے پر ہم مجبور ہو گئے ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ان دو بھوتوں پر موجودہ حکومت خود سوار ہے اور اپنے مفاد میں ان کو استعمال کر رہی ہے اور....جہاں تک اور جب تک یہ فائدہ دیں گے اس وقت تک حکومت ان کو استعمال کرے گی اس کے بعد ان کو چھوڑ دے گی.ادھر جماعت اسلامی اور احراری ملاں بھی یہی نیتیں لے کر بیٹھے ہوئے ہیں.دونوں کے ایمان کا ایک جیسا قصہ ہے.چنانچہ ان کے مفاد سے جب بھی حکومت کا مفاد ٹکرائے گا وہ اس حکومت کو چھوڑ دیں گے اور اپنے مفاد کی باتیں کرنے لگ جائیں گے.بہر حال یہ ایک مجبوری کی دوستی ہے، مجبوری کا رشتہ ہے جو کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے.ایسے رشتے پہلے بھی ٹوٹتے رہے ہیں اور اب بھی انشاء اللہ ٹوٹ جائیں گے.اب میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جماعت اسلامی اور احراری ملاؤں کا قیام پاکستان سے پہلے
خطبات طاہر جلدم 208 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء کیا حال تھا.ان دونوں کا کیا کردار تھا، ان کے نظریات کیا تھے، ہندو اور ہندو ازم کو کیا سمجھتے تھے، مسلمان ممالک کے متعلق ان کا کیا رویہ تھا.اس کے متعلق ایک دو مثالیں پڑھ کر سنا دیتا ہوں.سب سے پہلے میں مجلس احرار کو لیتا ہوں.مجلس احرار کا قیام کیسے عمل میں آیا اس کا پتہ ایک مشہور کتاب سے لگتا ہے جس کا نام Freedom Movement in Kashmir ہے.یہ کتاب جس کے مصنف کا نام غلام حسن خان ہے ہندوستان سے لائٹ اینڈ لائف پبلشر نیو دہلی نے ۱۹۸۰ء میں شائع کی ہے.اس میں ۱۹۳۱ء سے ۱۹۴۰ء تک کے عرصہ میں تحریک کشمیر کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے.مصنف نے مجلس احرار کے قیام کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے: دو مجلس احرار کا نگریس کے سٹیج پر کانگریس کے سالانہ اجلاس کے موقع پر معرض وجود میں آئی اس کے پہلے صدر مولانا عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری منتخب ہوئے اور اس کا نام مجلس احرار اسلام ہند تجویز ہوا.پھر آگے جا کر لکھتے ہیں کہ: ”ہندو پنڈتوں نے مسلمانوں کی مجموعی تحریک کو نقصان پہنچانے کے لئے مسلمانوں کی فرقہ بندی سے ناجائز فائدہ اٹھایا.مجلس احرار کو ہندوؤں نے کس طرح استعمال کیا اس کا ذکر کرتے ہوئے مصنف نے آخر میں لکھا ہے:.”ہندو پنڈت کمیونٹی نے بعض بااثر مسلمان رہنماؤں اور میر واعظ کے ساتھیوں مرزا غلام مصطفیٰ اسد اللہ وکیل وغیرہ سے خفیہ معاہدہ کیا اور خفیہ اجلاس منعقد کئے اور بھڑ کا یا کہ شیخ عبد اللہ احمد یہ جماعت کے ساتھ مل کر اس کی مذہبی قیادت ( یعنی میر واعظ کی مذہبی قیادت ) ختم کرنا چاہتا ہے اس طرح مسلمانوں میں نفرت کے بیج بوئے گئے“.پس یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوؤں نے اور ہندو کانگریس نے مجلس احرار کو قائم کیا اور اپنے مقاصد کے لئے ان کو استعمال کیا.یہ ایک کھلی کہانی ہے اس کے کئی اور ثبوت بھی ہیں جن میں سے کچھ تو میں پہلے بیان کر چکا ہوں اور بہت سے ہیں جن کو اس تھوڑے سے وقت میں پیش
خطبات طاہر جلد۴ نہیں کیا جاسکتا.209 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء مولوی ظفر علی خان صاحب مدیر ”زمیندار اخبار لاہور، احرار کے صف اول کے مجاہد تھے اگر چہ بعد میں تو یہ بھی کی لیکن وہ بہت دیر کے بعد ہوئی.ایک لمبا عرصہ انہوں نے احرار کی وکالت کا حق ادا کیا اور اپنے اخبار میں احرار کو بہت اچھالا.مولوی ظفر علی خان صاحب نے ہندوؤں سے مسلمانوں کے تعلقات اور مہاتما گاندھی کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار ایک نظم میں کیا ہے.یہ تحریک خلافت کے زمانہ کی بات ہے یعنی جن دنوں یہ تحریک چلی تھی کہ انگریزوں نے خلافت پر حملہ کیا ہے اس لئے ہم ترک موالات کریں گئے انگریز سے تعلقات توڑ کر افغانستان چلے جائیں گے.چنانچہ مسلمانوں کی خلافت کی حفاظت کا یہ جو اعلان ہوا ہے اس کے متعلق احرار کہتے ہیں کہ یہ اعلان گاندھی جی نے کیا تھا.گاندھی نے آج جنگ کا اعلان کردیا باطل سے حق کو دست و گریبان کر دیا ہندوستاں میں ایک نئی روح پھونک کر آزادی حیات کا سامان کر دیا تن من کیا شار خلافت کے نام پر سب کچھ خدا کی راہ میں قربان کر دیا یہ ہیں ان کے پیرو مرشد، یہ ہیں ان کی خلافت کی حفاظت کرنے والے، یہ ہیں ان کے رشتے اور آج بڑھ بڑھ کر باتیں کر رہے ہیں جماعت احمدیہ کے خلاف.کہتے ہیں جناب گاندھی صاحب نے خلافت پر اپنا تن من نثار کر دیا ہے.پھر سنئے کہتے ہیں: پروردگار نے کہ وہ ہے منزلت شناس گاندھی کو بھی یہ مرتبہ پہچان کر دیا یعنی یہ کسی انسان کی بات نہیں کہ غلطی ہو گئی ہو.فرماتے ہیں حضرت گاندھی جی کو خدا تعالیٰ نے پہچان کر مرتبہ عطا فرمایا ہے.گویا اس وقت فرزندان اسلام میں سے اور مسلمان ماؤں کی کوکھ سے پیدا ہونے والے مسلمانوں میں سے ایک بھی نہیں تھا جو خلافت کی حفاظت کے لئے کھڑا ہوتا.کل عالم
خطبات طاہر جلدم 210 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء کے مسلمانوں پر خدا نے نظر کی تو صرف ایک مہاتما گاندھی نظر آئے جو خلافت اسلامیہ کو بچانے کی طاقت اور ہمت رکھتے تھے.فرماتے ہیں خدا تعالیٰ نے جو عالم الغیب و الشهادة ہے گاندھی جی کو یہ مرتبہ پہچان کر دیا ہے.یہی مولوی ظفر علی خان صاحب ہندو مسلم اتحاد کے متعلق کہتے ہیں: پانچ سال پہلے اس اتحاد کا وہم و گمان بھی نہ تھا ہندو اور مسلمانوں کو گاندھی ، لالہ لاجپت رائے ، مالوی جی ، موتی لال نہرو کے متعلق خیال ہے کہ یہ ان کی کوششوں کا نتیجہ ہے مگر کیا یہ پہلے نہ تھے، کیا یہ قوت ان میں پہلے موجود نہ تھی.میں (یعنی ظفر علی خان ) کہتا ہوں کہ یہ آسمانی قوت ہے اب ہندو مسلمانوں میں تفرقہ نہیں پڑ سکتا.ہندوؤں نے ،مہاتما گاندھی نے مسلمانوں پر جو احسان کئے ان کا عوض ہم دے نہیں سکتے“.یعنی مسلمانوں پر ہندوؤں اور مہاتما گاندھی نے جو احسان کئے ہیں مولوی ظفر علی خان صاحب کہتے ہیں ہم ان کا بدلہ نہیں دے سکتے ہمارے پاس زر نہیں ہے ، جان ہے جب چاہیں حاضر ہے.یہ ہیں وہ لوگ جو پاکستان کے احمدیوں پر ہندوؤں کا ایجنٹ ہونے کا الزام لگاتے ہیں.ویسے تو جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہر ملک کا احمدی اس ملک کا وفادار ہے اور ہم اس بات کا بلا جھجک یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہندوستان میں بسنے والے والے احمدی کا یہ فرض ہے اور قرآن اس کا یہ فرض مقرر کرتا ہے کہ اپنے وطن کے وفادار رہو ، جس ملک کا نمک کھاتے ہو اس سے بے وفائی نہ کرو.میں ان کی بات نہیں کر رہا نہ ہمارے مخالفین ان کی بات کر رہے ہیں دراصل الزام یہ ہے کہ گویا پاکستان میں بسنے والے احمدی ہندوؤں کے ایجنٹ اور ہندوستان کے وفادار ہیں اور یہ کہ پاکستان سے ان کا کوئی تعلق نہیں یہ بالکل جھوٹ ہے جو لوگ ہندوؤں کے وفادار ہیں اور ہندوستان کے ایجنٹ ہیں وہ اپنی ہی تحریروں سے وفادار اور ایجنٹ ظاہر ہورہے ہیں.اب آئیے دیکھیں جماعت اسلامی کی اسلام دوستی اور اسلامی ممالک کے ساتھ ان کی محبت اور تعلق.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جب تک عرب ریاستوں میں تیل نہیں نکلا اس وقت تک ان کو پتہ ہی نہیں لگا کہ اسلام کہاں رہتا ہے اور عرب ممالک کا اسلام سے تعلق کیا ہے اس سے یہ نا آشنا تھے لیکن جب تیل کی دولت کی عرب میں ریل پیل ہونے لگی تو اس وقت ان کی نظریں اٹھیں اور ان کو
خطبات طاہر جلدم 211 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء معلوم ہوا کہ یہاں تو خدا رہتا ہے، یہاں تو خدا والے لوگ رہتے ہیں.اس سے پہلے کیا تھے یہ مولوی مودودی کی زبانی سنئے جو موجودہ پاکستانی حکومت (Regime) کے بزرگ آباء واجداد میں سے ہیں.جن کے متعلق دنیا تعریف کرتی ہے کہ وہ بڑے مخلص تھے انہوں نے اہل عرب کی بڑی خدمت کی ہے اور اہل اسلام کے لئے بھی انہوں نے بڑی قربانیاں دی ہیں مگر انہی مولوی مودودی کو وہ عرب کیسے نظر آرہے تھے.فرماتے ہیں: حکومت حجاز ( یعنی شاہ عبدالعزیز اوران کے بعد ان کے شہزادوں) کی بدولت سرزمین عرب پر جاہلیت مسلط ہے اور حرم کعبہ کے منتظم بنارس اور ہر دوار کے مہنت بن گئے ہیں“.( خطبات سیدابوالاعلی مودودی طبع چہارم صفحه ۲۰۵-۲۰۶) یہ لمبی تحریر ہے اس کو پڑھ کر انسان حیران رہ جاتا ہے یہ ایک بہت ہی گہرے عناد کی مظہر ہے ایسا لگتا ہے ایک انسان مدتوں سے بیٹھا بس گھول رہا ہے اور اب اس کو ز ہر تھوکنے کا موقع ملا ہے.کوئی آدمی یہ خیال کر سکتا ہے کہ باقی مسلمانوں سے ان کو ہمدردی ہوگی ، حق پرست آدمی ہیں انہوں نے وہی کچھ کہہ دیا جو ان کو نظر آیا لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ باقی عالم اسلام کے متعلق ان کے خیالات کیا تھے اور ان کو شاید انہوں نے تبدیل بھی نہیں کیا، فرماتے ہیں: ایک حقیقی مسلمان ہونے کی حیثیت سے جب میں دنیا پر نگاہ ڈالتا ہوں تو مجھے اس امر پر اظہار مسرت کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ ترکی پر ترک، ایران پر ایرانی، افغانستان پر افغان حکمران ہیں.سیاسی کشمکش حصہ سوم با رسوم ورسائل و مسائل صفحه ۷۸ ) مولوی صاحب کے نزدیک اظہار مسرت تو تب ہوتا اگر وہاں ہندو حکمران ہوتے ، روسی ہوتے یا انگریز آکر وہاں لوگوں پر حکومت کرتے اگر ایسا ہوتا تو مولانا کو اظہار مسرت کی کوئی وجہ نظر آجاتی لیکن فرماتے ہیں میں کیسے خوشی کا اظہار کروں مجھے تو ترکی پر ترک حکمران نظر آ رہے ہیں افغانستان پر میں افغان حکمران دیکھ رہا ہوں اور اسی طرح ایران پر ایرانی حاکم بنے بیٹھے ہیں ، نہ وہ میری حکومت قبول کرتے ہیں نہ کسی اور ملک کی قبول کرتے ہیں میں کیسے خوش ہوسکتا ہوں اور پھر خود
خطبات طاہر جلدم 212 خطبه جمعه ۸ مارچ ۱۹۸۵ء ہی ایک عذر پیش کرتے ہیں اور یہ عذر دیکھیں کیسا عظیم الشان اسلامی عذر ہے فرماتے ہیں: مسلمان ہونے کی حیثیت سے میں حُكْمُ النَّاسِ عَلَى النَّاسِ لِلنَّاسِ کے نظریئے کا قائل ہی نہیں، مولانا صاحب کا مطلب یہ ہے کہ یہ جوڈیموکریسی کی تعریف کی ہے کہ: "Government of the People by the People For the People" اس کے متعلق کہتے ہیں میں اس کا قائل ہی نہیں اس لئے اب اسلامی ممالک میں جو اسلامی جمہوری حکومتیں قائم ہو گئی ہیں مجھے بڑی بری لگ رہی ہیں.یہ انہوں نے دلیل قائم کی ہے.پھر ان بیچاروں کی حیثیت کیا ہے جو اپنی اسلامی ممالک میں جمہوری حکومتیں قائم کر کے بیٹھ گئے ہیں تو خیال آتا ہے کہ شاید مولانا صاحب کا یہ مطلب ہو کہ چونکہ اسلامی ممالک کی جمہوری حکومتیں غیر مسلم ممالک کی جمہوری حکومتوں سے بہتر نہیں اس لئے انہیں پسند نہیں ہیں اور دلیل ان کے نزدیک شاید یہ ہو کہ غیر یعنی کافروں اور مشرکوں کی حیثیت مسلمانوں کے مقابل پر ادنی ہے مگر حکومتیں ان کی اعلیٰ جمہوری ہیں.لہذا ان اعلیٰ جمہوری حکومتوں کے مقابل پر مجھے مسلمانوں کی ادنی جمہوری حکومتیں پسند نہیں.یہ ایک حسن ظن ہے جو مودودی صاحب کے بیان سے پیدا ہوتا ہے لیکن یہ حسن ظن ان کی مندرجہ ذیل تحریر سے فورا ہی ختم ہو جاتا ہے جس میں وہ غیر مسلم اور مسلم دونوں کی حکومتوں پر یہ فتوی دیتے ہیں کہ : غیر مسلم اگر الضالین کے حکم میں ہیں تو یہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کی تعریف میں آتے ہیں (سیاسی کشمکش حصہ سوم، با رسوم صفحہ ۷۸) اور مصر کے متعلق مولا نا فرماتے ہیں: " آج مصر کے موجودہ فوجی آمر مظالم کے جو پہاڑ اخوان پر تو ڑ رہے ہیں اس نے فراعنہ قدیم کی یاد تازہ کر دی ہے.غرض مسلمان حکومتوں کے خلاف مودودی صاحب شدید غیظ وغضب رکھتے تھے.یہ ہیں مودودی صاحب کے خیالات جن کی جماعت اسلامی پیروی کرتی ہے اور آج بڑھ بڑھ کر باتیں
خطبات طاہر جلدم 213 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء کر رہی ہے اور جماعت احمدیہ پر جھوٹے الزامات لگائے جار ہے ہیں اور جماعت کو اسلامی ممالک سے بے وفائی کرنے کا الزام دیا جا رہا ہے مگر یہ سب کچھ تاریخ بتائے گی کہ مسلمان ممالک کے حق میں جماعت احمدیہ کا کردار کیا رہا ہے اور ہمیشہ کی طرح آج بھی کیا ہے اور کیا رہے گا.جماعت احمدیہ پر غداری کا معین طور پر ایک الزام یہ لگایا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ نے ہمیشہ غداری کی ہے مثلاً چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے کشمیر کے مفاد سے غداری کی ہے، جماعت احمدیہ نے کشمیر کے خلاف کوششیں کی ہیں.یہ بالکل الٹ قصہ ہے اور بہت بڑا جھوٹ اور بہتان ہے جس پر انہیں ذرا خوف خدا نہیں ہوا.چنانچہ جسٹس منیر نے اپنی انکوائری رپورٹ میں اس بات کو بطور خاص نوٹ کیا ہے اور مخالفین کی اس جسارت اور الزام تراشی پر حیرت کا اظہار کیا ہے کہ جو اول درجہ کے مجاہدین ہیں ان کو پاکستان کا دشمن اور غدار قرار دیا جارہا ہے.چنانچہ جہاں تک قیام پاکستان کے بعد کے واقعات کا تعلق ہے.یہ بات بالکل درست ہے اور یہ تاریخی حقیقت بھی ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ میں جماعت احمدیہ سے بڑھ کر اور کسی اسلامی جماعت نے کسی مذہبی جماعت نے ایسی شاندار خدمات سرانجام نہیں دیں چنانچہ رسالہ طلوع اسلام مارچ ۱۹۴۸ء چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے عظیم جہاد کا ذکر کرتا ہے جو مسئلہ کشمیر کے بارہ میں چوہدری صاحب نے کیا اور پھر خلاصہ لکھتا ہے: ر حسن اتفاق سے پاکستان کو ایک ایسا قابل وکیل مل گیا جس نے اس کے حق و صداقت پر مبنی دعوی کو اس انداز سے پیش کیا کہ اس کے دلائل اور براہین عصائے موسوی بن کر رسیوں کے ان تمام سانپوں کو نگل گئے اور ایک دنیا نے دیکھ لیا کہ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل بنا ہی اس لئے ہوتا ہے کہ حق کے مقابل پر میدان چھوڑ کے بھاگ جائے“ کل تک تم لوگ یہ کہہ رہے تھے اور آج احمد یوں کو غدار ٹھہرا رہے ہو! جسٹس منیر ، باؤنڈری کمیشن میں شامل تھے.چنانچہ ۱۹۵۳ء میں تحقیقاتی عدالت میں جب مخالفین سلسلہ کی طرف سے یہ سوال اٹھائے گئے کہ گورداسپور کے بارہ میں چوہدری صاحب نے یہ کہا، کشمیر کے معاملہ میں یہ کہا، فلسطین کے مسئلہ پر یہ کہا تو جسٹس منیر پوری تحقیق کے بعد لکھتے ہیں:
خطبات طاہر جلدم 214 خطبہ جمعہ ۸ مارچ ۱۹۸۵ء چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے مسلمانوں کی نہایت بے غرضانہ خدمات سرانجام دیں اس کے باوجود بعض جماعتوں نے عدالتی تحقیقات میں ان کا ذکر جس انداز میں کیا ہے وہ قابل شرم ناشکرے پن کا ثبوت ہے.(منیر انکوائری رپورٹ صفحه ۲۰۹) جب کشمیر کی آزادی کی جد و جہد ہو رہی تھی اس وقت سب سے پہلے کشمیر کی طرف توجہ دینے والے جماعت احمدیہ کے امام تھے.آپ ہی نے کشمیر کے جہاد کا آغاز کیا.آپ کی آواز پر جماعت احمدیہ کے جوان بھی اور بوڑھے بھی، تجربہ کار بھی اور نا تجربہ کار بھی اس جہاد میں شامل ہوئے.ان کو ہتھیار مہیا کئے گئے اور پیسوں سے مدد کی گئی اور آر گنائزیشن یعنی نظام قائم کر کے دیا گیا.اب یہ تاریخی حقائق ہیں جن کو مخالفین احمدیت جس طرح بھی چاہیں اور جتنی بھی کوششیں کریں نظر انداز نہیں کر سکتے اس تاریخ کو مٹا نہیں سکتے.اور جس وقت پاکستان کی طرف سے آزادی کشمیر کی با قاعدہ کوششیں ہورہی تھیں یا اپنے طور پر آزاد فورس کی طرف سے جو کوششیں ہورہی تھیں تو اس وقت ان پر جماعت اسلامی کی طرف سے شدید فتوے لگ رہے تھے اور یہ اعلان کیا جارہا تھا کہ یہ جہاد نہیں ہے، اس میں اس خیال سے شامل نہ ہو جانا کہ یہ جہاد ہے، تم اس کا جو مرضی نام رکھ لو اس کو جہاد نہیں کہہ سکتے.یعنی ایک مظلوم ملک جہاں مسلمانوں کی زندگی اور موت کا سوال ہو جن کی حفاظت کے لئے اردگرد کے تمام مسلمان ممالک بھی حرکت میں آگئے ہوں اور جہاں تک بس میں تھا وہ ان کی حفاظت میں کوشاں ہوں وہاں ان کے متعلق جماعت اسلامی کا یہ فتویٰ شائع ہور ہا تھا کہ ہرگز اس کے قریب نہ پھٹکو، یہ جہاد نہیں ہے.اس وقت جماعت احمدیہ نے فرقان فورس قائم کی.یہ جماعت احمد یہ ہی تھی جس نے ایک پوری بٹالین دی ہے اپنے خرچ پر دشمن سے لڑنے کے لئے.بعد میں اس بٹالین کو حکومت نے با قاعدہ تسلیم کر کے اپنایا اور پھر جب با قاعدہ جنگ شروع ہوئی تو اس بٹالین نے بڑے کار ہائے نمایاں سرانجام دیئے.اس بٹالین میں اس وقت ایسے ایسے نوجوان بھی شامل تھے جو اپنی ماؤں کے اکلوتے بیٹے تھے اور تاریخی طور پر ایسے واقعات محفوظ ہیں کہ جب حضرت مصلح موعود نے آزادی کشمیر کے لئے مسلح جدوجہد کی تحریک فرمائی تو بعض دیہات میں توجہ پیدا نہ ہوئی.وہ سمجھتے تھے کہ یہ ایک عام سی تحریک ہے اس میں حصہ لینے سے کیا فرق پڑتا ہے.کوئی مذہبی تحریک ہو یا جماعت.
خطبات طاہر جلد۴ 215 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء کی خدمت کا سوال ہو تو ہم حاضر ہیں لیکن جہاں تک کشمیر کی تحریک کا تعلق ہے تو دوسرے سارے مسلمان موجود ہیں وہ جد و جہد کرتے رہیں گے لیکن حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ کو اس طرف بڑی توجہ تھی جب گاؤں میں سے کسی نے نام پیش نہ کیا تو جو آدمی پیغام لے کر گیا تھا اس نے کہا تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کو اس کی کتنی فکر ہے، میں حضور کا پیغام لے کر آیا ہوں کہ اٹھو اور عالم اسلام کی خاطر قربانیاں پیش کرو.اس وقت وہ جو پیغام لے کر گئے تھے کہتے ہیں کہ ایک خاتون کھڑی ہوئیں اور کہا میں تو حیران ہوگئی ہوں، میں تو غیرت سے کئی جارہی ہوں کہ خلیفہ وقت کا پیغام ہو اور تم لوگ خاموش بیٹھے ہو.میرا ایک بیٹا ہے میں اسے پیش کرتی ہوں اور اس دعا کے ساتھ پیش کرتی ہوں کہ خدا اس کو شہید کر دے اور مجھے پھر اس کا منہ دیکھنا نصیب نہ ہو.یہ غیر تیں دکھائی تھیں احمدی ماؤں نے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے اس کا اپنی تقریر میں ذکر کیا اور فرمایا کہ.......دیکھو جب میرے کانوں میں وہ آواز پہنچی تو خدا کی قسم میرے دل سے یہ آواز اٹھی کہ اے خدا! اگر اس کے بیٹے کی شہادت تو نے مقدر کر دی ہے تو میں التجا کرتا ہوں کہ میرے بیٹے لے لے اور اس ماں کا بیٹا سے واپس کر دے.یہ وہ جذبے تھے جماعت احمدیہ کے افراد کے جن کے ساتھ آزادی کشمیر کا جہاد کیا گیا ہے تم لوگ آج آئے ہو اور باتیں کر رہے ہو.تمہارے بیٹے اس وقت کہاں تھے، کہاں تھے عطاء اللہ شاہ بخاری کے بیٹے ، کہاں تھے مولوی مودودی کے بیٹے اور ان کے لگے بندھے.یہ تو جہاد کے میدانوں سے کوسوں دور بیٹھے تھے.میدان جہاد میں نکلتے ہوئے ان کو کبھی کسی نے نہیں دیکھا.حضرت مصلح موعود نوراللہ مرقدہ نے جہاد کا صرف اعلان کرنے پر اکتفا نہیں فرمایا بلکہ عملاً اپنے بیٹے محاذ کشمیر پر بھیج دیئے اور انہوں نے محاذ جنگ پر انتہائی تکلیفیں اٹھائیں.کوئی پچھوں کا مریض ہوا، کوئی فاقوں کی وجہ سے نڈھال ہو گیا.لیکن حضرت مصلح موعودؓ نے شدید بیماریوں کے عذر پر بھی ان کو واپس نہیں آنے دیا.مجھے یاد ہے بعض بچوں نے انتہائی تکلیف کا اظہار کیا ان کا بہت برا حال تھا ، حالات بڑے نامساعد تھے، بعض کو خون کی پیچیش لگی ہوئی تھی.انہوں نے لکھا کہ ہمیں واپس آنے کی اجازت دیں.حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ نہیں تم جس حالت میں ہو تم نے وہیں رہنا ہے اور ملک وملت کی خدمت کرنی ہے.چنانچہ اس وقت ان حالات میں جماعت احمدیہ کی ان بے لوث خدمات کو دیکھ کر
خطبات طاہر جلدم 216 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء بعض غیر احمدی خدا ترس لوگوں نے بھی اس بات کو محسوس کیا ہے اور گواہیاں دی ہیں جو ہمارے پاس موجود ہیں.ایک صاحب حکیم احمد دین صدر جماعت المشائخ سیالکوٹ نے اپنے رسالہ ” قائداعظم“ بابت ماہ جنوری ۱۹۴۹ء میں لکھا: اس وقت تمام مسلم جماعتوں میں سے احمدیوں کی قادیانی جماعت نمبر اول پر جا رہی ہے.وہ قدیم سے منظم ہے، نماز روزہ وغیرہ امور کی پابند ہے.یہاں کے علاوہ ممالک غیر میں بھی اس کے مبلغ احمدیت کی تبلیغ میں کامیاب ہیں.قیام پاکستان کے لئے مسلم لیگ کو کامیاب بنانے کے لئے اس کا ہاتھ بہت کام کرتا تھا.جہاد کشمیر میں مجاہدین آزاد کشمیر کے دوش بدوش جس قدر احمدی جماعت نے خلوص اور درد دل سے حصہ لیا ہے اور قربانیاں کی ہیں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی کسی دوسری جماعت نے بھی ابھی تک ایسی جرات اور پیش قدمی نہیں کی.ہم ان تمام امور میں احمدی بزرگوں کے مداح اور مشکور ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ملک وملت اور مذہب کی خدمت کرنے کی مزید توفیق بخشے“.اور اس وقت افواج پاکستان کے جو کمانڈر انچیف تھے انہوں نے فرقان فورس کو نہایت ہی شاندار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا اور فرقان بٹالین کے نوجوانوں کو ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا جس میں ان کی خدمات کا شاندار الفاظ میں ذکر کیا.یہ ایک لمبا سرٹیفکیٹ ہے اس میں سے دو اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.انہوں نے لکھا: " آپ کی بٹالین زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے رضا کاروں پر مشتمل تھی ( جیسا کہ میں نے بتایا ہے سب رضا کاراپنے خرچ پر فوجی خدمات سرانجام دے رہے تھے کوئی تنخواہ دار نہیں تھا ) اس میں نو جوان ، کسان، طلبہ، استاد اور کاروباری لوگ سب کے سب پاکستان کے جذبہ سے سرشار تھے.آپ نے رضا کارانہ طور پر بے لوث جان کی قربانی پیش کی کوئی معاوضہ طلب نہ کیا اور نہ ہی کسی شہرت کی تمنا کی.کشمیر میں ایک اہم محاذ آپ
خطبات طاہر جلدم 217 خطبہ جمعہ ۸ مارچ ۱۹۸۵ء کے سپرد کیا گیا تھا ہمیں آپ پر جو اعتماد تھا اسے آپ نے بہت جلد پورا کر دکھایا.جنگ میں دشمن کی بہت بھاری بڑی اور ہوائی طاقت کے مقابل پر آپ نے اپنی زمین کا ایک انچ بھی دیئے بغیر اپنی ذمہ داری کو احسن طور پر نبھایا.“ یہ ہے آج کی حکومت کے نزدیک پاکستان اور اسلام اور اسلامی ممالک کے غداروں کی کہانی ہم بھی تو پھر ایسے غدار پیدا کر کے دکھاؤ.پھر یہ بھی عجیب بات ہے اور بڑی احسان فراموشی ہے اس لحاظ سے کہ فوجی حکومت کو کم سے کم اپنے فوجیوں کا تو لحاظ کرنا چاہئے.خصوصاً ان فوجیوں کا جنہوں نے ستارہ قائد اعظم اور ہلال جرات جیسے عظیم اعزاز کئے ہیں اور جن کی داستان شجاعت پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف سے رقم ہے.لیکن افسوس ہے کہ احمدیت کی دشمنی میں ملک و ملت کی خاطر بے مثال قربانیاں پیش کرنے والوں کا نام بھی آج ذلیل کیا جا رہا ہے اور دو دو کوڑی کے اخباروں میں دو کوڑی کے آدمیوں سے مضامین لکھوائے جارہے ہیں کہ گویا یہ سارے غدار تھے.لیکن ان کے متعلق کل تک کیا کہہ رہے تھے، یہ تاریخی حقائق ہیں وہ بھی ذرا سن لو.جنرل اختر حسین ملک اور جنرل عبدالعلی ملک اور ہمارے دوسرے جرنیلوں اور فوجیوں کے متعلق رسالوں میں ایسے ایسے بیہودہ مضامین لکھوائے جارہے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے کہ مخالفت میں کس قدر پاگل ہو رہے ہیں.چنانچہ جنرل (ریٹائرڈ) سرفراز خان ہلال جرأت جو افواج پاکستان میں ایک بڑا مقام رکھتے ہیں اب تو وہ بہت دیر سے ریٹائر ہو چکے ہیں وہ اپنی یاد داشتوں کی بناء پر پاکستان اور ہندوستان کی جنگوں پر تبصرہ کرتے ہوئے اخبار ” جنگ لاہور ۶ /ستمبر ۱۹۸۴ء صفحہ ۳ کالم نمبر ۶ ، ے میں لکھتے ہیں: ” جس ہنر مندی سے اختر ملک نے چھمب پر اٹیک کیا اسے شاندار فتح کے علاوہ کوئی دوسرا نام نہیں دیا جاسکتا.وہ اس پوزیشن میں تھے کہ آگے بڑھ کر جوڑیاں پر قبضہ کر لیں کیونکہ چھمب کے بعد دشمن کے قدم اکھڑ چکے تھے اور وہ جوڑیاں خالی کرنے کے لئے فقط پاکستانی فوج کے آگے بڑھنے کے انتظار میں تھے.مگر ایسے نہیں ہونے دیا گیا کیونکہ پکی پکائی پر یحیی خان کو بٹھانے اور
خطبات طاہر جلدیم 218 خطبه جمعه ۸ مارچ ۱۹۸۵ء کامیابی کا سہرا ان کے سر باندھنے کا پلان بن چکا تھا.لیکن نقصان کس کا ہوا بھارت کو مکمل شکست دینے کا موقع ہاتھ سے نکل گیا“.6 یہ ہیں احمدی غدار! اور ” جنگ ۱۶ار فروری ۱۹۸۳ ء نے اپنے ذرائع سے یہ خبر دی ہے اور اس موضوع پر پاکستان کے مختلف اخباروں میں جو کچھ شائع ہوتا رہا ہے یہ سب کچھ پیش کرنے کا وقت نہیں ہے.میں مختصراً ان اخباروں وغیرہ کا نام لے دیتا ہوں.اخبار ”جنگ“ لاہور • ار ستمبر ۱۹۸۴ء، ماہنامہ ’حکایت اپریل ۱۹۷۳ء، رسالہ ”الفتح ، ۲۰ / فروری ۱۹۷۶ء اخبار ”جنگ“۱۲ار اپریل ۱۹۸۳ء، میں یہ واقعات بڑی تفصیل سے درج ہیں.اسی طرح ” مکتبہ عالیہ ایک روڈ لاہور کی شائع کردہ کتاب ”وطن کے پاسبان میں اسلام کے ان پاکستانی احمدی بہادروں کے شجاعت و جوانمردی کے کارنامے مذکور ہیں جو ایک احمدی کے جذبہ حب الوطنی اور وطن عزیز کی خاطر قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہیں لیکن بہر حال ”جنگ“ ۱۶ / فروری ۱۹۸۳ء یہ بتا رہا ہے کہ ہندوستان کو جنرل اختر حسین ملک سے ایسا شدید خطرہ تھا کہ وزیر اعظم شاستری نے بھارتی فضائیہ کے سربراہ کو خود حکم دیا کہ میجر جنرل اختر حسین ملک کسی صورت میں بھی بچنے نہ پائے.یہ تو بہت پرانا اخبار نہیں ہے صرف دو سال پہلے کا اخبار ہے.شورش کا شمیری جس نے ساری زندگی جماعت احمدیہ کی مخالفت میں ضائع کی اس کے دل کا حال سنئے.جب احمدی لڑتا ہے میدان میں جا کر اسلام کے لئے ، یا مسلمانوں کے لئے یا اپنے وطن کے لئے تو اتنا پیارا لگتا ہے اور ایسا نمایاں ہوتا ہے اس میدان میں کہ دشمن بھی اس وقت واہ واہ کرنے پر مجبور ہو جایا کرتے ہیں.بعد میں وہ بے شک گالیاں دیتے رہیں........لیکن جو دل کی آواز ہے، جو صداقت کا کلام ہے وہ تو دل سے بے اختیار نکل آتا ہے.تو شورش کا شمیری نے اس وقت جب جنرل اختر ملک کے کارنامے دیکھے تو وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گیا.دہلی کی سر زمین نے پکارا ہے ساتھیو اختر ملک کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلو گنگا کی وادیوں کو بتا دو کہ ہم ہیں کون جمنا یہ ذوالفقار چلاتے ہوئے چلو چٹان لاہور 13 ستمبر 1965ء)
خطبات طاہر جلدم 219 خطبہ جمعہ ۸ مارچ ۱۹۸۵ء جب میدان کارزار گرم تھا اس وقت شورش کا شمیری کو اور کوئی جرنیل نظر نہیں آیا جس کا ہاتھ بٹاتے ہوئے چلنے کا کہتا.جس کو دہلی کی زمین نے پکارا یہ احمدی ماں کا بیٹا تھا.یہ احمدی سپوت تھا جو اس وقت اس معاند احمدیت کو میدان کارزار میں نظر آ رہا تھا.اختر ملک تو بیچارے فوت ہو چکے ہیں مخالفین کو اتنا بھی احساس نہیں ہے کہ ان کے مزار کو پیٹ رہے ہیں حالانکہ وہ تو پاکستان کا ایک عظیم الشان محب وطن جرنیل تھا جس کی قابلیت کا لوہا دنیا مانتی تھی.رہے جنرل عبدالعلی ملک تو وہ تو ایک ریٹائر ڈ زندگی بسر کر رہے ہیں لیکن جب وہ اسلامی ملک کی اسلامی حکومت کے ان چیتھڑوں کو یہ کہتے ہوئے سنتے ہوں گے کہ وہ انہیں پاکستان کے غدار اور اسلامی ممالک کا دشمن قرار دے رہے ہیں تو ان کے دل پر کیا گزرتی ہوگی.یہی عبدالعلی ملک ہیں جو کل تک تمہارے ہیرو تھے.جب سارے چونڈہ کو خطرہ تھا چونڈہ ہی کو نہیں سارے سیکٹر کو زبر دست خطرہ لاحق تھا اور ان کے بالا جرنیل ان کو حکم دے رہے تھے کہ تم کسی صورت دفاع نہیں کر سکتے پیچھے ہٹ جاؤ مگر یہی جنرل عبدالعلی ملک تھے جو یہ کہہ رہے تھے کہ اگر میں پیچھے ہٹ گیا تو پھر پاکستانی افواج کو راولپنڈی تک کوئی پناہ نہیں ملے گی اس لئے اگر مرنا ہے تو ہم یہیں مریں گے ہم ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے.اس وقت جب اللہ تعالیٰ نے فتح عطا فرمائی تو فوج کے لوگ ہی نہیں بڑے بڑے علماء اور مشائخ بھی بول اٹھے کہ اس کو کہتے ہیں مرد میدان اور یہ ہے جہاد.چنانچہ الحاج مولانا عرفان رشدی صاحب داعی مجلس علمائے پاکستان اپنی کتاب معرکہ حق و باطل کے صفحہ ۳ے پر لکھتے ہیں : کر رہا تھا غازیوں کی جب کماں عبدالعلی تھا صفوں میں مثل طوفان رواں عبدالعلی کل تک تو عبد العلی مثل طوفان رواں تھا آج تمہاری رگوں میں جھوٹ مثل طوفان جاری ہوگیا ہے.کوئی احساس نہیں ہے، کوئی ندامت نہیں ہے.کوئی خیال نہیں ہے کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں، کس کے خلاف باتیں بنارہے ہیں.اب مسئلہ فلسطین کا قصہ سن لیجئے اس کے متعلق تو بہت سارا مواد ہے میرا خیال ہے اس خطبہ میں ختم کرنا مشکل ہوگا.مگر بنیادی طور پر میں اس مسئلہ کا تعارف کروا دیتا ہوں.جماعت احمدیہ کے خلاف غداری کے دو قسم کے الزامات عائد کئے گئے ہیں ایک یہ کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی
خطبات طاہر جلد۴ 220 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء وجہ سے مسئلہ فلسطین تباہ ہوا، انہوں نے اس مسئلہ کو سبوتاژ کر دیا اور اگر چوہدری صاحب کی بجائے کوئی اور ہوتا تو پھر وہاں کا میابی ہو سکتی تھی.گویا اسلامی مفاد کے ساتھ عمدا اور شرار تا غداری کی ہے اور دوسرا الزام یہ ہے کہ احمدی تو اسرائیل کے وفادار ہیں.چھ سو احمدی اس وقت اسرائیل کی فوج میں ان کی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور وہ جو چھ سو ہیں وہ گزشتہ دس پندرہ سال سے چھ سو کے چھ سو ہی چلے آرہے ہیں کسی لڑائی میں نہ وہ مرتے ہیں نہ دنیا سے کوچ کرتے ہیں اور نہ وہ کسی ذریعہ سے بڑھتے ہیں بس وہ ویسے کے ویسے چلے آرہے ہیں اور اسی ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ وہاں احمد یہ مشن ہے اس لئے احمدی لازماً اسرائیل کے ایجنٹ ہیں.یہ ہے خلاصہ احمدیت کے خلاف ان اعتراضات کا جو اسرائیل کا ایجنٹ ہونے کے بارہ میں کئے جاتے ہیں.اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو یہ دیکھنا چاہئے کہ مشن کس کو کہتے ہیں.مخالفین احمدیت کو اس بات کا بھی پتہ نہیں کہ مشن کس چیز کا نام ہے.انہوں نے ” جماعت احمدیہ کے تبلیغی مشن نامی کتاب میں سے لفظ مشن پڑھا ہے اور اعتراض کرنا شروع کر دیا ہے.وہ یا خود دھوکے میں ہیں یا دنیا کو دھوکا دے رہے ہیں کہ گویا جس طرح حکومتوں کے قائم کردہ سیاسی مشن ہوتے ہیں اسی قسم کا کوئی مشن ہے.جب کہ عوام الناس بیچاروں کو تو پتہ ہی نہیں لگتا کہ بات کیا ہو رہی ہے سادہ لوحی میں وہ بات سنتے ہیں اور حیرت سے دیکھتے ہیں کہ سارے عالم اسلام نے اسرائیل سے قطع تعلق کر رکھا ہے مگر احمدیوں کا وہاں مشن قائم ہے.اس طرح گویا با قاعدہ سفارتی تعلقات ہیں.بھئی جن کی حکومت ہی کوئی نہیں ان کے سفارتی تعلقات کیسے ہو سکتے ہیں.جماعت احمدیہ کے اس مشن سے مراد تبلیغی مشن ہے، مشن سے مراد اسلام کی طرف سے یہودیت کے خلاف حملہ آور مشن ہے.یہ ایک ایسا مشن ہے جو بڑی جرأت اور دلیری کے ساتھ باطل کے خلاف ایک جہاد کر رہا ہے اور یہودیوں کو مسلمان بنانے کا کام کر رہا ہے.تم کیوں خدا سے یہ دعا نہیں مانگتے کہ تمہیں بھی توفیق ملے کہ ایسے مشن بناؤ.پس معترضین کو کوئی علم نہیں، کچھ پتہ نہیں موقع کونسا ہے ، کس رنگ میں بات ہو رہی ہے، کیا کہا جارہا ہے، بس ایک عوامی ہلڑ بازی کا پیشہ ہے جسے اختیار کرنے والوں نے اختیار کر رکھا ہے.بعض اصطلاحیں گھڑی ہوئی ہیں ان کو عوام الناس میں پھیلاتے رہتے ہیں.بعض جھوٹ تراش لئے ہیں مسلمان عوام بیچارے بالکل سادگی میں ان پر یقین کر لیتے ہیں اور مجھے ایک بات کی خوشی بھی ہوتی ہے کیونکہ اس
خطبات طاہر جلدم 221 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ مسلمان عوام میں اسلام کی محبت ضرور ہے اور وہ لوگ ظالم ہیں جنہوں نے اس محبت کا رخ غلط طرف موڑ دیا ہے.اگر عوام کو اسلام سے محبت نہ ہوتی تو مولویوں کے اکسانے پر وہ کبھی بھی جماعت احمدیہ کی مخالفت نہ کرتے.اس لئے اب ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم اسلام سے محبت کرنے والے لوگوں سے رابطہ کریں اور ان کو بتائیں کہ اصل واقعات کیا ہیں.خودان تک پہنچیں اور اس بات کو بھول جائیں کہ علماء کیا کہ رہے ہیں اور ہم پر کیا کیا مظالم توڑ رہے ہیں........مسلمان عوام تک براہ راست پہنچنا ضروری ہے کیونکہ جہاں اسلام کی محبت ہے وہاں خدا تعالیٰ نے ضرور بھلائی رکھ دی ہوئی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اسلام کی محبت رکھنے والوں کو خدا تعالیٰ کبھی ضائع کر دے.اس لئے مجھے کامل یقین ہے کہ پاکستان کے مسلمان عوام ہوں یا انڈونیشیا کے ملائشیا کے ہوں یا عرب میں بسنے والے، افریقی ممالک میں زندگی گزار رہے ہوں یا کہیں اور ، اگر ان کو جماعت احمدیہ کے بارہ میں حقائق بتا دیے جائیں تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ متاثر نہ ہوں.وہ لازماً اس کی طرف ہوں گے جس کی طرف اسلام ہوگا ، وہ لازماً اس کی طرف ہوں گے صلى الله جس کی طرف قرآن ہوگا ، وہ لازماً اس کی طرف ہوں گے جس کی طرف محمد رسول اللہ ﷺ ہوں گے.وہ صداقت کی تائید کریں گے کیونکہ اس وقت وہ اپنی طرف سے محبت اسلام کی وجہ سے آپ کے دشمن ہورہے ہیں.ان کے سامنے آپ کی شکل ایسی پیش کی جارہی ہے کہ گویا آپ اسلام کے دشمن ہیں.ان کو یہ کہا جاتا ہے کہ دیکھو! احمدیوں نے اسرائیل میں مشن بنا دیا ہے اور اس سے ان کا اسرائیل کا ایجنٹ ہونا ثابت ہو گیا ہے.اول تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں ، نہایت ہی احمقانہ بات ہے، روس میں پاکستان کا مشن ہے تو کیا پاکستان روس کا ایجنٹ ہے.امریکہ میں پاکستان کا مشن ہے اسی طرح انگلستان میں ہے اور دنیا کے کتنے ممالک میں مشن ہیں تو کیا پاکستان ان سب ممالک کا ایجنٹ بنتا چلا جائے گا ؟ پس جیسا کہ میں نے بتایا ہے اول تو اسرائیل میں ہمارا وہ مشن ہے ہی نہیں جو ایک ملک دوسرے ملک میں حکومتی سطح پر قائم کرتا ہے لیکن اگر ہوتا بھی ، تب بھی ایک نہایت جاہلانہ نتیجہ نکالا جارہا ہے کیونکہ کوئی یہ نہیں بتاتا کہ احمدی اسرائیل میں کیا ظلم کر رہے ہیں اور کیا اسکنٹی کر رہے ہیں.آج تک احمدیوں کے خلاف کوئی ایسا الزام ثابت نہیں کر سکتے کہ جماعت نے ایک دمڑی کی امداد بھی کسی
خطبات طاہر جلدم 222 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء بیرونی طاقت سے لی ہو.نہ ہی خدا کے فضل سے جماعت کسی ایسی امداد کی محتاج ہے.سوال یہ ہے کہ پھر جماعت کی وہ کیا حرکتیں ہیں اور کیا بے وفائیاں ہیں اور کیا قصے ہیں وہ تو ذرا بتاؤ اور اپنے تاریخ دانوں کے لکھے ہوئے واقعات تو پڑھو کہ جماعت احمد یہ آپ سے کیا بے وفائیاں کرتی رہی ہے.تم شدھی کے کارزار کو یاد کرو، کشمیر کی وادیوں کو یاد کرو، اس محاذ کو یا دکر و جہاں ہندوستان اور پاکستان کی لڑائیوں میں ہمیشہ احمدیوں نے پاکستان کی خاطر بڑھ چڑھ کر جانیں دی ہیں.کشمیر کے محاذ کو یاد کرو جہاں چھوٹے بچے اور جوان اور بوڑھے اور زمیندار اور طلبہ ہر قسم کے احمدی اپنے خرچ پر ا کٹھے ہوئے تھے وطن کی خاطر اپنی جان دینے کے لئے ، اس سے کچھ لینے کے لئے نہیں.کیا یہ ہیں غداریاں ؟ ان سے اسرائیل کو کیا فائدہ پہنچے گا، ایسے لوگوں کی طاقت بڑھانے سے اسرائیل کو کیا ہاتھ آ سکتا ہے.غدار کون ہیں یہ بات میں آگے چل کر کھولوں گا پھر آپ کو سمجھ آئے گی کہ اصل میں غدار کون ہیں اور وہ کون ہے جو غیروں کی اکنٹی کر رہا ہے.بہر حال یہ عجیب و غریب اعتراض ہے جو دشمن نے ہمارے خلاف اٹھایا ہوا ہے.کہتے ہیں احمدیوں نے اسرائیل میں مشن کھولا ہوا ہے اور کسی کی اس بات پر نظر نہیں کہ اسرائیل تو ابھی بناہی نہیں تھا جب فلسطین میں خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ کی شاخ قائم ہو چکی تھی اور اب تک قائم ہے اور جہاں جہاں جماعتیں قائم ہیں وہاں ہمارامشن ہے، وہاں ہمارے مبلغین کام کر رہے ہیں اور جماعت کی تربیت کر رہے ہیں.پھر یہ بھی تو دیکھیں کہ اسرائیل میں دوسرے مسلمانوں کی مساجد بھی تو ہیں جن میں کئی عالم دین مقرر ہیں اور یہ بھی تو دیکھیں کہ کتنے مسلمان فرقے فلسطین کے اس علاقے میں بستے ہیں جو یہودیوں کے قبضہ میں ہیں اور ہر فرقے کی اپنی مسجدیں ہیں ، اپنے امام ہیں اور اسی کا نام مشن ہے.تو اگر سارا عالم اسلام ہی ایجنٹ بن گیا تو پھر احمدی بیچاروں کے ایجنٹ بننے سے کیا فرق پڑتا ہے ، تاہم فلسطین میں یہودیوں کی حکومت قائم ہونے کے بعد جماعت احمدیہ کا کوئی مشن بھی وہاں قائم نہیں ہوا.یہ بالکل جھوٹ ہے کہ کوئی نیا مشن قائم کیا گیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ سب سے پہلے ۱۹۲۴ء میں جماعت احمدیہ کی طرف سے وہاں مبلغ بھیجے گئے.پھر ۱۹۲۸ء میں جماعت احمدیہ کا با قاعدہ تبلیغی مشن قائم ہوا اور اسرائیل کی حکومت تو غالبا ۱۹۴۸ء میں قائم ہوئی ہے.پس ۲۴ سال پہلے سے جس ملک میں احمدی خدا کے فضل سے آباد تھے اور ایک فعال
خطبات طاہر جلدم 223 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء جماعت قائم ہو چکی تھی وہاں مبلغ بھیجنے کا نام مخالفین کے نزدیک اسرائیل کی ایجنٹی.ہے.ہمارے ایک فلسطینی احمدی دوست ابراہیم صاحب جو کبابیر کی جماعت سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے جب حالیہ واقعات سنے کہ ساری دنیا میں شور پڑا ہوا ہے کہ احمدی اسرائیل کے ایجنٹ ہیں تو انہوں نے کہا فلسطین کے علماء کو تو اس بات کا پتہ ہی نہیں، پاکستان عجیب ملک ہے جو ساری دنیا میں شور مچا رہا ہے لیکن یہ بات عربوں کو نہیں بتا رہا.چنانچہ انہوں نے فلسطین کے تمام چوٹی کے مسلمان رہنماؤں سے ملاقات کی اور ان کو بتایا کہ یہ ظلم اور اندھیر ہورہا ہے، ہمارے متعلق یہ الزام لگ رہا ہے کہ ہم اسرائیلی فوج میں ملازمت کر رہے ہیں اور اسرائیل کے ایجنٹ ہیں.چنانچہ ان مسلم زعماء نے تحریریں دیں اور مہریں لگا کر دیں اور کہا کہ ہم اجازت دیتے ہیں بے شک ان کو جہاں مرضی شائع کرو.وہ بڑے خدا پرست لوگ ہیں اور حق بات کہنے سے بالکل نہیں گھبرائے.ان کے خطوط تو بہت لمبے ہیں میں ان کا خلاصہ پڑھ دیتا ہوں.انہوں نے اعتراف کیا ہے کہ جماعت احمد یہ ایک مسلمان جماعت ہے، ایک خدا کو مانتی ہے، خاص دینی اور اسلامی امور سے تعلق رکھتی ہے.سیاست سے اس کا کوئی تعلق نہیں ، بہت شریف اور معزز لوگ ہیں معاشرتی اور اخلاقی لحاظ سے کسی سے کم نہیں ، سب کو محبت اور پیار کی نظر سے دیکھتے ہیں، دینی تعلیمات کی حفاظت کرتے ہیں.جماعت احمدیہ کے افراد خصائل حمیدہ اور اخلاق حسنہ سے مزین ہیں ، یہ قابل قدر سچی اور محب وطن جماعت ہے اور اسرائیل کی فوجی کارروائیوں اور عسکری مہمات میں حصہ نہیں لیتی ، قانون کا احترام کرتی ہے اور دنیوی لہو ولعب سے دور رہتی ہے.یہ ہیں اسرائیل کے مقبوضہ فلسطین میں بسنے والے مسلمان مشاہیر کے سرٹیفکیٹ اور ان پر عکا اور حیفہ کے شرعی قاضی محمد عبد العزیز ابراہیم ، نمیر حسین میر آف شفا، عامر حمیر درویش چیئرمین لوکل کونسل، محمد وتد ممبر پارلیمنٹ ، محمد خالد مسار و ایڈووکیٹ ، فتح تورانی سیکرٹری مسلم انویٹیشن کمیٹی محمود مصالح ہیڈ ماسٹر ہائی سکول ، سامی مرعی یو نیورسٹی آف حیفہ کے لیکچرار کے دستخط ہیں.ہمارے دوست ابراہیم صاحب نے بڑی حکمت سے ہر طبقہ زندگی کے حوالے اکٹھے کر دیئے ہیں.اس سلسلہ میں ایک دفعہ میں نے بھی ایک کتاب کا جواب دیتے ہوئے جس کا عنوان تھا،
خطبات طاہر جلدم 224 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء ”ربوہ سے تل ابیب تک مخالفین سے کہا تھا کہ تم علماء ہو خدا کا خوف کرو.تم کہتے ہو چھ سواحمدی اسرائیل کی فوج میں ملازم ہیں.پہلے یہ بتاؤ کہ تمہیں یہود کے کس ایجنٹ نے یہ خبر دی ہے؟ تمہیں اس بات کا پتہ کہاں سے لگا ہے اور ان میں سے کسی ایک کا نام بتا دو.میں نے کہا چھ سوکا نہ سہی ساٹھ کا ، ساٹھ کا نہیں تو چھ کا نام بتادو چھ کا نہیں بتا سکتے تو ایک احمدی کا نام بتادو جو پاکستان یا بیرون پاکستان کسی ملک کا احمدی ہو جس نے اسرائیل میں فوجی ملازمت کی ہے لیکن آج تک کوئی ایک نام بھی پیش نہیں کر سکے ، ہے ہی کوئی نہیں اور فرضی نام بتا نہیں سکتے کیونکہ بتائیں تو محلے کا نام اور پتہ بتا نا پڑے گا ،جگہ بتانی پڑے گی.اس کے مطابق ہر آدمی دیکھ سکتا ہے کہ اس نام کا کوئی آدمی ہے یا نہیں.یہ کوئی ریفرنڈم تو نہیں کہ فرضی نام بنا لو گے اور نہ صرف یہ بلکہ فوت شدہ لوگوں کے بھی ووٹ ڈلوا دو گے.اگر اسرائیل کی فوج میں احمدی ملازم ہیں تو دکھانے پڑیں گے کہ وہ کون کون سے احمدی ہیں.جہاں تک اسلام اور فلسطین کے مسلمانوں کے مفاد کے ساتھ جماعت احمدیہ کی وفا داری کا تعلق ہے یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں اور نہ یہ آج کی بات ہے.تمہیں تو ہوش ہی نہیں تھا اور فلسطین کے نام کا بھی کچھ زیادہ علم نہ تھا جب جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے فلسطین کے اسلامی مفادات کے ساتھ ایک گہرا تعلق رکھتی تھی.جماعت احمدیہ کے خلفاء مسلمانان فلسطین کو ہر خطرہ کے وقت متنبہ کرتے تھے اور ان کو آگاہ رکھتے تھے اور ان کی ہر ممکن خدمت کے لئے جماعت احمدیہ کو پیش کیا کرتے تھے اور یہ تو پارٹیشن سے پہلے کے قصے چلے آرہے ہیں یہاں تک کہ تمہارے احراری اخباروں نے بھی ان باتوں کو تسلیم کیا ہوا ہے.وہ اپنے مونہوں سے کہہ گئے ہیں اور اپنے قلم سے یہ بات لکھ گئے ہیں کہ : اہل اسلام اور عالم اسلام کے ساتھ جو محبت قادیان کے مرزا محمود احمد صاحب نے دکھائی ہے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے “.جواخبار جماعت احمدیہ کی مخالفت کے لئے وقف ہوں ان کی طرف سے اتنی نفرتوں کے باوجود جب حق کی آواز نکلتی ہے تب مزہ آتا ہے بات کا.اس کو ثبوت کہتے ہیں.چنانچہ اس کا ایک حوالہ میں پڑھ کر سنا دیتا ہوں.مجلس احرار کا ایک اخبار ” زمزم“ ہوا کرتا تھا جو جماعت کی مخالفت کے لئے وقف تھا
خطبات طاہر جلدم 225 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء بایں ہمہ تقسیم ملک سے پہلے جب مصر کے بعض مفادات کو خطرہ لاحق ہوا تو حضرت مصلح موعود نور اللہ مرقدہ نے اس کے متعلق جو جد و جہد فرمائی اس سے متاثر ہوکر یہ احراری اخبار اپنی ۱۹ جولائی ۱۹۴۲ء کی اشاعت میں رقم طراز ہے.موجودہ حالات میں خلیفہ صاحب نے مصر اور حجاز مقدس کے لئے اسلامی غیرت کا جو ثبوت دیا ہے وہ یقیناً قابل قدر ہے اور انہوں نے اس غیرت کا اظہار کر کے مسلمانوں کے جذبات کی صحیح ترجمانی کی.اب دیکھئے مسلمانوں کا ترجمان بھی ان کو ملا کرتا تھا تو احمدی ملا کرتا تھا.احمدیوں کے سر براہ کو بہترین ترجمان سمجھا کرتے تھے.خدا تعالیٰ کے فضل سے مسلمانوں کی خدمت کے لئے ہر کوشش میں جماعت ہمیشہ پہل کرتی تھی مگر آج تمہیں کیا ہو گیا ہے کیا تمہارے اندر خدا کا کوئی خوف باقی نہیں رہا.جو باتیں تم کل تک کہ رہے تھے آج ان سب کو بھلا کر ان کے برعکس راگ الاپ رہے ہو.اب میں اسی پر اکتفا کرتا ہوں آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ تعالیٰ اس مضمون سے متعلق بقیہ حوالہ جات پڑھ کر سناؤں گا اور یہ بتاؤں گا کہ چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب کا کیا کردار ہے اور دنیا نے اس کردار کو دیکھ کر چوہدری صاحب کو کس طرح داد دی ہے اور آپ کے ایمان ، اخلاص اور اسلام سے محبت کو شاندار الفاظ میں بیان کیا ہے اور جماعت احمدیہ کے امام نے جو خلیفتہ اسیح الثانی تھے انہوں نے اس موقع پر کیا کارروائی کی.یہ سارے واقعات بڑے دلچسپ ہیں اور تاریخ کے ایسے باب پر مشتمل ہیں جس کا جماعت احمدیہ کو علم ہونا چاہئے.اس سلسلہ خطبات کے متعلق دوستوں کی طرف سے جو خطوط موصول ہورہے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ بعض احمدی بھی ان حقائق سے نا واقف تھے اور بعض نوجوانوں نے خصوصاً جرمنی میں بسنے والے احمدیوں نے مجھے لکھا ہے کہ پہلے تو ہم جواب دیتے وقت ذرا دب جایا کرتے تھے کیونکہ ہمیں خود پتہ نہیں تھا کہ ان باتوں کا جواب کیا ہے لیکن اب ہم بڑے دھڑلے سے بات کرتے ہیں اور اس سے مخالفین سلسلہ میں ایک کھلبلی مچ گئی ہے.بعض جگہ سے بتانے والے یہ بتاتے ہیں کہ اب ان کی آپس میں لڑائیاں شروع ہوگئی ہیں.وہ کہتے ہیں دیکھو تم جھوٹے نکلے اور احمدی سچے نکلے ہیں.پس حق جب بولتا ہے تو اس کی آواز لازماً اثر کرتی ہے لیکن حق کے ہتھیار ضرور اپنے پاس ہونے
خطبات طاہر جلد۴ 226 خطبہ جمعہ ۸/ مارچ ۱۹۸۵ء چاہئیں.ہر احمدی کو حقائق کا پورا پورا علم ہونا چاہئے.اس لئے آئندہ خطبات میں بھی انشاء اللہ تعالیٰ بقیہ امور پر روشنی ڈالوں گا اور ہر بات کو دشمنان احمدیت کی خود اپنی زبان اور اپنے قلم سے نکلے ہوئے حوالہ جات کی روشنی میں ثابت کر کے دکھاؤں گا.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلدم 227 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء قرطاس ابیض کے الزامات کا جواب مسئلہ فلسطین کے لئے خدمات کلمہ توحید کی حفاظت ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ مارچ ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی : كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْا مَنَ اَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ (آل عمران :) لَيْسُوا سَوَاءَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ أُمَّةً قَابِمَةٌ يَتْلُونَ ایتِ اللهِ أَنَاءَ الَّيْلِ وَهُمْ يَسْجُدُونَ يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَتِ ۖ وَأُولَبِكَ مِنَ الصَّلِحِينَ وَمَا يَفْعَلُوْا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ يُكْفَرُوهُ وَاللهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ (آل عمران : ۱۱۴ ۱۱۶) اور پھر فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ آل عمران سے لی گئی ہیں، پہلی آیت نمبر 111
خطبات طاہر جلدم 228 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء اور دوسری تین آیات نمبر ۱۴ تا ۱۶ ہیں.ان آیات میں اہل کتاب کو تبلیغ کرنے کی طرف متوجہ فرمایا گیا ہے اور ساتھ ہی نہایت پیارے اور حکیمانہ انداز میں یہ بھی فرما دیا گیا ہے کہ اگر اہل کتاب اسلام قبول نہ کریں تو یہ ان کا اپنا قصور ہوگا اور جہاں تک حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کا تعلق ہے ان پر اس بارہ میں کوئی حرف نہیں آسکتا کیونکہ وہ اپنے فریضہ میں کسی قسم کی کوئی کمی نہیں کرتے اور وہ اس رنگ میں تبلیغ کرتے ہیں کہ گویا حجت تمام ہو جاتی ہے.علاوہ ازیں اہل کتاب کو کلیه رد کر دینا اور مردود قرار دینا کہ گویا ان میں کوئی بھی نیکی کی بات نہیں رہی.اس کی بھی قرآن کریم نے عمومی طور پر نفی فرمائی ہے اور یہ ہدایت فرمائی کہ قوم کو بحیثیت قوم اس رنگ میں مغضوب اور ملعون قرار دے دینا کہ کوئی بھی استثناء باقی نہ رہے گویا کہ ان میں کوئی بھی شریف انسان نہیں ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کے منشاء کے خلاف ہے چنانچہ اس وضاحت سے قرآن کریم نے ایسے لوگوں سے بھی امیدیں وابستہ فرما دیں جن کو امت محمد یہ بظاہر مردہ سمجھ بیٹھی تھی یا سمجھ بیٹھی ہواور بتایا کہ خدا تعالیٰ مردوں میں بھی جان ڈال سکتا ہے اس لئے ان قوموں سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے اور نہ اپنے فرائض سے کبھی غافل ہونا چاہئے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم بہترین امت ہو جو لوگوں کی بھلائی کی خاطر دنیا میں پیدا کی گئی تمہارے اندر یہ خوبیاں ہیں کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور دیتے چلے جاتے ہو، برائیوں سے روکتے ہو اور روکتے چلے جاتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اسی پر تمہارا تو کل ہے.تم اپنے ہاتھ میں داروغی کے حقوق نہیں لیتے اور تم ہی وہ لوگ ہو جو تبلیغ کا حق پوری طرح ادا کر دیتے ہو اور پھر اپنے رب پر اور اس کی قدرتوں پر ایمان رکھتے ہو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الكِتبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمُ اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو یہ ان کے لئے بہتر ہوتا، گویا ان کا ایمان نہ لانا اب ان کا اپنا قصور ہے کیونکہ جہاں تک امت مسلمہ کا تعلق ہے اس نے تو اپنے فریضہ کو انتہا تک پہنچا دیا ہے، اب ان پر حرف نہیں آئے گا.اب حرف ان اہل کتاب پر آئے گا جو مسلمانوں کی ان صفات کے ہوتے ہوئے پھر بھی ایمان لانے کی سعادت سے محروم رہ گئے.پھر فرمایا کہ اہل کتاب سب برابر نہیں ہیں.ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو امت قائمہ یعنی حق پر قائم ہیں اور انآء الیل راتوں کو اٹھ کر اللہ کی آیات
خطبات طاہر جلدم 229 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء کی تلاوت کرتے ہیں.وَهُمْ يَسْجُدُونَ اور وہ خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اللہ پر ایمان لاتے ہیں، یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں اور بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے ہیں.وَ أُولَبِكَ مِنَ الصَّلِحِينَ اور یقیناً یہ لوگ صالحین میں سے ہیں.وَمَا يَفْعَلُوا مِنْ خَيْرٍ فَلَنْ تُكْفَرُ وهُ اور وہ جو بھی بھلائی کی بات کرتے ہیں اس کی ناشکری نہیں کی جائے گی ، انہیں اس کی جزا سے محروم نہیں کیا جائے گاوَ اللهُ عَلِيمٌ بِالْمُتَّقِينَ اور اللہ تعالیٰ متقیوں کو خوب جاننے والا ہے.دنیا کی کسی کتاب میں اس قسم کی کوئی آیت آپ کبھی نہیں دیکھیں گے کہ اس میں مخالفین بلکہ اشد ترین مخالفین کو بھی اس رنگ میں نوازا گیا ہو اور ان کی خوبیوں کا اقرار ایسے پیارے انداز میں کیا گیا ہو کہ عقل حیران رہ جاتی ہے اور یہ بات ماننے پر مجبور ہو جاتی ہے کہ ایسا کلام خدا تعالیٰ کے سواکسی اور کا نہیں ہوسکتا.زیادہ آیات نہ سہی ، صرف یہ ایک ہی آیت آپ ساری دنیا کے مذاہب کے سامنے چیلنج کے طور پر پیش کر سکتے ہیں کہ اس قسم کی کوئی آیت اپنی کتابوں سے نکال کر تو دکھاؤ جس میں اتنا حوصلہ اور اتنی عظمت ہو.خدا تعالیٰ کا کلام تو پہلے بھی نازل ہوتا رہا ہے مگر کسی بندہ کامل پر اس طرح صلى الله نازل نہیں ہوا جس طرح محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا.اس لئے یہ کلام جہاں خدا تعالیٰ کی طرف سے ہونے کی دلیل ہے وہاں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عالی ظرف ہونے کی بھی دلیل ہے.جیسا آپ چاہتے تھے،جیسا آپ کا دل تھا اور جیسا آپ کا غیروں کی طرف رجحان تھا ویسا ہی کلام آپ پر نازل کیا گیا.مگر آج آنحضرت علی کی طرف منسوب ہونے والے ہمیں یہ طعنے دیتے ہیں کہ تم یہود کو تبلیغ کیوں کرتے ہو.اسرائیل جا کر بھی تم تبلیغ سے باز نہیں آئے لا ز ما تم ان کے ایجنٹ ہو.یہ کیسی جاہلانہ بات ہے.انہیں قرآن کا علم ہے نہ سنت محمد مصطفی کا ، ورنہ ایسے غلط اور جاہلانہ بہتان نہ تراشتے.قرآن کریم تو خیر امت کی دلیل یہ دے رہا ہے کہ تم اپنے تبلیغ کے فیض سے کسی قوم کو محروم نہیں رکھتے اور یہ فیض ایسا عام ہے کہ دشمنوں کو بھی یہ فیض دیتے ہو اس لئے اگر وہ پھر بھی ہدایت نہ پائیں تو ان کا اپنا قصور ہے تمہارا کوئی قصور نہیں.اس سلسلہ میں آنحضرت ﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے.دنیا میں سب سے پہلا یہودی حصین بن سلام جو مسلمان ہوا ( آنحضرت علی نے بعد میں ان کا نام عبد اللہ بن سلام رکھا ) وہ
خطبات طاہر جلد۴ 230 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء آنحضرت ﷺ کی ذاتی تبلیغ سے مسلمان ہوا اور پھر آپ نے ان کے ذریعہ پیغام بھجوا کر دوسرے یہود کو بھی اکٹھا کیا اور انہیں تبلیغ کی.الغرض آنحضرت ﷺ کی تمام زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں الله ملتا کہ حضور اکرم ﷺ نے یہود کو تبلیغ کرنے سے منع فرمایا ہو یا خودر کے ہوں یا ان سے حسن سلوک کرنے سے منع فرمایا ہو یا خود رُک گئے ہوں.چنانچہ ایک دفعہ ایک یہودی ماں نے اپنے یہودی بچے کی وفات کے وقت آنحضرت علی کی خدمت میں بچے کا یہ پیغام بھیجا کہ میری جان نکل رہی ہے اور میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں.آپ اسی وقت اٹھ کر اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور مرتے وقت اس کو تبلیغ فرمائی اور فرمایا کہ کیا تمہارے لیے یہ بہتر نہیں ہے کہ مسلمان ہو کر جان دو.اس نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! میرے لئے یہی بہتر ہے اور اس طرح اس نے مسلمان ہونے کی حالت میں جان دے دی.یہ ہے اسوہ محمد مصطفی ع ، جس کی ہم اتباع کر رہے ہیں مگر ہمارے مخالف ہمیں اس سے روکنے میں کوشاں ہیں.پھر ایک اور واقعہ اس طرح ہے کہ ایک جنازہ گزر رہا تھا.حضرت اقدس محمد مصطفی علی اٹھ کر کھڑے ہو گئے تو اچانک چاروں طرف سے آواز میں آئیں کہ یا رسول اللہ ! یہ تو یہودیہ کا جنازہ ہے.ایک روایت میں آتا ہے کہ آپ نے فرمایا کیا اس میں مرنے سے پہلے جان نہیں تھی ؟ اور پھر اس قسم کے کلمات فرمائے جس سے شرف انسانی قائم ہوتا ہے.فرمایا دکھ سب کے برابر ہوا کرتے ہیں.آنحضرت تو جن کی خاطر کائنات کو پیدا کیا گیا) کسی یہودیہ کا جنازہ گزرنے پر بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے مگر آج یہ نفرتوں کی تعلیم دینے والے، اسلام اور حضرت محمد مصطفی علیہ کے پاک اسوہ پر دردناک الزامات لگانے والے ہمیں یہ کہتے ہیں کہ تم اسوہ محمد کے پیچھے کیوں چل رہے ہو ہمارے اسوہ کے پیچھے کیوں نہیں چلتے.میں انہیں یہ بتادینا چاہتا ہوں کہ ہم تو کبھی کسی قیمت پر تمہارے اسوہ کو قبول نہیں کریں گے ، ہمارے سامنے ہمیشہ سے اور ہمیشہ کے لئے ایک ہی اسوہ ہے جو ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا اسوہ ہے اسی اسوہ پر ہم اب تک جئے ہیں اور اسی پر جئیں گے اور اسی پر جان دیں گے.انشاء اللہ.جہاں تک ان الزامات کا تعلق ہے کہ (نعوذ باللہ من ذالک) احمدی یہود کے ایجنٹ ہیں اور انہوں نے یہود کے مفاد میں کوششیں کی ہیں.سو یہ ایک ایسا جھوٹا اور بے بنیادالزام ہے کہ جب آپ
خطبات طاہر جلدم 231 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء حقائق پر غور کریں تو بالکل برعکس صورت نظر آتی ہے.اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں جب تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ ہوا تو اس سے پہلے وہ کون سی آواز تھی جس نے سارے عالم کوخبردار اور متنبہ کیا تھا اور جس سے عرب دنیا میں بھی اور عرب سے باہر بھی ایک تہلکہ مچ گیا تھا.یہ دردمندانہ انتباہ حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی آواز تھی.آپ نے دل ہلا دینے والا ایک پمفلٹ لکھ کر کثرت سے شائع کیا جس میں مسلمانوں کو متنبہ کیا اور بتایا کہ تم اس گمان میں نہ رہو کہ آج مغرب تمہارا دشمن ہے تو مشرق تمہارا دوست ہوگا یا مشرق تمہارا دشمن ہے تو مغرب تمہارا دوست ہوگا.فرمایا میں تمہیں بتاتا ہوں کہ آج امریکہ بھی تمہارا دوست نہیں ہے اور روس بھی تمہارا دوست نہیں.ان کے درمیان اسلام کے خلاف باہمی سازش ہو چکی ہے.یہ اپنی دشمنیاں اسلام سے دشمنی کی وجہ سے بھلا بیٹھے ہیں اور ایک ہو گئے ہیں.کیا تم میں غیرت نہیں ہے کیا تم میں اسلام کی ایسی محبت نہیں ہے کہ جس کی خاطر تم اپنی دشمنیوں کو بھلا کر ایک ہو جاؤ.یہ ایسا مدلل اور موثر مضمون تھا کہ اس نے مسلمانوں کو اس طرح جھنجھوڑ کر بیدار کیا کہ اس کی بازگشت مدتوں تک عرب دنیا میں سنائی دیتی رہی اور پھر جب یہ ظالمانہ فیصلہ ہو گیا تو آپ نے ایک اور مضمون لکھا اور اسے بھی بڑی کثرت سے شائع فرمایا جس میں اس امر پر روشنی ڈالی گئی تھی کہ اس فیصلہ کے بعد مسلمانوں کو کیا کیا اقدامات کرنے چاہئیں جو اس کھوئی ہوئی بازی کو دوبارہ جیتنے میں مدد دے سکیں.اس وقت عرب دنیا کا جو حال تھا اور جس طرح وہ احمدیت کی ممنون احسان تھی وہ تو ایک لمبا مضمون ہے لیکن میں آپ کو صرف ایک اقتباس پڑھ کر سنا تا ہوں جس سے نہ صرف عرب دنیا کے خیالات کا پتہ چلتا ہے بلکہ استعماری طاقتوں نے اس پر کیا ردعمل دکھایا اور حضرت مصلح موعود کی آواز کو کیا اہمیت دی اس کا ذکر بھی اس سے ملتا ہے.عراق کے ایک مشہور اور بزرگ صحافی الاستاذ علی الخیاط آفندی جن کا ایک مشہور و معروف اور موقر اخبار الانباء“ کے نام پر نکلتا ہے.آپ نے اپنے اخبار میں ایک تفصیلی مضمون لکھا جس میں سے ایک اقتباس میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.وہ لکھتے ہیں : یہ غیر ملکی حکومتیں ہمیشہ کوشش کرتی ہیں کہ مسلمانوں میں مختلف نعرے لگوا کر منافرت پیدا کی جائے اور بعض فرقے احمدیوں کی تکفیر اور ان پر
خطبات طاہر جلدم 232 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء نکتہ چینی کرنے کے لئے کھڑے ہو جائیں........مجھے اس امر کی پوری پوری اطلاع ہے کہ در حقیقت یہ سب کا رروائی استعماری طاقتیں کروا رہی ہیں کیونکہ فلسطین کی گزشتہ جنگ کے ایام میں ۱۹۴۸ء میں استعماری طاقتوں نے خود مجھ کو اس معاملہ میں آلہ کار بنانے کی کوشش کی تھی.ان دنوں میں ایک ظرافتی پرچے کا ایڈیٹر تھا اور اس کا انداز حکومت کے خلاف نکتہ چینی کا انداز تھا.چنانچہ انہی دنوں مجھے ایک غیر ملکی حکومت کے ذمہ دار نمائندہ مقیم بغداد نے ملاقات کے لئے بلایا اور کچھ چاپلوسی کے طور پر میرے انداز نکتہ چینی کی تعریف کرنے کے بعد مجھے کہا کہ آپ اپنے اخبار میں قادیانی جماعت کے خلاف زیادہ سے زیادہ دل آزار طریق پر نکتہ چینی جاری کریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج ہے.یعنی ایک استعماری طاقت کو اسلام کی اس طرح فکر لاحق ہوگئی کہ ایک ایڈیٹر صاحب کو بلا کر کہتے ہیں کہ دل آزار طریق پر نکتہ چینی جاری کریں کیونکہ یہ جماعت دین سے خارج ہے.پھر لکھتے ہیں : یہ ان دنوں کی بات ہے جب ۱۹۴۸ء میں ارض مقدسہ کا ایک حصہ کاٹ کر صیہونی حکومت کے سپر د کر دیا گیا تھا اور اسرائیلی سلطنت قائم ہوئی تھی اور میرا خیال ہے کہ مذکورہ بالا سفارت خانہ کا یہ اقدام در حقیقت ان دوٹر یکٹوں کا عملی جواب تھا جو تقسیم فلسطین کے موقع پر اسی سال جماعت احمدیہ نے شائع در و کئے تھے.ایک ٹریکٹ کا عنوان ”هيئَةُ الْأُمَمِ المُتَّحِدَةِ وَقَرَارُ تَقْسِيمِ فَلَسْطِینَ “ تھا جس میں مغربی استعماری طاقتوں اور صیہونیوں کی ان سازشوں کا انکشاف کیا گیا تھا جن میں فلسطینی بندرگاہوں کے یہودیوں کو سپر د کر دینے کا منصوبہ بنایا گیا تھا.دوسرا ٹریکٹ اَلْكُفْرُ مِلَّةٌ وَاحِدَةً کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں مسلمانوں کو کامل اتحاد اور اتفاق رکھنے کی ترغیب دی گئی تھی........یہ وہ واقعہ ہے جس کا مجھے ان دنوں ذاتی طور پر علم ہوا تھا اور
خطبات طاہر جلدم 233 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء مجھے پورا یقین ہے کہ جب تک احمدی لوگ مسلمانوں کی جماعت میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے........جن سے استعماری طاقتوں کی پیدا کردہ حکومت اسرائیل کو ختم کرنے میں مدد ملے سکے تب تک استعماری طاقتیں بعض لوگوں اور فرقوں کو اس بات پر آمادہ کرنے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کریں گی کہ وہ احمدیوں کے خلاف اس قسم کی نفرت انگیزی اور نکتہ چینی کرتے رہیں تا کہ مسلمانوں میں اتحاد نہ ہو سکے.(اخبار الانباء (بغداد) مورخه ۲۱ ستمبر ۱۹۵۴ء بحوالہ مجلة ” التقوی“ ستمبر اکتوبر ۱۹۸۹ء) الغرض حضرت المصلح الموعود کے دوٹر یکٹ شائع ہوئے اور ان کا اتنا حیرت انگیز اثر پڑا کہ بڑی بڑی استعماری طاقتیں کانپ گئیں اور سفارت خانوں کو ان کے مراکز سے ہدایتیں ملنے لگیں کہ اخباروں کو پیسے دو اور ان سے تعلقات قائم کرو اور جس طرح بھی ہو احمدیوں کے خلاف ایک تحریک چلاؤ.جہاں تک چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کا تعلق ہے ان کے متعلق یہ الزام کہ گویا آپ نے فلسطین کے مفاد کے خلاف ایسی تقریریں کیں جن کے نتیجہ میں مفاد فلسطین سبو تا ثر ہو گیا، حد درجہ بے حیائی پر مبنی ہے.عجیب منطق ہے کہ ساری عرب دنیا کو تو اس بات کا علم نہیں لیکن پاکستان کے ملاؤں کو اس بات کا پتہ لگ گیا.جن عربوں پر گزر رہی تھی اور جن کے مقاصد کی خاطر چوہدری صاحب دن رات ایک کئے ہوئے تھے اور اپنی جان ہلکان کر رہے تھے، اپنی تمام خداداد طاقتوں کو استعمال میں لا رہے تھے ان عربوں کو تو اس بات کا علم نہیں ہوالیکن پاکستان کے احراریوں کو پتہ چل گیا ، جماعت اسلامی کو علم ہو گیا اور موجودہ حکومت پاکستان کو پتہ چل گیا کہ اصل واقعہ کیا تھا ! چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات کے بارے میں عرب دنیا کے جو خیالات تھے نہ صرف اس وقت انہیں علم تھا بلکہ آج تک جبکہ احمدیت کی مخالفت زوروں پر ہے انہیں وہ خدمات یاد ہیں اور آج بھی بعض حق پرست ایسے ہیں جو ان خدمات کو تسلیم کرنے میں باک نہیں رکھتے.چنانچہ عربوں کی زبانی سنئے.عبدالحمید الکاتب رسالہ 'العربی‘ماہ جون ۱۹۸۳ء کے شمارہ میں ایک مضمون میں لکھتے ہیں: محمد ظفر اللہ خان ہی وہ شخص ہے کہ جو فلسطین کے حق کے دفاع میں
خطبات طاہر جلدم 234 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء مرد میدان ثابت ہوا.اس نے فلسطین کے بارہ میں عربوں کے حقوق کے دفاع میں خدا کی طرف سے ودیعت کی گئی قدرت علی الخطاب اور قانون و سیاست میں قابلیت کے ہر جو ہر کو آزمایا.اس کے کلام کی نبض حقیقی اسلامی روح کے ساتھ چلتی تھی.ان دنوں جب کہ مسئلہ فلسطین ابھی تازہ تھا اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اس عظیم جد و جہد میں مصروف تھے جو کہ ایک تاریخی حیثیت کی حامل تھی ، عرب لیگ میں ایک بڑی مکروہ کوشش چوہدری صاحب کو عالم اسلام سے باہر نکالنے اور ان کی خدمات سے عالم اسلام کو محروم کرنے کی ہوئی.شاہ فاروق جو استعماری طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر معروف ہیں اور جن کا بعد میں تختہ الٹ دیا گیا تھا، ان کے ایماء پر فلسطین کے مفتی نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور جماعت احمدیہ کے خلاف ایک بڑا سا فتویٰ دے دیا............تا کہ عالم اسلام کی خدمات کرنے والا جو بطل جلیل ہے اس سے عالم اسلام محروم رہ جائے.چنانچہ جب یہ فتویٰ شائع ہوا اس وقت اگر چہ وہ دور گزر چکا تھا لیکن چونکہ چوہدری صاحب کی خدمات کی یاد بھی تازہ تھی اس لئے جنرل عبدالرحمن عزام پاشا جو عرب لیگ کے سیکرٹری تھے انہوں نے اس جریدہ کو جس میں وہ فتویٰ چھپا تھا مخاطب میں حیران ہوں کہ آپ نے قادیانیوں یا چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب وزیر خارجہ پاکستان کے متعلق مفتی کی رائے کو ایک موثر مذہبی فتویٰ خیال کیا ہے.پھر لکھتے ہیں : اگر یہ اصول مان لیا جائے تو پھر بنی نوع انسان کے عقائد، ان کی عزت و وقار اور ان کا سارا مستقبل محض چند علماء کے خیالات و آراء کے رحم و کرم پر آ رہے گا.پھر آگے لکھتے ہیں : " ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ظفر اللہ خان اپنے قول اور اپنے کردار
خطبات طاہر جلدم 235 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء کی رو سے مسلمان ہیں.روئے زمین کے تمام حصوں میں اسلام کی مدافعت کرنے میں آپ کامیاب رہے اور اسلام کی مدافعت میں جو موقف بھی اختیار کیا گیا اس کی کامیاب حمایت ہمیشہ آپ کا طرہ امتیاز رہا اس لئے آپ کی عزت عوام کے دلوں میں گھر کر گئی اور مسلمانان عالم کے قلوب آپ کے لئے احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہو گئے.(جريدة الاخبار القاهرية مؤرخه ۲۳ جون ۱۹۵۲ء) کیا یہ مسلمانان عالم پاکستان میں نہیں بستے کیا انہیں علم نہیں ہے کہ ایک وقت تھا کہ عالم اسلام اور عالم اسلام کا بھی وہ حصہ جہاں سے اسلام کا نور پھوٹا تھا وہ با نگ دہل یہ اعلان کر رہا تھا کہ مسلمانان عالم چوہدری ظفر اللہ خان کی ان خادمانہ کوششوں کے ممنون احسان ہیں جو انہوں نے اسلام کی سربلندی اور مسلمانان عالم کے مفاد میں سرانجام دیں.پھر ایک اور اخبار المصرى “ ۲۶ جون ۱۹۵۲ء (بحوالہ: البشر کی ستمبر ۱۹۵۲ء جلد ۱۸ ص ۱۱۹) کی اشاعت میں ”اے کا فر ! خدا تیرے نام کی عزت بلند کرے“ کے زیر عنوان لکھتا ہے: مفتی نے ظفر اللہ کو کافر و بے دین قرار دیا ہے.آؤ سب مل کر چوہدری محمد ظفر اللہ خان پر سلام بھیجیں.ظفر اللہ خان کافر کے کیا کہنے ان جیسے 66 اور بڑے بڑے دسیوں کا فروں کی ہمیں ضرورت ہے.مصر ہی کے ایک اور اخبار الزمان اپنی اشاعت میں ۲۵ جون ۱۹۵۲ء ( بحوالہ البشریٰ ستمبر ۱۹۵۲ءجلد ۱۸ صفحہ: ۱۲۵) میں لکھتا ہے: اخبار اليوم ۲۶ جولائی ۱۹۵۲ء میں رقم طراز ہے: وہ شخص جو استعماریت کا بڑی قوت ، بلاغت اور صدق بیانی سے مقابلہ کرتا ہے اور خدا تعالیٰ بھی جس کی زبان اور دل پر حق جاری کرتا ہے وہ بھی اگر کافر قرار دیا جاسکتا ہے تو نیک لوگوں کی اکثریت ایسے کافر بن جانے کی خواہش کرے گی.(بحوالہ رسالہ البشری جلد ۱۸ شماره ستمبر ۱۹۵۲، صفحه ۱۳۲) اخبار بیروت المساء “ نے لکھا: 66
خطبات طاہر جلدم 236 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء در شیخ مخلوف اور ظفر اللہ خان کے درمیان نمایاں فرق ہے اول الذکر مسلم غیر عامل ہے اور اگر شیخ مذکور عمل کرتا بھی ہے تو تفرقہ انگیزی کے لئے ، برخلاف اس کے ظفر اللہ خان مسلم عامل الخیر ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی آیات میں ہمیشہ ایمان اور عمل صالح کا اکٹھا کر کیا ہے.آہ ! ایمان اور عمل صالح کے باوجود مسلمانوں کو کافر قرار دینا کتنا ہی 66 دور از عقل ہے.(بیروت المساء شماره ۲۲۴ مورخه ۲۹ جون ۱۹۵۲ء) بہر حال ایک وہ وقت تھا جب کہ عالم اسلام کو ایک خطرہ درپیش تھا اور جیسا کہ جماعت احمدیہ کی ہمیشہ سے یہ روایات رہی ہیں کہ ہر ایسے خطرہ کے وقت جو اسلام یا مسلمانان عالم کو در پیش ہو جماعت اور جماعت احمدیہ کے خلفاء کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ نمایاں توفیق ملی اور یہ امتیازی سعادت نصیب ہوئی کہ سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر ان خطرات کی طرف متوجہ کرنے والے وہی تھے اور ان کی متابعت میں جماعت احمدیہ نے ہر خدمت کے لئے اپنے آپ کو پیش کیا لیکن جماعت احمدیہ کو ہر طرف سے اس کی یہ سزا دی گئی کہ نہ صرف یہ کہ وہ استعماری یا اسلام دشمن طاقتیں جماعت احمدیہ کو اس حریت ضمیر کی سزا دینے پر تل بیٹھیں بلکہ اس کام کے لئے خود مسلمانوں کو ہمیشہ استعمال کیا گیا.عالم اسلام کو یہ خطرات باہر سے بھی درپیش رہے اور اندر سے بھی.باہر سے بھی اسلام دشمن طاقتوں نے یہ خطرات اسلام کے لئے پیدا کئے اور اندر سے ان ایجنٹوں کو استعمال کیا جو ہمیشہ سے استعماریت کے ایجنٹ بنتے رہے ہیں.پس آج بھی کچھ اسی قسم کا واقعہ در پیش ہے.آج بھی عالم اسلام کو ایک خطرہ ہے لیکن ایک ایسا مہیب اور ایسا ظالمانہ خطرہ ہے کہ تاریخ اسلام میں ایسا خطرہ کبھی اسلام کو پیش نہیں آیا تھا.آج یہ خطرہ در حقیقت نہ روس کی طرف سے، ہے نہ امریکہ کی طرف سے، نہ بدھ پرست طاقتوں کی طرف سے ہے اور نہ صیہونی طاقتوں کی طرف سے ہے، نہ مشرق سے یہ خطرہ ہے اور نہ مغرب سے.آج اسلام کو یہ خطرہ ایک ایسی حکومت کی طرف سے ہے جو مسلمان ہونے کی دعویدار ہے، جو اسلام کی عزت اور وقار کے نام پر کھڑی ہوئی اور اسلام کی عزت و وقار کا واسطہ دے کر مسلمانان پاکستان پر مسلط ہوگئی.یہ ایک ایسا خطرہ ہے جس سے بڑھ کر اس سے پہلے کبھی بھی عالم اسلام کو ایسا خطرہ
خطبات طاہر جلدم در پیش نہیں ہوا تھا.237 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء کلمه تو حید کو مٹانے کے نام پر غیر مسلم کوششیں مختلف وقتوں میں ہمیں تاریخ میں نظر آتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ سب سے زیادہ خوفناک اور بھیا نک کوشش خود آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں کی گئی تھی لیکن مسلمانوں کی طرف سے اس کوشش کا تصور بھی موجود نہیں تھا کہ اسلام کی طرف منسوب ہونے والے اتنے بد قسمت نکلیں گے کہ اپنے ہاتھوں کو کلمہ مٹانے کے لئے استعمال کریں گے.کوئی مسلمان اس بات کا وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا.یہ وہ سہرا ہے جو آج پاکستان کی آمرانہ حکومت کے سر باندھا جارہا ہے اور آج پاکستان میں ایک نئی تاریخ، ایک نہایت ہی بھیانک اور خوفناک خونی تاریخ لکھی جارہی ہے اور اسلام کی حفاظت اور اسلام کی خدمت کا یہ تصور پیش کیا جارہا ہے کہ اسلام کی بنیادوں پر حملہ کرو، کلمہ توحید پر حملہ کرو، کلمہ رسالت پر حملہ کرو اور اگر احمدی کلمہ توحید اور کلمہ رسالت کی عزت سے باز نہ آئیں اور اسے تسلیم کرنا نہ چھوڑیں اور اس کے اقرار سے تو بہ نہ کریں تو انہیں سخت سے سخت سزائیں دو.یہ ہے آج کا شدید ترین حملہ جو اسلام کے خلاف ایک اسلامی ملک کہلانے والے کی سرزمین سے اٹھا ہے اور جس نے ساری فضا کو دھندلا دیا ہے اور گندا کر دیا ہے.یہ کارروائیاں کس طریق پر کی جارہی ہیں اس کا صرف ایک نمونہ میں آپ کے سامنے آج پیش کرتا ہوں.ایک احمدی نوجوان جس کو کلمہ لکھنے کے جرم میں پکڑا گیا وہ اپنے قلم سے سرگزشت لکھتے ہیں کہ مجھ پر کیا بیتی اور کس طرح پاکستان کی آمرانہ حکومت کے کارندوں نے اسلام کی خدمت“ سرانجام دی.وہ لکھتے ہیں کہ : ”جب مجھے پکڑا گیا تو پولیس والے نے مجھے مکوں سے مارنا شروع کر دیا.پھر پولیس کا ایک اور سپاہی بھی آ گیا دونوں نے مل کر پہلے تھپڑوں اور مکوں سے خدمت کی اور پھر ایک دکان جس میں پولیس نے چوکی بنائی ہوئی تھی وہاں لکڑی کے ڈبے میں لٹا کر مجھے مارا گیا.میں اس دوران منہ سے کلمہ کا ورد کرتا رہا.پھر یہاں سے تانگے میں بٹھا کر تھانہ باغبانپورہ لے جایا گیا، راستہ میں بھی تھپڑ اور مکے مارے گئے اور میں رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ( البقره (۲۵)
خطبات طاہر جلدم 238 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء پڑھتا رہا.تھانہ باغبانپورہ (گوجرانوالہ) میں پہنچ کر ایک پولیس والا کہنے لگا اسے لٹاؤ اور دو چار لگاؤ.چنانچہ مجھے لیٹنے کے لئے کہا گیا.میں نہ لیٹتا تھا پھر دو تین آدمی آگے آئے ایک نے سر کے بال پکڑے دوسرے نے بازو مروڑا تیسرے نے ٹانگیں کھینچیں اور اس طرح مجھے زمین پر گرا دیا گیا اور پھر ایک سپاہی کے ہاتھ میں ہنٹر تھا اس نے ہنٹر سے سات آٹھ ضربات لگائیں ہر ضرب پر میں کلمہ طیبہ اونچی آواز میں پڑھتا تھا تو وہ کہتے تھے کہ تم تو کافروں میں سے آئے ہو اور ضرب لگاتے اور پھر کہتے کہ ہم تمہارا کلمہ نکالتے ہیں بڑے کلمہ پڑھنے والے آئے.اس کے بعد جب ان کی خدمت اسلام کی یہ تمنا اور یہ حسرت ابھی اچھی طرح پوری نہ ہوئی تو ایک پولیس والے کو یہ خیال آیا کہ اسلام کی خدمت تو اس سے بھی بڑھ کر ہونی چاہئے.چنانچہ اس نے حکم دیا کہ اس کی شلواراتارو پھر شلوار اترنے کے لئے جد و جہد شروع ہوگئی پانچ سات سپاہی مل کر شلواراتارنے میں کامیاب ہوئے اور پھر مجھے الٹالٹکا کر ننگی پیٹھ پر ضربات لگائی گئیں.مگر خدا تعالیٰ نے منہ سے صرف کلمہ طیبہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائی.اتنے میں چند اور سپاہی اکٹھے ہو کر آگئے اور پوچھنے لگے کہ اپنے مرزا کی باتیں سناؤ وہ کہاں پیدا ہوا اور کہاں مرا.انہوں نے مجھے ماں ، باپ، بہن ، وغیرہ کی گندی گالیاں دیں ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق مغلظات بکیں وہ آدھ گھنٹہ کے قریب گالیاں دیتے رہے اور میں استغفار پڑھتا رہا.جسم کی ضربات کے متعلق ایک بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے اسی ہنٹر سے پیٹھ کے علاوہ سر اور کندھوں پر نہ جانے کتنی ضربات لگائیں“.یہ ہے پاکستان میں کلمہ طیبہ کی خدمت اور خدمت اسلام کا تصور.کیا آپ کو عرب کے پتے ہوئے وہ صحرا یاد نہیں آگئے جہاں سید نا حضرت بلال حبشی کو اسی جرم میں گھسیٹا جا رہا تھا ، جہاں انگیٹھیوں سے پیتے ہوئے انگارے نکال کر کلمہ پڑھنے والوں کی چھاتیوں پر رکھ دیئے جاتے تھے اور ان کی پیٹھوں کے نیچے زمین پر بھی وہ انگارے بچھا دئے جاتے تھے اور ان انگاروں کے نتیجہ میں بننے
خطبات طاہر جلد۴ 239 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء والے چھالوں کے پانی سے وہ انگارے بجھا کرتے تھے.پس کلمہ مٹانے کے وہ دردناک واقعات جو سرزمین عرب میں گزرے تھے ویسے ہی دردناک واقعات آج پاکستان میں گزر رہے ہیں لیکن خوفناک ظلم یہ ہے کہ اب ایک اسلامی مملکت کے کارندوں کی طرف سے یہ کارروائی ہو رہی ہے.آج دنیا میں شیطان سے بڑھ کر کوئی خوش نہیں ہوگا کیونکہ آج وہ محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے والے لوگوں سے وہ حرکت کروارہا ہے جو کسی زمانہ میں آپ کے اولین دشمن کیا کرتے تھے.جب ان سے پوچھا جائے کہ تم کیا کرتے ہو؟ کیا تم میں کوئی عقل اور شعور باقی نہیں رہا ؟ تو پھر وہ بہت بڑی دلیلیں دیتے ہیں.ان دلائل میں سے ایک دلیل یہ ہے کہ تم تو نا پاک لوگ ہو اس لئے اگر تم کلمہ پڑھو گے یا کلمہ سینہ پر لگاؤ گے تو کلمہ کی بے حرمتی ہوگی اور ہم یہ بے حرمتی برداشت نہیں کر سکتے.کتنی تعجب انگیز دلیل ہے؟ یہ کلمہ تو ناپاکوں کو پاک بنانے کے لئے آیا ہے یہ اسی لئے تو نازل ہوا تھا کہ بدوں کا تزکیہ کرے، اگر احمدی ناپاک ہیں تو تمہیں خوش ہونا چاہئے کہ ان ناپاکوں کو بھی اس کلمہ نے طیب اور پاکیزہ کر دیا ہے.یہ تو محمد مصطفی ﷺ کا کلمہ ہے، یہ خدائے واحد و یگانہ کا کلمہ ہے، یہ تو اس مز کی کا کلمہ ہے جس سے بڑھ کر کوئی مز کی کبھی پیدا نہیں ہوا.اس کلمہ نے تو صدیوں کے ناپاک اور پلید لوگوں کو بھی پاک بنادیا تھا.یہ کسی ملاں کا کلمہ تو نہیں جو پاکوں کو بھی پلید کر دے، یہ کسی آمر وقت کا کلمہ تو نہیں جو نیکوں کو بھی بدنام بنا دے.پس اگر تمہارے کہنے کے مطابق جماعت احمد یہ ناپاک ہی صلى الله ہے تو پھر اس ناپاک جماعت کو صرف یہی کلمہ چاہئے یعنی محمد مصطفی ﷺ اور خدائے واحد و یگانہ کا کلمہ ، کسی اور کے بنائے ہوئے کلمہ کی ہمیں کچھ پرواہ نہیں.دوسرا اعتراض وہ یہ کرتے ہیں کہ احمدیوں کے دل میں یہ کلمہ نہیں ، منہ سے محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں اور دل میں کہہ رہے ہوتے ہیں احمد رسول اللہ یعنی مرزا غلام احمد قادیانی رسول اللہ.عجیب جاہلانہ بات ہے پھر اس سے بھی بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہم سے کلمہ چھیننے کی ایک مکروہ حرکت تو کی تھی مگر ساتھ ہی خدائی کے دعویدار بھی بن بیٹھے اور آنحضرت علی سے بھی افضل ہونے کا دعویٰ کر دیا.آنحضرت ﷺ کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ملتا کہ کسی کلمہ پڑھنے والے کے متعلق آپ نے یہ فرمایا ہو کہ تم جھوٹ بول رہے ہو دل سے کچھ اور کہتے ہو اور اوپر سے کچھ اور کہہ رہے ہو.بلکہ جن لوگوں کے متعلق خدا نے خبر دے دی تھی کہ
خطبات طاہر جلدم 240 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الحجرات : ۱۵) کہ ان کے دلوں میں ایمان نے جھانک کر بھی نہیں دیکھا ، ایمان ان میں داخل ہی نہیں ہوا ایسے لوگوں میں سے کسی ایک کو بھی آنحضرت ﷺ نے یہ نہیں فرمایا کہ تمہارا منہ کا کلمہ اور ہے اور دل کا اور.بلکہ اس کے برعکس ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں کہ ان کے تصور سے انسان حیران رہ جاتا ہے کہ نبی کس عظمت، کس شان ، کس وسیع حوصلہ اور کس وسیع قلب کا مالک تھا.صلی اللہ علیہ وسلم.تاریخ اسلام میں ایک یہ واقعہ بھی ملتا ہے کہ اُسامہ بن زید نے ایک مقابلہ میں ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا جو مسلمانوں پر بار بار حملے کرتا تھا.جب اُسامہ بن زیدا سے مارنے لگے تو اس نے کلمہ پڑھ لیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے اس کو قتل کر دیا.وہ خود بتاتے ہیں(مسلم کتاب الایمان باب تحريم قتل الكافر بعد أن قال لا اله الا اللہ کی یہ حدیث ہے) کہ جب آنحضرت علیہ سے میں نے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا کہ کیا اس نے لا اله الا اللہ کہا اور تم نے اسے قتل کر دیا ! اُسامہ بن زید کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ اس نے تو ہتھیار کے خوف سے ایسا کیا تھا.آپ نے فرمایا کیا تو نے اس کا دل پھاڑ کر دیکھا تھا جو تجھے علم ہو گیا تھا کہ اس نے کیا کہا اور کیا نہیں ؟ آنحضرت یہ فقرہ مسلسل کہتے چلے گئے اور کہتے چلے گئے اور کہتے چلے گئے کہ کیا تو نے دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا، کیا تو نے دل پھاڑ کر دیکھ لیا تھا.ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں.” کیوں نہ تو نے دل پھاڑ کر دیکھ لیا، کیوں نہ تو نے دل پھاڑ کر دیکھ لیا کہ واقعی اس کے دل میں کلمہ تھا یا نہیں“.پس محمد مصطفی عملے نہ خود اس بات کے دعویدار تھے کہ دلوں میں جھانک کر یہ معلوم کیا جاسکتا ہے کہ واقعی دل میں کلمہ ہے یا نہیں اور نہ اپنے غلاموں کو اس بات کی اجازت دی لیکن اس کے برعکس آج کے ملاں یہ دعویٰ کر بیٹھے ہیں کہ وہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ بھی ہیں اور خدا تعالیٰ کے نبی اور آپ کے صحابہ سے بھی بڑھ کر مقام رکھتے ہیں اور دلوں کا حال جاننے لگ گئے ہیں اور اس پر کسی مسلمان کو غیرت نہیں آرہی کہ یہ کیا حرکتیں ہورہی ہیں.اس حدیث کی ایک اور روایت بھی ہے جس کے الفاظ کچھ مختلف ہیں اس میں یہ ذکر ملتا ہے کہ جب حضرت اسامہ بن زید نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! کلمہ تو اس نے تلوار کے ڈر سے پڑھا تھا تو آپ نے فرمایا کہ اس نے لا الہ الا اللہ پڑھا اور پھر بھی تم نے قتل کر دیا! پھر فرمایا کہ قیامت کے
خطبات طاہر جلدم 241 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء دن جب لا اله الا اللہ گواہی دینے آئے گا تو پھر تم کیا جواب دو گے.حضرت اسامہ بن زید کہتے ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! میرے لئے بخشش طلب کریں تو پھر یہی فرمایا کہ قیامت کے دن جب لا اله الا اللہ آئے گا تو اس وقت تو کیا جواب دے گا؟ حضرت اسامہ کہتے ہیں آپ اس کے علاوہ اور کچھ نہ فرماتے تھے کہ جب قیامت کے دن لا إِلهَ إِلَّا اللہ آئے گا اس وقت تو کیا کرے گا؟ پس یہ وہ حالات ہیں جو اس وقت پاکستان میں رونما ہورہے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اسلام کے نام پر مسلط کی جانے والی ایک آمرانہ حکومت اسلام کی بنیادوں پر نہایت ہی خوفناک حملے کر رہی ہے اور عالم اسلام غفلت میں سو یا پڑا ہے.یہ دور سائل جن کا میں نے ذکر کیا ہے، اس وقت لکھے گئے تھے جب کہ فلسطین کو خطرہ تھا اور فلسطین کے نتیجہ میں مکہ اور مدینہ کو بھی خطرہ لاحق تھا.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے اس وقت عالم اسلام کو بڑے واشگاف الفاظ میں بیدار کرتے ہوئے فرمایا: وو سوال فلسطین کا نہیں سوال مدینہ کا ہے، سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں سوال محمد رسول اللہ ﷺ کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے.کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا“.(الكفر ملة واحدة “انوارالعلوم جلد ۱۹) لیکن آج جب کلمہ پر یہ نا پاک حملہ کیا گیا ہے تو میں عالم اسلام کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ آج نہ فلسطین کا سوال ہے نہ یروشلم کا سوال ہے اور نہ مکہ مکرمہ کا سوال ہے، آج اس خدائے واحد دیگانہ کی عزت اور جلال کا سوال ہے جس کے نام سے ان مٹی کے شہروں نے عظمت پائی تھی ، جس کے عظیم نام سے اینٹ پتھر کے گھروندوں کو تقدس نصیب ہوا تھا آج اس کی وحدانیت پر حملہ کیا جا رہا ہے.آج مکہ اور مدینہ کا سوال نہیں آج تو ہمارے آقا و مولا شاہ مکی و مدنی کی عزت وحرمت کا سوال ہے.آج سوال یہ ہے کہ کیا مسلمانوں کے سینوں میں کوئی غیرت باقی نہیں رہی ، کیا یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کے ہاتھ کلمہ مثانے کی طرف اٹھ رہے ہیں ان پر لرزہ طاری نہیں ہو جاتا ؟ کیا ان کے دل پر
خطبات طاہر جلد۴ زخم نہیں لگتے ؟ 242 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء ستم بالائے ستم یہ کہ جب کوئی مسلمان اس کام کے لئے نہیں ملتا تو پاکستان کی اس آمرانہ حکومت میں اسلام کے دشمن عیسائیوں کو اس کام کے لئے استعمال کیا جاتا ہے اور جب کوئی شریف شہری نہیں ملتا تو حوالات یا جیل خانوں سے مجرم پکڑ کر لائے جاتے ہیں اور ان کے ذریعہ سے پاک کلمہ طیبہ مٹوایا جاتا ہے جس میں یہ اقرار ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور محمد مصطفی ہے اس کے بندے اور رسول ہیں.پس یہ نا پاک تحریک جو آج صدر ضیاء الحق کی کوکھ سے جنم لے رہی ہے وہ اس دنیا میں بھی اس کے ذمہ دار ہیں اور قیامت کے دن بھی اس کے ذمہ دار ہوں گے.پھر نہ تو انہیں دنیا کی کوئی طاقت بچا سکے گی اور نہ کوئی مذہبی طاقت ان کو بچا سکے گی کیونکہ آج انہوں نے خدا کی عزت و جلال پر حملہ کیا ہے.آج محمد مصطفی ﷺ کے پاک نام کے تقدس پر حملہ کیا ہے.احمدی تیار ہیں وہ کلمہ کی حفاظت میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار ہیں اور ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہیں گے.مگر سوال یہ ہے کہ اے عالم اسلام ! تم کیوں اس سعادت سے محروم بیٹھے ہو.کیا تم میں اسلام کی ہمدردی ، اس کی غیرت اور کلمہ توحید کی محبت کی کوئی رمق بھی باقی نہیں رہی؟ پس میں تمہیں اس وحدت کی طرف بلاتا ہوں جس میں سارا عالم اسلام مشترک ہے.عالم اسلام کی ایک ہی تو جان ہے جس میں کوئی اختلاف نہیں اور کوئی شک نہیں.شیعہ بھی کلمہ توحید سے اسی طرح وابستہ ہے جیسے سنی وابستہ ہے، احمدی بھی اسی طرح وابستہ ہے جس طرح وہابی اور دیگر فرقوں والے وابستہ ہیں.کلمہ اسلام کی روح ہے لیکن آج اسلام کی اس روح پر حملہ کیا جارہا ہے.اس لئے میں تمہیں غارحرا کے نام پر بلاتا ہوں جس سے ایک دفعہ صوت حق اس شان سے نکلی تھی کہ اس نے سارے عالم پر لرزہ طاری کر دیا تھا، میں تمہیں سیدنا بلال حبشی کے نام پر بلاتا ہوں کہ آؤ تم بھی اس غلام سے سبق سیکھو جس نے کلمہ کی حفاظت کے لئے اپنے سارے آرام تج ڈالے تھے اور ایسے ایسے دکھ برداشت کئے کہ آج ان کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.پس اے مسلمانو! اگر تم آؤ اور اس نیک کام میں احمدیوں کے ساتھ شامل ہو جاؤ تو ، میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ تم ہمیشہ زندہ رہو گے اور دنیا کی کوئی طاقت تمہیں مٹا نہیں سکے گی تم زمین
خطبات طاہر جلدم 243 خطبه جمعه ۱۵/ مارچ ۱۹۸۵ء پر بھی اجر پاؤ گے اور آسمان پر بھی اجر پاؤ گے اور خدا تعالیٰ کی رحمتیں اور برکتیں ہمیشہ تمہارے کا شانوں پر برستی رہیں گی لیکن اگر تم نے اس آواز پر لبیک نہ کہا تو پھر اس دنیا میں تم سے بڑھ کر اور کوئی مجرم نہیں کہ محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہوتے ہوئے جب آپ کے مقدس نام پر حملہ کیا گیا اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کرتے ہوئے جب اس کی وحدانیت پر حملہ کیا گیا تو تم آرام سے بیٹھے رہے اور تم نے اپنے سیاسی مشاغل اور سیاسی مطالب کی خاطر ایک ذرہ بھی اس بات کی پرواہ نہیں کی.پھر یہ آسمان اور زمین تم پر رحمت نہیں بھیجیں گے اور نہ کبھی تمہارا نام عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا.
خطبات طاہر جلدم 245 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء علماء ہم امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ هم ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں: لَاَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِي صُدُورِهِمْ مِّنَ اللهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لا يَفْقَهُوْنَ لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرَى مُّحَصَّنَةٍ اَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَ قُلُوْبُهُمْ شَتَّى ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَعْقِلُونَ 8 كَمَثَلِ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ قَرِيبَاذَا قُوا وَبَالَ اَمْرِهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ (الحشر : ۱۴تا ۱۶) فرمایا: ج یہ تین آیات کریمہ جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے فرماتا ہے لَاَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِي صُدُورِهِم مِّنَ اللهِ کہ تمہارا خوف مخالفین اسلام پر اس شدت کے ساتھ غالب ہے کہ اللہ کے خوف کی نسبت تمہارا خوف بڑھ گیا ہے.ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْم لَا يَفْقَهُونَ یہ اس لئے ہے کہ یہ لوگ ایک ایسی قوم ہیں جو نہم نہیں رکھتے ، ان میں تفقہ کی طاقت نہیں ہے، تم سے یہ لوگ اکٹھے ہو کر نہیں لڑتے یا نہیں لڑیں گے مگر فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ قلعہ بند شہروں میں جہاں ان کو اپنی حفاظت کا یقین ہوتا ہے وہاں یہ خوب لڑ سکتے ہیں لیکن کھل کر مقابل پر آنے کی ان کو طاقت نہیں اَوْ مِنْ وَرَاءِ جُدُرٍ یا پھر
خطبات طاہر جلدم 246 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء دیواروں کے پیچھے سے لڑ سکتے ہیں بَأْسُهُمْ بَيْنَهُمْ شَدِیدان کی آپس کی لڑائیاں بہت ہی شدید ہیں.تم ان کو سمجھتے ہو.جَمِیعًا کہ وہ اکٹھے ہیں حالانکہ قُلُوبُهُمْ شَتَّی ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں.ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمُ لَا يَفْقَهُونَ یہ اس لئے ہے کہ وہ ایک ایسی قوم ہیں جنہیں کوئی عقل نہیں.یہ اسی طرح کے لوگ ہیں جیسے ان سے پہلے گزرے تھے، انہیں گزرے ابھی بہت دیر نہیں ہوئی ذَا قُوا وَ بَالَ اَمْرِ هِمُ انہوں نے اپنی بداعمالیوں کا مزہ چکھ لیا وَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیم اور ان کے لئے ایک دردناک عذاب مقرر ہے.ان آیات کا ترجمہ بظاہر ایک عام فہم ساتر جمہ ہے اور اس میں ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ اس کے پیچھے گویا بہت بڑے حقائق ہیں جن پر انسان غور کرے تو کچھ اور مطالب بھی نظر آئیں گے مگر قرآن کریم کی ہر آیت خواہ بظاہر کتنی عام فہم دکھائی دے انسان جب اس کے اندر ڈوبتا ہے تو مطالب کا ایک جہان کھل جاتا ہے.گہرے پانیوں کی سطح کی طرح بعض دفعہ قرآن کریم کی آیات خاموشی سے چلتی ہیں اور دیکھنے والے کو ان کے پیچھے معانی کا جہان نظر نہیں آتا جو ہر آیت کریمہ میں چھپا ہوتا ہے.چنانچہ پہلی آیت میں بعض عجیب دعاوی کئے گئے ہیں مثلاً آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کو مخاطب کر کے یہ فرمانا کہ تمہارا ان پر رعب طاری ہے بظاہر عجیب بات لگتی ہے کیونکہ ان کو تو اتنا کمزور سمجھا جارہا تھا، اتنا بے طاقت اور بے سہارا خیال کیا جا رہا تھا کہ ہر ایرا غیرا اٹھ کر ان معززین کی ہتک اور گستاخی کا مرتکب ہوتا تھا جو آنحضرت ﷺ کی غلامی کا دم بھرتے تھے.گلیوں کے ادنی ادنیٰ لونڈوں نے آنحضرت عیﷺ اور آپ کے غلاموں پر پتھر اٹھائے اور زبان طعن دراز کی.گھروں سے بے وطن کیا اور بے وطن کرنے کے باوجود پیچھا نہ چھوڑا ، مسلمانوں پر شدید حملے کرتے رہے.بائیں ہمہ یہ کہا جا رہا ہے لَاَنْتُمْ أَشَدُّ رَهْبَةً فِي صُدُورِ هم تم سے تمہارے مخالف اتنا خوف کھاتے ہیں کہ اللہ سے بھی اتنا خوف نہیں کھاتے تمہارے خوف کے مقابل پر خدا کا خوف بھلا دیتے ہیں.سوال یہ ہے کہ یہ کیسا خوف ہے؟ یہ خوف دراصل اسلام کے غلبہ کا خوف ہے، ظاہری جسمانی برتری کا خوف نہیں ہے.اس طاقت کا خوف ہے جو دلیل کے ساتھ ابھرتی ہے اور دلیل کے ساتھ زندہ ہوتی ہے اور دلیل کے ساتھ چھا جانے کی قوت رکھتی ہے.چنانچہ ہر صداقت سے دشمن کو ہمیشہ یہی خوف لاحق رہا ہے.وہ اس قدر خوف کھاتے ہیں کہ اس خوف کے مقابل پر پھر خدا کا خوف بھی
خطبات طاہر جلدم 247 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء.ان کے دل میں نہیں رہتا.پس ایسے لوگ جو حق و صداقت پر قائم ہوتے ہیں، مخالفین ان کی ہر دلیل بھلا دیتے ہیں اور خدا خوفی چھوڑ کر اور تقویٰ سے عاری ہو کر پھر ان پر حملے کرتے ہیں اور یہ طریق مقابلہ بتاتا ہے کہ ان کو خدا کا خوف ہے ہی نہیں.اگر خدا کا خوف ہوتا تو سچائی کے مقابل پر اوچھے ہتھیار کیوں استعمال کرتے ، کمینی حرکتیں کیوں کرتے ، جھوٹ اور دغا بازی سے کیوں کام لیتے.پس خوف ہے اس قوت کا جو اپنی ذات میں ابھرتی ہوئی انہیں دکھائی دے رہی ہوتی ہے.بظاہر وقتی طور پر وہ اتنی غیر معمولی طاقت اختیار نہیں کر چکی ہوتی کہ اس کے خلاف یہ حملے نہ کریں، اسے دبانے کی کوشش نہ کریں، اس کے خلاف ظلم و ستم سے کام نہ لیں ،اگر ایسا خوف نہ ہوتا تو ان کو ضرورت کیا تھی کہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلاموں پر حملے کرتے.پس یہ خوف اس فرقان کا خوف ہے، اس برہان کا خوف ہے جو اسلام اپنے ساتھ لایا تھا.یہ ویسا ہی خوف ہے جیسے اندھیرے کو روشنی سے ہوتا ہے.صبح کی پہلی کرن سے بھی رات خوف کھاتی ہے، اگر چہ وہ رات کو دبا نہیں سکتی لیکن رات کا دل جانتا ہے کہ صبح کی پہلی کرن مجھے کھا جائے گی اور اس دنیا سے میرا وجود مٹادے گی.چنانچہ صداقت کے دشمنوں کو بھی اس قسم کا خوف ہوا کرتا ہے اور پھر یہ جو حملے کرتے ہیں ان حملوں کی طرز میں بھی وہی خوف جاری رہتا ہے اور نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کے ساتھ اس وقت جو ظلم روا ر کھے جا رہے ہیں ان میں بھی یہ پہلو موجود ہے اور دوسرا پہلو بھی موجود ہے جس کا آیہ کریمہ لَا يُقَاتِلُوْنَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنَةٍ میں ذکر کیا گیا ہے کہ تم پر یہ حملے محفوظ قلعہ بند شہروں میں بیٹھ کر کرتے ہیں، ایسے ممالک میں کرتے ہیں جہاں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ آگے سے جواب نہیں دیا جاسکتا، ایسے ممالک سے کرتے ہیں جہاں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ انہیں ظاہری طور پر مادی غلبہ حاصل ہے اور یہ لوگ حکومتوں کی حفاظت میں بیٹھے ہوئے ہیں.جہاں کھلی آزاد دنیا ہے وہاں تمہارا مقابلہ کرتے ہوئے ان کی جان نکلتی ہے اور تمہیں دیکھ کر وہاں سے بھاگتے ہیں کیسی عظیم بات بیان فرمائی ہے قرآن کریم نے اور کیسا نفسیاتی نکتہ کھولا اور فرمایا کہ ان کی طر ز مجادلہ تمہیں بتادے گی کہ بزدل لوگ ہیں.جماعت احمدیہ کی کتابیں ضبط کرنا اور اپنی طرف سے حملے کرتے چلے جانا اور دوسری طرف سے بات کرنے کی اجازت نہ دینا یہ وہی قصہ ہے جو قرآن کریم میں ان الفاظ میں بیان ہو رہا ہے.
خطبات طاہر جلد۴ 248 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء لَا يُقَاتِلُونَكُمْ جَمِيعًا إِلَّا فِي قُرًى مُحَصَّنة انہوں نے دنیوی طاقتوں کی جو دیوار میں کھڑی کی ہوئی ہیں ان کے پیچھے سے حملے کرتے ہیں اور ان کا یہ رویہ صرف ایک سمت میں نہیں ہوتا ہر سمت میں ان کا یہی طریق کار ہوتا ہے اور یہ طریق کار کسی صاحب نظر سے چھپ نہیں سکتا.دنیا میں اس وقت بڑی بڑی طاقتیں اسلام دشمنی میں پیش پیش ہیں جس کی وجہ سے اسلام کو کئی قسم کے خطرات لاحق ہیں لیکن مخالفین احمدیت اپنے محفوظ قلعوں میں بیٹھ کر تمہارے خلاف صرف باتیں ہی کر سکتے ہیں مگر یہ جرات اور یہ توفیق کہ باہر نکل کر اسلام دشمن طاقتوں کا مقابلہ کریں اور ان کو رگید میں اور ان کو چیلنج دیں یا ان کے گھیرے میں آکر پھر ان کا مقابلہ کریں اس کی توفیق ان کو نہیں ملتی.یہ توفیق کس کومل رہی ہے؟ یہ میں بعد میں بتاؤں گا.پھر فرمایا تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّى ان کے دل پھٹے ہوئے ہیں اور تم سمجھے رہے ہو کہ وہ اکٹھے ہو گئے ہیں.کیوں سمجھ رہے ہو کہ اکٹھے ہو گئے ہیں.اس لئے کہ اس میں ایک گہرا فلسفہ بیان فرمایا ہے اور وہ یہ کہ ان کا اجتماع تمہاری مخالفت کی وجہ سے عمل میں آیا ہے.فی ذاتہ ان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں.ایک دوسرے کے شدید دشمن ہونے کے باوجود ان پر تمہاری دشمنی اور تمہارا خوف اتنا غالب ہے کہ اس وقت وہ اپنی دشمنیوں کو بھلا دیتے ہیں لیکن دراصل یہ جینے کے آثار نہیں ہیں.جینے کے آثار تو یہ ہوتے ہیں کہ فی ذاتہ محبت کی ایک اندرونی قوت ہو جو قو م کو اکٹھا کر رہی ہو.چنانچہ محاورہ اس کو الكُفُرُ مِلَّة وَاحِدَة کہا جاتا ہے، کفر میں تم ملت واحدہ کی جو صورت دیکھتے ہو وہ انکار کی طاقت کی بناء پر ہے، کسی کے انکار کی وجہ سے اکٹھے ہور ہے ہیں، کسی مثبت وجہ سے اکٹھے نہیں ہور ہے ذلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُونَ ان میں عقل بالکل نہیں ہے.اس اجتماع یا اتحاد کے تو کوئی معنی نہیں ہوا کرتے.اگر کوئی ایسا Factor ظاہر ہو جائے جو Common Value پر مشتمل ہو یعنی ایک دشمن کے تصور یا خوف کی بناء پر لوگ اکٹھے ہو جا ئیں تو اس میں کوئی وقعت نہیں ہوتی کیونکہ ایسی صورت میں تو جانور بھی اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں.بعض دفعہ حالات سے مجبور ہوکر شیر اور بکری بھی اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں.بھیڑیئے اور بھیڑیں بھی اکٹھی ہو جایا کرتی ہیں.چنانچہ ایک مصور نے اس تصور کو اس طرح باندھا ہے کہ اس نے تصویر میں ایک نہایت ہی خوفناک آندھی اور طوفان دکھایا اور بجلیاں گرنے کا خوفناک منظر پیش کیا اور بیچ میں جس طرح بگولا اپنے اندر چیزوں کو
خطبات طاہر جلدم 249 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء سمیٹ لیتا ہے اس طرح شیر بھی ہیں، بھیڑیئے بھی ہیں ، سو ر بھی ہیں اور بھیڑ بکریاں اور ان کے بچے بھی ہیں اور گھوڑے بھی اور یہ سارے ایک دوسرے کے ساتھ جڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں، یہی نہیں لاکھوں سال پہلے کی جو قبریں دریافت ہوئی ہیں ان میں بھی یہی مناظر دیکھنے میں آئے ہیں.بعض دفعہ نہایت خوفناک ہلاکتوں نے بعض علاقوں سے زندگی کا نام ونشان مٹا دیا تو اس وقت وہ جانور جو ایک دوسرے کے شدید دشمن تھے وہ اس طرح اکٹھے ہو گئے کہ بالآخر جب ان پر موت آئی تو ان کی اکٹھی قبر بن گئی گویا ایک دوسرے سے جڑے ہوئے بڑی محبت کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں مگر یہ وقتی محبتیں زندگی نہیں بخشا کرتیں.یہ تو ایک خوف کی وجہ سے ایک منفی طاقت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں مگر صاحب عقل لوگ وہ ہوتے ہیں جو مثبت طاقتوں پر ا کٹھے ہوتے ہیں.محبتوں کے نتیجہ میں ان کے دل ملتے ہیں، ان میں رُحَمَاء بَيْنَهُمْ (الفتح:۳۰) کا نقشہ نظر آتا ہے.فرمایا! ان کا حال بھی وہی ہو گا جو ان سے پہلے قدیم قوموں کا گزر چکا ہے.یہ لوگ بچا نہیں کرتے وَلَهُمْ عَذَاب الیم اور چونکہ یہ خدا کی تقدیر سے ٹکر لے رہے ہیں.اس لئے دردناک عذاب سے بچ نہیں سکتے.اس وقت جماعت احمدیہ پر جو حالات گزر رہے ہیں اور ان کا جو نقشہ بن رہا ہے وہ انہی آیات کی تفسیر نظر آرہا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ پر زبان سے بھی حملے کئے جارہے ہیں اور قلم سے بھی کئے جارہے ہیں، جسمانی اذیتیں دے کر اور جیلوں میں ٹھونس کر بھی دکھ دیئے جارہے ہیں اور جماعت کی قیمتی جانوں کو بے دردی کے ساتھ شہید کر کے دکھ پہنچائے جارہے ہیں.مزعومہ قرطاس ابیض بھی انہی آیات کریمہ کی ایک منفی حیثیت کی تصویر پیش کرتا ہے.چنانچہ اس میں جماعت احمدیہ کے متعلق جو بہتان تراشی سے کام لیا گیا ہے وہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے.۱۹۵۳ء کی تحریک کا ذکر کرنے کے بعد اس سے کچھ نتائج نکالے گئے ہیں لیکن سب سے پہلے مزعومہ قرطاس ابیض میں جماعت احمدیہ کا یہ تجزیہ پیش کیا گیا ہے: اس کی ابتداء ایک استعماری طاقت کی انگیخت پر ہوئی اور جیسے جیسے وقت گزرتا گیا یہ مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ ہوتا چلا گیا اس نے نہ صرف برصغیر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے درمیان تلخی اور تفرقہ پیدا کیا بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک
خطبات طاہر جلدم 250 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء کی مسلمان اقوام خصوصا افریقی مسلمان اسی طرح کی تلخی اور تفرقہ کا شکار ہوئے“.( قادیانیت.اسلام کے لئے سنگین خطرہ.خلاف اسلام سرگرمیاں روکنے کیلئے حکومت کے اقدامات صفحہ 1) اور پھر ۱۹۵۳ء کی تحریک اور اس کے نتائج کا ذکر کرتے ہوئے مزعومہ قرطاس ابیض لکھتا ہے: اسی مسئلہ نے پاکستان کے سیاسی وجود میں نفرت اور فرقہ واریت کا زہر گھولنا شروع کر دیا.اس اثناء میں قادیانیوں نے بیرون ملک وفود بھیجنے شروع کر دیئے.جہاں انہوں نے اپنے لئے تبلیغی مراکز قائم کرنے شروع کر دیئے.انہوں نے اس قسم کے تبلیغی مراکز افریقہ، یورپ، اور شمالی اور جنوبی امریکہ کے ملکوں میں قائم کئے لیکن چونکہ عددی اعتبار سے کہیں بھی وہ نمایاں قوت نہیں تھے جبکہ پاکستان میں ان کی تعداد قابل لحاظ تھی اور وہ یہاں مضبوط اور اچھی طرح قدم جمائے ہوئے تھے اس لئے دوسرے ملکوں میں ان کے ساتھ آسانی سے نمٹ لیا گیا.(صفحہ ۳۸) یہ عبارت تلبیس اور دجل کا شاہکار ہے.اس کے پورے تجزیہ کے لئے تو بڑا لمبا وقت چاہئے.مختصر پہلے تو میں یہ کہتا ہوں کہ ۱۹۵۳ء کی جوتحریک تھی اس میں فساد اور نفرت کے زہر گھولنے کا ذمہ دار کون تھا ؟ اس کے لئے اس حکومت کے نمائندوں کو کیوں یہ خیال نہ آیا کہ منیر انکوائری رپورٹ پڑھ لیں اور وہ تجزیہ دیکھ لیں جو عدالت عالیہ نے پیش کیا ہے.اس عدالت کے ججوں کا نام قانون دان برادری میں تمام دنیا میں عزت سے یاد کیا جاتا ہے.جسٹس محمد منیر کوئی معمولی حیثیت کے قانون دان نہیں تھے.اسی طرح جسٹس کیانی بھی بڑے بلند پایہ قانون دان اور منصف تھے.ان کی رپورٹ کیا کہتی ہے وہ ساری رپورٹ پڑھنے کا تو وقت نہیں لیکن اس موضوع پر اگر رپورٹ کے چند اقتباسات بھی اکٹھے کر لئے جائیں تو بڑے دلچسپ خطاب کا موضوع بن جاتا ہے لیکن میں وقت کی مناسبت سے صرف ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا کہ مفسد کون تھا، گندا ذہن کون تھا ، معاشرہ میں زہر گھولنے والا اصل شخص کون تھا یا کون سی جماعت تھی ؟ چنانچہ فاضل جج لکھتے ہیں :
خطبات طاہر جلدم 251 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء ایک اردو اخبار ” مزدور ملتان سے شائع ہوتا ہے جس کا ایڈیٹرسید ابوذر بخاری ہے جو مشہور احراری لیڈ رسید عطاء اللہ شاہ بخاری کا بیٹا ہے.......آج ان کی جو چوٹی کی لیڈرشپ ہے یہ اس کی نمائندگی کر رہا ہے ) اس نے اپنی اشاعت ۱۳ / جون ۱۹۵۳ء میں (یعنی ۵۳ ء کی تحریک سے پہلے کون فساد پھیلا رہا تھا، کن باتوں کے نتیجہ میں فساد پھیلا ، وہ لکھتے ہیں) ایک مضمون شائع کیا جس میں جماعت احمدیہ کے امام کے متعلق عربی خط میں ایک ایسی پست اور بازاری بات لکھی کہ ہماری شائستگی ہمیں اس کی تصریح کی اجازت نہیں دیتی.اگر یہ الفاظ احمدی جماعت کے کسی فرد کے سامنے کہے جاتے اور نتیجہ یہ ہوتا کہ کسی کی کھوپڑی توڑ دی جاتی تو ہمیں اس پر ذرا بھی تعجب نہ ہوتا“ ( تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۸۷ ) یہ مسلمان منصفین کی رائے ہے جنہیں انصاف کا لمبا تجربہ حاصل تھا انکی رائے معمولی حیثیت نہیں رکھتی.کون فساد پھیلا رہا تھا اور کون صبر کر رہا تھا یہ خلاصہ ہے ساری تحریک کا جو انہوں نے چند الفاظ میں نکال دیا ہے.چنانچہ فاضل جج مزید لکھتے ہیں: ”جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ پرلے درجے کے مکروہ اور متبذل ذوق کا ثبوت ہیں اور ان میں مقدس زبان کی نہایت گستاخانہ تضحیک کی گئی ہے جو قرآن مجید اور نبی کریم ﷺ کی زبان ہے.( تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ صفحہ ۸۷، ۸۸) اگر ۱۹۵۳ء یاد نہیں رہا اگر ۱۹۵۳ء کی تحقیقاتی عدالت کے فیصلے دیکھنے کو جی نہیں چاہتا تو اس وقت پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے وہ کیوں نظر نہیں آرہا.امر واقعہ یہ ہے کہ کروڑوں روپیہ لوگوں سے زکوۃ کا وصول کر کے علماء ظاہر کا ایک خاص طبقہ تیار کیا جارہا ہے جن کا پیشہ احمدیوں کو گالیاں دینے کے سوا اور کچھ نہیں.بجائے اس کے کہ وہ عوام الناس کی تربیت کریں، محمد مصطفی ﷺ کے دین کی اشاعت کریں ، ان سے صرف یہی خدمت اسلام لی جارہی ہے کہ جھوٹ بولیں، احمدیوں کے خلاف گندا چھالیں اسلام کے نام پر قتل و غارت ، گھر لوٹنے اور لوگوں کے اموال کھا جانے کی تلقین کریں.غرضیکہ خدمت دین کا یہی خلاصہ ہے جو حکومت وقت علماء ظاہر سے کروارہی ہے بایں ہمہ دنیا کو یہ یقین کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ دراصل یہ احمدی ہی ہیں جو سوسائٹی میں نفرت کا بیج بوتے ہیں اور رس گھولتے ہیں گویا سارا پاکستان ان کے ظلم و ستم کا نشانہ ہے اور ان کے مخالف علمائے ظاہر بیچارے بڑے صبر سے بیٹھے رہے اور ان کے خلاف کچھ نہیں کیا لیکن آخر کہاں تک برداشت کیا جا سکتا ہے؟ گویا اپنی معصومیت کا یہ نقشہ کھینچ رہے ہیں لیکن دنیا پاگل تو
خطبات طاہر جلدم 252 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء نہیں.ہمارے پاس ان مولویوں کی Tapes موجود ہیں جن میں وہ گندی زبان استعمال کرتے اور لوگوں کو ظلم وستم پر ابھارتے ہیں اور اس وقت پاکستان میں جو گند اچھالا جا رہا ہے وہ باہر بھی نکل رہا ہے.تمہارے ہی آدمی باہر نکل کر ویسی ہی تقریریں کر رہے ہیں جو پاکستان میں احمدیوں کے خلاف کی جارہی ہیں.ماریشس میں اس وقت کیا ہو رہا ہے، ناروے میں تم لوگوں نے پہنچ کر کیا گوہر افشانیاں کی ہیں یہ ساری Tapes Recording ہمارے پاس موجود ہے.اس کے باوجود تم سمجھتے ہو دنیا پاگل ہے جو تمہاری باتوں پر یقین کرلے گی کہ احمدی تو فساد پھیلایا کرتے تھے اور یہ دوسرے غیر احمدی مسلمان بیچارے بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ بیٹھے رہے اور انہوں نے اس کے باوجود ان کے خلاف کچھ نہیں کیا.یہ تمام تصویر جوکھینچی جارہی ہے اس کے تین پہلو ہیں جن میں سے ایک ۱۹۵۳ء کی تحریک سے تعلق رکھنے والا پہلو تھا.جو بات عموماً باور کروانے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد سے پہلے مسلمان یک جان دو قالب تھے اور ایک مٹھی کی طرح مجتمع تھے.ان میں کوئی تفرقہ اور خرابی نہ تھی ، ایسی عظیم طاقت تھے کہ استعماری طاقتیں ان سے کانپ رہی تھیں.نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کا بیج بویا تا کہ مسلمانوں میں فساد پھیل جائے اور مسلمانوں کی جمعیت منتشر ہو جائے اور اسلام کی طرف سے استعماری طاقتوں کو جو نہایت ہی مہیب خطرہ لاحق ہے، وہ ٹل جائے.یہ وہ نقشہ ہے جو مزعومہ قرطاس ابیض میں جماعت احمدیہ کے خلاف کھینچا جا رہا ہے حالانکہ واقعات اس کے برعکس ہیں.چنانچہ وہی کتابیں جو خود شائع کر رہے ہیں وہاں مصنف کے اپنے قلم سے سچائی کا اظہار ہو جاتا ہے.ایک کتاب جس کی یہ لوگ خوب اشاعت کر رہے ہیں.یعنی پاکستان کی وزارت مذہبی امور کی طرف سے جولٹریچر شائع ہو رہا ہے اس میں ایک کتاب ” قادیانیت از مولوی سید ابوالحسن علی ندوی بھی شامل ہے.حکومت پاکستان نے اس کتاب کو تمام دنیا میں شائع کروایا ہے اور عربی انگریزی میں اس کے ترجمے بھی کروائے ہیں.غور کیجئے مزعومہ قرطاس ابیض میں تو یہ منظر کھینچ رہے ہیں کہ گویا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے مسلمانوں میں امن تھا اور آپس میں بے حد محبت تھی لیکن مسلمانوں کے اندر تفرقہ ڈالنے کے لئے انگریزوں نے یہ جماعت کھڑی کر دی جب کہ کتاب ”قادیانیت“ کے مصنف صاحب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے کا نقشہ کھینچتے ہوئے لکھتے ہیں:
خطبات طاہر جلدم 253 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۸۵ء ” دوسری طرف فرق اسلامیہ کا آپس کا اختلاف تشویشناک صورت اختیار کر گیا تھا.ہر فرقہ دوسرے فرقہ کی تردید میں سرگرم اور کمر بستہ تھا.مذہبی مناظروں اور مجادلوں کا بازار گرم تھا جن کے نتیجہ میں اکثر زدو کوب قتل و قتال اور عدالتی چارہ جوئیوں کی نوبت آتی.سارے ہندوستان میں ایک مذہبی خانہ جنگی سی بر پا تھی.اس صورت حال نے بھی ذہنوں میں انتشار، تعلقات میں کشیدگی اور طبیعتوں میں بیزاری پیدا کر دی تھی.پھر فرماتے ہیں: مسلمانوں پر عام طور پر یاس و ناامیدی اور حالات و ماحول سے شکست خوردگی کا غلبہ تھا.۱۸۵۷ء کی جدوجہد کے انجام اور مختلف دینی اور عسکری تحریکوں کی ناکامی کو دیکھ کر معتدل اور معمولی ذرائع اور طریقہ کار سے انقلاب حال اور اصلاح سے لوگ مایوس ہو چکے تھے اور عوام کی بڑی تعداد کسی مرد غیب کے ظہور اور ملہم اور موید من اللہ کی آمد کی منتظر تھی.( قادیانیت صفحه ۱۶، ۱۷ از مولاناسید ابوالحسن علی ندوی ناظم ندوۃ العلما لکھنو) دیکھیں جب خدا سچ نکلوانا چاہتا ہے تو یوں سچ نکلوا دیتا ہے.تلبیس اسی کو کہتے ہیں، ایک طرف جھوٹ بول رہے ہیں حقیقت پر پردے ڈال رہے ہیں.دوسری طرف کچھ اور باتیں بھی بیان کر رہے ہیں جن میں سے بیچ اچانک اچھل کر باہر آ جاتا ہے اور حقیقت حال کھل کر سامنے آجاتی ہے.یہ پس منظر تھا اور اس سلسلہ میں مسلمان علماء کے بکثرت حوالے موجود ہیں جن میں مسلمانوں کے نکبت وادبار کے نقشے کھینچے گئے ہیں.اتنے حوالے ہیں کہ ہزاروں صفحات کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں مگر اس وقت میں نے چند حوالے چنے ہیں.اخبار وکیل ۱۵ جنوری ۱۹۲۷ء میں لکھا ہے؛ اس مرض کا حدوث آج سے نہیں بلکہ آج سے بہت پہلے شروع ہو چکا ہے.مسلمانوں نے پہلے انفرادی زندگی میں یہود اور نصاریٰ کی اتباع کی اور اب اجتماعی زندگی میں کرنے لگے اس کا نتیجہ تنسیخ خلافت ہے.اور مولویوں کا مشہور اخبار ”الجمعیۃ‘ دیلی ۴ را پریل ۱۹۲۶ء لکھتا ہے:
خطبات طاہر جلدم 66% 254 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء دفعہ پردہ اٹھ گیا دنیا کو صاف نظر آ گیا کہ امت مسلمہ اگر کسی مجتمع شیرازہ اور کسی بندھی ہوئی تسبیح کا نام ہے تو آج صحیح معنوں میں امت مسلمہ ہی موجود نہیں ہے بلکہ منتشر اوراق ہیں.چند بکھرے ہوئے دانے ہیں چند بکھری ہوئی بھیڑیں ہیں جن کا نہ کوئی ریوڑ ہے اور نہ گلہ بان“.اور زمیندار اخبار اپنی ۱۸ ر ستمبر ۱۹۲۵ء کی اشاعت میں مسلمانان ہند کو آنحضرت ﷺ کی طرف سے مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے: تم کہلاتے تو میری امت ہو مگر کام یہودیوں ، بت پرستوں کے کرتے ہو.تمہارا شیوہ وہی ہو رہا ہے جو عاد اور ثمود کا تھا کہ رب العالمین کو چھوڑ کر بعل ، یغوث، نسر اور یعوق کی پرستش کر رہے ہو.تم میں سے اکثر ایسے ہیں جو میری توہین کرتے ہیں.سوال یہ ہے کہ کیا یہ سارا سلسلہ جماعت احمدیہ نے شروع کروایا تھا ؟ آخر لوگ کیوں خدا کا خوف نہیں کھاتے اور ایسے جھوٹ اور ایسے بہتان کیوں باندھ رہے ہیں جن کو کوئی بھی معقول انسان ایک لمحہ کے لئے بھی تسلیم نہیں کر سکتا.اسی پس منظر پر ذرا نظر دوڑائیں اور دیکھیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے سے پہلے امت مسلمہ کا جو حال تھاوہ بعد میں بھی جاری رہا تو عقل بے اختیار بول اٹھتی ہے کہ اس قوم کو تو کوئی زندہ کرنے کے لئے ہی آسکتا ہے........اسے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ تو پہلے ہی دینی و دنیوی ہر دو لحاظ سے مردہ تھے اور عملاً یہی ہوا کچھ زندگی کے آثار جوان کے اندر پیدا ہوئے وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پیدا ہوئے یعنی کچھ لوگ وہ تھے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قبول کر کے زندگی حاصل کی ، کچھ وہ ہیں جو آپ کی مخالفت کی وجہ سے اکٹھے ہو رہے ہیں قُلُوبُهُمُ شتی دل تو ان کے پھٹے ہوئے ہیں لیکن یہ جو تھوڑا سا سہارا ملا ہے.یہ جو سانس لینے کے دن مل گئے ہیں یہ صرف احمدیت کی مخالفت کی وجہ سے ہے.اخبار البشیر ا ٹا وہ ستمبر ۱۹۲۵ء لکھتا ہے: " بعثت پیغمبر آخرالزماں کے وقت عیسائیوں اور یہودیوں میں جو
خطبات طاہر جلدم 255 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء فرقہ بندی تھی ان کی تاریخ اٹھا کر پڑھو اور پھر آج کل کے علماء اسلام کا ان سے مقابلہ کرو تو صاف طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ آج بہت سے علماء اسلام کی جو حالت ہے وہ فوٹو ہے اس زمانہ کے علماء یہود اور نصاری کا“.اور جہاں تک مسلمان شعراء کا تعلق ہے مسلمانوں کی زبوں حالی پر ان کے اشعار بڑے ہی دردناک ہیں.مولانا حالی نے نوحہ کہا ہے.پھر شکوہ اور جواب شکوہ میں علامہ اقبال نے جس طرح ذکر کیا ہے ایک لمبی کہانی ہے.میں چند شعر آپ کو سنا تا ہوں.مولاناحالی فرماتے ہیں : رہا دین باقی نہ اسلام باقی اک اسلام کا رہ گیا نام باقی اسلام کو ایک باغ سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں: پھر اک باغ دیکھے گا اجڑا سراسر جہاں خاک اڑتی ہے ہر سو برابر نہیں تازگی کا کہیں نام جس پر ہری ٹہنیاں جھڑ گئیں جس کی جل کر نہیں پھول پھل جس میں آنے کے قابل ہوئے روکھ جس کے جلانے کے قابل پھر بڑے درد کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کو مخاطب کر کے عرض کرتے ہیں: اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے امت پر تری آکے عجب وقت پڑا ہے جو دین بڑی شان سے نکلا تھا وطن سے پردیس میں وہ آج غریب الغرباء ہے جس دین کے مدعو تھے کبھی سینز رو کسری خود آج وہ مہمان سرائے فقراء ہے وہ دین ہوئی بزم جہاں جس سے چراغاں
خطبات طاہر جلد۴ 256 اب اس کی مجالس میں نہ بتی نہ دیا ہے بگڑی ہے کچھ ایسی کہ بنائے نہیں بنتی ہے اس سے یہ ظاہر کہ یہی حکم قضاء ہے فریاد ہے اے کشتی امت کے نگہباں بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۸۵ء ( مسدس حالی.سنگ میل پبلیکیشنز لاہور صفحہ ۳۸ ،۱۰۹) اور علامہ اقبال جن کے تبصروں سے تم لوگوں نے اپنے مزعومہ قرطاس ابیض کو سجایا ہوا ہے.اگر ان کی بات بقول تمہارے خدا کا کلام ہے تو اس کلام کو بھی تو پھر سنو ! علامہ صاحب مسلمانوں کے متعلق کہتے ہیں: وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود (جواب شکوہ صفحہ ۱۱) تم علامہ اقبال کے حوالے سے احمدیت کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرتے ہو گو یا کسی پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہو گیا ہے اور وہ فخر سے پیش کیا جارہا ہے.مگر یہ بھی تو سنو کہ علامہ اقبال کی زبان تمہیں مخاطب کر کے کیا کیا کچھ کہ گئی ہے! اور اب مولوی مودودی صاحب کی سنئے.فرماتے ہیں: بازاروں میں جائیے مسلمان رنڈیاں آپ کو کوٹھوں پر بیٹھی ہوئی نظر آئیں گی اور مسلمان زانی گشت لگاتے ملیں گے.جیل خانوں کا معائنہ مسلمان چوروں“.مسلمان ڈاکوؤں“ اور ”مسلمان بدمعاشوں“ سے آپ کا تعارف ہوگا.دفتروں اور عدالتوں کے چکر لگائیے رشوت خوری، جھوٹی شہادت، جعل ، فریب ،ظلم اور ہر قسم کے اخلاقی جرائم کے ساتھ آپ لفظ مسلمان کا جوڑ لگا ہوا پائیں گے.سوسائٹی میں پھرئیے.کہیں آپ کی ملاقات مسلمان شرابیوں سے ہوگی.کہیں آپ کو ”مسلمان قمار باز ملیں 66
خطبات طاہر جلدم 257 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء " گے.کہیں مسلمان سازندوں اور مسلمان گویوں اور مسلمان بھانڈوں“ سے آپ دو چار ہوں گے.بھلا غور تو کیجئے ، یہ لفظ مسلمان کتنا ذلیل کر دیا گیا ہے اور کن کن صفات کے ساتھ جمع ہو رہا ہے.مسلمان اور زانی مسلمان ، اور شرابی مسلمان اور قمار باز مسلمان اور رشوت خور ! اگر وہ سب کچھ جو کا فر کرسکتا ہے ، وہی مسلمان بھی کرنے لگے تو پھر مسلمان کے وجود کی دنیا میں حاجت ہی کیا ہے.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۲۸، ۲۹ زیر عنوان تحریک اسلامی کا تنزل) جماعت احمدیہ پر اعتراض کرنے والے اس اقتباس کو پڑھیں اور غور کریں.آخر کیوں ان میں خدا کا خوف نہیں رہا.ہاں انہیں خوف تو ہے مگر ہمارا خوف ہے کہ یہ غالب نہ آجائیں.مولوی مودودی صاحب کے مزید تبصرے بھی سنئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بارہ میں تو کہتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک بڑی دلخراش باتیں کیں، مسلمانوں پر حملے کئے لیکن جس کو مزاج شناس نبوت“ کہا جاتا ہے ان کی باتیں بھی سن لیجئے لکھتے ہیں.آپ اس نام نہاد مسلم سوسائٹی کا جائزہ لیں گے تو اس میں آپ کو بھانت بھانت کا ”مسلمان نظر آئے گا.مسلمان کی اتنی قسمیں ملیں گی کہ آپ شمار نہ کر سکیں گے.یہ ایک چڑیا گھر ہے جس میں چیل، کوے، گدھ ، بٹیر ، تیتر اور ہزاروں قسم کے جانور جمع ہیں اور ان میں سے ہر ایک چڑیا ہے.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۳۱ زیر عنوان تحریک اسلامی کا تنزل) یہ مودودی صاحب کے الفاظ ہیں.انہوں نے جس حال میں مسلمانوں کو پایا وہی کچھ لکھا.کیا اس امت کو تباہ کرنے کے لئے انگریز نے ایک آدمی کو کھڑا کیا تھا جو بقول مودودی صاحب مسلمان تو کیا انسانی اقدار سے گر کر جانوروں کے چڑیا گھر کا نقشہ پیش کرتی ہے ؟ ہاں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ آنے والا آیا اور اکٹھا کر گیا، کچھ جان پیدا کر گیا، ایک ولولہ تو بخش گیا خواہ وہ مخالفت ہی کا منفی ولولہ تھا.مولوی مودودی صاحب مزید فرماتے ہیں: ” خدائی شریعت میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بناء پر اہل
خطبات طاہر جلدم 258 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء حدیث، حنفی ، دیو بندی، بریلوی ، شیعہ ، سنی وغیرہ الگ الگ امتیں بن سکیں ( یعنی صرف ایک ہی امت بن سکتی ہے جن کا نام جماعت اسلامی ہے اور کوئی نہیں بن سکتی.یہ امتیں یعنی حنفی ، دیو بندی وغیرہ کیا ہیں تو فرماتے ہیں کہ ) یہ امتیں جہالت کی پیدا کی ہوئی ہیں.خطبات مودودی صفحہ ہ کے زیر عنوان دین اور شریعت ) اور جہاں تک مسلمان عوام کا تعلق ہے اور جہاں تک مسلمان قوم کا تعلق ہے اس بارہ میں تبصرہ کرتے ہوئے مودودی صاحب لکھتے ہیں: یہ انبوہ عظیم جس کو مسلمان قوم کہا جاتا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے ۹۹۹ فی ہزار افراد نہ اسلام کا علم رکھتے ہیں ، نہ حق اور باطل کی تمیز سے آشنا ہیں، نہ ان کا اخلاقی نقطہ نظر اور ذہنی رویہ اسلام کے مطابق تبدیل ہوا ہے ، باپ سے بیٹے اور بیٹے سے پوتے کو بس مسلمان کا نام ملتا چلا آ رہا ہے.اس لئے یہ مسلمان ہیں.( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم صفحہ ۱۳۰ ز بر عنوان اسلام کی راہ راست اور اس سے انحراف کی راہیں ) جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس قسم کے بے شمار اور بکثرت حوالے ہیں جن میں قوم کے پرانے اور نئے علماء نے یہ تسلیم کیا ہوا ہے کہ مسلمانوں کی کیا حالت ہے.اس ساری جہالت کا ذمہ دار جماعت احمدیہ کو قرار دے دینا حد سے زیادہ ظلم ہے.چند حوالے میں بتا دیتا ہوں ملکوں ملکوں کے الگ الگ حوالے ہیں اگر کسی نے پڑھنے ہوں تو وہاں سے دیکھ سکتا ہے مثلاً ہندوستان میں حیدر آباد دکن اور علاقہ سی پی مہاراشٹر.اہل عرب.مصر اور عراق.برما.ٹرکی.جزیرہ جاوا.سیام.روس اور بر بری الجزائر کا نام لے لے کر علماء کے حوالے اور تبصرہ نگاروں کے تبصرے موجود ہیں اور اخباروں میں چھپے ہوئے ہیں.چنانچہ مسلمانوں کی حالت کے بارہ میں مشہور اخبارات ** زمیندار ۱۶ جولائی ۱۹۲۶ء
خطبات طاہر جلدم 259 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء اہلحدیث ۱۸ فروری ۱۹۲۱ء ہمدم ۱۸ ستمبر ۱۹۲۰ء مستقل ۱۲؍ جولائی ۱۹۲۹ء اہلحدیث ۱۴؍ جنوری ۱۹۲۱ء اہلحدیث ۲۸ / جنوری ۱۹۲۱ء اہلحدیث ۱۶ را پریل ۱۹۱۰ء اخبار سیاست ۵/نومبر ۱۹۲۵ء اخبار ملاپ ۱۶ راگست ۱۹۲۵ء اخبار مدینہ یکم اپریل ۱۹۲۵ء اخبار ہمدم ۱۷ار جنوری ۱۹۲۵ء اخبارا نقلاب یکم جون ۱۹۳۰ء اہلحدیث ۲۵ /جنوری ۱۹۲۰ء اخبار طوفان ۲۷ ستمبر ۱۹۳۰ء اخبار تنظیم ۸/نومبر ۱۹۲۵ء اخبار اتحاد ۳۱ رمئی ۱۹۳۱ء اخبار ہمت ۲۴ اگست ۱۹۲۹ء اخبار مشرق ۱۶ رمئی ۱۹۳۰ ء وغیرہ نے تفصیلی تبصرے کئے ہیں.اور یہ تو صرف چند مشہور اخبارات کے تبصرے ہیں.اس موضوع پر مختلف کتب میں تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے خود مودودی صاحب کی کتب میں بکثرت حوالے موجود ہیں جو اہل علم سے پوشیدہ نہیں.اب جہاں تک مزعومہ قرطاس ابیض کی اس بات کا تعلق ہے کہ جب ۱۹۵۳ء کی تحریک چل پڑی اور پاکستان میں گڑ بڑ ہوئی تو گویا اس کے بعد پھر احمدیوں نے باہر نکلنا شروع کیا اور پھر یہ یورپ بھی پہنچ گئے ، افریقہ بھی پہنچ گئے.اس رسالہ کا یہ فقرہ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے !! ہوش سے بات کرو.عقل کے ناخن لو، پاکستان کا تو ابھی وجود بھی نہیں تھا.تم خود مانتے ہو بلکہ بڑے فخر سے کہتے ہو کہ سوسالہ مسئلہ تم نے حل کر دیا ہے.پس جماعت احمد یہ تو خدا کے فضل سے قیام پاکستان سے پہلے قائم ہو چکی تھی اور تمام دنیا میں پھیل چکی تھی.پاکستان بننے کے بعد تو تم نہیں پھیلے.چنانچہ امریکہ میں ۱۹۲۰ء میں باقاعدہ مشن قائم ہو چکا تھا.انگلستان میں ۱۹۱۳ء میں مشن قائم ہوا.یہ جگہ جہاں آپ اس وقت بیٹھے ہوئے ہیں ۱۹۲۰ء میں خریدی گئی.انگلستان کے پہلے مبلغ حضرت چوہدری فتح محمد سیال صاحب رضی اللہ عنہ تھے.غانا اور نائیجریا مغربی افریقہ میں ۱۹۲۱ء میں مشن نے کام کرنا شروع کیا.مشرقی افریقہ میں ۱۸۹۶ء یعنی بیسویں صدی سے بھی پہلے جماعت احمدیہ قائم ہو چکی تھی ویسے با قاعدہ مشن ۱۹۳۴ء میں کھولا گیا.ہنگری، پولینڈ اور چیکوسلواکیہ میں ۱۹۳۰ء میں تبلیغی مراکز کھولے جاچکے تھے.اسی طرح سپین ، اٹلی اور البانیہ میں بھی ۱۹۳۶ء میں مشن قائم ہوئے.برما میں بھی ۱۹۳۵ء میں
خطبات طاہر جلد۴ 260 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء تبلیغی مشن قائم کیا گیا.غرضیکہ آپ سارے عالم کا جائزہ لیں تو یہ امر بخوبی سمجھ میں آجاتا ہے کہ جماعت احمد یہ تو خدا کے فضل سے مدتوں پہلے اکناف عالم میں پھیل بھی چکی تھی اور دنیا میں کیا کام کر رہی تھی اب یہ حصہ رہ گیا ہے تو اب اس کو بھی میں بیان کر دیتا ہوں اور اس سلسلہ میں ایسے ایسے لوگوں کی رائے آپ کو سناتا ہوں جن کی آراء پر تمہیں اعتماد کرنا پڑے گا.یہ احمدی تو نہیں مگر اس کے باوجود حق بات ان کی زبان پر جاری ہو رہی ہے.چنانچہ اخبار زمیندار نے دسمبر ۱۹۲۶ء میں لکھا: ”ہم مسلمانوں سے دریافت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیا میں اپنے دین مقدس کو پھیلانے کے لئے کیا جدو جہد کر رہے ہیں.ہندوستان میں سات کروڑ مسلمان آباد ہیں.کیا ان کی طرف سے ایک بھی قابل ذکر تبلیغی مشن مغربی ممالک میں کام کر رہا ہے؟ ( مگر لکھنے والے کو پتہ نہیں تھا کہ ابھی تیل دریافت نہیں ہوا.ناقل ) گھر بیٹھ کر احمدیوں کو برا بھلا کہہ لینا نہایت آسان ہے.لیکن اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ یہی ایک جماعت ہے جس نے اپنے مبلغین انگلستان میں اور دیگر یوروپین ممالک میں بھیج رکھے ہیں.کیا ندوۃ العلماء، دیو بند، فرنگی محل اور دوسرے علمی اور دینی مرکزوں سے یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ تبلیغ واشاعت حق کی سعادت میں حصہ لیں.کیا ہندوستان میں ایسے متمول مسلمان ہیں جو چاہیں تو بلا دقت ایک ایک مشن کا خرچ اپنی گرہ سے دے سکتے ہیں.یہ سب کچھ ہے لیکن افسوس کہ عزیمت کا فقدان ہے.فضول جھگڑوں میں وقت ضائع کرنا اور ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنا آج کل کے مسلمانوں کا شعار ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ اس بے راہ قوم پر رحم کرے“.( زمیندار دسمبر ۱۹۲۶ء) اور انقلاب ۲ رمئی ۱۹۳۰ء لکھتا ہے: در تبلیغی مذہب والے کو اس چیز کی نشر وتبلیغ کی دھن ہوتی ہے جس کو وہ سچا سمجھتا ہے.پھر لکھتا ہے:.مسلمانوں کی موجودہ خوابیدہ حالت کو دیکھ کر ماننا پڑتا ہے کہ ان
خطبات طاہر جلدم 261 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء کے پاس حق ایک شمہ برابر نہیں ہے ورنہ کیا وجہ ہے انہیں تمام عالم میں نشر واشاعت کی دھن نہیں.ان کے مقابلہ میں ایک اکیلی جماعت احمد یہ ہے.جس کے مخالف نہ صرف تمام دیگر مذاہب ہیں بلکہ مسلمانوں کی انجمنیں بھی خاص اسی جماعت کے در پئے ایذا رہتی ہیں لیکن باوجود اسکے یہ چھوٹی سی جماعت دن رات اسی کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ اسلام کی نعمت سے خود ہی لطف اندوز نہ ہو بلکہ ساری دنیا کو فائدہ اٹھانے کے قابل بنادے“.اب دیکھیں کس طرح ان کا جھوٹ کھل جاتا ہے.مزعومہ قرطاس ابیض میں نقشہ یہ بھینچ رہے ہیں کہ احمدی ساری دنیا میں مسلمانوں کے اندر فساد پھیلانے کے لئے پھلے ہیں ، پاکستان میں چونکہ فساد نہیں کروا سکے.اس لئے بیرونی ملکوں میں پھیل گئے اور ۱۹۵۳ء کے بعد یہ برآمد ہوئے پاکستان سے انالله وانااليه راجعون.نہ تاریخ کا ان کو کوئی پتہ ہے، نہ دنیا کے حالات کی کوئی واقفیت ہے اور نہ عقل.یہ رسالہ ان کی جدید تحقیقی کوششوں کا نچوڑ ہے، اس کی تو دو کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ہے اور واقعات کیا ہیں خودان کے اخبارات جن کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں وہ لکھتے ہیں کہ دنیا کے سارے مذاہب جماعت احمدیہ کے دشمن ہیں کیونکہ اسلام کے نمائندے کے طور پر جماعت تمام مذاہب سے برسر پر کار ہے اور پھر علم کی حد یہ ہے کہ خود مسلمان بھی اس کے دشمن ہوئے جاتے ہیں یعنی صرف دیگر مذاہب ہی جماعت احمدیہ کے مخالف نہیں بلکہ مسلمانوں کی انجمنیں بھی خاص طور پر اس جماعت کے در پئے ایذار ہتی ہیں.پس کون فساد کرا رہا ہے؟ کون ایذا دہی کے سامان بہم پہنچارہا ہے، جماعت احمدیہ یا مسلمانوں کی یہ انجمنیں؟ لیکن باوجود اس کے کہ جماعت احمد یہ ایک چھوٹی سی جماعت ہے پھر بھی دن رات اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ اسلام کی نعمت سے خود ہی متمتع نہ ہو بلکہ ساری دنیا کو اس سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنائے.چنانچہ رسالہ ”حنیف نومبر ۱۹۲۵ء میں غازی محمود دھرم پال صاحب نے ایک مقالہ لکھا جس میں وہ لکھتے ہیں :.”مولانا ظفر علی کے وہ مضامین میری نظر سے گزرتے تھے جو احمدیوں کی تکفیر اور ارتداد کی تائید میں زوروشور سے زمیندار کے کالموں میں
خطبات طاہر جلدم 262 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء شائع ہورہے تھے تو ان میں سے ہر ایک مضمون کا ایک ایک لفظ دو دھاری تلوار کی طرح میرے دل کو کاٹتا اور پارہ پارہ کرتا تھا.میں اکثر یہ اعلان کر چکا ہوں کہ احمدی نہیں ہوں اور احمدیوں کے بعض عقائد کے ساتھ دیانتداری کے ساتھ اختلاف ہے مگر باوجود اختلاف کے میں ان کو مسلمان سمجھتا ہوں اور ہندوستان کے اندر اور باہر وہ غیر مسلموں کے حملوں سے اسلام کے تحفظ کے متعلق جو بھی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کو قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں.“ کیا یہ وہ فساد ہے جو احمدی ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں؟ پھر مغربی افریقہ کے مسلمانوں کی بیداری پر تبصرہ کرتے ہوئے لندن کا رسالہ ”دی افریقن ورلڈ“ The African) (World اس رائے کا اظہار کرتا ہے کہ: نائیجریا میں احمدی جماعت آزادی حقوق کی جدوجہد میں سب سے پیش پیش ہے.( یہ ہے وہ فتنہ و فساد جو احمدیت کے نام پر پاکستان سے بقول قرطاس ابیض دساور کو بھیجا جا رہا ہے ) چند سال ہی کی بات ہے کہ وہاں احمدی وکیل اور احمدی ڈاکٹر پریکٹس کرتے نظر آئیں گے کیونکہ ان لوگوں کی رفتار نائیجریا میں روز افزوں ترقی پر ہے.یہ یقینی بات ہے کہ چند سال میں ہی افریقی مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں اس ملک کے عیسائیوں کے دوش بدوش نظر آئیں گے اور سیاست مدن کے ایک دانا مبصر کو یہ بات نظر آ رہی ہے“ پاکستان سے ایک دفعہ ایک وفد نائیجیریا گیا.اس کا سارا خرچ حکومت پاکستان نے برداشت کیا تھا.اس وفد کو اس لئے بھجوایا گیا تھا کہ مغربی افریقہ کے ممالک میں دورہ کر کے جماعت احمدیہ کے خلاف نفرت پھیلائی جائے اور ان لوگوں کو اکسایا جائے کہ وہ بھی احمدیت کے مخالفین میں شامل ہو جائیں تا کہ مل کر اس جماعت کی بیخ کنی کی جائے.یہ پرانی بات ہے.اس وقت مولا نانسیم سیفی صاحب نائیجریا میں ہمارے مبلغ انچارج ہوا کرتے تھے.تو اس وفد کے متعلق یہ دلچسپ بات معلوم ہوئی کہ ان کی کسی نے پذیرائی ہی نہ کی.نہ تو ان کو ریڈیو پر موقع ملا اور نہ ہی ان کو ٹیلی ویژن میں
خطبات طاہر جلد۴ 263 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء آنے دیا گیا.اخباروں نے بھی کوئی خبر شائع نہ کی تو احمدیت کی بیخ کنی پر مامور پاکستانی وفد ہمارے مبلغ سے درخواست کرنے پر مجبور ہو گیا اور کہنے لگا بڑے بے عزت اور ذلیل ہورہے ہیں.خدا کے لئے ہمارا کچھ انتظام کرو.ہم واپس جا کر کیا منہ دکھا ئیں گے.چنانچہ ہمارے مبلغ نے اس وقت کے نائب وزیر اعظم سے درخواست کی کہ پاکستانی ہمارے بھائی ہیں اتنا ظلم نہ کرو.خواہ کسی بھی نیت سے وزیر سے کہ بھائی نیت آئے ہیں.ان کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی تو ضرور ہونی چاہئے.چنانچہ نائب وزیر اعظم صاحب نے کہا ہم ان کی دعوت کرتے ہیں اور آپ بھی تشریف لائیں اور خطاب کریں.چنانچہ وفد کی دعوت کی گئی اور وہاں انہوں نے جو خطاب کیا اس میں بھی وہ شرارت سے باز نہ آئے اور بعض ایسے فقرے استعمال کر دیے جن سے جماعت احمدیہ کے متعلق شکوک پیدا ہو سکتے تھے.نائب وزیر اعظم صاحب بڑے ذہین آدمی تھے مسکرا کر سنتے رہے.آخر میں جب وہ تقریر کے لئے کھڑے ہوئے تو انہوں نے کہا کہ میاں ! آپ کس جہان کی بات کر رہے ہیں.افریقہ پر جب دنیا کی نظر ہی کوئی نہیں تھی کیونکہ یہ ایک تاریک براعظم تصور کیا جاتا تھا، جب افریقہ کا نام مصیبتوں اور دکھوں کے ساتھ وابستہ تھا، اس وقت آپ لوگ تو ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے.کس نے ہماری فکر کی یہ جماعت احمد یہ ہے جس نے ہمیں عیسائیوں کے چنگل سے نجات دلائی.یہ جماعت احمدیہ ہے جس نے ہمیں انسانیت کے سبق سکھائے.اس جماعت کے متعلق آج تم یہ کہنے کے لئے آگئے ہو کہ تمہارے تعلقات کی بناء پر ہم اس جماعت کی دشمنی شروع کر دیں تو یہ خیال دل سے نکال دو.یہ خیال واپس لے جاؤ اپنے ملک میں.یہ جماعت ہماری محسن ہے اور ہم اور جو کچھ بھی ہوں محسن کش بہر حال نہیں.مگر اب یہ لوگ سارے واقعات بھول گئے ہیں اور سمجھتے ہیں افریقہ میں پتہ ہی کچھ نہیں کیا ہو رہا ہے.بس قرطاس ابیض پڑھیں گے اور ایک دم کہہ دیں گے اوہ ! بڑی خراب جماعت ہے.اس کو ہلاک کر دینا چاہئے.ساری دنیا ہوش رکھتی ہے بے عقل نہیں ہے ان کو پتہ ہے کیا ہورہا ہے.وہ نہ صرف اپنی تاریخ سے واقف ہیں بلکہ تمہاری تاریخ سے بھی واقف ہیں.اور پھر اور سنئے ! شیخو شغاری صاحب جو نائیجریا کے سابق صدر تھے انہوں نے جماعت احمدیہ کی طرف سے کیا فساد دیکھا اور کس طرح اس مسئلہ کو نمٹایا، اس کا پتہ ذیل کے اقتباس سے لگ جاتا ہے.ویسے پاکستان میں تو کہتے ہیں کہ نمٹ لیا گیا ہے، ختم ہو گیا ہے یہ مسئلہ اور باہر کی دنیا
خطبات طاہر جلدم 264 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء میں تھے ہی تھوڑے.اس لئے بیرونی دنیا خود ہی اس مسئلہ کو نمٹا چکی ہے.پس جرات دیکھیں کہ نہ صرف یہ کہ ایک سراسر جھوٹا رسالہ شائع کیا بلکہ مختلف زبانوں میں ترجمہ کروا کر اسے ساری دنیا میں پھیلا رہے ہیں.پڑھنے والا ان کے متعلق کیا سوچے گا کہ جماعت احمد یہ یورپ میں بھی نہیں رہی ، افریقہ میں بھی نہیں رہی، امریکہ میں بھی نہیں رہی ، ہر ایک ملک میں ان کی صف لپیٹ دی گئی ہے کیونکہ یہ بالکل معمولی سی تعداد میں تھے اس لئے ہر ملک میں بڑی عمدگی سے اس مسئلہ سے نمٹا جا چکا ہے لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کیا فساد مچاتی ہے.شیخو شغاری صاحب نے اپنی تقریر میں فرمایا: یہ امر میرے لئے باعث سکون ہے کہ جماعت احمدیہ تبلیغ اسلام ، سکولوں اور ہسپتالوں کے قیام میں بدستور بڑے عزم و ثبات کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے.اس جہت میں جماعت کی مساعی انتہائی قابل تعریف اور دوسری رضا کار تنظیموں کے لئے باعث تقلید ہیں.جن پر جماعت احمد یہ بجا طور پر فخر کر سکتی ہے“.یہ ہے مسئلہ جو دساور کو بھیجا گیا تھا اور اس سے اس طرح نمٹ لیا گیا ہے.اور سیرالیون مسلم کانگریس کے صدر اور ملک کے وزیر مملکت مصطفی سنوسی نے فرمایا: احمدیت ایک سچائی ہے اور سچائی کے لئے دن رات ہماری بے لوث خدمت کر رہی ہے.۱۲ سیکنڈری سکول اور ۵۰ پرائمری سکول چلانا معمولی بات نہیں.یہ کام صرف اخلاص، جذبہ، نیک نیتی جیسی خوبیوں سے آراستہ لوگ ہی سرانجام دے سکتے ہیں“.جماعت احمدیہ کی تعلیمی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے سیرالیون کے وزیر رسل و رسائل آنریبل کا نڈے بورے نے ایک موقع پر فرمایا: ایک بہت ہی قلیل عرصہ میں جماعت احمدیہ نے بڑے کارنامے کر دکھائے ہیں.تعلیم کے لحاظ سے بہت سے پرائمری سکولوں کے علاوہ سیکنڈری سکول بھی قائم کئے ہیں.لوگوں کی خدمت کے لئے احمدی ڈاکٹر تشریف لا رہے ہیں اور لوگوں کی روحانی اصلاح کے لئے مبلغین ملک کے تقریباً ہر حصہ
خطبات طاہر جلدم 265 خطبه جمعه ۲۲ / مارچ ۱۹۸۵ء میں موجود ہیں.( بحوالہ الفضل ۱۸ / فروری ۱۹۶۲ء) اور خود پاکستانی نمائندے جو مختلف وقتوں میں وہاں دورہ کرتے رہے ہیں ان میں ایک کی زبانی سنئے کہ جماعت احمدیہ کیا ہے اور کس طرح اس مسئلہ سے نمٹا جا چکا ہے.پاکستان ٹائمنر لاہور میں ایک مضمون شائع ہوا جسے مشرق وسطی کے نمائندہ خصوصی فرید الیس جعفری نے لکھا تھا.جعفری صاحب حکومت پاکستان کی طرف سے بھجوائے جانے والے اس کشمیر ڈیلی گیشن کا ذکر کرتے ہیں جو افریقہ کے دورہ پر گیا تھا.جعفری صاحب خود بھی اس وفد میں شامل تھے.انہوں نے یہ نوٹ انگریزی میں لکھا ہے میں اس کا اردو میں ترجمہ پڑھ کر سنادیتا ہوں : احمدی مبلغین حیرت انگیز طور پر بہت مقبول ہیں یہاں تک کہ صدر نکرومہ کے نزدیک بھی وہ ہر دل عزیز ہیں.مجھے بتایا گیا کہ وہ حقیقی معنوں میں انسانی خدمت کر رہے ہیں کیونکہ وہ غانا کے نو جوانوں کو مذہبی اور دنیوی تعلیم دیتے ہیں اور کسی قسم کی تلخی یا نفرت لوگوں کے درمیان پیدا نہیں کرتے ( تم تو کہتے ہو تلخی پیدا کرنے جاتے ہیں نفرت پیدا کرنے جاتے ہیں لیکن تمہارے یہ اپنے نمائندے جو وفد کا حصہ تھے وہ کہہ رہے ہیں کہ احمدی کسی قسم کی تلخی اور نفرت پیدا کرنے کے لئے نہیں آئے بلکہ ) وہ درحقیقت لوگوں کے درمیان اتحاد کے لئے کام کر رہے ہیں.مجھے بتایا گیا ہے کہ احمدی مبلغین کا لوگوں سے رابطہ عیسائی مبلغین سے بھی بہتر ہے.انہیں خوش آمدید کہا جاتا ہے اور پسند کیا جاتا ہے.(پاکستان ٹائمنر لاہور ۱۴ را گست ۱۹۶۴ صفحه ۱۲-۱۴) اس قسم کے اور بھی بہت سے حوالے ہیں لیکن اس مضمون کا ایک اور حصہ بیان کرنا ضروری ہے اس لئے اس کو میں سر دست ختم کرتا ہوں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جماعت احمد یہ فساد پیدا نہیں کر رہی تو آخر دنیا میں ملک ملک میں فساد کیوں پیدا ہوتا ہے.دنیا میں جگہ جگہ فساد برپا ہے.مسلمان آپس میں پھٹے ہوئے ہیں ، ان کی حالت زار ہوگئی ہے.احمدیت کے خلاف اکٹھے ہو جاتے ہیں مگر دیکھنا یہ ہے کہ آخر یہ لوگ آپس میں کیوں لڑتے ہیں جس کی وجہ سے مولوی مودودی صاحب کی نظر میں تو دنیا جہان کی ساری
خطبات طاہر جلدم 266 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء گندگیاں اور ساری برائیاں نعوذ باللہ من ذالک امت مسلمہ میں جمع ہوگئی ہیں تو اس کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ فداہ نـفـســی و امـی وابــی و جانی ومالی) کی طرف رجوع کرنا چاہئے کیونکہ آپ قیامت تک امت کے رہنما، امت کے بادشاہ اور امت کے سر براہ ہیں.ہمارا سب کچھ آپ کے قدموں میں فدا ہو.خدا تعالیٰ نے امت مسلمہ کے قیامت تک کے حالات آنحضرت علی پر روشن فرما دیئے ہیں.آپ نے امت مسلمہ کو خطرات سے متنبہ فرما دیا.پس آپس میں بحثوں کی بجائے یا ایک دوسرے کے ساتھ لڑنے جھگڑنے صلى الله کی بجائے آنحضور ﷺ کی طرف رجوع کرنا چاہئے کہ اے ہمارے پیارے آقا ! آپ ہمیں بتائیں کہ ان فسادات کا کون ذمہ دار ہے.کس نے امت مسلمہ میں زہرنی گس گھول رکھی ہے.کس نے ظلم اور فساد کو پھیلا رکھا ہے جس کی وجہ سے امت محمدیہ کا جوڑ جوڑ دکھ رہا ہے.حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنھما سے روایت ہے کہ: و آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے.یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کا مرتکب ہوا تو میری امت میں سے بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی لیکن ایک فرقے کے سوا باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے تو حضور ہ نے فرمایا وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیرا صل الله ہوگا.(جامع ترمذی کتاب الایمان باب افتراق هذه الامة)
خطبات طاہر جلدم 267 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء یہ تو ایک عمومی فساد ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے کہ نعوذ بالله من ذالک.امت مسلمہ کسی زمانہ میں کسی حد تک یہود کے مشابہ ہو جائے گی.یہ آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے جو ایک نہ ایک دن ضرور پورا ہو کر رہے گا.ایک اور حدیث بھی ہے جس سے اس مضمون پر مزید روشنی پڑتی ہے چنانچہ:.”حضرت علی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا عنقریب ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا.الفاظ کے سوا قرآن کا کچھ باقی نہیں رہے گا.یعنی عمل ختم ہو جائے گا.اس زمانہ کے لوگوں کی مسجد میں بظاہر تو آباد نظر آئیں گی لیکن ہدایت سے خالی ہوں گی ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہوں گے.علماء هم شر من تحت ادیم السماء.(ان کے علماء کی اب نشاندہی ہوگئی کہ ان کے علماء آسمان کے نیچے بسنے والی مخلوق میں سے بدترین ہوں گے ) ان میں سے ہی فتنے اٹھیں گے اور ان میں ہی لوٹ جائیں گے یعنی تمام خرابیوں کا وہی سر چشمہ ہوں گے.( مشکوۃ المصابيح كتاب العلم الفصل الثالث رواہ بیہقی فی شعب الایمان ) یعنی تمام خرابیوں کی جڑ مولوی ہوں گے اور وہی ہر قسم کے فساد کا سر چشمہ ہوں گے فرمایا آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے اور میری امت میں ، میری طرف منسوب ہو رہے ہوں گے لیکن فرمایا علماء ہم ہوں گے یہ ان لوگوں کے علماء، میرے ساتھ ان کا کوئی روحانی تعلق نہیں ہوگا.پس جتنے فتنے امت میں اٹھتے اور پھیلتے دیکھو گے یہ تمام علماء سے پھوٹتے نظر آئیں گے اور پھر واپس ان میں لوٹ جایا کریں گے.مولوی ان حدیثوں کو کیوں نہیں پڑھتے ؟ تمہارا نام نہاد قرطاس ابیض کچھ اور کہہ رہا ہے جبکہ محد مصطفی ﷺ کا فرمان کچھ اور کہہ رہا ہے.آنحضرت مے کے ارشاد کے مقابلہ میں تمہارے قرطاس ابیض کی تو حیثیت ہی کچھ نہیں.یہ تو جہنم کا کاغذ قرار دیئے جانے کے لائق ہے.کیونکہ یہ وہ کاغذ ہے جو حضرت رسول اکرم ﷺ کے فرمودات کا انکار کر رہا ہے.پس آنحضرت ﷺ کے ارشاد کی مخالفت اور مغائرت میں جو کاغذ تیار ہوتا ہے اس کی دو کوڑی کی
خطبات طاہر جلدم 268 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء بھی قیمت نہیں.پھر ایک موقع پر آنحضرت علیہ فرماتے ہیں: تَكُون فِي أُمَّتِي فِزْعَةٌ فَيُسِيرُ النَّاسُ إِلَى عُلَمَاءِ هِمُ فَإِذَا هُمُ قردةً وَ خَنَازِير.(کنز العمال حرف القاف، الباب الاول الفصل الرابع في ذکر اشراط الساعة الکبری حدیث: ۳۸۷۲۷) میری امت پر ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں جھگڑے ہوں گے لڑائیاں ہوں گی.اختلافات پیدا ہو جائیں گے.بظاہر تو لوگ یعنی عوام الناس ہی لڑتے ہیں لیکن ان کا کوئی قصور نہیں ہوگا وہ اپنے علماء کی طرف رجوع کریں گے یہ معلوم کرنے کے لئے کہ آخر ان کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے، وہ کیوں فتنہ و فساد کا شکار ہو گئے ہیں.پس جب وہ اپنے علماء کے پاس رہنمائی کی امید سے جائیں گے تو وہ انہیں بندروں اور سوروں کی طرح پائیں گے.یعنی وہ علماء نہیں ہیں بلکہ سو راور بندر ہیں.یہ کس کے الفاظ ہیں؟ یہ میرے تو نہیں.یہ کسی اور عالم دین کے نہیں، کسی صحابی کے نہیں ، کسی خلیفہ کے نہیں.یہ الفاظ حضرت اقدس محمد مصطفی ہے کے ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے خبر دی تھی کیونکہ آپ کوئی کلام اللہ سے خبر پائے بغیر نہیں کرتے تھے.ہر آدمی مولوی صاحبان سے پوچھنے کا یہ حق رکھتا ہے کہ جناب! ان حدیثوں کو کیوں چھپالیا جاتا ہے.امت مسلمہ کے سامنے یہ حدیثیں کیوں بیان نہیں کی جاتیں؟ پس امت مسلمہ میں فتنہ و فساد برپا کرنے کا مسئلہ حل ہو چکا ہے حضور اکرم علیہ پہلے سے فرما چکے ہیں کہ امت میں فتنے ہوں گے، اختلافات ہوں گے ، تفرقے پیدا ہوں گے لیکن ان کے ذمہ دار علماء ہوں گے کوئی اور ذمہ دار نہیں ہوگا اور جب حضور اکرم ﷺ ایک بات بیان فرما ئیں تو پھر خدا تعالیٰ کی تقدیر تمہارے منہ سے بات نکلوا کر چھوڑے گی کہ ہاں تم ذمہ دار ہو.آنحضرت ﷺ کا ارشاد تو رائیگاں نہیں جاسکتا.ایک اور حدیث ہے جس میں آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: علم باقی نہیں رہے گا.لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے.ان سے دین کی باتیں پوچھیں گے اور وہ علم کے بغیر فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے
خطبات طاہر جلدم 269 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے“.( بخاری کتاب العلم باب کیف يقبض العلم ) یہ بات کہ علماء جاہل ہوں گے اور بغیر علم کے فتوے دیں گے.اس بارہ میں ثبوت کے لئے دور جانے کی ضرورت نہیں.ابھی چند دن ہوئے اخبار ” جنگ‘لا ہور مورخہ ۳۱ / جنوری ۱۹۸۵ء میں پاکستان کے صدر کا ایک بیان شائع ہوا ہے جس میں لکھا ہے کہ پاکستان میں تقریباً ۵۰ ہزار امام مسجد ہیں جن میں سے ۳۶ ہزا ر امام نیم تعلیم یافتہ ہیں اور گیارہ ہزار کورے ان پڑھ ہیں.لوگ اس محاورہ کو بھول جاتے ہیں کہ جس طرح نیم حکیم خطرہ جاں ہوا کرتا ہے اسی طرح نیم ملاں خطرہ ایمان ہوتا ہے.چنانچہ مخبر صادق ع نے چودہ سو سال پہلے سے یہ خبر دے رکھی ہے.پس علم اس طرح نہیں اٹھا کرتا کہ خدا تعالٰی علم کو کھینچ کے لے جاتا ہے.عالم لوگ دنیا سے اٹھ جاتے ہیں.ان کی جگہ جہلاء اور ان پڑھ لوگ لے لیتے ہیں اور پھر اپنی جہالت میں فتوے صادر کرتے ہیں اور دنیا میں فسادات پھیلاتے ہیں.اخبار زمیندار لاہور ۱۴ اگست ۱۹۱۵ء کی اشاعت میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے.چنانچہ اخبار لکھتا ہے: ” جب فضائے آسمانی میں کسی قوم کی دھجیاں اڑنے کے دن آتے ہیں تو ( کیا ہوتا ہے کوئی استعماری طاقت احمدیت کے بیچ نہیں بویا کرتی.کچھ اور طریق ہوتا ہے دھجیاں اڑانے کا اور وہ بھی سن لیجئے کہتے ہیں) اس ( قوم) کے اعیان وا کا بر سے نیکی کی تو فیق چھین لی جاتی ہے ( یقینا گہرا حکمت کا کلام ہے اس میں کوئی شک نہیں.لکھنے والے نے بہت صحیح نکتہ بیان کیا ہے کہ ایسی صورت میں قوم کے اعیان وا کا بر سے نیکی کی توفیق چھین لی جاتی ہے تب تو میں تباہ ہوا کرتی ہیں ) اور اس کے صاحب اثر و نفوذ افراد کی بداعمالیوں کو اس کی تباہی کا کام سونپ دیا جاتا ہے اور یہ خود اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے.مسلمانان ہند کی شامت اعمال نے مدتہائے مدید سے جھوٹے پیروں اور جاہل مولویوں اور ریا کا رزاہدوں کی صورت اختیار کر رکھی ہے جنہیں نہ خدا کا خوف ہے نہ رسول کا پاس ، نہ شرع کی شرم نہ عرف کا لحاظ یہ ذی اثر و با اقتدار طبقہ جس نے اپنے دام تزویر میں لاکھوں انسانوں کو پھنسا رکھا ہے اسلام کے نام پر ایسی ایسی گھناؤنی حرکتوں کا مرتکب ہوتا ہے کہ ابلیس لعین کی پیشانی بھی عرق انفعال سے تر ہو ہو جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق کہتے ہیں کہ انہوں نے دل آزاری کی باتیں کی ہیں مگر تمہارے اپنے علماء ، اپنے لکھنے والے اور صاحب نظر لوگ جو صورت حال
خطبات طاہر جلدم 270 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء پر نظر ڈال کر حق کی بات کہتے ہیں اس کو سنتے نہیں اور دیکھتے نہیں کہ کیا لکھا ہوا ہے.ان حوالہ جات میں ایک لفظ بھی کسی احمدی کا نہیں ہے.اس سلسلہ میں میں نے یہ احتیاط کی ہے کہ تمام کے تمام فتوے خود ان کے اپنے علماء کے پیش کئے جائیں اسی لئے ان کے اپنے لکھنے والے صاحب قلم لوگوں کی تحریریں پیش کی جارہی ہیں اور اسی پر اکتفا کروں گا کیونکہ احمدی تو محبت کی بات بھی کریں تب بھی ان کو آگ لگ جاتی ہے.اس لئے ہماری باتوں کا تو بہت برا منائیں گے مگر اپنے لوگوں کی باتوں کا تو برا نہیں منا سکتے.وہ کس کس کتاب کو ضبط کریں گے.اخبار زمیندار اسی اشاعت میں مزید لکھتا ہے: ”اور اب کچھ دنوں سے اس گروہ اشرار کی مشرکانہ سیاہ کاریاں اور فاسقانہ سرگرمیاں اس درجہ بڑھ گئی ہیں کہ اگر خدائے تعالیٰ کی غیرت ساری اسلامی آبادی کا تختہ ان کے جرائم کے پاداش میں الٹ دے تو وہ جنہیں کچھ بھی بصیرت سے حصہ ملا ہے ذرا تعجب نہ کریں.یه تو تھی زمیندار ۱۴ / اگست ۱۹۱۵ء کی روئیداد.اب سنئے زمیندار ۱۴ جون ۱۹۲۵ء کا حسب ذیل نوٹ : ”ہم مسلمانوں کی اصل تباہی کا ذمہ داران قل آعوذی ملاؤں کو سمجھتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ اور ہر زمانہ میں.....اپنی کفر دوستی کا ثبوت دیا ہے.اسی اخبار نے ۱۵ار اپریل ۱۹۲۹ء کی اشاعت میں لکھا ہے: ”میرا شمار خود مولویوں کی جماعت میں ہے اس لئے میں ان کی حقیقت سے خوب واقف ہوں.میں پوری جرات سے مسلمانوں کو دعوت دیتا ہوں کہ ان ملاؤں کو ایک منٹ بھر بھی مہلت نہ دیں اور اپنی سیاست اور اپنے دین دونوں دائروں میں سے ایک لخت خارج کر دیں کیونکہ نہ وہ سیاست سے واقف ہیں.نہ ہی مذہب کی حقیقت سے آگاہ ہیں.وہ صرف فریب اور دجل کے ماہر ہیں اور اپنی ذاتی اغراض کے بندے ہیں.وہ راہب نہیں راہزن ہیں“.اسی طرح مسلمانوں کا ایک اخبار ”امان“۲۰ / جون ۱۹۳۰ء لکھتا ہے: مسلمانوں میں لامذہبیت اور الحاد کا طوفان کانگرسی علماء ولیڈر ، اخبارات میں مضامین لکھ کر پیدا کر رہے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 271 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ تو بہر حال دنیوی اخبارات ورسائل ہیں ،علماء کی بات کرو کسی دینی رسالے میں کسی عالم دین نے اس موضوع پر قلم اٹھایا ہو تو اس کو ماننے کے لئے تیار ہیں تو وہ بھی سن لیجیے.ہفت روزہ ' تنظیم اہلحدیث ایک دینی رسالہ ہے جو اہل حدیث لاہور کے زیر اہتمام شائع ہوتا ہے.اس ہفت روزہ نے علماء کے بارہ میں لکھا: ان کے یہ طور دیکھ کر حضور ﷺ کا یہ ارشاد یاد آ گیا کہ مساجدهم عامرة وهى خراب من الهدى علماء هم شر من تحت اديم السماء من عندهم تخرج الفتنة و فيهم تعود (بيهقى) اور ان کی مسجد میں یوں تو آباد ہوں گی پر بے روح ہوں گی.ان کے مولوی سب سے بڑے فتنہ گر اور فتنوں کے ملا ہوں گئے.( یکم مارچ ۱۹۶۸ء صفحه ۴) یہ حوالہ ایک مسلمہ دینی رسالے سے ماخوذ ہے اور ترجمہ بھی خود انہوں نے کیا ہوا ہے مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کے متعلق کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ جماعت احمدیہ کے ایجنٹ تھے یا استعماری طاقتوں کے ایجنٹ تھے.دیکھنا یہ ہے کہ وہ اس بارہ میں کیا لکھتے ہیں.آیا حضور اکرم ﷺ کی یہ حدیث جس میں علماء هم شر من تحت اديم السماء کی پیش گوئی کی گئی ہے، پوری ہو چکی ہے یا نہیں؟ یہ بہت ہی اہم اور قابل غور نکتہ ہے.جب ان کو توجہ دلائی جاتی ہے کہ میاں ! ان خطرات کی طرف بھی توجہ کرو جن کی طرف حضرت اقدس مصطفی ﷺ تمہیں توجہ دلا رہے ہیں تو تم آنکھیں بند کر لیتے ہو اور منہ موڑ کر دوسری طرف دیکھنے لگ جاتے ہو.اس کے برعکس جن خطرات کا آنحضور ﷺ کوئی ذکر نہیں فرمار ہے وہ تمہیں نظر آنے لگتے ہیں.کچھ تو عقل کے ناخن لو اور دیکھو کہ حدیث نبوی ﷺ میں کیا لکھا تھا.آنحضور ﷺ نے کیا فرمایا تھا تمہارے متعلق.تو کہتے ہیں یہ تو ابھی وقت ہی نہیں آیا تم ہو گے اشرار الناس تم ہو گے آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ، غرضیکہ گالیاں دینا شروع کر دیتے ہیں اور کہتے ہیں خبردار جو علماء کے متعلق کچھ کہا.ہم جوابا کہتے ہیں یہ ہماری بات نہیں یہ تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے فرمایا ہے اور جہاں تک اس بات کے طے کرنے کا تعلق ہے وہ وقت آچکا ہے یا نہیں
خطبات طاہر جلدم 272 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء یہ بدترین مخلوق پیدا ہو چکی ہے یا نہیں تو جاننا چاہئے کہ یہی وہ اصل بحث ہے جس کے گرد یہ سارا مضمون گھومتا ہے.اس بحث کے دو پہلو ہیں.اول یہ کہ اگر یہ بدترین مخلوق ابھی پیدا نہیں ہوئی تو پھر بھی تم مارے گئے کیونکہ موجودہ مولویوں نے تمہارا یہ حشر کر دیا ہے تو کل جب علمائے سوء پیدا ہو جائیں گے.وہ تمہارا کیا باقی رہنے دیں گے.پس یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خوشخبری نہیں ہے یہ تو ہلاکت کی ایک خوفناک خبر ہے جس کو سن کر تمہارے رونگٹے کھڑے ہو جانے چاہئیں تھے.لیکن ابھی تمہارے کہنے کے مطابق نیک مولویوں کا دور ہے اور امت کا یہ حال ہو گیا ہے تو خدانخواستہ جب اشرار الناس آئیں گے تو اس وقت تمہارا کیا باقی رہ جائے گا.بایں ہمہ فتح اسلام کی خواہیں دیکھ رہے ہو.اسلام کو دنیا میں از سر نو غالب کرنے کے کیا اطوار ہوتے ہیں؟ اگر تم میں ذرا بھی عقل ہوتی تو ان علماء کا پیچھا ہی چھوڑ دیتے اور کہتے کہ ہاں وہ پیدا ہو چکے ہیں اور اپنی موت مر گئے ہیں.لیکن میں پوچھتا ہوں تم مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی بات مانو گے یا نہیں آخر وہ بھی تو تمہارے ایک مشہور مولوی تھے؟ وہ فرماتے ہیں: جتنی رسوم شرکیہ اور بدعیہ مسلمانوں میں آج کل ہو رہی ہیں وہ مولویوں ہی کی مہربانی کا اثر.ہے......شر الشر شرار العلماء 66 اہلحدیث ۲۳ فروری ۱۹۰۶ء) خدائی تقدیر دیکھیں کس طرح سچ نکلواتی ہے.حضرت محمد علیہ نے فرمایا تھا اشرار ہوں گے.مولوی خود بول اٹھے کہ ہاں ہم ہیں اشرار، ہم ہیں اشرار ، ہم ہیں اشرار، یہ بات یا درکھئے کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کی بات ہے یعنی اس حوالہ کا تعلق آپ کی زندگی سے ہے.اس کے باوجود تم کہتے ہو کہ اس وقت امت مسلمہ کا یہ حال تھا کہ گویا سارا عالم اسلام اکٹھا تھا اور فساد کی کلیۂ ذمہ داری جماعت احمدیہ پر ڈالتے ہو جو سراسر خلاف واقعہ اور خلاف حقیقت ہے.بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی.اخبار اہل حدیث بڑی اہمیت رکھتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بھی شائع ہوتا تھا.یہی اخبار لکھتا ہے: " قرآن میں یہودیوں کی مذمت کی گئی ہے (اور مذمت کیا ہے ) کہ کچھ حصہ کتاب کا مانتے ہیں اور کچھ نہیں مانتے.افسوس کہ آج ہم اہل حدیثوں
خطبات طاہر جلدم 273 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء میں بالخصوص یہ عیب پایا جاتا ہے.جس طریق سے مخالف کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں اس سے بجائے ہدایت کے ضلالت پھیلتی ہے.(اہل حدیث ۱۹ را پریل ۱۹۰۷ ء ) یعنی وہ حدیثیں جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جھوٹی نبوت کے تمہیں ۳۰ دعویدار ہوں گے اور وہ سارے دجال ہوں گے اور لا نبی بعدی وغیرہ.ان حدیثوں کو تو خوب اچھالتے ہیں لیکن اس حدیث کا ذکر نہیں کرتے جس میں یہ ذکر ہے کہ آنے والا مسیح ضرور نبی اللہ ہوگا اور دجال کی فہرست میں نہیں ہوگا، اس حدیث کو چھپا لیتے ہیں اور یہ حدیث تو ان کو بالکل یاد نہیں آتی جس میں فرمایا گیا ہے علماء هم شر من تحت اديم السماء جس طرح یہ اہل حدیث مولوی صاحب تجزیہ فرما رہے ہیں.بالکل اسی طرح موجودہ مولوی اپنے مطلب کی حدیثیں تو خوب اچھالتے ہیں لیکن دوسری حدیثوں پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے ہوئے ہیں.پھر اہل حدیث ۲۰ / دسمبر ۱۹۲۱ء کے پرچہ میں لکھا ہے: ہم وہ ہیں کہ ہماری قومی سلب ہو چکے ہیں.بہادری عنقا ہو چکی ہے.اعضاء کمزور اور حقانی تڑپ ہمارے دلوں سے معدوم ہو چکی ہے.بلکہ یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ تمام اعضاء مرچکے ہیں فقط ایک دہن اور اس میں ایک زبان باقی ہے.اور وہ زبان کیا کام کرنے کے لئے کیوں باقی رہ گئی اس میں جان کس لئے باقی ہے؟ اس کا ذکر سنئے.یہ بھی اہل حدیث کا ہفت روزہ تنظیم ہے جو ھر ستمبر ۱۹۶۹ء کی اشاعت میں زبان کے متعلق یوں رقم طراز ہے لیکن اس سے پہلے ایک اور دلچسپ لطیفہ بھی بیان کرتا ہے اور کہتا ہے، مولوی تھانوی مرحوم سے کسی نے پوچھا تھا کہ: یا حضرت! مولوی ہو کر لوگ جوتے چرا لیتے ہیں ، دھینگا مشتی پر اتر آتے ہیں.....یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں.ایسا کیوں ہوتا ہے؟“.آپ نے فرمایا : ”میاں! مولوی چور نہیں بنتا، چور مولوی بن جاتا ہے“.
خطبات طاہر جلدم 274 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء یہ ہیں ان کی آپس کی باتیں.یہ ہفت روزہ آگے چل کر لکھتا ہے: جمعیت علمائے اسلام کے معروف رہنما مولانا غلام غوث ہزاروی نے اپنی زبان کے ہل چلا کر نو خیز نسل کی جو پنیری تیار کی ہے.وہ بھی بدزبانی اور گالیوں کے باب میں بے مثال نمونے تیار کر رہی ہے اور کرے گی اور ایک وقت آئے گا کہ یہی پور، انہی ہتھیاروں کے ساتھ خودان کے منہ آئے گی اور پھر وہ پچھتائیں گے“.(ہفت روزہ تنظیم اہل حدیث لاہور ۵ ستمبر ۱۹۲۹، صفه ۴۳) بات بڑی سچی کہہ گئے ہیں.......جب بھی احمدیوں کے خلاف حکومتوں نے یا بعض سر پھروں نے اس پنیری سے کام لیا تو وہی زبان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گالیاں دینے کے لئے خریدی گئی تھی الٹ کر پھر اپنے آقاؤں کو ایسی ایسی گالیاں دینے لگی کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.عبرت کے تازیانے پڑے لیکن ان کو محسوس نہیں ہوا.اب بعض لوگ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ یہ پھر بھی آج کل کے مولوی ہیں اور اگر یہ اشرار الناس ہیں تو پھر ان کی بات قابل اعتبار نہیں کسی بزرگ کی بات کرو تو اس ضمن میں پہلی بات یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی اللہ سے بزرگ ترین اور کون ہوسکتا ہے.نہ کبھی پیدا ہوا اور نہ قیامت تک پیدا ہو سکے گا.آپ انسان کامل اور نبیوں کے سردار تھے آپ کی کس کس بات کا تم انکار کرتے چلے جاؤ گے اور اگر تم نے صرف بعد کے بزرگوں کی باتیں ماننی ہیں تو پھر وہ بھی سن لو! حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے علماء کو یہودی علماء کا مثیل قرار دیتے ہوئے فرمایا: اگر نمونہ یہود خواہی که بینی علماء سوء که طالب دنیا باشد........تماشا کن کانھم ھم الفوز الكبير مع فتح الخبير في اصول التفسير صفحہ اباب اول) اگر تم یہود کا نمونہ دیکھنا چاہتے ہو ، وہ یہودی علماء جو مدتوں پہلے ختم ہو چکے ہیں تو پھر ان علماء کو دیکھو جو آج کل علماء سوء ہیں اور یہ دنیا کے طلب گار ہو چکے ہیں.اور حضرت امام غزائی جو کہ مفکرین اسلام میں چوٹی کا مقام رکھتے ہیں، فرماتے ہیں.یہ عربی میں لمبی عبارت ہے.میں اس کا صرف ترجمہ پڑھ کرسناتا ہوں:
خطبات طاہر جلدم 275 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء علماء میں سے اکثر پر شیطان غلبہ پا چکا ہے (یہ اس زمانے کی بات ہے جب احمدیت کا ابھی وجود بھی نہ تھا ) اور ان کی سرکشی نے انہیں گمراہ کر دیا ہے اور ان میں سے ہر ایک اپنے دنیوی فائدہ کا عاشق ہے حتی کہ نیکی کو برائی اور برائی کو نیکی خیال کرنے لگا ہے اور علم دین مٹ چکا ہے اور دنیا میں ہدایت کے مینار گر چکے ہیں اور علماء نے لوگوں کے دلوں میں یہ خیال پیدا کر دیا ہے کہ علم کی اب تین صورتیں ہیں“.حیرت ہے میں سوچا کرتا تھا کہ یہ بعد کی پیداوار ہے لیکن اس اقتباس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ انحطاط تو بڑی دیر سے شروع ہو گیا تھا.بڑا ظلم ہے امت محمدیہ میں بڑی مدت سے یہ فساد شروع ہے.علماء حق اور علماء ربانی اس کے خلاف آواز بھی بلند کرتے رہے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ قضائے آسمانی ہے جس کا مقابلہ ہو نہیں سکتا.مزید فرماتے ہیں کہ علماء کی حیثیت اب صرف تین اغراض کے لئے رہ گئی ہے یا ان کے نزدیک علم کی اب تین صورتیں ہیں: اول.حکومت کا وہ فتویٰ جس کی مدد سے قاضی ، غنڈوں کے جمع ہونے پر جھگڑوں کا فیصلہ کرتے ہیں.دوم وہ بحث جس میں ایک متکبر آدمی دوسرے پر غلبہ حاصل کرتا ہے اور اس کا منہ بند کرتا ہے (اپنے تکبر کے زور سے نہ کہ دلیل سے ) سوم وہ منظوم اور مسیح کلام جس کے ذریعہ ایک واعظ عوام کو اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کرتا ہے“.کتاب الاملاء عن اشکالات الاحیاء جلد ۵ صفحه ۲۱۹-۲۲۰) دوستوں نے اگر بعض مساجد سے وعظ سنے ہوں یا درس سنے ہوں تو سمجھ آجائے گی کہ امام غزائی کیا بیان فرمانا چاہتے تھے.مولوی لوگ گا گا کر کبھی قرآن کی کوئی آیت پڑھتے ہیں اور کبھی کسی حدیث کی بات ہورہی ہوتی ہے اور ساتھ یوسف زلیخا کے قصے شروع کر دیتے ہیں، بیچ میں ہیر وارث شاہ چل پڑتی ہے.یہاں تک کہ فلمی گانے بھی بیچ میں لے آتے ہیں اور کہنے کو قرآن کریم اور حدیث کی تشریح ہورہی ہوتی ہے اور اس لغویات کو آنحضرت علی کے معراج کی تشریح میں پیش کرتے ہیں.نعوذ باللہ من ذالک.حیرت ہے کہ اتنے پھر فلمی شعروں کو حضرت محمد مصطفی عالے کے لئے
خطبات طاہر جلدم 276 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء استعمال کرتے ہوئے ان کا دل کیوں نہیں لرزا.ایک طرف ختم نبوت کے دعوے اور دوسری طرف کائنات کے مقدس ترین وجود پر نا پاک فلمی شعروں کا اطلاق اور پھر تصور یہ کہ آنحضرت ﷺ کی خدا تعالیٰ سے لقاء پہلی دفعہ ہوئی.حالانکہ ہر وقت خدا تعالیٰ آنحضرت ﷺ کے ساتھ بستا تھا چنانچہ غار ثور میں آپ کا یہ فرمانا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ہم نہ کر اللہ یقینا ہمارے ساتھ ہے بتاتا ہے کہ آپ ایک لمحہ بھی خدا کے بغیر نہیں رہے.اس قدر خوفناک گستاخی کے باجود یہ لوگ محبان رسول ﷺ کا دعوی کرتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے عظیم مقام کے بیان کے لئے فلمی شعروں سے بہتر کوئی بات نہیں ملی.اب آخر پہ مولوی مودودی صاحب کا تبصرہ بھی سن لیجئے.اس سے یہ اندازہ ہو جائے گا کہ یہ کتنا بڑا مقام رکھتے ہیں.آج کل ان کی جماعت ایک منظم جماعت ہے جو احرار کے علاوہ حکومت کا دوسرا بازو ہے.مولوی صاحب فرماتے ہیں: افسوس کہ علماء (الا ماشاء اللہ ) خود اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہو چکے تھے (پہلے تو عوام الناس پر انہوں نے فتویٰ صادر فرمایا تھا.اب علماء کی بات ہو رہی ہے ) ان میں اجتہاد کی قوت نہ تھی ان میں تفقہ نہ تھا.ان میں حکمت نہ تھی.ان میں عمل کی طاقت نہ تھی.ان میں یہ صلاحیت ہی نہ تھی کہ خدا کی کتاب اور رسول خدا کی علمی و عملی ہدایت سے اسلام کے دائمی اور لچکدار اصول اخذ کرتے اور زمانہ کے متغیر حالات میں ان سے کام لیتے ان پر تو اسلاف کی اندھی اور جامد تقلید کا مرض پوری طرح مسلط ہو چکا تھا جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کو ان کتابوں میں تلاش کرتے تھے جو خدا کی کتابیں نہ تھیں کہ زمانے کی قیود سے بالا تر ہوتیں وہ ہر معاملہ میں انسانوں کی طرف رجوع کرتے تھے جو خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت اوقات اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی.پھر یہ کیوں کر ممکن تھا“.یہ تجزیہ سنے والا ہے.کیوں عالم اسلام پر تباہی آگئی.کیوں ہلاکت کا دور دورہ ہوا اس لئے کہ جن علماء کی طرف مسلمان عوام نے رجوع کیا وہ خدا کے نبی نہ تھے کہ ان کی بصیرت ، اوقات
خطبات طاہر جلدم 277 اور حالات کی بندشوں سے بالکل آزاد ہوتی.پھر یہ کیوں کر ممکن تھا کہ : وو خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء وہ ایسے وقت میں مسلمانوں کی کامیاب رہنمائی کر سکتے جبکہ زمانہ بالکل بدل چکا تھا اور علم و عمل کی دنیا میں ایسا عظیم تغیر واقع ہو چکا تھا جس کو خدا کی نظر تو دیکھ سکتی تھی ، مگر کسی غیر نبی انسان کی نظر میں یہ طاقت نہ تھی کہ قرنوں اور صدیوں کے پردے اٹھا کر ان تک پہنچ سکتی.تنقیحات: اسلام اور مغربی تہذیب کا تصادم از ابوالاعلیٰ مودودی صفحه ۲۷ ز بر عنوان دور جدید کی بیمار قومیں ) اب کیا قصہ ہے اس کو دوبارہ غور سے سنئے.یہ فقرہ بڑا غیر معمولی ہے.یہ آپ کے لئے ایک پیغام رکھتا ہے.فرماتے ہیں پرانے علماء کیوں ناکام ہوئے ، امت مسلمہ میں کیوں فساد پھیلا.اس لئے کہ علماء سے ان کو یہ توقع تھی کہ بدلے ہوئے زمانہ کے ساتھ جو مصائب نئے نئے آئے ہیں نئی نئی آفات جو اسلام پر حملہ آور ہوئی ہیں ان کا حل تلاش کریں.ان سے پوچھیں.مگر مولوی مودودی صاحب کہتے ہیں کہ بدلے ہوئے حالات میں علماء اس قابل نہ تھے یا خدا کی نظر ہے جو حقیقت حال کو پاسکتی ہے اور یا نبی کی نظر ہوا کرتی ہے جو خدا کی طرف سے عرفان حاصل کرتی ہے.کہتے ہیں کہ یہ دونوں صورتیں نہیں ہیں.پھر قرنوں اور صدیوں کے پردے کیسے اٹھ سکتے ہیں اور ساتھ یہ پیغام دے رہے ہیں کہ میری مانو اور میری سنو.میں تمہارے لئے ہدایت اور نئی زندگی کا پیغام لایا ہوں.کیا دعاوی ہیں.کیا خدا کی طرف سے پیغام لائے ہیں اور ان کی نظر وہ پردے پھاڑ کر دیکھ رہی ہے جو تمام علماء امت اور تمام صدیوں کے بڑے بڑے بزرگ اور مجددین نہیں دیکھ سکے.ایک ہی سانس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلاتے بھی ہیں تکفیر بازی بھی جاری ہے اور کہتے ہیں فتنہ وفساد پھیلا دیا مگر دوسرے سانس میں یہ بھی اعلان ہو رہا ہے کہ میں ہدایت کا سرچشمہ بن کر تمہارے لئے آیا ہوں، میری کتابوں میں تمہارے سارے مسائل کا حل موجود ہے.اس لئے اس جماعت میں شامل ہو جاؤ تا کہ اسلام زندہ ہو جائے.تو کیا یہ خدائی کا دعوی ہے، یا نبوت کا دعویٰ ہے اور اگر ان دونوں کا نہیں تو پھر جھوٹ بولتے ہیں.اگر تم سچے ہوتے اور واقعی سچے ہوتے تو تمہیں یہ اقرار کرنا چاہئے تھے کہ نئی آفات اور نئے مصائب کے وقت خدا تعالیٰ عارف باللہ نبی کو مبعوث کرتا ہے جس کے سوا اور کسی شخص کی نظر مسائل کی تہ تک نہیں پہنچ سکتی اور اس کے سوا مسائل کا صحیح حل کوئی بھی تلاش نہیں کر سکتا.
خطبات طاہر جلدم 278 خطبه جمعه ۲۲ مارچ ۱۹۸۵ء آخر کس بات کی بنا پر تم اپنے آپ کو سچا قرار دیتے ہو.دراصل تمہاری ساری باتیں جھوٹی ہیں.تمہارے لئے ایک ہی راستہ ہے کہ اس شخص کو قبول کرو جسے خدا نے علم و عرفان بخشا ہے جس کے متعلق حضرت محمد مصطفی ﷺ کی خوشخبری ہے.وہ جو خدا کی طرف سے تمہارے لئے ہر مصیبت ہر بیماری کا علاج لے کر آیا تھا.اس کو تو تم نے رد کر دیا ہے اب پیچھے اپنے لئے تم کیا چاہتے ہو.یہ جو کچھ تھا یہ میں نے تمہیں پڑھ کر سنادیا، اس کے سوا تمہارا اور کوئی مقدر نہیں.اگر زندگی چاہتے ہو تو ان لوگوں سے نجات حاصل کرو جن کو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تمام فتنوں کی آماجگاہ قرار دیا اور تمام فتنوں کا منبع و مالی قرار دیا.یا درکھو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے انکار کے بعد تم زندگی کی راہ ہرگز نہیں دیکھ سکتے.جو مرض آنحضور ﷺ نے تشخیص فرما دی اسے لازما ماننا پڑے گا.آج نہیں مانو گے تو کل تمہاری نسلیں قبول کریں گی اور اس مرض کا وہی علاج ہوگا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تجویز فرمایا یعنی امام مہدی، امام ربانی کو قبول کرنا پڑے گا.اس مسیح موعود کو مانا پڑے گا جسے خدا نے اسلام کے احیاء نو کے لئے مبعوث فرمایا ہے.اگر نہیں مانو گے تو پھر ہمیشہ کے لئے تمہارے مقدر میں ایک موت ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں.
خطبات طاہر جلدم 279 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء حضرت بانی جماعت احمدیہ پر چند اعتراضات کے مدلل اور مسکت جوابات ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں: وَنَادَى فِرْعَوْنُ فِي قَوْمِهِ قَالَ يُقَوْمٍ أَلَيْسَ لِي مُلْكُ مِصْرَ وَ هَذِهِ الْاَ نْهرُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِى أَفَلَا تُبْصِرُونَ اَمْ أَنَا خَيْرٌ مِنْ هَذَا الَّذِى هُوَ مَهِينٌ وَلَا يَكَادُ يُبِيْنُ فَلَوْلَا أُلْقِيَ عَلَيْهِ أَسْوِرَةٌ مِنْ ذَهَبٍ أَوْ جَاءَ مَعَهُ الْمَلَيْكَةُ مُقْتَرِنِيْنَ فَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوْهُ إِنَّهُمْ كَانُوْا قَوْمًا فقين (الزخرف:۵۲ تا ۵۵) اور پھر فرمایا: جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے وہ سورۃ الزخرف سے آیت ۵۲ سے ۵۵ تک سے لی گئی ہیں.ان میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں.پہلی بات یہ کہ جب فرعون نے اپنی قوم کو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انکار پر آمادہ کیا تو اس وقت اس نے جو دلائل پیش کئے ان میں سے ایک دلیل یہ تھی کہ موسیٰ" چھوٹا آدمی ہے اس کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں اور دوسری دلیل یہ تھی کہ فصیح الکلام نہیں ، اپنی بات ٹھیک طرح بیان نہیں کر سکتا اور یہ بات ایسی ہے جس کے متعلق حضرت موسیٰ علیہ
خطبات طاہر جلدم 280 خطبه جمعه ۲۹/ مارچ ۱۹۸۵ء السلام خود بھی اقرار کرتے ہیں.چنانچہ آپ نے اپنے رب سے یہ عرض کی وَيَضِيقُ صَدْرِى وَلَا يَنْطَلِقُ لِسَانِي فَأَرْسِلْ إلى هَرُونَ (الشعراء:۱۴۰) یعنی اے میرے اللہ ! میرا سینہ تنگ ہے یعنی کھل کر بات نہیں نکل سکتی وَلَا يَنْطَلِقُ لِسانی اور زبان اچھی طرح نہیں چلتی اس لئے مجھے چھوڑ دے اور ان کی طرف ہارون کو بھیج دے.چنانچہ فرعون نے اپنی طرف سے ان کے علاوہ بھی بعض دلائل پیش کئے.پھر اللہ تعالی نتیجہ نکالتا ہے کہ ان لغود لائل کے نتیجہ میں جو زیادہ تر دھونس سے تعلق رکھتے تھفَاسْتَخَفَّ قَوْمَهُ فَأَطَاعُوْهُ اس نے اپنی قوم کو خائف کر دیا.چنانچہ فرعون کے ڈر سے قوم نے اس کی بات مان لی اور خدا کے نبی کا انکار کر دیا.اِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَسِقِيْنَ اس بیان کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ چونکہ انہوں نے فرعون کے ڈر سے انکار کیا ہے لہذاوہ بری الذمہ ہیں اور ان کا کوئی قصور نہیں بلکہ یہ نکتہ بیان فرمایا کہ إِنَّهُمْ كَانُوا قَوْمًا فَسِقِینَ کہ وہ لوگ فاسق ہیں جنہوں نے خوف کے نتیجہ میں ایک ظالم آدمی کی بات مانی اور وقت کے نبی کا انکار کر دیا.ان آیات میں دیگر امور کے علاوہ یہ بات بہت اہم ہے کہ ظالم لوگ فاسقوں پر ہی حکومت کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں اور انہی کو دبانے کی طاقت رکھتے ہیں.اگر قوم میں فسق نہ ہو تو کوئی جابر آدمی اس قوم کو نہیں دبا سکتا اس لئے ایسے موقع پر استغفار سے کام لینا چاہئے.اگر حاکم وقت ظالم اور جابر ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں دو باتیں پیدا ہوتی ہیں ایک تو یہ کہ بعض مجبورا اور مظلوم، ظلم کی چکی میں پیسے جاتے ہیں لیکن اپنی بات نہیں چھوڑتے ، اپنے ایمان میں خلل نہیں پیدا ہونے دیتے.ان کے متعلق قرآن کریم نے کہیں فاسق کا لفظ استعمال نہیں فرمایا لیکن کچھ لوگ ایسے ہیں جو حاکم وقت کے دباؤ کے نتیجہ میں اپنے دین کو بدل دیتے ہیں ، اپنے عقائد کے خلاف بات کرنی شروع کر دیتے ہیں، جو بات دل میں نہیں اس کا اقرار اپنی زبانوں سے کرنے لگ جاتے ہیں اور اپنی قلموں سے لکھنے لگ جاتے ہیں اس حالت کا نام قرآن کریم نے فسق قرار دیا ہے.بہر حال جو واقعہ مدتوں پہلے مصر میں گزرا تھا اسی قسم کے واقعات اور حالات آج بد قسمتی سے پاکستان میں گزر رہے ہیں.وہی دلائل پیش کئے جارہے ہیں.وہ بوسیدہ باتیں بیان کی جارہی ہیں جو ہمیشہ آئمہ وقت کے خلاف ان کے مقابل پر لوگ گھڑا کرتے ہیں اور جو الزام وہ لگایا کرتے ہیں وہی
خطبات طاہر جلدم آج دہرائے جا رہے ہیں.281 خطبه جمعه ۲۹/ مارچ ۱۹۸۵ء چنا نچہ حکومت پاکستان نے جماعت احمدیہ کے خلاف وائیٹ پیپر کی طرز پر جو رسالہ شائع کیا ہے اس میں ایک اعتراض بالکل وہی ہے جو فرعون نے حضرت موسی پر کیا تھا.وہ لکھتے ہیں: ”مرزا صاحب عربی الفاظ کے صحیح تلفظ سے قاصر تھے وہ قریب المخرج عربی حروف کو الگ الگ لہجے میں نہ بول سکتے تھے.مثلاق اورک کو.بعض اوقات ان کے ملاقاتی ان کی اس کمزوری پر اعتراض کرتے تھے مگر مرزا صاحب اپنی صفائی میں کچھ نہ کہہ سکتے تھے“ ( قادیانیت،اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ۱۲) یہ حوالہ انہوں نے درج کیا ہے اور رسالہ کا عنوان ہے قادیانیت.اسلام کے لئے سنگین خطرہ.تعجب کی بات یہ ہے کہ اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں لکنت تھی آپ صحیح تلفظ ادا نہیں کر سکتے تھے تو اس سے اسلام کو کیا خطرہ لاحق ہو گیا.اسلام کو اتنا شدید خطرہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان میں لکنت تھی.نادانی کی بھی کوئی حد ہے کوئی واقعی خطرہ کی بات ہو تو انسان مانے بھی کہ ہاں یہ عنوان درست ہے.رسالہ کا عنوان ہے’ قادیانیت ،اسلام کے لئے سنگین خطرہ اور دلیل یہ پیش کی جارہی ہے کہ مرزا صاحب کی زبان میں لکنت تھی.صحیح طور پر تلفظ ادا نہیں کر سکتے تھے جبکہ ان لوگوں کا اپنا عقیدہ یہ ہے کہ اگر بزرگوں اور انبیاء کی زبان میں لکنت ہو یا وہ غیر فصیح ہوں تو کوئی اعتراض کی بات نہیں.چنانچہ قرآن کریم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق یہ لفظ بھی استعمال فرمایا ہے اور ان کی زبان سے اقرار کروایا کہ هُوَ اَفْصَحُ مِنْى (القصص: ۳۵) میں فصیح الکلام نہیں ، ہارون مجھ سے زیادہ فصیح کلام کرسکتا ہے.اگر واقعی لکنت قابل اعتراض امر ہے تو اللہ تعالیٰ نے کم فصیح کو کیوں چن لیا ، لکنت والے کو کیوں چن لیا.پس قرآن کریم تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے خود غیر فصیح ہونے کا اقرار کروا رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ مانتے ہیں کہ حضرت موسیٰ دین الہی کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے لیکن جب یہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقابل پر بات کرتے ہیں تو چونکہ مقدر یہ ہے کہ دشمن جو باتیں ماضی میں دہراتے رہے، وہی باتیں اب بھی دہراتے رہیں اس لئے فرعون نے جو اعتراض کیا کہ موسیٰ“ غیر فصیح ہے، زبان میں لکنت ہے.وہی
خطبات طاہر جلد۴ 282 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء اعتراض آج ان کو دہرانا پڑا اور انہوں نے تفاسیر میں بھی لکنت اور زبان کی وقت کے متعلق بہت.قصے لکھے ہوئے ہیں.تفسیر روح المعانی تفسیر سورۃ الشعرا میں لکھا ہوا ہے: د گھٹے گھٹے ماحول کی وجہ سے آپ (حضرت موسی ) کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی تھی اور یہ اسی طرح ہے کہ جیسے بعض اوقات فصحاء پر بھی جب غم شدت اختیار کرتے ہیں اور ان کے سینوں میں گھٹن پیدا کرتے ہیں تو ان کی ނ زبانوں میں بھی تر در پیدا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے مقصود کو بیان نہیں کر سکتے.(ترجمہ) بہر حال کوئی بھی وجہ پیش کی جائے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی زبان سے متعلق فتح القدیر، تفسیر جلالین، تفسیر الخازن کے علاوہ دیگر تفاسیر میں بھی ہر پڑھنے والا شوق سے اس کا مطالعہ کر سکتا ہے.لیکن بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی.اسلام میں بھی ایسے مسلمہ بزرگ ہیں جو عظیم الشان مقام رکھتے ہیں اور ان کے متعلق یہی گواہی پائی جاتی ہے کہ ان کی زبان میں لکنت تھی.کیا یہ لوگ حضرت بلال کو بھول گئے ہیں جن کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سید نابلال" کہا کرتے تھے اور جب وہ اشهد ان لا اله الا الله کی بجائے اسهد ان لا اله الا اللہ پڑھتے تھے تو صحابہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے تھے.انہیں غصہ نہیں آتا تھا اور نہ وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اس کے نتیجہ میں اسلام کے لئے سنگین خطرہ قرار دیتے تھے بلکہ وہ شدت غم سے تڑپتے اور بلکتے تھے کیونکہ انہیں یاد آ جاتا تھا کہ حضرت بلال اسی آواز کے ساتھ آنحضرت علیہ کے زمانہ میں بھی اسهد ان لا اله الا اللہ ہی پڑھا کرتے تھے.حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زبان میں بھی لکنت تھی.تفسیر روح المعانی زیر تفسیر سورۃ طہ : الابية واحلل عقدة من لسانی پر لکھا ہے کہ: ”حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی زبان میں لکنت تھی جس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ حسین نے یہ لکنت اپنے چچا حضرت موسیٰ سے ورثہ میں پائی ہے.حضرت امام مہدی کے متعلق کیا لکھا ہوا ہے: ”یہ بھی بیان کیا جاتا
خطبات طاہر جلدم 283 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء ہے کہ مہدی منتظر کی زبان میں بھی لکنت ہوگی اور بعض دفعہ اس کی زبان جب کلام کو بیان کرنے سے پیچھے رہ جائے گی تو وہ اپنے دائیں ہاتھ کو اپنی بائیں ران پر مارے گا “.( تفسیر روح المعانی تفسیر سورة طه : الاية - يفقهوا قولى ) تو اگر امام مہدی نے پیشگوئیوں کے مطابق اس مزعومہ خطرہ کے ساتھ آنا تھا تو پھر اس خطرہ کو قبول کرنا پڑنا تھا.کیونکہ یہ تو اس کی سچائی کی علامت ہے.میں ایک بات بتانی بھول گیا کہ اس رسالہ میں جو حوالہ الفضل مورخہ ۴ استمبر ۱۹۳۸ء کا دیا گیا ہے آپ الفضل اٹھا کر دیکھ لیں الف سے یا ء تک اس کا کوئی ذکر ہی موجود نہیں.گویا سارا حوالہ ہی فرضی ہے.ظلم کی بھی حد ہوتی ہے عجیب حکومت ہے کہ اتنا فرضی قصہ گھڑا ہے کہ سارے الفضل میں اس مضمون کا کوئی ذکر اذکار ہی موجود نہیں ہے محض دنیا کو دھوکا دینے کے لئے اپنی طرف سے ایک حوالہ وضع کر لیا گیا ہے.ایک اعتراض یہ ہے کہ: ”مرزا صاحب ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد سیالکوٹ میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جونیئر کلرک کی حیثیت سے ملازم ہو گئے جہاں انہیں پندرہ روپے ماہانہ تنخواہ ملتی تھی.بعض اہل قلم نے لکھا ہے کہ مرزا کو گھر کا کچھ مال غبن کرنے کی پاداش میں ان کے باپ نے گھر سے نکال دیا تھا اور اس وجہ سے انہیں قادیان سے نکلنے اور سیالکوٹ میں معمولی سی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا تقریباً چار سال انہوں نے یہ ملازمت کی اور ۱۸۸۵ء میں اسے خیر باد کہا.( قادیانیت،اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ ۱۰،۹) اس اعتراض کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ ہے کہ پندرہ روپے ماہانہ کا ملازم گویا مہین، یعنی بہت ہی معمولی انسان تھا، اسے خدا تعالیٰ کیسے نبی چن سکتا تھا.وہی فرعون والی بات یہاں دہرائی گئی ہے.اس اعتراض کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ جو نبی بننے ہوتے ہیں وہ تو کسی غیر کی نوکری نہیں کیا کرتے.علاوہ ازیں اس حوالے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک سراسر افتراء یہ کیا گیا ہے کہ آپ نے نعوذ باللہ من ذالک اس زمانہ میں چوری کی تھی جس کی وجہ سے آپ گھر سے نکلے.
خطبات طاہر جلدم 284 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء اس کے متعلق ہم نے تلاش کیا کہ کہیں کوئی ایسا واقعہ ملتا ہو جس پر انہوں نے اس اعتراض کی بنا کی ہے تو ہمیں سیرۃ المہدی (جلد نمبر صفحہ ۴۳۰ ۴۴ روایت نمبر ۴۹) کی یہ روایت ملی کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے دادا کی پنشن لینے سیالکوٹ گئے تو مرزا امام الدین جو آپ کے خاندان ہی کا ایک فرد تھاوہ آپ کے پیچھے پڑ گیا اور آپ سے وہ رقم ہتھیا لی اور وہ بھاگ گیا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان واپس نہ گئے اور بہتر سمجھا کہ ملازمت کر کے گزارا کر لیا جائے بجائے اس کے کہ نقصان کے بعد گھر والوں کو منہ دکھاؤں.یہ واقعہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بھول پن کا ، آپ کے تقویٰ اور حیا کا.اور جہاں تک دھوکہ دینے والے کا تعلق ہے وہ دھوکا دینے والا نہ صرف یہ کہ احمدی نہیں تھا بلکہ شدید مخالف تھا، چوری وہ کرتا تھا اور الزام حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ، آخر مخالفین نے ضرور یہ روایت پڑھی ہوگی جس سے یہ خیال گزرا ہوگا کہ اس کو الزام کے طور پر استعمال کیا جائے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ سراسر جھوٹ اور بے بنیادا تہام ہے آپ کے متعلق تو ایک ایسے شخص (جو بعد میں آپ کا شدید مخالف بنا ) کی اپنی گواہی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام عمر انتہائی تقویٰ کے ساتھ گزاری لیکن اس سے پہلے میں آپ کو یہ سمجھا دینا چاہتا ہوں کہ ان لوگوں نے آپ پر چوری کا یہ الزام کیوں لگایا.اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ نبیوں پر بھی چوریوں کے الزام لگانے کے عادی ہیں کجا یہ کہ کسی کو غیر نبی مانتے ہوں یا کسی کو مفتری سمجھتے ہوں اور جس کو مفتری کہیں گے اس پر تو بڑھ بڑھ کر الزام لگا ئیں گے انبیاء کو بھی نہیں چھوڑتے.چنانچہ قرآن کریم میں حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق جو یہ واقعہ آتا ہے کہ بھائیوں نے بن یا مین کے معاملہ میں کہا کہ اس سے پہلے اس کے بھائی حضرت یوسف نے بھی چوری کی تھی تو یہاں یہ بات ظاہر ہے کہ قرآن کریم نے اس واقعہ کو ایک جھوٹے الزام کے طور پر پیش کیا ہے نہ یہ کہ اسے تسلیم کیا ہے بلکہ صرف یہ بتانے کے لئے اس واقعہ کا ذکر کیا ہے کہ انبیاء پر جھوٹے الزام لگا کرتے ہیں اور ان کی دل آزاری کی جاتی ہے.بدقسمتی سے بعض مسلمان مفسرین نے خود اس واقعہ کو تسلیم کر لیا ہے اور پھر با قاعدہ اس چوری کی چھان بین بھی شروع کر دی کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا چوری کی ہوگی.مختلف تفاسیر میں جن میں سے تفسیر جلالین زیر آیت فَقَدْ سَرَقَ أَحْ لَّهُ مِنْ قَبْلُ (يوسف:۷۸)
خطبات طاہر جلدم 285 خطبہ جمعہ ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء تفسير الخازن الجز الثالث زیر آیت فَقَدْ سَرَقَ اَج لَّهُ مِنْ قَبْلُ تفسیر فتح القدیر اور تفسیر روح المعانی میں بھی اس آیت کے تابع حضرت یوسف علیہ السلام کی فرضی چوری کی جستجو کی گئی ہے.ان سب مفسرین میں یہ اختلاف ہے کہ کیا چیز چوری کی تھی لیکن ان کا اس پر اتفاق ہے کہ نعوذ بالله من ذالک حضرت یوسف چور تھے اور خدا کے نبی بھی اور باوجود اس چوری کے اقرار کے نہ ان کے دین کو کوئی خطرہ ہوا اور نہ عالم اسلام کو.اب سنئے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی چوری سے متعلق کیا کیا اختلافات ہیں.بعض کہتے ہیں کہ سونے کا بت تھا، بعض کہتے ہیں کہ مرغی تھی ، بعض کہتے ہیں نہیں اتنی بڑی چیز نہیں تھی انڈا تھا مرغی نہیں تھی ، بعض کہتے ہیں کہ کھانا چرایا تھا لیکن فقیروں کو دینے کے لئے چرایا تھا.الغرض یہ لوگ انبیاء کے متعلق ایسی ظالمانہ باتیں تسلیم کرتے ہیں اور پھر بھی ان کی نبوت پر شک کی کوئی گنجائش نہیں سمجھتے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جھوٹا الزام لگانا کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.جہاں تک آپ کے کردار کا تعلق ہے.سیالکوٹ کے زمانہ میں جس کا اس الزام میں ذکر کیا گیا ہے مولوی ظفر علی خان کے والد محترم منشی سراج الدین صاحب کی گواہی سنئے.وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس زمانہ میں جانتے تھے اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ”ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے کاروبار ملازمت کے بعد ( یعنی آپ نے سیالکوٹ میں ملازمت کی تھی) ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا عوام سے کم ملتے تھے.(اخبار زمیندار مئی ۱۹۰۸ء بحوالہ بدر ۲۵ جون ۱۹۰۸ء صفحہ نمبر ۱۳) مولوی محمد حسین بٹالوی کہتے ہیں: مولف براہین احمدیہ مخالف اور موافق کے تجربے اور مشاہدے کی روسے والله حسیبه شریعت محمدیہ علیہ پر قائم پر ہیز گار اور صداقت شعار ہے“.(اشاعۃ السنۃ جلد نمبر ۹ صفحه ۲۸۴) جہاں تک نبی کے نوکری کرنے کا تعلق ہے اس کے متعلق یہی معترض یعنی دیو بندی اور اہل حدیث خود تسلیم کرتے ہیں اور انہیں ماننا پڑتا ہے کہ نبی کسی غیر نبی کی نوکری کر سکتا ہے کیونکہ قرآن کریم
خطبات طاہر جلدم 286 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی نوکری کا کھلم کھلا ذکر فرمایا ہے.علاوہ ازیں یہ کہنا ویسے ہی بڑی بے عقلی کی بات ہے کہ نبی نوکری نہیں کر سکتا.آخر کیوں نہیں کر سکتا ؟ اس کی کوئی دلیل نہیں دیتے، کوئی بنیاد نہیں اور نہ ہی کسی کتاب کا حوالہ.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ قرآن کریم نے ایک ایسے نبی کا واضح طور پر ذکر کیا ہے جس نے غیر قوم کی نوکری کی اور خود اپنی خواہش سے مال کا شعبہ طلب کیا.حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق اہل حدیث کے ایک عالم مولوی ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں کہ: ”ہم قرآن مجید میں یہ پاتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کا فر بادشاہ کے ماتحت انتظام سلطنت کرتے تھے.کسی ایک نبی کا فعل بھی ہمارے ،، لئے اسوہ حسنہ ہے.(اہل حدیث امرتسر ۱۶ نومبر ۱۹۴۵ء صفحہ نمبر۴) پھر اہل حدیث اپنی اشاعت ۲۵ اکتوبر ۱۹۴۶ء صفحہ ۳ میں لکھتا ہے: حضرت یوسف علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک کئی رسول اور نبی ایسے ہوئے ہیں جو اپنے زمانہ کی حکومتوں کے ماتحت رہے“.پھر تعجب ہے کہ وہ انبیاء کیوں اپنے دین کے لئے خطرہ نہیں بن گئے؟ ایک اور اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر یہ کیا گیا ہے کہ: ”مرزا غلام احمد قادیانی اپنا شجرہ نسب وسطی ایشیا کے مغلوں سے ملاتے ہیں اپنی ابتدائی تحریروں کے مطابق وہ مغلوں کی برلاس شاخ سے تعلق رکھتے تھے ( کتاب البریہ دوسرا ایڈیشن ۱۹۳۲ صفحہ نمبر ۱۳۴) بعد میں انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں الہام کے ذریعہ معلوم ہوا ہے کہ ان کا شجرہ نسب ایرانیوں سے ملتا ہے یہ دعویٰ غالباً اس لئے کیا گیا کہ رسول پاک میلہ کی اس حدیث کا مصداق خود کو ٹھہرا سکیں جس میں آنحضور ﷺ نے اشاعت اسلام میں ایرانی مسلمانوں کے کردار کی بہت تعریف کی تھی تاہم وہ اپنی زندگی کے آخری مرحلے تک اس امر کا تعین نہ کر سکے کہ وہ کون سے سلسلہ نسب سے تعلق رکھتے ہیں، سب سے پہلے انہوں نے مغل قوم سے تعلق رکھنے کا دعوی کیا پھر کچھ عرصہ بعد انہوں نے
خطبات طاہر جلدم 287 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء بیان کیا کہ ان کا کچھ تعلق سادات یعنی آنحضور ﷺ کی اولاد سے.اور بالآخر انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں از روئے الہام بتایا گیا ہے کہ وہ ایرانی الاصل تھے.انہوں نے اس بات کا اقرار کیا کہ ایک نام نہاد کشف کے علاوہ ان کے پاس اور کوئی ثبوت نہیں کہ وہ واقعی ایرانی الاصل ہیں.( قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ نمبر ۱۰۹) یہ سارا قصہ جو ان لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑا ہوا ہے اس میں بہت سی باتیں قابل ذکر ا.ہیں.اب ان کا باری باری ذکر کرتا ہوں.ایک حصہ اس اعتراض کا یہ ہے کہ غالباً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آپ کو ایرانی الاصل اس لئے قرار دیا کہ اپنے آپ کو اس حدیث کا مصداق ٹھہر اسکیں جس میں اشاعت اسلام میں ایرانی مسلمانوں کے کردار کی بہت تعریف کی گئی ہے تحریف کرنے میں یہ بھی ان کا کمال ہے کہ اصل حدیث بیان کرنے کی جرات ہی نہیں ہے.اس حدیث میں تو یہ ذکر ہی نہیں کہ ایرانی مسلمان اسلام کی خدمت کریں گے اس میں تو یہ ذکر ہے کہ ایمان اٹھ جائے گا، ثریا پر چلا جائے گا.اس حدیث کی ایک روایت میں رجل یعنی ایک شخص کا ذکر ہے اور ایک دوسری روایت میں رجال کا لفظ آتا ہے لناله رجل او رجال من هولاء ( صحیح بخاری کتاب التفسیر حدیث نمبر ۴۵۱۸) آنحضرت علیہ نے سورہ جمعہ کی آیت کی تفسیر میں حضرت سلمان فارسی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر فرمایا کہ اگر ایمان آسمان پر بھی اٹھ گیا ثریا تک بھی چلا گیا تو ان میں سے ایک شخص یا اشخاص ایسے ہوں گے جو اسے دوبارہ زمین پر کھینچ لائیں گے کیونکہ اس حدیث کو بیان کرنے کی جرات نہیں تھی اس لئے آنحضرت مل کے کلام کو جان بوجھ کر توڑ مروڑ کر پیش کیا جا رہا ہے گویا آپ نے اشاعت اسلام میں ایرانی مسلمانوں کے کردار کی بہت تعریف کی ہے اور اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کا مصداق بننا چاہتے تھے.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے شجرہ نسب کا تعلق ہے آپ فرماتے ہیں: ”ہماری قوم مغل برلاس ہے اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات جواب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں سمر قند سے آئے تھے اور ان کے ساتھ قریباً دو سو آدمی ان کے توابع اور خدام اور اہل عیال میں سے تھے
خطبات طاہر جلدم 288 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء اور وہ ایک معزز رئیس کی حیثیت سے اس ملک میں داخل ہوئے“.کتاب البریه، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ نمبر ۱۶ ۱۶۳ حاشیه) پھر فرماتے ہیں: جیسا کہ بظاہر سمجھا گیا ہے یہ خاندان مغلیہ خاندان کے نام سے شہرت رکھتا ہے لیکن خدائے عالم الغیب نے جو دانائے حقیقت حال ہے بار بار اپنی وحی مقدس میں ظاہر فرمایا ہے کہ یہ فارسی خاندان ہے اور مجھ کو ابناء فارس کر کے پکارا ہے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحہ نمبر ۸۰ حاشیه ) اب یہ ہے معمہ حکومت پاکستان کے نزدیک اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ جس کے خاندان میں یہ شبہ ہو کہ وہ فارسی الاصل ہے یا مغل ہے یا اس کے آباء واجداد میں سید عورتیں تھیں یا نہیں تھیں وہ اسلام کے لئے سنگین خطرہ ہوتا ہے.لیکن واقعہ یہ ہے کہ ان تینوں چیزوں میں کوئی تضاد ہی نہیں یہ محض ان کی کم نہی ہے جو ایسا تضاد دیکھ رہے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ تینوں باتیں بیک وقت درست ہیں چنانچہ میں نے اس سلسلہ میں جو تحقیق کی ہے اس میں پہلی بات تو یہ سامنے آتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جد امجد جن کا آپ نے خود ذکر فرمایا ہے وہ سمرقند سے آئے تھے اور سمر قند موجودہ دور میں ایران میں شامل نہیں ہے اور مشکل یہ تھی کہ اگر سمر قند سے آئے تھے اور یہ روایت بھی یقینی ہے اور پھر مغل بھی کہلاتے ہیں تو اہل فارس کس طرح ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاما خبر دی اور آپ کے لئے اس سے زیادہ اور کوئی بات قابل یقین نہیں تھی.چنانچہ آپ نے موجودہ جغرافیہ کو درست سمجھتے ہوئے ایک طرف تو یہ بھی اقرار کیا کہ ہم سمرقند سے آئے ہیں اور یہ بھی اقرار کیا کہ تاریخ دان ہمیں مغل ہی بتاتے ہیں.........چنانچہ آپ نےکسی غلط بیانی سے کام نہیں لیا اور پھر ساتھ یہ بھی فرمایا کہ اگر چہ فارسی الاصل ہونے کی بظاہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی اور نہ ہی میرے پاس کوئی دلیل ہے لیکن خدا نے ( جو عالم الغیب ) مجھے یہ خبر دی ہے کہ تم فارسی الاصل ہو ( کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد ۱۳ صفحہ نمبر ۱۶۲ ،۱۶۳ حاشیه ) چنانچہ جب میں نے اس سلسلہ میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ تاریخ کے ساتھ ساتھ جغرافیہ بھی
خطبات طاہر جلدم 289 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء بدلتے رہتے ہیں اور ملکوں کی کوئی ایسی باؤنڈری لائن (Boundry Line) نہیں ہوتی جو ہمیشہ سے ایک جیسی چلی آرہی ہو.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹین کا جلد ۹ بیان کرتا ہے کہ: شہنشاہ ایران فیروز شاہ پور یعنی یہ وہ بادشاہ ہے جو آنحضرت علی سے تقریباً تین سو سال پہلے تھا اس کے زمانہ میں سمر قند ایرانی سلطنت کی سرحدی ریاست سوگ دیانہ کا دارلخلافہ تھا اور سمر قند سے سرحد کا فاصلہ ایک سو بیس کلو میٹر سے بھی زیادہ تھا اس حد تک ایرانی ریاست آگے بڑھی ہوئی تھی.پھر انسائیکلو پیڈیا لکھتا ہے ( یہ الفاظ میرے ہیں لیکن یہ ثبوت وہاں قطعی طور پر موجود ہے ) کہ خسرو پرویز کے وقت بھی (یعنی آنحضرت ﷺ کے زمانہ کا جو بادشاہ ہے ) سمرقند ایرانی سلطنت کا حصہ تھا اور پھر کئی سو سال بعد تک یہ شہر ایران کا حصہ رہا.(انسائیکلو پیڈیا برٹیز کا جلد ۹) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عالم الغیب خدا نے خبر دی تھی جو بالکل سچ ہے اور آپ کے ان بیانات میں کوئی تضاد نہیں.یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آباء واجدا دسمر قند سے آئے تھے اور اُس وقت سمر قند اہل فارس کا حصہ تھا اور سمر قند کے باشندے اہل فارس کہلاتے تھے اور جہاں تک اس امر کا تعلق ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغل تھے یا نہیں یہ ایک ضمنی بحث بن جاتی ہے کیونکہ جو مغل ہندوستان میں آکر بس گئے وہ ہندوستانی مغل بن جاتے ہیں، جو افغانستان میں جا کر بس گئے وہ افغانی مغل بن جاتے ہیں اس لئے یہ بحث نہیں ہے کہ مغل تھے یا نہیں لیکن اگر اس بحث کو بھی اٹھایا جائے تو اس بارے میں محققین کی گواہی سن لیجئے ، وہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی مغل بھی کہلا تا ہو تو یہ ضروری نہیں کہ وہی مغل ہو جو منگول سے آئے تھے.چنانچہ مسٹر سٹینلے پول شاہان مغلیہ کی تاریخ کی مستند کتاب Medieval India Under Mohammadan Rule میں لکھتے ہیں: "The term Moghal.......came to mean any fairman from Central Asia or Afghanistan as distinguished from the darker native
خطبات طاہر جلدم 290 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء Indians, the various foreign invaders or governing Muslims class Turks, Afghans Pathans and Moghals eventually became so mixed that were indifferently termed Moghal".( مطبوعہ ٹی فشر آن ون لمٹیڈ.لندن.پندرھواں ایڈیشن ۱۹۲۶ء صفحہ ۱۹۷ حاشیہ) ترجمہ یہ ہے کہ : مغل ہندوستان کے کالے باشندوں کو ایشیا کے دوسرے باشندوں میں ممیز کرنے کے لئے بولا جاتا تھا مختلف حملہ آور حکمران مسلمان، ترک، افغان ، پٹھان اور مغل کچھ اس طرح مل جل گئے کہ سب کو بلا امتیاز مغل کے نام سے پکارا جانے لگا ہر گورے شریف آدمی کو مغل کہا جاتا تھا.پس یہ بھی کوئی تعجب کی بات نہیں ہے.اول تو یہ بھی ایک بے معنی اور بے حیثیت اعتراض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغل تھے یا نہیں.آپ تو فرماتے ہیں کہ ہمیں مغل کہا جاتا ہے میں نہیں جانتا کہ حقیقت حال کیا ہے.ہو سکتا ہے کہ تاریخ کی بات غلط ہی ہو کیونکہ اس میں غلطی کے امکان ہیں بلکہ تاریخ دان بھی یہ تسلیم کرتے ہیں کہ واقعی اس میں غلطی کے امکانات موجود ہیں مگر جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اہل فارس ہونے کا تعلق ہے اس میں تو کوئی شک ہی باقی نہیں رہتا کہ آپ واقعی فارسی الاصل ہیں.ایک اور بڑا بھاری اعتراض یہ اٹھایا گیا ہے کہ: ان کے بعض قریبی عزیز ان کے سخت مخالف تھے ان میں ایک مرزا شیر علی صاحب تھے جو رشتے میں ان کے سالے تھے اور ان کے بیٹے مرزا فضل احمد کے خسر بھی.بڑے وجیہ انسان تھے، سفید براق داڑھی اور تسبیح ہاتھ میں.بہشتی مقبرہ کے قریب بیٹھے رہتے اور جولوگ مرزا سے ملنے آتے انہیں کچھ اس طرح کے الفاظ میں سمجھایا کرتے ، مرزا صاحب سے میری قریبی رشتہ داری ہے آخر میں نے کیوں نہ اس کو مان لیا.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اس کے حالات سے اچھی طرح واقف ہوں جانتا ہوں کہ یہ ایک دکان ہے جو لوگوں کو لوٹنے
خطبات طاہر جلدم 291 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء کے لئے کھولی گئی ہے میں مرزا کے قریبی رشتہ داروں میں سے ہوں میں اس کے حالات سے خوب واقف ہوں ، اصل میں آمدنی کم تھی بھائی نے جائیداد سے بھی محروم کر دیا اس لئے یہ دکان کھول لی ہے آپ لوگوں کے پاس کتا بیں اور اشتہار پہنچ جاتے ہیں ، آپ سمجھتے ہیں کہ پتہ نہیں کتنا بڑا بزرگ ہوگا، پتہ تو ہم کو ہے جو دن رات اس کے پاس رہتے ہیں، یہ باتیں میں نے آپ کی خیر خواہی کے لئے آپ کو بتائی ہیں.( قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ۱۲ ۱۳۰) یہ ہے وہ اعتراض جس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام (نعوذ بالله) عالم اسلام کے لئے ایک سنگین خطرہ بن گئے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت علہ جوسب نبیوں سے افضل اور مقصود کائنات تھے آپ پر بھی بعینہ یہی بات صادق آتی ہے کہ آپ کے قریب ترین رشتہ دار آپ کے شدید ترین دشمن بن گئے اتنے شدید کے بعضوں کا نام قرآن کریم میں ابولہب کے طور پر مشہور ہے اور اصل نام کو تو اکثر لوگ جانتے ہی نہیں کہ وہ کیا تھا.وہ شدید دشمن آپ کا چا تھا اور اس کا پیشہ بھی یہی تھا کہ وہ ہر وقت لوگوں کو بہکا تا رہتا تھا اور یہ کہا کرتا تھا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے خاندان کا لڑکا ہے.تم لوگوں کو جو باہر سے آنے والے ہو اس کے بارے میں کیا پتہ.اس پر بس نہیں مکہ کی ناکہ بندی کر کے قریش باہر سے آنے والوں کو دھوکا دیا کرتے تھے اور یہ کہا کرتے تھے کہ نعوذ بالله من ذالک یہ بڑا ظالم ہے.کوئی جادو گر کہتا تو کوئی مجنون اور کوئی بیہودہ ناموں سے یاد کرتا تھا اور سب یہی کہتے تھے کہ یہ ساحر ہے.کذاب ہے، ہمفتری ہے (نعوذ باللہ من ذالک) تم نہیں جانتے ہم تو گھر والے لوگ ہیں اس لئے ہم جانتے ہیں.پس ان معاندین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الزام لگاتے ہوئے کوئی خیال نہیں آیا کہ وہ اعتراض جو سید ولد آدم، مقصود کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کیا گیا اسے بڑے فخر کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر دہرا رہے ہیں.اس اعتراض کے سلسلہ میں حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی تقریر جلسہ سالانہ ۱۹۴۵ء کے آخری حصہ کا حوالہ دیا ہے جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ گویا مرزا شیر علی اتنا بڑا بزرگ تھا کہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد بھی یہ مانتے ہیں کہ وہ بہت بزرگ تھا اور اس طرح وہ راستہ میں
خطبات طاہر جلدم 292 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء بیٹھا ہوتا تھا تو اس سے صاف پتہ چلا کہ نعوذ باللہ من ذالک حضرت مسیح موعود علیہ السلام، اسلام کے لئے بہت بڑا خطرہ تھے.اس تقریر کا اگلا حصہ انہوں نے پیش نہیں کیا.حضرت مصلح موعود تو اس تقریر میں یہ بیان فرما رہے ہیں کہ اسی طرح خاندان کا ایک شخص تھا جو راستے میں بیٹھا ہوتا تھا اور لوگوں کو بہکانے کی کوشش کرتا تھا لیکن کوئی اس کی نہیں سنتا تھا.ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ اسی طرح بیٹھا وہ یہ باتیں کر رہا تھا کہ دو زمیندار سادہ سے آدمی قادیان آرہے تھے ان میں سے ایک کو روک کر اس نے یہ باتیں شروع کیں اور چونکہ شکل سے وہ اچھا خاصہ کوئی شریف انسان معلوم ہوتا تھا انہوں نے بڑی توجہ سے بات سنی.جب وہ باتیں سن چکا تو اس نے آگے بڑھ کر چھا مارلیا یعنی اسے اپنی بانہوں میں لپیٹ لیا اور اپنے ساتھی کو آواز دے کر بلایا کہ دوڑ کر آؤ اور پھر اس نے کہا کہ دیکھو ہم سنا کرتے تھے کہ انبیاء کے رستہ میں شیطان بھیس بدل کر بیٹھا کرتے ہیں یہ وہ شیطان ہے.آج خدا کی بات پوری ہوگئی جو ہم نے سنا تھا کہ ہر نیکی کے رستہ پر شیطان بیٹھا ہوتا ہے، تم نے کبھی دیکھا نہیں تھا آکر اس کا منہ دیکھ لو.یہ ہے واقعہ جس میں سے ایک حصہ تو ڑ کر پیش کیا گیا ہے کہ گویا حضرت مصلح موعود واقعہ اسے بڑا بزرگ انسان سمجھتے تھے اور یہ اس کی گواہی پیش کر رہے ہیں کہ وہ خاندان کا آدمی تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کیا کرتا تھا.تو سارے خاندان میں سے ان معاندین کو دو شخص ہی ملے ہیں ایک مرزا امام دین چور اور دوسرا یہ شیطان اور ان کی گواہیاں پیش کر کے وہ خوش ہور ہے ہیں حالانکہ ان سے بہت بڑے بڑے شیطان پہلے گزر چکے ہیں بلکہ انبیاء کے وقت میں اور انبیاء کے رشتہ داروں میں سے گزرچکے ہیں.حقیقت یہی ہے کہ انسان دشمنی میں اندھا ہو جاتا ہے اور اسے یہ خیال ہی نہیں آتا کہ میں کیا باتیں کر رہا ہوں اور اس سے پہلے کیا کچھ گزر چکا ہے.انبیاء کے نزد یکی رشتہ داروں کی مخالفتوں کے بہت سے حوالے ہیں لیکن سر دست میں انہیں چھوڑتا ہوں اور اس وقت ان کی ضرورت بھی نہیں ہے.ایک اور بڑا زبردست اعتراض انہوں نے یہ کیا ہے کہ پہلا زمانہ تو غربت کا تھا روٹی بھی ٹھیک طرح میسر نہیں آتی تھی، سرمایہ نہیں تھا، پیسے ہی نہیں تھے اس لئے کمائی نہیں ہوتی تھی چنانچہ وہ اس سرکاری رسالہ میں لکھتے ہیں: ”مرزا صاحب نے اپنی زندگی کی ابتدائی دہائیاں نہایت فقر وفاقہ
خطبات طاہر جلدم 293 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء اور بڑی خستہ حالی سے بسر کیں وہ خود کہتے ہیں کہ انہیں بھی توقع نہ تھی کہ وہ دس روپے مہینہ بھی کماسکیں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ نہ ہونے کے برابر تھا“.( قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ نمبر۱۱) ایسی غلط بیانی کہ عقل حیران رہ جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہ لکھتے ہیں کہ مجھے جائیداد کی کوئی پرواہ نہیں تھی مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ ہے کہاں میں تو خدا کو یاد کرتا تھا اور دین کی تعلیم میں مگن رہتا تھا.آپ یا تو مسجد میں ملا کرتے تھے یا فقیروں میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور اپنا کھانا بھی غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے جب کہ معاندین ایک ایسا منظر پیش کر رہے ہیں کہ جیسے کوئی شخص کسی منڈی میں بیٹھا ہوا ہے اور اس کے پاس سرمایہ نہیں وہ بمشکل دس روپے کما سکتا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ابتدائی زندگی کا ساری دنیا کو پتہ ہے اور ان کے اپنے مولوی جو شدید ترین مخالف ہوئے وہ آپ کے حق میں گواہیاں دینے والے ہیں ،سکھ گواہیاں دینے والے ہیں، عیسائی گواہیاں دینے والے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچپن کی عجیب کیفیت تھی.امارت ہوتے ہوئے غربت قبول کر لی.دستر خوان بچھے ہوئے چھوڑ کر اپنے حصہ کی روٹی لے کر باہر نکل جایا کرتے تھے اور غریبوں میں تقسیم کر دیا کرتے تھے.بعض دفعہ فاقے کیا کرتے تھے اور بعض دفعہ پیسے دو پیسے کے چنے لے کر کھا لیا کرتے تھے لیکن ان مخالفین کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طرز عمل اسلام کے لئے ایک بہت ہی سنگین خطرہ نظر آیا اور انہوں نے یہ کہا کہ سارے عالم اسلام کو بیدار ہو جانا چاہئے اتنا بڑا خطرہ کہ ایک شخص اپنے گھر کی روٹی اپنی ذات کے لئے استعمال کرنے کی بجائے کسی غریب پر خرچ کر رہا ہے.اس کے بعد جوا گلا اعتراض کیا ہے وہ بھی افتراء کا ایک کمال ہے کہتے ہیں کہ: ” جیسے ہی انہوں نے دعوے ( مجدد، محدث اور نبوت کے ) شروع کئے ان کے پاس نذارنوں وغیرہ کی ریل پیل شروع ہوگی اور عمر کے آخری سالوں تک تو ان کی کمائی میں بہت اضافہ ہو چکا تھا.چنانچہ ۱۹۰۷ء تک ان کی کمائی ڈھائی لاکھ تک پہنچ گئی تھی.یہ وہ زمانہ تھا جب کسی کا لکھ پتی ہونا بہت
خطبات طاہر جلدم 294 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء اعزاز ہوتا تھا اپنی زندگی کے آخری حصے میں وہ دولت سے کھیلتے رہے ان کا معیار زندگی کا اتنا بلند ہو گیا کہ خود ان کے پیروکار اس پر نکتہ چینی اور نا پسندیدگی کا اظہار کرنے لگے.( قادیانیت، اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ نمبر۱۱) ایک طرف تو یہ اعتراض ہے اور دوسری طرف ایسے انبیاء کو انبیاء تسلیم کرتے ہیں جن کے رہن سہن اور بود و باش کا یہ منظر ہے کہ حضرت سیلیمان کے متعلق لکھا ہے کہ زروجواہر اور مال و دولت کی افراط اور فراوانی کا نتیجہ یہ تھا کہ آپ کی شان و شوکت اور تزک واحتشام کی مثال اس سے پہلے کی تاریخ سے نہیں ملتی اس کا کچھ اندازہ اس سے ہو سکتا ہے کہ آپ نے دوسوڈھالیں اور تین سوسپرمیں خالص سونے کی بنوائی تھیں.یہ تو ایک مصنف کی بات ہے بائبل کے اصل حوالوں سے جو نقشہ سامنے آتا ہے وہ تو حیرت انگیز ہے.۱.سلاطین باب نمبر 1 میں لکھا ہے کہ: تھی.وو چاندی کا ایک بھی نہ تھا سلیمان کے ایام میں اس کی کچھ قدر نہ یعنی آپ کا جو سامان برتن وغیرہ تھے ان میں سے کوئی بھی چاندی کا نہ تھا.سارے سونے کے تھے چاندی کی قدرنہیں رہی تھی.پھر لکھا ہے: " آپ کا تخت ہاتھی دانت کا تھا اور اس پر نہایت اعلیٰ قسم کا خالص سونا منڈھا ہوا تھا اس تخت کی چھ سیڑھیاں تھیں اور تخت کے اوپر کا حصہ پیچھے سے گول تھا پشت کے پاس دو شیر کھڑے تھے اور ان چھ سیڑھیوں کے دونوں طرف بارہ شیر کھڑے تھے تخت کا پائیدان خالص سونے کا تھا اتنا شاندار تخت اس زمانہ میں کہیں موجود نہیں تھا.پھر لکھتے ہیں: بادشاہ نے یروشلم میں افراط کی وجہ سے چاندی ک تو ایسا کر دیا جیسے پتھر.(۱.سلاطین ۱۸:۱۰ - ۲۸) یعنی سونا اتنازیادہ تھا اتنی دولت تھی اتنی جاہ و حشم تھی کہ چاندی تو گویا پتھروں اور کنکریوں کی
خطبات طاہر جلد۴ 295 خطبہ جمعہ ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء طرح ہو گئی.یہ تو ایک معمولی سا نقشہ ہے اس زمانہ کی جو تفصیلات بائیل میں ملتی ہیں اگر آپ انہیں پڑھیں تو حیران رہ جائیں.بائیبل کو چھوڑئیے قرآن کریم میں حضرت داؤڈ اور حضرت سلیمان کی سلطنت کے زمانہ کے جو واقعات مختصر درج ہیں اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایسی سلطنت تھی گویا پھر اس کے بعد کبھی بھی ایسی سلطنت نہ دیکھی جائے گی.پس اپنے اس تمام شاہانہ تزک واحتشام کے باوجود یہ سچے نبی تھے اور اپنے دین کے لئے کوئی خطرہ نہیں تھے.لیکن اگر ان کی یہ بات سچی ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوئی کے بعد بہت کمائی کی (جو کہ بالکل جھوٹی بات ہے ) اور اس کمائی کے نتیجہ میں لکھ پتی شمار ہونے لگے اور ان کے مریدوں نے بھی آپ پر دل آزاری اور بیزاری کا اظہار کیا یہ اتنابڑا جھوٹ اور ایسا بڑا افتراء ہے کہ اس پر تعجب ہوتا ہے کہ احمدیت کی مخالفت میں کس طرح دل خوف خدا سے خالی ہو گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مرید کیا کہتے تھے اور انہوں نے آپ کو دعوئی نبوت کے بعد کس حال میں دیکھا وہ سنئے : ایک دفعہ جلسہ سالانہ پر بہت سے آدمی آئے ہوئے تھے جن کے پاس کوئی پارچہ سرمائی نہ تھا.ایک شخص نبی بخش نمبر دار سا کن بٹالہ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے گھر سے لحاف منگوانے شروع کئے اور مہمانوں کو دیتا رہا.عشاء کے بعد حضرت صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ بغلوں میں ہاتھ لئے بیٹھے تھے اور ایک صاحب زادہ جو غالباً خلیفہ اسیح الثانی تھے پاس لیٹے تھے اور ایک شتری چوغہ انہیں اوڑھا رکھا تھا اس پر انہیں معلوم ہوا کہ آپ نے اپنا لحاف بھی طلب کرنے پر مہمانوں کے لئے بھیج دیا تھا.یہ تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شاہانہ بود و باش جس پر ان کو اعتراض ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک آپ نے عیش و عشرت میں وقت گزارا.راوی بیان کرتے ہیں کہ: میں نے عرض کی کہ حضور کے پاس کوئی پارچہ نہیں رہا اور سردی بہت ہے فرمانے لگے کہ مہمانوں کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے ہمارا کیا ہے رات گزر ہی جائے گی.نیچے آکر میں نے نبی بخش نمبر دار کو بہت برا بھلا کہا کہ تم
خطبات طاہر جلدم 296 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء حضرت صاحب کا لحاف بچھونا بھی لے آئے.وہ شرمندہ ہوا اور کہنے لگا جس کو دے چکا ہوں اس سے کس طرح واپس لوں.پھر میں مفتی فضل الرحمان صاحب یا کسی اور سے ٹھیک یاد نہیں رہا لحاف بچھونا ما نگ کر اوپر لے گیا.آپ نے فرمایا کسی اور مہمان کو دے دو مجھے تو اکثر نیند بھی نہیں آیا کرتی اور میرے اصرار پر بھی آپ نے نہ لیا اور فرمایا کسی مہمان کو دے دو پھر میں وہ واپس لے آیا“.اصحاب احمد جلد چہارم روایات ظفر روایت نمبر ۷۶ صفحه ۱۸۰) وو ایک اور واقعہ سیرۃ المہدی حصہ سوم صفحہ ۱۲۲ ۱۲۳ پر اس طرح درج ہے کہ: مجھے ایک اور صاحب نے سنایا کہ میں اپنی جوانی کے زمانہ میں کبھی کبھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ خادم کے طور پر حضور کے سفروں میں ساتھ چلا جایا کرتا تھا حضرت مسیح موعود علیہ السلام سفروں میں ساتھ پیدل چلتے تھے یا کبھی میں زیادہ اصرار کرتا تو کچھ وقت کے لئے خود سوار ہو جاتے تھے اور باقی وقت مجھے سواری کے لئے فرماتے تھے اور جب ہم منزل پر پہنچتے تھے تو چونکہ وہ زمانہ سستا تھا حضور مجھے کھانے کے لئے چار آنے کے پیسے دیتے اور اپنی شاہانہ آن بان کیا تھی ؟ خود ایک آنے کی دال روٹی منگوا کر چنے بھنوا کر گزارہ کرتے تھے اور آپ کی خوراک بہت ہی کم تھی.ایک اور مرید کی بات سن لیجئے.لکھتے ہیں: حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اہل خانہ لدھیانہ گئے ہوئے تھے.میں حضور کو ملنے اندرون خانہ گیا کمرہ نیا نیا بنا تھا اور ٹھنڈا تھا.میں ایک چارپائی پر ذرا لیٹ گیا اور مجھے نیند آ گئی.حضرت اس وقت کچھ تصنیف فرماتے ہوئے ٹہل رہے تھے جب میں چونک کر جاگا تو دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام میری چارپائی کے پاس نیچے فرش پر لیٹے ہوئے تھے میں گھبرا کر ادب سے کھڑا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بڑی محبت سے پوچھا.مولوی صاحب! آپ کیوں اٹھ بیٹھے؟ میں نے عرض کیا حضور نیچے
خطبات طاہر جلدم 297 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء لیٹے ہوئے ہیں میں اوپر کیسے سوسکتا ہوں مسکرا کر فرمایا آپ بے تکلفی سے لیٹے رہیں میں تو آپ کا پہرہ دے رہا تھا.بچے شور کرتے تھے تو میں انہیں روکتا تھا تا کہ آپ کی نیند میں خلل نہ آئے.( سیرۃ حضرت مسیح موعود مصنفہ حضرت مولوی عبد الکریم صاحب صفحہ نمبر ۳۶) یہ ہے اسلام کے لئے عظیم الشان خطرہ ایسے ایسے نیک لوگ ہوں گے تو ان مولویوں کا اسلام کہاں باقی رہے گا.یہ ہے اصل خطرہ جو عوام سے چھپارہے ہیں.حضرت مولوی عبدالکریم صاحب گواہی دیتے ہیں کہ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر فرمایا: ”جب میرا کیسہ خالی ہوتا ہے تو جو ذوق اور سرور اللہ تعالیٰ پر توکل کا مجھے اس وقت حاصل ہوتا ہے میں اس کی کیفیت بیان نہیں کر سکتا اور وہ حالت بہت ہی زیادہ راحت بخش اور طمانیت انگیز ہوتی ہے بہ نسبت اس کے کہ کیسہ بھرا ہوا ہو.(ملفوظات جلد اصفحہ ۲۱۶) پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس جو کچھ آتا تھا وہ اسی رفتار سے اللہ کی راہ میں واپس چلا جاتا تھا وہ کلیۂ خدمت دین پر خرچ ہورہا تھا اور جب بھی آپ کی جیب خالی ہوتی تھی تو آپ اس غربت پر زیادہ لطف اٹھاتے تھے کیونکہ آپ کو یقین کامل تھا کہ خدا تعالیٰ اپنے کام ضرور پورے گا.آپ پر ایسے وقت بھی آئے کہ بسا اوقات مہمان زیادہ آگئے اور خرچ کم ہو گیا تو حضرت اماں جان کے زیور بیچنے کی نوبت بھی آگئی لیکن اللہ تعالیٰ نے پھر وقت پر مددفرمائی اور یہ سلسلہ جاری وساری رکھا.یہ ہے وہ تعیش کی زندگی جس پر پاکستان کے اس سرکاری رسالے کو اعتراض ہے.منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ: ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مغرب کی نماز کے بعد مسجد مبارک قادیان کی اوپر کی چھت پر چند مہمانوں کے ساتھ کھانا کھانے کے انتظار میں تشریف فرما تھے.
خطبات طاہر جلدم 298 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا وہ طرز زندگی بتا رہا ہوں جو ان مخالفوں کی نزدیک شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ ہے) اس وقت ایک احمدی دوست میاں نظام دین صاحب ساکن لدھیانہ جو بہت غریب آدمی تھے اور ان کے کپڑے بھی دریدہ تھے حضور سے چار پانچ آدمیوں کے فاصلہ پر بیٹھے تھے.اتنے میں چند معزز مہمان آکر حضور کے قریب بیٹھتے گئے اور ان کی وجہ سے ہر دفعہ میاں نظام دین کو پرے ہٹنا پڑا حتیٰ کہ وہ ہٹتے ہٹتے جو تیوں کی جگہ پر پہنچ گئے.اتنے میں کھانا آیا تو حضور نے جو یہ سارا نظارہ دیکھ رہے تھے ایک سالن کا پیالہ اور کچھ روٹیاں ہاتھ میں اٹھالیں اور میاں نظام دین سے مخاطب ہو کر فرمایا : ” آؤ میاں نظام دین صاحب ہم اور آپ اندر بیٹھ کر کھانا کھائیں.یہ فرما کر حضور مسجد کے ساتھ کوٹھڑی میں تشریف لے گئے اور حضور نے اور میاں نظام دین نے کوٹھڑی کے اندر اکٹھے بیٹھ کر ایک ہی پیالہ میں کھانا کھایا.( اصحاب احمد جلد چہارم روایات ظفر روایت نمبر ۴۲ صفحه ۱۵۹) یہ ہے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ جو ان کو اسلام کے لئے ایک نہایت ہی خوفناک خطرہ دکھائی دے رہا ہے اور وہ یہ اعتراض کر رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی آخری زندگی میں لکھ پتی ، کروڑ پتی ہو کر اپنے رشتہ داروں کے لئے بے شمار دولت چھوڑی تھی اور یہ کہ آپ کا پہلا زمانہ اور تھا اور آخری زمانہ اور تھا، یہ نقشہ وہ کھینچ رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وفات سے ایک دن پہلے کا حال کیا تھا سنئے.بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی نو مسلم کی گواہی ہے کہ جس دن صبح کے وقت حضور نے فوت ہونا تھا اس سے پہلی شام کو جب حضور فٹن میں بیٹھ کر سیر کیلئے تشریف لے جانے لگے تو مجھے خصوصیت کے ساتھ فرمایا: ”میاں عبدالرحمان ! اس گاڑی والے سے کہہ دیں اور اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس وقت ہمارے پاس صرف ایک روپیہ ہے وہ ہمیں صرف اتنی دور تک لے جائے کہ ہم اسی روپے کے اندر گھر واپس پہنچ جائیں“.سیرت المہدی روایات بھائی عبد الرحمان صاحب قادیانی و اصحاب احمد جلد ۹ صفحه ۲۷۸)
خطبات طاہر جلدم 299 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء وہ روپیہ دینے کے بعد وفات کس حال میں ہوئی اس کے بارہ میں ہماری پھوپھی جان حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ مرحومہ فرماتی ہیں کہ : حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے وقت ہماری اماں جان نے ہمیں بلایا اور فرمایا.بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے.انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا.(سیرت المہدی.روایات نواب مبارکہ بیگم صاحبہ ) پس اس زمانہ کے لوگ جو خود عیاشیوں میں مبتلا ہیں، جو پیسے کی خاطر ایمان بیچ رہے ہیں.جو روٹی کی خاطر جھوٹ اور افترا سے باز نہیں آتے ، جو جھوٹ کے بدلے خدا کی آیات بیچ کر دولتیں سمیٹ رہے ہیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ نعوذبالله من ذالک آپ نے آخری زمانہ عیش و عشرت میں بسر کیا اور یہ دعوی کر کے کہ میں مجدد ہوں دولت کی ریل پیل ہو گئی تھی.اگر مجددیت کے دعوی کے نتیجہ میں یہ سلوک ہوتا تو ہر جھوٹا، ہر بدکردار مجدد بن جایا کرتا.اس صورت میں تم لوگ بھی مخالفوں میں شمار نہ ہوتے بلکہ صف اول کے مجددین ہوتے.خدا تعالیٰ کی طرف سے آنے والوں کے ساتھ تو بالکل اور سلوک ہوا کرتا ہے.ان پر تو بہت ظلم ہوتے ہیں، ان کی جائیدادیں غصب کر لی جاتی ہیں ، ان کے مال چھین لئے جاتے ہیں، ان کے ماننے والوں کے مال لوٹ لئے جاتے ہیں، ان کی دکانیں تباہ کر دی جاتی ہیں، ان کے کاروبار برباد کر دیئے جاتے ہیں، ان کی ساری عمر کی کمائیوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے جلا دیا جاتا ہے.پس جب سچے دعویٰ کرتے ہیں تو ان سے یہ سلوک ہوا کرتا ہے لیکن جھوٹوں کے ساتھ یہ معاملات نہیں ہوا کرتے.آج تک تو ہم یہی سنت دیکھتے چلے آرہے ہیں.تم کس منہ سے کہہ سکتے ہو کہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ قدیمی سنت کے برعکس سلوک ہوا ہے.حقیقت تو یہی ہے کہ جب سے آدم پیدا ہوئے اس وقت سے لے کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام تک دنیا نے صرف ایک ہی نظارہ دیکھا ہے کہ وہ جو سب سے زیادہ ہر دل عزیز ہوا کرتا تھا جسے
خطبات طاہر جلد۴ 300 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء سب نعمتیں حاصل ہوا کرتی تھیں، جب اس نے خدا کے نام پر ایک دعوی کیا تو تمام اعزہ واقارب ان کے شدید جانی دشمن بن گئے ، اپنے بھی دشمن ہوئے، دوست بھی دشمن ہوئے غیر تو پہلے ہی غیر تھے.اور پھر اس مدعی کو ہر چیز سے محروم کرنے کی کوشش کی گئی.یہی واقعہ تھا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ گزرا مگر اس کے باجود اللہ تعالیٰ نے اپنے فضلوں کی بارشیں نازل فرمائیں لیکن حکومتی رسالہ کے لکھنے والے کو کوئی احساس نہیں ہوا اور کوئی خیال نہیں آیا کہ تاریخ اسلام کیا سبق دے رہی ہے اور وہ اس قسم کے ناپاک ، لغو اور جھوٹے حملے کر کے اسلام کو کیا تقویت دے رہے ہیں.حضرت ابو ہریرہ کا کیا حال تھا ؟ وہی ابو ہریرہ جسے فاقوں سے غش پڑ جایا کرتے تھے اور لوگ سمجھتے تھے کہ مرگی کا دورہ ہے لہذا بعض لوگ جو تیاں مارا یا سونگھایا کرتے تھے کیونکہ عرب سمجھتے تھے کہ مرگی کا یہی علاج ہے جبکہ وہ غریب تو مرگی سے نہیں فاقوں سے بے ہوش ہو جایا کرتا تھا.لیکن چونکہ حضرت ابو ہریرہ خدا تعالیٰ کی خاطر یہ سب کچھ برداشت کر رہے تھے اور خدا تعالیٰ قربانی کرنے والوں کی قربانی کو کبھی ضائع نہیں فرماتا اس لیے حضرت ابو ہریرہ پر زندگی میں ایک ایسا وقت بھی آیا کہ کسریٰ کا وہ شاندار رومال جو وہ اپنے لباس میں سجاوٹ کے لئے نمایاں طور پر دکھانے کے لئے لگایا کرتا تھا وہ رومال جو شاہی عظمت کی نشانی ہوا کرتا ہے وہ تھوکنے کے کام نہیں آیا کرتا.وہ تو محض دکھاوے کے لئے ہوتا ہے اس سے بادشاہ کی عظمت اور شوکت نمایاں ہوتی ہے ) جب کسری کی حکومت فتح ہوئی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہی رومال حضرت ابو ہریرہ کو پیش کر دیا انہوں نے اس رومال پر تھوکا اور پھر کہا ”بخ بخ ابو هريرة “ واہ واہ ابو ہریرہ تیری کیا شان ہے آج محمد مصطفیٰ کی جوتیوں کے صدقے تو کسریٰ کے رومال پر تھوک رہا ہے.66 (بخاری کتاب الاعتصام بالكتاب والسنة حديث نمبر 6779) پس یہ تو درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے کوئی کمی نہیں آنے دی ہر طرف سے دولتوں کی ریل پیل تھی مگر خدا کی قسم آپ آخر وقت تک دنیا کی دولتوں کے منہ پر تھوکتے ہی چلے گئے اور کبھی ان سے پیار نہیں کیا.ایک وقت ایسا تھا کہ آپ دستر خوان کے بچے کھچے ٹکڑے کھایا کرتے تھے اس سے ہمیں انکار نہیں لیکن غربت کی وجہ سے نہیں سرمایہ کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس لئے کہ آپ کو دنیا سے کوئی دلچسپی نہیں تھی اور پھر وہ وقت بھی آیا جبکہ لاکھوں انسان آپ کے دستر
خطبات طاہر جلد۴ 301 خطبه جمعه ۲۹ مارچ ۱۹۸۵ء خوان سے کھانا کھانے لگے پس یہ تھی وہ دولت کی ریل پیل جو آپ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئی اور وقت کے ہر نبی اور اس کے ماننے والوں سے یہی سلوک ہوا کرتا ہے.آج جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو رہا ہے اور کل آپ کی اولادوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا چلا جائے گا.معاندین جلتے رہیں گے اور جل کر خاکستر ہوتے چلے جائیں گے گر اللہ تعالیٰ آپ کی جانوں میں بھی برکت دیتا چلا جائے گا، آپ کے اموال میں بھی برکت دیتا چلا جائے گا اور خدا کی قسم وہ دن بھی آئیں گے کہ آپ قیصر و کسری جیسے شہنشاہوں کے رومالوں پر تھوکیں گے اور کہیں گے ”بخ بخ ابوھریرہ! اے مسیح موعود کے غلامو! تمہاری کیا شان ہے کہ آج خدا نے تمہیں وہ مقام عطا فرمایا کہ بادشاہوں کے کپڑوں پر تھوکتے ہو جبکہ بادشاہوں کا یہ حال ہو گا کہ مسیح موعود کے کپڑوں کے لئے ترسا کریں گے اور ان سے برکت ڈھونڈیں گے.وہ کپڑے جو بظاہر بوسیدہ ہوں گے جن کو وقت نے دھندلا دیا ہوگا جن کو احتیاط سے ہاتھ لگایا جائے گا کہ کہیں ہاتھ لگانے کی وجہ سے پھٹ نہ جائیں.خدا کی قسم وہ وقت ضرور آئے گا کہ بادشاہ مسیح موعود علیہ السلام کے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور رحمتیں بھیجیں گے اور آپ پر سلام بھیجیں گے اور ان لوگوں پر لعنت بھیجیں گے جنہوں نے جھوٹ اور افترا سے ہر قسم کے گندے الزام لگائے اور خدا کا کوئی خوف نہ کیا.
خطبات طاہر جلدم 303 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء قرطاس ابیض کے اعتراضات کے جواب مہدی آخر الزمان کا مقام ( خطبه جمعه فرموده ۱/۵اپریل ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل قرآنی آیات کی تلاوت کی : وَقَالُوْا قُلُوْبُنَا فِي اَكِنَةِ مِمَّا تَدْعُوْنَا إِلَيْهِ وَفِي أَذَانِنَا وَقُرُ وَ مِنْ بَيْنِنَا وَبَيْنِكَ حِجَابٌ فَاعْمَلُ إِنَّنَا عَمِلُونَ قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمُ الهُ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيْمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوْهُ وَوَيْلٌ لِلْمُشْرِكِينَ پھر فرمایا: b ( لحم السجدة : ۶.۷) خطبات کا جو سلسلہ چل رہا ہے اس میں حکومت پاکستان کی طرف سے شائع کردہ مزعومہ قرطاس ابیض کا جواب دیا جارہا ہے اور اس وقت آج کے خطبہ کے لئے بھی میں نے اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے چند اعتراضات کو چنا ہے اور انہی کا آج کے خطبہ میں جواب دوں گا.حکومت پاکستان کو احمدیت پر ایک اعتراض یہ ہے کہ: ”مرزا صاحب کا ایک عجیب وغریب دعوی یہ ہے کہ ان کا روحانی قد وقامت دیگر انبیاء سے کہیں بلند ہے.اس قسم کے دعوؤں کی مثالیں دینے
خطبات طاہر جلدم 304 خطبه جمعه ۵ رابریل ۱۹۸۵ء کے لئے ہم ( یعنی حکومت پاکستان ) مرزا صاحب کی تحریروں میں سے بعض اقتباسات پیش کرتے ہیں.” خدا نے اس امت میں سے مسیح موعود بھیجا جو اس پہلے مسیح سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے....مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانہ میں ہوتا تو وہ کام جو میں کر سکتا ہوں وہ ہرگز نہ کرسکتا اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں وہ ہرگز دکھلا نہ سکتا.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه :۱۵۲) پھر ایک اور حوالہ تمہ حقیقۃ الوحی صفحه ۸۵،۸۴ کا دیتے ہوئے حکومت پاکستان اس اقتباس کو بھی اعتراض کا نشانہ بناتی ہے.دنیا میں کوئی نبی نہیں گزرا جس کا نام مجھے نہیں دیا گیا.سوجیسا کہ براہین احمدیہ میں خدا نے فرمایا ہے کہ میں آدم ہوں، میں نوح ہوں، میں ابراہیم ہوں ، میں اسحاق ہوں، میں یعقوب ہوں، میں اسماعیل ہوں ، میں موسیٰ ہوں ، صلى الله میں داؤد ہوں ، میں عیسی ابن مریم ہوں ، میں محمد ﷺے ہوں یعنی بروزی طور پر جیسا کہ خدا نے اسی کتاب میں یہ سب نام مجھے دیئے اور میری نسبت جرى الله في حلل الانبياء فرمایا یعنی خدا کا رسول سب نبیوں کے پیرایوں میں.سوضرور ہے کہ ہر نبی کی شان مجھ میں پائی جاوے.اس اعتراض کے علاوہ ایک دوسرا اعتراض یہ اٹھایا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اپنی وحی کو دیگر ابنیاء کی وحی کے مشابہ قرار دیا ہے.دراصل یہ دونوں اعتراضات ایک ہی نوع کے ہیں.اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زمرہ انبیاء میں شامل ہیں تو زمرہ انبیاء کے متعلق قرآن کریم سے ہمیں دو قسم کی آیات ملتی ہیں.ایک جگہ فرمایا : كُلُّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَيكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْ رُّسُلِهِ (البقرة :۱۸۲) کہ ہم رسولوں کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں کرتے.یہ دعویٰ حضرت اقدس محمدمصطفی اعلی اور آپ کے ماننے والوں کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور دوسری جگہ فرمایا: تلكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ
خطبات طاہر جلد۴ 305 خطبه جمعه ۵ ر ا پریل ۱۹۸۵ء (البقرۃ: ۲۵۴) یہی وہ رسول ہیں جن میں سے بعض کو ہم نے بعض پر فضیلت دی.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام زمرہ انبیاء میں شامل ہیں تو ان دونوں آیات میں ان دونوں اعتراضات کا جواب موجود ہے.وحی کے لحاظ سے رسولوں کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا جا سکتا.ہر رسول پر پاک وحی خدا کی طرف سے اترتی ہے وہی وہی جو اس سے پہلے رسولوں کی طرف اتری تھی یا آئندہ رسولوں کی طرف اترنی تھی ، خدا کے پاک کلام میں اس کی شان اور اس کی شوکت اور اس کی صحت اور اس کی سچائی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہوتا.جہاں تک مراتب کا تعلق ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کا کام ہے جس کو چاہے بلند مرتبہ عطا فرمائے جس کو چاہے کم مرتبہ عطا فرمائے چنانچہ بعض انبیاء کو دوسرے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے اب دیکھنا صرف یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو دعویٰ تھا اس دعوی کے اعتبار سے آپ کو یہ دعویٰ بھی زیب دیتا ہے یا نہیں کہ آپ کو گزشتہ بعض انبیاء پر فضیلت ہے؟ جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوئی کا تعلق ہے آپ نے مسیح اور مہدی ہونے کا دعویٰ فرمایا اور مہدی اور مسیح کے متعلق امت کے گزشتہ بزرگوں نے ، اولیاء اللہ نے اور مجددین وقت نے بڑے کھلے لفظوں میں اس بات کا اعلان فرمایا کہ اس کا مقام امت محمدیہ میں کسی عام انسان کا سا مقام نہیں ہوگا بلکہ بعضوں نے تو واضح طور پر یہ لکھا کہ وہ گزشتہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہوگا.لیکن امام مہدی اور مسیح کا ذکر اگر چھوڑ بھی دیں تو تب بھی امت میں ایسے بزرگ پیدا ہوئے جو نہ امام مہدی ہونے کے دعویدار تھے نہ مسیح ہونے کے.لیکن انہوں نے ایسے ہی دعوے خود اپنی ذات کے متعلق کئے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر.چنانچہ جہاں تک وحی کا تعلق ہے امت محمدیہ میں وحی کا ذکر بھی اسی طرح ملتا ہے جس طرح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعاوی میں ملتا ہے اور جہاں تک گزشتہ لوگوں پر فضیلت کا اور باقی بنی نوع انسان پر فضیلت کا تعلق ہے یہ دعاوی بھی امت محمدیہ میں ایک سے زائد جگہ پر نظر آتے ہیں وحی کے لحاظ سے میں دو مثالیں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں : حضرت محی الدین ابن عربی نہ صرف وحی کا دعویٰ کرتے ہیں بلکہ یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ مجھے معراج ہوا اور اس میں مجھے پر یہ آیت نازل ہوئی: قل امنا بالله وما انزل علينا وما انزل على ابراهيم واسمعيل
خطبات طاہر جلدم 306 خطبه جمعه ۵ ر ا پریل ۱۹۸۵ء واسحق و يعقوب والاسباط وما اوتى موسى وعيسى والنبيون من ربهم لا نفرق بين احد منهم ونحن له مسلمون فاعطاني في هذه الاية كل الايات و قرب على الامر و جعلها مفتاح كل علم فعلمت اني مجموع من ذكر لي (الفتوحات المكية جلد ٣باب معرفة التوكل الخامس الذي ما كشفه احد من المحققين ، مطبوعه مصر جز ۳صفحه:۳۵۰) تو کہہ دے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس پر جو نازل کیا گیا ہم پر اور جو نازل کیا گیا ابراہیم، اسماعیل ،اسحاق، یعقوب اور ان کی اولاد پر اور اس پر جو دیا گیا موسیٰ عیسی اور تمام انبیاء کو ان کے رب کی طرف سے.ہم نہیں فرق کرتے کسی کے درمیان ان میں سے اور ہم خدا کے لئے کامل فرماں بردار ہیں.پھر فرماتے ہیں: پس اس آیت میں ، اس نے مجھے تمام نشان دیئے اور میرے لئے روحانی امر کو قریب کر دیا اور اس نے اس آیت کو میرے لئے ہر علم کی کنجی بنایا پس میں نے جان لیا کہ میں ان تمام انبیاء کا مجموعہ ہوں جن کا اس آیت میں ذکر 66 کیا گیا ہے.حضرت خواجہ میر درد دہلوی نے بھی اپنی کتاب ” علم الکتاب“ میں تحدیث نعمت کے عنوان کے ماتحت اپنے الہامات کا ذکر کیا ہے جو اپنے مرتبہ میں پہلے انبیاء کے الہامات کی شان رکھتے ہیں.کیونکہ قرآن کریم کی آیت ہی کی شکل میں آپ کو بھی الہامات ہوئے چنانچہ ایک الہام یہ درج ہے: ولا تتبع اهواء هم واستقم كما امرت.پھر فرماتے ہیں ایک اور الہام ہوا: افحكم الجاهلية يبغون في زمان يحكم الله بایاته مايشاء پھر الہام ہوا: ان تعذبهم فانهم عبادک و ان تغفر لهم فانك انت العزيز الحكيم (علم الكتاب)
خطبات طاہر جلدم 307 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء صلى الله جہاں تک حضرت مسیح علیہ السلام پر فضیلت کا ذکر ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی حکمت بھی خود بیان فرمائی ہے اور وہ حکمت اس نوع کی ہے کہ آج بھی کوئی باشعور انسان جو اسلام پر ایمان رکھتا ہو اور حضرت اقدس محمد مصطفی امی نے کی فضیلت پر ایمان رکھتا ہو اس حکمت پر ایمان کو گنوائے بغیر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا.چنانچہ جو دلیل آپ نے قائم فرمائی وہ یہ ہے: اس جگہ یہ بھی یادر ہے کہ جب کہ مجھ کو تمام دنیا کی اصلاح کے لئے ایک خدمت سپرد کی گئی ہے.اس وجہ سے کہ ہمارا آقا اور مخدوم تمام دنیا کے لئے آیا تھا تو اس عظیم الشان خدمت کے لحاظ سے مجھے وہ قوتیں اور طاقتیں بھی دی ہیں جو اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے ضروری تھیں....اور ہم قرآن شریف کے وارث ہیں جس کی تعلیم جامع تمام کمالات ہے اور تمام دنیا کے لئے ہے مگر حضرت عیسی“ صرف توریت کے وارث تھے جس کی تعلیم ناقص اور مختص القوم ہے.اسی وجہ سے انجیل میں ان کو وہ باتیں تاکید کے ساتھ بیان کرنی پڑیں جو توریت میں مخفی اور مستور تھیں لیکن قرآن شریف سے ہم کوئی امر زائد بیان نہیں کر سکتے کیونکہ اس کی تعلیم اتم اور اکمل ہے اور وہ توریت کی طرح کسی انجیل کا محتاج نہیں.(حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۵۵) جہاں تک دیگر دعاوی کا تعلق ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اور یہ اقتباس میں الشیخ داؤد بن محمود القیصر کی کی شرح فصوص الحکم سے لے رہا ہوں اس کے مقدمہ میں حضرت علی کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: انا نقطة باء بسم الله انا جنب الله الذي فرطتم فيه وانا القلم، وانا اللوح المحفوظ، وانا العرش، وانا الكرسي، وانا السموات السبع، والارضون “ ( شرح فصوص الحکم محمد داؤ د قصری رومی صفحه ۱۱۸) کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ دعویٰ فرمایا کہ میں بسم اللہ کی باء کا نقطہ ہوں میں خدا کا وہ پہلو ہوں جس کے متعلق تم نے کوتاہی سے کام لیا، میں قلم ہوں ، میں لوح محفوظ ہوں ، میں عرش
خطبات طاہر جلدم 308 خطبه جمعه ۵ را پریل ۱۹۸۵ء ہوں، میں کرسی ہوں ، میں ساتوں آسمان اور زمینیں ہوں.حضرت امام جعفر صادق “ جو اہل التشیع کے چھٹے امام اور امت محمدیہ کے بہت بڑے بزرگ ہیں اور حضرت امام ابو حنیفہ کے استاد بھی ہیں ان کا یہ قول ہے کہ امام مہدی آکر یہ دعوی کرے گا : يا محشر الخلائق الاومن ارادان ينظر الى آدم وشيث فها انا آدم و شيث الاومن أراد ان ينظر الى ابراهيم و اسماعيل فها انا ذا ابراهیم و اسماعيل.ومن ارادان ينظر الى موسى ويوشع.فها انا ذاموسی و یوشع الاومن ارادان ينظر الى عيسى و شمعون فها انا ذاعیسی و شمعون الا ومن ارادان ينظر الى محمد و امير المومنين صلوات الله عليه فها اناذا محمد صلى الله عليه واله وسلم و امیر المومنين الأومن ارادان ينظر الى الحسن والحسين فها اناذا الحسن والحسين.ومن ارادان ينظر الى الائمة من ولد الحسين فها اناذا الائمة.(بحار الانوار الجامعه لدر ، اخبار الائمة الأطهار، مصنفه الشيخ محمد باقر المجلسي جلد ۱۳ صفحه ۹ جزء ۵۳) ( ترجمہ ) اے تمام لوگو! سن لو جو آدم اور شیث کو دیکھنا چاہے وہ آدم اور شیث میں ہوں اور جو ابراہیم اور اسماعیل کو دیکھنا چاہے تو یا در کھے کہ وہ ابراہیم اور اسماعیل میں ہوں اور جو موسیٰ اور یوشع کو دیکھنا چاہے تو وہ موسیٰ اور یوشع میں ہوں اور جو عیسیٰ اور شمعون کو دیکھنا چاہے تو وہ عیسیٰ اور شمعون میں الله ہوں اور جو محمد ﷺ اور امیر المومنین کو دیکھنا چاہے تو وہ محمد ﷺ اور امیر المومنین میں ہوں اور جو حسن اور حسین کو دیکھنا چاہے تو حسن اور حسین میں ہوں اور جو نسل حسین میں ہونے والے ائمہ کا دیکھنا چاہے تو وہ ائمہ میں ہوں.پس حکومت پاکستان نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ اقتباسات پیش کر کے احمدیت کی گویا تائید کی ہے آپ کے خلاف کوئی نئی دلیل پیش نہیں کی کیونکہ اگر امام مہدی کے یہ مقامات نہیں تو گزشتہ بزرگوں کی پیشگوئیاں عبث ہیں لیکن جیسا کہ بزرگوں نے پیشگوئیوں میں فرما
خطبات طاہر جلدم 309 خطبه جمعه ۵ راپریل ۱۹۸۵ء رکھا تھا نیچے امام کے لئے ضروری تھا کہ وہ یہ دعاوی کرے.اگر امامت کا دعویٰ تو کرتا اور یہ دعاوی نہ کرتا تو وہ جھوٹا ثابت ہوتا نہ کہ سچا.اس صورت میں یہ ائمہ بھی جھوٹے ثابت ہوتے جنہوں نے یہ پیشگوئیاں کیں.پس حضرت امام جعفر صادق ” کے اس قول کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا اقرار کرنا پڑے گا اور اگر تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ان دعاوی کے نتیجہ میں جھوٹا قرار دیتے ہو تو پھر حضرت امام جعفر صادق کی سچائی اور بزرگی کا انکار بھی لازم آتا ہے.لیکن دعاوی کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا.امام خمینی صاحب جن کو اس وقت شیعہ نائب امامت کے مقام پر فائز سمجھتے ہیں وہ تو شیعہ ائمہ کے متعلق ، امام مہدی کے متعلق نہیں بلکہ عام شیعہ ائمہ کے متعلق کہتے ہیں: ”بے شک ہمارے مذہب کی لازمی باتوں میں سے یہ ہے کہ ائمہ کے مقام تک نہ تو کوئی مقرب فرشتہ پہنچتا ہے اور نہ کوئی نبی و مرسل“.( ولایت فقیه یا حکومت اسلامی صفحه ۵۸ بحوالہ ” مینی صاحب اپنی تحریرات کے آئینہ میں از ڈاکٹر عبداللہ محمد العریب) حضرت شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی نہ تو مسیح ہونے کا دعوی کیا اور نہ مہدی ہونے کا لیکن امت محمدیہ کے بزرگوں کو خدا نے جو بلند مقامات عطا فرمائے ہیں وہ اتنے عظیم الشان ہیں کہ آج کل کا عرفان سے عاری ظاہر پرست مولوی اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا.چنانچہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی " کے متعلق الشیخ نورالدین ابوالحسن علی بن یوسف بن جریر اپنی تأليف بهجة الاسرار کے صفحہ ۲۱ پر لکھتے ہیں کہ حضرت شیخ عبدالقادر صاحب جیلانی نے فرمایا: الانس لهم مشايخ ، والجن لهم مشايخ، والملئكة لهم مشايخ، وانا شيخ الكل....لا تقيسو نى باحد ولا تقيسو اعلى أحدا بهجة الاسرار و معدن الانوار لنور الدين الخمی حاشیه فتوح الغيب از عبد القادر جیلانی صفحه ۲۳ ) کہ انسانوں کے مشائخ ہیں ، جنوں کے بھی مشائخ ہیں اور ملائکہ کے بھی مشائخ ہیں اور میں شیخ الکل یعنی ان تمام کا شیخ ہوں مجھے کسی پر قیاس نہ کرو اور نہ مجھ پر کسی کو قیاس کرو.
خطبات طاہر جلدم 310 خطبه جمعه ۵ را پریل ۱۹۸۵ء اسی طرح نواب صدیق حسن خان صاحب امام ابن سیرین” کا قول اپنی کتاب مج الکرامہ صفحہ ۳۸۶ پر یوں درج کرتے ہیں: قال ابن ابي شيبة فى باب المهدى عن محمد بن سیرین قال يكون في هذه الامة خليفة خير من ابى بكر وعمر.قيل خير منهما؟ قال قد كاد يفضل على بعض الانبياء.وفي لفظ لا يفضل عليه ابو بكر وعمر سیوطی گفته ای قال السيوطي) هذا اسناد صحيح " ترجمہ : اس امت میں ایک ایسا خلیفہ ہوگا جو ابو بکر اور عمر سے بھی بہتر ہو گا ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ ان دونوں سے بہتر ہوگا ؟ انہوں نے جواب دیا ہاں بلکہ قریب ہے وہ بعض انبیاء سے بھی افضل ہو اور ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں اس خلیفہ سے ابو بکر اور عمر افضل نہیں ہوں گے امام سیوطی نے اس قول کی سند کو صحیح قرار دیا.حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمتہ اللہ علیہ جن کا نام بڑے احترام کے ساتھ اسی کتابچہ ( قادیانیت، عالم اسلام کے لئے سنگین خطرہ ) میں درج ہے جو جماعت کے خلاف شائع کیا گیا ہے اور ان کو سند قرار دیا گیا ہے اور ایک ایسے عظیم الشان فلسفی کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو امت مسلمہ کے مصالح کو خوب سمجھتا ہو یہی حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: حق له ان ينعكس فيه انو السيد المرسلين صلى الله عليه وسلم يزعم العامة انه اذا نزل فى الارض كان واحد أمن الامة كلابل هو شرح للاسم الجامع المحمدى و نسخته متنسخة منه و شتان بینه و بين احد من الامة.الخير الكثير الملقب به خزائن الحکمۃ صفحہ ۷۸) حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ” بھی یہ پیشگوئی فرماتے ہیں اور آنے والے امام مسیح موعود علیہ السلام کے مقام کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ : و یعنی مسیح موعود اس بات کا حق دار ہے کہ اس میں سید المرسلین ہے کے انوار منعکس ہوں.عام لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جب مسیح موعود نازل ہوگا
خطبات طاہر جلدم 311 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء تو محض امتی فرد ہوگا ایسا ہر گز نہیں بلکہ وہ اسم جامع محمدی ﷺ کی شرح آپ کا سچائس (True Copy) ہوگا.پس کہاں وہ اور کہاں محض ایک امتی حضرت امام عبدالرزاق القاشانی فرماتے ہیں: المهـدى الـذي يـجـئي في آخر الزمان فانه يكون في احكام الشريعة تابعا لمحمد صلى الله عليه وسلم، و في المعارف والـعـلـوم والحقيقة تكون جميع الانبياء والأولياء تـابـعـيــن لـه كـلهم.ولا يناقض ما ذكرناه لان باطنه باطن محمد (صلى الله عليه وسلم عليه السلام.شرح فصوص الحکم از شیخ عبد الرزاق کاشانی صفحه : ۵۷) یعنی مہدی آخرالزمان شرعی احکام میں محمد ﷺ کا تابع ہوگا.لیکن معارف علوم اور حقیقت میں تمام انبیاء اور اولیاء اس کے تابع ہوں گے کیونکہ اس کا باطن محمد اللہ کا باطن ہوگا.پھر حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں: تارة اخرى بان تشتبك بـحـقيقـة رجل من آلـه او المتوسلين اليه كما وقع لنبينا صلى الله عليه وسلم بالنسبة الى ظهور المهدی (تقسیمات الحسيه جلد ۲ صفحه ۱۹۸) " یعنی بروز حقیقی کی ایک قسم یہ ہے کہ کبھی ایک شخص کی حقیقت میں اس کی آل یا اس کے متوسلین داخل ہو جاتے ہیں جیسا کہ ہمارے نبی کے مہدی سے تعلق میں اس طرح کی بروزی حقیقت وقوع پذیر ہوگی.پس یہ اقوال امت محمدیہ کے ایسے مسلمہ صاحب کشف والہام بزرگوں کے ہیں جو اپنے وقت کے اقطاب اور ان میں بعض اپنے وقت کے مجددین تھے.امت مسلمہ میں ان کو ایسے ایسے عظیم مراتب عطا ہوئے کہ آج کے یہ علماء ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کے بھی اہل نہیں لہذا اب فیصلہ کے دو ہی طریق ہیں کہ یا تو اسی مہر سے ان بزرگوں پر بھی کفر کے فتوے لگاؤ جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی جماعت پر فتوے لگا رہے ہو لیکن اگر تم سمجھتے ہو کہ ان بزرگان امت نے
خطبات طاہر جلدم 312 خطبه جمعه ۵ راپریل ۱۹۸۵ء مسیح و مہدی کی شان و مرتبہ کو اپنی روحانی بصیرت سے صحیح دیکھا تھا اور اسے درست بیان فرمایا تھا تو پھر اگر تم میں انصاف اور تقویٰ ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ذات پر لگائے گئے بے بنیاد اعتراضات کو نہ صرف واپس لو بلکہ آپ کے دعاوی کو صدق دل سے قبول کرو.اگر چہ بظاہر ایسا اس لئے ممکن نہیں کہ تم تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ان دعاوی کے نتیجہ میں آپ کے تمام ماننے والوں کو بھی گردن زدنی قرار دے رہے ہو.تم نے تو یہ فیصلہ بھی دیا کہ احمدیوں کے گھر لوٹے جائیں ، ان کے اموال کو آگیں لگائی جائیں ، ان کے اندوختے تباہ کر دیے جائیں ، ان کی بیوی بچوں کو ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کیا جائے اور اگر بیوی بچے پہلے زندہ رہیں تو ان کے والدین کو ان کے سامنے قتل کیا جائے.تمہارے نزدیک اگر یہ سب کچھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کی وجہ سے جائز ہے تو پھر گزشتہ ائمہ اور بزرگوں کے ماننے والوں کے ساتھ بھی یہی سلوک کرو.مگر نہیں تم میں جرات نہیں تقویٰ نہیں محض زبانیں تیز ہیں اس سے زائد تمہیں کوئی اختیار نہیں.سیدھی بات ہے کہ امام مہدی کے متعلق بزرگان سلف کا جن کے میں نے نام لئے ہیں یہ مسلمہ عقیدہ ہے کہ اس کا یہ مقام ہوگا وہ یہ یہ باتیں کرے گا.پس امام مہدی کے دعویدار کے لئے ضروری تھا کہ وہ یہ دعاوی کرے.یہ اس کی سچائی کی پہچان ہے نہ کہ اس کے جھوٹ کی دلیل.اگر وہ دعوی کرتا اور کہتا کہ میں یہ نہیں ہوں تو تم اٹھتے اور اس کو مطعون کرتے کہ تم نے تو یہ دعویٰ نہیں کیا اس لئے تم لازماً جھوٹے ہو کیونکہ پہلے ائمہ تو تمہارے متعلق یہ یہ کچھ فرما گئے ہیں.ایک اور اعتراض بلکہ مجموعہ اعتراضات یہ پیش کیا گیا ہے کہ: جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں مرزا غلام احمد نے ابتداء میں نبوت کے دعوی کی حقیقی خواہش کا واضح طور پر اظہار نہیں کیا.انہوں نے آغاز ختم نبوت کے بارے میں پہنی انتشار پیدا کرنے سے کیا اور پھر بتدریج لیکن تیزی سے اپنی منزل مقصود تک بڑھتے چلے گئے.بڑے تذبذب اور متصادم اظہارات کے بعد انہوں نے بالآخر نبی ہونے کا دعویٰ کیا“.پھر ایک اور اعتراض یہ کرتے ہیں کہ :
خطبات طاہر جلدم 313 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء اپنی جوانی کے زمانہ میں مرزا صاحب صرع اور اعصابی دوروں کی بیماریوں میں مبتلا ر ہے.کبھی کبھی وہ ہسٹیریا کے حملوں کی وجہ سے بے ہوش ہو جایا کرتے تھے.انہیں ذیا بیطس کا مرض بھی تھا.یہ بات بڑی دلچسپ ہے کہ بعد میں انہوں نے اپنی دو بیماریاں یعنی مراق اور ذیا بیطیس کو اپنے حق میں دلیل بنا کر گھڑ لیا.انہوں نے لکھا: ”دیکھو میری بیماری کے متعلق بھی آنحضور ﷺ نے پیشگوئی کی تھی جو اس طرح وقوع میں آئی.آپ نے فرمایا تھا کہ مسیح آسمان پر سے جب اترے گا تو دوز رد چادر میں اس نے پہنی ہوئی ہوں گی“.( تشحیذ الاذہان جون ۱۹۰۶ ء صفحه ۵) یہ دو قسم کے مختلف اعتراضات ہیں.وہ لوگ جو مذہبی تاریخ کا کچھ علم رکھتے ہیں اور خصوصاً مستشرقین یورپ کے لٹریچر سے واقف ہیں.ان کے ذہنوں میں ایک گھنٹی سی بجی ہوگی کہ ہم نے یہ باتیں تو پہلے بھی سن رکھی ہیں، ایسے ہی الفاظ ایسے ہی بودے اور لچر حملے تو پہلے بھی ہوتے آئے ہیں.لیکن وہ حملے کیسے تھے اور کس نے کئے تھے اور اعتراض کی یہ ادا ئیں ان لوگوں نے کس سے سیکھیں اس کے متعلق گھر کے بھیدی سے بڑھ کر اور کون رہنمائی کرسکتا ہے.چنانچہ میں اخبار اہل حدیث ۱۲۴ مارچ ۱۹۱۱ صفحہ۲ کالم ۲ کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں جہاں چور پکڑا جاتا ہے.یہ حضرت خلیفة أمسیح الاول کے زمانے کی بات ہے.اخبار مذکور میں حضرت خلیفہ اسیح الاول کو مولوی ثناء اللہ صاحب امرتسری کی طرف سے پھیلنج دیا گیا تھا.چنانچہ وہ لکھتے ہیں: ”ہمارا حق ہے یا نہیں کہ ہم آپ ( یعنی مرزا صاحب علیہ السلام) کے مشن پر وہ سوالات کریں جو آپ کے رسول کی رسالت کے منافی ہوں جس طرح عیسائی اور آریہ وغیرہ آنحضرت ﷺ کی رسالت پر اعتراض کرتے ہیں.اب دیکھیں رنگ بھی سیکھے تو کس سے سیکھے، مخالفت کے ڈھنگ بھی اختیار کئے تو کس کے.یہ لوگ سیکھتے ہیں تو آریوں اور عیسائیوں سے ، ان ناپاک حملوں کے طریق سیکھتے ہیں جو
خطبات طاہر جلد۴ 314 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات اقدس پر اور اسلام پر وہ کیا کرتے تھے.پس اس نشاندہی کے بعداب ہمارے لئے ان حملوں کو سمجھنا بہت آسان ہو جاتا ہے.ولیم میورا ایک مشہور عیسائی مصنف ہے وہ اپنی کتاب ”لائف آف محمد صفحہ نمبر ۴۸ پر تدریجی دعویٰ کے متعلق آنحضرت ﷺ پر یہ اعتراض کرتا ہے کہ:.ہم یہ قیاس کر سکتے ہیں کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) شک اور ہچکچاہٹ کے اس دور میں سے گزرنے کے بعد یہ کہنے لگا کہ یہ خدا کا پیغام ہے.دریں اثناء اس نے یہ کہا کہ یہ سب خدا کے نام کی خاطر ہے.یہ مقام اس کی تمام زندگی پر چھا گیا اور اس کی حرکات میں مدغم ہو گیا.وہ ایک خادم بنا، رسول بنا اور پھر خدا کا نائب.اس کے مشن کے دائرے ہمیشہ بڑھتے رہے اور ان کی بنیاد انہی اصولوں پر قائم رہی.اب نام بدل لیں ولیم میور کا اور اس کی جگہ اس قرطاس ابیض کے مصنف کا نام رکھ دیں کوئی فرق نہیں پڑتا.ولیم میور مزید لکھتا ہے: مکہ میں کسی حاکم اعلیٰ کی غیر موجودگی اور آپس میں بٹی ہوئی حکومت نے محمد کو اس وقت اس فیصلہ ( یعنی نبوت) کا موقع دیا“.پھر وہ یہ اعتراض بھی اٹھاتا ہے.(لائف آف محمد صفحه ۳۲) مدینہ آنے کے چند ماہ بعد محمد نے یہودیوں کو روزہ رکھتے ہوئے دیکھا اور جلدی سے اپنے لوگوں کے لئے اپنالیا“.اس سے پہلے یہ اسلامی حکم نہ تھا.یہ اس دوران میں نافذ ہوا جب محمد اپنے دین کو یہودیوں کے تہواروں کے ساتھ ساتھ رکھنا چاہتا تھا“.جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے وہی مراق اور ہسٹیر یا اور مرگی کے ذلیل اور نا پاک اعتراض کس پر کئے گئے؟ ان پر جو ساری کائنات کے مقصود تھے جن کی خاطر زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا تھا.
خطبات طاہر جلدم 315 خطبه جمعه ۵ را پریل ۱۹۸۵ء سید ولد آدم کو اعتراضات کا نشانہ بنایا گیا جو تمام نبیوں سے افضل تھے جن کی خاطر یہ کائنات معرض وجود میں آئی تھی اور یہ آپ ہی تھے جن کی حکمت اور جن کی ذہانت اور جن کی فطانت ایسی چمکی کہ خدا نے خود فرمایا یہ ایسا نور تھا کہ اگر آسمان سے شعلہ الہام نہ بھی نازل ہوتا تب بھی یہ نور جگمگا اٹھنے کے لئے تیار تھا.اس سراپا نور کے بارے میں ولیم میور کہتا ہے: وو پیغمبر از حد الجھا ہوا( نعوذ بالله من ذالک اور اعصابی مریض تھا.اندھیرے سے خوف زدہ (.....لعنۃ اللہ علی الکاذبین...) (لائف آف محمد صفحه ۲۰۸) میں تو اس حوالہ کو پڑھ بھی نہیں سکتا.بیماری کے متعلق اگر کسی نے دیکھنا ہو اور اس میں اس اعتراض کو سننے کی ہمت ہو تو پادری سی جی فنڈر (Fander) کی کتاب میزان الحق ( مطبوعه ۱۸۶۱ صفحہ نمبر ۳۲۲، صفحہ نمبر ۳۲۷) کا مطالعہ کرے.اس بے غیرت نے اس چسکے کے ساتھ مزے لے لے کر اعتراضات کئے ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ بعض احادیث پر بنا رکھ کر اور بار بار یہ جتا کر کہا ہے کہ دیکھو یہ میں نہیں کہتا یہ تمہارے بزرگ ، تمہارے محدثین ، تمہاری فقہ کے بڑے بڑے استاد اور تمہارے بڑے بڑے مورخ لکھ چکے ہیں.چنانچہ وہ ایسی فرضی حکایات کے حوالے پر حوالے دیتا چلا جاتا ہے.جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور یا اس حقیقت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض غلط نتائج نکالتا ہے جن کو حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے.بہر حال یہ روایت جس میں نعوذ بالله من ذالک مرگی کا ذکر ہی نہیں بلکہ نہایت ہی کمینے اور ذلیل الفاظ میں نقشہ کھینچا ہے یہ تو میں پڑھ نہیں سکتا لیکن اگر ہمارے مخالفین میں جرات ہے، ہمت ہے اور غالباً انہوں نے یہ باتیں ایسے ہی لوگوں سے سیکھی ہیں تو وہ خود یہ عبارتیں پڑھ سکتے ہیں.ایک اور بڑے لطف کی بات یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دو بیماریوں کا ذکر کر کے بڑے فخر سے کہا گیا ہے کہ یہ نبوت کا دعویدار! جو کمزور اور بیماریوں میں مبتلا ہے.مگر ان انبیاء پر جن پر یہ ایمان کا دعویٰ رکھتے ہیں کہ وہ خدا کے سچے نبی تھے خودان پر بیماریوں کے ایسے ایسے بہتان باندھتے ہیں جن میں کوئی بھی حقیقت نہیں.ان بہتانوں میں سے جو بعض اسرائیلی روایات کی بناء پر خود مسلمان علماء نے باندھے ہوئے ہیں میں چند ایک آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.
خطبات طاہر جلدم 316 خطبه جمعه ۵ رابریل ۱۹۸۵ء حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق سنئے.نبی کا کیا خوب نقشہ ان کے ذہن میں اترا ہوا ہے.کہتے ہیں: وكانت احدى عينيه اعظم من الاخرى (الاتقان فی علوم القرآن لامام السیوطی حاشیه اعجاز القرآن للباقلانی ج ۲ صفحه ۱۳۸) کہ آپ کی ایک آنکھ بڑی تھی اور ایک چھوٹی تھی.پھر شعیب علیہ السلام کے متعلق لکھا ہے: وعمي في اخر عمره“ کہ آخری عمر میں آپ اندھے ہو گئے تھے.(ایضاً صفحہ ۱۳۸) اور یہ تو خیر ابھی معمولی بات ہے.اب سنئے حضرت ایوب علیہ السلام کے متعلق تفسیر جلالین کا حوالہ اور وہ نقشہ جو حضرت ایوب کی بیماری کا وہ کھینچتے ہیں.لیکن قبل اس کے کہ میں یہ حوالہ پیش کروں یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں تو فرماتا ہے کہ انبیاء کے اندر ہم پھونکتے ہیں اور پھر ان کو ایک نئی روحانی زندگی عطا کرتے ہیں یعنی نبیوں کے اندر ہم اپنی روح پھونکتے ہیں اور پھر ان کو خلعتِ نبوت سے سرفراز کرتے ہیں لیکن مفسرین نے حضرت ایوب علیہ السلام کے بارہ میں جو تصور پیش کیا ہے وہ سنئے.فنفخ (ابليس) في منخريه اشتعل منها جسده، فخرج منها ثاليل مثل اليات الغنم، ووقعت فيه حکه فحک باظفاره، حتی سقطت كلها.ثم حكها بالمسوح الخشنه حتى قطعها.ثم حكها بالفخار و الحجارة الخشنة فلم يزل کذلک حتی تقطع جسده وانثنى فاخر جه اهل القرية.وجعلوه على كناسة، وجعلواله عريشا.وهجره الناس كلهم الازوجته، رحمة بنت افرائیم.( حاشیہ الجلالين للعلامة احمد الصاوی جز ۳ صفحه ۷۲) کہ شیطان نے آپ کے نتھنوں میں پھونک ماری جس سے آپ کا بدن بھڑک اٹھا اور اس
خطبات طاہر جلدم 317 خطبه جمعه ۵ را پریل ۱۹۸۵ء کی وجہ سے بڑے بڑے پھوڑے نکل آئے اور جسم میں سخت کھجلی شروع ہو گئی.پہلے آپ نے ناخنوں سے کھجلانا شروع کیا حتی کہ وہ گر گئے پھر سخت ٹاٹ لے کر کھجلایا کرتے یہاں تک کہ وہ پھٹ گئے پھر ٹھیکریوں اور سخت پتھروں کو استعمال کرتے رہے مگر کھلی میں کمی نہ آئی حتی کہ آپ کا تمام بدن کٹ گیا اور بد بودار ہو گیا جس کی وجہ سے گاؤں والوں نے آپ کو نکال باہر کیا اور ایک روڑی پر ڈال دیا اور ایک چھت بنادی اور سوائے آپ کی بیوی رحمت بنت افرائیم کے سب نے آپ سے قطع تعلق کر لیا.پس جن لوگوں کے خدا کے نبیوں کی نبوتوں کے بارہ میں یہ تصورات ہوں اور اللہ تعالیٰ کے پاک نبیوں پر ایسے گندے حملے کرنے سے باز نہ آئیں وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نا پاک حملے کر دیں تو اس میں تعجب کی کوئی بات نہیں.حقیقت یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں جماعت احمدیہ کے لئے حمد اور اطمینان کا ایک پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آمد تک دنیا حضرت اقدس محمد ﷺ پر گندے حملے کیا کرتی تھی ایسے میں قادیان سے ایک پہلوان اٹھا وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں دیوانہ تھا اس نے آنحضور ﷺ پر ہونے والے حملوں کا اس شدت سے دفاع کیا اور دشمنان اسلام پر ایسے سخت حملے کئے کہ دشمنوں کی توجہ آپ کی طرف سے ہٹ گئی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ تیر جو ہمارے آقا و مولا حضرت اقدس محمد مصطفی اعے پر چلا کرتے تھے وہ مسیح موعود نے اپنے سینے پر لے لئے اور اس وقت سے آج تک تمام دشمنان اسلام نے حضرت محمد مصطفی علیہ کے متعلق خاموشی اختیار کر رکھی ہے اور سب کی توجہ ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام کی طرف ہوگئی ہے.یہ شان ہے جماعت احمدیہ کی قربانی کی اور یہ عظمت ہے مسیح موعود کے دعاوی کی سچائی کی.پس ان حملوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر رحمت اور درود کے گلدستے دیکھتے ہیں.اس میں کوئی شک نہیں کہ جب صدیوں کی تاریکیاں حضرت محمد مصطفی ﷺ پر حملے کر رہی تھیں، وہ تیر جو ہمارے آقا و مولیٰ سید ولد آدم کی ذات اقدس کی طرف چلائے جاتے تھے، وہ گند جو آپ پر اچھالا جاتا تھا خدا کی قسم خدا کی تقدیر ان چیزوں کو پھولوں اور رحمتوں اور درود اور صلوٰۃ میں تبدیل فرما دیا کرتی تھی.جتنی گالیاں خدا کے نام پر آپ کو دی گئیں اس سے لاکھوں کروڑوں گنا زیادہ رحمتیں آسمان سے آپ پر نازل ہوتی رہیں پس مبارک ہو تمہیں جو اس مجاہد اعظم کی غلامی کا دم بھرتے ہو جس نے صل الله
خطبات طاہر جلد۴ 318 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کئے جانے والے سارے حملوں کو اپنی چھاتی پر لے لیا اور اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں کی کہ اس کے نتیجہ میں آپ کی ذات پر کیا گزرتی ہے.رہی زرد چادروں کی بات تو اس سلسلہ میں یاد رکھنا چاہئے کہ یہ تعبیر طلب ہے یعنی حضرت رسول اکرم ﷺ نے جو فرمایا ہے کہ آنے والا مسیح دوز رد چادروں میں لپٹا ہوا آسمان سے نازل ہوگا تو اس کے متعلق دو ٹوک فیصلہ پہلے سے ہی ہو چکا ہے اور وہ یہ کہ دو ہی صورتیں ہیں یا تو اس کشف یا پیشگوئی کی تعبیر کی جائے اور یا پھر اسے ظاہر پر محمول کیا جائے.اگر ظاہر پر محمول کیا جائے تو پھر اس آنے والے نبی کی کیا شکل بنے گی.اس کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا فیصلہ میں آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں اور اگر ظاہر پر محمول نہ کیا جائے بلکہ اس میں ایک عارفانہ پیغام ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے تو پھر امت محمدیہ کے بزرگ پہلے سے ہی لکھ چکے ہیں : والصفرة من الثياب كلها مرض و ضعف لصاحب الثوب الذي ينسب ذلك الثوب اليه تعطیر الانام بعد الغني النابلسی ج ا صفحه ۱۰۳ الباب التاسع والعشرون في الكساوى واختلاف الوانها وأجناسها ) اگر خواب میں یا کشفی نظارے میں کسی کو زرد کپڑوں میں ملبوس دیکھو گے تو اس سے مراد بیماری ہوتی ہے.پس جہاں تک تو اس پیغام کے عرفان کا تعلق ہے اس کے سوا اس کا ترجمہ ہو نہیں سکتا کہ زرد کپڑوں سے مراد بیماری ہے لیکن جو لوگ ظاہر پرست ہوتے ہیں اگر انہوں نے ضرور اس کو ظاہر پر محمول کرنا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا آنے والے مسیح کو واقعہ جو گیوں کی طرح زرد کپڑوں میں ملبوس دیکھنا ہے تو اس کے متعلق حضرت محمد مصطفی علیہ کا اپنا فتوئی سن لیجئے.حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص یہ روایت کرتے ہیں: راى رسول الله صلى الله عليه وسلم على ثوبين معصفر ين فقال ان هذه من ثياب الكفار فلا تلبسها.( صحیح مسلم کتاب اللباس والزمینه ) یعنی ایک شخص کو آنحضرت ﷺ نے زرد کپڑوں میں ملبوس دیکھا تو آپ نے فرمایا ہرگز ایسا
خطبات طاہر جلدم نہیں کرنا یہ کفار کا لباس ہے.319 خطبه جمعه ۵ / اپریل ۱۹۸۵ء یہ تو ایسی ہی ہے کہ جیسی روح ویسے فرشتے.پس ہماری روحوں کو تو کفار کا مسیح قبول نہیں ہماری روحوں کو تو محمد مصطفی ﷺ کی امت کا مسیح قبول ہے اور امت محمدیہ کے لئے ہمیشہ کے لئے حکم ہے کہ تم نے زرد کپڑے نہیں پہنے کیونکہ یہ کفار کا لباس ہے.پس اگر محمد مصطفی ﷺ کی امت کا مسیح چاہتے ہو تو اس کے سوا تمہارے لئے اور کوئی چارہ نہیں کہ آمد مسیح کے تصور کو صاف اور پاک کرو اور جیسا کہ علم الرؤیا کے اصول سے ثابت ہے آنے والے مسیح کے متعلق یہ یقین کرو کہ اس پیشگوئی میں ایک تعبیر طلب پیغام تھا اور زرد کپڑوں سے مراد سوائے بیماری کے اور کچھ ہو نہیں سکتا لیکن اگر تم نے اصرار کرنا ہے اور ظاہری طور پر زرد کپڑوں میں دیکھنا ہے تو پھر تمہیں تمہارا مسیح مبارک ہو.ہمیں تو وہی مسیح منظور ہے جو حضرت محمد مصطفی اللہ کے احکامات کے تابع ہے جس نے سرمو بھی شریعت اسلامیہ سے انحراف نہیں کیا اور اس کی زندگی کا ایک ادنی ساجز و بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی اطاعت سے کبھی باہر نہیں گیا.آج کے خطبہ کے لئے جلسہ کی مناسبت سے میں نے مختصر بیان کرنے کے لئے دو اعتراض چن رکھے تھے.انشاء اللہ یہ سلسلہ بعد میں جاری رہے گا اور جہاں تک اس جلسہ کی آخری تقریر کا تعلق ہے اس میں میں ختم نبوت کے بارہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں کیونکہ خاتم النبیین کے موضوع پر مبینہ قرطاس ابیض میں متعدد اعتراض اٹھائے گئے ہیں اور حیرت انگیز تلبیس سے کام لیا گیا ہے جس کا ایک خطبہ میں جواب دیا جا ہی نہیں سکتا.اس لئے اس جلسہ منعقدہ ۵-۶.۷ اپریل ۱۹۸۵ء بمقام اسلام آباد ٹلفور ڈانگلستان) کی آخری تقریر کے لئے میں نے خاتم النبیین کا موضوع چنا ہے مگر اس کا ہر پہلو نہیں لوں گا بلکہ صرف دو پہلو بیان کئے جائیں گے جن پر اس رسالہ ( مزعومہ قرطاس ابیض ) میں اعتراضات اٹھائے گئے ہیں.وہ بھی اتنے زیادہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تو فیق عطا فرمائے میں وقت کے اندر انہیں بیان کر سکوں اور نہ اس موضوع پر کہنے کے لئے مواد تو بہت زیادہ ہے.
خطبات طاہر جلدم 321 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء پر حکمت تاویلات پر ظاہر پرستوں کا مضحکہ خیز ردعمل نیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پر شوکت کلام مسلم مشاہیر کی نظر میں (خطبه جمعه فرموده ۱۲ را پریل ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں : أَعَدَّ اللهُ لَهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا فَاتَّقُوا اللَّهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ آمَنُوا قَدْ اَنْزَلَ اللهُ إلَيْكُمْ ذِكْرًا رَسُولاً تَتْلُوا عَلَيْكُمْ آيَتِ اللهِ مُبَيِّنَتٍ لِيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلِحَتِ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّوْرِ وَمَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّتٍ تَجْرِى مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهرُ خَلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا قَدْ اَحْسَنَ اللهُ لَهُ رِزْقًا اور پھر فرمایا: (الطلاق: ۱۱-۱۲) حکومت پاکستان کی طرف سے مبینہ قرطاس ابیض میں احمدیت اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو اعتراضات اٹھائے گئے ہیں آج کا خطبہ بھی انہی اعتراضات کے جوابات
خطبات طاہر جلدم 322 خطبه جمعه ۱۲ را پریل ۱۹۸۵ء کے سلسلہ کا ایک حصہ ہے.آج میں نے دو اعتراضات تو ایسے لئے ہیں جن کا ذکر میں پہلے بھی آپ کے سامنے کر چکا ہوں لیکن جس طرح قرطاس ابیض میں یہ اعتراض دوحصوں میں بانٹ کر اٹھایا گیا ہے اسی طرح اس کا جواب بھی دو حصوں میں بانٹ کر دیا جا رہا ہے.ایک اعتراض تو عمومی تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاد کے خلاف فتویٰ دیا اور انگریزوں کی خوشامد کی جس سے صاف ثابت ہوا کہ وہ خود کاشتہ پودا ہیں یا جماعت احمد یہ خود کاشتہ پودا ہے.اسی اعتراض کو ایک اور رنگ میں اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ سکھوں کے دور حکومت میں حضرت مرزا صاحب کے والد مرزا غلام مرتضی نے انگریزوں کی بہی خواہی اور خیر خواہی میں اس مفسدہ کے دوران جو ۱۸۵۷ء کا مفسدہ کہلاتا ہے پچاس گھوڑے اور پچاس جنگجو سپاہی اپنے خرچ پر فراہم کئے اور اس طرح ایک جہاد کے دوران مسلمانوں کے خلاف ان کے والد نے انگریزوں کی مدد کی.چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہندوستان کے مسلمانوں نے انگریزوں کے خلاف کوئی ایسی لڑائی نہیں لڑی جسے مخالفین بطور مثال پیش کر سکتے اور یہ کہہ سکتے کہ دیکھو مرز اصاحب نے نہ صرف جہاد کے خلاف فتویٰ دیا بلکہ عملاً بھی فلاں موقع پر جبکہ مسلمان مصروف جہاد تھے انہیں روک دیا گیا یا ان کی مخالفت کی گئی اس لئے اب یہ بہت دور کی کوڑی لائے ہیں اور اس سلسلہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آباء واجداد کے واقعات بیان کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایسا کیا.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جس دعوئی پر بناء کی گئی ہے وہ دعوی ہی جھوٹا ہے.پاکستان کے آج کل کے مورخین غدر کے واقعات کو اس طرح پیش کر رہے ہیں کہ گویا وہ مسلمانوں کا انگریزوں کے خلاف ایک جہاد تھا اور تمام مسلمان متحدہ طور پر اس جہاد میں انگریز کے خلاف لڑائی میں مصروف تھے جبکہ یہ بات ہی بالکل جھوٹی ہے.کوئی ایسا واقعہ نہیں ہوا.جو واقعات تاریخ سے ثابت ہیں وہ یہ ہیں کہ بہادر شاہ ظفر کے دور حکومت کے آخر میں بعض فتنہ پردازوں نے جن میں پیش پیش اس زمانہ کے ہندو اور بدھ مذہب لوگ تھے نہ صرف یہ کہ بہادر شاہ کو گھیرے میں لے رکھا تھا بلکہ بعض مسلمان علماء کو بھی گھیرے میں لے کر ان سے زبر دستی فتویٰ لئے جارہے تھے کہ یہ جہاد ہے اور جہاں تک عام مسلمانوں کا تعلق ہے ان میں سے بھاری اکثریت اس میں شریک نہیں ہوئی بلکہ وہ علماء جو اسلام کے مسائل سے آگاہ تھے جن میں شعور بھی تھا اور تقویٰ بھی تھا وہ کھلم کھلا اس کے خلاف فتویٰ دے رہے
خطبات طاہر جلدم 323 خطبه جمعه ۱۲ رامیریل ۱۹۸۵ء تھے اور کہ رہے تھے کہ یہ ایک فساد ہے اس کا نام جہا درکھنا بالکل غلط ہے بلکہ بڑے سخت الفاظ میں ان لوگوں کو یاد کر رہے تھے جو اس میں شامل ہوئے.اگر یہ غدر کامیاب ہو جاتا تو اس کے نتیجہ میں ہرگز کوئی اسلامی حکومت ہندوستان میں قائم نہ ہوتی.تاریخ کا ادنی سا علم رکھنے والا بھی جانتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں انگریز کی حکومت کی بجائے ہندو کی حکومت آتی اور ہندوؤں کی حکومت نے انہی مسلمانوں کو پہلے حال سے بھی بدتر کر دینا تھا.پس یہ واقعہ رونما ہونے والا تھا.بہت سے باشعور مسلمان علماء نے معاملات کو بھانپتے ہوئے نہ صرف یہ کہ اسے اسلامی جہاد قرار نہیں دیا بلکہ اس کے خلاف فتوے دیئے.اس سارے واقعہ کے بعد مبینہ وائٹ پیپر میں ایک نتیجہ یہ بھی نکالا گیا ہے اور وہ بہت دلچسپ ہے کہتے ہیں کہ غلام مرتضی صاحب نے اپنی جیب سے اتنی مدد کی ،گھوڑوں اور سواروں پر خرچ کیا تاہم ان کے خاندان کی حالت پتلی ہوتی چلی گئی اور جس گورنمنٹ عالیہ کو ان کے باپ نے مسلمان بھائیوں کے خلاف مدد پہنچائی تھی اس نے بھی ان کی کوئی قدر نہ کی.معاندین کے اس نتیجہ سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ کیا واقعہ ہوا تھا اور کس لئے وہ مدد کی گئی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے کسی ذاتی غرض کے لئے انگریز کی کبھی کوئی مرد کی نہ کبھی انگریز کی طرف سے خیر کا ایک ذرہ بھی آپ کو یا آپ کی جماعت کو پہنچا.نہ آپ کے آباء واجداد میں سے کسی نے ذاتی غرض کے لئے کوئی خدمت کی اور نہ کبھی انگریز کی طرف سے انہیں کوئی فیض پہنچا.یہ حصہ تو بہر حال انہوں نے تسلیم کر لیا ہے.اس کے برعکس جن کو فیض پہنچا وہ کون لوگ تھے وہ چند علماء تھے جن کا تعلق وہابیہ فرقہ یاد یو بندی فرقہ سے تھا یعنی موجودہ دور میں جماعت کے جو اشد ترین مخالفین ہیں ان کے آباؤ اجداد ہی تھے یہی وہ لوگ تھے جو امر واقعہ کے طور پر بڑی شدت کے ساتھ انگریز کی حمایت کر رہے تھے.علاوہ ازیں بعض شیعہ علماء بھی تھے جو بڑی شدت کے ساتھ انگریز کی حمایت کر رہے تھے.چنانچہ ان سب کو انگریزوں سے فیض پہنچے اور نہ تو یہ کسی بھلائی کے جذبہ سے تھے اور نہ کسی قومی مصلحت کی وجہ سے تھے بلکہ ان کے ساتھ ذاتی اغراض بھی وابستہ تھیں.چنانچہ قیصر التواریخ جلد دوم صفحہ ۳۵۱ پر درج ہے کہ: ” بغاوت فرو ہونے کے بعد جن لوگوں کو صلہ و انعام سے نوازا گیا ان میں لکھنو کے ممتاز عالم و مجتہد سلطان العلماء سید محمد صاحب بھی تھے جنہیں سرکار
خطبات طاہر جلدم 324 خطبه جمعه ۱۲ / اپریل ۱۹۸۵ء انگریزی سے آٹھ سوروپیہ ماہوار کی پینشن دائمی نسلاً بعد نسل مقرر ہوئی.“ یہ عجیب بات ہے کہ انگریز ایک ایسے خاندان کو جس سے متعلق یہ مولوی کہتے ہیں کہ اسے یا اس کی جماعت کو انگریز نے اپنے ہاتھ سے کاشت کیا تھا انہیں تو اس طرح بھلا دیا گیا کہ انعام دینا تو در کناران کی اپنی ضبط شدہ جائیدادیں بھی واگذار نہیں کیں اور نہ کسی خطاب یا القاب سے نواز الیکن دوسری طرف ان علماء کو جو ہم پر معترض ہیں ان کو نہ صرف یہ کہ جائیدادیں دیں، مربعے دیئے بلکہ ان کے لئے نسلاً بعد نسل وظیفے جاری کر دیئے.جہاں تک بزرگان دیو بند کا تعلق ہے ان کے حالات میں ان کی اپنی ہی ایک کتاب سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مولانا عاشق الہی صاحب ایک کتاب تذکرۃ الرشید جو مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی کی سوانح عمری پر مشتمل ہے اس میں وہ لکھتے ہیں: ان ایام میں آپ ( مولوی رشید احمد گنگوہی ) کو ان مفسدوں سے مقابلہ بھی کرنا پڑا جو غول کے غول پھرتے تھے حفاظت جان کی غرض سے تلوار اپنے پاس رکھتے اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بہادر شیر کی طرح نکلے چلے آتے تھے.ایک مرتبہ ایسا ہی اتفاق ہوا کہ حضرت امام ربانی (مولوی رشید احمد گنگوہی ) اپنے رفیق جانی مولانا قاسم العلوم ( مولانا محمد قاسم نانوتوی جو دیو بند کے جدا مجد ہیں ) اور طبیب روحانی اعلیٰ حضرت حاجی صاحب (حاجی امداد اللہ کی ) و نیز حافظ ضامن صاحب کے ہمراہ تھے کہ بند و تچیوں سے مقابلہ ہو گیا یہ نبرد آزما اور دلیر جتھا اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا.“ یہ ہے ان کا قصہ.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعلق ہے اس وقت تو جماعت احمدیہ قائم ہی نہیں ہوئی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ابھی چھوٹی عمر کے تھے مگر بہر حال بعد کے زمانہ میں بھی معاندین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا جماعت احمدیہ کے متعلق کوئی ایسا اعتراض نہیں کر سکتے کہ جس میں آپ یا آپ کی جماعت نے مسلمانوں کے مفاد کے خلاف نعوذ باللہ من ذلک کبھی کوئی لڑائی کی ہو لیکن جس کو یہ خود مسلمانوں کے مفاد کی لڑائی کہہ
خطبات طاہر جلد۴ 325 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء رہے ہیں اور جس کے متعلق بار بار ببانگ دہل یہ اعلان کر رہے تھے کہ وہ اسلام کی خاطر ایک جہاد ہو رہا تھا اور وہ مسلمانوں کے مفاد میں تھا اس کے متعلق ان کے آباء واجداد کا قصہ یہ ہے کہتے ہیں کہ : اپنی سرکار کے مخالف باغیوں کے سامنے سے بھاگنے یا ہٹ جانے والا نہ تھا اس لئے اٹل پہاڑ کی طرح پیر جما کر ڈٹ گیا اور سر کار پر جاں شاری کے لئے طیار ہو گیا.اللہ رے شجاعت و جوانمردی کہ جس ہولناک منظر سے شیر کا پتہ پانی اور بہادر سے بہادر کا زہرہ آب ہو جائے وہاں چند فقیر ہاتھوں میں تلوار میں لئے جم غفیر بندوقچیوں کے سامنے ایسے جمے رہے گویاز میں نے پاؤں پکڑ لئے ہیں چنا نچہ آپ پر فیریں ہوئیں اور حضرت حافظ صاحب رحمۃ اللہ علیہ زیر ناف گولی کھا کر شہید ہوگئے.“ (تذکرۃ الرشید.میرٹھ حصہ اول صفحہ ۴ نے ۷۵) یہ ہے ان کا جہاد جسے اپنے منہ سے تسلیم کر رہے ہیں کہ وہ انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کا جہاد تھا اور آج جو جماعت احمدیہ پر بڑھ بڑھ کر باتیں کرنے والے ہیں ان کے آباء واجدا داس جہاد میں یہ کچھ کر رہے تھے لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ بالکل جھوٹ ہے وہ کوئی جہاد نہیں تھا.اس وقت کے خدا ترس اور چوٹی کے علماء مسلمانوں کو متنبہ کر رہے تھے کہ یہ فتنہ وفساد ہے اس میں ملوث نہ ہوں یہ تمہارے مفادات کے خلاف ہے.چنانچہ دہلی کے نامور عالم مولانا میر محبوب علی صاحب کے بارہ میں ارواح ثلاثہ “ جو مولانا اشرف علی صاحب تھانوی کے حاشیہ اور آپ کے نوٹس کے ساتھ شائع ہوئی، میں لکھا ہے: غدر میں بہت علماء مخالف تھے اور کہتے تھے کہ یہ جہاد نہیں ہے.انہی میں میر محبوب علی صاحب بھی تھے اور آپ وعظ ونصیحت کے ذریعے لوگوں کو غدر سے روکتے تھے.( ارواح ثلاثہ مع حواشی و ملاحظات الشیخ اشرف علی تھانوی حکایت نمبر ۴۶۶) اور آج جو اسے جہاد قرار دے رہے ہیں ان کے اپنے فرقہ کے چوٹی کے بزرگ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے اس جہاد کے متعلق لکھا:
خطبات طاہر جلدم 326 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء مفسدہ ۱۸۵۷ء میں جو مسلمان شریک ہوئے تھے وہ سخت گناہگار اور بحکم قرآن وحدیث وہ مفسد و باغی بد کردار تھے.“ (اشاعۃ السنۃ النبویہ جلد ۹ نمبر ۱۰) اس جہاد میں جماعت احمدیہ کے بانی کے والد صاحب نے شرکت نہیں کی یہ ہے اعتراض جماعت احمدیہ پر اور کہتے ہیں کہ اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے.مولانا سید محمد نذیر حسین صاحب محدث دہلوی نے.....بغاوت 1857ء کو شرعی جہاد نہیں سمجھا بلکہ اس کو بے ایمانی و عہد شکنی وفساد وعناد خیال کر کے اس میں شمولیت اور اس کی معاونت کو معصیت قرار دیا.“ اشاعۃ السنة النبویہ جلد ۶ نمبر ۱۰ صفحه ۲۸۸) سرسید احمد خان صاحب نے تو اسباب بغاوت ہند میں اس مفسدہ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ ایک لمبی کہانی ہے خلاصہ یہ ہے کہ سرسید احمد خان صاحب نے اسے بغاوت قرار دیا بلکہ حرام زدگی کہا ( تفصیل کے لئے دیکھیں رسالہ اسباب بغاوت ہند مولفہ سرسید احمد خان کراچی.اردواکیڈمی سندھ 1957ء) یہ عجیب ظلم ہے اور اسلام کے ساتھ مذاق نہیں تو اور کیا ہے؟ اور پھر یہ کہ خدا کا کچھ خوف نہیں کرتے کہ جس چیز کو ان کے آباء واجداد حرامزدگی تک کہہ رہے ہیں اس کو آج اسلامی جہاد کے نام پر پیش کیا جا رہا ہے نعوذ باللہ من ذلک.یہ قرآن کریم اور اسلام کے تصور جہاد پر بہتان عظیم ہے اور حد ہے کہ انہیں کوئی حیا نہیں آتی کہ وہ اسلامی جہاد کے ساتھ اس حرام زدگی کو صرف اس لئے ملا رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض کا موقع ملے.ایک اور اعتراض جو پہلے بھی اٹھایا گیا ہے اور جس کے ایک حصہ کا جواب بھی پہلے دیا جاچکا ہے وہ حضرت عیسی علیہ السلام کے دمشق کے منار پر نزول سے تعلق رکھتا ہے.اس سے پہلے میں نے اس کے اس حصہ کا جواب دیا تھا جس میں یہ ذکر تھا کہ مسیح دوز رد چادروں میں لپٹا ہوا آئے گا اور انہوں نے اعتراض کیا تھا کہ یہ کیسی غلط ، بے معنی اور لغوتا ویل ہے کہ زرد چادروں سے مراد بیماریاں ہیں.چنانچہ میں نے بیان کیا کہ اگر زرد چادروں کے بارہ میں کوئی تاویل تمہیں پسند نہیں تو پھر حدیث کے الفاظ کے ظاہری معنی تسلیم کرو اور یہ مت بھولو کہ ظاہری طور پر زرد کپڑوں سے
خطبات طاہر جلد۴ 327 خطبه جمعه ۱۲ / اپریل ۱۹۸۵ء متعلق حضرت رسول اکرم ﷺ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ کافروں کا لباس ہے اس لئے کوئی مسلمان زرد کپڑے استعمال نہ کرے.اب میں اس اعتراض کا دوسرا حصہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں مبینہ وائٹ پیپر ( قادیانیت اسلام کے لئے سنگین خطرہ.اسلام آباد برق سنز پر نٹر زلمیٹیڈ ۱۹۸۴ء) میں اس اعتراض کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے: احادیث نبوی میں بڑی صراحت اور وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ عیسی ابن مریم دمشق میں اتریں گے اور مسلمانوں کو عظیم فریب کار الدجال کے فتنہ سے نجات دلائیں گے لیکن مرزا صاحب اس حدیث کو مضحکہ خیز تاویل سے اپنے حق میں استعمال کرتے ہیں.“ مفہوم از حاشیہ ازالہ اوہام صفحات ۶۳ تا ۳ ۷ طبع اول) اس کے بعد وہ تاویلیں درج ہیں کہ دمشق سے مراد دمشق نہیں بلکہ مثیل دمشق ہے اور مسیح سے مراد مسیح نہیں بلکہ مثیل مسیح ہے.پھر کہتے ہیں کہ اتنی مضحکہ خیز تاویلیں کرنے والا شخص کیا اسلام اور عالم اسلام کے لئے خطرہ نہیں ہے؟ اس اعتراض کے جواب کو میں نے دو طریق سے لیا ہے ایک تو یہ کہ لفظ نزول کیا ہے اور ان کے نزدیک نزول کا ترجمہ یہ کرنا کہ آسمان سے اترنے کی بجائے کوئی شخص پیدا ہو گیا ہے، یہ کیوں مضحکہ خیز ہے.کیا اس دعوی میں کوئی معقولیت ہے کہ نزول کا ترجمہ آسمان سے اترنے کی بجائے زمیں پر پیدا ہونا کرلیا جائے.....دوسرا یہ کہ یہ مضحکہ خیزی کیوں کی.اگر یہ مضحکہ خیزی جو جماعت کی طرف منسوب کی جارہی ہے اسے تسلیم نہ کیا جائے تو پھر دوسری صورت کیا بنتی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ وہ مضحکہ خیز ہے یا یہ تاویل مضحکہ خیز ہے جو جماعت احمدیہ کی طرف سے پیش کی جاتی ہے.اب میں ان دونوں پہلوؤں سے اس مسئلہ کو آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سب سے پہلے تو لفظ ” نزول کی بحث ہے.قرآن کریم میں یہ لفظ بار بار مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے اور اس میں ایک قدر مشترک پائی جاتی ہے ہر وہ چیز جو غیر معمولی فائدہ رکھتی ہے اور جسے خدا تعالیٰ نے ایک عظیم احسان کے طور پر دنیا کو عطا کیا ہے اس کے لئے قرآن کریم لفظ نزول
خطبات طاہر جلدم 328 خطبه جمعه ۱۲ رامیریل ۱۹۸۵ء استعمال فرماتا ہے.اس کے علاوہ ظاہری طور پر کسی چیز کے گرنے کو بھی نازل ہونا کہا جاتا ہے.اس سے انکار نہیں مگر کلام الہی کا ترجمہ یا کلام الہی کے معنی حاصل کرنے ہوں تو اس کی مثالوں سے ہی وہ روشن ہو سکتے ہیں.اس سلسلہ میں ایک آیت میں آپ کے سامنے لفظ ” نزول کے بارہ میں رکھتا ہوں اور پھر اس پر ان کے مسلک کا اطلاق کر کے دکھاتا ہوں کہ اگر جماعت احمدیہ کی تاویل کو نہ مانا جائے اور اسے مضحکہ خیز قرار دیا جائے تو ان کی تاویل کی رو سے اس آیت کا ترجمہ کیا ہوگا ؟ یہ آپ خود دیکھ لیجئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ـبَنِى أَدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُوَارِى سَوَاتِكُمْ وَرِيْشًا وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ * ذلِكَ مِنْ آيَتِ اللهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ (الاعراف: ۲۷) مخالفین کے نزدیک جماعت احمدیہ کی مضحکہ خیز تاویل کی رو سے اس آیت کا یہ ترجمہ بنے گا کہ اے آدم کے بیٹو! ہم نے تمہیں ایک لباس عطا کیا ہے جو تمہاری برائیوں کو ڈھا نپتا ہے اور لِبَاسُ التَّقْوى بہر حال بہتر لباس ہے ذلِكَ مِنْ آیت الله یہ اللہ تعالیٰ کی آیات میں سے ب لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُونَ تا کہ وہ نصیحت پکڑیں.لباس تو آسمان سے نہیں اتر تا لباس تو زمین سے پیدا ہوتا ہے اور ہم خود بناتے ہیں.بقول ان کے یہ تاویل مضحکہ خیز ہے کیونکہ لفظی ترجمہ نہیں کیا گیا.اس آیت کی دیگر علماء کے نزدیک غیر مضحکہ خیز تاویل یہ ہوگی کہ اے آدم کے بیٹو! تم دیکھتے نہیں کہ ہمیشہ تمہارے سارے لباس آسمان سے گرتے ہیں کبھی کرتوں کی بارش ہوتی ہے، کبھی شلواروں کی بارش ہورہی ہوتی ہے کبھی بنیانیں گر رہی ہوتی ہیں اور کبھی آسمان سے تمہاری پگڑیاں اتر رہی ہوتی ہیں.اے بیوقوفو! ان نشانات کو دیکھنے کے باوجود تم نصیحت کیوں نہیں پکڑتے؟ پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَبَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ ۚ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ فِيهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ لِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ ن (الميد (٢٢)
خطبات طاہر جلدم 329 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء جہاں تک حدید کا تعلق ہے وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيدَ یہاں بھی جماعت احمدیہ کے نزدیک لفظ نزول چونکہ غیر معمولی فوائد کی چیزوں کے لئے استعمال ہوتا ہے اس لئے جماعت احمدیہ کے نزدیک اس کا ترجمہ لوہے کا ظاہری طور پر اتر نا ہر گز نہیں کیونکہ وہ تو زمین سے نکلتا ہے بلکہ صرف یہ مراد ہے کہ چونکہ خدا تعالیٰ نے انسان کے غیر معمولی فوائد اس کے ساتھ وابستہ فرما دیئے ہیں اس لئے وہاں لفظ نزول آیا ہے.معترضین کے نزدیک اس آیت کا غیر مضحکہ خیز ترجمہ یہ ہوگا لَقَدْ أَرْسَلْنَا کہ ہم نے رسولوں کو کھلے کھلے نشانات کے ساتھ بھیجا ہے اور ہم نے ان کے ساتھ کتابیں آسمان سے اس طرح اتاری ہیں جس طرح اولے گرتے ہیں یعنی جب نبی پیدا ہوئے یا نبیوں کو ہم نے نبی بننے کا حکم عطا فرمایا تو اس وقت تم نے دیکھا نہیں کہ آسمان سے بنی بنائی کتابیں بھی گر رہی تھیں.لِيَقُومَ النَّاسُ با لقسط ہم نے ظاہری طور پر کتابوں کو اس لئے گرایا تھا تا کہ تم لوگ انصاف پر قائم ہو جاؤ.پھر فرمایا کتابوں کے نازل ہونے پر تعجب کرتے ہو کیا تم نے دیکھا نہیں کہ ہم لوہا بھی اسی طرح آسمان سے پھینکتے ہیں اور کئی دفعہ تم دوڑ دوڑ کر اپنے گھروں میں چھپتے رہے ہو کہ لوہے سے سرنہ پھٹ جائیں اور جانوروں کو چھپاتے رہے ہو کہ کہیں لوہے کے گرنے سے بیچارے جانور نہ مر جائیں.فِیهِ بَأْسٌ شَدِيدٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ اس میں لڑائی کے بھی سامان ہیں اور اس کے علاوہ اور بھی فائدے ہیں پھر بھی تم ان باتوں سے عقل نہیں سیکھتے وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ ہم نے ظاہری طور پر کتابیں اس لئے اتاریں اور تم پر لوہے کو بھی برسایا تا کہ اللہ کو یہ پتہ چل جائے کہ اللہ اور اس کے رسولوں کی غیب کی حالت میں کون مدد کرتا ہے.اِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِیز.یقینا اللہ تعالیٰ بہت قوی اور غالب ہے.تو یہ ہے وہ ترجمہ جو غیرمضحکہ خیز کہا جاتا ہے.یہ سلسلہ یہیں ختم نہیں ہو جاتا ایک اور آیت بھی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد۴ 330 خطبه جمعه ۱۲ سر اپریل ۱۹۸۵ء خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ ثَمَنِيَةَ أَزْوَاجِ يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهُتِكُمْ خَلْقًا مِنَ بَعْدِ خَلْقٍ فِي ظُلُمَةٍ ثَلَكٍ ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ فَانّى تُصْرَفُونَ (الزمر: ۷) حکومت پاکستان کے نزدیک جماعت احمدیہ کا مضحکہ خیز ترجمہ اس آیت کا یہ ہے.خَلَقَكُمْ مِنْ نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ تمہیں ایک جان سے پیدا کیا جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا اسی سے تمہارا جوڑا بھی پیدا کیا پھر وَاَنْزَلَ لَكُمْ مِّنَ الْأَنْعَامِ ثَمَنِيَةَ أَزْوَاجِ آٹھ جانور انعام میں سے تمہارے لئے ایسے پیدا کئے جو بے حد فوائد تمہارے لئے رکھتے ہیں اور خدا کی خاص عطا ہیں.يَخْلُقُكُمْ فِي بُطُونِ أُمَّهُتِكُمْ خَلْقًا مِنْ بَعْدِ خَلْقٍ تمہیں بھی اللہ تعالیٰ اپنی ماؤں کے پیٹ میں کئی قسم کی تخلیق میں سے گزارتا ہے.اور یہ واقعات تین اندھیرے کے پردوں میں چھپے ہوئے ہیں.ذلِكُمُ اللهُ رَبُّكُمْ لَهُ الْمُلْكُ یہ اللہ تمہارا رب ہے اور اسی کی بادشاہت ہے اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں پس تم کہاں الٹے پاؤں پھیرے جاتے ہو.یہ ترجمہ تو مضحکہ خیز ہے ( حکومت پاکستان کے نزدیک) اور ان کے نزدیک اس آیت کا غیر مضحکہ خیز تر جمہ یہ بنے گا باقی ترجمہ تو تقریباً ایک جیسا ہی ہو گا لیکن جب مولوی اَنْزَلَ لَكُمْ مِنَ الْأَنْعَامِ پرپہنچیں گے تو وہ کہیں گے کہ لفظ نزول آیا ہے اس لئے اس لفظ کا ترجمہ یا تاویل کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس طرح تو قرآن کریم کے ساتھ تمسخر ہو جائے گا.اس لئے ہم نے ضرور اس کا لفظی ترجمہ کر کے چھوڑنا ہے اور اس کا لفظی ترجمہ یہ بنتا ہے کہ ہم نے تمہارے سامنے آٹھ جانور جو انعام سے تعلق رکھتے ہیں اتارے ہیں اور تم ان کو آسمان سے گرتے ہوئے دیکھتے ہو، ان کی بارشیں برستی ہیں تو تم بھاگ بھاگ کران کو باندھتے ہوئے اپنے گھروں میں لے جاتے ہو اور پھر بھی خدا کی قدرتوں کا انکار کر رہے ہو.پس یہ وہ آیات ہیں جن کا تعلق مختلف قسم کے نزول سے ہے.اب میں اس حصہ کی طرف واپس آتا ہوں جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر اعتراض اٹھایا گیا ہے ان کی دلیل کی جان یہ ہے کہ حضرت مسیح کے نازل ہونے کے متعلق حدیث
خطبات طاہر جلدم 331 خطبه جمعه ۱۲ / اپریل ۱۹۸۵ء نبوی میں لفظ نزول استعمال ہوا ہے لہذا ہم کسی قیمت پر بھی اس کا ایسا ترجمہ نہیں کرنے دیں گے کہ اس کی تاویل کرنی پڑے بلکہ اس کا صرف لفظی ترجمہ ہی کیا جا سکتا ہے اور جب بھی آپ لفظی ترجمہ سے ہیں گے وہاں نعوذ باللہ من ذلک تضحیک شروع ہو جائے گی اس لئے (بقول ان کے ) جماعت احمدیہ کے دلائل بالکل بودے اور بے معنی اور مضحکہ خیز ہیں.جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح کے متعلق تو لفظ نزول احادیث میں آیا ہے لیکن آنحضرت علی کے متعلق لفظ نزول قرآن کریم میں آیا ہے.جیسا کہ میں نے آپ کے سامنے خطبہ کے شروع میں آیت تلاوت کی تھی جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے تم میں ذِكْرًا رَّسُولًا کو نازل فرمایا.اور یہ امر واقعہ ہے کہ قرآن کریم کی رو سے سوائے آنحضرت ﷺ کے کسی ایک نبی کے متعلق بھی لفظ نزول استعمال نہیں ہوا.لیکن چونکہ انہیں فہم نہیں ہے یہ لوگ ظاہر پرست ہو چکے ہیں اس لئے ان کے ذہن معارف سے کلیۂ خالی ہیں ، یہ کلام الہی کو سمجھتے ہیں اور نہ عقل ہی اتنی رکھتے ہیں کہ کلام الہی کا ایسا ترجمہ کریں جو اللہ کے وقار کے مطابق ہو بلکہ ظاہر پرست ہونے کی وجہ سے ان کو اصرار ہوتا ہے کہ لفظی ترجمہ کیا جائے.اب سوال یہ ہے کہ لفظ نزول جو مختلف صورتوں میں آیا ہوا ہے اس کی حکمت کیا ہے.چنانچہ اب میں آپ کو کھول کر بتاتا ہوں کہ جہاں تک دھاتوں کا تعلق ہے لوہے کے سوا قرآن کریم میں کسی دھات کے لئے بھی لفظ نزول استعمال نہیں ہوا.بے شمار دھاتیں ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے صرف لو ہے کو چنا اور فرمایا کہ اسے ہم نے نازل کیا ہے.جانور بھی ان گنت ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ سائنسدان آج تک ان کی قسموں کا شمار نہیں کر سکے لیکن سوائے انعام یعنی چو پاؤں کے خدا تعالیٰ نے کسی جانور کے لئے لفظ نزول استعمال نہیں فرمایا اس کی کیا حکمت ہے؟ ظاہر بات ہے کہ تمام بنی نوع انسان کو مختلف دھاتوں سے جو فوائد پہنچے ہیں وہ سارے ایک طرف اور لوہے سے جو فائدہ پہنچا ہے وہ ایک طرف.یہ بات کل بھی سچ تھی اور آج بھی سچ ہے کہ بنی نوع انسان کو اس ایک دھات نے اتنے فوائد بخشے ہیں کہ تمام دنیا میں جتنی دھاتیں اور معدنیات ہیں انہوں نے مل کر بھی اتنے فوائد نہیں عطا کئے.تو بات صاف کھل گئی کہ ان میں سے جو بہترین ہے، جو سب سے اعلیٰ ہے، جس سے عظیم فوائد وابستہ ہوتے ہیں.خدا تعالیٰ اس چیز کے لئے لفظ نزول استعمال فرماتا ہے.جانوروں میں دیکھ لیجئے کہ چوپائے جو دودھ دیتے ہیں، جو ہمارے
خطبات طاہر جلدم 332 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء لئے ہل چلاتے ہیں اور کھیتیاں اگاتے ہیں.جن کی کھالیں ہم ہمیشہ کپڑوں کے لئے استعمال کرتے رہتے ہیں اور جن کے بالوں سے آج بھی کپڑے بنتے ہیں اور پھر ذبح کر کے ان کا گوشت بھی کھاتے ہیں کوئی اور جانور ایسا ہے جس سے انسان کے اتنے فوائد وابستہ ہوں.تمام دنیا میں نظر دوڑا کر دیکھ لیں.تمام جانوروں کی قسموں نے مل کر بنی نوع انسان کو اتنے فوائد نہیں پہنچائے جتنے ان دودھ دینے والے جانوروں نے جن کو انعام کہا جاتا ہے.پھر ان پر سواریاں بھی ہوتی ہیں الغرض بنی نوع انسان کا وہ کون سا فائدہ ہے جس کے لئے ان جانوروں کو استعمال نہیں کیا جاتا ان کے ساتھ خدا تعالیٰ نے بنی نوع انسان کے فوائد وابستہ نہیں فرمائے.اب رسولوں پر نظر ڈالیں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء آئے مگر ان کے لئے قرآن کریم نے لفظ نزول استعمال نہیں فرمایا، ایک ہی نبی ہے ہمارا آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺہے جس کے متعلق کلام الہی نے فرمایا کہ وہ نازل ہوا ہے اور وہ اس لئے کہ خدا کی قسم ساری کائنات میں جتنے نبی آئے سب نے مل کر بنی نوع انسان کو وہ فوائد نہیں پہنچائے جتنے ہمارے آقا ومولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے پہنچائے.ان معاندین کی نظر ہی وہاں تک نہیں پہنچتی ، ان کے دل اندھے ہیں ،ان کے دماغ ماؤف ہو چکے ہیں، قرآنی اصطلاحوں پر غور نہیں کرتے.وہ دیکھنا ہی نہیں چاہتے کہ کیا بیان فرمایا گیا ہے ، وہ ان تمام حکمتوں سے عاری ہیں اور پھر اس پر انہیں جنسی آرہی ہے کہ دیکھو تاویلیں کی جارہی ہیں.سنئے ! صرف یہی نہیں بلکہ ان میں انصاف بھی نہیں ہے ، آنحضرت ﷺ کی محبت کا دعویٰ بھی جھوٹا ہے، ان کے نزدیک تعظیم صرف ظاہری معنوں میں لفظ کے اطلاق کرنے میں ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے لئے جب لفظ نزول استعمال ہوا ہے تو اگر ظاہری ترجمہ نہ کیا گیا تو حضرت عیسی علیہ السلام کی ہتک ہو گی اس لئے جماعت حضرت عیسی علیہ السلام کی گستاخ ہے اور قرآن و حدیث کی تاویلیں بنا کر حضرت عیسی علیہ السلام کے نزول کے رستہ میں روک بن گئی ہے.حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں لفظ نزول احادیث میں آیا ہے اس کی تاویل تو نہیں کرنے دیتے لیکن حضرت محمد مصطفی ع سے اور سلوک کرتے ہیں اور عیسی علیہ السلام سے اور سلوک کرتے ہیں.زبانیں حضرت محمد مصطفی علیہ کی غلامی کا دعوی کرتی ہیں اور دل مسیح کی غلامی
خطبات طاہر جلدم 333 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء کا دم بھرتے ہیں.چنانچہ صرف یہی نہیں ایک اور موقع پر قرآن کریم فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی علی تمہیں بلاتے ہیں لِمَا يُحْيِيكُم (الانفال:۲۵) تا کہ تمہیں زندہ کریں اور حضرت مسیح کے متعلق بھی آتا ہے کہ وہ مردوں کو زندہ کرتے تھے لیکن وہ حضرت مسیح" (جس کی تعظیم ان کے دل میں ہے ) کے لئے ترجمہ یہ کرتے ہیں کہ وہ ظاہری طور پر واقعہ مردوں کو زندہ کرتے تھے اور آنحضرت عی (جن کی کوئی تعظیم ان کے دل میں نہیں ہے اور نہ اس میں دلچسپی ہے) کی دفعہ وہ یہ ترجمہ کرتے ہیں کہ لِمَا يُحْيِيكُمُ کہ تا روحانی مردے زندہ ہوں.صرف یہی نہیں ہر جگہ ہی وہ تفریق کر رہے ہیں وہ جھوٹ بول رہے ہیں.ان کے دل میں سوائے مسیح کے اور کسی کی عظمت نہیں ہے.اور حضرت رسول کریم ﷺ کی عظمت کے گن گانا یا آپ کی محبت کا دعوی کرنا سب زبان کے قصے ہیں عملاً نا انصافی سے کام لیا جارہا ہے.ایک ہی لفظ جب رسول اکرم ہے کے لئے آتا ہے تو اس کے اور معنی کر دیئے جاتے ہیں.تو یہ ان کی عقلوں کا حال ہے ، مزاج ہی بالکل اور ہے اور ان کا فہم یہ ہے کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نازل ہوگا“ سے اصلی مسیح کا آسمان سے اتر نامراد نہیں بلکہ مثیل مسیح کی آمد مراد ہے تو انہیں بہت ہنسی آتی ہے اور کہتے ہیں کہ تاویل کی بھی حد ہی ہو گئی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ مینار سے مراد بیات یعنی روشن دلائل ہیں تو انہیں بے حد ہنسی آتی ہے اور کہتے ہیں کہ ان اللہ نبی بھی کبھی بینات لے کر آتے ہیں.پھر جب کہا جاتا ہے کہ دمشق کے مشرق سے مراد مثیل دمشق ہے تو بے حد ہنستے ہیں اور کہتے ہیں کہ مضحکہ خیزی کی تو حد ہی ہوگئی ہے اور کہتے ہیں کہ ہم ہر جگہ اصلی ترجمہ کر کے دکھا ئیں گے اس کے بغیر ہم نے کوئی بات نہیں مانتی.مخالفین کے نزدیک یہ سارا واقعہ تو ہنسی والا ہے کہ خدا کا کوئی نبی آسمان سے لٹکتا ہوا نہ اترے بلکہ زمین پر پید اہو اور بینات لے کر دلائل کے مینار پر کھڑا ہو اور صلح کا پیغام لے کر آیا ہو اور پرانے دمشق میں نہیں بلکہ اس کے ایک مثیل شہر میں خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجا جائے.پس یہ ساری باتیں تو مضحکہ خیز ہیں.اب سنئے ! ان کا تصور کیا ہے جو مضحکہ خیز نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ آسمان سے کم از کم دو ہزار سالہ ایک بوڑھا اس طرح اترے گا کہ اس نے دوزرد چادر میں پہنی ہوں گی (جس طرح سادھوؤں نے پہنی ہوتی ہیں ) اور اس نے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھا ہوا ہوگا اور وہ لٹکتا ہوا کسی وقت
خطبات طاہر جلدم 334 خطبه جمعه ۱۲ / اپریل ۱۹۸۵ء دمشق میں اترے گا اور اسے سارے لوگ دیکھ رہے ہوں گے، تالیاں بج رہی ہوں گی کہ آخر کار مسیح آ ہی گئے ہیں.جب وہ آسمان سے اترے گا تو پھر کیا کرے گا احادیث میں یہ بھی آتا ہے کہ وہ شادی کرے گا اور اس کے ہاں بچے بھی پیدا ہوں گے.اب ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ پہلے بیوی تلاش کر کے شادی کرے گا یا پہلے دوسرے کام کرے گا.مسیح کے دوسرے کام یہ بتاتے ہیں کہ اصلاح نفس کے لئے تو اس نے آنا ہی نہیں اس نے تو سو کر مارنے آنا ہے.اس لئے وہ آتے ہی علماء سے فارغ ہوکر بیلوں اور جنگلوں میں گھس جائے گا اور ساری دنیا کے سو رختم کرے گا اور ان کا خوب تعاقب کرے گا.ایک بیلے سے نکل کر دوسرے بیلے میں، دوسرے سے تیسرے میں اور ہر دریا کے دونوں کناروں پر پھرے گا کبھی اس کنارے کبھی اس کنارے اور دنیا میں کوئی ایک بھی سور باقی نہیں رہنے دے گا.پھر جب وہ اس کام سے فارغ ہوگا تو علماء کہیں گے الحمد للہ اب تو مسیح“ ہم سے خدا کی باتیں کرے گا.روحانیت کے قصے سنائے گا لیکن مسیح کہے گا کہ نہیں میرے تو ابھی سارے کام ہی ختم نہیں ہوئے میں نے تو ابھی ایک دجال کو مارنا ہے اور پھر یہ بھی کہتے ہیں کہ مسیح کے نزول سے پہلے ایک گدھا پیدا ہو چکا ہوگا اور وہ گدھا اتنا بڑا ہوگا کہ اس کے دونوں کانوں کے درمیان ستر ہاتھ کا فاصلہ ہوگا اور وہ واقعہ آگ کھائے گا اس پر ایک کا ناد جال بیٹھا ہو گا اور وہ اتنا اونچا ہوگا کہ اس کا سر بادلوں میں چھپا ہوگا اور اس گدھے کے پیٹ کے اندر لوگ بھی بیٹھیں گے آپ کو ان باتوں سے ہنسی آتی ہوگی کیونکہ آپ کا ذوق سلیم ان باتوں کو قبول نہیں کرتا.علماء کے ذوق کا جو Sense ہے اس کے مطابق تو ذرا بھی ہننے کی بات نہیں ہے بلکہ بالکل اسی طرح ہوگا ادھر مسیح اتر رہا ہوگا اور ادھر کا نا دجال ایک گدھے پر بیٹھا ایک آنکھ سے دیکھ رہا ہوگا اور کہہ رہا ہوگا کہ اب میں مارا گیا کیونکہ مسیح مجھے مارنے لئے آگیا ہے.مسیح" جب سور مار کر فارغ ہوگا تو اس کانے دجال کے پیچھے پڑ جائے گا اور آخر کسی جگہ اس کو زیر کر لے گا.پھر علماء کہیں گے الحمد للہ اب تو مسیح فارغ ہوا اور ہماری باری آئی اور اب مسیح ہماری اصلاح کرے گا تو مسیح کہیں گے کہ ابھی تو میں نے صلیبیں تو ڑنی ہیں.پھر وہ گر جوں کا رخ فرما ئیں گے اور ساری دنیا کے گرجوں میں جتنی صلیبیں ہیں وہ توڑیں گے.اس کے بعد وہ عیسائیوں کے گھروں میں گھسنا شروع کریں گے اور ایک ایک گھر سے صلیبیں توڑیں گے اور ان کے کپڑے الٹا الٹا کر پھینکیں گے کہ شاید کہیں صلیب کا نشان بنا ہوا ہو یا صلیب کپڑے پر بنی ہوئی ہو، کہیں خوبصورتی
خطبات طاہر جلدم 335 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء سے سجائی گئی ہو یا گلوں میں ہار کی صورت میں لٹکی ہو.الغرض وہ ساری دنیا میں ایک بھی صلیب نہیں رہنے دیں گے اور پھر اس کام سے فارغ ہونے کے بعد اگر مسیح نے شادی نہیں کی تو پھر شادی کریں گے اور دنیا سے رخصت ہو جائیں گے.اس ظاہری ترجمہ پر تو انہیں ذرا ہنسی نہیں آئی بلکہ کہتے ہیں کہ دیکھو یہ کتنی معقول بات ہے.اب سنئے احمدیوں کی تاویل جس کے بارے میں علماء کہتے ہیں کہ پتہ نہیں ان کی عقلوں کو کیا ہو گیا ہے کہ ہر جگہ تاویلیں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ مسیح اصلی نہ صلیب اصلی ، نہ سور اصلی نہ دمشق اصلی اور نہ مینار اصلی کتنی مضحکہ خیز تاویل ہے کہ آسمان سے نازل ہونے کی بجائے خدا کا ایک بندہ عام انسانوں کی طرح پیدا ہو گا لوگ اس کا انکار کریں گے، اسے گالیاں دیں گے، دجال کہیں گے اور اس کے ماننے والوں کو قتل کریں گے.ان کے بچوں کو ذبح کریں گے، ان کے گھر لوٹیں گے اور جو مظالم بھی انسان سوچ سکتا ہے وہ ان کے ساتھ روا رکھیں گے اور جس طرح پہلے مسیحی اور اس کے ماننے والوں کے ساتھ مظالم ہوئے تھے ان کے ساتھ بھی کئے جائیں گے.اس تاویل پر مخالفین کہتے ہیں کہ دیکھو بنسی آئی کہ نہیں کتنی مضحکہ خیز بات ہے.پھر وہ آہستہ آہستہ حکمت ،محبت اور پیار کے ساتھ دنیا میں دین حق کو پھیلائے گا.صلیب کے خلاف دلائل دے گا اور اتنے عظیم دلائل دے گا کہ صلیب کو توڑ دے گا.پھر وہ تقویٰ کی ایسی باتیں کرے گا کہ اس سے گندگیاں صاف ہوں گی اور سو رصفت لوگ انسان بننا شروع ہو جائیں گے اور وہ تہذیب جسے سور کی تہذیب کہا جاتا ہے اس کے خلاف وہ جہاد شروع کر دے گا اور اس طرح سے گویا وہ سو کر مارنے لگ جائے گا.پھر وہ ان قوموں کے خلاف نکلے گا جنہوں نے دنیا میں دجل پھیلایا ہوا ہے جن کی دائیں آنکھ اندھی ہے اور وہ روحانیت سے بالکل عاری ہیں اور بائیں آنکھ (جو دنیا کی آنکھ ہے ) بڑی روشن ہے یعنی وہ لوگ دنیا میں عظیم الشان ترقی کر چکے ہیں وہ ان کے مذہب کے خلاف جہاد کرے گا اور اسلام کے غلبہ کا سامان کرے گا، ان کے ملکوں تک پہنچے گا اور وہاں سفید پرندے پکڑے گا اس کے غلام دنیا میں ہر جگہ پہنچیں گے اور عیسائیت سے ٹکر لیں گے.اس تاویل پر وہ علماء کہتے ہیں کہ یہ کتنی مضحکہ خیز تاویل ہے بیوقوفی کی حد ہی ہوگئی ہے.پس اگر تو وہی عقل ہے جو تمہاری ہے اور وہی بیوقوفی ہے جو ہماری ہے تو خدا کی قسم ہمیں لاکھ مرتبہ تمہاری عقل سے اپنی بیوقوفی زیادہ پیاری ہے کیونکہ اسلام اور بانی اسلام کی اس میں شان ہے
خطبات طاہر جلدم 336 خطبه جمعه ۱۲ برابریل ۱۹۸۵ء اس میں نہیں ہے.تم نے تو اپنی جہالتیں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب کرنی شروع کر دی ہیں اور وہ جو روشنی کے مینار پر نازل ہوا اور جس نے آکر تمہیں روشنیاں عطا کیں اور تمہاری عقلوں کو روشنی دینے کی کوشش کی مگر تم نے اس سے منہ موڑ لیا اور اپنے سارے دروازے بند کر لئے اور رات کی تاریکی میں بیٹھے ہوئے اس پر ہنس رہے ہو اور کہتے ہو کہ کیسی مضحکہ خیز بات ہے کہ سورج نکل آیا.اس پر تو سوائے اس کے کچھ نہیں کہا جا سکتا آم عَلَى قُلُوبِ أَقْفَالُهَا (محمد: ۲۵) معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں پر تالے پڑ چکے ہیں.ایک اور اعتراض حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان دانی پر ہے کہ آپ کو تو اردو ہی اچھی طرح لکھنی نہیں آتی اور چونکہ مرزا صاحب کو لکھنا نہیں آتا اس لئے اسلام کو شدید خطرہ لاحق ہے.اس اعتراض کے اصل الفاظ یہ ہیں: ”مرزا صاحب کی تحریروں کو پڑھنا خشک اور غیر دلچسپ مشغلہ ہوتا ہے کیونکہ ان کی تحریروں میں نہ تو علمی رنگ ہوتا ہے نہ ادبی چاشنی.مسائل سے نمٹنے کا ان کا انداز بڑا ہی پھسپھسا تھا اور ان کی تحریر تیسرے درجے کی زمانہ وسطی کی تحریروں کی طرح تھی وہ اپنے مخالفین کو دل کھول کر کو ستے اور کبھی کبھی گالیاں دینے سے بھی دریغ نہیں کرتے.ان کی بہت سی تحریر میں نام نہاد پیشگوئیوں سے بھری پڑی ہیں جو ان کے مخالفین کی موت کے بارے میں ہوتی ہیں“.( قادیانیت.اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ ۱۳) ایک یہ خطرہ ہے عالم اسلام کو کہ جس نے دعویٰ کیا ہے اسے اردو اچھا لکھنا نہیں آتا اس کی زبان پھپھی ہے، اس میں کوئی مزاح نہیں، کوئی چنکلے نہیں اس لئے عالم اسلام کو اس شخص سے کتنا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے.یہ اعتراض بھی اول سے آخر تک جھوٹ ہے ہم اگر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کی تعریف کریں تو غیر ہماری باتیں نہیں مانیں گے ہم تو ایک ایک لفظ پر وجد کرتے ہیں اور ہماری روح میں نئے ولولے پیدا ہوتے ہیں اور نئی زندگیاں عطا ہوتی ہیں لہذا ہم ان کے علماء سے ہی پوچھتے ہیں یعنی ان علماء سے جو کسی زمانہ میں تقوی کا اعلیٰ معیار رکھتے تھے ، ان کے مصنفین سے پوچھتے ہیں،
خطبات طاہر جلدم 337 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء ان کے چوٹی کے اردو دانوں سے دریافت کرتے ہیں جن کی تحریر میں سارے ہندوستان میں مشہور اور مرغوب ہوئیں کہ جب تم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریریں پڑھا کرتے تھے تو تم پر کیا اثر ہوتا تھا.مولانا ابوالکلام آزاد مدیر وکیل امرتسر لے چوٹی کے لکھنے والے تھے، صاحب قلم انشاء پرداز اور ان کی بہت عمدہ تحریر تھی ان کی تحریر سے ہی آپ اندازہ لگالیں گے کہ ان کی اردو دانی کا معیار کتنا بلند تھا.انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو کس نظر سے دیکھا وہ سننے کے لائق ہے مولانا موصوف نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وفات پر لکھا:.وو وہ شخص بہت بڑا شخص جس کا قلم سحر تھا اور زبان جادو.وہ شخص دماغی عجائبات کا مجسمہ تھا جس کی آواز حشر تھی جس کی انگلیوں سے انقلاب کے تار الجھے ہوئے تھے جس کی نظر فتنہ اور دو مٹھیاں بجلی کی دو بیٹریاں تھیں.وہ شخص جو مذہبی دنیا کے لئے تیس برس تک زلزلہ اور طوفان رہا جو شور قیامت ہو کر خفتگان ہستی کو بیدار کرتا رہا.لیکن ان بدقسمتوں کو بیدار نہیں کر سکا.پھر لکھتے ہے یہ تلخ موت یہ زہر کا پیالہ موت جس نے مرنے والے کی ہستی نہ خاک پنہاں کر دی.ہزاروں لاکھوں زبانوں پر تلخ کامیاں بن کر رہے گی اور قضا کے حملے نے ایک جیتی جاگتی جان کے ساتھ جن آرزوؤں اور تمناؤں کا قتل عام کیا ہے صدائے ماتم مدتوں تک اس کی یاد گار تازہ رکھے گی.“ ( بعض حضرات نے اس شذرہ کو مولا نا عبداللہ العمادی کی طرف منسوب کیا ہے.جو صحیح نہیں کیونکہ اس کا پر شوکت انداز تحریر بتا رہا ہے کہ یہ مولانا ابوالکلام آزاد کے قلم سے نکلا ہے.اس کی تصدیق مولانا آزاد کی خود نوشت ” آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی‘ مطبوعہ ۱۹۵۸ء دہلی سے بھی ہو جاتی ہے.اس کتاب کے صفحہ ۳۱۷.۳۱۸ پر مولانا نے لکھا ہے کہ اخبار کے لیڈنگ آرٹیکل سے لے کر جزوی مواد تک سب کا سب تنہا وہ خود ہی مرتب فرمایا کرتے تھے.مولانا عبداللہ العمادی لکھنو میں رسالہ البیان کے مدیر تھے.)
خطبات طاہر جلد۴ پھر فرماتے ہیں: 338 خطبه جمعه ۱۲ رامیریل ۱۹۸۵ء ایسے لوگ جن سے مذہبی یا عقلی دنیا میں انقلاب پیدا ہوا ہمیشہ دنیا میں نہیں آتے.یہ نازش فرزندان تاریخ بہت کم منظر عام پر آتے ہیں اور جب آتے ہیں تو دنیا میں انقلاب پیدا کر کے دکھا جاتے ہیں.مرزا صاحب کی اس رحلت نے ان کے بعض دعاوی اور بعض معتقدات سے شدید اختلاف کے باوجود ہمیشہ کی مفارقت پر مسلمانوں کو، ان تعلیم یافتہ اور روشن خیال مسلمانوں کو محسوس کرا دیا کہ ان کا ایک بڑا شخص ان سے جدا ہو گیا.“ 66 دیکھا آپ نے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کیسی ” پھپھی تحریریں تھیں کہ نعوذبالله من ذلک نہ کوئی مزہ نہ کوئی لذت اور نہ کوئی دلیل ان کی تحریروں میں ملتی ہے پھر لکھتے ہیں : ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے.“ مخالفین کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی تحریروں میں جان ہی کوئی نہیں اور انہوں نے سوائے مخالفوں کی موت کی پیشگوئیوں کے لکھا ہی کچھ نہیں لیکن مولانا ابوالکلام آزاد صاحب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے متعلق مزید لکھتے ہیں کہ : ان کی یہ خصوصیت کہ وہ اسلام کے مخالفین کے برخلاف ایک فتح نصیب جرنیل کا فرض پورا کرتے رہے ہمیں مجبور کرتی ہے کہ اس احساس کا کھلم کھلا اعتراف کیا جائے تا کہ وہ مہتم بالشان تحریک جس نے ہمارے دشمنوں کو عرصہ تک پست اور پامال بنائے رکھا آئندہ بھی جاری رہے.“ اے لکھنے والے خدا تیری زبان مبارک کرے.یہ تحریک آج بھی جاری ہے اور آئندہ بھی جاری رہے گی.پھر لکھتے ہیں : ”مرزا صاحب کا لٹریچر جو مسیحیوں اور آریوں کے مقابلہ پر ان سے ظہور میں آیا قبول عام کی سند حاصل کر چکا ہے اور اس خصوصیت میں وہ کسی تعارف کے محتاج نہیں.اس لٹریچر کی قدر و عظمت آج جبکہ وہ اپنا کام پورا کر چکا
خطبات طاہر جلدم 339 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء ہے ہمیں دل سے تسلیم کرنی پڑتی ہے اس لئے کہ وہ وقت ہرگز لوح قلب سے نسیا منیا نہیں ہو سکتا جبکہ اسلام مخالفین کی یورشوں میں گھر چکا تھا اور مسلمان جو حافظ حقیقی کی طرف سے عالم اسباب و وسائط میں حفاظت کا واسطہ ہو کر اس کی حفاظت پر مامور تھے اپنے قصوروں کی پاداش میں پڑے سسک رہے تھے اور اسلام کے لئے کچھ نہ کرتے تھے یا نہ کر سکتے تھے.“ نہ کرتے تھے نہ کرنے کی طاقت تھی اپنے زخموں سے چور پڑے سسک رہے تھے اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے عالم اسلام پر یہ ظلم کیا.پھر لکھتے ہیں کہ : ضعف مدافعت کا یہ عالم تھا کہ تو پوں کے مقابلہ پر تیر بھی نہ تھے اور حملہ اور مدافعت دونوں کا قطعی وجود ہی نہ تھا.اس مدافعت نے نہ صرف عیسائیت کے اس ابتدائی اثر کے پر خچے اڑائے جو سلطنت کے سایہ میں ہونے کی وجہ سے حقیقت میں اس کی جان تھا اور ہزاروں لاکھوں مسلمان اس کے اس زیادہ خطر ناک اور مستحق کامیابی حملہ کی زد سے بچ گئے بلکہ خود عیسائیت کا طلسم دھواں ہوکر اڑنے لگا.انہوں نے مدافعت کا پہلو بدل کر مغلوب کو غالب بنا کے دکھا دیا ہے.“ کتنا بڑا خطرہ ہے عالم اسلام کو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جان ، اپنی آن کی قربانی دے کر اور دن رات اپنی ساری طاقتیں اسلام کے دفاع میں خرچ کر کے نہتے ، مظلوم مغلوب اور سکتے ہوئے مسلمانوں کو غالب بنا دیا.معاندین کہتے ہیں کہ اس کو ہم معاف نہیں کر سکتے اور صرف ایک نہیں اسلام کے ہر دشمن کو محبت پامال کر کے دکھایا.یہ ہے تکلیف آج کے علماء کو کہ ایسا کرنے کی ان کو جرات کیسے ہوئی.یہی صاحب پھر لکھتے ہیں : اس کے علاوہ آریہ سماج کی زہریلی کچلیاں توڑنے میں مرزا صاحب نے اسلام کی خاص خدمت سرانجام دی ہے ان آریہ سماج کے مقابلہ کی تحریروں سے اس دعوای پر نہایت صاف روشنی پڑتی ہے کہ آئندہ ہماری مدافعت کا سلسلہ خواہ کس درجہ تک وسیع ہو جائے ناممکن ہے کہ یہ تحریر میں نظر
خطبات طاہر جلدم 340 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء انداز کی جاسکیں.“ اب بیٹھے قیامت تک زور لگاتے رہو.اب سارے مل کر قیامت تک جو چاہو کھو حضرت مرزا صاحب کی تحریروں کو اب تم نظر انداز نہیں کر سکو گے.پھر لکھتے ہیں : آئندہ امید نہیں ( کتنا سچ کہا ہے.ناقل ) کہ ہندوستان کی مذہبی دنیا میں اس شان کا شخص پیدا ہو جو اپنی اعلیٰ خواہش محض اس طرح مذہب کے مطالعہ میں صرف کر دے.“ اخبار وکیل امرتسر جون ۱۹۰۸ء بحوالہ بدر قادیان ۱۸ جون ۱۹۰۸، ص ۲۳) پھر اخبار وکیل میں ۳۰ رمئی ۱۹۰۸ ء کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق ایک مقالہ لکھا گیا جس میں مقالہ نگار نے تحریر کیا کہ: ” جب کہ ان کی عمر ۳۵.۳۶ سال کی عمر تھی ہم ان کو غیر معمولی مذہبی جوش میں سرشار پاتے ہیں وہ ایک بچے اور پاک باز مسلمان کی طرح زندگی بسر کرتا ہے اس کا دل دنیوی کششوں سے غیر متاثر ہے وہ خلوت میں انجمن اور انجمن میں خلوت کا لطف اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہے ہم اسے بے چین پاتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہے.“ اسلام کے غلبہ کی تلاش تھی ، اس یوسف کی تلاش تھی جس کی خوشبوئیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آ رہی تھیں.آرہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی مجھے گوکہو دیوانہ میں کرتا ہوں اس کا انتظار ( در متین صفحه: ۱۳۰ مناجات اور تبلیغ حق ) یہ کیفیت تھی جس میں ایک غیر نے آپ کو دیکھا اور ان الفاظ میں اظہار کیا: کسی کھوئی ہوئی چیز کی تلاش میں ہے جس کا پتہ فانی دنیا میں نہیں ملتا.اسلام اپنے گہرے رنگ کے ساتھ اس پر چھایا ہوا ہے بھی وہ آریوں سے
خطبات طاہر جلدم 341 خطبه جمعه ۱۲ ر اپریل ۱۹۸۵ء مباحثہ کرتا ہے کبھی حمایت اور حقیت اسلام میں وہ بسیط کتابیں لکھتا ہے.۱۸۸۶ء میں بمقام ہوشیار پور مباحثات انہوں نے کئے ان کا لطف اب تک دلوں سے محو نہیں ہوا.غیر مذاہب کی تردید میں اور اسلام کی حمایت میں جو نادر کتابیں انہوں نے تصنیف کی تھیں ان کے مطالعہ سے جو وجد پیدا ہواوہ اب تک نہیں اترا یہ مسلمان مشاہیر اور چوٹی کے علماء جو تقویٰ کا نام جانتے تھے ، جو انصاف پسند تھے، جن کا مذاق بہت اعلیٰ تھا ، جن کی تحریریں آج بھی سند ہیں یہ ان کے تاثرات ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اور ان کے اثرات کے متعلق مرزا حیرت دہلوی ایڈیٹر اخبار ” کرزن گزٹ“ یکم جون ۱۹۰۸ء کو اپنے پر چہ میں لکھتے ہیں: وو ” مرحوم کی وہ اعلیٰ خدمات جواس نے آریوں اور عیسائیوں کے مقابلہ میں اسلام کی کی ہیں وہ واقعی بہت ہی تعریف کی مستحق ہیں.اس نے مناظرہ کا بالکل رنگ ہی بدل دیا اور جدید لٹریچر کی بنیاد ہندوستان میں قائم کر دی.نہ بحیثیت ایک مسلمان ہونے کے بلکہ ایک محقق ہونے کے ہم اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ کسی بڑے سے بڑے آریہ اور بڑے سے بڑے پادری کو یہ مجال نہ تھی کہ وہ مرحوم کے مقابلہ میں زبان کھول سکتا.جو بے نظیر کتابیں آریوں اور عیسائیوں کے مذاہب کی رد میں لکھی گئی ہیں اور جیسے دندان شکن جواب مخالفین اسلام کو دیئے گئے آج تک معقولیت سے ان کا جواب الجواب ہم نے تو نہیں دیکھا.“ حکومت پاکستان کو یہی تکلیف ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسی تحریریں لکھ گئے کہ جس کے نتیجہ میں آج تک نہ آریوں سے جواب بن سکا نہ عیسائیوں سے جواب بنا اور مخالفین کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا کہ آپ نے اسلام کی مدافعت میں دندان شکن جواب دیئے.....اتنابڑا خطرہ عالم اسلام کے لئے !!!وائیٹ پیپر میں لکھا ہے نعوذ بالله من ذلک کہ آپ سوائے اس کے مخالفوں سے بدزبانی کرتے تھے آپ کی تحریرات میں اور کوئی بات ہے ہی نہیں.حد ہی ہوگئی ہے.
خطبات طاہر جلدم 342 خطبه جمعه ۱۲ رامیریل ۱۹۸۵ء یہ صرف جہالت ہی نہیں واضح جھوٹ بھی ہے اور جانتے بوجھتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کلیۂ بہتان تراشی سے کام لیا جارہا ہے.اگر ایسا نہیں تو پھر ان اعتراض کرنے والوں نے آپ کی کوئی کتاب ہی نہیں پڑھی اور گھر بیٹھے ایک عبارت لکھ رہے ہیں جو سوائے دجل کے اور کوئی بھی مقام نہیں رکھتی.اب سنئے ! کون گالیاں دیا کرتا تھا ( کچھ مثالیں میں بعد میں بھی دونگا) مرزا حیرت دہلوی صاحب مناظرہ کے رنگ بتارہے ہیں کہ وہ کیا تھے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی طرف سے منصہ شہود پر کیا ابھر رہا تھا اور مخالفین کی طرف سے کیا حربے استعمال ہور ہے تھے.وہ لکھتے ہیں کہ: ان کا جواب الجواب ہم نے تو نہیں دیکھا سوائے اس کے کہ آریہ نہایت بد تہذیبی سے اسے یا پیشوایان اسلام یا اصول اسلام کو گالیاں دیں.مگر اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ سارے ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں.“ وہ گالیاں دے رہے تھے اور اسلام کی مدافعت کرنے والے اس بطل جلیل کے بارے میں مرزا حیرت دہلوی کہتے ہیں کہ اسے گالیاں دینے کی ضرورت ہی کیا تھی.اس کے قلم میں اس قدر قوت تھی کہ آج سارے پنجاب بلکہ سارے ہند میں بھی اس قوت کا کوئی لکھنے والا نہیں ایک پر جذ بہ اور قوی الفاظ کا انبار اس کے دماغ میں بھرارہتا تھا اور جب وہ لکھنے بیٹھتا تو بچے تلے الفاظ کی ایسی آمد ہوتی کہ بیان سے باہر ہے.مولوی نورالدین مرحوم خلیفہ اول سے جو ناواقف ہیں وہ تو اپنی غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کتابوں میں مولوی نورالدین صاحب نے بہت مدد دی ہے مگر ہم اپنی ذاتی واقفیت سے کہتے ہیں کہ حکیم نورالدین مرحوم مرزا کے مقابلہ میں چند سطریں بھی نہیں لکھ سکتا.اگر چہ مرحوم کے اردو علم وادب میں بعض بعض مقامات پر پنجابی رنگ اپنا جلوہ دکھا دیتا ہے تو بھی اس کا پر زورلٹر پچر اپنی شان میں بالکل نرالہ ہے اور واقعی اس کی بعض بعض عبارتیں پڑھنے سے ایک وجد کی سی حالت طاری ہو جاتی ہے.“
خطبات طاہر جلد۴ وو 343 خطبه جمعه ۱۲ رامیریل ۱۹۸۵ء سید ممتاز علی صاحب ”تہذیب نسواں‘ (لا ہور ) میں لکھتے ہیں: مرزا صاحب مرحوم نہایت مقدس اور برگزیدہ بزرگ تھے اور نیکی کی ایسی قوت رکھتے تھے جو سخت سے سخت دلوں کو تسخیر کر لیتی تھی.وہ نہایت باخبر عالم بلند ہمت مصلح اور پاک زندگی کا نمونہ تھے ہم انہیں مذہبا مسیح موعود تو نہیں مانتے تھے لیکن ان کی ہدایت اور راہنمائی مردہ روحوں کے لئے واقعی مسیحائی تھی.“ ( بحوالہ تشحید الاذہان جلد ۳ نمبر ۱۰ صفحه ۳۸۳ - ۱۹۰۸ء) ” صادق الاخبار‘ ریواڑی بہاولپورلکھتا ہے: ”مرزا صاحب نے اپنی پرزور تقریروں اور شاندار تصانیف سے مخالفین اسلام کو ان کے لچر اعتراضات کے دندان شکن جواب دے کر ہمیشہ کے لئے ساکت کر دیا ہے.اور کر دکھایا ہے کہ حق حق ہی ہے اور واقعی مرزا صاحب نے حق حمایت اسلام کا کما حقہ، ادا کر کے خدمت دین اسلام میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا.انصاف متقاضی ہے کہ ایسے اولوالعزم حامی اسلام المسلمین فاضل اجل عالم بے بدل کی ناگہانی اور بے وقت موت پر اور معین ا افسوس کیا جائے.“ ( بحوالة تشحید الا ذبان جلد ۳ صفحه ۳۸۲ - ۱۹۰۸ء) خواجہ حسن نظامی صاحب مشہور و معروف لکھنے والے ہیں اور ایسے اردو دان خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو سارے ہندوستان میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور پھر احمدیت کے مؤید بھی نہیں تھے بلکہ مخالف تھے.وہ لکھتے ہیں: ”مرزا غلام احمد صاحب اپنے وقت کے بہت بڑے فاضل بزرگ تھے آپ کی تصانیف کے مطالعہ اور آپ کے ملفوظات کے پڑھنے سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور ہم آپ کے تبحر علمی اور فضیلت و کمال کا اعتراف اخبار ” منادی ۲۷ فروری ۴ مارچ ۱۹۳۰ء) کئے بغیر نہیں رہ سکتے.“ مولوی ظفر علی خان صاحب جیسے مخالف احمدیت شخص کو بھی یہ تسلیم کرنا پڑا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں ایک عجیب قوت تھی وہ لکھتے ہیں:
خطبات طاہر جلدم 344 خطبه جمعه ۱۲ برابریل ۱۹۸۵ء ”ہندو اور عیسائی مذہبوں کا مقابلہ مرزا صاحب نے نہایت قابلیت کے ساتھ کیا ہے آپ کی تصانیف ”سرمہ چشم آریہ اور چشمہ مسیحی وغیرہ آریہ سماجیوں اور مسیحیوں کے خلاف نہایت اچھی کتابیں لکھی ہیں.“ یہ تحریر و "پھپھی ہے مگر بہر حال تعریف درست ہے.( زمیندار ۱۲ ستمبر ۱۹۲۳ء) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ قوت کہاں سے ملی بڑے بڑے عالم موجود تھے بڑے بڑے زبان دان تھے جنہوں نے بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں تعلیمات حاصل کی تھیں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو گھر میں دیہات کے عام استادوں سے کچھ دوحرف لکھنے پڑھنے سیکھے تھے پھر کہاں سے یہ قابلیت اور غیر معمولی قوت اور شوکت پیدا ہوئی.یہ سوال جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ اس قابلیت میں سے ایک ذرہ بھی اپنی طرف منسوب نہیں فرماتے.کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ: میں تھا غریب و بیکس و گمنام و بے ہنر کوئی نہ جانتا تھا کہ ہے قادیاں کدھر ( در نشین صفحه ۱۱۷ - محاسن قرآن کریم ) اس میں میرا تو کچھ بھی دخل نہیں میرا خدا ہے جو مجھے قوت بخش رہا ہے وہی ہے جس نے مجھے بھیجا ہے وہی میری زبان پر معارف جاری کرتا ہے ، وہی میرے قلم میں عظیم قو تیں عطا کرتا ہے اور ایسے معارف اسی سے بہتے ہیں جیسے قلزم کے معارف سے ان کا واسطہ ہو اور وہ اس سے موتی نکالتا چلا جاتا ہے، نکالتا چلا جاتا ہے.یہ ہے نقشہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنے متعلق ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ، میری ذات کی کوئی حقیقت ہی نہیں ہے.میری تعلیم بھی کچھ نہیں ہے تم اگر میری تعلیم یا میری ذات پر ہنستے ہو تو جو چا ہو کر ولیکن جس قادر مطلق ، خالق کا ئنات کے ساتھ میراتعلق ہے اس پر ہنسنے کی کیسے جرات کرو گے.پس میری یہ تحریریں اور یہ کلام اس بات کا ثبوت ہے کہ میرا تعلق سرچشمه عرفان سے ہے.آپ فرماتے ہیں: میں بڑے دعوئی اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور
خطبات طاہر جلدم 345 خطبه جمعه ۱۲ برابریل ۱۹۸۵ء خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں.“ یہ وہ تحریر ہے جو ان کی نظر میں پھپھی ہے.اب آگے سنئے اس کلام کی شان اور شوکت جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کلام ہی بالکل نرالا ہے، عام انسانی کلام ہے ہی نہیں.حقیقت میں اس زبان سے خدا تعالٰی بولتا تھا تب اس میں ایک عظیم قوت اور ایک عظیم شان پیدا ہوا کرتی تھی.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: ”جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں.“ کیسا پیارا اور کیسا وجد آفرین فقرہ ہے.پھر فرمایا: اور قریب ہے کہ میں ایک عظیم الشان فتح پاؤں کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے اور آسمان پر ایک جوش اور ابال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اس مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے.ہر یک وہ شخص جس پر تو بہ کا دروازہ بند نہیں عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں.کیا وہ زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۴۰۳) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس کے بعد اب کچھ اور کہنے کی گنجائش نہیں رہتی سوائے اس کے کہ صرف اتنا کہوں کہ شرم تم کو مگر نہیں آتی
خطبات طاہر جلدم 347 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء انتہائی ظالمانہ تکفیر و تکذیب کے مقابلہ میں حضرت بانی سلسلہ کا صبر و حمل ، ہمت و حوصلہ اور ابلاغ حق ( خطبه جمعه فرموده ۱۹ اپریل ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں: يَا يُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَكُمْ مِنْ ذَكَرِ وَ أُنثَى وَجَعَلْنَكُمْ شُعُوبًا وَقَبَابِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللهِ أنفُسِكُمْ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتُكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوْا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيْلِ اللهِ أوليكَ هُمُ الصُّدِقُونَ ) ( الحجرات : ۱۴ (۱۲) اور پھر فرمایا: آغاز اسلام ہی سے کفر دون کفر اور ایمان دون ایمان کی اصطلاح رائج چلی آ رہی ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ہو سکتا ہے کہ ایک انسان ظاہری فتویٰ کے اعتبار سے یا اپنے ادعا
خطبات طاہر جلدم 348 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء کے اعتبار سے مسلمان کہلائے لیکن اس میں کچھ ایسے موجبات کفر ہوں ”اسلام“ کے بنیادی عقائد کے خلاف کچھ ایسے امور پائے جائیں یا اس کے اعمال میں ایسا فسق ہو کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اس پر کفر کا حکم اطلاق پائے.لیکن جہاں تک ملت اسلامیہ کا تعلق ہے ایسا شخص مسلم ہی کہلا تا رہا اور مسلم ہی کہلاتا ہے.اس بحث کی بنیاد مختلف احادیث نبویہ پر بھی ہے اور ان آیات کریمہ پر بھی ہے جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خبر دیتا ہے قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا اعراب یعنی بدوی یہ ادعا کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں، ہم ایمان لے آئے میں قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا تو ان سے کہہ دے کہ تم ایمان نہیں لائے وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا ہاں یہ بے شک کہو کہ ہم اسلام لے آئے ہیں، جب کہ ایمان تو تمہارے دلوں میں داخل بھی نہیں ہوا وَإِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَة......الخ) ہاں اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تو تمہارے اعمال میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہونے دے گا ، اللہ تعالیٰ بہت ہی مغفرت کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے، یقیناً مومن وہی ہیں جو اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور پھر کسی حالت میں بھی اس ایمان پر شک نہیں کیا یا ان کی صداقت پر شک نہیں کیا اور اپنے اعمال میں سے اپنی صداقت کو یوں ثابت کیا کہ اپنے اموال سے بھی خدا کی راہ میں جہاد کیا اور جانوں سے بھی خدا کی راہ میں جہاد کیا ، ہاں یہی لوگ ہیں جو صادق ہیں.ان لوگوں سے کہہ دو کہ کیا تم اللہ کو دین سکھاؤ گے یا اپنا دین خدا کو سمجھاؤ گے.اللہ جانتا ہے جو آسمان میں ہے اور زمین میں ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے.جبکہ ان آیات میں سے سب سے پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا کیا اور تمہیں گروہوں اور قبیلوں میں تقسیم کیا تا کہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو.جہاں تک عزت کا تعلق ہے اللہ کے نزدیک عزت تقویٰ میں ہے عزت اسی کی ہے جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہواور اللہ بہت جانے والا اور بہت خبر رکھنے والا ہے.ویسے تو ان تمام آیات کا اس مسئلہ سے تعلق ہے جو میں نے تلاوت کی ہیں لیکن اس مسئلہ سے براہ راست تعلق رکھنے والی آیت قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا.........الخ) ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بادیہ نشین یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.کسی انسان کو یہ حق خدا نے نہیں
خطبات طاہر جلدم 349 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء دیا کہ وہ دوسرے کو اپنی طرف سے یہ کہہ سکے کہ تمہارے دل میں ایمان نہیں ہے.لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو خود خبر دی اور فرمایا کہ ہم جانتے ہیں کہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے.اس لئے تجھے ہم اختیار دیتے ہیں کہ ان سے کہہ دے کہ تم مومن نہیں ہو.مومن کا برعکس کا فر ہوتا ہے اور مسلم کا بر عکس غیر مسلم ہوتا ہے.تو ان دونوں باتوں میں خدا تعالیٰ نے تفریق کی ہے.فرمایا ان سے کہہ دے کہ خدائے عالم الغیب نے خبر دی ہے کہ تمہارے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا اس لئے مومن ہونے کا ادعا نہ کر وہاں اس کے باوجود تم سے مسلمان کہلانے کا حق ہم نہیں چھینتے.قُولُوا أَسْلَمْنَا بے شک یہ کہتے چلے جاؤ کہ ہم مسلمان ہیں.درآنحالیکہ کہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی شخص پر کوئی فتوی لگ جائے اور فی الحقیقت وہ فتویٰ درست نہ ہو تو جاننا چاہئے کہ اس معاملہ میں انسان کے لئے کوئی خوف ہی نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی آدمی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے تو خدا و عدہ فرماتا ہے کہ اس کے اعمال میں سے کچھ بھی ضائع نہیں ہونے دے گا اور پھر ایسا خدا جو بہت غفور ہو اس سے تو یہ توقع کی ہی نہیں جاسکتی کہ کسی انسان کے فتویٰ کے نتیجہ میں یا کسی غلط فتویٰ کے نتیجہ میں کسی دوسرے انسان کے اعمال ضائع کر دے جبکہ وہ مخلص ہے پس یہ تو ایک منفی اعلان ہے یعنی بعض لوگوں کی منفی عادات یا منفی خصائل سے تعلق رکھنے والا اعلان ہے.پھر اس کے ساتھ ایک مثبت اعلان بھی فرما دیا کہ مومنوں کی تعریف تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول پر ایمان لاتے ہیں تو شک نہیں کرتے اور لازماً اپنے اموال اور اپنی جانوں سے خدا کی راہ میں ہمیشہ جہاد کرتے چلے جاتے ہیں.اس تعریف کی رو سے مومن کی زندگی میں کوئی بھی ایسا وقت نہیں آتا جب وہ مال اور جان کے جہاد میں مصروف نہ ہو.اور اسی طرح مومن کی اجتماعی زندگی میں بھی کوئی ایسا زمانہ نہیں آتا جب کہ وہ جانی اور مالی جہاد نہ کر رہا ہو.فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو بچے ہوتے ہیں اور بچے کہلا سکتے ہیں کیونکہ ان کے اندر ایمان کی ایسی نشانیاں پائی جاتی ہیں جو انہوں نے اپنے اعمال سے سچی ثابت کر دکھا ئیں.پس یہ تمام باتیں جو ان آیات میں بیان کی گئی ہیں خدا تعالیٰ نے خود آنحضرت والے کو بتائیں.پہلی بات یہ کہ اگر چہ منع فرمایا گیا کہ تم اپنے آپ کو مومن نہ کہو کیونکہ خدا کے نزدیک تم مومن
خطبات طاہر جلد۴ 350 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء نہیں ہولیکن اس کے باوجود ان کو اجازت دی گئی کہ وہ مسلمان کہلائیں اور ہر فرد بشر کا یہ کہنے کا حق کہ میں مسلمان ہوں.یہ اس طرح عطا فر ما دیا گیا کہ دنیا کی کوئی طاقت اب اس حق کو چھین نہیں سکتی کیونکہ اس سے بڑھ کر کسی کا کفر ثابت نہیں ہو سکتا کہ عالم الغیب خدا خبر دے اور وہ خبر اصدق الصادقین کو دے رہا ہو اور اس کے باوجود خود یہ بھی فرمارہا ہو کہ اے رسول ! تو بھی ان کو غیر مسلم نہیں کہے گا.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ وہ اعراب ( بادیہ نشین ) جن کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا تھا کہ ان کے دلوں میں ایمان نہیں ہے ان کو حضور اکرم ﷺ نے کبھی غیر مسلم قرار دیا ہو.اس کا دوسرا پہلو اور بھی عجیب ہے.جب یہ کہا گیا کہ تم اپنے آپ کو مومن نہ کہو تو بظاہر یہ ایسا حکم ہے کہ اس کے بعد اگر وہ اپنے آپ کو مومن کہتے تو آج کل کے علماء کا جو تصور اسلام ہے اس کی رو سے ان کے خلاف جہادشروع ہو جانا چاہئے تھا.ان کا تصور اسلام اگر درست ہوتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس بارہ میں پیش رفت فرماتے لیکن تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے لوگوں نے اپنے آپ کو ہمیشہ مومن ہی کہا.جن کو کہا جا رہا ہے کہ تم مومن نہیں ہوا اپنے آپ کو مومن نہ کہو وہ مومن کہتے چلے گئے اور ایک بھی واقعہ ایسا نہیں کہ اس حکم کے باوجود آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جبراً ان کو مومن کہلانے سے محروم کیا ہو.یہ ہے عظمت اسلام اور یہ ہے عظمت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم.ایسے عظیم الشان دین کا حلیہ بگاڑنے والے بعد میں پیدا ہوئے.انہوں نے اس کا کیا حلیہ بنادیا یہ قصہ میں آپ کو بعد میں سناؤں گا.اس وقت میں حکومت پاکستان کے اس رویہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.اس پر ہمیں عقلاً اعتراض ہے اور وہ یہ کہ اسلام کے نام پر ہمارے خلاف جو معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا ہے اس سے قرآن کریم کی بھی نفی ہوتی ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قول اور فعل کی بھی نفی ہوتی ہے کیونکہ اس ظالمانہ رویہ کے مطابق حکومت ہم سے وہ بنیادی حق چھین رہی ہے جس کے متعلق خدائے حکیم و خبیر رسول اکرم سے فرماتا ہے کہ اے رسول ! تم بھی یہ حق کسی سے نہ چھینو لیکن ہم حکومت پاکستان سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ تم میں یہ طاقت کہاں سے آ گئی؟ جماعت احمدیہ کے خلاف انتہائی معاندانہ اور ظالمانہ رویہ اختیار کرنے کے لئے جو عذر تراشے گئے ہیں اور اپنے موقف کو معقول بنانے کی جو کوششیں کی گئی ہیں ان میں سے ایک باب کا
خطبات طاہر جلدم 351 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء عنوان ” نئے مذہب کے مضمرات رکھا گیا ہے اور اس باب میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ جماعت احمد یہ چونکہ واضح طور پر دوسرے مسلمانوں کو کا فرکہتی ہے اس لئے عقلی تقاضا ہے کہ ہم بھی انہیں کا فر کہیں، پس احمدیوں کو پھر اعتراض کس بات پر ہے.باہر کی دنیا والے جوان بار یک مسائل کو نہیں سمجھتے ان کے سامنے یہ موقف پیش کیا جا رہا ہے کہ اس سے زیادہ معقول اور کیا طریق ہو سکتا ہے.یہ ہمیں کافر کہتے ہیں اور ان کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ احمدیت کو نہ ماننے والے کا فر ہیں اس کے مقابل پر جب ہم ان کو کافر کہتے ہیں تو یہ شور مچادیتے ہیں اور ساری دنیا میں بدنام کرتے ہیں حالانکہ یہ تو ان کے دعوی کا ایک طبعی تقاضا ہے اور اس کے سوا ہمارے پاس اور کوئی چارہ نہیں تھا.دوسرا موقف یہ پیش کیا گیا ہے کہ احمدیوں نے صرف ہمیں کا فر ہی نہیں ٹھہرایا بلکہ امر واقعہ کے طور پر امت مسلمہ سے وہ تمام تعلقات منقطع کر لئے جن کی بنا پر امت مسلمہ ایک امت کہلانے کی مستحق ہوتی ہے.پس جب ہر قسم کے تہذیبی، ثقافتی اور مذہبی تعلقات منقطع کر کے یہ خود ہم سے الگ ہو گئے تو ان کی اس حرکت کا نام جب ہم نے الگ ہو نا رکھا تو ان کو غصہ آگیا کہ تم ہمیں الگ کیوں کرتے ہو.جب اپنے منہ سے، اپنے الفاظ سے الگ ہوئے ، ہر بات میں اپنے تعلقات توڑ لئے تو کیا اب ہم ان کو یہ بھی نہ کہہ سکیں کہ ہاں تم الگ ہو گئے ہو اس لئے اب ہمارا تو اس میں کوئی جرم نہیں.بظاہر اس موقف میں بڑی معصومیت پائی جاتی ہے لیکن جب ہم آگے چل کر اس کا مزید جائزہ لیں گے تو بات کھلتی چلی جائے گی اور صورت حال بالکل برعکس نظر آئے گی.پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل غلط ہے اور سراسر جھوٹا الزام ہے کہ جماعت احمدیہ نے کفر کے فتوے میں پہل کی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی یہ سوال اٹھایا گیا تھا.آپ نے اس کا جواب ان الفاظ میں دیا: کیا کوئی مولوی یا کوئی اور مخالف یا کوئی سجادہ نشین یہ ثبوت دے سکتا ہے کہ پہلے ہم نے ان لوگوں کو کا فر ٹھہرایا تھا.اگر کوئی ایسا کاغذ یا اشتہار یا رسالہ ہماری طرف سے ان لوگوں کے فتویٰ کفر سے پہلے شائع ہوا ہے جس میں ہم نے مخالف مسلمانوں کو کا فرٹھہرایا ہے تو وہ پیش کریں.ورنہ خود سوچ لیں کہ یہ کس قدر خیانت ہے کہ کافر تو خود ٹھہر اویں آپ اور پھر ہم پر یہ الزام لگاویں کہ گویا ہم
خطبات طاہر جلدم 352 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء نے تمام مسلمانوں کو کا فر ٹھہرایا ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد ۲۲ص -۱۲۳) یہاں ضمنا یہ بات بھی کھول دینی ضروری ہے کہ قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے جس کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے کسی کو غیر مسلم ٹھہرانے کا حق کسی انسان کو نہیں دیا گیا اور اسلام کا دعویٰ کرنے والے کو خواہ وہ کیسا بھی ہو اور خواہ اس کے دل میں ایمان کا ایک ذرہ بھی نہ ہو اس کو بھی خدا یہ اجازت دیتا ہے کہ مسلمان کہلا تا ر ہے لیکن دوسروں کو یہ حق دے دیا کہ جن کو خدا خبر دے یا جن کے پاس دلیل ہو وہ کسی کو کافر ٹھہراد میں ان دو چیزوں میں بہت فرق ہے جب فرمایا لَّمْ تُؤْمِنُواتم ایمان نہیں لائے تم اپنے آپ کو مومن نہ کہو تو کا فرٹھہرانا اور کس کو کہتے ہیں؟ کافر ٹھہرانے کا حق تو دیا لیکن قطعی خبر کے نتیجہ میں کسی پختہ دلیل اور برہان کے نتیجہ میں نہ یہ کہ ویسے ہی شغلا ایک دوسرے کو کا فرٹھہرانے کا وطیرہ بنالیا گیا ہو.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب لوگوں کو کافر ٹھہرایا تو آپ کا ایسا کرنا قرآن کے منشاء کے عین مطابق تھا اور اسی طرح آنحضرت ﷺ کی منشاء کے بھی عین مطابق تھا.ایسا کرتے وقت آپ نے وہ تمام دلائل پھر پیش فرمائے جن کے نتیجہ میں قرآن اور حدیث کی رو سے ایسا شخص کافر ٹھہرائے جانے کا مستحق بنتا ہے.چنانچہ اس سلسلہ میں آپ نے آنحضرت ﷺ کی ایک حدیث پیش فرمائی اور اسی پر بناء کرتے ہوئے اپنا موقف پیش فرمایا کہ جوشخص بھی کسی مومن کو کافر کہہ دے تو ایسا کفر اسی کہنے والے پر آن پڑتا ہے اور وہ شخص خود کا فرٹھہرتا ہے.چنانچہ ایسے بہت سے اقتباسات ہیں جن سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑی تفصیل سے پہلے اپنے مخالفین کو سمجھانے کی کوشش فرمائی اور آپ نے ان کو بار بار متنبہ فرمایا کہ تم ایسی حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ ہمارے لئے پھر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ تمہیں آنحضرت ﷺ کے ارشاد کے مطابق وہی کچھ سمجھیں جو حدیث سے مستنبط ہے.آپ نے بار بار فرمایا کہ دیکھو ہم تم پر حجت تمام کرتے ہیں تم ان حرکتوں سے باز آجاؤ ورنہ تمہارا کفر تم پر لوٹ کر پڑے گا اور ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ تمہیں کافر سمجھیں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا یہ فرمان ہے جس سے کوئی مسلمان سرمو انحراف نہیں کر سکتا.جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فتویٰ کفر کا تعلق ہے اس پہلو سے بھی یہ فتویٰ ایک امتیاز رکھتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ مولویوں کی تکفیر کے بعد یہ فتویٰ دیا بلکہ حضرت مسیح موعود
خطبات طاہر جلدم 353 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے تکفیر کا یہ فتویٰ سب سے زیادہ مہذب اور نرم الفاظ میں دیا گیا جس میں دلائل کے ساتھ بار بار سمجھا کر بتایا گیا ہے کہ اس لحاظ سے تم کافر بنتے ہو لیکن جنہوں نے پہل کی وہ ایک ایسا باب ہے جس کو آج کے بعض مسلمان عمدا اور بعض غیر ارادی طور پر یالا علمی کی وجہ سے بھول چکے ہیں.اس پر نظر نہیں رکھتے اور یہ باب بھی اتنا گندا اور بھیانک ہے کہ اس کے تمام صفحات آپ کے سامنے پیش نہیں کئے جاسکتے.میں نے صرف چند نمونے پیش کرنے کے لئے منتخب کئے ہیں.سے پہلے تو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کے ساتھ مولویوں کی طرف سے کیا سلوک کیا گیا.آپ فرماتے ہیں: ”مولوی محمد حسین بٹالوی نے جب جرات کے ساتھ زبان کھول کر میرا نام دجال رکھا اور میرے پر فتویٰ کفر لکھوا کر صد ہا پنجاب و ہندوستان کے مولویوں سے مجھے گالیاں دلوائیں اور مجھے یہود ونصاری سے بدتر قرار دیا اور میر انام کذاب ،مفسد، دجال ،مفتری، مکار ٹھنگ، فاسق فاجر خائن رکھا.تب خدا نے میرے دل میں ڈالا کہ صحت نیت کے ساتھ ان تحریروں کی مدافعت کروں.میں نفسانی جوش سے کسی کا دشمن نہیں اور میں چاہتا ہوں کہ ہر ایک سے بھلائی کروں مگر جب کوئی حد سے بڑھ جائے تو میں کیا کروں.میرا انصاف خدا کے پاس ہے.ان سب مولوی لوگوں نے مجھے دکھ دیا اور حد سے زیادہ دکھ دیا اور ہر ایک بات ہنسی اور ٹھٹھا کا نشانہ بنایا.پس میں بجز اس کے کیا کہوں کہ يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِءُونَ (يس: ۳۱) ( تم حقیقة الوحی صفحه ۲۱ روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۴۵۳) یہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے واضح موقف کی ابتدالیکن جہاں تک مخالف مولویوں کے فتاویٰ کا تعلق ہے جن کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختصر) فرمایا ہے ان میں سے چند ایک میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور سب سے پہلے مولوی عبدالصمد غزنوی کے فتویٰ کو لیتا ہوں.مولوی غزنوی صاحب نے لکھا کہ :
خطبات طاہر جلدم 354 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء یہ گمراہ کرنے والا چھپا مرتد ہے بلکہ وہ اپنے شیطان سے زیادہ گمراہ ہے جو اس سے کھیل رہا ہے.اگر یہ شخص اس اعتقاد پر مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھی جائے اور نہ یہ مسلمانوں کی قبروں میں دفن کیا جائے تاکہ وہ اہل قبور اس سے ایذا نہ پاویں.“ (اشاعۃ السنتہ جلد ۱۳ نمبر صفحہ ۲۰۱) اسی طرح میاں نذیر حسین دہلوی جو شیخ الکل کہلاتے ہیں انہوں نے اپنے فتویٰ میں لکھا: اہل سنت سے خارج.اس کا عملی طریق ملحدین باطنیہ وغیرہ اہل ضال کا طریق ہے ،اس کے دعوے واشاعت اکاذیب اور اس ملحدانہ طریق سے اس کو میں دجالوں میں سے جن کی خبر حدیث میں وارد ہے ایک دجال کہہ سکتے ہیں.اس کے پیرو ہم مشرب ذریات دجال ، خدا پر افتراء باندھنے والا ، اس کی تاویلات الحادو تحریف ، کذب و تدلیس سے کام لینے والا ، دجال ، بے علم ، نافہم ،اہل بدعت وضلالت.جو کچھ ہم نے سوال سائل کے جواب میں کہا اور قادیانی کے حق میں فتوی دیاوہ صحیح ہے..اب مسلمانوں کو چاہئے کہ ایسے دجال کذاب سے احتراز کریں اور اس سے وہ دینی معاملات نہ کریں جو اہل اسلام میں باہم ہونے چاہئیں.نہ اس کی محبت اختیار کریں.اور نہ اس کو ابتداء سلام کریں اور نہ اس کو دعوت مسنون میں بلاویں اور نہ اس کی دعوت قبول کریں اور نہ اس کے پیچھے 66 اقتدا کریں اور نہ اس کی نماز جنازہ پڑھیں.“ اشاعۃ السنة النبوية - جلد ۱۳ نمبر ۶ - ۱۸۹۰ء صفحه ۱۸۵،۱۴۱،۱۴۰) الصلوة اسی طرح ۱۸۹۳ء ہی میں قاضی عبید اللہ صاحب مدراسی نے حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کے خلاف ایک فتویٰ دیا جس کی بنیاد اس بات پر رکھی کہ جو شخص بھی حضرت عیسی علیہ السلام کے جسم عنصری کے ساتھ آسمان پر جانے اور جسمانی نزول کا قائل نہ ہو وہ کافر ہے.چنانچہ قاضی صاحب نے لکھا: وو وہ شرع شریف کی رو سے مرتد، زندیق و کافر ہے اور مصداق
خطبات طاہر جلدم 355 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء ہمارے نبی کریم ﷺ کی پیشگوئی کے تمھیں دجالوں میں سے ایک ہے.اور جس نے اس کی تابعداری کی وہ بھی کافر و مرتد ہے اور شرعاً مرتد کا نکاح فسخ ہو جاتا ہے اور اس کی عورت حرام ہوتی ہے اور اپنی عورت کے ساتھ جو وطی کرے گا سو وہ زنا ہے اور ایسی حالت میں جو اولاد پیدا ہوتی ہے وہ ولدالزنا ہوتی ہے اور مرتد بغیر تو بہ کے مرگیا تو اس پر نماز جنازہ نہیں پڑھنا اور اس کو مقابر اہل اسلام میں دفن نہیں کرنا.بلکہ بغیر غسل وکفن کے کتے کی مانند گڑھے میں ڈال دینا.“ فتوی در تکفیر منکر عروج جسمی ونزول حضرت عیسی علیہ السلام صفحہ ۶۶ - ۶۷) دیکھیں یہ ہے زبان مولویوں کے فتوؤں کی اور یہ تو ابھی صرف چند نمونے ہیں ورنہ ایسے بے شمار فتوے لکھ کر ملک میں پھیلائے گئے اور پھر واقعہ ان فتوؤں پر عمل بھی کیا گیا کیونکہ یہ ایسے فتاویٰ نہیں تھے صرف جو مولویوں کی کتابوں کی زینت بن کر رہ گئے ہوں بلکہ ان کی ملک گیر تشہیر کی گئی عوام الناس کے ذریعہ ان فتاوی پر عمل بھی کروایا گیا.چنانچہ جماعت احمدیہ کے خلاف عوام اس حد تک مشتعل ہو گئے کہ بقول مولوی عبدالاحد خانپوری: ”جب طائفہ مرزائیہ امرتسر میں بہت ذلیل وخوار ہوئے ، جمعہ و جماعت سے نکالے گئے اور جس مسجد میں جمع ہو کر نمازیں پڑھتے تھے اس میں سے بے عزتی کے ساتھ بدر کئے گئے اور جہاں قیصری باغ میں نماز جمعہ پڑھتے تھے وہاں سے حکما رو کے گئے تو نہایت تنگ ہوکر مرزا قادیانی سے اجازت مانگی کہ مسجد نئی تیار کریں.“ (اظہار مخادعت مسلمہ قادیانی) یہ وہ حالات ہیں جو علیحدگی پر منتج ہوئے.آج مولوی یہ کہتے نہیں تھکتے کہ جماعت احمدیہ نے کفر کے فتویٰ میں پہل کی اور پھر علیحدہ ہونے شروع ہو گئے اور یہ ساری باتیں عوام الناس یعنی مسلمانوں سے چھپارہے ہیں یہ ان کا کردار ہے ، یہ ان کی تاریخ ہے جو بتارہی ہے کہ کس طرح جماعت احمدیہ کو علیحدہ ہونے پر مجبور کیا گیا اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فتویٰ دیا اس کو دیکھئے اور ان لوگوں کے فتاوی کی زبان دیکھئے آخر کسی بات کی حد بھی ہوتی ہے ، انسان
خطبات طاہر جلد۴ 356 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء کے اندر شرافت کی کوئی تو رمق باقی رہنی چاہئے مگر مولویوں کے فتوؤں میں اتنا جھوٹ ہے ، اس قسم کا کذب ہے اور اس طرح کا افتراء ہے کہ انسانی روح کانپ اٹھتی ہے.عوام الناس کو جماعت احمد یہ کےخلاف جھوٹ بول بول کر مشتعل کیا جا رہا ہے اور اشتعال کی اصل باتیں لوگوں سے چھپائی جارہی ہیں.اب دیکھئے اس فتویٰ میں یہ بتایا گیا ہے کہ احمدی جس جگہ نمازیں پڑھتے تھے وہاں سے حکمار کوائے گئے تو پھر تنگ آکر مسجد بنانے کی اجازت مانگی اور اب کہتے ہیں کہ تم مسجد میں کیوں بناتے ہو.تو خیر آگے سنئے : تب مرزا نے ان کو کہا کہ صبر کرو میں لوگوں سے صلح کرتا ہوں.اگر صلح ہوگئی تو مسجد بنانے کی کچھ حاجت نہیں.“ حد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوصلے اور صبر کی.ان حالات میں بھی فرماتے ہیں کہ میں اب بھی صلح کی کوشش کرتا ہوں اگر صلح ہوگئی تو مسجد بنانے کی ضرورت نہیں.پھر آگے سنئے: ”اور نیز اور بہت قسم کی ذلتیں اٹھائیں.معاملہ و برتاؤ مسلمانوں سے بند ہو گیا.عورتیں منکوحہ ومخطو بہ بوجہ مرزائیت کے چھینی گئیں.مردے ان کے بے تجہیز وتکفین اور بے جنازہ گڑھوں میں دبائے گئے وغیرہ وغیرہ تو قادیانی نے یہ اشتہار مصالحت کا دیا.“ (اظہار مخادعت مسلمہ قادیانی) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لیکچر لدھیانہ میں جب جوابی فتویٰ صادر فرمایا تو دیکھئے وہ کس طرح قرآن کی حدود کے اندر اور ان تمام احتیاطوں کے ساتھ صادر کیا گیا جن کا قرآن کریم کی تعلیم تقاضا کرتی ہے.آپ فرماتے ہیں: اس وقت مسلمان اسلمنا میں تو بے شک داخل ہیں مگر اما کی ذیل میں نہیں.(لیکچرلدھیانہ.روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۲۹۵) اور جب یہ فرمایا اس کے تمام مضمرات بیان فرما دیئے گویا پورا دریا ایک کوزے میں بند فرما دیا ہے یعنی احمدیوں کو مسلمانوں کے معاملات میں اس سے آگے بڑھنے کی اجازت نہیں دی.جس حد تک حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ ان لوگوں کے معاملہ میں گئے جن کے متعلق خدا نے خبر
خطبات طاہر جلد۴ 357 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء دی تھی کہ فلاں فلاں لوگ ایمان نہیں لائے.یعنی خدا فرماتا ہے اے رسول ! تمہیں بھی حق نہیں کہ ان کو مسلمان کہنے سے روکو یا یہ مطالبہ ہی کرو بلکہ یہ بھی حق نہیں کہ ان کو مومن کہنے سے روکو یا اس کا مطالبہ کرو.ان شرائط اور ان حدود کے اندر تاریخ نے یا سنت نبوی نے اس آیہ کریمہ پر جو روشنی ڈالی ہے اس کے مطابق کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ کسی کو غیر مسلم کہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے مخالفین کے لئے کہیں غیر مسلم کا لفظ استعمال نہیں فرمایا البتہ جہاں تک ایک مسلمان کو کافر ٹھہرانے کا تعلق ہے آپ نے فرمایا: یہ ایک شریعت کا مسئلہ ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا آخر کا فر ہو جاتا ہے.پھر جب کہ وہ سو مولوی نے مجھے کا فرٹھیرایا اور میرے پر کفر کا فتو ی لکھا گیا اور انہیں کے فتویٰ سے یہ بات ثابت ہے کہ مومن کو کافر کہنے والا کا فر ہو جاتا ہے اور کا فر کو مومن کہنے والا بھی کافر ہو جاتا ہے“ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۱۶۸) یعنی تو پھر اب میں کیسے رک سکتا ہوں اس فتویٰ سے جو مخالفین کے پیدا کردہ حالات کا طبعی نتیجہ ہے.چنانچہ آپ نے آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کا حوالہ دیا جس کا میں ذکر کر چکا ہوں.آپ فرماتے ہیں: آنحضور ﷺ کا یہ ارشاد ہے.”ایما رجل مسلم اکفر رجلا مسلما فان كان كا فرا والا كان هو الكافر “ (ابوداؤد کتاب السنۃ حدیث نمبر : ۴۰۶۷) کہ جب کوئی مسلمان کسی دوسرے مسلمان کو کا فر ٹھہرائے تو وہ خود کافر ہو جاتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہم کسی کلمہ گوکو اسلام سے خارج نہیں کہتے“ دیکھیں کیسا مربوط مسلک ہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے مسلسل بنا ہے قرآن کریم کے ایک فرمان پر اور حضرت اقدس محمد مصطفی می ﷺ کے ارشاد پر اور اسی دائرہ کے اندر یہ مہذبانہ فتویٰ دیا جا رہا ہے فرماتے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 358 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء ہم کسی کلمہ گو کو اسلام سے خارج نہیں کہتے جب تک کہ وہ ہمیں کافر کہہ کر خود کا فرنہ بن جائے.آپ کو شاید معلوم نہ ہو جب میں نے مامور ہونے کا دعویٰ کیا تو اس کے بعد بٹالہ کے محمد حسین مولوی ابوسعید صاحب نے بڑی محنت سے ایک فتویٰ تیار کیا.جس میں لکھا تھا کہ یہ شخص کا فر ہے، دجال ہے ضال ہے اس کا جنازہ نہ پڑھا جائے، جو ان سے السلام علیکم کرے یا مصافحہ یا انہیں مسلمان کہے وہ بھی کا فراب سنو یہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے کہ جو مومن کو کافر کہے وہ کا فر ہو جاتا ہے.پس اس مسئلہ سے ہم کس طرح انکار کر سکتے ہیں آپ لوگ خود ہی کہہ دیں کہ ان حالات کے ماتحت ہمارے لئے کیا راہ ہے ہم نے ان پر پہلے کوئی فتویٰ نہیں دیا.اب جو انہیں کا فر کہا جاتا ہے تو یہ انہیں کے کا فر بنانے کا نتیجہ ہے.ایک شخص نے ہم سے مباہلہ کی درخواست کی ہم نے کہا کہ دو مسلمانوں میں مباہلہ جائز نہیں.“ غور سے سنئے اس بات کو یعنی ان تمام فتادی کے با وجو د جن کی زبان نہایت کریہہ اور گندی ہے مغلظات سے پر ہے ان کو فتوی کہا ہی نہیں جا سکتا مگر ان کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صبر و حمل اور ہمت و حوصلہ دیکھیں فرماتے ہیں میں نے ان کو جواب دیا کہ دو مسلمانوں کے مابین مباہلہ جائز نہیں مگر : ”اس نے جواب لکھا کہ ہم تو تجھے پکا کا فر سمجھتے ہیں“ اس شخص نے عرض کیا جس نے یہ پہلا سوال کیا تھا جس کا جواب دیا جا رہا ہے کہ وہ آپ کو کافر کہتے ہیں تو کہیں لیکن اگر آپ نہ کہیں تو اس میں کیا حرج ہے؟ یعنی باوجود اس کے کہ اس بات کو پوری طرح سمجھا چکے ہیں کہ دیکھو یہ تم سب کا اپنا فتویٰ ہے پھر بھی سوال پوچھنے والا اصرار کرتا چلا گیا کہ اس میں کیا حرج ہے.حضور علیہ السلام نے فرمایا: ” جو ہمیں کا فرنہیں کہتا ہم اسے ہر گز کا فرنہیں کہتے لیکن جو ہمیں کا فر کہتا ہے اسے کا فر نہ سمجھیں تو اس میں حدیث اور متفق علیہ مسئلہ کی مخالفت لازم آتی ہے اور یہ ہم سے نہیں ہوسکتا.( ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۳۵ - ۶۳۶)
خطبات طاہر جلدم 359 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قطع نظر اس کے کہ احمدیوں اور غیر احمد یوں میں سے پہلے کس نے کس کو کیا کہا دیکھنا یہ ہے کہ اس کا طبعی اور منطقی نتیجہ جو پاکستان کی حکومت نے نکالا ہے اگر وہ اس بات میں متقی ہیں اور واقع میں اس کے سوا کوئی اور نتیجہ نکالنا ان کے لئے ممکن نہیں ہے تو پھر اس مسلک پر قائم رہ ہیں.پھر تو دلیل یہ بنتی ہے کہ جو شخص خود دوسرے کو کا فرکہہ دے اور اس سے تعلقات منقطع کر لے اس شخص کے متعلق یا اس مذہب کے متعلق یا اس فرقے کے متعلق حکومت پاکستان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہے کہ اسے کلیتہ غیر مسلم قرار دے دے اور اس کو تمام اسلامی حقوق سے محروم کر دے.ہمارے متعلق ایک طبعی اور منطقی دلیل جو بنائی گئی ہے اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر ان لوگوں کے متعلق کیا خیال ہے جنہوں نے ایک دوسرے کے خلاف فتوے دے رکھے ہیں ان فتاوی میں سے میں چند ایک فتوے آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.سب سے پہلے بریلویوں کا فتویٰ سنئے.بریلوی صرف ہمارے خلاف ہی نہیں بلکہ ان لو گوں کے بھی خلاف ہیں جو آج اس حکومت کے سب سے زیادہ لاڈلے اور منہ چڑھے ہیں یعنی وہابی اور دیوبندی.چنانچہ بریلوی علماء میں سے چوٹی کے علماء کا فتویٰ ہے کسی عام عالم کا فتویٰ نہیں.بڑا لمبافتویٰ ہے میں اسے مختلف ٹکڑوں میں بیان کرتا ہوں.لکھا ہے: وہابیہ دیو بند یہ اپنی عبارتوں میں تمام اولیاء انبیاء حتی کہ حضرت سید الا ولین و آخرین عمل کی اور خاص ذات باری تعالیٰ شانہ کی اہانت و ہتک کرنے کی وجہ سے قطعاً مرتد و کافر ہیں اور ان کا ارتداد و کفر سخت سخت سخت اشد درجہ تک پہنچ چکا ہے ایسا کہ جوان مرتدوں اور کافروں کے ارتداد و کفر میں ذرا بھی شک کرے وہ بھی انہیں جیسا مرتد اور کافر ہے.“ (وہابیہ دیو بند یہ عقائد والوں کی نسبت تین سو علماء اہل السنۃ والجماعت کا متفقہ فتوی المعلن محمد ابراہیم بھا گلپوری صفحه ۶۳) اب حکومت پاکستان کے لئے کون سی راہ باقی رہ گئی ہے اگر ان کے کفر پر ذرا سا بھی شک کریں تو آپ خود دائرہ اسلام سے باہر چلے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود نہ دیو بندیوں وہابیوں پر حکومت فتوے لگا رہی ہے اور نہ ان پر لگا رہی ہے جو فتوی دے رہے ہیں.ذرا فتویٰ کی تفصیلات سنئے.تعلقات منقطع کرنے کا الزام جماعت احمدیہ پر لگاتے ہیں لیکن انہوں نے اپنے فتوے کی بناء پر
خطبات طاہر جلدم 360 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء جو تعلقات منقطع کئے وہ سنئے لکھا ہے: مسلمانوں کو چاہئے کہ ان سے بالکل ہی محتر ز و مجتنب رہیں ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں.“ (ایضاً) اب دیکھیں جماعت احمدیہ نے تو کبھی بھی یہ تعلیم نہیں دی ہم تو کہتے ہیں تعلقات رکھو ایک دوسرے سے ملو اور ہر قسم کے روابط استوار کرو.محبت و پیار سے پیش آؤ.خدمت بجالاؤ.اور جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جماعت کا ہمیشہ یہی سلوک رہا ہے.ہاں پیچھے نماز نہیں پڑھنی.کیوں نہیں پڑھنی اس کی وجوہات ہیں ایک تو وہ وجہ ہے جس کو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کچھ اور بھی وجوہات ہیں جن کا میں بیان کروں گا لیکن اپنے پیچھے نماز پڑھنے سے کبھی نہیں روکا.آج تک کبھی اشارہ یا کنایہ بھی جماعت کی طرف سے اس قسم کا کوئی واقعہ ثابت نہیں ہوا نہ مسجدوں سے کسی کو محروم کیا گیا.ہم تو اپنی مسجدوں میں خود بلاتے ہیں ، ان کو دعوتیں دیتے ہیں اور اجازت دیتے ہیں کہ اگر ہمارے پیچھے نماز نہیں پڑھنی تو تم خود شوق سے جس طرح چاہو ہماری مسجد میں خود نما ز پڑھ لو، بے شک با جماعت نماز پڑھ لو.چنانچہ ایسے واقعات آئے دن ربوہ میں رونما ہوتے تھے.سوال و جواب کے لئے غیر احمدی دوست جب ربوہ تشریف لاتے تھے تو مسجد مبارک میں بھی بعض اوقات دونمازیں ہوتی تھیں.ایک ہماری نماز اور دوسری غیر احمدی دوستوں کی.ان سے یہ کہا جاتا تھا کہ آپ بے شک شوق سے نماز پڑھیں.چنانچہ وہ اپنی نماز ا لگ پڑھ لیتے تھے.کبھی کسی نے نہیں روکا لیکن فتویٰ زیر نظر میں لکھا ہے: ان کے پیچھے نماز پڑھنے کا تو ذکر ہی کیا اپنے پیچھے بھی ان کو نماز نہ پڑھنے دیں.اور نہ اپنی مسجدوں میں گھنے دیں.نہ ان کا ذبیحہ کھا ئیں اور نہ ان کی شادی نمی میں شریک ہوں.“ (ایضاً) ان میں سے کون سے تعلقات ہیں جو احمدیوں نے توڑے ہیں.اس فتویٰ کے باوجود احمدیوں نے نہیں توڑے کیونکہ جماعت احمدیہ کا یہ مسلک نہیں ہے.یہ فتویٰ آگے چلتا ہے.لکھا ہے:
خطبات طاہر جلدم 361 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء نہ اپنے ہاں ان کو آنے دیں.یہ بیمار ہوں تو عیادت کونہ جائیں.مریں تو گاڑ نے تو اپنے میں شرکت نہ کریں.مسلمانوں کے قبرستان میں جگہ نہ دیں.غرض ان سے بالکل احتیاط واجتناب رکھیں.‘ (ایضاً) یہ ہے حضرات علمائے اہل سنت کے فتوؤں کا خلاصہ اور یہ فتوے دینے والے صرف ہندوستان ہی کے علماء نہیں ہیں بلکہ جب وہابیہ دیوبندیہ کی عبارتیں ترجمہ کر کے بھیجی گئیں تو افغانستان و خیوا و بخارا و ایران و مصر و روم و شام اور مکہ معظمہ و مدینہ منورہ وغیرہ تمام دیار عرب وکوفہ و بغداد شریف غرض تمام جہان کے علمائے اہل سنت نے بالا اتفاق یہی فتویٰ دیا ہے کہ: ان عبارتوں سے اولیاء انبیاء اور خود خدائے تعالیٰ شانہ، کی سخت سخت اشد اہانت و توہین ہوئی.پس وہابیہ دیوبند یہ سخت سخت اشد مرتد و کا فر ہیں ایسے کہ جو ان کو کافر نہ کہے خود کافر ہو جائے گا، اس کی عورت اس کے عقد سے باہر ہو جائے گی اور جو اولاد ہوگی وہ حرامی ہوگی اور از روئے شریعت ترکہ نہ پائے گی.(ایضا) یہ ہیں ان مولویوں کے فتوے لیکن جماعت احمدیہ کے اس فتوے کو اچھالا جا رہا ہے جس کے ساتھ دلائل دیئے گئے ہیں.مہذبانہ گفتگو کی گئی ہے اور قرآنی آیات پر بناء کرتے ہوئے استدلال کیا گیا ہے.پھر سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان سے کیا سلوک ہونا چاہئے جنہوں نے وہابیوں دیو بندیوں کو کافر ٹھہرا کر ان کی جڑ ہی اکھاڑ دی ہے.اب ان کتابوں کے نام سنئے جن میں ان فتوی کی تفصیلات دیکھی جاسکتی ہیں : ( 1 ) تقدیس الوکیل (2) السیف المسلول ( 3 ) عقائد وہابیہ دیوبندیہ ( 4) تاریخ دیوبندیہ (5) حسام الحرمین (6) فتاوی الحرمین (7) الصوارم الہند یہ علی مکر شیاطین الدیوبندیہ.وغیرہ وغیرہ.اور اب دیوبندیوں کا بریلویوں کے خلاف فتویٰ سن لیجئے.مندرجہ بالا فتویٰ کا جواب انہوں نے ایک ہی فقرہ میں اکٹھا دے دیا ہے.لکھا ہے: یہ سب تکفیریں اور لعنتیں بریلوی اور اس کے اتباع کی طرف
خطبات طاہر جلدم 362 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء سے لوٹ کر قبر میں ان کے واسطے عذاب اور بوقت خاتمہ ان کے موجب خروج ایمان وازالہ تصدیق وایقان ہوں گی کہ ملائکہ حضور علیہ السلام سے کہیں گے انک لا تدرى ما احد ثوابعدک اور رسول مقبول علیہ السلام دجال بریلوی اور ان اتباع کو سحقاً سحقاً فرما کر حوض مور و دو شفاعت محمود سے کتوں سے برتر کر کے دھتکار دیں گے اور امت مرحومہ کے اجر و ثواب و منازل ونعم سے محروم کئے جائیں گے.“ ( رجوم المذنبين على رؤوس الشياطين المشهور به الشهاب الثاقب على المستر ق الکاذب صفحہ ۱۱۹ ۱۲۰ مولفه مولوی سید حسین احمد صاحب مدنی) اب یہ تو پاکستان کے ان دو بڑے بڑے فرقوں کی بات ہوئی ہے جو ملک کی بڑی بھاری اکثریت بناتے ہیں ، یہ ان کے آپس کے فتوے ہیں.پاکستان کی حکومت کا موقف اگر دیانت داری پر مبنی ہے تو ان کے ساتھ اس سے کئی گنا زیادہ سخت سلوک ہونا چاہئے جو جماعت احمدیہ سے روا رکھا جا رہا ہے.لکھا ہے: ہے شیعہ حضرات تو ان کے بارہ میں بھی فتوکی سن لیجئے ! لکھا ہے: رافضیوں تبرائیوں کے باب میں حکم یقینی قطعی اجماعی یہ ہے کہ وہ علی العموم کفار مرتدین ہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ مردار ہے ان کے ساتھ مناکحت نہ صرف حرام بلکہ خالص زنا ہے.“ ایسا لفظ ان کو پسند آیا ہے کہ بار بار اس بے ہودہ لفظ کو استعمال کر رہے ہیں.پھر آگے معاذ اللہ مرد رافضی اور عورت مسلمان ہو تو یہ سخت قہر الہی ہے.اگر مردسنی اور عورت ان خبیثوں میں کی ہو جب بھی نکاح ہرگز نہ ہوگا محض زنا ہوگا اولا د ولد الزنا ہوگی.باپ کا ترکہ نہ پائے گی اگر چہ اولا د بھی سنی ہی ہو کہ شرعاً ولد الزنا کا باپ کوئی نہیں.عورت نہ ترکہ کی مستحق ہوگی نہ مہر کی کہ زانیہ کے لئے مہر نہیں.اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی کا فتوی ردا لرفضه صفحه ۳۰-۳۱)
خطبات طاہر جلدم 363 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء ان فتوؤں میں ایسی غلیظ اور گندی زبان استعمال کی گئی ہے اور پھر بھی کہتے ہیں ہم علمائے دین ہیں.ان مولویوں نے مسلمانوں میں سے کسی کو نہیں چھوڑا.یہ فتویٰ آگے چلتا ہے.لکھا ہے:.رافضی اپنے کسی قریب حتی کہ باپ بیٹے ماں بیٹی کا بھی ترکہ نہیں پا سکتا.سنی تو سنی کسی مسلمان بلکہ کسی کافر کے بھی.یہاں تک کہ خود اپنے ہم مذہب رافضی کے ترکہ میں اس کا اصلاً کچھ حق نہیں ( یہ سارا ان فتویٰ دینے والوں کی طرف لوٹا دینا چاہئے.ناقل ) ان کے مرد عورت ، عالم، جاہل کسی سے میل جول، سلام کلام سخت کبیرہ اشد حرام.جوان کے ملعون عقیدوں پر آگاہ ہو کر بھی انہیں مسلمان جانے یا ان کے کافر ہونے میں شک کرے با جماع تمام آئمہ دین کا فربے دین ہے.اور اس کے لئے بھی یہی سب احکام ہیں جو ان کے لئے مذکور ہوئے.مسلمان پر فرض ہے کہ اس فتویٰ کو بگوش ہوش سنیں اور اس پر عمل کر کے بچے پکے سنی بنیں.(ایضاً) اور بھی اسی طرح کے بڑے بڑے خوفناک فتوے ہیں جن کو اس وقت میں چھوڑ رہا ہوں.ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے خوفناک اور گندے فتاویٰ کے انبار لگے ہوئے ہیں کہ آدمی حیران ہو جاتا ہے.فتاویٰ دینے کے گویا کارخانے بنے ہوئے ہیں ، ہر کارخانے سے گندنکل رہا ہے، بایں ہمہ جماعت احمدیہ پر یہ الزام ہے کہ اس نے ہمیں کا فر کہہ دیا جبکہ جماعت کے فتویٰ کے اندر ایک دلیل ہے ایک بڑا بھاری استدلال قرآن کا موجود ہے پھر بنیادی حق سے محروم نہیں کیا جارہا بلکہ یہ کہا جارہا ہے کہ تم بے شک اپنے آپ کو مسلمان سمجھو، مومن کہو کہتے چلے جاؤ اس پر ہمارا کوئی حق نہیں ، ہاں ایسا سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں کیونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا فتوی ہے جماعت کا یہ موقف تو نا قابل برداشت ہے اس سے گویا سارے تعلقات منقطع ہو گئے اس لئے کہا گیا کہ اسے دائرہ اسلام سے خارج کرو، ان کی مسجد میں جلا دو، گنبد تو ڑ دو، اگر مسجد میں نہیں جلانی تو کم سے کم رخ ہی بدل دو اور آخری بات یہ کہ یہ مرتد ہو گئے اس لئے اگر چہ پاکستانی حکومت واقعہ اسلامی حکومت ہے تو فتوی اب یہ ہے کہ ان کا قتل عام کرو کوئی بھی ان میں سے بیچ کر باہر نہ جائے.مگر یہ جو ایک دوسرے کے خلاف گندی زبانیں استعمال کی گئی ہیں ان کو سن ہی نہیں رہے یہ گندے فتوے ان کو نظر ہی نہیں آرہے.
خطبات طاہر جلدم 364 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء اب یہ کہیں گے کہ شاید شیعوں نے نسبتاً زیادہ نرمی کا سلوک کیا ہوگا اس لئے شیعوں کا بھی فتویٰ دیکھ لیتے ہیں کہ وہ سنیوں کے متعلق کیا سمجھتے ہیں.لکھا ہے: فرقہ حقہ شیعہ کے نزدیک شیعہ عورت کا نکاح کسی غیر شیعہ اثناعشریہ کے ہمراہ اس لئے ناجائز ہے کہ غیر اثناعشری کو وہ مومن نہیں سمجھتے.جو مسلمان کہ غیر اثناعشری عقیدہ رکھتا ہوشیعوں کے نزدیک وہ مومن نہیں مسلمان ہے.“ یہاں انہوں نے ایک معقول بات کی ہے جس کے لئے واقعی ان کو داد دینی پڑتی ہے.اب سمجھ آئی کہ یہ اپنے آپ کو مومن کیوں کہتے ہیں انہوں نے مسئلہ کی بناء قرآن پر رکھی ہے اور اس بارہ میں کم سے کم دوسرے سنی علماء کی نسبت زیادہ عقل اور حکمت سے کام لیا ہے.کہتے ہیں قرآن سے جائز ہے تم کسی کو مومن نہ سمجھو لیکن وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے تو بے شک کہنے دو اور یہ بڑی معقول بات ہے مومن نہیں ہے مگر مسلمان ہے لیکن اس کے باوجود اگر کسی غیر شیعہ کے ساتھ نکاح ہو جائے تو کیا فتویٰ ہے.علامہ الحائری شیعوں کے بہت بڑے عالم تھے ان کے صاحبزادہ کہتے ہیں: ”ایسی صورت میں باوجود عالم مسئلہ ہونے کے اگر ایسا نکاح واقعہ ہو جائے تو وہ نکاح باطل ہے ان کی اولا د بھی شرعاً ولد الزنا ہوگی.“ (مسئلہ نکاح شیعہ سنی کا مدل فیصلہ موسوم به «انظر مولہ سیدمحمد رضی الرضوی اتمی ابن علامہ الحائری صفحه ۲) ایک اور فتویٰ سنئے لکھا ہے: ”جو لوگ آئمہ معصومین کے حق میں شک رکھتے ہیں ان کی لڑکیوں سے تو شادی کر لومگر ان کولڑ کی مت دو.کیونکہ عورت اپنے شوہر کے ادب کو لیتی ہے اور شوہر قہر اور جبر عورت کو اپنے دین اور مذہب پر لے آتا ہے.“ (ایضاً صفحه ۱۶) ان دونوں فتاویٰ میں زبان نسبتاً زیادہ شریفانہ ہے اور معقولیت کا رنگ بھی نسبتاً زیادہ ہے یعنی یوں نہیں معلوم ہوتا کہ کوئی گندی گالیاں دے رہا ہے ان کے فتویٰ میں کوئی نہ کوئی دلیل تو بہر حال پیش کی گئی ہے مگر جماعت احمدیہ کی طرف سے ایسا کوئی فتویٰ نہیں دیا گیا جس میں اشارہ یا کنایہ بھی ایسی شادی کو حرام قرار دیا گیا ہو اور خاوند اور بیوی کے ایسے تعلقات کو اس حد تک ناجائز قرار نہیں
خطبات طاہر جلد۴ 365 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء دیا گیا کہ نعوذ بالله من ذلکیہ سارے گندے الفاظ اس میں بیان ہوئے ہوں.اب پرویزی اور چکڑالوی رہ جاتے ہیں ان کے متعلق سنئے کہ بریلوی ، دیوبندی اور مودودی ان کے خلاف کیا فتویٰ صادر کرتے ہیں.لکھا ہے: چکڑالویت حضور سرور کائنات علیہ التسلیمات کے منصب و مقام اور آپ کی تشریعی حیثیت کی منکر اور آپ کی احادیث مبارکہ کی جانی دشمن ہے.رسول کریم کے ان کھلے ہوئے باغیوں نے رسول کے خلاف ایک مضبوط محاذ قائم کر دیا ہے.جانتے ہو ! باغی کی سزا کیا ہے؟ صرف گولی.“ (ہفت روزہ رضوان لا ہور چکڑالویت نمبر ۲۱.۲۸ فروری ۱۹۵۳ء صفحه ۳) پھر ولی حسن صاحب ٹونکی پرویز یوں پر صادر ہونے والے شرعی احکامات ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں : غلام احمد پرویز شریعت محمدیہ کی رو سے کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج.نہ اس کے عقد نکاح میں کوئی مسلمان عورت رہ سکتی ہے اور نہ کسی مسلمان عورت کا نکاح اس سے ہوسکتا ہے.نہ اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی نہ مسلمانوں کے قبرستان میں اس کا دفن کرنا جائز ہوگا.اور یہ حکم صرف پرویز ہی کا نہیں بلکہ ہر کافر کا ہے.اور ہر وہ شخص جو اس کے متبعین میں ان عقائد کفریہ کے ہم نو اہواس کا بھی یہی حکم ہے اور جب یہ مرتد ٹھہرا تو پھر اس کے ساتھ کسی قسم کے بھی اسلامی تعلقات رکھنا شرعاً جائز نہیں ہیں.“ ولی حسن ٹونکی مفتی و مدرس و محمد یوسف بنوری شیخ الحدیث مدرسہ عربیہ اسلامی ٹاؤن کراچی ) ان کے متعلق مولوی امین احسن اصلاحی کا فتویٰ بھی سن لیجئے جو پہلے مودودی مسلک رکھتے تھے.لکھا ہے: اگر یہ مشورہ دینے والوں کا مطلب یہ ہے کہ شریعت صرف اتنی ہی ہے جتنی قرآن میں ہے، باقی اس کے علاوہ جو کچھ ہے وہ شریعت نہیں ہے تو یہ صریح کفر ہے اور بالکل اسی طرح کا کفر ہے جس طرح کا کفر قادیانیوں کا ہے
خطبات طاہر جلدم 366 66 بلکہ کچھ اس سے بھی سخت اور شدید ہے.“ خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء (روزنامه تسنیم لاہور ۱۵ اگست ۱۹۵۲ صفحه ۱۴) مگر جو سلوک ہے یہ وہ نہیں کر رہے یہ کچھ اور کرنا چاہتے ہیں.کیوں کرنا چاہتے ہیں اس کے کیا عقلی نتائج نکلنے چاہئیں اس بارہ میں میں انشاء اللہ ایک الگ خطبہ میں ذکر کروں گا.علاوہ ازیں ایک فتویٰ یہ بھی ہے کہ پر ویزیوں کے بچوں کا جنازہ بھی حرام ہے.(ماہنامہ تعلیم القرآن راولپنڈی ، اپریل ۱۹۶۷ء صفحه ۴۲ ۴۳) دیوبندیوں کے علاوہ اہل حدیث بھی ہیں یعنی ہیں تو بنیادی طور پر آپس میں ملتے جلتے لیکن مقلد اور غیر مقلد کا باریک فرق ہے اس لئے اہل حدیث کے بارہ میں الگ فتویٰ بھی شائع کیا گیا.لکھا ہے: ”وہابیہ وغیرہ مقلدین زمانه با تفاق علمائے حرمین شریفین کا فر و مرتد ہیں ایسے کہ جو ان کے اقوال ملعونہ پر اطلاع پا کر انہیں کا فرنہ جانے یا شک بھی کرے خود کافر ہے.ان کے پیچھے نماز ہوتی ہی نہیں ان کے ہاتھ کا ذبیحہ حرام ان کی بیویاں نکاح سے نکل گئیں ان کا نکاح کسی مسلمان کا فریا مرتد سے نہیں ہوسکتا.( یعنی اہلحدیث بیچاروں کا تو یہ حال ہے کہ کسی کا فر اور مرتد سے بھی وہ نکاح نہیں کر سکتے.ناقل ) ان کے ساتھ میل جول کھانا پینا.اٹھنا بیٹھنا.سلام کلام سب حرام ہے ان کے مفصل احکام کتاب مستطاب حسام الحرمین شریف میں موجود ہیں.“ (فتاویٰ ثنائیہ جلد ۲ صفحه ۲۰۹ مرتبہ الحاج محمد داؤ در از خطیب جامع اہلحدیث ) کئی اور بڑے دلچسپ فتوے ہیں لیکن وقت نہیں اس لئے چھوڑتا ہوں.کہتے ہیں ہم جو یہ فتوے دے رہے ہیں یہ صرف اس لئے نہیں کہ ان کا مسلمانوں سے نکاح نہیں ہوسکتا بلکہ کہتے ہیں کا فروں اور مشرکوں سے بھی نہیں ہو سکتا کسی انسان سے بھی نہیں ہوسکتا ہر صورت میں اولا د ولد الزنا کہلائے گی اور یہاں اس حد تک جا کر بھی ان کی پوری تسلی نہیں ہوئی کہتے ہیں اگر کسی جانور سے بھی شادی کرلیں اور اس سے اولاد ہو تو وہ بھی ولد الزنا اور محروم الارث
خطبات طاہر جلد۴ 367 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء ہوگی.(مفہوم فتوی از الملفو ظ حصہ دوم صفحه ۹۸،۹۷ مرتبه مفتی اعظم ہند ) یہ ایک ایسی غیظ و غضب کی آگ ہے جو ملاؤں کے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف بھڑک رہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ظلم و تعدی کی باتیں ان کے منہ سے نکل رہی ہیں ان کے قلموں سے جاری ہورہی ہیں اور لوگوں نے ان سب سے آنکھیں بند کر رکھی ہیں.نظر آتا ہے تو صرف جماعت احمدیہ کا وہ فتویٰ جس سے زیادہ شریفانہ، مہذبانہ اور معقول فتویٰ اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے......کہ اس کے لگ بھگ یا اس کے قریب پھٹکتا ہوا بھی کوئی فتویٰ نکال کر دکھا ئیں.رہی مودودی جماعت تو اس کے خلاف بھی فتویٰ سنئے.شاید کسی کو یہ خیال ہو کہ یہ باقیوں کے نزدیک دائرہ اسلام کے اندر ہیں اور اس لئے ان کے ساتھ مختلف سلوک ہونا چاہئے.نہیں ! ایسا ہر گز نہیں.چنانچہ محمد صادق صاحب مہتم مدرسہ مظہر العلوم محلہ کھڈہ کراچی لکھتے ہیں: حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اصلی دجال سے پہلے تھیں دجال اور پیدا ہوں گے جو اس دجال اصلی کا راستہ صاف کریں گے.میری سمجھ میں ان تیں دجالوں میں ایک مودودی ہیں.“ ( مولانا احمد علی کی مرتبہ حق پرست علماء کی مودودیت سے ناراضگی کے اسباب صفحہ ۹۷) آپ کہیں گے فتویٰ دینے والا پتہ نہیں کون مولوی ہے.مولوی مفتی محمود صاحب تو جانی پہچانی اور معروف شخصیت ہیں وہ فرماتے ہیں: میں آج یہاں پریس کلب حیدر آباد میں یہ فتویٰ دیتا ہوں کہ مودودی گمراہ ، کافر اور خارج از اسلام ہے اس سے اور اس کی جماعت سے تعلق رکھنے والے کسی مولوی کے پیچھے نماز پڑھنا نا جائز اور حرام ہے.اس کی جماعت سے تعلق رکھنا صریح کفر اور ضلالت ہے.وہ امریکہ اور سرمایہ داروں کا ایجنٹ ہے.اب وہ موت کے آخری کنارے تک پہنچ چکا ہے اب اسے کوئی طاقت نہیں بچا سکتی.ہفت روزہ زندگی ۱۰.نومبر ۱۹۶۹ صفحه ۳۰) اب یہ وہ دو طاقتیں ہیں جن پر موجودہ حکومت کی بناء ہے ایک دیو بندی جن کے نمائندہ یہ مفتی محمود صاحب اور ان کے ہم خیال ہیں اور دوسری جماعت اسلامی جن کے امیر مولوی مودودی
خطبات طاہر جلدم 368 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء صاحب تھے اور جن کے خلاف مفتی محمود صاحب کا یہ فتویٰ ہے.سوچیں تو سہی نقشہ کیا بن رہا ہے.ہر طرف فساد اور ہر طرف ضلالت اور تضادات کا دور دورہ ہے.زبان سے کچھ کہ رہے ہیں اور عمل سے کچھ کر رہے ہیں اور ہم سے شکوے ہیں اور ان شکوؤں میں سے ایک بڑا شکوہ یہ ہے کہ ظفر اللہ خان نے قائد اعظم کی نماز جنازہ نہیں پڑھی اور نہیں دیکھتے کہ تم تو ایک دوسرے کے خلاف یہ فتوے دے رہے ہو کہ جو جنازہ پڑھے گا وہ بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو جائے گا اس کی بیوی اس پر حرام ہو جائے گی....وہ قائد اعظم جس کو تم کا فراعظم کہتے تھے اور یہی صرف یہی نہیں بلکہ یہ بھی کہتے تھے کہ ایک فاحشہ کی خاطر اس نے اسلام کو چھوڑ دیا.یہ سب کچھ کہنے کے نتیجہ میں تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتے اور پھر تمہارے فتویٰ کے مطابق کہ اس شخص کی نماز جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے جو شیعہ ہے اور جو پڑھے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے.پس کوئی تک نہیں کوئی دلیل نہیں کسی پہلو میں بھی کوئی یکسانیت نہیں ہر طرف تضاد اور بیہودہ سرائی ہے اس کے سوا ان کی مخالفت میں کوئی بھی حقیقت نہیں.اب ایک مودودی صاحب رہ جاتے ہیں.وہ بڑے معقول سمجھے جاتے ہیں اور ان باتوں میں بڑے متوازی اور تعلیم یافتہ مسلمان ہیں اور عمومی تاثر یہی ہے کہ انہوں نے مسلمانوں میں بڑا نفوذ کیا ہے اور باقی سارے علماء کی نسبت زیادہ روشن خیال اور جدید تعلیمات کا علم رکھنے والے ہیں.اگر پوری طرح روشن خیال نہیں تو کچھ نہ کچھ اثر قبول کئے ہوئے ہیں ان کا دوسروں کے ساتھ تعلقات رکھنے سے متعلق کیا فتویٰ ہے.اس سلسلہ میں کچھ تو میں پہلے حوالہ جات پڑھ چکا ہوں.مسلمانوں کے بارہ میں ان کا عمومی خیال کیا تھا وہ خود لکھتے ہیں : قرآن میں جن کو اہل کتاب کہا گیا ہے وہ آخر نسلی مسلمان ہی تو تھے خدا اور ملائکہ اور نبی اور کتاب اور آخرت سب کچھ مانتے تھے اور عبادات اور احکام کی رسمی پیروی بھی کرتے تھے البتہ اسلام کی اصلی روح یعنی بندگی اور اطاعت کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر دینا اور دین میں شرک نہ کرنا یہ چیزان میں سے نکل گئی تھی.( مسلمانوں کی سیاسی کشمکش حصہ سوم بارششم صفحه ۱۲۲) باقی مسلمان فرقوں کے مقابل پر جماعت اسلامی کی جو حیثیت ہے اس کے متعلق مندرجہ
خطبات طاہر جلدم 369 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء بالا حوالہ سے بات کھل گئی ہے کہ اہل کتاب کو جو مسلمانوں سے نسبت ہے مولوی مودودی کے نزدیک بعینہ وہی نسبت باقی تمام مسلمانوں کو نام نہاد جماعت اسلامی سے ہے.اور اب جو میں حوالہ پیش کر رہا ہوں یہ بھی سیاسی کشمکش حصہ سوم کا ہے.پس در حقیقت میں ایک نومسلم ہوں.خوب جانچ کر اور پر کھ کر اس مسلک پر ایمان لایا ہوں جس کے متعلق میرے دل و دماغ نے گواہی دی کہ انسان کے لئے فلاح واصلاح کا کوئی راستہ اس کے سوا نہیں ہے.پھر میں غیر مسلموں کو ہی نہیں خود مسلمانوں کو بھی اسلام کی طرف دعوت دیتا ہوں.“ گویا مودودیت کے سوا تمام کے تمام مسلمان غیر مسلم ہیں.صرف کا فر ہی نہیں ان کے حق میں غیر مسلم کا فتویٰ بھی صادر کر رہے ہیں.چنانچہ مفتی محمود صاحب نے جو فتویٰ دیا تھا اس کا جواب یہاں دیا جارہا ہے کہ تم بھی غیر مسلم ہو تم بھی دائرہ اسلام سے خارج ہو بھی تو وہ یہ کہتے ہیں کہ میں ان کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں میری طرف آجائیں وہ بھی نومسلم بن جائیں اور اسلام قبول کریں پھر فرماتے ہیں: ایک قوم کے تمام افراد کو محض اس وجہ سے کہ وہ نسلاً مسلمان ہیں حقیقی معنوں میں مسلمان فرض کر لیتا اور یہ امید رکھنا کہ ان کے اجتماع سے جو 66 بھی کام ہوگا اسلامی اصول پر ہی ہوگا پہلی اور بنیادی غلطی ہے.“ ( مسلمانوں کی سیاسی کشمکش حصہ سوم با رششم صفحه ۱۰۵ صفحه ۱۰۶) پھر بیاہ شادی کے مسئلہ کے متعلق فتویٰ سنئے.یہ مودودی صاحب ہی ہیں جنہوں نے اس بارہ میں سب سے زیادہ شور ڈالا تھا کہ جماعت احمدیہ نے چونکہ اپنی بیٹیوں کو غیر احمدیوں سے بیاہنے کے خلاف فتویٰ صادر کر دیا ہے کہ غیر احمدیوں سے نہ بیا ہی جائیں اس لئے ثابت ہو گیا کہ یہ خود امت مسلمہ سے نکل گئے ہیں جبکہ اپنا فتویٰ یہ ہے کہ تمام امت مسلمہ سوائے مودودی کے دائرہ اسلام سے خارج اور پکے غیر مسلم ہیں.سارے مسلمان کہلانے والوں کو بھی اسلام کی دعوت دے رہے ہیں اور اس کا طبعی نتیجہ کیا نکلتا ہے وہی کہ ان سے بیاہ شادی حرام ہے.چنانچہ فرماتے ہیں: یہ تو حقیقی دینی شعور پیدا ہو جانے کا لازمہ اور اس کا فطری نتیجہ
خطبات طاہر جلدم 370 خطبه جمعه ۱۹ / اپریل ۱۹۸۵ء ہے جس آدمی میں بھی یہ شعور پیدا ہو جائے گا وہ لازماً دین سے پھرے ہوئے اور اخلاقی طور پر گرے ہوئے لوگوں کو شادی بیاہ کے تعلق کے لئے تو درکنارہ دوستی و ہم نشینی کے لئے بھی پسند نہیں کرے گا.“ روئیداد جماعت اسلامی حصہ سوم صفحه ۱۰۳) جماعت اسلامی کی مجلس شوری میں مسئلہ پیش تھا کہ وہ لوگ جو مودودی نہیں ان کے ساتھ شادی جائز ہے یا نہیں اس پر مودودی صاحب نے یہ فیصلہ دیا ہے.سیدھی سادھی بات ہے تم لوگوں کی عقل میں نہیں آئی.حیرت ہے تم نے یہ مسئلہ پیش کیوں کیا.یہ ایک ادنی فہم کی بات ہے کہ بیاه شادی تو در کنار ان کے ساتھ تعلقات بھی نہیں رکھنے.پس یہ ہے صورت حال کا خلاصہ جس کی رو سے جماعت احمد یہ پر جو الزامات لگائے جارہے ہیں وہ سارے جھوٹے اور حد سے زیادہ مبالغہ آمیز اور صورت حال کو بگاڑنے والے ہیں.اگر وہ سارے الزامات سو فی صد درست ثابت ہوں اور ہمارا وہی عقیدہ ہو جو ہماری طرف منسوب کر رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں انہوں نے جو اقدام کیا ہے وہ درست ثابت ہو تو پھر سارے پاکستان میں تو کجا تمام دنیا میں ایک بھی مسلمان نہیں ملے گا کیونکہ اس چھری سے پھر سب کی گردنیں کاٹی جائیں گی.مولوی نے ایک دوسرے کے خلاف تکفیر کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی زد سے کوئی سلامت نہیں رہے گا.ہر ایک کو اس تلوار سے قتل کیا جائے گا اور نیست و نابود کیا جائے گا اسلام اور اسلام کے ہر فرقے پرز د پڑے گی کیونکہ ایسا ایک بھی فرقہ نہیں ہے جس کے خلاف جماعت احمدیہ کے مقابلہ میں زیادہ سنگین فتوے خود ان کے لگائے ہوئے موجود نہ ہوں.پس دو ہی صورتیں ہیں یا تو یہ کہیں کہ وہ فتوے درست ہیں اور اس کے نتیجہ میں تعلقات کے یہ سارے رابطے کٹ جاتے ہیں اور اس وقت سارے عالم اسلام کا جو حال ہے اس کا آپ اندازہ کر سکتے ہیں یا یہ کہیں کہ وہ فتوے جھوٹے ہیں تیسری تو کوئی صورت نہیں.جس طرح ہمیں کہہ رہے ہیں کہ تمہارا فتویٰ جھوٹا ہے تو پھر جھوٹا فتوی دینے والوں پر بھی تو یہی فتویٰ لگتا ہے اس لئے کسی ایک فرقے کو بچا کر دکھا ئیں.پس مخالفین احمدیت کے پاس
خطبات طاہر جلدم 371 خطبه جمعه ۱۹ ر اپریل ۱۹۸۵ء اب تو کوئی چارہ نہیں ہے اب تو ایمان بھی ان کو ثریا سے لا نا پڑے گا اور مسلمان بھی ثریا سے ہی لانے پڑیں گے.
خطبات طاہر جلدم 373 خطبه جمعه ۲۶ اپریل ۱۹۸۵ء اسلام کی عالمگیر روحانی ترقی کا عظیم الشان منصوبہ ، اسے سازش کا نام دینا اسلام دشمنی کے مترادف ہے ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ را پریل ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں: وَضَرَبَ اللهُ مَثَلًا لِلَّذِينَ آمَنُوا امْرَاتَ فِرْعَوْنَ إِذْ قَالَتْ رَبِّ ابْنِ لِي عِنْدَكَ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ وَنَجِّنِي مِنْ فِرْعَوْنَ وَعَمَلِهِ وَنَحْنِى مِنَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَمَرْيَمَ ابْنَتَ عِمْرَنَ الَّتِى اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِيْهِ مِنْ رُّوحِنَا وَصَدَّقَتْ بِكَلِمَتِ رَبِّهَا وَكُتُبِهِ وَكَانَتْ مِنَ الْقَنِتِينَ (التحریم: ۱۲ ۱۳) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی مومنوں کی حالت یا مومنوں کی مثال فرعون کی بیوی کی مانند بیان کرتا ہے جبکہ اس نے اپنے رب سے کہا کہ اے خدا! تو جنت میں اپنے پاس ایک گھر میرے لئے بھی بنادے اور مجھے فرعون اور اس کی بداعمالیوں سے نجات عطا فرما اور اسی طرح اس کی ظالم قوم سے بھی نجات بخش.پھر اللہ تعالیٰ مومنوں کی مثال مریم کی سی بیان فرماتا ہے جو عمران کی بیٹی تھی جس نے اپنے ناموس کی حفاظت کی اور
خطبات طاہر جلدم 374 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور اس نے اس کلام کی جو اس کے رب نے اس پر نازل کیا تھا تصدیق کی اور وہ اس کی کتابوں پر بھی ایمان لائی اور اس نے فرمانبرداروں کا مقام حاصل کر لیا.یہ وہ آیت کریمہ ہے جسے پاکستان کے مزعومہ قرطاس ابیض کے مصنف یا مصنفین نے نظر انداز کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک عجیب اعتراض اٹھایا ہے.ویسے تو جتنے بھی اعتراضات ہیں وہ تمام تر قرآن کریم کی کسی نہ کسی آیت کریمہ یا تعلیم کو نظر انداز کر کے اٹھائے گئے ہیں لیکن یہ آیت کریمہ بطور خاص کھلے لفظوں میں وہ بات بیان کر رہی تھی جس سے لاعلمی کے نتیجہ میں یا عمداً آنکھیں بند کر کے اس اعتراض کو اٹھا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر تم ا پر تمسخر کیا گیا.چنانچہ ایک اعتراض یہ کیا گیا جس کا عنوان ہے " بعض دلچسپ اور عجیب و غریب تاویلات اس عنوان کے تحت اس رسالہ میں لکھا کہ : وو مرزا صاحب اپنے مسیح ابن مریم ہونے کی عجیب وغریب تاویل کرتے ہیں جس میں پہلے وہ اپنے آپ کو مریم تصور کرتے اور پھر حضرت عیسیٰ کی روح اپنے اندر پھونکے جانے کا ماجرا بیان کرتے ہیں.“ ( قادیانیت اسلام کے لئے سنگین خطرہ اسلام آباد.مطبوعات پاکستان ۱۹۸۴ صفحه ۲۴) یہ جو تمسخر کا رنگ اختیار کیا گیا ہے یہ اسی قسم کا ہے جو ہمیشہ سے تمام انبیاء کے خلاف اختیار کیا جاتا رہا ہے.پھر اسی پر بس نہیں.ان کے بعض علماء اس میں اور بھی رنگ بھرتے ہیں اور چسکے لے کر اس بات کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ گویا (نعوذ بالله من ذالک ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عملاً اور فعلاً اس بات کے قائل تھے کہ آپ کو حمل ٹھہرا ، آپ کے پیٹ میں ایک بچہ بنا اور گویا کہ وہی بچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود ہیں.تو اس رنگ میں تکذیب و تمسخر کے طور پر یہ اعتراض کیا جاتارہا ہے اور اب بھی کیا جاتا ہے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ عبارت رکھی گئی ہے اور پاکستان اور باہر کی دنیا جو ان باتوں سے بے خبر ہے ان پر یہ تاثر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعوذ باللہ من ذالک ایک مخبوط الحواس انسان تھا ایک ایسا شخص جس کی دماغی حالت کا نمونہ یہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو مرد ہونے کے باوجود عورت بتاتا ہے اور وہ بھی مریم اور پھر حمل ٹھہراتا ہے اور کہتا ہے کہ بچہ پیدا ہو گیا.جس طرح دیوانے اور مخبوط الحواس لوگ اس قسم کی باتیں سوچا کرتے ہیں اسی قسم
خطبات طاہر جلدم کا ایک انسان ہے.375 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء اس اعتراض میں پہلی بات تو قابل غور یہ ہے کہ اگر اسی قسم کا انسان ہے تو پھر اس اسلام یا پاکستان کو کیسے خطرہ لاحق ہو گیا.ایسے ہزاروں لاکھوں دیوانے دنیا میں پھرتے ہیں اور کبھی کسی معقول انسان نے یا کسی قوم نے ان کو اپنے لئے خطرہ تصور نہیں کیا پس تمہارا جھوٹ تو اس سے ثابت ہو جاتا ہے کہ ایک طرف تو ایک دیوانے ، ایک مرگی کے مریض اور ایک مخبوط الحواس کے طور پر اس شخص کو پیش کر رہے ہو اور دوسری طرف سرکاری رسالہ میں اس شخص پر عنوان یہ لگا ر ہے ہو کہ وہ تمام عالم اسلام کے لئے ایک انتہائی سنگین خطرہ ہے.یہ بعینہ اسی قسم کی بات ہے جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو ایک طرف ظالم لوگ مجنون کہتے تھے اور ساحر کہتے تھے اور دوسری طرف تمام دنیا کے لئے خطرہ سمجھ رہے تھے اور صرف ایک سو سال نہیں سینکڑوں سال تک آپ کو ایک خطرہ کے طور پر سمجھا گیا اور پھر اسی فرضی خطرہ کے مقابل پر اس قسم کے جھوٹے فساد کھڑے کر کے اسلام کو دبانے کی کوشش کی گئی.تمام عیسائی لٹریچر اس فرضی اور گندے مقابلے سے بھرا پڑا ہے.فرضی خطرہ ان معنوں میں کہ انسانیت کے لئے آپ کوئی خطرہ نہیں تھے.فرضی خطرہ ان معنوں میں کہ کسی خوبی کے لئے آپ کوئی خطرہ نہیں تھے اگر خطرہ تھے تو درحقیقت ہر فساد، ہر گندگی ، ہر جھوٹ اور باطل کے لئے تھے.پس ان معنوں میں یہ بات درست ہے کہ اس سے جھوٹ ،فساد اور باطل کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا لیکن اس رسالہ میں یہ نہیں لکھا گیا.لکھا تو یہ گیا ہے کہ گویا ہر خوبی اسلام کے لئے خطرہ ہے اور یہ بھی بالکل جھوٹ اور بے معنی بات ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ اعتراض خود اپنے ہی وجود کو کھا رہا ہے کیونکہ ایک مجذوب انسان، ایک پاگل انسان تو سوائے اپنی ذات کے اور کسی کے لئے بھی کوئی خطرہ نہیں ہوا کرتا.بہر حال جس آیت کو نظر انداز کیا گیا ہے اس کی رو سے تو اب انہیں دوصورتوں میں سے ایک صورت ضرور اپنے لئے اختیار کرنی پڑے گی ورنہ جن کو دائرہ اسلام اور دائرہ ایمان سے نکالتے ہیں ان کی بجائے اب خود انہیں ایمان اور دائرہ اسلام سے نکلنا پڑے گا اور انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر ایک ایسے موقع پر آکر حملہ کیا ہے کہ اب قرآن کی تلوار ان کو جواب دے گی اور قرآن کی تلوار ان کو کاٹے گی جو اتنی قوی ہے کہ اسے فرقان کہا جاتا ہے اور پھر اس کی زد سے کوئی
خطبات طاہر جلد۴ نہیں بچ سکتا.376 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۸۵ء چنانچہ جس آیت کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں مومنوں کی دو ہی حالتیں بیان فرمائی گئی ہیں تیسری کوئی شکل بیان نہیں.یعنی اس آیت میں یہ فرمایا گیا ہے کہ یا تو مومن فرعون کی بیوی کے طور پر ہے اور اس پر وہی مثال صادق آتی ہے جو آسیہ کی تھی یا پھر مومن پر مریم کی مثال صادق آئے گئی.یعنی اس مریم کی مثال جس میں ہم نے روح پھونکی اور پھر اس سے مسیح ابن مریم پیدا ہوا.محض مریم کی مثال نہیں بلکہ ایسی مریم کی مثال جس میں روح پھونکی گئی اور وہ حاملہ ہوئی اور اس کے نتیجہ میں ایک بچہ پیدا ہوا.پس قرآن کریم تو مومنوں کی دوہی مثالیں بیان کرتا ہے تیسری کسی قسم کا ذکر نہیں کیا گیا.اگر آپ کو مریمی حالت پسند نہیں تو پھر فرعون کی بیوی بن کر دکھائیے کیسے بنیں گے آپ ؟ اور اگر آپ نہ فرعون کی بیوی بن سکتے ہیں اور نہ مریم تو پھر آپ دائرہ ایمان سے باہر نکلتے ہیں کیونکہ یہی آیت مومنوں کو ان دو قسموں میں سے کسی ایک میں ضرور داخل کرتی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ان مخالفین کی نہ قرآن پر نظر ، نہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی تعلیمات اور سنت کا فہم ، نہ اپنے گزشتہ بزرگوں اور علماء کی تعلیمات اور ان کی تفاسیر قرآن پر نظر کیونکہ اگر ان کی ان تمام امور پر نظر ہوتی تو وہ اس قسم کا حملہ کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.اس آیت کریمہ کو ایک دفعہ میں نے ایک مخالف مولوی کے سامنے اس طرح رکھا تھا کہ دیکھیں آپ نے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تمسخر اڑایا ہے اور مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ بتاؤ حاملہ کیسے ہوئے کس طرح بچہ بنا، کتنے مہینے بعد وہ بچہ پیدا ہوا اور کس قسم کی تکالیف اٹھا ئیں.میں نے ان سے کہا چونکہ آپ کو مریم بننا پسند نہیں ہے اور ساتھ ہی آپ مومن ہونے کا دعوی کرتے ہیں.اس لئے پھر لا ز ما فرعون کی بیوی ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا اور چونکہ قرآن کریم نے فرعون کی بیوی کی مثال پہلے دی ہے اور بعد میں مریم کی اس لئے پہلے آپ مجھے وہ قصہ سناد یجئے کہ فرعون کی بیوی کیسے بنے پھر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مریمی حالت کا قصہ سنا دوں گا جس نہج پر آپ بات شروع کریں گے میں اسی کو آگے چلا کر آپ کو بتاؤں گا کہ مریمی حالت کسے کہتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ لوگ عرفان سے عاری ہیں جنہیں قرآن کریم کا کوئی فہم ہی نہیں ورنہ
خطبات طاہر جلد۴ 377 خطبه جمعه ۲۶ راپریل ۱۹۸۵ء ایسے حملے نہ کرتے جن کے نتیجہ میں پھر قرآن کریم ان پر جوابی حملے کرتا اور یہی اصل بات ہے اور میں نے انہیں بھی سمجھایا کہ اس میں تمسخر کی کوئی بات نہیں ہے.میں آپ کو سمجھا تا ہوں کہ قرآن کریم کیا کہنا چاہتا ہے.وہ یہ بتانا چاہتا ہے کہ مومن ادنیٰ حالت کے بھی ہوتے ہیں اور اعلی حالت کے بھی ،سب سے ادنی ، حالت کا مومن جسے قرآن کریم قبول کرتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس سے نیچے اس کی حالت متصور نہیں ہو سکتی وہ فرعون کی بیوی جیسا مومن ہے، ایک بہت بڑا جابر بادشاہ اس کا خاوند تھا ، ایک عظیم سلطنت کا سر براہ اور اتنا مغرور اور اتنا متکبر جو آسمان کے خدا کو بھی چیلنج کیا کرتا تھا وہ ہا مان سے کہا کرتا تھا کہ میرے لئے ایک عمارت تعمیر کروتا کہ میں بلندیوں پر چڑھ کر دیکھوں تو سہی کہ وہ خدا کون ہے جس سے موسیٰ باتیں کرتا ہے.ایسے متکبر اور جابر اور ظالم بادشاہ کے تحت ایک کمز ور عورت بطور بیوی کے تھی جس کا کوئی بھی بس اور اختیار نہیں تھا تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس نے پھر بھی اپنے ایمان کی حفاظت کی اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتی رہی اور دعائیں کرتی رہی اور دعاؤں سے ہی طاقت حاصل کرتی رہی کہ اے اللہ تو ہی میرے ایمان کی حفاظت فرما اور اس ظالم اور جابر بادشاہ کو میرے ایمان پر فتح نہ نصیب ہونے دے.کتنی عظیم الشان مثال ہے لیکن عرفان سے عاری قرآن سے نابلد لوگوں کے لئے محض تمسخر کی حیثیت رکھتی ہے، بہت ہی عظیم الشان مثال ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ عظیم الشان مثال میرے محمد کے غلاموں میں سے ادنی غلاموں پر صادق آتی ہے ان کے اعلیٰ پر صادق نہیں آتی کیونکہ امت محمدیہ میں جو سب سے کم مقام رکھتے ہیں، جو سب سے کم درجہ رکھتے ہیں وہ اس شان کے لوگ ہیں جو ظالم سے ظالم اور جابر سے جابر بادشاہ کے مقابل پر اپنے ایمان کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور ان میں سے جو اعلیٰ درجہ کے لوگ ہیں ، صاحب عرفان ہیں اور اولیاء اللہ میں شمار ہوتے ہیں ان کی مثال بیان فرماتا ہے کہ ان کی حالت تو مریم کی سی ہوتی ہے.مریم وہ عورت تھی جس کے نزدیک کسی قسم کے شہوانی خیالات کبھی نہیں پھنکے، وہ ہر قسم کے شیطانی مس سے کلیۂ پاک تھی اور اگر چہ بیاہ اور شادی کے بعد یہ تعلقات قدرتی اور طبعی ہوتے ہیں اور انہیں شیطانی نہیں کہا جاتا.یعنی پاکباز لوگوں کے تعلقات کو شیطانی نہیں کہا جا تا لیکن مریم کی حالت تو ایسی تھی کہ وہ اس جذباتی انکیٹ سے ہی نا آشنا تھی اور اپنے نفس کی کوئی ملونی بھی اس کے اندر
خطبات طاہر جلدم 378 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۸۵ء نہیں تھی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے محض اپنی قدرت سے اسے ایک روحانی اور جسمانی فرزند عطا فرمایا.پس خدا تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ میرے مومن بندے جب نئے مراتب حاصل کرتے ہیں اور نئے نئے مقامات تک پہنچتے ہیں تو اس میں ان کے نفس کی ملونی کا ادنی سا بھی دخل نہیں ہوتا.کسی شیطان نے ان کے کان میں نہیں پھونکا ہوتا کہ اٹھو اور اپنے بلند مقامات کا دعوی کر وکسی نفسانی خواہش اور انانیت نے ان کو اس بات پر نہیں اکسایا ہوتا کہ تم بلند مقامات کی خواہش کرو.وہ تو زمین پر بچھے ہوئے عاجز لوگ ہوتے ہیں ، خدا کے ایک ایسے عاجز بندے جنہیں مراتب اور مقام عطا بھی فرمائے جائیں تو پھر بھی وہ کہتے ہیں.کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ہوں بشر کی جائے نفرت اور انسانوں کی عار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه : ۱۲۷)) ایسے لوگ جب دعاوی کرتے ہیں تو ہر گز اپنے نفس سے نہیں کرتے ایسے لوگ اس وقت دعویٰ کرتے ہیں جب آسمان سے ان میں روح پھونکی جاتی ہے اور وہ مجبور کر دیئے جاتے ہیں اور خدا کا حکم ان پر نازل ہوتا ہے کہ اٹھو اور اپنی نئی پیدائش کا اعلان کرو.تو ان میں سے پھر عیسی پیدا ہوتے ہیں جو آپ بھی زندہ ہوتے ہیں اور لوگوں کو بھی زندگی عطا کیا کرتے ہیں، جو مری ہوئی قوموں کو سنبھال لیا کرتے ہیں کتنی عظیم الشان مثال ہے جسے ظالم قوم نے تمسخر کا نشانہ بنالیا ہے.پس ان مخالفین کو تو دو صورتوں میں سے ایک تو بہر حال قبول کرنی ہوگی.اگر مریم کے مقام تک پہنچنے کی توفیق نہیں تو فرعون کی بیوی کا ہی مقام حاصل کر کے دکھائیں مگر افسوس ان میں سے اکثر ایسے ہیں جن کو یہ بھی توفیق حاصل نہیں.جبر سے کسی کا دین بدلوانے کو کوشش تو ضرور کرتے ہیں مگر جبر کے مقابل پر اپنے دین کی حفاظت کی کوئی توفیق اور ہمت ان میں باقی نہیں بلکہ وہ ایک جابر کی پرستش شروع کر دیتے ہیں ایک آمر کو پوری قوم قبول کر لیتی ہے.یہ ٹھیک ہے کہ ان میں مظلوم بھی ہیں، کمزور بھی ہیں، بے اختیار بھی ہیں اور یہ بھی میں جانتا ہوں کہ ان میں صاحب ہمت بھی ہوں گے لیکن نسبتاً کم اور بد قسمتی سے قوم کی اکثریت ایسی ہو چکی ہے یا جبر کے ساتھ ایسی بنادی گئی ہے کہ اب ان میں کلمہ حق کہنے کی طاقت باقی نہیں رہی.
خطبات طاہر جلدم 379 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۸۵ء جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے.ہم تو اپنے اوپر ان دونوں حالتوں کو اس طرح طاری کر چکے ہیں کہ ہم میں سے ہرا دنی احمدی یعنی جو کم سے کم مقام پر بھی فائز ہے وہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہے اور ہر قربانی پیش کرتا چلا جارہا ہے اور یہ تمہاری آنکھوں کے سامنے ہے کتنوں کے دین تم بدلوا چکے ہو؟ کتنوں کے کلے تم نے ان کے سینوں سے نوچے ہیں، کتنوں کو قید کی مصیبت میں مبتلا کیا، کتنوں کے خون بہائے لیکن دیکھو ! خدا کے یہ عاجز بندے کس شان کے ساتھ قرآن کریم کے بیان کردہ اس مقام سے چھٹے ہوئے ہیں اور ایک ظالم اور جابر بادشاہ کی تلوار کے نیچے بھی لا اله الا اللہ کے اظہار سے باز نہیں آرہے اور نہ کبھی آئیں گے.پس یہ تو ایک ادنی کی حالت ہے پھر انہی میں سے وہ اعلیٰ بھی پیدا ہوتے ہیں اور ہوتے رہیں گے جنہیں خدامریکی حالتیں بھی عطا فرمائے گا اور پھر ان کے وجودوں سے نئے وجود بھی پیدا ہوتے رہیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علاوہ بھی صاحب کشف والہام بزرگ ایسے تھے جنہوں نے اس عارفانہ نکتہ کو پایا.وہی حقیقت میں تعلق باللہ رکھنے والے لوگ تھے ان میں سے ایک حضرت سید عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ہیں وہ اپنے مقالات میں سے چھبیسویں مقالہ میں لکھتے ہیں: لا تكشف البرقع والقناع عن وجهک کہ تو اپنے چہرہ پر برقع اور قناع نہ اتار.اب یہ دونوں چیزیں عورت کا لباس ہیں پھر یہ کیا قصہ کیا ہے کہ حضرت سید عبد القادر جیلانی یہ فرما رہے ہیں کہ اے مخاطب ! تو اپنے چہرہ سے برقع اور قناع نہ اتار.اس کی تشریح میں شیخ عبدالحق صاحب محدث دہلوی فرماتے ہیں کہ : برقع اور قناع کی تعبیر یہ ہے کہ یہ عورت کا لباس ہے اور اس میں اشارہ ہے کہ ظہور کمال تک مرد بھی بمنزلہ عورت کے ہوتا ہے اور اس کا دعویٰ 66 مردانگی درست نہیں.“ (فتوح الغیب از سید عبد القادر جیلانی مع فارسی ترجمه از عبدالحق دہلوی مقالہ نمبر ۲۶ صفحه ۱۱۹) پس پہلی حالت جس میں ایک پاگیزگی تو موجود ہے لیکن اس پاکیزگی نے ایک نئے وجود کو
خطبات طاہر جلدم 380 خطبه جمعه ۲۶ اپریل ۱۹۸۵ء ابھی جنم نہیں دیا اسے مریمی حالت کہا جاتا ہے اور گزشتہ بزرگان امت بھی اسے اسی طرح قرار دیتے رہے.پھر مولانا روم جو مشہور و معروف صوفی بزرگ اور شاعر گزرے ہیں وہ اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں: ہم چو مریم جاں زآسیب حبیب حامله شد از مسیح دلفریب (مثنوی مولوی معنوی دفتر دوم صفحه ۳۰) کہ مریم کی طرح جان حبیب کے سائے سے حاملہ ہوئی اور اس نے دلفریب مسیح کوحمل میں لیا.اب دیکھئے ! صاحب علم و عرفان لوگوں پر خدا تعالیٰ پہلے بھی اس آیت کی تفسیر ظاہر فرما تارہا ہے اور وہ یہی دعویٰ اور یہی مثنوی پڑھتے رہے.کس کس سے تم تمسخر کرو گے، کس کس کو اپنے ظالمانہ مذاق کا نشانہ بناؤ گے؟ ایک اور اعتراض جماعت احمدیہ پر یہ کیا گیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی سب سے گھناؤنی سازش یہ تھی (اب یہ غور سے سن لیجئے کیونکہ باقی سب سازشیں اس سے ادنی درجہ کی ہیں اس کا حال جب آپ دیکھیں گے تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ باقی سب سازشوں کا کیا حال ہے ) چنانچہ لکھتے ہیں: قیام پاکستان کے بعد قادیانیوں کی سب سے گھناؤنی سازش یہ تھی کہ اس نئی اسلامی مملکت کو ایک قادیانی حکومت میں تبدیل کر دیا جائے جس کے کرتا دھرتا قادیانی ہوں مملکت پاکستان میں سے ایک حصہ کاٹ کر ایک قادیانی ریاست قائم کی جائے.قیام پاکستان کے ایک سال ہی کے اندر قادیانیوں کے سربراہ نے ۲۳ / جولائی ۱۹۴۸ کو کوئٹہ میں ایک تقریر کی جو ۱۳ را گست ۱۹۴۸ء کے الفضل میں شائع ہوئی.امیر جماعت احمدیہ نے اپنے پیرووں کو مندرجہ ذیل نصائح دیں: برطانوی بلوچستان جس کو اب پاک بلوچستان کا نام دیا گیا ہے اس
خطبات طاہر جلدم 381 خطبه جمعه ۲۶ راپریل ۱۹۸۵ء کی کل آبادی پانچ لاکھ ہے اگر چہ اس صوبے کی آبادی دوسرے صوبوں کی آبادی سے کم ہے لیکن ایک اکائی کے اعتبار سے بہت اہم ہے.ایک مملکت میں اس کی حیثیت ایسی ہے جیسے ایک معاشرے میں ایک فرد کی.اس کی مثال کے لئے آدمی امریکہ کے ایک دستور کا حوالہ دے سکتا ہے.امریکہ میں ہر ریاست کو سینٹ میں برابر نمائندگی ملتی ہے چاہے کسی ریاست کی آبادی دس ملین ہو یا ایک سولین مختصر یہ کہ اگر چہ پاک بلوچستان کی آبادی صرف پانچ لاکھ ہے یا ریاستوں کی آبادی ملا کر دس لاکھ سے زیادہ ہے.ایک یونٹ کے لحاظ سے اس کی اپنی اہمیت ہے.ایک بڑی آبادی کو احمدی بنا نا مشکل ہے لیکن ایک چھوٹی آبادی کو احمدی بنا نا آسان ہے اس لئے اگر قوم پوری طرح اس معاملے کی طرف توجہ دے تو اس صوبے کو تھوڑے ہی عرصہ میں احمدیت کی طرف لایا جا سکتا ہے.“ ( قادیانیت اسلام کے لئے سنگین خطرہ صفحہ ۳۵.۳۶) یہ ہے وہ نہایت ہی خوفناک اور گھناؤنی سازش جو سب سازشوں سے زیادہ خطرناک ہے.جس کے نتیجہ میں اسلام اور اسلامی ممالک کو شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے اور ظاہر یہ کیا جارہا ہے با قاعدہ حملہ کر کے یا وہاں بغاوت کروا کر پاکستان کے ایک صوبے کو پاکستان سے کاٹ کر الگ کر دیا جائے گا.لیکن اتنی بیوقوفی ہے کہ وہاں اشارہ بھی اس کا ذکر نہیں کہ صوبہ بلوچستان کو بزور شمشیر فتح کروا کرو اور پھر اسے کاٹ کر ملک سے الگ کر دو کم سے کم حوالہ تو پڑھ لیتے کہ وہ کیا پیش کر رہے ہیں.اس حوالہ میں تو یہ لکھا ہوا ہے کہ تبلیغ کر دو اور روحانی فتح حاصل کرو اور جب تم فتح حاصل کر لو تب بھی پاکستان سے علیحدہ نہیں ہونا بلکہ اس کی ایک اکائی کے طور پر ساتھ چھٹے رہو.اگر چہ تمہیں پاکستان میں اکثریت حاصل نہیں ہو گی لیکن ایک اکائی کے طور پر ایک معزز مقام تمہیں مل جائے گا اور تم اپنی بات صحیح طور پر پہنچا سکو گے.اس دعوی کو اس طرح تبدیل کر کے پیش کیا جارہا ہے اور وہ بھی آنکھوں کے سامنے یعنی حوالہ سامنے موجود ہے پھر بھی عقل قریب نہیں آئی کہ اس سے وہ نتیجہ نہیں نکل سکتا جو نکالا جارہا ہے کہ گویا بزور شمشیر ایک صوبہ کاٹ کر وطن سے الگ کر دینے کی سازش کی جارہی ہے لیکن میں ان کو یہ بات بھی بتادوں کہ اگر یہ سازش ہے تو اس سے بہت بڑی بڑی سازشیں جماعت
خطبات طاہر جلدم 382 خطبه جمعه ۲۶ ر اپریل ۱۹۸۵ء احمدیہ علی الا اعلان کر چکی ہے جس طرح یہ سازش با قاعدہ خطبہ میں بیان کی گئی اور پھر اسے الفضل میں بھی شائع کیا گیا.اس طرح جماعت احمدیہ کی جتنی بھی سازشیں ہیں وہ ساری ظاہر وباہر ہیں اور انہیں بعد میں اپنے لٹریچر میں شائع کر دیا گیا اور ان سب سازشوں کو (اگر وہ سازشیں تھیں ) کسی سے چھپایا نہیں گیا بلکہ ان عبارتوں کو کثرت سے شائع کر کے تمہیں لوگوں میں تقسیم کی جاتی ہیں اور پھر تم ہی ہو جو انہیں ضبط کر کے لوگوں سے چھپاتے پھرتے ہو ہم تو اپنی سازشوں کو کھول کھول کر پیش کرنا چاہتے ہیں اور تم خود ہی ان کو دبا رہے ہو اور ان کو دنیا کی نظر سے چھپارہے ہو.لیکن ان سب باتوں سے قطع نظر ایک خاص بات قابل توجہ یہ ہے کہ ایک ایسی حساس حکومت جس کا بلوچستان کے معاملہ میں یہ حال ہو کہ دور دراز پہاڑ پر بیٹھے ہوئے کسی بلوچی سردار کو چھینک بھی آجائے تو گولیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے.چنانچہ وہاں بارہا بمباریاں کی گئیں اور ان سے بڑے بڑے سخت خطرات در پیش ہوئے اور ان کوششوں کو جنھیں پاکستان دشمن کوششیں کہا گیا بزور شمشیر دبا دیا گیا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا قصہ تھا مگر بہر حال سوال یہ ہے کہ تمہاری آنکھوں کے سامنے اتنی بڑی سازش پنپتی رہی اور تم نے کچھ بھی نہیں کیا.جماعت احمدیہ کی وہ کون سی فوج تھی جس کے خلاف تم نے فوج کشی کی اور سب سازشوں سے زیادہ خطرناک سازش کو تم نے اس طرح تخفیف کی نظر سے دیکھا کہ ایک بھی آدمی اس سازش میں ملوث نہیں پکڑا جبکہ دوسری طرف یہ حال ہے کہ تم نے معمولی معمولی واقعات پر بغیر مقدموں کے لوگوں سے جیلیں بھر دیں اور ان کو سخت اذیت ناک سزائیں دیں اور پیشتر اس کے کہ ان کے خلاف جرم ثابت ہوتا انہیں محض اس شبہ میں دردناک عذاب میں مبتلا کیا کہ تمہاری حکومت کے خلاف سازش ہو رہی ہے اور اتنی بھیانک سازش جس کے بارے میں تم کہتے ہو کہ وہ سب سازشوں سے زیادہ خوفناک تھی اس کے باوجود تم نے ایک احمدی کو بھی اس سازش میں ملوث کر کے نہیں پکڑا اور یہ ثابت نہیں کیا کہ کہاں ان کی بندوقیں تھیں ، کہاں تلواریں تھیں، کہاں گولہ و بارود چھپے ہوئے تھے فوج کہاں تھی جو بلو چستان پر حملہ کی تیاریاں کر رہی تھیں.یہ تو محض فرضی قصے ہیں.تم خود بھی جانتے ہو کہ یہ بالکل جھوٹ ہے اور بے بنیاد باتیں ہیں مگر پھر بھی ساری دنیا کو پاگل بنانے کی کوششیں کر رہے ہو.میں نے پہلے بھی یہ ذکر کیا تھا کہ ان کی بہت ساری باتیں ایسی ہیں جن سے مجھے مشہور
خطبات طاہر جلدم 383 خطبه جمعه ۲۶ راپریل ۱۹۸۵ء سپینش کریکٹر جو ہمارے ملک میں ڈان کیفائے نام سے مشہور ہے یاد آ گیا.ان کا بھی بالکل وہی حال ہے کہ ایک پن چکی دیکھی تو اسے دنیا کا ایک بہت خوفناک دیو سمجھ کر اس پر حملہ کر دیا، بیچاری معصوم بھیڑریں گھاس چر رہی تھیں تو ان کو دشمن کی ایک بہت خوفناک فوج سمجھا اور نیزہ تان کر ، گھوڑا سرپٹ دوڑا کر ان پر حملہ کیا اور ان میں سے بہت سی بھیڑریں مار ڈالیں.پس تمہارے بھی اسی قسم کے فرضی خطرات ہیں.اسی قسم کے تمہارے حملہ آور ہیں اور پھر تمہارا سلوک بھی ان بیچاروں سے ویسا ہی ظالمانہ ہے.چنانچہ اس سازش کے نتیجہ میں جور د عمل ہوا وہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ دشمن کون سا تھا اور کیسے پکڑا گیا.بلوچستان پر قبضہ کرنے کی جو خوفناک سازش ( بقول ان کے ) جماعت احمدیہ کی طرف سے کی گئی اس کو انہوں نے اس طرح کچلا کہ وہاں میجر محمود احمد صاحب پاکستان آرمی میں ڈاکٹر ہوا کرتے تھے ، وہ نہایت بے ضرر اور لوگوں کی جان بچانے والے تھے، وہ بیچارے ایک جلسہ سن کر واپس آ رہے تھے ، وہ اس وقت بالکل نہتے تھے ان پر حملہ کیا گیا اور پتھراؤ کر کے بڑے ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا.گویا اس طرح انہوں نے اس سازش کو ہمیشہ کے لئے کچل دیا جو بلوچستان کے خلاف جماعت احمدیہ نے بنائی تھی اور اسی سرزمین پر قضیہ بھی طے ہو گیا.اس معصوم انسان ( میجر محمود احمد صاحب) سے تو کسی کو بھی کوئی خطرہ نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی سازش کا حصہ تھا.وہ تو وقف کی روح کے ساتھ بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والا نہایت ہی شریف النفس انسان تھا.اگر کوئی رات کو بھی بلاتا تو وہ بے دریغ جایا کرتا تھا، اس کا مقصد تو مریضوں کی جان بچانا تھا تم نے اس پر حملہ کر کے گویا بلوچستان کی جان احمدیت سے چھڑا دی.حقیقت تو یہ ہے کہ تم فرضی کہانیوں میں بسنے والے لوگ ہو.تمہارا حقائق سے کوئی بھی تعلق نہیں اور جو حقیقی خطرات ہیں ان سے تم کلیۂ بے پرواہ ہو چکے ہو تمہیں علم ہی نہیں کہ وہ خطرات کیا ہیں تم تو ان کی طرف سے آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہو.لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کی طرف سے خطرہ کا تعلق ہے میں آپ کو بتاتا ہوں کہ بلوچستان کو فتح کرنے کی سازش تو بہت چھوٹی سی بات ہے.اگر آپ ہمارے ہی لٹریچر کا مطالعہ کر لیتے اور مولویوں کی کتابوں سے اعتراض مستعار لے کر اپنے سیاہ نامے میں شامل نہ کرتے تو
خطبات طاہر جلدم 384 خطبه جمعه ۲۶ / اپریل ۱۹۸۵ء آپ کو بہت سے حوالے اور مل جاتے.کیونکہ یہ سازشیں سب تو چھپی ہوئی موجود ہیں.چنانچہ اب میں خود آپ کو سنا دیتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ جن کا یہ بلوچستان والا حوالہ دیا گیا ہے وہ تو اس سے بہت پہلے ۱۹۳۶ء میں یہ فرما چکے تھے کہ : ”ہم نے تو کبھی یہ باتیں نہیں چھپائیں کہ ہم دنیا میں اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں بلکہ ہم کھلے طور پر کہتے ہیں کہ ہم اسلامی حکومت دنیا پر قائم 66 کر کے رہیں گے.“ ( خطبه جمعه ۱۳ / مارچ ۱۹۳۶ ء بحواله الفضل ۱۸ / مارچ ۱۹۳۶ء صفیه ) پس ساری دنیا کو فتح کرنے کی باتیں ہو رہی ہیں ساری دنیا کو فتح کرنے کے پروگرام بن رہم ہیں اور چھپ رہے ہیں اور تمہیں سوائے بلوچستان کے اور کوئی سازش نظر ہی نہیں آئی.حضرت خلیفہ اسیح الثانی ۸ / جنوری ۱۹۳۷ء کے الفضل صفحہ ۵ میں مزید فرماتے ہیں: پس آرام سے مت بیٹھو کہ تمہاری منزل بہت دور ہے اور تمہارا کام بہت مشکل ہے اور تمہاری ذمہ داریاں بہت بھاری ہیں....آپ لوگوں کو خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ قرآن کی تلوار لے کر دنیا کی تمام حکومتوں پر ایک ہی وقت میں حملہ کر دیں اور یا اس میدان میں جان دے دیں یا ان ملکوں کو خدا اور اس کے رسول کے لئے فتح کریں.پس چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف مت دیکھو اور اپنے مقصود کو اپنی نظروں کے سامنے رکھو اور ہر احمدی خواہ کسی شعبہ زندگی میں اپنے آپ کو مشغول پاتا ہو اس کو اپنی کوششوں اور سعیوں کا مرجع ایک ہی نقطہ رکھنا چاہئے کہ اس نے دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے.“ الفضل ۸/جنوری ۱۹۳۷ء صفحه ۵ ) عالمی فتح کی سازش ہے اور تمہیں صرف بلوچستان کی بات سمجھ آئی ہے اس لئے کہ وہاں ایک واقعہ ہو گیا تھا اور مولویوں نے اس بات کو اٹھا لیا تھا اور ایک احمدی شہید کر دیا گیا تھا.حقیقت تو یہ ہے کہ تم نے جماعت کے لٹریچر کا مطالعہ ہی نہیں کیا.اس لئے جو اعتراض کسی نے اکٹھے کر دیئے انہیں ہی پڑھ پڑھ کر تم دوبارہ انہی ہتھیاروں سے حملہ آور ہو گئے.پس اگر یہ سازش ہے تو اس کا آغاز
خطبات طاہر جلدم 385 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے وقت سے تو نہیں ہوا.اس کا آغاز تو بہت پہلے یعنی چودہ سو سال سے ہو چکا ہے اور اس سازش کا ذکر قرآن کریم میں موجود ہے.نہ صرف ایک بلکہ دو یا تین جگہ اسی مضمون کی آیات ملتی ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ لا عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (التوبه (۳۳) وہی خدا ہے جس نے محمد مصطفی ﷺ کو دین حق اور ہدایت کے ساتھ بھیجا ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس کے بھیجنے کا مقصد یہ بیان فرماتا ہے.الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ تا کہ دنیا کے تمام ادیان پر اس کو غالب کر دے.پس یہ وہ سازش ہے جس کے ہم غلام ہیں، جس میں ہم ملوث ہیں.ہم تو اقراری مجرم ہیں، اس جرم میں جو چاہو ہم سے کرو.جماعت احمدیہ کے قیام کا تو مقصد ہی اس عزم کو پورا کرنا ہے جسے تم سازش کہہ رہے ہو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے بار بار مختلف ممالک کی فتوحات کی خبریں دیں اور ایک دو ملک کی نہیں بلکہ تمام دنیا میں جماعت احمدیہ کے غالب آنے کی خبریں عطا فرمائیں اور آپ نے بڑی قوت اور شان کے ساتھ اسلام کے آخری غلبہ کے اعلان فرمائے تو جو جماعت اتنے بڑے جرم کی اقراری ہے اس کی یہ چھوٹی سے بات آپ کو کیا فائدہ دے گی کہ اس جماعت نے بلوچستان پر قبضہ کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی تبلیغ کی راہ میں جب روکیں ڈالی گئیں تو آپ نے فرمایا: مخالف ہماری تبلیغ کو روکنا چاہتے ہیں، مجھے تو اللہ تعالیٰ نے میری جماعت ریت کے ذروں کی طرح دکھائی ہے.“ پھر فرمایا: ( تذکرہ ایڈیشن چہارم صفحه ۶۹۰ ) کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے کہ روس میں میں تمہاری جماعت کو ریت کے ذروں کی طرح پھیلا دوں گا.( تذکرہ صفحہ :(۶۹)
خطبات طاہر جلدم 386 خطبه جمعه ۲۶ اپریل ۱۹۸۵ء اب دیکھئے کہ روس کے لئے بھی جماعت احمد یہ ایک خطرہ ہے.پھر آپ فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے خبر دی ہے: دو دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ (براہین احمدیہ حصہ چہار حصص روحانی خزائن جلد ا صفحه ۶۶۵ حاشیه در حاشیه نمبر۴) پھر فرمایا: میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا.“ ( تذکره صفحه : ۲۶۰) پس کو نسا ملک ہے جو اس سازش سے باہر رہ گیا ہے روس کو بھی جا کر انگیخت کرو کہ تمہارے خلاف بھی ایک خوفناک سازش تیار ہو رہی ہے اور امریکہ کو بھی انگیخت کرو کہ تمہارے خلاف بھی ایک خوفناک سازش تیار ہو رہی ہے اور جاپان کو بھی انگیخت کرو اور چین کو بھی انگیخت کرو.جتنے تمہارے پیارے ہیں وہ ہم پر چڑھا لا ؤ، جتنے تمہارے سوار ہیں ہم پر چڑھا دو مگر خدا کی قسم تمہاری ساری طاقتیں نا کام جائیں گی کیونکہ یہ وہ منصوبہ ہے جو قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے اور قرآنی منصوبہ کو دنیا کی کوئی طاقت نا کام نہیں بنا سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آخری فتح کے انجام کا ذکر کرتے ہوئے خود فرماتے ہیں کہ یہ دنیاوی فتح نہیں ہلکوں اور تاجوں اور تختوں کی فتح نہیں بلکہ یہ تو ایک روحانی فتح ہے.فرماتے ہیں: مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوان یار براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۱۴۱) پس اس سازش میں ہم ضرور ملوث ہیں اور رضوان یار کی خاطر ہم تمام دنیا میں سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں اور اس راہ میں کسی قربانی کو پیش کرنے سے دریغ نہیں کریں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ: میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو
خطبات طاہر جلدم 387 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء جائے میرا دل مردہ پرستی کے فتنہ سے خون ہوتا جاتا ہے.“ گویا کہ تمام عیسائی ممالک کے خلاف ایک سازش ہورہی ہے اور ان کا یہ حال ہے کہ قوم کو فرضی خطرات میں مبتلا رکھنا چاہتے ہیں اور حقیقی خطرات سے بالکل نابلد ہیں.انہیں یہ نظر ہی نہیں آرہا کہ خطرہ ہے کہاں اور کس طرف سے آنے والا ہے اور اگر علم ہے بھی تو پھر ان خطرات سے قوم کی توجہ عمداً اور مجرم کے طور پر ہٹا رہے ہیں.یعنی جماعت احمد یہ جو اسلام کے لئے دنیا کو فتح کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے وہ تو ان کے لئے شدید خطرہ ہے اور عیسائیت جس کے متعلق آنحضرت ﷺ کو خود اللہ تعالیٰ نے خبر دی کہ وہ اسلام کے لئے سب سے بڑا خطرہ بننے والا ہے اور وہ دجال بن کر تمام دنیا پر چھا جائیں گے ان سے کلیہ غافل ہیں بلکہ ان کے مددگار بن رہے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تبلیغ روک کر ( یعنی روکنے کی کوشش کر کے ،روک تو کوئی نہیں سکتا ) جب انہوں نے یہ دیکھا کہ دنیا میں ان کی بدنامی ہورہی ہے اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ عجیب حکومت ہے جو نظریات پر پابندی لگا رہی ہے اور آزادی ضمیر کا گلا گھونٹ رہی ہے تو اس کا اعلاج انہوں نے یہ کیا کہ ایک طرف تو ہمارا جلسہ سالانہ تک ان سے برداشت نہیں ہورہا تھا اور وہ بند کیا ہوا تھا اور دوسری طرف پاکستان ٹیلی ویژن پر پادری آکر با قاعدہ عیسائیت کی تبلیغ کر رہے تھے اور یسوع مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر پیش کر رہے تھے.اس طریق عمل سے ان کا دوغلہ پن بھی ثابت ہو جاتا ہے اور ان کے الزامات کی حقیقت بھی کھل جاتی ہے.حقیقت یہ ہے کہ جب بھی انسان غلط اقدام کرے تو اس سے غلط نتیجے نکلتے ہیں.جب جماعت احمدیہ کی تبلیغ ایک خطرہ بنا کر روکنے کی کوشش کی تو ساری دنیا میں ایک شور پڑا کہ یہ کیا ظلم کر رہے ہو.تو یہ ظاہر کرنے کی خاطر کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں ہم تو آزادی ضمیر کے محافظ ہیں انہوں نے عیسائیوں کو چھٹی دے دی بلکہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ یہ واقعہ ہوا کہ اس (So Called نام نہاد اسلامی حکومت کے ماتحت با قاعدہ ٹیلی ویژن پر عیسائیت کی تبلیغ کی گئی اور یسوع مسیح کو بطور نجات دہندہ کے پیش کیا گیا لیکن ہمیں اس کی کوئی پرواہ نہیں اگر انہوں نے ہماری پشت پر سے حملے کرنے ہیں تو کرتے چلے جائیں.ہمارا رخ تو اسلام دشمن طاقتوں کی طرف ہے ہمیشہ سے تھا اور ہمیشہ رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :.
خطبات طاہر جلدم 388 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء میں ہر دم اس فکر میں ہوں کہ ہمارا اور نصاریٰ کا کسی طرح فیصلہ ہو جائے.میرا دل مردہ پرستی کے فتنے سے خون ہوتا جاتا ہے اور میری جان عجیب تنگی میں ہے اس سے بڑھ کر اور کونسا دلی درد کا مقام ہوگا کہ ایک عاجز انسان کو خدا بنایا گیا ہے اور ایک مشت خاک کو رب العلمین سمجھا گیا ہے.میں کبھی کا اس غم سے فنا ہو جاتا اگر میر امولا میرا قادر توانا مجھے تسلی نہ دیتا کہ آخر تو حید کی فتح ہے.غیر معبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کئے جائیں گے.مریم کی معبودانہ زندگی پر موت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا اب ضرور مرے گا.خدا قادر فرماتا ہے کہ اگر میں چاہوں تو مریم اور اس کے بیٹے عیسی اور تمام زمین کے باشندوں کو ہلاک کروں.سواب اس نے چاہا کہ ان دونوں کی جھوٹی معبودانہ زندگی کو موت کا مزہ چکھاوے.سواب دونوں مریں گے کوئی ان کو بچا نہیں سکتا اور وہ تمام خراب استعدادیں بھی مریں گی جو جھوٹے خداؤں کو قبول کر لیتی تھیں.نئی زمین ہوگی اور نیا آسمان ہوگا اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا اور بعد اس کے توبہ کا دروازہ بند ہوگا کیونکہ داخل ہونے والے بڑے زور سے داخل ہو جائیں گے اور وہی باقی رہ جائیں گے جن کے دل پر فطرت سے دروازے بند ہیں اور نور سے نہیں بلکہ تاریکی سے محبت کرتے ہیں.قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہونگی مگر اسلام اور سب حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا نہ کند ہو گا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے.( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۰۴-۳۰۵.اشتہار ۴ ارجنوری ۱۸۹۷ء) یہ ہے وہ خطرناک عالمی منصوبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کی تعلیم کوملحوظ رکھتے ہوئے بنایا تھا اور اسی منصوبے پر عمل درآمد کرنے میں ہم مصروف ہیں.اس لئے بلاؤ اپنی مدد کے لئے ساری عیسائی طاقتوں کو اور ان دہر یہ طاقتوں کو بھی جن کے جھوٹے خدا کو پاش پاش
خطبات طاہر جلدم 389 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء کرنے کا عزم لے کر جماعت احمد یہ اٹھی یا ان انسانوں کو جن کی تعلیمات کو پارہ پارہ کرنے کا عزم لے کر اٹھی ہے، جنہوں نے خدا کی تعلیم کو رد کر کے نئی انسانی تعلیموں کو نجات دہندہ تعلیم کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر فرماتے ہیں کہ:.وو وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اند رمحسوس کرتے ہیں ہلکوں میں پھیلے گی.اس دن نہ کوئی مصنوعی کفارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا.اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کر دے گا لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نورا تارنے سے.تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه ۳۰۵) پس یہ ہے جماعت احمدیہ کا عالمی فتح کا پروگرام اور منصوبہ جسے تم سازش کہہ رہے ہو اور یہ پروگرام جماعت احمدیہ نے آج سے نہیں بلکہ تمہارے اپنے قول کے مطابق نوے سال سے زائد عرصہ سے شروع کر رکھا ہے ، ایک ملک میں نہیں دنیا کے ہر ملک میں شروع کر رکھا ہے اور یہ وہ پروگرام ہے جس کا بیج قرآن کریم میں بویا گیا بلکہ یہ تو وہ پروگرام ہے جو انسانی پیدائش بلکہ کائنات کے وجود سے پہلے ہی جب حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تخلیق کا فیصلہ فرمایا گیا اس وقت یہ پروگرام بھی ساتھ ہی منصہ شہود پر ابھرا.یہ ممکن ہی نہیں کہ محمد مصطفی کی تخلیق کا سوال پیدا ہو اور کائنات کی فتح کا منصوبہ ساتھ ہی تعمیر نہ کیا جائے.یہ دو باتیں الگ الگ ہو ہی نہیں سکتیں.پس قرآن کریم نے جب یہ وعدہ فرمایا کہ محمد مصطفی ﷺ کو میں نے (یعنی خدا نے ) اس لئے مبعوث فرمایا ہے کہ دنیا کے تمام دینوں پر اس کے دین کو یا اس کو غالب کر دے تو یہ منصوبہ تو بن چکا ہے اور ہم اس منصوبہ کو پورا کرنے میں اپنے سردھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں.تمہیں توفیق نہیں مل رہی کہ اس منصوبے کے لئے کوئی کام کرو، تمہیں یہ توفیق نصیب نہیں ہو رہی کہ اسلام کے غلبہ کے لئے ہماری طرح قربانیاں دو، اپنی جان مال اور عزتیں پیش کرو، زندگیاں وقف کرو، اسلام اور دیگر مذاہب پر غور وفکر کرتے ہوئے نئے نئے نکات لے کر آؤ ، نئے دلائل پیش کرو، نئے براہین سے دنیا کا مقابلہ کرو اور ان کو فتح کرو لیکن تم تو
خطبات طاہر جلدم 390 خطبه جمعه ۲۶ ر ا پریل ۱۹۸۵ء ان باتوں سے عاری ہو.تمہارے دامن میں تو سوائے گالیوں کے اور کچھ بھی نہیں ،سوائے جبر اور تشدد کی تلوار کے تمہارے پاس ہے کیا ؟ ہم تو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی اعلیٰ اور عمدہ حالت میں پاتے ہیں.ہم تو اپنے وجود کو اس نقشہ کے اندر لکھا ہوا پاتے ہیں اور اپنے نقوش اس نقشہ میں مرتسم پاتے ہیں جو قرآن کریم میں بنایا گیا ، ہم سے زیادہ خوش نصیب اور کون سی قوم ہوسکتی ہے.اور تم خودان نقوش کو ابھار رہے ہو اور تمام دنیا میں یہ اعلان کر رہے ہو کہ یہ وہ جماعت ہے جس نے تمام دنیا کی فتح کا منصوبہ بنایا ہے اور وہ حمد مصطفی ﷺ کی جماعت کے سوا اور کوئی جماعت ہو ہی نہیں سکتی.ہم تو اس تقسیم پر راضی ہیں.تمہارا دل جو چاہتا ہے کرو، جو زورلگتا ہے لگا لو، جتنی طاقتیں سمیٹ سکتے ہو سمیٹ لو اور ساری دنیا میں احمد یتکے خلاف پراپیگنڈا کرو کہ یہ جماعت تم سب کے لئے ایک خطرہ ہے.مگر ہم اس منصوبے پر عمل درآمد کرنے سے باز نہیں آئیں گے، ہمارا ایک بھی قدم تمہارے خوف سے پیچھے نہیں ہٹے گا کیونکہ ہم محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں اور ہم نے آپ کو ہی اپنے آقا اور مولیٰ کے طور پر پکڑا ہوا ہے.آپ کے دامن کو ہم نے نہیں چھوڑ نا ، آپ کے غلام پیچھے ہٹنے والے غلام نہیں تھے، آپ کے غلاموں کی فطرت کا خمیر اس مٹی سے نہیں اٹھایا گیا جس مٹی میں بزدلی پائی جائے.پس ہم تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس میدان میں لازماً آگے بڑھیں گے اور ہر میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے ، ہر جہت میں آگے بڑھتے چلے جائیں گے.ہم اور ہماری آنے والی نسلیں، ہمارے بوڑھے اور ہمارے بچے چین نہیں لیں گے جب تک محمد مصطفی ﷺ کا تاج ظالموں کے سروں سے نوچ کر واپس حضرت محمد مصطفی ﷺ کے حضور پیش نہیں کر دیتے ، وہی ہمارے لئے طمانیت کا وقت ہے ، وہی ہمارے لئے چین اور آرام جاں ہے، اسی کی خاطر ہم مرتے ہیں اور اسی کی خاطر ہم مرتے رہیں گے.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اسلام کا جھنڈا جلد از جلد دنیا کی تمام بڑی سے بڑی سلطنتوں کے بڑے سے بڑے ایوانوں پر لہرایا جائے.ایک ہی جھنڈا ہو اور الله وہ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی عملے کا جھنڈا ہو.ایک ہی اعلان ہوا اور وہ نعرہ ہائے تکبیر کا اعلان ہو کہ کوئی خدا نہیں سوائے اس خدا کے جو ایک خدا ہے اور کوئی اور رسول باقی نہیں مگر م م م ل ل ا لہجہ آخری صاحب شریعت اور صاحب حکم رسول ہے.
خطبات طاہر جلدم 391 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء مسلمانوں کے باہمی اختلافات، بگڑے ہوئے عقائد اور حکم و عدل حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ظیم الشان خدمات ( خطبه جمعه فرموده ۳ مئی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں : الر كتب أَنْزَلْنَهُ إِلَيْكَ لِتُخْرِجَ النَّاسَ مِنَ الظُّلُمتِ إِلَى النُّوْرِ بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِةُ اللهِ الَّذِى لَهُ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَوَيْلٌ لِلْكَفِرِيْنَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدِهِ الَّذِينَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيوةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وَيَصُدُّونَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ وَ يَبْغُونَهَا عِوَجًا أُولَيكَ فِي ضَلٍ بَعِيدِ (ابراہیم ۴۲) اور پھر فرمایا: یہ آیات جو میں نے آج کے خطبہ کے لئے منتخب کی ہیں ان میں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی ایک امتیازی صفت یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ آپ بنی نوع انسان کو اندھیروں سے
خطبات طاہر جلدم 392 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء نور کی طرف لے کر آنے والے ہیں.یہ امتیازی صفت ان معنوں میں تو امتیازی صفت ہے کہ تمام بنی نوع انسان میں وہ ایک ہی وجود تھا جس کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا یا خدا نے جسے یہ منفرد اہلیت بخشی تھی مگر ان معنوں میں امتیازی نہیں کہ بعد میں ایسے اور لوگ آپ کی غلامی میں پیدا نہیں ہو سکتے یا پیدا نہیں ہوں گے یا مختلف زمانوں میں پیدا نہیں ہوئے جو اس کام کو جاری رکھیں.در حقیقت جس نور کی طرف خدا کا نبی بلاتا ہے اس کے ساتھ اور بہت سی آوازیں اٹھنے لگتی ہیں اور بہت سے غلام اس کام میں اس کے شریک ہو جاتے ہیں اور ہر طرف گو یا شمع ہدایت جلنے لگتی ہے.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺہے اس منظر پر نہایت ہی پیارے رنگ میں روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں: اصحابی کا لنجوم بايهم اقتديتم اهتديتم.کہ میرے صحابہ کو تو دیکھو جو ستاروں کی طرح روشن ہو گئے.انہوں نے میرے نور سے نور پکڑا تو وہ خود بھی ایسے نورانی وجود بن گئے کہ تم ان میں سے جس کے پیچھے چلو گے تمہیں وہ ہمیشہ ہدایت ہی کی طرف لے کر جائیں گے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : بِإِذْنِ رَبِّهِمْ إِلَى صِرَاطِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ ) ان کے رب کی طرف سے اللہ تعالیٰ نے یہ کام حضرت محمد مصطفی ﷺ کوسونپا ہے.ان کے رب کی طرف سے“ کا جومحاورہ ہے اس کے متعلق عام طور پر یہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کا ذکر ہوتا ہے تو ربک کا خطاب ملتا ہے لیکن یہاں بِاِذْنِ رَبِّهِمْ اس لئے فرمایا گیا کہ جو مخاطب ہیں ان کو پابند کیا جائے ، ان کو بتایا جائے کہ یہ تمہارے رب کا حکم ہے تمہیں ماننا پڑے گا.یہ ایسا حکم نہیں ہے جس کو صرف حضرت محمد مصطفی علی ہے کی طرف خاص کیا گیا ہو.اگر چہ بلاتا یہ ہے لیکن یادرکھو کہ تمہارے رب کا حکم ہے اور تم پابند ہو کہ تمہیں ہدایت کی طرف بلائے تو تم اس کی آواز پر لبیک کہو اور اس نور کی طرف چلے آؤ جس کی طرف یہ بلاتا ہے.پھر ربھم کے مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا یہ وہی رب ہے جو زمین و آسمان کا رب ہے اور جس کے حکم سے ہٹ کر پھر کوئی پناہ نہیں اور نجات کی کوئی راہ نہیں.فرمایا وَ وَيْلٌ لِلْكَفِرِينَ مِنْ عَذَابٍ شَدِيدِنِ اگر اس حکم کا انکار کریں گے تو پھر ان کے لئے عذاب
خطبات طاہر جلدم 393 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء شدید مقدر ہے.لیکن بد بختی سے کچھ ایسے لوگ بھی پیدا ہوتے ہیں.الَّذِيْنَ يَسْتَحِبُّونَ الْحَيُوةَ الدُّنْيَا عَلَى الْآخِرَةِ وہ آخرت کی زندگی پر دنیا کی زندگی کو ترجیح دینے لگتے ہیں اور صرف یہی نہیں کہ اپنے لئے ترجیح دیتے ہیں بلکہ دوسروں کی راہ بھی روکتے ہیں تا کہ وہ ہدایت کی پیروی نہ کریں.وہ راہیں روک کر بیٹھ جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی راہوں کو ٹیڑھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.وہ چاہتے ہیں کہ ان کی افتاد طبع کی طرح اللہ کی راہ ٹیڑھی ہو جائے اور لوگ ان کے خیالات کی پیروی کریں نہ کہ اللہ کے احکام کی.فرمایا: اوليك فِي ضَللٍ بَعِید یہ لوگ بہت دور کی گمراہی میں ہیں.ضَالِ بَعِید میں اس طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اس قسم کی ٹیڑھی سوچوں والے پھر نجات پایا نہیں کرتے ، ان کا نجات پانا ایک بہت دور کی بات ہوتی ہے.یہ سیدھی راہ سے بھٹکتے بھٹکتے اتنا دور نکل گئے ہیں کہ ان کے لئے واپس آنے کا وقت نہیں رہا.یعنی آئمۃ السلفیر جن کی بات ہورہی ہے ان کو آواز دینا تو فرض ہے اور ہدایت کی طرف بلا نا تو ضروری ہے لیکن بعض بد بخت اور بد قسمت لوگ جو آئمۃ التکفیر کہلاتے ہیں وہ ضلال بعید میں مبتلا ہوتے ہیں اور گمراہی میں اتنے دور نکل چکے ہوتے ہیں کہ ان کی واپسی کی امید بہت تھوڑی رکھی جاسکتی ہے.مذہبی لحاظ سے اندھیروں سے نکال کر نور کی طرف لانے کا یہی وہ کام تھا جو آنحضرت علی کی غلامی میں حضرت مہدی علیہ السلام کو سونپا جانا تھا اور یہ کام آپ کے لئے مقدر تھا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے آپ کے متعلق فرمایا کہ وہ حکم و عدل ہوگا ، وہ ایسے وقت میں آئے گا جب کہ دین میں ٹیڑھی راہیں تجویز ہو چکی ہوں گی ، خدا تعالیٰ کی جاری کردہ راہ میں کئی اور راہیں نکال لی جائیں گی اور مذہب اسلام کو پارہ پارہ کر دیا گیا ہوگا ، اختلافات حد سے زیادہ بڑھ چکے ہوں گے.اس وقت امام مہدی پیدا ہوں گے جو لوگوں کو اندھیروں سے نور کی طرف نکال لائیں گے.چنانچہ امام مہدی کے متعلق اس مضمون کو احادیث میں حکم و عدل کے عنوان کے تحت بیان کیا گیا ہے.کیونکہ ظاہر ہے اختلافات پیدا ہوں گے تو وہ حکم بن کر آئے گا، ایک دوسرے سے معاملات میں جور و ستم ہوں گے تو وہ عدل بن کر آئے گا.پس دنیا میں جب اختلافات بڑھ جانے تھے تو امام مہدی نے آکر اختلافات مٹانے کے لئے فیصلے کرنے تھے اور اسلام کے متعلق بگڑے ہوئے تصورات کے متعلق فیصلے دینے تھے کہ اصل صورت کیا ہے.یہی وہ کیفیت ہے جس کو بیان
خطبات طاہر جلد۴ 394 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمدخلیفہ المسح الثانی نے فرمایا: حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے ہیں.آپ نے فرمایا یہ غلط ہے کہ دوسرے لوگوں سے ہمارا اختلاف صرف وفات مسیح یا چند اور مسائل میں ہے.آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی ذات ، رسول کریم ، قرآن، نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ غرضیکہ آپ نے تفصیل سے بتایا کہ ایک ایک چیز میں ہمیں ان سے اختلاف ہے.“ ( الفضل ۳۰ / جولائی ۱۹۳۱ء) اس عبارت کو اپنے سیاق وسباق سے الگ کر کے اس کتابچہ میں بڑے فخر کے ساتھ پیش کیا جارہا ہے.جس کو حکومت پاکستان کی طرف سے قادیانیت.اسلام کے لئے سنگین خطرہ“ کے نام سے شائع کیا گیا ہے اور اس سے یہ نتیجہ نکالا جارہا ہے کہ دیکھیں جرم اقراری ہو گیا یعنی مجرم نے اقرار کر لیا اور اپنے منہ سے تسلیم کر لیا کہ ان کا اسلام اور ہے اور ہمارا اسلام اور.چنانچہ اس سرکاری کتا بچہ میں لکھا ہے: قادیانی اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ ان کے اور دیگر مسلمانوں کے درمیان وجہ اختلاف صرف مرزا غلام احمد کی نبوت ہی نہیں بلکہ ان کا دعویٰ ہے کہ ان کا خدا، ان کا اسلام ، ان کا قرآن ، ان کے روزے فی الحقیقت ان کی ہر چیز باقی مسلمانوں سے مختلف ہے.اپنی ایک تقریر میں جو الفضل کے ۳۰ جولائی ۱۹۳۱ء کے شمارے میں مسلمانوں سے اختلاف“ کے عنوان سے شائع ہوئی تھی مرزا غلام احمد قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود احمد کہتے ہیں ( آگے وہی عبارت درج ہے جو میں اوپر بیان کر چکا ہوں ).“ ( قادیانیت.اسلام کے لئے سنگین خطرہ.صفحہ ۲۶) اس سلسلہ میں پہلی بات جو کہنے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ جس نے بھی اس کتا بچہ میں یہ عبارت تجویز کی ہے اور جس نے بھی یہ نتیجہ نکالا ہے ہم قطعی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ اس نے عمداً جھوٹ بولا ہے.
خطبات طاہر جلدم 395 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء ان سب لوگوں کو علم ہے ،حکومت پاکستان کے بڑے لوگوں کو بھی علم ہے اور چھوٹوں کو بھی ، علماء کو بھی علم ہے اور وزراء کو بھی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے عقائد کو بار بار بڑی کثرت اور بڑی وضاحت کے ساتھ بیان فرما چکے ہیں اور جماعت احمدیہ کی روز مرہ زندگی مخالفین کے سامنے ایک کھلی کتاب کے طور پر موجود ہے.پس سب لوگ جانتے ہیں کہ یہ کہنا بالکل جھوٹ ہے کہ ہمارا خدا الگ ہے ، ہمارا قرآن الگ ہے ، ہمارا اسلام الگ ہے ، ہمارے روزے الگ ہیں.کلمہ طیبہ کے متعلق کہا کرتے تھے کہ الگ ہے لیکن اب خود ہی ایسے اقدامات کئے جس کے نتیجہ میں تمام دنیا پر خود ہی یہ ظاہر کرنے پر مجبور ہو گئے کہ احمدیوں کا کلمہ وہی تھا جو ہمارا کلمہ تھا، ہم جھوٹ بولا کرتے تھے، نوے سال تک ہم نے جھوٹ بولا اور اب ہم اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ احمدیوں کا وہی کلمہ ہے جو ہمارا کلمہ ہے، لیکن ہم ان کو وہ کلمہ استعمال نہیں کرنے دیں گے.پس ان کا ہر جھوٹ خود بخود کھلتا چلا جارہا ہے اس لئے یہ عبارت جس نے بھی لکھی ہے وہ لازماً دجل کا بڑا ماہر اور عمداً جھوٹ بولنے والا ہے ، وہ ایک ہے یا ایک سے زیادہ ہیں اس سے ہمیں غرض نہیں مگر وہ حکومت اس جھوٹ کی ذمہ دار ہے جس نے دنیا کو دھوکا دینے کے لئے اسے اپنے کتابچہ میں شائع کیا ہے.حکومت پاکستان کے سرکاری کتا بچہ کے مندرجہ بالا الفاظ میں یہ کہا گیا ہے کہ گویا واقعہ احمدیوں کی سب چیزیں الگ ہیں.امر واقعہ یہ نہیں ہے کیونکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ فصاحت و بلاغت کا یہ ایک طریق ہوتا ہے کہ ایک چھوٹے سے جملے میں وسیع مضمون بیان کئے جاتے ہیں.مثلاً بعض دفعہ کہا جاتا ہے کہ تم اور میں اور تو کیا اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس نے یہ تسلیم کر لیا کہ تم انسان نہیں ہو تم کوئی جانور مثلا گدھے یا کتے ہو بلکہ اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ تم اور قسم کے انسان ہو اور میں اور قسم کا انسان ہوں تم میں انسان کی سی صفات باقی نہیں رہیں، میں انسان ہوں میری انسانیت میں کوئی شبہ نہیں لیکن تم بدل چکے ہو تم نے اپنی انسانیت کے اندر غیر انسانی صفات داخل کر لی ہیں.بالکل اسی معنی و مفہوم میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مذکورہ بالا فقرے استعمال فرمائے جماعت کو یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے کہ کسی معمولی اختلاف کی وجہ سے خدا نے یہ سلسلہ شروع نہیں کیا بلکہ مخالفین احمدیہ کا خدا تعالیٰ کے بارہ میں تصور، قرآن کا تصور، ملائکہ کا تصور ، انبیاء کا تصور، آخرت کا تصور جنت و جہنم اور حیات بعد الموت کا تصور ، غرض اسلام کی بنیادی باتوں کے
خطبات طاہر جلدم 396 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء تصورات جماعت احمدیہ کے تصورات سے مختلف ہیں.جماعت احمدیہ کا دعویٰ یہ ہے اور ہم اس دعوے کو نوے سال سے دہراتے چلے آرہے ہیں کہ ہمارا اسلام وہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کا اسلام تھا ، ہمارا خدا وہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا خدا تھا، ہمارا ملائکہ کا تصور وہی ہے جو آنحضرت ﷺ کو عطا فرمایا گیا ، ہمارا قرآن حقیقی معنوں میں وہی قرآن ہے جو آنحضرت ﷺ کے قلب صافی پر نازل ہوا تھا ، جنت اور جہنم کے بارہ میں بھی ہمارا وہی تصور ہے جو قرآن کریم پیش کرتا ہے اور جو سنت نبوی سے ثابت ہے ،مگر حکومت پاکستان کے سرکاری کتا بچہ میں جانتے بوجھتے ہوئے حقائق کو غلط رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے.جہاں تک اختلافات کا تعلق ہے اس کی تفصیل بڑی لمبی ہے اس کے متعلق کئی صفحات پر مشتمل اقتباسات موجود ہیں.مجھے آج جمعہ پر آتے ہوئے دیر بھی اسی لئے ہوئی.ایک ہفتہ سے کوشش کر رہا ہوں کہ کسی طرح اس مضمون کو سمیٹ سکوں اور اقتباسات (حوالہ جات) میں سے کچھ منتخب کرلوں اور باقی کو چھوڑ دوں لیکن اس مضمون کو واضح کرنے کے لئے اتنے زیادہ اقتباسات ہیں جو آٹھ دس خطبوں کا موضوع بن سکتے ہیں.ان سب کو سمیٹ کر میں آج ایک خطبہ میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا.ایک متقی، پرہیز گار اور سچائی کا پرستار اگر تحقیق کرنا چاہتا تو اس کو چاہئے تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کو پیش کرتا اور پھر مخالف علماء جو آج بھی جماعت احمدیہ کے اول دشمن ہیں انہوں نے ذات باری تعالیٰ کے متعلق جو کچھ لکھا ہے اس کو بھی پیش کرتا اور دنیا کو یہ بتاتا کہ دیکھو حدیوں کا اللہ اور ہے اور ہمارا اللہ اور ہے.اس طرح دنیا دیکھ لیتی اور سمجھ جاتی کہ اللہ کے بارہ میں کس کا عقیدہ حق ہے اور کس کا عقیدہ ایک خیالی اور تصوراتی بات ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.اسی طرح آنحضرت ﷺ ، ملائکہ، کتب سماویہ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جوتحریرات ہیں وہ پیش کی جاتیں اور بتایا جا تا ہے کہ یہ ان کا تصور ہے اور یہ ہمارے علماء کا تصور ہے.پس چونکہ سرکاری رسالہ کے لکھنے والوں نے ایسا نہیں کیا اس لئے اب میں نمونہ بتاتا ہوں لیکن جیسا کہ میں نے بتایا ہے بے شمار اقتباسات میں سے وقت کی مناسبت سے اس وقت گنتی کے چند حوالے ہی پیش کر سکوں گا.
خطبات طاہر جلدم 397 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء جہاں تک اللہ تعالیٰ کی ذات کا تعلق ہے شیعہ کتب میں اللہ تعالیٰ کا جو تصور پایا جاتا ہے پہلے وہ سنئے.تذکرۃ الائمہ صفحہ 91 پر لکھا ہے: ”حضرت علی خدا ہیں“ حق الیقین از امام محمد باقر مجلسی صفحه ۲۸ در بیان تفضیل امیر المومنین برسائر الانبیاء میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ: ”حضرت علی جمیع انبیاء سے افضل ہیں“ اور جہاں تک بریلوی عقائد کا تعلق ہے بریلویوں کے نزدیک خدا وہ خدا ہے جس کی صفات اور قدرتیں اس کے ان بندوں ہی میں تقسیم نہیں ہوئیں جو زندہ ہیں بلکہ ان بندوں میں بھی تقسیم ہیں جو مردہ ہیں اور وفات یافتہ کہلاتے ہیں ان کے مزاروں میں بھی خدا کی طاقتیں موجود ہیں اور وہ اس بارہ میں اللہ کے شریک ہیں.چنانچہ ان تصورات کی بنا پر آج پاکستان جیسے ملک میں لاکھوں قبریں ایسی ملیں گی جہاں مختلف رنگ کی جھنڈیاں لگی ہوں گی یا بوسیدہ کپڑے (جنہیں پنجابی میں ٹاکیاں کہتے ہیں ( یعنی مختلف رنگوں کے چیتھڑے لٹکے ہوئے ہوں گے اور ہر قبر کی ایک تو قیر بیان کی جاتی ہے.کوئی قبر بیماری ٹھیک کرنے کی قبر ہے کوئی بچہ دینے کی قبر ہے کوئی لڑکا دینے کی قبر ہے کوئی لڑکی دینے کی قبر ہے کوئی سل سے نجات دینے کی قبر ہے.غرض ایک مومن کی ہر قسم کی مراد ہیں جو خدا تعالیٰ سے وابستہ ہوتی ہے اور ہر قسم کی حاجات جو خدا کے سوا خدا کا بندہ کسی اور سے مانگنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا وہ صرف زندوں سے نہیں بلکہ مردوں سے مانگی جاتی ہیں اور اس کے شرعی طور پر جواز پیش کئے جاتے ہیں.چنانچہ احکام الشریعۃ حصہ دوم صفحه ۱۰۶ مسئلہ نمبر ۲ مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی فرماتے ہیں.اولیاء کرام کا مزارات سے تصرف کرنا بے شک حق ہے کہ مزارات سے قبروں میں سے امور دنیا میں تصرف کرنا اور کسی کو کچھ دینا اور کسی کے ہاتھ روک لینا یہ سب برحق ہے.( اور ایک آیت کریمہ سے جس میں بیان فرمایا گیا کہ کفار اہل قبور سے مایوس ہو چکے ہیں مطلب یہ ہے کہ دوبارہ زندہ ہونے سے،اس سے استنباط کر کے یہ لکھا گیا ہے ) کہ وہ سارے کا فر ہیں جو مردوں سے ان کی طاقتوں سے مایوس ہوچکے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی نص صریح ان کے نزدیک یہ بتاتی ہے کہ مردے اپنے تصرفات میں خدا تعالیٰ کے شریک ہیں.گویا یہ
خطبات طاہر جلدم 398 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء لکھا گیا ہے کہ جولوگ اس بات سے مایوس ہو گئے ہیں وہ لازماً کافر ہیں.“ اسی طرح بریلویوں کے مشہور عالم دین حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی نے لکھا ہے: ارشاد ہے مَا لَا يَنْفَعُكَ وَلَا يَضُرُّكَ (يونس: ۱۰۷) یعنی ( قرآن کریم میں یہ و فر مایا گیا ہے ، انہیں نہ پکارو جو بذات خود قلع وانقصان نہ دیں.اس سے معلوم ہوا کہ بت نہ نفع دیں نہ نقصان.لہذا ان کو نہ پکار و اور نبی ولی چونکہ نفع بھی دیتے ہیں اور نقصان بھی.لہذا ان کو پکارو.“ ( مواعظ نعیمیہ حصہ دوم صفحه ۲۹۴ مجموعه مواعظ الحاج احمد یار خان) ایک یہ ہے خدا تعالیٰ کا تصور اور اس کے برعکس خدا تعالیٰ کا ایک اور تصور بھی ہے جو انہی علماء کے ایک دوسرے طبقہ میں پایا جاتا ہے اور یہ دونوں ان باتوں میں آپس میں جنگ و جدال بھی کرتے رہتے ہیں.چنانچہ ایک طرف خدا تعالیٰ کے مقام و مرتبہ میں عام فانی بندوں کو بلکہ مردہ بندوں کو شریک کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اللہ کو گناہگار بندوں کے ساتھ شامل کیا جارہا ہے اور یہ بتایا جا رہا ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ میں بھی گناہ کی قدرت ہے اور اس پر بخشیں اٹھائی جاتی ہیں.چنانچہ دیو بندیوں کی ایک کتاب میں لکھا ہے: پس ہم نہیں مانتے کہ خدا کا جھوٹ محال بالذات ہو ورنہ لازم آئے گا کہ انسانی قدرت خدا کی قدرت سے زائد ہو جائے گی.“ یک روزی مصنفه مولوی محمد اسماعیل صاحب صفحه ۱۴۵) اور اس مسئلہ پر مولویوں کی آپس میں بڑی لمبی لمبی بحثیں ہوتی رہی ہیں ،صرف امکان کذب نہیں بلکہ اس بحث میں اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ کہتے ہیں: اب افعال قبیحہ کو قدرت قدیمہ حق تعالیٰ شانہ سے کیونکر خارج کر سکتے ہیں“.افعال قبیحہ مقدور باری تعالیٰ ہیں.“ افعال قبیحہ کومثل دیگر ممکنات ذاتیہ مقدور باری جملہ اہل حق تسلیم کرتے ہیں.“ (الحمد المقل حصہ اول صفحہ ۴۱)
خطبات طاہر جلدم 399 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء اور جو افعال قبیحہ گنوائے گئے ہیں انسان ان کو بیان بھی نہیں کر سکتا.اگر چہ وہ کسی اور کا کلام ہے لیکن پھر بھی وہ زبان پر لاتے ہوئے شرم آتی ہے مگر اللہ جل شانہ کے متعلق ان لوگوں نے یہاں تک لکھا ہے: چوری ، شراب خوری ، جہل ظلم سے معارضہ کم نہی ہے....خدا کی قدرت بندہ سے زائد ہونا ضروری نہیں حالانکہ یہ کلیہ ہے کہ جو مقدورالعبد ہے، مقدور اللہ ہے.“ ( تذکرۃ الخليل مصنفہ عاشق الہی میرٹھی) اللہ تعالیٰ کی شان میں اس نہایت ہی ذلیل اور نہایت ہی گندے کلام میں یہ دونوں مکتب فکر ہی دراصل خدا تعالیٰ کی ذات کے تصور کو کلیۂ بگاڑنے والے ہیں.ایک بندوں کو اٹھا کر خدا سے ملا رہا ہے اور دوسرا خدا کو گرا کر بندوں سے ملا رہا ہے.یہ خدا وہ خدا تو نہیں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر جلوہ گر ہوا تھا.یہ وہ خدا تو نہیں جو ساری کائنات کا خدا ہے اور ہر عیب سے پاک ہے اور بے جان چیزیں ( جن کو ہم بے جان سمجھتے ہیں وہ بھی دن رات جس کی حمد اور تسبیح کے گیت گاتی ہیں.کہاں خدا تعالیٰ کی ذات کا یہ اعلیٰ وارفع تصور اور کہاں خدا تعالیٰ کے متعلق وہ تصورات جوان صلى الله لوگوں نے پیش کئے.پس ہم تو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے خدا کے قائل ہیں اور بانگ دہل یہ اعلان کرتے ہیں کہ اگر تمہارا خداوہ خدا ہے جو تم نے لکھا ہے تو خدا کی قسم تمہارا خدا اور ہے اور ہمارا خدا اور ہے.خدا تعالیٰ کی ذات کو بندوں کے سامنے مجبور کر دینے اور خدا تعالیٰ کی صفات میں عام عاجز بندوں کو شریک ٹھہرانے کے ایسے ایسے قصے بنالئے گئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.حضرت سید عبدالقادر جیلانی کی کرامات کے متعلق ایک لمبا قصہ بیان ہوا ہے کہ کس طرح انہوں نے بارہ سال کی ڈوبی ہوئی کشتی کو مع ان لوگوں کے جو اس میں سوار تھے، دریا سے نکال لیا.چنانچہ گلدستہ کرامت جو بریلویوں کی بڑی مشہور کتاب ہے اس میں ایک بڑھیا کا ذکر ہے جو اپنے اکلوتے بیٹے کی بارات لے کر آرہی تھی.باراتی کشتی میں بیٹھ کر جب دریا پار کرنے لگے تو طوفان آگیا اور وہ کشتی دریا میں غرق ہوگئی.بارہ سال تک وہ بڑھیا دریا کے کنارے بیٹھی رہی اور کہتے ہیں کہ پانی لینے کے بہانے وہ دریا پر جاتی تھی اور اپنے بیٹے کو رو دھو کر آجاتی تھی.ایک دن حضرت عبدالقادر صاحب
خطبات طاہر جلد۴ 400 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء جیلانی رحمہ اللہ تعالیٰ کا وہاں سے گزر ہوا.آپ نے بڑھیا کو دیکھ کرفرمایا کہ کیا بات ہے، کیا غم ہے؟ بڑھیا نے بتایا تو فرمایا کہ کوئی بات نہیں.چنانچہ انہوں نے توجہ کی تو بارہ سال کا ڈوبا ہوا بیڑا دریا سے ابھر آیا.سارے لوگ زندہ سلامت ہنستے کھیلتے دولہا دلہن اسی طرح خوشی خوشی باہر آگئے.گلدسته کرامت ص ۲۳ - ۲۶ مصنفہ مفتی غلام سرور صاحب) یہ ہے ان کا خدا کے بارہ میں تصور ! دیکھئے کس طرح انسان کو خدائی میں شریک بنایا گیا ہے.چنانچہ وہ اپنے زور اور اپنی قوت کے ساتھ بارہ بارہ سال کے مرے ہوئے لوگوں کو دوبارہ زندہ کرنے پر مقدرت رکھتا ہے.پھر ملائکہ کے بارہ میں ان کا جو تصور ہے وہ بھی اتنا بگڑا ہوا ہے کہ حیرت ہوتی ہے دنیا کے سامنے کس اسلام کو پیش کریں گے.یہ لوگ ملائکہ کا جو تصور پیش کرتے ہیں وہ بھی ذرا غور سے سنئے لکھا ہے: اللہ تعالیٰ نے ملائکہ میں سے بڑے عابد دوفرشتے جن کا نام ہاروت ماروت تھا چھانٹے ( یعنی ملائکہ میں سے عام نہیں بلکہ چوٹی کے عابد زاہد فرشتے جو خدا کو پسند آئے کہ یہ بڑے اچھے بزرگ فرشتے ہیں وہ چھانٹے ) اور انسان کی سب خواہشیں ان میں پیدا کر کے کوفہ کی سرزمین پر جو ایک جگہ بابل ہے وہاں ان کو بھیجا اور وہاں وہ ایک عورت زہرہ نامی پارسن کی الفت میں مبتلا ہوکر (پارسن کا اندازہ کیجئے کس طرح پتہ چلتا ہے اس کو کہتے ہیں ناتفصیلی علم.جانتے ہیں کون تھا کیا ذات تھی کیا قوم تھی اور کس طرح اس کے عشق میں مبتلا ہوئے فرشتے بیچارے ) اس کے کہنے سے شراب پی گئے اور شراب میں...زنا کے علاوہ شرک اور قتل نفس کا گناہ بھی ان سے سرزد ہوا اور ان گناہوں کی سزا میں قیامت تک ان پر طرح طرح کا عذاب نازل ہوتا رہے گا.“ ( تفسیر احسن التفاسیر جلد نمبر اصفحہ ۱۰۸ مولفہ مولانا احمد حسن صاحب محدث دہلوی) یہ ہیں ان کے فرشتوں کے بارہ میں تصورات اور جہاں تک شیعہ کتب میں فرشتوں کے تصور کا تعلق ہے تو وہ بھی سنئے.کہتے ہیں:
خطبات طاہر جلدم 401 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء " حضرت امام حسین کی تکلیف اور بے بسی کو دیکھ کر ملائکہ نے خدا تعالیٰ سے بصد اصرار عرض کیا کہ حضرت امام حسین کی مدد کرنے کی اجازت دی جائے ( یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو روکا ہوا تھا کہ میں نے اجازت نہیں دینی اور فرشتے کہتے تھے کہ ہمیں ضرور اجازت دی جائے ) بالآخر اللہ تعالیٰ نے اجازت دی لیکن (افسوس) جب فرشتے زمین پر جا پہنچے اس وقت حضرت امام حسین شہید ہو چکے تھے“.(جلاء العیون اردو تر جمه جلد۲ باب پنجم فصل ۱۴صفحه ۴۹۸، فصل ۷ صفحه ۵۳۹) گویا خدا تعالیٰ نے اجازت ذرالیٹ دی اس لئے فرشتوں کو دیر لگ گئی پہنچنے میں.اس واقعہ سے پتہ لگتا ہے کہ مخالفین احمدیت کا خدا اور اس کے فرشتوں کے بارہ میں کیسا مضحکہ خیز تصور ہے اور حملے کرتے ہیں حکم و عدل پر.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارتیں تو ذرا پڑھ کے دیکھیں کہ خدا کیا ہے اور فرشتے کیا ہیں آسمانی کتابیں کیا ہیں اور انبیاء علیہم السلام کیا ہیں.مگر مخالفین احمدیت نے ان کے بارہ میں جو تصورات پیش کئے ہیں وہ ان تصورات کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتے جو قرآن کریم اور سنت نبوی سے اخذ کر کے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی پاک زبان میں ہمارے سامنے پیش فرمائے ہیں.یہ تو میں نے شیعہ کتب سے فرشتوں کے تصور کے بارہ میں جلاء العیون کا حوالہ پڑھ کر سنایا ہے.اب ان کا ایک اور حوالہ بھی سنئے لکھا ہے: اور ایک فرشتہ نے (حضرت علیؓ سے) کہا السلام علیک یا وصی رسول الله وخليفته.اور پھر خضر سے ملاقات کی اجازت مانگی.حضرت علیؓ نے اجازت دے دی.اس پر حضرت سلمان فارسی پاس کھڑے تھے انھوں نے کہا کیا فرشتے بھی آپ کی اجازت کے بغیر کسی سے مل نہیں سکتے.تو کہتے ہیں (حضرت علیؓ نے فرمایا ) قسم ہے اس ذات کی جس نے آسمانوں کو بلاستون ظاہری بلند فرمایا ہے ان تمام ملائکہ میں سے کوئی بھی میری اجازت کے بغیر ایک دم کے لئے اپنی جگہ نہیں چھوڑ سکتا اور یہی حال
خطبات طاہر جلدم 402 میرے فرزند حسن و حسین اور اس کے فرزندوں کا ہے.خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء (شیعہ رساله در نجف سیالکوٹ کا الحق مع علی ۱۵۰۰ تا ۲۴ فروری ۱۹۶۰ء جلد نمبر ۵ شماره ۷، ۸ص۶۰) اللہ تعالیٰ تو قرآن کریم میں فرماتا ہے میرے اذن کے بغیر فرشتے دم نہیں مارتے جو کچھ میں کہتا ہوں وہی کرتے ہیں اس سے تجاوز نہیں کرتے (التحریم: ے ) لیکن یہاں فرشتوں اور خدا دونوں کے تصور کو بگاڑ کر اس شکل میں پیش کیا جا رہا ہے کہ گویا حضرت علیؓ کے اذن کے بغیر وہ دم نہیں مار سکتے اور حضرت علی کے مقابل پر فرشتوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں.اسی طرح سرکاری کتا بچہ میں قرآن کریم کے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ ان کا قرآن اور ہمارا اور.قرآن کریم کے بارہ میں میں ایک بات بتاتا چلوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے قرآن کریم کے عشق میں جو کچھ لکھا ہے نثر میں بھی اور نظم میں بھی وہ اتنا بے نظیر ہے کہ اس کے مقابل میں گزشتہ تمام بزرگوں کی عبارتیں اکٹھی کر لی جائیں تب بھی کیا حجم میں اور کیا علوم ومعارف بیان کرنے میں کوئی نسبت ہی نہیں.پرانے زمانے کے کسی بزرگ کی قرآن کریم کے عشق میں کوئی بھی نظم نکال کر دیکھ لیں جو عشق اور وارفتگی حضرت مسیح موعوعلیہ الصلواۃ والسلام کے کلام میں پائی جاتی ہے وہ کسی اور کے کلام میں نہیں ملتی.آپ کیا خوب فرماتے ہیں: دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم ، روحانی خزائن جلد ۲۰ ص ۴۵۷) یہ ایسے کلمات ہیں جو ایک عاشق صادق کے سوا کسی کے منہ سے نکل ہی نہیں سکتے.چنانچہ قرآن کریم کے علوم و معارف سے دنیا کو روشناس کرانے کی جو خدمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے سرانجام دی اور جس قسم کے مبینہ دعوؤں سے اسے پاک ٹھہرایا وہ آپ ہی کا حصہ ہے اور یہ وہ مبینہ دعوے تھے جو بد قسمتی سے مسلمان علماء کی طرف سے کئے گئے تھے.مثلاً قرآن کریم شک وشبہ سے بالا ہے لیکن بعض لوگ نسخ فی القرآن کے قائل ہیں اور یہ عقیدہ دراصل قرآن پر سب سے بڑا حملہ ہے کیونکہ جب شیخ موجود ہو اور علماء کو اختلاف کی گنجائش مل جائے کہ کون سی آیت ناسخ ہے اور کون سی منسوخ کتنی آیات ناسخ ہیں اور کتنی منسوخ تو اس سے تو پھر سارے قرآن کریم کا اعتباراٹھ
خطبات طاہر جلدم 403 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے وضاحت سے تحریر فرمایا کہ قرآن کریم کا ایک نقطہ بھی منسوخ ہوا نہ قیامت تک منسوخ ہو سکتا ہے.یہ ایک کامل کتاب ہے جو ہمیشہ محفوظ رہے گی، اس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوگی.لیکن اس قرآن کریم کے متعلق ہمارے مخالف علماء اور پرانے بزرگان نے جو تصورات پیش کر رکھے ہیں.ان میں سے چند نمونے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.شیعہ مذہب کی تفاسیر میں سے تفسیر صافی“ ایک نہایت ہی معتبر کتاب سمجھی جاتی ہے اس میں لکھا ہے: اصل قرآن مفقود ہے.موجود سے دس پارے غائب ہیں.بعض آیات میں تحریف و تغیر ہے.“ ( تفسیر صافی جز و ۲۲ صفحه ۴۱۱ نیز تفسیر لوامع التنزیل جلد ۴.از سید علی الحائری) اسی طرح علامہ سید علی الحائری نے لکھا ہے کہ نہ صرف یہ کہ قرآن کریم کے دس پارے مفقود ہیں بلکہ ان مزعومه تلف شدہ دس پاروں کی کئی سورتوں کے نام بھی گنوائے ہیں اور ایک سورۃ نورین درج کی ہے جو یاایھا الذین امنوا امنوابالنورین اور والحمد لله رب العلمین پرختم ہوتی ہے.( تفسير لوامع التنزيل تفسير سورة الحجر جز و ۴ صفحه ۱۵ تا ۱۶ از علامہ علی الحائری) رسالہ نورتن اہل النتشیع کا رسالہ ہے.ہمارے قاضی محمد یوسف مرحوم جو صوبہ سرحد کے رہنے والے تھے ان کو اصل شیعہ کتب اکٹھی کرنے کا بہت شوق تھا.ان کی لائبریری میں یہ رسالہ موجود ہے.اس کے صفحہ ۳۷ پر لکھا ہے: قرآن کریم حضرت علی کی طرف نازل ہوا تھا“ یعنی غلطی سے آنحضرت ﷺ پر نازل ہو گیا.مختلف شیعہ کتب میں اس کی تو جیہات بیان کی گئی ہیں.بعض کہتے ہیں شکل ملتی تھی اس لئے جبرائیل علیہ السلام کو دھوکا لگ گیا.حضرت رسول کریم کے بیٹھے ہوئے تھے اور وہ انہیں حضرت علی " سمجھ کر آپ پر قرآن نازل کر گیا.بس ایک دفعہ غلطی ہوگئی تو پھر اب مجبوری تھی.پس قرآن کریم کی تفسیر کے ذریعہ قرآن کریم پر جو مظالم توڑے گئے ہیں وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تشریف نہ لاتے تو ان لوگوں نے اس
خطبات طاہر جلدم 404 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء قرآن کا تصور ہی باقی نہیں رہنے دینا تھا.جو حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا تھا ، جونور ہی نور ہے مگر نور سے نکال کر اندھیرے کی طرف لانے کا جو کمال ان (مولویوں ) کو حاصل ہے یہ بھی حد درجہ کا کمال ہے.قرآن ایک ایسی کامل کتاب ہے جس کے متعلق خدا فرماتا ہے لَا رَيْبَ فِيهِ (بقرہ:۳) اس کامل کتاب پر انہوں نے ریب اور ظنوں کے پردے ڈال دیئے اور اپنی دانست میں تلاش کر کے ایسے بہت سے اندھیروں کی باتیں لے کر آئے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.دنیا کا جو تصور قرآن سے ان مولویوں کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے.اگر یہی تصور نعوذ باللہ من ذلک دنیا کے سامنے پیش کیا جائے تو اسلام کے خدا کو رد کرنے کے لئے یہی ایک عذر دنیا کے لئے کافی ہو چنانچہ ایک عالم دین جو بڑے محقق ہونے کا دعویٰ رکھتے ہیں انہوں نے آیات قرآنیہ: وَكُلٌّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ (یسن :٢١) رَفَعَ السَّمَوتِ بِغَيْرِ عَمَدٍ تَرَوْنَهَا (الرعد:۳) اِنَّ اللهَ يُمْسِكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ أَنْ تَزُولَا ( ا ط ۲۲) وَجَعَلْنَا فِي الْأَرْضِ رَوَاسِيَ اَنْ تَمِيدَ بِهِمُ (الانبیاء:۳۲) وغیرہ آیات سے استدلال کرتے ہوئے گردش زمین سے انکار کیا ہے اور لکھا ہے:.اور زمین کی گردش بھی ناممکن.اس لئے کہ پھر تو لازم آتا کہ ہمیشہ انسانی رہائش کے رخ تبدیل ہوتے رہتے.اگر میر امکان صبح جانب مغرب ہے تو شام جانب مشرق اور دو پہر کو کسی اور جانب.حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہوتا.....نہ آسمان حرکت کرتا ہے نہ زمین.یہ دونوں ساکن و جامد ہیں.( قرآن کریم سے استنباط کرتے ہوئے اس جاہلانہ دلیل کے بعد پھر کہتے ہیں ) غرض یہ کہ بہت جگہ باری تعالیٰ نے گردش زمین و آسمان کی تردید فرما کر موجودہ سائنسدانوں کی تردید فرمائی.سکون زمین و آسمان پر عقلی دلائل بھی بے شمار ہیں مگر فرمان خداوندی کے ہوتے ہوئے ان کی ضرورت ہی نہیں.“ 66 العطایا الاحمدیہ فی فتاوی نعیمیه صفحه ۱۸۶ تا ۱۸۸) اپنی بے عقلی نعوذبالله من ذلک ساری کی ساری خدا کی طرف منسوب کر کے چھٹی کر دی.پھر فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد۴ 405 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء ”میری تحقیق بھی یہ ہے کہ سوائے مقناطیس کے کسی چیز میں قوت کشش نہیں....ایک نیوٹن کا دور تھا.ایک آئن سٹائن کا دور ہے.ایک یہ فتاوی نعیمیہ کے مصنف کا دور آیا ہے.کہتے ہیں کہ ) میری تحقیق بھی یہ ہے کہ سوائے مقناطیس کے کسی چیز میں قوت کشش نہیں قرآن مجید میں کشش زمین کا انکار ہے.چنانچہ آیت کریم وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللهِ (البقرہ: ۷۵) سے دلیل پکڑتے ہوئے فرماتے ہیں اللہ کے خوف سے پتھر گرتے ہیں.معلوم ہوا کہ پتھر وغیرہ ہر چیز خود گرتی ہے نہ کہ زمین کی کشش سے.کیونکہ اس دلالتہ النص میں خالق کا ئنات نے يهبط کا فاعل پتھر کو قرار دیا جب کہ سائنسدان کشش کو قرار دیتے ہیں.اور بھی بہت آیات واحادیث ہیں کہ جن میں کشش کا انکار ہے اور آیت کریمہ میں پتھر گرنے کی وجہ خَشْيَةِ الله ہے نہ کہ کشش (العطایا الاحمدیہ فی الفتاوی نعیمی صفحه ۱۹۴) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اس خدا کو اور اس قرآن کو تم تسلیم کرتے ہوا اور اس قرآن کو دنیا کے سامنے پیش کرو گے اور دنیا سے منواؤ گے ؟ مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ کتنا عظیم الشان احسان ہے کہ کس طرح چاروں سمت پھیلے ہوئے اندھیروں سے نکال کر ہمیں اس نور کی طرف واپس لے آئے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قلب صافی پر نازل ہوا تھا.اور یہ صرف موجودہ علماء کا حال نہیں ہے بہت سے اندھیرے ایسے بھی ہیں جو مختلف زمانوں کے لوگ پیدا کرتے رہے اور قرآن کریم کے پر معارف اور پر حکمت کلام پر پردے ڈالتے رہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہی ہیں جنہوں نے ان سب پردوں کو چاک کیا اور قرآن کریم کے ان انوار کو اپنی اصلی شکل میں ظاہر کیا جو دنیا پر غالب آنے کی مقدرت رکھتے ہیں مگر ان لوگوں نے قرآنی تعلیم پر پردے ڈال کر ظلم کیا.چنانچہ علامہ ابن جریر جومشہور مصنف اور بڑے بزرگ انسان تھے لیکن اپنے زمانہ کی تاریکیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے.علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں ان کی حسب ذیل روایت بیان کی ہے: اللہ تعالیٰ نے اس زمین کے پرے ایک سمندر پیدا کیا ہے جواس
خطبات طاہر جلدم 406 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء (زمین) کو گھیرے ہوئے ہے اور اس کے پرے ایک پہاڑ ہے جسے قاف کہتے ہیں اور سماء دنیا اس پر قائم ہے.( یعنی زمین کے چاروں طرف ایک سمندر ہے.سمندر سے پرے ایک پہاڑ ہے اور وہ جو پہاڑ ہے اس کو قاف کہتے ہیں اور اس پر سماء دنیا قائم ہے ) پھر اس پہاڑ کے پیچھے اس زمین جیسی اور زمین پیدا کی ہے اور دوسرا آسمان اس پر قائم ہے.اسی طرح سات زمینیں اور سات سمندر اور سات پہاڑ ہیں اور یہ خدا تعالیٰ کا قول ہے کہ وَالْبَحْرُ يَمُدُّهُ مِنْ بَعْدِهِ سَبْعَةُ أَبْحُرٍ (لقمان: ۲۸) مولوی مودودی صاحب کا تعلق ہے ان کی تفسیریں بھی بڑی دلچسپ ہیں.میں اس کا ایک نمونہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں وہ پہلے تو یہ کہتے ہیں: قرآن مجید کی ہر سورۃ میں اس قدر وسیع مضامین بیان ہوئے ہیں کہ ان کے لئے مضمون کے لحاظ سے جامع عنوانات تجویز نہیں کئے جاسکتے.“ ( تفہیم القرآن جلد اصفحه ۴۶) اب یہ سوچنے والی بات ہے کہ بظاہر ایک چھوٹی سی بات کہہ دی ہے لیکن وہ عنوانات کیا ہیں جو خدا نے تجویز فرمائے ہیں یعنی کسی سورۃ کا نام بقرہ رکھا کسی کا نام یوسف رکھا کسی کا نام محمد رکھا اور کسی کا المدثر اور کسی کا کچھ اور.یعنی قرآن کریم کی سورتوں کے بے شمار نام ہیں مگر یہ جتنے بھی نام ہیں وہ مولوی مودودی صاحب کی نظر میں کیا حیثیت رکھتے ہیں.یہی کہ اگر مضامین اتنے ہی وسیع اور پھیلے ہوئے ہیں کہ کسی سورۃ کا کوئی جامع نام نہیں رکھا جا سکتا تو گویا قرآن کریم میں خدا تعالیٰ نے خود جو نام رکھے ہیں وہ سارے کے سارے غیر جامع اور غیر فصیح ٹھہرتے ہیں.یہ بات اس قدر جاہلانہ ہے اور قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت پر ایسا ظالمانہ حملہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ ایک عالم دین اور اس قسم کی تفسیر.بات دراصل یہ ہے کہ خود مضمون کو سمجھ نہیں سکتے اور ہر عنوان کا جوتعلق سورۃ کے مضمون سے ہے اسے دیکھ نہیں سکتے لیکن اپنی کوتاہ بینی کو قرآن کریم اور خدا تعالیٰ کی طرف منسوب کر دیتے ہیں.پھر قرآنی تفسیر کا عالم دیکھئے جس پر ساری دنیا میں شور پڑا ہوا ہے کہ مولوی مودودی
خطبات طاہر جلدم 407 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء صاحب نے کمال کی تفاسیر لکھی ہیں.چنانچہ حور کی تشریح جو تفہیم القرآن تفسیر سورۃ الصافات اور تفسیر سورۃ دخان اور سورۃ الرحمان پر درج کی گئی ہے بڑی لمبی عبارت ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حُورٌ مَّقْصُورَت فِي الْحَيَامِ (الرحمن :۷۳) میں خیموں سے مراد غالباً اس طرح کے خیمے ہیں جیسے امراء رؤساء کے لئے سیر گاہوں میں لگائے جاتے ہیں جہاں حوریں ہوں گی اور وہ خیموں کے اندر قید ہوں گی.فرماتے ہیں یہ دراصل غیر مسلموں کی نابالغ بیٹیاں ہیں چونکہ وہ جنت میں نہیں آسکتیں اس لئے جنت سے باہر باغات میں ان کے خیمے ہوں گے اور جو نیک لوگ پاک بیبیوں کے ساتھ رہ رہے ہوں گے ان کی خواہش ہوگی کہ وہ ان سے بھی ملاقاتیں رکھیں اور شب باشیاں کریں تو اللہ تعالیٰ ان کو اجازت فرمایا کرے گا کہ ان خیموں میں غیر مسلموں کی جو خوبصورت بیٹیاں ہیں جو اس وقت تک جوان ہو چکی ہوں گی ان کے ساتھ راتیں گزار کے پھر واپس اپنی بیویوں کے پاس آجایا کریں.چنانچہ تفہیم القرآن پر لکھتے ہیں: ایک نعمت کے طور پر جوان اور حسین و جمیل عورتوں کی شکل دے کر جنتیوں کو عطا کر دے گا تا کہ وہ ان کی صحبت سے لطف اندوز ہوں لیکن بہر حال یہ جن و پری کی قسم کی مخلوق نہ ہوں گی کیونکہ انسان کبھی صحبت ناجنس سے مانوس نہیں ہوسکتا.(تفہیم القرآن جلد ۵ ص۲۷۲) یعنی یہ بھی بیان کر دیا کہ حوروں کے متعلق یہ کہنا کہ وہ کوئی روحانی مخلوق ہیں بالکل غلط ہے ان کا جنت کے متعلق یہ جسمانی تصور ہے جس کی دلیل کے طور پر انہوں نے یہ سارا قصہ گھڑا ہے.کہتے ہیں جس طرح ہم یہاں گوشت پوست کے انسان ہیں ویسے ہی وہاں ہوں گے اور چونکہ ایک انسان اپنی حاجات ضرور یہ جنوں اور پریوں کی قسم کی مخلوق سے پوری نہیں کر سکتا.اس لئے لازمی طور پر گوشت و پوست کی حوریں ہونی چاہئیں اور وہ کہاں سے آئیں گی.مسلمان عورتیں تو خود جنت میں ہوں گی.وہ تو ان کی بیویوں کے طور پر یا دوسرے رشتہ داروں کے طور پر ہوں گی تو انہوں نے یہاں کیسی اچھی ترکیب نکالی اور کیا اچھا رشتہ نکالا ہے کہ غیر مسلموں کی لڑکیوں کو جو نابالغ مرگئی ہوں ان کو حوریں بنا کر وہاں پہنچا دیا جائے.ذرا ان کی نگاہ میں قرآن کریم کی عزت افزائی دیکھئے.حد ہے کہ ایسے ایسے گستاخانہ کلمات قرآن کریم کے متعلق بطور معارف بیان ہورہے
خطبات طاہر جلدم 408 ہیں ، آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کیا مقام ہے اس کتاب کا ان کے نزدیک! خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء ایک اور بحث اٹھائی گئی ہے ردالمختارعلی الدر المختار میں اور یہ احناف کی فقہ کی وہ کتاب ہے جو بریلویوں اور دیو بندیوں دونوں کو قبول ہے.ان میں سے جو نفی ہیں وہ سارے اس کو مانتے ہیں.اس کتاب میں لکھا ہے: اگر نکسیر پھوٹے پس لکھی جائے سورۃ فاتحہ خون کے ساتھ اس کی پیشانی پر اور ناک پر ، جائز ہے شفاء کے حصول کے لئے اور اسی طرح سورۃ فاتحہ پیشاب سے بھی لکھنی جائز ہے.(ردالفقار علی الدر المختار جلد اول صفحه ۱۵) سیر ان کا دین ہے ! یہ ان کی گستاخیاں ہیں !! اب میں آنحضرت ﷺ اور دیگر انبیاء علیہم السلام کے متعلق ان کے قصے سناتا ہوں.آپ حیران ہوں گے کہ کیسے کیسے قصے گھڑے ہوئے ہیں.آپ شکر کریں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیج کر آپ کو کیسے کیسے ظلمات کے پردوں سے نکال کر روشنی عطا فرمائی ہے.اس ضمن میں بے شمار حوالے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ایک خطبہ میں ان کو بیان کرنے کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا بلکہ کئی مہینے لگ جائیں گے اگر ان کی ساری باتیں کھول کر بیان کی جائیں.عصمت انبیاء کے مضمون کو لے لیجئے جماعت احمدیہ کا اس بارہ میں جو عقیدہ ہے وہ بڑا واضح ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں متعد دجگہ بڑی کثرت کے ساتھ اور بڑی شان کے ساتھ عصمت انبیاء کا مضمون بیان ہوا ہے.اس کا خلاصہ حضرت مصلح موعود کے الفاظ میں سنئے.آپ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے تمام نبی معصوم عن الخطاء ہوتے ہیں.وہ سچائی کا زندہ نمونہ اور وفا کی جیتی جاگتی تصویر ہوتے ہیں.وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر ہوتے ہیں اور صفائی اور خوبصورتی سے اللہ تعالیٰ کی سبوحیت اور قدوسیت اور اس کے بے عیب ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہیں.درحقیقت وہ ایک آئینہ ہوتے ہیں جس میں بدکار بعض دفعہ اپنی شکل دیکھ کر اپنی بدصورتی اور زشت روئی کو ان کی طرف منسوب کر دیتا ہے.نہ آدم شریعت کا توڑنے والا تھا، نہ نوح
خطبات طاہر جلدم 409 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء گنہ کار تھا، نہ ابراہیم نے کبھی جھوٹ بولا ، نہ یعقوب نے دھوکا دیا، نہ یوسف نے بدی کا ارادہ کیا یا چوری کی یا فریب کیا ، نہ موسی نے ناحق کوئی خون کیا ، نہ داؤد نے کسی کی بیوی ناحق چھینی ، نہ سیلیمان نے کسی مشرکہ کی محبت میں اپنے فرائض کو بھلایا یا گھوڑوں کی محبت میں نماز سے غفلت کی ، نہ رسول کریم علی نے کوئی چھوٹا یا بڑا گناہ کیا، آپ کی ذات تمام عیوب سے پاک تھی اور تمام گناہوں سے محفوظ ومصئون.جو آپ کی عیب شماری کرتا ہے وہ خود اپنے گند کو ظاہر کرتا ہے.“ (دعوۃ الامیرصفحہ ۱۴۹) جماعت احمدیہ کا انبیاء علیہم السلام کے متعلق یہ تصور ہے.اس تصور کی بناء پر کیسے ہم کہیں کہ یہ وہی تصور ہے جو تمہارا ہے.کیوں ہم یہ نہ کہیں کہ ہمارا رسول اور ہے اور تمہارا اور.ہمارے انبیاء اور ہیں اور تمہارے اور کیونکہ تم نے انبیاء علیہم السلام کے متعلق جو باتیں کہی ہیں اور جو کچھ لکھا ہے وہ سنو تفسیر حسینی از کمال الدین حسین میں لکھا ہے: شیطان کا نام فرشتوں میں حارث تھا.شیطان نے حضرت آدمؑم سے کہا کہ بیٹے کا نام عبد الحارث رکھو گے تو اس کی پیدائش سہل ہو گی.چنانچہ انہوں نے عبداللہ کی بجائے عبد الحارث رکھ دیا.“ ( تفسیر سورۃ الاعراف آيت لئن اتيتنا صالحًا) تفسیر جلالین اور معالم التنزیل میں لکھا ہے: حضرت آدم نے شرک کیا“ جلالین مع کمالین صفحه ۳ ۳۵ معالم التنزیل زیر آیت مذکوره ) یعنی دنیا میں پہلا شرک نعوذ باللہ من ذلک حضرت آدم علیہ السلام نے کیا.یہ ان کا نبیوں حضرت ادریس علیہ السلام کے متعلق تفسیر معالم التنزیل میں زیر آیت وَرَفَعْنَهُ مَكَانًا عَلِيَّان کے متعلق تصور ہے.(مریم: ۵۸ ) لکھا ہے.حضرت اور میں جھوٹ بول کر جنت میں داخل ہو گئے اور واپس
خطبات طاہر جلدم ہی نہیں نکلے.“ 410 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء یعنی جنت میں داخل ہونے کا ایک یہ بھی رستہ ہے جو قرآن کریم کو معلوم ہی نہیں لیکن ان مفسر صاحب کو معلوم ہے.قرآن کریم نے تو یہی بتایا ہے کہ جس نے جنت میں جانا ہو وہ سچ کے رستے سے آئے اور یہ مفسر صاحب ہیں ان کو علم ہو گیا کہ ایک یہ بھی رستہ ہے جس کا ایک نبی اللہ کو پتہ تھا اور وہ جھوٹ کا رستہ تھا چنانچہ جھوٹ کے رستہ سے وہ جنت میں داخل ہو گئے.نعوذ باللہ من ذلک.حضرت لوط علیہ السلام کی پاکیزگی اور اپنی بیٹیوں کے لئے غیرت کا جو تصور مفسرین نے پیش کیا ہے وہ سنئے.تفسیر کشاف اور جلا لین میں لکھا ہے: حضرت لوط نے اپنی بیٹیاں پیش کر دیں کہ ان سے شادی کر لو.“ ( تفسیر سورة هود زیر آیت هولاء بنتى من اطهر لكم ) یعنی دو آدمیوں کو دو بیٹیاں، تین تھیں تو تین آدمیوں کومل گئیں.مگر سوال یہ ہے کہ ساری قوم کو یہ جواب کیسے مطمئن کر سکتا تھا اور کیا ان کو عورتیں نظر ہی نہیں آتی تھیں.قرآن کریم میں تو یہ ذکر ہورہا ہے کہ ان کے ذہن گندے تھے ، ان کے ذہنوں کی بناوٹ نہایت ہی ٹیڑھی ہو چکی تھی ، ان کو ذلیل عادتیں پڑھ چکی تھیں ، ہم جنس سے وہ لذتیں پوری کرنے کے عادی ہو چکے تھے اس لئے وہ حملہ کر کے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس آئے کہ تم پاگیزگی کی یہ کی تعلیمیں ہمیں دے رہے ہو اور اس کا علاج جو نعوذ بالله من ذلک حضرت لوط علیہ السلام نے سوچا وہ بقول مفسرین یہ تھا کہ ساری قوم کی بیٹیوں کو رد کر کے اپنی دو بیٹیاں پیش کر رہے ہیں کہ یہ لے لو اور وہ گندے کام چھوڑ دو.جہالت کی بھی حد ہے اللہ کے نبی پر ایسا بیہودہ الزام اور پھر ساتھ جہالت کا بھی الزام لگاتے ہوئے ذرا شرم نہیں آئی.حضرت داؤد علیہ السلام خدا کے پاک اور عظیم الشان نبی ہیں ان کی زبور پڑھ کر دیکھ لیں خدا سے کیسی کیسی محبت کرنے اور اس کی قدوسیت کے گیت گانے والے نبی ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے بڑے پیار اور محبت کے ساتھ زبور کا ذکر فرمایا ہے.لیکن حضرت داؤد علیہ السلام کے متعلق تفسير البغوى وتفسير الخازن میں هَلْ اَتُكَ نَبَوُا الْخَصْمِ اِذْ تَسَوَّرُوا الْمِحْرَابَ (ص:۲۲) کی تفسیر میں لکھا ہے:.حضرت داؤد " محراب میں زبور پڑھ رہے تھے (یعنی خدا کی حمد کے گیت گا رہے تھے ) کہ ایک سونے کی کبوتری آپ کے پاس آکر گری (اب سونے کی کبوتری کس
خطبات طاہر جلدم 411 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء طرح چھوڑ سکتے تھے چنانچہ ) آپ اس کو پکڑنے لگے وہ منڈیر پر جا بیٹھی ( زبور ایک طرف رکھ دی ہے خدا کی حمد کے گیت سب بھول جاتے ہیں، سونا نظر آ گیا نعوذ باللہ من ذلک اور اس کے پیچھے دوڑ پڑے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت داؤد کو اتنی دولت اور سونا اور جواہرات عطا فرمائے تھے کہ اس سے بڑھ کر کسی اور نبی کو دولت عطا کرنے کا کوئی ذکر نہیں ملتا مگر مفسرین کے نزدیک ان کی حرص کی حالت یہ تھی کہ نعوذ باللہ من ذلک کبوتری کے پیچھے دوڑ پڑے وہ منڈیر پر جا بیٹھی ) آپ منڈیر پر چڑھے تو باغ میں ایک عورت کو نہاتے دیکھا ( تو کبوتری بھول گئی اور ) اس پر فریفتہ ہو گئے.پھر اس کے خاوند کو محاذ جنگ میں بھجوا کر قتل کروادیا اور خود اس سے شادی کر لی اور اس سے قبل آپ کی ۹۹ بیویاں تھیں.یہ ہیں ان کی تفسیریں اور یہ ہے ان کے انبیاء کے متعلق تصور نعوذباللہ من ذالک.آج دنیا کے ایک ذلیل بادشاہ کے متعلق بھی ایسی بات کہی جائے تو وہ مرنے مارنے پر تل جائے اور دنیا میں شور پڑ جائے.اگر وہ بیچ ہو تو اس بات پر انقلاب آسکتے ہیں.ایک بادشاہ کے متعلق ثابت ہو جائے کہ اس نے از راہ ظلم و ستم اپنے ایک جرنیل کو مرواد یا اس لئے کہ اس کی بیوی پر قبضہ کرے یہ کوئی معمولی جرم نہیں ہوتا.یہ ایک ادنی دہریہ کے لئے بھی ایک بہت بڑا جرم ہے.لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ خدا کے ایک نبی اور نبیوں میں بھی ایک ذی شان نبی جس کا قرآن کریم میں بڑے ہی پیار اور محبت سے ذکر ملتا ہے وہ ایک عورت پر نعوذ باللہ من ذالک فریفتہ ہو گئے.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت داؤد کی جس چیز کی تعریف کی گئی ہے اس میں ان لوگوں نے کیڑے نکالنے کی کوشش کی ہے اور خدا کا کوئی خوف نہیں کھایا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے لاعلمی میں ایسا کیا ہو لیکن لاعلمی میں بھی حد سے بڑھ گئے.جہاں جہاں بھی خدا تعالیٰ اپنے نبیوں کو پاک ٹھہراتا ہے وہیں ان کے متعلق جرم ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے.چنانچہ اس قسم کی جتنی آیات ہیں جن کی تفسیر بیان کرتے ہوئے مفسرین نے انبیاء علیہم السلام پر جرم ثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان میں در اصل عائد کردہ الزامات کی نفی ثابت ہوتی ہے نہ کہ اثبات جرم.لیکن اللہ تعالیٰ جس نبی کو جس صفت کے شہزادہ کے طور پر پیش کرتا ہے یہ مفسرین اسی صفت کی نفی کر دیتے ہیں اور تعریف کی بجائے ایک نہایت مکروہ اور گندا داغ لگا دیتے ہیں.اور اب حضرت یوسف علیہ السلام کے بارہ میں سنئے.آپ نہایت پاک باز اور عفت مآب
خطبات طاہر جلدم 412 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء نبی تھے.اللہ تعالیٰ نے ان کی عفت اور پاکبازی کے اظہار کے طور پر وہ قصہ پیش فرمایا ہے جسے لوگوں نے یوسف اور زلیخا کا قصہ بنالیا ہے.مگر مفسرین حضرت یوسف علیہ السلام کو نعوذ بالله من ذالک مغلوب الشہوات کے طور پر پیش کرتے ہیں اور زلیخا کو حضرت زلیخا کے نام سے یاد کرتے ہیں اور عفت کی شہزادی کے طور پر پیش کرتے ہیں: ع خرد کا نام جنوں رکھ دیا جنوں کا نام خرد اس سے زیادہ اور کسی بات پر یہ مصرعہ صادق نہیں آسکتا.غور طلب بات یہ ہے کہ جس کی پاکیزگی کو خود خدا بیان فرما رہا ہے اس کے اندر یہ لوگ گند ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور جس کا گند خدا تعالیٰ ظاہر فرمارہا ہے اس کو پاکیزہ ٹھہرا کر اس کی تعریف میں رطب اللسان ہیں.یہ قرآن ہے تمہارا! اور یہ انبیاء کے بارہ میں تمہارا تصور ہے تو پھر خدا کی قسم ہم مجرم نہیں اس بات کے کہنے پر کہ تمہارا قرآن اور ہے اور ہمارا اور تمہارے انبیاء اور ہیں ہمارے انبیا ء اور.تمہارے ان تصورات کا کوئی تعلق نہیں ان تصورات کے ساتھ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں عطا فرمائے ہیں.حضرت یوسف علیہ السلام کے متعلق تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی نے بہت سی ایسی روایات درج کر کے ان کی تردید کی ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے اس عورت سے زنا کا پکا ارادہ کر لیا اور پھر کیا کیا ہوا.کئی صفحات پر پھیلی ہوئی روایات آپ پڑھیں تو آپ کے پسینے چھوٹ جائیں، بڑا خوفناک نقشہ کھینچا ہے حتی کہ ان کا باپ سامنے کھڑا ہو گیا یعنی خدا تعالیٰ نے حضرت یعقوب علیہ السلام کو بھیج دیا کہ کچھ تو حیا کرے گا.نعوذ باللہ من ذلک.( یہ غیروں کا تصور ہے ہمارا تصور یہ نہیں ہے) چنانچہ اس طرح نقشہ کھینچتے ہیں کہ آخر خدا نے تنگ آکر حضرت یعقوب کو سامنے لاکھڑا کیا اپنے باپ کے سامنے بھی یہ جرأت کرے گا.نہایت بے باکی کے ساتھ اس قسم کی باتیں تفسیر جلالین میں بھی لکھی ہیں اور تفسیر جامع البیان میں بھی.تو جس کو خدا عفت کے شہزادہ کے طور پر پیش کرتا ہے یعنی نبیوں میں بھی وہ جو عفت کا شہزادہ کہلاتا ہے اس کا یہ حال تھا تو عام آدمی جو نبی نہیں ہیں خواہ ولی ہوں خواہ قطب ہوں یا غوث ہوں ان کا پھر کیا حال ہو گا اور جوان سے ادنی درجہ کے لوگ ہیں ان کی عصمت کا پھر کیا تصور ہوگا.دیکھیں کس قدر ظالمانہ حملے کئے ہیں اور جب حکم و عدل آیا اور ان تمام حملوں سے قرآن کریم کے اصفی انوار کو پاک اور صاف کر کے دکھایا تو
خطبات طاہر جلدم 413 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء اس وقت یہ لوگ الٹا ہم پر حملے کرنے لگے کہ اچھا پھر تمہارا قرآن اور ہے اور ہمارا قرآن اور.ہمارا قرآن تو وہی قرآن ہے جو تمام انبیاء کی عصمت کی گواہیاں دیتا ہے ان پر گندے الزام نہیں لگاتا ہے.اور زلیخا کے متعلق سنئے.ایک نہایت ہی عجیب و غریب قصہ درج کرتے ہیں.یہ اقتباس چونکہ بڑا لمبا ہے اس لئے میں اس میں سے ایک حصہ کو لیتا ہوں فرماتے ہیں.انصاف اور حقیقت ایمان و دیانت کی نگاہ سے اگر دیکھا جائے تو یہ کہنا پڑتا ہے کہ حضرت زلیخا کی پاک دامنی کی مثال آج ہمارے معاشرہ میں مفقود ہے (انالله وانا اليه راجعون) اس معاشرہ کا کیا حال ہو گا جس میں یہ ”پاکدامنی“ مفقود ہو ) کہ جس اللہ کی بندی نے تمام عمر صبر وتحمل سے گزار دی اور دامن عصمت کو داغدار نہ ہونے دیا اور باوجود دولت مند و حسینہ جمیلہ ہونے کے جب کہ بوجہ زمانہ جاہلیت آزادی و بے پردگی بھی میسر تھی ایک نامرد کے ساتھ سب جوانی گزاری.اور دولت بکارت کو کمال حفاظت سے بچائے رکھا.یہ بھی اپنی طرف سے قصہ گھڑ لیا کہ عزیز مصر گویا کہ نا مرد تھا کیسی کیسی جولانیاں دکھا رہے ہیں ان کے دماغ ! ) ایک شادی شدہ عورت کو حصول نفسانیت و بد چلنی کی وہ تمام سہولتیں حاصل ہوتی ہیں جو بے نکاحی گھر یلو پابندلڑکی کو میسر نہیں ہو سکتیں.اور جتنا بے نکاحی گھر کی مستورہ عورت کو بد نامی کا خطرہ ہوتا ہے اتنا شادی شدہ کو نہیں ہوتا.ایسی آزاد فضا کی پرورش یافتہ عورت کا اپنی چادر عصمت کو تار تار نہ ہونے دینا ولایت کاملہ اور فضل ربی نہیں تو اور کیا ہے.(زلیخا کا یہ ذکر قرآن کریم میں پڑھ لیں اور پھر اس عبارت پر نظر ڈالیں تو حیرت ہوتی ہے کہ جواز کس قسم کے ڈھونڈ نکالے ہیں.ان کا تو با قاعدہ تجزیہ ہونا چاہیے تا کہ کسی زمانہ کے سائنسدان پھر یہ غور کریں کہ ان لوگوں کے دماغوں کی بناوٹیں کیا تھیں.جنہوں نے یہ قصے گھڑے ہیں.یہی نہیں آگے سنئے اس قصہ میں تو حد کر دی ) مگر آفرین ہے اے نبی کی پاک دامن بیوی زلیخا.( یعنی حضرت یوسف سے شادی بھی کروادی کہتے ہیں آفرین ہے اے نبی کی پاک دامن بیوی زلیخا )
خطبات طاہر جلدم 414 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء تیری اس عظمت و ہمت پر جب حجلۂ عروسی میں تقرب یوسفی کا حصول ہوتا ہے تو زیور عصمت کے ساتھ ساتھ سرمایہ عذارت و بکارت سے بھی مزین ہیں (انا للہ وانا الیہ راجعون...زلیخا کی پاک دامنی کو آشکارا فرمایا.گستاخی کی پٹی باندھ کر اگر ان باتوں سے منہ موڑ لیا جائے تو اور بات ہے ورنہ انصاف کی نگاہ اس سچائی کے انکار کی اجازت نہیں دیتی.“ العطایا الاحمدیہ فی الفتاوی نعیمیه صفحه ۳۵۸ تا ۳۶۱) پس ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں ہمارا قرآن، ہمارے نبی وہی ہیں جو تمہارے ہیں.خدا کی قسم نہیں ہیں.ہم تو اس قرآن کے قائل ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قلب صافی پر نازل ہوا تھا.ہم تو ان رسولوں کے قائل ہیں اور ان پر ایمان رکھتے ہیں جن کا بڑی محبت کے ساتھ قرآن کریم بار بار ذکر کرتا ہے اور جن کی پاکیزگی کی گواہیاں دیتا ہے.تم کن نبیوں کی طرف ہمیں کھینچ کر لے جار ہے ہو.کوئی نبی ایسا باقی نہیں رہا جس کا قرآن میں ذکر ہو اور تم نے اس پر طعنہ زنی نہ کی ہو اور اس پر داغ نہ لگائے ہوں.حضرت سلیمان علیہ السلام کے متعلق تفسیر النفی میں زیر آیت وَ كَشَفَتْ عَنْ سَاقَيْهَا (النمل : ۴۵ ) میں مؤلف نے بعض ایسی بے ہودہ روایات درج کر کے انکی تردید کی ہے چنانچہ ایک روایت یوں ہے کہ: جن نا پسند کرتے تھے کہ حضرت سلیمان ملکہ سبا سے شادی کر لیں.(حضرت یوسف کے بارہ میں بھی شادی ہی کا قصہ ہے اور یہاں بھی یہی ہے ) کیونکہ وہ جذبہ تھی اور جنوں کو ڈر یہ تھا کہ ان کا بچہ جن وانس کی ذہانت کا مالک ہو جائے گا.لہذا انہوں نے متنفر کرنے کے لئے حضرت سلیمان سے کہا کہ ملکہ سبا کی پنڈلیوں پر بہت بال ہیں اور اس کے پاؤں گدھے کے پاؤں کی طرح ہیں.چنانچہ اس وہم کو دور کرنے کے لئے حضرت سلیمان نے عرش بنایا ( یعنی جومحل بنوایا گیا جس میں صاف شفاف شیشے کا فرش تھا اسے حضرت سلیمان سے نعوذ بالله من ذلک واقعۂ شادی کرنے کے لئے بنوایا تھا ) اور پانی کے
خطبات طاہر جلدم 415 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء نظارے سے اسکی پنڈلیاں دیکھ لیں.وہ خوبصورت پنڈلیوں والی تھی.پھر حضرت سلیمان نے اپنی آنکھیں پھیر لیں.(تفسیر نسفی سورۃ نمل) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: اس مقام میں قرآن شریف میں یہ آیت ہے قَالَ إِنَّهُ صَرْحُ مُّمَرَّدُ مِنْ قَوَارِيرَ (النمل: ۴۵) یعنی اس نبی نے کہا کہ اے بلقیس تو کیوں دھوکا کھاتی ہے.یہ تو شیش محل کے شیشے ہیں جو اوپر کی سطح پر بطور فرش کے لگائے گئے ہیں اور پانی جو بہت زور سے بہہ رہا ہے وہ تو ان شیشوں کے نیچے ہے نہ کہ یہ خود پانی ہیں.تب وہ سمجھ گئی کہ میری مذہبی غلطی پر مجھے ہوشیار کیا گیا ہے اور میں نے فی الحقیقت جاہلیت کی راہ اختیار کر رکھی تھی جو سورج کی پوجا کرتی تھی.(نسیم دعوت ، روحانی خزائن جلد ۱۹ ص ۴۱۱) ہاں ٹھیک ہے ہم اس قسم کے انبیاء کے قائل ہیں جن کا تصور اسی قرآن سے ملتا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ پر نازل ہوا تھا اور اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم میں غوطہ خوری کے بعد علوم و معرفت کے بے بہا موتیوں کو نکالا اور ہمارے سامنے پیش کیا.اس قرآن کو چھوڑ کر ہم اور کس قرآن کے پیچھے جائیں گے.الله اور روح المعانی میں علامہ آلوسی نے حضرت سلیمان کے بارہ میں مشہور ایک بیہودہ قصہ کو درج کر کے اس کی تردید کی ہے چنانچہ اس قصہ کے مطابق حضرت سلیمان کی انگوٹھی شیطان نے لے کر پھینک دی.آپ کی بادشاہت جاتی رہی (کوئی ذکر کوئی اشارہ بھی قرآن کریم میں نہیں کہ بادشاہت جاتی رہی بلکہ یہ ذکر ملتا ہے کہ یہ دعا کی تھی کہ ایسی بادشاہت عطا فرما کہ جس کی دنیا میں کوئی نظیر نہ ہو ) وہ شیطان جس کا نام آصف تھا آپ کے تخت پر بیٹھ گیا.حضرت سلیمان کا اگلا قصہ سنئے یہاں تک تو انسان پھر بھی سن لیتا ہے گو بر داشت تو نہیں ہوتا مگر بہر حال جو گند آگے چل کر اچھالا گیا ہے اس کے مقابل پر یہ کچھ بھی نہیں چنانچہ لکھا ہے:.یہ شیطان حضرت سلیمان کا روپ دھار کر آپ کی بیگمات سے حیض کے دوران مباشرت کرتا رہا.( تفسیر روح المعانی سورۃ ص زير آيت ولقد فتنا سليمن)
خطبات طاہر جلدم 416 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء یہ تو تھے وہ ظلم جود دیگر مقدس انبیاء پر بعض لوگوں نے نادانی سے تو ڑے یا بعض لوگوں نے دشمنوں کی باتوں میں آکر ظلم ڈھائے.گو ہر شخص کے دل کا حال تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن جہاں تک ہم نظر دوڑا کر دیکھ سکتے ہیں ایسے لوگ جنہوں نے ایسے حوالے پیش کئے ہیں ان میں بعض بڑے خدا ترس لوگ بھی تھے.بڑے بڑے علماء بھی تھے، انہوں نے ساری زندگیاں خدمت دین میں خرچ کیں.مگر پھر بھی وہ اپنے زمانہ کے اثرات سے کلیہ بچ نہیں سکے.نتیجہ یہ نکلا کہ کہیں یہودیوں کی روایات اسلامی لٹریچر میں شامل ہو گئیں، کہیں عیسائیوں کی روایات داخل ہو گئیں.چونکہ یہ راوی اس طرح معصوم نہیں تھے جس طرح خدا کا نبی معصوم ہوتا ہے یعنی نبیوں کی طرح براہ راست اللہ کی طرف سے مہدی نہیں بنائے گئے تھے اس لئے جہاں بہت سی اچھی باتیں لکھیں وہاں اس قسم کی غلط باتیں بھی کہہ گئے.ایسی غلطیوں کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے مہدی کو بھیجنا تھا.چنانچہ مہدی علیہ السلام کی بعثت کے عظیم مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد عقائد کی اصلاح تھا.اللہ تعالیٰ نے جب مہدی علیہ السلام کو بھیجا تو یہی لوگ تھے جو اس پر طعن کرنے لگے اور اس کا تمسخر اڑانے لگے، اس کے متعلق جھوٹ بول بول کر اسے بد نام کرنے اور اس پر تہمتیں لگانے لگے.سوال یہ ہے کہ جو لوگ ان برگزیدہ ہستیوں پر بھی تہمتیں لگانے سے باز نہیں آتے جن کو وہ خدا کے پاک نبی تسلیم کرتے ہیں تو ایسے شخص کے متعلق کیا کچھ نہیں کہیں گے جن کو بزعم خویش جھوٹا اور مفتری گردانتے ہیں.پس ایسے لوگوں کی باتوں کا کچھ بھی اعتبار نہیں لیکن اب سب ظلموں سے بڑھ کر جو ظلم کیا گیا اور سب سے زیادہ سفا کا نہ حملے کئے گئے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات پر کئے گئے ہیں.اب اس کو نادانی کہہ لیں یا لا علمی.جہالت کہہ دیں یا جو چاہیں نام رکھ دیں.بے شک کہہ دیں کہ بزرگ تھے مگر غلطی ہوگئی لیکن یہ غلطی ایسی ہے کہ آج بھی حضرت رسول کریم ﷺ کے متعلق یہ باتیں سن کر دل کھولنے لگتا ہے.تفسیر جلالین اور اسباب النزول للسیوطی میں زیر آیت وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُولٍ وَّلَا نَبِيِّ إِلَّا إِذَاتَمَنَّى أَلْقَى الشَّيْطَنُ في أَمْنِيَّتِه ( الج: ۵۳) لکھا ہے:
خطبات طاہر جلدم 417 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء قریش کی ایک مجلس میں رسول اللہ ﷺ نے سورۃ نجم کی آیات افَرَ يْتُمُ اللَّهَ وَالْعُزَّى وَمَنْوةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى (النجم : ۲۰-۲۱) پڑھیں تو شیطان نے آپ کی زبان پر وحی کر کے یہ جاری کر دیا تلك الغرانيق العلى وان شفاعتهن لتر تجی اس پر قریش بہت خوش ہوئے.“ ذرا سوچئے! حضرت محمد مصطفی عملے پر شیطانی وحی؟ آپ تصور کریں حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح ان کے ذہن میں یہ بات داخل ہوئی کس طرح ان کی قلموں پر جاری ہوئی.اس تفسیر کو تو میں شیطانی وحی کہہ سکتا ہوں لیکن میں یہ نہیں مان سکتا، کبھی نہیں مان سکتا اور نہ کوئی احمدی کبھی مان سکے گا کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے قریب بھی شیطان پھٹکا ہو.یہ روایات ہیں جن کو لے کر پھر دشمنان اسلام نے آنحضرت ﷺ پر نہایت گندے حملے کئے ہیں اور جب ان کو کھود کر دیکھتے ہیں تو ہر جگہ اس خطرناک فروگزاشت کا ذمہ دار کوئی نہ کوئی سادہ دماغ یا کوئی کم علم مسلمان ہی نظر آتا ہے.آخر سادگی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے اور یہ سوچنا چاہئے کہ میں کیا لکھ رہا ہوں، کس کے متعلق لکھ رہا ہوں.مگر ایسے ایسے ناپاک حملے نـعـوذبالله من ذلك حضرت محمد مصطفی ﷺ پر کئے گئے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے چنانچہ تفسیر جلالین میں حضرت زینب کے متعلق جو خامہ فرسائی کی گئی ہے خود آنحضرت ﷺ کے تعلق میں.یا یوں کہنا چاہئے کہ رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس پر جو حملہ کیا گیا ہے وہ سنئے :.کسی کام کے لئے زید بن حارث کے گھر گئے تو ہوا سے دروازے کا 66 پردہ ذرا اڑا تو حضرت زینب پر نظر پڑی.ان کی خوبصورتی پر فریفتہ ہو گئے.“ ( تفسیر سورۃ الاحزاب آیت ۳۷-۳۸) اور آگے طلاق والا وہ قصہ ہے جان کٹنے لگتی ہے جب انسان یہ لفظ پڑھتا ہے کہ تمام عصمتوں کے شہزادوں سے بڑھ کر وہ عصمت کا شہزادہ جس سے زیادہ پاکیزگی کسی نبی کو نصیب نہیں ہوئی اس مز کی اور مطہر کے متعلق وہ لکھتے ہوئے ان کا دل نہیں ڈولتا اور ان کی جان نہیں گھٹتی.جان گھٹنے کا کیا سوال ہے وہ تو بڑے مزے لے لے کر ان قصوں کو تفاسیر میں بیان کرتے ہیں.اس قسم
خطبات طاہر جلدم 418 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء کے بہت سارے حوالے میرے پاس موجود ہیں لیکن انسان ان کو پڑھ نہیں سکتا.اور یہ عبارتیں تو اور بھی تعجب خیز اور حیرت انگیز ہیں جو میں پیش کرنے لگا ہوں.ایسی ایسی عجیب بخشیں اٹھائی گئی ہیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.آج کل کے علماء کی طرف سے ایسے ایسے خوفناک لفظ استعمال کئے گئے ہیں شیعہ علماء کی طرف سے بھی اور سنی علماء کی طرف سے بھی.آپ پڑھیں تو حیران رہ جائیں گے.ایک چوٹی کے دیو بندی عالم جو انتہائی مرتبے تک پہنچے ہوئے ہیں، ان کے نزدیک وہ کہتے ہیں: ملک الموت سے افضل ہونے کی وجہ سے ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ علم آپ کا ان امور میں ملک الموت کے برابر بھی ہو.چہ جائیکہ زیادہ “ (براہین قاطعہ مصنفہ خلیل احمد مصدقہ رشید احمد گنگوہی صفحه ۴۷) یعنی دیو بندیوں اور بریلویوں کے درمیان اس بات پر بخشیں ہوتی رہی ہیں کہ آنحضرت کا علم کتنا تھا.ذرا غور کریں کہ جن لوگوں کو خود کوڑی کا علم نہیں وہ یہ فیصلہ کرنے بیٹھے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا علم کتنا تھا اور پھر دونوں طرف سے گستاخیاں ہوئی ہیں اور بہت خوفناک گستاخیاں ہوئی ہیں.پھر یہ بخشیں چلی ہیں کہ آپ حاضر ناظر تھے یا نہیں تھے، آپ حاضر ناظر ہیں یا نہیں ہیں.ان بحثوں پر آدمی کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک فریق اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ آپ حاضر ناظر ہیں جو نہیں کہتا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.دوسرا فریق جواب دیتا ہے اگر آپ حاضر ناظر ہیں تو پھر جب آپ اپنی بیویوں سے خلوت کرتے ہیں تو کیا رسول کریم ﷺ موجود ہوتے ہیں.جوابا دوسرا فریق کہتا ہے کہ ہاں موجود ہوتے ہیں مگر حیا کی وجہ سے آنکھیں نیچی کر لیتے ہیں.رسول کریم ﷺ کا کیا تصور ہے جو انہوں نے بنارکھا ہے.ان لوگوں نے نہ تو خدا کا تصور باقی رہنے دیا اور نہ حمد مصطفی ﷺ کا ارفع و اعلیٰ تصور باقی رہنے دیا.ان کی زبانوں کی کاٹ آپ کے دائیں بھی نظر آتی ہے اور بائیں بھی.آپ کے شرقی نور کا بھی کچھ نہیں چھوڑا اور غربی نور کا بھی کچھ نہیں چھوڑا.ہر طرف سے آپ کی ذات اقدس پر نا پاک حملے کئے ہیں اور اسلام کو ایسا مسخ کر کے پیش کیا ہے کہ اگر اس اسلام کو پیش کر کے دنیا کو اسلام کی طرف بلایا جائے تو کوئی معقول اور ذی ہوش انسان اس کی طرف منہ بھی نہ کرے لیکن وہ جو ان کی اصلاح احوال کے لئے آیا ہے جسے خدا کی طرف
خطبات طاہر جلدم 419 سے حکم و عدل کی کرسی پر بٹھایا گیا ہے اس پر زبان طعن دراز کرتے نہیں تھکتے.دیو بندی مولویوں نے ایک اور موازنہ کیا ہے وہ بھی سنئے :.خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء غور کرنا چاہئے کہ شیطان ملکوت الموت کا حال دیکھ کر علم محیط زمین کا فخر عالم کو خلاف نصوص قطعیہ کے بلا دلیل محض قیاس فاسدہ سے ثابت کرنا شرک نہیں تو کون سا ایمان کا حصہ ہے.“ ( براہین قاطعہ مصنفہ خلیل احمد صدر مدرسہ دیو بند یہ سہارنپور مصدقہ رشید احمد گنگوہی صفحہ ۴۷ ) یہ عبارت کچھ ایسی ہے کہ شاید بہت سے لوگوں کو سمجھ نہ آئے اس لئے میں یہ بتادیتا ہوں کہ یہاں بحث یہ چل رہی ہے اور اس بحث میں یہ باتیں اٹھاتے ہوئے ان کو حیا نہیں آئی کہ نعوذ بالله من ذلک شیطان سے رسول کریم علیہ کے علم کا موازنہ کر رہے ہیں کہ شیطان لعین سے آپ کا علم زیادہ تھا یا کم.جس کو کسی سے ادنی سی بھی محبت اور احترام ہو وہ اس قسم کا ناپاک موازنہ کرتا ہی نہیں.آخر کوئی آدمی یہ بحث کیوں نہیں اٹھا تا کہ اس کی ماں فاحشہ عورت تھی یا نہیں اس لئے نہیں اٹھاتا کہ ماں سے بچی محبت ہوتی ہے اس لئے کوئی بھی آدمی اپنی ماں کے خلاف بے حیائی کی بات نہیں سن سکتا لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے علم کا موازنہ شیطان سے کرتے ہوئے کوئی حیا نہیں آئی.میں تو یہ کہتا ہوں کہ ان کو یہ بات کہنے کی جرات کیسے ہوئی کہ شیطان کا علم زیادہ تھا یا رسول کریم ﷺ کا تم بڑے فخر اور جوش کے ساتھ یہ ثابت کر رہے ہو کہ رسول کریم ﷺ کا علم شیطان صلى الله سے زیادہ تھا اور تمہارا فریق مخالف جوابا یہ کہ رہا ہے کہ نہیں، شیطان کا علم حضوراکرم ماہ سے زیادہ تھا نعوذ باللہ من ذلک.یہ ہیں ان کے عشق و محبت کے تذکرے اور یہ ہے ان کا تصور آنحضرت و کے بارہ میں.گستاخی کی زبان ان کی رکتی نہیں.چنانچہ کہتے ہیں.صلى الله آپ کی ذات مقدسہ پر علم غیب کا حکم کیا جانا اگر بقول غیب سے ہی ہو تو دریافت طلب امر یہ ہے کہ اس غیب سے مراد بعض ہے یا کل غیب.اگر بعض امور غیبیہ مراد ہیں تو اس میں حضور ہی کی کیا تخصیص ہے.اگر بعض امور غیبیہ مراد ہیں ایسا علم غیب تو زید، عمر بلکہ ہر سفیہی و مجنون بلکہ جمیع حیوانات و بہائم کے لئے
خطبات طاہر جلدم 420 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء 66 بھی حاصل ہے.( حفظ الایمان مصنفہ اشرف علی تھانوی ص ۱۱۶) دلیل دو اور بے شک جو ایک غلط اور فاسد عقیدہ ہے اس کو غلط ثابت کرو مگر گستاخی تو نہ کرو.آنحضرت ﷺ کا مجنون اور جمیع حیوانات سے مقابلہ و موازنہ تو نہ کرو.یہ تو ایسی گستاخی ہے کہ اس سے آدمی پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.اور جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو بریلویوں پر بڑی بڑی زبانیں کھولتے ہیں کہ وہ مشرک ہیں اور یہ کہ انہوں نے گویا آنحضرت ﷺ کے مقام کو بڑھا دیا اور غیروں کو خدا کے ساتھ شریک کر لیا.یعنی ان میں دو قسم کے شرک گنواتے اور حملے کرتے ہیں کہ ایک شرک فی النبوت اور دوسرا شرک فی الالوہیت کہ وہ الوہیت باری میں بھی شریک ٹھہراتے ہیں اور آنحضرت علیہ کے تقدس میں بھی غیر اولیاء کو شریک ٹھہراتے ہیں اور خود بڑے موحد بنتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت علی کی شان اقدس میں کیسی کیسی گستاخی کے مرتکب ہوتے ہیں.بایں ہمہ اپنے علماء کے متعلق کیا کیا لکھتے ہیں یا ان کے متعلق کیا تصور رکھتے ہیں وہ سن لیجئے.مولوں رشید احمد گنگوہی کی وفات پر ”شیخ الہند مولوی محمود الحسن صاحب نے جو مرثیہ لکھا اس کے (صفحہ ۲ (۱۴) چندا شعار سننے کے لائق ہیں.زبان پر اہل ہوا کی ہے کیوں اعل ھبل شاید اٹھا عالم سے کوئی بانی اسلام کا ثانی نعوذ بالله من ذلک گویا رشید احمد گنگوہی بانی اسلام کے ثانی ہیں اس لئے اب مقابل کے لوگ اعل ھبل کی آواز میں بلند کرتے ہیں پھر کہتے ہیں: خدا ان کا مربی وہ مربی تھے خلائق کے میرے مولا میرے ہادی تھے بیشک شیخ خانی پھریں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ جور کھتے اپنے سینہ میں تھے ذوق وشوق عرفانی میدان کا عرفان ہے یعنی مولوی رشید احمد صاحب گنگوہی تو حضرت محمد مصطفی حملے کے ثانی ہو گئے اور گنگوہ کعبہ کا ثانی ہی نہیں بلکہ کعبہ اس کی راہ دکھانے والا بن گیا.کعبہ تو اس کی اردل میں آجاتا ہے.وہاں پہنچ کر تمنا پوری نہیں ہوئی.مقدس مقام کو دیکھنے کی جو حرص و آرزو تھی وہ پوری نہ
خطبات طاہر جلدم 421 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء ہوئی.اس لئے کہتے ہیں ہم پوچھتے پھرتے تھے کہ کہے تو آگئے ہیں گنگوہ کا رستہ تو دکھاؤ وہ کس طرف ہے؟ گویا کعبہ سے بھی اگلا مقام گنگوہ ہے.اور پھر یہاں آکر بھی تسلی نہیں ہوتی تو تر بتوں کی پوجا کا الزام لگانے والے یہ دیو بندی اپنے مولویوں کی تربت کو کس نظر سے دیکھتے ہیں وہ بھی سن لیجئے فرماتے ہیں.تمہاری تربت انوار کو دے کر طور سے تشبیہ کہوں ہوں بار بار ادنی مری دیکھی بھی نادانی اب یہاں ”مری دیکھی بھی نادانی میں تو کوئی عذر نہیں کیونکہ اس کا ایک اور مفہوم بھی ہے جیسے غالب نے کہا ہے.یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی گر بگڑ بیٹھے تو میں لائق تعزیر بھی تھا (دیوان غالب صفحه ۸۰) ایک یہ نادانی بھی ہوسکتی ہے.یہ کہہ کر کہ میں نے اپنے امام کی ہتک کر دی ہے کہ تمہاری تربت کہاں کہاں ہوئی لیکن یہ معنی نہ تھے.پھر بھی نادانی کی گنجائش کوئی نہیں رہتی.نادانی ایک دفعہ ہو گئی دو دفعہ ہوگئی لیکن یہ مرثیہ خواں تو کہتے ہیں ع کہوں ہوں بار بار ادنی مری دیکھی بھی نا دانی یہ نادانی نہیں یہ تو خطا ہے اور ایسی بڑی خطا ہے کہ ایک مولوی صاحب کی تربت کو طور سے تشبیہ دے رہے ہیں.یعنی خدا کو مخاطب کر کے حضرت موسی نے جو کہا تھا ارنی.یہ ایک تربت کو مخاطب کر کے کہہ رہے ہیں ارنی ارنی مجھے اپنا جلوہ دکھا اور اب بھی یہ موحدین ہیں.اور صرف یہی نہیں آگے چل کر ان کے نزدیک ان کے مولویوں اور مفتیوں کا مقام کیا ہے وہ بھی سن لیجئے : آج نماز جمعہ پر یہ خبر جانکاہ سن کر دل حزین پر بے حد چوٹ لگی کہ رحمۃ اللعالمین (مفتی محمد حسن دیو بندی لاہور ) دنیا سے سفر آخرت فرما گئے.“ ( تذکرہ حسن بحوالہ ماہنامہ تجلی دیو بند و ماهنامه نوری کرن بریلی فروری ۱۹۶۳ء) کیا ان لوگوں نے اب کوئی گنجائش باقی رہنے دی.انہوں نے اپنے ایک دیو بندی مفتی
خطبات طاہر جلد۴ 422 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء صاحب کو رحمۃ للعالمین کا مقام دیا اور پھر مولوی اشرف علی صاحب تھانوی کی جو خصوصیات بیان کی ہیں وہ بھی سنئے.کہتے ہیں: آپ کا قد مبارک اور رنگت اور چہرہ شریف اعلیٰ اور تن شریف حضرت مولانا اشرف علی جیسا تھا.“ ( اصدق الرؤیا صفحه ۵) یعنی آنحضرت ﷺ کا حلیہ مولوی اشرف علی تھانوی جیسا تھا.یہ چونکہ خواب ہے اس لئے ہم اس کو ہدف ملامت نہیں بناتے.مگر میں اس کو اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ جب کوئی احمدی خواب دیکھتا ہے تو اس پر یہ لوگ حملے کرتے ہیں اور کہتے ہیں آنحضرت ﷺ کی گستاخی ہوگئی.لیکن جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہو کہ خواب میں بھی کسی اور سے مشابہت دینا رسول کریم ﷺ کے خلاف گستاخی ہے تو اس سے لازماً یہ ثابت ہوا کہ دیو بندی گستاخی کی زبان کھول رہے ہیں.ہمارا تو یہ عقیدہ نہیں ہے.آنحضرت علم کو خواب میں دیکھنے کے تو مناظر ہی اور ہوتے ہیں، اس کی تعبیریں کی جاتی ہیں اس لئے کبھی کسی صورت میں انسان دیکھ لیتا ہے اور کبھی کسی صورت میں.تاہم یہ بہر حال ثابت ہے کہ شیطان کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کا تمثل اختیار کرے.لیکن ایسے لوگ جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خواب میں بھی اگر کسی اور کی شکل دیکھو تو گستاخی ہوگی.وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کا حلیہ مولوی اشرف علی تھانوی جیسا تھا اور صرف یہی نہیں آگے چل کر خواب کی تعبیر بھی بیان ہورہی ہے.چنانچہ لکھا ہے.پھر لکھا ہے: صلى الله ہمارے مولانا تھانوی کی شکل میں ہیں (اصدق الرؤیا صفحه ۲۵) 66 شکل ایسی ہی ہے جیسے ہمارے مولانا تھانوی کی.“ ( اصدق الرؤیا صفحہ ۳۷) پس بڑی بے باکی کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کو تھانوی سے ملا رہے ہیں یہ نہیں کہ تھانوی صاحب کو رسول اللہ اللہ سے ملائیں.یہ لوگ ہم پر الزام لگاتے رہے اور ہمیشہ جھوٹے الزام دیتے رہے آخر انہوں نے خود ہی ثابت کر دیا کہ احمدیت کے خلاف ان کا پرو پیگنڈہ سراسر جھوٹ اور بہتان
خطبات طاہر جلدم 423 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء تھا.اس میں کوئی بھی حقیقت نہ تھی کہ جماعت احمدیہ کا کلمہ اور ہے اور حضرت رسول کریم ﷺ نے جو کلمہ ہمیں سکھایا ہے وہ اور ہے.غرض ان لوگوں کا اپنا یہ حال ہے کہ شیعوں نے بھی کلمہ تبدیل کر رکھا ہے اور سنیوں نے بھی کلمہ تبدیل کر رکھا ہے.اور یہ زبانی کلامی باتیں نہیں بلکہ ان کی مختلف کتب اور رسائل میں یہ باتیں لکھی ہوئی موجود ہیں اور یہ علماء سب کچھ جانتے ہیں لیکن اس کے باوجود خاموش ہیں ان میں سے کوئی آواز نہیں اٹھاتا.ادھر جہاں تبدیلی نہیں کی گئی وہاں آواز اٹھا رہے ہیں لیکن جہاں تبدیلی کی گئی ہے وہاں کوئی آواز نہیں اٹھاتا.ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی ان کو کوئی غیرت نہیں آتی.حضرت خواجہ معین الدین چشتی قدس سرہ کے متعلق لکھا ہے.ایک شخص نے خواجہ سے کہا ( یہ خواب نہیں ہے امر واقعہ ہے ایک شخص نے حضرت خواجہ سے کہا ) میں چاہتا ہوں کہ مرید ہو جاؤں.کہا لا اله الا اللہ چشتی رسول الله کہو.اس نے ایسا ہی کیا.خواجہ نے اسے مرید کر لیا.( حسنات العارفین اردو تر جمه صفحه ۳۴ تصنیف شہزادہ محمد داراشکوه قادری) اب یہ کہنا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اپنا کلمہ پڑھوایا اس میں ان کی بھی بڑی سخت گستاخی اور بہتک ہے ان پر بھی بڑا ظالمانہ الزام ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی جیسے اہل اللہ بزرگ اور اپنے وقت کے مجدد ایسی باتیں کریں، لیکن جو لوگ انبیاء علیہم السلام کے خلاف بد زبانیاں کرتے ہیں اور جھوٹے افسانے گھڑ کر تہمتیں لگانے سے باز نہیں آتے وہ اپنے پیروں اور فقیروں کو ہدف ملامت بنائے بغیر کیسے چھوڑ سکتے ہیں.پس یہ وہ قوم ہے جس سے ہمیں واسطہ پڑا ہوا ہے.ہمارا بھی عجیب حال ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے گنا ہوں کو معاف فرمائے جس قوم کو ایسے علماء سے واسطہ پڑا ہو وہ تھوڑی جزا کی حقدار تو نہیں بنتی.پس اس وقت یہ شرف صرف جماعت احمدیہ کو ہی حاصل ہے.جو دن رات مولویوں سے زبر دست مجاہدہ کرنے میں مصروف ہے اور ان کی جہالتوں کے پردے چاک کر کے دنیا کو روشنی کی طرف لانے کی زبر دست کوشش کر رہی ہے.میں سمجھتا ہوں اور میرا یہ ایمان ہے کہ جماعت احمدیہ اس وقت اتنا بڑا مجاہدہ کر رہی ہے کہ اس کے مقابلہ میں عام انسانوں کے سینکڑوں سال کے مجاہدے
خطبات طاہر جلدم 424 خطبه جمعه ۳ رمئی ۱۹۸۵ء بیچ ہیں.اس لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ کا مقام بڑی عظمت کا حامل ہے اسی لئے قرآن کریم اس کو واضح کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ تمہارا غیروں سے میں کیسے مقابلہ کروں تم تو وہ لوگ ہو کہ جب قدم اٹھاتے ہو تو ان لوگوں کی غیظ کی نظریں تم پر پڑتی ہیں.یہ ظلمتوں کی طرف لے جانے والےلوگ ہیں.تم نور کی طرف بلانے والے لوگ ہو.تم سے ان کا کیا مقابلہ ! پس ہم ان لوگوں کے ہاتھوں دکھ تو بہت اٹھاتے ہیں مگر پھر بھی اپنے مقام کو یا در کھتے ہوئے خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ کیسا عظیم الشان وہ مہدی تھا جس نے ظلمتوں کے سارے پردے چاک کر دیئے اور ہمیں اس نور کی طرف بلایا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور کلام الہی کا نور تھا.آپ نے اس نور کو دوبارہ روشن کر کے سورج اور چاند سے بڑھ کر روشن کر کے دکھا دیا.اللهم صل على محمد وعلى ال محمد و علی عبدک المسيح الموعود انک حمید مجید“
خطبات طاہر جلدم 425 خطبه جمعه ۱۰ارمئی ۱۹۸۵ء گلاسکو کے نئے مشن ہاؤس کا افتتاح سورۃ جمعہ کی تفسیر اور فرائیڈے دی ٹینتھ کی تشریح خطبه جمعه فرموده ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء بمقام گلاسکو سکاٹ لینڈ) تشہد، تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ جمعہ کے آخری رکوع کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ.فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْلَهُوَ انْفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوْكَ قَابِمَا قُلْ مَا عِنْدَ اللهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللهُ خَيْرُ الرَّزِقِينَ (الجمعه ۱۰-۱۲) اور پھر فرمایا: یوں تو ہر جمعہ بہت مبارک ہوتا ہے اور مومن کی زندگی کے لئے ایک خاص برکتوں کا دن ہے.جمعہ کے ساتھ بہت سے فضل وابستہ ہیں ، بہت سی برکات جمعہ کے ساتھ وابستہ ہیں اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات کے مطابق جمعہ کے دن، جمعہ کے بعد اور سورج غروب ہونے سے پہلے بعض ایسی گھڑیاں بھی آتی ہیں کہ جن کو نصیب ہو جائیں ان کے مقدر جاگ اٹھتے ہیں.ایسی
خطبات طاہر جلدم 426 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء گھڑیاں بھی آتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی طور پر دعائیں مقبول ہوتی ہیں.حدیث میں جو یہ خوشخبری دی گئی ہے اس کی بنیاد بھی سورہ جمعہ میں موجود ہے: فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ یہاں اللہ کے جس فضل کا ذکر ہے اس کی تشریح آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہے.اگر چہ بظاہر عام دنیا کے کاروبار اور دنیا کی منفعتیں مراد لی جاتی ہیں اور عام لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ فضل سے مراد تجارتوں کے منافع ہیں.لیکن ہرگز ایسا نہیں وہ بھی اس آیت کا ایک منطوق ہے مگر بہت معمولی.اس آیت کا اصل منطوق وہی ہے جس کا ذکر آنحضرت ﷺ کی تفسیر میں ملتا ہے کہ جمعہ کے بعد اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کا نزول ہوتا ہے.دراصل جو فضل مراد ہیں وہی فضل اور اس کے ساتھ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ جوڑا گیا ہے کہ پھر کثرت کے ساتھ اللہ کی تسبیح کرو، اس کا ذکر کرو تا کہ تم غیر معمولی طور پر فلاح پاؤ.بہر حال جمعہ کا دن کسی پہلو سے بھی دیکھیں بہت ہی بابرکت دن ہے اور مومن کی زندگی میں ہر ہفتہ ایک نئی تازگی کا پیغام لے کر آتا ہے.جماعت احمد یہ سکاٹ لینڈ کے لئے یہ جمعہ خصوصیات کے ساتھ بہت مبارک ہے کیونکہ آج ہم جس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں جو ہم نے خالصہ اللہ اللہ کی رضا جوئی کی خاطر بہت مدت کے انتظار کے بعد حاصل کی ہے.جماعت احمد یہ سکاٹ لینڈ میں بڑی دیر سے یہ کی محسوس ہوتی رہی کہ کوئی ایسا مرکز نہیں جہاں بیٹھ کر اپنی اجتماعی زندگی کو ترتیب دے سکیں اور اس علاقہ کو ایسی مرکزیت عطا ہو جائے جہاں جماعت اکٹھی ہو اور پھر مل کر خدا کی رضا کی خاطر ، اس کے دین کی ترقی کے لئے منصوبے بنائیں اور اس مرکز کے گرد ہماری اجتماعی زندگی گھومنے لگے.اس کمی کو پورا کرنے کے لئے بڑی دیر سے کوششیں کی جارہی تھیں.مختلف جگہیں تلاش کی جاتی رہیں مگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسا مقدر تھا کہ کئی جگہیں جو ہاتھ میں آتی ہوئی نظر آتی تھیں پھر ہاتھ سے نکل جاتی تھیں.خود اس عمارت کا بھی یہی حال رہا.شروع میں جب اس کی قیمت اسی ہزار پونڈ مقر تھی اس وقت بھی ہم اس کو لینے پر آمادہ تھے لیکن کچھ ایسی وجوہات در پیش ہوئیں کہ یہ پھر ہاتھ سے نکل گئی.پھر اس کی قیمت ساٹھ ہزار پونڈ مقرر ہوئی اس وقت بھی ہم اس کو لینے پر آمادہ تھے بلکہ پیشکش بھی کر دی تھی لیکن پھر بھی ہماری
خطبات طاہر جلدم 427 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء وہ پیشکش قبول نہ ہوئی اور بظاہر یہی سمجھا گیا کہ اب یہ ہمارے ہاتھ سے نکل گئی.پھر اس کی قیمت چالیس ہزار مقررہ ہوئی.اس وقت بھی ہم لینے پر آمادہ تھے اور چالیس ہزار پونڈ جو ہم نے پیشکش کی تو وہ نا منظور ہوگئی اور اس طرح پھر یہ ہاتھ سے نکل گئی.مختلف وقتوں پر جب غالباً ساٹھ ہزار تھی اس وقت ہماری طرف سے پچپن ہزار پیشکش ہوتی تھی.مختلف وقتوں میں یہ عمارت ہمارے قریب بھی آتی رہی اور دور بھی بہتی رہی.چنانچہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب دوست کچھ گھبرا گئے اور انہوں نے کہا کہ اب کیا کیا جائے.تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اس وقت میرے منہ سے یہی بات نکلی کہ آپ فکر نہ کریں جتنی اس کی ابتدائی قیمت تھی ہمیں اس سے زیادہ نہیں دینی پڑے گی آپ انتظار کریں.چنانچہ یہ عمارت گھوم گھام کر بالآخر جماعت احمدیہ کے پاس پہنچ گئی اور اب ہمیں اس کی قیمت پنتیس ہزار پونڈ (35,000) دینی پڑی ہے.اگر چہ اس کی ظاہری حالت بہت خراب ہے.آپ یہاں جس ہال میں بیٹھے ہیں کافی وسیع کمرہ ہے میرا خیال ہے کہ اگر بھرا ہوا ہو تو تقریباً دو سو آدمی نماز پڑھ سکتے ہیں اسی طرح کا ایک اور ہال اوپر ہے.جس ہال میں آپ بیٹھے ہوئے ہیں اس کی حالت تو آپ کو خراب نہیں نظر آ رہی.امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت نے اسے بہت محنت کر کے اس قابل بنایا ہے کہ یہ اچھا دکھائی دے رہا ہے ورنہ جس جگہ ابھی جماعت احمدیہ کے رضا کا کام نہیں کر سکے آپ اس جگہ کو جا کر دیکھیں تو یہ عمارت بہت ہی خستہ حالت میں ہے یا خستہ حالت میں تھی لیکن اب انشاء اللہ تعالیٰ دیکھتے ہی دیکھتے اس کے رنگ بدلنے لگیں گے.اسی قسم کا ایک ہال او پر بھی ہے پھر اس سے اوپر بھی ایک منزل ہے وہاں بھی بہت سے کمرے ہیں.خرچ تو کرنا پڑے گا اور کچھ مزید محنت کرنی پڑے گی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ عمارت جماعت کی موجودہ فوری ضرورتوں کو بھی پوری ہو سکے گی اور آئندہ چند سال تک بھی ہماری ضرورتیں پوری کرتی رہے گی.جو انجینئر ز میں نے دیکھنے کے لئے بھجوائے تھے وہ یہ کہتے تھے کہ ہم نے اسے خوب اچھی طرح دیکھا ہے اور ہرفنی نقطہ نگاہ سے اس کی پڑتال کی ہے.اس کا صرف ٹھوس پتھر کا ملبہ وہی موجودہ قیمت جو ہمیں دینی پڑ رہی ہے اس سے زیادہ قیمت کا ملبہ ہے اور یہ موقع اتنا اچھا ہے کہ اگر یہاں چٹیل زمین بھی پینتیس ہزار پونڈ میں مل جاتی تو وہ بھی ایک اچھا سودا تھا.اس لئے اس عمارت کو تو آنکھیں بند کر کے لے لینا چاہئے.
خطبات طاہر جلدم 428 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء جہاں تک جماعت کی ضروریات کا تعلق ہے اگر چہ موجودہ حالت میں جماعت کی تعداد تھوڑی ہے اور بظاہر اتنی بڑی عمارت کی ضرورت نہیں مگر ضرورتیں پھیلتی جاتی ہیں اس لئے مشورہ یہی تھا کہ بہر حال اس موقع کو ہاتھ سے نہیں کھونا چاہئے.چنانچہ ان امور کے پیش نظر فیصلہ تو بہت دیر سے تھا لیکن ہر منزل پر آ کر کچھ روکیں بھی پیدا ہوتی رہیں لیکن خدا تعالیٰ نے بالآخر ہر روک اٹھادی اور آج یہ مبارک جمعہ ہے جس میں ہم اس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں.جب میں افتتاح کہتا ہوں تو میری مراد وہ افتتاح نہیں جس کی دنیا میں رسم موجود ہے.اس افتتاح کے تو کوئی بھی معنی نہیں ہوتے اس افتتاح کی تو کوئی بھی حقیقت نہیں ہے کیونکہ اس میں تو چند آدمی اکٹھے ہو کر رنگ و روپ کا مظاہرہ کر دیتے ہیں، کچھ دکھاوے ہو جاتے ہیں، کچھ تصاویر ہو جاتی ہیں، فیتے کاٹے جاتے ہیں لیکن جہاں تک حقیقت کا تعلق ہے حقیقت بالکل ویسی رہتی ہے اس میں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا.ایک آیا یا دوسرا آیا الف نے افتتاح کروایا یاب نے افتتاح کروایا یہ سب بے معنی اور حقیر چیزیں ہیں لیکن جب میں مذہبی نقطہ نگاہ سے افتتاح کی بات کرتا ہوں تو میری مراداس قسم کا افتتاح ہے جس قسم کا سورۃ فاتحہ نے قرآن کا افتتاح کیا.ایک چھوٹی سی سورۃ ہے جو آغاز میں رکھ دی گئی ہے اور اس کا نام سورۃ فاتحہ رکھا گیا ہے اور اس کے اندر وہ تمام معانی ہیں وہ اور تمام پیج موجود ہیں جنہوں نے نشو و نما پا کر قرآن کی شکل اختیار کرنی ہے اور اس سورۃ نے ان تمام مضامین پر حاوی ہو جانا ہے جو قرآن کی صورت میں قاری کو بعد میں نظر آنے ہیں.اس سورۃ میں ہر بلند ارادے کا افتتاح ہے.ہر عظیم حکمت اور علم کے سمندر کا افتتاح ہے.اس عظیم عالمی جد و جہد کا افتتاح ہے جس کا ذکر تفصیل سے قرآن کریم میں ملتا ہے اور ان تمام مطالب کا افتتاح ہے جو اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ خود قرآن کریم کے اپنے دعوی کے مطابق قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أن تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكيف : ١١٠) که محمد مصطفی ﷺ پر جو کلمات نازل ہو رہے ہیں ان میں ایسے بے انتہا مطالب ہیں کہ اے محمد ! اب تو خدا کی طرف سے یہ اعلان کرنے کا مختار ہے.قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا
خطبات طاہر جلدم 429 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء لكَلِمُتِ رَبِّ ان سے کہہ دے کہ اگر یہ سارے سمندر بھی ان کلمات کو لکھنے لگیں جو میرا رب نازل فرمارہا ہے یہاں تعلیمت ربی کہہ کر اپنے رب کی نسبت محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف پھیر کر یہ معنی پیدا کر دیے کہ خدا کے کلمات تو لامتناہی ہیں لیکن وہ کلمات جو محمد کے رب کی طرف سے محمد پر نازل ہورہے ہیں ان کا بھی یہ حال ہے کہ اگر سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور ان کلمات کے مطالب لکھنے لگیں نَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَن تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّي اے محمد " تو کہہ دے کہ سمندر خشک ہو جائیں گے مگر میرے رب کے کلمات خشک نہیں ہوں گے وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا خواہ ہم ان کی مدد کے لئے ویسے ہی سمندر لے آئیں تب بھی محمد کے رب کے کلمات ختم نہیں ہوں گے اور سمندر پر سمندر ختم ہوتے چلے جائیں گے.یہ وہ کلام ہے جس کا افتتاح سورۂ فاتحہ نے کیا ہے.ایک چھوٹی سی سورت جو سات آیات پر مشتمل ہے جسے آپ دن میں بیسیوں مرتبہ نمازوں میں بھی اور اس کے علاوہ بھی پڑھتے ہیں اور یہ کلام پاک کا افتتاح کرنے والی سورۃ ان معنوں میں بھی ہے کہ اس میں ہر مضمون کا بیج موجود ہے.ہر عظیم الشان منزل کا ذکر ہے جس کے اوپر حضرت محمد مصطفی ہے اور آپ کے غلاموں نے قدم مارنے تھے.مستقبل کی تمام عظیم الشان خوشخبریاں اس میں موجود ہیں.کوزے میں دریا بند کرنے کا محاورہ آپ نے سنا ہوا ہے لیکن حقیقت میں کوزے اور دریا کو آپس میں وہ نسبت نہیں ہے جو کلام الہی کی وسعتوں کو سات آیات سے اختصار اور طوالت کے لحاظ سے ہو سکتی ہے یعنی اس کے با وجو د سورہ فاتحہ میں سب کچھ موجود ہے.اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو علوم آسمان سے نازل فرمائے ان کی روشنی میں آپ نے سورہ فاتحہ کی جو تفسیر آپ نے لکھی اور پھر حضرت مصلح موعود کو اللہ تعالیٰ نے آسمان سے ملائکہ کے ذریعہ جو علوم عطا فرمائے اور سورہ فاتحہ کے جو مضامین عطا کئے ان پر نظر کریں تو انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ اس چھوٹی سی سورت میں کیا کیا با تیں موجود ہیں.پس اس سورت نے ہمیں افتتاح کا اصلوب بھی سکھا دیا ہے اور یہ بھی بتا دیا ہے کہ جب خدا
خطبات طاہر جلدم 430 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء کے مومن بندے افتتاح کیا کرتے ہیں تو اس سے کیا مراد ہوا کرتی ہے.وہ افتتاح کرتے ہیں بڑی بڑی عظمتوں کا ، وہ افتتاح کیا کرتے ہیں لا متناہی معارف اور علوم کا ، وہ افتتاح کرتے ہیں ایسی ایسی عظیم الشان فتوحات کا جن کا اس وقت افتتاح ہو رہا ہوتا ہے اس وقت عام آدمی تصور بھی نہیں کر سکتا اور وہ چھوٹی سی چیز میں یا اس چھوٹی سی تقریب میں ترقیات کے وہ سارے بیج موجود ہوتے ہیں جن سے وہ عظیم الشان تناور درخت جو بنا ہوتا ہے.جس نے نشوونما پا کر ساری دنیا کو ہریاول پھل اور پھول عطا ہونے ہیں اور اس ایک درخت نے پھیل کر تمام دنیا پر سایہ کر دینا ہے.یہ ساری باتیں اس چھوٹے سے بیج میں موجود ہوتی ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب جماعت احمدیہ کا افتتاح فرمایا تو وہ اسی قسم کا افتتاح تھا.اس میں یہی مثال دی گئی تھی کہ میں جو بیج بورہا ہوں یہ بظاہر ایک حقیر ، بے معنی اور ایک چھوٹا سا پیچ ہے لیکن ایک وقت یہ تناور درخت کی صورت میں ظاہر ہوگا اور اتنا عظیم الشان درخت ہوگا کہ اس کی شاخیں تمام دنیا پر محیط ہو جائیں گی اور اس کے پھل اور پھول سے تمام دنیا استفادہ کرے گی اور اس کی رحمت کے سائے ساری دنیا پر حاوی ہو جائیں گے.اس وقت کون سوچ سکتا تھا کہ یہ افتتاح حقیقت میں ان سارے امور پر منتج ہو گا.کس کے وہم وگمان میں یہ بات آسکتی تھی کہ قادیان سے ایک شخص جو خود بھی گمنام ہے اور اس کی بستی بھی گمنام ہے ایک عجیب سا دعوی کر رہا ہے، ایک چھوٹی سی جماعت کی بنیا درکھتا ہے اور کہتا ہے کہ ساری دنیا پر اس کی شاخیں پھیل جائیں گی اور تمام دنیا پر اس کا سایہ دراز ہو جائے گا اور دور دور سے قومیں آئیں گی اور اس سے فائدہ اٹھائیں گی.اگر اس دعوی کو دنیا کی نظر سے دیکھا جاتا تو ایک دیوانے کی بڑ معلوم ہوتی تھی.اسی لئے دنیا خدا تعالیٰ کے انبیاء کو دیوانہ کہا کرتی ہے.اس لحاظ سے وہ بھی سچے ہیں کیونکہ جب ایمان کی آنکھ سے ہٹ کر دیکھا جائے تو وہ دعاوی اتنے بڑے ہوتے ہیں کہ ان کے انجام کو ان کے افتتاح سے کوئی نسبت ہی نہیں ہوا کرتی.جب لوگ آغاز دیکھ رہے ہوتے ہیں اس وقت وہ اس آغاز میں انجام کی تصویر میں دیکھ رہے اور بڑے بڑے دعاوی کر رہے ہوتے ہیں.اس وقت کے دنیا دار لوگ اگر انہیں دیوانہ کہیں تو ان کی نا کبھی یا بیوقوفی جو بھی آپ کہہ لیں لیکن جب آپ ایمان کی آنکھ سے ہٹ کر دیکھیں گے تو دیوانگی کے سوا اس کا کوئی اور نام نہیں رکھا جاسکتا.
خطبات طاہر جلدم 431 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء آنحضرت ﷺ جنگ احزاب کے موقع پر خندق کھود نے کے دوران جب ایک پتھر توڑ رہے تھے تو اس کی چنگاریوں میں آپ نے کیا دیکھا تھا.کہیں یمن کے محلات کی چابیاں آپ کے ہاتھ میں دی گئیں، تو کہیں قیصر و کسری کے خزانے آپکو دکھائی دیئے اور ہر نظارے کے ساتھ آپ اللہ اکبر اللہ اکبر کی آواز بلند کرتے تھے.اس وقت دیکھنے والے تو بہر حال مومن تھے.وہ جانتے کہ یہ ساری باتیں کچی ہیں اور لاز مانچی ہوں گی لیکن اگر اس وقت وہاں کوئی کافر جو اپنی بدقسمتی کی وجہ آپ پر ایمان نہ لاسکتا تھا) موجود ہوتا تو وہ یہ نظارہ دیکھ کر ہنستا ہوا اپنے گھر واپس لوٹ آتا اور کہتا کہ اس خص کا بھی عجیب حال ہے پیٹ پر فاقے کی وجہ سے دو پھر بندھے ہوئے ہیں.دو وقت کی روٹی کیا چوبیں چوبیس گھنٹے کا فاقہ اس شخص پر پڑ رہا ہے اور اس کے غلام ایک ایک پتھر باندھ کر پھر رہے ہیں اور مزدوری کر رہے ہیں اور جب وہ شکایات کرتے تو اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھاتا ہے اور کہتا کہ دیکھو میرے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے ہیں اور باتیں یہ کر رہا ہے کہ خدا کی قسم قیصر کی حکومت بھی میرے پاؤں تلے آئے گی اور کسریٰ کی حکومت بھی میرے پاؤں تلے آئے گی اور یمن کے محلات کی چابیاں بھی خدا میرے سپرد کر دے گا.تو یہ بھی اس وقت ایک افتتاح ہورہا تھا.دنیا کے وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ یہ ساری باتیں سچی ہو کر رہیں گی.پس مذہبی دنیا میں جن افتتاحات کا تعلق اللہ کی ذات اور اس کے تو کل پر ہوا کرتا ہے.جن کا تعلق ان خوشخبریوں اور ان دعاؤں کے ساتھ ہے جو ایک نہ ختم ہونے والے خزانے کی صورت میں الله ہمارے لئے موجود ہیں، لامتناہی ترقیات کی وہ خوشخبریاں جو آنحضرت ﷺ کی زبان سے ہمیں عطا کی گئیں ان خوشخبریوں پر بنا رکھتے ہوئے جو افتتاح کیا جاتا ہے، ان دعاؤں کی بنا پر رکھتے ہوئے جو افتتاح کیا جاتا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی حمد اللہ نے اپنی امت کے لئے پیچھے چھوڑی ہیں تو اس افتتاح کو عام دنیا کے افتتاح سے کوئی بھی نسبت نہیں.جو افتتاح رضائے باری تعالیٰ کی خاطر ، اس کا نام بلند کرنے کے لئے اور اس کے ذکر کو وسیع کرنے کے لیے تمام دنیا میں اس کے ذکر کو پھیلانے کے لئے کیا جاتا ہے اس افتتاح کے ساتھ عام دنیا کے افتتاح کو نسبت ہو ہی کیا سکتی ہے.پس آج ہم جس افتتاح کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں یہ اسی قسم کا افتتاح ہے، یہ ویسا ہی افتتاح ہے جیسے سورۃ فاتحہ نے ہمیں سکھلایا کہ یوں افتتاح ہونا چاہئے.اپنے اختصار میں بھی
خطبات طاہر جلدم 432 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء بلند ارادوں اور بلند ہمتوں کے لامتناہی مضامین اکٹھے کر دو اپنے اختصار میں بھی لا متناہی ترقیات کے بیج بو دو.بلند ارادے لے کر ایک چھوٹی سی اینٹ کو بنیاد میں رکھو اور فیصلے یہ کرو کہ اس اینٹ سے ہم نے اتنے عظیم الشان محلات تعمیر کر دینے ہیں کہ تمام دنیا کی قو میں جو بھی اس میں پناہ لیں تو وہ ان کے لئے چھوٹے نہ ہو سکیں.ایسے افتتاح کرو جیسے محمد مصطفی ﷺ نے افتتاح فرمائے ، ایسے افتتاح کرو جیسے اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے افتتاح فرمائے اور پھر اللہ پر توکل رکھو پھر دیکھو کہ خدا تعالیٰ ان افتتاحات میں کتنی برکتیں نازل فرماتا ہے، کتنی برکتیں رکھ دیتا ہے.حضرت مصلح موعود نے بھی اسی قسم کے افتتاح کا تصور باندھا جب یہ شعر کہا: ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی آغاز تو میں کر دوں انجام خدا جانے ( کلام محمود: صفحه ۱۲۰) یہ وہی جنگیں ہیں جن کے میدان آج سکاٹ لینڈ میں بھی کھلے ہوئے ہیں.یہ وہی درخت ہے جس کا بیج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بویا تھا اور دنیا کو یہ خبر دی تھی کہ اس کی شاخیں تمام دنیا پر پھیلیں گی اور تمام دنیا اس کے رحمت والے سایہ سے فیض پائے گی.آج اس کی ایک شاخ سکاٹ لینڈ میں بھی پہنچی ہوئی ہے اور اسی کو مزید طاقت دینے کے لئے ہم یہ سارے کاروبار کر رہے ہیں اس لئے بظاہر یہ ایک معمولی سا افتتاح ہے، ایک بوسیدہ اور پرانی عمارت کا افتتاح ہے جو دنیا کی نظر میں اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے اور اتنی بوسیدہ ہو گئی کہ ہر نئی بار اس کی قیمت پہلے سے کم پڑتی رہی گویا وہ اپنی عمر کے کنارے پر پہنچی ہوئی عمارت ہے مگر یہ عجیب دیوانی جماعت ہے کہ اس کا آج افتتاح کر رہی ہے لیکن دنیا کی نظر میں دیوانی ہے خدا کی نظر میں نہیں.ہم نے اس عمارت میں نئی زندگی ڈالنی ہے.اس عمارت کے تن مردہ کوئی روح بخشنی ہے.ہم نے اس عمارت میں ذکر الہی کر کے اس کے بھاگ جگانے ہیں، اسے نئے نصیب عطا کرنے ہیں.یہ ہے وہ افتتاح جو ہم آج کر رہے ہیں اور اگر آپ اس روح کے ساتھ اس کے درودیوار پر محبت الہی کے نقش کر دیں گے.اگر آپ ایسی روح اور انہی نیک ارادوں کے ساتھ ذکر اور درود کے ساتھ اس عمارت کی فضاؤں کو بھر دیں گے تو اس کی ساری نحوستیں اور ساری بوسیدگیاں ہمیشہ کے لئے اس کو چھوڑ دیں گی اس عمارت پر
خطبات طاہر جلدم 433 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء نئی رونق آجائے گی ، اس عمارت کا چہرہ پہچانا نہیں جائے گا، اس میں نور بس جائے گا، لوگ آئیں گے اور اس کے نور سے استفادہ کریں گے.یہ آپ ہی کے دل کا نور ہے جس نے اس عمارت میں منتقل ہونا ہے، یہ آپ ہی کی روحانی زندگی ہے جس نے اس عمارت کو زندگی بخشنی ہے اور جب آپ ایسا کریں گے تو یہ عمارت پھر آپ کو ان سب نیکیوں کا بدلہ دے گی.اس عمارت کا فیض پھر آپ کو بھی پہنچے گا.وہ نور جو آپ اس کو بخشیں گے، وہ زندگی جو آپ اس کو عطا کریں گے وہ ساری جماعتی زندگی اور سارے جماعتی نور کی شکل میں پھر ابھرے گی.یہ ہے الہی نظام جس کے ذریعہ چیزیں ایک دوسرے سے با ہمی قوت پا جاتی ہیں اور بڑھتی چلی جاتی ہیں.پس آج ہم دعا کے ساتھ اس عمارت کا افتتاح کریں گے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس عمارت کو ایک مذہبی، روحانی عمارت میں تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اس عمارت کے سارے گناہ جو ماضی میں یہاں ہو چکے یا وہ ساری بدکاریاں یا خدا تعالیٰ سے دوری کی باتیں جن کا کبھی اس عمارت سے تعلق رہا ہے، وہ مٹے ہوئے حرف کی طرح مٹ جائیں اور کوئی نشان ان کا باقی نہ رہے ،اس عمارت پر نئی عبادتیں مرتسم ہوں.اللہ اور محمد کے نام لکھے جائیں، اللہ اور محمد کا ذکر اس میں چلے یہاں تک کہ اس عمارت کو بالکل ایک نئی زندگی عطا ہو جائے.پس ان ارادوں کے ساتھ ہم اس عمارت کا افتتاح کر رہے ہیں.جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ یہ افتتاح بظاہر معمولی ہے لیکن فی الحقیقت ہم بہت بڑے عزائم کے ساتھ ، بہت بڑے نیک ارادوں کے ساتھ اس افتتاح کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں.ان میں سے ایک ارادے کا ذکر میں نے پہلے بھی کیا تھا اور وہ یہ تھا کہ جب ہم نے عمارت لی تو آپ میں سے بعض دوست کہہ رہے تھے کہ اتنی بڑی عمارت کو ہم نے کیا کرنا ہے.یہ تو ایسی ہی بات ہے جیسے کسی بچے نے لفافہ میں دو گولیاں ڈالی ہوں اور لفافہ اتنا بڑا ہو کہ اس میں دس کلو گولیاں پڑسکتی ہوں خلخل کرتا خالی کمرہ اور اس میں دو چار آدمی بیٹھے ہوں یہ منظر بعض لوگوں کو اچھا نظر نہیں آیا اس لئے انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ عمارت کیا کرنی ہے، یہ تو بری لگے گی ، ہم دو چار آدمی ہیں اتنی بڑی عمارت کیا کرتے پھریں گے.چنانچہ میں نے ان کو ( یعنی جس نے مجھے بتایا میں نے ) جواب دیا کہ اگر دو چار ہیں تو خدا
خطبات طاہر جلدم 434 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء نے آپکو دو چار رہنے کے لئے تو نہیں بنایا.اول تو یہ کہ اگر آپ دو چار بھی ہیں تو اتنی بڑی عمارت کا حق پھر یوں ادا کریں کہ اس کے کونے کونے میں خدا تعالیٰ کو سجدے کریں ، کونے میں دعائیں کریں اور اللہ کا ذکر بلند کریں.پھر یہ عمارت آپکو دو چار نہیں رہنے دے گی ، یہ اپنے نمازی خود پیدا کرے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہی سلوک ہے جو جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمیشہ سے ہوتا چلا آیا ہے.بہت بڑی چھلانگ ماری اور کوئی بہت بڑی عمارت تعمیر کر دی تو دیکھتے ہی دیکھتے یہ محسوس ہوا کہ وہ عمارت چھوٹی تھی اور اس کے آباد کرنے والے اس کی وسعت سے کہیں زیادہ آگے نکل گئے.ہمیشہ سے جماعت کے ساتھ یہی سلوک ہو رہا ہے.ہمیشہ ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس الہام وسع مکانک ( تذکرہ صفحہ: ۴۱) کو اس شان سے پورا ہوتے دیکھا ہے کہ کسی مکان کو وسعت دی اور پھر وہ مکان چھوٹا رہ گیا ، پھر وسعت دی اور پھر چھوٹا رہ گیا اور وسع مـکـانـک کا حکم کہ اپنے مکان کو وسعت دیتے چلے جاؤ یہ قائم رہا اسی طرح کبھی ایک دفعہ بھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ جماعت احمدیہ نے کوئی عمارت بنائی ہو اور وہ عمارت بڑی رہ گئی ہو بلکہ چھوٹی ہو جاتی ہے.ابھی ہم نے انگلستان میں چھپیس ایکٹر زمین اسلام آباد میں لی تو وہاں اتنی بڑی بڑی بلڈنگز ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال تھا کہ ہم ان کو کیسے سنبھال لیں گے لیکن ابھی پورا سال بھی نہیں گزرا بلکہ صرف آغا ز ہی ہوا ہے کہ وہ عمارت چھوٹی نظر آنے لگی ہے.وہاں ہم نے سکول بھی کھولنا ہے.بہت سے جماعتی پروگرام ہیں ایسے میں اب محسوس ہو رہا ہے کہ توسیع کے لیے درخواست کرنی پڑیگی کیونکہ یہ عمارت تو ہمارے سارے کاموں کے لئے کافی نہیں ہے.پس خدا تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے جب آپ بڑی بڑی عمارتیں لیتے ہیں یا بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کرتے ہیں تو خدا تعالیٰ کام اتنے بڑھا دیتا ہے اور اسے آباد کرنے والے اپنے بندے اتنے عطا کر دیتا ہے کہ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ عمارتیں چھوٹی نظر آنے لگتی ہیں.تو یہ بھی میرا ایک ارادہ تھا کہ میں آپ کو یہ بتاؤں اور سمجھاؤں کہ آپ اس عمارت کو چھوٹا کر کے دکھا ئیں اور جلد از جلد چھوٹا کریں.پس آپ کے لئے پہلا پروگرام تو یہی ہے کہ تبلیغ میں اتنی کوشش کریں اور یہاں کے مقامی دوستوں کو اتنی جلدی اسلام سے روشناس کروائیں اور انہیں اسلام کی طرف کھینچ کر لے آئیں کہ ہمیں یہ عمارت دیکھتے ہی دیکھتے حقیقتاً چھوٹی دکھائی دینے لگی مگر یہ تو پہلی منزل ہے.دوسرا قدم پھر یہ ہوگا کہ
خطبات طاہر جلدم 435 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء خدا تعالیٰ اس عمارت کے نتیجہ میں آپکو جو نئے نئے پھل عطا کرے گا وہ خود بیج بن جائیں ، وہ خود نشو و نما کا ذریعہ بن جائیں.اگر آپکی جیبیں چھوٹی ہیں تو وہ وسیع جیبیں لیکر آپ کے پاس آجائیں اور پھر آپ اپنے ماحول میں ارد گر دنئی عمارتیں اور نئی نئی زمینیں خریدنا شروع کر دیں اور سکاٹ لینڈ کی فتح کے لئے اسے بیج بنادیں اور صرف گلاسگو فتح نہ ہو بلکہ اس عمارت میں سارے سکاٹ لینڈ کی فتح کا پیچ بویا جائے.پس اگر آپ اس بلند ارادے کے ساتھ افتتاح کریں اور خدا پر توکل کریں تو آج آپ کو بظاہر یہ عجیب باتیں دکھائی دے رہی ہوں گی.آپ سوچتے ہوں گے کہ یہ بہت بڑی بڑی باتیں ہیں لیکن اس سے زیادہ بڑی بات تو نہیں کہ فاقوں کے ساتھ پتھر توڑے جارہے ہوں اور قیصر و کسریٰ کی خوشخبریاں دی جارہی ہوں کہ قیصر و کسریٰ کے خزانے میرے ہاتھ دے دیئے گئے ہیں، ان کے محلات کی چابیاں مجھے پکڑا دی گئی ہیں.یہ دنیا کا افتتاح نہیں ہے اس بات کو یا درکھیں کہ یہ ایک مذہبی افتتاح ہے اور مذہبی افتتاح اسی قسم کی باتوں سے کیا جاتا ہے اور وہ جو خدا پر توکل رکھتے ہیں ان کی پگی باتیں بھی خدا کچی کر کے دکھا دیتا ہے.ان کی پگلی باتیں بھی دنیا کے سیانوں کی باتوں سے اپنی عقل، اپنی حکمت اور اپنی معرفت میں آگے بڑھ جاتی ہیں.چونکہ یہ ایک مذہبی عمارت ہے اس لئے اس کا افتتاح بھی مذہبی اسلوب پر ہونا چاہئے.بلند ارادوں کے ساتھ افتتاح کریں اور پھر ان ارادوں کو جلد از جلد عمل کے سانچوں میں ڈھالنے کی کوشش کریں.جمعہ اور خوشخبریوں کی باتیں ہو رہی تھیں اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ یہ جمعہ اتفاق سے ایسا ہے کہ آج دس تاریخ کو ہو رہا ہے یعنی آج مئی کی دس تاریخ ہے اور جمعہ بھی ہے اور جب میں یورپ کے سفر پر تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک کشفی نظارہ دکھایا تھا کہ سامنے ایک گھڑی ہے جس پر صرف دس کا عدد بہت نمایاں اور روشن ہے اور وہ جمعہ کا دن ہے اور جس روز یہ نظارہ دیکھا وہ بھی جمعہ کا دن تھا یا ایک دن پہلے کی بات ہے مگر بہر حال میری زبان پر یہ جاری ہوتا ہے FRIDAY THE 10TH ، اس پر مجھے تعجب بھی ہوتا ہے کہ The 10th سے مراد بظاہر تو تاریخ لگتی ہے اور گھڑی پر تاریخ تو نہیں لکھی گئی وہ تو گیارہ سے پہلے دس کا جو مقام ہوتا ہے عین اسی مقام پر دس کا عد دروشن ہے جو تاریخ کے طور پر نہیں بلکہ وقت کے طور پر ہے لیکن میں کہہ کیا رہا ہوں اس پر چونکہ اختیار نہیں تھا یعنی باوجود اس کے کہ ذہن اس حد تک کام کر رہا تھا، اس وقت یہ پتہ تھا کہ یہ گھڑی کا ہندسہ ہے تاریخ نہیں
436 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء خطبات طاہر جلدم ہے لیکن منہ پر جو الفاظ جاری تھے ان پر کوئی اختیار نہیں تھا.اور میں یہ کہہ رہا تھا کہ FRIDAY THE 10TH اس وقت اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں یہ بات ڈالی کہ جماعت کے لئے بہت بڑی خوشخبری عطا کی جارہی ہے.بہر حال میں نے اس کا ذکر خطبہ میں کیا تو متفرق رنگ میں اسکی تعبیریں کی جانے لگیں.اول تو خود مجھے تعجب تھا کہ اگر تاریخ مراد ہوتو پھر گھڑی پر دس کے عدد کے طور پر کیوں بنائی گئی ہے لیکن دل میں یہ تسلی تھی کہ اللہ تعالیٰ جب بھی اس کی تعبیر ظاہر فرمائے گا اس وقت بات سمجھ میں آجائے گی لیکن اس وقت سے لے کر اب تک جماعت کی طرف سے مختلف رنگ میں مسلسل اسکی تعبیریں ہورہی ہیں اور بعض لوگ تو اپنی تعبیر پر ایسی بناء کرتے ہیں کہ شرطیں تک لگا دیتے ہیں اور پھر مجھے بھی لکھ دیتے ہیں.چنانچہ میں پھر ان کو جواباً لکھتا ہوں کہ خدا کا خوف کرو جس کو خدا نے نظارہ دکھایا ہے اس کو تو معین طور پر وضاحت نہیں بتائی کہ اس سے کیا مراد ہے اور تمہیں اتنا یقین ہو گیا ہے کہ آگے سے شرطیں باندھنے لگے ہومگر ہر مزاج کے لوگ ہوتے ہیں.جلنگھ بہر حال اس کی مختلف تعبیریں جو مجھ تک پہنچی ہیں ان میں سے چند قابل ذکر میں آپ کو بتاتا ہوں.جب دورہ سے واپس آرہے تھے تو ھم میں قیام کے دوران ایک گھر میں ایک صاحب نے اپنی ایک رویا بتائی جس میں خدا تعالیٰ نے چاند کی دسویں کی خوشخبری دی ہوئی تھی تو اس نے کہا کہ جب مجھے کسی عزیز نے فون پر یہ اطلاع دی کہ اللہ تعالیٰ نے آپکو یہ کشفی نظارہ دکھایا ہے تو مجھے اپنی رویا یاد آگئی اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے چاند کی دسویں تاریخ مراد ہے نہ کہ انگریزی مہینوں کی دسویں.میں نے ان سے کہا کہ ٹھیک ہے آپ بے شک یہ مراد لیں کیونکہ خدا نے آپ کو ایک رؤیا دکھائی ہے ہو سکتا ہے کہ اس کا تعلق اس سے ہو لیکن جب تک خدا تعالیٰ یہ تعبیر ظاہر نہ فرمادے اس وقت ہم یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے.ایک بات بہر حال یقینی ہے کہ خدا تعالیٰ جب جماعت کے لئے خوشخبری دکھائے گا تو اتنی نمایاں اور روشن ہوگی کہ دیکھنے والے کو نظر آئے گا.اس وقت تعبیروں کا وقت نہیں رہے گا بلکہ صاف دکھائی دے گا کہ ہاں یہ بات پوری ہوگئی.پھر بعض لوگوں نے مجھے خط لکھا کہ ہم نے حساب کیا ہے کہ یہ تاریخ مئی کی دسویں بنتی ہے یعنی آج.تو میں نے کہا کہ اللہ آپ کی زبان مبارک کرے اگر یہی دسویں ہو تو میرے لئے اس سے بہتر اور کیا ہوسکتا ہے کہ خدا تعالیٰ یہ کشف جلدی پورا فرمادے لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے تو سال نہیں بتایا صرف تاریخ ہی بتائی ہے تو خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلدم 437 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء کرے اور ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ اسی مئی کی دسویں کو وہ خوشخبری کا دن بنادے لیکن جہاں تک نظارے کا تعلق ہے میں نے جود دیکھا بعینہ وہی آپ کو کھول کر بتادیا ہے.اس سے کیا مطلب ہے اسکی تعبیر کیا ہو سکتی ہے یہ سوچنے والی باتیں ہیں لیکن تعبیر پر بناء رکھتے ہوئے کوئی قطعی فیصلہ نہیں کیا جا سکتا.اسی تعبیر کے تعلق میں کسی نے تو یہ لکھا کہ سال کا نہ ہونا ایک انذار کا پہلو بھی رکھتا ہے.دیکھئے جتنے دماغ ہیں وہ مختلف رنگ میں کام کرتے ہیں.پھر انہوں نے کہا کہ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ آپکی واپسی پر کئی سال لگیں گے ورنہ خدا تعالیٰ جس طرح بعض اوقات بتا دیتا ہے کہ چند سالوں میں یہ واقعہ ہوگا یا فلاں سال ہوگا اس کی بجائے دن بتا دیا ہے اور سال کا اخفاء رکھ لیا ہے تو یہ طریق ہے یہ بتانے کا کہ ابھی کچھ وقت لگے گا تا کہ صدمہ نہ پہنچے.اس لئے بڑی نرمی سے آپ کو بتایا گیا ہے جس طرح کہ ایک پیار کرنے والی ماں بچے کو کوئی خبر دیتی ہے اس طرح آپ کو یہ خبر دی گئی ہے لیکن اخفا کے ساتھ اب ایک دماغ اس طرف بھی چلا گیا.جو سب سے زیادہ دلچسپ اور عرفان کا پہلور رکھنے والی تعبیر مجھے ملی ہے.وہ لاہور کے ایک دوست کی ہے جو بڑے ذہین اور فہیم انسان ہیں اور ایسے معاملات پر غور کرتے رہتے ہیں.انہوں نے مجھے یہ لکھا کہ میں نے بہت غور کیا ہے اور میری توجہ اس طرف گئی ہے کہ یہاں نہ ظاہری تاریخ کا ذکر ہے اور نہ ظاہری جمعہ کا ذکر بلکہ سورۃ جمعہ کا ذکر ہے اور سورۂ جمعہ کی دسویں آیت بتائی گئی ہے.FRIDAY انگریزی میں جمعہ کا نام ہے اور Verse ,The 10th ( آیت) کو بھی کہہ سکتے ہیں اور چونکہ سورہ جمعہ بارہ آیات پر مشتمل ہے اس لئے یہ گھڑی کے ساتھ عین مطابقت کھاتی ہے کیونکہ اس کے بھی بارہ اعداد ہوتے ہیں اور اگر دسویں آیت دکھائی مقصود ہو تو توجہ مبذول کروانے کے لئے گھڑی کا دسواں حصہ روشن دکھایا جائے گا.تو انہوں نے کہا یہ با قاعدہ ٹیلی کر رہا ہے ورنہ گھڑی کی صورت میں تاریخ دکھانے کی کوئی سمجھ نہیں آتی.اگر تاریخ مراد ہو تو ایک تعبیر یہ بھی کی گئی.میں نے جب غور کیا تو اس میں مجھے کافی گہرائی نظر آتی ہے اگر چہ آپ کی طرح میری خواہش بھی یہی ہے کہ کسی معین تاریخ کو خدا تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نشان ظاہر ہو اور پھر اس کے نتیجے میں خدا تعالیٰ ان لوگوں کے لئے بھی جو کم فہم ہیں اور ظاہری چیزوں کو دیکھنا چاہتے ہیں ہدایت کو قبول کرنے کا رستہ پیدا کر دے.یہ خواہش تو میری بھی ہے اور تعبیر کا یہ پہلو بھی قابل غور ضرور ہے کیونکہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلدم 438 خطبه جمعه ۱۰ارمئی ۱۹۸۵ء ایک خوشخبری کو ایک سے زیادہ رنگ میں بھی پورا کر دیتا ہے.بہر حال جب میں نے غور کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ سورۃ جمعہ کے ساتھ تو جماعت احمدیہ کا بہت گہرا تعلق ہے اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی اور سورت سے جماعت احمدیہ کا براہ راست اتنا گہرا تعلق نہیں ہے کیونکہ اس میں آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ پوری ہوئی.وَأَخَرِيْنَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ کا ذکر ہے ان آخرین کا جو صحابہ سے نہیں ملے تھے لیکن ایک دن انہوں نے مل جانا تھا، اس مضمون کا ذکر ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں: ع صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا ( در تین صفحه : ۵۶) اس مصرعہ کی بنیاد بھی اسی سورۃ جمعہ پر ہے.چنانچہ جب میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ سورہ جمعہ تو جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت گہرا تعلق رکھتی ہے.نہ صرف ایک عام تعلق بلکہ کئی رنگ میں تعلق رکھتے ہے اس لیے اگر وہاں ( کشف میں ) میں سے سورہ جمعہ مراد ہو اور سے مراد دسویں آیت ہو تو یہ کوئی بعید کی بات نہیں ہے.یہ حض کوئی ذوقی نکتہ نہیں بلکہ ایک گہرا عارفانہ نکتہ ہے.سورہ جمعہ کے تعلق کو آپ دیکھیں تو اس سلسلہ میں سب پہلے آپ کو لفظ جمعہ پر غور کرنا ہوگا.جمعہ دراصل اجتماع یعنی اکٹھے ہونے کو کہتے ہیں.اس میں جمع کا مضمون پایا جاتا ہے.یہ وہ سورت ہے جس میں کئی قسم کی جمعیں اکٹھی ہو گئیں اور جیسا کہ میں نے آپکو بتایا ہے جمعہ کے ساتھ فضل بھی وابستہ ہیں اور وہ فضل کیا کیا ہیں ؟ اس کی ادنی شکلیں بھی خدا تعالیٰ نے سورہ جمعہ میں بیان فرما دی ہیں اور اعلی شکلیں بھی.اور یہ سورہ ان سارے فضلوں کو بھی جمع کرنے والی ہے.اس میں جمع کی کئی شکلیں موجود ہیں مثلاً وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ کا ایک عام معنی یہ ہے کہ جب تجارت چھوڑ کر خدا کے ذکر کے لئے اکٹھے ہو تو ذکر کے بعد دوبارہ تجارتیں شروع کر دو تو تمہیں ان میں فائدہ پہنچے گا ، اللہ فضل عطا فرمائیگا اور ایک اور فضل کا بھی اس میں ذکر ہے، یہ انتہائی فضل ہے جسے فضل نبوت کہا جاتا ہے.چنانچہ بعثت ثانیہ کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذلِكَ فَضْلُ اللهِ
خطبات طاہر جلدم 439 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ یہ جو آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر ہے فرمایا یہ اللہ کا فضل ہوگا اور وہ فضل جسے چاہے گا عطا فرمائیگا اور خدا تعالیٰ عظیم فضلوں والا ہے.تو فضل کے دو کنارے بیان فرما دیئے ایک عام فضل جو دنیا کی تجارتوں کے ذریعے دنیا کے رزق کی صورت میں انسان کو ملتا ہے ، ایک وہ فضل جس کی انتہا نبوت ہے اور ان سارے فضلوں کو سورہ جمعہ نے اپنی ذات میں اکٹھا کر لیا دونوں کا ذکر فرما دیا.پھر سورہ جمعہ کے ذریعے تمام دنیا کا اجتماع جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے جھنڈے تلے ہونا ہے ، سورہ جمعہ کے ذریعے اس کی خوشخبری بھی دے دی گئی.کیونکہ مفسرین کی بھاری اکثریت یہ تسلیم کرتی ہے کہ خدا تعالیٰ نے جو یہ وعدہ دیا تھا کہ وہ تمام دنیا کے ادیان پر محمد رسول اللہ ﷺ کے دین کو غالب کر دیگا ، یہ وعدہ مسیح اور مہدی کے زمانے میں پورا ہونا ہے اور اس سورت میں جب آنحضرت ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر آیا تو وہ مہدی کی شکل میں ہی آیا ہے.پس یہ سورت عجیب طور پر جمع کے مضمون کو جمع کر رہی ہے.مہدی کے ذریعے تمام عالم کو جمع کیا جائیگا اور وہ جو وہ تحریک چلائے گا اس کے ذریعہ اس کا بھی اس سورت میں ذکر موجود ہے اور زمانوں کو بھی جمع کر دیا جائے گا.تیرہ سو سال کے فاصلے بیچ میں حائل ہو نگے لیکن ایک عجیب واقعہ ہوگا کہ اگلا زمانہ پچھلے زمانے سے جمع ہو گا.خدا تعالیٰ کے ہر قسم کے فضل جمع ہونگے اس زمانے میں دنیاوی ترقیات بھی اتنی عظیم الشان ہونگیں کہ انہیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جائیگی.رزق کی بھی ایسی فراوانی ہوگی کہ حیرت ہوگی کہ انسان کو اتنا وسیع رزق بھی مل سکتا ہے اور بعض فضل ڈھونڈنے والے اپنے فضل کے تصور کی انتہا یہی سمجھیں گے کہ بس یہ دنیا کا رزق مل گیا ہے یہی اللہ کا فضل ہے اور کچھ اور لوگ ہونگے جو رضائے باری تعالیٰ کو فضل سمجھیں گے اور اس طرف ابتغاء کرینگے اور دنیا کے رزق کو چھوڑ دیں گے اور اب خدا کے فضل کو اس کی رضا میں ڈھونڈیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کی راہ میں کوئی روک نہیں رکھے گا.ان پر بھی بے انتہا فضل نازل فرماتا چلا جائے گا یہاں تک کہ ان میں سے ایسے بھی ہونگے جو محد مصطفی ﷺ کے غلام کامل کا درجہ پالینگے اور انہیں مہدویت اور مسیحیت عطا ہوگی اور پھر خدا تعالیٰ ان کا ذکر کر کے فرماتا ہے ذلِكَ فَضْلُ اللهِ اے فضل کے ڈھونڈ نے والو! اے فضل کے متلاشیو! یہ ہوتا ہے فضل تم کیوں ادنی ادنی باتوں پر راضی ہو گئے.تم کیوں دنیا کی نعمتوں کو فضل قرار دے کر اس سے تسلی پاگئے ہو.فضل کا ایک یہ بھی مفہوم ہے ایک یہ بھی بلندی ہے ، اسکی طرف بھی تو دیکھو
خطبات طاہر جلدم 440 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء ذلِكَ فَضْلُ اللہ اس کو کہتے ہیں اللہ کا فضل يُؤْتِيهِ مَنْ تَشَاءُ جسے چاہتا ہے وہ عطا کرتا ہے.پس سورۂ جمعہ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ بہت ہی گہرا تعلق ہے اور اس میں ہر قسم کی خوشخبریاں عطا کر دی گئی ہیں.آپ کے ذریعے زمانے کی تقدیر بدلی جائے گی.آپ کے ذریعہ تمام دنیا کی قوموں کو ایک ہاتھ پر جمع کیا جائے گا اور ایک نئی قسم کی اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی.اس اقوام متحدہ کی بنیاد ڈالی جائے گی جس کا ذکر سورہ جمعہ میں ملتا ہے.آپ کے ذریعے مختلف زمانے اکٹھے کر دیئے جائیں گے.اور انسانوں کو ہر قسم کی نعمتیں اور رحمتیں عطا کی جائیں گی.کتنی عظیم الشان سورت ہے اور کتنا اس میں ذکر ملتا ہے لیکن ایک شرط کے ساتھ اور وہ شرط یہ ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ کہ جب تمہیں جمعہ کے دن بلایا جائے ، جمعہ کے دن سے مرادا گر ظاہری جمعہ کا دن لیا جائے تو یہ بھی درست ہے، ہر ہفتہ آپ کو بلایا جاتا ہے لیکن یہ سورت جن وسیع معانی میں جمعہ کا ذکر کر رہی ہے اگر ان معنی میں آپ اس پر غور کریں تو اس آیت کا یہ مطلب ہوگا کہ اے ایمان والو! جب خدا کی طرف سے ایک بلانے والا تمام بنی نوع انسان کو ایک ہاتھ پر اکٹھا ہونے کی آواز دے اور جب یہ آواز دے کہ آؤ اور میرے ذریعہ زمانوں کو بھی اکٹھا ہوتے دیکھو اس وقت تجارتوں کو ترجیح نہ دو، اس کی آواز پر دنیا کے منافع کی قدر نہ کرو اس کی اس آواز پر ، دنیا کے مقابل پر ان سب کو سج کر کے اس کی طرف دوڑے چلے آؤ ، اس کی آواز پر لبیک کہو.اگر تم دنیا کو اس آواز کی خاطر چھوڑ دو گے اور دنیا کو اس آواز کی خاطر چھوڑ دو گے اور دنیا کے منافع کی پرواہ نہیں کرو گے تو پھر ہم تمہیں خوشخبری دیتے ہیں کہ ہم تمہیں فضلوں سے محروم نہیں کریں گے.اس آواز کو قبول کرنے کے بعد تم دنیا میں پھیل جاؤ گے.جب تم اپنا فریضہ ادا کر دو گے جب تم سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دو گے پھر فرمایا فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ، قُضِيَتِ الصلوة کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جب عبادت کے تقاضے پورے ہو جائیں ، جب تم
خطبات طاہر جلدم 441 خطبه جمعه ۱۰ارمئی ۱۹۸۵ء اپنی نیتیں پوری کر دکھاؤ گے اور لبیک کہ دو گے فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ پھر خدا تعالیٰ تمہیں تمام دنیا میں پھیلا دے گا، زمین کے کناروں تک تمہیں پہنچائے گا، وہاں دنیا کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کرو گے اور دین کے لحاظ سے بھی فضل جوئی کرو گے.بظاہر تم دنیا کے کاموں کے لئے بھی نکلو گے لیکن اللہ کے ذکر کے ساتھ نکلو گے.اگر تم صناع ہو تو صناعی کے ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے، اگر تم تاجر ہو تو اپنی تجارتوں کو ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے، اگر تم ڈاکٹر ہو تو اپنی ڈاکٹری کو ساتھ ذکر الہی بلند کر رہے ہو گے، اگر تم سائنسدان ہو تو سائنس کے کاموں کے ساتھ ذکر الہی کو بلند کر رہے ہو گے غرضیکہ تمام دنیا میں ذکر پھیلانے کا ایک ذریعہ یہ ہوگا.پس اس آیت میں کئی قسم کے وقف کا ذکر ہے.ایک وقف خاص بھی مذکور ہے کہ دنیا کے سب کام کلیۂ چھوڑ کر جب آواز آئے تو اپنی ساری زندگی خدا کے حضور پیش کر دو.دوسرا وقف عام کا بھی ذکر ہے کہ یہ فیصلہ کر لو کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.دنیا کو چھوڑ کر دین کی آواز پر لبیک کہنے کا یہ مطلب ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو شرائط بیعت ہیں ان میں یہ داخل ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا.تو اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر بلانے والا تمہیں عظیم جمعہ کے لئے بلائے تو تم یہ فیصلہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو کے ہم دنیا کو ترک کر دیں گے اور جب بھی دین کے ساتھ مقابلہ ہو گا تو دین کو ترجیح دیں گے.فرمایا جب تم یہ عہد کر کے اس کے حضور حاضر ہو جاؤ گے پھر تمہیں اس شرط کے ساتھ اجازت مل جائے گی کہ چونکہ تم سب کچھ خدا کو دے بیٹھے ہو اب تمہارا کچھ نہیں رہا.اس لئے اب تم جاؤ اور پھیلو اور دنیا کے کام بھی کرو لیکن اس عزم کے ساتھ کہ دنیا کے کاموں کے ساتھ ذکر الہی کونہیں بھولنا بلکہ اسے غالب رکھنا ہے.اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا وَ ابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللہ کے فضل کو ڈھونڈو.وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا وَابْتَغُوا کے ساتھ کثیرا کا لفظ استعمال نہیں کیا لیکن وَاذْكُرُوا الله کے ساتھ كَثِيرًا کا لفظ استعمال فرمایا.دنیا کے کام کرو مگر ذکر الہی غالب رہے.اللہ کی محبت اور پیار تمہارے دنیا کے ہر ایک کام پر چھا جائے اور اسے مغلوب کر لے چونکہ
خطبات طاہر جلدم 442 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء ابتغاء فضل دنیا کے معنوں میں بھی مراد ہے اس لئے میں یہ معنی لے رہا ہوں کہ دنیا کے کاموں میں خدا کا فضل ڈھونڈ ولیکن کثرت کے ساتھ ذکر کرتے ہوئے اس کثرت کے ساتھ کہ تمہاری دنیا کی جستجو پر غالب آ جائے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالی تمہیں عظیم الشان فتوحات عطا فرمائے گا.اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے.اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمد یہ دونوں قسم کے وقف پورے کر رہی ہے.ایسے بھی ہزاروں لوگ ہیں جنہوں نے سب کام چھوڑ کر اپنے آپ کو کلیۂ خدمت دین کے لئے پیش کر دیا ہے اور اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیا.اگر جماعت ان کو چپڑاسی لگاتی ہے تو وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے اسے بھی رحمت اور فضل کے طور پر قبول کرتے ہیں.اگر جماعت انہیں مبلغ لگاتی ہے تو اس پر بھی خدا کا شکر ادا کرتے ہیں، اگر ماتحت لگاتی ہے تو تب بھی شکر کرتے ہیں ، اگر حاکم اور افسر بناتی ہے تب بھی شکر کرتے ہیں، شکر اس بات پر نہیں کرتے کہ انہیں کیا بنایا گیا ہے شکر اس بات پر کرتے ہیں کہ ہر حالت میں ان کو قبول کر لیا گیا ہے اور انہیں اس فوج میں داخل کر لیا گیا جس کا سورۃ جمعہ میں ذکر ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر خدا کے حضور حاضر ہو جاؤ اور ان میں لکھو کھا ایسے بھی ہیں جیسا کہ آپ میں سے اکثریت یہاں ایسی ہے جو اپنے دنیا کے کاموں پر نکلے ہوئے ہیں.اپنے وطن سے دور سکاٹ لینڈ میں کبھی آپ بچپن میں سوچ بھی نہیں سکتے کہ اللہ کے فضلوں کی تلاش میں اتنی دور نکل جائیں گے لیکن خدا نے انتظام کر دیا.آپ جیسے کروڑوں اور لوگ ہیں جو اپنے اپنے وطنوں کو چھوڑ کر دوسرے ملکوں میں چلے گئے ہیں لیکن ان میں اور آپ میں کتنا فرق ہے.وہ دنیا کمانے کے لئے آئے اور دنیا کما کر واپس چلے جاتے ہیں.پھر آپ بظاہر دنیا کمانے کے لئے آئے ہیں مگر چونکہ آپ نے ہر جگہ ذکر الہی کو غالب رکھا ہوا ہے اور ہر جگہ آپ خود بھی ذکر الہی کرتے ہیں اور اس کو آگے پھیلاتے بھی جاتے ہیں ذکر الہی خود بھی کرتے ہیں اور ذکر الہی کر نیوالے بھی پیدا کرتے چلے جاتے ہیں اور وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيیرا کے اس مفہوم کو آپ ادا کر رہے ہیں.پس اس قسم کے بھی واقفین ہیں اور یہی نظام ہے جسکی بنیا د حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے رکھی گئی تھی اور جس کے نتیجہ میں سب دنیا نے فتح ہونا ہے.پس یہ جو اشارہ ہے کہ دسویں جمعہ اور دس یعنی Friday کے معنی اگر سورہ جمعہ کے لئے جائیں اور 10th سے مراد
خطبات طاہر جلدم 443 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء دسویں آیت مراد لی جائے تو اس میں ایک بہت بڑی خوشخبری یہ ہمیں ملتی ہے کہ وہ وقت بطور خاص آ گیا ہے جبکہ آپ نے دنیا کو کلیۂ ترک کرنے کے فیصلے کر لینے ہیں، جب اپنے عزم دہرانے ہیں، جب اس عہد بیعت کی تجدید کرنی ہے کہ ہم ہر گز کسی قیمت پر بھی اپنی دنیا کو اپنے دین کی راہ میں حائل نہیں ہونے دیں گے.جہاں تک ہمارے نفوس کا تعلق ہے ہم سب کچھ چھوڑ بیٹھے ہیں اگر ہمیں اجازت ملتی ہے تو ہم دوسرے کام بھی کریں گے مگر اس عہد کے ساتھ کہ دوسرے کاموں پر ذکر الہی کو ہمیشہ غالب رکھیں گے.کثرت کے ساتھ ذکر کرتے چلے جائیں گے اور خدا کے فضل کی تلاش کرتے چلے جائیں گے.اب ذکر کے ساتھ جب آپ خدا کے فضل کے مضمون کو ملاتے ہیں تو فضل کا مضمون عام دنیاوی معنوں کے سوا دوسرے معنی بھی اختیار کر لیتا ہے.وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللهِ کا حکم عام دنیا کے انسانوں پر بھی لگتا ہے.اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ دنیا کی چیزیں تلاش کرو، دنیا کے رزق تلاش کرو، دنیا کے عہدے تلاش کرو، دنیا کی ترقیات تلاش کرو لیکن جب خدا کے بعض بندے ذکر الہی کو ساتھ شامل کر لیتے ہیں تو وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا کے ساتھ اس فضل کا مضمون وسیع ہو جاتا ہے.اس صورت میں اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ اس دنیا میں ہی اپنے دین کی سعادتیں بھی ڈھونڈ لو، اسی دنیا میں اپنے بلند دینی اور روحانی مراتب بھی تلاش کرو کیونکہ تم ذکر الہی ساتھ ساتھ کرتے چلے جارہے ہو.خدا کا فضل محمد و صورت میں تم پر نازل نہیں ہوگا.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے بھی خدا کے ولی پیدا ہو نگے تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے عظیم الشان روحانی بندے پیدا ہوں گے.تم بظاہر دنیا کمانے والوں میں سے خدا کے ایسے ایسے پیارے پیدا ہوں گے کہ ان کو وہ ساری دنیا پر ترجیح دے گا ، اپنے علاقے کے قطب وغوث اور ولی پیدا ہوں گے.اگر وہ ذکر الہی کو کثرت سے ادا کرنے کے عہد پر پورا اترتے ہیں تو ان کا فضل لا متناہی ہو جائے گا ، جو فضل وہ تلاش کرتے ہیں وہ محدود نہیں رہے گا بلکہ اس کی حدیں پھیل جائیں گی، دنیا پر بھی پھیل جائیں گی اور دین پر بھی پھیل جائیں گی.اس نقطہ نگاہ سے آپ اللہ تعالیٰ کے اس منشا کو پورا کرنے کی سعی کریں منشائے الہی یہ ہے کہ آج جماعت جس دور میں داخل ہوئی ہے اس میں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ کر کثرت کے ساتھ ہمیں اپنی طاقتوں کو اور اپنے ان تمام قومی کو جسمانی یا روحانی یا ذہنی قومی ہوں ان ساری طاقتوں کو جو خدا نے ہمیں عطا فرمائی ہیں اللہ تعالیٰ کی خاطر وقف کر دیں، دنیا کمائیں اس شرط کے
خطبات طاہر جلد۴ 444 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء ساتھ کہ دین اس پر غالب رہے.یہ ایک خاص وقت آگیا ہے اسکے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ بڑی کثرت کے ساتھ جماعت کو دنیا میں پھیلا دے گا اور دنیا کی ہر قوم کے اوپر، دنیا کے ہر دین پر حضرت محمد مصطفی امیہ کی قوم اور آپ ہی کے دین کو غالب فرما دے گا.پس یہ جمعہ اس لحاظ سے بھی ہمارے لئے اہمیت رکھتا ہے کہ ہم آج اس جمعہ پر یہ عہد کریں گے اس جمعہ پر یہ ارادے لے کر پھر دنیا میں پھیلیں گے.اگر خدا کا منشاء اس کشفی نظارے سے یہی ہے کہ جماعت سے مزید قربانی چاہتا ہے، جماعت احمدیہ کو اپنی مزید قربانی پیش کرنے کی ہدایت فرمارہا ہے تو ہم حاضر ہیں اس کے لئے بھی جو ہم سے چاہتا ہے ہم حاضر ہیں ہمارا کچھ بھی اپنا نہیں.ہم اسی کی خاطر زندہ رہیں گے اور اسی کی خاطر مریں گے لیکن اپنے اس عہد سے پیچھے نہیں ہٹیں گے کہ جب تک تمام دنیا پر محمد مصطفی ﷺ کی بادشاہی کو غالب نہ کر دیں اس وقت تک ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے.اب ایک ملک نہیں ہے جس کو ہم نے اسلام کے لئے فتح کرنا ہے، دو چار یا پچاس یا سو ملک نہیں ہیں، ساری دنیا میں ایک بھی ملک ایسا نہیں چھوڑ نا جہاں ہم نے اسلام کو غالب کر کے نہیں دکھانا.کوئی ملک بھی ایسا نہیں رہنے دینا جس کے ہر حصہ پر اسلام کو غالب نہیں کرنا ، اتنے بڑے کام کو ہم نے سرانجام دینا ہے.اب آپ سوچیں تو سہی کہ سکاٹ لینڈ کی وسعتوں کے نقطہ نگاہ سے ہم نے یہ کام کیا ہے اس لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے تاکید کی ضرورت ہے اس لئے آپ کو یاد دہانی کروائی جاتی ہے.بیسیوں سال سے یہاں احمدی آباد ہیں ایک دو چار کم و بیش کبھی کم ہوئے کبھی زیادہ لیکن یہ سارا علاقہ اسی طرح پڑا ہوا ہے جس طرح کسی زمین پر بل نہ چلایا گیا ہوFallow Land کے طور پر.ابھی تک اسکی وادیاں بھی محمد مصطفی ﷺ کے نام سے بے خبر ہیں،اسکے پہاڑوں کی چوٹیاں بھی بے خبر ہیں ، اس کی جھیلیں بھی بے خبر ہیں اور اس کی خسگیاں بھی بے خبر ہیں.آج آپ سکاٹ لینڈ کے کسی کونے میں چلے جائیں اور ان سے پوچھیں کہ اسلام کیا ہے اور محمد مصطفی ﷺ کا دین کیا ہے تو ان کو پتہ ہی نہیں ہو گا.اس لئے یہ بلند ارادے تو بہت بابرکت ہیں لیکن یہ بلند ارادے جس محنت کا تقاضا کرتے ہیں وہ محنت ہم نے ابھی شروع نہیں کی.آپ میں سے اکثریت ابھی تک ایسی ہے جو بار بار کی یادہانیوں کے باوجود داعی الی اللہ نہیں بن سکی.اکثریت ایسی ہے جو اگر بنا چاہتی بھی ہے تو جانتی نہیں کہ کیسے بنے.ان کو سلیقہ نہیں آتا ،
خطبات طاہر جلدم 445 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء علم سے محروم ہیں.بچے ہیں جن میں ولولہ پیدا ہوتا ہے لیکن ان کو پتہ نہیں کہ زرخیز مٹی بنانے میں بہت محنت کی ضرورت ہے.احمدی کو از سرنو زندہ احمدی بنانے کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور پھر ان سب کو تبلیغ میں جھونکنا اور پھر ان سے نئے نئے کام لینا اور پھر عظیم الشان فتوحات کی توقع رکھنا اور دعائیں کرنا کہ اللہ وہ دن ہمیں دکھا بھی دے بہت بڑے کام پڑے ہوئے ہیں تو آج اس افتتاح پر ان سارے امور کو مد نظر رکھ کر آپ دعائیں کریں اور یہ فیصلہ کر کے یہاں سے اٹھیں کہ سکاٹ لینڈ کو آپ نے فتح کرنا ہے.یہ درست ہے آپ مٹھی بھر ہیں بہت تھوڑے ہیں آپ کے مقابل پر بہت وسیع علاقہ ہے لیکن یہ کام آپ ہی کے سپرد ہے.سکاٹ لینڈ کی فتح کے لئے سکاٹ لینڈ کے احمدی نے اٹھنا ہے، انگلستان کے احمدی نے اٹھنا ہے، ہر ملک کے احمدی باشندے کا فرض ہے کہ وہ اپنے ملک کو فتح کرے اور یہ کام ہے اگر آپ بلند ارادے اور ہمت کے ساتھ اس کام کو شروع کر دیں اور دعاؤں سے غافل نہ ہوں تو یہ کام آسان ہو جائے گا.بظاہر یہ بات بہت بڑی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی متنبہ کر دیا تھا کہ اس افتتاح کے موقع پر میں نے باتیں ویسی ہی کرنی ہیں جنہیں سن کر بعض لوگ کہتے ہیں پاگل ہو گئے لیکن مجھے کوئی پرواہ نہیں کیونکہ جن آقاؤں کا میں غلام ہوں وہ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتے تھے.ان کو سننے والے بھی یہی کہا کرتے تھے کہ پاگل ہو گئے لیکن پاگل ہوئے بغیر فتوحات نصیب نہیں ہوا کرتیں.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جب تک اپنی دیوانگی کو اس حال تک نہ پہنچا دیں کہ دنیا آپ کو پاگل کہنے لگ جائے ، پاگل سمجھنے لگ جائے ، اس وقت تک دنیا کی فتوحات کے خواب پورے نہیں ہوا کرتے.یا اس رستہ کو چھوڑ دیں جس رستے پر پاگل کہلائے بغیر بات بنتی نہیں ہے اور پھر دنیا کے خزانوں کا رستہ اختیار کر لیں.اگر اس رستہ پر قائم رہنا ہے تو پھر وہ حرکتیں کریں، اپنی وہ ادائیں بنائیں جن اداؤں پر پتھر پڑا کرتے ہیں ، جن حرکتوں کو دیکھ کر دنیا پاگل پاگل کہا کرتی ہے ان کے بغیر عظیم فتوحات نصیب نہیں ہوا کرتیں.آپ تو تعداد میں بہت زیادہ ہیں.جب آنحضرت ﷺ کوحکم ہوا تھا کہ اے میرے بندے اٹھا اور تمام دنیا میں اعلان کر دے کہ تو دنیا کا فاتح ہے.ساری دنیا تیری خاطر پیدا کی گئی ہے، تیرے دین کو تمام دنیا کے ادیان پر غلبہ نصیب ہوگا.اُس وقت آپ کتنے تھے ایک تھے.ایک کو کل عالم سے جو نسبت ہوسکتی ہے اس کے مقابل پر تو آپ کی نسبت بہت زیادہ ہے.آپ تو بیبیوں ہیں اگر ہزاروں نہیں تو دواڑھائی سو یا تین سو کے قریب تو
خطبات طاہر جلد۴ 446 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء ہونگے.یہاں سکاٹ لینڈ میں بچے اور بڑے ملا کر اتنی بڑی تعداد ہے کہ سکاٹ لینڈ کی آبادی اسکے مقابل پر کچھ بھی نہیں ہے.یہ سوچیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کوحکم دیا تھا کہ تو ایک ہے عرب کے مقابل پر بھی بظاہر تیری کوئی حیثیت نہیں مگر میں تجھے صرف شام کی فتح کے لئے کھڑا نہیں کر رہا، میں تجھے صرف عرب کی فتح کے لئے کھڑا نہیں کر رہا، تجھے میں صرف روم کی فتح کے لئے کھڑا نہیں کر رہا، میں تجھے مشرق اور مغرب، شمال اور جنوب کا بادشاہ بناتا ہوں اور اس دنیا کا بادشاہ بھی بناتا ہوں اور اس دنیا کا بھی بادشاہ بناتا ہوں تمام عالم کو تیرے زیر نگیں کر کے دکھاؤں گا.اٹھ اور یہ اعلان کر دے کہ تو سب دنیا کو فتح کرنے کے لئے کل عالمین کے لئے رحمت کے طور پر آیا ہے.اتنے عظیم الشان مرشد ہوں جن کے، ان کے غلاموں کو بھی تو یہی زیب دیتا ہے کہ وہ ویسی ہی باتیں کریں اس لئے آج یہ ارادے لیکر اُٹھیں کہ آپ نے ان خوابوں کو حقیقتوں میں بدل دینا ہے.آپ میں سے ہر ایک مبلغ بن جائے.اس جگہ کو جو بظاہر آپ کو بڑی دکھائی دے رہی ہے اس کو دیکھتے دیکھتے چھوٹا بنا کے دکھا دیں اتنا چھوٹا کر دیں کہ آپ حیرت سے مڑ کر دیکھیں کہ اس جگہ کو ہم کسی زمانہ میں بڑا کہا کرتے تھے یہ تو کچھ بھی نہیں.پھر نی جگہیں تلاش کریں، نئی بستیاں تلاش کریں، نئے علاقے تلاش کریں دیکھتے ہی دیکھتے پھیلیں اور بڑھیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اُن روحانی فرزندوں میں داخل ہو جا ئیں جنکے متعلق آپ نے فرمایا: بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں کھلے ہیں پھول میرے بوستاں میں ( در این صفحه ۵۰) ہر طرف باغ و بہار لگا دیں، ہر طرف نئی انجمنیں بنا دیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ذکر کے لئے ، حضرت محمد مصطفی اللہ کے ذکر کے لئے ، اللہ کے ذکر کے لئے نئی نئی مجالس قائم ہوں، نئے نئے دور چلیں ، اس علاقے کو نئی رونقیں نصیب ہو جائیں.یہ وہ جنتیں ہیں جن کی تمنا لئے ہم جیتے ہیں اور جن کو دیکھنے کی تمنالئے اس دنیا سے رخصت ہونگے.میری دعا ہے اور آپ میرے ساتھ اس دعا میں شامل ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہم میں سے ہر ایک
خطبات طاہر جلدم 447 خطبه جمعه ۰ ارمئی ۱۹۸۵ء کی زندگی میں ایسی بہت سی جنتیں ہمیں دکھائے جو کسی زمانہ میں جو ہماری خوابوں کی بستیاں تھیں وہ حقیقت کی بستیاں بن جائیں.وہ بڑے بڑے عظیم الشان نظارے جن کو دیکھ کر جن کے تصور میں ہم راتوں کو سویا کرتے تھے کہ خدا کرے کہ یوں ہو اور خدا کرے کہ اس بستی میں بھی اسلام غالب آ جائے اور اس بستی میں اسلام غالب آ جائے خدا کرے کہ یوں ہو، خدا کرے کہ ہم اپنی زندگیوں میں یہ باتیں پوری ہوتی دیکھیں اور جب خدا کی طرف سے ہمیں بلاوا آئے تو خدا کے حضور بہت راضی واپس لوٹیں.بظاہر ہماری تمنائیں تو پاگلوں والی تھیں، ہماری باتیں تو دیوانوں کی بڑوں کی طرح تھیں لیکن اے ہمارے آقا! اے ہمارے مالک خدا! تو نے ہماری ساری تمناؤں کو پورا کر دیا.ہماری دیوانگی کی بڑوں کو بھی دنیا کے فرزانوں کی باتوں سے بھی زیادہ سچا کرکے دکھا دیا.یہ ہے وہ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةً کی واپسی جس کے لئے میری دعا ہے کہ اللہ مجھے بھی نصیب فرمائے اور آپکو بھی نصیب فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: جس دعا کا میں نے ذکر کیا تھا وہ الگ اجتماعی دعا ہو گی بلکہ نماز جمعہ میں بھی دعا کریں اور نماز جمعہ کے بعد بھی اپنے طور پر یہ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اس افتتاح کو غیر معمولی برکتیں عطا فرمائے اور ہماری توقع سے بڑھ کر پھل لگائے.ایک زمانہ تھا جب بشیر آرچرڈ صاحب بیچارے یہاں اکیلے تھے اور دعا کے لئے مجھے بھی بڑی بے چینی اور سخت گھبراہٹ کے ساتھ خط لکھا کرتے تھے کہ میں کیا کروں، کچھ بھی نہیں بنتا، کوئی توجہ نہیں دے رہا ، جماعت بھی بالکل چھوٹی سی ہے وہ بھی نہیں آتی اور لگتا ہے میں تو اکیلا ہی چھوڑا گیا ہوں.اُس وقت شاید وہ یہی سمجھتے ہوں گے کہ میری دعائیں قبول نہیں ہور ہیں لیکن اب دیکھ لیں اللہ کے فضل کے ساتھ رونق بھی ہے جماعت توجہ بھی کر رہی ہے بیعتیں بھی ہورہی ہیں.ابھی میں نے سنا ہے کہ قریب زمانہ میں ہی ایک Scotish نوجوان خدا کے فضل سے احمدی ہوئے ہیں.اللہ تعالیٰ دعائیں قبول کرتا ہے لوگوں کو یونہی وہم ہے کہ دعائیں قبول نہیں ہوتیں، اپنے وقت پر کرتا ہے.بعض دفعہ سمجھ بھی نہیں آتی کہ قبول ہو بھی رہی ہیں لیکن بعد میں ایک دم لگتا ہے کہ ساری دعاؤں کو پھل تیار ہورہا تھا.تو دعا ئیں ضرور کریں اور کثرت سے کریں اور ان سے غافل نہ ہوں اور کرتے چلے جائیں پھر دیکھیں انشاء اللہ خدا آپ کی حقیر کوششوں کو بھی عظیم الشان پھل عطا فر مائے گا.انشاءاللہ.
خطبات طاہر جلدم 449 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء عددی اکثریت کا غیر شرعی فیصلہ اور احمدیت کی عظیم الشان فتح (خطبه جمعه فرموده ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں: أَفَغَيْرَ اللَّهِ ابْتَغِى حَكَمًا وَ هُوَ الَّذِي أَنْزَلَ إِلَيْكُمُ الْكِتَبَ مُفَصَّلا وَالَّذِيْنَ أَتَيْنَهُمُ الْكِتَبَ يَعْلَمُونَ أَنَّهُ مُنَزِّلُ مِنْ رَّبِّكَ بِالْحَقِّ فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَ عَدْلًا لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَتِهِ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللهِ اِنْ تَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلَّا يَخْرُصُوْنَ ) اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ مَنْ تَضِلُّ عَنْ سَبِيلِهِ ۚ وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ (الانعام: ۱۱۵ ۱۱۸) اور پھر فرمایا : ان آیات کا ترجمہ یہ ہے کہ کیا میں اللہ کے سواکسی اور کی طرف بطور حکم رجوع کر سکتا ہوں.یعنی کیا میں اس بات کو پسند کر سکتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی اور فیصلہ کرنے والا ہو.حالانکہ یہ وہی خدا ہے جس نے ایک کھلی کھلی کتاب کو تمہارے لئے نازل فرمایا اور وہ لوگ جن کی خاطر یہ
خطبات طاہر جلدم 450 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء کتاب اتاری گئی ہے وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ تیرے رب ( یعنی محمد کے رب) کی طرف سے حق کے ساتھ اتاری گئی ہے فَلَا تَكُونَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِيْنَ پس اے مخاطب تو شک کرنے والوں میں سے نہ ہو.وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَ عَدْلًا اور انصاف کے لحاظ سے تیرے رب کا کلام درجہ کمال کو پہنچ گیا ہے، تَمَّت کا مطلب ہے کہ اس پر بات ختم ہو گئی ہے لَا مُبَدِّلَ لِگلمتے اور ان کلمات کو کوئی تبدیل کرنے کی طاقت نہیں رکھتا اور یہ کبھی تبدیل نہیں ہوں گے اور اللہ بہت دیکھنے والا ہے اور بہت جاننے والا ہے جہاں تک اکثریت کا تعلق ہے فرمایا وَاِنْ تُطِعْ اَكْثَرَ مَنْ فِي الْأَرْضِ يُضِلُّوكَ عَنْ سَبِيلِ اللَّهِ اگر تو زمین میں اکثریت رکھنے والوں کی پیروی کرے گا تو یقیناً وہ تمہیں اللہ کی راہ سے گمراہ کر دیں گئے وہ تو ظن کے سوا اور کسی بات کی پیروی نہیں کرتے ، تو ہمات کے پیروکار ہیں اور محض اٹکل پچو سے باتیں کرنے والے لوگ ہیں.ہاں اے رسول ! تیرا رب سب سے زیادہ جانتا ہے کہ کون اس کے رستے سے گمراہ ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے.قرآن کریم کی ان آیات میں بھی اور بہت سی دیگر آیات میں بھی یہ بات بڑی وضاحت کےساتھ بیان کی گئی ہے کہ جہاں تک حق و باطل میں تمیز کا تعلق ہے اور سچ اور جھوٹ میں فیصلے کا تعلق ہے عددی اکثریت کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی بلکہ بسا اوقات عددی اکثریت غلطی پر ہوتی ہے.چنانچہ بیشتر اوقات یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ اگر اکثریت کی پیروی کی جائے تو انسان گمراہ ہو جاتا ہے اور محض عددی اکثریت کی بناء پر کسی چیز کو حق تسلیم کر لینا ایک بہت بڑی غلطی ہے.حق و باطل کی تمیز کے اور ذرائع ہیں مگر حکومت پاکستان کی طرف سے جو مزعومہ قرطاس ابیض شائع ہوا ہے.اس میں سب سے آخری بات جو بڑے فخر کے ساتھ پیش کی گئی ہے وہ یہی عددی اکثریت ہے جس کا ڈھول پیٹا گیا ہے اور تمام دنیا میں بڑے فخر کے ساتھ اس بات کو اچھالا گیا ہے کہ جماعت احمدیہ کے خلاف تو ہماری عددی اکثریت تھی، عوام کی اکثریت تھی، قومی اسمبلی کی اکثریت تھی بلکہ اکثریت ہی نہیں جماعت کے خلاف اجماع ہو چکا تھا اور سو سال کا یہ مسئلہ جو اٹکا ہوا تھا قومی اسمبلی نے اسے بالا تفاق طے کر دیا اس لئے ان کے جھوٹے ہونے کے لئے اس کے بعد کسی اور دلیل کی ضرورت نہیں رہتی.امر واقعہ یہ ہے کہ کسی بات پر علماءکا یا عوام کا متفق ہو جانا ہرگز وہ سواد اعظم نہیں کہلا سکتا جس
خطبات طاہر جلدم 451 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء سواداعظم کا ذکر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے.چنانچہ چوٹی کے علماء اور بزرگان سلف حضرت علی کرم اللہ وجھہ سے لے کر آج تک کے علماء اس بارہ میں کھلم کھلا اس بات کا اظہار فرما چکے ہیں کہ جہاں تک حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے بیان فرمودہ سواداعظم کا تعلق ہے اس کا یہ معنی غلط ہے کہ اگر علماء یا عوام کی بھاری اکثریت ایک طرف ہو جائے تو وہ سواد اعظم ہے اور یہ کہ جس بات کے حق میں وہ ہوں وہ درست ہوگی.اس کے برعکس حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اگر تو اکیلا ہے اور حق پر قائم ہے تو تو ہی پیروی کے لائق ہے.باقی سب اکثریت رد کرنے کے لائق ہے.حضرت امام رازی، حضرت امام ابن تیمیہ اور حضرت امام ابن قیم اور ایسے ہی کئی اور ربانی علماء ہیں جن کی کثرت ہے.وہ اس سوال کو یکے بعد دیگرے اٹھاتے چلے جاتے ہیں اور واضح کرتے چلے جاتے ہیں کہ حق کی پہچان میں عددی اکثریت کو کوئی حیثیت حاصل نہیں.وہ کھل کر یہ لکھتے چلے جاتے ہیں کہ اگر ایک آدمی اکیلا ہے مگر وہ حق پر قائم ہے تو وہی سواد اعظم کہلانے کا مستحق ہے.باقی کوئی سواد اعظم نہیں ہے اس کے باوجود مخالفین کا یہ ڈھنڈورا پیٹنا کہ چونکہ ہمیں عددی اکثریت حاصل ہے اور جماعت احمد یہ ایک معمولی اقلیت ہے اس لئے ایک عظیم اجماع ہو گیا ہے جسے اسلامی سند حاصل ہے.یہ بات بالکل درست نہیں ہے.اس سلسلہ میں چونکہ حوالے بہت زیادہ تھے وہ میں نے فی الحال چھوڑ دیئے ہیں.چند حوالے بعد میں آپ کے سامنے پیش کروں گا لیکن اس سے پہلے میں احباب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جس قومی اسمبلی کی اکثریت پر یہ نازاں ہیں، جس قومی اسمبلی کے فیصلے کو شرعی سند کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اس قومی اسمبلی کے متعلق بھی ایک وائٹ پیپر ( قرطاس ابیض ) شائع ہو چکا ہے.جو موجودہ حکومت نے شائع کیا تھا.دیکھنا یہ ہے کہ اس قومی اسمبلی کی اکثریت کے متعلق ان کی رائے کیا ہے ، وہ میں آپ کو سنا تا ہوں یعنی جس قومی اسمبلی کی اتفاق رائے کو شریعت کی بنیا دقرار دیا جارہا ہے اس کا اپنا کیا حال تھا.اس کے متعلق ان کے وائٹ پیپر میں ان کی داستان پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے.میں اس کو مضمون کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں.پہلا حصہ بھٹو صاحب اور ان کے چیدہ چیدہ وزراء سے خاص ہے.اس حصہ میں نام بنام ان کے کردار ان کی اسلامی حیثیت ان کے اخلاق اور ان کے اعمال کا تذکرہ چھیڑا گیا ہے، نہایت ہی بھیانک داستان ہے.جن کے سرا تناعظیم
خطبات طاہر جلدم 452 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء الشان سہرا باندھا جا تا تھا ان کی اپنی اسلامی حالت کو جس طرح اسی حکومت نے (جس نے ہمارے خلاف یہ رسالہ شائع کیا ہے) کھول کھول کر بیان کیا ہے وہ تو تفصیل کے ساتھ میں آپ کے سامنے پیش بھی نہیں کر سکتا.بعض ایسی باتیں ہیں کہ پڑھتے پڑھتے شرم آنے لگتی ہے.بعض کیا اکثر ایسی باتیں ہیں لیکن بہر حال چند نمونے مجھے مجبوراً پیش کرنے پڑیں گے.جہاں تک ان باتوں کا تعلق ہے جو نام بنام بیان کی گئیں ہیں.میں ان کی تفصیل بیان نہیں کرنا چاہتا کیونکہ بہت سے لوگ ان میں سے زندہ موجود ہیں اور ان کے متعلق اگر میں نام بنام ان باتوں کو شہرت دوں تو گویا میں خود بھی صاد کرنے والا بن جاؤں گا.مجھے اصولی طور پر اس طریق سے اختلاف ہے.میں یہ پسند نہیں کرتا کہ دنیا میں کوئی بھی حکومت اپنے شہریوں کی کسی بھی پہلو سے کردار کشی کرے.اگر ان لوگوں میں یعنی موجودہ حکومت میں شرافت ہوتی ، انسانیت ہوتی تو ان کا کام یہ تھا کہ ان کے نزدیک جو لوگ مجرم تھے ان کے خلاف کھلی عدالتوں میں عدالتی چارہ جوئی کرتے ان پر مقدمے چلتے اور پھر عدالت کے جو فیصلے ہوتے وہ دنیا کے سامنے پیش کئے جاسکتے تھے اگر چہ بعض اوقات دباؤ کے تحت کئے گئے عدالتی فیصلے بھی اپنی حیثیت کھو دیا کرتے ہیں لیکن بہر حال یہ ایک شکل تھی جو مہذب دنیا کو کسی نہ کسی رنگ میں قابل قبول ہو سکتی تھی.مگر حکومت پر قابض لوگ اپنے شہریوں پر مقدمہ چلانے کی بجائے ان کی کردار کشی شروع کر دیں ان کے متعلق نہایت گندے الزامات لگانے شروع کر دیں اس بات کا میں تو قائل نہیں ہوں اس لئے نام بنام دی گئی تفصیل کو میں نہیں پڑھ سکتا لیکن میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وائٹ پیپر کے اس حصہ میں بھٹو صاحب کے علا وہ مولوی کوثر نیازی صاحب ( سابق وزیر حج.ویلفیئر فنڈ.اوقاف فنڈ اور مذہبی امور ) سرفہرست ہیں پھر ممتاز بھٹو صاحب ہیں جو بھٹو صاحب کے چا زاد بھائی ہیں اور وہ بھی زندہ موجود ہیں پھر غلام مصطفیٰ کھر ہیں یہ بھی اس فہرست میں نمایاں حیثیت رکھتے ہیں، پھر صادق حسین صاحب قریشی کا نام بھی خاص طور پر نمایاں پیش کیا گیا ہے پھر نصر اللہ خان خٹک صاحب ہیں، پھر عبد الوحید صاحب کپر ہیں، پھر جام صادق علی صاحب ہیں.یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے نام لکھ کر ان کے متعلق نہایت گندے اور بھیا نک الزامات لگائے گئے ہیں حالانکہ جائز طریق یہ ہے کہ جب تم حکومت پر قابض ہو جاؤ تو تمہاراحق ہے کہ تم مقدمے کرو، عدالت میں جاؤ اور پھر عدالت کے فیصلوں کے مطابق کارروائی کرو.الزام تراشیاں تو
خطبات طاہر جلدم 453 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء ان لوگوں کا کام ہے جن کے پاس طاقت نہیں ہوتی ، جو حکومت پر قابض نہیں ہوتے بے اختیار ہوتے ہیں وہ الزام لگا کر اور طعنے دے کر دل کے غصے نکالتے ہیں.حکومتوں کے یہ کام نہیں ہوتے اس لئے موجودہ حکومت کو وقار کے ساتھ باقاعدہ عدالتوں میں جانا چاہئے تھا اور پھر عدالتوں کے فیصلوں کے مطابق عمل درآمد کروانا چاہئے تھا مگر بہر حال جہاں تک اس حکومت کا تعلق ہے یہ کامل طور پر یقین رکھتی ہے کہ ۷۴ ء کی قومی اسمبلی میں نہایت گندے اور بھیا نک کردار کے لوگ تھے اور ان کو اسلام کی نمائندگی کا کوئی حق نہیں.جہاں تک پیپلز پارٹی کا تعلق ہے جو قو می اسمبلی میں بھی بھاری اکثریت رکھتی تھی.اس کے مرکزی وزراء ، صوبائی وزراء، قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبران کے نام لئے بغیر جو خا کے کھینچے گئے ہیں.وہ ذرا سننے سے تعلق رکھتے ہیں.چونکہ نام کسی کا نہیں لیا گیا اس لئے میں اس بارہ میں زیادہ جھجک محسوس نہیں کرتا کہ آپ کو سنا دوں اگر چہ الزامات ایسے ہیں کہ اسلامی شریعت کے مطابق ان الزامات لگانے والوں اور ان کی تشہیر کرنے والوں کو کم سے کم اسی کوڑوں کی سزاملنی چاہئے کیونکہ اگر موجودہ حکومت اسلامی شریعت کی حمایت کا دعویٰ کرتی رہی ہے تو اسے اسلامی قوانین دوسروں پر نافذ کرنے سے پہلے خود پر نافذ کرنا چاہئے تھا.اگر کسی شخص کے متعلق اسلامی حکومت میں وہ الزامات عائد کئے جائیں جن کا ذکر وائٹ پیپر میں ملتا ہے تو جب تک باقاعدہ عدالت میں چار گواہوں کے ساتھ معاملہ پیش کر کے الزام واضح طور پر ثابت نہ کیا جائے اس وقت تک اسلامی حکومت کے تابع الزام لگانے والوں کو اسی اسی کوڑوں کی سزاملنی چاہئے لیکن بہر حال حکومت کے نزدیک پیپلز پارٹی کے اراکین کی مذہبی حیثیت یہ ہے، لکھتے ہیں: شراب اور شباب کے رسیا اور ان اطلاعات کے مطابق ایک نہایت گندہ لفظ ہے ) اس کی لعنت میں بھی مبتلا ہیں.وفد کے ساتھ واپس آتے ہوئے ایئر ہوسٹس سے وسکی کی دو بوتلیں طلب کیں اور جب ایئر ہوسٹس نے بوتلیں فراہم کر دیں تو اس نے ایئر ہوسٹس پر دست درازی کی کوشش کی لیکن انہیں جھڑک دیا گیا.وغیرہ وغیرہ ( قرطاس ابیض.بھٹو کا دور حکومت جلد سوم صفحه ۱۸۲)
خطبات طاہر جلدم 454 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء یہ ہے اس قومی اسمبلی کے بڑے بڑے چوٹی کے راہنماؤں کا حال جنہوں نے جماعت احمدیہ کے خلاف غیر مسلم کا فتویٰ دیا ہے اور جس فتویٰ کو یہ لوگ فخر کے ساتھ آج دنیا کے سامنے پیش کر رہے ہیں.پھر ایک اور صاحب کے متعلق بتاتے ہیں کہ مبینہ طور پر ۱۹۷ء کے انتخابات کے بعد دولت حاصل کی ہے، ان کا خاص معتمد ایک خطر ناک سمگلر ہے.( قرطاس ابیض.بھٹو کا دورحکومت جلد سوم صفحہ ۱۸۳) پھر ایک اور صاحب کے متعلق کہا گیا ہے کہ اپنی نو جوانی کے دور سے ہی آزادانہ جنسی تعلقات ان کے کردار کے آئینہ دار ہیں.وہ جنسی کج روی کی طرف تیزی سے بڑھ رہے ہیں.بڑی بے شرمی اور بے حیائی کے ساتھ شادیاں کرتے اور بیویوں کو طلاق دیتے ہیں اور انہیں بازارحسن کی زینت بننے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں.اندازہ کریں ایک حکومت کی طرف سے ایک وائٹ پیپر شائع ہو رہا ہے جس میں اپنے ملک کے شہریوں کی کردار کشی میں اس قدر دریدہ دہنی سے کام لیا گیا ہے جو نہایت افسوسناک اور اخلاق سے گری ہوئی حرکت ہے.مطلقہ بیویوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو بازارحسن کی زینت بنانے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں پاکستان کی خواتین کے حق میں یہ الفاظ دراصل انتہائی گندے اور بھیانک الزامات ہیں اور اگر اسلامی حکومت قائم ہو تو یقیناً اس کے ذمہ دار افراد کو اسی اسی (۸۰،۸۰) کوڑوں کی سزاملنی چاہئے لیکن قطع نظر اس کے کہ حقیقتیں کیا ہیں جب تک انہیں ان باتوں پر یقین نہ ہوتا اس وقت تک یہ بے وجہ لکھ نہیں سکتے تھے.یہ لوگ خود جو باتیں مانتے ہیں یا کئی باتیں ان کے علم میں آتی ہیں ہمیں اس سے بحث نہیں ہم تو صرف یہ بتانا چاہتے ہیں کہ جس اسمبلی کے ممبروں پر تم لوگ آج فخر کر رہے ہو کہ انہوں نے جماعت احمدیہ کو غیر مسلم قرار دیا اور سوسالہ مسئلہ حل کیا اس کی اپنی اسلامی حیثیت تمہارے نزدیک کیا تھی.یہی نہیں مزید لکھا ہے کہ یہ لوگ قاتل بھی ہیں اور قاتلوں کی حمایت کرنے والے بھی.ایک تو قتل کرنے والوں کو ہر طرح کی مدد دیتے ان کے معاملات کو رفع دفع کرواتے ہیں.پھر ان کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ پستول اور دیگر اسلحہ جات کے لائسنس نا جائز طور پر جاری
خطبات طاہر جلدم 455 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء کروانے والے، اپنی عدالتیں لگا کر غریبوں کے مال لوٹنے والے بیواؤں اور یتیموں کا مال کھا جانے والے، صنعت کاروں سے بھاری رقوم جمع کر کے اور اسی طرح ٹھیکیدراوں سے بھاری رقوم وصول کر کے ان کے کام کروانے والے شرابی مجرمانہ ذہنیت کے حامل ، رسہ گیر اور بحری قزاق ہیں.یہ وہ سارے لوگ ہیں جن کا ذکر خلاصہ میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں اور یہ پیپلز پارٹی کی اکثریت کی تصویر ہے جو قر طاس ابیض میں کھینچی گئی ہے.اور جہاں تک اپوزیشن کے ممبران کا تعلق ہے خیال ہوسکتا ہے کہ وہ بچ گئے ہوں گے لیکن موجودہ حکومت کا خیال یہ ہے کہ اپوزیشن کے ممبر بھی اسی طرح گندے تھے جس طرح پیپلز پارٹی کے ممبر گندے تھے.چنانچہ اس وائٹ پیپر میں جس کا ذکر ہو رہا ہے اپوزیشن کے کردار کے چند نمونے بھی پیش کئے گئے ہیں اور بتایا ہے کہ اپوزیشن کس قسم کی تھی.لکھا ہے کہ: و شیخی اور لاف زنی کا رسیا خود کو پاکستان میں وزیر اعظم کی ٹکر کا واحد لیڈ رسمجھتا ہے انتہائی بے اصول اور بے ضمیر شخص ہے.بدقسمتی سے ہماری عوامی زندگی میں لائق فائق لوگوں کی قلت کی وجہ سے وہ قومی سطح پر اپنی اہلیت سے زیادہ اہمیت حاصل کر گیا ہے.“ ( قرطاس ابیض.بھٹو کا دور حکومت جلد سوم صفحہ ۱۸۴) یعنی اکثریت کا وہ حال ہے اور اقلیت کا یہ حال ہے.لکھتے ہیں کہ اس قدر قحط الرجال ہے کہ اکثریت تو گندی تھی ہی اقلیت میں بھی شرفاء نظر نہیں آرہے تھے اور چونکہ قحط الرجال ہے شرفاء کی قلت ہے اس لئے اس قسم کے گندے اور اوباش لوگ قومی زندگی پر ابھر آئے.ایک اور نمونہ پیش کر کے لکھا ہے: اس کی باغیانہ اور ہیجانی طبیعت کے لئے کسی کی طرف سے تحکم اور اختیار آفرینی تازیانہ ثابت ہوتی ہے اور خطرہ کا نشان بن جاتی ہے.بدکاری اور ناجائز تعلقات کے الزامات میں ملوث ہے ایک اور اپوزیشن کے ممبر کا حال لکھتے ہیں: مالی لحاظ سے کمزور، لالچی ، شیخی خوردہ ، سستی شہرت کی طرف راغب
خطبات طاہر جلدم 456 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء ( آگے مبینہ طور پر ڈیش ڈال کر گویا کہ فلاں شخص ہے ) فلاں معین شخصیت کے ساتھ ناجائز تعلقات قائم کر رکھے ہیں.“ ( قرطاس ابیض.بھٹو کا دور حکومت جلد سوم صفحہ ۱۸۵) حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر یہ کسی عام مولوی کی زبان نہیں ہے عام مولوی تو اس قسم کی باتیں کرتے رہتے ہیں، یہ حکومت کے نمائندوں کی زبان ہے.حکومت کی طرف سے اس کی مہر کے ساتھ شائع شدہ وائٹ پیپر ہے اس سے آپ اندازہ کریں کہ ان کے وائٹ پیپر کی کیا حیثیت ہوتی ہے.ان کے اپنے اخلاق کیا ہیں، ان کے ناپنے کے پیمانے کیا ہیں.شریعت کو کیا سمجھتے ہیں اور شریعت سے کس قسم کے گندے کھیل کھیلتے ہیں.حیرت ہے کہ ایک طرف جن لوگوں کو گندے اور بد کردار سمجھتے ہیں اور اس یقین کے ساتھ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا میں فیصلے پر فخر کر رہے ہیں کہ ان کو خدا تعالیٰ نے سوسالہ مسئلہ حل کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور یہ کہ انہوں نے شریعت کا ایک عظیم الشان معرکہ مارا ہے جو بڑے بڑے علماء سے حل نہیں ہو سکا تھا.اپوزیشن کے ایک اور ممبر کے متعلق لکھتے ہیں کہ خیال ہے اس نے معمولی باتوں پر بہت سے قتل کئے ہیں.پھر لکھا ہے معتمدوں کے ذریعہ پرمٹ حاصل کرنے والے ، ایجنسیاں دلوانے والے، سمگلنگ کرنے اور کروانے والے، کسٹم حکام کے ساتھ ملوث (ان کسٹم حکام کے خلاف پھر کوئی کارروائی بھی نہیں کی گئی ) مبینہ طور پر عورتوں کے رسیا ہیں.اس قدر کثرت کے ساتھ یہ گندے الزامات لگائے گئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے آخر ملک کی قومی اسمبلی تمام ملک کی نمائندہ ہوتی ہے.اگر اس کا یہ حال ہو، اسے ساری دنیا میں مشتہر کیا جارہا ہو تو اس ملک کا باقی کیا رہ جاتا ہے پس یہ اس موجودہ حکومت کا کردار ہے جو بڑے فخر کے ساتھ آج ان لوگوں کے فیصلے کو دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے اور بھول گئی ہے کہ کل ہم نے ان کے بارے میں ایک White Paper شائع کیا تھا.اسی پر بس نہیں کی اس قومی اسمبلی کے ممبران کے متعلق یہ بھی لکھا کہ ان میں سے بعض غیر ملکی طاقتوں سے روابط رکھنے والے تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ملک کے خلاف سازشیں کرنے والے اور موقع پرست لوگ ہیں اور فلاں فلاں شرابی ہے.یہ ہے حال ان کی قومی جمعیت کا اور ان کی اکثریت کا جس میں حکومت کے لوگ بھی اس رنگ میں رنگین تھے جس کا اوپر بیان کیا گیا ہے اور
خطبات طاہر جلد۴ 457 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء اپوزیشن کے لوگ بھی اسی رنگ میں رنگے ہوئے تھے گویا یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے تھے اور اس تھیلی کا نام انہوں نے اجماع رکھ دیا ہے.کہتے ہیں امت مسلمہ کا عظیم الشان اجماع ہوا جس کا نام سواداعظم رکھ دیا.اناللہ وانا اليه راجعون.یہ سب کچھ درست تھا یا غلط تھا.یہ سوال ہے کہ جن کے متعلق تم یہ الزام لگا چکے ہو ان کے فیصلے کو اجماع کہنا کیسے درست ہو سکتا ہے.ان کو آنحضرت علی کی طرف منسوب کرتے ہوئے حیا آنی چاہئے تھی، غیرت آنی چاہئے تھی.انہوں نے حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ سے سبق سیکھا ہوتا مگر ان لوگوں نے تو اخلاق اور غیرت کے سبق کبھی پڑھے ہی نہیں.حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق آتا ہے کہ ایک دفعہ اشرفیوں کی صورت میں بھاری رقم ایک تھیلی میں لے جارہے تھے، کشتی میں سوار ہوئے تو کسی شخص کو پہلے سے پتہ چل گیا کہ ان کے پاس اتنی اشرفیاں ہیں، وہ سراغ لگا تا ہوا پیچھا کر رہا تھا جب وہ کشتی میں بیٹھے تو اس نے اچانک پیچ میں پہنچ کر شور مچا دیا کہ میری تو اشرفیوں کی تھیلی چوری ہو گئی ہے اور اس میں اتنی اشرفیاں موجود ہیں.خیر جو بھی کشتی کا سردار تھا اس نے حکم دیا کہ سب کی تلاشی لی جائے.تلاشی ہوئی تو کسی کے پاس سے بھی اشرفیوں کی ایسی تھیلی نہ نکلی.حضرت امام بخاری کے پاس بھی نہ تھی.وہ شخص یقین رکھتا تھا کہ ان کے پاس تھیلی تھی اسی لئے اس نے بڑے تعجب سے بعد میں علیحدہ ہو کر کہا کہ تھا تو یہ جھوٹا الزام مجھے پتہ ہے لیکن مجھے یہ تو بتا دیں وہ تھیلی گئی کہاں.حضرت امام بخاری نے فرمایا میں نے تو وہ دریا میں غرق کر دی تھی.کیوں غرق کر دی تھی ؟ اس لئے غرق کر دی تھی کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اقوال کا محافظ ہوں ، میں یہ بھی پسند نہیں کرتا تھا کہ میری ذات پر ایک دفعہ الزام لگ جائے کہ اس نے خود بد دیانتی کی ،اتنے عظیم آقا اور اتنے عظیم امین کے اقوال کا محافظ ہوا ور داغدار ہو جائے.میں تو ہرگز یہ پسند نہیں کرتا اشرفیوں کی میرے سامنے کیا حیثیت ہے.یہ ہیں وہ لوگ جو سچے عشاق تھے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور اسلام کے انہوں نے ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کی اور وہ ساری کمائی جو پتہ نہیں کتنے وقت کی کمائی تھی اور کتنی محنت سے کمائی تھی اپنے ہاتھ سے ڈبودی مگر آنحضرت معہ کے نام اور آپ کی حدیثوں پر حرف نہیں آنے دیا اور اس بات کا موقع نہ دیا کہ کوئی شخص آنحضور کے غلام کے کردار پر انگی اٹھا سکے.
خطبات طاہر جلدم 458 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء مگر پاکستان کی موجودہ حکومت کا حال دیکھیں کہ اتنے گندے اور بھیا نک الزام بڑے یقین کے ساتھ شائع کر کے ساری دنیا میں مشتہر کروارہی ہے یہ بتانے کے لئے کہ یہ قومی اسمبلی تھی جس کے چہرے اس قدرسیاہ تھے اور اتنے گندے تھے کہ دنیا کی دوسری اسمبلیوں میں اگر اس سے سواں حصہ الزام لگ جائے تو وہ لوگ مستعفی ہو جایا کرتے ہیں.واٹر گیٹ کا قصہ پاکستانی اسمبلی کے سامنے کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا مگر پھر بھی ساری دنیا میں شور پڑ گیا کہ حکومت میں رہتے ہوئے فلاں شخص کی جاسوسی کروائی ہے اور اس پر امریکہ کی حکومت میں انقلاب آ گیا.اب دیکھیں کہ وہ ایک دنیاوی حکومت ہے.اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں مذہبی حکومت نہیں کہلاتی لیکن اخلاق کا یہ معیار ہے اور یہاں اسلامی حکومت کے معیار اخلاق کا حال دیکھ لیجئے ایک طرف لوگوں کو یہ بتاتے ہوئے تھکتے نہیں کہ ہے کی قومی اسمبلی انتہائی بد کردار اور بے حیالوگوں پر مشتمل تھی.وہ اس قسم کے لوگ تھے یا نہیں یہ اللہ جانتا ہے مگر یہ حکومت بتاتی ہے کہ وہ بڑے گندے اور بے حیا لوگ تھے.دوسری طرف یہی حکومت ان پر فخر کر رہی ہے کہ نعوذ بالله من ذلک یہ لوگ غلامان محمد مصطفی ﷺے ہیں.ان لوگوں کو آنحضور ﷺ کی طرف منسوب کرتے ہوئے تمہیں کوئی شرم وحیا محسوس نہیں ہوتی کجا یہ کہ ان کے فیصلوں کو شرعی حیثیت کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کرتے پھرتے ہو.ہاں اگر تم یہ کہتے کہ ہم جھوٹے ہیں، ہم بد کردار ہیں، ہم نے جھوٹے الزام لگائے ہیں اور ہم ہر سزا کے مستحق ہیں اور یہ نیک اور بزرگ لوگ ہیں پھر جو چاہو پیش کرو مگر اس کے باوجود ان کے فیصلے کی شرعی حیثیت کیا ہے وہ میں آپ کو بتا تا ہوں.اگر یہ لوگ نیک ہوتے تب بھی ان کے فیصلہ کی شرعاً کوئی بھی حیثیت نہ تھی کیونکہ مذاہب میں اس قسم کی باتوں پر فیصلے نہیں ہوا کرتے.۷۴ء کی قومی اسمبلی نے جو کچھ کیا وہ تو احمدیت کی سچائی کا اتناعظیم الشان نشان ہے کہ اس زمانے میں اتنا عظیم الشان نشان شاذ کے طور پر آپ کو نظر آئے گا لیکن جیسا کہ میں نے کہا تھا پہلے میں نام نہادا کثریت کے بارہ میں بعض علماء کی آراء کے چند نمونے آپ کے سامنے رکھتا ہوں پھر میں دوسری بات کی طرف آؤں گا.سید عطاء اللہ شاہ صاحب بخاری کہتے ہیں.”ہم نام نہاد ا کثریت کی تابعداری نہیں کریں گے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اکثریت باطل پر ہے.(سوانح حیات بخاری از حبیب الرحمن خان کا بلی صفحہ ۱۱۶)
خطبات طاہر جلدم 459 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء مولوی اشرف علی صاحب تھانوی جو آج کل کے دیو بندیوں کے بہت بڑے بزرگ سمجھے جاتے ہیں.ان کے متعلق ماہنامہ البلاغ کراچی بابت ماہ جولائی ۱۹۷۶ء صفحہ ۵۹ پر لکھا ہے کہ انہوں نے فرمایا: " آج کل جمہوریت کو شخصیت پر ترجیح دی جارہی ہے.(۷۴ء کا یہ جمہوری فیصلہ ہی تھانا جس کو اچھالا جا رہا ہے ) اور کہتے ہیں کہ جس طرف کثرت ہو وہ سواداعظم ہے.اسی زمانہ میں میرے ایک دوست نے اس کے متعلق ایک عجیب اور لطیف بات بیان کی تھی.( اور واقعہ وہ بات اتنی لطیف ہے کہ اگر کسی مولوی صاحب کے ذہن میں آجاتی تو بڑا تعجب ہوتا ان کے ایک دوست کو سمجھ آئی ہے لیکن ان مولوی صاحب میں یہ سعادت تھی کہ ان کی سچی بات کو انہوں نے پسند کیا اور پھر اس کو اپنا کر آگے پیش کیا.بات واقعی بہت لطیف ہے کہتے ہیں کہ جو میرے دوست نے عجیب بات بیان کی وہ یہ تھی کہ ) اگر سواد اعظم کے معنی یہ بھی مان لئے جائیں کہ جس طرف زیادہ ہوں تو ہر زمانہ کے سواد اعظم مراد نہیں بلکہ خیر القرون کا زمانہ مراد ہے.“ یعنی آنحضرت ﷺ نے جس سواد اعظم کا ذکر فرمایا ہے.اگر اس کے لفظی معنی مان لئے جائیں کہ سواد اعظم سے مرادا کثریت ہی ہے تو کہتے ہیں کہ میرے دوست نے بتایا کہ اس سے مراد پھر بھی یہ نہیں ہے کہ ہر زمانہ کا سواداعظم یا ہر زمانہ کی اکثریت بلکہ خیر القرون مراد ہے یعنی وہ زمانہ جو آنحضرت ﷺ کے اپنے ارشادات کے مطابق نیکی کا زمانہ تھا، سچائی کا زمانہ تھا، روشنی کا زمانہ تھا جس کو حضور نے خود خیر القرون قرار دیا.یعنی آپ کا زمانہ.پھر آپ کے بعد آنے والوں کی نسل پھر اس سے اگلے آنے والوں کی نسل.یہ تین زمانے ہیں جو روشنی کے زمانے ہیں اور خیر القرون کہلاتے ہیں.اس کے بعد اندھیرا پھیلنا شروع ہو جائے گا.یہ حوالہ آگے چلتا ہے لکھا ہے: ”جو غلبہ خیر کا وقت تھا ان لوگوں میں سے جس طرف مجمع کثیر ہو وہ مراد ہے نہ کہ ثـم يـفـشـو الكذب کا زمانہ یہ جملہ ہی بتارہا ہے کہ خیر القرون کے بعد شر میں کثرت ہوگی.“
خطبات طاہر جلدم 460 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء یعنی خیر القرون سے وہ زمانہ مراد نہیں جو آنحضرت علی کے اپنے الفاظ کے مطابق جھوٹ کی اشاعت کا زمانہ ہے.بڑی عمدہ اور پختہ بات ہے اس کے خلاف کوئی دلیل پیش نہیں کی جاسکتی.سواد عظم کے متعلق خود حضور اکرم نے فرمایا لیکن ساتھ یہ بھی تو فر ما دیا کہ خیر القرون تین زمانے ہیں یا تین نسلوں کا نام ہے.اس کے بعد کذب کی اشاعت شروع ہو جائے گی اور اندھیرا پھیل جائے گا.اس زمانہ کو حضور اکرم نے خیر القرون نہیں فرمایا.اس لئے جو زمانہ خیر القرون نہیں ہے بلکہ جھوٹ کی کثرت کا زمانہ ہے.اس کو سواد اعظم کہ دینا اور اس سے شرعی استنباط کرنا بالکل بے بنیا د بات ہے پھر مولوی صاحب لکھتے ہیں.مجھے تو یہ بات بہت پسند آئی.واقعی کام کی بات ہے.“ یہ ہے تو کام کی بات لیکن ہمارے کام کی بات ہے.آپ کے کام کی بات نہیں ہے اور وہ جو زمانہ ہے جس کو حضور اکرم یہ اشاعت کذب کا زمانہ قرار دیتے ہیں.اس کے متعلق بھی سن لیجئے کہ اس زمانہ کی اکثریت کے کیا حالات ہوں گے.عن عبدالله بن عمرو رضى الله عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ليا تين على امتى ما اتی علی بنی اسرائیل حذو النعل بالنعل حتى ان كان منهم من اتى امه علا نية لكان في امتي من يصنع ذلك وان بنى اسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة و تفترق امتي على ثلاث و سبعين ملة كلهم في النار الاملة واحدة قالواو من هی یا رسول الله قال ما اناعليه واصحابی“ (ترمذی ابواب الایمان باب افتراق هذه الامة حديث نمبر : ۲۵۶۵) ترجمہ : حضرت عبداللہ بن عمر و بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا میری امت پر بھی وہ حالات آئیں گے جو بنی اسرائیل پر آئے تھے جن میں ایسی مطابقت ہوگی جیسے ایک پاؤں کے جوتے کی دوسرے پاؤں کے جوتے سے ہوتی ہے یہاں تک کہ اگر ان میں سے کوئی اپنی ماں سے بدکاری کا مرتکب ہوا تو میری امت میں بھی کوئی ایسا بد بخت نکل آئے گا.بنی اسرائیل بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر (۷۳) فرقوں میں بٹ جائے گی لیکن ایک فرقے کے سوا
خطبات طاہر جلدم 461 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء باقی سب جہنم میں جائیں گے.صحابہ نے پوچھا یہ ناجی فرقہ کون سا ہے.تو حضور نے فرمایا وہ فرقہ جو میری اور میرے صحابہ کی سنت پر عمل پیرا ہو گا یا جس کے حالات میرے اور میرے صحابہ جیسے ہوں گے.یہ دونوں معنے ہیں یعنی جس حال پر تم مجھے اور میرے صحابہ کو پاتے ہو ان خیالات اور عقائد پر اگر کسی فرقے کو پاؤ گے تو وہ میرے والا فرقہ ہے اور وہی ناجی فرقہ ہے.یہ حدیث ایک بہت بڑی اہمیت کی حامل ہے خصوصاً اس ٹولے کے لئے جو آجکل پاکستان پر مسلط کیا جارہا ہے جسے وہابی اہلحدیث ٹولہ کہا جاتا ہے کیونکہ اس ٹولہ کے بانی حضرت امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ ایک بہت بڑے موحد بزرگ گزرے ہیں مسلمانان حجاز کی بھاری اکثریت ان کو بارھویں صدی کا مجدد تسلیم کرتی ہے وہ حدیث نبوی ستفترق هذه الامة على ثلاث و سبعين فرقة كلها في النار الا واحدة که میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی سب جہنم میں جائیں گے سوائے ایک کے درج کر کے فرماتے ہیں: فرماتے ہیں: فهذه المسئلة اجل المسائل “ کہ یہ مسئلہ اجل مسائل میں سے ہے.اور پھر فمن فهمها فهو الفقيه و من عمل بها فهو المسلم مختصر سیرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفحه ۱۴۱۳ از امام محمد بن عبدالوہاب ) یعنی تہتر فرقوں میں سے بہتر (72) کے ناری اور ایک جنتی ہونے کا مسئلہ ایک عظیم الشان مسئلہ ہے جو اسے سمجھتا ہے وہی فقیہ ہے اور جو اس پر عمل کرتا ہے یعنی بہتر فرقوں کو عملاً ناری اور ایک کو جنتی قرار دیتا ہے صرف اور صرف وہی مسلمان ہے.یعنی امام محمد بن عبدالوہاب نے مسلمان کی تعریف یہاں پہنچ کر یہ کر دی کہ یہ حدیث اتنی اہم ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ نے اس میں جو مسئلہ پیش فرمایا ہے وہ اتنی اہمیت کا حامل ہے کہ جو شخص اس کو تسلیم کرتا ہے اس پر عمل کرتا ہے اور یہ مانتا ہے کہ ہاں جب امت مسلمہ فرقوں میں بٹ جائے گی تو بہتر ناری ہوں گے اور ایک جنتی ہوگا اور یہ وہی ہے جو مسلمان ہے دوسرا مسلمان ہی کوئی نہیں.شارح مشکوۃ اور فقہ حنفی کے مسلمہ عالم حضرت امام ملاعلی قاری تہتر فرقوں والی حدیث نبوی کی شرح میں لکھتے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 462 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء پس یہ بہتر فرقے سب کے سب آگ میں ہوں گے اور ناجی فرقہ وہ ہے جو روشن سنت محمدیہ اور پاکیزہ طریقہ احمدیہ پر قائم ہے“ ان کے اصل الفاظ یہ ہیں.فتلک اثنان و سبعون فرقة كلهم فى النار والفرقة الناجية هم اهل السنة البيضاء المحمدية و الطريقة النقية الاحمدية.( مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح جلد اول از ملاعلی قاری صفحه ۲۰۴) کتنے عظیم الشان بزرگ تھے اور کیسے تعلق باللہ والے لوگ تھے ایک پیشگوئی پر ایک اور پیشگوئی کر رہے ہیں اور خوب کھول کر بتا رہے ہیں کہ وہ محمد یہ فرقہ احمد یہ فرقہ کے ایسے رستہ پر ہو گا جو کہیں اور تمہیں نظر نہیں آئے گا.اس حدیث کو مسلمانوں کے ہر گروہ نے تسلیم کیا اور وہ اسے اپنے اوپر چسپاں کرتے رہے.شیعہ کہتے تھے کہ وہ ایک فرقہ ہم ہیں اور باقی سارے فرقے بہتر میں شامل ہیں جب کہ سنی یہ کہہ رہے تھے کہ ہم وہ ہیں جو ایک فرقہ ہے.پھر ان میں سے بھی ہر فرقہ یہ کہتا تھا کہ وہ ناجی ہے اور دوسرے ناری ہیں.چنانچہ ایک شیعہ مجتہد بہتر فرقوں والی حدیث کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ وہ اختلافات جو ان کے اور دوسرے مسلمانوں کے درمیان پائے جاتے ہیں وہ انہیں باقی فرقوں سے بالکل جُدا کر دیتے ہیں.چنانچہ لکھتے ہیں.”شیعہ حضرت امیر المومنین امام المتقین اسد اللہ الغالب علی ابن ابی طالب علیہ السلام کو خلیفہ بلا فصل بعد پیغمبر آخرالزمان ﷺ کے جانتے ہیں اور ان کے بعد ان کی اولاد سے گیارہ فرزند امام مهدی آخر الزمان علیه السلام تک یکے بعد دیگر ے خلیفۃ الرسول اور امام برحق مانتے ہیں.لیکن باقی بہتر فرقے پہلا خلیفہ ابوبکر دوسرا عمر تیسرا عثمان، چوتھا علی علیہ السلام کو جانتے ہیں.“ اسی قسم کی اور بھی علامتیں بیان کرنے کے بعد آخر پر لکھتے ہیں.خلاصہ : تمام اصول اور فروع میں یہی ایک شیعہ فرقہ بہتر فرقوں سے علیحدہ ہے جس کا جوڑ کسی صورت میں ان کے ساتھ نہیں ہوسکتا کیونکہ بڑے
خطبات طاہر جلدم 463 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء بڑے مسائل اصول و فروع میں ان کا سخت اختلاف ہے اس لئے تمام اسلامی فرقے شیعہ کو مخالف سمجھتے ہیں لیکن حدیث مذکورہ کے مطابق یہی ایک فرقہ باقی فرقوں سے بالکل جدا ہونے کی وجہ سے ناجی اور بہشتی ہے.“ (فتاوی حائری حصہ دوم صفحه ۵ -۶) اب بتائیے کل تو یہ بحث ہورہی تھی کہ بہتر کون ہیں اور ایک کون ہے اور کل تک یہ لوگ تسلیم کر رہے تھے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے بہر حال بیچ فرمایا ہے.صرف جھگڑا یہ کریں گے کہ ہم وہ ایک ناجی فرقہ ہیں یا باقیوں میں سے وہ ایک فرقہ ہے یعنی جھگڑا یہ تھا کہ بہتر (۷۲) کون ہیں اور ایک تہتر واں (۷۳) فرقہ کون ہے.چنانچہ جماعت اسلامی کا ایک مشہور آرگن” ترجمان القرآن ہے وہ بھی اس حدیث کو تسلیم کرتا ہے اور اس پر بحث اٹھاتے ہوئے لکھتا ہے.اسلام میں نہ اکثریت کا کسی بات پر متفق ہونا اس کے حق ہونے کی دلیل ہے نہ اکثریت کا نام سواد اعظم ہے.( بڑی کھل کر بات کی ہے ) نہ ہر بھیڑ جماعت کے حکم میں داخل ہے اور نہ کسی مقام کے مولویوں کی کسی جماعت کا کسی رائے کو اختیار کر لینا اجماع ہے...اس مطلب کی تائید اس حدیث نبوی سے ہوتی ہے جو عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بایں الفاظ مروی ہے ( آگے وہی حدیث درج کی ہے کہ ) بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے اور میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی جو سب کے سب جہنم میں پڑ جائیں گے بجز ایک کے.لوگوں نے پوچھا یہ کون لوگ ہوں گے یا رسول اللہ؟ آپ نے فرمایا 66 وہ جو میرے اور میرے اصحاب کے طریقہ پر ہوں گے.“ اس کے بعد ”ترجمان القرآن“ لکھتا.تا ہے.یہ گروہ نہ کثرت میں ہوگا نہ اپنی کثرت کو اپنے برحق ہونے کی دلیل ٹھہرائے گا بلکہ اس امت کے تہتر فرقوں میں سے ایک ہوگا اور اس معمور دنیا میں اس کی حیثیت اجنبی اور بیگانہ لوگوں کی ہوگی جیسا کہ فرمایا بدء الا سلام غریبا وسيعود غريبا كمابدء فطوبى للغرباء.."
خطبات طاہر جلدم 464 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء ایک فرقہ ہمارا رہ گیا ہے جس کو آج یہ حیثیت حاصل ہے اجنبی اور بریگا نہ ہونے کی مگر اللہ کی شان دیکھیں کس طرح ان کے منہ سے حق کہلوا دیا اور ان لعنتیں ڈالنے والوں کی طرف سے خدا نے آپ کو دعائیں دلواد ہیں.خدا کی تقدیر نے زبر دستی ان کے منہ سے آپ کو رحمتیں دلوا دیں.ان کو تسلیم کرنا پڑا اور حدیث نبوی یاد آئی تو یہ لوگ حق کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے.پس جیسا کہ آنحضرت علی نے فرمایا تھا اسلام غربت سے شروع ہوا تھا پھر غریب ہو جائے گا جیسا کہ پہلے غریب تھا فطوبی للغرباء پس خوشخبریاں اور مبارکیں ہوں ان غرباء کو جو آخری زمانہ میں اسلام کی خاطر غریب الوطن ہو جائیں گے اور غریب کہلائیں گے.اسی حوالے میں ترجمان القرآن آخر میں لکھتا ہے: پس جو جماعت محض اپنی کثرت تعداد کی بناء پر اپنے آپ کو وہ وو جماعت قرار دے رہی ہے جس پر اللہ کا ہاتھ ہے...اس کے لئے تو اس حدیث میں امید کی کوئی کرن نہیں کیونکہ اس حدیث میں اس جماعت کی دو علامتیں نمایاں طور پر بیان کر دی گئی ہیں ایک تو یہ کہ وہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے صحابہ کے طریق پر ہوگی دوسری یہ کہ نہایت اقلیت میں ہوگی.“ (ترجمان القرآن، جنوری، فروری ۱۹۴۵ء صفحه ۱۷۵-۱۷۶ مرتبہ سیدابوالاعلیٰ مودودی) اب اس بات کو اچھی طرح ملحوظ رکھ لیں کہ آنحضرت علیہ فرماتے ہیں جب امت مسلمہ بہتر فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی اور ایک تہترویں جماعت پیدا ہوگی اور وہ حق پر ہوگی تو بہتر فرقے لازماً جھوٹے ہوں گے.کیونکہ بچے ناری نہیں کہلا سکتے.ایک ہی جماعت سچی ہے اور اسے جماعت قرار دیا ہے.کل تک جماعت احمدیہ کے تمام مخالفین خواہ سنی تھے خواہ شیعہ تھے اس حدیث کی صحت کے نہ صرف قائل تھے بلکہ وہابیہ فرقہ کے امام تو کہتے ہیں کہ مسلمان وہی ہے جو اس حدیث کو سچا مانتا ہے جو نہیں مانتا وہ مسلمان ہی نہیں.پس شیعہ کیا اور سنی کیا، وہابی کیا اور بریلوی کیا یہ تمام لوگ اس حدیث پر متفق ہیں اور تسلیم کرتے چلے آرہے تھے کہ آنحضرت ﷺ نے سچ فرمایا ہے.مگر ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو پاکستان پر جو قیامت ٹوٹی وہ یہ تھی کہ اس دن ان سب نے جماعت احمدیہ کی تکذیب کے شوق میں نعوذ باللہ من ذلک حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تکذیب سے دریغ نہیں کیا اور بڑی جرات اور بے حیائی کے ساتھ یہ اعلان کیا کہ یہ حدیث معاذ اللہ جھوٹی تھی ، ہمارے بزرگ جھوٹے
خطبات طاہر جلدم 465 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء تھے جو اس حدیث کو سچا تسلیم کر گئے.گویا ہے کی اسمبلی کو اکثریت کے زعم میں مسئلہ یوں سمجھ آیا کہ بہتر سچے ہیں.اور ایک جھوٹا ہے، بہتر جنتی ہیں اور ایک ناری ہے.چنانچہ اس مسئلہ کا فخر سے اعلان کیا گیا اور کیا جاتا رہا اور یہی مسئلہ ہے جس کو موجودہ حکومت کی طرف سے بھی مزعومہ قرطاس ابیض میں اچھالا جا رہا ہے.غرض یہ ایک بہت بڑی جسارت اور بغاوت تھی جس کا ۷ ستمبر ۱۹۷۴ء کو قومی اسمبلی نے ارتکاب کیا حالانکہ جماعت احمدیہ کے اس وقت کے امام کی طرف سے قومی اسمبلی کے سامنے بار بار اور کھلے لفظوں میں تنبیہ کی گئی تھی کہ تم شوق سے ہمارے دشمن بن جاؤ جو کچھ چاہو ہمیں کہتے رہو لیکن صلى الة خدا کے لئے اسلامی مملکت پاکستان میں حضرت محمد مصطفی حملے کے خلاف تو علم بغاوت بلند کرنے کی جسارت نہ کرو.کل تک تم یہ مانتے چلے آرہے تھے کہ اگر بہتر اور ایک کا جھگڑا چلا تو بہتر ضرور جھوٹے ہوں گے اور ایک تہتر واں ضرور سچا ہو گا اس لئے کہ اَصدَقُ الصّادِقِین کی پیشگوئی ہے کہ بہتر جھوٹے ہوں گے یعنی اکثریت جھوٹی ہوگی اور ایک فرقہ سچا ہوگا مگر آج جماعت احمدیہ کو جھوٹا بنانے کے شوق میں تم یہ اعلان کر رہے ہو کہ بہتر سچے ہیں اور صرف ایک جھوٹا ہے.اس کا تو گویا یہ مطلب بنتا ہے کہ معرفت کا جو نکتہ ان کو سمجھ میں آ گیا ہے وہ نعوذباللہ من ذلک، حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سمجھ میں بھی نہیں آیا.یہ دراصل اعلان بغاوت تھا جو آنحضرت ﷺ کے خلاف کیا گیا.ایسے لوگ اسلام میں رہ ہی نہیں سکتے اور کوئی جرم تھا یا نہیں مگر جس دن حضرت اقدس محمد مصطفی عالیہ کے واضح ارشاد کے خلاف کھلی کھلی بغاوت کا ارتکاب کیا گیا اس دن ضرور یہ غیر مسلم بن گئے تھے کیونکہ آنحضور کا ارشاد شک وشبہ سے بالا ہے اور چوٹی کے علماء اور مختلف فرقوں کے بانی مبانی اسے مانتے چلے آئے ہیں بلکہ اسے اسلام کی پہچان قرار دیتے رہے ہیں.مگر یہ سب کے سب اس دن ایسے پاگل ہو گئے اور ان کی عقلیں ایسی ماری گئیں کہ سات ستمبر کو یہ اعلان کر دیا کہ بہتر فرقے اکٹھے ہیں یہ مسلمان ہیں یعنی جنتی ہیں اور ایک جماعت احمد یہ ہے جو ناری ہے.یہ تھی اصل حقیقت جس کی نعوذ بالله من ذلک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مجھ نہیں آئی اور پھر بڑے فخر سے ساتھ یہ لوگ اس کو پیش کرتے رہے اور یہی کہہ کر جماعت کے خلاف نت نئے مطالبے کئے جاتے رہے.دراصل جماعت احمدیہ کی مخالفت کی تاریخ میں شروع سے ہی یہ گند اور کوڑھ داخل تھا کہ جماعت احمدیہ کو وہ جھوٹا بنا ہی نہیں سکتے جب تک اس حدیث کی تکذیب نہ کریں اس لئے پہلے بھی
خطبات طاہر جلدم 466 خطبه جمعه ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء جب جماعت کی مخالفت کرتے تھے تو علی الاعلان بڑے فخر کے ساتھ ان میں سے بعض اس کی تکذیب کے مرتکب ہوتے تھے.چنانچہ مولوی اختر علی خان ابن مولوی ظفر علی خان صاحب نے ۱۹۵۲ء میں جب احمدیوں کے خلاف تحریک چلائی گئی تو بڑے فخر سے یہ بات پیش کی.وہ کہتے ہیں.مجلس عمل نے گذشتہ تیرہ سو سال کی تاریخ میں دوسری مرتبہ اجماع امت کا موقع مہیا کیا ہے.آج مرزائے قادیان کی مخالفت میں امت کے۷۲ فرقے متحد و متفق ہیں.حنفی اور وہابی ، دیوبندی، بریلوی، شیعہ سنی اہلحدیث سب کے علماء ،تمام پیر اور تمام صوفی اس مطالبہ پر متفق و متحد ہیں کہ مرزائی کا فر ہیں انہیں مسلمانوں سے ایک علیحدہ اقلیت قرار دو “ 66 زمیندار ۵/ نومبر ۱۹۵۲ء صفحه ۲ کالم نمبر ۶) یعنی ۷۲ فرقے مسلمان اور ایک غیر مسلم ہے جو ناری ہے.اور پھر جب ۷۴ء میں یہ ظالمانہ واقعہ ہو گیا تو اس کو اپنی تائید میں آج پیش کر رہے ہیں اور سمجھ نہیں رہے کہ ہم کیا بات کر رہے ہیں.اس وقت ۱۹۷۴ء میں نوائے وقت لا ہور نے بڑی خوشی سے اور بڑے فخر کے ساتھ بہتر فرقوں کا اجماع کی شہ سرخی کے ساتھ اعلان کیا.دیکھیں کس طرح خدا جھوٹا کرتا ہے لوگوں کو.ان کو پتہ ہی نہیں لگتا کہ خدا کی تقدیر ہم سے کیا کھیل کھیل رہی ہے يُخْدِعُونَ اللَّهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَ مَا يَشْعُرُونَ ) (البقرة: ١٠) اللہ ان کے مکروں اور ان کی تدبیروں کو ان پر الٹا دیتا ہے.چنانچہ نوائے وقت کا یہ نوٹ اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے.اسلام کی ساری تاریخ میں اس قدر پورے طور پر کسی اہم مسئلہ پر کبھی اجماع امت نہیں ہوا.اجماع امت میں ملک کے سب سے بڑے بڑے علماء دین اور حاملان شرع متین کے علاوہ تمام سیاسی لیڈر اور ہر گروپ کا سیاسی راہنما کما حقہ متفق ہوئے ہیں.اور صوفیائے کرام اور عارفین باللہ برگزیدگان تصوف و طریقت کو بھی پورا پورا اتفاق ہوا ہے.قادیانی فرقہ کو چھوڑ کر جو بھی ۷۲
خطبات طاہر جلدم 467 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء فرقے مسلمانوں کے بتائے جاتے ہیں سب کے سب اس مسئلہ کے اس حل پر متفق اور خوش ہیں.(نوائے وقت ۶ اکتوبر ۱۹۷۴ء صفحه ۴ ) کیا اس بات پر خوش ہیں کہ ہم بہتر ہیں جو پہلے اپنے آپ کو ایک کہا کرتے تھے اور غیروں کی طرف انگلی اٹھا کر کیا شیعہ اور کیا سنی یہ کہا کرتے تھے کہ تم بہتر ہو اور ہم وہ ایک فرقہ ہیں جس کے متعلق ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشخبری دی ہے کہ جب بہتر اور ایک کا جھگڑا چلے گا تو ایک جنتی ہو گا اور ۷۲ ناری ہوں گے.اس دن دیکھیں تقدیر نے اس کے ساتھ کیا کھیل کھیلا.انہوں نے پاگلوں کے طرح اخباروں میں سرخیاں جما دیں اور فخر سے اعلان کیا کہ ہم۲ے ہیں اور مرزا غلام احمد کی جماعت وہ ایک ہے، وہ ایک ہے، وہ ایک ہے.پس خدا کی قسم ! اگر وہ ایک ہے اور تم بہتر ہو تو پھر تمہارا فتویٰ نہیں چلے گا.فتویٰ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا چلے گا اور کوئی ماں نہیں ہے جس نے کوئی ایسا بچہ پیدا کیا ہو جومحمد مصطفی ہے کے فتوے کو غلط قرار دے یا اسے الٹا سکے.یادرکھو اے ستمبر ۷۴ ء کا دن تمہارے لئے رات بن کر آیا ہے اور ہمارے لئے اس دن روشنی کا ایک سورج طلوع ہوا جس نے احمدیت کو بقعہ نور بنا دیا تم نے اکٹھے ہو کر اپنے ہاتھوں سے یہ فیصلہ دے دیا کہ آج محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئی پوری ہوئی اور چونکہ تم اسی فیصلے میں آنحضرت ﷺ کے نکالے ہوئے نتیجہ کی تکذیب کے مرتکب ہوئے اس لئے وہ پیش گوئی اور بھی زیادہ شان کے ساتھ پوری ہوئی.تمہاری اس ظالمانہ روش نے یہ فیصلہ کر دیا کہ تم جھوٹے ہو کیونکہ تم نے نتیجہ وہ نکالا ہے جو محمدمصطفی ﷺ کے نکلے ہوئے نتیجہ کے مخالف ہے.پس یہ ہے تمہاری اکثریت اور یہ ہے تمہاری اکثریت کی حیثیت.اس اکثریت کی ہمیں ایک کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کیونکہ اس اکثریت کی ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی ﷺ کو کوئی پرواہ نہیں.تم نے ہمیں محمد مصطفی عبید اللہ سے کاٹنے کے لئے یہ اقدام کیا تھا مگر اس دن نے تو ہمیشہ کے لئے ہمارا پیوند حضرت محمد مصطفی ﷺ سے اور بھی زیادہ پکا کر دیا.اگر تم سچے ہو نعوذ بالله من ذلک اور محمد مصطفی ﷺ نعوذ باللہ من ذلک غلط ہیں تو ہمیں وہ ایک بننا منظور ہے جو غلط ہو کر بھی ہمارے آقا محمد مصطفیٰ کے ساتھ رہتا ہے.ہمیں یہ ہرگز منظور نہیں ہے کہ ہم ان بہتر وں کے ساتھ شامل ہوں جو ہمارے آقا و مولا محمد مصطفی " کو منظور نہیں اس لئے جھوٹا کہو گے تب بھی ہم اپنے آقا محمد مصطفی ملے
خطبات طاہر جلدم 468 خطبہ جمعہ ۷ ارمئی ۱۹۸۵ء کے ساتھ رہیں گے.سچا کہو گے تو پھر تو ہم ہیں ہی بچے اس لئے اب نکل کے دکھاؤ اس راہ سے.خود تمہارا بچھایا ہوا دام ہے جس نے تمہیں گھیر لیا ہے.ایک بھی تم میں سے باقی نہیں رہا.شیعہ سنی کبھی وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ سارے متفق ہو جائیں گے کہ وہ سب اپنے اختلاف عقائد کے باوجود اس مسئلہ پر متفق ہیں اور یہ کہ ان کے بزرگوں کے سارے فتوے جھوٹے ہیں.اس دن خدا نے عظیم الشان فتح کا سورج ہمارے لئے طلوع فرمایا.ہم اس پر راضی ہیں.اللهم صل على محمد وال محمد وبارك وسلم انک حمید مجید.
خطبات طاہر جلدم 469 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء رمضان المبارک عسر یسر ، رضا ولقاء الہی کا مضمون نیز پاکستانی احمدیوں کے دکھ اور انکے لئے دعا کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ مئی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ وَبَيْنَتٍ مِّنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَثِرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيْبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقره: ۱۸۶ - ۱۸۷) یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں رمضان المبارک کی آمد آمد کی خوشخبری دی گئی ہے اور اس موقع پر مومنوں کو جو دینی، روحانی فوائد حاصل ہوتے ہیں ان کا ذکر فرمایا گیا ہے اور جو ذمہ داریاں ان پر عائد ہوتی ہیں ان کا بیان کیا گیا ہے اور ان ذمہ داریوں کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر مومنوں کے بارے میں جو ذمہ داریاں ڈالنی ہیں ان کا بھی ذکر فر مایا گیا ہے.
خطبات طاہر جلدم 470 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء اس مہینے کی برکتوں کا جہاں تک تعلق ہے سب سے بڑی ،سب سے اہم برکت جس کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے وہ خود قرآن کریم کا نزول ہے.فرمایا أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَنْتِ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ کہ ایک ایسا عظیم الشان کلام اس مہینے میں اتارا گیا یعنی کلام الہی کے نزول کے آغاز کا یہ مہینہ ہے.اور یہ معنی بھی ہیں کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں مسلسل جبرائیل بار بار تشریف لاتے رہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن کریم کا مکمل دور کرواتے رہے جتنا قرآن بھی اس وقت تک نازل ہو چکا تھا.تو یہ وہ مہینہ ہے جس مہینہ میں قرآن کا نزول شروع ہوا اور مسلسل آنحضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال تک قرآن کریم جتنا بھی نازل ہو چکا ہوتا تھا اس کی اس مہینہ میں تکرار کی جاتی تھی اور بار بار وہی قرآن کریم دوبارہ نازل فرمایا جا تا تھا پس خدا تعالیٰ اس عظیم الشان برکت کی طرف توجہ دلا کر فرماتا ہے فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ جس کسی کو بھی یہ مہینہ دیکھنے کی سعادت نصیب ہو فَلْيَصُمْهُ وہ اس میں ضرور روزے رکھے.یہ نہیں فرمایا کہ جس شخص پر بھی یہ مہینہ آجائے وہ روزے رکھے کیونکہ یہ مہینہ کمزوروں پر بھی آتا ہے، طاقتوروں پر بھی آتا ہے، ان پر بھی آتا ہے جو ایمان لاتے ہیں اور ان پر بھی آتا ہے جو ایمان نہیں لاتے.مہینہ تو ایک جغرافیائی حقیقت کا نام ہے جو دنیا کے طبعی جغرافیہ سے تعلق رکھنے والی حقیقت ہے اس لئے یہ تو سب پر آتا ہے.شَهِدَ مِنْكُمُ میں جہاں شَهِدَ فرمایا گیا وہاں صرف یہ مراد نہیں کہ جو تم میں سے اس مہینے کو دیکھے بلکہ شہادت کے تمام تفصیلی معانی یہاں مراد ہیں.مراد یہ ہے کہ جو اس مہینہ کا عرفان رکھتا ہو ، جو اس مہینہ کا منتظر ہو اور پھر اسے پالے.جو اس مہینہ پر خدا کی طرف سے نگران مقر فرمایا گیا ہے، اس کے حقوق ادا کرنے کی نگرانی جس کے سپرد کی گئی ہے.شہادت کے یہ سارے معانی ہیں اس کے علاوہ بھی اور معانی ہیں.پس شَهِدَ مِنْكُمْ سے مراد یہ ہے کہ تم میں سے ہر وہ شخص جس کا رمضان کے مہینہ کے ساتھ ایک گہرا تعلق قائم کیا گیا ہے.جو اس کا منتظر رہتا ہے اور پھر اسے دیکھ لیتا ہے، وہ جو اس کے معارف سے واقف ہے، اس کے فوائد سے آگاہ ہے، وہ جس کے ذمہ اس کی ذمہ داریاں ڈالی گئیں ہیں، جس کے ذمہ اس کے تقدس کی حفاظت کی گئی ہے، ہر وہ شخص جب رمضان کو پالے فلیصمة تو پھر وہ روزے رکھے.لیکن ایسے اشخاص جن میں یہ تمام
خطبات طاہر جلد۴ 471 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۸۵ء صفت پائی تو جای میں گر مریض ہیں اس کی حالت مں میں تو اس مہینہ کے بدلے اور دوں میں روزے رکھ لیں.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اور تنگی نہیں چاہتا.یہ جو فر مایا گیا اس میں عبادت کا فلسفہ بیان فرما دیا گیا ہے.اگر چہ رمضان کی عبادت سے جسمانی تنگی کا بھی تعلق ہے اور بعض رمضان کے مہینے جو بعض علاقوں میں نہایت شدید گرمی کی حالت میں آتے ہیں ان میں بہت سخت جسمانی اذیت بھی انسان کو پہنچتی ہے مگر اذیت دینا خدا کا مقصود نہیں ہے اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ پابندی نہیں لگائی جاتی کہ جو گرمیوں کے روزے ہیں انہیں پورا کرنے کے لئے ویسی ہی شدید گرمیوں کا انتظار کیا جائے ویسے ہی تکلیف دہ حالات کا انتظار کیا جائے جب وہ آئیں تو رکھوتا کہ وہ بدلہ پورا ہو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے چونکہ ہمارا مقصد دکھ دینا اور تکلیف پہنچانا نہیں ہے اس لئے ہم اس شرط کو اڑا دیتے ہیں اور اگر تم واقعہ مجبور ہو کر اس مہینے میں روزے نہیں رکھ سکتے تو تمہیں کھلی آزادی ہے کہ روزوں کی گنتی پوری کرو.خواہ وہ نسبتاً آسان دنوں میں پوری کرو یا اسی طرح کے سخت دنوں میں پوری کرو.تمام عبادات میں یہی فلسفہ شامل حال ہے.کسی جگہ بھی عبادت بذات خود اذیت کا موجب نہیں ، نہ اذیت سے اللہ تعالیٰ کوئی لذت پاتا ہے.بنی نوع انسان کو دکھ میں مبتلا کر کے خدا تعالیٰ کوئی فرحت نہیں پاتا.نہ دکھ میں مبتلا ہونا براہ راست انسان کے لئے تزکیہ نفس کا موجب بن سکتا ہے.عبادت کی اصل روح اطاعت ہے.اطاعت کے ساتھ اگر دکھ وابستہ ہو تو اس دکھ کو خوشی سے قبول کیا جائے.اور اطاعت کے ساتھ اگر فرحت وابستہ ہو تو زبردستی اس فرحت کو دکھ میں تبدیل نہ کیا جائے بلکہ خوشی سے اس فرحت کو بھی قبول کیا جائے اور یہ کوشش نہ کی جائے کہ محبوب کی خاطر زبر دستی تکلیف اٹھا کر اسے خوش ہونے پر مجبور کیا جارہا ہے.یہ روح جو ہے زبر دستی کسی کو خوش کرنا کسی کی خاطر تکلیف اٹھا کر، یہ اسلامی عبادات سے کلیۂ مفقود ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس موضوع پر بار ہا مختلف مواقع پر مسلمانوں کو نصائح فرما ئیں اور خوب کھول کھول کے واضح فرما دیا کہ تم خدا تعالیٰ کو سختیوں کے ذریعہ مجبور نہیں کر سکتے.یعنی اپنے جسم کو خنی میں ڈال کر اپنی جان کو مشقت میں ڈال کر ز بر دستی تم خدا کی رضا حاصل
خطبات طاہر جلدم 472 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء نہیں کر سکتے.اگر اس دوڑ میں تم پڑ گئے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو تم کبھی ہر انہیں سکو گے.وہ تمہیں تو ڑ کے رکھ دے گا.لیکن تم زبر دستی خدا کو بھی خوش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.عبادت کی روح اطاعت ہے اور اطاعت کے ساتھ یہ شرط ہے کہ جس حال میں بھی ہو اس حال میں اطاعت کی خاطر اپنے محبوب کی رضا کو اپنی رضا کے اوپر غالب کر دیا جائے چنانچہ حضرت مصلح موعودؓ جو فرماتے ہیں: فرماتے ہیں: ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو ( کلام محمود صفحه: ۲۷۳) یہ وہی فلسفہ ہے.اصل مقصود رضائے باری تعالی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا ترک رضائے خویش پئے مرضی خدا (در نمین صفحه : ۱۱۳) کہ اسلام کا خلاصہ چاہتے ہو تو وہ تو صرف یہ ہے ”خدا کے لئے فنا اللہ کے لئے اپنی ذات کے اوپر ایک فنا طاری کردو.ترک رضائے خویش اپنی ذاتی مرضی ، اپنی ذاتی خواہشات کو خدا تعالیٰ کی مرضی کے تابع کردو.یہ ہے اسلام کا خلاصہ.چنانچہ اس دوران اگر تکلیف ہو تو اس سے راضی رہو، اگر آرام پہنچے تو اس آرام کو بھی عبادت سمجھو.یہ اسلامی فلسفہ ایسا ہے جو تمام انسانی زندگی کی ہر حالت پر محیط ہو جاتا ہے اور اسلامی عبادات کو دوسری تمام عبادات کے تصور سے بالکل ممتاز کر لیتا ہے.جتنے دیگر مذاہب ہیں ان میں عبادت کے ساتھ جان کنی تکلیف اور اذیت کا مفہوم شامل ملتا ہے.کسی بھی مذہب کی عبادت کا تصور آپ ڈھونڈیں ان کی کتب میں یا ان کی روایات میں تو اس تصور میں یہ ایک جزو لاینفک ملے گا آپ کو جو اس سے الگ نہیں ہو سکتا کہ اگر تم خدا کو خوش کرنا چاہتے ہو تو اس کے لئے عمداً تکلیف اٹھاؤ اور محض اس لئے تکلیف اٹھاؤ کہ خدا تمہاری تکلیف سے راضی ہوتا ہے.
خطبات طاہر جلد۴ 473 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۸۵ء چنانچہ ان تصورات کے تابع ایسے واقعات ہمیں ہندوستان کے مختلف مذاہب میں ملتے ہیں کہ بعض لوگوں نے بازو کھڑا کیا اور کھڑے کھڑے باز و سوکھ گیا اور انہوں نے اسی کو عبادت سمجھا کہ خدا کی خاطر ایک بازو کو اونچا کھڑا کیا اور پھر کسی حالت میں نیچے نہیں گرنے دیا.یہاں تک کہ وہ اسی حالت میں سوکھ گیا اور یہ بہت بڑا معرکہ سمجھا گیا.لمبی فاقہ کشی ایسی جو جسم کو بالکل توڑ کے دکھ دے.یہ بھی عبادت سمجھی گئی اور کئی قسم کی مشقتیں با قاعدہ عبادت کا حصہ بنائی گئیں.جتنی زیادہ مشقتیں کوئی شخص برداشت کر سکتا ہے سمجھا جاتا ہے کہ اتنا ہی بڑا وہ رشی بن جاتا ہے اتنا ہی بڑا وہ پیر اور فقیر ہو جاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآنی تعلیم کے مطابق خوب کھول کھول کر اس مضمون کو واضح فرمایا کہ عبادت کا بذات خود مشقت سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ برعکس معاملہ ہے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْر اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تم اگر خدا سے پیار کرتے ہو تو خدا بھی تم سے پیار کرتا ہے.اور اپنے پیارے کے لئے آسانی چاہی جاتی ہے نہ کہ تکلیف - وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ہر گز تمہارے لئے خدا تعالیٰ تکلیف نہیں چاہتا.جب اس مضمون کو ہم سمجھتے ہیں تو ایک ایک پہلو کھل کے سامنے آجاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ مضمون انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہو گیا ہے.جب عبادت کا یہ مفہوم ہی نہیں رہا کہ تکلیف اٹھائی جائے اور عبادت کا مفہوم صرف رضائے باری تعالیٰ کا حصول ہے تو انسانی زندگی میں تو دو ہی قسم کے حالات آتے ہیں یا مشقت یا راحت.جس کی مشقت بھی خدا کی خاطر ہو جائے اور جس کی راحت بھی خدا کی خاطر ہو جائے اس کی زندگی کا ہرلمحہ عبادت بن گیا.اس فلسفہ سے باہر جتنے فلسفے ہیں وہ انسانی زندگی کے ہر حصہ کو عبادت بنا سکتے ہی نہیں ناممکن ہے.جب ایک عیسائی راحت محسوس کرتا ہے ازدواجی زندگی میں تو وہ اس عبادت کے تصور سے ہٹ کر محسوس کرتا ہے جو اسے رہبانیت کی تعلیم دیتی ہے.جب ایک سادھو ہندوستان کے کسی جنگل میں آرام کرتا ہے تو اس عبادت کے تصور سے ہٹ کر آرام کرتا ہے جو اسے مسلسل مشقت پر آمادہ کرتی چلی جاتی ہے.غرضیکہ دنیا کے جتنے مذاہب ہیں ان میں سے ایک بھی ایسا مذہب نہیں جس کا عبادت کا فلسفہ انسانی زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہو.ایک صرف اسلام ہے جس نے زندگی کے ہر شعبے کو عبادت بنادیا.
خطبات طاہر جلد۴ 474 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد جو بار ہا آپ سن چکے ہیں لیکن ہر دفعہ وہ ایک نئی لذت اپنے اندر رکھتا ہے کہ اگر تم بیوی کے منہ میں اس خیال سے لقمہ ڈالو کہ میرے مولا کی رضا یہ ہے کہ تم اپنے اہل وعیال کا خیال رکھو.تو یہ لقمہ ڈالنا بھی تمہارا عبادت بن جاۓ گا.(....) جو پیار اور محبت کا مزہ ہے وہ تو الگ نہیں ہوگا وہ تو بہر حال آئے گا.لیکن یہ لقمہ بھی عبادت بن جائے گا.ازدواجی زندگی کا ہر فعل جو اس فلسفہ کے تابع اختیار کیا جاتا ہے وہ عبادت الہی بن جاتا ہے.پس انسانوں میں سے ایک ہی کامل وجود ہے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن پر کامل دین نازل ہوا.ان معنوں میں بھی کامل کہ انسانی زندگی کے ہر لمحے پر وہ دین حاوی ہوگیا.اسی لئے حضوراکرم علی کو ارشا د ہوا قُلْ اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ (الانعام : ۱۶۳) کہ تو اس مقام پر فائز ہے کہ تو بنی نوع انسان میں یہ اعلان کر سکتا ہے اور ہم تجھے اجازت دیتے ہیں بلکہ اس بات کا امر کرتے ہیں کہ اعلان کر دے اِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي میری عبادتیں، میری قربانیاں، میری زندگی کا ہر پہلو اور اس زندگی میں جو میں ہر وقت خدا کی خاطر موت قبول کرتا ہوں.مَحْيَايَ وَمَمَاتِي کا صرف یہ مطلب نہیں کہ میرا زندہ رہنا اور بالآخر میرا مر جانا بلکہ مراد یہ ہے کہ اس زندگی میں وہ تمام کیفیات جو آسانی سے مشابہت رکھتی ہیں اور وہ تمام کیفیات جو مشکلات سے مشابہت رکھتی ہیں ، مشکلات کے قریب تر ہیں یعنی موت کے، وہ تمام کیفیات اور ان کے دونوں انتہائی کنارے بھی یہ سب کچھ میرے خدا کے لئے وقف ہو چکے ہیں.تو عجیب بات ہے اور یہی اسلام کا حسن ہے کہ جہاں آسانی پیدا کر دی اسی سادہ سے فقرے میں مشکلات بھی رکھ دیں اور ایسی تعلیم بھی دے دی جو سب تعلیمات سے زیادہ مشکل بھی ہو جاتی ہے.ایک سالک کے لئے آسانی دیکھیں تو کتنی آسانی ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ تمہیں آسانی پہنچائے اور تمہارے لئے عبادات دقتوں کا ذریعہ اور تکالیف کا ذریعہ نہ بنیں.دوسری طرف ساری زندگی پر اس مضمون کو حاوی کر کے نیت کا اطلاق جس انسانی صورت حال پر ہوتا ہے ہر اس چیز کو عبادت بنا کر انسانی زندگی کو خدا کی رضا میں جکڑ دیا ہے.اس کا کوئی لمحہ اپنا نہیں رہنے دیا اور یہ اتنا مشکل کام ہے کہ دنیا کے کسی مذہب نے کبھی
خطبات طاہر جلدم 475 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء کسی انسان پر اتنی مشکل نہیں ڈالی تھی لیکن یہ آخری مقام والوں کے لئے مشکل ہے آغاز کرنے والوں کے لئے یا درمیانی راہوں میں چلنے والوں کے لئے تو کوئی مشکل نہیں ہے.تو کیسا حسین کلام ہے ایک ہی فقرے میں آسانیاں بھی پیدا کر دیں اور ایسی جن کی کوئی مثال نہیں اور مشکلات بھی ایسی پیدا کر دیں کہ ان کی بھی کوئی مثال نہیں لیکن وہ مشکلات ایسی ہیں جو اپنے ساتھ آسانیوں کو جنم دیتی چلی جاتی ہیں.فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا ( الم نشرح: ۶.۷) کا قانون بھی جاری ہو جاتا ہے.ایک عجیب جہان ہے اسلامی عبادات کا جس کے پاسنگ کو بھی دوسرے نسبتاً ادنیٰ حالت کے مذاہب نہیں پہنچ سکتے.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ میں ایک اور سبق بھی ہمیں دے دیا گیا اور وہ یہ ہے کہ اگر خدا آسانی چاہتا ہے تو عبادات میں جہاں جہاں بھی کوئی مشکل ہمیں ملتی ہے اس کی دوہی صورتیں ہیں.یا تو یہ کہ وہ مشکل ہماری ترقی کے لئے ، ہماری بقا کے لئے ضروری تھی جسے نظر انداز کیا نہیں جاسکتا.مثلا ماں بچے کے لئے آسانی چاہتی ہے اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن صبح مار پیٹ کے سکول بھی بھجواتی ہے شدید گرمی ہو یا شدید سردی ہو تب بھی اسے مجبور کر دیتی ہے اپنے آرام کو چھوڑ کر سکول جانے کے لئے اس لئے تو نہیں کہ ماں بچے کے لئے نرمی نہیں چاہتی اس سے زیادہ تو بچہ کا کوئی بھی ہمدرد نہیں ہو سکتا اس لئے کہ مجبور ہے.وہ جانتی ہے کہ اس کے بغیر اس بچے کی کامیابی ممکن نہیں ہے، یہ زندگی میں ایک کامیاب وجود بن نہیں سکتا.پس اس فلسفہ کو لوظ رکھتے ہوئے کہ خدا آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں چاہتا.جہاں جہاں بھی عبادات میں مشکلات نظر آئیں گی اس کا ایک طبعی حل یہ سامنے آجائے گا کہ یہ مشکلات ، مشکلات کی خاطر نہیں رکھی گئیں بلکہ انسانی ترقی کے لئے ان کا عبور کرنا ایک لازمہ ہے اس کے بغیر انسان آگے بڑھ نہیں سکتا اس لئے مشکلات رکھنے والے کے لئے طبیعت میں کوئی بغض پیدا نہیں ہو سکتا.مشکلات ایسے مواقع پر رکھنے والے کے لئے کسی قسم کا دل میں کوئی بوجھ نہیں آتا بلکہ اگر انسان سمجھ لے اس مضمون کو تو وہ جانتا ہے کہ یہ ایک مجبوری ہے جو ہماری بھلائی کی خاطر در پیش ہے اسے راہ سے ہٹایا نہیں جاسکتا.دوسری طرف ایک اور مضمون کی طرف بھی دھیان جاتا ہے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسر کہ جہاں تک ہم کسی چیز کو اپنے لئے مشکل سمجھتے ہیں بعض دفعہ واقعہ وہ
خطبات طاہر جلدم 476 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء مشکل چیز ہوتی ہے اور بعض دفعہ محض ایک نسبتی مضمون ہوتا ہے حقیقت میں وہ چیز مشکل نہیں ہوتی.اور وہ نسبتی مضمون بعض دفعہ زاویہ بدلنے سے نیا رنگ اختیار کر لیتا ہے ، بعض دفعہ تجربے کے بعد کچھ عرصے کے بعد ایک نیا رنگ اختیار کر لیتا ہے.چنانچہ وہ چیزیں جنہیں آپ شروع میں مشکل سمجھتے ہیں کچھ عرصہ کے بعد آپ جب اس مذاق کو Acquire کر لیتے ہیں.اس سے لطف اٹھانے کے طریقے سیکھ لیتے ہیں تو آپ حیرت سے دیکھتے ہیں کہ کیوں آپ اس چیز کو مشکل سمجھا کرتے تھے اور باتوں کو تو چھوڑئے یہ مضمون ساری زندگی کے ہر پہلو پر حاوی ہے.ایک بچے کے چلنے ہی کو لے لیجئے.کتنا مشکل مضمون ہے اس کے لئے جب وہ شروع میں ٹھوکریں کھا تا گر تا کئی قسم کے آلات کا سہار الیتا کبھی بڑوں کی انگلیاں پکڑتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ میں دو قدم اٹھا سکوں لیکن نہیں اٹھائے جاتے ، جہاں اس سہارے کو چھوڑتا ہے وہاں گر جاتا ہے.لیکن جب کچھ عرصہ کے بعد وہ ان مقامات سے آگے بڑھ جاتا ہے تو چلنا اور آہستہ چلنا اس کے لئے ایک نعمت اور راحت بن جاتا ہے اور لمبا عرصہ اگر اسے بستر پر لیٹنے پر مجبور ہونا پڑے تو وہ دن حسرت اور دکھ سے یاد کرتا ہے کہ میں چلا کرتا تھا.حالانکہ آغاز میں اگر آپ دیکھیں تو لیٹنا اس کی راحت تھا اور چلنا اس کے لئے عذاب تھا اور تھوڑے ہی عرصہ میں لیٹنا اس کے لئے عذاب بن گیا اور چلنا اس کے لئے راحت ہو گیا.اسی طرح مختلف مذاق ہیں کھانوں کے ان کا ذوق شوق ہے.حالات کے بدلنے سے، تربیت کے بدلنے سے تھوڑی دیر کے بعد جب انسان ہر طرف نظر دوڑاتا ہے تو یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ حقیقت اپنی ذات میں ایک گھومنے والی چیز ہے جو کہیں ایک جگہ ایک مقام پر Fix نہیں کی جاسکتی کھڑی نہیں کی جاسکتی.زاویہ نگاہ بدلتا ہے آپ کی رفتار میں بدلتی ہیں، آپ کے رخ بدلتے ہیں اور حقیقتیں بھی بدلتی جاتی ہیں.یہاں تک کہ انسان ہر اس چیز میں اعتماد کھو دیتا ہے جسے پہلے وہ یقین کے ساتھ اچھی یا بری سمجھا کرتا تھا.ایسی صورت میں صرف ایک ہی ذات ہے جو بغیر نسبت کے دیکھنے والی ذات ہے، جو بہتر جان سکتی ہے کہ کس جگہ آپ کا فائدہ ہے اور کس جگہ آپ کا نقصان ہے.اس کے سوا ممکن ہی نہیں ہے کہ آپ جو تمام زندگی نسبتوں میں پرورش پانے والے وجود ہیں نسبتی حیثیتوں سے فیصلہ دینے والے وجود ہیں آپ معلوم کر سکیں کہ کیا آپ کے لئے بہتر ہے اور کیا آپ کے لئے
خطبات طاہر جلدم 477 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء برا ہے.چنانچہ ایک مردار کے پاس جب گدھوں کو آپ دیکھتے ہیں یا کتوں کو دیکھتے ہیں کتنے مزے سے اور کس قدر لذتیں اٹھا اٹھا کر وہ اس مردار کو کھا رہے ہوتے ہیں جس کے پاس سے گزرنا بھی آپ کے لئے ایک مصیبت ہے اور آپ حیرت سے ان کو دیکھتے ہیں کہ ان بدنصیبوں کے نصیب میں یہی گندگی رہ گئی تھی لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ محض زاویہ بدلنے کی بات ہے.خدا تعالیٰ نے کسی کے نصیب میں بھی محض گندگی نہیں رکھی ہر تخلیق کو ایک مذاق عطا فرمایا ہے ایک زاویہ نظر عطا فرمایا ہے اور وہی چیز جو آپ کو گندگی نظر آ رہی ہے وہ اس کے لئے ایک نعمت بے بہا ہے ، ایک غیر مترقبہ نعمت ہے.چنانچہ اس کتے کے دل سے پوچھیں جو اس گندگی سے لذت اٹھا رہا ہوتا ہے کہ وہ کس موج میں ہے اور اگر آپ پوچھ نہیں سکتے تو اس پر روڑا اٹھا کر اس کو بھگانے کی کوشش کریں، اس نعمت سے محروم کرنے کی کوشش کریں جسے آپ گند سمجھتے ہیں پھر دیکھیں وہ کس طرح آپ پر حملہ آور ہوتا ہے.تو نسبتیں بدل جاتی ہیں اور صرف ایک ہی ذات ہے جو عالم الغیب والشہادۃ ہے وہی ہے جو جانتا ہے کہ کس کے لئے کیا چیز مفید ہے کس کے لئے کیا نعمت ہے اور کیا گند ہے اور بسا اوقات انسانی زندگی میں ایسے حالات آتے ہیں کہ کبھی ایک چیز کو وہ نعمت سمجھ رہا ہوتا ہے کبھی دوسری چیز کو نعمت سمجھ رہا ہوتا ہے، کبھی ایک چیز کو گند سمجھ رہا ہوتا ہے کبھی دوسری چیز کو گند سمجھ رہا ہوتا ہے اور عمومی طور پر جب انسانی ذوق کے دائرے پر آپ نگاہ ڈالتے ہیں تو ان سب چیزوں سے اعتبار اٹھ جاتا ہے اس لئے صرف ایک ذات ہے اور وہی عالم الغیب والشھادۃ ہے، وہی خالق و مالک ہے جو حقائق الاشیاء سے واقف ہے.وہ جانتا ہے کہ کسی انسان کے لئے کون سی چیز بہتر ہے اور جو چیز اس کے لئے بہتر ہے وہ بسا اوقات اس کے لئے اس وقت دکھ کا موجب بن سکتی ہے، تکلیف کا موجب بھی بن سکتی ہے اور وہ یہ سمجھ سکتا ہے اس وقت کہ یہ میرے لئے بہتر نہیں ہے.مثلاً جیسا کہ میں نے مثال دی تھی کہ ایک گندگی کھانے والے کتنے کے لئے اس سے بہتر غذا بھی ہوسکتی ہے ہر چند کہ اسے اس گندگی میں لطف آ رہا ہے لیکن ہو سکتا ہے اس سے بہت بہتر غذا اس کی صحت کے لئے ہر لحاظ سے آپ مہیا کر دیں، تازہ گوشت مہیا کریں، دودھ مہیا کریں، اور چیزیں جو کتے کے لئے ضروری ہیں وہ مہیا کریں لیکن اس وقت اگر آپ اس کو ہٹائیں گے تو وہ آپ پر حملہ آور ہوگا.یہی سلوک قو میں اپنے وقت کے انبیاء سے کیا کرتی ہیں وہ دنیا کی گندگیوں میں مگن
خطبات طاہر جلدم 478 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۸۵ء ہوکر اس وقت ان گندگیوں کو اپنے لئے بہترین غذا سمجھ رہی ہوتی ہیں اور جب وہ اعلیٰ روحانی غذا لے کر خدا کے شہزادے آسمان سے اترتے ہیں اور ان کو اپنی طرف بلاتے ہیں تو اسی طرح ان پر حملہ آور ہوتے ہیں جیسے کتا یہ سمجھ کر کہ مجھے نعمتوں سے محروم کیا جارہا ہے گندگی سے باز رکھنے والوں پر غرا تا اور حملہ کرتا ہے.تو یہ مثال ہر طرح سے سوفی صدی تو صادق نہیں آتی مگر سمجھانے کے لئے ایک پہلو اس کا میں نے دکھایا ہے کہ یہ صادق آبھی جاتی ہے اور انسانی زندگی چونکہ جانوروں کی زندگی سے زیادہ وسیع مضمون رکھتی ہے، زیادہ وسیع تجارب رکھتی ہے، زیادہ وسیع پہلو ہیں اس کی دلچسپیوں اور ذوق کے اس لئے ایک انسان کی زندگی میں بسا اوقات آپ کو مختلف جانوروں کے حالات بھی نظر آجاتے ہیں.انسان گرتا ہے تو ایسی کیفیات تک پہنچ جاتا ہے جسے قرآن کریم سور کی کیفیت بیان فرماتا ہے، جب گرتا ہے تو ایسی کیفیات تک بھی پہنچ جاتا ہے جسے قرآن کریم بندر کی کیفیت بیان فرماتا ہے، ایسی کیفیات تک بھی پہنچ جاتا ہے جسے قرآن کریم کتے کی کیفیات بیان فرماتا ہے اور جب ترقی کرتا ہے اور آسمانی راہنما کے تابع ، اس کی ہدایت کے تابع اپنے ذوق کو بلند تر کرتا چلا جاتا ہے تو پھر فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتا ہے.پھر اس کی حدالو ہیت کی حدوں سے جاملتی ہے.پس قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہم نے جو عبادتیں تمہارے لئے فرض فرما ئیں ان کا بنیادی فلسفہ یہ ہے يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تکلیف نہیں چاہتا یہ یقین رکھو اور جب یہ یقین رکھو گے تو ہر عبادت بالآخر تمہیں لذتوں کی طرف لے کے جائے گی کیونکہ اگر وہ تکلیف نہیں پہنچانی چاہتا تو جو تمہیں تکلیف محسوس ہورہی ہے تمہارے اندر کوئی نقص ہے، کوئی کمزوری ہے، کوئی بیماری ہے ، کوئی بگڑا ہوا زاویہ نظر ہے جب وہ ٹھیک ہو جائے گا تو تم یقین کرو گے اور حق الیقین تک پہنچ جاؤ گے کہ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا تھا تکلیف نہیں چاہتا تھا.جب اس مضمون پر آپ اس رنگ میں غور کرتے ہیں تو انبیاء کی وہ کیفیت سمجھ آجاتی ہے کہ سخت عبادتوں میں راتیں کھڑی ہو کر گزار رہے ہوتے ہیں اور آپ انہیں نہ بھی دیکھیں ان کے واقعات پڑھ کر ان پر رحم کرتے ہیں وہ بیچارے بڑی مصیبتوں میں مبتلا تھے اور خدا ان کو مخاطب کر کے فرمارہا ہوتا ہے فَإِذَا فَرَغْتَ فَانُصَبْ وَإلى رَبَّكَ فَارْغَبْ (الم نشرح ۸-۹) تو کھڑا ہو تکلیف کی خاطر
خطبات طاہر جلدم 479 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء نہیں رغبت حاصل کرنے کے لئے.اپنے رب سے لذتیں پانے کے لئے.چنانچہ ایک ہی دنیا میں کئی قسم کی دنیا ئیں آباد ہیں.لاکھوں کروڑوں قسم کے انسان ہیں اور ہر ایک کی ایک نئی دنیا ہے اور موت اور زندگی کے مابین ، عسر اور یسر کے درمیان اتنی منازل ہیں کہ ان کی کوئی انتہا نہیں کوئی شمار ممکن نہیں لیکن اگر آپ اللہ پر بھروسہ کریں اور اس پر یقین کامل رکھیں اس کی بتائی ہوئی عبادتوں کو اپنے لئے آسانی یقین کریں.تو بالآخر آپ کا ہر قدم آپ کو مشکلات سے آسانیوں کی طرف لے کر جائے گا.وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى مَا هَدكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ پر الله تعالیٰ جب روزے فرض فرماتا ہے اور ایک خاص مہینے میں فرض فرماتا ہے تو جن سے وہ روزے چھٹ جائیں فرماتا ہے تم بہر حال عدت کو پورا کر لو اور اللہ کی تکبیر کرو کہ اس نے تمہیں ہدایت عطا فرمائی اور یہ رمضان کا مہینہ اور یہ سارا نظام اس لئے خدا نے رکھا ہے لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تا کہ تم اس کے شکر گزار بندے بنو اور ظاہر بات ہے کہ انسان مصیبتوں اور تکلیفوں یہ تو شکر ادا نہیں کیا کرتا.معلوم ہوتا ہے کہ تمام نظام جو صوم اور صلوۃ کا نظام ہے جس کا یہاں ذکر ہے.خصوصاً صوم کی عبادت، یہ عبادت اتنی بڑی نعمتیں اپنے اندر رکھتی ہے، یہ نظام اتنا انسان کا محسن ہے کہ جو انسان بھی اس کی حقیقت سے آگاہ ہو جاتا ہے وہ سوائے اس کے کہ اللہ کا شکر کرے کچھ راہ نہیں پاتا.لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ رمضان سے گزرنے کے بعد سوائے اس کے کہ تم خدا کے اور زیادہ شکر گزار بندے بن جاؤ اور کوئی کیفیت نہیں ہو سکتی.پھر اس کے نتیجے میں جو آخری انعام ہے وہ حیرت انگیز انعام ہے جس کے اوپر انعام ممکن نہیں وہ لقائے باری تعالیٰ ہے اور یا درکھیں کہ لقاء ممکن نہیں رضا کے بغیر.رضائے باری تعالیٰ پہلے ہے اور لقائے باری تعالیٰ بعد میں ہے.بعض لوگ لقاء کے آسان رستے ڈھونڈتے ہیں،صوفیاء سے پیروں فقیروں سے وہ جنتر منتر تلاش کرتے ہیں، وہ تعویذ گنڈا ڈھونڈتے ہیں جس سے گھر بیٹھے لقائے باری تعالیٰ حاصل ہو جائے اور بعض دفعہ وہ اس میں تکلیف بھی اٹھاتے ہیں لیکن اصل مضمون جو عبادت کا یہاں بیان ہوا اس کے بعد لقائے باری تعالیٰ کو رکھا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعویذوں میں اور جنتر منتر میں اور خدا کی خاطر بعض کلمات کو بار بار دہرانے میں رضائے باری تعالیٰ نہیں ہے.جس طرح خدا زندگی بسر کرنے کا ارشاد فرماتا ہے اس طرح زندگی بسر کرنے میں رضا ہے
خطبات طاہر جلدم 480 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء اور جب رضا حاصل نہیں ہو گی تو لقاء کیسے حاصل ہو جائے گی.پس اپنی عبادات کو درست کرو پھر لقاء کی وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيب تمنا رکھو اور خداوعدہ کرتا ہے اے محمد علی جب تجھ سے میرے بندے میرے بارے میں پوچھتے ہیں فَانِي قَرِيبٌ میں قریب ہوں.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ میں ان بندوں کو جو میری تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں، جو میری خاطر نکلتے ہیں ، جو مجھے ڈھونڈنے کے لئے ایک سفر اختیار کرتے ہیں ان کو خوشخبری دیتا ہوں أجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کہ جب وہ مجھے بلاتے ہیں تو میں ان کی پکار کو سنتا ہی نہیں اس کا جواب دیتا ہوں فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ ان کو بھی تو چاہئے کہ وہ میری دعوت کے اوپر لبیک کہا کریں، میری باتوں کو تسلیم کیا کریں، جس طرح میں چاہتا ہوں اس طرح زندگی بسر کریں.تو دوبارہ توجہ دلا دی کہ خالی لقاء کوئی چیز نہیں ہے.لقاء رضا کی شرط کے ساتھ ہوتی ہے.اس سے پہلے بھی رضا کی شرط رکھی گئی ہے اور اس کے بعد بھی رضا کی شرط رکھی گئی ہے.جو حقیقۂ لقاء کے مقام پر پہنچتے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر رضا کے جو یاں ہو جاتے ہیں.پہلے سے بڑھ کر انھیں اطاعت کا چسکا پڑ جاتا ہے، اس کی لگن لگ جاتی ہے.تو پہلے بھی اطاعت کا مضمون رکھا اور بعد میں بھی اطاعت کا مضمون رکھا فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.اس کا یہ مطلب نہیں ہے بعد میں رکھنے کا کہ ابھی تک گویا ان کو ایمان ہی نصیب نہیں ہوا تھا اور خدامل گیا تھا اور خدا کی باتوں کا انکار کرتے تھے تب بھی خدا مل گیا تھا بلکہ اس میں ترقی کا اگلا زینہ دکھایا گیا ہے.رمضان کی عبادتوں اور دیگر عبادتوں کے ذریعہ جب انسان خدا کی طرف حرکت کرتا ہے اللہ اسے ایک لقا ایک جلوہ عطا فرماتا ہے اور اس جلوے کے نتیجے میں وہ وہیں بیٹھ نہیں رہتا بلکہ پہلے سے بڑھ کر زیادہ لگن زیادہ شوق زیادہ ذوق کے ساتھ وہ خدا کی مزید جستجو کرتا ہے اور جان لیتا ہے کہ یہ سب پھل اس کو اطاعت کے نتیجے میں ملا تھا.اس لئے اطاعت میں پہلے سے زیادہ ترقی کر جاتا ہے.وہ جان لیتا ہے کہ اس کا ایمان ضائع نہیں گیا اور حقیقت میں ایک زندہ خدا، قدرتوں والا خدا موجود ہے اس لئے وہ ایمان میں بھی ترقی کر جاتا ہے اور رشد کو پا جاتا ہے یعنی اس عقل کل کو پا جاتا ہے جسے بعض
خطبات طاہر جلدم 481 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء مذاہب نے بدھا کا نام دیا ہے ، بعضوں نے گیان کہا ہے.لیکن درحقیقت عقل خدا کے وجود کی حقیقت کو اس حد تک سمجھنے کا نام ہے، جس حد تک انسانی بناوٹ میں یہ ممکن ہے کہ وہ خدا کوسمجھ سکے.رشد عرفان کا نام ہے.تو فرماتا ہے کہ انسان پھر عرفان کے درجہ تک ترقی کر جاتا ہے.رمضان المبارک کے بہت سے فوائد ہیں اور جیسا کہ ابھی آپ نے سنا ہے ایک بہت بڑا فائدہ ہے کہ خدا اپنے بندے کی پہلے سے زیادہ سنتا ہے اور اس کے بالکل قریب آجاتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو رمضان کی برکات بیان فرمائیں ان میں یہ مضمون بھی بڑا کھول کر بیان فرمایا کہ رمضان کے دنوں میں اللہ تعالیٰ قریب آجاتا ہے انسان کے.اتنا قریب کہ اور کسی عبادت میں اتنا قریب نہیں آتا.بلکہ یہ بھی فرمایا کہ ہر نیکی کی کوئی جزا ہے اور خدا فرماتا ہے کہ روزے کی جزا میں خود ہوں ( بخاری کتاب التوحید حدیث نمبر : ۶۹۳۸) یعنی میں اس عبادت کا مقصود بالذات ہوں اور پھر وہ سلوک فرماتا ہے جواپنوں کے ساتھ مالک کیا کرتے ہیں.پھر جو چاہیں آپ درخواستیں کریں پھر خدا سنتا ہے اور مانتا ہے.انسان سے لاڈ اور ناز کے سلوک فرماتا ہے.اس لئے ایک بہت ہی عظیم الشان برکتوں والا مہینہ ہے.خاص طور پر آج کل جو جماعت پر حالات ہیں ان میں ضرورت ہے کہ جماعت میں کثرت کے ساتھ اہل اللہ پیدا ہوں.اس کثرت کے ساتھ تعلق باللہ والے پیدا ہوں کہ خدا سے ایک رشتہ نہ رہے.ہزار رشتے نہ رہیں ، لاکھوں، کروڑوں رشتے بن جائیں.ایک پیارے کی آواز کو اگر کبھی نظر انداز بھی کر دیا جاتا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کہ لاکھوں کروڑوں پیاروں اور محبت کرنے والوں اور محبوبوں کی آواز میں اٹھ رہی ہوں اور خدا تعالیٰ ان کو نظر انداز فرما دے.وہ تو اتنا پیار کرنے والا ، اتنا وفا کرنے والا ہے کہ ایک پیارے کی آواز کو بھی رد نہیں کیا کرتا.بعض دفعہ ایک کی خاطر وہ قوموں کی تقدیر بدل دیا کرتا ہے.اس لئے بہت کثرت سے دعائیں کریں اور دعاؤں سے پہلے رضا کا تعلق قائم کریں.یا د رکھیں جب تک رضا کے مضمون کو آپ نہیں سمجھتے ،عبادت کے مفہوم کو آپ نہیں سمجھتے اس وقت تک لقاء ممکن نہیں ہے اور جب تک حقیقی لقاء نہ ہو اس وقت تک فَإِنِّي قَرِيبٌ کی آواز آپ کو نہیں آسکتی.أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ کی آواز آپ نہیں سن سکتے اس لئے دعاؤں کی مقبولیت کے لئے یہ تمام شرائط ہیں ان کو خوب اچھی طرح سمجھ
خطبات طاہر جلدم کر اس میدان میں ترقی کریں.482 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء کبھی احمدیت کو شاید اتنی دعاؤں کی ضرورت نہ پڑی ہو جتنی آج ضرورت ہے.ہر طرف سے دشمن انتہائی بھیانک سازشیں کر رہا ہے اور وہ مقدس وجود یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم میں موجود نہیں ہیں جن کی ایک ذات کے ساتھ ساری کائنات کا دل دھڑک رہا تھا.خدا کی نظریں جب آپ پر پڑتی تھیں تو اپنے زمانے میں چونکہ وہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نائب اور خلیفہ تھے اس لئے ساری کائنات کا آپ خلاصہ تھے ایک دل تھے گویا اور وہ صحابہ جن کی آپ نے تربیت فرمائی جن کو آپ نے اعلیٰ منازل اور مقامات تک پہنچایا وہ بھی بہت کم رہ گئے ہیں اور مصیبتیں ہیں کہ پہلے سے بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں ، دکھ ہیں جو پھیلتے چلے جارہے ہیں اور زیادہ گہرے بھی ہوتے چلے جارہے ہیں.وہ مشکلات جو کبھی ملکی حیثیت رکھتی تھیں اب وہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر گئیں ہیں.بڑی بڑی قومیں ان سازشوں میں ملوث ہو چکی ہیں اور ایسے قرائن ہی نہیں بلکہ بعض شواہ مل رہے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دنیا کی بڑی طاقتیں بھی جماعت کو نہایت بری نظروں سے دیکھ رہی ہیں اور جماعت کے خلاف ہر سازش کرنے والے کی مددگار اور معین ہیں.تو جب حالات یہ ہوں تو سوائے اس کے چارہ ہی کوئی نہیں کہ اور زیادہ شدت کے ساتھ اور زیادہ الحاح اور درد کے ساتھ اپنے خدا کی طرف دوڑیں.اور ایک تعلق نہ ہو دنیا کے ہر کونے ، ہر جگہ میں جہاں احمدیت بستی ہے وہاں خدا والی احمدیت بس رہی ہو.جہاں احمدی بستے ہیں وہاں خدا والے بس رہے ہوں.ان مصیبتوں کو آپ گھیر لیں.جب دشمن حملہ کر کے گھیرا ڈالتا ہے تو اس کا ایک ہی علاج ہوا کرتا ہے کہ اس گھیرے کو تو ڑ کر اس دشمن کو گھیرے میں ڈال لیا جائے.پس جب ہر طرف سے بدنیت اور بد باطن دشمن احمدیت کو گھیرے میں لینے کی کوشش کر رہا ہے.آپ چاروں طرف سے خدا کی مددکو پکارتے ہوئے ہر طرف سے دشمن کو گھیرے میں لے لیں اور احمدیت خدا کی نصرت کی لپیٹ میں آجائے ، اللہ تعالیٰ کی تائید اور محبت کی لپیٹ میں آجائے اس وسیع تر دائرے کی لپیٹ میں آجائے جسے دنیا کی کوئی طاقت پھر تو نہیں سکتی.پس اصل گر یہی ہے دنیا کی کوششیں، دنیا کے اسباب ،حکمت کے ذرائع اختیار کرنا یہ سارے ثانوی حیثیت رکھتے ہیں.اصل چیز مقبول دعا ہے اور اصل چیز تعلق باللہ ہے.آج کل
خطبات طاہر جلدم 483 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء خصوصیت کے ساتھ پاکستان میں جو دردناک حالات گزررہے ہیں وہ آپ کی روحانیت کو انگیخت کرنے کا بڑا ذریعہ ہیں.پہلے اگر یہ مشکل تھا بھی تو اب مشکل نہیں ہونا چاہئے کیونکہ روحانیت کا تعلق قلبی تحریکات سے ہوتا ہے جذبات سے ہوتا ہے، خشک ملائیت اور روحانیت کا کوئی جوڑ نہیں.ایک رسمی دین کا اور روحانیت کا کوئی جوڑ نہیں اور روحانیت دکھوں سے گزر کے حاصل ہوتی ہے.پس ایک یہ بھی عسر کی وجہ ہے عمر بذات خود مراد نہیں، مقصود نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ جب دکھوں میں سے آپ گزرتے ہیں تو آپ کی روحانیت ترقی کرتی ہے اور آپ ایک میسر کے مضمون میں ، آسانی کے مضمون میں داخل ہو جاتے ہیں، اللہ کی پناہ میں آ جاتے ہیں اس کے پیار کی لپیٹ میں آجاتے ہیں.پس اس پہلو سے اگر ویسے دل میں کوئی سختی ہو یا خشکی ہو تو اپنے پاکستانی بھائیوں کا خیال کریں بڑی مصیبتوں ا اور تکلیفوں میں مبتلا ہیں.ابھی حال ہی میں حکومت پاکستان اور بعض ملانوں کو دوبارہ جنون اٹھا ہے جیسا کہ میں نے پہلے ایک خطبہ میں ذکر کیا تھا اب سندھ کا رخ اختیار کیا ہے اور سندھ میں جو کلمہ مثانے کی تحریک چلائی جارہی ہے اس میں پولیس کے تشدد کا بہت بڑا دخل ہو گیا ہے.ایک ڈسٹرکٹ تھر پارکر کا ڈپٹی کمشنر ایک ملاں ہے جو جب نواب شاہ میں تھا وہاں بھی اس نے فساد مچایا.جب یہاں آیا تو اس نے یہ سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی ہے کہ میں کلمہ چھین کے دکھاتا ہوں ، جب اور کوئی شیطان نہیں چھین سکا میں چھین کے دکھاتا ہوں.چنانچہ ایک بڑی مہم پولیس کے ساتھ مل کر چلائی گئی کہ احمد یوں کو مجبور کر دیا جائے کہ وہ کلمہ سے لاتعلقی کا اظہار کر دیں لیکن احمد یوں سے کون کلمہ چھین سکتا ہے؟ ان کا دل نوچ سکتے ہیں لیکن ان سے کلمہ اور اس کا پیار نہیں چھین سکتے.چنانچہ چند قیدیں کیں تو بیسیوں اور آگئے.بیسیوں قیدیں کیں تو سینکڑوں اور آگئے اور ہزاروں اب تیار بیٹھے ہوئے ہیں، وہ انتظار کر رہے ہیں کہ ہماری باری آئے.مجھے دعاؤں کے خط لکھ رہے ہیں ،ان کا یہ حال ہے.شدید گرمی میں شدید تکلیف میں نہایت ہی گندے اور خوفناک حالات میں جو پاکستان کے قید خانوں کے ہیں ان حالات میں بھی ان مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پھر بھی وہ نہ صرف شوق رکھتے ہیں بلکہ خط لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے دعا کریں ہماری باری جلدی آئے اور جانتے ہیں کہ ان کی پولیس کی طرف سے نہایت دردناک اذیتیں بھی دی جا رہی ہیں.
خطبات طاہر جلد۴ 484 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۸۵ء جواذیت کے واقعات سامنے آئے ہیں ان میں سے چند جن کی ڈاکٹری رپورٹ لی گئی ان کے متعلق رپورٹ یہ ملی ہے کہ ان کو کلمہ پڑھنے کے جرم میں ڈاکٹر نے تعجب سے لکھا ہے کہ اتنی خوفناک اذیت دی گئی ہے کہ عام عادی مجرموں کو بھی پولیس اتنی اذیت نہیں دیا کرتی جتنی تکلیفیں ان نو جوانوں کو پہنچائی گئیں اور ان کا صبر ورضا کا دامن تار تار نہیں کر سکے، ان کی کلمہ کی محبت ان کے دلوں سے نہیں نوچ سکے.جو ملنے والے جاتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہم تو ان کو صبر کی تلقین کرنے جاتے ہیں.وہ ہمیں دیکھ کر ہمیں صبر کی تلقین کرتے ہیں.کہتے ہیں فکر نہ کرو، ہم تو موجیں کر رہے ہیں.جیل کی درود یوار پر کلمہ لکھا ہوا ہے.دن رات وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا ورد کرتے ہیں اور آنحضرت عے پر درود بھیجتے ہیں.پھر وہاں پہ جیلوں کی تو فضا ئیں بدل گئی ہیں اور جب وہ ہتھکڑی پہنتے ہیں تو نعرہ ہائے تکبیر کے ساتھ ہتھکڑی پہنتے ہیں تھکڑیوں کو چوم کر پہنتے ہیں.تو جہاں تک ان کی کیفیت کا تعلق ہے وہ تو یہ ہے لیکن جو باہر ہیں ان کو اپنی آزادی دکھ دیتی ہے، ان کو اپنا آرام کاٹنے کو دوڑتا ہے ان کے دکھ، جو دکھ والے اپنے دکھوں کو دکھ نہیں سمجھ رہے ، باہر والے محسوس کر رہے ہیں.ان کی تکلیفوں میں ساری دنیا کا احمدی اس وقت مبتلا ہے.عجیب کیفیت ہے یہ کہ جو دکھوں میں سے گزر رہے ہیں وہ اس کو راحت سمجھ رہے ہیں.جو راحت اور اطمینان سے بیٹھے ہوئے ہیں وہ راحت ان کو دکھ محسوس ہو رہا ہے اور یہ ظالم سمجھ رہے ہیں کہ یہ اسلام کی خدمت ہو رہی ہے.صرف اسی پر بس نہیں اور بھی نہایت خوفناک سازشیں ہیں جو مسلسل چل رہی ہیں.ابھی کل ہی کا واقعہ ہے کہ سکھر میں ایک دیوبندی مسجد میں اور خاص طور پر اس وقت حکومت کا آلہ کار دیو بندی فرقہ ہی ہے، ایک بم چلایا گیا.واقعات کی تفصیل تو حکومت نے ظاہر نہیں کی یہ بھی ممکن ہے کہ وہاں کوئی احمدیوں کو مارنے کے لئے بم بنایا جا رہا ہو پھٹ گیا ہو مگر بہر حال اس مسجد میں ایک بم پھٹا جس سے دو آدمی ہلاک ہو گئے اور سارے شہر میں اشتعال انگیز تقریریں کی گئیں کہ احمدیوں نے اپنے دو شہداء کا بدلہ اتارنے کے لئے یہ کیا ہے اور تمام احمدیوں کے جان و مال کو خطرہ ہے.بار بار نہایت خطر ناک قسم کے جلوس نکالے گئے ، لوگوں کو انگیخت کیا گیا کہ ان کے جان مال لوٹ لو.اور الٹا حکومت کی طرف سے تیرہ احمدیوں کو اس جرم میں گرفتار کر لیا گیا ہے کہ تم مشکوک ہو.جرم تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس شک میں گرفتار کر لیا گیا ہے کہ تم نے ہی یہ کروایا ہے حالانکہ ہرگز بعید نہیں کہ خودحکومت کے
خطبات طاہر جلدم 485 خطبه جمعه ۲۴ مئی ۱۹۸۵ء کارندوں نے ایسا کروایا ہو کیونکہ جس قسم کا ضابطہ اخلاق اس آمرانہ حکومت کا ہے وہ آپ جانتے ہیں سب دنیا پر کھلا ہوا ہے.کئی قسم کے امکانات ہیں.ایک تو جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی شریر نے وہاں بیٹھ کر سازش کی ہو اور کئی دفعہ پہلے بھی ہوا تھا ۷۴ء میں بھی.مثلاً اٹک میں یہ واقعہ ہوا کہ ایک مولوی صاحب کا بیٹا احمدیوں کے اوپر بم پھینکنے کی تیاری کر رہا تھا اور وہ بنا رہا تھا وہ ہم سے خود اڑ گیا اور اس کے جرم میں معصوم احمدی جو باہر بیٹھے ہوئے تھے پکڑ لئے گئے.ڈی سی ان کو کہتا تھا مجھے پتا ہے آپ کا قصور کوئی نہیں ، مجھے پتا تھا کہ یہ خود ظالم ہے لیکن میں مجبور ہوں حکومت وقت کی طرف سے اور عوامی دباؤ کی وجہ سے میں مجبور ہوں.تو یہ بھی ہو جایا کرتا ہے بسا اوقات.اور یہ بھی ممکن ہے کہ چونکہ بجٹ کا وقت ہے اور کئی قسم کے خطرات تھے حکومت کو کہ سیاسی بے چینی بڑھ جائے گی اور جو Heavy Taxation کی گئی ہے نئی اس کے نتیجہ میں عوام میں بے چینی پھیل جائے گی تو کیوں نہ حکومت کی بجائے اس بے چینی کا رخ احمدیت کی طرف کر دیا جائے.یہ بھی بعید نہیں ہے.یہ بھی بعید نہیں ہے کہ کسی بریلوی فرقہ کے آدمی نے یہ سازش کی ہواور دیو بندیوں سے اپنے بدلے اتارے ہوں اور اس یقین میں اتارے ہوں کہ اس کی سزا تو بہر حال احمد یوں کو ملنی ہے ہمیں کیا فرق پڑتا ہے.یہ بھی اس ملک سے بعید نہیں.جس ملک میں ضابطہ حیات کوئی نہ رہا ہو وہاں کوئی چیز بھی بعید نہیں ہوا کرتی.کئی قسم کے احتمالات اور بھی ہیں یہ بھی ممکن ہے کہ بعض سیاسی پارٹیوں نے یہ دیکھ کر کہ دوسرے ذرائع سے عوام نہیں اٹھ رہے احمدیوں کے خون سے اگر ہولی کھیلی جائے تو پھر یہ پاکستانیوں کے لئے سب سے زیادہ آسان ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ اس پر راضی ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ طریقہ اختیار کیا جائے اور دیسی سازش بھی ہو سکتی ہے جیسے بھٹو صاحب کے زمانے میں جو ربوہ سازش کے نام سے مشہور کیس ہے جس کی کارروائی کی تحقیق کی ابھی تک شائع ہی نہیں کی گئی.بہر حال کئی قسم کے احتمالات ہیں.لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جو رپورٹیں مل رہی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام جماعت مردو زن، بوڑھے بچے ، سب حوصلوں میں ہیں.قطعاً خوفزدہ نہیں ہیں.نہ اس حکومت سے نہ ان کے ملانوں سے ، نہ ان ظالموں سے جولوگوں کی باتیں سن کر تحقیق کے بغیر ناحق خون پر آمادہ ہو جاتے ہیں.وہ بڑے حوصلوں میں ہیں اور اللہ پر توکل
خطبات طاہر جلد۴ 486 خطبه جمعه ۲۴ رمئی ۱۹۸۵ء رکھتے ہیں اور تمام دنیا کی جماعت کی دعائیں ان کے شامل حال ہیں.اس لئے میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ یہاں بھی وہی مضمون جاری ہوگا کہ اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تکلیف نہیں چاہتا.وَعَلَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُم (البقرہ:۲۱۷) بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ تم ایک چیز کو تکلیف کا موجب سمجھ رہے ہوتے ہو لیکن وہ تمھارے لئے بہتر ہوتی ہے.بعض دفعہ اسی قسم کی آگ سے گزار پیدا ہو جایا کرتی ہے.اس لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کریں کیونکہ وہ قادر مطلق خدا ہے، وہ کبھی بھی جماعت کو اکیلا نہیں چھوڑے گا.وہ مظلوموں کا حامی ہے اور ازل سے مظلوموں کا حامی ہے اس لئے آپ جانتے ہیں کہ آپ مظلوم ہیں اور معصوم ہیں اور جو دکھ برداشت کر رہے ہیں محض اللہ برداشت کر رہے ہیں اس لئے اس رمضان میں خصوصیت کے ساتھ بڑی کثرت کے ساتھ دعائیں کریں بلکہ اس ہفتہ کو خاص دعاؤں کا ہفتہ بنالیں کہ اگلا جمعہ ہمارے لئے خوشیوں کی خبر لے کے آئے ، کوئی دیکھ کی خبر نہ لے کے آئے.اللہ تعالیٰ ہمارے بھائیوں کا ساتھی ہوان کا نگہبان ہو.ان کو ہر مصیبت اور تکلیف سے بچائے.ان کے دکھ ہم پر بہت سخت ہیں ان پر سخت ہوں یا نہ ہوں.
خطبات طاہر جلدم 487 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء ایک نشان اور قوم کو انتباہ ( خطبه جمعه فرموده ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں : قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ.وَ يَقُولُونَ مَتى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُم صدِقِيْنَ قُلْ عَلَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِى تَسْتَعْجِلُوْنَ وَ إِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ (النمل: ۷۴۷۰) اور پھر فرمایا: ایک لمبا عرصہ جو کئی مہینوں پر پھیلا ہوا تھا حکومت پاکستان کے شائع کردہ مزعومہ قرطاس ابیض کے جوابات دینے پر صرف ہوا اور الا ماشاء اللہ تقریباً تمام کے تمام خطبات مزعومہ قرطاس ابیض کے جواب ہی کے لئے وقف رہے.چند دن ہوئے پاکستان سے جماعت احمد یہ ڈسکہ کے امیر صاحب ( ملک حمید اللہ خان صاحب) نے اپنے خط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات کی کاپی میں مندرج ایک رؤیا کا ذکر کیا.یہ رویا ۰ استمبر ۱۹۰۳ء کی ہے اور تذکرہ (ایڈیشن سوم مطبوعہ ۱۹۶۹اء الشرکتۃ الاسلامیہ لمیٹڈ ربوہ) کے صفحہ ۴۸۵ پر درج ہے.انہوں نے لکھا ہے کہ ان کا خیال ہے کہ قرطاس ابیض کا جو جواب دیا گیا ہے یہ
خطبات طاہر جلدم 488 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء رویا اسی سے تعلق رکھتی ہے.چنانچہ جب میں نے اس رویا کے اصل الفاظ کا مطالعہ کیا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ واقعہ یہ رویا حیرت انگیز طور پر اسی واقعہ پر چسپاں ہوتی ہے.چنانچہ اس سارے عرصہ میں مجھے ان جوابات پر اتنا اطمینان کبھی نہیں ہوا تھا اور اتنی غیر معمولی خوشی نہیں پہنچی تھی جتنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس رؤیا کے مطالعہ سے پہنچی اور جو اطمینان نصیب ہوا اس کا الفاظ میں بیان ممکن نہیں.اللہ تعالیٰ کی یہ عجیب شان ہے کہ آج سے بیاسی تر اسی سال پہلے اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو بتا دیا تھا کہ اس طرح ایک واقعہ ہونے والا ہے اور اللہ تعالیٰ ہی کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اس کا ایک شافی اور کافی جواب دیا جائے گا.چنانچہ اس رویا کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”خواب میں میں نے دیکھا میرے ہاتھ میں ایک کتاب ہے کسی مخالف کی.میں اس کو پانی میں دھورہا ہوں اور ایک شخص پانی ڈالتا ہے.جب میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ ساری کتاب دھوئی گئی ہے اور سفید کاغذ نکل آیا ہے صرف ٹائٹل پیج پر ایک نام یا اس کے مشابہ رہ گیا ہے.“ 66 تذکرہ.ایڈیشن چہارم ۲۰۰۴ صفحه ۴۰۴) یہ الفاظ حیرت انگیز طور پر اس سارے واقعہ پر صادق آتے ہیں جو قرطاس ابیض کے نام سے عمل میں آیا ہے.سب سے پہلے تو دیکھنے والی یہ بات ہے کہ عام کتا بیں جو مخالفین سلسلہ لکھتے رہے ہیں شروع سے لکھ رہے ہیں اور لکھتے چلے جائیں گے ، یہ ذکر ان میں سے کسی ایک کے متعلق معلوم نہیں ہوتا کیونکہ وہ تو ایک لمبا مضمون ہے جو تاریخ کے صفحات پر ہر طرف پھیلا ہوا ہے اور کسی کتاب کو خاص کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی لیکن پاکستان میں حکومت وقت کی طرف سے جماعت کی مخالفت میں ایک کتاب شائع کی جائے تو اس کتاب کو ایک غیر معمولی اہمیت حاصل ہو جاتی ہے اور عام مخالفانہ کتابوں سے ممتاز ہو جاتی ہے.اس لئے لازما یہاں کسی ایسی ہی کتاب کا ذکر ہے جو ایک غیر معمولی حیثیت رکھتی ہے اور اس ساری تاریخ میں جو تقریباً ایک سوسال پر پھیلی ہوئی ہے جماعت احمدیہ کی مخالفت میں یہ پہلا واقعہ ہوا ہے کہ ایک ملک کی حکومت نے اپنی جانب سے ایک مخالفانہ کتاب شائع
خطبات طاہر جلد۴ 489 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء کی ہو.چنانچہ ظاہر ہے کہ اس رویا میں اسی مزعومہ قرطاس ابیض کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے.مزید برآں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے: میں اس کو پانی میں دھور رہا ہوں اور ایک شخص پانی ڈالتا ہے.“ پاکستان میں عموماً میرا دستور یہی تھا اور گزشتہ خلفاء کا بھی یہی رہا ہے کہ جب کبھی علمی تحقیق کرواتے ہیں یا کرواتے تھے تو اس سلسلہ میں ایک سے زائد علماء مدد کیا کرتے تھے.علاوہ ازیں لا بئر میریاں موجود تھیں.ہر قسم کے وسائل موجود تھے.چنانچہ ہر مضمون کے ماہر عالم کے سپر دمختلف باتیں کر دی جاتی تھیں جو تحقیق کر کے حوالے تلاش کرنے میں مدد کرتا تھا لیکن یہاں لندن میں ان ساری سہولتوں کے نہ ہونے کے باعث جس حد تک بھی بن پڑا اور جس طرح بھی خدا نے ہمیں تو فیق دی کام کرنا پڑا.ہمارے تمام دوسرے مبلغین وغیرہ اتنے مصروف تھے کہ ان کو اس کام کے لئے الگ نہیں کیا جا سکتا تھا.چنانچہ میں نے حوالہ جات کی تلاش کروانے کے لئے صرف ایک ہادی علی صاحب کو منتخب کیا.چنانچہ اس عرصہ میں وہی میری ہدایت کے مطابق جہاں جہاں میں اشارے کرتا تھا وہاں وہاں سے حوالے تلاش کر کے مہیا کرتے رہے.پس خواب میں ذکر کرنا کہ ایک آدمی پانی ڈال رہا ہے اور صرف ایک ہی ڈال رہا ہے یہ ایک غیر معمولی بات ہے اور کوئی خاص معنی رکھنے والی بات ہے جس کا رویا میں ذکر فرمایا گیا ہے.چنانچہ اس تمام عرصہ میں صرف ایک ہی شخص پانی ڈالتا رہا یعنی میری مدد کرتارہا، اس کتاب کو دھونے میں اور پھر یہ لفظ بھی بڑا معنی خیز ہے یوں لگتا ہے جیسے چور بالکل پکڑا گیا ہو.فرمایا کہ وہ کتاب دھل گئی تو ایک سفید کاغذ نکل آیا.یہ حیرت انگیز بات ہے White Paper کا نقشہ اس سے بہتر نہیں کھینچا جا سکتا تھا کہ وائٹ پیپر تو ہے لیکن دھل کر کچھ بھی باقی نہیں رہا کلیۂ سفید ہو گیا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے بے داغ کر دیا گیا اور صرف ٹائٹل پر کچھ لکھا ہوا باقی رہ گیا ہے لیکن جہاں تک نفس مضمون کا تعلق ہے اس کا کچھ بھی باقی نہیں رہا.خدا تعالیٰ کی طرف سے چونکہ یہ ایک عظیم الشان تائیدی نشان تھا اس لئے میں نے سوچا کہ جماعت کو بھی اس روحانی لذت میں شریک کروں.بھلا جس قوم کا خدا ایسا عظیم الشان اور عالم الغیب خدا ہو اور وہ اس طرح بار بار تائید فرمائے اس کو دنیا میں کون ہرا سکتا ہے.پس ہمارا خدا ہمارا والی ہے وہ ہمارے ساتھ ہے.وہ ایسا عالم الغیب خدا ہے کہ ہماری
خطبات طاہر جلدم 490 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء باکستوں سے بھی پہلے جانتا تھا کہ کیا ہونے والا ہے اور بہت دور دور کی خبریں اس نے پہلے سے دلوں کو سہارا دینے کی خاطر دے رکھی تھیں اس لئے یہ لوگ تمسخر کرتے رہیں، مذاق اڑاتے رہیں کہ وعدے کب پورے ہوں گے اور کیسے پورے ہوں گے.تمسخر اور استہزاء ان کی زندگی کا حصہ ہے اور ان کے مقدر کی باتیں ہیں مگر ہم تو ہر روز پورے ہوتے ہوئے وعدوں میں جی رہے ہیں، وہی ہماری سانسیں ہیں اور وہی ہماری بقا کا پانی ہے اس لئے ہماری جماعت کے جو حالات ہیں وہ ان لوگوں کے تصور میں بھی نہیں آسکتے کہ ہم کس طرح زندہ ہیں اور کیوں زندہ ہیں.ازاں بعد میرا خیال تھا کہ میں ملک کو ایک عظیم خطرہ کی طرف متوجہ کروں اور یہ ملائیت کا خطرہ ہے جوملکی زندگی کے تقریباً ہر گوشے پر پنجے گاڑ چکا ہے اور اس وقت ملکی زندگی کی شاہ رگ اس کے پنجوں میں آچکی ہے.صرف ایک ملک میں یہ واقعہ رونما نہیں ہورہا بلکہ اسلام دشمن طاقتوں کی طرف سے ایک سوچی سمجھی سازش کے مطابق ملکی زندگی پر ملائیت کو مسلط کروایا جا رہا ہے.جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے میں نے سوچا کہ میں اہل وطن کو اس خطرہ سے متنبہ کروں لیکن آج صبح ایک ایسا واقعہ ہوا جس کے پیش نظر میں اس مضمون کو سر دست آئندہ خطبہ کے لئے اٹھا رکھتا ہوں اور آج رونما ہونے والے واقعہ کے متعلق مطلع کرتا ہوں.آج صبح تہجد کے وقت فون کی گھنٹی بجی تو پتہ چلا کہ کراچی سے فوری ٹیلی فون ہے جس میں یہ بتایا گیا کہ کراچی میں محکمہ موسمیات (جس میں بین الاقوامی ماہرین موسمیات بھی شامل ہیں) کی طرف سے ایک ایسی تنبیہ کی گئی ہے جو عام طور پر پاکستان کے جغرافیائی حالات میں نہیں کی جاتی اور اس لحاظ سے یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے اور وہ یہ کہ پاکستان میں کراچی کے ساحل کی طرف ایک نہایت ہی خوفناک سمندری طوفان بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جس کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ جمعہ کے دن صبح دس بجے وہ کراچی کے ساحلی علاقے کو Hit کرے گا.اس قسم کے سمندری طوفان مشرقی بنگال میں تو آتے رہتے ہیں اور وہ لوگ ان سے واقف بھی ہیں.ایسے طوفانوں میں لکھوکھا جانیں ضائع اور اربوں کی جائیدادیں تلف ہوتی رہتی ہیں لیکن کراچی کے ساحلی علاقوں کے لئے یہ ایک بالکل اجنبی اور انوکھا واقعہ تھا اس لئے تمام نیوی کو Alert (الرٹ ) کر دیا گیا شہری دفاع کے تمام ادارے اور رضا کار اس طرف متوجہ ہوئے ، رات کے پچھلے حصہ اور صبح کے پہلے حصہ میں
خطبات طاہر جلدم 491 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء ساحلی علاقوں سے آبادی کا انخلاء ہوا خصوصا ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی سے جو بہت دور دور تک پھیلی پڑی ہے اس کے کئی Phases ہیں، اس میں لاکھوں آدمیوں کا انخلاء کروایا گیا.ڈیفنس کی نصف سے زائد آبادی اپنے مکان خالی کر گئی اور اتنی افراتفری میں یہ واقعہ ہوا کہ کسی کو اپنا سامان لے جانے کی بھی ہوش نہ تھی.چنانچہ اس اطلاع کے بعد صبح جب ایک احمدی گھرانے سے ٹیلی فون پر میرا رابطہ قائم ہوا تو انہوں نے اس طوفان کا نقشہ کھینچنے کے لئے ایک بڑا دلچسپ واقعہ بتایا.انہوں نے کہا ہمیں جب اطلاع ملی کہ فوراً نکلو تو اس اطلاع میں اتنی Panic تھی کہ ہم بغیر کسی چیز کے باہر نکلے تو میری چھوٹی بچی نے کہا : حضرت صاحب کے خط رہ گئے ہیں وہ تو لیتے جائیں.کہتے ہیں کہ ہم واپس دوڑے اور وہ خط لے لئے کہ اور کچھ لے جاسکیں یا نہ لے جاسکیں یہ خط محفوظ رہ جائیں.یہ وہ کیفیت تھی جس میں آبادی کا انخلاء عمل میں آیا لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پیشتر اس کے کہ یہ طوفان کراچی میں دور دور تک پھیلے ہوئے ساحلی علاقوں میں تباہی مچاتا اللہ تعالیٰ نے اس کا رخ پھیر دیا اور یہ بلاٹل گئی.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس واقعہ کو ایک غیر معمولی اہمیت بھی حاصل ہوگئی.کراچی کی جماعت خاص طور پر اس لئے بھی پریشان تھی کہ اگر چہ آج یہاں جمعہ کا دن رمضان کی گیارہویں تاریخ ہے لیکن پاکستان میں جمعہ کا دن آج رمضان کی دسویں تاریخ ہے اور اس سے پہلے ایک خطبہ میں جو میں نے گلاسکو میں دیا تھا.اس میں بھی میں نے جماعت کو مطلع کیا تھا کہ بعض ایسی رؤیا معلوم ہوتی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے Friday The 10th کا جو کشفی نظارہ دکھایا تھا اس کا تعلق بعید نہیں کہ چاند کی راتوں سے ہو.چنانچہ اس خطبہ کے بعد اس عرصہ میں پاکستان سے ایک دوست ڈاکٹر طارق صاحب نے ایک اور عجیب اور بڑی دلچسپ رویا لکھ کر بھجوائی.اس کا بھی اس سے تعلق معلوم ہوتا ہے.وہ لکھتے ہیں کہ ایک رات میں بہت ہی پریشان ہوا اور خدا کے حضور بہت رویا اور دعائیں کیں کہ ابتلاء کے یہ دن کب کٹیں گے اور کیا ہونا ہے کچھ تو پتہ لگے.کہتے ہیں میں نے اس رات رویا میں جو نقشہ دیکھا ہے اس کی مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ یہ ہے کیا؟ لیکن چونکہ اللہ تعالیٰ آپ کو رویا کی تعبیریں بتا دیتا ہے اور آپ کا تعلق ہے جماعت کے معاملات سے اس لئے میں آپ کو لکھ رہا ہوں.چنانچہ وہ رویا یہ تھی کہ ایک کاغذ پر ایک طرف ایک
خطبات طاہر جلدم 492 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء چوکھٹا بنا ہوا ہے اس کے اوپر کی طرف دس کا ہندسہ لکھا ہوا ہے اور نیچے قمر لکھا ہوا ہے اور بائیں طرف ایک لمبا چوکھٹا ہے اور اس کے اندر تاریخیں لکھی ہوئی ہیں یا ہند سے لکھے ہوئے ہیں اور اکتیس پر جا کر وہ شمار ختم ہو جاتا ہے اور اکتیس کا ہندسہ نمایاں چمک رہا ہے.انہوں نے اس کی کوئی تعبیر نہیں لکھی اور نہ ان کا ذہن اس طرف گیا مگر چونکہ Friday The 10th والے کشف سے مجھے اس کا تعلق معلوم تھا.اس لئے واضح طور پر مجھے یہ سمجھ آئی کہ اس مئی کو چاند کی دسویں تاریخ ہے اور دن جمعہ کا ہے اور اس جمعہ کے روز کوئی ایسا واقعہ رونما ہونے والا ہے جس کا تعلق اس کشف سے بھی ہے اور اس رویا سے بھی ہے.چنانچہ اس خیال سے میں نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو پہلے ہی متوجہ کر دیا تھاوہ نظر رکھیں کہ رمضان کو کیا غیر معمولی واقعہ پیش آتا ہے.ہمارے عزیز سیفی (صاحبزادہ مرزا سفیراحمد صاحب داماد حضرت خلیفتہ امسیح الرابع ) خود ساری رات بیٹھے رہے اور ریڈیو چلا کر خبریں سنتے رہے لیکن عجیب واقعہ ہوا کہ جو فون ان کے نام آنا تھا وہ غلطی سے میرے نام آگیا اور یہ اطلاع پہلے مجھے ملی بجائے اس کے کہ ان کو ملتی.اس واقعہ میں کئی اسباق پنہاں ہیں.ایک یہ کہ یہ تو بہر حال پختہ بات ہے کہ یہ ایک ایسا غیر معمولی واقعہ ہے جو اس علاقہ میں دسیوں سالوں میں بھی کبھی رونما نہیں ہوا اور پھر جمعہ کے دن اور رمضان المبارک کی دس تاریخ کو رونما ہوا ہے.ان حقائق کو دنیا مٹا نہیں سکتی ،کوئی ان کو غلط نہیں کر سکتا لیکن ایک خطرہ پیدا ہوا اورٹل گیا.خواہ وہ کتنا ہی غیر معمولی خطرہ تھا لیکن بہر حال ٹل گیا اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے یا اس کا کیا نتیجہ ہمیں نکالنا چاہئے.یہ دیکھنے والی بات ہے.میرے ذہن میں اس کے کئی نتائج آتے ہیں جن کے بارہ میں میں احباب جماعت کو مطلع کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ کہ اگر چہ یہ رویا اس واقعہ پر چسپاں ہوتی نظر آرہی ہے اور یہ ایک غیر معمولی بات ہے لیکن یہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ ایک ہی دفعہ ایک بات پوری ہو.خدا تعالیٰ کی طرف سے بعض ایسے کشوف اور الہامات ہوتے ہیں جو بار بار تکرار کے ساتھ پورے ہوتے ہیں.قرآن کریم کی بعض آیات سے بھی پتہ چلتا ہے کہ بعض نشان پیچھے پڑ جانے والے ہوتے ہیں اور وہ بار بار پورے ہوتے ہیں.پس ایک تو یہ امکان بھی ہے.اس کے علاوہ بھی اگر خدا تعالیٰ چاہے تو زیادہ وضاحت کے ساتھ اس نشان کو پورا فرما سکتا ہے.
خطبات طاہر جلدم 493 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء دوسرے جب ہم اس واقعہ پر غور کرتے ہیں تو کئی سبق ملتے ہیں پہلا یہ کہ خدا تعالیٰ جب کسی قوم کو پکڑنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس کی پکڑ کے رستے بہت ہیں.بسا اوقات وہ ایسے رستہ سے بھی پکڑتا ہے جس کی قوم توقع ہی نہیں کر سکتی ، وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرف سے بھی کوئی واقعہ رونما ہو گا.۱۹۷۴ء کے فسادات کے بعد قوم مختلف ابتلاؤں میں بار بار پکڑی گئی مثلاً بلوچستان کی خشک پہاڑیوں پر غیر متوقع بارش کے نتیجہ میں سندھ میں ایک ایسا سیلاب آیا تھا جس کا آدمی وہم وگمان بھی نہیں کرسکتا کہ بلوچستان کے خشک پہاڑ سیلاب کا موجب بن جائیں گے لیکن بلوچستان کے پہاڑوں کے سیلاب کی وجہ سے سندھ کا بہت سا علاقہ تباہ ہوا.چنانچہ اخباروں میں اس بات کی نمایاں سرخیاں لگیں.پس اللہ تعالیٰ کی جب پکڑ آتی ہے تو معلوم بھی نہیں ہوتا کیونکہ اس کی پکڑ کے مختلف رستے ہیں.وہ قادر وتو انا خدا ہے وہ اپنی قدرت کے نشان دکھاتا ہے اور زمین کی ہر چیز کو جب چاہے وہ امر فرما سکتا ہے تب وہ جگہ جو امن کا ذریعہ بھی جاتی ہے خطرہ کا موجب بن جاتی ہے.اس لئے خدا تعالیٰ جب کسی کو پکڑنے کا فیصلہ کر لے تو پھر کوئی آدمی امن میں نہیں رہ سکتا اور یہ مضمون بھی قرآن کریم کی مختلف آیات میں بڑی وضاحت سے بیان کیا گیا ہے.خدا کی تقدیر سے تم کسی طرح امن میں رہ سکتے ہو.وہ تو پابند نہیں ہے وہ جس طرح چاہے تمہیں پکڑنے کا فیصلہ کر لے تو پھر تمہارے لئے بچنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی.اس نہایت مہیب خطرہ کے ایک دم ظاہر ہونے اور پھر اس کے ٹل جانے میں ایک خوشخبری بھی ہے اور وہ یہ کہ خدا تعالیٰ عذاب دینے میں خوش نہیں ہے.وہ تنبیہ فرماتا ہے اور خطرات سے متنبہ کرتا ہے اور قوم کو استغفار کا موقع دیتا ہے.اگر قوم استغفار کرے اور تو بہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے تو اللہ تعالیٰ اس بات میں راضی نہیں ہے کہ لوگوں کو ہلاک کرے اور وہ پکڑ میں ڈھیلا ہے اور نرمی کرتا ہے.یہاں تک نرمی کرتا ہے کہ بسا اوقات انبیاء بظاہر جھوٹے ہوتے دکھائے دے رہے ہوتے ہیں اور دنیا کو ان کی تضحیک اور تمسخر کا موقع مل جاتا ہے.لیکن اللہ تعالیٰ پھر بھی اپنی پکڑ میں نرمی اور غیر معمولی مغفرت کا سلوک فرماتا ہے.پس اگر یہ وہی نشان ہے جس کا خدا تعالیٰ نے وعدہ فرمایا تھا تو اس میں جماعت کے لئے بھی اور قوم کے لئے بھی ایک بہت ہی خوشخبری کا پہلو ہے کہ قوم کے لئے ابھی نجات کی راہ باقی ہے.مہیب خطرات کا ایک نمونہ دکھا دیا گیا ہے لیکن اگر قوم نے
خطبات طاہر جلدم 494 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء استغفار سے کام لیا اور توبہ کی تو ہرگز بعید نہیں کہ اللہ تعالی اس قوم کو بچائے اور یہی ہم بھی چاہتے ہیں اور اسی کے لئے دعائیں کرتے ہیں.اور اس سے سبق کا تیسرا پہلو یہ نکلتا ہے کہ تنبیہ موجود ہے اور نمونہ دکھا دیا گیا ہے کہ اگر تم باز نہیں آؤ گے تو پھر خدا تعالیٰ تم سے کیا سلوک فرمائے گا.اب معاملہ وہاں تک جا پہنچا ہے کہ جہاں قومی عذابوں کے ذریعہ اور بار بار سزاؤں کے ذریعہ پکڑے جاؤ گے.اگر تم تو بہ اور استغفار سے کام نہیں لو گے اور تکبر میں اسی طرح مبتلا رہو گے اور خدا تعالیٰ کے پاک بندوں سے تمسخر اور استہزاء کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو پھر یہ ایک معمولی سا نمونہ ہے جو تمہیں دکھا دیا گیا ہے پھر آئندہ تمہارے لئے اسی قسم کا خدا کا سلوک ظاہر ہونے والا ہے لیکن جب وہ ایک دفعہ ظاہر ہو جاتا ہے تو پھر اس کے بعد کوئی روک نہیں، کوئی ہاتھ نہیں ہے جو اسے چلنے سے روک رکھے.خدا کی چکی ہے جب چل پڑتی ہے تو پھر کوئی اسے روک نہیں سکتا اس لئے یہ سارے نشانات یا ایسے اسباق ہیں جواس واقعہ پر غور کرنے سے ہمیں ملتے ہیں.جن آیات کا میں نے انتخاب کیا ہے ان میں بھی یہی مضمون ملتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُجْرِمِينَ اے محمد! ( ع ) تو ان سے کہہ دے کہ تم زمین میں خوب پھر کے دیکھ لو ایک بات تمہیں قطعی طور پر نظر آئے گی کہ مجرمین کی عاقبت کبھی اچھی نہیں ہوئی.وہ لوگ جو جرم کے مرتکب ہوتے ہیں اور زیادتیاں کرتے ہیں اور سفا کی سے کام لیتے ہیں جن کی زندگیاں تضاد بن جاتی ہیں، منہ سے کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں کردار ان کے کچھ اور ظاہر کر رہے ہوتے ہیں ،ان کی ساری زندگیاں گندگیوں میں مبتلا ہوتی ہیں اور نیکیوں کا نام لے لے کر وہ لوگ غلط لبادے اوڑھ لیتے ہیں.اسلام کے نام پر ہرقسم کی غیر اسلامی حرکتیں ہورہی ہوتی ہیں.ایسے لوگوں کے لئے ایک وقت مقدر ہوتا ہے.وہ وقت کب آئے گا یہ ایک الگ بحث ہے لیکن اگر تم غور کرو اور مڑ کر تاریخ کے آئینہ میں ان لوگوں کے چہرے دیکھو تو ایک بات تمہیں قطعی طور پر نظر آئے گی کہ ان کا انجام اچھا کبھی نہیں ہوا ، ان کا ہمیشہ بد انجام ہوتا رہا ہے وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُنْ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ فرمایا ہم ان لوگوں کو جو ڈھیل دیتے ہیں تو تم اس پر غم نہ کرو اوران
خطبات طاہر جلد۴ 495 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء کو مکروں کا جو موقع دیتے چلے جارہے ہیں ہر قسم کے مکر تیرے خلاف کر رہے ہیں تو اس پر تم یہ نہ سمجھو کہ ہم نے تمہیں چھوڑ دیا ہے.یقین رکھو کہ تمہاری عاقبت اچھی ہے اور ان کی عاقبت لازماً خراب ہونے والی ہے، اگر یہ لوگ باز نہ آئے.تم سے یہ لوگ تمسخر کرتے ہیں اور طرح طرح کی باتیں بناتے ہیں.وَيَقُولُونَ مَتَى هَذَا الْوَعْدُ اِنْ كُنْتُمْ صَدِقِيْنَ اور چھیڑ خانیاں کرتے ہیں کہ بتاؤ وعدہ کب پورا ہوگا، یہ بھی تو بتاؤ کہ کب ہم پکڑے جائیں گے، اگر تم سچے ہو تو دکھاؤ وہ عذاب کہاں ہے، خدا کی وہ پکڑ کہاں گئی.فرمایا اس کے جواب میں تو اتنا کہہ عَلَى أَنْ يَكُونَ رَدِفَ لَكُمْ بَعْضُ الَّذِى تَسْتَعْجِلُونَ ہوسکتا ہے تمہیں پتہ ہی نہ چلا ہو اور ایک واقعہ رونما ہو گیا ہو یہ وہ چیزیں ہیں جن کی تم جلدی کر رہے ہو ان میں سے ایک حصہ تمہارے پیچھے لگ بھی چکا ہے اور تمہیں پتہ ہی نہیں کہ ہمارے پیچھے خدا کا عذاب لگ چکا ہے اور وہ چھوڑنے والا نہیں.لیکن کیوں پیچھے لگ رہا ہے اور کیوں اسے پکڑ نہیں رہا.یہ مہلت کیوں دی جارہی دے ہے.فرمایا وَإِنَّ رَبَّكَ لَذُو فَضْلٍ عَلَى النَّاسِ وَلَكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَشْكُرُونَ اللہ اپنے بندوں پر بہت ہی فضل کرنے والا ہے، پکڑنے میں دھیما ہے اور تکلیف دے کے خوش نہیں ہوتا.اس لئے بسا اوقات ایسے انتظام فرما دیتا ہے کہ مجرم اگر باز نہ آئیں تو پیشتر اس کے کہ وہ مجرم یہ کہ سکیں کہ ہم کامیاب ہو گئے خدا کا عذاب انہیں پکڑ لیتا ہے جو پہلے سے ہی ان کے پیچھے لگ چکا ہوتا ہے.لیکن پیشتر اس کے کہ وہ واقعہ ہو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ وہ ہدایت پائیں ان پر خدا کی رحمتیں اور فضل نازل ہوں وہ ساری کی ساری طاقتیں جو خدا کے عذاب کے لئے استعمال ہوتی ہیں وہ خدا کی رحمت کے لئے بھی تو استعمال ہو سکتی ہیں ، وہ رحمت کا موجب بھی بن سکتی ہیں.چنانچہ سورۃ نوح میں خدا تعالیٰ اس مضمون کو زیادہ کھول کر بیان فرماتا ہے.حضرت نوح علیہ السلام خدا سے عرض کرتے ہیں کہ میں نے اپنی قوم کو کھول کھول کر متنبہ کر دیا ہے اور ان کو یہ بھی بتادیا ہے کہ آسمان سے آنے والا پانی رحمتوں کا موجب بن جائے گا،ضروری نہیں کہ یہ عذاب کا موجب بنے ، خدا تعالیٰ ایسے فضلوں کی بارش تم پر برسائے گا جس کا فیض تم ہمیشہ کھاتے رہو گے اور دین اور دنیا کی نعمتیں پا جاؤ گے لیکن میری ساری نصیحتوں ، دن رات کی باتوں اور میری تقریروں نے ان پر کوئی اثر نہیں کیا.چنانچہ ایک عجیب دردناک منظر ہے جو حضرت نوح“ خدا کے حضور پیش
خطبات طاہر جلدم 496 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمُ دُعَا عِى إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا أَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَاَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًان ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا ل ( نوح:۶ - ۱۱) کہتے ہیں اے میرے رب ! میں نے تو اپنی قوم کو صبح بھی بلا یا رات کو بھی بلایا اور دن کو بھی بلایا لیکن میری آہ و پکارنے ، میری دعوتوں نے اور میرے بلاوے نے ان کو بھاگنے کے سوا اور کسی چیز میں نہیں بڑھایا.میں ہر دفعہ جب انہیں اس بات کی طرف دعوت دیتا تھا کہ اے میرے رب تو ان کو بخش دے تو وہ اپنے کانوں میں انگلیاں دے لیتے تھے اور اپنے کپڑے تکبر سے سمیٹنے لگتے تھے اور اپنے انکار پر اصرار کرتے تھے اور بہت بڑے استکبار میں مبتلا ہو جاتے تھے.پھر ان کو میں نے کھلے طور پر بھی بلایا اور اعلان کر کے بھی بلایا اور خفیہ اشاروں کے ساتھ ان کو سمجھانے کی کوشش بھی کی اور ان کو ہمیشہ یہی کہتا رہا اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمُ الله سے بخشش مانگو،اپنے رب سے استغفار کرو، اِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا اس بات کو مت بھولو کہ وہ بہت ہی بخشنے والا ہے.پھر اس کے بعد وہ دعا ہے جو میں نے عمد ا چھوڑ دی کیونکہ میں نہیں چاہتا کہ اپنی قوم کی زیادیتوں پر وہ دعا مانگوں جس پر حضرت نوح نے اس کو انجام تک پہنچایا اگر چہ یہ ایک بہت ہی خوفناک دعا ہے لیکن حضرت نوح بھی جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا ہر گز اپنے رب سے یہ دعانہ مانگتے اگر اللہ تعالیٰ نے پہلے سے آپ کو قوم کے انجام کے بارہ میں خبر دے کر خود اس دعا کی اجازت نہ فرما دی ہوتی.بہر حال پرانی تاریخ دہرائی تو جاتی ہے لیکن لفظاً لفظاً بعینہ دہرائی نہیں جاتی ، اس میں بہت سے انتباہ ہوتے ہیں، بہت سے سبق ہوتے ہیں تاکہ صاحب فہم قومیں اگر ان سے استفادہ کرنا چاہیں تو کرسکیں.پس نہ میں خود یہ پسند کرتا ہوں کہ اپنی قوم کے بارہ میں وہ دعائیں کروں جو حضرت نوح
خطبات طاہر جلدم 497 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء نے اپنی قوم سے متعلق کی تھیں، نہ آپ کو اس کی اجازت دے سکتا ہوں کہ آپ لوگ جو پاکستان سے تعلق رکھتے ہیں یا جو پاکستان سے تعلق نہیں رکھتے وہ پاکستانی قوم کے خلاف ایسی دعائیں کریں.البتہ زیادہ سے زیادہ یہ دعا کی جاسکتی ہے ( کیونکہ اس حد تک ایک بے اختیاری کا بھی عالم پیدا ہو چکا ہے) کہ اے خدا! مخالفین سلسلہ میں سے جو آئمہ استغفیر ہیں ان کوضرور پکڑا اور ان کو عبرت کا نمونہ بنادے تا کہ آئندہ نسلیں ان سے نصیحت پکڑیں.لیکن جہاں تک قوم کا تعلق ہے یہ مظلوم ہے، حقیقت حال سے بے خبر ہے، لاعلم ہے یعنی قوم کی اکثریت کو اس بات کا پتہ نہیں کہ مولوی کیا کہہ رہے ہیں.جماعت کے خلاف اس قدر جھوٹ پھیلایا گیا ہے اور اتنا کذب سے کام لیا گیا ہے کہ کچھ عرصہ ہوا مجھے ایک دوست نے بتایا کہ کراچی جیسے شہر میں تعلیم یافتہ لوگ جو جماعت سے واقف ہیں اور بظاہر دنیا کی تعلیم سے خوب آراستہ ہیں (ایسی ہی ایک مجلس میں ذکر ہورہا تھا ) ان سے میں نے احتجاجاً کہا کہ اب بتاؤ کہ کلمہ طیبہ یا کلمہ شہادت جو سارے عالم اسلام میں قدر مشترک ہے بلکہ یہ ایک ایسی قدر مشترک ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ غیروں کو بھی بلاتا ہے ، عیسائیوں کو دعوت دیتا ہے کہ اس مشترک کلمہ کی طرف آؤ اور اس کے پہلے حصہ میں ہمارے ساتھ شامل ہو جاؤ اس کو زبردستی مٹایا جارہا ہے، اس کی تذلیل کی جارہی ہے ، اس کی اسلام تمہیں کیسے اجازت دیتا ہے اس کی کوئی دلیل دو.کہتے ہیں پڑھے لکھے لوگوں کی اس مجلس میں ایک صاحب نے کہا کہ ہاں اس کی دلیل یہ ہے کہ تم منہ سے کچھ اور کلمہ کہتے ہو اور دل میں کچھ اور کلمہ ہے.منہ سے محمد رسول اللہ ﷺ کا نام لیتے ہو دل میں مرزا غلام احمد قادیانی کا نام لیتے ہو.اس جھوٹ اور افتراء کی بھی حد ہے.لیکن مولوی نے اس کثرت سے جھوٹ بولا ہے اور ایسے افتراء سے کام کیا ہے کہ پاکستانی سوسائٹی میں نیچے سے اوپر تک اس جھوٹ کا زہر گھول دیا ہے اور عالم کو بھی جاہل بنادیا ہے.اس لئے ایسے ظالم لوگ جنہوں نے اس کثرت سے جھوٹ بولا ہے اور قوم کی عاقبت کی کوئی پروانہیں کی ،اپنی عاقبت کا تو ان کو معلوم ہوتا ہے کبھی خیال ہی نہیں آتا کہ وہ خود کس قماش کے لوگ ہیں اور ان سے کیا ہونے والا ہے مگر قوم کی زندگی سے کھیل رہے ہیں.ایسے لوگوں کے بارہ میں تو ہمارے دل کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ اب کوشش بھی کریں تو دل سے دعا نہیں نکلتی.عمومی طور پر ہم یہ دعا تو کرتے ہیں کہ اے اللہ ان میں سے اکثریت کو ہدایت عطا فرما، اکثریت کو بچالے اور ان کو ظلم سے باز رکھ.یہ لوگ مسلسل سفا کی سے
خطبات طاہر جلدم 498 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء کام لے رہے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر گند اچھال رہے ہیں ان کو اس سے باز رکھ.لیکن کچھ ان میں سے ایسے ضرور ہونے چاہئیں جولوگوں کے لئے عبرت کا نمونہ بنیں تا کہ جماعت کے دل بھی ٹھنڈے ہوں ، انہوں نے بد زبان مولویوں کے ہاتھوں بہت دکھ اٹھائے ہیں.خدا ان کو جلد پکڑے ان کی عبرت کا نمونہ ساری قوم کے لئے نجات کا موجب بن جائے.یہ مقصد ہونا چاہیئے اس دعا میں محض بددعا نہیں بلکہ یہ مقصد ہو کہ اس سے قوم کی بھاری اکثریت ہدایت پا جائے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ لوگ باز نہیں آرہے اور تمرد اور سرکشی میں دن بدن آگے سے آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں اور یہ نمونہ جو خدا نے ان کو آج کے دن دکھایا ہے اس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ استفادہ نہیں کریں گے بلکہ تضحیک کریں گے، تمسخر اڑائیں گے اور کہیں گے طوفان آیا تھائل گیا نا آخر ! ہم مستحق ہیں اس بات کے کہ ہمیں بچایا جائے ، یہ گویا ان کے حق میں نشان ظاہر ہوا ہے حالانکہ یہ ان کے بارہ میں نشان نہیں ہے پہلے بھی ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں.نشان یہ ہے کہ اب بھی اگر یہ لوگ باز نہ آئے تو پھر خدا کی پکڑ اسی طرح آئے گی کہ وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ ( ص :۴) تمہارے لئے پیچھے ہٹنے یا دائیں بائیں ہونے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی.کوئی آگے بڑھنے کی جگہ باقی نہیں رہے گی.یہ وہ عبرت کے نشان ہیں جو ہمیشہ ظاہر ہوتے ہیں اور لقموں کے طور پر دکھلائے جاتے ہیں اور آئندہ آنے والے حالات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کاش کوئی ان سے استفادہ کرتا.لیکن بظاہر معلوم یہی ہوتا ہے کہ جیسے پرانے لوگوں کی تقدیر تھی اب بھی لوگ نشان دیکھ کر انکار کر دیتے ہیں اسی لئے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس قوم کو متنبہ کر کے اپنا فرض ادا کرتا ہوں.یہ مذہبی طور پر ایک تنبیہ ہوگی اور ہو سکتا ہے کہ یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہ آئیں کیونکہ جس دنیا میں ہم بس رہے ہیں، خدا کو جس طرح بار بار ایک زندہ حقیقت کے طور پر ہم نے دیکھا ہے دن رات اپنے گھروں میں اپنے روز مرہ کے سلوک میں ، اس طرح ان لوگوں نے اس خدا کو دیکھا نہیں اس لئے ہوسکتا ہے یہ باتیں ان کی سمجھ میں نہ آئیں.یہ باتیں ان کی سمجھ سے بالا ہوں اس لئے تنبیہ کے دوسرے پہلو کے طور پر میں نے وہ حصہ رکھا ہے جس کو میں نے ابھی شروع میں بیان کیا تھا کہ ملاں کے قبضہ کے انجام سے
خطبات طاہر جلدم 499 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء ڈراؤں اور ان کو ایسے رنگ میں بتاؤں کہ ان کو سمجھ آجائے.باقی دنیا کی اصطلاحوں سے ان کو بتاؤں ، دنیا کی تاریخ پیش کر کے بتاؤں کہ جب کسی قوم پر ملائیت قابض ہو جایا کرتی ہے تو اس کو کس کنارے تک پہنچا دیا کرتی ہے.اس موضوع پر خطبہ تو انشاء اللہ آئندہ ہو گا.اس وقت تو روحانی اور مذہبی نکتہ نگاہ سے خواہ یہ سمجھیں یا نہ سمجھیں اصل زبان تو ہماری یہی ہے ہم پہلے اسی زبان میں ) ان کو تنبیہ کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی بعض عبارتیں میں نے منتخب کی ہیں جو کسی تشریح کی محتاج نہیں.آپ فرماتے ہیں.تم دیکھتے ہو کہ باوجود تمہاری سخت مخالفت اور مخالفانہ دعاؤں کے اس نے مجھے نہیں چھوڑا اور ہر میدان میں وہ میرا حامی رہا.ہر ایک پتھر جو میرے پر چلایا گیا اس نے اپنے ہاتھوں پر لیا.ہر ایک تیر جو مجھے مارا گیا اس نے وہی تیر دشمنوں کی طرف لوٹا دیا.میں بے کس تھا اس نے مجھے پناہ دی.میں اکیلا تھا اس نے مجھے اپنے دامن میں لے لیا.میں کچھ بھی چیز نہ تھا مجھے اس نے عزت کے ساتھ شہرت دی اور لاکھوں انسانوں کو میرا ارادت مند کر دیا.پھر وہ اسی مقدس وحی میں فرماتا ہے کہ جب میری مدد تمہیں پہنچے گی اور میرے منہ کی باتیں پوری ہو جائیں گی یعنی خلق اللہ کا رجوع ہو جائے گا اور مالی نصرتیں ظہور میں آئیں گی تب منکروں کو کہا جائے گا کہ دیکھو کیا وہ باتیں پوری نہیں ہو گئیں جن کے بارہ میں تم جلدی کرتے تھے.“ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۷۹) پھر آپ فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا.اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل
خطبات طاہر جلد۴ 500 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہونگی اور ابتلا ء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا.اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے.سواے سننے والو! ان باتوں کو یا درکھو اوران پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا.( تجلیات الہیہ' ، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۰،۴۰۹) خدا تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں سے یہ تو ہے احمدیت کا مستقبل، جس کو اسی رخ میں اسی سمت میں بڑھتے ہوئے ہم دیکھ رہے ہیں اور مسلسل دیکھ رہے ہیں.ہر ابتلاء کے وقت ہر مصیبت کے وقت اور ہر اندھیرے کے وقت ایک لمحہ بھی ایسا نہیں آیا کہ جماعت کا قدم اس مستقبل کی طرف بڑھنے سے رک گیا ہو.جماعت تو خدا کے فضل سے معاندین کی تلواروں کے سائے میں بھی آگے بڑھتی رہی ہے اور ان کی گالیوں کی بوچھاڑ کے نیچے سے بھی جماعت اپنے اسی مستقبل کی جانب آگے ہی آگے بڑھتی چلی گئی ہے.دشمن گند اچھالتے رہے دکھ دیتے رہے اور ہر طرح کے افتراء سے کام لیتے رہے مگر اللہ تعالیٰ نے اس مستقبل کی طرف جماعت کے بڑھنے کی رفتار کو کم نہیں ہونے دیا بلکہ آگے بڑھاتا رہا ہے.یہ ہے وہ تقدیر جس کو دشمن کبھی بدل نہیں سکتے.ایک اور تقدیر بھی کارفرما ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کی تقدیر ہے جوجلد یا بد بیران پر ظاہر ہو کر رہتی ہے.خدا تعالیٰ ہمیشہ سے دشمنان حق و صداقت کے بارہ میں جو تقدیر جاری فرما تا رہا ہے اس کا بھی حال سن لیجئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تو بہ کرنے والے امان پائیں گے اور وہ جو بلا سے پہلے ڈرتے ہیں ان پر رحم کیا جائے گا (یعنی بلا کے آنے سے پہلے ).کیا تم خیال کرتے ہو کہ تم ان زلزلوں سے امن میں رہو گے یا تم اپنی تدبیروں سے اپنے تئیں بچا سکتے ہو.ہرگز نہیں.( جب خدا کی پکڑ آئے گی ) انسانی کاموں کا اس دن خاتمہ ہوگا.یہ
خطبات طاہر جلدم 501 خطبه جمعه ۳۱ رمئی ۱۹۸۵ء مت خیال کرو کہ امریکہ وغیرہ میں سخت زلزلے آئے اور تمہارا ملک ان سے محفوظ ہے.میں تو دیکھتا ہوں کہ شاید ان سے زیادہ مصیبت کا منہ دیکھو گے.اے یورپ ! تو بھی امن میں نہیں اور اے ایشیا! تو بھی محفوظ نہیں.اور اے جزائر کے رہنے والو! کوئی مصنوعی خدا تمہاری مدد نہیں کرے گا.میں شہروں کو گرتے دیکھتا ہوں اور آبادیوں کو ویران پاتا ہوں.وہ واحد دیگا نہ ایک مدت تک خاموش رہا اور اس کی آنکھوں کے سامنے مکر وہ کام کئے گئے اور وہ چپ رہا مگر اب وہ ہیبت کے ساتھ اپنا چہرہ دکھلائے گا جس کے کان سننے کے ہوں سنے کہ وہ وقت دور نہیں.میں نے کوشش کی کہ خدا کی امان کے نیچے سب کو جمع کروں پر ضرور تھا کہ تقدیر کے نوشتے پورے ہوتے.میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اس ملک کی نوبت بھی قریب آتی جاتی ہے.نوح“ کا زمانہ تمہاری آنکھوں کے سامنے آجائے گا اور لوط کی زمین کا واقعہ چشم خود دیکھ لو گے.مگر خدا غضب میں دھیما ہے.تو بہ کرو تا تم پر رحم کیا جائے.جوخدا کو چھوڑتا ہے وہ ایک کیڑا ہے نہ کہ آدمی اور جواس سے نہیں ڈرتا وہ مردہ ہے نہ کہ زندہ “ (حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۲۶۹،۲۶۸)
خطبات طاہر جلدم 503 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۸۵ء عظیم اسلامی حکومتوں کی تباہی کا باعث ملائیت بنی پاکستان کو بھی سب سے بڑا خطرہ ملائیت سے ہے (خطبہ جمہ فرموده ۷ جون ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: ۱۳۳ ہجری کا سال اسلام کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے اور بلا شبہ سے ایک عظیم سنگ میل قرار دیا جا سکتا ہے.یہ وہ سال ہے جب اموی حکومت کے کھنڈرات سے دو عظیم اسلامی حکومتوں نے جنم لیا جو سینکڑوں سال تک اسلام کی ظاہری خدمت بھی کرتی رہیں اور باطنی خدمت بھی کرتی رہیں.چوٹی کے علماء جن کا امت محمدیہ پر قیامت تک اس رنگ میں احسان رہے گا کہ انہوں نے قرآن کے علوم و معارف پر غور کیا اور بہت ہی عظیم خدمات سرانجام دیں وہ ان دونوں حکومتوں کے پرامن دور کی پیداوار ہیں.۱۳۳ھ میں اموی حکومت کے اختتام پر مشرق میں عباسی حکومت نے جنم لیا اور تقریباً ۲۴ ۵۲۳ سال کے قریب یہ حکومت قائم رہی.پانچ صدیاں بہت ہی بڑا زمانہ ہوا کرتا ہے بہت کم قوموں کو اتنی لمبی حکومتوں کی توفیق ملا کرتی ہے.پھر ایک ہی خاندان کو مسلسل لمبا عرصہ تک خدمت کی توفیق ملے اور حکومت کی توفیق ملے.اس دور میں یقینا اسلام نے ہر پہلو سے دنیا کو بھی فیض پہنچایا اور مسلمانوں کو بھی ہر قسم کے فیوض یعنی دینی فیوض کے علاوہ بھی اسلام کے اس عظیم الشان دور میں پہنچتے رہے مگر بہر حال یہ پیش نظر رہنا چاہئے کہ ہم اسے اسلام کی سیاسی ترقی کا دور کہیں گے اور سیاسی
خطبات طاہر جلدم 504 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء ترقی کے اس دور میں روحانی ترقی بھی جاری رہی ہے لیکن جب ہم محض روحانیت کی بات کرتے ہیں تو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ اور آپ کے خلفاء راشدین کے بعد کا کوئی دور بھی اس دور کے مقابل پر روشن دور نہیں کہلا سکتا اسی لئے میں نے شروع میں ہی نمایاں طور پر یہ بات آپ کے ذہن نشین کی کہ ہم اسے اسلام کے سیاسی دور کے طور پر ایک نمایاں دور قرار دے سکتے ہیں.دوسری حکومت جس کی بنیاد مغرب میں ڈالی گئی اور وہ مغربی حکومت ہی کہلاتی تھی اس کی عبد الرحمن بن معاویہ کے ذریعہ اندلس میں بنیاد پڑی اس سے پہلے تقریباً ۳۳ سال پہلے یا ۳۴ سال پہلے اس حکومت کی تو در اصل طارق بن زیاد نے بنیاد ڈال دی تھی لیکن اس وقت تک یعنی عبد الرحمن کے وہاں جانے تک کوئی مستحکم اسلامی حکومت و ہاں اس رنگ میں قائم نہیں ہوئی تھی کہ مستقل بنیادوں پر وہ چین میں ایک عظیم الشان حکومت کی داغ بیل ڈال سکے مگر بہر حال وہ سرزمین جسے طارق بن زیاد اور اس کے بعد بعض اور مجاہدین نے بڑی قربانیوں کے ساتھ مسلمانوں کے لئے سر کیا جب اموی حکومت ٹوٹی تو اموی شہزادہ عبد الرحمن مغرب کی طرف اپنی جان بچانے کے لئے بھا گا لیکن چونکہ ان شہزادگان کی بہت عزت تھی اس لئے جب یہ سپین پہنچا تو سپین میں اس کا بہت احترام کیا گیا اس کی بڑی عزت افزائی کی گئی اور اندلس کی حکومت اس کو گویا پیش کر دی گئی.چنانچہ جو اصل حکومت اندلس میں قائم ہوئی ہے وہ عبد الرحمن اول کے زمانہ میں یہ قائم ہوئی اور یہ ۱۳۳ھ سے ۷۲ اھ تک بڑی شان کے ساتھ وہاں حکومت کرتے رہے اور ہر پہلو سے اسلامی حکومت کی بنیا دوں کو استوار اور مستحکم کیا.اسی دور میں اسلامی حکومتوں کو تباہ کرنے اور اسلام کو نقصان پہنچانے کی بھی بعض بنیادیں پڑ گئیں اور یہ ایک عجیب تضاد ہے اور بڑا ہی دردناک واقعہ ہے کہ یہ بنیا دیں غیر کی طرف سے نہیں مسلمان علماء کی طرف سے ڈالی گئیں اور تمام مورخین اس بات میں متفق ہیں کہ ان عظیم اسلامی سلطنتوں کی تباہی کا راز مسلمان علماء کے باہمی اختلاف میں ہے.جتنے فسادر ونما ہوئے ، جتنا عالم اسلام میں اندرونی قتل وجدال ہوا اور کئی قسم کی بھیانک خون ریزیاں ہوئیں ان سب کی بڑی اور اہم ذمہ داری اس وقت کے علماء پر عائد ہوتی ہے.چنانچہ علماء دوحصوں میں بٹ گئے ایک وہ جو خدمت کرنے والے علماء تھے اور خالصہ اللہ کے لئے ہو چکے تھے اور کچھ وہ علماء جنہوں نے دین کے نام پر اسلام میں فسادات پھیلائے اور اسلام کو خطرہ بیان کر کے خود مسلمان حکومتوں کے لئے
خطبات طاہر جلدم خطرہ بن گئے.505 خطبہ جمعہ ۷/ جون ۱۹۸۵ء چنانچہ اس کا آغاز سپین میں عبد الرحمن اول کی وفات کے بعد ۱۷۲ھ میں ہوا.LANE POOLE بڑے تعجب سے یہ بات لکھتا ہے کہ پہلی بغاوت جس نے اسلامی مملکت کو کمزور کیا اور پھر آگے بغاوتوں کا آغاز کیا وہ عبد الرحمن کی وفات کے بعد ۷۲ ہجری میں ہوئی لیکن یہ عیسائیوں کی طرف سے نہیں ہوئی یہ نئے آنے والے Tribes اور قبائل کی طرف سے نہیں ہوئی نہ بر بروں کی طرف سے ہوئی، نہ عرب قبائل کی طرف سے ہوئی.وہ لکھتا ہے کہ تعجب ہے کہ یہ بغاوت قرطبہ کے فقہاء کی طرف سے ہوئی، جنہیں فرزندان اسلام کا نام دیا جاتا ہے اور اس کے بعد جو بغاوتوں آغاز کیا گیا وہ ایک لمبالا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا جسے پھر آخر وقت تک کوئی بھی روک نہیں سکا.چنانچہ پین میں تقریباً آٹھ سو سال تک، ساڑھے سات سو سے کچھ عرصہ زائد مسلمانوں کی حکومت قائم رہی اور ۱۴۸۶ء میں جب ابوعبداللہ نے ہتھیار ڈالے ہیں اور آخری مرتبہ اپنی حکومت کے آخری فرمانروا کے طور پر دستخط کئے ہیں اور ۱۴۹۲ میں یا ۱۴۹۱ء کے آخر پر کلیہ اس حکومت کا وہاں سے صفایا ہوا ہے.تو یہ دور بھی مؤرخین کے مطابق دراصل ان اندرونی فسادات کا ایک لازمی طبیعی منطقی نتیجہ تھا جو زیادہ تر مذہب کے نام پر خود علماء نے پھیلائے تھے اور خصوصاً اس آخری دور میں علماء غیر معمولی طور پر حرکت میں آچکے تھے اور اس وقت جو مجاہدین اسلام سر دھڑ کی بازی لگا رہے تھے اس ٹوٹتی ہوئی سلطنت کو بچانے کے لئے ان کے خلاف عوام الناس میں اسلام کے نام پر نفرتیں پھیلائی جارہی تھیں اور ان کو اسلام کا بھی باغی قرار دیا جارہا تھا اور وطن کا بھی باغی قرار دیا جارہا تھا.چنانچہ سپین میں یہ اسلام کا بہت ہی دردناک دور ہے کہ خود مسلمان علماء نے اپنے مجاہدین کے خلاف ایک اندرونی محاذ کھول رکھا تھا اور ہر دفعہ ان کی ناکامی میں مسلمان علماء کے فتنہ وفساد کا دخل موجود نظر آتا ہے.تو وہ عظیم سلطنت جسے غیروں کی تلوار سر نہیں کر سکی اسے مسلمان علماء کے فتووں کے قلم نے سر کر دیا اور اسلام کی ریاست کو اتنا عظیم نقصان پہنچا ہے کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.آج جس جگہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں.یورپ کی یہ تمام مسلہ سلطنتیں کلیہ مسلمانوں کے زیر نگیں ہوتیں اگر سپین میں مسلمان علماء فتنہ وفساد کے ذریعہ مسلسل سینکڑوں سال تک اسلامی حکومتوں کو پیہم کمزور نہ کرتے رہتے.ہر صدی میں انہوں نے فتنہ و فساد میں نمایاں کردار کیا ہے.ایک ایسا بھی دور آیا تھا کہ جب فرانس میں
خطبات طاہر جلدم 506 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء مسلمان فوجیں داخل ہورہی تھیں اور فرانسیسی حکومت کا نپ رہی تھی اور بار بار تحائف بھجوا رہی تھی اور ہر قسم کے معاہدے کرنے کے لئے تیار تھی اور خیال یہ تھا کہ فرانس کے بعد پھر یورپ میں اور کوئی طاقت نہیں تھی جو مسلمانوں کو روک سکتی لیکن چونکہ اندرونی فسادات ہورہے تھے ایک کے بعد دوسرے عالم ایک دوسرے عالم کے خلاف اٹھ کھڑے ہوتے تھے اور پھر علما ءمل کر اسلامی حکومتوں کے خلاف فتوے دے رہے تھے اور وہ یہ کہتے تھے کہ یہ خالصہ غیر دینی بادشاہ ہیں، غیر اسلامی بادشاہ ہیں، شریعت سے ہٹے ہوئے ہیں اس لئے ان کو بزور ختم کر کے ان کی جگہ کوئی با شرع انسان حکومت پر فائز کیا جائے.تو اسلام کے نام پر عالم اسلام کی وہ بظاہر خدمات سرانجام دے رہے تھے لیکن اسلام کے نام پر اتنا شدید نقصان عالم اسلام کو پہنچارہے تھے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا کی کسی اور قوم میں نظر نہیں آتی.آپ تاریخ پر نظر دوڑا کے دیکھیں آپ کو دنیا کی کسی قوم میں یہ واقعات نظر نہیں آئیں گے کہ مذہب کے علماء نے خود اپنے اہل مذہب کی حکومتوں کو تباہ کروا دیا ہوا ور وہ حکومتیں غیروں کے ہاتھ بیچ دی ہوں اور ان غیروں کے ساتھ مل کر سازشیں کی ہوں.بہر حال یہ ایک بہت ہی دردناک دور ہے.ایک طرف اسلام کی ترقیات پر نظر پڑتی ہے تو دل حمد سے بھر جاتا ہے دوسری طرف ان مسلمان علماء کے کردار کو انسان دیکھتا ہے تو غم سے دل بھر جاتا ہے اور کٹنے لگتا ہے ان باتوں کو دیکھ کر جگر پارہ پارہ ہونے لگتا ہے.عظیم الشان اسلامی سلطنتیں ایسی جن میں پھیلنے کی طاقتیں تھی ، جو وسعت پذیر تھیں اور کسی لمحہ بھی تمام دنیا میں سوائے اسلامی حکومت کے کوئی حکومت باقی نہ رہتی ان حکومتوں کو اندر سے ان علماء نے کھالیا.جہاں تک مغرب میں علماء کا تعلق ہے مالکی علماء نے سب سے زیادہ اسلامی حکومتوں کو تباہ کرنے میں کردار ادا کیا ہے اور جہاں تک مشرقی حکومت کا تعلق ہے وہاں شیعہ سنی فسادات اور دونوں طرف کے علماء ذمہ دار ہیں لیکن آخری تباہی جو مسلمان سلطنتوں کی ہوئی ہے وہ شیعہ علماء کے ذریعہ ہوئی ہے.اس کا آغاز ۴۴۳ ہجری میں ہوا ہے جبکہ عبداللہ جو قائم بامر اللہ کہلا تا تھا، وہ خلیفہ تھا.اس کے دور میں وہ غیر معمولی شیعہ سنی فساد ہوا ہے جس نے آئندہ ہمیشہ کے لئے فسادات کا بیج بو دیا.نہایت ہی خوفناک شیعہ سنی فساد ہوا جس کے نتیجہ میں سینکڑوں جانیں تلف ہوئیں، مقبرے اکھاڑے گئے، پرانے مدفون ائمہ کو قبروں سے اکھیڑنے کی سازشیں کی گئیں اور بہت ہی خوفناک فساد تھا جو پھیل گیا.
خطبات طاہر جلد۴ 507 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء اور خلیفہ قائم بامر اللہ نام کا قائم بامر اللہ تھا عملا نہ وہ قائم تھا نہ کوئی امر اللہ کی صفات اس میں پائی جاتی تھی.چنانچہ وہ بالکل بے حس اور بے طاقت ہو کر ان باتوں کو دیکھتا رہا اس کی کچھ پیش نہیں گئی.وہ فساد اسلامی مذہبی تاریخ میں ایک نمایاں حیثیت اس لئے رکھتا ہے کہ اس کے بعد پھر شیعہ اور سنی اختلافات بڑھتے ہی رہے ہیں اور پھر ان کے درمیان آپس میں شیعہ اور سنی فرقوں کے اندر صلح کا کوئی امکان پھر باقی نہیں رہا.گہری نفرتیں پیدا ہوئیں اور انتقامی جذبات نسلاً بعد نسل منتقل ہوتے رہے.یہاں تک کہ یہ جو طبعی نتیجہ اس کا ظاہر ہوا ہے یہ بھی ایک ایسے خلیفہ کے وقت میں ظاہر ہوا جس کا نام بھی عبداللہ تھا.لیکن وہ عبداللہ بن منصور مستعصم باللہ کہلاتا ہے.۶۴۰ ھ کے لگ بھگ یہ خلیفہ ہوا ہے اور ۶۵۶ ھ میں یہ قتل ہوا ہے اس کے دور میں بھی ایک نہایت ہی خوفناک شیعہ سنی فساد ہوا.اور اس فساد کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں بادشاہ نے خود اپنے بیٹے کوبھجوا کر شیعوں سے انتقام لیا اور بغداد کا جو مغربی حصہ تھا جہاں زیادہ تر شیعہ آباد تھے وہاں خون کی ندیاں بہائیں اور مکان لوٹ لئے گئے اور آگئیں لگائی گئیں.مورخین یہ کہتے ہیں کہ اس کی بنیاد اس طرح پڑی کہ ابن علقمی جو مستعصم باللہ کے شیعہ وزیر اعظم تھے، ان کو مستعصم باللہ نے بہت زیادہ کھل دے رکھی تھی اور چونکہ وہ وزیر اعظم تھے اور ان کا عمل دخل بہت تھا اس لئے شیعوں کو اتنی زیادہ شہد مل گئی کہ آغا ز اس فساد کا شیعوں کی طرف سے ہوا ہے.انہوں نے مظالم کئے اور ان مظالم کے نتیجہ میں پھر مسلمان عوام جب اٹھ کھڑے ہوئے اس وقت بادشاہ وقت نے اپنے بیٹے کو بھجوایا کہ چونکہ عوام الناس کی اکثریت بہر حال سنی تھی اور وہ اپنی حکومت کے مفادات شاید اس میں دیکھتے تھے کہ اس وقت ان کی کھل کے مدد ہونی چاہئے تو بہر حال وہ قتل و غارت کا جو بازار وہاں گرم ہوا یہ وہ آخری شیعہ سنی فساد ہے جو عباسی حکومت میں ہوا ہے.اس کے بعد بہت سے مؤرخین جن میں ذہبی بھی شامل ہیں ابن خلدون بھی اور الطقطقی بھی اور بہت سے مؤرخین ہیں جو اس بات پر متفق ہیں کہ اس اسلامی حکومت کی تباہی کا ذمہ دار یہ آخری فساد تھا کیونکہ اس کے بعد شیعہ وزیر اعظم ابن علقمی نے یہ فیصلہ کر لیا کہ اس حکومت کو بہر حال تباہ کر وا دینا ہے.چنانچہ ہلاکو خاں کو ابن علقمی نے پیغام بھیجنے شروع کئے اور مغرب سے اس کی توجہ ہٹا کر بغدادی حکومت کی طرف کروائی اور وہ جوڑ عب تھا اسلامی حکومت کا جو تا تاریوں کو اس طرف آنے نہیں دیتا تھا اس کا پول کھولا اور بتایا کہ اس فوج میں کچھ بھی باقی نہیں رہا اور مؤرخین کہتے
خطبات طاہر جلدم 508 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء ہیں کہ عملاً اس فساد کے بعد فوج کو کمزور کرنے کی باقاعدہ سازش کی گئی اور ابن علقمی نے رفتہ رفتہ ایک منصوبے کے مطابق مرکزی فوج کو منتشر کرنا شروع کیا اور خلیفہ وقت کو یہ بتایا کہ یہ سرحدوں کی حفاظت کے لئے باہر بھجوائی جارہی ہے اور امر واقعہ یہ تھا کہ اکثر کو فارغ کر دیا گیا اور منتشر کر دیا گیا اور جب بغداد میں کوئی حفاظت کا انتظام باقی نہیں رہا پھر اس نے پیغام بھجوایا ہے.اور ایک اور بد قسمتی عباسی حکومت کی یہ تھی کہ اس وقت نصیر الدین طوسی جو مشہور فلسفہ دان اور حساب دان ہیں وہ ہلا کو کے دربار میں بہت مرتبت رکھتے تھے اور بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے اور ہلاکو خاں کو ان پر بہت اعتماد تھا.جب ابن علقمی نے پیغام بھیجنے شروع کئے تو ہلا کونے نصیر الدین سے مشورہ کیا اس نے بھی کہا کہ ہاں اس حکومت میں اب کچھ بھی باقی نہیں رہا اس لئے حملہ مناسب رہے گا.چنانچہ اس کے نتیجہ میں پھر بغداد کی تباہی ایسے خوفناک طریق پر کی گئی ہے کہ تاریخ عالم میں شاید ہی کوئی ایسا شہر اس درد ناک رنگ میں تباہ کیا گیا ہو.بعض مورخین کہتے ہیں کہ 15 سے 16 لاکھ تک جانیں تلف ہوئیں.ابن خلدون بیان کرتے ہیں کہ ایک کڑور سے زائد جانیں تلف ہوئی ہیں.عورتیں اور بچے اور بوڑھے اور جوان سروں پر قرآن اٹھائے ہوئے دہائیاں دیتے ہوئے گلیوں میں نکلے اور خدا تعالیٰ کو قرآن کی عظمت کی طرف متوجہ کرتے ہوئے اُس سے التجائیں کرتے رہے لیکن جب تو میں آپس میں اندرونی طور پر باہمی ایک دوسرے سے لڑ کر اپنی ہلاکت کا فیصلہ کر لیا کرتی ہیں تو پھر اللہ تعالی کی طرف سے کوئی تقدیران کو نہیں بچایا کرتی إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ (الرعد :۱۲) اللہ تعالى فرماتا ہے، ہم نعمتیں واپس نہیں لیا کرتے لیکن جب کوئی قوم خود اپنی نعمتیں اپنے ہاتھ سے پھینک دیتی ہے اور وہ تبدیل کر دیتی جو ہم نے اس کو عطا کیا ہے اس وقت پھر خدا کی تقدیر اس قوم کی ہلاکت کا فیصلہ کر لیا کرتی ہے.وَإِذَا اَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا پھر جب اللہ کی تقدیر یہ فیصلہ کر لے کہ اس قوم کو برائی پہنچے گی تو کوئی اس کو بچا نہیں سکتا اس فیصلہ کی راہ میں کوئی روک نہیں ہوسکتی.چنانچہ وہی منظر نظر آتا ہے کہ خود اپنے ہاتھوں سے جو لعنت اور مصیبت بلائی گئی تھی اس کو پھر کوئی دعا روک نہیں سکی.کیونکہ خدا نے پہلے ہی قرآن کریم میں اس تقدیر کی کھلے لفظوں میں خبر دے دی تھی.بہر حال بعض مصنفین تو صرف اتنا لکھتے ہیں کہ ایسا دردناک واقعہ ہے کہ ہمارا قلم چلتا ہی
خطبات طاہر جلد۴ 509 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء نہیں اس لئے ہم سے تفصیل کچھ نہ پوچھو.بس گزر جاؤ یہ مرثیہ پڑھتے ہوئے کہ ایک بہت بڑی بتاہی آئی تھی عالم اسلام پر.اور بعض مورخین کچھ تفاصیل بھی بیان کرتے ہیں.بعض لکھتے ہیں کہ کتابوں کی جو بہت عظیم الشان لائبریریاں قائم تھیں اور تمام دنیا کا علمی مرکز بنا ہوا تھا بغداد میں ان کتابوں کو جلا کر ان کی خاک دجلہ میں بہائی گئی اور دجلہ کالا ہو گیا اُنکی راکھ اور خاک سے.بعض کہتے ہیں کہ اُسی طرح ان کتابوں کو دجلہ میں بہا دیا گیا.بعض کہتے ہیں کہ جو مقتولین تھے ان کی کھوپڑیوں کے منار بنائے گئے جو بیسیوں میں سے دکھائی دیتے تھے.اور بعض بتاتے ہیں ہمیں کہ جو تباہی ہوئی ہے عمارتوں کی بربادی ہوئی ہے اتنا خوفناک منظر ہے کہ تاریخ میں شاید پھر کبھی دوبارہ دیکھنے میں آئے.کھلا قتل عام مسلسل چلتا رہا.یہاں تک کہ صرف عام ظلم نہیں ہے قتل وغارت کا بلکہ دینی طور پر بھی انتہائی مظالم توڑے گئے.عیسائیوں کو اور بد مذھبوں کو کھلی چھٹی دی گئی کہ وہ مساجد کی بے حرمتی کریں.شراب عام کر دی گئی.مسجدوں میں اصطبل بنوادیئے گئے اور اسلامی تاریخ کا یہ پہلا واقعہ ہے کہ حکماً اذان بند کی گئی.وہ سب سے بڑا بد بخت انسان جس نے اسلام کے نافذ ہونے کے بعد پہلی مرتبہ تاریخ میں اذان بند کی ہے وہ ہلاکو خاں تھا.چنانچہ مؤرخین بڑے درد سے یہ واقعہ لکھتے ہیں کہ ہلاکو خاں کے حکم سے بغداد میں پھر اذانیں ہونی بند ہو گئیں اور تمام مسجد میں خاموش ہوگئیں.اس تباہی کے وقت میں ابن سیمی نے پیغام بھیجا ہلا کو خاں کو کہ چونکہ تم میری دعوت پر ہی آئے ہواس لئے مجھے ملاقات کا موقع دو آپس میں طے کریں کہ اب کیا کرنا ہے ابن علقمی وہاں گیا اپنی جان کی پناہ لی اور ایک سازش کے مطابق واپس آکر مستعصم باللہ کو یہ کہا کہ تم سب کی جان بخشی کی ضمانت میں لے آیا ہوں اس لئے تمام فقہاء، علماء تمہارے اور بزرگ اور قاضی اور بڑے بڑے لوگ یہ سارے میرے ساتھ چلیں اور وہاں جا کر بڑی عزت افزائی کے ساتھ تمہاری جان بخشی کی جائے گئی اور تمہیں چھوڑ کر وہ اسی طرح چلا جائے گا جس طرح اہل روم میں اس نے اپنا خلیفہ اپنا نا ئب مقرر کر دیا ہے تمہیں اپنا نائب مقرر کر دے گا.چنانچہ لوگ جب پہنچے تو بلا استثناء سب کو قتل کروادیا گیا سوائے ابن علقمی کے لیکن ابن علقمی کو بھی جو اس کی تمنا تھی وہ دیکھنی نصیب نہ ہوئی اور بڑی حسرت سے وہ مرا ہے بعد میں کیونکہ اس کی جو یہ خواہش تھی کہ شیعہ حکومت قائم ہو جائے گی اسکے نتیجہ میں ، ہلاکو خاں نے وہ بھی نہ ہونے دی.
خطبات طاہر جلدم 510 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء جہاں تک مستعصم باللہ کا تعلق ہے اس کے متعلق بعض مؤرخین ایک بڑا دردناک واقعہ لکھتے ہیں ، ابن خلدون نے بھی لکھا ہے اور بعض دوسرے مؤرخین نے بھی.ابن خلدون تو اس واقعہ میں نصیر الدین کا نام نہیں لیتے لیکن بعض دوسرے مؤرخین نصیر الدین کا نام لے کر اسے اس واقعہ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہلاکو خاں نے سب کو جو قتل کرنے کا فیصلہ کیا تو خلیفہ وقت کو مارنے سے وہ رکا اور اس کا دل دھڑ کا کیونکہ یہ عام روایت تھی اس زمانہ میں کہ اگر خلیفہ وقت کا خون کہیں بہے تو بہت بڑی تباہی آتی ہے.چنانچہ ہلاکو خاں نے نصیر الدین سے ذکر کیا کہ مستعصم کو تو میں نہیں قتل کروا سکتا کیونکہ اگر اس کا خون زمین پر گرا تو اس سے بہت بڑی ہلاکت آئے گی اور ہم بھی اس کا شکار ہو جائیں گئے.نصیر الدین نے جواب دیا کہ بڑی آسان ترکیب ہے زمین پر خون گرنے ہی نہ دواس کو بوریوں میں لپیٹو اور ٹھڈوں اور لاٹھیوں سے مارو! چنانچہ بعض مؤرخین کہتے ہیں کہ اسی طرح کیا گیا بوریوں میں لپیٹ کر ٹھڈوں اور لاٹھیوں سے مارا گیا اور اسی طرح بند کا بند اس نے نہایت ہی دردوکرب میں جان دی اور اس وقت ابن علقمی نے آکر اس کو ٹھڈے مارے اور اس سے کہا کہ اس طرح انتقام لیا جاتا ہے.جہاں تک ابن خلدون کا تعلق ہے وہ نصیر الدین کی بات تو نہیں بیان کرتے لیکن وہ یہ کہتے ہیں کہ پہلے ہاتھی سے کھنچوایا گیا اس بوری کو اور اس طرح لڑکھتے ہوئے گھسٹتے ہوئے اس نے جان دی اور پھر اس کے بعد انتقامی کارروائی ہوئی ٹھڈوں کی اور جو کچھ بے عزتی کی جاسکتی تھی.تو یہ تھا علماء کا کردار، علماء سوء کا کردار جنہوں نے اسلام کے نام پر دو عظیم الشان اسلامی سلطنتوں کو تباہ و برباد کر وا دیا اور اگر یہ دونوں سلطنتیں قائم رہتیں اور مسلمان علماء یہ بھیا نک کر دار ادا نہ کرتے تو آج نہ روس کا وجود کہیں نظر آتا، ایک دہر یہ حکومت کے طور پر میرا مطلب ہے، نہ آپ کو چین کی دہریہ حکومت نظر آتی ، نہ جاپان والے خدا کے منکر ہو کر ایک نئے خدا کا تصور پیش کر رہے ہوتے.بدھ ازم کا جو نام ہے یہ بھی شاید علمی طور پر سننے میں آتا.امر واقعہ یہ ہے کہ مشرق و مغرب پر کلیہ مسلمان حکومتیں قائم ہوتیں اور مسلمان علماء جولڑتے نہ آپس میں اور فساد نہ کرواتے تو ان کے فیض سے میں یقین رکھتا ہوں کہ پھر اسلام بھی ساتھ ساتھ پھیل جاتا.تو آج جتنے فسادات دنیا میں ہیں، جتنے خطرات دنیا کو در پیش ہیں ان کا آغاز علماء سوء کی
خطبات طاہر جلدم 511 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء طرف سے مسلمان حکومتوں کے دوران کیا گیا ہے، بنیاد میں اس وقت رکھی گئی ہیں.اگر آج ایک عالم اسلام ہوتا تو ان فسادات کا سوال ہی کوئی نہیں تھا مشرق و مغرب نہ آپس میں پھٹتے نہ اتنے فسادات نہ اتنی بڑی تباہیاں دنیا میں آتیں.جنگ عظیم اول بھی نہ ہوتی ، جنگ عظیم ثانی بھی نہ ہوتی دنیا کا نقشہ بالکل اور ہونا تھا.یہ جو کمیونزم کی فلاسفی ہے یہ بھی مغرب میں جنم دی گئی ہے، عیسائیت کی غلط تعلیم اور عیسائی ملکوں کے غلط اعمال کی وجہ سے یہ تعلیم دنیا کے سامنے آئی ہے ورنہ یہ فلسلفہ پیدا ہی نہیں ہونا تھا.اصل بات یہ ہے کہ علماء جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے شروع سے ہی دوحصوں میں بے رہے ہیں.ایک وہ جو متقی ہیں جو خدا کا خوف کرنے والے اور اسلام سے محبت کرنے والے ہیں.وہ ہمیشہ دین کی خدمت میں وقف رہے ہیں اور ان کا بہت بڑا حسان ہے جسے ہم نظر انداز نہیں کر سکتے اور قیامت تک وہ احسان جاری رہے گا لیکن ایک علماء سوء ہیں اور ان کی ایک نمایاں پہچان ہے ان کی پہچان یہ ہے کہ یہ بیرونی خطرات سے کلیہ آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور ان کو سوائے اندرونی خطرات کے کچھ نظر ہی نہیں آتا مجاہدین اسلام کی ساری کمائی کو تباہ کرنے کے ذمہ دار، ان کی ساری محنتوں کو اکارت کرنے کے ذمہ دار علماء سوء ہیں.ان کی نظر کو اسلام کے لئے جو خطرہ نظر آتا ہے وہ مسلمانوں سے خطرہ نظر آتا ہے.یہ ان کی پہچان ہے، غیروں سے کوئی خطرہ نظر نہیں آتا.نہ ان کو عیسائیوں سے خطرہ نظر آئے گا، نہ ان کو بد مذھبوں سے خطرہ نظر آئے گا، نہ دہریوں سے خطرہ نظر آئے گا، باہر کی طرف آنکھ ہی نہیں کھلتی ان کی.ان کو خطرہ نظر آتا ہے کہیں شیعہ سے، کہیں حنبلی سے، کہیں احمدی سے، کہیں وہابی سے، کہیں بریلوی سے اور اندرونی طور پر ایک دوسرے کا خطرہ دیکھتے ہیں اور باہر کی طرف ان کی آنکھ نہیں جاتی.یہ ان کی خاص پہچان ہے اور جب مسلمان کو مسلمان سے لڑاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتیں تباہ ہوکر رہ جاتی ہیں.اس وقت پھر ملائیت کا دور ہے اور تمام عالم اسلام کو ملائیت کی طرف سے خطرہ ہے.آپ دیکھ لیں جتنی تحریکیں اس وقت چل رہی ہیں فساد کی ان سب میں ملا ئی عصبیتیں کارفرما ہے.ایران اور عراق کی جنگ ہے یا فلسطین میں دو جتھے آپس میں ایک دوسرے کا خون بہا رہے ہیں.ان سب
خطبات طاہر جلدم 512 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کے پیچھے یہی پرانی عصبیتیں کام کر رہی ہیں جن کی جڑیں آپ کو تاریخ اسلام میں جگہ جگہ پیوست ہوتی ہوئی دکھائی دیں گی.تمام عالم اسلام کو اکثر جگہ شیعہ سنی فساد میں بانٹ دیا گیا ہے شیعہ گروہ اور سنی گروہ.اور جہاں شیعہ اور سنی اختلاف یہ کارنامہ نہیں دکھا سکا وہاں دوسرے امور وہ بھی مولویوں کی طرف سے جو ظاہر ہوئے ہیں.انہوں نے اسلامی حکومتوں کو لزرہ براندام کر رکھا ہے.چنانچہ ملائیشیا میں اور انڈونیشیا میں وہی ”سلطان غیر شرعی کے نام پر ایک آواز بلند ہورہی ہے کہ ہمارے سلاطین جو ہیں، ہماری حکومتیں جو ہیں یہ غیر شرعی ہیں.اس لئے اسلام کو سب سے بڑا خطرہ انڈونیشیا کے حکمرانوں سے ہے.اسلام کو سب سے بڑا خطرہ ملائیشیا کے حکمرانوں سے ہے اور اسلام کے نام پر وہاں اُن حکومتوں کو تباہ کیا جا رہا ہے.پاکستان میں دیو بندی سب سے بڑا خطرہ احمدیت سے دیکھ رہا ہے اور سارے پاکستان پر اس کا قبضہ اس عذر پر ہے کہ نہایت ہی شدید خطرہ احمدیت سے عالم اسلام کو لاحق ہو چکا ہے اور ہم اس کے مجاہدین ہیں اس کے خلاف لڑنے والے.اس لئے ہماری بات سنو، باقی سب طرف سے اپنی آنکھیں بند کر لو اور تعجب یہ ہے کہ پاکستان کا سیاستدان اس بات کو دیکھ نہیں رہا اور سمجھ نہیں رہا کہ یہ کیا ہو رہا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کو نہ شمال سے خطرہ ہے نہ جنوب سے، نہ مشرق سے ، نہ مغرب سے، اگر پاکستان کو کوئی خطرہ ہے تو ملائیت سے خطرہ ہے اور ساری تاریخ ملائیت کی بتا رہی ہے کہ یہ کس طرف قوموں کو لے جایا کرتی ہے ، کس طرح عظیم سلطنتوں کو ہلاک کر دیا کرتی ہے اس کے باوجود ہمارا سیاست دان آنکھیں بند کر کے بیٹھا ہوا ہے بلکہ بعض دفعہ ملوث ہو جاتا ہے خود.ملائیت کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا جرم کرتا ہے.چنانچہ پاکستان میں جہاں تک ملائیت کے عروج کی تاریخ کا سوال ہے اس میں بہت بڑا کر دارد یو بندی علماء کا ہے.اگر پین کی تباہی کی ذمہ داری مالکی علماء پر ڈالی جاسکتی ہے تو پاکستان کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کی بھاری ذمہ داری دیو بندی علماء پر ڈالی جائے گی اور مؤرخ انہیں کبھی معاف نہیں کر سکے گا.قائد اعظم کے دور میں ملائیت کا کوئی وجود نہیں تھا.ایک قوم تھی اور باہم ایک دوسرے کے ساتھ بھائیوں کی طرح گزارہ کر رہے تھے سارے، ایک محبت کا پیار کا ماحول تھا.نئی نئی سلطنت اسلام کے نام پر ملی تھی اور ایک بہت ہی پاکیزہ پر امن ماحول تھا اور سارے اس بات میں کوشاں تھے کہ کسی
خطبات طاہر جلدم 513 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء طرح ہم مل کر اپنے وطن کو بنائیں.جب سے ملائیت نے سراٹھایا ہے اور بعض سیاست دانوں نے نہایت ہی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے منافع کی خاطر ان کو شہ دی اور ان سے کام لئے ، اس وقت سے پھر پاکستان پر ملائیت کا مسلسل قبضہ ہوتا چلا گیا اور سیاست دان کو آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ کیوں ہو رہا ہے اور کون اس کا ذمہ دار ہے.ان کو آج تک یہ نہیں پتہ چلا کہ پاکستان میں جتنے مارشل لا لگے ہیں وہ تمام کے تمام بلا استثناء ملا نے لگوائے ہیں.ایک بھی مارشل لاء ایسا نہیں جو ملا کی مدد اور اس کی سازش کے نتیجہ میں نہ لگا ہو اور ایک ہو ادیا گیا ہے احمدیت کا کہ احمدیت کے خلاف ہم جنگ کر رہے ہیں اسلام کو ان سے خطرہ ہے اور اس کے نتیجہ سیاست دان کو اتنا ڈرایا دیا گیا ہے کہ وہ حق کی خاطر آواز بلند کرنے کی طاقت اب نہیں رکھتا.وہ سمجھتا ہے کہ اگر احمدیوں کے خلاف مظالم پر اُس نے احتجاج کیا یا اس غلط روش کو روکنے کی کوشش کی تو اس کی سیاست تباہ ہو جائے گی اور اس مفروضہ پر وہ کام کرتے ہوئے بعض دفعہ اپنے حق میں عوام الناس کو کرنے کے لئے انہی ملانوں کو احمدیوں کے خلاف اکساتا ہے، ان کی مدد کرتا ہے، ان کو روپیہ پیسہ دیتا ہے اور ہر طرح سے ان کو ابھارتا ہے کہ ان کا ہیرو بن کر وہ پاکستان کے عوام کا ہیرو بن جائے.چنانچہ ایک کے بعد دوسری تحریک جو جماعت احمدیہ کے خلاف اٹھی ہے اس میں یہ سارے عناصر کارفرما آپ کو نظر آئیں گے اور اب نتیجہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ پاکستان کی سیاست کو کلیہ تباہ کر دیا گیا ہے.ملائیت فوج پر قابض ہو چکی ہے، فوج نے ملائیت کو استعمال کیا، ملائیت نے فوج کو استعمال کیا اور بظاہر یہی سمجھتے رہے دونوں کہ ہم فاتح ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ نتیجہ اس کا یہ نکلا ہے کہ اسلام دشمن طاقتیں فاتح بن کر اُبھر رہی ہیں اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے یہ تو مفتوح کا مفتوح ہی رہا.اتنے شدید خطرات اس تمام دور میں پاکستان کو لاحق ہوئے ہیں اور ایسے ایسے اندرونی اور بیرونی دشمنوں نے طاقت پکڑی ہے کہ اگر آپ ان کا تجزیہ کریں ، ان عناصر پر غور کریں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ کیوں ہمارے سیاست دانوں نے آنکھیں نہیں کھولیں ، کیوں بر وقت ان خطرات اور مصیبتوں سے اپنے وطن کو بچایا نہیں.کہا یہ جارہا ہے اور ہمیشہ یہی کہا جاتارہا کہ پاکستان کو اور اسلام کو احمدیوں سے خطرہ ہے اور ساری توجہ قوم کی اس طرف پھیر دی گئی.اس کے کئی نتائج ظاہر ہوئے ہیں اول تو یہ کہ ہر بار جب فساد ایک خاص مقام تک پہنچا ہے تو فوج کو دخل دینا پڑا اور تمام
خطبات طاہر جلدم 514 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء سیاسی رجحانات اچانک منقطع کر دیئے گئے.جو سیاسی عمل جاری ہوا تھا آغاز سے وہ آزاد فضا کا متقاضی ہے اپنی پرورش اور نشونما کے لئے.جب مذہبی امور دخل انداز ہو جاتے ہیں سیاست میں اور فوج کو موقع دے دیتے ہیں حکومت پر قبضہ کرنے کا تو سیاسی عمل دخل یا سیاسی نظام جو جاری ہوتا ہے سیاسی سوچ اور سیاسی فکر جو پختگی کی طرف چل رہی ہوتی ہے وہ پختہ ہونے سے پہلے پہلے منقطع ہو کر ختم ہو جاتی ہے.چنانچہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والے جتنے ممالک ہیں ان میں جہاں ملائیت نہیں وہاں بغیر روک ٹوک کے سیاسی نشو و نما ہوئی ہے اور بہت سے مراحل طے کر کے اب مستحکم ہو چکی ہیں.سیاسی سوچیں، سیاسی تفکرات سارے مستحکم ہو چکے ہیں.چین کو دیکھیں ، ہند وستان کو دیکھیں.ہندوستان تو ہمارا ہمسایہ ہے، ہمارے ساتھ ہی آزاد ہوا تھا، مسلسل بغیر روک ٹوک کے ان کا سیاسی عمل جاری ہے.نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب تمام دنیا میں ان کی ایک عزت ہے ، ان کا ایک احترام ہے، ان کا ایک مقام ہے.اور بعض مسلمان ممالک پاکستان سے زیادہ اہمیت دیتے ہیں ہندوستان کو کیونکہ انہوں نے اپنا ایک مقام قائم کر لیا ہے.وجہ کیا ہے؟ وہاں ملائیت کا قبضہ نہیں ہے، نہ انہوں نے مسلمان کی ملائیت کا وہاں قبضہ ہونے دیا ہے، نہ اپنے پنڈتوں کا قبضہ ہونے دیا ہے اور سیاست کو مذہبی عمل دخل سے آزاد رکھا ہوا ہے.پاکستان میں بدقسمتی سے ملائیت نے ہر دفعہاس عمل کو توڑ دیا.نشو و نما ہی نہیں ہوسکی اور پھر سیاست دان ہر دفعہ حیران ، پریشان اور ہر دفعہ مارکھانے کے بعد یہ سوچتا رہا کہ ہمارے ساتھ کیا ہوئی ہے ، یہ کیا واقعہ گزرگیا ہے.اس کے بہت سے دوسرے شدید نقصانات قوم کو پہنچے ہیں جن کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.بار بار جب فوج اور پر آئی ہے تو ان سیاستدانوں نے یہ تو نہیں دیکھا کہ مولوی اس کا ذمہ دار ہے لیکن انہوں نے یہ دیکھا کہ پاکستان کی فوج جس کی اکثریت پنجاب سے ہے وہ اس کی ذمہ دار ہے.چنانچہ فوج کے خلاف گہری منافرتیں پھیلائی گئیں ہیں اقلیتی صوبوں میں اور خصوصاً سندھ اور بلو چستان میں جو پاکستان کے خلاف تحریکات چل رہی ہیں اس وقت اور دن بدن زور پکڑتی جارہی ہیں اور نہایت ہی خطرناک زہریلا پروپیگنڈا پاکستان کے خلاف کیا جارہا ہے جوان کی یو نیورسٹیوں میں ان کے سکولوں میں پھیلایا جارہا ہے.
خطبات طاہر جلدم 515 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء یہ تمام پرو پیگنڈا اس بناء پر ہے کہ پاکستان کی فوج کی اکثریت پنجابی ہے اور وہ اپنی خاطر ہر دفعہ اقلیتی صوبوں پر ظلم کرنے کے لئے اور پنجاب کے مفادات کی خاطر ملک پر قبضہ کرتی ہے فوج اور چونکہ ہر آدمی میں تجزیہ کی اہلیت نہیں ہوتی جو واقعات سطحی طور پر نظر آتے ہیں وہ یہی ہیں.اس لئے ساری قوم اس بات کو تسلیم کر لیتی ہے ہاں یہی تجزیہ درست ہے کہ پنجابی فوج نے ظلم کی راہ اختیار کرتے ہوئے سندھی کو مغلوب کرنے کے لئے ، بلوچی کو مغلوب کرنے کے لئے ملک پر قبضہ کیا ہے اور یہی رجحان مشرقی پاکستان میں جب وہ مشرقی پاکستان موجود تھا جب قوت پکڑ گیا تو مشرقی پاکستان کو توڑنے کا ذمہ دار ہوا.وہ لوگ جو مشرقی پاکستان گئے ہوئے ہیں یا اس کی سیاست سے آگاہ ہیں ان کو علم ہے کہ مسلسل سال ہا سال تک وہاں یہی پروپیگینڈا کیا گیا کہ پنجابی فوج ہے جو بار بار قابض ہوتی ہے جو سیاسی عمل کو تباہ کرتی ہے.وہ کہتے تھے فوج ہماری اکثریت سے ڈرتی ہے سیاست کونشو و نما پاتے دیکھ ہی نہیں سکتی.کیونکہ اس سے پنجاب کو نقصان پہنچے گا.اس لئے انہوں نے پنجابی کے خلاف نفرت کی مہم ہوئی اور ہر جو کمزوری دیکھتے تھے اور ہر قصور دیکھتے تھے اس میں پنجابی کو ذمہ دار قرار دیتے تھے اور دلیل یہی تھی بنیادی کہ دیکھ لو پنجابی فوج بار بار قبضہ کر رہی ہے.اور اب یہی نفرتیں ، وہ تو ملک چلا گیا اُس کے جانے کے بعد سندھ میں منتقل ہو گئیں، بلوچستان میں منتقل ہو گئیں اور بظاہر بڑی شدت کے ساتھ فوج نے ان تحریکات کو کچل دیا ہے لیکن کبھی سیاسی بے اطمینانیاں بھی پھلی گئیں ہیں تلواروں سے یا بندوقوں سے سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.جتنا آپ سیاسی خیالات کو کچلنے کی کوشش کریں گے یا سیاسی رجحانات کو کچلنے کی کوشش کریں گے بزور شمشیر اتنا زیادہ یہ گہرے اور خطرناک ہوتے چلے جائیں گے.سطح سے ہٹیں گے تو اپنی جڑیں زیادہ پیوست کر دینگے گہرائی میں کینسر کی طرح پھیل جائیں گے سارے بدن میں اور یہی اس وقت ملک میں ہورہا ہے جو ان کو نظر نہیں آرہا.دوسری طرف پنجاب میں ایک اور قسم کا نقصان پہنچا ہے بڑا شدید.پنجاب کے عوام اور پنجاب کے سیاست دان کلیہ مایوس ہونے کے بعد اب ایسی طاقتوں کا سہارا ڈھونڈ رہے ہیں جو اپنی فوج سے ان کو نجات دلائیں اور اس کے لئے سب سے زیادہ نزدیک جو آئیڈیا لوجی ان کو مدد کے لئے ملتی ہے وہ اشتراکیت کی آئیڈیالوجی ہے جس کا علمبر دار روس ہے ہمسائے کے طور پر عظیم طاقت
خطبات طاہر جلد۴ 516 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کے طور پر پاس ہی بیٹھا ہوا ہے.اس رد عمل نے ایک نیا رجحان بھی پیدا کر دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ فوج نمائندہ ہے تمام استعماری طاقتوں کا، فوج نمائندہ ہے سرمایہ دارانہ قوتوں کا، فوج نمائندہ ہے تمہارے رؤوساء کا تمہارے بڑے زمینداروں کا تمہارے بڑے انڈسٹریلسٹ کا اور انہی کے ایماء پر ، انہی کے مفادات کے تحفظ کے لئے بار بار مارشل لاء لگتا ہے اور جب بھی فوجی حکومت آتی ہے اس وقت انڈسٹریلسٹ زیادہ ظالم ہو جاتا ہے، زیادہ مزدور کے حقوق غصب کرنے لگ جاتا ہے.زمیندار اسی حکومت کے برتے پر غریبوں کو لوٹتا ہے ، ان کی فصلیں کھا جاتا ہے، ان سے سخت مزدوریاں لیتا ہے اور پھر ادا کچھ نہیں کرتا ہے، ان کی عورتوں کی عزتیں لوٹتا ہے، جرائم پھیلتے ہیں ہر طرف.یہ نظریہ عوام میں پھیلایا جاتا ہے اور یہ جڑ پکڑ جاتا ہے.یہ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہاں واقعہ یہی بات ہے.تو سارے ملک کو غیر مستحکم کر دیا گیا ہے.نہایت ہی خوفناک ملک دشمن عناصر جڑیں پکڑ رہے ہیں بلکہ پکڑ چکے ہیں اور نہایت خوفناک سازشیں ملک کے خلاف اہل وطن کرنے لگ گئے ہیں اور بظاہر بڑا مستحکم ملک نظر آ رہا ہے فوجی حکومت ہے کہتے ہیں مارشل لا نہیں ہٹانا کہیں فساد نہ پیدا ہو جائے.تو استحکام کیسا ہو گیا جہاں فوج کے جاتے ہی اپنی فوج کے ہٹنے سے ملک میں فساد پھیل جائے.دراصل بات یہ ہے کہ ساری بیماری ملائیت کے قبضہ کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے.ہر دفعہ ملائیت کے نتیجہ میں فوج آئی، ہر دفعہ ملا ازم کے نتیجہ میں مذہب سے لوگ متنفر ہوئے، اشتراکیت کے لئے زیادہ جگہ ہموار ہوئی اور ہر دفعہ اسی ملائیت نے اہل وطن کو آپس میں ایک دوسرے سے لڑایا ہے اور فساد پیدا کیا ہے اور عدم اطمینان کے مواقع پیدا کئے ہیں.جو ان کا کام تھا وہ انہوں نے نہیں کیا، جو خطرات تھے وہ انہوں نے دیکھے نہیں اور ان کی نشان دہی نہیں کی انہوں نے.بیرونی خطرات تو ان کے ادارک سے باہر کی بات ہے اس پر ان کو ذمہ دار نہ بھی قرار دیں کہ وہ ان کو نظر نہیں آئے تو کوئی بات نہیں.ان کو پتہ ہی نہیں عالمی سیاست کیا ہے، پاکستان کو کن کن ممالک سے کیوں خطرات ہیں اس میں یہ بیچارے ذمہ دار نہیں.ان کے علم کا سرمایہ ہی اتنا ہے بیچاروں کا لیکن وہ اندرونی خطرات جن کا مذہب سے تعلق ہے جن کا براہ راست اُس اسلام سے تعلق ہے ، جس اسلام کی یہ نمائندگی کر رہے ہیں وہ ان کو خطرے کیوں نظر نہیں آئے.انہوں نے دیکھا کہ دن بدن بے حیائی بڑھ رہی ہے ملک میں ، انہوں نے دیکھا کہ دن
خطبات طاہر جلدم 517 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء بدن رشوت زیادہ ہوتی چلی جارہی ہے، انہوں نے دیکھا کہ دن بدن تمام اخلاقی اقدار کو قوم ایک طرف پھینکتی چلی جارہی ہے اور ظلم اور سفا کی بڑھ رہی ہے قتل وغارت بڑھ رہا ہے، حق تلفی بڑھ رہی ہے.اسلام کا صرف نام باقی رہے گیا ہے کردار میں اسلام کا نشان مٹتا چلا جا رہا ہے.یہ سب یہ دیکھ رہے تھے اور اب بھی دیکھ رہے ہیں اور ان کو کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا اور اس کے نتیجہ میں پھر آگے ایسے ایسے خوفناک نقصانات بڑے نمایاں نظام کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں.یہ چیزیں معمولی باتیں نہیں ہیں جب میں کہتا ہوں رشوت ہو رہی ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ ایک آدمی کا حق متاثر ہوا اس کو مجبوراً پیسے دے کر کام کروانا پڑا.یہ جو رشوتوں کا نظام ہے جس ملک میں جاری ہو جائے اس سے اُس ملک کی تمام انسٹی ٹیوشنز غیر معمولی طور پر متاثر ہوتی ہیں اور بعض دفعہ ان کی جڑیں کھوکھلی ہو جاتی ہیں بالکل کیونکہ وہ انسٹی ٹیوشنز رشوت کی ایک باقاعدہ حکومت بن جایا کرتی ہے ، ایک با قاعدہ نظام حکومت کے طور پر متوازی طور پر ملک میں جاری ہو جایا کرتی ہے.پاکستان ریلوے ہے مثلاً پاکستان ریلوے کے نقصانات کا مطالعہ کریں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ اتنے کرائے ہر دفعہ بڑھاتے ہیں اور ہر دفعہ ایک ارب ، ڈیڑھ ارب دوارب روپیہ نقصان ہو رہا ہے.دنیا میں ریلویز کما رہی ہیں اور ہماری ریلوے کرایوں کی غیر معمولی بڑھنے کے باوجود ہر دفعہ نقصان اٹھاتی ہے.تو قوم کی اقتصادیات پر کتنا گہرا اثر پڑھتا ہے اس بات کا.اگر آپ تجزیہ کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ بعض پاکستان کے علاقوں میں تو با قاعدہ جتنے کرایے آپ حکومت کو ادا کرتے ہیں اتنے ہی کرایے جب تک آپ ریلوے کے حکام کو نہیں دیتے اس وقت تک آپ کا مال ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ ہی نہیں سکتا.جب جنس تیار ہوتی ہے زمیندار کی اس کو ضرورت ہے کہ فوری طور پر اس کو پیسہ ملے اپنے قرضے اتارے اپنے مالئے ادا کرے.اس وقت تمام بوگیاں صرف اس شرط پر مہیا ہوتی ہیں کہ با قاعدہ ان کا ریٹ جو مقرر ہے اس کے مطابق پیسے دیئے جائیں اور اگر آپ نہیں دیں گے تو خالی بوگیاں پڑی رہیں گی اور کہا یہی جائے گا کہ ہے ہی کچھ نہیں.جب آپ با قاعدہ پیسے دیں گے تو پھر وہ بوگیاں چلیں گی اور جب یہ نظام جاری ہوتا ہے تو پھر ان کا نقصان پورا کرنے کے لئے کم لکھوایا جاتا ہے اور گورنمنٹ کو کرایہ کم کر دیا جاتا ہے، یہ سمجھوتہ شروع ہو جاتا ہے اور اس وقت بہت حد تک یہ کام ہو رہا ہے.انفرادی طور پر ٹکٹ کے پیسے گورنمنٹ کو دینے کی بجائے
خطبات طاہر جلدم 518 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء ٹی.ٹی کو مل رہے ہیں مثلاً یہ تو انفرادی نقصانات ہیں اتنے زیادہ نہیں مگر جو تجارتی نقصانات ہیں وہ غیر معمولی ہیں.اربوں روپیہ حکومت کو جو جانا چاہئے تھاوہ آپس میں سمجھوتے کے ذریعہ یہ حکام اور کارندے لے جاتے ہیں اور مصنوعی کا رروائی کر کے اگر دو بوگیاں دی گئی ہیں تو ایک لکھ دی گئی ہے اگر دس دی گئیں ہیں تو پانچ لکھ دی گئیں ہیں.بہر حال آپس میں ایسے سمجھوتے جاری ہیں جس کے نتیجہ میں نقصان ہوتا ہے اور جو پیسہ نہیں دیتا وہ بوگیاں جو خالی پڑی رہ جاتی ہیں وہ الگ نقصان ہورہا ہے.چنانچہ میں نے ایک دفعہ پاکستان میں ایک بڑے سینئر آفیسر سے اس بارے میں بڑی گفتگو کی تفصیلی چھان بین کی تو انہوں نے مجھے بتایا کہ ہمیں علم ہے کیا ہو رہا ہے.ہم بے بس ہیں بالکل جو مرضی حکومت کر لے اب یہ نظام اتنا گہرا ہو چکا ہے ، اتنا پھیل گیا ہے کہ اس کی بیخ کنی کر ہی نہیں سکتی.ریلوے کے اخراجات تو حکومت پاکستان برداشت کر رہی ہے اور ریلوے کے فوائد بد دیانت ملازم حاصل کر رہے ہیں.اب آپ دوسری طرف آئیے ! وا پڑا جو کتنی اہم ضرورت کے لئے بنائی گئی یعنی تمام انرجی کے اوپر اس کی مناپلی ہے امر واقعہ یہ ہے کہ بجلی میں شاید ہی کہیں کسی ملک میں اتنی بڑی Monopoly کسی ادارے کو حاصل ہوئی ہو جتنی واپڈ کو حاصل ہے.اور اتنی بد دیانتی ہے نیچے سے اوپر تک کہ باہر بیٹھا انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور ظلم اور سفا کی ہے اُس بد دیانتی میں.انفرادی سطح پر یہ حال ہے کہ اگر کوئی زمیندار رشوت دیتا ہے تو اس کے بل کسی اور کے نام منتقل ہوتے رہتے ہیں اور جو زمیندار رشوت نہیں دیتا اس کے نام دوسرے کے بل منتقل ہوتے رہتے ہیں.ایک عام رواج بن گیا ہے اور پھر انتقامی کارروائیاں اس طرح کی جاتی ہیں کہ اگر کوئی شخص رشوت نہیں دیتا تو عمد البعض Phase بجلی کے بند کر کے اس کی موٹرمیں جلائی جاتی ہیں اور ایسے وقتوں میں جلائی جاتی ہیں جبکہ فصل پکنے کو تیار ہو اور یہ روز مرہ کا دستور ہے.اس میں کوئی چھپی ہوئی بات ہی نہیں ہے.اربوں روپے ضائع ہو رہے ہیں ملک کے موٹروں کی Re-Winding کے اوپر اور ان فصلوں کے نقصان کی صورت میں جو پک سکتی تھیں مگر وقت پر پانی نہیں مل سکا، بجلی مہیا نہیں کی گئی وہ نہیں پک سکیں.ان گنت نقصانات ہیں آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کتنے نقصانات ہیں ان باتوں کے اور پھر اس کے علاوہ جو شدید نقصانات یہ ہیں کہ وہ اوپر کی سطح پر جو کروڑوں اور اربوں روپے رشوت میں لے
خطبات طاہر جلدم 519 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کر غیر ملکوں سے جو سودے ہوتے ہیں تو خراب مال لے لیا جاتا ہے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ ساری مشینریاں پھر جو بظاہر بیسیوں سال تک آرام سے جاری رہنی چاہئیں وہ ایک دو سال میں خراب ہونے لگ جاتی ہیں.تمام واپڈا کی حالت اس وقت اتنی خطرناک ہو چکی ہے ملک میں کہ جو آنے والے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ جب آپ آئے تھے ایک ڈیڑھ سال پہلے اس وقت کا پاکستان ہی نہیں رہا.پہلے تو دن میں ایک گھنٹہ دو گھنٹہ لوڈ شیڈنگ ہوتی تھی تو شور پڑ جا تا تھا کہ یہ کیا ہورہا ہے اب تو دس بارہ گھنٹے لوڈ شیڈ نگ عام دستور ہے اور جہاں بجلی پر منحصر ہے زراعت وہاں اس نارمل لوڈ شیڈ نگ کے نتیجے میں جو زمیندار کو نقصان پہنچے گا اس کا آپ تصور کرلیں.اس کے نتیجہ میں جو اقتصادیات تباہ ہوتی ہیں ملکی وہ پھر جرائم کو جنم دیتی ہیں اور جرائم میں پھر یہ شکل بن جاتی ہے کہ پولیس جس سے رشوت لیتی ہے اس کے حق میں اور بعض دفعہ ظالم کے حق میں اور مظلوم کے خلاف مقدمے درج کرنے لگتی ہے.کوئی زندگی کا شعبہ ایسا نظر نہیں آئے گا جہاں آپ کو اطمینان نصیب ہو اور یہ ساری بنیادی ذمہ داری اخلاقی کمزوریوں کے اوپر عائد ہوتی ہے.ہر چیز کا تجزیہ کر لیں ایک لمبا سلسلہ ہے، ایک دن میں قوم کے اخلاق نہیں بگڑا کرتے گزشتہ تمیں پنتیس سال کے اندر مسلسل یہ اخلاق بگڑنے کا ایک رجحان قائم ہوا جو بڑھتا چلا گیا ہے اور اس نے زندگی کے ہر شعبہ پر قبضہ کیا ہے اور علماء کو نظر نہیں آرہا.تم دین کے محافظ تھے تم اسلام کی محبت کے دعوایدر تھے ، تمہارا کام تھا کہ شور مچا دیتے سارے ملک میں گلی گلی پھرتے گھر گھر دروازے کھٹکھٹاتے کہ محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہو کر تم یہ ظلم کر رہے ہو اپنے اوپر اور اپنی قوم پر اور اپنے دین پر.کوئی رگ حمیت ان کی نہیں پھڑکتی ، کوئی ان کو ظلم محسوس نہیں ہوتا، کوئی خطرہ نظر ہی نہیں آتا اور سارا نظام مالیئے کا نظام ، لین دین کا سارا نظام کوئی ایک بھی نظام ایسا نہیں جس کا زندگی سے تعلق ہو اور وہ تباہ و برباد نہ ہو چکا ہو بداخلاقی کی وجہ سے.جب قوم میں یہ کردار پیدا ہو جائے یا کردار نہ رہے کہنا چاہئے تو پھر لازماً پیراسائٹس بیٹھتے ہیں، یہ طبعی نتیجہ ہوتا ہے اس کا.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ جسم میں دفاع کی قوت نہ رہے اندرونی نظام بگڑ جائے اور جراثیم رحم اور کرم کی خاطر دخل اندازی نہ کریں.جراثیم تو ہر وقت ہر جگہ فضا میں موجود ہیں، ہر قسم کے موجود ہیں صحت مند وجودوں پر حملہ نہیں کر رہے کیونکہ ان کا اندرونی دفاع درست ہوتا ہے، ان کا اندرونی نظام درست ہے.ایک دوسرے کے ساتھ صالح تعاون
خطبات طاہر جلد۴ 520 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کر رہے ہیں جسم کے حصے.اس لئے آپ صحت مند پھرتے ہیں اللہ کے فضل سے الا ماشاء اللہ کوئی آدمی کبھی کمزور ہوتو بیمار ہو جاتا ہے لیکن اگر اندرونی نظام بگڑ جائیں تو دیکھتے دیکھتے ہر قسم کی بیماریاں ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہے.اسی فضاء جہاں ایک صحت مند انسان سانس لے رہا ہے ایک آدمی مدقوق مسلول اور کئی بیماریوں کا شکار مارا ہوا ہر قسم کے دکھ اٹھانے والا آپ کو نظر آرہا ہو گا اس لئے کہ اس کا اندرونی نظام بگڑا ہوا ہے.جب اندرونی نظام بگڑتے ہیں تو غیروں نے بہر حال قبضہ کرنا ہے صرف پھر یہ سوال رہ جاتا ہے کہ باہر کی قومیں آکر قبضہ کریں یا اپنی قوم قبضہ کر لے، اپنی قوم کے جراثیم قابض ہو جائیں.اس وقت تو یہ پیج ہے پاکستان کی.اپنی قوم کے جراثیم قابض ہوئے بیٹھے ہیں اور ایک مردار کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے.ایک ایسے نڈھال لاغر مریض کی طرح سلوک کر رہے ہیں بعض ظالم اپنی قوم کے ساتھ جانتے ہیں کہ ان میں دفاع کی کوئی طاقت باقی نہیں رہی اور سیاست دان ایک دوسرے کو معتوب کر رہے ہیں.کبھی پنجابی پر ذمہ داری ڈال رہے ہیں، کبھی کسی نظام پر ذمہ داری ڈال رہے اور نہیں دیکھ رہے کہ اول اس بات کی ذمہ دار ملائیت ہے.ملائیت قابض ہوئی ہے اس کو پہلے تم نے جگہ دی ہے.ظالمانہ سلوک کیا ہے اپنے ساتھ اپنے مفادات کے ساتھ اور قوم کے مفادات کے ساتھ ، خودشہ دی ہے، ان کو اٹھایا ہے.جب انہوں نے ایک معصوم جماعت کے اوپر زبان درازیاں کیں، گندے حملے کئے ان کے اموال لوٹنے کی تعلیم دی تم خوش ہو کر بیٹھے رہے کہ کوئی فرق نہیں پڑتا.اس طاقت کو تم اپنے لئے استعمال کرو گے اور کرتے بھی رہے لیکن اب یہ چیز تمہارے اوپر قابض ہوگئی ہے اور وہ وقت آچکا ہے کہ اگر اب تم بیدار نہ ہوئے تو اس ملک کا کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.نہایت بھیانک خطرات ظاہر ہو چکے ہیں.فوج جب لمبا عرصہ قبضہ کرتی ہے تو بعض دفعہ اس کے لئے قبضہ چھوڑنے کی گنجائش بھی نہیں رہا کرتی کیونکہ پھر وہ سزا دیکھتی ہے سامنے.اس کو نظر آرہا ہوتا ہے کہ اتریں گے تو جن کے ہاتھ میں طاقت آئے گی، جن کے حق ہم نے دبائے ہوئے تھے وہ اپنے انتقامات لیں گے.یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ سارا ملک گندہ اور بد کردار ہو اور اس ملک کا ایک شعبہ بالکل صاف سو فیصدی درست اور صالح ہو.جب قوم کے اخلاق گر رہے ہوتے ہیں تو فوج بھی تو اسی قوم میں سے بنتی ہے ، ان کا خمیر بھی تو اسی
خطبات طاہر جلد۴ 521 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء مٹی سے اٹھایا جاتا ہے.جب معمولی طاقت کے او پر بد دیانتی کا رجحان پیدا ہو تو پوری طاقت کے اوپر کیوں پیدا نہیں ہو گا.صرف ان کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے زبانیں نہیں کھل سکتیں مجبور لوگ مظلوم لوگ کھل کر کہہ نہیں سکتے کہ کیا ہورہا ہے لیکن قوم کو بھی پتہ ہوتا ہے، فوج کو بھی پتہ ہوتا ہے کہ ہم کیا کرتے رہے ہیں اور ہمارا کن باتوں میں حساب لیا جا سکتا ہے.اس لئے جتنی بے چینی بڑھتی ہے وہ مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں وہ چھوڑ ہی نہیں سکتے پھر.جس طرح بعض دفعہ کوئی کمزور بچہ کسی نسبتاً طاقتور بچے کو نیچے گرالے.قسمت سے داؤ لگ جائے اس کا تو اس کو چھوڑ انہیں جاتا پھر.وہ کہتا ہے جس وقت میں نے چھوڑا اسی وقت اس نے مجھے اینٹ مار دینی ہے یا کوئی اور نقصان کر دینا ہے.وہ حالات ہوگئے ہیں قوم کے اور ان کو نظر نہیں آرہا.جب تک اس ظلم سے ملک کو رہائی دینے کے لئے کوئی آزادمنش سیاستدان پیدا نہیں ہوتے ، کوئی مرد میدان پیدا نہیں ہوتے ، جرات اور اخلاق والے لوگ پیدا نہیں ہوتے اُس وقت تک اس ملک کو اب نجات نہیں مل سکتی اس مصیبت سے.صاحب کردار آدمیوں کی ضرورت ہے قائد اعظم قسم کے انسانوں کی ضرورت ہے، اتاترک کی ضرورت ہے وہ قوم کو بتلائیں کہ ملائیت ہلاکت کا پیغام ہے تمہارے لئے ، ہم اس ملک میں ملائیت کو کبھی کسی صورت میں قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.وہ قوم کو بتائیں کہ اس عذاب سے چھٹکارا حاصل کرو گے تو پھر تم زندہ رہو گے ورنہ تم زندہ نہیں رہ سکتے.اس جہاد کی ضرورت ہے اور اگر کوئی اس کے لئے تیار نہیں ہے تو پھر اپنی تقدیر کے دن جو لکھے جاچکے ہیں ان پر پھر راضی رہو پھر کوئی تمہیں بچا نہیں سکتا.ایک وقت تک اندرونی Parasite قابض ہوا کرتے ہیں پھر وہ وقت دور نہیں رہا کرتا کہ بیرونی Parasite آ کر قابض ہو جائیں.کیا ہوا تھا بغداد کی حکومت کے ساتھ ؟ کیا ہوا تھا اُندلس کی حکومت کے ساتھ ؟ ایک لمبا عرصہ تک اندرونی حقوق تلفیاں ہوتی ہیں مذہب کے نام پر، ایک دوسرے پر مظالم کئے گئے اور اس کے بعد ایسے وقت آئے کہ جب بیرونی Parasite یعنی وہ جاندار جو کسی دوسرے کا خون چوس کر زندہ رہتے ہیں ، انہوں نے ملک پہ قبضہ کر لیا اور عظیم الشان حکومتوں کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا.ی مختصر صورت حال کا تجزیہ ہے ہمارے بد نصیب وطن کے ساتھ جو گز رہی ہے.پاکستانی جہاں بھی ہیں ان کو اس کا دُکھ ہے اور سب سے زیادہ احمدیوں کو دکھ ہے کیونکہ احمد یہ جماعت پاکستان
خطبات طاہر جلدم 522 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کی تعمیر میں شامل ہے.پاکستان کی تعمیر میں جماعت احمدیہ کا ایسا دخل ہے جیسے برتھ مارک Birth) (Mark کوانسانی وجود کے ساتھ تعلق ہوا کرتا ہے.ہم اُن کی پیدائش کے مراحل میں شامل ہیں اور یہ ممکن نہیں ہے کہ پاکستان اور احمدیت کے وجود کو اس ملک کی تاریخ میں الگ کیا جا سکے.اس کی ساری دفاعی مہمات میں جماعت احمدیہ صف اوّل میں شامل رہی ہے.برتھ مارک (Birth Mark) کو آپ کس طرح الگ کر سکتے ہیں جب تک وہ وجود زندہ ہے وہ برتھ مارک بہر حال باقی رہتا ہے.بیان کیا جاتا ہے کہ ایک سائنس دان نے ایک دفعہ اپنے ایک محبوب کے چہرے سے برتھ مارک دور کرنے کی کوشش کی ایک چھوٹا سا بچے کا پنجہ لگنے کا نشان تھا جو رحم مادر میں اس کے چہرے پر پڑ چکا تھا اور وہ اس کو بڑ الگتا تھا کہ اتنی کامل حسینہ اور اس کے باوجود یہ چھوٹا سانشان ہے جومٹ نہیں رہا.تو ظاہر یہ کرنا ہے لکھنے والے نے کہ برتھ مارک کو کوئی الگ نہیں کر سکتا وجود سے سوائے اس کے کہ زندگی چھوڑ دے اس کا ساتھ.چنانچہ اس سائنس دان کے متعلق لکھا گیا ہے کہ جب اس نے آخر وہ دوائی ایجاد کی جس کے نتیجہ میں میں برتھ مارک مٹ سکتا تھا اور وہ دوائی پلا کر اس نے جائزہ لینا شروع کیا آہستہ آہستہ اس کا رنگ پیلا پڑنا شروع ہوا پھر اور مدہم ہوا پھر سفیدی مائل ہو گیا یہاں تک کہ برتھ مارک کا رنگ اور جلد کا رنگ بالکل ایک ہو گیا لیکن وہی لمحہ اُس کے آخری سانس کا بھی تھا زندگی نچڑ رہی تھی جسم سے اس کے ساتھ وہ برتھ مارک الگ ہوا ہے، اس کے بغیر الگ نہیں ہوا.تو جب تک تم پاکستان کی روح نہیں نچوڑتے تم جماعت احمدیہ کو پاکستان سے کبھی الگ نہیں کر سکتے.ہم تو اس کی برتھ کے اندر شامل ہیں، اس کی پیدائش کا ایسا جزولاینفک ہیں کہ اسے الگ کیا ہی نہیں جا سکتا.سب سے زیادہ ہم اس ملک کے ہمدرد ہیں، سب سے زیادہ اس کے دفاع میں ہمیں دلچسپی ہے اور ان سارے مظالم کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے سب سے زیادہ دکھ جماعت احمد یہ کو پہنچ رہا ہے.اس لئے ایک غریبانہ نصیحت کے سوا میں اور کیا کہ سکتا ہوں.صورت حال میں آپ کے سامنے کھول دیتا ہوں.یعنی اس وقت ملک کے تمام دانشور میرے مخاطب ہیں صرف احمدی مخاطب نہیں ہیں.تمام اہل فکر و دانش ، تمام سیاست دان ان باتوں پر غور کریں معلوم کریں جو میں کہہ رہا ہوں یہ سچائی ہے یا نہیں اور ادنی سا بھی ان کے اندر تقویٰ ہو، انصاف پسندی ہو تو بلاتر درد یہ مانتے چلے جائیں گے کہ ہاں یہ تجزیہ بالکل درست ہے، اسی طرح ہوا ہے.جب اسی طرح ہوا ہے تو اس کو ٹھیک
خطبات طاہر جلدم 523 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کرو جس طریق سے ٹھیک کرنا چاہئے انسانی اقدار کو زندہ کرو، انسانی شرافت کو زندہ کرو.حق کو حق کہنا سیکھو، باطل کو باطل کہنے کی جرات اختیار کرو، اس کے بغیر یہ ملک بچتا نہیں.ایک ہی خطرہ ہے اس ملک کو ، ملائیت سے خطرہ ہے اور یہ خطرہ اب حد اعتدال سے تجاوز کر چکا ہے.نہایت ہی بھیانک شکل اختیار کر چکا ہے سارے عالم اسلام کو لاحق ہوا ہوا ہے تم ایک حصہ ہو اس خطرے کا.اس خطرے نے ایران میں ایک اور شکل اختیار کر لی ہے، عراق میں ایک اور شکل اختیار کی ہوئی ہے، شام میں ایک اور شکل اختیار کی ہوئی ہے، لبنان میں ایک اور شکل اختیار کی ہوئی ہے، ایک ملائیشیا میں شکل اختیار کی ہوئی ہے، ایک انڈونیشیا میں شکل اختیار کی ہوئی ہے اور اس خطرے کے پیچھے نہایت ہی خطرناک منصوبے کام کر رہے ہیں ، عالمی سازشیں کام کر رہی ہیں.ان خطرات کو ابھارا جارہا ہے، کیونکہ دنیا کی سمجھ دار تو میں جو اس وقت مسلط ہیں دنیا پر وہ جانتی ہیں کہ جب تک قوموں کے لئے اندرونی خطرات پیدا نہ کئے جائیں اس وقت بیرونی طور پر انھیں سرنہیں کیا جاسکتا، ان میں دخل نہیں دیا جاسکتا ، ان کی سیاست کو اپنے کنڑول میں نہیں لیا جا سکتا.پس یہ سارے عالم میں جو ظلم ہو رہا ہے اسلام پر اسلام ہی کے نام پر اُس کا ایک حصہ ہے جو پاکستان میں ہو رہا ہے اور تم ظلم سے باز نہیں آرہے اگر یہی تم نے اپنے لئے راستہ اختیار کیا تو جو چاہو کر لو لیکن ہم تو وہ Birth Mark ہیں جو وجود کے مٹنے کے بعد بھی زندہ رہے گا کیونکہ خدا تعالی نے قائم فرمایا ہے اور خدا تعالیٰ کے قائم کردہ نشان کو دنیا میں کوئی مٹا نہیں سکتا.ہماری تو ضمانت ہے ہم ہر حالت میں ترقی کرتے رہے ہیں اور ہر حالت میں ترقی کرتے چلے جائیں گے.اگر اس ترقی کی راہ میں روک ڈالنا چاہتے ہو تو سارا ایڑی چوٹی کا زور لگا لو تم ہرگز کامیاب نہیں ہو سکو گے.دنیا کے کسی خطے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے.جہاں ہماری تعداد زیادہ ہے وہاں بھی ناکام رہو گے، جہاں ہماری تعداد کم ہے وہاں بھی ناکام رہو گے کیونکہ خدا کی حفاظت کا ہاتھ ہر وقت ہمیں گھیرے ہوئے ہے اور وہ دشمن کو ایسا نقصان پہنچانے سے لازماً باز رکھے گا جس سے ہماری ترقی رکتی ہوئی دکھائی دے جس سے ہم تنزل کی راہ اختیار کرتے ہوئے نظر آئیں دشمن کو.ایک دن ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرے گا ہماری تاریخ میں کہ آگے بڑھنے کی بجائے ہم پیچھے جائیں.شہید ہونگے ، دکھ دیئے جائیں گے، مصیبتوں میں مبتلا ہوں گے ، گھر بھی جلیں گے میں مانتا
خطبات طاہر جلد۴ 524 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء ہوں ، شدید ذہنی اذیت میں ہمیں مبتلا کیا جائے گا یہ بھی مجھے تسلیم ہے، ہمارے پیاروں کو گالیاں دی جائیں گی ہمارے سامنے اور مسلسل یہ ظلم کیا جائے گا یہ بھی میں مانتا ہوں لیکن جماعت کی ترقی کو تم روک سکو یہ ناممکن ہے.ہر حال میں ہر ملک میں ہر تاریکی کے وقت بھی ہم آگے بڑھیں گے خدا کا جو نور ہمیں عطا ہوا ہے تم نہیں چھین سکتے تمہاری نسلیں بھی نہیں چھین سکتی اسے اس لئے ایک ہی نقصان ہے جو ہو گا وہ تمہارا نقصان ہے ، ہوتا رہا ہے، ہو رہا ہے مسل تمہاری آنکھیں بند پڑی ہیں اور سکسل ہوتا چلا جائیگا.تمہاری کوئی ضمانت نہیں ہے کیونکہ تاریخ بتا رہی ہے کہ جب قوموں نے اپنے آپ کو برباد کرنے کا فیصلہ کر لیا ہو تو خدا کی تقدیر یہ اعلان کیا کرتی ہے کہ ہاں تم ہلاک کئے جاؤ گے اور اس میں اسلام اور غیر اسلام کے ساتھ کوئی فرق نہیں کیا جاتا.بغداد کے مقتول بھی تو وہ مسلمان ہی تھے جو قرآن کو سروں پر لے کر گلیوں میں باہر نکلے تھے اور خدا کے نام پر ہی وہ دہائیاں دے رہے تھے لیکن خدا کی غالب تقدیر نے ان کی ایک نہیں چلنے دی اور ایک نہیں سنی کیونکہ اللہ جانتا تھا کہ ظالم قوم نے خود اپنی ہلاکت کے بیج بوئے ہیں اس لئے تمہاری تو یہ تاریخ ہے.کوئی نام تمہیں بچا نہیں سکے گا.جن قوموں پر خدا کے نام پر خدا کی خاطر ظلم ہوتے ہیں باہر سے اور وہ استقامت دکھاتے ہیں ان کو دنیا میں کوئی نہیں مٹا سکتا اس لئے ہماری فکر تم چھوڑ رب کعبہ کی قسم کہ وہ خود ہماری حفاظت کرے گا.تم اس پیارے وطن کی فکر کرو جو ہمیں بھی عزیز ہے اور تم سے زیادہ اس کے نقصان کا دکھ ہمیں بھی پہنچے گا لیکن ہم اس معاملہ میں بے اختیار ہیں سوائے اس کے کہ حرف ناصحانہ کہ سکیں.ایک غریبانه درخواست کر سکیں اس سے زیادہ ہمیں کوئی طاقت نہیں.ہاں جہاں تک جماعت کا اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے یہ میں ضرور جماعت کو نصیحت کروں گا کہ اس تعلق کو استعمال کریں اور دعائیں کریں اور گریہ وزاری کریں اور استغفار کریں کثرت کے ساتھ اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نصیحت دے ان کو عقل دے، ان کی آنکھیں کھولے کیونکہ واقعہ ملک اس وقت ایسے ہلاکت کے کنارے پر پہنچ چکا ہے جسے قبروں میں پاؤں لٹکانا کہتے ہیں اور پوری قوم ملوث ہے اس فلم میں.اپنے اپنے مفادات کی خاطر ، اپنے اپنے دھڑوں کے مفادات کی حفاظت کے لئے سارے مل کر قوم پر ظلم کرتے چلے جار ہے ہیں اور دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے ساتھ کیا ہورہا ہے.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.آئندہ جو رمضان کے بقیہ دن ہیں ان میں ملک کی بقا کے لئے پاکستانی تو بہر حال دعا
خطبات طاہر جلدم 525 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء کریں گے لیکن میں باہر کے احمدیوں سے بھی درخواست کرتا ہوں اگر چہ ان کا وطن نہیں ہے لیکن وہ پاکستان کے زیر احسان ضرور ہیں.بہت سے ایسے ملک ہیں جہاں پاکستان کی مٹی میں پلنے والے مجاہدین نے ، پاکستان میں پرورش پانے والے اسلام کے خدمتگاروں نے نکل کر وہاں ملک سے ان کے ملک میں اسلام کی خاطر بڑی تکلیفیں برداشت کیں اور احمد بیت کا پودا وہاں لگایا اور غیروں کے تسلط سے ان کو بچایا.افریقہ جانتا ہے کہ اگر احمدی مجاہدین وہاں نہ پہنچے ہوتے تو یا عیسائیت قابض ہو چکی ہوتی ان ملکوں کے اوپر یاد ہرئیت یا دوسرے ازم ان ملکوں پر قابض ہو چکے ہوتے.تو یہ احسان ہے تو احمدیت کی طرف سے مگر احمدیت نے پاکستان میں جو پناہ حاصل کی اور یہاں جو مرکز قائم ہوا اور یہاں سے وہ مجاہد تیار ہوئے اس سے آپ انکار کر ہی نہیں سکتے کہ پاکستان بھی اس احسان میں شامل ہو چکا ہے.اس لئے صرف مذہبی احسان نہیں ہے اس ملک کا بھی احسان ہے تمام دنیا پر بڑے لمبے عرصہ تک پاکستانی حکومتوں نے اس معاملہ میں تعاون ہی کیا ہے عناد کی راہ اختیار نہیں کی مخالفت کی راہ اختیار نہیں کی.تو ساری قوم کا اس لحاظ سے احسان بنتا ہے.آپ فکر کریں اور پاکستان کے لئے دعا کریں اس لئے بھی کہ پاکستان کی مٹی سے آپ کی خدمت کے سامان پیدا ہوئے ہیں اور پھر اس لئے بھی کہ ساری جماعت کا مرکز ابھی تک وہاں ہے.اگر چہ اس کو بے اثر اور بے عمل کرنے کے لئے آج کی حکومت کوشش کر رہی ہے.ہر طرح سے ظلم کر رہی ہے لیکن یہ دن تو رہا نہیں کرتے ہمیشہ.آئندہ ایسی حکومتیں بھی آسکتی ہیں جو تقویٰ اختیار کریں، جو انصاف پسند ہوں.مرکز تو بہر حال وہاں موجود ہے اس مرکز کے نام کی خاطر ہی ، تو وہ جو رمضان کا خاص دعاؤں کا حصہ ہے وہ آنے والا ہے.اس لئے جہاں احمدیت کے لئے دعائیں کریں گے وہاں پاکستان کے لئے بھی دعائیں کریں اور هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ (الرحمن : ۶۱ کی نصیحت کو پیش نظر رکھیں.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کی دعاؤں کو قبول فرمائے اور پاکستان میں ایک صحت مند انقلاب کے سامان پیدا فرمائے.ایسا صحت مند انقلاب ہو کہ ہم فخر کے ساتھ کہ سکیں کہ واقعۂ پاکستان جس مقصد کے لئے بنایا گیا تھا اس مقصد کی حفاظت کے لئے اب یہ ایک ناقابل تسخیر قلعہ بن چکا ہے.لا اله الا الله محمد رسول اللہ کے نام پر بنایا گیا تھا اور اسی نام کی حفاظت کرتے
خطبات طاہر جلدم 526 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء ہوئے اگر یہ ملک ٹوٹتا تو ہم فخر سے جانیں دیتے اور خوشی سے اس بات کو قبول کرتے کیونکہ مجاہد کی موت بھی قابل فخر موت ہوتی ہے مگر ظلم یہ ہے کہ اس کلمہ کومٹاتے ہوئے اس ملک کے مٹنے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں ، اس کلمہ کی مخالفت کرتے ہوئے اس ملک کے مٹنے کے آثار ظاہر ہورہے ہیں اگر یہ موت مقدر ہے تو بہت ہی ذلیل موت ہے، نہایت ہی درد ناک موت ہوگی اس ملک کی کہ اسلام کے نام پر بنایا اور اسلام کی بنیا دوں کو مٹاتے ہوئے آپ مٹ گیا.اس لئے دوہرے فکر کے ساتھ دعاؤں کی ضرورت ہے اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کو قبول فرمائے اور ہمیں اس پاک وطن کی طرف سے خوشیاں دیکھنی نصیب فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: (بقیه ) خطبہ ثانیہ پڑھنے سے پہلے یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں ہمارے سلسلہ کے ایک پرانے بزرگ جو سیرالیون جماعت کے ابتدائی مخلصین میں سے ہیں اور بہت خدمت کی انہوں نے جماعت کی وہاں.جماعت کو پھیلانے اور مستحکم کرنے میں بہت عظیم کردار ادا کیا ہے ، الحاج مکرم علی روجرز صاحب(Ali Rogers) وہ 95 سال کی عمر میں 23 رمئی کو وفات پاگئے.مبلغ انچارج لکھتے ہیں کہ ایمان ، تقویٰ اور اخلاص میں انہوں نے مسلسل ترقی کی ہے.1939ء میں یہ احمدی ہوئے تھے اور ہر سلسلہ کی ضرورت کو اپنی ضرورت پر ترجیح دی ہے.ایک دفعہ عیسائیوں نے پر لیس میں جماعت کا لٹریچر طبع کرنا بند کر دیا اور کوئی پریس نہیں تھا سوائے عیسائی پریس کے اور جماعت کے پاس وسائل بھی نہیں تھے کہ وہ فوری طور پر کچھ کر سکیں.تو علی روجر صاحب نے فوراً بو (Bo) شہر میں ایک بہت ہی عظیم الشان وسیع و عریض مسجد کے لئے قطع پیش کیا پھر مالی قربانی کی اور کہا کہ یہاں اپنا پر لیس لگاؤ اور ہم دیکھتے ہیں کہ عیسائی کس طرح روک سکتے ہیں.چنانچہ اس کے نتیجہ میں پھر جماعت احمدیہ کی اشاعت کا کام رکا نہیں.تو یہ عاشق تھے سلسلہ کے اور موصی بھی تھے اور بہت وسیع ان کا احسان کا معاملہ تھا ماحول میں.جب احمدی ہوئے تو ان کی دس بارہ بیویاں تھیں رواج کے مطابق.بلا تردد فوراً باقیوں کو بڑے احسان کے ساتھ رخصت کیا اور چار رکھیں اور کہا کہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا میرے رواج پر اسلام کا رواج بہر حال فوقیت رکھتا ہے.تو بہت نیک صفت انسان تھے اور حضرت خلیفتہ امسیح الثالث کا ان سے بہت پیار تھا.مبلغ نے لکھا مجھے بڑا صدمہ ہوا اس بات سے کہ بڑی حسرت تھی کہ میں چوتھے
خطبات طاہر جلدم 527 خطبہ جمعہ ۷ جون ۱۹۸۵ء خلیفہ سے بھی مل لوں لیکن چونکہ بہت کمزور ہو چکے تھے اس لئے آنہیں سکے جلسہ سالانہ پر.ان کا غائب جنازہ ہو گا ، ان کو خاص طور پر اور ان کی اولادوں کو بھی نسلاً بعد نسل خدا تعالی کے فضل کے لئے دعاؤں میں یاد رکھیں کہ اللہ تعالی اس خاندان کو غیر معمولی برکتیں عطا فرمائے.ایک ہیں خورشید بیگم صاحبہ اہلیہ عبد العزیز صاحب قریشی، نیروبی کے ہیں مبارک احمد قریشی اور عارف احمد قریشی ان کی والدہ ، یہ بھی وفات پاگئیں ہیں جنھم میں ، انکی بھی نماز جنازہ ہوگی ، یہ دونوں بزرگوں کی ہوگی.
خطبات طاہر جلدم 529 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء جماعت لیلۃ القدر کے دور سے گزر رہی ہے سندھ میں احمدیوں پر مظالم کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ جون ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِة لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍةٌ تَنَزَّلُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ أَمْرِفُ سَلَمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر: ٣-٦) اور پھر فرمایا: آج کا دن امت مسلمہ میں ایک خاص اہمیت رکھتا ہے اور اسے جمعۃ الوداع کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.یعنی وہ جمعہ جو رمضان المبارک میں آخری جمعہ ہو.اس دن بڑے ذوق وشوق کے ساتھ بکثرت نمازی مسجدوں میں پہنچتے ہیں اور یہ خیال ہے کہ بس ایک دن کی عبادت سے سارے سال کے گناہ دھل جاتے ہیں اور سارا سال اگر انسان عبادت سے غافل بھی رہا ہو تو یہ جمعہ پڑھنے سے اس کا ازالہ ہوجاتا ہے.عوام الناس کو علماء نے نہ معلوم کیا کیا با تیں اس دن کے متعلق بتائی ہیں جس کے نتیجہ میں اس دن سے استفادہ کی بجائے بعض دفعہ بعض لوگ محرومیاں لے کر اس دن سے نکلتے ہیں کیونکہ جمعۃ الوداع
خطبات طاہر جلدم 530 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء کو دو طرح سے دیکھا جا سکتا ہے.ایک اس طرح کہ بعض لوگ اس دن اپنے گناہوں کو وداع کہتے ہیں اور ہمیشہ کے لئے ان سے رخصت ہوتے ہیں اور یہ جمعہ ان کے لئے مبارکوں کا پیغام لے کر آتا ہے اور بشارتیں لے کر آتا ہے اور اس جمعہ سے دھل کر وہ نوزائیدہ بچے کی طرح معصوم ہو کر نکلتے ہیں.پس یہ آخری جمعہ ان کے لئے گناہوں کا آخری جمعہ بن جاتا ہے جس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمتوں کے ساتھ وہ نیکیوں میں ترقی کرتے چلے جاتے ہیں اور کچھ بد نصیب ایسے ہوتے ہیں جو اس جمعہ کے دن سے ایسی برکتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے نہ اس دن میں رکھیں نہ کسی اور دن میں رکھیں.برکت کا دن وہی دن ہے جو گناہوں سے نجات کا دن ہو.ایسا برکت والا دن نہ خدا نے پیدا کیا نہ عقل انسانی اسے قبول کر سکتی ہے کہ عارضی طور پر ایک دن کے لئے مسجد میں حاضری دے دی اور یہ سمجھ لیا کہ اب سارا سال ہمیں گناہوں کی آزادی نصیب ہوگئی ہے.تو ایسے لوگوں کے لئے یہ الوادع نیکیوں کو وداع کہنے کا دن بن جاتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح بھی ہوا دم گھونٹ کر ہم نے یہ مہینہ خدا کی اطاعت میں گزار لیا اب ہم واپس اس دنیا کی طرف لوٹتے ہیں جس دنیا میں ہمارے دل کی ساری لذات مضمر ہیں، جن کو ہم بڑی تمناؤں سے دیکھ رہے تھے کہ کب یہ مہینہ ختم ہو تو واپس اس آزادی کی دنیا کی طرف لوٹیں.پس یہ جمعتہ الوداع ان کے لئے نیکیوں کو وداع کہنے کا جمعہ بن جاتا ہے.اس جمعہ کو جو آج کا دن ہے ایک اور بھی اہمیت حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لیلۃ القدر کی راتوں میں عین وسط میں واقع ہوا ہے.وہ آخری عشرہ جس کے متعلق حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو بشارت دی کہ اس عشرہ میں تم خصوصیت کے ساتھ لیلۃ القدر کو تلاش کرو.یہ اس عشرہ کے عین وسط میں ایک طاق رات میں واقع ہوا ہے.یعنی اس کے پہلے اکیس اور تئیس کی دو طاق راتیں گزریں جن میں لیلۃ القدر کے ظاہر ہونے کا امکان موجود ہے اور پچیس کی رات جو اس جمعہ نے دیکھی وہ بھی ایک طاق رات تھی اور بعد ازاں دو طاق راتیں ابھی باقی ہیں.جہاں تک لیلۃ القدر کا تعلق ہے اس کے متعلق بھی بہت سے خیالات ہیں جو پھیلے ہوئے ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک ایسی رات اس دن ضرور آتی ہے جس دن نزول قرآن شروع ہوا اور وہ غیر معمولی برکتوں کی رات ہے لیکن اس کا بھی یہ معنی ہر گز نہیں
خطبات طاہر جلدم 531 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء کہ اس ایک رات کو پا کر پھر تاریکیوں کی رات میں انسان واپس لوٹ جائے کیونکہ قرآن کریم کی وہ سورۃ جس میں اس رات کا ذکر ملتا ہے اس تصور کو بالکل جھٹلا رہی ہے اور رد فرما رہی ہے.چنانچہ فرمایا یہ رات جاری رہتی ہے هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ اس رات کے بعد تو ابدی نیکیوں کا دن طلوع ہوتا ہے.اس رات کے بعد گناہوں کی راتوں میں لوٹنے کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.ہمیشہ کی روشنی طلوع ہو جاتی ہے جو کبھی پھر مومن کا ساتھ نہیں چھوڑتی.پس یہ تصور بھی جو بد قسمتی سے ظاہر پرست علماء نے امت میں پھیلا دیا ہے.ان راتوں کو عبادت کی تحریک کرتا ہے ان راتوں کے بعد عبادت سے عدم دلچسپی پیدا کرتا ہے.لوگ اس انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ وہ چندرا تیں آئیں جن میں ہم زور لگا کر اپنے رب کو راضی کر لیں اور اس کے بعد پھر سارا سال ہمارا رب ہمیں راضی کرتار ہے اور ہم اس کی نعمتوں کو جس طرح چاہیں استعمال کریں.لیکن لیلۃ القدر کا صرف یہی مفہوم نہیں بلکہ اور وسیع تر مفہوم بھی ہے اور جیسا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی اور خلفاء جماعت احمدیہ نے بھی اس مضمون پر مختلف رنگ میں اظہار خیال فرمایا.لیلۃ القدر کا مضمون تو ایک بہت وسیع مضمون ہے اور لفظ لیلتہ کا اختیار کرنا اس رات کو ظاہر کرنے کے لئے خود یہ بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ یہ صرف چند لمحے کی رات نہیں بلکہ اس سے زیادہ وسیع زمانہ بھی مراد ہے.چنانچہ جس طرح یوم اور نہار کو نسبت ہے اسی طرح لفظ لیل اور لیلۃ کو ایک نسبت ہے.نہار تو صرف ظاہری دن کو کہا جاتا ہے جو چوبیس گھنٹے کے اندر ختم ہو جاتا ہے یعنی اس نہار کے اندر عرف عام کے لحاظ سے دن بھی شامل ہو جاتا ہے اور رات بھی شامل ہو جاتی ہے.چوبیس گھنٹے کے دن کو نہار کہتے ہیں اور زمانہ کے لئے نہار کا لفظ استعمال نہیں ہوتا لیکن چوبیس گھنٹے کے دن کو بھی یوم کہا جاتا ہے مگر اس کے علاوہ ، ایک وسیع زمانہ کے لئے بھی یوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جو سات دنوں میں زمین اور آسمان کی پیدائش کا ذکر فرمایا اس سے بھی یہ بات ظاہر ہوتی ہے اور خود قرآن کریم لفظ یوم کے متعلق فرماتا ہے کہ بعض یوم خدا کے نزدیک پچاس ہزار برس کے برابر ہیں.تو یہ نہیں کہ ہم قرآن کی تائید میں اپنی طرف سے اس کی طرف باتیں منسوب کرتے ہیں، جب قرآن چھ یا سات دن میں زمین و آسمان کی پیدائش کا ذکر فرماتا ہے تو خود
خطبات طاہر جلدم 532 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء وضاحت فرما دیتا ہے کہ اس سے تمہارا چوبیس گھنٹے والا دن مراد نہیں بلکہ ایک وسیع زمانہ مراد ہے.اسی طرح لیل اگر چہ عموماً اس رات کے متعلق کہا جاتا ہے جو سورج غروب ہونے اور سورج طلوع ہونے کے درمیان کا زمانہ ہے لیکن لیلۃ ایک ایسی رات کو بھی کہا جاتا ہے جو ایک لمبے عرصہ تک پھیلی ہو اور ایک پورا زمانہ اس میں پایا جاتا ہو.چنانچہ قرآن کریم نے لیلۃ کا لفظ استعمال فرما کر اس مضمون کو بہت وسعت عطا فرما دی.جہاں تک قدر کے معانی کا تعلق ہے جب ہم ان پر غور کرتے ہیں تو یہ مضمون بہت ہی زیادہ وسیع ہو جاتا ہے اور ایک یا دو یا چار یا دس خطبوں میں یا اس سے زیادہ وقت میں بھی اسے سمیٹا نہیں جاسکتا.گزشتہ سال اسی موقع پر میں نے لفظ قدر کے مختلف معانی کو مد نظر رکھتے ہوئے بعض امور احباب جماعت کے سامنے رکھے تھے.آج صرف اس کے ایک پہلو سے میں جماعت کے سامنے کچھ باتیں پیش کرنی چاہتا ہوں اور وہ ہے قدر معنی کسی کی خدمات کی قدر کرنا کسی کی نیکیوں کی قدر کرنا.کسی کی اچھی باتوں کی قدر کرنا اور قدر کا یہ معنی بھی قرآن کریم سے ثابت ہے.چنانچہ قرآن کریم لفظ قدر کو ان معنوں میں استعمال کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ ان لوگوں نے اللہ کی قدر نہیں کی، اللہ کی نعمتوں کی قدر نہیں کی اور وہ پہچان نہیں سکے.قدر بعض دفعہ بندے کرتے ہیں اور بعض دفعہ خدا قدر فرماتا ہے اور یہ مضمون دونوں پر یکساں چسپاں ہوتا ہے.پس لیلۃ القدر کا ایک مفہوم یہ ہے کہ وہ رات جس رات میں قدر کی جائے گی.کچھ لوگ اپنے رب کا عرفان حاصل کریں گے اور اس کے احکامات کی قدر کریں گے اور اس کی خاطر اور ان احکامات کی خاطر اپنے رب کی اطاعت کے لئے قربانیاں پیش کریں گے اور کچھ ان کی قدر جائے گی اور سب سے زیادہ قدر کرنے والا ان کا خدا ہے جو ان کی قربانیوں پر ان کی قدر فرمائے گا.پس یہ قرآن کریم کا یہ اسلوب جیسا فرمایا اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِة یہ جو ما ادراک کا محاروہ ہے جسے قرآن کریم استعمال کرتا ہے تو یہ اسلوب بتاتا ہے کہ آگے جو مضمون آرہا ہے یہ سطحی مضمون نہ سمجھا جائے.ویسے تو قرآن کریم کا کوئی مضمون بھی سطحی نہیں مگر بعض جگہ غیر معمولی گہرائی پیدا ہو جاتی ہے.جس طرح دریا کے پاٹ میں مختلف گہرائی میں پانی چلتا ہے اور جب زیادہ گہرا ہو جائے تو بعض دفعہ اس کے اوپر توجہ کی خاطر تختیاں لگادی جاتی ہیں کہ اس جگہ
خطبات طاہر جلدم 533 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء سے پانی زیادہ گہرا ہو جائے گا احتیاط کرو.لیکن یہ تو عرفان کا پانی ہے، یہاں احتیاط کی خاطر سختی نہیں لگائی گئی بلکہ یہ بتانے کے لئے کہ اسے سطح سے دیکھنے والے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ایک ہی برابر گہرائی میں پانی بہہ رہا ہے.اب یہ وہ مقام شروع ہو رہا ہے جہاں بہت غیر معمولی گہرائی آنے والی ہے.اس لئے اس پر غور کرو اس میں غوطے لگاؤ تاکہ عرفان کے موتی تلاش کرو.پس اس پہلو سے ایسی تمام سورتیں غیر معمولی توجہ کی محتاج ہیں جہاں و ما ادراک کا محاورہ رکھ کر انسانی ذہن کو جھنجھوڑا گیا ہے اور خاص مضمون کے لئے تیار فرمایا گیا ہے.لیلۃ القدر بھی انہی راتوں میں سے ایک رات ہے یا ان زمانوں میں سے ایک زمانہ ہے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی توجہ کرنے کا ارشاد فرمایا ہے.پس بعض لوگ تو ایک رات کی تلاش میں سرگردان رہتے ہیں اور سرگرداں گزر جاتے ہیں اور اس سال بھی ایسے بہت سے لوگ کروڑ ہا لوگ ایسے راتوں کو اٹھتے رہے اور بقیہ وقت میں اٹھتے رہیں گے جن کو ان چند ثانیوں کی تلاش ہوگی جو گناہوں کی بخشش کا پیغام دے کر ہمیشہ کے لئے ان کو وداع کہہ دیں اور پھر وہ آزاد چھوڑ دیں پھر جو چاہیں کرتے پھریں اور کچھ وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو ایک لمبی لیلۃ القدر میں سے گزر رہے ہوتے ہیں.اس ظاہری رات کی بھی وہ قدر کرنے والے لوگ ہیں اور اس زمانے کی بھی قدر کرتے ہیں جس زمانے میں اللہ تعالیٰ ان سے قربانیاں چاہتا ہے اور اللہ کی اطاعت کی خاطر تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہے.پس یہی وہ لوگ ہیں جو در حقیقت اس لیلۃ القدر کے بھی حق دار ہیں جو چند لمحوں کے لئے آتی ہے اور اس لیلۃ القدر کے بھی حقدار ہیں جو ایک لمبا زمانہ رکھتی ہے.آج جماعت احمد یہ بفضلہ تعالیٰ ایک ایسی لیلۃ القدر میں سے گزر رہی ہے جو قومی تاریخ میں ایک غیر معمولی مقام رکھتی ہے، ایسا غیر معمولی کہ تاریخ عالم پر نگاہ دوڑائی جائے تو بعض دفعہ سینکڑوں سال کے بعد ایسی راتیں ظاہر ہوتی ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے قدر کا مطالبہ فرماتا ہے اور اپنی اطاعت کی خاطر ان سے قربانیاں مانگتا ہے اور پھر جب وہ قربانیاں پیش کرتے ہیں تو وہ ان کی قدر فرماتا ہے.دکھوں کی راتوں میں بھی ان کے ساتھ رہتا ہے اور ان راتوں کے وقت بھی طلوع ہونے والے دنوں کی خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اور پھر لا زما وہ دن بھی طلوع فرما دیا کرتا ہے جو عظیم تر بشارات لے کر ان پر ظاہر ہوا کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 534 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء پاکستان میں جماعت پر جو حالات گزررہے ہیں یہ ایک ایسی ہی رات کی نشاندہی کر رہے ہیں.وہ دکھوں کا دور جو ایک عرصہ سے جاری ہے جس میں سب سے زیادہ دکھ روحانی اذیت ہے جو جماعت کو پہنچائی جارہی ہے.ایسے ظالم لوگوں کو جونہ قرآن کا عرفان رکھتے ہیں نہ سنت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پاس رکھتے ہیں کھلی چٹھی دے دی گئی ہے کہ وہ سلسلہ کے بزرگوں کو دن رات گالیاں دیں اور نہایت ہی گندے ناموں سے یاد کریں اور نہایت ناپاک انداز سے ان کا ذکر کرتے چلے جائیں اور گالیاں دیتے چلے جائیں.اکثر خطوط جو دکھ کا اظہار کرتے ہیں وہ ظاہری تکلیفوں کا نہیں بلکہ اس تکلیف کا اظہار کرتے ہیں.ربوہ سے آنے والے خطوط خصوصیت کے ساتھ مرکز سلسلہ میں اس نا انصافی اور ظلم کی داستانوں سے بھرے پڑے ہیں کہ جہاں محض اللہ خدا کے نام پر عبادت کی جاتی ہے وہاں تو اللہ کا نام لینے کی اجازت نہیں اور نہ لاؤڈ سپیکر کی اجازت ہے اور نہ اذانیں دینے کی اجازت ہے مگر جہاں اذانواں کے بہانے منبر رسول پر چڑھ کر نہایت فحش کلام بکا جاتا ہے ، نعوذ باللہ من ذالک اسے منبر رسول کہنا ہی نہیں چاہئے ، وہاں ان کو کھلی چھٹی ہے.پانچ وقت اذان کے بہانے شدید گندی گالیاں دی جاتی ہیں.کان پک جاتے ہیں لیکن پھر بھی مسلسل ایذا رسانی کے نئے طریق ڈھونڈتے چلے جاتے ہیں.ان کے ذہن نے ظلم ایجاد کر تے چلے جاتے ہیں.در اصل جو ذہن رات کی پیداوار ہوں جھوٹ اور فسادتر اشنا اور نئے سے نئے ظلم تراشنا ان کے لئے کچھ مشکل نہیں کیونکہ ظلم اور ظلمت دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ایک گہرا علاقہ رکھتے ہیں.ظلمت کا مطلب ہے تاریکی اور ظلم بھی تاریکی ہی کی پیداوار ہے.روشنی کے بچے بھی ظلم نہیں کرتے نہ وہ ظلم کا سوچ سکتے ہیں.وہی لوگ ظلم وستم کی باتیں سوچتے اور پھر ان پر عمل کرتے ہیں جو تاریکی کی پیداوار ہوں.یعنی جن کا نور سے کوئی واسطہ نہ ہو، جن کا کوئی تعلق آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے نور سے نہ ہو.بہر حال یہ روحانی طور پر ایذارسانی کا سلسلہ بھی جاری ہے اور بدنی ایذارسانی کا بھی جاری ہے اور بدنی ایذارسانی بھی ساری جماعت کے لئے روحانی ایذا رسانی میں تبدیل ہو جاتی ہے کیونکہ ایک جگہ جب ایک مومن کو دکھ پہنچتا ہے تو ساری جماعت اس کے لئے بے قرار ہو جاتی ہے.چنانچہ
خطبات طاہر جلد۴ 535 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء گزشتہ کچھ عرصہ میں یہ ظلم وستم کا رخ سندھ کی طرف پھرا ہوا ہے اور اسے خاص طور پر علماء وقت نے احمدیوں پر مظالم کے لئے منتخب کر لیا ہے.پیچھے نواب شاہ کے ایک بزرگ جماعت احمدیہ کے ایک معزز خادم عبدالرزاق صاحب کی شہادت کی اطلاع ملی تھی جنہیں بڑی بے دردی کے ساتھ دن دہاڑے قتل کیا گیا اور اس کے اوپر کسی قسم کی کوئی شنوائی نہیں.اسی طرح قتل و غارت کا پیغام دینے والے مولوی اپنے خطبات میں دن رات ساری امت کو قتل پر اکسا رہے ہیں اور نواب شاہ میں خصوصیت کے ساتھ مسلسل یہ جاری ہے اور بعض مولوی تو یہاں تک کہتے ہیں کہ ہم ضامن ہیں تمہیں جنت کی خوشخبریاں دیتے ہیں اور ایسی ایسی ناپاک باتیں ان کے دماغ سوچتے ہیں یہ اعلان بھی کرتے ہیں کہ ہم ذمہ داری لیتے ہیں کہ جب تم قیامت کے دن پیش ہو گے تو نعوذ بالله من ذالک حضرت محمد مصطفی ﷺ تمہارے استقبال کے لئے جنت کے دروازے تک پہنچیں گے کہ تم نے ایک مرزائی کو قتل کر دیا.یہ ان کا مبلغ علم ہے.یہ ان کی حضور اکرم ﷺ کے لئے غیرت ہے، یہ مقام مصطفیٰ ہے جو ان کے ذہنوں نے ایجاد کر رکھا ہے.نور سے ان کو کوئی بھی تعلق نہیں ہے.ان کو تصور بھی نہیں ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا ذات تھے، کیسا پاک وجود تھا، بنی نوع انسان کے لئے کیسی رحمت تھے، اپنوں کے لئے بھی اور غیروں کے لئے بھی.وہ نور کا ایک جاری سوتا تھا نہ خشک ہونے والا ہمیشہ ہمیش جاری رہنے والا ہے ، کل عالم کو سیراب کرنے کے باوجود بھی جو خشک نہیں ہو سکتا.وہ ایک ایسی سلسبیل تھی جو خدا کی طرف سے نازل فرمائی گئی، ایسی کوثر تھی جو رحمتوں کا پیغام لے کر ساری دنیا کے لئے ظاہر ہوئی اور ہمیشہ ہمیش جاری رہنے کے لئے اس کی خوشخبری دی گئی.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہو کر یہ ظالم اس ظلم کی تعلیم سے باز نہیں آرہے.اور ابھی حیدرآباد سے ہمارے ایک بہت ہی بزرگ اور معزز بھائی عقیل بن عبد القادر صاحب کی شہادت کی اطلاع ملی ہے.عبدالرزاق صاحب بھی بڑے خوش خلق بنی نوع انسان کی خدمت کرنے والے، ملنسار اور منکسر المزاج تھے اور ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر بھی بہت ہی اعلیٰ صفات حسنہ سے متصف تھے.آنکھوں کے ڈاکٹر تھے ، انہوں نے بار ہا غرباء کی آنکھوں کے مفت علاج کے
خطبات طاہر جلدم 536 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء لئے کیمپ لگائے.غریب آدمی جو آتا تھا اس سے فیس لینے کا تو سوال ہی کوئی نہیں تھا.بکثرت لوگوں نے مجھے یہ بتایا کہ ان کی غربت کی وجہ سے اپنے پاس سے خرچ کیا کرتے تھے ، ان کے کھانے پینے کا انتظام کرتے تھے، ان کے بچوں کے لئے اخراجات دیا کرتے تھے.نہایت بے نفس اور بےلوث انسان ، جس نے اپنوں کی بھی خدمت کی ، غیروں کے بھی دل مو ہے اور کسی سے کبھی کوئی جزا نہیں چاہی ، یک طرفہ احسان کا یہ سلسلہ جاری تھا.ان کو بھی ابھی چند دن ہوئے بڑے ظالمانہ طریق پر شہید کر دیا گیا.یہ جو شہادتیں ہیں ان شہادتوں کے نتیجہ میں وہ بہت پاکیزہ لوگ وہ پیارے وجود پاکستان سے رخصت ہورہے ہیں جو دراصل پاکستان کی بقا کے ذمہ دار ہیں.ایسے وجود ہیں جن پر خدا کی رحمت کی نظر پڑتی ہے تو باقی لوگ بھی بخشے جایا کرتے ہیں.اس پر مجھے حال ہی میں حبیب جالب نے ایک نظم کہی اس کا ایک شعر یاد آ گیا وہ کہتے ہیں کہ خاک میں مل گئے نگینے لوگ حکمراں ہوگئے کمینے لوگ کیسے کیسے نگینے لوگ تھے جو خاک میں مل گئے.یہ طبعی نتیجہ ہے اس بات کا کہ کمینے لوگ ملک کے حکمران ہو چکے ہیں.جب کسی ملک پر کمینگی مسلط ہو جائے تو پھر اچھے اور پاک لوگوں کے لئے خاک کے سوا کوئی جگہ بھی باقی نہیں رہتی.قرآن کریم نے بھی اس مضمون کو ایک نہایت ہی اعلی پیمانے پر اس رنگ میں بیان فرمایا ہے جس سے قوموں کی آزادی اور ان کی غلامی کا فلسفہ عیاں ہوتا ہے.یہ شعر تو محض ایک جذباتی اظہار ہے.ایسے شعر بہت سے شاعروں نے کہے ہیں اور کہتے رہیں گے.جب تک ظلم دنیا میں باقی ہے اس قسم کے شعر بھی انسانی تصورات میں جنم لیتے رہیں گے.لیکن قرآن کریم تو کسی شاعر کا کلام نہیں ہے وہ جب اس قسم کی باتوں کا ذکر فرماتا ہے تو گہرا فلسفہ بیان فرماتا ہے کہ کمینے لوگ کیوں مسلط ہوا کرتے ہیں؟ اور یہ فلسفہ بیان فرماتا ہے کہ ہمیشہ کمینگی اس وقت مسلط کی جاتی ہے جب غیر ملکوں کا دخل ہو، جب غیر طاقتیں کسی ملک پر قابض ہونے لگیں تو خواہ وہ براہ راست قابض ہوں خواہ دوسروں کی معرفت قابض ہوں اس وقت ان کی پالیسی ان کی حکمت عملی یہ ہوتی ہے کہ کمینگی کو اوپر لایا جائے.
خطبات طاہر جلدم 537 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء چنانچہ قرآن کریم سورہ انمل آیت ۳۵ میں ملکہ سبا کا یہ حکیمانہ قول درج فرماتا ہے اور اسے محفوظ رکھنے میں حکمت یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کو وہ قول پسند آیا.وہ نبی نہیں تھی ، خدا کے مقربین میں سے نہیں تھی لیکن وہ صاحب حکمت ملکہ تھی.اس نے ایسی اچھی بات کہی کہ خدا تعالیٰ نے اس کلام کو ہمیشہ کے لئے قرآن کریم میں محفوظ فرمالیا.تحسین کے رنگ میں نہ کہ ایک بری بات کے اظہار کے طور پر.جب وہ اپنے روساء سے مشورہ کر رہی تھی تو انہوں نے کہا ہم مقابلہ کریں گے اور ہم اس کے لئے تیار ہیں ہمیں تمہاری طرف سے حکم چاہئے.وہ جانتی تھی کہ حضرت سلیمان جیسے جلال کے بادشاہ سے مقابلہ نہیں کیا جاسکتا تو قوم کو سمجھانے کے لئے اس نے ایک اصول بیان کیا.کہتی ہے: قَالَتْ إِنَّ الْمُلُوكَ إِذَا دَخَلُوا قَرْيَةً أَفْسَدُوهَا وَجَعَلُوا اعِزَّةَ أَهْلِهَا أَذِلَّةً ، وَكَذَلِكَ يَفْعَلُونَ (النمل: ۳۵) کہ دیکھو جب بھی دوسرے بادشاہ کسی دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو ان کے مفاد کا یہ تقاضا ہوا کرتا ہے کہ وہ کمینے لوگوں کو اوپر لے آئیں اور معز ز لوگوں کو نیچے گرا دیں.اس سے یہ و ہم پیدا ہو سکتا تھا نعوذ بالله من ذالک کہ ملکہ سبا حضرت سلیمان علیہ الصلوۃ والسلام پر الزام لگارہی ہے.قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کو دیکھیں کہ کس طرح اس الزام کی یکدم نفی فرما دی کیونکہ آخر پر وہ ملکہ کہتی ہے وَكَذَلِكَ يَفْعَلُوْنَ یہ ہمیشہ سے ایک دستور ہے اس میں سلیمان کا کوئی قصور نہیں.یعنی یہ ظاہر کرنا چاہتی ہے کہ میں تو اس کو جانتی بھی نہیں اس کو کہ وہ کس قسم کا بادشاہ ہے لیکن میں یہ جانتی ہوں کہ دستور زمانہ یہی ہے اور اسی طرح چلا آیا ہے کہ جب غیر قو میں حاکم ہوا کرتی ہیں تو وہاں کے کمینے لوگوں کو اوپر کر دیا کرتی ہیں اور شرفاء کو رذیل بنا دیا کرتی ہیں.پس ایسے ملک کی بڑی بدقسمتی ہے جہاں نگینے لوگ تو تہ خاک سور ہے ہوں اور کمینے لوگ حکمرانی کر رہے ہوں اور یہی ان کی حکومت کی قابلیت کا سب سے بڑا پاسپورٹ ہو کہ ان کے اندر شرافت کی قدریں باقی نہیں رہیں اور ایسے لوگ مجبور ہوتے ہیں ظلم و ستم پر کیونکہ ظلم وستم کے سوا وہ باقی نہیں رہ سکتے.یہ ایک ایسی فطری بات ہے کہ جسے وہ اگر کوشش بھی کریں تو وہ اسے ہٹا نہیں سکتے.یہ جو مظالم کا سلسلہ ہے شہادتوں کے علاوہ بھی بڑی تفصیل کے ساتھ ہر طرف جاری وساری
خطبات طاہر جلدم 538 خطبہ جمعہ ۱۴ جون ۱۹۸۵ء ہے.خصوصاً سندھ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا اور ایسی ایسی حیرت انگیز باتیں ظہور میں آرہی ہیں جن کو آپ کبھی تاریخ اسلام میں پڑھا تو کرتے تھے لیکن تعجب کی نگاہ سے.بعض دفعہ دل مانتا نہیں تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے لیکن اب ایک یا دو تاریخ اسلام کے تعجب کے واقعات نہیں رہے بیسیوں واقعات ہیں جو دوبارہ اس زمانہ میں اللہ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کی کوکھ سے پیدا ہور ہے ہیں.جماعت احمد یہ اللہ کے فضل کے ساتھ ان تاریخی حقائق کو دوبارہ زندہ کر رہی ہے.کلمہ طیبہ کے لئے چند مثالیں آپ تاریخ اسلام سے بار ہا پیش کرتے رہے اور دنیا کو بتاتے رہے کہ اسلام کے آغاز میں اس طرح کلمہ کی خاطر قربانیاں دی گئیں تھیں.ان واقعات کو پڑھ لیجئے اور ان واقعات کو سنئے جواس وقت رونما ہورہے ہیں اور انصاف سے اپنے دل میں یہ سوچیں کہ کیا حقیقیہ اسی شان کے ساتھ ، اسی آن بان کے ساتھ تاریخ اسلام حضرت محمد مصطفی عملے کے آخرین غلاموں میں دوبارہ زندہ ہورہی ہے کہ نہیں ہو رہی؟ بہت تفصیلی اور بڑے لمبے واقعات ہیں ایک یا دو کی بات نہیں ہے.میں صرف ایک دو واقعات نمونے کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک صاحب ہیں ہمارے ایک نوجوان کریم نگر فارم کے ان کے متعلق اطلاع ملی کہ ان کو جب کلمہ طیبہ لگانے کے جرم میں گرفتار کر کے تھانے لے جایا گیا تو پہلے تو دھوپ میں بٹھا دیا گیا.اور وہاں کی دھوپ آج کل کی شدید گرمی میں بہت تکلیف دہ چیز ہے.جس طرح ہم سنا کرتے تھے کہ آنحضرت ﷺ کے غلاموں کو بھی کلمہ شہادۃ پڑھنے کے جرم میں دھوپ میں کھڑا رکھا گیا.ایسے واقعات عام وہاں رونما ہوئے ہیں.کہتے ہیں ان کو دھوپ میں کھڑا رکھا گیا اور جب اس کے باوجود وہ کلمہ پڑھنے سے باز نہ آئے اور کلمہ کا بیج اتارنے سے انکار کیا تو ان کے ہاتھوں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈال کر دو گھنٹے دھوپ میں درخت سے لٹکائے رکھا اور پھر چار پائی پرلٹا کر شدید گندی گالیاں دی گئیں اور مارا گیا.جب پانی مانگتے تھے تو اس کے جواب میں گالیاں دیتے تھے.اس کے بعد ایک ایسی جگہ جہاں چیونٹیوں کا سوراخ تھا اس بل پر ان کو بٹھا دیا گیا کہ زخموں کو چیونٹیاں چاٹیں اور اس سے زیادہ تکلیف پہنچے.پولیس شہر کے غنڈہ عناصر کو اور علماء کو ساتھ لگا لیتی تھی اور ہمارے نوجوانوں کو ڈنڈے مارتے ہوئے اور گالیاں دیتے ہوئے شہر سے گزارتی تھی اور علماء بھی ساتھ گندی گالیاں دیتے چلے جاتے تھے اور جب اس کے باوجود احمدی نوجوانوں نے کلمہ کا انکار کرنے سے انکار کر دیا تو بعض کو ننگا
خطبات طاہر جلد۴ 539 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء بازاروں میں پھر ایا گیا اور جوتیاں مارتے چلے جاتے تھے اور گندی مخش گالیاں دیتے چلے جاتے تھے اور کہتے تھے یہ دیکھ لو ان کا کلمہ اور یہ ہے اس کلمہ کی جزاء.تاریخ اسلام کو پڑھنے والے ذرا ایسے واقعات لائیں تو سہی کس کثرت سے ان کو نظر آتے ہیں.اس تاریخ نے اب بیچے دیئے ہیں یہ وہی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کا وہی فیض ہے جو اب بکثرت اب ظاہر ہونے لگا ہے اور اس زمانہ کے منکرین اور جھوٹ بولنے والے یہ کہنے والے مؤرخین کہ یہ سب قصے ہیں جو بعد میں قصے بنالئے جایا کرتے ہیں.ان کا منہ توڑ دیا ہے احمدیت کی قربانیوں نے ہمیشہ کے لئے ان کے قلم کند کر دیے ہیں جو اسلام کی تاریخ پر یہ الزام لگایا کرتے تھے کہ یہ سب بعد کے فرضی قصے ہیں.بہت زیادہ واقعات ہیں آپ کو کون کون سے واقعات پڑھ کر سناؤں.ایک صاحب میر پور خاص کے ہیں وہ لکھتے ہیں: ”ہم تینوں کلمہ کا بیج لگا کر شہر میں گھومنے لگے اس کے بعد دو پولیس والے آئے ہمیں گرفتار کر لیا.پھر تھانے لے گئے وہاں جا کر پوچھنے لگے کہ تم نے یہ کلمہ کا بیج کیوں لگایا ہے؟ میں نے جواب دیا کہ کلمہ سے ہمیں محبت ہے اس لئے لگایا ہے.وہ کہنے لگے ابھی تمہاری محبت نکالتے ہیں.پھر انہوں نے مار دھاڑ شروع کر دی، پہلے تھپڑ مارتے رہے اور جب وہ تھپڑ مارتے تھے ہم بلند آواز سے کلمہ طیبہ پڑھتے تھے.پھر انہوں نے کہا کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلمہ نہ پڑھو مرزا صاحب کا کلمہ پڑھو.ہم نے انکار کیا اور بتایا کہ ہمارا کلمہ تو محمد مصطفیٰ ہی کا کلمہ ہے اور یہی کلمہ ہم جانتے ہیں اور یہی پڑھیں گے.تو اس کے بعد انہوں نے چمڑے کے جوتے منگوائے اور ان سے مارنے لگے.جتنی زور سے ہمیں مار پڑتی تھی اتنی ہی زور سے ہم کلمہ شہادۃ بلند کرتے تھے.آخر جب وہ مار مار کر تھک گئے تو ( یہ لکھنے والے کہتے ہیں کہ ) مجھے ہنسی آگئی.اس پر وہ پولیس کا افسر جانور کی طرح مجھے پر جھپٹا اور شدید غصہ کی حالت میں اس نے میرے سینے سے کلمہ نوچ کر پاؤں تلے روند ڈالا.( کہتے ہیں )
خطبات طاہر جلدم 540 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء میں مارکھا کر تو ہنستا تھا لیکن خدا کی قسم اس حالت میں میری چھینیں نکل گئیں اور پھر اسلام کے ان خدمت گاروں نے کہا اپنی شلوار میں اتارو ہم ننگے بدن پر جوتیاں ماریں گے اور تمہیں ذلیل کریں گے پھر تمہیں پتہ لگے گا کہ کلمہ طیبہ سے محبت کا کیا نتیجہ نکلا کرتا ہے.کہتے ہیں ہجوم تھا ، مولوی تھے اور دواڑ ھائی سوتماش بین تھے جو خاموش تماشاد یکھتے رہے.پھر ان کا بڑا منشی آگیا اور اس نے پھر اپنی کسر نکالی.وہ جو بید لے کر آیا تھا اس سے اس نے مارنا شروع کیا اور جب وہ مارتا تھا ہم پھر کلمہ پڑھتے تھے، اور اسی طرح بالآخر انھیں حوالات میں بند کر دیا گیا.“ ایک ہمارے معلم وقف جدید ایک مجاہد سے مل کر آئے اس کا واقعہ انہوں نے لکھا ہے: ایک مجاہد کو اس لئے مارتے رہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے کلمہ توحید اپنے سینے سے اتارتا نہیں تھا وہ مارکھا تا رہا مگر زبان سے کلمہ توحید ہی بلند کرتا رہا.پھر کپڑے اتارے اور پھر اسے مارنا شروع کیا.پھر بھی وہ کلمہ توحید ہی بلند کرتا رہا.پھر اسے الٹالٹا کر اس کی گردن پر پاؤں رکھ دیا گیا اور ساتھ مارتے رہے (وہ کہتے ہیں) مسیح محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سرسبز شاخ کا کہنا ہے کہ دل سے تو اس وقت بھی آواز بلند ہورہی تھی مگر گردن پر پاؤں کا ایساد باؤ تھا کہ آواز گردن سے باہر نہیں نکلتی تھی.پھر جب اس ظالم نے پاؤں اٹھایا تو پھر میں نے کلمہ توحید بلند آواز سے پڑھا.اس پر پھر اسی طرح مجھے لٹا کر مارنا شروع کر دیا گیا.(وہ بھی لکھتے ہیں کہ ) اس موقع پر ایک دفعہ مجھے ہنسی آئی تو ایس ایچ او نے سندھی میں کہا کہ تو تو بہت بڑا ڈاکو ہے، اتنے بڑے شدید تشدد کے باوجود تو اس اپنی حرکت سے باز نہیں آرہا.( یعنی اتنا بڑا جرم ہورہا ہے پاکستان میں کلمہ طیبہ، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کلمہ پڑھا جا رہا ہے ) تو اس نے کہا کہ میں اس بات پر تو نہیں ہنسا کہ تم مجھے ماررہے ہو میں تو اس بات پر ہنسا ہوں کہ تم بیوقوف سمجھتے کیا ہو کہ ہم تمہاری ماروں کے نتیجہ میں کلمہ طیبہ
خطبات طاہر جلدم 541 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء چھوڑ دیں گے.خدا کی قسم ! اگر جسم کا قیمہ بھی بنا دو گے تو ہر بوٹی کے ہرسانس سے کلمہ طیبہ بلند ہو گا اس کے سوا ہم اور کچھ نہیں جانتے.“ ایک باپ اپنے بیٹے کے متعلق لکھتا ہے کہ تھر پارکر میں علمائے دین کا زور ہے اور کلمہ کے بیج لگانے والوں پر برس پڑتے ہیں اور پولیس کو ساتھ لے کر پکڑواتے اور پھر ان پر سختی کرواتے ہیں اور پھر اپنے سامنے پولیس سے مرواتے ہیں.میرالڑ کا جو کہ سب سے چھوٹا ہے بی.اے میں میر پور خاص میں پڑھتا ہے.اس کو کنٹری پولیس نے اتنا مارا کہ بار بار بے ہوش ہو جا تا تھا.ہوش آنے پر پانی مانگتا تھا تو نہیں دیتے تھے اور وہ پھر کلمہ طیبہ پڑھنا شروع کر دیتا تھا اور پھر اسے مارتے تھے اور پھر وہ مار کھاتے کھاتے بے ہوش ہو جاتا تھا.“ یہ باپ اپنے بیٹے کے متعلق لکھتا ہے: الحمد للہ! اللہ کا احسان ہے کہ میرے بچوں کو خدا نے صدق اور ایمان سے نوازا ہے.ہر دفعہ بے ہوشی کے بعد اس کے منہ سے کلمہ طیبہ ہی نکلا اور کوئی شکوہ کی صدا بلند نہیں ہوئی اور اس کے بعد جب وہ ضمانت کے بعد گھر آیا تین دن تک اس کے پیشاب میں خون آتا رہا.میں نہیں جانتا کہ کیا نقصان اس کے اندر پہنچ چکا ہے.“ کنری اور تھر پارکر اور دیگر علاقے کے احمدیوں نے عظیم الشان قربانیاں دی ہیں جہاں احمد یہ اسٹیٹس ہوا کرتی تھیں اور نوجوان لکھتے ہیں کہ ہم نے تو حوالات میں اور قید خانوں میں جنگل میں منگل بنارکھا تھا.یہ لوگ ہمیں کلمہ سے چھڑانے کے لئے اذیتیں دے کر وہاں پہنچاتے تھے اور وہاں ہم عبادتیں کرتے تھے اور بلند آواز میں کلمہ ہائے تو حید بلند کرتے تھے اور در و دیوار پر کلمہ لکھ دیتے تھے.کہتے ہیں عجیب منظر ہے اور عجیب وہ زندگی کے دن تھے جن کی لذت ہم بھلا نہیں سکتے اور باہر جو تھے لکھتے ہیں کہ ہمارے سو سے زائد نوجوان تو اس طرح دکھ اٹھاتے ہوئے جیل میں گئے اور ہم باہر تڑپ رہے تھے کاش ہماری باری آئے اور ایک دوسرے سے مقابلے ہونے شروع ہوئے اور ایک
خطبات طاہر جلدم 542 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء دوسرے سے اس بات پر لڑائیاں شروع ہوئیں کہ پہلے کس کا نمبر آنا چاہئے.کیونکہ اب جماعتی انتظام کے مطابق طلب کیا گیا تھا جو چاہتا ہے وہ شوق سے سامنے آئے کسی کو زبر دستی کلمہ لگانے کا کوئی حکم نہیں ہے کیونکہ کلمہ پڑھنا کلمہ پر ایمان رکھنا تو ایک فریضہ ہے.کلمہ سینہ پر لگا کر پھر نا تو کوئی ایسا شرعی فرض نہیں ہے کہ جس کے لئے خلیفہ وقت حکم دے.تو جماعت نے خوب اچھی طرح واضح کر دیا ، یہ یہ تکلیفیں دی جارہی ہیں ، یہ اس کے نتائج نکلتے ہیں ہوسکتا ہے کہ تمہارے بچوں کے مستقبل تاریک ہو جائیں بظاہر دنیا کے لحاظ سے.ہوسکتا ہے ان کو لمبے جسمانی آزار لگ جائیں.اس لئے سوچ سمجھ کر اپنے نام پیش کرو اور جماعت کے عہدیداروں کی اطلاع یہ ہے کہ ہزار ہا احمدی جوش و خروش کے ساتھ لائن میں کھڑا تھا اور کوئی پرواہ نہیں تھی کہ ان کی تجارتوں کا کیا بنتا ہے؟ ان کی زمینوں کا کیا بنتا ہے؟ بلکہ عورتیں بھی بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے نام پیش کر رہی تھیں کہ ہمیں بھی موقع دو ہمارا بھی حق ہے.مائیں اپنے بچوں کے نام پیش کر رہی تھی ، بہنیں اپنے بھائیوں کے نام پیش کر رہی تھی اور پھر مجھے خط لکھتی تھیں اللہ نے ہمارے ویر کوتو فیق عطا فرمائی.کاش آپ ہمیں بھی اجازت دیں ہم بھی وہاں جائیں جہاں ہمارا بھائی ماریں کھا تا ہوا پہنچا ہے.عجیب دن ہیں یہ وہ لیلۃ القدر ہے.نادانوں کو کیا علم کہ لیلتہ القدر کیا ہوتی ہے؟ چودہ سو سال کی دوری سے تاریخ اسلام کو دیکھ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس زمانے میں یہ ہوتے تو یہی کرتے.ہر گز نہیں اس زمانے میں ہوتے تو وہی کرتے جومحمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن محمد رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے غلاموں سے کر رہے تھے آج بھی تو وہی کر رہے ہیں.ظلم اور سفا کی کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف جماعت کی شہادتیں ہو رہی ہیں اور دوسری طرف جھوٹے الزام لگا کر مزید ان کو قتل کے مقدموں میں پھنسایا جارہا ہے.سکھر میں ہمارے امیر ضلع بڑی بے دردی کے ساتھ شہید ہوئے.اسی (۸۰) کے لگ بھگ ان کی عمر تھی اور ان کو جب شہید کیا گیا تو چار فدائین اسلام جو بنے ہوئے تھے جو اسلام کی خدمت کرنے کے لئے آئے ہوئے تھے انہوں نے گولیاں بھی ماریں اور برچھے لے کر آئے ہوئے تھے اور ہر آدمی اللہ اکبر کہہ کر بر چھا اس بوڑھے کے جسم میں داخل کرتا تھا اور بڑے فخر کے ساتھ نعرے لگا رہا تھا کہ میں ہوں غازی جس نے اسلام کی یہ عظیم الشان خدمت کر دی.حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق متواتر احادیث میں یہ اطلاع
خطبات طاہر جلد۴ 543 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء ملتی ہے کہ وہ دشمن جولڑنے کی نیت سے مسلمانوں کو غارت کرنے کی نیت سے آیا کرتا تھا اس کے متعلق بھی اپنے غلاموں کو یہ ہدایت فرمایا کرتے تھے کہ دیکھو بوڑھوں ، بچوں اور عورتوں کو کچھ نہیں کہنا.یہاں ایک معصوم انسان خدا کی عبادت کر کے نکلا اور دیر تک مسجد میں بیٹھا اس بات پر روتا رہا کہ ان ظالموں نے ہمیں اذان کی اجازت بھی ہم سے چھین لی ہے.وہ جب مسجد سے باہر نکلتا ہے تو یہ چار جوان برچھوں سے اس پر حملہ کر کے اس کا جسم چھید تے ہیں اور نعرہ ہائے تکبیر بلند کرتے ہیں کہ یہ اسلام کی خدمت ہو رہی ہے.ان کے دونوں بچوں کو اب اس الزام میں قید کر لیا گیا ہے کہ اس مسجد میں جو سکھر کی ایک پرانی مسجد بتائی جاتی ہے اس میں ایک بم پھٹا تھا اور اس میں یہ دونوں ملوث ہیں.تو اس کے علاوہ ابھی مختلف علاقوں کے احمدیوں کو بکثرت پکڑا گیا اور ظالمانہ طور پر ان کو حبس بیجا میں رکھا گیا.یہی ہمارے سابق امیر صاحب سکھر قریشی عبدالرحمن صاحب شہید کا بیٹا لکھتا ہے کہ: و گزشتہ ماہ کی تئیس تاریخ کو خاکسار کو سب سے پہلے گھر سے بلایا اور ڈی ایس پی نے گرفتار کر لیا یہ کہہ کر کہ تم نے ایک منصوبہ کے تحت مسجد منزل گاہ جو ایک تاریخی مسجد ہے پر بم پھینکوایا ہے.اس کے بعد گرفتاریوں کا سلسلہ بڑھتارہا میرے گھر سے نکلتے ہی بچوں کو گھر چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور بچوں نے بڑی کسمپرسی کی حالت میں گھر چھوڑ “ پھر وہ فرماتے ہیں: ”سرکاری ملازم کا تو یہ حال ہوتا ہے کہ تنخواہ پر گزارہ ہوتا ہے جو مہینہ ختم ہونے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے پھر حضور والا خالی ہاتھ گھر سے باہر نکال کر بچوں پر ایک نفسیاتی خوف طاری کرنا کہاں کی شرافت ہے کیا حکام کی ماں، بہن یا بہو بیٹیاں نہیں ہیں ؟ اس کے بعد میری غیر حاضری میں گھر کی تلاشی لی گئی.جس بے دردی کے ساتھ الماریوں اور صندوقوں کے تالے توڑے گئے.وہ نا قابل بیان ہیں گویا گھر کے سامان کو سامانِ سر یغمال سمجھ لیا گیا ہے جو قیمتی چیز ہاتھ آئی وہ لے اُڑے.احمدیوں کے گھروں سے عورتیں در بدر کی گئی اور سامان کی بے دردی سے تلاشی لی گئی سامان کو لوٹ (یعنی دوسرے احمدیوں کے گھر
خطبات طاہر جلدم 544 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء سے بھی ) کا مال سمجھ کا مال سمجھ کر پولیس لے جاتی رہی.ہم لوگ زیر حراست ان سب باتوں کوسن کر صبر کے آنسوؤں کا نذرانہ اپنے مالک حقیقی کے حضور پیش کرتے رہے.“ سکھر سے ایک دوست لکھتے ہیں ” میرے بھائی مکرم شر ما صاحب کی دوکان اور گودام اسلام کے نام پر گویا اسلام کی خاطر لوٹ لئے گئے.کراچی کے ایک صاحب جو کراچی سے ایک دستہ دے کر وہاں موقع پر بھجوائے گئے تھے کیونکہ وہاں کوئی مرد بھی باقی نہیں تھا اور بچے بیچارے بڑی کسمپرسی کی حالت میں پڑے ہوئے تھے ان کا خیال رکھنے کے لئے جہاں ان کو پولیس نے ایک جگہ کیمپ بنا کر رکھ دیا تھا ان کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے جماعت کراچی نے اپنے نو جوانوں کو بھجوایا.وہ لکھتے ہیں میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ۲۴ رمئی کو کراچی سے سکھر ڈیوٹی کے لئے آیا تھا کیونکہ اطلاع ملی تھی کہ سکھر کے تقریباً تمام مردوں کو ہم کیس کے سلسلے میں حراست میں لے لیا گیا ہے اور عورتیں اور بچے گھروں میں اکیلے ہیں.۲۷ / تاریخ کو صبح ۴:۴۰ پر پولیس نے گھر پر چھاپہ مارا جہاں ہم سور ہے تھے اور ان چھ لڑکوں کو جن میں سے ۵ کراچی کے اور ایک روہڑی کا تھا گرفتار کر کے پولیس اسٹیشن لے جایا گیا.سارا دن پولیس کے اسٹیشن میں رکھا اور رات کو نو بجے کے قریب وہاں سے پولیس لائن سکھر میں شفٹ کر دیا گیا جہاں پر باقی احمدی اسیران راہ مولیٰ موجود تھے.ہم میں سے سات افراد پر شناخت کر کے الزام لگا دیا گیا ہے کہ یہ لوگ اس واردات میں ملوث ہیں کچھ اور لوگوں کو بھی اس میں ملوث کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.وہاں شناخت کیسے ہوتی ہے؟ یہ ایک موقع کے گواہ ہمارے خیر پور ضلع کے ایک بڑے مخلص احمدی نوجوان ہیں وہ قید میں ہیں ان کا بھائی بھی تشدد کا شکار تھا اور ان کو بھی نہایت دردناک طریق پر زدو کوب کیا گیا.یہ لکھتے ہیں: شناخت پریڈ کا عجیب طریقہ دیکھا کہ پہلے ہمارے چار، پانچ دوستوں کو ایک ایک کر کے اپنے دفتر میں بلاتے ( ڈی ایس پی مظہر ہے کوئی جس کے متعلق وہ لکھتے ہیں کہ یہ وہ ساری حرکت کر رہا
خطبات طاہر جلدم 545 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء ہے، تشدد میں بھی وہی سب سے زیادہ Involve ( ملوث ) ہے اور اس ستم میں بھی وہاں چار مولوی صاحبان بیٹھے ہوئے تھے پھر ان کو واپس بیرک میں بھیج دیا گیا.تھوڑی دیر کے بعد پھر پانچوں کو اکٹھا بلا کر چند دوسرے آدمیوں کے ساتھ کھڑا کر کے شناخت پریڈ کرائی گئی ان چار مولویوں میں سے دو کو بلا کر شناخت پریڈ کرائی جن کو پہلے ہی اپنے دفتر میں اچھی طرح ان کے چہرے دکھا چکے تھے اور گفتگو کروا چکے تھے.جس احمدی نوجوان پر نہایت ہی ظالمانہ تشدد ہوا ہے اس کے متعلق بھی وہ بڑے صاف گو ہیں ہمارے احمدی بچے کسی جگہ بھی پولیس کو غلط ملوث نہیں کرتے ہر جگہ لکھ رہے ہیں کہ عام طور پر سکھر میں پولیس کا رویہ شریفانہ تھا.یعنی جن حالات میں ہمیں پکڑا گیا جس طرح مولویوں کا دباؤ تھا ، ویسے ظلم نہیں کئے گئے جیسے تھر پارکر کی پولیس نے وہاں کے ڈپٹی کمشنر کے حکم کے نتیجے میں کئے.حتی المقدور وہ ظلم سے بچتے رہے سوائے ایک ڈی ایس پی کے جو ہر بات میں پیش پیش تھا اور وہ مولوی سرشت رکھتا تھا.کہتے ہیں کہ ایوب کو جو خود ہی ربوہ سے اپنی فیملی کو لے کر آرہا تھا پہلے پولیس کا ایک دستہ ربوہ بھجوایا گیا وہاں سے پکڑنے کے لئے.یہ کہانی بنائی گئی گویا واردات کر کے بھاگ کر ربوہ جاچکا ہے اور وہ از خود ربوہ کے لئے پہلے ہی روانہ ہو چکا تھا.پولیس کو یہ بتایا گیا کہ ربوہ والے ایسے ظالم اور خبیث اور سفاک لوگ ہیں کہ جو تم وہاں جارہے ہو اب شاید تم سے دوبارہ ملنا نصیب نہ ہو.اس لئے آخری دفعہ الوداع کہہ جاؤ اور گلے لگ جاؤ کیونکہ اب شاید تمہار اواپس آنا ممکن نہ رہے.وہ جب گئے تو ان کے ساتھ بالکل اور سلوک ہوا.ہر آدمی کو خلیق پایا، ہر آدمی روزے میں دیکھا ان کے آثار ہی اور تھے.چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ وہ بیج تو تقریباً احمدی ہو چکا ہے اب واپس آکر مسلسل احمدیت کی تبلیغ کر رہا ہے اور یہ جو فیملی تھی ایوب اور ان کے بچے یہ براہ راست خود پہنچ رہے تھے.چنانچہ وہاں کی پولیس نے بذریعہ تار ان کو اطلاع کر دی کہ وہ آرہے ہیں.چنانچہ یہ مجرم دیکھیں ذرا کس قسم کے ہیں احمدی معصوم ! اڑھائی سو آدمیوں کی نفری لے کر ایس ایس پی خود ان کو گرفتار کرنے کے لئے وہاں خود پہنچا ہے.اتنا خطر ناک مجرم از خود واپس آرہا ہے اور ان کے بھائی ان کے ساتھ جو سلوک کا واقعہ لکھتے ہیں وہ یہ ہے: ایوب کو پہلے تو ایسے ہی پوچھ کچھ کرتے رہے مگر پھر اس کو چوبیس گھنٹے ہاتھ اوپر باندھ کر
خطبات طاہر جلدم 546 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء کھڑا کر کے لاک اپ میں بند کر دیا.صرف ایک دفعہ پیشاب کے لئے کھولا گیا.چوبیس گھنٹے کے بعد جب ہمیں بلایا گیا اور کہا گیا اس کو کہیں کہ یہ اقبال جرم کر لے.ہم نے کہا اس نے جرم کیا ہی نہیں تو اقبال کس بات کا کر لے.تو ہمارے تین آدمیوں کے سامنے ڈی ایس پی مظہر نے حکم دیا کہ ایوب کو لاؤ پھر اس کو ننگا کر کے لٹایا گیا اور جو تشد د تو ڑا گیا اس کو بیان کرنے کا حوصلہ نہیں ہے.میرے کانوں میں انگلیاں دینے کے باوجود اس کی چیچنیں سنائی دیتی رہیں یہ آج پاکستان میں خدمت اسلام ہو رہی ہے.کس کے نام پر ؟ یہ خدمت کسی فرعون کے نام پر نہیں کر رہے، یہ کسی ابلیس کے نام پر نہیں کر رہے بلکہ اللہ کے پیاروں کے نام پر ، خدا کے مقدس لوگوں کے نام پر یہ ظلم ڈھارہے ہیں.بے حیائی اور سفا کی کی اور بے غیرتی کی کوئی حد نہیں رہی نہ دین سے محبت ہے، نہ اسلام سے محبت ہے، نہ سید ولد آدم حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا کوئی احترام ہے.بعض لوگ گندی حرکت میں پکڑے جائیں، جب چوری میں پکڑے جائیں، کسی اور برے فعل میں پکڑے جائیں تو شرم کے مارے اپنے ماں باپ کا نام نہیں بتاتے وہ کہتے ہیں کہ ان کو کیوں بد نام کریں.چنانچہ پولیس مارتی رہتی ہے وہ شرم کی وجہ سے نام نہیں لیتے کہ ہمارے ماں باپ کا نام ملوث نہ ہو جائے ان کو حیا نہیں کہ اس سے کئی زیادہ بھیانک جرائم کر رہے ہیں جو ایک عام مجرم کرتا ہے اور پھر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا نام لیتے ہوئے نہ ان کو شرم آتی ہے، نہ ان کو حیا آتی ہے، نہ خدا کا خوف کھاتے ہیں مگر جیل میں جس طرح یہ لوگ وقت گزارتے رہے ہیں ان مشاغل میں یہ کوئی تبدیلی نہیں کر سکے.ان کا ظلم، ان کی سفا کایاں کلیہ ناکام رہیں.وہی صاحب لکھتے ہیں کہتے ہیں: در صبح اڑھائی تین بجے تہجد کی نماز بلا ناغہ باجماعت ادا کرتے ہیں.ایسا رقت آمیز نظارہ ہوتا ہے کہ جو سپاہی سحری کھانے کے لئے آتے ہیں ہمیں تہجد میں روتے دیکھ کر حیران ہو جاتے ہیں.خدا تعالیٰ نے ہمارے زندان کو بھی پولیس کا میں بنا دیا ہے جہاں صبح و شام لوگوں کا تانتا بندھا رہتا ہے.جو بھی روٹی کھانے آتا ہے پوچھتا ہے کہ یہ معاملہ کیا ہے؟ شام کو روٹی کھانے آتا ہے تو ہم نماز مغرب ادا کر رہے ہوتے ہیں.وہ بہت پریشان ہوتے ہیں کہ مولوی کچھ بتاتے تھے ان کے عمل بالکل حقیقی مسلمانوں جیسے.بعض تو ہمارے سامنے ہی مولویوں کو گالیاں بھی دینے لگ جاتے ہیں.دو
خطبات طاہر جلد۴ 547 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء وقت درس ہوتا ہے.خوب تبلیغ کی جارہی ہے.اتنی تبلیغ کا کبھی مجھے آزادی میں موقع نہیں ملا تھا جتنی اب مجھے اس قید خانہ میں تبلیغ کا موقع مل رہا ہے.کیوں نہ ہو یہ سنت یوسفی کو زندہ کرنے والے نوجوان ہیں.کہتے ہیں خدا گواہ ہے اب تو یہاں ایسا دل لگا ہے کہ واپس جانے کو دل نہیں چاہتا.“ یہ واقعہ اور دوسرے نو جوانوں نے جو واقعات لکھے ہیں.کلمہ لکھنا دیواروں پر اور پڑھنا اس پر مجھے غالب کا وہ شعر یاد آ گیا کہتا ہے: قید میں ہے تیرے وحشی کو وہی زلف کی یاد ہاں کچھ اک رنج گراں باری زنجیر بھی تھا (دیوان غالب صفحہ : ۷۹ ) کہ قید میں تیرے وحشی کو تیری زلف کی یاد اسی طرح رہی وہ یاد قید چھین نہیں سکی.ہاں جو زنجیریں تھیں ان کا بوجھ بھی تھوڑ اسا تھا اس کا رنج بھی تھا.مگر دیکھو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فیض کو یہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کی سنت دوبارہ زندہ کر دی.یہ وہ قیدی ہیں جن کو قید میں بھی خدا اور رسول کی یاد رہی اور یہ وہ قیدی ہیں جن کو رنج گراں باری زنجیر بھی نہیں تھا.اس رنج کو بھی بھلا بیٹھے اور زندانوں سے یہ لکھ رہے ہیں کہ اب تو باہر جانے کو دل نہیں چاہتا.جو لطف اللہ کی خاطر دکھ اٹھانے کا ، جو تبلیغ کا مزہ آ رہا ہے اس کا باہر بیٹھنے والا انسان تصور بھی نہیں کر سکتا اور اللہ بھی ان کو اپنی رحمت کے ایسے حیرت انگیز نشان دکھا رہا ہے وہ کہتے ہیں کہ ” میرا وہ بھائی جس کو نہایت ہی شدید زدوکوب کیا گیا اسے ساری رات مسلسل ہتھکڑیاں ہاتھ میں باندھ کر لٹکائے رکھا اس سے میں نے پوچھا کہ بھائی بتاؤ تو سہی تمہارا اس رات کیا حال ہوا؟ تو عزیزم ایوب نے مجھے بتایا کہ مجھے تو اتنا یاد ہے کہ وہ جب لٹکا کے چلے گئے تو مجھے اسی وقت نیند آ گئی جب آنکھ کھلی تو دن ہو چکا تھا کوئی تکلیف محسوس نہیں کی.کہتے ہیں وہ ان دکھوں کے باوجود نہ صرف ہنستا ہے بلکہ دوسروں کو ہنساتا ہے اور ان کو حوصلہ دلاتا ہے.کہتے ہیں وہ اسی حالت میں اپنے ساتھی قیدیوں کا دل بڑھا رہا تھا ہنس کر ان کو بتا رہا تھا کوئی بات نہیں اللہ کی خاطر بڑا مزہ آیا.کہتے ہیں وہ تو ہنس رہا تھا اور میری آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی جاری تھی کہ اے اللہ ! تیری کیا شان ہے کہ ہم تو پڑھا کرتے تھے کہ آگ گلزار ہوگئی مگر آگ کو گلزار ہوتے دیکھا کبھی نہیں تھا.آج تو اپنی آنکھوں سے
خطبات طاہر جلدم 548 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء سامنے ہم نے اس آگ کو گلزار ہوتے بھی دیکھ لیا.یہ وہ لوگ ہیں خدا کے بندے، جن کو یہ راہ حق سے ظلم و ستم کے ذریعہ ہٹانا چاہتے ہیں، یہ وہ خدا کے بندے ہیں جن کو کلمہ توحید سے ظلم وستم کے ذریعہ ہٹانا چاہتے ہیں، اپنی سفا کیوں اور اپنے مظالم اور اپنے تاریک خیالات کی پیداوار، وہ تمام حرکتیں جو انبیاء کے دشمن انبیاء کے غلاموں کو راہ حق سے ہٹانے کے لئے اختیار کرتے تھے یہ وہ ساری حرکتیں کر رہے ہیں.بے وقوف ہیں جو سمجھتے ہیں ان مظالم کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو راہ حق سے ہٹا سکیں گے.جھوٹے اور نادان ہیں کبھی پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوؤں کے غلام ان آزاروں سے ، ان تکلیفوں کی وجہ سے راہ حق سے ہٹے ہیں جو آج ہٹیں گے؟ پس میں ان سے کہتا ہوں اور ساری جماعت کی نمائندگی میں یہ کہتا ہوں کہ تم جو چاہو کرلو، جتنا زور لگانا ہے لگا لو.خدا کی قسم ! ہم حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے غلاموں کی راہوں سے نہیں ہٹیں گے نہیں ہٹیں گے اور احمدیت کا یہ قافلہ ہمیشہ آگے ہی بڑھتا چلا جائے گا.جن راہوں پر تم چل رہے ہو تا ریخ انسانیت سے ثابت ہے کہ وہ ناکامی اور نا مرادی کی را ہیں ہیں.وہ ہمیشہ تاریک راہوں کے طور پر دنیا پہ ظاہر ہوئیں اور ان راہوں پر آنے والوں نے نظر ڈالی تو ہمیشہ ان راہوں پر لعنتیں بھیجتے رہے.وہ مغضوب علیھم کی راہیں ہیں وہ ضالین کی راہیں ہیں لیکن خدا کی قسم ! ہم جن راہوں پہ چل رہے ہیں وہ انبیاء اور ان کے اصدقاء غلاموں کی راہیں ہیں اور یہ وہ راہیں ہیں جو کہکشائیں بن کر آسمان پر چھکا کرتی ہیں.ایک آسمان کی کہکشانوں کو ہم نے دیکھا ہے جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اولین نے اپنے قدموں سے بنائی تھیں اور اسے دیکھنے والو، دیکھو! کہ محمد مصطفیٰ کے غلام ! آخرین میں ظاہر ہونے والے اب پھر ان کہکشانوں کو اپنے خون سے بنارہے ہیں، ان کو اپنی قربانیوں سے روشن کر رہے ہیں اور آئند ہ زمانہ ان چمکتی ہوئی کہکشانوں کو دیکھے گا اور ان سے سبق حاصل کرے گا اور ان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اورمحمد مصطفی ﷺ کے غلاموں پر ہمیشہ رحمت اور درود بھیجتا رہے گا.پس مبارک ہو تم جو اس لیلۃ القدر کے زمانے کو پانے والے ہو.مبارک ہو تم ! جنہوں نے اپنی قربانیوں سے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کی قدر کے لائق بن گئے.خدا کی قدر کے لائق ٹھہرائے گے.پس جو زور لگتا ہے تم لگا
خطبات طاہر جلدم 549 خطبه جمعه ۱۴ جون ۱۹۸۵ء لواے دشمنان احمدیت ! جتنے احمدی شہید کرنا چاہتے ہو شہید کر لو ایک ناروے کی مسجد نہیں تم جتنی چاہو بم سے ان کو اڑانے کی کوشش کرو.خدا کی قسم ہمارا خدا ہمارے ساتھ ہے.محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خدا ہمارے ساتھ ہے.محمد مصطفیٰ کے غلاموں کا خدا ہمارے ساتھ ہے.آپ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خدا ہمارے ساتھ ہے.تم لا زمانا کام اور نامراد ہوکر مرو گے اور احمدیت کے لئے وہ صبح ضرور طلوع ہوگی جس کے متعلق خدا فرماتا ہے اور قرآن میں وعدہ کرتا ہے، جس کے متعلق خدا تعالیٰ فرماتا ہے هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ اے میرے بندو! یہ رات جاری تو رہے گی لیکن ہمیشہ کے لئے نہیں.یہ دکھ ہیں مگر میں ان دکھوں کو قدراور پیار کی نگاہ سے دیکھ رہا ہوں.پس میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ یہ مطلع فجر تک کی باتیں ہیں اور وہ فجر کا طلوع ہونا زیادہ دیر کی بات نہیں رہی.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا.: ابھی نماز جمعہ کے بعد میں اپنے بہت ہی پیارے شہید بھائی ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.اس کے ساتھ ہی باقی جو شہدائے احمدیت ہیں ان کی بھی دوبارہ اکٹھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی.اس دعا کے ساتھ اس التجا کے ساتھ کہ یہ وداع کا جمعہ ہمارے لئے دکھوں اور مصیبتوں کے وداع کا جمعہ بھی بن جائے.جس طرح کہ بعض بھائیوں نے مبشرات دیکھی ہیں اور لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دی ہے کہ اس رمضان کے بعد احمدیوں کے دلوں کی فرحت کا سامان فرمایا جائے گا.پس اللہ تعالیٰ وہ فرحت کا سامان ہمارے لئے فرمائے اور اس لیلۃ القدر کی رات کو اب قبول فرمالے اور وہ بھائی جو دکھ اٹھا رہے ہیں جس طرح ان کو صبر دیا ہے ہم جو دکھوں کی حسرتیں لئے بیٹھے ہیں ہمیں بھی صبر عطا کرے.
خطبات طاہر جلدم 551 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء فرائیڈے دی ٹینتھ کے دو نشان اور قوم کی ہدایت کے لئے دعا کی نصیحت ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ سال کے آخر پر سفر یورپ کے دوران اللہ تعالیٰ نے جو کشفی نظارہ دیکھایا تھا جس میں جمعہ کے روز ایک ڈائل کی شکل میں 10 کا ہندسہ چمکتا ہوا اور نبض کی طرح دھڑکتا ہوا دکھایا گیا تھا اور اُس پر میں یہ کہہ رہا تھا کہ Friday the 10th.باوجود اس علم کے یہ ” 10 “ وقت کا ہندسہ ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے تصرف کے تابع زبان سے یہی فقرہ جاری ہوا Friday the 10th اس کی جماعت کی طرف سے تشہیر بھی کی گئی اور اندازے بھی لگائے گئے کئی قسم کے خطوط آئے اور 10 مئی جو جمعہ کا روز تھا اس پر جماعت نگاہیں لگائے بیٹھی رہی لیکن اس روز کچھ نہیں ہوا اور اطلاعات کے مطابق بعض علماء نے یہ کہا کہ اب ہم ۷ ارمئی کو اس کچھ نہ ہونے کا جشن منائیں گے لیکن اس کے بعد بھی ایک جمعہ آنے والا تھا جو رمضان المبارک کا پاکستان کے لحاظ سے دسویں رمضان المبارک کا جمعہ بنتا تھا اور جیسا کہ بعض دوسرے احباب کو بھی اللہ تعالیٰ نے چاند کی 10 کی خبر دی تھی اور مجھے اطلاعیں دے چکے تھے اس لئے ہمیں اس کا انتظار تھا دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ اس تاریخ کو اپنی کیا تجلی دکھاتا ہے؟ چنانچہ دس کی صبح کو جو خبریں آنی شروع ہوئیں تہجد کے وقت سے اس کے متعلق میں پہلے
خطبات طاہر جلد۴ 552 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء جماعت کو اطلاع دے چکا ہوں اور گزشتہ کسی خطبہ میں میں نے یہ بتایا تھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ خدا کا نشان ایک رنگ میں اس روز پورا ہو گیا لیکن بعد کی جو آنے والی اطلاعیں ہیں ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک رنگ والی بات نہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی یہ بیان فرمودہ خبر پوری ہوئی اور اس کے اور بھی بہت سے پہلو سامنے آئے ہیں.چنانچہ جو اطلاعیں ہمیں ملی تھیں وہ تو احباب جماعت کراچی کی طرف سے اس وقت کی اطلاعیں تھیں لیکن بعد کے اخبارات کے جو تراشے موصول ہوئے ہیں نہ صرف یہ کہ ان سے اس خبر کی غیر معمولی اہمیت واضح ہوتی ہے اور اس واقعہ کا غیر معمولی پن بھی واضح ہوتا ہے بلکہ ایسے لوگ جو احمدیت کے شدید معاند ہیں ان کے منہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ اقرار کروایا کہ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں، یہ کوئی حادثاتی بات نہیں بلکہ خدا کی طرف سے یہ ایک بڑی بھاری تنبیہ ہے اور اس کے علاوہ پاکستان کی شمالی سرحد پر بھی ایک واقعہ رونما ہوا جس کو غیر معمولی اہمیت دی گئی اور اسے بھی ایک آنے والے خطرے کے نشان کے طور پر پیش کیا گیا اور یہ واقعہ بھی دس جمعۃ المبارک رمضان شریف ہی کو ہوا.چنانچہ جو اخبار کے تراشے آئے ہیں ان میں اس موضوع پر بڑے بڑے مضامین چھپے ہیں، شہ سرخیاں جمائی گئی ہیں اور بتایا گیا ہے کہ یہ کوئی بہت ہی غیر معمولی اور نہایت ہی خوفناک واقعہ تھا.” جنگ لنڈن نے تو یہ خبر اس سرخی کے تابع شائع کی کہ کراچی میں طوفان کے خطرے نے افراتفری مچادی.ساحلی علاقوں کے لوگوں کی بڑی تعداد گھروں سے نکل بھاگی.ڈان (Dawn) نے شہ سرخی جمائی Cyclone Threat “ اور اس پر ایک لمبی خبر شائع کی جو ایک صفحہ پر نہیں بلکہ دوسرے صفحہ پر بھی جاری رہی اور اسی طرح ایک مضمون شائع کیا جس کے اوپر یہ عنوان لگا تھا Panic Grips Krachi اور ان دونوں مضامین کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ لکھوکھا آدمی متاثر ہوئے تھے اور اپنا سب کچھ گھروں پر اسی طرح چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اور تمام ذرائع کو بروئے عمل لا کر حکومت کو بڑی محنت کے ساتھ ان علاقوں کی نگرانی کروانی پڑی.تمام نیوی کی کشتیاں، پولیس کی کشتیاں جو نیول پولیس کی کشتیاں ہیں وہ سارے علاقے میں پھیل گئیں اور پولیس بھی گشت کرنے لگی لیکن اتنی Panic تھی کہ چور بھی وہاں باقی نہیں رہے وہ بھی بھاگ گئے ورنہ عموماً تھوڑی Panic کے وقت تو چوروں کی موجیں ہو جایا کرتی ہیں، وہ کہتے ہیں کوئی بات نہیں دیکھی
خطبات طاہر جلد۴ 553 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء جائے گی.بالکل اسی طرح گھر چھوڑ کر لوگ بھاگے ہیں، نوکر تک بھی چلے گئے اور کوئی چوری کا واقعہ نہیں ہوا.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا خوف بھی طاری تھا اس وقت دلوں پر اور یہ بھی پتہ چلا کہ کثرت کے ساتھ اذانیں دی جانے لگیں اور اذان دینا یہ عموم علامت ہے ہمارے ملک میں بہت بڑا خطرہ اور اس پر استغفار، ایسے موقع پر اذان دی جاتی ہے اور استغفار کی علامت ہے اس لئے لوگ سمجھتے ہیں جب اذان دی جائے گی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو بھی عذاب مقدر ہے وہ ٹل جائے گا.جماعت احمدیہ کے ایک شدید مخالف پروفیسر عبد الغفور صاحب جو جماعت اسلامی سے تعلق رکھتے ہیں ان کے متعلق ”جنگ لا ہور۲ جون نے یہ سرخی جمائی کہ وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ طوفان کا رخ نہ موڑتے تو ہمارا کیا حشر ہوتا“.اور اس طوفان پر تبصرہ کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں یعنی یہ جنگ ان کی طرف یہ بات منسوب کرتا ہے کہ انہوں نے لکھا ”کراچی چھوٹا پاکستان ہے لیکن لبنان اور بیروت بن رہا ہے جو مارشل لاء کے اس دور کا ثمرہ ہے“.پھر انہوں نے کہا کہ ”مسلمانوں نے تحریک پاکستان کی اس لئے حمایت کی تھی کہ بھارت میں ان کے جان ومال خطرے میں تھے.انہوں نے کہا ”بھارت میں اب بھی مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ اب پاکستان میں بھی شہریوں کے جان و مال محفوظ نہیں“.اور یہ وہی صاحب ہیں جن کے نزد یک جماعت احمدیہ کے جان و مال کی کوئی قدر اور کوئی قیمت نہیں ہے انسانی نگاہوں میں نہ خدا کی نگاہ میں اور بے دھڑک یہ لوگ تیاریاں کر رہے ہیں، کرتے رہے ہیں جماعت اسلامی کے کارندے اور فسادات میں ہمیشہ پیش پیش رہے اور پچھلے جو ۴ ۷ء کے فسادات تھے ان میں تو تمام قصبات میں جو نمایاں کردار ادا کیا ہے احرار کے علاوہ وہ جماعت اسلامی کے کارندوں نے ادا کیا تھا اور اب جب کہ خدا کی پکڑ کو اپنے سامنے دیکھا تو اس وقت ان کو خیال آیا کہ پاکستان میں لوگوں کے جان و مال محفوظ نہیں ہیں.یہ اللہ کی تقدیر ہی بتائے گی کہ خدا کی پکڑ کس کے جان و مال کو خطرہ لاحق ہونے کے نتیجے میں آتی ہے، جو پاکستان میں عام دستور چل رہا ہے وہ تو سال ہا سال سے اسی طرح چل رہا ہے.ان کو تو خدا نے خبر نہیں دی کہ یہ دس جمعہ کو کوئی واقعہ ہونے والا ہے.جن کے جان ومال کی خدا کو قدر تھی، جن کے جان و مال پر خدا کے پیار کی نظر تھی ان کے امام کو بتایا ہے کہ دس جمعہ کو ایک بہت بڑا خطرہ یا نشان ظاہر ہونے والا ہے جو بجلی کے رنگ میں ہوگا کیونکہ وہ چمکتا ہوا ہندسہ تھا جو بار بار دل کی
خطبات طاہر جلدم 554 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء طرح ڈھرک رہا تھا.ایک اور شدید معاند احراری اخبار ” لولاک“ جو جماعت احمدیہ کی مخالفت پر وقف ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت کے خلاف انتہائی گند بولتا ہے وہ بھی یہ لکھنے پر مجبور ہوگیا اور ادارتی سرخی اس نے جمائی ” خدائی وارنگ اب یہ بھی تصرف الہی ہے کہ جماعت کے جان و مال اور عزت کی دو بڑی دشمن جماعتیں ایک جماعت اسلامی اور ایک جماعت احرار ان دونوں کے منہ سے خدا نے یہ اقرار کروا دیا کہ یہ دس تاریخ کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں بلکہ ایک غیر معمولی نشان ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک وارننگ ہے اور پھر اس اداریہ میں ”لولاک کے مدیر لکھتے ہیں.ہمیں بار بار سوچنا چاہئے کہ ہم کہاں کہاں اور کیسے خدائے بزرگ و برتر کی نافرمانی کے مرتکب ہورہے ہیں.اہل کراچی کو آپس کی سر پھٹول اور با ہمی مخاصمت چھوڑ کر خدا تعالیٰ کے حضور سجدہ شکر بجالانا چاہئے اور خدا تعالیٰ کی فرمانبرداری کا عہد کرنا چاہئے.وہ خوش قسمت ہیں کہ ایک بڑی آزمائش سے بچ گئے یہ سمندری طوفان ان کے لئے خدائی وارننگ ہے.ان کے لئے نہیں تمہارے لئے بھی خدائی وارننگ ہے بلکہ تمہارے لئے زیادہ ہے کیونکہ یہ تمہاری ہی سکھائی ہوئی تدبیریں ہیں جن کو بروئے کار لا کر پاکستان میں خدا کے نام پر مظالم توڑے جارہے ہیں اور وہ لوگ جن کا قصور سوائے اس کے کچھ نہیں کہ انہوں نے یہ کہار بنا اللہ اللہ ہمارا رب ہے، تم ہمارے رب نہیں ہو ان کو اس قصور کے نتیجہ میں طرح طرح کی سزائیں دی جارہی ہیں.تو جو ان حرکتوں کے علمبر دار ہیں ان کے لئے وارننگ ہے.یہ تو پاکستان کے جنوب میں واقع ہونے والا ایک نشان تھا.اب شمال کی خبر سنیں وہاں کی اطلاعات کے مطابق جو اخبارات میں بڑی بڑی نمایاں سرخیوں کے طور پر شائع ہوئیں اور پھر اس کے ساتھ مضامین بھی آئے ۳۱ رمئی بروز جمعہ دس رمضان المبارک کو افغانستان کے Mig21 ہوائی جہازوں نے چترال میں دروش کے مقام پر جو چترال کا دوسرا بڑا شہر ہے ایک بھر پور حملہ کیا.اسمبلیوں اور اخباروں میں خوب شور اور غوغا اور نالہ و فریاد کئے گئے ، صوبہ سرحد کے اخباروں نے شہ سرخیاں جمائیں، صوبہ سرحد کے گورنر اور وزیر اعلیٰ وہاں پہنچے.یعنی یہ کوئی معمولی عام بمباری کا واقعہ نہیں تھا
خطبات طاہر جلدم 555 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء بلکہ غیر معمولی قومی سطح کی اہمیت کا واقعہ تھا اور اس کے بعد صدر ضیاء الحق صاحب خود وہاں پہنچے اور وہاں جا کر انہوں نے جو بیان دیا ہے اخباروں میں وہ شائع ہو چکا ہے.چنانچہ صدر ضیاء الحق صاحب کو بھی آپ جانتے ہیں کوئی جماعت کے ہمدردوں میں سے نہیں ہیں.تو حکومت کی سطح پر جو شرارت کروانے والے لوگ ہیں ان کو بھی خدا نے نشان دکھایا اور ان سے اقرار کروایا کہ دس رمضان کا جو جمعہ ہے یہ تمہارے لئے ایک تنبیہ کے طور پر آیا ہے اور اس کو نظر انداز نہ کرو.انگلستان کی ٹیلی ویژن جو ITV کہلاتی ہے اس نے بھی ایک خاص رنگ میں اس خبر کو دکھایا جنرل ضیاء الحق صاحب کی تصویر بھی دکھائی اور یہ اعلان کیا کہ پاکستان کے بارڈر کے نزدیک روس نے بمباری کی ہے جو غالبا افغانستان اور پاکستان کی سرحد کے قریب تھی یہ کہنے کے بعد نیوز کاسٹر نے یہ فقرہ بولا General Zia of Pakistan flew himself to examine the bomded area and it was on the Friday 31st of May.اب یہ فقرہ کہنا It was on the Friday 31st the May یہ بھی اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے نمایاں طور پر نکلوایا اور اس دن کو غیر معمولی اہمیت دی گئی.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ تو پہلے ہی انتظار میں لگے ہوئے تھے ، دیکھ رہے تھے اور ان کا دل چاہتا تھا کہ کچھ ظاہر ہو اور ہم اپنے دوستوں اور ان لوگوں میں جن میں تشہیر کر چکے ہیں ان کو کہہ سکیں کہ دیکھو یہ خدا کی طرف سے ایک نشان تھا جو ظا ہر ہو گیا اس لئے دشمن کہہ سکتا ہے کہ یہ ان کی خوش فہمیاں تھیں Wishful Thinking تھی.چاہتے تھے کہ کچھ ہو جائے کچھ ہوا اور انہوں نے کہہ دیا کہ دیکھو ہو گیا ہو گیا لیکن ضیاء الحق صاحب تو نہیں چاہتے کہ کچھ ہو جائے ” لولاک کے مدیر تو نہیں چاہتے تھے کہ کچھ ہو جائے ، جماعت اسلامی کے سربراہ تو نہیں چاہتے تھے کچھ ہو جائے.ان کی تو نگا ہیں خدا نے دس مئی پر ہی مرکوز رکھیں اور وہ بھول ہی گئے کہ دس رمضان کا بھی ایک جمعہ آنے والا ہے.اگر ان کے وہم وگمان میں بھی یہ بات آجاتی کہ جماعت احمد یہ اسے خدا تعالیٰ کے ایک نشان کے طور پر پیش کرے گی تو شاید قیامت بھی ٹوٹ پڑتی تو وہ منہ سے کچھ نہ بولتے یا اپنے قلم سے کچھ نہ لکھتے.تو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک واضح نشان تھا جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے نتیجہ میں پورا بھی ہوا اور ایک رنگ میں عذاب ٹل بھی گیا.
خطبات طاہر جلدیم 556 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء جب اس سلسلہ میں میں نے غور کیا تو قرآن کریم کی ان دو آنتیوں کی طرف میرا دھیان گیا جن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَلَمَّا جَاءَهُمْ بِايَتِنَا إِذَاهُمْ مِنْهَا يَضْحَكُونَ (الزخرف:۴۸) حضرت موسیٰ کا ذکر چل رہا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب وہ ان کے سامنے کھلے کھلے نشانات لے کر آیا تو اچانک وہ استغفار کرنے کی بجائے مذاق کرنے لگے اور تمسخر میں مبتلا ہو گئے.یہ واقعہ ایک دفعہ نہیں ہوا ، دو دفعہ نہیں ہوا، تین دفعہ نہیں ہوا ، بار بار اسی طرح ہوتا رہا قوم کے سامنے خدا تعالیٰ کی ظاہری تجلیات بار بار ظاہر ہوتی رہیں اور ہر دفعہ قرآن کریم کے بیان کے دوسرے حصوں سے پتہ چلتا ہے کہ کبھی تو وہ حضرت موسیٰ سے یہ عرض کرتے تھے کہ تو اپنے رب سے کہہ کہ وہ اس عذاب کو ٹال دے تو پھر ہم تجھے مان جائیں گے اور جب عذاب ٹل جاتا تھا تو پھر اسی طرح اپنی پرانی باتوں میں مصروف ہو جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ اس طرح ہوتا رہتا ہے اور بعض لوگ کہتے تھے کہ یہ تو ان لوگوں کی نحوست ہے جو ہمارے اوپر ہے اس کے سوا اس کی کوئی حیثیت نہیں.تو یہ ساری باتیں جو گزشتہ قومیں دیکھ چکی ہیں جب اپنی باری آتی ہے تو پھر یہ تو میں انہی حالات میں سے اسی طرح آنکھیں بند کر کے گزرتی ہیں جس طرح ایک بھیٹر جب کسی جگہ سے سر جھکا کر گزرے تو پچھلی ساری بھیڑیں بھی وہیں سے سر جھکا کر گزرتی ہیں اور اسی وجہ سے بھیٹر چال کا محاورہ شروع ہوا ہے.اور عجیب ہے انسان اس تاریخی مطالعہ سے حیران ہو جاتا ہے کہ ہزاروں سال کی انسانی تاریخ یہ بتا رہی ہے کہ ایک دفعہ بھی کسی قوم کو استثنائی طریق اختیار کرنے کی توفیق نہیں ملی سوائے ایک قوم کے جس کو خدا نے پوری طرح ایک انذار کے نتیجے میں استغفار کی توفیق عطا فرمائی اور تو بہ کی توفیق عطا فرمائی جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے یعنی حضرت یونس بن متی کی قوم اور ر باقی تمام قوموں کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ بلا استثناء اسی طریق پر چلتی رہیں.نشانات آتے تھے تو مذاق اڑاتے تھے پہلے بھی اور بعد میں بھی اور تمسخر کا طریق اختیار کرتے تھے ، حادثات قرار دے دیا کرتے تھے یا بدشگونی تھے ان لوگوں سے جن پر ظلم کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ ان.ناراض ہوتا تھا.پھر آگے فرماتا ہے اللہ تعالیٰ.وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ بِالْعَذَابِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (الزخرف: ۴۹) کہ جب ہم پکڑ سکتے ہیں ایک ہی عذاب کے ساتھ اور ایک ہی بجلی کے جلوے سے قوموں کا صفایا کر سکتے ہیں اور پہلے کرتے بھی رہے ہیں تو پھر
خطبات طاہر جلدم 557 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء جب ہم یہ طریق اختیار کرتے ہیں کہ تدریجی نشان ظاہر کریں تو اس میں حکمت کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے یہ طریق موسیٰ کے ساتھ اختیار کیا کہ وَمَا نُرِيهِمْ مِنْ آيَةٍ إِلَّا هِيَ أَكْبَرُ مِنْ أُخْتِهَا که هم رفتہ رفتہ نشان ظاہر کر رہے تھے اور ہر اگلا نشان پہلے نشان سے زیادہ بڑھ کر تھا اور پھر اس کے بعد آنے والا نشان اس سے زیادہ آگے بڑھ کر تھا اور پھر اس کے بعد آنے والا نشان اپنی پکڑ میں اس سے بھی زیادہ بڑھ کر نمایاں اور سخت تھا فرماتا ہے کس لئے ؟ اس لئے نہیں کہ جس طرح ظالم آدمی کسی کے ساتھ کھیل کھیلتا ہے اور اس کو دکھ پہنچانے کیلئے ذہنی عذاب میں مبتلا کرنے کے لئے ایسی حرکتیں کرتا ہے یہ تو رحمن خدا کا کلام ہے.اس کی تدبیر ہے وہ ہرگز ظلم کی خاطر ایسے افعال نہیں کیا کرتا.فرماتا ہے لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ اس لئے ہم ایسا کرتے ہیں تا کہ انہیں واپس لوٹنے کا موقع مل جائے ، وہ دیکھیں اور سمجھیں اور غور کریں اور نصیحت پکڑیں تا کہ جتنے بھی ان لوگوں میں سے بچ سکتے ہیں وہ بچ جائیں.پس اس سے میں یہ سمجھتا ہوں ان تمام امور پر غور کرنے کے بعد کہ دس جمعۃ المبارک رمضان شریف میں جو واقعہ رونما ہوا ہے اس کے یہ پہلو کھل کر اب سامنے آگئے ہیں.اول ان نشانوں کا ایک سلسلہ جاری ہوا ہے جو وہیں رُک جانے والا نہیں اور جب میں غور کرتا ہوں اس نظارے پر جو میری آنکھوں کے سامنے ابھی بھی اُسی طرح روشن ہے کہ گھڑی کا دسواں ہندسہ دھڑک رہا تھا روشن الفاظ میں.روشنی بجلی کا بھی نشان ہوتی ہے اور رحمت کا بھی نشان ہوا کرتی ہے یعنی روشنی بعض دفعہ عذاب کی تجلی کا بھی نشان ہوتی اور بعض دفعہ تبشیر کی بجلی کا بھی نشان ہوتی ہے تو اس ہند سے کا دھڑ کنا بتاتا ہے کہ یہ ایک دفعہ ہونے والا واقعہ نہیں ہے اس کا آغاز دسویں جمعہ کو جو چاند کی دسویں ہوگی اس سے ہوگا اس جمعہ کو یہ بات شروع ہو جائے گی اور پھر یہ نشان دھڑ کے گا اور بار بار رونما ہوگا اور قرآن کریم کے مطالعہ سے یہ خوشخبری ملتی ہے کہ اس لئے ہوگا تا کہ قوم میں جولوگ ہدایت پانا چاہتے ہیں جن کے مقدر میں ہدایت ہے ان کو خدا تعالیٰ اس کا موقعہ عطا فرما دے.دوسرا میں اس سے یہ سمجھا ہوں کہ پاکستان کو جو خطرات در پیش ہیں ان کی نشان دہی کر دی گئی ہے کہ کہاں کہاں سے وہ خطرے ہیں.ایک پاکستان کو جنوب سے خطرہ در پیش ہوگا اور جس طرح سمندری طوفان کی صورت میں یہ تنبیہ کی گئی بعید نہیں کہ وہ خطرہ سمندر ہی کی طرف سے درپیش ہو وہ کس شکل میں ہوگا یہ ہم ابھی نہیں
خطبات طاہر جلد۴ 558 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء جانتے جب ظاہر ہوگا تو خدا تعالیٰ کی تقدیر خود کھول کر بتا دے گی لیکن جو خطرہ جنوب سے پاکستان کو پیش آنے والا ہے وہ سمندر سے تعلق رکھنے والا خطرہ مجھے معلوم ہوتا ہے کیونکہ سمندر کی ایک غیر معمولی حرکت کے ذریعہ خدا نے اس تجلی کو ظاہر فرمایا جو عموماً اس علاقے میں دیکھی نہیں جاتی جو جغرافیہ کی تاریخ کے لحاظ سے ایک بالکل اجنبی بات تھی اور شمالی سرحد سے ہوائی خطرہ ہے پاکستان کو.گو آسمانی نشان کے طور پر تو دونوں ہی نشان ظاہر ہونگے لیکن اس کا ظاہری فضا میں بھی آسمان سے تعلق معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ خطرہ ایک ہوائی حملہ کی صورت میں ظاہر ہوا تھا.پس یہ باتیں تو ہم بہت کھل کر اب دیکھ رہے ہیں کہ یہ مراد تھی اور آنے والے وقت نے یہ بات واضح کر دی کہ یہی رنگ ہے اس پیشگوئی کا اور ابھی یہ ختم نہیں ہوئی بلکہ جاری ہوئی ہے.اس کے بعد میں جماعت کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں بہت سے کراچی کے دوستوں نے جو خطوط لکھے ان میں اگر چہ بھاری اکثریت نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ نشان ظاہر تو ہوا مگر اس نے نقصان نہیں کیا اور ہم بہت خوش ہیں کہ لاکھوں جانیں بچ گئیں کیونکہ اندازہ یہ تھا کہ اگر یہ واقعہ پوری طرح خطرہ در پیش آجاتا تو معمولی نقصان نہیں تھا بلکہ لکھوکھا جانیں تلف ہو سکتی تھیں.پچاس فٹ اونچی سمندر کی لہر تھی جو تقریباً سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کراچی کی طرف بڑھ رہی تھی اور یہ جو اخبارات میں نے دیکھے ہیں ان میں لکھا ہے کہ بعض نے تو یہ کہا ہے کہ سومیل یا اس سے زائد اس کے پیچھے رہ گئی تھی جب رخ پلٹا ہے، بعض نے لکھا ہے کہ صرف پچاس میل قریب آکر یعنی نصف گھنٹہ کا فرق رہ گیا تھا تو پھر وہ مڑی ہے اور جو تنبیہات کی گئیں ان میں صبح دس بجے کے وقت اس کا پہنچنا بھی بتایا گیا تھا کہ اگر یہ پہنچ جاتا تو صبح دس کے لگ بھگ اس نے کراچی کو Hit کرنا تھا اب پچاس فٹ اونچی سمندری لہریں جو سو میل کی رفتار سے آگے بڑھ رہی ہوں اس نے تو کراچی کے میل ہا میل تک کلیۂ صفایا کر دینا تھا اس علاقے سے نام ونشان شہر کے اس علاقے سے مٹ جانے تھے.تو اس لئے جو سمجھ دار ہیں جو صاحب دل لوگ ہیں وہ مجھے خط لکھتے ہیں اور اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اللہ نے فضل فرمایا اور ایک نشان پورا بھی فرما دیا ہماری سرخروئی بھی کر دی اور بنی نوع انسان کو ایک بڑے دکھ سے بھی بچالیا لیکن بعض نو جوان بیچارے جو یہ حکمتیں نہیں سمجھتے یا پوری تربیت نہیں رکھتے بہت چند ہیں گنتی کے مگر انہوں نے یہ لکھا کہ اللہ میاں نے جب یہاں تک پہنچا دیا تھا تو آگے تک جاتے کیا
خطبات طاہر جلدم 559 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء تکلیف تھی.پچاس میل رہ گیا تھا خدا کو آگے کیا حرج تھا آگے کر دیتے تو پھر ذرا اور ہوتا.ان کو اندازہ نہیں کہ دکھ کیا چیز ہے اور قومی دکھ کیسے کیسے خوفناک نتائج پیدا کرتا ہے اور ان کو پتہ نہیں کہ اللہ رحیم وکریم ہے نشانات ظاہر ہوتے ہیں اور ہمیشہ ہوتے رہیں گے لیکن جن کی خاطر نشان ظاہر ہوتے ہیں ان کا دل نشانات کے ظاہر ہونے سے زیادہ قوم کی ہمدردی میں مبتلا ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق تھا جو صحابہ کی روایات سے ثابت ہے کہ بعض موقع پر جب ایک شدید معاند کی ہلاکت کی آپ نے خبر دی اور وہ دن قریب آرہا تھا تو صحابہ ساری ساری رات اٹھ کر روتے اور گریہ زاری کرتے تھے کہ اے خدا یہ نشان ظاہر فرما دے پکڑا جائے، پکڑا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پتہ چلا تو آپ نے فرمایا کہ میں تو رات بھر یہ دعائیں کرتا رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اس کو بچالے، نہ پکڑا جائے ، نہ پکڑا جائے نہ پکڑا جائے اور ہدایت نصیب ہو جائے پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:.ع جو خبر دی وحی حق نے اس سے دل بے تاب ہے (درین صفحہ: ۶۸) الله کہ مجھے خبر دی ہے میری سچائی کے نشان کے طور پر اور میرا ہی دل بے تاب کر دیا ہے کہ اے خدا یہ کیا ہوگا کیوں لوگ ہلاک ہوں گے؟ کیوں نہ ہو ؟ کس کے غلام تھے ؟ محمد عربی ﷺ کے جن کے دل پر نظر ڈالتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۲) جن کے انکار پر ان کی ہلاکتوں کی خبر میں تمہیں دے رہا ہوں ،اے میرے پیارے تیرے دل کا کیا حال دیکھ رہا ہوں تو اس غم میں ہلاک کر رہا ہے خود اپنے آپ کو کہ یہ لوگ انکار کے نتیجہ میں پکڑے نہ جائیں اور ہلاک نہ ہو جائیں.تو یہ رستہ جو الہی جماعتوں کا رستہ ہے اس پر چلنے کے لئے اسلوب بھی تو وہی ہونے چاہئیں اطوار بھی تو انبیاء سے ہی سیکھنے چاہئیں.پس آپ ان رستوں پر ڈالے گئے ہیں اور آپ نے ان رستوں پر آگے بڑھنا ہے.میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ خدا سے نشانات تو مانگیں لیکن اس نیت سے مانگیں کہ اللہ تعالیٰ قوم کے بڑے حصہ کے لئے ہدایت کے سامان پیدا فرما دے اور آپ کے لئے تقویت ایمان کے سامان پیدا فرمادے.انتقام اور غضب کے راہ سے نشانوں کا مطالبہ کرنا درست
خطبات طاہر جلد۴ 560 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء نہیں.اس لئے جس رستہ پر چل رہے ہیں یہ تو انبیاء کا رستہ ہے انبیاء کے دل لے کر آگے بڑھیں اور خدا سے دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں وہی اسلوب عطا فرمائے جو نبیوں کو خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے کیونکہ ان کی طرف منسوب ہونے والوں کو بھی وہی رنگ اختیار کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور قوم کو مجھ اور فہم کی تو فیق عطا فرمائے.قوم کو تو فیق عطا فرمائے کہ خدا تعالیٰ نے جو ڈھیل کی راہ اختیار کی ہے اور رفتہ رفتہ اپنی پکڑ کو زیادہ سخت کرنے کا فیصلہ فرمایا ہے اس فیصلہ کو اب سمجھیں آج وقت ہے سمجھنے کا اگر دیر کی تو پھر معاملہ ہاتھ سے جاتا رہے گا.وَّلَاتَ حِيْنَ مَنَاصِ ( ص ) کا وقت آجائے گا اور غور کریں کہ یہ معمولی بات نہیں.دسمبر کے آخر پر ایک عاجز بندے کو خدا تعالیٰ نے یہ خبر دی کہ دس جمعتہ المبارک کو کچھ ہونے والا ہے.کس کے اختیار میں ہے ہم تو ایسے بے اختیار لوگ ہیں کہ پردیس میں نکالے گئے اور کوئی اختیار نہیں ہے.وہاں کے حالات پر ہمارا کوئی اختیار نہیں، سمندر کی طاقتوں پر کوئی اختیار نہیں ، لوگ ہنسنے اور مذاق اڑانے کے لئے تیار بیٹھے تھے، بے بس تھے اور ایک لمحہ کے لئے میرے دل میں خیال آیا کہ اگر میں اس کا اعلان کر دوں تو بہت بڑی ذمہ داری ہے.اللہ تعالیٰ کی مرضی ہے بعض دفعہ وہ نشانوں کو ٹال بھی دیتا ہے، جماعت پہلے ہی دکھوں میں مبتلا ہے ، لوگ نہیں گے اور مذاق اڑائیں گے لیکن اس وقت میرے دل نے مجھے بتایا کہ یہ بھی ایک قسم کا شرک ہے خدا کی مرضی ہے وہ بتائے اور نہ پورا کرے.انبیاء کی شان کے مطابق غلاموں کو بھی وہی رنگ اختیار کرنے چاہئیں اس لئے وہ اس بات سے نہیں ڈرتے تھے کہ دنیامذاق اڑائے گی یا نہیں اڑائے گی کیا کہے گی ؟ بے پرواہ ہو کر نا ممکن باتیں کہہ دیا کرتے تھے اور بظاہر کوئی امید نظر نہیں آتی تھی.تو اس وقت مجھے بڑی سخت میرے نفس نے زجر و توبیخ کی کہ یہ ایک لمحہ کے لئے جو وہمہ تمہارے دل میں آیا ہے اگر چہ بظاہر نیکی کے نام پر آیا ہے کہ جماعت کے لئے مشکل نہ پڑے یہ بھی غیر اللہ کی ملونی کا ایک قسم کا شائبہ رکھتا ہے اس لئے استغفار کرو.چنانچہ میں نے بہت استغفار کی اور پھر بالکل پرواہ نہیں کی کہ کیا ہوتا ہے جو خدا نے مجھے دکھایا امانت کے طور پر میں نے جماعت کے سامنے پیش کر دیا اور جو ظاہر ہوا ہے یہ سمندر کی طرف سے بھی ظاہر ہونا شمال سے بھی ظاہر ہونا جنوب سے بھی سمندر سے بھی اور ہوا سے بھی اور پھر معاندین احمدیت کا اس کو نشان اور تنبیہ قرار دے دینا اب جو چاہیں کر لیں اب یہ قلم سے نکلی ہوئی تحریر میں اور زبان سے نکلے ہوئے کلمات اب
خطبات طاہر جلدم 561 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء واپس نہیں لے سکتے.اس لئے خدا کا نشان تھا جو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوا اور ہمارے دل اس کے لئے شکر اور حمد سے لبریز ہیں مگر ساتھ میں آپ کو تنبیہ کرتا ہوں کہ دعائیں کریں اور استغفار کریں اور قوم کا برانہ چاہیں.قوم کی غلطیاں ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن ہم میں سے بھی تو بے شمار گناہ گار ہیں، ہم کون سا خدا کے سب حکموں پر پوری طرح عمل پیرا ہوتے ہیں ، وہ بڑا رحمن اور رحیم ہے اگر ہم اپنی ذات کے لئے نہیں چاہتے کہ ہمارے گناہوں کو خدا فوراً پکڑلے اور ہماری پردہ دری کر دے اور ہمیں ان گناہوں کے نتیجہ میں ہلاک کرے تو غیروں کیلئے ہم کیوں یہ چاہیں اس لئے کہ انہوں نے ہمیں دکھ پہنچایا ہے؟ اللہ کا تو بڑا حوصلہ ہے اس کی آنکھوں کے سامنے بڑے بڑے مکر وہ کام کئے جاتے ہیں اور اس کے باوجود وہ پکڑ میں ڈھیل کرتا چلا جاتا ہے اور زیادہ سے زیادہ مہلت دیتا چلا جاتا ہے.فرماتا ہے جو اعمال انسانوں نے کئے ہیں دنیا میں یا کر رہے ہیں اگر ہم ان اعمال کی جزا دینے کا فیصلہ کر لیتے تو صرف انسان نہیں زمین سے صفحہ ہستی سے زندگی کا نشان مٹا دیتے کوئی دابہ نہ رہنے دیتے یہاں تو اس اللہ کی محبت کے دعوے اور پھر دل میں یہ تمنا کہ تماشہ ہو جائے.تماشوں کے لئے آپ نہیں یدا کئے گئے.پیدا صرف اتنا حق ہے اور یہ ہمارا حق ہر الہی جماعت کا حق رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے نشان مانگیں اور دعا یہ کریں کہ وہ نشان رحمت کے نشان ہوں اور اگر عذاب کے نشان ہی مقدر ہیں مخالفین کے لئے تو اے خدا! اس رنگ میں وہ نشان ظاہر فرما کہ ائمۃ الکفر تو پکڑے جائیں اور عبرت کا نشان بن جائیں لیکن بھاری اکثریت عوام الناس کی جو اس لحاظ سے معصوم ہے کہ کچھ بھی نہیں جانتی جس طرف ان کو ڈال دیا جاتا ہے بھیڑ بکریوں کی طرح چلتے رہتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اپنے غضب سے بچالے اور اپنی پکڑ سے محفوظ رکھے اور ان کے لئے یہ عبرت کے نشان ہدایت کا موجب بن جائیں.یہی تمنا ہونی چاہئے یہی میرے دل کی تمنا ہے یہی میں چاہتا ہوں کہ آپ کے دل کی تمنا ہو یہی دعائیں ہیں جو آپ کو جاری رکھنی چاہئیں.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا: آج جمعہ کے بعد ایک مخلص نوجوان کی نماز جنازہ ہوگی.یہ نبی سر روڈ میں تھے ہمارے ایک
خطبات طاہر جلدم 562 خطبه جمعه ۲۱ / جون ۱۹۸۵ء بہت ہی مخلص فدائی احمدی دوست جو امیر جماعت رہے ہیں گوجرانوالہ کے اور 1974 ء میں انہوں نے غیر معمولی خدمت کی توفیق پائی تھی چوہدری عبدالرحمن صاحب ان کے چھوٹے بھائی ہیں، چوہدری عبدالحمید صاحب.اور ان کے ایک بھائی اعجاز احمد صاحب جو ایک بہت ہی مخلص کارکن ہیں ان کے متعلق یہ افسوس ناک اطلاع ملی ہے کہ وہاں چونکہ کنری کے علاقے میں خدمت کے وقت انہوں نے غیر معمولی بھاگ دوڑ کی اور بہت ہی زیادہ اپنی جان مار کر اپنے مظلوم بھائیوں کی مدد کے لئے دن رات پھرتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ ان کی صحت میں پہلے ہی سے کمزوری تھی تو اچانک ایک دن ان کا ہارٹ فیل ہو گیا اور عمر صرف ۲۴ ۲۵ سال ہی تھی چھوٹے چھوٹے بچے ہیں تو ان کے لئے بھی مغفرت کی دعا کریں گے.نماز جنازہ ان کی جمعہ کے بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلدم 563 خطبه جمعه ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء مذہبی تاریخ اپنے آپ کو ضرور دہراتی ہے ( خطبه جمعه فرموده ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هَذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا وَمَا مَنَعَ النَّاسَ أَنْ يُؤْمِنُوا إِذْ جَاءَهُمُ الْهُدَى وَيَسْتَغْفِرُوا رَبَّهُمْ إِلَّا أَنْ تَأْتِيَهُمُ سَنَةُ الْأَوَّلِينَ اَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبُلًا وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ ۚ وَيُجَادِلُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ وَاتَّخَذُوا التِي وَمَا انْذِرُوا هُزُوًا وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِرَ بِايَتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَسِيَ مَا قَدَّمَتْ يَدُهُ إِنَّا جَعَلْنَا عَلَى قُلُوبِهِمْ اكِنَّةً أَنْ يَفْقَهُوْهُ وَفِي أَذَانِهِمْ وَقُرًا وَإِنْ تَدْعُهُمْ إِلَى الْهُدَى فَلَنْ يَهْتَدُوا إِذَا اَبَدًا وَرَبُّكَ الْغَفُورُدُ والرَّحْمَةِ لَوْ يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ بَلْ لَّهُمْ مَوْعِدُ لَّنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْبِلًا (الکہف:۵۵-۵۹) پھر فرمایا: یہ کہا جاتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے.دنیا کی تاریخ سے متعلق تو یہ محاورہ سو
خطبات طاہر جلدم 564 خطبہ جمعہ ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء فیصدی صادق ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ تاریخ عالم پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر قوم کی تاریخ نے ہمیشہ اپنے آپ کو نہیں دہرایا لیکن جہاں تک مذہبی تاریخ کا تعلق ہے قرآن کریم سے یقینی طور پر پتہ چلتا ہے کہ مذہبی تاریخ ضرور اپنے آپ کو دہراتی ہے اور ہمیشہ سے دہراتی چلی آئی ہے.چنانچہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اسی دہرائی جانے والی تاریخ کے ایک دردناک پہلو کا ذکر ہے.دہرائی جانے والی تاریخ دردناک بھی ہے، المیہ بھی ہے اور بشارتوں سے بھی تعلق رکھنے والی ہے.قرآن کریم نے دونوں تاریخوں کا الگ الگ ذکر فرمایا ہے.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اس المیہ تاریخ کا ذکر ہے جو ہمیشہ دہرائی جاتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَلَقَدْ صَرَّفْنَا فِي هُذَا الْقُرْآنِ لِلنَّاسِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ اور وہ تمام باتیں جو یا د رکھنے کے لائق ہیں ، جن کو نمونے کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے یا جن سے نصیحت حاصل کی جاتی ہے وہ ساری ہم نے اس قرآن کریم میں لوگوں کے فائدہ کے لئے محفوظ کر رکھی ہیں.یعنی کوئی ایک بھی ایسی بات تاریخ عالم میں باقی نہیں رکھی جومثل کے طور پر پیش کی جاسکتی ہو، جس کو دیکھ کر بنی نوع انسان استفادہ کر سکتے ہوں اور خدا تعالیٰ نے اس کا تذکرہ قرآن کریم میں نہ کیا ہو.وَكَانَ الْإِنْسَانُ أَكْثَرَ شَيْءٍ جَدَلًا لیکن عجیب ظالم انسان ہے ،اس کے باوجود اکثر باتوں میں بہت جھگڑالو ہے اور بہت ہی کج بحث ہے.باوجود اس کے کہ ہر قسم کے تاریخی واقعات جن سے انسان سبق حاصل کر سکتا تھا ہم نے کھول کھول کر قرآن میں بیان فرما دیئے لیکن انسان کو دیکھو کہ پھر بھی جھگڑے کی راہیں نکالتا ہی چلا جاتا ہے.16June 16.28.851 Backup σ khutba2.jpg not found.پس کیا نتیجہ نکلا ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں کو اس بات سے کہ وہ ایمان لے آئیں جب ہدایت ان کو پہنچے اور پھر اپنے رب سے استغفار کریں اس بات سے انہیں کوئی چیز نہیں روکتی مگر شاید یہ تقدیر کہ انہوں نے پہلوں کے قدم پر ضرور قدم رکھنے ہیں اور پہلوں کی سنت پر ضرور چلنا ہے یعنی یہ طرز بیان اس رنگ میں ہے کہ گویا وہ فیصلہ کر بیٹھے ہیں کہ ہم نے تو اپنے پہلوں کے قدم بقدم ضرور چلنا ہے اور چونکہ یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ ہم نے ان کی سنت کو نہیں چھوڑ نا اس لئے ہم ایمان نہیں لائیں گے.
خطبات طاہر جلدم 565 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء اَوْ يَأْتِيَهُمُ الْعَذَابُ قُبلا یا پھر اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ عذاب ان کے سامنے آکھڑا ہو اور دوسری طرف خدا فرماتا ہے وَمَا نُرْسِلُ الْمُرْسَلِينَ إِلَّا مُبَشِّرِينَ وَمُنْذِرِينَ رسولوں کو ہم داروغہ بنا کر تو بھیجتے نہیں جو زبردستی پکڑ کر ان کو ٹھیک کر لین ہم تو انہیں سوائے مبشرین اور منذرین کے اور کسی حیثیت سے نہیں بھیجتے.یعنی لوگوں کو ڈرانا ان کا کام ہے، لوگوں کو خوشخبریاں دینا ان کا کام ہے.زبردستی ہدایت دینا ان کا کام نہیں اور اس کے مقابل پر جن لوگوں نے کفر اختیار کیا وہ ہر ہتھکنڈہ اختیار کرتے ہیں حق کو دبانے اور مٹانے کے لئے يُجَادِلُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِالْبَاطِلِ.وہ حق سے مقابلے کیلئے باطل طریق اختیار کرتے ہیں.لِيُدْحِضُوا بِهِ الْحَقَّ.تا کہ حق کو مٹاڈالیں.وَاتَّخَذُوا أَيْتِي وَمَا اُنْذِرُوا هُزُوا اوروه پکڑ لیتے ہیں ہمارے نشانات کو اور جس بات سے وہ ڈرائے جاتے ہیں اس کو ٹھٹھے کے طور پر یعنی تمسخر اڑاتے ہیں ہمارے نشانات کا بھی اور جب انہیں ڈرایا جاتا ہے کہ خدا کے عذاب سے ڈرو، اللہ کا خوف کرو تو وہ ہنستے ہیں اور تمسخر اڑاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنْ ذُكِرَ بِايْتِ رَبِّهِ فَأَعْرَضَ عَنْهَا وَنَيَ مَا قَدَّمَتْ يَدُهُ کہ ہر بدکار، بد اعمال ظالم ہوتا ہے مگر اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جسے اللہ تعالیٰ کی آیات بتا کر نصیحت دینے کی کوشش کی جائے اور اس کے رب کی آیات اس کے سامنے پڑھ کر اس کو نیک باتوں کی طرف بلایا بھی جا رہا ہو.فَاَعْرَضَ عَنْهَا پھر وہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے وَنَيَ مَا قَدَّمَتْ يَدَهُ اور بھول جاتا ہے کہ میں نے کس قسم کے اعمال آگے بھیجے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے ہی لوگ ہیں جن کے دلوں پر ہم نے کئی قسم کے پردے ڈال رکھے ہیں اور وہ پر دے اس راہ میں حائل ہو جاتے ہیں کہ اَنْ يَفْقَهُوهُ کہ وہ حق کو سمجھ سکیں اور اسی طرح ان کے کانوں میں بوجھ پڑ جاتے ہیں.اگر تو انہیں ہدایت کی طرف بلائے تو وہ ہدایت کی طرف ہرگز ، کبھی بھی نہیں آئیں گے.اس کے باوجود وَرَبُّكَ الْغَفُورُ ةُ والرَّحْمَةِ الله تعالیٰ بہت ہی بخشش کرنے والا ہے اور بہت ہی رحمت فرمانے والا ہے لَو يُؤَاخِذُهُمْ بِمَا كَسَبُوا اگر خدا ان کے ہر اس فعل پر جو وہ کرتے ہیں ان کو پکڑنے لگ جائے لَعَجَّلَ لَهُمُ الْعَذَابَ تو عذاب ان پر بہت پہلے آجائے.اگر انکی بداعمالیوں کی سزا دینے میں خدا جلدی کرے اور وہ صاحب مغفرت اور
خطبات طاہر جلدم 566 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء صاحب رحمت نہ ہو تو ان کا عذاب تو ان پر پہلے مقدر ہو چکا ہے.بَلْ لَّهُمْ مَّوْعِدُ لَنْ يَجِدُوا مِنْ دُونِهِ مَوْ بِلا لیکن انکے لئے ایک وعدہ مقرر ہے ، ایک وعدہ کا دن ہے.کیوں وعدہ ہے اس مضمون کو وَرَبُّكَ الْغَفُورُةُ والرَّحْمَةِ کھول رہا ہے.فرماتا ہے ہم اس لئے عذاب میں جلدی نہیں کرتے ، اس لئے عذاب دیر سے آتا ہے تا کہ انکو استغفار کا موقع مل جائے ، تا کہ اللہ تعالیٰ ان پر رحم فرمائے اور انکی مغفرت فرمائے.پس وہ مومن یا مومنوں میں سے بعض جو گھبرا جاتے ہیں اور جلدی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا کے پیاروں کو اتنے دکھ دیئے جارہے ہیں ، اتنی گالیاں دی جارہی ہیں.اللہ تعالیٰ کو کوئی خیال نہیں آتا، کیوں خدا ان پر بجلی نہیں گراتا، کیوں انکو نہیں پکڑتا؟ ان کا جواب ہے کہ خدا تعالیٰ بہت ہی غیر معمولی مغفرت فرمانے والا ہے.بندوں کی مغفرت کے تصور سے اس کا مغفرت کا تصور بہت بالا ہے وہ بے انتہا رحمت فرمانے والا ہے اس لئے وہ انکو مہلت دیتا چلا جاتا ہے تا کہ وہ استغفار کریں اور تو بہ کریں اور وہ خدا تعالیٰ کی مغفرت اور رحمت سے فائدہ اٹھا سکیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ کلیہ بیچ کر نکل جائیں گے.ان کا ایک ایسا دن مقرر ہے اور ایک ایسا عذاب مقدر ہے کہ جس سے وہ کسی طرح کسی پناہ میں نہیں جاسکتے.کوئی موئل انکے لئے نہیں ہے، کوئی پناہ گاہ انکے لئے باقی نہیں ہے.یہ ہے عمومی مضمون قرآن کریم کا جس سے پتہ چلتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ تاریخ دہرائی جاتی ہے بلکہ قرآن کریم نے اس تمام تاریخ کو محفوظ بھی فرمایا لیا ہے اور ہر قسم کی مثل قرآن کریم میں موجود ہے.اس پہلو سے جب ہم قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں تو بیسیوؤں پہلو ہیں انبیاء کے انکار کے اور حق کی مخالفت کے جن کو نہایت ہی لطافت اور نہایت ہی باریکی کے ساتھ بھی خدا نے محفوظ فرمایا ہوا ہے اور کھلے کھلے لفظوں میں ان کے نمایاں پہلو بھی ہمارے کے سامنے کھول کر رکھے ہوئے ہیں.کوئی پہلو ایسا باقی نہیں ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود نہ ہو بلکہ قوموں کا نفسیاتی تجزیہ بھی پیش فرمایا گیا ہے پھر کیوں ان کو غلط فہمی ہوتی ہے؟ کیوں دہ دھوکا کھاتے ہیں.کیا ان کے مقاصد ہوتے ہیں؟ تمام تفاصیل قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن چونکہ وقت کی مجبوری ہے اس لئے میں نے آج کے خطبہ کیلئے چند آیات چنی ہیں جن میں مِنْ كُلِّ مَثَلِ اللہ تعالیٰ نے چند بنیادی مثلات مذکور فرما دی ہیں.ایک بات جو بڑی اہم ہے اور جو انسان کے عمومی رویے کا پتہ دیتی ہے کہ
خطبات طاہر جلدم 567 خطبه جمعه ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء کیوں وہ حق کا انکار کیا کرتا ہے وہ اس آیت کریمہ میں بیان فرمائی گئی: وَمَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِهَ إِذْ قَالُوا مَا أَنْزَلَ اللهُ عَلَى بَشَرٍ مِنْ شَيْءٍ قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتَبَ الَّذِي جَاءَ بِهِ مُوسَى نُورًا وَهُدًى لِلنَّاسِ تَجْعَلُوْنَهُ قَرَاطِيْسَ تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا وَعُلِّمْتُمْ قَالَمْ تَعْلَمُوا اَنْتُمْ وَلَا ابا وكم قُلِ الله ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ (الانعام:۹۲) اور وہ لوگ جو وحی کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں خدا تعالیٰ کسی بشر پر کچھ نازل نہیں فرمائے گا یا نہیں نازل فرما یا کرتا یہاں سے بات چلتی ہے.کہتے ہیں ہو ہی نہیں سکتا ، بالکل لغو بات ہے کہ خدا تعالیٰ آج کسی انسان کے ساتھ کلام کر رہا ہو.ہر گز ایسی کوئی بات نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس میں محض بندے کا انکار نہیں ہے بلکہ ان کے اس دعوے میں کہ خدا تعالیٰ کلام نہیں کرتا خدا تعالیٰ کی ناقدری اور ناقدرشناسی ہے.وہ کیسے خدا کا منہ بند کر سکتے ہیں وہ کیسے خدا تعالیٰ کو باز رکھ سکتے ہیں کلام کرنے سے اگر وہ کلام کرنے کا فیصلہ فرمائے.یہ ہوتے کون ہیں جو خدا کے اوپر بندشیں لگانے والے مَا قَدَرُوا اللهَ حَقَّ قَدْرِةٍ ان جاہلوں کو اللہ کی قدر ہی معلوم نہیں ، وہ اس بات کو بھول جاتے ہیں.قُلْ مَنْ اَنْزَلَ الْكِتَبَ الَّذِي جَاءَ بِهِم مُوسیٰ ان سے کہہ دو یا تو ان سے کہہ د ے کہ اگر یہ بات ہے تو موسیٰ پر جو کتاب آئی تھی اس کو کس نے اتارا تھا.یہاں صرف حضرت موسی “ کو ایک مثال کے طور پر پیش فرمایا گیا اس لئے کہ یہاں اہل کتاب بطور اوّل مخاطب ہیں.مراد یہ ہے کہ تم خود ایسی کتابوں کے ماننے والے ہو جو پہلے اتاری گئیں.کیوں اتاری گئیں؟ کیا ان سے پہلے انبیاء نہیں آئے تھے.کیوں وہاں تک بات پہنچ کر نہیں ٹھہر گئی ؟ جب تم تسلیم کرتے ہو کہ موسیٰ پر یا کسی ایک نبی پر خدا نے کلام نازل فرمایا تو اس سے پہلے بھی تو خدا کلام نازل فرمایا کرتا تھا.اس وقت کے لوگوں کو کیوں یہ حق نہیں تھا کہ وہاں کھڑے ہو جاتے اور کہہ دیتے اب خدا نازل نہیں فرمائے گا پہلوں پر نازل فرما چکا ہے اور اگر پہلے لوگوں کو حق نہیں تھا موسیٰ کے انکار کا تو تمہیں کیا حق ہے محمد مصطفی امیہ کے انکار کا ؟ ایک جاری سلسلہ ہے کہ خدا ہمیشہ بندوں سے کلام کرتا آیا ہے.اس لئے جب تم ایک کے کلام کو تسلیم کر لیتے ہو تو دوسرے کے کلام کے
خطبات طاہر جلد۴ 568 خطبه جمعه ۲۸ / جون ۱۹۸۵ء متعلق خدا کے اوپر بندشیں نہیں لگا سکتے اور یہ جو انکار ہے یہاں بشر کی ہتک نہیں بلکہ خدا کی ہتک ہے.پھر فرمایا تَجْعَلُونَ، قَرَاطِيْسَ تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ كَثِيرًا کہ تمہارے انکار کی وجہ یہ ہے کہ تم ٹیڑھے ہو چکے ہو اور خدا کی طرف سے جو پہلا کلام تھا خدا کا اس کے ساتھ بھی تم ایسا ہی کام کر چکے ہو جو بھی کا سلوک ہے اور ٹیڑھے پن کا سلوک کر چکے ہو.تم اس لائق نہیں ہو کہ خدا کے کلام سے استفادہ کرو ورنہ خدا تعالیٰ کا کلام تو کبھی بند نہیں ہوا کرتا.فرمایا دیکھو موسیٰ پر بھی تو کلام نازل ہوا تھا یہ تو تم مانتے ہو لیکن اس کلام سے تم نے کیا کیا ؟ تَجْعَلُوْنَهُ قَرَاطِيْسَ تم نے اس کو کاغذ کاغذ پر چی پر چی کر دیا.ایک نے تم میں سے ایک آیت اٹھائی اور اس کا ایک معنی نکالا کسی اور نے کوئی دوسری اور آیت اٹھائی اور اس کا کوئی اور معنی نکالا اور رفتہ رفتہ ایک کتاب تھی جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی وہ بہتر (۷۲) فرقوں میں تبدیل ہوگئی اور ہر فرقے نے اس کتاب کی بعض آیات کو پکڑ لیا اور بعض کو چھوڑ دیا.تم نے کتاب کے ساتھ تفریق کرنی شروع کر دی یہاں تک کہ اس کی وحدت ختم ہوگئی ، بظاہر وہ ایک کتاب رہی لیکن فی الحقیقت ہر فرقے نے اس میں سے بعض چیزوں کو اپنے لئے اخذ کر لیا اور بعض کو دوسروں کے لئے چھوڑ دیا، بعض آیات کا ایک مفہوم کسی ایک فرقے نے لے لیا اور دوسرا مفہوم دوسرے فرقے نے لے لیا.تو ایک کتاب ہوتے ہوئے بھی قَرَاطِيس بن گئی.فرمایا جب تمہارا یہ حال ہے تو تم دراصل نہ خدا کی قدر کرنے والے ہو، نہ خدا کے کلام کی قدر کرنے والے ہو، اگر تم اللہ کی قدر کرتے اور اس کی اہمیت تمہارے ذہنوں میں ہوتی اور اس کا ادب ہوتا تمہارے دلوں میں تو خدا کے کلام پر قدغن لگانے کا تم سوچ بھی نہیں سکتے تھے اور نہ ہی گھر بیٹھے یہ فیصلہ کرتے کہ اب خدا کسی سے کلام نہیں کرے گا.اگر خدا کی کوئی قدر ہوتی تو تم اس کے کلام کا یہ حال نہ کرتے اس کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور اس کے نتیجہ میں خود ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے.وَعُلِّمْتُمْ مَّا لَمْ تَعْلَمُوا أَنْتُمْ وَلَا آبَاؤُكُمْ اور تمہیں بھی تو خدا نے ایسا علم دیا تھا جو تم نہیں جانتے تھے.نہ تم اس سے واقف تھے نہ تمہارے آباء واجداد واقف تھے ، کون تھا وہ علم دینے والا ؟ قل الله ثُمَّ ذَرْهُمْ فِي خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ پھر ان کو چھوڑ دو یہ بات کہہ کر کہ یہ تمہارا حال ہے پھر خدا جو چاہے ان سے سلوک کرے في خَوْضِهِمْ يَلْعَبُونَ وہ اپنے ٹھٹھے ، مذاق اور تمسخر میں بے شک بھٹکتے اور کھیلتے رہیں.
خطبات طاہر جلدم 569 خطبہ جمعہ ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء یہ جواہل کتاب کو مخاطب کر کے یہ فرما یا تبدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا اس میں ایک اور کجی کا پہلو بھی بیان فرمایا دیا گیا کہ وہ بعض چیزوں کو تو ظاہر کرتے ہیں اور بعض کو چھپاتے ہیں.یعنی جانتے ہوئے جن چیزوں پر ایمان لاتے ہیں ان میں سے بھی بعض کو ظاہر کرتے ہیں اور بعض کو چھپاتے ہیں ، یہ پہلی کبھی کے علاوہ ایک اور بات ہے جو بیان فرمائی گئی ہے ایک تو یہ ہے کہ بعض نے بعض آیات کو پکڑا مثلاً نور والی آیت کو پکڑ لیا اور نورانی ہو گئے اور اس کے نتیجہ میں ایک ایسا فرقہ بنالیا جس کا یہ عقیدہ تھا کہ آنحضرت علی نور تھے بشر نہیں تھے اور ایک دوسرے فرقے نے بشر والی آیت کو پکڑ لیا اور یہ عقیدہ گھڑ لیا کہ بشر تھے، نور نہیں تھے.اس کو تو کہتے ہیں قراطیس یعنی قرطاس کی بجائے اسے کاغذ کاغذ ، پرچی پر چی کر دیا اسی طرح بعض آیات کو ایک عقیدہ والے پکڑ کر بیٹھ گئے بعض آیات کو دوسرے عقیدہ والے پکڑ کر بیٹھ گئے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِیر اتم اپنے مطلب کی باتیں ظاہر کرتے ہو اور اپنے مطلب کے خلاف باتوں کو چھپا لیتے ہو.جس کا مطلب یہ ہے کہ تم میں سے ہر ایک کے پاس بہت تھوڑا رہ گیا ہے یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے جسے سمجھنا چاہئے.جب مذاہب میں تفریق ہو جاتی ہے بٹ جاتے ہیں فرقوں تو یہ نہیں ہوا کرتا کہ ہر فرقے کے پاس اکثر موجود رہتا ہے اور تھوڑا ہے جسے وہ چھوڑتے ہیں.جو ان کے پاس ہوتا ہے اسے تو وہ ظاہر کرتے ہیں جو نہیں ہوتا اس کو چھپاتے ہیں تو فرمایا تُبْدُونَهَا وَتُخْفُونَ كَثِيرًا کچھ اس میں سے کو تم ظاہر بھی کرتے ہو لیکن اکثر حصہ کو چھپا جاتے ہو جس کا مطلب ہے حق کے وہ تمام پہلو جو تمہیں پسند نہیں ہیں ان کو تم چھپاتے ہو اور وہ پہلوا کثر ہیں یعنی حق میں سے تھوڑا تمہیں پسند آتا ہے اور باقی اکثر سے تم محروم بیٹھے ہوئے ہو ورنہ اس کو چھپاؤ نہیں.یہ حال آج بھی ہم اسی طرح دیکھ رہے ہیں.ہر فرقے کے پاس قرآن کی سچائیوں میں سے تھوڑی باقی رہ گئی ہے باقی اور اکثر ان کے عقائد تو ہمات اور رسومات میں بدل چکے ہیں.ان کے تصورات کے اکثر پہلو بدل چکے ہیں.کسی ایک فرقہ کو آپ لے لیجئے اس سے خدا کا تصور معلوم کیجئے ، رسول کا تصور معلوم کیجئے ، انبیاء کا تصور معلوم کیجئے ، کتب الہی کا تصور معلوم کیجئے غرضیکہ کے ایمانیات کے تمام پہلوؤں پر ان سے گفتگو کریں ہر پہلو میں آپ بگاڑ دیکھیں گے.مثلاً ملا سکتہ اللہ کے وجود ہی کو مسخ کر دیا گیا ہے یعنی ایسا تصور پیش کرتے ہیں جسے دنیا کا کوئی انسان جو فطرت سلیمہ اور
خطبات طاہر جلدم 570 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء فطرت صحیحہ رکھتا ہو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.تو اکثر چیزوں میں بگاڑ ہے تبھی فرمایا بدُونَهَا تم اس میں سے تو ظاہر کرتے ہو کچھ وَ تُخْفُونَ كَثِيرًا اکثر کو تم چھپا لیتے ہو.ایک آیت کو ظاہر کر دیا اور دس آیات کو چھپالیا.ہر مضمون کے ساتھ پھر یہی سلوک جاری رہتا ہے.مثلاً قرآن کریم میں خاتم النبین کی جو آیت نازل ہوئی اس کو ہر سٹیج پر چڑھ کے اور ہرمنبر سے بیان کرتے ہیں اور مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمْ (النساء:۷۰) والی آیت کو چھپاتے ہیں اسکو ظاہر نہیں کرتے، اس کا ذکر ہی نہیں کرتے - اللهُ يَصْطَفِي مِنَ الْمَلَكَةِ رُسُلاً وَ مِنَ النَّاسِ ( الج: ٧) والی آیت کو چھپاتے ہیں اور اس کا کچھ ذکر نہیں کرتے مِيثَاقَ النَّبِینَ (آل عمران: ۸۲) والی آیت کو چھپا لیتے ہیں اور اس کا کچھ ذکر نہیں کرتے إِنَّ الَّذِيْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا ( حم السجدہ: ۳۱) والی آیت کا ذکر نہیں کرتے اس کو چھپا لیتے ہیں.غرضیکہ جہاں بھی رسالت کے ایسے مفہوم کو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی غلامی میں جولوگ ترقی کرتے ہیں اور جو اطاعت میں ترقی کرتے ہیں ان پر نہ وحی بند ہے اور نہ رسالت بند ہے یعنی غلامان محمد مصطفی ملنے کے لئے کچھ بھی بند نہیں.غلامان محمد مصطفی علیہ پر سب کچھ بند کرنے لئے ایک آیت کا ایک مفہوم انہوں نے بنالیا ہے وہ پکڑ کے بیٹھ گئے ہیں اور وہ تمام آیات جن میں ان کے غلط مفہوم کی نفی ہے.ان کو چھپاتے لیتے ہیں تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ كَثِيرًا.پس جس پہلو سے بھی دیکھیں ان آیات میں بڑی تفصیل کے ساتھ آج کی قوم کا نقشہ کھینچا ہوا ہے.حدیثوں سے بھی یہی سلوک ہے.ایک ٹیڑھا پن ہے طبیعت کا جو ہر جگہ وہی منظر دکھاتا ہے.چنانچہ جہاں آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ تمہیں دجال آئیں گے وہ جھوٹے ہونگے ان میں سے ہر ایک یہ سمجھے کہ میں نبی اللہ ہوں حالانکہ وہ نبی اللہ نہیں ہے (صحیح مسلم کتاب الفتن حدیث نمبر ۵۲۰۵)، اس حدیث کا تمام مساجد سے تمام منبروں سے تمام جلسوں پر اس میں بہت زیادہ غلو کے ساتھ ذکر کرتے چلے جاتے ہیں ،کرتے چلے جاتے ہیں اور وہ ساری حدیثیں چھپا جاتے ہیں جن میں اس مضمون کی وضاحت موجود ہے.مثلاً یہ ذکر نہیں کریں گے اس وقت کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ عیسی ابن مریم نبی اللہ کے طور پر آئے گا آپ نے یہ بھی فرمایا ہے دجال آئیں گے مگر عیسی کو دجال نہ
خطبات طاہر جلدم 571 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء سمجھ بیٹھنا مسیح ابن مریم جب آئے گا اور نبی اللہ ہونے کا دعوی کرے گا تو میرے اور اس کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے ابو داؤد کتاب السلام باب خروج الدجال حدیث نمبر: ۳۷۶۶).اس کو کہیں دجال والی حدیث کی صف میں نہ لپیٹ دینا.پھر فرمایا تم پر بات کھول دینی چاہئے تمہارے دماغ ایسے ہیں کہ میں خوب کھول کر بتا دیتا ہوں مسیح ابن مریم آئے گا نبی اللہ ہوگا ، نبی اللہ ہوگا ، نبی اللہ ہوگا ایک ہی حدیث میں چار مرتبہ اس کے لئے نبی اللہ کا لفظ استعمال فرمایا ( مسلم کتاب الفتن حدیث نمبر : ۵۲۲۸).پھر فرمایا کہ میرا بیٹا ابراہیم اگر یہ زندہ رہتا تو ضرور نبی اللہ بنتا اور صدیق نبی کہلا تا (ابن ماجہ کتاب الجنائز حدیث نمبر : ۱۴۹۹).یہ ساری حدیثیں چھپائے بیٹھے ہیں.کیوں ان کا ذکر نہیں کرتے جرات کے ساتھ.جب وہ دجال والی حدیث یا د آتی ہے تو ساتھ یہ آنحضرت علی کے جو اپنے ارشادات ہیں یہ کیوں بھول جاتے ہیں.تو قرآن کریم سے بھی وہی سلوک کر رہے ہوتے ہیں جس پر قرآن نازل ہوا اس سے بھی وہی سلوک کر رہے ہوتے ہیں.جو اس سے پہلے گزشتہ قوموں نے کیا تھا قدم بقدم وہی چیزیں دہرا رہے ہیں.پھر یہ تو یاد آجاتا ہے کہ دجال کہا ہے بعض جھوٹے دعویداروں کو لیکن یہ کیوں ذکر نہیں کرتے کہ یہ بھی فرمایا ہے.علماء هم شر من تحت اديم السماء (مشکوۃ کتاب العلم الفصل الثالث ) اس زمانہ کے علماء آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونگے اور یہ ان کو بھول جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ ان سے ہی فتنے پھوٹیں گے اور ان میں ہی واپس لوٹ جائیں گے.پھر یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب اختلافات ہوں گے تو سادہ لوح مسلمان اپنے مولویوں کے پاس جائیں گے کہ ان سے فیصلے کروائیں.فَإِذَا هُم قِرَدَةً وَّ خَنا زیر ( کنز العمال) حیرت سے کیا دیکھیں گے کہ وہاں تو سور اور بندر ہیں.چنانچہ یہ حدیثیں بھی تو چھپا جاتے ہیں اور یہ حدیثیں قرآن کریم میں جن آیات سے اخذ ہوئی ہیں جہاں ان کی بنیادیں ہیں ان پر بھی ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاتے ہیں شـر مـن تـحـت اديــم السـمـاء کا مطلب کیا ہے کیا یہ رسول کریم ﷺ کا اپنا محاروہ ہے یا قرآن نے اس کی وضاحت فرمائی ہے قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے اِنَّ شَرَّ الدَّوَابِ عِنْدَ اللهِ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا فَهُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ (الانفال: ۵۶) کہ جب جانوروں اور زندہ لوگوں کے متعلق شـــرمـــن تــحــت اديــم الـسـمـاء کہا
خطبات طاہر جلد۴ 572 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء جاتا ہے تو قرآن کہتا ہے شَرَّ الدَّوَ آبِ عام چلنے پھرنے والوں میں سب سے زیادہ شریر اور گندہ جانور وہ ہے جو خدا کے نزدیک جو آنے والے کا کفر کرے اور اس کا انکار کر دے فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ اور مانے پر آمادہ ہی نہ ہو کسی طرح اور تیار ہی نہ ہو اس بات پر توشر الدَّ وَ آبِ اور شر من تحت اديم السماء کے ایک ہی معنی ہیں، ایک ہی معنوں میں دو محاورے استعمال ہوئے ہیں وہ بھی چھپا جاتے ہیں.پس قوم کو متنبہ کرنا چاہئے کہ بھئی خطرہ محسوس کر و قرآن نے خبر دی بڑے شریر لوگوں کی آنحضرت ﷺ نے بتادیا ہے کہ کہاں ملیں گے وہ.قرآن نے اصولی تعلیم دی ہے حضرت رسول کریم ﷺ نے انگلی رکھ دی کہ یہ وہ لوگ ہیں.تو دجال والی حدیثیں یا درہ جاتی ہیں اور اپنے متعلق جو شریر کا لفظ اور آسمان کے نیچے بدترین مخلوق کے لفظ آنحضرت ﷺ نے فرمائے ہیں وہ چھپا جاتے ہیں اور یاد کرواؤ تو غصہ آتا ہے کہتے ہیں ہم تمہیں ماریں گے تم کیسی باتیں ہمیں یاد کرواتے ہو.پھر جب ہم دیکھتے ہیں وہ کیا مطلب ہے سور اور بندر کا تو اس کے متعلق قرآن میں ہمیں آیت ملتی ہے.مَنْ لَّعَنَهُ اللهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ (المائدہ: ۶۱) یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے.اللہ کا غضب ان پر نازل ہوا ہے اور ان میں سے خدا تعالیٰ نے بندر بھی بنا دیئے اور سؤر بھی بنا دیئے ہیں تو کیسے بندر اور کیسے سور ہیں یہ کن لوگوں میں ملیں گے؟ جس پر وحی نازل ہو رہی ہے اس کو خدا تعالیٰ نے بتایا ہے کہ کن لوگوں میں ملیں گے.چنانچہ وہ اصدق الصادقین سب بچے انسانوں سے بڑھ کر سچ بولنے والے نے فرمایا ہے کہ ان کو اس وقت مولویوں میں تلاش کرنا.جب فتنے پھیلیں گے، اختلافات ہونگے تو لوگ ہدایت کی غرض سے مولوی کے پاس جائیں گے تو تم دیکھنا وہاں سور اور بندر ہونگے.تو قرآن جو اصولی تعلیم دے رہا ہے حضرت محمد مصطفی ﷺ انگلیاں اٹھا اٹھا کر دکھا رہے ہیں کہ کون وہ لوگ ہیں، کہاں تمہیں ملیں گے اور یہ پڑھتے ہیں ان کتابوں کو اور چھپا جاتے ہیں تُبْدُونَهَا وَ تُخْفُونَ كَثِيرًا کی کیسی عجیب مثال ہے.غرضیکہ ہر پہلو سے وہ چیزیں جو پہلی قوموں نے کیں ان کو آج کی قو میں بھی دہرا رہی ہیں.پھر قرآن کریم فرماتا ہے: صلى الله
خطبات طاہر جلدم 573 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء إِنَّ الَّذِيْنَ يَكْفُرُونَ بِاللهِ وَرُسُلِهِ وَيُرِيدُونَ أَنْ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللهِ وَرُسُلِهِ وَيَقُوْلُوْنَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضٍ وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا أُولَيْكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا وَأَعْتَدْنَا لِلْكُفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا (النساء۱۵۱_۱۵۲) وہ لوگ جو انکار کرتے رہے ہیں ہمیشہ الَّذِيْنَ يَكْفُرُونَ جو خدا کا انکار کیا کرتے ہیں اوراس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں.اور وہ چاہتے ہیں کہ يُفَرِّقُوا بَيْنَ اللهِ وَرُسُلِهِ اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان فاصلے ڈال دیں تفریق کردیں وَ يَقُولُونَ نُؤْمِنُ بِبَعْضٍ وَنَكْفُرُ بِبَعْضِ اور کہتے ہیں کہ بعض پر تو ہم ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے وَيُرِيدُونَ أَنْ يَتَّخِذُوا بَيْنَ ذَلِكَ سَبِيلًا اور چاہتے ہیں اپنی مرضی سے بیچ کی راہ پکڑ لیں جس کو چاہیں مان لیں جس کو چاہیں انکار کر دیں أولَبِكَ هُمُ الْكَفِرُونَ حَقًّا ہی وہ لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک پکے کافر ہیں وَاعْتَدْنَا لِلْكُفِرِينَ عَذَابًا مُّهِيْنا اور ہم نے کافروں کے لئے عذاب مھین مقرر فرمایا ہے.یہ بھی عجیب قرآن کریم کی آیت ہے تاریخ کا ایک ایسا پہلو اس میں محفوظ کیا گیا ہے جو ہمیشہ سے اسی طرح چلا آرہا ہے اور ہر دفعہ قوم اس پہلو کو دہراتی ہے اور نہیں جھتی کہ دراصل جب ہم نبیوں میں تفریق کرتے ہیں تو اللہ اور اس کے نبیوں میں تفریق کررہے ہوتے ہیں تُفَرِّقُوا بَيْنَ اللهِ وَرُسُلِهِ ہم خدا اور اس کے بھیجے ہوؤں کے درمیان حائل ہونا چاہتے ہیں یہ مراد ہے.جب وہ کہتے ہیں کہ بعض کو ہم مانیں گے اور بعض کو نہیں مان گے تو گویا خدا اور نبیوں کے درمیان پہرے بیٹھ گئے بعض کی وحی نہیں پہنچنے دیں گے اور بعض کی آگے جاری کر دیں گے گویا کہ خدا اور رسولوں کے درمیان انسپکٹر بیٹھ گئے ہیں اور وہ بیچ میں تفریق ڈالنے والے بیٹھ گئے ہیں.یہ بہت ہی بار یک نکتہ ہے اور بہت لطف آتا ہے اس پر غور کرنے سے کہ بظاہر تو یہ سمجھ آجاتی ہے کہ نبیوں کے درمیان فرق کر رہے ہیں، یہ تو عام بات ہے لیکن خدا تعالیٰ اس کا تجزیہ یہ کر رہا ہے کہ یہ دراصل نبیوں
خطبات طاہر جلدم 574 خطبہ جمعہ ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء کے درمیان فرق نہیں ہے بلکہ تُفَرِّقُوا بَيْنَ اللهِ وَرُسُلِیم اللہ اور اس کے رسولوں کے درمیان ایک فرق پیدا کر دیا گیا ہے اور بیچ میں کچھ پہرے دار بیٹھ گئے ہیں کہ ہماری مرضی سے وحی جائے گی ہماری مرضی سے وحی رکے گی.جس کے متعلق ہم چاہیں گے جاری کریں گے اور جس کے متعلق کہیں گے نہیں ، وہ نہیں جاری ہو سکے گی اور اس میں اہم نکتہ یہ ہے کہ خدا اور بندے کے درمیان کوئی چیز ہے ہی نہیں آہی نہیں سکتی اس لئے حتمی طور پر اور یقینی طور پر کوئی شخص یہ کہہ ہی نہیں سکتا کہ خدا نے کسی سے کلام کیا تھا کہ نہیں کیا تھا، وہ مقام خوف ہے، مقام ادب بھی ہے وہاں زبان نہیں کھلنی چاہئے.چنانچہ قرآن کریم اس مقام سے متعلق ایک دوسری جگہ فرماتا ہے وَ اِنْ يَّكَ كَاذِبًا فَعَلَيْهِ كَذِبُهُ (المومن :۲۹) زیادہ سے زیادہ تمہیں یہ فکر ہو سکتی ہے کہ جھوٹ بول رہا ہو گا.جھوٹ بولا ہے تو نہ مانو اور جہاں تک جھوٹ کا تعلق ہے اس کے جھوٹ کا وبال تم پر کیسے پڑسکتا ہے جو تمہیں تکلیف ہو رہی ہے جو جھوٹا ہے وہ اپنا وبال آپ اٹھائے گا اپنی قبر میں آپ پڑے گا اور خود اپنی موت مرے گا.فَعَلَيْهِ كَذِبُه خدا کوئی نا انصاف تو نہیں کہ اس کے جھوٹ کا عذاب تمہیں دے دے اس لئے تمہیں ساری کیا تکلیف ہورہی ہے.تم کہہ دو ہمیں نہیں دل میں تسلی ہوتی ہم نہیں مانتے چپ کر کے بیٹھ جاؤ لیکن یہ بیچ میں جا بیٹھو خدا اور اس کے رسولوں کے درمیان اور یہ فیصلہ کرو کہ ہم تفریق کریں گے.بعضوں کو خدا کا رسول قرار دیں گے اور بعضوں کو کہیں گے ہمیں علم ہے ہم بیچ میں بیٹھے ہوئے تھے ہم نے تفریق کی ہوئی ہے ان کو ہم نہیں مانتے.فرمایا یہ نہیں ہوسکتا مگر یہ ہوتا ہے کرتے اس طرح ہوا اپنی طرف سے.یہ جائز نہیں ہے مگر کرتے ہو اور بعینہ یہی حال ہم آج بھی دیکھ رہے ہیں.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے يُحَسْرَةً عَلَى الْعِبَادِ مَا يَأْتِيهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِعُونَ (ین: ۳۱) کیسی حسرت ہے بندوں فرمایا مَا يَأْتِيهِمْ مِنْ رَّسُولٍ إِلَّا كَانُوا بِهِ يَسْتَهْزِ ْونَ کوئی رسول ان کے پاس نہیں آتا مگر اس کے ساتھ ٹھٹھا اور مذاق اور تمسخر کرتے ہیں اور آج پاکستان میں اور پاکستان سے باہر دنیا کے مختلف ملکوں میں بھی جو کچھ ہو رہا ہے وہ آپ کے سامنے ہے.ان کے پاس کوئی دلیل نہیں سوائے تمسخر کے.نہایت بے ہودہ سرائی اور پھر یہ بھی نہیں سوچتے کہ جو بات ہم کہہ رہے ہیں اس کی زدکس پر پڑتی ہے اور اس تمسخر کے نتیجہ میں ہم
خطبات طاہر جلدم 575 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء قرآن اور آنحضرت ﷺ کے دشمنوں کے ہاتھ کس طرح مضبوط کر رہے ہیں اور وہاں بھی کوئی نئی چیز نہیں لاتے پہلوں کے تمسخر کو ہی دہرا رہے ہیں.اس تفصیل سے تاریخ دہرا رہی ہے اپنے آپ کو کہ حیرت ہوتی ہے.جتنے تمسخر عیسائی دشمنوں نے یا آریہ دشمنوں نے یا دیگر دشمنوں نے آنحضرت ﷺ یا قرآن کریم سے کئے ہیں ایک ایک کو آپ اٹھا کر دیکھ لیں وہ سارے دہرائے جا رہے ہیں ، ایک بھی نہیں چھوڑ رہے اور جو اس سے الله پہلے گزشتہ انبیاء کے ساتھ تمسخر ہوا کرتے تھے وہ آنحضرت ﷺ کے ساتھ ظالم کرتے رہے تو اس لحاظ سے بھی تفصیل کے ساتھ یہ تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے انکار کی بہت سی وجوہات ہیں اور ان وجوہات میں سے تکبر بھی ہے اور خوف بھی ہے اور شرک بھی ہے اور خدا تعالیٰ مختلف جگہوں، مختلف آیات میں ان سب امور کو الگ بیان فرماتا ہے.چنانچہ جہاں تک عام لوگوں کا تعلق ہے فرماتا ہے.إِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا يُنَادَونَ لَمَقْتُ اللهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ إِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيْمَانِ فَتَكْفُرُونَ (المومن (1) کہ وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا ہے انہیں پکارا جائے گا اور وہ متنبہ کئے جائیں گے لَمَقْتُ اللهِ اَكْبَرُ مِنْ مَّقْتِكُمْ أَنْفُسَكُمْ کہ تم آپس میں ایک دوسرے کے ڈر سے خوف سے منکر ہو گئے ، ایک دوسرے کے ایذا رسانی کے ڈر سے منکر ہو گئے ہم تمہیں بتاتے ہیں اللہ زیادہ اس بات کا حق دار ہے کہ اس کا خوف کیا جائے اس کی پکڑ اور اس کی ناراضگی زیادہ بڑی ہوگی اور زیادہ سخت ہوگی اِذْ تُدْعَوْنَ إِلَى الْإِيْمَانِ فَتَكْفُرُونَ جب تم ایمان کی طرف بلائے جاتے ہو اور انکار کر رہے ہوتے ہو لوگوں کے خوف سے تو یہ بات یاد رکھ لیا کرو اور اکثر احمدی جانتے اور احمدیوں میں سے شاید ہی کوئی ہو جس کو یہ تجربہ نہ ہوا ہو کہ جب وہ گفتگو کرتا ہے جب وہ دلائل سے سمجھا لیتا ہے تو بہت سے لوگ معذرت کرتے ہیں کھلی کھلی، کہتے ہیں دیکھو ہم میں طاقت نہیں ہے لوگوں کی دشمنیاں مول لینے کی ، ہمارا خاندان بڑا ہے ، ہمارے علاقے کا مولوی کرخت ہے، ہمارے
خطبات طاہر جلد۴ 576 خطبه جمعه ۲۸ جون ۱۹۸۵ء ہاں احمدیت کی ایسی دشمنی پائی جاتی ہے، ہماری برادری بڑی سخت ہے اور قوی ہے اس لئے ہمیں تم کمزور سمجھولو ہم ایمان نہیں لا سکتے ، ہاں ہم جانتے ہیں کہ تم سچے ہو قرآن کریم نے اس پہلو کو بھی باقی نہیں چھوڑ ا خوب کھول کھول کر بیان فرما دیا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إلى مَا أَنْزَلَ اللهُ وَإِلَى الرَّسُولِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَيْهِ ابَاءَنَا أَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَلَا يَهْتَدُونَ (المائده : ۱۰۵) اور جب ان کو بلاتے ہیں حق کی طرف تو کہتے ہیں.جو ہمارے ماں باپ کا مذہب ہے وہ کافی ہے، جی آپ ہمیں نہ چھیڑیں ، جو ماں باپ سے ہم نے پالیا ٹھیک ہے، راضی ہیں اس پر ہتم کیوں ہمیں تبدیل کرتے ہواور اسی میں سے ایک اشتعال کا پہلو نکال لیتے ہیں کہتے ہیں ہمارے ماں باپ جھوٹے تھے؟ تم اور تمہاری ایسی تیسی تم ہوتے کون ہو ہمارے ماں باپ کا مذہب بدلوانے والے ! قرآن کریم میں فرماتا ہے اَوَلَوْ كَانَ آبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا قطع نظر اس کے کہ ان کے ماں باپ کو کوڑی کا بھی کچھ علم نہ ہو یہ دلیل وہ پکڑ لیتے ہیں اور اس میں لطف کی بات یہ ہے کہ جاہل بھی اس دلیل کو لیتے ہیں اور عالم بھی اس دلیل کو لیتے ہیں.ایسا شخص بھی آپ کے سامنے یہ دلیل رکھے گا جس کی کئی پشتوں میں کوئی پڑھا لکھا آدمی ہی موجود نہ ہو.مذہب سے کلیۂ لا بلد اور لاعلم اور کچھ بھی انکو پتہ نہیں اور جب آپ ان کو کہتے ہیں کہ یہ رستہ اختیار کر و ہدایت کی طرف آؤ تو کہتے ہیں ہمارے ماں باپ کا مذہب ٹھیک تھا.ایسے بھی ہیں جنہوں نے ماں باپ کو دیکھا بھی نہیں اور اس کے باوجود ماں باپ کا مذہب ٹھیک ہے تو قرآن کریم فرماتا اَوَلَوْ كَانَ أَبَاؤُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا لَا يَعْلَمُونَ شَيْئًا وَ لَا يَهْتَدُونَ ہے خواہ خود بھی گندے لوگ ہوں ان کے والدین، ایسا بھی ہوتا ہے، ظالم بھی ہوں، لا علم بھی ہوں تب بھی یہ دلیل وہ تمہیں ضرور دیں گے.پھر قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایک ان کو تعجب ہوتا ہے کہ ہم جیسوں میں خدا تعالیٰ کیسے وحی نازل فرما سکتا ہے.ایک یہ بھی وجہ ہے ان کے انکار کی کیونکہ ان کا تعلق خدا سے کٹ چکا ہوتا ہے.وہ
خطبات طاہر جلدم 577 خطبہ جمعہ ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء کلیۂ خدا سے وہ تعلق تو ڑ بیٹھے ہوتے ہیں.نہ ان کو بچی خوا ہیں آرہی ہوتی ہیں ، نہ ان کو کشف کشوف ہوتے ہیں، نہ ان کو الہام ہوتا ہے اور نہ ان کو اس میں کوئی دلچسپی ہوتی ہے کہ خدا ان سے کلام کرے تو جب وحی نازل ہوتی ہے تو کہتے ہیں.أُلْقِيَ الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِرُ (القمر: ۲۶) کہ ہمارے جیسے لوگوں میں خدا کلام کر دے! بڑا ہی جھوٹا ہے پکا جھوٹا ہے.خود کذاب ہوتے ہیں، خود گندے لوگ ہوتے ہیں ، خدا سے تعلق کالے ہوئے ہوتے ہیں اس لئے ان کی سمجھ میں آہی نہیں سکتا کہ ہماری سوسائٹی ہم جانتے ہی نہیں کیسی ہے ! کس حال میں بس رہی ہے؟ اور یہ آیا ایک شخص اسی میں سے اٹھ کر کہتا ہے مجھ سے خدا نے کلام شروع کر دیا ہے! سَيَعْلَمُونَ غَدًا مَّنِ الْكَذَّابُ الْآشِر ( القمر : ۲۷) یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کون جھوٹا ہے اور کون شریر اور کون فاسق وفاجر ہے؟ اور آنے والا وقت بتا دے گا اور کھول دے گا اس بات کو.پھر قرآن شریف فرماتا ہے کہ یہ جو انکار کرنے والے لوگ ہیں وحی کا یا نبوت کا یہ دراصل وہی لوگ ہیں کہ جب کس کے وقت میں ہوتے ہیں یعنی گزشتہ زمانے میں جب بھی انبیاء آئے اس زمانے میں کچھ ایسے لوگ ہوا کرتے تھے جو ضرور انکار کرتے تھے اور ضرور مخالفت کرتے تھے.یہ وہی لوگ ہیں ، پہچان لو ان کو کیونکہ پہلے لوگوں نے ایسا ہی کیا تھا اور جب وہ آکر چلا گیا تو وہاں بھی پھر انہوں نے غلو اختیار کیا، پہلے جھوٹا کہا انکار کیا، پتھراؤ کیا اس کو سزائیں دینے کی کوشش کی اور جب وہ آکر چلا گیا تو کہنے لگے اب خدا کسی کو نہیں بھیجے گا.اس زمانے میں اس سے چھٹی کر لی اور اس کے جانے کے بعد مانا اگلی نسلوں نے اور اس شرط کے ساتھ مانا کہ اس کو تو اب مان بیٹھے ہیں اب آئندہ کسی اور کو نہیں مانا تو انکار کی سرشت ہے ان کے اندر فرمایا: وَلَقَدْ جَاءَكُمْ يُوْسُفَ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَتِ فَمَا زِلْتُمْ فِي شَكٍ مِمَّا جَاءَكُمْ بِهِ حَتَّى إِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُولاً (المومن : ۳۵) تم میں سے اس سے پہلے یوسف بھی تو آیا تھا ، بڑے کھلے کھلے نشان لے کر آیا تھا، جب تک وہ زندہ
خطبات طاہر جلدم 578 خطبہ جمعہ ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء رہا تم شک میں ہی پڑے رہے، مسلسل اس کا انکار کیا اسے جھوٹا سمجھا.حَتَّى إِذَا هَلَكَ ہاں جب وہ ایک تاریخ کا حصہ بن گیا جب وہ جاتا رہا تم سے قُلْتُمْ لَنْ يَبْعَثَ اللَّهُ مِنْ بَعْدِهِ رَسُوْلًا تم نے یہ فیصلہ کیا کہ اب خدا کسی کو نہیں بھیجے گا یعنی اس سے بمشکل جان چھرائی اور مانا بھی اس وقت جبکہ آ کے جاچکا تھا، کوئی فائدہ نہیں اٹھایا اور مانا اس شرط کے ساتھ کہ اچھا اس کو تو ہم مان گئے ہیں لیکن آئندہ کسی کو نہیں ماننا.فرمایا جو یہ سرشت لے کر زندہ رہتے ہیں ان سے تو ایمان لانے کی توقع تو بالکل عبث بات ہے.پھر فرماتا ہے: قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ أَمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَسِقُوْنَ (المائدہ: ۶۰) یہاں سے ایک اور مضمون شروع ہو جاتا ہے لیکن اس کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.اس کا ایک پہلو ایسا ہے جس کو اب میں اس وقت بیان کرتا ہوں فرمایا: قُلْ يَاهْلَ الْكِتُبِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ أَمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَ مَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَسِقُوْنَ لفظی ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اے اہل کتاب! کیا تم ہم سے یہ بات بری مناتے ہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اللہ پر اور اس چیز پر جو ہماری طرف اتاری گئی اور ہم سے پہلے اتاری گئی باوجود اس کے کہ تم میں سے اکثر فاسق اور فاجر ہیں، فسق کرنے والے ہیں.اس آیت میں تین حصے بیان ہوئے ہیں ایک ہے تَنْقِمُونَ مِنا تم ہم سے بہت ناراض ہو ، کیسے وہ ناراض ہوتے تھے کیا کیا وہ حرکتیں کرتے تھے ان کا ذکر انشاء اللہ آئندہ کیا جائے گا.دوسرا پہلو یہ بیان فرمایا کہ ہمارا قصور یہ ہے کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اللہ پر وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ ہم اللہ پر ایمان لے آئیں ہیں اور جو ہم سے پہلے اتارا گیا تھا اس کو بھی مان گئے ہیں.یہ بھی بڑا عجیب پہلو ہے وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ پر عموماً لوگ غور نہیں کرتے.اس بات پر تو انسان کو سمجھ آجاتی ہے کیوں دشمن ناراض ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو تسلیم کر لیا.اہل کتاب تھے پہلے نبیوں کو مانتے تھے جو پہلے اتارا گیا تھا اس کو ماننے پر تو ان کو کوئی غصہ نہیں آنا چاہئے لیکن آنحضرت ﷺ کو ماننے پر ان کو غصہ آنا
خطبات طاہر جلد۴ 579 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء چاہئے مگر قرآن کریم یہ عجیب دعوی کر رہا ہے فرماتا ہے: أَنْ أَمَا بِاللهِ اللہ پر ہم ایمان لے آئے وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ اور جو پہلے اتارا گیا تھا جس کی تم خود تصدیق کرتے ہو اس کو ماننے پر بھی تمہیں غصہ آرہا ہے.یہ پہلو جو ہے اس کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ بیان کروں گا.اور ایک تیسرا دعوی یہ کیا گیا ہے کہ وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فَسِقُونَ باوجود یکہ تم میں سے اکثر فاسق و فاجر لوگ ہیں.اس کا کیا تعلق اس مضمون سے؟ تعلق یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ غصہ اگر تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے آتا ہے اور اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم دین میں بگاڑ نہیں دیکھنا چاہتے تو پھر تمہارے عمل بالکل پاک صاف ہونے چاہئیں.یہ عجیب بات ہے کہ اپنے اندر بگاڑ دیکھنا چاہتے ہو اور دوسروں میں بگاڑ نہیں دیکھنا چاہتے.اپنے اعمال گلے سڑے ہیں جھوٹے بھی ہو، بدکار بھی ہو، ہر قسم کی برائیوں میں ملوث ہو ، ظالم ہو، فاسق ، فاجر ، سفاک ہو گئے ہو، کوئی بدی ایسی نہیں جو تم نے اختیار نہ کی ہو ، ساری سوسائٹی تمہاری گندی ہوئی ہے اور اس پر تو تمہیں غصہ نہیں آتا اور اگر کوئی دوسرا بگڑتا ہے تو تم برداشت نہیں کر سکتے تمہیں اس پر غصہ آجاتا ہے.اس لئے فاسق و فاجر کو یہ حق ہی نہیں پہنچتا کہ وہ کسی اور کے بگڑنے پر غصہ کرے.پہلے اسے خود کشی کرنی چاہئے دوسرے کو مارنے سے پہلے کیونکہ اگر فسق و فجور ہی اس کو تنگ کر رہا ہے اور اس پر اس کو غصہ آتا ہے تو اپنے فسق و فجور پر کیوں نہیں آرہا، اپنی سوسائٹی کے فسق و فجور پر غصہ کیوں نہیں آرہا اس لئے حق نہیں رہتا ایسی سوسائٹی کو کسی دوسرے پر اعتراض کرنے کا جو خود گندی ہو چکی ہو.بہر حال اس کے بہت سے دلچسپ پہلو ابھی باقی ہیں انشاء اللہ میں آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.احباب جماعت کو میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں یہ اس لئے بیان کر رہا ہوں کہ ان کے ایمان کو مزید تقویت پہنچے.ہم ایک ایسے دور سے گزر ہے ہیں جہاں دلیل عمل کی دنیا میں ڈھلتی چلی جارہی ہے.اب کتابوں سے دلیلیں لانے کی اور ثابت کرنے کی ضرورت نہیں رہی.ہمارے مخالفین اپنی ایک تصویر بنارہے ہیں اور ساتھ ہماری بھی ایک تصویر بناتے چلے جارہے ہیں.ہم بھی اپنی ایک تصویر بنا رہے ہیں ساتھ.اب ہماری تصویر کو تو وہ مانیں یا نہ مانیں مگر جو اپنی تصویر خود بنا رہے ہیں اس کو تو ماننا پڑے گا.اور جو ہماری تصویر بنارہے وہ تو انکو ماننی ہی پڑے گی کیونکہ اپنے ہاتھوں سے بنار ہے ہیں.یہ وہ دو تصویر میں ہیں جن کو قرآن کریم نے بڑی وضاحت کے ساتھ محفوظ کر دیا ہے.
خطبات طاہر جلدم 580 خطبہ جمعہ ۱۲۸ جون ۱۹۸۵ء ایک ایک نقش ، ایک ایک خدو خال کی ایسی حیرت انگیز عکاسی کی ہے کہ کوئی باریک سے باریک پہلو بھی چھوڑا نہیں اس میں اور پھر خدا نے اپنی قدرت کی پھونک سے اس تصویر میں جان پیدا کردی ہے.کبھی کسی مصور نے ایسی زندہ تصویریں نہیں کھینچی تھیں جیسا قرآن کریم تصویر میں کھینچ رہا ہے تاریخ کی اور کبھی کسی مصور کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ زندہ کر دے اپنی بنائی ہوئی تصویروں کو اور عجیب شان کا خدا وہ ہے کہ جو تصویر میں بناتا ہے اور پھر ان کو زندہ کرتا چلا جاتا ہے اور ہر دور میں چلتا پھرتا دکھا دیتا ہے ان تصویروں کو ، ان کو گلیوں میں بسا دیتا ہے، ان کے شہر آباد کر دیا کرتا ہے، ان کی بستیاں بنا کے دیکھا دیتا ہے اور وہ اسی طرح کے اعمال کرتی پھرتی تصویر میں جس طرح مووی ٹا کی (Movie Talkie) ہو.وہ بھی تو ایک پردہ کی تصویر ہے اس میں جان کوئی نہیں ہوتی.اللہ کی عجیب شان ہے اور کلام الہی کی عجیب شان ہے کہ تاریخ کی جن تصویروں کو کھینچ رہا ہے اپنی کتاب میں ان کو ہر زمانہ میں زندہ چلتی پھر تی بولتی جاگتی اور محسوس کرتی ہوئی تصویریں بنا کر ہمیں دیکھا دیتا ہے.پس اب تک جو تصویر میں نے کھینچی ہے قرآن کریم کے مطالعہ کے نتیجہ میں وہ ظاہر ہے اور پھر آپ کو بولنے کی ضرورت نہیں رہتی.پھر جو بھی سنے گا آپ کا معاند اس کو یہ ضرور تسلیم کرنا پڑے گا کہ ہاں یہ یہ اعتراض ہیں ہمارے احمدیت پر اور ہم وہ کیا کیا حرکتیں کرتے ہیں وہ بھی قرآن کریم بیان فرمائے گا یہاں تک کہ پوری تفصیل کے ساتھ معاندین احمدیت کی عکاسی ہو جائے گی اور پھر جماعت احمدیہ کی جو تصویر بن رہی ہے قرآن کریم نے وہ بھی محفوظ فرما دی ہے انشاء اللہ اس کا بھی آئندہ ذکر کر دوں گا.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا: آج نماز جمعہ کے بعد دو نماز جنازہ غائب ہونگے ایک مکرم مرزا عطاء الرحمن صاحب جو ان دنوں یہاں آئے ہوئے ہیں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ ان کی والدہ محترمہ سردار بیگم صاحبہ اہلیہ مرزا برکت علی صاحب مرحوم ، حضرت مرزا برکت علی صاحب بھی صحابی تھے اور سردار بیگم صاحبہ بھی صحابہ تھیں.کل ایک بجے ربوہ میں وفات پاگئیں وفات کے وقت ان کی عمرانا نوے برس تھی.مرحومہ موصیبہ تھیں ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی.دوسرے ہمارے ایک نہایت ہی مخلص احمدی جوان ملک رشید احمد صاحب جو پشاور میں ایرفورس میں ملازم تھے اچانک ہارٹ فیلیر (Heart Failure) سے وفات ہوگئی.مرحوم ملک رشید احمد مکرم ملک سعید احمد
خطبات طاہر جلدم 581 خطبه جمعه ۲۸/ جون ۱۹۸۵ء صاحب ( جو شکاگو میں رہتے ہیں اور پچھلے جلسہ پر بھی یہاں آئے ہوئے تھے ) کے صاحبزادے تھے اور بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے اور بڑے خدمت خلق کرنے والے تھے.اپنے ان عزیز واقارب کا بھی جو ان میں غریب تھے اور دوسرے تعلق والوں کا بھی بوجھ انہوں نے اٹھایا ہوا تھا اور مسلسل بہت قربانی کرتے رہے ہیں.ان کی تدفین ربوہ میں ہو چکی ہے.تو ان کے پسماندگان کی بھی خواہش ہے کہ ان کی نماز جنازہ غائب یہاں پڑھی جائے.
خطبات طاہر جلدم 583 خطبه جمعه ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء دینی مخالفت کا ارتقاء، تاریخ میں قدر مشترک پر پہلی بار مخالفت ، موجودہ دورموسوی ( خطبہ جمعہ فرموده ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں: قُلْ يَا هُلَ الْكِتُبِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ أَمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فَسِقُوْنَ (المائدہ: ۶۰) گزشتہ خطبہ میں یہ ذکر چل رہا تھا کہ قرآن کریم نے گزشتہ قوموں کی تاریخ کو اس تفصیل کے ساتھ محفوظ فرمایا ہے اور ابرار کی بھی اور اشرار کی بھی ایسی واضح اور کھلی کھلی تصویر میں اتاری ہیں کہ ہمیشہ ہمیش کے لئے قرآن کریم اس پہلو سے ایک آئینہ جہاں نما ہے.کل عالم میں خواہ شمال ہو یا جنوب یا مشرق ہو یا مغرب ، وہ قومیں بھی جن کا قرآن کریم میں ذکر ملتا ہے اور وہ قو میں بھی جن کا قرآن کریم میں نام بنام ذکر نہیں ملتا، اس کتاب میں اپنے پہلوں کی تصویر میں دیکھ سکتی ہیں.نیکوں کی بھی اور بدوں کی بھی اور وہ نقوش اتنے واضح ہیں کہ ان کو دیکھ کر کسی شخص کے لئے یا کسی قوم کے لئے یہ پہچاننا کچھ مشکل بات نہیں رہتی کہ ہماری تصویر اور ہماری شکلیں کن لوگوں سے مل رہی ہیں.لیکن یہ عجیب قومی المیہ ہے.جسے دیکھ کر یا حسرۃ علی العباد کے الفاظ منہ پر جاری ہو جاتے ہیں کہ وہ لوگ جن کی تصویر میں بڑی تفصیل کے ساتھ اور بڑی حفاظت کے ساتھ محفوظ رکھی گئیں
خطبات طاہر جلد۴ 584 خطبه جمعه ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء ان تصویروں کو دیکھنے کے بعد وہ جن کی شکلیں ہو بہو ویسی ہیں پھر بھی نہیں پہنچانتے کہ ہم کن چہروں کو دیکھ رہے ہیں اور یہی چہرے خود ہمارے بھی ایسے ہی ہیں.بہر حال جب میں نے اس مضمون پر مزید غور کیا اور قرآن کریم میں ہر طرف نظر ڈالی تو یہ دیکھ کر مجھے اور بھی حیرت ہوئی کہ اس مضمون میں بھی ایک عظیم الشان ارتقاء ملتا ہے اور اس پہلو سے یہ اتنا وسعت پذیر ہو جاتا ہے کہ اسے ایک یا دو یا تین خطبوں میں سنبھالناممکن ہی نہیں رہتا چنا نچہ پھر میں نے صرف چند نمونے کی آیات آج کے لئے اخذ کی ہیں تا کہ اس مضمون کو سر دست جتنا بھی بیان ہو سکے اسی خطبہ میں مکمل کر لیا جائے.وہ ارتقاء یہ نظر آتا ہے کہ نبوت اپنے آغاز کے وقت اتنی تفصیلی نہیں ہے.اس کے پہلوز ندگی کے ہر شعبہ پر اس طرح حاوی نہیں ہیں جس طرح بعد میں آنے والی نبوت جو تکمیل کی طرف جاری رہی تھی.اس میں نئے نئے شعبوں کا اضافہ ہوتا رہا، انسانی زندگی کے جتنے شعبے ارتقاء کرتے رہے ان کے مطابق شریعت میں بھی ایک ارتقاء نظر آتا ہے.یہاں تک کہ اس کی تعمیل حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کی شریعت میں جا کر پوری طرح پورے نقوش کے ساتھ واضح ہوئی.اور بدوں کی تاریخ میں بھی ایسا ہی ارتقاء نظر آتا ہے، بدوں کی تاریخ بھی اپنے آپ کو دہراتی تو ہے لیکن اس طرح نہیں دہراتی کہ جتنی بدیاں پہلوں نے کیں وہیں تک آ کر وہ ٹھہر جائیں.ہر قوم نے ایک نئی بدی یا دونئی بدیوں کا اضافہ کیا ہے یا ایک سے زیادہ دو یا تین یا اس سے بھی زیادہ بدیوں کا اضافہ کیا ہے، نئے نئے شرارت کے پہلوسوچے ہیں جو پہلی قوموں کو نہیں سو جھے تھے ، نئی نئی حماقتیں کیں ہیں جنہوں نے حماقتوں کے نئے باب کھولے ہیں اور قرآن کریم نے اس تاریخ کو بھی اسی طرح محفوظ فرمایا لیا ہے اور آپ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ کس تفصیل کے ساتھ قرآن کریم ساتھ ساتھ اس پہلو کو بھی بیان فرما تا چلا جاتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ بدقسمت لوگ اگر وہ بد تھے تو انہوں نے وہ پہلے لوگ جوان جیسے بد تھے ان کے قدم پر قدم مارے بلکہ ان کی برائیوں میں اضافے کئے.ان کی شرارتوں میں نئی نئی شرارتیں سوچ کر نئے شرارت کے باب کھولے.اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو وہ آیت جس کی گزشتہ خطبہ کے آخر میں یہ بات چل رہی تھی اسی آیت میں مجھے اس قسم کا ایک ارتقائی مضمون نظر آیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلدم 585 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء قُلْ يَا هَلَ الْكِتَبِ هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّا إِلَّا أَنْ أُمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَسِقُوْنَ کہ اے اہل کتاب ! یا اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو ان سے کہہ دے اہل کتاب سے کہ تم اس کے سوا ہم سے کیا برا منارہے ہو ، ہمارے متعلق اس کے سوا تمہیں کیا غصہ ہے کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے اور اس بات پر ایمان لے آئے جو ہم پر اتاری گئی اور اس بات پر ایمان لے آئے جو ہم سے پہلے اتاری گئی تھی وَاَنَّ اَكْثَرَ كُمُ فَسِقُونَ اور برا منارہے ہو ہماری بدیوں کا حالانکہ تم میں سے اکثر فاسق لوگ ہیں.جنہیں ہماری بدیاں قرار دیتے ہو وہ بدیاں تو یہ ہیں جو برا منانے والی چیز ہی کوئی نہیں اور اگر تم ان کو بدیاں ہی دیکھتے ہو تو اپنے حال پر تو نظر کرو تم میں بھاری اکثریت فاسقوں کی ہے.اس میں یہ بات تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ ایمان باللہ پر وہ قومیں جو اس وقت کے خدا پر (جو خدا ظاہر ہورہا ہوتا ہے اس وقت ) ایمان نہیں لاتیں برا مناتی ہیں ان لوگوں کے ایمان کو جو ایمان لے آتے ہیں.یہ بھی بات سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ پر ایمان لانا بذات خود ایک ابتلاء کا موجب بن جاتا ہے اور وقت کے نبیوں پر ایمان لانا یہ بھی بذات خود ایک ابتلاء کا موجب بن جاتا ہے مگر یہ کیسے ابتلاء کا موجب بنا، اس بات پر غصہ کیوں آیا کہ ہمارے گزشتہ انبیاء پر جو وحی نازل ہوئی تھی اس پر بھی ایمان لے آئے.یہ تو قدر مشترک ہے، یہ تو ان کے حق میں گواہی دینے والی بات ہے.قرآن کریم کے نزول کے زمانے سے پہلے اس چیز کا کوئی ذکر نہیں ملتا.کبھی کوئی قوم ایسی نہیں گزری جس نے یہ اعتراض کیا ہو کہ تم ہماری باتیں کیوں مانتے ہوگزشتہ قومیں یہ اعتراض کیا کرتی تھیں کہ بیوقوفو! تم ہماری باتیں کیوں نہیں مانتے ، ہمارے آبا و اجداد زیادہ سمجھ دار تھے، جس مذہب پر ہم نے اپنے آپ کو پایا وہ زیادہ مکمل ہے، زیادہ پیروی کے لائق ہے، ہم عجیب نئے رستے اختیار کر رہے ہو جو بجھی کے رستے ہیں.ساری تاریخ قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ مسلسل آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک یہی جھگڑا چلتا رہا ہے اور قرآن نے ایک نئی بات پیدا کر دی ہے کہ تم وہ لوگ ہو ( یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے لوگ) جو اس بات کو بھی برا منا رہے ہو کہ جو ہم پر وحی نازل ہوئی تھی پہلے اس پر
خطبات طاہر جلدم 586 خطبه جمعه ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء کیوں ایمان لے آئے ہو؟ اس پہلو سے جب آپ تاریخ اسلام کا جائزہ لیتے ہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وسلم کے اول زمانے میں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.حیرت ہے آپ تفصیل سے تاریخ پر نظر ڈالیں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولین مخالفین نے.یہاں جو میں اولین کا محاورہ استعمال کر رہا ہوں یہ کھول دیتا ہوں پوری طرح حقیقت یہ ہے کہ یہ زمانہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ ہے اور کل جو زمانہ آنے والا ہے وہ بھی حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ ہی ہے اور جو پرسوں اور اس کے بعد اور اس کے بعد اور قیامت تک جو زمانے آتے چلے جائیں گے وہ سارے زمانے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے ہیں.پس قرآن کریم نے صرف وہ تاریخ محفوظ نہیں کرنی تھی جو تاریخ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے دور میں یا آپ کے بعد خلفاء راشدین کی زندگی کے دور کی تاریخ تھی کیونکہ قرآن کریم تو زمانوں سے اس لحاظ سے بالا ہے کہ قیامت تک کے سارے زمانے جو ظاہر ہونے والے تھے وہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے تھے.اگر یہ وہی تاریخ کی باتیں کر کے خاموش ہو جا تا قرآن کریم جو اولین کے دور کی باتیں تھیں تو بعد میں آنے والے اپنا ذکر کیسے پڑھتے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ کو محدود مانا پڑتا کہ قرآنی تاریخ بتاتی ہے کہ وہ چند سال کا ہی زمانہ تھا وہی تاریخ محفوظ ہوگئی اور اس کے بعد کی باتیں قابل ذکر ہی نہیں ہیں.پس وہاں اس کا فقدان ہونا ہمیں متوجہ کرتا ہے کہ بعد کے زمانے میں یہ لازماً بطور پیشگوئی کے بات پوری ہونے والی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قرآن کریم نے کہا ہو کہ یہ ہوتا ہے اور وہ نہ ہورہا ہو.اس لئے اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اول زمانے میں آپ کے مخالفین نے یہ اعتراض نہیں اٹھایا تو مقدر تھا کہ قیامت سے پہلے ایسے مخالفین آپ کے ضرور پیدا ہوں جو لازماً یہ اعتراض اٹھائیں کہ جو ہم پر نازل ہوا ہے ہم یہ بھی نہیں ماننے دیں گے ہمیں اس پر بھی غصہ آتا ہے.چنانچہ جب میں نے تفصیل سے دیکھا تو حقیقتاً اس کے برعکس گواہیاں ملتی ہیں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلَهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُوا عَلَيْهَا ( القر :۱۳۳) آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا قبلہ اول وہی قبلہ تھا جو اہل کتاب کا قبلہ تھا اور جب تک یہ
خطبات طاہر جلد۴ 587 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء قبلہ رہا یہ قدر مشترک رہی.پہلوں پر اترنے والی ہدایت پر آپ ایمان بھی لاتے رہے اور عمل بھی فرماتے رہے ان کو کوئی غصہ نہیں آیا.جو نہی قبلہ تبدیل کرنے کا حکم نازل ہوا اس وقت ان بیوقوفوں نے (اہل کتاب نے ) یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہمارا قبلہ کیوں چھوڑا ہے.کہتے ہیں کہ کس بات نے ان سے تبدیل قبلہ کروا دیا ہے.اچھا بھلا ہمارا قبلہ تھا اسے چھوڑا کر ایک نیا قبلہ اختیار کر گئے ہیں.پس اشتراک پر غصہ ان کو بھی نہیں آیا اختلاف پر غصہ آیا ہے اپنے مذہب کی Monoply انہوں نے نہیں کی یہ نہیں کہا کہ ہمارے سوا ہمارے مذہب کو کوئی بھی مانے گا تو ہمیں غصہ آجائے گا اور اس کے برعکس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بھی قرآن کریم نے یہی کیفیت ظاہر فرمائی کہ آپ مسلسل یہ چاہتے رہے کہ وہ اپنا قبلہ چھوڑ دیں اور ہمارا قبلہ لے لیں.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.وَلَبِنْ آتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَبَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ ( البقره:۱۳۶) کہ اے محمد تیری تمنا بہت ہے نظر آ رہی ہے لیکن ہم تجھے بتاتے ہیں ( یہ تشریحی ترجمہ ہے) که با وجود تیری خواہش کے ہم تجھے بتا رہے ہیں کہ جتنے بھی نشانات ممکن ہیں تو ان کو دکھاتا چلا جایہ تیرے قبلے کی طرف منہ کبھی نہیں کریں گے اپنے قبلے پر قائم رہیں گے.تو اگر رسول اکرم ﷺ کو یہ خواہش نہیں تھی کہ اس قبلے کو ساری دنیا اختیار کرلے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متعلق یہ کہنا بالکل بے معنی ہے کہ تو نشان پر نشان چاہے دکھاتا چلا جا ہر گز یہ تیرے قبلے کو قبول نہیں کریں گے.اور پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا بَعْضُهُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ ( البقره :۱۳۶) ایک عظیم الشان ایک رہنما اصول پیش فرما دیا کہ قومیں یہ نہیں کیا کرتیں کہ دھوکہ دینے کی خاطر اپنا قبلہ چھوڑ کے کسی اور کا قبلہ پکڑ لیں جو بھی اعلان کرتا ہے وہ جھوٹا ہے.خدا فرماتا ہے دنیا میں یہ نہیں ہوا کرتا قو میں اپنے ہی قبلے کو پکڑ کے رہتی ہیں اور کسی غرض کے لئے بھی وہ اپنے قبلے کو چھوڑ کر اپنے دشمن کا یا کسی اور کا قبلہ نہیں پکڑا کرتیں.چنانچہ فرمایا کہ یہی ہو گا اس سے پہلے فرما چکا ہے وَمَا أَنْتَ بِتَابِع قبلتهم نہ انہوں نے تیرا قبلہ پکڑنا ہے.نہ تو ان کا قبلہ پکڑے گا.کیوں؟ اس لئے کہ یہ انسانی نفسیات ہے خدا تعالیٰ نے دستور بنا دیا ہے انسان کا اس سے وہ ہٹ نہیں سکتالا زما اس قبلہ پر رہتا ہے جس کو وہ حقیقی قبلہ سمجھتا ہے اور اس کو بدل نہیں سکتا.خود حضرت اقدس محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا یہ دستور تھا اور صیح بخاری میں اس دستور کا دج
خطبات طاہر جلد۴ 588 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء تذکرہ ملتا ہے ویسے بھی متعدد احادیث میں بکثرت آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس سنت کا ذکر ملتا ہے کہ جب تک قرآن کریم کی کوئی آیت کسی حکم کے بارے میں نازل نہ ہو آپ تو رات کے احکام پر عمل فرمایا کرتے تھے عن ابن عباس قال كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يحب موافقة اهل الكتاب فى ما لم يؤ مرفيه ( صحیح بخاری کتاب اللباس حدیث نمبر ۵۴۶۲) که حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اہل کتاب کے دستور کے مطابق عمل فرمایا کرتے تھے جب تک قرآن کریم کی کوئی آیت اس معاملے میں واضح طور پر نازل نہ ہو جائے ، آپ کو حکم نہ دے دیا جائے.اور تاریخ پر آپ نظر ڈال کے دیکھیں تلاش کر لیں ہر طرف سے، مخالفین کا لٹریچر اور ان کی تاریخ بھی دیکھ لیں ، موافقین کا لٹریچر اور ان کی تاریخ بھی دیکھ لیں ایک اعتراض حضرت اقدس محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں آپ کے دشمن اہل کتاب نے یہ نہیں اٹھایا کہ تم ہماری کتابوں کے مطابق کیوں عمل کر رہے ہو، ہمیں غصہ آتا ہے دھوکہ دے رہے ہو اور ہم تمہیں اپنی کتابوں کے مطابق عمل نہیں کرنے دیں گے نظر دوڑائیے ، دیکھئے کوئی اشارۃ بھی آپ کو ایسا اعتراض نظر نہیں آئے گا.پھر قرآن کریم یہ کیا فرما رہا ہے هَلْ تَنْقِمُوْنَ مِنَّا إِلَّا أَنْ أُمَنَّا بِاللَّهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا تم عجیب بے قوف قوم ہو کہ کچھ تو لوگ برا مناتے ہیں اور ہمیشہ سے مناتے آئے ہیں یعنی نئی وحی کے اوپر برا مناتے ہیں ، اللہ پر ایمان لانے کے اوپر ہمیشہ جھگڑے چلے ہیں لیکن تم نے ایک نیا اضافہ کر دیا ہے، حماقتوں کا نیا باب کھول دیا ہے کہ یہ بھی برا منارہے ہو کہ تم پر جو وحی نازل ہوئی تھی جو اس سے پہلے نازل ہو چکی ہے اس کو کیوں مان رہے ہیں، اس کو کیوں نہیں جھٹلاتے ، اس کی تکذیب کیوں نہیں کرتے.پس یہ واقعہ اگر حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولین دور میں نہیں ہوا تو ناممکن تھا کہ قیامت آتی پیشتر اس کے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے زمانہ میں یہ واقعہ رونما نہ ہو جاتا اور یہ ہو چکا ہے اور آج اس تفصیل کے ساتھ ظاہر ہو رہا ہے کہ حیرت ہوتی ہے کس طرح نقطہ بنقطہ ، منہ بہ منہ یہ وہ تصویر بنار ہے ہیں جو قرآن کریم پیش فرما رہا ہے.کہتے ہیں کہ احمدی کلمہ توحید نہ پڑھے وَمَا اُنْزِلَ اِلَيْنَا ہ ہم پر اتاری گئی ، ان سے پہلے اترا ہے مِن قَبْلُ اترا ہے اور ان کا کلمہ پڑھنے کا کوئی حق نہیں ہمیں اس سے غصہ آتا ہے.کہتے ہیں
خطبات طاہر جلدم 589 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء یہ اپنی عبادت گاہوں کو مسجد نہ کہیں کیونکہ مسجد کا لفظ اس سے پہلے جو وحی نازل ہوئی تھی اس میں اترا تھا اور وہ ہماری وحی ہے ان کا کوئی حق نہیں.کہتے ہیں کیسے ظالم ہیں احمدی اشتعال انگیزیوں سے باز ہی نہیں آرہے اپنی مسجدوں کا رخ ہمارے قبلہ کی طرف کر بیٹھے ہیں ہم تو رخ موڑ کے چھوڑیں گے ورنہ قتل عام کر دیں گے.کہتے ہیں اس سے بھی بڑی اشتعال انگیزی کیا ہوسکتی ہے کہ جو ہمارا قبلہ تھا اس کی طرف منہ کر لیا ہے.اب اس واقعہ کو ہی آپ تاریخ اسلام کے اولین دور کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھ لیں کیسا کھل جاتا ہے کہ دین کس کا ہے.اندھا بھی ٹول کر دیکھنا چاہے اس کو بھی محسوس ہو جائے گا کہ کیا واقعہ رونما ہو گیا ہے ان کو پتہ ہی نہیں چلا.اول دور محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں جھگڑا یہ چل رہا تھا کہ اچھا بھلا ہمارا قبلہ پکڑا ہوا تھا ہمارا قبلہ کیوں چھوڑ بیٹھے ہو؟ اور اب جھگڑا یہ چل پڑا ہے کہ ہمارا قبلہ کیوں پکڑا ہوا ہے، ہم الٹا کے چھوڑیں گے.تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہر دور میں نئی حماقتیں جنم لیتی ہیں جہاں نبوت ارتقاء پذیر تھی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر شریعت کامل ہو گئی وہاں آپ کے زمانے میں بدیوں کی تاریخ بھی مکمل ہو گئی.اب بدیوں میں بھی ایسے ایسے حیرت انگیز اضافے ہوئے ہیں کہ پہلی قوموں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس قسم کی بدیاں بھی ہوسکتی ہیں اور وہ میں بتارہا ہوں کہ یہ زمانہ مصطفوی ہی ہے.آج ہم وہ خوش نصیب ہیں جو اس زمانہ مصطفوی کو پاگئے ہیں.ہماری ذات میں وہ تصویریں بن رہی ہیں جو محمدمصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کی تصویر میں مقدر تھیں اور قرآن کریم میں بطور پیشگوئی کے درج تھیں.اگر یہ واقعہ درست نہیں ہے تو پرانے واقعات نکال کر دکھاؤ کہ کب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اولین دشمن آپ پر یہ اعتراض کیا کرتے تھے کہ تمہیں کوئی حق نہیں ہے اہل کتاب کی باتیں اختیار کرنے کا.یہاں تک جہالت میں بڑھ گئے ہیں کہ مقدمے درج کئے گئے کہ احمدیوں کے نام مسلمانوں جیسے نام کیوں رکھے گئے ہیں ، یہ نام بدلا دیئے جائیں اور تاریخ کو زیادہ مکمل اور محفوظ کرنے کے لئے تا کہ خدا تعالیٰ نے جہاں جہاں نقوش پر سیاہیاں پھیری ہیں وہ آئندہ آنے والوں کیلئے ہمیشہ کے لئے محفوظ ہو جائیں کوئی مثانہ سکے.اسمبلیوں میں یہ بات ریکارڈ ہو گئی ہے.چنانچہ ابھی چند دن پہلے پنجاب اسمبلی میں یہ ریزولیشن پیش کیا گیا ہے کہ ربوہ کا نام تبدیل کر دیا جائے کیونکہ لفظ ربوہ قرآن کریم میں آتا ہے اور ہم یہ برداشت ہی نہیں کر سکتے کہ ایسا مقدس لفظ جو قر آن کریم میں
خطبات طاہر جلدم 590 خطبه جمعه ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء لکھا ہو وہ یہ نا پاک لوگ اختیار کر لیں.یعنی کلیہ پرانی وحی کو ہم ان سے کاٹ کر اس طرح الگ پھینک دیں گے کہ ایک شعشہ ایک نقطہ بھی قرآن کریم کا ان کو اپنانے نہیں دیں گے.یہ ہے نیا باب جو مذہب کے نام پر نفرتوں کی تاریخ میں کھولا گیا ہے اور اس کے متعلق قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے بطور پیشگوئی میں کہتا ہوں اس کا ذکر فرمایا تھا کیونکہ اگر یہ بطور پیشگوئی نہ ہوتا تو تاریخ میں اس کا ذکر ملنا چاہئے تھا اور جہالت کی حد ہے کہ یہ نہیں دیکھتے کہ قرآن کریم میں تو ابلیس کا نام بھی ہے، شیطان بھی لکھا ہوا ہے اور ابو لہب کا بھی ذکر ہے ، فرعون کا بھی ذکر بیتو اس زمانے کے ابولہب اور اس زمانے کے فرائین پھر اپنے یہ نام بھی کاٹ لیں ہر قسم کے اسماء قرآن کریم میں موجود ہیں کُلُّھا ہر قسم کے اسماء ہیں.اور قرآن کریم ایک ایسی کتاب ہے جس پر کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اس کتاب کو ہم کسی اور پر مطلق نہیں ہونے دیں گے.یہ تو اطلاق پاکے رہے گی چاہو بھی تو تم اس کو چھین کر اپنی جھولی میں سمیٹ نہیں سکتے کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم رحمتہ للعالمین بھی تھے اور تمام جہانوں کے لئے نذیر بھی تھے نذیر" للعالمین بھی تھے اور بشير للعالمین بھی تھے اس لئے قرآن کریم میں تو ہر قوم کا ذکر مل رہا ہے جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ تمہارا بھی ذکر مل رہا ہے اور بڑی تفصیل سے مل رہا ہے ان ذکروں کو کس طرح نوچ لو گے.قرآن کریم میں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتا ہے اور بڑی محبت کے ساتھ یہ نام مذکور ہے بڑی پاکیزگی کے ساتھ یہ نام مذکور ہے اور آج ایرا غیرا ہر قسم کے بدکار لوگ بھی ایسے ملتے ہیں جنہوں نے یہ نام رکھا ہوا ہے اور تعصب کی آنکھ سے دیکھنے والوں کو یہ نظر ہی نہیں آرہا.ایسے ایسے ذلیل لوگ ہیں ، ایسے ایسے گندے لوگ ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف منسوب ہوتے بھی ان کو شرم اور حیا آنی چاہئے کہ ہم حضور ا کرم کی طرف منسوب ہو کر آپ کی ہتک کا موجب بن رہے ہیں.اور ان کو یہ محمد کہتے ہیں.ان کے خلاف گواہیاں دی جاتی ہیں عدالتوں میں قرآن اٹھا اٹھا کہ یہ محمد چور ہے یہ ایسا ہے یہ ایسا ہے ان کو کوئی حیا نہیں آتی.وہ نام نہیں نوچتے.یہ دلیل جودی جا رہی ہے میری طرف سے اس کا اسی آیت میں ذکر ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم ان باتوں میں اعتراض تو کر رہے وَاَنَّ اَكْثَرَكُمْ فَسِقُوْنَ تم یہ نہیں دیکھتے کہ تم میں سے اکثر فاسق لوگ ہیں اور تم اس بات کے اہل نہیں ہو کہ پہلی کتابوں کے اوپر تم عمل کر کے دکھاؤ اور ان کی طرف منسوب
خطبات طاہر جلدم 591 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء ہو کیونکہ تمہارے اعمال گندے ہیں.اپنی کتابوں کی رو سے گندے ہیں.اس لئے جو اس بات کے اہل ہیں شایان شان ہے جن کو کہ وہ پرانی تعلیمات پر بھی عمل کریں جو ان میں سے باقی رکھنے کے لائق ہیں اور نئی تعلیمات پر بھی عمل کریں تمہارا کوئی حق نہیں ان کو کاٹنے کا.چنانچہ اس مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے: وَتَرَى كَثِيرًا مِنْهُمْ يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) (المائده: ۶۳) کہ تو ان میں سے اکثر کو اس حال میں پائے گا يُسَارِعُونَ فِي الْإِثْمِ کہ گناہوں کی طرف بڑھنے میں جلدی کرتے ہیں ایک دوسرے پر مسابقت کرتے ہیں ، وَالْعُدْوَانِ اور نا فرمانیاں اور Transgression حدود سے تجاوز کرنا اس میں بھی وہ بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں.وَاكْلِهِمُ السُّخت اور حرام خوری کی جتنی قسمیں ہیں ان میں وہ ملوث ہو چکے ہیں، ہر قسم کے حرام مال ظلم کے ساتھ کھانے کے طریق ان میں رائج ہو گئے ہیں.غریبوں کا مال لوٹ رہے ہیں ، دوسروں کی جائیداد میں ہڑپ کر رہے ہیں، رشوتیں دے رہے ہیں رشوتیں کھا رہے ہیں.چوری چکاری ، افیم ، نشے کی چیزیں، خفیہ ریڈ ایسی جو ہر قسم کی گندگی کوجنم دینے والی عورتیں بیچنا، اغوا کرنا، مال کھانے کی جتنی بھی گندی قسمیں ہیں، فرماتا ہے اس میں تم آگے بڑھ رہے ہو اور نیکیوں کے محافظ بنتے ہو؟ وہ جو نیکی پر عمل کرتے ہیں اس پر اعتراض کر رہے ہو.کیونکہ تمہارا اعتراض یہ ہے کہ بائبل کی نیک باتوں پر کیوں عمل کرتے ہو تم کیونکہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر وہ بائبل کا اعتراض ہوتا ، یہ میرا مطلب ہے، اگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بائبل پر عمل کرتے تھے تو نیک باتوں پر ہی عمل کرتے تھے.تو قرآن کریم کی رو سے یہ اعتراض اس قوم کی طرف سے اٹھایا جارہا تھا گویا کہ، اٹھانا چاہئے تھا کہ تم عجیب لوگ ہو بائبل کی نیک باتوں پر کیوں عمل کر رہے ہو.قرآن فرماتا ہے تم بائبل کی بد باتوں پر عمل کر رہے ہو جن سے روک رہی ہے اور حیا نہیں کر رہے اور نیکیوں کو روک رہے ہو کہ بائیبل کی اچھی باتوں پر عمل نہ کرو یہ مضمون بنتا ہے.لیکن اس وقت یہ نقش ظاہر نہیں ہوا، آج ظاہر ہورہا ہے اور آج بائبل کی جگہ قرآن کریم نے لے لی ہے.
خطبات طاہر جلدم 592 خطبه جمعه ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء آج جماعت احمدیہ کو یہ کہہ رہے ہیں کہ قرآن کریم کی اچھی باتوں پر تم کیوں عمل کر رہے ہو.بری باتوں پر عمل کرنے کے لئے ہم جو رہ گئے ہیں.Heads I win tails you lose والا قصہ ہے.قرآن کریم کا تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیں گے.ہم اس لئے عمل نہیں کر سکتے کہ تم ہمیں اجازت نہیں دیتے کہ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ جو پہلے نازل ہوا ہے ہم اس کی پیروی کر سکیں اور تم اس لئے عمل نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم فرماتا ہے آنَّ أَكْثَرَكُمْ فَسِقُوْنَ تم میں سے اکثر فاسق ہو چکے ہیں اور تمہاری سوسائٹی تمہارے روزانہ کے اخبار، ہر صفحہ ہر اخبار کا سوسائٹی کی ایسی بھیانک تصویر کھینچ رہا ہے جو اپنے بھیا نک پن میں زیادہ بھیا نک ہوتی چلی جارہی ہے ، اور بھی آگے بڑھتی چلی جارہی ہے.قرآن کریم نے اتنے تفصیل سے ان واقعات کو نہ صرف محفوظ فرمایا بلکہ دلائل ہر قسم کے اکٹھے کر دیئے.اور یہ مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت ہی وسیع مضمون ہے ابھی جو آیت میں نے بیان کی ہے اس کی بھی تفصیلات کا اطلاق میں نے ابھی نہیں کر کے دکھایا.مگر بہر حال ہمیں وقت کی رعایت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کچھ مختصر کرنا پڑ رہا ہے.آپ غور کریں گے جب اپنے طور پر تو حیران ہوں گے کہ ہر نوع کے دلائل جو اہل اللہ یعنی ابرارلوگوں نے پیش کئے وہ بھی قرآن کریم نے محفوظ کر لئے ہیں اور ہر نوع کی کج بحثیاں اور بدتمیزیاں جو انبیاء کے مخالفین نے پیش کیں یا پیش کر سکتے تھے ان کو بھی قرآن کریم نے محفوظ کر لیا اور بظاہر ایک سلسلہ انبیاء کی باتیں محفوظ ہوئی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے پردے پر جتنے مذاہب ظاہر ہوئے ہیں وہ قرآن کے بیان کردہ دائرے سے باہر نہیں جا سکے.ان کے نیک لوگوں کا ذکر بھی قرآن کریم کے اندر مل جاتا ہے خواہ نام نہ لیا گیا ہوان کے بدلوگوں کا ذکر بھی مل جاتا ہے، خواہ نام نہ لیا گیا ہو.اس مضمون کو آگے بڑھاتے بڑھاتے قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ جب وہ لوگ ، وقت کے علماء عاجز آجاتے ہیں، شروع میں دلائل سے بات کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں دلیل دینے کی ، پھر دلیل میں ان کو کس طرح مار پڑتی ہے، کس طرح وہ نامراد ہو جاتے ہیں اس کا ذکر فرماتا ہے.کس کس قسم کی دلیلیں دیتے ہیں اور جوابا انبیاء اور ان کے ماننے والے پھر ان کو شکست دینے کے کیا کیا طریق اختیار کرتے ہیں اور بالآخر لازماًوہ شکست کھا جاتے ہیں.اور جب ان کے پاس کوئی دلیل باقی نہیں رہتی تو فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلدم 593 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء فَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا أَنْ قَالُوا اقْتُلُوهُ اَو حَرِّقُوهُ فَأَنْجُهُ اللهُ مِنَ النَّارِ انَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ (العنکبوت : ۳۵) حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بھی یہ ہوا تھا اس سے پہلے بھی ہوتا آیا اور بعد میں بھی یہی مضمون اپنے آپ کو دھراتا رہا ہے.آگ کی جگہ کسی اور عذاب نے لے لی ، گالیاں بدل گئی ہوں گی لیکن فی ذاتہ یہ مضمون تبدیل نہیں ہوا.جب بھی انبیاء کے دلائل سے اور ان کے غلاموں کے دلائل سے تو میں عاجز آئی ہیں تو آخر پر انہوں نے یہی کہا ہے کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یا تو ان کو قتل کر دیا جائے یا ان کے گھروں کو آگ لگادی جائے یا ان کو زندہ جلا دیا جائے.چنانچہ بعینہ یہی مطالبہ اب علماء کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف بھی شدت اختیار کر رہا ہے اور اب ان کے اپنے تبصرے یہ ہیں کہ آرڈینینس بھی ہم نے لگوا کے دیکھ لیا تب بھی ان کی ترقی نہیں رکی.وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی کارروائیاں پہلے سے تیز تر ہوگئی ہیں اور اخبارات میں کھلم کھلا مجھے گالیاں دیتے ہوئے کہتے ہیں اس کو پاکستان نے روکا کیوں نہیں.ہم تمہیں سمجھا رہے تھے اس کے پاسپورٹ ضبط کر لواب وہ باہر نکل گیا ہے، پہلے سے بھی کئی گنا بڑھ گئی ہیں ان کی شرارتیں ہمارے خلاف.ان کو وہ شرارتیں“ کہہ رہے ہیں.یہ اک ہی نہیں رہے ، ان کی ترقیاں ان کی جائیدادیں بڑھ رہی ہیں، ان کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، یوگنڈا میں یہ ہو گیا فلاں جگہ یہ ہو گیا.ان کو روکنے کی کوئی ترکیب کرو اور یہ سارے شکست کے اعترافات کرنے کے بعد کہتے ہیں ایک ہی علاج ہے ان کو قتل و غارت کروان کو زندہ درگور کر دو اور پھر علماء نقشے کھنچتے ہیں کہ اس طرح حکومت ہمارے سپر د کرے، ہم مقتل کی طرف جلوس بنا کے چلیں وہاں ان کو آدھا آدھا جسم زمین میں گاڑ کران پر پتھراؤ کرتے ہوئے ان کو شہید کریں وہ تو کہتے ہیں ہم قتل و غارت کریں محاورہ ان کا ہے جہنم واصل کریں.گویا جہنم کے فرشتے خدا نے ان کو ہی بنا رکھا ہے.جنت واصل کرنے کا کوئی لفظ آپ ان سے نہیں سنتے لیکن جہنم واصل کرنے کی ساری ترکیبیں ان کو آتی ہیں.کہتے ہیں پھر ہم تالیاں بجاتے ہوئے ان کو جہنم واصل کر کے واپس آجائیں گے اور قرآن کریم فرماتا ہے کہ پہلی تو میں اسی طرح کرتی آئی ہیں یہی کہا کرتے تھے.جب ان کی دلیل نے کام نہیں کیا اور انبیاء کی دلیل نے ان کی دلیلوں کو ریزہ
خطبات طاہر جلدم 594 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء ریزہ کر دیا.جب بجائے اس کے کہ وہ غالب آتے فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ (البقره: ۲۵۹) کا نظارہ دیکھا گیا.جب وہ اپنے گریبانوں میں منہ ڈالتے ہوئے غور کرنے لگے کہ ہم تو ہر لحاظ سے مار کھا چکے ہیں پوری طرح ہماری شکست ہوگئی.تب انہوں نے کہا کہ اب تو سوائے اس کے چارہ کوئی نہیں قتل کر دیا آگ بھڑکاؤ اور اس میں ڈال دو.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَانْجُهُ اللهُ مِنَ النَّارِ ہروہ شخص جو خدا کی خاطر آگ کو قبول کرنے کے لئے تیار ہو جایا کرتا ہے اللہ اسے ضرور آگ سے نجات بخشتا ہے.اس وقت ان کی نفرتوں کا حکم جاری نہیں ہوتا ، خدا کی محبت کی تقدیر جاری ہوتی ہے اور وہ اپنے پیاروں کو ان کی بھڑکائی ہوئی جہنموں میں جلنے نہیں دیا کرتا.اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ اس بات میں تو ایمان لانے والوں کے لئے بہت سے نشانات ہیں.اب یہ بہت ہی پیارا طریق بیان ہے قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کے اوپر تو قدم قدم پر جان نچھاور ہوتی ہے بظاہر ذکر ایک شخص کا چل رہا ہے اور واحد کا صیغہ استعمال ورہا ہے.جب مضمون ختم کیا تو فرمایا اِنَّ فِي ذلِكَ لَايَتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ.کہ اگر ایک ہی واقعہ ہوا تھا آگ میں پڑنے اور آگ سے نکالے جانے کا اگر ایک ہی دفعہ یہ ہوا تھا کہ خدا کی خاطر آگ میں چھلانگ لگانے والے کے لئے آگ کو گلزار کر دیا گیا تھا تو ایک ہی نشان ہوا اس میں سوچنے والوں کے لئے سینکڑوں، ہزاروں نشان کیسے ہو گئے ؟ مگر خدا فرماتا ہے اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ خوشخبری دے رہا ہے کہ یہ ایک آگ کا واقعہ ایک ہی نہیں رہا کرتا اور آگ کو جو گزار بنایا جاتا ہے یہ بھی ایک دفعہ واقعہ نہیں ہوتا.مومنوں کی زندگی میں کثرت سے ایسے نشان پھیلے پڑے ہیں.یہ بار بار ہونے والا واقعہ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ”آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی بھی غلام ہے ( تذکرہ صفحہ ۳۲۴) اور احمدیوں نے بکثرت آگ کو گلزار بنائے جانے کے واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں.تو فرماتا ہے لوگ تو تاریخ کی باتیں کرتے ہیں اور قرآن کریم کو تاریخ کی ایک ایسی کتاب سمجھتے ہیں جو گزشتہ زمانے کے قصے بیان کر رہی ہے مگر جو تصویر میں ہم بناتے ہیں ہم انہیں زندہ بھی کر دیا کرتے ہیں ہر زمانے میں ان میں پھونکتے روح اور پھر ان کو گلیوں اور بازاروں میں چلا کے
خطبات طاہر جلدم 595 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء دکھاتے ہیں، اس طرح کی تاریخ ہم نے لکھی ہے جو زندہ بن کر پھر تمہارے سامنے فلموں کی طرح دہرائی جاتی ہے.جو گزشتہ خطبہ میں میں نے واقعات بیان کئے تھے وہ بھی اسی قسم کے تھے.حیرت سے انسان اس کتاب کامل کو دیکھتا ہے اور اس کی فصاحت و بلاغت اور اس کی معجز بیانی پر روح وجد کرتی ہے اس کو فرقان کہتے ہیں.کیا ہے کوئی دنیا میں مورخ ؟ جو ایسی تاریخ لکھنے کا دعویدار ہو جو سابقہ قوموں کی تاریخ لکھ رہا ہو اور بعینہ اسی طرح انہی نقوش کے ساتھ وہ قومیں زندہ ہو کر پھرنے لگیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اعلان کیا گیا ہو، دعویٰ کیا گیا ہو کہ ہاں ایسا ہوگا.تو جب یہ فرمایا اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَتٍ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُوْنَ تو یہ مضمون کھل گیا.اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہر مورخ تاریخ لکھتا ہے اور ویسی شکلیں بن جایا کرتی ہیں تو قرآن نے بھی ایسی بات کی ہوگی.قرآن تو کھول کر بتا رہا ہے کہ یہ مومن یعنی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے والے یہ ایسے نشان روز اپنی زندگیوں میں دیکھ رہے ہیں.تمہارے لئے تو ابراھیم ایک ماضی کا قصہ بن گیا ہے مگر آج مکہ اور مدینہ کی گلیوں میں گھر گھر میں ابراہیم پیدا ہورہے ہیں اور ایک قسم کی آگ نہیں سینکڑوں قسم کی آگوں کو یہ بھڑکتا بھی دیکھتے ہیں اور اپنے لئے بجھتا ہوا بھی دیکھتے ہیں.اور یہی واقعات آج احمدیت کی تاریخ میں رونما ہو رہے ہیں.کیسے ہمارے ایمانوں کو ہمارے دلوں سے نوچیں گے؟ یہ تو ہر کوشش کے ساتھ ان ایمانوں کو نئی تازگی بخش دیتے ہیں.ہر دفعہ جب چاہتے ہیں کہ یہ ایمان کے نقوش مٹ جائیں تو نئی شان کے ساتھ جاگر ہو کر نئے جلوؤں کے ساتھ چپکنے لگتے ہیں.پھر قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جب یہاں تک نوبت پہنچ جاتی ہے کہ اب قوم دلائل میں عاجز آگئی یعنی مخالفین دلائل میں عاجز آگئے اور کوئی حربہ اب ان کے پاس باقی نہیں رہا سوائے جبر اور تشد داور نمرودیت اور فرعونیت کے.اس وقت پھر کیا ہوتا ہے ؟ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جو تاریخ بیان فرمارہا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پھر یہ مذہبی تحریک ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہونے لگتی ہے اور اس وقت بیچ میں حکومتوں کا دخل آنا شروع ہو جاتا ہے.اور یہ لوگ جو عامتہ الناس کے طور پر یا مذہبی رہنماؤں کے طور پر ایک سچائی کی بیخ کنی میں نا کام ہو جاتے ہیں پھر یہ اسے سیاسی رنگ دیتے ہیں اور سیاست کی راہ سے حکومتوں پر قابض ہوتے ہیں اور حکومتوں پر اثر انداز ہوتے
خطبات طاہر جلدم 596 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء ہیں اور کہتے ہیں اب دیکھیں گے کہ یہ کس طرح بچ کے جائیں گے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: وَأَوْحَيْنَا إِلَى مُوسَى أَنْ أَسْرِ بِعِبَادِئَ إِنَّكُمْ مُّتَّبَعُونَ (الشعرا ۵۳) ہم نے موسی کی طرف وحی کی کہ تو میرے بندوں کو اپنے ساتھ لے کر یہاں سے نکل کھڑا ہو.ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ تمہاری پیروی کریں گے اور تمہارا پیچھا کریں گے.فَأَرْسَلَ فِرْعَوْنُ فِي الْمَدَا بِنِ حُشِرِيْنَ (الشعراء: ۵۴) فرماتا ہے فرعون نے مدائن میں اکٹھے کرنے والے بھیجے إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْ ذِمَةٌ قَلِيلُونَ (الشعراء: ۵۵) اور کہا کہ یہ لوگ چھوٹی سی ، معمولی اونی کی اقلیت ہیں.وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَابِظُونَ (الشعراء :۵۶) اور ان کو یہ جرات، یہ حوصلہ کہ ہمیں غصہ دلا رہے ہیں.یہ مضمون مختلف رنگ میں قرآن کریم میں بیان ہوا ہے.لیکن یہاں ترتیب ایک ایسی ہے جو خاص طور پر قابل توجہ ہے.حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے جب حکم دیا تھا کہ اپنی جگہ چھوڑ کر باہر چلے جاؤ تمہاری پیروی کی جائے گی تو اس کے بعد تو کوئی مناظرہ نہیں ہوا.اس کے بعد تو یہ نہیں کہا گیا کہ یہ ہمیں غصہ دلاتے ہیں پھر تو بات ہی ختم ہوگئی تھی.اس لئے اس آیت کو بعد میں رکھنے کی بجائے پہلے کیوں رکھ دیا گیا.یہ نہیں فرمایا کہ جب یہ سارا جھگڑا چل پڑا تو لَشِرْذِمَةً قَلِيلُونَ کہا اور یہ بھی کہا ہمیں غصہ دلاتے ہیں وَ إِنَّا لَجَمِيعٌ حَذِرُونَ (الشعراء: ۵۷) اور ہم باوجود اس کے کہ ہم بڑی جمعیت رکھتے ہیں اور موجود کھڑے ہیں نگران کھڑے ہیں پھر اللہ تعالیٰ فرما تا بظاہر ترتیب کے لحاظ سے کہ پھر ہم نے موسی پر وحی کی کہ اس جگہ کو چھوڑ واور چلے جاؤ.لیکن اس بات کو جو آخر پر ہوئی ہے بظاہر اس کو پہلے رکھ دیا ہے اور اس کو بعد میں رکھ دیا ہے.معلوم ہوتا ہے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کوئی ایسے واقعات رونما ہونے والے تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے پتہ چلتا ہے کہ تیرے پر ایسا زمانہ آنے والا ہے جو موسی" پر آیا تھا ( تذکرہ صفحہ ۳۶۶) اور حضرت خلیفتہ اسیح الثانی نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ نہ اس وقت تک آیا جب تک مسیح موعود علیہ السلام زندہ رہے نہ آج تک کے خلفاء کی تاریخ میں یہ زمانہ آیا ہے اور چونکہ مسیح موعود علیہ السلام پر یہ اس بات نے لازماً صادق آنا ہے اس لئے آئندہ ایسا زمانہ ضرور آ جائے گا ( تفسیر کبیر جلد ۸ صفحه ۵۴۶ - ۵۴۷، تفسیر سورۃ الفجر ).وہ
خطبات طاہر جلدم 597 خطبه جمعه ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء جماعت احمدیہ پر آیا ہوا ہے اور آج کل آیا ہوا ہے اور اس ترتیب کے ساتھ آیا ہوا ہے.یہ ساری باتیں اب بعد میں جاری ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں بڑی شدت کے ساتھ.چنانچہ یہ بھی بڑا عجیب تکبر کا کلمہ ہے اور اسی سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی مخالفت ایک سیاسی رخ اختیار کرلے گی اور جمعیت کی بات کی جائے گی اور کہا جائے گا کہ ہم اکثریت میں ہیں اور یہ دلیل ہے ہماری اور جب غیر قو میں پوچھیں گی کہ تم یہ کیا ظلم کر رہے ہو تو کہیں گے إِنَّ هَؤُلَا عَلَشِرْ ذِمَةٌ قَلِيْلُونَ ) اور تصور ان کا ہے وَإِنَّهُمْ لَنَا لَغَابِظُونَ یہ بدمعاش لوگ ہم کو غصہ دلا رہے ہیں چھوٹے سے حقیر سے لوگ.اور لفظ شرذمة بڑا ہی پیارا ہے نقشہ کھنچنے کے لحاظ سے ویسے تو بڑا ہی نکما لفظ ہے لیکن چونکہ نقشہ بہت عمدہ کھینچ رہا ہے اس لئے یہاں بہت ہی اچھا لگ رہا ہے.عرب کہتے ہیں خوب شرازم کہتے ہیں ایسے کپڑے کو جو چیتھڑا بن چکا ہو.پھٹا ہوا جسے پنجابی میں لیر لیر کہتے ہیں.تو جو کپڑا چیتھڑا چیتھڑا ہو چکا ہو اس کو عرب شـوب شـر ازم کہتے ہیں تو شرذمة کا مطلب ہے ایک بوسیدہ پھٹا ہوا چھوٹا سا ٹکڑا.تو کس قدر متکبرانہ فقرہ ہے.ان کی حالت تو دیکھو بوسیدہ پھٹے ہوئے ذلیل کپڑے کے ایک ٹکڑے ہی تو ہیں جو ہم سے پھٹ کر الگ ہو چکا ہے اور اب یہ کیا حق رکھتے ہیں اور باہر بیٹھا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ہمیں غصہ دلا رہا ہے.تو ہم کیا کریں پھر؟ وَإِنَّا لَجَمِيعُ خُذِرُونَ ہم تو ایک جمعیت کے طور پر یہاں موجود ہیں پھر ہم تو برداشت نہیں کریں گے، ہم تو پھر ماریں گے ان کو.تو جو دلائل کے ساتھ مذہبی مخالفت تھی وہ ایک جنون کی شکل اختیار کر گئی قرآن کریم کی اس تاریخ کے مطابق اور اس جنون نے پھر سیاسی رستے اختیار کئے اور سیاسی دباؤ ڈالنے کے لئے یہ مضمون بنایا گیا کہ یہ تم کہتے ہو Innocent ہیں معصوم ہیں، ان کا کیا قصور ہے؟ قصور یہ ہے کہ ایک ذلیل سی اقلیت ہے چھوٹی سی اور ہمارے لئے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں.غصہ دلا رہے ہیں ہمیں، ہم تو پھر غصہ کھائیں گے تو ماریں گے بھی.اور پھر خدا فرماتا ہے کہ جب یہ باتیں ہوتی ہیں قوموں میں تو پھر اس وقت کے بادشاہ ، اس وقت کی حکومتیں اپنی خاطر ، اپنے بچاؤ کی خاطر اپنی Popularity کی خاطر، ہر دلعزیزی کی خاطر اس مسئلہ کو خود اٹھالیا کرتی ہیں.
خطبات طاہر جلد۴ 598 خطبه جمعه ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء یہ عجیب طرز کلام ہے فرعون نے یہ نہیں کہا تھا کہ إِنَّ هَؤُلَاءِ لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُوْنَ قرآن کریم سے یہ نہیں پتہ چل رہا قرآن کریم سے یہ پتہ چلتا ہے کہ فرعون نے کہا تھا اکٹھے کر کے لاؤ سب کو تا کہ تماشا دیکھیں کہ کون جیتتا ہے اور کون ہارتا ہے.اور یہ نہیں فرمایا وقال ان هاؤلاء لشرذمة قليلون.اس کو بغیر کسی وضاحت کے کھلا رہنے دیا گیا ہے فقرہ ،معلوم ہوتا ہے جو علماء اکٹھے کرنے کے لئے گئے تھے انہوں نے اپنی طرف سے یہ باتیں شروع کر دیں تھیں اور یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا تھا کہ آؤا اکٹھے ہو کر آؤ کیونکہ ایک نہایت ہی معمولی گھٹیا اقلیت ہے جو ہمیں غصہ دلا رہی ہے، اب اس کا بدلہ اتاریں گے.تو یہ دلیل انہوں نے از خود قائم کی ہے اور پھر اس کو پھیلایا ہے.جب حکومت پوری طرح بیچ میں ملوث ہوگئی اور فرعون بھی ہار گیا.سارے اکٹھے ہوکر جولوگ آئے تھے ان کی کچھ پیش نہیں گئی.دلائل کی رو سے حضرت موسی علیہ الصلوۃ والسلام نے منہ بند کر دیئے تو پھر فرعون نے بھی وہی رستہ اختیار کیا جو اس سے پہلے وقت کے علماء نے مختلف اختیار کیا تھا اور کہاذَرُونِی اَقْتُلُ مُوسى (المومن: ۲۷) اب مجھے چھوڑو میں قتل کر کے دکھاتا ہوں.اب پکارتا رہ جائے اپنے رب کو دیکھتے ہیں کیسے بچاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہی الہام ہوا ( تذکرہ صفحہ ۱۶۹) اور جب یہ الہام ہوا ہو کسی وقت کے نبی کو اور اس کی ذات میں پورا نہ ہو تو بعض دفعہ اس کے غلاموں کی شکل میں پورا ہوتا ہے اور اس سے ہرگز یہ مراد ہیں ہوتی کہ نعوذباللہ مرتبہ ایک ہے.آنحضرت ﷺ نے جو کنگن دیکھے اور پھونکیں مار کے اڑا دیئے وہ ایک ایسے غلام کی شکل میں واقعہ پورا ہوا جس کو حضورا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مقام ومرتبے میں کوئی دور کی بھی نسبت نہیں تھی.تو یہ معنی نہیں ہوا کرتے اس لئے بعض لوگ غلط فہمی سے اس طرف چل پڑتے ہیں اور مراتب کی بحث میں اور قوموں کو شوق ہوا کرتا ہے کہ اپنے وقت کے لوگوں کو جن سے محبت کرتے ہیں زبردستی ان کے مراتب بڑھاتے چلے جائیں.حالانکہ مرتبے تو خدا بڑھایا کرتا ہے بندوں کے کہنے سے،ان کی باتوں سے کبھی کوئی مرتبہ نہیں بڑھ سکتا.اس لئے اس دھو کہ میں اب مبتلا نہ ہو جا ئیں.میں جو مضمون بیان کرنے لگا ہوں اس کی حقیقت کو سمجھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق یہ الہام ہے لیکن آپ کے کسی غلام کی شکل
خطبات طاہر جلدم 599 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء میں پورا ہونا تھا.اور یہ عجیب بات ہے کہ سوائے میری ذات کے خلیفہ مسیح الرابع کے آج سے پہلے کسی خلیفہ کے متعلق قوم نے یہ آواز بلند نہیں کی کہ پکڑو اور اس کو قتل کرو اور جھوٹا الزام قنا کا لگایا گیا ہو جس طرح جھوٹا الزام حضرت موسی پر بھی قتل کا لگایا گیا تھا.اب بظا ہر تو یہ لگ رہا ہے کہ قوم کے علماء مطالبہ کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم اس کو قتل کر کے دکھائیں گے لیکن قرآن اصل بات بتارہا ہے کہ یہ علماء کی سازش نہیں ہے یہ حکومت وقت کی سازش تھی.ورنہ قرآن کریم یہاں یہ نہ فرما تا فرعون کی طرف منسوب کر کے وَقَالَ فِرْعَوْنُ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسی اور اگر یہ گزشتہ زمانہ کے متعلق تھا صرف تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بعینہ ان الفاظ میں الہام نہیں ہونا تھا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو بعینہ ان الفاظ میں الہام کا ہونا بتا رہا ہے کہ آپ کے متعلق یہ الہام ہے اور آپ کے کسی غلام کی صورت میں یہ پورا ہوگا اور بظاہر اس وقت لوگ کہہ رہے ہوں گے کہ ہمیں دو، ہم قتل کرتے ہیں.لیکن خدا کہتا ہے جو عالم الغیب ہے کہ یہ حکومت کی سازش ہے اور دراصل فرعون وقت یہ کہہ رہا ہے کہ ذَرُونِي أَقْتُلْ مُوسى مجھے ذرا موقع تو دو، دیکھو میں کس طرح اس کو قتل کر کے دکھاتا ہوں.وَلْيَدْعُ رَبَّہ پھر پکارتا رہ جائے اپنے رب کو ، دیکھیں گے کہ کس طرح اس کا رب اس کو بچاتا ہے اور اس کے بعد پھر دو دلائل بھی وہ پیش کرتا ہے.اپنی اس دھاندلی کے متعلق، اس کے حق میں ، اس کے جواز کے طور پر وہ دو دلائل پیش کرتا ہے.اور عجیب بات کے کہ یہی دو دلائل آج حکومت پاکستان کی طرف سے ساری دنیا کی Embassies کے سامنے پیش کئے گئے ہیں اور جب مقامی احمدیوں نے احتجاج کئے ہیں تو انہوں نے حکومت پاکستان کے ان دلائل کو لفظاً لفظاً دہرا کے ان کو بتایا ہے کہ حکومت پاکستان کا یہ موقف ہے اور یہ مجبور ہے.دلائل کیا دیئے ہیں؟ اِنّى اَخَافُ اَنْ تُبَدِّلَ دِينَكُمْ میں یہ ڈرتا ہوں میں جو اس کی مخالفت کر رہا ہوں اس شدت کے ساتھ فرعون کہتا ہے یہ اس لئے کر رہا ہوں کہ کہیں یہ تمہارا دین نہ تبدیل کر دے.اب یہ عجیب بات ہے ساری قوم حضرت موسیٰ کی مخالف تھی اور قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے بڑے لوگ آپس میں ان کے قتل کے مشورے کرتے تھے اور قوم کا ذکر ہی نہیں کیا فرعون نے.کہتا ہے میں مخالفت کر رہا ہوں یعنی یہ سارا سہرا اپنے سر پر لے رہا ہے.اور اس کی پھر دلیل دے رہا ہے کہ میں جو مخالفت کر رہا ہوں.اے قوم! تمہاری خاطر تمہاری
خطبات طاہر جلدم 600 خطبہ جمعہ ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء محبت میں ایسا کر رہا ہوں تمہیں بچانے کی خاطر ایسا کر رہا ہوں اگر ان کو اس حال پر چھوڑ دیا گیا تُبَدِّلَ دِينَكُمْ اور اس کے ساتھی تمہارا دین ضرور تبدیل کر دیں گے.تبلیغ کے ذریعہ تم پر غالب آجائیں گے اور یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے.اَو اَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (المومن : ۲۷) یا پھر اس کے نتیجہ میں فساد جاری ہوگا.جب بھی یہ تبلیغ کریں گے فساد پھیلے گا کہاں تک حکومت اب ان فسادات کا مقابلہ کرے.پس یہی دو جواب ہیں جو حکومت پاکستان کی طرف سے ساری دنیا کی Embassies کو، تمام دنیا کی حکومتوں کو تحر یر ا دیئے جاچکے ہیں اور ان کی طرف سے تحریر ایہ ریکارڈ ہم تک پہنچ چکا ہے.یہ ہے قرآنِ کریم کی شان کس تفصیل سے یہ تاریخ انبیاء کا ذکر کرتا ہے اس کے دہرائے جانے کا ذکر فرماتا ہے اور اپنے اندر یہ واضح اشارے رکھتا ہے کہ یہ بات جو ہم کہہ رہے ہیں یہ اس ترتیب سے جو ہوگی یہ آئندہ ہونے والی ہے.گزشتہ زمانے کی اور ترتیب تھی واقعات یہی تھے.اب آئندہ آنے والے زمانے میں واقعات یہی ہوں گے مگر ترتیب بدلی جائے گی اور ان واقعات کے مطابق آیات کی ترتیب بدل دی.یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے.پھر جس کے زمانے میں ہونے تھے پورے اس کو الہا ما بتایا کہ تیرے زمانے میں یہ واقعہ ہونے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ دونوں باتیں بیان فرمائیں کہ تجھ پر ایسا وقت آئے گا جو موسیٰ کا زمانہ ہوگا اور فرمایا کہ تیرے متعلق ایک کہنے والا یہ کہے گا کہ مجھے موقع دو، مجھے چھوڑ وذرا، میں اس کو قتل کر کے دکھاتا ہوں اور مصلح موعود ان واقعات سے مدتوں پہلے دسیوں سال پہلے کھول کر لکھ چکے ہیں کہ یہ واقعات آئندہ کسی خلیفہ کے زمانہ میں ہوں گے.اور وہ ہونگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں.یہ ہے قرآن کریم کہ کس شان سے، کس تفصیل سے تصویریں بناتا ہے اور پھر ان کو اس نئے دور میں ظاہر کرنے کی ضمانت دتیا ہے اور کوئی مفسر اس کے منہ میں یہ باتیں نہیں ڈالتا خود قرآن کریم قطعی اشارے اس بات کے رکھتا ہے کہ یہ ماضی کا قصہ تھا، یہ مستقبل میں ہونے والے واقعات ہیں اور اس تفصیل کے ساتھ یا اس تبدیلی کے ساتھ رونما ہوں گے.پھر آخر پر قرآن کریم فرماتا ہے اور یہاں میں اس مضمون کو ختم کروں گا کہ جب یہ مذہبی مخالفت حکومتوں کے ہاتھ میں چلی جاتی ہے اور ایک جماعت بظاہر کمزور ہوتے ہوئے جو
خطبات طاہر جلد۴ 601 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ کہلا رہی ہو وہ نہ علماء کے بس میں رہتی ہے نہ حکومتوں کے بس میں رہتی ہے.تو پھر اس کے لئے بڑی کثرت سے روپیہ بھی خرچ کیا جاتا ہے اور پیشہ ور مخالفین مقرر ہو جاتے ہیں اور خالصہ اس وجہ سے ان کو پیسہ ملتا ہے کہ وہ اس مخالفت پر ملازم رکھے گئے اور مقرر ہو گئے کہ تم نے مخالفت کرنی ہے اور زندگی میں کام ہی کوئی نہیں.اور وہ دور بھی ہماری آنکھوں کے سامنے ظاہر ہے.اور یہ بھی ان آیات میں سے ہے جو اس سے پہلے دور اول میں رونما ہوتی بظاہر نظر نہیں آرہیں فرماتا ہے : اَفَبِهَذَا الْحَدِيثِ اَنْتُمْ مُدْهِنُونَ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِّبُونَ (الواقعہ : ۸۲ ۸۳) اے بیوقوف قوم کے چند لوگو! تم نے اب یہ ذریعہ رزق کا بنالیا ہے پیشہ ور بن گئے ہو رزق کمانے والے صرف اس بنا پر کہ تم خدا کے بچوں کی مخالفت کرو گے اور تکذیب کرو گے.اب اس بات کو سمجھ کر آپ تاریخ اسلام پر نظر ڈالیں تو حضرت رسول اکرم ﷺ کے اولین زمانے میں تو ایسی کوئی بات نظر نہیں آتی.وہ جو کمائیوں کے ذریعے تھے وہ تو اور تھے کوئی پیشہ ور مولوی انہوں نے نہیں رکھا ہوا تھا اس غرض سے کہ وہ مخالفت کرے اور جھٹلانے کے پیسے کھائے.تاریخ پر نظر ڈالیں دکھائیں کوئی واقعہ مجھے تو کہیں نظر نہیں آیا.کوئی ہوگا تو بڑا مدھم اور اوجھل ہوگا.لیکن قرآن بڑی شان اور بڑی وضاحت کے ساتھ کھول کر بیان کر رہا ہے کہ لازماً محمد رسول اللہ ﷺ کے زمانے کا یہ واقعہ ہے اور قرآن کی بات ٹل نہیں سکتی اس لئے اگر دور اول میں یہ واقعہ نہیں ہوا تو لازماً دور آخر میں ہونا تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور کے آغاز سے لے کر آج تک یہ قصہ چل رہا ہے کہ علماء تکذیب کی کھٹی کھا رہے ہیں.ہزار ہا ہزار ہا علماء ایسے پیدا ہوئے اورا بھی بھی پیدا ہوئے ہیں اور ان کی تعداد بڑھ رہی ہے جن کا پیشہ تکذیب ہے اور سارا رزق تکذیب کی وجہ سے کھاتے ہیں.احمدیت کو گالیاں دینی چھوڑ دیں تو ان کی آمدنیاں ختم اور گالیاں دینی بند کر دیں یا تائید کا لفظ کہہ دیں تو تب بھی ان کے رزق ختم.چنانچہ بعض علماء جب دلائل مان جاتے ہیں تو آخر پر کہتے ہیں خاموشی سے کہ میاں رزق کا سوال ہے مجبوری ہے.یہی لفظ بولتے ہیں رزق کا سوال ہے اور قرآن کریم نے چودہ سو سال پہلے یہ پیشگوئی فرما دی تھی وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ کتنا کمینہ رزق ہے چوہڑوں چماروں
خطبات طاہر جلد۴ 602 خطبه جمعه ٫۵ جولائی ۱۹۸۵ء کے بھی رزق ہوتے ہیں مگر بہر حال وہ ہاتھ کی حلال کمائی ہوتی ہے،ان کے بدن کولگتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے جو ان کو طاقتیں بخشی تھیں وہ بنی نوع انسان کے فائدے اور ان کی بھلائی کے لئے استعمال کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان کو رزق ملتا ہے.دنیا کی نظر اس کو گندہ رزق سمجھ رہی ہے.دنیا کی آنکھیں اس کو پلید کھانا مجھتی ہے مگر خدا جو رازق ہے جو کائنات کا مالک اور خالق ہے وہ کہتا ہے مجھے تو پلید رزق یہی نظر آ رہا ہے کہ تم نے تکذیب کو ذریعہ بنالیا ہے رزق کی کمائی کا.اتنا گر گئے ہواتنے کمینے ہو گئے ہو اور امر واقعہ یہ ہے کہ آج کروڑوں نہیں اربوں روپیہ جماعت احمدیہ کی تکذیب کے او پر خرچ ہو رہا ہے اور یہ جو مختلف ملکوں کے دورے ہور ہے ہیں اور بے شمار خرچ کیا جارہا ہے افریقہ میں اور امریکہ میں اور انگلستان میں اور یورپ کے دوسرے شہروں میں اور ایشیاء کے دوسرے ملکوں میں ہر جگہ ان لوگوں کے پاس تکذیب کے لئے کہیں سے پیسہ آ رہا ہے اور جب یہ تکذیب چھوڑتے ہیں تو ان کا مارکیٹ میں کوئی مول ہی نہیں پڑتا.عجیب قوم ہے.آج ذرا علماء کا منہ بند کر وا کے دکھا دیں کوئی بھی کہیں جماعت کے خلاف تو ایک دم ان کا رزق کا ذریعہ ختم ہو جائے گا.وہی روٹیاں جو شام کو بٹا کرتی تھیں گاؤں سے وہی رہ جائیں گی باقی بس.تو جتنی شانیں ہیں یہ موٹریں، یہ ہوائی جہازوں کے سفر یہ تکذیب کے ذریعہ سے رزق مل رہا ہے اور خدا کی شان دیکھیں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے کے متعلق فرمایا تھا کہ ایسی قوم بھی ظاہر ہونے والی ہے، ایسے نئے انداز مخالفت بھی اب تمہیں نظر آئیں گے وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ پس ان تصویروں کو دیکھو اور سمجھو کہ تم خود کیا بنتے چلے جار ہے ہو اور ہمیں کیا بناتے چلے جارہے ہو.تم چاہتے ہو کہ ہمیں صفحہ ہستی سے مٹادو لیکن ہم تو وہ نقوش نہیں ہیں جو ظاہر ہو جائیں تو پھر مٹ جایا کرتے ہیں.ایک عام دنیا کا شاعر کہتا ہے کہ: ع ثبت است بر جریده عالم دوام ما ہم میں وہ خوبیاں ہیں کہ جریدہ عالم پر ہمارے نقوش ثبت ہو گئے ہیں، ہمارا دوام ثبت ہو گیا.تو پھر خدا کی قسم وہ قوم جس کے نقوش جریدہ قرآن پر نقش ہو چکے ہوں ، کون ہے دنیا میں جواس قوم کے نقوش کو مٹا کے دکھا دے.ان نقوش کی زندگی کا قرآن ضامن ہو چکا ہے.ان کی بقاء کا قرآن ضامن ہو چکا ہے.ان کے دن بدن نئے شان کے ساتھ جلوہ گر ہونے کا قرآن کریم ضامن ہو چکا
خطبات طاہر جلدم 603 خطبه جمعه ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء ہے.اس لئے یہ نقوش تو بہر حال نہیں مٹیں گے.تم دیکھو کہ تمہارے وہ نقوش تو نہیں جو قرآن کی گواہی کے مطابق ہمیشہ مٹادیئے جایا کرتے ہیں اور صرف عبرت کے طور پر کھنڈرات کی صورت میں باقی قائم رکھے جایا کرتے ہیں.کاش تمہیں دیکھنے کے لئے نور بصیرت عطا ہو لیکن افسوس کہ اب جبکہ میں یہ کھلی کھلی تصویریں دکھا رہا ہوں مجھے تو یہ یقین نہیں کہ یہ دیکھیں گے اور پہچانیں گے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تو فرمایا ہے کہ ایک مومن دوسرے مومن کا آئینہ ہوتا ہے (ابوداؤد کتاب الادب حدیث نمبر ۴۲۷۲) لیکن یہ نہیں فرمایا کہ ایک مومن سارے جہان کا آئینہ ہوتا ہے.مومن کے چہرے میں اس کی زبان سے اپنی تصویر کو دیکھنا اورسنا اور مجھنا اس کی توفیق بھی مومن ہی کو چاہتی ہے.جس میں ایمان کی بصیرت ہو وہی دیکھ سکتا ہے.اس لئے تم عجیب بد نصیب لوگ ہو کہ ہمارے چہرے دیکھ کر اگر نہیں پہچان سکتے کہ یہ اللہ والوں کے چہرے ہیں ، یہ جھوٹوں کے چہرے نہیں ہیں.تم ایسے بدنصیب ہو کہ اپنے چہروں کو دیکھ کر بھی نہیں پہچان سکتے تم نور بصیرت سے عاری ہو گئے ہو.لیکن ساری قوم نہیں ایسے انـــــــمة التكفیر ہیں جن کا یہ حال ہے.جہاں تک باقی قوم کا تعلق ہے یہی قرآن ہمیں خبر دیتا ہے کہ تمہیں بظاہراند ھیرانظر آئے گا اور یوں معلوم ہوگا کہ سارا علاقہ اندھیرے کے قبضہ میں جاچکا ہے لیکن یاد رکھنا کہ وہ خدا جواند ھیروں کا خدا ہے وہ نور کا بھی خدا ہے، وہ راتوں کے سینے پھاڑ کر ان میں سے نور کے سوتے نکال دیا کرتا ہے.اس لئے اپنے رب سے دعاؤں میں کبھی مایوس نہ ہونا.اگر ائمة التكفير کی تقدیر نہیں بدلنے والی کیونکہ قرآن کریم کہتا ہے کہ انہوں نے لازما یہ حرکتیں کرنی ہیں اور ان کی تقدیر میں ، ان کی قسمت میں نور بصیرت ہے ہی نہیں، تو ایسا ہی ہوگا.لیکن ساری قوم پر ہر گز تم نے یہ فتویٰ نہیں دینا کیونکہ ایسے لوگ پھر انہی میں سے پیدا ہوتے ہیں جو اپنے ظالم آباؤ اجداد کی حرکتوں کے اوپر لعنتیں بھیجنے والے ہوتے ہیں.وہ اندھیروں سے نور کی طرف حرکت کر کے نکل آتے ہیں اور وہ جن پر ان کے والدین لعنتیں بھیجا کرتے تھے ان پر وہ رحمتیں بھیجتے نہیں تھکتے اور روتے ہوئے دن کو بھی رحمتیں بھیجتے ہیں اور رات کو بھی رحمتیں بھیجتے ہیں اور اپنے آباؤ اجداد پر جنہوں نے ان پاک ابرار کے اوپر لعنتیں بھیجی تھیں ان پر پھر اپنے منہ سے یہ لعنتیں بھیجتے ہیں.یہ تقدیر ہے قوموں کی جو ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی.
خطبات طاہر جلدم 604 خطبہ جمعہ ۵/ جولائی ۱۹۸۵ء خدا کرے اور ہماری دعا یہی ہے کہ وہ جو خدا کی نظر میں لعنت کے مستحق ٹھہرتے ہیں وہ بہت تھوڑے ہوں اور اللہ کی رحمت اللہ کی ہدایت کا نور جلدی پھوٹے اورجلد کی وہ دن ظاہر ہو جو ہمارے لئے بشاشتوں کا دن ہوگا اور خوشخبریوں کا دن ہوگا اور فتح و ظفر اور نصرت کا دن ہوگا اور تسبیح کا دن ہوگا اور حمد کا دن ہوگا.اپنی ذات کی بڑائی کا دن نہیں ہوگا بلکہ اللہ اور اس کے رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکر اور ان کی بڑائی کا دن ہوگا.
خطبات طاہر جلدم 605 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء جماعت کی غیر معمولی مالی قربانیاں اور اردو رسم الخط والے کمپیوٹر کے لئے مالی تحریک (خطبہ جمعہ فرموده ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيْكُمُ مِنْ عَذَابِ اَلِيْهِ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَ رَسُولِهِ وَتُجَاهِدُونَ فِي سَبِيْلِ اللهِ بِأَمْوَالِكُمْ وَاَنْفُسِكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ (الصف: ۱۱-۱۲) اور پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے چند اور باتوں کے علاوہ بعض ایسے بدنصیبوں کا بھی ذکر کیا تھا جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق تکذیب کو اپنا ذریعہ معاش بنا لیتے ہیں.یعنی جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کوئی آنے کا دعوی کرے اور یہ اعلان کرے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے تمہاری بھلائی اور بہبود کے لئے بھیجا ہے تو اس موقع سے بظاہر فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں یہ عجیب ترکیب سوجھتی ہے کہ اس دعوے کو اپنے رزق کے حصول کا ذریعہ بنا لیتے ہیں اور پھر جتنا زیادہ اس کی مخالفت میں آگے بڑھیں ، جتنی زیادہ اسے گالیاں دیں، جتنے جھوٹے الزام اس پر لگائیں اور جتنا افتراء اس کے خلاف کریں اتنا ہی لوگ پھر ان لوگوں کو پیسے دیتے ہیں.قوم کا بگڑا ہوا مزاج ایک نہایت ہی خطرناک صورت
خطبات طاہر جلدم 606 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء پیدا کر دیتا ہے اور ان کے مذہبی رہنما اس بگڑے ہوئے مزاج کی سے اور بھی ظالمانہ سلوک کرتے ہیں جب اسے مزید انگیخت دیتے ہیں اور مزید ابھارتے ہیں اور اکساتے اس قدر مشتعل کر دیتے ہیں کہ ان کی لذتیں بھی تکذیب پر ہی منحصر ہو کر رہ جاتی ہیں اور ان کو غلط لذتوں کی عادت پڑ جاتی ہے.دین کے نام پرخدا تعالیٰ کی حم سنے کا مزہ نہیں آتا، دین کے نام پر عبادتوں کی طرف ان کو بلایا جائے تو انہیں لطف محسوس نہیں ہوتا.ہاں دین کے نام پر اگر گندی گالیاں اور مخش کلامی سے کام لیا جائے تو وہ اس میں لطف محسوس کرتے ہیں Excite ہو جاتے ہیں اور دین کے نام پر اگر انہیں کسی کے قتل و غارت پر ابھارا جائے ، فساد پر ابھارا جائے آگ لگانے کی تعلیم دی جائے تو امنا و صَدَّقْنَا کہہ کر ان آوازوں پر لبیک کہتے ہیں اور ان کی تعمیل کرتے ہیں.تو پھر رشوت کے طور پر گویا کہ ان کو بھی اس گندے رزق میں شامل کر لیا جاتا ہے.علماء تو تکذیب کے ذریعہ روپیہ کماتے ہیں جو خالصہ تکذیب کی وجہ سے ان کو چندے کے طور پر دیا جاتا ہے اور عوام کو کہتے ہیں کہ تم لوگوں کے اموال لوٹو یہ سب تمہارے لئے جائز ہے بچی کھچی دکانوں کو آگئیں لگاؤ اور گھر کولوٹ لو اور باقیوں کو غارت کر دواس طرح قرآن کریم کا یہ بیان کہ کیا تم نے تکذیب کو اپنے رزق کا ذریعہ بنالیا ہے ان کے علماء پر بھی صادق آتا ہے اور ان کے عوام پر بھی بالآخر صادق آجاتا ہے اس کے برعکس قرآن کریم کچھ ایسے لوگوں کا ایک بالکل مختلف نقشہ بھی کھنچتا ہے جن کی خدمت دین تکذیب کی بناء پر نہیں بلکہ تصدیق کی بناء پر ہوتی ہے وہ اپنی قوت ایمان سے پاتے ہیں کفر سے نہیں پاتے تکفیر بازی کے نتیجہ میں وہ خدمتوں پر اکسائے نہیں جاتے بلکہ تصدیق کے نتیجہ میں خدمتوں پر اکسائے جاتے ہیں اور ان دونوں محرکات کے نتائج بالکل مختلف ہیں اتنے مختلف کہ ان دونوں میں گویاز مین اور آسمان کا فرق ہے، گویا بعد المشرقین ہے.اول محرک کے نتیجہ میں اموال حاصل کرنے کی تحریص ہوتی ہے اور دوسرے محرک کے نتیجہ میں اموال لٹانے کی تحریک ہوتی ہے.بجائے اس کے کہ تکذیب کر کے اموال حاصل کرنے کی حرص بڑھے ،تصدیق کرنے والوں کا بالکل الٹ نقشہ ہوتا ہے.وہ تصدیق کے نتیجہ میں ان کے پاس جو کچھ ہوتا ہے وہ بھی راہ خدا میں لٹانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.تکذیب کے نتیجے میں دوسروں کو دکھ دینے کی تحریک پیدا ہوتی ہے اور تصدیق کے نتیجہ میں خود دکھ اٹھانے کی تحریک پیدا ہوتی ہے.تکذیب کے نتیجے میں انسان کی آنکھوں سے آگ
خطبات طاہر جلد۴ 607 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء کے شعلے برستے ہیں ، منہ پر جھاگ آجاتی ہے اور جو لوگ اموال مانگ رہے ہوتے ہیں وہ بھی آگ کے شعلے برسا کے مانگ رہے ہوتے ہیں اور جو اموال پیش کرتے ہیں وہ بھی ایک کھولتے ہوئے دل کے ساتھ جس میں بغض کی آگ کھول رہی ہوتی ہے جسے اشتعال انگیز تقریریں اور بھی بھڑکا دیتی ہیں وہ اموال پیش کرتے ہیں اور تصدیق کے نتیجہ میں اموال مانگنے والے بھی خدا کی راہ میں آنسو بہانے والی آنکھوں کے ساتھ اموال مانگتے ہیں اور اموال پیش کرنے والے بھی خدا کی راہ میں آنسو بہانے والی آنکھوں کے ساتھ خدا کے حضور مال پیش کرتے ہیں.تکذیب کے نتیجہ میں جو اموال پیش کئے جاتے ہیں ان میں دکھاوا،ان میں نمائش، ان میں اعلان اور اس قسم کا ایک ناپسندیدہ رنگ نمایاں طور پر پایا جاتا ہے جس کا روحانیت سے کوئی بھی تعلق نہیں ہوتا.اس کے برعکس جولوگ خدا کی راہ میں اموال پیش کرتے ہیں وہ بسا اوقات ان کو چھپاتے بھی ہیں، کسی کی نظر پڑے تو وہ اس سے شرما جاتے ہیں ، پیش کرتے ہیں اور تکبر پیدا نہیں ہوتا، پیش کرتے ہیں تو انکساری پیدا ہوتی ہے.جب ان کے اموال قبول کئے جائیں تو صدمہ محسوس نہیں کرتے اور جب ان کی قربانیاں رد کر دی جائیں تو انتہائی دکھ محسوس کرتے ہیں.غرضیکہ دونوں محرکات چونکہ ایک دوسرے سے بنیادی طور پر مختلف ہیں اس لئے ان کے نتائج بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں.قرآن کریم ان دونوں امور پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالتا ہے.جب میں نے تفصیل سے نظر ڈالنے کی کوشش کی تو معلوم ہوا کہ اتنا وسیع مضمون جو سارے قرآن کریم میں پھیلا پڑا ہے کہ اس حسین دنیا کی سیر کرانے کے لئے ایک لمبا وقت درکار ہے جو تصدیق والوں کے مناظر کھینچے ہیں اور جو ان کی دنیا پیش کی ہے.ایسا عجیب عالم ہے کہ اسے دیکھ کر روح وجد میں آجاتی ہے.وہ کر یہ مناظر جو تکذیب کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں وہ ایسے خوفناک اور ہولناک ہیں کہ گویا جہنم انسان کی آنکھوں کے سامنے لاکھڑی کی گئی ہے.بہر حال آج میں اس کے مثبت پہلو سے متعلق صرف ایک دو باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کیونکہ یہ موقع ایسا موقع ہے کہ ہمارا مالی سال اختتام پذیر ہوا ہے اور نیا مالی سال شروع ہو گیا ہے اور آج کا خطبہ اس لحاظ سے تو تاخیر سے دیا جا رہا ہے.اس خطبہ کا مضمون پہلے خطبہ میں بیان ہونا چاہئے تھا.خطبہ کے لحاظ سے تاخیر کے ساتھ بیان کیا جا رہا ہے کہ عموماً تو مالی سال کے آغاز
خطبات طاہر جلد۴ 608 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء پر جو پہلا جمعہ کا ہوا کرتا ہے اس خطبہ میں ان امور کا بیان ہوتا ہے لیکن مرکز سے رپورٹیں چونکہ ذرا تاخیر سے ملیں اس لئے مجبوراً کچھ تاخیر سے مجھے اس معاملہ میں جماعت کو صورت حال سے آگاہ کرنا پڑ رہا ہے.قرآن کریم ان راہ خدا میں محض اللہ کی خاطر خرچ کرنے والوں کا جو نقشہ کھنچتا ہے اس میں ایک موقع پر بیان فرماتا ہے.الَّذِيْنَ يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكُظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (ال عمران : ۱۳۵) کہ میرے بندے عجیب لوگ ہیں جو ایمان لانے کے نتیجہ میں خدا کی راہ میں اس طرح خرچ کرتے ہیں کہ تنگی ترشی ، آسائش یا سختی کے دنوں کا ان کے انفاق پر کوئی اثر نہیں پڑتا.جب خدا انہیں زیادہ دیتا ہے تو وہ بھی دل کھول کر زیادہ دیتے ہیں لیکن جب تنگی کے دن آتے ہیں تو پھر بھی وہ کمی نہیں آنے دیتے.جو سختی آتی ہے اپنے اوپر لے لیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ بختی ہماری بداعمالیوں کے نتیجہ میں ، ہماری کمزوریوں کے نتیجہ میں ہے اس لئے خدا کی راہ میں دیئے جانے والے اموال پر اس کا کوئی اثر نہیں پڑنا چاہئے.چنانچہ جب آسائش کے دن آتے ہیں تو خدا کی راہ میں وہ اپنے چندے اور اپنے انفاق کا معیار بڑھا دیتے ہیں اور جب تنگی کے دن آتے ہیں تو وہ اس بات سے شرماتے ہیں کہ ان بڑھے ہوئے بلند وعدوں کو چھوٹا کر دیں اس لئے کہ ان کے حالات تنگی کے آگئے ہیں.یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے امر واقعہ ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا یہی نقشہ تھا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ اور آج ان کے غلاموں کے زمانے میں بھی بالکل یہی نقشہ ہے.مجھے بکثرت ایسے لوگوں کا علم ہے جن پر اچھے حالات آئے اور انہوں نے اپنے چندے بڑھا دیئے اور پھر آزمائش میں ڈالے گئے اور ان پر تنگی کے دن آگئے اور چونکہ وہ ایک دفعہ معیار بڑھا چکے تھے وہ دعاؤں کے لئے مسلسل بڑے دردناک طریق پر خط لکھتے رہے کہ طبیعت میں شدید کرب ہے کہ کہیں چندے پر برا اثر نہ پڑ جائے اس لئے دعا کریں، چاہے جیسی بھی سختی ہو اور تنگی ہو خدا کی راہ میں ہم ایک دفعہ بڑھ بڑھ کر جواموال پیش کر چکے ہیں اس معیار میں کمی نہ آجائے اور یہ دعاوی جو ہیں یہ انفرادی سطح پر نہیں یہ قومی کردار کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں.یہ ارادے، یہ نیک تمنائیں ایک قومی کردار کے طور پر ہمارے درخت وجود کا
خطبات طاہر جلدم جز و بن چکی ہیں.609 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء چنانچہ جب ہم عمومی طور پر جماعت احمدیہ کے چندوں کے اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں تو سوفی صدی قطعیت کے ساتھ اعداد و شمار کے ساتھ یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ قرآن کریم نے بہت ہی پیار اور محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جن عشاق کا ذکر کیا ہے وہ حسین نقوش ہماری صورت میں بھی نظر آتے ہیں اور آج جماعت احمدیہ پر اللہ کا یہ بڑا احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکت سے ہم آخرین ہو کر بھی بہت سے اچھے پہلوؤں میں اولین سے جاملے ہیں.چنانچہ جور پورٹیں ملی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ گزشتہ مالی سال ۸۵-۱۹۸۴ء کے متعلق ہمارے ناظر صاحب بیت المال بہت ہی فکر مند تھے.ان کا ہمیشہ سے یہی دستور ہے کہ خلفاء وقت کو وہ چند مہینے پہلے سے گھبراہٹ کے خطوط لکھنے شروع کر دیتے ہیں اور پچھلے دو تین سال سے مجھے بھی اسی طرح لکھتے رہے لیکن اس دفعہ ان کے خطوں میں کوئی خاص بے چینی پائی جاتی تھی اور انہوں نے اس کا بڑا کھل کر ا ظہار کیا کہ دراصل ایک تو جماعت پر بہت آزمائش کے دن ہیں کثرت سے لوگوں کے قید ہونے کی وجہ سے مقدمات پر خرچ ، نوکریوں سے محرومی ، تجارتوں پر بداثرات اور اتنے وسیع پیمانے پر یہ مظالم ہورہے ہیں کہ وہ لکھتے ہیں مجھے حقیقہ ڈر تھا جب میں آپ کو لکھتا تھا تو کوئی فرضی بات نہیں تھی یا محض دعا کی تحریک کی خاطر مبالغہ آمیزی سے کام نہیں لیتا تھا بلکہ مجھے واقعۂ نظر آ رہا تھا کہ اس دفعہ شاید ہمارا بجٹ پورا نہ ہو سکے.دوسرے ملکی اقتصادی حالات وہ کچھ ایسی خطرناک روش پر چل پڑے ہیں کہ ہر اگلے دن پہلے دن سے بدتر حال ہو رہا ہے.پانی کی کمی بجلی کی کمی ، بد دیانتی کا بڑھ جانا.ایسے ممالک جن میں پاکستانی مزدر کام کرتا تھا ان کے حالات کی تبدیلی کے نتیجہ میں ان کا ملازمتوں سے فارغ ہو کر کثرت کے ساتھ اپنے وطن کو واپس آنا فصلوں کی حالت کچھ تو پانی کی کمی کی وجہ سے متاثر ہوئی کچھ دیگر ایسے موسمی حالات پیدا ہوئے کہ بہت ہی غیر معمولی کمی واقع ہوئی گندم میں بھی اور دوسری فصلوں میں بھی چنانچہ انہوں نے اعداد و شمار لکھے کہ حکومت اتنے وسیع پیمانے پر اس سال گندم (Import) درآمد کر رہی ہے.اس سے یہی پتہ لگ جاتا ہے کہ احمدی زمیندار لازم متاثر ہوئے ہوں گے.
خطبات طاہر جلدم 610 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء میں بھی یہ سمجھ رہا تھا کہ وہ کیوں بے چین ہیں.ان کو میں نے لکھا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں مجھے خدا کے فضل سے اطمینان ہے ، یہ دن ایسے ہیں ایسی کیفیت ہے جماعت کی کہ ہو نہیں سکتا کہ جماعت احمد یہ اپنی قربانی کے معیار کو کم کر دے آپ کو خطرہ یہ ہے کہ گزشتہ سال سے آمد گر جائے گی لیکن مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بڑھ جائے گی.اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے کرشمے دکھانا چاہتا ہے.یہ جماعت ہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا زندہ معجزہ ہے جو کچھ ان کے سروں پر سے گزر جائے یہ کمی نہیں آنے دیں گے.چنانچہ میں نے جماعت کو تحریک نہیں کی ورنہ کوئی کہ سکتا تھا کہ میرے ایسے جذباتی الفاظ سن کر جماعت میں ایک جوش پیدا ہو گیا ، کپڑے بیچ دیئے اور گھر کی چیزیں بیچ ڈالیں.یہ صرف میرے اور ان کے درمیان خط وکتابت تھی.کل ان کا خط ملا ہے جو اللہ تعالیٰ کے بے انتہاء شکر سے لبریز.لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر حیرت ہوئی ہے کہ گزشتہ سال کی آمد سے امسال خدا کے فضل سے اب تک اٹھارہ لاکھ روپے زائد وصول ہو چکے ہیں اور ابھی وصولیاں جاری ہیں.یہ ہے وہ جماعت جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور قرآن کریم کے اذکار ایک غیر معمولی مقام رکھتے ہیں.خدا تعالیٰ جب اپنے بندوں کا ذکر فرماتا ہے تو لاز ماوہ باتیں پوری ہوتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور قرآن کریم بار بار یہ امور بھی بیان فرماتا ہے کہ جو ہماری خاطر مالی قربانیاں پیش کرتے ہیں اور ہم پر توکل کرتے ہیں ہم ان کے اموال میں کمی نہیں آنے دیتے.ہم انہیں بڑھاتے ہیں اور انہیں لاوارث نہیں چھوڑا کرتے.جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانیوں میں بھی قرآن کریم کی کھینچی ہوئی تصویروں کے مطابق اپنے نقوش بنا رہی ہے.اس آئینہ میں اپنا چہرہ دیکھ رہی ہے.خدا تعالیٰ کے فضلوں کی جو بارش پہلوں پر برسا کرتی تھی ہم پر بھی برس رہی ہے.تو اس جماعت کی مخالفت کے نتیجہ میں کیسے کوئی پہلے نقصان پہنچا سکتا ہے.دشمن کے لئے اس کے سوا اور کوئی صورت نہیں ہے کہ وہ اپنے غیظ و غضب میں جلتا ر ہے اور تکلیف میں مبتلا ہوتا چلا جائے ،حسد کی آگ بھڑکتی چلی جائے ،اس کے سوا اس کے نصیبے میں کچھ نہیں ہے.جماعت احمدیہ کی ہلاکت دیکھنے والی آنکھیں لازما نا کامی کی آگ میں جلتی ہوئی مریں گی، ختم ہوجائیں گی اور ان کے دلوں میں حسد کی آگ اور زیادہ بھڑکتی رہے گی لیکن ان کو یہ تسکین کبھی
خطبات طاہر جلد۴ 611 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء نصیب نہیں ہو سکتی کہ انہوں نے اپنی آنکھوں سے جماعت احمدیہ کو ذلیل اور نا مراد اور نا کام ہوتے دیکھ لیا ہے.اس کے برعکس آپ بھی اور آپ کی آئندہ نسلیں بھی ہمیشہ نہایت خطر ناک سے خطرناک حالات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو اپنے اوپر پہلے سے زیادہ برستاد دیکھیں گے.اور اپنے دین کے معیار کو ہمیشہ بلند تر ہوتا ہوا دیکھیں گے.قرآن کریم کے یہ وعدے ہیں جو کبھی ٹل نہیں سکتے ناممکن ہے کہ کوئی انہیں غلط کر کے دکھا دے.تحریک جدید کا بھی یہی حال ہوا.ہمارے وکیل المال اول ہیں ان کو اتنی عادت نہیں ہے کہ گھبراہٹ کے خط لکھیں لیکن اس سال وہ بھی گھبرا گئے.انہوں نے پچیس فی صد اضافہ تجویز کیا تھا جو معمولی اضافہ نہیں ہے.گزشتہ کی کل آمد کے مقابل پر چھپیں صداضافہ کے ساتھ بجٹ رکھ لیا تھا اور سخت گھبراہٹ تھی کہ اضافہ اتنا بڑی سخت گھبراہٹ تھی اور اس کے مقابل پر حالات ایسے خطر ناک تو کیا کریں گے انہوں نے بھی اطلاع دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے مقابل پر اب تک دس لاکھ زائد وصولی ہو چکی ہے اور 25 فی صد کا جو اضافہ تھاوہ پورا ہو گیا ہے اور ابھی اللہ کے فضل سے چندہ بھجوانے والے بھجوا رہے ہیں.پاکستان کے سب اضلاع سے ابھی اطلاعیں بھی نہیں پہنچیں.یہ جو اللہ کے فضلوں کی بارشیں ہیں کسی ایک جگہ نہیں ہے تمام دنیا میں یہی حالت ہے.ایک بھی ملک ایسا نہیں جس کے چندوں میں کمی آئی ہو یا جس کے حالات خطرناک ہونے کے نتیجہ میں چندوں پر بد اثر پڑا ہو.نائیجیریا کے حالات آپ جانتے ہیں، سیرالیون کے حالات آپ جانتے ہیں، غانا کے حالات آپ جانتے ہیں، افریقہ کے اکثر ممالک میں قحط سالیاں اور خطرناک قسم کے مالی بحران اور کئی قسم کی آزمائشیں ایسی آپڑیں کہ فاقہ کشی کے نہایت ہی درد ناک مناظر دیکھنے میں آئے.ایک موقع پر ہمارے مربی نے مجھے لکھا کہ بعض دفعہ تو ایسے دردناک مناظر دیکھنے میں آتے ہیں کہ باہر معمولی سا دروازہ کھٹکا جس میں کوئی خاص جان نہیں تھی.تو ہمارا مبلغ یوں ہی اٹھ کر چلا گیا کہ شاید کوئی عدم دلچسپی سے کر رہا ہے، خیر دیکھ لیں کون ہے؟ دورازہ کھول کر دیکھا تو ایک آدمی بے ہوش پڑا ہے اور فاقوں سے پنجر بنا ہوا تھا.اس میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ روٹی کی خاطر زور سے دروازہ ہی کھٹکا لیتا.اس بیچارے کو اٹھا کر اندر لائے اور خدمت خاطر کی جو کچھ ان کے پاس
خطبات طاہر جلد۴ 612 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء تھا پیش کیا.ہوش آئی اور پھر کچھ دن کھلا پلا کر اس کو فارغ کیا.افریقہ کے اکثر ممالک فاقہ کشی اقتصادی نہایت ہی درد ناک حالات ہیں.وہاں کے سب مبلغین نے یہ اطلاع دی اور اللہ تعالیٰ کی حمد میں آنسو بہاتے ہوئے یہ اطلاع دی کہ جب انہوں نے چندوں کی تحریک کی تو ہر موقع پر خدا کے فضل سے پہلے سے نمایاں طور پر زیادہ چندہ وصول ہوا اور ہم حیران ہو کر گھروں کو واپس لوٹا کرتے تھے کہ یہ ہو کیا رہا ہے.وہ ممالک جو غیروں سے امداد لے کر زندہ رہ رہے ہیں جب خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا وقت آتا ہے تو وہ اپنی تنگی ، اپنے دکھ اور اپنی تکلیفوں بھول کر وہ خدا کی راہ میں قربانی میں آگے ہی قدم بڑھا رہے ہیں، پیچھے نہیں ہٹ رہے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کی بارش ان پر برسا رہا ہے ، ان میں غیر معمولی ترقی ہو رہی ہے.خدا تعالیٰ حیرت انگیز طور پر ان کے مسائل حل کرتا ہے، ان کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے، اپنے قرب کے حیرت انگیز معجزے ان کو دکھا رہا ہے.اور افریقن جنگلوں میں بسنے والے احمدی اللہ کے قرب کے نشانات کے ایسے ایسے حیرت انگیز واقعات لکھتے ہیں کہ دل حمد سے بھر کر خدا کی راہ میں چھلکنے لگتا ہے.سوچنے کی بات ہے کہ یہ کیوں ہوا ہے ایسے؟ قرآن کریم تو وہی قرآن کریم ہے جو سب مسلمانوں میں خواہ وہ کسی بھی فرقہ سے تعلق رکھتے ہوں قدر مشترک ہے اور ہماری مالی قربانیوں کی تمام تر بنیاد قرآن کریم میں ہے.تو اسی قرآن سے تعلق جوڑ کر ایک طرف تو یہ نظارے نظر آرہے ہوں اور اسی قرآن سے تعلق کا دعویٰ کر کے دوسری طرف وہ نظارے نظر آرہے ہوں کہ وَتَجْعَلُونَ رِزْقَكُمْ أَنَّكُمْ تُكَذِبُونَ (الواقعہ :۸۳) کیا تم نے رزق کا یہ ذریعہ بنالیا ہے کہ تکذیب کرو گے تو روٹی ملے گی.اس لئے تکذیب کرتے چلے جاؤ ، گالیاں دیتے چلے جاؤ اور لوگوں کو بھی بھڑکاؤ ، تکذیب کر کے اور گھروں کو آگ لگا کر اور مال لوٹ کر اپنے رزق کو بڑھانے کی.یہ دو مختلف نقشے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ ہم نے اس زمانے میں پیدا ہونے والے اس کے امام کو قبول کر لیا جس نے یہ اعلان کیا تھا کہ مجھے خدا نے بھیجا ہے اور اس لئے بھیجا ہے کہ قرآن کریم کو ایک زندہ کتاب کے طور پر دوبارہ تمہارے سامنے پیش کروں اور اس لئے مجھے بھیجا ہے کہ جو اس کی تعلیم کو دلوں سے بھلا دیا گیا ہے اس کو دوبارہ راسخ کر دوں.اس کے حسن کو تم پر ظاہر کروں.حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کو جو آداب سکھا گئے تھے اور جو اسلوب بتا گئے تھے کہ
خطبات طاہر جلدم 613 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء خدا کے عاشق اس طرح خدا کی راہ میں زندہ رہا کرتے ہیں، وہ اسلوب میں تمہیں دوبارہ بتاؤں اور وہ آداب میں تمہیں دوبارہ سکھاؤں.یہ دعویٰ تھا خلاصہ اس دعوئی کو آپ نے کمال خلوص اور کمال وفا کے ساتھ زندگی کے آخری سانس تک بلکہ زندگی کے ہر سانس میں نبھایا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیغام رسانی کا حق ادا کر دیا ہے.ایک لمحہ بھی آپ اس سے غافل نہیں رہے.اپنے سارے وجود کو اس راہ میں صرف کیا اور اپنی تحریروں اور اپنے کلام میں جان ڈال دی.چنانچہ آپ کے اقوال اور آپ کی تحریروں میں اتنا نمایاں فرق ہو گیا کہ اس کا جب غیر کے ساتھ مقابلہ کیا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے کہ ایک زندہ وجود ہے اور ایک مردہ وجود کی لاش پڑی ہوئی ہے.اتنی نمایاں زندگی ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں کہ وہ زندگی ہو ہی نہیں سکتی جب تک زندگی کے سرچشمے سے اس کا تعلق نہ ہو.پس قرآن کریم سے سچا تعلق حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام نے پیدا کیا ورنہ آپ کے کلام میں یہ زندگی نظر نہیں آسکتی تھی اور یہ کلام زندگی بخش ہو نہیں سکتا تھا اگر اس کا کلام الہی سے سچا تعلق نہ ہوتا.ہم بھی کلام الہی سے سیراب ہوئے ہیں مگر ایک ایسے شخص کے ذریعہ جس کا کتاب کے ساتھ خدا نے زندہ تعلق پیدا کرا دیا ، ایک ایسے شخص کے ذریعہ جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے خود یہ گواہی دی کہ میری ذات سے اس کا براہ راست پیوند ہے اور میرے کلام سے اس کا براہ راست پیوند ہے اور میرے رسول سے اس کا براہ راست پیوند ہے.پس خدا تعالیٰ نے ہمیں جو نئے اسلوب دیئے ، نئے آداب سکھائے ، دین محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قربانیوں کے ان اندازوں کو زندہ کرنے کی توفیق بخشی جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کے انداز تھے تو یہ محض اس وجہ سے ہے کہ ہم وقت کی آواز پر ایمان لے آئے اور تو کوئی فرق نہیں.اسی مٹی سے ہم بنے ہوئے ہیں، انہی قوموں سے ہمارا تعلق ہے، اسی قسم کے گندے معاشرے میں ہم سانس لے رہے ہیں ، اسی قسم کی مادہ پرستی کی فضا میں ہم نے جنم لیا ہے، اسی قسم کے اموال کی دوڑ میں ساری قوم کی طرح ہم بھی شریک ہیں اس کے باوجود ایک نمایاں فرق ہے.ایک نئی قوم کے طور پر ہم منصہ شہود پر ابھر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کی برکت ہے اس میں کوئی شک نہیں اور آپ کے انفاس قدسیہ ہیں جنہوں نے ہمیں نئی زندگی بخشی ہے.یہ آپ ہی کی
خطبات طاہر جلد۴ 614 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء مسیحائی ہے جس نے مردہ تنوں میں جان ڈال دی ہے.آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں کو پڑھیں اور مجھے افسوس ہے کہ اکثر پوری طرح اس کی طرف توجہ نہیں دے رہے تب وہ محسوس کریں گے کہ کیا فرق ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کلام میں اور ایک عام کلام میں.اپنی جماعت کو مالی قربانی کے لئے جس طرح آپ نے تیار کیا ان عبارتوں میں سے میں چند اقتباسات نمونہ آپ کو یاد دہانی کے طور پر سناتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”دنیا جائے گزشتنی گزاشتنی ہے اور جب انسان ایک ضروری وقت میں ایک نیک کام کے بجالانے میں پوری کوشش نہیں کرتا تو پھر وہ گیا ہوا وقت ہاتھ نہیں آتا اور خود میں دیکھتا ہوں کہ بہت سا حصہ عمر کا گزار چکا ہوں اور الہام الہی اور قیاس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ باقی ماندہ تھوڑ اسا حصہ ہے.پس جو کوئی میری موجودگی اور میری زندگی میں میری منشاء کے مطابق میری اغراض میں مدد دے گا.میں امید رکھتا ہوں کہ وہ قیامت میں بھی میرے ساتھ ہوگا اور جو شخص ایسی ضروری مہمات میں مال خرچ کرے گا.میں امید نہیں رکھتا کہ اس مال کے خرچ سے اس کے مال میں کچھ کمی آجائے گی بلکہ اس کے مال میں برکت ہوگی.پس چاہئے کہ خدا تعالیٰ پر توکل کر کے پورے اخلاص اور جوش اور ہمت سے کام لیں کہ یہی وقت خدمت گزاری کا ہے پھر بعد اس کے وہ وقت آتا ہے کہ ایک سونے کا پہاڑ بھی اس راہ میں خرچ کریں تو اس وقت کے پیسہ کے برابر نہیں ہوگا.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد ۳ صفحه : ۴۹۷-۴۹۶) امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی کتب میں ایسے ایسےمخلصین کا بھی ذکر دعائیں دیتے ہوئے فرمایا ہے جنہوں نے دو پیسے پیش کئے تھے.آج کل دو پیسے کی حیثیت کیا ہے.اس زمانے میں بھی دو پیسے کی کیا حیثیت تھی لیکن ان دعاؤں نے ان دو پیسوں کو ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ بنا دیا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرماتے ہیں کہ ایک پیسہ جو آج خرچ کرتا ہے بعد میں اگر سونے کے پہاڑ بھی خرچ کرے تو وہ اس کی قیمت نہیں ہوگی.یہ ایک
خطبات طاہر جلدم 615 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء سے زیادہ پہلوؤں میں سچی بات ہے.اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں مگر یہ پہلو کہ امام وقت کے علم میں ایک خرچ میں آ رہا ہے اور وہ محبت اور پیار کے ساتھ اسے بے ساختہ دعائیں دے رہا ہو ، یہ تو پیسے کی کیفیت بدل دیتا ہے.اس میں تو روپے کی اپنی مالیت کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی.سارے کا سارا خزانہ دعاؤں کا خزانہ بن جاتا ہے.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک عجیب نکتہ یہ بھی بیان فرماتے ہیں.کہ امام وقت کے سامنے اپنی مالی قربانی کو پیش کرنا یہ ریا کاری نہیں ہے.دنیا کو دکھانے کے لئے کوشش کرنا کہ نام اچھے اور سب کی نظر میں آئے یہ ریا کاری ہے لیکن امام کے سامنے پیش کرنا حصول دعا کا ایک ذریعہ ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے پیار سے اس بات کو ظاہر فرمایا ہے.فرمایا: یہ ایک ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کا صد ہا سال سے امتیں انتظار کر رہی تھیں.“ اب یہ دوسرا پہلو بھی دیکھ لیجئے ایک پیسہ چھوڑ کر ایک ڈمری بھی خرچ کی جائے جو وقت بیان کیا جا رہا ہے آئندہ آنے والے انفاق سبیل اللہ کے پہاڑوں سے بھی بڑھ کر وہ خرچ بن جاتا ہے اور خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی بے انتہاء انکساری کے باوجود اپنے قلم سے لکھ رہے ہیں.اس لئے کہ اس بات میں بڑی عظمت تھی اسے چھپا نہیں سکتے تھے.ایسا مبارک وقت ہے کہ تم میں وہ خدا کا فرستادہ موجود ہے جس کا صد ہا سال سے امتیں انتظار کر رہی تھیں اور ہر روز خدا تعالیٰ کی تازہ وحی بشارتوں سے بھری ہوئی نازل ہورہی ہے“ اللهم صل علی محمد و علی ال محمد صحابہ نے جو دن دیکھے وہ عجیب دن تھے واقعی اس وقت کا ایک پیسہ خرچ کیا ہوا پیسوں کے اعداوشمار میں تو اس کا ذکر ہی نہیں آنا چاہئے وہ تو چیز ہی کچھ اور تھی.خدا تعالی نے متواتر ظاہر کردیا ہے کہ واقعی اور قلعی طور پر وہی شخص اس جماعت میں داخل سمجھا جائے گا کہ اپنے عزیز مال کو اس راہ میں خرچ کرے
خطبات طاہر جلدم 616 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء گا.....یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لیے بلاتا ہے“ عجیب شان کا یہ کلام ہے ذرا غور تو کریں.کہاں یہ دلنوازیاں اور دلداریاں کہ راہ مولیٰ میں ایک حقیر پیسے کو اتنی عظمت دے دینا اور محبت اور پیار سے اس کا ایساذکر کرنا کہ گویا زمین کو آسمان بنادیا جائے.رائی کے پہاڑ تو آپ نے بنتے دیکھے تھے مگر ان میں بھی اتنا نمایاں فرق نہیں جتنا ایک پیسے کو سونے کے پہاڑوں میں تبدیل کر دینے میں فرق ہے اور جب خدا کا مسیح کہتا ہے تو مبالغہ آمیزی نہیں ہے واقعہ حقیقت میں اتنا ہی تو اب ان لوگوں نے کمایا جتنا آپ نے ذکر فر مایا.کہاں غریبوں کی یہ دلداریاں اور دل نوازیاں اور کہاں پھر ان کے لئے جن کے دل میں قربانی عجب پیدا ہو جاتا ہے ان کے لئے یہ تنبیہ ہے کہ ان کی ساری بڑائی کے خیال کو ملیا میٹ کر کے خاک کر کے.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آیا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے.“ جماعت کے متعلق آپ کی جو نیک تمنائیں ہیں اس کا ذرا اندازہ کریں فرماتے ہیں: " مجھے اس سے زیادہ کوئی حسرت نہیں کہ میں فوت ہو جاؤں اور جماعت کو ایسی نا تمام اور خام حالت میں چھوڑ جاؤں.میں یقینا سمجھتا ہوں کہ بخل اور ایمان ایک دل میں جمع نہیں ہو سکتے.“ میں تم میں بہت دیر تک نہیں رہوں گا اور وہ وقت چلا آتا ہے کہ تم پھر مجھے نہیں دیکھو گے اور بہتوں کو حسرت ہوگی کہ کاش ہم نے نظر کے سامنے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کے ایک ایک جزو پر آپ غور کریں اور غوطہ
خطبات طاہر جلدم 617 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء لگا کر دیکھیں اس میں کیسی گہرائی ہے اور حکمت کے کیسے کیسے موتی چھپے ہوئے ہیں.یہ عام کلام نہیں ہے کہ سطحی طور پر آپ گزر جائیں جیسے سٹرک پر سے گزر جاتے ہیں.اس میں تو قدم قدم پر نیا حسن آپ کو دکھائی دے گا اور معرفت کے جواہر چھپے ہوئے نظر آئیں گے.یہ وہ فقرہ ہے جس کی طرف میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی کہ ” بہتوں کو حسرت ہوگی کہ کاش ہم نے کی نظر کے سامنے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا مسیح موعود کی نظر کے سامنے ہم نے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا یہ حسرت لئے لوگ آئندہ مرتے رہیں گے لیکن بے بس ہوں گے کچھ نہیں ہوگا.امام کی نظر میں آکر کام کرنا اس کام کے درجے کو بڑھا دیتا ہے ، یہ ریا کاری نہیں ہے اور ایسے بندے کے لئے دل سے بے ساختہ جو دعا نکلتی ہے وہ اس کام کی کایا پلٹ دیتی ہے.یہ فقرہ عارف باللہ کے سوا کسی کی زبان سے نکل ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے کسی کو علم و ادب سے ادنی بھی مس ہو اور دل پر وہ ہاتھ رکھ کر گواہی دے تو ہر گز یہ گواہی نہیں دے سکتا کہ یہ کسی جھوٹے کا کلام ہے کیونکہ یہ وہ بات ہے جو تجارب میں سے گزر کر حاصل ہوتی ہے ورنہ حاصل ہو ہی نہیں سکتی.بڑے سے بڑے مبالغہ آمیز تحریر لکھنے والا بھی اپنی تحریر میں ایسا فقرہ پیش نہیں کر سکتا اور چھپا ہوا فقرہ ہے نمایاں کر کے بظاہر پیش نہیں ہوا.برسبیل تذکرہ ذکر آ گیا ہے کہ " کاش ہم نے نظر کے سامنے کوئی قابل قدر کام کیا ہوتا سو اس وقت ان حسرات کا جلد تدارک کرو جس طرح پہلے نبی یا رسول اپنی امت میں نہیں رہے میں بھی نہیں رہوں گا.سواس وقت کا قدر کرو اور اگر تم اس قدر خدمت بجالاؤ کہ اپنی غیر منقولہ جائیدادوں کو اس راہ میں بیچ دو، پھر بھی ادب سے دور ہوگا کہ تم خیال کرو کہ ہم نے کوئی خدمت کی ہے.“ انکساری کے کیسے عظیم سبق بھی ساتھ دے دیئے ہیں.تمہیں معلوم نہیں اس وقت رحمت الہی اس دین کی تائید میں جوش میں ہے اور اس کے فرشتے دلوں پر نازل ہور ہے ہیں اور ہر ایک عقل اور فہم کی بات جو تمہارے دل میں ہے وہ تمہاری طرف سے نہیں بلکہ خدا کی طرف سے ہے.“ اب بتائیں ایسی صورت میں تکبر کا کوئی نام ونشان بھی باقی رہتا ہے؟ انفاق دو ہی قسم کے
خطبات طاہر جلد۴ 618 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء ہو سکتے ہیں یا خدا کی راہ میں ظاہری اموال کا اور یا اپنے علم اور اپنی فراست کا انفاق.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ سب کچھ میں دیکھ رہا ہوں کہ آسمان پر ایک جوش ہے اور خدا کے فضل ان قربانیوں کی صورت میں تمہارے دلوں پر نازل ہورہے ہیں.اس فہم وفراست کی صورت میں اللہ تعالیٰ کے تم پر الہام ہورہے ہیں کہ دین کی خدمت کے لئے خدا تمہیں نئی نئی راہیں سمجھا رہا ہے.فرماتے ہیں ان باتوں کو بھی اپنی طرف سے خیال مت کرو.آسمان سے عجیب سلسلہ انوار جاری اور نازل ہو رہا ہے.پس میں بار بار کہتا ہوں کہ خدمت میں جان توڑ کوشش کرو.مگر دل میں مت لاؤ کہ ہم نے کچھ کیا ہے.اگر تم ایسا کرو گے ہلاک ہو جاؤ گے.“ اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مالی قربانی کا ایک بہت ہی بنیادی اصول یہ پیش فرماتے ہیں کہ اس میں استمرار اور استقلال ہونا چاہئے.یہ نہیں کہ کبھی کچھ دے دیا اور پھر غافل ہو گئے اور پھر کسی وقت کچھ اور دے دیا پھر سمجھا کہ چلو کافی دیر کے لئے ہم نے خدمت کا حق ادا کر دیا.یہ جو ماہانہ با قاعدہ پابندی کے ساتھ چندہ دینا ہے اس کی تاکید بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے اور بعض احمدی جب اس تحریر کو پڑھتے ہیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ گویا منشائے مبارک یہ ہے کہ دل میں جو چاہو دے دو، ایک پیسہ ہے تو ایک پیسہ دے دو کوئی فرق نہیں پڑتا مگر دو پابندی کے ساتھ.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہرگز یہ نہیں فرمایا ہے جو فرمایا ہے اس کو اگر آپ غور سے سنیں یا پڑھیں تو یہ بالکل ایک اور رنگ ہے اور یہ میں اس لئے نہیں کہہ رہا کہ جماعت کو اس لحاظ سے اصلاح کی ضرورت ہے بلکہ جماعت تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمناؤں کے عین مطابق ہے.آج جو جماعت کی حالت اس معاملہ میں میں دیکھ رہا ہوں اسے دیکھ کر جب میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کی یہ تحریر پڑھی کہ مجھے حسرت ہے کہ میں جماعت کو خام حالت میں نہ چھوڑ جاؤں تو بے اختیار میری آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور میں نے اپنی طرف اور آپ سب کی طرف سے یہ گواہی دی کہ اے خدا اس پاک مسیح کو اطلاع دے دے ہماری طرف سے کہ خدا کی قسم آپ ہمیں خام حالت میں نہیں چھوڑ کر گئے.خدا کی قسم آپ ہمیں ناقص حالت میں نہیں چھوڑ کر گئے.مجھے یقین ہے کہ خدا بھی عرش پر حضرت مسیح
خطبات طاہر جلدم 619 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ اطلاعیں دے رہا ہوگا کہ کس طرح آپ کی جماعت جس کے متعلق آپ حسرت رکھتے تھے کہ کسی طرح میں خام حالت میں نہ چھوڑ جاؤں، وہ اس طرح مالی قربانی کے نئے سے نئے اور بلند تر اور عظیم الشان معیار قائم کرتی چلی جارہی ہے اور نئے سنگ میل رکھ رہی ہے اور یہ چندلوگوں کی بات نہیں رہی یہ سلسلہ عام ہو گیا.پس ایک طرف جہاں آپ کے مال لوٹنے والے ، آپ کے رزق میں کمی کرنے والے، تکذیب کے ذریعہ اموال کھانے کی دھن میں جو بھی ان کا ظالمانہ سفر ہے اس میں آگے بڑھتے چلے جارہے ہیں.دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ایک عجیب دھن میں ، ایک نئی دھن میں مست خدا تعالیٰ کی محبت میں سرشار مالی قربانیوں کا ایک ایسا سفر کر رہی ہے کہ اس کی کوئی مثال ساری دنیا میں آپ کو کہیں نظر نہیں آئے گی.میرے گزشتہ خطبہ جمعہ کے نتیجہ میں بعض لوگوں کے دل میں یہ خیال پیدا ہو کہ ہم جب یہ کہتے ہیں کہ بے مثل ہے تو عیسائیت بھی تو بے شمار مالی قربانی کر رہی ہے.اس قربانی کو پھر بے مثل کیسے کہہ سکتے ہیں؟ اصل واقعہ یہ ہے کہ بہت سے لوگ سطحی نظر سے ایک جائزہ لے لیتے ہیں ان میں تجزیے کی توفیق نہیں ہوتی.کسی ملک میں بھی عیسائیت کی مالی قربانی کا جماعت احمدیہ کی مالی قربانی سے موازنہ کر کے دیکھیں تو اتنا نمایاں بنیادی اور امیتازی فرق ہے کہ کسی مشابہت کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.افریقہ ہے جہاں عیسائیوں نے عیسائیت کو فروغ دینے کے لئے ارب ہا ارب روپیہ خرچ کیا ہے مگر جو عیسائی پیدا کئے وہ عیسائیت کے لئے خرچ نہیں کر رہے وہ پیسے کھا کر عیسائی ہور ہے ہیں.جو نتیجہ پیدا کیا ہے وہ انسانیت کے تقاضوں کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کیا ہے اور تنگی کے پیسے اور انتہائی دکھ کی حالت میں آج کے زمانے میں عیسائیت میں انفاق کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.پیسہ کہاں سے آتا ہے؟ ایک تو پرانے زمانوں میں حکومتوں میں چرچ کا بہت دخل تھا اور عیسائی چرچ غیر معمولی طور پر دولت مند ہو گیا ہے اور دوسرے ان میں ایسی بے شمار بوڑھی عورتیں مرتی ہیں جن کی اولا د نہیں ہوتی لیکن بے شمار دولت کی ہوتی ہے اور وہ مرتے وقت اپنا پیسہ چر چوں کو دے جاتی ہیں لیکن جہاں تک ان کے عوام الناس کا تعلق ہے نکال کے تو دکھا ئیں.دس احمدیوں کے مقابل پر
خطبات طاہر جلد۴ 620 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء جن کی قوموں کی لاکھ تعداد وہ دس کے مقابل پر دس بھی نہیں دکھا سکتے جن میں جماعت احمدیہ کے غرباء کی طرح مالی قربانی کی روح پائی جاتی ہو.جماعت احمدیہ نے افریقہ کو مسلمان بنایا تو چندہ دینے والا مسلمان بنایا اور قربانی کرنے والا مسلمان بنایا اور ساری جماعت قربانی میں شامل ہو گئی.جس ملک میں بھی جماعت داخل ہورہی ہے وہاں خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے پیدا کر رہی ہے اور بھی کئی فرق ہیں مگر یہ ایک ایسا بنیادی اور نمایاں فرق ہے کہ ہم بلا شبہ سر بلند کر کے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے مقابل پر مالی قربانی میں کوئی نظیر نہیں ملتی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے.جو شخص ایک پیسے کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوار ادا کرے.“ یہ وہ فقرہ ہے جس کی طرف میں نے توجہ دلائی تھی.لوگ پوچھتے ہیں کہ اب آپ نے سولہواں حصہ کیوں شروع کر دیا یہ جو جماعت کا چندہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو کھلی چھٹی دے دی ہے کہ ایک پیسہ ہے تو ایک پیسہ دے دو.اس سلسلہ میں دو باتیں بیان کرنا چاہتا ہوں.اول تو یہ کہ میں جماعت میں یہ اعلان بڑے واضح لفظوں میں کر چکا ہوں کہ ۱۶ اسے بچنے کے لئے تم آمدن نہ چھپاؤ، جھوٹ نہ بولو کیونکہ اس طرح تمہاری قربانی خواہ کتنی بھی ہو ساری ضائع ہو جائے گی اس لئے اگر تمہیں توفیق نہیں تو بے شک کم دو لیکن بتا کے دو کہ ہمیں ۱۶ا کی توفیق نہیں ہم کم دینا چاہتے ہیں اور دوضرور.بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ ہمارے یہ حالات ہیں، ہما را چندہ بالکل معاف کر دیا جائے.میں انہیں جواب دیتا ہوں کہ میں تم پر یہ ظلم نہیں کر سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے خدا کا وعدہ ہے کہ جو شخص چندہ دے گا میں اس کے اموال میں کمی نہیں کروں گا بلکہ برکت دے دوں گا اور تم کہتے ہو کہ سارا معاف کر کے تمہیں اس برکت سے کلیۂ محروم کر دوں.میں یہ نہیں کر سکتا.اگر تمہیں تو فیق نہیں ہے تو بے شک ایک روپیہ دو، پانچ روپے دو، دس روپے دو، اس زمانے میں تمہیں جتنی توفیق ہے وہ ضرور دے دو اور
خطبات طاہر جلدم 621 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء اس طرح دو کہ تمہیں محسوس ہو کہ ہاں اس سے ہمیں تکلیف ہورہی ہے پھر دیکھنا کہ اللہ تعالیٰ اس تکلیف کو آسائش میں بدل دے گا.لیکن غور طلب بات یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ نہیں فرماتے تمہارے پاس خواہ کتنا بھی پیسہ ہو اور ایک پیسہ بھی دے دو تو ٹھیک ہے ، فرماتے ہیں.” جو شخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے“.اب حیثیت رکھتا ہے“ کے الفاظ تو اس فقرے کی شکل ہی بدل دیتے ہیں.” جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ما ہوا رادا کرے.ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہئے“ اب اس کے بعد تو کسی بحث کی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.فرمایا ”ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدددینی چاہئے اگر اس کی وسعت ۱۱۸ کی ہے تو ۱۶/ا بھی اس کے لئے کم ہوگا اور عملاً جماعت میں جو چندہ دینے والے ہیں وہ ۱/۱۶ پر کہاں رہتے ہیں.اول تو ۱/۱۶ با قاعدہ چندہ دینے والے بالآخر وصیت تک پہنچ ہی جاتے ہیں.ان کو گھسٹتے گھسائے آخر چین نہیں آتا جب تک وصیت نہ کر لیں ۱۰اد ہیں ہو جاتا ہے اور پھر باقی مالی قربانیوں میں بھی خدا کے فضل سے اتنا حصہ لیتے ہیں کہ ان کا معاملہ بہت آگے بڑھ جاتا ہے.کہتے ہیں کیوں میں کہتا ہوں کہ تا خدا تعالیٰ بھی ان کی مدد کرے.اگر بلا ناغہ ماہ بماہ ان کی مدد پہنچتی رہے گو تھوڑی مدد ہو تو وہ اس مدد سے بہتر ہے جو مدت تک فراموشی اختیار کر کے پھر کسی وقت اپنے ہی خیال سے کی جاتی ہے.ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے.66 بعض ظاہر پرست لوگ یا جن کے دل ایمان سے خالی ہوتے ہیں.یا ایمان کے عرفان سے خالی ہوتے ہیں.اعتراض کرتے ہیں کہ جی جماعت میں جو شخص چندے دے اس کی قدر کی جاتی ہے گویا پیسے کی خاطر جماعت بنی ہے اور سار از دور پیسے پر ہے.میں حیرت سے ان لوگوں کے منہ دیکھتا ہوں کہ تم کیا بات کر رہے ہو.قرآن پڑھ کے تو دیکھو.سارا قرآن جان مال ، جان مال کی قربانی سے بھرا پڑا ہے اور ہے کیا باقی ؟ یا تمہیں جان عزیز ہے.یا مال عزیز ہے.اب تو تم اس وقت کو پہنچ چکے ہو کہ مال جان سے بھی بڑھ کر عزیز ہو چکا ہے.جو اپنی عزیز ترین چیز کو خدا کی راہ
خطبات طاہر جلدم 622 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء میں قربان کرتا ہے وہ قابل قدر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر تو تمہیں عرفان حاصل نہیں چنانچہ قربانی کا ذکر کر کے فرماتے ہیں ”ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے.66 اب میں آپ کو دو خوشخبریاں بھی دیتا ہوں اور ایک نئی تحریک کا اعلان بھی کرتا ہوں.دو خوشخبریاں یہ ہیں کہ فرانسیسی ترجمہ قرآن کریم کے بعد اب خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی سال روسی زبان میں قرآن کریم کا ترجمہ بھی پریس میں دیا جا رہا ہے.صابر صدیقی صاحب جو ہمارے رشین زبان کے ماہر ہیں اور رشین زبان کے ایک اور احمدی طالب علم خاور صاحب کے ان دونوں کے سپر د میں نے نگرانی کی تھی کہ اس کو دوبارہ دیکھ لیں ایک دفعہ.انہوں نے کل مجھے اطمینان دلایا ہے کہ خدا کے فضل سے یہ ترجمہ ہر پہلو سے پریس میں دیئے جانے کے لائق ہو گیا ہے.Italian ترجمہ بھی خدا کے فضل سے مکمل مل گیا ہے اور Introduction کا ترجمہ بھی مل گیا ہے.talian زبان میں اسلامی اصول کی فلاسفی کا ترجمہ بھی مل گیا ہے.اب ان دو زبانوں میں نہایت ہی پیش قیمت اضافہ ہوگا بلکہ قیمت کے لفظوں میں تو اس کو ادا ہی نہیں کیا جا سکتا.قرآن کریم کا کسی زبان میں شائع کیا جانا اور پھر ان معارف کے ساتھ جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کے معارف عطا فرمائے.اس زمانے کی بہت بڑی خدمت ہے تو جماعت احمدیہ کو توفیق مل رہی ہے اور اس کے لئے چندے کی ضرورت نہیں کیونکہ پہلے سے ہی ایسے مخلصین ہیں ان معاملات میں اپنی سیٹیں بک کر والی ہیں.پیشتر اس کے کہ میں اس بارہ میں تحریک کرتا انہوں نے کہا جی ہمیں موقع دیں.ہم اپنی طرف سے اس کا سارا خرچ برداشت کرنے کے لئے تیار ہیں.میں نے کہا ٹھیک ہے اللہ تعالیٰ آپ کو تو فیق عطا فرمائے.چنانچہ فرانسیسی اور اٹالین اور رشین زبان میں قرآن کریم کے جو تراجم شائع ہوں گے.ان کے تمام اخراجات خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے چند مخلصین پہلے سے ہی ا ادا کر چکے ہیں یا وعدہ کئے بیٹھے ہیں کہ جب بھی ہم مانگیں گے وہ دے دیں گے.اس کے علاوہ جو دوسرا لٹریچر شائع ہونے والا ہے وہ بھی بڑی کثرت سے ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے علاوہ تفسیر کبیر ہے اور سلسلہ کا اور بہت سا لٹریچر ہے اس کو مختلف زبانوں میں ہم نے شائع کرنا ہے لیکن سب سے بڑی دقت اردو میں نوری نستعلیق خط کی کتابت کی
خطبات طاہر جلدم 623 خطبہ جمعہ ۱۲ ؍ جولائی ۱۹۸۵ء دقت ہے.اس وقت ہمیں جس تیزی کے ساتھ تمام دنیا میں لڑ پچر پھیلانے کے لئے جو بے قراری ہے اس کے مقابل پر کا تب لکھنے میں بہت سا وقت لے لیتا ہے اور اب صحت کتابت کا معیار بھی گر گیا ہے اس لئے غلطیاں بھی اتنی کرتا ہے پہلے اس کی کتابت ختم ہونے کا انتظار پھر اس کی مرمتیں لگوائی جائیں اور پھر بھی وہ ٹھیک نہ لکھے تو پھر دوبارہ بھیجا جائے اتنا وقت ضائع ہو جاتا ہے.اس سے پھر بھی بعض دفعہ ایسی خوفناک غلطیاں رہ جاتی ہیں بہت تکلیف دہ صورت حال ہے.چنانچہ ہم نے یہاں انگلستان میں جائزہ لیا تو پتہ چلا کہ دنیا میں کمپیوٹر کی ایک ایسی کمپنی موجود ہے جس نے اردو نستعلیق نوری خط کا ٹائپ رائٹر تیار کر لیا ہے اور وہ ایک ایسا Computerised ٹائپ رائٹر ہے جو نہایت ہی اعلیٰ پیمانے پر کتابت کر سکتا ہے.آپ تھوڑی سی زائد رقم دیں تو ہر زبان اس پر اس طرح ٹائپ ہوسکتی ہے جس طرح پریس کے لئے Compose کیا جاتا ہے اور بڑے سے بڑے لفظوں میں بھی اور چھوٹے سے چھوٹے لفظوں میں بھی تمام Computerised ہے.تو سلسلہ کا کام زیادہ انتظار نہیں کرسکتا گوشین کی قیمت زیادہ ہے یعنی صرف اردو نستعلیق کے لئے مکمل حالت میں اگر اس کو لیں تو ایک لاکھ پونڈ خرچ آئے گالیکن جو ضرورتیں ہیں ان کے مقابل پر ایک لاکھ کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے.اسی طرح جب ہم باقی اہم ضروری زبانیں اس میں داخل کر لیں گے جواب ہمیں لازما لینی پڑیں گی تو ڈیڑھ لاکھ پونڈ تک صرف پریس کا خرچ ہے.اس کے علاوہ اس پر ماہانہ اخراجات بھی اٹھیں گے کیونکہ یہ بہت ہی Complex یعنی باریک اور الجھی ہوئی مشین ہے جسے ہر آدمی آسانی سے سمجھ نہیں سکتا.بہر حال سر دست میں ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کرتا ہوں اور میں جس طرح خدا تعالیٰ مجھے ہمیشہ تو فیق عطا فرماتا ہے اور شاید کوئی شکوہ بھی کرے کہ تمہیں ہر تحریک کا پہلے پتہ لگتا ہے اس لئے تم پہل کر جاتے ہو، میں پہلا چندہ میں اپنی طرف سے لکھوا دیا کرتا ہوں مگر ضروری نہیں کہ خدا کے ہاں میں پہلا ہی شمار ہوں.ہوسکتا ہے کوئی اور زیادہ اخلاص میں بڑھ کر لکھوائے تو بعد میں بھی آئے اور آگے نکل جائے.اس لئے مجھے تو بہر حال اس وقت ایک فائدہ ہے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ میرے دل میں تحریک ڈالتا ہے تو بہر حال پہلا میں ہی ہوتا ہوں اس وقت.تو ایک ہزار پونڈ سے میں اس تحریک کا آغاز کرتا ہوں اور اس کے لئے کوئی شرح مقرر نہیں کرتا.مجھے علم ہے اس وقت جماعت کی جو حالت
خطبات طاہر جلد۴ 624 خطبہ جمعہ ۱۲؍ جولائی ۱۹۸۵ء ہے وہ یہ ہے اگر میں پانچ آدمیوں کو کہوں کہ آپ دے دیں تو بلاتر دوہ شکر یہ ادا کرتے ہوئے یہ رقم فوراً دے دیں گے.اگر میں ڈیڑھ سو آدمیوں کو کہوں کہ ایک ایک ہزار پونڈ دے دو تو ڈیڑھ سو آدمی آسانی سے جماعت میں دے دے گا لیکن اس میں کچھ فوائد بھی ہیں اور نقصانات بھی ہیں.ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ اس طرح غرباء محروم رہ جاتے ہیں بعض خصوصی تحریکات کو چھوڑ کر عمومی طور پر میں ایسی تحریک ہی پسند کرتا ہوں جس میں تمام غرباء کوضرور حصہ مل جائے.جہاں تک قرآن کریم کی اشاعت کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی یہ تحر یک گھلی ہے کہ یہ سلسلہ تو اب ختم ہونے والا ہے ہی نہیں.حضرت مصلح موعود نے پہلے سے جماعت میں یہ تحریک کر رکھی ہے کہ جو چاہے اپنے سال کی پہلی آمد یا مہینے کی پہلی آمد یا اور خوشی کے موقع پر خدمت قرآن کے لئے دیتا رہے یا مساجد کی تعمیر کے لئے دیتا ر ہے.پس جہاں تک خدمت قرآن کا تعلق ہے تو ضروری تو نہیں ہر شخص فرینچ خدمت قرآن میں شامل ہو.وہ بہر حال ایک کھلی تحریک ہے.اللہ تعالیٰ اور بھی تراجم کی توفیق عطا فرما رہا ہے اس میں انشاء اللہ عام تحریکیں بھی چلیں گی.اس لئے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس تحریک کو آپ تک پہنچا کر ختم کرتا ہوں.کتنا دیں؟ کیسے دیں اور کیا دیں؟ اس مفہوم کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہتر کوئی نہیں کرسکتا.آپ فرماتے ہیں: تم اے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو.“ عجیب الفاظ سے یاد کیا ہے آپ کو اور مجھے اور ہم سب کو.عجیب شان ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا نے کیسا جذب کا کلام عطا فر مایا ہے.کون ہے جو کہہ سکتا ہے کہ جھوٹے کی زبان کے یہ کلمات ہیں سچ کے دل کے سرچشمے سے پھوٹنے والی صداقت ہے.فرماتے ہیں: " تم اے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت کی سرسبز شا خو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری
خطبات طاہر جلدم 625 خطبہ جمعہ ۱۲ جولائی ۱۹۸۵ء 66 طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے.‘“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا عظیم مقام جس کا اس زمانے میں اکثر لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے.لیکن میں آپ کا ایک ادنی غلام در غلام ہوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی میں دعوے سے یہ کہتا ہوں کہ جماعت میں آج بکثرت ایسے موجود ہیں جن پر آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فقرہ صادق آتا ہے کہ: میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.(فتح اسلام روحانی خزائن ۳ صفحه ۳۴۰) لیکن یہ فریضہ تمام قوم میں مشترک ہے اور سب پر لازم ہے.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو اخلاص اور قربانی کی راہوں میں ہمیشہ آگے سے آگے بڑھاتا چلا جائے اور تصدیق کے نتیجہ میں خدا کی راہ میں رزق خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اسی کے نتیجہ میں پھر فضلوں کی بارش برساتا رہے.ہم تصدیق کی کھٹی کھانے والے ہوں تکذیب کی کھٹی کھانے والے نہ ہوں.آمین.
خطبات طاہر جلدم 627 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء ہر احمدی تبلیغ کے ذریعہ دنیا میں انقلاب پیدا کرے (خطبہ جمعہ فرموده ۱۹ار جولائی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الرَّسُولُ بَلِغْ مَا اُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَّبِّكَ وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ ) (المائده: ۲۸) یہ جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو ضرور تبلیغ کر ، لازما لوگوں تک پیغام پہنچا، وہ پیغام جو تیری طرف نازل کیا جا رہا ہے یعنی من ربات.تیرے رب کی طرف سے.اگر تو نے ایسا نہ کیا تو تو نے اللہ تعالیٰ کے پیغام پہنچانے کا حق ادا نہیں کیا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اور اللہ تعالیٰ تجھے لوگوں کے گزند سے محفوظ رکھے گا یقیناً اللہ تعالیٰ کا فروں کو ہدایت نہیں دیتا.اس آیت کریمہ میں کئی پہلو ہیں جو خاص طور پر آج کل جماعت احمدیہ کے پیش نظر رہنے چاہئیں.پہلی بات تو یہ کہ گو حضرت رسول اکرم ﷺہ تنہا مخاطب معلوم ہوتے ہیں اور بڑی سختی معلوم ہوتی ہے اس کلام میں یعنی آنحضرت علیہ مخاطب اور یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اگر تو نے تبلیغ نہ کی تو تو نے اپنی رسالت کا یا میری پیغام رسانی کا حق ہی ادا نہیں کیا.اب یہ عجیب بات ہے کہ رسول اکرم ﷺہے جو
خطبات طاہر جلدم 628 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء ہے سب پیغام رسانوں سے زیادہ امانت دار تھے جن کے متعلق خود قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ وہ امانت جس کو زمین اور آسمان اور پہاڑوں نے اٹھانے سے انکار کر دیا، یہ میرا بندہ مرد کامل آگے بڑھا اور اس امانت کو اٹھا لیا.آپ کے متعلق کوئی بعید امکان بھی نہیں ہے کہ آپ پیغام رسانی سے باز رہیں.شدید دکھوں ، شدید مصائب کے مقابل پر آپ اُس وقت جبکہ تنہا تھے اس وقت بڑی جرات کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی اس امانت کا حق ادا فرماتے رہے، تو آپ کو مخاطب کر کے کیوں ایسا کہا گیا ہے؟ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ یہاں دراصل امت محمدیہ کو متنبہ کرنا من نا مقصود مخاطب حضور اکرم ﷺ ہیں اور تنبیہ امت کو کی جارہی ہے یہ طرز کلام عام دنیا میں بھی اختیار کی جاتی ہے اور خودا قدس حضرت محمد مصطفی علی اللہ نے بھی اختیار فرمائی جب یہ کہا کہ میری بیٹی اگر چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا.کوئی دور کا بھی احتمال نہیں تھا حضرت سیدہ فاطمتہ الزھراء کا چوری کرنے کا جو خاتون جنت ہیں جو تمام خواتین میں افضل.( بخاری کتاب احادیث الانبیاء حدیث نمبر 3216) ان کے متعلق حضور اکرم ﷺ فرمارہے ہیں کہ یہ چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا تو یہ احتمالات ایسے نہیں ہیں جو ہو سکتے ہیں یہ ایک محاورہ کلام ہے مراد یہ ہوتی ہے کہ جو میرے سب سے زیادہ قریبی ہے جس سے بڑھ کر کوئی وجود نظر نہیں آسکتا تمہیں وہ بھی اگر رعایت کا مستحق نہیں تو تم جوادنی ہو تم کیسے رعایت کے مستحق ہو گے؟ پس آنحضرت ﷺ کو مخاطب فرما کر تبلیغ کی فرضیت کو امت محمدیہ پر ظاہر کرنے کا اس سے زیادہ اور کوئی قومی اور سخت ذریعہ ممکن نہیں تھا.تنبیہ ساری امت کو کی جارہی ہے حضرت رسول اکرم ﷺ کے غلاموں کو کی جارہی ہے.ایک طرف یہ آواز اٹھ رہی ہے اور دوسری طرف قرآن ہمیں فرعون کی آواز بھی سنا رہا ہے جو یہ کہتی سنائی دیتی ہے وہ آواز انّی اَخَافُ أَنْ تُبَدِّلَ دِينَكُمْ أَوْ أَنْ يُظْهِرَ فِي الْأَرْضِ الْفَسَادَ (المومن (۲۷) کہ یہ تبلیغ کا کیا قصہ شروع کر دیا ان لوگوں نے مجھے تو ڈر یہ ہے کہ جس انہماک کے ساتھ ، جس شدت کے ساتھ ، جس قوت کے ساتھ یہ لوگ تبلیغ کا کام کر رہے ہیں یا تو تمہارا مذہب تبدیل کر دیں گے.ایسے آثار نظر آرہے تھے حضرت موسیٰ کی تبلیغ میں فرعون کو کہ اس کو پتہ لگ گیا تھا کہ اس شدت کے ساتھ ، اس حکمت کے ساتھ ، اس گہری تاثیر کے ساتھ جب قوم کو پیغام پہنچایا جائے گا تو وہ لازماً قبول کر لیں گے.تو اس نے کہا یا تو یہ تمہارا مذہب
خطبات طاہر جلدم 629 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء تبدیل کر دیں گے اور یا پھر سارے ملک میں فساد پھیل جائے گا.مطلب یہ تھا کہ مذہب تو ہم تبدیل نہیں ہونے دیں گے یہ دوسری بات ہوگی تبلیغ کے نتیجہ میں فساد برپا ہوگا.یہ تو فرعون کی بات ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ تبلیغ کا فساد کے ساتھ کوئی تعلق ہے ضرور.کیونکہ جب زمین و آسمان ابھی پیدا بھی نہیں کئے گئے جبکہ آدم کی تخلیق کا سوال زیر غور تھا اس وقت قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے.وَ إِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَليكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُوا اَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ ) (البقره: ۳۱) یہ اس وقت سے سوال اٹھا ہوا ہے جب یہ انسان پیدا ہی نہیں ہوا تھا.جب خدا نے دنیا میں خلیفہ یعنی نبی بنانے کا فیصلہ کیا اور سلسلہ انبیاء جاری کرنے کا فیصلہ فرمایا تو ملائکہ تو متکبر نہیں تھے ، ملائکہ میں تو کوئی فرعونیت نہیں تھی لیکن اپنی لاعلمی میں ظاہری صورت میں وہ بھی اس اشتباہ میں مبتلا ہو گئے ، انہوں نے سمجھا کہ اگر وہ جا کر نیا World Order پیدا کریگا، انقلابی باتیں کرے گا ، دلائل کے ساتھ پرانے رسم و رواج کو توڑ کر ایک نیا زمین و آسمان پیدا کریگا تو ایسی صورت میں لوگ لازماً مخالفت کریں گے اور فساد پھیل جائے گا لیکن اپنی غلطی سے اور لاعلمی میں انہوں نے بھی فساد کی ذمہ داری گویا آدم پر ڈال دی اور خلیفتہ اللہ پر ڈال دی.اس کے جواب میں خدا تعالیٰ نے صرف اتنا فرما انّى اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ میں زیادہ جانتا ہوں تمہیں کیا پتہ؟ اب بظاہر اس بات میں بڑی تحدی تو ہے مگر دلیل کوئی نہیں، کوئی آپ سے گفتگو کر رہا ہے دلیل کے ساتھ آپ کہیں مجھے زیادہ پتہ ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں کچھ ناراضگی کا اظہار ہے اس طرز کلام میں اور کچھ یہ بتانا مقصود ہے کہ تم ذمہ داری غلط ڈال رہے ہو اگر غور کرو تو خود اس نتیجے تک پہنچ سکتے ہو.کسی ایسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے جس کا تمہیں علم ہو نہ سکتا ہو جس تک تمہاری رسائی نہ ہو تھوڑا سا تد بر کرو، اپنے مقام کو دیکھو، مزید غور کرو تو تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ فساد تو ہو گا لیکن ذمہ داری میرے خلیفہ پر نہیں ہوگی ، ذمہ داری دوسروں پر ہوگی.
خطبات طاہر جلدم 630 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء اب ذمہ داری کے لحاظ سے کئی قسم کے احتمالات سامنے آتے ہیں.تبلیغ اگر غلط طریقے سے کی جائے تو اس کے نتیجہ میں فساد ہو سکتا ہے دل آزاری کی باتیں کی جائیں اور نا واجب ایسے دباؤ اختیار کئے جائیں کہ جس کے نتیجہ میں لوگ مجبور ہو جائیں مذہب تبدیل کرنے پر.مثلاً پیسے دے کر ، عورتوں کا لالچ دے کر جس طرح بعض قو میں کرتی ہیں، نوکریوں کا لالچ دے کر اور دنیاوی اثرات استعمال کر کے اگر تبلیغ کی جائے تو لازماً اس کے نتیجہ میں یقینا فساد بھی ہوگا اور فساد کی ذمہ داری تبلیغ کرنے والوں پر ہوگی اس لئے یہ معاملہ الجھ جاتا ہے.کیسے معلوم ہو کہ تبلیغ فی ذاتہ ایک ایسی چیز ہے جس کے نتیجے میں لازماً اشتعال پیدا ہو گا خواہ سو فیصدی تم معصوم ہو یہ سوال اٹھتا ہے.جو چاہے طریق اختیار کر لو احتیاط کا، جس طرح چاہو حکمت سے کام لو، جتنی چاہو قربانیاں پیش کرو، جس قدر بھی تم میں توفیق ہے تم صبر سے کام لو اور ایثار سے کام لولیکن تبلیغ فی ذاتہ اپنے اندر ایک ایسی بات رکھتی ہے کہ لازماً اس کے نتیجے میں فساد ہوگا اور تمہاری مخالفت ہو گی.یہ کیسے معلوم ہوا ؟ اس کا سب سے قطعی ثبوت اس آیت میں ہے جو میں نے آپ کے سامنے ابھی تلاوت کی ہے.فرماتا ہے وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاس محمد مصطفى ع سے بڑھ کر حکمت کے ساتھ تو تبلیغ کوئی کرنے والا کوئی پیدا نہیں ہو سکتا تھا.جتنے انبیاء آئے انہوں نے بھی حکمت سے کی، جتنے گزشتہ انبیاء تھے انہوں نے بھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا، نرمی اور ملائمت سے بات کی اور جہاں تک ان سے ہو سکا وہ دل آزاری کے مقامات سے بچے لیکن حضور اکرم ﷺ سے بڑھ کر تبلیغ کو حکمت اور عاجزی اور انکساری اور ایثار کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اور پیار کے ساتھ اور رحمت اور شفقت کے ساتھ کرنے کا گر تو اور کسی کو نہیں آتا تھا پس یہ جوفرمایا مخاطب کر کے کہ اللہ تجھے لوگوں سے بچائے گا اس میں یہ تنبیہ تھی کہ باوجود اس کے کہ تجھ پر کوئی حرف نہیں رکھ سکتا، تجھ پر کوئی انگلی نہیں اٹھ سکتی کہ تو نے اس رنگ میں تبلیغ کر دی کہ دنیا میں فساد پھیل گیا لیکن اس کے باوجود پھیلے گا اس کے باوجودلوگ تمہاری مخالفت کریں گے ، اس کے باوجود تمہیں دکھ دیئے جائیں گے.چنانچہ آغا ز رسالت سے ہی اس کے آثار ظاہر ہو گئے تھے جب آنحضرت عے پر پہلی وحی نازل ہوئی اور حضرت خدیجہ نے آپ کی تسلی کی خاطر اپنے چا زادہ ہم زاد کو بلایا انہوں نے سمجھایا آنحضرت ﷺ کو آئے کہ یہ جو بات ہے اس میں کوئی وہم کی بات نہیں ، یہ رسالت کا مضمون ہے ، آپ کو اللہ تعالیٰ رسول بنا رہا ہے اور یہ کہنے
خطبات طاہر جلدم 631 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء کے بعد جب اس نے یہ کہا کہ افسوس اس وقت پر میں وہاں نہیں ہوں گا.کاش میں ہوتا تو میں تیری مدد کرتا جب قوم تجھے اپنے وطن سے نکال دے گی.حیرت آنحضرت علی کے چہرے پر ظاہر ہوئی تعجب سے ، بڑی معصومیت سے پوچھا مجھے نکال دی گی ؟ یعنی میں اتنا ان لوگوں کے لئے مسلسل مجسم خیر مجھ سے ہمیشہ ان کو بھلائی پہنچی ہے اور اس سے قبل حضرت خدیجہ ان باتوں کود ہرا بھی چکی تھیں کہ جن کو چٹی پڑ جائے اور کوئی ادا نہ کر سکے انکی چٹی کو وہ آپ بو جھا اٹھا لیتے ہیں، قتیموں اور بیواؤں کی خبر گیری کرنے والے.وہ نوادر اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان کو آپ نے دوبارہ دنیا میں قائم کر دیا ہے ایسے حسین اخلاق کا مالک انسان اسکو یہ کہا جائے کہ قوم تجھے نکال دے گی تو تعجب تو اسے ہوگا.پس آغاز رسالت سے یہی مقدر تھا اور اس آیت میں حضور اکرم کو مخاطب کرنے کے نتیجہ میں یہ مسئلہ ہمیں سمجھ آیا ورنہ اگر ساری امت کو مخاطب کیا جا تا تو ہر گز نہیں کہہ سکتے تھے کہ تبلیغ کے نتیجہ میں فساد لازماً پیدا ہوتا ہے.یہ کہا جا سکتا ہے کہ مطلب صرف اتنا ہے کہ لوگ غلطیاں کریں گے غلط طریق پر تبلیغیں کریں گے ، دل آزاریاں کریں گے اس لئے فساد پھیلے گا.تو واحد کے صیغہ میں مخاطب کرنے میں ایک اور بڑا عظیم الشان مضمون ہاتھ آگیا کہ آنحضرت ﷺ کی تبلیغ کے باوجود ، باوجود اس کے کہ آپ سے زیادہ پیار اور محبت اور شفقت اور رحمت اور حکمت کے ساتھ اور کوئی تبلیغ نہیں کرسکتا پھر بھی دنیا آپ کی مخالف ہو جائے گی اور آپ کی ایذارسانی کی کوشش کرے گی.ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلا کے ذمہ داری کس پر عاید ہوتی ہے.آنحضرت ﷺ تو ہرقسم کی غلطی سے پاک تھے اس لئے لازماً فریق ثانی پر ذمہ داری عاید ہوتی ہے فساد تو ہوگا لیکن فساد کے ذمہ دار وہ ہیں جو دکھ پہنچانے کے لئے مظالم کی راہ سے اور تعدی کی راہ سے اور جبر کی راہ سے خدا کے پیغام کو روکنے کی کوشش کرنے والے ہوں گے.اس لئے جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے ہر احمدی کو یہ دونکات خوب ذہن نشین کر لینے چاہئیں.اول یہ کے تبلیغ کوئی طوئی چندہ نہیں ہے، کوئی نفل نہیں ہے کہ نہ بھی ادا کریں گے تو آپ کی روحانی شخصیت مکمل ہو جائے گی، فریضہ ہے اور ایسی شدت کے ساتھ خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ آنحضرت علی کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کہ تو نے رسالت کو ہی ضائع کردیا اگر تبلیغ نہ کی تو.آپ کی امت بھی جواب دہ ہے، ہم میں سے ہر ایک جواب دہ ہے پیغام رسانی لازماً ایک ایسا فریضہ ہے جس سے کسی وقت انسان
خطبات طاہر جلدم 632 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء غافل ہو نہیں سکتا اجازت نہیں ہے کہ غافل رہے اور دوسری بات یہ کہ آپ جو چاہیں کریں جتنی چاہیں حکمت سے کام لیں اور حکمت سے کام لینا پڑے گا ، نرمی کریں اور دکھ دہی سے بچیں اور پیار اور محبت کو شیوہ بنائیں اور ایثار سے کام لیں لیکن یہ نہ سوچ بیٹھیں کہ اس کی وجہ سے آپ کی مخالفت نہیں ہو گی.یہ تو خدا تعالیٰ نے پہلے سے متنبہ فرما دیا ہے.ابھی آپ پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ، ابھی انسان پیدا نہیں ہوا تھا ، ابھی کائنات وجود میں نہیں آئی تھی اس وقت ایک مکالمے کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے بنی نوع انسان کو متنبہ فرما دیا کہ جب بھی خدا کی طرف سے رسول آئیں گے تو فساد ضرور بر پا ہوں گے لیکن فساد کی ذمہ داری کلیۂ فریق مخالف پر ہوگی ہمارے رسولوں پر نہیں ہوگی.چنانچہ جب اس صورت حال پر نظر ڈالتے ہیں تو اور بھی بہت سی باتیں ہمارے ہاتھ آتی ہیں فائدے کی اور بہت سے حکمت کے راز ہمیں معلوم ہوتے ہیں اور ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے جس میں آپ غوطے لگا ئیں تو کئی قسم کے نہایت ہی قیمتی موتی آپ کے ہاتھ آئیں گے.جب ذمہ داری فساد کی نہیں ہے تو مبلغ کو یہ بتا دیا کہ اس طرح تبلیغ کرنی ہے کہ دشمن تم پر نظر رکھے گا، دشمن تلاش کرے گا کہ تم سے ادنی سی بھی ایسی غلطی ہو کہ جس کے نتیجہ میں تم پر ذمہ داری پھینک سکے اور بار بار متنبہ کر دیا کہ دشمن تلاش میں ہے ، بہانہ جوئی کر رہا ہے اس لئے خبر دار.چنانچہ فرعون کا ذکر فرمایا یا دیگر مخالفین انبیاء کا ذکر فرمایا وہ یہ عذر تراشتے ہیں تمہاری مخالفت کے تو دراصل آپ کو متنبہ کیا جا رہا ہے پہلے سے ہی.انگریزی میں کہتے ہیں Fore warned is fore armed جس کو پہلے سے متنبہ کر دیا جائے گویا کہ اس کے ہاتھ میں دفاعی ہتھیار پکڑا دیا گیا.تو آپ کے ہاتھ میں خدا تعالیٰ نے کئی دفاعی ہتھیار پکڑا دیئے ہیں وہ سارے عذر جو غیر تلاش کرتے ہیں معصوموں کو دکھ دینے کے وہ بتا دیئے اور فرمایا یہاں بھی احتیاط کرنا اور یہاں بھی احتیاط کرنا اور یہاں بھی احتیاط کرنا اور یہاں بھی احتیاط کرنا ، یاد رکھنا کہ تم سید المعصومین کے غلام ہو اس لئے تمہارے اندر بھی لوگ عصمت کا رنگ دیکھیں گے اور کسی قسم کی بیوقوفی سرزد نہ ہو، کسی قسم کی حماقت نہ سرزد ہو، کوئی غلطی نہ کر بیٹھنا کہ واقعہ دشمن کے ہاتھ میں کوئی بہانہ آجائے کہ اس وجہ سے ہم ان کو مارتے ہیں ، اس وجہ سے ان کی مخالفت کرتے ہیں، یہ ان کی غلطی ہے.تو دیکھئے تھوڑے سے کلام میں یہ فصاحت و بلاغت کا قرآن کریم کا کمال ہے کہ کتنی باتیں ہمیں بتا دیں اور یہ بتا دیا کہ دشمن تاک میں رہے گا ، وہ پہلے سے ہی ارادے
خطبات طاہر جلدم 633 خطبہ جمعہ ۱۹ار جولائی ۱۹۸۵ء کئے بیٹھا ہے کہ فساد وہ کرے گا اور ذمہ داری تم پر ڈالے گا جس طرح بتیس دانتوں میں زبان ہوتی ہے وہ تمہارا حال ہو گا فرق صرف یہ ہوگا کہ زبان تمہاری اور دانت دشمن کے، جو ہرلمحہ اس انتظار میں رہیں گے کہ ذرا غلطی ہو زبان سے حرکت الٹ ہو جائے ، بے احتیاطی اختیار کرے زبان تو جہاں تک ممکن ہے وہ دانت اس کو کاٹ کے پھینک دیں.یہ صورت حال ہے جس میں ہمیں تبلیغ کرنی ہے اور اس کے باوجود یہ یقین بھی رکھنا ہے کہ تبلیغ کے نتیجہ میں دکھ دیئے جائیں گے.یہ ہے توازن جس کو اپنے ذہنوں میں آپ قائم کریں گے تو صحیح مبلغ بنیں گے ورنہ غلطیاں کریں گے ٹھوکریں کھائیں گے.اب جو تبلیغ کا چرچا عام ہے احمدیوں کی طرف سے اللہ کے فضل سے بڑی تیزی سے پھل بھی لگ رہے ہیں، نئی نئی قومیں داخل ہو رہی ہیں اور خدا تعالیٰ ایسی جگہ بھی تبلیغ کے انتظام فرمارہا ہے جہاں ہماری پہنچ بھی نہیں تھی ، جہاں ہماری تبلیغ کی کوشش کا ایک ذرہ بھی دخل نہیں تھا اور یہ خدا تعالیٰ اس لئے نشان ظاہر فرما رہا ہے کہ وہ ہمیں مطلع کرے کہ میں محبت اور رحمت کی نظر سے تمہاری کوششوں کو دیکھ رہا ہوں اور یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ تبلیغ تو بطور فریضہ کے تم کر رہے ہو کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ تمہاری قربانی کا حصہ اس میں شامل ہو لیکن میں نتیجہ نکالنے میں تمہاری تبلیغ کا محتاج نہیں ہوں، تمہاری تبلیغ کا منتظر ضرور ہوں کیونکہ یہ قانون قدرت ہے کہ جب تک تو میں اپنا حصہ نہ ڈالیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل کا حصہ نہیں ڈالا کرتا.ایسے ایسے جزائر سے، ایسے ایسے نئے ملکوں سے اطلاعیں آرہی ہیں بیعتوں کی کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.ساؤتھ افریقہ کے دو ممالک سے کل ہی مثلاً ایک بیعت پہنچی ہے جو ایسا باشندہ ہے جو دو ممالک کے درمیان ایسا معلق ہے کہ اس طرف بھی قدم رکھ سکتا ہے اور اس طرف بھی قدم رکھ سکتا ہے، دونوں طرف رشتہ داریاں یا قبیلے ہیں اور وہ بڑی سوچ اور سمجھ کے بعد خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پہلے عیسائیت سے مسلمان ہوا اور پھر اس نے احمدی ہونے کا فیصلہ کیا اور مسلمان بھی احمد یہ لٹریچر کے ذریعہ ہوا.چنانچہ اس کا ایک بہت ہی عمدہ خط کل مجھے ملا اس نے لکھا ہے کہ میں جو احمدی ہو رہا ہوں اتنے سال کی مسلسل جد و جہد اور تلاش کے بعد میں ہوا ہوں اور یہ لٹریچر میرے زیر مطالعہ ہے اور یہ یہ دلائل میں زیر نظر لایا ہوں ، ان پر غور کیا ہے اور بڑی سوچ اور سمجھ کے بعد ، بڑے تحمل کے ساتھ یہ فیصلہ کر رہا ہوں لیکن ساتھ یہ بھی فیصلہ کر رہا ہوں کہ اب میں احمدیت کے لئے وقف ہو گیا
خطبات طاہر جلد۴ 634 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء ہوں اور ان دونوں ممالک میں میں تبلیغ کروں گا انشاء اللہ اور اس معاملہ میں آپ میری رہنمائی کریں اور کسی احمدی سے اس کا رابطہ قائم نہیں ہوالٹر پچر کسی ذریعے سے پہنچ گیا جس طرح ہم بعض دفعہ ڈاک کے ذریعہ تقسیم کرتے رہتے ہیں اور خدا کے فضل سے وہ دل بدلا اور ان دو ممالک میں احمد بیت کے قیام کا خدا تعالیٰ نے ایک ذریعہ مہیا کر دیا.اسی طرح بعض جزائر سے مختلف ایسی اطلاعات آرہی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ جب آپ تھوڑی سی کوشش کرتے ہیں تو آسمان اس سے زیادہ کوشش شروع کر دیتا ہے اور آپ کی کوشش کو خدا رائیگاں نہیں جانے دے گا اس لئے اس کی طرف مزید توجہ کریں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت سے احمدی ایسے ہیں، تقریباً ہر روز کی ڈاک میں ایسے خطوط ملتے ہیں جنہوں نے پہلے کبھی تبلیغ نہیں کی تھی ، اب کی ہے تو وہ حیران رہ گئے ہیں کہ ہم کیوں غافل بیٹھے ہوئے تھے اور بعض جن کو پھل ملے ہیں ان کی تو کایا ہی پلٹ گئی.ایسا ان کو چسکا پڑ گیا ہے کہ گویا انکو بعد میں جو جنت ملنی تھی وہ اس دنیا میں مل گئی اور جن کو نہیں پھل لگ رہے وہ بے چین اور بے قرار ہیں کہ ہمیں بھی خداوہ وقت نصیب فرمائے کہ ہماری تبلیغ سے احمدی ہوں.جہاں یہ سب کچھ ہورہا ہے وہاں بعض واقعات ایسے بھی ملتے ہیں کہ ایک پر امن جگہ ہے جہاں کوئی مخالفت نہیں امریکہ میں مثلاً بعض علاقوں میں اور وہاں مبلغ نے کثرت کے ساتھ لٹریچر تقسیم کرنا شروع کر دیا اور پتے ڈھونڈے اور ان کو پتہ جات پر لٹریچر بذریعہ ڈاک بھجوایا اور اس سے پہلے اسکومتنبہ کر دیا گیا کہ دیکھو ایسی حرکت نہ کرو یہ امن بر باد ہو جائے گا، شدید مخالفت ہوگی اور پھر جب مخالفت ہوئی جیسا کہ ہوئی تھی تو پھر مبلغ کو مطعون کیا گیا کہ دیکھا ہم کہتے نہیں تھے کہ مخالفت ہوگی.کہتے تو تھے لیکن اسی طرح کہتے تھے جس طرح فرشتے نبوت کے بعد خدا کو کہتے کہ کیوں خدا ہم کہتے نہیں تھے کہ فساد ہو گا ؟ تم کیا کہتے ہو یہ کیا کہتے تھے کہ تمہاری پیشگوئی کیا حقیقت رکھتی ہے جو چند دن کی پیشگوئی ہے.قرآن کریم تو وہ پیشگوئی بیان فرما رہا ہے جو تخلیق کا ئنات سے پہلے کی ایک پیشگوئی ہے اس وقت بھی تو فرشتوں نے یہی کہا تھا کہ اے خدا اگر رسول بھیجے گا یعنی پیغمبر تبلیغ کرنے والا تو فساد برپا ہوگا پس کیا ان کا حق نہیں تھا کہ وہ خدا کو کہتے کہ کیوں ہم نہیں کہتے تھے یہ ہم نہ کہتے تھے کی جو کھیل ہے یہ مذہب کے معاملات میں نہیں چل سکتی.یہ تو وہاں چلتی ہے جہاں نادانی کی باتیں ہوں ، جہاں غفلت کی حالت میں غلط اندازے لگا کر کوئی فعل کیا جائے اور ایک متنبہ کر نیوالا پہلے متنبہ کر چکا ہو لیکن اگر خطرات کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کوئی قدم اٹھایا ہو،علم ہو کہ کیا نتیجہ نکے گا تو پھر دوسرے کا یہ حق نہیں رہا کرتا کہ ہم نہیں کہتے تھے.
خطبات طاہر جلدم 635 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء پس تبلیغ کا معاملہ اس دنیا سے تعلق رکھتا ہے جہاں سب کچھ پہلے سے علم ہے اور علم ہونا چاہئے کہ یہ ہو گا پھر آپ اس میدان میں قدم رکھتے ہیں پھر دوسرا یہ حق نہیں رکھتا کہ وہ کہے کیوں جی ہم نہیں کہتے تھے کہ یہ ہو گا.اب کہتے ہیں تم کیا کہتے تھے ہم بھی یہی کہتے تھے، ہمارے باپ دادا بھی یہی کہتے آئے ہیں، آدم بھی یہی کہتے تھے اور آدم کی پیدائش سے پہلے فرشتے بھی یہی کہا کرتے تھے تم ہمیں کیا نئی بات بتاتے ہو.یہ دراصل لا علمی کی بات ہے.حقیقت میں فساد کی ذمہ داری کا انتقال دو طرح سے قرآن کریم میں ملتا ہے.ایک تو تکبر اور فرعونیت کے نتیجہ میں ماریں گے ہم ، ذمہ دار تم ہو، یہ ہے وہ اعلان اور یہ اعلان کرنے والے تو خدا کی نظر میں شدید مجرم ٹھہرتے ہیں لیکن کچھ معصوم لوگ بھی ہیں، چنانچہ فرشتہ صورت ان کو دکھایا گیا ہے.پس یہ جو احمدی ہیں بچارے یہ فرشتوں کی ذیل میں آتے ہیں کہ معصومیت اور لاعلمی کی بناء پر یہ بات کر رہے ہیں میں ان کو قصور وار نہیں سمجھتا لیکن کہتے غلط ہیں بہر حال اور اگر وہ یہ کہتے ہیں کہ کیوں جی ہم نے متنبہ کر دیا تھا تو ان کی کی تو پھر مثال ویسی ہی ہے جیسے پنجابی کی کہاوت میں کہتے ہیں کہ ایک طوطا با وجود اس تنبیہ کے کہ اس نگری میں نہ جانا وہاں پکڑے جاؤ گے وہ کسی نگری میں چلا گیا اور پکڑا گیا اور تنبیہ چونکہ طوطی کی طرف سے آئی تھی اس لئے طوطی پھر اڑ کر وہاں پہنچی اور جب وہ پنجرہ میں قید تھا تو پنجابی کی کہاوت ہے کہ وہ دیوار کے کنارے بیٹھ کر یہ گیت گانے لگی کہ طوطیا منموتیا میں آکھ رہی میں ویکھ رہی کہ ایس نگری نہ جا.ایس نگری دے لوگ برے تے لیندے پھائیاں پا“.اے طوطے میں تجھے کہہ ہٹی تجھے بار بار تنبیہ کی کہ ایس نگری نہ جا، اس بستی میں نہ جانا ، اس نگری کے لوگ برے ہیں ، یہ پھائیاں ڈال لیا کرتے ہیں ، یہ پھندے ڈال لیا کرتے ہیں اور پھنسا لیا کرتے ہیں اور اسی طرح ایک شاعر کہتا ہے کہ ع زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں کے طوطے کا پھنسا تو بیوقوفی کے نتیجہ میں تھا لیکن خدا کے انبیاء جب ان پھندوں میں پھنستے ہیں تو بیوقوفی کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اس علم کے باوجود کہ ہم جہاں جائیں گے وہاں ضرور ہم سے یہ سلوک کیا جائے گا ، دیکھتے ہوئے موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے وہ قدم آگے بڑھاتے ہیں ،اس لئے ان کو کوئی بیوقوف نہیں کہ سکتا.تو اگر کوئی احمدی یہ کہتا ہے اور مربی کو چھیڑتا ہے کہ دیکھا ہم نہیں
خطبات طاہر جلد۴ 636 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء کہتے تھے کہ فساد ہوگا تو اس کو پھر مذہب کی حقیقت کا علم ہی کوئی نہیں وہ تو پھر بوڑھیوں کی کہانیوں میں بسنے والا شخص ہے، قصص انبیاء سے اس کو کوئی واقفیت نہیں مگر جب ہم مذہب کی دنیا میں سنجیدگی سے ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ہم قصص انبیاء کی باتیں کر رہے ہیں یہ طوطا مینا کے قصے نہیں سنار ہے اور قصص انبیاء کا مضمون تو یہی ہے کہ تبلیغ کے ساتھ لازماً ایک فساد لگا ہوا ہے اور لازماً اس فساد کی ذمہ داری دشمن پر عاید ہوتی ہے تم پر عاید نہیں ہوتی اگر تم تبلیغ کو اس طرح کرو گے جس طرح کہ تبلیغ کرنے کا حق ہے جس طرح کہ گزشتہ زمانوں میں انبیاء کرتے چلے آئے اور جس طرح سب انبیاء سے بڑھ کر حکمت اور پیار اور بالغ نظری کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے تبلیغ کی.پس تبلیغ ہمیں کرنی ہے ہم تو مجبور ہیں اور ساتھ ہی ایک اور عظیم الشان بات جو اس آیت میں بیان فرمائی گی وہ یہ ہے کہ ان دو شرطوں کو پورا کرنے والے تم بنو تبلیغ کرو اور ضرور کر وتبلیغ اس طرح کرو جس طرح محمد مصطفی ع تبلیغ کرتے ہیں واللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ تو ہر شخص جو یہ دوشرطیں پوری کرتا ہے یا ہر قوم جو یہ دوشرطیں پوری کرتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں ذمہ دار ہوں اس بات کا ، میں تمہیں یقین دلاتا ہوں کہ تمہارا دنیا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے گی یعنی مخالفت تو ہوگی لیکن ہم دنیا کو یہ توفیق نہیں دیں گے کہ تمہارا نقصان کر سکے تمہیں کم کر کے دکھا دے، تمہیں چھوٹا بنا کے دکھا دے.پس جب ہم ان باتوں پر غور کرتے ہیں تو ایک احمدی کیلئے یہ تینوں امور پیش نظر رہنے چاہئیں نہ صرف یہ کہ وہ احتیاط اور حکمت کے ساتھ ، پیار اور محبت کے ساتھ تبلیغ کرے.محبتوں کو ابھارتا ہوا تبلیغ کرے نفرتوں کو انگیخت کرتا ہوا تبلیغ نہ کرے اور تبلیغ اس طرح کرے جس طرح حضور اکرم ع تبلیغ فرمایا کرتے تھے، دشمن کے لیے بھی دل ہلاک ہورہا ہوتا تھا غم سے کہ نادان مخالفت کر رہا ہے لاعلمی کے نتیجہ میں.دشمن کی مخالفت کے نتیجہ میں آنکھوں سے شعلے نہیں برسا کرتے تھے بلکہ محبت کے پانی بہتے تھے ، دعاؤں کے وقت آنسو برسا کرتے تھے انکے لئے.یہ ہے تبلیغ کا رنگ اگر اس رنگ کو اختیار کریں گے تو خدا کا یہ وعدہ لازماً آپ کے حق میں پورا ہوگا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ اللہ حفاظت کرنے والا ہے اسی پر تو کل کریں وہ ضرور آپ کو بچالے گا.إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ یہ آخری ٹکڑا ہے اس آیت کا.اب یہ بھی بڑا
خطبات طاہر جلدم 637 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء تعجب انگیز ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ اتنا زور دے رہا ہے کہ ضرور کرنی ہے تبلیغ اور اس طرح کرنی ہے جس طرح حضرت محمد رسول اللہ یہ کیا کرتے ہیں ، مخالفت کے باوجود کرنی ہے اللہ پر توکل کرتے ہوئے کرنی ہے اور ساتھ اعلان کر دیا اِنَّ اللَّهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ لَه الله کافروں کو ہدایت دیتا ہی نہیں کبھی ہدایت نہیں دیتا.اگر ہدایت دیتا ہی نہیں تو اس مصبیت میں کیوں ڈال دیا پھر محمد مصطفی ﷺ کو، آپ کے سب غلاموں کو قیامت تک کے لئے حکم دے دیا کہ تبلیغ کرتے چلے جاؤ اور اعلان یہ کر دیا إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ اللہ تعالیٰ کا فروں کو ہدایت نہیں دیتا یہاں.لَا يَهْدِى الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ میں دوباتیں خاص طور پر پیش نظر ہیں کسی کا فر کو ہدایت نہیں دیتا یہ تو اس کا ترجمہ ہے ہی غلط قوم الکافرین ہے اور ایک صفت کے ساتھ باندھا گیا ہے انکو.دراصل ہرانبیاء کے مخاطب لوگوں کا یہ حال ہوا کرتا ہے کہ بعض پیشہ ور مکفرین بن جایا کرتے ہیں اور قوم کا یہ محاورہ عرب میں اسی لئے استعمال ہوتا ہے.ہم جاہلوں کی قوم میں سے نہیں ہیں جب یہ کہتے ہیں عرب تو مراد یہ نہیں کہ ہم اس قبیلے میں سے نہیں ہیں جو جاہل ہے یا ظاہری لحاظ سے اس قوم میں سے نہیں ہیں یہ عربی محاورہ ہے جب قوم کا لفظ استعمال ہوتا ہے تو مراد یہ ہے ، وہ لوگ جو اس چیز کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں، اس زمرے میں ہم شمار نہیں ہو سکتے جس زمرے میں یہ بد بخت لوگ ہیں والقَوْمَ الْكَفِرِينَ فرمایا گیا ہے یہ نہیں فرمایا گیا ہے کہ کسی کافر کو نعوذ باللہ خدا ہدایت ہی نہیں دیتا، اگر ہدایت ہی نہیں دیتا تو اس مصیبت کو کھڑا کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی خواہ مخواہ ہنگامہ کا بر پا کیا فساد ہوئے اور نتیجہ یہ کہ ہدایت ملنی کسی کو نہیں.اس لئے غلط ترجمہ ہے اگر کوئی یہ ترجمہ کرتا ہے.الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ سے خاص معنی مراد ہے وہ لوگ جن کا پیشہ بن گیا ہے مخالفت کرنا، وہ لوگ جن کے مقدر میں انکار ہے ، وہ ہمیشہ ہر حال میں تمام انبیاء کے مخاطب میں ضرور کچھ نہ کچھ لوگ رہتے ہیں جن کو آئمة الكفر فرمایا گیا ہے دوسری جگہ اور آئمـة التــكـفـيــر بھی کہا جاتا ہے.تو الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ سے مراد یہ ہے کہ تمہارے مقابلہ پر ایک جماعت لازماً ایسے شدید مخالفین کی رہے گی جن کو تمہارا حسن خلق تبدیل نہیں کر سکے گا اور کوئی بھی تم طریق کا راختیار کرو، وہ تبلیغ ان پر اثر نہیں کرے گی لیکن ان کی وجہ سے باقی قوم کو محروم نہیں ہونے دیا جائے گا اس لئے ہم تمہیں حکم دیتے ہیں کہ باوجود ایسے شدید ٹولے کو اپنے سامنے صف آراء دیکھتے ہوئے، ایسے شدید معاندین کو اپنے
خطبات طاہر جلدم 638 خطبہ جمعہ ۱۹؍ جولائی ۱۹۸۵ء سامنے ہر قسم کے ہتھیاروں سے مسلح ہو کر ہر قسم کی ایذاء دہی پر آمادہ پاتے ہوئے تم جب صف آراء دیکھو گے تو حوصلہ نہیں ہارنا ہمیں پتہ ہے کہ ایسے لوگ موجود ہیں، ہمیں علم ہے خدا نے ہدایت دینی ہوتی ہے خدا جانتا ہے کہ ان لوگوں کو وہ ہدایت نہیں دے گا اس کے باوجود یہ حکم ہے کہ تم نے تبلیغ سے باز نہیں آنا کیونکہ قوم کی جو دوسری اکثریت ہے بھاری جس کو الْقَوْمَ الْكَفِرِينَ نہیں کہا جا سکتا نادان ہیں ، لاعلم ہیں ، جاہل ہیں، ان کو ہدایت نصیب ہو جائے گی پس اس لئے یہ مضمون اس شکل میں مکمل ہوتا ہے.تبلیغ میں حسن خلق کو بھی بہت دخل ہے اور جتنا آپ کے دل میں نرمی ہوگی ، بنی نوع انسان کی ہمدردی ہوگی ،سچائی سے پیار ہوگا تقویٰ ہوگا ، خدا کا خوف ہو گا دل میں اور حسن خلق اس کے علاوہ بھی ہوگا اگر چہ انہی چیزوں سے پیدا ہوتا ہے لیکن عام بنی نوع انسان نہ تقوی کو دیکھ سکتے ہیں نہ خوف خدا کو دیکھ سکتے ہیں دوسرے رنگ میں ، نہ آپ کے دل کے اندر جھانک کر آپ کی خوبیوں کو دیکھ سکتے ہیں لیکن انہی جڑوں میں سے کچھ شاخیں پھوٹتی ہیں جس کو عرف عام میں اخلاق کہتے ہیں اور تقویٰ کی بنیاد پر جو اخلاق قائم ہوتے ہیں وہ عام دنیا کے اخلاق سے بہت بہتر ہوتے ہیں بہت گہرے اور بہت مستقل ہوتے ہیں تو جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے حسن خلق بہت ہی ضروری ہے.لیکن صرف حسن خلق کافی نہیں یہ غلط فہمی بھی دل سے نکال دیں.کئی احمدی کہتے ہیں کہ ہم اپنے اخلاق سے تبلیغ کر رہے ہیں اور جو شکایت مجھے معلوم ہوئی اس میں یہ بھی محاورہ شامل کیا گیا تھا کہ فلاں مبلغ نے علاقے میں اچھا بھلا امن برباد کر دیا آگ لگا دی وہاں حالانکہ ہم نے اسے متنبہ بھی کر دیا تھا اور بتا دیا تھا کہ ہم بہت حسن خلق سے خاموش تبلیغ کر رہے ہیں اور کسی مزید شور ڈالنے کی ضرورت نہیں ہے.حسن خلق کا انکار تو ممکن ہی نہیں ہے ایک بہت ہی بڑا اور مؤثر ہتھیار ہے جس کے ذریعہ تبلیغ پھل لاتی ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن محض حسن خلق اور زبان سے خاموشی.یہ تو نہ انبیاء کا دستور ہے نہ کوئی معقول آدمی اسے تسلیم کر سکتا ہے کہ اس طرح تبلیغ پھیل جائے گی اگر خدا تعالیٰ نے صرف حسن خلق سے کام لینا ہوتا.اور باغ کے حکم کی ضرورت نہ ہوتی تو آپ کے خلق کو حضرت محمد مصطفی ملالہ کے خلق سے کیا نسبت ہے.ع چه نسبت خاک را به عالم پاک
خطبات طاہر جلد۴ 639 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۸۵ء حضرت محمد مصطفی ﷺ سے بڑھ کر حسن اخلاق لے کر آپ دنیا میں تبلیغ کریں گے؟ تمام انبیاء حسن خلق سے آراستہ تھے اور اپنے اپنے زمانے میں اپنے اپنے عالم میں اخلاق میں بہترین تھے سب سے بلند تر مقام پر فائز تھے ان کو خدا نے کیوں نہیں کہہ دیا کہ حسن خلق لے کر چلو اور کسی تبلیغ کی ضرورت نہیں.اس لئے یہ بات درست نہیں ہے آپ کی کہ خالی حسن خلق کا فی ہوا کرتا ہے یہ تو ایک بزدلی کا بہانہ ہے، یہ تو ایک گریز کی راہ ہے جو بعض لوگ اختیار کرتے ہیں.پس جو کمزور ہیں اور جو بزدل ہیں وہ ایک طرف ہٹ جائیں جماعت تو لازماً آگے بڑھے گی.کتنی دیر ہوگئی ہے آپ کو اس ذلت اور رسوائی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہوئے.جب تک آپ تھوڑے رہیں گے آپ کو ہر وقت کا فرعون حقیر گردانے گا اور آپ پر ظلم کرے گا اور سب سے بڑا آپ پر ظلم یہ کرے گا کہ آپ کے مقدس اور پیارے بزرگوں کو گندی گالیاں دے گا اور آپ کچھ کر نہیں سکیں گے، کرنا چاہیں گے بھی تو خدا کی تعلیم آپ کو کچھ نہیں کرنے دے گی.دکھ آپ کا بڑھتا رہے گا اور آپ حیران ہوں گے کہ ہمیں اس دکھ میں کیوں مبتلا کیا گیا ہے، کیوں اس دکھ کو دور کرنے کی راہ ہمارے لئے بند کر دی گئی ہے.جب ہم تیار ہیں اپنی گردن کٹوانے کے لئے اور دوسرے کی گردن کاٹنے کے لئے اور خدا کے نام پر اور خدا کی غیرت کی خاطر ہم یہ چاہتے ہیں تو اس سے کیوں روکا گیا ہے اور اگر اس سے روکا گیا ہے تو خدا ان لوگوں کو کیوں کھلی چھٹی دے رہا ہے؟ اس لئے دے رہا ہے کہ آپ کو دکھوں میں مبتلا کر کے آپ کو یاد کروائے کہ آپ دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں.جب تک آپ تبلیغ کے ذریعہ عالمی انقلاب برپا نہیں کر لیتے آپ کو لازماً اس دکھ کی زندگی میں سے گزرنا پڑے گا اور ہم کوئی چارہ نہیں رہنے دیں گے تمہارے لئے ، کوئی راستہ نہیں چھوڑیں گے تمہارے لئے ، یا ہمیشہ کے لئے دکھوں اور ذلت کی زندگی قبول کرلو یا تبلیغ کرو اور دنیا میں انقلاب بر پا کرو تیسری راہ ہی کوئی نہیں.پس یہ ہے جماعت احمدیہ کا منصب اور جماعت احمدیہ کا مقام.پس اگر دکھ ہیں دنیا میں اگر دکھ پہنچانے کی اجازت دے رہا ہے خدا تعالیٰ تو آپ کو یاددہانی کرواتا ہے اور ہر دفعہ جب یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے تو قرآن کریم آپ کو متنبہ کر رہا ہوتا ہے ہم نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فرعون نے یہ کہا تھا کہ یہ تَشِرُ ذِمَةٌ قَلِيلُونَ ہیں یہ ہمارے لئے غیظ دلانے والے ہیں تو جب تک تم تھوڑے ہو تم غلیظ دلاتے رہو گے تمہارا تھوڑا ہونا ،تمہارا کمزور ہونا ہی غیظ کا موجب
خطبات طاہر جلدم 640 خطبہ جمعہ ۱۹ جولائی ۱۹۸۵ء ہے ورنہ تم میں قصور کوئی نہیں ہے.جو قصور دشمن کو نظر آرہا ہے وہ تو یہی ہے تو اس قصور کو درست کر دو اور وہ تبلیغ کے سوا درست نہیں ہو سکتا اس لئے ایک ہی راہ ہے ہمارے لئے جو احمدی جہاں تک بس پاتا ہے جہاں تک اس کی پیش جاتی ہے اپنے گردو پیش اپنے ماحول میں ہر جگہ انقلابی رنگ میں ایک وقف کی صورت میں تبلیغ شروع کر دے تب وہ اپنی غیرت کے اظہار میں سچا ہو گا تب وہ کہہ سکے گا خدا سے کہ اے خدا اب تو ہمیں ان کے دکھ سے بچا، تیری خاطر جو کچھ ہم سے ہوسکتا تھا وہ ہم کر رہے ہیں، جس کی تو نے اجازت نہیں دی تھی وہ ہم نہیں کر رہے ، اب تو ہمیں اس دل آزاری سے محفوظ رکھ.پھر خدا دیکھیں کس طرح آپ کی تبلیغ میں برکت دیتا ہے، کس طرح آپ کے کمزور بھی انکے بڑے بڑے طاقتوروں پر غالب آجائیں گے.آپ کے جاہل بھی ان میں سے بڑے بڑے عالموں کے منہ بند کر دیں گے ایک نیا مضمون تبلیغ کا آپ کے لئے ظاہر ہوگا.زمین بھی آپ کے لئے نرم کر دی جائے گی اور آسمان بھی آپ پر رحمتوں کی بارش برسائے گا اور ایسی نشو ونما ہوگی آپ کی تبلیغ میں کہ دشمن کے لئے سوائے حسد میں جل جانے کے اور کچھ نہیں باقی رہے گا آپ دن کو بھی پھولیں گے اور پھلیں گے اور رات کو بھی پھولیں گے اور پھیلیں گے اور صبح کو بھی پھولیں اور پھلیں گے اور شام کو بھی پھولیں گے اور پھلیں گے.کوئی نہیں جو آپ کی نشو و نما کو روک سکے خدا کرے کہ ایسا ہی ہواورخدا کرے آپ اپنے منصب اور مقام کو سمجھنے والے ہوں.
خطبات طاہر جلدم 641 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۸۵ء جماعت احمدیہ نے تقدیر الہی سے بہر حال بڑھنا ہے (خطبہ جمعہ فرموده ۲۶ جولائی ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: قَالَ كَلَّا إِنَّ مَعِيَ رَبِّي سَيَهْدِينِ (الشعراء:۱۳) اور پھر فرمایا: وہ علماء یا علماء کہلانے والے لوگ، کیونکہ فی الحقیقت جن صفات کے یہ مبینہ علماء ہیں قرآنی اصطلاح کے مطابق ان پر علماء کا لفظ صادق نہیں آتا اس لئے میں نے جب کہا کہ وہ علماء تو معاً میرا خیال قرآن کریم کے اس مضمون کی طرف منتقل ہوا جس میں علم کی شرط تقومی رکھ دی گئی ہے اور علماء کی یہ ایک حیرت انگیز تعریف کی گئی ہے کہ: إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (الفاطر: ۲۹) کہ علماء تو وہ ہوتے ہیں جو خدا کے بندوں میں سے اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والے لوگ ہوتے ہیں.گویا وہی ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں، علماء ہی ہیں جو اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں.تو علم کی ایسی تعریف کبھی دنیا کی کسی کتاب میں آپ کو نہیں لی ہوگی کہ علم تقویٰ کا نام ہے علم خدا کے خوف کا نام ہے.پس رسمی طور پر ہمیں علماء تو کہنا ہی پڑتا ہے اور آنحضرت علیہ نے بھی اس امت کے علماء کو علماء ہی کہہ کر مخاطب فرمایا لیکن ایک شرط کے سے ساتھ.یہ فصاحت و بلاغت کا حضور اکرم ﷺ کا
خطبات طاہر جلدم 642 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء کرشمہ ہے کہ عُلَمَائی نہیں فرمایا بلکہ عُلَمَاء هُم فرما دیا.ان کی نسبت مجھ سے نہیں ہوگی.ان فرما دیا.ہوگی.ان میں دنیا کی باتیں ہوں گی دنیا کے عالم ہوں گی جہاں تک مذہبی دنیا کا تعلق ہے، جہاں تک مذہبی رسوم کا تعلق ہے، جہاں تک مذہبی اصطلاحوں کا تعلق ہے وہ علماء نہیں لیکن دنیا کے علم کے لحاظ سے عُلَمَاء هُم ان ہی جیسے ان میں سے ہی علماء ہوں گے.وہ بہر حال یہ اصطلاح کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ قرآن کریم علم کے ساتھ تقویٰ کو باندھتا ہے اور علم کی تعریف میں تقوی داخل فرما دیا گیا ہے اور اس مضمون کو اور بھی ہر جہت میں اسی طرح پھیلایا گیا ہے، تدبر اور تفکر کے ساتھ بھی تقویٰ کو باندھ دیا گیا ہے اور بہت سی ایسی اصطلاحیں ہیں قرآن کریم کی جو باقی دنیا کی اصطلاحوں سے مختلف ہیں.بہر حال یہ علماء ھم جنہوں نے تکذیب کو اپنے رزق کا ذریعہ بنالیا ہے، قرآن کریم کے بیان کے مطابق کیا تم خدا تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے ہو خدا کے ابنیاء کی تکذیب کو اپنے رزق کا ذریعہ بناتے ہو اور یہ رزق کا ذریعہ جو ہے یہ بھی لامتناہی ہے.اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ اسکی صفت رزاقیت ہر سمت میں جلوہ دکھاتی ہے اگر اس کے رزق کو نا پاک ذریعہ سے حاصل کرنے کی کوشش کی جائے تب بھی وہ رزق ختم نہیں ہوتا اور پاکیزہ ذرائع سے تو وہ ختم ہو ہی نہیں سکتا.ایک لا متناہی وجود ہے اللہ تعالیٰ کی صفات کا جو کہیں ختم نہیں ہوتا.منکرین انکار کا رزق کھاتے ہیں اور کھاتے چلے جاتے ہیں اور نئے نئے رستے ان پر کھلتے چلے جاتے ہیں اور کوئی ایک ایسی جگہ نہیں آتی کہ وہ کہیں کہ اب خدا کا رزق ہم پر بند ہو گیا ہے.تکذیب کی نئی راہیں نکال لیتے ہیں اور نئے رستے رزق کے کھل جاتے ہیں.چنانچہ آج کل بھی انہوں نے ایک نئی ایجاد کی ہے.وہ کہتے ہیں پاکستان میں تو ہم نے احمدیت کو تباہ کر دیا ہے، دم گھونٹ کے مار دیا ہے، اب یہ لوگ اپنی جان بچانے کے لئے باہر نکلے ہیں اور علماء اب ان کا تعاقب کریں گے.امام جماعت احمد یہ بھاگ کے ہاتھوں سے نکل گیا اور اب علماء کو دیکھو کہ وہ کسی طرح ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے جہاں جہاں پہنچے گا وہاں وہاں پہنچ کر احمد بیت کو ہلاک کر دیں گے اور اس طرح یہ کہ کہہ کر بعض مسلمان حکومتوں کے پاس پہنچے ، ان سے پیسے بٹورے، بعض سادہ لوح عوام کے پاس جا کے اشتعال دلائے ان سے پیسے بٹورے اور جن کو لاہور سے کراچی
خطبات طاہر جلدم 643 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء تک آنے کا سفر خرچ مہیا نہیں ہوا کرتا تھا،فکر کیا کرتے تھے کہاں سے لائیں گے تو دیکھیں تکذیب کے نام پر وہ اب لندن کے دورے کرنے لگے ہیں، نیو یارک کے دورے کرنے لگے ہیں، کیا کیا دنیا کی نئی نئی جگہیں دیکھنے لگے ہیں لیکن وہی مولوی وہی ان کی عادات ، وہی خصلتیں ، وہی زبان ، وہی لٹریچر کے عنوانات، وہی سفلہ حرکتیں ، ایک ذرہ بھی فرق نہیں ہے.سرزمین بدل جاتی ہے لیکن عادات نہیں بدلتیں.جو لٹریچر تقسیم کر رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف ان کے عنوانات اس قسم کے ہیں کہ الہامی گرگٹ اور تمسخر کے عنوانات یہ ہیں کہ ”مرزا صاحب ( نقل کفر کفر نباشد ) اللہ کے نطفے سے پیدا ہوئے یہ ان علماء کی زبانیں ہیں ، یہ ان کے معیار ہیں تقویٰ کے اور پھر رسول اکرم کی طرف منسوب ہونے کی کوشش کرتے ہیں.ان کی جوشکل وصورت ان کی ہیئت کذائی بالکل وہی ہے جو وہاں تھی اور بیوقوفی کر گئے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم باہر نکل کر تعاقب کریں گے کیونکہ پہلے تو ان کا یہ حال تھا کہ بند قلعوں میں لڑتے تھے اور قرآن کریم نے ان کا نقشہ خوب کھینچا ہوا ہے کہ جب تک دیواروں کے پیچھے سے ہو کر نہ لڑیں ان میں جرات نہیں ہے باہر نکل کر لڑنے کی.دلائل ان کے پاس تھے نہیں نہ اب ہیں ، اگر دلائل ہوتے تو تشدد کی باتیں کیوں کرتے.یہ ایک بنیادی ، لا زوال اصول ہے اس کو ہمیشہ یادرکھیں، کبھی یہ تبدیل نہیں ہوا ہمیشہ تشدد پر وہ لوگ اترا کرتے ہیں جن کے پاس دلیل نہیں رہتی یہ انفرادی طور پر بھی ایک حقیقت ہے اور اجتماعی طور پر بھی ایک حقیقت ہے کل بھی ایک حقیقت تھی اور آج بھی ہے اور کل بھی رہے گی.جب آپس میں جھگڑے چلتے ہیں بچوں کے اس وقت بھی یہی بات سامنے آتی ہے.جس کے پاس نہ دلیل ہو وہ مارنے پر آجاتا ہے ، پہلے گالیاں نکلتی ہیں منہ سے اور پھر پتھر شروع ہو جاتے ہیں.انبیاء کی تاریخ بھی اسی قسم کے واقعات سے بھری ہوئی ہے شروع میں ذرا نرم بات کرتے ہیں.سمجھانے کی باتیں بھی کرتے ہیں ، دلیل سے بھی بظاہر ان کا رستہ بدلنے کی کوشش کرتے ہیں پھر کچھ دیر کے بعد کہتے ہیں کہ میاں تم باز آنے والے نہیں تمہاری ایسی تیسی تمہیں ہم گالیاں دیں گے، بائیکاٹ کریں گے اور زندگی تم پر حرام کریں گے اور پھر جب سب کچھ باقی نہیں رہتا پھر قتل کے فتوے، پھر مرتد کی سزا قتل ان باتوں پر آجاتے ہیں.سارے انبیاء کی تاریخ میں دیکھ لیں کبھی انبیاء نے دین چھوڑنے والوں کے اوپر قتلکا فتویٰ نہیں لگایا اور بلا استثناء تمام انبیاء کے مخالف بالآخر مرتد کی
خطبات طاہر جلدم 644 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۸۵ء سز اقتل کا اعلان کرنے پر مجبور ہو گئے.قرآن کریم بھرا ہوا ہے ان کی تاریخ سے، کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا جس کے اوپر مخالفت کا انجام تشدد پر نہ ہوا ہو اور تشدد بھی پھر انتہائی قسم کا ، جلا کر مارنا، مخالف سمتوں سے اعضاء کو کاٹ دینا، اذیتیں دے دے کر ہلاک کرنا، بیویوں کو خاوندوں سے الگ کر دینا خاوندوں کو بیویوں سے جدا کر دینا، ہر قسم کے مظالم کے جو رستے سوچے جا سکتے ہیں یا دشمن سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیوں؟ اس لئے کہ دلیل کوئی نہیں ہوتی اور اس کے مقابل پر اہل حق کا یہی اعلان ہوتا ب يَحْلِى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ (انفال:۴۳) کہ زندہ رہنا ہے تو دلیل سے زندہ رہ کر دکھاؤ کیونکہ تقدیر یہی ہے خدا تعالیٰ کی کہ وہی زندہ رہے گا کہ جو دلیل کے ساتھ زندہ ہے اور کوئی نہیں جواس تقدیر کو بدل سکتا ہو.پس ان کا تشدد کی باتیں ، ان کا گالیوں پر اتر آنا، ان کا قانون کے سہارے ڈھونڈ نا بجائے اس کے کہ ایسی فضا سازگار کریں کہ تبادلہ خیالات زیادہ کثرت سے ہو شریفانہ ماحول میں ہو، انسانی سطح پر ہو یہ ایسی فضا پیدا کرتے ہیں کہ کوئی تبادلہ خیالات سن ہی نہ سکے.آنحضرت علی کے متعلق بھی کسی زمانے میں یہ کہا کرتے تھے جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو تم اس وقت شور مچا دیا کرو، باتیں نہ سنا کرو کیونکہ جب باتیں سنو گے تو دل پر اثر پڑ جائے گا.وہ سارے حربے جو پہلے انبیاء کے زمانہ میں ان کی مخالفت میں دشمن استعمال کیا کرتا تھا ، وہ تمام حربے پاکستان میں ان علماء نے جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کئے اور کر رہے ہیں اور یہ حربے کمزوری کے سوا کوئی قوم استعمال نہیں کیا کرتی ، ہمیشہ وہی تو میں یہ حربے استعمال کرتی ہیں جن کے پاس دلیل کی طاقت نہ ہو اور تشدد کی طاقت ہو اور یہ ایک غیر مبدل اصول ہے اس کو کوئی تبدیل کر ہی نہیں سکتا.منطقی لحاظ سے بھی تبدیل نہیں کر سکتا، واقعاتی لحاظ سے بھی تبدیل نہیں کر سکتا.جس کے پاس دلیل کی طاقت ہے وہ تشد د استعمال نہیں کرئے گا اور جس کے پاس دلیل کی طاقت نہیں ہے وہ کے اگر اس کے پاس طاقت ہو دوسری وہ تشد داستعمال کرتا ہے اور باز نہیں آتا تو جب یہ کر بیٹھے ہیں تو ان کی کمزوری تو ظاہر ہو جانی چاہئے ، انکے اوپر.اب جو رسہ تڑوا کر باہر کی طرف بھاگے ہیں جہاں تشدد چل نہیں سکتا تو مارکھا ئیں گے ، بڑی بیوقوفی ہے.ایک کمزور آدمی کا اپنا قلعہ توڑ کر خود باہر نکل آنا اور ایسے میدان میں پہنچ جانا جہاں اس کے لئے شکست ہی مقدر ہے صرف کیونکہ اگر دلیل پہلے ہوتی تو پھر ان کو ضرورت ہی کوئی نہیں تھی تشدد کی جب دلیل نہیں ہے تو بے دلیل باہر نکل کر ذلیل کیوں ہوتے ہیں پھر.بیوقوفی ہے ان
خطبات طاہر جلدم 645 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء کی ، ان کو پتہ نہیں لگا خود کہ ہم کیا حرکت کر بیٹھے ہیں.ویسے ہی ایک لطیفہ ہے جیسے ایک گدھے کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ ایک زمیندار کے صحن کے باہر گدھا بندھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک بھیڑیا آگیا.بھیڑئیے کے آنے پر مرغ بول پڑا دوسرے جو جانور تھے انہوں نے شور مچایا چنانچہ زمیندار لٹھ لے کر باہر نکل آیا اور زمیندار کو دیکھ کر آخر بھیڑیئے کو بھا گنا پڑا.گدھا بیچارا سمجھا کہ مجھ سے ڈر کر بھاگا ہے چنانچہ رسہ تڑوا کر اس کے پیچھے ہو گیا اس کا جو انجام ہونا تھا وہ ظاہر ہے.دا تو جب دلیل تمہارے پاس کوئی نہیں ، طاقت کوئی نہیں ہے ایسی جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے وَيَحْيَى مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةٍ وہی زندہ رہے گا جو دلیل کے ساتھ زندہ رہے اور جس کے پاس نہیں ہوگی اس متعلق فرماتا ہے لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيْنَةٍ (الانفال :۴۳) دوسری بات بھی سُن لو جو بغیر دلیل کے لڑنے نکلتے ہیں وہ لازما ہلاک ہو جایا کرتے ہیں کیونکہ ہلاکت سے دلیل بچایا کرتی ہے تو یہ جن کا نقشہ ہو نکلے ہیں تعاقب کرنے کے لئے اور جماعت احمدیہ کو تباہ کرنے کے لئے دیکھیں تو سہی کہاں تک پہنچتے ہیں یہ.جماعت احمدیہ کو جب دلائل کی جنگ لڑنے کی کھل میسر ہو جہاں وہاں تو قریب بھی نہیں پھٹک سکتے خدا تعالیٰ کے فضل کے سے ، حیثیت ہی کوئی نہیں ان کی.ان کے پاس ہے ہی کچھ نہیں سوائے گالیوں کے اور گند کے.اور اپنے آپ کو کھول رہے ہیں ایسی دنیا میں جہاں کے مزاج ہی مختلف ہیں ، آزادی ضمیر کی وجہ سے، تہذیب کی ترقی کی وجہ سے بعض قسم کی حرکتیں دیکھتے ہی وہ رد کر دیتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں جانوروں والی حرکتیں ہیں اور وہ پاکستانی جو باہر ہیں ان کی ایک بڑی بھاری اکثریت اب وہ نہیں ہے جس قسم کی وہاں سے نکلی تھی.ان کو بھی عادتیں پڑ چکی ہیں اس قسم کی وہ حیران ہوتے ہیں خود اپنے مولویوں کو دیکھ کر اور ایک بڑی بھاری تعداد ان علماء کی وجہ سے جماعت کی طرف متوجہ ہوگئی ہے.جب ان کے جلسے سنتے ہیں ، ان کی تقرریں سنتے ہیں تو بھول چکے ہوتے ہیں کہ کس قسم کے لوگ ہم پیچھے چھوڑ کر آئے تھے ، حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا زبان ہے، یہ کیا دلیلیں ہیں، اس طرح تم احمدیت کو شکست دو گے؟ اور بجائے اس کے کہ علماء کی باتیں سن کر جماعت سے متنفر ہوں ایک بڑا طبقہ ان کا جماعت کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے.چنانچہ یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ جب سے انہوں نے یہ حرکتیں شروع کی ہیں باہر نکل کر جماعت کا مقابلہ، اس کثرت سے پاکستانی غیر احمدی احمدیت کی طرف متوجہ ہوئے ہیں کہ بعض تلاش
خطبات طاہر جلدیم 646 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء کر کے احمدیوں کے پاس پہنچتے ہیں کہ بھئی ہمیں تو لوگ یہ بتارہے ہیں تمہارے متعلق بتاؤ کیابات ہے کیا قصہ ہے؟ ہر سطح پر جہاں داعی الی اللہ بننے میں لوگوں نے ستی کی تھی وہاں ان مولویوں کی کوششوں کے نتیجہ میں جن کو تبلیغ کرنی ہے وہ خود پہنچ رہے ہیں احمدیوں کے پاس ان کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر داعی الی اللہ بنارہے ہیں.چنانچہ مجھے روز مرہ ایسی اطلاعیں ملتی ہیں.ہم سفر کر رہے تھے پتہ لگا کہ ہم احمدی ہیں ہمیں پکڑ لیا کہ بتاؤ ہمیں کچھ کیا مذہب ہے ، کیا بات ہے، کیا اختلاف ہے.ہمارے گھر پر آئے ہم سے پوچھا، مجلس میں ملے ہم سے پوچھا.تو جو تبلیغ نہیں کرتے تھے ان سے تبلیغ کروائی جارہی ہے اب اور اس کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ میں ایک نیا حوصلہ پیدا ہورہا ہے ، نیا ولولہ پیدا ہو رہا ہے، علم کا ایک نیا شوق پیدا ہو رہا ہے اور پھر جب وہ ہمیں لکھتے ہیں کہ یہ یہ اعتراض ہیں تو لٹریچر کی ایک طلب پیدا ہو جاتی ہے اور ہم محسوس کرتے ہیں کہ فلاں فلاں جگہ خلا ہیں اس قسم کا لٹریچر تیار ہونا چاہئے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے لٹریچر کی تیاری کی طرف غیر معمولی توجہ پیدا ہوگئی ہے اور ہر زبان کا یہی حال ہے کثرت کے ساتھ ترکی زبان کے جاننے والے یوگوسلاوین جاننے والے، اٹالین جاننے والے، جرمن جاننے والے، ہر زبان کے بولنے والے یہ بھنک سُن چکے ہیں کہ کوئی واقعہ کز ررہا ہے.کچھ احمدیت کے اوپر جو مظالم ہوئے ہیں پاکستان میں کچھ اس کے نتیجہ میں کچھ علماء کے شور کے نتیجہ میں، کچھ حکومت پاکستان نے جولٹریچر تقسیم کروایا اس کے نتیجہ میں اور یہ بھی لوگ بڑے تعجب سے مجھے لکھ ہیں کہ ہم Embassies میں مختلف سفارت خانوں میں مختلف بڑے بڑے افسروں کو جب ملنے جاتے ہیں تو ان کو سب پہلے سے ہی پتہ ہوتا ہے.اس کثرت سے جماعت کا پروپیگنڈا ہوا ہے دنیا میں کہ آپ ارب ہا ارب روپیہ بھی خرچ کرتے تو کبھی اتنے عظیم الشان، اتنے وسیع پرو پیگنڈا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے تھے.عربوں کو جو توجہ پیدا ہوئی ہے وہ حیرت انگیز ہے اور مختلف طبقات کو جو پہلے بالکل خالی تھے ہماری تبلیغ سے، بعض قو میں ہیں جو خالی تھیں ان طبقات کو، ان قوموں کو توجہ پیدا ہوگئی ہے خدا کے فضل سے اور ایک عجیب Excitement کی کیفیت پیدا ہوگئی ہے احمدیوں میں.اب تو کہتے ہیں کہ اب جلدی ہو جو کچھ بھی ہوتا ہے.ہمارا علم بڑھے، ہمیں کتابیں زیادہ ملیں، نئے نئے ذرائع ہاتھ آئیں
خطبات طاہر جلد ۴ 647 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء اور Excitement کی حالت میں ذہن پھر تدبیریں بھی بڑی سوچتا ہے.چنانچہ عام طور پر جولوگ خاموش طبیعت کے تھے ان کے ذہن میں کوئی ترکیب آیا ہی نہیں کرتی تھی اب خط آتے ہیں.ایسی ایسی باتیں اللہ تعالیٰ ان کو سمجھاتا ہے کہ پڑھتے ہوئے مزہ آ جاتا ہے.ہر آدمی دنیا کے کونے میں بیٹھا ہو ایک تدبیر کر رہا ہے اور وہ سوچ رہا ہے کہ کس طرح ان کو شکست دی جائے اور کس طرح ان سے اس ظلم کا نیکی کے ذریعہ سے انتقام لیا جائے ،کس طرح ان کو ہر میدان میں مایوس اور نا مراد کر دیا جائے.ساری دنیا کا جو احمدی ذہن ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے ہی چکا ہوا ہے اور صیقل ہے اس کی ترکیبیں یہاں اکٹھی ہوتی جارہی ہیں اور اس کا نام خلافت ہے.تمام جماعت کا اجتماعی فکر، تمام جماعت کا اجتماعی دل ، تمام جماعت کی اجتماعی قوت، تمام جماعت کے اجتماعی احساسات اور ولولے جب یہ ایک دماغ میں اکٹھے ہو جاتے ہیں جب ایک دل میں دھڑ کنے لگتے ہیں جب ایک خون کی رگوں میں دوڑنے لگتے ہیں تو اس کا نام خلافت ہے.یہ چیز بنائے سے نہیں بن سکتی.کوئی مصنوعی ذریعہ خلافت پیدا ہی نہیں کر سکتا.یہ تو اللہ تعالیٰ کی دین ہے، اللہ تعالیٰ کی تقدیر ہے جو نبوت کے ذریعہ خلافت کو جاری کرتی ہے اور پھر ایک وجود بنادیتی ہے لاکھوں کو جو کروڑوں بھی ہو جائیں تو ایک وجودرہتے ہیں اور ان کی ساری استعداد میں پھر اکٹھی ہو کر مجتمع ہوتی ہیں ایک مرکز پر اور پھر مزید صیقل ہوکر ، دعاؤں کے ساتھ چمک کر پھر وہ انتشار اختیار کرتی ہیں پھیلتی ہیں.ایسی جماعت کو یہ لوگ ہرانے کے لئے نکلے ہیں جب اپنے محفوظ قلعوں میں بھی لڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے.قوانین کی دیواریں کھڑی کرلیں اپنے اردگرد اور اس کے باوجود روتے رہے اور آج تک رو رہے ہیں کہ پھر بھی ہم احمدیت کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہے.ہماری دیواروں میں دراڑیں ڈال دی ہیں ان لوگوں نے ، آج بھی تبلیغ جاری ہے اسی طرح آج بھی Defy کر رہے ہیں ایک آمر کے احکام کو کہ آج بھی یہ اپنے اسلام پر بر ملا عمل کر رہے ہیں، یہ اعلان بھی ساتھ ساتھ ہو رہا ہے.تو جن کے قلعہ بندوں کا یہ حال تھا ان کو سو بھی کیا کہ وہ دیوار میں تو ڑ کر خود نکل آئے ہیں.ان کے تو مقدر میں مارا اور پھر مار اور پھر مار ہے لیکن جماعت احمدیہ کی مارتو وہ مار نہیں ہے جیسی تم سمجھتے ہو کہ مار ہوا کرتی ہے.ہماری مارتو یہ ہوگی کہ جتنا تم احمدیوں کو کم کرنے کی کوشش کرو گے
خطبات طاہر جلدم 648 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء تمہارے جگر گوشوں میں سے ہم احمدی پیدا کر کے دکھائیں گے.تمہارے دل کے ٹکڑے تمہاری چھاتیوں سے نکل نکل کر ہماری چھاتیوں میں جگہ ڈھونڈیں گے.اس طرح احمدیت خدا کے فضل سے پھیلے گی ، یہ ہے احمدیت کا انتقام.تمہاری کیا مجال ہے کہ جماعت احمدیہ کا مقابلہ کر سکو اور ہر طرح سے تمہاری ہر کوشش ایک بالکل برعکس نتیجہ پیدا کرتی چلی جارہی ہے.خلافت سے جماعت احمدیہ کو پہلے بھی محبت تھی ، پہلے بھی اطاعت کے رنگ میں رنگیں تھی لیکن جتنا تم دیکھ دینے میں بڑھ رہے ہو اتنا ان کی محبت ایک نئے انقلابی دور میں داخل ہوتی چلی جارہی ہے.پہلے بھی خلفاء تحریک کیا کرتے تھے جماعت ہمیشہ ان تحریکات پر لبیک کہتی تھی ، قرنیاں دیتی تھی ، کبھی بھی تحریکات کو نا کام نہیں ہونے دیا لیکن اب تو بالکل اور ہی منظر مجھے نظر آرہا ہے.اب تو یوں لگتا ہے جیسے منہ سے بات نکلی تو کہتے ہیں کہ مٹی نہیں لگنے دینی اس کو ، سر آنکھوں پر اٹھاتے ہیں ، دل میں بٹھاتے ہیں اور میری بہت وسیع ، بلند توقعات ہیں آپ سے لیکن ہر دفعہ میری توقعات سے بڑھ کر آپ محبت اور اطاعت کا سلوک کرتے ہیں.یہ برکتیں کون پیدا کر سکتا تھا جماعت میں محض اللہ کا فضل ہے اور یہ تمہاری کوششوں کو نا کام دکھانا ہے خدا تعالیٰ نے ، ان کو تمہارے دلوں کی حسرات بنانا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ یہ پاک تبدیلیاں پیدا کرتا چلا جاتا ہے اس لیے نکلو، شوق سے نکلو، تمام دنیا میں نکو ، جہاں جہاں تم جاؤ گے خدا کی قسم ! وہاں وہاں احمدیت کا پودا پہلے سے زیادہ شان کے ساتھ بڑھنے اور پھولنے لگے گا اور پھلنے لگے گا ایک کے ہزار ہوتے چلے جائیں گے ہماری یہ تقدیر تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہمیں بتا چکے ہیں وہ مقبول دعاؤں کی صورت میں ظاہر ہورہی ہے اک سے ہزار ہوویں بابرگ و بار ہوویں حق پر شار ہوویں مولا کے یار ہوویں ( در مشین صفحه ۳۸) یہ ہے ہماری جماعت کی تقدیر.اگر زور لگتا ہے تو بدل کر دکھا دو.کبھی تم اس کو بدل نہیں سکو گے.یہ تحریک جو ابھی پیچھے کی تھی گزشتہ سے پیوستہ جمعہ میں پریس کے لئے ، میں نے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مجھے بڑی بلند توقعات ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ سے اور یہ مشاہدہ کی بات ہے کوئی محض نظریاتی بات نہیں ہے.جتنا مشاہدہ مجھے ہے تفصیل کے ساتھ احمدیوں کے دلوں میں
خطبات طاہر جلدم 649 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء جھانکنے کا ،ساری دنیا میں ایک بھی انسان ایسا نہیں ہے جو یہ دعوی کر سکتا ہو کہ اس طرح لاکھوں آدمیوں کے ساتھ میرا ذاتی تعلق ہے اور میں ان کے دل کی کیفیات جانتا ہوں.کوئی نظام ہی نہیں ہے اس جیسا کہیں اور تو پتہ کس طرح کسی کو لگے، ان کے رسمی تعلقات ، ان کے رسمی آپس کے واسطے، خط و کتابت بھی ہو تو سیکرٹریوں کے ذریعے لاکھوں خطوں میں سے شاید دس کا پتہ چلے کسی کو کہ کیا آیا تھا اور کیا لکھا تھا.سب ڈھکو سلے ہیں بناوٹیں ہیں ، ایک نظام خلافت ہے جو خدا کے فضل سے، جوزندہ اور فعال تعلق رکھتا ہے جماعت احمدیہ سے اور جماعت احمد یہ ہے جوزندہ اور فعال تعلق رکھتی ہے اپنے نظام خلافت، سے اپنے دل کے سب حال بیان کرتے ہیں جس طرح باپ سے بیٹا بیان کرتا ہے.اس سے بھی زیادہ بے تکلفی کے ساتھ ، جس طرح ماں سے بیٹی کھل جاتی ہے اس سے بھی زیادہ بے تکلفی اور اعتماد کے ساتھ اپنے سارے دل کی باتیں کھولتے ہیں.اُن پر مشورے لیتے ہیں ، حالات بیان کرتے ہیں، دعاؤں کے لئے لکھتے ہیں ، دعائیں کرتے ہیں نظام خلافت تو ایک عجیب چیز ہے کوئی باہر کی دنیا والا تصور کر ہی نہیں سکتا جتنا چاہے زور لگالے اس کا تصور نظام خلافت کے قدموں تک بھی نہیں پہنچ سکتا ہے.احمدی ہیں جن میں نظام خلافت وارادت کے طور پر رائج ہے ایک جاری سلسلہ ہے زندگی کا ، اس لیے آپ جانتے ہیں یہ زبان یا میں جانتا ہوں اور وہ خدا جانتا ہے جس نے یہ عطائیں کی ہیں ہم پر ، بے شمار احسانات فرمائے ہیں.ہمارے غیر کو اس کی خبر نہیں ہوسکتی.پس جب میں نے تحریک کی تو ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کی پریس کے لئے اور وہ بھی ضرورت در اصل احمدیت کی فتح کا ایک نشان تھا ان کی کوششیں، انکی جد و جہد مخالفانہ جس قدر بھی یہ زور مار سکتے تھے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کثرت کے ساتھ لٹریچر کی طلب پیدا ہوئی کہ اب ہمارے لئے کہ ممکن نہیں تھا کہ عام جو رسمی ذرائع ہیں انکے ذریعہ ہم اس ضرورت کو پورا کر سکیں، ہر روز نئے خیالات دل میں اُٹھتے ہیں.ہر روز نئے نئے مضامین اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے ساری جماعت کے اجتماعی دماغ کو اور اس کے نتیجہ میں جس طرح ہمیں پہنچنا چاہئے ، لوگوں تک اس کیلئے لازمی تھا کہ ہم اپنا ایک جدید پریس اگر پریس نہیں تو جدید کمپیوٹر سے خط و کتابت کا نظام اپنا اختیار کرلیں کیونکہ زیادہ دیر اسی میں لگا کرتی ہے.میں نے یہ سوچ کر کہ پہلے یورپین تحریک ہے اور بہت غیر معمولی جماعت نے قربانی کی ہے ڈیڑھ لاکھ پونڈ کی تحریک کی تھی اور یہ تو یقین تھا کہ ڈیڑھ لاکھ پونڈ پورا ہو جائے گا
خطبات طاہر جلد۴ 650 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء لیکن یہ خیال نہیں تھا کہ اس تیزی سے جماعت اس طرح فدائیت کے ساتھ پیش کرے گی کہ ابھی دو تین ملکوں کا بھی پورا چندہ نہیں ملا یعنی وعدے نہیں ملے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک لاکھ سات ہزار پونڈ کے وعدے ہو چکے ہیں صرف لندن کے امیر صاحب نے لندن کی جماعت کی طرف سے پچاس ہزار پونڈ کا وعدہ کیا اور اس میں سے تفصیلی انفردای وعدے اب تک چونتیس ہزار پاؤنڈ کے مل چکے ہیں اور ابھی لندن کی بھاری اکثریت حصہ لینے والی باقی ہے اور انگلستان کی جماعتوں کو چونکہ خطبہ دیر سے پہنچا ابھی وہاں سے پوری Response نہیں ہوئی اور ان کے غالباً چودہ ہزار پونڈ کے صرف ابھی تک آئے ہیں وعدے اور صرف انگلستان کے ہی گویا کہ چونسٹھ ہزار پونڈ کے وعدے ہو چکے ہیں اور باقی جیسا کے میں نے بیان کیا ہے ابھی آنے والے ہیں.امریکہ پڑا ہوا ہے، کینیڈا پڑا ہوا ہے، پاکستان پڑا ہوا ہے، بہت سے Gulf ( خلیج ) کے علاقے خالی پڑے ہوئے ہیں ابھی تک، آسٹریلیا ہے انڈونیشیا ہے تمام افریقن ممالک ہیں.تو ابھی تو جماعت کا ایک بہت ہی معمولی جزو ہے جس نے حصہ لیا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک لاکھ پونڈ سے اوپر وعدے ہو چکے ہیں اور وصولی بھی تیزی کے ساتھ جاری ہے.اس لئے اس میں تو کوئی وہم کا سوال ہی نہیں کہ ڈیڑھ لاکھ پورا ہوگایا نہیں ہوگا مجھے توقع ہے کہ انشاء اللہ ڈیڑھ لاکھ بھی پورا ہوگا اور آگے جو یہ فکر تھی کہ اس کے Running Expenses ماہانہ اخراجات کیسے چلیں گے وہ بھی انشاء اللہ مزید تحریک کی ضرورت نہیں پڑے گی اسی تحریک سے ہی اللہ تعالیٰ انکا بھی انتظام فرمادے گا.یہ ساری برکتیں ہیں اسی مخالفت کی یعنی ویسے تو اللہ کے فضل کی برکتیں ہیں مگر مخالفت نے بھی ایک حصہ لیا ہے اس میں کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ کے نام پر آپ کو دکھ دے کر رزق کمار ہے ہوں اور ہمارا رزق ساتھ نہ بڑھ رہا ہو اس لئے ہمارا رزق تو بڑھنا ہی بڑھنا ہے.جب یہ اپنا نا پاک رزق بڑھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ہمارا پاک رزق بڑی شدت کے ساتھ بڑھانے لگتا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ رزق کی دوڑ میں اللہ تعالیٰ جماعت کے طیب رزق کو ان کے غیر طیب رزق سے پیچھے رہنے دے، اس رزق نے آگے آگے بڑھنا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.اب ایک حصہ رہتا ہے اس سلسلہ میں جس کی میں تحریک کرنی چاہتا ہوں اور وہ ہے اچھی قسم کے Typist (ٹائپسٹ ) کا وقف کرنا.یہ جو Computerise پریس نہیں کہنا چاہئے ، یہ جو لکھنے
خطبات طاہر جلد۴ 651 خطبہ جمعہ ۲۶ جولائی ۱۹۸۵ء کا نظام ہم خرید رہے ہیں ٹائپنگ کا ، اس میں دنیا کی تقریباً تمام زبانیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ Cover ہو جائیں گی اور جاپانی بھی ، انڈونیشین بھی ، Finnish ،رشین بھی اٹالین ، اردو، ہندی، گورکھی ہر چیز اس میں Cover ہوسکتی ہے.نہایت اعلیٰ ٹائپ ہے اور Computerise ہونے کی وجہ سے ہر قسم کی اس میں سہولت سیٹنگ (Setting) کی غلطیاں نکالنے کی ہر چیز موجود ہے اور معمولی سی رقم مزید خرچ کرنے پر ایک پوری نئی زبان کے لیے جو مشینری کی ضرورت ہے وہ ساتھ Attach ہوسکتی ہے.اس لئے اس میں ہمیں اب اچھے کارکنوں کی ضرورت پیش آئے گی.اُن سے ہم نے جو جائزہ لیا ہے ماہرین سے وہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے ٹائپ میں یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ انسان زبان جانتا ہو، ہم سے یہ فن سیکھ لے اور ہم خود سکھا دیں گے اُسکو کسی زبان کا ٹائپسٹ ہوصرف وہ Letters سے جو حروف لکھے ہوتے ہیں ان سے شناسائی کر لے ہے اور اس کو زبان کے معنی آنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں ہے یعنی یہاں بیٹھے ہم جو آدمی ٹرینڈ (Trained) کرلیں گے وہ Finnish زبان میں اس کو دیں کتا بیں وہ تب بھی وہ ٹائپ کرلیں گے ، رشین زبان میں دیں تب بھی ٹائپ کر لیں گے اور کم و بیش اسی رفتار کے اوپر نکال سکتے ہیں حروف کی شناسائی بس اتنی کافی ہے.تو اس کے لئے بہر حال جماعت احمدیہ کے اندر یہ ہمیشہ دونوں پہلو متوازن رہے ہیں.انفُسُ یعنی نفوس کی قربانی اور اموال کی قربانی اور یہ ایسی جماعت ہے جس میں یہ توازن بھی اس کے ایک امتیاز کی علامت ہے یعنی کبھی آپ یہ نہیں دیکھیں گے کہ جماعت احمدیہ میں مالی قربانی کی تحریک کی گئی ہو اور وہی کافی سمجھی گئی ہو.جان کی قربانی ، وقت کی قربانی اور خدا تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کردہ تمام اقدار کی قربانی ساتھ چلتی ہے اور یہی متوازن شکل ہے روحانی جماعتوں کی جو قرآن کریم پیش کرتا ہے اگر یہ چیزیں ساتھ نہ ہوں تو پھر تو Mercenaries قسم کے لوگ بن جائیں گے یعنی پیسے کے ذریعہ کام چلانے والے یا پیسے کے ذریعہ اپنی خدمات پیش کرنے والے اور اس کے نتیجہ میں یہ چونکہ روح ہے جماعت کی کہ وقف ساتھ چل رہا ہے، وقت کا وقف خواہ وہ جزوی ہو خواہ وہ ساری عمر کا ہو اس کے نتیجہ میں ایک مخفی دولت ہے جماعت کی جو اعداد و شمار میں ظاہر کی ہی نہیں جاسکتی کروڑوں روپیہ کا اگر چندہ ہے تو کروڑہا کروڑ روپیہ کا وقت ہے جماعت احمدیہ کا اور ان کی صلاحیتیں ہیں جو دنیا
خطبات طاہر جلد۴ 652 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء کے معاوضے کے بغیر استعمال ہو رہی ہیں.اگر ان ساری صلاحیتوں کو آپ خریدیں تو کم سے کم تین گنا زیادہ روپے کی ضرورت ہے اور یہ جو میرا اندازہ ہے یہ محفوظ اندازہ ہے.پس جماعت احمدیہ تو نیکیوں کا ایک Iceberg جس کا 1/3 ظاہر ہورہا ہوتا ہے اور 2/3 سمندر میں چھپا ہوا ہوتا ہے، دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بس اتنی سی چوٹی ہے حالانکہ قانون قدرت نے اس کے 2/3 حصہ کو چھپایا ہوا ہوتا ہے نظر سے تو بعض لوگ بدیوں کے Iceberg ہوتے ہیں وہ جتنا ظاہر کرتے ہیں اس سے زیادہ بدیاں دل میں چھپی ہوئی ہوتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے مَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ اَكْبَرُ ( آل عمران : 119) ایسے لوگوں کے دلوں نے جو بدیاں چھپائی ہوئی ہیں وہ ان سے زیادہ ہوتی ہیں جو منہ سے بول رہے ہوتے ہیں اور کچھ لوگ نیکیوں کے Iceberg ہوتے ہیں.وہ خدا کی راہ میں جتنا پیش کرتے ہیں اس سے بہت زیادہ ہے جو مخفی طور پر دے رہے ہوتے ہیں اور دنیا کو پتہ نہیں لگ سکتا کہ وہ کیا واقعہ ہورہا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ کی ساری تاریخ میں ہر خدمت میں یہ حصہ ایک نمایاں حصہ ہے جو دراصل برکتوں کا ضامن ہے اور علاوہ اس وقف کے ساری جماعت مسلسل اپنے وقت کو خرچ کر رہی ہے خدا تعالیٰ کی خاطر اور ان ان گنت قطرات کی ہرلمحہ ہو نیوالی یا ہر روز ہونے قربانیوں کو اگر آپ شمار کر لیں اور Convert کرلیں پیسوں میں تو جماعت ایک بہت ہی عظیم الشان دنیا کی طاقت کے طور پر ابھر سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ رعب کھاتے ہیں، لوگ کہتے ہیں کہ بڑا پیسہ ہے جماعت کے پاس اور احمدی بے چارے سادگی میں کہتے ہیں کہ نہیں ہم تو بڑی غریب جماعت ہیں ہمارے پاس کہاں سے پیسہ.بھئی تم کہاں سے غریب جماعت ہو گئے ، تمہاری ساری مجموعی طاقت جو ہے وہ ایک عظیم طاقتور جماعت کی طاقت ہے اور اس پر مستزاد یہ کہ اللہ تمہارا ضامن ہے، خدا کی رحمت اور حفاظت کا سایہ تمہارے سروں پر ہے، تم سے زیادہ امیر جماعت دنیا میں ہو ہی کوئی نہیں سکتی اس لئے کہا کرو کہ ہاں ہم ہیں لیکن اس سے زیادہ ہیں جتنا تم سمجھ رہے ہو.ہمارے پیچھے تمام دنیا کے خزانوں کے مالک کی طاقتیں بھی شامل ہیں ، دنیا کی سب سے قوی ہستی بلکہ کائنات کی سب سے قوی ہستی، وہ جو قوتوں کا سرچشمہ ہے جس نے سب کچھ پیدا کیا ہے وہ ہماری پشت پناہی کر رہی ہے، اس لئے نہ ہم غریب جماعت ہیں نہ کمزور جماعت ہیں اللہ
خطبات طاہر جلدم 653 خطبہ جمعہ ۲۶؍ جولائی ۱۹۸۵ء تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم نے لازماً آگے سے آگے بڑھتے چلے جانا ہے کوئی دشمن نہیں پیدا ہوا اور نہ ہوگا آپ کے دیکھنے میں ، نہ آپ کی اولادیں ایسا دشمن دیکھیں گی جو آپ پر غالب آ سکے یا آپ کی اولادوں پر غالب آسکے.میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، قیامت تک یہی ہے تقدیر خدا کی جو جاری ہو چکی ہے اور جاری رہے گی آپ نے بہر حال بڑھنا ہے ہر حالت میں بڑھنا ہے، دکھوں میں بھی بڑھنا ہے ، سکھوں میں بھی بڑھنا ہے ، اندھیروں میں بھی بڑھنا ہے، روشنیوں میں بھی بڑھنا ہے، تکلیف میں بھی بڑھنا ہے، راحت و آرام بھی بڑھنا ہے.بڑھنا آپ کا مقدر ہے اور یہ وہ مقدر ہے جسے دشمن اب تبدیل نہیں کر سکتا.پس وقف کی یہ چھوٹی سی تحریک بھی میں کرتا ہوں کہ اگر ایسے دوست ہوں جو ٹائپ کا کام جانتے ہوں اور بے شک ریٹائر ہو چکے ہوں ان کے اندر خدا تعالیٰ نے صلاحیت بخشی ہو محنت کی تو ایسے دوست وقف کریں اور ان کو پھر ہم ٹریننگ دیں گے خود اور میرے ذہن میں یہ نقشہ ہے جس قسم کا کام جماعت کا پھیل رہا ہے لٹریچر میں کہ ہمیں آٹھ گھنٹے کی شفٹ کی بجائے بہت جلد چوبیس گھنٹے کام لینا پڑے گا اس مشین سے.تو کم از کم ہمیں تین شفٹیں چاہئیں ایک ٹائپسٹ آئے جگہ چھوڑے تو دوسرا اس کی جگہ آجائے، پھر اس کی جگہ تیرا آجائے اور اس طرح تین یا چار یا جتنی دیر بھی ہم معلوم کر لیں گے زیادہ Efficiency کے ساتھ کوئی شخص ٹائپ کر سکتا ہے اتنے آدمی ہم رکھیں، ضروری نہیں کہ آٹھ گھنٹے کی ہی شفٹ ہو.اگر تین گھنٹے میں بھر پور کام ملتا ہے تو تین تین گھنٹے کے بعد بدلنا پڑے گا.تو ہمیں ایک ٹیم چاہئے اور ایک کمپیوٹ کا ماہر بھی چاہئے جو Over all نگرانی کرے اس کی.اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھر دیکھیں آپ کس طرح ساری دنیا میں لٹریچر پھیلتا ہے.اب آپ تیاری کریں اپنی دعوت الی اللہ میں بھر پور حصہ لینے کی.پہلے جو یہ شکوے ہوا کرتے تھے کہ جی ہماری پاس ہے کچھ نہیں دینے کے لیے تو دینے کے لئے بہت کچھ خدا نے تیار کر وا دیا ہے اور ہورہا ہے.پس اب تبلیغ شروع کر دیں جس قوم کا آدمی آپ کو ملے گا انشاء اللہ اس قوم کا لٹریچر آپ کو مہیا کر دیا جائے گا.جس قوم کی زبان جاننے والا آدمی آپ کو ملے گا اس قوم کی کیسٹ بھی مہیا کر دی جائے گی ، اس قوم کی وڈیو بھی مہیا کر دی جائے گی اور خدا کے فضل سے ان چیزوں کا حالانکہ ابھی آغاز ہے ابھی سے بہت ہی اچھا پھل ہمیں ملنا شروع ہو گیا ہے اور بیعتوں میں ساری دنیا میں بہت نمایاں اضافہ ہے الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ.
خطبات طاہر جلدم 655 خطبه جمعه ۲ / اگست ۱۹۸۵ء ظالم قوم پر اللہ کی پکڑ ضرور آئے گی خطبه جمعه فرموده ۲ را گست ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت کیں : فَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْتُهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا وَ بِثْرٍ مُعَظَلَةٍ وَقَصْرٍ مَّشِيْدٍ أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا أَوْ أَذَانُ يَسْمَعُوْنَ بِهَا ۚ فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَنْ يُخْلِفَ اللهُ وَعْدَهُ وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِمَّا تَعُدُّونَ وَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَى الْمَصِيرُ (ج ٢٢ - ٢٩) پھر فرمایا: پاکستان میں جو جماعت احمدیہ پر یک طرفہ بلا جواز ظلم و تشدد کا دور ایک عرصہ سے چلا ہوا ہے وہ اسی طرح جاری ہے اور کسی پہلو سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں.جماعت احمدیہ کی روحانی اذیت کے لئے بھی جو کوششیں ممکن ہو سکتی ہیں وہ مسلسل کی جارہی ہیں اور حکومت وقت کی آنکھ کے نیچے ، ایک حساس فوجی حکومت کی آنکھوں کے سامنے مسلسل یک طرفہ ظلم وستم کی کارروائی جاری ہے اور اس قدر دل آزار باتیں جماعت احمدیہ کے بزرگان کے متعلق ، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلدم 656 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء کے متعلق ، یہاں تک کہ خواتین کے متعلق بھی نہایت گندی زبان میں عوامی جلسوں میں کی جاتی ہیں شدید مغلظات بکی جاتی ہیں.جماعت احمدیہ کے قتل و غارت پر اکسایا جاتا ہے اور نہایت ہی گندے الزام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کئے جاتے ہیں گویا کہ آپ نے دوسرے مسلمانوں اور بزرگوں اور انبیاء کے خلاف کوئی نہایت ہی غلط قسم کی زبان استعمال فرمائی ہو.تو یہ سب کچھ جو بڑی دیر سے چل رہا ہے یہ اُسی طرح جاری ہے.کوئی دن ایسے اخبار نہیں چھپتے جن میں جماعت احمدیہ کی دل آزاری کے سامان نہ ہوں اور بعض علاقوں میں (جیسا کہ سندھ کا میں نے ذکر کیا تھا ) اس اشتعال انگیزی کے نتیجہ میں قتل و غارت بھی ہورہے ہیں اور قتل با قاعدہ منصوبے کے ماتحت پیشہ ور قاتلوں سے کروائے جارہے ہیں اور حکومت کو علم ہے کہ کون اس کی پشت پر ہے.جب کسی احمدی کو شہید کیا جاتا ہے تو اس کے ساتھی عزیز ہوں یا دوست ،بعض دفعہ قاتل کو دیکھ لیتے ہیں ، پہچانتے ہیں ، اس کا نام لکھوائے ہیں، لیکن حکومت ٹس سے مس نہیں ہوتی اور ان قاتلوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی.یہاں تک کہ بعض دفعہ ایسا بھی ہوا کہ حکومت کے ذمہ دار افسروں نے نام لکھوانے والوں کو دھمکی دی کہ تم بڑے بے وقوف ہو تمہیں اپنی جان کی خیر نہیں.تمہیں پتہ نہیں کہ تم کن کا نام لکھوار ہے ہو؟ ان علماء، اس علاقے کے اتنے بڑے بڑے لوگ اگر ان کا نام بیچ میں آتا ہے تو پھر تمہاری جان کو بھی خطرہ ہے.چنانچہ ڈاکٹر عقیل کی شہادت کے اوپر یہی بات ہوئی.ضلع کے معزز افسران نے جماعت سے شکوہ کیا کہ کیا تم بے وقوفی کر بیٹھے ہو؟ ان کے بیٹے کی جان کی امان نہیں چاہتے ، کیا نام لکھوا دیئے انہوں نے.انہوں نے کہا جو دیکھا اور جو واقعات ہیں اس کے مطابق نام لکھوائے ہیں اور اس کے باوجود کہ ایف.آئی.آر میں درج ہے کہ فلاں اشخاص تھے یا یہ واقعات گزرے تھے ان سے اور ان کے ثبوت با قاعدہ جماعت کے پاس موجود تھے، کوئی کارروائی ان کے خلاف نہیں کی گئی.چنانچہ ایک ایسا وہاں قاتلوں کا جتھصہ تیار ہو گیا ہے جن کی پشت پنا ہی وہاں کے ایک مولوی صاحب کر رہے ہیں، اس علاقے کے ، حکومت کو خوب اچھی طرح معلوم ہے وہ کون ہیں اور ایک کے بعد دوسرے احمدی عہد یداروں کو قتل کروا ر ہے ہیں اور کوئی حکومت کی طرف سے کسی قسم کی کارروائی نہیں ، کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا.گویا احمدی کی جان و مال کی کوئی قیمت کوئی قدر اس ملک میں باقی نہیں رہی اور یہاں
خطبات طاہر جلدم 657 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء تمام زود حسی بے حسی میں تبدیل ہو جاتی ہے.چنانچہ پرسوں کی اطلاع کے مطابق پنو عاقل میں جہاں پہلے بھی ایک احمدی دوست کو شہید کیا گیا تھا وہیں ایک اور احمدی دوست کو جن کی عمر ساٹھ برس کی تھی ظالمانہ طور پر شہید کر دیا گیا.ساتھی جو تھے انہوں نے ان قاتلوں کو پہچانا اور ان کی رپورٹ درج کرائی لیکن جو قاتل ہیں ان کو نہیں پکڑا گیا بلکہ ان کے ایک رشتہ دار کو قید کر لیا گیا تا کہ یہ ظاہر کیا جائے کہ اندرونی جھگڑے کا معاملہ تھا.تو اس قدر بے حیائی اور بے باکی کے ساتھ وہاں ظلم و ستم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے.ایسے موقع پر دو قسم کے سوالات اٹھتے ہیں.جو تو مومن ہے اس کے دل میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ یہ کیا بات ہے؟ کیوں ان لوگوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے؟ آخر خدا کی غیرت کب جوش دکھائے گی کب پکڑ کا دن آئے گا ؟ کب یہ ظلم وستم کا سلسلہ بند ہوگا ؟ وہ خدا کے وعدوں کو یاد کرتے ہیں جو تمام انبیاء سے اور ان کی جماعتوں سے اللہ تعالیٰ ہمیشہ کرتا چلا آیا ہے اور اس تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں جس تاریخ سے ثابت ہوتا ہے کہ بہر حال یہ لوگ بالآخر پکڑے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کو اپنے سے تعلق رکھنے والوں کو کبھی ضائع نہیں کرتا اور پھر وہ تعجب سے دیکھتے ہیں کہ دن تو بہت لمبے ہوتے چلے جارہے ہیں.تکلیفیں حد سے زیادہ بڑھ رہی ہیں اس دفعہ کیوں خدا کی تقدیر ظاہر نہیں ہوتی.دوسری طرف دشمن یہ سوچنے لگتا ہے کہ یہ پکڑ وکڑ قصے سب فضول ہیں.کچھ بھی نہیں ہوا کرتا ہم دندناتے پھر رہے ہیں ہم جس طرح چاہیں ان لوگوں سے حقوق غصب کر رہے ہیں اور یہ خدا کی باتیں کرتے ہیں آگے سے.یہ کہتے ہیں ایک دن خدا تمہیں پکڑے گا.ایک اللہ کی مدد ہماری تائید میں ظاہر ہوگی اور خدا کی نصرت آسمان سے آئے گی اور حالات کو بدل دے گی تو یہ عجیب عجیب باتیں کرتے ہیں اور پھر دلیر ہوتے چلے جاتے ہیں ظلم کے بعد ظلم کرتے ہوئے اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اچھا پھر اگر عذاب ہے تو لا کر دکھاؤ ؟ کہاں ہے تمہارا خدا؟ کہاں ہے اس کی غیرت تمہارے لئے ؟ عذاب ہے تو ہم پھر کہتے ہیں لا و عذاب وہ کہاں ہے ہم پر نازل کرو اس عذاب کو ہم بھی دیکھیں تمہارا خدا کیسا خدا ہے؟ قرآن کریم نے ان مضامین کو مختلف جگہوں پر محفوظ فرمایا ہے اور نہایت خوبصورت انداز میں ان مضامین کے تمام پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے.مومنوں کے دل کی کیفیات کا بھی خوب خوب
خطبات طاہر جلدم 658 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء تجزیہ کیا ہے اور کافرین تو ہمات میں مبتلا ہو جاتے ہیں ظلم کرنے والوں کو جو خدا تعالیٰ کی مہلت سے دلیری ملتی ہے ان حالات کا بھی پورا باریکی کے ساتھ تجزیہ فرمایا گیا ہے.جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں بھی اس مضمون کے بعض پہلوؤں کا ذکر فرمایا گیا ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَكَأَيِّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَهْلَكْهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ کتنی ہی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے ہلاک کر دیا اس لئے کہ وہ ظالم تھیں فَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُو شِهَاوہ اپنی چھتوں کے بل پڑی ہیں یعنی ان کی چھتیں گری پڑی ہیں اور کھنڈرات میں تبدیل ہو چکی ہیں وَبِئْرِ مُعَطَّلَةِ اور ایسے کنویں ہیں جو متروک ہو چکے ہیں.ان میں اب کوئی باقی نہیں.زندگی کے پانی کے بجائے وہاں سانپ بچھو بسیرا کئے ہوئے ہیں.وقَصْرِ مَّشِید اور بڑے بڑے بلند قلعے ہیں جو ڈھیر بن چکے ہیں ملبے کا ان میں کوئی بھی نہیں رہتا.اَفَلَمْ يَسِيرُ وا فِي الْأَرْضِ پھر کیوں ایسا نہیں ہوتا کہ وہ چلیں پھریں زمین میں اور ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھیں اور ان کے حالات پر غور کریں، فَتَكُونَ لَهُمْ قُلُوبٌ يَعْقِلُونَ بِهَا اور اس کے نتیجہ میں ان کو وہ دل نصیب ہو جائیں جن سے وہ عقل حاصل کر سکیں او أَذَانُ يَسْمَعُونَ بِهَا یا ایسے کان عطا ہو جائیں جن سے وہ سن سکیں ، فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ كم یقیناً در حقیقت آنکھیں اندھی نہیں ہوا کرتیں وہ تو دیکھتی ہیں وَلَكِنْ تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ بلکہ دل اندھے ہوتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں.تو جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو ظلم و ستم میں دلیر ہوتے چلے جاتے ہیں اور بے باک ہوتے چلے جاتے ہیں ان کو توجہ دلائی کہ خدا کی عمومی تقدیر پر کیوں نظر نہیں کرتے اور اگر اپنے گردو پیش میں تمہیں کچھ نظر نہیں آتا تو آفاقی نظر سے دنیا کے حالات پر غور کرو، قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرو ، ان اجڑی ہوئی بستیوں کو دیکھو جو دنیا میں مختلف جگہ بکھری پڑی ہیں اور آج عبرت کا نشان بنی ہوئی ہیں.بڑی بڑی عظیم تو میں ان میں آباد تھیں، بہت بڑی بڑی تہذیبوں کا وہ گہوارہ تھیں لیکن اب ان کا کچھ بھی باقی نہیں رہا سوائے اس کے کہ وہ عبرت کا نشان ہوں ، کھنڈرات ہوں.وہ کنویں جو کبھی زندگی کی سیرابی کے لئے پانی مہیا کرتے تھے اب موت کے ڈر سے متروک ہو چکے ہیں.وہاں ہلاک کرنے والی چیزیں تو ہیں لیکن زندگی بخش کوئی چیز موجود نہیں.معطل ایسے کنویں کو کہتے ہیں جس طرف نظر ہی نہیں پڑتی امید
خطبات طاہر جلدم 659 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء کے ساتھ اس طرح چھوڑ دیا جاتا ہے بلکہ اس سے خوف پیدا ہو جاتا ہے.اکثر معطل کنویں ایسے ہیں جن کے پاس رات کو جاتے ہوئے لوگ خوف کھاتے ہیں، عجیب عجیب روایتیں ان کی طرف منسوب ہو جاتی ہیں.تو کہاں ایک کنویں کی حالت کہ جو شفاف ، صاف اور میٹھے پانی سے بھرا ہوا ہو اور دور سے پیاسوں کی نظر پڑے تو لپکتے ہوئے اس کی طرف جائیں، کہاں یہ بدلی ہوئی کیفیت کہ اس کنویں کے خیال سے بھی خوف پیدا ہو اور رات کو وہ رستہ چھوڑ کر لوگ اس سے دامن بچا کر کسی اور طرف سے گزرجائیں.فرمایا یہ چیزیں اگر تم غور کرو گے تمہاری نظریں جو بظاہر دیکھتی ہیں.لیکن اس کے باوجود دل نصیحت نہیں پکڑتے تو یہ بیماری دور ہو جائے گی.ہو سکتا ہے جو کچھ تم دیکھو جب خدا کی عمومی تقدیر پر نظر ڈالو گے تو تمہارے دل اس کو سمجھنے بھی لگ جائیں لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہے.فرماتا ہے وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ اب ایسا نہیں ہوتا اور یہ لوگ نصیحت پکڑنے والے نہیں ہیں.یہ تجھ سے عذاب کے بارے میں جلدی کرتے ہیں ، کہتے ہیں جلدی سے عذاب لا کے دکھاؤ.اب ظاہر بات ہے کہ اگر ان کو یہ یقین ہو کہ عذاب آجائے گا تو ہرگز جلدی نہ کریں.یہ تمسخر کا ایک رنگ ہے، یہ ایک بے یقینی کے اظہار کا ذریعہ ہے.کہتے ہیں اچھا جی ! عذاب اگر خدا نے لانا ہے اور تم اتنے ہی معصوم بنے پھرتے ہو اللہ تمہارے ساتھ ہے تو پھر ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اب جلدی سے عذاب لا کے دکھاؤ.وَلَنْ تُخْلِفَ اللهُ وَعْدَهُ یہ کہتے ہیں حالانکہ یہ حقیقت ہے ایک اٹل حقیقت ہے کہ اللہ اپنے وعدوں کی وعدہ خلافی کبھی نہیں کیا کرتا.اس کے باوجود وہ بڑی جرأت سے مطالبہ کرتے ہیں.اب یہاں تک پہنچنے کے بعد بظاہر انسان توقع رکھتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ بہت جلدی وہ لوگ پکڑے جائیں گے اور تمہارے دیکھتے دیکھتے خدا کا عذاب ان کو آلے گا.لیکن تعجب سے انسان اس آیت کا بقیہ حصہ پڑھتا ہے تو وہاں کچھ اور مضمون نظر آتا ہے.فرماتا ہے : وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ تم تو عذاب میں جلدی کر رہے ہو اور اللہ اپنے وعدوں کے خلاف عمل نہیں کیا کرتا لازماً وعدے ایفاء فرمایا کرتا ہے.انہیں حتمی طور پر، اتنے یقینی اور قطعی الفاظ میں ان کے شکوک کو رڈ فرمایا ، ان کے وہموں کو تو ڑا اور کہا کہ اس وہم میں نہ بیٹھے رہنا کہ خدا تمہیں نہیں پکڑے گا اور آگے کیا فرمایا، آگے فرمایا ہے : وَإِنَّ يَوْمًا عِنْدَرَبَّكَ كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ کہ بعض دن خدا کے ایک ہزار سال کے دن ہوا کرتے ہیں اُس
خطبات طاہر جلدم 660 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء گنتی کے حساب سے جو تم شمار کرتے ہو.تو اس کا تو یہ مطلب بنا کہ کافروں کو تو یہ پیغام دے دیا بظاہر کہ یہ ٹھیک ہے کہ تم ظلم کرتے چلے جاؤ، تمہاری اگلی نسلیں بھی ظلم کرتی چلی جائیں تمہاری اس سے اگلی نسلیں بھی ظلم کرتی چلی جائیں.یہاں تک کہ دس پندرہ نسلیں تمہاری گزر جائیں آخر عذاب آجائے گا.اب جس نسل کو یہ یقین دلایا جارہا ہو کہ تمہارے ساتھ جو عذاب کا وعدہ ہے وہ ضروری نہیں کہ تمہارے متعلق آئے تم پر وارد ہو بلکہ ہو سکتا ہے کہ ہزار سال کے بعد وہ عذاب تمہارے ان بچوں اور پوتوں پڑ پوتوں اور ان کے پوتوں پڑ پوتوں اور لامتناہی رشتے کی جو دوری ہے وہ جب ظاہر ہو چکی ہوگی تو اس وقت وہ ان لوگوں کو پکڑلے گا یہ تو ڈیٹرینٹ (Deterrent) نہیں ہے،اس سے تو حوصلہ شکنی ظلم کی کبھی نہیں ہوسکتی اور دوسری طرف مومنوں کو کیا پیغام ملتا ہے؟ کہ فکر نہ کرو، خدا تعالیٰ کے وعدے بڑے پکے ہیں، وہ ضرور پورے ہوں گے، آج نہیں تو ہزار سال کے بعد عذاب آ جائے گا، خدا تعالیٰ کا ایک دن ہزار برس کا دن ہوتا ہے، تو یہ مطلب تو ہر گز نہیں ہو سکتا.اگر یہ معنی اسی طرح لئے جائیں تو یہ تو مومنوں کی حوصلہ شکنی اور دشمن اور ظالم کا دل بڑھانے والی بات ہے.اس لئے مزید غور کرنا چاہئے ، فکر کرنی چاہیئے کہ آخر اس کا کیا تعلق ہے یہاں اس موقع پر یہاں؟ بات یہ ہے کہ یہ آیت بہت زیادہ وسیع مضمون رکھتی ہے یعنی یہ ٹکڑا آیت کا اس سے بہت زیادہ وسیع مضمون رکھتا ہے جو عموما سمجھا جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا یہ طریق ہے اور قرآن کریم ہمیشہ اس طریق کے ساتھ ایسا چمٹا ہوا ہے کہ کبھی ایک دفعہ بھی آپ کو استثناء نظر نہیں آئے گا کہ جب کوئی انسان سوال کرتا ہے تو خدا تعالیٰ جواب دیتے وقت اس کی فہم اور عقل کے مطابق جو سوال کیا گیا تھا اس طرح جواب نہیں دیتا کیونکہ سوال کرنے والا یا ناقص سوال کرتا ہے یا محدود سوال کرتا ہے اور جواب بھی اگر اسی حساب سے دیا جائے تو جواب بھی اسی حد تک ناقص اور محدود رہے گا اس لئے خدا تعالیٰ کا طریق یہ ہے کہ سوال دو ہرا کر اس سوال کو نظر انداز کر کے جو اصل سوال اٹھنا چاہئے.جو زیادہ وسیع ہے اپنے مضمون میں جو برحق سوال ہے اس کا جواب شروع کر دیتا ہے.یعنی ذہن مائل ہو جاتا ہے ایک سوال کی طرف اور پھر اُس سوال کی ناقص حالت کو چھوڑ دیتا ہے اللہ تعالیٰ اور جس طرح وہ سوال اٹھنا چاہئے اس کوملحوظ رکھتے ہوئے ایک وسیع جواب دیتا ہے جس میں ایک حصہ اُس سائل کے سوال کا بھی آجاتا ہے.مگر اللہ تعالیٰ اپنے جواب میں
خطبات طاہر جلدم 661 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء وہاں تک محدود نہیں رہتا.یہ تو جو جواب ہے یہ بہت وسیع جواب ہے.اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ تم لوگ چھوٹے چھوٹے کنویں کے مینڈکوں کی طرح خدا کی تقدیر کو بھی محدود بنا رہے ہو.تم سمجھتے ہو کہ انفرادی ظلم کے نتیجے میں ہر جگہ جہاں انفرادی ظلم ہو گا وہاں خدا ایک دم اشتعال میں آجائے گا اور فوراً اُس کے عذاب نازل ہونے شروع ہو جائیں گے اور ایک دم حق ظاہر ہو جائے گا اور باطل بھی شکست کھا جائے گا یعنی اس طرح کھلا کھلا ہر ٹکڑے پر خدا کا نشان ظاہر ہوگا کہ کوئی شک کی گنجائش باقی نہیں رہے گی حالانکہ خدا تعالیٰ کی تقدیر ایک بہت ہی وسیع تقدیر ہے اور ضروری نہیں کہ تمہارے انفرادی جذبات کے ساتھ اس تقدیر کا بھی اُسی طرح تعلق ہو یا محدود پیمانے پر کسی قوم کے جذبات کے ساتھ اس تقدیر کا تعلق ہو.خدا کی ایک عمومی تقدیر ہے جس میں قوموں کے عروج وزوال کے فیصلے ہوتے ہیں اور اس عمومی تقدیر کا دن ایک ایک ہزار برس کا بھی ہوتا ہے یعنی خدا جب کسی قوم کو سزا دینے کا فیصلہ کیا کرتا ہے تو بعض دفعہ وہ ایک ہزار برس کی سزا بھی ہوتی ہے.ایسی رات آجاتی ہیں قوموں کی زندگی پر جن کو خدا متروک فرما دیتا ہے.جس طرح چھوڑے ہوئے کنویں ہیں یا گری ہوئی بستیاں ہیں اس طرح قو میں بھی ایک عبرت کا نشان بن جایا کرتی ہیں اور ہزار ہزار برس تک لوگ ان سے عبرت حاصل کیا کرتے ہیں.تو جس خدا کی تقدیر اتنی وسیع ہے اس سے تم کس عذاب کی جلدی کر رہے ہو.ایک تو یہ جواب ہے جو خدا تعالیٰ کے عذاب کی تقدیر اور انعام کی تقدیر کی حکمت بیان فرما رہا ہے اور جب خدا قوموں پر انعام فرمایا کرتا ہے تو ہزار ہزار برس تک مردہ قومیں زندہ ہو کر دنیا پر حکومت کرنے لگتی ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ جب آپ دنیا کی تاریخ پر نظر کرتے ہیں تو ہزار سالہ دور ایک سے زائد جگہ ایک سے زیادہ زمانوں میں آپ کو دکھائی دے گا.رومن ایمپائر کے ہزار سال اور اس کے بعد ان کے مٹنے کے ہزار سال اور تاریکی جوان پر طاری ہوگئی وہ ایک ہزار سال تک جاری رہی.پھر ان کے عروج کا دور اور پھر اس کے ہزار سال اس قسم کے ہزار سالوں میں بٹی ہوئی قومی تاریخیں آپ کو جگہ جگہ دکھائی دیں گی اور جب ہزار سال کہا جاتا ہے تو مراد یہ نہیں کہ بعینہ ایک دو دن گنتے ہوئے آخر ہزار سال پورے کرتے ہیں.یہ ایک عمومی محاورہ ہے کم و بیش ہزار سال تک ایک تاریخ پھیلی ہوئی ہوتی ہے.تو پہلے تو اللہ تعالیٰ سائل کو سنجیدہ بنا رہا ہے، کہتا ہے تم نے کتنا چھوٹا سا سوال کیا ہے اور سمجھتے ہو کہ تمہارے پیمانوں پر بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر کو بھی ماپا جائے گا.تمہارے اوزان اور ہیں
خطبات طاہر جلدم 662 خطبه جمعه ۲ راگست ۱۹۸۵ء ان سے دوسری چیزیں تو لی جاتی ہیں، تمہارے پیمانے اور ہیں ان سے دوسری چیزوں کو ماپا جاتا ہے.مگر اللہ کی تقدیر تو بہت وسیع ہے مگر ہے یقینی اور اس تقدیر کو کوئی دنیا میں بدل نہیں سکتا.پس ماضی پر نگاہ کرو تو تمہیں اس کی بے شمار مثالیں نظر آجائیں گی.یہ تو عمومی جواب ہے، ایک اور جواب ہے جو اسی جواب کے اندر ڈوبا ہوا موجود ہے لیکن اکثر لوگوں کو نظر نہیں آتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے كَالْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ ایسے ایسے دن بھی خدا کے پاس ہیں کہ تم یوں شمار کرو گے ان کو گویا ہزار سال کے دن ہیں.مراد یہ ہے کہ خدا کے عذاب میں جلدی نہ کرو خدا کا عذاب جب آتا ہے تو بعض دن اس کے عذاب کے اتنے بھاری ہو جاتے ہیں کہ ہزار برس کا دن معلوم ہوتا ہے.جس طرح بعض دفعہ تم شمار کرتے ہو اس طرح گنتیاں سالوں کو چھوٹا بھی دکھا دیا کرتی ہیں اور دنوں کو بڑا کر کے بھی دکھا دیا کرتی ہیں اور یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم نے ایک سے زیادہ جگہ اسی طرح بیان فرمایا ہے.قیامت کے دن فرمایا جب وہ باتیں کریں گے کہ ہم کتنی دیر رہے وہ کہیں گے کہ ایک دن یا اس کا معمولی سا حصہ.اب جس مضمون کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس پر جب آپ غور کریں تو اس معاملہ میں تقدیر خیر وشر کے بعض بہت دلچسپ پہلو سامنے آجاتے ہیں.مصیبتیں ہوں، جب مشکلات ہوں تو تھوڑا زمانہ بھی بہت لمبا دکھائی دیتا ہے اور جب وہ گزر جاتا ہے تو وہی تکلیفوں کا زمانہ چھوٹا دکھائی دینے لگ جاتا ہے اور جتنا انسان اُس سے دور ہوتا چلا جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ مختصر اور معمولی اور بے حیثیت دکھائی دینے لگتا ہے تو اس جواب میں خدا تعالیٰ نے جہاں ان دشمنوں کو اور تعلی کرنے والوں کو اس طرف متوجہ فرمایا کہ خدا کے ایسے عذاب کے دن بھی آسکتے ہیں اور آنے والے ہیں کہ تمہارا ایک دن بھی ہزار برس کے برابر بوجھل ہو جائے گا اور تم پر بھاری ہو جائے گا.وہاں مومنوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ اس وقت تمہارے گزرے ہوئے دن چھوٹے دکھائی دیں گے تمہیں.وہ سالہا سال بھی جو تکلیفوں کے تم نے کاٹے ہوں گے جب خدا کی پکڑ آتی ہے یعنی جب مومنوں کے حق میں پکڑ آتی ہے تو ایسی بشاشت پیدا ہو جاتی ہے کسی کے خلاف تو وہ سمجھتے ہیں کہ اوہو! ہم تو خواہ مخواہ جلدی کرتے تھے ، خدا نے تو ایسا پکڑا اور وعدوں کو ایسا پورا فرمایا کہ ہم اپنی بے صبری پر شرمندہ اور معذرت خواہ ہیں.اب انبیاء کی وسیع تاریخ تو بہت ہی لمبی ہے.آپ جماعت احمدیہ کی مختصر سی تاریخ پر نظر
خطبات طاہر جلدم 663 خطبه جمعه ۲ /اگست ۱۹۸۵ء ڈال کر دیکھیں ہمیشہ یہی ہوا ہے.ہماری آج کی جو نسلیں ہیں ان میں سے بہت سے ہیں جن کو ۵۳ء کی تاریخ یاد ہے اور اکثریت ہے جن کو ہےء کی تاریخ یاد ہے.اگر آپ غور کر کے ان باتوں کو مستحضر کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ جب وہ زمانہ گزر رہا تھا تو اس وقت مومنوں پر یہ کیفیت تھی کہ ایک ایک دن کئی کئی برس کا لگتا تھا اور کئی برس تک کے پھیلے ہوئے دن بہت ہی کٹھن زمانہ تھا جو گزرا.لیکن جب خدا تعالیٰ کی تائید ظاہر ہوئی اور اس کی نصرت آئی ، روز روشن کی طرح ظاہر ہوئی اُس وقت مومنوں کے دل میں ایک شرمندگی کا احساس پیدا ہوا کہ ہم یونہی جلدی کرتے تھے ، ہم یونہی باتیں کرتے تھے کہ دیکھو خدا تعالیٰ کی پکڑ نہیں آئی.وہ تو آجایا کرتی ہے اور وہ گزرا ہوا زمانہ بھی چھوٹا اور مختصر دکھائی دینے لگا قومی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی اور اب بھی میں نے بارہا ان لوگوں سے باتیں کر کے دیکھا ہے جن کو شدید تکلیفوں میں سے گزرنا پڑا ہے اب وہ جب مڑ کے دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں وہ تو معمولی چند دن تھے گزر گئے پتہ بھی نہیں لگا اور اللہ کے فضل سے اب دائمی طور پر آچکے ہیں ہمارے پاس.اس کے برعکس تقدیر ظاہر ہوتی ہے ظالم کے متعلق.فرماتا ہے کہ ایک ایک دن ان کے لئے پھر ایسا آتا ہے جو ہزار برس کے مطابق بھاری ہو جایا کرنا ہے اور ٹلتا نہیں وہ دن اُن کا اور یہ ان کا انجام ہے اور الٹ جاتی ہے تقدیر یہاں آکر.مومن کے سخت دن چھوٹے ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ جو سمجھتے تھے کہ ہمارے آسائش کے دن ہیں ان کے دن سخت ہونے لگ جاتے ہیں.چنانچہ اس کے معا بعد اسی مضمون کو پھر جاری فرما دیا کہ ہم جب ایک دن کی بات کرتے ہیں کہ ہزار برس کا تو مراد نہیں ہے کہ ہم پکڑیں گے ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہونا وَكَايَّنْ مِنْ قَرْيَةٍ أَمَلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَى الْمَصِيرُ یہ نہیں فرمایا کہ ظالموں کی نسلوں کو میں پکڑا کرتا ہوں.فرمایا بسا اوقات ایسی بستیاں ایسی قو میں تمہیں ملیں گی جو ظالم ہوتی ہیں اور میں ان کو مہلت دے رہا ہوتا ہوں.ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَاِلَى الْمَصِيرُ پھر میں انہی لوگوں کو پکڑ لیتا ہوں جو ظلم کر رہے ہوتے ہیں اور لا ز ما تم میں سے ہر ایک کے لئے میری طرف ہی لوٹ کر آنا ہے.یہ جو میں نے کہا کہ دن بھاری ہو جاتا ہے مراد یہ ہے کہ ایک ایسا دن بھی آتا ہے جو
خطبات طاہر جلد۴ 664 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء ہزار برس کے برابر بوجھل نظر آئے گا یہ قرآن کے منہ میں بات ڈالنے والی بات نہیں ہے بلکہ خود قرآن کریم کی دوسری آیت کریمہ انہی لفظوں میں اس مضمون کو واضح فرما رہی ہے کہ بعض دن بوجھل ہو جایا کرتے ہیں.خدا کے جب عذاب آتے ہیں تو بھاری ہو جاتے ہیں.فرمایا يَسْتَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَهَا اے محمد ! لا تجھ سے یہ سوال کرتے ہیں اس محمد ساعت کے متعلق جس کا وعدہ دیا گیا ہے، وہ انقلابی گھڑی جس کے منتظر ہو تم اس کے متعلق یہ پوچھتے ہیں آیان مُرسھا.آخر وہ کب ظاہر ہوگی؟ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ رَبِّي تو ان سے کہہ دے کہ اس کا علم میرے رب کو ہے.لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ اپنے وقت پر خدا کے سوا اس گھڑی کو کوئی ظاہر نہیں فرما سکتا یعنی اس انقلاب کو جو اپنے وقت پر لازماً آئے گا کوئی ظاہر نہیں کر سکتا کوئی بر پانہیں کر سکتا خدا کے سوا.ثَقُلَتْ فِي السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وہ ایسی قیامت ہے جو بہت ہی بوجھل ہوگی فِی السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضِ زمین و آسمان پر وہ گھڑی بڑی سخت اور کڑی ہوگی اور ایسا سخت وقت ہوگا جو بوجھل ہو جائے گا زمینوں پر بھی اور آسمانوں پر بھی.لَا تَأْتِيَكُمُ إِلَّا بَغْتَةً تو وہ آئے گی وہ گھڑی ضرور لیکن اچانک آئے گی.پس جس چیز نے اچا نک آنا ہو اس کے متعلق پہلے سے تخمینے کیسے لگائے جاسکتے ہیں کہ فلاں دن آجائے گی اور فلاں دن آجائے گی.عمومی طور پر اشارے تو مل جاتے ہیں لیکن وہ ایسے اشارے ہیں جو انگلی یہاں بھی اٹھتی ہے وہاں بھی اٹھتی ہے اور وہاں بھی اٹھتی ہے وہ حرکت کرنے والی انگلی ہوتی ہے خدا تعالیٰ کی.شاید یہ ہو ، شاید وہ ہو، شاید وہ ہو اور شاید وہ ہو اور اگر یہ شاید کا مضمون نہ پایا جائے تو بَغْتَةً کا مضمون پھر اس کے ساتھ اکٹھا نہیں ہوسکتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی بکثرت بار بار جب دشمنوں کے منصوبوں کی خبر دی گئی اور جماعت پر سخت اوقات کی خبر دی گئی ، ساتھ ہی مدد کے متعلق بَغْتَةً کا اظہار فرمایا کہ وہ اچانک آئے گی.اس لئے جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے یہ اندازے لگانا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے یا وہ رویا اور کشوف جو خدا نے مجھ پر ظاہر فرمائے کہ فلاں دن معین طور پر ضرور ہوگا یہ درست نہیں ہے.اگر یہ درست ہو تو پھر بَغْتَةً والی بات درست نہیں ہوسکتی اور بغته والی بات تو یقینی ہے کیونکہ قرآن کریم میں قطعی طور پر موجود ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات طاہر جلد۴ 665 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء الصلوۃ والسلام کے الہام میں اسے دہرایا گیا ہے بار بار یہ بتانے کے لئے کہ جماعت احمدیہ کے ساتھ بَغْتَةً کا واقعہ ایک دفعہ نہیں بلکہ بار ہا ہوگا ( انڈیکس تذکرہ زیر لفظ بغتة).جب ہو گا تو اس وقت انسان معتین طور پر بتا سکے گا کہ ہاں اسی بات کا فلاں الہام میں بھی ذکر تھا کیونکہ اُس جگہ بھی انگلی کا اشارہ موجود ہوگا اور وقت بتادے گا کہ ہاں اسی طرح تھا اور ایسی دلیل موجود ہوگی کہ دشمن محسوس کر لے گا کہ ہاں یہ کہنے والے سچے ہیں.یعنی بعض الہامات باوجود اس کے کہ آپ پہلے معین نہیں کر سکتے ان کے وقت کو ، جب ظاہر ہوتے ہیں تو اس قطعیت کے ساتھ اس شان کے ساتھ ظاہر ہوتے ہیں کہ دشمن بھی مجبور ہو جاتا ہے یہ تسلیم کرنے پر کہ ہاں اس بارے میں یہ سچ کہہ رہے ہیں ساری علامتیں موجود تھیں پہلے سے اگر چہ ہم سمجھ سکے ہوں یا نہ سمجھ سکے ہوں تو بغتة نے اس مضمون کو کھول دیا اور یہ بھی بتا دیا کہ ہزار برس بعد کی بات نہیں ہے.جو ظالم قوم ہے وہی پکڑی جائے گی اور جب ہم کہتے ہیں کہ ایک ہزار برس کا دن تو مراد یہ ہے کہ وہ بھاری دن ہوگا ثَقُلَتْ فِي السَّمواتِ وَالْاَرْضِ پھر فرماتا ہے يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا تجھ سے تو یہ اس طرح پوچھ رہے ہیں گویا کہ تو حَفِی عَنْهَا ہے.عجیب ہے کہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کہ ایک ہی لفظ میں کئی معانی سمادیتا ہے اور موقع اور محل کے مطابق وہ معانی اُس پر اطلاق پاتے ہیں.حفی کا ایک معنی ہے خوب واقفیت رکھنے والا خوب علم رکھنے والا اور حَفِيٌّ عَنْهَا عَن کے صلہ کے ساتھ جب حفِی آتا ہے تو اس کا ایک یہ معنی ہوتا ہے کہ تو بات معلوم کرنے میں بہت ہی حریص ہے اور پیچھے پڑا ہوا ہے کہ میں یہ بات معلوم کر کے چھوڑوں گا.گویا کہ تجھے بھی کو لگی ہوئی ہے کہ یہ واقعہ کب ہوگا ؟ تو یہ دو معانی ہیں اور دونوں یہاں اطلاق پاتے ہیں فیصلہ اس طرح ہوگا کہ يَسْتَلُونَک سے کیا مراد ہے؟ یہ وہ عذاب کا معاملہ ایسا ہے جس میں صرف منکرین ہی نہیں پوچھا کرتے کہ کب ہوگا وہ تو تمسخر میں پوچھتے ہیں مومن بھی بعض بے قراری میں پوچھا کرتے ہیں کہ وعدے تو ہیں وہ پورے کب ہوں گے؟ تو دونوں الگ الگ جواب ہونا چاہئے اور حفی میں یہ دونوں جواب موجود ہیں.وہ جو منکر ہے وہ تو یہ نہیں سوچ سکتا کہ آنحضرت ﷺ کو پختہ علم ہے کہ کب ہوگا اور اس کے باوجود ہم سے چھپا رہے ہیں.وہ تو مانتے ہی نہیں وہ تو تمسخر کر رہے ہیں يَسْتَعْجِلُونَكَ کا تو مضمون تبھی ظاہر ہوتا ہے جب وہ یقین رکھتے ہیں کہ آنحضور ﷺ نعوذ باللہ مفتری ہیں، اپنی طرف سے باتیں بنارہے ہیں ، نہ کوئی عذاب آنا
خطبات طاہر جلدم 666 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء ہے نہ ان کو پتہ ہے.لیکن حَفِيٌّ عَنْهَا کا جواب ان پر بھی صادق آ جاتا ہے کہ وہ یہ سوچ رہے ہوتے ہیں اس آیت کے مطلوب کے طور پر کہ آنحضرت ﷺ کے دل میں بھی یہ اچھوی تو ضرور لگی ہوئی ہوگی کہ میں کوئی دن معین کر سکوں اور بتا سکوں کہ فلاں دن تم پر عذاب آجائے گا تو چونکہ پیشگوئی کر نیوالا پیشگوئی کرتا ہے کسی بناء پر ، دشمن اگر چہ یقین بھی رکھتا ہو کہ وہ خدا تعالیٰ سے خبر پا کر یہ پیشگوئی نہیں کر رہا تو یہ تو ضرور خیال کر سکتا ہے کہ اٹکل پچو جس طرح وہ پیشگوئیاں کیا کرتے ہیں اس کے پاس بھی ہے کوئی طلسم اس کے پاس بھی ہے کوئی آثار اس نے بھی دیکھے ہوئے ہیں اور کوشش کر رہا ہے یہ ، بڑی محنت کر رہا ہے کہ معلوم کر سکے کہ اس کے عمل جوتش وغیرہ کے ذریعہ سے وہ کون سا دن بنتا ہے.تو حَفِيٌّ عَنْهَا کا یہ معنی ہوگا اس موقع پر کہ یہ سمجھتے ہیں یہ یقین رکھتے ہیں کہ تو بھی اس بات کے پیچھے پڑ چکا ہے کہ میں وہ دن معلوم کر کے رہوں جس دن دشمن پر عذاب آ جانا ہے اور مومن جب سوال کرتے ہیں تو وہ ایمان کے نتیجے میں سوال کرتے ہیں ، حسن ظن کے نتیجہ میں سوال کرتے ہیں.وہاں حفی کا یہ معنی ہوگا کہ گویا تجھے خوب یقینی طور پر علم ہے کہ وہ کیا ہے، صرف چھپا رہا ہے ان سے.تو فرماتا ہے دونوں قسم کے سائلوں کے لئے جواب یہ ہے قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِنْدَ اللهِ ان سے کھول کر کہ دے کہ علم تو ہے اس کا لیکن اللہ کے پاس ہے.وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (الاعراف: ۱۸۸) لیکن اکثر لوگ یہ نہیں جانتے.اب یہ اکثر لوگ نہیں جانتے کا حصہ جو ہے یہ بھی ایک بڑا معمہ سا بن گیا ہے.اگر تو خدا نے یہ فرمانا ہو کہ مجھے علم ہے صرف تو پھر ا کثر کا لفظ استعمال نہیں ہونا چاہئے پھر تو یہ کہنا چاہئے تھا کہ لوگ بالکل بھی نہیں جانتے اس بات کو.تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا کچھ نہ کچھ ترشح علم کا فرما تا رہتا ہے مومنوں کے اوپر.باوجود اس کے کہ عمومی طور پر اختفاء کے پردے میں رکھتا ہے لیکن کچھ اشارے یہاں، کچھ اشارے وہاں، ایک علم کا تھوڑ اسا ترشح ہوتا رہتا ہے اور کچھ لوگوں کو خدا تعالیٰ خبریں دیتا رہتا ہے گودن کو سو فیصدی یقین کے ساتھ تو وہ ظاہر نہیں کر سکتے لیکن جب انگلیاں آخر پر اٹھتی ہوئی نظر آتی ہیں تو صاف معلوم ہو جاتا ہے کہ یہی دن تھا.تو کچھ نہ کچھ علم مومن کو ضرور ملتا ہے.وہ کافروں کی طرح کلیہ بے علم نہیں رہتا.لیکن اس علم میں دن کی تعیین ایسے نہیں ہوتی کہ بَغْتَةً کے خلاف ہو بَغْتَةً کا مضمون بھی جاری رہے گا.
خطبات طاہر جلدم 667 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء یہ میں اس لئے کھول رہا ہوں کہ آج کل غیروں کے متعلق بھی یہ اطلاعیں آرہی ہیں.اب تو مولویوں نے خطبوں میں بھی یہ کہنا شروع کر دیا ہے کہ یہ جو کہتے تھے کہ ہوگا.کچھ بھی نہیں ہوا، تماشے ہیں صرف ، قصے ہیں ان کے، ہونا ہی کچھ نہیں ، سب جھوٹ ہے ان کا ، جو مرضی کرتے چلے جاؤ ، کوئی خدا نہیں ہے جو پوچھنے والا ہو اور بعض احمدی بھی گھبرا گئے ہیں ، تھک رہے ہیں وہ کہتے ہیں آخر کب آئے گی خدا کی مدد، ہم تو سنا کرتے تھے کہ مدد آ جائے گی ، آئے گی اور آئے گی.آپ بھی وعدہ کرتے رہتے تھے، اب آئے گی کل آئے گی پرسوں آئے گی بتا ئیں وہ کہاں ہے؟ ایسے بہت کم ہیں جو اس طرح بے تابی کا اظہار کرتے ہیں گویا صبر ٹوٹ چکا ہے، بہت کم ہیں لیکن اکثر دل کی ڈھارس کے لئے اطمینان قلب کے لئے پوچھتے تو رہتے ہیں.اس لئے ان کو میرا یہی جواب ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے آج سے چودہ سو برس پہلے دیا تھا کہ خدا کی تقدیر کو عمومی طور پر سمجھنے کی کوشش کرو.وہ تمہارے جذبات سے وابستہ نہیں ہے.تمہاری انفرادی خواہشیں ، خدا کی تقدیر کو ڈھالنے والی نہیں بنیں گی نہ کبھی بنی ہیں.قوموں کی زندگی اور قوموں کی موت کے متعلق خدا کے کچھ فیصلے ہوتے ہیں اور بعض دفعہ وہ لمبا وقت چاہتے ہیں ظاہر ہونے کے لئے ،اور جب تک وہ تقدیر پختہ نہ ہو جائے وہ باتیں نہیں ظاہر ہوا کرتیں.بعض دفعہ آزمائش کے دور خدا لمبے کرتا ہے، بعض دفعہ نعمتوں کے دور لمبے کرتا ہے، بعض دفعہ خوف کے دور لمبے کر دیتا ہے ، بعض دفعہ مہلتوں کے دور لمبے کر دیتا ہے اور اس کا ایک مقصد ہوا کرتا ہے.پس خدا جب عمومی تقدیر جاری فرماتا ہے تو تمہاری محدود عقلیں اُس تقدیر کو جانچ نہیں سکتیں.اس لئے اللہ تعالیٰ تم پر خوب کھول کر بیان فرماتا ہے کہ قومی تقدیر میں تو ہزار ہزار برس کا بھی ایک دن آجایا کرتا ہے، ہزار ہزار برس کی بھی رات ظاہر ہو جایا کرتی ہے.تو تم ان باتوں کو جانتے ہوئے کیوں پھر خدا کی تقدیر کے برعکس نتائج دیکھنا چاہتے ہو.دوسری طرف یہ مضمون ہے کہ جہاں تک ان ظالموں کا تعلق ہے جو تم پر ظلم کر رہے ہیں خدا ان کو ضرور پکڑے گا ان کے لئے ہزار برس کا وعدہ نہیں ہے لازماً پکڑ آئے گی لیکن ایسے وقت میں آئے گی کہ جب ان کو بھی توقع نہیں ہوگی اور تمہیں بھی توقع نہیں ہوگی.اچانک ایک دن تمہاری آنکھیں کھلیں گی اور تم دیکھو گے کہ خدا کی وہ تقدیر جاری ہو چکی ہے.اس لئے بے صبری کر کے اپنے ثواب کو ضائع نہ کرو اور اس لطف کو ضائع نہ کرو جو صبر کے نتیجہ میں تمہیں آئے گا.اگر تم صبر کے ساتھ ، تو کل کے ساتھ بیٹھے رہو.پھر جب تم
خطبات طاہر جلدم 668 خطبه جمعه ۲ را گست ۱۹۸۵ء اچانک خدا کی پکڑ کو ظاہر ہوتا دیکھو گے تو تمہیں اور ہی لطف آئے گا لیکن جس طرح آٹے میں معمولی سی بھی رکرک آجائے تو روٹی بد مزہ ہو جاتی ہے اس طرح اگر تم نے ابھی سے خدا سے شکوے شروع کر دیئے ، ابھی سے بے قراری کا اظہار شروع کر دیا، بے صبری شروع کردی ، تو جب وہ خدا کی طرف سے روحانی رزق ظاہر ہوگا تو اُس میں تمہاری بے صبری کی کرک ضرور آجائے گی.تو کیوں اپنے مزے کو ضائع کرتے ہو.اتنا تمہارے لئے کافی ہونا چاہئے کہ خدا اپنے وعدوں کے خلاف کبھی نہیں جاتا.ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا کی تقدیر یل جائے.پس کامل یقین کے ساتھ رہو.پورے تو کل اور صبر کے ساتھ زندہ رہو.تمہاری نسلوں کو خدا نشان دکھائے گا، آنے والی نسلوں کو نہیں تم ہو گے.تم زندہ ہو گے اپنی آنکھوں سے خدا کے نشانات کو ظاہر ہوتے دیکھو گے اور یہ ظالم بھی ہوں گے اسی وقت اور یہ اپنی آنکھوں سے خدا کی پکڑ کو اپنے اوپر نازل ہوتا دیکھیں گے.پس جس خدا نے اس طرح کھول کھول کر مضمون خیر و شر کو ظاہر فرما دیا ہو اس کے متعلق ظن کرنا اور چھوٹے چھوٹے خیالات کے مطابق محمد و سوالات کر کے خدا کی تقدیر کی تعین کرنے کی کوشش کرنا یہ مومنوں کی جماعت کو زیب نہیں دیتا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد مکرم چوہدری محموداحمد صاحب شہید کی نماز جنازہ ہوگی.
خطبات طاہر جلدم 669 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء ختم نبوت کانفرنس برطانیہ اور جماعت احمدیہ کا رد عمل ( خطبه جمعه فرموده ۹ راگست ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت کیں : وَلَمَّا رَاَ الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا اِيْمَانًا وَتَسْلِيمَان مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللهَ عَلَيْهِ ۚ فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا لِّيَجْزِيَ اللَّهُ الصُّدِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنْفِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيْمَانَ وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيَّا عَزِيزًان (الاحزاب : ۲۳ - ۲۶) اور پھر فرمایا: پچھلے دنوں یہاں ایک ختم نبوت کانفرنس کا بہت چرچا تھا.کانفرنس سے قبل بھی اخباروں میں اس کا بہت پروپیگنڈا کیا گیا اور کانفرنس کے بعد بھی وہ پروپیگنڈا جاری رہا اب تک جاری ہے اور
خطبات طاہر جلدم 670 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء اس کے پیچھے بعض بڑی بڑی حکومتیں تھیں اور بعض بہت خطرناک ارادے لے کر جماعت احمدیہ کے خلاف ایک گہری سازش کے ساتھ اس کا نفرنس کا پروگرام بنایا گیا اور اس پر عمل کیا گیا.چونکہ جن علماء سے ہمیں واسطہ ہے ہمارا تجربہ ہے کہ بہت جھوٹ بولتے ہیں مبالغہ آرائی کی آخری حدیں بھی پھلانگ جاتے ہیں اس لئے ہو سکتا ہے یہ واپس اپنے اپنے ملکوں میں جا کر وہاں بھی اسی طرح جھوٹ بولیں جیسے یہاں بولتے رہے اور ایسی غلط خبر میں اس کانفرنس کے متعلق دیں اور ایسے غلط تاثرات دیں کہ ان ملکوں میں بسنے والے احمدی کسی غلط فہمی کا شکار ہو جائیں.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ آج کے خطبہ میں اس کا نفرنس کو موضوع بناؤں تا کہ دنیا بھر کی جماعتیں مطلع رہیں کہ اس کا نفرنس کے مقاصد کیا تھے ، اس کا پس منظر کیا تھا، کس حد تک یہ کامیاب ہوئی ، کیا اثرات اس نے غیر از جماعت احمدیہ مسلمانوں پر چھوڑے اور جماعت احمدیہ پر اس کا نفرنس کے کیا اثرات ہوئے ؟ اس کے علاوہ بھی بعض امور ایسے ہیں جن کا اس کا نفرنس سے تعلق ہے اگر وقت ملا تو اس خطبہ میں ورنہ انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں ان کو بیان کروں گا.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اتنے بڑے شور کے باوجود، باوجود اس پروپیگنڈے کے کہ گویا اس کانفرنس کے لئے تمام انگلستان کے غیر احمدی مسلمان امڈ پڑیں گے.خود ان کی توقعات بھی بہت تھوڑی تھیں ، شور بہت زیادہ تھا لیکن دل ان کا بتا رہا تھا کہ بہت کم لوگ آئیں گے.چنانچہ جو ہال کرایہ پر لیا گیا.اس کی کل وسعت دو ہزار سات سو آدمیوں کو بٹھانے کی تھی اور جو تصویر میں شائع ہوئی ہیں اور جو ہمارے نمائندگان نے جائزہ لیا ہے اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ کم سے کم پانچ سو سیٹیں وہاں خالی رہیں اور زیادہ سے زیادہ تعداد حاضرین کی دو ہزار دوسو بنتی ہے.جبکہ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسے پر جو UK کا سالانہ جلسہ تھا نہ کہ عالمگیر جماعت احمدیہ کا سالانہ جلسہ جو جماعت احمدیہ کی مساعی کے نتیجہ میں منظم کیا گیا تھا اور اس کے پیچھے کوئی حکومتیں نہیں تھیں ، کوئی تیل کی دولت نہیں تھی، کوئی فوجی آمر نہیں تھا جس کی پشت پناہی حاصل ہو، اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے اس چھوٹی سی جماعت میں بھی سات ہزار کی تعداد میں اس جلسہ میں لوگ شامل ہوئے تو کوئی نسبت نہیں ہے.اتنا پروپیگنڈہ ، اتنا خرچ ، مفت بسیں بھی چلائی گئیں اور کانفرنس سے پہلے مختلف شہروں میں چھوٹے چھوٹے جلسے کئے گئے اور وہاں جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیزی بھی کی گئی ، گند
خطبات طاہر جلدم 671 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء اچھالا گیا اور تحریص کی گئی کہ کثرت کے ساتھ چلو اور آج تمہاری اسلامی غیرت کا سوال ہے ، آج ثابت کر دو کہ تم ناموس ختم نبوت کے پروانے ہو اور تم میں سے ہر شخص جان فدا کرنے کے لئے تیار ہے، عجیب وغریب محاورے استعمال کئے گئے اور یہ اس کے بعد کا ماحصل ہے.چنانچہ جو تصویر میں میں نے خود دیکھی ہیں حیرت ہوتی تھی دیکھ کر کہ بڑی بڑی جگہیں بینچ کے بیچ خالی پڑے تھے بیچ میں سے.یہ تو خیر ظاہری کامیابی ہے یا نا کا می جو بھی اب یہ لوگ کہیں اس کو.دلائل کا ان کا خلاصہ یہ تھا کہ گندی گالیاں ، الزام تراشی، فحشاء پھیلانا اور ایسی ایسی لغو تمیں کھانا کہ کوئی شریف انسان تصور بھی نہیں کر سکتا.اس کو ان باتوں کو پڑھ کر بھی حیا آجاتی ہے کہ یہ کیا باتیں ہورہی ہیں.یہ ہے خلاصہ ان کے دلائل کا اور سب سے بڑی دلیل جو اس کانفرنس میں جماعت احمدیہ کے خلاف دی گئی وہ یہ تھی کہ ان کو قتل کر دو.میرا نام لے کر بھی اور آپ لوگوں کے نام لئے بغیر بھی ہر احمدی کو قتل کر دو اس کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے ان کے جھوٹا ہونے کی اور بڑے فخر کے ساتھ یہ پروگرام شائع کئے گئے اور یہ اعلان کئے گئے کہ اب ہم پاکستان پہنچ کر ان کو اس طرح ٹھیک کریں گے کہ اعلان کیا جائے گا کہ تین دن کے اندر اندر تم لوگ یا یہ وطن چھوڑ دو یا تو بہ کر کے ہمارے اندر شامل ہو جاؤ یا ہم تمہیں قتل کر دیں گے، چوتھا کوئی علاج ہی نہیں اور یہ اعلان کرتے ہوئے یہ بالکل بھول گئے کہ من و عن بعینہ یہی اعلان قرآن کریم سے ثابت ہے کہ گذشتہ انبیاء کے مخالفین ہمیشہ کرتے آئے ہیں اور کسی ایک نبی نے بھی یہ اعلان نہیں کیا.قرآن کریم کی بیان کردہ تاریخ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ، دیگر مذاہب کی اپنی اپنی کتابوں کو اٹھا کر دیکھ لیجئے ، ایک نبی نے بھی یہ اعلان کبھی نہیں کیا کہ یا ہم تمہیں اپنے گھروں سے نکال دیں گے یا تم ہمارے دین میں لوٹ آؤ.ایک تیسری چیز انہوں نے زائد کی ہے وہ پہلے نہیں کہی گئی تھی کہ یا جس بات پر تم یقین رکھتے ہو اس بات کا اعلان کرنا چھوڑ دو.یہ نئی نئی ایجادات تو ہوتی رہتی ہیں دنیا میں، تو یہ ان کی دنیا کی نئی ایجاد ہے.بہر حال قرآن کریم نے جو دو باتیں بیان کی ہیں نمایاں وہ یہ ہیں کہ یا تو تم ہمارے پاس آکر شامل ہو جاؤ ورنہ ہم تمہیں وطنوں سے نکال دیں گے یا ہم تمہیں قتل کر دیں گے.یہ تین اعلان ہیں جو ہمیشہ گذشتہ زمانہ کے انبیاء کے مخالف کرتے رہے اور کبھی کسی ایک نبی نے بھی اپنے مخالفین کے لئے نہیں کیا.تو کس کی سنت پر یہ اعلان ہو رہے تھے.جب خدا عقلیں مارنے پر آتا ہے تو باوجود علم
خطبات طاہر جلدم 672 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء کے ان لوگوں کی عقلیں ماری جاتی ہیں.قرآن کریم پڑھتے تو ہیں کم از کم چاہے سرسری ہی پڑھتے ہوں یہ واقعات تو ان کے علم میں ہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ پتہ ہی نہ ہو کہ حق کے مخالفین کی دلیلیں کیا تھیں اور بغیر شرمائے وہ ساری دلیلیں اپنا لیں اور حق کے ماننے والوں ،حق کے پرستاروں کی جو دلیل تھی وہ ہمارے لئے رہنے دیں.اَوَلَوْ كُنَّا کرِ هين (الاعراف : ۸۹) اگر ہمارا دل نہ مانے تمہاری ان باتوں کو تسلیم کرنے پر پھر بھی ہم تمہاری طرف لوٹ آئیں یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ ایمان تو دل کا قصہ ہے.مذہب کی تبدیلی یا مذہب پر قائم رہنا تو عقل و دانش سے تعلق رکھنے والی باتیں ہیں.کیسے ہو سکتا ہے کہ سمجھ نہ آئے اور پھر ہم تمہارے اندر شامل ہو جائیں.اگر تمہیں منافقین چاہیں تو تمہارے اندر اس کثرت سے پہلے موجود ہیں اور تم نے کیا کرنے ہیں منافقین کہ چند لاکھ اور منافقین شامل ہو جائیں گے تو تمہیں ٹھنڈ پڑ جائے گی ؟ تو اتنی بے معنی ، اتنی لغو باتیں کی گئی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے دیکھ کر کہ کیوں ان لوگوں کو سمجھ نہیں آتی کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں اور یہ سوچتے کیوں نہیں کہ اس کا کیا اثر پڑے گا.بہر حال جہاں تک دلائل کا تعلق ہے ان دو دلائل کے سوا کوئی دلیل وہاں پیش نہیں کی گئی.جماعت احمدیہ کے بزرگوں پر گند بولے گئے ہیں، نہایت گندی بہتان تراشی کی گئی ہے اور اسی لغویات اور منخش میں وہ لوگ خود بخود مبتلا ہو کر ایسی ایسی لغو قسمیں کھاتے رہے ہیں کہ کوئی شریف انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا اور جماعت احمدیہ کو ایک تبلیغی دلیل دی ہے کیسا عمدہ تبلیغ کا ذریعہ ہے یہ سوچیں تو سہی.مذہب پھیلانے کے لئے کیسی اچھی دلیل ہے کہ یا تم اپنے وطنوں سے نکل جاؤ یا تم ہمارے اندر شامل ہو جاؤ ورنہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے.اب اس دلیل کے ساتھ مذہب پھیلانے ہوتے تو مذہب کی تاریخ کا نقشہ بالکل ہی اور ہوتا.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ تک کی تاریخ بالکل نئے سرے سے نئی لکھی جاتی.جہاں تک اثرات کا تعلق ہے ہمارا جائزہ یہ کہتا ہے کہ اکثر غیر احمدی شرفاء اور غیر احمدی شرفاء جب میں اکثر کہتا ہوں تو بھاری تعداد مراد ہے کوئی معمولی نہیں.) بھاری تعداد ان کی اس میں سرے سے شامل ہی نہیں ہوئی جیسا کہ اعدادو شمار سے ظاہر ہوتا ہے اور انہوں نے اس کو درخوراعتناء ہی نہیں سمجھا.وہ جانتے تھے کہ اس قسم کے مولوی پہلے بھی دیکھے ہوئے ہیں یہاں بھی پہنچ گئے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 673 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء آئیں گے چند دن رونقیں لگا کے، میلے لگا کے واپس چلے جائیں گے اور قطعا انہوں نے اس کے اوپر کوئی توجہ نہ دی اور جو شامل ہوئے ان میں ایک بہت بڑی تعداد مولویوں کی مولویوں کے سر پرستوں کی یہاں جو مدارس ہیں ان مدارس میں پڑھنے والوں کی ، کچھ جن کو بازاری لوگ کہا جاتا ہے عوامی سطح کے احراری مزاج کے آدمی ہر ملک میں پائے جاتے ہیں اور یہ سارے وہ ہیں جو گھیر گھار کے سب انہوں نے اکٹھے کئے تھے کل دو ہزار دو سو یا اس سے کچھ کم تعداد بنتی ہے.اور گالیاں دینے کے نتیجہ میں انہوں نے جو دوسروں پر اثرات چھوڑے وہ یہ ہیں کہ مولویوں کے خلاف شدید نفرت کا رد عمل پیدا ہوا ہے اور جو پہلے احمدیت سے نا آشنا بھی تھے ان میں ایک بہت بڑی تعداد ہے جس نے توجہ کرنی شروع کر دی ہے اور اب جو توجہ پیدا ہوئی ہے جماعت احمدیہ کے لٹریچر کی طرف ، جماعت احمدیہ کے حالات معلوم کرنے کی طرف اس سے پہلے اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.ایک حصہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے شدید معاندین کا بھی ہے جو لٹر پچر پھینک دے گا نہیں پڑھے گا.لیکن جو مجھے اطلا میں مل رہی ہیں بعض جو پہلے شدید معاند بھی تھے ان گالیوں کو سننے کے بعداب جماعت کی طرف متوجہ ہو رہے ہیں اور خدا کے فضل سے بیعتیں بھی ملنی شروع ہوگئی ہیں.چنانچہ یہ سال جو گذر رہا ہے جس میں علماء نے پروپیگنڈے کئے ہیں انگلستان میں پاکستانیوں کی بیعتوں کے لحاظ سے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے.گذشتہ دس سال میں یہاں پاکستانیوں نے اتنی بیعتیں نہیں کی تھیں جتنی اس ایک مولویوں والے سال میں کی ہیں.تو یہ ان کا نقصان ہے جو انہوں نے ہمیں پہنچایا کہ جو ان کے تھے وہ ہمارے بنتے چلے گئے.جو ان کے مداح تھے یا ان کی خیالی بزرگی سے متاثر تھے وہ ان کی فحش کلامی سن کر ان سے متنفر ہونے لگے اور جن کو احمدیت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی وہ دلچسپی لینے پر مجبور ہو گئے.آخر ان کو فرق محسوس ہوتا ہے کردار کا.ہر انسان کو خدا تعالیٰ نے یہ فطرت سلیمہ بخشی ہوئی ہے کہ جب وہ اچھی چیز کو دیکھتا ہے تو ضرور دل پر اثر پڑتا ہے اور جب بدی کو دیکھتا ہے تو کچھ نہ کچھ تنافر ضرور پیدا ہوتا ہے خواہ خود بھی بد ہو.تو جماعت احمدیہ اور غیر جماعت احمدیہ کی جو ملائیت ہے اس کا موازنہ کرنے کا یہاں موقع ملا ہے.دوسرا بھجوانے والوں نے یہ نہیں سوچا اور ان سے بہت بڑی حماقت ہوئی ہے کہ پاکستان کا ماحول اور ہے اور باہر کا ماحول اور ہے.پاکستان میں کچھ حکومت کے جبر ہیں ان کو ہماری بات
خطبات طاہر جلد۴ 674 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء سنانے نہیں دیتے تم ، کچھ وہاں عام ان پڑھ لوگ اس کثرت سے ہیں بیچارے کہ ان میں مذہبی تعصب کا پایا جانا ایک قدرتی امر ہے اور باہر کی دنیا کی تہذیب و تمدن انہوں نے دیکھے نہیں ہوئے ہوتے.اب چھوٹے چھوٹے قصبات میں بعض ایسے ہیں جن کی زندگیاں گذر جاتی ہیں بعض اپنے دیہات اپنے ضلعوں سے باہر نہیں جا کر دیکھتے تو اس قسم کے ماحول میں جب مولوی جا کر تقریر میں کرتے ہیں تو چونکہ ان کو خود اپنے دین کا علم نہیں اور دنیا کی شائستگی سے واقف نہیں ہوتے اس لئے وہ بد اثرات قبول بھی کر لیتے ہیں اس کا اظہار بھی اسی طرح کر دیتے ہیں لیکن وہی لوگ جب یہاں مزدوریوں کے لئے آتے ہیں ان پڑھ بھی ہوں تو یہاں آکر ان کی آنکھیں کھلتی ہیں.ان کو دنیا میں ایک برابری کا احساس پیدا ہوتا ہے، ان کو محسوس ہوتا ہے کہ انسان ایک دوسرے انسان کے اوپر ویسے کوئی فوقیت نہیں رکھتا بلکہ اپنی قابلیت سے اپنی دلیل سے فوقیت اس کو حاصل کرنی پڑتی ہے، برابر کا مقابلہ ہورہا ہوتا ہے اس وجہ سے ان کی ذہنتیں بدلنے لگتی ہیں.تو پاکستانی ہی سہی مگر ایک بدلی ہوئی ذہنیت لے کر یہاں پہنچے ہوئے ہیں اور پھر بہت سے ایسے ہیں جو پاکستان سے ہی نہایت ہی سکھی ہوئی ذہنیتیں لے کر آئے تھے کیونکہ بہت سے تعلیم یافتہ لوگ اس وجہ سے سفر کرتے ہیں بیرونی دنیا میں کہ پہلے ہی وہ روشن خیال اور کھلے دماغ کے ہوتے ہیں اور ان کے لئے زیادہ امکانات ہوتے ہیں.پس Labour ہو یعنی عام مزدوری کرنے والے ہو یا اہل دانش ہوں یہ دونوں جو طبقات یہاں آچکے ہیں وہ ملائیت کو بحیثیت ملائیت قبول نہیں کر سکتے.ان کے ذہنوں میں اور ملائیت کے اندر ایک دوری پیدا ہو چکی ہے.تو ہم جو کہا کرتے تھے کہ یہ ہیں تمہارے ملاں شاید وہ بھول چکے ہوں اتنا اثر نہیں پڑتا تھا اور جب دیکھا ہے آنکھوں کے سامنے تو رد عمل پیدا ہوا ہے.الحمد للہ کہ خدا کے فضل کے ساتھ اس رد عمل سے جماعت احمدیہ پورا فائدہ اٹھا رہی ہے اور ابھی اٹھاتی چلی جائے گی.ایک اور بالکل الٹ نتیجہ یہ نکلا ہے یعنی مقاصد جو لے کر آئے تھے اس کے بالکل برعکس یہاں آکر یہ بتانا چاہتے تھے کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک جماعت احمدیہ پاکستان کو بدنام کرارہی ہے اور پاکستان کی دشمن ہے.یہ مولوی جو آئے ہیں پاکستان کی اتنی بدنامی کروا گئے ہیں کہ ان پر وہی مصرعہ صادق آتا ہے کہ : ع ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
خطبات طاہر جلدم 675 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء باہر کی آزاد و نیا پہلے ہمارے منہ سے سنتی تھی کہ اس قسم کے مولوی وہاں ہیں اور نہ عقلیں ہیں ان کو ، نہ انسانیت کے توازن ان کے اندر ہیں ، نہ دین جو اخلاق پیدا کرتا ہے وہ ان کے اندر ہے.ہر قسم کی اعلیٰ صفات سے قریباً قریباً عاری بیٹھے ہوئے ہیں یعنی وہ مولوی جو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں آگے ہیں اور جو ان میں سے شرفاء ہیں ان کو زبان نہیں.عجیب ملک کی حالت ہے بیچارے کی، شرفاء کی کثرت ہے اس کے باوجو دوہاں شرافت گوگی بیٹھی ہوئی ہے اور جو چند نمونے ہیں بولنے والے ان کا یہ حال ہے جو آپ جانتے ہیں تو ہم کہتے تھے تو لوگ مانا نہیں کرتے تھے کہ کیسے ہوسکتا ہے دلیلیں دینی پڑتی تھیں، بعض اقتباسات اخبارات کے بھی دکھانے پڑتے تھے لیکن اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو کہ کس قسم کا مولوی ہے جس سے ہمیں رابطہ ہے، جس سے ہمیں واسطہ پڑا ہوا ہے اس کا اثر ہی اور ہوتا ہے.لَيْسَ الْخَبُرُ كَالْمُعَايَنَة (مسند احمد حدیث نمبر : ۱۷۴۵) دور کی باتیں سنا اور بات ہے آنکھوں سے دیکھ لینا کسی مولوی کو اور اس کی باتیں سن لینا اپنے سامنے رو برو یہ بالکل اور بات ہے.چنانچہ ہر جگہ خوب پھرے ہیں اور ایسا گندارد عمل انہوں نے پیدا کیا ہے کہ سارا ملک بدنام ہو گیا ہے یہ وہ معززین ہیں جن کے پیچھے ساری حکومت ہے، جن کی خاطر حکم دیا جاتا ہے سفیر پاکستان کو کہ جا کر ان کی مجلس میں بیٹھو.مجھے تو بے چارے کی شکل دیکھ کر رحم آ رہا تھا.ہمارے سفیر صاحب بڑے معزز شریف آدمی ہیں کس مصیبت میں مبتلا بیٹھے ہوئے تھے وہاں.تو بہ کرتے ہوں گے واپس جا کے کہ میں کہاں پھنس گیا تھا لیکن حکم حاکم مرگ مفاجات والا قصہ تھا.بیٹھنا ہی پڑا ہے ان کو گند سننے کے لئے.تو جو پاکستانی شرفاء ہیں ان میں بھی شدید رد عمل ہوا ہے اور جو غیر ہیں ان کو پتہ چلا ہے کہ یہاں بیٹھ کر جو یہ کہ رہے ہیں کہ جنت میں جانا ہے تو ان کے خلیفہ کوقتل کرو اور ہم گارنٹی دیتے ہیں کہ تم سیدھے جنت میں جاؤ گے اور اگر تم نے جنت میں جانا ہے تو احمد یوں کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکو، ہرمرد ہر احمدی عورت ، ہر احمدی بچے کو قتل کر دو.یہاں اس آزاد ملک میں بیٹھ کر جو یہ کہ رہے تھے.اب ہم ان کو بتا سکتے ہیں کہ ہمارا کیا قصور ہے ، ہم نے جو تمہیں باتیں بتائی تھیں ذرا اندازہ تو کرو کہ ایسے ملک میں جہاں کا بادشاہ ان کی پشت پناہی کر رہا ہو وہاں یہ کیا کچھ کہتے ہوں گے.جن کا یہاں یہ حال ہے وہاں یہ کیسے کیسے گرجتے ہوں گے.گھروں میں تو چوہے بھی شیر ہو جایا کرتے ہیں ایسے شکاری جانور
خطبات طاہر جلدم 676 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء جن کو انسان کا خون لگا ہو وہ تو اپنے غار میں اور اپنے ماحول میں اس قدر خطرناک حیثیت اختیار کر جاتے ہیں کہ بعض طاقتور جانور بھی پاس سے نہیں گزر سکتے.تو ان کا یہاں آکر یہ حال تھا اپنے وطن میں یہ ہمارے متعلق کیا کیا باتیں کرتے ہوں گے اور کیسے کیسے ان کے مطالبے ہوں گے.یہ باتیں جو پہلے لوگ نہیں مانا کرتے تھے اب مان گئے اور ایسی پاکستان کی بدنامی کروائی ہے اور ایسی اسلام کی انہوں نے بدنامی کروائی ہے کہ سوچ کے شرم آتی ہے.پہلے ثمینی صاحب کے قصے چلا کرتے تھے اب کچھ عرصہ اس ملک میں ان مولویوں کے قصے چلیں گے یعنی کئی خمینی طاقت میں آگئے ہیں اور کئی خمینی ہیں جن کو طاقت نصیب نہیں ہوئی اور نہ بیچ میں سب کا وہی حال ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ثمینی صاحب ایک مہذب انسان ہیں وہ پخش کلامی نہیں کرتے.وہ بعض اصولوں پر قائم ہیں اور بعض اصولوں کے قائل ہیں وہ اصول سخت ہیں ملائیت کی وجہ سے لیکن ان پر وہ عمل بڑی دیانت داری سے کرواتے ہیں جو کہتے ہیں وہ کرتے ضرور ہیں.اور ان مولویوں کا یہ حال ہے کہ کہتے رہے یہاں ہر ایک کو کہ خوب قتل کرو اور بالکل نہیں ڈرنا اور ایک احمدی کو بھی مولوی نے قتل نہیں کیا کبھی جرات نہیں ہے، لوگوں سے مرواتے پھرتے ہیں.اگر ایسی ہی آسان جنت ہے کہ پاکستان میں تو یہاں تک بھی کہنے والے تھے کہ نعوذ بالله من ذلک آنحضرت علی کہ خود جنت میں استقبال کے لئے آئیں گے کہ مرزائی کو مار کے آیا ہے اور کہتے ہیں کچھ نہیں پوچھیں گے نمازیں پڑھتے تھے کہ نہیں ، فاسق فاجر تھے کہ نہیں ، قرآن کریم نے جو احکام دیتے ہیں ان پر عمل کرتے تھے اور جن باتوں سے منع فرمایا ہے ان سے رکھتے تھے، یا نہیں رکتے تھے.کہتے ہیں کوئی سوال نہیں ، ساری عمر تمہاری بدکاریوں میں گذر چکی ہو ایک مرزائی کو قتل کرو اور اگر اس کے نتیجہ میں مارے جاؤ تو پھر دیکھنا قیامت کے دن تمہارے ساتھ کیا ہوتی ہے نعوذ بالله من ذلک حضرت اقدس محمد مصطفی عله استقبال کریں گے.یہ ان مولویوں کے تصورات ہیں اور یہ وہ دین لے کر یہاں پہنچے اپنا نعوذ باللہ من ذالک.تو آپ اندازہ کریں کہ کس قد را سلام کی اور پاکستان کی انہوں نے بدنامی کرائی ہوگی.افسوس ہے اور حسرت ہے کہ رحمت للعالمین کے نام پر یہ وہاں سے آئے تھے اور نفرتوں کے سفیر بن کے چلے گئے.افسوس ہے اور حسرت ہے کہ سلامتی اور امن کے پیغمبر کے نام پر وہاں سے
خطبات طاہر جلدم 677 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء آئے تھے اور بدامنی اور فساد پھیلا کر آخر یہاں سے رخصت ہورہے ہیں.کن دعاوی کے ساتھ یہ لوگ چلتے ہیں کیا کر دکھاتے ہیں جا کر.پس ان کے ہاں تضاد ہے قول اور فعل کا لیکن ثمینی صاحب کے اندرختی ضرور ہے جو ایک ملائیت کی طبع پیداوار ہے مگر قول اور فعل کا تضاد کوئی نہیں.یہی وجہ ہے کہ قوم کے اندر ان کی بڑی عزت پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہم بھی ان کی اس نقطہ نگاہ سے عزت کرتے ہیں لیکن ان لوگوں کا عجیب حال ہے لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:۳) پر ان کی کوئی نظر نہیں ہے.نہیں جانتے کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللهِ أن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف:۴) بہت بڑا گناہ ہے کہ اگر تم کہو کچھ اور منہ سے اور کرو کچھ اور ، جو کہتے ہو وہ کر کے نہ دکھاؤ.پس اگر یہ جنت اتنی آسان جنت ہے تو سب سے پہلے مولویوں کو آگے جانا چاہئے اور چھپ کر حملے نہیں کرنے چاہئیں احمد یوں پر ، دن دھاڑے پکڑ کر احمد یوں کو قتل کرنا چاہئے اور مولوی آگے آگے ہوں اور اس کے بعد اپنا نام پیش کریں اور کہیں ہمیں جنت سے محروم نہ کرو.وہاں جا کر جھوٹی قسمیں کیوں کھاتے ہیں کہ ہم نہیں تھے.قاتلوں کے حق میں جھوٹی گواہیاں کیوں دیتے ہیں، جنت سے پھر کیوں روکتے ہیں قسمیں کھا کھا کر.عجیب ہے صلى الله تضادان کے کردار کا، اتنا جھوٹ بولتے ہیں اور پھر اسلام اور حضرت محمد مصطفی علیہ اور ناموس محمد مصطفی" کے نام پر.بہر حال کلیۂ اس حیثیت سے یہ کانفرنس ناکام رہی ہے اور جہاں تک جماعت احمدیہ کو ڈرانے کا تعلق ہے ایک مقصد یہ اس کا نفرنس کا یہ بیان کیا جاتا ہے اور کچھ تو یہ بیان کرتے ہیں اور کچھ اطلاعیں ہمیں ملتی رہتی ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان کا یہ حال ہے کہ وہاں جو سازشیں بن رہی ہوتی ہیں پنپ رہی ہوتی ہیں یا جو جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبے بنائے جاتے ہیں ان سب کی اطلاعیں ہمیں مل جاتی ہیں.وجہ یہ ہے کہ جب جماعت احمدیہ کی مخالفت ہو ، جب جماعت احمدیہ کے خلاف منصوبے بازی ہو تو اس میں مولوی ضرور شامل ہوتا ہے اور ایک لحاظ سے یہ پیٹ کے بھاری ہوں گے لیکن فی الحقیقت پیٹ کے ہلکے ہیں بات تو ہضم ہو ہی نہیں سکتی اس لئے ان کے حلقہ احباب سے ساری باتیں پہنچ جاتی ہیں، تمام کارروائیاں، ہم ملے تھے اور بڑے فخر سے پھر کہتے ہیں کہ صدر مملکت نے ہم سے یہ وعدے کئے ہیں خاموشی میں اندر بیٹھ کر ، انہوں نے ہم سے یہ یہ باتیں کی ہیں،
خطبات طاہر جلدم 678 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء یہ مقاصد ہیں.تمام اپنے حلقہ احباب میں یہ کہیں بولتے ہیں وہاں سچ بھی مارتے ہوں گے کچھ وہ ساری باتیں یہاں پہنچ جاتی ہیں.تو منصوبہ ان کا ایک یہ تھا کہتے یہ ہیں اللہ بہتر جانتا ہے کس حد تک سچ بول رہے ہیں یا جھوٹ بول رہے ہیں اس بارہ میں حکومت پاکستان کے ساتھ ان کا پورا اتفاق ہو چکا ہے اور مجھوتہ ہو گیا ہے، ایک دوسرے کے ساتھ مفاہمت ہے کہ اگر اس دور میں یعنی صد رضیاء کے دور میں جماعت احمد یہ تباہ نہ ہوئی تو پھر کبھی تباہ نہیں ہوگی ، اگر اس دور میں ان کی خلافت تباہ نہ ہوئی تو پھر یہ کبھی تباہ نہیں ہوگی اس لئے مولویوں کی باتیں جو ہم تک پہنچی ہیں وہ یہ ہیں کہ مولوی تو وہاں جا کر یہ کہتے ہیں کہ حضور ! آپ کے سر سہرا ہے بس، آپ اب یہ کام کر جائیں تو ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے اور اتنا عظیم تاج آپ کے سر پر رکھا جائے گا جوکوئی پھر نہیں چھین سکے گا اور وہ ان کو یہ کہتے ہیں کہ ہاں پھر تم کام کرو، یہ تاج میرے لئے جیتو اور تمام حکومت کی مشینری تمہاری سر پرستی میں کھڑی ہے، تمہاری پشت پناہی کر رہی ہے.جہاں تک سعودی عرب کا تعلق ہے ان کا پیسہ ان کے کام آرہا ہے.ان کے مقاصد کیا ہیں؟ یہ ایک الگ مضمون ہے بڑی تفصیل کے ساتھ ہم اس کا تجزیہ بھی کر چکے ہیں جانتے ہیں کہ کیوں ہے؟ کیونکہ جب تک ہم واقعات پر نظر نہ رکھیں دفاعی کا روائی نہیں کر سکتے.بہر حال اس نیت کے ساتھ یہ علماء یہاں بھجوائے گئے کہ وہاں جا کر ایسی نفرتیں پیدا کر دو کہ ان نفرتوں کے سایہ میں جب ہم قتل و غارت کی کارروائی کریں تو احمدی خوف زدہ ہو جائیں، ان میں Panic پھیل جائے ، وہ اپنی خلافت سے متنفر یا خوف زدہ ہونے لگ جائیں کہ اس نے ہمیں مصیبت میں ڈالا ہوا ہے اور ایک عام بد دلی پھیل جائے اور پھر خلیفہ وقت کو اس طرح قتل کرواؤ کہ نیا انتخاب ربوہ میں ہونے نہ دیا جائے اور ساری مرکزیت جماعت کی منتشر ہو کر رہ جائے یہ منصوبہ ہے.اس قدر بے وقوفوں والا منصوبہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے.جماعت کی تاریخ پر نظر کر کے تو دیکھیں کہ یہ جماعت ہے کیا چیز ؟ جتنی مخالفت کرتے ہو تم اتنا ہی دن بدن جماعت قربانیوں کے معیار میں بڑھ رہی ہے.کب احمدی کوئی پیچھے ہٹا ہے؟ جتنے حملے تم ان کی جانوں پر کرتے ہو سو ہزار جانیں تڑپنے لگتی ہیں کہ کاش ہم ہوتے جنہوں نے جان قربان کی ہوتی.وہی نقشہ ہے جو قرآن کریم نے کھینچا ہے فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَ
خطبات طاہر جلد۴ 679 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء مَّنْ يَنتَظِرُ (الاحزاب :۲۴).یہ تو جماعت تم جیسی جماعت ہی نہیں ہے تم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ کس مٹی سے اس جماعت کا خمیر ہے.قرآنی مٹی سے اس جماعت کا خمیر اٹھایا گیا ہے اور قرآن کریم جن الفاظ میں حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے غلاموں کا نقشہ کھینچتا ہے وہ اس زمانے تک محدود تو نہیں تھا.مراد یہ تھی قرآن کریم کی کہ ہر زمانے میں محمد مصطفی ﷺ کے غلام بار بار یہی نمونے دکھاتے رہیں گے.ان کا خمیر محمد مصطفی ﷺ کے پاک انفاس سے برکت حاصل کرتا ہے اور جس کا خمیر محمد مصطفی ﷺ کے پاک انفاس سے برکت لے کر اٹھا ہوا ہو اس کوکون مٹا سکتا ہے.اس کی خصلتیں کون تبدیل کر سکتا ہے؟ تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ تو ایسے لوگ ہیں کہ جب ان کو ڈرایا جاتا ہے تو اور زیادہ شیر ہو جاتے ہیں.جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ ساری دنیا تمہارے خلاف ایکا کر چکی ہے تو رد عمل اتنا شدید ہوتا ہے اس کے خلاف کہ وہ اکٹھے ہوتے ہیں بجائے منتشر ہونے کے اور یہ جواب دیتے ہیں کہ الحمد لله واقعی تم اکٹھے ہو گئے ہو اسی کی تو ہمیں خبر دی گئی تھی.ہمارا تو ایمان بڑھ گیا ہے اس سے پہلے وہی نہیں کہتے تھے خدا گواہی دیتا ہے وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيْمَانًا وَتَسْلِيمًا رو باتیں ہیں جو تم ہیں ان منصوبوں کے ذریعہ ان سے چھیننا چاہتے ہو، ان کا جذبہ اطاعت جس کو تسلیم کہتے ہیں جو تمہیں کھائے جا رہا ہے اور ان کا ایمان انتشار پیدا کرنے کے لئے یہ دو مرکزی قو تیں ہیں جن پر دشمن حملہ کرتا ہے.تو فرمایا جب تم حملہ کرتے ہو اور پوری اجتماعیت کے ساتھ پورے اجماع کے ساتھ حملہ کرتے ہوئے اس وقت ان دونوں چیزوں میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان میں اضافہ ہو جاتا ہے.اور جب تم ان میں سے معصوم انسانوں کو قتل کرتے ہو تم سمجھتے ہو کہ باقی ڈر کر پیچھے ہٹ جائیں گے فرماتا ہے مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ وه جو قربانی کے لئے چنے جاتے ہیں جن کو قربانی کی سعادت نصیب ہوتی ہے یہ وہ مردان حق ہیں جو خدا کے نزدیک سچے ٹھہرے ہیں ، صادق تھے اور انہوں نے اپنے عہدوں کو پورا کر دیا.ان کو ذبح ہوتے دیکھنے والے، ان کو ذبح ہوتے ہوئے دیکھ کر ڈرا نہیں کرتے، فرمایا فَمِنْهُمْ مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا له ان میں سے کچھ تو ایسے ہیں جن کو خوش قسمتی سے اپنے عہدوں کو پورا کرنے کی توفیق نصیب ہوگئی،
خطبات طاہر جلدم 680 خطبه جمعه ۹ راگست ۱۹۸۵ء اپنے دلوں کی امنگوں کو پورا کرنے کی توفیق نصیب ہو گئی، کچھ ایسے ہیں جو اس انتظار میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے انتظار اور اس تمنا کی کیفیت کو تم ہر گز تبدیل نہیں کر سکتے.وہ اپنے بھائیوں کو قربان ہوتے دیکھ کر اور زیادہ تڑپتے ہیں کہ کاش ہم آگے بڑھیں اور ہم سے بھی ایسا ہی سلوک کیا جائے وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا.بڑی قوت کے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کے حق میں گواہی دی ہے، بڑی شان کے ساتھ ان کے صدق کے حق میں گواہی دی ہے وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ایک ذرہ برابر بھی ، ایک شعشہ بھر بھی تم ان کو تبدیل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے.پس یہ رد عمل ہے جماعت احمدیہ کا اور یہ اثرات ہیں جو اس کا نفرنس نے یہاں بھی چھوڑے ہیں.پہلے جب یہاں کی جماعت پاکستان کے احمدیوں پر مظالم کے قصے سنتی تھی تو بہت بے قرار ہوتی تھی کہ ہم اتنی دور بیٹھے ہوئے ہیں ہمارے بھائی ان مصیبتوں میں مبتلا ہیں.جب یہاں آکر انہوں نے اشتعال انگیزی کی ہے تو کچھ دلوں میں حوصلے بڑھے ہیں، کچھ اطمینان پیدا ہوا ہے کہ بہت اچھا اب جو دور کی باتیں تھیں اب ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں گے خود وہ کیفیات اپنے دلوں سے گزرتی ہوئی دیکھیں گے ان قربانیوں میں ہم بھی شامل ہوں گے.اس لئے ایک بھی احمدی نہیں ہے جس کو یہ ڈرا سکتے ہوں.ہر قسم کے خطرات کے لئے جماعت ہر جگہ دنیا کے کونے کونے میں تیار بیٹھی ہوئی ہے.جہاں جانا ہے تم قسمت آزما کر دیکھ لو.تمہارے مقدر میں جو نا کا می لکھی ہوئی ہے وہ تو مقدر کبھی تبدیل نہیں ہوگا اور جماعت احمدیہ کے مقدر میں جو عزم اور تسلیم ورضا اور ایمان لکھے ہوئے ہیں یہ مقدر بھی کبھی تبدیل نہیں ہوسکتا.تو کلیہ ناکام رہی ہے یہ کانفرنس اگر ڈرانے آئی تھی.جہاں تک خلیفہ وقت کے قتل کا تعلق ہے خلیفہ وقت میں تو جماعت کی جان نہیں ہے، خلافت احمدیہ میں جان ہے.ایک خلیفہ وقت کو قتل کرو گے تو دوسرا خلیفہ وقت وہی باتیں کہے گا.اسی طرح کہے گا.اس کو بھی اسی طرح خدا کی تائید حاصل ہوگی جس طرح اس سے پہلے کو تھی.تم نادان ہو جو یہ سمجھتے ہیں کہ ایک خلیفہ وقت کے قتل کے ساتھ جماعت احمد یہ مرسکتی ہے.جماعت احمدیہ کے خلفاء پر تو وہی بات صادق آتی ہے.إِذَا سَيِّدٌ مِنَّا خَلَا قَامَ سَيِّدٌ قَسُولٌ لِمَا قَال الْكِرَامُ فَعُولُ،
خطبات طاہر جلد۴ 681 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء کہ دیکھو ہم میں سے جب ایک سردار مارا جاتا ہے، گزر جاتا ہے تو اس کے بدلے دوسراسر دار اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسی طرح وہ نیک باتیں کہتا ہے عظیم باتیں کہتا ہے جس طرح پہلے اس سے کہتا چلا گیا تھا اور اسی طرح ان باتوں پر عمل کر کے دکھا دیتا ہے.ایک کے بعد دوسرا احمدی اٹھتا چلا جائے گا ہر سر جو کاٹا جائے گا اس کے بدلے جماعت کو خدا ایک اور سر عطا کرے گا اور ہر سر اسی طرح خدا کی نظر میں معزز ہوگا جس طرح پہلا سر معزز تھا.ہر سر کو خدا ہدایت عطا فرمائے گا اس کی ذات کی ہدایت نہیں ہوگی.ہر دل کو خدا قوت قدسیہ بخشے گا اس کی ذاتی دل کی قوت قدسیہ نہیں ہوگی.جماعت احمدیہ کی خلافت کو تم کس طرح مار سکتے ہو؟ اور پھر جماعت احمد یہ اپنی ذہانت کے لحاظ سے، اپنی تنظیم کے لحاظ سے، اپنی قوت عمل کے لحاظ سے، نبوت سے جلا یافتہ ہے اور جس کو نبوت کی جلا حاصل ہوئی ہو وہ چھوٹے چھوٹے مکروں سے مار کھانے والے لوگ ہوا کرتے ہیں ! وہ تو دور کی سوچتے ہیں، پہلے سے اپنے انتظامات مکمل کرتے ہیں.ہر احتمال کو پیش نظر رکھتے ہیں اور اس کی مؤثر جوابی کارروائی کرتے ہیں اور ہر وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں.جب خدا کا بلاوا آتا ہے وہ تیار حالت میں رخصت ہوتے ہیں.اس لئے کتنی بڑی بے وقوفی ہے اور کتنی بڑی بدظنی ہے بلکہ تمہاری اپنی عقلوں پر حیرت ہے اس جماعت سے اتنا لمبا واسطہ پڑنے کے باوجود یہ بھی پتہ نہیں چلا ابھی تک کہ جماعت کے اندر خدا تعالیٰ نے کیسی کیسی صلاحیتیں رکھی ہوئی ہیں.اس لئے خلیفہ وطن میں ہو یا بے وطن ہو خلافت احمدیہ کو خدا کے فضلوں کا وطن حاصل ہے.اور اس خدا کے فضلوں کے وطن سے تم خلافت احمدیہ کو کبھی نہیں نکال سکتے.خلافت احمدیہ کو خدا کی حمایت کا وطن حاصل ہے.اس اللہ کی حمایت کے وطن سے تم خلافت احمدیہ کو کبھی نہیں نکال سکتے.خلافت احمدیہ کو خدا کی نصرت کا وطن حاصل ہے اور اس نصرت کی اس سرزمین سے تم کبھی جماعت احمدیہ کو نہیں نکال سکتے اور ہاں جماعت احمدیہ کو خدا کی طرف سے ایک رعب عطا ہوا ہے.خلافت احمد یہ اس رعب کے ساتھ تمام دنیا کے او پر خدا تعالیٰ کے دین کی خدمتیں سرانجام دیتی ہے اور اس کا رعب دور دور تک اثر کرتا ہے، تمہارے دلوں پر بھی یہ پڑتا ہے، یہی رعب ہے جس نے تمہیں خائف کیا ہوا ہے یہی رعب ہے جس کی وجہ سے تمہارے بدن کانپ رہے ہیں اور تم سمجھتے ہو کہ جب تک خلافت احمد یہ زندہ ہے جماعت احمدیہ پھیلتی چلی جائے گی اور کبھی نہیں رک سکے گی تم گواہ ہو اس رعب کے اگر اور کوئی نہیں.اس رعب کی سرزمین
خطبات طاہر جلد۴ 682 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء سے جو خدا کی طرف سے عطا ہوئی ہے تم خلافت احمدیہ کو بھی نہیں نکال سکتے.کیا تمہارے منصوبے اور کیا تمہاری کا رروائیاں؟ حیرت ہے کہ سبق پہ سبق دیئے جاتے ہیں اور پھر تم آنکھیں بند کر لیتے ہو اور غافل ہو جاتے ہو.کچھ حصے ایسے ہیں اس کے پس منظر کے، جن میں صرف جماعت احمدیہ ہی کو دلچسپی نہیں بلکہ سارے پاکستان کو دلچسپی ہونی چاہئے.تمام پاکستان کو بھی دلچسپی ہونی چاہئے اور وہابی فرقہ کے علاوہ دیگر مسلمان فرقوں کو بھی دلچسپی ہونی چاہئے اور پس منظر اس کا کیا ہے، مقاصد کیا ہیں کس حد تک وہ اس میں کامیاب ہوئے یا ہو سکتے ہیں یہ ایک الگ داستان ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کو ان امور سے بھی آگاہ کرنا ضروری ہے تا کہ وہ خودان باتوں کو سمجھ کر دوسروں تک پہنچا ئیں یا پھر جس طرح کہ خطبات کثرت سے دنیا میں پھیلائے جارہے ہیں براہ راست جو دوست ان کو سننا چاہتے ہیں ان کو سنائیں اور ان کو بتائیں کہ اسلام کے خلاف اسلام کے نام پر کیا کیا سازشیں ہو رہی ہیں اور ذاتی اغراض کے لئے اسلام کے مقدس نام کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے.اس کے نتیجے میں کیا کیا احتمالات ہیں.پس ان کے متعلق انشاء اللہ جو چند باتیں رہ گئی ہیں وہ آئندہ بیان کروں گا.احباب جماعت سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ مستعدر ہیں اور آنکھیں کھول کر زندگی گزاریں.پہلے بھی خدا کے فضل سے مستعد ہیں لیکن دشمن جو یہاں پہنچا ہے یہ خاص منصوبوں کے تحت پہنچا ہے، جو گالیاں دی گئی ہیں یہ بھی خاص منصوبوں کے تحت گالیاں دی گئی ہیں.مقصد یہ تھا ہی نہیں کہ دلائل کے ذریعے احمدیت کو شکست دی جائے کیونکہ دلائل ان کے پاس ہیں کوئی نہیں.بار باران دلائل کی شکست یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں.اس لئے اگر ان کے پاس دلائل ہوتے تو ہمیں وہاں کیوں نہ اجازت دیتے کہ ہم دلائل کے ساتھ ان کا مقابلہ کریں اور پھر ہمیں ہراتے ،شکست دیتے اور ذلیل کرتے اپنے ملک میں کہ دیکھو یہ ان کی دلیلیں تھیں، ہم نے توڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دیں.دلائل تو تھے ہی نہیں اس لئے یہاں آئے ہیں صرف گالیاں دینے کے لئے اور اشتعال انگیزی کے لئے اور اس کے پیچھے بھیانک سازشیں ہیں اس لئے باوجود اس کے کہ ہم خدا کی راہ میں مرنے کے لئے تیار ہیں مگر خدا کی رضا ہم سے یہ چاہتی ہے کہ اپنی قیمتی جانیں بے وجہ نہ دیں کیونکہ دنیا کو بھی ہماری ضرورت
خطبات طاہر جلدم 683 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء ہے.یہ ایک عجیب قسم کا توازن ہے جو بڑا ہی باریک توازن ہے اس کو سمجھنا بھی ضروری ہے اور اسی طرح اس پر عمل کرنا بھی ضروری ہے.جب صحابہ کو شہادت کی طرف بلایا جاتا تھا تو بڑے ذوق شوق کے ساتھ جاتے تھے لیکن کبھی یہ نہیں آپ نے دیکھا کہ کسی صحابی نے تلوار اٹھانے میں دیر کر دی ہو اور دشمن کو موقع دیا ہو کہ پہلے وہ وار کر دے.کبھی آپ نے یہ نہیں سنا ہوگا کسی صحابی نے اپنی دفاعی شیلڈ اٹھانے میں دیر کر دی ہو اور دشمن کو موقع دیا ہو کہ وہ اس پر کامیاب وار کر دے تا کہ وہ شہید ہو جائے.ان کی زندگیوں میں عجیب توازن تھا.شہادت کا شوق ایسا کہ دعائیں کرواتے تھے حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ سے کہ دعا کریں کہ ہم شہید ہو جائیں اور بار بار عرض کرتے تھے جنگ کے دوران بھی اور لڑتے اس شدت کے ساتھ تھے اور اپنا دفاع ایسی کامیابی کے ساتھ کرتے تھے کہ نہیں شہید ہو سکتے تھے.یہ جو زندگی کی حیرت انگیز کیفیت ہے دنیا اس سے ناواقف ہے، سوچ بھی نہیں سکتی یہ صرف اہل ایمان ہی کا صرف کرشمہ ہے مگر آنحضور ﷺ اور آپ کے غلاموں نے اس کو خوب کھول کر ہمارے سامنے رکھ دیا ہے یہ وہ بظاہر تضاد لیکن فی الحقیقت تضاد سے عاری چیز ہے.خلوص اور تقویٰ اور سچائی کے ساتھ ہم جو ایمان رکھتے ہیں بالکل اسی ایمان کو جب عملی دنیا میں ڈھالا جاتا ہے تو اس قسم کے نظارے پیش آتے ہیں.ہمارا نظریہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنے دفاع کے لئے اپنی کامیابی کے لئے جتنی صلاحیتیں بخشی ہیں وہ تمام کی تمام انتہائی جدو جہد اور کوشش کے ساتھ خدا کی راہ میں صرف کر دی جائیں اور اس راہ میں اگر موت آئے تو اسے اپنی خوش نصیبی سمجھیں.موت کی دعا کریں مگر ان معنوں میں نہیں کہ ہماری غفلت سے ہم پر موت آئے.موت کی دعا ان معنوں میں کہ اے خدا! ہم حد کر دیں سب کچھ پھر بھی ہمیں تو اپنی راہ میں اپنی خاطر بلا لے.یہ ہے وہ ایمان کی اندرونی کیفیت جس کے نتیجہ میں وہ نظارے دیکھنے میں آئے جو آنحضرت علیہ کے غزوات میں بکثرت دیکھنے میں آتے تھے.چنانچہ جنگ احد میں یہ ایک عجیب واقعہ پیش آیا اور بار بار آیا کہ ایک صحابی جو بہت ہی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ غیر معمولی جنگی صلاحیتیں رکھتے تھے وہ بار بار دشمن کی صف پر حملہ کرتے تھے اور اتنی کامیابی کے ساتھ حملہ کرتے تھے اور دفاع کرتے تھے کہ نرغے میں آجانے کے باوجود
خطبات طاہر جلدم 684 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء جب صحابہ سمجھتے تھے اب یہ واپس نہیں آسکے گا تو پھر وہ صفیں چیرتا ہوا واپس آجا تا تھا اور واپس آکر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور کہتا تھا یا رسول اللہ ! میرے لئے دعا کریں میں شہید ہو جاؤں ابھی تک شہید نہیں ہوا.پھر وہ پلٹ کر حملہ کرتا تھا اور پھر اسی طرح دشمن کی صفیں چیر تا چلا جاتا تھا اور نرغے میں بظاہر پھننے کے بعد پھر جیسے افق سے سورج نکلتا ہے اس طرح وہ نمودار ہوتا تھا.پھر حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور کہتا تھا یا رسول اللہ ! میں نے سب کچھ کر دیکھا ہے، خطرناک سے خطرناک جگہ پر بھی پہنچا ہوں مگر نہیں شہید ہوسکا میرے لئے دعا کیجئے کہ میں شہید ہو جاؤں.راوی بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ پھر جب وہ واپس آئے تو اتنی التجا تھی ان کی اس درخواست میں اس تمنا کے اظہار میں تو اُس وقت حضرت محمد مصطفی علی نے دعا کی اے خدا! اس کو شہید کر دے.کہتے ہیں کہ وہ سورج پھر جب بادلوں کے پیچھے گیا ہے تو واپس نہیں لوٹ کر دیکھا گیا.پھر وہ دوسرے روحانیت کے افق پر نمودار ہوا ہے ایک اور افق پر وہ اُبھرا ہے مگرنئی شان کے ساتھ اور نئی چمک کے ساتھ.یہ ہے وہ تو ازن جو جماعت احمدیہ میں میں دیکھنا چاہتا ہوں میں کیا آپ کا خدادیکھنا چاہتا ہے.یہ وہ توازن ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے صحابہ میں پیدا کر کے دکھا دیا تھا.پس اپنے دفاع سے غافل نہ ہوں شہادت کی تمنا کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ کو جو خدا تعالیٰ نے اپنے دفاع کے حقوق دیئے ہیں ان سے غافل ہو جائیں.کیونکہ شہید ہونے والے کو تو دکھ نہیں ہوگا وہ تو خوش نصیب ہوگا وہ تو فُوتُ بِرَبِّ الكَعْبَة ( صحیح بخاری کتاب المغازی حدیث نمبر ۳۷۸۳) خدا کی قسمیں کھاتا ہوا یہاں سے جائے گا کہ ہاں خدا کی قسم ! ! رب کعبہ کی قسم! میں کامیاب ہو گیا.لیکن اس کے پیچھے وہ لوگ ہیں جن کو ایک ایک بھائی کی جدائی سے دکھ پہنچتا ہے خوش نصیبی سمجھتے بھی ہیں لیکن یہ حسرت رکھتے ہیں کہ کاش ہمیں یہ خوش نصیبی پہلے حاصل ہو جاتی.تو ہر شہادت پر جماعت خوش نصیب بھی بنتی ہے اور دکھ بھی اٹھاتی ہے یہ وہ بظاہر تضاد جو پہلی حالت میں پایا جاتا تھاوہ اس دوسری حالت میں بھی پایا جاتا ہے یعنی شہادت سے قبل کی تمنا میں بھی ایک بظاہر تضاد ہے، تمنا ہے مگر دفاع ہے اور دفاع بھی انتہا درجے کا اور ذہانت بھی کمال کی پوری طرح دشمن کے منصوبوں کو سمجھنا اور اس کے مقابل پر تیار ہونا اور پھر جب خدا یہ سعادت نصیب فرماتا ہے اس وقت بھی جذبات میں ایک
خطبات طاہر جلد۴ 685 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء تضاد پیدا ہو جاتا ہے.خوش نصیبی سمجھتے ہوئے بھی جو پیچھے رہ جاتے ہیں ان کے دلوں میں حسرتیں بھی اٹھتی ہیں ان کے دلوں میں دکھ بھی پیدا ہوتا ہے.اپنے ہر بھائی کے دکھ سے سارا بدن دکھنے لگتا ہے.اس لئے بھی آپ کی ذمہ داری ہے کہ اپنی پوری طرح حفاظت کریں.یہ وہ آزاد ملک ہے جہاں ہر شخص کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے اور ایسے بیسیوں اور ملک ہیں جہاں ہر شخص کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے.مشرق میں بھی ہیں اور مغرب میں بھی.اس لئے آپ ان مشکلات میں سے نہیں گزر سکتے ، آپ چاہیں بھی تو نہیں گزر سکتے ، جن مشکلات میں پاکستان کا بے چارا احمدی گذر رہا ہے.اس لئے خدا تعالیٰ نے جو آپ کو سہولتیں دی ہیں ان سے استفادہ کریں اور دعائیں بھی کریں.مستعد اور بیدار ہو کر زندگی گزاریں لیکن جذبہ انتقام نہ پیدا ہونے دیں.حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں سے آپ کو واسطہ ہے قرآن کریم میں ایسا اشارہ موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ اگر چاہے تو اُن کو معاف فرما دے اور ان اندھیروں میں سے روشنی کی کرنیں پھوٹنے لگیں.انہی راتوں میں سے ایک نیا دن طلوع ہو جائے یہ امکان موجود ہے اور انہی آیات میں جن کی میں نے تلاوت کی تھی اس بات کا تذکرہ فرمایا گیا ہے.ليَجْزِيَ اللهُ الصُّدِقِيْنَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنْفِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا یہاں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں: اول یہ کہ صادقین کی مخالفت کرنے والوں کو یہاں کا فرین نہیں فرمایا گیا بلکہ منافقین فرمایا گیا ہے اور منافقین کا لفظ گو کافروں پر بھی اطلاق پاتا ہے لیکن خصوصیت کے ساتھ ان پر لوگوں پر اطلاق پاتا ہے جو کہتے کچھ اور ہیں اور کرتے کچھ اور ہیں.تو ایسے مخالفین مراد ہیں جن کے دعاوی کچھ اور ہیں اور عمل کچھ اور ہیں.محمد رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور آنحضرت ﷺ کی طرف منسوب ہونے کے نتیجہ میں جو شائستگی، جو اعلیٰ اخلاق، جو کردار ہونا چاہئے وہ ان میں نہیں ہوتا.اسلام کی طرف منسوب ہوتے ہیں لیکن سلامتی کی بجائے بدامنی اور فساد پھیلانے والے بن جاتے ہیں.” کافر“ لفظ سے یہ باتیں ظاہر نہیں ہوتیں لیکن جب منافق کہا جائے تو یہ منظر بخوبی کھل کر سامنے آجاتا ہے کہ جو مخالفین ہیں ان کے قول اور ہیں اور ان کے کردار اور ہیں.لیکن فرمایا اس لئے کہ خدا تعالیٰ صادقوں کو ان کے صدق کی جزا دے اور منافقین کو عذاب دے اِن شاء اگر اللہ چاہے اَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ اور
خطبات طاہر جلدم 686 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء چاہے تو ان کو معاف فرما دے.اِنَّ اللهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا یقینا اللہ تعالیٰ بہت بخشش کرنے والا اور بہت رحم فرمانے والا ہے.يَتُوبَ عَلَيْهِمْ سے مراد معاف فرمانا ان معنوں میں ہے کہ ان کو تو بہ کی توفیق بخشے اور پھر ان کی تو بہ کو قبول کرلے.یعنی جرم کر کے یکطرفہ معافی اور بات ہے بسا اوقات خداوہ بھی دیا کرتا ہے.لیکن یہاں يَتُوبَ عَلَيْهِمْ سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ان کو تو بہ کی تو فیق عطا فرمائے اور پھر اس تو بہ کو قبول کرلے.تو اِن شَاءَ اَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ یہ دو جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس موقع پر جو اظہار رکھے ہیں Expressions رکھے ہیں ان سے بھاری امید بندھتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر گز بعید نہیں کہ اس قوم کو یعنی ان کی اکثریت کو توبہ کی توفیق بخشے اور ہدایت عطا فرمائے.اس لئے جب آپ کو میں کہتا ہوں کہ مقابلہ کے لئے تیار رہیں تو ہرگز مراد یہ نہیں ہے کہ نفرت کے ساتھ مقابلہ کے لئے تیار رہیں یا انتقامی کارروائیوں کے لئے تیار رہیں.آپ کی انتظامی کارروائی تو اصلاح میں ہے اور بخشش میں ہے اور مغفرت میں ہے اور اس آیت کو سننے کے بعد آپ کے دل میں امید کی شمع روشن ہو جانی چاہئے کہ خدا تعالیٰ ان میں سے بھی خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ نور کے سوتے چاہے تو نکال سکتا ہے.خدا تعالیٰ چاہئے تو ان میں سے بھی ہدایت یافتہ پیدا فرما سکتا ہے.یہ امید ہے جس کو لے کر آپ آگے بڑھیں اور یادرکھیں یہ بے معنی نہیں ہے حیرت انگیز طور پر نہایت ہی فصیح و بلیغ کلام کیا گیا ہے جو مستقبل پر بھی اثر انداز ہورہا ہے.یعنی واقعہ گزشتہ زمانے کا بیان کیا جارہا ہے لیکن الفاظ ایسے ہیں جو اسلام کی بعثت ثانیہ سے بھی تعلق رکھتے ہیں.اس لئے آپ اپنی قوم پر اور اپنے مخالف مسلمانوں پر خواہ وہ آپ کے ہم وطن ہوں یا نہ ہوں بد دعا نہ کریں.جیسا کہ میں نے کہا ہے اگر بے اختیاری ہے مجبوری ہے بہت دکھ اٹھاتے ہیں تو ائمہ التکفیر کے لئے آپ کو بددعا کا حق ہے لیکن ان لوگوں پر نہ کریں ان کے لئے ہمدردی دل میں رکھیں، امید کا دامن نہ چھوڑیں تبلیغ تو کل کے ساتھ اور امید کے ساتھ کریں اور ساتھ دعا کریں.اگر آپ اس نصیحت پر عمل پیرا ہوں گے تو انشاء اللہ دیکھتے دیکھتے یہیں سے ہی جو دشمن ہیں وہ دشمن آپ کے دوست بنے لگ جائیں گے.تم دیکھو گے کہ انہیں میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے
خطبات طاہر جلد۴ 687 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء با دل آفات ومصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو ی عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر نہ پہنچیں گے ( کلام محمود صفحه : ۱۵۴) اس لئے خون سے سینچنے کے لئے تو تیار رہیں لیکن اس چمن سے یہ امید رکھیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ چمن ہرا بھرا ہو سکتا ہے.آپ کو اپنے خون سے سینچنا پڑے تو سینچیں گے خدا تعالیٰ اگر فضل فرمائے تو آپ کے خون کی قربانی کے بغیر بھی اس کو ہرا بھرا کر سکتا ہے.آپ کے آنسوؤں کو بھی وہ قوت بخش سکتا ہے جو اس خشک مٹی کو سیراب کر دیں اور اس میں سے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ نئی شادابی، لہلہاتے ہوئے کھیت نمودار ہونے لگ جائیں.پس اس امید کے ساتھ دعائیں کریں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اپنی حفاظت کا اپنے عہدیداروں کی حفاظت کا اور جماعت کی عمومی حفاظت کا خیال رکھیں.تبلیغ کریں مگر حکمت کے ساتھ ، محبت اور پیار کے ساتھ اور اس یقین کے ساتھ ! اور اس یقین کے ساتھ ! اور اس یقین کے ساتھ ! کہ خدا کی قسم آپ لوگوں نے لاز مافتح یاب ہوتا ہے.تمام دنیا میں یہ پھیلتے چلے جائیں آپ کا تعاقب کرتے ہوئے کبھی کسی قیمت پر بھی آپ کو خدا تعالیٰ نے ناکام نہیں فرمانا.آپ موسیٰ کی قوم نہیں ہیں جس نے یہ کہا تھا إِنَّا لَمُدْرَكُونَ (الشعراء:۶۲) آپ نے دیکھا کہ یہ آپ کا پیچھا کرتے ہوئے یہاں آئے لیکن اس کے نتیجہ میں آپ کا ایمان بڑھا ہے.ہرگز یہ آواز آپ کے دلوں میں پیدا نہیں ہوئی کہ اوہ اوہ ہم پکڑے گئے ، ہم پکڑے گئے جیسا کہ موسی کی قوم نے کہا تھا.اس لئے گو میں یہی کہوں گا کہ اِنَّ مَعِيَ رَبِّيٌّ سَيَهْدِيْنِ (الشعراء:۶۳) یقیناً میرا رب میرے ساتھ ہے لیکن صرف اسی پر میں اکتفا نہیں کروں گا بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں یہ کہوں گا لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللهَ مَعَنَا (التوبہ:۴۰) غم نہ کرنا خدا میرے ہی ساتھ نہیں خدا آپ کے ساتھ بھی ہے ہمارے ساتھ ہے خدا.ہم سب کا خدا ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ کا خدا جو ہم سب کے ساتھ جیسے پہلوں کے ساتھ تھا آج بھی ہے.پس اس یقین کے ساتھ آپ آگے بڑھیں دشمن آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا.
خطبات طاہر جلدم 688 خطبه جمعه ۹ را گست ۱۹۸۵ء
خطبات طاہر جلدم 689 خطبه جمعه ۶ ارا گست ۱۹۸۵ء جماعت کی مخالفت پر ہمارا رد عمل ( خطبه جمعه فرموده ۱۶اراگست ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: إِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَالْمُؤْمِنتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابُ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ إِنَّ الَّذِينَ امَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ لَهُمْ جَنَّتُ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الأَنْهرُ ةَ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْكَبِيرُهُ إِنَّ بَطْشَ رَبَّكَ لَشَدِيدُ إِنَّهُ هُوَ يُبْدِي وَيُعِيدُ وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُوْدُ ذُو الْعَرْشِ الْمَجِيدُ فَقَالَ لِمَا يُرِيدُ (البروج: ۱-۱۷) پھر فرمایا: پچھلے دنوں جو ختم نبوت کے نام پر یہاں کا نفرنس منعقد کی گئی چونکہ ان لوگوں کا کانگریس سے گہرا تعلق رہا ہے اور اب بھی ہونا بعید نہیں اس لئے غلطی سے منہ سے کانفرنس کی بجائے کانگریس کا لفظ نکل گیا.بہر حال یہ جو کا نفرنس ہے اسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے اور وہ اس طرح کہ اس سے قبل حکومتیں اور اسلام دشمن طاقتیں مخفی طور پر ان لوگوں کی مدد کیا کرتی تھیں مگر اب کھل کر حکومتیں بھی مد دکر رہی ہیں اور اسلام دشمن طاقتیں بھی مدد کر رہی ہیں اور اس بارہ میں کوئی پردہ نہیں رہنے دیا گیا.چنانچہ یہ بات پہلی مرتبہ ہے کہ دو حکومتوں نے کھلم کھلا احرار کی کانفرنس کی سر پرستی کی ہے اور جہاں تک اس عیسائی حکومت کا تعلق ہے جس کی سرزمین میں یہ کا نفرنس منعقد کی جارہی ہے باوجود اس کے کہ
خطبات طاہر جلدیم 690 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء کھلم کھلا اس ملک کے قوانین کو توڑا گیا اور نام لے لے کر قتل کی تلقین کی گئی محض عمومی اشتعال انگیزی ہی سے کام نہیں لیا گیا بلکہ ایک مذہبی رہنما کا نام لے کر کھلم کھلا اس کے قتل کی تلقین کی گئی اور جوش دلایا گیا اور اس قانون شکنی کے باجود اس امر سے آنکھیں بند کر لی گئیں حالانکہ یہ حکومت قانون کا بہت لحاظ کرنے والی حکومت ہے.تو جن قوتوں کی ملی بھگت پہلے مخفی ہوا کرتی تھی اب وہ کھل کر سامنے آگئی ہے.جہاں تک مقاصد کا تعلق ہے وہ مختلف ہوں گے لیکن نشانہ جماعت احمد یہ ہی ہے.سعودی عرب کا جہاں تک تعلق ہے اس کے مقاصد کے تجزیہ میں میں زیادہ وقت نہیں لوں گا.مختصر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس سے پہلے یہاں ایک حجاز کا نفرنس منعقد کی گئی تھی جس میں اہل سنت کے سواد اعظم نے بہت پر زور تقاریر کیں اور بہت زیادہ اس بات کو اچھالا کہ سعودی عرب و ہابیت کو دنیا میں نافذ کرنے کی سازش کر رہی ہے اور اپنے مالی وسائل سے فائدہ اٹھا کر پاکستان پر بھی اس کو مسلط کرنا چاہتی ہے اور دیگر اسلامی ممالک پر بھی وہابیت کو مسلط کرنا چاہتی ہے.اس لئے عالم اسلام کے سواد اعظم کو ایک بڑا بھاری خطرہ درپیش ہے.اہل سنت اگر بیدار نہ ہوئے اور بر وقت اس خطرے کا مقابلہ نہ کیا تو پھر ہو سکتا ہے پانی سر سے گزر جائے، یہ خلاصہ تھا ان کی تقاریر کا.زبان ان کی بھی بسا اوقات تہذیب سے گری ہوئی شائستگی سے دور ہو جاتی تھی مگر مضمون یہی تھا جو میں نے بیان کیا ہے.تو اس کے اثر کو زائل کرنے کے لئے اس سے بہتر کوئی اور طریق نہیں ہوسکتا تھا کہ مسلمانوں کی توجہ یعنی غیر احمدی مسلمانوں کی توجہ احمدیوں کی طرف مبذول کروائی جائے اور ان کے اشتعال کا رخ احمدیت کی طرف پھیر دیا جائے اور اگر سُنی علماء اس میں ساتھ شامل نہ ہوں تو ان کو احمدیت کے حمایتی کے طور پر بدنام کیا جائے اور اگر وہ شامل ہو جائیں تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا ہے اور بہر حال اس مہم کا سہر وہابی علماء کے سر پر ہی رہے گا.تو یہ بہت ہی حکیمانہ جواب تھا ان کی طرف سے اگر چہ اخلاقی اور مذہبی اقدار سے اس کو کوئی بھی جواز حاصل نہ ہو مگر ایک سیاست کے نقطہ نگاہ سے ایک بڑی حکیمانہ چال تھی.دوسری وجہ اس کی ایک یہ بھی ہے کہ پاکستان میں واقعہ وہابیت کو فروغ دینے پر بہت لمبے عرصہ سے خرچ کیا جا رہا ہے.پہلے اسلامی جماعت کے نام پر وہابیت کو فروغ دیا گیا.وہ ایک سیاسی لبادہ اوڑھ کر مذہبی جماعت تھی جس کی باگ ڈور کلیہ ہمیشہ وہابیوں اور دیو بندیوں کے ہاتھ میں رہی
خطبات طاہر جلدم 691 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء ہے اور اب کھل کر مجلس احرار کے ساتھ بھی گٹھ جوڑ ہوا اور یہ جو نیا باب کھلا ہے،مجلس احرار کا سعودی عرب سے تعلق، اس کا سہرا یقینا صدر ضیاء صاحب کے سر پر ہے.ورنہ پہلے احراریت سے کھلم کھلا گٹھ جوڑ سعودی عرب کا نہیں تھا.چنانچہ یہ گٹھ جوڑ اب بہت کھل کر سامنے آ رہا ہے اور موجودہ فوجی حکومت کو اس کا یہ فائدہ حاصل ہو جاتا ہے کہ روپیل جاتا ہے ایک ملک سے اور اسے اپنے قیام کے جواز کے طور پر استعمال کرتے ہیں یعنی اسلام کی خدمت ہو رہی ہے اور فوج کا تو مقصد ہی اسلام کی سرحدوں کی حفاظت تھا.اس لئے احمدیوں کی دشمنی کے ذریعہ گویا ہم اسلام کی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس لئے ہمارا جواز ہے باقی رہنے کا.تو اس سے دونوں حکومتوں کے مقاصد کو تقویت ملتی تھی.جہاں تک صدر پاکستان کا تعلق ہے ان کا اس کا نفرنس میں پیغام بھیجنا اور سفیر کو مجبور کرنا کہ وہ خود جا کر وہاں پڑھیں اور شامل ہوں.پڑھنے کا تو مجھے یقینی علم نہیں لیکن بہر حال شامل ہونے کا حکم نامہ مرکز سے پہنچا ہوا تھا.بہر حال اس کو جو غیر معمولی اہمیت دی گئی اس کی کیا وجہ ہے؟ پہلے اس سے پاکستان میں جو کچھ ہو رہا تھا وہ تو ہورہا تھا لیکن یہ ہمیں علم ہے کہ کچھ مہینوں سے خاموشی بھی تھی یعنی گزشتہ جو بھی اقدامات کئے گئے تھے ان کے نفاذ کے متعلق تو مخفی طور پر ہدایات با قاعدہ دی جاتی تھیں حکومت کے کارندوں کو یہ تو کا روائی کبھی بھی نہیں رکی لیکن صدر محترم خاموش تھے کچھ عرصے سے.اس کا نفرنس کے موقع پر یہ غیر معمولی جوش کے ساتھ جو سکوت کو توڑا گیا ہے اور غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی مختلف وجوہات ہیں.ان میں سے ایک یہ ہے کہ اس عرصہ میں انتخابات ہو چکے ہیں اور ایک جمہوری حکومت کو بظاہر قائم ہو جانا چاہیے تھا اور ایک لمبے عرصے تک انتخاب کے بعد جمہوری حکومت کا قائم نہ کرنا ایک ایسی چیز ہے جو کسی معقول انسان کو خواہ اُس کی تعلیم ہو یا نہ ہو مجھ نہیں آسکتی.معمولی سا سیاسی شعور بھی ہو تو یہ بات سمجھ نہیں سکتا کہ جمہوری انتخاب مارشل لاء کی گود میں کیسے پل سکتا ہے.یہ تو بالکل ویسی ہی بات ہے جیسے بلی چوہیا کے بچے پال لے اور وہ اس کا دودھ پی کے پلنے لگیں.ناممکن ہے، تضاد ہے ایک اندرونی.مارشل لاء جب آتے ہیں تو جمہوریت کے خاتمہ کے لئے آتے ہیں، جمہوری اقدار کو مٹانے کے لئے آیا کرتے ہیں، جمہوری اقدار مارشل لاء کے نیچے پنپ سکتی ہی نہیں.یہ تو ناممکن ہے اور جب جمہوریت سراٹھاتی ہے تو مارشل لاء کھسکنے لگتا ہے اور ایک طرف ہٹ جاتا ہے.تو یہ ایک ایسا
خطبات طاہر جلدم 692 خطبه جمعه ۶ ار ا گست ۱۹۸۵ء تضاد تھا جس کی طرف سے توجہ دوسری طرف مبذول کرانا پہلے سے بھی زیادہ ضروری ہو چکا تھا اور اس کے لئے سب سے مظلوم یا دنیا کے لحاظ سے کمزور جماعت جو مجھی گئی وہ جماعت احمدیہ تھی.اس لئے یہ بات بڑی واضح ہے کہ کیوں دوبارہ ایک باسی کڑھی میں ابال آیا ہے.مظالم کو دوسری سرزمینوں میں منتقل کرنا بھی ایک مقصد تھا.چنانچہ محض اس کانفرنس کا یہ مقصد نہیں تھا کہ انگلستان میں منعقد کر دی جائے تاکہ پہلی سنی کانفرنس کا اثر تو ڑا جائے بلکہ پالیسی ہے یہ کہ دیگر ممالک میں ہر جگہ اس قسم کا نفرنسیں منعقد کی جائیں اور اشتعال انگیزی کو غیر سر زمینوں میں منتقل کیا جائے.اس میں ایک حکمت اور بھی ہے یعنی جو ان کے مقاصد ہیں ان مقاصد میں ایک یہ حکمت بھی ہے کہ جماعت احمد یہ تمام دنیا میں یہ بڑی شدت کے ساتھ آواز اٹھا رہی ہے کہ پاکستان کا ایک فوجی آمر لکھو کھیا معصوم ہم وطنوں پر ظلم کر رہا ہے اور کرتا چلا جارہا ہے اور باز نہیں آرہا.اس آواز کا دنیا پر غیر معمولی اثر ہے اور دن بدن زیادہ سے زیادہ حکومتیں اس بات کی قائل ہوتی چلی جارہی ہیں کہ پاکستان کی موجودہ حکومت ظالم ہے.اس کا جواب دو طرح سے حکومت پاکستان کے موجودہ آمروں نے دینے کی کوشش کی.پہلے یہ حرکت کی کہ اس مسئلہ کو مخلوط اور مبہم کرنے کی کوشش کی گئی اور باہر کے پاکستانیوں پر یہ اثر ڈالنے کی کوشش کی گئی کہ مسئلہ احمد بیت بمقابل پاکستان کا ہے، احمدی پاکستان کو بدنام کر رہے ہیں اور وہ سیاسی تحریکات جو غیر ملکی پاکستانیوں میں موجودہ فوجی آمر کے خلاف اٹھ رہی تھیں ان کا رخ بدلا گیا اور نادانی سے ، نا سمجھی سے بہت سے سادہ لوح پاکستانی واقعہ اس لحاظ سے ان کے دھوکے میں آگئے اور کئی جگہ ہمیں بڑی محنت کرنی پڑی اس غلط خیال کو دل سے نکالنے کے لئے کہ پاکستان کے ساتھ جماعت احمدیہ کی دشمنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سب سے زیادہ محب وطن ہم ہیں خدا کے فضل کے ساتھ تمہارے مظالم سہنے کے باوجود آج بھی اگر پاکستان کو کوئی خطرہ ہو تو سب سے زیادہ قربانی کرنے والے پاکستان کے احمدی ہوں گے اور تمام دنیا میں پاکستان کا جھنڈا بلند کرنے میں جتنا کردار احمدیت نے ادا کیا ہے اس کا عشر عشیر بھی کسی مذہبی جماعت کو حاصل نہیں تم میں سے، سوواں حصہ بھی حاصل نہیں.ایک مذہبی جماعت بتاؤ جس نے ساری دنیا میں پاکستان کے حق میں آواز بلند کی ہو، جب بھی پاکستان کو خطرہ ہو پاکستان کے حق میں آواز بلند کی ہو، جب خطرہ نہ بھی ہو تب بھی پاکستان کا نام بلند کرنے کے لئے حتی المقدور کوشش کی
خطبات طاہر جلدم 693 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء ہو.صرف پاکستانی احمدیوں نے نہیں غیر پاکستانی احمدیوں نے بھی، افریقن احمدی نے بھی ، انگریز احمدی نے بھی، امریکن احمدی نے بھی، چینی احمدی نے بھی، جاپانی احمدی نے بھی کوئی ملک ایسا بتائیں جہاں احمدیت نے نفوذ نہ کیا ہو اور محض اس محبت کے نتیجہ میں کہ ہمارے وطن میں ہدایت پاکستان سے آئی ہے انہوں نے پاکستان کے حق میں آواز نہ بلند کرنی شروع کر دی ہو.تو اتنا بڑا جھوٹ بولا گیا اور پھر لوگوں نے اس کو قبول بھی کرنا شروع کر دیا اور بعض جگہ انگلستان میں خاص طور پر بریڈ فورڈ کا علاقہ ہے اسی قسم کے دوسرے علاقے ہیں جہاں آزاد کشمیر کے مزدور پیشہ لوگ بڑی کثرت سے آئے ہوئے ہیں زیادہ تعلیم کا معیار اونچا نہیں، بڑے بڑے تعلیم یافتہ بھی ہیں مگر مذہبی معاملات میں ان کے اندر سوچ اور فکر کی عادت نہیں ہے، بعض امور کا تجزیہ نہیں کر سکتے.چنانچہ وہاں اور ایسے دوسرے علاقوں میں افریقہ میں بھی احمدیت کے خلاف نفرت پھیلانے کے لئے یہ ہتھیار استعمال کیا گیا کہ یہ تو پاکستان دشمن جماعت ہے، یہ پاکستان کے خلاف پرو پیگنڈا کر رہے ہیں حالانکہ بالکل جھوٹ ہے.سفید“ اگر نام رکھنا چاہئے تو اس جھوٹ کا رکھنا چاہئے ، یہ سفید جھوٹ ہے.پاکستان کے خلاف ہمارا ہرگز کوئی پرو پیگنڈا نہیں.پاکستان کو ظلم سے بچانے کے لئے ہماری کوشش ہے.باقی سیاسی جماعتیں، جو کروڑہا دوسرے پاکستانی اپنے جائز حقوق سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں.وہ جب آواز اٹھاتے ہیں تو وہ پاکستان دشمن ہو جاتے ہیں؟ ایک جمہوریت کے اوپر مارشل لاء کو نافذ کرنا بتا رہا ہے کہ لازماً استبداد کی حکومت ہے ، لازماً آزادی ضمیر کا کوئی حق باقی نہیں رکھا گیا.پاکستان کے شرفاء نے اپنے نمائندے منتخب کئے اور ان منتخب نمائندوں پر نہ یہ اعتماد ہے کہ تم ملک کی حفاظت کرو گے، نہ یہ اعتماد ہے کہ تم اسلام کی حفاظت کرو گے، اسلام کی حفاظت کے لئے انہی لوگوں کے فوجی بچے چاہئیں اور ان فوجی بچوں کے ماں باپ اسلام کے غدار ہیں ان کے اوپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا کہ نعوذ باللہ من ذلک یہ آئیں گے تو اسلام کے جڑیں اکھیڑ کے پھینک دیں گے.کیا استدلال ہے کیا منطق ہے اس میں! لیکن بہر حال یہی باتیں ہیں یہی ان کا استدلال ہے جو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں مگر فریب کے ساتھ ، پردے ڈال کر ، عقلوں کو دھوکہ دے کر اور یہ کہا جا رہا ہے کہ دیکھو اسلام کو خطرہ ہے احمدیت سے، جب تک احمدیت نہ مٹادی جائے اس وقت تک مارشل لاء جا کیسے سکتا
خطبات طاہر جلد۴ 694 خطبه جمعه ۶ ار ا گست ۱۹۸۵ء ہے اور اسلام کا سچا ہمدرد سوائے فوجی ٹولے کے کچھ ہو ہی نہیں سکتا، ظاہر بات ہے کہ فوج ہی ہے جو اسلام کو نافذ کرے گی ورنہ تم لوگوں کے بس میں ہو تو تم تو اسلام کا کچھ بھی باقی نہ چھوڑو، یہ ہے استدلال کا خلاصہ.تو جب غیر ملکوں میں یہ اس پروپیگنڈا کو پھیلاتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں کچھ لوگوں پر اثر پڑتا ہے لیکن ایک فرق ہے خدا کے فضل سے یہاں ہمیں بھی بولنے کا حق ہے، دنیا کے ہر دوسرے ملک میں جماعت احمدیہ کو بولنے کا حق ہے اور وہاں ہم جواب دیتے ہیں ان کو سمجھاتے ہیں، ان کو بتاتے ہیں کہ بھئی ہم تو ایک کشتی میں ہیں تم بھی مظلوم ہو ہم بھی مظلوم ہیں.صرف یہ کہ ہم زیادہ مظلوم ہیں تم ذرا کم مظلوم ہو اس سے زیادہ تو کوئی فرق نہیں.تو پھر وہ سمجھتے بھی ہیں.ایک تو میں جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس پروپیگنڈا کو سمجھنے کے بعد کوئی ایسی بے احتیاطی کا کلمہ منہ سے نہ نکالیں کہ اس پرو پیگنڈا کو تقویت حاصل ہو.کھول کر بتانا چاہئے کہ ہم ہر گز پاکستان کے دشمن نہیں.نعوذ بالله من ذالک اس کا تو وہم و گمان بھی کسی احمدی کے دل میں نہیں آسکتا بلکہ پاکستان کے سب سے زیادہ فدائی اور وفادار شہری ہم میں خدا کے فضل سے اور ثبوت یہ ہے کہ پاکستان کی حکومت ہمیں ہر طرح کے مظالم کا نشانہ بنا رہی ہے پھر بھی ہم پاکستان کی وفاداری نہیں چھوڑتے.ہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں ایک ٹولے کے ظلم کے خلاف جو تمام دنیا میں پاکستان کو بدنام کروا رہا ہے.تمام دنیا میں اسلام کو بدنام کروا رہا ہے کیونکہ اسلام کا نام لے کر وہ اپنے زندہ رہنے کا عذر پیش کر رہا ہے اور ظلم کو اگر اسلام کا سہارا دیا جائے گا تو اسلام بدنام ہوگا.بہر حال ایک تو یہ انہوں نے طریق کا راختیار کیا اب اس سازش کو آگے بڑھایا ہے اور اب یہ حکیم ہے اور یہ خبریں ان علماء کے ماحول سے ہی ہمیں ملی ہیں قطعی طور پر ، یہ اندازے نہیں ہیں جو درباری علماء ہیں جن کی پہنچ ہے درباروں تک.یہ لوگ دل کے ہلکے ہیں اور بات ہضم نہیں کر سکتے پوری طرح پرو پیگنڈا کرتے ہیں باہر جا کر اور بتاتے ہیں کہ ہم اتنے عظیم الشان لوگ ہیں کہ ہمیں دربار تک رسائی ہو گئی ہے اور بڑے Confidence کے ساتھ ، بڑی راز داری کے ساتھ ہمیں وہ سکیمیں بتائی جاتی ہیں جن پر عمل درآمد کروایا جانا ہے اور اس کے لئے ہمیں ہر قسم کی حمایت کا یقین دلایا جاتا ہے.تو سازش یہ ہے کہ غیر ممالک میں پاکستان کے عناد کو اس حد تک منتقل کر دیا جائے
خطبات طاہر جلد۴ 695 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء اور اتنا عوام الناس یعنی ان مسلمانوں کو جو ان ممالک میں بستے ہیں اتنا ان کو مضطرب کر دیا جائے اتنا مرتعش کر دیا جائے کہ اس کے نتیجے میں وہ قتل و غارت وہاں بھی شروع کر دیں اور جب وہاں قتل و غارت شروع ہوں گے تب ہم ان کو کہیں گے کہ تم ہمیں کہتے تھے کہ تمہارے ملک میں ظلم ہو رہا ہے، یہ تو تمہارے ملک میں بھی ہو رہا ہے.اُس وقت یہ تجزیہ کوئی نہیں کر سکے گا کہ یہ ظلم کروانے والے بھی تم ہی لوگ ہو، تم نے وہاں زمین کو گندا کیا اور ظلم سے بھر دیا اور اب ہماری زمینوں کو بھی گندا کر رہے ہو اور ظلم سے بھر رہے ہو.واقعاتی طور پر دنیا کو صرف یہی نظر آئے گا کہ احمدیت تو ہے ہی مغضوب اس کو تو ہر جگہ دنیا نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور ہر جگہ ان کے خلاف قتل و غارت کی مہم جاری ہے اس لئے پاکستان اکیلا بیچارہ کیا ہے، ساری دنیا اس میں شامل ہوگئی ہے.وہ چاہتے ہیں کہ جس حمام میں یہ ہیں اس میں باقی بھی آجائیں اور سارے ہی ننگے ہو جائیں ،تقویٰ کے لباس سے عاری ہو جائیں.یہ ہے سازش جسے پھیلانے کی کوشش کی جارہی ہے.تو جماعت کو اس لحاظ سے بھی میں متنبہ کرتا ہوں.پہلے میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی بتایا تھا کہ اپنی حفاظت کا جو انتظام اللہ تعالیٰ نے آپ کو اختیار کرنے کی توفیق بخشی ہے وہ ضرور اختیار کریں لیکن ساتھ ہی میں یہ بھی متنبہ کرتا ہوں کہ نفرت کا جواب نفرت سے نہیں دینا ظلم کا جواب ظلم سے نہیں دینا، بے حیائی اور مخش کلامی کا جواب بے حیائی اور مخش کلامی سے نہیں دینا، آپ کی تہذیبی اقدار ہیں.زندہ قوموں کی روایات کی حفاظت کی جاتی ہے آپ بھی ان اعلیٰ روایات کی حفاظت کریں.اپنے معیار کو نہ گرنے دیں.سر اُٹھا کر چلیں.جہاں ظلم ہو رہا ہے وہاں بھی سراٹھا کر چلیں ، جہاں آپ کوسراٹھا کر اجازت ہے چلنے کی وہاں بھی سر اٹھا کر چلیں.آپ کا سر اخلاقی اور اسلامی اقدار کی نظر میں نہیں جھکنا چاہئے.اس لحاظ سے آپ کا سر ہمیشہ بلند رہنا چاہئے.یعنی ظاہری طور پر تو ایک مظلوم کا سر ز بر دتی جھکا یا جا سکتا ہے لیکن اگر اس کی اقدار کا سر بلند ہے، اس کے اخلاق کا سر بلند ہے تو خدا کی نظر میں وہی سر بلند کہلاتا ہے.اس لئے اس لحاظ سے آپ نے ہرگز کسی قسم کی شکست کو تسلیم نہیں کرنا قبول نہیں کرنا اپنی اقدار کی حفاظت کریں.اور ان اقدار کے اندر رہتے ہوئے یہ تہیہ کر لیں کہ ہر جگہ جہاں احمد بیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے اس کا برعکس نتیجہ پیدا کریں گے اسی لئے میں تبلیغ پرزور دیتا ہوں.
خطبات طاہر جلد۴ 696 خطبه جمعه ۶ ار ا گست ۱۹۸۵ء جب یہ قتل و غارت کی تعلیم دیتے ہیں تو اس کا جواب ایک یہ ہوسکتا ہے کہ ہم بھی قتل و غارت کریں قرآن اس کی اجازت نہیں دیتا.جب تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک با قاعدہ اذن نہ آئے اور ہم امید رکھتے ہیں کہ اس زمانے میں اس کا کوئی سوال نہیں ہے اس لئے بغیر کسی اذن الہی کے ظلم کے خلاف ہتھیار اٹھانا بھی منع ہے اسلام میں.جب تک قرآن کریم میں أَذِنَ لِلَّذِينَ يُقْتَلُونَ بِأَنَّهُمْ ظُلِمُوا (الحج:۴۰) کا فرمان نازل نہیں ہوا اُس وقت تک مومنوں کی جماعت مظلومیت کے دور میں رہی.تیرہ سال تک شدید مظالم کا سامنا کیا ہے لیکن ہرگز آنحضور ﷺ نے ہاتھ اٹھانے کی اجازت نہیں دی.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے اس کا وہم بھی دل میں نہ کریں کہ آج یا کل مسلمانوں کے مقابل پر خواہ وہ کیسے ہی ظلم کی راہ اختیار کریں آپ کو اجازت مل سکتی ہے.اگر ایسی اجازت ملنی ہوتی تو اس دور کا نام مسیحیت کا دور نہ رکھا جاتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مسیح کا لقب دینے میں یہ حکمت ہے کہ آپ کو بتایا جائے کہ آپ کو ایک دو نسلوں کے لئے نہیں سینکڑوں سال کے لئے بھی اگر آپ کو مظالم برداشت کرنا پڑیں تو آپ اس کے لئے تیار ہو جائیں اور ظلم کا جواب عفو سے تو دینا ہے ظلم کا جواب اینٹ اور پتھر سے نہیں دینا.انفرادی دفاع ایک بالکل اور مسئلہ ہے.جب ایک آدمی حملہ کرتا ہے تو انفرادی طور پر دفاع کیا جاتا ہے.اس چیز کی دنیا کا ہر قانون اجازت دیتا ہے یعنی ہر شریف ملک کا قانون اجازت دیتا ہے لیکن قومی طور پر لڑائی کی حالت اختیار کر جانا یہ اور بات ہے.میں اس وقت اس کی بحث کر رہا ہوں.تو تبلیغ کے ذریعہ ہم نے اپنا انتقام لینا ہے.ہمارا ایک سر کاٹا جاتا ہے تو ان کا سر کاٹ کر نہیں ان کے سر قبول کر کے محبت کے ساتھ ، ان کی تعداد کو اپنا کر اس میں کمی پیدا کرنی ہے.ایک احمدی کو یقتل کے ذریعہ کم کرتے ہیں تو آپ ہزار غیر احمد یوں کو احمدی بنا کران میں کمی پیدا کریں، یہ انتقام ہے آپ کا.یہ وہ انتقام ہے جو ہم نے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ سے سیکھا ہے.یہ وہ انتقام ہے جو آنحضور علیہ نے ابو جہل سے لیا تھا ، اس کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا، جو ولید سے لیا تھا اُس کے بیٹے کو اپنا بیٹا بنا لیا تھا.ایک جگہ نہیں ، دو جگہ نہیں،
خطبات طاہر جلدم 697 خطبه جمعه ۶ ۱ را گست ۱۹۸۵ء سینکڑوں دشمنوں سے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ علیہ نے عفو کے ذریعہ انتقام لیا اور ان کی محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہو گئیں اور آپ پر درود بھیجنے لگیں اور اپنے ماں باپ پر لعنتیں بھیجنے لگیں.اس سے زیادہ عظیم الشان انتقام سوچا بھی نہیں جاسکتا.انتقام بھی ہے اور بھلائی بھی ہے، انتقام بھی ہے اور احسان بھی ہے.ایسا حسین امتزاج انتقام اور احسان کا، کوئی دنیا کی قوم مثال پیش تو کر کے دکھائے.آنحضرت علی کو جب غلبہ نصیب ہوا تب بھی یہی احسان کا طریق جاری تھا.محض یہ مجبوری کا احسان نہیں تھا.تو آپ اس طرح انتقام لیں گے ان کے مظالم کا جو ہر سرزمین کی طرف منتقل کئے جارہے ہیں.ہر سرزمین پر اس طرح انتقام لیں گے کہ اگر سال میں ایک احمدی ہوتا ہے وہاں تو اب سو ہونے لگیں، ہزار ہونے لگیں.جتنا یہ دبانے کی کوشش کریں اتنا ہی زیادہ آپ کے ولولوں کے سر بلند ہونے شروع ہو جائیں.اتنا ہی زیادہ آپ کے اندر جوش اور ولولہ پیدا ہونا شروع ہو جائے نئے عزم آپ کو عطا ہوں نئی عظمتیں نصیب ہوں آپ کے حوصلوں کو، یہ ہے آپ کا انتقام.اب میں ایک دردناک خبر سے بھی آپ کو مطلع کرتا ہوں جو میرے لئے انتہائی درد کا موجب بنی مگر یہ ہے ایسی چیز جیسا کہ میں نے کہا تھا کہ اس درد میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک اعزاز بھی پایا جاتا ہے، احسان بھی پایا جاتا ہے.یہ وہ درد ہے جو ہمیشہ اپنے پیاروں کو عطا کرتا ہے.یہ وہ درد ہے جو اپنے دشمنوں کو عطا نہیں کیا کرتا یعنی شہادت کا درد.ابھی چند دن پہلے ہمارے ایک بہت ہی مخلص اور فدائی مجاہد اسلام واقف زندگی قریشی محمد اسلم صاحب کو بڑے ظالمانہ طور پر بعض کرائے کے ٹوؤں سے قتل کروایا گیا ہے.یہ ٹرینیڈاڈویسٹ انڈیز میں ہمارے مبلغ تھے اور وہاں کرائے کے قاتل لے کر ان کا پیچھا کر وایا گیا اور کسی تقریب پر گئے ہوئے تھے، جب واپس نکلے ہیں تو ان اوباشوں نے با قاعدہ گھیر کر موٹر سے کر نکالا اور پکڑ کر مضبوطی سے سر کے پاس سے 6 انچ کے پاس سے فائر کر کے ہلاک کیا اور پھر اس کے بعد پوری طرح تسلی کی کہ مرچکے وہ تب وہاں سے رخصت ہوئے اور وہاں ایسا ہوتا رہتا ہے.جہاں تک جماعت کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ اس بارے میں قیاس آرائیاں
خطبات طاہر جلد۴ 698 خطبه جمعه ۶ اسراگست ۱۹۸۵ء نہیں کرنی چاہئیں.اگر چہ پس منظر وہی ہے جو میں نے بیان کیا ہے لیکن تقوی شعاری کا یہ تقاضا ہے کہ جب تک تحقیق نہ ہو دشمن پر بھی الزام نہ لگایا جائے.وہ جو کھلم کھلا قتل کی دھمکیاں دے رہے ہیں جب تک کوئی ثبوت نہ ہو احمدی ان پر بھی الزام نہیں لگائے گا، نہ میں لگاتا ہوں کیونکہ میں نے آپ کو بتانا ہے کہ کیا کرنا چاہئے.اس لئے اس پس منظر میں یہ جب میں نے بیان کیا ہے تو یہ ہرگز مقصد نہیں ہے کہ یہ کہوں کہ یہ علماء جنہوں نے آکر کھلم کھلا قتل کی تلقین کی ہے اور وہ حکومتیں جو ان کی پشت پناہی پر ہیں انہوں نے یہ قتل بھی پیسے دے کر کروایا ہے بلکہ میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس پس منظر کے باوجود آپ بدظنیوں سے کام نہ لیں.ایک آزاد حکومت تحقیق کروا رہی ہے اس کو تحقیق کرنے دیں.ہوسکتا ہے کوئی اور عناصر اس کے ذمہ دار ہوں اس لئے قیاس آرائی کی خاطر میں آپ کو نہیں بتا رہا.میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اس شہید کو اور ان کے اہل وعیال کو اور پس ماندگان کو خاص طور پر اپنی دعاؤں میں یا درکھیں اور اپنے انتقام کو خدا پر چھوڑ دیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جب ہم بغیر تحقیق کے الزام لگا دیں گے تو پھر معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ کی تقدیر پھر پیچھے ہٹ جائے گی.اگر اس معاملے کو خدا کے ہاتھ میں رہنے دیں گے تو اس سے بہتر انتقام لینے والا اور کوئی نہیں، وہ صاحب مقدرت ہے، وہ عالم الغیب والشھادۃ ہے، کوئی مخفی سازش اس کی نظر سے چھپتی نہیں.جب رات کو چھپ کر لوگ مخفی سازشیں کرتے ہیں اس وقت بھی خدا ان کے اندر موجود ہوتا ہے اور ان سازشوں سے باخبر ہوتا ہے.رات کو چھپ کر چلنے والا ، دن کو کھل کر چلنے والا ، اونچی بات کرنے والا ، نیچی بات کرنے والا ، سارے خدا تعالیٰ کی نظر میں رہتے ہیں.اس لئے ایک تو دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ شریروں سے خود انتقام لے اور جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم نے وہی انتقام لینا ہے کہ بدی کا بدلہ حسن سے عطا کرنا ہے، اور یہی ہماری کوشش رہے گی.علاوہ ازیں اپنے دیگر کارکنان سلسلہ کے لئے بھی دعائیں کریں اللہ تعالیٰ ہر شر سے ان کو محفوظ رکھے اور جہاں تک جماعت کا تعلق ہے حفاظت کی جو تدابیر اختیار کرسکتی ہے جماعت کو کرنی چاہئیں اور بیدار مغزی سے رہنا چاہئے ، آنکھیں کھول کر رہنا چاہئے.اس سے بہتر کوئی حفاظت کا انتظام نہیں
خطبات طاہر جلدم 699 خطبه جمعه ۶ اسراگست ۱۹۸۵ء ہوتا دنیاوی لحاظ سے کہ ایک جماعت کا ہر فرد ہوشیار ہو اور بیدار مغز ہو، آنکھیں کھول کر رکھے اور یہ سمجھے کہ گویا اس کی ذمہ داری ہے حفاظت کی.اس نظر سے اگر ساری جماعت نگران رہے تو جو مصنوعی ذریعے ہیں حفاظت کے مثلاً حکومتیں بہت بہت پیسے دے کر ماہروں کو رکھتی ہیں ان کے مقابل پر یہ حفاظت کا ذریعہ بہت زیادہ بہتر ہے.ورنہ تو بڑی بڑی حکومتوں کی حفاظت میں بھی جب قاتل قتل کرنا چاہیں تو کر دیا کرتے ہیں لیکن سب اگر بیدار ہوں سب کی نظر اس بات پر رہے اور متوجہ ہوں اور قربانی کے لئے تیار ہوں تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حفاظت کا معیار بہت زیادہ بلند ہو جایا کرتا ہے.اب میں آخر پر ایک اور پہلو سے اس بات پر روشنی ڈالتا ہوں کہ صدر محترم نے جو زبان اختیار کی ہے یہ کیا ہے زبان ؟ جماعت احمدیہ کے متعلق یہ پیغام میں کہا ہے کہ یہ کینسر ہے ہماری سوسائٹی کا اور میں سربراہ مملکت کے طور پر تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اس کینسر کو اکھاڑ کے پھینک دوں گا.یہ کیسی زبان ہے؟ کسی مہذب ملک کا کوئی سر براہ ایسی زبان استعمال کیا نہیں کرتا.تو کیا مقصد ہے اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟ ایک تو یہ نتیجہ ایک احمدی نکال سکتا ہے کہ شدید ذاتی بغض و عناد ہے جماعت کے خلاف گویا کہ مذہبی جنون ہے، لیکن صدر محترم کی جو دوسری ادائیں ہیں وہ اس بات کو درست نہیں بتا تیں.کیونکہ ایسا شخص جو جماعت احمدیہ کے خلاف بغض و عناد میں اس طرح ابل رہا ہو کہ جب بولے تو اس زبان میں بولے.وہ یہ تو نہیں کر سکتا کہ بعض قسم کے احمدیوں کے گھروں میں جاکر ان کی تقریبات میں شامل ہوان کے ساتھ مل کر تصویر میں کھنچائے اور دونوں اس پر فخر کرنے لگیں.تو یہ بات تو بالکل ایک مختلف قسم کی شخصیت کا پتہ دیتی ہے، اس لئے کوئی اور بات ہے.ایک بات تو یہ ہے میں سمجھتا ہوں کہ ان کی تقدیر ہے کہ ان کو یہ زبان استعمال کرنا پڑی کیونکہ کینسر باغی کو کہتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ کسی اور بیماری کا نام باغی نہیں رکھا جا سکتا سوائے کینسر کے کیونکہ کینسر میں جو عضو بیمار ہوتا ہے، جس حصہ کو بیمار سمجھا جاتا ہے ،اس کی بیماری یہ ہے کہ وہ باقی نظام کے خلاف بغاوت کرتا ہے پھر اس کو بچایا نہیں جاتا اور نہ ماؤف حصوں کو بچانے کی کوشش کی جاتی ہے.جو جسم کا ماؤف حصہ عام بیماریوں میں ہواس کو آپ
خطبات طاہر جلدم 700 خطبه جمعه ۱۶ ار ا گست ۱۹۸۵ء بچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مغلوب ہوتا ہے کسی اور بیماری سے لیکن کینسر میں یہ فرق ہے که یه خود صحت مند حصے کو مغلوب کر رہا ہوتا ہے.یعنی جسم کا اپنا ایک حصہ ہے لیکن ان کا خون چوس کر خود بڑھ رہا ہے ان کی دوسری طاقتوں کو غصب کر رہا ہے اور وہ بیچارے صحت مند اجزاء جو اپنا دفاع نہیں کر سکتے اُن پر یہ غالب آ جاتا ہے اور ان کا خون چوستا چلا جاتا ہے.تو یہ بغاوت ہے جس کو انگریزی زبان میں اصطلاحاً کینسر کہا جاتا ہے یعنی جسمانی بغاوت اور روحانی لحاظ سے ایسے شخص کا نام اشر رکھا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے بھی بعض ایسے لوگ پیدا ہوئے تھے جنہوں نے خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کو اور صالحین کو ایک ہی قرار دیا تھا یعنی کینسر سوسائٹی کا.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے خمود کی قوم میں سے ایک نے کہا یا شمود کی قوم نے صالح کو مخاطب ہو کر کہا الْقِي الذِّكْرُ عَلَيْهِ مِنْ بَيْنِنَا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ آشر ( القمر : ۲۶) کیا ہم جیسے لوگوں میں خدا کا ذکر چل پڑے اور خدا کا ذکر اتارا جائے ہمارے جیسے لوگوں پر ! ہم جانتے ہیں اپنی سوسائٹی کے حال! ہو کیسے سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کلام کرے اور ہم جیسے لوگوں میں سے کسی سے کلام کرے یہ مِنْ بيننا نے ان کی سوسائٹی کی قلعی کھول دی.یعنی ہم جتنے صالح ہیں ہمیں پتہ ہے کہ کتنے صالح ہیں.جو ہمارا حال ہے تقدس کا وہ ہم جانتے ہیں اور ہم میں سے ایک شخص کھڑا ہوا ہے اور یہ دعوی کر رہا ہے مجھ پر تم لوگوں کے درمیان اللہ کا ذکر اتارا جارہا ہے، یہ نہیں ہو سکتا بَلْ هُوَ كَذَّابٌ أَشِر نہیں نہیں بلکہ یہ تو بہت سخت جھوٹا ہے اور امیر ہے، باغی ہے، سوسائٹی کا کینسر ہے، یہ تمہیں کھا جائے گا، تمہارا خون چوس جائے گا اور بیمار حصہ کے ہونے کے باوجود یہ صحت مند حصہ پر قبضہ کر جائے گا، تو اسی کو کینسر کہتے ہیں.لیکن ساتھ ہی اس آیت کے پہلے حصہ نے بتا دیا کہ ان کی دلیل بالکل بودی اور بے معنی ہے اور اس کے اندر ہی اس کی اپنی شکست کے سامان موجود ہیں.جس سوسائٹی کا یہ حال ہو کہ لقائے باری تعالیٰ سے مایوس ہو چکی ہو جو اس بات کو تعجب سے دیکھے کہ خدا کا کلام نازل ہوسکتا ہے اس زمانے میں کسی انسان پر ، اُس سوسائٹی کا یہ کہنے کا حق نہیں کہ ہم صالح ہیں اور تم غیر صالح ہو.صالح تو وہی ہوگا جس سے خدا کلام کرسکتا ہے، وہ تو صالح نہیں کہلا
خطبات طاہر جلدم 701 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء سکتا جو اپنے منہ سے اقرار کرتا ہے کہ ناممکن ہے کہ ہم جیسے لوگوں سے خدا کلام کر سکے.تو دوسرے کی کمزوروی کا اثبات تم کر سکو یا نہ کر سکو اپنی کمزوری کا اقرار تم نے بہر حال کر لیا.پس یہ تو بہر حال درست نہیں کہ ایسے لوگ جو خدا سے ہم کلام ہونے کا دعوی کریں، یہ دعویٰ کریں کہ اللہ نے ان سے کلام کیا ہے ان کو اشر قرار دیا جائے یعنی باغی جو غیروں پر بزور قابض ہو جائیں اور ناحق قابض ہو جائیں کیونکہ ان کے ساتھ بغاوت کی دوسری علامتیں بھی نہیں ہوتیں.بغاوت کے لئے جو طاقت چاہئے ، بغاوت کے لئے جو جتھہ چاہئے ، بغاوت کے لئے جو دنیاوی سامان چاہئیں وہ ان سے بھی عاری ہوتے ہیں.تو کسی نقطہ نگاہ سے دیکھو وہ لوگ جو خدا کی طرف سے آتے ہیں اور خدا سے ہمکلام ہونے کا دعوے کرتے ہیں.ان پر یہ کسی پہلو سے بھی الزام نہیں لگ سکتا کہ وہ ائیر ہیں یعنی سوسائٹی کا کینسر ہیں لیکن الزام لگانے والے اگر اپنے حالات پر غور کریں اور تجزیہ کریں تو بعینہ ان پر یہ مثال صادق آتی ہے.جسم کا ایک حصہ دوسرے حصے کو کمزور دیکھ کر اس پر قابض ہو جائے اور اس کے تمام اقتصادی چینلز (Channels ) پر قبضہ کر لے.وہ صالح خون جس قوم کے عوام الناس کے جسموں میں دوڑنا چاہئے وہ چند قابضوں کے جسم کی رگوں میں دوڑنا شروع کر دے اور Vampire ( ومپائر ) کی طرح وہ ساری قوم کو چوسنے لگ جائے.اس کو اشر کہتے ہیں.بس دعوے تمہارے کچھ اور ہیں واقعات اور حالات جو قطعی طور پر ثابت کر رہے ہیں وہ بالکل کچھ اور بات کو ثابت کر رہے ہیں.بہر حال جو کچھ بھی کہو میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں کہ ہمارا تو کل کسی دنیا کے سہارے پر نہیں.صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی ذات پر ہمارا تو کل ہے.کچھ احمدی بے چین ہیں، کچھ احمدی بے قرار ہیں کہ دیر ہورہی ہے.وقت کے مالک تم تو نہیں ہو وقت کا مالک تو ہمارا خدا ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کس وقت کس تقدیر کو ظاہر فرمانا ہے اور یہ بھی ایک وجہ ہوسکتی ہے کہ کچھ دیر خاموشی کیوں اختیار کی گئی اور پھر ایک دم اس خاموشی کو کیوں تو ڑا گیا کہ جس خدا کی تقدیر کے متعلق باتیں ہو رہی تھیں کہ وہ نازل ہونے والی ہے وہ بظاہر نازل نہیں ہوئی.
خطبات طاہر جلدم 702 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء چنانچہ ہمارے علم میں ہے کہ سی.آئی.ڈی کی طرف سے مسلسل ایسی رپورٹیں بھجوائی جاتی رہی ہیں کہ جماعت احمد یہ یہ باتیں کرتی ہے کہ تمہاری مدت آٹھ سال کی ہے اس سے زیادہ آگے نہیں چلو گے.باوجود اس کے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں کوئی نام نہیں تھا، کوئی زمانے کی تعیین نہیں تھی لیکن جو ظلموں سے بیچارے ستائے گئے ہوں وہ ڈھونڈتے ہیں سہارے، تلاش کرتے ہیں وہ جگہیں جہاں امکانی طور پر ایک ذکر موجود ہو.تو ہوسکتا ہے کہ احمدی یقیناً کرتے ہوں گے.میرے علم میں ہے بعض دفعہ مجھے بھی یہ خیال گزرا کہ یہ کوئی بعید نہیں کہ اس زمانے کے حالات پر چسپاں ہونے والی پیش گوئی ہو.تو اس میں تو کسی احمدی کا قصور نہیں ہے.جس بیچارے کو ستایا جا رہا ہے، مارا جا رہا ہے، لوٹا جا رہا ہے، زندگی کے بنیادی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے، اپنے ہی ہم وطنوں کے ذریعہ اسے وطن کا دشمن قرار دیا جا رہا ہے اور مروایا جا رہا ہے اور پھر سر براہ مملکت ہوتے ہوئے یہ بجائے اس کے کہ اُن کے حقوق کی حفاظت کریں ان کے حقوق کی خاطر انصاف کی خاطر وہ ان کے دشمنوں سے خود ٹکر لیں ان پر دشمن آزاد چھوڑے جا رہے ہیں ان کی طرف سے اور یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ یہ وطن کے دشمن ہیں ، اتنی مظلومیت کی حالت کے باوجود اگر منہ سے ایک فقرہ نہ نکلے تو پھر تعجب کی بات ہے.تو ہر گز اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ اندازے تھے اور ہوسکتا ہے کہ خاموشی کی بھی یہی وجہ ہو کیونکہ مذہبی دنیا میں یہ واقعہ ایک دفعہ نہیں بیسیوں مرتبہ ہو چکا ہے کہ بعض اوقات بعض خدا کے بندوں کے دشمن اندرونی خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور وہ ڈر جاتے ہیں کہ ہو سکتا ہے واقعہ کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کی تقدیر واقعی ان کے حق میں اور میرے خلاف ظاہر ہو اور بڑے بڑے سرکش بھی مخالفین ایسے ہیں جن کی تاریخ کو قرآن نے محفوظ کیا ہے.ان کے زمانوں میں ایسا ہوتا رہا کچھ دیر خاموشی رہی کچھ دیر تبدیلی کے آثار ہوئے پھر دلیر ہو گئے اور پھر بے دھڑک ہو کر انہی مظالم میں مبتلا ہو گئے جو پہلے کیا کرتے تھے انہی مظالم کو توڑنے لگے دوسروں پر جو پہلے تو ڑا کرتے تھے.تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہوا اور کیوں خاموشی تھی اور کیوں خاموشی توڑی گئی؟ بہر حال دنیاوی وجو ہات تو ہمارے سامنے ہیں وہی کافی ہیں اس کی توجیہ کے لئے کہ کیوں خاموشی اختیار کی گئی ایک وقت تک.
خطبات طاہر جلدم 703 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء مثلاً خاموشی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ الیکشنز (Elections) میں ملائیت کو ایسی شکست فاش دی ہے کہ کچھ دیر کے لئے حکومت کے ایوانوں میں ایک زلزلہ سا آگیا.کبھی بھی ملائیت کو اتنی سر پرستی نہیں ملی تھی کسی حکومت کی طرف سے جتنا آٹھ سال تک ملائیت کی پرورش ہوئی ہے اور اسے سر پرستی دی گئی ہے اور اس کے بعد جب الیکشن کروائے گئے ، عام انتخابات ہوتے تو فوج کی سر براہی میں ہوئے ہیں.ایک شدید قسم کی کثر ملائیت کی سر پرستی کرنے والی حکومت کی سربراہی میں ہوئے ہیں اور ان لوگوں کو توقع یہ تھی کہ شاید تمام جگہ تمام ملک میں، سندھ میں، بلوچستان میں پنجاب میں،صوبہ سرحد میں ، جو شدید سے شدید مولانا ہیں وہی الیکشن میں کامیاب ہوں گے لیکن بڑے بڑے جگادری مولانا نے ایسی شکست کھائی ہے کہ کچھ دیر کے لئے تو یہ مبہوت ہو کے رہ گئے تھے کہ یہ واقعہ کیا ہو گیا ہے.تو بعید نہیں کہ خاموشی اس کی وجہ سے ہوئی ہو لیکن کچھ بھی ہواللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ یہ خاموشی کیوں تھی اور اس سکوت کو اس ظالمانہ طریقہ پر توڑا کیوں گیا ؟ ہمیں تو یہ پتہ ہے کہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوْبُوْا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ وہ لوگ جو مومنوں کو مظلوم مومنوں فتنوں میں ڈالتے ہیں اور پھر باز نہیں آتے یعنی ان کو مہلت دی جاتی ہے اور پھر بھی باز نہیں آتے فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ ان کے لئے خدا بھی تکرار سے کام لے گا اپنی پکڑ میں.ایک دفعہ عذاب نہیں فرمایا کہ عَذَابُ جَهَنَّمَ ہو صرف يَا عَذَابُ الْحَرِيقِ ہو، دونوں اکٹھے اوپر تلے ذکر فرمائے ہیں اور پھر اس مضمون کو خوب کھول دیا کہ کیوں ایک ہی جگہ تکرار کی گئی ہے خدا کی سرزنش اور پکڑ کی.اس لئے کہ انہوں نے بھی تکرار کی ظلم میں.ان کو بھی موقعہ ملا اور پھر باز نہیں آئے خدا کی مہلت سے استفادہ نہیں کیا.چنا نچہ آگے جا کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ إِنَّهُ هُوَ يُبْدِي وَيُعِيدُ کہ دیکھو تمہارے خدا کی پکڑاے محمد ! عہ تیرے رب کی پکڑ بہت شدید ہے اور وہ
خطبات طاہر جلد۴ 704 خطبه جمعه ۶ ۱ را گست ۱۹۸۵ء شروع بھی کرتا ہے پکڑ کو اور پھر دوہرانا بھی جانتا ہے.جس طرح تم ظلم کی ابتداء کرنا جانتے ہوں اور اس ظلم کی تکرار جانتے ہو اس طرح اپنے بندوں کا رب تمہیں پکڑنا اور پھر اس پکڑ کی تکرار بھی جانتا ہے لیکن نہ وہ رب اس میں لطف اٹھاتا ہے نہ اس کے بندے یہ چاہتے ہیں وَهُوَ الْغَفُوْرُ الْوَدُودُ عجیب قرآن کریم کا انداز بیان ہے کہ روح اس کلام پر عاشق ہو جاتی ہے.کسی انسان کا کلام ہوتا تو اس کے بعد یہ آنا چاہئے تھا وہ بڑا منتقم ہے اور بڑا ہی شدید ہے پکڑ میں.فرمایہ رہا ہے وہ پکڑنا بھی جانتا ہے.آغاز بھی پکڑ کا جانتا ہے اور اس کی تکرار بھی جانتا ہے اور نتیجہ یہ نکال رہا ہے وَهُوَ الْغَفُورُ الْوَدُودُوہ بہت ہی زیادہ بخشنے والا ہے اور بہت ہی زیادہ پیار کرنے والا ہے.کیا تعلق ہے اس کا اس پہلے فقرے سے؟ ایک تعلق تو یہ ہے کہ نصیحت کی خاطر بتایا جارہا ہے کہ باوجود اس کے کہ خدا کی پکڑ کی تقدیر ظاہر ہو چکی ہو.وہ کھل کے بتا چکا ہو، وہ اتنا مغفرت کرنے والا ہے، اتنا پیار اور محبت کرنے والا وجود ہے کہ اگر اب بھی تم باز آ جاؤ تو اب بھی وہ اپنی پکڑ کو اٹھالے گا اور اپنی پکڑ کے ہاتھ کو کھینچ لے گا.اور دوسری طرف اسی فقرے میں ان کی انتہائی ظالمانہ حالت کا پول کھولا گیا ہے فرماتا ہے اس خدا سے تم مار کھاؤ گے جو اتنا ودود اتنا پیار کرنے والا اور اتنا مغفرت کرنے والا تھا.سوچو کہ تم نے ظلم میں ہر قسم کی حدیں توڑ دی ہوں گی ہر قسم کی انتہا کر دی ہوگی تبھی جا کر غفور اور و دو دخدا سے مار کھا رہے ہو.عجیب کلام ہے بیک وقت امید کو بھی بڑھاتا ہے اور توبہ کی تلقین فرماتا ہے اور دوسری طرف مطعون کرتا ہے قوم کو کہ تم اگر مار کھاؤ گے اپنے خدا سے تو خالصہ اپنے ظلم و ستم کے نتیجہ میں اور اپنے ظلم پر اصرار کے نتیجہ میں.لیکن تمہیں شرم کرنی چاہئے کہ اتنی غفور، اتنی بخشنے والی اور اتنی محبت کرنے والی ہستی کے عذاب کے نیچے آگئے ،اس کے پیار اور اس کی محبت کا نمونہ نہ دیکھا.پس ہم تو غفور اور دودو د خدا پر راضی ہیں اُسی پر ہمارا تو کل ہے اور یہی ہمیں پیغام ہے.وَدَعْ أَذْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ ( الاحزاب :۴۹) ان کے دکھوں،ان کی اذیتوں اور ان کے مظالم کو نظر انداز کر دو اور اپنے رب پر توکل رکھو.لا زم وہ تم پر رحم فرمائے گا اور لاز ماوہ تمہیں غلبہ عطا کرے گا اور اگر یہ ظلم اور تشدد میں اور زیادتیوں میں باز نہیں آئے
خطبات طاہر جلدم 705 خطبه جمعه ۱۶ را گست ۱۹۸۵ء تو پھر وہ پکڑنا بھی جانتا ہے اور اس پکڑ کو دوہرانا بھی جانتا ہے.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا: ابھی نماز جمعہ کے معاً بعد میں برادرم محمد اسلم صاحب قریشی شہید کی نماز جنازہ پڑھاؤں گا.
خطبات طاہر جلدم 707 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء احمدیوں کی قربانیوں کا ذکر اور قانت کی تفسیر ( خطبه جمعه فرموده ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: أَمَّنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ قُلْ يُعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابِ (الزمر: ١٠-١١) اور پھر فرمایا: گزشتہ کچھ عرصہ سے پاکستان سے کچھ ایسے علماء ظاہر کو انگلستان بھجوایا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ وہ وہاں جا کر لوگوں کو گمراہ ہونے سے بچائیں ، حق پر قائم رکھنے کی کوشش کریں اور باطل کے دھوکوں سے اور فریب سے ان کو آزاد کروا ئیں اور تبلیغ اسلام کے نام پر ایک بڑا جتھا بنا کر ان علماء کا بہت بھاری خرچ کر کے ان کو انگلستان بھجوایا گیا ہے.جس قسم کی تبلیغ اسلام انہوں نے یہاں آ کر سکھائی اور جس قسم کی تبلیغ اسلام کا طریق ان کو
خطبات طاہر جلدم 708 خطبه جمعه ۲۳/اگست ۱۹۸۵ء بتایا اب ایسے واقعات یہاں رونما ہورہے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس تعلیم کو عمل میں بھی اب ڈھالا جا رہا ہے اور جو پہلے محض تلقین تھی اب اس کے عملی نمونے بھی ظاہر ہونے لگے ہیں.چنانچہ کچھ عرصہ پہلے اس تبلیغ اسلام کا ایک عجیب نظارہ بیٹلے اور ہڈرزفیلڈ کی سرزمین نے دیکھا.جماعت احمدیہ کی طرف سے ایک جلسہ کا اعلان کیا گیا تھا جس میں کھلی دعوت تھی کہ جو دوست جماعت احمدیہ کے متعلق معلومات حاصل کرنے کی دلچسپی رکھتے ہیں ، وہ شوق سے تشریف لائیں اور جن کو کوئی دلچسپی نہیں جو سننا برداشت نہیں کرتے ان کا حق ہے وہ بے شک تشریف نہ لائیں.چنانچہ ان تبلیغ اسلام کے معلمین نے اس پر یہ ردعمل دکھایا کہ اس تمام علاقے میں گھوم کر بڑی کثرت کے ساتھ عوام سے رابطہ پیدا کیا اور اشتعال انگیزی کو اس درجہ تک پہنچا دیا کہ بعض مساجد میں بعض احمدی سروں کی قیمتیں رکھی گئیں اور اس غرض سے چندے اکٹھے کئے گئے.بعض اطلاعوں کے مطابق تو چالیس چالیس ہزار پاؤنڈ بھی بعض احمدی سروں کی قیمتیں مقرر کی گئیں اور بہت سا خرچ کر کے بسیں اور ویگینز اکٹھی کر کے ان جگہوں میں پہنچائی گئیں.پہلے تو لوگ اکٹھے کئے گئے ان بسوں میں پھر ان جگہوں میں ان لوگوں پہنچایا گیا جہاں ان کو احتمال تھا کہ کہیں جماعت احمد یہ دام فریب میں دوسرے معصوم مسلمانوں اور عیسائیوں کو گرفتار نہ کر لے.چنانچہ اس شور اور شر کے نتیجہ میں جماعت احمدیہ چونکہ امن پسند جماعت ہے اور ہرگز زبر دستی کسی ایسے شخص کو ہدایت دینے کا دعوی ہی نہیں کرتی جو ہدایت کا نام سننے کے لئے بھی تیار نہ ہو اس لئے اور کچھ اس غرض سے کہ مقامی پولیس اور مقامی انتظامیہ کی ہمدردیاں زیادہ تر ان کے ساتھ تھیں اور وہ چاہتے تھے کہ احمدی اپنا حق چھوڑ دیں اور وہ حق غصب کرنے والے اپنی بات منوا لیں.چنانچہ ان دونوں وجوہات کی بناء پر جماعت احمدیہ نے فیصلہ کیا کہ وہ جلسہ نہیں ہوگا اور چونکہ اس سے پہلے اعلان ہو چکا تھا اس لئے چند دوستوں نے وہاں جا کر ایسے مہمانوں کو جو غلطی سے آگئے ہوں، جن تک جلسہ کی Cancellation یا تنسیخ کی اطلاع نہ پہنچی ہو بتانے کے لئے کہ جلسہ منسوخ ہو گیا ہے پروگرام بنایا کہ کچھ عرصہ ہم وہاں کھڑے رہیں گے جو اتفاقیہ آنے والے ہیں ان کو بتا دیں گے.چنانچہ جب یہ لوگ جا رہے تھے ان میں دو تین مرد تھے جو اس علاقے کے اچھے معزز انگریز نو مسلم بھی اور پاکستانی ڈاکٹر ز اور ٹیچرز ، ایک انگریز نومسلم خاتون بھی تھیں دو بچے تھے.یہ قافلہ ان
خطبات طاہر جلدم 709 خطبه جمعه ۲۳ راگست ۱۹۸۵ء احمدیوں کا تھا جو غلط فہمی سے آنے والوں کو بتانے کی غرض سے جلسہ کے مقررہ ہال کی طرف جا رہا تھا.اس کے مقابل پر ایک جتھا تھا جو بسوں میں بھر کر علاقہ سے اکٹھا کر کے لایا گیا اور سینکڑوں لاعلم لوگ بیچارے جن کو کچھ علم نہیں تھا کہ خدمت اسلام کیا ہوتی ہے خدمت دین کس کو کہتے ہیں ؟ اکثران میں ایسے ہیں جو یہاں کے معاشرہ سے متاثر ہو کر بدقسمتی سے ہر اس گندگی میں مبتلا ہو چکے ہیں جو مغربی تہذیب پیش کرتی ہے.ان کا رہن سہن، ان کا اٹھنا بیٹھنا ، ان کا مشرب، ان کے ہم مشرب وہ جگہیں جہاں جا کر ناچ گانے ہوتے ہیں، یہ ساری اس باتیں مغربی تہذیب کی ایسی ہیں جو انہوں نے اپنا رکھی ہیں.سب نے نہیں لیکن ان میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس نے اپنے آپ کو کل یہ کھلی چھٹی دے دی ہے لیکن ان میں بھی خدمت اسلام کا ایسا جوش تھا کہ ان سب باتوں کے باوجود انہوں نے اس خیال سے کہ اگر کوئی احمدی ہمارے ہاتھ سے قتل ہوگیا تو دنیا میں انعام اور آخرت میں ثواب اور سارے گناہوں کی بخشش ہو جائے گی، ان بیچاروں نے بھی شمولیت اختیار کرلی.چنانچہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے دو احمدی ڈاکٹرز ، ایک استاد جو نومسلم ہیں، ایک احمدی خاتون جو نو مسلم ہیں جنہوں نے عیسائیوں میں سے اسلام قبول کیا ہوا ہے اور دو بچے وہ جب اس غرض سے جارہے تھے تو جلوس نے ان کو گھیر لیا اور ہمارے ایک ڈاکٹر کو پہلے کھڑے ہوئے مارا پھر زمین پر گرایا ٹھڈوں سے مارا اور اس شدت کے ساتھ ان پر ٹھڈے برس رہے تھے کہ اگر کچھ دیر اور یہ حالت رہتی تو جان کا بچنا محال تھا.اس پر جو باقی ساتھی تھے وہ بھی بیچ میں داخل ہو گئے اور پھر Free For All کہتے ہیں جس کا جو بس چلا وہ اس سے ہوئی.لیکن وہ چونکہ بہت زیادہ تھے، چار یا پانچ آدمیوں کے مقابل پر جن میں دو بچے اور ایک عورت بھی شامل تھی وہ مجاہدین تبلیغ کرنے والے سینکڑوں کی تعداد میں تھے.اس کے نتیجہ میں ہمارے ان احمدیوں کو زخم بھی پہنچے تکلیفیں اٹھا ئیں.وہاں احمدیوں کا خون بھی بہا اور بچوں کے سر پر بھی ایک چھوٹا بچہ جس کا قد اتنا ہے کہ جب ایک مولوی نے اس کے سر پر لاٹھی ماری تو اس کا ہاتھ بمشکل اس کی داڑھی تک پہنچ سکا ایسے بچے کو بھی انہوں نے خدمت اسلام میں شامل کر لیا.یہ بھی خیال نہیں آیا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام پر ہم یہ تبلیغ اسلام کر رہے ہیں جو غزوات میں جہاد پر جانے سے پہلے ان دشمنوں کے مقابل پر جانے والے مسلمانوں کو یہ ہدایت دیا کرتے تھے جو ان کی قتل وغارت کی نیت سے نکلتے تھے کہ خبردار! کسی بچے اور
خطبات طاہر جلدم 710 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھانا.اس مقدس رسول کے نام پر انہوں نے ایک احمدی خاتون پر بھی ہاتھ اٹھائے ، بچوں کو بھی خدمت اسلام کے سبق سکھائے اور ایسا ایک مکر وہ نظارہ وہاں پیش کیا گیا کہ جس کے نتیجہ میں وہ عیسائی جو اسلام کے کچھ قریب آرہے تھے بلک گئے اور قریب آنے کے بجائے متنفر ہو گئے.یہاں تک کہ کسی نے مجھے فون پر یہاں یہ اطلاع دی ایک عیسائی عورت جس نے یہ نظارہ دیکھا تھا اس قدر جوش میں تھی اس نے یہ کہا کہ آج ہم نے اسلام کی اصل روح دیکھ لی ہے.ایسا مکروہ، ایسا خوفناک انسانیت کش نظارہ دیکھا ہے کہ ہم شکر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں عیسائی پیدا کیا ہے اور اسلامی ملک میں پیدا نہیں کیا.یہ ان کی تبلیغ اسلام ہے، یہ اس کے نتائج نکلے ہیں.اس تصادم میں دو گروہ تھے ایک تو وہ جن کا میں نے ذکر کیا ہے کہ اسلام کی طرف منسوب ہو کر اسلام کے پاک نام کو بدنام کرنے کے لئے جو کچھ ان سے ہوسکتا تھا انہوں نے کیا، دوسری طرف یہ چند ایسے نوجوان تھے یا عورتیں اور بچے جو اس سے پہلے بھی خدا کے فضل سے عبادت گزار اور تہجد گزار، خدا کے نام پر لوگوں کو بلانے والے، دن رات اللہ کا ذکر کرنے والے اور اس واقعہ کے بعد بھی ان کی کیفیت اسی رنگ میں اور بھی ترقی کر گئی.پہلے سے بڑھ کر وہ ذکر الہی میں مشغول ہو گئے ، پہلے سے بڑھ کر ان کے ایمان کو اللہ تعالیٰ نے جلا بخشی اور وہ جو نو مسلم خاتون ہیں جب میں نے ان کا حال پوچھنے کے لئے فون کیا تو وہ اتنا خوش تھیں.انہوں نے کہا آپ اندازہ نہیں کر سکتے میرے ایمان کو کتنی تقویت نصیب ہوئی ہے، میں نے اللہ کا کتنا شکر کیا ہے کہ میں بھی خدا کے نام پر دکھ اٹھانے والوں میں شامل ہوگئی اور میرے بچے بھی شامل ہو گئے اور وہ نومسلم جوڑا جس نے چند دن ہوئے بیعت کی ہےان میں سے خاتون تو نہیں تھیں ان کے خاوند اس وقت موجود تھے، کہتے ہیں ان کا یہ حال ہے کہ خوشی سے ان کی مسکراہٹیں ہی نہیں ختم ہور ہیں.کہتے ہیں دیکھو اللہ کا فضل ہے کہ میرے ایمان کو اتنی جلدی خدا نے آزما بھی لیا اور تقویت بھی بخش دی اور مجھے ایمان کا ایک نیا مقام بھی عطا کیا ہے.تو ایک طرف وہ گروہ ہے کہ جو کچھ انہوں نے پایا میں نہیں جانتا کہ ان کو اس کا احساس بھی ہے کہ نہیں لیکن جو اس چھوٹے سے گروہ نے پایا وہ میں جانتا ہوں جو کچھ ان سے وہ چھینے کے لئے آئے تھے وہ اس سے بڑھ کر ان کو عطا کر گئے ، جس نعمت سے محروم کرنے کے لئے آئے تھے اس نعمت سے وہ مزید مالا مال ہو گئے ، جس راہ حق سے ہٹانے کے لئے آئے تھے اس راہ پر زیادہ مستعدی اور
خطبات طاہر جلدم 711 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء زیادہ وفا کے ساتھ قدم مارنے کے انہوں نے عزم کئے.چنانچہ جب میں نے ان کے حال پر نظر کی تو قرآن کریم کی ان آیات کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی جن کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے.یہاں بھی اللہ تعالیٰ دوگروہوں کا مقابلہ کرتا ہے، ان کا موازنہ فرماتا ہے اور بتاتا ہے کہ کس کے ساتھ خدا کے پیار کا سلوک ہوگا اور کس کے ساتھ خدا کا پیار کا سلوک نہیں ہوگا.چنانچہ فرمایا آمَنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِمَا يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ کیا وہ شخص جو قانت ہورات کی گھڑیوں میں وہ سجدے بھی کرتا ہو اور قا ہما کھڑے ہو کر بھی خدا کی عبادت کرتا ہو، دنیا کے مقابل پر آخرت سے ڈرتا ہو اور اللہ کی رحمت کا امیدوار ہو.یہ وہی مضمون ہے جس کو قرآن کریم دوسری جگہ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا (السجدة: ۱۷).کہ وہ خوف سے بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں اور طمع سے بھی اللہ کو یاد کرتے ہیں لیکن وہاں خوف کو مجمل بیان فرمایا گیا تھا یہ ممکن ہے کسی کا ذہن اس طرف منتقل ہو جائے کہ وہ دنیا کے خوف کے وقت خدا کو یاد کرتے ہیں یہ ہرگز مراد نہیں ہے.جو اللہ کے ہوتے ہیں وہ اس بات سے بے نیاز ہوتے ہیں کہ خوف آئے تو خدا کو یاد کریں یہ تو دنیا داروں کا کام ہے کہ خطرے کے وقت اللہ کو یاد کریں اور امن کے وقت خدا کو بھول جائیں.چنانچہ قرآن کریم اس احتمال کی نفی دو طریق پر کرتا ہے.ایک جگہ تو یہ فرمایا کہ مشرک لوگ ہیں ان کی عادت ہوتی ہے کہ جب وہ خطرات میں گھر جاتے ہیں، طوفان ان کو گھیر لیتے ہیں ،غرق ہونے کا خطرہ جان کو لاحق ہو جاتا ہے تب وہ خدا کو یاد کرتے ہیں اور اللہ خوب جانتا ہے کہ جب یہ خطرات ٹل جائیں گے تو پھر وہ خدا کو بھول جائیں گے لیکن اس کی رحمت اتنی وسیع ہے کہ پھر بھی وہ ان کومعاف فرما دیتا ہے، پھر بھی ان پر رحم کر لیتا ہے.دوسری دفعہ یہاں اس موقع پر اس بات کوکھول دیا کہ جب ہم کہتے ہیں يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا تو ہرگز یہ مراد نہیں کہ غیر اللہ کے خوف کی وجہ سے وہ خدا کو یاد کرتے ہیں غیر اللہ کا خوف ان کو ہوتا ہی نہیں.جو خدا والے بن جاتے ہیں دنیا کے خوف سے وہ نا آشنا ہو جاتے ہیں کیونکہ جو خدا کے ساتھ رہتا ہو جس کو احساس ہو خدا کے وجود کا کہ وہ ہر دم میرے ساتھ ہے، جو میری پشت پر کھڑا ہے، ان کو آخرت کا خوف تو ہوتا ہے خدا کی ناراضگی کا خوف تو ہوتا ہے دنیا کا خوف نہیں ہوتا.تو فرمایا یحْذَرُ الْآخِرَةَ وَيَرْجُوْا رَحْمَةَ رَبِّهِ..آخرت کے بارہ میں خوف رکھتے ہیں کہ کہیں ہمارے اعمال کی کوتاہیاں اور ہماری شامت اعمال وہ
خطبات طاہر جلدم 712 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء ہمیں خدا کی ناراضگی کا مورد نہ بنادے، ہمارا انجام بد نہ ہو جائے.یہاں جو لفظ قانت استعمال کیا گیا ہے یہ وہ ایک بنیادی صفت ہے جو اس تمام جملے پر حاوی ہے آمَنْ هُوَ قَانِتٌ.قانت کے عربی میں تین معنی ہیں:.قانت کا ایک مطلب تو ہے اطاعت شعار.مطلب یہ ہے کہ جو کچھ ان کے رنگ ظاہر ہوتے ہیں اس پر اطاعت کا رنگ غالب ہوتا ہے.اگر وہ غصہ کا اظہار کرتے ہیں تب بھی اطاعت خداوندی کی وجہ سے، اگر وہ نرمی دکھاتے ہیں تب بھی اطاعت خداوندی کی وجہ سے، اگر مقابل پر وہ اپنا دفاع کرتے ہیں تب بھی اطاعت خداوندی کی وجہ سے ،اگر انتقام سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں اور معاف فرما دیتے ہیں تب بھی وہ اطاعت خداوندی کی وجہ سے.دوسرا اس کا معنی ہے خشوع و خضوع کرنے والے.اللہ کے حضور وہ بہت زیادہ جھکنے والے ہیں اور عاجزی دکھانے والے ہیں.ان کی جو اطاعت ہے وہ ان کے بجز کی وجہ سے ہے ، وہ خدا کے حضور اپنے آپ کو کچھ بھی نہیں سمجھتے ، اللہ کی راہ میں بچھ جاتے ہیں، اپنے وجود کو خدا کی راہ میں مٹا بیٹھتے ہیں.اس لئے ان کے لئے سوائے اس کے کوئی تقدیر ہی باقی نہیں رہتی کہ خدا کا رنگ ان پر غالب آ جائے جو کچھ کر میں خدا کی خاطر کرنے لگ جائیں اور تیسرا معنی اس کا ہے خاموش.مفسرین نے اس موضوع پر بڑی دلچسپ بخشیں اٹھائی ہیں کہ خاموش کا یہاں کیا تعلق ہے؟ بعض کا خیال ہے کہ خاموشی سے عبادت کرتے ہیں لیکن عبادت میں تو اونچی آواز میں بھی عبادت ہوتی ہے ہلکی آواز میں بھی عبادت ہوتی ہے.دعائے قنوت جولفظ ہے وہ لفظ اسی سے نکلا ہے یا قنوت سے قانت نکلا ہے، یہ کہنا چاہئے اور وہاں خشوع و خضوع کی دعا مراد ہے تو یہاں خاموشی کے کیا معنی ہیں.اگلی آیت میں چونکہ صبر کا مضمون ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں خاموشی سے مراد خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے کے باوجود واویلا نہ کرنے والے خدا کی راہ میں تکلیفیں اٹھا کر خاموشی سے ان کو برداشت کرنے والے اور اللہ سے اپنے تعلقات کا اظہار نہ کرنے والے.اللہ سے جو پیاران کو نصیب ہوتا ہے اس پر وہ تعلی کے طور پر اسے دنیا کے سامنے پیش نہیں کرتے بلکہ ان کے اللہ تعالیٰ.کچھ مخفی تعلقات رہتے ہیں وہ خدا اور بندے کے درمیان ایک راز رہتا ہے.چنانچہ حقیقی نیکی کی ایک تعریف یہ بھی ہے کہ کچھ اس کا نظر آنا بہر حال ایک طبعی امر ہے کیونکہ کچھ عبادتیں اجتماعی عبادتیں ہوتی ہیں.کچھ نیکیاں ہیں جن میں قرآن کریم کی رو سے علی الاعلان
خطبات طاہر جلدم 713 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۸۵ء ہونے کی صفت پائی جاتی ہے.حکم خداوندی ہے اور اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ جب خدا فرماتا ہے کہ بعض نیکیاں علی الاعلان کرو تو علی الاعلان ہی کرو کیونکہ اس سے قوم میں نیکی کی روح زندہ رہتی ہے لیکن فرق صرف یہ ہے منافق اور غیر منافق میں ، قانت اور غیر قانت میں کہ منافق آدمی کی نیکیاں صرف سطح پر رہتی ہیں اور نظر آنے والی ہوتی ہیں اور اندر اس کے بدیاں بھری ہوئی ہوتی ہیں جن کے اوپر پردہ پڑا ہوتا ہے.مومن میں بھی کمزوریاں ہوتی ہیں، مومن سے بھی غفلتیں ہو جاتی ہیں لیکن وہ اپنی نیکیوں کو بھی چھپاتا ہے اور کوشش کرتا ہے کہ اس کی نیکیوں کا ایک حصہ مخفی رہے.چنانچہ خدا کی راہ میں قانت کا مطلب ہے اپنی نیکیوں پر پردہ ڈالنے والے، خاموشی کے ساتھ سے نیکیاں، اپنے اور رب کے تعلقات کو چھپانے والے اور ہر نیک انسان کے اندر یہ شرط لازماً ہونی چاہئے ورنہ وہ قانت نہیں کہلا سکتا.یہ وہ صفات ہیں تبھی قانت کہتے ہیں فرمایا قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِما خاموشی کے کیا معنی ہیں.صرف دن کو عبادتیں نہیں کرتے وہ رات کے پردوں میں چھپ کر بھی خدا کی راہ میں کھڑے ہونے والے لوگ ہیں ، وہ رات کے پردوں میں بھی خدا کے حضور سجدہ کرتے ہیں صرف وہ دن کی روشنی میں اطاعت شعار نہیں بنتے.فرمایا کیا یہ لوگ جو ایسی صفات رکھتے ہیں اور آخرت سے ڈرتے ہیں اور اللہ کی رحمت کے امیدوار رہتے ہیں اور آگے جواب کوئی نہیں دیا گیا.یہیں جملہ ختم ہو گیا.ترجمہ کرنے والے اور مفسرین بیچارے یہاں پھر مشکل میں پڑ جاتے ہیں.کہتے ہیں اس کا کیا جواب ہے؟ تو جواب اکثر تر جموں میں یہی دیا جاتا ہے جو ایک Neutral اور درمیانی جواب ہے جس سے فقرہ مکمل ہو جاتا ہے.مفسرین کہتے ہیں کہ یہ قرآن کریم کا ایک انداز بیان ہے کہ فقرہ کا وہ حصہ جس کا مطلب ظاہر ہی ہے اس کو چھوڑ دیا جاتا ہے کہ از خود انسان کے منہ پر وہ جاری ہو جائے گا.چنانچہ وہ یہ معنی لیتے ہیں کہ کیا وہ شخص اور یہ شخص جو نہ کرتا ہو برابر ہو سکتے ہیں، ایک جیسے ہو سکتے ہیں جو یہ باتیں نہ کرتا ہو.ایک جیسے کا مفہوم درست ہے لیکن ان معنوں میں کہ کیا اللہ کا سلوک ان سے وہی ہوسکتا ہے جو ان صفات سے عاری لوگوں سے ہوگا.اس کا اصل طبعی نتیجہ یہ ہے.یہاں یہ بات یا درکھنے کے لائق ہے کہ جب قرآن کریم ایک سوال اٹھا کر اس کا جواب دیئے بغیر آگے گزرتا ہے تو اس کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ چونکہ جواب ظاہر ہے اس لئے خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلدم 714 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۸۵ء نے وہ حصہ چھوڑ دیا بلکہ اس میں تو عقل کے لئے ایک چیلنج ہے کہ یہ جو بعد کی خاموشی ہے اس خاموشی کے اندر کچھ چیزیں چھپی ہوئی ہیں بہت سی حکمتیں ہیں جو خفی ہیں تو ان امکانات پر غور کرو اور تلاش کرو کہ خاموشی میں خدا تعالیٰ نے کیا کیا جواب رکھے ہوئے ہیں.چنانچہ قانت میں ایک یہ بھی جواب ہے کہ جہاں خدا کے بندے اپنے تعلقات میں قانت ہو جاتے ہیں خدا ان کے بارے میں اپنے تعلقات میں قانت ہو جاتا ہے اور خدا کا سلوک بھی ان سے مخفی اور پردہ راز میں رہتا ہے اس کی تفصیل بیان نہیں فرماتا.وہ جانتے ہیں جن سے خدا کا وہ سلوک ہوتا ہے یا اللہ جانتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ اس زمانہ میں سب سے زیادہ صاحب تجربہ ہیں بلکہ وہی ہیں جن سے یہ تجربے دوبارہ اس دور میں زندہ ہوئے آپ نے اس مضمون پر روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں خدا سے ہمارا ایک تعلق ہے جس کو کوئی آنکھ پہچان نہیں سکتی ،کوئی جان نہیں سکتا وہ تعلق کیا ہے اور اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بھی ایک تعلق ہے جس کو دنیا کی آنکھ مجھ ہی نہیں سکتی.اس تک اس کی رسائی ہی نہیں ہے.تو یہ جو خاموشی ہے جواب میں یہ فصاحت و بلاغت کا کمال ہے.اس قانت کا جواب دیا جارہا ہے کہ اے میرے بندو! تم جو قانت ہواور میرے بارہ میں اپنے پیار اور محبت کے ایک حصے کو چھپاتے ہو اور صرف اس حصہ کو ظاہر کرتے ہو جس کا میں تمہیں حکم دیتا ہوں تو میں بھی تمہارے لئے قانت بن جاتا ہوں اور جو سلوک میں تم سے غیروں کے مقابل پر کروں گا اس کا ایک حصہ تو میں ظاہر کرتا ہوں لیکن ایک حصہ چھپانے والا بھی ہوں اور وہ لذتیں وہ ہیں جن سے صرف تم آشنا ہو گے اور تمہارا غیر اس تصور کو بھی نہیں پہنچ سکتا.إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ يقين اہل عقل ہی ہیں جو ان باتوں سے نصیحتیں پکڑتے ہیں اور سبق حاصل کرتے ہیں.يه أولُوا الْأَلْبَابِ کا مضمون قرآن کریم میں اور جگہ بھی ادا ہوا ہے اور وہاں بھی یہی عبادت کا، قیام و سجود کا مضمون ہے.الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ ( آل عمران : ۱۹۲).وہ کون ہیں اُولُوا الالباب پہلی صفت ان کی یہ ہے وہ خدا کی خاطر راتوں کو اٹھ کر قیام بھی کرتے ہیں اور قعود بھی کرتے ہیں.تو یہاں وہی اُولُوا الْأَلْبَابِ مذکور ہیں اور یہ قرآن کریم کی اصطلاحیں ہیں.عقل سے کیا مراد ہے؟ قرآنی اصطلاح میں عقل اس بات کو کہتے ہیں
خطبات طاہر جلدم 715 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۸۵ء کہ جو زندگی کا مقصد ہے اس کو پا جائے ، جو سب سے بڑا خزانہ ہے اس خزانے تک اس کی پہنچ ہو جائے اور دنیا کی دولتوں پر راضی نہ ہو بلکہ ماوراء کی دولتوں پر اس کی نظر ہو اور جو خالق ہے اس سے تعلق باندھے نہ کہ مخلوق کے دام میں پھنس جائے اور یہ سب عقل کی تعریفیں ہیں اگر عقل کے لئے کوئی تعریف بنائی جائے ، یہ ایک الگ مضمون ہے لیکن میں نے اس پر بہت غور کر کے دیکھا ہے اس سے بہتر عقل کی کوئی اور تعریف ہو ہی نہیں سکتی اور نہ ان صفات کے بغیر انسان کی عقل کامل ہو سکتی ہے مگر بہر حال آئندہ کسی موقع پر جب خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی تو میں اس پر روشنی ڈالوں گا.آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قُلْ لِعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّكُمُ لِلَّذِينَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعلان کر دے! کہہ دے! اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو اپنے رب کا تقویٰ اختیار کرو.لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ يقيناً وہ لوگ جو اس دنیا میں احسان کا معاملہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے اسی دنیا میں حسنہ رکھ دی ہے.دیکھنا یہ ہے کہ اس کا پہلی آیت اور پہلے مضمون سے کیا تعلق ہے.یہ بھی چونکہ ابھی آدھی آیت پڑھی ہے میں نے جب بقیہ آیت پڑھوں گا تو وہ تعلق خود بخود ظاہر ہو جائے گا.وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ أَنَّمَا يُوَفَّى الصبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابِ اللہ کی زمین وسیع ہے، یہ محاورہ ہے وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں خدا کے نام پر خدا کی وجہ سے ، خدا سے تعلق اور پیار کے نتیجہ میں کسی پر زمین تنگ کرنے کی کوشش ا کی جاتی ہے.وہ ہجرت پر مجبور ہو جاتا ہے یا اپنے وطن میں ہی اس پر اس کی زمین ،عرصہ حیات تنگ کر دیئے جاتے ہیں.اس موقع پر خدا تعالیٰ اَرضُ اللهِ وَاسِعَةٌ کا محاورہ استعمال فرماتا ہے.اِنَّمَا يُوَفَّى الصُّبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابٍ یقینا اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کو بِغَيْرِ حِسَابِ اجر عطا فرماتا ہے اس نے اور بات کو کھول دیا کہ پہلا مضمون بھی انہی لوگوں کا تھا جو خدا کی راہ میں صبر کرنے والے، دکھ اٹھانے والے اور دکھوں کے وقت اور سکھوں کے وقت دونوں حالتوں میں اللہ ہی کی طرف جھکے رہنے والے.جب وہ خدا کے نام پر صبر کرتے ہیں، خدا کے نام پر مزید دکھ اٹھاتے ہیں تو پھر ان سے خدا کا کیا سلوک ہوتا ہے یہ اس آیت میں مذکور ہے.اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ یہاں اَحْسَنُوا
خطبات طاہر جلدم 716 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ کا مضمون دو اشکال پیدا کرتا ہے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک جگہ تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم خالی دنیا کی حسنہ مانگو گے تو تم آخرت کی حسنہ سے محروم کر دیئے جاؤ گے اور اس دعا کو ناپسند فرماتا ہے اور ایسی دعا کرنے والوں کے متعلق تنبیہ فرماتا ہے جو کہتے ہیں رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةًاور جو دعا سکھائی وہ صرف یہ ہے رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً تو یہاں تو ان کا قصہ بظاہر دنیا میں ہی چکا دیا.فرمایا لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ور پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دنیا میں ان کو حسنہ مل گئی تو کیا وہ آخرت سے محروم رہ جائیں گے اور یہی ان کی جزاء ہے ساری قربانیوں کی.قانت اللہ ہونے کی.خدا کی خاطر رات کو اٹھ کر سجدوں اور قیام میں گزارنے کی خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے کی یہ عجیب جزاء خدا نے دی ہے کہ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً تو اس کا جواب یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو حَسَنَةً کا لفظ استعمال کیا ہے وہ دنیاوی اموال کے لئے استعمال نہیں بلکہ نیکیوں کے لئے استعمال کیا ہے جہاں رد کیا ہے فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وہاں ان لوگوں کی دعا کو رد کیا بچن کے نزدیک حَسَنَةٌ کا تصور دنیا کی دولتیں ، دنیا کے عیش، دنیا کے اموال اور دنیا کی وجاہتیں ہیں.جب آپ اس حَسَنَةٌ کے ترجمہ کوملحوظ رکھ کے دعا کرتے ہیں کہ ربنا اتنا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً تو یہ رد کرنے کے لائق دعا ہے اور اللہ تعالیٰ اس ادنی اور گھٹیا مطالبہ کو پسند نہیں فرماتا.لیکن جب خدا کے بندوں کی طرف ربَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کی دعا منسوب ہوتی ہے یا اللہ وعدہ کرتا ہے کہ تمہیں دنیا کی حَسَنَةً دوں گا تو وہاں حَسَنَةً اسلامی اصطلاح کی حَسَنَةً ہے اور حَسَنَةٌ کا جہاں جہاں قرآن کریم میں لفظ استعمال ہوا ہے اچھے معنوں میں نیکیاں اور اعلیٰ درجے کی صفات ہیں.تو اس آیت کا اول معنی تو یہ ہے کہ لِلَّذِینَ اَحْسَنُوا جن لوگوں نے اپنے اعمال کو حسین بنانے کی کوشش کی بہت سے معنی ہیں ان میں سے ایک معنی یہ ہے.اَحْسَنَ کہتے حسن بخشنا کسی چیز کی تزئین کرنا.ان کے اعمال موت کا انتظار نہیں کیا کرتے کہ وہ مر جائیں تو پھر جا کے ان کے اندرحسن پیدا ہو.وہ لوگ جو دیانت داری سے تقویٰ کے ساتھ ، خلوص نیت کے ساتھ اپنے اندر تحسین پیدا کرنا چاہتے ہیں.اپنے اندر مزید حسن داخل کرنا چاہتے ہیں، اپنے اعمال اور اپنے اخلاق کی تزئین کرنا چاہتے ہیں فرمایا دنیا میں تو ان کو یہ تزئین عطا ہو
خطبات طاہر جلدم 717 خطبه جمعه ۲۳/اگست ۱۹۸۵ء جاتی ہے، ان کے اعمال کا حسن دنیا دیکھ لیتی ہے، ان کے اندر ایسی پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہو جاتی ہیں کہ وہ دنیا کو بھی حسین نظر آنے لگتے ہیں في الدُّنْيَا حَسَنَةً ہو جاتا ہے.اس لئے یہ دعوی کہ ہم خدا کی راہ پر چل رہے ہیں اور حقیقت میں ہم تحسین کر رہے ہیں دنیا کو بھی اور اپنے اعمال کو بھی حسن بخش رہے ہیں اور عملاً اس دعویٰ کے بعد نہایت مکروہ اعمال ہوں ، ایسے اعمال جو اپنوں کو بھی اس دین سے متنفر کر دیں جس طرف وہ منسوب ہو رہا ہے اور غیروں کو بھی متنفر کر دیں.قرآن کریم کے اس بیان کے مطابق ان کا دعوی ہی جھوٹا ہے.اگر کوئی اس دعوے میں سچا ہے کہ ہم احسان کرنا چاہتے ہیں اور تحسین کرنا چاہتے ہیں تو ان کے لئے ضروری ہے کہ ان کے اعمال ان کی تصدیق کریں.ان کے اخلاق اور کردار میں وہ حسن دنیا دیکھنے لگ جائے اور آخرت کا وعدہ نہ ہو کہ یہ لوگ آخرت میں جنت میں جائیں گے.فرمایا اگر ان کی دنیا ہی حسین نہیں بنی یعنی خدا کی نظر میں وہ اپنے حسین اعمال دنیا میں پیش نہیں کر سکتے تو پھر آخرت کی امید چھوڑ دیں.اگر یہاں حسن عطا نہیں ہوا تو آخرت میں بھی ان کو کوئی حسن عطا نہیں ہوگا.تو ایک تو یہ معنی ہے اور احسان کے دعوی کرنے والوں کے اوپر یہ معنی اطلاق پاتا ہے اس لحاظ سے کہ انہوں نے دعوی کیا ہم حسین کام کرتے ہیں، ہم اصلاح کی غرض سے آئے ہیں، ہم نیکیاں پھیلانے کے لئے آئے ہیں تو فرمایا یہ تو کوئی ایسا مشکل معاملہ نہیں ہے اسی کسوٹی پر تم پر کھے جاؤ گے.جس حسن کا تم دعوی کرتے ہو وہ اس دنیا میں اگر تمہارے اندر نہیں نظر آتا تو تم جھوٹے ہو.دوسرا معنی ہے خدا کی طرف سے جزا کے طور پر حسن اور وہ لفظ حسنة نہ صرف نیک اعمال پر اطلاق پاتا ہے بلکہ ہر قسم کی نیک جز پر بھی اطلاق پاتا ہے.جب خدا فرماتا ہے کہ میں تمہیں حسنة عطا کروں گا تو صرف یہ مراد نہیں ہوا کرتی کہ میں تمہیں نیک اعمال بخشوں گا، میں تمہیں نیک اخلاق عطا کروں گا، تمہاری روحانی شکلوں کو حسین بنادوں گا بلکہ یہ مراد ہوتی ہے کہ میں تمہیں ہر قسم کی وہ عطا دوں گا جس میں کسی لحاظ سے بھی کوئی حسن پایا جاتا ہے.تو یہاں معنی وسیع ہو جاتے ہیں.تو فرمایا کہ وہ لوگ جو حقیقی معنوں میں احسان کا سلوک کرتے ہیں اور اپنے اعمال کو حسین بناتے ہیں اور غیروں سے بھی احسان کا سلوک کرتے ہیں ان کے لئے میرا یہ وعدہ نہیں ہے کہ وہ جب تک مریں گے نہیں ان کو جز انہیں ملے گی اس دنیا میں بھی ان کے لئے جزا مقدر ہے اور اسی دنیا میں وہ اپنے اعمال کے نیک
خطبات طاہر جلدم 718 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۸۵ء میٹھے پھل کھائیں گے یہیں وہ سب کچھ ان کو ملے گا.چنانچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ وَ اُتُوْا بِهِ مُتَشَابِهَا ( البقرة :۲۶) میں جو مضمون ہے وہ بھی اسی مضمون کا ایک حصہ ہے کہ وہ کہیں گے اے اللہ ! ہماری نیکیوں کے کچھ پھل تو دنیا میں بھی ہمارے سامنے پیش کئے گئے تھے تو نے ہی دیئے تھے اب جو تو ہمیں پھل دے رہا ہے یہ تو ویسے ہی ہیں گویا کہ وہی ہوں گے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.نہیں تم نہیں جانتے ان سے کوئی نسبت ہی نہیں دنیا کی حسنة بھی اگر چہ حسنة ہوتی ہے لیکن آخرت کی حسنۃ سے اس کو کوئی نسبت نہیں ہے.تو فرمایا فی هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةً ہم ان کو مستقبل کے وعدوں پر زندہ نہیں رکھیں گے، مابعد الموت کی جنتوں کی بشارتیں نہیں دیں گے.وہ دیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی اس دنیا کی بشارتیں بھی دیں گے، اس دنیا میں بھی ان کو جزا ملے گی وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةُ اور اسی مضمون کو آگے بڑھا کر اس شک کو دور فرما دیا کہ شاید اس دنیا کی حسنہ کے بعد آگے ان کو کچھ نہیں ملنا.چنانچہ یہ مضمون وہیں سے آگے بڑھتا ہے.وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ وہ جو غیر تم پر نگی ڈالنا چاہتے ہیں، تمہارا عرصہ حیات تنگ کرنا چاہتے ہیں اور ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہم غیر کو نا کام کر دیں گے.وہ ہر گز تمہارا عرصہ حیات تنگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوگا جتنی وہ تمہاری زمینیں تنگ کرنے کی کوشش کرے گا اتنی ہی خدا تمہیں وسیع تر زمین عطا فرماتا چلا جائے گا.ایک ملک میں تمہیں روکنے کی کوشش کرے گا تو تم اور ملکوں میں پھیل جاؤ گے.ایک براعظم میں تمہیں پابند کرنے کی کوشش کرے گا تو نئے براعظم تمہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمادے گا.غیر اللہ کی مجال نہیں ہے کہ وہ خدا والوں کی زمینوں کو تنگ کر دے.وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ خدا کی زمین وسعت پذیر ہے اور وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی جاتی ہے اُن لوگوں کے لئے جو خدا کے ہیں، جن کی صفات پہلے بیان ہوئی ہیں.اِنَّمَا يُوَفَّى الصّبِرُونَ يقيناً صابرون وہ لوگ صبر کرنے والے ہی ہیں جن کو لازماً اجر دیا جائے گا اور وہ اجر اس دنیا تک محدود نہیں ہوگا بلکہ بغیر حساب ہوگا اس لئے اگر کوئی وہم کسی کے دل میں گزرا ہو کہ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً کہہ کے ہماری نیکیوں کا یہیں قصہ ختم کر دیا گیا ہے فرماتا ہے کہ نہیں اگر تم صبر کرنے والوں میں ہو گے تو صبر کرنے والوں کا اجر بے حساب ہے.
خطبات طاہر جلدم 719 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۸۵ء چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا انت میں جو خاموشی ہے اس کا ایک معنی صبر بھی ہے خدا کی خاطر دکھ اٹھانا اور واویلا نہ کرنا شکوے نہ کرنا کہ او ہو ہم ایمان لے آئے تھے ہمارے پر یہ مصیبتیں پڑ گئیں.از دیا دایمان کی خاطر بعض دفعہ لوگوں کو خدا تعالیٰ کی قدرتوں کا یقین دلانے کے لئے وہ یہ ذکر کرتے ہیں کہ ہم نے خدا کی خاطر معمولی سا یہ دکھ اٹھایا تھا تو خدا نے یہ جزا دی مگر احسان کے طور خدا والوں کو بتانے کے لئے کہ دیکھو ہم نے اس نام میں کیسی مصیبت پائی ہے وہ ہرگز کبھی کوئی ایسا اظہار نہیں کیا کرتے بلکہ خدا کی خاطر صبر کرتے ہیں ان کے لئے فرمایا بے حساب اجر ہے.پس جہاں تک ان کی اس کوشش کا تعلق کہ وہ خدا کی راہ میں روڑے اٹکادیں اور وہ لوگ جو سچائی کی طرف مائل ہو رہے ہیں ان کو مائل ہونے سے روک دیں اور جہاں تک ان کی اس کوشش کا تعلق ہے کہ احمدیت کو دنیا میں پھیلنے سے روک دیں اور ان پر زمین تنگ کر دیں تو یہ آیات بتا رہی ہیں کہ اگر احمدی قانت رہیں گے ان تینوں معنوں میں جو میں نے بیان کئے ہیں اور اگر احمدی خدا کے حضور راتوں کو اٹھنا نہیں چھوڑیں گے ، راتوں کے سجدوں سے غافل نہیں رہیں گے اور راتوں کے قیام سے غافل نہیں رہیں گے اور اگر احمدی دنیا کے خوف سے آزاد ہو کر آخرت کے خوف کو اپنالیں گے اور اس خوف کا یہ معنی نہیں ہوگا کہ وہ خدا کو محض ایک عذاب دینے والے وجود کے طور پر متصور کریں بلکہ رحمت کی امید رکھتے ہوئے خوف کریں گے.ان دونوں کو اس طرح ملا دیا ہے کہ خوف کو رحمت پر غالب نہیں آنے دیا بلکہ رحمت کو خوف پر غالب کر دیا.پہلے خوف کا ذکر اور بعد میں رحمت کا ذکر یہ طرز بیان ہی بتا رہی ہے، یہ وہ ایسی ترتیب ہے کہ اگر پہلے خوف کا ذکر ہونے کی بجائے رحمت کا ذکر ہوتا اور پھر خوف کا ذکر ہوتا تو یہ ڈرانے کا طریق ہے اور اگر تھوڑا سا ڈرا کر پھر اس خوف کو دور کر دیا جائے اور رحمت اور پیار کی باتیں شروع کر دی جائیں تو یہ تبشیر کا طریق ہوا کرتا ہے.تو فرمایا کہ وہ لوگ خدا سے ڈرتے تو ہیں لیکن ایک ظالم کے طور پر نہیں ڈرتے ، ایک منتقم کے طور پر اس سے نہیں ڈرتے ،ایسے خدا کا تصور نہیں رکھتے کہ جس سے ڈرتے ڈرتے جان ہی انسان کی نکل جائے اور اس سے بخشش کی امید نہ ہو بلکہ يَرْجُونَ رَحْمَتَ اللهِ ( البقرہ:۲۱۹) ایسی حالت میں ڈرتے ہیں کہ اس ڈر کے نتیجہ میں بھی وہ رحمت کی توقع رکھتے ہیں.جوں جوں خدا کا خوف ان کے دل میں بڑھتا چلا جاتا ہے وہ اپنے آپ کو زیادہ خدا کی رحمت کا مستحق سمجھنے لگ جاتے ہیں گویا کہ خوف ہی خدا کی رحمت کا ان کے لئے
خطبات طاہر جلدم 720 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۸۵ء ضامن بنتا چلا جاتا ہے.یہ وہ خوف ہے یہ وہ حذر ہے جس کا ذکر فرمایا گیا ہے.تو فرمایا اگر احمدی اس بات پر قائم ہو جائیں تو پھر لازماً ان کا عرصہ حیات دنیا میں کوئی بھی تنگ نہیں کر سکتا.وہ پھیلتے چلے جائیں گے، نئی نئی رحمتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کو عطا ہوں گی ،نئی نئی برکتیں ان کے گھروں پر باران رحمت بن کر نازل ہوں گی اور یہ اجر اس دنیا میں بھی ملے گا ہم انہیں آخرت کا انتظار نہیں کروائیں گے.جو کچھ ان کے مال لوٹے جائیں گے، جو کچھ ان کو دکھ دیئے جائیں گے اس کا بدلہ ہم ان کو اس دنیا میں ساتھ دیں گے لیکن یہی تک محدود نہیں رکھیں گے بلکہ اس بدلے کو وسیع کر دیں گے یعنی واسعة کا مضمون بھی ہر مضمون میں پھیل جاتا ہے ایسا عجیب یہ فصیح و بلیغ کلام ہے کہ ایک لفظ دوسرے کے ساتھ جوڑ رکھتا ہے اور ایک دوسرے کو تقویت دیتا ہے.تو یہاں وَاسِعَة کا مضمون یہ ہے کہ اس دنیا میں ان کے اعمال کو بھی ہم حسن عطا کرتے چلے جائیں گے اور ان کی دنیاوی نعمتوں میں بھی اضافہ کرتے چلے جائیں گے اور اس رحمت کو دنیا تک ہی محدود نہیں رکھیں گے بلکہ آخرت تک وسیع کردیں گے کیونکہ اللہ کی ارض یہ ارض نہیں ہے جو تمہاری ارض ہے وہ دونوں جہان پر وسیع ہے.جب ارض اللہ کہا جاتا ہے تو اس سے مراد یہ دنیا کی زمین نہیں رہتی ارض اللہ تو ساری کائنات پر حاوی ہے.كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ (البقره: ۲۵۶) تمہاری ارض اور تمہارے آسمان خدا کے تخت کے نیچے ہیں.پس فرمایا پھر وہ اپنے اجر کو وسعت عطا کرے گا اور اس دنیا میں بھی اجر دے گا اور دوسری دنیا میں بھی اجر دے گا اور پھر فرمایا یہ اجر کا طریق بھی اتنا وسیع ہوگا نہ یہاں حساب چلے گا اور نہ وہاں حساب چلے گا، یہاں بھی بے حساب ہوگا اور وہاں بھی بے حساب ہوگا.تو جن خوش نصیبوں سے تھوڑی سی معمولی سی قربانی لے کر اتنے عظیم الشان وعدے ہوں اور ان وعدوں کی یقین دہانی کے لئے نقد سودے بھی ساتھ ہو رہے ہوں ان سے کون ان کا ایمان چھین سکتا ہے، کون ان سے خدا تعالیٰ کی راہوں پر چلنے کا عزم چھین سکتا ہے، کون ان کے حوصلوں کا سر نیچا کر سکتا ہے ناممکن ہے.تو جو چاہیں کریں جس قسم کے ہتھیار ان کے پاس ہیں لے کر باہر نکلیں لازماً انہوں نے نامراد رہنا ہے، لازماً انہوں نے ناکام رہنا ہے کیونکہ قرآن کریم یہ اعلان فرما رہا ہے.جو جیتنے والی صفات حسنہ بیان فرما رہا ہے وہ تو ہماری ہیں اور تم ہماری صفات بڑھانے میں مدد کر رہے ہو ہیں کم کرنے میں نہیں.یہ دو اور دو چار سے بھی زیادہ روشن بات ہے کہ بہر حال جماعت
خطبات طاہر جلدم 721 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۸۵ء احمد یہ غالب آئے گی، ہر سرزمین پر غالب آئے گی ، ہر جہاد میں غالب آئے گی، ہر مقابلے میں غالب آئے گی.اب میں اہل انگلستان کو یہ بتانے کے لئے کہ بس کہیں ان کو یہ وہم نہ ہو جائے کہ انہوں نے بھی قربانی میں خوب حصہ لے لیا اور وہ اہل پاکستان کیبر ابر ہو گئے.میں پاکستان کا بھی ذکر تھوڑا سا کردوں.جن مظالم کا جماعت احمدیہ پاکستان اس وقت نشانہ بنی ہوئی ہے اس کا عشر عشیر بھی یہاں آپ نہیں دیکھ رہے.چند گالیاں ان کی چھپ گئیں، چندان کے فحش کلامی کے نمونے آپ نے یہاں دیکھ لئے اور آپ کے دل جل گئے اور آپ نے سمجھا کہ بس یہی بہت ہو گئی ،اب ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے.وہاں دن رات پیشہ ور مولوی اس کے سوا اور کام ہی کوئی نہیں جانتے کہ غلیظ سے غلیظ گالیاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیں اور صرف پیشہ ور مولوی ہی نہیں حکومت کے سربراہ بھی اس مشغلے میں ان کے ساتھ ہیں اور وقتا فوقتا یاد دہانی کرواتے رہتے ہیں کہ تم ایک مظلوم اور بے سہارا قوم ہو تم ایک مجبور قوم ہو، ہم تمہیں ہر طرح ذلیل اور رسوا کریں گے، ہر قسم کا دکھ تمہیں دیں گے اور اسی پر بس نہیں کی جاتی پھر قتل و غارت کی تعلیم دی جاتی ہے ، پھر قتل و غارت ہوتے ہیں پیشہ ور آدمی رکھے جاتے ہیں.اگر چہ بیٹے کی سرزمین میں بھی اللہ تعالیٰ نے یہ نظارہ دکھایا کہ ایک احمدی کے مقدس خون سے وہ سرزمین شاداب ہوئی ہے یہ اہل انگلستان کی خوش قسمتی ہے مگر یہ نہ سمجھ لیں غلط نہی سے کہ وہ سب کچھ جو وہاں ہو رہا ہے وہ آپ کے ساتھ بھی ہورہا ہے.ان حالات میں سے گزرنے کے بعد آپ کو یہ یاد رکھنا چاہئے کہ یہ ایک طعمہ ہے محض ، ایک چھوٹا سا لقمہ ہے یہ بتانے کے لئے کہ قربانیاں دور سے دیکھنا اور چیز ہوتا ہے اور قربانیوں میں سے گزرنا کچھ اور بات ہوتی ہے.یہ دو چیزیں ایک جیسی نہیں ہوا کرتیں.چنانچہ ایک جواب جو اس سوال میں مخفی ہے وہ یہ بھی ہے فرمایا کہ وہ لوگ جو ان تجربوں میں سے گزر رہے ہیں ان مومنوں جیسے تو نہیں ہو سکتے جو نظریاتی طور پر یہ ساری باتیں مانتے ہیں لیکن ان تجارب میں سے ان کی زندگیاں نہیں گزریں.خدا کی عبادت اور اس کی خاطر قربانیاں اور خدا کی خاطر صبر اور رضا کی اور خاموشیاں یہ تجربے عملاً ان کو حاصل نہیں ہوئے تھوڑا بہت یہاں اور وہاں چکھ لیا ہے نظریاتی طور پر ایمان رکھتے ہیں لیکن یہ اس جیسے نہیں ہو سکتے.تو جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا
خطبات طاہر جلدم 722 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء سوال اٹھا کر جب قرآن جواب دینے میں خاموشی اختیار کرتا ہے تو مضمون کو وسیع سے وسیع کر دیتا ہے.بہت سے امکانی جوابات ہیں جن کو وہ کھلا چھوڑ دیتا ہے پھر مومن کا کام ہے وہ غور کرے اور تلاش کرے اور پھر لطف اٹھائے ان مخفی جوابوں سے جو اس خاموشی میں پنہاں ہیں.تو اہل پاکستان کی طرف سے تو کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جو مجھے ان کے دکھوں کی تفصیل معلوم نہ ہو رہی ہو، کوئی ایسی جگہ نہیں جہاں سے ان کے دکھوں کی تفصیل معلوم نہ ہو رہی ہو.ساہیوال میں ہمارے جو معصوم قیدی ہیں، کوئی ان کا جرم نہیں ہے اور سخت گرمیاں بھی انہوں نے نہایت ہی تکلیف دہ حالات میں دیکھیں سخت سردیاں بھی انہوں نے نہایت تکلیف دہ حالات میں دیکھیں، ان کی جو داستان ہے وہ بڑی دردناک ہے.میں نے وہ منگوائی ہیں اور مختلف قسطیں ان کی آ رہی ہیں ان پر جو بیتی ہے جن حالات سے وہ گزرے ہیں، ان میں سے ایک نے لکھ کر وہ مجھے بھوانی شروع کی ہیں اور ایک شاید دو قسطیں ابھی باقی ہوں تو انشاء اللہ میں شائع کروں گا اور ساری دنیا میں ان کو ہم پھیلائیں گے تا کہ احمدیوں کے لئے تقویت ایمان کا موجب بنیں.ان کو پتہ چلے کہ ان کے بھائی کن سختیوں اور کن مشکلوں میں سے گزر رہے ہیں.پنو عاقل کے شہداء کے وارثوں کی طرف سے خط ملتے ہیں، حیدرآباد کے شہداء کے وارثوں کی طرف سے خط ملتے ہیں، نواب شاہ کے شہداء کے وارثوں کی طرف سے خط ملتے ہیں ،سکھر کے شہداء کے وارثوں کی طرف سے خط ملتے ہیں اور ان کی طرف سے بھی جن کے باپ شہید ہوئے اور وہ تو فرضی جرم میں کہ انہوں نے بم چلایا ہے اور بعض آدمیوں کو قتل کیا ہے، دہشت گردی کے فرضی جرم میں بھی اور قتل کے فرضی جرم میں بھی ملوث ہو کر قید خانے میں پڑے ہوئے ہیں یعنی ان کے باپ کو شہید کر دیا گیا اور بچوں کو قید میں ڈال دیا گیا کہ تم دوسروں کے قاتل ہو.جس ملک میں یہ حال ہے اس ملک کے احمدیوں کا کیا حال ہوگا.اس کا یہاں چند نمونے آپ نے دیکھتے ہیں ان کے ذریعہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے ، ان میں کوئی نسبت نہیں ہے، اس لئے ان کو نہ بھولیں.یہ چھوٹے چھوٹے واقعات یہاں رونما ہوئے ہیں ان میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ اپنے بھائیوں کی تکلیف کی طرف آپ کی توجہ مبذول کروائی گئی ہے.آپ کو یاد کرایا گیا ہے کہ ان کے لئے گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرنے کا آپ پر کتنا فرض عائد ہوتا ہے.کبھی بھی ان کو نہ بھولیں اپنے
خطبات طاہر جلدیم 723 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء آرام کے وقت اپنے عیش کے وقت ، اپنی ہنسیوں کے وقت ،اپنے روز مرہ کے دستور میں ہمیشہ اپنے ذہن کو بار بار ان کی طرف لے کر جائیں اور ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں.کنری میں جو کچھ ہوا اس کے بھی دلچسپ واقعات کی تفصیلات ملتی رہتی ہیں.آج میں اس وجہ سے کہ یہ ذکر بار بار تازہ ہوتا رہے اور آپ کو یاددہانی ہوتی رہے کہ کن کن تجارب سے جماعت وہاں گزررہی ہے.ہمارے نوجوانوں نے کیا کچھ دیکھا اور کیا کچھ محسوس کیا، میں واقعات پڑھ کر سنا تا ہوں.اور یہاں جو زور ہے وہ دکھ پر نہیں یہاں صبر پر زور ہے اور چونکہ صبر کا مضمون چل رہا تھا اس لئے میں آپ کو نمونہ بتا تا ہوں کہ جو خدا کی راہ میں صبر کرنے والے ہوتے ہیں باہر بیٹھے ہوؤں کو ان کے لئے شدید دکھ کا احساس پیدا ہوتا ہے لیکن جو صبر کرتے ہیں خدا ان کو عجیب سکینت عطا فرما دیتا ہے.ان کو ایسا حوصلہ اس وقت بخشا ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو اس وقت مظلوم نہیں سمجھ رہے ہوتے.ایک دوست ہمارے نوجوان ہیں اور جوایم.ایس سی کے طالب علم ہیں وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن پر شدید مظالم کئے گئے اور ماریں کھا کھا کر وہ بے ہوش ہو جاتے رہے اور پھر ہوش آتی تھی تو کلمہ پڑھتے تھے، پھر اس کی پاداش میں ان کو نہایت ظالمانہ طور پر پیٹا جاتا تھا پھر بے ہوش ہو جاتے.یہ وہ گروہ ہے احمدی نوجوانوں کا جو بڑی تعداد میں ہے.ان میں سے ایک نوجوان جو پہلے بھی مجھ سے خط و کتابت کرتے رہے ہیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایم ایس سی کے طالب علم ہیں وہ ایک نواحمدی کی روایت بیان کرتے ہیں جو بہت دلچسپ ہے.وہ کہتے ہیں: ایک نواحمدی تھے جو ان دنوں کنری تھانے میں موجود ہوتے تھے جن دنوں کلمہ طیبہ کے دشمن کلمہ کے فدائیوں کے خلاف ہر قسم کا حربہ استعمال کر رہے تھے.یہ نواحمدی جن کا نام اسلم تھا ان کو بھی گرفتار کر کے تھانے میں ا بٹھایا ہوا تھا.ان کو روحانی اذیت دی جارہی تھی اس طرح کہ ہر روز آنے والوں کو ان کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا تا کہ یہ صاحب احمدیت چھوڑ دیں.اسلم صاحب نے ہمیں بتایا یہ وہ عینی گواہ موقع پر بٹھایا ہوا تھا یہ بتانے کے لئے تم سے بھی یہی سلوک ہوگا ابھی بھی تم باز آجاؤ اور احمدیت کو چھوڑ دو تو وہ کہتے ہیں) کہ جب پولیس والے مار مار کر تھک جاتے اور پھر خداموں کو Lock up میں
خطبات طاہر جلدم 724 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۸۵ء بند کر دیتے تو آپس میں باتیں کرتے تھے کہ یا تو یہ قادیانی کوئی انجکشن لگوا کر آتے ہیں یا کوئی ایسی دوائی کھا کر آتے ہیں جس سے ان کو درد نہیں ہوتا کیونکہ ہم میں سے کسی نے بھی تشدد کے دوران چیخ و پکار نہیں کی تھی.یہ تو خدا تعالیٰ نے ضبط کا بلند حوصلہ عطا کیا ہوا تھا.اس کے بعد اسلم صاحب نے بتایا کہ جب بعد میں ایک موٹر سائیکل چور پکڑا گیا اور تھانے لایا گیا جو اچھا جوان تھا اسے پولیس نے تھوڑا بہت مارا تو وہ چیخنے چلانے لگا یہاں تک کہ محلے کے لوگ اکٹھے ہو گئے تو پولیس والے اسے گالیاں دے رہے تھے اور اسے کہہ رہے تھے کہ چھوٹے چھوٹے کم عمر قادیانی یہاں آتے رہے ہیں جن کو ہم نے اپنی طاقت کے مطابق جتنا بھی مار سکتے تھے مارا لیکن انہوں نے اف تک نہیں کی اور تم اچھے بھلے جوان آدمی ہو تمہیں ہم نے دو جوتے لگائے ہیں تو تم نے بیچ بیچ کر محلہ اکٹھا کرلیا ہے شرم کرو.یہ جو واقعہ میں نے بیان کیا ہے ابھی اس کا کچھ حصہ رہتا ہے اس میں قانتا للہ اور صبر کرنے والے صبور لوگ ہیں خدا کے بندے عباد صبور ان کی دونوں صفات جلوہ گر ہیں یعنی صبر خدا کی خاطر ان معنوں میں کہ دشمن نے ایذارسانی کی انتہاء کر دی لیکن اپنے مقصد سے نہیں ہٹے ،صبر کا اصل بنیادی مفہوم یہ ہے اور کلمہ طیبہ سے جو محبت اور تعلق ہے اس سے باز نہیں آئے ، اس سے انہوں نے تعلق تو ڑا نہیں کلمہ سے بے وفائی نہیں کی.اس کو کہتے ہیں صبر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعریف کی رو سے جو آپ نے فرمائی.نیکیوں پر مخالفانہ حالات کے باوجود قائم ہو جانا اور ان نیکیوں کو پکڑے رہنا اور کسی حالت میں نیکی کو نہ چھوڑنا.دوسرا قانت کی تعریف بھی ہوگئی کہ ادنی ادنی دنیا کے لوگ معمولی سی مارکھا کر شور ڈالنے لگ گئے ، واویلا کرنے لگ گئے مگر وہ لوگ جن کو خدا کی خاطر دکھ دیئے گئے تھے ان کی زبان سے اف بھی نہیں نکلی.تو جو آیات میں نے پڑھ کر سنائی ہیں بالکل یہ ان کی ایک عملی تفسیر ہے جو وہاں احمدی نوجوانوں کو اپنی قربانیوں کے ذریعہ پیش کرنے کی توفیق عطا ہوئی اور یہ فقرہ ویسے مجھے بہت دلچسپ لگا کہ پولیس والے اس کو کہتے ہیں کہ شرم کرو.بے حیائی کی حد ہے یعنی خدا کا نام لینے پر مجبور اور معصوم نوجوانوں کو مار مار کر تم تھک گئے اور نڈھال ہو گئے تم شرم کرو.وہ
خطبات طاہر جلد۴ 725 خطبه جمعه ۲۳ / اگست ۱۹۸۵ء چور جو موٹر سائیکل کا ہے وہ کیا شرم کرے.جس کو مار پڑتی ہے وہ تو بولا ہی کرتا ہے اس میں کون سی شرم کی بات ہے مگر شرم کی بات تو یہ ہے کہ معصوم انسانوں کو محض اس جرم میں کہ وہ خدا کا نام لیتے ہیں تم مارو اور پھر مار مار کر خود نڈھال ہو جاؤ اور اس بات میں ناکام ہو جاؤ اور نامرادر ہو کہ ان کے منہ سے کوئی چیخ سن سکو، ان کا کوئی واویلا دیکھ سکو.تم نے الٹی بات کی ہے اس کو کہنے کی بجائے تمہیں یہ فقرہ کہتے ہوئے شرم چاہئے تھی.پھر وہ کہتے ہیں : اسلم صاحب نے بتایا کہ میرا تو ایمان کم کرنے کی بجائے پولیس نے ایمان بڑھا دیا کیونکہ میں اس نظر سے یہ بات دیکھ رہا تھا کہ تمام خداموں کا منہ دیکھتے ہوئے میرا ایمان بڑھ رہا تھا کہ ابھی تو ان کو یہ معلوم تھا کہ تھانے میں تشدد ہوتا ہے پھر بھی یہ بیج لگا کر آتے ہیں اور اس وقت وہ نو احمدی کہتے ہیں کہ مجھے یہ یقین ہو گیا کہ اگر ان کو یہ معلوم ہوتا کہ وہاں بیج لگانے والے کو گولی ماردی جاتی ہے تو پھر بھی یہ لوگ پیچھے نہ ہٹتے (اور یہ لکھنے والے کہتے ہیں کہ ) خدا کی قسم ! اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ وہاں کلمہ کا بیج لگانے پر گولی ماردی جاتی ہے تو ایک بھی خادم اس قربانی سے دریغ نہ کرتا اور ہنستے گاتے کلمہ طیبہ کا ورد کرتے ہوئے اس راہ میں قربان ہو جاتا“.پھر ایک اور صاحب کا واقعہ لکھا ہے کہ انہوں نے ان کو دیکھا گلیوں میں پھرتے ہوئے ، زنجیروں میں جکڑے ہوئے ، قید خانوں کی طرف جاتے ہوئے ،شہروں میں لوگوں کے سامنے ان کی بے عزتی ہوتے ہوئے ، جوتے عوام میں ان پر برستے ہوئے.اس وقت وہ دیکھنے والا ان کو کیا دیکھ رہا تھا اس نے بعد میں آکر بعض احمد یوں کو نظارہ بتایا کہ تم جس حال سے گزر رہے تھے ایک تمہارا اندرونی تجربہ ہے، ایک ہم باہر سے دیکھنے والوں کو خدا کیا دکھا رہا تھا وہ یہ تھا کہتے ہیں: کہ جب آپ کلمہ طیبہ کا بج لگا کر شہر میں گھومتے تھے تو تمہارا قد عام قد سے دو دو فٹ اونچا نظر آتا تھا اور تمہارے چلنے کا انداز اور چلنے والوں جیسا نہیں تھا.وہ تو ایک الگ شان کی چال تھی جس کی وجہ سے تمہارے چہرے ایک دم رعب دار نظر آتے تھے اور واقعی تم ایک الگ مخلوق کی طرح انفرادیت کی شان
خطبات طاہر جلدم 726 دکھارہے تھے اس وقت ہمیں تمہیں دیکھ کر خوف آتا تھا.“ خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء یہ نظارہ تھا جو دوسری آنکھ نے جو باہر کی آنکھ تھی دیکھا یعنی بجائے اس کے کہ ان کو ذلیل اور رسوا ہوتے ہوئے دیکھ کر بظاہر اور مار کھاتے ہوئے دیکھ ان کو وہ چھوٹے نظر آئیں ان کو یہ بڑے نظر آرہے تھے.جب میں نے یہ پڑھا تو مجھے جنگ بدر کا وہ واقعہ یا د آ گیا اس کی حکمت سمجھ آگئی.جب مشرکین مکہ کے سردار نے ایک نمائندہ بھیجا کہ مسلمان فوج کا جائزہ لے کر آؤ کہ وہ کس قسم کی فوج ہے.اشارہ قرآن کریم نے بھی اس واقعہ کا ذکر فرمایا ہے گو تفصیل نہیں بیان کی.تو جب وہ دیکھ کر واپس آیا تو اس نے آکر کہا.اہل مکہ ! تمہارے جیتنے کا کوئی امکان نہیں.بہتر یہی ہے کہ تم واپس چلے جاؤ کیونکہ جو میں دیکھ کر آیا ہوں میں کامل یقین کے ساتھ لوٹا ہوں کہ تم نے لازم ہارنا ہے اور شکست تمہارے لئے لکھی گئی ہے، تم اس شکست سے بچ ہی نہیں سکتے اس لئے عزت اور جان بچا کر خاموشی سے یہیں سے واپس مڑ جاؤ.انہوں نے تعجب سے پوچھا کہ آخر کیا تم نے دیکھا ہے.کیا غیر معمولی ہتھیار ہیں، کتنی بڑی ان کی نفری ہے.اس نے کہا میں تمہیں بتا تا ہوں ان کی نفری یہ ہے کہ تین سو کے لگ بھک آدمی ہیں، نہ ان کے پاس گھوڑے نہ ان کے پاس نہ اونٹ ، نہ ان کے پاس تیرانداز، تلواریں بھی سب کے پاس نہیں ہیں، ڈنڈے بھی ہیں تو مکمل نہیں کسی کے پاس آدھا ڈنڈا ہے،ان میں بوڑھے بھی دیکھ کر آیا ہوں، ان میں بچے بھی دیکھ کر آیا ہوں، ان میں لنگڑے بھی میں نے دیکھے ہیں تو یہ وہ نقشہ ہے جو میں نے دیکھا ہے.اس پر سردار لشکر نے بڑے تعجب سے کہا کہ پھر یہ نتیجہ تم کیوں نکال رہے ہو جو تم دیکھ کر آئے ہو اس کا تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ لازماً وہ شکست کھا جائیں گے اور ہم جیتیں گے.اس نے کہا یہ درست نہیں، نتیجہ وہی نکلتا ہے جو میں نکال رہا ہوں کیونکہ ان کے چہروں پر میں نے ایسے عزم دیکھے ہیں، ہر پیشانی پر موت لکھی ہوئی دیکھی ہے.ایسے لوگ دیکھے ہیں جو دنیا کی ہر چیز سے بے خوف ہیں یہ قوم جن کی پیشانیوں پر موت لکھی ہوئی ہوان کو تم نہیں مار سکتے.زندوں کو تو مار لیا کرتے ہیں مردوں کو نہیں کرتے وہ تو خدا کی راہ میں مردے بن کے آئے ہیں اس لئے تم ان پر غالب نہیں آؤ گے اور واقعہ وہی ہوا.(طبری وابن سعد وابن ہشام) تو کمزوری ظاہری اور بے بسی یہ اپنا ایک اثر رکھتی ہیں اس میں کوئی شک نہیں مگر پھر جب ان
خطبات طاہر جلدم 727 خطبه جمعه ۲۳ اگست ۱۹۸۵ء میں عزم شامل ہو جائے جب کمزوروں اور بے بسوں کی پیشانیوں میں ایمان جھلکنا شروع ہواور عظمت کر دار ظاہر ہونے لگ جائے تو پھر دیکھنے والی آنکھ ان کو ذلیل کے طور پر نہیں دیکھا کرتی ، ان کو غالب کے طور پر دیکھا کرتی ہے، رعب دار ہستیوں کے طور پر ان پر نظر ڈالتی ہے.ان سے مرعوب ہوتی ہے اور ان کا خوف کھاتی ہے.پس یہ راہ خدا میں چلنے والے یہ اثر پیدا کرتے ہوئے چل رہے تھے، اس شان کے ساتھ گلیوں میں روانہ تھے کہ ان کے قد بھی دو دوفٹ بلند نظر آرہے تھے اور ان کا رعب اور ان کی ہیبت اس وقت بھی پھیل رہی تھی جب ان کو مارا جار ہا تھا ان لوگوں کو دنیا میں کون شکست دے سکتا ہے.یہ اہل اللہ ہیں جن کے مقدر میں کسی حالت میں بھی شکست نہیں.جب تم ذلیل کرنے کی کوشش کرتے ہو اس وقت بھی خدا ان کو عزت دے رہا ہوتا ہے.پس آج میں نے سوچا کہ ان کا پھر ذکر کروں کیونکہ ان لوگوں کے ذکر سے ان قربانیوں کرنے والوں کے تذکرے سے جماعت روحانی لذت پاتی ہے، نئی تقویت پاتی ہے.کچھ دن اگر ان کا ذکر نہ چلے تو وہی فیض کے شعر والی بات ہو جاتی ہے.چمن اداس ہے یارو صبا سے کچھ تو کہو کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے (نسخہ ہائے وفا ) کہ کچھ دن سے ذکر یار نہیں سنا ہم نے اور چمن ہمارا اداس ہو گیا ہے.اس لئے صبا سے کچھ تو کہو کہ خدا کے لئے کہیں تو ذکر چلے لیکن یہ جن کا ذکر میں کر رہا ہوں ان کا ذکر دنیا کے یاروں سے ایک مختلف ہے.آج جب اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میری زبان پر یہ ذکر جاری ہوتا ہے تو لکھوکھہا احمدیوں کی زبانوں پر یہ ذکر جاری ہوتا ہے اور پھر وہاں تک بھی محدود نہیں رہتا کروڑوں تک منتقل ہو جاتا ہے.مشرق سے مغرب تک یہ ذکر چلتا ہے اور شمال سے جنوب تک یہ ذکر چلتا ہے اور دنیا کی طرح دنیا کے گردگھومتا ہے.ہر قوم تک یہ ذکر پہنچتا ہے، ہر مذہب کے ماننے والوں تک یہ ذکر پہنچتا ہے پس ان کا ذکر تو اس ذکر یار سے کہیں مختلف ہے جس کا ذکر فیض اپنی زبان میں کر رہا ہے.ان کا وہ دکھ ہے جو میرے دل میں گزرتا ہے تو صرف میرے دل میں نہیں گزرتا لکھوکھا احمدیوں کے دلوں کو وہ موم کر دیتا ہے اور دعاؤں کے لئے پگھلا دیتا ہے اس لئے ان کے ذکر کے
خطبات طاہر جلد۴ 728 خطبه جمعه ۲۳ را گست ۱۹۸۵ء ساتھ دنیا کے ذکر کو نسبت ہی کوئی نہیں.لیکن جب میں نے یہ سوچا تو ساتھ ہی میرا دل استغفار کی طرف مائل ہوا میں نے کہا میرا ذکر کیا اور سب احمدیوں کا ذکر کیا.ساری دنیا کے انسانوں پر بھی اگر ان کا چرچا ہوتا اور ان کی زبانوں پر ان کا ذکر ہوتا تب بھی اس ذکر کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں جو قرآن کریم میں ان کا ذکر موجود ہے.اللہ نے ذکر فرمایا ہے ان آیات میں جو میں نے آپ کو پڑھ کر سنا ئیں اور اور بھی بہت سی آیات میں ان کا ذکر فرمایا ہے.وہ تصویریں کھینچی ہیں جو ہو بہو آج پوری ہورہی ہیں.وہ تصور نہیں رہے، وہ نظریات نہیں رہے، عمل کی دنیا میں ڈھلنے والی چلتی پھرنے والی جیتی جاگتی تصویر میں بن گئی ہیں ان کے متعلق وہ ذکر خداوندی جو قرآن کریم میں موجود ہے.پس وہی ان کا ذکر ہے اصل اگر فخر ہے اور شان ہے تو اس بات میں ہے کہ اللہ نے ان کا ذکر فر مایا اور اس وقت ذکر فرمایا جب ان کے وجود کے کوئی آثار بھی ظاہر نہیں ہوئے تھے اور یہ وہ ذکر ہے جو لوح محفوظ پر نقش ہے.کائنات کے وجود سے بھی پہلے یہ ذکر موجود تھا حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اولین غلاموں کا اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آخرین غلاموں کا.وہ لوگ کتنے خوش نصیب ہیں، اب جب وہ دیکھیں گے اپنی قربانیوں کو مڑکر دیکھیں گے تو اہل انگلستان ہوں یا اہل پاکستان ہوں وہ اتنی حقیر نظر آئیں گی اس نعمت اور اس انعام کے مقابل پر کہ ان کے دل میں بجائے فخر کے خدا کے لئے مزید خشیت پیدا ہوگی، وہ خدا کے حضور مزید جھکیں گے.استغفار کی طرف دل مائل ہوں گے.ہم تو سمجھتے تھے ہم نے بڑے بڑے تیر مارے ہیں بڑی بڑی قربانیاں پیش کی ہیں اور ایسے کہ ہمارے نام روشن ہو گئے.نام تو روشن ہوئے مگر تمہاری قربانیوں کو ان روشنائیوں سے کوئی نسبت نہیں حقیقت یہ ہے کہ محض اللہ کا فضل ہے اور اس کا احسان ہے کہ اس نے اس زمانے کے لئے ہمیں اس ذکر کے لئے چنا ہے جو خدا نے اپنے پیارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا تھا اور ان کے غلاموں کا کیا تھا ان لوگوں میں ہمیں شامل کر دیا.پس ایک ہی جذبہ ہے جو دل سے اٹھتا ہے کہ بخ بخ ابو هريره (سنن ترندی کتاب الزهد حدیث نمبر 2290).کیا شان ہے تیری ابوھریرہ کہ تو بھی آج اس شان کا مالک ہو گیا ہے.اس نے تو کچھ اور کہا تھا میں یہ کہتا ہوں کہ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادنی غلاموں میں تیرا شمار ہونے لگا ہے.
خطبات طاہر جلدم 729 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء دنیا بھر میں جماعت کونئی وسعتیں عطا ہو رہی ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۳۰ را گست ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: قُلْ يُعِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ إِنَّمَا يُوَفَّى الصبِرُونَ أَجْرَهُمْ بِغَيْرِ حِسَابِ (الزمر :) پھر فرمایا: غم اور خوشی اور خوف اور امید یہ انسانی طبیعتوں پر مختلف رنگ میں اثر انداز ہوتے ہیں.بعض انسانوں کے دل چھوٹے ہوتے ہیں، ان کا ظرف کم ہوتا ہے، ان کے حوصلے پست ہوتے ہیں، ان کو خوف و ہراس بالکل مایوس کر دیتے ہیں اور جو ان کی مخفی طاقتیں خدا تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہوئی ہیں وہ خوف و ہراس کے نتیجہ میں مختل ہو جاتی ہیں ، ایک جمود طاری ہو جاتا ہے اور جو رہی سہی طاقت عام حالات میں انسان مختلف رنگ میں استعمال کر سکتا ہے اس کی بھی ان کو استطاعت نہیں رہتی.اسی طرح چھوٹے دل اور چھوٹے حو صلے کے لوگوں کو خوشی بھی پاگل کر دیتی ہے وہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر چھلانگیں لگانے لگتے ہیں، اپنی طاقت سے بہت بڑھ کر اپنے متعلق گمان کرنے لگتے ہیں، جو کچھ ان کو ملنا ہے اس سے کئی گنا زیادہ امیدیں لگا بیٹھتے ہیں اور یہ کیفیات زندگی کے ہر شعبہ میں یکساں عمل کر رہی ہیں.بعض اسی قسم کے تجارت کرنے والے ابھی تجارت کا منافع تو دور ،تجارت کے ابتدائی اقدام بھی ابھی نہیں کئے ہوتے تو بڑے بڑے منافعوں کی توقع رکھ کر اصل زر میں سے خرچ شروع
خطبات طاہر جلد۴ 730 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء کر دیتے ہیں ایسے لوگ اکثر دنیا میں الا ماشاء اللہ جس میدان میں قدم رکھتے ہیں ناکام رہتے ہیں.اس کے برعکس بعض لوگ ایسے ہیں جن کو خوف و ہراس اور خوشی اور امید میں بالکل مختلف قسم کے پھل عطا کرتے ہیں.خوف کے نتیجہ میں ان کی مخفی طاقتیں جاگ اُٹھتی ہیں.وہ خدا تعالیٰ کی عطاء کردہ عظمتیں جو ان کے سینوں میں خوابیدہ تھیں انہیں ہوش آ جاتی ہے، ان کو اپنی حیثیت کا پتہ چلتا ہے، ان کے اندر ولولہ پیدا ہوتا ہے، ان کے اندر جرات زور مارنے لگتی ہے اور وہ بڑی جرأت اور بہادری کے ساتھ ہر چیلنج کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہو جاتے ہیں.خوشی ان کو تسکین تو بخشتی ہے لیکن پاگل نہیں کر دیتی ،میدان کونئی زندگی کا پیغام تو دیتی ہے لیکن عمل سے غافل نہیں کرتی ، دنیا کی مختلف قوموں میں بھی اس قسم کے مزاج پائے جاتے ہیں اور افراد میں بھی لیکن استثناء سب جگہ موجود ہیں.قرآن کریم اس مضمون کو اس طرح دو حصوں میں تقسیم فرماتا ہے کہ کفار کی طرز عمل مومنوں کی طرز عمل سے بالکل الگ اور ممتاز کر کے دکھاتا ہے.قرآن کریم کے نزدیک ایمان اور کفر بھی دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں اور اُن میں بھی وجہ امتیاز تمہیں یہی دکھائی دے گی کہ کافر کے دل پر خوف و ہراس اور اثر کرتے ہیں اور مومن کے دل پر اور کافر کو خوشیاں اور پیغام دیتی ہیں اور مومن کو اور.اور یہ ایک ایسا غالب رنگ ہے، یہ ایک ایسی غالب تقسیم ہے کہ کافر خواہ انفرادی طور پر جرات مند اور بڑے حوصلے کا بھی ہو خواہ قومی لحاظ سے انکار کرنے والوں کا قومی کردار اسی مضمون میں مختلف اثر دکھا رہا ہولیکن جب یہ لوگ یعنی الناس دو حصوں میں بٹتے ہیں کفر اور ایمان کے لحاظ سے ، کچھ انکار کرنے والے بن جاتے ہیں اور کچھ ایمان لانے والے تو قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہ تقسیم ان کے اوپر اس طرح غالب آجاتی ہے کہ ہر انکار کرنے والے کا یہ کردار بن جاتا ہے اور ہر ایمان لانے والے کا وہ کردار بن جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ جو منکرین ہیں ان کا کردار ہے جب ان کے اوپر مذہبی طور پر کوئی ابتلاء آتا ہے یا کوئی مایوسی کا دور آتا ہے، کوئی خوف کا دور آتا ہے تو لَيَوسٌ كَفُورٌ (هود: ۱۰) وہ مایوس بھی ہو جاتے ہیں اور ناشکری کی باتیں بھی شروع کر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں یہ کیسا خدا ہے اس نے ہمیں چھوڑ دیا، یہ کیسا خدا ہے جس نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے ، یونہی فرضی باتیں ہیں یونہی قصے ہیں، گویا بنیادی طور پر عدم ایمان کے نتیجہ میں انکار پیدا ہوتا ہے اور انکار بعض حالتوں میں
خطبات طاہر جلد۴ 731 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء ننگا ہو جاتا ہے خصوصاً خوف اور ہر اس کے وقت.دوسری صورتوں میں بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے جب ان کو خدا تعالیٰ کوئی نعمت عطا کرتا ہے منکرین کو جو خدا پر ایمان نہیں رکھتے ، اس کی قدرتوں پر ایمان نہیں رکھتے وہ کیا ہو جاتے ہیں لَفَرِح فَخُورٌ ( عود (11) چھوٹی سی بات پر اچھل جاتے ہیں اور تعلی شروع کر دیتے ہیں اور فخر شروع کر دیتے ہیں.اسی طرح دوسری بہت سی آیات میں خدا تعالیٰ نے کفار کے کردار کو بحیثیت کفار نمایاں طور پر الگ کر کے دکھایا ہے.اور اس کے مقابل پر مومنوں کے کردار کو اس طرح واضح فرمایا کہ ہر غم ان کو نئے حو صلے عطا کر دیتا ہے، ہرا بتلا ان کو نئے عزم بخش جاتا ہے.جب ان کے ایمان پر آزمائش ہوتی ہے فَزَادَهُمْ إِيمَانًا ( آل عمران :۱۷۴) وہ عجیب آزمائش ہے کہ بجائے ایمانوں کو کم کرنے کے ان کے ایمانوں کو بڑھا جاتی ہے اور جب وہ خوش ہوتے ہیں یا خدا تعالیٰ کی عنایات سے حصہ پاتے ہیں تو فخر اور تعلی کی بجائے اپنے رب کے حضور جھک جاتے ہیں اور ان میں عاجزی اور انکساری پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ عملی دنیا میں آنحضرت محمد مصطفی ﷺ کے دور میں دنیا نے اس کثرت سے ان دونوں امور کے مشاہدے کئے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے.بڑے بڑے طاقتور دشمن معمولی سے نقصان کے اوپر بھی دل چھوڑ جاتے رہے اور وہ لوگ بھی جن کے حوصلے عرب میں مشہور تھے.جن کے شاعر اپنے ہم قبیلوں کی تعریف میں بڑے بڑے قصیدے لکھتے رہے کہ کوئی خوف ، کوئی مصیبت ، کوئی بلا ان کو مایوس نہیں کرتی وہ کسی وقت بھی کسی آزمائش میں پڑ کر بھاگنے کا نام نہیں جانتے اور واقعہ جہالت کے زمانہ میں ان کا یہی حال تھا لیکن قرآن کریم کا یہ فیصلہ بہر حال اٹل فیصلہ تھا اس نے لازماً پورا ہونا تھا.چنانچہ بڑے بڑے بہادر ، ان کے بڑے بڑے عظیم قبائل سے تعلق رکھنے والے لوگ جب اسلام کے لشکروں کے مقابل پر آئے ہیں تو اپنی ظاہری عظمت کے باوجود، اپنی عددی برتری کے باوجود اپنی فنی صلاحیتیوں میں فوقیت رکھنے کے باوجود جب ذرا سا ان کو شکست کا احساس پیدا ہوا تو اس طرح میدان چھوڑ کر بھاگے ہیں کہ گویا اُن کے پاؤں ہی نہیں تھے کبھی.نہایت ہی ذلیل بزدل قوموں کی طرح انہوں نے نمونے دکھائے ہیں.جنگ احزاب سے زیادہ اور کیا مثال آپ کو مل سکتی ہے کہ چند معمولی تعداد میں آنحضرت ﷺ کے غلام گھرے ہوئے اور حالت یہ تھی کہ اگر وہ خندق نہ کھودتے تو بظاہر دنیاوی پیمانوں کے لحاظ سے کسی قسم کے ان کے بچنے کا کوئی سوال ہی نہیں تھا.مجبوری کی انتہا تھی
خطبات طاہر جلدم 732 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء جو خندق کھودی اور اسی خندق کے اندر رہنے والے دشمن موجود تھے، اسی طرح جو ہر وقت پیٹھ کی طرف سے چھرا گھونپنے کے لئے تیار کھڑے تھے، انتہائی کمزوری کی حالت تھی اتنی کمزوری کی حالت کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ جو لوگ جو کمزور تھے جو صحیح ایمان نہیں رکھتے تھے جو منافق تھے ان کی آنکھیں پتھرا گئی تھیں اور فرماتا ہے ان کی آنکھیں اس طرح پھر رہی تھیں جس طرح موت کی غشی کے وقت آنکھیں پھر جاتی ہیں اور اس کے مقابل پر مومنوں کا یہ حال تھا کہ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا ان کا ایمان بڑھ رہا تھا ، وہ کہتے تھے ہاں اسی قسم کے ہمیں وعدے دیئے گئے تھے، اسی وقت کا ہم انتظار کر رہے تھے تو جس خدا نے یہ وعدے پورے کر دیئے وہ دوسرے وعدے بھی پورے فرمائے گا.اور دوسری طرف سارے عرب قبائل میں سے چیدہ قبائل میں سے بڑے بڑے چوٹی کے جوان اور بڑے بہادر لوگ جو مدینے کو گھیرے ہوئے تھے.ایک معمولی سے واقعہ سے ان کے اس طرح پاؤں اکھڑے ہیں اور اس افراتفری سے وہ اس جگہ سے بھاگے ہیں کہ روایات میں آتا ہے کہ بعض جنگجو جو اپنے اونٹوں کے گھٹے کھولنا بھول گئے اور سوار ہو کر ان کو بھگانے کے لئے اتنا ما را کہ ادھ موا کر دیا لیکن وہ اونٹ بھاگ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کے گھٹنے بندھے ہوئے تھے اور بعض سواریوں کو باندھا ہوا تھا ان کو بھگایا جب وہ نہیں بھا گئیں تو ان کو خود اپنے ہاتھ سے غصہ میں آکر مار دیا.ہر طرف بھگدڑ ہر طرف افرا تفری مچ گئی تھی.آنا فانا ایک بہت ہی عظیم الشان لشکر جو دس ہزار سے زائد کی تعداد میں تھا وہ آدھی رات کے وقت بھا گنا شروع ہوا ہے اور صبح کی سفیدی سے پہلے پہلے اس کا کوئی نام و نشان سوائے ان کھنڈرات کے جو ایسے لشکر پیچھے چھوڑ جایا کرتے ہیں باقی نہیں بچا تھا اور بڑے بہادر لوگ تھے کوئی نہیں کہ سکتا کہ عربوں میں بہادری نہیں تھی.ایسے ایسے شاندار قصیدے انہوں نے اپنے جنگی کردار کے متعلق لکھے ہیں کہ فخر کے ساتھ انہیں خانہ کعبہ میں لٹکایا گیا تھا سنہری حروف میں لکھا گیا تھا لیکن قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جو تقدیر بیان فرمائی ہے وہ اٹل تھی، اس نے بہر حال پورا ہونا تھا.اس لئے دنیا وی جتنے بھی طبعی محرکات ہیں وہ نا کام ہو گئے ، قومی محرکات سارے نا کام ہو گئے اور کفر اور ایمان میں جب تو میں بٹی ہیں تو کفر کے مقدر میں بزدلی ، بھا گنا مایوس ہونا اور رغم سے کلیہ مغلوب ہو جانا یہی لکھا گیا اور انہی لوگوں میں سے تھے وہ جوایمان لائے تھے اور ان میں سے کمزور حصہ تھے اور قرآن کریم سے بھی ثابت ہے تاریخ بھی اس کی گواہ ہے کہ ان بڑے لوگوں میں
خطبات طاہر جلدم 733 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء سے پہلے نہیں آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے پاس بلکہ چھوٹے اور کمزور لوگوں میں سے جن کو وہ اپنی نظر میں ارذل سمجھا کرتے تھے اور ان کے اندر خدا تعالیٰ نے وہ کردار پیدا کر دیا ان کو غم بھی حو صلے عطا کرنے لگا، ان کی خوشیاں بھی ان کے دل بڑھانے لگیں ایک بالکل نئی قوم وجود میں آئی ہے.آج جماعت احمد یہ جس دور میں سے گزر رہی ہے یہ وہی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے اولین غلاموں کا دور ہے جو دہرایا جارہا ہے.آخرین کا زمانہ آپ نے پایا ہے لیکن مومن اور کافر، ایمان لانے والوں اور کفر کرنے والوں کی صفات اسی طرح ہیں ، ان میں کوئی تبدیلی نہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ کا سلوک بھی بالکل اسی طرح ہے.یہ وجہ کیا ہے؟ سوال یہ ہے کہ جب انسانی فطرت اسی طرح رہتی ہے، انسانی مزاج میں ایک خاص پختگی پیدا ہو چکی ہوتی ہے تو یہ کردار میں تبدیلی کیوں آتی ہے، کمزور لوگ اچانک کیوں عظیم کردار کا نمونہ دکھانے لگتے ہیں؟ جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا تھا ایمان اس کی وجہ ہے ایمان کے نتیجہ میں بزدلی یا خوف کا نشان باقی رہ ہی نہیں سکتا کیونکہ ایمان باللہ کا مطلب یہ ہے اگر وہ ایمان حقیقی ہو کہ ایک مقتدر ہستی ہمارے پاس موجود ہے ہر وقت ہمارے ساتھ ہے، وہ وعدے جھوٹے نہیں کرتی ، وہ اپنے پیار کا مظاہرہ کرنے والی ہستی ہے اور وہ ایسی ہستی نہیں جو اس دنیا میں ختم ہو جائے، اس دنیا کی بھی مالک ہے جس طرح اس دنیا میں Tariff کے قوانین ہوتے ہیں اور ایک ملک سے دولت دوسرے ملک میں منتقل نہیں ہوسکتی تو ایک خوف رہتا ہے کہ اس ملک میں انقلاب آجائے گا تو وہاں جا کر کیا کریں گے لیکن خدا تعالیٰ کی ہستی ایسی ہے اور ایمان مومن کو یہ بتاتا ہے کہ اس دنیا کا بھی وہ مالک ہے اُس دنیا کا بھی مالک ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ تم کھوؤ اور اس سے دوبارہ نہ پاؤ.موت بھی تمہیں کسی چیز سے محروم نہیں کر سکتی.یہ ایمان ہے اور ایمان کی وسعتیں ہیں.جتنی جتنی وسعتیں عطا ہوتی چلی جائیں اتنا ہی مومن کا کردار بدلتا رہتا ہے اور دوسرے یہ کہ مومن اپنی ذات پہ بھروسہ نہیں کرتا ایمان کے نتیجے میں اس کی توجہ دعا کی طرف مائل ہوتی ہے اور دعا ایک ایسی اکسیر ہے جو ہر بیماری کا علاج ہو جاتی ہے.دعا کے نتیجہ میں اس کے خوف بھی دور ہو جاتے ہیں اور اس کی امیدیں اور خوشیوں میں بھی متانت آجاتی ہے.اس کی خوشیاں اور اس کی امیدیں اس کے اندر اعلیٰ کردار پیدا کرتی ہیں.بجائے چھٹینا کے، بجائے تنگ دلی یا کم حوصلگی کے ان خوشیوں کے نتیجے میں اسے سکینت ملتی ہے، نئے عزم عطا ہوتے ہیں ، نئی ہمتیں ملتی ہیں.
خطبات طاہر جلدم 734 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء چنانچہ قرآن کریم نے خود اس راز کو بیان فرمایا کہ اصل وجہ مومن کے کردار کی عظمت کی یہ ہے کہ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجده : ۱۷) کہ وہ اللہ کو یاد کرتے رہتے ہیں يَدْعُونَ رَبَّهُمْ ہر وقت خدا کو بلاتے رہتے ہیں.خَوْفًا وَطَمَعًا خوف کی حالت ہو تب بھی وہ خدا کو بلاتے ہیں، طمع کی حالت ہو تب بھی خدا کو بلاتے ہیں اور ایمان کے نتیجے میں جس ہستی کی عظمتوں کو وہ پہچان جاتے ہیں اس سے ہر ضرورت کی چیز وہ مانگنے لگتے ہیں.خوف ہو تو وہ تعلق جوڑتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ ان کے خوف دور کرنے کے لئے ان کی طرف آرہا ہے بلکہ بسا اوقات یوں نظر آتا ہے کہ جیسے دیکھ رہے ہوں اس کو اپنی طرف آتے ہوئے اور جب خوشیاں عطا کرتا ہے نعمتیں عطا کرتا ہے، امیدیں بندھتی ہیں تو پھر بھی وہ رب کو بلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہم نے اپنی طرف سے کچھ بھی نہیں پایا تو نے عطا کیا ہے اور تو ہی برکتیں عطا کرے گا تو یہ ہمیں راس آئے گاور نہ راس بھی نہیں آئے گا تو کامل بجز پیدا ہو جاتا ہے.آنحضرت ﷺ جب مکہ میں داخل ہورہے تھے تو یہی يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا کا نظارہ ہم نے دیکھا یعنی اس کے دوسرے پہلو کا کہ جس وقت خدا تعالیٰ نے آپ کو عظیم فتح کی امید دلائی بلکہ فتح آپ کے قدم چومنے لگی اس وقت بجائے فخر کے، بجائے تعلی کے آنحضرت علیہ اس حال میں مکہ میں داخل ہوئے کہ دعا سے روتے روتے آپ کی ہچکی بندھ گئی تھی اور جھکتے جھکتے خدا کے حضور سر کجاوے سے جالگا تھاوہ جو اونٹ پر کاٹھی ڈالی جاتی ہے جو بھی اسکو کہتے ہیں اس اونٹ کی پیٹھ سے سر لگ گیا تھا انکساری اور خدا کے حضور جھکنے اور تضرع کے نتیجے میں.کبھی دنیا میں کسی قوم نے کسی فاتح کو اس شان کے ساتھ کسی مفتوح شہر میں یا ملک میں داخل ہوتے نہیں دیکھا.(السیرة النوبي لا بن ہشام جلد ۳ صفحه ۹ مطبوعہ بیروت) تو وہ لوگ جو ہر حالت میں اپنے رب کو بلاتے ہیں یہ اس رب کا ہی فیض ہے کہ انہیں یہ عظمت کردار عطا ہوتی ہے.اسی لئے میں جماعت کو جب دکھوں کی طرف متوجہ کرتا ہوں کس حالت میں جماعت گزررہی ہے تو ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے خوف نہیں ہوتا کہ اس سے نعوذ بالله من ذالک جماعت میں مایوسی پیدا ہوگی اور نہ کبھی ہوئی ہے بلکہ جب میں تفصیل سے آگاہ کرتا ہوں جماعت کو کہ کن مصائب میں سے جماعت گزر رہی ہے، کیا کیا خطرات اس کو در پیش ہیں ، کیسے کیسے مظالم کا نشانہ بن رہی ہے، تو ہر دفعہ جماعت کے اندر ایک نیا عزم پیدا ہو جاتا ہے، نیا حوصلہ پیدا
خطبات طاہر جلدم 735 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء ہو جاتا ہے.نئی ہمتیں خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہیں، قربانی کے لئے نئے جذبے ان کے دلوں میں بیدار ہوتے ہیں اور ایک واقعہ میرے علم میں نہیں آیا ساری دنیا کے احمدیوں میں کہ ان باتوں کو سن کر کوئی خوف سے پیچھے ہٹ گیا ہو یا غم سے ایسا مغلوب ہو گیا ہو کہ پہلی طاقتیں بھی اس کے ہاتھ سے جاتی رہیں.ورنہ دنیا کے حالات میں تو غموں کے نتیجہ میں فالج بھی ہو جاتے ہیں، دنیا کے حالات میں تو غموں کے نتیجہ میں رہی سہی طاقتیں بھی انسان کی سلب ہو جایا کرتی ہیں اور اس کے برعکس جب میں خوشیوں کی باتیں بتاتا ہوں تو اس وقت بھی مجھے یقین ہوتا ہے کہ ایک بھی احمدی ایسا نہیں ہو گا ساری دنیا میں جو ان باتوں کو سن کر جھوٹے اطمینان میں داخل ہو جائے اس کو یہ غلط نہی پیدا ہو جائے کہ بس ہم نے سب کچھ پالیا، اب جد و جہد کی ضرورت نہیں ، اب ساری خدا کی طرف سے ہمیں طاقتیں مل گئی ہیں جو ہونا تھا وہ ہو چکا یا فخر کرنے لگ جائے یا تعلی میں مبتلا ہو جائے اور سمجھے کہ ہم یہ فضیلتیں رکھتے ہیں، یا غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ یہ میری ذاتی کمائی ہے، بلکہ جب خوشیوں کی خبریں بھی میں بتاتا ہوں تو جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے مجھے اس وقت یقین ہوتا ہے کہ خوشیاں اور فتوحات جماعت احمدیہ کے دل میں مزید بجز اور انکسار پیدا کرتی ہیں، پہلے سے زیادہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں.ہر ایک ان میں سے جانتا ہے کہ یہ ہماری ذاتی خوبی کی بنا پر نہیں بلکہ محض اللہ کا احسان ہے اور اس کی رحمت ہے اس لئے ہمارے لئے تو ہر حال میں فتح مقدر ہوگئی ہے.ہمارے خوف بھی نعمتیں بن کے آتے ہیں، ہماری امید میں بھی نعمتیں بن کے آتی ہیں، ہمارے غم بھی نعمتیں بن کے آتے ہیں اور ہماری خوشیاں بھی نعمتیں بن کے آتی ہیں.یہ ہے ایمان کا نتیجہ اور ایمان کی تاثیر جس کو آج لکھوکھا احمدی ہر روز اپنی زندگیوں میں مشاہدہ کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ پھر خدا کے وعدے ہیں یعنی یہ تو ایسی کیفیات ہیں جن میں سے ہم گزررہے ہیں ، واردات کے طور پر جو ہمارے دل کی، ہمارے دماغوں کی کیفیات ہیں.لیکن ان باتوں سے قطع نظر ان سب کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے وعدے ہیں اس کی نصرت کے، اس کی رحمتوں اور اس کی برکتوں کے اور ان کو بھی ہم آسمان سے نازل ہوتا دیکھ رہے ہیں.ان دونوں کا آپس میں تعلق بھی بن جاتا ہے جب مومن کو غم ملتا ہے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کی قربانی کا مادہ بڑھ جاتا ہے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے نعمت ملتی ہے تو نیا حوصلہ آجاتا ہے اور یقین کر
خطبات طاہر جلد۴ 736 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء لیتا ہے کہ ہم جو قربانی بھی خدا کی خاطر کرتے ہیں اُس کے نتیجے میں اس دنیا میں بھی اجر پانے لگ جاتے ہیں.پھر بھی اس کی قربانی کا مادہ بڑھتا ہے اور اللہ کے فضل کی تقدیر اس کے لئے اس کے علاوہ بھی جاری ہوتی ہے.ان کے مسائل آسان ہو جاتے ہیں ان کی مشکلات دور ہو جاتی ہیں.غیر معمولی حالات میں اللہ تعالیٰ کی طرف انہیں ایسی چیزیں مل جاتی ہیں جو عام حالات میں انسان سوچ بھی نہیں سکتا.اور پھر کوئی جب غور کرتا ہے کہ یہ کیسے چیز ملی تو حیرت سے دیکھتا ہے کہ واقعہ سوائے اس کے کہ خدا کی تقدیر کام کر رہی ہو ہمیں یہانی نہیں چاہئے تھی.چنانچہ مثلاً اسلام آباد جماعت احمدیہ انگلستان کے لئے ایک یوروپین مرکز کے طور پر لیا گیا میرے ساتھ اس سلسلہ میں کئی مہینے تک چوہدری انور احمد صاحب کا ہلوں اور آفتاب احمد صاحب اور ارشد باقی صاحب نے محنت کی جگہیں تلاش کیں، کئی جگہ دل بھی آجاتا رہا، کئی جگہ سودے بھی ہو گئے، لیکن عین آخری وقت میں آکر کوئی نہ کوئی وجہ ایسی ہو جاتی تھی کہ یا ہمارا دل اتر جاتا تھا یا جس سے خرید رہے تھے اس کا دل اتر جاتا تھا اور جگہ ہم یہی بیان کیا کرتے تھے کہ یہ جگہ چاہئے اس سے ملتی جلتی کوئی تھوڑی سی ملتی تھی مگر بالکل یہ جگہ نہیں مل سکتی تھی اور لوگ بتاتے تھے کہ یہ ایسی جگہ انگلستان میں پھر آپ کہتے ہیں لندن کے قریب سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور جب ہر طرف سے مایوسی ہوگئی تب یہ جگہ اچانک سامنے آئی تب اس کا اشتہار نکلا ، اس سے پہلے یہ مارکیٹ میں آئی نہیں تھی اور جب آئی اس وقت پتہ چلا کہ خدا تعالیٰ کیوں ہم سے یہ کھیلیں کھیل رہا تھا، امید میں دلاتا تھا واپس لے لیتا تھا، دل آتا تھا تو دل اتار دیتا تھا، کبھی ہمارا کبھی دوسرے فریق کا تو جب یہ جگہ سامنے آئی اس وقت دل نے گواہی دے دی کہ ہاں یہ ہماری ہے اور وہ فورا ہماری ہوگئی اور اس کے نتیجہ میں بہت سی برکتیں ملی ہیں اس جماعت کو نئی وسعتیں مل گئی ہیں، اتنا تیزی کے ساتھ اسلام آباد کے فوائد انگلستان کی جماعت محسوس کرنے لگی ہے کہ اب یوں لگتا ہے کہ اس کے بغیر ہم گزارہ کیسے کر رہے تھے.چنانچہ اور باتوں کے علاوہ ابھی جب بچیوں کی تربیتی کلاس لگی ہے تو گیارہ سال سے لے کر پچیس سال کی بچیاں جن کی مائیں ہر وقت فکر مند رہتی تھیں کہ اسلامی معاشرہ کا ماحول ان کو نصیب نہیں ہے، کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں ان کے اندر خوداعتمادی پیدا ہو، پتہ ہو کہ اسلام ان سے کیا تقاضے کرتا ہے، ان کی خاطر اسلام کیا کیا سہولتیں ان کو مہیا فرما تا ہے، اسلامی زندگی قید نہیں ہے بلکہ ایک نعمت ہے.اس قسم کی باتیں جب تک ایک
خطبات طاہر جلدم 737 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء غالب معاشرے کے اندر کوئی داخل ہو کر تجربے میں سے نہ گزرے یقین نہیں کر سکتا.اب نظریاتی لحاظ سے لاکھ ان کو سمجھا دیں جب تک اسلامی معاشرہ کو کوئی چکھے نہ ، اس ماحول میں سے نہ گزرے اسے میسر ہی نہیں آسکتی یہ بات.اب جب وہاں تربیتی کلاس ہوئی ہے بچیوں کی تو اس میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ ایسے سارے فوائد ان کو میسر آگئے جولندن کی مسجد میں یا کسی اور جگہ میسر آ ہی نہیں سکتے تھے.دن رات وہاں ٹھہر نا بہترین ہوٹل خدا نے بنے بنائے دے دیئے.کھیلوں کے کھلے میدان، کسی پردے کی ضرورت نہیں ، وہاں دوڑتی پھرتی تھیں آزادی کے ساتھ.ان کو تیرا کی بھی سکھائی گئی ، ان کو گھوڑ سواری بھی سکھائی گئی، ان کو تیراندازی بھی سکھائی گئی ، ان کو بندوق چلانا بھی سکھایا گیا ، ان کو سائیکلنگ بھی سکھائی گئی.ہر قسم کی دلچسپیاں جو وہ پہلے دیکھا کرتی تھیں کہ غیر قومیں ان سے مزے لوٹ رہی ہیں اور ہمارے لئے گویا حرام ہیں ان کو بتایا گیا کہ کچھ بھی تمہارے لئے یہ حرام نہیں ہاں بعض شرائط ہیں تمہاری پاک دامنی کی حفاظت کی شرط کے ساتھ ہر چیز تمہارے لئے جائز ہے.پھر ہر قسم کے علوم ان کو دیئے گئے گھر گرہستی کے طریق ان کو سمجھائے گئے.کوئی پہلو ایسا نہیں رکھا جس سے ایک عورت کی شخصیت میں حسن پیدا ہوتا ہو اور وہ ان کو وہاں دینے کی نہ کوشش کی گئی ہو.متوازن احمدی خاتون کی شخصیت جو ہماری مستقبل کے بچوں کی ذمہ دار ہے اس کی تعمیر کرنے میں اسلام آباد نے تین ہفتے میں ایک ایسا کردار ادا کیا ہے کہ آپ اس سے پہلے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.چنانچہ باہر سے آئی ہوئی بچیاں صرف انگلستان سے نہیں ، یورپ سے، امریکہ سے، کینیڈا سے ان کی تو بالکل آنکھیں کھل گئیں.میں نے بچیوں سے جب الگ الگ پوچھا تو بڑے دلچسپ جواب مجھے ملے ہیں.ایک بچی نے کہا کہ مجھے تو اب معلوم ہوا ہے کہ میر او جود ہے کیا ؟ اپنی زندگی کا مقصد مجھےسمجھ آ گیا ہے.ایک بچی نے بتایا کہ Now I know where I belong ماں باپ میرے احمدی تھے (والد تو ان کے سوئس ہیں جو عیسائیوں سے مسلمان ہوئے ) لیکن اس نے ایک فقرے میں بڑی گہری بات اور بڑے پیار کی بات کہہ دی کہ: For the first time, now I realised where I belong.ماں باپ احمدی ہیں مگر اسی یوروپین ماحول میں پلی ہے، اچھا ماحول ہے لیکن ان تین ہفتوں نے اسے بتا دیا کہ تم کس جگہ سے تعلق رکھنے والی ہو ، کیا تمہارا مقام ہے اور جو پہلی ساری زندگی
خطبات طاہر جلد۴ 738 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء کے سبق اس کو نہیں بتا سکے تھے اور ایسے ایسے عجیب خطوط بچیوں کے موصول ہورہے ہیں کہ ہر روز پڑھ کے میرا دل حمد اور شکر سے بھر جاتا ہے.وہ کہتی ہیں کہ ہمیں تو خدا تعالیٰ نے بچالیا ہے.آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہمارے اندر کیا انقلابات برپا ہوئے ہیں.احمدیت سے تعلق ، اسلام کی محبت اور ذاتی وابستگی، اللہ تعالیٰ سے پیار، یہ ساری نعمتیں ہمیں دو تین ہفتے میں ایسی مل گئی ہیں کہ بعض بچیوں نے کہا ہے کہ اب تو ہم بے قراری سے اگلے سال کا انتظار کر رہی ہیں.حالانکہ اس سے پہلے منتظمین کا تاثر یہ تھا کہ تین ہفتے بہت لمبا وقت دے دیا گیا ہے، اس میں تو بچیاں بور ہوجائیں گی ، تو بور ہونے کی بجائے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ولولے لے کر لوٹی ہیں کہ حیرت ہوتی ہے ان کو دیکھ کر کہ کتنی جلدی ان میں تبدیلی رونما ہوئی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جو یہ وعدہ کیا تھا کہ لِلَّذِینَ اَحْسَنُوا فِي هَذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةُ اس وعدہ کو ہم ہر جہت میں پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.احمدیوں کی نئی نسلیں سنور رہی ہیں اس ابتلاء کے نتیجہ میں.ہر دل میں نئی وسعتیں پیدا ہورہی ہیں، ہر ذہن میں نئی وسعتیں پیدا ہورہی ہیں اور یہ وسعتیں ہیں جو باہر کے لوگ اپنی کوتاہ بینی کے نتیجے میں دیکھ نہیں سکتے.یہ تو کوئی صاحب ایمان ہی ہے جس کی نظر دیکھ لیتی ہے ان چیزوں کو یا وہ جن کے دل پر گزرتی ہے اور یہ وسعتیں ساری دنیا میں تمام احمد یوں کو نصیب ہو رہی ہیں.نجی میں بیٹھے لوگ جو دور دراز ایک جزیرہ ہے وہ بھی لکھ رہے ہیں کہ اس ابتلا میں تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں نئے حو صلے نئے ولولے عطا کر دیئے ہیں، احمدیت کے لئے خدمت کی جو تمنا اب پیدا ہوئی ہے اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی.افریقہ کے بیابان جنگلوں میں اور وہ جسے تاریک براعظم کہا جاتا ہے ان کے تاریک ترین گوشوں سے ایسے خط آرہے ہیں کہ جو ابتلا کا حوالہ دے کر یہ لکھتے ہیں کہ یہ ابتلا کیا آیا ہے ہمیں تو اللہ تعالیٰ نے روشنی عطا کر دی ہے، نیا نور بخش دیا ہے، اب ہم یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں لٹا دیں گے اور باتوں کو چھوڑ دیجئے یہ جو قلبی کیفیات میں وسعتیں نصیب ہوئی ہیں اور دماغوں میں جو پاک تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں یہی ایک اتنا عظیم الشان خدا تعالیٰ کا انعام ہے کہ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا کہ نتیجہ میں جو خدا تعالیٰ کے وعدے تھے ان کو ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 739 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء ظاہری طور پر جو لوگ دیکھنا چاہتے ہیں ان کے لئے اب تفصیل سے بیان کرنے کا تو وقت نہیں مختصر میں آپ کو بتاتا ہوں ایسی چیزیں جو صرف ظاہری آنکھ کو نظر آسکتی ہیں.دنیا کے ہر ملک میں تبلیغی وسعت پیدا ہوگئی ہے، دنیا کے ہر ملک میں بیعتوں کا گراف تدریجاً اونچا ہونا شروع ہو گیا ہے یعنی اتفاقی حادثے کے طور پر نہیں بلکہ پہلے سالوں کے مقابل پر نمایاں اونچا ہوا اور پھر اونچا ہوتا رہا اور ہرا گلا مہینہ پہلے سے زیادہ داعیان الی اللہ کی رپورٹیں لے کر آرہا ہے اور ہرا گلا مہینہ ہمیں بتا رہا ہے کہ ہر ملک میں خدا تعالیٰ کے فضل سے تبلیغ میں وسعت پیدا ہوئی ہے اور ہر ملک میں نئی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں، نئے دیہات خدا تعالیٰ عطا کر رہا ہے جہاں اس سے پہلے کبھی احمدیت داخل نہیں ہوئی تھی اور جب میں ہر ملک کہتا ہوں تو پاکستان اس میں شامل ہے.کوئی دنیا کا ایسا خطہ نہیں جو خدا تعالیٰ کے ان فضلوں سے خالی ہو اور وہ ممالک جہاں پہلے ہمارے مشن قائم تھے جہاں مسجد میں موجود تھیں وہاں خدا تعالیٰ بہت زیادہ وسیع زمینیں نئی عطا فرمارہا ہے، نئے مشن عطا کر رہا ہے، نئی مسجدوں کی جگہیں عطا کر رہا ہے.یورپ میں ہی جو پچھلے ایک سال کے اندر نئی وسعتیں ملی ہیں آپ ان کو دیکھیں تو حیران رہ جاتے ہیں.ہر ملک میں خدا تعالیٰ نئے سامان پیدا کر رہا ہے نئی جگہوں کے اور یہ سلسلہ جاری ہے ابھی بند نہیں ہوا اور پھر کلیۂ نئے ممالک میں مشن کھولنے کی خدا توفیق عطا فرمارہا ہے.نئے جزیروں میں.میں نے ابھی بتایا تھا کہ نبی کے قریب ایک جزیرے میں اس سے پہلے بھی ایک دفعہ بتا چکا ہوں خدا تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک مبلغ ہمیں عطا کر دیا ہے اور ایسا خدا تعالیٰ کا تصرف ہوا کہ ایک صاحب نے مجھ سے ملنے کے لئے وقت مانگا.ان کو وقت دینے سے دو دن پہلے مجھے نجی سے اطلاع ملی کہ فلاں جزیرہ ہے اور وہاں مشن اگر قائم ہو تو بہت اچھی بات ہے وہاں عیسائی بھی ہیں اور فلاں فلاں بھی ہیں لیکن کوئی مسلمان نہیں ہے اور ساتھ ہی یہ بھی خدا کا تصرف ہے کہ اس جزیرے کے متعلق ایک مضمون بھی مجھے مل گیا اور دو دن کے بعد وہ صاحب جب ملاقات کے لئے آئے تو مجھے کہا کہ میں مشورہ کرنا چاہتا ہوں.میں نے کہا کیا مشورہ؟ انہوں نے کہا جی کہ مشکل یہ ہے کہ مجھے میری فلاں ملک میں نوکری تھی بڑی اچھی تھی وہاں سے تو انہوں نے نکال دیا ہے.United Nation میں میں نے درخواست دی تھی United Nation نے یہ جواب دیا ہے کہ فلاں جزیرے میں ہمارے پاس نوکری ہے اور کہیں نہیں.میں نے کہا مشورہ؟ اس میں مشورہ کیا یہ تو اللہ تعالیٰ کی عطا ہے،
خطبات طاہر جلدم 740 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء میں تو بیٹھا ہوا منتظر تھا کہ خدا کوئی رستہ دے تو ہم وہاں پہنچیں.تو جاؤا ور مبلغ بنو وہاں جا کر خدا کے فضل سے.چنانچہ ان کو جاتے ہیں خدا تعالیٰ نے کیتھولک عیسائیوں میں سے ایک بڑا اچھا پھل عطا کیا اور ان کے بیوی بچے پیچھے گئے تو انہوں نے ان کی بیوی بچوں میں تبلیغ کی اب وہ پورا خاندان خدا کے فضل سے احمدی ہو گیا ہے.ماریشس کے قریب ایک جزیرہ ہے.وہاں بھی خدا تعالیٰ نے عیسائیوں میں سے اور کیتھولک عیسائیوں میں سے جو اپنے مذہب میں بڑے شدید ہیں ان میں سے ایک نوجوان عطا کیا پھر اُس کے ساتھ اور بیعتیں شروع ہو گئیں اور اب انہوں نے اصرار کیا ہے کہ ہمیں فورا مشن قائم کر کے دیا جائے.چنانچہ مرکزی نمائندہ اب جا کر وہاں دورہ کرے گا اور ان کو مشن انشاء اللہ تعالیٰ لے کر دے گا.برازیل میں ہم بڑی دیر سے منتظر تھے کہ وہاں مشن قائم کیا جائے.جنوبی امریکہ میں جماعت احمدیہ کا ایک بھی مشن نہیں تھا اگر چہ احمدی کچھ وہاں پہنچے ہوئے تھے لیکن مشن کہیں قائم نہیں تھا.چنانچہ خدا کے فضل سے برازیل میں پہلا مشن قائم ہو گیا ہے اور اب ہم وہاں وسیع زمین کی تلاش کر رہے ہیں جہاں انشاء اللہ نہایت ہی شاندار مسجد اور مشن ہاؤس قائم ہوگا بلکہ اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو ارادہ یہ ہے کہ اتنی وسیع زمین ہو کہ بہت سے احمدی خاندانوں کو بھی وہاں آباد کیا جا سکے، ایک احمدی گاؤں بن جائے اور وہاں اس کے امکانات ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی فضلوں کی بارش ہو رہی ہے خدا ہم پر ایسے احسانات نازل فرما رہا ہے ہم پر کہ ہر روز ہم خدا کے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھتے ہیں کہ وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ عام زمینیں دنیا کی تو دو طرفوں میں پھیلتی ہیں لیکن خدا کی زمین تو شش جہات میں پھیل رہی ہے ہر لحاظ سے ہر پہلو سے خدا کی زمین کو ہم وسعت پذیر ہوتا دیکھ رہے ہیں.اسلامی ممالک سے نئے رابطے پیدا ہوئے جہاں سب سے زیادہ کوشش کی گئی کہ اسلامی ممالک ہم سے بدظن ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں آج یہ آپ کو عظیم خوشخبری سناتا ہوں کہ جنیوا میں جو Human Rights Sub-Commision اس مسئلہ پر غور کر رہا تھا کہ مذہبی طور پر جماعت احمدیہ کو مسلمان کہلانے کے حق سے محروم کر کے ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اسی طرح دیگر
خطبات طاہر جلدم 741 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء مذہبی بنیادی حقوق چھین کر ان پر ظلم کیا گیا ہے.وہاں یہ کافی عرصے سے معاملہ زیر غور تھا.جماعت انگلستان کے کئی مخلصین اس میں حصہ لے رہے تھے اور بھی جہاں تک ہمارا بس چلا ہم نے کوشش کی تو کل رات مجھے فون پر وہاں سے اطلاع ملی ہے کہ جو ریزولیوشن پاس ہوا ہے اس میں اسلامی ملکوں نے ہماری تائید کی ہے اور دو ممالک جن پر اپنی حکومتوں کا بڑا شدید دباؤ تھا یعنی پاکستان کی وجہ سے وہ اس موقع پر اٹھ کر باہر چلے گئے تاکہ ہمیں یہ ووٹ نہ دینا پڑے کہ پاکستان ٹھیک کر رہا ہے.بتائیے کون کون سی جہات ہیں جن میں خدائی وسعتیں عطا نہیں کر رہا ؟ بعض اسلامی ممالک سے میرا رابطہ ہوا ہے اللہ کے فضل سے اور ان کے سرکردہ لوگوں نے وعدے کئے ہیں کہ ہم ان غلط فہمیوں کو دور کرنے میں تمہاری مدد کریں گے اور واقعہ جماعت احمدیہ پر شدید ظلم ہوا ہے.اسلام کی صف اول کی مجاہد جماعت ہے اور اسے اسلام دشمن طاقت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے بڑی اندھیر نگری ہے! تو ہر سمت میں خدا تعالیٰ ہماری زمینوں کو وسعتیں عطا فرماتا چلا جا رہا ہے ایسی زبانوں میں اسلامی لٹریچر تیار کرنے کی توفیق ملی ہے اور بڑی جلدی اب انشاء اللہ بڑھ جائیگی جن میں کبھی کچھ نہیں تھا پہلی مرتبہ خدا کے فضل سے بالکل نئی زبانوں میں اسلامی لٹریچر اور بڑے بڑے وسیع علاقوں سے تعلق رکھنے والی وہ زبانیں ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے پیدا کرنے کی توفیق بخشی ہے.چونکہ بیک وقت بہت سا کام شروع ہوا ہوا ہے اور پختگی کے قریب ہے اس وقت نظر نہیں آرہا کیونکہ پھل جب تک پکے نہ خواہ لاکھوں کی تعداد میں لگا ہو مارکیٹ میں تو نظر نہیں آیا کرتا لیکن جب پک جائے گا تو اچانک ہر طرف وہ آپ کو اس پھل کی خوشبو ، اس کا رنگ روپ، اس کے مزے حاصل ہونے شروع ہو جائیں گے.پریس کی تحریک کی گئی تھی.ڈیڑھ لاکھ پاؤنڈ ز کی تحریک کی تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے سوا دولاکھ تک کے وعدے آچکے ہیں اور ابھی بہت سے ممالک کی طرف سے آرہے ہیں اور مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ اڑھائی لاکھ سے تین لاکھ تک تو آسانی سے یہ وعدے پہنچ جائیں گے.ڈیڑھ لاکھ کی ضرورت تھی بنیادی مشینری کیلئے لیکن اس کے علاوہ اس کی Installation، اس کے ماہرین کی تیاری اور پھر ماہانہ اخراجات کے لئے ہمیں بتایا گیا تھا کہ ایک بڑی رقم کی ضرورت پیش آئے گی.تو اللہ تعالیٰ نے خود ہی اس کا انتظام فرما دیا.جو زائد رقم ہے اس کو ہم اس طرح استعمال کریں گے کہ اس
خطبات طاہر جلدیم 742 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء کی ماہانہ آمد اس پریس کے سارے اخراجات کے لئے انشاء اللہ کفیل ہو جائے گی.کوئی حصہ ایسا نہیں ہے جس طرف نظر جاتی ہو اور خدا نے وہاں نئی وسعتیں عطا نہ فرما دی ہوں.مشرقی یورپ میں خدا نے تبلیغ کے نئے رستے کھول دیئے ہیں.نئی نئی قوموں میں نئے رستے کھول رہا ہے.چنانچہ ایک اشترا کی ملک سے ایک تا تاری پروفیسر نے بیعت کی ہے اور وہ بہت ہی مخلص ہیں اور بہت تعلیم یافتہ اپنی یونیورسٹی میں مذہبی امور کے وہ ایک سند سمجھے جاتے ہیں.اور اتفاق سے بیعت کرنے سے پہلے ان کو یہ کام ملا تھا کہ مذاہب کے تعارف پر وہ ایک کتاب لکھیں.چنانچہ انہوں نے ہمیں لکھا ہے کہ اب بتاؤ پھر! کیا ہے اسلام اور احمدیت کیا ہے؟ اور جو کچھ کہو گے وہی کچھ لکھا جائے گا.حیرت ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ اپنے فضل سے یہ سامان فرمارہا ہے اور تا تاری لیڈر ایسے ہیں جن سے ہمارا اب رابطہ ہے، ان کے متعلق توقع ہے کہ اگر وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے حقیقی مسلمان بن جائیں تو ان کی قوم پوری کی پوری ان کے ساتھ آسکتی ہے، اس کے بھی امکانات ہیں.یوگوسلاویہ سے پہلی دفعہ نوجوان نے تعلیم حاصل کرنے کے لئے اپنے آپ کو وقف کیا ہے.ان کو محدود وقت میں اجازت مل سکتی ہے.تو تین مہینے کی جو ان کو چھٹیاں ہیں وہ یہاں انشاء اللہ آ کے گزاریں گے اور دینی تعلیم حاصل کریں گے اور اپنے ملک میں جا کر پھر وہ پیغام پہنچائیں گے.ہنگری میں خدا تعالیٰ کے فضل سے نیا رابطہ قائم ہو چکا ہے اور روس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے نئے روابط قائم ہو چکے ہیں ایک رابطہ نہیں کئی روابط اور وہاں سے ایک بیعت تو براہ راست لینن گراڈ سے آئی تھی اس کے بعد اب پتہ چلا ہے کہ وہاں جگہ جگہ احمدی پھیلے ہوئے تھے جنہوں نے کبھی بتایا ہی نہیں تھا.لیکن چونکہ انگلستان سے رابطہ نسبتا آسان ہے اس لئے وہ اللہ کے فضل سے اب آتے ہیں ملتے ہیں رابطہ قائم کرتے ہیں آکے نئی ہدایتیں لیتے ہیں آئے.کوئی دنیا کا حصہ ایسا نہیں رہا جہاں خدا تعالیٰ نے سین فضل سے احمدیت کے نفوذ کے سامان پیدا نہیں کر دیئے.اور یہ آج کل کے چند بیچارے مولوی یہ نکلے ہیں ہماری زمینیں تنگ کرنے کے لئے ! ان پر خدا کی زمین تنگ کر دی جائے اور ان کو یہ معلوم نہیں ہے کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ ان کی تقدیر ہے کہ ان پر زمینیں تنگ کی جائیں گی.اپنے بندوں پر خدا زمینیں تنگ نہیں کیا کرتا ان کے لئے تو وسعتوں کے وعدے ہی ہیں اور ہم دیکھ رہے
خطبات طاہر جلدم 743 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء ہیں ان وعدوں کو پورا ہوتے ہوئے ان کے لئے کیا وعدہ ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.بَلْ مَتَعْنَا هَؤُلَاءِ وَابَاءَهُمْ حَتَّى طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الانبياء : ۴۵) کہ ہم نے ان کو مہلت دی اور دنیا کی نعمت دی اور ان کے آباء کے ساتھ بھی یہی سلوک ہمارا ر باحَتی طَالَ عَلَيْهِمُ الْعُمُرُ یہاں تک کہ ان کا زمانہ لمبا ہوگیا ان کے سر پک گئے اور زمانہ لمبا ہو گیا.اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مومن دیکھ رہے تھے کہ ان پر پکڑ نہیں آرہی، مومن دیکھ رہے تھے کہ ان کا زمانہ لمبا ہوتا چلا جا رہا ہے لیکن خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ خود وہ لوگ جن کو تم سمجھ رہے ہو کہ ان کا زمانہ لمبا ہو گیا ہے ان پر خدا تعالیٰ ایسی علامتیں ظاہر فرما رہا ہے کہ وہ خود اپنی زمین کو دن بدن تنگ ہوتا ہوا دیکھ رہے ہیں.فرمایا اَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا آفَهُمُ الْغُلِبُونَ کیا وہ لوگ یہ نہیں جانتے کہ ہم ہر طرف سے اپنا گھیرا تنگ کر رہے ہیں ان پر، اُن کی زمینیں محدود کرتے چلے جاتے ہیں ، آفَهُمُ الْغُلِبُونَ یہ کیسے بیوقوفوں والا نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ یہ غالب آجائیں گے.ایک طرف وہ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاَرْضُ اللهِ وَاسِعَةٌ یقینا اللہ والوں کی زمین پھیلنے والی زمین ہے دوسری طرف منکرین کی تقدیر یہ ہے کہ اُن کی زمین تنگ ہونے والی زمین ہے اور کہتے ہیں کہ ہم غالب آجائیں گے اس سے زیادہ بیوقوفی اور کیا ہو سکتی ہے.پس آپ کو مبارک ہو جن کے غم بھی مبارک ہیں، جن کی خوشیاں بھی مبارک ہیں ، جن کے خوف بھی مبارک ہیں اور جن کی امیدیں بھی مبارک ہیں اور ہر حال سے گزر کر ہم گواہ ہیں، ہم شاہد ہیں کہ ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئی رحمتیں خدا سے حاصل کی ہیں اور نئی برکتیں اللہ کی طرف سے حاصل کی ہیں اور اس سب پر مستزاد یہ کہ خدا کا وعدہ ہے اور خدا کی انگلی آسمان سے اشارے کر رہی ہے کہ اے میرے بندو! جنہوں نے صبر کیا ، میں تمہیں بے حساب اجر دوں گا اور ہر جہت سے تمہاری زمین پھیلتی چلی جائے گی اور نئی وسعتیں اسے عطا ہوتی چلی جائیں گی اور اپنے مخالفین کی وہ دنیا دیکھ کر ایک لمحہ کے لئے بھی مایوس نہ ہونا کہ ان کی عمر ذرا لمبی ہوگئی کیونکہ خدا کہتا ہے کہ وہ خود جانتے ہیں کہ ان
خطبات طاہر جلد۴ 744 خطبه جمعه ۳۰ / اگست ۱۹۸۵ء کا زمانہ تیزی سے گزرتا چلا جا رہا ہے اور ان کی زمینیں تنگ ہوتی چلی جارہی ہیں ، خدا کی تقدیر کا گھیرا روز بروز ان پر زیادہ تنگ ہو رہا ہے.جہاں یہ باتیں ہمارے دل میں نئے حوصلے عطا کرتی ہیں ، ہمیں نئے اطمینان بخشتی ہیں وہاں شکر کی طرف بھی تو توجہ دلاتی ہیں.اس لئے کثرت سے خدا تعالیٰ کا شکر کریں، دن رات خدا کا شکر کریں کیونکہ خدا تعالیٰ کا یہ بھی وعدہ ہے کہ شکر کرو گے تو پھر میں مزید بڑھا دوں گا یہ بھی ایک وسعت کی جہت ہے تو شکر کر کے دیکھیں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس طرح اس شکر کے نتیجے میں بھی آپ کو نئی وسعتیں عطا فرمائے گا.
خطبات طاہر جلدم 745 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء کلمۃ اللہ حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی وفات پران کا ذکر خیر خطبه جمعه فرموده ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں: إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنَّتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خَلِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُونَ عَنْهَا حِوَلًا قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا إِلَهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ ۚ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًان اور پھر فرمایا: (الكيف : ۱۰۸-۱۱۱) قرآن کریم کی جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں یہ سورۃ کہف سے لی گئی ہیں اور سورۃ کہف کی آخری چند آیات ہیں.ان آیات میں جو تین آیات ہیں ان میں بظاہر ایک مضمون کا دوسرے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.سرسری نظر سے دیکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ ہر آیت میں ایک مختلف بات کی گئی ہے.حالانکہ ایک مسلسل مضمون ہے اور بڑا گہرا رابطہ رکھتا ہے.
خطبات طاہر جلدم 746 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء پہلی آیت میں مومنوں کا ذکر ہے وہ جو ایمان لائے اور عمل صالح کئے.كَانَتْ لَهُمْ NANA الفردوس نُزُلاً ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنات فردوس بطور مہمانی کے عطا ہوں گی.خُلِدِينَ فِيهَا لَا يَبْغُوْنَ عَنْهَا حِوَلاوہ ہمیشہ ہمیش کے لئے ان میں رہیں گے اور کبھی بھی ان سے الگ نہیں ہوں گے.یعنی يَبْغُونَ عَنْهَا کا معنی محض جسمانی طور پر الگ ہونا نہیں بلکہ کبھی ان سے اکتائیں گے نہیں، کبھی ان جنتوں سے ان کا پیٹ نہیں بھرے گا ، ان کی نظر نہیں بھرے گی اور ہمیشہ ان میں ان کے لئے لذتوں کے سامان رہیں گے، ان جنتوں سے وہ چھٹے رہیں گے، نہ نکالے جائیں گے نہ خود نکلنا چاہیں گے.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے.قُل لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو یہ اعلان کر دے تو كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَه اگر میرے رب کے کلمات کو لکھنے کے لئے سمندر سیاہی بن جاتے لَنَفِدَ الْبَحْرُ تو سمندر تو خشک ہو جاتے لیکن كَلِمتُ رَبِّی میرے رب کے کلمات ختم نہیں ہو سکتے تھے وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ هَدَدًا خواہ ہم ان ختم ہوئے سمندروں کی مدد کے لئے ویسے ہی اور سمندر لے آتے.یہ ایک اور مضمون ہے.اور ایک تیسرا مضمون یہ ہے کہ قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی اعلان کر دے کہ میں بھی تو تمہارے ہی جیسا ایک بشر تھا ، یعنی بشر ہوں بھی اس کا معنی ہے لیکن مضمون کے ایک پہلو کے لحاظ سے یہ ترجمہ زیادہ درست بنتا ہے کہ یہ اعلان کر دے کہ میں بھی تمہاری ہی طرح کا ایک بشر ہی تو تھا.يُوحَى إِلَى اَنَّمَا الْهُكُمْ إِلهُ وَاحِدٌ اور دیکھو ی نے میری کیسی کایا پلٹ دی.تم جیسے انسانوں میں سے نکلا اور خدا کی وحی کا مورد بن گیا اور کس عظیم الشان مقام تک جا پہنچا لیکن یہ فضل الہی صرف میری ذات پر نہیں ہر کسی کے لئے ایک کھلی دعوت ہے، ایک صلائے عام ہے لیکن پھر میرے جیسا بننا پڑے گا.جو کچھ میں نے کیا ہے تم بھی وہی کرو اور وہ کیا ہے فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا اگر مجھے دیکھ کر تمہارے دل میں بھی تمنا پیدا ہوئی ہے کہ ہم بھی ان بلند مقامات کو حاصل کر سکتے ، ہم بھی اپنے رب کی لقا کو پا جاتے تو پھر تم بھی عمل صالح کر کے دکھاؤ اور خدا کا کوئی شریک نہ ٹھہراؤ.یہ مضمون بھی ایک الگ مضمون ہے اور اور نہ
خطبات طاہر جلدم 747 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء بظاہر ان تینوں مضامین میں کوئی تعلق نظر نہیں آرہا لیکن ان تینوں میں سے جو مرکزی آیت ہے اس کے مضمون پر زیادہ گہری نظر ڈالی جائے تو پھر دائیں اور بائیں کی آیات کا مضمون خوب کھل کے سامنے آجاتا ہے.قرآن کریم اللہ کے کلمات کا ذکر فرما رہا ہے کہ خدا کے کلمات کبھی ختم نہیں ہو سکتے اور اس سورۃ کا تعلق عیسائیت کے رد کے ساتھ ہے خصوصاً اس کی پہلی آیات اور اس کی آخری آیات عیسائیت سے ہی تعلق رکھتی ہیں اور عیسائیت کے رد کے مختلف پہلوان آیات میں بیان فرمائے گئے ہیں.حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام کو قرآن کریم میں کلمہ کہا گیا گویا اس بات کی تصدیق کی گئی کہ وہ کلام تھا لیکن کلام کن معنوں میں تھا اس پر روشنی نہیں ڈالی گئی.عیسائی تو کلام ان معنوں میں لیتے ہیں کہ وہ ایک منفرد حیثیت تھی جو خدا کی خدائی میں شریک تھا اور وہی کلام تھا اس کے سوا کوئی کلام نہیں تھا.قرآن کریم میں ایک دوسری جگہ بِكَلِمَةٍ مِّنْهُ کہہ کر بات کو واضح فرما دیا کہ خدا کے بے شمار کلمات ہیں ان کلمات میں سے ایک کلمہ مسیح بھی تھا.اور خدا کے کلمات نہ ختم ہونے والے ہیں اور مختلف رنگ میں کلمات کا اطلاق کر کے قرآن کریم نے بتایا کہ کلمہ کا مضمون بہت ہی وسیع مضمون ہے.ہر کلام جو کسی نبی پر نازل ہوتا ہے وہ بھی کلمات پر مشتمل ہوتا ہے.ہر وہ نیک شخصیت جو اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ لیتی ہے اور ثبات قدم اختیار کرتی ہے اس کی شاخیں آسمان تک دراز ہوتی ہیں اور وہ خدا سے فیض پا کر نئے نئے روحانیت کے پھل خود بھی کھاتی ہے اور دنیا کو بھی دیتی ہے، اس کو بھی کلمہ فرمایا گیا.تو سوال یہ پیدا ہوتا تھا کہ کلمہ اگر اس کو انسانی معنوں میں لیا جائے تو وہ ایک ہے دو ہیں یا تین ہیں یا کس حد تک کلمات ہیں، پہلے تھے اور اب عطا ہونے بند ہو گئے ہیں یا آئندہ بھی جاری رہیں گے اور اسی طرح کلمہ ہر کلام الہی کے ہر جزو پر بھی صادق آتا ہے اور اس کے ہر معنی پر بھی لفظ کلمہ صادق آتا ہے.لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لَّكَلِمَتِ رَبِّی میں خصوصیت کے ساتھ قرآن کریم کا بھی ذکر ہے اور قرآن کریم کو تو ایک دوات نہ سہی دو یا تین دواتوں میں یا درجن سیاہی کی دواتوں میں لکھا جاسکتا ہے.تو پھر یہ کہنا کہ کلام الہی کو اگر لکھنا شروع کرو تو سمندرخشک ہوجائیں اور پھر اور سمندر ہم لے کر آئیں اور وہ بھی خشک ہو جائیں اور کلام الہی ختم نہیں ہو گا.کلمات البہی ختم نہیں ہوں گے.اس کے کیا معنی ہیں؟ اس کے معنی یہی بنتے ہیں کہ ہر کلمہ کے اندر بے انتہا کلمات ہیں.اللہ تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد۴ 748 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء نشانات ہیں اور وسیع مضامین ہیں.اگر مضامین کے اعتبار سے کھولا جائے تو لا متناہی کلمات ہو جاتے ہیں.تو کلام الہی کے بعد انبیاء کی ذات بھی کلمات کہلاتی ہے اور صرف حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نہیں بلکہ ہر نبی ایک کلمہ تھا اور خدا کے تمام نیک بندے کلمات ہوتے ہیں.چنانچہ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصلحت میں جن مومنین کا ذکر ہے کہ ان کو جنات الفردوس عطا ہوں گی وہ ہمیشہ ہمیش ان میں رہیں گے نہ وہ کبھی ان سے تھکیں گے، نہ کبھی ان کو خدا کی طرف سے باہر نکالا جائے گا.یہ وہی کلمات ہیں جن میں کچھ کلمات کی وضاحت اگلی آیات میں کی گئی ہے اور خوشخبری حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ دی جارہی ہے کہ عیسائی تو ایک کلے کے اوپر فخر کر رہے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ منفرد تھا، ہم نے مسیح کو تو کلمہ کہا لیکن تجھے ہم کلمہ گر بنا رہے ہیں.تجھ سے بے شمار کلمات وجود میں آئیں گے اور وہ سارے مومنین جن سے لا متناہی جنتوں کے وعدے کئے جار ہے ہیں ، نہ ختم ہونے والی جنتوں کے وعدے کئے جارہے ہیں، وہ سارے کلمات الہی ہوں گے جو تجھے نصیب ہوں گے.پس یہ اعلان کہ میرے رب کے کلمات کبھی ختم نہیں ہو سکتے.اس کثرت سے اللہ تعالیٰ تجھے کلمات طیبات عطا فرمائے گا کہ ان کا پیدا ہونا بھی ختم نہیں ہوگا اور ان میں سے ہر وجود کے اندر معانی کے سمندر ہوں گے اور نیکیوں اور تقویٰ کے سمندر ہوں گے.یہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متابعت کے نتیجہ میں ان کو یہ نصیب ہونا تھا.چنانچہ اس طرف توجہ مبذول فرمانے کی خاطر تیسری آیت میں یہ اعلان کر وایا گیا ہے کہ کلم گر تو میں ہوں تمہارے جیسا ہی بشر تھا، تمہاری ہی طرح کا ایک عام انسان تھا مگر جب مجھ سے تعلق جوڑا جائے.جب تم میری پیروی کرو اور جیسے نیک اعمال میں نے کئے ہیں ویسے تم بھی کرنے لگو اور جیسا تو حید کو میں نے مضبوطی سے تھام رکھا ہے اس طرح تم بھی توحید کے ساتھ چمٹ جاؤ تو پھر یہ وحی الہی کی نعمت جو کلمہ بناتی ہے وہ تمہیں بھی نصیب ہونی شروع ہو جائے گی اور میں اس نعمت کو محض اپنی ذات تک محدود کرنے کے لئے نہیں آیا.میں تو اس نعمت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے آیا ہوں تا کہ مجھے دیکھو اور تم میں شوق پیدا ہو اور تم میں محبت پیدا ہو، اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ تعلق کی تمنا پیدا ہو اور اس کے نتیجے میں تم نیک اعمال کرو، میری پیروی کرو ، میری طرح موحد بن
خطبات طاہر جلدم 749 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء جاؤ یعنی جس حد تک تمہارے لئے ممکن ہے اور پھر دیکھو کہ خدا کے کلمات لا متناہی ہیں اور یہ کلمات کبھی ختم نہیں ہو سکتے.اس کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے جو نعمتوں کی عطا کا سلسلہ ہے یہ بند نہ ہونے والا سلسلہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں اسی آیت کے ایک زندہ نشان کے طور پر پیش فرمایا اور حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوت قدسیہ نے اس زمانے میں بھی اثر دکھایا اور اس زمانے میں بھی آپ کی قوت نے ایک کلمہ گر پیدا کر دیا اور وہ سلسلہ جو بظاہر بند ہوتا دکھائی دے رہا تھا وہ خدا تعالیٰ نے پھر جاری فرما دیا پھر اس مقدس صحبت کے نتیجے میں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعے منعکس ہوئی پھر بہت سے کلمات پیدا ہونے شروع ہوئے عظیم الشان صحابہ ہیں جن میں سے ہر ایک کا وجود ایک کلمہ کی حیثیت رکھتا ہے اور ہر ایک کا وجود اپنے اندر اتنی گہرائی رکھتا ہے کہ عام انسانی نظر اس گہرائی کو پاسکے یا نہ پاسکے لیکن حقیقت میں ان کے باطن میں جو لازوال حسن اللہ تعالیٰ کی محبت کا جھلک رہا ہے وہ ایک نہ ختم ہونے والا سمندر ہے اور بسا اوقات یہ باتیں باطن ہی میں مخفی رہتی ہیں اور دنیا کی نظر میں سوائے اس کے کہ کوئی مجبوراً خدا تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہو اور مجبور ہو اظہار پر ورنہ اکثر ایسے لوگ خاموشی کے ساتھ آتے بھی ہیں اور گز ربھی جاتے ہیں اور انسانوں کی نگاہوں کا مرکز بھی نہیں بنتے اور یہ سلسلہ دیگر کلمات کے علاوہ اپنی ذات میں نہ ختم ہونے والا ایک سلسلہ ہے.مکرم و محترم حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب جن کا وصال یکم ستمبر کو ہوا.میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ بھی اللہ تعالیٰ کے کلمات میں سے ایک کلمہ تھے اور ایک عظیم الشان مقام خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تقویٰ کا نصیب ہوا.جب میں یہ کہتا ہوں تو میں اس رنگ میں کہتا ہوں کہ گویا یہ میری دعا ہے اور جب خدا کے مومن بندوں کو اپنے فوت شدہ احباب اور بزرگوں کا ذکر خیر کرنے کا حکم ہوتا ہے تو وہ بھی فتوے کے رنگ میں نہیں بلکہ دعا کے رنگ میں.کیونکہ جہاں تک آخری فیصلے کا تعلق ہے نیکی اور تقویٰ کا فیصلہ کرنا صرف خدا کا کام ہے.وہی عالم الغیب ہے، وہی عالم الشہادۃ ہے.وہ فرماتا ہے فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقُی (انجم: ۳۳) کہ تم نہ اپنے آپ کو متقی
خطبات طاہر جلدم 750 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء گردانا کرو نہ اپنے ساتھیوں اور احباب کے متعلق فتوے دیا کرو کہ وہ یقینا متقی ہیں اور حضور ا کرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ تم ان کا خیر کے ساتھ ذکر کیا کرو،حسن ظن کے ساتھ ذکر کیا کرو.تو ان دونوں میں تضاد تو کوئی نہیں ہوسکتا.کلام الہی اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں کوئی تضاد نہیں.مراد صرف یہ ہے کہ اپنے بھائیوں، اپنے بزرگوں، اپنے دوستوں کا حسن ظن کے ساتھ ذکر کرو، خیر کے ساتھ ذکر کرو.ان معنوں میں کہ تم اللہ تعالیٰ سے یہ امید رکھتے ہو کہ ان کے بارے میں تمہارے اندازے سچ ہوں گے.اور اگر وہ سچ نہ بھی ہوں تو ان کے لئے مجسم دعا بن جاؤ اور اس طرح ذکر کرو کہ خدا تعالیٰ کی رحمت کی نظر پڑے اور تمہارے حسن ظن کو ان کی ذات میں سچا کر دکھائے.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ میں یقین رکھتا ہوں تو ایک دعا کے رنگ میں کہتا ہوں، جہاں تک میرا علم ہے اس علم کے اظہار کے طور پر کہتا ہوں.لیکن فتویٰ دینے کا نہ مجھے حق ہے نہ آپ کو حق ہے نہ آپ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ہیں نہ میں علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ہوں لیکن جہاں تک انسانی نظر کام کرتی ہے جہاں تک دور سے میں نے ان کی ذات کو دیکھا اور قریب سے ان کی ذات کو دیکھا، اس ذات کے متعلق علم حاصل کیا جو میری پیدائش سے پہلے بھی موجود تھی اور زندگی کا ایک بڑا حصہ گزار چکی تھی اور اس ذات کے متعلق بھی غور کیا جس نے میری زندگی کا وہ حصہ پایا جو ہوش کا زمانہ کہلاتا ہے اور علمی لحاظ سے بھی آپ کا جائزہ لیا، آپ کی کتب کا مطالعہ بھی کیا، آپ کے متعلق لکھنے والوں کی تحریروں کا بھی جائزہ لیا، آپ کے متعلق خدا تعالیٰ کے بندوں کے تاثرات کو بھی سنا اور بعض دفعہ آپ کی ایسی خوبیوں میں جھانکنے کا بھی موقع ملا جو عموماً لوگوں کی نظر سے پوشیدہ رہتی ہیں ، خط و کتابت کا بھی موقع ملا اور ایسی حالت میں ان کو دیکھا جب کہ عموماً انسان نظروں سے تو شرماتا ہے لیکن خط لکھتے وقت اپنی اندرونی کیفیات کو خود ظاہر کر دیا کرتا ہے تو ان سب جائزوں کے بعد میں یہ یقین رکھتا ہوں اور میں اس یقین کو خدا کے حضور ایک عاجزانہ عرض کے طور پیش کرتا ہوں کہ وہ ہمارے اس یقین کو سچا کر دکھائے کہ یہ ہمارے بہت ہی پیارے وجود، بہت ہی بزرگ ساتھی جو چند دن ہوئے ہمیں حزیں بنا کے رخصت ہوئے ہیں، یہ اللہ کی نظر میں بھی متقی ٹھہریں خدا کی بھی محبت اور پیار کی نظر ان پر پڑ رہی ہو یہ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے ہوں.
خطبات طاہر جلدم 751 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء آپ بھی قرآن کریم کی اس آیت کے مصداق اور ان تمام غلامانِ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گروہ کے جو اپنی اپنی جگہ یہ گواہی دیتے رہے کہ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یقیناً کلمہ گر تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نور پایا جو فیض آپ کو عطا ہوا وہ بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت اور برکت کے نتیجے میں ہوا اور آپ کو بھی اسی فیض سے سیراب ہو کر آگے جاری کرنے پر مامور فرمایا گیا اس لحاظ سے نیابت رسول میں آپ بھی کلمہ گر بنائے گئے اور چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کو جو فیوض عطا ہوئے ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے نشان جھلکتے ہیں اور اس بات کا سب سے بڑھ کر آپ کو احساس تھا اتنا شدید احساس تھا کہ وہ احساس ہر وقت ذہن پہ حاضر رہتا تھا.میں نے مختلف حیثیتوں سے آپ کا جائزہ لے کر دیکھا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ عشق اس احسان کے احساس کے ساتھ کہ میری زندگی کی کایا پلٹ دی ہے ہر وقت آپ کے ذہن پر سوار رہتا تھا.یہ انگلستان کی بات ہے کہ برمنگھم میں ایک دفعہ BBC1 کے نمائندے نے انٹرویو لیتے ہوئے اچانک آپ سے سوال کیا کہ آپ کی زندگی کا سب سے بڑا واقعہ کیا ہے؟ بے تکلف سوچنے کے لئے ذرہ بھی تردد نہ کرتے ہوئے آپ نے فورا یہ جواب دیا کہ میری زندگی کا سب سے بڑا واقعہ وہ تھا جب میں اپنی والدہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ کے مبارک چہرہ پر نظر ڈالی اور آپ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ تھا دیا.اس دن کے بعد پھر آپ نے وہ ہاتھ کبھی واپس نہیں لیا، مسلسل ہاتھ تھمائے رکھا ہے اور جو عظمتیں بھی آپ کو ملی ہیں اس وفا کے نتیجے میں ملی ہیں، اس استقلال کے نتیجے میں ملی ہیں، نیکی پر اس صبر اختیار کرنے کے نتیجے میں ملی ہیں.تو دیا ہوا ہاتھ تھا پھر کبھی واپس نہیں آیا.ہمیشہ اپنے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تابع فرمان کے طور پر زندہ رکھا.ہر میدان میں، ہر علم کے میدان میں ، ہر جد و جہد کے میدان میں ، ہر اندرونی تجربے کے میدان میں آپ پر یہ احساس غالب رہا کہ میں نے ایک اللہ کے مامور کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دیا ہے اور جہاں تک میرا بس ہے، جہاں تک میرے اندر خدا کی طرف سے توفیق عطا ہوتی ہے میں اس کے تقاضے پورا کرتا رہوں گا اور خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ نہایت ہی عمدگی کے ساتھ نہایت ہی اہلیت کے ساتھ ان تقاضوں کو پورا کیا اور آپ کے حق میں حضرت مسیح
خطبات طاہر جلدم 752 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ پیشگوئی پوری ہوئی جو بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی اور اس بار بار عطا ہونے میں بھی ایک کثرت کا نشان تھا جو آپ کو دیا گیا.فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام دنیا میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنے سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کردیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلاء آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گئے.(تجلیات الہی، روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴۰۹) یہ پیشگوئی مختلف رنگ میں مختلف وجودوں کی شکل میں پوری ہوتی رہی ہے مگر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب مرحوم کو خصوصیت کے ساتھ ظاہری طور پر بھی اس کو پورا کرنے کا اس رنگ میں موقع ملا کہ آپ نے اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے بسا اوقات سب کے منہ بند کر دیئے.سیاست کے میدان میں بھی ، وکالت کے میدان میں بھی اور تبلیغ کے میدان میں بھی.ایسی عمدہ نمائندگی کی توفیق آپ کو عطا ہوئی کہ اپنے تو اپنے دشمن بھی بے ساختہ پکارا تھے کہ اس بطل جلیل نے بلاشبہ غیروں کے منہ بند کر دیئے ہیں.مذہبی دنیا میں جو آپ کو تبلیغ کے علاوہ خدمت کی توفیق ملی اس میں جماعت کے بہت سے اہم مقدمات کو آپ نے اس عمدگی کے ساتھ چلایا، اس عمدگی کے ساتھ ان کی پیروی کی کہ بسا اوقات ایسے مشکل مقدمات تھے جن سے نکلنا ممکن نظر نہیں آتا تھا.گویا بعض موقعوں پر جماعت کے بعض افراد یوں لگتا تھا کہ مقدمے کے چنگل میں پھنس چکے ہیں لیکن بڑی حکمت، بڑی فصاحت و بلاغت بڑی قابلیت کے ساتھ آپ نے نمائندگی کے حق ادا کئے اور اس میدان میں عظیم الشان سہرے جیتے ہیں.
خطبات طاہر جلدم 753 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء پھر سیاست کی دنیا میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو عظیم خدمات سرانجام دینے کا موقع عطا فرمایا اور ہندوستان کی جو دوکالت آپ نے انگریزی حکومت کے سامنے کی ہے وہ بھی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حرفوں سے لکھی جائے گی اور کوئی مورخ جو تقوی اور دیانت سے کچھ بھی حصہ پاچکا ہو وہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ان خدمات کو نظر انداز نہیں کر سکتا.گول میز کانفرنس میں ،اس کے علاوہ بہت سے مواقع آئے میں نے لسٹ تیار کروائی تو بہت لمبی ہوگئی تھی.اس لئے یہ تو اس چھوٹے سے خطبہ میں ممکن نہیں ہے.چوہدری صاحب کی ایک وسیع اور طویل اور بھر پور زندگی کے سارے پہلوؤں کا ذکر کر دیا جائے.میں تو ضمناً چند باتیں بیان کر رہا ہوں جو آپ کو دعا کی تحریک کے طور پر اور اس تحریص کے طور پر یاد دلا رہا ہوں کہ آپ میں سے بھی ویسے پیدا ہوں.میں آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان آیات میں لا متناہی ترقی کے رستے کھولے گئے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی ذات اقدس سے بڑھ کر کوئی وجود متصور ہو ہی نہیں سکتا اور فرمایا اپناذ کر کرنے کے بعد یہ بتا کر کہ خدا تم پر وحی نازل فرما رہا ہے سب کو صلائے عام دے دو اور کہہ دو کہ اب تم میں ہمت ہے تو آؤ ان رستوں کو اختیار کرو جن پر میں دوڑا تھا اور آؤ اور مجھے پکڑ کے دکھاؤ اور آؤ اور میری پیروی کر کے دکھاؤ اور یہ لا متناہی رستے ہیں کوئی روک نہیں ہے.کوئی مصنوعی حدیں ایسی نہیں ہیں جو تمہارے لئے حد فاصل ثابت ہوں اس لئے دوڑنے کی تمہیں اجازت ہے اور دوڑنے کی تمہیں دعوت ہے.لیکن ترقیوں کے لئے ان رستوں پر چلنا پڑے گا جو حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے طے کر کے دکھائے ہیں.اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بڑھنے کی بھی کھلی اجازت ہے اور حد امکان کے لحاظ سے کوئی روک نہیں ہے اگر چہ یہ بھی بڑی وضاحت کے ساتھ لکھا گیا ہے کہ کبھی ایسا ممکن نہیں ہو گا کہ کوئی شخص آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے چلتے ہوئے آپ سے آگے نکل جائے لیکن روکا نہیں گیا بلکہ بلایا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقام کے آخری ہونے کو مایوسی کے لئے استعمال نہیں فرمایا بلکہ دعوت عام کے طور پر استعمال کیا ہے، تحریص کے طور پر استعمال فرمایا ہے.تو آپ سے ادنی جتنے بھی بندے ہیں ان کے رستوں پر چل کر ان سے آگے نکلنے کے تو امکان بھی موجود ہیں.تو امت محمدیہ کو کتنی عظیم خوشخبری دے دی گئی
خطبات طاہر جلدم 754 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء کہ اگر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عظمت بھی تمہیں ان رستوں پر دوڑ کر جد و جہد سے روک نہیں رہی تو چھوٹے چھوٹے ، ادنی ، ادنی غلام اس کے ان کو تم کیسے آخری سمجھو گے، کیسے تم مایوس ہو جاؤ گے کہ یہ اتنی بلندیوں تک جا پہنچے ہیں کہ ہم آگے نہیں بڑھ سکتے.فرمایا یہ کھلا ہوا رستہ ہے اور جہاں تک کلمات بننے کا تعلق ہے محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چند کلمات بنانے نہیں آئے تھے.ایک یا دو یا تین یا چار یا دس عشرہ مبشرہ دے کر چلے جانے والے وجود نہیں تھے جو کلمات آپ کو عطا کرنے کی صلاحیت بخشی گئی ہے اگر تم اپنے حصہ کے حق ادا کرتے رہو تو یہ صلاحیت لا محدود ہے.قُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ اَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا.کہ اے محمد ! یہ اعلان کر کہ میرے رب کے کلمات جو مجھے عطا کئے جارہے ہیں میرے رب کے کلمات اتنے وسیع ہیں یعنی خدا تعالیٰ کی طاقتیں اتنی لامحدود ہیں ، یہاں کلمات کے معنی طاقتیں بھی بن جاتا ہے ، خدا کے پاس ایسے لامحدود خزانے ہیں کہ اگر تم لینے والے بنوتو وہ خزانے کبھی ختم نہیں ہو سکتے.گویا لا متناہی ترقیات کے رستے تمہارے لئے کھلے ہیں.تو میں اس لئے ذکر کر رہا ہوں کہ جہاں ایک طرف آپ کے دل میں دعا کی تحریک پیدا ہو وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی پر نظر کرتے ہوئے جو میں نے پڑھ کے سنائی ہے.اور اس منبع فیض کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے جنہیں خدا تعالیٰ نے محمد کا نام آسمان سے عطا فرمایا تھا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اس مبداء فیض کی طرف نگاہ کرتے ہوئے جسے قرآن کریم کہا جاتا ہے اور جس کے کلمات بھی نہ ختم ہونے والے ہیں آپ مایوسی کا کوئی خیال دل میں نہ آنے دیں.یہ وہم دل سے نکال دیں کہ ایک ظفر اللہ خان ہمیں چھوڑ کر جا رہا ہے تو آئندہ کے لئے ظفر اللہ خان پیدا ہونے کے رستے بند ہو گئے ہیں.بکثرت اور بار بار حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایسی عظیم الشان غلاموں کی خوشخبریاں دی گئی ہیں جو ہمیشہ آتے چلے جائیں گے اور ایک گزرے گا تو دوسرا اس کی جگہ لینے کے لئے آگے بڑھے گا.آپ اپنی ہمتوں کو بلند کریں.ان تقویٰ کی راہوں کو احتیار کریں جو حضرت چوہدری صاحب اختیار کرتے رہے، ان وفا کی خصلتوں سے مزین ہوں جن سے وہ خوب مزین تھے ، وہ صبر اور وہ ہمت پیدا کریں جو آپ کی ذات کے خاصہ
خطبات طاہر جلدم 755 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء تھے اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار میں اسی طرح رنگین ہو جائیں بلکہ اس سے بڑھ کر رنگین ہونے کی کوشش کریں جس طرح چوہدری صاحب کو اللہ تعالیٰ نے اپنی محبت کے خاص رنگ عطا فرمائے تھے.تو جماعت کے لئے تو ترقی کے کوئی رستے بند نہیں ہو سکتے کسی ایک وصال کے بعد کوئی نہیں جو یہ کہہ سکے کہ اب آئندہ ایسا پیدا نہیں ہوگا.وہ ایک ہی تھا جس جیسا پیدا نہیں ہوا نہ ہو سکتا ہے نہ ہوگا اور وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں لیکن ایک ہونے کے باوجود لا متناہی کلمات پیدا کرنے کی صفات آپ کو بخشی گئی ہیں.پس ان کلمات میں سے آپ بھی تو بننے کی کوشش کریں.چوہدری صاحب کی ذات کے جو مختلف پہلو میں بیان کرنے چاہتا تھا وہ اتنے زیادہ وسیع نکلے کہ پھر مجھے ان میں سے بھی چند کا انتخاب کرنا پڑا اور جو چند کا انتخاب کیا ہے وہ بھی پوری طرح غالبا اس چھوٹی سی مجلس میں بیان ہو نہیں سکتے.آپ کو ایسی خدا تعالیٰ نے عظمت عطا فرمائی تھی کہ جتنے بھی منصب آپ کو ملتے تھے وہ منصب ہمیشہ آپ سے چھوٹے نظر آتے تھے اور وہ منصب کبھی آپ کو چھوٹا نہیں دکھا سکے.آپ کی ذات میں حوصلہ تھا ، وسعت تھی اور کسی منصب پر بیٹھ کے یہ نہیں لگتا تھا کہ اس منصب نے آپ کو اونچا کر دیا ہے بلکہ حقیقت میں آپ ہمیشہ ان مناصب کو اونچا کرتے رہے.ان کے معیار کو بڑھاتے رہے، یہاں تک کہ وہ منصب جب آپ نے چھوڑے تو پہلے سے زیادہ بلند مقام پر دکھائی دیا کرتے تھے اور یہ خصوصیت عجز کے نتیجہ میں انسان کو عطا ہوا کرتی ہے.اگر گہری نظر سے آپ غور کریں تو بجز اور حوصلہ کی وسعت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.ایک جاہل اور کم فہم سرسری نگاہ رکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ سر اونچا کرنے کے نتیجہ میں بلندیاں بھی عطا ہوتی ہیں اور وسعتیں بھی عطا ہوتی ہیں لیکن فطرت انسانی سے واقفیت رکھنے والا جس نے قرآن کریم سے فطرت انسانی کے راز سیکھے ہوں وہ اس حقیقت کو خوب جانتا ہے کہ بجز ہی میں بلندی ہے اور بجز ہی میں وسعتیں ہیں اور یہ دونوں مضامین روزانہ پانچ وقت کی نماز کی ہر رکعت ہمیں بتاتی ہے.پہلے عجز کا اظہار ہم رکوع کی صورت میں کرتے ہیں اور وہاں سبحان ربی العظیم پڑھتے ہیں یعنی وسعتوں کی طرف خدا تعالیٰ ہمارے ذہن کو منتقل فرما دیتا ہے کہ تم جھکے ہو تو تمہیں وسعتیں نصیب ہوں گی کیونکہ رب عظیم کے سامنے تم جھکے ہو اور دوسری حرکت جو ہم انکسار کی طرف کرتے ہیں جو ان حرکتوں کا وہ
خطبات طاہر جلدم 756 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء منتہا ہے سجدے کی حرکت ہے.اور وہاں خدا تعالیٰ ہمیں یہ سکھاتا ہے سبحان ربی الاعلیٰ.سبحان ربی الاعلیٰ کہ تم جھکے ہو تو بلندیوں کی طرف جھکے ہو کیونکہ رب الاعلی کی طرف جھکے ہو.چوہدری ظفر اللہ خان صاحب عملاً ان دونوں باتوں سے، ان دونوں رازوں سے خوب واقف تھے.چنانچہ ان کی عظمتیں اور ان کی رفعتیں دونوں ان کو بجز کے نتیجے میں نصیب ہوئیں اور بے پناہ ان کے اندر خدمت دین کا جذبہ تھا اور کوئی دنیا کا منصب اس سے ان کو روک نہیں سکتا تھا.اور دنیا کے منصب کے نتیجے میں وہ اپنے آپ کو کبھی ایسا بلند سمجھتے ہی نہیں تھے کیونکہ ہمیشہ منصب دنیاوی ان کو چھوٹا نظر آیا کرتا تھا کہ اس کے مقابل پر دین کی خدمت نسبتا ادنی نظر آئے.یعنی وہ بجز جو عارف باللہ کا بجز ہوتا ہے، وہ بجز ہے جس کی بات میں کر رہا ہوں.چنانچہ دین کی خدمت میں آپ اپنی بلندی دیکھتے تھے ، دین کی خدمت میں ہی آپ کی ساری عظمتیں تھیں.چنانچہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ ۱۹۴۱ء میں آپ کو جب فیڈرل کورٹ آف جسٹس انڈیا کا حج مقرر کیا گیا ہے تو اسی زمانے میں حضرت مصلح موعود نے تحریک کی تھی کہ مضافات قادیان ( ارد گرد جو دیہات ہیں) ان میں تبلیغ کے لئے لوگ اپنے آپ کو پیش کریں تو فیڈرل کورٹ کا جسٹس ۴۱ ء اور ۴۲ء میں اردگرد دیہات میں تبلیغ کے لئے باقی سب مبلغین کے ساتھ مل کے جایا کرتا تھا اور ایک لحظہ کے لئے بھی اس کو خیال نہیں آیا کہ میری اتنی بڑی شان ہے ، میرا اتنا بڑا مقام ہے، کوئی دیکھے گا یا سنے گا تو کیا کہے گا یہ کیا کر رہا ہے.یعنی چھوٹے چھوٹے گاؤں ڈپٹی اور بھینی اور اٹھوال اور بے شمار چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے جن میں ایک عام خادم احمدیت کے طور پر شامل ہوا کرتے تھے اور فخر کے ساتھ ، اس احساس کے ساتھ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مجھے سعادت نصیب ہو رہی ہے اور یہ تمنا محض ایسی خدمات کے لئے نہیں تھی جو عام حالات میں سہولت کے ساتھ ادا ہو سکتی ہے بلکہ نہایت خطرناک خدمات کے لئے بھی اسی قسم کی تمنا آپ کے دل میں تڑپا کرتی تھی.جب کا بل میں ۱۹۲۴ء میں حضرت نعمت اللہ خان صاحب کو شہید کیا گیا تو حضرت مصلح موعود نے ان لوگوں کے نام طلب کئے جو تمام خطرات کو اچھی طرح بھانپتے ہوئے پھر وہ اس بات کا عہد
خطبات طاہر جلدم 757 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء کریں کہ وہ کابل میں جائیں گے اور ایک شہید کی بجائے وہ لوگ خدمات سرانجام دیں گے جو وہ شہید شہادت کی بنا پر مزید سرانجام نہیں دے سکا اور اس سلسلے کوٹوٹنے نہیں دیں گے.یہ تھی اس کی روح اور جو نام پیش ہوئے اس وقت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ لاہور کے امیر تھے، نام پیش ہونے والوں میں سب سے پہلا آپ کا نام ہے جو الفضل میں شائع ہوا.اس نام کو پیش کرتے ہوئے آپ نے حضرت مصلح موعود کی خدمت میں جو خط لکھا ہے وہ خط ایسا خط ہے چونکہ وہ اپنے امام کو لکھ رہے تھے اس لئے باوجودطبیعت کی روکوں کے جن کا خود ذکر کر رہے ہیں نسبتا زیادہ آسانی کے ساتھ کھل کر اپنی قلبی کیفیات کو ظاہر کر سکتے تھے.ایسے موقع پر آپ کی ذات کے اندر جھانکنے کا موقع ملتا ہے.تقویٰ کی کن راہوں سے آپ گزر رہے تھے؟ کیا آپ کے قلبی جذبات اور کیا آپ کی کیفیات تھیں؟ جب آپ نے اپنے نام کو پیش کیا ہے اور کس طرح پھر تنقیدی نظر ڈالی ہے اپنی زندگی پر ، اپنی اندرونی کیفیات پر تجزیہ کیا ہے اس خوف کیسا تھ کہ کہیں میں ریا کاری کا مظاہرہ تو نہیں کر رہا.یہ ساری باتیں اس خط سے آپ کو نظر آئیں گی یعنی اس خط کے آئینے میں آپ کو نظر آئیں گی.وہ لکھتے ہیں: سید نا وامامنا السلام علیکم ورحمتہ اللہ و برکاتہ.میری زندگی آج تک ایسی ہی گزری ہے کہ سوائے اندوہ وندامت کے اور کچھ حاصل نہیں“.بڑی کامیاب زندگی آپ گزار رہے تھے سیاست میں بھی آپ کو دخل ہو چکا تھا، آپ کی قابلیت کا شہرہ ہندوستان میں بھی پھیل رہا تھا اور ہندوستان کے مسلمان باشعور حلقوں کی نگاہیں آپ کی طرف اٹھ رہیں تھیں اس ساری زندگی میں سے گذرتے ہوئے جو ماحصل تھا آپ کے اپنے ذاتی تجزیہ کا اپنے آپ کو کس مقام پر دیکھ رہے تھے اس کا اظہار ہوتا ہے وو سوائے اندوہ و ندامت کے اور کچھ حاصل نہیں.میں اکثر غور کرتا ہوں کہ یہ بھی کوئی زندگی ہے کہ سوائے روزی کمانے کے کسی اور کام کی فرصت نہ ملے.حالانکہ امارت لاہور کے بھی بھر پور فرائض سرانجام دے رہے تھے اس وقت.
خطبات طاہر جلدم 758 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء اور دنیا کے دھندوں میں پھنسا ہوا انسان طرح طرح کے گناہوں میں مبتلا ر ہے آج یہ ایک خوش قسمت کہ محبوب حقیقی کے ساتھ وصال کی خبر آئی تو جہاں دل میں ایک شدید درد پیدا ہوا وہاں یہ بھی تحریک ہوئی کہ تمہارے لئے یہ موقع ہے کہ اپنی ناکارہ زندگی کوکسی کام میں لاؤ اور اپنے تئیں افغانستان کی سرزمین میں حق کی خدمت کے لئے پیش کرو.پھر میں اچانک رکا کہ کیا یہ محض میرے نفس کی خواہش، خواہش نمائش تو نہیں کہ اس یقین پر کہ مجھے نہیں بھیجا جائے گا اپنے تئیں پیش کرتا ہوں اور میں نے اپنے ذہن میں ان مصائب اور مشکلات کا اندازہ کیا جو اس رستے میں پیش آئیں گی اور اپنے تئیں سمجھایا کہ فوری شہادت ایک ایسی سعادت ہے جو ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی اور کیا تم محض اس لئے اپنے تئیں پیش کرتے ہو کہ جاتے ہی شہادت کا درجہ حاصل کرو اور دنیا کے افکار سے نجات حاصل کر لو.یا تمہارے اندر یہ ہمت ہے کہ ایک لمبا عرصہ زندہ رہ کر ہر روز اللہ تعالیٰ کے رستے میں جان دو اور متواتر شہادت سے منہ نہ موڑو.حضور انور میں کمزور ہوں ،ہست ہوں ، آرام طلب ہوں لیکن غور کے بعد میرے نفس نے یہی جواب دیا ہے کہ میں نمائش کے لئے نہیں، فوری شہادت کے لئے نہیں، دنیا کے افکار سے نجات کے لئے نہیں بلکہ گناہوں کے لئے تو بہ کا موقع میسر کرنے کے لئے ، اپنی عاقبت کے لئے ذخیرہ جمع کرنے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنے تئیں اس خدمت میں پیش کرتا ہوں.اگر مجھ جیسے نا بکار گنہ گار سے اللہ تعالیٰ یہ خدمت لے اور مجھے یہ تو فیق عطا فرمائے کہ میں اپنی زندگی کے بقیہ ایام اس کی رضا کے حصول میں صرف کر دوں تو اس سے بڑھ کر میں کسی نعمت اور کسی خوشی کا طلب گار نہیں.حضور میں مضمون نویس نہیں اور حضور کی بارگاہ میں تو نہ زبان یا را دیتی ہے نہ قلم جیسے کسی نے کہا ہے بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو ور نہ پیش یار کام آتی ہیں تقریریں کہیں یہ حسرت موہانی کا شعر ہے جو آپ نے quote کیا )
خطبات طاہر جلدم 759 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء اس لئے اسی پر بس کرتا ہوں کہ جس وقت حضور حکم فرماویں افغانستان کو روانہ ہونے کے لئے تیار ہوں اور فقط حضور کی دعاؤں اور اللہ کی رضا کا طلبگار ہوں.والسلام حضور کا ادنی ترین غلام.خاکسار ظفر اللہ خان ۸/ نومبر ۱۹۲۴ء.یہ آپ کا انکسار تھا یہ آپ کا جذبہ خدمت تھا اور اللہ کی ذات کے ساتھ محبت تھی ، دراصل خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا خوف کہ جو آپ کے سر پہ سوار رہا کرتا تھا اور خدا تعالیٰ کے پیار کے حصول کی خواہش یہ وہ دو جذبات تھے جو چو ہدری ظفر اللہ خان صاحب کو ساری عمر ایک منزل سے دوسری منزل کی طرف رواں دواں رکھتے رہے.یہ وہ قوت تھی جس سے آپ نے تمام عمر حرکت حاصل کی ہے.توانائی کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کی محبت تھی اور یہ سر چشمہ جس کو نصیب ہو جائے اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے لامتناہی نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور ہر قدم پر خدا تعالیٰ کی طرف سے راہنمائی نصیب ہوتی ہے.اللہ کا خوف ان معنوں میں کہ خدا کی محبت سے محروم ہونے کا خطرہ اور اللہ تعالیٰ کی محبت کی حرص ان معنوں میں کہ کچھ ایسے کام کرنے کی توفیق ملے کہ اللہ تعالیٰ محبت اور پیار سے ہمیں دیکھنے لگے.یہ دو بنیادی قوتیں ہیں جن سے مومن کو ہر ترقی نصیب ہوتی ہے اس کی دعائیں بھی اسی زور کے ساتھ اوپر اونچی بلند ہوا کرتی ہیں ،اس کے کاموں کو رفعتیں ملتی ہیں،اس کی کوششوں کو پھل نصیب ہوتے ہیں.خطرات سے وہ بچایا جاتا ہے اور غیر معمولی تائید الہی کے نشان اس کو عطا کئے جاتے ہیں اور خدا کی راہ میں قربانی کے جو مختلف مظاہر ہیں خواہ اس کا نام آپ چندہ رکھ لیں ، خواہ اس کا نام وقت کی خدمت، جان کی قربانی عزت کی قربانی.یہی دو جذبے ہیں حقیقت میں جن کا نام تقویٰ ہے اور اسی تقوی سے یہ ساری نیکیاں پیدا ہوتی ہیں تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے الہاماً بتایا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے“.(اخبار الحکم ۳۱ راگست ۱۹۰۱ء، ملفوظات جلد اصفحہ ۵۳۶) آپ نے ایک شعر کہنے کے لئے ایک مصرعہ کہا کہ ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتفا ہے.ایسا پیارا معرفت کا نقطہ تھا ابھی آپ دوسرا مصرع کہہ نہیں پائے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دوسرا مصرعہ الہام ہوا اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے“.تو جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ تقویٰ
خطبات طاہر جلدم 760 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء کی جڑ سے ساری عمر اس طرح چمٹے رہے ہیں کہ اصلُهَا ثَابِتُ (ابراہیم :۲۵) کا مضمون دکھائی دیتا تھا.جڑوں کے لحاظ سے مضبوط تھے، ثابت قدم تھے، وفادار تھے.جو بات کہی اس پر قائم رہے.طبیعت میں کوئی دوغلہ پن نہیں تھا، زبان سے کچھ اور عمل سے کچھ اور ، اس قسم کے تضاد کا آپ کی ذات میں کلیۂ فقدان تھا.چنانچہ اس کے بعد جو آپ کو خدمات کی توفیق ملی ہے وہ اس کا ایک طبعی نتیجہ تھا اس کو کسی اور جستجو کی ضرورت نہیں رہتی جس کو یہ دو چیزیں نصیب ہو جائیں یعنی تقوی کا یہ ماحصل مل جائے کہ خدا کی محبت کھونے کا خوف اور اس کی محبت حاصل کرنے کی تمنا اس کے لئے باقی سب چیزیں آسان ہو جاتی ہیں.باہر سے دیکھنے والوں کو لگتا ہے کہ بڑی قربانی ہو رہی ہے، بڑا زور مار رہا ہے، قدم قدم پر اس کی تمناؤں کا خون ہو رہا ہے، مصیبتوں اور دکھوں میں مبتلا ہے لیکن ایسا انسان اندرونی کیفیت خود جانتا ہے کہ بس وہ پہلی دو چیزیں تھیں جو مشکل تھیں.فی الحقیقت تقویٰ کے مفہوم کو سمجھ کر اس سے چمٹ رہنا یہ ہے سب سے مشکل مقام بعد میں پھر سب منازل آسان ہو جاتی ہیں.حیرت انگیز زندگی ہے اتنی بھر پور ہے کہ چند دن ہوئے ہیں ایک MP ملنے کے لئے آئے ، چوہدری صاحب کا افسوس کر رہے تھے.تو میں نے ان سے کہا کہ آپ تو ایک ذات کا افسوس کر رہے ہیں.وہ تو ایک ذات کے طور پر زندہ نہیں رہے ، ان کے اندر تو کئی شخصیتیں زندہ تھیں بیک وقت انہوں نے بہت سی زندگیاں گزاریں ہیں اور پھر خدا کے فضل سے لمبے عرصہ تک مسلسل کئی شخصیتیں ان کے اندر بھر پور زندگی گزارتی رہی ہیں.لوگ ان کو ایک خشک سیاست دان کے طور پر بھی دیکھتے رہے اور ساری عمر یہی سمجھتے رہے اور اس لحاظ سے بھی وہ سمجھتے تھے کہ انہوں نے بھر پور زندگی گزاری ہے لیکن کچھ لوگوں نے ان کو ایک صاحب دل کے طور پر، ایک نہایت ہی نازک جذبات رکھنے والے انسان کے طور پر بھی دیکھا، ایسا انسان جس کے اندر یہ طاقت نہیں تھی کہ کسی غریب کا دکھ برداشت کر سکے.جس کے حوصلے بلند ہونے کے باوجود یہ حوصلہ نہیں تھا کہ انسانیت کو سسکتا ہوا دیکھے اور بے حسی سے گزر جائے.ان پہلوؤں سے حوصلے کا قد بہت ہی چھوٹا تھا بلکہ زمین کے ساتھ بچھا ہوا تھا اور روحانی اصطلاح میں اور اسلامی اصطلاح میں بجز کے ایک یہ بھی معنی ہیں کہ جہاں تک دنیا کے دکھوں کا تعلق ہے ان کے احساس کے لحاظ سے اپنے حوصلوں کو پست کر دو تا کہ تم
خطبات طاہر جلدم 761 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء بھی رحمت للعالمین بن سکو.اس جہت میں جتنی بھی نیکیاں عطا ہوتی ہیں وہ اس قسم کے حوصلوں کی پستی سے عطا ہوتی ہیں.چنانچہ حیرت کی بات ہے کہ آپ نے جتنے خدمت خلق کے کام کئے ہیں دوسری ذمہ داریوں کے علاوہ ان کا شمار اگر کیا جائے تو میرے خیال میں ایک بھی انسان اس وقت ایسا نہیں ہے جو یہ کہہ سکے کہ میں نے وہ سارے شمار کر لئے ہیں کیونکہ کچھ ظاہر بھی تھے اور کچھ خفی بھی تھے اور آپ کی خدمت کے کام اس کثرت کے ساتھ مختلف جہتوں میں پھیلے ہوئے تھے کہ عملاً کسی کے لئے اس وقت ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ شمار کر سکے.ان کا کا غذات میں ذکر نہیں ملتا ان کا ان ٹرسٹس میں ذکر نہیں ملتا جوان ٹرسٹس انہوں نے قائم کئے تھے.اس کثرت کے ساتھ آپ نے غرباء کی خدمت کی ہے کہ ضمنا جب بعض اوقات مجھے واسطہ پڑتا تھا اس وقت یہ معاملہ دکھائی دیتا تھا.یعنی بعض ایسے غرباء تھے جنہوں نے خود آ کر ضمنا ذ کر کیا کہ اس مصیبت ، اس تکلیف میں مبتلا تھے چوہدری صاحب کو صرف اطلاع بھیجی اور اس کے نتیجے میں اس کے بعد پھر اس معاملے میں ہمیں کوئی فکر نہیں ہوئی.غرباء، یتامی ،غریب مزدور، غریب کسان، مفلوج لوگ ، بعض بیماریوں میں مبتلا ، ہونہار طالب علم جو غریب تھے غرضیکہ اتنی جہتوں کے ساتھ آپ نے خدمت خلق کا کام کیا ہے اور اتنی جہتوں میں آپ نے خدمت خلق کا کام کیا ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ اداروں کو بھی کھلے ہاتھ سے دیا کرتے تھے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ساری زندگی کی کمائی ادھر خرچ ہو رہی ہے.اور پھر جب آپ جماعتی چندوں پر نگاہ ڈالتے ہیں اور جماعتی خدمات پر نظر کرتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ ساری کمائی اس کے سوا کہیں خرچ ہی نہیں ہو رہی.ایسی وسیع حوصلگی کے ساتھ آپ نے چندے دیئے ہیں.اس وقت جو لنڈن مشن کی ساری عمارتیں ہیں یہ ان کی ذاتی کوشش سے کلیۂ ذاتی آمد سے آپ نے یہ سارے مصارف ادا کئے ہیں.یہ مشن ہاؤس، یہ ہال یہ چھوٹا ہال عورتوں کے لئے یہ عمارت رہائشی یہ ساری خدا کے فضل کے ساتھ ان کو توفیق ملی.اور اپنے لئے ایک چھوٹا سا کمرہ رکھا ہوا تھا، بس اسی میں ان کی گزراوقات تھی اور وہ بھی آخر وقت تک نہیں رہی.جب جماعت کو ضرورت پیش آئی ہے آخر پہ یا شاید اس لئے کہ وہ سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتے تھے زیادہ تو بہر حال وہ بھی چھوڑ کے چلے گئے تھے.
خطبات طاہر جلدم 762 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء اور اس کے علاوہ بھی مختلف وقتوں میں جب تحریکات ہوئی ہیں خصوصا حضرت مصلح موعود کے زمانے میں جب ساری جائیداد پیش کرنے کی تحریک ہوئی اس وقت آپ ساری جائیداد پیش کرنے میں اولین میں سے تھے اور جس طرح کہ ان کے اندر تقویٰ اور نیکی تھی صاحب عزم تھے.اس خط سے بھی ظاہر ہے جو میں نے پڑھ کے سنایا ہے.جب آپ نے وقف کیا تھا تو مراد یہی تھی کہ ایک پائی کی جائیداد بھی میں اپنے لئے نہیں رکھوں گا اور وہ اس بات کے لئے تیار تھے.جن خطرات کے پیش نظر حضرت مصلح موعودؓ نے تحریک کی وہ خطرات پیش نہیں آئے.اس لئے وہ جائیداد نہیں لی گئی یہ مجھے علم ہے لیکن اس کے علاوہ بھی جب بھی جتنی ضرورت پیش آئی ہے کبھی ایک لمحہ کا بھی تر دو آپ نے محسوس نہیں کیا بلکہ کوشش یہ ہوتی تھی کہ حضرت مصلح موعود خود معین کر دیں اس طرح لے لیں جیسے آپ کی چیز ہو یہ کیفیت تھی آپ کے چندوں میں جو ہمیشہ اسی طرح رہی.اور سیاست کی بھر پور زندگی تو اتنی وسیع زندگی ہے کہ اس میں سے ساری باتوں کا ذکر تو ویسے ہی ممکن نہیں.قوموں پر جو احسان کرنے کی خدا تعالیٰ نے آپ کو توفیق عطا فرمائی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ کثرت سے دوسرے بھی برکت حاصل کریں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پٹے گی.خدا تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسے مقام پر پہنچایا جہاں واقعہ ہر قوم نے اس سرچشمے سے پانی پیا.یعنی United Nations کی آپ کو صدارت نصیب ہوئی اور وہ دور United Nations کی تاریخ میں اگر کسی ایک تعریف کے ساتھ یاد کیا جائے تو وہ United Nations کا اخلاقی دور کہلائے گا.تمام اسلامی ، اخلاقی قدروں کو آپ نے وہاں نافذ کیا ہے.اور وہ ایک دور تھا جبکہ دہر یہ سیاست دان بھی جو United Nations میں حصہ لیا کرتے تھے وہ بھی احترام سے اور سنبھل کر بیٹھا کرتے تھے اور کوئی بد خلقی کی بات نہیں کیا کرتے تھے.یہ جو Booing یا تماشہ بینی اور تحقیر کے الفاظ استعمال کرنا، غصہ میں آپے سے باہر ہو جانا یہ ساری حرکتیں اس وقت United Nations میں مفقود تھیں اور قرآن کریم کی تلاوت کرنا اور قرآن کریم سے استنباط کرنا اور اخلاقی تعلیم دیتے چلے جانا قطع نظر اس کے کہ کوئی مانتا بھی ہے کہ نہیں آپ کو یا قرآن کریم کو یہ آپ کا شیوہ تھا.ایسی جرات خدا نے عطا فرمائی تھی اور بات میں ایسی عظمت تھی کردار کے نتیجے میں کیونکہ بات کو
خطبات طاہر جلدم 763 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء عظمت تو کردار سے نصیب ہوا کرتی ہے لفاظی سے نہیں ہوا کرتی کہ اس کے نتیجہ میں غیروں پر بھی رعب بیٹھتا تھا.چنانچہ ایک دفعہ چوہدری صاحب نے مجھ سے خود ذکر کیا بے تکلفی کی باتیں ہو رہی تھیں کھانے پر کہ حیرت ہوتی تھی کہ وہ لوگ جن کا کوئی دین سے کوئی تعلق نہیں ، مذہب سے کوئی تعلق نہیں ، میرے ساتھ خدا تعالیٰ نے ان کو اچھا سلوک کرنے کا پابند فرما دیا کیونکہ وہ ہر بات اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھتے تھے اس لئے ذکر ہمیشہ اسی رنگ میں کیا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک خاص فضل ہے احسان ہے کہ اس نے ان کے دل میں ایک رعب سا ڈال دیا تھا اور وہ میری باتوں کو مانتے تھے حالانکہ بظا ہر کوئی حق نہیں تھا میرا اس طرح ان کو آداب کے پابند کرنے کا.پریذیڈنٹ کی حیثیت معلوم ہے معروف ہے لیکن سیاست کی دنیا میں جو تو قعات کی جاتی ہیں ایک پریذیڈنٹ کے رعب داب کے متعلق وہ عملاً نہیں ہوا کرتا.آزاد ممالک ہیں، طیش میں آئیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں.کون بیٹھا ہے نظم و ضبط کیا ہوتا ہے اور وقت کی پابندی کروانا یہاں تک بھی آپ کو وہاں آداب سکھانے پڑے اور بلا شبہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کلام ایک ذات میں بھی پورا ہوا ہے.ویسے تو بکثرت ایسے احمدی ہیں جن سے قوموں نے فائدے اٹھائے ہیں لیکن وہاں ایک ذات میں یہ ساری باتیں اکٹھی ہو گئیں.ایک سرچشمے سے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی پر فخر کیا کرتا تھا تمام اقوام عالم نے فائدہ اٹھایا اور سیراب ہوئیں.اور پھر قوموں کی بھر پور خدمت میں آپ کو خدا تعالیٰ نے ایسے ایسے مواقع نصیب فرمائے کہ وہ وقت ایسا تھا جبکہ نئی تاریخ کی شکلیں بن رہی تھیں.یہ جو آج کی جدید تاریخ ہے اس کی بنیادیں ڈالی جارہی تھیں.اس دور میں جب کہ آپ کو United Nations میں پیش ہونے کا موقع عطا فرمایا اللہ تعالیٰ نے ایک ممبر کی حیثیت سے، ایک نمائندے کی حیثیت سے یا بعد ازاں ایک صدر کی حیثیت سے.چنانچہ ایک لمبے دور تک جب آپ پاکستان کے وزیر خارجہ بنے ہیں اُس وقت سے United Nations کی صدارت تک پہنچنے کے درمیان تک کا جو عرصہ ہے یہ عرصہ ایک بہت ہی اہم عرصہ ہے جس میں نئی تاریخ بن رہی تھی.چنانچہ آپ کو موقع ملا عربوں کی خدمت کا فلسطین کے معاملے میں اور ایسی عظیم الشان
خطبات طاہر جلدم 764 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء خدمت کی توفیق ملی کہ عرب اٹھ اٹھ کر آپ کے ہاتھ چومتے تھے، بڑے بڑے سر براہ اور اپنے اپنے ممالک میں بڑی عظمتوں کے مالک اور اس بات پر فخر کرتے تھے.اس قدر محبت تھی، اتنا پیار تھا کہ جو ان میں سے وفادار تھے.انہوں نے آخر دم تک اس کو نبھایا ہے.صرف فلسطین کا معاملہ نہیں تھا.مورا کو ( مراکش ) کی خدمت کی توفیق ملی Tunisia ( تیونیس) کی خدمت کی توفیق ملی، Jordan (اردن) کی خدمت کی توفیق ملی اور اس کے علاوہ بکثرت دیگر ممالک تھے ،سوڈان کی خدمت کی توفیق ملی.بکثرت تھے صرف مسلمان ممالک ہی نہیں بلکہ بہت سے دیگر ممالک بھی جن کے حق میں آپ نے باتیں کہیں، جن کے حق حاصل کرنے میں آپ نے مدد کی.مسلمان ممالک میں آپ کو انڈونیشیا کی خدمت کی بھی توفیق ملی.United Nations میں آپ کی تقاریر کا جور یکارڈ ہے وہ دو سال قبل میں نے بڑی محنت سے کوشش کر کے وہ حاصل کر لیا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدا نے ایک سبیل بنا دی اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے ذریعے وہ سارا ریکارڈ مجھے مل گیا ہے کیونکہ خواہش یہ تھی کہ چوہدری صاحب کی ان تاریخی خدمات کو وقتا فوقتا دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا رہے کیونکہ بعض لوگ تو خیر بھول جاتے ہیں بعض لوگ نئی الٹی باتیں ایجاد کر لیا کرتے ہیں.یعنی جہاں مسلمان ممالک کی خدمت کی ہے وہاں یہ الزام لگانے والے بھی بد قسمت ہیں کہ مسلمان ممالک کے مفاد کے خلاف کوشش کی نعوذ باللہ من ذالک تو میں نے تو اس نیت سے اس کو اکٹھا کیا تھا لیکن اب جب اس کو وقتا فوقتا دنیا کے سامنے پیش کرنے کا موقع ملے گا تو جو اپنی معصومیت میں بھولے ہوئے ہیں ان کو بھی یاد تو آئے گا کہ کوئی ایک ایسا انسان ایک درویش صفت خدا کا بندہ تھا جس نے ملکوں اور قوموں کی بے لوث خدمتیں کی ہیں.بہر حال یہ تو بہت ہی ایک لمبی فہرست ہے اور لمباذکر ہے.میں اپنے ذاتی تاثرات بیان کر رہا تھا اور وہ میں اسی پر پھر بات ختم کرنی چاہتا ہوں کہ چوہدری صاحب کے ساتھ میری خط و کتابت بھی بہت رہی ہے اور میں جانتا ہوں کہ بہت ہی نرم دل تھا، اللہ تعالیٰ کی خشیت تھی اور خشوع و خصوع تھا.مجھے آپ کے ساتھ اکٹھے نماز پڑھنے کی بھی توفیق ملی ہے.کبھی میں لاہور جاتا تھا تو ہمیشہ بڑی محبت سے بلایا کرتے تھے اور کبھی یہ ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ لا ہور میں ہوں اور میں ملے بغیر یا آپ کے ساتھ کھانا کھائے بغیر یا آپ کے ساتھ کچھ وقت گزارے بغیر
خطبات طاہر جلدم 765 خطبہ جمعہ ۶/ ستمبر ۱۹۸۵ء واپس جاسکوں کیونکہ مجھ میں ان کے شکوے کی ہمت نہیں تھی اور وہ اس بات پر یقیناً بہت شاکی ہو جاتے تھے.اس لئے جب ہم نماز پڑھتے تھے تو مجھے کہا کرتے تھے کہ تم نماز پڑھاؤ اور اس وقت جو ان کی کیفیت ہوتی تھی قریب سے وہ صرف سنے کا سوال نہیں وہ محسوس ہونے لگتی تھی.عجیب خشوع وخضوع تھا ان کی نمازوں میں اور ہر لفظ جو ادا کرتے تھے ایک ایک لفظ موتی کی طرح سجا کر خدا کے حضور پیش کیا کرتے تھے.گویا التحیات للہ کے مفہوم سمجھ رہے ہیں جانتے ہیں کہ عبادت تبھی قبول ہوگی اگر تحفہ کے طور پر پیش کریں گے ورنہ بے معنی ہو جائے گی.پھر وہ پرائیویٹ مجلسوں میں جو گفتگو ہوا کرتی ہے.مختلف پہلوؤں سے ان کی طبیعت میں جھانکنے کا موقع ملا.پھر خط و کتابت کے ذریعے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ان کے خطوط ایسے ہیں بڑے سنبھال کے میں نے رکھے ہوئے ہیں لیکن چونکہ ان کا مزاج نہیں تھا کہ لوگوں کو ان کی بعض اندرونی کیفیات کا پتہ چلے.صرف چند دوستوں کے ساتھ چند آدمیوں سے وہ خطوں کے وقت بے تکلف ہو جاتے تھے اور ہر خط میں ان کی انکساری کا پہلو اتنا حیرت انگیز ہے کہ جو خط پڑھنے والے کو شرمندہ کر دیا کرتا تھا.بے حد بجز اور انکساری اسی وجہ سے ان کے ساتھ مجھے خاص اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک تعلق عطا ہوا ہوا تھا.جب خلافت کے بعد خدا تعالیٰ نے مجھے پہلا کشف دکھایا ہے تو تعجب کی بات نہیں کہ پہلے کشف میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ہی دکھائے گئے اور وہ بھی ایک عجیب کشف تھا میں حیران رہ گیا کیونکہ اس قسم کی باتوں کی طرف انسان کا ذہن عموماً جا ہی نہیں سکتا.ایک دن یا دو دن خلافت کو گزرے تھے تو کسی نے پوچھا کہ آپ کو خلیفہ بننے کے بعد کوئی الہام کوئی کشف وغیرہ ہوا ہے میں نے کہا مجھے ابھی تک تو کچھ نہیں ہوا بس میں گزر رہا ہوں جس طرح بھی خدا تعالیٰ سلوک فرما رہا ہے ، ٹھیک ہے.تو اس کے چند دن کے بعد ہی میں نے صبح کی نماز کے بعد کشفاً بڑے واضح طور پر ایک نظارہ دیکھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب لیٹے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ سے باتیں کر رہے ہیں اور میں وہ باتیں سن رہا ہوں اور فاصلہ بھی ہے.مجھے یہ علم ہے کہ لیٹے لندن میں ہوئے ہیں لیکن جس طرح فلموں میں دکھا دیا جاتا ہے قرب کہ ٹیلیفون کہیں دور سے ہو رہے ہیں اور سن رہا ہے گویا کہ اس قسم کے مزے کیمر ہیٹرک سے ہو جاتے ہیں.تو کشفا یہ دیکھ رہا تھا کہ چوہدری صاحب اپنے بستر پہ لیٹے ہوئے ہیں
خطبات طاہر جلدم 766 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء اور اللہ تعالیٰ سے کچھ باتیں کر رہے ہیں اور میں سن بھی رہا ہوں اور اس کے ساتھ ایک ذہنی تبصرہ بھی ہو رہا ہے لیکن گویا میری آواز وہاں نہیں پہنچ رہی.اللہ تعالیٰ نے چوہدری صاحب سے یہ پوچھا کہ آپ کا کتنا کام باقی رہ گیا ہے تو چوہدری صاحب نے عرض کیا کہ کام تو چار سال کا ہے لیکن اگر آپ ایک سال بھی عطا فرما دیں تو کافی ہے.یہ سن کر مجھے بہت سخت دھکا سا لگا اور میں چوہدری صاحب کو یہ کہنا چاہتا تھا کہ آپ چار سال مانگیں خدا تعالیٰ سے یہ کیا کہہ رہے ہیں کہ ایک سال بھی عطا ہو جائے تو کافی ہے.مانگ رہے ہیں خدا سے اور کام چار سال کا بیان کر رہے ہیں اور پھر کہتے ہیں کہ ایک سال ہی کافی ہے.مجھے اس سے بے چینی پیدا ہوئی لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس نظارے میں میں اپنی بات پہنچا نہیں سکتا تھا صرف سن رہا تھا کہ یہ گفتگو ہورہی ہے.وہ میں نے پھر دوسرے دن ہی چوہدری حمید نصر اللہ صاحب اور ان کی بیگم کو لکھ کے بھیج دیا اور مجھے اس سے تشویش پیدا ہوئی کہ ہو سکتا ہے خدا تعالیٰ لمبی زندگی نسبتا دے دے لیکن کام کا صرف ایک سال ہی ملے.چنانچہ ایسا ہی ہوا ہے.۱۹۸۳ء میں آپ پر شدید بیماری کا حملہ ہوا اور اس وقت تک جو وہ کام کر سکے ہیں عملاً اس کے بعد پھر رفتہ رفتہ ان کو کام سے بالکل الگ ہونا پڑا یعنی بھر پور کام صرف ایک سال توفیق ملی ہے.پھر آپ کو بیماری کی وجہ سے پاکستان جانا پڑا اور اس کے بعد پھر طبیعت گرتی چلی گئی ہے کمزور ہوتی چلی گئی ہے، پھر آخر پر صرف مطالعہ پر آگئے تھے.اور چار سال تو اس وقت کے بعد نہیں ملے لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ جو شدید بیماری کا حملہ ہوا ہے جس پر ڈاکٹروں نے کہا کہ بچنے کے کوئی آثار نہیں ہیں.یہ اس کشف کے دوسال کے بعد دوبارہ ہوا ہے یعنی ۱۸۲ء میں جب میں کراچی تھا تو فروری میں یہ مجھے اطلاع ملی کہ ابھی لاہور سے فون آیا ہے کہ اب تو کوئی بچنے کی صورت بظا ہر نہیں رہی..اس وقت مجھے یہ یقین دل میں اللہ تعالیٰ نے ڈالا دعا بھی میں نے کی لیکن پھر رات رویاء میں خدا تعالیٰ نے دکھایا کہ ایک خط آیا ہے خدا تعالیٰ کی طرف سے جو چوہدری صاحب کی اس بیماری کے متعلق میں پڑھ رہا ہوں اور صرف ایک فقرہ ہے جس پر نظر جمی ہوئی ہے اور اس فقرے کا مفہوم یہ ہے کہ میں زندہ بھی کرتا ہوں اور بوجھ بھی اتار دیتا ہوں، مہیا بھی کر دیتا ہوں.یعنی یحیی کا مضمون تھا.دونوں معنوں میں دوسری ' کے ساتھ بھی کہ میں مہیا بھی کرتا ہوں اور زندہ بھی کرتا ہوں.تو مجھے
خطبات طاہر جلدم 767 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء یہ خیال آیا کہ چوہدری صاحب کو ایک فکر دامن گیر ہے خدا تعالیٰ نے ساتھ اس کی بھی خوشخبری دے دی ہے اور یہ فکر تھی کہ انہوں نے جو صد سالہ جو بلی کے لئے چندہ لکھوایا تھا اس میں سے دولاکھ پاؤنڈ بھی ان پر قرض تھا، واجب الا دا تھا.ان کا جو سر مایہ تھا وہ ایک ظالم نے قبضہ میں لے لیا اور بظاہر یہ نظر آتا تھا کہ اب اس سے نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوگی.اس کا یہ کہنا تھا کہ نقصان ہو چکا ہے میں ادا نہیں کر سکتا.بعض لوگوں کو بدظنی تھی کہ بہانہ بنایا گیا ہے چوہدری صاحب کی سادگی سے فائدہ اٹھایا گیا ہے اور کافی بڑی رقم اس کے پاس ضائع ہونے کا خطرہ تھا اور چوہدری صاحب توقع رکھ رہے تھے کہ وہاں سے پیسہ ملے تو میں یہ چندہ ادا کروں.چنانچہ جب میری آخری ملاقات ہوئی ہے اس وقت بھی اس کا طبیعت پر بہت بوجھ تھا.جب میں کراچی جانے لگا ہوں اس وقت بھی مجھ سے ذکر کیا علیحدگی میں کہ اس کے لئے دعا کریں کہ میری طبیعت پہ بہت ہی بڑا بوجھ ہے.تو اس رویا میں اللہ تعالیٰ نے جو مضمون بتایا اس سے مجھے یہ بھی یقین ہو گیا کہ انشاء اللہ تعالیٰ ایک تو یہ کہ اس صورت میں تو اللہ تعالیٰ ان کو نہیں مارے گا اور جب تک وہ بوجھ نہیں اتر تا اس وقت تک خدا تعالیٰ ضرور زندہ رکھے گا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے غیر معمولی زندگی عطا فرمائی.پھر کئی خطرات پیدا ہوئے.کئی بحران آئے اور ڈاکٹروں کی نظر میں تو وہ ہر دفعہ یہی کہہ دیتے رہے کہ بس اب بچنے کی امید نہیں مگر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بچاتا رہا.پھر میرا یہاں آنا ہوا اور یہاں اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ وہ پھنسی ہوئی رقم جس کے متعلق سب اس کو Right off کر چکے تھے کہتے تھے اس کے نکلنے کی کوئی امید نہیں اس سلسلے میں کچھ کوشش کی توفیق عطا ہوئی اور ہمارے ماموں زاد بھائی ہیں رفیع الدین ایڈووکیٹ ان کو بھی خدا تعالیٰ نے کراچی سے یہاں بھجوادیا اور بڑے قابل وکیل ہیں اور ان باتوں میں بڑے ماہر گفت وشنید کا فن بھی جانتے ہیں.چنانچہ ان کی کمپنی کے ذریعے جب وہ گفت و شنید ہوئی تو قانونی طور انہوں نے اس طرح ان کو قابو کر لیا کہ دولاکھ سے کچھ زائد رقم ان سے مل گئی اور یہی وہ دولاکھ تھا جو ان کو پریشان کئے ہوئے تھا.چنانچہ چند مہینے پہلے کی بات ہے کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ الحمد للہ نہ صرف یہ کہ رقم ہمیں مل جائے گی کی بات نہیں وہ عمارت جو دولاکھ سے زائد کی ہے وہ اب خدا کے فضل سے ہمارے
خطبات طاہر جلد۴ 768 خطبہ جمعہ ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء قبضہ میں آگئی ہے.تو وہ ایک چونکہ اس خوشخبری میں یہ دونوں باتیں اکٹھی بیان ہوئی تھیں.تو پہلا دھڑ کا تو مجھے اس بات کا تھوڑا سا خفیف سا ہوا کہ یہ کام تو ہو گیا ہے اب لیکن بہر حال خدا پھر بھی زندگی دیتا رہا اور جب تک چوتھے سال میں داخل نہیں ہوئے اس وقت تک خدا نے نہیں بلایا.چار سال مکمل تو نہیں ہوئے لیکن ان چار سال میں داخل ہو کر تیسرے مہینے میں تھے جبکہ اللہ تعالیٰ نے پھر ان کو واپس بلا لیا.آپ کی زندگی اپنے اندر کئی قسم کے نشان رکھتی تھی.اللہ تعالیٰ کی محبت کے کچھ سلوک تھے جو براہ راست ان پر ہمیشہ نازل ہوتے رہے کچھ خدا نے دوسروں کو بھی دکھایا ، مجھے بھی دکھایا کہ میں اس شخص سے پیار کرتا ہوں.اس لئے جب میں یقین سے کہتا ہوں تو کچھ یہ پہلو بھی ہے یقین کا کہ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقى (النجم :۳۳) خدا تو بہر حال تقویٰ کو جانتا ہے.وہ جب یہ سلوک فرماتا ہے کہ غیروں کو بھی اس کے تقویٰ کے نشان دکھانے لگے اور اپنی محبت اور پیار کے نشان دکھانے لگے تو پھر یہ امید اور یہ حسن ظن کہ اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کا سلوک کرے گا ایک اور منزل میں داخل ہو جاتے ہیں.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے اوپر اللہ تعالیٰ بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.ان کی اولاد پر ، ان کی نسلوں پر، ان کے عزیزوں پر ، ان سب پر جو آپ کو پیارے تھے اس رنگ میں بھی رحمتیں نازل فرمائے کہ ان کی خوبیاں اختیار کرنے کی توفیق بخشے.جماعت احمدیہ کو اس وصال پر صدمہ تو ہے بڑا گہرا صدمہ ہے لیکن اس صدمے کے نتیجے میں مہمیز کا سا اثر ہونا چاہئے مایوسی کا اثر نہیں ہونا چاہئے.خدا تعالیٰ کی رحمتیں بے شمار ہیں وسیع ہیں اس کی عطا کے دروازے کوئی بند نہیں کر سکتا اور جن راہوں میں وہ کھلتے ہیں وہ لا متناہی راہیں ہیں.اس لئے آپ کو اگر خدا ظفر اللہ خان نہیں بنا سکتا تو اپنی اولاد کو بنانے کی کوشش کریں اور اولاد در اولا دکو یہ بتاتے چلے جائیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ایک نہیں دو نہیں بکثرت ایسے غلام عطا فرمائے گا جو عالمی شہرت حاصل کریں گے.جو علم وفضل کے مضامین میں حیرت انگیز ترقیات حاصل کریں گے جو بڑے بڑے عالموں اور فلسفیوں کے منہ بند کر دیں گے اور قو میں ان سے برکت پائیں گی.ایک قوم یا دو قوم بھی نہیں کل عالم کی قومیں ان سے برکت پائیں گی.تو خدا کرے
خطبات طاہر جلدم 769 خطبه جمعه ۶ ستمبر ۱۹۸۵ء کہ بکثرت اور بار بار ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پیشگوئی کو پورا ہوتے دیکھیں.دوسروں ہی میں نہیں اپنوں میں بھی ، غیروں کے گھروں میں نہیں اپنے گھروں میں بھی ہم اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس عظیم پیشگوئی کو پورا ہوتا دیکھیں.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ابھی انشاء اللہ جمعہ کے بعد حضرت چوہدری صاحب کی نماز جنازہ ہوگی.اللہ تعالی آپ کو کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے.آپ کو تو ہر وقت می گن رہتی تھی کہ میں کب اپنے ان پیاروں کے پاس حاضر ہوں جو دوسری دنیا میں ہیں.یہ ذہن میں میرے ایک بات آئی تھی وہ اس وقت پہلے خطبہ میں بیان کرنی بھول گیا.یہ بھی ایک بڑا نمایاں حصہ تھا کردار کا کہ موت کے لئے ہر وقت تیار تھے اور اس ذکر سے ذرہ بھر بھی جذبات میں ہیجان پیدا نہیں ہوتا تھا.Matter of fact ایک روزمرہ کا واقعہ جس طرح ہوتا ہے ہر صبح ہر شام ہر دو پہر کو تیار ہوا کرتے تھے ہر رات کو تیار سوتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ مجھے تو خیال ہی نہیں آتا کبھی کہ یہ کوئی ایسی بات ہے جس یہ کوئی انسان فکر کرے.لوگ خوا ہیں دیکھتے ہیں مجھے بتاتے ہیں میں کہتا ہوں ٹھیک ہے جب بلائے اچھا ہے اور یہ بھی کہا کرتے تھے کہ میرے تو اکثر پیارے ادھر بیٹھے ہیں جن سے ملنے کی تمنا ہے.تو اس میں ڈرنے کی کون سی بات ہے.یقین کامل اور پھر یہ واقعہ کہ جن سے سب سے زیادہ آپ کو عشق اور محبت تھا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم اور اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور پھر والدہ جو بہت ہی بزرگ عظیم عورت تھیں اور وہ والد بھی.ذاتی اور روحانی تعلقات میں یہی ان کی محبتوں کا خلاصہ تھا اور یہ اس دنیا کے لوگ تھے.تو وہ تو یہاں رہتے ہوئے بھی ایک عالم بقا میں رہ رہے تھے.اس لئے اللہ تعالیٰ ان پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے.وہ تو خوش ہیں اور خوش رہیں گے.انشاء اللہ ہمیں خدا کے گھر سے یہی امید ہے.اللہ پسماندگان کو بھی خوش رکھے اور ان کو بھی وہ نعمتیں عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلدم 771 خطبه جمعه ۳ ار ستمبر ۱۹۸۵ء ہالینڈ میں ایک نئے اور وسیع جماعتی مرکز کا افتتاح ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء بمقام من سپیٹ ہالینڈ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: " گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بڑا قطعی اور واضح وعدہ ہے کہ وہ لوگ جو میری خاطر دیکھ دیئے جاتے ہیں جو صبر اور حوصلہ کے ساتھ محض میرے نام کی خاطر اور میری عزت کی خاطر تکلیفیں برداشت کرتے ہیں میں ان کو انعام پر انعام دیتا ہوں ، اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی اور خصوصیت کے ساتھ اس دنیا میں انعام کا ذکر اس لئے فرمایا گیا کہ لوگ کہیں اس خیال سے مایوس نہ ہو جائیں یا کمزور ایمان رکھنے والے ٹھوکر نہ کھا جائیں کہ آخرت کے وعدے ہیں اور آخرت کس نے دیکھی ہے.اس لئے اس موقع پر جہاں دکھوں کا ذکر ہے وہاں في هذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ (الزمر:۱۱) پر زور دیا گیا یہ بتانے کے لئے کہ تم اس دنیا میں ہی اپنے نیک اعمال کا اجر پا جاؤ گے تاکہ تمہیں یقین ہو اور تمہارے ایمان میں اضافہ ہو کہ آخرت میں یہی خدا ہے جو انعام واکرام دینے کا وعدہ کر رہا ہے اس سے بہت بڑھ کر وہ ہم سے اپنے وعدے پورے فرمائے گا.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً (الزمر (11) یقیناً خدا کی زمین بہت بڑھنے والی ہے.وسیع ہے بھی اس کے معنی ہیں اور وسعت پذیر ہے بھی اس کا ترجمہ کیا جاسکتا ہے اور اس موقع پر خصوصیت کے ساتھ زیادہ موزوں معنی وسعت پذیر کے ہوں گے کہ لوگ تو تمہیں تنگ کرنے کی کوشش کریں گے، تمہارے حلقے تم پر تنگ کرتے چلے جائیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ تمہاری زمینیں چھوٹی ہو گئیں لیکن تم جب خدا کی خاطر یہ تکلیفیں برداشت کر رہے ہو تو تم
خطبات طاہر جلدم 772 خطبه جمعه ۳ ار ستمبر ۱۹۸۵ء اللہ کی زمین میں آگئے ہو اور اللہ کی زمین کو کون تنگ کر سکتا ہے.وَاَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً يقيناً اللہ کی زمین بہت وسیع ہے اور یقینا اللہ کی زمین وسعت پذیر ہے وہ بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ناممکن ہے کہ تم اس کی وسعتوں کو روک سکو.اس وعدہ کو بھی ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے بار ہا پورا ہوتے دیکھا.ساری جماعت احمدیہ کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ جب لوگ یعنی دشمن جماعت احمدیہ کے گھر چھین رہے تھے یا جلا رہے تھے تو اللہ تعالیٰ آسمان سے یہ ہدایت دے رہا تھا کہ وسعُ مَكَانَك ( تذكره صفحه (۴۱) اپنے مکانوں کو وسیع کرنے کی تیاری کرو اور ہر دفعہ جماعت احمدیت کے مکانات ہر ابتلاء کے بعد وسیع تر ہوتے چلے گئے.اس کی بارہا میں نے مثالیں دی ہیں.اتنی کثرت کے ساتھ اس کی مثالیں ہر ابتلاء کے دور میں ملتی ہیں کہ سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں تک ہیں کہ جن احمدی گھروں کو جلایا گیا یا لوٹا گیا ، جن کو کھنڈروں میں تبدیل کیا گیا ان گھروں کے مکینوں کو خدا تعالیٰ نے اتنے وسیع مکان عطا فرمائے ، اتنے خوبصورت ، اتنے عظیم الشان کہ ان کے مقابل پر وہ پہلے گھر محض جھونپڑے دکھائی دیتے تھے.تو یہ تو ایک انفرادی سلوک تھا خدا تعالیٰ کا جماعت کے ساتھ.اسی قسم کا سلوک بلکہ اس سے بھی بڑھ کر جماعت کے ساتھ بھی ہوتا چلا آیا ہے.ایک ملک میں زمین تنگ کرنے کی کوشش کی گئی تو نئے ملک عطا کر دیئے گئے نئی تبلیغ میں وسعتیں پیدا کر دی گئیں اور نئی سرزمین خدا کی طرف سے عطا ہونے لگی.اس دور ابتلاء میں بھی انگلستان میں اسلام آباد کی وسیع سرزمین عطا فرمائی گئی جس میں بہت سی ایسی سہولتیں موجود تھیں اور اتنے بڑے وسیع کو ارٹرز موجود تھے جن کو مکان تو نہیں کہنا درست، مگر وہ بیر کس قسم کی جس طرح کی فوجی بیر کس ہوتی ہیں اس شکل کی اس میں عمارتیں موجود تھیں کہ وہاں خدا کے فضل سے جلسہ سالانہ انگلستان منعقد کرنے کی توفیق عطا ہوئی اور تقریباً 800 مہمان ان بلڈنگز میں وہاں ٹھہر سکے اور انگلستان کے معیار سے ایک بہت ہی بڑی چیز ہے کہ کسی عمارت میں 800 مہمان ٹھہر سکیں اور اس کے علاوہ جلسہ کے لئے وسیع میدان بہت ہی کھلا خدا کے فضل سے انتظام ہوسکتا ہے اور جتنے دوست آئے وہ تو خیر چھ سات ہزار تھے، اگر ربوہ کے مقابل کا جلسہ ڈیڑھ دولاکھ افراد کا جلسہ وہاں منعقد کرنا چاہیں تو اس کی بھی خدا کے فضل سے گنجائش موجود ہے اور با آسانی عورتوں اور مردوں کو ملا کر ایک جیسا جلسہ منعقد ہو سکتا ہے.
خطبات طاہر جلدم 773 خطبه جمعه ۱۳؍ ستمبر ۱۹۸۵ء اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اب ہمیں ہالینڈ میں یہ دوسرا مرکز عطا فرمایا ہے جو یورو بین مراکز کی تحریک کا یہ ایک بچہ ہے.تحریک تو میں نے دو مراکز کے لئے کی تھی ایک جرمنی میں اور ایک انگلستان میں لیکن اللہ تعالی عجیب شان سے اپنے وعدوں کو پورے فرماتا ہے ہمیشہ توقع سے بہت بڑھ کر عطا کرتا ہے اور جتنی چھلانگ ہماری امنگیں لگا سکتی ہیں اُن سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی اجابت دعا رحمت لے کر نازل ہوتی ہے اور بہت زیادہ رفعتیں عطا کرتی ہے اس سے جو ہم تصور باندھتے ہیں.چنانچہ اس دو را بتلاء کا یہ بھی ایک کرشمہ ہے کہ خدا تعالیٰ سے ہم نے دو مرکز مانگے تھے خدا تعالیٰ نے دو سے زائد دیئے اور اب یہ تیسرا مرکز ہے.ایک جرمنی میں ہے جس کا افتتاح بعد میں ہوگا لیکن جوں جوں افتتاح ہوتا رہے گا میں بتاتا چلا جاؤں گا آپ کو.تو بہر حال یہ دوسرا مرکز ہے جس کا افتتاح ہو رہا ہے اور یہ ہماری امیدوں سے ہمارے منصوبوں سے بالکل الگ ایک نئی چیز عطا ہوئی ہے.اس مرکز کی تفصیل یہ ہے کہ جب میں گزشتہ مرتبہ ہالینڈ آیا تو محسوس کیا کہ مسجد بہت ہی چھوٹی ہوگئی ہے اور رہائش کی جگہیں بھی بہت ہی محدود ہیں.دو مربی بھی وہاں ٹھیک طریق پر اپنے خاندانوں سمیت نہیں ٹھہر سکتے بہت تنگی میں گزارہ کر رہے تھے اور جب کوئی باہر سے مہمان آئے تو کم سے کم ایک مربی کو تو ضرور باہر جانا پڑتا ہے ورنہ زیادہ مہمان ہوں تو دونوں مربیوں کو جگہ خالی کر کے خود کسی کا مہمان بننا پڑتا ہے.عورتوں کے لئے الگ کوئی انتظام نہیں تھا بچوں کے لئے وہاں کوئی انتظام نہیں تھا اور کافی دقتیں تھیں.تو وہاں یہ تحریک ہوئی کہ ہالینڈ کو اپنی کوئی جگہ بنانی چاہئے.جائزہ لیا گیا کہ اس بلڈنگ کو وسیع کرنے کے کہاں تک امکانات ہیں اور وہ جو سکیم ہے وہ اپنی جگہ ابھی بھی چل رہی ہے.انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق اُس عمارت کو بھی وسعت دی جائے گی کیونکہ ہیگ کی جماعت کے لئے بھی وہ کافی نہیں رہی لیکن اُس کے ساتھ ہی ایک کمیٹی یہاں بنائی گئی جس میں مردوں کے علاوہ ایک خاتون مسز باہری بھی شامل ہیں اور اُن سے کہا گیا کہ آپ اپنی توفیق کے مطابق سارے ہالینڈ پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کون سی امکانی طور پر اچھی ہو سکتی ہے جہاں ہمیں کوئی جگہ مل جائے.مجھے کمیٹی والوں نے بتایا کہ بہت مہنگی جگہیں ہیں، زمین بھی یہاں مشکل سے ملتی ہے سوائے اس کے کہ کسی دُور کے علاقے میں کسی چھوڑی ہوئی خانقاہ کو آپ لینا پسند کریں.میں نے کہا وہ تو ہم نہیں پسند کرتے ، ہمیں تو کوئی باقاعدہ شریفانہ جگہ چاہئے.شریفانہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ
خطبات طاہر جلد۴ 774 خطبه جمعه ۳ ار ستمبر ۱۹۸۵ء خانقاہیں تو شریفانہ ہی ہوتی ہیں لیکن وہاں بتایا گیا ہے کہ مجرموں نے بھی وہاں اڈے لگائے ہوئے ہوتے ہیں اور افیون کے رسیا لوگ اور Drug Addicts ( منشیات کے عادی) جن کو اور جگہ نہیں ملتی.Truants بھاگے ہوئے گھروں سے، یہ ان چھوڑی ہوئی خانقاہوں میں جا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر حکومت کے لئے بڑا مشکل ہو جاتا ہے اُن کو وہاں سے نکالنا ، وہاں بیچاری جماعت احمدیہ کہاں سے مرکز بنائے گی اور کتنا بعد ہو گا دونوں مزاجوں میں جو لوگ وہاں بسے ہوئے ہیں اور ہم جو بسانا چاہتے ہیں وہاں جا کر نئی شان سے اس لئے وہ تو مجھے پسند ہی نہیں آئی.جگہیں ویسے بہت سستی مل رہی تھیں لیکن سارے جھگڑے ہمیں خود ہی طے کرنے پڑنے تھے ان کو نکالو یا لڑائیاں ، تو ان سے یہ جھگڑے ہم کہاں کر سکتے تھے.تو بہر حال ان کا خیال تھا کہ دوسری جگہوں میں اتنی وسیع جگہ جس طرح کہ آپ کے ذہن میں ہے ملنی مشکل ہوگی لیکن اللہ تعالیٰ اگر انتظام کرنے کو آتا ہے تو اس کی پہلے سے بڑی تیاریاں شروع کی ہوئی ہوتی ہے اور حالات کو اس طرف لے کے جارہا ہوتا ہے گھیر کے کہ جس کے نتیجہ میں جس مقام پر خدا تعالیٰ چاہتا ہے وہیں ان حالات نے جا کے رونما ہونا ہوتا ہے یہ Complex بلڈنگ کا جو ہمیں ملا ہے اس کی تاریخ یہ ہے کہ Recreation کیلئے یعنی Tourists ( سیاحوں ) کو کھینچنے کے لئے ، ان کی رہائش گاہ کے لئے یہ عمارت بنائی گئی ، ایک عمارت نہیں چار عمارتیں ہیں.تو بہر حال اس زمانہ میں ابھی Tourists زیادہ یہاں نہیں آتے تھے اور شروع میں عمارت بھی ایک ہی تھی.1910ء میں یہ جس میں ہم اس وقت بیٹھے نماز پڑھنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں یہ عمارت بنائی گئی جس کو ہم بلڈ نگ (A)،اے کہہ رہے ہیں.یہ بلڈنگ A اگر چہ 1910ء کی تعمیر شدہ ہے لیکن جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں نہایت ہی اعلیٰ معیار کی ہے اس کی تعمیر یوں محسوس ہوتی ہے کہ بالکل نئی بنی ہوئی ہے اور معلوم ہوتا ہے بہت ہی اچھا Maintain کیا گیا ہے.اس زمانہ میں اس طرف کو Tourists کا زیادہ رحجان نہیں تھا اگر چہ علاقہ بہت ہی خوبصورت ہے، جھیلیں بھی ہیں، ہر قسم کا حسن یہاں موجود ہے، پہاڑیاں بھی ہیں جنگلات بھی ہیں ، جنگلی جانور بھی اور جنگلی جانوروں کے Z00 (چڑیا گھر ) اور National Museum ( قومی عجائب گھر ) وغیرہ کئی قسم کی چیزیں یہاں موجود ہیں لیکن اُس وقت ابھی اتنا رحجان نہیں تھا Tourists کا، غریب علاقہ تھا اور زرعی علاقہ تھا تو کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے بنانے
خطبات طاہر جلد۴ 775 خطبه جمعه ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء والوں نے پھر وہ ارادہ چھوڑ دیا اور 60s میں آئے کچھ اور عمارتیں ساتھ یہاں بنائی گئیں اور اس کو بیمار بچوں کے لئے.یعنی بیمار سے مراد یہ ہے کہ جن کے ذہن بیمار ہوتے ہیں.بچپن سے کسی بیماری کی وجہ سے ان کی نشو و نمارک جاتی ہے.ایسے بچوں کے لئے ایک گھر سے تبدیل کر دیا گیا اس علاقے کو اس سارے Complex کو اور اس کے لئے حکومت کی طرف سے جو بھی معیار ہے بہت بلند ہیں ان معیاروں کے مطابق تمام احتیاطیں برت کے نہایت ہی عمدہ عمارتیں تعمیر کی گئیں اور کچھ عرصہ تک انہیں بچوں کے لئے یہ عمارتیں وقف رہیں.لیکن اس کے بعد حکومت نے ایک بہت بڑا کمپلیکس ان بچوں کے لئے یہاں سے قریب ہی ایک خوبصورت جگہ پر بنا دیا اور یہاں کے بچے اپنے طور پر جن کے ماں باپ فیس دیتے تھے، ان کو جب حکومت کی طرف سے سہولت مل گئی تو وہ سارے بچے یہاں سے اُٹھا کر اس Complex میں لے گئے.اب اس کی جو شکل رہ گئی باقی وہ ایسی تھی کہ بروکر (Broker) نے مجھے بتایا کہ اس میں کوئی اکیلا انسان چھوٹے خاندان والا ویسے ہی نہیں آسکتا تھا اور اتنے بڑے Complex کو سنبھالنا بہت مشکل کام تھا اس لئے اس کی جو قیمت ہونی چاہئے عمارتوں کے لحاظ سے اس سے تقریباً تیسرے حصہ پر یہ فروخت کے لئے مہیا ہوگئی اور سودا طے کرانے والے ایجنٹ کہتا کہ جب میں نے آپ کی جماعت کا یہ اشتہار پڑھا کہ ہمیں اس قسم کی جگہ چاہئے تو اُسی وقت پھر میں نے رابطہ کیا میں نے کہا کہ آپ کے لئے تو بنی بنائی جگہ موجود ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بغیر کسی دقت کے یہ سودا طے ہو گیا.اسلام آباد کا جو علاقہ ہمیں ملا ہے وہ بھی صاف نظر آرہا تھا کہ اس میں خدا تعالیٰ کی تقدیر گھیر کر وہاں پہنچا رہی تھی جہاں ہمیں ضرورت تھی اور بالکل غیر معمولی حالات میں وہ بھی خدا تعالیٰ نے عطا فرمایا.اب یہ جو علاقہ ہے ایک تو علاقہ بہت خوبصورت ہے ، اور ہالینڈ کا سب سے زیادہ علاقہ بلاشبہ ہر ایک بتانے والا یہی بتاتا ہے اور آج کل Tourist Attraction یعنی سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنا ہوا ہے.ہمارے اردگرد قریب ہی چند منٹ کے فاصلے پر یعنی چند منٹ کے چلنے کے فاصلے پر Camping Grounds ہیں.بڑی اچھی وہاں جماعت کے دوست جب اگر کسی بڑی ضرورت کے وقت یہاں ٹھہر نا چاہیں زیادہ تعداد میں تو یہ سہولت بھی خدا نے مہیا کر دی ہے ہمیں اور
خطبات طاہر جلدم 776 خطبه جمعه ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء اُس میں بنے بنائے چھوٹے چھوٹے مکان ہیں اور Camping صرف یہ نہیں Tents اپنے لے کر آئیں بلکہ مکان بھی مل جاتے ہیں وہاں اور بڑے اچھے Trailers (ٹریلرز ) وغیرہ ہر قسم کی سہولتیں اور بڑا سستا علاقہ ہے علاقہ اس لحاظ سے پھر اس کے ماحول میں بہت ہی شریف لوگ بستے ہیں اور جو سب سے زیادہ اہم چیز ہے میری نظر میں وہ یہ ہے کہ ہمارے ہمسایے بہت شریف لوگ ہیں.اکثر حصہ ایسے معمر لوگوں سے آباد ہے جو امن اور سکینت چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں ایسے خوش نما علاقے میں جا کے بسیں جہاں کوئی اُن کو تنگ نہ کرے اور وہ آخری ایام مزے سے بغیر کسی ذہنی الجھن کے بسر کریں.چنانچہ ہمارے ہمسائے میں ایک رئیر ایڈمرل ریٹائر ڈ ہیں، ایک ہمارے ہمسائے میں وه Ambassador ہوتے تھے ہالینڈ کے کہیں.وہاں سے ریٹائر ہوکر یہاں آئے ہوئے ہیں.غرضیکہ ایسے لوگ جو ہالینڈ کی سوسائٹی میں Cream سمجھے جاتے ہیں وہ جب اپنے کاموں سے فارغ ہوتے ہیں تو اس علاقے میں آکر بس جاتے ہیں اور ان کا رویہ بعض دوسری قوموں کے برعکس متکبرانہ نہیں.کیونکہ میں نے دیکھا ہے ایسے علاقے متکبر بھی ہو جاتے ہیں کیونکہ بڑے بڑے لوگ وہاں بستے ہیں ان کے اندر ایک سرکشی سی آجاتی ہے.لیکن یہاں کے لوگ بڑے ہی Humble اور توقع کے بالکل برعکس بہت ہی خوش مزاج یعنی اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنے والے ہیں.چنانچہ میں مثال دیتا ہوں ہمارے ساتھ ہی ایک ریٹائرڈ Military Attache رہتے ہیں جن سے پوچھا مبلغ نے کہ ہمارے بچوں کے لئے سکول چاہئے بتا ئیں کون سا تو انہوں نے کہا آپ فکر نہ کریں.وہ بہترین سکول جو تھا وہاں ان کے بچوں کو خود ساتھ لے کر گئے اپنی موٹر میں اور وہاں داخل کروایا اور اُن کی بیوی ابھی بھی یہاں سے بچے کو Collect کرتی ہے اور خود وہ سکول لے کر جاتے ہیں تو اتنے با اخلاق لوگ ہیں کہ ہمسایے کا ہر طرح سے خیال رکھنے والے اور پھر مذہبی علاقہ ہے.حمید صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ ہالینڈ کے سارے علاقوں میں یہ مذہبی مشہور ہے.ان کا فکری رجحان مذہب کی طرف ہے.پھر ان کو پھولوں سے بہت محبت ہے.اس لئے آپ دیکھیں گے کہ بہت ہی خوبصورت گھر میں اردگرد ، خوب سجے ہوئے.تو جس قسم کا ماحول جماعت احمدیہ کو چاہئے وہ سارا ماحول یہاں میسر ہے.اور Complex اتنا بڑا ہے کہ جس عمارت میں یہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت یہاں
خطبات طاہر جلدم 777 خطبه جمعه ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء نیچے بہت ہی بڑا کچن ہے جو سینکڑوں کے لئے کھانا تیار کر سکتا ہے.اس کے لئے سارا سامان موجود ہے.وہ بھی اس قیمت کے اندر شامل ہے اور جس جگہ ہم بیٹھے ہوئے ہیں جسے مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے.اس کے ساتھ کھلے ہال اور موجود ہیں.میرا ارادہ ہے کہ انشاء اللہ اگر یہاں کی حکومت نے اجازت دے دی اور غالباً اجازت آسانی سے مل جاتی ہے کہ اندرونی تبدیلیاں کر لی جائیں تو کچھ اندرونی تبدیلیاں کر کے کچھ مسجد کا Symbol چھت کے او پر تعمیر کر کے اسے کافی وسیع مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے.عورتوں اور مردوں کو ملا کر یہاں کی ضرورت کے لحاظ سے میرا خیال ہے کوئی دو تین سونمازی آسانی سے یہاں نماز پڑھ سکیں گے.جب ہم اس کو شامل کر لیں گے اور اگر کچھ آگے بڑھنے کی اجازت دے دی گئی تو انشاء اللہ بہت ہی خوبصورت بڑی وسیع مسجد بن جائے گی.اس کے اوپر منزلوں میں دومنزلیں ہیں ان میں بائیس کمرے ہیں رہائش کے لئے اور نہایت اچھے غسل خانے وغیرہ اور تمام دیگر ضروریات موجود ہیں.جو بیچنے والے تھے وہ حوصلے والے لوگ تھے.چنانچہ پردے بھی انہوں نے اسی طرح اچھے اور خوبصورت لٹکے ہوئے رہنے دیئے اور کوئی دوسرا سامان بھی اٹھا کر نہیں گئے کہ Cutlery تک انھوں نے ساتھ ہی مہیا کر دی.کچن کی جتنی Appliances لگی ہوئی تھیں وہ ساری اُسی طرح لگی رہنے دی گئیں کوئی ایک حصہ بھی ایسا نہیں ہے جو انہوں نے ہٹایا ہو یا جس کے پیسے زائد مانگے ہوں.صرف قالین تھے جو قانون کی مجبوری سے Remove کر کے ان کو جلانے پڑے کیونکہ جو پلک بلڈنگ فروخت کی جائے یہاں کا قانون مطالبہ کرتا ہے کہ ان کے قالین نکال دیئے جائیں ورنہ بیماریاں منتقل ہونے کا خطرہ ہے.ساتھ ایک بہت بڑی وسیع بلڈنگ ہے جسے ہم B بی کہتے ہیں.یہ یہاں کی ایک بڑی پولیٹیکل پارٹی کے پاس فی الحال کرایہ پر ہے اور پاکستان کے لحاظ سے اتنی ہزار روپے سالانہ کرایہ ہے اس عمارت کا اور یہ بھی بہت وسیع عمارت ہے.اس میں بڑے بڑے ہالز ہیں اور سر دست ہم ان کو قا نو نا واپس نہیں لے سکتے لیکن جب یہ مدت ختم ہو جائے گی تو پھر انشاء اللہ جماعتی استعمال میں آجائے گی.ایک اور بہت بڑی بلڈنگ ہے جس کو ہم C سی کہتے ہیں.یہ بلڈنگ اپنے رقبہ کے لحاظ سے اور گنجائش کے لحاظ سے ان سب سے بڑی ہے.اس میں نو (۹) بڑے بڑے ہال ہیں جنہیں اجتماعی
خطبات طاہر جلدم 778 خطبه جمعه ۳ ار ستمبر ۱۹۸۵ء رہائش گاہ کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے.تین منازل ہیں اور کیچن ان کے لئے الگ ہیں Toilets ، ہر قسم کی سہولتیں ساتھ اور اس کے لئے ان کو مزید کسی تعمیراتی تبدیلی کی ضرورت نہیں وہاں یعنی ہمارے ہاں سے جس طرح قیام کا رواج ہے یہاں چھوٹا سا ایک سالانہ جلسہ یہاں کیا جائے تو جلسہ سالانہ قادیان کے جو نقوش لوگوں کے ذہن میں موجود ہیں جن کو ربوہ میں بھی ہم نے زندہ کیا اور قائم رکھا خدا کے فضل سے وہی اب غیر ملکوں میں منتقل ہوتے چلے جارہے ہیں اور اسلام آباد میں بھی وہ نقوش منتقل ہو کر ثبت ہو چکے ہیں اسلام آباد یو.کے میں.تو ہالینڈ میں بھی انشاء اللہ وہی نقوش یہاں ثبت ہو جائیں گے اور اسی طرز پر ہم یہاں رہائش اختیار کریں گے جس طرح قادیان یار بوه یا اب اسلام آباد میں شروع ہوئی.تو اس لحاظ سے ہم زمین پر اگر Mattresses ڈال کران ہالوں کو استعمال کریں تو بعض کا اندازہ تو یہ تھا کہ پانچ یا چھ سو تک مہمان یہاں ٹھہر سکتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ تین سو یا چار سو کے درمیان 4 سو تک غالباً آسانی سے Accommedate ہو سکیں گے.اب یہ بائیس کمرے جو اوپر ہیں ان میں بھی 66 کی گنجائش ہے اور نیچے جو ہال ہیں ان کو شامل کرلیا جائے تو اس عمارت میں بھی ایک سو کی گنجائش ہے.تو اس لئے امید ہے کہ چارسو پانچ سوتک یہاں مہمانوں کی گنجائش نکل آئے گی اور پھر ان کی ضروریات بھی ساری یہیں سے مہیا ہو جائیں گی.کسی نئی تعمیر کی ضرورت نہیں.تو عملاً خدا تعالیٰ نے ایک یوروپین مرکز ہمیں عطا فرما دیا ہے اور ہمیں اندازہ ہی نہیں تھا خریدتے وقت کہ کیا ہو رہا ہے اور میں سمجھتا ہوں یہ ہالینڈ کے لئے خوش خبری ہے.اگر ہالینڈ کوضرورت نہ ہوتی اتنی وسیع جگہوں کی تو خدا تعالیٰ کو اتنی بڑی جگہ دینے کی ضرورت نہیں تھی.نہ ہم نے مانگی تھی اتنی بڑی جگہ، نہ وہم تھا کہ مل جائے گی.یہ خود بخود تقدیرگیر گھار کے یہ جگہ ہمارے لئے لے آئی اور تحفہ پیش کر دی ہے.اتنی تھوڑی قیمت پر اتنا بڑا رقبیل جانا پھر سوا یکڑ رقبہ ہے اس کا.جو ہالینڈ کے لحاظ سے ایک بہت بڑا رقبہ ہے خدا کے فضل کے ساتھ.تو اس میں مجھے تو خدا تعالیٰ کی یہ تقدیر دکھاتی نظر آتی ہے کہ ہالینڈ میں انشاء اللہ جماعت کی ترقی ہوگی اور آثار اس کے نظر بھی آرہے ہیں.ایک تو ہالینڈ کے جواحمدی Hollandish (اصلی باشندے) ہیں جو کچھ پیچھے تھے بہت آگے آچکے ہیں اب اور تبلیغ کا سب کو شوق ہے اور فدائی ہیں اور متوازن ہیں ذہنی Extremes نہیں ہیں اس
خطبات طاہر جلدم 779 خطبه جمعه ۱۳؍ ستمبر ۱۹۸۵ء لئے میں سمجھتا ہوں کہ ماحول اچھا ہے.دوسرے ہالینڈ جماعت احمدیہ کے معاملے میں عموماً بہت شریفانہ سلوک کر رہا ہے جو سب کمیشن (Sub Comission) جو معاملہ پیش کیا تھا جماعت کے متعلق اور اس سے پہلے جو ان کے مخفی اجلاس میں معاملہ در پیش تھا اس میں مسلسل ہالینڈ نے جماعت احمدیہ کی حمایت کی ہے.یہاں کے اخبارات بھی تعاون کرتے ہیں.یہاں کی حکومت جس طرح بھی ممکن ہے ان کے لئے ہمدردانہ رویہ رکھتی ہے تو جو لوگ خدا کے بندوں سے شریفانہ سلوک کیا کرتے ہیں یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ ان کو جزا نہ دے اور اس سے بہتر جزاء کوئی نہیں ہوسکتی کہ اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت کے لئے ان لوگوں کو چن لے ان پر فضل نازل فرمائے.تو جو بنیاد میں قائم ہورہی ہیں ، جو آثار مجھے دکھائی دے رہے ہیں اور جس رنگ میں ہالینڈ کے نوجوان احمدی خدا کے فضل سے منہمک ہو گئے ہیں تبلیغ میں اس سے میں امید رکھتا ہوں کہ اس Complex کو اللہ تعالی جلد از جلد بھرنا شروع کر دے گا یعنی خالی عمارتیں استعمال میں آجائیں گی.اور بھی کئی استعمال ہیں جو اس وقت میرے ذہن میں ہیں.کل جو بروکر (Broker) تشریف لائے ہوئے تھے اُن کا یہ خیال تھا کہ اتنی چھوٹی سی جماعت کے لئے اتنی بڑی عمارت ہے تو کیوں نہ کرایہ پر چڑھائی جائے.چنانچہ انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ C بلڈنگ جس کو میں نے کہا ہے اُس بلڈنگ کو آپ کرایہ پر دے دیں تو دس ہزار پونڈ سالانہ کر ایل جائے گا اس سے اندازہ کریں بلڈنگ کی حالت کیا ہے اور کتنی وسیع ہے.یعنی دولاکھ روپیہ سالانہ کرایہ یہ صرف اسی عمارت کا مل سکتا ہے.انہوں نے کہا کہ آپ کی باقی ساری عمارتیں آپکی ضرورت سے زیادہ ہیں تو آپ اس کو کیوں نہیں دے دیتے.میں نے کہا یہ فیصلہ تو ہم اس طرح آنا فانا نہیں کر سکتے تسلی سے کریں گے، دیکھیں گے مگر میں تمہیں اتنا بتا دیتا ہوں کہ جب چھ مہینے پہلے ہم نے اسلام آبا دلیا تھا تو وہاں بھی لوگوں کو وہم تھا کہ اتنے بڑے Complex کو کس طرح سنبھالیں گے ، کس طرح وہاں عمارتیں خالی خولی خلخل کریں گی اور ہمارے لئے ممکن نہیں ہوگا، دیکھ بھال پر اتنا خرچ کرنا پڑے گا اور میں نے اس کو کہا، آنے سے پہلے ، تین نئے مربیوں کے کواٹرز کے بنانے کا آڈر دے کر آیا ہوں، اتنی جگہ تنگ ہوگئی ہے فوراً.اللہ تعالیٰ تو جب جگہیں وسیع دیتا ہے تو کام بھی بڑھا دیتا ہے.وہاں تو اب جگہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں کہ فلاں دفتر کے لئے کس طرح جگہ مہیا کی جائے اور جو بیرکس ہیں وہ تو بہر حال سکولز کے
خطبات طاہر جلدم 780 خطبه جمعه ۱۳ار ستمبر ۱۹۸۵ء لئے ہم نے رکھی ہوئی ہیں.بڑی بڑی جو Dormitories ہیں یا ہالز ہیں وہ ہماری روز مرہ کی ضرورتوں اور جلسوں وغیرہ کے لئے بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں.وہ تو چند مہینے کے اندر اندر دیکھتے دیکھتے اسلام آباد بڑا ہونے کی بجائے وہ چھوٹا نظر آنے لگ گیا ہے.اس لئے جب اللہ تعالیٰ کا جب یہ سلوک ہے تو میں تو دعا کرتا ہوں کہ پرسوں کی بجائے یہ Complex ہمارے لئے کل چھوٹا ہو جائے.جتنی تیزی سے ہم ترقی کریں گے اتنی تیزی کے ساتھ ہماری عمارتیں ہمارے پیچھے رہنا شروع ہو جائیں گی اور ان کا چھوٹا ہونا اللہ کا انعام ہے یہ کوئی بری خبر نہیں ہے کہ جگہ تنگ ہوگئی ہیں.میں اس کی مثال ہمیشہ یہ دیا کرتا ہوں جماعت کو بار بار سمجھانے کے لئے کہ ماں جس بچے کے کپڑے چھوٹے ہوا کریں جلدی جلدی آج ایک کپڑا بنایا کل وہ بچے کا قد او پر نکل جائے اور چھوٹا ہو جائے بوٹ خرید نے پڑیں بار بار اور وہ چھوٹے ہو جائیں تو وہ یہ دعا تو نہیں کیا کرتی کہ اے اللہ ! اس بچے کا قد روک لے، یہ بڑا ہونا بند ہو جائے ، مجھے مصیبت پڑی ہوئی ہے، کپڑے بنا بنا کر تھک جاتی ہوں اور پھر بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں، وہ تو دیکھ دیکھ کر نہال ہوتی ہے.وہ تو کہتی ہے کپڑے میرے بچے کو لگ جائیں لیکن یہ بڑھتا رہے.تو جماعت کے ساتھ خلفاء کا یہی ہوتا ہے تعلق.بڑھتی رہیں اور جگہیں چھوٹی ہوتی رہیں وہ تو نہال ہوتے رہیں گے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی نے ایک موقع پر فرمایا تھا یہ کام میرے دل میں اس قدر اس کیلئے جوش ہے کہ اگر مجھے اپنے کپڑے بھی بیچنے پڑیں تو تب بھی میں لگادوں گا.لیکن جماعت کو اللہ نے اتنا اخلاص بخشا ہے کہ اس کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، محاورے کے طور پر یہ استعمال ہوتی ہیں باتیں عملاً اس کا موقع نہیں پیش آتا لیکن تمنا کے لحاظ سے یہ بات درست ہے کہ خصوصیت کے ساتھ خلیفہ وقت کو تو ایسا عشق ہے جماعت کی ترقی کے ساتھ کہ اگر اس کی ساری محنتیں کسی عمارت کو وسعت دینے میں خرچ ہو جائیں اور وہ عمارت چھوٹی ہو جائے تو اس کو یہ افسوس نہیں ہوگا کہ میری محنتیں ضائع گئیں.وہ نہال ہو جائے گا اس بات پر ، وہ خدا کے حضور قربان ہو گا خوشی کے ساتھ الحمد للہ ہماری محنتوں کو پھل لگ گیا.تو اس لحاظ سے دعائیں کریں کہ یہ جو مرکز لوگوں کو آج بڑا نظر آ رہا ہے اور حقیقتاً اس وقت تو ہمیں بڑا نظر آرہا ہے یہ دیکھتے دیکھتے چھوٹا ہو جائے اور بڑی تیزی کے ساتھ جماعت یہاں ترقی کرنے لگے.
خطبات طاہر جلدم 781 خطبه جمعه ۱۳ار ستمبر ۱۹۸۵ء اس وقت جب تک یہ ہمیں بڑا دکھائی دے رہا ہے، موجودہ مقامی جماعت کی ضرورتوں سے زیادہ دکھائی دے رہا ہے اُس وقت تک میرے ذہن میں دو تین منصوبے ہیں جو امکانا ہم جائزہ لیں گے اگر قابل عمل ہوئے تو انشاء اللہ ان پر عمل کیا جائے گا.ایک تو یہ کہ ہمیں بچوں کے لئے ایک بہت اچھے سکول کی ضرورت ہے اور اگر یہاں کی حکومت ہمیں اجازت دے کہ ہم اپنے اساتذہ باہر سے لا سکیں تو یورپ کے احمدی لڑکوں کے لئے یہاں سکول کھولنے کا بہترین ماحول ہے.کوئی جرم نہیں ہے اردگرد، بہت ہی Peacefull پر امن ماحول ہے اور ایسی اچھی فضا ہے کہ وہ صحت مند انسانی مزاج پر اور عادتوں پر وہ صحت مند اثر ڈالنے والی ہے اس لئے بچوں کے اس سے بہتر جگہ سکول کے لئے اور جگہ نہیں سوچی جاسکتی اور پھر ان کی رہائش کی ضروریات ہر قسم کی پہلے ہی موجود ہیں.تو بچوں کا سکول یہاں اگر امکان ہوا ہم جائزہ لیں گے تو وہ انشاء اللہ تعالیٰ یہاں کھولا جا سکے گا.دوسرے اسے خاص طور پر واقفین عارضی کیلئے میں سمجھتا ہوں استعمال کرنا چاہئے.لوگ سیر کے لئے باہر جاتے ہیں اور سیر کے لئے جتنی ضروریات انسان کی ہوتی ہیں وہ ساری یہاں پوری ہوسکتی ہیں اس لئے یوروپین احمدی انگلستان کے، جرمنی کے یا دوسرے علاقوں کے وہ وقف عارضی کریں بجائے سیر کرنے کی.سیر اللہ تعالیٰ خود ان کی کروا دے گا یہاں.اور یہاں اتنے Tourists آتے ہیں کہ ان کے لئے تبلیغ کے بھر پور مواقع ہیں.رہائش ان کو مفت مہیا کی جائے گی جماعت کی طرف سے.ورنہ پہلے واقفین عارضی کے لئے رہائش مہیا کرنے کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی تھی تو جو بھی خاندان خواہ وہ پاکستان سے آئے خواہ وہ دنیا کے کسی اور حصہ سے آئے اگر وقف عارضی کر کے ہالینڈ آنا چاہے تو اُن کے لئے اس Complex میں انشاء اللہ تعالیٰ بغیر کسی پیسے کے رہائش مہیا کر دی جائے گی اور کھانا پکانے کی سہولتیں بھی دے دی جائیں گی.کھانے کا خرچ اُن کا اپنا اور محنت اپنی شرط یہ ہے کہ جگہ کو صاف رکھنا ہے اور جس طرح صاف وصول کی تھی اس سے زیادہ صاف چھوڑ کر جائیں کم صاف نہ ہو اور زیادہ صاف نہیں کر سکتے تو پھولوں کا کوئی پودا ہی لگادیں یہاں تحفہ جگہ کو اور ماحول کے مطابق خوبصورت بنانے کی کوشش کریں.ارد گرد تبلیغ کے بے حد مواقع ہیں خدا کے فضل سے کیونکہ جو Tourist آتا ہے اس کے پاس وقت بہت ہوتا ہے اس کو تبلیغ کی جاسکتی ہے، اس سے دوستیاں بنائی جاسکتی ہیں.ساری دنیا کے لئے نہایت عمدہ تبلیغی مرکز بن سکتا ہے کیونکہ یہاں
خطبات طاہر جلدم 782 خطبه جمعه ۱۳ ستمبر ۱۹۸۵ء ریب سب دنیا سے لوگ آتے ہیں اور سکول کا اور اس کا ٹکراؤ نہیں ہے.کیونکہ چھٹیاں ہوتی ہیں انہی دنوں میں یہ سیاحوں کا موسم شروع ہوتا ہے اور اُنہی دنوں میں والدین کو بھی توفیق ملتی ہے عموماً کہ وہ چھٹیوں پر آجائیں لیکن اگر اس کے علاوہ بھی ہو تو میرے خیال میں سکول کی ضرورتیں پوری کرنے کے باوجود یہاں انشاء اللہ اتنی جگہ مل جائے گی کہ روز مرہ کے آنے والے واقفین زندگی با آسانی سے یہاں ٹھہر سکیں گے.ایک تیسرا منصوبہ میرے ذہن میں یہ ہے کہ انگلستان میں ہمیں اشاعت کا جو مرکز ہے اُس میں دقت پیدا ہونی شروع ہوگئی ہے.بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی ہے اور ہالینڈ میں اشاعت کے لحاظ سے ایک اچھا موقع ہے.یہاں مطبع خانے بھی بڑے عمدہ معیاری ہیں، کاغذ بھی نسبتا ستا ملتا ہے اور ویسے بھی ہر قسم کی سہولتیں یہاں سے دنیا میں لٹریچر بھجوانے کی موجود ہوں گی.لیکن یہ بھی منحصر ہے اس بات پر کہ یہاں کی حکومت ہمیں اجازت دیتی ہے یا نہیں.ہم کوشش کریں گے، ان کے لئے تو آمدن کا ذریعہ ہے.لکھوکھا پونڈ تک یہ معاملہ پھیل جائے گا دیکھتے دیکھتے انشاء اللہ سالانہ خرچ کے لحاظ سے کیونکہ اتنے وسیع منصوبے اشاعت کے جن کی بنیادیں ڈالی جارہی ہیں کہ ابھی چند سال کے اندراندرلاکھوں پونڈ سالانہ عام بات ہوگی اس کے لئے یعنی اتنا بڑا خرچ نہیں سمجھا جائے گا، اور پھر یہ انشاء اللہ تیزی سے ترقی کرنے والا معاملہ ہے.جس ملک میں یہ مرکز ہو یہ اسکی خوش قسمتی ہے.تو آئندہ جا کر تو اس نے اربوں تک معاملہ پہنچ جاتا ہے.بہت ہی اچھی بنیا د قائم ہو جائے گی اس کے لئے بھی بہترین جگہ ہے یعنی اشاعت کے کام کے لئے یہ مرکز.مصنفین بھی یہاں آکر یہاں بیٹھ کے نہایت ہی عمدہ ماحول میں اپنی خدمات سرانجام دے سکتے ہیں، ترجمہ کرنے والے بیٹھ سکتے ہیں آکر اور علمی لحاظ سے یہاں کی جو یو نیورسٹیز (Universities) ہیں اُن کو خاص طور پر اسلامیات میں ایک خاص مقام حاصل ہے Orientalists ( مستشرقین ) پیدا کرنے میں ہالینڈ نے ایک بڑا کام کیا ہے اور بڑا بھاری لٹریچر ہے اسلام کے اوپر جو ہالینڈ میں پہلے سے موجود ہے.Hollandish آبادیوں میں نفوذ کرنے کے لئے کئی علاقے ایسے ہیں جو ہالینڈ کے رسوخ میں ہیں وہاں اثر پیدا کرنے کے لئے ہالینڈ سے اشاعت زیادہ مفید ثابت ہو سکتی ہے.تو امکانات تو کئی روشن ہورہے ہیں لیکن ہم کہہ نہیں سکتے کہ ان میں سے ہر ایک یا ان میں
خطبات طاہر جلدم 783 خطبه جمعه ۱۳؍ ستمبر ۱۹۸۵ء سے کوئی بھی ہم پورا کر سکیں گے کہ نہیں لیکن یہ کہ سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبے جو ہمارے حق میں آسمان میں بن رہے ہیں انہوں نے تو بہر حال کھلنا ہے اور انہوں نے پورا بھی ہونا ہے اور جو عمارتیں جو خدا تعالیٰ نے ہمیں عطا کی ہیں یہ جتنی بڑی نظر آرہی ہیں یہ مجھے یقین ہے کہ کچھ عرصہ کے اندر انشاء اللہ تعالیٰ یہ چھوٹی ہوتی دکھائی دیں گی اور جماعت کے کام بڑی تیزی کے ساتھ پھیلنے شروع ہو جائیں گے اس لئے ایک مرکز اور مرا کز کو جنم دے گا اللہ کے فضل اور اس کے رحم کے ساتھ.اب ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہالینڈ کی جماعت کو اب یہ توفیق عطا فرمائے کہ اپنی بڑھتی ہوئی ذمہ داریوں کو بڑھتی ہوئی دعاؤں کے ساتھ اور بڑھتی ہوئی محنت اور خلوص کے ساتھ پورا کرنے کی اللہ تعالیٰ ان کو تو فیق عطا فرمائے.دعاؤں کے اوپر میں سب سے زیادہ زور دیتا ہوں اسی لئے اس کا آخر پر ذکر کرتا ہوں تا کہ آخری یاد جو ذہن میں نقش رہ جائے وہ یہ ہو کہ دعا کے بغیر کوئی چیز بھی ممکن نہیں.تو ہالینڈ کی جماعت کو اب اپنے لئے دعا بہت کر نیچا ہیئے.کیونکہ جب خدا تعالیٰ انعام کرتا ہے تو اس کا شکر ادا کرنا اور پھر یہ خدا سے توفیق مانگنی کہ ہم اس انعام کے اہل ہوں ، یا انعام ہمارے اندر رچ بس جائے ، ہمیں اس انعام کے سارے حقوق ادا کرنے کی توفیق ملے اور آئندہ بکثرت دوسرے انعامات کا پیش خیمہ بن جائے کیونکہ خدا کا یہ قانون ہے کہ جب آپ اس کا شکر ادا کرتے ہیں تو شکر کے مزید مواقع مہیا فرماتا ہے، اس لئے یہ چیز تو دعا کے بغیر ممکن نہیں اس لئے آپ دعا ئیں کریں خاص طور پر ہالینڈ کی جماعت اپنے لئے دعا کرے کہ اس انعام کا حق ادا کرنے کی خدا ان کو توفیق بخشے اور ہر مشکل جواس راہ میں پیش آئے اس کے لئے دعا کیا کریں کیونکہ میرا یہ تجربہ ہے اور ساری زندگی کا نچوڑ ہے کہ کام خواہ کتنا بھی آسان ہو جب دعا سے انسان غافل ہورہا ہو خیال ہی نہ آئے کہ اس کے لئے دعا کی ضرورت ہے تو اس میں بعض دفعہ مشکلات پیدا ہو جاتی ہیں لیکن کام خواہ کتنا بھی مشکل ہواگر دعا کی طرف صحیح توجہ پیدا ہو جائے اور انسان اپنے دل میں عاجزی محسوس کرتے ہوئے اپنے آپ کو لاشئی محسوس کرتے ہوئے اسباب کو دیکھتے ہوئے بھی یہ سمجھتا ہو کہ یہ بے کار ہو جاتے ہیں ،ان کا کوئی بھی فائدہ نہیں ہوا کرتا اگر خدا کی یہ مرضی نہ ہو.اس رنگ میں جب دعا کرے انسان تو ساری مشکلات دیکھتے دیکھتے یوں غائب ہو جاتی ہیں جیسے تھی ہی نہیں.وہ مشکلات بالکل ایک بچے کا ڈراؤنا خواب لگتی ہیں کہ آنکھ کھل جائے تو نہ وہ خواب نہ وہ ڈر اور نہ وہ خوف کی جگہیں اسی طرح دعائیں مومن
خطبات طاہر جلدم 784 خطبه جمعه ۱۳؍ ستمبر ۱۹۸۵ء کی آنکھیں کھولتی ہیں.دعاؤں کے ذریعہ انسان ایک شعور کی نئی دنیا میں داخل ہوتا ہے.اس وقت اس کو پتہ چلتا ہے کہ دعا کے بغیر وہ ایک ڈراؤنا خواب دیکھ رہا تھا اور اگر دعانہ ہوتی تو اسی خواب میں وہ ہلاک ہو سکتا تھا اس لئے شعور عطا کرنے کے لئے خدا کے وجود کا اور اس کے قرب کا اور اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے لئے کہ ہاں وہ موجود ہے اور وہ ہماری مدد کرتا ہے اور ہمارے سارے کام آسان کرتا ہے، دعائیں سب سے زیادہ اہم ذریعہ ہیں.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اتنا زور دیا ہے دعا پر کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا کہ آپ سارے پرانے بزرگوں کے مضامین اکٹھے کر لیں جو دعا کے متعلق انہوں نے لکھے ہوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات ایک طرف رکھیں تو وہ تحریرات ان سب پر بھاری ہوں گی.ایک زندگی میں آپ نے تیرہ سو سال کی زندگیوں کا دعاؤں کا نچوڑ بیان کیا اور اس سے بڑھ کر بیان کر دیا.اور حقیقت یہ ہے کہ یہ بنیادی چیز ہے اس دور میں ایمان کو ثریا سے لانا دعا کے بغیر ممکن نہیں اور چونکہ دعا کے نتیجہ میں آپ کو خدا تعالیٰ نے ثریا سے ایمان کو کھینچ لانے کی توفیق بخشی اس لئے یہی سب سے زیادہ راگ ہے جو آپ نے الا پا ہے اور خدا کی حمد میں اور لوگوں کو سمجھایا ہے کہ دعا کر و دعا کے ذریعے تمہارے سارے کام بنیں گے، دعا کے ذریعہ تمہیں ایمان نصیب ہوگا ، دعا کے ذریعہ تمہیں ایمان کے مطابق عمل نصیب ہوگا اور خدا کا قرب بڑھتار ہے گا.اس لئے ہالینڈ بالخصوص اور باقی ساری دنیا کی جماعتیں عموماً اپنی دعاؤں میں اس مرکز ہالینڈ کو یا د رکھیں.ایک رسمی افتتاح تو اس کا آج شام کو ہوگا لیکن اصل افتتاح یہی جمعہ کے وقت کا افتتاح ہے.تو ہم دعا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضلوں کے ساتھ ہمیں نہ صرف اس مرکز کو پھولتا پھلتا دن رات نشو و نما پاتا ہوادیکھنے کی توفیق بخشے بلکہ جلد از جلد نئے مراکز عطا کرتا چلا جائے اور جتنا دشمن کوشش کر رہا ہے کہ ہماری زمین تنگ ہو اس سے ہزاروں گنا زیادہ وہ خدا کی زمین بڑھنے اور پھیلنے لگے جو اس نے ہمیں عطا کی ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.یہاں کی جماعت کی چونکہ ابھی پوری طرح اس طرح تربیت نہیں ہے اور شاید ان کے پاس ذرائع بھی نہ ہوں، ترجمہ کا انتظام یہاں نہیں ہوتا انگلستان کی جماعت میں خدا کے فضل سے ہو رہا ہے
خطبات طاہر جلدم 785 خطبه جمعه ۳ ار ستمبر ۱۹۸۵ء اور بڑا اچھا انتظام ہو گیا ہے.کوشش یہ کرنی چاہئے کہ آئندہ یہاں جو بھی اہم تقریبات ہوں یا خطبات جوار دو میں ہوں کسی وجہ سے یا کسی اور زبان میں ان کا ساتھ ترجمہ ہونا چاہئے اور باہر تو ہمیں یہ سہولت ہے انگلستان میں کہ انگریزی کا ترجمہ سننے والے تھوڑے ہیں اس لئے ان کو ہال میں بٹھا دیتے ہیں یہاں شاید مشکل ہو.یا یہاں بھی ہو سکتا ہے ایسے ہال میں.میرا خیال ہے کہ جب تعمیر میں تبدیلیاں پیدا کریں تو شیشہ کی جگہ شیشہ کی دیوار ہو جس کے پرے وہ دوست بیٹھیں جو تر جمہ Hollandish زبان میں سننا چاہتے ہیں تو آسانی ہوگی کوئی ایسی مشکل نہیں ہے ایک چھوٹا سالاؤڈ سپیکر وہاں لگ جائے اور ایک جگہ الگ بیٹھ کر کوئی ترجمہ کرنے والا ساتھ ساتھ ترجمہ کرے.ان کا حق ہے کہ ان کو فوری طور پر اپنی زبان میں کچھ ملے اس لئے آج کا ترجمہ آپ فوری طور پر سا را تر جمہ تو ممکن نہیں ہوگا Summary خلاصہ نہیں بلکہ Summary نسبتاً زیادہ ہوتی ہے وہ تیار کر کے ان کو مہیا کر دیں کیسٹ تا کہ ان کو پتہ تو لگے کہ کیا کہا گیا ہے.
خطبات طاہر جلد۴ 787 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء جرمنی میں دعوت الی اللہ کے مواقع اور افضال الہی کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ ستمبر ۱۹۸۵ء بمقام ہمبرگ جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ میں نے نن سپیٹ ہالینڈ سے دیا تھا اور اس میں اس بات کا ذکر کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے جو قرآن کریم میں مومنین سے قطعی وعدہ فرمایا ہے کہ تم اگر میری خاطر دکھ اٹھاؤ گے تو میں تمہاری زمینیں وسیع کرتا چلا جاؤں گا.یعنی تمہیں اپنی زمین میں لے آؤں گا اور اللہ کی زمین وسیع ہے، ان معنوں میں وہ وعدہ ہے اور یہ بھی بشارت ہے کہ اس دنیا میں بھی تمہیں نقد و نقد انعام ملیں گے اور آخری دنیا کے پھر انعام تو مقدر ہیں ہی اور یہ بھی وعدہ ہے کہ خدا کے انعامات کا سلسلہ لامتناہی ہوا کرتا ہے ، وہ کسی ایک جگہ جا کر ٹھہر نہیں جاتا.تو جن کو خدا تعالیٰ کے وعدے اس دنیا میں ہی پورے ہوتے دکھائی دینے لگیں ان کے لئے دوہری خوشخبری یہ ہے کہ آخرت کے وعدوں پر بھی پہلے سے بڑھ کر ایمان پیدا ہو جاتا ہے.جن کو اس دنیا میں کوئی خوشخبریاں پوری ہوتی دکھائی نہ دیں ان کے لئے آخرت کی امیدیں بھی موہوم ہیں سوائے اس کے کہ ایک امید لگائے بیٹھے ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تبھی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ خصوصاً ابتلاء کے دور میں اللہ تعالیٰ کے فرشتے یہ پیغام لے کر آتے ہیں کہ : نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ( تم السجدہ :۳۲) ہم تمہارے ساتھ ہیں، تمہارے دوست بن کے رہیں گے اس دنیا کی زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی.یہ بتانے کے
خطبات طاہر جلد۴ 788 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء لئے کہ آخرت کا وعدہ محض کوئی فرضی قصہ نہیں ہے اس لئے خدا نے زیادہ یقین پیدا کرنے کے لئے ، زیادہ ایمان پیدا کرنے کے لئے ہمیں اس دنیا میں یہ حکم دے کر بھیجا ہے کہ ہم اب تمہارے ساتھ رہا کریں گے.چنانچہ ایک دائگی رفاقت فرشتوں کی نصیب ہو جاتی ہے اور ہر منزل پر ، ہر موڑ پر ان کا قرب محسوس ہوتا ہے.جماعت احمد یہ آج کل جس ابتلا کے دور سے گزر رہی ہے بعض لوگوں کی نظر اس ابتلاء پر ہے اور بے قرار رہتے ہیں کہ کب یہ دور ختم ہو گا لیکن اللہ کے انعامات پر بھی تو نظر کرنی چاہیئے وہ کس کثرت کے ساتھ اور کس تیزی کے ساتھ نازل ہو رہے ہیں.دراصل ابتلاء کو انعام سے ایک خاص نسبت ہے.اس لئے ابتلاء کے لمبا ہونے کی دعا تو میں نہیں کہتا لیکن ابتلاء کے دوران خدا کی رضا پر ، خدا کے انعامات پر راضی ہونے کی عادت تو ڈالنی چاہئے اور کثرت کے ساتھ ان انعامات کا ذکر کرنا چاہئے اور کثرت کے ساتھ حمد کرنی چاہیئے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنا چاہئے.چنانچہ ہالینڈ میں خدا تعالیٰ نے ہمیں جو مرکز عطا فرمایا ہے.اس کو آپ دیکھیں تو آپ حیران ہوں گے کہ کتنی شاندار جگہ ہے، کیسی خوبصورت جگہ کتنی عظیم اور وسیع جگہ ہے اور اس کے ساتھ ہی علاقے کے لوگوں میں توجہ بھی پیدا فرما دی اور جس کثرت کے ساتھ وہاں کے معززین تشریف لائے اور انہوں نے جس قسم کے اظہار کئے اس سے اس جماعت کی امیدیں بہت بڑھ گئی ہیں اور پھر ان کے علاوہ بعض عرب معززین کی توجہ بھی اس طرف پھیر دی اور وہ بھی آئے اور مراسم بڑھائے اور آئندہ کے لئے بعض ایسے ملکوں کے دوست ہیں جن کے ساتھ بہت سے گروہ ہیں.وہ مستقل رابطہ رکھنے کے عہد کر کے گئے ہیں بلکہ خود مطالبہ کیا ہے کہ ہمیں مزید لٹریچر مہیا کیا جائے.تو جہاں خدا وسیع جگہیں عطا فرما رہا ہے، وہاں وسیع جگہوں کو بھرنے کے لئے لوگوں کے دل بھی ساتھ ساتھ پھیر رہا ہے اور مائل فرماتا چلا جارہا ہے اور یہ ایک جگہ نہیں ہر جگہ یہی سلسلہ چلا ہے.چنانچہ ہالینڈ کے بعد بیلجیئم کے پہلے مشن کے افتتاح کے لئے گیا اور ہالینڈ میں تو پہلے ایک لمبے عرصہ سے مشن قائم تھا لیکن بیلجیئم میں مبلغ کرائے کے مکان میں رہتا تھا.جماعت کے پاس باقاعدہ کوئی عمارت نہیں تھی.اس لحاظ سے اسے ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے کہ وہ پہلی عمارت جو اللہ تعالیٰ ہمیں ایک نئے ملک میں عطا فرمائی ہے اس کے افتتاح کا بھی بہت
خطبات طاہر جلد ۴ 789 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء جلد پہلے افتتاح کے بعد موقع مل گیا.اور وہ عمارت بھی بہت ہی کشادہ اور وسیع ہے اس کے دو بڑے ہال ہیں اور رہائش کے لئے ایک بہت اعلیٰ دومنزلہ فلیٹ ، اس کے ساتھ کمرے مزید رہائش کے لئے جہاں گنجائش ہے اس کے ساتھ غسل خانے اور دوسری سہولتیں ہیں.پھر دوسری طرف اس کے دفتر کے لئے بہت وسیع کشادہ جگہ، پھر اس عمارت میں زیرزمین بہت بڑی گنجائش رکھی ہوئی ہے.اس کے علاوہ مہمانوں کو ٹھہرانے کیلئے اس کے ایک کنارے پر کھلی جگہ ہے.عمارت کا قبضہ ابھی نیا ہی لیا گیا ہے لیکن تھوڑے سے عرصے میں انہوں نے تیاری کر کے پچاس مہمانوں کے لئے وہیں جگہ بنالی تھی اور اگر اس کو پوری طرح استعمال میں لایا جائے ہر قسم کی ضرورتیں مہیا وہاں کر دی جائیں تو ایک بہت بڑا شاندار مرکز بن جاتا ہے.یہ جتنی نئی جگہیں اللہ تعالیٰ عطا فرمارہا ہے پرانے سب مراکز سے اپنی گنجائش میں اور رقبے میں زیادہ ہیں.اس کے ساتھ بھی ایک بہت ہی خوبصورت اور وسیع پائین باغ ہے اور وہاں دور تک سیر کی جگہ ہے اور وہ سارا اس عمارت کے ساتھ ہی ملحق ہے اور پھر ساتھ اور رقبہ بھی مل رہا ہے تا کہ کوئی بہت عظیم الشان مسجد بنانے کی اللہ تعالیٰ جب توفیق عطا فرمائے تو ساتھ کے رقبے میں وہ تعمیر کر لی جائے اور وہاں کا سارا علاقہ بیلجیئم کے بہترین علاقے پر مشتمل ہے اور برسلز کا وہ حصہ جو ساوتھ ویسٹ ہے یعنی جنوب مغربی اس میں نہایت اچھی قسم کے لوگ صاف ستھرے، جرائم سے پاک علاقہ ہے، مہذب تعلیم یافتہ لوگ ہیں اور باوجود اس کے کہ پہلے ایک لمبے عرصہ تک مبلغ کی موجودگی کے باوجود وہاں لوگوں کو توجہ نہیں تھی لیکن اس علاقے کے لوگوں نے غیر معمولی تعاون کیا ہے.ہالینڈ کی طرح یہاں کے معززین بھی ارد گرد سے مسجد کے لئے پھولوں کے تحائف لے کر آتے رہے.بعضوں نے اور تحائف پیش کئے، بعض مستقل لگانے کے لئے پودے لے کر آئے.خدا نے دلوں میں ایسی محبت پیدا کر دی تھی کہ دیکھ کر حیرت ہوتی تھی اور یہاں بھی خدا تعالیٰ نے عربوں میں سے بعض معززین عطا فرمائے.ایک عرب پروفیسر ہیں ان کے تو دل کی کیفیت یہ ہوگئی تھی کہ پہلے تو کہنے لگے کہ میں تو احمدی ہوں لیکن ابھی بیعت نہیں کروں گا اور پہلے میں لوگوں کو تیار کروں گا پھر وہ دوسرے دوستوں کو بھی لے کے آئے ان کو بھی تبلیغ کروائی.پھر دوبارہ دوسرے دوستوں کو لے کر آئے
خطبات طاہر جلد۴ 790 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء ان کو تبلیغ کروائی اور آخر پر ایک دوست نے جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی تھی انہوں نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں دستی بیعت کرنی چاہتا ہوں اور جب دستی بیعت ہورہی تھی تو انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے بھی فوراً دستی بیعت میں شمولیت کر لی اور ان سے مزید علیحدگی برداشت نہیں ہوئی.وہ بڑے قابل آدمی ہیں ان کا ہزاروں پر اثر ہے اور اس علاقہ میں بہت ہی معزز ہیں.میں نے تو ہزاروں پر اثر کہا ہے ان کا یہ بیان تھا کہ یہاں ہمارے ملک اور ساتھ کے ملک کے کئی لاکھ باشندے ہیں اور میں انشاء اللہ ان سب تک پیغام پہنچاؤں گا.تو جب خدائی زمینیں عطا کرتا ہے تو ساتھ زمینیں بھرنے والے بھی عطا کر دیا کرتا ہے.یہ ہے اس کی شان.محاورہ ہے کہ کوئی کسی سے کچھ مانگے تو غریب آدمی پھر بہانے کے طور پر مزید بھی مانگتا رہتا ہے کہ اونٹ دے لا دنے والے بھی ساتھ دے.ہمارے تو مانگنے کے بہانے ہوتے ہیں خدا کی عطا کے بہانے ہوتے ہیں.وہ ایک چیز دیتا ہے تو اس کی ضروریات کے دوسرے حصے بھی خود بخود پورے کرتا چلا جاتا ہے.چنانچہ بیلجیئم کا نیا مشن جو بہت دعاؤں کے ساتھ کھولا گیا ہے اس کے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے وہی شان دکھائی ، وہی وعدے پورے کئے اور جو معززین تشریف لائے انہوں نے بہت لمبا عرصہ تک وہاں بیٹھ کر سوال و جواب کی مجلس میں شرکت کی اور خود ایسے سوال کئے.میں تو براہ راست پہلے تبلیغ تو نہیں کرنی چاہتا تھا کیونکہ مہمانوں پر یہ بات بعض دفعہ بوجھ ہو جاتی ہے کہ بلایا ہے کس غرض سے، افتتاح کے لئے اور ساتھ اپنی ساری تبلیغ شروع کر دی لیکن خدا نے ان کے دل میں سوال ایسے ڈال دیئے اور پھر جوابوں میں ایسی دلچسپی پیدا ہوگئی کہ وہ مجلس ختم ہونے میں نہیں آتی تھی.یہاں تک کہ چونکہ میر صاحب بھی تشریف لائے ہوئے تھے جو پارلیمنٹ کے ممبر بھی ہیں.ان کی مصروفیات بہت زیادہ ہیں ایک اور الیکشن قریب تھا تو ان پر بھی رحم کرتے ہوئے ، انہوں نے یہ نہیں کہا میں نے خود یہ کہا کہ اب بعض لوگوں کو کام ہوں گے اس لئے ہم مجلس ختم کرتے ہیں.لیکن جو بیٹھنے والے تھے ان کی کیفیت تو یہ تھی کہ بیٹھے رہتے اور سوال کرتے چلے جاتے کو ئی فرق نہیں پڑتا.ہم نے بعد میں بھی بعض معززین سے رابطہ کیا، رات کھانے پر ایک دو دوستوں کو پیغام بھجوایا.وہاں یہ عادت نہیں ہے کہ دو گھنٹے کے نوٹس پر پہنچ جائیں لیکن خدا کے فضل سے دو گھنٹے کے نوٹس پر ہی پہنچ گئے اور پھر بڑے لمبا عرصہ تک مختلف موضوعات پر گفتگو جماعت کے مسائل پر ہوتی
خطبات طاہر جلدم 791 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء رہی.اللہ تعالیٰ ساتھ ساتھ دل بھی بدل رہا ہے.اس کے بعد کولن پہنچا.جس کا جو اصل تلفظ ہے وہ تو میرے لئے بڑا مشکل ہے کولن کر کے کچھ کہتے ہیں یہاں کے جرمن لیکن ہمارے عام دوست کولن کہ دیتے ہیں یا کولون تو جو بھی ہے کولن شہر مشہور ہے ، سب کو پتہ ہے.وہاں کی ارد گرد کی جماعتوں کے لئے کوئی مرکز نہیں تھا.چنانچہ ان کی خواہش تھی کہ ہمیں بھی کوئی مرکز لے کر دیا جائے.مرکز تو آج سے چند مہینے پہلے ان کو لے دیا گیا مگر مجھے پہلی دفعہ دیکھنے کا موقع ملا.وہ عمارت بھی خدا کے فضل سے بہت وسیع عمارت ہے، اتنی وسیع کہ آپ کے پرانے دونوں مراکز ہیمبرگ کا مشن اور فرینکفرٹ کا مشن دونوں مل کر بھی اس کا ایک حصہ بنتے ہیں اور ابھی وہ ساری عمارت ہمارے پاس نہیں ہے.اس کا رقبہ سات ہزار مربع فٹ ہے جو تعمیر شدہ رقبہ ہے.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے کتنی وسیع عمارت عطا فرمائی ہے اور تین منزلیں ہیں.اوپر کی منزل میں ابھی بننے کی گنجائش ہے.نیچے کی منزل میں دونوں طرف جہاں سے داخلے کا رستہ ہے اس کے دونوں طرف وسیع ہال ہیں اور وہ ابھی کرایے پر ہیں اور کرایہ بھی چار ہزار مارک مہینہ کا ہے تو ہیں ہزار روپے ماہانہ ان کا کرایہ بھی ساتھ مل رہا ہے اور جب ہماری ضرورتیں پھیلیں گی تو ہم اس عمارت کو خالی کروائیں گے.وہاں بھی اللہ تعالیٰ نے بڑا رحجان پیدا کر دیا ، ہماری توقع سے بہت زیادہ مہمان تشریف لائے.میر تو وہاں موجود نہیں تھے مگر ہمارے علاقے کے جو حکومت کے افسر اعلیٰ ہیں حکومت کی طرف سے وہ وہاں تشریف لائے ہوئے تھے.بہت لمبا عرصہ وہاں بھی سوال و جواب کی مجلس چلتی رہی اور سارے دوست بڑی گہری دلچسپی لیتے رہے.کھانے کے بعد بھی ٹھہر گئے اور کھانے کے بعد بھی پھر ایک مجلس لگ گئی بعض دوست مزید باتیں کرنا چاہتے تھے.جوان کے دلوں کی کیفیت نظر آئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس وقت اسلام کے پھیلنے کے وسیع امکانات پیدا ہو گئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے دلوں کو تبدیل کر رہے ہیں اور یہ ساری ابتلاء کی برکت ہے.اس جگہ میں پہلے بھی آتا رہا ہوں خلافت سے پہلے بھی ، خلافت کے بعد بھی اور اس قسم کے عمومی رحجانات کہ عربوں میں بھی ، یوروپینز میں بھی اس طرح توجہ پیدا ہوئی ہو اور جماعت کے لئے نرم گوشے پیدا ہو گئے ہوں یہ پہلے کبھی نظر نہیں آیا.عربوں میں تو خدا کے فضل سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی تحریک
خطبات طاہر جلدم 792 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء ملتی ہے کہ جن کو آپ سب سے زیادہ سخت سمجھتے تھے وہ آج احمدیت کے لئے سب سے زیادہ نرم ہو گئے ہیں.کہیں اتنی جلدی کوئی قوم بیعت نہیں کر رہی جتنی جلدی اب عرب کر رہے ہیں.میں یہ باتیں آپ کو اس لئے بتارہا ہوں کہ اب آپ کا فرض ہے کہ اس پکے ہوئے پھل کو محفوظ کریں اور سنبھالیں.جب خدا کی طرف سے پھل پکنے کے وقت آتے ہیں تو ان کو سنبھالنا ایک بڑی ذمہ داری ہو جایا کرتا ہے اور جو لوگ سنبھال نہیں سکتے ان کا پھل پھر ضائع ہو جاتا ہے ، گل سڑ جاتا ہے، اپنے ہاتھ نہیں آتا بلکہ پھر دوسرے جانور کھا جاتے ہیں.اصل بات یہ ہے کہ آج کے زمانے میں پرانی تہذیب ، پرانے تجربوں سے سب انسان مایوس ہیں ،کسی کو سکون میسر نہیں ہے اور اگر ان کو صحیح معنوں میں ایسے لوگ ملیں جن کا تعلق خدا سے ان کو محسوس ہو، یہ ایک بنیادی شرط ہے تو ان کی طرف وہ بہت تیزی سے مائل ہوں گے.ورنہ فرضی باتوں کی طرف وہ مائل نہیں ہوں گے.فرضی باتیں تو انہوں نے پہلے بھی بہت دیکھی ہیں اور ان فرضی باتوں سے تنگ آئے پڑے ہیں.اس لئے عملاً خدا تعالیٰ کا قرب جو انسان کی شخصیت میں تبدیلی پیدا کر دیا کرتا ہے وہ قرب پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور اگر آپ یہ کر لیں تو ایک عظیم الشان تاریخی انقلاب میں آپ حصہ لینے والے بن جائیں گے اور یہ وہ کام ہے جو بظاہر بہت ہی بڑا مشکل نظر آتا ہے کیونکہ انسانی زندگی کا مقصود سب سے اوپر کا کام ہے لیکن سب سے آسان بھی ہے کیونکہ اگر میں آپ کو کہوں کہ علم کے لحاظ سے مبلغ بنیں تو اس کے لئے تو بہت ہی پاپڑ بیلنے پڑیں گے.زبانیں سیکھنی پڑیں گی اور عربی کی بنیادی تعلیم حاصل کرنی پڑے گی ، قرآن کریم کا مطالعہ ہے، احادیث کا مطالعہ ہے، گزشتہ علماء نے کیا کچھ لکھا مفسرین نے کیا لکھا، فقہ کے ماہرین نے کیا لکھا اور جماعت احمدیہ کے لٹریچر میں کیا کیا کچھ ہے اور ان علماء کے پاس جو ہماری مخالفت کرتے ہیں کیا دلائل ہیں اور ہم اس کا کیا جواب دیتے ہیں.علم کا اتنا وسیع میدان ہے اور پھر اسلام کے دشمن مذاہب کیا کہتے ہیں اور ان سے کیسے نبٹ سکتے ہیں.یہ تو لگتا ہے ایک لامتناہی رہے.عام آدمی کی طبیعت سوچتی ہے تو گھبرا جاتی ہے کہ یہ تو میرے بس کی بات نظر نہیں آتی لیکن تعلق باللہ میں یہ ایک عجیب بات ہے کہ جس لمحے آپ فیصلہ کرتے ہیں کہ میں خدا کا ہونا چاہتا ہوں اسی لمحے خدا آپ کا ہو جاتا ہے.کوئی روک حائل نہیں ہوتی ، کوئی پر دہ بیچ میں حائل نہیں ہوتا اور جب کسی کو خدا مل جاتا ہے تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اس کے اندر ایک عظیم انقلاب برپا نہ ہو، اس کی سمندر
خطبات طاہر جلد ۴ 793 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء شخصیت میں ایک تبدیلی رونما نہ ہو جائے.آج اس تبدیلی کی ضرورت ہے، آج ضرورت ہے کہ ہم ایسے نوجوان پیدا کریں جن کے اندر دنیا فرق محسوس کرنے لگے.ان کی بات میں وزن آجائے ، ان کی اداؤں میں وقار پیدا ہو جائے.جوان سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرے وہ محسوس کر رہا ہو کہ میں کسی ایسی ہستی سے بات کر رہا ہوں جس کا تعلق بڑے لوگوں سے ہے.شروع میں تو اس کو بڑے لوگ نظر آئیں گے کیونکہ خدا تعالیٰ تو آپ کے پس منظر میں ہوگا کیونکہ جس طرح بڑے آدمی کے ساتھ رہ کر ، شاہوں کی مصاحبت میں پھر کر انسان کے اندر ایک نئی ادا پیدا ہو جاتی ہے اور دیکھنے والا محسوس کرتا ہے کہ اونچی مجالس سے آیا ہے.تو جب خدا سے تعلق پیدا ہو تو کیسے کوئی محسوس نہیں کرے گا کہ بہت اونچی مجالس کا رہنے والا انسان ہے.اس کے آداب، اس کی گفتگو، اس کا سلیقہ اس میں کوئی وزن ہے، کوئی وقار ہے ایک یقین ہے ایک خود اعتمادی ہے اور یہ چیزیں ہیں جنہوں نے دنیا فتح کرنی ہے.پھر علم بھی خدا خود عطا فرماتا ہے اور ایسے ایسے دلائل پھر سکھاتا چلا جاتا ہے کہ ایک عام آدمی سے ویسے توقع نہیں ہو سکتی.چنانچہ میرا یہ بھی تجربہ ہے کہ وہ احمدی جو خالصہ اللہ اللہ کی محبت میں دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ خدا ہماری مدد کرے گا.وہ جب اپنی تبلیغی رپورٹیں بھیجتے ہیں تو بعض دفعہ میں حیرت میں مبتلا ہوں کہ یہ نکتے ان کو کس طرح سمجھ آگئے.کوئی تعلیم نہیں لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ دشمن نے ایک سوال اٹھایا جو بڑی عیاری سے اٹھایا گیا اور اس پر میرا دل چاہتا تھا کہ کاش یہ جواب دیتا اور اگلا فقرہ ہی اس کا وہ ہوتا تھا کہ پھر خدا نے میرے دل میں یہ بات ڈالی پھر میں نے یہ جواب دیا اور مسلسل اس طرح کے مضمون چلتے چلے جاتے ہیں.میں ان لوگوں کو جانتا ہوں ان کی علمی حالت کا مجھے پتہ ہے.ناممکن ہے ان کے لئے وہ باتیں کرنا جب تک ان کو خدانہ بتا رہا ہو.بنیادی بات علم نہیں ہے بنیادی بات اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا پیار ہے.اس لئے آپ اس کی طرف توجہ کریں اور بے دھڑک ہو کر اس میدان میں کود پڑیں.سارا جرمنی آپ کے لئے فتح کرنے کے لئے کھلا پڑا ہے اور یہاں بھی وہ رو چلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے.جو دوست یہاں پرسوں کی مجلس میں تھے انہوں نے دیکھا ہوگا کہ بعض جرمن نو جوان جو بڑے مخلص احمدی ہیں وہ اپنے کچھ ساتھیوں کو لے کر آئے تھے.کچھ اور دوسرے دوست بھی موجود تھے.صاف اللہ کی تقدیر کا ہاتھ
خطبات طاہر جلدم 794 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء نظر آتا ہے کہ تھوڑی دیر کے اندر ہی ان کی کیفیت بدل گئی، ان کی دلچسپی کا انداز بدل گیا اور بڑی حکمت کے ساتھ انہوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ ہم احمدیت کے قائل ہوتے چلے جارہے ہیں.چنا نچہ عبد اللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک نوجوان جو بڑا مضبوط اور توانائی سے بھر پور ہے.اپنے جسم کے لحاظ سے بھی مضبوط اور جوان ہے اور ذہنی افتاد کے لحاظ سے، یعنی اپنی بات پر قائم اور سمجھ کر چلنے والا وہ عارضی طور پر صرف ایک رات کے لئے آیا تھا دوسرے دن بھی ٹھہر گیا اور پھر عبداللہ صاحب سے اس نے کہا کہ میری نوکری کا بھی سوال ہے جو شاید نکل جائے اگر میں واپس نہ جاؤں مگر کوئی پرواہ نہیں اب میرا جانے کو دل نہیں چاہتا اور وہ ٹھہر گیا.تو حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ آنا فانا ان قوموں کے دل بھی بدل رہا ہے.وہاں اخباری نمائندوں سے ملاقات ہوئی ہے تو شروع میں ان کے چہرے اور تھے ، ان کا رویہ اور تھا، اسلام کے خلاف تشدد پایا جاتا تھا اور بعض اعتراض تو بڑی سختی سے کئے لیکن جب خدا تعالیٰ نے مجھے جواب دینے کی توفیق عطا فرمائی تو دیکھتے ہی دیکھتے ان کے چہرے نرم پڑ گئے اور ان کی باتوں کا رخ بدل گیا.وہ ساری ویڈیو ریکارڈڈ چیز ہے اور جرمن میں ہمارے ہیوبش صاحب اس کا ترجمہ کر رہے تھے.ان کو بھی خدا تعالیٰ نے اس وقت ایسی توفیق عطا فرمائی کہ بیماری کی وجہ سے وہ پہلے ترجمے میں کچھ کمزور ہو گئے تھے لیکن اس وقت تو ایسا چلے ہیں جس طرح فرفر ایک دریا بہہ رہا ہو.جب وہ جرمن زبان میں ترجمہ کرتے تھے تو بہت ہی گہرا اثر ان کی گفتگو کا دوسروں کے چہروں پر نظر آرہا ہوتا تھا.یہاں تک کہ عبداللہ صاحب نے مجھے بتایا کہ وہاں کے پریس کا نمائندہ اپنے ساتھی کو کہہ رہا تھا کہ اب یہاں آدمی سوال کیا کرے؟ ہر سوال کا جواب ایسا آجاتا ہے کہ منہ بند ہو جاتا ہے.مغربی پریس سے یہ تبصرہ جو ہے یہ معمولی بات نہیں.بڑے آزاد منش لوگ ہیں خصوصاً اسلام پر حملہ کرنے میں تو بڑی دلیری دکھاتے ہیں.پھر ایشائی ملک کا ایک آدمی جو پاکستان سے آیا ہو اس کے متعلق تو ان کے رویے ہی بالکل بدل جاتے ہیں اور وہی رویہ تھا جو شروع شروع میں نظر آرہا تھا.تو یہ ایک مسلسل اللہ کی تقدیر کا ہاتھ دکھائی دے رہا ہے معمولی سی بصیرت بھی کسی میں ہو تو وہ اس کو دیکھنے سے رہ نہیں سکتا یعنی ہو نہیں سکتا کہ وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر سکے.اس لئے آپ خدا کی اس تقدیر کے ساتھ ساتھ چلیں.اللہ نے جو پھل تیار کئے ہیں ان کو توڑنے کے لئے ہاتھ تو بڑھائیں.
خطبات طاہر جلدم 795 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء اگر آپ نہیں بڑھائیں گے یہ کہ کر ، یہ بہانے ڈھونڈ کر کہ ہمیں زبان نہیں آتی ، ہمیں علم نہیں ہے تو یہ سارے بہانے ہیں.ایک چیز جو آپ کو آتی ہے اور آسکتی ہے وہ اللہ سے تعلق ہے.تعلق پیدا کریں گے تو آپ کے اندر چنگ سے ایک چیز کھل جاتی ہے جیسے غنچہ کھلتا ہے اس طرح آپ کے رکے ہوئے دل میں ایک غنچہ کھل جائے گا آپ اس کی چنگ محسوس کریں گے.پتہ لگ جائے گا کہ میرے ساتھ ایک واقعہ ہو گیا ہے جس نے مجھے بدل دیا ہے.اس واقعہ کے نتیجہ میں پھر جو کچھ ہونا ہے ہوتا ہے.اس لئے ہر احمدی نوجوان جو یہاں آیا ہوا ہے بڑی تکلیفیں اٹھا کر آیا ہے.بعض لوگ اپنی جائیدادیں بیچ کر جو رہی سہی بیچاروں کے پاس تھیں بیچ کر آگئے ہیں.بعضوں کے ماں باپ نے قرضے اٹھالئے ہیں.آئے تو اس لئے ہیں کہ وہاں کی تکلیفوں سے نجات پائیں، ہر روز کی جو اذیتیں تھیں ان سے نجات پائیں اور آزاد ملک میں جا کر باعزت روزی کمائیں اور پھر اپنے والدین کے قرضے اتاریں اور ان کی مصیبت دور کریں یہ نیتیں ہیں لیکن یہاں خدا نے اس سے بھی بڑھ کر خزانہ آپ کے لئے رکھا ہے.حضرت موسی آگ لینے گئے تھے لیکن نورالہی ان کو نصیب ہو گیا.تو یہ بھی جماعت پر ایک موسوی دور ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات میں واضح طور پر ملتا ہے کہ ایک موسوی دور تم پر آنے والا ہے ( تذکرہ صفحہ ۳۶۶).تو آپ اس دور کے نمائندہ ہیں، اس دور کے نشان ہیں.آپ بھی گھروں سے آگ لینے کے لئے نکلے تھے لیکن خدا یہاں نور دینے کے لئے بیٹھا ہوا ہے.یہاں آپ کو نئے نور سے منور کرنے کے لئے بیٹھا ہے.اس لئے کیوں آگ پر راضی ہو جاتے ہیں؟ اس نور کی طرف لپکیں جو آپ کا منتظر بیٹھا ہوا ہے.آپ کے لئے ہر ہجرت کی جگہ کوہ طور بن جائے گی کیونکہ خدا نے اپنے الہامات میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو واضح بشارتیں دی ہیں کہ ایسا دور آنے والا ہے اور مجھے تو صاف دکھائی دے رہا ہے کہ وہ دور آ چکا ہے.یہاں بھی آپ کا مشن اتنا چھوٹا ہو چکا ہے کہ اگر اس علاقے کی ساری جماعت آجائے تو ناممکن ہے کہ اس چھوٹے سے کمرے میں اکٹھے ہو جائیں اور بہت تکلیف نظر آتی ہے.جب گزشتہ دفعہ آیا تھا تو اس دفعہ بھی یہی حالت تھی.اب اس سے بھی زیادہ خراب حالت ہے اور بیچاری مستورات کے لئے تو بالکل ہی جگہ کوئی نہیں.ان کے لئے ٹینٹ بھی جو لگایا ہوا تھا اس میں اس طرح ٹھونسی ہوئی تھیں جرمن خواتین بھی اور دوسری بھی کہ دم گھٹتا تھا.پھر بچوں کے شور سے وہاں ایک
خطبات طاہر جلدم 796 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء قیامت آئی پڑی تھی.تو یہاں بھی اللہ تعالیٰ آپ کے لئے جگہ مہیا فرمائے گا انشاء اللہ قریب ہی.ہم نے جائزہ لیا ہے اور جو جائزے لئے ہیں ان میں کوشش یہی ہوگی کہ بہت ہی اچھی کھلی جگہ ملے اور یہاں بہت شاندار مسجد بنائی جائے جو تاریخی حیثیت رکھتی ہو اور تمام جرمنی کی مسجدوں میں سب سے زیادہ بڑی اور نمایاں ہو.اگر چہ وہ دولتیں ہمارے پاس نہیں ہیں جو دنیا کے ممالک کی دولتیں ہیں جنہوں نے تیل کی دولت سے یا دوسری دولتوں سے مسجدیں بنائی ہیں لیکن خدا کے فضل اتنے ہیں کہ ناممکن ہے کہ اگر آپ خلوص نیت سے دعا کریں کہ اے خدا! ہمیں سب سے بڑی، سب سے شاندار مسجد عطا کر تو وہ مسجد نہ عطا کر دے.اب تو وہ دینے کے بہانے ڈھونڈ رہا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا ہے.اس لئے ان دعاؤں کے ساتھ ہمیں امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ بہت وسیع جگہ بھی مل جائے گی اور بہت ہی اچھی ، خوبصورت، شاندار مسجد بھی نصیب ہو جائے گی لیکن اس کی شان آپ ہیں یہ یاد رکھیں.ظاہری شان تو صرف لوگوں کو کھینچنے کے لئے ہے.اگر آپ تقویٰ لے کر اس مسجد میں نہ گئے ، اگر آپ نے مسجد کو بھرنے کی کوشش نہ کی تو پھر وہ بے شان کی مسجد ہوگی.اس لئے ابھی سے اس کی تیاری شروع کر دیں.جتنی وسیع مسجد ہو یہ عہد کریں کہ ہم نے جلدی سے جلدی اس کو بھرنا ہے اور جب آپ مسجد بھریں گے خدا آپ کو لازماً اور مسجد عطا فرما دے گا.اس طرح یہ دور ہے جو لا متناہی ترقیات کا دور ہو جاتا ہے اور ہم اپنی آنکھوں سے اس دور کو اپنے آگے بھی دیکھ رہے ہیں ، اپنے پیچھے بھی ، اپنے دائیں بھی ، اپنے بائیں بھی.اس دور میں سے اس طرح گزر رہے ہیں جس طرح پہاڑ پر چلتے چلتے کوئی رحمتوں کے بادل میں داخل ہو جاتا ہے، چاروں طرف سے بادل گھیر لیتے ہیں.آج جماعت احمد یہ اللہ کی رحمتوں کے بادل میں گھر چکی ہے.اس کے قطرات کو اپنی زبان پر ، اپنے سر آنکھوں پر لے رہی ہے اس لئے اس دور سے پورا فائدہ اٹھائیں.دشمن کی باتوں سے آپ کو کیا خوف ہو سکتا ہے وہ تو بے چارے نادان ہیں ، جاہل ہیں.وہ کہتے ہیں ہم جماعت احمدیہ کا تعاقب کریں گے، جہاں جائیں گے ہم ان کے پیچھے پیچھے پاکستان کا مولوی کہتا ہے ہم ان کا تعاقب کریں گے.ان کی حیثیت کیا ہے آپ کا تعاقب کرنے کی؟ آپ خدا کی جماعت ہیں، آپ کی پرواز میں خدا کی عطا کے نتیجہ میں ملتی ہیں.آپ کی دوڑیں تو اللہ کی قدرت سے نصیب ہونے والی دوڑیں ہیں.آپ کو پکڑ کون سکتا ہے؟ آپ کا تعاقب کر کون سکتا ہے؟ اسی قسم کی باتیں جب حضرت مصلح موعود کے
خطبات طاہر جلدم 797 دور میں احرار نے کی تھیں تو آپ نے ان کو ایک جواب دیا تھا.آپ نے فرمایا: مجھے پکڑنے پہ قدرت کہاں تجھے صیاد که باغ حسن محمد کی عندلیب ہوں میں خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء ( کلام محمود صفحه : ۱۰۷) پس آج ساری جماعت کی طرف سے میں دشمنوں کو یہی جواب دیتا ہوں کہ ہمیں پکڑنے کی قدرت کہاں تجھے صیاد که باغ حسن محمد کی عندلیب ہیں ہم اور حسن محمد کی تو ہر منزل ایک نئی منزل کی طرف کھینچ کر لے کر جاتی ہے ایک نئی منزل کا پتہ دیتی ہے.اس لئے آپ کے مقدر میں آگے سے آگے بڑھنا ہے، مڑ کر دیکھنا نہیں ہے کہ ہم کیا چھوڑ آئے ہیں.اللہ کی رحمت پر بھروسہ کرتے ہوئے ، اس پر تو کل کرتے ہوئے ، اس سے دعائیں مانگتے ہوئے حسن محمد کی نئی منازل کی طرف بڑھتے چلے جائیں اور خائب و خاسر دشمن پیچھے بیٹھا رہ جائے گا.اس کو توفیق نہیں ہے کہ نیک باتوں میں آپ کا کوئی تعاقب کر سکے.بدیوں میں وہ جو چاہے کرتا پھرے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں ہے.وہ اس کا مقام ہے ، وہ اس کو زیب دیتا ہے لیکن نیکیوں میں کوئی ہم سے آگے بڑھ سکے اس کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اس لئے اللہ پر بھروسہ کرتے ہوئے یہ عہد لے کر اٹھیں کہ ہم ہر نئے مرکز کو جو خدا ہمیں عطا فرما تا چلا جائے گا اس کے فضل اور اس کی رحمت اور اس کی دی ہوئی توفیق کے نتیجہ میں جلد سے جلد اللہ سے محبت کرنے والے، پیار کرنے والے، اللہ کے رسول سے محبت کرنے والے اور پیار کرنے والے خدا کے بندوں سے بھرتے چلے جائیں اور یہی ہمارے تحفے ہیں خدا کے حضور اور یہی ہمارے شکرانے کا اظہار ہے اور جب آپ بھرتے چلے جائیں گے تو خدا آپ کو نئے وسیع تر مراکز عطا فرما تا چلا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی جمعہ کے بعد انشاء اللہ عصر کی نماز بھی ساتھ ہی ہوگی.ابھی ہم نے سفر پر جانا ہے.عصر کی نماز کے معاً بعد دو نماز جنازہ غائب ہوں گے.ایک حاجی عبدالسمیع صاحب ربوہ میں وفات پاچکے ہیں.کچھ عرصہ کے بعد مجھے پتہ چلا ان کے بیٹے عبدا لصبور ناصر جو آج کل ہمبرگ میں
خطبات طاہر جلد۴ 798 خطبه جمعه ۲۰ / ستمبر ۱۹۸۵ء ہیں انہوں نے درخواست کی ہے اور دوسرے مبشر احمد صاحب مغربی جرمنی میں ہیں انہوں نے لکھا ہے کہ میرے دادا جان مکرم منشی احمد خاں صاحب پریذیڈنٹ جماعت احمد یہ گولیکی وفات پاگئے ہیں ان کے لئے بھی درخواست ہے کہ نماز جنازہ غائب پڑھی جائے اس لئے اس کے بعد انشاء اللہ نماز جنازہ غائب ہوگی.چونکہ فوراً بعد ہم نے سفر پر جانا ہے اس لئے بعد میں مصافحے کا وقت نہیں مل سکے گا.لیکن آپ سب کی نہایت ہی محبت بھری پر خلوص مہمان نوازی اور جذبات کا میں شکر یہ ادا کرتا ہوں.بہت دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا ہوں آپ کی قدر کرتا ہوں.آپ کے لئے دعائیں کرتا ہوں اور ہمیشہ کرتا رہوں گا.جتنی آپ کو اپنے خلیفہ سے محبت ہے مجھے آپ سے اس سے کم نہیں ہے.میں آپ کو یہ یقین کے ساتھ بتا سکتا ہوں.میں آپ کے چہروں پر نظر ڈال کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ خدا نے مجھے ایسی محبت کرنے والی ایسی پیار کرنے والی، ایسی مخلص جماعت عطا فرمائی ہے.خدا کرے میری ساری دعائیں آپ کو لگ جائیں ، آپ کی نسلوں کو میری دعائیں لگیں.آپ ہمیشہ ہمیش ان دعاؤں کے پھل کھاتے رہیں.اس لئے جہاں بھی رہیں خوش رہیں اور اللہ کے نور سے فیضیاب رہیں.اور تمام دنیا میں اللہ کے نور کو پھیلاتے رہیں یہ میرا محبت بھرا پیغام ہے اس لئے جمعہ کے بعد صرف السلام علیکم کہ سکوں گا خواہش کے باوجود مصافحہ کا وقت نہیں ہوگا.
خطبات طاہر جلدم 799 خطبه جمعه ۲۷ / ستمبر ۱۹۸۵ء دورہ جرمنی میں نصرت الہی کا تذکرہ اور دعوت الی اللہ کرنے کی نصیحت ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ ستمبر ۱۹۸۵ء بمقام زیورک سوئٹزر لینڈ ) تشہد ، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گذشته خطبہ جمعہ جو میں نے ہمبرگ میں دیا تھا اس میں یہ ذکر کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کا رعب وسعت پذیر ہے اور ہم ایک ایسے دور میں سے گذررہے ہیں جس میں بطور خاص اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو بڑی شان سے پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ( الرحمن: ۴۱) کہ اے اللہ کی زمین میں بسنے والو! میری زمین ہمیشہ وسعت پذیر رہی ہے.ہمیشہ وسعت پذیر رہے گی اور کوئی نہیں جو اس زمین کو تنگ کر سکے.یہ مفہوم ہے اس آیت کا جسے ہم ایک عجیب شان کے ساتھ اس دور میں بطور خاص پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.اس خطبہ سے قبل جو دورہ یورپ کے تاثرات تھے ان کا مختصر ذکر میں نے اس خطبہ میں کیا تھا.آج کے خطبہ میں اس کے بعد کے سفر کے چند حالات بیان کرتا ہوں تا کہ احباب جماعت کے دل حمد و شکر سے لبریز ہوں اور ان کا شکر پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے احسانات کو کھینچنے کا موجب بنے.ہمبرگ کے بعد دوسرا پڑاؤ فرینکفرٹ میں اس مقام پر تھا جو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک نئی جگہ فرینکفرٹ مسجد کے قریب ہی ہمیں عطا ہوئی ہے اس جگہ کا نام ناصر باغ رکھا گیا
خطبات طاہر جلدم 800 خطبه جمعه ۲۷ ستمبر ۱۹۸۵ء ہے.اس کا رقبہ ساڑھے چھ ایکڑ ہے اور بہت ہی خوبصورت علاقے میں واقع ہے.اردگرد چونکہ جنگلات ہیں اور سیر گاہیں ہیں اور پرندے پالنے کی خوبصورت جگہیں ہیں اس لئے اس جگہ یہ خطرہ کوئی نہیں کہ ہمسایوں کو کوئی اعتراض ہو کہ لوگ کثرت سے آتے ہیں اور ان کے آرام میں مخل ہوتے ہیں.پورے جوش کے ساتھ پورے زور کے ساتھ نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوتے رہے اور قطعاً اس بات کا کوئی احتمال نہیں تھا کہ ہمسایوں کو اس پر کسی قسم کا اعتراض ہو.وہاں ایک بنی بنائی عمارت بھی ساتھ ہی مل گئی.جس کو خدام نے بڑی محنت کے ساتھ اور بڑے ولولے کے ساتھ بہت اچھی حالت میں ایسی شکل میں بنادیا کہ ایک حصہ اس کا خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک وسیع مسجد کے طور پر استعمال ہونے لگا ہے اور یہ مسجد کا رقبہ جونئی جگہ ملی ہے یہ فرینکفرٹ کی پہلی مسجد کے مقابل پر بہت زیادہ ہے.اسی طرح مستورات کے لئے بھی وہاں جگہ موجود ہے.پہلے سے ہی غسل خانوں وغیرہ کا انتظام تھا اور اسے اور بھی بہتر کر دیا گیا ہے.ایک مبلغ کی رہائش کی جگہ بھی بنی بنائی مل گئی تھی مگر اس وقت اس کی حالت خراب تھی خدام نے بڑی محنت کی ہے اور بہت کم خرچ پر اسے نہایت اعلیٰ حالت میں تبدیل کر دیا ہے.اسی طرح گیٹ اور بیرونی جالی وغیرہ کے اوپر خدام نے بڑی محنت کی ہے اور حیرت انگیز طور پر جماعت کے پیسے بچائے ہیں.مثلاً وہ گیٹ جس کے لئے با قاعدہ بنانے والے چھ ہزار مارک طلب کر رہے تھے ہمارے احمدی نوجوانوں نے بارہ سو میں سامان خرید کر مکمل کر دیا ہے اور بہت خوبصورت گیٹ بنایا ہے.اسی طرح بیرونی دیوار کے لئے جالی تلاش کر کے حاصل کر لی اور اللہ تعالیٰ کا فضل ایسا ہوا کہ وہ جالی پھینکنے کے لئے لے جائی جارہی تھی حالانکہ نہایت ہی عمدہ حالت میں تھی اور چونکہ گورنمنٹ کے ، حکومت کے بعض دفاعی محکموں کے معیار اتنے بلند ہیں کہ بیرونی دیوار کی جالی کی معمولی سی بھی حالت خراب ہو تو اسے پھینکوا دیتے ہیں ایک احمدی دوست کو پتہ چلا تو انہوں نے کہا ہمیں چاہئے ، اس کی ضرورت ہے.تو انہوں نے کہا کہ اگر ضرورت ہے تو ہم نے پھینکنی ہی ہے ہم آپ کے گھر آپ کے ساتھ چھوڑ آئیں گے.چنانچہ ان کے ٹرک جالیاں لاد کے تین ٹرک بھر کے وہاں پہنچ گئے اور بجائے پھینکنے وہ نہایت ہی عمدہ استعمال میں آگئی.بازار سے کافی خرچ کرنے کے بعد قیمتاً جونئی جالی ملتی ہے اس سے وہ بہت بہتر حالت میں ہے اور بہت مضبوط اور موٹی بنی ہوئی ہے.بہر حال اس جگہ پر وہاں کی جماعت نے خدام نے بھی اور انصار نے بھی اور لجنات
خطبات طاہر جلدم 801 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء نے بھی بہت محنت کی ہے.پہلی دفعہ جب میں نے دیکھی تھی تو اس کے مقابل پر اس کی بالکل کا یا پلٹ دی ہے.ہر جگہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو جگہیں حاصل کرتی ہے اپنی خدمت کی رو سے، ایثار کے جذبے کے ساتھ اس کے اندر نئے رنگ بھر دیتی ہے، نئی شکلیں بنادیتی ہے اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک معجزہ ہے، اس دور میں جماعت احمد یہ دنیا سے الگ تھلگ اپنے اوقات کے مصرف خدمت دین کے لئے وقف کر رہی ہے اور انگلستان میں بھی یہی ہوا تھا.جب اسلام آباد خریدا گیا ہے اس کی حالت اس وقت کچھ اور تھی جب ہم نے اس کو آباد کیا تو پہچانا نہیں جاتا تھا.اردگرد کے لوگ حیرت سے دیکھنے آیا کرتے تھے کہ یہ وہی جگہ ہے جو کچھ عرصہ چند مہینے پہلے تم لوگوں نے لی تھی.تو بہر حال خدا کا بہت بڑا احسان ہوا بہت اچھی جگہ مل گئی اور وہاں افتتاح بھی بہت ہی عمدہ ہوا.کثرت سے مہمان معززین تشریف لائے ہوئے تھے اور ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نمائندے بھی آئے ہوئے تھے.اسی شام کو ریڈیو پر بھی خبریں آئیں ، ٹیلی ویژن پر بھی دکھایا گیا اور اخبارات کے نمائندگان نے بھی بہت اچھی رپورٹنگ کی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہمسائے بہت اچھے ملے ہیں.میئر کہیں باہر گئے ہوئے تھے اس لئے ان کے نمائندے تشریف لائے تھے انہوں نے بہت عمدہ خیالات کا اظہار کیا اور جو دوست مہمان تشریف لائے تھے انہوں نے اتنی دلچپسی شروع کر دی کہ بعض ان میں سے اصرار کے ساتھ ٹھہر گئے کہ ہم شام کی مجلس سوال وجواب میں بھی حصہ لیں گے.هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ میں صرف ظاہری زمینوں کی فراخی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اول طور پر روحانی زمینوں کی فراخی کا ذکر ہے.دین کو پھیلنے سے روکا جاتا ہے اس لئے بتایا گیا ہے اور تسلی دی گئی ہے کہ جو اللہ کا دین ہواس کو پھیلنے سے کوئی روک نہیں سکتا.ہر روز اسے نئی وسعتیں عطا ہوتی چلی جاتی ہیں.جتنے مراکز بھی خدا تعالیٰ نے نئے عطا کئے ہیں ان میں بھی اصل میں یہی حکمت ہے.یہ وعدہ ہے کہ ہم تمہاری روحانی زمین کو پھیلانے والے ہیں اس لئے نئی زمینیں عطا کر رہے ہیں ورنہ ظاہری طور پر مادی طور پر دنیا کی چند زمینیں یا چند مکانات حاصل ہونے سے ہمیں کیا خوشی ہو سکتی ہے.اصل اس کے پیچھے یہ روح کارفرما ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہاماً
خطبات طاہر جلدم 802 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء اللہ تعالیٰ نے وَوَسِعُ مَكَانَک ( تذکره صفحه (۴۱) فرما کر یہ بتایا کہ ہم تیرے ماننے والوں میں تیرے اراد تمدنوں میں تیری پیروی کرنے والوں میں بہت بڑی وسعت دینے والے ہیں اس کے لئے تیاری کر اور اپنے مکانات کو وسعت دے.یہ وجہ ہے کہ میں جن خدا تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر کر رہا ہوں اور ان نئی وسعتوں کے ساتھ جوز مینی وسعتیں، روحانی دینی وسعتیں ساتھ ساتھ ملنی شروع ہو گئی ہیں اور ان کے آثار بڑے نمایاں دکھائے دینے لگے ہیں.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس افتتاحی پروگرام میں جو مہمان تشریف لائے ہوئے تھے ان میں عرب بھی تھے ، ان میں یورپین بھی تھے، امریکن بھی اور جرمن بھی ہر قسم کے لوگ تھے اور متعد دمہمان ان میں سے ٹھہر گئے اور اصرار کیا، خود خواہش کی، مجھے بھی مل کے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ سوالات کریں.چنانچہ میں نے ان سے کہا اگر آپ چاہتے ہیں تو بے شک شام تک ٹھہریں.چنانچہ بڑے خلوص کے ساتھ انہوں نے حصہ لیا اور اگر بعد میں ہمارا ایک اور پروگرام نہ ہوتا تو وہ مجلس ختم ہونے میں نہیں آ رہی تھی.دوستوں کی بہت خواہش تھی کہ ہم اپنے سوالات کریں مگر چونکہ ایک اور جگہ بھی پروگرام تھا اس لئے بہر حال غالباً ڈیڑھ دو گھنٹے کے بعد اس مجلس کو ختم کرنا پڑا.شاید زیادہ وقت تھا دو گھنٹے کے لگ بھگ تھا.وہاں یہ بات بھی دیکھنے میں آئی کہ اسلام میں جو غیر معمولی دلچسپی ہے وہ بھی بڑھتی چلی جارہی ہے اور اتنی جلدی تائید میں سر ہلنے لگ جاتے ہیں کہ اس سے پہلے مجھے تصور بھی نہیں تھا کہ ایک مجلس میں اتنی جلدی بعض لوگ اپنے خیالات تبدیل کر سکتے ہیں اور جماعت احمدیہ کا جہاں تک تعلق ہے صرف غیر مسلموں میں ہی نہیں ان مسلمانوں میں بھی بہت تیزی سے دلچسپی بڑھ رہی ہے جو اس سے پہلے ہم سے متنفر تھے اور جو پہلے سوال انہوں نے کئے ان سوالات سے ان کے چہروں کے اثرات سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ خشونت اور نفرت پائی جاتی ہے اور کچھ غصہ پایا جاتا ہے لیکن جب میں نے ان کے سوالات کے جوابات دیئے تو چہروں کے تأثر بدلنے شروع ہو گئے اور کچھ عرصے کے بعد بہت انہماک پیدا ہو گیا.آخر پر ان سے جب معذرت کر کے اس لئے کہ بعض جرمن دوست بھی تھے ان سے بھی وعدہ کیا ہوا تھا کہ آپ کے سوالات کے جواب دوں گا.تو جب میں نے دوسری طرف توجہ کی پھر بھی وہ آخر وقت تک بیٹھے رہے اور صرف یہی نہیں بلکہ دوسرے دن صبح جب ہم باہر جا رہے تھے تو وہ پھر پہنچے ہوئے تھے.میں نے ان کو دیکھ کر
خطبات طاہر جلدم 803 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء معذرت کی کہ میں تو باہر جارہا ہوں تو انہوں نے کہا کہ ہم ٹھہرتے ہیں.چنانچہ ظہر کی نماز میں شامل ہوئے ، ظہر کی نماز کے بعد پھر بیٹھ گئے اور پھر سوالات کئے اور آخر پر ان کا تاثر یہ تھا کہ ان کے جو لیڈر تھے انہوں نے مجھے یہ کہا کہ آپ ہمارے لئے یہ دعا کریں کہ ہم آپ کی جماعت میں جلد شامل ہو جائیں.اب یہ چوبیس گھنٹے کے اندر اندر یہ واقعہ رونما ہوا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی زمین پھیلنے کے لئے تیار بیٹھی ہے اور خدا تعالیٰ کے فرشتے اس زمین کو پھیلا رہے ہیں.تیار بیٹھی کا محاورہ میں نے اس لئے استعمال کیا کہ کچھ اس میں آپ کی کوشش کا بھی دخل ہوگا.کچھ نہ کچھ آپ کو لازماً کرنا پڑے گا ، ہاتھ تو پھیلانے پڑیں گے تاکہ جو وسعتیں ہیں اس میں کچھ آپ کا بھی حصہ ہو جائے.اس کے بغیر زمین از خود نہیں پھیلا کرتی ، کچھ معمولی جد و جہد ، کچھ کوشش، کچھ تمنا کا دخل ہوا کرتا ہے جو بندوں کے اختیار میں ہوتی ہے اس لئے جماعت احمدیہ کو بطور خاص آج کل غیر معمولی تبلیغ کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اس وقت اگر ستی ہوگئی تو ایسے وقت بار بار قوموں کو نصیب نہیں ہوا کرتے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ہر طرف خدا کے فضل سے تیزی کے ساتھ جماعت احمدیہ کے اندر دلچسپی پیدا ہو رہی ہے اور رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے.کوئی جگہ ایسی نہیں ہے جہاں میں گیا ہوں اور وہاں بیعتیں نہ ہوئی ہوں.مختلف ممالک کے لوگ ہیں جو تھوڑی دیر کے اندر جماعت احمدیہ سے رابطہ پیدا کرتے ہی بیعتوں پر تیار ہو جاتے ہیں اور پھر خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑے بڑے مخلص پیدا ہوتے ہیں.فرینکفرٹ میں جو غیروں کے ساتھ ملاقاتوں کا پروگرام تھاوہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھار ہا اور پریس کانفرنس بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کامیاب رہی.مقامی معززین تشریف لائے ہوئے تھے ان کے ساتھ شام کے وقت جو مجلس لگی سارے فرینکفرٹ کے چوٹی کے معززین اس میں شامل تھے.سارے تو نہیں کہہ سکتے لیکن ان کے نمائندے تھے وہ مجلس بھی ختم ہونے میں نہیں آتی تھی.ان ممالک کے لئے یہ بات بڑی تعجب کی بات ہے کہ چھ بجے یا ساڑھے چھ بجے بلایا جائے اور اس کے بعد ساڑھے دس بجے تک مجلس چلتی رہے اور وہاں یہی کیفیت تھی بالآخر اس خیال سے کہ کہیں کچھ لوگوں کو جلدی نہ ہو یا وہ ادب واحترم کی وجہ سے نہ اٹھ رہے ہوں میں نے خود کہا کہ اگر اب پسند کریں تو بند کر دیتے ہیں.اس کے بعد پھر ایک صاحب ہیں انہوں نے یہ کہا کہ آخری سوال ضرور کرنے دیں.چنانچہ انہوں نے پھر بھی سوال کیا اور اس وقت
خطبات طاہر جلدم 804 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء جولوگ موجود تھے ان سب کا یہ تاثر تھا کہ ان کو صرف کوئی علمی دلچسپی نہیں تھی کچھ عرصہ کے بعد اسلام کے ساتھ گہری وابستگی نظر آنے لگ گئی تھی.بڑی گہری دلچسپی قلبی تعلق کی صورت میں ظاہر ہورہی تھی.یہ وہ باتیں ہیں جو مجھے مجبور کر رہی ہیں کہ بار بار جماعت کو توجہ دلاؤں کہ تبلیغ کا حق ادا کریں اور دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تھوڑی سی کوشش کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں بہت سے پھل عطا فرمائے گا.جرمنی میں ہی جن دوستوں کو خدا تعالیٰ نے بڑی بیعتیں کروانے کی توفیق عطا فرمائی ہے.ان میں سے بعض ایسے ہیں جن کو بالکل عربی نہیں آتی لیکن عربوں کی بیعتیں کروائی ہیں.ترکی نہیں آتی لیکن ترکوں کی بیعتیں کروائی ہیں.جس طرح بھی ان کی پیش جاتی ہے وہ اشاروں سے کچھ ٹوٹی پھوٹی جرمن زبان میں ، کچھ اور ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے ایک دفعہ اس جذبے کے ساتھ ان تک پیغام پہنچاتے ہیں کہ پھر وہ لٹریچر لینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں.کیسٹس تیار ہیں ان کو لینے دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور باقی پھر خدا تعالیٰ کے فرشتے خودان لوگوں کو سنبھال لیتے ہیں.اس وقت جماعت بڑی تیزی کے ساتھ ہر زبان میں لٹریچر تیار کر رہی ہے.انشاءاللہ تعالیٰ چند ماہ کے اندر اندر اور بھی بہت سالٹر پچر آپ کو ملے گا.ٹیسٹس ہراہم زبان میں تیار ہورہی ہیں کچھ ہو چکی ہیں، مختلف زبانوں میں ویڈیو ریکارڈنگ تیار ہو رہی ہیں اور ہو چکی ہیں اور اگر کوئی احمدی کسی بھی ملک کے باشندے کو تبلیغ کرنا چاہے اب اس کے لئے یہ بہانہ نہیں ہے کہ مثلاً مجھے جاپانی نہیں آتی ، مجھے کو رین نہیں آتی ، مجھے اٹالین نہیں آتی ، مجھے یونانی نہیں آتی ان سب زبانوں میں اور اس کے علاوہ بہت سی اور زبانوں میں جہاں پہلے لٹریچر موجود نہیں تھا وہاں کچھ لٹریچر تیار ہو چکا ہے.کچھ ہو رہا ہے، انشاء اللہ اور بھی ہوگا.روسی زبان میں قرآن کریم اب آخری مکمل صورت میں پریس میں جا رہا ہے اور جو ساتھ چھوٹا سا منسلکہ تعارفی لٹریچر ہے وہ بھی تیار ہورہا ہے اس لئے میں جماعت کو بار بار توجہ دلاتا ہوں کہ اب آپ کا یہ عذر خدا کے حضور قابل قبول نہیں رہے گا کہ ہمیں زبانیں نہیں آتی تھیں، ہمیں علم نہیں تھا.نہ زیادہ زبانوں کی ضرورت ہے، نہ زیادہ علم کی ضرورت ہے.ضرورت ہے تقویٰ کی ، دعا کی لگن کی ، ایک جذبہ ہو اور انسان اپنا مقصد بنالے.دھن کی طرح اس کے سر پر یہ سوار ہو جائے کہ جس طرح بھی ہو میں نے روحانی طور پر اللہ تعالیٰ سے اولا د لے کر چھوڑنی ہے.چنانچہ جرمنی کے دورے میں میں نے دیکھا ہے کہ جن لوگوں نے مجھے خاص طور پر دعا کے
خطبات طاہر جلدم 805 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء لئے لکھا تھا.بعض لوگ اتنا پریشان تھے کہ وہ کہتے تھے کہ ہمیں تو ایک مرض لگ گیا ہے کہ ہم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم بیعت کروائیں گے اور کوئی بیعت نہیں ہوسکی.وہ دعا کے لئے لکھ رہے تھے جس طرح بعض دفعہ ماؤں کی گود میں جو اولاد سے مایوس ہو چکی ہیں، بچہ دیکھ کر روحانی طور پر بڑی مسرت ہوتی ہیں اس طرح ان کی گودوں کو خدا نے بھر دیا اور ان کو روحانی بچے عطا فرمائے گئے.ایک نوجوان نے مجھے لکھا کہ میں نے آپ کو خط لکھا تھا کہ میرے وعدے کے پورا ہونے کا آخری دن آ رہا ہے اور اب تک کوئی احمدی نہیں ہوا.ایسا میں بے قرار تھا میں نے بڑے درد سے چٹھی لکھی کہ میرے پاس چند گھنٹے باقی ہیں میں کیا کروں اور کوئی پیش نہیں جارہی.کہتے ہیں خط کے دو تین گھنٹے بعد میرا ایک غیر احمدی بھائی جو کسی طرح مانا ہی نہیں کرتا تھا پہنچ گیا اور اس کے ساتھ مجلس لگی اور اسی رات دوسرا دن چڑھنے سے پہلے پہلے اس نے بیعت کر لی.اللہ کے فرشتے اس کو گھیر کے لائے تھے اللہ کے فرشتوں نے دلوں میں تبدیلی پیدا کی.جماعت کو تو خدا تعالیٰ صرف ایک بہانہ عطا فرما دیتا ہے کہ گویا ہم نے بھی ہاتھ لگایا ہے اپنی خدمت کی کچھ سعادت نصیب ہو جائے ورنہ یہ خدا کے فرشتے ہیں انہوں نے بہر حال کام کرنا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ جب وقت آتا ہے تو خدا کے فرشتے خود روحوں کو سعادتوں کی طرف ہانکتے ہوئے لے آتے ہیں اس لئے آپ کو پہلے سے بڑھ کر توجہ کرنی چاہئے اور دعا کے ساتھ توجہ کرنی چاہئے.ہر احمدی اپنے آپ کو ایک ایسی ماں کی طرح محسوس کرے جس کی گود اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے خالی ہے اور بے قرار ہو جائے کہ کاش مجھے بھی روحانی اولا د عطا ہو پھر دیکھیں کہ کس تیزی کے ساتھ خدا تعالیٰ ہر طرف وسعتیں عطا فرمائے گا.جہاں تک ہیمبرگ کی زمین کا تعلق ہے.جیسا کہ میں نے وہاں بھی ذکر کیا تھا ہم نے وہاں جگہیں دیکھی ہیں اور ایک جگہ خصوصیت کے ساتھ بہت ہی اچھی ہے جو بہت پسند آئی ہے.ان کے ساتھ گفت وشنید چل رہی ہے دعا کرنی چاہئے اور میں دعا کی تحریک کرتا ہوں کہ اگر وہ اللہ کے نزدیک جماعت احمدیہ اور اسلام کے حق میں بہتر جگہ ہے اور سعید روحوں کو کھینچنے کے لئے ، جذب کرنے کے لئے اس نے کوئی اہم کردار ادا کرنا ہے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ وہ جگہ ہمیں عطا فرمائے بلکہ پھر وہاں نہایت ہی خوبصورت شاندار مسجد بنانے کی بھی توفیق بخشے اور اپنے فضل سے ساری ضرورتیں پوری فرمائے.بہر حال فرینکفرٹ کے سارے واقعات تبلیغی قصے بیان کرنے تو مشکل ہیں.
خطبات طاہر جلدم 806 خطبه جمعه ۲۷ ستمبر ۱۹۸۵ء اب میں جنوبی حصہ کی بات کرتا ہوں کہ فرینکفرٹ سے پھر ہم میونخ پہنچے.میونخ کا علاقہ ایسا ہے جہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہم نے مبلغ بھیجا ہے.ارد گرد کچھ جماعتیں ہیں لیکن کوئی مرکز نہیں اور مبلغ بھی کرائے کے مکان میں رہتا ہے اور شہر بہت بڑا ہے اور میونخ گوار یا کا سب سے اہم مرکز ہے.یہاں کے لوگ بھی اپنے مزاج کی خاص رعونت کے لحاظ سے مشہور ہیں اور عام لوگوں اور عام باتوں کو خاطر میں لانے والے لوگ نہیں ہیں.تو باقی جرمن قوم کے مقابل ہمیشہ سے تاریخی طور یہی رویہ رہا ہے.ان مشکل حالات میں وہاں کسی خاص غیر معمولی کامیابی کی توقع تو نہیں تھی مگر بہر حال چونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کام ہیں، اسی نے کرنے ہیں اس لئے جو وہاں پروگرام رکھا گیا غیروں کو بھی بلایا گیا ملاقات کے لئے مگر بہت زیادہ نہیں آئے.جہاں تک سوال و جواب کی مجلس کا تعلق ہے میرا خیال ہے پندرہ میں مہمان تھے جو آئے تھے.باقی احمدی ہی اردگرد سے اکٹھے ہو گئے.جہاں تک پریس کانفرنس کا تعلق ہے اس میں بھی وہی رویہ تھا یعنی عدم تعلق تھا لا علمی کی وجہ سے.فرینکفرٹ، ہیمبرگ وغیرہ میں تو خدا کے فضل سے جماعت کا ایک تاریخی کردار ہے جس سے لوگ واقف ہو چکے ہیں لیکن اس جنوبی حصے میں ابھی تک کوئی واقفیت نہیں.چنانچہ سب سے زیادہ معاندانہ رویہ پریس کانفرنس میں میونخ میں اختیار کیا گیا.تعداد کی کمی کے لحاظ سے بھی اور جو آئے ان کا رویہ بھی شروع میں معاندانہ تھا بلکہ تحقیر آمیز تھا.پوچھا کہ آپ لوگ کیوں آگئے ہیں؟ کیا کرنا ہے آپ نے؟ کوئی آپ کی بات نہیں مانے گا لغو بات ہے آپ ہمارے ملک میں آکے عیسائیوں کو کچھ سنائیں گے ، یہ تو بے تعلق بات ہے.اس لئے یہاں ہمیں اب ضرورت کوئی نہیں، یہ رویہ پریس کا تھا.چنانچہ میں نے بھی ان کو جگانے کے لئے پھر اسی زبان میں ان سے گفتگو کی.میں نے کہا آپ ساری دنیا میں چرچ پھیلا رہے ہیں اور ساری دنیا میں آپ تبلیغ کر رہے ہیں آپ کا یہ کیا حق ہے کہ ہمیں یہاں آنے سے روکیں؟ ہم ضرور آئیں گے آپ ہوتے کون ہیں ہمیں روکنے والے؟ یا تو اپنے چرچ بند کریں ساری دنیا سے اور Pack کر کے اکٹھے ہو جائیں یا پھر ہم پر آپ کو اعتراض کا کیا حق ہے؟ اور جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ جرمن قوم یا اس علاقے کے لوگ مسلمان نہیں ہوں گے.میں نے کہا کہ آپ کا تو بالکل غلط خیال ہے.کل رات پہلی دفعہ چند گھنٹوں کی مجلس سوال جواب ہوئی تھی اور وہیں آپ کے علاقے کی جرمن خاتون نے بیعت کی ہے
خطبات طاہر جلدم 807 خطبه جمعه ۲۷ ستمبر ۱۹۸۵ء اور ایک عرب نے بیعت کی ہے، ایک پاکستانی نے یہاں بیعت کی ہے.تو خدا ہمیں پھل دے چکا ہے اور آپ کہتے ہیں کہ تمہیں پھل نہیں ملے گا.بہر حال جس طرح کی شدت اس کی تھی اسی طرح کی میں نے بھی شدت اختیار کی اور تھوڑی دیر کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے صاحب نرم پڑ گئے اور پھر دلچسپی بھی پیدا ہوگئی اور پوچھنے لگے کہ اچھا آپ کا اسلام ہے کیا؟ ہمیں بتا ئیں تو سہی؟ جب میں نے ان کو بتایا کیا فرق ہے آپ میں اور مسلمانوں میں.میں نے بتایا کہ ہمارا فرق مسلمانوں سے ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے دوسرے فرقے اور عیسائی ایک طرف اور ہمارا عقیدہ الگ ایک طرف ہے.آپ دونوں حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کو زنده آسمان پر مان رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں کہ وہ خود آئیں گے اور ہم کہتے ہیں کہ کبھی بھی خدا کا کوئی بنده آسمان پر زندہ نہیں چڑھانہ کبھی آسمان سے اترا ہے.یہ روحانی محاورے ہوتے ہیں جن کو وہ نہیں سمجھ سکتے.بہر حال اس قسم کی بڑی تفصیل سے جب میں نے یہ باتیں سمجھا ئیں تو کچھ دیر کے بعد کہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ سو فیصدی متفق ہوں.جو آپ کہہ رہے ہیں وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں میں نے کہا ابھی تو تم کہتے تھے کہ یہاں آپ کی بات کوئی نہیں مانے گا اور اس خدا نے تمہیں بھی بات ماننے والا بنا دیا ہے اور تمہارے منہ سے کہلوا دیا ہے کہ میں اب آپ کے ساتھ ہوں.ہنس پڑا اور کہتا ہے کہ بات یہ ہے کہ میں کیتھولک چرچ کا نمائندہ ہوں.کیتھولک چرچ کا اخبار ہے اس کا نمائندہ ہوں اس لئے میں مجبور ہوں.آپ کی باتوں سے میں اتفاق کرتا ہوں لیکن میرا اخبار چھاپے گا نہیں اس لئے میں معذرت خواہ ہوں.میں نے کہا مجھے تو صرف اللہ تعالیٰ کے فضل کا یہی نظارہ چاہئے تھا کہ جہاں تم کہہ رہے تھے تکبر سے کہ تم کیا کرنے آئے یہاں تمہاری بات کوئی نہیں مانے گا تمہیں خدا نے منوا کر بتادیا کہ اس طرح خدا بات منوایا کرتا ہے.اور صرف یہی نہیں اسی پر یس کا نفرنس کا ایک اور پھل اللہ تعالیٰ نے اس طرح عطا فر ما دیا کہ کچھ عرب شیوخ آئے ہوئے تھے جہاں سے گزر کے پریس کانفرنس کے لئے ہم آئے وہاں وہ ایک طرف بیٹھے ہوئے تھے.واپسی پر میں نے ان کو السلام علیکم کہا اور گزر گیا.دوبارہ جب ہم ظہر کی نماز کے لئے آئے ہیں تو وہی عرب دوست وہاں بیٹھے ہوئے تھے.انہوں نے مجھے پیغام بھجوایا کہ ہم آپ سے ملنا چاہتے ہیں.خیر وہاں ان سے ملاقات ہوئی.سرسری ملاقات کا خیال تھا لیکن اچھا خاصا
خطبات طاہر جلد۴ 808 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ ان کے ساتھ پھر خوب گفتگو ہوئی اور انہوں نے بتایا کہ ہمارے اندر پاکستانی ملاؤں نے اور بعض دوسرے لوگوں نے آپ کے خلاف اتناز ہر بھرا ہوا ہے کہ آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ کس قسم کا لٹریچر ہم تک یہ پہنچاتے ہیں اور یک طرفہ باتیں سن سن کے ہم تو آپ سے شدید متنفر ہیں اوراب جو دیکھا ہے ہمیں کچھ اور بات نظر آئی اب ہمیں دلچسپی پیدا ہوئی کہ ہم پوچھیں تو سہی یہ کون ہیں؟ کیا بات ہے؟ چنانچہ اسی مجلس میں وفات مسیح کے متعلق سارے کے سارے قائل ہو گئے ایک نے بھی انکار نہیں کیا اور خاتم النبیین کے متعلق جماعت احمدیہ کی تشریح پر جب گفتگو ہوئی تو ایک دوست تھے جنہوں نے کہا کہ ابھی میں تحقیق مزید کرنی چاہتا ہوں اور چار دوسرے دوست تھے جنہوں نے تائید میں سر ہلانا شروع کر دیا کہ ہاں یہ مسئلہ ہمیں سمجھ آ رہا ہے اور وہ جو دوست تھے جن کا میں ذکر کر رہا ہوں.ان کے نام پتے میں نہیں بتانا چاہتا حکمت کے خلاف ہے مگر یہ اپنے علاقوں کے اچھے معزز لوگ ہیں اور اتنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے کہ اپنے پتے دیئے ہیں اور یہ وعدہ کیا ہے کہ ہم جولٹریچر بھیجیں گے سب کا مطالعہ کریں گے.کیسٹس سنیں گے اور پھر اگر کوئی سوال ہمارے دل میں پیدا ہوا تو پھر لکھیں گے کہ اس بارے میں ہماری تسلی نہیں ہوئی تا کہ آپ کو موقع دے سکیں تسلی کرانے کا اور ایک صاحب ان میں سے جو او پر ہمارے مردانہ کمرہ تھا اس میں تشریف لائے.ساتھ کھانا بھی کھایا اور پھر اس کے بعد محبت پیار کے رنگ میں اظہار کرتے رہے تو جس جس جگہ یہ زمین تنگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہاں وہاں خدا ہمیں زمینیں عطا فرما رہا ہے.عربوں کو ہم سے دور کرنے کی بڑی شدید کوشش کی گئی تھی.جیسا کہ انہوں نے ہی ہمیں بتایا اس کے علاہ بھی بعض دوسرے عرب دوست جو بیعتیں کرتے ہیں وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے بڑی شدید نفرت پیدا کر رکھی ہے.آپ لوگوں کے خلاف اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ وہ یک طرفہ سن سن کر ہم سمجھتے ہیں کہ آپ کا دین ہی کچھ اور ہے اور انہی لوگوں میں سے خدا تعالیٰ اب یہ از خود پھل عطا کر رہا ہے ان کے علاقوں میں پہلے احمدیوں پر ظلم ہوا کرتے تھے جن کا میں ذکر کر رہا ہوں.اب میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ ان کے رویے بالکل بدل جائیں گے.جس خدا کا یہ وعدہ ہے کہ هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْاِحْسَانُ اس کی زمین نہ صرف وسعت پذیر ہے بلکہ ہر جہت میں وسعت پذیر ہے اس کی وسعتوں کا آپ اندازہ کر ہی نہیں
خطبات طاہر جلد۴ 809 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء سکتے کیونکہ ظاہری طور پر زمین بھی وسعت پذیر ہے، روحانی طور پر جماعت کے پھیلاؤ کے لحاظ سے بھی وسعت پذیر ہے، مختلف قوموں کے اندر توجہ پیدا کرنے کے لحاظ سے بھی زمین وسعت پذیر ہے اور اس کے علاوہ آسمان پر کئی فیصلے ہورہے ہیں.خدا تعالیٰ کی تقدیر اپنے طور پر کام کر رہی ہے جس کا مستقبل سے تعلق ہے اور ہم نہیں جانتے کہ کس کس رنگ میں خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہوں گے اور کس کس رنگ میں جماعت کو نئی وسعتیں عطا ہوں گی لیکن یہ میں ضرور جانتا ہوں کہ جب آسمان حرکت میں آجائے جب خدا تعالیٰ کی تقدیر فیصلہ کرے کہ میں نے اس جماعت کو بہر حال بڑھانا ہے اور عزت دینی ہے.اس وقت جماعت کی یہ ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ ضرور خدا کی تقدیر کے ساتھ چلے، اس کے مخالف نہ چلے.آج جو بھی آپ میں سے بیٹھ رہنے والا ہے وہ مخالف چلنے والے کے مترادف ہوگا.چند قدم اس سمت میں اٹھائیں یہ تیز ہوائیں آپ کو خود آگے کھینچ کر لے جائیں گی.بہت سے آثار ایسے نظر آرہے ہیں، بہت سی خوشخبریاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی مل رہی ہیں کہ جن سے میں سمجھتا ہوں کہ بہت جلد جلد اللہ تعالیٰ اس جماعت کو بڑھانے والا ہے.یہاں جو تجربہ ہواوہ بھی بہت ہی خوشکن تھا.لیکن اس کا ذکر میں انشاء اللہ آئندہ کسی خطبہ میں کروں گا جو غالبا سپین میں ہوگا.بہر حال اس وقت میں اس کو اتنا ہی مختصر کرتا ہوں کہ ہر احمدی ہر جہت میں تبلیغ کی کوشش کرے.بچے بھی کوشش کریں، مرد بھی کوشش کریں، عورتیں بھی کوشش کریں، ابھی تک جو میں نے جواندازہ لگایا تھا کہ اتنی خدا تعالیٰ کی فوج ہے جو اگر میدان میں کود پڑے تو عظیم انقلاب برپا ہو جائے اس کا دسواں حصہ بھی ابھی تک میدانِ عمل میں نہیں اترا.جب میں دوستوں سے ملتا ہوں سرسری جائزہ لیتا ہوں تو یہ معلوم کر کے افسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک بہت سے دلوں میں صرف خواہشات ہی پیدا ہورہی ہیں عملاً ان کو ابھی توفیق نہیں ملی اور جماعت کی بھاری طاقت ابھی تک میدان عمل میں نہیں اتری.حالانکہ وقت بڑی تیزی سے ہاتھ سے گزر رہا ہے.زمانے میں انقلاب آنے والے ہیں تمام دنیا میں بہت بڑی بڑی تبدیلیاں پیدا ہونے والی ہیں اور ان کے لئے جتنی تیاری کا وقت تھا وہ تیاری ابھی ہم پوری نہیں کر سکے اس لئے ہر احمدی جس تک میری آواز پہنچتی ہے وہ خود اپنا نگران بن جائے.اس کے ساتھ میں تو ہر وقت پھر نہیں سکتا، نہ تو کوئی میرا نمائندہ ، مبلغ پھر سکتا ہے لیکن خدا اس کے ساتھ ہمیشہ رہتا ہے.اس لئے اپنے خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ عہد کرے کہ میں نے یہ
خطبات طاہر جلدم 810 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء عہد کرنا ہے حقیقی دل کے ساتھ کہ سال کے اندر انشاء اللہ ایک احمدی ضرور بناؤں گا اور پھر دعا شروع کر دے تو یہ ہرگز مشکل نہیں یہ بھی ایک فطری بات ہے.کچھ عرصہ پہلے سیر یا شام کے دونو جوان یہاں تشریف لائے ہوئے تھے ، وہ نئے احمدی ہوئے ہیں بہت ہی غیر معمولی جوش ان کے اندر تبلیغ کا پایا جاتا ہے اور یہ بات صرف ان میں ہی نہیں عام عربوں میں بھی دیکھی گئی ہے کہ جو احمد ی ہوتا ہے اس قدر محبت اس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام سے ہو جاتی ہے کہ ان کو دیکھ کر رشک آتا ہے.کاش جماعت کے ہر فرد میں ایسا لگہمی عشق کا رنگ پیدا ہو جائے.چنانچہ ان دو نو جوانوں میں سے ایک نے کہا کہ میرے دل میں تو سوائے اس کے اور کوئی ترکیب نہیں آرہی کہ ہر احمدی یہ عہد کرے کہ وہ سال میں ایک احمدی ضرور بنائے گا.میں نے کہا تم نے میرا کوئی خطبہ سنا ہے یا حضرت خلیفتہ المسیح الثانی کی کوئی کتاب پڑھی ہے جس میں یہ ذکر تھا یہ خیال کس طرح آیا.اس نے کہا کہ یہ ترکیب خدا تعالیٰ نے خود میرے دل میں ڈالی ہے اور کہا کہ میں عہد کرتا ہوں بلکہ میں تو زیادہ عہد کر رہا ہوں اس نے کہا کہ میں تو انشاء اللہ تعالی زیادہ بناؤں گا لیکن ہر احمدی ایک بنائے اور یہ کہہ کر اس نے کہا کہ میں نے بہت سوچا ہے اور بہت غور کیا ہے کہ یہ بہت ہی آسان کام ہے بالکل مشکل نہیں.معمولی سی توجہ اور دعا کے ساتھ ایک انسان کوشش کرے تو اس کو پھل مل جاتا ہے.تو جو چیز آسان ہو جو چیز ہماری دسترس میں ہو اس کو نہ لینا جبکہ اللہ کی تقدیر وہ پھل ہاتھ میں پکڑانا چاہتی ہو یہ بڑی محرومی ہے.ایک موقع پر گجرات کی بات ہے وہاں ایک جماعت میں میں نے ان کو جا کر سمجھایا تبلیغ کے متعلق گفتگو کی تو ان کو میں نے مثال دی میں نے کہا آج کل ہوا چلی ہوئی ہے یہاں بھی خدا کے فضل سے اور تم سوچ نہیں رہے کہ تمہاری مثال کیا ہے کافی بیچارے ست تھے اس لئے مجھے ان سے تھوڑی سی سختی بھی کرنی پڑی میں نے کہا تمہاری مثال تو ان دوا فیمیوں کی سی ہوگئی ہے.جو ایک بیری کے درخت کے نیچے لیٹے ہوئے تھے اور افیم کے نشے میں دھت.ایک کے پاس ایک اچھا سا موٹا سا بیر آ کے گرا تو اس نے دوسرے دوست سے کہا کہ بیر ذرا میرے منہ میں ڈال دو.اس نے کہا جاؤ جاؤ اپنا کام آپ کرو میں آرام سے لیٹا ہوں.خیران کی رات گذرگئی کچھ عرصے کے بعد ایک مسافر جارہا تھا.مسافر گھوڑے پر سوار جارہا تھا کہ اس شخص نے اس کو آواز دی.اس نے کہا بھائی ذرا اتر و ایک بات سن جاؤ ضروری.اس بیچارے نے اتر کر درخت سے اپنا گھوڑا باندھا.
خطبات طاہر جلدم 811 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء اس نے پوچھا کیا بات ہے اس نے کہا کہ ایک بیر پڑا ہوا ہے میرے سرہانے یہ ذرا اٹھا کر میرے منہ میں ڈال دینا.مسافر کو بڑا غصہ آیا اس نے کہا تم بڑے ذلیل آدمی ہو مجھے راستہ چلتے گھوڑے پر سے ا تارا کہ یہ بیر میرے منہ میں ڈال دوستم سے آپ نہیں اٹھایا گیا.اتنے میں دوسرے آدمی نے بھی توجہ شروع کی کہ کیا گفتگو ہورہی ہے وہ بیچ میں بول پڑا.کہتا ہے جناب آپ کو اندازہ نہیں یہ کیساذلیل آدمی ہے ساری رات کتا میرا منہ چاہتارہا اس کمبخت نے ہش تک نہیں کہا.اتنا اس کو احساس نہیں پیدا ہوا.اتنی شرم نہیں آئی کہ ساتھ ہی لیٹا ہوا ہے، کتا اس کا منہ چاٹ رہا ہے کہ میں ہٹا ہی دوں،اس کو ہش ہی کہہ دوں.اس شخص کی بات ہی چھوڑ و بڑا ہی نکما آدمی ہے.اس نے کہا آپ دونوں ہی معذور ہیں میں یہاں سے رخصت ہوتا ہوں.میں نے کہا اب اللہ کی تقدیر بیرگرا چکی ہے آپ کے سرہانے پڑا ہے اور آپ ہاتھ ہلا کر وہ بیر ہی اٹھا کر منہ میں نہیں ڈال سکتے ؟ اس وقت تو بیعتوں کا یہی حال نظر آ رہا ہے.نہ صرف پھل پکے ہیں بلکہ گر رہے ہیں آپ کے پاس پڑے ہوئے ہیں اگر آپ نے ان پھلوں کو نہیں اٹھایا تو جانور کھائیں گے یا یہ گل سڑ جائیں گے.دشمنوں کے ہاتھ لگ جائیں گے.یہی موسم ہے تبلیغ کا اور خدا تعالیٰ کے عطا کردہ پھلوں سے استفادے کا.اس لئے دائیں بھی کوشش کریں، بائیں بھی کوشش کریں، آگے بھی پیچھے بھی ، اپنے سارے ماحول میں تلاش کریں کہاں سعید فطرت روحیں موجود ہیں اور ان کی طرف توجہ کریں محبت سے، پیار سے ، اخلاص سے ، اخلاق کے ساتھ.بعض دفعہ ان کو جھنجھوڑتے ہوئے اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے اندرکیسی تبدیلی پیدا ہوتی ہے اور خاص طور پر دعاؤں سے کام لیں کیونکہ جیسا کہ میں بار بار بیان کر چکا ہوں سب سے بڑا خزانہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دور میں ہمیں دیا ہے وہ دعاؤں کا خزانہ ہے.عجیب دولت عطا فرما دی ہے.ہر ستی کا علاج یہی دعا ہی ہے، ہر کمزوری کا علاج یہی دعا ہی ہے، ہر مسئلہ جو انسان کے لئے پیدا ہوتا ہے اس کو دعاحل کر دیتی ہے اس لئے دعا پر بہت زور دیں اور جو دعا کی عادت ڈالے گا وہ دیکھے گا کہ اس کے اعمال کے نتائج میں کتنا فرق پڑ جاتا ہے.عام آدمی بھی محنت کرتا ہے لیکن دعا کرنے والے کی محنت کو بہت زیادہ پھل لگتے ہیں.ایک دفعہ حضرت مصلح موعود سندھ دورے پہ گئے.اس زمانے میں موسم خراب تھے اس لئے
خطبات طاہر جلدم 812 خطبه جمعه ۲۷ ستمبر ۱۹۸۵ء عمومی فصلیں گندی تھیں.تو سارے پھر کے دیکھا اکثر فصلیں بڑی خراب تھیں.ایک علاقے میں گئے تو وہاں ساری فصلیں اچھی لہلہاتی ہوئی ، ہمارے وہاں جو مینیجر تھے ان سے حضرت صاحب نے پوچھا مولوی قدرت اللہ صاحب سنوری اس وقت مینیجر ہوا کرتے تھے،حضرت صاحب نے پوچھا کہ مولوی صاحب ! آپ نے یہ کیا تدبیر کی ہے ؟ بڑے بڑے پرانے تجربہ کار زمیندار مینیجر ہیں اور ان کی فصلیں بالکل بے کار ہیں آپ کی فصل بہت اچھی ہے آپ کو کونسا نسخہ ہاتھ آ گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ حضور میں تو زمیندار ہوں ہی نہیں میرا تجربہ کوئی نہیں ، مجھے تو صرف ایک نسخہ ہاتھ آیا ہے.میں نے ہر کھیت کے ہر کونے پر دو دو نفل پڑھے ہیں اور دعائیں کی ہیں.اے خدا! میں کچھ نہیں جانتا سلسلے کام ہے، سلسلے کا مال ہے تو اپنے فضل سے برکت عطا فرما.تو دیکھیں اب دنیا کی عقل میں یہ بات انہونی ہے اس کا تعلق ہی کوئی نہیں.موسم بگڑے ہوئے ہیں ، فضا میں خشکی ہے، زمیندار کہتے ہیں کن نہیں پڑ رہا یعنی پھل نہیں پڑرہا.یہ کیفیت ہر کھیت کی برابر ہے ایک ہی طرح کی زمینیں ہیں اور دو نفلوں کا ان سے کیا تعلق؟ کیا فضا میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے؟ کیا زمین میں تبدیلی پیدا ہو جاتی ہے؟ مگر جو خدا ہر تقدیر کا مالک خدا ہے اس تک جب بات پہنچ جائے اور وہ فیصلہ کر لے کہ میں نے اس بندے کی بات قبول کرنی ہے تو پھر انہی حالات میں قوت کی ایک نئی لہر پیدا ہو جاتی ہے.ہر چیز وہی رہتی ہے لیکن پھل میں فرق پڑ جاتا ہے.تو یہ جماعت کے تجربہ کی باتیں ہیں.ایک لمبے وسیع تجربہ کی باتیں ہیں کوئی ایک دو آدمی کے تجربہ کی بات نہیں.کا کام آپ کو میں بار بار سمجھا رہا ہوں جب بھی کوئی مشکل ہو یا تبلیغ کرنے کو دل نہیں چاہتا.اگر تبلیغ پر دوست مائل نہیں ہوتا یا شرم آتی ہے کہ میں ایک ساتھی سے جس سے ساری عمر کے اور طرح کے تعلقات ہیں اس سے تبلیغی بات کیسے کروں گا، دعا کریں.دعا کریں تو وہ تبلیغ کی بات چھیڑ دے گا.میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ بعض دفعہ بعض لوگوں کو تبلیغ کرنے کے لئے حالات نفسیاتی لحاظ سے سنگین ہوتے ہیں لیکن دعا کے نتیجہ میں اس کا دل اس طرف مائل ہو جاتا ہے اور بہت سے لوگ خطوں میں آج کل مجھے یہی لکھتے رہتے ہیں کہ سفر کر رہے تھے، سوچ رہے تھے کہ کیا کریں، کس طرح لوگوں کو مائل کریں؟ دعا کی تو دوسرے نے خود بات چھیڑ دی اور اس کے نتیجہ میں تبلیغ شروع ہو گئی.تو جو آخری مرکزی نقطہ ہے اول بھی دراصل وہی کہنا چاہئے اور آخر بھی وہی وہ یہ ہے کہ بڑے
خطبات طاہر جلدم 813 خطبه جمعه ۲۷/ ستمبر ۱۹۸۵ء دعا کی طرف توجہ کریں اور پھر خاص طور پر دعا کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ پہنچے گا کہ جب آپ کی دعا قبول ہوگی اور وہ ضرور ہوتی ہے تو پھر آپ کو خدا سے محبت بڑھے گی اس سے پیار بڑھے گا ، ایک زندہ نشان بن کے پھریں گے.پھر یہ دہریت کا ماحول آپ کو متاثر نہیں کر سکے گا.کوئی آکے آپ کو دلائل دے گا تو آپ کہیں گے تم پاگل ہو گئے ہو مجھ سے میرا خدا تعلق رکھتا ہے ، پیار کرتا ہے، میں اس کی محبت کا اظہار دیکھ چکا ہوں.ناممکن حالات میں میری باتیں سنتا ہے تم کس دنیا کی باتیں کر رہے ہو.مجھے سمجھانے آئے ہو کہ خدا نہیں؟ بڑا فرق پڑ جاتا ہے دعا کے نتیجہ میں خدا کو دیکھنا ایک اور بات ہے اور نظریاتی طور پر کسی خدا پر ایمان لانا یہ بالکل اور چیز ہے اس لئے آپ بہت کوشش کے ساتھ ، جد و جہد کے ساتھ تبلیغ کریں لیکن دعا کے بغیر آپ کو کوئی توفیق نصیب نہیں ہوسکتی.اللہ تعالیٰ ساری جماعت توفیق عطا فرمائے.دعا میں ایک بات اور کہنی چاہتا تھا کہ جو کچھ آپ دیکھ رہے ہیں خدا کی خاص رحمتیں، خدا کے جو فضل نازل ہوتے اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں ان میں پاکستان کے مظلوم احمدیوں کی دعاؤں کا بہت بڑا دخل ہے کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ وہ بعض دعائیں جن کے متعلق خدا نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ضرور سنوں گا.ان میں سے ایک مظلوم کی دعا ہے کیونکہ وہ مظلومیت کے دور میں سے گزر رہے ہیں اس لئے یہ جو کچھ ہوا ئیں چل رہی ہیں یہ بھی ان کی دعاؤں کا نتیجہ ہے.مجھے بعض دفعہ خدا کی رحمت کی یہ ہوا ئیں یوں لگتا ہے میرے پیارے بھائیوں کی آہیں چل رہی ہیں یہ ہوا ئیں نہیں چل رہیں.وہی آہیں ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے رحمت کی ہوا میں تبدیل فرما دیا ہے.ان کے آنسو ہیں جو خدا کے فضلوں کی بارش بن کر برس رہے ہیں.اس لئے ان کے لئے بھی آپ دعا ئیں کریں.باقی دنیا پر ان کا احسان ہے کہ نہایت دردناک حالات ، میں نہایت صبر کے ساتھ انہوں نے گزارے کئے ہیں اور دعائیں کر کر کے آپ کے حالات تبدیل کر رہے ہیں.خدا کی رحمتوں کی بارشیں ساری دنیا میں برس رہی ہیں اس لئے ہمارا فرض ہے هَلْ جَزَاءِ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ( الرحمن :۶۱) کہ اپنے ان مظلوم بھائیوں کے لئے بہت کثرت سے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ ان کے دن بھی بدلے اور ان پر بھی اس کثرت کے ساتھ خدا کی رحمتیں نازل ہوں کہ ان کو اپنے ماضی کی قربانیاں ان رحمتوں کے، ان فضلوں کے مقابل
خطبات طاہر جلدم 814 خطبه جمعه ۲۷؍ ستمبر ۱۹۸۵ء پر بالکل حقیر اور بے معنی دکھائی دیں.میں حیران ہوں کہ ہم نے تو کچھ بھی قربانی نہیں کی پھر خدا نے اتنے فضل کیوں نازل فرمائے ہیں اس لئے جب آپ دعائیں کریں تو پھر ان کے لئے بھی دعائیں کریں اور پھر یہ سلسلہ انشاء اللہ تعالیٰ اسی طرح ایک دوسرے کے لئے رحمتوں کا سلسلہ بنتا چلا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:.نمازیں جمع ہوں گی اور عصر کی نماز میں قصر کروں گا.مقامی دوست پوری کر لیں.
خطبات طاہر جلدم 815 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء کامیاب دورہ سوئٹزر لینڈ، اٹلی اور سپین کا تذکرہ ہر احمدی کو مبلغ بننے کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۴ /اکتوبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت بشارت سپین ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جو گزشتہ خطبہ جمعہ میں نے زیورک میں دیا تھا اس میں میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑا بھر پور سفر گزر رہا ہے اور اس خطبہ میں وقت کے لحاظ سے یہ ممکن نہیں رہا کہ سوئٹزر لینڈ کے سفر کے حالات بھی بیان کروں اس لئے انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں سوئٹزر لینڈ کے حالات کے بیان سے اپنے خطبہ کا آغاز کروں گا.جیسا کہ احباب کو معلوم ہو چکا ہے یہ سارا سفر اللہ تعالیٰ کے اس وعدے کو پورا ہوتے دیکھتے ہوئے گزرا ہے کہ خدا کی زمین وسیع ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کی زمین بھی وسیع ہے اور دنیا کی کوئی طاقت خدا کے بچے بندوں کی زمین کو تنگ نہیں کرسکتی.اس وعدے کو پورا ہوتے جماعت بارہا دیکھ چکی ہے.ہر دفعہ جب دشمن نے جماعت کی زمین کو تنگ کرنے کی کوشش کی اللہ تعالیٰ نے اسے نئی وسعتیں عطا فرما ئیں اور یہ سفر تو بالخصوص انہیں نظاروں میں گزررہا ہے.میں نے یہ ذکر کیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ ظاہری زمینیں اللہ تعالیٰ وسیع عطا فرما رہا ہے بلکہ روحانی لحاظ سے بھی تبلیغ کے نئے نئے امکانات روشن کرتا چلا جا رہا ہے.نئے خطوں میں خدا تعالیٰ جماعت کے پودے لگا رہا ہے، نئی قوموں میں پودے لگا رہا ہے، نئی قبولیت کے دروازے کھول رہا
خطبات طاہر جلدم 816 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء ہے اور ایسے ایسے دل اس تیزی کے ساتھ مائل ہورہے ہیں کہ جن دلوں کے متعلق و ہم بھی نہیں آسکتا تھا کہ مدتوں کی کوشش کے بعد بھی وہ دل پسیجیں گے بعض اوقات تو دیکھتے دیکھتے چند گھنٹے کے اندراندر کایا پلٹ جاتی ہے.میں نے جماعت کو بار بار سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ کیفیات ایسی ہیں جو انسانی ذرائع کے بس کی بات نہیں ہے.اللہ مقلب القلوب ہے سوائے خدا تعالیٰ کے دلوں پر کسی کو کوئی قدرت حاصل نہیں.آنا فانا دل بدل جایا کرتے ہیں محبتیں نفرتوں میں بدل جاتی ہیں، نفرتیں محبتوں میں بدل جاتی ہیں مگر اس پر محض اللہ کا تصرف ہے اور قرآن کریم خوب کھول کر اس بات کو آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اے محمد ! تیرا بھی اختیار نہیں ہے دلوں پر.لَوْ أَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا ( الانفال :۶۴۰) تیرے جیسا حسین ، جاذب نظر وجود اور پھر فیاض ایسا ہو کہ جو کچھ ہے وہ خرچ کر دے اور تو ایسا وجود ہے کہ اگر ساری دنیا کے خزانے بھی تجھے ہم عطا کر دیتے تب بھی خدا کی راہ میں خرچ کر دیتا.لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا کا مطلب یہ ہے اگر ہم تجھے زمین کے خزانوں پر قدرت دیتے تو اس کا طبعی نتیجہ، ایک لازمی نتیجہ یہ نکلنا تھا کہ تو نے سب کچھ خدا کی راہ میں لٹا دینا تھا تب بھی یہ دل تیرے لئے نہیں بدل سکتے تھے.یہ اللہ ہے جس نے دلوں کو تبدیل کیا ہے اور باہمی محبت بھی پیدا کی ہے اور تیرے لئے بھی عشق پیدا کر دیا ہے.یہ وہ بنیادی نکتہ ہے جسے ہمیں ہمیشہ یادرکھنا چاہئے اور جب دلوں کو بدلتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں تو حمد اور شکر کی طرف طبیعت مائل ہونی چاہئے نہ کہ اپنی کسی چالا کی یا اپنی کسی بڑائی کی طرف اور خصوصاً اس دور میں جس تیزی سے ہم جماعت کی طرف رحجان دیکھ رہے ہیں اس کے بعد تو حقیقی اندھا بھی ہو تو اس کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ انسانی کوشش کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے.انسانی کوشش جو نظر آرہی ہے وہ بھی توفیق باری سینظر آرہی ہے.اللہ تو فیق عطا فرما رہا ہے، خود ہلا رہا ہے پکڑ پکڑ کے ، خود چلا رہا ہے اور پھر وہ رستے آسان کرتا چلا جاتا ہے، لمبے سفر جلدی جلدی طے فرمارہا ہے اس لئے جیسا کہ میں نے وہاں توجہ دلائی تھی اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ اس دوران دعا بہت کریں.اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی جب یہ باتیں سنیں تو انکسار زیادہ طبیعت میں ہونا چاہئے ، پہلے سے بڑھ کر دعا کی طرف توجہ ہونی چاہئے ،حمد اور شکر میں پہلے سے بڑھ جانا چاہئے اور پھر دیکھیں
خطبات طاہر جلدم 817 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء کہ اللہ انشاء اللہ اپنے فضل کے ساتھ کس طرح اور مزید مشکلات کو جماعت کے لئے حل فرماتا چلا جائے گا.زیورک میں جہاں تک نئی جائیداد کا تعلق ہے وہ تو وہاں نہیں خریدی گئی نہ اس سفر سے پہلے اس قسم کا کوئی خیال ہی تھا لیکن چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت وسعت پذیر وہاں بھیجے اس لئے وہاں کی موجودہ عمارت کی توسیع کرنے کے لئے ایک پروگرام بنایا گیا تھا.چنانچہ وہاں آرکیٹیکٹ (Architect) تشریف لائے ہوئے تھے، ان سے اور بعض جماعت کے دوسرے دوستوں سے مشورہ کے بعد قانون جس حد تک بھی وسعت کی اجازت دے سکتا ہے اس حد تک اس عمارت میں توسیع کا فیصلہ کر لیا گیا ہے.جس کے نتیجہ میں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدی خواتین کے لئے ایک کافی وسیع کمرہ مل جائے گا جس کی کمی کی وجہ سے بہت تکلیف پہنچا کرتی تھی اور ان کے بچوں کے لئے ان کو جب نماز میں حاضر ہوں تو کوئی خاتون ان بچوں کو کھلائیں اور ان کا بہلائیں تا کہ نمازوں میں بچوں کے شور کی وجہ سے خلل واقع نہ ہو.ان کے بچوں کے لئے ایک الگ کمرہ رکھ دیا گیا ہے.ان کے وضو وغیرہ کرنے کے لئے علیحدہ جگہ ، چھوٹا سا ایک باورچی خانہ بھی مہیا کر دیا گیا ہے یعنی آئندہ کے Plan میں.اسی طرح مردوں کے لئے الگ چھوٹا سا باورچی خانہ ، آئے گئے کے لئے چائے بنانے وغیرہ کے لئے اور غسلخانوں کا انتظام، مزید رہائش کے کمرے ، گویا کہ قانون جس حد تک بھی وسعت کی اجازت دے سکتا ہے اس زمین کی نسبت سے انشاء اللہ تعالیٰ اس مشن کو وسعت دے دی جائے گی.جہاں تک لوگوں کا تعلق ہے جماعت کے لئے خدا تعالینے اس قدر دل نرم کر دیئے ہیں کہ اب جومیر امختصر قیام تھا اس میں بھی بالکل صاف نظر آرہا تھا کہ اک نئی رو جماعت کی طرف توجہ کی پیدا ہورہی ہے.بنیادی طور پر پروگرام میں دو حصے تھے.ایک معززین شہر کو ایک ہوٹل میں دعوت دی سیتھی اور اس میں بڑے بڑے چوٹی کے جو مختلف ممالک ہیں، بڑی بڑی طاقتیں کہلاتی ہیں ان کے جو نمائندے وہاں زیورک میں موجود تھے وہاں اور چھوٹے ممالک جو ہیں جو بیچارے Third World Countries کہلاتے ہیں ان کے نمائندوں کو بھی بلایا گیا.چوٹی کے صحافیوں کو بھی بلایا گیا.چوٹی کے وکلا اور دوسرے دانشوروں اور پروفیسروں وغیرہ کو بلایا گیا اور توقع سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے فضل سے انہوں نے دعوت کو قبول کیا اور بعض بڑی بڑی طاقتوں کے نمائندے بھی موجود تھے.افریقہ کے
خطبات طاہر جلدم 818 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء ممالک کے اور دیگر بعض ممالک کے نمائندے بھی خدا کے فضل سے وہاں تشریف لائے ہوئے تھے.چوٹی کے دانشور وہاں موجود تھے ایسے صحافی بھی تھے جن کا سارے ملک میں وقار ہے اور بڑی عزت سے ان کو دیکھا جاتا ہے.بڑے عالم پروفیسر صاحبان، میئر ، اسمبلیوں کے ممبر اس قسم کا طبقہ موجود تھا اور خدا کے فضل سے ہر طبقہ کی اچھی نمائندگی تھی.چائے وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد عموماً ایسی Receptions میں تعارف ہوتا ہے اور چند باتوں کے بعد پھر مجلسیں برخاست ہو جایا کرتی ہیں لیکن ملاقات کے دوران ہی بعض دوستوں نے بعض باتیں جماعت کے متعلق معلوم کرنی چاہیں تو میں نے ان سے کہا کہ بجائے اس کے کہ میں ایک ایک کو جواب دوں ہم اکٹھے بیٹھیں گے بعد میں اس کے بعد آپ سب سے بات ہو جائے گی.چنانچہ میرا یہ خیال تھا کہ چند لوگ بیٹھ جائیں گے اور اکثر کی پہلے سے ہی مصروفیات ہوتی ہیں اور انکو جلدی جانا پڑتا ہے اور وہ لوگ چلے جائیں گے لیکن سوائے ایک دوست کے جنہوں نے پہلے ہی مجھے کہا تھا صبح بھی وہ ملنے آئے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ شام کو میں جلدی اجازت چاہوں گا کیونکہ میری ایک Appointment ہے ان کے سوا کوئی بھی اٹھ کر نہیں گیا.جب یہ اعلان کیا گیا کہ جو دوست سوال کرنا چاہیں کسی موضوع پر تو شوق سے سوال کریں تو اتنی دیر ہوگئی، ساڑھے چھ سے بلایا ہوا تھا رات کے دس بج گئے اور اس سے بھی اوپر وقت ہو رہا تھا اور یہ شام کی چائے تھی کھانے کا وقت بھی نہیں تھا ان کا کھانے کا وقت گزر چکا تھا اور ہماری طرف سے کھانا پیش نہیں تھا اس کے باوجود وہ دوست اٹھ نہیں رہے تھے اور اتنی بھر پور مجلس ہوئی ہے، ہر قسم کے موضوعات پر سوالات کئے گئے اور ان معززین نے اتنی گہری دلچسپی کا اظہار کیا ہے کہ حیرت ہوتی تھی کہ جس طرح ہمارے ملکوں میں ایک رویہ ہوتا ہے اخلاق اور محبت سے سوالات کرنے اور جواب لینے کا عام طور پر مغربی دنیا میں یہ نظر نہیں آتا مگر بالکل وہی رنگ اور وہی کیفیت پیدا ہوگئی تھی بلکہ ہمارے بعض ساتھی تو جواب دیتے وقت میرا منہ دیکھنے کی بجائے ان لوگوں کے منہ دیکھ رہے تھے جو جواب سن رہے تھے اور کبھی ان کے چہرے پر نظر پڑتی تھی تو ان کی بشاشت سے مجھے بھی یہ اندازہ ہو جا تا تھا کہ یہ جواب کس رنگ میں قبول کیا گیا ہے.چنانچہ بعضوں نے بعد میں کہا کہ سوال کرنے والا تو جواب سنتے وقت اتنا تائید کرتا تھا کہ حیرت ہوتی تھی کہ اس کا سر مسلسل تائید میں ہلتا ہی چلا جاتا تھا.
خطبات طاہر جلدم 819 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء جب دس سے زیادہ وقت ہو گیا تو میں نے خود یہ اعلان کیا کہ ہو سکتا ہے بعض شرفاء اخلاق کی وجہ سے محض رک گئے ہوں یہاں سے جانا بد اخلاقی سمجھتے ہوں اور ان کو ضرورت ہو اس لئے اگر چہ سوال ختم نہیں بھی ہوئے تو میں سمجھتا ہوں کہ مجلس کو ختم ہونا چاہئے.جب یہ بات ہوئی تو اس وقت بھی ہاتھ اٹھنے شروع ہو گئے.بہر حال میں چونکہ اعلان کر چکا تھا تو مجلس کو ختم کیا گیا لیکن رخصت ہوتے وقت بعض لوگوں نے شکوہ کیا کہ ہم نے تو ابھی سوال اور کرنے تھے اور وقت چاہئے تھا.چنانچہ ایک خاتون تھیں انہوں نے کہا کہ میرے تو حیات بعد الموت کے متعلق بڑے ضروری سوالات ہیں مجھے تو ان کے لئے وقت چاہئے.کچھ اور صحافی اکٹھے ہو گئے اور وہیں دوبارہ پھر ایک مجلس لگ گئی اور کوئی نصف گھنٹہ کے قریب کھڑے ہو کر ان سے باتیں ہوئیں پھر انہوں نے کہا جی ہمارے تو سوال ختم ہی نہیں ہوئے ، اب کیا کیا جائے.دوسرے دن جو مجلس تھی وہ ہمارے احمدیوں کے لئے رکھی ہوئی تھی عموماً جو ہماری مجلس سوال و جواب ہوتی ہے تو ہم نے پھر اس کو بھی ان غیروں کے لئے مجلس میں بدل دیا اور ان کو کہا کہ آپ کل تشریف لے آئیں تو اس خاتون نے کہا میں تو Appointment کینسل کر کے آؤں گی اور مجھے تو جب تک سوال کے جواب نہ ملے میری تسلی نہیں ہونی.ایک احمدی سے بعد میں اس نے کہا که ساری زندگی کے میرے خیالات بدل گئے ہیں اس مجلس میں.اب مجھے اپنی زندگی کا ایک نیا نقشہ بنانا ہوگا.اس لئے میرے لئے ضروری ہے کہ میں جاؤں اور بقیہ سوالات کروں.اسی طرح ہمارے دوسری مجلس میں اور بھی بعض معززین جو سوال نہیں کر سکے تھے وہ وہاں پہنچے ہوئے تھے.کچھ ہمارے ہمسائے تھے وہ وہاں پہنچے ہوئے تھے اور دوسری مجلس نماز مغرب کے بعد شروع ہوئی اور اتنی دیر ہوگئی کہ ان کو کھانا پیش کرنا تھا اس میں دیر ہو رہی تھی.پھر ہم نے کھانے کا اعلان کیا اور دوبارہ یہ کہا کہ کھانے کے بعد دوست جو تشریف لے جاسکتے ہیں ہاں اگر کسی نے ضرور ٹھہرنا ہے تو پھر بے شک ٹھہر جائے.تعجب کی بات یہ ہے کہ اکثر ان میں سے ٹھہر گئے پھر اور رات تقریباً ساڑھے گیارہ یا پونے بارہ بج گئے اور بعض ہمارے ساتھی سفر کے تھکے ہوئے نظر آ رہے تھے تو ان سے میں نے کہا کہ انہوں نے آگے سفر کرنا ہے یہ بیچارے تھک گئے ہیں.ترجمہ کرنے والے تھک گئے تھے آخر انہوں نے جواب ہی دے دیا.دوستوں نے بھی کہا کہ ہمیں انگریزی کی اتنی سمجھ آجاتی ہے تو یہ وقت ضائع ہو گا اس لئے
خطبات طاہر جلدیم 820 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء ترجمہ نہ ہی کروایا جائے.یہ میں بتارہا ہوں اس لئے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کتنی گہری توجہ ہے اور اسلام میں ایک حقیقی دلچسپی پیدا ہو چکی ہے.شروع میں اس طرح سوالات کرتے ہیں جس طرح کوئی اسلام پر باقاعدہ حملہ کر رہا ہے اور آخر پر طفل مکتب کی طرح ان کے سوالات کا رنگ ہو جاتا تھا علم کی خاطر مزید تجسس کے لئے کہ کیا ہے؟ کچھ ہمیں بھی حقیقت معلوم ہو.یہ جو کیفیات ہیں یہ اللہ کی دین ہے اور اب تک میں نے جتنے ملکوں کا دورہ کیا ہے ان سب میں یہ قدر مشترک ہے شروع کی چہرے اور ہوتے ہیں بعد کے چہرے اور ہوتے ہیں ، شروع میں سوالات کا رنگ اور ہوتا ہے بعد میں سوالات کا رنگ اور ہوتا ہے اور یہ اس وجہ سے کہ اسلام کے متعلق ان کو شروع میں غلط فہمیاں بہت ہیں.جب وہ سوال شروع کرتے ہیں تو ایک اور اسلام کا تصور باندھ کر سوال شروع کرتے ہیں اور چند جوابات میں جب اسلام کی حقیقی شکل ان کو نظر آتی ہے تو اس حقیقی شکل میں اتنا حسن ہے، اتنی جاذبیت ہے، اتنی دلربائی ہے اسلام میں کہ ان کے ذہنوں کا نہیں دلوں کا تعلق ساتھ ہی شروع ہو جاتا ہے اور بالکل بدلی ہوئی کیفیت میں پھر لوگ رخصت ہوتے ہیں.یہ وہ رو ہے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے چلائی گئی اور اس سے ہمیں بہر حال مزید استفادہ کرنا ہے جس کی صرف ایک ہی صورت ہے کہ ہر احمدی مبلغ بنے.ہر احمدی اپنے ماحول میں ان مخفی بے چینیوں کو ابھارے جو بے چینیاں اس وقت سارے مغرب کو بے قرار کئے ہوئے ہیں اور انہیں سب کچھ حاصل ہونے کے باوجود گویا کچھ بھی حاصل نہیں ہے.ان کو ٹول کر دیکھیں تب آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کی ظاہری خوشیوں کی کوئی حقیقت نہیں.ہنستے ہوئے چہرے کے پیچھے دکھ چھپے ہوئے ہیں.بظاہر سب کچھ ان کو حاصل ہے اس کے باوجود ان کی روحوں میں ایک خلا محسوس ہورہا ہے اور ان کے دل طلب کر رہے ہیں کہ ہمیں وہ چیز نہیں ملی جس کے لئے ہم پیدا کئے گئے ہیں.اس لئے وہاں سے تبلیغ کو شروع کرنا چاہئے.محض اسلام کا پیغام دینے کی خاطر آپ کسی کو روکیں گے کہ مجھ سے اسلام کا پیغام لیتے جاؤ کوئی دلچسپی نہیں لے گا.پہلے آپ ان سے تعلق بڑھائیں ، ان کے دلوں کو کریدیں ، ہر راکھ کے ڈھیر میں آپ کو چنگاریاں نظر آئیں گی ، ہر سینے میں بے چینی دکھائی دے گی وہاں سے آپ کا کام شروع ہوتا ہے.اس کی تسکین کے لئے جب آپ اسلام کی تعلیم ان کو پہنچائیں گے تو پھر
خطبات طاہر جلدم 821 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء دیکھیں گے کہ ان کی کیفیت بدل جاتی ہے.چنانچہ وہاں سے رخصت ہونے کے بعد اگلا سفر ہمارا اٹلی کا تھا.اٹلی میں کوشش یہ ہے کہ پہلا احمد یہ مشن اب قائم ہو جائے.آج تک اس سے پہلے کوئی جگہ بھیجماعت احمد یہ اٹلی میں نہیں لے سکی.ایک زمانہ میں مولوی شریف صاحب تھے ان کو بطور مبلغ بھجوایا گیا تھا لیکن وہ بھی ایک عارضی سا تجربہ رہا آج کل وہ بیمار ہیں، صاحب فراش ہیں اٹلی میں وہیں آباد ہو گئے تھے لیکن با قاعدہ مبلغ نہیں رہ سکے اور مشن قائم نہیں ہو سکا اس لئے حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کو بھی اٹلی کے متعلق بڑی خواہش تھی کہ وہاں مشن قائم ہو.اوڈے میں ایک جگہ تلاش کی گئی ، بڑی دیر تک اس کی پیروی بھی کی گئی لیکن بالآخر کامیابی نہیں ہو سکی.تو اس لئے اٹلی کا دورہ خاص طور پر ایک مشن کی تلاش کا دورہ تھا.اس سے پہلے ایک قصبہ جس کا نام ویرونا ہے یہ شمالی اٹلی میں تقریباً شمال کے وسط میں ایک صاف ستھرا اور وسیع قصبہ ہے جو بہت بڑا شہر تو نہیں تین لاکھ کے قریب آبادی ہے لیکن یونیورسٹی ٹاؤن ہونے کیلحاظ سے اور بعض خصوصیات اس کو حاصل ہیں.پھر وہ شمالی علاقہ بڑا خوبصورت ہے لوگ سیروں کے لئے آتے ہیں ان وجوہات سے اسے ایک خاص مقام حاصل ہے.پھر Shakespeare نے جو Romeo and Julit کا جو ڈرامہ لکھا ہے وہ اسی علاقے سے تعلق رکھتا ہے اور جن لوگوں نے وہ ڈرامہ پڑھا ہوا ہے انگریزی کے علاوہ بھی بے شمار زبانوں میں اس کے ترجمے ہوئے ہوئے ہیں ان کو ایک طبعی دلچسپی ہے کہ Romeo and Julit کا علاقہ آ کے دیکھیں.پھر وہاں بعض بہت ہی خوبصورت Lakes ہیں.Lakes District کہلاتا ہے اٹلی کا اور اس کے بالکل قریب ہی پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر وہLakes شروع ہو جاتی ہیں تو اس لحاظ سے اس علاقے میں ہمیں دلچسپی تھی کہ ساری دنیا کا ٹورسٹ آتا ہے.لوگ صاف ستھرے ہیں مزاج کے بہت اچھے ہیں، بعض گندی عادتیں جو بعض دوسرے اٹلی کے علاقوں میں ہیں وہاں نہیں ہیں.دوکاندار لین دین میں صاف ہیں، چوری شاذ کے طور پر ہے.ورنہ جنوب میں تو بہت زیادہ چوری ہوتی ہے، عام فراڈ نہیں کرتے ، اچھی خصلتوں کے مالک لوگ ہیں ، بہت مذہبی ہیں.اس خیال سیجو ہم نے آخری وفد بھجوایا تو اس نے وہاں ایک جگہ تلاش کی.ہمارے وکیل التبشیر مکرم منصور احمد خاں جو آج.
خطبات طاہر جلدم 822 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء کل میرے ساتھ سفر پر ہیں.ان کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسا تعلق بنوا دیا جس کے نتیجہ میں ایک ایسی جگہ ملی ہے جو ویرونا سے تقریباً 15 کلومیٹر شمال میں واقع ہے اور اونچی پہاڑی پر ہے اور جو بڑی بڑی سڑکوں سے صاف نظر آتی ہے جس طرح یہاں سپین کا مشن ہے.اس کے علاوہ وہاں ایک سفید رنگ کی بہت وسیع عمارت پہلے سے بنی ہوئی ہیاور اس عمارت کی طرز بھی مشرقی طرز ہے یعنی ذرا معمولی سی تبدیلی کی جائے تو وہ مسجد بن جائے گی.اس کے گنبد اس کی طرز تعمیر مغربی عمارت کی نہیں ہے بلکہ مشرقی عمارت کی ہے.ایک وسیع ہال ہے جس میں دو اڑھائی سو آدمی نماز پڑھ سکتا ہے اور رخ بھی تقریباً قبلہ کی طرف ہے.معمولی تبدیلی سے اس کو مسجد میں تبدیل کیا جاسکتا ہے.مبلغ کے لئے رہائش کی جگہ ہے اور چارا ایکڑ زمین اتنے بڑے شہر کے قریب ایک بہت اجنبی بات ہے اور صرف یہی نہیں بلکہ اس زمین پر ایک وسیع عمارت کا نقشہ اصولاً منظور شدہ ہے.تفصیلات اس کی ابھی طے نہیں ہوئیں لیکن حکومت نے اجازت دے رکھی ہے کہ یہاں اگر دوسو آدمیوں کی رہائش کے لئے کوئی ہوٹل کھولنا چاہے یا کوئی بڑی عمارت بنانا چاہے تو اس کی بھی اجازت ہے.تو اس قسم کے بہت سے اس کے جاذب نظر پہلو تھے جن کی وجہ سے مجھے دلچسپی پیدا ہوئی ، میں نے کہا کہ ہاں میں ضرور موقع پر جا کر دیکھوں گا.چنانچہ وہاں جب ہم گئے چونکہ احمدیت اٹلی میں متعارف نہیں ہے.اس لئے پہلے سے ہم نے نمائندے بھیج کر سوئٹزرلینڈ سے شیخ ناصر احمد صاحب کو بھجوا کر ایک تقریب کا انتظام کروا رکھا تھا اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام صاحب چونکہ Trieste میں ہوتے ہیں ان کی خواہش تھی کہ وہ بھی شامل ہوں اور ان کی طرف سے وہ دعوت دی جائے.چنانچہ ڈاکٹر عبدالسلام کی طرف سے وہاں کے علاقے کے معززین کو دعوت دی گئی اور پریس کو دعوت دی گئی.ایک تو ڈاکٹر صاحب نوبل پرائز یافتہ ہیں نوبل پرائز کے حامل ہیں.اس کے نتیجہ میں اٹلی میں انکی خاص طور پر عزت ہے کیونکہ اٹلی میں ہر نوبل پرائز پانے والے کو غیر معمولی عزت سے دیکھا جاتا ہے ویسے ساری دنیا میں دیکھا جاتا ہے لیکن یورپ میں اٹلی کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ نوبل پرائز کی بڑی عزت ہے اور دوسرے ڈاکٹر صاحب نے اٹلی کی بڑی خدمت کی ہے Trieste میں اپنا تحقیقاتی مرکز قائم کر کے اور ساری دنیا کے سائینٹسٹ (scientist) ان کی نگرانی میں وہاں آتے ہیں اور تربیت حاصل کرتے ہیں اور اٹلی کے
خطبات طاہر جلدم 823 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء سائینٹسٹ بھی بڑا فائدہ اٹھا رہے ہیں تو اس لئے بھی ان کا خصوصیت کے ساتھ دوہرا تعلق ہے.بہر حال ڈاکٹر صاحب کی اس تقریب میں شمولیت اور ان کی طرف سے دعوت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل کیا.جتنی ہمیں توقع تھی اُس سے زیادہ معززین تشریف لائے حالانکہ احمدیت کا ان کو کوئی تعارف نہیں تھا.بہر حال تقریب کا آغاز تو ڈاکٹر صاحب کے تعارف سے ہوالیکن جب سوال و جواب کا وقت دیا گیا تو پھر براہ راست اسلام میں ان کی دلچپسی قائم ہوگئی یعنی رخ بدل گیا.آغاز تو ہوا ہے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت میں دلچسپی سے اور جب سوال و جواب شروع ہوئے تو وہ شخصیت ایک طرف ہوگئی اور اسلام کی شخصیت اور اسلام کا حسن اور اسلام کا وقار اور اسلام کی عظمت یہ ان کے سامنے آگئیں اور پھر بڑی دلچسپ مجلس سوال و جواب کی لگی اور جو پر لیس تھا اس نے بھی بڑی دلچسپی لی.ریڈیو اور ٹیلیویژن پہلے ہی خبریں دے رہے تھے اور اس وقت بھی ٹیلیویژن کے نمائندے آئے ہوئے تھے جنہوں نے پروگرام کو Televise کیا.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہاں احمدیت کے تعارف کا آغاز بہت اچھا ہوا ہے اور زمین کا تو ابھی ہم نے طے نہیں کی.وہ ابھی سودا ہورہا ہے لیکن اس تقریب کے بہانے احمدیت کا وہاں ایسا شاندار تعارف ہو گیا کہ ہم اسلام کو کیا سمجھتے ہیں وہ اسلام جس پہ ہم عاشق ہیں وہ یہ ہے اور ہمیں اس سے غرض کوئی نہیں کہ ثمینی کا اسلام کیا ہے یا کسی اور کا اسلام کیا ہے؟ ہم تو قرآن کے اسلام کو جانتے ہیں اور محمد مصطفی ﷺ کے اسلام کو جانتے ہیں.اس اسلام پر تمہیں کوئی اعتراض ہے تو پیش کرو ہم جواب دیں گے.یہ اس تقریب کا مضمون تھا اور بعض اعتراض ہوئے بھی اور بعض سوالات ہوئے اور عمومی ناواقفیت کی وجہ سے ایسے سوال بھی ہوئے جن سے صاف پتہ چلتا تھا کہ کسی بیچارے کو اسلام کا پتہ ہی کچھ نہیں کہ کیا چیز ہے.بہر حال ان کو آخر پر میں نے یہ بتایا کہ اگر آپ کو واقعی دلچسپی ہے تو چلتے پھرتے تو ان اہم امور کے جواب نہیں دیئے جاسکتے.آپ ہمیں یہاں مرکز بنانے دیں پھر انشاء اللہ دوستیاں ہوں گی ، تعلقات بڑھیں گے ، پھر مجلسیں لگا کریں گی لیکن اگر آپ نے مرکز ہی نہ بنانے دیا تو مسافر سے سوال کریں پلیٹ فارم پر اس کا تو کوئی مزہ نہیں ہے، پہلے یہاں جمنے تو دیں.بہر حال ان لوگوں نے اچھا اثر لیا اور خوشی کے ماحول میں یہ تقریب ختم ہوئی.اس کے لئے بھی میں جماعت کو دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں کہ اٹلی چونکہ بڑا عظیم ملک ہے
خطبات طاہر جلدم 824 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء اور بڑی دور دور تک دنیا میں اس کے اثرات ہیں.اٹلی کی دو طرح کی اہمیتیں ہیں.ایک تو اس کی بعض نو آبادیات ہیں جن پر اٹلی کی تہذیب کا، اٹلی کی زبان کا بڑا گہرا اثر ہے اور دوسرے یہ کہ اٹالین قوم میں یہ خصوصیت ہے کہ بعض ملکوں میں چینیوں کی طرح اپنی نو آبادیاں سی بنا کر رہتے ہیں.اور بڑی بڑی ان کی Colonies ہیں امریکہ میں اور بعض غیر قوموں اور غیر علاقوں میں بھی ان کے بہت زبر دست اثرات ہیں اس لئے اٹالین قوم میں اسلام کا داخل ہونا اسلام کے لئے اور بھی بہت سی فتوحات کے دروازے کھولے گا.یورپ کی بہت اہم قوم ہے جسے اب تک ہم پیغام صحیح معنوں میں نہیں پہنچا سکے.تو اس کے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو احسن رنگ میں اسلام کی چہرہ نمائی کی توفیق بخشے اور جلد از جلد اس قوم کے دل اسلام کے لئے پھیرے.ایک اور اہمیت اس کو یہ ہے کہ یہ تثلیث کا گڑھ ہے اور پوپ کا مرکز ہے اور صلیب تو ڑنا اگر اس طرح ہو کہ مرکز کو چھوڑ کر ارد گر د صلیب ٹوٹنی شروع ہو جائے اور مرکز کی صلیب قائم رہے تو یہ پیشگوئی پھر صحیح معنوں میں پوری نہیں ہوتی.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کی اس پیشگوئی کو صحیح معنوں میں پوری طرح اس زمانے میں ثابت کرنے کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ اٹلی میں صلیب کو تو ڑا جائے.اگر اٹلی میں صلیب ٹوٹ جائے تو ساری دنیا میں صلیب ٹوٹ جاتی ہے کیونکہ یہ پوپ کی جگہ ہے ، ان کے روحانی خلیفہ کی جگہ ہے اور یہاں سے ساری دنیا میں ان کے مبلغین جاتے ہیں اور شرک کا فساد پھیلاتے ہیں.یہاں سب سے زیادہ ضرورت تھی جہاں اب تک ہمارا مرکز نہیں تھا اس لئے بھی مجھے اس کی خاص طور پر ایک تڑپ تھی کہ یہاں جلد سے جلد مشن کھولنا چاہئے.چنانچہ وہاں جب سوالات ہوئے تو ان میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ یہاں کیا کرنے آئے ہیں اور کیا کریں گے؟ اس پر میں نے ان کو جواب دیا کہ آپ یہ کیا باتیں کر رہے ہیں آپ کو یہ حق ہے کہ لاکھوں مشن آپ نے ساری دنیا میں کھولے ہوئے ہیں اور توقع رکھتے ہیں کہ آپ کے ساتھ ساری دنیا میں حسن سلوک ہو اور یہاں ایک اسلام کا مشن آپ سے برداشت نہیں ہورہا اور آپ کی بھنویں اوپر چڑھ گئیں ہیں کہ آپ یہاں کیا کریں گے.چنانچہ اس جواب کا کافی اثر پڑا چہروں پر اور کچھ چہروں پر ملامت کے آثار بھی نظر آتے دیکھے اور ایک موقع پر جب ہم اکٹھے بعد میں
خطبات طاہر جلدم 825 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء چائے پی رہے تھے تو جو میرے مترجم تھے وہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے وہاں مشن کی سیکرٹری ہیں ان کے میاں ہیں.وہ قرآن کریم کے ترجمہ کی نظر ثانی بھی کر رہے ہیں، بڑے قابل آدمی ہیں.وہ مہمانوں کے ایک گروہ کے سامنے اٹالین میں بڑی زبردست تقریر کر رہے تھے ان کے اوپر خاص جوش تھا.تو بعد میں میں نے پتہ کیا تو یہ کہہ رہے تھے ان کو کہ دیکھو کیسے ہم شرمندہ ہوئے ہیں.ساری دنیا میں تم لوگ اپنی تبلیغ کر رہے ہو اور ایک مشن شریف لوگوں کا آتا ہے جن کے ارادے نیک ہیں جو با اخلاق لوگ ہیں وہ یہاں تم لوگوں سے کچھ کہنے کے لئے آتے ہیں اور تم آگے سے یہ پوچھتے ہو کہ تم کیا کرنے آئے ہو یہاں.کھلے ہاتھوں سے استقبال ہونا چاہئے تھا.اگر تمہارا حق ہے تو ان کا بھی حق ہے کہ یہاں آئیں اور آکر تمہیں تبلیغ کریں.اصل حقیقت یہ ہے کہ ساری عیسائیت کی جان اس وقت اٹلی میں ہے اگر چہ فرقے بے شمار ہیں لیکن جو لوگ پوپ کو نہیں بھی مانتے وہ بھی یہ ضرور مانتے ہیں کہ ساری دنیا کی عیسائیت کی جان یہاں اٹلی میں ہے.اٹلی پر ہمارا جوابی حملہ ضروری ہے اور ضروری نہیں ہوا کرتا کہ قلب سے حملہ شروع ہو بلکہ بسا اوقات قلب کی باری بعد میں آیا کرتی ہے.یہ ایک خاص علامت خدا تعالیٰ کی طرف سے نصرت کی ہے جسے میں ایک علامت کے طور پر دیکھ رہا ہوں کہ اب قلب کی باری آ رہی ہے، عیسائیت کے دل پر حملہ کرنے کی باری آئی ہے اور ہمارا جو حملہ دل پر ہے اس کا مطلب صرف اتنا ہوتا ہے کہ اس کے سینے سے نکال کر اپنے سینے میں دلوں کو اکٹھا کر لو.یا اس سے بھی زیادہ اس حملے کا خوبصورت اظہار یہ ہے جو حضرت خلیفہ اسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ بیان فرمایا کرتے تھے ایک سوال کے جواب میں کہ دلوں کو کرو گے کیا تو انہوں نے کہا خالق و مالک حقیقی کے قدموں میں لوٹا دیں گے جہاں سے یہ دل بھاگے ہوئے ہیں.تو میں جب کہتا ہوں دلوں پر حملہ تو مراد یہی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ عیسائیت کے دل پر حملہ کیا جائے اور اسے حقیقی خدا کے قدموں کی طرف لوٹا دیا جائے جس سے وہ دور جا چکا ہے.اس لئے میں اٹلی کے مشن کو بہت ہی غیر معمولی اہمیت دیتا ہوں اور اسی لئے میں بار بار آپ کو اس کے لئے دعا کی تحریک کر رہا ہوں.جہاں تک سپین کا تعلق ہے.یہاں بھی انشاء اللہ ایک مشن کے اضافے کا پروگرام ہے.غرناطہ دو دن تک جائیں گے انشاء اللہ.وہاں پہلے سے بعض زمینیں دیکھی گئی ہیں.وہاں جائزہ
خطبات طاہر جلدم 826 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء لیں گے.اگر وہ پسند آگئیں انشاء اللہ اگر وہ جگہیں اچھی ہو ئیں تو ان میں سے کوئی مناسب جگہ لے لی جائے گی.لیکن جہاں تک کہ یہاں کی تبلیغ کا تعلق ہے ابھی تک مجھے تسلی نہیں ہے.باوجو داس کے کہ تین مشنری یہاں موجود ہیں اور وہ وسیع پیمانے پر اپنی طاقت کے مطابق رابطہ رکھ رہے ہیں ، لٹریچر خود ہی شائع کرتے ہیں، اس کو تقسیم کراتے ہیں، تمام اخبارات سے، تمام بڑے بڑے لوگوں سے، یو نیورسٹیوں سے، دانشوروں سے، مقامی لوگوں سے، غیر ملکی مسافروں سے سب سے رابطہ ہے لیکن اس کے باوجود ابھی تک وہ نتیجہ نہیں پیدا ہوا جس کی ہم توقع رکھتے ہیں اور شاذ کے طور پر سپینش چہرے نظر آتے ہیں اور زیادہ تر غیر ملکی ہیں جو یہاں سپین میں آباد ہو چکے ہیں.اس وقت احمدیت کا وجود غیر ملکیوں سے بنا ہوا ہے نہ کہ مقامیوں سے ، یہ میں کہنا چاہتا ہوں.یہ صورت حال فکر مند کرنے والی ہے اور یہاں کام کی جتنی بڑی ضرورت ہے اس کے لحاظ سے مایوسی کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن میں آپ کو تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ ضرورت کے لحاظ ہم اس کا کروڑواں حصہ بھی نہیں کر سکے.جس ملک میں ایک مشن قائم ہوئے تقریباً نصف صدی گزر چکی ہو اور آج بھی مقامی لوگوں کے گنتی کے نفوس ہوں ، یہ بات قابل فکر ہے.ہزار عذر پیش کئے جائیں کہ آئے اور پھر دوسرے ملکوں میں چلے گئے ، مرکز نہ ہونے کی وجہ سے دوست آئے اور پھر رابطہ قائم نہیں رہ سکا اور بہت سی باتیں ہیں جو پیش کی جاسکتی ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ سب عذر ایک طرف ، یہ صورت حال اپنی جگہ پھر بھی تکلیف دہ رہے گی.اسے ہم نے بدلنا ہے اور اسے ہم نہیں بدل سکتے جب تک مقامی جماعت میں سے ہر شخص خود مبلغ نہیں بنتا.ایک مبلغ کا کام در اصل تبلیغ کو منظم کرنا ہے، لٹریچر پیدا کرنا ہے، تبلیغ کی تربیت دینا ہے اور وسیع پیمانے پر لوگوں سے رابطہ اور احمدیت کے نام کا تعارف کروانا اور اسلام کے نام کا عمومی تعارف کروانا ، یہ کام ہیں مبلغ کے اور انفرادی طور پر جتنا اس کو وقت ملے وہ پھر تبلیغ بھی کرے لیکن انقلابی تبلیغ جس سے ملکوں کے حالات بدلا کرتے ہیں وہ ہر فرد کا کام ہوا کرتا ہے وہی کرے تو تبلیغ ہوتی ہے ورنہ نہیں ہوتی.میں اس سے پہلے بھی بار ہا مثالیں دے چکا ہوں.انگلستان ہے، جرمنی ہے جب سے میں ان علاقوں میں آیا ہوں ان کی تبلیغ میں کئی گنا زیادہ تیزی آچکی ہے اس کی یہ وجہ نہیں کہ
خطبات طاہر جلدم 827 خطبه جمعه ۴ اکتوبر ۱۹۸۵ء مبلغ کام نہیں کرتا تھا، اس نے شروع کر دیا بلکہ احمدی جو وہاں آباد ہیں وہ کام نہیں کرتے تھے انہوں نے اب کام شروع کر دیا ہے.اس لئے آپ سب جو یہاں بیٹھے میری آواز کو سن رہے ہیں آپ سب میرے مخاطب ہیں آپ اگر کام کریں گے تو تبلیغ کے نتائج ظاہر ہوں گے مقامی لوگ خدا تعالیٰ کے فضل سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیں گے.اگر آپ لوگوں نے یہ سمجھا کہ میر صاحب ( مکرم سید محمود احمد ناصر صاحب ) یا کرم الہی صاحب ظفر یا ستار صاحب ( مکرم عبد الستارخان صاحب) یہی لٹریچر شائع کریں گے اور تقسیم کر دیں اور یہ کافی ہے.تو پھر یہ غلط نہی ہے آپ کی اس کو دل سے نکال دیں ورنہ اسی طرح بیٹھے رہ جائیں گے.سپین کو اگر احمدی کرنا ہے تو ہر احمدی مرد، ہر احمدی عورت ، ہر احمدی بچے کو اپنے ماحول میں کام کرنا ہوگا اور اس کے علم کی کمی اس کی راہ میں حائل نہیں ہوگی کیونکہ اب کیسٹ کے، لٹریچر کے ایسے ذرائع پیدا ہو چکے ہیں کہ کم علم لوگ بھی جن کو زبان پر بھی عبور نہیں ہے وہ بھی اچھی تبلیغ کر لیتے ہیں.میں نے بار ہا جرمنی کے احمدیوں کی مثالیں دی ہیں ان میں سے، اکثر آپ جانتے ہیں پاکستان میں جو نسبتا کم پڑھے ہوئے بچے تھے وہی باہر نکلے ہیں اور بعض ان میں سے ایسے ہیں جو بمشکل ٹوٹی پھوٹی جرمن بولتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو تبلیغ کے ذریعہ مخلص فدائی احمدی عطا کر دیئے ہیں اس لئے کہ ان کے دل میں محبت ہے، دعا گو ہیں اور جوش اور محبت کے ساتھ بات پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں.جو نہیں سمجھا سکتے اس کے لئے لٹریچر دے دیتے ہیں، کیسٹ مہیا کر دیتے ہیں.تو ایسے ذرائع بن چکے ہیں کیسٹ ہیں وڈیو ہیں، لٹریچر ہے ہر قسم کا تو اس کے ذریعہ یہ آپ کی کمی پوری ہو سکتی ہے.صرف دل میں ایک طلب ہونی چاہئے اور طلب کے ساتھ بے قراری چاہئے ، عام معمولی طلب نہیں پھر ایک دعا ہو بے قراری کی کہ اے خدا! ہمیں کوئی پھل دے ہم بے کار بیٹھے ہوئے ہیں جب تک تو ہمیں روحانی اولا د عطا نہیں فرماتا ہمیں چین نہیں آئے گا.جب تک تبلیغ میں یہ رنگ نہیں آتا اس وقت تک تبلیغ کامیاب نہیں ہو سکتی اس لئے یہ رنگ پید کریں.متعدد مرتبہ میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ تبلیغ کو روحانی اولاد کے رنگ میں دیکھیں اور اس کے لئے وہ رحجان پیدا کریں جو ایک ماں کو بچے کی خواہش کے لئے ہوتا ہے.ایک طبعی بات ہے کہ ہر عورت کو بچے کی خواہش ہوتی ہے اور جس کو بچہ نہ ہو رہا ہو اس کی بے قراری بعض دفعہ دیکھی
خطبات طاہر جلدم 828 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء نہیں جاتی.مجھے تو اس طرح پتہ ہے کہ مجھے خط آتے ہیں.دعا کے بعد اللہ تعالیٰ انہیں اولا دعطا بھی فرما دیتا ہے اور پھر ان کے جو خط ہیں وہ پڑھنے والے ہوتے ہیں کہ کس طرح وہ خدا کی حمد کے گیت گاتیں اور کس طرح شکر ادا کرتی ہیں.یہ ہے وہ اصل تڑپ جو جب تک تبلیغ میں منتقل نہ ہو جائے اس وقت تک صحیح معنوں میں آپ کی دعاؤں میں جان نہیں پیدا ہوگی اس لئے یہ فیصلہ کریں دل میں کہ آپ نے روحانی طور پر صاحب اولاد ہونا ہے اور پھر اپنے دن گئیں کہ کتنے دن ضائع ہو گئے اور جو بقیہ وقت ہے اس کو میں کس طرح استعمال میں لاؤں کہ مجھے خدا تعالیٰ اپنی روحانی اولا دعطا کر دے پھر آپ دیکھیں گے کہ آپ کی تبلیغ کا رحجان ہی بالکل اور ہو جائے گا، آپ کی اندرونی طور پر ایک کا یا پلٹ جائے گی.اس لئے تبلیغ کرنی ہے تو ہر احمدی کو کرنی پڑی گی.اپنے ماحول میں کریں، اپنے دوستوں میں کریں، نئی دوستیاں اس خاطر بنائیں، تعلقات بنانے کے لئے بالکل مستعد اور تیار رہا کریں.جہاں موقع ملے کسی سے بات کرنے کا بہانہ بنایا اور اس کے ساتھ تعلقات قائم کر لئے اور پھر تبلیغ شروع کر دی.یہ چیزیں ہر جگہ ہونی چاہئیں مگر سپین میں خصوصیت کے ساتھ اس لئے کہ یہاں ہزاروں لاکھوں گرجے ایسے ہیں جو پہلے مسجد میں ہوتی تھیں.نظر پڑتی ہے تو بعض اوقات جی چاہتا ہے چیخیں ماری جائیں.نا قابل بیان دکھ پہنچتا ہے بلا مبالغہ یہ کیفیت ہے کل مجھے میر صاحب بتارہے تھے تو اس وقت میری حالت نا قابل برداشت تھی جب میں یہ بات سن رہا تھا کہ ایک گاؤں میں گئے اور وہاں جا کر پوچھا کہ یہاں کوئی مسجد ہے تو انہوں نے کہا کہ دیکھو یہ سارے گرجے یہ سب مسجدیں ہیں یہ سمجھے کہ شاید مذاق کر رہے ہیں.ہم نے کہا کہ ہم تو مسجد کا پوچھ رہے ہیں گرجوں کی کیا بات کر رہے ہو.انہوں نے کہا دیکھو تو سہی جا کر.ہم نے دیکھا تو ابھی تک عبارتیں لکھی ہوئی ہیں کہ فلاں بادشاہ اس مسجد میں آیا تھا، فلاں مسلمان بزرگ اس مسجد میں آیا تھا.جس ملک کی یہ حالت ہو وہاں کی تو گلی گلی پکار رہی ہے آپ کو تبلیغ کے لئے ، اینٹ اینٹ دہائی دے رہی ہے کہ اے مسلمانو! اگر تم میں کوئی غیرت ہے اور کوئی محبت ہے محمد مصطفی ﷺ اور خدائے واحد و قہار کے ساتھ تو اٹھو اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرو تم میں سے ہر ایک کو طارق بن جانا چاہئے.تم میں سے ہر ایک کو خالد ہو جانا چاہئے.تم میں سے ہر ایک میں وہ جذبہ جہاد پیدا ہونا چاہئے جو محد مصطفی ﷺ نے اپنے ساتھیوں
خطبات طاہر جلدم 829 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء میں پیدا کیا تھا.سنتے نہیں آپ ان بستیوں کی آوازیں! اینٹ اینٹ پکار رہی ہے یہاں! تم پر فرض ہے تم جو یہاں آکر دوبارہ آباد ہوئے ہو کہ دوبارہ اسلام سے اس ملک کو آشنا کرو، سارے گرجے دوبارہ اپنی مسجدوں میں تبدیل کرو لیکن اس طرح کہ پہلے دلوں میں وہ مسجد میں بناؤ.تلوار کے زور سے نہیں ، جبر کے ساتھ نہیں ، ہر دل میں خدائے واحد کی محبت ڈال دو پھر دیکھو کہ سارے گرجے از خود مسجدوں میں تبدیل ہونے شروع ہو جا ئیں گیاور اس دفعہ اس شان کے ساتھ یہ تبدیلی پیدا کرو کہ پھر قیامت تک کے لئے شیطان ان جگہوں سے مایوس ہو جائے اور ہمیشہ ہمیش کے لئے یہ عبادت گاہیں خدائے واحد کے لئے وقف رہیں.پھر دیکھیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ کیا مقام اور کیا مرتبے عطا کرتا ہے.تمام دنیا میں ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ کے گیت گائے جائیں گے.آپ کے ناموں سے تاریخ کے آغاز ہوں گے، یہ مؤرخ کہا کرے گا کہ فلاں احمدی نوجوان اس طرح کپڑے بیچنے آیا تھا ، فلاں احمدی نوجوان اس طرح ایک معمولی تجارت کے لئے آیا تھا اور اس نے یہ یہ تبدیلیاں پیدا کیں ، فلاں گاؤں میں اس نے پودا لگا یا فلاں گاؤں میں اس نے پودا لگایا، فلاں گاؤں میں اس نے پودا لگایا، فلاں گرجے پھر مسجدوں میں تبدیل ہوئے، اور یہ فلاں مجاہد کے کارناموں کے نتیجہ میں ہے.یہ ہے وہ زندگی ہمیشگی کی زندگی جس کی طرف سپین آپ کو بلا رہا ہے.اس لئے اس کی طرف توجہ کریں اور اللہ پر توکل رکھیں اور دعائیں کریں اور پھر آپ دیکھیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ روز بروز رنگ بدلنے شروع ہو جا ئیں گے.آج بھی مجلس میں جو شام کو یہاں کے مربیوں وغیرہ کے ساتھ ہوگی ہم مزید غور کریں گے پالیسی کے متعلق لائحہ عمل کے متعلق جو جو تبدیلیاں ضروری ہیں وہ اختیار کی جائیں لیکن موجودہ صورت حال بہر حال قبول نہیں ہے.یہ جو ٹھنڈا ٹھنڈا چلنے کا طریقہ ہے مجھے تو پسند ہی نہیں ہے.خدا کی راہ میں چلنا ہے، جان مار کے چلیں ، زور کے ساتھ چلیں، چھاتی کھول کر سر بلند کر کے چلیں اور نئے قلعے فتح کریں.آپ خدا کے جرنیل ہیں.آج تو ہر احمدی جرنیل ہے، سپاہی والی بات بھول جائیں، آپ نے نئے علاقے فتح کرنے ہیں.آپ کے سپر د قومیں کی گئی ہیں، آپ کو قوموں کا سردار بنایا گیا ہے.اپنا مقام تو پہچانیں آپ ہیں کون؟ پھر دیکھیں آپکی تو کیفیت ہی بدل جائے گی آپ کی ادائیں بدل
خطبات طاہر جلدم 830 خطبه جمعه ۴ را کتوبر ۱۹۸۵ء جائیں گی.ذمہ داریوں کا احساس پیدا کر کے دعائیں کرتے ہوئے.انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے لئے مقدر ہو چکا ہے کہ آپ نے ان علاقوں کو سر کرنا ہے.اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ خاص طور پر مقامی احمدی دوست اس ذمہ داری کو پورا کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے اور بڑا عظیم شرف ہے جو ان کو حاصل ہونے والا ہے، عظیم سعادتیں ہیں جو انتظار کر رہی ہیں.علاوہ ازیں تمام دنیا کے احمدیوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ خاص طور پر پین کے لئے دعائیں کریں.یہ اتنی درد ناک جگہ ہے، ایسی دردناک سرزمین ہے آج اسلام کے لئے ، کہ روحوں کو چین نصیب نہیں ہوسکتا جب تک ہم دوبارہ اسلام کے جھنڈے نہ گاڑ دیں.جب تک ہر گر جے کو خدائے واحد کی پرستش کے لئے دوبارہ وقف نہ کر دیں ہمیں چین نہیں ہوگا.دیکھو کس شان سے حضرت محمد مصطفی ﷺ نے مکہ سے بتوں کو نکالا سینکڑوں سال سے وہاں آباد تھے ایک بت بھی وہاں باقی نہیں رہنے دیا اس لئے کہ آپ نے پہلے دلوں کے بت نکالے تھے پھر خود بخود مکہ کے بت وہاں سے بھاگ گئے ، ان کے رہنے کی کوئی صورت باقی نہیں رہی.آپ بھی اسی طرح کریں آپ بھی اسی آقا کے غلام ہیں.حضرت محمد مصطفی ﷺ پر بار بار درود بھیجیں اور ایک یہ بھی ذریعہ ہے دعاؤں کی قبولیت کا یاد کریں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے کس شان کے ساتھ آپ کو خانہ کعبہ سے بتوں کو نکالنے کی توفیق بخشی تھی اور اسی محمد کی محبت کے واسطے دے دے کر خدا سے عرض کریں کہ اے خدا! ہم بھی تو اسی کے غلام ہیں ہمیں بھی توفیق بخش کہ ہم بھی ان شرک کی آماجگاہوں کو ختم کر دیں، ہم بھی یہاں سے صلیب کو توڑنے والے ہوں اور ہمیشہ ہمیش کے لئے تیری وحدانیت کے گیت گانے والا یہ ملک بن جائے.ان دعاؤں کے ساتھ آپ آگے بڑھیں.اللہ آپ کے ساتھ ہو.اللہ آپ کو توفیق بخشے اور ساری دنیا کی جماعت احمدیہ کی دعائیں آپ کے ساتھ ہوں.آمین.
خطبات طاہر جلدم 831 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء دور و یو رپ فرانس بالخصوص چین کے تفصیلی حالات اور وہاں احیاء دین کا عزم ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: یورپ کا یہ سفر جوابھی ہم نے اختیار کیا تقریباً ایک مہینے اور چار دن کا سفر تھا اور یہ تمام عرصہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بہت ہی مصروفیت میں کٹا.یہ سفر مصروف بھی بہت رہا اور کئی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے فضل اور اس کے احسان کے ساتھ بہت مفید بھی ثابت ہوا.اس سفر کے دوران خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے نتیجہ میں پانچ نئے مراکز کے افتتاح کی توفیق ملی جن میں سے آخری مرکز جس کا افتتاح کیا گیا وہ فرانس کا تھا.اس سے پہلے تو یہی ارادہ تھا کہ فرانس میں انگلستان کی جماعت کو خصوصیت سے شمولیت کی عام دعوت دی جائے اور اس کے لئے دعوت عملاً دی بھی گئی اور تیاریاں بھی بہت ہو چکی تھیں لیکن ہم سپین میں ہی تھے تو معلوم ہوا وہاں ابھی تیاری مکمل نہیں اور جس جگہ مشن کھولا جارہا ہے وہاں کے ڈپٹی مئیر کا رویہ بھی معاندانہ ہے اور اس مشن کو آسانی سے وہ قبول نہیں کر رہے اس لئے ان حالات میں بہتر ہے کہ تقریب یا تو نہ کی جائے یا مختصر کی جائے.چنانچہ نہ کرنے کا تو سوال ہی نہیں تھا اس لئے میں نے کہا کہ فرانس کی جماعت کے جو دوست ہوں گے ان کے ساتھ مل بیٹھ کر ہم دعا کے ذریعہ افتتاح کر دیں گے.رفتہ رفتہ جب ان لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم کیسے ہیں، کیسا اخلاق رکھتے ہیں تو ان کے دل جیتنے کی بعد پھر
خطبات طاہر جلدم آہستہ آہستہ کیفیت بدل جائے گی.832 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء امر واقعہ یہ ہے کہ فرانس کے ساتھ احمدیت کا جو پہلا رابطہ ہوا ہے وہ بھی کوئی ایسا خوشکن اور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا.یہ ۱۹۴۶ء کی بات ہے جب حضرت مصلح موعود نے یورپ میں جنگ کے بعد نئے مشن ہاؤسز نئی مساجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا اور اسی سال سے نافذ العمل کرنا شروع کر دیا اس میں فرانس بھی تھا اور ۱۹۴۶ء میں اگر چہ کرایہ کا مکان تھا.با قاعدہ کوئی عمارت تو خریدی نہیں جاسکی.یا مسجد کے لئے زمین بھی نہیں لی گئی لیکن سپین کی طرح یہاں یہی مبلغ بھجوا دیئے گئے تھے جو تقریبا پانچ سال پیرس میں ٹھہرے ہیں اور ان کی رپورٹوں سے یہی تاثر لیا گیا حضرت مصلح موعود نے بعض دفعہ خطبوں میں بھی ذکر فرمایا کہ فرانس کی زمین سر دست اسلام کے لئے سنگلاخ معلوم ہوتی ہے اور اس قوم کے رویے میں تکبر پایا جاتا ہے اور پیرس خصوصیت کے ساتھ چونکہ ساری دنیا کی عیاشی کا مرکز ہے اس لئے وہاں مادہ پرستی اور دنیا سے محبت کا جو رنگ ہے وہ یورپ کے دوسرے شہروں میں نہیں ملتا.تو پانچ سال کے تجربے کے بعد وہ مشن بند کر دیا گیا.اس دفعہ بھی ہمارا تجربہ یہی رہا کہ فرانس میں خصوصیت کے ساتھ پیرس کیونکہ جب میں فرانس کہتا ہوں تو فرانس تو ایک وسیع ملک ہے اور اس کے مختلف خطوں کے لوگ مختلف مزاج رکھتے ہیں اس لئے میں سارے فرانس کے متعلق کوئی فتویٰ نہیں دینا چاہتا لیکن پیرس خصوصیت کے ساتھ ایک ایسی جگہ ہے جہاں ابھی بھی وہی دنیا پرستی کا رنگ غیر معمولی طور پر غالب ہے اور اہل فرانس کے مزاج کو اگر پیرس کے پیمانے سے ماپا جائے تو آج بھی یہی فیصلہ ہوگا کہ نہایت متکبر ہیں اور دنیا پرست ہیں لیکن میرے نزدیک یہ پیمانہ درست نہیں.نہ لندن سے انگریز کا مزاج پہچانا جاسکتا ہے نہ پیرس سے اہل فرانس کا مزاج پہچانا جاسکتا ہے.South of France جہاں جہاں سے ہم گزرے ہیں وہاں بالکل اور قسم کے لوگ ہم نے دیکھے.بڑے خلیق اور مہمان نواز اور ہنس مکھ.باہر سے آنے والوں کا کھلے بازوؤں سے استقبال کرنے والے، ان کے رنگ بالکل مختلف تھے لیکن پیرس میں بالکل ایک اور رنگ نظر آیا.بہر حال اس مشن کا افتتاح ہوا دعاؤں کے ساتھ اور پرسوز دعاؤں کے ساتھ اور جماعت فرانس کی ایک کافی تعداد خدا کے فضل سے وہاں موجود تھی.جماعت فرانس کو ایک مرکز مل گیا ہے اور
خطبات طاہر جلدم 833 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اب وہاں احمدیت کا نور دن بدن زیادہ شان کے ساتھ ، زیادہ وسعت کے ساتھ اور جہاں تک دلوں کا تعلق ہے زیادہ گہرائی کے ساتھ ہر طرف منتشر ہونے لگے گا.فرانس کا کچھ اتنا قصور بھی نہیں کیونکہ فرانس تعارف کے لحاظ سے ابھی بہت پیچھے ہے.عجیب اتفاق ہوا ہے کہ فرانس اور فرانس کی جو Colonies تھیں ان سب جگہ میں احمدیت کا تعارف بہت دیر سے شروع ہوا ہے.افریقہ میں بھی جہاں جہاں فرانس کی حکومت تھی ، فرانس کا رسوخ تھا وہاں جماعتی تعارف بہت لیٹ شروع ہوا ہے.تو ان چیزوں کا بہت اثر پڑتا ہے.ان کو پوری طرح علم نہیں کہ جماعت ہے کیا ؟ ان کو ہماری عالمی حیثیت کا ہی پتہ کچھ نہیں.اس لئے وقت لگے گا لیکن بہر حال مجھے تو اس تجربے سے جو اہل فرانس کی آواز آئی ہے وہ یہ ہے کہ: بہرہ ہوں میں تو چاہئے دونا ہو التفات سنتا نہیں ہوں بات مکرر کہے بغیر (دیوان غالب صفحہ : 111) میں بہرا ہوں تو مجھے چھوڑ تو نہیں دو گے ذرا اور اونچی آواز میں اور بار بار مجھے آواز پہنچاؤ.چنانچہ میں نے وہاں افتتاح کے وقت اپنے اس رد عمل کا اظہار یوں کیا کہ جہاں تک جماعت احمدیہ کا رد عمل ہے وہ تو یہ ہے کہ اب ایک نہیں انشاء اللہ تعالیٰ فوری طور پر فرانس میں دو مرکز بنائیں گے اور یہ تو ایک مکان لیا گیا ہے بڑا اچھا اور وسیع مکان ہے.بہت کشادہ کمرے ہیں اور کچھ عرصہ تک جماعت کی آئندہ ضروریات کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ بہت حد تک کفیل رہے گا لیکن اب خیال یہ ہے کہ یا پیرس کے گردو نواح میں یا جنوبی فرانس میں جہاں لوگوں کے اخلاق بہتر معلوم ہوئے ہیں وہاں ایک وسیع خطہ زمین لے کر وہاں نہایت خوبصورت اور عظیم الشان مسجد بنائی جائے اور مسجد کے ساتھ پھر مشن ہاؤس بھی قائم کیا جائے.تو ہم تو انشاء اللہ تعالیٰ وہ لوگ نہیں ہیں جن کے خمیر میں مایوسی پائی جاتی ہو یا شکست لکھی گئی ہو.ہم تو انشاء اللہ تعالیٰ اہل فرانس کو بہر حال فتح کریں گے اور ان کے دل جیتیں گے.کیونکہ فرانس کو ایک عالمی حیثیت حاصل ہے اس کے اثرات دنیا میں اور بھی بہت سے ملکوں اور قوموں پر پڑتے ہیں.اگر فرانس میں احمدیت کا مشن مضبوط ہو جائے تو کثرت کے ساتھ دنیا میں فرانسیسی بولنے والے علاقے ہیں جہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے نفوذ کی راہیں نکل آئیں گی اس
خطبات طاہر جلدم 834 خطبه جمعه ۱۸ / اکتوبر ۱۹۸۵ء لئے یہ غیر معمولی اہمیت کا علاقہ ہے اسے ہم بہر حال نہیں چھوڑیں گے.میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس زمانہ میں غیر معمولی مالی مشکلات اور بعض دوسری دقتیں پیش نہ ہو تیں تو حضرت مصلح موعود بھی اس مشن کو بند نہ کرتے مگر دوسرے بیرونی ممالک سے طلب شروع ہو چکی تھی اور اس زمانہ میں واقفین بھی تھوڑے تھے اور جماعت احمدیہ کی مالی حالت بھی ایسی نہیں تھی کہ ہر قسم کے پھیلتے ہوئے مطالبوں کو پورا کر سکے.اس لئے لازما حضرت مصلح موعود کے مزاج کو میں سمجھتا ہوں کبھی ہو نہیں سکتا کہ آپ نے مایوسی کی حالت میں مشن بند کیا ہو.وقتی طور پر اس ارادہ کے ساتھ بند کیا ہوگا کہ بعد میں جب بھی خدا توفیق دے گا ہم انشاء اللہ بڑے زور کے ساتھ اس کام کو دوبارہ شروع کریں گے.تو اس کام کو دوبارہ شروع کرنے کا خدا کے فضل سے اس دورے میں آغاز ہو چکا ہے.باقی احباب جماعت دعائیں کریں اللہ تعالیٰ دلوں کو بدلنے والا ہے اور فرانس کی سرزمین کو جوعملاً اسلام کی طلب پیدا ہو چکی ہے اس کے دوسرے آثار ظاہر ہورہے ہیں.اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم دوبارہ اب پورے زور کے ساتھ یہاں کوشش کریں اور دعاؤں کی مدد سے ہم انشاء اللہ تعالیٰ کامیاب ہوں گے.اس سفر میں پانچ مراکز کا افتتاح کرنے کی توفیق ملی اور چار جگہ نی زمینیں دیکھی گئیں جہاں سودا ہو رہا ہے اور امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ وہاں بھی اس سال کے اندر یا اس سال کے آخر تک زمینیں خرید لیں گے اور ہو سکتا ہے آئندہ سال ہم وہاں با قاعدہ مشنوں کی تعمیر کا کام بھی شروع کر دیں.ایک جرمنی کے شمال میں ہیمبرگ میں ہمارا مشن بہت چھوٹا ہو چکا تھا.وہاں خدا تعالیٰ کے فضل سے زمین کا ایک بہت ہی اعلیٰ اور وسیع ٹکڑ امل رہا ہے جس علاقے کے مئیر نے وعدہ بھی کیا ہے کہ معاہدہ میں شامل کرلوں گا کہ مسجد آپ بنا سکتے ہیں.دوسرے تعمیر کی وہاں بڑی وسیع گنجائش موجود ہے.یعنی ایسا علاقہ ہے جہاں جرمنی میں پہلے سے ہی تعمیر کی اجازت دی جا چکی ہے ورنہ جرمنی میں زمینوں کا حاصل کرنا جہاں تعمیر کی جاسکے بہت ہی مشکل کام ہے اور اگر آپ بغیر اجازت کے زمین لے لیں تو سالہا سال کی کوششوں کے بعد بھی بعض دفعہ وہ درخواستیں رد ہو جاتی ہیں.دوسرے جرمنی ہی میں میونخ کے مقام پر وہاں کچھ زمینیں ہم نے دیکھی تھیں مگر ابھی کوئی مناسب حال جگہ نہیں ملی ابھی تک.وہاں بھی انشاء اللہ ایک مسجد اور ایک مشن ہاؤس بنانا ہے.
خطبات طاہر جلدم 835 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء سپین میں غرناطہ کے مقام پر بہت کثرت کے ساتھ وہاں طلب ہے اس قد رطلب ہے کہ جس علاقے میں ہم زمین دیکھنے جاتے تھے وہاں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور لوگ باتیں کرتے تھے علاقے والوں کو میئر کہتے تھے کہ ہمارے علاقے میں مسجد بنے گی.فرانس کے مقابل پر اس قوم کا بالکل بر عکس رحجان ہے.اخباری نمائندے بھی سوال کرتے تھے کہ بتاؤ کس علاقے کو تم نے چنا ہے.چنانچہ وہاں متعدد جگہ پر زمینیں دیکھی گئیں اور ایک دو جگہیں جو پسند آئی ہیں ان کے متعلق گفتگو ہورہی ہے.دونوں بہت ہی آباد سڑکوں پر واقع ہیں.وسیع کشادہ سڑکیں جو بڑے بڑے شہروں کو ملاتی ہیں.دونوں سڑک سے بالکل لگتی ہیں یا اتنی قریب ہیں کہ وہاں سے گزرنے والوں کو مسجد بڑی نمایاں طور پر نظر آئے گی.ایک کا رقبہ تو خدا کے فضل سے بارہ ایکڑ سے بھی زائد ہے اور کونے کا پلاٹ ہے جس کے ایک طرف مین روڈ جاتی ہے اور ایک طرف چھوٹی سڑک جاتی ہے.وہاں جب ہم گئے تو وہاں بھی ایک ہنگامہ ہو گیا.لوگ وہاں اکٹھے ہونے شروع ہو گئے لٹریچر مانگ مانگ کر لوگ لینے لگے یہاں تک کہ میر محمود احمد صاحب جو ساتھ تھے.کہنے لگے ہمارے پاس تو ختم ہو گیا ہے لیکن مطالبہ جاری تھی.ایک شوق ایک طلب جو عموماً سپین میں پائی جاتی ہے جس کا اس زمین کے خریدنے کے موقع پر بھی مشاہدہ کیا.سپین کا دورہ جہاں خدا کے تعالیٰ کے فضل سے کئی لحاظ سے بہت کامیاب بھی رہا اور کئی لحاظ سے دل پر نہایت غم کے اثرات چھوڑنے والا تھا اور سپین میں رہنا بہت ہی مشکل تجربہ تھا کیونکہ میں نے جیسا کہ سپین کے خطبہ جمعہ میں بھی ذکر کیا ہے کثرت سے ایسے گرجے وہاں پائے جاتے ہیں جو کسی زمانہ میں مسجد میں ہوا کرتی تھیں.اب ان میں کوئی خدا کا نام لینے والا باقی نہیں.اس کثرت سے ہیں کہ بعض شہروں میں جب پوچھا گیا کہ کوئی مسجد یہاں ہے پرانی کہ نہیں؟ تو انہوں نے کہا کہ جس گرجے میں جاؤ وہ مسجد تھی.چنانچہ جب ہمارے مشنری نے جا کر دیکھا تو پتہ چلا کہ واقعہ وہ صحیح کہہ رہے تھے.جس گرجے میں وہ گئے پرانی مسجد کے آثار ملتے تھے ابھی تک بعض جگہ کلمہ توحید لکھا ہوا نظر آتا تھا.بعض جگہ یہ تختیاں لگی ہوئی تھیں کہ فلاں بزرگ آئے تھے فلاں بادشاہ یہاں آئے تھے.تو خوشکن تو اس لحاظ سے ہے کہ اہل سپین ہمیشہ سے ہی احمدیت کا خدا کے فضل سے کھلے بازوؤں سے استقبال کرتے ہیں لیکن دوسری جو فضا ہے وہ اس طرح یادوں پر اثر ڈالتی ہے کہ گہرے
خطبات طاہر جلدم 836 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء غم کے سائے میں انسان چلا جاتا ہے اور ایسا غم نہیں جو مایوس کن ہو، ایسا غم ہے جو زیادہ انگیخت کرتا ہے ، زخموں کو زندہ کرنے والا غم ہے، ان زخموں کو چھیڑتا ہے جن کے نتیجہ میں پھر ارادے کھلتے ہیں.لیکن ان اثرات کے جو نتائج ہیں ان کے متعلق میں پھر آخر میں میں بات کروں گا.اس وقت تو میں یہ بتاتا ہوں کہ وہاں دو جگہ ہماری بڑی تقریبات تھیں ایک تو پید رو آباد کے اندراس سارے علاقے کے لئے اور ایک غرناطہ میں.میڈرڈ ہم اس دفعہ نہیں جاسکے اگر چہ وہاں بھی مشن موجود ہے لیکن سفر کے دوران وہ ایک رستہ پر رہتا تھا اور وقت کی کمی تھی اس لئے لازماً ہمیں میڈرڈ کو اپنے پروگرام میں سے مجبوراً کاٹنا پڑا.پید رو آباد میں جو تقریب ہوئی ہے اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مقامی باشندوں کی اتنی حاضری تھی کہ میرا تاثر بھی یہی تھا اور میر صاحب ( سید محمود احمد ناصر صاحب) کا بھی یہی تاثر تھا کہ افتتاحی تقریب پر جو باہر سے آنے والے احمدی مہمان تھے اگر ان کو نکال دیا جائے تو سپینش باشندوں کی شمولیت اس میں زیادہ تھی.دو ہزار کرسیوں کا انتظام تھا جن میں سے ایک سو چونکہ بہت تیز دھوپ میں پڑی ہوئی تھیں وہ خالی رہیں ، باقی انہیں سو کرسیاں بھر گئیں اور برآمدہ جو بڑا وسیع ہے اس میں لوگ بھرے ہوئے تھے اور اس کے علاوہ بھی پھرنے والے موجود تھے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے دو ہزار سے زائد سپینش مہمان آئے ہوئے تھے اور تقریب اس دفعہ کچھ مختلف رنگ کی تھی.اسی تقریب میں عوام الناس کے علاوہ خواص کو بھی دعوت دی گئی تھی اور یہ صرف مقامی جلسہ نہیں تھا بلکہ سپین کے خواص کی نمائندگی بھی گزشتہ مرتبہ کے مقابل پر زیادہ تھی.چنانچہ امریکن قونصلیٹ اور انکے ساتھی ، آسٹرئین قونصلیٹ اور سپینش گورنمنٹ کے نمائندے اور بھی اس قسم کے معززین اور دانشور، پریس کے نمائندے، چوٹی کے جو اخبارات ہیں ان کے نمائندے، ریڈیو ٹیلی وژن کے نمائندے یہ سارے موجود تھے.تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ پین والوں نے جو پہلے حسن سلوک کیا آج بھی وہ اسی طرح جاری ہے اور باوجود اس کے کہ وہ خوب اچھی طرح جان چکے ہیں بارہا اخبارات میں یہ بات چھپ چکی ہے کہ جماعت احمدیہ کو پاکستان میں غیر مسلم سمجھا جا رہا ہے اور کثرت سے بعض حکومتوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈا کیا گیا ہے کہ احمدیوں کو مسلمان نہ سمجھو ان سے کوئی تعلق نہ رکھو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں.اس کوشش کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے احمدیت یعنی حقیقی اسلام
خطبات طاہر جلد۴ 837 کی طرف ان کا رحجان خدا کے فضل سے پہلے سے بھی بڑھ کر ہے.خطبه جمعه ۱۸ / اکتوبر ۱۹۸۵ء دوسرا اس تقریب میں جو نمایاں فرق تھا وہ یہ تھا کہ بجائے اس کے کہ ایک لمبی تقریر کی جاتی نہایت مختصر الفاظ میں میں نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کو موقع دیا کہ وہ جس قسم کے سوال اسلام پر یا اپنے مسائل پر کرنا چاہتے ہیں وہ کریں.چنانچہ اس سے یہ تقریب خدا کے فضل سے بہت ہی پر لطف اور بھر پور رہی.اس کثرت سے دوستوں کی طرف سے پھر سوال شروع ہوئے کہ آخر پر پھر مجھے خود ہی روکنا پڑا کیونکہ بعد میں مہمانوں کی چائے سے تواضع بھی کرنی تھی.بعض ایسے معزز مہمان تھے جو معین وقت کو مد نظر رکھ کر آئے تھے اور انہوں نے اپنی دوسری تقریبات میں بھی جا کر حصہ لینا تھا.بہر حال اگر چہ وقت زیادہ بھی ہو گیا تھا لیکن یہ سارے لوگ ٹھہرے رہے ان میں سے کوئی بھی نہیں گیا.چند ایک نے چائے میں شمولیت سے معذرت کی کیونکہ انکو پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی مگر تقریب کے دوران خدا کے فضل سے تمام احباب مرد، عورتیں اور بچے پوری طرح توجہ کے ساتھ بیٹھے رہے اور بعض مواقع پر تو بڑی نمایاں انہوں نے Response دی ہے.یعنی ان کا طریق ہے تالیاں بجانے کا تالیاں بجا کر بھی اور پھر کھڑے ہو کر تالیاں بجا کر بھی بڑے جوش کے اظہار سے انہوں نے اپنی محبت کا اپنے رنگ میں اظہار کیا.وہاں اخبارات کی نمائندگی کے علاوہ مختلف قسم کے ریڈ یوٹیشن ہیں جن کی طرف سے میر صاحب کو بار بار ٹیلیفون پر بلایا جاتا تھا کہ Running Commentary کرو اور بتاؤ کہ تقریب میں کیا ہورہا ہے، کون کون آئے ہیں ، کیا مقصد ہے اور کہتے تھے کہ آپ فون پر جو باتیں کہہ رہے ہیں یہ براہ راست نشر ہورہی ہیں.چنانچہ اسی دوران پانچ چھ مرتبہ میر صاحب کو بار بار توجہ دینی پڑی اور کئی ریڈیوسٹیشنز نے ان کا Live Interview نشر کیا اور ریڈیو اور ٹیلی وژن جو ہم سے خبریں لے کر گئے وہ انہوں نے بہر حال بعد میں نشر کرنی تھیں، لائیو پروگرام یہاں سے ممکن نہیں تھا.اخبارات کی Response بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھی تھی کیونکہ جو اخبار میر صاحب نے دکھایا تھا اس میں خدا کے فضل سے بہت ہی اچھا Coverage تھا لیکن وہ بتارہے تھے کہ بعد میں ہم اکٹھا کر کے انشاء اللہ تراجم کر کے بھیجیں گے.غرناطہ میں جو تقریب تھی یہ عوامی دعوت کی تقریب نہیں تھی کیونکہ ان کو تاکید کی گئی تھی کہ ہوٹل
خطبات طاہر جلدم 838 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء میں یہاں کے دانشوروں کو بلایا جائے اور یونیورسٹیوں کے نمائندہ ،شاعر اور آرٹسٹ اور ہر قسم کے طلبہ اور دیگر دانشور جو کہلاتے ہیں زیادہ تر ان لوگوں کو بلایا جائے تا کہ ان کو اسلام کے متعلق سوال وجواب کا موقع ملے.چنانچہ خدا کے فضل سے یہ تقریب بھی بڑی بھر پور رہی.اس میں تو اتنی دیر لگ گئی کہ جو چائے کا وقت تھاوہ گزر کر کھانے کے وقت میں تبدیل ہو گیا اور پھر بھی ابھی سوال باقی تھے.پھر میں نے ان سے کہا کہ اب ہم مجبور ہیں بعض دوست بیچاروں کو جانا ہوگا اس لئے چائے پہ چلتے ہیں.چنانچہ چائے یا کافی کے بعد چونکہ بعض دوستوں کو طلب تھی اس لئے میں نے ان سے دوبارہ کہ دیا کہ اگر کوئی دوست ٹھہر نا چاہتے ہیں ان میں سے کسی کے سوال رہ گئے ہیں تو وہ بے شک دوبارہ آجائیں.چنانچہ بہت سے دانشوران میں سے تشریف لے آئے اور انہوں نے ایک شکوہ کیا کہ آپ نے بیچ میں اخباری نمائندوں کو اور ریڈیو کے نمائندوں کیوں بلالیا.ان کی وجہ سے ہماری مجلس جس طرح ہم چاہتے تھے جم نہیں سکی.ان کو اپنے کاموں میں جلدی ہوتی ہے ان کے سوال اور قسم کے ہوتے ہیں ہم تو بڑی سنجیدگی کے ساتھ آپ سے مختلف گہرے مضامین پر آپ سے سوال کرنا چاہتے تھے.چنانچہ ان میں ایک شاعر بھی تھے جن کے متعلق ایک دوسرے سپینش شاعر نے جو خود بھی تشریف لائے ہوئے تھے بتایا کہ اس وقت یہ سپین کے بہترین شاعر ہیں.سارے سپین میں صرف اندلس کے نہیں بلکہ چوٹی کا کلام کہنے والے اور بہت ہی گہرا اثر رکھنے والے، تمام بڑی تقریبات میں ان کو خصوصیت سے دعوت دی جاتی ہے.وہ بھی اور بعض دوسرے دانشور اور یونیورسٹیوں کے طالب علم وہاں بیٹھ گئے اور یہ مجلس بھی رات تقریباً ساڑھے گیارہ بجے تک یا بارہ بجے تک چلتی رہی.صبح دوسرے دن چونکہ ہم نے جانا بھی تھا جو دوست بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے خود بھی کھانا کھانا تھا اس لئے آخر پر پھر ان سے اجازت لینی پڑی لیکن ان کے سوالات سے اندازہ ہوا کہ اس وقت باقی یورپ کی طرح سپین میں بھی دہریت عام ہو رہی ہے اور مذہب کا جو پہلے خیال تھا، کھوکھلا سا ایک تصور تھا اب وہ تصور بھی ٹوٹ رہا ہے.چنانچہ جب میں ایک موقع پر وہاں پید روآباد میں مجھ سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ کے نزدیک Roman Catholicism اور اسلام میں سے کون جیتے گا کس کا مستقبل ہے؟ تو میں نے ان کو یہ جواب دیا کہ جہاں تک Roman Catholicism کا تعلق ہے وہ تو مر چکا ہے کیونکہ Roman Catholicism اگر کامیاب ہوا ہوتا تو تمہاری قوم دہر یہ
خطبات طاہر جلدم 839 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء نہ ہو رہی ہوتی اگر Roman Catholicism کامیاب ہوا ہوتا تو ایسی عام بغاوت تمہارے معاشرہ کے خلاف اور تمہاری فلاسفی کے خلاف نظر نہ آتی جو اس وقت نظر آ رہی ہے.تو رومن Roman Catholicism کا تو مقابلے کا سوال نہیں کیونکہ وہ تو تجربہ سے ثابت ہو گیا ہے کہ نا کام ہو چکا ہے اور جہاں تک اسلام کا تعلق ہے تو اس کے بارہ میں ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے کیوں کامیاب ہوگا.یہ عمومی تاثر تھا جو وہاں پید روآباد میں مجھ پر پڑا لیکن غرناطہ میں جا کہ چونکہ دانشور لوگ آئے ہوئے تھے وہاں یہ محسوس ہوا کہ یہ تو بہت ہی گہرا زہر ہے جو معاشرے میں پھیل چکا ہے.اشتراکیت ہی نہیں اشتراکیت کے سوا بھی خدا کے خلاف بغاوت، مذہب کے خلاف بغاوت اور ان سب قدروں کو پیچھے چھوڑ کر کسی نئی چیز کی تلاش اور یہ وہ چیز ہے جو احمدیت کے سوا کوئی ان کو دے ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے اور کسی کے پاس ہے ہی نہیں اور جس قسم کے سوال وہ کرتے ہیں جو Orthodox Islam آجکل کہلاتا ہے.Orthodox تو اصل میں ہم ہیں کیونکہ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے زمانہ ہی سے اسلام شروع ہوا اور سب سے Orthodox تو وہ زمانہ کہلا نا چاہئے لیکن موجودہ اصطلاح میں جب Orthodox کہا جاتا ہے تو Medieval Islam مراد ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا اسلام مراد نہیں.بیچ کی صدیوں میں جہاں اسلام میں تشدد پیدا ہوا یا جہاں اسلام میں بدقسمتی سے بعض جاہلانہ خیالات بھی آگئے بعض کم علم لوگوں نے اسلامی علوم پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اس زمانہ کو Medeival Islam سمجھا جاتا ہے اور اسی کا نام آج کل Orthodox Islam ہے.تو Orthodox Islam کے پاس سارے نمائندے آپ جانتے کہ کس قسم کے علماء ہیں.ان کے پاس تو ان سوالات کا کوئی جواب نہیں ان کو تو خود ان سوالوں کا ہی علم نہیں.ان کی سوچ کی جو نہج ہے وہ بالکل مختلف سمتوں میں جارہی ہے.ایک دانشور کو قرآن اور حدیث سے مطمئن کرنا یہ وہ معجزہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا معجزہ ہے اور بڑے سے بڑے عالم اور بڑے سے بڑے فلسفی کے سامنے بھی ایک احمدی نہ صرف یہ کہ عاجز نہیں آسکتا بلکہ اپنی برتری کو یوں محسوس کرتا ہے جیسے وہ بلند منزل سے نیچے کسی چیز کو دیکھ رہا ہو.احمدیت کے علم کلام میں اتنا یقین اور اتنی قوت ہے کہ اس کو جب آپ بیان کرتے
خطبات طاہر جلدم 840 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء ہیں تو دلوں میں داخل ہوتا ہوا نظر آرہا ہوتا ہے.اور کبھی ایسا نہیں ہوا، الا ماشاء اللہ اتفاق سے ہزار میں سے کبھی ایک ضدی نکل آئے تو وہ اور بات ہے ورنہ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ شدت سے سوال کرنے والا پوری شدت اور غصے اور جذبہ سے سوال کرے اور پھر پوری شدت اور جذبہ کے ساتھ بعد میں تائید نہ کرے.سر ہلا ہلا کر بھی اور خوشی کے ویسے اظہار سے، ہر رنگ میں ان کی کیفیت بدل جاتی ہے، اسلامی تصورات کے لئے اُن کی آنکھوں میں محبت پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ غرناطہ میں بھی یہی نظر آیا لیکن اس میں ابھی بہت کام ہے، اتنا وسیع کام کرنے والا ہے کہ جس کی وجہ سے طبیعت پر بہت ہی افسردگی کہنا چاہئے یا احساس غم اور دکھ کا کہ ہم کس طرح یہ کریں گے اور ہم کیا کریں اور کتنی جلد ہونا چاہئے اور ہم کیا کر سکتے ہیں؟ اپنی بے بضاعتی کی طرف توجہ اور کام کی شدت اور اس کی وسعت اور زمانے کی رفتار اور پھر اپنے پاس جو کچھ ہے.کس قسم کے ہمیں آدمی چاہئیں ، کس قدر وسیع رابطہ ہمیں کرنے کی ضرورت ہے.بے شمار ایسے موازنے تھے جو ذہن میں ابھرتے تھے اور طبیعت کو شدید طور پر بے چین کر دیتے تھے.چنانچہ میں نے وہاں غور کیا تو اب یہ نتیجہ نکالا ہے کہ واقفین عارضی جس طرح جا کر وہاں کام کرتے ہیں.اس وقت ویسے کام کی ضرورت نہیں ہے.محض آپ علاقے میں پھر کر اشتہار تقسیم کر دیں اور اس کے بعد پھر دوسرا واقف زندگی کسی اور جگہ جائے اور پھر وہ کچھ لوگوں میں اشتہار تقسیم کر جائے.اس کو ضرور لطف آتا ہے اور اس طرح ایک دفعہ پیغام بھی پہنچ جاتا ہے لیکن اس کے نتیجہ میں اہل سپین سے گہرا رابطہ قائم ہو جائے یہ بات درست نہیں ہے.جہاں تک وسیع پیمانے پر Publicity کا تعلق ہے وہ تو خدا کے فضل سے پہلے ہی ہمیں وہاں مل رہی ہے ریڈیو کے ذریعہ ، ٹیلی وژن کے ذریعہ اور اخبارات کے ذریعہ.میر صاحب اس معاملہ میں بڑے ماہر ہیں اور انہوں نے بڑا وسیع رابطہ رکھا ہوا ہے.ان کے آنے سے پہلے بھی ہمارے مولوی کرم الہی صاحب ظفر نے بھی ایسے نا مساعد حالات میں جبکہ کچھ بھی ان کے پاس نہیں تھا انہوں نے بھی یہ رابطہ بڑی عمدگی کے ساتھ قائم کیا.ان کے بڑے نیک اثرات تھے جو ہم نے افتتاح کے وقت محسوس کئے تو دونوں مبلغ اس فن کے ماہر ہیں اور اسلام کی آواز مختلف ذرائع سے وسیع پیمانے پر اس قوم تک پہنچ رہی ہے لیکن اس سے تبدیلی پیدا نہیں ہوسکتی.اس سے صرف ہماری
خطبات طاہر جلدم 841 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء موجودگی کا احساس پیدا ہو سکتا ہے.اس وقت ضرورت ہے کہ اس رنگ میں وہاں کام کیا جائے اور مبلغین کو بھی میں نے سمجھایا ہے کہ دانشوروں سے رابطہ اور اپنے احمدی دوستوں کے ذریعہ مجالس کا انعقاد جہاں مبلغ جائے اور سوال و جواب کی مجالس لگائے اور ذاتی رابطہ ہو جو کھویا نہ جائے بار باران سے ملاقاتیں ہوں اور ان کو بار بار سمجھایا جائے.اس طرح محنت کے ساتھ ایک ایک بیج بونے کی ضرورت ہے.یہ نہیں کہ گزرتے ہوئے ہواؤں میں آپ چھٹا دے دیں اور پھر بھول جائیں کہ اس بیج کا کیا بنا.وہ زمین میں داخل بھی ہوا کہ نہیں اور اگر ہوا بھی تھا تو جڑیں نکل بھی آئیں تو اس میں روئیدگی جو پیدا ہوئی، اس کی آبیاری کس نے کی؟ جانور تو نہیں چر گئے اگر آبیاری کسی نے کی بھی تھی.بے شمار ایسے مسائل ہیں جو نباتاتی مسائل ہیں لیکن روحانی دنیا پر بھی اطلاق پاتے ہیں.اس لئے اب تو ضرورت ہے کہ ایک ایک درخت کاشت ہو اور اس کی حفاظت کی جائے مسلسل اس سے رابطہ رہے اور اس وجہ سے مجھے اب اس وقف عارضی کے پروگرام کو بدلنا پڑے گا.اب تو ہمیں ایسے واقفین کی ضرورت ہے جو جا کے کسی ایک جگہ ٹھہر کے ذاتی دوستیاں بنائیں اور پھر وہاں ٹھہرے رہیں اور تعلقات بنا ئیں پھر ان کو اپنے پاس آنے کی دعوت دیں.ذہانت کے ساتھ مطالعہ کریں کہ کون سے لوگ ہیں جن میں اس قدر سنجیدگی پائی جاتی ہے کہ وہ مذہب کا مطالعہ کریں.ان کے خیالات کو Excite کریں ان کو روحانیت کا پیغام دیں ، ان کے لئے دعائیں کریں اور ان کے اندر دعا کی طلب پیدا کریں اور ان کو بتائیں کہ ہمارا ایک خدا ہے.یہی آج اس قوم کے دل کی آواز ہے کہ اگر خدا ہے تو کہاں ہے؟ اور وہ کیوں ہم سے رابطہ نہیں رکھتا ؟ تو ذاتی رابطہ اور بہت سنجیدگی کے ساتھ تعلقات کو آگے بڑھانا پھر جلد از جلد خدا کی طرف لے کے آنا اور اس سلسلہ میں دعاؤں پر زور دے کر ان پر ثابت کرنا کہ روحانیت کوئی فرضی چیز نہیں ہے بلکہ ایک زندہ حقیقوں میں سے ایک زندہ حقیقت ہے اور ان کو یہ بتانا کہ دیکھو دعائیں قبول ہوتی ہیں.ہم تمہارے ساتھ چلتے ہیں تمہیں دکھاتے ہیں کہ وہ کون سا خدا ہے جس نے ہم سے رابطہ کیا ہے.اس قسم کے واقفین ہیں جو وہاں کامیاب ہوسکیں گے اور اسی نہج پر آئندہ سپین میں کام کرنا چاہئے ورنہ تو سپین کی باہر کی دنیا ایک بالکل مردہ دنیا ہے.وہاں غرناطہ میں جب وہ سوال کر رہے تھے تو مجھے خیال آیا کہ بالکل یوں معلوم ہوتا ہے کہ
خطبات طاہر جلدم 842 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء بے بصیرت لوگ ہیں جن کو روشنی کے ہوتے ہوئے بھی پوری طرح اندھیرا دکھائی دے رہا ہے.یعنی خدا کا وجود جو ہر ذرہ سے ظاہر ہوتا ہے اور کائنات کے ذرہ ذرہ میں بول رہا ہے نہ اس کی آواز کوان کے کان سن سکتے ہیں نہ اس نور کو وہ کسی پہلو سے بھی دیکھ سکتے ہیں، کلیۂ ایک خلا محسوس ہورہا ہے.اور جس خدا پر وہ ایمان لا رہے ہیں وہ بھی ایک قدیم زمانہ کا خدا ہے جو ماضی میں سینکڑوں ہزاروں سال پیچھے رہ چکا ہے.زندہ قدم بقدم ساتھ چلنے والا اور سہارا دینے والا ، آئندہ کی راہ دکھانے والا ، آئندہ کی امیدیں پیدا کرنے والا ایسا کوئی خدا ان کو معلوم نہیں.اس لئے یہ ایک مرکزی حقیقت ہے جس پر زور دے کر ایسے ملکوں میں تبلیغ کامیاب ہو سکے گی اس لئے آئندہ اسی نہج پر کام ہونا چاہئے.غرناطہ میمیں میں نے وہاں ایک مثال سنی جو بڑی دلچسپ ہے جو غرناطہ کے حسن کے متعلق بیان کی جاتی ہے.سپینش کہاوت ہے کہ غرناطہ کے اندھے یہ آواز دیتے ہیں کہ اے خاتون! کچھ راہ مولی مجھے خیرات دیتی جاؤ کیونکہ غرناطہ کے اندھے سے زیادہ دنیا میں اور کوئی محروم اور قابل رحم چیز نہیں ہے.اتنا حسن اور آنکھیں حسن کو دیکھنے سے عاری رہیں ! چنانچہ وہ مثال مجھے یاد آئی اور میں نے سوچا کہ ایک غرناطہ نہیں اس وقت سارا ندلس سارا سپین اندھوں سے بھرا ہوا ہے.خدا کے نور سے نا آشنا ہیں اصل حسن سے نا آشنا ہیں اور دیکھ نہیں سکتے.ان کی نہایت ہی قابل رحم حالت ہے وہ جو ان کو اس حسن کی خیرات دینا چاہتے ہیں وہ خیرات لینے سے بھی انکار کر رہے ہیں.اسے لینے کے لئے ان کے ہاتھ آگے نہیں بڑھتے.تب میری توجہ قرآن کریم کی اس آیت کی طرف منتقل ہوئی.وَإِذَا أَنْعَمْنَا عَلَى الْإِنْسَانِ أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِه (بنی اسرائیل :۸۴) کس قدر حسرت کا مقام ہے کہ جب ہم نعمت دیتے ہیں انسان کو أَعْرَضَ وَنَا بِجَانِبِ ہے وہ منہ موڑ لیتا ہے اور پہلوتہی کرتا ہے اور انکار کر دیتا ہے اس کو قبول کرنے سے.اس وقت یورپ کے اندھے تو غرناطہ کے اندھے بنے ہوئے ہیں قابل رحم تو ہیں لیکن لینے کی کوئی طلب نہیں ہے.واقفین عارضی کو وہ طلب بھی پیدا کرنی پڑے گی، ان کو یہ بینائی بھی دینی پڑے گی کہ تم محروم ہو اور ہم نہ صرف حسن لے کر آئے ہیں بلکہ تمہیں یہ بتانے بھی آئے ہیں کہ یہ حسن ہے اور تم اس سے محروم بیٹھے ہوئے ہو.یہ دو کام ہیں آپ کا ایک کام نہیں رہا آپ نے یہ خیرات ان کی جھولی میں ڈالنی بھی ہے اور اس خیرات کے لئے طلب بھی پیدا کرنی ہے.اس کے لئے آپ کو خود
خطبات طاہر جلدم 843 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء حسین ہونا پڑے گا.ان صفات سے مزین ہونا پڑے گا جو نہ صرف یہ کہ حسن کی جاذبیت رکھتی ہیں بلکہ حسن کی جاذبیت کو دیکھنے والی آنکھ پیدا کرسکتی ہیں اور خدا تعالیٰ کے حسن میں یہ دونوں صفات پائی جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ کے حسن کا یہ کمال ہے کہ وہ اندھوں کو پہلے بینائی بخشتا ہے اور پھر اس بینائی کے سامنے اپنا جلوہ دکھاتا ہے.چنانچہ وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدى (الضحی :) میں ایک یہ بھی فلسفہ بیان فرمایا گیا ہے کہ تجھے تو ہم نے بھٹکتا ہوا پایا تھا ہم نے تجھے ہدایت دی یعنی اپنی طرف آنے کے لئے ہم نے ہی سب کچھ تمہیں عطا کیا تھا.آغاز میں جو طلب پیدا کی وہ بھی ہم نے پیدا کی ، دیکھنے کی توفیق بھی ہم نے بخشی.پھر جلوہ بھی ہم نے دکھایا.تو کلیہ ہدایت کے سارے مراحل کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ پر عائد ہوتی ہے.اس لئے اہل سپین کے اندھوں کو اگر آپ نے جا کر اسلام کی طرف مائل کرنا ہے تو حسن بھی بخشا ہے اور حسن کی آنکھ بھی عطا کرنی ہے.اس کے لئے آپ کو صفات باری تعالیٰ سے مزین ہونا چاہئے.وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ( تم السجدۃ: ۳۴) آپ حسین ہو جائیں گے، سب سے زیادہ حسین قول کہنے والے بنیں گے مگر اس وقت جبکہ اللہ کی طرف بلائیں اور اللہ کے رنگ اختیار کر کے اس کی طرف بلائیں.عَمِلَ صَالِحًا کا یہی مطلب ہے کہ صرف اللہ کی طرف ہی نہ بلاؤ بلکہ اللہ کے رنگ اختیار کر کے پھر اللہ کی طرف ہی بلاؤ.یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آئندہ انشاء اللہ تعالی اہل سپین کو اسلام کی طرف بلانے کے لئے یہ نیا لائحہ عمل بہت بہتر اور مفید ثابت ہوگا.سپین میں اس دفعہ ایک اور نیا تجربہ ہوا جو بہت ہی دکھ والا بھی تھا لیکن اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے خاص دعاؤں کی بھی توفیق بخشی.سفر کے دوران ایک ایسا خیال ہمارے ساتھی مکرم منصور احمد خاں صاحب کو آیا جس کا پہلے کم سے کم مجھے خیال نہیں آیا تھا.وہ ہمارے وکیل التبشیر بھی ہیں اور سفر کے دوران پرائیویٹ سیکرٹری بھی وہی تھے اور میرے ڈرائیور بھی وہی تھے.یہ تینوں کام خدا کے فضل سے انہوں نے بڑی ہمت سے کئے ہیں تو انہوں نے سفر کے دوران یہ بتایا کہ میں سوچ رہا ہوں کہ یہاں اتنے مسلمان بستے رہے ہیں، آٹھ سو سال تک آبا د ر ہے ہیں ان کا مقبرہ کبھی نہیں دیکھا.عمارتیں تو نظر آ رہی ہیں لیکن کہیں کسی مقبرے کا کوئی نشان نہیں ملتا.اس وقت مجھے توجہ پیدا ہوئی اور میں نے کہا واقعہ جب پچھلی دفعہ بھی جب ہم یہاں آئے تھے اور اس سے پہلے بھی جب میں اکیلا پین
خطبات طاہر جلدم 844 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء آیا تھا تو اس وقت بھی سارے سفر کے دوران کہیں بھی سپین میں مسلمانوں کا کوئی مقبرہ کہیں نظر نہیں آیا.معلوم ہوتا ہے کہ یہ خیال ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے خاص مقصد کے لئے ڈالا تھا کیونکہ دوسرے دن غرناطہ پہنچ کر جب ہم صبح کی سیر کے لئے نکلے تو تجویز یہ کیا گیا کہ اسی جگہ جہاں غرناطہ کا الحمراء پیلیس (Palace) ہے اس کے علاوہ بعض اور بھی ہیں وہ اس وقت چونکہ بند ہوگا.اس لئے اس پہاڑی کی چوٹی وہاں سے سارے اندلس کا منظر دور دور تک نظر آتا ہے اور غرناطہ کے تو سارے پہلو ہر طرف سے بڑے صاف، واضح دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ ہم نے یہی فیصلہ کیا کہ اس پہاڑی کی چوٹی پر چلتے ہیں.عموماً جتنے بھی مسافر ہیں یا زیارت کرنے والے ان کو الحمراء اتنے زور کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتا ہے کہ اس سے آگے پہاڑی پر جانے کا کسی کو خیال ہی نہیں آتا.بہر حال چونکہ سیر کی عادت تھی اس لئے اس تجویز کو میں نے بڑا پسند کیا اور ہم اس پہاڑی کی چوٹی پر جانے لگے تو تقریباً دو تہائی فاصلہ طے کرنے کے بعد اچانک میرے ساتھی ڈاکٹر منصور الہی صاحب نے بتایا کہ یہاں ایک قبرستان ہے اور یہ مسلمانوں کا ایک ہی قبرستان ہے جو آج تک باقی ہے.چنانچہ میں نے دائیں طرف نظر ڈالی تو ابھی تک اس کے او پر قبرستان کے متعلق عبارت لکھی ہوئی تھی اوراندر جا کر ہم نے دیکھا تو اکثر قبریں بالکل گڑھے بن چکی تھیں جس طرح اندھی آنکھیں ہوتی ہیں ان میں آنکھ کا ڈھیلا نہ ہو.اس قسم کی ان قبروں کی شکلیں تھیں اور وہ قبریں بڑی ہی دردناک حالت میں تھیں.وہ بہت وسیع علاقہ ہے وہ پہاڑی کا ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جو تمام کی تمام کسی زمانے میں غرناطہ کے مسلمانوں کے لئے قبرستان کے طور پر استعمال ہوتی تھی.وہاں کوئی کتبہ باقی نہیں ہے.صرف پتھروں کے کچھ نشان اور کچھ قبروں کے گڑھے ہیں.بعض جگہ لوگوں نے تھوڑی سی مٹی ڈال کر اس کو برابر کیا ہوا ہے ہیں اور چند قبریں ہیں جو تازہ ہیں مگر اکثر قبریں بڑی پرانی ہیں.وہاں دعا کے وقت ایک خاص کیفیت دل میں پیدا ہوئی اور ذہن پرانی ماضی کی تاریخ میں چلا گیا.نہیں کہ سکتا تھا میرے لئے معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا کہ ان میں سے اولین دور کے غازی کون سے ہیں اور آخری دور کے وہ بد قسمت کون ہیں جنہیں اپنے ہاتھوں سے سپین کو غیروں کے سپرد کرنا پڑا.مگر یہ مجھے محسوس ہوا کہ اس مٹی میں دونوں خون ملے ہوئے ہیں.ان غازیوں کا بھی خون
خطبات طاہر جلدم 845 خطبه جمعه ۱۸ / اکتوبر ۱۹۸۵ء ہے جنہوں نے خون دے کر اسلام کی عظمتوں کے لئے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی اور ان محروموں کا خون بھی اس میں ملا ہوا ہے جو بدقسمتی سے ایسے زمانے میں داخل ہوئے کہ جب وہ اپنی وراثت کی حفاظت بھی نہیں کر سکتے تھے.اس عظیم الشان غازیوں نے ورثے میں جود ولتیں عطا کیں ان کی حفاظت کرنے کے بھی وہ اہل نہ رہے تھے.تو وہاں وہ قبرستان کیا تھا وہاں سپین کا مشرق بھی تھا اور سپین کا مغرب بھی تھا.جہاں سے سورج طلوع ہوتا تھا وہ جگہ بھی دکھائی دے رہی تھی اور جہاں سورج غروب ہو گیا تھا وہ جگہ بھی دکھائی دے رہی تھی.اس وقت میں نے دعا کی کہ اے خدا! یہ لوگ تو مٹی ہو گئے ان کے ظاہری بدن تو مٹی ہو گئے لیکن ان کی روحیں تیرے حضور زندہ ہیں.میری آواز براہ راست تو ان تک نہیں پہنچ سکتی لیکن میری آواز کو تو ان تک پہنچا سکتا ہے اس لئے آج میں ان کو ایک پیغام دیتا ہوں تمام جماعت احمدیہ کی طرف سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلیفہ کے حیثیت سے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے یہ پیغام ان کو دیتا ہوں کو کہ اگر چہ تم مر گئے اور زیرزمین جاسوئے لیکن در حقیقت میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ تم نہیں بلکہ سارا سپین مرگیا تم ہی زندگی کے نشان تھے.تم ہی وہ تھے جو اس چمنستان کی زینت تھے ، اس کی رونق تھے، تمہارے دم قدم سے پین کی آبادیاں تھیں ، تمہاری آوازوں کے ساتھ خدا کی تکبیر یہاں بلند ہوا کرتی تھی ، تمہاری پیشانیوں پہ وہ نور تھا جو سجدہ کرنے والوں کی پیشانیوں کو عطا ہوا کرتا ہے پس اگر چہ تم آج نہ خاک جاسوئے ہو اور تمہارے ظاہری وجود کا کوئی بھی نشان باقی نہیں سوائے ان گڑھوں کے جو بے ڈھیلوں آنکھوں کی طرح بے نور گڑھے دکھائی دے رہے ہیں اور بظاہر یہ اسلام کی موت دکھائی دیتی ہے مگر میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ جس طرح حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے معرفت کا یہ نکتہ بیان کیا تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر دو موتیں جمع نہیں ہوسکتیں آپ کے ماننے والوں پر بھی دو موتیں جمع نہیں ہوسکتیں.ان کے جسم تو مر سکتے ہیں مگر ان کے دین کو نہیں مرنے دیا جائے گا.پس میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ ساری جماعت احمدیہ اس بات کا عہد کر رہی ہے اور اس عہد کو ہمیشہ نبھاتی رہے گی کہ جب تک اسلام دوبارہ سپین میں اسی شان کے ساتھ دوبارہ زندہ نہ ہو بلکہ اس سے بڑھ کرشان کے ساتھ دوبارہ زندہ نہ ہو جس طرح پہلی بار سپین میں زندہ ہوا تھا ہم چین سے نہیں بیٹھیں گے.ہم مسلسل جد و جہد کرتے رہیں گے.ہم مسلسل ا
خطبات طاہر جلدم 846 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء کوشش کرتے رہیں گے.ہم تو اس آقا کے غلام ہیں جس نے بیابان میں یہ عجیب ماجرا دکھایا تھا کہ صدیوں کے مردوں کو ، ہزاروں سال کے مردوں کو دوبارہ زندہ کر دیا تھا.وہ مردے الہی رنگ پکڑ گئے تھے.آج بھی حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ آلہ وسلم کی شان احیائے موتی کے صدقے اور آپ ہ ہی کے طفیل ہم اس مردہ سپین کو دوبارہ زندہ کریں گے.پس ہمارا انتقام تو وہی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انتقام تھا، اس عفو کے شہزادے کا انتقام تھا، جو آپ پر موت برسانے کی کوشش کرتے تھے آپ انہیں زندگی عطا کرتے تھے.پس اے اسلام کے نام پر مارے جانے والو! ہم تمہاری خاطر تمہاری ہی طرف سے سارے پین میں زندگی کا پانی بکھیریں گے ان مردوں کو جو بظاہر سطح زمین پر بس رہے ہیں اور در حقیقت قبرستان کا منظر پیش کر رہے ہیں ان کو ہم زندہ کریں گے اور ان میں دوبارہ اسلام کی روح کو دوڑتا ہوا اور پنپتا ہوا دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ.اور سپین سے انشاء اللہ ساری دنیا کے لئے اسلام کے مبلغ نکلیں گے اور ساری دنیا میں سپینش مسلمان اسلام کا جھنڈا بلند کرنے کے لئے عظیم الشان قربانیاں دینے لگے گا یہ ہمارا مقصد اور ادعا ہے.اور میں عہد کرتا ہوں اے خدا ! تو ہمیں تو فیق عطا فرما ! ہم اس عہد کو پورا کرنے والے ہوں کہ اس قبرستان کو جو ظاہری مسلمانوں کا قبرستان ہے سارے سپین کے لئے زندگی کا سر چشمہ بنادیں گے.آج اس قبرستان نے جو میرے دل کو زخمی کیا ہے اور جو میری روح کو چھ کے لگائے ہیں اے خدا! اس سے ایسے خون کی آبشار نکال ، ایسے خون کے سوتے نکال جو سارے پین کو تر و تازہ کر دیں اور اسلام کا نیا رنگ بھر دیں اور تیری محبت کا نیا رنگ بھر دیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے غلام یہاں پیدا ہوں اور صرف غلام نہیں اس شان کے غلام پیدا ہوں کہ وہ اسلام کے لئے ساری دنیا میں قربانیاں دینے لگیں.اور مجھے یہ خیال آیا اور میں عہد کرتا ہوں کہ ہم یہ کوشش جاری رکھیں گے اور یہ کوشش کریں کہ انشاء اللہ تعالیٰ بالآخر تمام دنیا کے ہر خطے میں سپینش مبلغ بجھوائیں گے جو وہاں جا کر اسلام کی تبلیغ کریں..یہی انتقام تھا جو ہم اس قوم سے لے سکتے تھے اور یہی وہ انتقام ہے جو محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلاموں کو زیب دیتا ہے اور میں آپ کو یہ اس لئے بتا رہا ہوں کہ جب میں آپ کی طرف سے یہ عہد کر چکا ہوں تو آپ نے اس عہد کو نبھانے میں ہر ممکن میری مدد کرنی ہے.انشاء اللہ
خطبات طاہر جلد۴ 847 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ صرف میرے دل کی آواز نہیں بلکہ ہر احمدی کے دل کی یہ آواز تھی.اگر آپ دعاؤں کے ذریعے اپنے اس عہد کو قائم اور زندہ رکھنے کے لئے خدا سے التجائیں کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ یہ عہد ہمیشہ زندہ رہے گا اور اس کے عظیم الشان پھل ہمیں بھی عطا ہوتے رہیں گے اور اہل دنیا کو بھی عطا ہوتے رہیں گے.خطبہ ثانیہ میں حضور نے فرمایا: اس سفر کے دوران بعض بہت مخلص اور نیک احمدیوں کے وصال کی خبریں ملی ہیں اگر تو میں وہاں ربوہ میں موجود ہوتا میں تو خودان کا جنازہ پڑھا تا.یہ میری بھی دلی تمنا ہوتی لیکن ان میں سے بھی اکثر کے متعلق یہی اطلاع ہے کہ ان کی دلی تمنا بھی یہی تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھتا اس لئے اکثر تو پاکستان کے ہیں ، ایک فلسطین کے احمدی دوست بھی ہیں ان کے اقرباء کی طرف سے بھی یہی درخواست ملی ہے.ابھی جمعہ کے بعد ان سب کی نماز جنازہ غائب ہوگی.سب سے پہلے تو ان میں مکرم چوہدری محمد اسلم صاحب امیر ضلع سیالکوٹ کی افسوسناک اطلاع کی خبر ملی ہے.آپ کو دل کی تکلیف تو بڑی پرانی تھی مگر اسی حالت میں دورے کرتے تھے.سلسلہ کے کام خدا تعالیٰ کے فضل سے آخر دم تک پوری تندہی سے سرانجام دیتے رہے اور ابھی بھی ان کی اس وفات میں بھی ایک شہادت کا رنگ اس طرح پایا جاتا ہے کہ دینی سفر پر روانہ ہوئے تھے اور اسی سفر کے دوران آپ کا ہارٹ فیل ہوا ہے.دوسرے مکرم حسین علی خالد مصاف ہیں جو فلسطین کے ابتدائی احمد یوں میں سے تھے اور نہایت فدائی اور مخلص تھے اور ر پورٹ یہ ہے کہ مبلغین کے ساتھ ہمیشہ تعاون کرتے اور تبلیغی اور تربیتی کاموں میں ہمیشہ ہاتھ بٹانے والے تھے.تیسرے ہمارے سلسلہ کے ایک پرانے بزرگ، سادہ، نیک مزاج ، دعا گو، تبلیغ کا بے حد شوق رکھتے والے مکرم چوہدری سردار خاں صاحب چٹھہ موبلن کے ضلع گوجرانوالہ کے ہیں.ان کے بیٹے عبدالقدیر صاحب آج کل ناظر بیت المال قادیان ہیں.مرحوم موصی بھی تھے اور میں جانتا ہوں.میں وقف جدید کے خدام الاحمدیہ کے دوروں پر بہت پھرتا رہا ہوں بہت ہی غیر معمولی اخلاص ان کا دیکھا جس سے ہمیشہ بہت متاثر ہوا کرتا تھا.
خطبات طاہر جلدم 848 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء چوتھے مکرم سید ابوالحسن خورشید بخاری جو الفضل کے بھی خوشنویس تھے اور آج کل وہ خطبات کی کتابت بھی کر رہے تھے.بڑے محنتی اور سلسلہ سے محبت رکھنے والے تھے.ایک بیٹا ان کا واقف زندگی ہے اور جامعہ احمدیہ میں طالب علم ہے.ان کی بھی اچانک وفات ہو گئی.پانچویں ماسٹر سعد اللہ خاں صاحب فیکٹری ایریا ربوہ بڑے نیک مزاج اور پیار کرنے والے ، محنت کے ساتھ پڑھانے والے ، بڑے ہر دلعزیز استاد تھے احمد یہ ہائی سکول کے استاد تھے.ہائی سکول سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی پرائیویٹ ٹیوشن کے طور پر کام کرتے رہے.پھر شیخ نذیر احمد صاحب اوکاڑہ یہ ہمارے ناصر شہید کے رشتہ داروں میں سے ہیں.ان کو بھی تبلیغ کا جنون تھا اور ایک خاص رنگ تھا انکی تبلیغ کا جودشمنوں کے اندر بھی جا کر ان کے دلوں کو نرم کر دیا کرتا تھا.پھر ایک ہماری خاتون ہیں.خواجہ فضل احمد صاحب جو پیچھے اسلام آباد میں رہے ہیں ان کی بیگم امتہ الحئی صاحبہ.ان کے متعلق تو میرا یہی علم تھا کہ اچھی صحت ہے، ٹھیک ہیں.عمر بھی زیادہ نہیں تھی.پتہ نہیں کیا تکلیف ہوئی ہے.اچانک ان کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.انوری بیگم صاحبہ ڈاکٹر سردار علی صاحب ربوہ کی بیگم.ان کی بھی وفات کی ان کے بیٹے نے اطلاع دی ہے یہ ہمارے ہمسائے میں ربوہ میں رہا کرتے تھے ایک زمانہ میں کرایہ پر مکان لے کر.بڑے مخلص دوست تھے ان کی بیگم بھی اللہ کے فضل سے بڑی متقی اور تہجد گزار تھیں.پھر مکرم چوہدری علی احمد صاحب جو جماعت میں بی.اے بی ٹی سے مشہور ہیں جن کے ایک بیٹے عبدالسلام اختر صاحب واقف زندگی تھے.ان کی بیگم سیدہ رشیدہ بیگم صاحبہ کی وفات کی بھی اطلاع ملی ہے.ان کے تین بیٹے یہاں انگلستان میں بھی رہتے ہیں.ان سب کے علاوہ ایک ابھی اطلاع ملی ہے کہ صوفی رحیم بخش صاحب زیروی کی بیگم سارہ بیگم بھی وفات پاگئیں ہیں یہ محترم مولوی ابوالعطاء صاحب کی ہمشیرہ تھیں اور موصیہ تھیں.یہ بھی بہت دین کے کاموں میں رغبت رکھنے والی اور قربانی کرنے والی تھیں.یہ بہت قیمتی وجود ہیں جو ہم.الگ ہوئے ہیں ان سب کی نماز جنازہ جمعہ کے بعد ہوگی.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: سے
خطبات طاہر جلدم 849 خطبه جمعه ۱۸ اکتوبر ۱۹۸۵ء مکرم چوھدری محمد اسلم صاحب کے بارہ میں یہ بتانا بھول گیا کہ یہ مکرم چوہدری شاہنواز صاحب کے چھوٹے بھائی تھے.ان سے آٹھ سال عمر میں چھوٹے تھے.
خطبات طاہر جلدم 851 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان دفتر اول کے کھاتے جاری کرنے کی تحریک اور دفتر چہارم کا اجراء ( خطبه جمعه فرموده ۱/۲۵اکتوبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) قل تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرُ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لا تُظْلَمُونَ (البقره: ۲۷۱-۲۷۳) اور پھر فرمایا: یہ آیات جن میں مالی قربانی کے متعلق ایک مبسوط اور مضبوط اور بہت گہرا اور وسیع مضمون
خطبات طاہر جلدم 852 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء بیان ہوا ہے.بارہا جماعت کے سامنے پڑھی جاتی ہیں اور بار ہا احمدی اپنے طور پر بھی ان کی تلاوت کرتے ہیں.لیکن جتنی دفعہ بھی ان پر غور کیا جائے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ان آیات میں نئے مضامین بھی دکھائی دینے لگتے ہیں اور نیا ربط نظر آنے لگتا ہے.آج میں نے ان آیات کا انتخاب اس غرض سے کیا ہے کہ میں آج اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق تحریک جدید کے باون دیں سال کے آغاز کا اعلان کرنے کے لئے کھڑا ہوا ہوں اور چونکہ تحریک جدید تہی قربانیوں میں ایک نمایاں امتیاز رکھتی ہے اور اس دور میں اس نے ایسی عظیم الشان مالی قربانیوں کی بنیاد ڈالی جو مختلف شکلوں میں مزید شاخیں اور پھل اور پھول دیتی رہی اور اس تحریک سے اور نئی نئی تحریکیں بھی پیدا ہوئی اور مزید ہورہی ہیں اور ہوتی چلی جائیں گی.اس لئے ضروری ہے کہ جب بھی تحریک جدید کا یا دیگر مالی تحریکوں کا آغاز کیا جائے تو قرآن کریم سے برکت حاصل کرنے کے لئے اور قرآن کریم کے مضامین سے استفادہ کرنے کے لئے بعض آیات کا انتخاب کر کے وہ جماعت کے سامنے پیش کی جائیں.یہ آیت وَمَا انْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَو نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرِ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ اپنی ذات میں ایک مکمل مضمون بیان کر رہی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بات ختم ہو گئی ، اس کے بعد کسی اور مضمون کی ضرورت نہیں رہتی.مگر بقیہ آیات جب اس مضمون کو پھر آگے بڑھاتی ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کئی ایسے گوشے تھے جن کی وضاحت ضروری تھی.اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو کچھ تم خرچ کرتے ہو کسی قسم کا خرچ یا نذر مانتے ہو کسی قسم کی بھی نذر فَإِنَّ اللهَ يَعْلَمُهُ اللہ اسے جانتا ہے.مالی قربانی کرتے وقت خواہ وہ کسی رنگ کی ہو تحفہ ہو یا صدقہ ہو یا دکھاوے کے لئے ہو، کسی غرض سے بھی خرچ کیا جائے ، ہر خرچ کرنے والے کے سامنے ایک چہرہ ہوتا ہے جس کی وہ رضا چاہتا ہے.دکھاوا کرنے والے بھی جب خرچ کرتے ہیں تو عوام کا چہرہ ان کے سامنے ہوتا ہے.بغیر دکھاوے کے اور بغیر ایسے مقصد کے جس کے نتیجہ میں کوئی راضی ہو کوئی انسان کوئی چیز خرچ نہیں کرتا.اپنے لئے بھی خرچ کرے تو خود جانتا ہے، اپنے بیوی بچوں کے لئے خرچ کرے تو اسے چین نہیں آسکتا جب تک ان کو پتہ نہ چلے کہ خرچ کرنے والا کون ہے.اسی لئے پنجابی میں کہتے ہیں سوئے ہوئے بچے کا منہ چومنے کا فائدہ کیا ؟ اس کو پتہ نہیں چلتا کہ کون منہ
خطبات طاہر جلد۴ 853 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء چوم گیا.مائیں بھی چومتی ہیں تو ان کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ بچے کو معلوم ہو کہ کس نے اس کا منہ چوما ہے اللہ تعالیٰ ان سارے امکانات کا ذکر اس آیت میں کر کے فرمایا ہے کہ تم محمد علی کے غلام ہونے کی وجہ سے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو.اللہ کی خاطر خرچ کرتے ہو اس لئے یہاں یہ سوال پیدا نہیں ہوتا کہ سوئے ہوئے بیٹے کا منہ چوم رہے ہو بلکہ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک ہمہ وقت جاگنے والے آقا کے قدموں میں تم ایک نذر پیش کر رہے ہو اور وہ ہر حال میں ہر وقت نہ صرف تمہاری مالی قربانی کے ظاہر سے واقف ہے بلکہ اس کے پس پردہ جذبات سے بھی واقف ہے، نہ صرف یہ کہ نیتوں کے اچھے پہلوؤں سے واقف ہے بلکہ نیتوں کے بد پہلو سے بھی واقف ہے.اس لئے اس آیت میں جہاں ایک حوصلہ دلایا ، ایک یقین دلایا کہ ہماری مالی قربانیاں کسی حالت میں بھی ضائع نہیں جاسکتیں.جس چہرے کی رضا کی خاطر ہم پیش کر رہے ہیں اسے خوب خبر ہے، وہاں ایک اندار بھی فرما دیا کہ دنیا والوں کو تو تم دھوکا دے سکتے ہو، دنیا والوں کے لئے تو تم یہ کر سکتے ہو کہ خرچ کسی اور مقصد کے لئے کر رہے ہو اور داد طلبی کسی اور سے کر رہے ہو.بسا اوقات اپنا احسان جتا رہے ہو کسی اور شخص پر اور مقصد بالکل اور ہے.چنانچہ بڑے بڑے ریا کارایسے ہیں جو غرباء پر خرچ کرتے ہیں اور مقصد یہ ہے کہ قوم میں ان کی ساکھ بیٹھے ، قوم سمجھے کہ یہ ایک بہت ہی ہمدرد انسان ہے.بڑے بڑے دکھاوا کرنے والے ایسے امیر ہیں جو ٹیلیویژن کے سامنے جانے کی خاطر خرچ کرتے ہیں یا کسی حکومت کے سر براہ سے بعد میں فائدے حاصل کرنے کی خاطر خرچ کرتے ہیں ایسے لوگ خرچ بظاہر نیک کام پر کر رہے ہوتے ہیں ، داد طلبی کسی اور طرف سے ہے اور خرچ کا رخ کسی اور طرف ہے.اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی یہ بھی تنبیہ فرما دی کہ تمہیں ہمیشہ یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جس ذات کے نام پر تم خرچ کر رہے ہو وہ تمہارے پس پردہ خیالات سے بھی واقف ہے.اس لئے اگر وہاں رخنہ ہوا تو وہ خرچ قبول نہیں کیا جائے گا.چنانچہ اس کے معا بعد یہ فرمایا وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارِ اب بظاہر اس آیت کے پہلے ٹکڑے کا اس آیت کے دوسرے ٹکڑے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا.فرمارہا ہے کہ اگر تم خرچ کرو تو ہر حال میں نیک کاموں پر خرچ کرنے کی نیتیں باندھو کیونکہ خدا تعالیٰ تمہارے اس خرچ کے ہر پہلو سے واقف ہے اور ساتھ ہی فرما دیا کہ ظالموں کے لئے کوئی مددگار نہیں.خرچ کرنے والا تو اچھا ہوتا
خطبات طاہر جلد۴ 854 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء ہے وہاں تو بظا ہر حسین کا ذکر آنا چاہئے تھا یہ وَ مَا لِلظَّلِمِینَ مِنْ أَنْصَارِ کا کیا تعلق ہوا ؟ جب ہم اس پہلو پر غور کرتے ہیں تو بہت ہی وسیع مضمون سامنے آتا ہے جس کے پھر دو پہلو ہیں.اول حسن کا پہلو یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس پیغام کو دنیا کے سامنے پیش کیا اور مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ کی دعوت دی تو اس کے نتیجہ میں آپ کے لئے انصارِی اِلَى اللهِ (القف:۱۵) پیدا ہوئے جو ظالموں کو نصیب نہیں ہو سکتے.اس سے پہلے سورہ صف میں یہ مضمون بیان ہوچکا ہے.وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرى عَلَى اللهِ الْكَذِبَ وَ هُوَ يُدْعَى إِلَى الْإِسْلَامِ (الصف:۸) وہاں بھی ظالم کہہ کر بظاہر بات کی گئی ہے مگر نیکوں کی طرف سے ان پر لگنے والے الزاموں کا دفاع کیا گیا ہے.بتایا یہ گیا ہے کہ اگر کوئی ظالم ہو تو خدا تعالیٰ اُس کی نصرت نہیں فرماتا ، وہ ہلاک کر دیا جاتا ہے.جب کوئی خدا کی طرف سے دعوئی پیش کر رہا ہو اور ہلاک نہ ہورہا ہو اور اس کے انصار الی اللہ پیدا ہو جائیں یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ظالم نہیں.پس بظا ہر نفی میں ذکر ہے مگر مضمون اس پہلو سے مثبت بن جاتا ہے.فرمایا دیکھو حمد مصطفی ملے انفاق فی سبیل اللہ کی دعوت دیتے ہیں اور تم اس انفاق پر لبیک کہہ رہے ہو اور خدا خوب جانتا ہے کہ تم کس شان کے ساتھ لبیک کہہ رہے ہوا اور تمہاری یہ ادائیں، تمہارے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا حسن ، یہ ایسے حسین نظارے ہیں کہ جو انصار الی اللہ میں ہی نظر آیا کرتے ہیں کیونکہ ظالمین کو خدا تعالیٰ انصار الی اللہ عطا نہیں کیا کرتا.اس مضمون کو پھر اگلی آیتوں میں کھول کر بیان کیا کہ کن انصار کی بات ہورہی ہے.الله واقع یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ کی آواز پر خرچ کرنے والے پیدا ہوئے لیکن شبہ پیدا ہوسکتا ہے کہ بعض غلط لوگوں کی غلط تحریکات پر بھی ان کے مددگار پیدا ہو جاتے ہیں اور حکومتیں بھی ان پر خرچ کرتی ہیں، پھر کچھ امراء بھی ایسے ہوتے ہیں جو بدلوگوں پر بدار ا دوں سے خرچ کرتے ہیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں کی کیا پہچان ہوگئی ؟ جب صورت یہ ہے کہ اس شخص کی آواز پر خرچ کرنے والے تو انصار ہیں جو ظالموں کو نصیب نہیں ہوتے اور دوسری آوازوں پر خرچ کرنے والے انصار نہیں ہیں تو پھر لازماً ان دونوں قسم کے خرچ کرنے والوں کے مابین تمیز ہونی چاہئے.اس لئے اگلی آیت اس مضمون کو کھولتی چلی جارہی ہیں.یہ آیات خرچ کرنے والوں میں اتنا بین فرق کر دیتی ہیں کہ جو انصار الی اللہ ہوتے ہیں ان میں اور
خطبات طاہر جلدم 855 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء بدارادوں کے ساتھ بد مقاصد کے لئے خرچ کرنے والوں میں تمیز نمایاں ہوکر سامنے آجاتی ہے.فرمایا: اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُم وَيْكَة كَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اب یہ مضمون پہلی آیات کے مضمون کو دو طرح سے کھول رہا ہے.ایسا حسین ربط ہے کہ انسان قرآن کریم کے انداز بیان کو حیرت سے دیکھتا ہے.اس آیت کا پہلا ٹکڑا جو ہے وہ پہلے حصہ سے تعلق رکھتا ہے جو یہ ہے وَمَا أَنفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ أَو نَذَرْتُمْ مِنْ نَذْرٍ فَإِنَّ اللهَ يَعْلَمُهُ وَمَا اور دوسرا حصہ انصار الی اللہ کے مضمون کو کھولتا ہے.یعنی جب وہ خرچ کرتے ہیں تو اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے فرمایا اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ اگر تم صدقات ظاہر کردو، خدا کی راہ میں جو خرچ کرتے ہو اسے کھول دو فَنِعِمَّا هِی یہ بھی بہت اچھی بات ہے وَإِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُمْ اگر تم ان کو چھپاؤ اور فقراء کو دے دو تو یہ بھی تمہارے لئے ٹھیک ہے.اس مضمون کی وضاحت کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ پہلی آیت میں تو یہ بیان فرما دیا تھا کہ اللہ کو علم ہے اور جس کی خاطر تم خرچ کر رہے ہو جب اس کو علم ہو گیا تو بات پوری ہو گئی مضمون مکمل ہو گیا.اس کے بعد مزید ظاہر کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ انسان کے دل میں یہ خیال آسکتا ہے کہ نیکی تو صرف یہ ہے کہ اس طرح اللہ خرچ کروں کہ کسی دوسرے کو کسی قیمت پر بھی اس کا علم نہ ہو اس کے بغیر میرا انفاق قبول نہیں ہوگا.یہ ایک وہمہ دل میں پیدا ہوسکتا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم صدقات کو ظاہر کر وفَنِعِمَّا ھی یہ بھی بہت عمدہ بات ہے.ظاہر کر کے مضمون کا تعلق زیادہ تر قومی چندوں سے ہے، قومی اتفاقات سے ہے کیونکہ جب آپ قومی طور پر مالی قربانیوں میں حصہ لیتے ہیں تو معاملہ چھپ سکتا ہی نہیں.اس کا اظہار کے ساتھ ایک ایسا ربط ہے، ایک ایسا گہرا تعلق ہے کہ وہ ٹوٹ نہیں سکتا.خدا تعالیٰ کو براہ راست تو آپ
خطبات طاہر جلدم 856 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء کوئی چندہ نہیں دے سکتے.ایک جماعتی نظام کے طور پر ہی دیتے ہیں.آنحضرت علی ہے جب خدا اور بندے کے درمیان بطور رابطہ کے موجود تھے تو صحابہ کے لئے حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے قدموں میں اپنی قربانیوں کو لا ڈالنے کے سوا چارہ نہیں تھا.حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما اور دیگر قربانی کرنے والے اپنی مالی قربانی کو بعض دفعہ غیروں سے چھپانے کی کوشش میں اسے براہ راست آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پیش کر دیا کرتے تھے وہاں سے پھر ان کی اس قربانی کو شہرت مل جاتی تھی.ان کی قربانی کو ظاہر کرنے سے غرض یہ ہوتی تھی کہ تا دوسرے ان کا تنتبع کریں.قومی قربانیوں کا ان کے اظہار کے ساتھ ایک گہرا ربط ہے.یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ قومی قربانیوں میں حصہ لیں اور اسے اس طرح چھپالیں اور اگر ممکن ہے بھی تو بہت بعید کی بات ہے کہ کسی فرد بشر کو اس کا علم نہ ہو سکے.دوسرا پہلو جو ہے وہ ذاتی اور انفرادی قربانیوں کا ہے.انفرادی قربانیوں میں بات کو چھپایا جاسکتا ہے.مثلاً جب آپ غرباء کو فقراء کو، قیموں کو، بیوگان کو کچھ دیتے ہیں تو اخفا کی دوصورتیں ہو سکتی ہیں.ایک تو یہ کہ آپ ساری دنیا سے چھپا کے دے سکتے ہیں مگر اس صورت میں کہ جس کو دے رہے ہیں اُس کو پتہ چل جاتا ہے.قرآن کریم نے چونکہ اختفاء کے ساتھ انفرادی قربانیوں کے مضمون کو باندھا ہے اس لئے صحابہ نے بھی اس کا یہی مطلب سمجھا اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ رات کو چھپ کے نکلتے تھے اور ایسے شخص کو ڈھونڈتے تھے جومحتاج بھی ہو اور جس کو ضرورت بھی ہو اور اسے پتہ بھی نہ لگے.اب رات کو چھپ کر نکلنا اور یہ فیصلہ کر لینا کہ کوئی شخص ضرورت مند ہے یہ دو متضاد چیزیں ہیں، چنانچہ ایسے ایسے دلچسپ واقعات رونما ہوئے کہ ایک شخص رات کو نکلا ہے اور صدقہ کسی دولت مند کو دے دیا اور وہاں سے دوڑ پڑا کہ اس کو پتہ نہ چلے وَإِنْ تُخْفُوْهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَكُم کی ایک عجیب تصویر اُس وقت کھینچی گئی اور دوسرے دن باتیں شروع ہو گئیں اور لوگ ہنسنے لگے کہ مدینہ میں آج عجیب واقعہ ہوا ہے، آنحضرت ﷺ کا ایک غلام دنیا سے چھپنے کی خاطر کہ بجز خدا کے کسی کو علم نہ ہو سکے رات کو نکلا اور ایک امیر آدمی کو صدقہ دے کر بھاگ گیا اتنا وقت بھی نہیں دیا کہ وہ شخص کہہ سکے کہ مجھے ضرورت نہیں ہے.پھر وہ بیچارہ دوسری رات کو نکلا اور پھر کسی ایسے شخص کو دے دیا جس کو دینا مناسب نہیں تھا.تین راتیں وہ اسی طرح مسلسل کوشش کرتا رہا اور آخر تک وہ یہ نہیں سمجھ سکا کہ میں نے کسی صحیح آدمی کو دیا بھی ہے کہ
خطبات طاہر جلدم 857 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء نہیں.بہر حال آنحضرت ﷺ کے زمانے میں لوگ اس مضمون کو یہاں تک پہنچاتے رہے کہ تُخْفُوهَا کا مضمون ایسا کامل ہو جائے کہ جس شخص کو دیا جا رہا ہے اس کو بھی پتہ نہ لگے مگر بہر حال اکثر اوقات اکثر صورتوں میں جس کو دیا جاتا ہے اس کو تو پتہ چل جاتا ہے.چونکہ اللہ جانتا ہے کہ یہ شخص اخفا چاہتا ہے اور کسی بدلہ کی تمنا نہیں رکھتا اس لئے خدا تعالیٰ نے اس شخص کے اس پہلو کی حفاظت فرما دی جب یہ فرمایا کہ فَاِنَّ اللهَ يَعْلَمُهُ " کہ اللہ تعالیٰ اس کے سارے پہلوؤں کو جانتا ہے اس لئے تم اتنا بھی تردد نہ کیا کرو کہ اخفاء میں حد ہی کر دو اور حد اعتدال سے گزر جاؤ.تمہاری نیت چاہئے اگر تم چاہتے ہو کہ ریا کاری نہ ہو، اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی خاطر کسی کو دیا جائے تو اپنی نیت کو پاک اور صاف کر لو، پھر اگر کسی کو پتہ بھی چل جائے تو تمہاری قربانی اخفاء کے پردے میں ہی رہے گی یعنی خدا تعالیٰ جن قربانیوں کو مخفی فرماتا ہے اسی شمار میں تمہاری قربانی بھیگر دانی جائے گی.وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُمْ فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری برائیوں کو دور کرتا ہے.جب یہ تین صفات اکٹھی پڑھی جائیں تو اس وقت معلوم ہوتا ہے کہ انصار الی اللہ کون ہیں اور غیر انصارالی اللہ کون ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جو ظالموں کو نصیب نہیں ہوا کرتے.ساری دنیا کی تاریخ پر نظر ڈالیں اللہ کے نبیوں کے سوا اس قسم کے خرچ کرنے والے کسی کو نصیب نہیں ہوا کرتے.وہ جب کھل کر دیتے ہیں تو اس لئے کھل کر دیتے ہیں کہ قومی قربانیوں میں حصہ لینا چاہتے ہیں اور اخفاء ان کے لئے ممکن نہیں ہوتا اور اس لئے بھی کھل کر دیتے ہیں تا کہ دوسرے لوگوں میں تحریک پیدا ہو اور قوم میں قربانی کا جذبہ پھیلے.صرف اسی پر انحصار نہیں کرتے ، پھر وہ چھپ کے بھی دیتے ہیں مخفی طور پر بھی دیتے ہیں تاکہ ان کے دل پر کسی قسم کا زنگ نہ لگ سکے اور ان کی نیتیں دونوں پہلوؤں سے صاف ہو جائیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم ایسا کرو تو اس کا ایک نتیجہ ظاہر ہوگا وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُمْ کہ انصار جو فی سبیل اللہ خرچ کرنے والے ہیں ان کا خرچ و ہیں نہیں رک جایا کرتا بلکہ اس کے نتائج پیدا ہوتے ہیں.اس دنیا میں بھی نتائج پیدا ہوتے ہیں اور رضائے باری تعالیٰ کے علاوہ بھی ایک نتیجہ یہ ہے کہ ان کی بدیاں کم ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور نیکیاں بڑھنے لگتی ہیں.یہ ایک عجیب مضمون ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ نیک لوگ جو خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں ان کی راہیں ہی الگ ہیں ان لوگوں سے جو خدا کے سوا کسی چیز پر خرچ کرتے ہیں.یہ وہ انصار ہیں
خطبات طاہر جلدم 858 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء جن کے متعلق فرمایا وَ مَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ محمد رسول کریم ﷺ کو جیسے انصار ملے ہیں ان کی شکلیں تو دیکھو یہ بالکل اور چیزیں ہیں.ظالموں کو ایسے انصار نہیں ملا کرتے تمام دنیا کی قوموں کی مالی قربانیوں کی تاریخ پر نظر ڈالو.ایسے انصار جن کا ذکر قرآن کریم فرما رہا ہے یہ محمد مصطفی اللہ کے سوا یا ان انبیاء کے سوا جو آپ کی متابعت میں درجے پاگئے اور لوگوں کو نصیب نہیں ہوا کرتے.جب میں یہ کہتا ہوں کہ متابعت میں درجے پاگئے تو مراد یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی علی چونکہ مقصود تھے اس لئے باقی انبیاء نے بھی انہی اخلاق حسنہ کی پیروی کی ہے جن کو محمد رسول کریم معدے نے انتہاء تک پہنچایا اور اس طرح ان کو بھی اسلام کے ٹکڑے نصیب ہوئے.اس لئے کوئی نبی بھی ان معنوں میں اتباع محمد مصطفی علیہ سے باہر نہیں رہتا اور جس نے جو بھی درجہ پایا ہے اسی اتباع کے نتیجہ میں پایا ہے.پھر فرمایا وَ اللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اللہ تمہارے اعمال سے بھی خوب واقف ہے یعنی نیتوں سے بھی واقف ہے اور جانتا ہے کہ اچھی نیت ہے، پاک نیت ہے، صاف نیت ہے، خدا کی خاطر ہی خرچ کر رہے ہو اور قومی طور پر بھی خرچ کر رہے ہوا اور انفرادی طور پر بھی خرچ کر رہے ہو اور پھر وہ اعمال کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے کیونکہ باوجود اس نیکی کے تمہارے اعمال میں رخنے بھی ہو سکتے ہیں، کئی لحاظ سے کمزوریاں بھی ہوسکتی ہیں اور ہو سکتا ہے کہ لوگ طعنے دیں کہ چندے تو بڑے دیتا ہے لیکن فلاں کمزوری ہے چندوں کا کیا فائدہ ہے اگر فلاں بات میں بدی موجود ہے تو چندوں کا کیا فائدہ؟ اگر فلاں شخص سے اس کا معاملہ ٹھیک نہیں ہے تو چندوں کا کیا فائدہ؟ چندہ دینے والے کو چندہ نہ دینے والے اس قسم کے بہت طعنے دیا کرتے ہیں اور پھر دکھاوے کا الزام لگاتے ہیں کہتے ہیں چھوڑ وجی چندوں کی خاطر ہی جماعت بنی ہے؟ اور بھی تو نیکیاں ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا تعالیٰ تمہارے اعمال کی خبر رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ ان چندوں کے ساتھ باقی اعمال کا توازن بھی قائم ہونا چاہئے.جتنا تم مالی قربانی میں آگے بڑھو گے خدا نے اپنے ذمہ لیا ہے کہ تمہاری اصلاح فرما تا چلا جائے گا.پس یہ ایک دوسرا ثبوت ہے انصار الی اللہ کا، دوسری صفت ہے ان کی ، دوسری خصلت ہے اور اس کے نتیجہ میں خدا کا سلوک ان کے ساتھ بہت احسان والا ہے جو غیر اللہ کی خاطر قربانی کرنے والوں میں نظر نہیں آئے گا.
خطبات طاہر جلدم 859 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء جب وہ بدیوں کی خاطر قربانی دیتے ہیں یعنی بظا ہر قربانی نظر آتی ہے لیکن بد کام کے لئے خرچ کرتے ہیں، غلط نیتوں سے خرچ کرتے ہیں ، غلط مقاصد پر خرچ کرتے ہیں ، غلط لوگوں پر خرچ کرتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں اس کا برعکس منظر آپ کو دکھائی دے گا.ان اخراجات کے بعد ان کے اعمال سدھرتے نہیں بلکہ بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں، ریا کار زیادہ سے زیادہ بڑے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں سوسائٹی میں ، بظاہر نیک کاموں پر اموال خرچ ہور ہے ہوتے ہیں لیکن دن بدن ساری سوسائٹی ریا کاری کا شکار ہو رہی ہوتی ہے ، اخباروں میں نام اور تصویر میں چھپنے کی خاطر ، لوگوں کے جلسوں میں سب کے سامنے بڑے لوگوں کو چیک پیش کئے جاتے ہیں لوگوں سے داد لینے کے لئے.اس کے نتیجہ میں وہ گندے مال کی طلب میں اور بڑھ جاتے ہیں، حرام کھانے میں ان کی جھجک پہلے سے بھی زیادہ اٹھ جاتی ہے.دو مختلف مضمون ہیں، دو مختلف رخ ہیں.ایک وہ انصار ہیں جو محمد مصطفی علی کو عطا ہوئے اور آپ کے بعد آپ کی غلامی میں آپ کے اور نمائندگان کو بھی ہمیشہ کے لئے عطا ہوتے رہیں گے.اور ایک وہ انصار ہیں جو غیر اللہ کے لئے خرچ کرتے ہیں، غیر مقاصد کے لئے خرچ کرتے ہیں.ان کے اعمال بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں.جو پہلا گروہ ہے وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَیّاتِكُمْ کا وعدہ ان کی ذات میں پورا ہو تا ہوا دکھائی دیتا ہے اور دوسرے خرچ کرنے والوں کے اعمال بد سے بدتر ہوتے چلے جاتے ہیں.چنانچہ فرمایا وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ تمہارے ہر عمل پر چونکہ خدا کی نظر ہے اس کو پتہ ہے کہ تمہارے اعمال کے کسی حصہ میں کمی واقعہ ہوئی ہے اور اسے سدھارنا ضروری ہے.اس لئے تم مطمئن رہو صلاح کرنے والے تو ہم ہیں اس کے ساتھ ہی فرمایا لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ حضرت ﷺ دنیا کے ہادی تھے لیکن یہاں فرمایا کیس عَلَيْكَ هُدُ بهُم ان لوگوں کو ہدایت دینا تیری ذمہ داری نہیں ہے.وَلكِنَّ اللهَ يَهْدِى مَنْ يَشَاءُ اللہ جس کو چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے.اس کا یہ مطلب تو نہیں ہوسکتا کہ نعوذ باللہ من ذالک آنحضرت عیہ کو ہادی ہونے کے مقام سے ہٹایا جارہا ہے.مراد یہ ہے کہ تو ہادی ہے لیکن اس کے باوجود دلوں کی باریکیوں تک تیری نگاہ نہیں ہے.اعمال کی باریکیوں تک تیری نگاہ نہیں ہے جو نیکی کرتا ہے تجھے دکھائی دے گا تو تو اس کے لئے
خطبات طاہر جلد۴ 860 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء دعا کرے گا ، اس کے ساتھ حسن سلوک کرے گا لیکن اللہ تعالیٰ جو پس پردہ انسانی نیتوں کی خبر رکھتا ہے، جو اعمال کی نیتوں اور ان کی کنہ سے واقف ہے اور پھر اعمال کی تفصیلات پر جس کی نظر ہے اور پھر ہر انسان کے اعمال پر اس کی نظر ہے وہ اختیار رکھتا ہے کہ اگر چاہے تو ان کو درست کر دے.یعنی کام تو تیرا ہے لیکن کرنا اللہ نے ہے، ہادی تجھے بنایا ہے لیکن ہدایت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی ہے.تاکہ تجھ پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ بنے.اس لئے حضرت محمد مصطفی اے کی ہدایت کا فیض جولوگوں تک پہنچتا ہے اس فیض کو خدا خو دلوگوں تک پہنچاتا ہے خدا فرمارہا ہے کہ بادی تو تو ہے لیکن ہدایت دینا ہمارا کام ہے اس کی ذمہ داری ہم نے اٹھالی ہے.وَمَا تُنفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَلاَ نْفُسِكُمْ کہہ کر پھر اس مضمون کو کھول دیا کہ جو کچھ تم اپنے اوپر خرچ کرتے ہو، اپنے لئے خرچ کرتے ہو، یعنی پہلی آیت نے تو یہ ظاہر کیا تھا کہ بس بات یہاں ہی ختم ہو گئی جس کی خاطر خرچ کرنا تھا اس کو پہنچ گیا.وہ جانتا ہے اس کو خوب علم ہے اس لئے تم راضی ہو کر لوٹ آئے.دنیا کے معاملات میں یہی ہوا کرتا ہے وہ تحفہ جورضا کی خاطر دیا جاتا ہے اس تحفہ میں جب اس شخص کو پہنچ جائے اس کو علم ہو جائے تو مضمون و ہیں ختم ہو جایا کرتا ہے.رضا حاصل ہو گئی تو فرمایا رضا تو تمہیں حاصل ہوگئی تھی اس کے علاوہ بھی مالی قربانیوں میں بہت فائدے ہیں، ایک یہ کہ خدا تمہاری اصلاح کا بیڑا اٹھا لیتا ہے اصلاح کی ذمہ داری قبول فرمالیتا ہے اور ہر خرچ کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ تمہیں ایک نیا حسن عطا کرتا ہے.چنانچہ یہ جو کچھ بھی تم خرچ کرتے ہو عملاً تم اپنے لئے خرچ کر رہے ہو لیکن ساتھ ہی فرمایا وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ الله تمہاری نیست یہ نہیں ہوتی کہ تم ٹھیک ہو، خدا تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہاری نیت یہی رہتی ہے کہ اللہ کی رضا حاصل ہو اس لئے جب یہ نیت ہوگی کہ خدا کی رضا حاصل ہو تو اس کے طبعی نتیجہ میں تمہاری اصلاح ہو رہی ہوتی ہے اور اگر تم یہ نیت رکھو کہ مجھے کوئی فائدہ حاصل ہوگا تو نہ تمہیں رضا حاصل ہوگی اور نہ کوئی فائدہ حاصل ہو گا اس لئے دوبارہ توجہ دلا دی کہ ہم یہ تو تمہیں بتا رہے ہیں کہ فائدہ تمہیں ہی پہنچے گا لیکن خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کبھی بھی اپنے فائدہ کی نیت پیش نظر نہ رکھنا کیونکہ یہ فائدہ تمہیں تب پہنچے گا جب تمہاری نیست رضائے باری تعالیٰ کے حصول کے سوا اور کچھ نہیں ہوگی.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَالله لا تُظْلَمُونَ اب جا کر یہ
خطبات طاہر جلدم 861 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء مضمون مکمل ہو جاتا ہے فرمایا صرف یہی نہیں بلکہ جو تم خرچ کرتے ہوا سے تمہیں لوٹا بھی دیں گے.تُوَفَّ إِلَيْكُمْ میں لفظ یوف بھر پور لوٹانے کا مضمون ادا کرتا ہے.بظاہر تو یہ ہے کہ جتنا تم دے رہے ہوا اتنا تمہیں پورا پورا واپس کیا جائے گا لیکن یہ مراد نہیں ہے.تُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ نے اس مضمون کو کھول دیا ہے.جب نفی میں کہا جائے کہ تمہیں نقصان نہیں ہوگا یا یہ نقصان کا سودا نہیں تو اس کا مثبت معنی ہوا کرتا ہے کہ بہت فائدے کا سودا ہے.یہ ایک طرز کلام ہے جو ہر زبان میں پائی جاتی ہے.وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جتنا تم سے خدا نے لیا تھا بالکل اسی طرح پائی پائی واپس کر دے گا.مراد یہ ہے کہ جب تم خدا کے ساتھ سودے کرتے ہو تو گھاٹے کے سودے نہیں ہوا کرتے، کسی قیمت پر بھی خدا تمہیں زیاں کا احساس نہیں رہنے دیگا.اب بتائیے کہ کیا یہ انفاق فی سبیل اللہ محمد مصطفی حملے کے انصار کو باقی سب دنیا کے خرچ کرنے والوں سے ممتاز کر دیتا ہے کہ نہیں کر دیتا ایسے سودے تو رسولوں کے ماننے والوں کے سوا اور ان کے متبعین کے سوا دنیا کی کسی قوم کو نصیب ہوا ہی نہیں کرتے.یہ وہ امتیازی شان ہے جو بتا رہی ہے کہ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارِ اگر کسی دعویدار کو ایسے لوگ نصیب ہو جا ئیں جن کے خرچ کی ایسی ادا ئیں ہوں ، جن کی یہ خصلتیں ہوں.جن کے ساتھ خدا کا پھر یہ سلوک ہو کہ ان کے اعمال بھی ساتھ سدھر رہے ہوں اور ان کے اموال بھی کم نہ ہو رہے ہوں بلکہ بڑھ رہے ہوں اس دنیا میں بھی ان کو پہلے سے بڑھ کر عطا ہورہا ہو، ایسے لوگ دکھاؤ کہ غیروں میں بھی کہیں ملتے ہیں.یہ ہے اعلان آیت کا، یہ ہے وہ چیلنج جس کو دنیا کی کوئی قوم بھی قبول کرے تو اس کو ثابت نہیں کر سکتی.ایسی عظیم الشان ایک امتیازی شان ہے انبیاء کی جس کو ظاہر کیا گیا ہے کہ ان کے ماننے والے پھر ان شکلوں کے ہو جاتے ہیں ، ان صفات کے ہو جاتے ہیں، ان انعامات کے مورد بن جاتے ہیں ، خدا تعالیٰ سے یہ یہ رحمتیں ان کو نصیب ہوتی ہیں، یہ یہ فضل عطا کئے جاتے ہیں.آج جماعت احمدیہ کی تصویر ان آیات میں موجود ہے.لاکھ دنیا شور مچائے، چینے چلائے، گالیاں دے، ہمتیں باندھے ظلم و ستم کا بیڑا اٹھائے مگر یہ تین آیات کا جو مضمون ہے یہ جماعت احمد یہ سے چھین نہیں سکتی.ایسی امتیازی شان ہے جماعت احمدیہ میں یہ کہ ہر پہلو سے خدا کے فضل کے ساتھ یہ مضمون جماعت احمدیہ کے اوپر پورا اتر رہا ہے.خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے جانتے ہیں،
خطبات طاہر جلدم 862 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء ان کی اولادیں جانتی ہیں ، ان کی اولاد در اولاد جانتی ہے کہ جن لوگوں نے بھی خدا کی خاطر کچھ خرچ کیا تھا اس سے بہت بڑھ کر کوئی نسبت ہی نہیں چھوڑی خدا نے اتنا بڑھ کر ان کو پھر عطا فرمایا، انکو عطا کیا پھر ان کی اولادوں کو عطا کیا اور بعض دفعہ فوری طور پر ایمان اور اخلاص بڑھانے کے لئے گن کے بھی اتنا دے دیا کہ یہ خیال نہ ہو کہ شاید ویسے ہی ہمیں مل رہا ہے.چنانچہ بعض دفعہ کیا بڑی کثرت کے ساتھ ایسی مثالیں ہیں اور مجھے مخلصین لکھتے رہتے ہیں کہ عجیب شان ہے خدا تعالیٰ کے پیار کی کہ پیسہ کوئی نہیں تھا، ایک ہزار پونڈ ہم نے دوسرے مقصد کے لئے رکھا ہوا تھا وہ ہم نے خرچ کر دیا اس میں اور بعینہ اتنی رقم ایک ایسے رستہ سے عطا ہوگئی جس کا ہمیں تصور بھی نہیں تھا، وہم بھی کوئی نہیں تھا.اسی طرح پاکستان کے اور دوسرے ممالک کے دوست جو مالی قربانی ابْتِغَاء وَجْهِ الله کرتے ہیں ان کے ساتھ خدا یہ سلوک فرماتا ہے لیکن یہ سلوک جو ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے صرف یہ ظاہر کرنے کی خاطر ہے کہ ایک مقتدر خدا ہے جو بالا رادہ یہ فعل کر رہا ہے تمہیں سمجھانے کی خاطر کہ جس نے یہ وعدہ کیا تھا يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ وہ وعدے پورے کر رہا ہے.لیکن ہرگز یہ مراد نہیں کہ وہاں بات کو چھوڑ دیتا ہے.اکثر صورتوں میں اتنا عطا فرماتا ہے کہ وہ شخص پھر کاؤنٹ (Count) ہی بھول جاتا ہے، اس کی گنتی بھول جاتا ہے اور بعض دفعہ اولادیں بدقسمتی سے یہ بھول جاتی ہیں کہ یہ ہمارے ماں باپ کی قربانیاں تھیں جن کا پھل ہمیں نصیب ہو رہا ہے.تو ساری دنیا زور لگا کے دیکھ لے ایسا بن کے دکھا دے یہ تو کھلا چیلنج ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کے سوا آج کوئی نہیں ہے دنیا میں جس کے اندر یہ تین آیات کا مضمون عملی زندگی میں نظر آرہا ہو.کتنا عظیم الشان مقام ہے للہ خرچ کرنے والوں کا اور کتنا بڑا احسان ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ اس زمانے میں ہمیں صحابہ کی خصلتیں عطا فرما دیں.چودہ سو سال دور بیٹھے ہوئے لوگوں کو مختلف قوموں کے لوگوں کو مختلف نسلوں کے لوگوں کو، مختلف ملکوں کے لوگوں کو مختلف براعظموں کے لوگوں کو ساری دنیا تک حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کا یہ فیض پہنچادیا جس کا ان تین آیات میں ذکر چل رہا ہے، پس بڑی خوش نصیبی.تحریک جدید کی جو تحریک حضرت مصلح موعود نے 1934ء میں فرمائی تھی اس کے ساتھ بھی
خطبات طاہر جلدم 863 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء خدا تعالیٰ کا یہ سلوک ہو رہا ہے.ایک اور رنگ میں بھی اللہ تعالیٰ کا سلوک أَضْعَافًا مُضْعَفَةً ( آل عمران :۱۳۱) ہوا کرتا ہے.ایک طرف تو ہر فرد بشر کے ساتھ جو خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے خدا کا یہ سلوک اس کے اموال میں برکت دیتا چلا جاتا ہے.دوسری طرف اجتماعی طور پر وہ جماعت جو خدا کی خاطر خرچ کرتی ہے اس کے چندوں میں ، اس کے اموال میں برکت دیتا چلا جاتا ہے.تحریک جدید نے جو کچھ بھی خدا کی راہ میں خرچ کیا ہر آئندہ سال اس سے بہت بڑھ کر خدا تعالیٰ نے پھر عطا کر دیا اور یہ سلسلہ حیرت انگیز طور پر مسلسل آگے کی طرف بڑھ رہا ہے.جب پچاسواں سال تحریک جدید کا تھا اس وقت میں نے اعلان کیا کہ خدا کرے ایک کروڑ تک پہنچ جائے وہ تحریک جو ایک لاکھ کے قریب چندے سے شروع ہوئی تھی اب پچاس سال ہو چکے ہیں ایک کروڑ تو ہونا چاہیئے اسکو چنا نچہ اسی سال اگر چہ وعدے کم تھے لیکن عملاً وصولی ایک کروڑ ہو گئی تھی اور اب اس سال کے جو وعدے ہیں وہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اندرون اور بیرون کے ملا کر ایک کروڑ ا کیس لاکھ ستاون ہزار (RS1,21,57,000) کے ہیں جو سال گزرا ہے.تحریک جدید سے مجھے اطلاع ملی ہے کہ پاکستان کے متعلق ان کی کوشش تھی اور میری بھی یہی خواہش تھی کہ پچاس لاکھ تک وصو پہ پہنچ جائے گی.لیکن وعدے ابھی تک صرف چوالیس لاکھ میں ہزارRS44,20,000 ) کے مل سکے ہیں لیکن ساتھ ہی وہ لکھتے ہیں کہ عملاً تحر یک جدید کے ساتھ یہ ہو رہا ہے کہ وصولیاں وعدوں سے ہمیشہ آگے بڑھتی ہیں.چنانچہ گزشتہ سال اڑ میں لاکھ کے وعدے تھے تو چالیس لاکھ سے زیادہ وصولی ہوئی تھی اور اب ان کا خیال ہے کہ چوالیس لاکھ کے وعدے ہیں اور ان کی دعا اور توقع بھی یہی ہے، خدا کرے ایسا ہی ہو کہ پاکستان کی وصولیاں انشاء اللہ تعالیٰ پچاس لاکھ سے آگے نکل جائیں گی.تو یہ باونواں (۵۲) وال ) سال ہمارے لئے ایک مزید یقین کا سال ہے.خدا کے وعدوں کو ہم بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور ہر سال دیکھ رہے ہیں انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی.ہر قدم جماعت کا ہر قسم کے مشکل حالات میں آگے کی طرف اٹھ رہا ہے.پاکستان کے جو حالات گزر رہے ہیں ان کے باوجود وعدوں میں اضافہ تھا اور سال گزشتہ کے مقابل پر آج تک کی وصولی میں بھی اضافہ ہے جس سے ان کی توقع یہ بعید از قیاس نہیں کہ پوری ہو بلکہ مجھے
خطبات طاہر جلد۴ 864 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہو جائے گی چوالیس کی بجائے انشاء اللہ پچاس لاکھ تک وعدے پہنچ جائیں گے.اور بیرون پاکستان میں ستر لاکھ چھتیں ہزار نو سونوے ( RS77,36,990) کے وعدے بھی میں سمجھتا ہوں آگے بڑھ جائیں گے وصولی کے لحاظ سے.کیونکہ اب تک بیرون پاکستان کی وصولی کا تناسب پاکستان کی وصولی کی نسبت زیادہ بہتر ہے.جماعتوں کو اب توجہ بھی پیدا ہو رہی ہے تحریک جدید کے چندہ کی طرف.اس سے پہلے کیونکہ چندہ عام اور وصیت اور بعض دیگر چندے تحریک جدید کے چندے کے مقابل پر بہت زیادہ آگے بڑھ گئے تھے اس لئے تحریک جدید کے چندے کو یہ سمجھا جانے لگا تھا کہ اب یہ زوائد میں سے ہے حالانکہ عملاً یہ بات نہیں ہے.یہ جتنے چندے بڑھے ہیں یہ سب تحریک جدید کے چندے کے بچے ہیں.تحریک جدید کے چندے نہ ہوتے ، ان غریب قادیان والوں نے اور ہندوستان کی جماعتوں نے بکریاں بیچ بیچ کر اور کپڑے بیچ بیچ کر اور روپیہ، دو روپے اکٹھے کر کے مہینوں میں اگر نہ دیئے ہوئے تو آج کروڑوں تک بجٹ پہنچ نہیں سکتا تھا اس لئے جو اصل ہے اس کی حفاظت ضروری ہے، اس کو قائم رکھنا ضروری ہے.جتنے چندے یورپ اور امریکہ اور افریقہ اور دیگر جماعتوں میں اس وقت آپ کو نظر آرہے ہیں یہ سارے تحریک جدید کے ان چندوں کی برکتیں ہیں جو آغاز میں دیئے گئے تھے اور بڑی خاص دعاؤں کے ساتھ دیئے گئے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صحابہ بھی شامل تھے، اول درجے کے تابعین شامل تھے، مہاجرین الی اللہ شامل تھے جو افغانستان سے یا دیگر جگہوں سے وہاں آکر بس گئے تھے.ایک عجیب ماحول تھا اس وقت تقویٰ اور نیکی کا.جس رنگ میں وہاں چندے دیئے جاتے تھے وہ ایک ایسا منظر ہے کہ شاذ و نادر کے طور پر تاریخ میں اس قسم کے مناظر آیا کرتے ہیں.کئی کئی مہینوں کی تنخواہیں انجمن کے غریب کا رکن دے دیا کرتے تھے.آج بھی یہ مناظر پھیل رہے ہیں ساری دنیا میں.بڑے حسین نقوش ظاہر ہو رہے ہیں احمدیت کی برکت سے لیکن ان کا آغاز وہیں سے شروع ہوا ہے قادیان سے، اس کو بھلانا نہیں چاہئے اور تحریک جدید نے جو کر دار ادا کیا ہے اس عظیم الشان مالی قربانی کی رغبت پیدا کرنے میں اسے ہم کسی صورت میں بھی نظر انداز نہیں کر سکتے.بہر حال اب جو شکل ہے وہ یہ ہے کہ تحریک جدید کا چندہ تو ایک کروڑا کیس لاکھ یا اس سے کچھ
خطبات طاہر جلدم 865 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء زائد ہو گا لیکن بجٹ تیرہ کروڑ سے زائد ہو چکا ہے اور تحریک جدید گویا کہ قریباً تیرھواں حصہ یا کچھ زائد اس سے پوری جماعت کے اخراجات میں حصہ لینے کی توفیق مل رہی ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ سارے فیوض تحریک جدید کے چندے کے ہی فیوض ہیں اور اس کو ضرور آگے بڑھانا چاہئے.مجھے ذاتی طور پر علم ہے کہ ہزار ہا احمدی بچے بڑے ہو کر اس لئے مالی قربانیوں میں شامل ہوئے کہ بچپن میں ان کی ماؤں نے ان کو تحریک جدید کے نظام میں شامل کر دیا تھا.یہ بہت ہی دیر پا اثرات ہیں جو تحریک جدید کے چندوں کے ظاہر ہوئے.آج جو نسلیں قربانیوں میں آگے بڑھ رہی ہیں ان میں ایک بہت بڑا طبقہ ایسا شامل ہے جن کو آغاز میں تحریک جدید سے مالی قربانی کے چسکے پیدا ہوئے اور پھر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسا چسکا پڑ گیا کہ پھر وہ رہ ہی نہیں سکتے تھے چندوں کے بغیر اس لئے تحریک جدید کی طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.اسے ضرور زندہ رکھنا چاہئے.اس کی برکتیں قیامت تک جاری رہیں گی اور قیامت تک اسے یاد بھی رہنا چاہئے.یہ نہ سمجھا جائے کہ چونکہ آئندہ جا کے ارب ہا ارب روپے چندہ عام اور وصیت کے وصول ہوں گے اس لئے تحریک جدید کے چندے کو نظر انداز کر دیا جائے.میں نے تو اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا اورالحمد للہ کہ اب اس کی طرف توجہ بھی پیدا ہورہی ہے کہ نہ صرف تحریک جدید کو زندہ رکھا جائے بلکہ تحریک جدید کے اول دفتر کے قربانیاں کرنے والوں کے چندوں کو بھی قیامت تک جاری رکھا جائے اور اس کی اصل وجہ یہی تھی کہ وہ سارے ہمارے محسن ہیں جن کی وجہ سے خدا تعالیٰ نے جماعت کو اتنی برکتیں عطا فرما ئیں اور جن کی نیکیاں پھر آگے بڑھ رہی ہیں بڑی کثرت کے ساتھ ان کی اولادوں میں بھی اور دوسروں میں بھی.تو نہ صرف تحریک کو ہمیشہ کے لئے قائم رکھنا ہے اور آگے بڑھانا ہے بلکہ ان اولین قربانی کرنے والوں کی یادوں کو بھی زندہ رکھنا ہے ، ان کی قربانیوں کو بھی زندہ رکھنا ہے.الحمد للہ کہ اس دفعہ جو اطلاع ملی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ تحریک جدید نے اس کی طرف سنجیدگی سے توجہ کی اور کافی اخبارات میں بھی اعلان کروائے اور دیگر جماعتوں سے خط وکتابت کے ذریعے رابطے کئے تو انہوں نے بتایا کہ سات سو کھاتے پھر دوبارہ زندہ ہو گئے ہیں اس سال خدا کے فضل سے.یعنی سات سو ایسے چندہ دینے والے جن کی وفات کے ساتھ چندے بند ہو گئے تھے اس
خطبات طاہر جلدم 866 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء کے ورثاء تک جب یہ باتیں پہنچیں انکو تلاش کر لیا گیا تو انہوں نے اس وقت سے لے کر جب سے چندے بند تھے آج تک کے سارے سالوں کے چندے بھی ادا کر دیئے اور آئندہ کیلئے عہد کیا کہ ہم ہمیشہ انشاء اللہ خود بھی دیتے رہیں گے اور اپنی اولادوں کو بھی نصیحت کرتے چلے جائیں گے ان کا چندہ کسی صورت میں بند نہیں کرنا.یہ اولین خدا کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں.تم کروڑوں بھی دو تو ان آنوں کے مقابل پر تمہاری حیثیت نہیں ہو سکتی جو تقویٰ کے خاص مقام اور خاص معیار کے ساتھ خدا کے حضور پیش کئے گئے تھے.اس لئے ان اولین کے نام کو انشاء اللہ مرنے نہیں دیں گے.یہ عہد کرتے ہیں یہ توقع رکھتے ہیں اور اپنی آئندہ نسلوں سے کہ وہ ہمارے اس عہد کو پورا کرنے میں ہماری مدد کرتے رہیں گے ہمیشہ.اب میں نے تحریک کو ہدایت کی ہے کہ مزید تلاش کریں اور مزید محنت کریں.بیرونی دنیا میں ابھی تک اس طرف ( یعنی بیرونی دنیا سے مراد ہے پاکستان کے علاوہ جوا کثر دنیا تو باہر کی دنیا ہے اس لحاظ سے ) اکثر دنیا میں ابھی تک اس طرف پوری توجہ نہیں دی گئی اور اکثر لوگوں کو پتہ ہی نہیں کہ ہمارے بزرگ کون تھے جن کے چندے اتنے تھے اور پھر وہ اچانک ان کی وفات سے بند ہو گئے اس لئے ان کو میں نے کہا ہے اب کہ ساری دنیا میں فہرستیں بھجوائیں اور جماعتوں کو ہدایت کریں کہ وہ مختلف اخباروں میں بار بار اعلان کروائیں جو مقامی اخبار چھپتے ہیں خصوصاً پاکستانیوں کو تلاش کر کے ان تک وہ فہرستیں پہنچا ئیں اور کہیں کہ ان میں نام تلاش کرو.تمہارے آباؤ اجداد میں سے تو کوئی ایسا نام نہیں جس کی وفات کے ساتھ اس کی یہ نیکی بھی بظاہر مرتی ہوئی دکھائی دے رہی ہو اور پھر عہد کرو کہ ان کی طرف سے ہم نے اس چندے کو ہمیشہ کے لئے جاری کرنا ہے.امید ہے کہ انشاء اللہ مزید کوشش سے ایک دوسال کے اندر ہر کھاتے کو زندہ کر دیا جائے گا.اور جیسا کہ میں نے وعدہ کیا تھا انشاء اللہ اس وعدے پہ قائم ہوں جتنی خدا نے مجھے توفیق دی جن کھاتوں کا کوئی والی وارث نہ ملا وہ میری طرف منتقل کر دیئے جائیں انشاء اللہ میں پوری کوشش کروں گا اپنی اولاد کو بھی نصیحت کروں گا کہ ان کھاتوں کو ہمیشہ زندہ رکھیں.چونکہ اس وقت روپے تھوڑے ہوتے تھے ان کی قیمت بہت زیادہ تھی، اخلاص کے لحاظ سے ان کا مقام بہت بلند تھا لیکن بہر حال تھوڑے تھے نظر آنے کے لحاظ سے اس لئے اتنا مشکل کام نہیں
خطبات طاہر جلدم 867 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء ہے یعنی آج کل کے معیار کے لحاظ سے اگر اس وقت کوئی پانچ روپے دیتا تھا تو بہت بڑی چیز تھی آج ہزار بھی دے تو اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں ہے تو ہزار آدمیوں کا کھانہ زندہ کرنے کے لئے پانچ ہزار روپے سالانہ چاہئیں اور اس سے کئی گنا زیادہ چندہ دینے والے خدا کے فضل سے جماعت میں موجود ہیں.تو اگر اس طرح کے کھاتے زندہ کرنے ہوں تو ہزار نام تو آسانی کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ میں عہد کروں گا کہ ضرور پورا کروں.باقی احباب بھی توجہ کریں گے تو انشاء اللہ یہ سارے کھاتے زندہ ہو جائیں گے.خدا کے حضور ہمیشہ کیلئے تو پہلے ہی زندہ ہیں مگر ان کی یادیں بھی زندہ ہوں گی ،ان کے لئے دعاؤں کی تحریکیں بھی زندہ ہوں گی.اندازہ لگائیں آج سے ہزار سال کے بعد قادیان کے یا ہندوستان کے وہ چند چندہ دینے والے ایسے ہوں گے جن کے نام پر چندے دیئے جا رہے ہوں گیا.ایک عجیب بے نظیر بات ہوگی.حیرت سے دنیا ان لوگوں کو دیکھے گی کہ جن کے کھاتے ان کی وفات سے ہزار سال بعد بھی زندہ ہیں اور چلتے چلے جارہے ہیں اور کبھی نہیں مرتے.اور پھر ان کے لئے دعاؤں کی تحریکیں بھی پیدا ہوں گی.جماعت کی جو قر بانیوں کا معاملہ ہے یہ تو اتنا وسیع مضمون ہے کہ اس خطبہ میں تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ اس کا حق ادا کیا جاسکے.مجھے زبانی پچھلے سال سے لے کر اب تک کی باتیں یاد ہیں قربانی کی وہی بہت وسیع ہیں.حیرت انگیز رنگ میں جماعت کے بچے عورتیں ، بوڑھے، جوان قربانیاں پیش کر رہے ہیں.میں ان کا ذکر بھی کر دیتا رہا ہوں جماعت کے علم میں آئے اور تحریک پیدا ہو اور بعض دفعہ ذکر نہیں بھی کرتا تا کہ اخفاء کا حق بھی پورا ہو جائے کیونکہ اگر مسلسل ذکر کیا جائے تو اس سے بعض کمزور طبیعتوں میں یہ رحجان بھی پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے کہ وہ سمجھیں کہ بڑی شہرت ہورہی ہے ایسی قربانیوں کی ہم بھی قربانیوں کریں اور ہمارا نام بھی نمایاں طور پر لوگوں کے سامنے آئے.اگر چہ میں نام لینے سے عموماً احتراز کرتا ہوں مگر پھر بھی وہ لوگ نمایاں ہو جاتے ہیں اور اس بات کا رحجان پیدا ہوسکتا ہے تو مجھے احتیاط کرنی پڑتی ہے.کبھی دل چاہتا ہے کہ کثرت سے ان قربانیوں کا ذکر کروں جماعت میں مشتہر ہوں اور نی تحریکیں دلوں میں پیدا ہوں.کبھی اخفاء سے بھی کام لینا پڑتا ہے تا کہ آیت کے اس مضمون کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اگر تم اس کو چھپاؤ گے تو فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہوگا کیونکہ اصلاح نفس کے لحاظ سے چھپی ہوئی قربانی کا درجہ کھلی قربانی کے
خطبات طاہر جلدم 868 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء مقابل پر زیادہ ہوتا ہے.تو اس وقت میں ان کا ذکر نہیں کرتا وقت کے لحاظ سے بھی اور ویسے بھی مگر یہ میں آپ کو یہ بتا تا ہوں کہ بچے کیا اور بوڑھے کیا اور عورتیں کیا اور مرد کیا اس کثرت کے ساتھ ایسی عظیم الشان قربانیاں دے رہے ہیں کہ بعض دفعہ ان کے خطوط پڑھتے ہوئے بے اختیار آنسو چھلکنے لگتے ہیں.دل سے دعائیں نکلتی ہیں ان لوگوں کے لئے ، رشک آتا ہے ان پر کہ کیسی غربت کے حالات میں کیسی تنگی کے حالات میں محض ابتغاء وجه الله خدا کے چہرے کی رضا حاصل کرنے کے لئے ، خدا کے نام پر قربانیاں دیتے چلے جارہے ہیں اور نہیں تھکتے.حیرت انگیز جماعت ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے.کوئی اس کی مثال نہیں ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو ہمیشہ پہلے سے بڑھ کر ترقیات کے مقام پر فائز فرماتا چلا جائے.قدم آپ نے اٹھانے ہیں لیکن فائز اللہ فرمائے گا.قدم آپ نے اٹھانے ہیں لیکن مراتب اللہ کی طرف سے نصیب ہوں گے اس لئے اپنی نیتوں کو صاف کر کے خدا کی طرف بڑھتے رہیں.مالی قربانیوں میں پہلے سے زیادہ ارادے باندھیں.اگر توفیق نہیں ہے تو نذر کے پہلو کو یا درکھیں.یہ عجیب مضمون ہے عجیب شان ہے اس آیت کی کہ جتنا آپ غور کریں اس کا مضمون پھیلتا چلا جاتا ہے کم نہیں ہوتا.نذر کا مضمون ان غربیوں کے لئے بیان ہو گیا جن کو وقتی طور پر توفیق نہیں ہے تمنا ئیں لئے پھرتے ہیں دلوں میں.فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَّنْ يَنْتَظِرُ (الاحزاب :۲۴) یہ اسی قسم کا مضمون ہے جو یہاں بیان ہو گیا کہ تم میں سے بعض ایسے ہیں جو خوش نصیب ہیں ان کو بڑی بڑی عظیم الشان قربانیوں کی توفیق مل گئی ایسے ایسے احمدی آج دنیا میں ہیں کہ جن کو، ایک ایک آدمی کو خدا کے فضل سے ایک ایک کروڑ روپیہ عملاً جماعت کے لئے پیش کرنے کی پچھلے ایک دو سالوں میں توفیق ملی ہے کسی زمانے میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے تھے.ساری جماعت کا چندہ بھی ایک کروڑ نہیں ہوتا تھا لیکن ایک چندہ پر دوسرا چندہ حیرت انگیز طریق پر اللہ تعالیٰ نے یہ تو فیق عطا فرمائی ہے بعض کو کہ ان کا چندہ پچھلے چند سالوں کے اندر ایک کروڑ کے قریب پہنچ گیا تو بعض لوگ جب اس کو پڑھتے ہیں اور سنتے ہیں تو ان کے دل میں تمنا ئیں پیدا ہوتی ہیں.مثلاً جب میں نے بتایا کہ ہم نے ایک قرآن کریم طبع کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو خدا نے ایک آدمی پیدا کر دیا کہ سارا خرچ میں دوں گا.دوسرے کا فیصلہ ہوا تو ایک اور آدمی پیدا کر دیا ، تیسرے کا
خطبات طاہر جلدم 869 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء فیصلہ ہوا تو خدا نے ایک اور پیدا کر دیا.یعنی قرآن کریم کے تراجم ابھی مکمل نہیں ہوتے کہ خدا تعالیٰ آدمی بھیج دیتا ہے کہ اس کا خرچ تو وہ اٹھالے گا.تو بعض جماعتوں کی طرف سے ، بعض افراد کی طرف سے بڑی درد ناک چٹھیاں آنی شروع ہوئیں اللہ ان کو جزاء دے کہ ہمارے دل کا عجیب حال ہے ایسی بے قرار تمنا پیدا ہوئی ہے، برداشت نہیں کر سکتے ، کاش خدا ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم بھی ایک پورے قرآن کریم کے ترجمے کا خرچ اٹھائیں.ایک دو کی بات نہیں ہے بیسیوں ایسے دوست ہیں جن کے دل میں خدا تعالیٰ نے یہ تمنا تڑپا دی ہے انکے دلوں میں اور بعض جماعتوں نے پھر پیش بھی کر دیا.چنانچہ لیبیا کے احمدیوں نے اس معاملہ میں پہل کی اور مجھے لکھا کہ ہم میں سے ایک آدمی تو نہیں ہے ایسا لیکن آئندہ ترجمہ قرآن کریم جو شائع ہونے والا ہے اس کے لئے ہم عہد کرتے ہیں ، سارے لیبیا کی جماعت کے دوست، کہ ہم دیں گے.اور یہ وہ مضمون ہے جو اس آیت نے چھیڑ دیا او نَذَرْتُمْ مِنْ نَّذْرٍ یعنی تم جو نذریں باندھتے ہو.نذروں کی کئی قسمیں ہیں.ایک قسم یہ بھی ہے کہ دل میں ایک تمنالے کے بیٹھ جاتے ہو کہ کاش ہمارے پاس ہو تو ہم یہ خرچ کریں.تو فرماتا ہے کہ اللہ اس کو بھی نظر انداز نہیں کرتا.ایسی نذریں بھی موجود ہیں جو بظاہر پوری نہیں بھی ہوں گی تو خدا کے حضور پوری ہو چکی ہوں گی.ایسے مالک سے سودا ہے کتنا عظیم الشان سودا ہے! کوئی نظیر کسی اور سودے میں نظر نہیں آسکتی.جس کو آپ نے بات پہنچائی تھی فرمایا پہنچ گئی، فرمایا جس کو تم خرچ نہیں کر سکتے وہ بھی قبول ہو گیا میرے حضور اور ہر حال، ہر صورت سے میں واقف ہوں.پھر میں اسے تمہاری طرف لوٹانا شروع کرتا ہوں تمہاری اصلاح کے ذریعے جو کچھ تم خرچ کر رہے ہو گو یا اپنی ذات پر خرچ کر رہے ہو پھر میں واپس بھی کر دیتا ہوں اور سارا اجرا بھی باقی پڑا ہوا ہے جو آخرت میں تمہیں عطا کروں گا.اس کا اس اجر کے ساتھ ان معنوں میں کوئی تعلق نہیں کہ اس کھاتے میں سے نفی ہورہا ہو کچھ.یہ سودے ہیں جو آج خدا کے فضل سے جماعت کر رہی ہے.جب اس پہلو سے دیکھیں سعادتیں ہی سعادتیں ہیں.کتنا عظیم احسان ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا کہ ایسے لوگ پیدا کئے جو نہ ختم ہونے والے لوگ ہیں اور اس ظالمانہ دور میں پھر ان کو دوبارہ پیدا کر دیا حضرت مسیح موعود کے ذریعے یہ قوت قدسی اس مز کی نفس کی ہے جسے محمد مصطفی اللہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے.پس درود بھی بھیجیں بے
خطبات طاہر جلدم 870 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء شمار، کثرت کے ساتھ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر بھی اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر بھی اور ان نیک لوگوں پر بھی سلام بھیجیں جن کو خدا تعالیٰ قربانیوں کی توفیق عطا فرمارہا ہے اور ان کے لئے بھی دعائیں کریں جن کے دل میں نذریں پیدا ہو رہی ہیں اور خدا کی ان پر نظر ہے اور توفیق کیلئے دعا مانگیں کہ خدا تعالیٰ ان کو اپنی دلی تمنا ئیں پوری کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے.اس موقع پر دفتر چہارم کا اعلان کرنا تھا ( حضور نے اس پر استنفار فرمایا ) کتنے سال کے بعد دفتر کا اعلان ہوتا ہے؟ انیس سال کے بعد تو یہ بیسواں سال ہے؟ میں ہو چکے ہیں! ہیں سال گزر چکے ہیں دفتر سوئم پر اور اب وقت آ گیا ہے کہ ہم دفتر چہارم کا اعلان کریں.اس دفتر سے مراد یہ ہے کہ ہر نئی نسل جو میں سال کے بعد پیدا ہو کر بڑی ہو رہی ہے یعنی پورا ہیں سال کے عرصہ میں کامل بلوغت تک پہنچ جاتی ہے ان کے لئے نئے کھاتے شروع ہو جائیں اور نئے سرے سے نئی فہرستیں تیار ہوں.خاص طور پر پاکستان سے باہر ابھی بہت گنجائش ہے تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد بڑھانے کی اس لئے آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق دفتر چهارم کا بھی اعلان کرتا ہوں.آئندہ سے جو بھی نیا چندہ دہندہ تحریک میں شامل ہوگا وہ دفتر چہارم میں شامل ہوگا.باہر کی دنیا میں خصوصیت کے ساتھ بچوں کو نئے احمدیوں کو، نئے بالغ ہونے والوں کو اس میں شامل کریں.معمولی قربانی کے ساتھ ایک بہت عظیم الشان اعزاز آپ کو نصیب ہو جائے گا.انشاء اللہ تعالی.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج نماز جمعہ کے معا بعد دو نماز ہائے جنازہ غائب پڑھی جائیں گی.ایک نماز جنازہ مکرم خان عبدالمجید خاں صاحب مرحوم کی ہے.خانصاحب اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک غیر معمولی تقویٰ اور اخلاص کا مقام رکھتے تھے.مکرم پروفیسر نصیر احمد خاں صاحب کے اور ڈاکٹر حمید خاں صاحب ( جو ہمارے انگلستان کی جماعت کے مخلص فرد ہیں ) اور مکرمہ طاہرہ صدیقہ ناصر بیگم صاحبہ کے والد ( اور بھی ان کے بچے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ) ان کو خلافت سے اخلاص کا جو تعلق تھا وہ ایک بالکل خاص امتیازی شان رکھتا تھا.فدائی تھے بالکل اور عاشق صادق تھے.ساری عمر بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے نبھایا ہے اس سلسلہ وفا کو، سلسلہ عشق کو.اللہ تعالیٰ ان کو اس کی بہترین جزا عطا
خطبات طاہر جلد۴ 871 خطبه جمعه ۲۵/اکتوبر ۱۹۸۵ء فرمائے اور غریق رحمت کرے.ان کی اولاد کے لئے بھی دعا کریں.اکثر اولا دخدا کے فضل سے اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہے.باقی سب کو بھی اللہ تعالیٰ ایسی ہی توفیق بخشے.دوسرا جنازہ مکرمہ زبیدہ بیگم صاحبہ کا ہے جو حکیم خلیل احمد صاحب مونگھیری کی بیگم تھیں اور حضرت مولانا ذوالفقار علی خان صاحب گوہر کی صاحبزادی تھیں.ہماری لندن کی ایک مخلص خاتون ہیں قدسیہ یوسف صاحبہ، ان کی والدہ نو (9) بچے ہیں ان کے اور انہوں نے خدا تعالیٰ کی فضل کے ساتھ سب میں احمدیت کی محبت اور احمدیت کا عشق کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے اور بہت ہی قرآن سے محبت کرنے والی تقریباً پچاس سال محلہ کے بچوں کو اکٹھا کر کے قرآن کریم کی تعلیم دیتی رہیں.اللہ تعالیٰ ان کو بھی اپنے فضل سے بہترین جزاء عطا فرمائے اور اعلی علیین میں جگہ دے.( آمین )
خطبات طاہر جلدم 873 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء دکھ میں صبر کرنے والوں کے لئے الہی خوشخبری ( خطبه جمعه فرموده یکم نومبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللَّهِ فَضْلًا كَبِيرًا وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَدَعْ أَذْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا (الاحزاب : ۴۸ - ۴۹) پھر فرمایا: ان آیات میں اللہ تعالیٰ حضرت اقدس سید نا و مولانا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا کہ اے محمد ! تو مومنوں کو یہ بشارت دے دے کہ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت ہی بڑے فضل مقدر میں وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِيْنَ وَالْمُنْفِقِينَ وَدَعْ أَذْهُمْ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اور کافروں کی اطاعت مت کر اور منافقین کی اطاعت مت کر اور ان کے ان کی ایذا رسانی کو چھوڑ دے یعنی اس سے صرف نظر فرما اور اللہ پر توکل رکھ وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اور اللہ بہترین وکیل ہے جس پر تو کل کیا جائے.یہاں وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ کا مضمون تو یہ بتارہا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عظیم خوشخبریاں ہیں جو مومنوں کو دی جارہی ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت ہی بڑے فضل آنے والے ہیں لیکن ان خوشخبریوں کا زمانہ یہ ہے کہ منافقین کی طرف سے اور کافروں کی طرف سے
خطبات طاہر جلدم 874 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء شد ید ایذا رسانی ہو رہی ہے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جو خوشخبری دینے والا ہو اس کو مخاطب کر کے کیوں فرمایا کہ وَلَا تُطِعِ الْكَفِرِین کہ تو کافروں کی اطاعت مت کر.خوش خبری پہلے رکھی گئی اور کافروں کی اطاعت کا مضمون بعد میں باندھا گیا.پہلے فرمایا کہ اے محمد ! تو حو صلے دلا ، مومنوں کو تسلیاں دے، ان سے وعدے کر، ان کے دل بڑھا اور ان کو بتادے کہ خدا کی طرف سے عظیم الشان بشارتیں نازل ہونے والی ہیں فضل نازل ہونے والے ہیں اور دوسری طرف یہ فرمانا کہ تو کافروں اور منافقوں کے پیچھے مت چل اور ان کی ایذارسانی کو نظر انداز فرمادے اور اللہ پر توکل رکھ ان دونوں باتوں کا جوڑ کیا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ بارہا سلسلہ (احمدیہ) کی تفاسیر میں یہ امر وضاحت کے ساتھ موجود ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب مخاطب کیا جاتا ہے تو اس کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بذات خود مخاطب ہوتے ہیں اور وہ پہلو وہ ہے جہاں بڑے مراتب کا بیان ہوتا ہے بہت ہی عظیم الشان مراتب کا بیان ہوتا ہے تو حضور اقدس کو واحد میں مخاطب فرمایا جاتا ہے اور اس سے یہ پیغام مومنوں کو دینا مقصود ہوتا ہے کہ اتنے عظیم الشان نبی کے تم پیرو ہو، اتنے عظیم الشان مرشد اور آقا کا دامن تم نے پکڑ لیا ہے اس لئے تمہیں بھی اس کے مطابق جانچا جائے گا، اتنی بڑی بلندیاں تمہارے لئے کھلی ہیں اگر ایسے ہی اعمال کر کے دکھاؤ گے یا متابعت میں اپنی طرف سے پوری جد و جہد کرو گے تو تمہارے لئے عظیم الشان اور لا انتہا مراتب سامنے تمہیں کھڑے دعوت دے رہے ہیں.پس تحریص کے طور پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سامنے رکھ کر مومنوں کو ان عظیم الشان مرتبوں کی خبر دی جاتی ہے جو اس عظیم الشان رسول کی پیروی سے نصیب ہو سکتے ہیں.دوسری جگہ واحد کے صیغہ میں مخاطب فرماتے ہوئے بظاہر بڑی سخت تنبیہ کا مضمون ہے اور ایک سے زائد مرتبہ قرآن کریم میں یہ طریق موجود ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرمایا کہ ایک ذرہ بھی اگر اپنے موقف سے ہے تو نہ دین کے رہو گے نہ دنیا کے رہو گے اور خدا کی طرف سے شدید عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے.اب یہ بات تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شایان شان نظر نہیں آتی مگر دراصل یہ پیغام کمزوروں کے لئے ہے.پہلا پیغام مضبوط مومنوں کے لئے ہے کہ تم نے ایک بہت عظیم الشان رسول کا دامن پکڑ لیا ہے اب خدا کے فضل سے تم بڑی بڑی ترقیات کرو گے
خطبات طاہر جلد۴ 875 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء اور دوسرا پیغام کمزور دلوں کے لئے ہے کہ دیکھو میں اصول کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں کرتا.سب سے زیادہ پیارا وجود جس کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا گیا اس سے بھی میں یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ میرے اصولی احکامات کی بڑی سختی سے پیروی کرے گا اور اگر اس معاملے میں میں رعایت نہیں کرتا تو تم جو پچھلے مقامات کے لوگ ہو جن کی حیثیت حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مقابل پر کچھ بھی نہیں ، ان کو میں کیوں نہیں پکڑوں گا.تو اس رنگ میں تنبیہ کے مضمون کو بھی عروج پر پہنچا دیا.ایک طرف خوش خبریوں کے مضمون کو ثریا سے بالا کر دیا اور ایک طرف تنبیہ کے مضمون کو بھی انتہاء تک پہنچا دیا.یہ قرآن کریم کا طرز کلام ہے اور اسی طرز کلام میں یہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو مخاطب فرمایا گیا ہے.پہلی آیت میں وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِأَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا میں تو تسلی ہے کہ یہ رات ٹل جائے گی اور دکھ دور ہو جائیں گے تم فکر نہ کر وخدا کی طرف سے عظیم بشارتیں تمہارے لئے مقدر ہیں اور دوسری طرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب فرما کر یہ کہنا کہ کافروں کی اطاعت نہ کرو ہرگز یہ مراد نہیں کہ نعوذ بالله من ذلک آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کوئی دور کا بھی غیروں کی اطاعت کا امکان تھا اور اس بات کی نفی پہلی آیت ہی کر رہی ہے، مضمون کی ترتیب بتا رہی ہے کہ جس شخص سے یہ احتمال ہو کہ وہ غیر اللہ کی اطاعت کرے گا اس کو خوشخبریاں دینے کے لئے تو خدا کھڑا نہیں کر سکتا ، عظیم بشارتیں دینے کے لئے تو اس کو مقرر نہیں فرما سکتا.تو پہلی آیت نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر جو احتمال پیدا ہوتا تھا الزام کا اس کی کلیپ نفی فرما دی اور آپ کے مقابل پرسپر بن کے کھڑی ہو گئی ہے اور بتا رہی ہے کہ یہ مضمون کمزوروں کے لئے ہے مخاطب حضور اقدس ہیں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مگر مراد وہی ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا ( بخاری کتاب احادیث الانبیاء حدیث نمبر ۳۲۱۶) حالانکہ جتنی خواتین تھیں اس وقت ان میں اگر کوئی ایک خاتون تھی جس کے لئے ہرگز کوئی امکان نہیں تھا چوری کا تو وہ حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا تھیں خاتون جنت تھیں اور عظیم الشان آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کے متعلق کے مقامات بیان فرمائے.تو آپ کو حضرت فاطمہ کو یہ کہنا کہ اگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کے ہاتھ کاٹ
خطبات طاہر جلد۴ 876 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء دیتا یہ بتا رہا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایک بہت عظیم الشان مقام عدل ہے اور یہ مقام عدل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے آقا اپنے کائنات کے مالک اور خالق خدا سے سیکھا تھا.خدا کا بھی ایک مقام عدل ہے اور یہ وہ مقام ہے جس سے سب سے زیادہ خوف کھانا چاہئے.اسی لئے انبیاء بھی جب اس مقام پر نظر کرتے ہیں تو بے حد گریہ وزاری کے ساتھ بخشش کے طالب ہوتے ہیں صرف نظر کے طالب ہوتے ہیں یہ عرض کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی نیکیوں پر کوئی گھمنڈ نہیں ، تو جب مقام عدل پر فائز ہوگا تو ہم اس سے تیرا خوف کھاتے ہیں اور ہم ڈرتے ہیں اس لئے ہمیں معاف فرما ،صرف نظر ہمارے سے فرما، ہمارے گناہوں کو بخش دے اور ہم سے رحم کا سلوک فرما.تو یہ وہ مقام عدل کا بیان ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اس خطرناک دور میں ہرگز کسی کمزور کے لئے کوئی سوال پیدا نہیں ہونا چاہئے کہ وہ منافقوں یا کافروں کی باتوں سے ڈر کر اپنے موقف میں کوئی کسی قسم کی تبدیلی پیدا کر لے کیونکہ یہ اگر ایسا کریں گے تو پھر ان کی ایذاء سے بچ کر خدا کی ایذاء میں مبتلا ہو جائیں گے.ان کے عذاب سے بچ کر خدا کے عذاب کو اپنے اوپر لے لیں گے اور اس مضمون کو قرآن کریم نے دوسری جگہ خوب کھول کر بیان فرما دیا کہ خدا کی پکڑ ، خدا کی ناراضگی ، خدا کا عذاب ، لوگوں کی پکڑ اور ان کی ناراضگی اور ان کے عذاب سے بہت زیادہ سخت ہے.تو فر ما یادَعْ اَذْهُم وَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اللہ پر توکل رکھ.وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا اور جو بھی وکیل دنیا میں بنائے جاسکتے ہیں.یہاں وکیل وسیع معنوں میں استعمال ہونے والا لفظ ہے اس کا ایک معنی وہ ہے جس پر تو کل کیا جائے جس پر کلیۂ انحصار کر دیا جائے.پس خدا تعالیٰ پر انحصار رکھو اور ان کی ایذا رسانی سے، ان کی تکلیف سے صرف نظر کرو.آج کل جو جماعت احمدیہ پر حالات گزر رہے ہیں وہ بعینہ یہی حالات ہیں.یہ وہ آیت ہے جو ایسے مجاہدہ کے وقت اطلاق پاتی ہو جبکہ دشمن سے مومنوں کی جماعت برسر پیکار ہو یہ مضمون یک طرفہ دکھوں کے زمانے کا مضمون ہے یہ مضمون ایسا ہے جبکہ ایک طرف سے حد سے زیادہ زیادتیاں ہورہی ہیں اور دوسری طرف سے کامل خاموشی ہے.پس یہ مضمون در حقیقت مکی دور سے تعلق رکھنے والا مضمون ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مبارک زندگی میں ایک لمبا دور یکی دور بھی تھا تیرہ سال مسلسل بے انتہاء تکالیف میں سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ماننے والے
خطبات طاہر جلد۴ 877 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء گزرے اور مسلسل ایذا رسانی کے ساتھ کوئی امید کی کرن کی ظاہری شکل نظر نہیں آتی تھی.یوں معلوم ہوتا تھا کہ رات کے بعد رات آتی چلی جاتی ہے.پھر رات کے بعد رات آتی چلی جاتی ہے اور وہ سورج کے طلوع کا وقفہ جو بیچ میں آجایا کرتا ہے جس سے رات کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے بیماروں کے لئے وہ بیچ میں آتا ہی نہیں تھا.ایک دکھ کا سال دوسرے دکھ کے سال میں تبدیل ہو جایا کرتا تھا، شروع کے تین سال جس انتہائی تکلیف میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے گزارے اس کے بعد چوتھے سال میں داخل ہوئے تو شعب ابی طالب میں آپ کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کو قید کر دیا گیا، وہاں سے نکلے تو پھر سارے قبائل کی طرف سے تمام مسلمانوں کو شدید اذیتیں دی گئیں ، بہت ہی خطرناک چالیں تھیں جو آپ کے اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف چلی گئیں مگر سب سے زیادہ تکلیف کی حالت میں سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گزرے ہیں کیونکہ آپ کو جود کھ دیا جا تا تھا اس سے بہت بڑھ کر آپ کو ان کی تکلیف ہوتی تھی جن کو آپ کی وجہ سے دکھ دیا جا رہا تھا اور ان کو بچا نہیں سکتے تھے، کچھ کر نہیں سکتے تھے.انتہائی درد ناک دور تھا اور عجیب بات ہے کہ اس دور میں مَتى نَصْرُ الله کی آواز بھی اس وقت نہیں اٹھی ہے.متی نصر اللہ کی آواز بھی مدنی دور میں اٹھی ہے وہ دور کامل صبر اور تو کل کا دور تھا.آپ قرآن کریم پر نظر ڈالیں اور قرآن کریم کی آیات کا تاریخ اسلام سے جہاں تک تعلق ہے اُس پر نگاہ دوڑائیں تو آپ حیران ہوں گے یہ دیکھ کر کہ مکی دور میں متى نَصْرُ اللهِ کی آواز بھی بلند نہیں کی جاتی تھی.انتہائی صبر کا دور تھا، انتہائی خاموشی کا دور تھا لیکن تو کل تھا کہ چٹان کی طرح تھا غیر متزلزل ، کوئی اس میں رخنہ نہیں پڑا.مسلسل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ساتھی ان تکلیفوں کے زمانہ سے گزرے ہیں اور کسی نے اپنے خدا پر بدظنی نہیں کی کہ کیا ہوگیا ، اتنی دیر ہو گئی تکلیفوں کو ابھی تک یہ بد بخت کیوں مارے نہیں جاتے.بعض کمزور آدمی ، بعض کمزور کہنا بھی ضروری نہیں بعض لوگ بے چارے اعصاب کے لحاظ سے کمزور ہوتے ہیں ان معنوں میں کمزور کہہ رہا ہوں جلدی تھک جاتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ ایسے ظالم کو خدا نے کیوں نہیں پکڑا، ویسے ظالم کو خدا نے کیوں نہیں پکڑا، کیوں خدا کی غیرت جوش میں نہیں آتی ، کیوں اتنی دیر ہوگئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں پڑ رہی ہیں.وہ یہ نہیں سوچتے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آقا
خطبات طاہر جلدم 878 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء اور ہم سب کے آقا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کی محبت کے صدقے ہم سب کو خدا کی محبت نصیب ہوتی ہے آپ کو تیرہ سال مسلسل مکہ میں گالیاں دی گئیں ہیں ، اس وقت یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا گیا کہ خدا کی غیرت کہاں گئی ہے.ایسا دردناک دور ہے کہ اس کا بیان کرنا مشکل ہے.گلیوں میں چلتے پھرتے آپ کو گالیاں دی جاتی تھیں، آپ کے پیچھے غنڈے لگا دیئے جاتے تھے ، ہمسایوں کی طرف سے گالیاں پڑتی تھیں گھر میں پتھر پھینکے جاتے تھے ، گندگی پھینکی جاتی تھی اور آنحضرت علی نہایت خاموشی سے ان چیزوں کو برداشت فرمارہے تھے.ایک موقع پر آپ کے گھر میں ایسی گندی غلاظت پھینکی گئی کہ اس کی بد بو سے سارا علاقہ متعفن ہو گیا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اٹھا کر اُس کو باہر پھینکنے کے لئے آئے اور صرف اتنا فرمایا کہ یہ ہمسائیگی کا حق تم لوگ ادا کر رہے ہو اس کے سوا کوئی لفظ نہیں کہا.ایک موقع پر آنحضرت گزر رہے تھے تو آپ کے سر پر کسی بد بخت نے گھر کا کوڑا کرکٹ پھینک دیا.ایک لفظ بھی آپ نے زبان سے نہیں نکالا، کوئی شکوہ نہیں کیا.حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے متعلق آتا ہے کہ آپ نے یہ دیکھا تو بے اختیار رونے لگیں سر دھوتی جاتی تھیں صاف کرتی تھیں اور روتی جاتی تھیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تسلی دی کہ فاطمہ رومت اللہ تعالیٰ اس زمانہ کو بدل دے گا یہ زمانہ اس طرح نہیں رہے گا.یہ وہ دور صبر اور تو کل ہے جو آپ جب تاریخ میں دیکھتے ہیں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے آنا فاناً گزر گیا تیرہ سالہ کی کیا فرق پڑتا ہے قوموں کی زندگی میں؟ اس کے بعد پھر جہاد کا دور ہے پھر فتح کا دور ہے اور فتح کے دور کا زمانہ بالکل ہی مختصر نظر آتا ہے بظاہر.اور جب آپ گزرتے ہیں ان حالات میں سے تو پھر شکوے شروع ہو جاتے ہیں پھر سوال اٹھنے لگ جاتے ہیں کہ اے خدا ! تیری غیرت کہاں گئی؟ کیا محمد مصطفی ملے سے بھی بڑھ کر خدا کسی کے لئے غیرت دکھائے گا ؟ حقیقت یہ ہے کہ تکلیف کا دور جب انسان اس میں سے گزر رہا ہوتا ہے تو لمبا دکھائی دیتا ہے اور جب مڑ کے اس کو دیکھتا ہے تو چھوٹا دکھائی دیتا ہے یہ چیز کوئی ایمانیات سے تعلق رکھنے والی بات نہیں ہے.ایک ایسا مضمون ہے جو روز مرہ ہماری زندگی میں ہمارے تجربے میں نظر آتا ہے واقعات میں ہماری ذات پر سے گزر جاتے ہیں اور ہر انسان کا رد عمل یہی ہے یہ انسانی فطرت ہے.تھوڑی سی تکلیف آپ کو سفر
خطبات طاہر جلدم 879 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء میں پہنچے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تکلیف کا زمانہ ختم ہی نہیں ہوگا، ایک عذاب محسوس ہوتا ہے اور جب وہ گزرجاتی ہے تو پھر ہنس ہنس کر ان باتوں کو یاد کرتے ہیں کہ یہ وقت بھی گزرا تھا اور عجیب بات ہے کہ دیر کے بعد جب آپ مڑ کے دیکھتے ہیں تو جو خوشی کا زمانہ تھاوہ چھوٹا نظر آتا ہے اور جونم کا زمانہ تھاوہ لمبا دکھائی دیتا ہے.جو خوشی کا زمانہ تھا اس کی یاد میں روتے ہیں اور جو غم کا زمانہ تھا اس کی یاد میں ہنستے ہیں بالکل الٹ بات پیدا ہو جاتی ہے.تو تاریخ ہمارے زاویہ نظر کو بدلا دیتی ہے بلکہ بالکل الٹا دیتی ہے.پس تاریخ پڑھتے ہوئے جو باتیں آپ محسوس کرتے ہیں وہ اور طرح محسوس کرتے ہیں اور جب ان حالات میں سے خود گزرتے ہیں تو ان باتوں کو اور طرح محسوس کرتے ہیں.پس یہ ایک سال یا دو سال یا تین سال جتنی بھی خدا کی تقدیر ہے اس پر راضی رہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ سے صبر سیکھیں آپ کا نمونہ پکڑیں اور تو کل کریں.بالکل یہی الہام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی ہوا ہے اور اس کیفیت میں ہوا ہے جب آپ نے اپنے آپ کو حضرت علی کے طور پر دیکھا ( تذکرہ صفحہ: ۱۶۹ ) اور اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت رابعہ میں ایسا زمانہ آنے والے تھا کیونکہ یہ حضرت مسیح موعود کا ہی زمانہ ہے.آپ کو حضرت علی کی صورت میں دکھایا جانا اور پھر یہ الہام ہونا بتاتا ہے کہ آپ کو یہ خبر دی گئی تھی کہ تمہارے زمانے میں جب چوتھی خلافت ہو گی پھر اس قسم کے حالات ہوں گے اور لازماً تم لوگوں کو صبر کرنا پڑے گا اور لازما توکل سے کام لینا ہوگا اور اگر ایسا کرو گے وَكَفَى بِاللهِ وَكِيلًا پھر تم اللہ تعالیٰ کو بہترین وکیل پاؤ گے.اس سے بہتر کوئی ذات نہیں ہے جس پر تو کل کیا جا سکے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کو خوشخبری ہے وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ بِاَنَّ لَهُمْ مِنَ اللهِ فَضْلًا كَبِيرًا کہ اے محمد ! ان مومنوں کو خو شخبری دے دے ان کے لئے بہت ہی عظیم فضل خدا تعالیٰ کے ہاں مقدر ہے.پس وہ خوش خبری جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے مومنین کو دی تھی وہی آپ کے غلام صادق آپ کے کامل غلام اور روحانی فرزند حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زبان سے خدا تعالیٰ نے آپ کو بھی دی ہے اور وہ خوشخبری میں آپ کو پہنچا تا ہوں کہ صبر کرنے والوں کا صبر کبھی ضائع نہیں جائے گا.تو کل کرنے والے اپنے خدا کو بہترین وکیل پائیں گے.پس ہمت اور حوصلہ اور صبر اور توکل اور دعاؤں کے ساتھ اس وقت کو کاٹیں اور یقین رکھیں کہ اللہ تعالیٰ نے جو
خطبات طاہر جلد۴ 880 خطبه جمعه یکم نومبر ۱۹۸۵ء بشارتیں آپ کے حق میں مقدر فرمائی ہیں وہ ضرور پوری ہوں گی اور فضل کبیر آپ کا منتظر ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: یہ چونکہ سردیوں میں دن بھی چھوٹے ہو جاتے ہیں اور جمعہ کی وجہ سے ویسے بھی وقت تنگ ہو جاتا ہے یعنی خطبہ کے بعد جمعہ کی نماز پڑھنی پڑتی ہے تو بالکل عصر سے مل جاتی ہے اس لئے سال سابق کی طرح اس سال بھی جب تک اس قسم کا وقت رہے گا یعنی دن چھوٹے اور جمعے ، ان میں ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کی جایا کرے گی تو آج بھی نماز جمعہ کے بعد انشاء اللہ عصر کی نماز اسی وقت ساتھ جمع کی جائے گی.
خطبات طاہر جلدم 881 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء قیام نماز کے ذریعہ غلبہ احمدیت کی تیاری کریں ( خطبه جمعه فرموده ۸/نومبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل قرآنی آیت تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (الحشر:19) پھر فرمایا: ج سیدنا ومولانا حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ سے ایک دفعہ ایک صحابی نے عرض کیا کہ الله یا رسول اللہ ! قیامت کب آئے گی ؟ آنحضور ﷺ نے جواباً فرمایا تم نے اس کے لئے کیا تیاری کی ہے؟ سوال تو یہ تھا کہ کب آئے گی اور جواب یہ ہے کہ کیا تیاری کی ہے؟ تو بعض اوقات آنے والی چیز کا انتظار اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا اس کی تیاری اہمیت رکھتی ہے اس لئے نہایت ہی حکیمانہ اسلوب تھا الله آنحضور ﷺ کا آپ نے اصل سوال کو چھوڑ کر جو ادنی اہمیت کا سوال تھا اس سے بڑی اہمیت کے سوال کا جواب دیا اور فرمایا کہ تم نے تیاری کیا کی ہے؟ قیامت تو کوئی ایسا تماشہ نہیں ہے کہ جس کو تم دیکھو اور خوش ہو جاؤا اور تمہاری ذات کی تیاری کا اس سے تعلق کوئی نہ ہو اس لئے قیامت سے تو یہ خوف رکھنا چاہئے کہ جلدی نہ آجائے ، ہماری تیاری سے پہلے نہ آجائے.پس بہت سے احمدی احباب جب مجھے یہ لکھتے ہیں یا مجھ سے پوچھتے ہیں کہ احمدیت اور اسلام کی فتح اور غلبہ کا دن کب آئے گا تو میرا ذہن بھی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اس جواب کی طرف منتقل ہو جاتا ہے جو ایک سوال کی صورت رکھتا ہے کہ تم نے اس کے لئے تیاری کیا کی ہے؟
خطبات طاہر جلدم 882 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء امر واقعہ یہ ہے کہ ان بدلے ہوئے حالات نے بہت سی اصلاح خود بخود کی ہے اور غیر معمولی روحانی تربیتی تبدیلیاں واقعہ ہوئی ہیں اور جب ان تبدیلیوں کی طرف نظر پڑتی ہے تو دل خوش بھی ہوتا ہے لیکن محض اچھی چیزوں پر نگاہ رکھنا اور خوشیوں کے تصور میں مگن رہنا یہ حکیمانہ بات نہیں.ذی شعور لوگ جہاں خوبیوں پر نظر رکھ کر ، اچھی باتوں کو دیکھ کر اپنے حوصلے بڑھاتے ہیں وہاں کمزوریوں پر بھی نگاہ ڈالتے جاتے ہیں تا کہ ایک مسلسل اصلاح کا سلسلہ بھی جاری رہے اور کمزوریاں خوبیوں میں تبدیل ہوتی رہیں.پس جب بہت سی اطلاعیں خوش کن تبدیلیوں کی آتی ہیں تو ان کے نتیجہ میں کسی غلط نبی میں مبتلا نہیں ہوتا.جب کہا جاتا ہے کہ بعض لوگ جنہوں نے پہلے کبھی نماز نہیں پڑھی تھی وہ نمازی بن گئے ، جب یہ اطلاع دی جاتی ہے کہ بعض لوگ جن کو نماز میں مزہ نہیں آتا تھا ان کو مزہ آنے لگ گیا ، جب بتایا جاتا ہے کہ بعض لوگ جن کی نمازیں ذکر الہی سے محض نام سے بھری ہوئی تھیں عملاً ذکر سے خالی تھیں مگر اب کیفیت یہ ہے کہ ذکر کے لطف ایسے آنے لگے ہیں کہ نماز کے بعد بھی وہ ذکر چلتا رہتا ہے.تو بہت دل کو مسرت پہنچتی ہے، بہت اطمینان نصیب ہوتا ہے مگر میں اس دھو کے میں مبتلا نہیں ہوتا کہ جماعت کی اکثریت میں یہ نمایاں تبدیلی واقع ہو چکی ہے.اتنے بڑے خلا ہیں ہمارے اندر تربیت کے اور جس سوسائٹی سے ہم نکل کر احمدی بن رہے ہیں ان کے ساتھ ہماری تربیت کا ایک گہرا تعلق ہے جو ٹوٹ نہیں سکتا.ان کے اندر اتنی کمزوریاں واقع ہو چکی ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ اس سوسائٹی سے نکل کر اچانک ایک ایسا عجیب انقلاب آجائے کہ کلیہ ایک مختلف نوع کی بالکل پاکیزہ روحانی سوسائٹی وجود میں آجائے.اس لئے معاشرے کا ماحول کا ایک گہرا اثر پڑتا ہے.اگر معاشرہ رشوت خور ہے ، اگر معاشرہ بے درد ہو چکا ہے، اگر معاشرہ نماز سے خالی ہو گیا ہے، اگر معاشرے میں خدا کا خوف نہیں رہا تو ہر روز ایسے لوگوں سے تعلق کے نتیجہ میں، واسطہ پڑنے کے نتیجہ میں تجارتوں کے نتیجہ میں ، لین دین کے نتیجہ میں ، ان محلوں میں رہنے کے نتیجہ میں، بعض بدیوں کو جو بظاہر حسن رکھتی ہیں ان کو دیکھنے کے نتیجہ میں لازماًوہ سوسائٹی جو تعداد کے لحاظ سے تھوڑی ہے وہ متاثر ہوتی چلی جاتی ہے.اس لئے بھی اور کچھ اس لئے بھی کہ بہت سے احمدی بلکہ بھاری اکثریت کے لحاظ سے اس وقت پاکستان میں ایسے ہیں جن کے ماں باپ یا بعض صورتوں میں دادا اور بعض صورتوں میں پڑدادا
خطبات طاہر جلدم 883 خطبه جمعه ۸/نومبر ۱۹۸۵ء احمدی ہوئے تھے اور غیر احمدیت سے احمدیت میں داخل ہونے کے بعد جو ابتدائی دکھوں کا دور آتا ہے اس چکی میں سے وہ گزرے نہیں اور وہ تربیت حاصل نہیں کر سکے جو پہلے زمانے میں صحابہ کو حاصل تھی یا بعد میں اول تابعین کو حاصل تھی اس لئے وہ نسلاً احمدی رہ گئے اور معاشرے کی خرابیوں نے ان پر زیادہ گہرا اثر کیا.چنانچہ بہت سے اضلاع ہیں پاکستان میں جہاں بھاری تعداد میں جماعت موجود ہے مگر ان کی اولادوں میں ان کی جوان نسلوں میں بہت سی ایسی خامیاں رہ گئی ہیں جن کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا.ایسے بعض اضلاع بھی میرے ذہن میں ہیں اور وہ اسلام کی فتوحات کے نئے علاقے بھی میرے ذہن میں ہیں مثلاً افریقہ کے ممالک جن میں بعض جگہوں پر بڑی تیزی کے ساتھ احمدیت پھیلی ہے بعض صورتوں میں قبائل کے قبائل احمدی ہوئے ہیں.بعض صورتوں میں دیہات احمدی ہوئے ہیں پورے کے پورے اور بعد ازاں ان کی تربیت کا پورا موقع نہیں مل سکا.دور کے بعض جزائر ہیں وہاں بھی یہی کیفیت ہوئی.چنانچہ تربیتی خلا پاکستان میں بھی ہیں اور پاکستان سے باہر بھی ہیں اور عظیم غلبہ سے پہلے ان کمزوریوں کا دور ہونا لازمی ہے.اگر ان کمزوریوں کو دور کئے بغیر ہمیں فتح ونصرت عطا ہو جائے یعنی فتح و نصرت کا وہ تصور مل جائے جو عام لوگ رکھتے ہیں.ایک فتح تو وہ ہے جو ہمیں مسلسل مالتی چلی جارہی ہے، ایک نصرت تو وہ ہے جو ایک لمحہ کے لئے بھی ہمارا ساتھ نہیں چھوڑ رہی مگر میں اس وقت اس کی بات نہیں کر رہا، میں عرف عام میں جسے فتح و نصرت کہا جاتا ہے یعنی ایک جگہ عددی غلبہ اتنا نصیب ہو جائے کہ اس کے بعد امن سے بیٹھ جائیں.اس فتح و نصرت کے لئے یہ تیاریاں ضروری ہیں اور یہ دکھوں کا دوران تیاریوں میں مدد کرنے کے لئے آیا ہے اور مدد کر رہا ہے.لیکن اس سے ابھی مزید استفادے کی ضرورت ہے منتظم طور پر اس تربیت کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے اور پھیلانے کی ضرورت ہے اور پھر اس میں گہرائی پیدا کرنے کی ضرورت ہے..تین سمتوں میں ہمیں ابھی اس کام کو آگے بڑھانا ہے اور سب سے اہم سب سے زیادہ بنیادی اور مرکزی چیز نماز ہے.قیام نماز میں ابھی وسعت کی بھی ضرورت ہے اور بہت زیادہ ضرورت ہے اور مرتبہ نماز کے لحاظ سے اس میں بلندی کی بھی ضرورت ہے اور نفس میں ڈوب کر مطالب میں جذب ہو کر نماز پڑھنے کے لحاظ سے اس میں ابھی گہرائی کی بھی بہت ضرورت ہے اور اس لحاظ سے
خطبات طاہر جلدم 884 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء پختگی کی بھی ضرورت ہے کہ جو عادت ایک دفعہ پڑ جائے پھر وہ جائے نہ.اس مضمون سے جب ہم نماز کی حالت پر نظر ڈالتے ہیں تو دنیا کی اکثر جماعتوں میں انصاف کی نظر سے دیکھتے ہوئے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ابھی بہت زیادہ کام کی ضرورت ہے ، بہت زیادہ محنت کی ضرورت ہے.جب موجودہ حکومت پاکستان یعنی آمرانہ حکومت پاکستان نے اپنے پر پرزے نکالنے شروع کئے جماعت کے معاملات میں اور رفتہ رفتہ کھلنے لگی کہ ہم کیا بد ارادے رکھتے ہیں تو اسی وقت سے میں نے جماعت کو اس چیز کے لئے تیار کرنا شروع کیا اور سلسلہ خطبات کا اس موضوع پر دیا کہ آنے والی فتوحات کی تیاری کرو.اس وقت مجھے یقین تھا کہ ابتلاء ہے تو فتوحات لازماً آئیں گی اس لئے پہلے میں نے خطبات کا وہ سلسلہ شروع کیا جس کا تربیت سے تعلق ہے بعد میں جماعت کو متنبہ کرنا شروع کیا کہ کس قسم کے سنگین حالات آپ کو در پیش ہو سکتے ہیں کیونکہ فتح بہر حال یقینی ہے نصرت نے نہ کبھی ساتھ چھوڑا ہے نہ آئندہ کبھی چھوڑے گی اور ظفر بن کے بھی آئے گی اس میں کوئی شک نہیں لیکن تیاری کی مجھے فکر ہے اور جتنا میں سمجھتا ہوں کہ وقت قریب آتا جاتا ہے احمدیت اور اسلام کی فتوحات کا اتنامیری یہ فکر بڑھتی جاتی ہے اور باوجود اس کے کہ حالات توجہ کو مختلف دوسری سمتوں میں پھیرتے رہے ہیں.اب میں سمجھتا ہوں کہ دوبارہ تربیتی امور پر خطبات دینے کی ضرورت ہے.تو نماز اس میں سب سے بڑی اہمیت رکھتی ہے اور فتح ونصرت کے حصول کی تمنا رکھنے والوں کو تو براہ راست یہی جواب دیا ہے قرآن کریم نے وَاسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ (البقرہ: ۴۶) کہ تم جو امیدیں لگائے بیٹھے ہو کہ بہت عظیم الشان فتوحات نصیب ہوں گی اور ظاہری عددی غلبہ بھی عطا ہوگا تو پھر اس غلبہ کو حاصل کرنے کا طریق یہ ہے کہ واسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة کہ خالی دعائیں نہ کیا کر محض ہاتھ اٹھا کے مانگا نہ کرو کیونکہ صبر اور صلوۃ کے بغیر دعائیں قبول نہیں ہونگیں خدا کی طرف سے اعانت نصیب نہیں ہو سکتی.صبر اور صلوٰۃ کو آپس میں باندھ دیا ہے.جس میں بہت سی وسعتیں ہیں اس مضمون میں اور بڑا گہرا تعلق ہے صبر کو صلوٰۃ سے کئی رابطے ہیں جن کا قرآن کریم مختلف آیتوں میں ذکر فرماتا ہے لیکن ایک مضمون اس میں یہ بھی ہے جس کا اس وقت اس خطبہ سے تعلق ہے کہ صبر غموں کے ساتھ بھی تعلق رکھتا ہے اور جب غم ہوں تو صلوٰۃ کی طرف طبعاً توجہ پیدا ہو جاتی ہے.اس لئے بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ
خطبات طاہر جلدم 885 خطبه جمعه ۸/نومبر ۱۹۸۵ء کہہ کر یہ فرمایا کہ آج یہ تمہارے لئے مشکل کام نہیں ہے، آج یہ کام تمہارے لئے نسبتاً آسان ہے.چنانچہ اس تفسیر کو اس آیت کا دوسرا ٹکڑا خود کھول رہا ہے.فرمایا: وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ کہ نماز پڑھنا، نماز کی حفاظت کرنا، نماز کے تقاضے پورے کرنا اور استقلال کے ساتھ اس پر جم جانا اتنا آسان کام نہیں ہے بظاہر یتم نمازیوں کو دیکھتے ہو کہ پانچ وقت نمازیں پڑھتے ہیں، ہمسجدوں میں بھی جاتے ہیں اور گھروں کو بھی آبادرکھتے ہیں نمازوں سے لیکن اس کے باوجود نماز ایک بہت ہی بوجھل کام ہے.کسی لحاظ سے بوجھل ہے؟ اس کی تفسیر بہت وسیع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس پر بہت متعدد جگہوں پر روشنی ڈالی ہے لیکن صرف اتنا پہلو میں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں کہ نماز کے سارے تقاضے پورے کرنا آسان کام نہیں ہے اور ظاہری صورت میں نماز قائم بھی ہو جائے تو ایسی شکل ہوتی ہے جیسے برتن قائم ہو جائے کوئی اور اس کو دودھ سے بھرا نہ ہو.اسے بھرنا اور پھر اس کی حفاظت کرنا بہت بڑے کام ہیں اور پھر اسے پھیلانا کیونکہ اقام الصلوۃ میں تو اکیلی نماز پڑھنے کا کوئی تصور نہیں ہے.نماز کو دوسروں میں رائج کرنے کے ساتھ یہ بندھا ہوا ہے مضمون، اقامت کا مطلب یہ نہیں ہے صرف کہ تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ بلکہ مراد یہ بھی ہے کہ دوسروں کو بھی نماز کے لئے کھڑا کرو.تو فرمایا بہت بھاری ہے إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ لیکن وہ لوگ جو خشوع سے کام لیتے ہیں جو بچھ جاتے ہیں خدا کی راہ میں ، جو عاجز بن جاتے ہیں ، جن کے اندر درد پیدا ہوتا ہے ان کے لئے نماز آسان ہو جاتی ہے.یہ غم یہ خشوع خضوع یہ خود نماز کی حفاظت کرتا ہے اور اس کا وزن ہلکا کر دیتا ہے اس کو بوجھ محسوس نہیں ہوتی بلکہ اس میں لذت پیدا ہو جاتی ہے.تو ہم نے ان حالات میں دیکھا کہ اس آیت کی تفسیر آج کل جماعت کے اوپر گزر رہی ہے عملی شکل میں.اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور نظام کے تابع گہری نظر ڈال کر تمام علاقوں پر ، تمام حلقوں پر تمام محلوں ، گلیوں اور گھروں پر نظر ڈال کر نظام جماعت کی جتنی شکلیں ہیں ان کو مستعدی کے ساتھ اس طرف توجہ دینی چاہئے کہ آج کل کے حالات سے سب سے بڑا فائدہ یہ اٹھائیں کہ نماز جو خدا نے آسان کر دی ہے اسے رائج کردیں کیونکہ خاشعین کے لئے نماز آسان ہو جاتی ہے.جب یہ خشوع کا مضمون ختم ہو جائے گا یہ دور ختم تو کبھی بھی نہیں ہو سکتا مومنوں کے اوپر لیکن جب نسبتا پر دے کے پیچھے چلا جاتا ہے اور عارفوں کے لئے رہ جاتا ہے بعض دفعہ خشوع اور بعض اوقات یہ اللہ کی نعمت اترتی ہے اور عام
خطبات طاہر جلدم 886 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء ہو جاتی ہے.آج کل یہ کیفیت ہے اس لئے اس سے پورا پورا فائدہ اٹھالیں.ایک اور مضمون بھی قرآن کریم نے اسی نماز کے سلسلہ میں نماز کی تحریص کے طور پر باندھا ہے اور وہ بھی آج کے حالات کے اوپر پوری طرح اطلاق پاتا ہے.شیطان کا ذکر کر کے فرماتا ہے.وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلوةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ (المائده :۹۲) که بعض ایسے دور آتے ہیں کہ شیطان پوری کوشش کرتا ہے کہ تمہیں خدا کے ذکر سے اور نمازوں سے غافل کر دے یا ان کے رستے میں روک بن جائے نماز پڑھنے سے روک دے تمہیں فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ اے میرے بندو! کیا رک جانے والے لوگ ہو تم ؟ کیا جب پڑھنے سے تمہیں زبر دستی روکا جائے گا، میری عبادت سے روکا جائے گا تو تم رک جاؤ گے؟ کتنا عظیم الشان چیلنج ہے اور کتنا خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں پر زعم کیا ہے، ناز فرمایا ہے.یہ مضمون ناز کا مضمون ہے شیطان کے لئے چیلنج ہے دراصل.فرمایا کہ تم زور لگا لو میرے بندوں کو نماز سے روکنے کے لئے یہ رکنے والے لوگ نہیں ہیں، جو میرے بندے ہیں وہ نماز سے نہیں رک سکتے.پس آج کل پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ آیت کا یہ پہلو بھی رائج ہے اور دوسرے ذرائع سے شیطان جو روکتا ہے اس کے علاوہ کھلم کھلا روکا جارہا ہے.اب شیطان کے لئے ایک چیلنج ہے کہ تم زور لگا لو اور احمدیوں کو خدا کا ناز ابھار رہا ہے، خدا کی تو قعات جو احمدیوں پر ہیں وہ ان کو انگیخت کر رہی ہیں، ابھار رہی ہیں اس کام کے لئے اور وہ توقع رکھتی ہیں کہ جو پہلے نہیں بھی پڑھتے تھے تو اب اس ضد میں ضرور پڑھیں گے کہ چونکہ شیطان روک رہا ہے نماز سے اس لئے ہم نے ضرور پڑھنی ہے ، وہ ہوتا کون ہے خدا اور ہمارے درمیان حائل ہونے والا.پس یہ دونوں پہلو آج جب پوری قوت کے ساتھ عمل پیرا ہیں اس وقت اگر کچھ لوگ نمازوں سے محروم اور خالی ہاتھ نکل گئے تو اس سے زیادہ بڑی محرومی تصور نہیں ہو سکتی.پس وہ فتح جس کی تیاری کی تمنا آپ رکھتے ہیں اس کا علاج بھی نماز ہی بتایا ہے کیونکہ یہ دعائیں قبول نہیں ہوں گی جب تک نماز کے اوپر صبر کے ساتھ آپ قائم نہیں ہوں گے اور نماز کا علاج یہ حالات ہیں جن حالات میں آپ کے دل میں تمنا پیدا ہورہی ہے.کیسا عظیم الشان مربوط مضمون ہے.فرمایا یہی موقع ہے تمہارے لئے آج جب ترس رہے ہو فتح کوتو اب ایسی قدروں میں تبدیل کر دو جو ہمیشہ کے لئے زندہ رہنے والی قدریں ہیں ، جو ہمیشہ کے لئے تمہیں زندہ کر دینے والی
خطبات طاہر جلدم 887 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء قدریں ثابت ہوں گی اور وہ ہے عبادت کی محبت ، نماز سے گہراتعلق ، اس پر خود کھڑے ہو جانا اور اس پر دوسروں کو کھڑے کر دینا.اور جو دوسروں کو کھڑا کرنے والا مضمون ہے وہ بھی صبر کو چاہتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں دوسری جگہ فرماتا ہے وَأمُرُ اَهْلَكَ بِالصَّلوةِ وَاصْطَبِرُ عَلَيْهَا ه ۱۳۳۰) کہ اپنے اہل کو نمازوں کی تلقین کیا کر ولیکن اس پر پھر صبر کے ساتھ قائم ہو جاؤ.صبر کا مضمون صرف دکھ سے تعلق نہیں رکھتا کہ کوئی دکھ دے تو اس کو برداشت کر لیا جائے.عربی میں صبر کئی مختلف معنوں میں استعمال ہوتا ہے.مثلاً اگر عرب کسی گھوڑی کو یا کسی جانور کو بھو کا کہیں بند کر دیتے تھے تو اس کے لئے بھی صبر کا لفظ استعمال ہوتا تھا ،صبر کا فعل استعمال کرتے تھے کہ ہم نے اس جانور کو صبر کر دیا ہے یعنی ایسی حالت میں رکھ دیا ہے کہ جہاں اسے صبر کرنا ہی پڑے گا.پھر صبر کا مضمون آقا کی نسبت سے غلام کے لئے استعمال ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ آقا نے جو جو پابندیاں لگائی ہیں غلام ان پابندیوں میں پابند ہو جائے اور ان پابندیوں سے باہر نکلنے کا کوئی تصور اس کے لئے نہ رہے.پھر صبر کا مضمون اس بات سے بھی تعلق رکھتا ہے کہ جبر کیا جائے اور انسان نہ بولے.صبر کا ایک معنی خاموشی ہے مگر ایسی خاموشی جب کہ Torture کر کے تکلیفیں دے کر کوئی بات نکلوانے کی کوشش کی جارہی ہو اور کوئی آدمی خاموش رہے اور صبر کا ایک مضمون بولنے سے بھی تعلق رکھتا ہے کہ جب بات کرنا گناہ بنا دیا جائے ، جب بات پر پہرے بٹھائے جار ہے ہوں اس وقت ضرور بولے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا : وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر :م) وہاں خاموشی سے تعلق نہیں ہے اس مضمون کا بلکہ قوت نطق سے تعلق ہے ، قوت گویائی سے تعلق ہے.فرمایا کہ وہ لوگ حق کے ساتھ حق کی بات کرتے ہیں غلط بات نہیں کہتے مگر حق کی بات کہنا ان کا حق بن جاتا ہے اور وہ اس حق کو کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ چمٹ جاتے ہیں اس بات کو اور کہتے ہی چلے جاتے ہیں.تو بہت وسیع معانی ہیں اس لفظ صبر میں.چنانچہ نماز سے پہلے خود نماز سیکھنے کے لئے صبر کا مضمون بیان کر دیا وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ والصلوۃ اور دوسروں کو نماز سکھانے کے لئے بھی صبر کا مضمون بیان فرما دیا کہ تم مستقل مزاجی کے ساتھ چمٹ جاؤ اور اس عادت کو پھر چھوڑو نہیں.کہتے چلے جاؤ، کہتے چلے جاؤ پھر جا کے تمہیں مقصد
خطبات طاہر جلدم 888 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء حاصل ہوگا.تو نماز کے اس پہلو کے لحاظ سے نہ صرف پاکستان میں کی ضرورت ہے بلکہ ساری دنیا میں ضرورت ہے کیونکہ وہ آیت کا ٹکڑا جو میں نے سنایا ہے آپ کو پڑھ کے.وَيَصُدَّكُمْ عَنِ الصَّلوةِ اس سے پہلے مضمون یہ بیان ہوا ہے کہ تمہیں جوابازی میں اور دوسری عیاشیوں میں مبتلا کر کے خمر وغیرہ میں مبتلا کر کے شیطان تمہیں خدا سے دور لے جانا چاہتا ہے آپس میں لڑانا چاہتا ہے وَيَصُدَّكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَعَنِ الصَّلاةِ فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ اور سب سے بڑا مقصد آخری مقصد شیطان کا یہ ہے کہ تمہیں نماز سے باز رکھے.تو جبر جہاں ظاہری صورت میں نہیں ہے وہاں لالچ اور حرص کی صورت میں کیا جارہا ہے آپ کے اوپر.یہ بھی شیطان کی طرف سے آپ کے اوپر ایک جب لیکن کئی قسم کی کھیلیں ہیں یہاں کئی قسم کی دلچسپیاں ہیں ٹیلیویژن ہیں اور عیاشی کے ذریعے ہیں ، آرام کے ذرائع ہیں بہت سے ، وڈیو عام ہیں، گانے عام ہیں اتنے Destruction کے ذریعے ہیں ، توجہ کو باٹنے کے ذریعے ہیں خدا تعالیٰ کے ذکر سے کہ یہاں شیطان اور رنگ میں جولانی دکھا رہا ہے اور یہ جولانی بعض دفعہ اس سے زیادہ سخت ثابت ہوتی ہے جیسی کہ آج کل پاکستان میں دکھائی جارہی ہے کیونکہ وہاں لازماً کھلے کھلے حملے کے نتیجہ میں غیرت جوش میں آتی ہے مومن کی ، فَهَلْ أَنْتُمْ مُنْتَهُونَ کا مضمون کھل کر سامنے آجاتا ہے.اور یہاں یہ مضمون مخفی رہتا ہے یہاں جب شیطان لالچوں کی طرف بلاتا ہے حرص و ہوا کی طرف بلاتا ہے تو آپ کو فوری طور پر یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ خدا سے باز رکھنے کے لئے آپ کو چیلنج کیا جا رہا ہے اس لئے مقابل پہ جو دفاعی قوتیں غیرت اور محبت کے نتیجہ میں بیدار ہوا کرتی ہیں وہ مخفی رہ جاتی ہیں وہ خفتہ رہ جاتی ہیں بہت زیادہ خطرات ہیں اس لحاظ سے.تو تمام مغربی سوسائٹی میں بھی اس جہاد کی بڑی شدید ضرورت ہے اور پھر ان علاقوں میں افریقہ ہے مثلاً جہاں کی قوموں کو ایک لمبے عرصہ سے روحانیت کی پیاس ہے اور چونکہ ان کو عادت نہیں پڑی ان باتوں کی اس لئے ان کو نئی عادتیں ڈالنا ایک بڑی محنت کا کام ہے.روحانیت کی پیاس ہے تبھی وہ مذہبی ہیں.میں جب کہتا ہوں روحانیت کی پیاس ہے تو میری مراد یہ ہے کہ ایک مشرک بھی اگر شرک میں جوش دکھاتا ہے اور ایک Superstitious آدمی جو تو ہمات کی دنیا میں خوب دلچسپی لیتا ہے یہ ساری اس کی پیاس کی علامتیں ہیں.افریقہ اس لحاظ سے بہت ہی پیاسا ہے کیونکہ بنیادی طور پر افریقن مذہبی ہیں وہ مذہب کے
خطبات طاہر جلد۴ 889 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء بغیر نہیں رہ سکتا اسی لئے افریقہ میں عیسائیت بھی بڑی تیزی سے پھیلی ہے اور سب سے زیادہ وہاں اسلام کی طلب اور اسلام کی گنجائش ہے کیونکہ افریقہ کی سادہ فطرت جو ابھی دنیا کی ٹیڑھی سوچوں سے خود نہیں ٹیڑھی ہو سکی، ابھی تک اس میں کمی نہیں آئی ، اس کو اسلام سے زیادہ صاف ستھرامذہب اور کوئی نظر آ ہی نہیں سکتا.جب وہ مقابلہ کرتا ہے افریقن تو اس کی فطرت ابھی تک اتنی سیدھی ہے کہ وہ اسلام کے سیدھے رستے پر جانے کے لئے طبعاً تیار پاتا ہے اپنے آپ کو.اس لئے وہاں اس لحاظ سے فائدہ بھی ہے ایک Advantage جس کو کہتے ہیں ایک فوقیت ہے دوسرے علاقوں کے اوپر افریقہ کو کہ وہاں اس پہلو سے احمدیوں کے لئے کام کی گنجائش ہے مگر گنجائش ہے کام کے آغاز کی.کام کو آگے بڑھانے کے لئے پھر روکیں پیدا ہونگی.وہاں کے حالات ، وہاں کے جنگلات ، وہاں رابطے کی مشکلات ، وہاں کی بدامنیاں ہر جگہ پہنچنے کے لئے ذرائع میسر نہیں ہیں، ذرائع میسر ہیں تو آج کل بدقسمی سے دنیا کی بڑی طاقتوں کی آپس کی چپقلش نے سارے افریقہ کا امن برباد کر رکھا ہے اور جہاں بظاہر امن نظر آ رہا ہے وہاں بھی حالات بہت ابتر ہو چکے ہیں تو ان حالات میں وہاں احمدی مبلغین کے لئے اور قسم کی مشکلات شیطان نے پیدا کر دی ہیں.ایک بھی جگہ آپ کو دنیا میں آج نظر نہیں آتی جہاں ذکر الہی کی راہ میں شیطان نے روڑے نہ انکار کھے ہوں، ایک بھی جگہ آپ کو ایسی نظر نہیں آئے گی جہاں شیطان مخفی طور پر یاکھل کر حملہ نہ کر رہا ہو عبادتوں پر.اس لئے عالمگیر جہاد کی ضرورت ہے جماعت احمدیہ کے لئے کہ وہ عبادتوں کو قائم کرنے ، نماز کو قائم کرنے ، ہر جہت میں قائم کرنے اس مضمون کو آگے بڑھانے ، اس میں وسعت پیدا کرنے ، اس میں رفعت پیدا کرنے اور اس میں گہرائی پیدا کرنے کی پوری کوشش کرے.یہ چند لفظوں میں جو میں نے مضمون بیان کیا ہے یہ اتنا مشکل ہے، اتنا وسیع ہے، اتنا محنت لب ہے، اتنا صبر چاہتا ہے کہ محض چند فقروں میں سن کر یہ مضمون آپ پوری طرح سمجھ بھی نہیں سکتے کہ اس میں وقتیں کیا کیا ہوں گی.سب سے بڑی مشکل، سب سے بڑی دقت یہ میں محسوس کرتا ہوں ہر جگہ یہ میں نے دیکھی ہے کہ صبر کم ہے اور اسی لئے قرآن کریم بار بار صبر کی طرف توجہ دلاتا ہے.ایک نصیحت کی جاتی ہے اور بظاہر وہ سننے کے بعد طبیعتوں میں ایک بڑا نمایاں ولولہ دکھائی دینے لگتا ہے، بظاہر وہ سننے کے بعد دلی ارادے باندھتے ہوئے نظر آتے ہیں اور دماغ تائید کرتا ہے کہ ہاں یہ ہونا
خطبات طاہر جلد۴ 890 خطبه جمعه ۸/نومبر ۱۹۸۵ء چاہئے مگر چند دن کے اندر اندر وہ ارادے بھی سو جاتے ہیں ، وہ دل کے ولولے بھی بیٹھ جاتے ہیں عام سی کیفیت ہو جاتی ہے، ہاں یہ ہوتا رہتا ہے پھر آواز پڑے گی پھر ایک کوشش کر لیں گے اور وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا کا مضمون پھر جو کہ اس وقت سمجھ آتا ہے کیا معنی رکھتا ہے، کیسا عظیم الشان کلام ہے، کیسی گہری انسانی نفسیات پر نظر رکھنے والا خدا ہے جس کا یہ کلام ہے کہ بظاہر ایک آرام سے حکم دے دیتا ہے چھوٹا سا اور معلوم ہوتا ہے اس میں کیا ہے بچوں کو نماز کے لئے ہی کہنا ہے وہ ہم کہہ دیں گے.لیکن فرمایاوَ اصْطَبِرُ عَلَيْهَا خبر دار ! یا د رکھنا یہ آسان کام نہیں ہے.مستقل مزاجی کے ساتھ روزانہ کہتے چلے جانا بہت ہی مشکل کام ہے.ویسے ہی طبیعت تھک جاتی ہے ایک بات کہتے کہتے اور پھر روزانہ اپنے بچوں پر نظر رکھنا اور ان کو سوتے ہوئے رحم کی نگاہ سے دیکھنا ان معنوں میں کہ ان کے آرام میں مخل ہوں اور یہ ان پر رحم ہورہا ہو یہ کوئی آسان بات تو نہیں ہے.اپنی بیویوں کو ہمیشہ توجہ دلاتے رہنا، بار باران پر نظر رکھنا اور پھر روزانہ اس کام میں مشغول رہنا یہ اتنا مشکل کام ہے آپ کر کے دیکھیں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ کیوں قرآن کریم نے اس کی طرف توجہ دلائی.نظام جماعت کے مختلف حصوں سے مختلف تنظیموں سے میرا بڑا گہراتعلق رہا ہے.بچپن میں اطفال الاحمدیہ میں ، پھر خدام الاحمدیہ میں ، پھر انصار اللہ میں اور خصوصاً نماز کے معاملہ میں خدا تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرما تا رہا ہے کہ ہر جگہ کچھ نہ کچھ کوشش کروں اور میں نے یہ دیکھا ہے کہ ہمارے اچھے سے اچھے کارکن بھی صبر کے لحاظ سے ابھی بہت زیادہ محروم تو نہیں کہنا چاہئے مگر ان میں گنجائش بہت موجود ہے کہ وہ اس حالت کو بہتر کریں.صبران معنوں میں کہ مستقل مزاجی بھی صبر کا ایک حصہ ہے صبر کا مضمون بہت وسیع ہے.تو استقلال کے لحاظ سے بھی بہت کمی واقعہ ہے.ہمارے اچھے اچھے کارکن بھی اچھا کام جوش کے ساتھ چند دن کر لیتے ہیں اور اس کے بعد پھر آہستہ آہستہ تھک کر چھوڑ دیتے ہیں اور نماز وہ آخری چیز ہے جس سے آپ کو تھکنا چاہئے.مطلب یہ ہے کہ اس میں آپ کو تھکنے کی کوئی گنجائش نہیں.تمام قرآن میں سب سے زیادہ زور نماز پر ہے.قرآن کریم میں زکوۃ سے پہلے صلوۃ ہے اور زکوۃ کا مضمون بھی پھر آگے بہت وسعت اختیار کر جاتا ہے، اس کی طرف انشاء اللہ آئندہ توجہ دلاؤں گا لیکن ہر ایمان کے بعد سب سے پہلے صلوٰۃ کا ذکر ہے اور تمام دنیا کے مذاہب میں جہاں
خطبات طاہر جلدم 891 خطبه جمعه ۸/نومبر ۱۹۸۵ء کہیں بھی کوئی مذہب آیا ہے.تمام قرآن کریم کے بیان کے مطابق نماز پر ہر نبی زور دیتا رہا ہے.نماز حفاظت کرتی ہے.نماز ایک ساتھ رہنے والا مربی ہے.جس شکل میں بھی کسی قوم نے کبھی خدا کی عبادت کی تھی ہر نبی نے سب سے زیادہ اس عبادت پر زور دیا تھا اور ہے ہی مقصود وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاریات: ۵۷ ) میں نے تو جنوں اور انسانوں کو پیدا ہی نہیں کیا سوائے اس کے کہ وہ میری عبادت کریں.اور عبادت کا معراج نماز ہے یعنی عبادت کی جو رسمی شکل ہے ظاہری نماز ہے اور اس کو پھر قائم کر کے پھر اس کو بھرنا ہے ہم نے کئی طریق سے اس پر غور کرنا ہے کہ کس طرح انہیں زیادہ حسن پیدا کرنا ہے، سمجھانا ہے.ابھی تو آپ میں سے یعنی شاید آپ کو کبھی خیال نہ آیا ہو لیکن اکثریت ایسی ہے جن کو یہ نہیں پستہ کہ میرے بچوں کو نماز ترجمہ کے ساتھ آتی بھی ہے کہ نہیں اور نہ پتہ ہے نہ خیال آیا ہے اور بعض لوگ دوسروں کو ڈھونڈتے ہیں.جن کو خیال آتا ہے وہ کہتے ہیں جی ہمارے پاس کوئی نماز سکھانے کا انتظام نہیں ہے اس لئے ایک مربی بھیجا جائے.وہ سمجھتے ہیں کہ یہ مربیوں کا کام ہے نماز سکھانا اور پڑھانا حالانکہ قرآن کریم بتاتا ہے کہ یہ والدین کا کام ہے.گھر سے شروع کرو اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کو قائم کر کے دکھا ؤ وہاں.یہ عجیب سوال ہوتا ہے میں حیرت سے دیکھتا ہوں اگر تمہیں خود نماز نہیں آتی تو پہلے اپنی فکر کرو، بچوں کی کیا بات شروع کی ہے پہلے خود تو نماز سیکھو اور اگر خود نماز آتی ہے تو مربی کا کیا انتظار کرتے ہو.جو اولین مقصد ہے انسانی تخلیق کا اس مقصد سے محروم ہور ہے ہو محروم رہ رہے ہواورا نتظار کر رہے ہو کوئی آئے گا تو وہ ہمیں سکھا دے گا.اتنے مربی نہ جماعت کے پاس ہیں نہ یہ ممکن ہے کہ مربی دوسرے سارے کام چھوڑ دیں.جتنے ہیں اگر وہ سارے کام دوسرے چھوڑ دیں اور یہی کام شروع کریں تو تب بھی وہ پورے نہیں ہوں گے.اس لئے قرآن کریم بڑا حکیمانہ کلام ہے.وہ واقعاتی بات کرتا ہے خیالی اور فرضی بات نہیں کرتا.یہ ذمہ داری مربی پر نہیں ڈالی بلکہ ہر خاندان کے سربراہ پر ڈال دی ہے کہ تم کوشش کرو، تمہاری ذمہ داری ہے.حضرت اسماعیل علیہ السلام کے متعلق بھی یہی بتایا کہ بڑی خوبیوں کا مالک تھا ، وہ اپنی اولاد کو اپنے اہل و عیال کو مستقل مزاجی کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلاتا رہتا تھا.پس جماعت احمدیہ میں سب سے اہم کام اس وقت عبادت کو قائم کرنا ہے نماز کو نہ صرف
خطبات طاہر جلدم 892 خطبه جمعه ۸ / نومبر ۱۹۸۵ء قائم کرنا ان معنوں میں کہ ظاہراً کوئی شروع کر دے بلکہ اس کے اندر مغز کو اور روح کو بھرنا ہے اور جب تک بچپن سے نماز کا ترجمہ ساتھ نہ سکھایا جائے اس وقت تک نماز کے معنی انسان نماز پڑھتے وقت اپنے اندر جذب نہیں کر سکتا.ایک غیر زبان ہے ہم سوچتے اپنی زبان میں ہیں اور غیر زبان اگر سیکھ بھی لیں تب بھی عملاً ساتھ ساتھ اس کا ترجمہ کر رہے ہوتے ہیں.سوائے اس کے کہ بعد میں بہت مہارت پیدا ہو جائے ورنہ شروع میں ہر انسان جو غیر زبان سیکھتا ہے وہ بولتے ہوئے بھی سنتے ہوئے بھی ساتھ ساتھ تیزی سے اس کا ترجمہ کر رہا ہوتا ہے.انسانی کمپیوٹر خدا تعالیٰ نے ایسا بنایا ہے کہ بعض دفعہ محسوس نہیں ہوتا مگر عملاً یہ ہورہا ہوتا ہے.اس زبان میں پہلی دفعہ خودسوچنا یہ بہت مہارت کے بعد آتا ہے.اسی لئے نماز پڑھنے والوں کی بھی کئی قسمیں اس پہلو سے بن جاتی ہیں کچھ وہ ہیں اور ایک بہت بڑی تعداد ہے جن کو آتا ہی نہیں نماز کا ترجمہ.اب ان کو ترجمہ ہی نہیں آتا تو بیچارے سوچیں گے کیا پھر وہ ہیں جن کو ترجمہ آتا ہے لیکن جب تک پہلے عربی پڑھ کر پھر ساتھ اس کا ظاہر اتر جمہ نہ کریں دماغ میں ، دھرا ئیں نہ پوری بات کو.اس وقت تک ان کو سمجھ ہی نہیں آتا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور جن کو نماز آتی ہے ان میں سے ایک بہت بڑی تعداد ایسی ہے جو اتنا وقت نہیں دیتی.نماز پڑھتے ہیں اور بغیر محسوس کئے کہ جو میں نے نماز پڑھی ہے اس کا ترجمہ میں نے محسوس کیا ہے کہ نہیں، اس میں سے گزر جاتے ہیں اور پھر کچھ اور ہیں جن کو مہارت ہو جاتی ہے ساتھ ساتھ ترجمہ خود بخود جذب ہونے لگ جاتا ہے لیکن ان کی توجہ بکھر جاتی ہے.نماز کے بعد بہت حصے خلا کے رہ جاتے ہیں جہاں توجہ اکھڑ گئی تھی.تو یہ ساری باتیں جو کسل کی حالت ہے اور بہت سی باتیں ہیں ، یہ نماز کی کوالٹی پر ، اس کی قسم پر اثر انداز ہوتی رہتی ہے.اس لئے اگر سو فیصدی بھی ایک جماعت نمازی ہو جائے اور پانچ وقت کی نمازی ہو جائے بلکہ تہجد بھی پڑھنا شروع کر دے تب بھی ہم یہ نہیں کہہ سکتے ظاہری نظر سے کہ نماز قائم ہوگئی ہے یا نہیں ہوئی کیونکہ اور بہت سے مراحل ہیں لیکن آغاز بہر حال ترجمہ سے ہوگا یعنی اس کے اندر مغز پیدا کرنے کے لئے ترجمہ پہلے سکھائیں گے تو پھر دیگر امور کی طرف متوجہ کرسکیں گے.ترجمہ سکھانے کے لئے باہر کی دنیاؤں میں اور بھی بہت سے ذرائع موجود ہیں مثلاً ویڈیو کیسٹس عام ہے آڈیو کیسٹس ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ بچوں کوترجمہ سکھانے کے لئے ماں باپ کا ذاتی تعلق ضروری ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ویڈیوز کے اوپر آپ بنا دیں اور ہم اپنے بچوں کو پکڑا دیں
خطبات طاہر جلدم 893 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء گے اور بے فکر ہو جائیں گے کہ ان کونماز آنی شروع ہو گئی ہے.یہ درست نہیں.عبادت کا تعلق محبت سے ہے اور محض رسمی طور پر ترجمہ سکھانے کے نتیجہ میں عبادت آئے گی کسی کو نہیں.وہ ماں باپ جن کا دل عبادت میں ہو جن کو نماز سے پیار ہو جب وہ ترجمہ سکھاتے ہیں بچے سے ذاتی تعلق رکھتے ہوئے بچہ اپنے ماں باپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہا ہوتا ہے، ان کے دل کی گرمی کو محسوس کر رہا ہوتا ہے، ان کے جذبات سے اس کے اندر بھی ایک ہیجان پیدا ہو رہا ہوتا ہے.وہ اگر نماز سکھائیں تو ان کا نماز سکھانے کا انداز اور ہوگا.چنانچہ بہت سے قادیان کے زمانے میں مجھے یاد ہے بہت سے نیک لوگ اس طرح ماؤں کی گود میں نیک بنے.ان کو ماؤں نے بڑے پیار اور محبت سے نمازیں سکھائی ہیں اور ہمیشہ کے لئے ان کی یادیں ان کے دلوں میں ڈوب گئی ہیں اور جم گئی ہیں وہاں ان کے خون میں بہنے لگی ہیں، ایک فطرت ثانیہ بن چکی ہیں.کجا وہ نمازیں جو اس طرح سیکھی گئی ہوں کجا و جو ویڈیو پر آرام سے بیٹھے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور خیال شاید یہ آرہا تھا کہ یہ ختم ہو اور ہم اپنی دلچسپی کا فلاں پر وگرام دیکھیں ، فلاں ڈرامہ شروع کر دیں، فلاں کھیل دیکھنے لگ جائیں ، دونوں چیزوں میں زمین آسمان کا فرق ہے.اس لئے محض فرضی باتوں کے اوپر اپنے آپ کو خوش نہ کریں.ہر احمدی کو خود نماز کے معاملے میں کام کرنا پڑے گا، محنت کرنی پڑے گی ، اپنے نفس کو شامل کرنا پڑے گا، اپنے سارے وجود کو اس میں داخل کرنا پڑے گا تب وہ نسلیں پیدا ہوں گی جو نمازی نسلیں ہوں گی خدا کی نظر میں.پس آئندہ نسلوں کے اعتبار سے دیکھیں تو تب بھی جیسا کہ میں نے آیت کریمہ آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ بر جان کو خدا متنبہ کر رہا ہے تم نے کل کے لئے کیا تیاری کی ہے.حدیث نبوی کا مضمون اسی آیت سے تعلق رکھتا ہے.قیامت کی پوچھ رہے ہو، لیکن اس کے لئے تیاری کیا کی ہے اپنے نفس کو تیار پاتے بھی ہو؟ پس آج بھی یہی ہے سوال جو سب سے اہم سوال ہے کہ تم نے آنے والے کل کے لئے کیا تیاری کی ہے، کن اولا دوں کو آگے بھیجو گے اور کیا وہ خدا کی عبادت گزار نسلیں ہوں گی یا عبادت سے غافل نسلیں ہوں گی ، نئے آنے والے مہمانوں کے لئے تم نے کیا تیاری کی ہے؟ جو جوق در جوق احمدیت میں داخل ہوں گے.اگر بے نمازی ماحول میں داخل ہوں گے تو وہ بھی بے نمازی بن جائیں
خطبات طاہر جلدم 894 خطبه جمعه ۸/نومبر ۱۹۸۵ء گے.اگر ایسے نمازیوں میں داخل ہوں گے جو کھو کھلی نمازیں پڑھنے والے ہیں اور ریا کار ہیں تو وہ بھی کھوکھلی نمازیں پڑھیں گے اور ریا کار بن جائیں گے.اس لئے خــاشــعــون جو نمازی ہیں وہ نمازی پیدا کرنے ضروری ہیں اور اگر خاشعون نہیں بنیں گے آپ تو پھر نماز میں آپ پر ہمیشہ بھاری رہیں گی اور وہ بوجھ نہیں اٹھا سکیں گے.آج نہیں تو کل وہ بوجھ گر جائے گا.آپ نہیں تو آپ کی اگلی نسل اس بوجھ کو پھینک دے گی.پس اس لئے ضروری ہے کہ نماز کو گہرا کیا جائے اس میں خشوع پیدا کیا جائے لیکن بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ تو ابھی بہت بعد کی منازل ہیں.پہلی منزل بھی ہے ایک لحاظ سے کہ جب خشوع کے حالات پیدا ہو جا ئیں تو پھر نمازیں آسان ہونے لگ جاتی ہیں اور بعد کی منزل اس لحاظ سے ہے کہ اپنے بچوں کی آپ نے جب تربیت کرنی ہے تو ان کو خشوع کے مقام تک پہنچانے کے لئے آپ کو بہت محنت کرنی پڑے گی اور ذاتی تعلق رکھنا پڑے گا، ذاتی قابلیتوں کو استعمال کرنا پڑے گا ، ذاتی تعلقات کو استعمال کرنا پڑے گا تب جا کر آئندہ آنے والی نسلیں آپ کی سچی نمازی بن سکیں گی.پھر افریقہ میں یا دوسرے ممالک میں جہاں آج بھی بکثرت جوق در جوق لوگ اسلام میں داخل ہورہے ہیں وہاں بہت سے مربی بنانے پڑیں گے.جن کی پہلے تربیت ہے ان کو آپ استعمال کریں اپنی مدد کے لئے اس کام کے لئے تیار کریں اور افریقہ کے مزاج کی سادگی جو ہے اس کے اندر ایک خاص حسن پایا جاتا ہے بہت سی دوسری قومیں اس حسن سے عاری ہو چکی ہیں.آج کل کی مصنوعی زندگی کے نتیجہ میں لیکن افریقہ کی سادگی میں وہ حسن ہے وہ جو بات مانتے ہیں جب تو پھر پوری اطاعت کے ساتھ فرمانبرداری کے ساتھ مانتے ہیں، پوری طرح تعاون بھی کرتے ہیں.بہت ہی پیاری سادگی ہے اس قوم میں.اس سے مبلغ استفادہ کریں اور ان کو سمجھا ئیں اور سکھائیں وہ بڑے پُر جوش معلم بنتے ہیں آگے.افریقن مزاج میں ایک یہ بھی خوبی ہے کہ پھر وہ اچھی بات کو وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (العصر ب۴) کے ساتھ ادا کرتا ہے، چپ نہیں ہوتا پھر.جب اس کو ایک اچھی بات سکھا دیں تو وہ کہتا چلا جاتا ہے اس لئے وہاں خدا تعالیٰ نے آپ کو جہاں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں وہاں بعض قوتیں بھی تو پائی جاتی ہیں خدا تعالیٰ آپ کو ان قوتوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے ان سے فائدہ اٹھاؤ.کوئی جگہ بھی ایسی نہیں ہے جہاں کمزوریوں کے مقابل پر خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلدم 895 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء نے کچھ فوقیتیں ، کچھ قو تیں نہ رکھ دی ہوں جو کمزوریوں سے مقابلے کے لئے آپ کو نئی طاقتیں عطا کر سکتی ہیں.پس میرا آج کا خطبہ صرف اسی موضوع سے تعلق رکھتا ہے اور جب میں نے کہا جماعت کی تنظیمیں تو خصوصیت سے انصار اللہ ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ یہ تینوں میرے سامنے تھیں.جماعت احمدیہ کا اصل بنیادی نظام کا ڈھانچہ تو صدارت یا امارت کا نظام ہے لیکن اس قسم کے کاموں میں جہاں ایک War_footing پر کام کرنے ہوتے ہیں یعنی جیسے ایک عظیم جنگ میں مصروف ہو جائے کوئی قوم، وہاں تنظیموں کے اندر اگر بانٹ دیا جائے اس کام کو تو زیادہ عمدگی کے ساتھ زیادہ تفصیل کے ساتھ نظر رکھتے ہوئے یہ کام آگے بڑھتے ہیں.اس لئے یہ تین جو نظام ہیں جماعت کی ذیلی تنظیمیں ان سے میں خصوصیت کے ساتھ مخاطب ہوں کہ یہ اپنے اپنے دائرے میں بہت محنت اور بہت کوشش کریں.ماؤں پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے، بہنوں پر بھائیوں پر یعنی خاندان کے اند ر والدہ پر اس لئے کہ وہ جوابدہ ہے آخری صورت میں خدا کے سامنے.یہ خاندانی یونٹ جو ہے یہ کسی نہ کسی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے اس لئے اگر چہ جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا ہے آخری کارخانہ نماز کے قیام کا خاندان ہی ہو گا لیکن اس کارخانے تک پہنچنے کے لئے اسے بیدار کرنے کے لئے ، اسے حرکت دینے کے لئے جماعت کی مختلف تنظیمیں قائم ہیں.پس لجنہ عورتوں کو تو متوجہ کرے اور آخری نظر اس بات پر رکھے کہ اہل خانہ کے اندر نماز کو قائم کرنے کی ذمہ داری اہل خانہ کی ہے اور عورتوں سے کہیں کہ آپ ہم سے سیکھیں اور پھر اپنے بچوں کو سکھائیں.اپنے خاوندوں کو اپنے بیٹوں کو اپنی بیٹیوں کو بار بار پانچ وقت نماز کی طرف متوجہ کرتی رہیں.جو گھر میں بیٹھے ہوئے ہیں نماز کے وقت اور مسجد قریب ہے یا عبادت کرنے کی جگہ جو بھی ہو وہ قریب ہو عورتیں اٹھائیں ان کو کہ ٹھیک ہے کھانا تیار ہوگا لیکن تم نماز پڑھنے جاؤ واپس آؤ پھر آرام سے بیٹھیں گے.بچوں کو تیار کریں اور جوگھر کی بیٹیاں ہیں ان پر نظر رکھیں.والدین میں سے باپ کی اول ذمہ داری ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے مگر بیٹیوں کے معاملہ میں باپ کے لئے کچھ مشکلات بھی ہوتی ہیں اس کو یہ نہیں پتہ لگتا کہ کب اس نے پڑھنی ہے کب نہیں پڑھنی اس لئے وہاں جب تک ماں مدد نہ کرے اس وقت تک باپ پوری طرح اپنے فرائض کو ادا نہیں کر سکتا اور بھی بہت سے مسائل ہیں نماز سے تعلق رکھنے والے جو ماں سکھا سکتی ہے.
خطبات طاہر جلدم 896 خطبه جمعه ۸/نومبر ۱۹۸۵ء اس لئے لجنہ کا جہاں تک تعلق ہے وہ عورتوں کو سنبھالے اور بچیوں کو سنبھالے اور گھر کے اندران کو طریقے بتائے کہ کس طرح تم نے اپنے گھروں میں نماز کو قائم کرنا ہے یہ بالکل الگ بات ہے.ایک اور بات آپ کے ذہن میں آسکتی ہے وہ یہ کہ لجنہ نماز کی تلقین کرنا شروع کر دے کہ نماز پڑھا کرو میں یہ نہیں کہ رہا میں یہ کہہ رہا ہوں کہ لجنہ گھروں میں نماز کو قائم کرنے کے طریقے سمجھائے اور مستورات کو یہ بتائے کہ تم نے کیا مدد کرنی ہے سوسائٹی کی نماز کے قیام کے سلسلہ میں اور پھر یہ رپورٹیں لے کہ وہ کس حد تک نماز کو اپنے گھروں میں قائم کرنے میں کامیاب ہو چکی ہیں یہ ذمہ داری ڈال رہا ہوں.اور اسی طرح خدام نو جوانوں کو یہ تلقین نہ کریں کہ تم نماز میں آؤ بلکہ یہ تلقین کریں کہ تم خود بھی آؤ اور اپنے بھائیوں کو بھی نماز پر قائم کرو اور اپنے والدین کو بھی نماز پر قائم کرنے کی کوشش کرو کیونکہ بعض جگہ ایسا بھی ہورہا ہے کہ بظاہر الٹ ہو جاتا ہے لیکن ہورہا ہے بعض بچے مجھے خط لکھتے ہیں نوجوان کہ ہمیں بہت تکلیف ہے، ہمارے والد صاحب نماز نہیں پڑھتے اور ہم بہت سمجھاتے ہیں لیکن وہ باز نہیں آرہے نماز کی ان کو عادت ہی نہیں ہے اس لئے آپ ان کو خط لکھیں.چنانچہ ایک بچے نے بڑے درد سے مجھے خط لکھا اور میں نے پھر واقعہ اس کو خط لکھا اور پھر مجھے بڑی خوشی ہوئی یہ سن کر یعنی وہاں کی امارت کی طرف سے اطلاع ملی کہ اس خط نے اثر دکھایا ہے اور اس نے نماز شروع کر دی ہے خدا کے فضل سے.تو اگر ایسے نوجوان اگر بے قرار ہوں اپنے ماں باپ کو نماز پڑھانے کے لئے تو وہ بھی بڑا کام کر سکتے ہیں اور دعا کے ساتھ مانگیں گے تو اس سے بہت غیر معمولی فائدہ پہنچے گا.دعاؤں کی تحریک کریں گے دوسروں کو تو اس طرح بھی خدا کے فضل سے فائدہ پہنچے گا.اور انصار کو یہ توجہ دلانی چاہئے اپنے ممبران کو کہ تم اس عمر میں داخل ہو گئے ہو جہاں جواب دہی کے قریب تر جا رہے ہو تم ویسے تو ہر شخص جواب دہی کے قریب تر رہتا ہے ایک لحاظ سے لیکن انصار بحیثیت جماعت کے قریب تر ہیں اپنی جواب دہی کے اور جو وقت پہلے گزر چکا اس کے خلا جورہ گئے ان کو پر کرنا بھی شروع کریں تو پھر تو اُن کے اوپر دوہرا کام آجاتا ہے.وقت کی ذمہ داریاں پوری کریں اور گزشتہ گزرے ہوئے وقت کے خلا بھی پورے کریں.ان کو اس طرح بیدار کیا جائے بتا کر کہ ان کو فکر پیدا ہوا پی.وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَا قَدَّمَتْ لِغَدٍ کہو کہ تم پر سب سے زیادہ اطلاق
خطبات طاہر جلدم 897 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء پاتی ہے یہ آیت.تمہیں فکر کرنی چاہئے کل کے لئے تم نے کیا آگے بھیجا ہے اور وہاں غد کے معنی روز قیامت بن جائے گا وہاں غد کے معنی سوال و جواب اور محشر کا وقت بن جائے گا اس لئے ان کو بیدار کریں ہلائیں جگائیں کہیں تم اگر اپنے گھروں میں نماز قائم کئے بغیر آنکھیں بند کر گئے تو کتنا حسرتناک انجام ہو گا تمہارا.بے نمازی نسلیں جو اپنے مقصد سے عاری ہیں جن کو خدا نے پیدا کسی اور غرض سے کیا تھا کسی اور طرف رخ اختیار کر چکی ہیں ، وہ پیچھے چھوڑ کر جارہے ہو.کیا رہا تمہارے ہاتھ میں اور خود خالی ہاتھ جارہے ہو وہاں کوئی بھی تمہارے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ بھی نہیں رہا باقی.کیا جواب دو گے خدا کو کہ جو امانت تو نے میرے سپرد کی تھی میں نے ان کو یہ بنایا ہے یہ پیچھے چھوڑ کر آیا ہوں.تو اس رنگ میں بیدار کریں اور پھر یہ عہد کریں اپنا پروگرام ایسا بنا ئیں کہ ان کو سو نے پھر اب نہیں دینا.تنظیمیں نسبتاً زیادہ بیدار رہ سکتی ہیں اگر وہ ایک معین پروگرام بنالیں کہ ہر ہفتے یا ہر مہینے میں ایک دفعہ اسی موضوع پر بیٹھا کریں ایک مجلس عاملہ کا اجلاس مقرر ہو جائے ہمیشہ کے لئے آج سے جس کا موضوع سوائے نماز کے کچھ نہ ہو.اس دن لجنہ بھی نماز کے اوپر غور کر رہی ہو.خدام بھی نماز پر غور کر رہے ہوں، انصار بھی نماز پر غور کر رہے ہو اور یہ فیصلہ کرلیں ہمیشہ کے لئے کہ اب ہم نے ہر مہینہ کم از کم ایک مرتبہ اس موضوع پر بیٹھنا ہے، غور کرنا ہے اور جہاں حالات ایسے ہیں کہ ہر مہینے نہیں بیٹھ سکتے وہاں دو مہینے مقرر کر لیں، تین مہینے مقرر کر لیں مگر جہاں مقرر کریں پھر اس پر قائم رہیں، اس پر صبر دکھائیں اور وہ ہر دفعہ جائزہ لیا کریں کہ کتنے ہمارے Gains میں یعنی کتنا ہمیں فائدہ پہنچا ہے اس عرصے میں کتنے نمازی بنائے ، کتنوں کی نمازوں کی حالت ہم نے درست کی ، کتنوں کو نماز میں لطف حاصل کرنے کے ذرائع بتائے اور ان کی مدد کی اور بہت سے پہلو ہیں وہ ان سب پہلوؤں پر غور کیا کریں اور ہر دفعہ اپنا محاسبہ کریں کہ ہم کچھ مزید حاصل کر سکے ہیں یا نہیں کر سکے.اگر اس جہت سے اس طریق پر وہ کام شروع کریں گے تو امید ہے کہ انشاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ ہم اپنے مقصد کی طرف بڑھ رہے ہوں گے.جس کی خاطر ہمیں پیدا کیا گیا ہے اور جب ہم مقصد کی طرف بڑھ جائیں گے اور جب مقصد کو حاصل کر رہے ہوں گے تو پھر فتح ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے.عددی اکثریت اور نصرت اور ظفر کے خواب جو آپ دیکھ رہے ہیں اس سے بڑھ کر یہ خواب آپ کے حق میں
خطبات طاہر جلدم 898 خطبه جمعه ۱۸ نومبر ۱۹۸۵ء آپ کی ذاتوں میں پورے ہو چکے ہوں گے.پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ آپ کی حفاظت فرمائے ، پھر یہ خدا کا کام ہوگا کہ اس دن کو قریب تر لائے جو ظاہری فتح کا بھی دن ہوا کرتا ہے.جنگ بدر کے موقع پر الله یہی تو واسطہ دیا تھا آنحضرت ﷺ نے اپنے رب کو کہ اے خدا! یہ تھوڑی سی جماعت میں نے تیار کی تھی تیری عبادت کرنے والوں کی.میری ساری محنتوں کا پھل ہے یہ اور تو کہتا ہے کہ کائنات کا پھل ہے یہ ، اگر آج یہ لوگ مارے گئے تو پھر تیری عبادت کرنے والا دنیا میں کبھی کوئی پیدا نہیں ہو گا.اس قسم کے عبادت کرنے والے آپ بن جائیں تو اللہ کے اس پاک رسول ﷺ کی دعائیں آپ کو بھی پہنچ رہی ہوں گی.وہ خدا کا رسول ﷺے آج بھی اس لحاظ سے زندہ ہے آج بھی وہ دعا آپ کے حق میں خدا کو یہ واسطہ دے گی کہ اے خدا اگر یہ عبادت گزار بندے تیرے ہلاک ہوگئے یا نا کام مرگئے تو پھر کبھی تیری دنیا میں عبادت نہیں کی جائے گی.کیسے ممکن ہے پھر کہ آپ کو وہ فتح اور ظفر کا دن نصیب نہ ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد نماز عصر بھی جمع ہو گی.بعض نئے دوست بھی آئے ہیں اس لئے میں یاد دہانی کرا رہا ہوں.سردیوں کے جو دن چھوٹے ہو چکے ہیں ان میں نماز جمعہ سے پہلے جو خطبہ دیا جاتا ہے اس کی وجہ سے اتنی تاخیر ہو جاتی ہے کہ عصر کا وقت بیچ میں شامل ہو جاتا ہے اس لئے جب تک یہ دن چھوٹے ہیں اسی طرح یہ طریق جاری رہے گا.
خطبات طاہر جلد ۴ 899 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کیلئے تقویٰ کے ساتھ قول سدید کا دامن پکڑیں (خطبه جمعه فرموده ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے قرآن کریم کی یہ آیات تلاوت کیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ ، وَ مَنْ يُطِعِ اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) (الاحزاب: ۷۱-۷۲) اور پھر فرمایا: قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جس طرح عبادت اور دعوت الی اللہ کا صبر کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے اسی طرح اصلاح اعمال کا قول سدید کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے.درحقیقت بہت سے انسانی خلق ہیں جو بعض خاص اوامر کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور آپس میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں اور ایک باقاعدہ نظم وضبط کے ساتھ انسانی فطرت کے اندر مختلف پہلوؤں میں اسی طرح ایک مربوط نظام نظر آتا ہے جس طرح ایک سائنسدان کو خدا تعالیٰ کی ظاہری کائنات میں ایک مربوط نظام نظر آتا ہے اور احکامات الہی کا بھی ان کے ساتھ ایک گہرا تعلق ہے جو اتفاقی نہیں بلکہ ایک گہرے نظم وضبط کے ساتھ وہ تعلق قائم ہے.قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ تمام الہی کتب میں سب سے زیادہ نظم اور ضبط
خطبات طاہر جلد ۴ 900 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء کے ساتھ اس تعلق کو قرآن کریم نے ظاہر فرمایا اور حیرت انگیز طریق پر ان مخفی اسرار کو روشن کیا جو پہلی قوموں کی نظر سے بھی اوجھل تھے اور پہلے مذاہب نے بھی ان کو اس طرح ابھار کر پیش نہیں کیا.مثلاً یہی آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں قول سدید کا جس طرح اعمال صالحہ کے ساتھ تعلق جوڑا گیا ہے.میری نظر میں کوئی اور ایسی الہی کتاب نہیں جس نے اس طرح قول سدید کو اعمال صالحہ کے ساتھ جوڑا ہو.اور امر واقعہ یہ ہے کہ قول سدید کا اعمال صالحہ کے ساتھ اتنا گہرا تعلق ہے کہ اس تعلق کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں معاشرہ میں بہت کثرت کے ساتھ برائیاں پھیل جاتی ہیں اور اس کا علم نہ ہونے کے نتیجہ میں علاج کی سمجھ نہیں آتی کہ علاج کیسے کیا جائے.اس کا تعلق نصیحت کرنے والے سے بھی ہے اور اس سے بھی ہے جس کو نصیحت کی جاتی ہے.سب سے پہلے تو نصیحت کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے میں یہ سمجھاتا ہوں کہ جب تک آپ کی نصیحت میں قول سدید نہ آجائے اس وقت تک آپ کی نصیحت اعمال صالحہ کی ترغیب دینے میں ناکام رہے گی، اصلاح احوال میں ناکام رہے گی کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے قُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ تم اگر اعمال کی اصلاح چاہتے ہو تو پہلے صاف اور سیدھی بات کرنا تو سیکھو.باتوں میں بیچ رکھتے ہو، بھی پائی جاتی ہے نیتیں کسی اور سمت میں رواں ہوتی ہیں ، بات کسی اور سمت میں چل رہی ہوتی ہے، مقصد کوئی اور بیان کیا جاتا ہے اور بات کسی اور ڈھب پر کی جاتی ہے.بظاہر ملائمت بھی بات میں ملتی ہے ،ملمع کاری بھی ہوتی ہے، نیک نیتوں کا ادعا بھی ہوتا ہے لیکن اس کے اندر بعض دفعہ ایسی چھریاں پوشیدہ ہوتی ہیں جو کاٹتی ہیں اور نصیحت کرنے والے کو اور بھی زیادہ متنفر کر کے دور ہٹا دیتی ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ بالا رادہ ہو بلکہ بسا اوقات بغیر ارادے کے یہ کام ہوتا چلا جاتا ہے اور لوگ محسوس نہیں کرتے کہ کسی معاشرہ پر کیوں کوئی نصیحت اثر انداز نہیں ہوتی اور نیک لوگوں میں بھی یہ بات پائی جاتی ہے.بدوں میں تو اتنی کھل کر پائی جاتی ہے کہ اس کی کسی وضاحت کی ضرورت نہیں ہے.جماعت احمدیہ کے کارکن چونکہ خدا کے فضل سے عمومی طور پر تقویٰ کے اعلیٰ معیار پر قائم ہیں اس لئے میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ وہ بھی اس کمزوری میں ملوث ہو جاتے ہیں اور ان کو علم نہیں ہوتا.مجھے چونکہ دنیا کے کونے کونے سے جماعت کے کارکن اپنی مشکلات سے آگاہ کرتے رہتے ہیں اور جو
خطبات طاہر جلد ۴ 901 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء دقتیں ان کو پیش آتی ہیں ان سے مطلع رکھتے ہیں اس لئے مجھے نسبتاً زیادہ آپ کے مقابل پر سہولت حاصل ہے کہ میں اندازہ کر سکوں کہ ہماری جماعت میں کارکنان کس رنگ میں نصیحت کرتے ہیں اور کیسی کیسی مشکلات ان کو در پیش ہیں.پہلی مشکل جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خود ان کی ہی پیدا کردہ ہے.وہ بات میں بعض دفعہ بیچ رکھتے ہیں ، بعض دفعہ سختی کرتے ہیں ، بعض دفعہ طعن پایا جاتا ہے، بعض دفعہ نیکی کا مخفی تکبر ہوتا ہے.ایک کمزور انسان کو اس کی کمزوری پر مطلع کرتے وقت ایسا انداز پایا جاتا ہے جس سے گویا یہ جتانا مقصود ہو کہ تم میں یہ بات ہے اور مجھ میں نہیں.تم مالی قربانی اس رنگ میں پیش کرتے ہو، میں اس رنگ میں پیش کرتا ہوں، میں خدمت دین کر رہا ہوں تم خدمت دین کو ٹھکرانے والے ہو.تم مجھے گھر پر پھیرے ڈلواتے ہو حالانکہ میں خدا کی خاطر خدا کے نام پر یہ کام کرنے کے لئے تمہارے پاس آیا تھا.یہ اور اس قسم کی بہت سی باتیں.ان میں سے ہر بات قول سدید سے ہٹی ہوئی ہے.مثلاً یہ کہنا کہ میں تو خدا کی خاطر تمہارے گھر کے پھیرے ڈالتا ہوں اور تم آگے سے یہ سلوک مجھ سے کر رہے ہو تمہارا کیا حال ہے.یہ قرآن کریم کے اصول کے مطابق ایک ٹیڑھی بات ہے جس کا حقیقت حال پر اگر آپ غور کریں تو اصلاح سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ گناہگار کر نے والی بات ہے.اسی مضمون کو قرآن کریم ایک دوسری جگہ یوں بیان کرتا ہے قُلْ لَا تَمُنُوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ (الحجرات : ۱۸) که ان سے کہہ دے کہ مجھ پر اپنا اسلام نہ جتایا کرو.اگر چہ یہ دوسرا رخ ہے لیکن بنیادی طور پر کمزوری وہی ہے یعنی بعض لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ پر بھی اپنا اسلام جتایا کرتے تھے.کمزوری وہی ہے جب یہ حد سے زیادہ بڑھ جائے تو یہ بھیا نک شکل بھی اختیار کر لیتی ہے کہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے اور یہ بتایا کہ ہم خدا کی خاطر، یہ یہ نیکیاں کرتے ہیں آپ کی خاطر یہ یہ نیکیاں کرتے ہیں معاشرہ نے ہم سے کیا سلوک کیا ہے.آپ نے ہم سے کیا سلوک کیا ہے یہ ہمارے حقوق ہیں جو نہیں دیئے جار ہے.اس قسم کی باتیں بعض احمق اور جاہل اس زمانے میں بھی کیا کرتے تھے اور خود حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے یہ باتیں کہا کرتے تھے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت میں اتنی حیا تھی کہ یہ سننے کے باوجود بھی جواب نہیں دیتے تھے.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف سے جواب دیا اور حکماً فرمایا
خطبات طاہر جلد ۴ 902 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء کہ ان کو بتا دو لا تَمُنُّوا عَلَى إِسْلَامَكُمْ اگر تمہارا اسلام ہے تو تمہاری خاطر ہے.اگر خدا کی خاطر تم یہ کام کرتے ہو تو میری ذات پر تمہارا کوئی احسان نہیں ہے.اس لئے اپنی نیکیوں کا اجر خدا سے مانگو اور اسی پر تمہارا حق بنتا ہے.مجھے یا میرے غلاموں کو کیا آکر بتاتے ہو کہ ہم نے یہ کیا اور ہم نے وہ کیا.پس یہ اسی بنیادی کمزوری کی بگڑی ہوئی صورت ہے.ایک آدمی جب خدا کے نام پر یہ عہد لے کر گھر سے نکلتا ہے کہ میں رضائے باری تعالیٰ کی خاطر جماعت کی خدمت کے لئے نکلا ہوں اور اپنے لئے نہیں بلکہ خدا کے نام پر ایک نیک کام کے لئے اپنی جھولی پھیلا رہا ہوں.تو اس کو پھر ان سب باتوں کے لئے تیار رہنا چاہئے.اس کی دل شکنیاں بھی ہوں گی لیکن ہر دل شکنی اگر وہ خدا کی خاطر صبر سے قبول کرے اس کا درجہ بڑھانے والی ہوگی.ہر دفعہ جب وہ کسی در سے لوٹا یا جائے گا تو ایک ایک قدم پر خدا اسے اتنے ثواب عطا فرمائے گا کہ بعض لوگوں کی عمر بھر کی نیکیاں بھی اس طرح ثواب حاصل نہیں کر سکتیں مگر یہ کہ نیتیں صاف ہوں اور بات سیدھی ہو.جب بھی کوئی انسان خدا کی خاطر نکلتا ہے تو قول سدید یہ ہے کہ اس کا کسی پر احسان نہیں ہے.نہ جماعت پر کوئی احسان ہے نہ اس شخص پر کوئی احسان ہے جس سے وہ کوئی نیک توقع رکھ کر گھر سے نکلا ہے جسے کوئی نیک بات کہنے کے لئے گھر سے نکلا ہے.جب یہ رخ انسان اختیار کرلے اور اپنے نفس کا پوری طرح تجزیہ کر کے اپنی نیتوں کو صاف کر کے گھر سے نکلے تو اس کے منہ سے کوئی کڑوی بات نکل ہی نہیں سکتی.جب بھی اس کی مخالفت ہوگی خدا کے نام پر اس کے دل میں ایک عجیب سرور کی کیفیت پیدا ہوگی ایک ایسی روحانی لذت پیدا ہوگی کہ باہر کی دنیا کا انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.وہ سوچ رہا ہو گا کہ اس بیچارے کو کیا پتہ کہ میرے اور میرے خدا کے درمیان اس وقت کیا راز و نیاز ہورہے ہیں.اس بیچارے کو کیا پتہ کہ اس کا ہر دھتکارنا مجھے اپنا سب سے زیادہ پیارے آقا کے نزدیک معزز کرتا چلا جارہا ہے.وہ جو کائنات کا مالک ہے مجھے اس کے قریب کر رہا ہے تو کون سا نقصان کا یہ سودا ہوا ہے.اللہ ہی کے ہاتھ میں عزتیں ہیں، اللہ ہی کے ہاتھ میں ذلتیں ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کے نام پر نکلے ہوئے انسان کو جب کوئی ذلیل کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو عزت بخشتا ہے، اسے زیادہ محبت اور پیار کی نظر سے دیکھتا ہے، پھر اس کا کیا حق ہے کہ دوسرے پر
خطبات طاہر جلد ۴ 903 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء احسان جتائے یا کوئی کڑوی بات اس سے کرے.ایک چیز دوسمتوں میں نہیں بیچی جاتی.یہ ہو نہیں سکتا کہ آپ ایک چیز کسی ایک شخص کو فروخت کر کے پھر کسی دوسرے سے بھی اس کے پیسے وصول کرنے کی کوشش کریں.قول سدید کا تقاضا ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کریں کہ آپ نے اپنی قیمت کس سے وصول کرنی ہے اپنے رب سے یا اس شخص سے جس کو محض خدا کی خاطر آپ سمجھتے ہیں یا ادعا کرتے ہیں کہ کوئی نیک بات کہنے کے لئے نکلے ہیں.یہ صرف مالی امور سے تعلق رکھنے والی بات نہیں.نمازوں کی نصیحت کرنے کے لئے میں نے گزشتہ خطبہ تلقین کی تھی وہاں بھی یہی مسئلہ آپ کو در پیش آئے گا.عبادت کے لئے آپ کہیں گے کسی کی خاطر اس سے کچھ مانگ بھی نہیں رہے لیکن بسا اوقات بہت سی کڑوی باتیں سننے میں آئیں گی.اس وقت اپنا دل گردہ مضبوط کریں اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے صبر کا عبادت کے ساتھ بڑا تعلق ہے.نہ صرف یہ کہ ہمت نہیں ہارنی اور صبر کے ساتھ اس پر قائم رہنا ہے بلکہ اپنے ذہن میں یہ بات کھلی کھلی صاف کر لیں کہ جس ذات کی خاطر آپ یہ کام کر رہے ہیں آپ کی ساری نیکی اور سارا اجر اس سے ملنا ہے.نہ جماعت پر کوئی احسان ہے نہ اس شخص پر کوئی احسان ہے جسے آپ نصیحت کرتے ہیں اس لئے اس پر اپنی نیکی کی برتری جتانا بھی ایک گناہ بن جاتا ہے.اگر اس رنگ میں آپ اس سے بات کریں کہ بے نمازی ! خدا کا خوف نہیں کرتے اور کیا مرداروں والی زندگی بسر کر رہے ہو ایسا بھی لوگ کہہ دیتے ہیں.لاہور کے ایک مرہم عیسی صاحب بزرگ ہوا کرتے تھے بہت دلچسپ باتیں کیا کرتے تھے.ان کی نماز کے مسئلہ پر کسی سے گفتگو ہوگئی تو گفتگو کے دوران جب بحث تیز ہوگئی تو ایک نے دوسرے کو یہ کہا کہ تو تو ایسا بے نمازی ہے کہ جب تک خدا تجھے یہ نہ کہے کہ اٹھ اوئے سورا نماز پڑھ اس وقت تک تم نماز نہیں پڑھو گے.اب ان صاحب کی چونکہ سخت کلامی کی عادت تھی اس لئے انہوں نے اٹھ اوئے سورا نماز پڑھ خدا کی طرف بھی منسوب کر دیا.ایسی نصیحتیں تو رد عمل پیدا کرتی ہیں.غصہ غصے کے بچے پیدا کرتا ہے تلخ بات دل میں تلخی پیدا کرتی ہے اور اس نیکی سے بھی محروم کر دیتی ہے جو اس تلخ بات کے اندر لیٹی ہوئی ہے.ایک بری چیز بھی اگر آپ خوبصورت کاغذ میں لپیٹ کر پیش کریں تو اس کے قبول ہونے کا زیادہ امکان ہے یہ نسبت اچھی بات کے جسے برے کاغذ
خطبات طاہر جلد ۴ میں لپیٹ کر پیش کریں.904 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء چنانچہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ حسنہ بات حسن طریق پر پیش ہونی چاہئے.خوبصورت بات خوبصورت رنگ میں پیش ہونی چاہئے.آنحضرت نے بھی نمازوں کی تلقین فرمائی ہے لیکن ایسا درد پایا جاتا ہے اس تلقین میں ایسا، پیار ہے ، ایسا تسلسل ہے، ایسا صبر ہے کہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.کامل حسن کسی نے دیکھنا ہو تو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت میں دیکھے اور حیرت انگیز طور پر ان لوگوں کو جو دنیا میں ڈوبے پڑے تھے ان کوخدا والا بنادیا اور دیکھتے دیکھتے ان کی کایا پلٹ دی.پس نماز کی نصیحت کرنی ہو یا چندوں کی طرف بلانا ہو، خدا کے لئے قربانی کے لئے تحریص پیدا کرنی ہو جو بھی شکل ہو آپ قول سدید کے بغیر اس میں کامیاب نہیں ہو سکتے.سدید کا معنی عملاً سیدھا ہے لیکن اس میں صرف سیدھا پن نہیں پایا جاتا.ایسی بات جو دوسری الائشوں سے پاک ہو دوسری کسی چیز کی آمیزش نہ پائی جاتی ہو ، سیدھی سادی کھری بات کوئی ٹیڑھا پن نہ ہو، اس میں ایک بہت بڑی قوت پیدا ہو جاتی ہے، اس میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے اور غیر معمولی طور پر کامیابیاں نصیب ہوتی ہیں.دوسری بات اس کے برعکس یہ بنتی ہے کہ جن لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے ان کو بھی اگر قول سدید کی عادت نہ ہو تو وہ نصیحتیں دائیں بائیں اس طرح بکھیر دیتے ہیں جس طرح گٹکے کے دو کھلاڑی مقابلہ کر رہے ہوں.ایک وار کرنے کی کوشش کرتا ہے دوسرا اس وار کو ٹال دیتا ہے کبھی پینترا بدل کر کبھی اپنے ڈنڈے سے روک کر اور پوری کوشش ہوتی ہے کہ مجھ پر وار پڑے نہیں.چنانچہ نصیحت کے مقابلے میں بھی صرف یک طرفہ کھیل نہیں ہے بلکہ وہ لوگ جن کو نصیحت کی جاتی ہے وہ بھی بڑے بڑے گنتکے کے کھلاڑی ہوتے ہیں.ان میں بھی ٹیڑھی بات کرنے کی ایسی عادت ہوتی ہے کہ فوری طور پر نفس کوئی بہانہ ڈھونڈتا ہے اور کوئی نہ کوئی عذر تلاش کر لیتے ہیں.وہ عذر جو ہیں وہ بعض دفع تلخی کا رنگ اختیار کر جاتے ہیں.بعض دفعہ ملائمت سے پیش کئے جاتے ہیں مگر دونوں صورتوں میں وہ ٹیڑھا پن ہے ان میں کوئی سچائی نہیں.جب یہ بات معاشرے میں پیدا ہو جائے کہ نصیحت سننے والا فوراً بہانہ تلاش کرے اور کوئی عذر تلاش کرے کہ یہ نصیحت میرے دل پر اثر نہ پیدا کرے.یہ بات پھر وہیں تک نہیں رہتی اس کا اگلا قدم پھر وہ یہ اٹھاتے ہیں کہ جوابی حملہ کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۴ 905 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء ایک آدمی نصیحت کرنے گیا ہے کہ آپ کی بیٹی پردہ نہیں کر رہی اور بڑا برا اثر پڑتا ہے.آج کل احمدیت کس دور میں سے گزر رہی ہے یہ آپ دیکھیں تو سہی اور اسی معاشرہ میں اسی فوج میں جس میں آپ بس رہے ہیں آپ کی بیٹیاں غیر مردوں کے ساتھ خلاملا کر رہی ہیں، پارٹیوں پر جاتی ہیں اور بجائے قوم کو یہ جواب دینے کے کہ تم سے بہتر ہم مسلمان ہیں جو اسلام کی حفاظت کرنے والے ہیں انہوں نے تو ساری اقدار ہاتھ سے کھو دی ہیں اور ہم ہیں جو اس نہایت ہی بدتر حالت میں بھی نہایت دکھوں کی حالت میں زندگی گزارتے ہوئے بھی اسلام کی اقدار کی حفاظت کر رہے ہیں.اس کی بجائے وہ جب ان جیسا بنے کی کوشش کرتی ہیں اور سمجھتی ہیں کہ عزتیں اس میں ہیں کہ ہمیں قدیم نہ سمجھا جائے ہم ان جیسی ہی بن جائیں.شاید اس سے معاشرہ کی تلخی کم ہو جائے تو کتنا برا اثر پڑتا ہے ایک جیتا ہوا میدان آپ گویا عملاً اپنے ہاتھ سے کھو دیتے ہیں.جب یہ بات کوئی کہتا ہے تو کئی ڈھب سے یہ بات کی جاسکتی ہے.بعض نہایت ہی لجاجت سے شرم و حیا کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہماری بھی بہو بیٹیاں ہیں ہم آپ پر کوئی اعتراض نہیں کرنے آئے لیکن ایک چیز ہے جو مجھے تکلیف دے رہی ہے.بعض لوگ کھل کر بات کرتے ہیں لیکن تلخی بیچ میں شامل کر لیتے ہیں.لیکن جواب دینے والوں کا حال بھی ان سے کم نہیں ہوتا.بعض دفعہ تو جب آپ اس قسم کی نصیحت کرتے ہیں تو جوابا یوں معلوم ہوتا ہے کہ ڈنڈا مارا گیا ہے.کہتے ہیں تمہاری بیٹی جو فلاں وقت فلاں جگہ دیکھی گئی تھی اس کی ہوش نہیں کرتے.تمہاری پھوپھی نے یہ کیا، تمہاری ماں نے یہ کیا تمہاری بہن نے یہ کیا اور آئے ہو مجھے نصیحت کرنے کے لئے.تو دونوں طرف سے ایک دنیاوی مقابلہ تو شروع ہو جاتا ہے، نیکی کے ساتھ نہ نصیحت کرنے والا کا تعلق رہتا ہے نہ نصیحت سنے والے کا تعلق رہتا ہے.دیکھنا یہ ہے کہ اگر بات حق ہے تو اس پر کیا ردعمل ہونا چاہئے ؟ قول سدید کرنے والے کا رد عمل یہ ہو گا کہ وہ کہے گا کہ میں نے سن لیا ہے مجھے علم ہے یا مجھے علم نہیں تھا تو آپ نے بتا دیا اور آپ بھی دعا کریں میں بھی دعا کرتا ہوں اور کوشش کرتے ہیں اور مشورہ کرتے ہیں کس طرح اس بچی کی اصلاح کی جائے.یہ قول سدید ہے.لیکن جو اطلاعیں مجھے ملتی ہیں بدقسمتی سے اکثر صورتوں میں نصیحت کرنے والے نے کم عقلی سے کام لیا ہوتا ہے اور بات کو ٹیڑھا کر کے پیش کیا ہوتا ہے اور نصیحت سنے والا ایسا خوفناک ردعمل دکھاتا ہے گویا اس کی ذات پر حملہ کیا گیا ہے اسے نصیحت نہیں کی گئی.نتیجے
خطبات طاہر جلد ۴ 906 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء معاشرہ اور برائیوں سے بھرنے لگتا ہے.طعن و تشنیع ، مقابلے، ایک دوسرے سے عناد، یہ خیال کہ اس شخص نے میرے متعلق یہ بات کہی ہے اور بھی کی ہوگی گویا مجھے معاشرہ میں بدنام کرتا ہے.میں اس کے اندر کیڑے نکالوں، میں اس کی برائیاں لوگوں کو بتاؤں.تو یہ عجیب نصیحت ہے کہ جو معاشرہ کو برائیوں سے پاک کرنے کی بجائے مزید برائیاں بھرتی چلی جاتی ہیں.اس لئے نصیحت کرنے والے پر جہاں ضروری ہے کہ وہ بھی قول سدید سے کام لے وہاں نصیحت سننے والے کا بھی یہ کام ہے کہ غور کرے کہ آخر یہ شخص کیوں مجھے کہ رہا ہے.اگر وہ یقین بھی رکھتا ہو کہ بدنیت سے کہہ رہا ہے تو بات پر غور کرے کہ بات سچی ہے یا نہیں بچی.اگر بات سچی ہے تو بدنیت کا کہنا ہو یا اچھی نیت کا کہنا ہو اس کے فائدے میں ہے اس لئے اچھی بات کو قبول کرنا چاہئے.آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: الحكمة ضالة المومن (سنن ترندى كتاب العلم حدیث نمبر ۲۶۱۱) حکمت کی بات تو مومن کی گم شدہ اونٹنی کی طرح ہے.وہ جہاں سے بھی ملے گی اسے قبول کرنا ہوگا اور قبول کیا جاتا ہے.یہ تو کوئی نہیں کہتا کہ کسید شمن کی طرف سے مجھے اونٹنی ملی ہے، میری اونٹنی تھی مگر دشمن نے دی ہے اس لئے میں نہیں لوں گا.تو نصیحت کی بات بھی حکمت کی بات ہوتی ہے اور اسے مومن کو اپنی سمجھ کر قبول کرنا چاہئے.یہ بیماری بد قسمتی سے عموماً مستورات میں زیادہ پائی جاتی ہے اور لجنہ کی رپورٹوں میں اس قسم کی شکایات نسبتاً زیادہ ملتی ہیں اور دونوں طرف یہ بڑی نمایاں طور پر بیماری دکھائی دیتی ہے کہ نصیحت کرنے والیاں بھی عموماً کچھ نہ کچھ ایچ بیچ رکھ لیتی ہیں اور جن کو نصیحت کی جاتی ہے وہ بھی پھر آگے سے ویسے ہی رد عمل دکھاتی ہیں.مثلاً پردے کے سلسلہ میں رپورٹیں ملتی ہیں اور بعض اطلاعیں تکلیف دیتی ہیں کہ بعض خاندانوں میں جہاں پہلے پر دہ شروع کیا گیا تھا اب وہ سمجھتے ہیں کہ اب دیکھ بھال کی نظر دور ہوگئی ہے اس لئے بے شک اب بے پرواہ ہو جائیں اور بعض بچیاں پردوں میں واپس آکر پھر باہر نکلنی شروع ہو گئی ہیں.ان کے متعلق جو اطلاعیں ملتی ہیں اس سے میں سمجھتا ہوں کہ نصیحت کرنے والیوں کا بھی قصور ہے.قول سدید سے ہٹنے کا ایک یہ بھی منظر وہاں نظر آتا ہے کہ قول سدید تو اس کی طرف رخ رکھنا چاہئے جس تک بات پہنچانی ہو مگر عورتیں قول سدید چھوڑ کر وہاں بات پہنچاتی ہیں جہاں پہنچانے کا تعلق ہی کوئی نہیں.یعنی قول سدید کا یہ معنی ہے کہ تمہارا نشانہ سیدھا ہو.جس سے تعلق
خطبات طاہر جلد ۴ 907 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء ہے اس تک بات پہنچاؤ.یہ مطلب تو نہیں کہ بے تعلق جگہوں پہ بات پہچانی شروع کرو.ہر طرف تیر چلے سوائے نشانے کے اور بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ مہینوں گزر جاتے ہیں وہ بدی بڑھ رہی ہوتی ہے اس تک پہنچ کر اسے ہمدردی کے ساتھ نصیحت کرنے والا کوئی نہیں ملتا اور سارے معاشرے میں یہ باتیں شروع ہوتی ہیں کہ دیکھو فلاں کی بیٹی ہے.فلاں ہے، فلاں ہے، فلاں عہد یدار سے اس کا تعلق ہے اور اس طرح بے حیائی کر رہی ہے، اسے کوئی نہیں روکتا.نتیجہ اس کا دو ہر انہیں بلکہ کئی گنا زیادہ گناہ ایسی بات کرنے والے کو ہورہا ہوتا ہے.اول تو جس مقصد کی خاطر نصیحت ہونی چاہئے یا تنقید ہونی چاہئے اس مقصد کا اس تنقید سے کوئی بھی تعلق نہیں رہتا.دوئم معاشرہ میں مایوسی پیدا ہوتی ہے، فحشاء پھیلتی ہے، لوگ یہ ظن کرنے لگتے ہیں کہ بعض عہد یدار دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں اپنی بچیوں کو نصیحت نہیں کرتے.دوسروں کے او پر باتیں کرتے ہیں اگر وہ کرتے ہوں اور اپنوں کی ان کو کوئی فکر نہیں اور یہ جو تبصرہ ہے اگر درست بھی ہو تو جو برائی میں ملوث ہے نہ اس کو پہنچ رہا ہے نہ اس عہدہ دار کو پہنچ رہا ہے جس کے متعلق باتیں ہو رہی ہیں اور جن تک پہنچتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہاں پھر کھلی چھٹی ہے، اگر یہ ہوتا ہے تو پھر اسی طرح چلے پھر ہم کیوں کریں اس طرح.گویا کہ حسن کا نمونہ پکڑنے کی بجائے بدی کا نمونہ پکڑنے کا رحجان معاشرہ میں پھیلنے لگتا ہے اور یہاں بھی چونکہ نصیحت قول سدید سے ہٹ گئی ہے اس لئے دیکھ لیجئے کہ اچھائی کی بجائے برائی پیدا کر دی.معاشرہ سے خرابی دور کرنے کی بجائے اس میں ایک بدی کا اضافہ کر دیا بلکہ کئی بدیوں کا اضافہ کر دیا اور غیبت کے نتیجے میں جو ایک بدی کا الگ گناہ ہے وہ بھی کمایا جاتا ہے.تو نصیحت سے قول سدید کا اتنا گہرا تعلق ہے کہ کسی پہلو سے کسی صورت میں بھی اس کو آپ بھلا نہیں سکتے.اگر بھلا ئیں گے تو شدید نقصان پہنچے گا.جس شخص سے تعلق ہے بات کا سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس تک پہنچائی جائے اور پہنچائی اس طریق پر جائے کہ وہ یہ نہ سمجھے کہ کوئی شریکے کا غصہ اتار رہا ہے، مجھ سے کوئی اور بدلہ اتارا جارہا ہے یا نیچا دکھایا جارہا ہے.ایک دو تین چار پانچ جتنی دفعہ بھی ممکن ہو کوئی شخص اس کو ملے اور محبت اور پیار اور ادب کے ساتھ اس کو علیحدگی میں بتائے کہ آپ کے اندر یہ کمزوری ہے جو اچھی بات نہیں اور ہر ایک اس طرح کرنے کی کوشش کرے جو بھی اس کے ماحول میں بستا ہے.تو پھر دیکھیں کہ معاشرے کی طرف سے کتنا عظیم دباؤ پیدا ہو جاتا ہے.زندگی
خطبات طاہر جلد ۴ 908 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء یسے شخص کی بدمزہ ہو جاتی ہے جسے ہر طرف سے نصیحت مل رہی ہو.اسے کسی طرح اپنی بدی کا مزہ نہیں آتا.امر واقعہ یہ ہے کہ بدی Enjoy کرنے کے لئے ،اس کا لطف اٹھانے کے لئے بھی معاشرہ کی دخل اندازی نہ ہو زیادہ دلچسپ ماحول میسر آتا ہے.چنانچہ جن معاشروں میں بدیاں خوب لذت کے ساتھ مگن ہو کر کی جاتی ہیں اس معاشرہ کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ وہ ایک دوسرے میں بالکل دخل نہیں دیتے ، ایک دوسرے کو روکتے نہیں ہیں.چنانچہ جہاں جہاں جس جس معاشرہ میں بدی کی لذت پائی جاتی ہے وہاں یہ دوسرا پہلو بھی ضرور موجود ہوتا ہے.یورپ آپ کے سامنے پڑا ہے، امریکہ آپ کے سامنے ہے دیگر قوموں میں بھی صرف یورپ امریکہ کا اب سوال نہیں رہا.جن کو پسماندہ قومیں کہتے ہیں ان میں بھی یہ بات پھیل گئی ہے کہ بدی کے مزے لوٹو لیکن اس شرط کے ساتھ کہ کوئی دوسرا اس میں دخل نہ دے.کسی کا آپ کو کچھ کہنے کا کوئی حق نہیں.کیوں اس بات کی احتیاط کی جاتی ہے؟ اس لئے کہ بدی کا مزہ ختم ہونا شروع ہو جاتا ہے اگر کوئی دوسرا کہنا شروع کر دے کہ آپ نے نہیں کرنا.یہاں تک کہ آدمی بیزار ہو جاتا ہے کہتا ہے دفع کرو اس چیز کو.ہر طرف سے لوگ یہ آواز اٹھا رہے ہوتے ہیں کہ دیکھیں آپ یہ کام نہ کریں، آپ یہ کام نہ کریں.آپ یہ کام نہ کریں.چنانچہ قرآن کریم جب فرماتا ہے.فَذَكَرُ انُ نَفَعَتِ الذِّكْرُى (الاعلى: ۱۰) تو اس کا ایک یہ بھی معنی ہے.دسر میں شدت بھی پائی جاتی ہے.کثرت کے ساتھ نصیحت کرو ہر طرف سے نصیحت کی آواز اٹھنی چاہئے.اور بڑے زور کے ساتھ اٹھنی چاہئے.جب تم کرو گے تو لازماً اس کا اثر پڑے گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ معاشرہ میں ہر طرف آواز اٹھنی شروع ہو جائے اور وہ آواز بے اثر جائے.پردہ ہو یا کوئی دوسری ایسی نیکی ہو جس سے بعض طبقے محروم رہ رہے ہیں ان کو دوبارہ اس نیکی پر قائم کرنے کے لئے قول سدید کا اختیار کرنا اشد ضروری ہے.آپ ان کے متعلق باتیں کرتے ہیں لیکن ان تک نہیں پہنچاتے.جن تک پہنچاتے ہیں ان کو بد بنانے کے لئے پہنچاتے ہیں.معاشرہ میں اور گند بھرنے کے لئے پہنچاتے ہیں.اپنی زبان کے چسکے کے لئے بظاہر آپ نے ایک نیکی کا کام پکڑا ہوا ہے جو سارے معاشرے کو تباہ کر دے گا.اس لئے وہاں ستاری سے کام لینا چاہئے بجائے
خطبات طاہر جلد ۴ 909 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء اس کے کہ فحشاء کریں.اس موقع پر ایک ستاری کی صفت ہے اسے بھی تو اپنایا کریں بجائے اس کے کہ کسی کی بدی کھول کھول کر لوگوں میں بیان کرنا شروع کریں.ستاری کا معنی یہ ہے کہ لوگوں سے چھپائیں اور اس سے بھی علیحدگی میں بات کریں اور درد دل کے ساتھ بات کریں اور بار بار کریں.وہ ناراض بھی ہو تو ہمدردی سے کہیں کہ دیکھیں ہمارا تو کام ہے، ہمیں تو خدا نے اس کام پر مقرر فرمایا ہے ہم تو آپ کو کہیں گے.لوگوں کے گھروں میں اس نیت سے جائیں گے ایک جاتا ہے ، دوسرا جاتا ہے، ایک خاتون آتی ہے تو کوئی دوسری چلی جاتی ہے.اور بار بار آ کر کسی بی بی کو سمجھا رہی ہیں کہ بی بی آپ نے یہ فعل کیا ہے مزہ نہیں آیا یہ اچھی بات نہیں ہے آپ دیکھ نہیں رہیں کہ احمدیت پر کیا حالات ہیں لوگ انگلیاں اٹھائیں گے اور کچھ نہیں تو شماتت اعدآء کی خاطر ہی اس سے بچنے کی خاطر ہی آپ کچھ اپنے اندر تبدیلی پیدا کریں.اس نیت سے اگر آپ چھپیں گی تو وہ کوئی منافقت تو نہیں وہ تو ایک نیک ارادہ کی خاطر اپنی بدی پر پردہ ڈھانپنے والی بات ہے.اور کچھ نہیں تو یہی سہی.یہ نصیحت براہ راست اس کو دور کرنے کی نصیحت ، قرآن کریم کی کوئی آیت تلاش کر کے اس کا ترجمہ بتانے کی ضرورت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کوئی عبارت لے کر اس سے مرصع ہو کر نکلے اور وہ جا کر اس کے سامنے پیش کرے، نصیحت کے کئی طریقے ہیں بڑے اچھے اچھے اور پیارے پیارے.ان سب کو آپ اختیار کریں تو پھر رپورٹوں کی ضرورت نہیں باقی رہتی.لیکن پھر اگر رپورٹ کرنی ہے تو پھر طریق کار کے مطابق رپورٹ کریں.جس جماعت کے عہدیدار سے اس کا تعلق ہے اس کے پاس پہنچیں اسے بتائیں کہ ہم یہ یہ کوششیں کر چکے ہیں، اب ہمارے بس کی بات نظر نہیں آتی ، آپ کوشش کریں کہ کوئی قدم اٹھایا جائے اس کی بجائے اچانک پہلے تو لوگ معاشرہ کو خود گندہ کرتے ہیں اور پھر اچانک یہ توقع رکھتے ہیں کہ فورا اس شخص کو کاٹ کر جماعت سے باہر پھینک دیا جائے.یعنی یہ ہمدردی ہے اور تمہارے تقویٰ کا یہ رخ ہے کہ جب تک عضو بیمار تھا اس کو صحت مند کرنے کی طرف تو توجہ کوئی نہیں کی اور جب کاٹنے کا وقت آیا ہے تو بڑی دلیری کے ساتھ جس طرح بڑا آسان کام ہے جماعت سے کاٹ کر الگ کرنا اس طرح تم اس کو کاٹ کر الگ پھینکنا چاہتے ہو.کوئی سچی ہمدردی نہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو فرماتے ہیں کہ مومن کا حال تو ایک بدن کا حال ہے ایک انگلی کو بھی تکلیف ہو تو سارا بدن بے چین
خطبات طاہر جلد ۴ 910 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء ہو جاتا ہے (صحیح مسلم کتاب البر والصله باب تراحم المؤمن و تعاطفهم) یہ بے چینی اگر محسوس ہو تو کبھی ہو نہیں سکتا کہ انگلی کو کوئی تکلیف ہو تو انسان کہے کہ کوئی بات نہیں ہوتی ہے بلکہ Enjoy کرنا شروع کرے اس پر لطف اٹھانا شروع کر دے کہ بڑا مزہ آ رہا ہے اس کو تکلیف ہے اب اس کو اور بھی اگر انگلی سمجھ سکتی ہے تو اس کو طعنے بھی دوں گا کہ دیکھ لیا تم یہ کس مزے میں تم زندگی بسر کر رہی ہو.تم نے یہ حرکت کی تھی اب یہ اس کا دکھ اٹھا رہی ہو.یہاں تک کہ تکلیف بڑھنی شروع ہو جائے بڑھتی چلی جائے.پھر وہ خوشی خوشی ڈاکٹر کے پاس جائے کہ اب اس کو کاٹو اور پھینکو.پاگل پن کے سوا اس رویے کو اور کوئی کیا کہہ سکتا ہے.پس بدن کی مثال دے کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معارف کا ایک اور مضمون بھی ہم پر کھول دیا.اصلاح معاشرہ کے اندر جو مخفی امور کار فرما ہیں ان پر ایک اور جہت سے بھی روشنی ڈال دی.آپ نے فرمایا کہ تم دوسروں سے بھی معاشرہ کی اصلاح کے وقت ویسا ہی سلوک کرو جیسا اپنے بدن کے کسی چھوٹے سے چھوٹے عضو سے کرتے ہو.مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جب قول سدید سے بات بنتی ہے تو پھر خرابیوں پر خرابیاں پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں اصل نشانے پر نہیں لگتی اور غلط نشانوں پرلگتی ہے، جس کو بچانا ہے اس کو بچانے کی بجائے دوسروں کو مارنا شروع کر دیتی ہے.تو بیمار انگلی ہو اور آپ ہاتھ یا بازو کاٹ دیں ویسی ہی بات ہوگئی.اردو میں محاورہ ہے ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ کہ ماروں گھٹنا تو آنکھ پھوٹ جائے.مطلب یہ ہے کہ نیت کسی اور چیز کی کروں اور نقصان کسی اور جگہ ظاہر ہو جائے.تو ایسی نصیحتیں تو اسی قسم کا اثر دکھاتی ہیں کہ جس جگہ جس بیمار حصے کی اصلاح مقصود ہو اس کی تو نہیں کر سکتیں اور جو صحت مند حصہ بیچارا بچا ہوا تھا اس کو بیمار کر دیتی ہیں.لین دین کے معاملات ہیں ان میں بھی یہی کیفیت ہے.اکثر لین دین کے معاملات میں خرابیوں کی جڑ ٹیڑھی بات ہے.جب دو آدمی مل کر ایک کام کرتے ہیں یا کوئی لین دین کا معاملہ کرتے ہیں تو شروع میں ہی ٹیڑھی باتیں ہیں، ملمع کاری کی باتیں ہیں جو آئندہ خرابیوں کی بنیاد ڈال دیتی ہیں اور جب معاملہ حد سے گزر جاتا ہے پھر وہی مطالبے دونوں طرف سے شروع ہو جاتے ہیں کہ اب اس کو کاٹو اور پھینکو.یہ اچھا احمدی معاشرہ ہے جس میں اس قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ بسا اوقات خرابی دونوں طرف سے ہوتی ہے.صرف ایک طرف سے نہیں ہوتی.ایک شخص
خطبات طاہر جلد ۴ 911 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء دھوکہ دے کر لالچ دیتا ہے دوسرا عمداً سمجھتے ہوئے کہ یہ طریق کار اسلام میں جائز نہیں ہے اس لالچ کو قبول کر لیتا ہے.چنانچہ لین دین کے بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں دونوں طرف کی ایسی خرابیاں موجود ہیں.ایک فریق اپنے آپ کو کلیۂ معصوم سمجھ رہا ہے حالانکہ یہ درست نہیں ہوتا.مثلاً کئی معاملات ہیں، ایک میں مثال آپ کو کھول کر بتا تا ہوں کہ ایک شخص آیا ہے وہ کہتا ہے میرے ساتھ تجارت کرو اور میں تمہیں پچیس فیصدی یا چالیس فیصدی سالانہ منافع دوں گا.اب ظاہر بات ہے کہ چالیس فیصدی سالانہ دینا اور اس کا نام منافع رکھنا یہ دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہے.جب Fixed Profit ہے، جب نفع معین ہو گیا تو اس کو نفع کہنے کا تو پھر حق ہی نہیں باقی رہتا.اس کو تو اسلامی اصطلاح میں سود کہا جاتا ہے.مدت معین ہو گئی ، نقصان کا کوئی احتمال باقی نہیں چھوڑا ، رقم معین ہوگئی اور منافع نام رکھ دیا.اب کوئی دوسرا آدمی جو جان کر بھولا بن جائے اور منافع کہہ کر اس کو قبول کرلے اور بعد میں مقدمے لے کر جماعت کے پاس آجائے کہ یہ مجھ سے تو بڑا دھوکہ ہو گیا ہے، وہ بڑا شریف آدمی بنتا تھا اور اس طرح میرا منافع کھا گیا ہے تو تقویٰ سے کام نہیں لیتا.اس کو سوچنا چاہئے کہ منافع کیا تم نے سود خوری کی خاطر ایک بہانہ ڈھونڈا تھا اور تمہاری اس بدی سے اس نے فائدہ اٹھایا.اگر تم میں تقویٰ ہوتا تو اسی وقت تم سمجھ جاتے کہ یہ معاملہ غلط ہے.تم کہتے کہ اس اصول پر میں ہرگز کام کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں.اگر منافع ہوتا ہے تو منافع ہوگا اگر نقصان ہوتا ہے تو نقصان ہوگا اور میں ایسے ذرائع اختیار کروں گا کہ میرا روپیہ تمہارے پاس محفوظ رہے.یہ چیز ذرائع کو محفوظ کرنا اور عقل سے کام لینا اور ایسی ضمانتیں طلب کرنا کہ جس سے روپیہ نقصان میں نہ جائے تب ہی پیدا ہوسکتی ہے اگر نفس انسان کو دھوکا نہ دے.پچیس فیصدی یا چالیس فیصدی کی لالچ ایسا مغلوب کر دیتی ہے آدمی کو کہ آدمی سمجھتا ہے کہ اگر یہاں میں نے سودا بازی کی تو یہ پھر مجھے چھوڑ دے گا،کسی اور کے پاس چلا جائے گا اس لئے عملاً شروع میں ہی اپنے نقصان کے اقدامات وہ خود کر لیتا ہے اور اس بات کی ہمت نہیں پاتا کہ اس سے کھل کر ضمانتیں طلب کرے.چنانچہ جب یہ معاملہ آگے بڑھتا ہے تو لازماً اس معاملہ نے بدی پر منتج ہونا ہے کیونکہ اس کا آغاز ہی بدی ہے اور جب ہو جاتا ہے تو پھر دونوں فریق جماعت سے اپنے حق میں فیصلے چاہتے ہیں اور اگر کسی کے حق میں فیصلہ نہ ہو تو کہتا ہے دیکھ لو یہ انصاف ہے.ہر معاملہ جس کی آپ چھان بین
خطبات طاہر جلد ۴ 912 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء کریں گے، ہر معاملہ جس کی تہ تک اتریں گے وہاں آپ کو قول سدید سے ہٹنا دکھائی دے گا.قول سدید سے پہلا قدم ہٹ جاتا ہے تو معاملہ کا رخ بدل جاتا ہے.مقصد گندا ہو جاتا ہے رخ ہی تبدیل ہو جاتا ہے اس لئے پھر اس کے اچھے نتائج کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے لین دین کے معاملات ہوں اس میں بھی قول سدید ضروری ہے اور چھان بین کرنی چاہئے.یہ درست ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی شکایتیں کم ہو گئی ہیں لیکن ہیں ابھی تک اور اس فضا میں یہ بہت ہی زیادہ تکلیف دیتی ہیں.پہلے بھی دیتی تھیں لیکن اب تو بہت ہی زیادہ حیرت ہوتی ہے کہ یہ کوئی دن ہیں احمدیوں کے آپس میں لڑنے کے یا بد معاملگیاں کرنے کے.آپس میں معاملات درست کرو اپنے خدا کے ساتھ معاملے درست کرو، تقویٰ سے کام لو، بعض نیکیاں بعض دنوں میں عام فائدہ دیتی ہیں مگر بعض دنوں میں بہت ہی زیادہ فائدہ دیتی ہیں.اسی طرح بعض بدیاں ہیں جو عام دنوں میں ایک نقصان رکھتی ہیں لیکن بعض دنوں میں بہت ہی زیادہ نقصان رکھتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ یہودیوں کی بعض بدیاں جو سبت کے دن وہ کرتے تھے وہ خدا تعالیٰ کی نظر میں غیر معمولی طور پر آئیں اور قرآن کریم نے بار بار ان کا ذکر فرمایا کہ سبت کا دن جو خاص عبادت کا دن تھا اس میں وہ لوگ ان بدیوں میں ملوث ہوتے تھے تو بعض زمانے ہوتے ہیں وہ بھی یہی تقدس اختیار کر جاتے ہیں جیسے سبت کا تقدس تھا کسی زمانہ میں یااب جمعہ کا تقدس ہے.ان زمانوں میں خصوصی احتیاط کی ضرورت ہے.عام حالات میں بھی معاملات کو خوش اسلوبی سے نبھانا اور صاف ستھرا رکھنا ایک مومن کا خاصہ ہونا چاہئے لیکن ان حالات میں بد معاملگیاں تو بہت ہی زیادہ تکلیف دہ صورت پیدا کر دیتی ہیں.پھر معاشرہ کے اندر جو میاں بیوی کے تعلقات میں یا بچوں کے اور ماں باپ کے تعلقات میں دکھ ہیں وہ بھی اس لائق ہیں کہ ان کی طرف جماعت خصوصی توجہ دے.بہت سی شکایات ایسی ماتی ہیں بعض ماؤں کی طرف سے ہیں ، بعض باپوں کی طرف سے ہیں اپنے بچوں کے متعلق یا اپنی بہو بیٹیوں کے متعلق.اسی طرح برعکس معاملہ ہے کہ بیوی کی خاوند کے خلاف شکایت ہے خاوند کی بیوی کے خلاف شکایت ہے اور ان سب معاملوں میں کچھ نہ کچھ بھی پائی جاتی ہے.اکثر تو میں نے دیکھا ہے کہ شادی کا معاملہ جب طے ہو رہا ہوتا ہے ساری خرابیوں کا بیج اس وقت بود یا جاتا ہے.اکثر
خطبات طاہر جلد ۴ 913 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء شکایتوں میں یہ بات نظر آتی ہے کہ جب شادی ہوئی تھی تو ہمیں یہ بتایا گیا تھا اور اب یہ نکلا.کبھی بیوی شکایت کرتی ہے، کبھی خاوند یہ شکایت کرتا ہے کہ فلاں بیماری ہم سے چھپائی گئی.اب جب یہ گھر آئی تو پتہ لگا کہ اس بیماری میں ملوث ہے اور یہ ایسی چیز ہے جو میری طبیعت اس کو برداشت نہیں کر سکتی.میں کیا کر سکتا ہوں.بعض دفعہ بتایا جاتا ہے کہ یہ کہا گیا تھا کہ مالی لحاظ سے یہ حیثیت رکھتا ہے اور بڑے سبز باغ دکھائے گئے تھے.جب ہم نے شادی کر لی تو پتہ چلا کہ بالکل برعکس قصہ ہے.تو ایسے معاملات بھی ہیں جس کی وجہ بہت سے گھر دکھوں کا گہوراہ بن گئے ہیں.اور بعض بچیاں ہیں بے چاری ان کی زندگی اس طرح کٹ رہی ہے کہ ایک بچہ یا ایک بیٹی ہے وہی ان کی امیدیں ہیں ، وہی ان کی زندگی کا سرمایہ ہے ، وہی ان کا بالآخر دلداری کا کوئی سہارا ہے اور باپ ہیں جو اس معاملے میں بھی ان کو دکھ دینے سے باز ہی نہیں آرہے.بچے کے ذریعے مسلسل تکلیف دیتے چلے جارہے ہیں.حالانکہ قرآن کریم نے بالکل صاف طور پر فرمایا ہے کہ کوئی والدین میں سے ایسا نہ ہو جس کو اس کے بچے کی طرف سے تکلیف دی جائے.بچے کی طرف سے تکلیف ایک بہت ہی زیادہ گہرا زخم ڈالنے والی تکلیف ہے، گہرا زخم لگانے والی تکلیف ہے.اس لئے اس کی احتیاط کرنی چاہئے.میں نے دیکھا ہے بعض خاوند جو بیویوں سے علیحدہ ہو جاتے ہیں، وہ دوسری شادیاں بھی کر لیتے ہیں ان کی اولاد بھی ہو جاتی ہے لیکن بغیر وجہ کے محض اس لئے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہاں قانون ہمیں حق دیتا ہے وہ اصرار کر کے تکلیف دے کر ماں سے بچوں کو علیحدہ کرتے ہیں.وہ حق ایک الگ بات ہے، انسانیت اور تقویٰ اور شرافت اور حسن واحسان کا سلوک ایک الگ معاملہ ہے.قاضی کے سامنے جب یہ معاملہ جائے گا تو بعض دفعہ قاضی قانونا یہ فیصلہ دینے پر مجبور ہوگا لیکن صرف انصاف کا معاملہ تو کوئی چیز نہیں ہے.قرآن کریم انصاف پر کہاں ٹھہرتا ہے قرآن کریم تو اس انصاف کے مضمون سے نکل کر معاشرہ کو حسن و احسان کے مضمون میں داخل کر دیتا ہے، قرآن کریم تو حسن و احسان کے مضمون سے آگے قدم بڑھا کر معاشرے کو ایتَاءِ ذِی القربی کے مضمون میں داخل کر دیتا ہے آپ اس وقت وہ ساری باتیں بھول جاتے ہیں.یہ بھول جاتے ہیں کہ آپ کا مستقبل ہے آپ کے دل لگانے کے سامان ہیں، آپ کے اور ذرائع ہیں ، اس بے چاری کے پاس اور کچھ بھی نہیں رہا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کیا جائے.ہاں اگر نیکی اور بدی کا معاملہ ہواگر یہ
خطبات طاہر جلد ۴ 914 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء خطرہ ہو کہ وہ عورت شریعت کے معاملہ میں باغیانہ رویہ رکھتی ہے، اولا د کا دین خراب ہو جائے گا اس کا مستقبل تباہ ہو جائے گا پھر بالکل اور معاملہ ہے لیکن بسا اوقات یہ نہیں ہوتا بلکہ محض ایک دشمنی ایک انتقام دکھ دینے کا ارادہ ان چیزوں پر آمادہ کرتا رہتا ہے اور صرف حق کی بحث ہو رہی ہوتی ہے.حق کی بحث کرنے والوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے حضور بھی حق کی بحثیں چلائیں گے؟ اگر حق مانگیں گے تو آپ کے پلے کچھ بھی نہیں رہے گا.احسان مانگیں گے تو پھر آپ کی بخشش کی تو قع ہوسکتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کے مقابل پر تو کسی کا حق نہیں ٹھہر سکتا.جو کچھ اس نے دیا ہے وہ اتنا زیادہ ہے اور جو کچھ اس کے لوازمات ہیں وہ ممکن نہیں کہ آپ ادا کر سکیں.خدا کی دین کے مقابل پر جو حقوق آپ پر قائم ہوتے ہیں اس کا ہزارواں لاکھواں حصہ بھی آپ ادا نہیں کرتے.تو حق کی بات چلاتے ہیں، اس طرح انصاف کی بات چلاتے ہیں تو پھر خدا کے سامنے بھی انصاف کی توقع لے کر جائیں، پھر حسن واحسان کا معاملہ بھول جائیں.احمدی معاشرہ محض انصاف پر قائم نہیں ہو سکتا.یہ تو پہلا قدم ہے پہلے اس کو انصاف سے بھریں، پھر اگلے قدم اٹھا ئیں حسن و احسان سے بھر دیں، پھر ایتَاءِ ذِی القربی کا مضمون اس میں پیدا کریں ، اس سے احمدیت کو سجائیں ، پھر ان قوموں کا استقبال کریں جن کو آپ اسلام کی طرف بلا رہے ہیں.ان چیزوں سے عاری معاشرہ ہو اور دعوت عام ہو کہ ہماری طرف آؤ یہ نہایت ہی بیوقوفوں والی بات ہوگی، دنیا سے دھوکا کرنے والی بات ہو گی.کیوں وہ آپ کی طرف آئیں؟ آئیں تو آپ کا نہیں بلکہ اسلام کا منہ گندا سمجھتے ہوئے ، اسلام کا منہ کالا دیکھتے ہوئے آئیں گے.وہ سمجھیں گے کہ آپ اسلام کا نمائندہ ہیں.آپ کے معاشرہ کی بدیاں دیکھیں گے تو وہ مجھیں گے کہ یہی اسلام ہے اور یہی ہوتا بھی ہے.آج یورپ میں اسلام کے ساتھ ہر جگہ یہی سلوک ہو رہا ہے.کوئی مسلمان ملک ہے.کوئی مسلمان علاقہ ہے، کوئی مسلمان قوم ہے یا لوگ ہیں جو یہاں آکر بس گئے ہیں ان کے اعمال سے وہ اسلام کا چہرہ دیکھتے ہیں اور پھر اسلام پر مذاق اڑاتے ہیں اور اسلام کو گندا سمجھتے ہیں، ہزار ہزار قسم کے طعنے دیتے ہیں.ان پر یہ بات بجھتی نہیں ! درست ہے.لیکن آپ تو ان کی اصلاح کا دعویٰ لے کر اٹھے ہیں آپ پر کیسے سج جائے گی؟ ان سے تو توقعات ہیں نہیں کیونکہ انہوں نے وقت کے امام کا انکار کر دیا ہے.آپ نے تو انکار نہیں کیا ، آپ تو امنا وصدقنا کہنے والوں میں ہیں اس لئے
خطبات طاہر جلد ۴ آپ سے توقعات اور قسم کی ہیں.915 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء ان ساری برائیوں کا جن کا میں نے ذکر کیا ہے سد باب کرنا بحیثیت مجموعی جماعت احمدیہ کا کام ہے اور آپ میں سے ہر فرد بشر کا کام ہے اس لئے قول سدید کا دامن پکڑ لیں.جب آپ بات کہنے لگیں تو اپنے نفس کا تجزیہ بھی کیا کریں کہ میں کیوں یہ بات کہ رہا ہوں.بسا اوقات آپ محسوس کرلیں گے اگر تقویٰ کے ساتھ اپنا تجزیہ کریں گے کہ آپ کی بات میں کوئی کبھی تھی.بسا اوقات آپ فیصلہ کر لیں گے کہ نہیں ! چھوڑ ہی دو اس بات کو مزہ نہیں آیا اس بات میں.اس بات میں وہ حسن نہیں ہے جو اسلام مجھ سے چاہتا ہے.پھر جب آپ سے کوئی بات کہی جائے تو بالکل اس کے برعکس مخالف پر حسن ظنی کی کوشش کریں اور اپنے او پر بدظنی رکھیں اس معاملے میں کہ ہاں ہوسکتا ہے مجھے پتہ نہ ہو.ہوسکتا ہے میری برائیاں مجھ میں چھپی ہوئی ہوں اور میں تلاش کروں اور کریدوں تو وہ نکل آئیں.مگر نصیحت کرنے والے کو میں نے صرف شکریہ کہنا ہے، اس کے خلاف کوئی بات نہیں کرنی.یہ رحجان پیدا کریں اور بسا اوقات آپ یہ معلوم کر کے حیران ہوں گے کہ اندر برائیاں ہوتی ہیں.انسان کو بے وجہ دفاع کرنے کی ایسی گندی عادت پڑ جاتی ہے کہ اس کی فطرت ثانیہ ہو جاتی ہے.وہ برائی اپنے اندر رکھتے ہوئے بھی پہلا رد عمل یہ دکھاتا ہے کہ نہیں مجھ میں نہیں میں نے جو یہ بات کی ہے.بالکل نہیں مجھ میں تو ایسی بات کوئی نہیں ، عادت بن جاتی ہے.تو معاشرہ کی اصلاح کوئی آسان کام نہیں ہے.اس کے لئے آپ کی حکمت کو بھی تیز ہونا پڑے گا.تجزیے کی طاقتوں کو آپ کو صیقل کرنا پڑے گا.تقویٰ اختیار کرنا پڑے گا.یا درکھیں آخری بات یہ ہے کہ خالی قول سدید کوئی چیز نہیں ہے جب تک تقویٰ کے ساتھ اس کا پیوند نہ ہو.یہ جتنی باتیں میں نے کہی ہیں قول سدید کے نام پر تقویٰ کے ساتھ تعلق رکھیں تو اصلاح معاشرہ ہوتی ہے ورنہ نہیں ہوتی.چنانچہ آپ یہ معلوم کر کے تعجب کریں گے کہ وہ قومیں جن میں بہت بدیاں پھیلی ہوئی ہیں مثلاً شمالی یورپ ہے اس میں قول سدید کا معیار ہماری قوموں کی نسبت بہت اونچا ہے.انگلستان میں بھی ، جرمنی میں بھی ، سکینڈے نیوین ممالک میں بھی اور کئی قومیں ہیں جن میں قول سدید کا معیارا کثر مشرقی قوموں کی نسبت بہت اونچا ہے لیکن برائیاں پھر بھی ہیں.تو یہ آخری بات ہمیشہ مد نظر رکھیں کہ قول سدید فی ذاتہ برائیاں دور کرنے کا اہل نہیں ہوتا
خطبات طاہر جلد ۴ 916 خطبه جمعه ۱۵ نومبر ۱۹۸۵ء جب تک اس کا تقویٰ سے پیوند نہ ہو.یہ وہ ہتھیار ہے جب تقویٰ کے ہاتھوں میں آتا ہے پھر یہ برائیوں کی جڑیں کا تھا ہے اور حسن کو ابھارتا ہے اور اگر یہ تقویٰ کے ہاتھ میں نہ ہو تو پھر برائیوں کے اضافہ کا بھی موجب بن جایا کرتا ہے.وہاں قول سدید کا یہ مطلب ہو جاتا ہے کہ تم اپنے کام سے کام رکھو میں اپنے کام سے کام رکھوں یہ برائی مجھے اچھی لگتی ہے میرا حق ہے میں اختیار کروں گا.یعنی قول سدید رفتہ رفتہ بے حیائی کے لئے استعمال ہونا شروع ہو جاتا ہے.وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے سارے کرتے ہیں میں بھی کروں گا کوئی بات نہیں.قول سدید شیطانی ہاتھوں میں ایسی عجیب عجیب شکلیں اختیار کر لیتا ہے کہ حیرت انگیز طور پر یہ حسین ہتھیار برے نتائج پیدا کرنے لگ جاتا ہے.جیسے کھیتوں کی تلائی کی جاتی ہے ایک اچھا زمیندار اسی ہتھیار سے اچھی ملائی کر دیتا ہے جڑی بوٹیوں کو اکھاڑ کر باہر پھینک دیتا ہے اور ایک ناواقف نہ صرف یہ کہ پودے کو جن کی حفاظت کرنا مقصود ہے ان کو کاٹتا ہے اور گندی جڑی بوٹیاں اسی طرح رہ جاتی ہیں بلکہ بعض دفعہ اپنے پاؤں بھی کاٹ لیتا ہے.خدا تعالیٰ نے قول سدید کا تقویٰ سے پیوند رکھا ہے اور اسی شرط کے ساتھ اس کو ذریعہ اصلاح بنایا ہے فرمایا اَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا اے وہ لوگو! جو تقویٰ اختیار کرتے ہو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اگر قول سدید کا ہتھیار اپنے ہاتھ میں پکڑ لو گے تو عظیم الشان نتائج پیدا ہوں گے.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ خدا تعالیٰ اس کے نتیجہ میں تمہارے اعمال کی اصلاح کرے گا.وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ اور چونکہ تقویٰ کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ ہر بات جو سیدھی کی جاتی ہے وہ اللہ کی خاطر کی جاتی ہے اسی لئے میں نے شروع میں ہی آغاز ہی اپنے خطبہ کا اسی بات سے کیا تھا کہ نیتوں میں قول سدید رکھیں اور ساری نیتیں خدا کی طرف لے جائیں.سیدھا نیتوں کا پیوند خدا کے حضور خدا کے قدموں سے ہو.یہی مضمون ہے جو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے کہ اے وہ لوگو! جو تقویٰ رکھتے ہو جن کی ہر بات خدا کی خاطر ہوتی ہے.جن کی ہر بات اس خوف سے ہوتی ہے کہ خدا ناراض نہ ہو جائے تم اگر قول سدید اختیار کرو گے تو تم دیکھو گے کہ معاشرہ میں عظیم الشان نتائج پیدا ہو رہے ہیں لیکن وہ تم نہیں کر رہے ہو گے، يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ خدا تمہارے اعمال کی اصلاح کر رہا ہوگا.اس میں خدا تعالیٰ نے ایک اور نکتہ بھی ہم پر کھول دیا کہ خدا کے نام پر تقویٰ اختیار کر کے
خطبات طاہر جلد ۴ 917 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء جولوگ اصلاح کی کوشش کرتے ہیں.ان کے ذہن میں کہیں دور کا بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ہم نے یہ بات کر دی ہے ہماری کوششوں سے یہ عظیم الشان تبدیلیاں پیدا ہوئی ہیں ان کو یہی دکھائی دیتا ہے يُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ کہ اللہ ہی ہے جو اصلاح کر رہا ہے اور چونکہ ان کی انکساری اس مقام پر پہنچی ہوتی ہے اس لئے امر واقعہ بھی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ براہ راست اس بات کا ضامن ہو جاتا ہے کہ ان کے ہر فعل میں برکت پڑے.ان کی ہر نصیحت نیک اثر دکھائے اور پھر خدا تعالیٰ خود معاشرہ کی اصلاح کا بیڑہ خود اٹھا لیتا ہے.چنانچہ اس چھوٹی سی آیت میں اس عظیم الشان مضمون کو کس شان کے ساتھ بیان فرما دیا.فرمایا قول سدید تم کرو.اے متقیو! قول سدید کا ہتھیار تم اٹھالو اور پھل دینے کا وعدہ ہم کرتے ہیں تُصْلِحُ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ لیکن يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ کے نتیجہ میں ایک حصہ پھر بھی باقی رہ جاتا ہے یعنی گزشتہ بدیاں اور کمزوریوں کا نقصان تو بہر حال پھر بھی ملنا چاہئے اور انسان کے بس میں یہ تو ہوسکتا ہے اگر وہ کوشش کرے کہ میں کچھ اصلاح کرلوں لیکن گزشتہ کمزوریوں کے بدنتائج سے وہ قوم کو بچا نہیں سکتا.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو آگے بڑھایا فرمایا کہ میں صرف تمہاری نیکی کے نتیجہ میں، تمہارے صاف قول کے نتیجہ میں، تمہارے تقویٰ کے نتیجہ میں صرف اصلاح کا وعدہ نہیں کرتا بلکہ میں احسان کا سلوک کروں گا صرف عدل کا سلوک نہیں کروں گا وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ خدا تعالیٰ تمہارے گزشتہ گناہ بھی بخش دے گا.تمہاری گزشتہ کمزوریوں کو بھی دور فرمادے گا اور پھر آگے یہ خوشخبری بھی دی وَ مَنْ يُطع اللهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا اور اگر تم اسی طرح خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے چلے جاؤ گے تو اتنی عظیم الشان ترقیات، اتنی عظیم الشان کامیابیاں تمہارے مقدر میں ہیں کہ ان کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے.تمہاری نظریں ان کا اندازہ کرنے سے کوتاہ ہیں، وہ کامیابیاں عظیم ہیں.پس میں امید رکھتا ہوں کہ جماعت ان ساری معاشرتی خرابیوں کی طرف توجہ کرے گی اور جس طرح کہ میں نے بیان کیا ہے تقویٰ کے ساتھ اللہ کو راضی کرنے کی خاطر اور کسی پر احسان نہ رکھتے ہوئے نہ افراد پر نہ جماعت پر محض اپنی ذات پر احسان کرتے ہوئے خدا کی خوشنودی کی خاطر یہ کام
خطبات طاہر جلد ۴ 918 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء شروع کریں.اور یہ کام ایسا ہے جو محض تنظیموں کا کام نہیں ہے یہ تو ہر فرد بشر کو کرنا پڑے گا ، ہر مرد کو کرنا پڑے گا ، ہر عورت کو کرنا پڑے گا اور ہر بچے کو بھی جہاں تک اس کے بس میں ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جنازہ کے کچھ اعلان کرنے ہیں.نماز جمعہ اور اس کے بعد عصر کی نماز چونکہ ساتھ جمع ہوگی اس لئے عصر کی نماز کے معابعد چند نما ز ہائے جنازہ غائب پڑھائی جائیں گی.ایک تو مکرمہ آمنہ بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری محمد عبد اللہ خاں صاحب مرحوم سابق امیر جماعت کراچی کا جنازہ ہے.یہ ہمارے موجودہ امیر جماعت لاہور ہیں چوہدری حمید نصر اللہ خاں صاحب ان کی والدہ، چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کی بھا وجہ اور چوہدری فتح محمد صاحب سیال کی بیٹی.کئی رشتوں سے بہت ہی قابل احترام خاتون تھیں.ذاتی طور پر بھی بڑی نیکیوں سے مزین.ہمارے انگلستان میں آج کل چوہدری ناصر احمد صاحب سیال رہتے ہیں ان کی بھی ہمشیرہ تھیں اور خاص ان کی ایک خوبی یہ تھی کہ بہت ہی خوش خلق ، خوش مزاج لیکن ساتھ قول سدید سے کام لینے والی.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ قول سدید سے کام لیا جائے تو خشک بات کی جائے اور بے مزہ بات کی جائے لیکن قول سدید کا یہ مطلب نہیں ہے.اس لحاظ سے یہ بہت ہی اچھا نمونہ تھیں کہ طبیعت میں نہایت ہی مزاح تھا اور بہت ہی ہر دلعزیز تھیں لیکن قول سدید نہیں کبھی چھوڑا اور قول سدید میں تلخی کی بجائے ایک انوکھا پن ایک لذت پیدا کر دیا کرتی تھیں اس لئے اس لحاظ سے ان کو خاص امتیاز تھا.حضرت مصلح موعود کا مجھے یاد ہے کہ ان کی باتیں بہت سن لیتے تھے کیونکہ وہ باتیں جو دوسروں کے لئے پہنچانی مشکل ہوتی تھیں یہ سیدھی پہنچاتی ضرور تھیں، باز نہیں آیا کرتی تھیں لیکن ایسے حسن ادا کے ساتھ کہ حضرت مصلح موعود اس کو ہمیشہ ہنس کر خوشی سے قبول کیا کرتے تھے خواہ وہ آپ پر ہی تنقید ہو.بہر حال اس خاندان کو اوپر تلے بہت ہی نقصان پہنچا ہے پہلے چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کا وصال ہوا ، پھر ان کے چھوٹے بھائی چوہدری اسد اللہ خاں صاحب کا وصال ہوا اب آپا آمنہ مرحومہ.اللہ تعالیٰ اس خاندان کو صبر جمیل کی توفیق عطا فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے ، اپنے قدموں میں جگہ دے.
خطبات طاہر جلد ۴ 919 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء ایک جنازہ ہے مکرمہ امتہ الرحیم صاحبہ اہلیہ مکرم غلام مصطفیٰ کا ہلوں ریٹائر ڈ ٹیکسیشن آفیسر فیصل آباد کا یہ بھی خدا تعالیٰ کے فضل سے مرحومہ نیک مخلص خاتون تھیں اور موصیبہ تھیں.ایک جنازہ مکرم کیپٹن شیر محمد صاحب کا ہے جو ماڈل ٹاؤن لاہور میں اپنے نیک مزاج اور نیک اخلاق کی وجہ سے بڑے ہر دلعزیز تھے.بہت مخلص انسان تھے.ان کی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ان کی وفات ہوگئی ہے.ان کا بھی جنازہ ہوگا.ایک جنازہ ہے ان کی وفات تو پہلے کی ہوئی ہوئی ہے لیکن ان کے بچے کا مجھے اب خط ملا ہے.رانا نذیر احمد صاحب یہاں جلسہ پر تشریف لائے تھے پھر آگے امریکہ اپنے بیٹے کے پاس چلے گئے اور وہیں ان کی وفات ہو گئی تو ان کے بیٹے کا خط آیا ہے کہ چونکہ دیار غیر میں وفات ہوئی ہے اس لئے میری خواہش ہے کہ ان کی بھی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.یہ بھی بہت مخلص آدمی تھے.اللہ تعالیٰ ان کو بھی غریق رحمت فرمائے.ایک دعا کا اعلان کرنا ہے.کہ سکھر میں آپ کو علم ہے کہ ہمارے کئی مظلوم بھائی جو کل بیڈ بے قصور ہیں ایک جھوٹے ،سراسر جھوٹے بہتان کے نتیجہ میں بڑی دیر سے جیل میں صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور یہ بدقسمتی کا عجیب دور ہے کہ کسی زمانہ میں اگر چہ وہ معاملات فوج کی عدالت میں پہنچائے جاتے تھے جہاں انسان کو یہ فکر ہو کہ اگر دوسری عدالت میں گیا تو انصاف نہیں ہوگا فوج سے انصاف مل جائے گا اب الٹا دور چلا ہوا ہے کہ جہاں ظلم کرنا ہو پیچھے پڑ کر ان مقدمات کو فوج تک پہنچایا جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں سول عدالت سے اس طرح ظلم نہیں ہو سکے گا اس لئے فوج کی عدالت میں پہنچایا جائے.یہ تو رحجان ہے مگر خدا کرے بدظنی ہو اور اگر اس میں بیچ بھی ہے تو اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اس معاملہ میں ظلم کی توفیق نہ عطا فرمائے کیونکہ یہ معاملہ بہت ہی درد ناک ہے.اگر چہ ساہیوال کیس میں بھی جو ہمارے مظلوم ہیں ان کے متعلق بھی بار بار میں اعلان کرتا رہا ہوں ان کی بھی بڑی دردناک حالت ہے لیکن یہاں تو یہ کیفیت ہے کہ دو ایسے ہمارے معصوم بھائی بھی ملوث ہیں جن کے والد کو وہیں سکھر میں ان کے قید ہونے سے کچھ عرصہ پہلے شہید کیا گیا تھا.اور والد کو اس طرح ختم کیا گیا اور اب جھوٹا مقدمہ بنا کر کہ ایک بم چلانے میں ملوث ہے.ان کو اس طرح ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے.یعنی سنگینی اور سفا کی کی کوئی انتہاء ہونی چاہئے ، یہاں تو
خطبات طاہر جلد 920 خطبه جمعه ۱۵/ نومبر ۱۹۸۵ء کوئی انتہاء نظر نہیں آتی.اس لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ حق وانصاف کے ساتھ ان کو معاملہ کرنے کی توفیق بخشے.اس قوم کی آنکھیں کھولے یہ ظلم کرتے ہوئے کہاں پہنچیں گے.
خطبات طاہر جلد چہارم 921 خطبه جمعه ۲۲ / نومبر ۱۹۸۵ء توحید خالص اور قیام نماز نیز ولایت نوافل سے حاصل ہوتی ہے (خطبه جمعه فرموده ۲۲ / نومبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ تلاوت کی : إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكُوةَ وَهُمْ رَاكِعُونَ وَمَنْ يَتَوَلَّ الله وَرَسُولَهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغُلِبُونَ ) پھر فرمایا: (المائدہ: ۵۶-۵۷) سورۃ المائدہ کی ان دو آیات کے معانی جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ ہیں کہ إِنَّمَا وَلِيُّكُمُ الله تمہارا دوست اللہ ہے ، وَرَسُولُهُ اور اس کا رسول ہے ، وَالَّذِينَ آمَنُوا الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوۃ اور وہ لوگ تمہارے دوست ہیں جو ایمان لائے جن کی صفات یہ ہیں الَّذِينَ يُقِيمُونَ الصَّلوة کہ صرف ایمان ہی نہیں لائے بلکہ نماز کو قائم کرتے ہیں.وَيُؤْتُونَ الزَّكوة اور زکوۃ دیتے ہیں ، وَهُمْ لكَعُونَ اور موحد خالص ہیں شرک نہیں کرتے.وَمَنْ يَتَوَلَّ الله وَرَسُولَهُ اور جو کوئی اللہ کو دوست رکھے اور اس کے رسول کو وَ الَّذِينَ آمَنُوا اور ان کو جو ایمان لائے.فَإِنَّ حِزْبَ اللهِ هُمُ الْغُلِبُونَ پس یقینا اللہ تعالیٰ کا گروہ ہی غالب
خطبات طاہر جلد چہارم 922 خطبه جمعه ۲۲/نومبر ۱۹۸۵ء آنے والا گروہ ہے.یہاں راكِعُونَ کا ترجمہ میں نے تو حید خالص رکھنے والے اور شرک نہ کرنے والے کیا ہے حالانکہ بظاہر رکوع کا معنی تو رکوع کرنا ہے اور راکع کا مطلب ہے وہ جو رکوع کرے لیکن عرف عام میں اردو میں یہی معنی عام چونکہ مستعمل ہیں اس لئے عربی میں جو دوسرے معنی ہیں ان کی طرف دھیان نہیں جاتا ور نہ عربی لغت کے لحاظ سے رکع کا معنی خالص تو حید ہی ہے اور ایسی تو حید جس میں شرک کا کوئی شائبہ ہی نہ پایا جاتا ہو اور چونکہ پہلے نماز کا ذکر ہو چکا ہے اس لئے نماز کے ایک جز کو دہرانے کا کوئی معنی نہیں یہ موقع اور محل کی مناسبت سے یہاں راکعون کا معنی شرک نہ کرنے والے ہیں.چنانچہ قرآن کریم کی ایک دوسری آیت میں اس مضمون کی وضاحت ہوگئی اور اس تعلق کی وضاحت ہوگئی.فرمایا مُنيُبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَاَقِيْمُوا الصَّلوةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (الروم :۳۲) کہ خالصہ اللہ کی طرف جھک جاؤ، اس کا تقویٰ اختیار کرو، نماز کو قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہو.نماز تو وہی قائم کرتا ہے جو مشرکوں میں سے نہیں ہوتا.تو دونوں جگہ نماز کے قیام کے مطا بعد شرک کی نفی کرنے سے مراد یہ ہے کہ بسا اوقات نمازوں میں بھی شرک کے مخفی پہلو موجود رہتے ہیں اور اس ضمن میں میں بعد میں گفتگو کروں گا لیکن اس سے پہلے جو ولایت کا مفہوم یہاں بیان کیا گیا ہے پہلے اس کے متعلق میں کچھ وضاحت کرنی چاہتا ہوں.إنَّمَا وَلِيُّكُمُ اللهُ وَرَسُولُهُ وَالَّذِينَ آمَنُوا یہ آیت اپنے اندر ایک بہت ہی گہری حکمت کا کلام بھی رکھتی ہے اور ایک اخفاء کا پردہ بھی جو اس حکمت کو اپنے اندر لیٹے ہوئے ہے.اخفاء کا پردہ یہ ہے کہ فرمایا کہ تمہارا کوئی دوست نہیں مگر اللہ اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے.تو پھر مخاطب کون ہیں ؟ بظاہر تو یہ تین الگ الگ چیزیں ہیں.جس کے دوست ہیں وہ الگ ذات معلوم ہوتی ہے اور جو دوست ہیں وہ الگ ہیں.جو مدد کرنے والے ہیں وہ الگ ہیں جن کی مدد کی جاتی ہے وہ الگ ہیں لیکن تخاطب کی طرز یہ ہے کہ مومنوں ہی کو مخاطب کیا گیا اور مومنوں ہی کو یہ کہا گیا کہ اللہ اور رسول اور مومن تمہارے ولی ہیں.پھر ایک اور خیال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اللہ ولی ہے تو کیا کافی نہیں؟ اور اگر ذکر ہونا چاہئے تھا تو خدا اور رسول کا ذکر اکٹھا ہو جاتا ،مومنوں کی ولایت کا کیوں
خطبات طاہر جلد چہارم 923 خطبه جمعه ۲۲ نومبر ۱۹۸۵ء ذکر ہے جب کہ وہ خود مومنوں کی جماعت میں شامل بھی ہیں.جن کو مخاطب کیا جارہا ہے اور ان کی ولایت کی پھر تفصیل بھی بیان فرمائی گئی کہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو قائم کرتے ہیں ، جوز کو ۃ کو دیتے ہیں اور تو حید خالص کو قائم کرنے والے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ تو حید خالص کا قیام جس رنگ میں مومنوں کی جماعت کے ذریعے ہوتا ہے یہ اسی کا ایک دوسرا نقشہ ہے.یعنی بعض صفات باری تعالیٰ اور صفاتِ رسالت اور صفاتِ ایمان ایک ہو جاتی ہیں اور ایک ہی روح نظر آتی ہے خدا سے لے کے بندے تک اور صفاتی لحاظ سے ایک عظیم الشان توحید کا قیام ہوتا ہے اس لئے وہ لوگ مخاطب بھی ہیں اور ساتھ ان کی جو مخاطب ہیں وہ خود اپنے مددگار بتائے گئے ہیں یعنی اس لحاظ سے ایک اور معنے بھی اس میں بن جاتے ہیں کہ مومنوں کو یہ بتایا گیا ہے کہ تم غیر اللہ کی طرف نہ دیکھنا غیر مومن کی طرف بھی نہ دیکھنا کیونکہ تمہارا ایسا ایمان ہے اور تمہارا ایسا عقیدہ ہے اور تمہارے ایسے اعمال ہیں کہ باقی دنیا کی سوسائٹیوں سے تم کٹ چکے ہواور مشکل کے وقت کوئی اور تمہارے کام نہیں آئے گا.جب بھی ابتلاء پیش آئیں گے، جب بھی مدد کی ضرورت آئے گی اس وقت مومنوں ہی کی جماعت ہوگی.جو مومنوں کی جماعت کی مددگار ہوگی.غیر مومن تمہاری مدد کے لئے نہیں آئے گا.تو یہ بھی توحید کا ہی مضمون ہے یعنی غیر اللہ کا جو شرک ہے، غیر اللہ پر جو توقع ہے کہ وہ مدد کرے گا اس کی کلیتہ نفی فرما دی گئی ہے.ایسا کامل اتحاد ہے اس مضمون میں کہ حیرت ہوتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عقدے کو ہمارے لئے نہایت ہی حسین رنگ میں حل فرما دیا کہ خدا اور رسول اور بندوں کا مومنوں کا اکٹھا ذکر کرنے کی اور ان کی ولا بیت کا ذکر کرنے کی کیا ضرورت تھی اور یہ بھی بتا دیا کہ یہ ولایت کیا ہوتی ہے؟ اور اس ولایت کے نتیجہ میں کیسے مومن کا دفاع ہوتا ہے؟ کیسے حاصل کی جاسکتی ہے؟ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ کی ایک حدیث ہے بخاری میں.حضرت ابو ہریرہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دفعہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس نے میرے دوست سے دشمنی کی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں، میرا بندہ جتنا میرا قرب اس چیز سے حاصل کرتا ہے جو میں نے اس پر فرض کر دی ہے اس سے سوا کسی اور چیز سے وہ میرا اتنا قرب حاصل نہیں کر سکتا اور نوافل کے ذریعہ سے میرا بندہ میرے قریب ہو جاتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا دوست
خطبات طاہر جلد چہارم 924 خطبه جمعه ۲۲/ نومبر ۱۹۸۵ء سے وہ بنالیتا ہوں تو اس کے کان بن جاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھیں بن جاتا ہوں جن.دیکھتا ہے، اس کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے یعنی میں ہی اس کا کارساز ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ چاہتا ہے تو میں اسے پناہ دیتا ہوں.پس یہ حلول ہے صفات باری تعالیٰ کا بندے میں اس کی محبت اور خالص محبت کے نتیجہ میں جس کا نقشہ قرآن کریم کی اس آیت نے کھینچا اور جس کی تفسیر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی کہ اس طرح ایک تو حید ایسی قائم ہوتی ہے کہ اس کو پھر آپ الگ الگ نہیں کر سکتے.آخری مدد خدا ہی کی طرف سے آتی ہے مگر رسول کے وسیلہ سے پہلے ایک مومنوں کی جماعت تیار ہوتی ہے اور جب تک مومنوں کی جماعت با خدا نہیں بن جاتی ان کو مدد نہیں آتی اور مدد کا طریقہ ہی یہی ہے کہ مومنوں کی جماعت با خدا بنے اور باخدا بننے کے نتیجہ میں خدا ان کے وجود میں ظاہر ہونے لگ جائے اور ایسی کیفیت پیدا ہو جائے کہ ان پر حملہ کرنا گویا خدا پر حملہ کرنا ہو جائے.یہ وہ مومنوں کی جماعت کی ولایت ہے جس کی تفسیر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمائی اور طریقہ سکھا دیا کہ ولایت کیسے حاصل ہوگی.یہ کوئی فرضی قصہ نہیں ہے ولایت کا.بعض لوگ ولایت ڈھونڈتے ہیں عجیب شکلوں میں ، عجیب لباسوں میں ، ظاہری تقوی میں.ولایت تو کوئی ایسی چیز نہیں جو دور سے دیکھی جائے.یہ تو ایسی چیز ہے جو اندرمحسوس کی جاتی ہے اور اپنی ولایت ڈھونڈنی چاہئے بجائے غیر کی ولایت کے ڈھونڈ نے کے اور جب تک مومنوں کی جماعت اپنی ذات میں اپنے وجود کے اندر ولایت نہیں ڈھونڈتی ان کی مدد کے لئے کوئی اور نہیں آئے گا.خودداری کا بھی کیسا سبق اس میں دیا گیا ہے خود اعتمادی کا بھی کیسا سبق دیا گیا ہے تو حید کامل کا بھی کیسا سبق دیا گیا ہے اور یہ ساری چیزیں خدا تعالیٰ کا رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتا ہے کہ نماز سے حاصل ہوں گی.فرائض پر عمل پیرا ہونے سے خدا کی دوستی نصیب ہوتی ہے، اس کا قرب نصیب ہوتا ہے.اور جب نوافل میں انسان ترقی کرتا ہے تو پھر اللہ دوست بن جاتا ہے.فرماتا ہے میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں.اب یہ بھی ایک بڑا دلچسپ مضمون ہے جس میں ایک تھوڑی سی الجھن نظر آتی
خطبات طاہر جلد چہارم 925 خطبه جمعه ۲۲ نومبر ۱۹۸۵ء ہے.فرائض پر جو عمل کرے اس کے متعلق فرمایا اس کو میرا اقرب عطا ہوتا ہے اور نوافل کے متعلق فرمایا کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں ، اس کے کان بن جاتا ہوں ،اس کی آنکھیں ہو جاتا ہوں ،اس کے بازو بن جاتا ہوں، اس کے پاؤں بن جاتا ہوں، گویا اس کا سارا وجود میرا وجود ہو جاتا ہے.یہ کیا وجہ ہے نوافل کو کیا فضیلت ہے؟ در حقیقت فرائض اور نوافل کی نسبت وہی ہے جیسے انسانی جسم کے ڈھانچے اور اس کے حسن کی نسبت ہے.ہر انسان خواہ وہ کیسا ہی کر یہ المنظر ہو انسان ہے بنیادی طور پر اور بعض بنیادی انسانی حقوق رکھتا ہے وہ حقوق اسے بہر حال ملنے چاہئیں.خواہ وہ بدصورت ہو خواہ وہ لنگڑا ہو خواہ وہ لولہ ہو.جیسی بھی اس کی شکل ہو، جیسی بھی اس کی قوم ہو، جیسا بھی اس کا رنگ ہو چونکہ بنیادی انسانی ڈھانچہ رکھتا ہے اس لئے اس کے حقوق اس کو ملنے چاہئیں لیکن ضروری نہیں کہ اس سے محبت بھی ہو جائے.محبت کے لئے نفلی چیز ہے یعنی حسن نفل اس کو کہتے ہیں جس کے نہ ہونے سے وجود نہ مٹ جائے اور ہو تو بہتر ، نہ ہو تو تب بھی وجود قائم رہے.تو فرضوں اور نوافل میں یہی نسبت ہے.یہ مراد نہیں ہے کہ نوافل پڑھو اور فرض بے شک نہ پڑھو جیسا کہ بعض بیچارے گمراہ ہوئے ہوئے صوفیاء نے بالآخر یہ نتیجہ نکال لیا کہ صرف نوافل کافی ہیں شریعت کی ظاہری پیروی کی ضرورت نہیں.یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی کہے کہ انسان کا ڈھانچہ ضروری نہیں ہے صرف انسان کا حسن کافی ہے.ڈھانچہ ہوگا نہیں تو حسن بنے گا کیسے؟ ہونٹ نہیں ہوں گے ناک نہیں ہوگا کان نہیں ہوں گے آنکھیں نہیں ہوں گی تو کیسے حسن سما سکتا ہے.حسن تو ایک کوئی ٹھوس وجود نہیں ہے کسی چیز کا.ایک تناسب کا نام ہے ایک روح کا نام ہے وہ کسی ٹھوس وجود کو چاہتی ہے تو نوافل زینت بخشتے ہیں فرائض کو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تم میرے ارشاد کے مطابق فرائض ادا کرتے ہو تو میں تمہیں اپنا قرب عطا کر دیتا ہوں لیکن محبت کروانے کے لئے تمہیں اپنے اندر حسن پیدا کرنا پڑے گا اور حسن نوافل کے ذریعے پیدا ہوتا ہے.یعنی وہ چیزیں جو فرض نہیں ہیں اپنے شوق اور اپنی محبت سے کرو اور محبت کا اس مضمون سے ویسے ہی ایک طبعی تعلق ہے.اگر ایک شخص کو کسی چیز سے محبت نہ ہو کسی مقصد سے محبت نہ ہو تو صرف فرائض ادا کرے گا اس سے زیادہ وہ آگے نہیں بڑھے گا ، کم سے کم کرنے کی کوشش کرے گا اور جب وہ کم سے کم آگے بڑھتا ہے تو محبت کے سوا اس کا محرک کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا.اگر ز بر دستی ہو تو وہ فرض بن جائے گا پھر نفل کا مطلب ہے کوئی زبردستی نہیں ہے کوئی اور ایسی
خطبات طاہر جلد چہارم 926 خطبه جمعه ۲۲/نومبر ۱۹۸۵ء وجہ نہیں کہ انسان مجبور ہو کر وہ کام کرے.بغیر مجبوری کے از خود دل سے ایک حرص اٹھتی ہے، دل سے ایک تمنا پیدا ہوتی ہے کہ میں یہ کام کروں حالانکہ مجھ سے نہیں پوچھا گیا.تو فرائض کے بعد چونکہ نفل پیدا ہی محبت کے نتیجہ میں ہوتے ہیں اس لئے کیسا عظیم الشان کلام ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اور کیسے گہرے فطرت کے راز رکھتا ہے اور کیسا خدا آپ کو عرفان بخشتا ہے.فرائض کو قرب سے باندھنے کے بعد فرمایا اگر محبت الہی چاہتے ہو جسے ولایت کہا گیا ہے تو پھر اس کے لئے ضروری ہے کہ تم بھی محبت الہی پیدا کر و یعنی نوافل کے ذریعے اس کا قرب ڈھونڈو اور اس کے نتیجہ میں پھر وہ ایسی محبت تم سے کرے گا کہ تمہارا وجود اور خدا کا وجود ایک ہو جائیں گے.یہ وہ خدا سے لے کر بندوں تک مومنوں تک ایک توحید پیدا ہوتی ہے جس کے بعد ناممکن ہے کہ اس توحید خالص پر کوئی دوسری چیز غالب آجائے.یہ مضمون ہے جو بیان فرمایا گیا.فَإِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْغَلِبُونَ پہلے ان کو اکٹھا کیا گیا پھر حِزْبَ اللهِ کہ دیا ان کو ، یہ اللہ والے لوگ ہیں، یہ اللہ کا گروہ ہے.اس میں اللہ بھی شامل ہے، رسول بھی شامل ہے مومن بھی شامل ہیں ، سب مل کر ایک حِزْبَ اللہ بن جاتے ہیں، فرمایا انہوں نے تو غالب آنا ہی آنا ہے کون ہے.جو ان کو شکست دے سکے.پس جب قیام نماز کی طرف میں توجہ دلا تا ہوں تو یہ مراد نہیں ہے کہ صرف فرائض پر آپ راضی ہو جائیں.فرائض پر راضی ہونا ویسے بھی نقصان کا سودا ہے کیونکہ فرائض کی نوافل حفاظت کرتے ہیں.یعنی دوسرا اعلیٰ مقصد تو اپنی ذات میں ہے ہی بہت حسین مقصد علاوہ ازیں بھی اگر فرائض ہی ہوں صرف تو جب بھی کوئی حملہ ہو جب بھی کوئی کمزوری واقع ہو تو فرائض پر اثر پڑتا ہے وہ جھڑنے لگتے ہیں.جو صرف فرض پڑھنے والے لوگ ہیں ان پر بھی بیماریاں آتی ہیں، ان پر بھی تھکا وٹیں آتی ہیں ان پر بھی کئی قسم کے عوارض آتے ہیں جس کے نتیجہ میں چونکہ ان کے پاس صرف فرض ہی ہوتے ہیں جب وہ کمی کریں گے فرائض میں کریں گے جن کے فرائض لیٹے ہوئے ہیں نوافل میں فرائض پر حملہ ہونے سے پہلے نوافل اپنی قربانی بخشتے ہیں قربانیاں دیتے ہیں اپنی اور آگے کھڑے ہو جاتے ہیں فرائض کے.چنانچہ بہت ہی شدید کوئی مصیبت اور مشکل اور الجھن پیش آجائے تو الگ مسئلہ ہے ورنہ نوافل پڑھنے والوں کے فرائض ہمیشہ محفوظ رہتے ہیں اس لئے بھی اور اس لئے بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ جسم تو آپ کو عطا ہو جائے گا فرائض کے نتیجہ میں وہ حسن بھی تو چاہئے
خطبات طاہر جلد چہارم 927 خطبه جمعه ۲۲/نومبر ۱۹۸۵ء جو خد اتعالیٰ کو کھینچے اپنی طرف وہ خدا ہی کا حسن ہے.یہ بھی ایک عجیب بات ہے کہ خدا کے لئے اپنی ذات کی خاطر جذب پیدا کرنا چاہتے ہیں تو حسن بھی خدا ہی سے مانگنا پڑے گا.صفات باری تعالیٰ اسکی اپنائیں گے تو آپ کی ذات میں وہ حسن پیدا ہوگا جو اللہ کے لئے باعث کشش ہے.جس کا یہاں ذکر فر مایا گیا ہے.دوسرا پہلو تو حید کا جو اس میں بیان فرمایا گیا ہے.نماز کو توحید سے ایک گہرا تعلق بتایا گیا ہے یہ مضمون بھی وضاحت طلب ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں افضل الذکر لا اله الا الله ( سن ترندی کتاب الدعوات حدیث نمبر ۳۳۰۵) کہ سارے ذاکروں میں سب سے افضل لا الہ الا اللہ ہے اور وہاں محمد رسول اللہ کا ذکر نہیں فرمایا.جب حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے یہ تحریک فرمائی کے کثرت کے ساتھ لا الہ الا اللہ کا ذکر کیا جائے.تو احمدیوں نے جگہ جگہ پیج لگا کے لکھا، بورڈوں پر آویزاں کیا اور کثرت کے ساتھ اونچی آواز میں بھی پڑھنے لگے.بہت سے غیر از جماعت دوست چونکہ ذاتی طور پر دین کا علم نہیں رکھتے اور ان کا دین اتنا ہی ہے جو مولوی کے ذہن میں ہے اس لئے ان کو اس پر بڑا تعجب بھی ہوا اور بڑا سخت حملے کا بھی موقع ملا.چنانچہ کثرت سے جماعت پر یہ اعتراض شروع ہو گیا کہ دیکھا ہمارے مولوی سچ کہتے تھے کہ آپ اللہ کی تو حید تک کا ہی مذہب رکھتے ہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان نہیں لاتے آپ کا مذہب صرف توحید پر ختم ہو جاتا ہے اور اگلا ضروری قدم جو تشہد کا ہے اشهد ان لا اله الا الله واشهد ان محمدا رسول اللہ وہ آپ نہیں اٹھاتے ثابت ہوا کہ آپ مسلمان نہیں ہیں اور یہ اعتراض عام جہلاء ہی نہیں کرتے تھے بڑے بڑے پڑھے لکھے لوگ کرتے تھے.ہر سوسائٹی ، ہر طبقہ کے غیر احمدیوں نے احمدی دوستوں پر یہ اعتراض کیا حالانکہ یہ خود ان کی لاعلمی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ذکر فر مایا ہے تو ذکر تو صرف خدا کا ہوتا ہے اس ذکر میں رسول شامل نہیں ہوا کرتا.ذکر اور چیز ہے اور کلمہ توحید جو مسلمان ہونے کے لئے پڑھنا ضروری ہے وہ ایک اور چیز ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بڑھ کر تو خدا سے کوئی محبت نہیں رکھتا تھا اور آپ نے یہ ہمیں راز سکھایا کہ جب ذکر کی بات ہو تو خدا کی توحید کے سوا اس میں کسی چیز کو شامل نہیں کرنا.خالص توحید الہی کے ذریعہ ذکر ہوتا ہے اور یہاں بھی جہاں نمازوں کا ذکر ملتا ہے قرآن کریم میں وہاں اس کا توحید
خطبات طاہر جلد چہارم 928 خطبه جمعه ۲۲ / نومبر ۱۹۸۵ء سے رشتہ باندھا گیا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا افضل الذكر لا اله الا الله اس میں ہمیں ایک اور بھی مضمون سمجھ آگیا.ذکر کے وسیع معنوں میں نماز سب سے اہم ذکر ہے اور ذکر کی جتنی بھی شکلیں ہیں ان میں سب سے زیادہ جامع شکل نماز کی ہے فضل الذکر الصلوٰۃ نہیں فرمایا بلکہ افضل الذكر لا اله الا اللہ فرمایا جس کا معنی یہ ہے کہ نماز بھی اس کلام کے اثر کے نیچے ہے اور نماز اگر تو حید کا مظہر بنے گی تو افضل ہو جائے گی.اگر تو حید کا مظہر نہیں بنے گی تو افضل نہیں ہوگی یعنی ہر صلوة في ذابتہ افضل نہیں ہوتی.ہر عبادت اپنی ذات میں اس درجہ کمال کو نہیں پہنچتی جس درجہ کمال کو توحید خالص عبادت کو پہنچاتی ہے.جب وہعبادت میں شامل ہو جاتی ہے جب وہ اس کے اندر جذب ہو جاتی ہے تب اس کے اندر ایک نئی شان پیدا ہو جاتی ہے اور افضل الذکر لا الہ الا اللہ میں سب سے پہلے پھر وہ نماز آئے گی جو تو حید میں رچ بس گئی ہے یا تو حید اس کے اندر رچ بس گئی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قیام توحید کا تعلق نماز سے باندھا ہے اور توحید کی جو تعریف فرمائی ہے اس سے یہ مضمون اور بھی زیادہ واضح ہو جاتا ہے کہ کیوں نماز میں توحید باری تعالیٰ کا داخل ہونا اس کے اندر جذب ہو جانا یہاں تک کہ دو وجود نہ رہیں یہ انتہائی ضروری ہے.فرمایا: یہ کلمہ شریف ایک اللہ کے سوا تمام الہوں کی نفی کرتا ہے.تمام اَنفُسِسی اور آفاقی الہ باہر نکال کر اپنے دل کو ایک اللہ کے واسطے پاک صاف کرنا چاہئے.بعض بت ظاہر ہیں مگر بعض بہت باریک ہیں مثلاً خدا تعالیٰ کے سوا اسباب پر توکل کرنا بھی ایک بت ہے مگر یہ ایک بار یک بت ہے.وہ بار یک بت جولوگ اپنی بغلوں کے اندر دبائے پھرتے ہیں ان کا نکالنا ایک مشکل امر ہے.بڑے بڑے فلسفی اور حکیم ان کو اپنے اندر سے نکال نہیں سکتے.وہ نہایت بار یک کیڑے ہیں جو کہ خدا تعالیٰ کے بڑے فضل کی خورد بین کے سوا نظر نہیں آسکتے.وہ بڑا ضر ر انسان کو پہنچاتے ہیں وہ بت جذبات نفسانی کے ہیں کہ جو انسان کو خدا تعالیٰ اور اپنے ہم جنسوں کی حقوق تلفی میں حد سے باہر لے جاتے ہیں بہت سے پڑھے لکھے جو کہ عالم کہلاتے ہیں اور فاضل کہلاتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد چہارم 929 خطبه جمعه ۲۲/نومبر ۱۹۸۵ء مولوی کہلاتے ہیں اور حدیثیں پڑھتے ہیں اپنے آپ میں ان بتوں کی شناخت نہیں کر سکتے“.عارفانہ کلام جب سنا جاتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ اس میں اور غیر کے کلام میں ایک بڑا فرق ہے.جب اللہ تعالیٰ کسی وجود میں داخل ہو جائے تو اس کے کلام میں بھی خدا تعالیٰ کی شان نظر آتی ہے.فرمایا وہ اپنے وجود میں شناخت نہیں کر سکتے.یہ بڑی گہری حقیقت ہے اکثر لوگ دھو کے کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں ،غفلت کی زندگی گزار رہے ہوتے ہیں یعنی ضروری نہیں کہ وہ منافق ہوں حقیقہ وہ اس بات سے غافل ہوتے ہیں اس بات کا علم ہی نہیں رکھتے کہ ان کے اندر مخفی بت پل رہے ہیں.بڑی شدت کے ساتھ جب وہ غیر میں شرک کے اجزا د یکھتے ہیں یا آثار پاتے ہیں تو اس پر وہ حملہ کرتے ہیں اور بظاہر بڑی دیانت اور خلوص کے ساتھ اس پر حملہ کرتے ہیں لیکن اپنے دل میں وہی بت یا اس سے بھی زیادہ بہت ان کے علاوہ اور بھی بت پرورش پارہے ہوتے ہیں اور بے چارے شناخت نہیں کر سکتے فرمایا: ” اپنے آپ میں ان بتوں کی شناخت نہیں کر سکتے اور ان کی پوجا کرتے ہیں.ان بتوں سے بچنا بڑے بہادر آدمی کا کام ہے.جو لوگ ان بتوں کے پیچھے لگتے ہیں وہ آپس میں نفاق رکھتے ہیں ،ایک دوسرے کے حقوق تلف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک شکار مارا ہے.“ تقاریر جلسه سالانه ۱۹۰۶ بحوالہ مرزا غلام حمد قادیانی اپنی تحریروں کی رو سے جلد نمبر ۲ صفحہ ۹۸۸) معاشرتی برائیوں اور بدیوں کو کس طرح توحید سے جدا کر کے یہ بتایا کہ توحید خالص ہو اور کوئی مخفی بت نہ ہو تو یہ معاشرتی بدیاں رہ ہی نہیں سکتیں.یہ معاشرتی بدیاں شرک کی علامت ہیں اور شرک کا ایک مظہر یہ ہے کہ سوسائٹی بھی بکھر جاتی ہے.صرف الہ الگ الگ نہیں ہوتے بلکہ ان کی پوجا کرنے والے بھی الگ الگ ہو جاتے ہیں.یعنی تو حید کامل دنیا میں بھی مومنوں کی جماعت کو ایک تو حید کامل عطا کرتی ہے.وہ ایک وجود بن جاتے ہیں اور ایک جماعت ہو جاتے ہیں اور اگر ان کے اندر مخفی بت ہوں اور شرک ہو اور ان کو علم بھی نہ ہو کہ ہم مخفی بتوں کی پوجا کر رہے ہیں تو نظام قدرت ان کے اس حال کو نگا کر دیتا ہے.ایسی سوسائٹی میں آپ کو یہ علامتیں نظر آئیں گی جو
خطبات طاہر جلد چہارم 930 خطبه جمعه ۲۲ / نومبر ۱۹۸۵ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہیں.آپس میں نفاق رکھتے ہیں.ایک دوسرے کے حقوق تلف کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک شکار مارا ہے.اتنا گہرا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے باندھا ہے اور اتنا طبعی عقلی منطقی نتیجہ نکالا ہے کہ انسان حیرت میں مبتلا ہوتا ہے.کہ تو حید کی ایک یہ بھی تفسیر ہے لیکن جب آپ اس پر غور کرتے ہیں تو اس سے بڑھ کر حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ ہمیں کیوں پہلے یہ خیال نہیں آیا؟ یہ تو طبعی بات تھی.ہونا یہی چاہئے ، تو حید کا معنی اس کے سوا نکلتا ہی کوئی نہیں.وہ تو حید جس کا ذکر قرآن کریم کی اس آیت میں آیا ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی اس تو حید کے بعد مومنوں کی جیسی جماعت وجود میں آتی ہے.اس میں ایک دوسرے کے حق تلف کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کیونکہ ہر ایک ان میں سے جانتا ہے کہ وہ خدا کا مظہر ہے اور کون ہے جو جانتے بوجھتے ہوئے ،خدا کا مظہر ہوتے ہوئے ، خدا کے حقوق تلف کرنے کی کوشش کرتا ہے.یعنی وہ صفات باری پر حملہ سمجھتے ہیں اپنے بھائی پر حملہ، اپنی ذات پر حملہ سمجھتے ہیں اپنے بھائی پر حملہ.یہ ہے وہ کامل تو حید جس کا قرآن کریم کی اس آیت میں نقشہ کھینچا گیا ہے جس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہاں فرمائی ہے.پس میں نے نمازوں کے بعد جو زور دیا تھا حقوق العباد پر یہ کوئی بے تعلق بات نہیں تھی.امر واقعہ یہ ہے کہ نمازوں کے ذریعے آپ تو حید خالص حاصل کر سکتے ہیں اور ولایت حاصل کر سکتے ہیں اور تمام دنیا کے لئے آپ نا قابل تسخیر بن سکتے ہیں لیکن دیکھنا پڑے گا کہ آپ یہ سب کچھ حاصل کر بھی رہے ہیں کہ نہیں.اپنے نفس کی غلط فہمی کے نتیجہ میں آپ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکیں گئے اور چونکہ اپنے نفس کا حال معلوم کرنا ایک مشکل امر ہے اس لئے ایک شیشہ دکھایا گیا ہے آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شیشہ مہیا کر دیا ہے.آپ اس شیشہ کے ذریعہ اپنی سوسائٹی کی تصویر تو دیکھیں.اگر وہاں نفاق پایا جاتا ہے، اگر وہاں ایک دوسرے کے حق تلف کرنے کا رحجان پایا جاتا ہے، اگر ایثار کی بجائے حق تلفی دکھائی دیتی ہے تو پھر آپ کی نماز میں وہ بات نہیں پیدا کرسکیں جن کی خاطر نمازیں قائم کی گئیں.پھر آپ کو تو حید کے منصب پر قائم ہونے کی توفیق نہیں ملی اور جب تک تو حید عطا نہیں ہوگی ولایت باری عطا نہیں ہوگی جب تک اللہ کی ولایت بحیثیت مجموعی مومنوں کی جماعت کو نصیب نہیں ہوتی آپ غیر کے حملہ سے محفوظ نہیں ہیں.باوجود اس کے کہ پہلے کی نسبت مجھے نمایاں فرق نظر آ رہا ہے.جب میں نے بعض خطبات
خطبات طاہر جلد چهارم 931 خطبه جمعه ۲۲/نومبر ۱۹۸۵ء کے ذریعے بار بار حقوق العباد کی طرف توجہ دلائی اس وقت جتنی شکائتیں اور جتنے تکلیف دہ واقعات آئے دن میرے سامنے آیا کرتے تھے اس کا عشر عشیر بھی اب باقی نہیں رہا.کچھ تو یہ وجہ ہے یقینا اس وقت بھی میں نے محسوس کیا تھا کہ ہر خطبہ کے بعد جب جماعت میں اس کو پھیلایا گیا تو کثرت سے آپس میں صلحیں ہوئیں، کثرت سے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ معافیاں مانگی گئیں.ایسے بھی لوگ تھے جو ساری عمر اپنے آپ کو مظلوم سمجھتے رہے لیکن دوڑ کر پہلے گئے اور اپنے بھائی سے معافی مانگی.تو جماعت کے اندر جو اخلاص کا ایک اعلیٰ معیار پایا جاتا ہے تسلیم اور رضا کا ایک اعلیٰ معیار پایا جاتا ہے اس کے نتیجہ میں خدا کے فضل کے ساتھ وہ تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہوئیں.کچھ اس لئے بھی کہ بعد میں ابتلاء کا دور ننگا ہو کے سامنے آ گیا اور جب خطرات بڑھتے ہیں تو اندرونی اصلاح کا ایک نظام خود بخود چل پڑتا ہے.جب غیر حملہ کر رہا ہو تو آپس کا بھائی چارہ پہلے کی نسبت بہت بہتر شکل اختیار کر جاتا ہے، بہت مضبوط بندھنوں میں باندھا جاتا ہے.اس لئے یہ بھی ایک طبعی بات تھی.پھر تقویٰ اللہ پیدا ہوتا ہے.جتنا بھی تقویٰ اللہ پیدا ہو، خدا سے محبت پیدا ہو وہ تو حید انسان کے وجود میں سرایت کرنے لگ جاتی ہے جس کا ذکر کیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود جس اعلیٰ معیار پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ کو دیکھنا چاہتے ہیں.ابھی اس سے ہم بہت پیچھے ہیں.ابھی ہماری قضاء کے نظام کے ہاتھ بھرے پڑے ہیں ، ابھی ان کو تاریخیں دینی پڑتی ہیں اور تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی قضا ہے وہ خالی ہو کے ابھی نہیں بیٹھی.تو ایک یہ بھی ذریعہ اپنی تو حید کو جانچنے کا جس دن قضاء کے ہاتھ خالی ہو جائیں گے اس بنا پر کہ آپس میں جھگڑے ختم ہو گئے اس دن سمجھیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے توحید کی برکت سے ایک واحد قوم میں تبدیل فرما دیا ہے اور یہ تو حید خالص طبعی طور پر بھی اپنا اثر دکھاتی ہے.وہ ساری قومیں جن میں توحید پیدا ہو جائے خواہ وہ خدا کی قائل نہ بھی ہوں وہ عموماً نا قابل تسخیر ہو جایا کرتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ یہ نہیں ہوگا میں پھر مددکروں گا میں اپنی ذمہ داری لے لوں گا.میں تم پر حملہ اپنی ذات پر حملہ سمجھوں گا.ایسی جماعت کو تو پھر دنیا کی کوئی طاقت مٹا نہیں سکتی.ساری کائنات کی طاقت مل جائے تو خدا کی اس طاقت کے مقابل پر وہ نہیں ٹھہر سکتی.نہ وہ حملہ آور ہوسکتی ہے نہ وہ نتیجہ پیدا کر سکتی ہے اگر خدا خود اس کی اجازت بھی دے دے.اس لئے ان دونوں باتوں کو اکٹھا سنیں اور اکٹھا ان پر عمل کریں.یعنی نماز کے قیام کا توحید
خطبات طاہر جلد چہارم 932 خطبه جمعه ۲۲ /نومبر ۱۹۸۵ء سے جو تعلق ہے اس کو سمجھیں اور اپنی نمازوں کو خالص کریں اور نما ز کو خالص کیسے کیا جائے گا اس کے متعلق میں انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے رکھوں گا لیکن عمومی طور پر آج اسی پر اکتفا کرتا ہوں کہ توحید باری تعالیٰ کا عبادت کے ساتھ ایک بڑا گہرا تعلق ہے اور ولایت کے حصول کے لئے فرائض کافی نہیں بلکہ نوافل کے ذریعہ اللہ کی محبت حاصل کی جاتی ہے اس لئے نوافل میں آگے بڑھیں اور تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپ نوافل میں آگے بڑھتے ہیں اور آپ کو خدا کی ولایت نصیب ہو جاتی ہے تو پھر یہ کمینی باتیں نہیں باقی رہ سکتیں.آپ کی ذات میں ایک عظمت پیدا ہو جائے گی ، بڑا بلند کردار ہو جائے گا.آپ کے حوصلے آپ کے ارادے، آپ کی نظر، آپ کی بصیرت ان میں ایک شاندار تبدیلی واقع ہوگی Nobility جس کو کہتے ہیں وہ اپنے درجہ کمال میں آپ کو حاصل ہو جائے گی.نجابت کے آپ نمونے بن جائیں گے.ایسی صورت میں یہ گھٹیا باتیں کہ فلاں کا حق مار لینا اس کا تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایسی صورت میں تو شوق سے انسان اپنے حق سے بڑھ کر حق ادا کرتا ہے.یعنی اپنے حق میں سے دوسرے کو ادا کرتا ہے بجائے اس کے کہ دوسرے کا حق چھینے.بہت ہی ایک پیاری فضا پیدا ہوتی ہے اور اس ایثار کے نتیجہ میں پھر سوسائٹی بڑی تیزی کے ساتھ محبت میں ترقی کرتی ہے.اس لئے اس آئینے میں اپنی شکلیں بھی دیکھتے رہیں ساتھ اور جان لیں کہ اگر آپ ایسا نہیں کرسکیں گے تو پھر ولایت کے دعوے جھوٹے ہیں.کیونکہ قرآن کریم بہر حال سچا کلام ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تفسیر کبھی غلط نہیں ہوسکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ تعالیٰ سے عرفان حاصل کیا.وہ عرفان تمام دائمی سچائیوں کی طرح ایک سچائی ہے.اس میں آپ کبھی تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اس لئے ان پیمانوں پر اپنے آپ کو پر رکھیں اور کوشش اور جدو جہد کرتے رہیں اور یقین رکھیں کہ یہ سب کچھ دعاہی کے ذریعہ حاصل ہوگا اور نماز ہی کے ذریعہ حاصل ہوگا.پس جس چیز کا حصول کرنا چاہتے ہیں ذریعہ بھی وہی ہے حصول کا.نمازوں پر قائم ہو جائیں سوچ کر پڑھیں ،فکر کے ساتھ پڑھیں ، توجہ کے ساتھ پڑھیں خدا کے ساتھ اپنا تعلق قائم کرتے ہوئے اور یادرکھتے ہوئے کوشش کے ساتھ پڑھیں اگر نہ ہو سکے تو پھر خدا سے دعا مانگیں اور پھر اپنی ذات کی نگرانی رکھیں کہ آپ کے اندر کوئی پاک تبدیلیاں پیدا ہورہی ہیں کہ نہیں.ان
خطبات طاہر جلد چہارم 933 خطبه جمعه ۲۲/نومبر ۱۹۸۵ء کے نتیجہ میں آپ سوسائٹی کو باندھنے والے بن رہے ہیں یا سوسائٹی کو کاٹنے والے بنے ہوئے ہیں.اس طرح آپ کو کھلی کھلی واضح شکل اپنی نظر آنی شروع ہو جائے گی.ورنہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.واقعی بات یہی ہے کہ عالم ہو، بڑا قابل ہو، بہت مفکر ہو، بہت مطالعہ رکھتا ہو قرآن و حدیث کا جب تک اللہ کا فضل نصیب نہ ہو اس وقت تک انسان اپنے مخفی بتوں کو جانچ نہیں سکتا، پہچان نہیں سکتا.پس ایک صاحب فضل نے آپ کو پہچاننے کا ذریعہ عطا کر دیا.اس ذریعہ سے فائدہ اٹھا ئیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد حسب سابق عصر کی نماز پڑھی جائے گی یعنی دونوں جمع ہوں گی اور نماز عصر کے معا بعد مکرم ومحترم چوہدری بشیر احمد صاحب کاہلوں مرحوم کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے گی.مکرم چوہدری انور احمد صاحب کاہلوں انگلستان کی جماعت کے امیر ہیں وہ آج کل اسی لئے لاہور گئے ہوئے ہیں کہ ان کے والد کی پریشان کن علالت کی اطلاع آئی تھی.یہ بھی ان پر خدا کا فضل ہوا کہ ایسی حالت میں پہنچ گئے کہ جب وہ ابھی گفتگو بھی کر سکتے تھے پہچانتے بھی تھے اور ایک دوسرے سے محبت کے ساتھ مل سکے اور سمجھ کر مل سکے لیکن کچھ دنوں کے بعد ان کی وفات ہوگئی ہے.اس لئے خاص طور پر ان کے لئے نماز جنازہ میں دعا کی جائے.چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے بھی یہ بڑے پرانے ساتھیوں میں سے تھے.بہت گہری محبت رکھتے تھے آپس میں.ان کے جانے کے بعد اس خاندان میں اوپر تلے چوہدری صاحب سے قرب رکھنے والوں میں کئی وفا تیں ہوئی ہیں.پہلے چوہدری اسد اللہ خان صاحب کی وفات ہوئی ، پھر آپا آمنہ مرحومہ کی وفات ہوئی، پھر آپ چوہدری بشیر احمد صاحب یہ ایک گروہ ہی ہے اور بعض لوگ اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ یہ خیال بھی کرتے ہیں کہ شاید ہم تعلق لوگوں کو خدا تعالیٰ اکٹھا ہی گروہ کی شکل میں بلایا کرتا ہے.بہرحال اس کے راز وہی بہتر سمجھتا ہے مگر اس سارے گروہ کواللہ تعالیٰ اپنے قرب کی جنتیں عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلدم 935 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء نمازوں کی حفاظت اور اس سے لذت حاصل کرنا ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ رنومبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : وَالَّذِينَ هُمْ لاَ مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رعُونَ ) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَوتِهِمْ يُحَافِظُونَ أُولَيكَ هُمُ الْوِرِثُوْنَ الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (المومنون: ٩-١٣) اور پھر فرمایا: سورةۃ مومنون سے ۱۱،۱۰۹ اور ۲ انمبر آیات کی میں نے تلاوت کی ہے اس سورۃ یعنی المومنون میں مومنوں کی بعض علامتیں بیان فرمائی گئی ہیں جن میں سے کچھ کا تعلق نماز سے ہے.اور نماز سے جن آیات کا تعلق ہے ان آیات میں وہ امور بھی بیان فرمائے ہیں جو نماز سے متعلق ہیں اور براہ راست نمازمیں ان امور سے پہچانی جاتی ہیں.فرمایا وَ الَّذِينَ هُمْ لِاَ مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ یہ مومن وہ لوگ ہیں جو اپنی امانتوں اور اپنے عہدوں پر نگران رہتے ہیں.وَالَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ اور یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اُولَيكَ هُمُ الْوَرِثُونَ وہی لوگ ہیں جو وارث ٹھہریں گے یاوراث ہیں.الَّذِيْنَ يَرِثُونَ الْفِردَوس جو فردوس کو ورثے میں پائیں گے.هُم فِيْهَا خُلِدُونَ اور ہمیشہ وہ ان میں رہیں گے.نماز کی علامتیں جو یہاں بیان فرمائی گئی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا
خطبات طاہر جلد۴ 936 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء کچھ علامتیں نماز کی باہر سے تعلق رکھتی ہیں یعنی معاشرہ سے اور کچھ علامتیں انسان کے اندر اپنی ذات کے اندر ڈوب کر معلوم کی جاتی ہیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے بعض ایسی علامات کا ذکر کیا تھا جو معاشرہ کے آئینہ میں دیکھی جاسکتی ہیں اور پہلی آیت میں انہیں کا ذکر فرمایا گیا ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِاَمُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ.کچھ دوسری علامتیں ہیں جن کا انسان کے نفس سے، اس کے قلب سے اس کے اندر پیدا ہونے والے بار یک در بار یک روحانی تغیرات سے ہے اور ان کا ذکر فرماتے ہوئے علَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ فرمایا گیا.دیکھنا یہ ہے کہ یہاں حفاظت کا کیا مضمون ہے؟ بعض اوقات تو حفاظت صرف فرض کے طور پر کی جاتی ہے جیسے چوکیدار کسی گھر کی یا بنک کی حفاظت کرتا ہے اور بعض اوقات حفاظت محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.یعنی محبت حفاظت کا خیال پیدا کرتی ہے اور وہ حفاظت اس فریضہ حفاظت سے مختلف نوعیت کی حفاظت ہوتی ہے.انسان جب کسی سے محبت کرتا ہے تو جتنی اس کی محبت بڑھتی چلی جائے اتنا ہی حفاظت کا معیار بلندتر ہوتا چلا جاتا ہے لیکن یہ خاصہ صرف انسان کے ساتھ ہی نہیں جانوروں میں بھی یہ جذبہ بڑی شدت کے ساتھ نمایاں دکھائی دیتا ہے.ایک مرغی جو اپنے چھوٹے چھوٹے چوزوں سے پیار کرتی ہے.بظاہر اس مرغی میں حفاظت کرنے کی اہلیت نہیں ہوتی ، چھوٹے چھوٹے جانوروں سے بھی وہ ڈرتی ہے بلی یا کتے یا چیل کے ساتھ مقابلہ کا تو کوئی سوال ہی نہیں ، کوئی جوڑ ہی نہیں لیکن جب محبت کے نتیجہ میں حفاظت کا خیال پید ہوتا ہے، جب اپنے چوزوں سے پیار کے نتیجہ میں وہ حفاظت کرنا چاہتی ہے تو ایسا بھر جاتی ہے، ایسا اس میں حوصلہ پیدا ہوتا ہے، ایسا عزم اس میں پیدا ہو جاتا ہے ایسی غیر معمولی قوت آجاتی ہے کہ وہ پھر بلی یا کتے سے نہیں ڈرتی بلکہ ایسی مرغی سے بعض دفعہ دوسرے جانور دامن بچا کر گزرتے ہیں اور اگر وہ حفاظت نہ بھی کر سکے تو حفاظت کے دوران جان دے دیتی ہے.ایسا شدت کے ساتھ جھپٹتی ہے کہ وہ نظارہ دیکھنے سے انسان پر خوف طاری ہو جاتا ہے.یہ حفاظت جو ہے اس کا مقام ہی بالکل اور ہے.دیکھنا یہ ہے کہ یہاں نماز کے ساتھ جس حفاظت کا ذکر فرمایا گیا وہ کیا حفاظت ہے اور اندرونی تغیرات کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے؟ جب میں نے کہا کہ اس حفاظت کا اندرونی تغیرات سے تعلق ہے اور باطن میں پیدا ہونے والی علامتیں بتائی گئیں ہیں تو یہ مضمون کس طرح اس سے جوڑ کھاتا ہے.
خطبات طاہر جلدم 937 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء اس سلسلہ میں سب سے پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ایک حدیث آپ کو سنا تا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے انہوں نے بیان کیا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال الا ادلكم على ما يمحو الله به الخطايا ويرفع به الدرجات قالوا بلى يا رسول الله قال اسباغ الوضوء على المكاره وكثرة الخطا الى المساجد وانتظار الصلوة بعد الصلوة فذالكم الرباط فذالكم الرباط (مسلم کتاب الطہارۃ باب فضل اسباغ الوضوء حدیث ۳۶۹) یعنی حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا اور یہ ایک سوال کے رنگ میں فرمایا الا ادلكم على ما يمحو الله به الخطایا کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ وہ کیا چیز ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خطاؤں کو دھودیتا ہے اور دور فرما دیتا ہے اور درجات کو بلند کرتا ہے انہوں نے کہا کیوں نہیں یا رسول اللہ فرمایا اسباغ الوضوء على المکارہ کہ مکارہ کے با وجو د وضو کو اختیار کرنا اور وضو کے ذریعہ اپنے جسم کو نماز کے لئے پاک کرنا.یعنی عام حالت میں نماز کے لئے وضو کیا ہی جاتا ہے لیکن یہ کہ نماز کے لئے وضو کی تیاری ہو اور وضو کے رستے میں روکیں ہوں.سخت سردی کا موسم ہے اور انسان ویسے ہی ٹھنڈے پانی سے ڈرتا ہے مگر یہاں تو خیر سہولتیں ہیں ایسی جگہوں پر جہاں موسم زیادہ سرد ہو اور پانی گرم کرنے کی سہولت کوئی نہ ہو وہاں بعض اوقات سخت سردی میں وضو سے سخت کراہت آتی ہے اور اسی طرح وہ عورتیں جو سنگھار بناؤ کی عادی ہوتی ہیں ان کے لئے وضو کرنا ایک بڑی مصیبت ہوتی ہے.تیار ہو کر پارٹی پر جارہی ہیں اور نماز کا وقت آجاتا ہے یا پارٹی میں جا کر نماز کا وقت آجاتا ہے.کتنی دفعہ وہ منہ دھوئیں اور پھر دوبارہ سنگھار کریں.تو کئی قسم کے عوارض بھی ایسے ہوتے ہیں جن سے وضو میں تکلیف محسوس ہوتی ہے.تو فرمایا اسب ماغ الوضوء - اسباغ کہتے ہیں بہت اچھی طرح وضو کا کرنا صرف یہی نہیں کہ وضو کرنا بلکہ خوب پیار اور محبت سے وضو کرنا.باوجود اس کے کہ کثرت کے ساتھ طبعی روکیں موجود ہیں.اس کا نام ہے سچا اور حقیقی وضو اور اس کے نتیجہ میں گناہ دھلتے ہیں اور دور ہوتے ہیں.اور پھر فرمایا مسجد میں کثرت سے آنا جانا كثرة الخطا الى المساجد.یہ عجیب بات ہے کہ یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اس کے بعد نماز پڑھنا بلکہ مضمون اور بیان ہو رہا ہے بالکل.یہاں محبت اور تعلق کا مضمون بیان ہو رہا ہے اس لئے نماز کا ذکر نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو نماز کے ساتھ کیسے تعلق ہووہ
خطبات طاہر جلد۴ 938 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء بیان فرمایا جا رہا ہے.فرمایا كثرة الخطا الى المساجد کہ قدم کے کثرت سے نشان ملیں.کوئی نمازی ایسا پیار کرتا ہو نماز سے اور باجماعت نماز سے کہ اس کا دن آنے جانے میں گویا صرف ہورہا ہے.بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے دور سے مسجد آنا کیونکہ اس سے قدم زیادہ بڑھ جاتے ہیں حالانکہ وہ اس مضمون کو نہیں سمجھ سکے.دور سے مسجد آنے کا تو مطلب یہ ہے کہ صرف ان لوگوں کا ذکر کیا جا رہا ہے جن کے گھر مساجد سے بہت دور ہیں اور یہ ایک حادثاتی اتفاقی بات ہے اس میں ہر نمازی کیسے شامل ہو سکتا ہے.کفرۃ الخُطا کا مطلب ہے کہ اس کثرت سے آنا جانا ہو کہ گویا قدموں کے نشان پڑ گئے ہوں مسجد اور اس کے گھر کے درمیان.گھر نزدیک ہو یا دور گھر ہو.آنے جانے کی کثرت کا اظہار ہے اس سے زیادہ اس میں اور کوئی معنی نہیں.پھرفرمايا وانتظار الصلوۃ بعد الصلوۃ اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار شروع ہو جائے یعنی اس کثرت سے آنا جانا بھی ہو لیکن اکتانے والا نہ ہو بلکہ محبت کے نتیجہ میں ہو.فرض کے نتیجہ میں نہ ہو عشق کے نتیجہ میں ہو.کیونکہ اگر فرض کے نتیجہ میں یہ آنا جانا کثرت سے ہو تو جتنا زیادہ آنا جانا ہوگا اتنا ہی طبیعت اکتاتی چلی جائے گی اتنا ہی بوجھ محسوس کرے گی.اگر عشق کے نتیجہ میں آنا جانا ہو تو پھر جتنا آنا جانا ہوا تنا ہی پیار بڑھتا چلا جاتا ہے، اتنا ہی شوق بڑھتا چلا جاتا ہے.فرمایا و انتظار الصلوۃ بعد الصلوۃ ایک نماز کے بعد پھر دوسری نماز کا انتظار ذالكم الرباط فذالكم الرباط فرمایا اس کو کہتے ہیں رباط.ہاں اسی کو رباط کہتے ہیں.اب رباط کیا چیز ہے؟ قرآن کریم میں اس کا ذکر ملتا ہے.فرمایا یا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا ورابطوا ( آل عمران (۲۰) اور اس کا ترجمہ جہاں جہاں بھی آپ قرآن کریم کا ترجمہ پائیں گے یہی ملے گا.سرحدوں پر گھوڑے باندھنا اور سرحدوں کی حفاظت کرنا اور عموماً معنی یہی لئے جاتے ہیں.رباط ، ربط سے نکلا ہے اور ربط کے معنی ہیں تعلق بلکہ مضبوط تعلق کا باندھنا اور عربی محاورہ میں قرآن کریم نے بھی اس کو استعمال فرمایا ہے دوسری جگہ خوب کھول کر.رباط کے معنی سرحدوں سے ایسا رابطہ کہ گویا ہر وقت انسان حفاظت کے لئے سرحد پر بیٹھا ر ہے.تو ایسی چوکیاں جو سرحد پر قائم کی جاتی ہیں اور وہ نظام جو سرحد کی حفاظت کے لئے مقرر کیا جاتا ہے اسے رباط کہتے ہیں لیکن اس کے
خطبات طاہر جلدم 939 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء اندر مرکزی مفہوم بنیادی معنی ربط یعنی تعلق کے ہیں.اب عام انسان وہم و گمان بھی نہیں کر سکتا کہ اس مضمون کا نماز سے کوئی تعلق ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا عرفان ہے جو اس نقطہ کو پہنچ گیا ہے اور پھر اس کے بھی بڑے وسیع معانی آپ نے کھول دیئے ہیں ایک عظیم مضمون اس سے روشن کر دیا ہے.فرمایا اصل رباط نماز کے ساتھ محبت ہے اور اس محبت کے نتیجہ میں نماز کی حفاظت ہے.عشق کے نتیجہ میں یعنی ربط کے نتیجہ میں جو حفاظت ہوگی وہ حفاظت ہے جو حقیقی حفاظت ہے اور دوسری آیت جو میں نے پڑھ کر سنائی تھی حَافِظُوا يا يُحَافِظُونَ دونوں محاورے قرآن کریم میں ملتے ہیں ایک جگہ حکم ہے حفظوا (البقرہ: ۲۳۹) نماز کی حفاظت کرو.دوسری جگہ فرمایا مومن بندے عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُوْنَ المؤمنون : ۱۰) نماز کی حفاظت کرتے ہیں.تو وہاں جو حفاظت کا مضمون ہے اس کو بھی آنحضرت نے کھول دیا کہ وہ حفاظت ایسی نہیں جیسے چوکیدار کسی مکان کی حفاظت کرتا ہے.بلکہ وہ حفاظت ہے جو تعلق کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور اس حفاظت کا جو مضمون بتایا ہے وہ سارا محبت اور پیار کا مضمون ہے.وضو کرنا جبکہ تکلیف ہو.وضو ایسی حالت میں کرنا جبکہ ابتلاء آجائے وضو کر نے سے.کئی قسم کی مشکلات ہوں پھر اس وقت بھی سنوار کر وضو کرنا ، خوب اچھی طرح سجا بنا کے وضو کرنا.پھر آنا جانا اس کثرت سے کہ قدموں کے نشان پڑ جائیں مسجدوں اور گھروں کے درمیان اور اس کے باوجود پھر اگلی نماز کے انتظار میں بیٹھے رہنا کہ کب پھر خدا کی طرف سے آواز بلند ہو اور پھر میں مسجد چلا جاؤں.یہ تو عاشقی کا مضمون ہے، محبت کا بھی جو اعلیٰ مقام ہوتا ہے جسے عشق میں دیوانگی کہا جاتا ہے یہ تو وہ مضمون بیان ہو رہا ہے اور آخر پر فرمایا رباط یہی ہے رباط یہی ہے.اے سمجھنے والو مجھو کہ اصل حفاظت جس کی طرف قرآن کریم تمہیں بلا رہا ہے اپنی اقدار کی حفاظت ہے اور سب سے اعلیٰ قدر جو تمہیں عطا ہوئی ہے وہ نماز ہے.اس کی حفاظت کرو لیکن عشق کے جذبے سے حفاظت کرو.فرض سمجھتے ہوئے اس کی حفاظت نہ کرو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون میں فرماتے ہیں.وو وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ یعنی چھٹے درجہ کے مومن جو پانچویں درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو اپنی نمازوں پر آپ محافظ اور
خطبات طاہر جلدم 940 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء نگہبان ہیں یعنی وہ کسی دوسرے کی تذکیر اور یاد دہانی کے محتاج نہیں رہے بلکہ کچھ ایسا تعلق ان کو خدا سے پیدا ہو گیا ہے اور خدا کی یاد کچھ اس قسم کی محبوب طبع اور مدار آرام اور مدار زندگی ان کے لئے ہوگئی ہے کہ وہ ہر وقت اس کی نگہبانی میں لگے رہتے ہیں اور ہر دم ان کا یاد الہی میں گزرتا ہے اور نہیں چاہتے کہ ایک دم بھی خدا کے ذکر سے الگ ہوں“ ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد نمبر ۳ سوره نحل تائیس صفحه ۳۷۰) حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے بعد حفاظت کا یہ مضمون حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.درمیان کی صدیوں پر نظر ڈال کر دیکھ لیں آپ کو يُحَافِظُونَ کی تفسیر میں عشق کا مضمون کہیں نظر نہیں آئے گا.یا آقا کو اس بات کی سمجھ آئی یا اس غلام کو جو غلام کامل تھا اور جس کو خود حضرت محمد مصطفی علی اللہ سے ایک ہمیشہ کا ربط تھا.ربط ہے جان محمد سے میری جاں کو مدام ( در مشین صفحه: ۱۶) میه اسی ربط کا تعلق تھا جس نے پہلے آقا کو خدا کے ساتھ ربط کے نتیجہ میں رباط کا مضمون سمجھایا اور یا پھر اس کامل غلام کو حضرت محمد مصطفی علیہ سے ربط کے نتیجہ میں رابطے اور حفاظت کا مضمون سکھایا جو اور کسی عالم کسی بڑے سے بڑے بزرگ اور متقی کو اس کے سوا سمجھ نہیں آسکا تھا.یہ وہ خزانے ہیں جن کولٹانے کے لئے امام مہدی اس دنیا میں تشریف لائے تھے.ان سے ہم اپنا تعلق کیسے توڑ دیں؟ جس طرح آپ کو دائم ایک حضرت محمد مصطفی علیے کے ساتھ ربط ہے اسی طرح ہم غلاموں کو بھی آپ کے ساتھ ایک ربط ہے.جس تعلق کو کوئی دنیا کا انسان کاٹ نہیں سکتا کیونکہ اسی رابط کے نتیجہ میں ہم نے اللہ سے محبت اور پیار کے اعلیٰ مضامین سیکھے ہیں.پھر آپ فرماتے ہیں: غرض محبت سے بھری ہوئی یاد الہی جس کا نام نماز ہے وہ درحقیقت ان کی غذا ہو جاتی ہے جس کے بغیر وہ جی ہی نہیں سکتے اور جس کی محافظت اور نگہبانی بعینہ اس مسافر کی طرح وہ کرتے رہتے ہیں جو ایک دشت بے آب و دانہ
خطبات طاہر جلدم 941 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء میں اپنی چند روٹیوں کی محافظت کرتا ہے جو اس کے پاس ہیں اور اپنے کسی قدر پانی کو جان کے ساتھ رکھتا ہے جو اس کی مشک میں ہے.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد ۳ صفحہ نمبر : ۳۷۱) یہ جو نماز ہے یہ تو ایک بہت ہی اعلیٰ درجہ کا مقام ہے اور اس نماز کی راہ میں، اس نماز تک پہنچنے کے لئے بہت سی مشکلات ہیں، بہت سی روکیں ہیں اور ایک مبتدی کے لئے جگہ جگہ ٹھوکر کے سامان بھی ہیں.لیکن پہنچنا ہمیں اس نماز تک ہی ہے.ٹھو کر میں ہوں تب بھی اس نماز تک ہمیں پہنچنا ہے کیونکہ یہی زندگی کا مقصود ہے اور اس کے بغیر ہم اپنے اعلیٰ مقصد زندگی کو پانہیں سکتے.ایک دفعہ حضرت اقدس محمد مصطفی علے کے پاس ایک اندھا آیا اور اس نے عرض کی یا رسول اللہ ! مجھے نماز باجماعت ادا کرنے سے رخصت عطا فرما دیں کیونکہ رات کے وقت اور خصوصاً صبح کے وقت میرے لئے مشکل ہوتی ہے اور خاص طور پر اس لئے بھی کہ میں اندھا ہوں اور مدینہ کی وہ سڑک جو میرے گھر سے مسجد تک جاتی ہے.اس میں جگہ جگہ ٹھوکریں لگی ہو یہیں مجھے ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں.آنحضرت ﷺ نے پہلے اجازت دی اور جب وہ واپس مڑے تو پھر بلا یا اور فرمایا نہیں مسجد میں جانے سے کوئی روک تمہاری راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے (مسلم کتاب المساجد ومواقع الصلوۃ حدیث نمبر ۱۰۴۴) مسجد تک پہنچنے کی راہ میں خواہ ظاہری کتنی بھی روکیں ہوں تمہیں میں اس کی اجازت نہیں دوں گا.یعنی یہ فقرہ اس طرح تو نہیں فرمایا لیکن اس پس منظر میں فرمایا جو سوال اٹھایا گیا تھا کہ فرمایا نہیں تمہیں اجازت نہیں ہے.گویا یہ بیان کیا جا رہا ہے کہ مسجد اور انسان کا تعلق ایسا ہے کہ راہ کی روکیں اس کی نمازوں کو اس سے الگ نہیں کر سکتیں اس کی راہ میں حائل نہیں ہوسکتیں.تو یہ وہ نماز ہے جو اعلیٰ نماز ہے اس کی راہ میں اور اکثر مومنوں کی راہ میں بہت سی روکیں ہیں لیکن ان روکوں کے نتیجے میں بھی بہر حال آپ کو وہاں تک پہنچنا ہوگا کیونکہ یہ مقصد زندگی ہے.کیسے وہاں پہنچیں اور کس طرح اس حقیقت کو پہچانیں اور اس حقیقت سے پیار کریں اور اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو حقیقت نماز ہے؟ یہ مسئلہ بھی ایک عارف باللہ ہی ہے جو ہمیں سمجھا سکتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بار ہ قلم اٹھایا ہے اور ملفوظات میں بھی بکثرت نماز کی محبت پیدا کرنے ، نماز سے پیار کرنے ، نماز کے مقام اور مرتبہ کو بڑھانے اور
خطبات طاہر جلدم 942 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء نماز کے ذریعہ اعلیٰ مدارج تک پہنچنے کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بکثرت ارشادات ملتے ہیں اور یہ مضمون بھی ایسا ہے جس میں آپ منفرد ہیں.تمام تیرہ صدیوں کے بزرگوں کے ارشادات کو آپ اکٹھا کر لیں جو نماز کے اعلیٰ مطالب اور لطائف پر مشتمل ہوں تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات ان پر بھاری نظر آئیں گے.فرماتے ہیں: نماز کی ظاہر صورت پر اکتفا کرنا نادانی ہے.اکثر لوگ رسمی نماز ادا کرتے ہیں اور بہت جلدی کرتے ہیں جیسے ایک ناواجب ٹیکس لگا ہوا ہے جلدی گلے سے اتر جاوے.بعض لوگ نما ز تو جلدی پڑھ لیتے ہیں لیکن اس کے بعد دعا اس قدر بہی مانگتے ہیں کہ نماز کے وقت سے دگنا تگنا وقت لے لیتے ہیں حالانکہ نماز تو خود دعا ہے جس کو یہ نصیب نہیں ہے کہ نماز میں دعا کرے اس کی نماز ہی نہیں“.( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۵۹۱) فرمایا: یا د رکھو اس نے ایمان کا حظا نہیں اٹھایا جس نے نماز میں لذت نہیں پائی.نماز صرف ٹکروں کا نام نہیں ہے.بعض لوگ نماز کو تو دو چار چونچیں لگا کر جیسے مرغی ٹھونگیں مارتی ہے ختم کرتے ہیں اور پھر لمبی چوڑی دعا شروع کر دیتے ہیں.( ملفوظات جلد اصفحہ ۴۰۲) پھر فرمایا: قرآن شریف میں دو جنتوں کا ذکر ہے ایک ان میں سے دنیا کی جنت ہے اور وہ نماز کی لذت ہے.نماز خواہ نخواہ کا ٹیکس نہیں ہے بلکہ عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق اور کشش ہے.اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے عبودیت کو ربوبیت سے ایک ابدی تعلق ہے اور کشش ہے اس رشتے کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے.یہ ایک بہت ہی گہرا عارفانہ کلام ہے.اس لئے اسے میں نے دوبارہ پڑھا ہے آپ کے سامنے یہ نہیں فرمایا کہ نماز کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ بندے کا تعلق قائم ہوتا ہے.یہ
خطبات طاہر جلدم 943 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء نہیں فرمایا ہے کہ رب کا عبد کے ساتھ تعلق پیدا کرنے کے لئے نماز قائم کی گئی ہے فرمایا رب کے ساتھ عبد کا ایک دائمی تعلق موجود ہے پہلے سے.اس رشتے کو زندہ رکھنے کے لئے نماز قائم کی گئی ہے اگر آپ نماز چھوڑ دیں گے تو آپ کا وہ تعلق کٹ جائے گا جو ہونا چاہئے ، جو ہمیشہ سے ہے جو ایک فطری چیز ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ رب سے عبد کو تعلق نہ ہو جس نے پیدا کیا اس کا ایک گہرا تعلق قائم ہوجاتا ہے جیسے ماں کا بچے سے تعلق قائم ہو جاتا ہے لیکن بعض ایسے محرکات ہیں، ایسے بعد میں پیدا ہونے والے واقعات ہیں جو بعض دفعہ ماں کا بچے سے تعلق کاٹ دیتے ہیں.آپ نے فرمایا اسی طرح رب اور بندہ کا ایک دائمی تعلق ہے ، وہ اپنی جگہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا لیکن اگر عبادت نہ کی جائے یا خدا ہمیں عبادت نہ سکھاتا تو اس تعلق میں رخنہ پڑ جا تا اور رفتہ رفتہ ہم اس تعلق سے غافل ہو جاتے.“ اس رشتہ کو قائم رکھنے کے لئے خدا تعالیٰ نے نماز بنائی ہے اور اس میں ایک لذت رکھ دی ہے.یہ بھی ایک عجیب عارفانہ کلام ہے.لذت رکھ دی ہے“ کا تو مطلب یہ ہے کہ جونماز پڑھے گا اسے لذت آنی چاہئے یعنی لذت آپ نماز میں زبردستی پیدا نہیں کر سکتے یا خود کوشش کر کے لذت پیدا کرنے کا نام نماز نہیں ہے بلکہ نماز میں لذت ہے اور اگر آپ کو نہیں ملتی تو آپ میں کوئی رخنہ ہے آپ اپنی کمزوری کو دور کریں، اپنے مذاق کو درست کریں.اگر ایک اچھے کھانے میں کسی کو لذت محسوس نہ ہو تو آپ یہ نہیں کہیں گے کہ اس کھانے کو دوبارہ پکا ؤ اور اس میں لذت پیدا کرو.آپ یہ کہیں گے کہ اس کھانے میں لذت ہے لیکن تم بیمار ہو تم اپنا علاج کرو تمہارا منہ کڑوا اور کسیلا ہو چکا ہے.تو یہ جو فقرہ ہے یہ بھی ایک انتہائی عارفانہ کلام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فطرت میں ڈوبنے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عظیم مقام کا پتہ چلتا ہے اور یہ کھڑکیاں ہیں جن کے ذریعہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات میں داخل ہو کر آپ کی اس روحانی زندگی کا کچھ اندازہ کر سکتے ہیں جس نے آپ کو وہ مقام عطا کیا ہے جو آج امام الزمان
خطبات طاہر جلدم 944 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء کا مقام کہلاتا ہے.کوئی جو واقف حال نہ ہو جو ان گلیوں سے گزرا نہ ہو ، جن کو ان رستوں سے پوری واقفیت نہ ہو اس قسم کے فقرے لکھ ہی نہیں سکتا.فرماتے ہیں: ایک لذت رکھ دی ہے جس سے یہ تعلق قائم رہتا ہے.جیسے لڑکے اور لڑکی کی جب شادی ہوتی ہے اگر ان کے ملاپ میں ایک لذت نہ ہو تو فساد ہوتا ہے.ایسے ہی اگر نماز میں لذت نہ ہو تو وہ رشتہ ٹوٹ جاتا ہے.دروازہ بند کرکے دعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے.عجیب کلام ہے فصاحت و بلاغت کا جس تعلق کی مثال دی ہے اس کے بعد پھر عبادت میں لذت ڈھونڈنے کے لئے کیسا پیارا کلام ہے.وو دروازہ بند کر کے دعا کرنی چاہئے کہ وہ رشتہ قائم رہے اور لذت پیدا ہو.جو تعلق عبودیت کار بوبیت سے ہے وہ بہت گہرا اور انوار سے پر ہے جس کی تفصیل نہیں ہوسکتی.جب وہ نہیں ہے تب تک انسان بہائم ہے.اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا لیکن جسے دوچار دفعہ بھی نہ ملا وہ اندھا ہے وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ - (بنی اسرائیل :۷۳) ( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۵۹۲) حیرت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرماتے ہیں کہ میرے کلام کو جو تین دفعہ نہیں پڑھتا اس میں تکبر پایا جاتا ہے تو اس کا یہ اصل مفہوم ہے کہ یہ نہ سمجھو کہ تم ایک دفعہ سرسری نظر سے میرے کلام سے گزر جاؤ گے تم اس کے مطالب کو پالو گے.تمہیں جدو جہد کرنی پڑے گی ،محنت کرنی پڑے گی اور بار بار غور کے ساتھ پڑھنا پڑے گا تب تم اس کی کنہ کو پاؤ گے ورنہ کلام کے بہت سے معارف تمہاری نظر سے اوجھل رہ جائیں گے.یہاں ایک عجیب طرز بیان ہے جس نے کمزوروں کے لئے بھی ایک نجات کی راہ دکھا دی ہے.ایک عارف باللہ جس کی ساری نمازیں درست ہو چکی ہوں، جو ہر نماز کے ہر حصے سے لذت پاتا ہو.جب وہ ذکر کرتا ہے کہ نماز یہ ہے اور نماز وہ ہے اور بڑے لطف اٹھا اٹھا کر بیان کرتا ہے تو ایک
خطبات طاہر جلدم 945 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء عام انسان کا تو دل دہل جاتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں تو مارا گیا.میرے پاس تو کچھ بھی نہیں اور بہت سے لوگ ہیں جو اس قسم کے خط بھی لکھتے ہیں مجھے کہ ہم نے تو خطبہ سنا ہے، ہم نے فلاں جگہ پڑھا ہے نماز یہ ہوتی ہے ہماری تو جان اس فکر سے نکل گئی ہے کہ ہماری تو پھر نماز ہی کوئی نہیں ، اور اگر نماز میں وہ لذت نہیں آتی تو کیا ہم اندھے اٹھائیں جائیں گے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ اعمی کی ایک ایسی لطیف تفسیر فرما دی کہ جس کے نتیجہ میں کمزوروں کے خطرے اور خد شے بھی دور ہو گئے.فرمایا اگر دو چار دفعہ بھی لذت محسوس ہو جائے تو اس چاشنی کا حصہ مل گیا “.جو اندھا ہو اس کو تو ایک دفعہ بھی نظر نہیں آتا.فرمایا: تم ڈر نہ جانا کہیں اگر تمہاری نمازوں میں کمزوری ہے تو تم ان اندھوں میں نہیں ہو جن کے متعلق فرمایا ہے وَ مَنْ كَانَ فِي هذه اَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى که جو اس دنیا میں اندھے ہیں وہ آخرت میں بھی اندھے اٹھائے جائیں گے.اگر تم اندھے ہوتے تو تمہیں تو ایک دفعہ بھی نماز میں لذت محسوس نہ ہوتی.پس جن کو چند دفعہ بھی اس نماز کی لذت سے آشنائی حاصل ہوگئی وہ خدا کے حساب میں اندھے نہیں لکھے جائیں گے.وہ اہل بصیرت لوگوں میں شمار کئے جائیں گے، اہل بصارت لوگوں میں شمار کئے جائیں گے.پس جہاں ایک دفعہ شوق دلایا جہاں اعلیٰ نماز کے نمونے دکھا کے ان کے لئے طلب پیدا فرمائی وہاں کمزوروں کو کیسا سہارا بھی عطا کیا ہے.ایک چھوٹے سے پیرا کے اندر، چند سطروں کے اندر ایسے عظیم الشان مطالب بیان فرما دیئے ہیں جس سے نماز کے نتیجہ میں جو بار یک در بار یک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں یا ہونی چاہئیں ان کا ایک انتہائی حسین نقشہ ہماری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے.پھر فرماتے ہیں: ” جب کبھی ایسی حالت ہو کہ انس اور ذوق جو نماز میں آتا تھا وہ جاتا رہا ہے.تو چاہئے کہ تھک نہ جاوے اور بے حوصلہ ہو کر ہمت نہ ہارے بلکہ بڑی مستعدی کے ساتھ اس گمشدہ متاع کو حاصل کرنے کی فکر کرے اور اس کا علاج ہے تو بہ، استغفار ، تضرع.بے ذوقی سے ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے.
خطبات طاہر جلدم 946 خطبه جمعه ۲۹ نومبر ۱۹۸۵ء یہ بھی بعض مبتدی جو ٹھو کر کھاتے ہیں ان کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیسی پیاری اور واضح ہدایت دے دی.بعض لوگ کہتے ہیں نماز میں لذت ہی نہیں آتی تو فائدہ کیا اور نماز چھوڑ دیتے ہیں یا نماز سے بے رغبتی اختیار کر جاتے ہیں فرمایا: ترک نماز نہ کرے بلکہ نماز کی اور کثرت کرے جیسے ایک نشے باز کو جب نشہ نہیں آتا تو وہ نشہ کو چھوڑ نہیں دیتا بلکہ جام پر جام پیا جاتا ہے یہاں تک کہ آخر اس کو لذت اور سرور آجاتا ہے.پس جس کو نماز میں بے ذوقی پیدا ہواس کو کثرت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہئے.( ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۳۱۰) اور نمازوں کو با قاعدہ التزام سے پڑھو.بعض لوگ صرف ایک ہی وقت کی نماز پڑھ لیتے ہیں وہ یا درکھیں کہ نمازیں معاف نہیں ہوتیں یہاں تک کہ پیغمبروں تک کو معاف نہیں ہوئیں.پھر فرماتے ہیں: نماز کیا چیز ہے.نماز دراصل رب العزت سے دعا ہے جس کے بغیر انسان زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ عافیت اور خوشی کا سامان مل سکتا ہے.جب خدا تعالیٰ اس پر اپنا فضل کرے گا اس وقت اسے حقیقی سرور اور راحت ملے گی ، اس وقت سے اس کو نمازوں میں لذت اور ذوق آنے لگے گا.جس طرح لذیذ غذاؤں کے کھانے سے مزہ آتا ہے اسی طرح پھر گر یہ اور پکار کی لذت آئے گی اور یہ حالت جو نماز کی ہے پیدا ہو جائے گی.اس سے پہلے جیسے کڑوی دوا کو کھاتا ہے تا کہ صحت حاصل ہو اسی طرح اس بے ذوقی نماز کو پڑھنا اور دعائیں مانگنا ضروری ہے“ ( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۶۱۵) یعنی لذت کے نتیجہ میں نہیں تو شفاء کے حصول کی خاطر دوا سمجھ کے ہی نماز کے ساتھ چمٹا رہے اس کو ترک نہ کرے اس سے غافل نہ رہے.جس طرح بن پڑے ضرور نماز ادا کرے.فرمایا اس کے بعد لذت پیدا ہو جائے گی انشاء اللہ کیونکہ یہ حالت کسی بیماری کا پتہ دیتی ہے اور اس بیماری کی اصلاح کے لئے بھی دوا نماز ہی ہے.
خطبات طاہر جلدم پھر فرمایا: 947 خطبه جمعه ۲۹ / نومبر ۱۹۸۵ء اس بے ذوقی کی حالت میں یہ فرض کر کے کہ اس سے لذت اور ذوق پیدا ہو یہ دعا کرے کہ اے اللہ! تو مجھے دیکھتا ہے کہ میں کیسا اندھا اور نا بینا ہوں اور میں اس وقت بالکل مردہ حالت میں ہوں میں جانتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے بعد مجھے آواز آئے گی تو میں تیری طرف آجاؤں گا اس وقت مجھے کوئی روک نہ سکے گا لیکن میرا دل اندھا اور نا شناسا ہے تو ایسا شعلہ نور اس پر نازل کر کہ تیرا انس اور شوق اس میں پیدا ہو جائے تو ایسا فضل کر کہ میں نا بینا نہ اٹھوں اور 66 اندھوں میں نہ جاملوں.“ اب یہاں بھی اس مضمون کو اسی آیت کریمہ سے باندھا ہے گویا جو اس دنیا میں اندھا ہے وہ اس دنیا میں بھی اندھا رہے گا.اس کا اصل تعلق نماز سے ہے جسے اس دنیا میں نماز کی لذت حاصل نہیں ہوگی اسے اس دنیا میں بھی لذت حاصل نہیں ہوگی یعنی خدا کو دیکھ نہیں سکے گا کیونکہ نماز کی آنکھوں سے انسان خدا کو دیکھتا ہے اور وہاں رؤیت خداوندی یہاں کی مقبول نمازوں کے نتیجہ میں ہمیں حاصل ہوگی.فرمایا ” جب اس قسم کی دعا مانگے گا اور اس پر دوام اختیار کرے گا تو وہ دیکھے گا کہ ایک وقت اس پر ایسا آئے گا کہ اس بے ذوقی کی نماز میں ایک چیز آسمان سے اس پر گرے گی جو رقت پیدا کر دے گی“.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ۶۱۶) آخر پر ایک اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا خلق آخر سے متعلق پڑھ کر سناتا ہوں.جس سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن کریم میں جو خلق آخر کے متعلق فرمایا ثُمَّ أَنْشَأْنُهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِينَ (المومنون : ۱۵) اس کا بھی حقیقی تعلق نماز ہی سے ہے.اور نماز ہی کے نتیجہ میں خلق آخر عطا ہوتی ہے.یہ مضمون جو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے ثُمَّ انْشَائَهُ خَلْقًا اخر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انسان کو ایک ظاہری بدن تو عطا کر دیا، اس کو بظاہر انسان بنادیا لیکن وہ بہائم سے ابھی جدا نہیں ہوا اور جب تک خدا تعالیٰ اسے اپنے فضل کے ساتھ ایک نئی زندگی نہ بخشے اسے بہائم سے جدا نہیں کیا جا سکتا.وہ انسان کہلانے کا مستحق تب ہو گا
خطبات طاہر جلدم 948 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء جب آسمان کی طرف سے اس کی روح پر ایک شعلہ نور نازل ہوگا اور اسے ایک نئی زندگی عطا ہوگی.فرما یا فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِيْنَ خدا کی تخلیق کا اصل حسن یہ ہے یعنی جانوروں سے انسان بنا دیا.انسانوں سے محمد مصطفی علل پیدا کر دیئے فَتَبرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِيْنَ اتنا حسين نظارہ ہے.ایسا عظیم الشان انقلاب ہے کہ بے ساختہ مومن کے دل سے آواز اٹھتی ہے فَتَبَرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخَلِقِيْنَ بہت ہی بابرکت ہے وہ ذات ، وہ خدا جو اتنی حسین تخلیق کرنے والا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور مومن اپنے اندر محسوس کر لیتا ہے کہ ایک نئی روح اس کے اندر داخل ہوگئی ہے جو پہلے نہیں تھی اس روح کے ملنے سے ایک عجیب سکینت اور اطمینان مومن کو حاصل ہو جاتی ہے اور محبت ذاتیہ ایک فوارہ کی طرح جوش مارتی اور عبودیت کے پودا کی آبپاشی کرتی ہے.اور وہ آگ جو پہلے ایک معمولی گرمی کی حد تک تھی اس درجہ پر وہ تمام و کمال افروختہ ہو جاتی ہیں اور انسانی وجود کے تمام خس و خاشاک کو جلا کر الوہیت کا قبضہ اس پر کر دیتی ہے اور وہ آگ تمام اعضاء پر احاطہ کر لیتی ہے تب اس لوہے کی مانند جو نہایت درجہ آگ میں تپایا جائے یہاں تک کہ سرخ ہو جائے اور آگ کے رنگ پر ہو جائے اس مومن سے الوہیت کے آثار اور افعال ظاہر ہوتے ہیں جیسا کہ لوہا بھی اس درجہ پر آگ کے آثار اور افعال ظاہر کرتا ہے مگر یہ نہیں کہ وہ مومن خدا ہو گیا ہے بلکہ محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجو د کو لے آتی ہے“.( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد ۳ سورۃ النحل تالیس صفحه : ۳۷۳) محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے.یہ خلاصہ ہے اہل اللہ کا.یعنی منہ سے دعوے ہزار کئے جائیں یا انسان دعوے نہ بھی کرے اور غلط فہمی میں مبتلا ہو جائے کہ میں باخدا انسان بن گیا ہوں اس کی پہچان کیا ہے؟ کس سے پتہ چلے کہ یہ غلط فہمی تھی کس سے پتہ چلے کہ حقیقت میں انسان با خدا بن گیا ہے.یہ وہ کسوٹی ہے جس پر یہ باتیں پر کھی جاسکتی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیش فرمائی ہے.فرمایا:
خطبات طاہر جلدم 949 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء بلکہ محبت الہیہ کا کچھ ایسا ہی خاصہ ہے جو اپنے رنگ میں ظاہر وجود کو لے آتی ہے اور باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے“.(ايضاً ) یہ دوسرا حصہ جو اس جملے کا ہے یہ بھی انتہائی گہرا اور عارفانہ کلام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کو پہچاننے کے لئے آپ کے روحانی کلام میں سے بعض دفعہ ایک ایک جملہ کافی ہو جاتا ہے.ناممکن ہے کہ کوئی صحیح فطرت انسان ان فقرات کی تہ تک پہنچ جائے اور پھر وہم و گمان بھی اس بات کا کر سکے کہ یہ فقرے کہنے والا یا لکھنے والا کوئی جھوٹا ہوسکتا ہے.یہ تو اندرون خانہ کے راز ہیں جو وہی بیان کر سکتا ہے جس کی اندرون خانہ تک رسائی ہو.فرماتے ہیں کہ وہ جو بظاہر تمہیں الہی رنگ پکڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ان کے اندر پھر بھی عبودیت کی خامیاں موجود رہتی ہیں.بشریت سے بالا وہ پھر بھی نہیں ہو سکتے.جیسے آگ کسی لوہے کو اپنی لپیٹ میں لے لے اور اس حد تک لے لے کہ لوہے سے آگ کی صفات ظاہر ہونے لگ جائیں مگر بنیادی خاصیتیں جو لو ہے کی ہیں وہ اس شعلہ میں ڈھانپی تو جائیں گی لیکن حقیقت میں لوہے کی وہ بنیادی صفات قائم رہیں گی اور لوہا براہ راست آگ نہیں کہلا سکتا.باطن میں عبودیت اور اس کا ضعف موجود ہوتا ہے.اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے.“ (ایضاً صفحہ: ۳۷۳) اب یہ فقرے بھی ایسے عظیم الشان ہیں کہ جن پر غور کرنے سے مسیح ثانی یعنی محمد مصطفی علا اللہ کے مسیح کی مسیح اول پر فضیلت ثابت ہوتی ہے.پہلے مسیح نے کچھ فقرے ایسے کہے جس کے نتیجہ میں آپ کے حواریوں نے یہ سمجھا کہ ہم روٹی جو توڑتے ہیں وہ مسیح کا بدن کھاتے ہیں، مسیح کا گوشت کھاتے ہیں اور جو شراب پیتے ہیں وہ مسیح کا خون پیتے ہیں اور سوائے اس ظاہری رسم کے ان کو کچھ بھی حاصل نہ ہوا اور کبھی انہوں نے غور نہیں کیا کہ مسیح کا بدن کھانے سے کیا مراد ہے اور مسیح کا خون پینے
خطبات طاہر جلدم 950 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء سے کیا مراد ہے.یہ تو ایک بڑا مکروہ نظارہ نظر آتا ہے کہ اپنے آقا کا بدن کھائے کوئی اور اپنے آقا کا خون پیئے یہ نظارہ طبیعت میں ایسی کراہت پیدا کرتا ہے کہ حیرت ہوتی نہ انہوں نے سمجھا وہ فقرہ اصل میں کیا تھا جس کے یہ معنی لئے گئے اور ساری قوم اب تک اصل حقیقت کو نہ پہچان سکی نہ اس کے تصور میں کبھی آئی کہ اس کے معنی ہیں کیا.مسیح ثانی نے بھی جو محد مصطفی ﷺ کی امت کے مسیح ہیں اسی قسم کی فقرے بولے ہیں مگر اپنے متعلق نہیں خدا تعالی کے متعلق اور یہ ثابت فرما دیا کہ پہلے مسیح کی مراد کی تھی ، ہم پر یہ کھول دیا فرمایا: اس درجہ پر مومن کی روٹی خدا ہوتا ہے جس کے کھانے پر اس کی زندگی موقوف ہے اور مومن کا پانی بھی خدا ہوتا ہے جس کے پینے سے وہ موت سے بچ جاتا ہے.یعنی خدا تعالیٰ مومن کی زندگی کا ذریعہ ہے، اس کی قوت کا ذریعہ ہے، اس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا.گویا اگر تم زندگی چاہتے ہو تو اس طرح کا تعلق خدا سے قائم کرو کہ گویا وہ تمہارے بدن میں داخل ہو گیا، تمہاری رگ و پے میں شامل ہو گیا، تمہارے خون میں سرایت کر گیا اور تمہاری رگوں میں دوڑنے لگا.یہ مضمون تھا جو حضرت مسیح بیان فرمانا چاہتے تھے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ پاکیزہ بنوتو مجھے سے ایسی محبت کرو کہ گویا میں تمہارے وجود میں شامل ہو گیا ہوں لیکن وہ فقرہ اس قسم کے اشارے اپنے اندر رکھتا تھا کہ جو نسبتا کم ذہن لوگوں کی سمجھ سے بالا تھے اور مجبور اوہ لوگ ٹھوکر کھا گئے اور لاعلمی کی سزا اب تک پارہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو اپنی ذات کی بجائے خدا کی طرف منسوب کر کے اور خون کی جگہ پانی کا لفظ استعمال کر کے اس مضمون کو خوب کھول دیا ہے اور پھر ساتھ یہ بھی فرمایا: ” اور اس کی ٹھنڈی ہوا بھی خدا ہی ہوتا ہے جس سے اس کے دل کو راحت پہنچتی ہے.اور اس مقام پر استعارہ کے رنگ میں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ خدا اس مرتبہ کے مومن کے اندر داخل ہوتا اور اس کے رگ وریشہ میں سرایت
خطبات طاہر جلدم 951 خطبه جمعه ۲۹/ نومبر ۱۹۸۵ء کرتا اور اس کے دل کو اپنا تخت گاہ بنالیتا ہے.تب وہ اپنی روح سے نہیں بلکہ خدا کی روح سے دیکھتا اور خدا کی روح سے سنتا اور خدا کی روح سے بولتا اور خدا کی روح سے چلتا اور خدا کی روح سے دشمنوں پر حملہ کرتا ہے کیونکہ وہ اس مرتبہ پر نیستی اور استبلاک کے مقام میں ہوتا ہے اور خدا کی روح اس پر اپنی محبت ذاتیہ کے ساتھ تجلی فرما کر حیات ثانی اس کو بخشتی ہے.پس اس وقت روحانی طور پر اس پر یہ آیت صادق آتی ہے.ثُمَّ انْشَأْنُهُ خَلْقًا أَخَرَ فَتَبْرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخُلِقِيْنَ 66 ( تفسیر حضرت مسیح موعود جلد ۳ سورة النحل تالیس صفحه ۳۷۳) خدا کرے خدا تعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کو بھی ہم میں سے ہر فردکو، مردوں کو بھی عورتوں کو بھی ، بڑوں کو بھی اور بچوں کو بھی وہ خلق آخر عطا کرے کہ جس کے نتیجہ میں ہم خدا کی روح سے سننا سیکھیں خدا کی روح سے بولنا سیکھیں ، خدا کی روح ہمارے رگ و پے میں سرایت کر جائے خدا کی روح سے اٹھیں اور خدا کی روح کے ساتھ سوئیں اور خدا کی روح کے ساتھ چلیں تا کہ غیر کی مجال نہ ہو کہ ان پر حملہ کرے جن پر حملہ کرنا گویا خدا پر حملہ کرنا ہو.
خطبات طاہر جلدم 953 خطبہ جمعہ ۶/ دسمبر ۱۹۸۵ء نمازوں کو سنوار کر اور سوز وگداز پیدا کر کے ادا کریں ( خطبه جمعه فرموده ۶ دسمبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پچھلے چند خطبے اقامة الصلوة کی طرف توجہ دلانے کے لئے وقف کئے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا سے جو اطلاعیں مل رہی ہیں ان خطبات کا بہت نیک اثر ظاہر ہوا ہے.انتظامات کی طرف سے بھی یہی اطلاعیں ملی ہیں اور انفرادی طور پر بھی کہ بکثرت ایسے نوجوان جو نمازوں میں ست تھے خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑے انہماک اور توجہ سے نماز ادا کرنے لگ گئے ہیں اور وہ جو نماز نہیں پڑھتے تھے وہ پڑھنے لگ گئے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ تربیت کا مسئلہ اتنا آسان نہیں جتنا بعض لوگ اسے سمجھ لیتے ہیں.باوجود اس کے کہ بار بار کوشش کی جاتی ہے کوشش میں ذراسی بھی کمی واقع ہو جائے یا وہ محرکات پیچھے ہٹ جائیں جن کے نتیجہ میں ایک بات ظاہر ہوتی ہے تو انسانی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ وہ نیکیوں سے بھی پیچھے ہٹنے لگتی ہے.چنانچہ رمضان شریف عبادت کو جتنا بلند مقام عطا کر جاتا ہے اگر انسانی طبیعت میں اسے قائم رکھنے کا خاصہ ہوتا ، یہ طاقت ہوتی کہ اسے سمیٹ لے اور چمٹ کے بیٹھ جائے تو ناممکن تھا کہ رمضان شریف کے دوسرے یا تیسرے مہینے مسجدوں کا وہ حال ہو جاتا جو ہمیں نظر آتا ہے اور دل کو تکلیف دیتا ہے.کہاں رمضان کی رونقیں اور کہاں رمضان کے بعد کی مسجد کی حالت حالانکہ جس خدا سے تعلق کے اظہار کے طور پر مومن مسجد میں جاتا ہے وہ خدا تو اسی طرح اس کا منتظر رہتا ہے اس میں تو کوئی زوال نہیں.وہ خدا اسی طرح اس کی محبت کی طلب کرتا ہے جس طرح ایک محبوب اپنے پیارے
خطبات طاہر جلدم 954 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء کی محبت کی طلب کرتا ہے.کبھی اس محبت میں انتہا کر دینی اور کبھی اتنا پیچھے ہٹ جانا کہ گویا واسطہ ہی کوئی نہیں تھا، واقفیت ہی کوئی نہیں تھی، یہ رمزیں تو عاشقی کی رمزیں نہیں ہیں.پس جہاں مومن کو سمجھانے کی ضرورت ہے وہاں اس مومن کو جو تربیت کا کام کرتا ہے خود یہ سمجھنے کی بھی ضرورت ہے کہ خدا تعالیٰ کے حقوق ادا کرتے وقت استقلال اور صبر سے کام لینا چاہئے اور وقتی نیکیاں کوئی حیثیت نہیں رکھتیں.نیکیوں کی ذات میں دوام کا معنی پایا جاتا ہے.قرآن کریم الصالحات کے ساتھ الباقیات کا ذکر فرماتا ہے.الصلحات الباقيات وَالْبقِيتُ الصلحت (مریم: ۷۷) یعنی جس طرح مرضی اس کو بیان کریں دونوں کے درمیان ایک بندھن ہے کہ باقی رہنے والی چیز ہی اصل میں صالح ہے.صالح چیز ہی وہ ہے جو باقی رہا کرتی ہے باقی چیزیں مٹ جایا کرتی ہیں.تو نیکیاں بھی اگر ان میں بقا پیدا نہ ہو، ان میں اگر دوام نہ آئے تو وہ کوئی مستقل نتیجہ پیدا نہیں کیا کرتیں.اس لئے جب ہم سوسائٹی پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمارے نزدیک وہی نیکیاں نیکیاں ہیں جو قومی قوت کا موجب ہیں جن میں دوام آ گیا ہے، جو ہمیشہ کے لئے اپنی ذات میں قائم ہوگئی ہیں اور نماز کے ساتھ قیام کا لفظ اسی لئے بار بار بولا گیا اور بار بار استعمال ہوا کہ نماز ہے ہی وہی جو قائم ہو چکی ہو.جو نماز قائم نہ ہوئی ہو، آئی اور گزرگئی ، کھڑی ہوئی اور پھر گر گئی، قرآن کریم کی اصطلاح میں اس کو نماز نہیں کہا جاتا.پس یہ خوشی کی بات تو ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بکثرت جماعت کی توجہ نمازوں کی طرف مبذول ہوئی ہے.جو پہلے کم پڑھتے تھے وہ زیادہ پڑھنے لگے، جو نہیں پڑھتے تھے وہ پڑھنے لگ گئے، کوئی شک نہیں خوش کن خبر ہے لیکن اس کے پس منظر میں کچھ تکلیف دہ چیزیں بھی نظر آ رہی ہیں.جو پڑھتے تھے انہوں نے چھوڑی کیوں تھیں، جو زیادہ پڑھتے تھے انہوں نے کم کیوں شروع کر دیں اور اگر ایک دفعہ ایسا ہوا ہے تو کل کیوں نہیں ہوگا؟ اس کی فکر کرنی چاہئے.یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے اور مذکر کو خود یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب تک میں مستقلاً خود نصیحت پر دوام اختیار نہیں کروں گا اس قسم کے دردناک واقعات ہوتے ہی رہیں گے اور میرا کام نہ صرف یہ کہ پیغام پہنچانا ہے بلکہ اس پیغام کو زندہ رکھنا اور مسلسل یاد دلاتے چلے جانا ہے.چنانچہ قرآن کریم آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخاطب کر کے فرماتا ہے فَذَكِّرُ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّر (الغاشیہ: ۲۲) نصیحت کر
خطبات طاہر جلدم 955 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء اور نصیحت کرتا چلا جا.اِنَّمَا أَنْتَ مُذَكَّر تو ہے ہی نصیحت کرنے والا.تیری دائی صفت ہے که تو نصیحت کرتا ہے اور نصیحت کرتا چلا جاتا ہے.پس حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نام هُذَكِّر ہونا بتاتا ہے کہ نصیحت وہی ہے جو دوام پکڑ جاتی ہے.نہ صرف یہ کہ نیکیوں کو دوام ہونا چاہئے بلکہ جو نیکیاں قائم کرنے والے لوگ ہیں وہ اپنی نصیحت کو بھی دوام بخشتے ہیں.وہ تھکتے نہیں اور بار بار کہتے چلے جاتے ہیں اور کہتے چلے جاتے ہیں.پس تنظیموں کو میں توجہ دلاتا ہوں اور انفرادی طور پر ان دوستوں کو بھی جو خدا تعالیٰ کے فضل سے خود نمازوں پر قائم ہو چکے ہیں اور دائم ہو چکے ہیں اور محافظ ہو چکے ہیں کہ وہ دوسروں کی نمازوں کو بھی قائم کریں ، ان کو حفاظت کے معیار تک پہنچائیں اور دوام بخشیں اور جب تک یہ نہیں ہوتا وہ نہ تھکیں، نہ ماندہ ہوں، ہرگز پیچھے نہ ہیں.مستقل محنت کے ساتھ کام کریں یہاں تک کہ جب نماز میں خود اپنی ذات میں قائم ہو جائیں گی ، جب قرآنی اصطلاح کے مطابق انہیں دوام آجائے گا، ان کی حفاظت ہو جائے گی پھر وہ آزاد ہیں پھر خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کو کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا.دوسرا پہلو اس بات کا یہ ہے کہ جب بھو کے آدمی کے کان میں یہ آواز پڑتی ہے کہ برتن لگ گئے ہیں تو خوشی تو ہوتی ہے لیکن اس سے بہتر آواز یہ ہے کہ کھانا لگ گیا ہے.برتن لگنا بھی اچھی بات ہے کیونکہ اس سے کھانے کے قرب کی خوشبو آنے لگتی ہے لیکن جب کھانا لگ جائے تو ایک بھوکے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی آواز نہیں.جب یہ اطلاع ملتی ہے کہ نمازیوں سے مسجد میں بھر گئی ہے تو یہ اطلاع ایسی ہی ہے جیسے کہا جائے کہ برتن لگ گئے ہیں.جب تک نمازیں خدا کے پیار سے اور اس کی محبت سے اور اس کے عرفان سے اور اس کی حمد اور اس کی ثناء سے بھر نہیں جاتیں اس وقت تک یہ آواز وہ آواز بہر حال نہیں ہے کہ کھانا لگ گیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے اکثر نمازی بدقسمتی سے اپنی اکثر نمازوں کے لحاظ سے خالی برتن لئے پھرتے ہیں اور بعض نمازی جو با قاعدہ نماز پڑھنے والے ہیں اور ایک بھی نماز کا ناغہ نہیں کرتے بدقسمتی سے ان کی اکثر نمازیں بھی خالی برتنوں کی طرح ہوتی ہیں.اس کی کئی وجوہات ہیں.ان وجو ہات کو سمجھنا چاہئے اور ان کی طرف توجہ دینی چاہئے اور نماز کی حفاظت کا یہ بھی حصہ ہے.حقیقت
خطبات طاہر جلدم 956 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء یہ ہے کہ خالی نماز ایک بے حفاظت چیز ہے اور وہ فائدے نہیں بخش سکتی جو ایک بھری ہوئی نماز کے فوائد ہوتے ہیں.اور ان مقاصد کوحل نہیں کرتی جو مقاصد ایک بھری ہوئی نماز سے حاصل ہو سکتے ہیں.بھری ہوئی نماز سے کیا مراد ہے؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر سے نماز بھرنی چاہئے ، پھر ان مطالب سے نماز بھرنی چاہئے جو نماز کے الفاظ میں موجود ہیں.جب ہم الفاظ ادا کرتے ہیں تو چونکہ بہت سے لوگ نماز کے مطلب سے ہی بے خبر ہوتے ہیں یعنی معنی سے بے خبر ہوتے ہیں اس لئے وہ بے چارے الفاظ تو کہہ جاتے ہیں لیکن انہیں پتہ نہیں لگتا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں.میں نے پہلے بھی اس مضمون کو بیان کیا تھا، اس کی میں تکرار نہیں کرنا مگر یہ بتانا چاہتا ہوں کہ باجماعت نماز کے بعد نماز کے معانی سکھانے اور مطالب سکھانے کا انتظام ہونا چاہئے.معانی سے میری مراد یہ ہے کہ سادہ معانی اور مطالب سے میری مراد یہ ہے کہ معنوں کے اندر جو گہرے مضمون پائے جاتے ہیں ان سے آگاہ کیا جائے.یہ کام بچپن سے شروع کرنا چاہئے.اگر آپ بچپن میں نماز معانی کے ساتھ اور مطالب کے ساتھ از بر کروادیں تو بچے کا ذہن اتنا گہرا اثر اور نقش قبول کرتا ہے کہ پھر وہ مٹ ہی نہیں سکتا، اس کے لئے ہمیشہ کے لئے ایک ترقی کا رستہ کھل جاتا ہے.اس رستے پر چلنا یا نہ چلنا اس کا کام ہے مگر رستہ بہر حال اسے میسر آجاتا ہے.بڑے آدمی پر محنت بھی بہت زیادہ کرنی پڑتی ہے اور جو محنت کی جائے اس کا نتیجہ اتنا اچھا نہیں نکلتا جتنا بچے پر محنت کرنے کا نتیجہ نکلتا ہے لیکن بہت سے ایسے بچے ہیں جو اس عمر سے گزر بھی چکے اور کسی نے ان کو نماز نہیں سکھائی.یعنی اس کے معانی نہیں بتائے ، اس کے مطالب سے آگاہ نہیں کیا اور جوانی کے دور میں داخل ہو گئے ہیں، بہر حال ان پر جوانی میں محنت کرنی پڑے گی.ایسے بوڑھے بھی ملیں گے جو جوانی سے گزر کر بڑھاپے میں داخل ہو گئے ہیں اور نماز کے معانی سے نا آشنا ہیں.ان پر بڑھاپے میں محنت کرنی پڑے گی اور جتنی عمر بڑھتی چلی جائے گی اتنی آپ کو زیادہ محنت کرنی پڑے گی.یہ چونکہ ایک نسل کا کام نہیں ہے ، ایک دور کا کام نہیں ہے، قیامت تک کے لئے اپنی نسلوں کی حفاظت کی ذمہ داری خدا تعالیٰ ہم پر ڈالتا ہے اس لئے اسے آج شروع کریں.کل آپ کے بزرگوں نے جو آپ پر محنت کی تھی اس کا پھل آج آپ کھا رہے ہیں.کل کے بچوں پر آپ نے محنت کرنی ہے اور کل کی آنے والی نسلوں کو آپ نے پھل عطا کرنے ہیں.اس لئے بزرگوں کی محنت کا شکریہ ادا کرنے کا
خطبات طاہر جلد۴ 957 خطبہ جمعہ ۶/ دسمبر ۱۹۸۵ء ایک یہ طریق ہے کہ آپ آئندہ ان کے فیض کو جاری کر دیں دوسرا پہلو نمازوں کے بھرنے کے متعلق یہ ہے کہ جب تک اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم نہ ہو اور نماز کا مقصد واضح نہ ہو اس وقت تک مطالب معلوم ہونے کے باوجود بھی نماز نہیں بھرے گی.بعض دفعہ پھل موٹا بھی ہو جاتا ہے لیکن پکتا نہیں.تو جو لذت پکے ہوئے پھل کے کھانے سے حاصل ہوتی ہے اگر کچے پھل پر آپ منہ ماریں تو بالکل اس کا برعکس نتیجہ نکلتا ہے.بعض پھل جو پکنے کے بعد نہایت شیریں ہو جاتے ہیں، اس سے بھر جاتے ہیں اگر کچے کھائے جائیں تو نہ صرف یہ کہ شدید تکلیف پہنچتی ہے بلکہ بعض دفعہ عوارض لگ جاتے ہیں اس لئے نماز کوصرف مطالب سے پڑھنا کافی نہیں جب تک ان مطالب میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا رس داخل نہ ہو جائے ، اس وقت تک ان مطالب میں مزہ نہیں آسکتا اور نماز کے ساتھ ایک ذاتی لگاؤ پیدا نہیں ہوسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نماز کا مقصد وصل بیان فرماتے ہیں.فرماتے ہیں یہ تو ایک سواری ہے جس پر بیٹھ کر انسان کسی محبوب کی طرف جاتا ہے اور ہر دفعہ ہر سفر کا مقصد اس سے ملاقات ہے.پس اگر آپ پانچ نمازیں پڑھتے ہیں تو نماز کی سواری پر بیٹھ کر آپ پانچ دفعہ خدا تعالیٰ کی ملاقات کے لئے روانہ ہوتے ہیں، اگر چھ نمازیں پڑھتے ہیں تو چھ دفعہ روانہ ہوتے ہیں اور اگر اس کے علاوہ اور نوافل پڑھ لیتے ہیں تو اتنی ہی دفعہ خدا کی خدمت میں حاضر ہونے کے لئے روانہ ہوتے ہیں.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسی مضمون کو احسان کی تفسیر کے طور پر بیان فرمایا ہے.فرمایا احسان کیا ہے؟ اس طرح نماز پڑھنا کہ گویا تو خدا کو دیکھ رہا ہو.یعنی وصل کی اور کیا تعریف ہے نہ صرف خدا کے حضور حاضر ہو بلکہ اسے دیکھ رہے ہو اور اگر اتنی توفیق نہیں ملتی اس مقام تک نہیں پہنچتے تو کم سے کم اتنا تو ہو کہ گویا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.( بخاری کتاب الایمان حدیث نمبر ۴۸ ) ایسی نمازیں اصل میں وہ نمازیں ہیں جو شیریں اور پر لذت مضمون کے ساتھ بھر جاتی ہیں کیونکہ جس شخص کو آپ مخاطب کر رہے ہیں اور اس کی ثناء اور اس کی تسبیح کر رہے ہیں ، اس کی حمد کے گیت گا رہے ہیں اگر وہ سامنے موجود ہو اور آپ کو احساس ہو کہ وہ سن رہا ہے پھر آپ کی اس تعریف اور اس حمد و ثناء میں ایک خاص لذت پیدا ہو جائے گی اور اگر اس کی حاضری کا احساس نہ ہو یا یہ بھی احساس نہ ہو کہ وہ ہمیں دیکھ
خطبات طاہر جلدم 958 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء رہا ہے تو یہ ساری چیزیں بے معنی ہو جائیں گی وہی الفاظ آپ زندگی میں کروڑوں دفعہ بھی دہرائیں تو ان کے کوئی معنی نہیں ہوں گے یعنی مطلب سمجھنے کے باوجود بھی وہ نتیجہ خیز نہیں ہوں گے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی طرف بار بار توجہ دلاتے ہیں اور وصال نہ ہونے کی دوا بھی بتاتے ہیں.وصال کیسے نصیب ہوتا ہے؟ اس کا علاج کیا ہے اگر نصیب نہ ہو تو ؟ فرماتے ہیں : جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کر سکتا“.پس ان معنوں کی رو سے احسان کا ایک اور معنی بھی سمجھ آگیا کہ کیوں اسے احسان کہا گیا ؟ حضرت اقدس محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لقاء کا نام احسان بیان فرمایا ہے.اس کا ایک عارفانہ نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ اس لئے کہ خدا کے احسان کے بغیر وصال نہیں ہو سکتا یہ ہے احسان اللہ کا احسان جب بندے پر ہو جائے تو اس کی نمازوں میں خدانظر آنے لگ جاتا ہے.ایک اور طریق سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام اس مضمون کو بیان فرماتے ہیں کہ نمازوں کو وہاں تک آگے بڑھاؤ ، وہاں تک نمازوں پہ محنت کرو کہ وہ جو سنتا ہے وہ بولنے لگ جائے.یعنی خدا اور بندے کے تعلق میں نمازوں کے ذریعہ پہلے تو یک طرفہ مناجات کا تعلق قائم ہوتا ہے اور جب وہ تعلق بڑھتا چلا جاتا ہے اور انسان اس کے حضور یک طرفہ گزارشات کرتا چلا جاتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ پھر ایک ایسا وقت آتا ہے کہ وہ جو سنتا ہے وہ پھر بولتا بھی ہے ، وہ جواب بھی دیتا ہے.اس طرح لقاء کا مضمون مکمل ہو جاتا ہے.وہ سامنے آکھڑا ہوتا ہے.یعنی پہلے تمہیں احساس کرنا پڑے گا کہ گویا وہ سامنے ہے ، پھر جب اس کی صفات کے گیت گاؤ گے تو یوں محسوس ہو گا جیسے واقعہ وہ کھڑا ہے اور تمہیں دیکھ رہا ہے اور بعد ازاں وہی وجود بولنے لگ جائے گا اور اپنے کلام سے اپنے وجود کا ثبوت دے گا.یہ سب کچھ کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو ” جب تک خدا کسی کو پاک نہ کرے کوئی پاک نہیں ہوسکتا اور جب تک وہ خود وصال عطا نہ کرے کوئی وصال کو حاصل نہیں کر سکتا.طرح طرح کے
خطبات طاہر جلدم 959 خطبہ جمعہ ۶/ دسمبر ۱۹۸۵ء طوق اور قسم قسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں“.اب آپ اس سے اندازہ کریں کہ نماز کو قائم کرنا درحقیقت کتنی محنت کا کام ہے اور ہونا بھی چاہئے.دنیا کے ادنیٰ سے ادنیٰ مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے بغیر محنت اور کوشش کے وہ حاصل نہیں ہوتے اس لئے یہ تصور کر لینا کہ نماز میں کھڑے ہو گئے اور آپ نے پوری کوشش تمام کر دی اور جو حق تھا ادا کر دیا کیونکہ آپ نے وضو کیا اور نماز میں جاکے کھڑے ہو گئے اور نتیجہ نہیں نکلا اور پھر اس کی ذمہ داری کس پہ ڈالی جاتی ہے اللہ تعالیٰ پر نعوذ باللہ کہتے ہیں ہم تو چلے گئے تھے خدا نے آگے سے جواب ہی نہیں دیا.ہم تو گئے تھے لیکن ہمارے دل میں کوئی نیکی پیدا نہیں ہوئی، کوئی لذت محسوس نہیں ہوئی ، کوئی نتیجہ نہیں نکلا.ایک دوڑ کے مقابلے کے لئے دنیا میں لاکھوں لاکھ انسان دن رات مشقتیں کرتے ہیں کہ وہ عالمی چمپیئن بنیں اور سو گز دوڑ میں آگے جائیں اور اس مقصد کے حصول کے لئے جو دیکھنے والے ہیں ان کو تو یہی نظر آتا ہے کہ وہ دوڑ پڑا ہے اور بڑا اچھا دوڑ رہا ہے لیکن جو دوڑ میں شامل ہوتے ہیں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ کتنی لمبی محنت کی ضرورت ہے.ان محنتوں کے بعد بسا اوقات انسان اپنے ضلع کا اول کھلاڑی بھی بن جائے تو یہ بھی ایک بڑی غنیمت ہے.بعض ممالک کے کھلاڑی کئی سالوں کی محنت کے بعد بھی اس مقام پر نہیں پہنچتے کہ وہ اپنے ملک کی ٹیم میں شامل ہونے کے اہل قرار دیئے جائیں اور پھر وہ جو اہل قرار دیئے جاتے ہیں وہ عالمی چمپیئن شپ میں داخل ہونا تو درکنار ایسے مقابلے میں ہی ختم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کو داخلے کی اجازت مل سکتی ہے.تو دیکھنا اور بات ہے اور علم حاصل ہونا اور بات ہے کہ فلاں آدمی فرسٹ آ گیا ، اول آیا ، بڑا اچھا دوڑا تھا اور جد و جہد کر کے اس مقصد کو حاصل کرنا یہ بالکل الگ بات ہے.تو نمازوں کو کیوں اتنا آسان سمجھا گیا ہے کہ اس میں کوئی محنت کی ضرورت نہیں جبکہ کائنات کا بلند ترین مقصد یعنی حصول باری تعالی ، لقاء باری تعالیٰ.اللہ تعالیٰ مل جائے اور اس کا لقاء حاصل ہو جائے.اس مقصد کی اہمیت لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وضو کیا، نماز میں کھڑے ہو گئے اور خدامل گیا اور بات ختم ہو گئی.یہ ہو ہی نہیں سکتا یہ خدا تعالیٰ کے کارخانہ قدرت کے خلاف ہے.اس نے جو نظام قدرت جاری کیا ہے اس کے بالکل بر خلاف بات ہے.جتنا بڑا مقصد ہواتنی بڑی محنت کی ضرورت
960 خطبه جمعه ۶ دسمبر ۱۹۸۵ء خطبات طاہر جلدم ہوتی ہے.قرآن کریم بیان فرماتا ہے یا يُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلقِيهِ (الانشقاق :ے ) وہ انسان جو خدا کی طرف محنت کر رہا ہے اور بڑی شدید محنت کر رہا ہے.اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّكَ كَادِ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَمُلْقِيْهِ چونکہ تو بے انتہا محنت کر رہا ہے اس لئے بالآخر ہم تجھے خوشخبری دیتے ہیں کہ تو اپنے خدا کو پالے گا ، اس کی ملاقات کر لے گا جو نما زادا کرتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ اس مطلب کو سمجھیں ، اس مقصد کو سمجھیں اور اس کے مطابق محنت کریں.یہ نہ سمجھیں کہ چند نمازوں سے یا خالی خولی مسجد پہنچ کر کھڑے ہو جانے سے مطلوب حاصل ہو جائے گا.کچھ نہ کچھ فوائد ضرور حاصل ہوں گے، یہ محسوس ہونے لگ جائے گا کہ ہم نسبتاً خدا کے زیادہ قریب ہو رہے ہیں.کچھ نہ کچھ اور فوائد بھی حاصل ہوں گے اور یہ محسوس ہونے لگ جائے گا کہ ہم نسبتاً بہتر انسان بن رہے ہیں ، ہمارا ضمیر جاگ رہا ہے، ہمارانفس لوامہ پہلے سے زیادہ طاقتور ہورہا ہے، ہماری برائیوں اور بدیوں پر زیادہ سختی سے نگرانی کر رہا ہے، اللہ کے ذکر کا کہیں کہیں لطف بھی آنے لگ گیا ہے لیکن یہ تو بہت لمبے مقامات ہیں میں یہ نہیں کہتا کہ بہت محنت کے بعد اچانک پھل ملے گا.میرا مطلب صرف یہ ہے کہ بہت محنت کرنی پڑی گی ، بہت لمبی جد و جہد کرنی پڑے گی.ہر منزل پر کچھ نہ کچھ خدا کے قرب کی خوشبوئیں ضرور آئیں گی ، کچھ نہ کچھ نماز کے فائدے ضرور حاصل ہوں گے لیکن اصل مقصد تک پہنچنے کے لئے بہت بڑی محنت کی ضرورت ہے.قسم قسم کے زنجیر انسان کی گردن میں پڑے ہوئے ہیں اور وہ بہتیرا چاہتا ہے کہ یہ دور ہو جاویں پر وہ دور نہیں ہوتے.باجود انسان کی خواہش کے کہ وہ پاک ہو جاوے نفس لوامہ کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں“.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کیسا عظیم کلام ہے.آپ کے ایک ایک جملے میں قرآن کریم کی ایسی عظیم الشان تفسیر میں ہیں کہ انسان ورطہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے.نفس لوامہ کی لغزشیں ہو ہی جاتی ہیں.مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے نفس لوامہ جو انسان پر نگران مقرر کر رکھا ہے کہ جب کوئی برا خیال آئے ، جب بدی کا ارادہ کرے تو وہ توجہ دلائے وارننگ دے اور وہ ہمیشہ دیتا ہے.لیکن ان لوگوں میں بھی جو نہیں چاہتے کہ بدی میں مبتلا ہوں بعض موقع پر نفس لوامہ لغزش کھا جاتا
خطبات طاہر جلدم 961 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء ہے اس کی آواز کمزور ہو جاتی ہے.یا خواہش کے تلے دب جاتی ہے.تو فرمایا یہ نفس لوامہ کی لغزشیں پھر بھی ساتھ لگی رہتی ہیں.پس گناہوں سے پاک کرنا خدا کا کام ہے اس کے سوائے کوئی طاقت نہیں جو زور کے ساتھ تمہیں پاک کر دے.پس پاک جذبات کے پیدا کرنے کے واسطے خدا تعالیٰ نے نماز رکھی ہے.نماز کیا ہے ایک دعا جو دردسوزش اور حرقت کے ساتھ خدا تعالیٰ سے طلب کی جاتی ہے تا کہ یہ بد خیالات اور برے ارادے دفع ہو جائیں اور پاک محبت اور پاک تعلق حاصل ہو جاوے“.اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تین ایسی باتیں بیان فرمائی ہیں جن کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے.اول نماز کو ایک ایسی دعا قرار دیا جو درد، سوزش اور حرقت یعنی بڑی شدت کے ساتھ گرمی اپنے اندر رکھتی ہے.در حقیقت نماز کے معانی میں ایک سوزش اور جلن کا مضمون پایا جاتا ہے.بعض اہل لغت کے نزدیک صلوۃ کا لفظ صلی سے نکلا ہے.جس کا معنی ہے جلنا اور صلی کا مطلب ہے اس نے جلایا، یا وہ جلا، یاوہ ایسی چیز میں داخل ہو گیا جو جلانے والی ہو.قرآن کریم میں جو تصلى نَارًا حَامِيَةً ( الغاشیہ: ۵) آتا ہے کا یہی معنی ہے.صلی کا لفظ ایک ایسے اقدام کے لئے بولا جاتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان کو گرمی پہنچے، آگ کا سامنا کرنا پڑے.يَصْلَى النَّارَ الْكُبُری (الاعلی : ۱۳) بھی فرمایا کہ وہ بڑی آگ میں داخل ہو رہا ہے، یا ہو گیا ہے، یا ہو جائے گا.وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ( النساء :(۱) وہ جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل کئے جائیں گے.فَسَوْفَ نُصْلِيْهِ نَارًا ( النساء: ۳۱) پھر ہم یقیناً اسے آگ میں داخل کر دیں گے.یہ سارا مضمون جس میں لفظ صلی آیا ہے اس کا تعلق آگ سے اور گرمی سے ہے.چنانچہ بعض اہل لغت نے یہ کہا ہے کہ نماز کی اصل یہی ہے یعنی لفظ صلوۃ کی اصل یہی صلی ہے.اس کا نماز سے پھر کیا تعلق ہے.اگر صلی کا مطلب جہنم میں داخل ہونا ہے تو نماز کا تو یہ مطلب نہیں یہ تو اس کے بالکل بر عکس معنی رکھتی ہے.اس کے کیا معنی ہیں؟ بعض اہل لغت نے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ در اصل صلوة يا صلى یصلی یہ جو استعمال ہے لفظ صلی سے نکلا ہوا ہے یہ باب تفعیل ہے جیسے مرض يمرض تمریضا کہتے ہیں اسی طرح صلى يصلى تصلیا یہ وہ باب تف تفعیل بتاتے
خطبات طاہر جلد۴ 962 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء ہیں.اور باب تفعیل میں یہ خاصیت پائی جاتی ہے کہ جس معنی کے لئے اصل لفظ ہے اس کے برعکس معنی پیدا کر دیا کرتا ہے.چنانچہ مرض کا مطلب ہے وہ مریض ہو گیا.وہ بیمار ہو گیا.لیکن جب باب تفعیل میں یہ لفظ بولیں گے تو مرض کہیں گے جس کا مطلب ہے کہ اسے شفا دے دی.اور یہ عرب استعمال ہے.مَرَّضَہ کسی نے اس کو شفا دے دی.اور مرض کا مطلب ہے بیمار ہو گیا.اہل لغت کہتے ہیں که در اصل اصلی کا مطلب یہ ہے کہ جہنم کی آگ سے بچانے والی چیز.صلی کا برعکس معنی.صلی کا مطلب ہے آگ میں داخل ہو گیا جبکہ صلَّی کا مطلب ہے آگ کو اپنے سے دور کر دیا.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کے اور معنی بیان فرمائے ہیں.آپ یہ فرماتے ہیں کہ اس کے مضمون میں آگ ہی داخل ہے لیکن وہ آگ محبت الہی کی آگ ہے اور محبت الہی کی آگ سے غیر آگ کو دفع کرنا اس کا معنی ہے.آگ کے مضمون میں جو سوزش اور حرقت ہے اس سے مراد اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کے پیار کی آگ ہے اس لئے آگ کا مضمون تو ہے لیکن آگیں کئی قسم کی ہوتی ہیں.انسان محبت کی آگ میں بھی جلتا ہے.عشق اور پیار سے بھی گرمی محسوس کرتا اور حسد سے بھی کرتا ہے.ان دونوں آگوں کا نتیجہ بالکل مختلف ہے ، عشق اور محبت کی آگ دل کو گداز کر دیتی ہے اور حسد کی آگ اس کو جلا کر خاکستر کر دیتی ہے.ایک عذاب ہے اور ایک لذت ہے.ان دونوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چونکہ اہل لغت کے مضمون ہی کو نہیں جانتے بلکہ عارف باللہ بھی ہیں، ایک صاحب تجر بہ بزرگ ہیں.اس لئے آپ نے جو معنی پیدا کئے ہیں وہ اہل لغت کے معنی سے کہیں زیادہ بالا اور ارفع اور عالی شان رکھنے والے ہیں.آپ یہ مضمون بیان فرماتے ہیں کہ اگر نماز میں خدا کی محبت ایک گرمی پیدا نہ کرے تو نماز ہے ہی نہیں کیونکہ وہ اصل سے خالی ہوگی.نماز کی اصل ہی گرمی ہے اور وہ گرمی چونکہ خدا کی محبت کی گرمی ہے اس لئے اس کے بغیر جو نماز ہے وہ خالی اور بے معنی ہے.اس کا لفظ نماز کے ساتھ حقیقت میں کوئی تعلق نہیں.فرماتے ہیں صلوٰۃ کا لفظ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دعا صرف زبان سے نہیں بلکہ اس کے ساتھ سوزش اور جلن اور حرقت کا ہونا ضروری ہے.خدا تعالیٰ دعا کو قبول نہیں کرتا جب تک انسان حالت دعا میں ایک موت تک نہیں پہنچ جاتا.
خطبات طاہر جلدم 963 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء یہ جو مضمون ہے یہ تو بظاہر ڈرانے والا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آگ کا ایک اور مضمون بیان فرمایا ہے.آگ کے دو پہلو ہیں.ایک آگ وہ ہے جو عشق الہی کی آگ ہے اور وہ سوز و گداز پیدا کرتی ہے اور یہی آگ دوسرے جلانے کے معنی بھی رکھتی ہے یعنی گناہوں کو جلا دے اور غیر اللہ کی محبت کو جلا دے اور وہ موت وارد کر دے جس میں انسان سوائے خدا کے باقی سب کے لئے مرجاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ڈرانے کے لئے یہ الفاظ استعمال نہیں فرمار ہے بلکہ نہایت ہی گہرے معنوں کی طرف متوجہ فرمارہے ہیں کہ اگر یہ محبت کی آگ زیادہ روشن ہو جائے ، اس کا الاؤ زیادہ بھڑک اٹھے، اس وقت پھر تمام غیر اللہ پر تمام غیر خواہشوں پر موت وارد ہو جاتی ہے کیونکہ وہ اس آگ میں جل جاتی ہیں.یہ مقام بہت بلند اور بہت بعد کا مقام ہے لیکن اس کی جھلکیاں مومن آغاز سے ہی دیکھنے لگ جاتا ہے.انتظار کی ضرورت ہی نہیں پڑتی کیونکہ نفس امارہ کا یہ جو کلی طور پر جل جانا ، یہ یک دفعہ نہیں ہوا کرتا کہ ایک دم کسی چیز کو آگ میں جھونک دیا اور وہ جل کر خاکستر ہوگئی بلکہ جوں جوں آپ قریب جائیں گے وہ گرمی محسوس ہوگی اور بعض اعضاء پر اس گرمی کا زیادہ اثر پڑے گا اور بعض پر کم پڑے گا.بعض زیادہ جلن محسوس کریں گے اور بعض زیادہ ذرا ٹھہر کر جلیں گے ان میں مقابلہ کی طاقت زیادہ ہوتی ہے.مثلاً بال فوراً جل جاتے ہیں.جلد زیادہ برداشت کر لیتی ہے.جلد جل جاتی ہے پھر گوشت کی باری آتی ہے پھر ہڈیاں جلتی ہیں اور زیادہ مقابلہ کرتی ہیں اسی طرح انسان کے گناہوں کا بدن ہے اس کے بھی مختلف مراتب میں جلنے کے وقت آتے ہیں.مختلف مقامات پر مختلف قسم کے گناہ خاکستر ہوتے ہیں اور یہ ایک لمبا کام ہے لیکن نتائج شروع ہی سے نکلنے شروع ہو جاتے ہیں.یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ نماز پڑھیں اور انتظار کریں کہ کب میں وہ مرد کامل بنوں جس کے بعد میرے گناہ ایک دم جلیں گے.اگر آپ کو ہر روز گناہ جلنے کی بو نہیں آتی ، اگر محسوس نہیں ہوتا کہ بدی کا کچھ حصہ مجھ سے غائب ہو رہا ہے تو پھر وہ نماز گرمی پیدا کرنے والی نماز نہیں.یہ بات دراصل محبت الہی کی آگ کے دو پہلو ہیں.ایک طرف وہ گداز پیدا کر کے نمو پیدا کرتی ہے.ایک نئی روحانی زندگی عطا کرتی ہے ، نئی جلا بخشتی ہے.دوسری طرف انسان کے بعض پہلوؤں کے اوپر موت وارد کر دیتی ہے.
خطبات طاہر جلدم 964 خطبہ جمعہ ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء سوال یہ ہے کہ ایک عام مقتدی کو کیا کرنا چاہئیے ؟ کوئی ایسا طریق معلوم ہونا چاہئے کہ جس کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ انسان اس اعلیٰ مقصد کی طرف نہ صرف بڑھنے لگے بلکہ محسوس کرنے لگے کہ میں بڑھ رہا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس کا خلاصہ اللہ کی محبت ہے اور اللہ تعالیٰ کی محبت کے لئے نماز کا انتظار نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اگر آپ نماز پڑھتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ نماز میں ہی محبت آجائے گی یہ درست نہیں ہے.نماز کی طرف جانے سے پہلے محبت کے آثار آپ کے اندر پیدا ہونے چاہئیں تا کہ جانے کا بھی لطف آئے خدا کے لئے پاک ہونے کا بھی لطف آئے اور پھر جب آپ نماز میں داخل ہوں تو ذہن اس کے لئے تیار ہو.اگر یہ نہ ہو تو لذت آہی نہیں سکتی.اس لئے روز مرہ کی زندگی میں نماز کو اپنے اوپر اس طرح وارد کریں کہ نماز کی تیاری کے لئے خدا تعالیٰ کی محبت میں بار بارغوطے کھانا سیکھیں اور یہ چیز ایسی ہے جو زندگی کے ہر پہلو میں ہر حالت میں انسان کو نصیب ہوسکتی ہے.ایک بھی لمحہ انسانی زندگی کا ایسا نہیں جو خدا کے فضلوں کا مظہر نہ ہو، ایک بھی دنیاوی لذت ایسی نہیں ہے جس کا رخ آپ خدا کی طرف نہیں پھیر سکتے.کھانا کھاتے ہیں آپ کو لذت آتی ہے.ایک عارف باللہ ہو اس کو بھی لذت آئے گی اور ایک دنیا کا کیڑا ہو اس کو بھی لذت آئے گی لیکن عارف باللہ اپنی ہر لذت کو دو لذتوں میں تبدیل کر دیتا ہے.جبکہ دنیا کے کیڑے کے لئے ایک ہی لذت رہ جاتی ہے.وہ فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً پر راضی ہو کر بیٹھا رہتا ہے اور وفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً (البقرہ:۲۰۲) کی طرف اس کا دماغ جاتا ہی نہیں.عارف باللہ کے لئے دنیا کی حسنہ سے آخرت کی حسنہ پیدا ہوا کرتی ہے.دو جنتوں کا یہی مضمون ہے کہ دنیا کی جنت کو وہ روحانی جنت میں تبدیل کرتے رہتے ہیں اور دنیا کے میووں کو وہ روحانی میووں میں تبدیل کرتے رہتے ہیں.یہ کام آسان بھی ہے اور لذت بخش بھی ہے.بار بار اپنے ذہن کو خدا کی طرف منتقل کرنا.چنانچہ قرآن کریم نماز کی تاکید فرماتا ہے تو ایک موقع پر فرماتا ہے:.أَقِمِ الصَّلوةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلى غَسَقِ الَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ (بنی اسرائیل: ۷۹) اس طرح چوبیس گھنٹوں کو باندھ دیا ہے.یعنی شروع کر کے آخر وقت تک گویا نماز ہی کی حالت بیان فرمائی ہے.نماز پڑھو وہاں سے شروع کر کے وہاں تک گویا بیچ میں کوئی ناغہ نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ ہر حالت جس میں سے انسان گزر رہا ہوتا ہے اس کو عبادت میں تبدیل کر سکتا ہے اور نماز اپنے
خطبات طاہر جلدم 965 خطبہ جمعہ ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء معیار کو بھی پہنچے گی اگر نماز سے پہلے نماز کی اس رنگ میں تیاری کی جائے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کی تمنا پیدا ہو جائے ، اس کی لقاء کا شوق پیدا ہو جائے اور ہر اچھی چیز سے وہ نظر آنے لگ جائے.شروع میں جب یہ آئینہ کثیف ہو گا جب دھندلا ہوگا تو دھندلی سی جھلک نظر آئے گی لیکن آئے گی ضرور.ہر لذت، ہر غم ، ہر خوف خدا کی طرف انگلی اٹھانے لگ جاتا ہے.اگر انسان اپنے اللہ کے وجود کو اپنے اوپر طاری کر لے ، اگر یہ ارادہ کرلے کہ میں نے غفلت کی حالت میں زندگی نہیں گزارنی بلکہ شعور کے ساتھ زندگی گزارنی ہے، بیداری کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو اس کو اپنے ہر طرف خدا ہی خدا نظر آئے گا کوئی چیز ایسی باقی نہیں رہے گی جہاں وہ خدا کو نہ دیکھے.اس کی زندگی حیرت انگیز طور پر ایک نئے زمین و آسمان میں داخل ہو جائے گی.اسی زمین و آسمان سے وہ نئی زمین و آسمان پیدا ہوں گے.چشم مست ہر حسیں ہردم دکھاتی ہے تجھے ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خمدار کا (در تمین صفحه: ۱۰) جہاں آپ لذتیں پائیں گے وہاں بھی خدا نظر آئے گا، جہاں لذتوں سے بچیں گے وہاں بھی خدا کو دیکھ کر بچیں گے ، جہاں آپ خوف سے ہراساں ہوں گے وہاں بھی خدا نظر آئے گا اور جہاں خوف کو دور کرنے کے لئے اپنے رب کو یاد کریں گے وہاں بھی خدا ہی کی طرف متوجہ ہوں گے.پس جب ساری زندگی پر خدا طاری ہونے لگ جائے پھر انسان یہ سوچ کر نماز کی طرف قدم بڑھائے کہ وہاں تو میں دنیا میں بھی الجھا ہوا تھا اور خدا سے بھی مل رہا تھا اب میں خالصہ اس کے لئے تنبل اختیار کر رہا ہوں ، اب اس کی طرف بڑھ رہا ہوں تو پھر اس نماز کی ہر حرکت میں انسان کے دل کے اندر ایک حرکت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.وہ جو ایک عام سا سفر ہے وہ ایک رومانیت اختیار کر جائے گا.اس میں رفتہ رفتہ پیار اور محبت کے معنی داخل ہونے شروع ہو جائیں گے.پھر جب انسان نماز کے اندر معنوں کے ساتھ غور کے ساتھ نماز پڑھتا ہے تو وہ بعض خاص مقامات پر دو طرح سے انسان غور کر سکتا ہے.ایک تو ہے ان لفظوں کا عرفان حاصل کرنا مثلاً سورۃ فاتحہ میں ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ (الفاتحہ :۲).جہاں تک اس کے عرفان کا تعلق ہے یہ اتنا وسیع مضمون ہے کہ ساری زندگی انسان سورۂ فاتحہ کے مطالب پر غور کرتا چلا جائے تب
خطبات طاہر جلدم 966 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء بھی سورہ فاتحہ ختم نہیں ہوگی اس کی زندگی ختم ہو جائے گی اور اس کی وجہ سے کبھی بوریت نہیں ہو سکتی.جولوگ خالی نمازیں پڑھتے ہیں اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ایک چیز بار بار کہہ رہے ہیں ، بار بار اسی طرح کہتے چلے جار ہے ہیں.اس سے انسان بور ہو جاتا ہے.دل اکتا جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ٹھیک ہے پہلے بھی ہم پڑھ چکے ہیں ٹھیک ہے پڑھ کر اس میں سے گزر جاؤ.یعنی کوئی حد ہونی چاہئے پانچ دفعہ نہیں بلکہ تہجد کے وقت بھی اٹھو اور پھر وہی کلمے دھراتے چلے جاؤ ، ہر رکعت میں وہی باتیں کہتے چلے جاؤ کوئی حد تو اس کی ہو جو لوگ اس طرح نماز دیکھتے ہیں ان کی نمازیں خالی ہو جاتی ہیں لیکن جو معانی اور مطالب پر غور کرنے لگ جاتے ہیں اور ڈوبنے لگ جاتے ہیں ان کی نمازوں میں ایک جذب پیدا ہو جاتا ہے.لیکن عارفانہ جذب ایک اور چیز ہے.محبت کے لئے کچھ اور بھی چاہئے اور اس کے لئے ضروری نہیں ہے کہ انسان تدبر اور فکر کرے.بعض دفعہ تو محبت تدبر اور فکر کو وہاں سے ہٹاتی ہے اور علیحدگی چاہتی ہے.یعنی فکر اور تدبر اور باتیں بھی محبت کی راہ میں حائل ہونے لگتی ہیں.وہی مضمون ہے جوانسانی فطرت کا مضمون ہے.جب نماز پر وارد ہو تو پھر آپ کو ایسے راستے دکھائے گا کہ جس کے نتیجہ میں آپ کی نماز میں لذت پیدا ہونی شروع ہو جائے گی.مطالب والا مضمون اپنی جگہ ہے ایک عارف باللہ کی نماز میں عرفان کے نقطہ نگاہ سے غوطہ خوری کے واقعات آتے چلے جاتے ہیں اور بعض دفعہ وہ ایک ہی لفظ میں ڈوب کر کئی دوسرے جہانوں میں پہنچ جاتا ہے لیکن یہ چیز ہر ایک شخص کو حاصل نہیں ہوسکتی اور ایک مشکل مقام ہے اس کے لئے بہت لمبی محنت درکار ہے اور بہت گہرا غور اور تدبر درکار ہے لیکن محبت کا مضمون نسبتا سادہ ہے، نسبتاً آسان ہے اور اس میں ایک خاص بات یہ ہے کہ تکرار کے باوجود اس میں بدمزگی پیدا نہیں ہوتی بلکہ تکرار سے مزہ بڑھنا شروع ہوتا ہے.مثلاً جب آپ سورہ فاتحہ پر غور کریں تو اس کے جو مرکزی دو کلمات ہیں وہ عشق کے مضمون کو ظاہر کرنے والے ہیں.اَلْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِيْنَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ کے عارفانہ حصے سے گزرنے کے بعد جب انسان اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُن پر پہنچتا ہے تو یہ ایک بے اختیار عشق کا اظہار ہے اور کلمہ توحید کی تفسیر ہے.لا الہ الا اللہ کی اس سے اچھی تفسیر ممکن نہیں جو ان دو لفظوں میں بیان کر دی گئی ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ.ہم تیری
خطبات طاہر جلدم 967 خطبہ جمعہ ۶ / دسمبر ۱۹۸۵ء ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں اور کسی کی طرف نہیں دیکھیں گے.عبادت کا جو مضمون ہے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے اس میں عشق کا معنی پایا جاتا ہے.کامل غلامی، جھک جانا ، اپنے وجود کو مٹا دینا ، اپنے آپ کو دوسرے کے سپر د کر دینا کہ میں تیرا ہو چکا ہوں اور یہ جو تیرا ہو چکا ہوں کا لفظ ہے یہ ہر انسان اپنی زندگی کی کسی نہ کسی حالت میں کسی دوسرے کے لئے استعمال کرتا ہے اور اس لفظ کو وہ کروڑ دفعہ بھی کہے تب بھی اس کا پیٹ نہیں بھرتا.اپنے محبوب کو ایک آدمی کہتا چلا جائے کہ میں تیرا ہوں ، تیرا ہوں ، تیرا ہوں، تیرا ہوں ہزار دفعہ ملے ہزار دفعہ وہ دو ہرائے تب بھی اس کا پیٹ نہیں بھرے گا اور نہ سننے والے کا پیٹ بھرے گا.میں تیرا ہوگیا ، میں تیرے سوا کسی کا نہیں رہا خدا نے یہ ایسی لذت اس مضمون میں رکھ دی ہے کہ دنیا کا کوئی انسان یہ کہہ نہیں سکتا کہ اے خدا! مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ مضمون کیا ہے.وہ جبی ہو یا انگریز ہو یا جاپانی ہو یا چینی ہو یا تو رانی ہو یا کسی اور وطن کا رہنے والا ، ترقی کے کسی بھی مقام پر ہو عبودیت کا مضمون انفرادی طور پر ہر انسان کو معلوم ہے، سپردگی کا مضمون ہر انسان کو معلوم ہے اور جب تک وہ اس منزل تک نہیں پہنچتا اس کو محبت کے معنی آتے ہی نہیں اور کسی نہ کسی وقت ہر انسان اس منزل سے ضرور گزرا ہوا ہوتا ہے اور اس منزل کے حصول کے لئے ہمیشہ تمنا رکھتا ہے.تو پانچ دفعہ نماز بوریت کے لئے نہیں ہے بلکہ عشق کے مضمون کو کامل کرنے کے لئے ہے اور اگر انسان اسی مرکزی نکتہ پر غور کرے اور پھر بار بار اس کو محبت کے جذبے سے بیان کرے تو جتنی دفعہ وہ پڑھے گا اتنی ہی زیادہ اس کو لذت محسوس ہوگی.اتنا ہی زیادہ وہ اپنے آپ کو خدا کے قریب سمجھے گا اور اتنا ہی زیادہ اس کے نفس لوامہ میں طاقت آئے گی.جب وہ یہ کہتا ہے کہ میں تیرا ہوں اور کسی کا نہیں ہوں اور کسی اور کے در پر میں نے نہیں جانا.تو اس کے ساری دنیا کے گناہ جھڑ جاتے ہیں یعنی تمام دنیا کے گناہوں کے محرکات ختم ہو جاتے ہیں.اس عشق کے مضمون میں تو دیوانگی ہے جیسے مجنوں لیلیٰ کا ہو گیا تو ویرانے جہاں لیلی ہوتی تھی وہ اس کو آبادیوں سے زیادہ پیارے ہو جاتے تھے اور وہ آبادیاں جہاں لیلی نہیں ہوتی تھی وہ اس کو ویرانے نظر آتے تھے.تیرا ہی ہو گیا کا یہ معنی ہے کہ اب تو ہے تو میری زندگی میں لذتیں ہیں، تو نہیں ہے تو کچھ بھی نہیں ہے.جہاں جہاں تو مجھے نظر آئے گا وہاں وہاں میں جاؤں گا ، جہاں جہاں تو دکھائی
خطبات طاہر جلد۴ 968 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء دے گا وہاں وہاں میں پیار کروں گا.وہاں سے لذتیں تلاش کروں گا اس کے سوا نہیں کروں گا.کسی اور کی طرف نہیں جھکوں گا کسی اور سے طلب نہیں کروں گا جو کچھ مانگوں گا تجھ سے ہی مانگوں گا.اب اللہ کے مضمون پر آپ غور کریں تو انہی دو باتوں میں ختم ہو جاتا ہے.لا الہ الا اللہ کا یہی معنی ہے کہ محبت اور پیار کے ہر درجہ کے لئے میں نے تجھے اپنا بنا لیا ہے اور مدد طلب کرنے کے ہر درجہ کے لئے میں نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے اور کسی اور کی طرف میں نہیں دیکھوں گا.اسی لئے عبادت کی جاتی ہے یا اس کے حسن کے نتیجہ میں اس کی عظمت کی وجہ سے اس کے سامنے جھک کر اپنے آپ کو اس کے سپرد کر کے یا پھر حرص و ہوا کی وجہ سے کسی چیز کی طلب کی خاطر کسی کے سامنے جھکتا ہے.تو اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ ن کا جو مضمون ہے یہ عشق کا مضمون ہے اور اگر اسے عشقیہ رنگ میں، والہانہ رنگ میں بیان کیا جائے خدا کے حضور عرض کیا جائے تو پانچ دفعہ کیا، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر آپ ہر سانس میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کہیں آپ کے عشق کو ایک نئی جلا ملے گی نئی زندگی ملے گی اور آپ کا مزہ ان لفظوں میں بڑھتا چلا جائے گا نہ کہ کم ہوگا کیونکہ یہ ایک ایسا انسانی تجربہ ہے کہ جس کے نتیجے میں دنیا کی ہر قوم کا ہر فرد یہ مجھ سکتا ہے کہ بعض الفاظ ہیں جو تکرار کے نتیجہ میں زیادہ لذت پیدا کرتے ہیں.ایک انگریز شاعر غالباً Dryden اپنے محبوب کو مخاطب کر کے کہتا ہے ، بڑا مشہور مصرعہ ہے.For God's sake! shut your mouth and let me love.اوہ ! خدا کے واسطے اب اپنی باتیں بس کرو مجھے محبت کرنے دو.مطلب یہ ہے کہ محبت کے بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں جب کہ سوائے اس کے کہ میں تیرا ہوں اور کوئی بات اچھی نہیں لگتی.ارد گرد کی باتیں ہو رہی ہوں اور محبت ہو رہی ہو ان دونوں میں جوڑ نہیں ہے.اِيَّاكَ نَعْبُدُ وہ مقام ہے جہاں Let me love کا مقام ہے اور باقی ساری باتیں غائب ہو جاتی ہیں.اسی طرح خدا تعالی نماز میں بار بار ایسے مقامات لاتا ہے جہاں محبت کا مضمون ایک دم ابھر آتا ہے اور کوئی انسان جس کی توجہ ہٹ رہی ہو وہ ان الفاظ پر پہنچ کر ایک دم خدا کی محبت کی طرف مائل ہو جاتا ہے.چنا نچہ جب آپ رکوع میں کہتے ہیں سبحان ربی العظیم تو اس بات پر کبھی غور نہیں
خطبات طاہر جلدم 969 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء کرتے کہ ربّی فرمایا بنا نہیں فرمایا.میرا رب عظیم ہے اور میرا کہنا جس طرح نَعبُدُ میں ہم کا تکم پایا جاتا ہے جمع کا تکلم ہے.یہاں اس کو واحد میں منتقل کر دیا کہ میرا رب سب سے بڑا ہے یعنی إيَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِينُ سے گزرنے کے بعد اس کو اپنا ہی لیا ہے کہ اب تو میرا ہو چکا ہے.اب یہاں بیچ میں سے باقیوں کو بھی ہٹا دیا ہے اور بار بار اس کی تکرار کہ میرا رب سب سے بڑا ہے.اس میں اگر آپ میرے لفظ پر غور کریں تو اس میں محبت کا مضمون پیدا ہو جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم اس طرز تکلم کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خطاب میں بھی بار بار استعمال فرماتا ہے تیرا رب کہہ کر کئی موقعوں پر کہ کیا تیرا رب ایسا نہیں ، وہاں بھی اسی محبت اور پیار کا اظہار ہے اور پھر سجدہ میں دوبارہ یہ دونوں عشق کے مقامات ہیں ،حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق میں یہ تفصیل بیان کرہا ہوں.جب آپ نماز میں جھکتے ہیں تو وہ ایک سپردگی کا عالم ہے، وہ ایک اظہار ہے کہ میں تیرے حضور عاجز ہو گیا ہوں اور تیرے سامنے گر رہا ہوں اور وہاں جو کلمات دہرائے جاتے ہیں وہ محبت کے کلمات ہیں اور اس کی انتہاء پھر سجدہ میں ہے وہاں پہنچ کر انسان یہ کہتا ہے سُبحَانَ رَبِّي الاغلى کیا بات ہے! میرا رب تو سب سے اعلیٰ ہے، اب خدا کا علو بھی اپنالیا اور خدا کی عظمت بھی اپنالی.اور بار بار آپ یہ کہیں اس میں بوریت کا تو کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.کسی حالت میں بھی انسان اس کی تکرار سے اکتا نہیں سکتا.جب کہتے ہیں کہ اللہ میرا ہے اور عظیم رب میرا ہے تو ہزار لاکھ کروڑ دفعہ بھی آپ کہتے چلے جائیں رب کی طرف, اچھے کی طرف منسوب ہونے میں ایک ایسی لذت ہے جو تکرار کے ساتھ ختم نہیں ہوا کرتی بلکہ اگر آپ غور سے تکرار کریں گے، ڈوب کر تکرار کریں گے تو یہ محبت بڑھے گی.بہر حال یہ مضمون کہ نماز کو سوچ سمجھ کر اس حالت میں پڑھنا کہ اس میں لذت پیدا ہونی شروع ہو جائے بہت وسیع ہے لیکن چونکہ اب وقت زیادہ ہورہا ہے اس لئے اس خطبہ کو میں یہیں ختم کرتا ہوں.آئندہ پھر کبھی توفیق ملے گی تو چند اور باتیں بھی بیان کروں گا لیکن ضروری نہیں ہے کہ یہ باتیں میں آپ کے سامنے بیان کروں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس تفصیل سے اس مضمون پر روشنی ڈال چکے ہیں اور ایسے ایسے عظیم الشان تجارب سے آپ گزرے ہوئے ہیں اور بعض دوسروں کے حال پر بڑی بصیرت کی نظر ڈال کر آپ نے ان کا مطالعہ کیا ہوا ہے کہ نماز کے مضمون کو
خطبات طاہر جلدم 970 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء سمجھنے کے لئے اور اپنی نمازوں کو خدا کے پیار اور حمد وثنا سے بھرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلقہ فرمودات اور تحریرات کا مطالعہ کریں.اس مطالعہ میں آپ کو محنت کرنی پڑے گی کیونکہ جیسا کہ میں نے چند مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض کلمے آپ کو سرسری نظر سے سمجھ ہی نہیں آسکیں گے.بظاہر ایک مطلب سمجھ آجائے گا لیکن یہ نہیں معلوم ہوگا کہ اس سے بہت زیادہ گہرا مضمون تھا جتنا آپ سمجھے ہیں.اس لئے آپ ان کلمات کو بار بار پڑھیں ، غور سے پڑھیں اور ان کی روشنی میں رفتہ رفتہ اپنی نمازوں کو سجائیں اور درست کریں.رفتہ رفتہ میں نے اس لئے کہا ہے کہ جب آپ پڑھیں گے تو جیسا کہ مجھے یاد ہے بچپن میں جب میں یہ تحریریں پڑھتا تھا تو بعض دفعہ اتنا خوف طاری ہو جاتا تھا کہ یوں لگتا تھا کہ میں تو اس قابل ہی نہیں کہ نماز کبھی پڑھ سکوں.ایک عارف باللہ کا نماز کا تجربہ ہواور وہ اس مضمون کو بڑی لذت کے ساتھ بیان کر رہا ہو تو ایک کمزور آدمی بعض دفعہ بے حوصلہ ہو جاتا ہے.آدمی سمجھتا ہے کہ یہ تو اتنی بلند چیزیں ہیں کہ ہم بیچارے کہاں.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا لیکن جیسا کہ میں بتایا ہے جب آہستہ آہستہ ایک کام کو کرتے ہیں تو ہو جایا کرتا ہے.کتنی بلند چوٹی ہو شروع میں انسان کو وحشت ہوتی ہے کہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں اس چوٹی تک پہنچ جاؤں لیکن قدم قدم اٹھا ئیں اور آہستہ آہستہ طاقت کے مطابق حسب توفیق اس کی طرف بڑھنا شروع کریں.جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ خدا کی طرف بڑھنے کا جو زندگی کا سفر ہے کچھ تھوڑا سا صبح کرو، پھر دو پہر کو تھوڑا سا آرام کرلیا، شام کو پھر تھوڑا سا سفر کر لیا بہر حال کچھ نہ کچھ آگے بڑھتے رہو.جب آپ اس طریق پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے فرمودات کی روشنی میں اپنی نمازوں کو سنوارنا شروع کریں گے تو آپ کو زندگی بھر کا کام مل گیا ایک Life Time Job جس کو کہتے ہیں اور جب آپ نمازوں میں Improvement کر رہے ہوں گے، ان کی اصلاح کر رہے ہوں گے،ان میں کچھ اضافہ کر رہے ہوں گے، نئی تزئین کر رہے ہوں گے تو آپ کا وہی حال ہو جائے گا.آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز پیش نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں (دیوان غالب صفحه: ۱۶۲)
خطبات طاہر جلدم 971 خطبه جمعه ۶ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء یعنی میں تو اپنے حسن کی آرائش سے فارغ ہی نہیں ہورہا، ہوہی نہیں سکتا.ہمیشہ نقاب کے اندر ایک آئینہ ہے جو میرے پیش نظر ہے.غالب نے جو دنیا کے محبوب کے متعلق یہ کہا ہے اس پر تو یہ مضمون صادق نہیں آسکتا کیونکہ نقاب کے اندر آئینہ ہمیشہ رہ ہی نہیں سکتا.نقاب کے اندر جو تزئین کرتا ہے آرائش کرتا ہے وہ تو نقاب اٹھا کر دکھانے کی خاطر کیا کرتا ہے.لیکن ایک مومن کے اوپر یہ ضرور صادق آ جاتا ہے.مومن اپنی تزئین نقاب کے اندر رہ کر کرنا چاہتا ہے.نماز کا اخفاء سے ایک گہرا تعلق ہے تبھی قرآن قریم دکھاوے کی نمازوں کو رد کرتا ہے اور ان پر لعنت ڈالتا ہے.تو نماز کے مضمون پر تو یہ شعر بہت ہی عمدگی سے صادق آتا ہے.ایک مومن جب اپنی نمازوں کی آرائش میں مصروف ہو جاتا ہے تو اس کے اوپر یقینا یہ مضمون صادق آتا ہے کہ ہمیشہ دائم اس کے نقاب کے اندر لوگوں کی نظروں سے مخفی ایک آئینہ ہے جس میں وہ منہ دیکھتا چلا جارہا ہے اور اپنے چہرے کو زیادہ حسین بناتا چلا جا رہا ہے.خدا کرے کہ جماعت احمدیہ کو اس قسم کی نمازوں کو قائم کرنے کی توفیق ملے.بڑی کثرت کے ساتھ صاحب لقاء ہم میں پیدا ہو جائیں جو خدا کی طرف بڑھنے لگیں اور خدا کو دیکھنے لگیں اور اس کا لطف محسوس کرنے لگیں.اس کے حسن کی لذت میں زیادہ جذب ہونے لگیں یہاں تک کہ وہ مقام آ جائے کہ خدا ان سے بولنے لگے ہمیں صرف سننے والا خدا نہ ملے بلکہ بولنے والا خدا میسر آجائے.
خطبات طاہر جلدم 973 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء توجہ اور حضوری سے پڑھی جانے والی مقبول نمازیں ( خطبه جمه فرموده ۱۳ / دسمبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی: إِنَّ الْمُنْفِقِيْنَ يُخْدِعُونَ اللهَ وَهُوَ خَادِعُهُمْ ۚ وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلوةِ قَامُوا كُسَالَى يُرَاءُونَ النَّاسَ وَ لَا يَذْكُرُونَ اللَّهَ إِلَّا قَلِيْلًا مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذَلِكَ لَا إِلَى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلى هَؤُلَاءِ وَمَنْ يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَنُ تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا (النساء: ۱۳۳ ۱۳۴) اور پھر فرمایا: سورۂ نساء کی آیت ۱۴۳ اور ۴۴ یہ دو آیات جو میں نے پڑھی ہیں ان میں بعض ایسی نمازوں کا ذکر ہے جو خدا کی بارگاہ میں قبولیت نہیں پاتیں اور رد کر دی جاتی ہیں.پس قرآن کریم جہاں مقبول نمازوں کا تفصیل سے ذکر فرماتا ہے اور ان کی صفات کھول کھول کر بیان کرتا ہے.وہاں مرد و نمازوں کا حال بھی بہت کھول کر بلا شک وشبہ بڑی تفصیل سے بیان فرماتا ہے.ان نمازوں میں سے جو رد کر دی جاتی ہیں جو فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتی ہیں جن کے متعلق یہاں تک بھی فرمایا فَوَيْلٌ لِلْمُصَدِّينَ (الماعون : ۵ ) ہلاکت ہو ان لوگوں کے لئے جو ایسی نمازیں پڑھتے ہیں.یعنی نمازیں رحمت کی بجائے اپنے پڑھنے والے پر لعنت ڈالتی ہیں.ان نمازوں کی تفصیل جہاں جہاں بھی ملتی ہے ان میں دو شرطیں بڑی نمایاں دکھائی
خطبات طاہر جلدم 974 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء دیتی ہیں.یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.ان میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے.إِنَّ الْمُنْفِقِينَ يُخْدِعُونَ اللهَ وَهُوَ خَادِعُهُمُ منافق انسان اللہ کو دھوکا دینے کی کوشش کرتا ہے مگر در حقیقت خدا کی تقدیر سے دھوکا دے دیتی ہے اور جس ذریعہ سے وہ خدا کو دھوکا دینا چاہتا ہے وہ ذریعہ اس پر الٹ پڑتا ہے.وَإِذَا قَامُوا إِلَى الصَّلوةِ قَامُوا كُسَالَى " ان لوگوں کی ایک علامت یہ ہوتی ہے کہ جب بھی وہ نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں سنتی اور کاہلی کے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں.ان میں فروتنی نہیں پائی جاتی ، ان میں جوش اور ارادہ اور ذوق نہیں پایا جاتا.يُرَاءُ ونَ النَّاسَ وہ لوگوں کو دکھاتے ہیں، ریا کاری کے جذبے کی خاطر نمازیں ادا کرتے ہیں.وَلَا يَذْكُرُونَ اللهَ إِلَّا قَلِيلا اور جہاں تک یاد الہی کا تعلق ہے ان کی نماز میں عملاً یا دالبی سے خالی ہوتی ہیں.مُذَبْذَبِينَ بَيْنَ ذلِك وہ دو باتوں کے درمیان تذبذب میں پڑے رہتے ہیں.یعنی دنیا اور خدا کے مابین لَا اِلى هَؤُلَاءِ وَلَا إِلى هَؤُلَاء نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں.نہ دنیا ہی کے ہوتے ہیں.نہ خدا کے ہو جاتے ہیں اور جسے اللہ گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لئے پھر کوئی حق پانے کی راہ نہیں پائے گا.کوئی راستہ نہیں دیکھے گا جس کے ذریعہ وہ ہدایت پاسکے.ان آیات میں جن نمازوں کے متعلق بڑا شدید انذار پایا جاتا ہے جب بعض مومن قرآن کریم کی ان آیات سے گزرتے ہیں تو لرز جاتے ہیں اور انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اکثر انسانوں کی نماز میں کسائی کی حالت تو بہت کثرت کے ساتھ ملتی ہے.خواہ ریا کا پہلو اس میں ہو یا نہ ہو لیکن ہلاکت کے جن کیڑوں کا ذکر ہے ان میں کسائی کا کیڑا یعنی ایسی حالت میں نماز پڑھتے ہیں کہ وہ کا ہلی اور ستی اور غفلت اور بے تو جنگی کا شکار ہو جاتے ہیں یہ تو بڑی کثرت سے عام ملتے ہیں اس لئے کیا ایسی نمازیں انسان کو فائدے کی بجائے نقصان تو نہیں پہنچائیں گی.کیا بہتر نہیں ایسی نمازوں سے کہ انسان ان نمازوں کو ترک کر دے اور اس خطرے کی راہ سے کہ گزرے ہی نہ جہاں خود نمازیں انسان پر لعنتیں ڈال رہی ہوں.یہ خیال درست نہیں ، یہ اندیشہ محض ایک وہمہ ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ قرآن کریم نے کسائی کی حالت کویر آون کی حالت کے ساتھ باندھ کر ہر جگہ اس مضمون میں ایک ہی قسم
خطبات طاہر جلدم 975 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء کی روش اختیار فرمائی ہے.کہیں ایک جگہ بھی محض غفلت کی حالت میں نماز پڑھنے کو وہ گناہ اور وہ جرم قرار نہیں دیا جس کے نتیجہ میں نماز انسان کو ہلاکت کی طرف لے جائے.خیالات کی یورش کے نتیجہ میں کہیں بھی قرآن کریم نے ذکر نہیں فرمایا کہ ایسے شخص کی نماز لازماً رد کر دی جائے گی اور وہ گناہ کا موجب بنے گی.بعض جوڑے مل کر ایک مکمل مضمون بناتے ہیں اور جہاں جہاں بدنمازوں کا ذکر ہے.مہلک نمازوں کا ذکر ہے وہاں آپ ریا اور غفلت کا جوڑا اکٹھا پائیں گے.یعنی جرم بنانے کے لئے نماز کوان دو شرائط کا اکٹھا ہونا ضروری ہے.چنانچہ دوسری آیت جس کی میں نے تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ ) الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُوْنَ وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ ب (الماعون : ۵-۸) ہلاکت ہوان نمازیوں پر ، لعنت پڑے ان نمازیوں پر الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ وہ جو اپنی نمازوں سے غفلت اختیار کرتے ہیں اور پھر بغیر تردد کے بغیر روک کے بغیر عطف ڈالے فرمایا الَّذِينَ هُمْ يُرَاءُونَ یعنی ان غفلت کرنے والے نمازیوں پر لعنت ہو جن میں ریا کا پہلو پایا جاتا ہے.پھر ایک اور آیت میں فرمایا وَلَا يَأْتُونَ الصَّلوةَ إِلَّا وَهُمْ كُسَالَى وَلَا يُنْفِقُونَ إِلَّا وَهُمْ كَرِهُونَ (التوبه (۵۴) اس پوری آیت میں بھی ایسے نمازیوں کا ذکر ہے جور یا کاری کی خاطر دل میں ایمان نہ رکھتے ہوئے بھی نمازیں ادا کرتے ہیں.اور ان میں یہ دوصفات پائی جاتی ہیں کہ وہ نماز میں غفلت کی حالت میں ادا کرتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے گریز کرتے ہیں اور بہت بوجھ محسوس کرتے ہیں.پس پہلی بات تو یہ ذہن نشین کرنی چاہئے کہ وہ مقتدی اور وہ سالک جو بے اختیاری کی حالت میں نماز کے مغز کو نہیں پاسکتا اس کی روح کو نہیں پہنچ سکتا جس کو معلوم نہیں ہے کہ اس راہ میں کیسے چلنا ہے، جو دیانت داری سے کوشش تو کرتا ہے لیکن ٹھوکریں کھاتا ہے، گرتا پڑتا ہے.چاہتا ہے کہ محبوب کی منزل تک پہنچ جاؤں لیکن بے اختیاری اور مجبوری کی حالت میں راستے کی ٹھوکروں کا شکار ہوتا رہتا ہے.ایسے نمازی پر قرآن کریم نے کہیں بھی لعنت نہیں ڈالی اور ایسی نماز کے مردود ہونے کے متعلق کوئی اعلان نہیں فرمایا.بلکہ يُقِيمُونَ الصَّلوة کی حالت ہی بتا رہی ہے کہ مومن کی نمازوں کو یہ خطرات لاحق ہوں گے اور وہ ہر وقت اپنی نمازوں کو کھڑا کرنے کی ، استقامت بخشنے کی
خطبات طاہر جلدم 976 خطبه جمعه ۱۳ر دسمبر ۱۹۸۵ء کوشش کرتا رہے گا لیکن سوال یہ ہے کہ پھر وہ کیا طریق ہیں جن کے ذریعہ ہم اپنی نمازوں کو درست کریں اور جن کے ذریعہ ہماری نمازوں کا قبلہ درست ہو جائے؟ اس کے لئے نماز سے باہر حل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے خودنماز کے اندران مسائل کا حل موجود ہے.وہ شخص جو نیک نیتی سے اللہ تعالیٰ کی جانب اپنی تو جہات مرکوز کرنی چاہتا ہے جو دیانت داری سے کوشش کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری حاجات اور میری مناجات اور میری آرزؤں اور امنگوں کا قبلہ بن جائے ایسے شخص کے لئے خود نماز میں وہ نظام موجود ہے جو اس کے قبلہ کو درست کرتارہتا ہے اور اس کا قبلہ درست کرنے میں اس کا مددگار بنتا ہے.سب سے پہلے سب سے اہم بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ اللہ اکبر کی اتنی تکرار کیوں ہوئی اور کیوں نماز کے ہر موڑ پر ہمیں اللہ اکبر کہنے کی ہدایت ہوئی ؟ آغاز پہ بھی اللہ اکبر اور پھر ہر حرکت جو نماز میں کی جاتی ہے.سوائے سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه یا آخری السلام علیکم کے، وہ تو نماز سے باہر لے جانے والی ہے.اس لئے اس کا تعلق نہیں.سمع اللہ لمن حمدہ کی ایک مختلف صدا کے علاوہ ہر حرکت پر اللہ اکبر کی صدا بلند کرنے کا حکم ملتا ہے.وجہ یہ ہے کہ اللہ اکبر قبلہ نما ہے.اللہ اکبر یہ بتاتا ہے کہ تمہارا قبلہ کس طرف تھا اور تمہیں کس طرف منہ کرنا چاہیئے کیونکہ انسان کی نماز میں جو مختلف وساوس اس کی توجہ پھیرتے ہیں، مختلف خیالات جو اس کا رخ خدا سے ہٹا کر دوسری چیزوں کی طرف بدل دیتے ہیں وہ کئی قسم کے ہیں مثلاً تفکرات ہیں.اب تفکرات کا تو منافقت سے کوئی تعلق نہیں.ہر انسان کو تفکرات لگے ہوتے ہیں لیکن فرق صرف یہ ہے کہ جو دنیا دار ہیں اور بہت ہی ابتدائی مبتدی ہیں یعنی بہت ہی شروع کے راہ چلنے والے ان کے تفکرات زیادہ تر دنیا کے تفکرات ہوتے ہیں.نماز پر جگہ جگہ تفکرات پہرے لگا دیتے ہیں اور وہ خدا تعالیٰ کی طرف توجہ مبذول کرنے سے روکتے رہتے ہیں اور جو خدا کے زیادہ پاک بندے ہوں جو زیادہ اس راہ میں آگے چلنے والے ہوں ان کو بھی بعض دفعہ تفکرات پریشان کرتے ہیں.یہاں تک کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی بعض اوقات نماز کے دوران عبادت کے دوران تفکرات آکر گھیر لیتے تھے لیکن وہ تفکرات دین کے تفکرات تھے، وہ اللہ کے غم تھے، اللہ کے راستے کی فکریں تھیں.پس انسان بہر حال انسان ہے اور خدا تعالیٰ کی راہ میں توجہ مرکوز کرنے ،
خطبات طاہر جلدم 977 خطبه جمعه ۱۳/ دسمبر ۱۹۸۵ء کے لئے تفکرات ایک روک بنتے ہیں.ایک اور فرق یہ ہے کہ مبتدی کے تفکرات اس کی نماز پر غالب آجاتے ہیں اور خدا کی راہ میں آگے بڑھنے والے یا نمازوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرنے والوں کے تفکرات پر وہ وجود غالب آجایا کرتے ہیں اور جھٹک کر ان تفکرات کو پھینک دیتے ہیں.پس ہر موڑ پر جب آپ اللہ اکبر کی آواز بلند کرتے ہیں.تو اللہ اکبر آپ کو بتاتا ہے کہ خدا سب سے بڑا ہے.تفکرات کی اس وجود کی نگاہ میں جس کا خدا سے تعلق ہے کوئی قیمت نہیں رہنی چاہئے.تفکرات خواہ وہ دنیا کے ہوں یا دین کے ہوں اللہ اکبر دل کو تسلی بھی دیتا ہے، حوصلہ بھی دلاتا ہے اور قبلہ بھی درست کرتا ہے.فرماتا ہے کہ تفکرات کے نتیجہ میں تمہیں خدا کی طرف رخ کرنا چاہئے اور تم خدا کی طرف سے رخ ہٹا کر تفکرات کی طرف رخ کرنے لگے ہو.پس اللہ اکبر نماز کے لئے قبلہ نما ہو جاتا ہے.پھر بعض دفعہ انسان کی آرزوئیں اس کی توجہ خدا کی طرف سے ہٹا دیتی ہیں.کوئی سیر کا شوق رکھتا ہے، کوئی کھیل کا شوق رکھتا ہے، کوئی دوستوں میں مجلس لگانے کا شوق رکھتا ہے، کوئی ریڈیو کا شوق رکھتا ہے، کوئی ٹیلی ویژن کا شوق رکھتا ہے، کسی کو کتابیں پڑھنے کی عادت ہے، کوئی دلچسپ کتاب پڑھتے پڑھتے نماز کا وقت آگیا کتاب الٹا کر نماز کی طرف بھاگا اور پھر کتاب نے وہ زنجیر میں پہنا دیں اس کے خیالات کو، نماز پڑھتے پڑھتے کتاب کا مضمون دوبارہ ذہن میں آنے لگتا ہے.بھوکے کو کھانے کی طرف توجہ نماز نہیں پڑھنے دیتی.بار بار نماز میں یہ خیال آتا ہے کہ نماز ختم کروں تو میں کھانا کھاؤں.اکثر نمازوں میں کسائی کی حالت انہی وجوہات سے پائی جاتی ہے یعنی وہ لوگ جو ارادۂ منافق نہ ہوں جو ارادہ گناہگار نہ ہوں عملاً ان کی نماز میں بھی فی الحقیقت نفاق کا ایک رنگ تو ضرور پایا جاتا ہے.یعنی وہ رنگ جو بشری کمزوری سے تعلق رکھتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بار بار دیگر تو جہات انسان کا چہرہ اپنی طرف موڑ لیتی ہیں.پس اللہ اکبر کی تکرار ہر ایسے موقع پر الگ الگ معنی لے کر آپ کے سامنے آئے گی.الله اکبر بتائے گا کہ تم تو کہتے تھے کہ خدا سب سے بڑا ہے، اب تمہیں کھانا سب سے بڑا لگ رہا ہے.تم تو کہتے تھے کہ خدا سب سے بڑا ہے، اب تمہیں ٹیلیویژن سب سے بڑی لگ رہی ہے.تم تو کہتے تھے خدا سب سے بڑا ہے اب تمہیں ریڈیو بہت بڑا لگنے لگ گیا ہے.تم تو کہتے تھے خدا سب
خطبات طاہر جلد۴ 978 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء سے بڑا ہے اب فلاں کھیل تمہیں زیادہ بڑی لگنے لگی ہے.دوستوں کی مجلس زیادہ بڑی محسوس ہورہی ہے.تو نماز کا قبلہ درست کرنے کے لئے اللہ اکبر ایک حیرت انگیز کام دکھلاتا ہے لیکن اس کے لئے جس کی توجہ اللہ اکبر کے مضمون کی طرف رہے کم سے کم جب وہ ایک حالت سے دوسری حالت میں منتقل ہوتا ہے.اس وقت اللہ اکبر رکھنے کا ایک اور بہت اچھا فائدہ ہے، بہت عظیم فائدہ ہے کہ حرکت انسان کو سوچوں سے بیدار کر دیا کرتی ہے ، حرکت انسان کو ایک مخمصہ میں پھنسے ہوئے انسان کو اچانک جھنجھوڑ کر بیدار کرتی ہے ، ہلاتی ہے اور وہ بہترین وقت ہوتا ہے اسے سمجھانے کا کہ تم جانا کسی اور طرف چاہتے تھے جاکسی اور طرف رہے ہو.پس اللہ اکبر کی تکرارا گر آپ سمجھ کر کریں تو نفسیاتی حالت بھی اس وقت ایسی ہوتی ہے کہ انسان اس کے اثر کو زیادہ قبول کر سکتا ہے.پس جہاں تک اللہ اکبر کا تعلق ہے یہ نماز کا قبلہ درست کرتا ہے.جہاں تک نماز کا تعلق ہے یہ انسان کا قبلہ درست کرتی ہے.نمازی کا قبلہ درست کرتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ایک اور بڑا فائدہ نفس کے تجزیے کا حاصل ہو جاتا ہے.ہر انسان نماز کے قبلہ نما کے ذریعہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ میری حقیقی توجہ کا مرکز کہاں تک خدا ہے اور کہاں تک دوسری خواہشات ہیں.کس حد تک میں دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا اہل ہوا ہوں اور کس حد تک نہیں ہوسکا.پھر خیالات مختلف حالتوں میں پکڑے جائیں گے.ہر اللہ اکبر کے وقت وہ شخص جس کی توجہ خدا کی طرف قائم نہیں وہ انسان اپنے خیالات کو مختلف حالتوں میں پکڑے گا اور اس وقت وہ صحیح اندازہ کرسکتا ہے کہ میری اندرونی شخصیت کیا ہے؟ کس حد تک میں خدا کا ہوں؟ کس حد تک میرے دعووں میں سچائی ہے؟ کتنی مجھ میں خامیاں ہیں اور کس نوع کی خامیاں ہیں؟ خدا کی راہ میں روکیں پیدا کرنے والے وساوس اور نفسانی شیاطین کون کون سے ہیں؟ ان کی شکلیں کیا کیا ہیں؟ اور ان کو درست کرنے کا انسان کو ایک بہترین موقع میسر آجاتا ہے کیونکہ جب دشمن پہچانا جائے اس وقت دشمن کو شکست دینا زیادہ آسان ہوتا ہے بہ نسبت ایسے دشمن کے جو نہ پہچانا جائے نہ پتہ چلے کہ کس سمت سے حملہ کر رہا ہے.تو نمازیں قبلہ نما بھی ہیں اور دشمن کی تعیین کرنے میں بھی بہت مدد کرتی ہیں اور اس سلسلہ میں سب سے اہم کردار بار بار کی تکبیر ادا کرتی ہے.پھر عمومی طور پر یہ بات ہر انسان کی فہم میں آجاتی ہے کہ جس چیز کی کشش زیادہ ہو وہ اس
خطبات طاہر جلدم 979 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء.چیز کے مقابل پر جس کی کشش کم ہو زیادہ قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچتی ہے.ویسے تو دنیا میں ہر چیز ایک دوسرے کو کھینچ رہی ہے.کوئی ایک بھی ذرہ نہیں جو دوسرے ذروں کو اپنی طرف نہ کھینچ رہا ہو اور دوسرے ذرے اسے اپنی طرف نہ پھینچ رہے ہوں لیکن ہم آپس میں ایک دوسرے سے ٹکرانہیں جاتے ، ہم دیواروں کے ساتھ نہیں چمٹ جاتے ہم پہاڑوں کے ساتھ نہیں لگ جاتے.اس لئے کہ زمین کی کشش عمودی طور پر ہمیں زیادہ قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچ رہی ہے.تو اس پہلو سے ہم بعینہ تعین کر سکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی کشش کے مقابل پر کون کون سی وہ قو تیں ہیں جو ہم پر بار بار اثر انداز ہوتی ہیں اور ہمارے قبلہ کو ٹیڑھا کرتی ہیں اور کیوں خدا کی کشش ان پر غالب نہیں آتی.اس نقطہ نگاہ سے جب آپ نمازوں میں اپنے نفس کے تجزیے کے عادی ہو جاتے ہیں اور بار بار اللہ اکبر کی مدد سے اپنے اندرونی فسادات کی تعیین کرتے ہیں تو آپ کو اپنے اندر ایک نہیں بلکہ متعدد مخفی بہت نظر آئیں گے اور شرک خفی کی مختلف صورتیں اپنے وجود کے اندر دکھائی دینے لگیں گی.پس اس صورت میں نماز ایک آئینہ بن جاتی ہے جو آئینہ خانے کا سا منظر پیدا کرتی ہے.یعنی جس سمت میں آپ دیکھیں گے نماز کے آئینہ خانے میں آپ کو کوئی نہ کوئی مخفی بت، کوئی شرک کا دبا ہوا پہلو دکھائی دینے لگے گا اور اس کی تصحیح کرتے وقت آپ ہر کوشش کے بعد نسبتاً زیادہ موحد بنتے چلے جائیں گے، زیادہ خدا کے قریب ہوتے چلے جائیں گے.پس یہ جو خدا کی جانب حرکت ہے یہ وہ مقبول چیز ہے جو کمزور انسان کی نماز کو قبولیت کے مقام تک پہنچاتی رہتی ہے.اس لئے یہ خیال یہ وہم باطل ہے کہ ایک کمزور انسان کی نماز کلیپ رد کر دی جاتی ہے.اس لئے اسے پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے.اگر کوشش اور جدو جہد کے ساتھ انسان نماز پڑھتا ہے تو ہر خفیف سا فرق بھی جو پہلی حالت سے پڑتا ہے.اس خفیف سے فرق کو بھی اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے.وہ معمولی سی حرکت بھی جو غیر اللہ سے اللہ کی جانب کی جاتی ہے اسے اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتا ہے.اسی لئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ وَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهُ (الزلزال :۸-۹) کہ تم جانتے نہیں کہ خدا تعالیٰ کتنا لطیف اور خبیر ہے اور کتنا اپنے بندوں کو نواز نے والا ہے.معمولی سے معمولی ، ذرہ سے ذرہ نیکی بھی جو تم کرتے ہو وہ بھی ضائع نہیں جاتی ، وہ بھی خدا کی راہ b
خطبات طاہر جلدم 980 خطبه جمعه ۱۳ / دسمبر ۱۹۸۵ء میں مقبول ہو جاتی ہے.پس ایک لمبی جد و جہد جو نمازی دیانت داری سے خدا کی جانب اپنا رخ درست کرنے کے لئے کرتا ہے.اس کا ہر پہلو اسے خدا کے قریب کر رہا ہوتا ہے.اس کی ہر آئندہ نماز پہلے کی نسبت زیادہ سنورتی چلی جاتی ہے اس لئے نماز تو ایک بہت ہی عظیم الشان جہاد ہے.بہت ہی وسیع جہاد ہے جو بہت لمبا عرصہ ایک زندگی چھوڑ کر اگر مسلسل کئی زندگیاں انسان کو ملیں اور وہ یہ جہاد کرتا چلا جائے تب بھی اس کا دوسرا کنارا نہیں آئے گا لیکن اس تمام جہاد کے دوران جسے خواہ ساری انسانی عمر پر بھی پھیلا دیا جائے.تب بھی کوئی ایک مقام بھی ایسا نہیں آئے گا جہاں وہ کھڑا ہو جائے کیونکہ اس کی نماز کی حالت درست کرنے کے لئے خود نماز میں ایسی مواجہ موجود ہیں ایسے محرکات موجود ہیں، جو ہر وقت اس کو ایک نیا حسن عطا کرتے چلے جاتے ہیں.دوسرا پہلو جس کی طرف نظر کرنے سے نماز کو بہتر بنانے کی راہ ملتی ہے بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ یہ عمومی پہلو ہے جو ہر چیز پر صادق آتا ہے کہ نماز کے ہر حصہ میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس پر انسان غور کرے اور اس غور کے درمیان اسے بہت سی باتیں ملنی شروع ہو جائیں گی.نماز کی حالت میں نماز کے اجزاء پر غور، ان باتوں پر غور جو انسان نماز میں پڑھتا ہے وہی ذکر اللہ ہے.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کا زیادہ فہم اللہ تعالیٰ کی عظیم صفات کا زیادہ بہتر علم اور خدا تعالیٰ کی صفات کے رنگ اپنانے کے زیادہ اچھے مواقع میسر آنے لگتے ہیں اور بہت سی ایسی باتیں انسان کو معلوم ہو جاتی ہیں جو بغیر غور کے اگر کروڑ دفعہ بھی آپ نماز میں سے گزر جائیں تب بھی آپ کو معلوم نہیں ہوں گی.یعنی نماز کی راہ میں بے شمار معارف بچھے ہوئے ہیں.ہم روز ان سے گزرتے ہیں لیکن توجہ نہیں کرتے ،غور نہیں کرتے کہ کن حالتوں میں سے ہم گزرتے چلے جارہے ہیں.مثلاً جب ہم کہتے ہیں اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (الفاتحه : ۶.۷) تو یہ دعا ہر نماز کی ہر رکعت میں پڑھتے ہیں.کوئی نماز قائم ہی نہیں رہ سکتی.سورۃ فاتحہ نماز کی زندگی ہے.جب تک سورہ فاتحہ کو اس کی ہر رکعت میں ادا نہ کیا جائے.اس کے جو پہلے حصے ہیں ان پر مختلف وقتوں میں میں روشنی ڈالتا رہا ہوں لیکن اس سے بہت زیادہ گہرائی کے ساتھ اور وسعت کے ساتھ اور عرفان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سورہ فاتحہ کے عظیم الشان محاسن پر روشنی ڈال چکے ہیں.لیکن سورۃ فاتحہ تو محدود نہیں ہے.اس کا
خطبات طاہر جلدم 981 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء ضمون تو ہمیشہ جاری رہے گا اور تمام سمندر بھی خشک ہو جائیں تب بھی سورۃ فاتحہ کے معارف کا احاطہ نہیں کر سکتے اس لئے ہر دور میں اس کے نئے نئے مطالب کی طرف انسان کی توجہ پھرتی رہے گی.اور ہر نمازی کو ، ہر نمازی کو میں پھر تکرار سے کہتا ہوں کہ اگر وہ نماز میں سورہ فاتحہ پر بھی غور کرے تو ہر رکعت میں ، ہر آیت میں نئے مطالب نظر آنے شروع ہوں گے جو اس کی اپنی کیفیات اپنی حالتوں کے مطابق ہوں گے اور یہ اتنا وسیع مضمون ہے کہ ہر انسان جو سورہ فاتحہ کو ادا کرتا ہے اس کے ظرف کے مطابق اس کے معانی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی ضرور ہوگی اس لئے اگر ارب ہا ارب انسان بھی سورۃ فاتحہ پر غور کریں گے تو ان کے ظرف میں سورہ فاتحہ کے جو معانی جھلکیں گے.وہ دوسرے انسانوں سے کسی نہ کسی پہلو سے ضرور مختلف ہوں گے.بہر حال یہ جو کوشش ہے کہ جو انسان نماز میں پڑھے اس میں ڈوبنا شروع کرے اس پر غور کرنا شروع کرے تو اس سے نمازوں کی کیفیت میں بہت ہی زیادہ حسن پیدا ہو جاتا ہے اور انسان کو اللہ تعالیٰ نئے نئے عرفان عطا فرماتا چلا جاتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) کی دعا خصوصیت کے ساتھ نماز کوسیدھا کرنے اور نماز کو درست کرنے میں مددگار بنتی ہے.اِهْدِنَا القِرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) کی دعا سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جو صراط ہم مانگ رہے ہیں وہ نماز ہی میں سے ہوکر گزرتی ہے.وہ راستہ جس پر سارے انعام پڑے ہیں وہ نماز ہی کا راستہ ہے اور جب تک ہم نماز کی راہ پر چل کے ان انعامات کو پانے کی کوشش نہیں کریں گے محض ایک خوابوں کی دنیا میں بس رہے ہوں گے، حقیقت میں وہ انعام ہمیں کبھی بھی میسر نہیں آ سکتے.اس مضمون پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کیوں نماز کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ کو ضروری قرار دیا.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ میں انعام پانے والوں کے رستے جو معین کئے گئے قرآن کریم سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ان میں چار انعامات، چار مراتب نصیب ہوتے ہیں.پہلا مرتبہ صالحیت کا ہے، دوسرا شہادت کا ، تیسرا صدیقیت کا اور چوتھا نبوت کا.تو نماز جس حد تک درست ہوگی اور سنورے گی اس حد تک انسان درجہ بدرجہ ان مراتب کے قریب ہوتا چلا جائے گا یا ان کو پاتا چلا جائے گا.پس یاد رکھیں اگر آپ کی نماز صالح نہیں ہے تو آپ اس رستے پر نہیں چل رہے جس پر صالحیت کا انعام پڑا ہوا ہے.نماز صالح ہوگی تو آپ صالح کہلائیں گے.اگر نماز فاسد رہے گی تو وہ
خطبات طاہر جلدم 982 خطبه جمعه ۱۳ / دسمبر ۱۹۸۵ء انسان جو فاسد نماز پڑھتا ہے وہ صالح نہیں بن سکتا.اس لئے ایک ذرہ بھی نماز سے با ہر نعمت نہیں ہے ساری نعمتیں نماز کے اندر آ گئی ہیں.شہادت کے متعلق عموماً یہ تصور پایا جاتا ہے کہ گویا صرف خدا کی راہ میں جان دینے کا نام شہادت ہے حالانکہ بعض اوقات خدا کی راہ میں جان ایسی حالت میں بھی لی جاتی ہے جب انسان بے اختیار ہوتا ہے مجبور ہوتا ہے.جاتی تو خدا کی راہ ہی میں ہے مگر کسی حملہ کرنے والے نے حملہ کر دیا، اس میں انسان بے بس تھا، مجبور تھا.موت کے منہ میں آنکھیں ڈال کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے جان دینا اور چیز ہے اور خدا کی راہ میں خدا کی خاطر ویسے مرجانا اور چیز ہے.تو شہادت کے بھی بہت سے مراتب ہیں یعنی ہر شہید کا مقام ایک نہیں رہتا اسی لئے حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب شہید کی شہادت کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک کتاب لکھی اور اس کو پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ شہادت بظاہر ایک لقب ہے لیکن اس کے اندر بھی اتنے مراتب ہیں کہ وہ سفر بھی لگتا ہے کبھی ختم ہی نہیں ہوسکتا.یعنی یہ نہیں ہے کہ آپ صالحیت میں داخل ہوئے اور اچانک صالحیت ختم ہوئی اور پھر شہادت کی طرف چل پڑے.ایک لمبا دور ہے صالحیت کا جو بعض دفعہ انسان کی ساری زندگی پر حاوی ہوتا ہے.تب بھی صالحیت کے اندر بھی انسان کا سفر ختم نہیں ہوتا اور اگلے مقام کی باری ہی نہیں آتی.تو وہ شہادت بھی ہے جو جان دینے سے ملتی ہے لیکن اس کے پیچھے ایک روح ہے.اگر وہ روح موجود نہ ہو تو وہ شہادت شہادت نہیں ہے.اور شہید نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ شہید ہونے والا خدا کو رو برود یکھ رہا ہوتا ہے اور جانتا ہے کہ میرا ایک خدا ہے جس کی طرف میں جاؤں گا.جس حد تک یہ حضوری کا مقام کسی کو نصیب ہوتا ہے.جس حد تک اس کی اس گواہی میں قوت پائی جاتی ہے اور ذاتی تجربہ پایا جاتا ہے کہ ہاں ایک خدا ہے اس حد تک شہادت کا مقام بلند تر ہوتا چلا جاتا ہے اور پھر یہ مقام ایک ایسا مقام ہے جو خدا کی راہ میں ایک دم جان دینے کے سوا بھی ملتا ہے.یہ غلط ہے کہ صرف جان دینے والوں کو شہید کہا جاتا ہے.انبیاء بھی شہید ہوتے ہیں اور انبیاء میں صالحیت اور شہادت اور صدیقیت اور نبوت یہ چاروں مراتب الگ الگ نہیں ہوا کرتے کہ نبی پہلے صالح تھا پھر شہید ہوا پھر شہادت سے نکل کر وہ صدیقیت میں داخل ہوا پھر صدیقیت سے نبوت میں داخل ہوا بلکہ ان کو چاروں مراتب بیک وقت حاصل ہوتے ہیں.اور ہر مرتبہ اپنے درجہ
خطبات طاہر جلدم 983 خطبه جمعه ۱۳/ دسمبر ۱۹۸۵ء کمال کو پہنچا ہوتا ہے تبھی قرآن کریم نے انبیاء کے لئے صالح کا لفظ بھی استعمال فرمایا ، صدیق کا لفظ بھی استعمال فرمایا ، شہید کا لفظ بھی استعمال فرمایا.صدیق کا بھی اور نبی کا بھی اور جوکم فہم لوگ ہیں بعض جو غور نہیں کرتے وہ سمجھتے ہیں کہ بعض نبی صالح ہیں بعض صدیق ہیں بعض شہید ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا ہر نبی لازم صالح بھی ہوتا ہے، لازماً شہید بھی ہوتا ہے، لا ز ما صدیق بھی ہوتا ہے اور لا زمانبی بھی ہوتا ہے.تو زندگی میں شہادت پانے کا گر نماز سکھاتی ہے اور زندگی میں شہادت پانے کا صرف گر ہی نہیں سکھاتی بلکہ بتادیتی ہے کہ ہاں تمہیں شہادت نصیب ہوگئی.پس وہ نماز جس میں خدا غا ئب سے حاضر میں آجاتا ہے، وہ نماز جو عالم الغیب والشھادۃ کو عالم غیب سے عالم شہود میں اتار دیتی ہے.وہی نماز ہے جو شہادت کا مقام رکھتی ہے اور وہی نماز ہے جو نمازی کو شہید بنادیتی ہے.پھر خواہ اس کی جان خدا کی راہ میں جائے یا نہ جائے اس کا اٹھنا بیٹھنا، اس کا مرنا جینا سب کچھ خدا کے لئے ہو جاتا ہے.پس نماز کے ذریعہ آپ کو شہادت بھی نصیب ہوگی اور جب تک نماز کی شہادت نصیب نہیں ہوتی.باقی شہادتیں اس کے مقابل پر کوئی بھی معنی نہیں رکھتیں.اور وہ شہادت جیسا کہ میں نے پہلے ذکر کیا ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشاد کے مطابق احسان کے نتیجہ میں ملتی ہے.جب آپ تو جہات کو درست کر لیں.جس کے لئے ایک بڑی لمبی محنت چاہئے اور لمبی محنت کے بعد بھی خطرے سے خالی پھر بھی نہیں رہیں گے.اعلیٰ مقام پر پہنچیں گے تو اعلیٰ قسم کے وساوس آپ پر حملہ کریں گے لیکن کریں گے ضرور.جب اس حالت کو درست کریں اور اس حالت کے دوران خدا کے حضور حاضر ہونے کی حالت پیدا کر لیں گے.گویا خدا کو دیکھ رہے ہیں اور خدا آپ کو دیکھ رہا ہے.وہ مقام شہادت ہے جواِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) کی دعا ہمیں بتاتی ہے کہ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ - اے خدا! ہم عبادت کی راہ سے تجھ سے وہ راہ تلاش کرنے آئے ہیں.جو راہ ان چاروں مقامات تک بالآخر انسان کو پہنچا دیتی ہے.پس صدیقیت بھی اسی مقام کے آخر پر ہے.اسی عبادت کے آخر پر تو نہیں کہنا چاہئے آخری مقام سے پہلے ایک مقام آتا ہے اور وہ مقام بھی کوئی ایسا مقام نہیں جو ایک دم شروع ہوا اور ایک دم ختم ہوا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام زندگی بلکہ زندگیوں کے تسلسل بھی ان مقامات پر حاوی نہیں ہو سکتے.یہ اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلدم 984 خطبه جمعه ۱۳ / دسمبر ۱۹۸۵ء کا احسان ہے کہ جن کو بیک وقت وہ سارے مقام عطا فرماتا ہے.پھر ان مقامات کی لذتیں بھی ان کو بخشتا ہے اور وہ چاروں مقامات کا حق ادا کر رہے ہوتے ہیں.لیکن ایک انسان اگر صالحیت کے مقام پر بھی پہنچ جاتا ہے تو ایک بہت عظیم الشان مقام ہے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نماز سے آپ پہچان لیں گے نماز صالح ہوگئی تو آپ صالح ہو گئے نماز شہید ہوگئی تو آپ بھی شہید بن گئے ،نماز صدیق ہوگئی تو آپ بھی صدیق ہو گئے.جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نمازوں کے متعلق فرمایا کہ تم کہیں غلط نہی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ ابوبکر بھی تو ہماری جتنی نمازیں پڑھتا ہے یا ہمارے جیسے پڑھتا ہے اس کی نمازیں بعض ایسی ہیں جو تمہاری عام نمازوں سے ستر گنا زیادہ مرتبہ رکھتی ہیں.ستر گنا تو ایک تکمیل کا لفظ ہے.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بعینہ ستر عد د شمار کر کے اتنے گنا بلکہ ستر کا لفظ عربی میں تکمیل کے معنی دیتا ہے.ایک وسعت کے معنی دیتا ہے، بہت زیادہ کے معنی رکھتا ہے.دوسرا حصہ جو سورہ فاتحہ کے بعد یا تلاوت کے بعد ہمارے سامنے آتا ہے وہ تلاوت ہے.اب تلاوت کے لئے بھی انسان کو ایک سے زیادہ آیات مختلف نمازوں کے لئے یاد رکھنی چاہئیں.عموماً بچپن میں جب ہم نمازیں سکھاتے ہیں تو بچوں کو قُل هُوَ اللهُ اَحَدٌ سکھا کر یہ بتا دیا جاتا ہے کہ سورہ فاتحہ کے بعد ان دو رکعتوں میں قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُ پڑھ لینا اور بعد میں آخری دور کعتیں اگر ہوں تو ان میں بغیر قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدٌ کے بھی نماز ہوگی لیکن یہ سمجھایا نہیں جاتا یعنی اس توجہ اور شدت کے ساتھ سمجھایا نہیں جاتا کہ یہ کم سے کم ہے اور اس سے زیادہ تمہیں یاد کرنا چاہئے کیونکہ نماز کی حالت میں تلاوت ایک اور رنگ رکھتی ہے.نماز کے بغیر تلاوت ایک اور رنگ رکھتی ہے.اور قرآن کریم نے جب یہ فرمایا إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا ( بنی اسرائیل:۷۹) تو یہاں فجر کی نماز کی تلاوت مراد ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فجر کی نماز کی تلاوت کو بہت لمبا کیا کرتے تھے اور صحابہ بھی آپ کے رنگ میں فجر کی نماز میں تلاوت کو بہت لمبا کرنے کے عادی ہوتے تھے.پس اگر اتنا لمبا نہ بھی سہی تو کیوں فرق کیا گیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرق کیوں کیا.باقی نمازوں کی تلاوتوں کے مقابل پر صبح کی نماز کی تلاوت کو کیوں لمبا ؟ اس لئے کہ آپ سمجھتے تھے کہ قرآن کریم
خطبات طاہر جلدیم 985 خطبه جمعه ۱۳ / دسمبر ۱۹۸۵ء کیا فرماتا ہے وہاں قُرآنَ الْفَجْرِ سے مراد محض عام تلاوت نہیں بلکہ فجر کی نماز میں قرآن کی تلاوت ہے.اگر فجر کے مضمون کو لمبا کیا جائے تو فجر سے پہلے تہجد کی نماز کی تلاوت پر بھی اطلاق پاسکتا ہے.تو تلاوت کے رنگ بدلنے چاہئیں.تلاوت میں تنوع پیدا کرنا چاہئے اور جب آپ تلاوت کے مضمون میں داخل ہوں گے تو ہر آیت جو آپ چنتے ہیں وہ اپنے ساتھ ایک نیا پیغام لے کر آئے گی ، ایک نیا مضمون آپ پر کھولنا شروع کرے گی.پس اپنے بچوں کو ایک سے زیادہ سورتیں یاد کرا ئیں خواہ مختصر ہوں اور معانی کے ساتھ یاد کرائیں اور یہ سمجھا کر یاد کرائیں کہ جب تم نماز پڑھو تو ان کے معانی سے گزرو.یہ مضمون تو بہت لمبا ہے میں ایک حصہ صرف فی الحال بیان کر کے اس کو ختم کروں گا.اس کے بعد پھر انشاء اللہ بعض دوسرے پہلوؤں پر آئندہ روشنی ڈالوں گا.سبحان ربی العظیم جب ہم رکوع میں جاتے ہیں تو سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ پڑھتے ہیں.عظیم کا کیا معنی ہے اور سُبحَانَ ساتھ کیوں پڑھا جاتا ہے اور رہی کیوں کہتے ہیں رَبَّنَا کیوں نہیں کہتے ؟ یہ سارے خیال انسان کے دل میں اٹھتے ہیں.یہ سارے سوال پیدا ہوتے ہیں.سب سے پہلے تو میں عظیم“ کے معنی بتاتا ہوں.کہ عظیم کے معنی ہیں کیا ؟ عظیم کا لفظی اردو میں ترجمہ تو بڑا ہے.” بہت بڑا.لیکن اللہ اکبر کا مطلب بھی بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے.کبیر کا مطلب بھی بڑا ہے.عظیم میں باقی بڑائی کے مقابل پر کیا فرق پایا جاتا ہے.عظیم لفظ حجم پر بھی بولا جاتا ہے اور وسعت پر بھی.اس میں لمبائی اور طوالت کے معنے نہیں پائے جاتے بلکہ وسعت حجم کے لحاظ سے اگر ظاہری طور پر لفظ اطلاق کریں عظیم الجثہ کہتے ہیں ایسے شخص کو جو بہت بڑا پھیلا ہوا جثہ رکھتا ہو.عظیم پہاڑ ہوتا ہے اور طوالت کے معنی اس لحاظ سے ضرور پیدا ہو جاتے ہیں کہ عظمت کو اونچائی کی طرف دیکھیں تو وہ طوالت بن جاتی ہے.چوڑائی کی طرف دیکھیں تو وہ چوڑائی ہو جاتی ہے اور بحیثیت مجموعی حجم کا تصور عظمت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.افق تا افق پھیلی ہوئی چیز عظیم ہوگی.زمین و آسمان پر یکجائی نظر ڈالیں تو وہاں کبیر کا لفظ نہیں ذہن میں آئے گا بلکہ عظیم کا لفظ آئے گا.عظیم کا لفظ صرف ظاہری چیزوں پر نہیں بلکہ معنوی چیزوں پر بھی اطلاق پاتا ہے بلکہ زیادہ تر
خطبات طاہر جلدم 986 خطبه جمعه ۱۳ / دسمبر ۱۹۸۵ء معانی پر اطلاق پاتا ہے.مثلاً صفات کے لحاظ سے عظیم وہ شخص ہو گا جس کے اندر صفات بہت بڑائی رکھتی ہوں.ان میں حوصلہ زیادہ ہو ، ان میں مرتبہ زیادہ ہو اور روحانی لحاظ سے ایک عظیم وہ شخص ہوگا جس کی روحانیت کا تصور آپ نہیں کر سکتے.اسی طرح عظیم کا لفظ صفات حسنہ اور شخصیتوں کے او پر بولا جاتا ہے اور طاقتوں کے اوپر بھی بولا جاتا ہے.عظیم سلطنت سے مراد صرف یہی نہیں کہ اس سلطنت کا پھیلاؤ زیادہ ہے بلکہ اس کا مرتبہ زیادہ ہے، اس کا رعب زیادہ ہے.عظیم شخص بھی اس شخص کو کہتے ہیں کہ جو ایک سے زیادہ جہتیں اپنے اندر رکھتا ہو ، صرف ایک جہت میں ترقی نہ کرتا ہو یا ایک جہت میں اس نے بڑائی حاصل نہ کی ہو بلکہ ایک سے زیادہ جہتوں میں اس نے بڑائی حاصل کر لی ہو.ہر دفعہ جب عظیم کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس میں مقابلے کا معنی کوئی نہیں ہوتا جو علو میں پایا جاتا ہے.لیکن رعب کا معنی عظمت کا ایک لازمی حصہ ہے.جب آپ کسی شخص کے مقابل پر کسی پہلو سے چھوٹے ہوں اور وہ آپ سے بڑا ہو، خواہ وہ زندہ وجود ہو، خواہ وہ مردہ وجود ہو یعنی جسد ہوایسی صورت میں آپ کے دل میں اس کی عظمت کا خیال آئے گا.پہاڑ کو خواہ وہ کتنا بلند ہو آپ بہت دور سے دیکھیں تو آپ کو اس کی عظمت کا خیال نہیں آئے گا.جب آپ اس کے قریب پہنچ جائیں یہاں تک کہ وہ آپ پر حاوی ہو جائے ، اس کا رعب آپ پر بیٹھ جائے تو پھر آپ اسے عظیم کہیں گے، بے اختیار دل سے اس کی عظمت کا خیال اٹھے گا.اسی طرح جس شخص کو بھی آپ یا جس ذات کو آپ عظیم کہتے ہیں اس کا کچھ نہ کچھ رعب قبول کرتے ہیں تو عظیم کہتے ہیں.بادشاہ اپنے ماتحتوں کو عظیم نہیں کہتا، دل بڑھانے کے لئے کہہ دے تب بھی اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ تم اپنے چھوٹوں کے مقابل پر عظیم ہو لیکن اپنے مقابل پر اس کو عظیم نہیں سمجھتا اس لئے کہ عظمت میں ایک رعب کا مفہوم بھی پایا جاتا ہے.جب تک وہ رعب طاری نہ ہو اس وقت تک عظمت کا تصور قائم نہیں ہوتا.پس عظمت اپنے ساتھ ایک رعب کا مضمون رکھتی ہے جو کسی چیز پر حاوی ہو جائے اور عظمت کا تصورتب بڑھتا ہے جب انسان ایسی چیز کے قریب جائے.روس کی سلطنت بھی عظیم ہوگی لیکن آپ باہر بیٹھے ہوئے ہیں آپ کو اس سے کیا؟ وہ ایک فرضی عظمت ہے.لیکن جس سلطنت میں آپ رہ رہے ہوں اس کی عظمت کا احساس اور رنگ رکھتا ہے.جس سلطنت کو دور سے دیکھ رہے ہیں اس کی عظمت کا احساس اور رکھتا ہے.پھر کسی کی عظمت براہ راست آپ پر اثر انداز بھی ہو رہی ہو وہ بالکل اور چیز ہے اور وہ جو براہ راست اثر انداز نہ
خطبات طاہر جلدم 987 خطبه جمعه ۱۳ / دیسمبر ۱۹۸۵ء ہورہی ہو وہ بالکل اور بات ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ پہاڑ کے قریب جا کر اس کی عظمت کا احساس ہوتا ہے.لیکن اگر زلزلہ کی کیفیت پیدا ہورہی ہو اس وقت.اگر بادوباراں ہو بجلی کے کڑ کے ہوں اور پہاڑ ان سب ہیتوں کے ساتھ رونمائی کر رہا ہو جو پہاڑ کے لفظ کے ساتھ وابستہ ہیں، پہاڑ کے معانی کے ساتھ وابستہ ہیں تو پھر پہاڑ کی عظمت اور طرح سے جلوہ گر ہوگی.پس جب آپ رَبِّيَ الْعَظِیم کہتے ہیں تو عظمت کے وہ سارے معانی جو بھی انسان تصور کر سکتا ہے وہ سارے خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف منسوب کر دیتے ہیں اور الف لام لفظ عظیم میں وہ ساری وسعتیں پیدا کر دیتا ہے جو عرب الف لام کے ساتھ منسوب کیا کرتے ہیں.یعنی یہ معنی بھی ہو جائیں گے کہ اصل عظمت تو خدا ہی کی عظمت ہے.یہ معنی بھی ہو جائیں گے کہ تمام عظمتیں جتنی بھی ہیں کامل طور پر خدا کی ذات میں پائی جاتی ہیں اور غیر اللہ میں نہیں پائی جاتیں.اور اس کے علاوہ بھی الف لام کے جتنے معانی ہیں یہ لفظ متفرق معانی دیتا ہے، وہ سارے خدا تعالیٰ کی ذات میں اکٹھے کر دیئے جائیں تب العظیم کے معانی سمجھ آئیں گے.اور پھر دوسرا پیغام آپ کو یہ ملتا ہے کہ العظیم.آپ نے اس وقت کہا جب آپ نے حرکت کی کسی کے سامنے جھکے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے اس کی حضوری کو محسوس کیا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی وجود آپ کے سامنے ابھرا ہے ورنہ تو خدا ہر وقت موجود ہے.عین جھکتے وقت آپ نے کیوں سبحان ربی العظیم کہا ؟ دوبارہ توجہ کو اپنے رب کی عظمت کی طرف مرکوز کرنے کے لئے یہ احساس دلانے کے لئے کہ وہ عظیم جسے تم دور کی حالت سے دیکھا کرتے تھے ، ایک غفلت کی آنکھ سے دیکھا کرتے تھے اب محسوس کرو کہ وہ عبادت کے وقت تمہارے قریب تر آگیا ہے اور اتنا قریب آیا ہے کہ تم نے جسمانی حرکت کے ذریعہ اس کے وجود کو محسوس کیا ہے اور اس کے سامنے جھک گئے ہو.اور ربی کے لفظ میں میرا رب کہ کر اس میں ایک اور بھی مضمون پیدا کر دیا.یعنی ایسے شخص کے سامنے آپ نہیں جھکے جس کی دشمنی کا خوف ہو.ایک ایسے وجود کے سامنے جھکے ہیں جس سے آپ خیر کی توقع رکھتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ وہ آپ کی طرف ہے.وہ آپ کی دائیں طرف ہے ، آپ کے بائیں طرف نہیں ہے یعنی آپ کا ساتھی ہے آپ کا دشمن نہیں ہے.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظیم کہہ کر جو یہ خدشات تھے کہ اتنے بڑے وجود کے سامنے جا
خطبات طاہر جلدم 988 خطبه جمعه ۱۳/ دسمبر ۱۹۸۵ء رہے ہیں جو خیر وشر کی تمام طاقتیں رکھتا ہے ہمار کیا بنے گا؟ ربّی کہہ کر آپ کو ایک دعا سکھا دی اور یہ دعا در حقیقت وہ بھی کرنے لگ جاتے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہمارا تھا نہیں ہم اس کو اب اپنا بنانا چاہتے ہیں.جب کسی طاقتور کے ہاتھ میں کوئی دشمن آ جاتا ہے تو اس وقت وہ دشمن بھی اپنا بنا لیا کرتا ہے اس کو یہ بتانے کے لئے کہ اگر میں پہلے نہیں بھی تھا تو اب میں تمہارا ہو جاتا ہوں.تو ربی کا لفظ اپنے سارے مفاہیم اپنے اندر رکھتا ہے.ایک ایسا شخص جو خدا سے دور رہا ہو جب وہ خدا کے حضور جھکتا ہے اور اس کی عظمت کو اپنے سامنے پاتا ہے تو ربی کہہ کر یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں عملاً تیرا ہوں اور مجھ سے اپنوں والا سلوک کرنا ، مجھ سے غیروں والا سلوک نہ کرنا.دوسری طرف تمام دوسری عظمتیں اس کے مقابل پر زائل ہو جاتی ہیں اور عنقا ہو جاتی ہیں جب انسان رَبِّيَ الْعَظِيمِ کہہ کر اپنے رب کو اپنی طرف منسوب کرنے لگتا ہے.کئی عظمتوں کے خیال اس کے دل پر حاوی ہوتے ہیں جب کہتا ہے میرا رب سب سے بڑا ہے.یا میرا رب سب سے عظیم ہے.تو باقی ساری عظمتیں اس کے مقابل پر گھل جاتی ہیں اور بے حقیقت ہو کے رہ جاتی ہیں.تو رَبِّيَ الْعَظِیم کو پڑھنا اور غور کے ساتھ اور بوبیت کو اپنی طرف منسوب کرنے اور عظیم رب کی ربوبیت کو اپنی طرف منسوب کرنا، اس کے اندر کئی قسم کی دعا ئیں آجاتی ہیں.ہر قسم کا انسان دنیا میں کسی نہ کسی عظمت کے ساتھ واسطہ ضرور رکھتا ہے.یہاں تک کہ ایک طالب علم ہے اس کو اپنا استاد عظیم دکھائی دے رہا ہوتا ہے.علم کے میدان میں وہ اس سے سیکھ رہا ہوتا ہے، وہ اس پر حاوی نہیں ہوتا استاد کا علم اس پر حاوی ہوتا ہے.زندگی کے ہر میدان میں، ہر شعبہ میں کسی نہ کسی وجود کی عظمت کا احساس رہتا ہے.تو نماز میں جا کر اچانک آپ کو یہ پیغام ملتا ہے کہ وہ تو ساری معمولی عظمتیں ہیں.اصل میں تو میرا رب عظیم ہے اور جو رب عظیم ہے اس سے کیوں نہ میں عظمتیں حاصل کروں.ہر عظمت کے لئے اس کی طرف کیوں نہ جھکوں.پس زندگی کے ہر شعبہ میں ہر چیز کا حصول اور اس کی طلب خدا کی مدد کی محتاج ہو جاتی ہے جب آپ رَبِّيَ الْعَظِیم کہتے ہیں اور اس کا اقرار کرتے ہیں.علاوہ ازیں سبحان کا لفظ آپ کو بتاتا ہے کہ دوسری ساری عظمتیں جو آپ نے دنیا میں دیکھی تھیں وہ نقائص سے پاک نہیں تھیں.کئی پہلوؤں سے ان عظمتوں میں بظاہر بڑی عظیم الشان چیزیں تھیں مگر جب ہم نے قریب سے دیکھایا نہ بھی دیکھا تو عقلاً ہم جانتے ہیں کہ ان کے اندر ضرور خلا
خطبات طاہر جلدم 989 خطبه جمعه ۱۳/ دسمبر ۱۹۸۵ء موجود ہیں ، نقائص موجود ہیں ، کمزوریاں ہیں.اور مختلف بڑی بڑی عظیم شخصیتوں کا تذکرہ بھی آپ پڑھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان کے اندر بعض ایسی کمزوریاں پائی جاتی تھیں، ایسی بھیا نک کمزوریاں پائی جاتی تھیں کہ ان کمزوریوں پر نظر پڑے تو کوئی بھی عظیم نہ رہے.یہ تو اللہ تعالیٰ کی ستاری ہے کہ اس نے ہر انسان کو اپنی ستاری کے پردہ میں ڈھانکا ہوا ہے.ورنہ حقیقت یہ ہے کہ جس نظر سے انسان اپنے وجود کو دیکھ سکتا ہے اس نظر کے ساتھ اگر غیر اس کو دیکھیں تو اس کی ہر عصمت ہر عظمت کا پردہ چاک چاک ہو جائے گا.جن کو آپ نیکیاں سمجھتے ہیں ان کے اندر بھی بہت سی خامیاں رہ جاتی ہیں جو کرنے والے کو پتہ ہوتا ہے کہ کیا ہیں.اس لئے انبیاء جب اپنے وجود کے اندر نگاہ ڈالتے ہیں اور ان کی کنہ تک پہنچتے ہیں تو جب وہ یہ کہتے ہیں کہ ع کرم خا کی ہوں مرے پیارے نہ آدم زاد ہوں ( در تمین صفحه: ۱۱۵) تو ایک عجیب دردناک روح کی پکار ہوا کرتی ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہوتا.ایک ایسے عارف باللہ کی درد ناک چیخ ہے جو سب نیکیوں کے باوجود جانتا ہے کہ کچھ بھی نہیں ہے.خدا کے فضل کے سوا، اس کی ستاری کے سوا میری کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.تو اس سے بڑی عظمت کہاں متصور ہوسکتی جو خدا کے بعد نبی کی ذات کی عظمت ہے.توجب سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ آپ پڑھتے ہیں تو سُبحَانَ کا لفظ آپ کو بتاتا ہے کہ سب عظمتیں جھوٹی اور بے معنی اور خول تھے اور ان کے اندر حقیقت میں پس پردہ ایسے بھیا نک مناظر تھے جو کسی عظمت کو بھی عظمت نہیں رہنے دیتے لیکن دیکھو میرا رب کتنا عظیم ہے کہ اس کی عظمتیں ہر برائی سے پاک ہیں اور اس کی ہر عظمت ہر برائی سے پاک ہے.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيمِ میں جب آپ خدا کی عظمتوں کا تصور کرنے لگیں اور اپنے ذہنوں میں اس کے مناظر بدلنے لگیں اپنی حالتوں اور کیفیات کے مطابق تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ تکرار بوریت پیدا کر سکتی ہے.یا انسان اس سے اکتاہٹ محسوس کرنے لگتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ جسم ساتھ نہیں دے سکتا لیکن اگر آپ کا ذہن آپ کا ساتھ دے، آپ کی روح آپ کا ساتھ دے تو کبھی ایک رکوع ختم بھی نہیں ہوسکتا.چنانچہ قرآن کریم مومنوں کو وَهُمْ رَاكِعُونَ ( المائدہ:۵۶) فرماتا ہے کہ بظاہر وہ جسمانی
خطبات طاہر جلدم 990 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء رکوع میں نہ بھی ہوں تب بھی ان کی ساری زندگی رکوع بن جاتی ہے.اس لئے کہ وہ خدا تعالیٰ کی عظمت کا بار بار کا تصور اتنا ان کے نفس پر حاوی ہو جاتا ہے، اتنا ان کے خیالات پر قبضہ کر لیتا ہے کہ پھر وہ ہمیشہ گویا ایک رکوع کی حالت میں رہتے ہیں یعنی خدا کی عظمتوں کے سامنے ان کی روحیں جھک کر چلتی ہیں.نظر نہیں اٹھا سکتیں ، سر خدا کے سامنے ہمیشہ کے لئے خم ہو جاتے ہیں.پس سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِیم کا مضمون بظاہر تین دفعہ آپ نے پڑھا لیکن اگر آپ اس کو غور سے پڑھیں اور اس کے اندر ڈوبنے کی کوشش کریں تو الہی عظمتوں کا مضمون تو ایک لا متناہی مضمون ہے جو کبھی ختم نہیں ہو سکتا.پھر اسے ربی کے ساتھ منسوب کر کے پڑھیں پھر اسے سُبحَانَ کے لفظ پر غور کر کے پڑھیں تو اندرونی طور پر آپ کو اپنے نقائص دور کرنے اور یہ احساس دلانے کے لئے کتنے عظیم الشان مواقع میسر آئیں گے کہ آپ اگر سچ سچی عظیم بننا چاہتے ہیں تو ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی نقائص سے پاک کریں محض ایسی حمد اختیار کر لینی جو لوگوں کی نظر میں بڑائی پیدا کرے کافی نہیں ہے.اندرونی نقص جب تک آپ کو نہیں کھنگالیں گے اور دور نہیں کریں گے.اس وقت تک آپ فخر سے یہ نہیں کہ سکیں گے کہ سُبْحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم ورنہ تو پھر وہ کسی اور کا رب عظیم ہو گا تمہارا رب تو عظیم نہیں رہے گا.اگر تم اس کی طرف حقیقت میں توجہ نہیں کرتے اور اس کیفیت کی قدر نہیں کرتے اور اسے پیار کی نظر سے نہیں دیکھتے یعنی عظمت وہ جو خرابیوں سے پاک ہو.تو ایک دورخہ ترقی کا راستہ کھلتا ہے جس پر انسان بیک وقت سفر کر سکتا ہے.ایک عظمتوں کا مثبت حصول اور وہ عظمتیں حاصل کرنا جو خدا کی ذات کے ساتھ وابستہ ہیں.کیوں خدا عظیم ہے؟ اس پر غور کرنا اور پھر خدا کی ان صفات کو اختیار کرنا جنہوں نے آپ کے دل پر عظمت کا رعب قائم کیا اور پھر انسانوں میں ان صفات کو جلوہ گر دیکھنے کے بعد یہ تجزیہ کرنا کہ ان صفات کے ساتھ کون کون سی خرابیاں وابستہ ہوتی ہیں جو انسان کی عظمتوں کو کھوکھلا کر دیا کرتی ہیں، بے معنی کر دیا کرتی ہیں اور پھر چن چن کر جیسے ایک دانے صاف کرنے والی کبھی ان کو اچھالتی ہے، کبھی پھٹکتی ہے، کبھی ہاتھوں سے چن چن کر مختلف رنگ کی چیزیں مختلف شکلوں کی چیزیں الگ الگ کر کے رکھ دیتی ہے اور پھر وہ صاف کرتی ہے.اسی طرح اپنے نفس کی چھان اور پھٹک کا سُبحَانَ رَبِّيَ الْعَظِيم اتنے مواقع فراہم کرتا ہے کہ انسان اس صفائی کے دور میں اپنی عمر میں بسر کر سکتا ہے.
خطبات طاہر جلدم 991 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء یہ درست ہے کہ نماز کا ہر پہلو اپنی ذات میں بہت سی وسعتیں رکھتا ہے اور یہ ناممکن ہے کہ انسان ان تمام وسعتوں سے ہر نماز میں ہر پہلو سے فائدہ اٹھا جائے.اگر یہ کوشش کرے تو نماز غالب آجائے گی اور انسان نماز پر غالب نہیں آسکتا.اسی لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ عجز کا مضمون بھی ساتھ سکھایا کہ دیکھو! تم نیکیاں تو کرو لیکن حوصلے کے ساتھ تسلی کے ساتھ تھوڑی تھوڑی ، اپنی توفیق دیکھ کر اور رفتہ رفتہ آگے بڑھو کچھ تھوڑا سا آرام کر لیا کچھ قیلولہ کر لیا بھی صبح چلے کبھی شام کو چلے کبھی موسم کا خیال کر لیا، کبھی مزاج کا خیال کر لیا.ان سارے امور کو مدنظر رکھتے ہوئے فرمایا تم تسلی اور حو صلے سے قدم بڑھانا ور نہ نیکیاں تمہیں تو ڑ دیں گی تم نیکیوں کو نہیں توڑ سکتے.نیکیاں تم پر غالب آجائیں گی یعنی تمہیں بے طاقت کر کے دکھا دیں گی ، بے بس کر کے دکھا دیں گی تم نیکیوں پر غالب نہیں آسکتے.پس جب یہ نماز کے مضمون بیان کئے جاتے ہیں یا کسی اور نیکی کے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ آپ ایک ہی سیکنڈ میں ایک ہی لمحہ میں ان امور کے ہر پہلو پر حاوی ہونے کی کوشش شروع کر دیں جو آپ کے سامنے بیان کئے جاتے ہیں.ہر شخص اپنے اپنے مقام اور مرتبہ پر الگ الگ کھڑا ہے اور اگر وہ اپنے نفس کے تجزیے کی عادت رکھتا ہے تو اس کو علم ہے کہ وہ کہاں ہے.ورنہ خدا جانتا ہے کہ ہر انسان کس مقام پر کھڑا ہے.نماز تو آپ کو رستے دکھا رہی ہے اشارے کر رہی ہے کہ اگر مجھے تم دیانت داری اور خلوص سے اختیار کرو گے تو میں تمہاری ہر ضرورت کے لئے کافی ہو جاؤں گی.میں تمہارے ہر تصور کو پہنچتی ہوں تمہارا ہر تصور مجھ سے کوتاہ ہے، میں اس سے زیادہ انعام دینے کی طاقت رکھتی ہوں.پس اس جہت سے نماز کے ساتھ محبت پیدا کریں اس کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کریں.اس سے پورا استفادہ کرنے کی کوشش کریں.اسے سنوار نے کی کوشش کریں گویا کہ جب آپ نماز سنوارتے ہیں تو خود سنورتے ہیں.نماز کے ذریعہ ہی آپ کی اصلاح ہوتی ہے.یہی ہے جو آپ کو صالح بناتی ہے.یہی ہے جو آپ کو شہادت عطا کرتی ہے.یہی ہے جو آپ کو صد یالقیت کے مقام تک پہنچاتی ہے اور یہی ہے جو نبوت کے رنگ آپ میں پیدا کرتی ہے.کوئی نبی نہ بھی بنے نماز انسان کے وجود میں نبوت کے رنگ پیدا کر دیتی ہے اور یہ بھی ایک وسیع مضمون ہے یعنی ضروری نہیں کہ نبوت کا
خطبات طاہر جلدم 992 خطبه جمعه ۱۳؍ دسمبر ۱۹۸۵ء لقب خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا ہو.یہ تو ایک بہت ہی عظیم الشان مقام ہے جو نبوت کے اندر لمبے سفر کے بعد نصیب ہو سکتا ہے لیکن اس کے سوا نبوت کے جہاں تک رنگوں کا تعلق ہے وہ تو مومنوں کی جماعت میں ہر طرف پھیلے پڑے ہیں.پس صالحیت سے گزرتے ہوئے نبوت کے رنگوں تک پہنچانے کے لئے بھی نماز ہی ضروری ہے.یہ باتیں اپنی سوسائٹی میں عام کریں.اپنے گھروں میں ان کے چرچے کریں.اپنی نمازوں کو درست کرنے لگیں اور جب آپ یہ شروع کریں گے تو پھر آپ کو محسوس ہوگا کہ عبادت ہے کیا؟ پھر ایک نئے قسم کے خدا سے آپ کو تعارف ہوگا جو غیب سے حاضر ہونے لگے گا، جس کا حسن وجود پکڑنے لگے گا.وہ تصور کی دنیا کا خدا نہیں رہے گا بلکہ ایک حسن اور پیار کا مجسمہ بن کر آپ کے سامنے آکھڑا ہو گا.تب وہ دل میں محبت کا شعلہ نازل ہوگا جس کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار ہا متفرق جگہوں پر کئی رنگ میں ذکر فرماتے ہیں.بن دیکھے کس طرح کسی ماہ رخ پہ آئے دل کیوں کر کوئی خیالی صنم سے لگائے دل در مشین صفحه (۱۱) جب تک خدا حاضر میں نہیں آتا ، جب تک وجود نہیں پکڑتا اس سے محبت ہو ہی نہیں سکتی.اور جب تک محبت نہیں ہوتی نماز میں وہ ولولہ اور وہ زندگی اور وہ جان پیدا نہیں ہوتی جس سے نماز خود بخود قائم ہو جایا کرتی ہے.اس کی راہ میں ابھی بہت سی مشکلات ہیں ، بہت سی روکیں ہیں، بہت سی محنتیں کرنی پڑیں گی ہیں، بہت سی جدو جہد کرنی پڑے گی لیکن دعاؤں کے ساتھ اور صبر واستقامت کے ساتھ اگر آپ یہ کوشش کریں گے تو انشاء اللہ تعالی ہم میں سے ہر شخص اپنی ہر نماز کی ہر حرکت کے ذریعہ اپنے رب کے پہلے سے زیادہ قریب تر ہوتا چلا جائے گا.
خطبات طاہر جلدم 993 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۸۵ء اللہ تعالیٰ کی صفت عظیم اور اعلیٰ کا بیان نیز حضور کی رؤیا کہ میں حمید الرحمن بن گیا ہوں ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ دسمبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَوْدُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقره: ۲۵۶) اور پھر فرمایا: سورۂ فاتحہ کو جو مقام سورتوں میں حاصل ہے وہی مقام آیتہ الکرسی کو آیات قرآنی میں حاصل ہے.ایک ایسی آیت ہے جو ایک غیر معمولی شان اور غیر معمولی امتیاز رکھتی ہے اور اس شان کی آیت تمام دنیا کی کتب بھی ڈھونڈیں یعنی سماوی کتب کو ڈھونڈیں اور تلاش کریں تو اس کی کہیں آپ کو نظیر نہیں ملے گی.ویسے تو قرآن کریم کی کسی آیت کی بھی نظیر بنانا ممکن نہیں مگر جب ہم یہ کہتے ہیں تو مراد ہے غیر اللہ کے لئے لیکن جب میں یہ کہ رہا ہوں کہ دوسری کتب میں اس کی نظیر نہیں ملتی تو مراد یہ ہے کہ سماوی کتب، میں دوسرے ادیان کی کتب میں کوئی آیت بھی اس شان کی آیت آپ کو نظر نہیں آئے گی جو آیت الکرسی ہے.لیکن اس کی تفسیر کی غرض سے میں یہاں اس وقت نہیں کھڑا ہوا.اس کا جو آخری حصہ میں نے
خطبات طاہر جلدم 994 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۸۵ء تلاوت کیا ہے یعنی وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمواتِ وَالْأَرْضَ وَلَا يَودُهُ حِفْظُهُمَا وَهُوَ الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ یہ اس لئے تلاوت کیا ہے کہ اس میں دوصفات باری تعالیٰ کا ذکر ملتا ہے جن کا نماز سے بھی گہرا تعلق ہے.خدا تعالیٰ کے علو اور اس کی عظمت کا ذکر ملتا ہے اور رکوع میں ہم خدا کی عظمت کے گیت گاتے ہیں اور سجدہ میں اس کے علو مرتبت کے گیت گاتے ہیں.اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ نماز کے ارکان میں جو امتیازی شان رکوع اور سجود کو حاصل ہے ویسی اور کسی رکن کو حاصل نہیں.تو گویا رکوع اور سجدہ نماز کا معراج ہیں اور ان کے لئے خدا تعالیٰ نے خصوصیت کے ساتھ اپنی حمد میں سے یہ دوصفات چنیں: عظیم اور اعلیٰ.میں غور کرتا رہا کہ کیا وجہ ہے کہ کیوں ہر حرکت سے پہلے اللہ اکبر کہنے کا حکم ہے لیکن رکوع سے بلند ہوتے وقت اللہ اکبر کی بجائے ہم سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ کہتے ہیں.تو اس کی دو وجوہات مجھے سمجھ آئیں اول یہ کہ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک ظاہری حرکات کی مناسبت کا تعلق ہے رکوع سے سجدہ اگلام قدم ہے لیکن رکوع سے سیدھا اگر سجدے میں چلے جائیں تو اس سے سجدے اور قیام کے درمیان جو نمایاں امتیاز پیدا ہوتا ہے وہ امتیاز پیدا نہیں ہو سکتا.سجدے میں جو عاجزی کی شان ہے ویسی شان نہیں بن سکتی جب تک کھڑی حالت میں انسان سجدے میں نہ گرے.اس لئے دراصل ایک Interlude ہے یہ.جب ہم کھڑے ہوتے ہیں دوسری مرتبہ سمع اللہ لمن حمدہ کہہ کر تو رکوع اور سجدے کے درمیان ایک وقفے کی حالت ہے.جس سے سجدے کی عظمت کو نمایاں کرنا مقصود ہے.دوسری وجہ یہ سمجھ آئی کہ حمد کا معراج ہے عظیم اور اعلیٰ اور ان دونوں کے مابین سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَه کہہ کر یہ مطلع فرمایا گیا کہ وہ جو خدا کی عظمت اور اس کے علو کے گیت گانے والے ہیں انہیں خوش خبری ہو ، مبارک ہو ان کو کہ ان کی دعائیں سنی گئیں.اس پہلو سے جب خدا کے عظیم ہونے اور اس کے اعلیٰ ہونے پر غور کیا جائے تو سجدے میں بھی اور رکوع میں بھی بہت زیادہ گہرائی پیدا ہو جاتی ہے اور بہت زیادہ عظمت عطاء ہوتی ہے.یہ ضروری نہیں ہوتا کہ ہرغور اسی حالت میں کیا جائے بلکہ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيْمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمُ ( آل عمران : ۱۹۲) سے پتہ چلتا ہے کہ چلتے پھرتے اٹھتے بیٹھتے مومن صفات باری تعالیٰ پر غور کرتے رہتے
خطبات طاہر جلدم 995 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء ہیں اور غور کے نتیجے میں خدا کی صفات ان کے اندر نئی شان کے ساتھ جنم لینے لگتی ہیں گویا، ان کے وجود میں بھی اور ان کے تصورات میں بھی اور پھر جب وہ ایک لفظ عظیم کہتے ہیں تو ان کا خدا کو عظیم کہنا دوسرے لوگوں کے عظیم کہنے کے برابر نہیں ہوسکتا یا یوں کہنا چاہئے کہ عام لوگوں کا خدا کو عظیم کہنا اُن لوگوں کے عظیم کہنے کے برابر نہیں ہو سکتا جنہوں نے خدا کی عظمتوں پر غور کیا ہو اور اس کی عظمتوں کو پہچانا ہو اور اس کی عظمتوں کو اپنے وجود پر وارد کیا ہو.اسی طرح علو کا مضمون ہے.اس میں بھی بہت ہی وسعتیں ہیں.تو ان پر جتنا آپ غور کریں گے اتنا ہی زیادہ آپ کے رکوع اور آپ کے سجدے میں اللہ تعالیٰ برکتیں رکھ دے گا اور اتنا ہی زیادہ سَمِعَ اللهُ لِمَنْ حَمِدَہ، آپ کے حق میں پورا ہوگا.چنانچہ اس حکمت کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں آپ کے سامنے مثال کے طور پر لفظ عظیم کو رکھتا ہوں اور اس کی وضاحت کرتا ہوں.ویسے تو بہت ہی لمبا اور بڑا مضمون ہے لیکن مختصراً سمجھانے کے لئے میں نے چند باتیں چنی ہیں.سب سے پہلی بات عظیم کے متعلق یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ اپنی ذات میں نہ اچھائی کے معنی رکھتا ہے نہ برائی کے معنی رکھتا ہے بلکہ نہایت بری چیزوں کے لئے بھی بولا جاتا ہے اور نہایت اچھی چیزوں کیلئے بھی بولا جاتا ہے.مثلاً عَذَابٌ عَظِيمٌ (البقرہ: ۱۱۵) قرآن کریم میں آتا ہے اور اسی طرح اور بہت سی ایسی چیزیں جو مکروہات میں یا نہایت ہی خوفناک حیثیت رکھنے والی چیزیں ہیں ان کے متعلق بھی عظیم کا لفظ بولا گیا ہے.عذاب عظیم کے مقابل پرمَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ (الحجرات : ۴) بھی بولا گیا ہے.اسی طرح الْخِزُ الْعَظِيمُ (التوبہ: ۶۳) قرآن کریم میں بہت ہی بڑی ذلت اور رسوائی کیلئے الْخِزْئُ الْعَظِيمُ کا لفظ آیا اور اس کے مقابل پر پھر الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبۃ :۷۲۰) بھی فرمایا کہ بہت ہی بڑی کامیابی.پھر الْحِنْثِ الْعَظِيمِ (الواقعۃ : ۴۷) فرمایا یعنی ایسا گناہ جو بہت ہی بڑا ہو اور اس کے مقابل پر آنحضرت علی کے متعلق فرمایا إِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ (القلم: ۵) تو بہت ہی بڑے خلق پر واقع ہوا ہے، تیرا خلق بہت بلند ہے.اسی طرح حَظِّ عَظِيمٍ (القصص:۸۰) برے معنوں میں بھی قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے اور اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے.ذُو حَظِّ عَظِيمٍ (تم اسجدہ: ۳۶) کا محاورہ بعینہ ایک دوسرے سے بالکل مخالف معنوں میں استعمال ہوا ہے.مُلكًا عَظِيمًا (النساء:۵۵) بھی فرمایا
996 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء خطبات طاہر جلدم گیا اور اللہ تعالیٰ کو الْعَلِيُّ الْعَظِيمُ (البقرہ:۲۵۲) بھی فرمایا گیا ہے تو یہ لفظ اپنی ذات میں بہت ہی وسعت رکھتا ہے.جب ہم سبحان ربی العظیم کہتے ہیں تو اس وقت یہ معنی تقسیم ہو جاتے ہیں وہ سارے معنی جو برے ہیں وہ کٹ کر الگ ہو جاتے ہیں اور عظیم کے وہی معنی باقی رہ جاتے ہیں جو خدا تعالیٰ کے ساتھ نسبت رکھ کے اپنے اندر حسن پیدا کر لیتے ہیں.تو واضح پیغام پہلا پیغام ہمیں یہ ملا کہ محض عظمتیں کوئی چیز نہیں.ہیں محض بڑی نظر آنے والی چیزیں، رعب دار چیزیں جن سے انسان مرعوب ہو جائے اور اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کرے یہ اپنی ذات میں ان چیزوں کی کوئی حقیقت نہیں.عظمت وہی ہے جو رب کی طرف منسوب ہو.عظمتیں وہی ہیں جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نصیب ہوں.پس عظمت کا تصور فی ذاتہ انسان کو غلط رستوں کی طرف جو لے جاسکتا تھا ، رکوع نے وہ آدھے رستے جو غلط سمتوں میں جانے تھے اُن کے آگے روکیں کھڑی کر دیں، دیوار بنادی اور صرف اچھی عظمتوں کی طرف جانے کی تمنا پیدا کر دی.اور ” میرا رب کہہ کر سبحان ربی العظیم ایک امید پیدا کر دی کہ ان عظمتوں کو تم حاصل بھی کر سکو گے کیونکہ یہ ساری عظمتیں تمہارے رب کے پاس ہیں.جب کہتے ہو ” میرا رب تو مراد ہے ہاں وہ رب جس سے میں یہ سب کچھ حاصل کر سکتا ہوں ، جو میرا مالک اور میرا خالق ہے اور جتنا میں اس سے تعلق بڑھاؤں گا اتنا ہی اچھی عظمتیں مجھے نصیب ہوں گی.دوسرے لفظ عظیم میں اپنی ذات میں ایک ایسی عظمت پائی جاتی ہے جو باقی صفات باری تعالیٰ سے اس لفظ کوممتاز کر رہی ہے.کوئی ایک بھی صفت ایسی نہیں جس کو دوسری صفت پر چسپاں کیا جا سکے یعنی دوسری ہر صفت پر چسپاں کیا جا سکے.مثلاً آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ بڑا رحیم منتظم ہے یا اگر یہ کہہ بھی سکیں ایک خاص عارفانہ معنوں میں تو یہ نہیں کہیں گے کہ اول منتقم ہے آخر منتقم ہے ، باطن منتقم ہے، نم ہے، رحمن منتظم ہے، غفور منتظم ہے.بعض صفات بعض صفات کے ساتھ جوڑ کھا جائیں گی اور بعض صفات بعض صفات کے اوپر چسپاں نہیں ہو سکتیں.مگر خدا تعالیٰ کی صفتِ عظیمیت ہر دوسری صفت کے ساتھ لگ کر اس میں عظمت کے معنی پیدا کر دیتی ہے وہ عظیم رحمان ہے ، وہ عظیم غفور ہے وہ عظیم رحیم ہے ، وہ عظیم منتقم ہے ، وہ عظیم باطن ہے، وہ عظیم ظاہر ہے ، وہ عظیم اول ہے ، وہ عظیم آخر ہے.تو اس لفظ کے اندر جو عظمت پائی جاتی ہے وہ اس میں اتنی وسعت پیدا کر دیتی ہے کہ تمام صفات ظاہر
خطبات طاہر جلدم 997 خطبه جمعه ۲۰ /دسمبر ۱۹۸۵ء باری تعالیٰ کے ساتھ چسپاں ہو کر ان کو ایک نئی شان کے ساتھ یہ لفظ نمایاں کر دیتا ہے.پس جب آپ عظیم کہتے ہیں تو اسی لفظ عظیم کے اندر خدا کی ہر صفت کا تصور باندھ سکتے ہیں اور یہ سوچ سکتے ہیں کہ میرا وہ رب عظیم ہے جو یہ ہے، میرا وہ رب عظیم ہے جو یہ ہے.اور ہر قسم کی دعا اسی تحمید کے اندر داخل کر سکتے ہیں یعنی بظاہر خدا کی حمد کے گیت گا رہے ہیں ، بباطن بھی حمد کے ہی گیت گا رہے ہیں لیکن ساتھ ہی دعا کا مطلب بھی حاصل ہو جاتا ہے.کسی خاص حالت میں جب اپنے گنا ہوں کے تصور سے انسان کی جان ہلاک ہو رہی ہو اس وقت رَبِّيَ الْعَظِیم جب کہے گا تو خدا کی مغفرت کی عظمت کا تصور نمایاں طور پر اس کے سامنے آئے گا.اس کے عفو کا تصور نمایاں طور پر اس کے سامنے آئے گا اور یہ سوچے گا کہ ہاں بہت گناہگار ہوں لیکن میرا رب بہت عظیم ہے، اپنی مغفرت میں بہت عظیم ہے، اپنے عضو میں بہت عظیم ہے.غرضیکہ اس لفظ کی عظمت میں تمام عظمتیں سما جاتی ہیں اور اس ایک صفت کے اندر خدا تعالیٰ کی تمام صفات کا بیان ہو سکتا ہے اور دعا کے رنگ میں بیان ہوسکتا ہے.جہاں تک لفظ اعلیٰ کا تعلق ہے اگر چہ عظیم لفظ میں مدمقابل کا تصور ذہن میں نہیں ابھرتا بلکہ اپنا عجز کسی عظیم کے مقابل پر سامنے آتا ہے.مگر علو لفظ میں ایک مد مقابل کا تصور بھی لازماً ابھر آتا ہے.ایسی چیز جو کسی دوسرے پر غالب ہو کسی دوسرے سے بلند ہو اور یہ علو جو خدا تعالیٰ کی صفت کا حصہ ہے یہ بھی خدا تعالیٰ کی ہر صفت کے ساتھ چسپاں ہو کر غیر اللہ کے مقابل پر اطلاق پائے گا.جب آپ کہتے ہیں کہ خدا اعلیٰ ہے تو اپنی ہر صفت میں ہر غیر اللہ کے مقابل پر اعلیٰ ہے اور ان معنوں میں اس لفظ میں بھی ایک علو مرتبت پائی جاتی ہے جو ہر صفت کے ساتھ متعلق ہو جاتی ہے.لفظ علو پر جب ہم غور کرتے ہیں قرآن کریم کی مختلف آیات کی روشنی میں تو ایک خیال تو اس طرف جاتا ہے کہ لفظ علوم میں ایک تنزیہی رنگ پایا جاتا ہے.یعنی فی الحقیقت سوائے خدا کے کوئی اعلیٰ نہیں ہو سکتا اور جس کسی نے بھی دعوی کیا اس نے جھوٹا دعویٰ کیا.دوسرے اگر کوئی اعلیٰ بنا بھی ہے تو زمینی طور پر ادنی صورت میں اعلیٰ بنا ہے لیکن فی الحقیقت اسے کوئی بلندی نصیب نہیں ہوئی.تیسرے یہ کہ اگر کوئی اعلیٰ بنا چاہتا ہے تو خدا کے حضور جھکنے کے نتیجے میں وہ اعلیٰ بن سکتا ہے اور تب اعلیٰ ہو سکتا ہے اگر اس کی نسبت خدا کی طرف ہو جائے اس کے بغیر غیر اللہ کوکوئی علونصیب نہیں ہوسکتا.جہاں تک خدا تعالیٰ کے انبیاء کے دشمنوں کا تعلق ہے.سب سے زیادہ لفظ علوان معنوں میں کہ
خطبات طاہر جلدم 998 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۸۵ء غاصبانہ قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی اس لفظ پر فرعون کے لئے استعمال ہوا ہے.کسی نبی کے مد مقابل کے متعلق خدا تعالیٰ نے لفظ علو کا اس طرح بار بار استعمال نہیں فرمایا لیکن فرعون کے متعلق فرماتا ہے: إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا (القصص:۵) کہ فرعون نے زمین میں علو اختیار کیا جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس کا علوز مین سے نسبت رکھنے والا علو ہے.پھر فرمایا : اِنَّ فِرْعَوْنَ لَعَالِ فِي الْأَرْضِ وَإِنَّهُ لَمِنَ الْمُسْرِفِينَ (یونس :۸۴) فرعون زمین میں علو کر نے والا ہے.اور اس کے مقابل پر مومنوں کے متعلق یہ صفت بیان فرمائی کہ وہ زمین میں علو نہیں چاہتے.فرمایا: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوا فِي الْأَرْضِ یہ دار آخرۃ ہے.یہ آخرت کی کامیابی جس سے مراد دنیا میں بھی ہر مقابلے کے آخر پران کا کامیاب رہنا ہے اور یوم آخرت کی کامیابی بھی مراد ہے.تو فرمایا بالآخر فتح پانے والے یہ لوگ یہ مومنین کی جماعت لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ یہ زمین پر غلبے کی تمنا رکھ کر کوئی کام نہیں کرتے یا زمینی غلبہ کے تصور میں کوئی کام نہیں کرتے.روحانی غلبے کا تصور تو ان کے ذہن میں ہوتا ہے وہی ان کے محرکات میں سب سے بڑا محرک ہوتا ہے لیکن عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ سے ان کا کوئی تعلق نہیں.پھر فرعون نے جس قوم پر علو اختیار کیا قوموں میں سے اسی قوم کے متعلق پھر خدا تعالیٰ نے لفظ علو استعمال فرمایا اور بہت بڑی اس میں عبرت ہے.خصوصاً جماعت احمدیہ کے لئے اس میں بہت ہی گہرا پیغام ہے اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے خصوصیت کے ساتھ ایک عبرت کا نشان ہے اس بات میں.یہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کہ اگر چہ بظاہر آیات مختلف وقتوں میں الگ الگ استعمال ہوئی ہیں لیکن جب ان کو جوڑ کر پڑھتے ہیں تو حیرت انگیزان میں ربط نظر آتا ہے ،مضمون کے اندر یکسانیت ملتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ تعلق ملتا ہے.فرعون کو چنا گیا اس اظہار کے لئے کہ بعض لوگ زمین میں علو اختیار کرتے ہیں اور خدا کے کمزور بندوں پر غالب آکر علو کا دعوی کرتے ہیں.اس کے مقابل پر بنی اسرائیل کو ایک نہایت ہی مظلوم حالت میں دکھایا گیا جن پر حد سے زیادہ مظالم توڑے جارہے تھے آیا اور پھر وہ قوم جو کسی زمانہ میں حد سے زیادہ مظلوم تھی کسی فانی بندہ کے علو
خطبات طاہر جلدم 999 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۸۵ء کے ستم کا نشانہ بنی ہوئی تھی جب وہ قوم خود بگڑ گئی خدا نے اسے ترقیات عطا فرما دیں تو اور بگڑنے کے بعد اس نے خود زمین میں علو اختیار کرنا شروع کیا اور یہ بات بھول گئی کہ اس کا دشمن تو صرف اس لئے ہلاک کیا گیا تھا کہ اس نے ان کے خلاف علوا اختیار کیا تھا.یہ کیسے آخری ہلاکت سے بچ جائیں گے اگر یہ نصیحت نہیں پکڑیں گے اور خود فرعون کی جگہ لے کر خدا کے بندوں کے مقابل پر علو اختیار کرنا شروع کر دیں گے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے.لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ( بنی اسرائیل : ۵) کہ تمہارے متعلق یہ لکھی ہوئی بات تھی کہ اے بنی اسرائیل دو دفعہ زمین میں علو اختیار کرو گے اور فساد کے ساتھ علو اختیار کرو گے لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَ عُلُوا كَبِيرًا بہت ہی بڑا علو اختیار کرو گے.جب فرعون نے علو کیا تو اس نے یہ دعویٰ کیا انا ربکم الاعلیٰ قرآن کریم فرماتا ہے: فَقَالَ أَنَا رَبُّكُمُ الأعلى (النازعات : ۲۵) یہاں تک دعوی کر بیٹھا کہ میں ہی تمہارا اعلیٰ رب ہوں.اس کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے اس کو حقیر اور ذلیل کرنے کے لئے ایک عجیب رنگ اختیار فرمایا.موسیٰ کو مخاطب کر کے فرمایا : لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلى (طه: ۶۹) یہ مجھ پر علو اختیار کر رہا ہے یہ دعوے کر رہا ہے کہ مجھ سے بھی بڑا ہے تو میرا ایک حقیر ادنی خادم ہے اور اتنا کمزور ہے کہ ڈر رہا ہے اپنے ہاتھ کے سونے سے ڈر رہا ہے فرمایا: لَا تَخَفْ إِنَّكَ أَنْتَ الْأَعْلَى ہرگز نہ ڈر تو ایک عظیم اور اعلیٰ ذات کی طرف منسوب ہونے والا بندہ ہے اس لئے اس فرعون پر تجھے ہم علو عطاء کریں گے اور اس کے مقابل پر تو اعلیٰ ٹھہرے گا.تو کہاں یہ کہ نعوذ باللہ من ذالک وہ اپنے رب سے اعلیٰ ہو وہ اس کے ایک نہات ہی ادنی اور ایک عاجز بندے کے مقابل پر بھی ذلیل اور خوار کر دیا گیا اور وہی آخر اعلیٰ ٹھہرا.اور موت سے پہلے اس کو اقرار کرنا پڑا کہ موسیٰ“ بہر حال غالب آیا اور میں مغلوب ہو گیا ہوں.اسی طرح بنی اسرائیل کے لئے جب فرمایا کہ تم دو دفعہ زمین میں علو اختیار کرو گے تو اس کے مقابل پر بھی کسی قوم سے یہ وعدہ ہونا چاہئے تھا کہ تمہارے مقابل پر وہ علو اختیار نہیں کر سکیں گے اور لازماً نا کام اور ذلیل ہوں گے اور وہ قوم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ماننے والوں کی قوم ہے.
خطبات طاہر جلدم 1000 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء اور عجیب شان ہے قرآن کریم کی کہ بنی اسرائیل سے یہ وعدہ تھا کہ تمہیں دو دفعہ زمین میں فساد کا موقع ملے گا اور دو دفعہ تم علو اختیار کرو گے اور دو ہی مرتبہ قرآن کریم میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کو اعلیٰ ہونے کی خوشخبری دی گئی ہے.فرمایا وَ لَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ ( آل عمران : ۱۴۰) اے محمد مصطفی ہے کے غلامو! تم ہر گز تھک نہ جانا ، ستی نہ اختیار کرناوَ لَا تَحْزَنُوا اور جو کچھ تمہیں دکھ دیئے جارہے ہیں یا نقصان پہنچایا جارہا ہے ان پر غم نہ کرنا وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ تم اعلیٰ ٹھہرو گے اور تمہارے مقابل دشمن لازماً رسوا اور ذلیل کئے جائیں گے اِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ شرط یہ ہے کہ تم مومن ٹھہرنا.پھر دوسری جگہ فرمایا فَلَا تَهِنُوا وَتَدْعُوا إِلَى السَّلْمِ وَأَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ * وَاللهُ مَعَكُمْ وَلَنْ يَّتِرَكُمْ أَعْمَالَكُمْ ) ( محمد ۳۶) کہ دیکھوست نہ ہوجانا ایسی حالت میں کہ سستی تمہیں مجبور کر دے کہ کمزوری کی وجہ سے صلح کے لئے ہاتھ بڑھاؤ صلح کے لئے ہاتھ بڑھانا اچھی چیز ہے لیکن بزدلی اور کمزوری کے نتیجے میں صلح کے لئے ہاتھ بڑھانا یہ بہت مکروہ فعل ہے جس سے خدا تعالیٰ امت محمدیہ کومنع فرمارہا ہے.وَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ اور پھر تمہیں ضرورت بھی کیا ہے.ایک با غیرت آدمی تو مٹ جانا پسند کرتا ہے بجائے اسکے کہ کمزوری کے نتیجے میں ہاتھ بڑھائے صلح کی خاطر ، امن کی خاطر صلح کا پیغام دینا یا دنیا میں اصلاح کے لئے اپنے دشمن کو معاف کر دینا یہ بالکل اور بات ہے لیکن کمزور ہو کر جان بچانے کے لئے صلح کے لئے ہاتھ بڑھانا یہ ایک ایسی بزدلی ہے جو قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ امت محمدیہ کو زیب نہیں دیتی لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ یعنی حد ہوگی بے وقوفی اور حماقت کی کہ تم یہ کمزوری دکھا جاؤ جبکہ تمہیں وعدہ ہے کہ تم اعلیٰ قرار دیئے جاؤ گے ہم نے لازماً غالب آتا ہے وَاللهُ مَعَكُم خدا تمہارے ساتھ ہے تمہیں کیا خوف ہے غیر اللہ کا کیا خوف ہے وَلَنْ يَتِرَكُمْ أَعْمَلَكُمْ وہ ہر گز تمہارے اعمال کو ضائع نہیں کرے گا.تو جن بنی اسرائیل کو دو دفعہ جھوٹے علو کا موقع دیا جائے گا کہ وہ تمام دنیا میں خدا کے بندوں کو مغلوب کر دیں ان کے مقابل پر دو ہی مرتبہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کو یہ خوش خبری دی گئی ہے اور آنحضرت اللہ کے مقام کی عظمت کا بھی اس سے اظہار ہوتا ہے.انبیاء میں سے صرف حضرت موسی کو چنا گیا یہ کہنے کے لئے کہ تم اعلیٰ ٹھہرو گے.مگر یہاں محمد رسول اللہ ﷺ کو
خطبات طاہر جلدم 1001 خطبه جمعه ۲۰ / دسمبر ۱۹۸۵ء نہیں فرمایا کہ تم اعلیٰ ٹھہرو گے آپ کے غلاموں کو فر مایا کہ تم اعلیٰ ٹھہرو گے.ع تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے ( در تین صفحه : ۱۷) شان امت محمد یہ دیکھیں کہ کتنی حیرت انگیز شان ہے کہ خدا تعالیٰ نے لفظ اعلیٰ کا استعمال پہلے نبی کے متعلق فرمایا تھا اب نبی کے غلاموں کے متعلق فرما رہا ہے.پس یہ جو لفظ اعلیٰ ہے جب ہم خدا تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے ہیں سبحان ربی الاعلیٰ تو اس میں زمانے کے تمام فسادات کا علاج بھی موجود ہے.فرعون خواہ اول ہو یا ثانی ہو یہودخواہ اول ہوں یا یہود کے مظہر ہوں جس قسم کے بھی فرعون ہمارے سامنے آئیں گے جس قسم کے بھی یہود ظاہر ہوں گے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اگر آپ مومن رہیں گے، اگر آپ اپنے سجدوں کو کچی حمد سے بھر دیں گے تو خدا کی قسم ! آپ ہی غالب رہیں گے اور آپ ہی غالب رہیں گے کہ خدا تعالیٰ تکرار کے ساتھ آپ کو بتا رہا ہے کہ اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! تم پر کسی اور قوم کو، کسی اور فرعون کو غلبہ نصیب نہیں ہو سکتا، ہم تمہارے ساتھ ہیں ، ہم نے تم سے وعدہ کیا ہے کہ تم اعلیٰ ٹھہرو گے لیکن شرط یہ ہے کہ رب اعلیٰ کے حضور جھکے رہنا اور زمین میں علو کی تمنا نہ کرنا کیونکہ زمین میں علو کی تمنا کرنے والے ہمیشہ ذلیل قرار دیئے جاتے ہیں.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کی ترقی اور جماعت احمدیہ کے غلبہ اور جماعت احمدیہ کی فلاح و بهبود کا راز جماعت احمدیہ کے رکوع اور سجدے میں ہے.جتنا آپ کا رکوع ربی العظیم کے حضور عاجزی اختیار کرے گا اتنا ہی زیادہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آپ کو اچھی عظمتیں نصیب ہوں گی.جتنا آپ کے سجدے خدا تعالیٰ کے حضور انتہائی انکساری اختیار کریں گے اسی قدر رب اعلیٰ کی طرف سے آپ کو علو نصیب ہوگا.نہ عظمتوں میں کوئی قوم آپ کا مقابلہ کر سکے گی نہ علو مرتبت میں کوئی قوم آپ کا مقابلہ کر سکے گی اور اگر آپ رکوع اور سجدہ کو لا زم بنالیں اور پکڑے رہیں اور نہ تھکیں اور جان سے زیادہ عزیز بناتے ہوئے ان کے ساتھ چھٹے رہیں تو ہمیشہ کے لئے آپ کی عظمتیں بھی بڑھتی رہیں گی اور آپ کا علو مرتبت بھی بڑھتا رہے گا کیونکہ سجدوں میں جس خدا کی عظمت کے آپ گیت گاتے ہیں اس کی عظمتوں کی انتہا کوئی نہیں جتنا زیادہ آپ اس کی معرفت میں ترقی کریں گے اتنا ہی
خطبات طاہر جلد۴ 1002 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء زیادہ آپ کو عظمتیں نصیب ہوتی چلی جائیں گی اسکے علو کی بھی کوئی انتہاء نہیں ہے جتنا زیادہ آپ اسکے علو کے مفہوم کو سمجھتے چلے جائیں گے اتنا ہی زیادہ آپ کو علو مرتبت نصیب ہوتی چلی جائے گی.پس جہاں میں جماعت کو بار بار نماز کے قیام کی تلقین کر رہا ہوں وہاں نمازوں کو مغز اور روح سے بھرنے کی بھی تلقین کر رہا ہوں کیونکہ قیام نماز سے مراد محض ظاہری قیام نہیں بلکہ نماز کی روح کو قائم کرنا ہے.اس پہلو سے نماز کی حیثیت ویسی ہی ہوگی جیسے پھل ہو جو رس سے بھرا ہوا ہو، اگر وہ رس سے بھرا ہوا نہیں اور خالی ہے تو جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا بعض دفعہ وہ نقصان کا موجب بھی بن جاتا ہے.جب ایک انسان نماز شروع کرتا ہے تو اس کی کیفیت ایسی ہی ہے جیسے ایک سرکنڈا ہود یکھنے میں خوبصورت نظر آتا ہے اور نیشکر سے ملتی ہے اسکی شکل یعنی وہ گرتا جس سے میٹھا رس نکلتا ہے اسکے بالکل مشابہ ہوتا ہے اور ظاہری صفات میں ویسا ہی نظر بھی آتا ہے یا نیشکر ہولیکن ابتدائی حالت میں وہ بظاہر وہ گنا ہی کہلائے گا لیکن فی الحقیقت اس کی صفات اس وقت سرکنڈے سے ملتی جلتی ہیں.تو نماز صرف نماز کو ظاہری شکل دینا مقصود نہیں ہے.وہ اگلے اقدامات بھی کریں جس سے نماز رس سے بھر نے لگے اس کے اندر ایک روح پیدا ہو جائے اور نماز کو بھی ایک خلقِ آخر عطا ہو جائے ، اچانک وہ مادی چیزوں سے نکل کر ایک زندہ چیز ایک روحانی چیز میں تبدیل ہو جائے.اس کے لئے ایک لمبی جدو جہد کی ضرورت ہے اور نماز کے ہر ہر لفظ میں جتنا بھی آپ غور کریں گے بہت سی ایسی باتیں نظر آئیں گی جس سے آپ کو نماز قائم کرنے میں مددملتی چلی جائے گی.پس ہر لفظ پر غور کریں اور کوشش کریں اس کے معانی کو پانے اور پھر معانی کو اپنانے کی.کوئی ایک لفظ بھی نماز میں ایسا استعمال نہیں ہوا جس کے اندر گہرائی اور وسعت نہ پائی جاتی ہو.سجدوں کے بعد آپ بیٹھتے ہیں تو پہلا کلمہ خدا کے حضور یہ عرض کرتے ہیں: التحیات پھر کہتے ہیں والصلوات والطيبات ـ التحیات کیا چیز ہے.التحیات کا تو مطلب ہے تحفے جب آپ لفظ التحیات کہتے ہیں تو فوراً ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ میں عاجز حقیر انسان خدا سے مانگنے نکلا تھا اس کی چوکھٹ پر اپنا سر رکھ دیا میں کیا تھے پیش کروں گا.اور التحیات للہ کہہ کر یہ بھی فرما دیا کہ تحفے ہیں ہی دراصل خدا کے لئے.اور ہر قسم کے تحفے خدا تعالیٰ کے لئے ہیں اس لفظ پر بھی جب آپ غور کرنے لگیں تو نماز کی نئی لذت آپ کو نصیب ہو جائے گی.نماز کو عمدگی سے ادا کرنے کے لئے
خطبات طاہر جلد۴ 1003 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء طریق آپ کومل جائیں گے.سب سے پہلی بات یہ کہ تحفہ تو ایک ایسی چیز ہے کو کہتے ہیں جس میں جبر کا کوئی پہلو نہیں ، کراہت کا کوئی پہلو نہیں اور محبت کے سوا کوئی جذ بہ نہیں ہے جو انسان کو اپنی ایک چیز چھوڑ کر دوسرے کی طرف منتقل کرنے پر آمادہ کرتا ہے.کسی اور انتقال میں یہ بات نہیں پائی جاتی سوائے تحفے کے.خالصہ محبت اور پیار کے نتیجہ میں جو چیز پیش کی جاتی ہے اس کا نام تحفہ ہے اور پیار سے جو چیز پیش کی جاتی ہے اس میں اکتاہٹ نہیں ہو سکتی ، اس میں بیزاری پیدا نہیں ہوسکتی.وہ سجا کر پیش کی جاتی ہے ،سنوار کر پیش کی جاتی ہے.تو جب کہا جاتا ہے التحیات اللہ تو سب سے پہلے التحیات کا اطلاق نمازوں پر ہوتا ہے کیونکہ اس کے معا بعد فرمایا الصلوت والطیبات فرمایا اپنی نمازوں کو تحفے بنا کر پیش کرو بیگار کے طور پر نہ پڑھنا اس طرح نہ پڑھنا کہ تم مجبور ہو اور کسائی کی حالت میں خدا کے سامنے یہ نمازیں پیش کر رہے ہو جبکہ دل اس میں شامل نہیں.چٹی ادا کی اور فارغ ہو کر انسان باہر چلا گیا.اگر یہ روح ہے تو یہ التحیات کہلا ہی نہیں سکتی تو التحیات کہتے ہی جہاں ایک معنی انسان کو ملتا ہے وہاں ایک خطرے کا الارم بھی بجنا شروع ہو جاتا ہے.اچانک مومن لرز اٹھتا ہے کہ جو کچھ نمازیں میں نے پڑھی ہیں ان کو میں تحفہ کہ بھی سکتا ہوں؟ ان میں وہ بات وہ شان پائی بھی جاتی ہے جو تحفوں کی شان کہلاتی ہے اور پھر کس کے حضور پیش کر رہا ہوں رب عظیم اور ربی الاعلیٰ کے حضور اور اس کو تحفہ کہ رہا ہوں جو میں نماز پڑھ رہا ہوں؟ اچانک انسان کی توجہ اس طرف مبذول ہو جاتی ہے اور انسان اپنے نفس کا کھوج لگانے لگ جاتا ہے کہ کہیں یہ نیشکر کی جگہ سرکنڈے تو نہیں جنہیں میں سجا کر خدا کے حضور لے جارہا ہوں اور آگے ان میں رس کوئی نہ نکلے.کہیں ایسے پھل تو نہیں جو کھٹے ہیں یا جو گل سڑ چکے ہوں.ان کے اندر روح اور مواد تھوڑا ہے اور ضرر والی چیز اور نقصان والی چیز زیادہ ہے.وَلَا يَذْكُرُونَ اللهَ إِلَّا قَلِيلًا ( النساء: ۱۴۳) پر تو یہ مضمون تو نہیں صادق آرہا میری نماز پر کہ پھل والی چیز تو بہت تھوڑی ہے اور جو پھل کو نقصان پہنچانے والے اجزاء ہوتے ہیں وہ زیادہ ہو گئے ہوں.پھر کھلیان کی طرف انسان کا تصور جاسکتا ہے.کبھی انسان اپنے کھیتوں کی چیزیں چاول گندم اور اس قسم کی چیزیں کھلیان سے نکالتا ہے اور کسی محبوب کے حضور تحفے کے طور پر پیش کرنے کے لئے لے جاتا ہے.اچانک اسے خیال آئے کہ یہ تو سب کیڑے نے کھا لیا تھا.یہ تو سسری نے تباہ کر
خطبات طاہر جلدم 1004 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء - کے رکھ دیا صرف گندگی کا ڈھیر ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں.تو ایسا تحفہ دینے والا کیا محسوس کرے گا اگر اسکا احساس تیز ہے، اگر اس کا شعور بیدار ہے تو ہو سکتا ہے وہ عرق ندامت میں غرق جائے یہ خیال کر کے بھی کہ کسی پیارے کے حضور یہ چیز تحفے کے طور پر پیش کی جاسکتی ہے ؟ ہاں اگر دھو کہ طبیعت میں رکھتا ہے تو شاید اس کے دل میں یہ خیال آئے کہ دھوکا چل جائے گا.میں بادشاہ کے حضور نذر گزران آؤں گا اس کے بعد دیکھی جائے گی.کیا پتہ چلتا ہے کیا ہوا.بڑا سجا کے اس گندی چیز کو بھی لے جاتا ہے.عجیب بات ہے کہ ایسی نمازوں کے متعلق قرآن کریم نے یہی لفظ استعمال کیا ہے يُخْدِعُونَ الله ------ وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ (البقره:١٠) یہ بیوقوف تھے پیش کرتے ہیں جانتے ہوئے کہ یہ گندے ہیں جانتے ہوئے کہ یہ کیڑوں نے کھائے ہوئے ہیں ان کے اندر کچھ بھی نہیں رہا اور پھر یہ سمجھتے ہیں کہ خدا کو دھوکا دے دیں گے.پس دھو کے کا مضمون اگر دل سے نکل جائے اگر اپنی نماز کا عرفان نصیب ہو جائے تو پھر وہی گندی وہی ناکارہ چیز بھی خدا تعالیٰ چاہے تو قبول فرما سکتا ہے لیکن دھو کے کے ساتھ نہیں عجز کے ساتھ.ایک انسان کے پاس اور کچھ نہیں ہے وہ کوشش بھی کرتا ہے اس کو کچھ نصیب نہیں ہوتا اور جو کچھ ہے وہ سمیٹ کر اس میں سے اچھی چیز اپنے پیارے کے حضور پیش کرتا ہے، لفظ تحفہ اس پر بھی اطلاق پائے گالیکن دھو کے والے پر نہیں.پس یہ درست ہے کہ ہر انسان کی نماز کی کیفیت الگ الگ ہوگی اور ویسی نماز حضرت محمد مصطفی اللہ کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی جسے کامل تحفہ کہا جاتا ہے مگر اس کے باوجود اگر دھو کے کا پہلو بیچ میں سے نکال دیا جائے اور پورے عرفان کے ساتھ انسان عاجزی کے ساتھ خدا کے حضور یہ عرض کرے کہ اے خدا! کچھ بھی نہیں ہے میرے پاس لیکن دیانت داری سے میں تجھے پیار کرنا چاہتا ہوں، دیانت داری سے تیرے حضور کچھ پیش کرنا چاہتا ہوں ،اس کھائے ہوئے سامان کو قبول کر لے، ان کمزور نمازوں میں تو جان ڈال دے کیونکہ جسے تو قبول کر لے گا اسے عظمت نصیب ہو جائے گی.اس کا گہرا تعلق آنحضرت ﷺ کی عبادات سے ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر تم سچ سچ اپنی عبادتوں کو خوبصورت اور حسین بنانا چاہتے ہو تو محمد مصطفی عملے سے اس کے طریق سیکھو کیونکہ اس کے معاً بعد فرمایا السّلام علیک ایھا النبی اے محمد مصطفی عملے ! اے نبی کامل! تخفے تو تو نے ادا کئے تھے ، تجھے
خطبات طاہر جلدم 1005 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء پر سلامتی ہو صلوات اور طیبات کا حق تو تو نے ادا کیا تھا تجھ پر سلامتی ہو اور ان لوگوں پر جنہوں نے تجھ سے گر سیکھے ان مومنین پر جنہوں نے تجھ سے یہ فیض پایا.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نماز کے ہر ہر کلے میں نماز کی ہر ہر ادا میں ایک گہرا فلسفہ ہے، گہرے پیغامات ہیں ، لا متناہی ترقیات کے دروازے کھلتے ہیں ہر ہر کلمے پر اور پھر ایسے ایسے جہان کھلتے ہیں کہ جن کی سیر خود اپنی ذات میں لامتناہی ہو جاتی ہے.ساری عمر یہ نمازیں ایک انسان پڑھتا رہے اور عرفان کے ساتھ پڑھتا ر ہے ان نمازوں میں ڈوب کر پڑھتا رہے تب بھی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس عالم کی پوری سیر نہیں کر سکتا لیکن جسے سیر کے مواقع ملے ہوں اور غفلت کی حالت میں گزر جائے اس بے چارے کے پہلے کیا آئے گا ، اس کے ہاتھ میں کیا آئے گا.اس لئے جب ان سب باتوں پر انسان غور کرتا ہے تو مزید بجز پیدا ہوتا ہے، مزید خدا کے حضور روح سجدہ ریز ہوتی ہے اس کے حضور انسان کا وجود رکوع میں چلا جاتا ہے.پس رکوع اور سجود کی کیفیت پیدا کریں اپنی نمازوں میں اور خدا تعالیٰ کی حمد کے وہ گیت گائیں جس کے نتیجے میں خدا خود فرمائے.سمع الله لمن حمدہ اللہ نے سن لی ہے اپنے ان بندوں کی جنہوں نے اس کی تعریف کی جنہوں نے اس کی حمد کے گیت گائے.میں آخر پر آپ کو اس تعلق میں ایسا ایک عجیب واقعہ بتانا چاہتا ہوں جو گزشتہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو ہوا اور اس کا گہرا تعلق اسی مضمون سے ہے.گزشتہ جمعہ کو چونکہ نماز کا ہی مضمون چل رہا تھا.جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات کو تہجد کی نماز میں مجھ سے ایک ایسا واقعہ ہوا ہے جو بعض پہلوؤں سے حیرت انگیز ہے.تہجد کی نماز شروع ہوتے ہی مجھے یوں محسوس ہوا محسوس نہیں کہنا چاہئے بلکہ اچانک میں گویا کہ ڈاکٹر حمید الرحمن بن گیا.ڈاکٹر حمید الرحمن صاحب جن کا میں ذکر کر رہا ہوں اس وقت وہ تو ایک Symbol کے طور پر آئے تھے مگر میں پہلے ان کا تعارف کروا دوں.ڈاکٹر حمید الرحمن ہمارے ایک نہایت ہی مخلص فدائی احمدی جو صوبہ سرحد سے متعلق رکھتے تھے خلیل الرحمن صاحب ان کے صاحبزادہ ہیں اور امریکہ میں ڈاکٹر ہیں اور ڈاکٹر پروفیسر عبدالسلام صاحب کے داماد ہیں اور بہت نیک پاک طینت رکھتے ہیں.سلسلہ کے کاموں میں قربانیوں میں پیش پیش.سادہ منکسر المزاج اور جہاں تک انسانی نگاہ کا تعلق ہے تقوی شعار انسان ہیں.
خطبات طاہر جلد۴ 1006 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء تہجد کی نماز شروع ہوتے ہی وہ نماز گویا میں نہیں پڑھ رہا تھا بلکہ میں اور ڈاکٹر حمید الرحمن ایک وجود بن کر پڑھ رہے تھے اور کوئی تفریق نہیں تھی.یہ کوئی آنافا نا واقعہ نہیں ہوا کہ آیا اور گزر گیا بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تہجد کے دوران جب میں سلام پھیرتا تھا تو یہ تصور غائب ہو جا تا تھا اور جب دوبارہ شروع کرتا تھا تو بغیر شعور کے پتہ نہیں لگتا تھا کہ کس وقت یہ واقعہ شروع ہوا ہے اچانک میری Personality میرا وجود جو خدا کو مخاطب کر رہا تھا وہ حمید الرحمن تھا اور جیسے حلول کر جاتی ہے روح اس طرح میرے اندر حمید الرحمن کی روح گویا حلول کر گئی اور مجھے اس پر تعجب نہیں ہوا اور نماز کے دوران بالکل احساس نہیں ہوا کہ کوئی عجیب واقعہ گزر رہا ہے بالکل نارمل طریقے سے جس طرح وہ ڈاکٹر حمید الرحمن کھڑے ہوتے ہوں گے نماز کے وقت اور اپنے متعلق سوچ رہے ہیں کہ میں حمید الرحمن ہوں جب خیال آتا ہے وہی کیفیت تھی لیکن ساتھ یہ بھی کہ میں بھی ہوں اور اس عجیب امتزاج پر تعجب کوئی نہیں تھا اور جب نوافل کے درمیان وقفہ پڑتا تھا تو اس طرف دماغ بھی نہیں جاتا تھا اس وقت یعنی اس وقت بھی احساس نہیں ہوا کہ یہ کیا واقعہ ہو رہا ہے یہاں تک کہ قریباً ایک گھنٹہ تک مسلسل یہی کیفیت رہی ہے اور جب یہ کیفیت گئی ہے تو پھر اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا میرے ساتھ.اس پر جب میں نے غور کیا تو ایک تو اس میں بہر حال جس وجود کو خدا تعالیٰ نے اس خوشخبری کے لئے چنا ہے اس کے لئے بھی بہت بڑی خوش خبری ہے لیکن میں نے غور کیا تو مجھے پتا چلا کہ اس میں ایک خوشخبری بھی بہت عظیم الشان ہے اور نجات کی راہ بھی ہمیں دکھائی گئی ہے.خلیفہ وقت کے وجود میں دراصل ساری جماعت دکھائی جاتی ہے اور خوشخبری یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان کوششوں کو قبول فرمایا جو بار بار نمازوں کی اہمیت ذہن نشین کرانے کے لئے میں نے کیں اور یہ خوشخبری تھی کہ مبارک ہو جماعت حمید الرحمن بن گئی ہے.وہ اپنے رحمن خدا کی حمد کے گیت گا رہی ہے کل عالم میں یہاں تک کہ گویا حمید الرحمن اور جماعت کا وجود ایک ہی ہو چکا ہے اور دوسری طرف ایک ترقی کی راہ دکھائی گئی ہے اور اس زمانہ کی ساری مشکلات کا حل بتایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اگر تم حمید الرحمن ہو جاؤ تو تمہیں پھر دنیا میں کسی اور چیز کی پرواہ نہیں رہے گی اور چونکہ حمد کا مضمون عظیم اور اعلیٰ کی صفات کے ما بین باندھا گیا ہے اس لئے مجھے یہ تعبیر سمجھ آئی اور یہ خطبہ میں نے اسی تعبیر کی رو سے آج دیا ہے کہ حمد کا معراج ہے رب عظیم کے گن گانا اور حمد کا معراج ہے رب اعلیٰ کے گن گانا اور حمد کا معراج ہے رکوع
خطبات طاہر جلدم 1007 خطبه جمعه ۲۰ ؍دسمبر ۱۹۸۵ء کی حالت میں حمد کرنا اور حمد کا معراج ہے سجود کی حالت میں حمد کرنا.پس اپنے رکوع اور سجود کو حد سے بھر دیں، اپنے سارے وجود کو حمد ربّ رحمن سے بھر دیں یہاں تک کہ ساری جماعت خدا کے حضور حمید الرحمن بن کر دست بستہ کھڑی ہو جائے.یہ حالت اگر آپ پر طاری ہوگئی جیسا کہ اس خوش خبری میں بتایا گیا ہے کہ خدا کے نزدیک انشاء اللہ اگرا بھی پوری طرح نہیں تو کل ضرور طاری ہو جائے گی.تو پھر میں آپ کو یہ خوش خبری دیتا ہوں خدا تعالیٰ کی طرف س أَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ اَنْتُمُ الْأَعْلَوْنَ خدا کی قسم ! تم غالب رہو گے ، خدا کے قسم تم غالب رہو گے کیونکہ خدا کے حمید الرحمن بندوں پر کوئی دنیا کی چیز غالب نہیں آسکتی.آخر پر میں ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں.آپ کو پتہ ہے کہ جلسہ سالانہ مرکزیہ کے ایام قریب آئے ہیں اور آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ ایسا دشمن جو دنیا میں رپ اعلیٰ بنے کا عملاً دعوی کر رہا ہے، ایسا دشمن جس نے فساد کی نیت سے دنیا میں علو اختیار کر لیا ہے وہ جماعت احمدیہ کی ہر نیک تحریک کی راہ میں حائل ہو رہا ہے اور بڑی شان کے ساتھ دعوے کر رہا ہے گویا کہ ہم نعوذ بالله من ذالک اس کے بندے ہیں اور ہمارا مرنا جینا اس کے ہاتھ میں ہے.اسی علو اور اسی تکبر کے نتیجے میں گزشتہ سال کی طرح امسال بھی جلسہ سالانہ منعقد کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو 26 ( دسمبر ) کو ہونا تھا.تو میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ ہم اس دن کو اپنا احتجاج کا دن بنائیں.تمام دنیا میں سب احمدی احتجاج کریں مگر کوئی ایک لفظ بھی احتجاج کا غیر اللہ کے سامنے نہ ہو اس دن روزہ رکھا جائے اس دن عبادتیں کی جائیں.دن کو بھی عبادت کی جائے رات کو بھی عبادت کی جائے اور تمام تر احتجاج رپ اعلیٰ سے کیا جائے.رکوع میں بھی احتجاج کیا جائے اور سجدوں میں بھی احتجاج کیا جائے اور کہا جائے اے ہمارے رب ! ہمارے نزدیک تو ساری عظمتیں تیری ہی ہیں اور تیرے سوا غیر اللہ سے ہم عظمتوں کی کلی نفی کرتے ہیں.ایک کوڑی کی بھی ہمیں پرواہ نہیں دنیا کی عظمتوں کی اور ہمارے نزدیک صرف تو اعلیٰ ہے اور ہر غیر تیرا جو اعلیٰ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے جھوٹا ہے اور لازماً نا کام اور نامراد ہونے والا ہے.پس تیرے حضور ہم ان دنیا کی عظمتوں کا دعوی کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور تیرے حضور رت اعلیٰ کا دعویٰ کرنے والوں کے خلاف احتجاج کرتے ہیں کیونکہ ہمارے نزدیک تو سوائے تیرے نہ کسی کو عظمت حاصل ہے اور نہ کسی کو علو
خطبات طاہر جلدم 1008 خطبہ جمعہ ۲۰؍دسمبر ۱۹۸۵ء حاصل ہے.پس اس روح کے ساتھ اس جذبہ کے ساتھ 26 دسمبر کو یوم احتجاج بنادیں اور سارے عالم میں احمدی حمید الرحمن بن کر خدا کے حضور یہ احتجاج کی آواز بلند کریں.
خطبات طاہر جلدم 1009 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء وقف جدید کے مقاصد نیز نئے سال اور اس کے عالمگیر کرنے کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ / دسمبر ۱۹۸۵ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: آج سے اٹھائیس برس پہلے ۱۹۵۷ء میں حضرت مصلح موعود نے وقف جدید انجمن احمدیہ کی بنیاد ڈالی.یہ تحریک بنیادی طور پر دو اغراض سے جاری کی گئی.پہلی غرض تو یہ تھی کہ پاکستان کے دیہاتی علاقوں میں چونکہ یہ مکن نہیں تھا کہ ہر جگہ ایک مربی کو تعینات کیا جائے.اس لئے وہاں خصوصاً نئی نسلوں میں تربیت کی کمزوری کے آثار ظاہر ہونے شروع ہوئے ، نہ صرف نئی نسلوں میں بلکہ تقسیم ہند کے بعد جولوگ نوجوان تھے وہ بھی کئی قسم کی معاشرتی خرابیوں کا شکار ہوئے اور بعض صورتوں میں وہ بنیادی طور پر دین کے مبادیات سے بھی غافل ہو گئے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے بشدت یہ محسوس کیا کہ جب تک کوئی ایسی تحریک نہ جاری کی جائے جس کا تعلق خالصۂ دیہاتی تربیت سے ہواس وقت تک دیہاتی علاقوں میں احمدیت کے مستقبل کے متعلق ہم بے فکر نہیں ہو سکتے.چنانچہ جب حضور نے اس تحریک کا آغاز فرمایا تو اولین ممبران وقف جدید میں خاکسار کو بھی مقررفرمایا اور ان دنوں میں بیمار تھے لیکن بیماری کے باوجود ذہن ہر وقت اسلام کی ترقیات کے متعلق سوچتا رہتا تھا.تو ابتدائی نصیحتیں جو مجھے کیں ان میں ایک تو یہی دیہاتی تربیت کی طرف توجہ دینے کے متعلق ہدایت تھی اور دوسرے ہندوؤں میں تبلیغ کی خاص طور پر تاکید کی گئی تھی.بہر حال یہ پہلا مقصد
خطبات طاہر جلدم 1010 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء دیہاتی تربیت کا تھا اور دوسرا مقصد پاکستان میں بسنے والے ہندوؤں کو مسلمان بنانا تھا.دیہاتی تربیت کے متعلق جب آغاز ہی میں میں نے جائزہ لیا تو بعض صورتوں میں تو نہایت ہی خوفناک کوائف سامنے آئے.مختلف اضلاع کے بعض دیہات کو نمونہ بنا کر وہاں ایسے معلمین اور بعض دفعہ غیر معلمین جو اپنے آپ کو اس کام کے لئے پیش کرتے تھے ان کو بھجوا کر با قاعدہ ایک فارم کو بھروایا گیا.اس سے معلوم ہوا کہ باجماعت نماز پڑھنے والوں کی تعداد بعض جگہ اتنی گر گئی ہے کہ پوری جماعت میں جتنے با جماعت نمازی ہونے چاہئیں اس کے مقابل پر دس فیصدی بھی نہیں رہے.بعض دیہات میں بہت بڑی تعداد میں بچے ایسے نظر آئے جن کو نماز بے تر جمہ بھی نہیں آتی تھی اور تلفظ کی غلطیاں تو اتنی عام تھیں کہ کلمہ بھی صحیح تلفظ کے ساتھ ادا نہیں کیا جاسکتا تھا.تو بہت ہی خوفناک اعداد و شمار سامنے آئے اور اس وقت یہ محسوس ہوا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جو خدا نے مصلح موعود کا وعدہ فرمایا تھا یہ اس وعدے کا ایک حصہ ہے.بڑی گہری بصیرت بھی آپ کو عطا فرمائی اور وقتا فوقتا ایسے بنیادی اقدامات کرنے کی طرف بھی اللہ تعالیٰ توجہ دلاتا رہا جو جماعت کی اصلاح میں نمایاں سنگ میل کی حیثیت رکھتے تھے اور ہمیشہ رکھتے رہیں گے.چنانچہ وقف جدید کی تحریک ان کو ائف اور اعدادوشمار کوملحوظ رکھتے ہوئے اپنے لئے خود ہی لائحہ عمل ڈھالتی رہی اور متعدد طریق ایسے اختیار کئے گئے جس سے جماعت کی حالت سنبھلنی شروع ہو، ان کو اپنے فرائض کا احساس ہو ، اپنے مقام کا احساس ہو اور جس حد تک ممکن ہو وہ دنیا کے سامنے ایک اچھا نمونہ پیش کر سکیں.دیہاتی جماعتوں میں اگر چہ علم کی کمی کی وجہ سے تربیتی لحاظ سے کمزوری بھی جلدی پیدا ہو جاتی ہے لیکن عام طور پر اخلاص کا معیار اور اطاعت کا معیار بلند ہے اور کمزوری جتنی جلدی پیدا ہوتی ہے اتنی جلدی وہ دور کرنے کے لئے بھی تیار ہو جاتے ہیں.چنانچہ اس تحریک کے نتیجے میں عملاً یہ بات سامنے آئی کہ بعض جماعتوں میں جہاں نمازی بھی دس فیصد نہیں تھے وہاں چند مہینے کی کوششوں میں ہی خدا کے فضل سے تیس چالیس فیصدی تک تہجد گزارلوگ پیدا ہو گئے.بچے اور بوڑھے اور عور تیں سبھی نے نیک کاموں میں حیرت انگیز تعاون کا نمونہ دکھایا.معلمین کی کمی کی وجہ سے ہمیں پھر ان کو بار بار مختلف اضلاع میں بدل بدل کر مقرر کرنا پڑا.روپے کی شروع میں بہت کمی محسوس ہوتی تھی لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اس میں بھی برکت ڈالی اور رفتہ رفتہ یہ تحریک اس پہلو سے
خطبات طاہر جلدم 1011 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء خوب اچھی طرح اپنے پاؤں پر کھڑی ہوگئی.جہاں تک ہندوؤں میں تبلیغ کا تعلق ہے شروع کے چند سالوں میں ہمیں باوجود بہت کوشش کے کوئی پھل نہیں ملا.خصوصاً وہ علاقے جہاں ہندو قو میں زیادہ آباد ہیں وہاں کئی قسم کے ایسے مسائل تھے جن کے ساتھ نپٹنا ہمارے بس کی بات نہیں تھی اور پھر اجنبیت اتنی تھی اور اسلام کے خلاف ان پسماندہ اقوام میں جن میں زیادہ تر ہند و ملتے ہیں ایک دوری اس وجہ سے بھی پائی جاتی تھی کہ ان علاقوں کے مسلمانوں کا ان سے اچھا سلوک نہیں تھا.مثلاً زیادہ تر سندھ میں یہ پسماندہ قومیں آباد ہیں جن کی بڑی بھاری اکثریت ہندو ہے.یہ مزدور پیشہ لوگ ہیں اور سندھ کے مختلف علاقوں میں موسم کے لحاظ سے آتے اور جاتے رہتے ہیں.ان کا اصل بنیادی ٹھکانہ تھر میں یعنی وہ ریگستانی علاقہ جو سندھ اور ہندوستان کے درمیان واقع ہے.کہیں بارڈر سے پچاس میل تک اندر آ گیا ہے یعنی تھر کا ریگستانی علاقہ.کہیں کم ہو گیا ہے.بہر حال ایک بہت چوڑی بیلٹ (Belt) ہے جو پاکستان کے زرخیز علاقے کو ہندوستان کے بارڈر سے الگ کرتی ہے.اور اس ساری بیلٹ (Belt) میں اگر چہ ایک حصہ میں مسلمان بھی آباد ہیں مگر بھاری اکثریت انہی پسماندہ ہندوا قوام کی ہے.ان کے ساتھ دو طرح سے بدسلوکی ہوئی.ایک تو یہ کہ جب یہ لوگ مزدوری کے لئے زمینداروں کے پاس جاتے تھے تو ان کے ساتھ اچھا معاملہ نہیں ہوتا تھا اور جہاں بھی بس چلا ان کی مزدوریاں دبائی گئیں.جہاں بھی کسی کی پیش گئی ان کے اوپر بعض دفعہ جھوٹے مقدمے بھی بنائے گئے.پولیس سے سزائیں بھی دلوائی گئیں اور حتی الامکان بیگار لینے کی کوشش کی گئی.اس لئے ان کے دل میں مسلمانوں کے خلاف ایک تنفر پایا جاتا تھا.دوسرے ہندوؤں سے بڑھ کر ان سے مسلمان چھوت چھات کرتے تھے اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کسی اچھوت کو یعنی ان اقوام کے کسی انسان کو اپنے برابر بٹھا ئیں یا ان برتنوں میں یہ بھی پانی پئیں جن میں وہ پیتے تھے یا اپنے برتنوں میں ان کو پانی پینے دیں.تو پوری طرح چھوت چھات کا سلوک بھی ان سے کیا جارہا تھا.اس لئے جب ہم نے وہاں معلمین بھجوائے تو یہ بہت ہی بدکتے تھے، اسلام سے گھبراتے تھے اور نیچپہ کئی سال کی کوششوں کے باوجود کوئی ایک بھی پھل نہیں لگا.بہر حال حضرت مصلح موعود کی طرف سے بار بار تا کید تھی کہ اس کام کو چھوڑ نا نہیں اور اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا پھر بالآخر ان کا یہ جمود ٹوٹا ، ان کی نفرت دور ہوئی.محبت اور
خطبات طاہر جلدم 1012 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء پیار کے ساتھ جب ان کو اسلام کی تعلیم دی گئی تو توجہ پیدا ہونی شروع ہوئی پھر انہیں میں سے واقفین بھی پیدا ہوئے جنہوں نے بہت جلدی جلدی اخلاص میں ترقی کی اور اپنے آپ کو وقف کیا.اور جب ایک دفعہ یہ جمودٹوٹا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تیزی کے ساتھ ان میں اسلام پھیلنا شروع ہو گیا.اس کے علاوہ ایک اور بڑی اہم مشکل یہ تھی کہ ان قوموں کے خصوصی حالات کی وجہ سے عیسائی ان کو اپنا شکار سمجھتے تھے.وہ خصوصی حالات خود بہت ہی درد ناک ہیں اور ان کی پسماندگی میں ان حالات نے اور بھی زیادہ دکھوں کا اضافہ کر دیا تھا.اس ہندو علاقے میں صرف پسماندہ قومیں نہیں بلکہ ہندومہا جن بھی آباد ہے اور بعض قصبات میں تو سو فیصدی ہندوؤں کی آبادی ہے.ایک بھی مسلمان قصبے کے اندر موجود نہیں اور ان کی ساری معیشت ، ساری اقتصادیات مہاجن کے ہاتھ میں ہے.چنانچہ ان کی غربت سے استفادہ کرتے ہوئے اور موسمی مصائب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے رفتہ رفتہ ہندومہا جن نے ان کی ساری زمینیں گروی رکھ لیں اور جب ایک موقع پر مجھے وہاں جا کے خود جائزہ لینے کی توفیق ملی تو اس وقت یہ کوائف سامنے آئے کہ سارے علاقے میں سو فیصدی زمین تو ان پسماندہ لوگوں کی ہے لیکن عملاً سو فیصدی فصل ہندومہاجن کی ہے.طریق کار یہ جاری تھا کہ جب موسم مثلاً خراب ہو بعض دفعہ ( زیادہ تر باجرے کی فصل ہوتی تھی ) وقت پر بارش نہ ہو تو اگلے سال کے لئے ان کے پاس پیج کے لئے بھی پیسے نہیں ہوتے تھے.مہا جن سستے زمانے کا بیج لے کر سنبھال کے رکھ لیتا تھا.اور اول تو زیادہ قیمت پر ان کو دیتا تھا اور پھر سود پر دیتا تھا اور وہاں کا جوسود ہے وہ بھی عام سود مختلف ہے.وہ مہینے کے حساب سے ہے مثلاً پانچ روپے مہینہ سوروپے پر اور یہ سود بھی رعایت سمجھی جاتی ہے کہ بڑی نرمی کا سلوک کیا گیا ہے.سال پر وہ عمداً اس لئے شمار نہیں کرتے کہ اس سے زیادہ نظر آئے گا.ساٹھ روپے سو پر سال تو بہت بڑی رقم نظر آتی ہے.تو وہ کہتے ہیں پانچ روپے مہینہ ، چھ روپے مہینہ، دس روپے مہینہ اس طرح وہ سود چلتا ہے اور سود پر دیا ہوا جو بیج ہے اگر وہ کاشت کیا جائے اور پھر وقت پر بارش نہ ہو تو سارا سال وہ پانچ روپے مہینہ سود پر بڑھنا شروع ہو جاتا ہے اور اگلی فصل کے لئے بعض دفعہ ان کو دوبارہ قرض لینا پڑتا ہے اور اس دوران پھر مہا جن سے لے کر کھاتے بھی ہیں.اور اس طرح رفتہ رفتہ چند سالوں کے اندر یہ کیفیت ہوگئی کہ بعض علاقوں میں ان سے میں نے براہ راست خود سوال کیا تو پتہ چلا کہ آئندہ دس دس سال کی فصلوں کی آمدان پر قرض ہے اور کسی
خطبات طاہر جلدم 1013 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء قیمت پر ان کے چکر سے نکلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.یعنی مزارعت کی جو بدترین اور ذلیل ترین قسم ایک انسان سوچ سکتا ہے وہ وہاں رائج تھی اور ابھی تک رائج ہے.زمیندار جب اپنی زمین کسی کو مزارعت پر دیتا ہے تو زمین محنتی کی نہیں ہوتی زمین اس کی ہوتی ہے اور محنت کرنے والا اور ہے.وہ دونوں اس کو نصف نصف یا جس طرح بھی طے ہو آپس میں بانٹتے ہیں.یہاں زمین محنتی کی ہے مزارعت کا حصہ بٹانے والے کی نہیں.محنت بھی اس کی ہے زمین بھی اس کی ہے اور اس کے باوجود اس کی ساری فصل غیر کی ہے اور اس فصل میں سے پھر وہ سود پر زیادہ قیمت پر خود اپنی ہوئی ہوئی فصل کا پھل اس سے منت کر کے مانگتا ہے اور اسی پر پھر وہ گزارہ کرتا ہے.یہ صورتحال بہت ہی زیادہ خوفناک ہو جاتی اگر یہ لوگ مزدوری کے لئے سندھ کے علاقوں میں نہ جاتے.اس لئے یہ مزدوری کے لئے جب سندھ کے علاقے میں جاتے ہیں تو وہاں سے کچھ نہ کچھ کما کر لے آتے ہیں جس سے ان کی بسر اوقات چلتی رہتی ہے.وہاں جا کر پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے زیادہ تر مسلمان زمینداروں سے واسطہ پڑتا ہے اور ان میں سے بھی بسا اوقات اکثر کے ظلم کا نشانہ بنا پڑتا ہے سوائے چند ایک قصبات کے وہاں کوئی سکول نہیں ہیں، کوئی شفا خانے نہیں ہیں.اس لئے پسماندگی میں جہالت کا بھی اضافہ اور صحت کی خرابی ، اس کے باوجود یہ لوگ محنتی ہیں.اس کثرت کے ساتھ ان میں سل کی بیماری پائی جاتی ہے اور دانتوں کی بیماری پائی جاتی ہے کہ کوئی اور قوم ہوتی تو بالکل ہی ہاتھ پاؤں توڑ کے بیٹھ جاتی لیکن بڑی ہمت والے لوگ ہیں.ان تکلیفوں کے باوجود بہت محنتی قوم ہے اور سندھ میں جو عموماً زمینداروں میں محنت کی عادت ہے اس سے کئی گناہ زیادہ محنت کر سکتے ہیں اور دیانت دار ہیں، لین دین میں صاف ہیں.یہ ایک اور خوبی ان میں حیرت انگیز طور پر پائی جاتی ہے.ان حالات کو دیکھ کر عیسائی قوموں کے لئے تو یہ تر لقمہ تھے.چنانچہ پیشتر اس سے کہ وقف جدید وہاں کام شروع کرتی عیسائیوں نے وہاں جال پھیلا دیئے تھے.یہ وہ زمانہ تھا جب کہ پی.ایل ۴۸۰ کی وجہ سے بہت سی رقم عیسائی مشنریوں کو امریکہ کی طرف سے گندم کی مدد کے طور پر ملتی تھی ، خشک دودھ ملتا تھا اور اسی طرح کئی قسم کی سہولتیں تھیں دوائیاں مفت تقسیم کرنے کے لئے ملتی تھیں، گشتی شفا خانے ان کے رائج تھے.تو ان حالات میں وقف جدید نے وہاں کام کا آغاز کیا.یعنی ہر سمت سے بظاہر یوں لگتا تھا
خطبات طاہر جلد۴ 1014 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء کہ ایک ٹھوس دیوار ہے جو سامنے حائل ہے کہ آگے نہیں بڑھنا لیکن اللہ تعالی نے حیرت انگیز فضل فرمایا یہ ساری دیوار میں ٹوٹ گئیں.اس قوم نے غیر معمولی طور پر ہمیں نئی راہیں عطا کیں اور رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پھیلتے پھیلتے جو مجھے آخری فگرز (Figures) یاد ہیں جب میں وقف جدید میں تھا.تو ایک سو تنتا لیس دیہات میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام قائم ہو چکا تھا.اور عیسائیوں کے کلیتہ وہاں سے پاؤں اکھڑ گئے تھے.شروع ہی میں معلمین وقف جدید کی طرف سے جب یہ تقاضے ہوئے کہ ہمیں بھی مدد کے سیکچھ دیا جائے ورنہ یہ لوگ عیسائیوں کی جھولی میں چلے جائیں گے تو میں نے بہت ہی اصرار کے ساتھ ان کو اس بات سے رو کے رکھا.میں نے کہا کہ اگر دولت تقسیم کرنے کا مقابلہ ہوا تو ہم تو عیسائیوں کے مقابل پر ہزارواں لاکھواں حصہ بھی خرچ نہیں کر سکتے اور دوسرے یہ کہ جس قوم کو ہم نئی زندگی عطا کرنا چاہتے ہیں اس کے اچھے اخلاق کو بھی گندگی میں تبدیل کر دیں یہ کیسے ممکن ہے.ان میں خودداری ہے، ان میں لین دین کے اچھے معاملات کی عادت ہے، لین دین کی تمیز ہے، محنت کی عادت پائی جاتی ہے، اگر ہم ان کو بھکاری بنا دیں تو اس اسلام کا ان کو کیا فائدہ.ہم تو پسماندہ اقوام کو اٹھا کر انسانی سطح پہ بلند کرنا چاہتے ہیں تو ہر پہلو سے یہ بات غلط ہے.چنانچہ وقف جدید نے شروع سے ہی یہ مصمم ارادہ کیا ہوا تھا اور اس پر آخری وقت تک عمل رہا ابھی بھی اسی پر عمل ہے کہ ان کو بھک منگا نہیں بنانا.ہاں بعض دوسری صورتوں میں اگر جب بھی ممکن ہو ان کی مدد اس رنگ میں کی جائے کہ ان کو سود کی لعنت سے بچایا جائے.چنانچہ ہم نے فصلوں کی کاشت کے وقت ان کو بعض جگہ قرضے دینے شروع کئے خصوصاً ان سالوں میں جب کہ بہت زیادہ حالات خراب ہوتے تھے.وقف جدید کی بہت ہی معمولی حیثیت ہے لیکن اللہ تعالیٰ کاموں میں برکت ڈال دیتا ہے.بیج ہم نے بھی پہلے سے لے کر رکھنا شروع کر دیا اور وقت کے اوپر ان کو گندم یا باجرے کا بیج اصل قیمت پہ دیتے تھے.نہ صرف یہ کہ سود نہیں بلکہ منافع بھی کوئی نہیں ہوتا تھا.کوئی کاغذی لین دین نہیں تھا اگر وہ لے کر بھاگنا چاہتے تو سب کچھ لے کر بھاگ جاتے لیکن خدا کے فضل کے ساتھ ایک آنہ بھی ضائع نہیں ہوا.اس سے آپ اندازہ کریں کہ ان کا قومی کردار کتنا بلند ہے.پاکستان کے کسی اور علاقے میں کتنی لکھت پڑھت کریں، روپے کی حفاظت کا کتنا انتظام کر لیں یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ سارا روپیہ واپس آ جائے اور اگر بے احتیاطی کریں تو یہ ممکن ہے کہ
خطبات طاہر جلد۴ 1015 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء سارے کا سارا روپیہ ضائع ہو جائے ، ایک پیسہ بھی واپس نہ آئے لیکن اس ہند و پسماندہ علاقے میں آج تک وقف جدید کا ایک پیسہ بھی ضائع نہیں ہوا ، بڑی دیانت داری کے ساتھ یہ واپس کرتے رہے.یہاں تک کہ ابھی پچھلے دو سال کی بات ہے باوجود اس کے کہ حکومت کی طرف سے اور علماء کی طرف سے ان لوگوں کی طرف شدید دباؤ تھا کہ تم احمدیت سے پھر کر اپنے مذہب میں واپس چلے جاؤ.یعنی مشرک ہو جاؤ ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صداقت اور اللہ کی توحید کے گن گانے چھوڑ دو اور بتوں کی پرستش شروع کر دو.یہ ہمیں زیادہ قابل قبول ہے بہ نسبت اس کے کہ تم احمدی مسلمان کہلاؤ اور ہر قسم کی مدد ان کو دی جاتی تھی اس معاملے میں کہ اگر وہ احمدیوں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا چاہیں تو پوری طرح ان کو ہر قسم کی اعانت حاصل ہوگی.ایسے زمانے میں بھی ان کو جور رقم بیج کے طور پر دی گئی وہ ساری کی ساری انہوں نے واپس کی.تو یہ وہ قوم ہے جس میں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور اس پر تو کل کرتے ہوئے وقف جدید نے کام شروع کیا اور عیسائیوں کے پاؤں وہاں سے اکھیڑے، کسی پیسے کے زور پر نہیں بلکہ دلائل کے زور سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا علم کلام اتنا مضبوط ہے، اتنا قوی ہے کہ اس کے سامنے عیسائی کے پاؤں ٹھہر ہی نہیں سکتے.بالکل تھوڑی تعلیم والے معلمین جو واقعات لکھا کرتے تھے حیرت ہوتی تھی کہ کس طرح خدا تعالیٰ ان کو جواب سمجھاتا ہے.عیسائی پادریوں کی بڑی بڑی مجالس لگی ہوتی تھیں اور وہاں ایک معلم اٹھ کے سوال شروع کر دیتا تھا اور کچھ دیر کے بعد وہ اپنی صف لپیٹ کر بوریا بستر لپیٹ کر وہاں سے غائب ہو جایا کرتے تھے.تو عام چر چا شروع ہو گیا کہ عیسائیوں کے یہ پاؤں نہیں جمنے دیتے اور واقعہ کچھ عرصہ کے بعد وہاں سے عیسائی تبلیغ ختم ہو گئی لیکن اب کچھ عرصہ سے اس بدلے ہوئے ماحول سے فائدہ اٹھا کر یہ سمجھتے ہوئے کہ حکومت کی ساری طاقت اور علماء کی ساری طاقت احمدیوں کے مقابل پر عیسائیوں کے ساتھ ہوگی انہوں نے دوبارہ وہاں پر پر پرزے پھیلانے شروع کئے ہیں.سکول جاری کرنے شروع کئے ہیں ، شفا خانے کھولے ہیں ، دوبارہ امداد دینی شروع کی ہے اور جہاں تک میں نے تخمینہ لگایا ہے کروڑ ہا روپیہ ان علاقوں میں خرچ کر کے ان کو عیسائی بنانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس لئے جوابی کارروائی کے طور پر جماعت احمد یہ بھی کم سے کم اتنی مؤثر کارروائی کرے گی کہ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب نہ ہوں لیکن یہ کم سے کم کارروائی ہے.
خطبات طاہر جلدم 1016 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء مومن کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ جب مخالفانہ کوشش شروع ہو تو صرف اس کوشش کو نا کام نہیں بنانا بلکہ ترقی کی رفتار کو پہلے سے کئی گنا تیز کر کے دکھانا ہے.تا کہ ایسی کوشش کرنے والوں کی ہمتیں ٹوٹ جائیں.ان کو کبھی و ہم بھی نہ آئے کہ الہی جماعتوں پر ہاتھ ڈال کر ہم کسی طرح کی بھی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں.اس لئے نہ صرف ان عیسائیوں کی طاقت کو وہاں تو ڑنا ہے ، ان کوششوں کو ناکام بنانا ہے بلکہ ترقی کی رفتار کو پہلے سے زیادہ تیز کرنا ہے.یہ وہ مقاصد ہیں جو میں وقف جدید کے لئے آئندہ چند سالوں کے لئے متعین کرتا ہوں.اس ضمن میں ایک نائب ناظم وقف جدید کور بوہ کی بجائے ان علاقوں میں منتقل کر دیا گیا ہے.وہ مستقلاً اب وہیں بیٹھ کر وہیں اپنا اڈا جمائیں گے اور وہیں بیٹھ کے کام کریں گے اور ان کو ہدایت دے دی گئی ہے کہ چھوٹے چھوٹے مدر سے قائم کریں، چھوٹے چھوٹے شفا خانے قائم کریں اور دعا کے ساتھ جب وہ کوشش کریں گے تو عیسائیوں کے بڑے شفا خانے بھی انشاء اللہ تعالیٰ ان چھوٹے شفاخانوں کے مقابل پر نا کام ہو جائیں گے.ایلو پیتھک کی توفیق نہیں تو ہومیو پیتھک علاج شروع کریں اور پہلے بھی اس علاقے میں اس علاج کا کافی تعارف ہے.ہم نے جب شروع میں کام کیا تو شفا خانے تو کھول نہیں سکتے تھے لیکن معلمین کو ہومیو پیتھک سکھا کر اور کچھ نسخے رٹا کر جو روز مرہ میرے استعمال میں آچکے تھے ہم نے ان کو بھیج دیا کہ اسی سے علاج شروع کرو اور علاقے میں اچھی خاصی شہرت ہوگئی.پھر بعض ذہین معلمین نے نئے نئے تجربوں سے اپنے نسخے بھی نئے ایجاد کئے اور بعض بیماریوں میں تو قادیانی ڈاکٹر سارے تھر کے علاقے میں مشہور تھے.جب کوئی خاص بیماری ایسی ہوتی تھی تو وہ دور دور کے علاقے سے سوسو میل کے سفر کر کے بھی وہ قادیانی ڈاکٹر کی تلاش میں پہنچا کرتے تھے.مثلاً ایک بیماری ہے جو باقی جگہ بھی پائی جاتی ہے لیکن وہاں خاص طور پہ پائی جاتی ہے.ایک باریک سا کیڑا پاؤں میں داخل ہو جاتا ہے اور وہ بڑھتا رہتا ہے سینکڑوں گز تک وہ بڑھ جاتا ہے اور جب اس کو کسی طرح اگر پکڑ کے نکالیں بھی تو وہ ٹوٹ جاتا ہے اور پھر بڑھنا شروع ہوجاتا ہے اور بظاہر اس کا کوئی علاج نہیں.ایلو پیتھک میں کوئی علاج ہوں گے لیکن اس علاقے تک تو بہر حال وہ علاج نہیں پہنچے تھے.نہایت ہی خوفناک بیماری ہے جس سے بڑی تکلیف کے ساتھ مریض مرتا ہے.
خطبات طاہر جلد۴ 1017 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء اور ہمارے ایک نو مسلم ڈاکٹر نثار احمد مورانی نے اپنے طور پر ہی حالانکہ ہمیں تو اس بیماری کا پہلے خیال نہیں تھا سلیشیا ایک ہومیو پیتھک دوا ہے دینی شروع کر دی اور اللہ تعالیٰ نے ایسا فضل دکھایا کہ سلیشیا کھانے سے وہ کیٹر ا سارے کا سارا اندر ہی پکھل جاتا تھا اور سارے علاقے میں شور پڑ گیا کہ ایک احمدی ڈاکٹر کے پاس علاج آگیا ہے.چنانچہ دور دور سے لوگ آنے شروع ہو گئے.تو غریبانہ علاج ہی سہی اب وہاں انشاء اللہ اس علاج کی سہولت کو مزید پھیلایا جائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے برکتیں ڈالے گا.غریبانہ علاج کی بحث نہیں ہے، بحث یہ ہے کہ شافی مطلق کس کے ساتھ ہے.اگر وہ بڑے بڑے شفا خانوں کو چھوڑ کر چھوٹی چھوٹی جھونپڑیوں میں آجائے تو شفا بھی ان جھونپڑیوں کی طرف منتقل ہو جائے گی اور شفا خانوں کو چھوڑ دے گی.اس لئے وقف جدید کوتو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ سہارا ہے کہ خدا ان کے ساتھ ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس ذریعہ سے عیسائیوں کی کارروائی کا مؤثر جواب دیا جائے گا.اس کے علاوہ سندھ میں جو زمیندار توفیق رکھتے ہیں ان کو یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ وقف عارضی میں زیادہ اس علاقے میں جانا شروع کریں اور شہروں کے لوگ بھی کراچی ، حیدر آباد وغیرہ خصوصاً سندھ کے علاقے کے جو کسی پہلو سے بھی کوئی فائدہ ان قوموں کو پہنچا سکتے ہوں مثلاً ڈاکٹر ہوں، وکیل ہوں تعلیم کے ماہرین ہوں کسی پہلو سے بھی وہ ایسے علاقوں میں کسی قسم کا فائدہ پہنچا سکتے ہوں ان کو بھی چاہئے کہ وہ اب وقف عارضی کریں اور زیادہ سے زیادہ وہاں جا کر ذاتی تعلق قائم کریں.ایک زمانے میں امیر صاحب کراچی نے اس طرف توجہ دی تھی تو بعض واقفین ہر طبقہ زندگی کے وہاں پہنچنے شروع ہوئے اور وہاں سے جو چٹھیاں آتی تھیں ان سے معلوم ہوتا تھا کہ غیر معمولی فائدہ پہنچا ہے.کوئی مثلاً فوجی ریٹائر ڈ ہیں وہ وہاں گئے اور وہاں پتہ لگا کہ بعض فوجی وہاں ظلم کر رہے ہیں، تو ایک پیشے سے تعلق رکھنے والوں کو آپس میں ایک دوسرے کی شرم ہوتی ہے، وہ ان سے ملے اور ان سے جا کے رابطہ قائم کیا، پتہ لگا کہ یہ بھی بے وجہ ہی غلط فہمیوں کے نتیجہ میں ان کو ظلم کا نشانہ بنایا جارہا تھا.تو ان کو سہولتیں پیدا ہوگئیں، اس علاقے میں اس کا بڑا رعب پڑا کہ اللہ کے فضل سے جماعت احمد یہ با اثر ہے اور ان کے بڑے بڑے افسر بھی خدمت کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں، منکسر مزاج ہیں.ان کے ساتھ مل کر وہ انہی برتنوں میں کھاتے پیتے تھے، اس کا بھی بہت اثر پڑتا تھا.پھر اور کئی قسم
خطبات طاہر جلد۴ 1018 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء کے ایسے حکومت کے افسر اور غیر افسر بڑے بڑے چوٹی کے ڈاکٹر یہ لوگ جب وہاں گئے تو اس علاقے میں ایک نئی زندگی کی روح پیدا ہوگئی.تو اب پھر اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے.سندھی احمدی زمیندار اپنے علاقے میں آنے والے پسماندہ قوموں سے تعلق رکھنے والے ہندوؤں سے حسن سلوک کرے.افسوس ہے کہ اس پہلو سے سندھ کے اکثر علاقوں میں شعور بیدار نہیں ہوا اور بجائے اس کے کہ ایسے موقع سے فائدہ اٹھا کر ان لوگوں کے دل جیتے جائیں ، ان سے حسن سلوک کیا جائے ، تالیف قلب کے نمونے دکھائے جائیں ، وہی عمومی رواج جو زمینداروں کا چلتا ہے وہ احمدی زمینداروں میں بھی جاری ہے.اتنازیادہ سخت نہیں ہوگا، جان بوجھ کر کسی کا پیسہ دبانے کی روح نہیں ہوگی لیکن جہاں بس چلے ان سے بیگار ضرور لے لی جاتی تھی.جہاں بس چلے کچھ نا انصافی کی طرف میلان پایا جاتا ہے.غریب قومیں ہیں آگے سے کچھ کر نہیں سکتیں اس لئے وہ سمجھتے ہیں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا ، جب سارے معاشرے میں ان سے استفادہ کیا جارہا ہے تو ہم بھی ان سے استفادہ کریں.یہاں تک کہ بعض صورتوں میں تو بد دیانتی کی بھی شکایتیں ملیں.حیرت کے ساتھ اور نہایت افسوس کے ساتھ مجھے یہ بیان کرنا پڑتا ہے کہ چند سال پہلے کی بات ہے بعض احمدی زمینداروں کے خلاف ہندو غریبوں نے خط لکھے کہ ہماری محنت کھا گئے ہیں اور جب میں نے آدمی بھجوا کر تحقیق کی تو پتہ لگا کہ بات ٹھیک تھی.چنانچہ ان کی محنت ان کو دلوائی گئی.یہ واقعات ایک دو سے زیادہ نہیں ہیں کہ واضح طور پر بد دیانتی سے محنت کھائی گئی ہو لیکن احمدیت کی سفید چادر پر تو بہت ہی بدنما داغ ہے.اس لئے نہ صرف یہ کہ ان کے حق دینے ہیں بلکہ حق سے زیادہ دینا ہے ان سے حسن سلوک کرنا ہے.یہ ریگستانوں کے جگر گوشے خود آپ کے پاس پہنچ جاتے ہیں.احمدی ماحول میں پہنچ جاتے ہیں اس وقت اگر آپ ان کو تبلیغ کرنا چاہیں ، ان سے پیار کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ معاملہ کریں اور توحید کا پیغام دیں تو ہرگز بعید نہیں کہ ایک دو سال کی کوششوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ لوگ مسلمان ہونا شروع ہو جائیں گے اور اب تو ان میں چونکہ اسلام سے وہ تنافر باقی ہی نہیں رہا.ہر علاقے میں کوئی نہ کوئی ایسی بستی ہے جہاں خدا کے فضل سے اسلام کا پودا لگ چکا ہے.اس لئے آج کل کے ماحول میں احمدی زمینداروں کے لئے بہت ہی آسان کام ہو گیا ہے.تو میں سندھی احمدی زمینداروں کو یہ تحریک کرتا ہوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ حسن
خطبات طاہر جلدم 1019 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء سلوک اور محبت کے ساتھ اپنے ان آنے والے مزدوروں کو مسلمان بنانے کی کوشش کریں.یہ لوگ سندھ کی جان ہیں ،سندھ کی ساری دولت ان کی مرہون منت ہے کیونکہ سندھ کا زمیندارہ ان قوموں کی محنت کے بغیر چل ہی نہیں سکتا.جس زمانے میں وہاں خوشحالی ہو جائے یعنی اچھی بارشیں ہوں ، موسم اچھے ہوں تو سندھ بدحال ہو جاتا ہے کیونکہ فصلیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہاں کے مقامی لوگ اپنی محنت سے ان کو سنبھال ہی نہیں سکتے.تو وہاں کی خوشحالی پر سندھ روتا ہے کہ وہ علاقہ خوشحال کیوں ہو گیا ہے؟ اور جب وہ بدحال ہو اور محنت کے لئے آئے تو پھر یہ ان کو اور زیادہ بد حال بنانے کی کوشش کرتے ہیں.یہ قوم کئی پہلوؤں سے بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اور چونکہ یہی تو میں ہندوستان میں بھی پر لی طرف اسی قسم کے علاقے میں آباد ہیں اس لئے ہندوستان میں تبلیغ کے لئے نئے رستے کھل جاتے ہیں.یہ لوگ ادھر سے تعلق رکھتے ہیں ادھر سے آتے جاتے ہیں اس لئے ہمارے نقطہ نگاہ سے جو ایک مبلغ جماعت ہیں بہت ہی زیادہ اہمیت رکھتے ہیں.تو میں امید رکھتا ہوں کہ اس کی طرف بھی توجہ کی جائے گی.ہندوستان میں بھی وقف جدید قائم ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہی ہے.حیدر آباد دکن کے علاقے میں جہاں کثرت کے ساتھ نئی جماعتیں قائم ہوئی ہیں یا پنجاب کے علاقوں میں قادیان کے اردگرد جہاں خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بیسیوں جماعتیں نئی قائم ہوئی ہیں وہاں زیادہ تر خدمت کی توفیق وقف جدید ہی کو ملی ہے لیکن ایک حصہ ابھی تک تشنہ ہے.یعنی اس علاقے کو ایک اندرونی طلب پائی جاتی ہے کہ ہم تک بھی کوئی پہنچے لیکن ابھی تک ہم وہاں پہنچ نہیں سکے.وہ ہے ”شدھی کا پرانا کا رزار وہ علاقہ جہاں کسی زمانے میں مھدھی کی تحریک چلی تھی اور اس کے جواب میں جماعت احمدیہ نے نہایت ہی مؤثر کا روائی کی تھی یہاں تک کہ سارے ہندوستان میں احمدیت کی عظمت کا ڈنکا بجنے لگا تھا.اس علاقے میں ایک ہمارے معلم گئے ، ان کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پھر وہاں کے حالات قابل فکر ہیں.اگر چہ فی الحال ابھی حالت اتنی زیادہ خراب نہیں ہوئی مگر قابل فکر ضرور ہے اور انہی قوموں میں دوبارہ مخفی طور پر شدھی کی تحریک چلا دی گئی ہے اور بعض جگہ اس کے اثرات نظر آنے شروع ہو گئے ہیں.چنانچہ ہمارے احمدی معلم جو وہاں دورے پر گئے تھے انہوں نے لکھا کہ جب میرا رابطہ ہوا اور ان کو بتانا شروع کیا تو یہ محسوس ہوا کہ وہ خود نہیں چاہتے ہیں کہ
خطبات طاہر جلدم 1020 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء ہندوؤں میں واپس چلے جائیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ، کوئی ان کو سنبھالنے والا نہیں.اس لئے ہندوستان کی وقف جدید کو میں اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں کہ وہ باقی علاقوں کے علاوہ پرانے دھی کے علاقوں کی طرف بھی توجہ کریں.ہندوستان کے لئے مشکل یہ ہے کہ ایک تو وہاں واقفین کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور نسبت کے لحاظ سے جماعت کی تعداد ہندوستان کے مقابل پر بہت ہی تھوڑی ہے.پیچھے ایک صحافی دوست وہاں سے آئے تھے.انہوں نے اندازہ بتایا کہ ہمارے اندازے کے مطابق تین لاکھ احمدی ہیں.تو تین لاکھ ہندوستان کے ستر اسی کروڑ کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتے.دوسرے جماعت میں جو متمول طبقہ ہے الا ماشاء اللہ اس میں چندوں کے اعتبار سے کچھ کمزوری پائی جاتی ہے.وہاں کے بعض علاقے جن کے نام لینے مناسب نہیں چندوں میں بہت آگے تھے لیکن اب کچھ ست پڑ چکے ہیں.مالی لحاظ سے بھی وہاں کمزوری ہے اور کارکنان کے لحاظ سے بھی کمزوری ہے.مالی اعتبار سے تو میں نے ان کو پیغام بھیجا ہے کہ آپ تبلیغ کا پروگرام بنائیں اور اس میں کسی قسم کی کنجوسی نہ دکھا ئیں یعنی اپنے ارادے کو بلند رکھیں ، اپنے پروگرام کو وسیع کریں.جہاں تک روپے کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو باہر سے وہ روپیہ ملنا شروع ہو جائے گا.جو بھی سلسلے کی ضرورت ہے وہ اللہ تعالیٰ خود پوری کر دیتا ہے.جہاں تک کارکنان کا تعلق ہے یہ مسئلہ ایسا ہے کہ خود ہندوستان کو ہی نئے کارکنان پیدا کرنے پڑیں گے اور اس کے لئے ان کو توجہ چاہئے کہ دورہ کریں، قادیان کے ناظر صاحبان دورے کریں، ضروری نہیں کہ وقف جدید ہی کا ناظر ہو اور نو جوانوں کو توجہ دلائیں، وقف کی تحریک کریں.ڈاکٹر ز ، ٹیچر ز یعنی اساتذہ اور خاص طور پر جور بیٹائر ہوئے ہوئے لوگ ہیں ان کو اس تحریک میں شامل کریں تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ عام لوگوں میں تبلیغ کے لئے جتنا علم ضروری ہے اس علم کے اچھے کارکنان مہیا ہو جائیں گے.اس غرض سے کہ ہندوستان میں وقف جدید کی تحریک کو مضبوط کیا جائے اور اس غرض سے کہ پاکستان میں بھی جہاں کام پھیل رہا ہے اور نئی ضرورتیں پیدا ہوئی ہیں اس کام کو تقویت دی جائے.میں اس سال وقف جدید کی مالی تحریک کو پاکستان اور ہندوستان میں محدود رکھنے کی بجائے ساری دنیا پر وسیع کرنے کا اعلان کرتا ہوں.اس سے پہلے وقف جدید صرف پاکستان تک محدود تھی اور
خطبات طاہر جلدم 1021 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء باہر سے اگر کوئی شوقیہ چندہ دینا چاہے تو اس سے لے لیا جا تا تھا لیکن کبھی تحریک نہیں کی گئی لیکن اس کا چندہ اتنا تھوڑا ہے یعنی اس کا جو آغاز ہے چندے کا وہ اتنا معمولی ہے کہ باہر کی دنیا کے احمدیوں کی بھاری تعداد بسہولت اس میں شامل ہو سکتی ہے.ان کو پتہ بھی نہیں لگے گا کہ ہم کوئی مالی قربانی میں اضافہ کر رہے ہیں اور اجتماعی طور پر اس کا فائدہ ہندوستان اور پاکستان کی وقف جدید کو نمایاں طور پر پہنچے گا.خصوصاً ہندوستان میں تو اتنی زیادہ طلب پیدا ہو رہی ہے احمدیت کے لٹریچر کی اور احمدی معلمین کی کہ ایک ایک علاقے کے لئے بھی اگر موجودہ وقف جدید کے سارے وسائل کام میں لائے جائیں تو وہ پورے نہیں اترتے.حیدر آباد دکن جیسا کہ میں نے بیان کیا آندھرا پردیش میں حیدرآباد دکن کے ارد گرد کے علاقے ہیں ان کی طلب تو یہ ہے کہ ساری وقف جدید ہمیں دے دی جائے کشمیر کا مطالبہ یہ ہے کہ ساری وقف جدید ہمیں دے دی جائے.ماحول قادیان کا مطالبہ یہ ہے کہ ساری وقف جدید آپس میں ضرب دے کر پھر ہمیں دی جائے.یعنی اتنی زیادہ ضرورت ہے کہ کئی گنا بھی وقف جدید کو بڑھا دیا جائے تو وہ ضرورت پوری نہیں ہو سکتی.اس لئے لازماً ہمیں کسی طریق ان ضرورتوں کو پورا کرنا ہے.اگر معلم فورا نہیں پیدا کر سکتے تو لڑ پر بھجوا کے کیسٹس بھجوا کے اور اس کے لئے ایک الگ نظام جاری کرنا پڑے گا.تو اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں کہ اگر باہر کی دنیا کو موقع ملے تو ب عظیم الشان وقت کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کی توفیق ملے گی اور دوسرے یہ کہ کوئی وجہ نہیں کہ باہر کے احمدی پاکستان اور ہندوستان کی دینی خدمتوں سے محروم رہیں جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے احمدی کبھی بھی بیرونی خدمتوں سے محروم نہیں رہے بلکہ ساری دنیا میں جو احمد بیت خدا کے فضل سے قائم ہوئی ہے اس میں سب سے بڑا کردار، سب سے نمایاں کردار پہلے ہندوستان کے احمدیوں نے اور پھر ہندوستان اور پاکستان کے احمدیوں نے ادا کیا.تو باقی دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیوں کو بھی طبعاً یہ طلب ہونی چاہئے کہ ہم کیوں ان علاقوں کی خدمت سے محروم رہ جائیں جنہوں نے ایک زمانہ میں عظیم الشان قربانیاں کر کے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا کیا ہے.اس قدرتی جذبے کا بھی تقاضا یہی ہے کہ ان تحریکوں کو ساری دنیا پر پھیلا دیا جائے.اور ہے بہت معمولی رقم مثلاً انگلستان کے لئے میں سمجھتا ہوں کہ ایک پونڈ فی آدمی سال بھر میں دینا کوئی مشکل کام نہیں اور یہ جو کم سے کم معیار ہے اس میں بچے ایک ایک پونڈ دے کر شامل
خطبات طاہر جلدم 1022 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء ہو سکتے ہیں اور بڑے اپنے شوق سے اس کو زیادہ دے سکتے ہیں.عموماً پاکستان میں 12 روپے پر وقف جدید میں انسان شامل ہو جاتا ہے اور 12 روپے آخری حد نہیں ہے پہلی حد ہے.اس لئے اگر چہ غرباء کی ایک بڑی تعداد 12 روپے تک ہی ٹھہرتی ہے لیکن امراء ایسے بھی ہیں جو اس سے بہت زیادہ دیتے ہیں ہزار ہا روپیہ دیتے ہیں.تو میں امید کرتا ہوں کہ ایک پونڈ والے تو انشاء اللہ تعالیٰ بکثرت باہر کی جماعتوں میں پیدا ہو جائیں گے اور ایسے خاندان بھی ہو سکتے ہیں جو اپنے ہر بچے کو اس تحریک میں شامل کر لیں اور جن ملکوں میں پونڈ کرنسی رائج نہیں ہے وہ اپنے حالات دیکھ کر تخمینہ لگا کر پونڈ کے لگ بھگ کوئی رقم مقرر کر سکتے ہیں.اب مثلاً امریکہ ہے وہ اگر دوڈالر مقرر کر لے تو ایک پونڈ سے تو کچھ زیادہ ہی ہے لیکن وہاں کی معیشت اور اقتصادیات کے تقاضے ایسے ہیں کہ دو ڈالر بھی ان کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اسی طرح جرمنی والے مارک مقرر کر لیں.اپنے اپنے ملک کے حالات کے مطابق ایک تخمینہ لگائیں اور اس کے مطابق وہ فیصلہ کر لیں.اس میں کوشش یہ ہونی چاہئے کہ تعداد زیادہ ہو ، کثرت کے ساتھ احمدی بچے ، عورتیں، بوڑھے اس میں شامل ہوں اور عام چندے کے لحاظ سے رقم اتنی رہے کہ خاندانوں پر زیادہ بوجھ نہ پڑے.اس لحاظ سے میں امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ تعالیٰ فوری طور پر یہ زائد ضرورتیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہندوستان اور پاکستان میں دونوں جگہوں میں انشاء اللہ تعالیٰ ہم پوری کر سکیں گے.جہاں تک پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے یہ عجیب بات ہے کہ جن علاقوں میں زیادہ سخت ابتلاء آئے ہیں اور غیر معمولی قربانیوں کی توفیق ملی ہے ان علاقوں میں چندے کا معیار پہلے سے بلند ہو گیا ہے.مثلاً تھر پارکر ہے سب سے زیادہ وسیع پیمانے پر اس دور میں کلمہ طیبہ کے لئے تھر پار کرنے قربانی دی ہے ، سینکڑوں کی تعداد میں کام کرنے والے نو جوان جیلوں میں گئے اور بعض ایسے بڑے بڑے زمیندارے تھے جہاں مینیجر اور منشی وغیرہ جیلوں میں چلے گئے اس لئے کام کو بہت نقصان پہنچا.بعض جائزے میں نے لئے ہیں تو پتہ چلا کہ محض خاص وقت کے اوپر ان کے اچھے کارندوں کے جیل میں جانے کے نتیجہ میں فصلوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے.اس پہلو سے انسان دنیا کے حساب سے تو یہی سوچتا ہے کہ وہاں چندوں میں کمی آئی ہوگی مگر سارے پاکستان میں گزشتہ سال کے مقابل پر سب سے زیادہ اضافہ ضلع تھر پارکر میں ہوا ہے اور بائیس ہزار کے مقابل پر چالیس ہزار سے زائد رقم
خطبات طاہر جلدم 1023 خطبه جمعه ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء انہوں نے سترہ دسمبر تک ادا کر دی تھی اور ا بھی یہ وصولیاں جاری ہیں.تو یہ بات بتاتی ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ قربانی کی تو فیق عطا فرماتا ہے وہاں نیکی کی سعادتیں بڑھا دیتا ہے، نیکی کی تو فیق بڑھا دیتا ہے اور ہر جہت میں وہ توفیق اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھتی چلی جاتی ہے.اب تھر پا کر ہی کو اس دفعہ سب سے زیادہ وقف جدید کی ضرورت بھی ہے کیونکہ وہی علاقہ ہے جہاں زیادہ تر وقف جدید کا کام چل رہا ہے اور جہاں ہندو زیادہ تعداد میں آباد ہیں.تو بیرونی دنیا سے بھی ان کی مدد ہو تو بہت اچھا اقدام ہوگا انشاء اللہ.اس میں برکت پڑے گی اور سلسلے کی ساری ضرورتیں بسہولت پوری ہو جائیں گی.اس تحریک کے ساتھ میں نئے سال کا اعلان کرتا ہوں اور اس اعلان کے ساتھ میں یہ بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ جماعت کی دیگر مالی ذمہ داریوں پر اس کا اثر نہیں پڑنا چاہئے.اس شرط کے ساتھ یہ تحریک کی جارہی ہے کہ کسی جگہ سے بھی یہ شکوہ نہیں پھر آنا چاہئے کہ آپ نے ایک اور تحریک کر دی تھی اس لئے ہمارے فلاں چندے میں کسی قسم کی کمی آگئی ہے یا کسی اور طرف Diversion ہو گئی جس کے نتیجہ میں کمی آگئی.ہر چندے میں ہر پہلو سے ہر سال ہمارا قدم خدا کے فضل سے آگے بڑھنا چاہئے اور یہ تحریک بھی اگر آپ اس روح کے ساتھ جاری کریں گے اور اس روح کے ساتھ اپنائیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ آپ کے ایمان میں، آپ کے اخلاص میں ہی برکت نہیں ڈالے گا بلکہ آپ کی مالی وسعتیں بھی بڑھائے گا اور پہلے سے زیادہ بہتر حال میں آپ اپنے آپ کو پائیں گے.خدا کی راہ میں خرچ کرتے وقت خوف نہیں محسوس کرنا چاہئے.بیوی بچوں کا حق ضرور رکھنا چاہئے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسی قربانی سے منع فرمایا ہے جس کے نتیجہ میں اہل وعیال کا حق مارا جائے.یعنی ان کے دل میں دین کے خلاف رد عمل پیدا ہو جائے.اس حد تک قربانی سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجتناب کا حکم فرمایا ہے.بعض دفعہ یہ کہہ کر چندے واپس کئے کہ تم اپنے بیوی بچوں کو غریب چھوڑنا چاہتے ہو اور اپنے بیوی بچوں کو اس حال میں چھوڑ نا چاہتے ہو کہ وہ گویا دین سے پھر جائیں یہ نہیں ہو گا اس لئے عضو کے دائرے میں رہیں جو قرآن کریم کی اصولی تعلیم ہے.قرآن کریم فرماتا ہے تجھ سے پوچھتے ہیں کیا خرچ کریں؟ تو ان کو جواب دے کہ عــفـــو خرچ کرو.(البقرہ : ۲۲۰) عفو سے مراد یہ ہے کہ اپنی بنیادی ضرورتوں سے جو زائد ہے اس میں سے
خطبات طاہر جلدم 1024 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء جتنا چاہودو.لیکن بنیادی ضرورتیں نہ کاٹو سوائے اس کے کہ بعض خاص مواقع پر دین کی بنیادی ضرورتیں تقاضا کرتی ہوں ایسی صورت میں پھر سب کچھ پیش کرنے کا بھی حکم ہو جایا کرتا ہے لیکن وہ امتیازی حالات ہیں.وقف جدید کے چندے میں زیادہ سے زیادہ شمولیت اختیار کر میں لیکن اس شرط کے ساتھ کہ نہ دیگر چندے متاثر ہوں، نہ بنیادی ضرورتوں پر اثر پڑے اور عفو میں جہاں تک بھی ممکن ہے آپ زیادہ سے زیادہ محنت کریں کہ عفو کا ایک بڑا حصہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں پیش ہو.یعنی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے بعد جو کچھ بچتا ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر آن آگے کی طرف بڑھاتا چلا جائے اور ہر آن خدا کے فضل سے جماعت آگے کی طرف بڑھ رہی ہے.اس ابتلاء میں ایک بھی دن ایسا نہیں آرہا جبکہ کسی جگہ سے یہ بری خبر آئے کہ جماعت کا قدم پیچھے ہٹ گیا ہے.وقف جدید کی یہ رپورٹ بڑی تفصیلی ہے.اس کے پڑھنے کا تو وقت نہیں.میں نے عمومی باتیں آپ کے سامنے پیش کر دی ہیں.اس رپورٹ سے بھی پتہ چلتا ہے کہ سارے پاکستان میں بفضلہ تعالیٰ ہر جہت سے وقف جدید کا قدم آگے بڑھا ہے.۷ار دسمبر تک کل وصولی میں تقریباً سوالا کھ کا اضافہ ہو چکا ہے.جبکہ گزشتہ دستور جو چلا آرہا ہے اس کی رو سے جنوری تک یہ وصولیاں ہوں گی اور لکھوکھہا روپیہ جنوری تک مزید وصول ہونے کی توقع ہے.تو زائد جتنا بھی وصول ہوگا وہ گزشتہ سال سے بڑھ کر ہے.تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہر میدان میں جماعت حسب دستور ، حسب روایات آگے ہی قدم بڑھائے گی.دعاؤں سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے ، اس پر تو کل کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں.دشمن کو ہمارا یہی جواب ہے کہ تم جتنا چاہوز ور لگالو، ایڑی چوٹی کا زور لگالو، جو کچھ تمہاری راہ میں ہے خرچ کر ڈالو، اپنے گھوڑے، اپنے مال مویشی ، اپنی قو تیں ، اپنے لشکر سب جھونک دومگر اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ جماعت احمدیہ کے حق میں ہمیشہ پورا ہوتے دیکھو گے کہ ہم تمہارے جلتے ہوئے دلوں کو دکھاتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جائیں گے.ایک دن بھی ہم تم سے رکنے والے نہیں ہیں.نہ رکیں گے ، نہ رک سکتے ہیں، نہ کبھی ممکن ہے کہ خدا کی قومیں کسی میدان میں بھی آکر مات کھا جائیں یا پیچھے ہٹ جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ آگے ہی بڑھاتا چلا جائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا:
خطبات طاہر جلدم 1025 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء کچھ جنازہ ہائے غائب کے متعلق درخواستیں آئی ہیں.خاص طور پر ایک دو جو فوت شدگان ہیں ان کے لئے دل میں یہی تحریک ہوئی کہ جمعہ پر ہی ان کی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے.ان کے ساتھ باقی بھی شامل ہو جائیں گے.سب سے پہلے مکرم چوہدری غلام حیدر صاحب صدر جماعت چک ۵۶ ضلع بہاولپور کی وفات کا اعلان کرتا ہوں انا للہ وانا اليه راجعون.آپ کو یہ نمایاں امتیاز حاصل ہے کہ خدا کے فضل سے دو بیٹے مربی ہیں.ایک پاکستان میں کام کر رہے ہیں اور ایک نا نا میں کام کر رہے ہیں اور بہت ہی غیر معمولی اخلاص کا تعلق رکھنے والے بزرگ تھے.سادہ طبیعت لیکن نہایت اچھے مبلغ اور سارے اپنے رشتہ داروں میں احمدیت پھیلانے کا یہی موجب بنے خدا کے فضل کے ساتھ.ان کے ایک بیٹے ہیں ناصر احمد صاحب ملہی وہ غانا میں ہیں.وہ بھی شامل نہیں ہو سکے.اس لئے ان کی وجہ سے خاص طور پر مجھے تحریک ہوئی کہ نماز جمعہ کے ساتھ ہی ان کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے.دوسرا جنازہ ہے بشارت محمود صاحب مبلغ سلسلہ مغربی جرمنی کے چھوٹے بھائی کا جو عین جوانی کے عالم میں ایک حادثے کا شکار ہو گئے.تیسرا چوہدری محمد صادق صاحب جھنگ.چوتھا مکرمہ وزیر بی بی صاحبہ اہلیہ مکرم چوہدری رشید احمد خان صاحب ہے.یہ ہمارے ڈاکٹر صلاح الدین صاحب شمس جو منیر الدین شمس صاحب کے بھائی ہیں ان کی خوشدامنہ تھیں.پھر ہیں بشری صاحبہ بنت نذیر احمد صاحب منگلی.یہ بھی عین جوانی کے عالم میں ایک چھوٹی بچی چھوڑ کر وفات پاگئیں.اہلیہ حکیم محمد دین صاحب قادیان مکرم ماسٹر امیر عالم صاحب شیخو پورہ جن کے الفضل میں علمی مضامین شائع ہوتے رہے ہیں.جماعت کے بہت سے لوگ ان سے واقف ہوں گے.پھر ہیں محمد سرور صاحب وہاڑی کی والدہ ان کا نام نہیں لکھا ہوا.اور آخر پر مکرم ومحترم صاحبزادہ احمد لطیف ابن مکرم و محترم صاحبزادہ محمد طیب صاحب یہ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کے پوتے تھے اور بہت ہی مخلص فدائی ، جماعت کے
خطبات طاہر جلد۴ 1026 خطبہ جمعہ ۲۷/ دسمبر ۱۹۸۵ء کاموں میں پیش پیش.اپنے سارے خاندان میں یہ نمونے کے احمدی تھے.سلسلہ سے بہت ہی اخلاص تھا.ایک لمبا عرصہ تک بیچارے بیمار رہے، صاحب فراش رہے اور بڑی تکلیف میں وقت گزارا لیکن بڑے صبر کے ساتھ.تو ان سب کے لئے خصوصیت کے ساتھ مغفرت کی دعا کی جائے.نماز جنازہ عصر کی نماز کے بعد جو جمعہ کے ساتھ جمع ہوگی معابعد پڑھی جائے گی.
اشاریہ خطبات طاہر جلدے
15 15 15.15 16 17-- 18 19- 19---- 24 24---- 24--- 27 28.فہرست اشاریہ 1--- --4 | ض.b 8 9 10---- 10----- -10 غ - 10 ق.11---- 11---- 12---- 12----.12 ل......13 | ن 29--- 29- 13 0 13---- -----13 ی.14.って خ....
321 391 404 417 1 اشاریہ آیات قرانیه ( بلحاظ حروف تہجی ) LT اعد الله لهم عذاباً شديدا (الطلاق !! ) الر كتاب انزلناه الیک (ابراهیم ۴.۲) ان الله يمسك السماوات (فاطر (۴۲) افرئيتم ا اللت والعزى(النجم ٢٠) اشاریہ خطبات جمعہ 1985 اللہ تعالیٰ صفات باری تعالی 94 ,992 ,928 ,925 ,921 ,843 آ آخرت حیات ابدی اگر حیات ابدی کا طلب گا رہے اللہ کی خاطر اپنی زندگی وقف کر.افغیر الله ابتغى حكماً (الانعام ۱۱۸.۱۱۵) آخرین آدم علیہ السلام 689 438, 538, 609, 728, 733 176, 291, 299, 304, 308, 315, 317, 328, 378, 408, 546, 585, 629, 635,987 آرتھوڈکس آریہ آریہ سماج 839 125, 166-170, 176, 178, 313, 339, 341, 342, 344, 401, 575 آسبرن آفتاب احمد خان آگرہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی آئین 1973 کا آئین.142, 144, 147 736 128, 162 162 انما يخشى الله من عباده العلماء (فاطر (۲۹) اني اخاف ان يبدل دينكم (المومن ۲۷) الحمد لله رب العالمين (الفاتحه ۲) افمن اسس بنيانه على تقوى (التوبة ١٠٩ااا) انا انزلناه في ليلة القدر (القدر ۲.۲) افمن زين له سوء عمله(فاطر (۹) اولم يهد لهم كم اهلكنا (السجده ۲۷ - ۳۰) اقم الصلواة لدلوك الشمس (بنی اسرائیل ۷۹) ایاک نعبد و ایاک نستعین (الفاتحه ۵) اهدنا الصراط المستقيم (الفاتحه ) انک لعلی خلق عظیم (القلم ۵) انما وليكم الله و رسوله (المائده ۵۶.۵۷) ان فرعون علا فی الارض (القصص (۵) ان فرعون لعال في الارض (يونس (۸۴) ان المنافقين يخادعون الله (النساء ۱۴۳) ا ومن هو قانت اناء الليل (الزمر ١٠ ) 449 641 628 5,968,965 4-1 532-529 21 35 964 968 983,981 995 921 998 998 973 711,710 54 ان الذين أمنوا و عـمـلـوا الـصــالــحــات كـانـت لهم (الكهف ١١١.١٠٨) 745 الذين ينفقون في السراء والضراء (آل عمران ۱۳۵ )608 آمنہ بیگم اہلیہ حمد عبد اللہ خان صاحب 918,933 ان الذين فتنوا المومنين(البروج ) ١٧.١) ان الله لا يغير ما بقوم (رعد ٢ ١ ) 703,689 508
999 908,143 475 فقال انا ربکم الاعلى(النازعات (۲۵) فذكر ان نفعت الذكرى (الاعلى ١٠) فان مع العسر يسرا (الانشراح) 2 ف فاذا فرغت فانصب (الانشراح ۸.۴) 478 فذكر انما انت مذكر (الغاشيه: ٢٢) فويل للمصلين (الماعون (۵) فمن يعمل مثقال ذرة خيراً يره(الزلزال: ۸) - فلما جاء هم باياتنا (الزخرف ۴۸) فزادهم ایمانا (آل عمران ۱۷۴) فلا تزكوا انفسكم (النجم ۳۳) 955 975,973 979 556 731 749 فمنهم من قضى نحبه ومنهم من ينتظر (الاحزاب ۲۴) 868 ق قل ان صلاتی و نسکی و محیای(انعام ۱۶۳) قال كلا ان معی ربی (الشعراء ۶۳) قالت ان الملوك اذا دخلوا (النمل (۳۵) 474 641 537 قل ياهل الكتاب تعالوا الى كلمة (آل عمران (۲۵) 203 قل يا عباد الذين أمنوا اتقوا ربكم (الزمر ا ا ) قل لو كان البحر مدادا (الكهف ١١٠) قل سيروا في الارض (النمل) ۷۴.۷۰) قال رب انى دعوت قومی (نوح ۱۱.۶) 729 754 494-487 496 قل هو الله احد(الاخلاص (۲) 984 قل يا اهل الكتاب هل تنقمون منا (المائده ٦٠ ) 585,583,578 720 414 227 كرسيه السموات والارض (البقرة ۲۵۶) كشفت عن ساقيها (النمل (۴۵) كنتم خير امة اخرجت للناس (آل عمران ١ ١ ١ ) 700 601 336 855 596 143 696,123 743 304 145 330 ,598 404 237,251 586 577 469 373 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 ء القى الذكر من بيننا (القمر ٢٦) ا فبهذا الحديث انتم مدهنون(الواقعه ۸۲) ام على قلوب اقفالها (محمد۲۵) ان تبدوا الصدقات فنعما هي ( البقرة ۲۷۳) ان هولاء لشرذمة قليلون(الشعراء۵۵) انما انت مذكر (الغاشیه ۲۲) اذن للذين يقاتلون بانهم ظلموا (الحج ۴۰) بل متعنا هولاء و اباء هم (الانبیاء ۴۵) تلک الرسل فضلنا بعضهم (البقرة ۲۵۴) خ ختم ! الله على قلوبهم (البقرة (۸) خلقكم من نفس واحدة(الزمر) ز ذروني اقتل موسى (المومن۲۷) رفع السموات بغير عمد(الرعد) ربنا افرغ علينا صبراً(البقره ۲۵۲) سيقول السفهاء من الناس (البقره ١٤٣ ) سيعلمون غدا من الكذاب (القمر ۲۷) ش شهر رمضان الذي انزل فيه القرآن (البقره ١٨٦) ض ضرب الله مثلاً للذين أمنوا(تحریم ۱۲ ) عسى ان تكرهوا شيئا وهو خير لكم (البقرة ٢١٧) 488 939 على صلواتهم يحافظون(مومنون: ١٠ )
884 704 556 563 591 601 596 560,498 574 567 675 577 3 واستعينوا بالصبر والصلوة (البقره ۴۲) ودع اذاهم و توكل على الله (احزاب ۴۹) وما نريهم من اية(الزخرف۴۸) ولقد صرفنا في هذا القرآن (الكهف ۵۹.۵۵) و ترى كثيراً منهم يسارعون (المائده ۶۳) و تجعلون رزقكم انكم تكذبون(الواقعه ۸۲) و اوحينا الى موسى (الشعراء۵۳) ولات حين مناص (ص ۴) و ان یک کاذباً فعليه كذبه(المومن ۲۴) وما قدروا الله حق قدره (الانعام ۹۲ ) واذا قيل لهم تعالوا (المائد ۱۰۵) ولقد جاء كم يوسف من قبل(المومن ۳۵) والذين هم لاماناتهم و عهدهم راعون وهم راكعون (المائده ۵۶) (المومنون ۹ - ۱۲ )935 989 28 28 245 999 559 328 677 333 816 227 730 944 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 لا تائيسوا من روح الله (يوسف ۸۸) لا تقنطوا من رحمة الله (الزمر (۵۴) لانتم اشد رهبة في صدورهم(الحشر ۱۴) لتفسدن في الارض (بنی اسرائیل ۵) لعلک باخع نفسک (الشعراء ۴) لقد ارسلنا رسلنا بالبينات (الحديد (٢٦) لما تقولون مالا تفعلون (الصف (۴) لما يحييكم (الانفال (۲۵) لو انفقت ما في الارض جميعا (انفال (۶۴) ليسوا سواء من اهل الكتاب (آل عمران ۱۱۴) ليئوس كفور(هود ١٠) من كان في هذه اعمی (بنی اسرائیل: ۷۳) نحن اولياء كم في الحيوة الدنيا وسع كرسيه السموات (البقره ۲۵۶) 993 حم سجده ۳۲)781-787 ولا تهنوا ولا تحزنوا (آل عمران ۱۴۰ ) هل جزاء الاحسان الا الاحسان (الرحمن: ٢١) هو اعلم بمن اتقى (النجم ۳۳) هو الذي ارسل رسوله بالهدى (التوبة ٣٣) 813,799,525 768 385 ولا ياتون الصلواة الا و هم کسالی (التوبة ۵۴) و عسى ان تكرهوا شيئاً وهو خير لكم (التوبة ٢١),60 وما خلقت الجن والانس الا ليعبدون (الذاریات۵۷) 891 1000 975 و يصدكم عن ذكر الله (المائده ۹۲ ) 886 و تواصوا بالحق وتواصوا بالصبر (العصر) 894,887 و لما يدخل الايمان في قلوبكم (الحجرات ۱۵) 240 واذا قيل لهم امنوا(البقرة ١٤ ) والله الذي ارسل الرياح (فاطر ١٠) 25 27 و اذا الرسل اقتتالمرسلات (۱۲) ونادى فرعون في قومه (ذخرف ۵۵.۵۲) و يضيق صدري (الشعراء ۱۴) 174 279 280 و اذ قال ربک انی جاعل فی الارض خليفة(البقره ٣١) 629 ومن احسن قولا ممن دعى الى الله (حم سجده ۳۴) 843 واذا انعمنا على الانسان اعرض (بنی اسرائیل (۸۴) 842 و انذر الناس يوم تاتيهم العذاب(ابراهیم ۵۳.۴۵) 173 ومن اظلم ممن افترى على الله (الصف ١٠.٨) 149,854 وقال الذين كفروا ان هذا الا افک(الفرقان ۷.۵) 67 303 40 وقالوقلوبنا في اكنة(الزخرف ۷.۶) ويقولون متى هذا الفتح (السجده ٣٠) وبشر المومنين بان لهم من الله (احزاب (۴۸) 875,873 و
190, 191, 211, 212, 215, 256- 259, 266, 276,277, 364, 366-370, 405, 406, 464 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 یا بنی آدم قد انزلنا عليكم لباسا (اعراف ۲۷) يرجون رحمة الله (البقره ۲۱۹) يا ايها الرسول بلغ ما انزل الیک(المائده ۶۸) يذكرون الله قياما و قعودا( آل عمران ۱۰۲) 328 719 627 994 حضرت مولانا ابوالعطاء ابو عبد الله حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ يايها الذين امنوا اصبروا وصابروا (آل عمران: ۲۰۱) 936 يايها الذين امنوا اتقوا الله و قولوا حشر: 19) 896,881 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ يايها الذين امنوا اتقوا الله ولتنظر نفس (احزاب: ۷۱) 916,899,893, ابوالحسن ندوی پایها الانسان انک کادح الی ربک کدحا (الانشقاق) ابوالکلام آزاد 960 کمال اتاترک 848 505 310, 462, 845, 856, 984 300, 921, 935- 252 121, 156, 159,337 151, 521 اٹالین قوم اسلام کا داخل ہو نامز د فتوحات کھولے گا و قوم میں 260, 815, 821, 822, 823, 824, 825 466 اجماع امت احرار راحراری جماعت 645-644 961 1004,466 52, 62, 66, 94, 113, 114, 115, 155, 162, 163, 182, 184, 189, 192, 194, 195, 196, 205-209, 225, 276, 553, 554, 689, 691, 787 223 797 223 134, 397 216 96 366 1023 احمد رضا خان بریلوی احمد دین صدر جماعت المشائخ سیالکوٹ احمد شاہ شائق مولانا احمد علی صاحبزادہ احمد لطیف احمدیت / جماعت احمدیہ يحيى من حيى عن بينة (انفال ۴۳) يصلون سعيراً (النساء: ١١) يخادعون الله (البقره ١٠ ) ی ابتلاء ابتلاء میں فرشتے رحمت کا پیغام لیکر آتے ہیں ابراہیم نمیر ابراہیم آف کیا بیر ابن ابی شیبه 310 ابن خلدون 507, 508, 510 305 593 507, 508, 509, 510 حضرت محی الدین ابن عربی حضرت ابراہیم علیہ السلام ابن علقمی ابن ابوالاعلیٰ مودودی 14, 16, 39, 41, 47, 49, 50, 51, 52, 53, 55, 114, 117, 118, 137, 141-146, 177, 189,
اشاریہ خطبات جمعہ 1985 50 220, 223 21 31 82 108 221 889 388 233, 266, 460, 997 اسرائیل کے ایجنٹ اسلام اشاعت اسلام امن پسند مذہب ہندوستان دار الاسلام جماعت احمد یہ احیائے اسلام کا زندہ ثبوت اسلام کی محبت اسلام سیدھا اور صاف ستھرامذہب اسلام کا آسمانی حربہ نہیں توٹے گا اسلام آباد 319, 327, 374, 434, 736, 737, 772, 775, 58, 61, 68, 73, 76, 79, 85, 87, 88, 89, 90, 93, 96, 103-109, 112, 125, 135, 136, 165, 167, 169, 172, 205, 206, 214, 216, 217, 219, 220, 226, 231, 233, 248, 255, 256, 262-266, 269, 275, 295, 303, 308, 321, 343, 351, 369, 370, 381, 383, 422, 458, 467, 482, 485, 500, 512, 513, 525, 539, 560, 576, 580, 595, 601, 633, 634, 645, 647, 648, 649, 673, 682, 690-695, 719, 723, 738, 739, 742, 756, 792, 794, 822, 823, 826, 832, 833, 835, 836, 839, 871, 881884, 893, 905, 909, 914, 1007, 1013-1017, 1019, 1023 سورۃ جمعہ کا جماعت احمدیہ سے گہرا تعلق پاکستانی احمدیوں پر مظالم پاکستانی احمدیوں پر مظالم کے واقعات حضرت اقدس کی صداقت کا زندہ معجزہ جماعت کی افریقہ کیلئے خدمات 778,779, 848 404 اسلامی حکومت 200 239-237 22, 219, 323, 362, 384, 387, 453, 454, 458, 610 504, 506, 507 265-264 115 اسلامی دستور 189-182 کشمیر یوں کیلئے جماعت کی خدمات اسلامی فرقے مسلمانان ہند کے مفادات کا تحفظ اور جماعت احمدیہ 201-173 بہتر فرقے تہتر فرقے ہندوستان میں دفاع اسلام اور جماعت احمدیہ 176-181 جنرل اختر حسین ملک اختر علی خان ارشد باقی حضرت اسامہ بن زید ایک کلمہ گو کو قتل کر دینا چوہدری اسد اللہ خان اسرائیل 218 217 | اسلامی قانون 466 حضرت اسماعیل علیہ السلام 918,933 اشتراکیت 240,241 مولوی اشرف علی تھانوی 240 268,460-465,568 266, 460, 461, 463 453 891 515, 516,839 102, 103, 273, 325, 419, 422, 458 933,918 اشعار ( بلحاظ حروف تہجی ) 186, 206, 220, 221, 222, 223, 224, 229, آرائش جمال سے فارغ نہیں ہنوز آ رہی ہے اب تو خوشبو میرے یوسف کی 970 340
CO اشاریہ خطبات جمعہ 1985 اذا سيد منا خلا قام سيد اسلام چیز کیا ہے خدا کیلئے فنا اک سے ہزارہوویں با برگ و بارہویں اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے اے ہند تیرے سر سے اٹھا سا یہ خدا بن دیکھے کی طرح کسی ماہ رخ پہ آئے دل بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں بہرہ ہوں میں تو چاہئے بے زبانی ترجمان شوق بے حد ہو تو ہو پھر اک باغ دیکھے اجڑ اسرا پھر میں تھے کعبہ میں بھی پوچھتے گنگوہ کا رستہ تم دیکھو گے انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے تمہاری تربت انوار کو دے کر طور سے تشبیہ تن من کیا نثار خلافت کے نام پر تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے چمن اداس ہے یار وصبا سے کچھ تو کہو خاک میں مل گئے نگینے لوگ دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں دہلی کی سرزمین نے پکارا ہے ساتھیو ربط ہے جان محمد سے میری جان کو مدام رہا دین باقی نہ اسلام باقی زبان پر اہل ہوا کی ہے اعل بیل زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں کے صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا صورت وہی ہے نام میں رکھا ہوا ہے کیا قید میں ہے تیرے وحشی کو وہی زلف کی یاد کر رہا تھا غازیوں جب کماں عبدالعلی کرم خا کی ہوں نہ پیارے نہ آدم زاد ہوں گاندھی نے آج جنگ کا اعلان کر دیا گنگا کی وادیوں کو بتا دو کہ ہم کون ہیں مجھ کو کیا ملکوں سے میر املک ہے سب سے جدا 797 73 مجھے پکڑنے کی قدرت کہاں تجھے صیاد میت اٹھی ہے شاہ کی تعظیم کیلئے 680 472 256 وضع میں تم ہو نصاری تو تمدن میں ہنود 648 472 675 432 421 687 وہ میرے دل کی چٹکیوں میں مل مل کر یوں فرماتے ہیں 46 ہے ساعت سعد آئی اسلام کی جنگوں کی یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی 45 ہر فضل تیرا یارب ہوئے تم دوست جس کے 255 73 992 446 109, 580, 586, 823, 925 281 239 220 72 304 621 322 318 327 132 67 62 عشق و وفا کے کھیت کبھی خوں سینچے بغیر اعتراضات بر سلسلہ احمدیہ کے جوابات حضرت اقدس کی تحریروں پر اعتراضات کے جوابات 336 حضرت اقدس کے دعاوی پر اعتراضات کے جوابات 312 حضرت اقدس پر عربی تلفظ کی ادائیگی پر اعتراض 833 758 255 420 686 421 یہ اعتراض کہ احمدی دل سے کلمہ نہیں پڑھتے اسرائیل کے ایجنٹ ہونے کا الزام انگریز کا خود کاشتہ پودا بروز انبیاء پر اعتراض جماعتی چندوں پر اعتراض جہاد پر اعتراضات کے جوابات زرد چادروں کی حقیقت حدیث دجال پر اعتراض حضرت اقدس کی ذات پر اعتراضات وائیٹ پیپر کے جوابات کا سلسلہ سرکاری کتابچے کے اعتراضات خود کاشتہ پودے کی حقیقت 209 1001 727 536 402 218 940 255 420 635 438,170 73 547 67, 68, 70, 72, 76, 77-86, 93, 111, 112, 219 122, 195, 322 380 374 283 303 قادیانی ریاست کے قیام کا اعتراض حضرت اقدس پر ملازمت کرنے کا اعتراض مهدی آخرالزمان پر اعتراض 378,989 مسیح ابن مریم کی تاویلات 209 218 388
848 919 7 امتہ الحی اہلیہ خواجہ فضل احمد امتہ الرحیم اہلیہ غلام مصطفیٰ کاہلوں امت محمدیہ 331 303 135 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 نزول مسیح کا اعتراض وحی پر اعتراضات اعظم گڑھ افریقہ 117, 228, 266, 275, 305, 308, 309, 311, 324 318,319, 503, 596, 628, 998, 999 حاجی امداداللہ امریکہ 98, 109, 111, 207, 250, 259, 260, 262, 263, 264, 265, 525, 602, 612, 619, 620, 633, 738, 818, 833, 883, 888, 889, 894 افغانستان 61, 63, 88, 103, 105, 221, 231, 236, 250, 259, 264, 366, 381, 386, 458, 500, 634, 650, 737, 740, 824, 864, 908, 1003, 1011, <1020 74, 156, 157, 209, 211, 289, 554, 864 73, 81, 179, 181, 194, 255, 256 95 1023 364 امہات المومنین ماسٹر امیر عالم آف شیخو پوره امین احسن اصلاحی انبیاء رسل 231,440, 739 316 255,293 علامہ محمد اقبال اقوام متحده اللہ رکھا مولوی الطاف حسین حالی الہام 20, 25, 35, 37, 64, 67, 68, 70, 128, 177, 274, 281, 284, 285, 286, 291, 292, 294, 303-306, 310, 311, 315, 316, 317, 329, 332, 358, 360, 395, 408-415, 422, 430, 477, 493, 559, 560, 566, 567, 573, 575, 578, 585, 592, 593, 600, 629, 635-637, 639, 643, 644, 656, 657, 662, 671, 857, 858, 876, 980, 981, 987, 995, 998 43,487, 596, 598, 600, 664, 701, 795, 879 197-198 759 الہامات کشوف حضرت مسیح موعود علیہ السلا اردوالہامات اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے 25,35 37 417-408 انبیاء اور ان کے مخالفین انبیاء نئی زندگیاں بخشنے آیا کرتے ہیں انبیاء کے بارہ میں اسلامی فرقوں کے عقائد انڈونیشیا 89, 90, 145, 221, 512 بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے 752,500 عربی الہامات جرى الله في حلل الانبياء وسع مکانک ولا تتبع اهواء هم يوم تبدل الارض بغير الارض 174 434,802 722 175
191 316 316 213 294,295, 591 237-238 740 580 118, 119 1023 1023 447 891 اینٹی احمد یہ تحریک 115118,923 ایوب علیہ السلام علامہ الباقلانی باؤنڈری کمیشن بائیل باغبانپورہ لاہور برازیل مرزا برکت علی بشارت محمود مبلغ سلسلہ بشری بنت نذیر احمد منگلی بشیر احمد آرچرڈ مربی سلسلہ بشیر احمد کاہلوں 933 232, 233, 507, 508, 509, 521, 524 238,282 بغداد حضرت بلال رضی اللہ عنہ بلوچستان 380, 381, 382, 383, 384, 385, 493, 514, 515, 702 384-380 95, 109, 110 211 195,490 858-852 860-852 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 انسانی تخلیق انسانی حقوق انفاق فی سبیل اللہ انفاق فی سبیل اللہ جماعت احمدیہ اور انفاق فی سبیل اللہ انگریزی حکومت 70, 75, 77, 79, 86, 94, 95, 96, 107, 112, 125, 126, 130, 132, 133, 134, 135, 136, 137, 141, 753 انگلستان برطانیہ 7, 8, 10, 61, 69, 88, 94, 95, 97, 207, 221, 259, 260, 319, 434, 445, 555, 650, 670, 673, 692, 693, 707, 721, 728, 736, 737, 741, 742, 751, 772, 773, 781, 782, 784, 785, 826, 831, 848, 870, 915, 918, 931 736,933 انور احمد کاہلوں 848 انوری بیگم اہلیہ ڈاکٹر سردار علی اہل حدیث 74, 75, 81, 83, 84, 86, 88, 100, 113, 258, 271,272, 273, 274, 285, 286, 313, 365 اہل کتاب 203, 204, 228, 367, 368, 567, 578, 585, بلوچستان اور جماعت احمد یہ بمبئی بنارس 286 | بنگال 586,587,588 ایران 290, 501 249 30, 32, 211, 288, 289, 511, 523 ایشیا جنوبی ایشیا وسطی ایشیا
110 657 722 260 838 453 پطرس گل شہداء کا ذکر پولینڈ پید رو آباد بین پیپلز پارٹی اشاریہ خطبات جمعہ 1985 266, 460, 463, 842, 982, 996,998 182, 194, 195, 218, 553 322 343, 1023 751 بنی اسرائیل 998.بھارت بہادرشاہ ظفر بہاولپور بی بی سی پاکستان 742 تا تاری پروفیسر بیعت کا ذکر تاریخ اسلام 30, 171, 236, 240, 300, 538, 539, 586, 589, 106,707, 709 220, 222, 260 213 553 852, 862, 863, 864, 865 851 862 863 81, 83, 84 650 826 741 622 601,877 تبلیغ اسلام تبلیغی مشن تحریک آزادی کشمیر تحریک پاکستان تحریک جدید دفتر چهارم کا اجراء تحریک جدید کا آغاز تحریک کا 92واں تحریک نجدیت تحریکات حضرت خلیفہ المسح الرابع Typist کا وقف کرنا مبلغ بننے کی تحریک پرنٹنگ پریس کی تحریک تراجم قرآن کی تحریک 4, 6, 12, 13, 20, 21, 29, 30, 41, 49-64, 67- 69, 83-93, 109- 123, 141, 149, 150, 154, 159, 161, 166, 171, 172, 175-187, 189-201, 205-, 210, 213 224, 233-252, 259, 261, 262, 264, 265, 269, 280, 281, 288, 297, 303, 304, 308, 321, 322, 330, 341, 358, 361, 369, 370, 374, 375, 380, 381, 383, 394-396, 450, 461, 464, 465, 483, 487,-491, 503, 512-525, 534-557, 574, 593, 599, 600, 611, 644, 646, 650, 655, 671, -685, 690-695, 702, 707, 721, 722, 728, 739, 741, 763, 766, 781, 794, 796, 827, 836, 847, 862, 863, 864, 866, 150/ 525 870, 882-888, 1007-1012, 1018-1022 260-250 512 اسلام کے نام پر قائم ہو پاکستان بنانے کا مقصد پاکستانی علماء کا پاکستان کیلئے کردار پاکستان ملائیت کے خطرات کا مرکز پنجاب 70, 71, 79, 80, 94, 125, 126, 184, 185, 195, 342, 514, 515, 702, 1017
136,271,272, 286, 313 386,510 82 ثناء اللہ امرتسری جایان جان بر سکاٹ جرمن جرمنی 10 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 سندھ میں وقف عارضی کی تحریک یورپین مشنز بنانے کی تحریک 1015 8 ذیلی تنظیمیں ایک اجلاس قیام نماز کے بارہ میں کریں 897 ترک موالات کی تحریک 426 7, 8, 9, 225, 773, 781, 787, 793, 796, 798, 4 799, 804, 826, 834, 915, 1020, 1023 348 جلسہ سالانہ 760 5, 6, 187, 291, 295, 387, 527, 772, 1005 638 *907-899 436,527 جماعت احمد یہ دیکھئے زیر عنوان احمدیت جماعت اسلامی 224 70 135,925 114, 138, 184, 189-195, 206, 207, 210, 212, 214, 233, 258, 366, 367, 368, 369, 927-919 370, 463, 553, 554, 555 529 525 193 479 731 210,195,194,185,55 1023 جمعۃ الوداع رمضان اور آخری جمعہ جمعیت علمائے ہند جنتر منتر جنگ خندق جواہر لال نہرو جھنگ جہاد 72, 74, 76, 84, 85, 88, 96, 121-142, 147, 152, 153, 157, 159, 209 تصوف تقوى خدا کی رحمتیں تقویٰ کی صورت میں نازل ہوتی ہیں اللہ کے نزدیک عزت تقویٰ میں ہے تقویٰ کا مفہوم تقوی کی بنیاد پر قائم شدہ اخلاق کا معیار 152, 153, 157, 159, 209 545 319 822 تقویٰ اور قول سدید تل ابیب تلسی رام توحیدالهی تو حید خالص اور قیام نماز ترک موالات کی تحریک تھر پارکر ٹریسٹے ٹلفورڈ اسلام آباد
937 463 268 906 273,263 684 588 937 460 460 675 460 271 الا ادلكم على ما يمحو الله به الخطايا بدء الاسلام غريباً وسيعود غريباً تكون في امة فزعة فيسير الناس على علماء هم الحكمة ضالة المومن علماء هم شر من تحت اديم السماء فزت برب الكعبة كان النبي صلعم يحب موافقة اهل الكتاب كثرة الخطا الى المساجد كلهم في النار الاواحدة لياتين على امتى ما اتى على بنى اسرائيل ليس الخبر كالمعاينة ما انا عليه و اصحابی مساجدهم عامرة وهي خراب من الهدى احادیث بالمعنی 11 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 150-153, 162, 163, 166, 167, 176, 184, 189-194, 213- 220, 322, 323, 325, 326, 349, 350, 521, 828, 878, 888, 889, 978 127, 130 124 169, 170 554 217 260 145, 386, 444, 510 324 اسامہ بن زید کا ایک جنگ میں ایک کلمہ گو کو قتل کر دیا 240 ایسا زمانہ آئے گا کہ نام کے سوا اسلام کا کچھ باقی نہیں رہے گا267 علم باقی نہیں رہے لوگوں جاہلوں کو پیشوا بنالیں گے 268 اگر فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا 628 118,116 خواجہ حسن نظامی 135, 136, 180, 343 223 847 193 487 870, 1005 95 871 766 192 | حسین ، مئیر تلوار کا جہاد تنیخ جهاد چترال چھمب جوڑیاں چیکوسلواکیہ چین حافظ ضامن حامد بدایونی حبیب الرحمن رئیس الاحرار حبیب الرحمن لدھیانوی 195 194 حسین علی خالد آف فلسطین حبیب اللہ خان مہاجر حجاز مولوی حسام الدین حسرت موہانی حدیث احادیث مبارکہ اصحابی کالنجوم بايهم اقتديتم افضل الذكر لا اله الا الله 155 حفظ الرحمن سیوہاری 211,225,461,690 | ملک حمید اللہ خان آف ڈسکہ 95 153,758 392 927 ڈاکٹر حمید الرحمن مولوی حمید خان ڈاکٹر حمید احمد خان چوہدری حمید نصر اللہ خان
527 459,460 544 307 304 134, 137, 139 6, 8, 444, 646 12 خورشید بیگم خیر القرون خیر پور 191 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 حمید نظامی 137,258, 461, 466 341,342 223 داؤد بن محمود القصیری 167,570 حضرت داؤد علیہ السلام دار الحرب 622 داعی الی اللہ دجال 97, 98, 101, 273, 334, 353, 354, 357, 361, 509 813-811 سے سے زیادہ زور دعا پر 178 326, 327, 333-335 327,333 262 276,312,319,669 669,689, 366, 387, 570, 571, 572 12, 847, 890, 895 دجله 896 سب مرزا حیرت دہلوی حيفا خ نبين خاتم اس خاور روسی زبان کے ایک احمدی ماہر ختم نبوت ختم نبوت کانفرنس خدام الاحمدیہ قیام نماز کی ذمہ داریاں خلافت 51, 152, 153, 155, 159, 160, 209, 210, 254, 647,-649, 678-682, 765, 791, 870, 879 خلافت احمد یہ خلیفہ وقت خلافت میں جماعت احمدیہ کی جان ہے 680 681 16, 17, 215, 508, 510, 678, 680, 1004 خلافت احمد یہ نبوت سے جلا یافتہ ہے خلافت احمدیہ کو خدا کی حمایت کا وطن حاصل ہے دعا کی تاثیرات حضرت مسیح موعود نے دیا 811,784 دلاور شاہ بخاری دمشق 681 مثیل دمشق دھرم پال دیوبند 161, 180, 260, 324, 358, 417, 418, 420, 421,458 دیوبندی 1003 309, 676, 677, 823 69, 84, 87, 123 848 خلیل الرحمن امام خمینی خود کاشتہ پودا خورشید بخاری ابوالحسن خوشنویس
471 479 951 525 176 839 13 رمضان المبارک کی عبادات اور جسمانی تکالیف شکر گزار بننے کا مہینہ رمضان عبادات کو بلند مقام عطا کر جاتا ہے رمضان اور آخری جمعہ رنگیلا رسول حضور ﷺ کے خلاف لکھی جانے ایک کتاب رومن کیتھولک روس 89, 90, 206, 221, 236, 259, 385, 386, 510, 515, 555, 742, 984 ز زبیدہ بیگم اہلیہ حکیم خلیل احمد مونگھیری زكوة 871 206, 394, 890, 919 قرآن کریم میں زکوۃ سے پہلے صلوٰۃ ہے 890 416 799,815,817 848 رض حضرت زینب زیورک ساره بیگم اہلیہ صوفی رحیم بخش زیروی سپین اشاریہ خطبات جمعہ 1985 74, 82, 84, 88, 113, 258, 285, 358, 364, 366, 421, 466, 484, 512 ز ذوالفقار علی بھٹو 55, 59, 451, 452, 453, 454, 455,456 456-453 871 111 بھٹو دورحکومت کے واقعات مولانا ذوالفقار علیخان گوہر راولپنڈی ربوه 186, 224, 359, 485, 487, 534, 545, 580, 589,678, 772, 778, 797, 847,848, 1014 صوفی رحیم بخش زیر وی 18 رشید احمد خان مولوی رشید احمد گنگوہی ملک رشید احمد 848 1023 324,420 418, 419, 420, 580, 1023 رشیدہ بیگم اہلیہ چو ہدری علی احمد بی اے بی ٹی رضائے باری تعالیٰ 848 431, 439, 472, 479, 860 260, 505, 512, 815, 822, 825, 826, 827, 828, 829, 830, 831, 832, 835, 836, 838, 840, 841, 842, 843, 844, 845, 846 909 767 رفیع الدین ایڈووکیٹ رمضان المبارک روزے رحیام 469, 470, 471, 479- 481, 486, 491, 492, ,134,136,326 سرسید احمد خان 469 524, 525, 549-555, 557, 951 رمضان المبارک اور لقائے الہی
اشاریہ خطبات جمعہ 1985 منشی سراج الدین چوہدری سردار احمد چٹھہ 14 285 | سید احمد بریلوی 847 سردار بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مرزا برکت علی صاحب 580 سید حبیب 71, 134 سید محمد ماسٹر سعد اللہ خان حضرت سعد بن ابی وقاص مرز اسفیر احمد سعودی حکومت 848 سیرالیون 180,181 180, 323 526 30 السیوطی امام جلال الدین 310 492 سود کی تعریف 911 84 سعودی عرب 678,690,691 ش سکاٹ لینڈ شاہ فاروق 234 425, 426, 432, 435, 442, 444, 445 شاہ ولی اللہ محدث دہلوی 542-545, 722 136, 483, 493, 514, 529, 535, 656, 702, 812, 1009, 1011, 1015-1017 شورش کاشمیری مولانا شوکت علی 10,799,815,822 شہدائے احمدیت سکائش نوجوان کی قبول احمدیت حضرت سلیمان علیہ السلام 294,413,414,537 سليشيا ہومیو پیتھک دوا سلیم اختر چوہدری سندھ 1015 111, 112 حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد شیخو شغاری شودر 447 چوہدری شاہنواز شدھی 274,310, 311 849 161-168, 170, 222, 1017, 1018 201 263 118, 119 74, 136, 218 153 549,657,728-722 290, 291 919 1023 مرز ا شیر علی کیپٹن شیر محمد لاہور شیخو پوره شیعه مت 437-440, 442 745 495 537 سوئٹزرلینڈ سورتہائے قرآن سورہ جمعہ سوره که سوره نوح سورہ النمل
504 491 765 890 1005 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 15 ,367,396 ,428,309,323,361,363 طارق بن زیاد 400-402, 417, 462-467, 468, 506-509-512 صابر صدیقی روسی زبان کے ماہر 622 ڈاکٹر طارق حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃالمسیح الرابع آپ کا ایک کشف نظام جماعت اور ذیلی تنظیموں سے گہرا تعلق آپ کی ردیا کہ میں حمید الرحمن بن گیا ہوں تحریکات حضرت خلیفہ اسیح الرابع صبر اور تو کل 878 صبر کے انعامات 873-875 صابرین کیلئے خوشخبریاں 879 صحابه رسول علی رسول 129,392438,460,749,856,881 ایک صحابی کا قیامت کے بارہ میں سوال کرنا 881 مراتب صحابه 392 صحابہ کی وفاداریاں 683 صحابہ کا ناجی فرقہ کے بارہ میں سوال کرنا 266 نواب صدیق حسن خان قاری صفدر علی ڈاکٹر صلاح الدین صليب 310 95 1023 96, 98, 99, 101, 334, 335, 824, 830 ض جنرل ضیاءالحق سابق صدر پاکستان 111, 242, 555,678.691 Typist کا وقف کرنا مبلغ بننے کی تحریک پرنٹنگ پریس کی تحریک تراجم قرآن کی تحریک سندھ میں وقف عارضی کی تحریک یورپین مشنز بنانے کی تحریک 8 ذیلی تنظیمیں ایک اجلاس قیام نماز کے بارہ میں کریں 650 826 741 622 1015 دورہ جات حضرت خلیفہ اسیح الرابع دورہ سوئٹزرلینڈ دوره سپین دورہ اٹلی دورہ یورپ حالات و واقعات پانچ نئے مراکز کا افتتاح آیا طاہرہ صدیقہ نا صر صاحبہ ظ حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان 897 826-815 826-815 826-815 848-831 834-831 870 213, 220, 233- 236,368, 745, 749-759, 765,768,918 b
16 مولوی عبدالاحد خانپوری مولوی عبدالرحمن قریشی عبدالرحمن سکھر عبدالرحمن معاویہ اندلس کا پہلا اسلامی حکمران حضرت بھائی عبدالرحمن قادیانی عبدالستارخان پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام عبدالصمد غزنوی عبدالعزیز قریشی حضرت عبدالقادر جیلانی عبدالقدیر آف قادیان حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی شیخ عبدالله حضرت عبد اللہ بن عمر و 355 95 543 504 298, 299 827 822 353 527 309,379,399 847 297 208 460 153 154, 155, 156, 182 871 233 311,535 217, 219 1023,982 337 309 225-22 201 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 تحریک آزادی کشمیر کیلئے آپ کی خدمات صاحبزادہ مرز اظفر احمد مولوی ظفر علی خان مولوی ظل الرحمن 153, 156, 194, 209, 210, 343,466 165 527 324 31 عارف احمد قریشی مولانا عاشق الہی عاصم بن عمر و عالم اسلام 22, 58, 59, 61, 88-90, 106, 109, 115, 117, 124, 147, 177, 205, 206, 211, 215, 220, 222, 234-242, 272, 276, 285, 291, 293, 310, 336, 339, 341, 369, 370, 375, 497, 504, 506, 509-512, 523, 690 58 88 مولانا عبدالباری یہ پروپیگینڈا کہ احمدیت عالم اسلام کیلئے خطرہ ہے عالم اسلام اور مغربی طاقتیں جماعت احمدیہ کا عالم اسلام کو درپیش خطرات میں کردار 205 عبدالمجید سالک خان عبد الحمید خان عبدالحمید کاتب 241 223 ناموس رسالت اور عالم اسلام کی ذمہ داریاں عامر حمیر در ویش عبادات 2, 29, 41, 110, 128, 203, 367, 440,471- 481, 529, 531, 543, 589, 710- 714, 721, عبدالرزاق شهید نواب شاہ جنرل عبدالعلی ملک ,765,829,886-899,903,912,926,930 حضرت شہزادہ عبداللطیف شہید عبداللہ العمادی عبداللہ محمد العریب 941, 942, 951, 962-974, 981, 985, 990, 503,507,508 1002, 1005 عباسی حکومت
عیسائی رعیسائیت انصاری 17 354,416 7, 94-107, 109, 111, 112, 119, 121, 122, 139, 339, 387, 525, 619, 633, 747, 825, 562 231,511, 523 889 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 قاضی عبید اللہ مدراسی عبدالحمید چوہدری عراق عرب 30-32, 74, 75, 100, 133, 142, 145, 146, عیسائی مشنری 95, 103, 109, 1011 ساری دنیا کی عیسائیت کی جان اٹلی میں ہے ,239,259 ,231-238 ,221 ,211 ,20710 | حضرت عیسی علیہ السلام 825 98, 101, 102, 119, 304, 307, 326, 327, 332, 354, 355, 374, 376, 570, 571, 747, 748 300, 445, 446, 505, 597, 637, 678, 690, 691, 731, 732, 763, 788-792, 802, 807, 808, 887, 960, 985 262 260, 265, 1023 825, 835-837, 839, 840, 842, 844 غ غازی محمود غانا غرناطه غلام احمد پرویز 219 عرفان رشدی عطاء اللہ شاہ بخاری 75, 115, 117, 118, 136, 193, 196, 215, 251 580 مرزا عطاءالرحمن ڈاکٹر عقیل بن عبد القادر شهید حیدر آباد 656,549535 365 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود علیہ السلام 18, 38, 39, 45, 49- 53, 57, 58, 62, 65, 66-88, 94-102, 119, 121-142, 145, 155, 170, 174, 175, 197, 198, 238, 252-257, 269, 272, 274, 277, 278, 281-326, 333, 338, 339 342, 345, 352, 356, 357, 374, 375, 376, 379, 385-389, 394, 395, 396, 401-404, 407, 414, 429, 430, 432, 434, 438, 441, 442, 472, 482, 487, 488, 489, 498, 500, 554, 559, 596, 598, 599, 600, 608, 609, 613, 614, 615, 617, 621, 624, 643, 648, 655, 656, 664, 696, 701, 714, 721, 751, 759, 763, 768, 769, 784, 795, 260-250 274-266 95 علماء پاکستانی علماء کا پاکستان کیلئے کردار علماء هم آثار میں بیان شدہ خدشات کا ذکر پادری عمادالدین حضرت سید نا علی کرم اللہ وجہہ علی الخیاط آفندی 267,307,397,402, 451,462,879 231 848 526 چوہدری علی احمد بی اے بی ٹی علی روجرز صاحب آف سیرالون حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ 30, 31, 282, 300, 856
19, 272, 625 223 18 فتح اسلام فتح تو رانی حضرت چوہدری فتح محمد سیال اشاریہ خطبات جمعہ 1985 801, 839, 845, 862, 864, 868, 869, 877, 879, 885, 909, 926, 927, 928, 929, 930, 931, 937-949, 955-961, 967, 968, 978, 980, 990, 1008, 1013 260,918 437-435,442 342-324 فرائیڈے دی ٹین تھ فرانس 342-324 327-325 10, 11, 12, 88, 506, 831, 832, 833, 834, 835 332-326 290-287 فرعون 297 174, 304 79, 280, 281, 283, 373, 376, 377, 378, 546, 299 590, 596, 598, 599, 628, 629, 632, 639, 322 996,997,999 290 216 260 265 180 مرز افضل احمد فرقان بٹالین فرنگی محل فرید الیس جعفری 208 1023 208 مسلم مشاہیر کی نظر میں آپ کا پر شوکت کلام علم کلام میں آپ کا مقام جہاد کے فتاوی نزول کی حقیقت خاندانی حیثیت توکل علی اللہ جری اللہ فی حلل الانبياء سیرت و اخلاق مرز اغلام مرتضی غلام حسن خان چوہدری غلام حید ر آف بہاولپور مرز اغلام مصطفیٰ غیر مسلم کسی کو غیر مسلم مظہر انے کا حق کسی انسان کو نہیں دیا گیا 352 فرینکفرٹ ٹھہرانے 10, 791, 799, 800, 803, 805, 806 میاں فضل حسین فلسطین 153 116, 193, 213, 219, 220, 222, 223, 224, 288,290 231, 232, 233, 234, 241, 511, 763, 764, 847 353 فلسطین کی تحریک اور جماعت احمدیہ کی خدمات 222-226 95 315 سی جی فنڈر پادری فنڈر کی اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی 370-352 فاخرالہ آبادی فارسی الاصل فتاوی حضرت مسیح موعود پر تکفیر کا فتویٰ فتاوی تکفیر مختلف مکاتب فکر کے ایک دوسرے کے خلاف فتاوی تکفیر 352-370
925, 928, 930, 936, 937, 940, 945, 952, 958, 959, 962, 967, 969-974, 977, 979, 981, 983, 987, 991-998, 1002, 1021 891 2 456-453 193, 194 899.907 904 907-906 910 911 916 458 264 295,294 591 294 316 حکیمانہ کلام قرآنی اسلوب 19 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 ق قائد اعظم محمد علی جناح 191, 196, 217, 367, 512 قادیان 52, 79, 94, 97, 98, 105, 121, 152, 162, 163, قرطاس ابیض بھٹو دورحکومت کے واقعات ,187 186 185 1168,171,179,181,184 قرطاس ابیض کے اعتراضات دیکھئے زیر عنوان اعتراضات بر سلسلہ احمدیہ 188, 224, 283, 284, 292, 297, 317, 340, 401, 430, 466, 756, 778, 864, 867, 893, 1017, 1018, 1019, 1023 حضرت مولوی قدرت اللہ سنوری قدسیه یوسف آف لندن قرآن کریم 812 871 5, 21-26, 37, 39, 40, 60, 64, 68, 72, 98, 102, 119, 125, 128, 132-135, 142-144, 157, 164-167, 174- 175, 204, 205, 206, قول سدید تقومی اور قول سدید سدید کے معانی نصیحت اور قول سدید قول سدید اور لین دین کے معاملات میاں بیوی کے معاملات اور قول سدید احمدی معاشرہ میں قول سدید کی اہمیت ,267 ,251 ,247 ,246 ,236 ,218 قومی اسمبلی 74ء کا فیصلہ جماعتی سچائی کا نشان 272, 275, 280, 281, 284-286, 291, 295, 304, 306, 307, 316, 326, 327, 331-333, 344, 348, 350, 352, 356, 362-379, 384, 385-414, 423, 428, 450, 470, 478, 492, ,549,556 ,493503082430-537 | کانڈے بورے آف سیرالیون 557, 564-624, 628, 629, 634, 635, 639-652,657, 660, 662, 664, 665, 671, 672-679, 685, 686, 696, 700, 702, 703, 711, 713-721, 728, 730-735, 742, 745, 747, 751, 754, 755, 762, 787, 792, 816, 823, 825, 839, 842, 852, 855, 856, 858, 868, 869, 871-877, 884, 886-891, 895, 89- 901, 904, 908, 909, 912, 913, 920, 922, کتابیات بائیبل اور قرآنی تعلیم کا تقابل سلاطین کتب تفسیر وحدیث الاتقان في علوم القرآن
20 20 86 131 101,288, 304, 307, 353 100 تحفہ گولڑویہ حقیقة المهدی حقیقۃ الوحی سچائی کا اظہار 401 289,282 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 تفسیر احسن التفاسير تفسير الخازن 407,406 282, 284,289 316, 408,409 19 402 72, 78, 286, 288 99 72,98 132,130 388 یح اسلام قادیان کے آریہ اور ہم 409 415,282 کتاب البریه کرامات الصادقین کشتی نوح گورنمنٹ انگریزی اور جہاد 403 285,282 تفسیر تفہیم القرآن تفسیر جلالین تفسیر حسینی تفسیر روح المعانی تفسیر صافی تفسیر فتح القدير 409 402 تفسیر کشاف تفسیر لوامع التنزيل مجموعه اشتہارات جلد دوم 414 415 128 128 297,139 951,948,944,48 98 99,357 940 نسیم دعوت دعوت نور الحق نور الحق ملفوظات جلد اول ملفوظات جلد سوم ملفوظات جلد چهارم ملفوظات جلد پنجم تفسیر مسیح موعود تذکرہ مجموعہ الہامات 405, 406 102, 103 357 131,300, 587,957 266 تغیر نسلی تفہیم القرآن معافی القرآن ابوداؤ د سنن بخاری، جامع صحیح جامع ترمذی 268 268 سنن بیہقی کنز العمال 462 937,240 174,385, 386, 434, 598, 87 675 مرقاة المفاتيح مسلم، جامع صحیح مسند احمد حنبل 45,340, 344,438, 446, 472, 559, 648, در نمین 267 938, 963, 987, 990, 999 140 622 297 298,296 299 472,687, 797 284,296 164 233 تفسیر کبیر سیرت مسیح موعود اصحاب احمد جلد چہارم اصحاب احمد جلد نهم کلام محمود سيرة المهدی کارزار شدھی مجلة التقوى مشكوة کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آئینہ کمالات اسلام 20 97, 101, 327, 345 99 294, 295, 591 285, 304, 378, 386, 499 146 500 132 اربعین ازالہ اوہام اعجاز احمدی براہین احمدیہ حصہ پنجم براہین احمدیہ بركات الدعا تجلیات الہیہ تحفہ قیصریه
255,256 194,845 310 361 423 420 185 212,258 402 420, 547, 833,968 114-117 362 408 136 176, 177 370 195,194 جواب شکوہ چمنستان حج الكرامه حسام الحرمین حسنات العارفین حفظ الایمان حیات محمد علی جناح خطبات مودودی در نجف دیوان غالب رپورٹ تحقیقاتی عدالت رجوم المذنبين ر در المختار علی در المختار رساله شیخ سنوسی رنگیلا رسول روئیداد جماعت اسلامی رئیس الاحرار سرگزشت سوانح احمدی سوانح حیات بخاری شرح فصوص الحکم شہادت قرآنی عقائد وہابیہ علم الكتاب فتاوی الحرمین فتاوی ثنائیہ فتاوی حائری فتاوی حرمین فتوح الغیب فتوحات مکیہ فتوی در تکفیر قادیا نیت اسلام کیلئے سنگین خطرہ 153-157, 160, 182, 237 71 458 311,307 77 360 306, 307 361 365 364 360 309 306 355 336,291 21 136 325.324 134, 326 421 365 362 134 143, 144, 145 398 310 178-176 361 361,360 414,404 643 138 289 643 74 308 309 361,360 159 421 297 399 324,325 361 318 277 402 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 احمدیہ تحریک ارواح ثلاثہ اسباب بغاوت ہند اصدق الرؤيا اظہار مخادعت مسیلمہ قادیان اعلیٰ حضرت بریلوی کا فتوی الاقتصاد في مسائل الجهاد الجہاد فی الاسلام الحجميد المقل الخير الكثير رساله ورتمان السيف المسلول الصوارم الہندیہ العطايا الاحمديد في فتاوی نعیمه البهامی گرگٹ ام القری مکہ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا بازاری تمسخر باقیات اقبال بحار الانوار بهجه الاسرار تاریخ دیوبندیہ تبرکات آزاد تذکره حسن تذكرة الائمة تذكرة الجليل تذكرة الرشيد تعد میں الاصول تعطیر الانام تنقیحات مودودی جلاء العيون
22 22 Islam Under The Arab Rule142 Lord Laurence's Life94 Medieval India Under Mohammadan Rule289 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 قادیانیت 250,252,253,281,283,287,293 294, 310, 327, 394 قرطاس ابیض Report on Christian Churches 104 Romeo and Julit821 53, 79, 93, 124, 149, 175, 249, 250, 252, 253, 256, 259, 262, 263, 267, 303, 314, 319, 321, 322, 374, 450, 451, 454-456, The Mission94, 95 465, 487-489 Welt Bewe Gende Macht Islam105 323 قیصر التواریخ اخبارات ورسائل 187 کاروان سخت جان 259 233 340,285 233 اخبار اتحاد اخبار الانباء اخبار بدر قادیان اخبار الزمان اخبار زمیندار 1880922 ,187 ,169 ,168 ,5 275 کتاب الاملاء 75 کتاب عطاء اللہ شاہ بخاری 400 گلدسته کرامات 314 380 74 254, 259, 260, 262, 269, 270, 285, 292, 344, 466, 516, 517, 518, 519, 645, 916, 79 لائف آف محمد مثنوی مولوی معنوی مجموع لیکچرز دہلوی مجموعه لیکچرز دہلوی 461 1011, 1016 166,163 269 259,258 233 225 259,181 178 259 273,272,259 182, 183, 942 343 109 121, 254, 340 259 259 اخبار الفضل اخبار اليوم اخبار انقلاب اخبار بیروت اخبار زمزم اخبار سیاست اخبار گوروگھنٹال اخبار مدینہ اخبار مستقل اخبار ملاپ اخبار منادی اخبار نئی دنیا اخبار وکیل اخبار اہلحدیث 256 190, 191, 257 160 364 219 135 مختصر سیرت رسول مسدس حالی مسلمان اور سیاسی کشمکش مسلمانان ہند کی حیات سیاسی مسئلہ نکاح شیعہ وسنی کا فیصلہ معرکه حق و باطل مقالات شبلی 119 398 141 315 134 134 361-365 126 منوسمرتی مواعظ نعیمه موج کوثر میزان الحق نصرت الابرار نصرت الابرار وہابیہ عقائد ہندوستان کی پہلی تحریک تنظر اخبار تعظیم Freedom Movement in Kashmir208
اشاریہ خطبات جمعہ 1985 اخبار طوفان اخبار مدینہ اخبار مستقل اخبار مشرق اخبار ہمدم البشیر اٹاوہ البلاغ الندو انقلاب بيروت المساء پاکستان ٹائمنر پندره روزه طوفان ترجمان القرآن تہذیب نسواں رسالہ اشاعۃ السنہ 23 178, 180 191,466, 467 232 مسلم آؤٹ لک نوائے وقت هائية الامم المتحدة کراچی 259 259 259 259 259 195, 201, 326, 364, 366, 459, 490, 491, 254 497, 544, 552, 553, 554, 558, 766, 767, 458 918, 1015 827,840 106 مولا نا کرم الہی ظفر پادری کر یمر 82,83 182 235 265 81 179-183, 193, 194, 208, 213, 214, 215, 463,464 216, 222, 265, 693, 1019 343 رساله البیان 75, 133, 285, 326, 354 233 آزادی کشمیر 214 تحریک آزادی کشمیر اور جماعتی خدمات کشمیر کانفرنس رساله العربي رساله الفتح 337,233 218 کشمیر کمیٹی 225-22 194 182 رسالہ چٹان 218,74 | خانہ کعبہ رساله حکایت رسالہ حنیف رسالہ قائد اعظم رسالہ لاہور رضوان لاہور روزنامه جدید دون کفر اور دون ایمان کی اصطلاح ڈاکٹر کلارک کلکتہ روزنامه جنگ سول اینڈ ملٹری گزٹ شمس الاخبار شیر پنجاب طلوع اسلام قومی ڈائجسٹ لولاک 554 211, 401, 419, 420, 524, 684, 732, 830 219 259 216 347 182 100 364 110 195 112 77 155, 156, 238, 242, 395, 497, 538, 539, 95 540, 541, 723, 724, 725, 1020 70 238 497 723 کلمہ طیبہ کی حقیقت 22 کلمہ طیبہ کی خدمت اور پاکستان سارے عالم اسلام کا مشتر کہ کلمہ کلمہ طیبہ کے دشمن 195,213 62
96 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 کلمہ طیبہ اور احمدی 24 24 239-237 | لداخ 194,296, 298 لدھیانہ لقائے الہی 276, 479, 480, 481, 956, 957, 963, 969 473-469 82, 161, 253, 323, 337 رمضان المبارک اور القائے الہی لکھنو لندن 21, 35, 49, 67, 84, 93, 97, 123, 142, 149, 173, 193, 203, 227, 245, 262, 279, 290, 303, 321, 347, 373, 391, 449, 469, 487, 489, 503, 529, 551, 563, 583, 605, 627, 641, 642, 643, 650, 655, 669, 689, 707, 729, 736, 737, 745, 765, 831, 832, 851, 871, 873, 881, 899, 919, 933, 951, 971, 102, 103 869 534-529 991, 1007 بشپ لیفرائے لیسا لیلۃ القدر کے مضامین 240 605,653 692, 892 452 791 195,250 105 108 810 9,425,435, 491, اسامہ بن زید کا ایک کلمہ گو کوقتل کر دینا کمپیوٹر مولوی کوثر نیازی کولن جسٹس کیانی کیلر ہال ( مستشرق) ڈاکٹر کیمپس گر مہاتما گاندھی 210 209 157,158-154 13153 گجرات گلاسگو مشن ہاؤس کا افتتاح گنگوہ 218 420 430-425 742 96385624 لینن گراڈ گوجرانوالہ 740 506 ماریشس مالکی علماء اسلامی حکومتوں کے تباہ کرنے میں ان کا کردار مالی قربانی 5, 526, 614, 615, 618, 619, 620, 651, 851, 852, 853-858, 862, 864, 865,901, 1019 94 لارڈ لارنس لاہور 2, 74, 77, 80, 81, 110, 113, 115, 121, 134, 136, 138, 156, 178, 181, 186, 193, 196, 209, 217, 218, 219, 256, 265, 269, 271, 274, 343, 421, 437, 757, 764, 766, 903, 918, 931
676,760 116 704,697 849,847 180,398 141 310 85,461 71, 134, 136 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 حضرت سیدہ نواب مبارکہ بیگم مالیر کوٹلہ مبارک احمد قریشی محبت الہی محبوب الرحمن مولا نامیرمحبوب علی محسن شاہ ایڈووکیٹ 299 187 527 432, 924, 960, 961 165 325 180 25 25 رحمۃ للعالمین محمد احمد قادری قریشی محمد اسلم شہید مربی سلسلہ چوہدری محمد اسلم مولوی محمد اسماعیل شیخ محمد اکرام محمد بن سیرین محمد بن عبدالوہاب حضرت سیدنا محمد مصطفی احمد مجتبی علی محمد جعفر تھا نسیری 11, 22, 26, 29, 33, 35-45, 65-68, 95, 98, 421 ,147- 137,141 ,131-132 ,119-122 ,1101103 محمد حسن دیوبندی مولوی محمد حسین بٹالوی 5, 76, 80, 100, 120, 133, 136, 285, 325, 353 156, 166, 167, 170-179, 190, 201, 203, 204, 228, 229, 230, 237, 239, 240-247, 251, 254, 255, 266, - 278, 282, 287-291, 300, 304, 307, 313-319, 331-336, 348, 223 365 1023 1023 821 367 1023 1023 76 115, 196 324 ,375-377 ,352,356,362,364 350 349 محمد خالد مسارو 385-390-393, 396-408, 413-429, 431, 432, 438, 439, 443-446, 451, 457- 467, 470-474, 481, 482, 504, 519, 530, 534-542, 546-549, 569-578, 584-588, 591, 598, 603, 608, 609, 613, 627- 644, 665- 667, 672-679, 683, 684, 687, 696, 697, الحاج محمد داؤد حکیم محمد دین قادیان محمد سرور وہاڑی محمد شریف مبلغ اٹلی ,734,749 ,0914,724,728,731,733 | مولوی محمد صادق 750, 753, 769, 813, 823, 824, 828, 830, 839, 845, 846, 854-862, 869, 873-879, چوہدری محمد صادق آف جھنگ ,921-926,930 ,909 ,904 ,881,898,901 | صاحبزادہ محمد طیب ,968 ,967 ,946-955 ,1935338939 منشی محمد عبد اللہ محمد علی جالندھری محمد قاسم نانوتوی 230 166 974, 981, 982, 989-1002, 1021 اسوہ حسنہ خاتم النبيين
236 100, 241, 314, 595, 732, 939 26 26 شیخ مخلوف مدینہ منورہ مذہب / مذاہب 31, 37, 45, 54, 70,75, 76, 82, 96, 97, 104, 107-109, 119, 125, 131, 135, 139-142, 161, 166, 176, 196, 204, 216, 229, 261, 270, 309, 322, 335, 340, 341, 351, 358, 362, 389, 402, 458, 472- 475, 481, 506, 516, 521, 569, 576, 585-592, 629, 630, 634, 636, 671, 672, 727, 740, 742, 776, 792, 838-841, 888-891, 900, 925, 1013 160 903 194 364 223 110 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 مرز امحمد دہلوی حضرت حکیم محمد حسین مرہم عیسی خواجہ محمد یوسف مولوی محمد یوسف بنوری قاضی محمد عبد العزیز محمد ہارون حضرت مرزا بشیرالدین محموداحمدخلیفۃالمسیح الثانی 5,46 179, 180, 181, 183, 214, 215, 225, 231, 292, ,393,395, 407, 429, 432, 472, 600, 624, 756, 757, 596,762, 780, 810, 812, 832, 834, 862, 918, 1007, 1008, 1009 787 113 126 223 189 مذہبی تاریخ 130756364 مذہبی تحریک 1141495 مستشرقین مستشرقین پیدا کرنے میں ہالینڈ کا کردار مسجد شہید گنج مسعود عالم ندوی مسلم انویٹیشن کمیٹی مسلم نیشنلزم مسیح موعود نیز دیکھئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی 20, 147, 321, 391, 446, 547, 548, 549, 869, 938, 946, 949, 968 264 مصطفیٰ سنوسی آف سیرالیون مکہ معظمہ 98, 100, 128, 137, 138, 241, 291, 314, 360, 595, 726, 734, 830, 878 515 مشرقی پاکستان 674, 212, 225, 235, 259, 280, 30 165 423 764 289 366,367,368 383-381 668 419 827,835,836,837 223 مطیع الرحمن خواجہ معین الدین چشتی صاحبزادہ مرزا مظفر احمد مغلیہ خاندان مولوی مفتی محمود احمد میجر محمود احمد شہید شہادت کا تذکرہ چوہدری محمود احمد شہید مولوی محمودالحسن سید محمود احمد ناصر محمود صالح
306 180 9,806, 834 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 ملاعلی قاری ملا سگ الله 27 27 461 خواجہ میر درد 2, 20, 65, 170, 319, 333, 400, 401, 408, 593, 617, 634, 635, 787, 788, 791, 803, 804, 805 میرک شاہ میونخ فرشتے پاک دلوں کو احمدیت کی طرف کھینچ کر لا رہے ہیں 20 مسیح کا دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر نازل ہونا 3 23 علامہ النابلسی ہاروت و ماروت 400 فرشتوں کا خلق انسان پر اعتراض کرنا 634 ملائيشيا ملت اسلامیہ ملتان 512 149, 183, 348 81, 251 ناجی فرقہ صحابہ کا ناجی فرقہ کے بارہ میں سوال کرنا حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ امسیح الثالث 318 266 822 57, 58, 187, 267, 526, 821, 825,925 شیخ ناصر احمد سوئٹزرلینڈ 1023 799 260, 262-264 316 561 1017 38 82, 83, 253, 260 848 1023 919 26 26 ملک الموت فرشتہ کے بارہ میں مختلف عقائد سید ممتاز علی منصور احمد خان (وکیل التبشير ) ڈاکٹر منصور الہی مولا نامنیر الدین شمس جسٹس محمد منیر پنڈت موتی لال مورخ 418 343 821 844 1023 191, 195, 213 194, 195 22, 141, 178, 315, 512, 753, 829 حضرت موسیٰ علیہ السلام ناصر احمد ملیی ناصر باغ جرمنی نائیجیریا نبوت نبی سر روڈ ڈاکٹر نثار احمد مورانی نجدی فرقه ندوة العلماء شیخ نذیر احمد اوکاڑہ نذیر احمد نگلی ,556,567,568,596 ,279,281,282,420 | رانا نذیر احمد ڈپٹی نذیر احمد 76, 133 598, 599, 628, 795, 998 مہدی سوڈانی
اشاریہ خطبات جمعہ 1985 نذیر حسین دہلوی نزول کی حقیقت 28 326,354, ذیلی تنظیمیں ایک اجلاس عاملہ نماز کے بارہ میں کریں 326, 327, 329, 330, 331, 332, 334, 354, 426, 470, 530, 585 قرآن میں نزول کے معانی 327 622 نظام جماعت نعمت اللہ خان شهید 897 885,890 756 حضرت نوح علیہ السلام 496501 495 65304 نور محمد نقشبندی 102, 120 حضرت مولانا حکیم نورالدین خلیفة المسح الاول 55, 185, 194, 195, 210 527 643 189, 190, 313,342 جواہر لال نہرو نیروبی نیویارک 262 870 510,508 165 298 نستعليق نستعلیق کتابت کیلئے کمپیوٹر کی تحریک مولا نانسیم سیفی پروفیسر نصیر احمد خان نصیر الدین طوسی قاری نعیم الدین حضرت میاں نظام دین نماز صلوة وائیٹ پیپر 28141 نیز دیکھئے قرطاس ابیض واقفین 12, 201, 216, 297, 354, 355, 359, 364-367, 408, 420, 427, 447, 527, 546, 549, 561, 442, 781, 782, 834, 840, 841, 842, 1010, 1015, 1018 562, 580, 581, 668, 676, 704, 755, 764-765, 769, 774, 777, 797, 798,817, 1023 ,903 ,880-898 ,18819,822,847,848,870 وزیر بی بی اہلیہ چوہدری رشید احمد خان ,951-969,972-990 ,904,918-926,930-945 | وطن خلافت احمدیہ کو خدا کی حمایت کا وطن حاصل ہے 681 وقف جدید 992, 100-1008, 1023, 1024 883 881 1, 5, 69, 1007, 1008, 1011, 1012, 1013, 886 1014-1019, 1021, 1022 890 73, 139, 141 821,843 قیام نماز کی ضرورت قیام نماز اور غلبہ احمدیت قیام نماز سے فتح ممکن ہے قرآن میں سب سے زیادہ زور نما ز پر ہے جماعت احمدیہ کا اہم کام نماز کا قیام ہے توحید خالص اور قیام نماز 895,891 ملکہ وکٹوریہ 927-919 وكيل التبشير
29 29 365 81,84 242,466,690 | حضرت یعقوب علیہ السلام 411 شد یروم 241,294 یورپ 6, 7, 63, 74, 103, 104, 105-110, 250, 259, 264, 313, 435, 501, 551, 737, 739, 742, 781, 799, 822, 824, 831, 832, 838, 842, 864, 908, 914, 915 286-284 309 308 742 1023 489 اشاریہ خطبات جمعہ 1985 ولی حسن ٹونکی وہابی تحریک وہابیت وہاڑی ہادی علی چوہدری ہالینڈ ,783 ,781,782 ,776-779 ,107,773 ,116 حضرت یوسف علیہ ال 784, 787-789 مستشرقین پیدا کرنے میں ہالینڈ کا کردار نئے جماعتی مرکز کا افتتاح ہلاکو خان ہند واقوام ہندوستان 787 یوسف بن جریر 780-771 | يوسع 507, 509, 510 1009 یوگوسلاویہ یہود یہودیت 224, 229, 230, 254, 255, 256, 267, 274, 353,999 ایک یہودی کا جنازہ دیکھ کر حضور ﷺ کا کھڑے ہو جانا 230 ایک یہودی بچہ کا وفات کے وقت حضور اللہ کا چہرہ دیکھنے کی خواہش کا اظہار کرنا 230 69-74, 81, 84, 93-97, 100-103, 110, 114, 116, 117, 118, 126, 127, 133, 134, 137, 139, 151, 15-162, 168, 176-179, 185, 206- 210, 217, 218, 222, 253, 259, 260, 289, 290, 323, 340, 341, 343, 360, 473, 514, 753, 756, 757, 864, 867, 1009, 1017-1020 189 260, 742 1014 9, 799, 805, 834 107-109 ہندوستانی نیشنلزم ہنگری ہومیو پیتھی ہیمبرگ ڈاکٹر ہیومن