Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعه ۱۹۸۴ء فرمودة سیدنا حضرت مرزا طاہراحمد علی مسیح الرابع رَحِمَهُ اللهُ تعالى ع جلد 3
نام کتاب اشاعت خطبات طاہر جلد 3 طبع اول (جولائی 2005ء)
صفحہ نمبر 1 15 35 49 49 65 69 83 13 / جنوری 1984ء 20 جنوری 1984ء م 27 جنوری 1984ء 3 فروری 1984ء 10 فروری 1984ء 17 فروری 1984ء نمبر شمار خطبہ جمعہ 1 ۲ ۵ ۶ فہرست خطبات عنوان 6 جنوری 1984 ء وقف جدید کے سال نو کا اعلان اور عرب قوم سے محبت اور دعا کی تحریک اللہ تعالیٰ کی صفت عفو صفت ستاری اپنانے کی تلقین غیبت اور چغل خوری سے پر ہیز سورۃ الھمزہ کی تفسیر اور پیشگوئیاں خدا تعالی کی صفت تو ابیت حضور کے تین رؤیا نیز زور دعا کے لوازمات ۸ 24 فروری 1984ء اسلامی احکامات میں رخصت و رعایت کا نظام ۹ 2 / مارچ 1984ء 1.9 مارچ 1984ء صفت غفار اور آنحضرت ﷺ کا استغفار اللہ تعالیٰ کی صفت غفار اور استغفار کی حقیقت 11 16 / مارچ 1984ء اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم ۱۲ 23 / مارچ 1984ء اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم ۱۳ 30 /مارچ 1984ء واقفین زندگی کی ضرورت اور صد سالہ جو بلی فنڈ کی ادائیگی کی تلقین ۱۴ 6 اپریل 1984ء جماعت کی دعاؤں کی تلقین ۱۵ 13 را پریل 1984ء صبر وصلواۃ کی تشریح اور ثمرات 17 20 اپریل 1984ء امر بالمعروف نیز منافقت کے خلاف جہاد 1 4 مئی 1984ء من انصارى الى الله ۱۸ 11 مئی 1984ء انبیاء کا مخالفین کے مقابل پر دعا کا ہتھیار 97 97 119 121 131 147 157 173 187 199 215 229 239
نمبر شمار خطبہ جمعہ ۱۹ ۲۰ ۲۱ ۲۲ 18 رمئی 1984ء عنوان پاکستان میں مخالفت اور احمدیت کی ترقیات 25 رمئی 1984ء احمدیت کی مخالفت میں عالم اسلام کی حالت اور دعا کی تحریک 1 / جون 1984ء پاکستان میں جماعتی حالات اور افضال الہی کی بارش الہی جماعتوں کو پیش آنے والے ابتلاؤں کا فلسفہ صفحہ نمبر 253 269 281 297 311 323 335 349 363 375 393 409 427 443 459 473 491 511 523 535 ابتلا میں احمدیوں کی قربانی 8 جون 1984ء 15 جون 1984ء 22 جون 1984ء ليلة القدر کی لطیف تفسیر 29 جون 1984ء تحریک مراکز یورپ و امریکہ پر والہانہ لبیک 6 جولائی 1984ء اللہ تعالیٰ کی صفت قوی اور عزیز 13 جولائی 1984ء مخالفت اور ابتلا میں احمدیوں کا جذ بہ قربانی 20 جولائی 1984ء جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈینینس پر تبصرہ ۲۳ ۲۴ ۲۵ ۲۶ ۲۷ ۲۸ ۲۹ ۳۰ 3 /اگست 1984ء 27 جولائی 1984 ء مخالفین انبیاء کا بندش تبلیغ اور قتل مرتد کا مطالبہ اسلامی شعائر اختیار کرنے کی سزا کا قانون ۳۱ 10 راگست 1984ء ابتلا میں جماعت کی مالی قربانی اور صبر کے نمونے ۳۲ 17 اگست 1984ء شرعی عدالت کا فیصلہ ۳۳ 24 راگست 1984ء دنیا بھر میں تبلیغی ثمرات اور افضال الہی ۳۴ 31 /اگست 1984ء شرعی عدالت کی دینی حیثیت ۳۵ 7 ستمبر 1984ء پاکستان میں احمدیوں پر مظالم ۳۶ } 14 ستمبر 1984ء شریعت کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ ۳۷ 21 ستمبر 1984ء نصرت الہی ، احمدیوں کا صبر اور ربوہ سے محبت 1984 28 ۳۸ انفاق فی سبیل اللہ
صفحہ نمبر 553 569 583 599 619 641 663 683 697 709 723 741 755 عنوان نمبر شمار خطبه جمعه 5 اکتوبر 1984ء تخلیق کا ئنات حق کے لئے ہوئی 12 اکتوبر 1984ء سورۃ ھود کی آیت ۱۱۴ تا ۱۲۴ کی تفسیر 19 اکتوبر 1984ء حبل اللہ کا تھامتے ہوئے حالت اسلام پر جان دینا 26 اکتوبر 1984ء تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان 2 /نومبر 1984ء شرعی عدالت کے فیصلہ پر تبصرہ نیز مخالفین انبیاء کی تاریخ 9 /نومبر 1984ء افریقہ کے لئے امداد کی تحریک اور جماعت کی روحانی ترقی کی مثالیں جماعت کی مخالفت اور الہی تائید ونصرت 16 رنومبر 1984ء 23 نومبر 1984ء نیک خیالات کے مطابق اپنے اعمال نیک بنائیں الہی جماعتوں کے مخالفین کا انجام کلمہ توحید کی حفاظت کا عزم جماعت پر لگائے گئے مبینہ الزام کی تردید 30 نومبر 1984ء 7 /دسمبر 1984ء 14 /دسمبر 1984ء 21 /دسمبر 1984ء مخالفین انبیاء کا انجام اور جماعت کا روشن مستقبل جماعت کے خلاف ایک عالمی سازش 28 /دسمبر 1984ء ۳۹ ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۴ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ ۵۱ نوٹ : ۱/۲۷ پریل ۱۹۸۴ کو حضور نے خطبہ جمعہ ارشاد نہیں فرمایا تھا.
خطبات طاہر جلد ۳ 1 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء وقف جدید کے سال نو کا اعلان اور عرب قوم سے محبت و دعا کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: 1984 عیسوی یا 1363 ہجری شمسی کا یہ پہلا جمعہ ہے.سب سے پہلے تو میں آپ سب کو نئے سال کی مبارک باد پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے، ہر پہلو سے یہ سال تمام احمدیوں کے لئے، تمام مسلمانوں کے لئے ، تمام بنی نوع انسان کے لئے مبارک فرمائے اور احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے یہ سال بے انتہا برکتیں لے کر آئے.دستور کے مطابق پہلے جمعہ میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان ہوتا ہے پس اس موقع پر میں دوسرے درجے پر یعنی مبارکباد کے بعد وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں.گزشتہ سال جس طرح خدا تعالیٰ نے ہر شعبہ پر، ہر انجمن پر، ہر ذیلی تنظیم پر بے انتہا فضل فرمائے اور ہر پہلو سے جماعت کا قدم نمایاں ترقی کی طرف اٹھا اسی طرح وقف جدید بھی اللہ کے فضلوں کی وارث بنی اور غیر معمولی طور پر خدا تعالیٰ نے چندوں میں برکت دی اور کام میں بھی برکت دی.چنانچہ چندہ بالغان جو 1982ء میں 7,83,000 روپے وصول ہوا تھا نو لاکھ کے بجٹ کے مقابل پر 1983ء میں 10,07,775 روپے تک پہنچ گیا.گویا گزشتہ سال کے مقابل پر
خطبات طاہر جلد ۳ 2 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۴ء 2,99,383 روپے کا اضافہ ہوا جبکہ باقی چندوں میں بھی غیر معمولی اضافہ ہوا تھا اور وقف جدید کی تحریک کی طرف نسبتا کم توجہ ہوتی ہے، انجمنوں میں سے اسے تیسرے درجے کی انجمن سمجھا جاتا ہے اس لئے عموماً بچا ہوا مال وقف جدید کی طرف منتقل ہوتا ہے، تو یہ اللہ تعالیٰ کی بے حد رحمت ہے اور اس کا کرم ہے کہ غیر معمولی کوشش، غیر معمولی تحریک کے بغیر بھی خدا تعالیٰ نے اس تحریک کی جیب بھی بھر دی اور توقع سے بڑھ کر وصولی ہوئی.دفتر اطفال کا بجٹ 2,15,000 روپے تھا اور گزشتہ سال اس کی وصولی گزشتہ سال سے مراد ہے 1982ء میں اس کی وصولی 1,41,000 تھی لیکن سال گزشتہ 1983ء میں خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ وصولی بھی بڑھ کر 2,20,000 تک پہنچ گئی.اسی طرح دیگر شعبوں میں بھی نمایاں ترقی ہوئی اور کل اضافہ جو گزشتہ سال کے بجٹ کے مقابل پر ہوا ہے وہ 3,94,523 روپے کا ہے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ امسال بھی جماعت اسی طرح قربانی کی روح کا مظاہرہ کرے گی اور وقف جدید کو بھی مالی قربانی میں محض اللہ شامل کرتی رہے گی.وقف جدید کے سلسلہ میں یہ بات ضروری ہے کہ معلمین کی کمی محسوس ہو رہی ہے.بعض علاقوں میں کثرت سے ہندوؤں کا رجحان ہے اسلام کی طرف اور وہاں خاص وقف کی روح وقف کرنے والے مجاہدین کی ضرورت ہے.ہمارے رہن سہن سے ان کا رہن سہن مختلف ہے ، ہمارے حالات اور موسموں سے ان علاقوں کا رہن سہن اور موسم مختلف ہیں اور کافی دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے.بعض دفعہ تو پانی اتنا گندا اور کسیلا اور متلانے والا ملتا ہے کہ وہ پانی پینا ہی ایک بہت بڑی قربانی ہے.پھر علاقے میں سانپ بچھو بھی ہیں، خوراک کی کمی، بعض دفعہ بہت عرصہ تک بارش نہیں ہوتی تو اس کی وجہ سے پانی اور بھی زیادہ گہر ا چلا جاتا ہے اور مہنگا ملتا ہے، بہت قیمت دے کر پانی لینا پڑتا ہے وہاں، تو ان حالات میں وقف جدید کے معلمین محض اللہ بہت بڑی خدمت سرانجام دے رہے ہیں اور خدا کے فضل سے اس وقت تک دوسو سے اوپر گاؤں ایسے ہیں جہاں اسلام داخل ہو گیا ہے اس سے پہلے کوئی وہاں اسلام کا نشان نہیں تھا.وہاں جہاں بت پرستی ہوتی تھی اب خدائے واحد کی عبادت ہونے لگی ہے، جہاں پہلے آنحضرت علے سے کدورت تھی وہاں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا نام لیتے ہوئے آنکھیں نمناک ہوتی ہیں اور درود بھیجا جاتا ہے.تو ایک بہت عظیم الشان خدمت ہے یہ جو
خطبات طاہر جلد ۳ 3 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۴ء وقف جدید نے سرانجام دی ہے اور دے رہی ہے.اس کے لئے صرف روپیہ کافی نہیں بلکہ وقف کی روح رکھنے والے واقفین کی بہت ضرورت ہے.اسی طرح وقف عارضی والے بھی ایسے چاہئیں جو کسی نہ کسی فن میں مہارت رکھتے ہوں اور خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں اور غریبوں کی ہمدردی رکھتے ہوں.ڈاکٹر ہیں اور تاجر ہیں مختلف قسم کے موقع پر جائیں اور دیکھیں کہ ان لوگوں کی کیا مدد ہو سکتی ہے اور کس طرح ان کی دلداری کی جاسکتی ہے اور مؤلفة القلوب کے حکم کی پیروی میں ان کے دلوں کی تالیف کے نئے رستے کون سے ڈھونڈے جاسکتے ہیں.کراچی کے کچھ دوستوں نے وقف کیا تھا چند سال پہلے ان میں بعض سابق حج بھی تھے، بعض ڈاکٹر بھی تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے دورے کا بہت ہی اچھا اثر پڑا ، ان لوگوں میں نیا حوصلہ پیدا ہوا ، وہ حیران ہوئے کہ دنیا کے لحاظ سے اتنے بڑے مقام رکھنے والے لوگ ہم سے کس طرح محبت کا سلوک کر رہے ہیں، ہمارے برتنوں میں پانی پیتے ہیں جبکہ باقی دنیا ان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے تو اسلام کی خدمت کے لئے یہ ایک بہت بڑا موقع ہے.وقف عارضی کے لحاظ سے بھی یہ مزید توجہ کی ضرورت ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ جو واقفین اپنے خرچ پر تنگی ترشی سے گزارہ کرتے ہوئے اور مخالف حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے وہاں خدمت سرانجام دینا چاہیں وہ یہ کہہ کر وقف کریں کہ ہمیں اس علاقے میں بھجوایا جائے.ایک رو چلی ہے امید ہے کہ اگر اسے اور تقویت دی جائے تو بہت جلد سارے ہندو علاقے میں اسلام پھیل سکتا ہے.تیسری بات جو سب سے اہم ہے وہ میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ آج کل عالم اسلام پر ایک بہت بڑا ابتلا آیا ہوا ہے اور خاص طور پر عرب ممالک بہت ہی دکھ کا شکار ہیں.ہر طرف سے ان پر مظالم توڑے جارہے ہیں اور کوشش کی جا رہی ہے کہ عربوں کو دنیا سے نیست و نابود کر دیا جائے.اسرائیل کیا اور مغربی طاقتیں کیا اور مشرقی طاقتیں کیا یہ سارے عربوں کو مظالم کا نشانہ بنارہی ہیں اور ان سے کھیل کھیل رہے ہیں.ہتھیار اس غرض سے دیئے جا رہے ہیں کہ وہ ایک دوسرے کا خون بہائیں اور جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے اس کے مقابل پر کوئی دنیا کی طاقت بھی سنجیدگی سے اُن کی مدد کرنے کے لئے آمادہ ہی نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ یہ ان کے فیصلے ہیں کہ ایسی حالت میں عربوں کو
خطبات طاہر جلد ۳ خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۴ء رکھا جائے کہ ان کا تیل اپنے بچے کھچے ہتھیاروں کے بدلے لوٹ لیا جائے ، ان کی دولتیں سمیٹ لی جائیں اور ان کو ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ کیا جائے.تو انتہائی تکلیف دہ اور دکھ کا حال ہے جو نا قابل برداشت ہونا چاہئے ایک مسلمان کے لئے.جماعت احمدیہ کو میں آج خاص طور پر تاکید کرتا ہوں کہ بے حد درد اور کرب کے ساتھ، با قاعدگی سے عربوں کے لئے دعائیں کریں یعنی ایک دفعہ کی یا دو دفعہ کی دعا کا سوال نہیں بلکہ اس کو التزام کے ساتھ پکڑ لیں.ہر تہجد میں، ہر نماز میں، جہاں تک توفیق ملے یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس قوم پر فضل فرمائے اور رحم فرمائے اور مصیبتوں اور دکھوں سے نجات بخشے اور ہدایت دے اور اگران کے کسی فعل سے خدا ناراض ہے تو ان سے مغفرت کرے عفو کا سلوک فرمائے اور وہ نور جو پہلے ان سے پھوٹا تھا وہ دوبارہ ان میں بڑی شدت کے ساتھ اور قوت کے ساتھ داخل ہو.نور مصطفوی مے کو ساری دنیا میں پھیلانے کا موجب بنیں اور صف اول کی قربانیاں جس طرح پہلے انہوں نے دی تھیں دین اسلام کے لئے آئندہ بھی ان کو دین اسلام کی صف اول میں ہی اللہ تعالیٰ رکھے، پیچھے رہ جانے والوں میں شامل نہ کرے.آنحضرت ﷺ کا عربوں میں سے ہونا ایک اتنا بڑا احسان ہے ساری دنیا پر عربوں کا، اگر چہ بالا رادہ تو نہیں لیکن عرب قوم کا احسان ہے کہ اس میں سے حضرت محمد مصطفی حملے ظاہر ہوئے اور پھر اتنی حیرت انگیز قربانی کی ہے اسلام کے لئے اس قوم نے کہ کوئی نظیر جس کی دنیا میں نظر نہیں آتی.تو پہلے حضور اکرم ﷺ کی بعثت عربوں میں سے اگر چہ بالا رادہ عرب کا احسان نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں ضرور کوئی نیکی اور غیر معمولی خوبی دیکھی تھی جوسید الانبیاء ﷺ کو عربوں میں مبعوث فرمایا اور بعد میں ان کے عمل نے ثابت کر دیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتخاب بہترین انتخاب تھا.پس یہ براہ راست ہمارے محسن بنے ، بالا رادہ محسن بنے جب انہوں نے آنحضرت علی کے پیغام کی تائید کی اور بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کئے گئے لیکن پیچھے نہیں ہٹے اور تمام دنیا کو دیکھتے دیکھتے چند سالوں میں نو را اسلام سے منور کر دیا.آنحضرت علیہ فرماتے ہیں: إِنِّي دَعَوْتُ لِلْعَرَبِ فَقُلْتُ اللَّهُمَّ مَنْ لَقِيَكَ مِنْهُمْ مُؤْمِنًا مُؤْ قِناً بِكَ مُصَدِ قَا بِلقَائِكَ فَاغْفِرْلَهُ أَيَّا مَ حَيَا تِهِ وَهِيَ دَعْوَةُ إِبْرَاهِيمَ
خطبات طاہر جلد ۳ 5 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء وَ اسمَعِيلَ وَ إِنَّ لِوَاءَ الْحَمْدِ يَوْمَ الْقِيَا مَهَ بِيَدِى وَ إِنَّ اقْرَبَ الْخَلْقِ مِنْ لِوَ إِلِى يَوْمَئِذٍ الْعَرَبُ ( کنز العمال جلد ۶ صفحه ۲۰۴) کہ میں نے عربوں کے لئے دعا کی اور عرض کیا اے میرے اللہ ! جوان ( عربوں ) میں سے تیرے حضور حاضر ہو اس حال میں کہ وہ مومن ہے تیری لقا کو مانتا ہے تو تو تمام عمر اس سے بخشش کا سلوک فرما.اور یہی دعا حضرت ابراہیم نے کی ، اسماعیل نے کی اور حمد کا جھنڈا قیامت کے دن میرے ہاتھ میں ہوگا اور تمام مخلوقات میں سے میرے جھنڈے کے قریب ترین اس روز عرب ہوں گے.پھر فرمایا: الْعَرَبُ نُورُ اللهِ فِي الْأَرْضِ وَفَنَا ءُ هُمْ ظُلُمَةً ۚ فَإِذَا فَنِيَتِ الْعَرَبُ اَظْلَمَتِ الْاَرْضُ وَذَهَبَ النُّورُ.( کنز العمال جلد ۶ صفحه ۲۰۴) عرب اللہ تعالیٰ کا نور ہیں اس زمین میں اور ان کی ہلاکت تاریکی کا باعث ہو گی.جب عرب ہلاک ہوں گے تو زمین تاریک ہو جائے گی اور نور جا تا رہے گا تو معنوی لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عربوں کو ہلاکتوں سے بچائے اور ظاہری اور جسمانی لحاظ سے بھی دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ عربوں کو ہلاکت سے بچائے.پھر حضور اکرم ﷺ نے نصیحت فرمائی: أحِبُّوا الْعَرَبَ لِثَلاَثٍ لَا نِى عَرَبِى وَالْقُرُ انُ عَرَبِي وَ كَلَامُ اَهْلِ الْجَنَّةِ عَرَبي ( کنز العمال جلد 4 صفر ۲۰۴) عربوں سے تین وجوہ سے محبت کر واول یہ کہ میں عربی ہوں دوئم یہ کہ قرآن کریم عربی میں نازل ہوا سوئم یہ کہ اہل جنت کی زبان بھی عربی ہوگی.پھر آنحضور علیہ فرماتے ہیں: احِبو الْعَرَبَ وَبَقَاءَ هُمُ فَإِنَّ بَقَاءَ هُمُ نُورٍ فِي الْإِسْلَامِ وَإِنَّ فَنَاء هُمْ ظُلْمَة فِي الْإِسلام ( کنز العمال جلد 4 صفحہ ۲۰۳) کہ عربوں سے بہت محبت کرو اور ان کی بقا سے محبت کرو یعنی کوشش کرو کہ وہ ہر حال میں
خطبات طاہر جلد ۳ 6 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۴ء باقی رہیں اور زندہ رہیں اور دنیا میں ہمیشہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنتے ہوئے جاری ساری رہیں.آپ فرماتے ہیں إِنَّ بَقَاءَ هُمُ نُورٍ فِي الْإِسْلَامِ اگر یہ قوم باقی رہے گی تو اسلام کا نور باقی رہے گا وَإِنَّ فَنَاء هُمْ ظُلُمَة فِي الْإِسْلَام اور ان کے فنا ہونے سے اسلام میں تاریکی آجائے گی.پھر فرمایا: حُبُّ الْعَرَبِ إِيْمَانِ وَ بُغْضُهُمْ نِفَاقِ فين ( کنز العمال جلد ۲ صفحه : ۴۴) عربوں سے محبت کرنا ایمان کا حصہ ہے ، ایمان کی علامت ہے اور نفاق ہے یہ بات کہ عربوں سے بغض کیا جائے.جس کے دل میں منافقت کی رگ ہو صرف وہی عربوں سے دشمنی یا بغض رکھ سکتا ہے.پہنچے گی.پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا: مَنُ غَشَ الْعَرَبَ لَمْ يَدْخُلْ فِي شَفَاعَتِي وَلَمْ تَنَلُهُ مَوَدَّ تِي“ ( ترمذی ابواب المناقب باب مناقب في فضل العرب ص ۶۳) جس نے عربوں کو دھوکا دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہیں ہوگا اور اس کو میری محبت نہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے آقا کی پیروی میں عربوں سے غیر معمولی محبت کی اور محبت کی تعلیم دی اور ان کے لئے بے انتہا دعائیں کیں.چنانچہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کے دل میں بھی وہی جذ بہ جوش مارے، اسی طرح دل گرمائے جائیں عربوں کی محبت میں اور اسی طرح عاجزی اور انکسار اور بے حد خلوص اور جذبہ کے ساتھ آپ اپنے عرب بھائیوں کو دعاؤں میں یا درکھیں.پہلے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عربوں میں بعض لوگ بہت ہی نیک دل اور پاک فطرت اور صلحاء ایسے ہیں جنہوں نے مجھے قبول کیا ہے مخالف حالات کے باوجود اور صدق وصفا میں وہ بہت بڑھ گئے ہیں.چنانچہ آپ نے فرمایا:
خطبات طاہر جلد ۳ 7 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء صَرَفَ إِلَى نَفَرَ امِّنَ الْعَرَبِ الْعُرُبَاءِ فَبَا يَعُونِي بِالصِّدْقِ وَالصَّفَاءِ وَرَأَيْتُ فِيهِمُ نُورَ الْإِخْلاصِ وَ سَمِتَ الصِّدْقِ وَ حَقِيقَةٌ جَامِعَةً لِانْوَاعِ السَّعَادَةِ وَكَانُوا مُتَّصِفِينَ بِحُسُنِ الْمَعْرِفَةِ بَلْ بَعْضُهُمْ كَانُوا فَائِضِينَ فِى الْعِلْمِ وَ الْآدَبِ وَ فِي الْقَوْمِ مِنَ وَإِنِّي مَعَكُمْ يَا نُجَبَاءَ الْعَرَبِ الْمَشْهُورِينَ.بِالْقَلْبِ وَ الرُّوْحِ، وَأَنَّ رَبِّي قَدْ بَشَّرِ نِي فِي الْعَرَبِ وَ الْهَمَنِي أَنْ امَ نَهُمْ وَ أُرِيهِمْ طَرِ يُقَهُمْ وَأَصْلِحَ لَهُمْ شُتُو نَهَمُ وَسَتَجِدُ وَ نَنِي فِي هَذَا الَا مُرانُ شَاءَ اللهُ مِنَ الْفَائِزِينَ أَيُّهَا الَا عِزَّةُ ! إِنَّ الرَّبَّ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ تَجَلَّى عَلَيَّ لِتَأْبِيْدِ الْإِسْلَامِ وَ تَجْدِيدِهِ بِأَ خَضِ التَّجَلِيَاتِ وَمَنَحَ عَلَيَّ وَابِلَ الْبَرَكَاتِ وَاَنْعَمَ عَلَيَّ بِأَنْوَاعِ الْأَنْعَامَاتِ بَشَّرَنِي فِي وَقْتِ عَبُوسِ لِلِاِسْلَامِ وَعَيْشِ بُؤْسِ لِأُمَّةِ خَيْرِ الْأَنَامِ بِالتَّفَضَّلَاتِ وَالْفُتُوحَاتِ وَالتَّابِيدَاتِ فَصَبَوْتُ إِلَىٰ إِشْرَاكِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْعَرَبِ فِى هَذَا النِّعَمِ وَكُنْتُ لِهَدَ الْيَوْمِ مِنَ الْمُتَشَقِّ فِيْنَ فَهَلْ تَرْغَبُوْنَ أَن تَلْحَقُوا بِى لِلَّهِ رَبِّ الْعَا لَمِيْنِ؟“ حمامة البشری روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۱۸۱-۱۸۳) فرماتے ہیں خالص عربوں میں سے کچھ لوگ میری طرف مائل ہوئے اور انہوں نے سچائی اور صدق وصفا سے میری بیعت کی.میں نے ان میں اخلاص کا نور اور صدق کی علامت دیکھی اور انیسی حقیقت دیکھی جو مختلف قسم کی سعادتوں کی جامع ہے اور وہ عمدہ معرفت سے متصف ہیں بلکہ بعض علم و ادب میں فیض یافتہ ہیں اور قوم کے مشہور لوگ ہیں....اے نجباء عرب ! میں قلب اور روح کے ساتھ تمہارے ساتھ ہوں.اور میرے رب نے مجھے عربوں کے بارہ میں بشارت دی ہے اور مجھے الہام کیا ہے کہ میں ان کی روحانی خوراک کا سامان کروں اور انہیں ان کا صحیح راستہ بتاؤں اور ان کے
خطبات طاہر جلد ۳ خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۴ء حالات ٹھیک کروں اور انشاء اللہ تعالیٰ اس معاملہ میں تم مجھے کامیاب ہوتا پاؤ گے.اے میرے عزیزو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے مجھ پر تائید اسلام اور اس کی تجدید کے لئے تجلی فرمائی اور یہ خاص قسم کی تجلی تھی اور مجھے برکات کی بارش عطا کی اور مختلف قسم کے انعامات سے مجھے نوازا اور سخت پریشانی کے وقت میں مجھے اسلام کے لئے بشارت دی گئی جبکہ خیر الا نام کی امت سخت تنگ حالات میں زندگی بسر کر رہی تھی.یہ بشارات مختلف قسم کے فضلوں اور فتوحات اور تائیدات پر مشتمل تھیں.پس میں نے چاہا کہ اے معشر العرب تم کو بھی ان نعمتوں میں شریک کروں اور میں اس دن کا منتظر ہوں.پس کیا تم پسند کرو گے کہ مجھ سے اللہ رب العالمین کی خاطر مل جاؤ ؟ پھر آپ نے یہ خوشخبری دی: وَإِنِّي أَرَى أَنَّ أَهْلَ مَكَّةَ يَدْخُلُونَ أَفْوَاجًا فِي حِزْبِ اللَّهِ الْقَادِرِ الْمُخْتَارِ وَهَذَا مِنْ رَّبِّ السَّمَاءِ وَعَجِيْبٌ فِي أَعْيُنِ أَهْلِ الْأَرْضِينَ 0 نورالحق حصہ دوم روحانی خزائن جلد ۸ صفحه ۱۹۷) اور میں دیکھتا ہوں کہ اہل مکہ خدائے قادر کے گروہ میں فوج در فوج داخل ہو جائیں گے اور یہ آسمان کے خدا کی طرف سے ہے اور زمینی لوگوں کی آنکھوں میں عجیب ہے.پس دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ اس مبشر پیشگوئی کو پورا فرمائے جلد اور جلد ہم اپنی آنکھوں سے وہ بات دیکھیں جو دنیا کی نظر میں عجیب ہے لیکن خدا کی نظر میں مقدر ہے اور لازماً ایسا ہوکر رہے گا.پھر فرماتے ہیں: إِنِّي رَأَيْتُ فِي مُبَشِّرَةٍ أُرِيتُهَا جَمَاعَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ الْمُخْلِصِينَ وَالْمُلُوكِ الْعَادِلِينَ الصَّالِحِينَ بَعْضُهُمْ مِنْ هَذَا الْمُلْكِ وَ بَعْضُهُمْ مِنَ الْعَرَبِ وَ بَعْضُهُمْ مِنَ فَارِسَ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلَادِ الشَّامِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ اَرْضِ الرُّومِ وَبَعْضُهُمْ مِنْ بِلَادٍ لَا اعْرِفُهَا ثُمَّ قِيْلَ لِى مِنْ حَضْرَهِ الْغَيْبِ إِنَّ هَؤُلَاءِ يُصَدِّقُونَكَ وَيُؤْمِنُونَ بِكَ وَيُصَلُّونَ
خطبات طاہر جلد ۳ خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء عَلَيْكَ وَيَدْعُونَ لَكَ.وَأُعْطِئْ لَكَ بَرَكَاتٍ حَتَّى يَتَبَرَّكَ الْمُلُوكُ بِثِيَابِكَ وَادْخِلُهُمْ فِى الْمُخْلِصِينَ هَذَا رَأَيْتُ فِي الْمَنَامِ وَ الْهِمْتُ مِنَ اللَّهِ الْعَلَّام “ (لجة النور روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ: ۳۳۹.۳۴۰) فرمایا ، میں نے ایک مبشر خواب میں مومنوں اور عادل اور نیکو کار بادشاہوں کی ایک جماعت دیکھی جن میں سے بعض اسی ملک (ہند) کے تھے اور بعض عرب کے، بعض فارس کے اور بعض شام کے بعض روم کے اور بعض دوسرے بلاد کے تھے جن کو میں نہیں جانتا.اس کے بعد مجھے خدا تعالی کی طرف سے بتایا گیا کہ یہ لوگ تیری تصدیق کریں گے اور تجھ پر ایمان لائیں گے اور تجھ پر درود بھیجیں گے اور تیرے لئے دعائیں کریں گے اور میں تجھے برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے اور میں ان کو مخلصوں میں داخل کروں گا.یہ وہ خواب ہے جو میں نے دیکھی اور وہ الہام ہے جو خدائے علام کی طرف سے مجھ پر ہوا.وہ لوگ جو دعائیں کریں گے ان میں سے بعض کے متعلق آپ کو خبر دی گئی کہ وہ کون ہیں؟ چنانچہ آپ کو یہ الہام ہوا: يَدْعُونَ لَكَ أَبْدَالُ الشَّامِ وَ عِبَادُ اللَّهِ مِنَ الْعَرَبِ ( تذکره صفحه : ۱۰۰) یعنی تیرے لئے شام کے ابدال دعا کرتے ہیں اور بندے خدا کے عرب میں سے دعا کرتے ہیں.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آئینہ کمالات اسلام میں عربوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَيُّهَا الْانْقِيَاءُ الْأَصْفِيَاءُ مِنَ الْعَرَبِ الْعُرُبَاءِ - السَّلَامُ عَلَيْكُم يَا أَهْلَ اَرْضِ النُّبُوَّةِ وَحِيْرَانِ بَيْتِ اللَّهِ الْعُظْمَى أَنْتُمْ خَيْرُ أُمَمِ الْإِسْلَامِ وَ خَيْرُ حِزْبِ اللَّهِ الْأَعْلَى - مَا كَانَ لِقَوْمٍ أَنْ يَبْلُغَ شَانَكُمْ قَدْ زِدْتُمْ شَرَفًا وَّ مَجْدًا وَ مَنْزِلاً - وَكَافِيْكُمْ مِنْ فَخْرٍ أَنَّ
خطبات طاہر جلد ۳ 10 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء اللَّهَ افْتَتَحَ وَحْيَهِ مِنْ آدَمَ وَ خَتَمَ عَلَى نَبِيِّ كَانَ مِنْكُمْ وَمِنْ اَرْضِكُمْ وَطَناً وَمَا وَى وَ مَوْلِدًا - وَمَا أَدْرَاكُمُ مِنْ ذَلِكَ النَّبِيِّ مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى سَيّدِ الْاَصْفِيَاءِ وَفَخْرِ الْأَنْبِيَاءِ وَخَاتَمِ الرُّسُلِ وَاِمَامِ الورى......اللَّهُمَّ فَصَلَّ وَسَلَّمْ وَبَارِكْ عَلَيْهِ بِعَدَدِ كُلَّ مَا فِي الْأَرْضِ مِنَ الْقَطَرَاتِ والدَّرَّاتِ وَالْأَحْيَاءِ وَالْأَمْوَاتِ وَبِعَدَدِ كُلِّ مَا في السَّمَوَاتِ وَبِعَدَدِ كُلِّ مَاظَهَرَ وَاخْتَفَى وَ بَلِغْهُ مِنَّا سَلَامًا يَمُلكُ اَرَجَاءَ السَّمَاءِ - طُوبَى لِقَوْمٍ يَحْمِلُ نِيْرَ مُحَمَّدٍ عَلَى رَقَبَتِهِ - وَطُوبَى لِقَلْبِ أَفْضَى إِلَيْهِ وَخَالَطَهِ، وَفِي حُبِّهِ فَنَى - يَا سُكَانَ أَرْضِ أَوْطَأْتُهُ قَدَمُ الْمُصْطَفى - رَحِمَكُمُ اللهُ وَرَضِيَ عَنْكُمْ وَأَرْضَى - إِنَّ ظَنِّى فِيكُمْ جَلِيْلٌ وَفِي رُوحِي لِلقَاءِ كُمْ غَلِيلٌ يَا عِبَادَ اللَّهِ - وَ إِنِّي أَحِنُّ إِلَى عِيَانِ بَلَادِكُم وَبَرَكَاتِ سَوَادِكُمْ لَا زُورَ مَوْطِئَ أَقْدَامٍ خَيْرِ الْوَرى - وَاجْعَلَ كُحُلَ عَيْنِي تِلْكَ الشَّرِى - وَلَازُورَ صَلَاحَهَا وَصُلَحَاءَهَا وَمَعَالَمَهَا وَعُلَمَاءَ هَا وَتُقِرُّعَيْنِي بِرُوْيَةِ أَوْلِيَائِهَا وَ مَشَاهِدِهَا الْكُبْرَى فَاَسْئَلُ اللهَ تَعَالَى أَنْ يَرْزُقَنِي رُؤْيَةَ ثَرَاكُمْ وَيَسَّرَنِى بِمَرُآ كُمُ بِعِنَايَتِهِ الْعُظمى يَا إِخْوَانُ إِنِّي أُحِبُّكُمْ وَأُحِبُّ بِلادَكُمْ وَيُحِبُّ رَمْلَ طُرُقِكُمْ وَاَحْجَارَ سِكَكِكُمْ وَأُوْثِرُكُمْ عَلَى كُلِّ مَا فِي الدُّنْيَا يَا اكْبَادَ الْعَرَبِ قَدْ خَصَّكُمُ اللهُ بِبَرَكَاتِ أَثِيرَةٍ، وَمَزَايَا كَثِيرَةٍ وَمَرَاحِمِهِ الْكُبُرى - فِيُكُمُ بَيْتُ اللَّهِ الَّتِي بُوْرِكَ بِهَا اُمُّ الْقُرى - وَفِيكُمْ رَوْضَةُ النَّبِيِّ الْمُبَارَكِ الَّذِي أَشَاعَ التَّوْحِيْدَ فِي أَقْطَارِ الْعَالَمِ وَأَظْهَرَ جَلَالَ اللَّهِ وَجَلَّى وَكَانَ مِنْكُمْ قَوْمٌ نَصَرُوا اللهَ وَرَسُولَهُ بِكُلِ الْقَلْبِ وَبِكُل الرُّوحِ وبِكُلِّ النُّهَى
خطبات طاہر جلد ۳ 11 خطبہ جمعہ ۶ /جنوری ۱۹۸۴ء وَبَذَلُوا أَمْوَالَهُمْ وَأَنْفُسَهُمْ لا شَاعَةِ دِينِ اللَّهِ وَكِتَابِهِ الْأَزْكَى ـ فَانْتُمُ الْمَخْصُرُ صُونَ بِتِلْكَ الْفَضّآئِلِ وَ مَنْ لَّمْ يُكْرِ مُكُمُ فَقَدْ جَارَ وَاعْتَدَى آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه : ۴۱۹ - ۴۲۲) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اے خالص عربوں کے اصفیا واتقیا! تم پر سلام ہو.اے ارض نبوت کے رہنے والو اور عظیم بیت اللہ کے پڑوسیو! تم پر سلام ہو.تم اسلام کی امتوں میں سے بہترین ہو اور اللہ عزوجل کی جماعت کے بہترین لوگ ہو.کوئی قوم تمہاری شان تک نہیں پہنچ سکتی.تم شرف، بزرگی اور مرتبہ میں بڑھے ہوئے ہو اور تمہارے لئے یہ فخر ہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم سے وحی شروع کی اور اس نبی ﷺ پر ختم کی جو تم میں سے تھا اور تمہاری زمین اس کا وطن تھا اور اس کا ماً وی اور مولد تھا.اور تمہارے لئے یہ فخر کافی ہے جو تمہیں اس نبی محمد مصطفیٰ سید الاصفیاء اور فخر الانبیاء اور خاتم المرسلین اور امام الورای کی وجہ سے ملا..........اے میرے اللہ ! زمین کے قطرات اور ذرات اور زندوں اور مردوں اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور ہر ظاہر و باطن کے شمار کے مطابق رحمت اور سلامتی اور برکت نازل فرما حضرت محمد مصطفی عملے پر اور ہماری طرف سے ایسی سلامتی بھیج جو آسمان کی اطراف کو بھر دے.خوشخبری ہے اس قوم کے لئے جو محمد مے کی غلامی کا طوق اپنی گردن میں اٹھاتی ہے اور خوشخبری ہے اس دل کے لئے جو اس کے حضور تک پہنچ گیا اور اس سے جاملا اور اس کی محبت میں فنا ہو گیا.اے اس زمین کے رہنے والو! جس پر محمد مصطفی ﷺ کے قدم پڑے اللہ تعالیٰ تم پر رحم کرے، تم سے راضی ہو اور تمہیں خوش رکھے.تمہارے بارہ میں میری رائے بہت بلند ہے اور میری روح میں تم سے ملاقات کے لئے پیاس ہے.اے اللہ کے بندو! میں تمہارے ملک اور تم لوگوں کی برکات دیکھنے کا بہت شوق رکھتا ہوں تا کہ میں خیر الوری ﷺ کے قدموں کے پڑنے کی جگہ کی زیارت کروں اور اس مٹی کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناؤں اور اس کی بھلائی اور اس کے اچھے لوگوں کو دیکھوں اور اس کے نشانات اور علماء سے ملوں اور میری آنکھیں اس ملک کے اولیاء اور بڑے بڑے غزوات کے مقامات کو دیکھ کر ٹھنڈی ہوں.میں اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ مجھے تمہاری زمین کا دیکھنا نصیب کرے.اور
خطبات طاہر جلد ۳ 12 خطبہ جمعہ ۶ / جنوری ۱۹۸۴ء مجھے اپنی بڑی مہربانی کی بناپر تمہارے دیکھنے سے خوشی پہنچائے.اے میرے بھائیو! میں تم سے محبت کرتا ہوں ، تمہارے ملک سے محبت کرتا ہوں تمہارے راستوں کی ریت اور تمہاری گلیوں کے پتھروں سے محبت کرتا ہوں اور تمہیں دنیا کی ہر چیز پر ترجیح دیتا ہوں.اے عرب کے جگر گوشو! اللہ تعالیٰ نے تم کو بہت بڑی بڑی برکات اور بہت سے فضلوں سے سرفراز فرمایا ہے اور بڑی رحمتوں کا مرجع بنایا ہے.تم میں اللہ کا وہ گھر ہے جس کی وجہ سے ام القری کو برکت دی گئی ہے اور تم میں نبی کریم ﷺ کا روضہ ہے صلى الله جس نے دنیا بھر میں توحید کی اشاعت کی ، اللہ تعالیٰ کا جلال ظاہر کیا اور تم سے وہ قوم کی جس نے اللہ اور رسول ﷺ سے پورے دل اور پوری روح اور پوری عقل کے ساتھ محبت کی اور اپنے مال اور اپنی جانیں اللہ کے دین اور اس کی پاکیزہ ترین کتاب کی اشاعت کے لئے خرچ کردیں.پس تم ان فضائل کے ساتھ مخصوص ہو اور جس نے تمہاری عزت نہیں کی وہ ظالم اور حد سے بڑھنے والا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام " حمامة البشری کے سرورق پر اپنا یہ شعر درج فرماتے ہیں: حَمَا مَتْنَا تُطِيْرُ بِرِيشِ شَوْقٍ وَفِي مِنْقَارِهَا تُحَفُ السَّلَامِ إِلَى وَطَنِ النَّبِييِّ حَبِيبِ رَبِّي وَسَيّدِ رُسُلِهِ خَيْرِ الْأَنَامِ (حمامتہ البشری ٹائٹل پیج روحانی خزائن جلدے ) ہماری حمامہ شوق کے پروں پر اڑتی ہے اور اس کی منقار میں سلام کے تحفے ہیں وہ اڑ رہی ہے میرے رب کے محبوب نبی ﷺ اور اس کے رسولوں کے سردار خیر الا نام کے وطن کی طرف.پس یہ ہے وہ عرب قوم جو سب دنیا کی محسن ہے اور عربوں ہی کا احسان ہے کہ اسلام ہم تک پہنچا اور نبی امی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ عرب تھے، اگر کوئی اور وجہ نہ ہوتی تو یہی ایک وجہ کافی تھی کہ ہم اس قوم سے محبت کریں اور اس کے لئے دعائیں کریں اور جس روح اور جذ بہ کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو سلام بھیجے ہیں اور دعائیں دی ہیں اسی روح اور اسی جذ بہ اور اسی تڑپ کے ساتھ ہم ان کو سلام بھیجیں.جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حمامہ بڑے شوق اور محبت سے سلام کے تحفے اپنی منقار میں لئے ہوئے اس طرف روانہ ہوئی تھی ، آج ہر احمدی
خطبات طاہر جلد ۳ 13 خطبه جمعه ۶ جنوری ۱۹۸۴ء دل سے دعا ئیں اڑتی ہوئیں اور عرب کی سرزمین پر رحمتوں کی بارشیں بن کر برسنے لگیں.اللہ تعالیٰ اس قوم کو ہرا بتلا سے محفوظ رکھے، اسے نور ہدایت سے منور کرے ، ان کے دکھ دور فرمائے ، ان سے بخشش اور عفو کا سلوک فرمائے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کے صدقے ان پر رحمتوں کی بارش برسا دے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین
خطبات طاہر جلد ۳ 15 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء اللہ تعالیٰ کی صفت عفو (خطبه جمعه فرموده ۱۳ جنوری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیت تلاوت فرمائی: وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (الشورى: ۲۲) پھر فرمایا: میں نے چند خطبات پہلے ایک سلسلہ کا آغاز کیا تھا کہ صفات باری تعالیٰ کوملحوظ رکھتے ہوئے جماعت احمدیہ میں ایک ایک خلق کی خصوصیت کے ساتھ تعلیم دوں.اس سلسلہ کا آغاز میں نے امانت سے کیا تھا آج کے موضوع کے لئے میں نے عضو کو چنا ہے اللہ تعالیٰ کے ناموں میں سے ایک نام عَفُوٌّ ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا غَفُورًا (النساء:۴۴) عَفُو کہتے ہیں در گذر کرنے والے کو.غَفُورٌ بخشنے والا.عفو کا معنی ہے درگزر کرنے والا.درگزر کرنے میں ایک اعراض کا پہلو پایا جاتا ہے، بدی کو دیکھنا لیکن اس طرح اس سے آنکھیں چرا لینا کہ دیکھنے والا شر مارہا ہو بدی سے، گویا اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں.چنانچہ عـــــا کا معنیٰ ہے صاف کر دینا.چٹیل چھوڑ دینا.ایسی زمین کو بھی عفو کہتے ہیں جہاں کچھ کاشت نہ کیا گیا ہو ، خالی پڑی ہوئی ہو اور صفح جو ہے مٹانے کا نام بھی ہے عفو اور صـفـح دونوں ملتی جلتی صفات ہیں.تو
خطبات طاہر جلد ۳ 16 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء عفو کہتے ہیں ایسی ذات کو جو بدی دیکھتی بھی ہے لیکن اس سے نظریں پھیر لیتی ہے ،سلوک ایسا فرماتی ہے جیسے بدی ہوئی ہی نہیں.اور غفور میں اس سے اگلا قدم ہے یعنی ایک انسان نے بدی کی اور اس حد تک بڑھ گیا کہ وہ سزا کے نیچے آ گیا اور سزا دینے والے نے سزا کا فیصلہ کر لیا پھر وہ اپنے رب کی طرف یا جس نے بھی اسے سزا دینی تھی اس کی طرف متوجہ ہوا، اس سے معافی مانگی، گریہ وزاری کی تو فیصلہ کرنے کے بعد یا بدی کے اتنا بڑھ جانے کے بعد کہ سزا کی لازماً مستوجب ہو چکی ہو پھر جب بخشا جاتا ہے تو اس کو مغفرت کہتے ہیں اور غفور صفت وہاں کمزور بندوں کے کام آجاتی ہے.تو میں اس پہلے حصہ پر آج کچھ احباب جماعت سے مخاطب ہوں گا یعنی خدا تعالیٰ کی صفت عفو.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : هُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ.وہی ذات ہے جو تمہیں بخشتی بھی ہے جب تم تو بہ کرتے ہو تو تو بہ کو قبول بھی فرما لیتی ہے لیکن ایک پہلو پر تمہاری نظر نہیں کہ وَيَعْفُوا عَنِ السَّيَّاتِ تمہارے بے شمار نقائص ہیں بہت سی ایسی کمزوریاں ہیں جن کی طرف تمہیں توجہ ہی نہیں ، نہ تو بہ کا کوئی موقع پیدا ہوتا ہے، ان سے بھی وہ عفو کرتا چلا جاتا ہے.لیکن یہ بات نہیں کہ اس کے علم میں نہیں آتیں بدیاں.انسان تو بعض دفعہ غافل ہو جاتا ہے، کوئی بدی، کوئی کمزوری اس کی نظر میں آتی ہی نہیں اس کا نام عفو نہیں ہے.فرمایا وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ خوب جانتا ہے کہ تم کیا کر رہے ہو اور پھر اس طرح آنکھیں چرا لیتا ہے تمہاری بدیوں سے گویا وہ تھیں ہی نہیں.چنانچہ اس کی ایک مثال دیتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے: (البقره:۵۲،۵۳) وَإِذْ وَعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِهِ وَانْتُمْظْلِمُونَ ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ مِنْ بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ کہ جب ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ کیا اور موسی“ کے ساتھ اس کے ساتھیوں کو بھی اپنا قرب نصیب کیا اس کے باوجود ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِنْ بَعْدِہ اس کے باوجود تم نے بچھڑے کو معبود بنا لی وَ اَنْتُمْ ظلِمُونَ اور تم کھلم کھلا ظلم کرنے والے تھے.ثُمَّ عَفَوْنَا عَنْكُمْ یہ سب کچھ ہوتے ہوئے ، یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی اللہ تعالیٰ نے تم سے عفو کا سلوک فرمایا.
خطبات طاہر جلد ۳ 17 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء مِنْ بَعْدِ ذلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ تا کہ تم میں شکر پیدا ہو.عفو کے نتیجہ میں یہاں خدا تعالیٰ نے اس طرف توجہ دلا دی کہ شکر پیدا ہونا چاہئے.اور یہ بھی ایک بہت ہی ضروری قابل توجہ بات ہے جس کو بہت سے لوگ بھلا دیتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر کئی خرابیاں معاشرہ میں پیدا ہو جاتی ہیں.تو سب سے پہلے تو میں آپ سے یہ کہوں گا کہ آپ عفو کی عادت ڈالیں عفو کا سلوک کرنا دوسروں سے یہ ایک بہت ہی عظیم خوبی ہے اور انسانی کردار کی تعمیر میں بہت بڑا کام کرتی ہے.بدیوں کی موجودگی میں یہ بحث کئے بغیر کہ بدی تھی یا نہیں جہاں تک ممکن ہو، جہاں تک انسانی ذہن یہ فیصلہ کرے کہ اگر میں معاف کروں گا ، عفو سے کام لوں گا تو بدی سر نہیں اٹھائے گی بلکہ اس کے نتیجہ میں شکر پیدا ہوگا اور اصلاح ہوگی.یہ دو ہیں نتائج جو قرآن کریم سے معلوم ہوتے ہیں کہ عفو کے نتیجہ میں پیدا ہونے چاہئیں.دوسری جگہ فرماتا ہے.فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (شوری:۴۱) کہ جو شخص عفو سے کام لے اس شرط پر کہ اس کے نتیجہ میں اصلاح ہو فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ اس کا اجر اللہ پر ہے.تو دو شرطیں معاف کرنے والے کو ملحوظ رکھنی چاہئیں اور دو شرطیں اس کو بھی ملحوظ رکھنی چاہئیں جس سے عفو کا سلوک ہو رہا ہو.عفو کرنے والے کو ہمیشہ قرآن کریم کی تعلیم کے پیش نظر یہ دیکھنا چاہئے کہ میر اعفواس شخص کی اصلاح کا موجب بن سکتا ہے یا نہیں اور کیا میرے عفو کے نتیجہ میں اس کے اندر جذبات تشکر پیدا ہوں گے یا نہیں.بعض دفعہ قومی طور پر ہر شخص کے دل میں جذبات تشکر پیدا نہیں ہوتے لیکن اللہ تعالیٰ اتنا رحم کرنے والا اور اتنا عفو ہے کہ چندلوگوں کے جذبات تشکر کی خاطر وہ دوسروں سے بھی صرف نظر فرمالیتا ہے اس لئے حضرت موسیٰ کی قوم کی جو مثال دی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ جانتا تھا کہ ہر شخص شکر گزار بندہ بنے گا.جیسا کہ اور مواقع پر اللہ تعالیٰ کی بے انتہا ر حمت اور شفقت اور رافت کے نمونے ملتے ہیں جب قوموں سے عفو فرماتا ہے اللہ تعالیٰ تو ان میں سے بعض کو شکر کا موقع دیتا ہے، جن کے متعلق جانتا ہے کہ وہ شکر کریں گے اور ان کے صدقے دوسری قوم بھی بخشی جاتی ہے.مگر جب ہم انفرادی معاملہ کرتے ہیں تو عفو کر نیوالے کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ اس کے عفو کے نتیجہ میں جذبات تشکر پیدا ہور ہے ہوں یا اصلاح ہو رہی ہواگر یہ دونوں باتیں نہ ہوں تو عفو کا مطلب یہ ہے کہ بدی کی حوصلہ افزائی کی جائے اور بعض دوسرے معصوم انسانوں کو بعض دوسرے انسانوں کے ظلم کا نشانہ بنایا جائے تو ان دو شرطوں کے ساتھ عفو ہے لیکن جہاں ملکیت ہو وہاں
خطبات طاہر جلد ۳ 18 خطبه جمعه ۱۳/جنوری ۱۹۸۴ء یہ دوشرطیں بھی باقی نہیں رہتیں بعض دفعہ، جہاں معاف کرنے والا کسی کو معاف کرتا ہو اور اس کے نتیجہ میں وہ غیروں کے اوپر کوئی ظلم نہ کر سکے، معاف کرنے والے کو مزید دکھ دے وہاں یہ شرط نہیں ہے کہ ضرور اصلاح ہو.وہاں جتنا بھی دکھ برداشت کر سکتا ہے معاف کرنے والا وہ کرتا چلا جائے اس کا اجر خدا تعالیٰ اس کو دیتا چلا جائے گا.توعَفَا وَأَصْلَحَ میں یہ تیسری بات بھی خاص طور پر پیش نظر رکھیں، ایک سوسائٹی کا مجرم ہے اس کو معاف کرنے کے لئے آپ مالک نہیں ہیں اس لئے آپ پابند ہیں کہ اصلاح کو ملو ظ رکھیں اور یہ نہ ہو کہ معاف کیا جانے والا بعد میں دندناتا پھرے اور کہے کہ دیکھو جی یہاں کچھ نہیں بنتا کچھ نہیں ہوتا اور دوبارہ جرم پر اس کا حوصلہ بڑھ جائے.لیکن اگر آپ کے خلاف کسی نے زیادتی کی ہے، آپ کے خلاف جرم کیا ہے تو وہاں یہ شرط لازمی نہیں ہے آپ جتنا معاف کر سکتے ہیں جتنا آپ میں حوصلہ ہے اتنا ہی اس کے ساتھ شفقت اور رافت کا سلوک کرتے چلے جائیں اور عفو سے کام لیں.آنحضرت ﷺ نے ان آیات کی جو عملی تفسیر فرمائی اس سے یہی معلوم ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دنیا میں جتنی مصیبتیں ہیں ان کا ایک بہت بڑا حصہ عفو کی کمی کی وجہ سے ہے اور جرائم کی حوصلہ افزائی کے نتیجہ میں مصیبتیں پھیلتی ہیں اور تمہارے جرائم اگر سارے کے سارے اس طبعی نتیجہ تک پہنچیں جس تک جرم کو پہنچنا چاہئے یعنی تم سزا پاؤ اس کے نتیجہ میں دکھ اٹھاؤ تو بے انتہا مصائب سے دنیا بھر جائے.یہ اللہ تعالیٰ کا عفو ہے.کہ تمہارے بہت سے جرائم ایسے ہیں جن سے وہ صرف نظر فرما تا چلا جاتا ہے اور تم ان کا لازمی طبعی نتیجہ نہیں دیکھتے.اپنے جرموں کی سزا سے بچ جاتے ہو اور اس کے نتیجہ میں سوسائٹی میں اتنے دکھ نہیں ہیں جتنے تمہیں نظر آرہے ہیں.تو گویا جو کچھ تم دیکھ رہے ہو دکھوں کی شکل میں نہ صرف یہ کہ تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے، بلکہ ساری کمائی نہیں اس کا محض ایک حصہ ہے.اگر تمہارے جرائم کی سب کی سزا دی جائے تو انسان کا اس دنیا میں زندہ رہنا مشکل ہو جائے بلکہ قرآن کریم سے تو پتہ چلتا ہے کہ جانور بھی زندہ نہ رہ سکیں ، دآبۃ بھی اس دنیا سے مٹا دیئے جائیں اگر انسان کے جرائم کو دیکھا جائے (فاطر: ۴۶) کیونکہ دابة تو انسان کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں.اگر انسان نے ہی زندہ رہنے کا حق چھوڑ دیا تو اس کی خاطر جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان کے زندہ رہنے کا بھی کوئی جواز باقی نہیں رہتا.
خطبات طاہر جلد۳ 19 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء لیکن بعض لوگ عفو نہیں کر سکتے اور ان کو عفو پر مجبور بھی نہیں کیا جاسکتا.یہ اتنی عظیم الشان عدل کی تعلیم ہے کہ اگر اس کو رائج کیا جائے دنیا میں تو دنیا کے اکثر مصائب محض اسی تعلیم پر عمل پیرا ہونے کے نتیجہ میں ختم ہو سکتے ہیں.فرماتا ہے ، عفو جو ہے یہ احسان کے ساتھ تعلق رکھنے والا جذ بہ ہے، یہ لازمی نہیں ہے اس لئے اگر تم عفو نہیں کر سکتے اور لازماً سزا دینا چاہتے ہو کسی کو تو پھر صرف یہ شرط ہے کہ جتنا جرم ، جتنی بدی کی گئی ہو اتنا ہی تم نے بدلہ لینا ہے اس سے آگے ایک قدم بھی تمہیں جانے کی اجازت نہیں.یہ وہ عظیم الشان اسلامی تعلیم ہے جس کو اگر آج دنیا میں نافذ کیا جائے تو یہ جو خطرات کے مہیب بادل جو چھائے ہوئے ہیں اور کڑ کنے بھی لگے ہیں.اب ان کی گرجیں سنائی دینے لگی ہیں، یہ سارے بادل کا فور ہو سکتے ہیں کیونکہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ بتایا تھا دنیا میں جتنی جنگیں ہیں جو ہو چکیں ، ان سب کے پس منظر میں بعض اسلامی تعلیمات کو بھلا دینا آپ کو دکھائی دے رہا ہوگا.ہر جنگ سے پہلے کے حالات پر آپ غور کریں تو لازماً اسلامی تعلیم کو نظر انداز کرنے کے نتیجہ میں وہ جنگیں پیدا ہوئیں اور ہر جنگ کے بعد کے جو حالات ہیں ان کے نتیجہ میں انگلی جنگیں پیدا ہوئیں اس لئے کہ جنگ کے بعد کے حالات میں بھی انسان نے اسلامی تعلیم پر نظر نہیں رکھی ، اس پر عمل نہیں کیا.چنانچہ وَجَزْؤُا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) میں خدا تعالیٰ نے نہ فرد کو اجازت دی نہ قوم کو اجازت دی کہ اگر تم سے بدی کی جاتی ہے تو اس سے بڑھ کر تم بدلہ لو.صرف ایک ایسی چیز ہے جو بدلہ لینے والوں کو مجبور کر دیا کرتی ہے قومی لحاظ سے کہ بدی سے بڑھ کر وہ بدلہ لیں اور وہ بعض دفعہ انفرادی طور پر بھی ہمیں دکھائی دیتی ہے.بعض لوگ تو ویسے ہی منتقم اور مغلوب الغضب ہوتے ہیں میں ان کی بات نہیں کر رہا، عام درمیانی انسانی فطرت رکھنے والے لوگوں سے متعلق آپ غور کر کے دیکھیں کہ جب وہ بدی کا بدلہ لیتے ہیں اور زیادتی کرتے ہیں تو اس کے پیچھے ایک محرک ہوتا ہے اور یہی محرک جو ہے قوموں کو بھی بدی سے بڑھ کر بدلہ لینے پر مجبور کر دیتا ہے.وہ محرک یہ ہوتا ہے کہ انکوخوف ہوتا ہے کہ جس شخص نے ہم سے زیادتی کی اگر ہم نے اتنا ہی بدلہ لیا جتنا اس نے ظلم کیا تھا تو یہ اتنا کمزور نہیں ہوگا ، اتنی سخت اسکوسز انہیں ملے گی کہ اس کے نتیجہ میں آئندہ جرأت نہ کر سکے.تو وہ تو ڑنا چاہتے ہیں بد کی طاقت کو باوجود اس کے کہ اس نے تھوڑا ظلم کیا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے اندر سے آئندہ بدی کی طاقت چھین لی جائے یعنی اس کو اتنا کمزور اور بے کار کر دیا جائے کہ پھر یہ اٹھ نہ سکے.اس کے نتیجہ
خطبات طاہر جلد۳ میں زیادتیاں ہوتی ہیں اور ظلم ہوتے ہیں.20 20 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء اللہ تعالیٰ کی چونکہ بہت باریک نظر ہے فطرت پر ، فطرت کا پیدا کرنے والا وہ ہے،اس کے ہر پہلو سے واقف ہے اس لئے قرآن کریم بھی کوئی پہلو فطرت کا باقی نہیں چھوڑتا اور ہر ایک کا جواب دیتا ہے.چونکہ بڑی بڑی قومیں لڑائیوں کے بعد ہمیشہ یہ رد عمل دکھاتی ہیں کہ جن لوگوں کی وجہ سے جنگیں ہوئی تھیں انہیں ٹکڑے ٹکڑے کرو، ان کو دنیا میں بکھیر دو، ان کے اندر اتنی سکت نہ باقی رہنے دو کہ وہ پھر اٹھ سکیں اس کے نتیجہ میں ان کا حکم تو نہیں چلتا، قانون قدرت چلتا ہے اور وہ مظالم ان کے اندر ڈوب جاتے ہیں، ان کا جزو بن چکے ہوتے ہیں اور ان کی رگوں میں دوڑتا رہتا ہے ان مظالم کا خون اور جب بھی ان کو توفیق ملتی ہے وہ پھر اپنا بدلہ لینے کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں.دو دفعہ جرمن قوم سے ایسا ہو چکا ہے اور تیسری دفعہ بھی اس کا بیج بویا جا چکا ہے.جب برلن کو تقسیم کیا جارہا تھا اور جرمنی کو تقسیم کیا جا رہا تھا تو روز ویلٹ ، چرچل اور سٹالن باتیں کر رہے تھے کہ اس قوم نے دو دفعہ دنیا کی تباہی کے سامان پیدا کئے ہیں اور دونوں دفعہ جو ہم نے یہ ذرائع اختیار کئے وہ کافی نہیں تھے یعنی اس کے نتیجہ میں ہم نے جو ان پر ظلم کیا وہ کافی نہیں تھا اس لئے اب اس قوم کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دو کہ کوئی سوال ہی باقی نہ رہے اگلی جنگ کا اور اب وہی Divided جرمنی جو دوحصوں میں بٹ چکا ہے وہی بہت بڑے خطرات کا موجب بن چکا ہے ، دو Polarisation وہاں ہو چکی ہیں، ایک مشرق کا کیمپ اور ایک مغرب کا کیمپ، اب جرمن ، جرمن سے نفرت کرنے لگا ہے اور سب سے بڑا خوف جو مغربی جرمنی میں نظر آرہا ہے وہ یہ ہے کہ پہلی جنگ میں تو ہم غیروں سے لڑا کرتے تھے اب جرمن، جرمن کا خون پئے گا اور جرمن ، جرمن قوم کو ہلاک کرنے کا سامان پیدا کرے گا.تو اسلامی تعلیم کو بھلانے کے نتیجہ میں کوئی فائدہ تو نہ پہنچا دنیا کو اور کوئی صورت ان کی نہیں بنتی کہ کس طرح ان مظالم کا خاتمہ کر سکیں.سیدھا سادہ قرآنی اصول تھا جس کو بھلانے کے نتیجہ میں وہ اس مخمصے میں پھنس چکے ہیں.ایک ظلم کے نتیجہ میں اگر بدلہ ظلم سے نہ بڑھے تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ صرف یہ ذریعہ ہے ظلم کو ختم کرنے کا اور یہ کم از کم ذریعہ ہے، اگر عفو سے کام لو گے تو زیادہ امکان ہوگا ظلم کے غائب ہونے کا ، اگر درگزر کے بعد مغفرت بھی کرو گے تو اس سے بھی اور زیادہ امکانات ہو جائیں گے ظلم کے مٹنے کے لیکن اگر تم یہ ترکیب اختیار کرو گے اللہ کے قانون سے جنگ کرتے ہوئے کہ جتنا
خطبات طاہر جلد ۳ 21 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء ظلم کیا ہے اس سے زیادہ ظلم کریں گے اور تو ڑ کر رکھ دیں گے اس سے دنیا کو ظلم سے نجات دیں گے تو یہ ترکیب نہیں چلے گی، نہ پہلے بھی چلی ہے نہ آئندہ چل سکتی ہے کیونکہ قرآنی تعلیم کے مخالف ہے.اس کو کہتے ہیں ایسی تعلیم جوزور بازو سے منوا لیتی ہے قوموں کو اپنی فضیلت کو اور مجبور کر دیتی ہے مخالفین کو بھی کہ اس سے بہتر دیکھا ہی کچھ نہ سکیں.حیرت انگیز کتاب ہے یہ کوئی عقل دنیا کی کوئی Logic ، کوئی تاریخ کا تجر بہ اس کی تعلیم کو جھٹلا نہیں سکتا.لیکن اس خطرہ کی نشاندہی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اس بات کی فکر نہ کرو کہ اگر تم ظلم کا بدلہ اس سے بڑھ کر نہیں لو گے تو تم سے کیا ہوگا.فرمایا چونکہ ہم تمہیں یہ تعلیم دے رہے ہیں ہم اس بات کے ضامن ہیں اور اس ضمانت میں قرآن کریم کی تعلیم کا حسن یہ ہے کہ کا فراور مومن میں کوئی فرق نہیں کیا، انسان کو بحیثیت انسان مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر تم ظلم کے بدلہ میں زیادتی سے کام نہیں لو گے اور وہاں ٹھہر جاؤ گے جہاں تک ظلم پہنچا تھا ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھو گے تو تمہیں یہ جو خوف لاحق ہے کہ وہ تمہارے اوپر بغاوت کرے گی وہ قوم اور دوبارہ تمہیں تباہ کر دے گی فرمایا اس کے ہم ضامن ہیں.اتنی حیرت انگیز ضمانت ہے کہ حیران ہوتا ہے قرآن کریم کو انسان پڑھ کر کہ ساری دنیا کو مخاطب کرتا ہے اور ساری دنیا کی ایسی ضمانت دیتا ہے جس کی کوئی مثال کہیں کسی کتاب میں نظر نہیں آتی فرمایا: ذلِكَ ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهِ ثُمَّ بُغِى عَلَيْهِ (الحج : ۶۱) لَيَنْصُرَنَّهُ اللهُ إِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ تم بڑے بے وقوف ہو جو اس بات سے ڈر رہے ہو کہ اگر تم نے ظلم کے بدلہ میں زیادتی نہ کی تو یہ قوم اٹھ کھڑی ہوگی اور تمہارے خلاف بغاوت کرے گی اور پھر تمہیں کمزور دیکھ کرتم پر قابض ہو جائے گی ، یہی خطرہ ہے تمہیں؟ فرمایا لَيَنْصُرَنَّهُ الله اگر ہماری خاطر تم ظلم سے رکو گے تو ہم وعدہ کرتے ہیں کہ یقینا اللہ تمہاری مدد فرمائے گا.اور یا درکھو کہ یہ تو ادنی سی بات ہے جس کی توقع تم سے رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اِنَّ اللهَ لَعَفُوٌّ غَفُورٌ خدا تو عفو کر نے والا ہے اور عفو کے بعد بخشش بھی کرنے والا ہے یعنی صرف نظر کے بعد جو گناہ بچ جاتے ہیں ایسے کہ ان کی سزا دینی پڑتی ہے عام حالات میں یا سزا کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے، ان سے بھی وہ بخشتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 22 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء تو اگر دنیا میں سچا امن قائم کرنا چاہتے ہو تو ا ز ما ان تین چیزوں کو اختیار کرنا پڑے گا.سب سے پہلے جرم سے بڑھ کر سزا نہ دینا.دوسرا عفو کرنا یعنی جرائم دیکھنا اور آنکھیں پھیر لینا گویا وہ تھے ہی نہیں ، اور تیسرا جرائم اگر بڑھ چکے ہوں اور انسان مرتکب ہو چکا ہو اور سزا کا حق رکھتا ہو پھر بھی اس سے بخشش کا سلوک کرنا.یہ قومی تعلیم صرف نہیں ہے بلکہ انفرادی بھی ہے اور ا ہلی زندگی اور عائلی زندگی کو جنت بنانے کے لئے بھی بہت ضروری ہے.میں نے دیکھا ہے کہ جوا کثر ہمارے گھروں میں دکھ پھیلے ہوئے ہیں، مصیبتیں ہیں ،لڑائیاں ہیں، ماحول تباہ ہو رہا ہے ، اس کی ایک وجہ یہی ہے جس طرح ساری دنیا کا امن برباد ہو چکا ہے اس تعلیم کو بھلانے کے نتیجہ میں عفو کے نہ ہونے کے نتیجہ میں اسی طرح گھروں کی تباہیاں بھی عفو کے نہ ہونے کے نتیجہ میں ہیں.بعض بیویاں یہ ثابت کرنے کے بعد کہ خاوند نے یہ غلطی کی ہے وہ مجھتی ہیں کہ اب اس کے بعد لازم امیر افساد کرنا ضروری ہو گیا ہے.چونکہ وہ غلطی کرتا ہے اس لئے اب مجھے حق ہے فساد کا اور میں ضرور کروں گی.اور جب وہ فساد کرتی ہے تو اتنا نہیں کرتی جتنا خاوند کی غلطی تھی اس سے چار قدم آگے بڑھ جاتی ہے.اوپر سے کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے ، پھر ان کو خاوند بھی بعض ایسے ملے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں اچھا اب تم بولنے پر آئی ہو تو میں پھر تمہیں چار تھپڑ نہیں بلکہ سولہ تھپڑ ماروں گا تمہیں.ایک گھر جو جنت کے لئے بنایا گیا جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس لئے پیدا کیا گیا کہ تمہیں سکینت ملے وہ جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے.یعنی پہلا قدم ہی سوسائٹی میں نہیں اٹھایا گیا، عفوتو بعد کی بات ہے، پہلے یہ بھی نہیں سوچا جاتا کہ جتنا جرم ہوا گر تم معاف نہیں کر سکتے تو کم سے کم اس سے آگے نہ بڑھو.تو اگر احمدی اپنے گھروں کو جنت کا نمونہ بنانا چاہتے ہیں تو اس بات کو مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ جائیں.اگر وہ کسی قیمت پر معاف نہیں کر سکتے اور ایک احمدی سے یہ توقع میں نہیں رکھتا کہ وہ اس ادنی درجہ پر آکر ٹھہر جائے ، انہوں نے تو دنیا میں بڑے بڑے کام کرنے ہیں ساری دنیا کو اخلاق حسنہ سکھانے ہیں.آنحضرت ﷺ کے مکارم الاخلاق سے آشنا کرنا ہے یہ کوئی رتبہ ہے ان کا کہ چھوٹی سے چھوٹی بات پر جس کو قرآن کراہت کے ساتھ قبول کر رہا ہے اس پر اٹک کر بیٹھ جائیں کہ ہمارے لئے یہی کافی ہے؟ ان کے متعلق تو میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ ایک موقع پر آنحضرت ﷺ کی خدمت
خطبات طاہر جلد ۳ 23 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء میں ایک ایسا شخص حاضر ہوا جس کا کوئی عزیز قتل ہو گیا تھا، وہ اس کا ولی تھا.آنحضرت ﷺ نے فرمایا اسی کو معاف کر دو.اس نے کہا نہیں میں معاف نہیں کر سکتا.آپ نے فرمایا دیت لے لو.اس نے کہا یارسول اللہ ! میں یہ بھی نہیں کر سکتا.آپ سنپھر اس کو نصیحت فرمائی ، اس نے پھر اعراض کیا.آپ نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے پھر تم اپنابدلہ لو اور بعد میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس شخص کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو یہ کر رہا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے عفو سے اپنے آپ کو محروم کر بیٹھا ہے یہ شخص.وہ بڑے زور شور سے بدلہ لینے جارہا تھا پیچھے سے ایک صحابی دوڑا اور اس نے کہا ،سنا ہے تم نے کہ تمہارے متعلق رسول صلى الله کریم ﷺ نے کیا کہا ہے؟ اس نے کہا نہیں.اس نے کہا یہ فرمایا ہے.اس نے کہا اگر ایسا فرمایا ہے تو میں اپنا بدلہ نہیں لیتا، میں باز آتا ہوں، تو یہ ہے آنحضرت ﷺ کی توقع اپنی امت سے.یہ خیال غلط ہے کہ یہ مسلمانوں کے لئے تعلیم ہے.میرا نظریہ یہ ہے کہ چونکہ سارے عالم کو قرآن کریم مخاطب کرتا ہے اور بنی نوع انسان اس کے کم از کم مخاطب ہیں اس لئے قرآن کریم ہر قسم کی تعلیم اپنے اندر رکھتا ہے اور یہ عام بنی نوع انسان سے توقع ہے کہ کم از کم اتنا تو کریں کہ اگر وہ انسانیت کو دکھوں سے بچانا چاہتے ہیں تو جب بدلہ لیں تو اتنا ہی لیں جتنا کہ قصور کیا گیا ہے اس سے آگے نہ بڑھیں لیکن امت محمدیہ کی یہ شان نہیں ہے.ہاں اگر وہ اتنا ہی کریں تو اس پر کسی کو طعنہ زنی کا حق نہیں رہے گا، یہ الگ بات ہے یعنی وہ شامل تو ہیں اس میں لیکن بنی نوع انسان کے ایک عام فرد کے طور پر.اُمت محمدیہ کے لحاظ سے جو ان کی شان ہے وہ اس سے بہت بالا ہے، وہ تو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے نمونے ہی ہیں.آپ نے ان آیات سے جو سمجھا اس کے بعد اپنی زندگی میں جو علی تفسیر فرمائی ہمارے لئے تو وہی ہے، تو بہر حال ایسے لوگ بھی ہیں جو گھروں کو جنت کی بجائے جہنم میں بدلتے ہیں، معاف نہیں کر سکتے.لیکن کم از کم انسان تو بہنیں ، قرآن جو انسانیت کے متعلق ادنی توقع رکھتا ہے وہ تو دکھا ئیں، اگر وہ معاف نہیں کر سکتے تو پھر جتنا جرم ہے اس سے آگے نہ بڑھیں لیکن افسوس ہے کہ بہت سی خرابیاں اس وجہ سے ہیں کہ بدلہ بھی لیتے ہیں اور پھر ظلم کرتے ہیں بدلہ کے وقت.بعض لوگ کہتے ہیں کہ جی ہمارے بیوی اور بچوں نے ظلم کئے ہیں اور یہ یہ حرکتیں کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ٹھیک ہے ہمیں علم ہے کہ تمہاری بیویوں میں سے تمہاری اولادوں میں سے تمہارے دشمن بھی ہیں یعنی عام کمزوریاں تو الگ ہیں ، خدا تعالیٰ کے علم میں ہے کہ تم سے دشمنی کرنے
خطبات طاہر جلد ۳ 24 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء والے تمہارے گھروں میں موجود ہوتے ہیں بعض دفعہ، بد نیتی کے ساتھ بھی تمہیں نقصان پہنچاتے ہیں یا بعض دفعہ ان معنوں میں دشمن بن جاتے ہیں کہ تمہاری محبت ان کو بگاڑ دیتی ہے اور پھر وہ عملاً تم سے دشمنی کر رہے ہوتے ہیں ، جب بدیاں کرتے ہیں تو تم ان میں ذمہ دار ہو جاتے ہو.بہر حال اس کے کئی معنی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے باوجود ہم تمہیں یہ تعلیم دیتے ہیں کہ اپنے خاوندوں کے جرائم دیکھو، اپنی بیویوں کے جرائم دیکھو، اپنی اولاد کی غفلتیں اور کوتا ہیاں دیکھو پھر بھی حکم یہ ہے کہ يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَأَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوهُمْ ۚ وَإِنْ تَعْفُوا وَتَصْفَحُوا (التغابن : ۱۵) وَتَغْفِرُوا فَإِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ کہ اے لوگو! اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ تمہاری بیویوں میں سے یا خاوندوں میں سے اور تمہاری اولاد میں سے تمہارے دشمن بھی ہیں ان سے بچو! اتنا تو تم تمہیں حق ہے کہ ان کی بدیوں سے یا ان کے بد افعال کے بدنتائج سے بچنے کی کوشش کرو لیکن یہ کہ پھر معاف نہیں کرنا ، انکو مارنا پیٹنا ہے ان سے بدلے اتارنے ہیں یا مظالم کرنے ہیں اس کی خدا تعالیٰ تمہیں اجازت نہیں دیتا.وَإِنْ تَعْفُوا پہلی بات یہ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کہ تم عفو سے کام لو اور اس طرح رہو گویا بہت سے بدیاں تم دیکھ ہی نہیں رہے.وَتَصْفَحُوا صفح اس سے اگلا مقام ہے.صفح اس طرح اڑا دینے کا نام ہے ایک چیز کو کہ کوئی نشان بھی اس کا باقی نہ رہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَتَصْفَحُوْا، صفح سے بھی کام لو اور اس میں ایک خوش خبری بھی دی گئی ہے کہ عفو کے نتیجہ میں صفح پیدا ہو جاتی ہے.اگر عفو کا تجربہ کریں آپ، بار بار عفو سے کام لیں تو آپ دیکھیں گے کہ بسا اوقات عفوجو ہے بدیوں کو اڑا لے جاتا ہے اور نشان ان کے مٹا دیتا ہے.تو فرمایا وَاِنْ تَعْفُوا وَ تَصْفَحُوا اگر تم عفو سے کام لو وَتَصْفَحُوا اور اس کے نتیجہ میں تمہیں.طاقت بھی نصیب ہو جائے کہ یہ خرابیاں گھر کی دور ہونی شروع ہو جائیں تو بہت بہتر ہے وَتَغْفِرُ وا لیکن اگر بدیاں کچھ باقی رہ جاتی ہیں اور سزا کو دل چاہتا ہے تو پھر بھی ہم تمہیں کہتے ہیں کہ مغفرت سے کام لوحتی المقدور.کیوں؟ اس لئے کہ فَاِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ کہ اللہ صرف عفو کرنے والا نہیں بلکہ بے حد مغفرت کرنے والا ہے اور بہت ہی رحم کرنے والا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 25 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء آنحضرت ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے مخاطب کر کے فرمایا: خُذِ الْعَفْوَ وَأمُرُ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَهِلِينَ (الاعراف: ۲۰) آنحضرت ﷺ تو مجسم عفو تھے.خدا کی صفات میں رنگین تھے پھر آپ کو یہ حکم کیوں دیا گیا ہے، بظاہر یہ عجیب بات لگتی ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ بعض احکامات آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے دیئے جاتے ہیں اور ساری قوم مراد ہوتی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ پر سب کی نظر ہے.آپ سے بے انتہا محبت ہے اس لئے اللہ تعالیٰ آپ کو حکم دیتا ہے کہ جو بندہ مجھے سب سے پیارا ہے اس سے میں کیا توقع رکھ رہا ہوں اس طرح قوم کو ایک تلقین تحریص کی جاتی ہے نیکیوں کی.تو یہ مراد نہیں تھی کہ آنحضرت ﷺ کو ضرورت تھی ، آپ تو نبوت سے پہلے ہی بے حد عفو کر نے والے تھے.تو خاص طور امت محمدیہ کو غیر معمولی جب کسی نیکی کی طرف توجہ دلانا ہو یہ قرآن کا اسلوب ہے تو پھر آنحضرت مے کو انفرادی طور پر چلتا ہے اور آپ کو وہ حکم دیتا ہے تا کہ اس مرکز سے پھر انتشار ہو خیر کا.آنحضرت کو یہ بھی فرمایا وَ أُمُرُ بِالْعُرْفِ اور بہترین رنگ میں عفو کی تعلیم بھی دو، عرف اس نیکی کو بھی کہتے ہیں جو معروف ہو، عام دنیا میں رائج ہو اور اس نیکی کو بھی کہتے ہیں جو نیکیوں میں بھی ایک نمایاں شان رکھتی ہو.تو چونکہ عفو کا ذکر فرمایا ہے اس لئے اول معنی اس کا یہ ہوگا وَأُمُرْ بِالْعُرْفِ کہ عفو کے معاملہ میں بہترین تعلیم دو بنی نوع انسان کو.اس ضمن میں چند احادیث میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ حضوراکرم ﷺ نے اس پر کیسے عمل فرمایا اور کس رنگ میں تعلیم دی.الله صلى الله ایک مرتبہ آنحضور ﷺ نے تحریک فرمائی کہ صدقہ دو یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرو کچھ لوگ سونا لائے ، کچھ چاندی لائے ، کچھ غلہ لائے، کچھ کھجور لے آئے.ایک شخص کے پاس اور کچھ نہیں تھا کھجور کے چھلکے ہی اُٹھا لایا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! میرے پاس تو یہی ہے، میں یہ حاضر کر دیتا ہوں.یک شخص آیا اور عرض کیا میرے پاس تو یا رسول اللہ ! کچھ بھی نہیں ہے لیکن میں اپنی آبر وصدقے میں پیش کر دیتا ہوں اگر کوئی مجھ سے زیادتی کرے گا، مجھے برا بھلا کہے گا تو میں غصے نہیں ہوں گا.اس آدمی کے کچھ لوگ بعد میں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا تم میں سے ایک آدمی نے ایسا صدقہ کیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے قبول فرمالیا ہے.کتنی پیاری ہے یہ حدیث !
خطبات طاہر جلد ۳ 26 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء اور کیسا پیارا رنگ ہے لوگوں کو نصیحت کرنے کا او أمرُ بِالْعُرْفِ پر عمل درآمد اس کو کہتے ہیں.اس میں ایک اور پہلو کی طرف بھی توجہ دلا دی گئی کہ بہت سی جگہ عفو کی راہ میں عزت نفس حائل ہو جاتی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ باقی چیزیں تو چلو معاف ہو گئیں چوری کر لی یا کچھ تھوڑا سا نقصان پہنچا گیا لیکن میری عزت پر حملہ کرتا ہے یہ میں کس طرح معاف کر دوں ، اس کا تو میں نے بدلہ لینا ہے.تو آنحضرت نے ہمیں مطلع کیا کہ عزت کے معاملہ میں درگزر کرنا، عزت پر جو ہاتھ ڈالتا ہو اس کو معاف کرنا یہ اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا ہے کہ اس نے اپنے رسول (ﷺ) کو خود خبر دی کہ اس شخص کی یہ نیکی میں نے قبول فرمالی ہے، مجھے بہت پسند آ گئی ہے اور آپ دیکھ لیں ہماری معاشرتی خرابیوں میں سے بہت سے خرابیاں اس وجہ سے پیدا ہوتی ہیں کہ عزت نفس کے معاملہ میں آکر لوگ کہتے ہیں کہ اس نے میری بے عزتی کی ہے ہم تو کبھی معاف نہیں کریں گے.ابھی چند دن ہوئے ایک خاندان کا جھگڑا آیا انہوں نے بڑے درد کا اظہار کیا دونوں طرف سے کہ جی ہمارے درمیان ناچاقی ہو گئی ہے، بڑے اکٹھے تھے ، بڑے محبت کا معاملہ تھا اور اب ہم الگ الگ ہو گئے ہیں، پھٹ گیا ہے خاندان ، دعا کریں.میں نے کہا دعا کا معاملہ تو بعد کا ہے، پہلے یہ بتاؤ کہ یہ کیوں ہو رہا ہے آخر کیوں تم لوگ صلح نہیں کرتے ؟ تو جواب یہ دیا کہ جی اب کیسے صلح ہو سکتی ہے؟ انہوں نے تو بے عزتی کر دی ہماری.گویا بے عزتی کے بعد صرف دعا ہی رہ جاتی ہے اور کوئی ذریعہ باقی نہیں رہا.حالانکہ دعا کی قبولیت کا اصول یہ ہے کہ جس صفت میں آپ اللہ کے مشابہ ہوں گے اس معاملہ میں آپ کی دعائیں قبول ہوں گی یہ آپ تجربہ کر کے دیکھ لیں بالا رادہ اللہ تعالیٰ کی صفات کو اپنائیں جس صفت کو آپ اپناتے ہیں اس صفت میں اللہ تعالیٰ آپ سے حیا کرے گا اور آپکی دعائیں ضرور سنے گا.جو لوگ رب بنتے ہیں لوگوں کے ، ربوبیت اختیار کرتے ہیں وہ جب دعا کرتے ہیں اے خدا مصیبت پڑ گئی ہے ہم ضرورتمند ہو گئے ہیں ہماری مدد فر ما تو ہو کیسے سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ سنے، وہ تو ان کے کہے بغیر بھی سننے لگ جاتا ہے، ایسا پیار کا سلوک ان سے فرماتا ہے کہ جو دوسروں کی ضرورتیں پوری کر رہے ہوتے ہیں، ان کی ضرورت میں خود لگ جاتا ہے.تو ہر صفت کے متعلق یاد رکھیں کہ جو کچھ آپ اپنے رب سے توقع رکھتے ہیں آپ کی دعا میں سنجیدگی اور سچائی پیدا نہیں ہو سکتی جب تک ویسا بنے کی کوشش نہ کریں.آپ تو لوگوں سے اس قدر
خطبات طاہر جلد ۳ 27 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء رعونت کا سلوک کریں کہ اس نے ہماری عزت پر ہاتھ ڈال دیا ہے اس لئے ہم اسے معاف نہیں کر سکتے اب کبھی ، اس نے گھر نہیں بلایا اس نے فلاں وقت دعوت نہیں دی.یعنی ایسے ایسے بھی مقدمات آئے ہیں کہ میاں بیوی کی آپس میں ناچاقی اور پھر میاں بیوی کے خاندان کی دوسرے خاندان سے ناچاقی اور کئی کئی سال تک پھٹ گئے ہیں دل اور ایک دوسرے سے ملنا جلنا بند ہو گیا اس لئے کہ بیوی کے ماں باپ نے اپنے فلاں عزیز کی شادی پر زبانی پیغام بھیج دیا تھا کہ ” آجانا کارڈ نہیں بھیجایا الگ رقعہ لکھ کر نہیں بھیجا، یہ آپ ہنس رہے ہیں کہ یہ بڑی جہالت ہے لیکن اس جہالت میں ہیں مبتلا لوگ.اپنے اوپر جب پڑتی ہے بات تو اپنی عزت اتنی پیاری لگتی ہے آدمی کو کہ وہ سمجھتا ہے کہ اس کی خاطر ہر حماقت جائز ہے.تو آنحضرت ﷺ کو اللہ نے جوحکم دیا اس میں ساتھ یہ بھی فرمایا: وَأَعْرِضْ عَنِ الْجُهِلِينَ جاہلوں سے اعراض کرنا.بڑے لوگ دنیا میں جاہل پھرتے ہیں.تو عزت نفس بہت بڑا عذر سمجھا جاتا ہے بدلہ لینے کا اور معاف نہ کرنے کا.تو آنحضرت ﷺ نے ایسے پیارے انداز میں اس کو ہمارے سامنے کھول کر رکھ دیا اس کمزوری کو اور اس کا حل بھی پیش فرما دیا کہ دیکھو ایسے ایسے بھی خدا کے بندے ہیں جب ان کے پاس کچھ پیش کرنے کے لئے نہیں تھا تو انہوں نے کہا کہ اللہ کی خاطر ہم عزت پیش کرتے ہیں ، ہماری جو چاہو بے عزتی کر لو ہم آگے سے جواب نہیں دیں گے.اور اس کے نتیجہ میں اللہ اتنا خوش ہوا کہ حضوراکرم ﷺ کو خود بتایا.جہاں تک اس بات کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اپنا نقصان ہو اور باز نہ آرہا ہو کوئی اور اس کے نتیجہ میں دوسروں کا کوئی نقصان نہ ہو وہاں اصلاح کی شرط لازمی نہیں ہے، وہاں یہی تعلیم ہے کہ جتنا ہوسکتا ہے ممکن اتنا صبر کرتے چلے جاؤ اور اپنے حقوق کی ادائیگی سے غافل نہ رہو.چنانچہ اس ضمن میں حضرت عمرو بن شعیب اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کے پاس ایک شخص آیا اور کہا کہ یا رسول اللہ ﷺکے میرے کچھ رشتہ دار ہیں اور میں ان سے صلہ رحمی کرتا ہوں اور وہ قطع تعلق کرتے ہیں.یعنی میں تو ان کے سارے حقوق ادا کرتا ہوں رحمی رشتوں کے نتیجہ میں جو پیدا ہوتے ہیں اور وہ ان حقوق کو کاٹتے چلے جاتے ہیں، میں معاف کرتا ہوں اور وہ ظلم کرتے چلے جاتے ہیں، میں اچھا سلوک کرتا ہوں اور وہ بدسلوکی کرتے چلے جاتے ہیں.اس صد الله
خطبات طاہر جلد۳ 28 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء سے زیادہ کیا مضبوط کیس بنایا جاسکتا ہے اس بات کے لئے کہ رسول اللہ ﷺ اجازت دے دیتے کہ ہاں اب تم بھی شروع کرد و ویسے ہی.بہت زبردست وکالت کی ہے اس شخص نے اپنے حق میں کہ مجھے اب اجازت دے دیں کہ میں بھی پھر ان سے وہی کروں جو وہ کرتے ہیں اور پھر عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ! اب بتائیں کہ کیا میں بھی ان سے ویسا ہی سلوک کر سکتا ہوں جیسا وہ مجھ سے کرتے ہیں.آپ نے فرمایا نہیں اس طرح تم سب چھوڑ دیئے جاؤ گے عجیب کلام ہے اتنی حکمت ہے اس میں ، اتنی گہرائی ہے، آپ سوچیں ذرا کہ اس فقرہ میں کیا فرما دیا آپ نے ! آپ نے فرمایا ان کو خدا چھوڑ چکا ہے تمہیں نہیں چھوڑا ہوا، کتنا ظلم ہوگا کہ تم سارے کے سارے چھٹ جاؤ خدا سے تم سب کو خدا متروک فرمادے، یہ نہ کرنا، کچھ تو خاندان کے لوگ ہوں جن سے اللہ پیار کا تعلق قائم رکھے ، ان کو بھی چھوڑ دیا تمہیں بھی چھوڑ دے گا، پھر تو تمہارا سارا خاندان ہلاک ہو جائے گا.اکثر جو خاندانی جھگڑے ہیں ان میں ایک یہ وجہ ہے لوگ سمجھتے ہیں کہ اب تو ہمارا حق ہو گیا ہے، اتنی زیادتی ہو چکی ہے کہ اب ہم آگے سے شروع کر دیں اور دونوں فریق چونکہ اپنے آپ کو مظلوم سمجھ رہے ہوتے ہیں اس لئے دونوں طرف سے یہ احساس بڑھتا چلا جاتا ہے اور کسی طرح صلح ہونے میں ہی نہیں آتی.دیکھئے آنحضرت علی اللہ کیسا پیارا جواب دیتے ہیں.پھر فرماتے ہیں تم فضیلت کو اختیار کرو.ان سے صلہ رحمی کرو کیونکہ جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا تیرے ساتھ اللہ تعالیٰ اسی طرح کا معاملہ فرمائے گا اور تیرا مددگار ہوگا.تو اس سے بہتر اور کیا سودا ہوسکتا ہے کہ انسان سے انسان دکھ اٹھائے اور ظلم برداشت کرے اور اللہ کا پیار اس کے بدلہ میں حاصل کر رہا ہو اور اللہ کو اپنا مددگار بنا رہا ہو.تو احمدی معاشرہ میں یہ باتیں داخل ہونے کی ضرورت ہے بڑی شدت کے ساتھ.یہ کمزوریاں ہیں جنہوں نے ہمیں دکھوں میں مبتلا کیا ہوا ہے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ساری دنیا کی تباہی اسی وجہ سے ہے کہ بدلہ لینے کا سلیقہ بھی انسان کو ابھی تک نہیں آیا.اگر معاف نہیں کر سکتا تو بدلہ تو اس طرح لے جس طرح رسول اکرم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے تعلیم دی اور پھر عفو کا طریقہ نہیں سیکھا ، پھر مغفرت کا طریق نہیں سیکھا اور اس کے نتیجہ میں ساری دنیا میں مصائب پھیلے ہوئے ہیں اور یہ بیماریاں احمدی گھروں میں بھی داخل ہو چکی ہیں.اگر احمدی گھر ان کو صاف نہیں کریں گے تو دنیا کے مصلح کیسے بن جائیں گے.دنیا تو جواب دے گی کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 29 29 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء اے گنجے تو اپنے سر کی فکر کر تیرے سر پر تو بال کوئی نہیں اور تو دوائیاں بیچتا پھر رہا ہے گنج کے علاج کی.یہ تو زیب نہیں دیتا تجھے.تو بہت اہم بات ہے یہ کوئی معمولی بات اس کو نہ سمجھیں.اپنے گھروں سے ہر قسم کی لڑائیاں فساد ایک دوسرے پر زیادتیاں ختم کر دیں.عفو کا سلوک شروع کر دیں مغفرت کا سلوک شروع کر دیں.رحم کا سلوک شروع کر دیں اور اس کا فائدہ آپ کو بھی پہنچے گا.بدلہ لینے والے گھروں میں سکون کبھی نہیں میں نے دیکھا ، جو دکھ ہیں بے چینی وہ جہنم میں تبدیل ہونا شروع ہو جاتی ہے، آگیں بھڑک جاتی ہیں دلوں میں، ایک جرم سے دوسرا جرم آگے بڑھنا شروع ہو جاتا ہے.اور بعض ایسے ظالم ہو جاتے ہیں ماں باپ کہ اپنی اولاد سے بھی ایسا ظالمانہ سلوک کرتے ہیں کہ وہ واقعات سن کر بھی انسان حیران رہ جاتا ہے.امریکہ میں ایسے واقعات کثرت سے ہورہے ہیں کہ مائیں اپنے بچوں کو پکڑ کر دیواروں سے مارتی ہیں اور ان کے سر پھاڑ دیتی ہیں.بعض آدمیوں نے ایسے مظالم کئے ہیں اپنے بچوں پر ایسے اور معمولی تعداد نہیں ہے اور ان کے پاگل پن بعضوں کے تو ایسے ہیں کہ وہ سوسائٹی سے کٹ جاتے ہیں لیکن بعض ایسے پاگل ہیں کہ آگے پھر وہ جرائم کرتے ہیں اور ان دکھوں کو پھیلاتے چلے جاتے ہیں.ایک نفرت دوسری نفرت میں جنم لیتی چلی جاتی ہے.تو ہم جب ان واقعات کو پڑھتے ہیں تو احمدی کہتا ہے کہ میں نے اس کی اصلاح کرنی ہے.خدا کی تقدیر کہتی ہے اس سے کہ ٹھیک ہے، تمہیں میں نے کھڑا کیا ہے اس کی اصلاح کے لئے لیکن اپنی تو کرو، اپنے گھروں کو تو جنت بناؤ، جب تک تم جنت نہیں بناؤ گے اگلی دنیا کو جنت دو گے کیسے؟ جو تمہارے پاس ہے ہی نہیں چیز وہ آگے کس طرح تقسیم کرو گے؟ اس لئے ان باتوں کو چھوٹا نہ سمجھیں.بہت تیزی سے وقت آ رہا ہے کہ اسلام کا غلبہ میں دیکھ رہا ہوں.کثرت کے ساتھ لوگ اسلام میں داخل ہونا شروع ہو گئے ہیں اور تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ رفتار، مجھے تو یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ ان کو سنبھالیں گے کیسے، ان کی تربیت کیسے کریں گے.اگر احمدی گھروں میں انہوں نے یہی مصائب دیکھے تو کیا پائیں گے وہ یہاں آکر ؟ اس لئے بڑی جلدی اس طرف متوجہ ہوں اور فکر کریں اپنی.آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ نصیحت آپ تک پہنچا کر جہاں
خطبات طاہر جلد ۳ 30 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء تک بس چلتا ہے اپنے فرض کو پورا کرتا ہوں فرمایا: ”بنی نوع انسان کے ساتھ ہمدردی میں میرا مذہب ہے کہ جب تک دشمن کے لئے بھی دعا نہ کی جائے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا“.( ملفوظات جلد ۲ صفحه ۶۸) یہ ہے رحم کا مقام، عفو اور مغفرت سے آگے رحم کا مقام.صرف یہ نہیں کہ معاف کر دیا جائے اس کے لئے دعا نہ کی جائے اس وقت تک سینہ صاف نہیں ہوتا ، یہ بہت بڑا گہرا فطرت کا راز ہے.جب آپ دشمن کے لئے دعا کرنے کی کوشش کریں تو اس وقت آپ کو پتہ چلے گا کہ کتنا مشکل کام ہے بڑا زورلگا نا پڑتا ہے پھر بھی بعض دفعہ دعا نہیں نکلتی کہ ایسا ظالم آدمی جس نے یہ حرکتیں کی ہیں اور کرتا چلا جاتا ہے اس کے لئے دعا کیسے کروں ، معاف کر دیا، چلیں چھوڑ دیا اس کا پیچھا ، اس سے آگے میں کس طرح بڑھ جاؤں کہ اے اللہ اس پر رحم فرما.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نکتہ بیان فرمایا کہ دعا کرو گے تو پھر یقین ہوگا کہ تمہارا سینہ صاف ہو چکا ہے اور دعا کے لئے بھی تین دفعہ کی شرط لگائی.جب تک کم از کم تین دفعہ تم اپنے دشمن کیلئے دعا نہیں کرتے تمہارا سینہ صاف نہیں ہوسکتا.اس گر کو باہر تو الگ رہا اپنے گھروں میں تو ذرا استعمال کر کے دیکھیں.بیوی نے خاوند سے دیکھ پایا ہو اس وقت وہ اس کے لیے دعا کرے.خاوند نے بیوی سے دکھ پایا ہو اس وقت وہ اس کے لئے دعا کرے.اپنے بچوں سے دکھ پایا ہوان کے لئے دعا کرے.بچوں نے ماں باپ سے دکھ پایا ہوان کے لئے دعا کر رہے ہوں.پھر دیکھیں سینے کس طرح صاف ہوتے ہیں.یہ عارف باللہ کا کلام ہے کسی عام انسان کا کلام نہیں ہے.ایک صاحب تجربہ کا کلام ہے جس کو خدا نے اس زمانہ کے لئے مامور بنایا تھا.وہ ان تجربوں سے گزرا ہے اور پھر یہ موتی نچھاور کر رہا ہے ہمارے اوپر اس لئے بڑی قدر کے ساتھ ان کو پکڑیں، فرماتے ہیں: ” جب تک دشمن کے لئے دعا نہ کی جاوے پورے طور پر سینہ صاف نہیں ہوتا.....حضرت عمر رضی اللہ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے.آنحضرت ہ آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے.“
خطبات طاہر جلد ۳ 31 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء اس کو کہتے ہیں عارف باللہ کا کلام.آپ نے تاریخ میں پڑھا ہوا ہے واقعہ اور ہر بیان کرنے والا یہ بیان کرتا ہے کہ اس لئے حضرت عمرؓ مسلمان ہوئے تھے کہ بہن کو اس طرح زخم پہنچا تھا وہ تلاوت کر رہی تھی تو اس کے خاوند نے اس کو مارا اور اس واقعہ نے کا یا بیٹی.یہ ٹھیک ہے فوری محرک وہی واقعہ بنا تھا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر اس طرف تھی کہ اصل تو فیصلہ عمر کے مسلمان ہونے کا اس وقت ہو گیا تھا جب حضرت محمد مصطفی علی نے دعا کی تھی ان کے لئے.پھر بہانے بنتے ہیں سارے.پھر جو وجوہات آپ کو نظر آ رہی ہوتی ہیں یہ صرف ایک ظاہری مہرے سے ہیں جو چل رہے ہوتے ہیں، مہرہ فی ذاتہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا، یہ تو وہ ہاتھ ہے جو اس کو اٹھا کر رکھ رہا ہوتا ہے، وہ دماغ ہے جو یہ فیصلہ کرتا ہے کہ میں نے کونسی چال چلنی ہے.تو دعا ہے جو ساری چیزوں کے پیچھے ایک محرک اول ہے اور خدا کی قوت ہے جو ٹن کا فیصلہ کر کے پھر آگے ایک تقدیر کو حرکت دے دیتی ہے، پھر ہمیں مہرے نظر آنے شروع ہو جاتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے: دو شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو“.اس کلام میں آپ جانتے ہیں کہ ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمانے سے پہلے نظر ڈالی ہوگی لازما.اس میں ہر قسم کا دشمن آ گیا ہوگا جو بدیوں میں ظلم کرنے میں، گالیاں دینے میں سب سے آگے آگے تھے ان سب کی فہرست ذہن میں رکھی ہے.پھر فرمایا: در شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے نہیں رہتا.دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو.ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں.....پس تم جو میرے ساتھ تعلق رکھتے ہو تمہیں چاہئے کہ تم ایسی قوم بنو جس کی نسبت آیا ہے إِنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ.( ملفوظات جلد ۲ صفحہ ۲۸-۲۹) یعنی وہ ایسی قوم ہے کہ ان کا ہم جلیس بد بخت نہیں ہوتا اور ان کی نیکی اور ہمدردی سے محروم تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت کو مضبوطی سے پکڑ لیں ، آپ کی
خطبات طاہر جلد ۳ 32 خطبه جمعه ۱۳؍ جنوری ۱۹۸۴ء بھی اس میں خیر ہے اور ساری دنیا کی بھی اس میں خیر ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ آپ ہی دنیا کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے قائم کئے گئے ہیں.لیکن اگر آپ نے ان باتوں کو بھلا دیا تو آپ سے مراد پھر آپ کے وجود نہیں رہیں گے.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے پھر خدا اور قوم پیدا کرے گا جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا ہوگی.نام تو مسیح موعود کا ہی لگ چکا ہے اس زندگی میں اس کو اب کوئی مٹا نہیں سکتا لیکن ہم میں سے اگر اکثر نے حضرت اقدس مسیح موعود ( علیہ الصلوۃ والسلام) کی طرف منسوب ہونے کا حق ادا نہ کیا تو پھر کچھ اور لوگ ہوں گے جو چنے جائیں گے اس لئے کیوں اس نعمت کو اپنے ہاتھ سے چھوڑتے ہیں.إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيْرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) اللہ تو آپ کو نہیں چھوڑ نا چاہتا وہ تو عفو کا سلوک کر رہا ہے.بہت سی ہماری غلطیوں.صرف نظر فرمارہا ہے اور ہمیں ہی اس نے ابھی سامنے رکھا ہوا ہے اس لئے کیوں ایسا موقعہ پیدا کرتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک، نعوذ بالله من ذالک خدا ہمیں چھوڑ کر مسیح موعود (علیہ الصلوۃ والسلام) کے لئے کوئی اور جماعت چن لے.اللہ نہ کرے ایسا وقت ہو.خدا کرے کہ ہمیں اپنے سارے معاشرے کو قرآنی ہدایات ، سنت نبوی ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے ارشادات کے مطابق جنت بنانے کی توفیق نصیب ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک اور بات میں کہنا چاہتا تھا کہ خشک سالی ہو رہی ہے اور اس سے خصوصاً ان غربا کو بہت تکلیف ہے جن کی فصلوں کا انحصار محض بارش پر ہے اور بہت کثرت سے ایسے بارانی علاقے ہیں اگر ان کی ایک فصل ماری جائے تو پھر وہ دو تین فصلوں تک ان زمینداروں کو وہ فصل اٹھنے نہیں دیتی.پہلے بھی نقصان ہو چکا ہے بارانی فصل والوں کا اس لئے خاص طور پر درد دل سے دعا کریں اللہ تعالیٰ رحم فرمائے.ہمارے ربوہ کے بچے جہاں تک بس چلتا ہے گرمیوں میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں تو اس صفت کے چھوٹے سے جلوے میں وہ شریک ہو جاتے ہیں.جہاں تک ان کو توفیق ملتی ہے تو وہ بچے خاص طور پر دعا کریں کہ اے اللہ ہمیں تو توفیق ملتی ہے ہم پانی پلاتے ہیں.تو رحم فرما ہماری اس نیکی کو قبول فرما اور لوگوں کو بخش دے، اگر ان سے ناراض بھی ہے تو انہیں معاف فرما اور بکثرت ان کے لئے
خطبات طاہر جلد ۳ پانی کا انتظام فرما.33 خطبه جمعه ۱۳/ جنوری ۱۹۸۴ء افریقن بھائیوں کو بھی اس دعا میں یاد رکھیں وہاں بہت بڑی تباہی آئی ہوئی ہے.خشک سالی مسلسل جاری ہے.گھانا کے علاوہ نائیجیریا اور بھی بہت سے ممالک ہیں چاڈ، نائیجر وغیرہ تو ان کے لئے بھی خاص طور پر دعا کرتے رہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 35 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء صفت ستاری اپنانے کی تلقین (خطبه جمعه فرموده ۲۰ جنوری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اللَّهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أُنْثَى وَمَا تَغِيضُ الْأَرْحَامُ وَمَا تَزْدَادُ وَكُلُّ شَيْ ءٍ عِنْدَهُ بِمِقْدَارٍ عَلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ الْكَبِيرُ الْمُتَعَالِ سَوَاءٍ مِّنْكُمْ مَّنْ أَسَرَّ الْقَوْلَ وَمَنْ جَهَرَبِهِ وَمَر من هو مسـ خَفْ بِالَّيْلِ وَسَارِبُ بِالنَّهَارِ لَهُ مُعَقِّبْتُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَ مِنْ أَمْرِ اللهِ إِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّالٍ (الرعد: ۹-۱۲) جن آیات کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے احوال سے خوب واقف ہے اور اس بات سے بے نیاز ہے کہ وہ اونچی بات کرتے ہیں یا مخفی بات کرتے ہیں ، اپنے حال کو ظاہر کرتے ہیں یا دلوں میں چھپاتے ہیں ، دن کو کھل کر لوگوں کے سامنے ظاہر ہوتے ہیں یا راتوں کو چھپ کر بعض مخفی ارادوں کے ساتھ چلتے ہیں ، ان کے احوال خدا پر
خطبات طاہر جلد ۳ 36 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء خوب روشن ہیں.وہ ان کو ان کی ماؤں کے بطون سے جانتا ہے.وہ جانتا ہے کہ ماؤں کے رحم کس چیز کو گھٹاتے ہیں اور کس چیز کو بڑھاتے ہیں اور ان سب باتوں کے باوجود اس نے ان بندوں پر محافظین مقرر فرما ر کھے ہیں جو اللہ کے اذن کے ساتھ ان کی حفاظت کرتے ہیں ان کے آگے بھی اور ان کے پیچھے بھی اور یہ اس لئے ہے کہ خدا تعالیٰ کسی قوم کی نعمت کو جب انہیں عطا کر دیتا ہے تو ان سے واپس نہیں لیتا یہاں تک کہ وہ خود اپنی حالت کو بدلتے چلے جاتے ہیں اور پھر ایک ایسا مقام آجاتا ہے کہ اللہ جو اس قدر رحم کرنے والا ، اس قدر عفو کرنے والا اور اس قدرستاری کرنے والا ہے وہ اپنے ہاتھوں اس قوم کی بدلی ہوئی حالت کو جب اس حد تک بگڑتا ہوا دیکھتا ہے کہ وہ نعمت کے مستحق نہیں رہتے پھر وہ اپنی نعمت کا ہاتھ ان سے بھینچ لیتا ہے لیکن اتنے لمبے انتظار اور اتنے لمبے صبر اور اتنی لمبی حفاظت اور اتنے لمبے عفو اور اتنی لمبی ستاری کے بعد وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّالٍ پھر جب خدا یہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ کسی قوم کو اس کی برائی کی سزا دے تو کوئی نہیں ہے کہ جو خدا کے فیصلے اور اس قوم کے درمیان حائل ہو سکے.وَمَا لَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَّالِ خدا سے بچانے والا پھر کوئی نہیں.ان آیات میں جو بکثرت مضامین بیان ہوئے ہیں ان کے اندروطن در بطن مضمون پھر چلتا چلا جاتا ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی ستاری کا ایک بہت ہی پیارا نقشہ کھینچا گیا ہے.عفو کا مضمون میں نے گزشتہ جمعہ میں بیان کیا تھا اگر چہ وقت کی رعایت کے پیش نظر اس کے تمام پہلوؤں کو تو میں بیان نہیں کر سکا تھا لیکن کسی حد تک میں نے عفو کے بارہ میں جماعت کو تعلیم دی تھی کہ اللہ تعالیٰ سے عفو کا سلوک چاہتے ہیں تو خدا کی طرح عفو“ بننے کی کوشش کریں.بندوں سے صرف نظر کیا کریں ان کے گناہوں سے آنکھیں پھیرا کریں تو اللہ تعالیٰ بھی آپ سے صرف نظر فرمائے گا اور آپ سے اسی طرح عفو کا سلوک فرمائے گا بلکہ بہت بڑھ کر سلوک فرمائے گا جس طرح آپ اللہ کے بندوں سے کرتے ہیں.عفو کا جہاں ایک تعلق مغفرت سے ہے وہاں ایک دوسرا تعلق ستاری سے ہے اور خدا تعالیٰ کی صفات کو ہم اس طرح زنجیروں کی شکل میں ایک دوسرے کے ساتھ مربوط پاتے ہیں جس طرح مادی دنیا میں کیمسٹ جانتا ہے کہ کس طرح خدا تعالیٰ کی تخلیقات میں ایٹم ایک دوسرے سے جڑ کر
خطبات طاہر جلد ۳ 37 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء Chain بنالیا کرتے ہیں اسی طرح خدا تعالیٰ کی صفات بھی بعض صورتوں میں Close Circut Chains کی شکل میں نظر آتی ہیں یعنی ایک بند دائرہ کی شکل میں ایک دوسرے سے تعلق رکھتی ہوئی.بعض صورتوں میں وہ ایک دوسرے سے مسلسل رابطہ رکھتی ہوئی آگے بڑھتی ہیں تو عفو کا تعلق ایک طرف مغفرت سے ہے اور ایک دوسری طرف ستاری سے ہے اور عفو کی بھی ایک منفی صفت ہے یعنی عفو کے نہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور ستاری کی بھی ایک منفی صفت ہے جو ستاری کے نہ ہونے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور جس برائی کا خدا نے ذکر فرمایا ہے اس سے ایک پہلو کے لحاظ سے یہی مراد ہے کہ جب تم خدا تعالیٰ کی صفت ستاری کو چھوڑو گے تو اس کی منفی صفت تمہارے اندر پیدا ہونی شروع ہو جائے گی اور جب وہ پیدا ہو جائے گی تو تم خدا تعالیٰ کی نعمتوں سے محروم رہ جاؤ گے اور خدا کی پکڑ کے نیچے آ جاؤ گے.ان منفی صفات کا ذکر تو میں آئندہ کروں گا اس وقت میں آج کے خطبہ کا مضمون صرف ستاری کے تعلق میں بیان کروں گا.اللہ تعالیٰ ستار ہے کیا معنی ہیں اور عفو اور ستاری میں کیا فرق ہے پہلے تو میں یہ بیان کرتا ہوں عفو کہتے ہیں کسی برائی کو دیکھنا اور اس سے حیا کر جانا ، صرف نظر کر جانا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کو حیی بیان فرمایا کہ بڑا حیا کرنے والا ہے.اس کثرت سے تمہیں گناہوں میں ملوث پاتا ہے اور اس کثرت سے تمہاری خطائیں دیکھتا ہے اور کوئی پہلو بھی ایسا نہیں ہے تمہاری برائیوں کا جو اس سے مخفی ہو.بسا اوقات تمہاری برائیاں تم سے مخفی رہتی ہیں، جھوٹی نیتوں کے پردوں میں تم نے ان کو چھپایا ہوا ہوتا ہے لیکن خدا جو کہنہ تک نظر رکھتا ہے اور پاتال تک اس کی نظر پڑتی ہے وہ ہر بات سے واقف ہے ، تم بھی اپنی برائیوں سے ایسے واقف نہیں.اس کے باوجود وہ صرف نظر فرماتا ہے، حیا کرتا ہے تم سے.( ترمذی کتاب الدعوات باب فی دعاء الشی ء ) اس کو عفو کہتے ہیں اور عفو کا ایک طبعی نتیجہ یہ ہے کہ جب انسان ان برائیوں سے حیا کرتا ہے تو غیروں سے بھی ان کو چھپائے.یہ تو عفونہ ہو گی کہ خود تو کسی کی برائیوں سے صرف نظر کرے اور غیروں پر ان کو ظاہر کرنا شروع کر دے اس لئے ستاری عفو کا ایک طبعی نتیجہ ہے.جن بندوں سے اللہ تعالیٰ حیا فرماتا ہے ان کی پھر ستاری بھی کرتا ہے اور آگے لوگوں سے ان کو محفوظ کرتا ہے.چنانچہ یہاں جو حفاظت کا مضمون بیان فرمایا:
خطبات طاہر جلد ۳ 38 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء لَهُ مُعَقِّبُتٌ مِّنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَ مِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُوْنَهُ مِنْ أَمْرِ اللهِ (الرعد :۱۲) اس میں حفاظت کے دوسرے معانی کے علاوہ ایک یہ معنی بھی ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود اس نے ایسے کارندے مقرر کر رکھے ہیں جو بنی نوع انسان کے عیوب کو غیروں پر ظاہر ہونے سے روکتے رہتے ہیں اور بالا رادہ ملائکہ بھی اس بات پر مقرر ہیں اور قانون قدرت بھی اس بات پر مقرر ہے کہ انسان کے عیوب کو غیروں سے چھپاتا ہے اور اگر اس پہلو سے انسان اپنی زندگی کے واقعات پر غور کرے تو دنیا دار جن باتوں کو اتفاق سمجھتا ہے اور کہتا ہے کہ ہم اتفاق سے بچ گئے یا اپنی چالاکی سے بچ گئے ، ایک عارف باللہ کوکھلم کھلا نظر آجاتا ہے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کی ستاری تھی کہ اس نے میرے اوپر پردے ڈھانپ دیئے یعنی میرے عیبوں کو غیروں کی نظر سے بچالیا ورنہ میری حماقتیں، میری غفلتیں ایسی تھیں کہ اس کے نتیجہ میں دنیا پر میرے عیب ظاہر ہوتے تو بعید نہ تھا.یہ محض ستاری ہے اور بالا رادہ ستاری ہے، کوئی اتفاقی واقعہ نہیں ہے، ایک تصرف الہی ہے جس کے نتیجہ میں میرے عیب غیروں سے ڈھانپے گئے ، اس کو کہتے ہیں ستاری.تو عفو کا ایک طبعی نتیجہ ہے ستاری.اور اللہ تعالیٰ اس طرح ستاری فرماتا ہے کہ ایک تو قانون قدرت ہے جو از خود جاری و ساری ہے چنانچہ بعض Transparent یعنی شفاف چیزیں اس نے پیدا کیں جن سے نظر آر پار ہو جاتی ہیں اور بعض ایسی ٹھوس چیزیں ہوتی ہیں جن سے نظریں گزر نہیں سکتی اور انسان طبعا از خودان چیزوں کو جن سے نظریں آر پار ہو جاتی ہیں نمائش کے لئے استعمال کرتا ہے.جہاں وہ اپنی اچھی چیزیں رکھتا ہے وہاں آگے شیشے کے Cover لگا دیتا ہے جس طرح یورپ میں یا پاکستان کے بڑے شہروں میں بھی دکانیں بھی ہوئی ہوتی ہیں وہاں شیشہ استعمال کیا جاتا ہے لیکن جہاں گند ہوتے ہیں وہاں ایسی چیزیں استعمال کی جاتی ہیں جن سے نظر آر پار نہ جائے.اگر خدا ہر چیز شفاف بنادیتا تو کچھ بھی بعید نہ تھا اور یہ اس کے قبضہ قدرت میں تھا لیکن پھر انسان کے اتنے عیب ایک دوسرے پر ظاہر ہوتے کہ ساری دنیا شیشے کی دیواریں بن جاتی.پھر جیسا کہ خدا تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمایا ہے دن ہے اور رات ہے.راتیں بہت سے عیب چھپا دیتی ہیں.اندھیرا جہاں ایک منفی طاقت ہے وہاں اس لحاظ سے ایک مثبت چیز بن جاتا
خطبات طاہر جلد۳ 39 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء ہے اور بہت سے عیوب ڈھانپنے کا موجب بن جاتا ہے.یہ ایک تو عام قانون ہے دوسرا ستاری میں ایک بالا رادہ قانون جاری ہے اور اس بالا رادہ قانون کے متعلق بہت سی تفاصیل حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ نے بیان فرمائی ہیں.صفات باری تعالیٰ کا مضمون بہت وسیع اور دلچسپ ہے لیکن اس کا ایک اصولی پہلو ہمیشہ مد نظر رکھنا چاہئے ورنہ ہم صفات باری تعالیٰ کے مضمون کو سمجھ نہیں سکیں گے.وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی صفات لامحدود اور لامتناہی ہیں اور یہ ناممکن ہے غیر اللہ کے لئے کہ کامل طور پر خدا کی کسی صفت کا مظہر بن سکے جب ہم یہ کہتے ہیں کہ فلاں کامل مظہر ہے تو اس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بشر کو جو استعدادیں بخشی ہیں ان استعدادوں کے منتہاء تک پہنچ گیا اور صفات باری تعالیٰ انسان میں ڈھل کر جو رنگ اختیار کرسکتی ہیں اس کو اس نے درجہ کمال تک پہنچا دیا.پس آنحضرت ﷺ ان معنوں میں صفات باری کے مظہر اتم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو استعدادیں عطا کیں اوّل وہ تمام بنی نوع انسان کی استعدادوں سے بڑھ کر تھیں اور جتنا بڑا برتن تھا اس کو بھرنے کے لئے اتنی بڑی محنت درکار تھی.یہاں استعدادوں کے بڑھانے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی لوگوں پر اس سے کم ذمہ داری عائد کی گئی.آنحضرت مے کی استعدادوں کو بڑھانے کا مطلب یہ ہے کہ سارے بنی نوع انسان سے زیادہ محنت آپ کو کرنی پڑی.سارے بنی نوع انسان سے زیادہ ذمہ داریاں آپ کی بڑھ گئیں کیونکہ جتنا بڑا برتن ہو اتنی ہی محنت اور کوشش سے بھرا جاتا ہے.اور اس کے باوجود آنحضرت ﷺ نے اس کو درجہ کمال تک پہنچادیا اور لبالب بھر دیا اپنے وجود کو صفات باری تعالیٰ سے.پس صفت باری کو اپنی ذات میں جاری کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی علی اللہ کے حوالے کے بغیر بات ہو ہی نہیں سکتی.ہم سمجھ ہی نہیں سکتے کہ یہ صفت بندہ میں آ کر کیا روپ دھارے گی.پانی جس طرح برتن میں جا کر ایک شکل اختیار کرتا ہے وہ نمونہ کا برتن جس میں صفات باری تعالیٰ جلوہ گر ہوتی ہیں اور ایک خاص شکل اختیار کرتی ہیں وہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات ہے.پس آپ کی ذات کے حوالے کے بغیر صفات باری تعالیٰ کا کوئی مضمون بیان ہو ہی نہیں سکتا.آنحضرت علی ستاری کے مضمون کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں مسند احمد بن حنبل کی حدیث ہے حضرت یعلی روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
خطبات طاہر جلد ۳ 40 إِنَّ اللهَ عَزَوَجَل يُحِبُّ الْحَيَاءَ وَالسِّتْرَ (مسند احمد کتاب مسند الشامیین حدیث یعلی بن امیہ ) خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء اللہ عز وجل حیا کو پسند فرماتا ہے، محبت کرتا ہے حیاء سے اور ستر ( پردہ پوشی ) سے محبت کرتا ہے.پھر حضور اکرم ﷺ کے متعلق سنن ابی داؤد میں حضرت معاویہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اگر تو لوگوں کی کمزوریوں کے پیچھے پڑے گا تو تو انہیں بگاڑ دے گا یا ان میں بگاڑ کی راہ پیدا کر دے گا اس لئے عفو سے ہی کام نہ لے بلکہ ستاری سے کام لے.ان کی کمزوریوں کو ہوا نہ دے بلکہ ان کمزوریوں پر پردہ ڈھانپ.پھر صفوان بن یعلی کی ایک روایت ہے مسند احمد بن حنبل میں وہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم نے فرمایا: انَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ حَيَى سَتِيرٌ فَإِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَغْتَسِلَ فَلْيَتَوَارَى بِشَيءٍ.(سنن نسائی کتاب الغسل واتیم باب الاستار عند الغسل ، مسند احمد کتاب مسند الشامیین باب حدیث یعلی بن امیہ ) کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ اللہ عز وجل بہت حیا کرنے والا ہے اور ستیر ہے.ستار کے معنی اور ستیر کے معنی ملتے تو ہیں لیکن ان کے اندر فرق ہے.ستیر صفت مشبہ بالفعل ہے جس کا معنی ہے کہ ایک مسلسل ستر کا سلوک بغیر روک کے بغیر توڑ کے جاری وساری ہے اسکی ذات میں اور جن قوانین کا میں نے ذکر کیا وہ بھی ستیر کی علامت ہیں کسی امر واقع پر کسی لغزش پر فعلاً خدا کا ستاری کرنا یہ ستار سے تعلق رکھنے والی بات ہے لیکن ایک جاری و ساری قانون کے طور پر بندوں کی حفاظت فرما نا اور ان کو غیر کی آنکھ سے محفوظ رکھنا یہ زیادہ تر ستیر سے تعلق رکھتا ہے.فرمایا کہ تم بھی صرف اپنے اندرونے کے ستر نہ ڈھانکا کر واپنے ظاہر کے ستر بھی ڈھانکا کرو.اور اسلام کی جتنی تعلیم بدن کو ڈھانپنا، حیا کرنا اس مضمون میں عورتوں اور مردوں کے متعلق جو تفصیلی تعلیم ملتی ہے اس کا سب کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت ستاری سے ہے یعنی بحیثیت ستیر وہ یہ احکام جاری فرماتا ہے.حضرت ابن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص کو چوری کے الزام میں آنحضرت عیلی سامنے پیش کیا گیا تا کہ آپ اس کے ہاتھ کو کاٹنے کا حکم صادر فرما ئیں.حضور ﷺ کا چہرہ یہ حالات
خطبات طاہر جلد ۳ 41 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء دیکھ کر متغیر ہوگیا.مسلمانوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! کیا آپ کو اس کام میں کچھ کر اہت آ رہی ہے.آپ نے فرمایا کیوں نہ آئے میں اپنے بھائیوں کی دشمنی میں شیطان کا مددگار نہیں ہونا چاہتا.اگر تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے گناہ معاف کر دے اور بخش دے تو تم کو چاہئے کہ لوگوں کے گناہوں کو چھپاؤ کیونکہ جب تم سلطان کے پاس جاؤ گے تو حد جاری کرنا اس پر ضروری ہو جائے گا.(کتاب الاخلاق صفحه : ۲۷۳) بہت ہی پر حکمت تعلیم ہے.ستاری کہاں کی جاسکتی ہے اور کہاں نہیں کی جاسکتی ، کہاں عفو پر ہاتھ کھلے ہیں کہاں بندھ جاتے ہیں اور جماعت کو خاص طور اس حدیث کے مضمون پر غور کرنا چاہئے.اگر کوئی کسی میں برائی دیکھتا ہے تو یہ ایک غلط نہی ہے کہ اس برائی کو لازماً شکایت کر کے سزا دلوانی چاہئے.یہ فرض نہیں ہے آپ کا.آنحضرت ﷺ نے نا پسند فرمایا ہے اس بات کو لیکن کن برائیوں میں.شکایت کرنی چاہئے اور کن میں نہیں کرنی چاہئے ، یہ ایک الگ مضمون ہے.نہ کرنے والی باتیں جہاں تک ہم نے معلوم کیں حدیث سے اور اسوہ سے وہ وہ ہیں جہاں ذاتی قصور ہے کسی انسان کا ، انفرادی قصور ہے اور جہاں نظام جماعت یا نظام اسلام کے خلاف کوئی شرارت ہے وہاں ایک مرتبہ بھی آنحضور ﷺ نے بات پہنچانے سے منع نہیں فرمایا بلکہ ان باتوں کو اس طرح سنتے تھے غور سے اور توجہ سے کہ قرآن کریم بیان فرماتا ہے کہ غیر طعنہ دیا کرتے تھے کہ وہ اذن ہے، وہ تو مجسم کان ہے شکائیتیں سننے کے لئے.فرمایا ذُنُ خَيْرٍ لَّكُمْ (التوبة : 1) ہے تو وہ مجسم اُذن لیکن جس طرح تم کہہ رہے ہو ان معنوں میں نہیں خیر کے لئے اذن ہے.وہ وہ باتیں غور سے سنتا ہے جن سے قومی بھلائیوں کا تعلق ہے اور جن سے قومی بھلائیوں کا تعلق نہیں ان سے صرف نظر کرتا ہے اور ہرگز ان کو نہیں سنتا.تو آنحضرت ﷺ کا اسوہ اس میں تفریق فرما رہا ہے جہاں قومی نقصان کے خطرے ہوں وہاں ہر مومن کا فرض ہے کہ وہ بات کو متعلقہ نظام تک پہنچائے.جہاں انفرادی غلطیاں ہوں وہاں آنحضرت ﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ ان سے صرف نظر بھی کرو اور ان کو ان لوگوں تک پہنچانے سے حیا کرو کہ جن تک اگر پہنچ گئی تو ان کا فرض ہو جائے گا کہ وہ سزاد یں ان کے ہاتھ بندھ جاتے ہیں وہاں، وہ نظام کے نمائندہ ہوتے ہیں نظام کو جاری کرنا خدا نے ان کی ذمہ داری ڈالی ہوتی ہے.جب ان تک
خطبات طاہر جلد۳ 42 خطبہ جمعہ ۲۰ / جنوری ۱۹۸۴ء بات پہنچ جائے تو پھر وہ مجبور ہو جاتے ہیں.میر ان لوگوں کا بھی جواب ہے وہ بعض دفعہ جب میں تعلیم دیتا ہوں عفو کی اور مغفرت کی ایسی باتوں کی تو بعض لوگ پھر لکھتے ہیں کہ جناب ہمیں تو آپ نے پکڑ لیا فلاں بات پر ، ہم سے تو عفو کا سلوک نہیں کیا ، ہم سے تو مغفرت نہیں کی گئی.انہی باتوں پر پکڑا جاتا ہے جن میں انسان مجبور اور بے اختیار ہو جاتا ہے اور سیرت محمد مصطفی ﷺ کے تابع دیکھ کے ساتھ پکڑا جاتا ہے، تکلیف محسوس کر کے پکڑا جاتا ہے، خوشی کے ساتھ نہیں پکڑا جاتا.چنانچہ حضور ﷺ کی یہ حالت جو تھی اس قدر آنحضور ﷺ کو دکھ پہنچا کہ مجھے مجبور کیا جارہا ہے ایک مومن بھائی کے ہاتھ کاٹنے پر کہ آپ کا چہرہ متغیر ہو گیا، صحابہ نے وہ دکھ دیکھ لیا اور پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ کیوں تم مجھے مجبور کرتے ہو کیونکہ میری حالت یہ ہے کہ میں نظام کو نافذ کرنے پر مامور کیا گیا ہوں ، اگر مجھ تک تم بات پہنچا دو گے تو پھر میں بے اختیار ہو جاتا ہوں اس لئے تمہیں اختیار تھا کہ تم یہ بات نہ پہنچاتے.اس کو کہتے ہیں ستاری اور کس طرح کھول کھول کر حضرت محمد مصطفی علی با تیں بیان فرماتے ہیں، حیرت انگیز رسول ملے ہیں، کوئی آپ کا ثانی نہیں دنیا میں، کوئی مثال نہیں مل سکتی جس نے اس طرح کھول کھول کر اللہ تعالیٰ کے نشانات کو دنیا کے سامنے پیش کیا ہو اور اس طرح بار یکی اور لطافت کے ساتھ مضامین کو کھول کر بیان فرمایا ہو.چنانچہ قرآن کریم اس پر نظر کرتے ہوئے فرماتا ہے: وَكَذَلِكَ نُصَرِفُ الْآيَتِ وَلِيَقُوْلُوْا دَرَسْتَ (الانعام:۱۰۶) اے محمد ! ہم تیرے اوپر آیات کو خوب بدل بدل کر پلٹ پلٹ کر پھیر پھیر کر بیان کرتے ہیں اسی لئے تیری یہ تربیت کر رہے ہیں کہ جن تک تو پیغام پہنچائے وہ کہہ اٹھیں کہ ہاں تو نے تدریس کا حق ادا کر دیا کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا ، اپنے فرض رسالت کو خوب خوب روشن کیا خوب عمدگی کے ساتھ ادا کیا.آنحضور ﷺ سے متعلق حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں اور یہ سنن ابن ماجہ کی حدیث ہے فرمایا:
خطبات طاہر جلد ۳ 43 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء فِي بَيْتِهِ مَنْ سَتَرَ عَوْرَة أَخِيهِ الْمُسْلِمِ سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَوْمَ الْقَيَامَةِ وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَةَ أَخِيهِ الْمُسْلِمِ كَشَفَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ حَتَّى يَفْضَحَهُ بِهَا ( سنن ابن ماجہ کتاب الحدود باب الستر على المومن دفع الحدود ) جس نے اپنے مسلمان بھائی کی ستاری کی یعنی پردہ پوشی فرمائی اللہ قیامت کے دن اسکی پردہ پوشی فرمائے گا وَمَنْ كَشَفَ عَوْرَة أَخِيهِ الْمُسْلِم اور جس نے اسکی پردہ دری کی اللہ اس کی پردہ دری اس طرح بھی کرے گا کہ وہ اپنے ہی گھر میں ذلیل و رسوا ہو جائے.پھر ابی صالح حضرت ابوھریرہ سے روایت کرتے ہیں اور جامع ترمذی میں یہ حدیث آتی ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: مَنْ نَّفْسَ عَن مُؤْمِنٍ كُرُبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا نَفْسَ اللَّهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الْآخِرَةِ وَمَنْ سَتَرَ عَلَى مُسْلِمٍ سَتَرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْن اَخِيْهِ.(جامع الترندی کتاب الحدود باب ما جاء في الستر على المسلم ) کہ جس کسی نے بھی اپنے مومن بھائی کے دکھ کو دنیا کے دکھوں میں سے کسی دکھ کو دور کیا اللہ آخرت میں اس کے دکھوں کو دور فرمائے گا اور جس نے اپنے مومن بھائی مسلمان کی پردہ پوشی فرمائی اللہ دنیا میں بھی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور آخرت میں بھی اس کی پردہ پوشی فرمائے گا.وَاللَّهُ فِی عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبُدُ فِی عَونِ آخِيُه اللہ اپنے اس بندہ کی مدد پر رہتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مد پر تیار کھڑار رہتا ہے.جب تک کوئی مومن کسی مومن کی مد کر تا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس مومن بندہ کی مدد کرتارہتا ہے جو اس کے بندوں میں سے کسی کی مدد کرتا ہے.ایک اور بہت ہی پیاری حدیث اس مضمون میں یہ ہے.ویسے تو ساری حدیثیں پیاری ہیں لیکن پیاری چیزوں میں سے بعض ذرا زیادہ پیاری لگتی ہیں اور جس صحابی سے روایت ہے اس نے بھی خاص انداز سے اسکو پوچھا ہے: عَنْ صفوان بن محرز انَّ رَجُلاً سَأَلَ ابنَ عَمَرَ كيفَ سَمِعْتَ رسول الله ﷺ يَقُولُ في النجوة
خطبات طاہر جلد ۳ 44 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء کہ حضرت صفوان بن محرز سے روایت ہے کہ انہوں نے دیکھا ایک شخص کو جو حضرت ابن عمر سے سوال کر رہا تھا اور اس نے سوال یہ کیا کہ وہ ذرا مخفی سر والی بات کے متعلق تو روایت بیان کریں کہ وہ کیا بات تھی کہ جس میں سرگوشی کے لہجہ میں کوئی بات ہوئی تھی کوئی ذکر ملتا ہے وہ ہمیں بھی سنا دیں.تو اس پر حضرت ابن عمرؓ نے بیان کیا کہ آنحضرت ﷺ نے راز اور سر گوشی کے انداز میں فرمایا کہ تم میں سے کوئی اپنے رب کے قریب ہوگا قیامت کے دن یہاں تک کہ وہ اپنا سایہ رحمت اس پر ڈالے گا پھر فرمائے گا تو نے فلاں فلاں کام کیا تھا.وہ کہے گا ہاں میرے رب.پھر کہے گا فلاں فلاں کام بھی کیا تھا.وہ اقرار کرے گا اے اللہ ! مجھ سے یہ سرزد ہوا تھا.اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں نے اس دنیا میں بھی تیری کمزوریوں کی پردہ پوشی کی تھی آج قیامت کے دن بھی تیری پردہ پوشی کرتا ہوں.(بخاری کتاب الادب بات ستر المؤمن على نفسه ) کیسا پیارا انداز ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا! خدا تعالیٰ کی ستاری کی بات کر رہے ہیں اور وہ بات بیان فرمارہے ہیں جو اللہ نے ڈھانپ کر بڑے پیار سے اپنے کسی بندہ سے کی ہے اور خود بھی سرگوشی کے انداز میں باتیں کر رہے ہیں ہلکی آواز میں ،ایک دبی دبی سی آواز میں بڑے پیار سے صحابہ کو یہ راز کی خبر سنا رہے ہیں کہ میں نے اللہ سے یہ پیاری بات سنی ہے اور میں تم تک پہنچاتا ہوں کہ قیامت کے دن خدا اس قسم کا معاملہ بھی فرمائے گا.پس وہ شخص جو وہ بندہ بننا چاہتا ہے جس بندہ کا اس حدیث میں ذکر ہے اور جو چاہتا ہے کہ اللہ کی رحمت کا سایہ اس کے سر پر دراز ہو جائے ، وہ بڑے پیار اور محبت سے قیامت کے دن اس سے فرمائے اور شروع میں تھوڑا سا ڈرا بھی دے کہ تو نے یہ کام کیا تھا لیکن اس رنگ میں کہے کہ اس یوم حشر میں کوئی اور نہ سن رہا ہو ، اسی سے پتہ چلتا ہے کہ ڈرانے کے لئے نہیں بلکہ ایک پیار کے انداز میں مغفرت کے اظہار کے طور پر بات ہو رہی ہے.چنانچہ پوچھے کہ اے بندے ! تو نے یہ بھی کیا تھا، یہ بھی کیا تھا، یہ بھی کیا تھا، اور وہ اقرار کرتا چلا جائے اور پھر فرمائے کہ میں دنیا میں بھی تیری ستاری کیا کرتا تھا آخرت میں بھی تیری ستاری کروں گا.لیکن دنیا میں کن کی ستاری کرتا ہے یہ مضمون پہلے آنحضور علیہ بیان فرما چکے ہیں، ان کی نہیں کرتا جو اپنے بھائیوں کی ستاری نہیں کرتے ان کی پردہ دری کرتا ہے جو اپنے بھائیوں کی پردہ دری
خطبات طاہر جلد ۳ 45 خطبہ جمعہ ۲۰ / جنوری ۱۹۸۴ء کرتے ہیں، ان کو گھروں میں بھی اپنے رسوا اور ذلیل کر دیتا ہے اور باہر بھی رسواو ذلیل کر دیتا ہے اس لئے وہ بندے تو یہاں مراد نہیں ہیں.اگر آپ وہ بندہ بننا چاہتے ہیں تو اپنے بھائیوں سے مغفرت کا سلوک کریں اورستاری کا سلوک کریں.مغفرت تو وہ معاملات ہیں جن میں آپ کا ذاتی بخشش کا معاملہ ہے.آپ کا گناہ ہے آپ بخشش کر سکتے ہیں یا نہیں کر سکتے یہ الگ بحث ہے لیکن ستاری کو اپنا ئیں کیونکہ ستاری کے نتیجہ میں اللہ کی ستاری اس دنیا میں بھی حاصل ہوگی اور اس دنیا میں بھی حاصل ہوگی.آخر پر اس مضمون پر میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اقتباس پڑھ کر اس خطبہ کوختم کرتا ہوں آپ نے فرمایا: ”انسان کے ایمان کا بھی کمال یہی ہے کہ تخلق باخلاق اللہ کرے.(یعنی اللہ کے اخلاق کے رنگ میں اپنے اخلاق رنگین کر دے) یعنی جو جو اخلاق فاضلہ خدا میں ہیں اور صفات ہیں ان کی حتی المقدور اتباع کرے اور اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے رنگ میں رنگین کرنے کی کوشش کرے.مثلاً خدا تعالیٰ میں عفو ہے ،انسان بھی عفو کرے.رحم ہے، حلم ہے، کرم ہے، انسان بھی رحم کرے چلم کرے، لوگوں سے کرم کرے.خدا تعالیٰ ستار ہے، انسان کو بھی ستاری کی شان سے حصہ لینا چاہئے اور اپنے بھائیوں کے عیوب اور معاصی کی پردہ پوشی کرنی چاہئے.بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے اور ایسے بہت سے لوگ ہیں خوب سن لین کھول کر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جب کسی کی کوئی بدی یا نقص دیکھتے ہیں جب تک اس کی اچھی طرح سے تشہیر نہ کر لیں ان کو کھانا ہضم نہیں ہوتا.حدیث میں آیا ہے جو اپنے بھائی کے عیب چھپاتا ہے.خدا تعالیٰ اس کی پردہ پوشی کرتا ہے ( ملفوظات جلد ۵ صفحہ: ۶۰۹،۶۰۸) پھر حضرت اقدس علیہ السلام فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد ۳ 46 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء تو بہ میں ایک مخفی عہد بھی ہوتا ہے کہ فلاں گناہ میں کرتا تھا اب آئندہ وہ گناہ نہیں کروں گا.اصل میں انسان کی خدا تعالیٰ پردہ پوشی کرتا ہے کیونکہ وہ ستار ہے.بہت سے لوگوں کو خدا تعالیٰ کی ستاری نے ہی نیک بنارکھا ہے ورنہ اگر خدا تعالیٰ ستاری نہ فرماوے تو پتہ لگ جاوے کہ انسان میں کیا کیا گند پوشیدہ ہیں“.( ملفوظات جلد ۵ صفحہ: ۶۰۸) پھر فرمایا: ”خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم گمراہ ہو پر جسے میں ہدایت دوں ، تم سب اندھے ہو مگر وہ جس کو میں نور بخشوں، تم سب مرد ے ہو مگر وہی زندہ ہے جس کو میں روحانی زندگی کا شربت پلاؤں.انسان کو خدا تعالیٰ کی ستاری ڈھانکے رکھتی ہے ورنہ اگر لوگوں کی اندرونی حالت اور باطن دنیا کے سامنے کر دیئے جاویں تو قریب ہے کہ بعض بعض کے قریب تک بھی جانا پسند نہ کریں.خدا تعالی بڑا ستار ہے.انسانوں کے عیوب پر ہر ایک کو اطلاع نہیں دیتا.پس انسان کو چاہئے کہ نیکی میں کوشش کرے اور ہر وقت دعا میں لگار ہے.“ ( ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام ) پس پیشتر اس کے کہ عفو اور ستاری سے ہماری بے اعتنائی اور بے پروا ہی ہمیں اس مقام تک پہنچا دے جس مقام کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ ہے.وَإِذَا أَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوءًا فَلَا مَرَدَّ لَهُ وَمَالَهُمْ مِنْ دُونِهِ مِنْ وَالِ کہ اللہ تعالیٰ جب فیصلہ یہ کر لیتا ہے کہ کسی قوم نے میری حسنات کو چھوڑ دیا اور برائیوں نے ان کے اندر راہ پالی اور وہ اس مقام تک پہنچ گئی ہیں کہ اب نعمت کو میں ان سے کھینچ لوں.پھر جب خدا سزا دینے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس سزا سے دنیا میں کوئی کسی کو بچا نہیں سکتا.تو ہم نے تو ساری دنیا کو اس سزا سے بچانا ہے اس لئے بہت کوشش کریں اور بہت محنت کریں.یہ چیزیں ایسی نہیں ہیں جو تکلیف دینے والی ہوں یہ دونوں صفحات ایسی ہیں جو لطف دینے والی ہیں.کتنا نادان ہے وہ شخص جوالا
خطبات طاہر جلد ۳ 47 خطبہ جمعہ ۲۰/جنوری ۱۹۸۴ء لطفوں سے بھی محروم ہے اور اللہ کی رحمت سے بھی محروم ہو جائے.پتہ نہیں کس نادان نے کسی کو کیا یہ سمجھا دیا ہے کہ پردہ دری میں مزہ ہے جو ستاری میں مزہ ہے پردہ دری تو اس کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچے سکتی.پردہ دری تو ایک گندی لذت ہے جس کی سردر دیاں ساتھ لگی ہوئی ہیں، فساد ہے معاشرہ کا دکھ پھیلانے والی بات ہے.آپ ملوث کرنے والی بات ہے اپنے آپ کو دکھوں میں اور پردہ دری کرنے والے کے خلاف تو اور بھی لوگ پڑ جاتے ہیں خواہ مخواہ کی جھنجھٹ ہیں مصیبت کے جس کا نام جاہلوں نے لذت رکھ لیا ہے.جو ستاری کا مزہ ہے وہ بالکل اور مزہ ہے ایسی عظیم روحانی لذتیں ہیں ستاری میں کہ عام انسان ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا.یہ روح میں لذت داخل ہوتی ہے اور اس کا جزو بن جاتی ہے اور روح کو ایک قوت عطا کرتی ہے ایک بلند مقام عطا کرتی ہے کردار کی تعمیر کرتی.خدا کرے کہ جماعت احمد یہ عفو اور ستاری میں درجہ کمال تک پہنچ جائے.ساری جماعت، جماعت کا ہر فرد، جماعت کے بوڑھے، جماعت کے بچے ، جماعت کے مرد، جماعت کی عورتیں خدا تعالیٰ کی عفو اورستاری کی صفات کو اس طرح اپنا لیں کہ دنیا میں خدا کے مظہر بن جائیں اور تمام دنیا ان صفات سے فیض پانے والی بنے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ہے.گزشتہ جمعہ میں میں نے دعا کی ایک تحریک کی تھی اسے بھولیں نہیں.یہ بہت ہی بے صبری ہوگی بلکہ گستاخی ہوگی اور کبر اور انانیت ہوگی کہ ایک ہفتہ کی دعا کے بعد لوگ یہ سوچنے لگیں کہ اللہ نے قبول نہیں کی اس لئے اب چھوڑ دو اس بات کو.ایسے ایسے بزرگوں کے ذکر بھی ملتے ہیں کہ مدتیں گزار دیں انہوں نے ، عمر کا ایک حصہ گزار دیا دعائیں کرتے ہوئے اور خدا تعالیٰ نا منظوری کی اطلاع دیتا تھا ان کو اور وہ صبر سے قائم رہے.یہاں تک کہ بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی اس سارے عرصہ کی تمام دعائیں قبول فرمالیں اس لئے بندہ بنیں، بندگی کے ساتھ دعا کرنے کی عادت ڈالیں اور عجز وانکساری کے ساتھ.مالک وہ ہے، جب چاہتا ہے تو حیرت انگیز طور پر قبول فرما کر ہمارے دلوں کو خوشی سے بھر دیتا ہے اور جب نہیں چاہتا تو ہمیں بتاتا ہے کہ میں مالک ہوں تم بندے ہو، بجز اور بندگی کے مقام پر قائم رہو.اس لئے دعا نہیں چھوڑنی رحمت بای کے لئے ، بارش کے لئے اور جیسا کہ میں نے کہا تھا صرف اپنے ملک کے لئے نہ کریں افریقہ کی حالت بہت ہی درد ناک ہے.رات بھی بی بی
خطبات طاہر جلد ۳ 48 خطبه جمعه ۲۰ / جنوری ۱۹۸۴ء سی (BBC) کی خبروں میں میں نے سنا کہ آدھا افریقہ بھوک سے مرنے کی راہ دیکھ رہا ہے گویا کہ افریقہ کی آدھی آبادی کے متعلق اب ماہرین کو یہ خطرہ در پیش ہو گیا ہے کہ یہ بھوک سے مر جائیں گے اگر اب بارشیں نہ ہوئیں تو.بہت شدید حالت ہے تکلیف کی اور ہزار ہا بلکہ لاکھوں جانور بھوک سے مرچکے ہیں وہاں اور بعض علاقوں میں پنجر کے پنجر پڑے ہوئے نظر آتے ہیں اس لئے بہت درد سے دعا ئیں جاری رکھیں جب دوسروں کا درد کریں گے تو اللہ آپ پر بھی زیادہ رحمت فرمائے گا.تو ان دعاؤں کو نہیں بھولنا نہیں چھوڑ نا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل نازل فرمائے اور جیسا کہ میں نے تحریک کی تھی عربوں کو بھی اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یادرکھیں اور اس دعا کو بھی بالکل نہیں چھوڑنا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے فضل نازل ہوں.
خطبات طاہر جلد ۳ 49 49 خطبہ جمعہ ۲۷ / جنوری ۱۹۸۴ء غیبت اور چغل خوری سے پر ہیز ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ جنوری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمَ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُم بَعْضًا اَ يُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ * وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ (الحجرات : ۱۳) وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَبِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل: ۳۷) پھر فرمایا: خطبہ سے میں پہلے یہ میں بتانا چاہتا ہوں کہ ابھی ایک صاحب صفوں کو پھلانگتے ہوئے آگے تک پہنچے جو ممنوع ہے، آنحضرت ﷺ نے اس کو نا پسند فرمایا ہے.سوائے اس کے کہ آگے جگہ خالی ہو اور بیچ میں سے بھی جگہیں خالی ہوں اور ان خالی جگہوں سے گزر کر انسان اگلی صف کو پورا کرے.جو پیچھے آنے والوں کا یہ حق نہیں ہے کہ وہ آگے آنے والوں کو تکلیف دیں اور ان کے کندھوں پر سے گزرتے ہوئے اور ٹھوکریں مارتے ہوئے آگے آئیں لیکن جو دوسرا پہلو ہے وہ اور بھی زیادہ قابل فکر ہے کہ منتظمین نے کوئی ایسا انتظام نہیں کیا ہوا کہ اگر کوئی ایسی حرکت کرے تو بیچ میں بیٹھے
خطبات طاہر جلد ۳ 50 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء ہوئے خدام جن کو معلوم ہو کہ ہمارا یہ کام ہے یا انصار بغیر آواز کے بغیر بولے ان کو روک دیں اور یہ بہت اہم بات ہے.ایک منتظم جماعت کے لئے ہمیشہ مستعد رہنا چاہئے اور اس قسم کی چھوٹی چھوٹی خامیوں کی طرف توجہ رکھنی چاہئے.گزشتہ خطبے میں میں نے اللہ تعالیٰ کے صفات عفو اور ستار سے متعلق بیان کرتے ہوئے یہ بتایا تھا کہ صفات باری تعالیٰ کا نظام بہت ہی گہرا اور مربوط نظام ہے اور ہر صفت ایک دوسری صفت سے ملتی ہے اور رفتہ رفتہ ایک صفت دوسری صفت میں تبدیل ہوتی چلی جاتی ہے اور صفت کے ہر کنارے پر ایک اور صفت باری کا تعلق موجودرہتا ہے.اس کے برعکس ان صفات کے فقدان سے بعض بدیاں پیدا ہوتی ہیں اور جس طرح صفات حسنہ کا آپس میں تعلق ہے اسی طرح ان صفات ستیہ کا بھی آپس میں تعلق ہے.صفات باری تعالیٰ اگر کسی جگہ کو چھوڑ دیں تو وہاں ایک خلا پیدا ہوتا ہے اور پھر وہ خلا بدیوں سے بھرا جاتا ہے جس طرح روشنی کے فقدان سے تاریکی وہاں پیدا ہو جاتی ہے.تو اس لئے اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے الہی جماعتوں کا فرض ہے کہ وہ صفات باری تعالیٰ کی طرف بہت گہری توجہ دیں.وہی صفات جب انسان کے سانچوں میں ڈھلتی ہیں تو اخلاق حسنہ بن جاتی ہیں اور جب وہ انسان ان سے محروم رہنا شروع ہو جاتا ہے تو اخلاق ستیہ ہو جاتے ہیں.اس موقعے پر میں نے عفو اورستاری کے برعکس جو صفات سیئہ ہیں ان کو آج کے خطبہ کے لئے موضوع بنایا ہے.عفو کا مطلب معاف کرنا بھی ہے لیکن اس کے اصل معنی ہیں ایک چیز کو کلیتہ نظر انداز کر دینا گویا وہ تھی ہی نہیں کوئی.کوئی گویا اس کا وجود ہی نہیں تھا.چنانچہ آنحضرت علیہ نے جو عفو کے معنی فرمائے ہیں ان میں یہی مفہوم ملتا ہے اور اللہ تعالیٰ کو حیا دار قرار دیا ہے، بے حد حیا کرنے والا ، وہ گناہ کرتے ہوئے بندوں پر نظر رکھتے ہوئے بھی ایسا سلوک فرماتا ہے جیسے اس نے کچھ دیکھا ہی نہیں.اس نظر کی حیا کا نام در اصل عفو ہے اور ایسے شخص کو عفو کہتے ہیں.جس شخص میں عفو نہیں ہوتا وہ اس میں دو بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جس طرح عفو کے نتیجہ میں ستاری پیدا ہوتی ہے جو خود کسی بندے سے عفو کا سلوک کرے اس کی فطرت کے خلاف ہے کہ وہ اس کی بدیاں لوگوں تک پہنچائے ، وہ تو اتناشر ما تا ہے کہ اپنے تک بھی وہ بدیاں نہیں پہنچنے دیتا، علم سے خود شرما جاتا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ دوسروں تک ان بدیوں کو پہنچائے.
خطبات طاہر جلد ۳ 51 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء تو عفو کے نتیجہ میں ستاری پیدا ہوتی ہے اور عفو کے فقدان کے نتیجہ میں دو بدیاں پیدا ہوتی ہیں براہ راست ، ایک ستاری کے فقدان کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.عفوا گر نہ ہو تو سب سے پہلے ظن اس کی جگہ لے لیتا ہے یعنی جو برائیاں نظر نہیں آرہیں ان میں بھی انسان ظن شروع کر دیتا ہے کہ یہ بھی ہو.چونکہ برائی دیکھنے کا شوق ہوتا ہے، چسکا ہوتا ہے، لطف آتا ہے کسی کی بدیاں دیکھنے کا تو جب وہ بدیاں نظر نہیں آتیں تو عادت جو گندی پڑ چکی ہے، یہ چسکا تو پورا کرنا ہے پھر وہ وطن کے ذریعہ پورا کیا جاتا ہے کہ ہاں یہ نظر تو نہیں آئی لیکن ہو گی ضرور اس کے پیچھے ضرور کوئی خرابی موجود ہے جو مجھے نظر نہیں آئی، اور ظن پھر جنم دیتا ہے تجس کو.آگے بڑھ کر انسان کہتا ہے اچھا نظر نہیں آئی ، ہوگی تو ضرور تو کیوں نہ میں تلاش کروں ، کھوج نکالوں اور ایسے لوگ دوسروں کی بدیاں تلاش کرنے میں اپنی عمریں عزیز ضائع کر دیتے ہیں اور دوسرے پہلو پر چونکہ ستاری نہیں رہتی ،عفو نہ ہو تو ستاری ہو ہی نہیں سکتی.ستاری نہ ہونے کے نتیجہ میں پھر یہ بدیوں کو دوسری جگہ پہنچاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بھی پھر دو بدیاں آگے پیدا ہوتی ہیں، ایک غیبت کی اور ایک چغل خوری کی.غیبت کہتے ہیں ایسی بات کو جو کسی کے غیبت میں کی جائے یعنی غائبانہ طور پر کسی کے متعلق کہی جائے اور وہ بات ایسی ہو کہ اس سے دوسرے کو دکھ پہنچے.اگر وہ سن لے تو اس کو تکلیف پہنچے.آنحضرت ﷺ نے جو غیبت کی تعریف فرمائی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ غیبت اس بات کو نہیں کہا جاتا کہ اس کے متعلق جھوٹی بات کہیں غیبت اس بات کو کہا جاتا ہے کہ سچی بات کہیں لیکن وہ بات ایسی ہو کہ جس کے نتیجہ میں اسے دکھ پہنچتا ہو.اگر غائبانہ کی جائے تو اس کا نام غیبت ہے اگر موجودگی میں کی جائے تو اس کا نام دل آزاری ہے.(مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم الغيبة ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں لکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ غیبت کرنا تو برا ہے یعنی غائبانہ بات نہیں کرنی چاہئے.جب ان سے پوچھا جائے تو وہ کہہ دیتے ہیں کہ میں تو اس کے منہ پر بھی کر سکتا ہوں تو فرمایا ایک اور بدی کرو گے.پہلے تو غیبت کر رہے تھے اب دل آزاری بھی کرو گے.تو غیبت کا یہ مفہوم بہر حال نہیں ہے کہ غائبانہ تو نہ کی جائے لیکن سامنے کی جائے.جب دکھ سے بچانا مقصود ہے سوسائٹی کو تو لازماً غائب کی بات ہو یا حاضر کی بات ہو دونوں ناجائز ہیں اور حضرت اقدس محمد مصطفی یا اللہ نے اتنی تفصیلی تعلیم دی ہے کہ بدیوں کا (اثر ) جہاں جہاں پہنچتا ہے
خطبات طاہر جلد۳ 52 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء وہاں وہاں آنحضور ﷺ کی نظر پہنچی یا یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کی توجہ اس طرف مبذول فرمائی اور آپ نے اس کے متعلق نصیحت فرمائی.چنانچہ غیبت کے نتیجے میں ایک اور برائی پیدا ہوتی ہے وہ دکھ پہنچانے کا مفہوم اپنے اندر رکھتی ہے یعنی چغل خوری، تو آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ غیبت تو منع ہے ہی لیکن اگر کوئی کسی کو غیبت کرتے ہوئے سنے اور وہ اس بات کو اس شخص تک پہنچا دے جس سے متعلق کہی گئی تھی تو اس چغلخور کی مثال ایسی ہی ہے جیسے کوئی کسی کی طرف تیر پھینکے اور تیر نشانے پر نہ لگے اور وہ اس کے قدموں میں جاگرے اور کوئی شخص اس کے قدموں سے تیرا ٹھا کر اس کے سینے میں گھونپ دے کہ میں نے اس کا مقصد پورا کر دیا ہے.تو چونکہ دل آزاری منع ہے، بنیادی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ دل آزاری منع ہے، کسی کو دکھ دینا منع ہے، کسی کے گناہوں پر نظر رکھنا منع ہے، گناہوں سے حیا کرنے کی تعلیم دی گئی ہے اس لئے وہ تعلیم سب جگہ جاری وساری نظر آتی ہے ہر جگہ وہ اثر پذیر نظر آتی ہے اور جہاں جہاں اس کا فقدان ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں بدیاں پھوٹتی ہیں اور بدیوں میں بھی اسی طرح شاخیں در شاخیں برائیاں آگے پھوٹتی چلی جاتی ہیں.ی اتنی اہم چیز ہے کہ اکثر دنیا کے فساد خصوصاً خاندانی فساداسی کے نتیجہ میں پیدا ہورہے ہیں.اتناد کھ پہنچایا ہے ہمارے معاشرے کو اس گندی عادت نے اور یہ گندی عادت ایسی گہری انسانی مزاج میں داخل ہو چکی ہے کہ صرف ہندوستان اور پاکستان کا سوال نہیں تمام دنیا میں یہ گندی عادت موجود ہے اور ہر جگہ معاشرہ کو اس نے تباہ کر رکھا ہے.باہر کی دنیا جو مصروف ہو چکی ہے، جو اقتصادی لحاظ سے آگے بڑھ گئی ہے، جن کے پاس وقت نہیں رہا، ان کو بھی جب وقت ملتا ہے تو وہ چغلی ضرور کرتے ہیں ، غیبت ضرور کرتے ہیں اور خصوصاً عورتوں میں یہ مرض بہت ہی زیادہ ہے اس لئے یہ ایک عالمی بیماری ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی طور پر اللہ کی صفت عفو کو دھتکار دیا گیا ہے، اس سے غفلت کی گئی ہے، اس سے اجنبیت برتی جارہی ہے اور جب صفت عفو سے نفرت کی جائے گی اس کو دھتکارا جائے گا تو جیسا کہ میں نے پچھلے خطبہ میں بیان کیا تھا اللہ تعالی کا عفو اسی حد تک بندوں سے کم ہو جائے گا کیونکہ جو لوگ عفو نہیں کرتے وہ عفو کے سلوک کے حقدار نہیں رہتے ، جو لوگ ستاری نہیں کرتے وہ خدا تعالیٰ کی صفت ستاری کے حقدار نہیں رہتے اس کی رحمت اور اس کی بجلی کے حقدار نہیں رہتے.
خطبات طاہر جلد ۳ 53 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء تو ساری دنیا میں دو طرح سے ان دو گندی صفات نے مصیبت ڈالی ہوئی ہے، آفت ڈھائی ہوئی ہے دنیا کے ساتھ.ایک براہ راست یہ بیماریاں معاشرہ کو قسم قسم کے دکھوں میں مبتلا کر رہی ہیں اور ایک اللہ تعالیٰ کی رحمت سے یہ معاشرہ خالی ہو جاتا ہے، اس کے عفو اور اس کی ستاری سے یہ معاشرہ خالی ہو جاتا ہے اور انسان کی غلطیوں کے نتیجہ میں جو خدا رحمت کا سلوک فرماتا ہے اور اس کی تقدیر خاص اس کو مصائب سے بچاتی ہے، وہ تقدیر خاص عمل کرنا چھوڑ دیتی ہے اس لئے بہت ہی اہمیت دینی چاہئے جماعت کو ان باتوں کی طرف.آنحضرت ﷺ نے جو غیبت سے متعلق تعلیم دی اور اس سے ملتی جلتی برائیوں سے متعلق چندا حادیث کا میں نے انتخاب کیا ہے تا کہ حضور اکرم ﷺ کے مبارک الفاظ میں ہی جماعت کو نصیحت کروں.ایک مرتبہ حضور ﷺ نے صحابہ سے پوچھا کہ جانتے ہو غیبت کیا ہوتی ہے.صحابہ نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی بہتر جانتے ہیں.فرمایا ” تو اپنے بھائی کا اس انداز میں ذکر کرے جسے وہ پسند نہیں کرتا.عرض کیا گیا کہ حضور کا کیا خیال ہے کہ اگر وہ بات جو میں نے کہی ہے میرے بھائی میں پائی جاتی ہو.تو آپ نے فرمایا کہ اگر وہ بات جو تو نے کہی ہے تیرے بھائی میں موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی ہے اگر موجود نہیں ہے تو تو نے اس پر بہتان باندھا ہے“.(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحريم الغيبة ) اس لئے بہتان اور غیبت کا فرق ملحوظ رکھیں ہمیشہ.غیبت جھوٹی بات کو نہیں کہتے.غیبت سچی بات کو کہتے ہیں لیکن وہ سچی بات جود کھ دینے والی ہو.اس ضمن میں بسا اوقات آپس کی بحث کے دوران آپ یہ فقرہ بھی سنیں گے دولٹر نے والوں کے درمیان کہ میں جھوٹ بولوں! میں نے جو سچی بات ہے وہ منہ پر کہہ دی ہے، میری عادت ہے میں بڑا صاف گو ہوں اور سچی بات منہ پہ مارتا ہوں.ایسے صاف گو“ پر خدا تعالیٰ کے رسول ﷺ نے لعنت ڈالی ہوئی ہے اور فرمایا ہے کہ خدا تعالیٰ کا عذاب اس کو پکڑلے گا اور بڑی سخت تحذیر فرمائی ہے بڑی سخت اس کے متعلق انذار کی پیشگوئی کی ہے اور نقشہ کھینچا ہے کہ ایسے صاف گو لوگوں سے قیامت کے دن کیا سلوک ہوگا.تو سچ کا یہ مطلب یہ تصور بالکل جھوٹا اور باطل اور جاہلانہ تصور ہے کہ جو بات دکھ پہنچانے والی ہو وہ کسی کے منہ پر ماری
خطبات طاہر جلد ۳ 54 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء جائے.ایسے صاف گولوگ خدا کو بالکل پسند نہیں ہیں اس لئے جماعت احمد یہ میں ایسے صاف گولوگ ہمیں نہیں چاہئیں.ہمیں تو ویسے صاف گو لوگ چاہیں جیسے حضرت اقدس محمد مصطفی علے تھے، ان سے زیادہ صاف گوکون ہو سکتا ہے لیکن آپ دکھوں کی باتیں لوگوں تک پہنچانے سے احتراز فرماتے تھے اور اس سے منع فرمایا کرتے تھے اور دکھوں کی باتیں لوگوں کے متعلق کرنے سے احتراز فرماتے تھے اور ان سے منع فرماتے تھے.تو آپ نے فرمایا کہ تو نے اس کی غیبت کی ہے اور اگر موجود نہیں تو تو نے اس پر بہتان باندھا ہے یہ مسلم کی حدیث ہے.الترغیب والترھیب میں آنحضرت ﷺ کا یہ ارشاد درج ہے کہ ”جس کے پاس اس کے کسی مسلمان بھائی کی غیبت کی جائے اور وہ اس کا دفاع کر کے اس کی مدد نہ کرے حالانکہ وہ اس کی مدد کر سکتا تھا تو اس کا گناہ دنیا اور آخرت میں اسے بھی پہنچے گا“.(الترغیب والترھیب جلد ۳ صفحه ۳۳۴،مسند الحارث زوائد الھیثمی جلد ۲ صفر ۷۶۴ ) بعض لوگ کہتے ہیں جی ہم نے تو صرف سنی ہے غیبت ، ہم نے تو حصہ نہیں لیا خود کسی کے خلاف برائی نہیں کی.ان کے متعلق آنحضرت علی فرماتے ہیں کہ انہوں نے بھی گناہ سے حصہ پالیا.اگر تم سنتے ہو اور منع نہیں کرتے اور برانہیں مناتے یا اپنے بھائی کا دفاع نہیں کرتے تو ایسی صورت میں غیبت کے گناہ میں تم بھی حصہ دار ہو گئے.پھر سنن ابی داؤد میں آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے ” جب مجھے معراج کے لئے لے جایا گیا تو میں ایسے لوگوں کے پاس سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ ان سے اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے، میں نے جبرائیل سے دریافت کیا کہ یہ کون ہیں؟ تو اس نے بتایا کہ یہ وہ لوگ ہیں جولوگوں کی غیبت کرتے تھے اور ان کی آبرو کے پیچھے پڑے رہتے تھے “.(ابوداؤد کتاب الادب باب فی الغیبة ) یہاں تجسس کا بھی ذکر فرما دیا، کسی کے متعلق ایسی باتوں کی تلاش کرنا کہ وہ بے آبروئی کاموجب بنے اور پھر غیبت کر کے لوگوں تک پہنچانا یہ برائیاں اتنی خطرناک ہیں کہ ان کی سزا جو خدا تعالیٰ نے تجویز فرمائی وہ آنحضرت ﷺ کو معراج کے روز دکھائی گئی.مسنداحمد بن حنبل ہی کی ایک اور حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ” اے وہ لوگو! جو زبان سے تو ایمان لائے ہو مگر دل میں ایمان داخل نہیں ہوا تم مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور ان کے عیوب
خطبات طاہر جلد ۳ 55 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء اور ان کی کمزوریوں کا پیچھا نہ کیا کرو، ان کی ٹوہ میں نہ لگے رہو کیونکہ جو شخص ان کی کمزوریوں کا پیچھا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی کمزوری اور اس کے عیب کو اس طرح ظاہر فرما دے گا کہ اسے خود اس کے گھر ہی میں رسوا کر دے گا.(مسند احمد کتاب اول مسند البصر بین حدیث ابی برزہ اسلمی ) اس مضمون کی ایک اور حدیث میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کی تھی اس میں جو زائد پر لطف بات ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کی تعریف فرمائی ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے: وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ (الجرات: ١٥) کہ اے بدولوگو! جو بظاہر ایمان لائے ہو کہتے ہو کہ ہم ایمان لائے تمہارے دلوں میں تو ایمان نے جھانک کر بھی نہیں دیکھا ، داخل ہی نہیں ہوا، اس کی ایک تعریف، وہ کون لوگ ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا ہے کہ تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا؟ ان کی تعریف آنحضور علی فرماتے ہیں کہ وہ غیبت کرنے والے ہیں ، ایسے لوگ ہیں جو اپنے بھائیوں کی برائیوں کی تلاش میں رہتے ہیں ، پھر ان لوگوں تک پہنچاتے ہیں.کتنی خطرناک بات ہے غیبت اس سے آپ اندازہ کریں.آنحضرت معہ تفسیر فرماتے ہیں قرآن کریم کی ایک آیت کی اور بتاتے ہیں کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا کہ ایمان ان کے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا ان کے اعمال کیسے ہوتے ہیں ان اعمال سے ان کو پہچان لو.وہ غیبت کرنے والے لوگ ہیں، وہ بھائی کی بدیوں کی تلاش میں رہنے والے اور ان کا تمس کرنے والے لوگ ہیں اور فرمایا کہ اس دنیا میں بھی ان کو اللہ تعالیٰ رسوا کرے گا اور اس کی سزا دے گا.پھر آنحضور ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا یہ صحیح مسلم کی حدیث ہے کہ ایک دوسرے سے حسد نہ کرو، ایک دوسرے کی ضد میں قیمتیں نہ بڑھاؤ ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو ایک دوسرے کے پیٹھ پیچھے برائی نہ بیان کرو، کسی کے سودے پر سودا نہ کرو، ایک دوسرے کے بھائی رہ کر اللہ کے بندے بنو، مسلمان مسلمان کا بھائی ہے نہ تو وہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے نہ اس کی تو ہین کرتا ہے.تقویٰ کا مقام دل ہے.آپ نے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین بار فرمایا انسان
خطبات طاہر جلد ۳ 56 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء کے شر اور اس کی بدبختی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے بھائی کو حقارت سے دیکھے، ہر مسلمان پر حرام ہے کہ وہ کسی مسلمان کا خون بہائے یا اس کا مال ضائع کرے یا اس کی آبروریزی کرے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلة باب تحريم الفن والتجسس والتنافس والتناجش ونحوها) حضرت عثمان بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضوراکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ غیبت اور چغل خوری ایمان کو اس طرح کاٹ چھانٹ دیتے ہیں جس طرح چرواہا اپنی بھیڑ بکریوں کے لئے درختوں کی شاخیں کاٹ کر ان کے سامنے ڈالتا ہے.آپ نے اگر ایسا درخت دیکھا ہوگا جس کو چرواہے نے کاٹ کر بھیڑ بکریوں کے سامنے ڈالا ہو تو اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ آنحضرت ﷺ کیا بیان فرمارہے ہیں.ایک دفعہ سندھ میں میں اپنی زمین کے دورہ پر گیا تو میں دیکھ کر حیران رہ گیا یہ دیکھ کر کہ جواردگرد باڑوں کے طور پر درخت تھے وہ پہچانے نہیں جاتے تھے ، شاخین بری طرح کئی ہوئیں.عجیب بے رونقی کا عالم تھا، یوں لگتا تھا جیسے کوئی و بال پھر گیا ہے ان کے اوپر.میں نے مینجر سے پوچھا کہ ان درختوں کو یہ کیا ہوا، یہ تو لگتا ہے ان پر قیامت ٹوٹ گئی ہے اور فصلیں ٹھیک ٹھاک ہیں.تو اس نے بتایا کہ میں نے چرواہوں کے پاس ان کو اس شرط پر بیچا تھا کہ تنے باقی رہ جائیں اور سبزی ان کی اتارلیں تو سبزی کے ساتھ وہ ٹہنیاں بھی اتار کر لے گئے.اس طرح چرواہے کرتے ہیں درختوں کے ساتھ جب ان کو موقع مل جائے.تو آنحضرت عﷺ نے یہ نقشہ کھینچا کہ جو غیبت کرنے والے اور چغل خوری کرنے والے یہ لوگ ہیں وہ اپنے ہی ایمانوں کے ساتھ یہ سلوک کرتے ہیں اور پھر اس کی تفصیل ایک اور جگہ اس طرح بیان فرمائی کہ انسان اپنے اعمال نامہ کو قیامت کے دن کھلا ہوا لائے گا اور عرض کرے گا کہ اے میرے رب میری فلاں فلاں نیکیاں کہاں گئیں ! وہ بھی تو میں نے کی تھیں.جس طرح آپ اپنا ہی کھانہ دیکھتے ہیں، چیک کرتے ہیں.جو اس کو کھانہ ملے گا اعمال کا وہ اس میں اپنی بہت سے خوبیاں، بہت سی نیکیاں درج شدہ نہیں پائے گا تو اپنے رب سے عرض کرے گا یا اللہ! مجھے تو یاد ہے میں نے یہ بھی کیا تھا وہ بھی کیا تھا ان کا تو کوئی ذکر نہیں ہے.تو اللہ تعالیٰ اس کا جواب دے گا وہ تو تیری طرف سے لوگوں کی غیبت کرنے کے نتیجہ میں مٹادی گئیں تھیں.( کنز العمال جلد ۳ صفحہ۵۹۰) کیسی پیاری مثال دی ہے حضور اکرم ﷺ نے کہ جس طرح چرواہا درختوں کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۳ 57 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء سلوک کرتا ہے بھیڑ بکریوں کو ڈالنے کے لئے وہی غیبت کرنے والے اپنے ایمان کے ساتھ سلوک کرتے ہیں.ان میں سبزی اور رونق نہیں رہتی ، اگتی تو ہیں شاخیں لیکن وہ کاٹ کر پھینک دی جاتی ہیں، اسی طرح یہ لوگ اپنے ہاتھ سے اپنی نیکیوں کو تباہ کر لیتے ہیں.پھر حضرت ابن عباس کی مشکوۃ میں یہ روایت درج ہے کہ دو آدمیوں نے ظہر یا عصر کی نماز صلى ادا کی.وہ دونوں روزہ دار تھے.جب حضور ﷺ نماز ادا فرما چکے تو آپ نے ان دونوں کو مخاطب کر کے فرمایا اپنا وضو دوبارہ کرو اور نماز پڑھو اور یہ روزہ بھی پورا کرو اور اس کے عوض ایک اور روزہ بھی رکھو.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ یہ کیوں؟ فرمایا تم نے فلاں کی غیبت کی ہے.اب جو قیامت کے دن خدا تعالیٰ جو سلوک فرمائے گا وہ دنیا میں کس طرح رونما ہورہا ہوتا ہے واقعہ، اس کا نقشہ آنحضرت ﷺ نے کھینچ دیا.احادیث کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اتنا مر بوط مضمون ہے اور حدیث کی صحت کے لئے یہ اندرونی گواہی سب سے قوی گواہی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ارشادات ایک دوسرے کو تقویت دیتے ہیں ، ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے ہیں.ایک بڑا گہرا مضمون ہے نظم وضبط کا اور کسی اور گواہی کی ضرورت نہیں.کلام نبوئی پہچانا جاتا ہے اپنی شکل وصورت سے ، اپنی اندرونی اور بیرونی خوبیوں سے.تو دیکھئے کس طرح سارا مضمون ایک دوسرے کے ساتھ ملتا چلا جارہا ہے.ایک موقع پر تو آنحضرت حضوراکرم ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ غیبت زنا سے بھی بری حرکت ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ حضور اکرم علی یہ کیسے ؟ یہ بات تو ہماری سمجھ میں نہیں آرہی تو آپ نے فرمایا آدمی زنا کرتا ہے تو پھر تو بہ کر لیتا ہےاور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمالیتا ہے اور اسے بخش بھی دیتا ہے لیکن غیبت کرنے والے کو نہیں بخشا جب تک کہ وہ نہ بخشے جس کی غیبت کی گئی ہے.(مسند احمد جلد ۳ صفحه ۵۸۶) یہ پہلو ہے جس پہلو سے غیبت زنا سے بھی بری بن جاتی ہے ، انسان کا واسطہ صرف رب سے رہے تو اس کو کوئی خوف نہیں ہے اتنا.خوف ایک معنوں میں تو صرف اللہ ہی کا ہے لیکن وہ رحم کرنے والا اتنا بخشنے والا ہے کہ انسان اپنے رب سے رحم اور بخشش کی بہت زیادہ امید رکھ سکتا ہے یہ نسبت ایک انسان کے بعض دفعہ بڑے ظالم لوگ ہوتے ہیں ان کے ہاتھ میں اگر بخشش کا معاملہ چلا
خطبات طاہر جلد ۳ 58 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء جائے تو وہ تو خون چوس جائیں اور کبھی بخشتے کے اوپر آمادہ نہ ہوں اس لئے ان معنوں میں وہ گناہ جن کے بخشنے کا معاملہ انسانوں کے ہاتھ میں چلا جائے وہ بہت برے گناہ ہیں ان گناہوں کے مقابل پر جن گناہوں کے بخشنے کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں رہتا ہے.اب ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جولوگ بڑی کثرت سے غیبت کر بیٹھتے ہیں اور روز کرتے ہیں اور بطور چورن استعمال کیا جاتا ہے غیبت کو ، ان کے لئے اب کفارہ کیا ہے؟ آنحضرت ﷺ نے الله اس موضوع پر کیا روشنی ڈالی ہے، تو آنحضور ﷺ فرماتے ہیں، یہ مشکوۃ المصابیح سے حدیث لی گئی ہے اور انہوں نے بیہقی سے لی ہے آگے کہ حضرت انس سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تو اس شخص کے لئے بخشش طلب کرے جس کی تو نے غیبت کی ہے اور اس کے لئے دعا مانگتا ر ہے اللَّهُمَّ اغْفِرُ لَنَا وَلَهُ.باقی عمر اگر غیبت کے بداثرات سے بچنا ہے تو پھر اس کے لئے دعا کی طرف متوجہ ہوں اور یہ ایک بہت ہی عمدہ ذریعہ اصلاح ہے یعنی صرف کفارہ ہی نہیں بلکہ غیبت سے بچنے کی ایک بہت ہی پیاری ترکیب ہے ورنہ جس کو غیبت کا چسکا پڑ چکا ہو اس کا اس برائی سے باز رہنا بہت ہی مشکل کام ہے لیکن جس شخص کی آپ غیبت کرتے ہیں زیادہ اس کے لئے اگر دعا شروع کر دیں اور بطور کفارہ کے دعا شروع کر دیں تو وہ دعا آپ کی اندرونی کیفیت کو بدل دے گی ، یہ ممکن ہی نہیں رہے گا آپ کے لئے فطرتا کہ ایک طرف آپ اس کے لئے دعا کر رہے ہوں اپنی بخشش کی خاطر اور دوسری طرف اس کی غیبت بھی کر رہے ہوں.تو ایک بہت ہی پاکیزہ ترکیب ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی علی نے بیان فرمائی.کفارہ بھی ہے اور برائیوں سے بچنے کا ایک علاج بھی ہے.آخر پر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دو اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں حضور فر ماتے ہیں: غیبت کرنے والے کی نسبت قرآن کریم میں ہے کہ وہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتا ہے.عورتوں میں یہ بیماری بہت ہے.آدھی رات تک بیٹھی غیبت کرتی ہیں اور پھر صبح اٹھ کر وہی کام شروع کر دیتی ہیں لیکن اس سے بچنا چاہیئے (ملفوظات جلد ۵ صفحه : ۲۹) الله
خطبات طاہر جلد ۳ 59 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء وہ آیت جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا خود ترجمہ فرمایا ہے میں وہ ترجمہ پڑھ کر سنادوں ، میں نے جو آیت تلاوت کی تھی وہ یہ تھی يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنَّ اس آیت کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ ہے: بد گمانی کی باتیں مت کرو اور نہ عیبوں کو کرید کرید کر پوچھو، ایک دوسرے کا گلہ مت کرو، کسی کی نسبت وہ بہتان یا الزام مت لگاؤ جس کا تمہارے پاس کوئی ثبوت نہیں اور یا درکھو کہ ہر ایک عضو سے مواخذہ ہوگا اور کان ،آنکھ دل ہر ایک سے پوچھا جائے گا“.(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلده اصفحہ :۳۵۰) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: دل تو اللہ تعالیٰ کی صندوقچی ہوتا ہے اور اس کی کنجی اس کے پاس ہوتی ہے.کسی کو کیا خبر کہ اس کے اندر کیا ہے؟ تو خواہ مخواہ اپنے آپ کو گناہ میں ڈالنا کیا فائدہ؟ حدیث شریف میں آیا ہے کہ ایک شخص بڑا گنہ گار ہو گا، خدا تعالیٰ اس کو کہے گا کہ میرے قریب ہو جا یہاں تک کہ اس کے اور لوگوں کے درمیان اپنے ہاتھ سے پردہ کر دے گا اور اس سے پوچھے گا کہ تو نے فلاں گناہ کیا، فلاں گناہ کیا لیکن چھوٹے چھوٹے گناہ گنائے گا.وہ کہے گا کہ ہاں یہ گناہ مجھ سے ہوئے ہیں خدا تعالیٰ فرمائے گا کہ اچھا آج کے دن میں نے تیرے سب گناہ معاف کئے اور ہر ایک گناہ کے بدلے دس دس نیکیوں کا ثواب دیا.تب وہ بندہ سوچے گا کہ جب ان چھوٹے چھوٹے گناہوں کا دس دس نیکیوں کا ثواب ملا ہے تو بڑے بڑے گناہوں کا تو بہت ہی ثواب ملے گا.یہ سوچ کر وہ بندہ خود ہی اپنے بڑے بڑے گناہ گنائے گا کہ اے خدا! میں نے تو یہ گناہ بھی کیے ہیں.تب اللہ تعالیٰ اس کی بات سن کر ہنسے گا اور فرمائے گا کہ دیکھو میری مہربانی کی وجہ سے یہ بندہ ایسا دلیر ہو گیا ہے کہ اپنے گناہ خود ہی بتلاتا ہے.پھر ا سے حکم دے گا کہ جا بہشت کے آٹھوں دروازوں میں سے جس دروازے سے تیری طبیعت
خطبات طاہر جلد ۳ 60 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء چاہے داخل ہو جا.تو کیا خبر ہے کہ خدا تعالیٰ کا اس سے کیا سلوک ہے یا اس کے دل میں کیا ہے اس لئے غیبت کرنے سے بکلی پر ہیز کرنا چاہئے“.( ملفوظات جلد ۵ صفحه ۱۱) یہ جو حدیث ہے اس سے پہلے ایک اور روایت بھی آئی ہے مختلف الفاظ کے ساتھ آئی ہے اور وہاں بھی آنحضرت ﷺ نے اس کا تعلق ستاری سے قائم کیا تھا، فرمایا تھا جو شخص دنیا میں ستاری سے پیش آتا ہے اور لوگوں کے گناہوں کا ذکر نہیں کرتا دوسروں سے اور پردہ پوشی سے کام لیتا ہے اس کے ساتھ خدا یہ سلوک فرمائے گا.ایک اور حدیث میں یہی مضمون ایک اور طریق پر بیان ہوا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے وہ مضمون پیش نظر رکھا اور آخر پر غیبت کا مضمون اس سے باندھا ہے بڑے عجیب طریق پر.آپ کا منشاء مبارک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا دلوں سے اپنا ایک تعلق اور ایک سلوک ہے اور وہ دلوں کی اندرونی کیفیات کو جانتا ہے، تمہیں بسا اوقات ایک انسان کے گناہ تو نظر آ جاتے ہیں لیکن تمہیں یہ پتہ نہیں کہ وہ گناہگار آدمی اپنے دل میں کیا کیا محبتیں اپنے رب سے رکھتا ہے اور کیا کیا عاجزی کرتا ہے اور کس کس طرح پیار سے اس کی رحمت کے قدم چومتا ہے اور عرض کرتا رہتا ہے کہ اے خدا! مجھ سے عفو کا سلوک فرما.تو دلوں کے مالک تم نہیں ہو دلوں کا مالک رَبُّ العلمین ہے جو عفو ہے جو ستار ہے جو غفور ہے جو رحیم ہے.وہ بعض دفعہ ایسے گناہ گارلوگوں کے دلوں پر نظر رکھتے ہوئے ، ان کی بعض مخفی خوبیوں پر نگاہ کرتے ہوئے یہ فیصلہ بھی فرمالیتا ہے کہ ان کی نیکیوں ہی کا نہیں ان کی بدیوں کا بھی میں اجر دوں گا اور اچھا اجر دوں گا اور تم اپنی بد بختی میں اس کے متعلق بری باتیں کہتے رہتے ہو، برے برے لفظ بولتے رہتے ہو، اس کے متعلق دل آزاری کی کوشش کرتے رہتے ہو.تو جس دل پر خدا کی ایسی پیار کی نظر بھی پڑسکتی ہے کیوں تم گناہ میں ملوث ہو کر اس دل کے متعلق بری باتیں کہتے ہو.یہ ہے معرفت کا نکتہ جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا.اگر چہ بظاہر یہ بے جوڑ بات نظر آتی ہے جو سرسری نظر سے اس بات کو دیکھے کہ اس مضمون کا غیبت سے کیا تعلق ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو ان باریک باتوں پر نظر رکھنی چاہئے جو خوف سے ڈرنے والے
خطبات طاہر جلد ۳ 61 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء لوگ ہیں ان کے لئے وہ حدیث کافی ہے کہ قیامت کے دن ان لوگوں سے کیا سلوک ہوگا اور جونرمی اور محبت اور پیار سے ماننے والے لوگ ہیں وہ ان باتوں پر نگاہ کریں.ہم تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بھوکے اور اس کے فقیر ہیں اور کوئی انسان نہیں ہے بڑے سے بڑے اعمال والا بھی جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مستغنی ہو سکے، اس کی بخشش سے مستغنی ہو سکے اس لئے ان باتوں پر نظر کر کے ہی ان بدیوں سے باز رہنے کی کوشش کریں، ان کو چھوٹا نہ سمجھیں، عہد بیعت میں بھی یہ بات داخل ہے کہ میں غیبت نہیں کروں گا، میں بدظنی نہیں کروں گا لیکن کچھ ایسا چسکا ہے، ایسی مصیبت ہے اور یہ بیماری کہ گھر گھر میں، سینے سینے میں داخل ہوئی ہوئی ہے اور اتنی عادت ہے خصوصاً عورتوں میں کہ وہ برداشت نہیں ہوتا ان سے کہ کسی کی بڑائی دیکھیں یا سنیں اور وہ آگے نہ پہنچائیں.دیکھ کر پہنچانا بھی بہت بری بات ہے لیکن سن کر پہنچانا تو افک بھی بن جاتا ہے اور غیبت بھی بن جاتی ہے اور پھر چسکے پورے کرنے کے لئے وہ ظن بھی کرتی ہیں اور من گھڑت باتیں بنا کر بہتان میں بھی داخل ہو جاتی ہیں اور یہ بیماری مردوں میں بھی آتی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہمارے معاشرے کا بہت برا حال ہے.اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے قرآن کریم سے ثابت ہے کہ یہ بیماریاں قومی شکلیں بھی اختیار کریں گی اور جب یہ قومی شکلیں اختیار کر جائیں گی اور قوموں کے تعلقات میں داخل ہو جائیں گی تو پھر انسان کی ہلاکت کا سامان کیا جائے گا اور تمام دنیا میں نہایت ہی ہولناک آلات کے ساتھ جنگ لڑی جائے گی جو خوفناک آگ کی شکل میں دنیا پر لیکے گی اور دنیا کوتباہ و برباد کر دے گی اور اس بد انجام کا تعلق اللہ تعالیٰ نے غیبت اور چغل خوری اور دل آزاری کے ساتھ رکھ دیا ہے.(الھمزہ) تو اس لئے کوئی معمولی بات نہ اس کو سمجھیں کہ کیا فرق پڑتا ہے ذرا سا لطف اٹھالیا.چند باتیں کسی کے متعلق کہہ کر، یہ انفرادی بیماریاں قومی بن جاتی ہیں ، معاشرتی بن جاتی ہیں پھر آگے پھیل کر بین الاقوامی تعلقات میں داخل ہو جاتی ہیں جیسا کہ اب ہو چکی ہیں اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر وہ ایٹم بم ایجاد ہوگا جس کے متعلق قرآن کریم میں ایک پوری سورۃ موجود ہے مختصر لیکن بڑی تفصیل سے اس کا ذکر کرنے والی.اس لئے آپ کو بہت ہی مضبوط ارادے کے ساتھ اور قومی فیصلے کے ساتھ ان بدیوں کے خلاف جہاد کرنا چاہئے.شروع میں بہت تکلیف ہوگی کیونکہ عادت گندی سے گندی چیز کی بھی ہو تو
خطبات طاہر جلد۳ 62 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء جب وہ پوری نہ ہو تو انسان کو تکلیف پہنچتی ہے.آپ حیران ہوتے ہیں کہ افیموں کو کیا ہو گیا ہے، کیا بیہودہ سی چیز ہے کڑوی ، گندی، مکروہ ہی چیز اور عادتیں اس کے نتیجہ میں بگڑنے والی لیکن مرتے جاتے ہیں افیم کے بغیر.تو عادت کسی چیز کی ہو گندی سے گندی چیز کی بھی ہو جب وہ عادت چھٹتی ہے تو بڑا تکلیف کا زمانہ ہوتا ہے اس لئے میں جانتا ہوں کہ تکلیف ہوگی سب کو شروع میں لیکن اس تکلیف کا علاج آنحضرت ﷺ نے بیان فرما دیا ہے جب غیبت کو دل چاہے تو اپنے بھائیوں کی برائی کرنے کی بجائے ان کے لئے دعا کیا کریں اور دعا ایک لذت بخشے گی آپ کو، اس دعا کے نتیجہ میں آپ کے اندر عظمت کردار پیدا ہوگی ، آپ کے دل کو تسکین حاصل ہوگی اور چونکہ خلا نہیں رہ سکتا صرف بدی کو دور کرنا کوئی حقیقت نہیں رکھتا اس لئے حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کے فرمان کے مطابق دعاؤں کے ذریعہ ان بدیوں کو دور کریں اور ان بھائیوں کے لئے دعا کے ذریعہ بدیوں کو دور کریں جن بھائیوں کو آپ کی زبانیں اور آپ کے ظن نقصان پہنچاتے ہیں.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے میں نے تو یہاں تک دیکھا ہے کہ جس شخص کے ہاتھ پر یہ بیعت کی جاتی ہے کہ میں بدظنی نہیں کروں گا، میں غیبت نہیں کروں گا، بہت سے بد قسمت اس شخص کو بھی بدظنی اور غیبت سے الگ نہیں رکھتے، چھوٹی چھوٹی آزمائشوں میں پڑ کر بھی بدظنی شروع کر دیتے ہیں.کوئی مقدمے کا فیصلہ ہو تو کہنے لگ جاتے ہیں کہ اس نے یک طرفہ بات سنی ہے اس لئے یہ فیصلہ ہمارے خلاف دے دیا.فلاں خاندان سے تعلقات تھے اس لئے اس نے ہمارے خلاف یہ فیصلہ دے دیا.تو ایسی بلا ہے بدظنی کہ جس ہاتھ پر بیعت کی جاتی ہے کہ ہم بدظنی نہیں کریں گے اور غیبت نہیں کریں گے اسی ہاتھ کو بدظنی کے چاقوؤں سے کاٹا جاتا ہے اس لئے بہت مستعد ہونے کی ضرورت ہے اور بہت دعاؤں کی ضرورت ہے.ایک مہم کا عالمی سطح پر جماعت کو آغاز کر دینا چاہئے کہ ہم غیبت نہیں کریں گے اور بدظنی نہیں کریں گے اور نجس نہیں کریں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: گزشتہ دو خطبات میں میں نے دعا کی طرف توجہ دلائی تھی آج پھر انہیں دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ایک تو بارش کے لئے دعا جاری رکھیں اپنے ملک کے لئے بھی اور دوسرے دنیا کے ممالک کے لئے بھی جہاں خشک سالی ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے.گزشتہ جمعہ جو ہم نے دعا کی
خطبات طاہر جلد ۳ 63 خطبہ جمعہ ۲۷ /جنوری ۱۹۸۴ء تحریک کی تھی خاص طور پر غانا کے متعلق بہت ہی فکر تھی وہاں جماعتیں بھی بڑی تعداد میں ہیں اور بڑے دردناک واقعات وہاں سے مل رہے تھے.تو اللہ تعالیٰ نے یہ فضل فرمایا کہ اتوار کو غانا سے چلی ہوئی تار موصول ہوئی کہ اللہ تعالیٰ نے بڑی وسیع بارش فرمائی ہے ملک میں اور بہت دل خوش ہوئے ہیں اس بارش سے.تو ہم بھی ان کی خوشی میں شریک ہیں اور جن ملکوں میں ابھی بارش نہیں ہوئی ان کے متعلق دعا جاری رکھیں.اسی طرح عربوں کے متعلق بھی خاص طور پر دعا جاری رکھیں.بہت ہی پیار اور محبت ہونی چاہئے عرب قوم کے لئے کیونکہ آنحضرت ﷺ اس قوم سے تشریف لائے.اگر سچا عشق ہو تو حضور سے تو آپ کی قوم سے محبت تو ایک طبعی بات ہے فطرتی عمل ہے.کہتے ہیں لیلی کے کتے سے بھی مجنوں کو پیار تھا تو حضرت محمد مصطفی عملے کے ہم قوموں سے ہمیں پیار نہ ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا اس لئے عربوں کے لئے بالخصوص بہت درد سے دعائیں کرتے رہیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے.بدل دے اور ان کی طرف سے ہم خوشیوں کی خبریں پائیں.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۳ 65 99 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء سورۃ الھمزہ کی تفسیر اور پیشگوئیاں اور ( خطبه جمعه فرموده ۳ / فروری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ الھمزہ کی تلاوت فرمائی: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ تُمَزَةٍ إِنَّ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَ عَدَّدَهُ نُ يَحْسَبُ أَنَّ مَالَةَ أَخْلَدَهُ أَ كَلَّا لَيُنْبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ قُ وَمَا ادريكَ مَا الْحُطَمَةُ نَارُ اللَّهِ الْمَوْقَدَةُ الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ ةُ إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ فِي عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ (الحمرة) پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے اس امر کی وضاحت کی تھی کہ صفات باری تعالیٰ عفو اور ستاری سے جب دل عاری ہو جاتے ہیں اور انسان ان صفات کو بھلا کر ان سے روگردانی کرتے ہیں تو بہت سی بدصفات ان کی جگہ آکر دلوں میں بیٹھ جاتی ہیں اور پھر انسانی اعمال میں داخل ہو کر تمام سوسائٹی میں ہیبت پھیلا دیتی ہیں.بد صفات بھی آگے بچے دیتی ہیں.ایک صفت سے پھر ایک اور بدصفت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے اور ساری سوسائٹی مکروہات سے بھر جاتی ہے.میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ بھی بتایا تھا کہ جب یہ بیماریاں فرد سے خاندانوں اور خاندانوں سے معاشروں میں تبدیل ہوتی ہیں اور پھر قومی بیماریاں بن جاتی ہیں اور بڑھ کر بین الاقوامی صورت
خطبات طاہر جلد۳ 66 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء اختیار کر لیتی ہیں تو قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق جب ایسا وقت آئے گا تو اس وقت انسان کو ایٹمی ہم سے ہلاک کیا جائے گا اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایٹم کی آگ مقدر کر رکھی ہے.جس مختصر سی سورۃ میں اس بات کا ذکر ہے آج میں نے اسی کی تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ تُمَزَةِ كُ الَّذِي جَمَعَ مَالًا وَ عَدَدَهُ ف کہ ہلاکت ہے ہر اس شخص کے لئے یا ہر اس قوم کے لئے جو هُمَزَةٍ بھی ہے اور تُمَزَةٍ بھی ہے.هُمَزَةٍ اور تُمَزَةٍ کے دو الفاظ جو یہاں منتخب کئے گئے وہ بڑے ہی وسیع معانی اپنے اندر رکھتے ہیں.ان میں سے اکثر معانی میں دونوں لفظوں کا اشتراک ہے.اور یہ تکرار شدت کی خاطر بھی پیدا کی گئی ہے اور کچھ باریک فرق جو دونوں لفظوں میں ہے وہ بھی ان کے معانی میں داخل کرنے کے لئے دونوں کو بیک وقت استعمال فرمایا.ان دونوں میں سب سے پہلے غیبت کا معنی پایا جاتا ہے.هُمَزَةٍ بھی غیبت کرنے والے کو کہتے ہیں اور تُمزة بھی بہت غیبت کرنے والے کو کہتے ہیں.ان دونوں میں عیب چینی کا مادہ پایا جاتا ہے.هُمَزَةٍ بھی عیب چین کو کہتے ہیں جو بکثرت لوگوں میں عیب نکالے اور پھر ان عیبوں کی تشہیر کرے اور تُمَزَةٍ بھی یہی معنی رکھتا ہے.هُمَزَةٍ میں ایک معنی ہیں فحشا کو پھیلانا یعنی کسی کے متعلق بری باتیں سنا اور پھر اس کو آگے خوب تشہیر دینا اور تُمزَۃ میں بھی یہ معنی پائے جاتے ہیں ایک بار یک فرق یہ ہے کہ بعض اہل لغت کے نزدیک هُمَزَةٍ پیٹھ پیچھے برائی کے لئے زیادہ استعمال ہوتا ہے.اور تُمزَۃ منہ کے سامنے برائی کے لئے لیکن بعض اہل لغت اس میں بھی دونوں کو مشترک ہی قرار دیتے ہیں بلکہ ان معنوں کو الٹا کر معاملے کو مشکوک کر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں.تُمَزَة پیٹھ پیچھے برائی کے لئے ہے اور هُمَزَةٍ سامنے برائی کے لئے ہے.بہر حال اس پر اتفاق ہے کہ یہ دونوں معانی ان دونوں لفظوں میں موجود ہیں.جو باریک فرق ہے وہ یہ ہے کہ تُمزَۃ میں ایک زائد معنی اشارے اور مخفی پرو پیگنڈہ کا ہے یعنی آنکھ کے اشارہ سے کسی دوسرے کی تضحیک کرنا یا اس کی کسی برائی کی طرف اشارہ کرنا یا تذلیل کرنا تُمَزَةِ میں خاص طور پر یہ معنی پایا جاتا ہے اور اس کے علاوہ مخفی پرو پیگنڈہ بھی تُمزَۃ میں آتا ہے یعنی کھلم کھلا عیب چینی کے علاوہ اگر مخفی پرو پیگنڈہ کیا جائے تو وہ بھی ثُمَزَةٍ کے تابع ہے پھر هُمَزَةٍ میں ایک معنی بشدت توڑنے کا پایا جاتا ہے ٹکڑے ٹکڑے کر دینا، کسی کو دھکا دے کر زمین پر پھینک
خطبات طاہر جلد ۳ 67 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء دینا اور مضبوط تعلقات کے لئے بھی ان معنوں کو استعمال کیا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی توڑ دے اور قوموں کو متفرق کر دے یا گروہوں کو متفرق کر دے اس کے لئے بھی لفظ هُمَزَةٍ معنوی طور پر استعمال ہو سکتا ہے.ذلیل اور رسوا کر دینا، بے طاقت کر دینا، بے حیثیت کر دینا، ٹکڑے ٹکڑے کر دینا، مخالفت کرنا مخفی پرو پیگنڈہ کرنا ، ظاہری پرو پیگنڈہ کرنا ، فحشاء کو اور بری باتوں کو پھیلانا ، بچے اور جھوٹے دونوں قسم کے الزام اور دونوں قسم کی فحشاء هُمَزَةٍ اور تُمَزَۃ میں داخل ہیں.یہ وہ برائیاں ہیں جب یہ اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اس وقت ایک بہت ہی خوفناک عذاب کے لئے انسان کو اب تیاری کرنی چاہیئے.یہ وہ برائیاں ہیں کہ جب یہ قومی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں تو قرآن کریم یہ خبر دیتا ہے کہ اس کے بعد ایسی قوموں کے لئے ایک بہت ہی درد ناک عذاب مقدر ہے اور اس عذاب کا نقشہ اگلی آیات میں کھینچا گیا ہے.لیکن اس سے پہلے کہ میں اس کا ذکر کروں ان صفات کے ساتھ مال کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور یہ فرمایا گیا ہے يَحْسَبُ أَنَّ مَالَةٌ أَخْلَدَهُ ہر ایسا شخص یا ہر ایسی قوم اور جماعت ( هُمَزَةٍ اور تُمَزَةٍ مونث اور مذکر دونوں کے لئے استعمال ہوتے ہیں اور استعمال ہو سکتے ہیں.فرد واحد کے لئے بھی استعمال ہو سکتے ہیں اور جماعت کے لئے بھی.تو یہ معنی نہیں گے کہ ایسی قومیں یا ایسے افراد جن کے اندر یہ دوصفات پائی جاتی ہیں وہ مال کی بھی بہت حرص رکھنے والی قومیں ہیں یا مال کا بہت زیادہ حرص رکھنے والے افراد.اور ان کو یہ وہم ہے کہ اموال ان کو ہمیشہ کی زندگی عطا کر دیں گے اور ایک اولاد کا بھی ذکر ہے دوسری آیت میں وہ میں بعد میں بتاؤں گا.بہر حال اموال سے تو اس کا کوئی تعلق گہرا موجود ہے اور اس کے نتیجہ میں ایسے انسانوں کو یہ غلط نہی پیدا ہو جائے گی کہ وہ دنیا میں اپنے اموال کے زور سے باقی رہیں گے اور لمبا عرصہ رہ جائیں گے.ان معنوں میں فرد سے زیادہ قوم کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ مال کسی فرد کو ہمیشہ کی زندگی نہیں عطا کر سکتا.مال کے نتیجہ میں انسان اچھی دوائیں خرید بھی لے ، اچھے حکیم سے علاج بھی کروالے اور تنعم کی زندگی اختیار کرلے، ہر قسم کے خطرات سے بیماریوں سے بچے تب بھی اس کے لئے اخلدہ کا لفظ استعمال ہونا بعید ہے.ہاں قومی طور پر جو دولت مند قومیں ہیں وہ یہ خیال کرنے لگ جاتی ہیں بسا اوقات کہ ہم اتنی طاقتور ہو گئی ہیں اپنے اموال کے ذریعہ کہ اب ہمیں کوئی غریب قوم مٹا نہیں سکتی اور ہماری ہمیشگی کی ضمانت بن گئے ہیں ہمارے اموال اس لئے یہاں
خطبات طاہر جلد ۳ 68 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء زیادہ تر ذہن اس طرف منتقل ہوتا ہے کہ یہاں فرد سے زیادہ قوموں کا ذکر ہے اور اگر افراد بھی ہو تو كُلّ کے لفظ نے افراد کے مجموعہ کی طرف اشارہ کیا ہے نہ کہ کسی شخص واحد کی طرف اور افراد کے مجموعہ کو ہی قوم کہا جاتا ہے.تو بہر حال یہ آیات بڑی واضح ہیں اس بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں کہ آئندہ ایک ایسا زمانہ آنے والا ہے جب کہ قوموں کے اندر غیبت کی بدیاں پیدا ہوں گی ، بے حیائی اور فحشا کو پھیلانے کا مادہ پیدا ہو جائے گا، پھر وہ ظلم کی راہ اختیار کریں گے اور پروپیگنڈہ کے ذریعہ بھی ایک دوسرے کو توڑیں گے اور منہدم کریں گے اور کھلم کھلا پروپیگنڈہ بھی کریں گے اور منفی پروپیگینڈہ بھی کریں گے اور بکثرت عیب چینی کریں گے اور اس کے نتیجہ میں ان ذرائع کو اختیار کرتے ہوئے وہ افرادی طاقتوں کو بھی کچل دیں گے اور بڑی بڑی قومی طاقتوں کو بھی کچلنے کی کوشش کریں گے اور اپنے اموال کے ذریعہ یہ سمجھیں گے کہ گویا اب ہم ہمیشہ کی زندگی پاگئے ہیں.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے جب ہم آج دنیا کے نقشہ کو سامنے رکھتے ہیں تو مشرقی اور مغربی دونوں قوموں میں یہ صفات بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں.ان آیات میں ایک لحاظ سے Cold War کا نقشہ کھینچا گیا ہے یعنی سرد جنگ.یعنی کچھ تو میں ایسی ہوں گی جو ہر قسم کے پرو پیگنڈہ کے ذریعہ اور اس بات سے بے باک ہو کر کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی ہے دنیا میں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پھیلائیں گی اور ظاہری اور مخفی پروپیگنڈہ کے ذریعہ تعلقات کو توڑیں گی اور بعض طاقتوں کو منہدم کریں گی.ایک اور معنی اس کے یہ بنیں گے اگر ہم مغربی قوموں کا کردار دیکھیں کہ وہ چھوٹی قوموں کو یا نسبتا غریب قوموں کو کیونکہ مالدار کے مقابل پر پھر غریب آتا ہے، ان کو وہ مزید توڑنے کی کوشش کریں گے اور بجائے اس کے کہ ان کو تقویت دیں، ان کے اموال کو بڑھانے کی کوشش کریں، ان کی غربت کو دور کرنے کی کوشش کریں وہ دھکا دے کر ان کو زمین پر پھینک دیں گے اور ذا متربة بنادیں گے.چنانچہ قرآن کریم نے ایک اور سورۃ میں اس مضمون پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے ایسی قوموں کے ل ذَا مَتْرَبَةِ ( البلد : ۱۷) کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی خاک میں پڑے ہوئے خاک آلودہ مسکین جن کا کوئی زور نہیں چلتا اور اس کے نتیجہ میں ان کے اموال بڑھنے کی بجائے دن بدن کم ہوتے
خطبات طاہر جلد ۳ 69 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء جائیں گے اور وہ زیادہ بے حیثیت ہوتے چلے جائیں گے.چنانچہ اس وقت مغربی قو میں بعینہ غریب قوموں سے یہ سلوک کر رہی ہیں ان کو دھکا دے کر خاک میں ملا رہی ہیں اور دن بدن وہ ٹوٹتی چلی جاتی ہیں بڑی سخت بے چینی پھیلی ہوئی ہے دنیا میں اس بات سے کہ دن بدن امیر قوموں کا غریب قوموں سے فاصلہ بڑھتا جا رہا ہے.جتنا زیادہ بظاہر یہ روپیہ دے کر ہمیں انڈسٹری ہماری قائم کرتے ہیں، ہماری اقتصادیات کو بظاہر قوت دیتے ہیں اس کے نتیجہ میں ہمارے اندر جو Buying Power یعنی قوت خرید پیدا ہوتی ہے وہ ساری ان کی منڈیوں میں استعمال ہوتی ہے اور دن بدن ہم قرضوں اور مزید قرضوں میں مبتلا ہوتے چلے جاتے ہیں اور حقیقت میں خاک آلودہ اور مسکینوں والی شکل ان قوموں کی بنتی چلی جارہی ہے.اگر ہم بائیں بازو کے بلاک یعنی اشترا کی دنیا پر نظر کریں تو ان کا بھی یہی حال ہے.ان کے زیر اثر قومی لحاظ سے ایسی قومیں ہیں جن کو وہ اٹھنے نہیں دیتے.جب بھی وہ کوشش کرتی ہیں تو میں کہ ہم سراٹھا ئیں تو ان پر کئی طرح کی مار پڑتی ہے اور پھر وہ دھکا دے کر ان کو زمین پر پھینک دیتے ہیں.ان کو سمجھ نہیں آتی کہ ہماری اقتصادی حالت سنبھل کیوں نہیں رہی ؟ چنانچہ پولینڈ کی ایک مثال آجکل بڑی واضح ہے.دن بدن اور زیادہ غریب ہوتا چلا جارہا ہے ، دن بدن اور زیادہ اس کی قوت خرید میں کمی آتی چلی جاتی ہے اور جو بھی وہ کماتے ہیں ، جو بھی بناتے ہیں، جتنی محنت وہ خرچ کرتے ہیں اس کا اگر کوئی فائدہ ہے تو وہ بڑی بائیں بازو کی طاقتوں کو ہے اور اسی طرح دیگر چھوٹے چھوٹے بہت سے یورپین ممالک ہیں جو روسی اثر کے نیچے ہیں اور ان کے ساتھ بھی قومی لحاظ سے ذَا مَتْرَبَةِ والا سلوک ہو رہا ہے.پھر انفرادی طور پر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا بائیں بازو کے لحاظ سے یہ معنی رکھتا ہے کہ فرد کی طاقت کو اجتماعی شکل میں آنے سے اس طرح روکنا کہ من حیث المجموع جو اجتماعی طاقت غالب آچکی ہے اس کے مقابل پر وہ طاقت حاصل کر سکیں.چنانچہ ایک عجیب تضاد پایا جاتا ہے کہ اشترا کی دنیا میں ایک طرف سارے افراد کی مجموعی قوت غالب آچکی ہے دوسری طرف فرد بحیثیت فرد بالکل بے حیثیت اور بے طاقت ہو چکا ہے اور اس کے لئے امکان ہی باقی نہیں رہا کہ وہ گروہ بندی کر کے مل کر کچھ طاقتیں بنا کر وہ اپنے حقوق کی حفاظت کرے یا ان کے مطالبے کر سکے.چنانچہ Unions
خطبات طاہر جلد ۳ 70 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء بھی ساری ٹوٹ گئیں، سارے اجتماعی نظام جو افراد کو ملا کر ایک بڑی طاقت میں تبدیل کرتے ہیں پھر وہ اپنے سے بڑی طاقتوں سے مطالبے کرتے ہیں اور اپنے حقوق منوانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کا کلیتہ فقدان ہے اشترا کی دنیا میں اور فرد فرد پارہ پارہ ہو چکا ہے، ذرے ذرے میں تبدیل ہو گیا ہے انسان اس کی مجموعی طاقت ان ہی ذروں پر حکومت کر رہی ہے لیکن ان ذروں کے حقوق کے لئے کوئی راہ باقی نہیں رہی اگر وہ چاہیں مطالبہ کرنا چاہیں تب بھی نہیں کر سکتے کیونکہ ان کو ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ہے.مغربی طاقتیں بھی ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کھیل اسی طرح کھیل رہی ہیں کہ سارے مشرق وسطی پر آپ نظر ڈالیں اور اپنے ہندوستان اور پاکستان پر نظر ڈالیں اور کشمیر کے مسئلہ کو دیکھیں اور فلسطین کے مسئلے کو دیکھیں ، جنوبی امریکہ کی ریاستوں کا حال دیکھیں ہر جگہ بعینہ یہی وطیرہ اختیار کیا گیا ہے کہ انسان کو انسان سے لڑا کر قوموں کو قوموں سے لڑا کر دائیں بازو اور بائیں بازو کے نظریات کو آپس میں ٹکرا کر پارہ پارہ کر دیا گیا ہے انسان کو اور ٹکڑے ٹکڑے کیا گیا ہے.توهُمَزَة میں صرف غیبت اور پروپیگنڈہ نہیں ہے بلکہ اس کے بعد پھر کچھ اور بھی ایسے قومی وطیرے بیان کر دیئے گئے ہیں، قو می طریق بتائے گئے ہیں جن کے ذریعہ انسان انسان کو قومی دکھوں میں مبتلا کرتا ہے جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ غیبت کا جو فلسفہ آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اس پر روشنی ڈالی اس میں دکھ دینا بنیادی بات بیان کی گئی تھی اور فرمایا گیا کہ عیب چینی، غیبت ، بدظنی ان سب سے جو منع کیا جاتا ہے اس کی مرکزی روح یہ ہے کہ انسان انسان کو دکھ نہ پہنچائے.جب ان باتوں میں انسان بے باک ہو جاتا ہے تو پھر دکھ پہنچانے کے جتنے ذرائع ہیں وہ اختیار کرنے لگ جاتا ہے، بے باک ہو جاتا ہے، بے حیا ہو جاتا ہے اور معاشرتی طور پر اس کے نتیجہ میں کچھ اور برائیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں چنانچہ قرآن کریم نے دوسری جگہ ان برائیوں کی تفصیل بیان فرمائی: وَلَا تُطِعْ كُلَّ حَلافٍ فَهِيْنِ هَمَّازٍ مَشَاءُ بِنَمِيمٍ 6 مَّنَّاعٍ لِلْخَيْرِ مُعْتَدِ اثِيْهِ عُتُلٍ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيْهِ آن كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ (القلم: ۱۱-۱۵)
خطبات طاہر جلد ۳ 71 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء کہ ہر وہ شخص جو بڑے بڑے دعاوی کرتا ہے یا تمیں کھاتا ہے لیکن ہے بڑا سخت جھوٹا اور ذلیل انسان ! اس کی باتوں کی پیروی نہ کیا کر وهَمَّان ، وہی هُمَزَةٍ کا لفظ استعمال ہوا مادہ وہی ہے یعنی جو معانی میں نے هُمَزَةٍ کے بیان کئے ہیں فرمایا کہ ایسے شخص یا ایسی قومیں هَمَّاز ہوتی ہیں، وہ کسی کی خیر اپنے دل میں نہیں رکھتیں، پروپیگنڈہ میں سچائی کا کوئی عنصر شامل نہیں ہوتا اس بات سے وہ بے پرواہ ہیں کہ سچی بات ہے یا جھوٹی بات ہے انہوں نے ہر صورت میں تفرقے ڈالنے ہیں، قوموں کو ذلیل کرنا ہے، رسوا کرنا ہے، دھکے دینے ہیں انسان کو اور گرانا ہے.تَشَاء بِنَمِيمٍ وہ چغلی خور اور ایذارسانی والی باتیں کر کے بڑی کثرت سے چلتے ہیں یعنی یہاں پرو پیگنڈہ کی جو ہوائیں چلائی جاتی ہیں مشاء سے مراد یہ ہے جس طرح بعض چغل خوروں کی عادت ہوتی ہے کہ گھر گھر پھر کے باتیں کرتے ہیں اس طرح قو میں بھی ملک یہ ملک اور وطن به وطن اور قوم بہ قوم ایسے پرو پیگنڈے کریں گی بکثرت کہ مَّشَاء بِنَمِيمٍ ) کہلائیں گی.یہ صفات جن قوموں میں پیدا ہوں بلکہ جن افراد میں بھی پیدا ہوں ان کے اندر بعض اور برائیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں.منَّاعٍ لِلْخَيْرِ نہ بھلائی ان کے اندر رہتی ہے اور نہ وہ بھلائی کی تعلیم دیتے ہیں بلکہ بھلائیوں سے باز رکھتے ہیں لوگوں کو.مُعْتَدِ آنیم بہت گنہ گار ہو جاتے ہیں ایسے لوگ.چنانچہ معاشرتی لحاظ سے جہاں بھی یہ فحشا ہوں ، چغلیاں ہوں ،بدظنیاں ہوں ،ایک دوسرے کے خلاف کھلم کھلا زبانیں چلائی جائیں، ایک دوسرے کے غیب میں بھی برائیاں کی جائیں اور سامنے بھی برائیاں کی جائیں اور فرضی باتیں بنابنا کر بھی لوگوں کے عیب لوگوں پر ظاہر کئے جائیں اور کچھ اگر واقعاتی ہیں تو وہ بھی بے دھڑک ہو کر لوگوں کی عزت پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ان کی بدنامی کی جائے.ایسی سوسائٹیوں میں لاز مافشا پھیل جاتا ہے اور دن بدن وہ زیادہ بدکردار ہوتی چلی جاتی ہیں.ان میں گناہ رکنے کی بجائے پھیل جاتے ہیں جس طرح بعض دفعہ نزلاتی بیماریاں اس قسم کی بیماریاں جو Infectious Diseases Contagious Diseases کہلاتی ہیں وہ بیماریاں بھی ان کا جتنا زیادہ آپس میں واسطہ ہوا اتنا ہی پھیلتی چلی جاتی ہیں.تو یہ جراثیم لے کر چلنے والے لوگ ہیں ایک جگہ سے ایک بدی کے جراثیم پکڑے خواہ وہ فرضی تھی خواہ وہ حقیقی تھی لیکن ان کو پو ٹنٹائز کر کے ان کے اندر اپنی طرف سے طاقتیں بھر کر پھر یہ لوگوں میں پھیلاتے ہیں اور آہستہ آہستہ
خطبات طاہر جلد۳ 72 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء حیاٹوٹتی چلی جاتی ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس کے مقابل پر جو مثبت صفات آنحضرت علی نے آپس کے تعلق میں بیان کی ہیں ان میں خدا کو حیا دار قرار دیا اور عفو قرار دیا یعنی عفو ، حیا اور ستاری جس طرح ان تینوں کا جوڑ ہے ان تینوں کے ہٹنے سے حیا کی کمی یعنی بے حیائی پیدا ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں بہت سی بدکرداریاں آتی ہیں.بہت بڑے گناہگار بن جاتے ہیں یہ لوگ عُتُلٍ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيْهِ © اور بے باک کلام کرتے ہیں کوئی لگام نہیں ہوتی ان کی زبانوں پر اور پھر اس کے نتیجہ میں زنیم پیدا ہونے لگ جاتے ہیں.زَنِیم معنوی لحاظ سے اس شخص کو کہتے ہیں کہ ہو کسی اور کا اور کسی اور کی طرف منسوب ہو جائے یعنی خدا کا بندہ شیطان کا بندہ بن جائے ہے اس کے لئے بھی لفظ نیچ استعمال ہے اور ظاہری معنوں میں ولد الحرام کور نیھ کہتے ہیں یعنی باپ تو کوئی اور ہونا چاہئے لیکن واقعہ کوئی اور باپ ہے.تو ان سوسائٹیوں میں ، ولد الحرام ظاہری معنوں میں بھی اور باطنی معنوں میں بھی بکثرت پیدا ہونے لگ جاتے ہیں چنانچہ آپ دیکھیں کہ مغربی دنیا میں قرآن کریم کے اس نقشہ کے مطابق اس کثرت سے ولد الحرام پیدا ہورہے ہیں کہ گزشتہ سال ایک رپورٹ میں نے پڑھی جسمیں لکھا تھا کہ امریکہ میں ہرسال 30 فیصد بچے ولد الحرام پیدا ہورہے ہیں جتنے بچے پیدا ہورہے ہیں ان میں سے تمیں فیصد ولد الحرام ہیں اور اشترا کی دنیا میں چونکہ شادی بیاہ کے کوئی معنی ہی نہیں اور اخلاقی قید ہی کوئی نہیں ہے انہوں نے اپنی فیصد گنتی چھوڑ دی ہے اور کوئی بعید نہیں کہ پچاس فیصد ساٹھ فیصد یا اس سے بھی زیادہ ولد الحرام پیدا ہور ہے ہوں.تو کیسی عظیم الشان نظر رکھتا ہے قرآن کریم بدیوں پر یعنی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں حیرت انگیز فصاحت و بلاغت کے ساتھ بیماریوں کا نقشہ کھینچا ہے اور ایک بیماری سے دوسری بیماری پیدا ہوتی ہے، دوسری سے تیسری، تیسری سے چوتھی اور پھر ساری سوسائٹی بدیوں سے بھر جاتی ہے.اور یہاں بھی فرمایا اَنْ كَانَ ذَا مَالٍ وَبَنِينَ کہ وہ مالدار اور صاحب طاقت ہے.بنین سے مراد ہے جس کی نفری زیادہ ہو جس کی قوت زیادہ ہو تو اس کے نتیجہ میں اس میں تکبر پیدا ہو جاتا ہے اِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ أَيْتُنَا قَالَ أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ (القلم:۱۲) جب
خطبات طاہر جلد ۳ 73 الله خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء ان پر سامنے ہماری آیات کی تلاوت کی جاتی ہے خدا کی طرف بلاتے ہیں تو یہ متکبر لوگ جو گند میں مبتلا ہیں سر سے پاؤں تک یہ کہتے ہیں کہ پرانے وقتوں کی کہانیاں ہیں.چنانچہ انفرادی طور پر بھی مالدار لوگ یا وہ سوسائٹیاں جو متمول ہو جاتی ہیں ان میں یہ بدیاں زیادہ ہوتی ہیں اور قومی لحاظ سے بھی مشرق اور مغرب دونوں میں یہ بدیاں بکثرت پائی گئی ہیں اور دہریت پر منتج ہو رہی ہیں یعنی آخری نقطہ معراج اس بدی کا دہریت ہے.جب ان کے سامنے پھر مذہب والے باتیں کرتے ہیں تو یہ اپنی طاقت کے نشہ میں اور اپنی بدیوں میں مبتلا ہو کر سوچ بھی نہیں سکتے کہ کوئی خدا ہے، واقعتہ کوئی پکڑ دھکڑ ہوگی کوئی سزا جزاء کا نظام ہے، ہماری جواب طلبی ہوگی، ہم جواب دہ ہیں کسی کو ہم مالک نہیں ہیں.یہ ساری باتیں بھول جاتے ہیں کہتے ہیں اَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ یہ پرانی باتیں ہیں.سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُومِ ہم اس کی تھوتھنی پر مہر لگا ئیں گے یعنی داغ دیں گے تھوتھنی کو اور عجیب بات ہے کہ حز قیل نبی کی جو پیشگوئی ہے اس میں بھی جوج روس کو مخاطب کر کے تھوتھنی پر مارنے کا ذکر ہے کہ ہم تیری تھوتھنی کو داغ دیں گے.اصل مراد یہ ہے کہ اس موقع پر پہنچ کر انسان انسان نہیں رہتا اور وہ بحیثیت جانور مخاطب کرنے کے زیادہ لائق ہے.اللہ تعالیٰ اتار حیم وکریم ہے کہ اگر انسان میں انسانیت باقی رہے تو ہلاک نہیں کرتا اس کو معاف کرتا چلا جاتا ہے ،عفو کا کرتا چلا جاتا ہے، حیا اس سے کرتا چلا جاتا ہے لیکن جتنا وہ ان صفات سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے اور کلینتہ بے حیا بن جاتا ہے اتنا ہی زیادہ وہ انسانیت سے گر کر جانوروں کی شکلوں میں تبدیل ہونے لگ جاتا ہے یعنی اس کے لئے پھر انسان کا لفظ بولنا ہی انسان کی ذلت ہے تو سَنَسِمُهُ عَلَى الْخُرْطُوْمِ میں خدا تعالیٰ نے اس بات کی طرف بھی اشارہ فرما دیا کہ ہم پکڑ میں دھیمے ہیں، ہم سزا تو بہت سخت دیں گے لیکن اس وقت جب کہ عملاً انسان انسان کہلانے کا مستحق ہی باقی نہیں رہے گا.جانوروں کی طرح ان کی تھوتھنیاں ہو جائیں گی اور پھر ہم ان تھوتھنیوں پر ماریں گے اور ان کو دائیں گے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدا نے اتنا عظیم الشان انسان بنایا تھا اور پھر خود ہی ہلاک کر دیا.بائیبل تو کہتی ہے یہ بات لیکن قرآن یہ نہیں کہتا.فرماتا ہے جب تم انسانیت کے مقام سے گر چکے ہو گے تب تم اس بات کے لائق نہیں ٹھہرو گے کہ تمہیں زندہ رکھا جائے اس وقت تمہیں ہلاک کیا جائے گا.اب میں واپس اس مضمون کی طرف آتا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے فرمایا
خطبات طاہر جلد ۳ 74 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء يَحْسَبُ أَنَّ مَالَهُ اخْلَدَه جس طرح یہاں بھی مال کا ذکر کیا کہ یہ لوگ، یہ طاقتیں بڑی بڑی جن میں یہ ساری بدیاں پھیل چکی ہوں گی یہ سمجھیں گی کہ ہم ہمیشہ رہیں گی.فرماتا ہے ہر گز نہیں كَلَّا لَيُنَبَذَنَّ فِي الْحُطَمَةِ یہ لوگ سارے کے سارے لازما حطمہ میں ڈالے جائیں وَمَا ادريكَ مَا الْحُطَمَةُ ) اور تجھے کیا چیز بتائے، کیسے سمجھایا جائے کہ حطمہ کیا ہے؟ نَارُ اللهِ الْمَوْقَدَةُ یہ اللہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے.الَّتِي تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ ن جو اس بات کا انتظار نہیں کرے گی کہ جسم جلیں تو پھر جان جائے وہ براہ راست دلوں پر جھپٹے گی.إِنَّهَا عَلَيْهِمْ مُّؤْصَدَةٌ کی وہ ان کے لئے بند کی گئی ہے فِي عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ & ایسے عمود میں جو کھیچ کر لمبے ہو جاتے ہیں Elastic چیز ہو جس طرح یا Spindle کی شکل کی چیز ہو جب اس کے اندر سے دباؤ بڑھتا ہے تو وہ پھیل کر لمبی ہو جاتی ہے مخروطی شکل اختیار کر جاتی ہے اور یہ نقشہ کھینچا ہے کہ یہ آگ حطمہ میں بند کی گئی ہے اور اس وقت پھٹے گی ان پر جب یہ بھیج کر اندرونی دباؤ کے نتیجہ میں لمبی ہو جائے گی.اب سوال یہ ہے کہ الْحُطَمَةُ کا لفظی معنی کیا ہے.الْحُطَمَةُ کا لفظی معنی تو ذرہ ہے یعنی ایسی چیز جسے تو ڑ تو ڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا گیا ہو اس کو عربی میں الحُطَمَةُ کہتے ہیں.اب ظاہر بات ہے کہ کوئی انسان سوچ بھی نہیں سکتا خصوصاً حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ کا انسان تصور ہی نہیں کر سکتا کہ چھوٹے چھوٹے ذروں کے اندر آگ بند کی گئی ہو اور ان کو کھینچ کر لمبا کیا جارہا ہو اور پھر وہ بیضوی شکل یا ستون کی شکل اختیار کر جائیں اور پھر پھٹیں اور پھر وہ آگ ان کے لئے کھول دی جائے.یہ بظاہر عربی لفظ کے لفظی معنی ہیں اس کے ساتھ اس معنی کا بڑا شدید ٹکراؤ ہے اسی لئے گزشتہ مفسرین کو اس کے معنی کرنے میں ہمیشہ دقت پیش آتی رہی ہے اور وہ کئی طرح سے اس کے معنی کر کے اس مضمون سے نکلنے کی کوشش کرتے رہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہاں پہنچ کر اُس زمانہ کا انسان پھنس جاتا ہے جس کے تصور میں ایٹم بم کا کوئی بھی شائبہ نہیں یعنی اس کو خیال بھی نہیں کہ ایٹم بم کی کوئی چیز ہوسکتی ہے لیکن قرآن کریم تو ہر زمانہ کی کتاب ہے اور یہی اس کی سچائی کا ایک عظیم الشان ثبوت ہے کہ ہر زمانہ کی باتیں کرتا ہے.اگر ہر زمانہ کی کتاب نہ ہوتی تو ہر زمانہ کی باتیں کیوں کرتی اور اتنا کھول کھول کر کیوں کرتی.تو الحُطَمَةُ
خطبات طاہر جلد ۳ 15 75 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء کہتے ہیں انتہائی باریک ذرہ کو جسے کوٹ کوٹ کر ریزہ ریزہ کر دیا گیا ہو اور قرآن کریم نے فرمایا کہ الْحُطَمَةُ میں ڈالے جائیں گے.اب باریک ذرے میں انسان کس طرح ڈالے جاسکتے ہیں؟ کس طرح مبتلا کئے جا سکتے ہیں؟ تبھی فوراً فرمایا وَمَا اَدرِيكَ مَا الْحُطَمَةُ ن اے موجودہ انسانو! یعنی اس کا ایک ترجمہ یہ ہو سکتا ہے، تمہارا علم بڑا محدود ہے، اب ہم تمہیں کس طرح سمجھا دیں کہ ہم کیا کہنا چاہتے ہیں.الْحُطَمَةُ کا کوئی تصور تم نہیں رکھتے جس الْحُطَمَة میں یہ تو میں ڈالی جائیں گی اس کا کوئی تصور کوئی Concept نہیں ہے تمہیں اس لئے ہم مزید کھول کر تمہاری خاطر بتانا چاہتے ہیں کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس میں آگ بند ہوگی ایسا ذرہ ہے جس سے آگ بھڑ کے گی اور وہ اتنی خوفناک آگ ہے کہ محض جسم کو جلا کر روح پر حملہ نہیں کرے گی بلکہ براہ راست دلوں کو مفلوج کر دے گی اور عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ میں بند ہے.اب اس لحاظ سے اس مضمون کے پھر آگے دو پہلو بن جاتے ہیں اور ان کا پہلی آیات سے بڑا دلچسپ اور گہرا تعلق ہے جو میں نے تلاوت کی تھی اسی سورۃ کی.هُمَزَةٍ کا معنی ٹکڑے ٹکڑے کر دینا تو ڑ کر ریزہ ریزہ کر دینا کسی کو اور اس کے بعد خود مالدار ہوتے چلے جانا اور جس کو گرایا جارہا ہے جس کو خاک پر پھینکا جارہا ہے اس کو ذرہ حقیر اور بے معنی سمجھ کر یہ خیال کر لینا کہ ساری دولتیں تو میرے ہاتھ میں اب آچکی ہیں اب یہ میرا مقابلہ کس طرح کر سکتے ہیں ذرات جن کو میں نے پارہ پارہ کیا ہوا ہے.بالکل یہی سوچ مغربی دنیا کی بھی ہے اور مشرقی دنیا کی بھی ہے.عظیم الشان اشترا کی طاقتیں بھی یہ سمجھتی ہیں کہ ساری قوم کے اموال تو ہمارے چند ہاتھوں میں آچکے ہیں اور ہمارے کنٹرول میں آگئے ہیں جو اس وقت کسی Regime کے نام پر حاکم ہیں ان لوگوں پر ان کے پاس تو کچھ نہیں رہا.یہ تو ذرات میں تبدیل ہو چکے ہیں لوگ اس لئے جب اموال ہمارے پاس ہیں تو یہ ہمارے مقابل پر کس طرح اٹھ سکتے ہیں اس لئے ہمیشہ کے لئے ہماریRegime ، ہماری طاقتیں، ہمارے گروہ جو اس وقت حکومت کر رہے ہیں جاری رہیں گے ہمیشہ کے لئے اور دن بدن انفرادی طاقت کم ہوتی چلی جائے گی اجتماعی طاقت کے مقابل پر اور مغربی دنیا کا بھی بالکل یہی نقشہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ساری دولتیں تو ہم نچوڑتے چلے جارہے ہیں.جتنی زیادہ ڈیویلپمنٹ ہو رہی ہے ہم ان پسماندہ قوموں سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بھاگ رہے ہیں اور اموال سمٹ کر ہمارے
خطبات طاہر جلد ۳ 76 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء ہاتھوں میں آتے چلے جارہے ہیں تو یہ ذرات بے معنی اور حقیر ذرے بے بس ذرے یہ ہمارا مقابلہ کس طرح کر سکیں گے اس لئے ہمیں ہمیشہ کی زندگی مل گئی ہے.تو معنوی لحاظ سے اس کا یہ معنی ہوگا کہ بعض دفعہ حقیر ذروں کے اندر بھی ایک آگ پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے ، ایک جلن ایک تکلیف جو بڑھنے لگتی ہے اور اس درجہ تک پھر وہ پہنچ جاتی ہے کہ اندرونی دباؤ اس کو پھٹنے پر مجبور کر دیتا ہے اور ایسا وقت آتا ہے کہ انہی حقیر ذروں سے وہ آگ پھوٹ پڑتی ہے جو ان مالکوں کو ہلاک کر دیتی ہے یعنی ان غریب اور پس ماندہ قوموں کو تم یہ نہ سمجھو کہ خطرہ سے خالی ہیں ، انکے اندراندرونی دباؤ بڑھے گا.جتنا زیادہ تم ان کو توڑتے چلے جاؤ گے اتنا زیادہ اندرونی نفرتیں آگ کی شکل اختیار کرنے لگ جائیں گی، چنانچہ اس آگ کے اکٹھا ہونے کے واضح شواہد مشرقی دنیا میں بھی مل رہے ہیں اور مغربی دنیا میں بھی مل رہے ہیں.اب مشرق وسطی میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہی ہورہا ہے کہ باوجود اس کے کہ وہ کمزور ہیں نہتے ہیں بیچارے بے بس ہیں اندرونی تکلیف اور بے بسی کی آگ نے ان کے اندر ایک ایسی قوت پیدا کر دی ہے، ایسے ہو گئے ہیں، ایسا مقام بھی آرہا ہے کہ وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے ہم ہلاک ہو جائیں گے لیکن تمہیں بھی ساتھ ہلاک کر دیں گے.چنانچہ لبنان میں جنبلات نے جو اعلان کیا ہے یہی کیا ہے.اس نے کہا کہ تمہاری جو پالیسیز ہیں تمہاری سیاستیں انہوں نے لبنان کو پارہ پارہ کیا ہوا ہے اور انصاف نہیں ہے اس میں اس لئے ہم تمہیں یہ اب نوٹس دیتے ہیں کہ تمہاری بات نہیں چلے گی.اگر لبنان کو ہلاک ہونا پڑے سارے کو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں اب وہ درجہ پہنچ چکا ہے کہ جہاں عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ بن چکے ہیں وہ یعنی اندرونی پریشرز کے ذریعے جب قومیں Desprit ہو جائیں اندرونی دباؤ کے نتیجہ میں جب وہ کر گزرنے پر آمادہ ہو جائیں تو اس وقت کا نقشہ عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ کھینچتا ہے اور یہ جمع کی ہوئی آگ اور دیر کی حسرتیں، حسد اور تکلیفیں جب اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اس وقت یہ صورت پیدا ہوتی ہے.اور ظاہری طور پر بھی یعنی ذرہ حقیر میں آگ کا اکٹھا بنا اور اس کا پھٹنا اس شکل میں بعینہ یہ وہ نقشہ ہے جو آج کل کے بموں کا نقشہ ہے جس سے دنیا نے ہلاک ہونا ہے چنانچہ آپ تصویریں دیکھیں سائنسی رسالوں میں تو آج کل انہوں نے انتہائی تیز رفتار کیمرے ایجاد کئے ہیں جو آپ کو تصور بھی نہیں کہ کتنے تیز رفتار ہیں یعنی روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت
خطبات طاہر جلد ۳ 77 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء کرتی ہے اور وہ شعاعیں پھیل رہی ہوں تو اُس کی تصویر میں کھینچ رہے ہوتے ہیں ساتھ ساتھ یعنی چھ انچ کے بعد، اب تو انچوں کی بجائے وہ اس طرح کہتے ہیں کہ جب ایٹم بم پھٹتا ہے تو اس کی تصویر کھینچتے رکھینچتے ہیں تو کہتے ہیں ملی سیکنڈ اتنے بیٹے اتنے ملی سیکنڈ یعنی ایک سیکنڈ کے لاکھویں حصہ میں یا دو لاکھویں حصہ میں جتنا مواد پھیلا یا ایک لاکھویں حصہ میں جتنا مواد پھیلا اس کی یہ تصویر ہے اور تین لاکھویں حصہ میں جتنا مواد پھیلا اس کی یہ تصویر ہے.تو جو تصویر میں انہوں نے کھینچی ہیں ایٹم کے پھٹنے ، پہلے وہ لفظاً لفظاً قرآن کی اس تصویر کے مطابق ہیں عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ بنتا ہے پہلے ایٹم جو تقریباً گول ہے جب یہ پھٹتا ہے تو پھٹنے سے پہلے لمبوترا ہو جاتا ہے اور اندرونی قوت اس کو اجتماع کر کے دباؤ پیدا کرتی ہے اور جب وہ صرف ایٹم میں نہیں بلکہ ایٹوں کا وہ مجموعہ جو پھتا ہے وہ ساری کی ساری چیز اس طرح پھیلتی ہے جس طرح سانس لے کر آپ اپنی چھاتی کو پھیلاتے ہیں جب اندر سے سانس کا دباؤ بڑھتا ہے تو چھاتی پھیلتی ہے اس طرح وہ مجموعہ Mass کا پھیلتا ہے اور سانس لینا شروع کر دیتا ہے گویا اور عَمَدٍ مُمَدَّدَةٍ بن کر پھر آخر پھٹ جاتا ہے.اور ایٹم کی آگ وہ آگ ہے جس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے تَطَّلِعُ عَلَى الْاَفْدَةِ کہ یہ دلوں پر جھپٹتی ہے کیونکہ اتنی خطرناک ریڈیائی طاقتیں پیدا ہوتی ہیں اس کے نتیجہ میں کہ وہ ریڈی ایشن کا تصور تفصیل سے تو میں بیان نہیں کر سکتا لیکن نہ نظر آنے والی لہریں ہیں کچھ جن کو آپ آگ نہیں کہہ سکتے لیکن وہ براہ راست حملہ کرتی ہیں دلوں پر اور زندگی کو اچک لیتی ہیں.بعض دفعہ گرمی کا پھیلاؤ تحقیق ہے سائنسدانوں کی ، پیچھے پیچھے آرہا ہوتا ہے یعنی وہ ریڈیائی شعائیں جو گرمی پیدا کرتی ہیں وہ پیچھے رہ رہی ہوتی ہیں اور دھماکوں کی شعائیں آگے آگے بھاگ رہی ہوتی ہیں اور ان کا دائرہ زیادہ وسیع ہوتا ہے گرمی کی شعاعوں سے تو پیشتر اس کے کہ گرمی پہنچے جسم تک یہ دھما کہ خیز دھما کہ ہوائیں یا دھما کہ خیز شعائیں دلوں کو اس طرح بٹھا دیتی ہیں جس طرح دھماکے سے ایک چیز پھٹ جاتی ہے.برداشت نہ کر سکے کوئی برتن ، برتن بعض دفعہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے تو اس طرح دل پھٹنے لگ جاتے ہیں ان شعاعوں کے زور سے.تو قرآن کریم نے دیکھیں کتنی وضاحت کے ساتھ نقشہ کھینچا ہے؟ تَطَّلِعُ عَلَى الْأَفْدَةِ یہ وہ آگ ہے.جس کو تم ظاہری آگ نہ سمجھو تم لوگوں کا علم محدود ہے.ایسی آگ پیدا ہونے والی ہے ذرات میں سے جو دلوں پر جھپٹے گی اور اس بات کا انتظار نہیں کرے گی کہ جسم جلیں تب جا کر موت واقع ہو.
خطبات طاہر جلد۳ 78 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء تو دیکھئے جو چھوٹی سی بدی بظاہر آپ کو نظر آتی تھی اور جس سے عورتیں بڑی لذتیں حاصل کرتیں ہیں کہ ایک دوسرے کی برائی بیان کرنے میں کیا فرق پڑتا ہے بڑا مزا آتا ہے، ہم نے دیکھا کہ فلاں نے یہ گندی حرکت کی چلولوگوں کو بتائیں تم تو سمجھتے ہو کہ بڑی نیک عورت ہے، ہمیں اندر سے یہ حال ہے کہتے ہیں ” پھولو تے پتہ لگ دا ائے یہ باتیں بھی کہتی ہیں کہ بی بی بس جان ہی نہیں پھولو گے تے پتہ لگے گا.تو تجسس یعنی پھولنا پیدا ہو جاتا ہے اور پھر فرضی باتیں بھی بیان کرنا شروع کر دیتی ہیں پھر بے حیائیاں سوسائٹی میں عام ہونے لگ جاتی ہیں.لوگ کہتے ہیں اچھا جب فلاں صاحب جو اتنے بزرگ نظر آتے ہیں اندر سے ان کا یہ حال ہے تو ہم تو اتنے بزرگ نظر بھی نہیں آتے ہمارا باہر سے بھی یہ حال ہو جانا چاہئے تو پھر وہ اندر کے حال باہر نکلنے شروع ہو جاتے ہیں باہر کے حال لوگوں کو مزید تر غیب دیتے ہیں سوسائٹی میں بے حیائیاں پھیلتی ہیں پھر ظلم پیدا ہو جاتا ہے، دکھ دینے میں لذت آنی شروع ہو جاتی ہے، غریب کے احساسات اٹھ جاتے ہیں، دلوں سے پھر کمزورں کو مزید کمزور بنانے میں چسکا آنا شروع ہو جاتا ہے.جب یہ کردار بن جاتے ہیں ایک معاشرے کے تو اس سے پھر وہ قومی کردار پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے آج دنیا میں تباہی مچا رکھی ہے اور آخری انجام ان کا بد کرداری، ایسے بچے جو ولد الحرام ہیں ان سے سو سائٹیوں کا بھر جانا، مظالم کا پھیل جانا ، خدا کی ہستی کا انکار ، مذہب کو فرسودہ چیز قرار دینا اور کہنا کہ اگلے وقتوں کی باتیں ہیں دفع کرو، ان باتوں کا تذکر ہم سے نہ کرو اور جب ایسے لوگ نکلیں گے جو ذرہ بنانے والے لوگ ہیں اور ٹکڑے ٹکڑے کرنے والے لوگ ہیں انہیں ذروں اور انھی ٹکڑوں میں سے انکے لئے آگ نکلے گی جوان کو ہلاک کر دے گی.اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کو تو فیق عطا فرمائے کہ ان بدیوں کو معمولی نہ سمجھیں ان کی بیخ کنی کریں کلیتہ ، جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں ان بدیوں کو اور پھر ان قوموں کے لئے دعا کریں جو ہلاکت کی طرف بڑی تیزی بڑھ رہی ہیں.آخر یہ ایک دلچسپ بات آپکوسناؤں.سائنسدانوں کی ایک کمیٹی بنی ہوئی ہے سالہا سال سے جس میں تقریباً بارہ یا چودہ نوبل لاریئیٹس بھی شامل ہیں یعنی نوبل پرائز جنہوں نے حاصل کیا ہوا ہے اور انہوں نے بڑے سالوں سے ایک اٹامک کلاک بنایا ہوا ہے واشنگٹن میں ہے غالباً اور وہ مطالعہ کرتے ہیں حالات کا اور اس سوئی کو جس کو اٹامک کلاک کہتے ہیں اس کو آگے اور پیچھے کرتے
خطبات طاہر جلد۳ 79 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء رہتے ہیں اور وہ آگے اور پیچھے کرنے سے یہ بتاتے ہیں ہم اٹامک جنگ کے کتنا قریب آگئے ہیں یا کتنا دور ہٹ چکے ہیں.عجیب بات یہ ہے کہ 1953ء میں وہ سوئی بہت ہی قریب آگئی تھی ایٹمی جنگ کے پھر 1974ء میں بہت قریب آگئی اور آج کل بھی جو تازہ خبر ہے وہ یہ ہے کہ وہ دومنٹ تک پہنچ چکی ہے یعنی ان کے نزدیک اگر 24 گھنٹوں کو منٹوں میں تقسیم کیا جائے تو دومنٹ رہتے ہیں صرف ایٹمی جنگ ہونے میں اور یہ عجیب اتفاق ہے، اتفاق نہیں کہنا چاہنے تصرف ہے اللہ تعالیٰ کا کہ جن دنوں احمدیت پر ظلم زیادہ ہوتے ہیں ان دنوں وہ سوئی ، ایٹم بم کی سوئی ، آگے بڑھ کر ہلاکت کے قریب پہنچ جاتی ہے.چنانچہ 1953ء میں بھی مظالم ہوئے بہت سخت مظالم اور سوئی قریب پہنچ گئی.1974ء میں بھی بہت مظالم ہوئے اور وہ سوئی قریب پہنچ گئی.آج کل بھی مظالم ہورہے ہیں اور وہ سوئی قریب پہنچ گئی ہے تو اس لئے آپ کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے اس کا اور مظلوم کی دعا قبول ہوتی ہے اس لئے آپ ان کے خلاف بددعا نہ کریں کیونکہ آپ قبولیت کے مقام پر کھڑا کئے گئے ہیں.آپ دعائیں کریں آپ کی دعائیں ان کو بچاسکتی ہیں اور کوئی چیز اب ان کو بچا نہیں سکتی.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: میں جماعت کو پھر دو دعاؤں کی طرف خصوصیت سے توجہ دلاتا ہوں.ایک بارش کے لئے دعا اور ایک عرب دنیا کے لئے دعا.بارش کے متعلق میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں بھی ایک خوشخبری سنائی تھی کہ غانا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بذریعہ تار یہ اطلاع معلوم ہوا کہ بہت بارش ہوئی اور بہت دیر کی خشک سالی خدا تعالیٰ نے دور فرما دی.مزید بھی دعا کرنی چاہئے کیونکہ لمبی خشک سالی کے بعد بعض دفعہ ایک بارش کافی نہیں ہوا کرتی.پرسوں رات کو بی بی سی کا پروگرام سنتے ہوئے معلوم ہوا کہ افریقہ ہی میں ایک اور ملک میں جو بالکل موت کے کنارے پر پہنچ گیا تھا خدا تعالیٰ نے موسلا دھار بارش فرمائی ہے اور ان کے بیان کے مطابق جل تھل بھر گئے بلکہ بعض جگہ Flood آگئے اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا تو معلوم ہوتا ہے جہاں ضرورتیں زیادہ ہیں وہاں قریب آرہی ہے رحمت آہستہ آہستہ، دعا کریں ساری دنیا میں خدا کی رحمت کی بارشیں ہوں.ہمارے ملک میں خاص طور پر آج کل پانی کی بہت کمی آگئی ہے اور بارانی فصلوں کو سخت خطرہ ہے.عرب دنیا میں ایک اور بڑا خطرناک واقعہ رونما ہوا ہے مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی بڑی
خطبات طاہر جلد۳ 80 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء ذلیل اور نہایت ہی کمپنی کوشش کی گئی ہے یہود کی طرف سے اگر چہ نا کام ہو گئے وہ لوگ جو مقرر تھے اس کام پر لیکن یہ پہلے بھی کوششیں ہو چکی ہیں اور نہایت ہی خبیثانہ ارادے ہیں یہود کے.ان کا مقصد یہ ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمانوں کے معزز مقامات کو تباہ کر دیا جائے اور کچھ دیر کے بعد لوگ بھول جائیں گے اور پھر وہاں ہم ان کا معبد دوبارہ بنوانے کی بجائے اپنا معبد بنا ئیں اور پھر مسجدوں کو نا بود کرنے کے نتیجہ میں اگر چہ بظاہر مسلمان نابود نہیں ہوتے لیکن حقیقت یہ ہے کہ شعار کا قوموں کی زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہوتا ہے.جو قومیں اپنے شعار کی ذلت قبول کر لیں وہ ہلاک ہو جایا کرتی ہیں.آخر ایک کپڑے میں کیا بات تھی جس سے جھنڈا بنایا جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے تربیت فرمائی صحابہ کی کہ جھنڈے کی حفاظت کرنی ہے اور بظاہر ایک بے وقوف آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ جھنڈے کو چھوڑ و جان بچانی چاہئے لیکن بالکل بر عکس آنحضرت ﷺ نے اس کے تعلیم دی ہے اور ایک جنگ کے موقع پر جو تین سپہ سالار آنحضور ﷺ نے یکے بعد دیگر مقررفرمائے تھے ایک زخمی ہوتا تھاوہ ایک ہاتھ سے جھنڈا دوسرے میں منتقل کر لیتا تھا.وہ کاٹا جاتا تھا تو بعض دفعہ ٹنڈے بازؤوں سے انہوں نے جھنڈوں کو چھاتی کے ساتھ لپیٹا جب وہ بھی کاٹے گئے تب دوسرا آگے بڑھا اور جھنڈ انہیں گرنے دیا اور یکے بعد دیگرے تینوں جرنیل جو چوٹی کے تھے جنگی صلاحیتوں کے لحاظ سے وہ شہید ہو گئے اور جھنڈے کو نہیں گرنے دیا.تو اس بات کو معمولی نہ سمجھیں یہ شعائر اللہ کی بہت بڑی عظمت ہوتی ہے اس لئے ساری دنیا میں مسلمانوں کو اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہونا چاہئے.اپنے اختلافات کو بھلانا چاہئے اور ا کٹھے ہو کر اس کا دفاع کرنا چاہئے.اگر یہود کو یہ معلوم ہو جائے کہ ساری دنیا کے مسلمان اپنے شعائر کی عظمت اور احترام اپنے دل میں اتنار کھتے ہیں کہ بوڑھے اور بچے کٹ مریں گے لیکن شعائر کو تباہ نہیں ہونے دیں گے تو پھر مسلمانوں کو وہ کبھی تباہ نہیں کر سکتے.ایسی عظیم زندگی پیدا ہو جائے گی کہ عالم اسلام میں کہ کوئی دنیا کی طاقت پھر اس زندگی کو مٹا نہیں سکتی.ہم بھی حاضر ہیں ، جماعت احمدیہ کو شعائر اسلام کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہونا چاہئے اگر کوئی قوم بلائے شعائر کی خاطر قربانی کے لئے بلائے تو ہم حاضر ہیں.یہ ہے وہ جہاد جو حقیقی جہاد ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور جس کی اسلام نہ صرف اجازت دیتا ہے بلکہ حکم دیتا ہے اس لئے
خطبات طاہر جلد۳ 81 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء اگر آپ کو نہیں آنے دیتے اپنے ساتھ ان خدمتوں میں ، اگر آپ سے فی الحال نفرتیں ہیں تو یہاں بیٹھے ایک جہاد شروع کر سکتے ہیں دعا کا جہاد ہے.آخر جنگ بدر بھی تو اس خیمہ میں جیتی گئی تھی جہاں دعائیں ہو رہی تھیں.اس میدان میں نہیں جیتی گئی تھی جہاں تھوڑی سی لڑائی ہوئی تھی.اصل وہ جنگ حضرت محمد مصطفی عملے کے خیمہ میں جیتی گئی ہے پس وہ جنگ تو آپ یہاں شروع کر دیں پھر اگر خدا توفیق دے گا اور وقت ہمیں بلائے گا تو دنیا دیکھے گی کہ جہاد کے میدان میں احمدی کسی دوسری قوم سے پیچھے نہیں بلکہ ہم ہر میدان میں صف اول میں ہوں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.
خطبات طاہر جلد ۳ 82 خطبه جمعه ۳ فروری ۱۹۸۴ء
خطبات طاہر جلد ۳ 83 خطبه جمعه ۱۰ر فروری ۱۹۸۴ء خدا تعالیٰ کی صفت تو ابیت ( خطبه جمعه فرموده ۱۰ار فروری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِايْتِنَا فَقُلْ سَلْمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ (الانعام: ۵۵) ط إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُوتِكَ يُبَدِلُ اللهُ سَيَاتِهِمْ حَسَنتٍ وَكَانَ اللهُ غَفُورًا رَّ حِيْمانَ وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللهِ مَتَابًا پھر فرمایا: (الفرقان: ۷۱-۷۲) سیہ دو آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی سورہ انعام کی آیت ہے اور اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو اے محمد (ع) تو ان سے کہہ دے کہ تم پر ہمیشہ سلامتی ہو تمہارے رب نے اپنے اوپر یہ فرض کر لیا ہے کہ وہ تمہارے پر رحمت فرمائے گا اس طرح کہ تم میں سے جو کوئی بھی غفلت میں بدی کر بیٹھے پھر وہ اس
خطبات طاہر جلد ۳ 84 خطبه جمعه ۰ ار فروری ۱۹۸۴ء کے بعد توبہ کرلے گا اور اصلاح کرلے گا تو خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.دوسری آیات الفرقان سے لی گئی ہیں جس کا ترجمہ یہ ہے کہ سوائے اس کے کہ جس نے تو بہ کر لی اور ایمان لایا اور ایمان کے مطابق عمل کئے ، پس یہ لوگ ایسے ہوں گے کہ اللہ ان کی بدیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے اور جو تو بہ کرے اور اس کے مطابق عمل کرے تو وہ شخص حقیقی طور پر اللہ کی طرف جھکتا ہے.ان دونوں آیات کا مفہوم تقریباً ایک ہی ہے صرف تھوڑا سا فرق یہ ہے کہ پہلی آیت میں تو آنحضرت ﷺ کو یہ فرمایا گیا کہ وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں جب تیرے پاس آئیں تو ان پر سلام بھیج اور ان سے وعدہ کر کہ خدا تعالیٰ نے تم پر رحمت کرنا اپنے پر فرض کر لیا ہے بشر طیکہ تم تو بہ کرو اور دوسری صورت میں ان لوگوں کے لئے خوشخبری دی گئی ہے جو پہلے تو بہ کریں اور پھر ایمان لائیں یعنی ایسے کفار پیش نظر ہیں جن کو یہ وہم پیدا ہو کہ ہم تو اتنے گناہ کر بیٹھے ہیں کہ ہمارے لئے بخشش کی کوئی راہ نہیں ان کے لئے بھی خوشخبری دی گئی کہ اگر تم اپنے سابقہ جرائم سے تو بہ کر لو اور پھر ایمان لے آؤ تو تم بھی انہیں لوگوں سے جاملو گے جن کے متعلق یہ خوشخبریاں دی گئی ہیں.گزشتہ چند خطبات میں میں نے اللہ تعالیٰ کی صفات سے متعلق احباب جماعت کو توجہ دلائی تھی کہ خدا تعالیٰ کی صفات کو اختیار کریں تو خصوصاً اس صفت کی رحمت کے وارث بن جائیں گے جس صفت کو وہ اختیار کرتے ہیں.چنانچہ اس ضمن میں خدا تعالیٰ کے عفو ہونے اور ستار ہونے کا ذکر پہلے خطبات میں میں کر چکا ہوں اور ان کے نتیجہ میں انسان پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں مثبت اور منفی ان دونوں کا کسی قدر پہلے خطبات میں ذکر ہو چکا ہے.آج کے خطبہ کے لئے میں نے خدا تعالیٰ کی صفتِ تواب کو چنا ہے.عفو اور ستاری کے ساتھ جس طرح مغفرت کا تعلق ہے اسی طرح صفت توابیت کا بھی تعلق ہے اور دراصل مغفرت اور توابیت یعنی خدا تعالیٰ کی صفت تو بہ قبول کرنا ، ان کے درمیان ایک گہرا رشتہ ہے.مغفرت زیادہ وسیع ہے لیکن توابيت مغفرت کی طرف لے کر جاتی ہے.ایک وسیلہ ہے مغفرت تک پہنچانے کا.اس مضمون پر کسی قدر تفصیل سے جماعت کو سمجھانے کی ضرورت ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 85 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء اللہ تعالیٰ تواب ہے اور یہ وہ صفت ہے جو بندہ کی بھی ہے یعنی بندہ کی بھی ممکن ہے کہ بندہ بھی تو اب ہو جائے.ویسے تو خدا تعالیٰ کی ہر صفت کو بندہ کسی نہ کسی رنگ میں اختیار کر سکتا ہے لیکن یہاں جب میں کہتا ہوں کہ بندہ بھی تو اب ہے تو ان دونوں معنوں میں ایک فرق ہے.اللہ تعالیٰ کو جب تو اب کہا جاتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو بہ کو بکثرت قبول کرتا ہے اور توبہ کے نتیجہ میں بہت رحم فرماتا ہے.جب بندہ کو تو اب کہا جاتا ہے تو مطلب ہے کہ وہ بندہ جو بار بار تو بہ کرتا ہے اور تھکتا نہیں تو بہ کرنے سے اور مسلسل اُس کی ایک صفت بن جاتی ہے اس کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے کہ ہر وقت اللہ کے حضور تو بہ کرتا رہے ایسے بندہ کو تو اب کہتے ہیں.اور تو اب ایک اور معنے میں بھی بندہ بن سکتا ہے کہ وہ لوگوں سے وہی سلوک کرے جو اللہ تعالیٰ تو اب ہو کر اپنے بندوں سے کرتا ہے.وہ لوگوں کے لئے جب تو اب بنے گا تو ان معنوں میں وہ خدا کا مظہر ہو گا.اس لحاظ سے حضرت اقدس محمد مصطفى ع تواب کامل تھے انسانوں میں سے.یعنی آپ نے دونوں رنگ انتہا ء تک اپنا لئے ، تو بہ مسلسل کی اور ایسے گناہوں کی توبہ کی جو کئے ہی نہیں تھے یعنی ایسا عجز ایسی انکساری کہ یہ پسند نہیں کرتے تھے کہ خدا کی کسی صفت سے بھی میں محروم رہ جاؤں.خدا نے جب یہ روشن فرمایا آپ پر کہ میں تو اب ہوں یعنی تو بہ کرنے والے کی تو بہ کو قبول کرتا ہوں تو معصوم ہوتے ہوئے بھی اتنی تو بہ کی کہ کبھی کسی اور انسان نے ایسی توبہ نہیں کی.یہ اللہ تعالیٰ سے عشق کا مظہر تھی تو یہ گناہ کی مظہر نہیں تھی.جاہل لوگ جو دنیا کے کیڑے ہیں جن کو نفسانی حالتوں نے مغلوب کر رکھا ہے وہ آنحضرت علی پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ کثرت سے تو بہ کرنا بتاتا ہے کہ کثرت سے گناہ کئے تھے حالانکہ ان بیوقوفوں کو ان اعلیٰ مدارج کی خبر ہی کوئی نہیں ، ان بستیوں سے گزرے ہی نہیں وہ ، ان مقامات سے پوری طرح ناواقف ہیں کیونکہ وہاں ان کا قدم نہیں پڑا.اللہ تعالیٰ کے کامل عاشق کے طور پر خدا کی ہر صفت سے محبت رکھتے تھے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور ہر صفت سے حصہ لینے کے لئے آپ نے اتنی کوشش کی کہ کبھی کسی انسان کو ایسی کوشش نصیب نہیں ہوئی.اس لئے گناہوں سے تعلق نہیں ہے اس تو بہ کا بلکہ عشق سے تعلق ہے.دوسرے تو اب بنے بندوں کے لئے بھی اور جس طرح خدا اپنے بندوں کیلئے تو اب صلى الله ہوتا ہے، حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ اپنے غلاموں کے لئے تو اب ہوئے.
خطبات طاہر جلد ۳ 86 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء تو صفت تو بہ ایک بہت ہی اہم صفت ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ایک معصوم بھی خدا تعالیٰ کی صفت تو ابیت سے مستغنی نہیں ہے ، اس سے بے پروا نہیں ہے تو گناہ گار بندوں کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی صفت تو ابیت سے استفادہ کے لئے ہردم کوشاں رہیں.خدا تعالیٰ کی صفت مغفرت اور توابیت میں ایک فرق ہے کہ مغفرت یکطرفہ بھی چلتی ہے بغیر طلب کے بھی ہوتی ہے، وہ رحمانیت اور صفت مالکیت کے زیادہ قریب ہے اور تو ابیت کا نسبتاً زیادہ تعلق رحیمیت سے ہے.رحیمیت جو بار بار آنے والی صفت ہے اللہ تعالیٰ کی اس میں بندہ کی مثبت کوششوں کا دخل ہوتا ہے.رحمانیت میں بن مانگے دینے والے کا ترجمہ کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خواہ کوئی وجود مانگے یا نہ مانگے یا مانگنے کے لئے پیدا بھی نہ ہوا ہو ، اس وقت بھی اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت جب جوش مار کر جلوہ دکھاتی ہے تو کوئی طلب نہیں ہوتی کسی طرف سے.رحیمیت ، مثبت نیکیوں کے لئے یعنی مثبت اقدار کے لئے نیکیوں کے لئے ان سے بہت بڑھ کر پھل دینے کا نام ہے اور بار بار نیکیوں کا بدلہ دینے کا نام ہے.اسی کا دوسرا پہلو ہے تو ابیت.بندہ کی طرف سے کوئی حرکت ہو تب خدا تعالیٰ کی صفت تو ابیت ظاہر ہوتی ہے.بندہ کی طرف سے حرکت نہ ہو تو تو ابیت حرکت میں نہیں آتی اس لئے دونوں کا ایک لازم و ملزوم کا تعلق ہے.چنانچہ گنا ہوں سے بخشش کے لئے اگر چہ اللہ تعالیٰ جس گناہ کو چاہے بخش دے اپنی مغفرت کے نتیجہ میں لیکن جہاں تک ضمانت کا تعلق ہے صفت تو ابیت ضمانت دیتی ہے.جس طرح اچھے عمل کا پھل دینے کی ضمانت دیتی ہے صفت رحیمیت اسی طرح گناہوں سے بچنے کی اگر کوئی ضمانت ہے اُن کے بداثرات سے بچنے کی کوئی ضمانت ہے تو صفت تو ابیت سے تعلق جوڑنے کے نتیجہ میں ملتی ہے، چنانچہ اسی مضمون کو قرآن کریم نے یہاں بھی بیان فرمایا: كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمُ سُوءًا بِجَهَا لَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہوگا پھر کہ تم بخشے جاؤ گے.یہ خدا نے اپنے نفس پر فرض کر لیا ہے، لازم قرار دے دیا ہے کہ اگر کوئی بندہ غفلت سے غلطی سے گناہ کرتا ہے اور پھر تو بہ کرتا ہے اور آگے آیات سے
خطبات طاہر جلد ۳ 87 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء واضح ہے کہ اس میں تکرار بھی پائی جائے اور بار بار کی غلطیاں بھی ہوں بار بار تو بہ کرے تب بھی تو بہ کا دروازہ بند نہیں ہوتا.چنانچہ بندہ کے تو اب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بار بار بھی تو بہ کرتا ہے اگر گناہ کی تکرار ہوگی بعض صورتوں میں تو تبھی تو بہ کی تکرار ہوگی.اس ضمن میں احادیث سے ثابت ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفاسیر سے ثابت ہے کہ ایسی صورت میں اس کا انجام اس کی آخری حالت کے مطابق طے ہوگا.اگر وہ تو بہ کی حالت میں جان دے رہا ہے تو اس کے لئے بھی ضمانت ہے اور چونکہ یہ اختیار بندے کا نہیں ہے میں کب مروں اس لئے جہاں تک بندہ کا تقاضا ہے اسے بہر حال ہر حالت میں یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ میں تائب رہوں کیونکہ موت کا کوئی وقت مقدر نہیں ہے.تو اگر ضمانت چاہتے ہیں تو تو بہ کی طرف متوجہ ہوں.اس ضمن میں کچھ احادیث نبویہ ﷺ کا میں نے انتخاب کیا ہے جو قرآن کریم کی مختلف آیات کی تفسیر فرماتی ہیں اور مختلف پہلوؤں سے تو بہ کے اوپر روشنی ڈالتی ہیں.جامع ترمذی کی حدیث ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور نے فرمایا ہر انسان خطا کا پتلا ہے لیکن ان خطا کاروں میں سے سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو تو بہ کرتے ہیں.(جامع ترمذی ابواب صفۃ القیامۃ والرقاق والورع) پھر الترغیب والترھیب میں حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت ہے کہ آنحضور ﷺ نے فرمایا جب بندہ اپنے گناہوں سے تو بہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں کی یاد سے ان کے گناہ بھلا دیتا ہے اور اس کے جوارح اور اس کے زمینی آثار سے بھی اس کے نشان مٹا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملے گا اور کوئی اس کے گناہوں کا شاہد نہ ہوگا.(الترغیب والترھیب کتاب التوبہ والزهد ) تو اب میں جو شدت معنوں کی پائی جاتی ہے یہ اس کا مظہر ہے تو اب میں تکرار بھی پائی جاتی ہے اور معنوں کی شدت بھی پائی جاتی ہے کہ بے انتہا تو یہ قبول کرنے والا ہے، انسانی تصور بھی نہیں پہنچ سکتا کہ کس حد تک اللہ تعالیٰ تو بہ کو قبول فرماتا ہے.(الترغیب والترھیب کتاب التوبہ والزهد ) پھر الترغیب والترھیب ہی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے ایک روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مومن گناہ کا مرتکب ہو جاتا ہے اور تو بہ کرتا ہے پس وہ شخص بہت ہی خوش نصیب ، خوش بخت ہے جو توبہ کی حالت میں فوت ہو جائے.(الترغیب والترھیب کتاب التوبہ
خطبات طاہر جلد ۳ 88 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء والزهد ) پس آخری حالت ہی فیصلہ کرے گی کہ خدا تعالیٰ پر اس کی بخشش تو بہ کے نتیجہ میں فرض ہے کہ نہیں اس لئے نیک انجام کے لئے لوگ دعاؤں کے لئے کہتے دعائیں کرتے رہتے ہیں کہ ہمارا انجام بالخیر ہو.سنن ابن ماجہ میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ گناہ سے بچی تو بہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے کوئی گناہ نہیں کیا.(ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذکر التوبہ ) جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے.گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا کی تشریح خود آنحضور ﷺ نے یہ فرمائی ہے کہ یہ مطلب نہیں کہ تم تو بہ کے ساتھ گناہ پر اصرار کرتے چلے جاؤ اور تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا.فرمایا اگر اللہ تم سے محبت کرتا ہے تو گناہ تمہیں نقصان نہیں پہنچا سکتا یعنی گناہ سے تمہیں نفرت ہو جائے گی ہم پر اثر انداز نہیں ہو سکے گا، اگر اثر انداز ہوگا تو نقصان ضرور پہنچائے گا.پس نہ نقصان پہنچانے کا یہ مطلب ہے آنحضور ﷺ کے اپنے الفاظ میں کہ گناہ کے محرکات اسے بدی کی طرف مائل نہیں کر سکتے اور گناہ کے بد نتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے یعنی سابقہ گنا ہوں سے یہ سلوک فرماتا ہے کہ ان کے بدنتائج سے محفوظ کر دیتا ہے اور آئندہ یہ سلوک فرماتا ہے کہ گناہ کی طرف میلان ہٹ جاتا ہے.پھر حضور ﷺ نے یہ آیت پڑھی کہ تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت فرماتا ہے.عرض کیا گیا یا رسول اللہ! تو بہ کی علامت کیا ہے؟ فرمایا سچی ندامت اور پشیمانی تو بہ کی علامت ہیں.حضرت حارث بن سوید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صحیح مسلم میں روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں حضرت عبداللہ کی بیماری کے دوران میں ان کی عیادت کو گیا.تو انہوں نے دو حدیثیں بیان کیں.ایک تو اپنے بارہ میں تھی اور دوسرے رسول کریم ﷺ کے بارہ میں.انہوں نے کہا میں نے رسول کریم ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ خدا تعالیٰ اپنے مومن بندہ کی تو بہ پر اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتا ہے جو کسی بے آب و گیاہ جنگل میں ہو کسی صحرا میں جہاں نہ پانی ہو اور نہ سبزہ ہو، اس کے پاس اس کی سواری ہو جس پر اس نے اپنے کھانے پینے کا سامان لا درکھا ہو.وہ شخص کسی جگہ ستانے کے لئے لیٹ جائے اور اسے نیند آ جائے لیکن جب جاگے تو دیکھے کہ اس کی سواری گم ہوگئی ہے.وہ اس کی
خطبات طاہر جلد ۳ 89 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء تلاش میں مارا مارا پھرے اور آخر پیاس سے نڈھال ہو جائے اور دل میں یہ کہے کہ چلو میں اب اسی جگہ واپس جاتا ہوں اور اسی سائے کے تلے لیٹ کر موت کا انتظار کرتا ہوں چنانچہ وہ اسی جگہ پر چلا جاتا ہے اور اس نیت سے سوتا ہے کہ اب میں کبھی آنکھ نہیں کھولوں گا.آنحضرت ﷺ نے بڑا تفصیلی میں نقشہ کھینچا ہے، اپنی ہتھیلی اپنے سر کے نیچے رکھ لیتا ہے اور سو جاتا ہے جب اس کی آنکھ ھلتی ہے تو سواری کو وہیں پاتا ہے جہاں وہ پہلے کھڑی تھی اور اس پر اس کا کھانا بھی موجود ہوتا ہے اور اس کا پانی بھی موجود ہوتا ہے.ایک مومن بندہ کی تو بہ پر خدا تعالیٰ کو جو خوشی ہوتی ہے وہ اس شخص کی خوشی سے بہت زیادہ ہے جو اس حالت میں اپنی سواری کو دوبارہ پالیتا ہے.( صحیح مسلم کتاب التوبة باب في الحض على التوبة والفرح بھا) یہ ہیں تو اب کے معنی یعنی تو اب میں صرف تکرار نہیں بلکہ معنوں کی اتنی شدت ہے کہ کوئی انسان اپنی کیفیت کے مطابق سوچ بھی نہیں سکتا اور امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کو اس خدا کی تو ابیت سے کوئی نسبت نہیں ہے.آپ نے بھی کئی دفعہ لوگوں کی توبہ قبول کی ہوگی ، بچوں کی تو بہ ماؤں نے بھی قبول کی ہے، باپوں نے بھی قبول کی ہے، نوکروں کی توبہ قبول کر لیتے ہیں اور اپنے ماتحتوں کی توبہ قبول کر لیتے ہیں کبھی آپ کو اتنی خوشی ہوئی ہے، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ہزارواں حصہ بھی اس کا انسان خوشی محسوس نہیں کرتا جتنی حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ کو اپنے بندہ کی تو بہ سے خوشی ہوتی ہے.پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے الترغیب والترھیب میں کہ رسول کریم نے فرمایا اگر تم گناہ پر گناہ کرتے چلے جاؤ یہاں تک کہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں پھر تم تو بہ کرو تو بھی اللہ تعالیٰ تو بہ قبول کر سکتا ہے.( الترغیب والترھیب کتاب التو به والزہد، ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذکر التوبه ) یعنی تو بہ کے لئے نہ وقت کی قید ہے نہ یہ قید ہے کہ گناہوں کی مقدار کتنی ہے، کوئی حد نہیں ہے اسکی اور تو اب میں جو مبالغہ پایا جاتا ہے وہ ایسا مبالغہ ہے جو سو فیصدی درست ہے.عربی میں جب مبالغہ کہتے ہیں تو صفت مبالغہ مراد ہے یعنی ایک معنوں کی حیرت انگیز شدت.اللہ تعالیٰ کی صفات کے معاملہ میں مبالغہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ لامحدود ہیں اس لئے تو ابیت بھی ایسی لامحدود
خطبات طاہر جلد ۳ 90 خطبه جمعه ۰ ار فروری ۱۹۸۴ء صفت ہے کہ آنحضور علیہ فرماتے ہیں کہ گناہوں کے لئے کوئی حد مقرر نہیں ہے.اگر زمین سے آسمان تک گناہ پھیلے ہوں کسی کے اور اسے یہ توفیق مل جائے کہ مرنے سے پہلے تو بہ کر لے تو اللہ کا یہ وعدہ اس کے حق میں ضرور پورا ہوگا کہ میں تو بہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہوں اور ان کو بخش دیتا ہوں.لیکن تو بہ کیا ہے اس کے متعلق آگے میں ذکر کروں گا کہ تو یہ یہ نہیں ہے کہ منہ سے تو بہ کر لی جائے اور پھر گناہ جان کر کئے جائیں اور ان پر جرات کی جائے.تو بہ کے لئے ایک قلبی کیفیت ہے جو بالکل انسان کی کایا پلٹ دیتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے اس مضمون پر کافی روشنی ڈالی ہے.صحیح مسلم میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت درج ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ننانوے قتل کئے.وہ جو مضمون چل رہا تھا کہ گناہ کتنے ہو جائیں تو بخشے جائیں گے کتنے بڑھ جائیں تو پھر اللہ نہیں بخش سکتا یہ کسی کو وہم پیدا ہو تو اس کے رد کے لئے یہ فرمان نبوی ہے.یہ اور بھی کئی کتب میں کئی طریقوں سے مروی ہے بہت کثرت سے یہ حدیث مروی ہے.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ ایک شخص نے ننانوے قتل کئے پھر لوگوں سے پوچھنے لگا کہ کیا اس کے لئے تو بہ کی کوئی گنجائش باقی ہے؟ چنانچہ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے اس نے پوچھا کہ کیا میرے لئے بھی کوئی تو بہ کی گنجائش ہے؟ میں نے ننانوے قتل کئے ہیں تو راہب نے جواب دیا کہ نہیں تیرے لئے کوئی گنجائش نہیں.وہ اپنے رب کی طرح تو اب نہیں تھانہ بندوں پر تو اب بن سکتا تھا.تو اس شخص نے جب اس سے یہ سنا کہ اس کے لئے تو بہ کی گنجائش ہی کوئی نہیں تو اس نے سوچا جہاں ننانوے قتل وہاں سو ایک ہی بات ہے چنانچہ اُسی راہب کو قتل کر دیا اور آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اس کے سو قتل پورے ہو گئے یعنی ایک درجہ کمال تک پہنچ گیا گناہ.یہ دراصل تمثیل ہے اس بات کو ظاہر کرنے کے لئے ننانوے اور سو کے درمیان جو ایک کا فرق ہے وہ ایک چیز کو درجہ کمال تک پہنچا دیتا ہے تبھی آپ نے کرکٹ میں دیکھا ہو گا کہ ننانوے رنز کے اوپر اگر کوئی آؤٹ ہو جائے تو اس کو زیادہ صدمہ ہوتا ہے بہ نسبت اس کے کہ ستر رنز پر کوئی آؤٹ ہو کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں کہ درجہ کمال تک پہنچنے لگا تھا رہ گیا.سو درجہ کمال کا مظہر ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ لاہور میں مقصود نے انڈیا کے خلاف ۹۹ رنز بنائے اور آؤٹ ہو گیا تو ایک کرکٹ کا ایک عاشق بچہ یہ خبر سن کر ریڈیو پر وہیں مر گیا ، Heart فیل ہو گیا اس کا تو
خطبات طاہر جلد ۳ 91 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء آنحضرت ہے اس انسانی فطرت کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ ننانوے اس نے کئے تھے یعنی خدا نے اسے گناہ کی جو طاقت دی تھی اور اس کے اندر جو سرشت موجود تھی خدا نے جو طاقت دی ان معنوں میں تو نہیں کہا جاتا مگر جو بھی خدا نے اس کو صفات بخشی تھیں اور اس سے اُن کو غلط طرف مائل کر لیا تھا وہ ابھی درجہ کمال تک نہیں پہنچا تھا.تو یہاں پہنچ کر وہ درجہ کمال کو پہنچ گیا یعنی پوری طرح اس کا برتن گناہوں سے لبریز ہو گیا.آنحضور ﷺ فرماتے ہیں تب وہ ایک اور راہب کے پاس گیا اور اس سے اس نے پوچھا کہ میں نے سو قتل کئے ہیں کیا میرے لئے کوئی گنجائش ہے کہ میں تو بہ کروں اور اللہ تعالیٰ مجھے معاف کر دے؟ تو اس راہب نے کہا کہ ہاں اللہ تعالیٰ کی بخشش کی تو کوئی انتہا نہیں ہے.اگر تم تو بہ کرو تو وہ تمہیں معاف کر سکتا ہے.اس نے اس سے پوچھا کہ پھر مجھے رستہ بتاؤ کہ میں کیسے تو بہ کروں؟ راہب نے جواب دیا کہ جس بستی میں تم رہتے ہو وہ گندے لوگوں کی بستی ہے.اگر تم واپس اس بستی میں لوٹ گئے تو تم پھر گناہ کی طرف مائل ہو جاؤ گے.میں ایک ایسی بستی کو جانتا ہوں جہاں خدا کے نیک عبادت گزار بندے رہتے ہیں جو دن رات اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہتے ہیں.اگر تم اس بستی تک پہنچ جاؤ اور ان کے ساتھ شامل ہو کر اللہ کی یاد میں بقیہ زندگی بسر کرو تو میں تمہیں یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ تمہاری توبہ قبول ہو جائے گی.یہ سن کر وہ اپنی بستی کی طرف واپس جانے کی بجائے اس بستی کی طرف چل پڑا.آنحضور ﷺ فرماتے ہیں لیکن راستے ہی میں وہ مرگیا لیکن اس حالت میں اس نے جان دی کہ چھاتی کے بل گھسٹتا ہوا اس بستی کی طرف حرکت کر رہا تھا جہاں اس کو گناہ بخشنے کی خوشخبری دی گئی تھی.اس پر خدا تعالیٰ نے بخشش اور عذاب کے فرشتوں کے درمیان یہ جھگڑا دیکھا کہ بخشش کے فرشتے کہتے تھے کہ یہ تو بہ کی طرف مائل تھا اور اس طرف جاتے ہوئے مرا ہے اور عذاب کے فرشتے کہتے تھے کہ ابھی کہاں تو بہ اس کی ! اس نے تو ابھی تو بہ کا ارادہ ہی کیا تھا اور ابھی بہت فاصلہ تھا اس کے اور توبہ کے درمیان تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور فرشتے کو انسانی شکل میں متمثل فرما کر ان کے سامنے بھیجا اور ان کو یہ ارشاد ہوا کہ اس کو ثالث بنالیا جائے.چنانچہ اس انسانی شکل میں متمثل ہونے والے فرشتے نے اس کا فاصلہ ناپا کہ جس بستی سے وہ چلا تھا مرتے وقت اس سے کتنا فاصلہ تھا اور جس بستی کی طرف جا رہا تھا اس سے کتنا فاصلہ تھا.ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ گھٹتے گھسٹتے ایک بالشت ( نیک لوگوں کی بستی کی طرف زیادہ) نصف سے آگے بڑھ چکا تھا.یہ ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 92 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء طرز بیان ہے بہت ہی پیارا یہ بتانے کے لئے کہ اگر کچی تو بہ ہو تو مرتے دم تک انسان گھسٹ گھسٹ کر بھی تو بہ سے خدا تک جانے کی کوشش کرتا ہے اور یہ آخری ایک بالشت تھی جس نے اس کو بچالیا.صحیح مسلم کتاب التو به باب قبول توبته القاتل وان کثر قتله ) اور ایک اور روایت میں یہ بھی آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ جس فرشتے کو ثالث بنایا گیا تھا وہ جب زمین ناپ رہا تھا گناہ والی بستی کی طرف کی تو زمین سکڑ جاتی تھی اور چھوٹی ہوتی جاتی تھی اور جب وہ اس طرف کی زمین ناپتا تھا جس طرف اس کے لئے بخشش مقدر تھی تو وہ زمین پھیلتی چلی جاتی تھی اور فاصلہ بڑھتا چلا جاتا تھا.تو یہ ہے تو اب خدا جو اپنے بندوں پر اس طرح بار بار رحمت فرماتا ہے اور اس کی بخشش کی کوئی حد نہیں.اس کے باوجود اگر انسان گناہوں پر اصرار کرے اور اپنے رب کی طرف توجہ نہ کرے تو بہت ہی بد بختی ہوگی کہ تو بہ کی حالت میں جان دینے کی بجائے وہ گناہ کی حالت پر اصرار کرتے ہوئے جان دے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو بہ کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: تو بہ اس بات کا نام نہیں کہ صرف منہ سے تو بہ کا لفظ کہہ دیا جاوے بلکہ حقیقی تو یہ یہ ہے کہ نفس کی قربانی کی جاوے.جو شخص تو بہ کرتا ہے وہ اپنے نفس پر انقلاب ڈالتا ہے گویا دوسرے لفظوں میں وہ مرجاتا ہے.خدا کے لئے جو تغیر عظیم انسان دکھ اٹھا کر کرتا ہے تو اس کی گزشتہ بداعمالیوں کا کفارہ ہو جاتا ہے.جس قدر نا جائز ذرائع معاش کے اس نے اختیار کئے ہوئے ہوتے ہیں ان کو وہ ترک کرتا ہے، عزیز دوستوں اور یاروں سے جدا ہوتا ہے، برادری اور قوم کو اس خدا کے واسطے ترک کرنا پڑتا ہے.جب اس کا صدق کمال تک پہنچ جاتا ہے تو وہی ذات پاک تقاضا کرتی ہے کہ اس قدر قربانیاں جو اس نے کی ہیں اس کے اعمال کے لئے کافی کفارہ ثابت ہوں“.( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۴۴۴۳) ایک اور جگہ فرماتے ہیں: تو بہ کے معنے ہی یہ ہیں کہ گناہ کو ترک کرنا اور خدا تعالیٰ کی طرف
خطبات طاہر جلد ۳ 93 خطبه جمعه ۱۰ فروری ۱۹۸۴ء رجوع کرنا، بدی چھوڑ کر نیکی کی طرف قدم آگے بڑھانا.تو بہ ایک موت چاہتی ہے جس کے بعد انسان زندہ کیا جاتا ہے اور پھر نہیں مرتا.تو بہ کے بعد انسان ایسا بن جاوے کہ گویا نئی زندگی پا کر دنیا میں آیا ہے.نہ اس کی وہ چال ہو ، نہ اس کی وہ زبان ، نہ ہاتھ ، نہ پاؤں سارے کا سارا نیا وجود ہو جو کسی دوسرے کے ماتحت کام کرتا ہوا نظر آجاوے.دیکھنے والے جان لیں کہ یہ وہ نہیں یہ تو کوئی اور ہے.خلاصہ کلام یہ کہ یقین جانو کہ تو بہ میں بڑے بڑے ثمرات ہیں.یہ برکات کا سرچشمہ ہے.درحقیقت اولیاء اور صلحاء یہی لوگ ہوتے ہیں جو تو بہ کرتے اور پھر اس پر مضبوط ہو جاتے ہیں.وہ گناہ سے دور اور خدا کے قریب ہوتے جاتے ہیں.کامل تو بہ کرنے والا شخص ہی ولی قطب اور غوث کہلاسکتا ہے.اسی حالت میں وہ خدا کا محبوب بنتا ہے اس کے بعد بلائیں جو انسان کے واسطے مقدر ہوتی ہیں ٹل جاتی ہیں“.( ملفوظات جلد ۳ صفحه ۱۴۶، ۱۴۷) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اسی طرح بیعت میں عظیم الشان بات تو بہ ہے جس کے معنے رجوع کے ہیں.تو بہ اس حالت کا نام ہے کہ انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے.یہ جو آنحضرت ﷺ نے ہجرت کی تعریف فرمائی ہے یہ اسکے اوپر مزید روشنی ڈال رہے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام.آپ فرماتے ہیں کہ : انسان اپنے معاصی سے جن سے اس کے تعلقات بڑھے ہوئے ہیں اور اس نے اپنا وطن انہیں مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس سے بود و باش مقرر کر لی ہوئی ہے.اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنے پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب دیکھئے! اس حدیث کا تصور دوبارہ لائیں کہ آنحضرت ﷺ نے تمثیلی کلام میں اس تو بہ کرنے والے کو ایک وطن سے دوسرے وطن کی طرف جاتے ہوئے دکھایا تھا تو عارف باللہ کے کلام کی
خطبات طاہر جلد ۳ 94 خطبه جمعه ۰ ار فروری ۱۹۸۴ء یہ پہچان ہوتی ہے کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ملتے ہیں جس طرح Wave lines ملتی ہیں اس طرح عارف کے دل کی حرکت اور اس کا تموج بھی ایک دوسرے عارف کے دل کی حرکت اور اس کے تموج کے ساتھ ہم آہنگ ہو جایا کرتا ہے.تو کتنی پیاری بظاہر وہ کہانی ہے لیکن حقیقت میں ایک تمثیلی کلام ہے جس میں گہرے معرفت کے راز ہیں اس کی تفسیر ہے یہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جو کچھ فرمارہے ہیں.اپنا وطن اس نے مقرر کر لیا ہوا ہے گویا کہ گناہ میں اس نے بود وباش مقرر کر لی ہوئی ہے.اس وطن کو چھوڑنا اور رجوع کے معنی پاکیزگی کو اختیار کرنا.اب وطن کو چھوڑ نا بڑا گراں گزرتا ہے اور ہزاروں تکلیفیں ہوتی ہیں.ایک گھر جب انسان چھوڑتا ہے تو کس قدر سے تکلیف ہوتی ہے اور وطن کے چھوڑنے میں تو اس کو سب یار دوست سے قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور سب چیزوں کومثل چار پائی ، فرش و ہمسائے ، وہ گلیاں، کوچے ، بازارسب چھوڑ چھاڑ کر ایک نٹے ملک میں جانا پڑتا ہے یعنی اس ( سابقہ ) وطن میں پھر کبھی نہیں آتا.یعنی ایسی نیت سے جانا پڑتا ہے کہ ان سب چیزوں کو پھر نہیں دیکھوں گا.ان سے ہمیشہ کے لئے قطع تعلقی ہورہی ہے اور اسی کا نام موت ہے چنانچہ بار بار اس منظر کوموت کے ذریعہ پیش کرنا بعینم سو فیصدی درست ہے پوری طرح اطلاق پاتا ہے.اس صورت حال سے اور کیسا پیارا نقشہ کھینچا ہے گناہوں کی بھی گلیاں ہوتی ہیں گناہوں کے بھی فرش ہوتے ہیں ان کی بھی در دو دیوار ہوتے ہیں ان کی بھی دوستیاں اور یار یاں ہوتی ہیں اور ایک گناہ جس سے انسان لذت پاتا رہا ہو بڑی دیر تک اس کے ساتھ ایسی محبت محسوس کرتا ہے جیسے وطن مالوف سے اور اس سے پھر الگ ہونا اور اس کامل یقین اور ارادہ کے ساتھ الگ ہونا کہ اب میں کبھی اس پر دوبارہ نظر نہیں ڈال سکوں گا.یہ ہے وہ موت یعنی ترک وطن کی موت جہاں گناہوں کے وطن کو چھوڑ کر انسان نیکیوں کے وطن کی طرف روانہ ہوتا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: کے دوست اور اس کا نام تو بہ ہے.معصیت کے دوست اور ہوتے ہیں اور تقویٰ
خطبات طاہر جلد ۳ 95 95 خطبه جمعه ۱۰ر فروری ۱۹۸۴ء ساری کا یا پلٹ جاتی ہے انسان کی.اس کے تعلقات کے دائرے بدل جاتے ہیں." معصیت کے دوست اور ہوتے ہیں اور تقویٰ کے دوست اور.اس تبدیلی کو صوفیا نے موت کہا ہے.جو تو یہ کرتا ہے اسے بڑا حرج اٹھانا پڑتا ہے اور سچی توبہ کے وقت بڑے بڑے حرج اس کے سامنے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے، وہ جب تک اس کل کا نعم البدل نہ عطا فرما دے نہیں مارتا.“ یعنی ان قربانیوں کا بدلہ اس دنیا میں اسے عطا فرماتا ہے.نہیں مارتا جب تک کہ اس کل کا پورا بدلہ عطا نہ فرمادے."إِنَّ اللهَ يُحِبُّ التَّوَّابِينَ میں یہی اشارہ ہے کہ وہ تو بہ کر کے غریب بے کس ہو جاتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ اس سے محبت اور پیار کرتا ہے اور اسے نیکوں کی جماعت میں داخل کرتا ہے.(ملفوظات جلد اصفحہ ۲) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور نومید مت ہو اور یہ خیال مت کرو کہ ہمارا نفس گنا ہوں سے بہت آلودہ ہے، ہماری دعائیں کیا چیز ہیں اور کیا اثر رکھتی ہیں کیونکہ انسانی نفس جو دراصل محبت الہی کے لئے پیدا کیا گیا ہے وہ اگر چہ گناہ کی آگ سے سخت مشتعل ہو جائے پھر بھی اس میں ایک ایسی قوت تو بہ ہے کہ اس آگ کو بجھا سکتی ہے.جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ ایک پانی کو کیسا ہی آگ سے گرم کیا جائے مگر تا ہم جب آگ پر اس کو ڈالا جائے تو وہ آگ کو بجھا دے گا“.( براھین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفر ۳۴) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پس اٹھو اور تو بہ کرو اور اپنے مالک کو نیک کاموں سے راضی کرو.اور یاد رکھو کہ اعتقادی غلطیوں کی سزا تو مرنے کے بعد ہے اور ہندو یا عیسائی یا مسلمان ہونے کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہو گا لیکن جو شخص ظلم اور تعدی اور فستق و فجور میں حد سے بڑھتا ہے اس کو اسی جگہ سزا دی جاتی ہے تب وہ خدا کی سزا سے
خطبات طاہر جلد ۳ 96 96 خطبه جمعه ۱۰ر فروری ۱۹۸۴ء کسی طرح بھاگ نہیں سکتا.سو اپنے خدا کو جلدی راضی کر لو اور قبل اس کے کہ وہ دن آوے جو خوفناک دن ہے یعنی طاعون کے زور کا دن جس کی نبیوں نے خبر دی ہے، تم خدا سے صلح کرلو.وہ نہایت درجہ کریم ہے، ایک دم کی گداز کرنے والی تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے اور یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.یا درکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے.ہمیشہ فضل بچاتا ہے نہ اعمال.اے خدائے کریم و رحیم ! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے ہیں اور تیرے آستانہ پر گرے ہیں.آمین.( یہ الفاظ حضور رحمہ اللہ نے تین بار دہرائے ) لیکچر لاہور روحانی خزائن جلد۲۰ صفحه ۱۷۴) خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: صفیں بنالیں اور سیدھی صفیں بنائیں اور بیچ میں خلا نہ رہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 46 97 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء حضور کے تین رؤیا نیز زور دعا کے لوازمات ( خطبه جمعه فرموده ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: پرسوں رات اللہ تعالیٰ نے اوپر تلے تین مبشر رؤیا دکھائے جو جماعت کے حق میں بہت ہی مبشر اور مبارک ہیں.مختصر نظارے تھے لیکن یکے بعد دیگرے ایک ہی رات میں یہ تین نظارے دیکھے اور اس مضمون کو زیادہ قوت دینے کے لئے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص طور پر جماعت کے لئے خوش خبری ہے یہ ایک عجیب واقعہ ہوا کہ میرے ساتھ کے کمرے میں عزیزم مرزا لقمان احمد سوتے ہیں ، وہ جب صبح اٹھے نماز کے لئے تو ان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے القا کیا بڑے زور سے کہ آج رات خدا تعالیٰ نے مجھے کچھ خوشخبری دی ہے.تو ان کے دل میں یہ ڈالا گیا کہ میں پوچھوں کہ رات کیا بات ہوئی ہے جو خدا تعالیٰ نے خاص طور پر آپ کو خوش خبری عطا فرمائی ہے.تو بیک وقت یہ دونوں باتیں مزید اس بات کو اس امید بلکہ یقین کو طاقت دیتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کے ساتھ خاص نصرت اور حفاظت کا معاملہ فرمائے گا.پہلی رؤیا میں میں نے دیکھا کہ ایک برآمدہ میں ایک مجلس لگی ہوئی ہے جس حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ کری پر بیٹھے ہوئے ہیں اور ساتھ کرسیوں پر دوسرے احمدی بیٹھے آپ کی بات سن رہے ہیں.میں جاتا ہوں تو خواب میں مجھے تعجب نہیں ہوتا بلکہ یہ علم ہے کہ اس وقت میں خلیفہ ہوں اور یہ بھی علم ہے کہ آپ بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی اس بات میں آپس میں ٹکراؤ نہیں ہے یعنی ذہن میں
خطبات طاہر جلد ۳ 98 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء معلوم ہونے کے باوجود کہ آپ فوت شدہ ہیں اس نظارے سے طبیعت میں کسی قسم کا کوئی تر درد نہیں پیدا ہوتا.آپ کی جب مجھ پر نظر پڑتی ہے تو ساتھ والی کرسی پر بیٹھے ہوئے شخص کو جن کا چہرہ میں پہچانتا نہیں بہت سے آدمی ہیں لیکن بے نام چہرے ہیں تو اس کو فوراً اشارہ سے کہتے ہیں کرسی خالی کرو اور مجھے پاس بٹھا کر مصافحہ کرتے ہیں اور ہاتھ کو بوسہ دیتے ہیں جس طرح کوئی خلیفہ وقت کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہے اور مجھے اس سے شرمندگی ہوتی ہے مجھے معلوم ہے کہ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ تم خلیفہ ہو.لیکن طبیعت میں سخت شرم محسوس ہوتی ہے اور انکسار پیدا ہوتا ہے.تو میں فوراً آپ کے ہاتھ کو بوسہ دیتا ہوں تو آپ یہ بتانے کے لئے کہ نہیں میرا بوسہ باقی رہے گا تمہارے بوسے سے، یہ (Cancel) نہیں ہوتا، دوبارہ میرے ہاتھ کو پھر بوسہ دیتے ہیں کھینچ کر اور پھر میں محسوس کرتا ہوں کہ اب تو اگر میں نے یہ سلسلہ شروع کر دیا تو ختم نہیں ہوگا اس لئے اس بحث کا کوئی فائدہ نہیں.چنانچہ میں اصرار بند کر دیتا ہوں.اس کے بعد مجھے فرماتے ہیں کہ اب تو تم پوری طرح خلافت کا چارج لے لو، اب مجھے رخصت کرو یعنی میری ساتھ رہنے کی ضرورت کیا ہے اب.تو میں کہتا ہوں کہ اس میں ایک حکمت ہے اور وہ یہ ہے کہ خلافت کوئی شریکا نہیں.کوئی ایسی چیز نہیں ہے دنیا کی جس میں کسی قسم کا حسد یا مقابلہ ہو بلکہ یہ ایک نعمت ہے اور انعام ہے.میں دنیا کو بتانا چاہتا ہوں کہ صاحب انعام لوگوں میں آپس میں محبت ہوتی ہے، پیار کا تعلق ہوتا ہے اور کسی قسم کا حسد یا مقابلہ نہیں ہوتا.تو یہ مفہوم میں آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں اور اس کے بعد یہ نظارہ ختم ہو گیا.ایک اور بات آپ نے مجھے خواب میں کہی جو مبارک ہے اس میں اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ ایک بات میں نے کہی ہے اور وہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے حق میں اچھی ہوگی.اس کے بعد یہ نظارہ ختم ہوا تو کچھ دیر کے بعد اسی رات خواب میں صرف یہ چھوٹا سے نظارہ دیکھا ہے کہ حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی صاحبزادی اور ہماری پھوپھی ہیں وہ میرے گھر میں داخل ہو رہی ہیں اور اس کے سوا اور کوئی نظارہ نہیں ہے.صرف ان کو میں گھر میں داخل ہوتے دیکھتا ہوں اور خواب ختم ہو جاتی ہے.تیسری خواب میں دیکھا کہ ایک میز چنی ہوئی ہے اور اس پر ہم کھانا کھا رہے ہیں اور میرے دائیں جانب حضرت سیدہ نواب مبار کہ بیگم بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑے خاص پیار اور محبت کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۳ 99 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء میرے ساتھ کھانے میں شریک ہیں.تو یہ تینوں خواہیں اوپر تلے نظر آنی اللہ تعالیٰ کی خاص نصرت کی طرف دلالت کر رہی ہیں.معلوم یہ ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ جماعت کو غیر معمولی نصرت بھی عطا فرمائے گا اور اگر کچھ حالات مخدوش پیدا ہوئے تو خدا خود حفاظت بھی فرمائے گا اور ہمیں کسی غیر کی حفاظت کی ضرورت نہیں ہے اور پھر انجام میں خدا تعالیٰ ایک دعوت دکھاتا ہے اور نواب مبار کہ بیگم صاحبہ جن کے متعلق الہاماً خدا تعالیٰ نے فرمایا کہ ” مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا ایسی آئی جنیں ایہہ مصیبت پائی.“ ( تذکرہ صفحہ ۲۷۷) یہ الہام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پنجابی میں حضرت نواب مبار کہ بیگم صاحبہ کے متعلق ہوا تھا جس کا مطلب یہ ہے کہ نام بھی مبارک ہے اور ان کی معیت بھی مبارک ہے اور کبھی یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ آئیں اور کوئی مصیبت ساتھ باقی رہے ان کے آنے سے مصیبتیں ٹل تو جائیں گی آنہیں سکتیں ساتھ اکٹھی نہیں رہ سکتیں.تو معنوی لحاظ سے بھی اور الہامات کی روشنی میں ہر لحاظ سے یہ خواہیں اور جو ایک ترتیب میں آئی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے لئے بہت ہی مبارک ہیں.اور مجھے اندازہ ہے نظر آرہا ہے بلکہ کہ خدا تعالیٰ جلد جلد انشاء اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو غیر معمولی تائیدی نشان دکھائے گا.لیکن ان مبشرات کا ایک تقاضا بھی ہے اس کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں.جب اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ کچھ تائیدی نشان دکھاتا ہے تو اس کے مقابل پر جماعت پر بھی کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں اور پہلے خوش خبریاں دکھانا ایک یہ پیغام بھی رکھتا ہے کہ ان خوش خبریوں کے اہل بنے کی کوشش کرو اور ان کے مستحق ہونے کے لئے جدو جہد کرو.جہاں تک محنت اور کوشش کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے کہ جماعت پہلے کی نسبت بہت تیزی کے ساتھ مستعد ہوتی جارہی ہے.ایسی جماعتیں جہاں دعوت الی اللہ کا کوئی گمان بھی نہیں تھا تصور بھی کوئی نہیں تھا اور اس ضلع میں بھی ایسی جماعتیں موجود ہیں جو خدا کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ دعوت الی اللہ کے کام میں مصروف ہو رہی ہیں اور جس طرح ایک بھنبھناہٹ ہوتی ہے اس طرح ایک رو چلی ہوئی ہے جماعت میں کہ ہم اپنے رب کی طرف اس کے بندوں کو بلائیں اور کامیاب دعوت الی اللہ دیں.یہ جذ بہ اور شوق تو ہر جگہ موجود ہے لیکن ہر جگہ برابر پھل نہیں لگ رہے.بعض علاقوں میں
خطبات طاہر جلد۳ 100 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی تیزی کے ساتھ اس دعوت الی اللہ کے کام کو روحانی شمر عطا ہور ہے ہیں، میٹھے پھل مل رہے ہیں اور بعض علاقوں میں کام کی رپورٹیں تو ہیں لیکن پھل نظر نہیں آ رہا یعنی جتنا کام نظر آتا ہے اس کی نسبت سے محنت کو پھل نہیں لگ رہا.ان حالات کا جائزہ لینے کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کو دعا کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ دلاؤں.امر واقعہ یہ ہے کہ دعا کے بغیر کوئی محنت بھی ثمر بار نہیں ہوا کرتی.جن جگہوں میں اللہ تعالیٰ محنت کو زیادہ پھل دے رہا ہے وہاں معلوم ہوتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں تو میرے علم میں وہ لوگ ہیں جو بہت دعا گو ہیں اور کثرت کے ساتھ دعا کرتے ہیں اور کوئی ان میں تکبر نہیں ہے.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہماری کوششوں کے نتیجہ میں کچھ ہوگا.وہ کلیتہ انکساری اور عاجزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سپرد معاملات کرتے ہیں اور محنت کرنے کے باوجود بھی فخر نہیں کرتے بلکہ شرم محسوس کرتے ہیں کہ ہم سے کمی ہو گئی اور دعا کرتے بھی ہیں اور مجھے کہتے ہیں کہ جتنی کوشش کرنی چاہئے تھی وہ ہم کر نہیں سکے اور ابھی بہت خامیاں باقی رہ گئی ہیں.ایسی جگہوں میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ تبلیغ کو اللہ تعالیٰ پھل عطا فرمارہا ہے اور حیرت انگیز طور پر ان کی باتوں میں اثر پیدا ہے اور جہاں ان کی باتیں اثر نہیں پیدا کرتیں وہاں اللہ تعالیٰ رؤیا اور مبشرات کے ذریعہ لوگوں کو کھینچ کر لا رہا ہے.تو صاف پتہ چلتا ہے کہ جن علاقوں میں محنت تو موجود ہے لیکن محنت کو پھل نہیں لگ رہا وہاں دعاؤں میں کمی ہے یا اپنی کوشش پر انحصار زیادہ ہو گیا ہے یا ایک فخر اور تکبر کا کیڑا پیدا ہوگیا ہے کہ ہم لوگ گویا زور بازو سے دنیا میں تبدیلی پیدا کر لیں گے ایسا واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا.روحانی دنیا کے انقلابات ہمیشہ منکسر بندوں کو عطا ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور کامل عاجزی رکھتے ہیں اور عاجزی کا رویہ رکھتے ہیں ، اپنے اوپر انحصار نہیں کرتے بلکہ خدا تعالیٰ پر انحصار کرتے ہیں اسی لئے حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ تمام انبیاء نے جب اپنی ساری کوششیں کر لیں اور ساری ظاہری کوششیں ناکام ہو گئیں تب بشدت ان کی توجہ دعاؤں کی طرف منتقل ہوئی اور یہ دعا ہی تھی جس نے پھر وہ انقلاب برپا کیا.چنانچہ قرآن کریم کی آیات سے استنباط کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت کو توجہ دلاتے ہیں کہ ان قرآنی بیانات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ روحانی جماعتوں کو کوشش
خطبات طاہر جلد ۳ 101 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء بہر حال کرنی چاہئے اور کوشش میں انتہا کر دینی چاہئے.کوئی کسر نہ چھوڑے اپنی طاقت کے لحاظ سے لیکن یہ خیال کہ ان کی کوشش کامیاب ہو جائے گی اور دنیا کو بدل دے گی یہ غلط خیال ہے یہ جھوٹا وہم ہے.کوشش پوری کرنے کے بعد آپ مثالیں دیتے ہیں کہ انبیاء سے بہتر کوشش اور کون کر سکتا ہے لیکن جب ان کی کوششیں بظاہر بے کار ہوتی دکھائی دیں کوئی اثر ان کا نظر نہیں آتا تھا تب بڑے زور سے جب خدا تعالیٰ کی طرف وہ دعا کے ساتھ مائل ہوئے تو اچانک وہ انقلابات رونما ہونے شروع ہو گئے جن کا وعدہ دیا گیا تھا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم کی اس آیت سے بھی استنباط فرماتے ہیں.وَاسْتَفْتَحُوا وَ خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ (ابراهیم (۱۲) کہ جب انہوں نے دیکھا کہ ظلم حد سے بڑھتا جارہا ہے اور متکبر لوگ اور سرکش لوگ باز نہیں آتے وہ جتنی دفعہ بھی کوشش کرتے ہیں ان کو سمجھانے کی وہ اس کوشش کو ر ڈ کر دیتے ہیں.تب وہ خدا کی طرف متوجہ ہوئے وَاسْتَفْتَحُوا اور عرض کی کہ اے اللہ ! ہم فتح تجھ سے مانگتے ہیں ہماری کوئی کوشش کامیاب نہیں ہے، ہماری ساری تدبیریں باطل ہیں اب ہم تیرا در کھٹکھٹاتے ہیں اور بڑے عجز کے ساتھ عرض کرتے ہیں کہ تو فتح عطا فرما.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ کہا، یہ طریق اختیار کیا تو خَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ.ہر سرکش کو خدا تعالی نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اس کی ہر تدبیر کو نا کام کر دیا اس کی ہر طاقت کو کمزوری میں بدل دیا اور کامل طور پر فتح عطا فرمائی.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کی مثال دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ نوح کے اختیار میں کب تھا کہ مخالفین کو ہلاک کرتا.یہ دعا ہی تھی جو آسمان سے پانی بن کر برسی اور زمین نے چشمے اگل دیئے جس نے نوح کے سارے مخالفین کو ہلاک کر دیا اور نوح کے تمام متبعین کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر اس ہلاکت سے بچالیا.پھر فرماتے ہیں کہ مجھے بھی خدا تعالیٰ نے اس زمانہ کا نوح" بنایا ہے.پس آپ جو نوح کی کشتی میں بیٹھنے والے ہیں اگر آپ واقعہ دنیا کو ہلاکت سے بچانا چاہتے ہیں اور خود بھی ہلاکت سے بچنا چاہتے ہیں تو دعائیں کریں.وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِید لیکن اس کے ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور نکتہ کی
خطبات طاہر جلد ۳ 102 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء طرف بھی توجہ دلاتے ہیں.آپ فرماتے ہیں کہ پہلے انبیاء سے میری مشابہت ایسی نہیں کہ محدود ہو یعنی ان کی کامیابیوں تک محدود ہو بلکہ مجھ میں اور گزشتہ انبیاء میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی برکت سے ایک فرق پڑ چکا ہے.مثلاً ایک فرق آپ یہ بتاتے ہیں کہ مسیح نے جب دعا کی تو وہ تقدیر جو بظاہر مبرم نظر آتی تھی کہ صلیب پر اس مسیح کا مرنا مقدر ہے اور صلیب سے کوئی بچتا دیکھا نہیں گیا تھا اللہ تعالیٰ نے مسیح کی دعا سے مسیح کو اس ہلاکت سے بچا لیا اور بظاہر غالب تقدیر کو ٹال دیا.فرمایا مجھ میں اور مسیح میں فرق یہ ہے کہ میں اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کا ایسا فکر مند نہیں جتنا زمانہ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے بے قرار ہوں اور میری دعاؤں سے اللہ تعالیٰ زمانہ کو بچائے گا.انسان کو ہلاکت سے بچائے گا.تو ان دونوں چیزوں میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے آپ بھی نوح کی کشتی میں بیٹھ کر یہ دعا نہ کریں کہ دنیا ہلاک ہو اور آپ بچائے جائیں بلکہ مسیح موعود کے غلام ہونے کے لحاظ سے آپ کا فرض یہ ہے کہ یہ دعا کریں کہ اے خدا! دنیا کو بھی ہلاکت سے بچا اور ہمیں بھی ہلاکت سے بچا.لیکن دعائیں کرنے کے لئے دعاؤں کے ساتھ کچھ لوازمات ہیں وہ ضرور حاصل ہونے چاہئیں محض منہ کی دعائیں تو کام نہیں آیا کرتیں.بہت سے لوگ شکوہ کرتے ہیں کہ ہم تو دعا ئیں کرتے ہیں دعا قبول نہیں ہوتی ، دعا کے فلسفہ کو بار بار سمجھنا چاہئے اور یہ فلسفہ بڑی تفصیل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب میں ملتا ہے.اتنا تفصیل سے آپ نے دعا کے مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ آپ کے سوا کوئی انسان بھی ایسا نہیں ملے گا آپ کو جس نے قرآن اور سنت سے استنباط کرتے ہوئے قرآن اور آنحضرت ﷺ کے فرمودات پر مبنی دعا کا فلسفہ بیان کیا ہو اور اتنی بار یکی اور اتنی تفصیل سے بیان کیا ہو.اس کا ہزارواں حصہ بھی کسی اور عالم کو توفیق نہیں مل سکتی کیونکہ وہ صاحب تجر بہ نہیں، بڑے بڑے عارف باللہ گزرے ہیں لیکن جس تفصیل سے اور جس باریکی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی طرف توجہ دلائی اور اس کا فلسفہ بیان فرمایا ویسی کسی اور کو تو فیق نصیب نہیں ہوئی.تو آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کا مطالعہ کریں تو آپ کے سارے شکوے دور ہو جائیں گے کہ کیوں خدا آپ کی نہیں سنتا، اگر نہیں سنتا ؟ اور وہ بیماریاں معلوم ہو جائیں گی جن کی وجہ سے دعائیں نا مقبول ہوتیں ہیں اور وہ گر معلوم ہوں گے جن کی وجہ سے غیر معمولی دعاؤں میں قوت آتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 103 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء ہر احمدی کو دعا کے معاملہ میں اپنے پاؤں پر کھڑے ہونا چاہئے.دعا کے لئے خلیفہ وقت کو یا کسی بزرگ کو لکھنا ایک روحانی تعلق کے لئے ضروری ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ بعض مناصب کی عزت رکھتا ہے ان سے خاص نصرت کا سلوک فرماتا ہے اس لئے زیادہ دعائیں قبول بھی کرتا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے ہرگز کافی نہیں ہے، کافی یہ ہوگا کہ ہر احمدی دعا گواحمدی بن جائے اور دعاؤں کا گر سیکھ لے اور مقبول الدعوات ہو جائے ، اس کی دعائیں عرش پر سنی جائیں اور مقبول ہوں اور وہ اپنے علاقہ کے لئے ولی بن جائے جس کی برکت سے علاقہ کی تقدیر بدلی جائے.ہمیں تو بکثرت بلکہ لکھوکھا ایسے اولیاء کی ضرورت ہے جو خود دعا گو ہوں اور جن کی دعاؤں کو خدا پیار اور محبت کی نظر سے دیکھنے والا ہو اس لئے دعا کے فلسفے کو سمجھنا بہت ہی ضروری ہے اور بار بار آپ اس کی طرف توجہ کریں.مثلاً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بعض لوگ صرف اپنی غرض کے لئے دعا کرتے رہتے ہیں ان کی دعا میں اور ان لوگوں کی دعاؤں میں فرق ہے جو غیروں کی اغراض کے لئے دعائیں کرتے ہیں جو دوسروں کا دکھ محسوس کر کے ان کے لئے تڑپتے اور ان کے لئے بے قرار ہوتے ہیں.آپ نے فرمایا کہ ان کی دعائیں اگر وہ اپنے لئے نہ بھی کریں تب بھی مقبول ہو رہی ہوتی ہیں.وہ جو نہیں بھی مانگتے خدا کی نظر ان پر ہوتی ہے کیونکہ ان کی نظر خدا کے بندوں پر ہوتی ہے اس لئے دعا کی مقبولیت کا ایک یہ گر بھی ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ عین مصیبت پڑ جائے تو پھر دعا کی طرف توجہ ہو اس میں خدا تعالیٰ سے ایک استغناء کا رنگ پایا جاتا ہے.یعنی عام طور پر تو خدا کے دربار میں حاضر نہ ہو لیکن جب مصیبت پڑے تو آئے ، ایسے شخص کی مثال ویسی ہی ہے جیسے آپ کے پاس کوئی شخص ویسے تو قریب نہ پھٹکے آپ سے کوئی تعلق کا اظہار نہ کرے لیکن جب کام پڑے تو آیا کرے.ایک دو دفعہ تو شاید آپ حسن سلوک بھی کر لیں اس کے بعد آپ اس سے تنگ آجائیں گے کہ یہ تو بڑا خود غرض انسان ہے صرف اس وقت آتا ہے جب اس کو کوئی مصیبت پڑتی ہے.تو اللہ تعالیٰ نے انسان کو اپنی فطرت پر پیدا کیا ہے اس کا ایک یہ بھی مطلب ہے کہ انسان اپنی فطرت میں ڈوب کر خدا کے رنگ سیکھ سکتا ہے اور اپنے رب کو پہچان کر اس سے استفادہ کر سکتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں کہ دعا میں یہ رنگ پیدا کرو کہ ابھی تمہیں کوئی ضرورت نہ بھی پڑی
خطبات طاہر جلد ۳ 104 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء ہو، کوئی مشکل نہ بھی ہو تب بھی اپنے رب سے پیار کا تعلق بڑھاؤ اور اس سے دعائیں کرتے رہو.فرمایا بعض اوقات بعض مصیبتیں اس طرح اچانک آجاتی ہیں کہ اگر پہلے سے دعاؤں کا خزانہ موجود نہ ہو تو اس وقت دعا کا وقت بھی انسان کو نہیں ملتا.بعض نا گہانی آفات ہیں، بعض اچانک رونما ہونے والے حادثات ہیں فرمایا کہ اس کے لئے اہل اللہ کے کام آنے والے پہلے سے دعا کے مقبول خزانے موجود ہوتے ہیں جو اس وقت ان کے کام آتے ہیں تو ایک اور گر ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے.مختلف فرمودات پر نظر ڈالنے سے دعا کے مضمون پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمائے خلاصہ تین چیزیں ایسی ملتی ہیں جن کے بغیر دعا میں طاقت پیدا نہیں ہوتی.دعا یا تو غم سے قوت پاتی ہے یا دعا شکر سے قوت پاتی ہے اور یا محبت سے قوت پاتی ہے.اس خوشی سے قوت پاتی ہے جو شکر میں تبدیل ہو جائے یعنی غم کے مقابل پر خوشی ہے لیکن محض خوشی سے دعا کو طاقت نہیں ملتی بلکہ اس خوشی سے طاقت ملتی ہے جو شکر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور یہ تینوں باتیں قرآن کریم سے ہی نکلی ہیں اور آنحضرت ﷺ نے بھی مختلف رنگ میں اس مضمون کو بیان فرمایا.تو وہ شخص جو دعا کرتے وقت نہ غمگین ہو اور نہ احساس شکر رکھتا ہو خدا تعالیٰ کے احسانات کو یاد کر کے اور ان خوشیوں کو پیش نظر نہ رکھے جو خدا نے عطا فرمائیں اور وہ شخص بھی جو خدا تعالیٰ کی محبت یا اپنے مقصد کی غیر معمولی محبت نہ رکھتا ہو اس شخص کی دعا بالکل خشک دعا ہوتی ہے اسے پھل نہیں لگ سکتا، خشک درختوں کو کیسے پھل لگے گا.خشک ٹہنیاں تو جلانے کے کام آسکتی ہیں ان میں نشو و نما کوئی نہیں ہوتی ، ان میں سبزہ پیدا نہیں ہوتا.پس یہ تین طاقتیں ہیں آپ دعا سے پہلے کسی نہ کسی طاقت سے تعلق جوڑیں.ان طاقتوں کے بغیر ناممکن ہے کہ دعا میں مقبولیت پیدا ہومثلاً سلسلہ کے لئے جو دعائیں دل سے اٹھتی ہیں ان میں لازماً اس کے پیچھے ایک غم کا پہلو بھی ہوتا ہے.وہ لوگ جو عشق رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ، آنحضرت ﷺ سے ان کا دل کشتارہتا ہے اس غم میں کہ لوگ کیوں بد زبانی کرتے ہیں اور کیوں ان سے دور ہیں اور ان کو نہیں سمجھ سکتے اور ان کے مقام کو نہیں پہچانتے.تو اپنے محبوب کے خلاف باتیں سننے سے دل میں ایک شدید غم پیدا ہوتا ہے اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب لیکھو (لیکھرام ) کے متعلق بددعا کی تو اس کے پیچھے حضرت رسول اکرم ﷺ کی غیرت
خطبات طاہر جلد ۳ 105 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء صلى الله کارفرما تھی.اس قدر دل آپ کا اس قدر غم سے کہتا تھا کہ برداشت سے باہر ہورہا تھا اور وہ ساری دعا ئیں جو لیکھو سے تعلق رکھتی ہیں ان کو آپ پڑھ کر دیکھیں ان کے پیچھے حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کی غیرت کارفرما ہے.بار بار مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لکھتے رہے اور اسے سمجھاتے رہے کہ تم جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہو یہ چیز میری برداشت سے باہر ہے اس طرح میرا دل کٹ جاتا ہے کہ میں جو دعاؤں کے لئے مامور کیا گیا ہوں تمہارے لئے میرے دل سے بددعا نکل جاتی ہے اس لئے اس بد دعا سے بچو اور میرے آقا محمد مصطفی ﷺ کے خلاف بدزبانی سے کام نہ لو.اسی طرح وہ احمدی جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق ہے جب وہ گالیاں سنتا ہے تو اس کو پہلے یہ خیال نہیں آتا کہ یہ مولوی میرے خلاف آگ لگانے والے ہیں، میرے مکان کا کیا بنے گا؟ میرے بچوں کا کیا ہوگا؟ سب سے پہلے اس کے دل پر چوٹ لگتی ہے محبت کی اور وہ سوچتا ہے کہ کب تک ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گالیاں سنیں گے.اس غم سے جو دعا اٹھتی ہے جس کی جڑیں اس غم میں پیوستہ ہوتی ہیں.کون کہہ سکتا ہے کہ وہ دعانا مقبول ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کا ایک واقعہ ہے.ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دینی شروع کیں مجلس میں اور ایک صحابی جو موجود تھے ان سے برداشت نہ ہوا اور انہوں نے آگے سے کچھ سخت کلامی کی یا کوشش کی پکڑنے کی تو حضرت مسیح موعود علیہ والسلام نے روک دیا سختی سے اور فرمایا صبر سے کام لیں ،صبر کرنا چاہئے.اس پر بے ساختہ جواب انہوں نے یہ دیا کہ اپنے پیارے کے خلاف باتیں سن کر آپ سے تو صبر ہوتا نہیں اور ہمیں کہتے ہیں ہم آپ کے خلاف باتیں سن کر صبر کریں یہ نہیں ہم سے ہوسکتا.اس کے باوجود احترام ادب اور عشق کا یہ بھی تقاضا تھا کہ کامل فرمانبرداری اختیار کی جائے اس لئے وہ باز تو ر ہے لیکن دل کی ایک ایسی بات کر گئے جس میں بڑی حکمت ہے لیکن اس فرق کو نہیں سمجھ سکے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بے صبری اور ان کی بے صبری میں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو عارف باللہ تھے.آپ کو وہ شخص لا جواب نہیں کر سکا کیونکہ اگر آپ غور کریں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صبر تو خدا کے حضور گریہ وزاری میں ٹوٹا کرتا تھا دنیا میں تو نہیں ٹوٹتا تھا، خود اس کے
خطبات طاہر جلد ۳ 106 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء خلاف ہاتھ تو نہیں اٹھایا کرتے تھے.گالیوں کے جواب میں گالیاں تو نہیں دینے لگ جایا کرتے تھے.اس لئے بعض لوگ یہ واقعہ بیان کرتے ہیں سیرت کے دوران تو وہ جماعت کو اس کا صحیح مفہوم نہیں پہنچا سکتے.وہ سمجھتے ہیں کہ اس نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خوب کرارا جواب دیا اور یہ جہالت کی بات ہے یہ عرفان کی کمی کے نتیجہ میں نتیجہ نکلتا ہے.اس کے جواب میں صرف ایک فلسفہ تھا کہ ہم بے قرار ہیں محبت میں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں.جہاں تک اُس کی طرز عمل کا تعلق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو صحیح روکا کیونکہ آپ جب لیکھرام سے بد زبانی سنتے تھے تو اس کو تو گالیاں نہیں دیتے تھے.آپ تو اپنے خدا کے حضور تڑپ تڑپ کر دعائیں کیا کرتے تھے اس لئے دعا میں ایک غم کی حالت پائی جانی ضروری ہے اور وہ غم کی حالت بعض دفعہ اتنی شدید ہو جاتی ہے کہ ایک دہر یہ اور مشرک کا غم بھی خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے اور ایک غمگین اور مضطر کی دعا کو قبول کر لیتا ہے.لیکن وہ دعا ئیں جو اللہ کے لئے کی جائیں اور اس کے دین کے لئے کی جائیں اور اس کے دین کا غم اس کے پیچھے ہو ان دعاؤں میں اور عام دعاؤں میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جاتا ہے.پس احمدیت کے لئے آپ جب دعائیں کریں تو خشک منہ سے دعائیں نہ کریں بلکہ غم محسوس کریں اور یہ غم کئی قسم کے ہیں.بنی نوع انسان سے جتنی سچی ہمدردی ہو اتنا ہی بنی نوع انسان کو بھٹکتا دیکھ کر ان کے لئے درد پیدا ہوتا ہے.مائیں بچوں کے لئے غم محسوس کرتی ہیں اگر ان کو غلط راہ پر دیکھیں تو جل جل کر کڑھ کڑھ کر جان دے دیا کرتی ہیں.آنحضرت ﷺ کی دعاؤں میں جو طاقت تھی اس کے پیچھے یہ غم کام کر رہا تھا کیونکہ آپ کو ماں سے بہت زیادہ محبت تھی بنی نوع انسان سے اللہ کی مخلوق سے آپ ایسا پیار کرتے تھے کہ کبھی کسی ماں نے ایسا پیار اپنے بچے کو اتنا پیار نہیں دیا.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آپ کی دعاؤں کا سر چشمہ جو آپ غیروں کے لئے کرتے تھے اس بات میں تھا کہ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكيف:) کہ اے محمد ! تو ان لوگوں کے غم میں جو تیری مخالفت کر رہے ہیں جو تجھے دکھ دے رہے ہیں، جو تجھے گالیاں دے رہے ہیں اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا.اِن لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا
خطبات طاہر جلد۳ 107 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء کہ یہ ایمان نہیں لاتے اور اپنا نقصان اٹھا رہے ہیں.عَلَى أَثَارِهِمْ میں ایک عجیب بیان ہوا ہے.مضمون ایک جگہ قرآن کریم فرماتا ہے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِيْنَ (الشعراء (۴) اور ایک اور جگہ یہ فرمایا ہے فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا آثَارِهِمْ سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کوئی قافلہ ہلاکت کی طرف گزرگیا ہو اور پیچھے نشان چھوڑتا جارہا ہو.جیسے آگ میں داخل ہونے کے لئے یا ہلاکت کے گڑھے میں جانے کے لئے کچھ لوگ گزر رہے ہوں اور آواز نہ سن رہے ہوں بلانے پر واپس نہ لوٹیں ، ان کے نشانوں کو دیکھ کر کوئی تاسف سے رورہا ہو اور اپنے خدا کے حضور عرض کر رہا ہو کہ اے خدا! اس قوم کو کیا ہو گیا ہے میں بلاتا ہوں ، میں ان کے لئے دکھ محسوس کرتا ہوں.میں کٹ رہا ہوں غم سے لیکن یہ میری بات کو نہیں سنتے.وہ اسف اور غم کھا رہا ہے جو قوم کو غلط رستے پر چلتے ہوئے دیکھ کر پیدا ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کا دم بھرتے ہیں تو ویسا دل بھی تو پیدا کرنے کی کوشش کریں.اتنا نہ سہی اپنے ماحول کی تباہی کو دیکھ کر کچھ نہ کچھ غم دل میں پیدا ہونا چاہئے.اگر نہیں ہے تو پھر آپ کی دعاؤں میں کوئی بھی اثر پیدا نہیں ہوگا.ہر چیز کے لئے طاقت ہونی چاہئے.کتنی بڑی کارکسی کے پاس ہو کتنا بڑا جہاز ہو جب تک اس میں پٹرول یا ڈیزل ہی نہیں ہے اس بیچارے نے چلنا کہاں سے ہے.تو دعا ئیں صرف ایک منہ سے کچھ بڑ بڑانے یا بننے کا نام نہیں ہے کچھ تخیل تعمیر کرنے کا نام نہیں ہے.جب تک اس تخیل میں قوت داخل نہیں ہوتی اس وقت تک و تخیل اڑ نہیں سکتا، وہ کام نہیں کر سکتا، وہ کوئی جلوے نہیں دکھا سکتا.پس اپنی دعاؤں کو محروم نہ کریں طاقت سے.ایک ذریعہ نم ہے اور غم سچی ہمدردی سے پیدا ہوتا ہے اس لئے اسلام کے لئے سچی محبت اور ہمدردی کریں اور اگر یہ نہیں ہوتی تو اسے عادت ڈالیں، گرد و پیش پر نظر ڈال کر اور اس کے لئے اپنے نفس کو تیار کریں جس طرح ایک انسان ورزش کے ساتھ اپنے آپ کو تیار کرتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس فلسفہ پر بھی روشنی ڈالی ہے.آپ فرماتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 108 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء کہ اگر دعاؤں میں لذت پیدا نہ ہو، خشوع نہ ہو ، طاقت نہ آئے اور انسان محسوس کرے کہ بے طاقتی کا سا عالم ہے اور اس کے باوجود تھکے نہیں اور مایوس نہ ہو اور تکلف سے کوشش شروع کر دے.اگر رونا نہیں آتا تو خدا کے حضور بناوٹ سے رونے کی کوشش کرے.اللہ تعالیٰ کو اس کی حالت پر رحم آجائے گا.وہ درد جو مصنوعی طور پر اپنے چہرہ پر ظاہر کر رہا ہے اس کے دل میں لازماً اتر جائے گا یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں پھر فرماتے ہیں خدا سے دعا کرو اور یہی دعا کرو کہ اے خدا! میں کیا کروں میری دعا میں لذت نہیں ہے، میری دعا میں طاقت نہیں ہے تو مجھے طاقت عطا فرما.اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی طور پر دعا کی تو فیق عطا فرمائے گا.دوسرا جذ بہ جس سے دعا طاقت پکڑتی ہے وہ خوشی ہے غم کے مقابل پر خوشی ہے لیکن خوشی وہ جوشکر میں بدلے.خالی خوشی کوئی بھی معنی نہیں رکھتی لیکن کتنی بڑی بد قسمتی ہے کہ انسان کو خدا تعالیٰ نے دونوں خزانے عطا فرمائے ہوئے ہیں اور ان دونوں خزانوں سے ناواقف ہے اور ان کا استعمال نہیں جانتا.جس طرح پس ماندہ قوموں میں جو سائنس کے مضمون میں بہت پیچھے رہ گئی ہیں خدا تعالی بڑے خزانے عطا کرتا ہے آبشار میں اور دوسری معدنی طاقتیں لیکن وہ بیچاری لاعلمی کی وجہ سے ان سے استفادہ سے محروم رہ جاتی ہیں ، ان کو پتہ نہیں کہ پانی سے کس طرح فائدہ اٹھانا ہے، کانوں سے کس طرح فائدہ اٹھانا ہے ، تیل سے کس طرح فائدہ اٹھانا ہے تو خدا تعالیٰ نے کسی میں یہ دوخزانے عطا کئے ہیں بنی نوع انسان کو اور اس میں کسی میں فرق نہیں کیا.یا غم ہے یا خوشی ہے اور قرآن اور سنت ہمیں بتاتے ہیں کہ اہل اللہ ان دونوں چیزوں کو طاقت میں تبدیل کر دیتے ہیں اور اپنے فائدہ کے عظیم الشان کام ان سے لیتے ہیں.غم بھی خدا کی طرف منتقل کر دیتا ہے اور خوشی بھی خدا کی طرف منتقل کر دیتی ہے لیکن وہ خوشی جو شکر میں تبدیل ہو.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے.يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجدة: ۱۷) وہ اللہ تعالیٰ کو خوف کی وجہ سے بھی یاد کرتے ہیں اور طمع کے وقت بھی یاد کرتے ہیں جب انہیں کسی چیز کے ملنے کی خوشی ہوتی ہے.جب انہیں کوئی امید پیدا ہوتی ہے اس وقت بھی خدا یاد آ جاتا ہے جب کچھ ہاتھ سے ضائع ہوتا ہے یا ضائع ہونے کا خطرہ ہوتا ہے تب بھی انہیں خدا یاد آتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 109 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء تو یہ طاقتیں ہیں جن کو قرآن کریم دعا میں تبدیل کرنے کی ہدایت دے رہا ہے فرما رہا ہے کہ یہ دعائیں ہیں جو مقبول ہوا کرتی ہیں.لیکن اکثر لوگ جو خوش ہوتے ہیں اس وقت خدا کو بھول جاتے ہیں اور غم کے وقت یاد آتا ہے صرف اور غم کے وقت بھی جس طرح یاد آنا چاہئے اس کا پورا سلیقہ ان کو نہیں ہوتا کیونکہ بعض دفعہ غم کے وقت وہ مایوسی کا اظہار بھی کرتے ہیں، تقدیر کا شکوہ بھی شروع کر دیتے ہیں، یہ بھی کہنے لگ جاتے ہیں کہ یہ خدا کا کیا معاملہ ہے کہ کسی کو کچھ دے دیا اور کسی کو کچھ ہم سے چھین لیا فلاں سے نہ چھینا.تو اکثر غم بھی ضائع کر دیتے ہیں.یعنی جس طرح پانی سیلاب بن کر نقصان تو پہنچا دیتا ہے لیکن بجلی کی مشینوں کو نہیں چلا سکتا.وہ قو میں جن کو طاقتوں سے کام لینے کا سلیقہ نہ آئے ان کا یہی ہوتا ہے.سیلاب ان کے ہاں بھی آتے ہیں لیکن ہلاکت کا موجب بن جاتے ہیں اور جن کے ہاں سلیقہ ہوتا ہے جن کے پاس وہ سیلابوں کو دیکھ کر ان کو Dames میں تبدیل کرتے ہیں.بند باندھتے ہیں پھر ان سے طاقت لیتے ہیں.قرآن کریم بھی بڑا ایک سائنٹیفک مذہب ہے اور بڑی باریکی کے ساتھ حکمت اور فلسفہ کے ساتھ آپ کو راہ سمجھا رہا ہے کہ کس طرح عام چیزوں سے استفادہ ہونا چاہئے خدا نے عطا کی ہیں.غم سے بھی اور خوشی سے بھی لیکن جیسا کہ غم سے بھی پورا استفادہ نہیں کیا جا تا خوشی سے تو اکثر اوقات ہوتا نہیں استفادہ.جب خوشی ملتی ہے تو انسان کہتا ہے دیکھو میری چالا کی سے مجھے یہ فائدہ ہو گیا یا خوشی ملتی ہے تو کہتا ہے میری قسمت کا ستارہ دیکھو کتنا بلند ہے.خوشیوں کے لئے ہی میں پیدا کیا گیا ہوں.خوشیاں ملتی ہیں تو خدا کو بھی بھول جاتا ہے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنا بھی بھول جاتا ہے.اپنی ذات میں مگن ہو کہ اس میں ایک تکبر پیدا ہو جاتا ہے وہ بھی مستغنی ہوتا ہے بنی نوع انسان سے لیکن خدا کے رنگ میں نہیں شیطان کے رنگ میں.اس میں ایک تکبر کا مادہ پیدا ہو جاتا ہے.وہ کہتا ہے میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے میں خوش ہوں اور یہ خوشیاں میرے لئے ہیں جو غموں میں مبتلا ہیں بے شک جہنم میں جائیں مجھے ان کی کوئی پرواہ نہیں.تو خوشیاں بھی ضائع جاتی ہیں.آنحضرت ﷺ کے نہ غم ضائع جاتے تھے اور نہ خوشی ضائع جاتی تھی.ایک دفعہ آنحضور ساری رات خدا کے حضور روتے اور گریہ وزاری کرتے رہے اور صبح جب نماز کے لئے باہر نکلے تو حضرت بلال نے یہ پوچھا یا رسول اللہ ﷺ ! آپ کو تو خدا نے ایسی بخشش کی خوش خبری دی ہے کہ !
خطبات طاہر جلد ۳ 110 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء پہلی اور اگلی ہر قسم کی غلطیاں معاف ہیں.جس کو اس دنیا میں اتنی عظیم الشان خوش خبری مل جائے اس کو کیا ضرورت ہے رونے اور گریہ وزاری کی.آپ نے فرمایا کیا میں عبد شکور نہ بنوں.کیا میں خدا کا شکر ادا نہ کروں کہ اس نے مجھ پر اتنے انعام فرمائے ہیں.( صحیح بخاری کتاب التفسير باب ليغفر لك ما تقدم من ذبک ) تو دیکھئے کہ ایک عارف باللہ کی خوشیاں بھی شکر میں ڈھلتی ہیں تو دعا بنتی ہیں اور شکر کے آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے ہیں.یہ خزانہ تو ہر انسان کوکسی نہ کسی شکل میں ملا ہی ہوا ہے.خوشیاں تو کسی نہ کسی وقت میسر آتی ہیں انسان کو صبح جب آنکھ کھولتا ہے صحت کے ساتھ تو عبد شکور اس بات کو بھی شکر میں تبدیل کر دیتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جو دعائیں سکھائیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کیسے عبد شکور تھے.کوئی زندگی کا موڑ نہیں، کوئی تبدیلی نہیں جس میں آپ نے شکر کے کلمے بیان نہیں کئے اور اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کر کے خدا کے فضل نہیں مانگے.جب نئے کپڑے پہنتے تھے اللہ کا شکر کرتے تھے ، جب نئے موسم کا پھل آتا تھا خدا کا شکر کرتے تھے ، جب آنکھ کھولتے تھے دوبارہ تو شکر کرتے تھے کہ خدا نے مجھے اس نیند سے جو ایک موت کی بہن ہے دوبارہ زندگی عطا فرمائی ہے.کوئی لمحہ اور کوئی تبدیلی زندگی کی ایسی نہیں تھی جس میں آپ خوشی کو محسوس نہ کریں اور اس خوشی کو شکر میں تبدیل نہ کردیں.خوشیاں تو آپ کو نصیب ہوتی ہیں اور نصیب ہو رہی ہیں مثلاً اچھا موسم ہو، اچھی مجلس ہو اطمینان سے بیٹھے ہیں، کوئی تکلیف نہیں، کوئی دکھ نہیں اگر عبد شکور ہے تو اس بات کا بھی احساس کرے گا کہ یہ اللہ کا فضل ہے.ایک انسانی مشینری کا ایک چھوٹا سا کل پرزہ بھی ذرا سا بگڑ جائے تو سارا جسم تکلیف محسوس کرنے لگ جاتا ہے، لاکھوں کروڑوں فضل اللہ تعالیٰ کے ہر وقت آپ پر ہورہے ہیں جو آپ آرام سے بیٹھے ہوئے ہیں اور جب آپ تکلیف محسوس کرتے ہیں تو لاکھوں کروڑوں فضلوں میں سے صرف ایک نہیں ہورہا ہوتا جس کے نتیجہ میں آپ بے چین ہوتے ہیں.ایک گردہ کام کرنا چھوڑتا ہے تو اس کے پیچھے بھی اس کے سارے عوامل کام کرنا نہیں چھوڑ رہے ہوتے بلکہ بے شمار عوامل میں سے کوئی ایک کام کرنا چھوڑتا ہے اور ہر زندگی کے ذرے میں خدا تعالیٰ نے عوامل رکھے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں اور اس کو ہر قسم کے دکھ اور تکلیف سے بچا رہے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کا فضل
خطبات طاہر جلد ۳ 111 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء ایک بہت معمولی جگہ سے بھی اٹھ جائے تو وہیں دکھ اور وہیں بے قراری پیدا ہو جاتی ہے اور یہی وہ چیز ہے جو آئندہ زندگی میں جہنم بنے گی بیمارلوگوں کے لئے.اس دنیا میں خدا بتا تا ہے کہ جس کو تم سمجھ رہے ہو کہ خدا کے بغیر تم صحت مند ہو اور پھر رہے ہو اور تمہیں کوئی تکلیف نہیں اور موجیں لوٹ رہے ہو اگر اللہ تمہاری مشینری میں سے کروڑ ہا کروڑ بلکہ ان گنت محرکات میں سے ایک محرک کو بھی اٹھا لے تو تم بے قرار ہو جاؤ گے.تمہارے لئے یہی دنیا یہی زندگی جہنم بن جائے گی.فرمایا تم پھر مجھ سے کیسے غافل ہو.جب میرے پاس آتے ہو تو میرے فضلوں کے وارث بن کر پہنچو کیونکہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جب تعلق ٹوٹتا ہے، اُس وقت بیماری پیدا ہوتی ہے، اس وقت دکھ پیدا ہوتا ہے.اگر آپ عبد شکور بننا سیکھیں تو شکر کے ساتھ آپ کو بے انتہا قوی طاقتور دعاؤں کی توفیق ملے گی.اور جو دعائیں خوشیوں کے شکر میں بدلنے سے پیدا ہوتی ہیں وہ دعا ئیں مقبول ہوتی ہیں.اور ان کے نتیجہ میں مزید فضل پیدا ہوتے ہیں.تو یہ دوسرا حصہ ہے، طاقت کا سرچشمہ جس سے آپ تعلق جوڑیں کیونکہ پہلے بھی آپ کا تعلق ہے لیکن آپ کو معلوم نہیں اکثر صورتوں میں کہ کس طرح فائدہ اٹھانا ہے.تیسرا مرکزی نقطہ دعا کے لئے یا ایندھن جس سے دعا طاقت پاتی ہے وہ محبت ہے.کسی مقصد سے محبت ہو جائے تو اس کے لئے انسان مجنون ہو جاتا ہے اور محبت کے نتیجہ میں جو دعائیں ہیں وہ خدا تعالیٰ قبول فرماتا ہے.چنانچہ جو لوگ تبلیغ کرنے والے ہیں ان میں دو قسم کے ہیں اور جو تبلیغ نہیں کرتے ان میں بھی دو قسم کے ہیں.کچھ تو کہتے ہیں کہ ہم تبلیغ تو نہیں کرتے لیکن دعا کرتے ہیں.حالانکہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اگر تبلیغ سے محبت ہو اور پیار ہواور جنون ہو تو دعا ہی پر انحصار ہو اور کوشش انسان نہ کرے.دعا اور کوشش حقیقت میں کبھی الگ نہیں ہو سکتے ، دعا نام ہے سنجیدگی اور سچائی کا اور جو شخص سچائی سے کچھ حاصل کرنا چاہے وہ خود بڑھتا ہے اس طرف اور جب عاجز آجاتا ہے اس وقت دعا ئیں اس کے کام آتی ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ کھانا دیکھیں اور بھوک لگی ہو اور آپ دعا شروع کر دیں کہ اے خدا! یہ کھانا اٹھ کر میرے منہ میں آجائے ، میں اس تک نہیں پہنچنا چاہتا لیکن ہے مجھے بڑی محبت.ہاں اگر آپ ہاتھ بڑھائیں اور وہ آپ کے ہاتھ میں نہ آئے وہ اونچا ہو، کوئی ذریعہ نہ ہواس تک پہنچنے کا پھر کوشش بھی کرتے چلے جائیں گے اچھلتے بھی رہیں گے ساتھ اس کو پکڑنے کے لئے لیکن دعا بھی ساتھ بے اختیار جاری ہوگی تو یہ دعا با مقصد دعا ہے ایک محبت کے نتیجہ
خطبات طاہر جلد ۳ 112 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء میں پیدا ہوئی ہے اس لئے اگر آپ خدا تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی رکھتے اور ایک عظیم انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں دنیا میں تو اس مقصد سے محبت پیدا کریں.جن لوگوں کو احمدیت سے عشق ہے اور پیار ہے ان کی دعاؤں میں تو ایک مجنونانہ کیفیت ہوتی ہے.جن کو اسلام سے سچی محبت ہے وہ تو محبت سے ایسا بے قرار ہو جاتے ہیں کہ ان کی دعائیں جاگ اٹھتی ہیں ان میں ایک زندگی پیدا ہو جاتی ہے، ایک کہرام مچ جاتا ہے.کہاں محبت کرنے والے کی دعا اور کہاں محبت سے خالی انسان کی دعا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں پڑھیں تو سہی، وہ ابھی پوری کیفیت کو بیان نہیں کر سکتیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعا کے وقت ہوا کرتی تھی فرماتے ہیں دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفی ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۲۹) میرے میں طاقت ہی نہیں ہے کہ میں محمد مصطفی ﷺ کے دین کا ضعف دیکھوں میرے غم پر نظر فرما شور کیسا ہے ترے کوچے میں لے جلدی خبر خوں نہ ہوجائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمه چشمه آرید روحانی خزائن جلد ۲ صفحریم ) کام اللہ کا ہے اس نے کرنا ہے اور بندہ کا یہ حال ہے کہ بیقراری سے تڑپ رہا ہے زمین پر اور کہہ رہا ہے کہ اے خدا! میرے حال پر نظر کر میں مرجاؤں گا اگر تو نے دیر کی تو میرا کچھ بھی باقی نہیں ہوگا.یہ تڑپ ہے جو محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.اب کہاں یہ دعائیں جو محبت سے طاقت حاصل کر رہی ہوں اور کہاں وہ خالم خولی دعا ئیں کہ اللہ میاں اسلام کو فتح دے، اللہ میاں احمدیت کو فتح دے.بہت فرق ہے ان دونوں چیزوں میں اسی لئے اپنی دعاؤں میں محبت پیدا کریں اور محبت کا دوسرا حصہ ہے خدا تعالیٰ سے ذاتی محبت امر واقعہ یہ ہے کہ مقصد سے محبت بھی انسان کے اندر ایک سوز و گداز پیدا کر دیتی ہے لیکن مقصد سے محبت اصل میں ہو نہیں سکتی یعنی روحانی مقصد سے محبت جب تک خدا سے محبت نہ ہو.اللہ ہی سے محبت ہے جو بنی نوع انسان کی محبت میں بدلتی ہے اللہ ہی سے محبت ہے جو مقصد سے عشق پیدا
خطبات طاہر جلد ۳ 113 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء کر دیتی ہے.یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کاظم اس کے سوا کیا تھا کہ ایک اللہ ہے جو ایک عظیم الشان نعمت ہے جس کا کوئی حساب نہیں ہے کوئی اسکا کنارا نہیں ہے.لامتناہی نعمتوں کا خزانہ ہے اور بنی نوع انسان اس سے غافل ہیں اور اللہ سے ایسا عشق تھا ایسی محبت تھی کہ بے خدا لوگوں کو دیکھ کر دل جل جاتا تھا اور کٹ جاتا تھا.تو یہ محبت در اصل خدا سے محبت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے یعنی مقصد سے محبت خدا ہی سے محبت کا ایک شاخسانہ ہے.تو یہ ٹھیک ہے کہ ہم نے اعلیٰ مقصد کے لئے دعا کرنی ہے لیکن اللہ سے محبت نہ ہو تو یہ دعا ئیں بے معنی سی ہو جائیں گی اس لئے اللہ تعالیٰ سے محبت کریں.اور اگر اللہ تعالیٰ سے آپ محبت کریں گے تو وہ مقصود بالذات ہو جاتا ہے.اس کے بعد باقی ساری دعائیں ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں در دو عالم مرا عزیز توئی و آنچه میخواهم از تو، نیز توئی ( در تمین فارسی ) کہ اے خدا خلاصہ یہ ہے میری دعاؤں کا کہ در دو عالم مرا عزیز توئی.دونوں جہان میں تو ہی ہے جو مجھے پیارا ہے، وآنچه میخو اہم از تو، نیز توئی ہمیں جو مانگتا ہوں تجھ سے تجھے ہی مانگ رہا ہوں، تو مجھے مل جا مجھے سب کچھ مل گیا.تو اللہ تعالیٰ کی ذاتی محبت کے بغیر کوئی احمدی روحانی طور پر زندہ نہیں ہوسکتا نہ اس کی دعائیں زندہ ہوسکتی ہیں اس لئے خدا تعالیٰ کی محبت کے معیار کو بلند کریں.اکثر انسان غفلت کی حالت میں دن گزارتے ہیں.نہ غم سے فائدہ اٹھاتے ہیں نہ خوشی سے اور نہ کسی مقصد سے لگاؤ رکھتے ہیں اور اس آخری مقام کو نہیں پاسکتے جو خدا تعالیٰ کی ذاتی محبت کا مقام ہے اور ان تینوں سے بالا ہے.ان سے اوپر اس کی منزل آتی ہے اور ایک احمدی نے جس نے دنیا میں بہت عظیم الشان کام کرنے ہیں اور انقلاب برپا کرنے ہیں اس کو سوچنا چاہئے کہ اس کے پاس ہے کیا ؟ وہ کس طرح دنیا میں انقلاب برپا کرے گا؟ اگر جماعت احمد یہ اپنی ساری دنیا کی طاقتیں کسی ایک ملک میں اکٹھی کرلے اور صرف ظاہری طاقتوں پر انحصار کر کے وہاں انقلاب لانے کی کوشش کرے تو لا زمانا کام ہو جائے گی کیونکہ دنیا کے ذرائع جماعت کے ذرائع سے بہت زیادہ آگے بڑھ چکے ہیں اور اگر کسی ایک ملک کی جماعت احمد یہ خالصہ اللہ کی ہو چکی ہو اور اس کے تمام افراد مردوزن
خطبات طاہر جلد ۳ 114 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء بچے اور بوڑھے عورتیں اور مرد سب اہل اللہ ہو جائیں اللہ سے محبت کرنے لگیں اور وہ ساری دنیا کی تقدیر بدلنے کے لئے دعائیں کریں تو اس ایک ملک کی دعائیں ساری دنیا کی تقدیر بدل دیں گی.یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس کو بھلا کر آپ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے اہل اللہ بننا پڑے گا یعنی اللہ سے محبت کرنی پڑے گی اور جتنے دور ہیں خدا سے اتنی بے قراری دکھانی پڑے گی.خدا کے بغیر تو کچھ بھی نہیں ہے مذہب کا مقصد ہی کوئی نہیں، بے معنی باتیں ہیں ساری.یہ ساری ورزشیں رہ جاتی ہیں بے مقصد عبادت اور کوشش اور قربانیاں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتیں اگر محبت الہی نہیں ہے اور یہ سب سے آسان کام بھی ہے اور سب سے اعلیٰ کام بھی ہے.اللہ کی محبت کو پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے.جس رنگ میں جس طرح بھی آپ خدا سے پیار کی باتیں کر سکتے ہیں کرنی شروع کر دیں.صبح کو، دو پہر کو، رات کو، یہ خیال کریں کہ جب بھی کوئی بات ہو کوئی تبدیلی ہوسب سے پہلے خدا یاد آئے.خوشی پہنچے تو پہلے خدا یاد آئے ، غم پہنچے تو پہلے خدا یاد آئے ، خوف ہو تو پہلے خدایا دآئے، کچھ ملے تو خدا یاد آئے ، کچھ کھوئیں تو خدا یاد آئے ، اپنے بچوں کو پیار سے دیکھیں تو خدا یاد آئے ،اپنے ماں باپ پر نظر کریں تو خدا یاد آئے یعنی سارے ماحول میں شش جہات میں آگے اور پیچھے دائیں اور بائیں ہر طرف اللہ تک پہنچنے کی بصیرت پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لئے بھی دعائیں کریں.لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے خدا اگر ظاہر ہو تو یہ ہر جگہ موجود ہے.اس لئے اس کا ایک نام ظاہر بھی ہے.باطن بھی ہے اور ظاہر بھی ہے.ان لوگوں کے لئے باطن ہے ایک معنی میں جو غفلت کی نظر سے اس کو دیکھتے ہیں.ساری کائنات میں موجود ہونے کے باوجود ہر ذرہ میں ہونے کے باوجود وہ چھپا ہوا ہے نظر ہی نہیں کسی کو آتا اور وہ ظاہر ہوتا جاتا ہے ان لوگوں کے لئے جو محبت اور پیار کی نظر سے اس کو دیکھتے ہیں، ان کو ہر جگہ خدا ہی خدا نظر آنے لگ جاتا ہے.چنانچہ ایک بزرگ کا واقعہ آتا ہے کہ ایک دفعہ ان کے سامنے لڈوؤں کا ٹوکرا آیا اور باقی جو شاگرد تھے انکوانہوں نے دیا تقسیم کیا ، کافی کافی لڈوان کے ہاتھ آئے انھوں نے کھائے اور چند منٹوں میں فارغ بھی ہو گئے اور وہ اس وقت ایک خاص کیفیت میں تھے.یہ مطلب تو نہیں کہ وہ ہمیشہ اسی طرح کھایا کرتے تھے.اگر اسی طرح وہ کھاتے رہیں ہمیشہ تو کسی بزرگ کا ایک لڈو مہینے میں بھی ختم نہ ہو مراد صرف اتنی ہے کہ بعض خاص عشق کی حالتیں ہوتی ہیں ان میں انسان جب ڈوبنے لگتا ہے تو
خطبات طاہر جلد۳ 115 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء ایک دانے میں بھی ڈوب جاتا ہے.اور اہل اللہ پر ایسی حالتیں آجایا کرتی ہیں.بہر حال انہوں نے لڈو ہاتھ میں پکڑا اور اس میں سے ایک دانہ منہ میں ڈالا اور ان کا وہی دانہ ختم نہیں ہو رہا تھا اور باقی کھانے والے سب کچھ کھا بیٹھے تھے.تو ایک شاگرد نے پوچھا کہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ آپ نے لڈو ہاتھ میں پکڑا ہوا ہے اور ابھی ایک ہی دانہ کھایا ہے.انہوں نے کہا جس جہان میں میں پہنچا ہوا ہوں اور جولذتیں میں اٹھا رہا ہوں تم اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتے.میں نے جب منہ میں رکھا ایک دانہ تو مجھے خیال آیا کہ اس میں ایک جزو میٹھا ہے اور اس میٹھے کو خدا تعالیٰ نے مجھ تک پہنچانے کے لئے کتنا عظیم ایک کارخانہ جاری کیا ہوا ہے.ایک دن ایک زمیندار اٹھا اور ہل لے کر ایک کھیت کی طرف روانہ ہوا اور وہاں اس نے محنت کی اور وہاں اس نے ایک بیج بویا اور پھر سارا سال اس کی پرورش کی، اس کو پانی دیا اور اس کی حفاظت کی پھر اس کو کاٹا پھر اس کا رس بنایا.پھر اس پر اس نے محنت کی ،آگ جلانے کے لئے کوشش کی اور کچھ ذرے اس میں ایسے تھے جو خدا کے نزدیک مقدر تھے کہ وہ میرے منہ میں پہنچیں گے اور وہ ساری محنتیں اس لئے ہو رہی تھیں کہ خدا کے ایک بندہ تک ایک مٹھاس پہنچے جائے.کہتے ہیں میں سوچتے سوچتے یہاں پہنچا پھر مجھے خیال آیا کہ اس شخص کی محنت سے پہلے ہزارہا لوگوں کی لا متناہی محنتیں بھی ہیں اور وہ ساری اس کھانڈ کے ایک ذرے میں پہنچ چکی ہیں جنہوں نے لو ہے کو کانوں سے نکالا اور اس سے وہ اوزار بنائے اور جس کے نتیجہ میں اس نے ہل بنایا.پھر جنہوں نے لکڑی پر کام کیا اور وہ لوگ جو ہزاروں سال پہلے ان چیزوں کے موجد بنے.اور ورشتہ آگے لوگوں نے ان سے یہ فیض پائے.یہ سارے زمانہ کی محنتیں سارے زمانہ کی دماغی کاوشیں جو اس پھل پر منتج ہوئیں جس پھل کو زمین میں گاڑا گیا اور اس سے پھر آگے زمین کو کاشت کیا گیا.یہ ساری چیزیں اللہ تعالیٰ نے اس لئے پیدا کی تھیں کہ خدا کے بندے ان سے فائدہ اٹھا ئیں اور پھر میٹھا بنے اور وہ میٹھا کسی کے منہ تک پہنچے تو مجھے تو یوں لگ رہا تھا کہ سارا کارخانہ قدرت کا مجھے تک ایک مزہ پہنچانے کے لئے وقف ہوا ہوا ہے.پھر اس کے دوسرے اجزا کی طرف توجہ گئی.اب یہ اتنا لمبا مضمون ہے ظاہر بات ہے کہ ایک شخص جو اس مضمون میں ڈوب رہا ہو اور اس سے مزے اٹھارہا ہو، اس وقت اس لڈو کی اس کے نزدیک کوئی بھی قیمت نہیں رہتی یعنی اس کے ظاہر کی اور وہ غائب ہو جاتا ہے.اور خدا ظاہر ہو جاتا ہے اس کو کہتے ہیں خدا تعالیٰ کی صفت ظاہر وہ ان بندوں کے لئے جو اس سے پیار کرتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 116 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء بعض دفعہ اس طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ ہر مادی چیز غائب اور باطن میں چلی جاتی ہے اور صرف خدا ہی خدانظر آ رہا ہوتا ہے.تو اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے کے تو لاکھوں کروڑوں رستے ہیں اور جس رستہ پر آپ خدا کو ڈھونڈیں گے وہاں آپ کو خدا نظر آئے گا اور وہ آپ کے لئے ظاہر ہوتا چلا جائے گا.جس کے لئے خدا ظاہر ہو جائے اس کے مقابل پر دنیا کی کوئی طاقت بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی.ناممکن ہے کہ پھر اس پر کوئی دنیا کی طاقت حملہ کرے اور اسے ناکام بنا سکے.اس لئے جتنی اللہ تعالیٰ خوش خبریاں عطا فرماتا جاتا ہے اتنا ہی میرے دل میں یہ فکر بڑھتا جاتا ہے کہ کاش ہم عبد شکور بن سکیں اللہ تعالیٰ ہمیں ناشکروں میں نہ لکھے.وہ ہم پر فضل فرمارہا ہے ہمارے استحقاق کے بغیر ، وہ ہم پر رحمتیں نازل فرما رہا ہے باوجود اس کے کہ ہم بہت گنہ گار اور کمزور ہیں اور ہم پورا حق ادا نہیں کر رہے، اس کے باوجود اس کی رحمت کے فرشتے ہماری حفاظت بھی کر رہے ہیں ہمیں نئی نئی خوشخبریاں عطا کر رہے ہیں، ہمیں برکتوں پر برکتیں دیتے چلے جارہے ہیں اور پھیلاتے چلے جا رہے ہیں دنیا میں ، ہمارے ایمان کو بڑھا رہے ہیں ، ہمارے اخلاص کو بڑھا رہے ہیں ، ہماری خوشیوں میں برکت دے رہے ہیں ، ہمارے اموال ہماری جانوں ہماری اولا دوں میں برکت پر برکت دیتے چلے جارہے ہیں.تو مجھے یہ غم کھاتا ہے کہ ہم عبد شکور بھی بن رہے ہیں کہ نہیں.اور عبد شکورا گر آپ بن جائیں اور اللہ تعالیٰ سے شکر کے نتیجہ میں محبت ہو جائے تو پھر اس کے فضلوں کی کوئی انتہا ہی نہیں رہے گی.ساری دنیا کے خزانے آپ کے ہاتھوں میں دیئے جائیں گے.تمام دنیا کی طاقتوں کی کنجیاں آپ کو پکڑا ئی جائیں گی ، تمام دنیا کی ملکیت میں خدا تعالیٰ اپنے ساتھ شامل کر لے گا آپکو.یہ ہے محبت کا آخری نتیجہ! اس لئے فکر کریں اور محبت پیدا کریں اور محبت کے لئے نہ علم کی ضرورت ہے اور نہ دولت کی ضرورت ہے نہ کسی اور ایسی دنیاوی ذرائع کی ضرورت ہے جس کے متعلق کوئی کہے کہ مجھے حاصل نہیں.ایک درویش، ایک فقیر ، ایک غریب اور ایک مسکین بظاہر دنیا کی نعمتوں سے محروم بھی جب خدا سے محبت کرتا ہے تو وہ اللہ والا بن جاتا ہے، اولیاء میں شمار ہوتا ہے اور اس کے ہاتھ پر خدا عجائب کام دکھاتا ہے.یہ ہے محبت کا کرشمہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد۳ 117 خطبہ جمعہ ۷ ار فروری ۱۹۸۴ء اے محبت عجب آثار نمایاں کردی زخم و مرہم برہ یار تو یکساں کردی درمین فارسی ) اے محبت ! میں فدا ہوں تجھ پر تو نے تو عجیب کام کر کے دکھا دیئے ہیں.اللہ کی محبت مجھے ایسی عطا ہوئی اور اللہ کی محبت نے وہ کرشمے دکھائے کہ اب یار کے لئے زخم پہنچے یا مرہم عطا ہو دونوں کا ایک ہی مزہ آنا شروع ہو گیا ہے.خدا کی راہ میں جب میں تکلیفیں اٹھاتا ہوں تب بھی مزے اٹھا رہا ہوتا ہوں.خدا کی طرف سے جب نعمتیں مل رہی ہوتی ہیں تب بھی میں مزے اٹھا رہا ہوتا ہوں.تو محبت ہی ہے جو ایسے عجیب کرشمے دکھاتی ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو خالص اپنی محبت عطا فرمائے عبد شکور بنائے اور یہ طاقت بخشے کہ ان کے غم بھی خدا کی طرف لے جائیں اور ان کی خوشیاں بھی خدا کی طرف لے جائیں اور وہ خدا ذاتی مقصود بن جائے ان کا ، ایسی جماعت ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پیدا کرنے کے لئے آئے تھے اور یہ جماعت ایک جنت کا نمونہ ہے.آپ کی جنتیں جن کی آپ راہ دیکھ رہے ہیں وہ اسی بات میں ہیں یہ تین چیزیں آپ کو نصیب ہو جا ئیں تو آپ اس جنت کو پالیں گے جس جنت کی خدا تعالیٰ خوشخبریاں عطا کیا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد۳ 119 خطبه جمعه ۲۴ فروری ۱۹۸۴ اسلامی احکامات میں رخصت درعایت کا نظا ( خطبه جمعه فرموده ۲۴ فروری ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اسلام کی پیاری شان میں سے اس کا رخصتوں کا نظام بھی ایسا نظام ہے جو دنیا کے کسی مذہب میں بھی موجود نہیں.حیرت انگیز بات ہے، اگر تکمیل کے دعوی کو صرف اسی طرح ہی پر کھ لیا جائے کہ سارے مذاہب میں تلاش کریں موقع ومحل کے مطابق رعایتیں موجود ہیں کہ نہیں ؟ اشارةُ بھی یہ مضمون ہی کہیں نہیں ملتا اور حیرت کی بات یہ ہے کہ اسلام میں ہر عبادت میں اور صرف ہر عبادت میں ہی نہیں بلکہ ہر حکم میں ایک رعایت کا نظام ملتا ہے.یہ صورت ہو تو کیا کرنا چاہئے ، یہ دقت ہو تو کیا کرنا چاہئے اور پھر عبادت کے بھی ہر حصے میں نہ کہ جمعہ کے متعلق.پہلے تو سہولت تھی عصر کے ساتھ جمع کیا جاسکتا ہے مختصر کیا جاسکتا ہے، پانی نہیں تو تیم سے پڑھ لیا جائے ہنسل کی شرط اٹوٹ گئی، لیکن ساتھ یہ بھی ہے کہ اگر نہ بھی کر وتب بھی کوئی حرج نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مرتبہ صرف اس رخصت کو پورا کرنے کی خاطر جمعہ کے متعلق فرمایا کہ آج ہم جمعہ نہیں پڑھیں گے ،صرف ظہر کی نماز ہوگی.ہم نے بھی ایک دفعہ سوئٹزر لینڈ میں سفر کے دوران اسی سنت پر عمل کیا تھا.لیکن آج مختصر خطبہ دے کر صرف اس طرف توجہ دلا کر میں ختم کرتا ہوں کہ اسلام کے دیگر مذاہب سے موازنہ میں رخصتوں والا پہلو بھی ایک بہت ہی شاندار پہلو ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ اسلام کے ہر حکم کو نمایاں کر کے دنیا کے سامنے پیش کر سکیں.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 121 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء صفت غفار اور آنحضرت کا استغفار ( خطبه جمعه فرموده ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں: لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَإِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمْ بِهِ اللَّهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَّشَاءُ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ امَنَ الرَّسُوْلُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ قف كُلٌّ آمَنَ بِاللهِ وَمَلَيكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ اَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ قف رَبَّنَا وَ إِلَيْكَ الْمَصِيرُ (البقرة: ۲۸۶،۲۸۵) اللہ تعالیٰ کی مغفرت کا مضمون بہت ہی وسیع ہے اور جیسا کہ اس لفظ کے معانی میں ڈھانکنا، ڈھانپ لینا پایا جاتا ہے اسی طرح یہ صفت مغفرت بھی انسانی زندگی کے سارے اعمال کو ڈھانچے ہوئے ہے خواہ وہ تعلق باللہ کے اعمال ہوں یعنی اللہ سے تعلق رکھنے والے یا حقوق العباد سے تعلق رکھنے والے اعمال ہوں.یہ بہت ہی وسیع مضمون ہے جس کو قرآن کریم نے مختلف پیرائے میں مختلف مواقع پر بیان فرمایا اور اس صفت سے متعلق گفتگو کرتے ہوئے یہ ممکن نہیں کہ تھوڑے وقت میں اسے بیان کیا جاسکے.ویسے تو قرآن کریم میں کوئی ایک بھی آیت ایسی نہیں جس سے مضامین کے
خطبات طاہر جلد۳ 122 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء چشمے نہ پھوٹتے ہوں اور ان پر انسان کسی صورت میں بھی حاوی ہو سکے.چنانچہ قرآن کریم کی کسی آیت کی تفسیر پر حاوی ہونے کا دعوی ہی ایک نہایت متکبرانہ دعویٰ ہے اور بالکل جھوٹا دعویٰ ہے.تو ان معنوں میں تو ہر آیت بہت وسیع معانی رکھتی ہے لیکن جب ہم عرف عام میں بات کرتے ہیں تو ان آیات میں سے بعض آیات اور صفات باری تعالیٰ میں سے بعض صفات اندورنی نسبت کے لحاظ سے زیادہ وسیع المعنیٰ ہوتی ہیں.پس ان معنوں میں جب میں کہتا ہوں کہ صفت غفور بیت یا غفاریت یا مغفرت ایک بہت ہی وسیع صفت ہے تو مراد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کے اندورنی تناسب اور اندورنی تعلق کے لحاظ سے یہ بہت وسیع المعنی صفت ہے.اس کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں بعض لوگ مغفرت کے ایسے معانی اپنے ذہنوں میں بٹھا لیتے ہیں جس سے وہ گناہ پر جرات کرنے لگتے ہیں اور ان کی طبیعت میں بے باکی پیدا ہوتی ہے اور بعض دفعہ دوسری انتہا پر جا کر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور بعض دفعہ اس کے معانی نہ سمجھنے کے نتیجہ میں جو حقیقی روح ہے اس سے غافل رہتے ہیں اور جس رنگ میں خدا تعالیٰ کی صفت مغفرت سے استفادہ کرنا چاہئے اس استفادہ کی توفیق نہیں پاتے.اللہ تعالی کی یہ صفت مختلف بندوں کے تعلق میں مختلف معانی اختیار کرتی چلی جاتی ہے اور قرآن اور سنت سے یہ ثابت ہے کہ اس کے نہایت اعلیٰ اور ارفع معانی ہمارے آقاومولا حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے تعلق میں بیان ہوئے اور ادنی معانی ایسے گناہگاروں کے حق میں بھی بیان ہوئے کہ جن کے اعمال نامہ میں کچھ بھی ایسا نیکی کا فعل نہیں تھا، کوئی ایسی خدا تعالیٰ کی مغفرت کو جذب کرنے والی خوبی نہیں تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے لا زماوہ لوگ جہنمی ہو چکے لیکن خدا تعالیٰ کی صفت مغفرت نے ان کو بھی بچالیا.پس ان دو انتہاؤں کے درمیان سالکین کے جتنے مراتب ہیں ان سب پر اللہ تعالیٰ کی صفت مغفرت پھیلی پڑی ہے یعنی کچی پکی کا امتحان دینا ہو تو وہاں بھی صفت مغفرت ایک پر چہ ڈالے گی اور سب سے اعلیٰ درجہ کا امتحان دینا ہو اور اس میں بھی انتہائی اعلی مقام کے نمبر حاصل کرنے ہوں تو اس کے لئے بھی صفت مغفرت ایک پر چہ ڈالے گی اور یہی مغفرت کی صفت مختلف رنگ میں مختلف روپ میں انسان پر ظاہر ہوتی چلی جائے گی.آج میں نے جس آیت کا انتخاب کیا ہے اس میں سب سے اعلیٰ اور ارفع معانی صفت مغفرت کے بیان ہوئے ہیں جن کا تعلق حضرت اقدس محمد مے سے ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
خطبات طاہر جلد ۳ 123 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء امَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ که محد مصطفی ﷺ ان سب چیزوں پر ایمان لے آئے جو خدا تعالیٰ کی طرف سے اتاری گئیں اور آپ کی غلامی میں ، آپ کی اطاعت میں مومن بھی درجہ بدرجہ ان چیزوں پر ایمان لے آئے.كُلٌّ آمَنَ بِاللہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اللہ پر ایمان لانے کا حق ادا کیا ؤ ملیگتا اور فرشتوں پر ایمان لے آئے اور کتب پر ایمان لے آئے ، اور رسولوں پر ایمان لے آئے اور یہ کہا کہ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْ رُّسُلِهِ صلى الله یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی مے جو سب رسولوں سے افضل ہیں ان کے انکسار کا عالم اپنے رب کے حضور یہ تھا کہ خود بھی یہی کہا اور اپنے ماننے والوں کو بھی یہی تعلیم دی کہ خدا کی طرف سے جو بھی آئے ، اعلی ہو یا ادنی ہو ہم ان سب پر ایمان لاتے ہیں.وَ قَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا اور صرف ایمان کی حد تک نہیں بلکہ اعمال میں بھی وہ درجہ کمال کو پہنچ گئے اور انہوں نے یہ عرض کی اپنے رب سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی اور کوئی فرق نہیں رہنے دیا سننے اور اطاعت.کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں چھوڑا تیرے احکام اور ان کی بجا آوری کے مابین سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا.اس کے بعد مغفرت کے وہ کیا معنی لیتے ہیں اس کا ذکر ہے اور یہاں میں دو معنوں میں غُفْرَانَكَ رَبَّنا کی تفسیر کروں گا.یہ سب کچھ کرنے کے باوجود وہ یہ عرض کرتے ہیں اپنے رب سے کہ ان اعمال سے ہم کوئی درجہ نہیں پاسکتے، کسی ثواب کے مستحق نہیں ہو سکتے.ان سب کے باوجودہم سمجھتے ہیں کہ ہمارا کوئی اجر نہیں کیونکہ یہ ساری طاقتیں تو نے ہی عطا فرمائی تھیں.غُفْرَانَكَ رَبَّنَا اس انتہائی بلندی کے مقام پر پہنچنے کے باوجود ہم تیری مغفرت کے طالب ہیں کہ تیری ہی مغفرت کے نتیجہ میں ہم معاف کئے جائیں گے اور ہمیں اجر عطا کئے جائیں گے.دوسرا معنی اس کا یہ ہے کہ یہ سب کچھ تیرے غفران کے نتیجہ میں ہوا تھا.انسان کو ذاتی طور پر معصوم ہونے کی طاقت ہی نہیں ہے، ناممکن ہے کہ وہ گناہوں سے بیچ سکے سوائے اس کے کہ تیری مغفرت اس کو حاصل ہو اس لئے یہ مرتبہ جو ہمیں عطا ہوا ہمیں پورا احساس ہے، ہم عارفانہ طور پر یہ بات جانتے ہیں کہ محض تیری غفاری کے نتیجہ میں تیری مغفرت کی عطا کے طور پر ہمیں یہ معصومیت عطا ہوئی کہ ہم سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا کہنے کے مقام پر کھڑا کئے گئے.پس مغفرت کے یہ دو معانی ہیں جو نہایت اعلیٰ اور ارفع ہیں اور آنحضرت ﷺ کے متعلق
خطبات طاہر جلد ۳ 124 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء جب بھی لفظ مغفرت استعمال ہوا ہے یا آپ نے استغفار کا لفظ اپنے لئے استعمال فرمایا علی الخصوص ان دومعنوں میں وہ استعمال ہوا ہے.یعنی گناہوں کی بخشش کے معنوں میں نہیں بلکہ گناہ نہ کرنے کے باوجود انکساری کی انتہا کے طور پر یہ عرض کرنے کے معنوں میں ہے کہ اے خدا ! ان سب باتوں کے با وجود انسان فِی ذَاتِه کسی چیز کا مستحق نہیں ہے، جب تک تیری مغفرت نصیب نہ ہو اس وقت تک کوئی انسان بخشش کا دعویٰ نہیں کر سکتا، نجات کا دعوی نہیں کر سکتا اور دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ تیری عطا کے سوا، تیری مغفرت کے سوا کوئی انسان معصوم بن ہی نہیں سکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان معانی کو بڑی وضاحت سے مختلف مواقع پر بیان فرماتے ہوئے مستشرقین اور دیگر معاندین اسلام کے ان اعتراضوں کو رد کیا جو یہ کہا کرتے تھے کہ دیکھو! تمہارا رسول تو کثرت سے استغفار کرتا تھا اور روایات سے پتہ چلتا ہے کہ دن میں سوسو بار آنحضوره استغفار فرمایا کرتے تھے.تو انہوں نے اپنی جہالت اور نادانی میں یہ اعتراض کئے کہ ثابت ہوا کہ بہت ہی گناہگار تھے.نعوذ باللہ من ذالک.استغفار کا تو مطلب ہے گناہ بخشا پس جس نے زیادہ گناہ کئے اس نے زیادہ استفغار کی ، اور اپنی نادانی میں انہوں نے یہ دعوی کیا اور حضرت عیسی علیہ الصلوۃ السلام پر یہ الزام لگایا کہ گویا وہ استغفار نہیں کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دوسرے معنے کو بڑی تفصیل سے بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ عفر کا اصل معنی ہے ڈھانپ لینا اور گناہوں سے دور کر دینا، انسان کے گناہوں اور اس کے درمیان پردہ حائل کر دینا یعنی انسان کے اندر سے گناہ کی خواہش کو تلف کر دینا اور گناہ کے مواقع سے اس کو دور رکھنا.پس آنحضرت جب خدا تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے تھے تو ان معنوں میں استغفار کرتے تھے کہ اے خدا! پہلے بھی مجھے جو کامل معصومیت عطا ہوئی وہ تیری مغفرت کے نتیجہ میں ہوئی ، تو نے میرے اور میرے گناہوں کے درمیان ہمیشہ فاصلہ رکھا یہاں تک کہ ایک موقع پر فرمایا کہ میرا شیطان مسلمان ہو گیا یعنی نفس امارہ میں برے اعمال کے احکام کی طاقت ہی باقی نہیں رہی.پس ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ آنحضور عملہ استغفار فرمایا کرتے تھے اور آئندہ کے لئے بھی کہ اے خدا! جیسا حسن سلوک تو نے مجھ سے سابقہ زندگی میں فرمایا ، آئندہ بھی ہمیشہ کے لئے مجھے گناہوں سے دور رکھنا اور میرے اور میرے گناہوں کے درمیان فاصلے ڈال دینا، روکیں کھڑی کر دینا.
خطبات طاہر جلد ۳ 125 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء صلى الله پس جب خدا تعالیٰ آنحضور علی کے متعلق فرماتا ہے لِيَغْفِرَ لَكَ اللهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَاَخَرَ (الفتح :) تو مراد یہی ہے کہ تجھے جس طرح پہلے ہر گناہ سے دور رکھا تھا اللہ تعالیٰ نے اسی طرح آئندہ بھی تجھے ہر گناہ سے دور رکھنے کا وعدہ کرتا ہے اور گناہ کے قریب بھی تو نہیں پھٹکے گا یا گناہ کو تو فیق نہیں ہوگی کہ تیرے قریب پھٹک سکے.پس ان معنوں میں جب ہم غور کرتے ہیں تو پھر ان احادیث کی سمجھ آتی ہے جن میں آنحضور ﷺ کثرت سے استغفار فرماتے ہیں.حضرت ابوھریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ خدا کی قسم میں دن بھر میں ستر (70) مرتبہ سے زائد دفعہ تو بہ اور استغفار کرتا ہوں.(سنن الترمذی کتاب الدعوات عن رسول الله علی باب في دعاء النبي ع ) حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ کئی بار ایسا ہوا ہے کہ ایک ہی مجلس میں ہم بیٹھے ہوئے تھے اور آنحضور ﷺ نے سو مرتبہ سے زائد دفعہ یہ دعا کی: رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَى إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفَوْرُ اے میرے رب ! میری مغفرت فرماؤ تُبْ عَلَی اور میری تو بہ کو قبول کرتا ہوا مجھ پر جھک اور مجھ پر رحم فرما، انک انت التواب الغفور تو بہت ہی تو بہ کو قبول کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے.(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب في الاستغفار ) یہاں ایک شبہ پڑتا ہے کہ اگر یہ تفصیل درست ہے تو پھر تو بہ کا کیا تعلق ہے.تو بہ تو عموماً یہی سمجھا جاتا ہے کہ ایسے گناہوں سے کی جاتی ہے جو انسان سے سرزد ہوں اور آئندہ سے ان سے باز رہنے کے لئے انسان اللہ تعالیٰ کی طرف جھکتا ہے اس کا نام تو بہ ہے.تو جیسا کہ میں آگے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اقتباس پیش کروں گا اس الجھن سے بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تاریکی کو دور فرمایا اور ہمارے لئے روشنی کا سامان پیدا کیا.چنانچہ ان معنوں میں کہ خدا تعالیٰ سے گناہوں سے دور رہنے کی دعا کی جائے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف انداز میں جماعت کو نصیحت فرمائی اور اس طرف توجہ دلائی کہ تو بہ کے ادنی معنوں سے بہت بڑھ کر تو بہ کے اعلیٰ معنی کی طرف توجہ کرو اور استغفار کے ادنی معنوں سے بہت بڑھ کر استغفار کے اعلیٰ معنوں کی طرف توجہ کرو.اگر تم چاہتے ہو کہ تمام دنیا کے تم مربی بن جاؤ اور تمام دنیا کے لئے راحت و
خطبات طاہر جلد۳ 126 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء اطمینان کا سامان کرو اور اس کو فلاح اور کامیابی کی خوش خبری دو تو ضروری ہے کہ اپنے لئے ہر معنی میں بہترین چیز کے طلب گار ہو جاؤ.پس اس طرف سے ہماری توجہ ہٹا کر کہ ہم گناہ کرتے چلے جائیں اور خدا تعالیٰ سے مغفرت ان معنوں میں مانگیں کہ ہم نے جو گناہ کیا ہے ان کو ڈھانپ دے،حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت ہی اعلیٰ رنگ میں ، نہایت ہی پیارے اور اثر انداز ہونے والے رنگ میں جماعت احمدیہ کو اس طرف متوجہ کیا کہ جس طرح آنحضور علہ استغفار کیا کرتے تھے انہی معنوں میں تم بھی استغفار کرو.چنانچہ حضور اس مسئلے پر روشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں جو لوگ خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہیں وہ باوجود نبی اور رسول ہونے 66 کے اقراررکھتے ہیں کہ جیسا کہ حق تبلیغ کا تھا ادا نہ کر سکے.“ اب یہاں تو بہ کے معنی سمجھ آگئے کہ تو بہ کن معنوں میں آنحضور ﷺ فرماتے ہیں اور کن معنوں میں اس تو بہ اور استغفار کا تعلق ہے.اپنی ساری کوششیں خدا کی راہ میں صرف کرنے کے باوجود، اپنے دن رات کے آرام کو اللہ کی رضا کی خاطر قربان کرنے کے باوجود، دو وجوہات سے آنحضرت عم تو بہ کی طرف مائل ہوتے تھے.اوّل یہ کہ آپ جانتے تھے کہ جتنی میری تمنا ہے، جتنی میری خواہش ہے اس تمنا کے مطابق میں خدا کی راہ میں قربانی نہیں کر سکا یعنی اتنی غیر معمولی بڑھی ہوئی تمنا تھی اللہ تعالیٰ کے حضور میں قربانیاں دینے کی کہ تمام بنی نوع انسان سے سبقت لے جانے کے باوجود، تمام نبیوں کے سردار کہلانے کے باجود، با وجود اس کے کہ بار بار اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی رضا کی خبریں دی اور مسلسل آپ سے محبت اور پیار کی باتیں کرتا رہا، پھر بھی جو تمنا آپ کی تھی کہ میں سب کچھ خدا کی راہ میں جھونک دوں آپ کو یہ احساس رہتا تھا کہ شاید وہ پورانہیں ہوسکا.ان معنوں میں تو بہ ہے.کہاں گناہگاروں کی تو بہ کہاں ایک عارف باللہ اور معصوم کی تو بہ ! ان دونوں کے اندرزمین و آسمان کا فرق ہے.ان کے گناہوں کے معیار بدل جاتے ہیں یعنی ان کے تصورات میں جو چیز گناہ کہلاتی ہے وہ بالکل اور چیز ہے اس تصور گناہ سے جو ایک عام انسان کا تصور ہے اور اس میں بھی درجہ بدرجہ بہت فرق پڑتے چلے جاتے ہیں.پس آنحضور ﷺ کی اس حالت کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں اور اسی کو وہ گناہ عظیم خیال کرتے ہیں یعنی اپنی ساری طاقتیں صرف کرنے کے باوجود وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ہم نے حق ادا نہیں کیا اور دوسرا اس وجہ سے ان کو یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 127 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء خیال پیدا ہوتا ہے کہ بشری لوازمات ساتھ لگے رہتے ہیں آخر تھک کر ان کو سونا بھی پڑتا ہے، آخر آرام کے دیگر ذرائع بھی اختیار کرنے پڑتے ہیں اور وہ حالتیں ان کے نزدیک گناہ بن جاتی ہیں یعنی گناہگار کا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ وہ عیاشی میں حد بھی کر دے اور ہر قسم کے آرام اس کو مہیا ہوں تب بھی اس کی یہ تڑپ رہتی ہے کہ ابھی کچھ باقی ہونا چاہئے تھا ابھی پورا نہیں ہوسکا.جیسا کہ غالب نے کہا ہے ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد یارب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے (دیوان غالب صفحه : ۳۴۶) کہ میری تمنا تو پوری نہیں ہوئی مجھے تو اور بہت کچھ گناہ کرنے کی حسرتیں باقی تھیں اس لئے جو میں کر سکا ہوں اگر ان پر سزا دینی ہے تو نا کردہ گناہوں کی بھی حسرت کی کچھ داد ہو جائے.پھر کہتا ہے: دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک میراسر دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا (دیوان غالب صفحه: ۸۳) تو اصطلاحیں بدل جاتی ہیں ہر شخص کی حالت کے مطابق، وہی اصطلاح مختلف معانی اختیار کر جاتی ہے.تو ایک گناہگار جو دن رات گناہوں میں ڈوبا ہوا ہے اس کی حسرتیں پوری نہیں ہو رہی ہوتیں اور جب وہ گناہ کی بات کرتا ہے تو مراد یہ ہے کہ جتنے میں کر سکا ہوں اس سے بہت زیادہ کرنے کی تمنا تھی اور ایک نبی اور پھر نبیوں میں سے سب سے بڑا، نبیوں کا شہزادہ، نبیوں کا سردار ، نبیوں میں سب سے اقرب وافضل حضرت اقدس محمد مصطفی امی ہے جب گناہ کی بات کرتے ہیں تو اس کا مضمون ہی بالکل مختلف ہے.وہ تھوڑا سا آرام جو آپ کو میسر آتا تھا وہ آپ کے نزدیک گناہ تھا کہ کاش! مجھ میں طاقت ہوتی کہ میں اس آرام کو بھی ترک کر کے خدا کے لئے کچھ اور کام کر لیتا.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور اسی کو وہ گناہ عظیم خیال کرتے ہیں اور اسی خیال سے وہ نعرے مارتے اور روتے اور درد سے بھر جاتے ہیں اور دائم استغفار میں رہتے ہیں مگر خشک مولوی جن کے دامن میں بجز ہڈیوں کے کچھ نہیں وہ اس روحانیت کو کیا
خطبات طاہر جلد ۳ 128 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء جانتے ہیں؟ بے گناہ ہونے کے اطمینان کسی نبی نے بھی ظاہر نہیں کئے.جو دنیا میں افضل الرسل اور خاتم الرسل گزرا ہے اس کے منہ سے بھی یہی نکلا ربنا “ اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَبَاعِدُ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ خَطينَا ، اے ہمارے رب ، ہماری بخشش فرما اور ذنوب معاف فرمادے یعنی وہ نیکیوں کی حسرتیں جو ہم پوری نہیں کر سکے ان حسرتوں پر ہماری پکڑ نہ فرما.ہم اعتراف کرتے ہیں کہ جتنی نیکی ہمیں کرنی چاہئے تھی وہ نہیں کر سکے یہ ہمارا گناہ ہے جو ہمیں غم کی طرح کھائے جارہا ہے تو ہمیں بخش دے.اور جہاں تک آئندہ کا تعلق ہے بَاعِدْ بَيْنَنَا وَ بَيْنَ خَطینَا ہمیشہ ہمارے درمیان اور ہماری خطایا کے درمیان فاصلے پیدا کرتا چلا جا، بڑھاتا چلا جافا صلے.پس یہ دونوں مضامین جو مغفرت کے انتہائی اعلی معنی ہیں یہ اس آیت کریمہ میں بیان ہوئے آنحضرت ﷺ کے متعلق جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: فرماتے ہیں: اور آنحضرت عل ہمیشہ فرماتے تھے کہ سورہ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا اور آپ سب سے زیادہ استغفار پڑھا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں دن میں ستر مرتبہ استغفار کرتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے آپ کے حق میں فرمایا: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبَّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ * إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًان (النصر) اس سورۃ کی ایک بالکل نئی اور اچھوتی تفسیر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام یہ سورۃ آنحضرت ﷺ کے قرب زمانہ وفات میں نازل ہوئی تھی اور اس میں اللہ تعالیٰ زور دے کر اپنی نصرت اور تائید اور تکمیل مقاصد دین کی خبر دیتا ہے کہ اب تو اے نبی "خدا کی تسبیح اور تجید کر اور خدا سے مغفرت چاہ.وہ
خطبات طاہر جلد ۳ 129 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء تو اب ہے.اس موقع پر مغفرت کا ذکر کرنا اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب کام تبلیغ کا ختم ہو گیا.خدا سے دعا کر کہ اگر خدمت تبلیغ کے دقائق میں کوئی فروگذاشت ہوئی ہو تو خدا اس کو بخش دے.موسیٰ بھی تو ریت میں اپنے قصوروں کو یاد کر کے روتا ہے اور جس کو عیسائیوں نے خدا بنارکھا ہے کسی نے اس کو کہا کہ اے نیک استاد! تو اس نے جواب دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے؟ نیک کوئی نہیں مگر خدا.یہی تمام اولیاء کا شعار رہا ہے.سب نے استغفار کو اپنا شعار قرار دیا ہے بجز شیطان کے“.براهین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۲۷۱،۲۷۰) پھر مزید فرماتے ہیں چنانچہ ہمارے نبی کریم ﷺ کی تمام استغفار اسی بنا پر ہے کہ آپ بہت ہی ڈرتے تھے کہ جو خدمت مجھے سپرد کی گئی ہے یعنی تبلیغ کی خدمت اور خدا کی راہ میں جانفشانی کی خدمت اس کو جیسا کہ اس کا حق تھا میں ادا نہیں کر سکا اور اس خدمت کو آنحضرت علی کے برابر کس نے ادا کیا؟ کسی نے ادا نہیں کیا مگر خوف ،عظمت اور ہیبت الہی آپ کے دل میں حد سے زیادہ تھا اور اسی لئے دوام استغفار آپ کا شغل تھا.اب دیکھئے دعوت الی اللہ کا کتنا بڑا کام اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو سونپا اور وہی کام آج ہماری طرف منتقل کیا گیا ہے وہ سارا بوجھ آج ہمارے کمزور کندھوں پر ہے.پس ان معنوں میں جن معنوں میں آنحضرت عل استغفار فرمایا کرتے تھے کتنی بڑی ذمہ داری ہمارے کندھوں پر عائد ہوتی صلى الله ہے کہ ہم ان معنوں میں استغفار کریں، کثرت کے ساتھ دعوت الی اللہ کا حق ادا کرتے چلے جائیں اور پھر ہرگز تکبر کو پاس نہ پھٹکنے دیں ، یہ وہم و گمان بھی نہ کریں کہ ہم نے کمال کر دیا ہے.نہایت عاجزی سے روتے ہوئے اپنے رب سے یہ عرض کریں کہ اے خدا! تیرا سب سے کامل نبی جس سے بہتر حقوق کی ادائیگی کسی نے نہیں کی تھی، جس سے بڑا امین کوئی دنیا میں پیدا نہ ہوا، نہ ہوسکتا ہے نہ ہوگا، جس نے تیری ہر امانت کا حق پورا پورا ادا کیا ، اگر اس کے باوجود اس کے دل کی یہ کیفیت تھی کہ وہ
خطبات طاہر جلد ۳ 130 خطبه جمعه ۲ / مارچ ۱۹۸۴ء دعوت الی اللہ کے کام میں حد کر دینے کے بعد بھی یہی سمجھتارہا اور اس غم میں روتا رہا کہ اے خدا! میں اس حق کو پوری طرح ادا نہیں کر سکا ، تو ہم عاجزوں اور کمزورں کا کیا حال ہوگا.پس تو ہم سے بھی مغفرت کا سلوک فرما اور ہماری کمزوریوں سے درگزر فرما، ہماری تو بہ کو قبول کر اور ہمیں دعوت الی اللہ کی اس رنگ میں توفیق عطا فرما کہ جس سے تو راضی ہو جائے اور تیرے راضی ہونے کے باوجود ہماری تمناؤں کو بڑھاتا چلا جا اور اتنابڑھا کہ ہم اور رضا کے طالب ہوتے چلے جائیں، پھر اور رضا کے طالب ہوتے چلے جائیں پھر اور رضا کے طالب ہوتے چلے جائیں اور آخر تک یہی سمجھتے رہیں اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ یہ سمجھتے رہیں کہ ہم نے تو حق ادا نہ کیا ، تو محض اپنی مغفرت کی وجہ سے ہم پر راضی رہا اور راضی ہوتا چلا گیا.اے خدا!! ہمیں توفیق عطا فرما کہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفی علی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جان دیں، آخری سانس ہمارا اس حالت میں نکلے کہ ہم تجھ سے مغفرت کے طالب ہوں اور تو ہمیں مغفرت کی خوشخبری دے رہا ہو.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 131 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء اللہ تعالیٰ کی صفت غفار اور استغفار کی حقیقت (خطبه جمعه فرموده ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِايْتِنَا فَقُلْ سَلِّمُ عَلَيْكُمُ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (الانعام: ۵۵) وَأَخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ وَاللهُ عَلِيمٌ حَكِيمُ (التوبة :١٠٦) وَأَخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطَوْا عَمَلًا صَالِحًا قَ اخَرَسَيْئًا عَسَى اللَّهُ أَنْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ (التوبة :١٠٣ ) اور پھر فرمایا: یہ تینوں آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی صفت غفوریت سے
خطبات طاہر جلد ۳ 132 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء ہے، غفاری سے اور اس کی مغفرت سے ، اور پہلی آیت جو سورۃ الانعام سے لی گئی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے کہ جب تیرے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو تو انہیں کہ تم پر ہمیشہ سلامتی ہو تمہارے رب نے اپنے آپ پر رحمت کو فرض کر لیا ہے اس طرح کہ تم میں سے جو کوئی غفلت میں کوئی بدی کر بیٹھے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرلے اور اصلاح کرے تو اس خدا کی صفت یہ ہے کہ وہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.دوسری آیت کا ترجمہ یہ ہے جو سورۃ توبہ سے لی گئی تھی کچھ اور لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کے حکم کے انتظار میں چھوڑے گئے ہیں اس کو یعنی خدا تعالیٰ کو اختیار ہے کہ خواہ ان کو عذاب دے یا ان کی تو بہ قبول فرمائے اور اللہ بہت جاننے والا اور حکمت والا ہے.پھر دوسری آیت سورہ توبہ کی یہ بیان کرتی ہے کہ کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے گنا ہوں کا اقرار کیا انہوں نے نیک عملوں کو کچھ اور عملوں سے جو برے تھے ملا دیا یعنی بدیاں بھی کیں اور نیکیاں بھی کیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر فضل فرما دے یعنی جسے ہم محاورۃ یہ کہہ سکتے ہیں کہ بعید نہیں کہ خدا تعالیٰ ان پر بھی فضل فرمادے، اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے خدا تعالیٰ کی صفت غفاری سے متعلق یہ بیان کیا تھا کہ اس کا ایک معنی جو نہایت اعلیٰ درجہ کا اور بہت ہی بلند پایہ معنی ہے اس کا اطلاق سب سے بڑھ کر حضرت اقدس صلى الله محمد مصطفی ﷺ پر ہوتا ہے اور اسی طرح آپ کی ذیل میں دیگر انبیاء پر.وہاں استغفار کا معنی یہ بنتا ہے کہ اے خدا ! ہمیں گنا ہوں سے دور رکھ ، ہمیں اپنی محبت میں ڈھانپ لے یہاں تک کہ گناہوں کو یہ توفیق نہ ملے کہ ہم تک پہنچ سکیں.ادنیٰ ہوں یا بڑے ہر قسم کے گناہوں سے ہمیں دور رکھیو ہمارے درمیان فاصلے کر ڈال.یہ معنی ہیں جن معنوں میں انبیاء استغفار کرتے ہیں اور ان معنوں میں سب سے زیادہ اعلیٰ اور ارفع طور پر یہ صفت آنحضور ﷺ کی ذات اقدس سے تعلق رکھتی ہے لیکن اس کے اور بھی بہت سے معانی ہیں اور ان معانی میں گناہگار بندوں کا بھی ذکر چلتا ہے.تھوڑے گناہگار بندوں کا بھی ذکر چلتا ہے اور زیادہ گناہگار بندوں کا بھی.ایسے بھی جنہوں نے کچھ نیک اعمال کئے اور کچھ بد اعمال کئے اور ان کی زندگی نیک و بد کے درمیان لٹکتی رہی.ایسے بندے بھی جن کے بد اعمال زیادہ غالب آگئے لیکن ان کے متعلق بھی ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا گیا، وہ چاہے تو انہیں بخش
خطبات طاہر جلد ۳ 133 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء دے چاہے تو نہ بخشے.ان دو لحاظ سے جب ہم خدا کی صفت غفاری پر غور کرتے ہیں تو اس کی ایک حدر بوبیت سے ملی ہوئی نظر آتی ہے اور دوسری حد مالکیت سے ملی ہوئی نظر آتی ہے.ربوبیت کے لحاظ سے استغفار کے وہ معنے ہوں گے جو اول طور پر مذکور ہوئے ، اگر چہ دوسرے معنے میں بھی ربوبیت جلوہ گر ضرور ملتی ہے لیکن اس کا زیادہ تر تعلق صفت مالکیت سے ہے.خدا تعالیٰ اپنے بندوں کی تربیت اس طرح بھی کرتا ہے کہ وہ خدا کے حضور ہمیشہ یہ استدعا کرتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنی ذات میں گناہ سے بچنے کی طاقت نہیں ہے، ہمیں کوئی زعم نہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ ہم اپنے اعمال یا قوت ارادی کے زور سے گناہ سے بچ کر پاک لوگوں میں شمار کئے جاسکتے ہیں اس لئے تو ہم پر رحم فرما اور ہمیں گنا ہوں سے دور رکھ اس طرح کہ گناہوں اور ہمارے درمیان تیری محبت حائل ہو جائے.ہم تیری محبت میں مستغرق ہو جائیں اور اس وجہ سے ہم گناہوں سے بچائے جائیں.تور بوبیت کا یہ معنی بڑی قوت اور شان کے ساتھ صفت غفاریت سے تعلق رکھتا ہے.اس کے ذریعہ انسان ہمیشہ ادنیٰ سے اعلیٰ حالتوں کی طرف ترقی کرتا چلا جاتا ہے اور اس ترقی کی راہ میں جو خدشات ہیں استغفار کے ذریعے ان خدشات سے بچتا ہے.ان ٹھوکروں سے بچتا ہے جن کے نتیجہ میں بسا اوقات ایک ترقی یافتہ انسان بھی تحت الثریٰ میں جا گرتا ہے.چنانچہ قرآن کریم اس ضمن میں بلعم باعور کی مثال دیتا ہے.وہ نام تو بلعم باعور نہیں لیتا لیکن ایک کتے کی مثال دے کر اس کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس میں ایسی صفات تھیں اور ایسے اعمال کی طاقت تھی کہ جس کے نتیجہ میں اس کا رفع ہو سکتا تھا لیکن اس نے استکبار سے کام لیا اور دنیا کی طرف جھک گیا یعنی دنیاوی ذرائع پر اس نے بنا کی اور دنیا کی طرف اس کا میلان بڑھ گیا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ استغفار سے محروم رہا اور اللہ تعالیٰ سے نیکی طلب کرنے کی بجائے اس نے اپنی انانیت پر زور دیا.یہ مفہوم ہے اس ذکر کا جو بلعم باعور کا ملتا ہے (الاعراف: ۷۷ ).چنانچہ خدا تعالیٰ نے پھر اسے دنیا کی طرف جھکنے دیا اور اس کا رفع نہ فرمایا.اس کے متعلق روایات آتی ہیں کہ ایک وقت میں اپنی زندگی میں یہ بڑے اولیاء کے مقام تک پہنچ گیا تھا اور اس کے اندر غیر معمولی صفات پائی جاتی تھیں ترقی کی لیکن چونکہ اس نے استکبار سے کام لیا اور یہ زعم اس کے دماغ میں پیدا ہو گیا کہ گویا میں اپنے زور سے نیکی کر رہا ہوں اس لئے بڑے بلند مقام سے وہ گرایا گیا ہے اور بہت بلند چوٹی سے
خطبات طاہر جلد ۳ 134 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء جو گرتا ہے اتناہی زیادہ اس کو نقصان پہنچتا ہے.تو استغفار میں ربوبیت کے تمام پہلو شامل ہیں ، آغا ز بھی اور انجام بھی اور استغفار انجام تک انسان کی ربوبیت کرتا چلا جاتا ہے اور ٹھوکروں سے اور لغزشوں سے اس کی حفاظت کرتا ہے.ان معنوں میں آنحضور ﷺ نے سب سے زیادہ استغفار فرمایا، اور کسی انسان کو یہ توفیق نہیں ملی کہ وہ اس حد تک استغفار کرے.جو اس طرح استغفار کرتے ہیں ان کا رخ صرف خدا کی جانب نہیں ہوتا بلکہ بالکل اسی طریق پر وہ خدا کے بندوں کی ربوبیت کرتے ہیں اور ان معنوں میں وہ مزکی ہو جاتے ہیں.جتنا زیادہ استغفار کرنے والا ہوگا اتنا زیادہ اس کے اندر تزکیہ کا رحجان پایا جائے گا.اتنا زیادہ وہ بنی نوع انسان کو پاک کرنے کی بے پناہ خواہش اپنے اندر رکھتا ہوگا.چنانچہ آنحضور ﷺ ایک پہلو سے مستغفر تھے یعنی خدا تعالیٰ سے بکثرت استغفار کر کے بلند مراتب حاصل کرنے والے ترقی کرنے والے ، ربوبیت کی وہ انتہائی منازل طے کرنے والے جو انسان کے مقدر میں ہیں اور دوسری طرف بندوں کے لئے مزکی بن گئے.بندوں کے لئے رب نہیں تھے کیونکہ ربوبیت ایک ایسی صفت ہے جو خدا تعالیٰ کے لئے استعمال ہوتی ہے بندوں کے لئے استعمال نہیں ہوتی لیکن جب روحانی طور پر ایک انسان اپنے رب کی صفات اختیار کرتا ہے تو وہ بندوں کے لئے مزکی بن جاتا ہے، وہ ان کو پاک کرنے لگتا ہے اور ان دونوں چیزوں کا ایک دوسرے سے گہرا تعلق ہے.وہ لوگ جو استغفار تو کرتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کے بندوں کی اصلاح احوال کی فکر نہیں کرتے اسی قدر ان کی استغفار اپنے ماحصل سے، اپنے مطلوب سے محروم رہ جاتی ہے.یہ نہیں ہو سکتا کہ انسان اللہ تعالیٰ سے تو یہ چاہے کہ تو مجھے گنا ہوں سے دور رکھ اور اپنی محبت میں ڈھانپ لے اور اس کے بندوں میں فحشاء کو دیکھنا پسند کرے اور ان سے محبت اور پیار کا سلوک نہ کرے ان کو اپنے ساتھ جوڑ کر ان کی اصلاح کی کوشش نہ کرے.ان معنوں پر جب ہم نگاہ ڈالتے ہیں تو تربیت کا ایک بہت ہی اعلیٰ نکتہ ہمارے ہاتھ آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بندوں کی اگر آپ اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو جس طرح خدا تعالیٰ کی محبت حائل ہوتی ہے گناہ کے درمیان اور ایک انسان کے درمیان اسی طرح انسان کی محبت حائل ہو جاتی ہے ایک بد کے درمیان اور اسکی بدیوں کے درمیان اور جب تک محبت نہ ہو اصلاح کامل نہیں ہوسکتی اس لئے جو تربیت کا دعویٰ کرتا ہے جو مز کی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اس کے اخلاق نرم
خطبات طاہر جلد ۳ 135 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء ہوں ، اس کے اندر رحمت کا جذبہ پایا جاتا ہو.وہ اپنے ساتھ جوڑ لے انسان کو اور اس جوڑنے کے نتیجہ میں اس کا تزکیہ ہو.چنانچہ آنحضور یہ دونوں پہلوؤں سے سب بنی نوع انسان سے زیادہ کامل نظر آتے ہیں.اتنا گہرا محبت کا تعلق آپ نے اپنی ذات کے ساتھ پیدا کر دیا کہ بہت بڑا مقام اس محبت کا تھا ان جاہل عربوں کی اصلاح میں جن کی چند سالوں میں کایا پلٹ دی گئی.اگر آنحضور ﷺ کی غیر معمولی محبت ان کے دل میں نہ پیدا ہوئی ہوتی تو ان کو طاقت نہیں تھی گناہوں سے بچنے کیلئے ان میں استطاعت نہیں تھی کہ وہ اپنی بدیوں اور سینکڑوں سال سے خون میں ملی جلی بدیوں سے دور رہ سکیں.پس آج بھی یہی نسخہ کارگر ہو گا.وہ جو تربیت کا دعویٰ کرتے ہیں اور جو استغفار کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کا استغفار مقبول ہو ان کو بالکل یہی سلوک جو وہ خدا سے چاہتے ہیں اللہ کے بندوں سے کرنا پڑے گا اور پیار اور محبت کے دائرہ کو وسیع کرنا پڑے گا اور محبت کی قوت میں شدت پیدا کرنی پڑے گی یہاں تک کہ مجبور ہو جائیں لوگ اپنے تزکیہ کے لئے آپ کی محبت کی بنا پر.نفرت اور تزکیہ میں ایک ایسا بعد ہے جیسے مشرق اور مغرب کا بعد ہے.اور وہ لوگ جو نفرت کے ذریعہ اصلاح کرنا چاہتے ہیں لازماً جھوٹے ہیں کیونکہ قرآن کریم جگہ جگہ ان کی تردید فرما رہا ہے اور انسانی فطرت اس خیال کو دھکے دے رہی ہے.استغفار کے مضمون پر ہی اگر آپ غور کریں تو آپ کو یہ حکمت سمجھ آئے گی کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا دعویٰ اور نفرت کا ہتھیار لے کر نکلنا یہ دونوں باتیں اکھٹی نہیں چل سکتیں آنحضور ﷺ کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے: لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ ( آل عمران: ۱۶۰) کہ اے محمد ! ( ﷺ ) تو جو تمام خوبیوں کا مجمع ہے تیری ذات میں اکھٹی ہیں بے انتہاء خوبیاں اگر صرف ایک خوبی سے بھی عاری ہوتا ہے یعنی فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ ہو جاتا، تیرے دل میں سختی پیدا ہو جاتی ، تو ترش رو ہو جاتا لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ یہ سارے بندے جو آج عاشقوں کی طرح تیرے گردا کھٹے ہوئے ہیں اور پروانہ وار تیری محبت میں جلنا چاہتے ہیں یہ سب تجھے چھوڑ کر بھاگ جاتے ، تو کتنا عظیم الشان نکتہ ہے.اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات طاہر جلد ۳ 136 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء استغفار کی یہی تعریف فرمائی ہے کہ استغفار خدا تعالیٰ کی محبت میں چھپنے کا نام ہے.کتنی عارفانہ تفسیر ہے جو اس سے پہلے آپ کو کبھی کسی مفسر کے قلم سے نکلتی ہوئی دکھائی نہیں دے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” اور استغفار جس کے ساتھ ایمان کی جڑیں مضبوط ہوتی ہیں قرآن شریف میں دو معنی پر آیا ہے.ایک تو یہ کہ اپنے دل کو خدا کی محبت میں محکم کر کے گناہوں کے ظہور کو جو علیحدگی کی حالت میں جوش مارتے ہیں کتنا گہرا فلسفہ گناہ کا بیان فرما دیا استفغار کی تعریف میں کہ گناہ خدا سے دوری کے نتیجے میں جوش مارتے ہیں اور اس کی محبت کے نتیجے میں خود بخود پگھلنے لگتے ہیں.فرمایا: ” خدا تعالیٰ کے تعلق کے ساتھ روکنا اور خدا میں پیوست ہو کر اس سے مدد چاہنا.یہ استغفار تو مقربوں کا ہے“ یعنی انبیاء اور بڑے بڑے اولیاء اور ان بزرگوں کا جو مقربین کی صف میں شمار ہوتے ہیں.جو ایک طرفۃ العین خدا سے علیحدہ ہونا اپنی تباہی کا موجب جانتے ہیں ایک لمحہ کے لئے بھی وہ خدا سے دور ہونا پسند نہیں کرتے اور خدا کے ساتھ رہتے ہیں.یہ استغفار تو مقربوں کا ہے.اس لئے استغفار کرتے ہیں تا خدا اپنی محبت میں تھامے رکھے یعنی گنا ہوں سے بخشش کا کوئی تصور یہاں اس میں نہیں آتا گناہوں سے بچنے کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اور خالصہ محبت الہی کے نتیجہ میں گنا ہوں سے بچنے کے لیے جو تمنا دل میں پیدا ہوتی ہے اسے استغفار کہا جاتا ہے.اور دوسری قسم استغفار کی یہ ہے کہ گناہ سے نکل کر خدا کی طرف بھا گنا اور کوشش کرنا کہ جیسے درخت زمین میں لگ جاتا ہے ایسا ہی دل خدا کی محبت کا اسیر ہو جائے.سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب، روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ نمبر ۳۴۶، ۳۴۷)
خطبات طاہر جلد ۳ 137 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گناہوں کی بخشش کے معنوں میں بھی جب استغفار کی تفسیر فرماتے ہیں تو یہ معنے نہیں لیتے کہ منہ سے کہہ دینا کہ اے خدا میرے گناہ بخش دے تو اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ گناہ بخش دیتا ہے بلکہ یہ معنے لیتے ہیں کہ اگر دل میں یہ پاک تمنا ساتھ پیدا ہو کہ خدا مجھے گناہوں سے دور کر دے اور پھر استغفار کرے تو پھر اس کی صفت مالکیت ظاہر ہوتی ہے.پھر ناپ تول نہیں کئے جاتے ، پھر یہ نہیں دیکھا جاتا کہ گناہ زیادہ تھے یا نیکیاں زیادہ ہیں.احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ بعض دفعہ ایک لمحہ کے لئے اللہ کی محبت جب دل پر جلوہ گر ہوتی ہے یا خدا کی خاطر بنی نوع انسان کی محبت دل میں جلوہ گر ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ تمام بدیوں کے حساب کو کالعدم کر دیتا ہے اور یہاں اس کی صفت مالکیت استغفار کی قبولیت کے رنگ میں ظاہر ہوتی ہے.ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کی صفت غفاری کا مالکیت سے ایک گہرا تعلق ہے.چنانچہ اس مضمون میں بہت سی احادیث ملتی ہیں جن میں سے بعض کو میں نے آج کے خطبہ کے لئے موضوع بنایا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی عمل اللہ فرماتے ہیں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک حدیث قدسی ہے یعنی آنحضور ﷺ نے اس بات کو خدا کی طرف منسوب کر کے بیان فرمایا کہ اللہ نے مجھے خبر دی ہے.حدیث قدسی کے الفاظ ہیں اے میرے بندو! ( یعنی خدا کہہ رہا ہے ) تم سب راہ گم کر دہ ہوسوائے اس کے جس کو میں راہ دکھاؤں پس مجھ سے ہدایت طلب کرو میں تمہیں ہدایت دوں گا.تم سب نادار اور محتاج ہو سوائے اس کے جس کو میں بے نیاز کروں پس مجھ سے اپنا رزق مانگو اور تم سب گناہگار ہو سوائے اس کے جس کو میں بچاؤں پس تم میں سے وہ جو یقین رکھتا کہ میں گناہ بخشنے کی قدرت رکھتا ہوں وہ مجھ سے بخشش طلب کرے میں اسے بخش دوں گا اور بخشش میں بالکل نہیں ہچکچاؤں گا.اگر تمہارے اولین اور آخرین تمہارے زندے اور تمہارے مردے، تمہارے تروتازہ اور تمہارے بیمار اور خشک، سب تقومی شعار دل رکھنے والے ہوں تو ان سب کا بہترین متقی ہونا میری سلطنت اور ملکیت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہیں کر سکتا.اور اگر تمہارے اولین اور آخرین اور تمہارے زندے اور تمہارے مردے، تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے بدتر اور شقی القلب ہو جائیں تو ان کی یہ برائی میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہیں کرسکتی.اور اگر تمہارے اولین اور آخرین زندے اور مردے، جوان اور بوڑھے ایک میدان میں اکھٹے ہو جا ئیں
خطبات طاہر جلد ۳ 138 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء اور پھر تم سے ہر ایک اپنی سب مرادیں مانگنے لگے اور میں ہر ایک کو اس کا مطالبہ پورا کر دوں تو میری یہ عطا میرے ملک کے خزانوں میں اتنا بھی کمی نہیں کرے گی جتنا ایک سوئی جسے سمندر میں ڈبویا جائے اور باہر نکالا جائے تو اس کے ناکے پر کچھ تھوڑا سا پانی لگا رہ جائے.پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا میں جواد ہوں، میں ماجد ہوں ، جو چاہوں کرتا ہوں، مری عطا بھی کلام ہے، میرا عذاب بھی کلام ہے“.(سنن ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذکر التوبه ) اس حدیث میں خدا تعالیٰ کی صفت مالکیت کے ساتھ اس کی مغفرت کو جوڑا گیا ہے اور وہ گناہگار بندے جو حد سے زیادہ گناہوں میں ڈوب چکے ہوں ان کو بھی مایوسی سے نکال دیا گیا ہے اور یہ اعلان ہے کہ جہاں تک خدا تعالیٰ کی ملکیت کا تعلق ہے اس کی بخشش کی راہ میں کوئی بھی روک نہیں لیکن مالک ہے جسے چاہے گا بخشے گا جسے چاہے گا نہیں بخشے گا اور اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے جو شرائط واضح فرمائی ہیں ان کا ان آیات میں ذکر گزر چکا ہے جو میں نے پہلے پڑھ کر آپ کو سنائیں.ان آیات سے تعلق رکھنے والی جو مختلف شرائط ہیں یا ایسے مواقع جن پہ خدا تعالیٰ کی مغفرت خاص جوش مارتی ہے ان کا بیان آنحضور ﷺ نے مختلف حکایات کے رنگ میں اور مختلف فرمودات میں فرمایا ہے.ایک حدیث جو حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے اس میں وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندے کے بارہ میں یہ حکم دیا کہ اسے دوزخ میں لے جاؤ، جب وہ دوزخ کے کنارے پر جا کھڑا ہوا تو مڑ کر کہا اے میرے اللہ ! میرا گمان تو تیرے بارہ میں بہت اچھا تھا یعنی میں تو آپ سے حسن ظن رکھتا تھا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا اسے واپس لے جاؤ کیونکہ میں اپنے بندہ کے گمان کے مطابق ہی اس سے سلوک کرتا ہوں“.( الترغيب والترهيب باب في الرجاء ، شعب الایمان باب فی الرجاء من اللہ تعالیٰ ) تو سب سے بنیادی بات اللہ تعالیٰ کے متعلق اپنے ظن کو درست کرنا ہے اور یہ خیال کہ طن درست ہو جائے گا ایک کلمہ سے، یہ غلط ہے جو اللہ تعالیٰ کے متعلق ظن درست رکھتا ہے وہ جب ابتلاؤں میں ڈالا جاتا ہے تو ٹھو کر کھانے کے باوجود بھی خدا تعالیٰ کے متعلق اپنا تصور درست رکھتا ہے.اگر اس کی دعا خدا قبول نہیں بھی کرتا تو راضی برضا رہتا ہے.اگر کسی ابتلا سے اللہ تعالیٰ اس کو بظاہر نہیں نکالتا تو
خطبات طاہر جلد ۳ 139 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء اس وقت اس کے دل میں بغاوت کے خیالات پیدا نہیں ہوتے اور گناہوں میں جب وہ ملوث ہوجاتا ہے اور بے اختیار پاتا ہے اپنے آپ کو تب بھی یقین کامل اسکے دل میں رہتا ہے اور کبھی یہ متزلزل نہیں ہوتا کہ اگر اللہ چاہے تو مجھے بخش سکتا ہے اور اسی قسم کا سلوک وہ خدا کی مخلوق سے بھی کرتا ہے.یہ وہ فطن ہے جس کے متعلق ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس ظن کی اتنی قدر فرمائے گا کہ ایسا شخص جس کے متعلق جہنم کا فیصلہ ہو چکا ہو، یہ تقدیر جاری ہوگئی ہو کہ یہ جہنم میں جائے گا کیونکہ آخری تجزیہ میں اس کے بد اعمال کا پلڑا بہت زیادہ بھاری رہا تب بھی یہ حسن ظن انسان کو آخری ہلاکت سے بچا سکتا ہے.تو استغفار کرنے والوں کے لئے اس میں بہت ہی عظیم الشان حکمت کا پیغام ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنے ظن کو کبھی میلا نہ ہونے دیں، ہمیشہ خدا تعالیٰ سے حسن ظن کا معاملہ کریں اور جو اللہ تعالیٰ سے حسن ظن رکھتا ہے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ بنی نوع انسان سے حسن ظن نہ رکھے.یہ ایک اور پہلو ہے جس کو خود آنحضور ﷺ نے ظاہر فرمایا مختلف رنگ میں کہ جو شخص بندوں سے یہ سلوک نہیں کرتا وہ خدا سے بھی یہ سلوک نہیں کرتا جو بندوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ خدا کا بھی شکر ادا نہیں کرتا، جو بندوں پر رحم نہیں کرتا وہ خدا کے رحم کا طالب نہیں ہوسکتا تو حضور اکرم ﷺ نے اس مضمون کو اتنا کھول دیا ہے کہ اس کے بعد یہ خیال یا یہ وہم کہ حسن ظن کا صرف ایک راستہ ہو گا اور وہی انسان کو بچائے گا یہ غلط ہے.خدا تعالیٰ پر حسن ظن رکھنے والا خدا کے بندوں پر بھی حسن ظن رکھتا ہے، اور وہی حسن ظن قبول ہوگا یا اسی کا حسن ظن قبول ہوگا جو اپنے اللہ پر بھی حسن ظن رکھتا ہے اور اس کے بندوں پر بھی حسن ظن رکھتا ہے ان کے ساتھ بھی حسن ظنی والے معاملات کرتا ہے بدظنی والے معاملات نہیں کرتا.ایسے شخص کے لئے خوشخبری ہے کہ اگر اس کی کمزوریاں غالب آجائیں اور وہ گناہ سے نہ بچ سکا ہو اور اس کے گناہوں کا پلڑا نمایاں طور پر حاوی بھی ہو گیا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اس حسن ظن کے نتیجہ میں اسے معاف فرما دے گا.الله اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کے خوف کا استغفار سے بڑا گہرا تعلق ہے یعنی بعض اوقات انسان حیران ہوتا ہے کہ ایک انسان جو اتنی لمبی بدیاں کر چکا تھا اسے بخشا کیوں گیا اور اس قسم کی احادیث پڑھ کر یہ ذہن میں خیال پیدا ہوتا ہے کہ پھر کوئی فرق نہیں پڑتا بدیاں کر لینی چاہئیں حالانکہ اس قسم کی بدیوں کی جرات اس خوف کو کھا جاتی ہے اور ٹکراتی ہے اس خوف سے جس کے نتیجہ میں انسان بخشا جاتا ہے اس لئے جسارت کے نتیجہ میں بدیاں کرنا اس کا کوئی جواز کہیں نہیں ملتا نہ قرآن کریم میں نہ احادیث
خطبات طاہر جلد ۳ 140 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء میں لیکن ایک انسان بعض دفعہ اپنے معاشرہ کی وجہ سے، اپنے پیدائشی حالات کی وجہ سے اور اپنی اندرونی جبلی بعض رحجانات کی بنا پر بدیوں سے مغلوب ہو جاتا ہے اور ہر بدی کے وقت بھی خدا کا خوف دامن گیر رہتا ہے اور ساری عمر اس کے ذہن پر یہ چیز غالب آجاتی ہے کہ وہ خدا سے ڈرتا ہے اور خوف کھاتا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہوگا.ایسے شخص کی حالت کے متعلق آنحضور ﷺ بیان فرماتے ہیں: " آپ نے فرمایا ایک آدمی جس نے کبھی کوئی نیکی نہیں کی تھی اپنے اہل سے کہا کہ جب میں مر جاؤں تو مجھ کو جلا دینا اور میری راکھ کو آدھا خشکی میں اور آدھا سمندر میں بہا دینا.خدا کی قسم اگر اللہ نے مجھ پر قابو پالیا تو پھر مجھے ایسی سزا دے گا کہ دنیا بھر میں کسی کو نہ دی ہوگی آنحضور ﷺ فرماتے ہیں جب وہ آدمی مرا تو انہوں نے اسی طرح کیا جس طرح اس نے کہا تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے خشکی اور تری کو حکم دیا کیونکہ وہ مالک ہے کہ اس کی راکھ کے ذرات کو جمع کرو.پس وہ جمع ہوئی اور اسے وجود ملا تو اللہ نے اس سے پوچھا تم نے ایسا کیوں کیا تھا؟ اے میرے بندے! تو نے کیوں وصیت کی تھی کہ تجھے جلا کر خاک کر دیا جائے اور آدھے ذروں کو خشکی میں بکھیر دیا جائے اور آدھوں کو سمندر میں غرق کر دیا جائے؟ تو اس نے عرض کی کہ اے میرے رب ! تو تو جانتا ہے کہ میں نے کیوں ایسا کیا تھا.میں نے صرف تیرے خوف کی وجہ سے ایسا کیا تھا.اللہ تعالیٰ اسے فرمائے گا کہ تو نے میرا خوف کیا تھا اس لئے میں تجھے بخش دیتا ہوں“ (مسند احمد کتاب مسند المثرين من الصحابہ مسند عبد الله بن مسعود ) اور وہ سارے گناہ جن کے مقابل پر ایک بھی نیکی نہیں تھی صفت مالکیت جب جلوہ گر ہوئی تو ان کو خاک کی طرح اڑا دیا.کچھ باقی نہیں چھوڑا ان گناہوں کا لیکن اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ میں اپنے درجہ کمال کو پہنچا ہے یہ شخص اور خوف خدا میں درجہ کمال کو پہنچا ہے، کوئی دوسری عملی نیکی ہو یا نہ ہو اللہ کا خوف رکھنا اور بجز کرنا اور اپنے گناہوں کا معترف رہنا یہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑی نیکی ہے اور اسی کی طرف آنحضور ﷺ اشارہ فرما رہے ہیں کہ جہاں تک خدا کی مالکیت کا تعلق ہے اس کی کوئی بھی حد نہیں ہے اس لئے کسی انسان کے لئے مایوسی کا کوئی بھی مقام نہیں ہے.پھر آنحضور ﷺے ایک اور شخص کے خوف کا ذکر کرتے ہیں.اس سے پتہ چلتا ہے کہ خوف خدا ہوتا کیا ہے اور بعض اوقات کس قسم کا خوف ہے جو بدیوں کو کھاتا ہے اور خدا تعالیٰ کو مغفرت پر آمادہ کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 141 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء ”حضرت سہل بن سعد روایت کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص پر اللہ تعالیٰ کی خشیت طاری ہوگئی اور وہ رونے لگا اور اتنی بڑی خشیت کہ اس نے اپنے آپ کو گھر میں قید کر لیا یعنی باہر نکلنا چھوڑ دیا.آنحضور سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ اس کے گھر تشریف لے گئے.جب آپ اندر داخل ہوئے اور اس کی گردن کو ہاتھ لگا کر دیکھا کہ کیا حالت ہے تو وہ مرکز گر پڑا یعنی وہ آخری دموں تک پہنچا ہوا تھا.اس پر آنحضور ﷺ نے فرمایا اس کی تجہیز و تکفین کا انتظام کرو کیونکہ خوف خدا اور خشیت الہی سے اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے.“ پس خشیت صرف نام لے لینا کہ ہم خشیت رکھتے ہیں، خشیت اور خوف رکھتے ہیں خدا کا یہ اور بات ہے اور ایک ہے اندرونی حالت انسان کی.وہ اندرونی حالت بعض دفعہ اتنا جوش دکھاتی ہے کہ جیسے آنحضور ﷺ نے فرمایا خوف خدا سے واقعتہ اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا.پھر آنحضور ﷺ کے متعلق حضرت عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم آنحضو ر ے کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ ہوا چلی اور اس درخت کی خشک پتے گرے اور سبز پتے باقی رہ گئے تو آنحضور ﷺ نے فرمایا ایسے درخت کی مثال کیسی ہے.صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں.ہم تو جو کچھ سیکھتے ہیں آپ ہی سے سیکھتے ہیں.آپ فرمائیے ، آپ بتائیے کہ اس درخت کی مثال کیسی ہے تو آپ نے فرمایا یہ ایک ایسے مومن کی مثال ہے جس کے اللہ کی خشیت سے رونگھٹے کھڑے ہو جائیں تو اس کے گناہ اس سے جھڑ جائیں گے اور اس کی نیکیاں باقی رہ جائیں گی.(شعب الایمان بیھتی.الفصل الثانی ذکر آثار و اخبار وردت فی ذکر اللہ عز وجل ) تو خشیت سے مراد صرف ایک جذبہ نہیں ہے بلکہ جس طرح خزاں رسیدہ پتے جھڑ جایا کرتے ہیں ہوا کے جھونکے سے اس طرح گناہ جھڑ کر اس سے تعلق توڑ لیتے ہیں یہ مراد ہے خدا تعالیٰ کی بخشش کی اور سبز پتے وہ نیکیاں جو باقی تھیں اسی طرح رہ جاتی ہیں.وہ درخت تو چاہے کم سرسبز ہو یا زیادہ سرسبز ہو صرف سرسبز ہی رہے گا نیکیاں کم بھی ہوں گی تو وہ باقی رہ جائیں گی اور بدیاں زیادہ بھی ہوں گی تو جھڑ جائیں گی.وہ سوکھے ہوئے پتے دوبارہ تو نہیں درخت پر لگ جایا کرتے.پس آنحضور ﷺ نے نہایت ہی عارفانہ رنگ میں خشیت کے نتیجہ میں بخشش کی مثال کو واضح فرما دیا.آپ نے فرمایا کہ جس کا دل واقعتہ خدا سے ڈرتا ہے اس لمحہ میں جو اس کی بخشش ہوتی
خطبات طاہر جلد ۳ 142 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء ہے اس کا عملی ثبوت مومن کی زندگی میں یہ ملتا ہے کہ وہ بدیوں سے بے تعلق ہو جاتا ہے جس طرح ایک درخت ان سوکھے پتوں سے بے تعلق ہو جاتا ہے جو ہوا کے جھونکے سے اس کو چھوڑ گئے ہوں ہمیشہ کے لئے اور نیکیوں سے بے تعلق نہیں ہوتا بلکہ وہ مزید نشو و نما پاتی ہیں کیونکہ سوکھے ہوئے پتے جب جھڑتے ہیں تو لازماً اس درخت کے سبز پتوں کو زیادہ خوارک ملا کرتی ہے.ایک اور موقع پر آنحضور ﷺ نے خدا تعالیٰ کی مغفرت کے حصول کے جو نکات ہیں بار یک ان کو بیان کرتے ہوئے فرمایا اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں یہ حدیث میں نے آنحضور سے ایک بار نہیں سات بار نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ بار مرتبہ سنی ہے." آپ فرماتے ہیں کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص کفل نامی تھا جو گناہ سے بچتا نہیں تھا.ایک دفعہ قحط کے نتیجہ میں جب غربا میں فاقہ کشی پھیل گئی اور جان بچانا مشکل ہوگئی تو ایک غریب عورت اس کے پاس آئی.اس سے اس نے اس کی عصمت کا سودا کیا اور کہا کہ میں تجھے اتنے روپے دوں گا اگر تو اپنی عصمت میرے پاس بیچ دے.وہ غریب عورت تھی اور اس کے گھر والے فاقے کر رہے تھے اس لئے اس کا کوئی اختیار نہیں تھا.آنحضور یہ فرماتے ہیں کہ وہ روتی رہی اور اس کا بدن کا پنپنے لگا اس پر اس نے پوچھا کہ کیا دیکھ رہا ہوں تو کیوں روتی ہے اور کیوں تیرا بدن کانپ رہا ہے؟ اس نے کہا کہ مجھے خدا تعالیٰ نے جس بدی سے بچائے رکھا ہے میں خدا کی خاطر تجھے واسطہ دیتی ہوں کہ مجھے اس بدی پر مجبور نہ کر.اس پر محض خوف خدا سے، رضائے باری تعالیٰ کی خاطر اس بندے نے فیصلہ کیا کہ میں اس سے باز آجاؤں گا اور صرف یہی فیصلہ نہیں کیا آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اس نے عہد کیا کہ میں آئندہ کبھی بدی کے قریب نہیں جاؤں گا.(سنن ترمذی کتاب صفۃ القیامه والرقاق والورع ) 66 یہ ہے مغفرت کا وہ نکتہ جس کو بعض اوقات بعض راویوں نے حدیث مکمل نہ بیان کرنے کے نتیجہ میں چھوڑ دیا اور لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو گئیں کہ اس کے بعد بھی گویا بد رہا اس کے بعد بھی ان گنا ہوں میں ملوث رہا اور پھر اللہ نے بخش دیا.ایسی کوئی بات نہیں ہے.آنحضور ﷺ واضح طور پر فرماتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ وہ رکا اس وقت بلکہ اس کے دل پر اللہ کا ایسا خوف طاری ہوا کہ اس نے فیصلہ کیا کہ میں آئندہ بدی کے قریب نہیں جاؤں گا اور خدا کی رحمت کی شان دیکھیں کہ اسی رات وہ مر گیا اور خدا نے اس کو ابتلا سے محفوظ کر لیا.یعنی بخشش کی ایک یہ بھی شان ہے.خدا جانتا تھا کہ وہ بندہ
خطبات طاہر جلد ۳ 143 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء کمزور ہے اس وقت اس کی حالت ایسی پیدا ہو گئی ہے کہ جس کے نتیجے میں اس نے بدیوں سے رکنے کا فیصلہ کیا ہے اور آئندہ شاید نہ رک سکے.ہم شاید کہتے ہیں اللہ کو تو علم ہوگا کہ وہ رک سکتا تھا یا نہیں رک سکتا تھا.تو اس آخری فیصلہ کے وقت وہ اس کا آخری فعل تھا جس کے بعد اس کی وفات ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے اس کی مغفرت فرما دی بلکہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں کہ رات وہ مردہ پایا گیا اپنے گھر میں اور اس کے دروازے پر یہ الفاظ لکھے ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکی کے بدلہ کفل کو معاف فرما دیا ہے.“ یعنی صرف اس سے مغفرت ہی نہیں کی بلکہ ستاری کا بھی عجیب سلوک فرمایا اور اس کو تمام ان لوگوں کے سامنے سرخرو فر ما دیا جو جانتے تھے کہ یہ انتہائی بد انسان ہے.تو استغفار کا معنی گناہوں سے بخشش کے معنوں میں بھی آتا ہے جس طرح کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے عرفان کے نتیجہ میں اس معنی کو پایا اور ہمارے سامنے بیان کیا.وہ یہ نہیں ہے کہ محض معافی مانگی جائے بلکہ بخشش طلب کی جائے ایک خاص جذ بہ کے ساتھ.ایسا جذ بہ جو روح کی پنہائیوں تک اثر انداز ہونے والا ہو.ایسا جذ بہ جو بعض دفعہ جگر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے.ایک ایسا جذبہ جس کے نتیجہ میں انسان کا وجود کانپنے لگے اور اس طرح اس کی بدیاں جھڑ جائیں جس طرح خشک پتے ہوا کے جھونکوں سے جھڑ جایا کرتے ہیں اور اس کی نیکیاں قائم رہیں اور یہ ارادے دل سے بلند ہوں کہ آئندہ میں بدیوں کے قریب نہیں جاؤں گا اور استغفاران معنوں میں انسان کرے کہ اے اللہ ! مجھے بدیوں سے آئندہ محفوظ رکھنا اور میرے پچھلے گناہ معاف فرما دے.اس صورت میں اللہ تعالیٰ ایسے انسان کی بخشش فرما دیتا ہے اور اس لحاظ سے چونکہ وہ مالک ہے اس لئے کوئی گناہ کا درجہ یا مرتبہ یا اس کی کمیت اور کیفیت خدا کی بخشش کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتے.پھر جیسا کہ میں نے کہا تھا انسان کا بندوں سے حسن سلوک ، بندوں پر رحم کرنا یہ خدا تعالیٰ کو بہت پسند ہے.وہاں بھی دراصل جو واقعہ بیان ہوا ہے اس میں جذ بہ رحم تھا جو غالب آیا.رحم شروع ہوا ہے ایک غریب عورت پر اور اس نے جنم دیا ہے پھر اللہ کے خوف کو اور وہ درجہ بدرجہ انسان ترقی کرتے کرتے اپنی کیفیت میں اس مقام کو پہنچ گیا کہ جہاں اللہ تعالیٰ کی بخشش واجب ہو جاتی ہے.پس بنی نوع انسان سے رحم کا بخشش سے بڑا گہرا تعلق ہے.چنانچہ حضرت رسول اکرم ﷺ اسی مضمون کو کھول
خطبات طاہر جلد ۳ کر بیان اس طرح فرماتے ہیں کہ : 144 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اس نے ملازم کو کہہ رکھا تھا کہ جب تو کسی کو تنگ دست پائے ، غریب ہو اور قرض ادا نہ کر سکتا ہو تو اس سے در گزر سے کام لیا کرو.اس سے کوئی سختی نہیں کرنی شاید اس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں بھی معاف فرما دے.جب اس کی وفات ہوئی تو اس کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا.( صحیح بخاری کتاب البیوع باب من النظر معسرا) یہ خبر خدا تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو دی ہے اور یہ بھی حدیث قدسی ہے.تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے فعل سے خدا تعالیٰ اس طرح راضی ہوا کہ اللہ نے خود آنحضور ﷺ کو اس کے حالات کا ذکر فرما کر اس کی بخشش کے متعلق اطلاع عطا فرمائی.جہاں تک استغفار کی روح کا تعلق ہے وہ دعا ہی ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ دعا اور اس بجز کا اظہار کہ ہم اپنی طاقت سے نیک نہیں ہو سکتے ، اپنے زور اور اپنی قوت سے کسی بدی کو چھوڑ نہیں سکتے اور کسی نیکی کو اختیار نہیں کر سکتے.چنانچہ آخری تان استغفار میں دعا پر ہی ٹوٹتی ہے.دعا ہی استغفار ہے اور استغفار کے لئے بھی دعا ہی کرنی چاہئے اور آنحضرت ﷺ نے ایک بہت ہی پیاری دعا ہمیں اس سلسلہ میں سکھائی ہے.حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ انہوں نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! مجھے کوئی ایسی دعا سکھائیں جو میں نماز میں مانگا کروں.تو آپ نے فرمایا یہ دعا مانگا کرو: اللَّهُمَّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي ظُلْماً كَثِيراً وَّ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا أَنْتَ فَاغْفِرْ لِي مَغْفِرَةً مِّنْ عِنْدِكَ وَارْحَمْنِي إِنَّكَ أَنْتَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ( مسند احمد بن حنبل جلد مسند العشرة المبشرين من الجنه باب مسندابي بكر ) کہ اے میرے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا ہے ظُلْماً كَثِيراً بہت ہی گناہ کئے ہیں میں نے وَلَا يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا انت لیکن یہ بھی جانتا ہوں اچھی طرح کہ تیرے سوا کوئی بخشنے والا نہیں ہے فَاغْفِرْ لِی مَغْفِرَةً مِّنْ عِندِكَ پس میری مغفرت اپنے حضور سے فرما.بہت ہی پیارا انداز ہے یہ دعا کا فاغفر لی نہیں کہا صرف بلکہ فرمایا کہ اپنی جناب سے یعنی میرا استحقاق کوئی نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 145 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء ہے اسی مضمون کو مزید واضح فرما دیا ، پہلے یہ کہو کہ میں اتنا گنہگار ہوں کہ گناہوں میں میں نے حد کر دی ہے تو اپنی جناب سے اپنے حضور سے عطا فرما دے.وَارحَمنِی اور میرا معاملہ تو رحم کا ہے استحقاق کا نہیں ہے، تو رحم فرما ! إِنَّكَ أَنْتَ الغَفُورُ الرَّحِيم تو بہت بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے.اس رنگ میں جماعت احمدیہ کو استغفار کرنی چاہئے.اول آنحضور ﷺ کی سنت پر چلتے ہوئے گناہوں سے بچنے کی بکثرت استغفار، دوسرے ان گناہوں سے تو بہ اس رنگ میں جس رنگ میں آنحضور ﷺ نے واضح فرمایا اور دعاؤں میں نہایت عجز اور انکساری.یہاں یہ مسئلہ بھی حل فرما دیا آنحضور ﷺ نے کہ نماز میں کوئی اور دعا جائز ہے کہ نہیں ؟ یہ جو لوگ کہتے ہیں نماز کے بعد دعا کرنی چاہئے یہ حدیث اس تصور کو قطع کر رہی ہے.وہ کہتے ہیں کہ نماز میں مسنون الفاظ کے سوا اور کوئی الفاظ نہیں کہے جاسکتے حالانکہ آنحضرت عمیلہ حضرت ابو بکر کو اس سوال کے جواب میں یہ دعا سکھا رہے ہیں کہ یا رسول اللہ ! مجھے نماز میں دعا کرنے کے لئے کوئی دعا بتائیے.پس اس دعا کو التزام سے جماعت احمد یہ اپنے لئے اختیار کر لے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اب جب کہ امن کی حالت میں ہو اپنے لئے استغفار کرو.جب وہ وقت آجائے کہ خدا کے عذاب پہنچ جائیں اور قوموں کو اپنی لپیٹ میں لے لیں وہ وقت استغفار کا نہیں ہوتا.( ملفوظات جلد ۳ صفحہ ۱۷۳۰) پس آج جو تم استغفار کرو گے وہ مشکل وقتوں میں تمہارے کام آئے گی اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ دنیا بڑی تیزی کے ساتھ تباہی کی طرف جارہی ہے اور بہت ہی شدید مصائب دنیا پر پڑنے والے ہیں اور کوئی ملک جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پیشگوئی فرمائی تھی ان خطرات سے امن میں نہیں ہوگا.نہ جزائر کے رہنے والے، نہ ہندوستان ، نہ پاکستان، نہ پنجاب کے لوگ اور بہت بڑی تباہیاں آنے والی ہیں.چند سال کا واقع ہو یا چند اور سال کا لیکن اب یہ مقدر ہو چکا ہے.انسان کے اعمال اتنے سیاہ ہو چکے ہیں اور اس کی جرات خدا تعالیٰ کے خلاف اتنی بڑھ چکی ہے اور اس کے مظالم اس انتہا کو پہنچ چکے ہیں کہ جب یہ واقعات اس شدت سے ہونے لگیں تو اللہ کی پکڑ آجایا کرتی ہے اس لئے استغفار کریں اور کثرت کے ساتھ استغفار کریں کیونکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو استغفار کرتا ہے اور اس کے دل میں خدا تعالیٰ کی محبت ہوتی ہے اس وقت، اس کے دل کے کسی ذرہ کو بھی آگ نہیں پہنچ سکتی.کسی حصہ پر بھی خدا تعالیٰ کا
خطبات طاہر جلد ۳ عذاب وارد نہیں ہوسکتا.146 خطبہ جمعہ ۹ / مارچ ۱۹۸۴ء پس ایسے دل بنالیں کہ جو خدا کی محبت اور اس کے پیار کے نتیجہ میں اور آپ کے استغفار کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ کی پکڑ سے محفوظ رہیں اور اللہ تعالیٰ تمام دنیا پر بھی رحم فرمائے اور بنی نوع انسان کے لئے بھی احمدیوں ہی کو استغفار کرنے کی توفیق بخشے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 147 خطبہ جمعہ ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم (خطبه جمعه فرموده ۶ امارچ ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں: لَا يُؤَاخِذُ كُمُ اللهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَكِنْ تُؤَاخِذُ كُمْ بِمَا كَسَبَتْ قُلُوبُكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ حليم (البقره: ۲۲۲) قَوْلٌ مَّعْرُوفٌ وَمَغْفِرَةٌ خَيْرٌ مِّنْ صَدَقَةٍ يَتْبَعُهَا أَذًى b وَاللهُ غَنِيٌّ حَلِيمٌ (البقره: ۳۶۴) یہ دو آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کی صفت حلم کا ذکر ہے یعنی اللہ تعالیٰ کو حلیم کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے.ایک جگہ غَنِيٌّ حَلِیم فرمایا اور دوسری جگہ غَفُورٌ حَلِيمٌ فرمایا اور مضمون کی مطابقت کے ساتھ جہاں غَنِيٌّ حَلِيمٌ فرمایا وہاں غنا کا ہی تعلق حلم سے ثابت ہوتا ہے اور جہاں غَفُورٌ حَلِيمٌ فرمایا وہاں بخشش کا تعلق حلم سے ثابت ہوتا ہے.اسی طرح بہت سی اور آیات میں حلیم کا تعلق بعض دوسری صفات کے ساتھ جوڑ کر بیان فرمایا ہے جس سے معلوم یہ ہوتا ہے کہ مختلف صفات ہر موقع کے لحاظ سے بعض دفعہ اکیلی کافی نہیں ہوتیں ان کا جوڑ ہے ایک جو موقع اور محل کے مطابق بدلتارہتا ہے اور بعض دفعہ اللہ تعالیٰ ایک صفت جلوہ دکھاتی ہے، بعض دفعہ دوصفات مل کر جلوہ دکھاتی ہیں، بعض دفعہ تین صفات مل کر جلوہ دکھاتی ہیں اور موقع اور محل کی مناسبت سے وہ صفات کا
خطبات طاہر جلد ۳ 148 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء آپس میں جوڑ تبدیل بھی ہوتا رہتا ہے.بندہ بھی اپنے خدا سے ہی رنگ سیکھتا ہے جیسا کہ میر درد نے کہا: دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے کہ تو بھی تو شانیں بدلتا رہتا ہے ہمارا دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھے ہوئے ہے آن میں کچھ ہے آن میں کچھ ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ( الرحمن :۳۰) کی تفسیر بیان کی انہوں نے.تو جو بندہ صفات باری تعالیٰ سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اس کا کام یہ ہے کہ صفات پر غور کرے اور ان کی تبدیلیوں پر غور کرے اور ان کے جوڑوں پر غور کرے اور ہر حال کے مطابق خدا تعالیٰ کی صفات میں رنگین ہو جائے جو اس حال سے مناسبت اور مطابقت رکھتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جوفر مایا کہ عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں ( در مشین صفحه: ۵۰) تو اس سے مراد صفات باری تعالیٰ ہی ہے یعنی ہم عدو کے ہر حملہ کے مقابل پر خدا کی ایک صفت میں ڈھانپے گئے، اسکو ہم نے اوڑھ لیا اور اب عدو کے لئے ممکن نہیں رہا کہ صفات باری تعالیٰ پر حملہ کئے بغیر ہماری ذات تک پہنچ سکے.چنانچہ قرآن کریم نے صفات کو اختیار کرنے کے لئے جو طریق اختیار فرمایا بندے کو سکھایا، وہ ہے صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً (البقره: ۱۳۹) که خدا کی صفات میں رنگین ہو جاؤ.رنگ جب چڑھتا ہے کپڑے پر تو پینٹ(Paint) نہیں ہوتا کہ باہر پینٹ کر دیا جائے اور اندر سے خالی ہو، رنگ میں خوبی یہ ہے کہ وہ اس وجود کے ذرہ ذرہ میں ڈوب جاتا ہے جس وجود پر رنگ چڑھتا ہے.اس کے فائیبر Fiber میں ،اس کے دھاگے میں ،اس کے ہر ہر ذرہ میں اس طرح جذب ہو جاتا ہے کہ کوئی ذرہ بھی خالی نہیں رہتا.اس کو آگے سے چیریں تب بھی رنگ پہلے کٹے گا پھر اس کے ذرہ وجود میں داخل ہوگا ، پیچھے سے چیریں تب بھی رنگ پہلے کئے گا پھر اس کے وجود میں داخل ہوگا ، سوئی چبھوئیں، کوئی طریق بھی اختیار کریں، قینچی سے کاٹیں ممکن ہی نہیں ہے کہ رنگ کو کاٹے بغیر اس وجود پر حملہ ہو سکے تو : نہاں ہم ہوگئے یارِ نہاں میں
خطبات طاہر جلد۳ 149 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس مصرعے میں صِبْغَةَ اللَّهِ ۚ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً کی ہی تفسیر فرمائی گئی ہے اور جب بھی دشمن حملے کرتا ہے تو ایک ہتھیار سے حملے نہیں کرتا کبھی وہ کوئی ہتھیار اٹھاتا ہے اور کبھی وہ کوئی ہتھیار اٹھاتا ہے اور شیطان کے پاس جتنے بھی ہتھیار ہیں ان تمام ہتھیاروں سے کبھی وہ ایک ایک کبھی دو دو، کبھی چار چارا کٹھے کر کے وہ حملے کرتا ہے.مومن کے ترکش میں، اس کے اسلحہ خانہ میں ہر ہتھیار کے مقابل پر اور ہتھیار کے ہر جوڑ کے مقابل پر صفات باری تعالیٰ کے ہتھیار ہیں اور ان کے جوڑ ہیں.وہ فن آپ سیکھ جائیں تو سب سے عظیم الشان اور کامیاب مجاہد بن جاتے ہیں.ہر موقع اور محل کے مطابق صفت باری تعالیٰ موجود ہے جو آپ کی حفاظت فرمائے گی اور پھر ایک صفت کی بجائے دوصفات اور تین صفات اور چار صفات یہ اس طرح آپس میں مل کر آپ کی حفاظت کریں گی کہ ممکن نہیں ہے دشمن کے لئے کہ وہ خدا تعالیٰ پر حملہ کئے بغیر اور خدا تعالیٰ کی غیرت بھڑکائے بغیر آپ پر حملہ کر سکے.یہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دوستیوں کی اصل بنیادی وجہ صفات کا ملنا ہوتا ہے.ہم مشرب و ہم پیالہ کیوں کہتے ہیں اس لئے کہ ایک صفت ایک عادت صرف اکٹھی ہے شراب پینے کی اور اس کے نتیجہ میں گہری دوستیاں ہو جاتی ہیں.تو جب ایک ایک عادت بھی انسان کو ایک دوسرے انسان کے ساتھ اس طرح باندھ لیتی ہے کہ ایک انسان دوسرے کے لئے غیرت دکھاتا ہے،اس کے لئے قربانیاں کرتا ہے، اس سے محبت اور پیار کا اظہار کرتا ہے، اس کے دشمن کا دشمن ہو جاتا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ایک بندہ اپنے خدا کی صفات اختیار کرلے اور اللہ تعالیٰ اس کے لئے وہ غیرت نہ دکھائے ، یہ ناممکن ہے.جس صفت کو بندہ اختیار کرتا ہے اس صفت میں اس کا خدا سے ایک جوڑ بن جاتا ہے اور جب اس صفت پر حملہ ہوتا ہے تو خدا تعالیٰ کی صفت از خود اس کی حفاظت کے لئے سامنے آجاتی ہے پس اس لحاظ سے حلم بھی ایک بہت ہی عظیم الشان صفت ہے جسکو اپنانے کی ضرورت ہے اور خصوصاً اس وقت جب کہ دشمن غیظ و غضب دکھا رہا ہو اور حد سے آگے بڑھ رہا ہو اس وقت حلم کی صفت کی بہت ہی ضرورت پیش آتی ہے.حلم کے معنی ہیں بردباری ، فہم اور عقل لیکن علم میں اور عام عقل میں ، عام فہم میں ایک فرق یہ ہے جو قام اور استقام میں ہے.قَامَ بھی کھڑے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا ہے اور استقام بھی کھڑے ہوئے شخص کے لئے بولا جاتا ہے لیکن قام میں مقابلہ نہیں ہوتا انتقام میں مقابلہ پایا جاتا
خطبات طاہر جلد ۳ 150 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء ہے.قام ایسے کھڑے ہوئے آدمی کے متعلق کہہ سکتے ہیں جواز خود کھڑا ہے کوئی اسکو دھکا نہیں دے رہا کوئی تیز ہوا نہیں چل رہی اس کے قدم اکھاڑنے کے لئے لیکن استقام اس شخص کے لئے آتا ہے جس کو تند ہواؤں کا مقابلہ ہو، دھکوں کا مقابلہ ہو، مشکلوں کا مقابلہ ہو، زلازل کا مقابلہ ہو اس کے باوجود اس کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے ، وہ قائم رہے اپنے حال پر مخالفتوں کے باوجود.پس حلم اس عقل کو کہتے ہیں جو غصہ کے باوجود قائم رہے، اور حلم اس عقل کو کہتے ہیں جو دشمن کے غصے کے باوجود بھی قائم رہے اور اپنے اندرونی غصہ کے باوجود بھی قائم رہے.پس اللہ تعالیٰ حلیم ہے ان معنوں میں کہ جب خدا کے دشمن یا خدا کے بندوں کے دشمن غصہ دلاتے ہیں تو اس وقت بھی اللہ تعالی بردبار ہوتا ہے اور اپنے علم کو قائم رکھتا ہے اور حلم کے نتیجہ میں پھر مغفرت پیدا ہوتی ہے.علم نہ ہو تو غصہ کے نتیجہ میں جلد بازی پیدا ہوتی ہے اور اندرونی غصہ کے مقابل پر جب انسان پر یہ لفظ بولا جائے تو اس کا معنی یہ ہوتا ہے کہ غصے کو عقل پر قبضہ نہ کرنے دے انسان.غصہ ایک حرکت کا مطالبہ کرتا ہے بعض دفعہ بڑی تیزی کے ساتھ ، عجلت کے ساتھ کہتا ہے کہ جواب میں یہ کہو.حلم اس وقت قبضہ کر لیتا ہے اور غصے کو اپنی من مانی نہیں کرنے دیتا.ایسی عقل اور ایسی فہم کو جو اس طرح مقابل پر آکر پھر بھی ثبات دکھا دے اور قائم رہے اور غالب آجائے جذبات پر اس کو حلم کہتے ہیں.پس اگر چہ یہ نقل ہے لیکن اس کا دل سے بھی تعلق ہے،اس کا جذبات سے تعلق ہے اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت مصلح موعودؓ کے متعلق جو خوشخبریاں دی گئیں ان میں ایک فقرہ یہ تھا وہ دل کا حلیم ہو گا.بظاہر تو حلم کا عقل سے تعلق ہے دل کے علیم کا کیا مطلب ہے؟ مراد یہی ہے کہ جذبات جب اسے مشتعل کرنے کی کوشش کریں گے اور اس سے جلد بازی کی حرکتیں کروانے کی کوشش کریں گے شدید مخالفتیں اس کے پاؤں اکھیڑنے کی کوشش کریں گی اس کے دل میں حکم ہوگا یعنی عقل ایسی ہوگی جو دل پر قبضہ کئے ہوئے ہوگی اور جذبات سے فیصلے نہیں کرے گا بلکہ فہم اور فراست سے فیصلے کرے گا.رت عملے نے مختلف رنگ میں حلم کی تعلیم دی اور صحابہ کی تربیت اس رنگ میں فرمائی کہ ان میں حلم پیدا ہو بعض دفعہ حکایات کے رنگ میں، بعض دفعہ اللہ تعالیٰ نے بعض خبریں آپ کو عطا فرمائیں وہ بیان کیں ، بعض دفعہ صاف اور سیدھی اور نہایت پاکیزہ دنشین نصیحت کے ذریعہ.
خطبات طاہر جلد ۳ 151 خطبه جمعه ۱۶ار مارچ ۱۹۸۴ء حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کو میں نے یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسٹی میں تیرے بعد ایک ایسی قوم پیدا کرنے والا ہوں اگر ان کو کوئی ایسی نعمت ملے گی جو انہیں پسند ہوتو وہ اس پر اللہ تعالیٰ کی حمد کریں گے اور شکر ادا کریں گے اور اگر انکو کوئی تکلیف پہنچے گی جس سے وہ دکھ پائیں تو وہ اس کو ثواب کا ایک ذریعہ سمجھیں گے اور صبر سے کام لیں گے جبکہ دنیا سے حلم اور علم مفقود ہو چکا ہوگا.حضرت عیسی نے پوچھا اے باری تعالیٰ ! اے میرے رب ! وہ کیسے یہ کر سکیں گے جب کہ دنیا سے خود تیرے ہی قول کے مطابق علم بھی مفقود ہو چکا ہوگا اور حلم بھی مفقو دہو چکا ہوگا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں اپنے حلم اور علم کے خزانے سے ان کو عطا کروں گا.(مسند احمد کتاب مسند القبائل باب بقیہ حدیث ابی الدرداء ) حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے یا ان کی طرف منسوب کرتے ہوئے آنحضرت ﷺ نے جو حکایت بیان فرمائی ہے یہ حکایت نہیں ہے یعنی ان معنوں میں جس طرح کہانی ہو ، یہ حدیث قدسی ہے جب تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خبر نہ دی ہو یہ ممکن ہی نہیں کہ آنحضور ﷺ کوئی بات بیان فرما ئیں.حضرت عیسٹی کی طرف اس بات کو منسوب کرنے میں ایک پیغام ہے اول تو یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام کے بعد سب سے پہلی قوم جو ظاہر ہوئی ہے وہ حضرت محمد مصطفی علیہ کی قوم ظاہر ہوئی ہے اور ان کے مابین اور کوئی نہیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ آنحضرت علیہ نے اس وقت حلم کو دوبارہ قائم کیا ہے اللہ تعالیٰ کی نصرت کے ساتھ جب کہ کلیتہ دنیا سے مفقود ہو چکا تھا اور اس وقت علم کو قائم کیا ہے جب کہ کلینتہ دنیا سے علم مفقود ہو چکا تھا.ان معنوں پر اگر غور کریں تو هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُوْلًا ( الجمعہ: ۳) میں اميين سے مراد صرف اہل عرب نہیں ہیں بلکہ تمام دنیا ہے رَسُولًا مِّنْهُمْ وہ امین ہی میں سے ایک رسول تھا اور ان کی طرف تھا.آنحضرت یہ صرف اہل عرب کی طرف تو نہیں تھے وہ تو تمام دنیا کی طرف رسول تھے اس لئے وہ ایک ایسا وقت تھا جب کہ واقعتہ دنیا سے علم مفقود ہو چکا تھا، صرف عرب اُمی نہیں تھے بلکہ بظاہر پڑھی لکھی تو میں، بڑے بڑے علم کی محافظ اور پاسبان بنے والی قومیں بھی حقیقتہ پوری طرح جاہل ہو چکی تھیں اور علم بھی مفقود ہو چکا تھا.عرب کی تاریخ پڑھیں یا دوسری قوموں کی اس زمانے میں تاریخ پڑھیں حلم تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ عنقا ہے، کوئی ایسا وجود ہے جو اس دنیا میں پایا ہی نہیں جاتا.دوسری صفات بعض اچھی موجود تھیں مثلاً سخاوت تھی مثلاً انکساری بھی تھی، عفو بھی تھا، اس کی بڑی اچھی مثالیں ملتی
خطبات طاہر جلد ۳ 152 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء ہیں لیکن حلم قریباً مفقود نظر آتا ہے اور علم یعنی روحانی علم وہ بھی کلینتہ مفقود نظر آتا ہے.تو ایک تو حضرت عیسی علیہ السلام سے خدا تعالی کا یہ مکالمہ بتاتا ہے کہ آنحضرت علی کے ان ایسی دوصفات کو دوبارہ قائم کرنے کے لئے تشریف لائے جن کا پہلے کوئی وجود ہی باقی نہیں رہا تھا اور حضرت عیسی اور آنحضرت ماہ کے زمانہ میں اتنی بڑی تباہی آئی ہے دنیا پر کہ علم و حلم دونوں اٹھ چکے تھے اور محض خدا نے اپنے فضل سے عطا کیا.انسان کی طاقت نہیں تھی کہ اس وقت ان دو صفات کو دوبارہ دنیا میں جاری کر سکے.دوسرا حضرت عیسی کی طرف جب بات منسوب ہوتی ہے اور آپ کے بعد کہا جائے تو اس سے مراد دوسرا عیسوی دور بھی ہے یعنی مسیح کا ایک اول دور بھی اور مسیح کا ثانوی دور بھی.موسیٰ صاحب شریعت نبی تھے اور امت کے اول تھے ان معنوں میں حضرت موسی کی آنحضور ﷺ کے ساتھ ایک مماثلت پائی جاتی ہے اور عیسی کی اس مسیح سے مماثلت ہے جس کے متعلق آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اللہ نے خبر دی ہے کہ وہ ضرور آئے گا.پس خاص طور پر جماعت احمدیہ سے بھی اس کا تعلق ہے اور جماعت احمدیہ کو ان دو امور میں ترقی کی خوشخبری بھی دی گئی ہے اور ان کی طرف توجہ کرنے کی تلقین بھی کی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت علیم یعنی اس کے علیم ہونے سے حصہ پاؤ اور اس کے حلیم ہونے سے حصہ پاؤ یہ دوصفات اگر تم مضبوطی سے پکڑ لو گے تو تمہارے لئے یہ عظیم الشان کام دکھا ئیں گی.پس میں سمجھتا ہوں کہ اس میں جماعت احمدیہ کے لئے خوشخبری بھی بہت ہے اور توجہ بھی دلائی گئی ہے.علم کی طرف تو جور و چلی ہے اس وقت جماعت احمد یہ میں اللہ تعالیٰ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کو غریق رحمت فرمائے ، آپ نے غیر معمولی توجہ دی جماعت کے علمی معیار کو بڑھانے کی طرف اور ایک روچلادی، ایک جوش اور ولولہ پیدا ہو گیا.اس کثرت کے ساتھ تمام دنیا سے علم کو بڑھانے کی دعاؤں کے لئے خط آتے ہیں کہ دنیا میں کسی قوم میں کبھی بھی کسی نسل میں بھی اس کثرت سے ایسے بچے نہیں پیدا ہوئے جو اپنے علم کو بڑھانے کے لئے اس طرح خدا سے دعا ئیں کرتے ہوں اور دعائیں منگوانے کے لئے خط لکھتے ہوں.ایک ہی قوم ہے اس وقت دنیا میں جماعت احمد یہ، کوئی مثال ہی نہیں اس کی نہ یورپ میں ، نہ امریکہ میں ، نہ چین میں، نہ جاپان میں ، نہ روس میں، کہیں بھی اس طرح آپ کو طالب علم نہیں ملیں گے جو اپنے زور پر ، اپنی قوت سے علم حاصل کرنے کو کافی نہ سمجھتے ہوں اور محتاج سمجھیں اپنے آپ کو ہر لحظہ دعاؤں کا اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا.پس اس حدیث میں جو خبر دی گئی ہے وہ یہی ہے کہ خدا اپنی طرف سے ان کو علم عطا فرمائے گا
خطبات طاہر جلد۳ 153 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء اور اپنی طرف سے حلم عطا فرمائے گا جس کا مطلب یہ ہے کہ علم اور حلم دونوں کے لئے ہمیں دعاؤں کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے علم کی طرف تو جماعت توجہ کر رہی ہے پہلے ہی اور بکثرت علم کے لئے دعاؤں کے خطوط آتے ہیں لیکن حلم والا پہلوا بھی نظر سے اوجھل ہے اور حلم کی بہت زیادہ ضرورت ہے کیونکہ سچا علم حلم کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا اس کا بڑا گہرا تعلق ہے.مگر بہر حال اس وقت میں آپ کے سامنے جو علم کا خاص پہلو رکھنا چاہتا ہوں وہ ہے غصہ کے وقت اپنی ذہنی حالت کو متوازن رکھنا اور مشتعل ہو کر عقل کو نہ کھونا، ایسی حالت میں صاحب عقل اور صاحب فہم رہنا جبکہ عام انسان اس وقت عقل اور فہم دونوں کوکھودیتے ہیں اور مغلوب الغضب ہو کر پھر وہ فیصلے کرتے ہیں اور حرکتیں کرتے ہیں.آنحضرت ﷺ کے متعلق حضرت ابوھریرہ کی روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم علیہ کی خدمت میں ایک شخص نے آکر عرض کی کہ یا رسول اللہ ! میرے کچھ رشتے دار ہیں میں ان کے ساتھ ملتا ہوں وہ کاٹتے ہیں یعنی میں تعلق جوڑتا ہوں اور وہ تعلق توڑتے ہیں ، میں بھلائی کرتا ہوں اور وہ مقابل پر بدی کرتے ہیں وہ جہالت کرتے ہیں میرے سے یعنی ایسی جاہلانہ غصے سے مغلوب ہو کر حرکتیں کرتے ہیں کہ ان میں کوئی عقل کی بات نہیں ہوتی.( جہالت اور غصے کی حرکت یہ علم کے بالکل متقابل صفات ہیں ) تو میں حلم سے کام لیتا ہوں.آنحضرت ﷺ نے یہیں کر فرمایا کہ اگر واقعی ایسا ہے جیسا کہ تو کہہ رہا ہے تو تو ان کے منہ میں گرم راکھ بھر رہا ہے یعنی خاک ڈال رہا ہے ان کے منہ میں.اس سے اچھا جواب تو نہیں دے سکتا جو تو دے رہا ہے اور جب تک تو اس حالت پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ کی مدد ہمیشہ تیرے ساتھ رہے گی.(صحیح مسلم کتاب البر والصلہ والا دب باب صلة الرحم وتحريم قطعی تھا) پس حلم کا اور فائدہ جو دنیاوی طور پر خود بخود پہنچتا ہے وہ تو ہے یہ ایک حیرت انگیز اور عظیم الشان فائدہ ہے کہ علم کے نتیجہ میں بندہ کوئی نقصان اٹھا ہی نہیں سکتا.بظاہر وہ جو حقوق چھوڑ رہا ہے، بظاہر جو جائز بدلے چھوڑ رہا ہے اپنے ، آنحضرت ﷺ اسکو خوش خبری دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسکی مدد پر کھڑا ہے مسلسل ایسی حالت میں.اکثر ہمارے خاندانی جھگڑے علم کی کمی کی وجہ سے ہوتے ہیں یعنی علم کا مطلب یہ ہے کہ غصے کی جائز وجہ ہو اور پھر برداشت کرے انسان پھر جلد بازی میں کوئی ایسی حرکت نہ کر بیٹھے جس سے تکلیف آگے بڑھے.یہ مراد نہیں ہے کہ غصہ کی جائز وجہ نہ ہو اور پھر وہ حلم دکھائے ، غصے کی وجہ موجود ہونی چاہئے اور جتنے جھگڑے ہیں ان میں ہر فریق یہی کہتا ہے کہ آپ ہمیں سمجھاتے ہیں؟ واقعتہ اس کا قصور
خطبات طاہر جلد۳ 154 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء ہے اس نے یہ حرکت کی ہے اور دونوں فریق اس بات پر مصر ہوتے ہیں کہ دوسرے کا یہ قصور موجود ہے اس لئے ہم یہ کریں گے تو ایسی مشکل صورت میں جب کہ فریقین اس ضد پر قائم ہوں کہ قصور دوسرے کا ہے حلم اس گتھی کو سلجھا سکتا ہے اور کوئی چیز نہیں سلجھا سکتی.حلم بتا تا ہے کہ ہاں ٹھیک ہے ہم اس جھگڑے میں نہیں پڑتے عدل کے مقام پر ہم نہیں آتے کہ کس کا قصور ہے اور اس کو کتنی سزاملنی چاہئے ہم تمہیں یہ کہتے ہیں کہ دوسرے کا قصور ہو پھر تم برداشت کرو پھر حوصلہ دکھاؤ اس کو حلم کہتے ہیں.پس اگر اللہ تعالیٰ کی صفت حلیمی سے تعلق باندھنا چاہتے ہو اور چاہتے ہو کہ خدا تمہارے لئے حلیم ہو جائے تو تمہارے لئے ضروری ہے کہ ایسے حالات میں بھی حو صلے دکھا ؤ جب کہ دوسرے کا قصور ہو اور تم سمجھتے ہو بہر حال کہ دوسرے کا قصور ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو ایک اور رنگ میں بیان فرمایا ہے کہ بچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو ( کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ: ۱۲) اور جب بھی جھگڑا ہو ہر فریق سچا ہی سمجھ رہا ہوتا ہے اپنے آپ کو اور جتنا بھی مغلوب الغضب ہوگا اتنا اس کا فیصلہ غلط ہوگا لیکن یقین پورا ہوگا کہ میں سچا ہوں یہ ایک انسانی فطرت ہے.تو حلیم کا اول تو فیصلہ ہی درست ہوتا ہے اور اس کے اندر سے علم پھوٹتا ہے جو ہمیشہ اس کی راہنمائی سچی کرتا ہے اس کو ایک روشنی عطا کرتا ہے کہ یہاں کتنا قصور تمہارا ہے، کتنامد مقابل کا ہے؟ لیکن حلم کی کمی کے نتیجہ میں اول تو یہ مشکل صورت حال پیدا ہو جاتی ہے کہ ہر فریق لازماً اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے کیونکہ غصہ کی حالت میں فیصلے کر رہا ہے.اگر وہ ٹھنڈے مزاج سے فیصلہ کرے جس کو حلم کہتے ہیں تو ہو سکتا ہے اس کا فیصلہ بالکل مختلف ہو لیکن حلم اب بھی اس کی مدد پر آتا ہے وہ کہتا ہے بہت اچھا تم نے غصہ کی حالت میں ایک فیصلہ کر لیا تم سمجھتے ہو کہ تم سچے ہو اور تمہارا مقابل جھوٹا ہے، اب خدا کی حلیمی کی صفت، اس کا حلیم ہو نا تم سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ بہت اچھا اگر تم سچے ہواور وہ جھوٹا ہے تم پر ظلم ہو گیا تم غصے کی حالت میں ہو اب چھوڑو اپنا حق اب اس سے رحم کا سلوک فرماؤ.یہ علم ہے اور اب جلد بازی میں کوئی فیصلے نہ کر بیٹھنا، کوئی ایسے قدم نہ اٹھا بیٹھنا کہ پھر ان کی واپسی ممکن نہ ہو اور اسی کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ رکھتے ہیں تم سچے ہو کر جھوٹوں کی طرح تذلل اختیار کرو.آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر فرمایا اور یہ حضرت معاذ بن انس کی روایت ہے کہ جو شخص با وجود قدرت کے غصہ کو ضبط کرے گا اللہ تعالیٰ اسکو قیامت کے دن سب کے سامنے بلا کر انعام خاص کا
خطبات طاہر جلد ۳ 155 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء مستحق ٹھہرائے گا ( سنن ترندی کتاب البر والصلہ عن رسول الله له باب فی كظم الغيظ.یعنی صرف غصہ دو طرح کے نتائج پیدا کرتا ہے ایک غصہ کی حالت تو یہ ہو جاتی ہے کہ پھر انسان کہتا ہے جو بھی ہو میں کر گزروں گا.کمزور ہو تب بھی وہ مٹ جانے کا فیصلہ کر لیتا ہے اور مضبوط ظالم پر بھی ہاتھ ڈال بیٹھتا ہے اور ایک غصہ کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ جسکو غصہ دلایا جائے وہ طاقتور بھی ہو یا بدلے کی طاقت رکھتا ہو ویسے طاقتور ہو یا نہ ہو کم سے کم اس وقت کسی پہلو سے بدلہ کی طاقت رکھتا ہو مثلاً ایک کمزور آدمی کو ایک طاقتور آدمی گالی دے دے تو اتنی طاقت تو اس میں بہر حال ہے بیچارے میں کہ وہ گالی آگے سے دے دے اور زیادہ موٹی گالی دے دے پھر اسکو مار پڑے جتنی چاہے پڑ جائے اس کا دل اس گالی سے بعض دفعہ اتنا ٹھنڈا ہو جاتا ہے کہ وہ مارنے والا مارنے کی طاقت ہونے کے باوجود بھی اتنا غصہ نہیں اپنا نکال سکتا جتنا وہ کمز ور زیادہ سخت اور زیادہ موقع کی لگتی ہوئی گالی دے دے اس کو.تو غصہ جو ہے بعض دفعہ کمزوروں کو بھی ایسی بات پر آمادہ کر دیتا ہے کہ کمزوری کے باوجود وہ بدلہ لے لیتے ہیں.اسی قسم کا ایک لطیفہ بھی آتا ہے کہ ایک بہت مضبوط موٹا تازہ پہلوان اکھاڑے سے آرہا تھا چپڑا ہوا سارا جسم تیل سے اور ٹنڈ کروائی ہوئی چمکتی ہوئی، سرمنڈایا ہوا اور اوپر تیل ملا ہوا تو ایک کمزور سا بیچارہ آدمی دبلا پتلا جا رہا تھاوہ اس نے پیچھے سے اچھل کر اس کے سر پر ٹھنگا مار دیا، اس نے جو مڑ کر دیکھا تو اس کو اور بھی غصہ آیا کہ کوئی مقابل کا ہوتا تو اور بات تھی اسکو جرات؟ اس نے اسکولٹا کر مارنا شروع کیا تو اس نے آگے سے جواب دیا کہ پہلوان جی بہن جتنا مرضی گٹ لو جو مینوں ٹھونگے دا سواد آ گیا او توانوں نہیں آسکدا.مارلو جتنا مارنا ہے جو مزہ آیا ہے نا اس ٹھونگے کا وہ اور ہی مزہ ہے.تو کمزور بھی بعض دفعہ غصے پر ضبط نہ کرے تو ایسی بات کہہ دیتا ہے کہ جو مزہ اس کو آجاتا ہے وہ دوسرے کو آ ہی نہیں سکتا پھر.تو حلیم وہ ہوتا ہے کہ ہر حالت میں ضبط کرتا ہے.اسکو مزہ لینے کے مواقع ہوتے ہیں لیکن وہ رک جاتا ہے اس فراست کو ، اس عقل کو حلم کہا جاتا ہے.موقع ہو اور پھر انسان باز آجائے اور اس کی عقل قائم رہے اور غصے سے مغلوب نہ ہو جائے.آنحضرت ﷺے اس کو یہ خوش خبری دے رہے ہیں فرماتے ہیں تمہارے لئے یہ خوش خبری ہے کہ قیامت کے دن سر میدان خدا تمہیں بلائے گا اور بطور خاص تمہیں انعام عطا فرمائے گا کیونکہ یہ صفت ایک غیر معمولی صفت ہے اس لئے انعام بھی غیر معمولی ہونا چاہئے ، ہر انسان میں یہ صفت نہیں پائی جاتی بڑا عزم چاہئے اس بات کے لئے کہ انسان حلیم ہو
خطبات طاہر جلد۳ 156 خطبه جمعه ۱۶ / مارچ ۱۹۸۴ء تبھی بہت کم لوگوں کے لئے لفظ حلیم استعمال ہوا ہے.انبیاء میں بڑی بڑی صفات ہوتی ہیں لیکن غیر معمولی طور پر جو لفظ حلیم استعمال ہوا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے استعمال ہوا ہے اور اللہ تعالیٰ نے بڑی خوش خبری دی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب یہ فرمایا کہ تجھے ایک بیٹا دیا جائے گا وہ دل کا حلیم ہو گا یعنی ایسے وقت میں ہم تمہیں ایک ایسا وجود بخش رہے ہیں جب کہ حلم مفقود ہو چکا ہے لیکن وہ صاحب حلم آنے والا ہے.تو حضرت رسول اکرم ﷺ تو یہ توقع رکھ رہے ہیں آپ سے کہ جس طرح عیسی سے خدا نے کہا تھا کہ تیرے بعد ایک اور قوم آنے والی ہے، ایک اور قسم کے مسیحی پیدا ہونے والے ہیں جو محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہوں گے اور ان سے ہنر سیکھیں گے، ان سے آداب حاصل کریں گے، وہ قوم ایسی ہوگی کہ جب حلم دنیا سے مفقود ہو چکا ہوگا تو اس وقت وہ صاحب حلم ہوں گے.پس آنحضرت علیہ کی اس پیشگوئی کا آپ بھی مورد ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت حلم مفقود ہو چکا ہے دنیا سے.جماعت احمد یہ نے اس صفت کا جھنڈا پھر اٹھانا ہے اور دنیا میں دوبارہ اس کو قائم کرنا ہے لیکن خیرات گھروں سے شروع ہوتی ہے پہلے اپنے گھروں میں تو حلیم بن جائیں جو اپنی عورت کے مقابل پر حلیم نہیں ہے، جو کمزور بچوں کے مقابل پر حلیم نہیں ہے جو مغلوب الغضب ہو کر ان پر ہاتھ اٹھا تا ہے اور زیادتیاں کرتا ہے اور ظلم اور سفاکی سے کام لیتا ہے وہ اپنے دشمن کے مقابل پر کیسے حلیم ہوگا ؟ بظاہر وہ یہ کہ سکتا ہے کہ مجھے فلاں نے گالیاں دیں، فلاں مولوی صاحب نے اس قدر بد کلامی کی دیکھو میں حوصلے میں رہا لیکن اللہ تعالیٰ اور اس کے فرشتے اسے جھٹلا ئیں گے کہ تو اس لئے حوصلے میں رہا کہ تو کمزور تھا اس لئے کہ تیرا بس نہیں چل رہا تھا جب میرے کمزور بندے تیرے سپرد کئے گئے تھے جن پر تیرا بس چلتا تھا اس وقت تو نے کبھی حلم نہیں دکھایا.پس تو نے میری صفت حلم سے تعلق تو ڈ ڈالا ہے تیرا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے اس پہلو سے اس لئے گھروں میں پہلے حلیم بنے ان کمزوروں کے اوپر حلیم بنئے جو آپ کے سپرد کئے گئے ہیں تب اللہ تعالیٰ کی صفت علیمی آپ کو ڈھانپ لے گی اور طاقتور کے غضب کی راہ میں حائل ہو جایا کرے گی ، توفیق ہی نہیں دے گی کسی طاقتور کو کہ اس کا غصہ آپ پر ٹوٹ پڑے کیونکہ آپ نے خدا کی خاطر اپنے غصہ کو روکا تھا اور اپنے ہم کو قائم رکھا تھا اللہ تعالی ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 157 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء اللہ تعالی کی صفت حلم (خطبه جمعه فرموده ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْعُ وَالْاَرْضُ وَمَنْ فِيْهِنَّ b وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيْمًا غَفُورًا (بنی اسرائیل: ۴۵) اور پھر فرمایا: یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوتُ السَّبْح ساتوں آسمان وَالْاَرْضُ اور زمین بھی اور جو کچھ بھی ان دونوں میں ہے یعنی تمام کی تمام کائنات اور اس کے اندر جو چیزیں بھی مخفی ہیں ان میں سے ہر ایک چیز خدا تعالیٰ کی تسبیح کر رہی ہے اور اس کی حمد بیان کرتی ہے لیکن تم لوگ ان کی زبان کو سمجھتے نہیں ، وہ جس زبان میں حمد کرتے ہیں جس طرح خدا کی تسبیح بیان کرتے ہیں تم اس کو نہیں سمجھتے إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا الله تعالیٰ بہت حلیم اور بہت غفور ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے یہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں اپنی صفات کو مختلف رنگ میں پھیر پھیر کر بیان فرماتا ہے اور جس موقع اور محل کے مطابق کسی صفت کا بیان ہوتا ہے اس سے اس صفت پر ایک خاص روشنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ کسی ایک صفت کے ساتھ ایک اور دوسری
خطبات طاہر جلد ۳ 158 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء صفت کو ملا دیتا ہے بعض دفعہ ایک اور صفت کے ساتھ ایک اور دوسری صفت کو ملا دیتا ہے اور ان سب کو مجموعی نظر سے دیکھیں تو نئے نئے مضمون ابھر کر سامنے آتے ہیں.عموماً قرآن کریم کا ترجمہ پڑھنے والے قرآن کریم پر اس طرح گزر جاتے ہیں کہ جو معانی بیان ہورہے ہیں وہ پڑھنے کے بعد، خدا تعالیٰ کی صفت کے بیان پر اس طرح غور نہیں کرتے کہ ان معانی سے اُس کا تعلق کیا ہے حالانکہ ہر آیت کے آخر پر جب صفات بیان ہوتی ہیں یا جن جن آیات کے آخر پر صفات بیان ہوتی ہیں انکا اُن سے پہلے گزرے ہوئے مضمون سے گہرا تعلق ہوتا ہے اور اگر آپ ان پر غور کرنے کی عادت ڈالیں تو یہ دیکھ کر حیران ہوں گے کہ وہ صفات اگر ڈکشنریوں میں تلاش کی جائیں اور ان کے معانی پر غور کیا جائے تو تمام دنیا کی ڈکشنریاں بڑے سے بڑے عالم کی ڈکشنری بھی اس صفت پر وہ روشنی نہیں ڈالتی نہ ڈال سکتی ہے جو قرآن کریم کی آیات ڈال دیتی ہیں اور حیرت انگیز نئے نئے مطالب انسان کے سامنے اُبھرتے ہیں.اس لحاظ سے صفات باری تعالیٰ پر غور ایک بہت ہی بڑا مضمون بن جاتا ہے اور عمداً میں اس کو چھوڑتا رہا ہوں کیونکہ پھر یہ ایک خطبہ کا معاملہ نہیں رہے گا بلکہ متعد د خطبات صرف ایک ایک صفت پر دے کر بھی پھر بھی تشنگی باقی رہ جائے گی.لیکن گزشتہ خطبہ کے بعد مجھے خیال آیا کہ نمونۂ خدا تعالیٰ کی حلیم صفت کے متعلق احباب جماعت کو بتاؤں کہ متفرق جگہ پر جب صفت آتی ہے تو اس صفت کے اندر کیا کیا نئے معانی جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ جماعت کو یہ عادت پڑے کہ خدا تعالیٰ کی صفات پر ان مواقع کے لحاظ سے غور کرے جن مواقع پر قرآن کریم میں وہ صفات بیان ہوئی ہیں اور بعض دفعہ تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی بھی تعلق نہیں.دو تین مثالیں میں نے چنی ہیں ان پر ظاہری نظر سے جب غور کریں تو معلوم ہوگا کہ بظاہر کوئی تعلق نہیں ہے حلیم“ کا اس بات سے کیا تعلق ہے جو بیان ہوئی ہے لیکن مزید غور سے ایک حیرت انگیز علم کا جہان آیت کے سامنے ابھر آئے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمام آسمان اور زمین اور جو کچھ ان کے اندر ہے ہر چیز ہماری تسبیح بھی کر رہی ہے اور حمد بھی کر رہی ہے اور تم اس کی زبان کو سمجھتے نہیں.اِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا خدا حلیم ہے.صفت حلیم کا کیا تعلق ہے اس چیز سے کہ ساری چیزیں تسبیح بیان کر رہی ہیں اور تم نہیں سمجھتے اور اللہ حلیم ہے؟ تو پہلے تو یہ معلوم کرنا چاہئے کہ کس طرح حمد بیان کر رہی ہیں؟ کس طرح خدا کی تسبیح
خطبات طاہر جلد ۳ بیان کر رہی ہیں سب چیزیں؟ 159 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء اس کے دو پہلو ہیں، اول تو یہ کہ انسان شروع میں جب خدا تعالیٰ کی کائنات کو سمجھنے کی تہ کوشش کر رہا تھا تو اس کو یہ تو احساس تھا کہ جانوروں میں کسی قسم کا شعور ہے لیکن جانوروں سے آگے وہ کسی شعور کا قائل نہیں تھا اور نبی اور حم کا ایک قسم کے شعور سے بھی تعلق ہے.اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ایک زمانہ انسان پر ایسا آیا بلکہ اس سے پہلے زمانہ میں جائیں تو یہ کہنا چاہئے کہ ایک زمانہ انسان پر ایسا آیا کہ جب وہ سوائے انسان کے کسی کو باشعور نہیں سمجھتا تھا.جانور اس کے سامنے کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے تھے جیسے ان میں جان ہی نہ ہو.یہ آغاز تھا انسان کا بلکہ ایک ایسا دور تھا کہ ہر جاندارا اپنے آپ ہی کو باشعور سمجھتا تھا اس لئے غیر کا احساس نہیں تھا.غیر کا احساس تب پیدا ہوتا ہے جب اس کو باشعور سمجھے اور انسانی زندگی پر اور اس سے پہلے حیوانی زندگی پر بہت لمبا دور ایسا گزر چکا ہے کہ ہر وجود صرف اپنے آپ کو صاحب احساس سمجھتا تھا اور کسی دوسرے وجود میں احساس کا تصور ہی نہیں پایا جا تا تھا.جوں جوں دور آگے بڑھا ہے اور انسان نے ترقی کی ہے اس کو یہ احساس پیدا ہونا شروع ہوا کہ اوروں میں بھی یہ احساس ہے.پہلے تو یہ احساس جانوروں تک پہنچا پھر زیادہ لطافت اختیار کرنے لگا اور انسانی احساس نے بھی ترقی شروع کی ان معنوں میں کہ دوسرے کے متعلق احساس کے معاملہ میں زیادہ باشعور ہو گیا دوسرے انسانوں کے احساس کے بارہ میں بھی زیادہ باشعور ہو گیا.تو اندرونی طور پر بھی احساس میں مزید لطافتیں اور مزید وسعتیں پیدا ہونی شروع ہوئیں اور بیرونی طور پر بھی احساس میں مزید لطافتیں اور مزید وسعتیں پیدا ہونی شروع ہوئیں یہاں تک کہ جب انسان نے علم میں زیادہ ترقی کی تو اس نے یہ محسوس کیا کہ صرف جاندار ہی حساس نہیں بلکہ پودے بھی حساس ہیں اور پودوں میں بھی ایک قسم کی جان ہے، نہ صرف جان ہے بلکہ احساس رکھتے ہیں اور کوئی شعور رکھتے ہیں.اب تک ان کا نروس سسٹم (Nervous System) تو انسان معلوم نہیں کر سکا کہ پودوں کے اندر اعصاب ہیں اور ان اعصاب کے ذریعہ وہ محسوس کرتے ہیں لیکن اس بات کے قطعی شواہد موجود ہیں کہ پودوں میں احساس پایا جاتا ہے اور اب جو امریکہ میں ریسرچ ہو رہی ہے لائٹ ڈیٹیکٹر (Light Detectors) کے ذریعہ پودوں کے اوپر.اُس سے تو اگر چہ ابھی دعوئی کی حد تک ہے لیکن اگر وہ دعوے 1/10 حصہ بھی درست ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ پودوں کا شعور
خطبات طاہر جلد۳ 160 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء بعض لحاظ سے انسانی شعور سے زیادہ باریک ہے اور حیرت انگیز وسعتیں رکھتا ہے.مثلاً یہ دعوی کیا جارہا ہے کہ اگر ایک پودے کے سامنے ایک قتل ہو تو وہ پودا اس قاتل کے معاملے میں اتنا شدید رد عمل رکھتا ہے کہ اگر دوبارہ وہ قاتل اس کے سامنے آئے اور باریک بجلی کے آلات سے جو پودے پر لگا دیئے گئے ہوں یہ معلوم کرنا چاہے انسان کہ مختلف آدمی اس کے سامنے سے گزرتے رہے ہیں اُن میں سے قاتل کون ہے تو جب بھی قاتل سامنے آئے گا وہ پودار دعمل دکھائے گا.کس حد تک یہ درست ہے اور کس حد تک یقینی بات ہے اس میں ابھی بہت سی تحقیق کی گنجائش موجود ہے لیکن بعض کام کرنے والے جنہوں نے ساری زندگی اس پر صرف کی ہے وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ پودا جھوٹے آدمی کو بچے آدمی سے الگ کر کے پہچان لیتا ہے.تو بہر حال شعور کے بارہ میں انسان کا شعور اس طرح ترقی کرتا رہا کہ اپنے سوا غیر انسانوں کے شعور کے متعلق بھی احساس بڑھا اور وسعت پذیر ہوا اور غیر انسانوں کے متعلق یعنی جانداروں کے متعلق بھی اس کا شعور بڑھا اور وسعت پذیر ہوا یہاں تک کہ وہ نباتات کی حد میں داخل ہو گیا اور اب یہ تسلیم کرتا ہے کہ نباتات میں بھی شعور موجود ہے اور ہر گز بعید نہیں اور جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے ثابت ہوتا ہے آخر انسان اس نتیجے پر پہنچے کہ کائنات میں کوئی چیز بھی شعور سے کلینتہ خالی نہیں.ہاں شعور کے مراتب ہیں اور درجے ہیں جس کو ہم بے جان چیز سمجھتے ہیں وہ شعور کے ادنیٰ درجہ پر واقع ہیں لیکن شعور سے خالی نہیں اور ہر ایک باشعور اپنے شعور کے دائرہ کے مطابق تسبیح کر رہا ہے اللہ تعالیٰ کی اس دائرے کے مطابق اس کی حمد بیان کر رہا ہے.تو ایک تو اس آیت کے یہ معنی ہیں.اور دوسرے یہ معانی کہ زبانِ حال سے ہر چیز خدا تعالیٰ کی حمد بیان کر رہی ہے یعنی خدا تعالیٰ نے جو صنعت پیدا فرمائی ہے وہ اتنی حیرت انگیز ہے کہ وہ صنعت صانع کے حسن صنعت کی طرف دلالت کرتی ہے.وہ صنعت اپنے وجود سے خدا تعالیٰ کی تسبیح بھی کر رہی ہے اور اس کی حمد بھی بیان کر رہی ہے اور ایک بھی خدا کی صنعت ایسی نہیں جس میں یہ دو باتیں نہ پائی جاتی ہوں کہ وہ گواہی دے رہی ہو کہ میرا خالق تمام نقائص سے پاک ہے اور میرا خالق تمام صفات حسنہ سے متصف ہے.اس معاملہ میں بھی انسانی تحقیق نے حیرت انگیز چیزیں دریافت کی ہیں اور بہت سے جانوروں کے متعلق جو تحقیق ہو رہی ہے اس سے انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے کہ ہر جانور ایک عظیم الشان جہان
خطبات طاہر جلد۳ 161 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء ہے اور اپنے اندر اور اتنے حیرت انگیز اس کے اندر بار یک مصالح کارفرما ہیں ایک باشعور ہستی کے کہ ان پرغور کرتے چلے جاؤ تو ہر جانور خدا کی ہستی کا ایک عجیب ثبوت بن جاتا ہے.اب تو یہ تحقیق بہت بڑا علم بن چکی ہے لیکن اتنا بڑا علم بننے کے باوجود کسی جانور کی ایک بار یک کی صفت پر بھی پورا عبور حاصل نہیں کر سکی مثلاً متفرق تحقیقات میں ایک تحقیق اس بات پر ہورہی ہے بڑے حصہ سے کہ جانور اپنے گھروں تک کس طرح پہنچتے ہیں دور جانے کے بعد ان کو کیسے معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے کس سمت میں جانا ہے؟ اور سب سے پہلے اس معاملے میں شہد کی مکھی نے انسان کو حیران کیا.چنانچہ ارسطو نے سب سے پہلے اس بات پر غور کیا اور اس معمہ کو دنیا کے سامنے پیش کیا کہ شہد کی مکھی میں ایک حیرت انگیز ایک خصلت پائی جاتی ہے، ایک اہلیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنے چھتے سے دور چلی جاتی ہے اور بظا ہر کوئی وجہ نظر نہیں آتی کہ وہ چھتے تک واپس پہنچے لیکن پھر پہنچ جاتی ہے.اس پر جو تحقیق ہوئی تو بہت لمبے عرصہ تک انسان اس کی وجہ کو پا نہیں سکا لیکن 1914ء میں ایک سائنسدان نے سب سے پہلے اس کا نام فان فش (Von Fisch) تھا ، فان فش نے یہ حیرت انگیز بات شہد کی مکھی کے متعلق دریافت کی کہ شہد کی مکھی کا دیکھنے کا شعور اور اُسکی دیکھنے کی دنیا انسان سے بالکل الگ ہے.ہم جس روشنی کو دیکھ رہے ہیں اس روشنی سے ایک الگ روشنی کی دنیا میں وہ رہتی ہے.عام شعائیں جو ہم دیکھتے ہیں ان کو وہ نہیں دیکھتی بلکہ الٹراوائیلٹ شعاعوں کی قسم ہے اُس جہاں میں وہ رہتی ہے.الٹراوائیٹ کا جہان انسانی جہان سے بالکل مختلف ہے.ہم جو چیز میں دیکھ رہے ہیں ، جو ہمیں یہ رنگ نظر آرہے ہیں، جو طرزیں نظر آ رہی ہیں، جو شیڈ نظر آرہے ہیں اگر یہاں یہ روشنی نہ ہو جو ہم دیکھ سکتے ہیں اور صرف الٹراوائیلٹ ہوں تو ہم کلیتہ اندھے ہو جائیں گے.ایک ادنی ذرہ بھی ہمیں نظر نہیں آئے گا، ایک بڑی سے بڑی چیز بھی نظر نہیں آئے گی کیونکہ الٹراوائیلٹ کو دیکھنے کی خدا تعالیٰ نے انسان کو صلاحیت ہی نہیں بخشی اور شہد کی مکھی کے لئے اس روشنی کی کوئی حقیقت نہیں.وہ الٹرا وائیلٹ روشنی سے ایک بالکل مختلف جہان دیکھ رہی ہے اپنا اور اسی روشنی کے ذریعہ وہ پھولوں کا رس بھی چوستی ہے اور اسی روشنی کے ذریعہ وہ یہ معلوم کرتی ہے کہ کہاں شہد ہے کہاں نہیں اور اس کے سارے References اپنی ذات کے ساتھ متعلق رکھنے والے، سارے حوالے اس
خطبات طاہر جلد۳ 162 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء الٹراوائیلٹ روشنی سے ہیں.یہ جب تحقیق سامنے آئی سائنسدانوں کے تو ایک نیا جہان علم کا کھل گیا.انہوں نے دوسرے جانوروں پر جو تحقیق شروع کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ ہر جانور کی سماعت کا جہان بھی اپنا ہے، اور اس کا روشنی کا جہان بھی اپنا ہے.بظاہر ہم ایک دنیا میں بسر کر رہے ہیں لیکن ہر جانور کو ایک اور دنیا نظر آ رہی ہے اور اپنی دنیا میں وہ کامل ہے اس کو ہر چیز مہیا ہے اپنی دنیا میں جو انسان سمجھتا ہے کہ اس کو مہیا نہیں اور ہمیں مہیا ہے.اگر اس کی دنیا کے اعصاب اور اُس کی دنیا کی حواس خمسہ انسان کو نصیب ہوتے تو پھر انسان کی دنیا اس کے لئے اندھی ہو جاتی اور وہ ایک نئی دنیا میں چلا جاتا اور سمجھتا کہ انسان کو کچھ نصیب نہیں ہے اور سب کچھ مجھے نصیب ہے.حیرت انگیز خدا ہے ہمارا جس نے کائنات کے ہر ذرہ میں ایسا حسن رکھ دیا کہ اس حسن کے ہر تجزیہ میں انسان ایک نیا حسن کا جہان پاتا ہے.اب سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ہم اس کو نہیں سمجھتے اللہ تعالیٰ جانتا ہے پھر حلیم کا کیا مطلب ہوا ؟ حلیم کا مطلب ہے ایسا صاحب رشد، ایسا صناع، ایسا با کمال وجود جو حوصلہ بڑا رکھتا ہو اور اس بات سے بے نیاز ہو کہ دنیا اس کے حسن کی تعریف کر رہی ہے کہ نہیں کر رہی، اس کی عقل کو جانچ بھی رہی ہے یا نہیں، وہ اپنی ذات میں حلم رکھتا ہے، اس کے اندر ایک وقار پایا جاتا ہے، اس کی عقل میں اور اس کی صناعی اس بات کی محتاج نہیں کہ کوئی دوسرا تعریف کرے گا تو وہ اچھا صناع رہے گا بالکل بے نیاز ہے ان باتوں سے؟ جیسا کہ آپ نے بچپن میں وہ کہانی پڑھی ہوگی ایک نجار، ایک ترکھان ایک جنگلہ بنا رہا تھا کسی کے لئے جس پر اس نے انگوروں کی بیل چڑھانی تھی اور اس لئے اس نے سستا سودا کیا اس سے کہ ڈھانپ تو لے گی یہ بیل اس کو رندا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ خوبصورت بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن وہ جب آدمی دیکھنے کے لئے آیا کہ وہ کس طرح کا کام کر رہا ہے، تو اس نے دیکھا کہ بڑی محنت کر رہا ہے اور بڑی صفائی کر رہا ہے اُس کی اور بڑے رندے پھیر رہا ہے تو حیران ہو کر اس نے کہا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ میں نے تم سے جو سودا کیا ہے تھوڑے پیسوں کا ہے، تھوڑے کام کا ہے.اگر تمہارا خیال ہو کہ اچھا کام کر کے مجھ سے پیسے زیادہ لے لو گے تو میں بالکل نہیں دوں گا تمہیں.اس نے کہا آپ بالکل فکر نہ کریں میں اپنے سودے پر قائم ہوں مگر آپ کے ذوق کے بد ہونے کے نتیجہ میں اپنی صناعی کو کس طرح بگاڑ لوں آپکا ذوق بد ہے تو میری صنعت کیوں اس سے متاثر ہو جائے،
خطبات طاہر جلد ۳ 163 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء میں تو اپنے حسن صنعت کو بگڑنے نہیں دوں گا، میں تو وہی چیز بناؤں گا جو مجھے پسند آتی ہے اور جس کے اوپر میں فخر کر سکتا ہوں.تو انسان میں بھی جب یہ صفت پیدا ہوتی ہے علیمی کی تو اس کے اندر ایک نیا جہان پیدا کر دیتی ہے.ہر صنعت کار میں ایک نئی عظمت پیدا ہو جاتی ہے.ہر صاحب فہم و عقل میں ایک نئی عظمت کردار آجاتی ہے اور انسانوں کے اندر رہتے ہوئے بھی وہ ایک نیا وجود بن جاتا ہے.تو یہ قرآن کریم میں جو خدا تعالیٰ کی صفات بیان ہوئی ہیں اور جن جن مواقع پر بیان ہوئی ہیں ان پر غور کریں آپ تو پھر آپ کو اپنی تربیت کا ایک نیا سلیقہ آجائے گا ، ایک نیا ادب نصیب ہوگا اور اسی دنیا میں رہتے ہوئے احمدی جوان باتوں پر غور کر رہا ہوگا وہ بالکل ایک نیا وجود پا رہا ہوگا.یہ ہے قرآن کریم کی دولت اور عظمت جس کی کوئی انتہا نہیں ہے.اب دیکھو خدا تعالیٰ کی وہ تمام صفات حسنہ جو اس کی صنعت کاری میں کہیں داخل ہوئی ہیں وہ کتنے لمبے عرصہ تک اوجھل رہی ہیں کائنات سے.انسانی دور تو بہت ہی مختصر ہے جس میں اس نے سمجھنا شروع کیا انسانی دور کا وہ دور جو سمجھ میں داخل ہوا ہے وہ کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتا اس دور کے زمانے کے مقابل پر جب انسان نا سمجھی میں زندگی بسر کر رہا تھا.اگر کائنات کو چوبیس گھنٹوں میں تقسیم کیا جائے آغاز سے لے کر اب تک تو انسان کی پیدائش آخری سیکنڈ کے کچھ حصے کے بعد بنے گی اور وہ کچھ حصہ سیکنڈ کا سارا گزرنے کے بعد سیکنڈ کا لا کھواں حصہ ایسا ہوگا جس میں ہم اس شعور میں پہنچے ہیں جس میں اب بسر کر رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو کوئی پرواہ نہیں.اس کی رشد پر اس بات کا اثر نہیں پڑا ، اس کے فہم اور اس کی عقل اور اس کی صنعت کاری پر اس بات کا کوئی اثر نہیں پڑا کہ کوئی دُنیا جانتی ہے یا نہیں جانتی، کسی کو بات پسند آتی ہے کہ نہیں پسند آتی.تو وہ عقل جو مستغنی ہو چکی ہو جو اپنی ذات میں قائم ہو اور کسی دیکھنے والے کی تحسین کی محتاج نہ رہی ہو وہ صحرا میں بھی لالہ کھلا رہی ہے جب کہ کوئی دیکھنے والا وجود نہیں ، وہ لالہ کے ہر ذرہ میں اس کے پردوں میں ایسے ایسے حسن پیدا کر رہی ہے جس کو دیکھنے والا وجود بھی محسوس نہیں کر رہا.اس رشد کامل کو حلم کہتے ہیں.اور ان معنوں میں خدا تعالیٰ حلیم ہے کہ تم تسبیحوں سے واقف ہو یا نہ ہو خدا کے صنعت کے حسن سے آشنا ہو یا نہ ہو خدا اپنی ذات میں حلیم ہے اور وہ حلیم ہی رہے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 164 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء ایک دوسری جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنْ تُقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا يُضْعِفُهُ لَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ وَاللَّهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ ) ( التغابن : ۱۸) کہ تم جو خدا تعالیٰ کو قرضہ حسنہ دیتے ہو وہ تمہارے لئے اس کو بڑھاتا رہتا ہے اور اس کے نتیجہ میں تم سے مغفرت کا سلوک بھی فرماتا ہے وَاللهُ شَكُورٌ حَلِيمٌ.اللہ تعالیٰ بہت ہی خدمت کو قبول کرنے والا ہے.شکور خدمات کا بہترین نتیجہ دینے والا ہے، ان معنوں میں شکر ادا کرتا ہے تمہارا کہ تم جو کچھ اس کی خاطر کرتے ہو وہ اس کو قبول فرماتا ہے اسے استحسان کی نظر سے دیکھتا ہے اتنا نہیں دیتا جتنا تم نے کیا ہے اس سے بڑھ کر دیتا ہے.شکور کی تو سمجھ آگئی حلیم کا کیا تعلق ہے یہاں؟ حلیم تو برد بار کو کہتے ہیں.اس میں بردباری کا کیا تعلق ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا کی خاطر جو لوگ دیتے ہیں وہ بظاہر یہی سمجھ رہے ہوں کہ ہم بہترین چیز دے رہے ہیں.قرضہ حسنہ کا وہ مطلب نہیں ہے جو آپ یہاں دیتے ہیں قرضہ حسنہ.انسان جب قرضہ حسنہ دیتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ میں جتنا دوں گا اتنا ہی واپس لوں گا.اس میں حسن تو محض نام کا ہے صرف عدل کا پہلو ہے.خدا تعالیٰ کو جب قرضہ حسنہ دیتے ہیں تو اس کے دو معانی ہیں ایک یہ کہ جتنا ہم دیں گے اس سے بے انتہا زیادہ لیں گے.یعنی یہ انسان کو یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھ سے یہ سلوک کرے گا دوسرا یہ کہ ہم اپنی چیزوں میں سے بہترین چیز دیں گے.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ (آل عمران:۹۳) میں جو مضمون ہے حسن کا وہی خدا کے تعلق میں جب قرضہ حسنہ بولا جاتا ہے تو اس میں وہ داخل ہو جاتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے تفسیر صغیر میں جو تر جمہ کیا وہ حیرت انگیز ترجمہ ہے چند لفظوں میں اس حسن کی طرف اشارہ کر دیا ہے آپ نے.فرماتے ہیں اس کا ترجمہ یہ ہے اور اگر تم اللہ کے لئے اپنے مالوں میں سے ایک اچھا حصہ کاٹ کر الگ کر دو یعنی قرضہ حسنہ سے مراد یہ ہے کہ اموال میں سے گندہ نہ دو بلکہ اچھا دو تب خدا کا یہ وعدہ ہے کہ وہ تم سے مغفرت کا سلوک کرے گا ،تمہارے اموال کو بڑھائے گا لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں حلیم بھی ہوں اور میں جانتا ہوں تمہاری کمزوریوں کو اور میں جانتا ہوں کہ حسن کے نام پر تم بسا اوقات بہت گندی گندی چیزیں بھی میرے نام
خطبات طاہر جلد۳ 165 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء پر دے جاتے ہو اور اکثر اوقات دینے والا اپنے مال کا بہترین دینے کی بجائے وہ حصہ پہلے نکالتا ہے جس کی اس کو ضرورت نہیں رہتی اور یہ بہت بڑی گستاخی ہے.ایک طرف محبوب کو تحفہ دینے کا دعوی ہو اور دوسری طرف گندی گندی چیزیں نکال کر دی جائیں یہاں تک کہ قرآن کریم ایک اور موقعہ پر بیان فرماتا ہے کہ ایسے مال نہ دیا کرو کہ اگر تمہیں دیئے بھی جائیں تو تمہاری نظریں شرم سے جھک جائیں.(البقرہ: ۲۶۸) تو اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ قرضہ حسنہ کے نام پر انسانوں کی ایک بہت بڑی تعداد اس ظلم کا شکار ہورہی ہوتی ہے کہ اپنے رب کے حضور ادفی چیزیں دے رہی ہوتی ہے اور اس کا نام حسن رکھتی ہے اور کہتی ہے دیکھو! ہم نے خدا کی خاطر کیا کیا کچھ دے دیا.تو وہاں اللہ تعالیٰ کی صفت حلیم جو ہے وہ انسان کو اُس کے عذاب اور پکڑ سے بچاتی ہے.ورنہ دنیا میں ایک بادشاہ کے سامنے آپ سڑا ہوا مال لے کر چلیں جائیں تو لا زماوہ اس کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے.چاہے غریب بھی انسان ہوا گر وہ تحفے کے طور پر ایک سبز پتا بھی توڑتا ہے تو لہلہاتا ہوا سبز پتہ توڑتا ہے، وہ یہ نہیں کرتا کہ سڑا ہوا بسا ہو جوگرا ہواز مین پر پتہ اٹھا کر بادشاہ کو دے.بادشاہ تو امیر کے تحفے سے بھی مستغنی ہوتا ہے اور غریب کے تحفے سے بھی لیکن اس کے اندر جو حسن شامل ہو جاتا ہے وہ اس کو قبول کرتا ہے.اللہ تعالیٰ بھی حسن کو قبول کرتا ہے لیکن جانتا ہے کہ حسن کے نام پر انسان نہایت ہی بیہودہ چیزیں دے رہا ہوتا ہے اور پھر جو خدا کی خاطر مالی قربانی کے نظام میں شامل ہوتے ہیں ان کو حلیم بننا پڑتا ہے کیونکہ جب وہ خدا کی خاطر مال لینے کے لئے جاتے ہیں تو طرح طرح کی باتیں بھی سنتے ہیں، قرآن کریم ان باتوں کا ذکر بھی فرماتا ہے.بعض لوگ کہتے ہیں اچھا اللہ غریب ہے ہم امیر ہیں ہم سے مانگنے آئے ہو خدا کے لئے، عجیب و غریب طعنے دیتے ہیں اور چونکہ مالی لین دین کے معاملات میں یہ باتیں لازمی حصہ ہیں اس لئے حلیم بنے بغیر گزارہ نہیں ہوسکتا.ان بندوں کو بھی حلیم بنا پڑتا ہے جو خدا کی خاطر قربانی والے نظام سے وابستہ ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اگر حلیم نہ ہو تو بظاہر قربانی کرنے والے جو ہیں ہمیں ان کی اکثریت کو ہلاک کر دے اس سلوک کے نتیجہ میں جو وہ خدا کی خاطر مال دیتے وقت کرتے ہیں تو فرمایا میں غفور بھی ہوں اور حلیم بھی ہوں.یہ دونوں صفات جب مل جاتی ہیں تو نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ میں شکر کے ساتھ قبول کرتا ہوں.تم اپنی طرف سے
خطبات طاہر جلد۳ 166 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء پتہ نہیں کیا کیا گمان کر کے چیزیں پیش کر رہے ہو؟ کیا کیا اُن میں کیڑے ہیں ؟ کیا کیا ریا کاریاں ان میں داخل ہیں؟ یہ ساری باتیں بھی تو آجاتی ہیں اس میں.بظاہر دانہ مکمل ہے دیکھنے میں لیکن اندر سے اس کو گھن چاٹ چکا ہے.بہت سی انسان کی مالی قربانیاں انفاق فی سبیل اللہ کو ایسی بیماریاں لگی ہوئی ہیں یا ایسے ایسے کیڑے لگے ہوئے ہیں کہ وہ اندر سے کھا چکی ہوتی ہیں اُن قربانیوں کو بد خلقی سے یا گندی چیز دینا تو ایک الگ معاملہ ہے اچھی چیز دیتے وقت بھی خدا کے سوا غیر اللہ کا خیال دل میں آجاتا ہے.ریا کاری کے نتیجہ میں انسان ایک قربانی کر رہا ہوتا ہے تو اکثر اموال تو گندے ہو جاتے ہیں.یہ خدا تعالیٰ حلیم ہے جو ان کو شکر کے ساتھ قبول کرتا ہے.وہ ہماری پردہ پوشی بھی فرماتا ہے ہم سے بخشش کا سلوک بھی فرماتا ہے اور فرماتا ہے میں تمہارا ممنون ہوں تمہارا مشکور ہوں.تمہارے لئے میں اس کو بڑھا دوں گا.کیسا عظیم خدا ہے! اور یہ ہے حلم کی صفت جو انسان کے کام آتی ہے اس موقع پر اور بندہ کو بھی یہی تعلیم خدا تعالیٰ نے دی ہوئی ہے کہ تم بھی حلیم بنو، بندوں سے علم کا سلوک کیا کرو، ان کی کمزور چیزیں بھی بظاہر پردہ پوشی کرتے ہوئے تعریف کے ساتھ قبول کر لیا کرو عظیم گر ہے یہ معاشرہ کو سدھارنے کا اور اس میں حسن پیدا کرنے کا.پس جو بندے دوسرے بندوں سے حلیم بنیں گے اللہ تعالیٰ ان کے لئے حلیم بنے گا.پھر ایک اور جگہ حلم کے مضمون کو واضح کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ ابْرُ هِيمَ لِأَبِيْهِ إِلَّا عَنْ قَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَةَ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلهِ تَبَرَّاً مِنْهُ اِنَّ ابْراهِيمَ لَأَوَّاهُ حَلِيمٌ (التوبة :۱۱۴) کہ دیکھو ابراہیم کا اپنے باپ کے لئے جو استغفار تھا وہ صرف اس لئے تھا کہ اس نے وعدہ کرلیا تھا اپنے باپ سے کہ میں تمہارے لئے ضرور خدا سے بخشش کی دعا کروں گا لیکن جب اس پر یہ بات روشن ہوگئی اور کھل گئی کہ اَنَّهُ عَدُوٌّ لِلهِ کہ وہ خدا کا دشمن ہے تبرا مِنْهُ وہ اس سے بیزار ہو گیا اِنَّ اِبْرهِيْمَ لَأَوَاهُ حَلِيمُ ابراہیم بہت ہی نرم مزاج اور نرم خو اور نرم دل انسان تھا اور حلیم بھی تھا.جو موقعہ کی مناسبت ہے اس سے اواہ کی صفت تو کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ دل میں نرمی تھی
خطبات طاہر جلد ۳ 167 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء اس لئے اُس نے بخش کا وعدہ کر لیا لیکن حلیم کا اس مضمون میں کیا تعلق ہے؟ یہ ہے گفتگو ، قابل غور بات یہ سامنے آنی چاہئے کہ اواہ کی جو آپ کو سمجھ آگئی کہ بہت ہی نرم دل تھا اپنے باپ سے اس نے وعدہ کر لیا کہ میں استغفار کروں گا تو حلیم نے ہمیں یہاں کیا مضمون سکھایا ؟ اصل میں کوئی صفت بھی فی ذاتہ اچھی یا بری نہیں کہلا سکتی جب تک اس کے ارد گرد کی صفات پر غور کر کے اس کے جوڑ کا مشاہدہ نہ کیا جائے کہ اس کا اور صفات سے کیا تعلق ہے.اب نرم دلی فی ذاتہ اگر رشد سے خالی ہو ، اگر عقل سے خالی ہو جائے تو وہ جانوروں کی طرح کی ایک کمزوری ہے اس سے زیادہ اس میں کوئی حسن نہیں ہے.موقع بے موقع ہر محل پر انسان نرم دل ہوتا چلا جائے تو یہ تو ایک کمزوری ہے یہ حسن ہے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ یہ بیان فرمانا چاہتا ہے کہ ابراہیم کو اپنے باپ سے محبت تھی وہ بڑا نرم دل تھا اس کے باوجود وہ صاحب رشد تھا اور اس وجہ سے وہ قابل تعریف تھا.کہ موقع ومحل کے لحاظ سے اس کی نرمی ایک عزم میں تبدیل ہو جاتی تھی جو بظاہر سختی سے نظر آتی تھی.جب اس کی دل کی نرمی اپنے باپ کے لئے تھی تو اس وجہ سے تھی کہ اس کو پورا علم نہیں تھا کہ یہ میرے محبوب کا دشمن ہے.وہ جہالت کا حق دے رہے ہوں گے وہ اور کئی قسم کی ان کے اوپر حسن ظنیاں کر کے پردے ڈال رہے ہوں گے اور دل کی نرمی کے ساتھ یہ وعدہ کرلیا کہ میں اس کے لئے استغفار کروں گا.اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان کو روشن فرمایا کہ یہ شخص ایسا ہے جس پر حجت تمام ہو چکی ہے اس کو کوئی غلط فہمی نہیں ہے.جسکو کہتے ہیں Committed Enemy) یہ واضح بین طور پر اللہ تعالیٰ کا دشمن ہے تو وہاں رشد دل کی نرمی پر غالب آگئی دل کی نرمی رشد پر غالب نہیں آئی.یعنی رشد ایسی عقل کو کہتے ہیں جو جذبات کے تابع نہیں ہوتی اور جذبات اس کے تابع ہوتے ہیں اور جب وہ جذبات کو تابع کرتی ہے تو جذبات میں حسن پیدا کر دیتی ہے بجائے اس کے کہ ان کو گندا کر دے یا ان کے اندر ایک نا مناسب رنگ داخل کر دے.تو دل کی نرمی تب حسن بنتی ہے اگر اس کا حلم کے ساتھ جوڑ ہوا گر حلم کے ساتھ جوڑ نہ تو دل کی نرمی ایک جہالت بن جائے گی ایک نہایت ہی بدصورت چیز بن جائے گی کہ ایک طرف ایک اعلیٰ ذات ہے اور اسکی دشمنی ہے ایک وجود کو اور جو وجود اس محبوب کا دشمن ہے جو ایک بہت
خطبات طاہر جلد ۳ 168 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء بڑی اعلی ذات ہے.دل کی نرمی اس کے لئے فائدہ میں جارہی ہے یعنی مقابلہ ہورہا ہے بیچ میں ایک، توازن بگڑ گیا اور پاگل پن بن گیا یہ.اچھی دل کی نرمی ہے کہ اپنے محبوب کے دشمن کے حق میں ہو جاؤ اور محبوب کے خلاف نتیجہ نکالو.تو یہ رشد ہے یعنی حلم جو جذبات میں توازن بھی پیدا کرتا ہے اور حسن پیدا کرتا ہے اور صرف یہی جذبات نہیں جیسا کہ میں پہلے ذکر کر چکا ہوں غصہ کے جذبات نرمی کے جذبات، کسی قسم کے جذبات ہوں ان سب پر جب تک حلم حاوی نہ ہو اس وقت تک ان میں کوئی حسن پیدا نہیں ہوتا.آگے اور بعض آیات تھیں مگر وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے انکو چھوڑ دیتا ہوں اب میں چند حدیثیں اس مضمون پر سناتا ہوں.آنحضور ﷺ نے جو بہادری کی تعریف فرمائی ہے اس میں بھی حلم داخل ہے.صلى الله حضور اکرم ﷺ فرماتے ہیں: لَيْسَ الشَّدِيدُ بِالصُّرَعَةِ إِنَّمَا الشَّدِيدُ الَّذِي يَمْلِكُ نَفْسَه عِندَ الغَضَبِ ( صحیح بخاری کتاب الادب باب الغضب والكبر ) کہ بہادر وہ نہیں ہے جولوگوں کو پچھاڑ دے بہادر وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر قابورکھے.تو حلم کا ایک یہ بھی معنی ہے جیسا کہ قرآن کریم کی آیت سے پتہ چلا جذبات سے مغلوب نہ ہو اور سب سے زیادہ مغلوب کرنے والا جذ بہ غصہ ہوا کرتا ہے.تو حلم کے اندر ایک بہادری بھی پائی جاتی ہے یعنی اعلی قسم کا بہادر وہ ہوگا جو بہت بڑا حلیم ہوگا.چھوٹی چھوٹی باتیں اسکو غصہ نہ دلائیں بلکہ جب غصہ کی آزمائش میں مبتلا ہو پھر بھی وہ رک جائے اور غور کے بعد تحمل کے ساتھ فیصلہ کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی بلکہ وہ نہایت ہوشیاری اور تحمل کے ساتھ نصرت دین کے لئے تیار رہتا ہے اور بزدل نہیں ہوتا“.ایک چھوٹے سے جملے میں حلم کے اتنے پہلو بیان فرما گئے ہیں حضرت مسیح موعود کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.ایک ہی فقرہ ہے اور پوری تقریر ہو گئی ہے علم کے اوپر.اور انسان جو داعی الی اللہ ہو اس کو حلم کی کیوں ضروت در پیش ہے اسکے اوپر روشنی ڈال دی آپ نے.فرماتے ہیں مومن میں شتاب کاری نہیں ہوتی یعنی حلم حوصلہ دیتا ہے فوری طور پر انسان قدم نہیں اٹھاتا جاہلوں کی طرح کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 169 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء ادھر بات ہوئی ادھر اس کا نتیجہ نکل آیا بلکہ وہ نہایت ہوشیاری اور حمل کے ساتھ ، یعنی علم کے اندر یہ دو باتیں پائی جاتی ہیں، ہوشیاری بھی ہے اور تحمل بھی ہے.حمل بریکوں کا کام دیتا ہے یعنی جس طرح لگام ڈالی جاتی ہے گھوڑے کو ، اس لئے ڈالی جاتی ہے کہ وہ بھاگتے بھاگتے کہیں حد سے زیادہ آگے نہ نکل جائے، ٹکریں ہی نہ مارتا پھرے کہیں، لگام کے مقابل پر مہمیز ہوتی ہے جو اس کو آگے دوڑاتی ہے تو جب جذبات انسان کے اندر داخل ہوتے ہیں تو وہ مہمیز کا کام دیتے ہیں.ہمیشہ انسان کی قوت متحر کہ میں سب سے بڑا کر دار اس کے جذبات ادا کرتے ہیں جب یہ غالب آجا ئیں تو بے نیاز ہو جاتا ہے کہ اس پر کیا گزرے گی؟ اس لئے جو محبت میں دیوانے ہو جاتے ہیں ان کو کوئی پرواہ نہیں ہوتی اُن کا وجود مٹ جائے اس راہ میں کیونکہ جذبات کی مہمیز بہت سخت ہوتی ہے اور علم کیا کرتا ہے؟ حلم لگام دیتا ہے اور ایک متوازن سواری بنا دیتا ہے.جتنی تیز رفتار سواری ہو اتنی ہی مضبوط لگام ضروری ہے.جتنی تیز رفتار موٹر ہوگی اتنی ہی اچھی اس کے لئے ڈسک بریکیں ہوں گی اور اعلیٰ انتظام ہوں گے کہ وقت کے اوپر رک بھی سکے.تو حلم اور جذبات کا یہی وہ جوڑ ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس فقرے میں ظاہر فرمایا وہ نہایت ہوشیاری اور تحمل کے ساتھ نصرت دین کے لئے تیار رہتا ہے“ یعنی بے قرار ہر وقت رہتا ہے کہ میں ہر موقع پر خدا کے دین کی خدمت کروں دعوت الی اللہ سے باز نہیں آتا لیکن جاہلوں کی طرح جھٹکا دے کر نہیں کام کرتا بلکہ موقع اور تیل کی مناسبت کے ساتھ بہر حال وہ رکتا نہیں ہے لیکن اس میں ہوشیاری پیدا ہو جاتی ہے.اس میں تحمل پیدا ہو جاتا ہے اور بز دل نہیں ہوتا.جیسا کہ میں نے بیان کیا جب انسان رکتا ہے کسی حرکت سے تو وہ بزدلی کے نتیجہ میں بھی رک سکتا ہے اور حلم کے نتیجہ میں بھی رک سکتا ہے.آنحضرت علیہ نے واضح فرمایا مضمون کو کہ مومن بزدلی کے نتیجہ میں باز نہیں آیا کرتا حلم کے نتیجہ میں باز آتا ہے.تو کوئی غلطی سے مومن کو یہ نہ سمجھ لے کہیں کہ وہ بڑا ڈرپوک ہے ہم نے اتنی گالیاں دیں اتنا مارا کوٹا اتنی آگیں لگانے کی تعلیم دی اتنے انکے بزرگوں کی تحقیر کی اور انکو ذلیل ورسوا قرار دیا اس کے باوجود یہ ہاتھ ہی نہیں اٹھا ر ہا سامنے سے.تو کوئی غلط فہمی میں مومن کے بارے میں مبتلا نہ ہو جائے مومن کا وہ تصور جو قرآن اور حدیث پیش کر رہے ہیں وہ تو ایک بہت عظیم الشان تصور ہے، مومن اپنے مقصد سے باز نہیں آئے گا، اگر بزدل ہوتا تو تمہارے ڈراوؤں اور تمہاری دھمکیوں کے نتیجہ میں اپنے مقصد سے باز آجاتا، کسی
خطبات طاہر جلد ۳ 170 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء قیمت پر ایک لمحہ کے لئے بھی مومن اپنے مقصد سے باز نہیں رہ سکتا.ہاں وہ حلیم ہے، وہ صاحب رشد ہے، وہ شتاب کا رنہیں ہے، وہ جانتا ہے کہ اس کے مقصد کو کیا چیز زیادہ فائدہ پہنچائے گی اور اس کے نتیجہ میں اس کے عمل میں اور اس کی کوششوں میں ایک ملائمت ، ایک تہذیب داخل ہو جاتی ہے، انسانیت آجاتی ہے، وہ حیوانیت کا مقابلہ حیوانیت سے نہیں بلکہ انسانیت سے کرتا ہے اور یہ ساری چیز میں حلم ہمیں سکھاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام حلم کے ایک بہت ہی بلند مقام پر فائز فرمائے گئے تھے، صرف کہتے نہ تھے بلکہ وہی عمل بھی تھا آپ کا.ایک روایت میں آتا ہے کہ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سردو گرم زمانه دیده و چشیدہ ظاہر کرتا تھا مسجد میں آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے آپ کے دعوی کی نسبت بڑی گستاخی سے باب کلام وا کیا ، نہایت ہی بدتمیزی اور بدخلقی سے سوال شروع کیا آپ کے دعوی کے متعلق اور تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ یہ کہا کہ آپ اپنے دعوئی میں کا ذب ہیں جھوٹے ہیں اور میں نے ایسے مکار بہت سے دیکھے ہوئے ہیں اور میں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں.غرض ایسے ہی بے باکانہ الفاظ کہے مگر آپ کی پیشانی پر بل تک نہ آیا، بڑے سکون سے سنتے رہے اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا.اس کو کہتے ہیں مجسمہ حلم.تو اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کوحلم عطا فرمائے اور خدا تعالیٰ سے رنگ سیکھنے کی توفیق بخشے اس کی اپنی صفات کے کیونکہ اگر ہم خدا کے رنگ اللہ سے سیکھ جائیں.قرآن اور رسول سے سیکھ جائیں اتنی عظیم الشان طاقت دنیا میں بن جائیں گے اور ایسی ہمیشگی ہمیں نصیب ہو جائے گی کہ ہمارے مقدر میں ملنا ہو ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے ساری کائنات مٹ جائے مگر احمدیت نہیں مٹے گی اگر خدا کے رنگ میں رنگین ہو جائے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: پہلے میں کئی بار احباب جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ افریقہ کے ممالک کے لئے دعا کریں وہاں بارش کی کمی کی وجہ سے انسانیت بہت ہی دکھوں میں مبتلا ہے یعنی انسان جو افریقہ میں بس رہا ہے بہت مصائب کا شکار ہو چکا ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس کے بعد اچھی اچھی خبریں آئیں اور
خطبات طاہر جلد ۳ 171 خطبه جمعه ۲۳ / مارچ ۱۹۸۴ء خوشیوں کے خط آئے اور احمدیوں کی طرف سے جو ساری دنیا سے خط آتے ہیں ان میں افریقہ کا بھی ایک بڑا حصہ ہے تو بہت ہی اطمینان کا اظہار کیا کہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا بارشیں دیں بہتر حالات ہو گئے.لیکن معلوم ہوتا ہے کہ دعائیں پھر جماعت نے چھوڑ دی ہیں کیونکہ اب پھر کچھ تشویش کے خط آنے لگ گئے ہیں اور کہتے ہیں کہ اب دوبارہ خشک سالی کے آثار ہیں اس لئے دعا کریں.تو ساری جماعت دعا کو جاری رکھے بھولے نہیں اور بہت اخلاص کے ساتھ گریہ وزاری کے ساتھ دعائیں کرے.اگر خدا تعالیٰ قبولیت کے مزاج میں ہو تو ایک آنسو جو مقبول ہوجاتا ہے وہ سارے جہان کے لئے رحمت کی بارش بن سکتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ ہمیں وہ آنسو نصیب فرمادے جس سے سارے جہان پر رحمتوں کی بارش برسنے لگے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 173 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء واقفین زندگی کی ضرورت اور صد سالہ جوبلی فنڈ کی ادائیگی کی تلقین (خطبه جمعه فرموده ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) فضلوں تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ساتھ ساتھ جو روز و شب وسعت پذیر ہیں جماعت احمدیہ کے کام بھی پھیلتے جاتے ہیں، کاموں کے تقاضے بھی بڑھ رہے ہیں اور ذمہ داریاں بھی پہلے سے بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں اور بڑھتی چلی جارہی ہیں.یہ وسعتیں جو کاموں میں اور ذمہ داریوں میں ہیں مزید فن کا تقاضا کرتی ہیں لیکن یہ ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل پھر کاموں کو بڑھا دیا کرتے ہیں کم نہیں کیا کرتے اور ذمہ داریوں کو بھی پہلے سے زیادہ بلند کر دیتے ہیں اور ان میں وسعت پیدا کر دیتے ہیں.بہر حال ہم اس آگے بڑھنے والی ، ہمیشہ آگے بڑھنے والی دوڑ پر بہت راضی ہیں اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ فضل کرتے ہوئے تھکتا ہے، نہ ایسی جماعتوں کو تھکنے دیتا ہے جو اس کے فضلوں کی وارث بنتی ہیں.آج میں خاص طور پر اس نقطہ نگاہ سے دو امور کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.صدر انجمن میں بھی اور تحریک جدید میں بھی جس تیزی سے کام پھیل رہے ہیں اس کا تقاضا یہ ہے کہ نئے نئے واقفین آگے آئیں جب گزشتہ سال میں نے ریٹائرمنٹ کے بعد وقف کی تحریک کی تھی تو
خطبات طاہر جلد ۳ 174 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے آپ کو پیش کیا اور یوں لگتا تھا کہ وہ ضرورت سے بڑھ جائے گی تعداد اور جب ان کو مختلف شعبوں میں لگایا گیا تو معلوم یہ ہوا کہ شعبے آنے والوں کی تعداد کی نسبت زیادہ تیزی سے پھیلنے لگے.صدر انجمن میں ہی مثلاً اس سال تصنیف واشاعت کا کام بہت زیادہ بڑھ گیا ہے، ان کو نئے آدمی بھی دیئے لیکن پھر بھی ابھی ضرورت پھیلتی چلی جا رہی ہے.تعلیم کا جو کام زیر نظر ہے اس کے پیش نظر موجودہ اسٹاف کام نہیں کر سکتا.پورا نہیں اتر سکتا اس کام پر اور چند مہینے کے اندراندر ایسے واقفین کی ضرورت پڑے گی جو تعلیم کے ماہرین ہوں.جہاں تک مستورات کا تعلق ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے پانچ واقفات مل گئیں ہیں جنہوں نے بچیوں کو تعلیم دینے کے سلسلہ میں اپنے نام پیش کئے ہیں اور پانچوں نے ساتھ یہ لکھا ہے کہ ہم خالصہ رضا کارانہ کام کریں گی اور اگر ہمیں کہا جائے تو فوری طور پر استعفیٰ دے کر بھی آنے کے لئے تیار ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے خواتین میں بھی جذ بہ بہت ہی بڑھتا چلا جارہا ہے خدمت کا لیکن لڑکوں کے سکولوں کے لئے ، اور بہت سے ایسے کام زیر نظر ہیں جن کے لئے اسی طرح ایسے اساتذہ کی ضرورت ہوگی پروفیسرز کی ضرورت ہوگی جو دنیا میں اپنے کام کرنے کے بعد یہ محسوس کریں کہ اب کافی ہوگئی اب ہمیں بقیہ زندگی خدا تعالیٰ کی خاطر خالصہ وقف کر دینی چاہئے.ایک وقت تک انسان کے لئے دنیا کمانا بھی ضروری ہے انہی لوگوں کا پیسہ پھر سلسلہ کو بھی ملتا ہے اور پھر کئی طرح سے فائدے پہنچتے ہیں لیکن بہت سے ایسے طبقے ہیں جن میں ایک عرصہ تک خدمت ، دنیا کمانے کے بعد پھر اتنا پس انداز کر لیتے ہیں اور بعض دفعہ ان کو نئے ذرائع آمدمل جاتے ہیں ، بعض دفعہ فارغ ہو جاتے ہیں بچوں سے اور جو پنشن ہے وہی کافی ہو جاتی ہے بقیہ وقت کے لئے تو ایسے لوگ میرے پیش نظر ہیں وہ بآسانی بقیہ وقت خالصہ اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو پیش کر سکتے ہیں اور اب تک جنھوں نے کیا ہے ان کا معیار خدا کے فضل سے بہت ہی بلند ہے.پرائیوٹ سیکرٹری میں بھی کام بہت وسعت پذیر ہے اور بہت سے کاموں کا بوجھ واقفین نے اٹھایا ہوا ہے اور باوجود اس کے ایک دمٹری بھی سلسلہ سے وہ نہیں لے رہے، کام وہ اتنا کرتے ہیں کہ بعض دفعہ وہ راتوں کو گھر کام لے جاتے ہیں اور وہاں جا کر بہت دیر تک گھروں پر بھی ان کو کام کرنا پڑتا ہے لیکن ان کا رد عمل یہ ہے اس کام کے نتیجہ میں کہ بعض نے ہمیں کہا کہ واقعہ یہ ہے کہ ہمیں
خطبات طاہر جلد ۳ 175 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء زندگی کا مزہ اب آیا ہے اور پہلے تو یوں لگتا تھا کہ کام سے فارغ ہو کر موت کا انتظار ہے ،اب ایک بالکل نئی زندگی ملی ہے جو پہلی زندگی سے بہت بہتر ہے اور بہت زیادہ پر لطف ہے.اسی طرح ہمارا ایک نیا شعبہ قائم ہوا ہے اعداد و شمارا کھٹے کرنے کا سمعی و بصری شعبہ ہے تحریک جدید میں، تمام دنیا کے کوائف کو چارٹس کی صورت میں ڈھالنا.اس میں مشتاق احمد صاحب شائق ہیں مثلاً ، واقف زندگی، بہت ہی اچھا کام ہو رہا ہے ان سب شعبوں میں اور مزید ضرورت محسوس ہو رہی ہے یعنی پہلے لگتا تھا کہ یہ سٹاف کافی ہو جائے گا اب جو کام پھیلا ہے تو اور بہت سے ماہرین کی ضرورت ہے جو اپنے اپنے فن میں دین کی خدمت کرنے کے لئے اپنے آپ کو پیش کریں.امور عامہ کا کام بھی بہت بڑھ گیا، فضل عمر ہسپتال امور عامہ کے ساتھ منسلک ہے اس میں بھی بہت سی نئی آسامیوں کے اضافے ہوئے ہیں بکثرت اور تعمیرات بھی نئی ہو رہی ہیں اور بہت زیادہ اس کی وسعت ابھی پیش نظر ہے، کئی نئے شعبے اس میں قائم کرنے میں تو ڈاکٹر ز کی بھی ضرورت ہے، کمپوڈرز کی بھی ضرورت ہے کلینیکل ٹیسٹ کرنے والوں کی بھی ضرورت ہے،نرسز کی بھی ضرورت ہے ، لیڈی ڈاکٹر ز کی ضرورت ہے.امور عامہ کے ساتھ جو کام وابستہ ہیں خدمت خلق کے وہ اتنے زیادہ ہیں کہ اب صدرانجمن نے یہ مشور دیا ہے کہ ایک نظارت خدمت خلق الگ قائم کی جائے اور وہ نظارت کے کام جوان کے پیش نظر ہیں وہی اتنے زیادہ ہیں کہ ایک بہت اچھی خاصی مضبوط نظارت قائم کرنی پڑے گی تو ایک نظارت کے لئے پھر نیا سٹاف چاہئے ہوگا.شعبه زود نویسی کا کام بہت بڑھ گیا ہے پہلے سے تعمیرات کے لئے ایک الگ شعبہ قائم کیا گیا تھا، کئی واقفین بھی اس میں آئے لیکن اب محسوس ہو رہا ہے کہ اور بہت سے خدمت کرنے والوں کی ضرورت ہے ریٹائر ڈ انجینئرز ، اوور سئیر ز ، نقشہ بنانے والے.غرض یہ کہ ہر طرف نظر ڈال کے دیکھیں تو کام پھیلتا چلا جا رہا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کا غیر معمولی احسان ہے جماعت کے اوپر کہ وہ ہمارے کام بڑھا رہا ہے تو اس کے لئے واقفین چاہئیں اگر کسی شخص کے حالات ایسے ہوں کہ وہ کلیہ سو فیصدی رضا کارانہ وقف نہ کر سکتا ہو تو ہمارا طریق کار یہ ہے کہ حسب حالات ان سے معاملہ طے کر لیتے ہیں.بعض ایسے واقفین ہیں جو کہتے ہیں میں حاضر ہو جاتا ہوں لیکن دو جگہ خاندانوں کے
خطبات طاہر جلد۳ 176 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء بوجھ اٹھانے پڑیں گے اور کئی ذمہ داریاں ہیں اس لئے معمولی گزارہ جو خوشی سے جماعت دے سکتی ہے اس پر میں راضی ہوں تو ایسے واقفین بھی ان میں سے ہیں جن کے ساتھ ہم یہ معاملہ طے کر لیتے ہیں اور افہام و تفہیم کے ذریعہ اچھی طرح گزارہ چل جاتا ہے.تو بہر حال بہت وسیع پیمانے پر اب ہمیں ایسے فن کاروں کی ضرورت ہے جو کسی نہ کسی فن میں تجربہ رکھتے ہوں اور اپنے نام پیش کریں.جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے، تحریک جدید میں کئی وکالتوں کا اضافہ ہو چکا ہے.ایک وکیل التصنیف ایڈیشنل بنایا گیا ہے، وکالت مال ثالث نئی وکالت قائم ہوئی ہے، وکالت صدسالہ جوبلی ، وکالت اشاعت سمعی و بصری، شعبہ شماریات بھی تحریک جدید کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اس کے ساتھ ایک اور شعبہ "مخزن تصاویر ہے جو ساری دنیا میں مختلف وقتوں میں جو جماعت نے جو خدمات کی ہیں ان کو تصویری زبان میں اکٹھا کرنے کا کام کرے گا اور بہت سی تصویر میں ہیں جواب مل سکیں گی بعد میں ضائع ہو جائیں گی پھر ہاتھ ہی نہیں آسکیں گی مثلاً ہمارے واقفین نے افریقہ میں جو ابتدائی خدمات کیں، کن جھونپڑیوں میں وہ ٹھہرے، کس قسم کے واقفین انہیں کام کرنے والے ابتدا میں میتر آئے.کچھ نہ کچھ تصویریں اس وقت موجود ہیں جو ا کٹھی ہوسکتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ تصویریں غائب ہوتی چلی جاتی ہیں.پھر نئے کام جو پھیل رہے ہیں ان سب کو تصویری زبان میں ڈھالنا یہ بھی ایک بہت بڑا کام ہے.پھر ہمیں بیرونی ممالک میں ٹائپسٹس کی ضرورت ہے، اکاونٹنٹس کی ضرورت ہے، دفتری امور چلانے والے تجربہ کار آدمیوں کی ضرورت ہے.اس وقت یہ ہورہا ہے کہ واقفین زندگی جو جامعہ کے فارغ التحصیل ہیں، باقاعدہ مبلغین ان پر انتظامی بوجھ بہت ہیں اور ان کو خط و کتابت ٹائپ بھی خود کرنی پڑتی ہے پھر ان کو اکاؤنٹس بھی رکھنے پڑتے ہیں، رجسٹر سنبھالنے پڑتے ہیں.یہ اتنا زیادہ بوجھ ہے کہ بعض جگہ تو کچھ رضا کار ان کومل گئے ہیں مگر اکثر جگہ ان کے لئے تبلیغ میں یہ بوجھ حارج ہو رہا ہے.بجائے اس کے کہ وہ خالصتہ الگ ہو کر فارغ الذہن ہو کر تبلیغی کاموں میں اپنی قوتوں کو صرف کریں ، نئے نئے منصوبے بنا ئیں ، عمومی نگرانی کریں، ہر احمدی کو جو داعی الی اللہ بنانے کا کام ہے اس کی طرف توجہ دیں، تصنیف کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں، یہ سارے کام ہیں مگر ان کا بہت سا وقت ضائع ہو جاتا ہے ان دفتری کاموں میں جو لازمی حصہ ہیں یعنی ان کے بغیر گزارہ بھی
خطبات طاہر جلد۳ 177 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء نہیں ہوسکتا.تو ایسے ٹائپسٹ جو ریٹائرمنٹ کی عمر کو پہنچ چکے ہوں یا ایسے سپرنٹنڈنٹ جو دفتری کاموں کا تجربہ رکھتے ہوں ، اکا ؤنٹنٹس جنہوں نے ایک وقت تک دنیا اتنی کمالی ہو کہ وہ سمجھتے ہوں کہ باقی وقت ہم اپنے آپ کو خدا کے لئے وقف کر سکتے ہیں خالصتہ تو یہ سارے نام آگے آنے چاہئیں.باہر کے ممالک میں تعمیری کام بھی ہورہے ہیں.غانا میں مثلاً ایک اوورسٹئیر نے وقف کیا تھا اور خدا کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہے ہیں وہاں جا کے اسی طرح اور ممالک میں ہیں ان کو سمیٹنا اور یکجا کرنا.پھر لائیبریریوں کا قیام ہے مختلف ممالک میں اس طرف بھی ہم ابھی تک پوری توجہ نہیں دے سکے.منصوبہ یہ تھا کہ ساری دنیا میں ایک ایسی لائبریری ہرمشن میں موجود ہو جس میں دنیا کی ہر زبان میں جماعت احمدیہ کا تبلیغی لٹریچر موجود ہو اور اسلام کے اوپر وارد ہونے والے مختلف مذاہب کے اعتراضات کے جوابات موجود ہوں اور پھر انڈیکس موجود ہو جس سے وہ فورا معلوم کر سکے کہ کس مضمون کو کس زبان میں میں کہاں سے حاصل کر سکتا ہوں.چنانچہ ہر ملک کا مشن ساری دنیا کا مشن بن جائے گا اور اگر کوئی جاپانی افریقہ کے کسی ملک میں جاتا ہے تو مبلغ کے لئے کسی قسم کی ہچکچاہٹ کی ضرورت نہیں ہوگی وہ فوراً اس کو جاپانی لٹریچر نکال کے دے سکتا ہے ، کوئی ترک چلا جاتا ہے، کوئی یوگو سلاویہ چلا جاتا ہے تو ہر ایک لئے اس کی زبان میں لٹریچر بھی ہونا چاہئے ، کیسٹس (Cassettes) ہونے چاہئیں، وڈیو ریکارڈنگز بھی ہونی چاہئیں تا کہ اگر کوئی آرام سے بیٹھ کر دیکھنا چاہے مقرر کو اس کی آواز بھی سنے ، اس کو دیکھے بھی تو وڈیو چلا دیا جائے اور وہ تسلی سے بیٹھ کر جس مضمون میں چاہے کسی مقرر کو بولتا سے بھی اور دیکھ بھی لے.آج کل اس کا رحجان بڑھ رہا ہے.پھر یورپین ایسے ممالک ہیں جن کی الگ الگ چھوٹی چھوٹی زبانیں ہیں لیکن بہت اہم ہیں وہ ممالک اسلام کے لئے ، فن لینڈ ہے چیکوسلواکیہ ہے، ان زبانوں میں آغاز ہی نہیں ہوا کام کا ، ان سب کو مرتب کرنے کے لئے ایک پوری وکالت کی ضرورت ہے.اب ہمیں ایک اچھا واقف زندگی مل گیا ہے بڑے تجربہ کار لائبریرین ہیں جو اس فن کے بہت ماہر ہیں.قاضی حبیب الدین صاحب لکھنوی نے بڑے شوق اور اخلاص کے ساتھ وقف کیا ہے اور اپنے آپ کو پیش کر دیا ہے اور ان کے سپر د میں نے یہ کام کیا ہے لیکن جب کام انہیں سمجھایا ( یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 178 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء تو میں نے صرف چند باتیں آپ کے سامنے رکھی ہیں ) تو انہوں نے کہا کہ یہ اتنا کام ہے کہ اس کے لئے تو کمپیوٹر کی ضرورت پڑ جائے گی فوری.یعنی کمپیوٹر کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب آدمیوں کے بس سے بات نکل جاتی ہے تو ابھی تو انہیں سٹاف چاہئے ، پہلے کچھ سٹاف مہیا ہو.کام اپنے کسی نج پر چند قدم چل پڑے پھر انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا تو کمپیوٹر بھی مہیا کرنے پڑیں گے جماعت کو.تو یہ چند مثالیں میں نے دی ہیں اس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ واقفین کی کتنی شدید ضرورت ہے جماعت احمدیہ کو اور وقت کے تقاضے ہیں کہ یہ ضرورت لازماً پوری کی جائے کیونکہ جب خدا تعالی کی طرف سے فضلوں کی ہوا چلتی ہے ، ایک موسم آجاتا ہے نشو ونما کا وہی وقت ہوتا ہے کام کا، اگر ہم پیچھے رہ جائیں گے تو اس موسم کے پھلوں سے محروم رہ جائیں گے، اتنا فائدہ نہیں اٹھاسکیں گے جتنا یہ ابر بہار ہمارے لئے فوائد لے کر آیا ہے.اس کثرت سے قوموں میں توجہ پیدا ہو رہی ہے جماعت احمدیہ کی طرف کہ ہر روز نئی نئی خبریں ایسی آتی ہیں جس سے دل کھل اٹھتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور ساتھ ہی پھر وہ ذمہ داریوں کا بوجھ بھی آپڑتا ہے، پھر انسان فکر مند بھی ہو جاتا ہے، پھر دعا کی بھی توفیق ملتی ہے اور نئے نئے خدمت کرنے والے بھی اپنے آپ کو پیش کرتے چلے جارہے ہیں تو ایک عجیب دنیا ہے یہ جماعت احمدیہ کی جس کی کہیں اور کوئی مثال نہیں ہے.یہ ساری دنیا میں ایک الگ دنیا ہے.حیرت انگیز خدا تعالیٰ کے فضلوں کی بارش ہورہی ہے اور جہاں سے کوئی توقع نہیں ہوتی وہاں سے اطلاع آجاتی ہے کہ یہاں ایک نیا میدان کھل گیا ہے اسلام کی خدمت کا.مثلاً کوریا گیا ہمارا وفد آنریری ورکرز کا رضا کاروں کا گیا اور ان کی طرف سے جو رپورٹ آئی ہے وہ اتنا ( Excite) کرنے والی ہے اتنا ہیجان پیدا کرنے والی ہے، وہ کہتے ہیں کہ پورا میدان کھلا پڑا ہے اور اس قدر شوق سے لوگوں نے ہم سے مطالبے کئے ہیں، کتابیں خریدیں ہیں، لائیبر بیریاں مطالبے کر رہی ہیں، پروفیسر زمطالبے کر رہے ہیں کہ ہمیں سکھاؤ اسلام اور جماعت احمد یہ جو اسلام سکھاتی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام کی برکت سے وہ تو ذہنوں کو بھی روشن کر دیتا ہے، دلوں کو بھی مطمئن کرتا ہے اور اس زمانہ کے انسان کے مزاج کے مطابق ہے وہ کیونکہ محض دعاوی سے آج انسان نہیں مان سکتا جب تک فلسفہ بھی اتنا مضبوط نہ ہو، قوی نہ ہواور اتنا پر اثر نہ ہو کہ ذہن اور دل دونوں کو
خطبات طاہر جلد۳ 179 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء مطمئن کر سکے.تو خدا تعالیٰ کے فضل سے یہ ہتھیار تو سارے ہمارے پاس موجود ہیں.پھر ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت ہے جو پھیلتی چلی جارہی ہے.تو یہ سارے جو کاموں کے میں نے نام لئے ہیں، جن کے عنوان بیان کئے ہیں ان سے تعلق رکھنے والے جتنے احمدی جہاں ہیں وہ اپنے حالات کا جائزہ لیں اور اپنے آپ کو پیش کریں.بیرونی ممالک کے اس میں بیرونی باشندے بھی شامل ہیں میرے اس خطاب میں صرف پاکستانی، ہندوستانی یا انگلستان اور امریکہ کے چند آدمی نہیں بلکہ دنیا کی ہر قوم کے آدمیوں کے لئے ضرورت ہے کہ وہ وقف کریں کیونکہ ان کاموں کو سنبھالنے کے لئے لازماً اچھے زبان دان بھی ہمیں چاہئیں ہوں گے.اس وقت تو ہم طلباء کو باہر بھجوا کر زبان سکھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن یہ کافی نہیں ہے.ربوہ میں لازماً ایک بہت ہی بڑا عظیم الشان زبانوں کا انسٹیٹیوٹ ہمیں قائم کرنا پڑے گا اس کے لئے اتنا بیج تو بویا گیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے نقشہ بھی تعمیر کا مکمل ہو گیا ہے اور اخراجات بھی کسی حد تک مہیا ہو گئے ہیں تو امید ہے انشاء اللہ ایک سال کے اندر اس انسٹیٹیوٹ کی عمارت کھڑی ہو جائے گی مگر اس عمارت کو بسانے کے لئے پھر زبان دان چاہئیں.انگریز وقف کریں، اٹالین وقف کریں، چینی، جاپانی وقف کریں، یہاں آکر بیٹھیں خود اور آکر اپنی اپنی زبان کو سنبھالیں ، پھر آگے ان کے اپنے لئے بھی پڑھنا ضروری ہوگا، ہر زبان دان کے لئے ہر مضمون پر ایک غلبہ پانے کی ضرورت ہوتی ہے.یعنی آپ اردو دان ہیں لیکن اگر آپ نے سائنسی مضمون اردو میں نہیں پڑھے تو آپ کو سائنسی مضمونوں پر اردو میں غلبہ نہیں ہے، اگر آپ نے خاص قسم کے ادبی مضمون نہیں پڑھے تو ان میں آپ کو اردو نہیں آتی گویا کہ.تو محض زبان دان ہونا کافی نہیں ہوا کرتا کسی خاص مضمون پر اس زبان دان کو مقدرت ہونا، اس کو قادر الکلامی نصیب ہونا یہ بہت ضروری ہے.تو ایسے واقفین جب آئیں گے پھر ان کو دینی علوم پر قدرت دینے کی کوشش کی جائے گی ان کو بھی سکھانا پڑے گا پھر جا کر ہمارے اچھے زبان دان تیار ہوں گے جو اسلام کی خدمت کر سکیں.یہ تو واقفین والا پہلو تھا.دوسرا ہے مالی ضروریات، اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ بھی بہت بڑھ رہی ہیں اور جہاں تک روزمرہ کی ضروریات کا تعلق ہے انجمن کے با قاعدہ چندے اور تحریک جدید کے با قاعدہ چندے یہ ضرورت کے ساتھ ساتھ بڑھتے چلے جا رہے ہیں اور ان میں کسی غیر معمولی
خطبات طاہر جلد ۳ 180 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء تحریک کی ضرورت نہیں پیش آتی.سال میں ایک خطبہ انجمن کے چندوں سے متعلق دیا جاتا ہے جماعت توقع سے آگے بڑھ کر خدا کے فضل سے قربانیاں کر رہی ہے لیکن ایک چندہ ایسا ہے جس میں ابھی تک پیچھے ہے اور وہ ہے صد سالہ جو بلی.گزشتہ سال بھی میں نے توجہ دلائی تھی اس کے بعد اگر چہ پاکستان میں غیر معمولی طور پر چندے میں اضافہ ہوا ہے اور ایک سال میں چھپن لاکھ روپیہ وصول ہوا ہے صد سالہ جو بلی کا لیکن ابھی تک بیرونی جماعتیں بھی اور پاکستان بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے وقت سے.مختصر کوائف میں آپ کو بتاتا ہوں اس سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ کتنا چندہ ابھی قابل وصول پڑا ہوا ہے اور جو کام کرنے والے ہیں صد سالہ جو بلی کے ان کی فہرست اگر آپ کے سامنے بیان کی جائے تو کئی خطبے چاہئیں.ناممکن ہے کہ ایک خطبہ میں ان کاموں کو بیان کیا جاسکے جوصدسالہ جو بلی نے 1989 ء سے پہلے پہلے مکمل کرنے ہیں.ان کی تفاصیل جب آپ کے سامنے رکھی جائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کتنا بڑا کام ہے، کتنا اس کا پھیلاؤ ہے اور اس کے لئے روپے کی فوری ضرورت ہے کیونکہ بہت سے کام ہیں، مختلف ممالک میں مشنز کا قیام، مختلف زبانوں میں قرآن کریم کی اشاعت مختلف زبانوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب کے تراجم اور مساجد کا قیام.ایسے ایسے نئے ممالک ہیں جہاں ایک بھی احمدی اس وقت نہیں ہے وہاں نئی جماعت کو قائم کرنا، آدمی مہیا کرنا ، اخراجات تو اس وقت سے شروع ہو چکے ہیں اور مطالبہ کر رہے ہیں کہ اب ہمارا پیٹ بھرو اور جو چندہ کی رفتار ہے وہ مقابلہ سست ہے.اس کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ باقی انجمنیں وصولی کا ایک باقاعدہ نظام رکھتی ہیں ان کے انسپکٹرز بھی ہیں، ان کے بڑے بڑے دفاتر ہیں یاد دہانیوں کے.اور جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانی میں پیچھے نہیں رہتی ، یاددہانی اور تذکیر ضروری ہے جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے ہر انسان کا ایک معیار نہیں ہوتا اکثر انسان یاددہانی کے محتاج ہوتے ہیں تو صد سالہ جو بلی اپنے یاد دہانی کے نظام کو اتنا پھیل سکتی نہیں ہے کیونکہ عارضی کام ہے نسبتااور اگر اتنابڑا سٹاف رکھا جائے تو بہت بڑا خرچ بڑھ جائے گا اس لئے عمومی نصیحت کے سوا اور چارہ نہیں ہے ہمارے پاس.تو میں نے سوچا کہ چونکہ صد سالہ جو بلی کا دفتر محدود ہے کام کے مقابل پر اس لئے میں جماعت کو یاد دہانی کروادوں.کل وعدہ جو پاکستان کا تھا وہ پانچ کروڑ چار لاکھ اناسی ہزار روپے (5,04,79000) کا
خطبات طاہر جلد ۳ 181 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء تھا جس میں سے 28 فروری 1983 ء تک صرف ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ (1,61,00,000) کی وصولی ہوئی ہے یعنی آئندہ ادائیگی کے چار سال باقی ہیں اور گزشتہ گیارہ سال میں جو وصولی ہوئی وہ پانچ کروڑ کے مقابل پر ایک کروڑ اکسٹھ لاکھ تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ چندہ دہندگان کے او پر بقیہ سالوں میں کتنا بڑا بوجھ پڑنے والا ہے.جتنی تاخیر کر رہے ہیں اتنا ہی یہ کام ان کے لئے مشکل ہوتا چلا جائے گا لیکن دوران سال جو پاکستان میں وصولی ہوئی وہ خدا کے فضل سے بہت خوش کن ہے گزشتہ وصولیوں کے مقابل پر چنانچہ چھپن لاکھ اکیاسی ہزار (56,81,000) وصولی کی وجہ سے اب دو کروڑ اٹھارہ لاکھ ستر ہزار (2,18,77,000) وصولی ہو چکی ہے اور یہ آپ گیارہ سال کی وصولی سمجھیں.اس کے مقابل پر اس سال کو شامل کر کے چار سال وصولی کے رہتے ہیں کیونکہ 1988ء میں تو پھر کام اتنا زیادہ ہو چکا ہوگا کہ اس وقت وصولیوں کا انتظار پھر نہیں ہوسکتا.1984ء کا بقایا ایک سال سمجھ لیں 85ء ، 86ء اور 87 ء یہ پورے چار سال ہیں وصولی کے ان سالوں میں دو کروڑ چھیاسی لاکھ روپے (2,86,00,000) ابھی جماعت نے ادا کرنا ہے.جو جماعتوں کو یاد دہانیاں کروائی گئیں تھیں اور ٹارگٹس دیئے گئے تھے اس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ربوہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام دنیا کی جماعتوں میں اس قربانی میں اول آیا ہے کیونکہ ربوہ کے سپرد جو ٹارگٹ کیا گیا تھا دسویں مرحلے پر وہ تین لاکھ کا تھا لیکن ربوہ کی وصولی (13,54,000 ) روپے ہوئی ہے جب کہ اس سے پہلے 83 ء تک کل وصولی گیارہ سال میں نو لاکھ اٹھاسی ہزار تھی.تو اس سے یہ بھی علم ہو گیا کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے جماعت کے رزق میں برکت کا ایک ایسا نظام جاری کر دیا ہے کہ جو بظاہر ناممکن نظر آتا ہے وہ بھی پورا ہو جاتا ہے، توقع سے بہت بڑھ جاتا ہے.کہاں گیارہ سال میں نو لاکھ اٹھاسی ہزار کی وصولی اور کہاں ایک سال میں تیرہ لاکھ چون ہزا روپے کی وصولی ، بہت بڑا فرق ہے لیکن ایک بات باقی شہروں کے حق میں یہ بیان کرنی ضروری ہے کہ بعض باقی بڑے شہروں نے اپنا چندہ بہت زیادہ لکھوایا تھا اس لئے وہ وصولی میں پیچھے رہ گئے.ربوہ میں چندہ کی جو تو فیق تھی اس کے مقابل پر صد سالہ جو بلی میں بہت کم چندہ لکھوایا گیا تھا مثلاً بجٹ کے لحاظ سے ربوہ، کراچی لاہور وغیرہ سے زیادہ پیچھے نہیں ہے زیادہ جو با قاعدہ بجٹ ہے لیکن وعدہ میں بہت پیچھے تھالا ہور کا وعدہ تھا تر اسی لاکھ روپے کا اور کراچی کا ایک کروڑ
خطبات طاہر جلد ۳ 182 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء پچپن لاکھ کا اور ربوہ کا صرف ہیں لاکھ تھا تو اس لئے وہ چونکہ پہلے ہی اپنی ہمت سے بہت کم دے رہے تھے اس لئے ان کے کام میں نمایاں اضافہ نظر آیا لیکن اگر آپ ملحوظ بھی رکھیں اس فرق کو تب بھی گزشتہ سال ربوہ کی قربانی ان سب شہروں سے زیادہ ہے کیونکہ کراچی کی گزشتہ سال کی وصولی ڈیڑھ کروڑ بجٹ کے مقابل پر نو لاکھ ہے اور لاہور کی وصولی تر اسی لاکھ بجٹ کے مقابل پر سات لاکھ ہے.اس لحاظ سے ربوہ کی وصولی تیرہ لاکھ فی ذاتہ بھی خدا کے فضل سے بہت نمایاں اور قابل تحسین ہے.اللہ تعالیٰ اس جماعت کو جزادے اور توفیق کے مطابق مزید آگے بڑھنے کی توفیق بخشے کیونکہ ابھی ربوہ میں گنجائش بہر حال موجود ہے.جہاں تک کراچی کا تعلق ہے یہ خیال ہو سکتا ہے کہ ڈیڑھ کروڑ سے زائد کا بجٹ ان کی توفیق سے زیادہ تو نہیں کیونکہ باقی جو جماعتیں اس سائز کی ہیں ان کے وعدوں کے مقابل پر کراچی کے وعدے یقیناً بہت زیادہ ہیں اس لئے یہ وہم ہو سکتا ہے کہ شاید کراچی جوش میں آکر زیادہ وعدے لکھوا گیا ہو اور اب اس کی توفیق نہ ہو ادا ئیگی کی لیکن میرے نزدیک یہ محض وہم ہے اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ کے ساتھ جو سلوک ہے وہ عام حسابی قاعدوں سے نہیں پر کھا جاسکتا.یوں معلوم ہوتا ہے کہ جیب سے آخری پیسہ نکل آیا ہے اور پھر جب خدا تعالیٰ کا نظام جیب میں ہاتھ ڈالتا ہے تو پھر جیب بھری ہوئی مل جاتی ہے پھر آپ نچوڑ لیں سب کچھ پھر خدا تعالیٰ کا نظام جب دوبارہ ہاتھ ڈالتا ہے تو پھر جیب بھری ہوئی مل جاتی ہے.کون سا قاعدہ کام کر رہا ہے یہ ہم نہیں جانتے ہمیں تو اتنا علم ہے کہ کچھ اسی قسم کا قاعدہ ہے جس طرح آنحضرت ﷺ کی جنگ خندق کے موقع پر ایک صحابی نے اور اس کی بیگم نے دعوت کی اور پتہ تھا کہ بہت دیر کا فاقہ ہے تو انہوں نے یہ سوچا کہ چند آدمی آنحضور ﷺ کے ساتھ آجائیں اور ایک چھوٹا سا بکرا ذبح ہوا ہے دس بارہ آدمیوں کے لئے کافی ہو جائے گا تو انہوں نے اشارہ سے، ہلکی سی آواز میں حضور اکرم ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ ! کچھ تیار ہے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لائیں تو آنحضرت ﷺ کا دل تو ایک نہ ختم ہونے والا سمندر تھا اور ساری کائنات پر آپ کی رحمت محیط تھی، یہ کیسے ممکن تھا کہ فاقے کے وقت باقی لشکر کو چھوڑ دیتے اور صرف آپ چند صحابہ کے ساتھ چلے جاتے.آپ نے فرمایا اچھا اعلان کر دو کہ جس جس کو بھوک لگی ہوئی ہے سارے آجائیں اور وہ سارے بھوکے تھے یہ بات سن کر وہ بہت پریشان ہوکر واپس دوڑا اپنی بیگم کی طرف.
خطبات طاہر جلد ۳ 183 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء آنحضرت ﷺ نے فرمایا ٹھہرو! کپڑے سے آٹے کو بھی ڈھانک دو اور یاد رکھو کہ ہانڈی سے ڈھکنا نہیں اتارنا جب تک میں نہ آجاؤں اور شروع نہیں کرنا جب تک میں خود اپنے ہاتھ سے شروع نہ کروں تقسیم نہیں کرنی.خیر ! وہ واپس گیا، بیوی کو اس نے پیغام دیا کہ اللہ ہی آج عزت رکھ لے، یہ واقعہ ہو گیا ہے تو اس نے کہا رسول کریم ﷺ نے جو فرمایا ہے اسی طرح کر وسب کچھ ٹھیک ہو جائے گا چنانچہ آنحضور علیہ تشریف لائے، کپڑا اٹھایا آٹے سے اور ہاتھ لگایا اور اس کو کہا کہ شروع کر د روٹی پکانا اور ساتھ ہی ہانڈی سے ڈھکنا اٹھاکر تقسیم شروع کر دی خود ہی اب وہ صحابی خود بیان کرتے ہیں اور ایک سے زیادہ روایتوں میں یہ واقعہ بیان ہے کہ لوگ کھاتے چلے گئے اور نکلتا چلا گیا آٹا بھی بڑھتا گیا اور ہانڈی سے سالن بھی نکلتا ہی چلا گیا اور ہمیں کچھ مجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے یہاں تک کہ جب سارے لشکر کا پیٹ بھر گیا تو اتنا کھانا بچا ہوا تھا کہ گھر والے اور اس کے علاوہ اپنے دوستوں میں سے کسی کو بھیجنا چاہیں تو بھیج سکتے تھے.( صحیح بخاری کتاب المغازی باب في غزوة الخندق) تو جو خدا حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ظاہر ہوا اور آپ سے اس قدر رحمت اور فضلوں کا سلوک فرمایا ہم بھی تو اسی خدا کے اسی محبوب کے غلام ہیں اور اسی کے نام پر کام کر رہے ہیں اس لئے دنیا کے حساب سے چاہے بالکل جاہلانہ باتیں ہوں لیکن جماعت احمدیہ کے تجربہ میں ہے یہ بات ،سوسالہ مشاہدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کی قربانی کی توفیق کو بڑھاتا ہے اور روپے میں کمی نہیں آنے دیتا.ان کی ذاتی ضرورتیں بھی پہلے سے بڑھ کر پوری کر دیتا ہے اور بعض دینے والے ایسے ہیں کہ جب وہ دیتے ہیں تو اس وقت محسوس ہوتا ہے کہ گویا اپنی توفیق سے بڑھ کر وعدہ لکھوا دیا اور ایک دو سال کے اندر ہی خدا ایسی برکت دے دیتا ہے کہ وہ شرمندہ ہو جاتے ہیں کہ ہم نے وعدہ کم لکھوایا تھا.چنانچہ ابھی کل ہی مجھے پتہ لگا لاس اینجلز سے ایک ڈاکٹر صاحب ہیں ہمارے بڑے مخلص، فدائی ، انہوں نے مشنز کے لئے پچیس ہزار ڈالرز کا وعدہ لکھوایا تھا اور بعض ان کے جاننے والوں کا خیال تھا کہ شاید یہ بہت وعدہ لکھوا دیا ہے انھوں نے ، اب دو تین دن کے عرصے کے اندر ان کی طرف سے خط آیا ہے اور کل اس کی تحریک (جدید) نے مجھے رپورٹ بھجوائی کہ وہ کہتے ہیں کہ جو میرے موجودہ حالات ہیں ان کے پیش نظر پچیس ہزار ڈالرز کم ہے اس لئے میں اس کو بڑھا کر پچاس ہزار ڈالر کرتا ہوں.تو یہ دیکھ لیجئے کس طرح خدا کا سلوک ہوتا ہے اور اس کثرت سے اس مضمون کے
خطبات طاہر جلد ۳ 184 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء خط دنیا سے آرہے ہوتے ہیں کہ اس کے بعد مجھے پھر نیا حوصلہ ملتا ہے اور میں یہ رحم اس بات میں نہیں سمجھتا کہ اب مانگنا بند کر دوں کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ خدا کے فضل کے دروازے بند کر دوں.میں اقتصادی رحم جماعت پر یہ سمجھتا ہوں کہ اور مانگو اور مانگو تا کہ خدا کے فضل لا متناہی طور پر نازل ہونے شروع ہو جائیں.اس لئے اس تجربہ اور اس یقین کے ساتھ میں احباب جماعت کو تحریک کرتا ہوں کہ کمر ہمت کسیں اور اس گزشتہ کمی کو جو گیارہ سالہ کمی ہے اسے چار سال میں نہیں بلکہ کوشش کریں کہ ایک دوسال کے اندر ہی پوری کر دیں اللہ تعالیٰ پھر دیکھیں کس طرح ان پر فضلوں کی بارش نازل فرماتا ہے، کس طرح ان کی جیبوں کو پھیلاتا چلا جاتا ہے ، ان کی ضرورتوں کو خود پوری کرتا ہے اور یہ سارا نظام جب مکمل ہو جائے گا یہ دائرہ تو آخر پر مخلصین جو اپنی توفیق سے بڑھ کر ادا ئیگی کی کوشش کر رہے ہوں گے شرمندگی محسوس کریں گے کہ اوہو! ہم تو بہت بڑا تیر مار رہے تھے اپنی طرف سے اللہ تعالیٰ نے تو اتنے فضل کر دیئے ہیں کہ ہم حق ادا نہیں کر سکے.یہ ہے جماعت احمدیہ کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا تعلق.خدا کرے یہ مراسم اسی طرح جاری رہیں، ہمیشہ ہمیش کے لئے ، ہم خدا کی محبت اور پیار میں قربانیاں دیتے چلے جائیں اور ہماری محبت اور پیار کو لا متناہی طور پر اور بڑھانے کے لئے اللہ اپنے فضلوں کو اتنا بڑھا تا چلا جائے کہ ہم ہمیشہ شرمندہ ہی رہیں اپنے رب سے کہ ہم تو کچھ بھی نہیں کر سکے تیرے فضل ہم سے جیت گئے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج چونکہ مشاورت کا دن ہے اس لئے حسب دستور جمعہ کے ساتھ نماز عصر بھی جمع کی جائے گی.افسوس ہے کہ جگہ کی قلت کی وجہ سے سب کو موقع نہیں مل سکتا اس نہایت دلچسپ اور روحانیت کی افزائش کرنے والی مجلس میں شامل ہونے کا.جگہ تھوڑی ہے تو زائرین کو بھی کم ٹکٹ ملتا ہے اس لئے مجبوری ہے لیکن آپ لوگ باہر بیٹھے شامل ہو سکتے ہیں دعاؤں کے ذریعہ، اتنا تو کریں.تین دن مسلسل صبح و شام، دن رات ، ذکر الہی اور دعاؤں میں لگائیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو جو خدا کے کاموں کی خاطر اکٹھے ہوئے ہیں سوچ و بچار اور فکروں کے لئے ان کے ذہنوں کو روشن کرے، ان کے قلبوں کو جلا بخشے ، ان کو خدا کے کاموں کی خاطر وسیع حوصلہ کے ساتھ وسیع منصوبے
خطبات طاہر جلد ۳ 185 خطبه جمعه ۳۰ / مارچ ۱۹۸۴ء بنانے کی توفیق بخشے اور غور و فکر میں کوئی بھی نفسانیت کا پہلو نہ ہو.ہر مشورہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر دیا جائے اور اللہ تعالیٰ مجھے بھی توفیق بخشے کہ وہی مشورے قبول کروں جو خالصتہ اللہ کی رضا کے مطابق ہوں اور اگر کہیں کوئی غلطی ہوگئی ہے تو ایسے مشوروں کو خدا تعالیٰ مجھے قبول کرنے کی توفیق نہ بخشے اور پھر ان میں برکت دے پھر سارا سال پڑا ہوگا ان کا موں کو کرنے کا ان مشوروں پر عمل کرنے کا.تو بہت دعاؤں کی ضرورت ہے ان دعاؤں کے ذریعہ سارار بوہ ہمارے ساتھ شامل ہوسکتا ہے.باقی آئندہ کے لئے بھی کوشش اور دعا کریں کہ ایک سکیم ہے ”ناصر بال بنانے کی.حضرت خلیفہ اسیح الثالث" کی یاد میں ایک ایسا ہال تعمیر کیا جائے جیسا کہ آپ کی خواہش تھی جس میں کم از کم ایک لاکھ آدمی تو بیٹھ سکے.تو ہو سکتا ہے کہ اس وقت تک ربوہ کی آبادی تیزی سے پھیل کر بڑی ہو جائے یا باہر کے لوگ جب یہ معلوم کریں کہ زائروں کے لئے جگہ مل گئی ہے تو وہ زیادہ آنا شروع ہو جائیں تو اس صورت میں پھر انشاء اللہ مشاورت بھی ایک جلسہ سالانہ بن جائے گی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس میں شامل ہونے کی توفیق مل جائے گی.
خطبات طاہر جلد ۳ 187 خطبه جمعه ۶ راپریل ۱۹۸۴ء جماعت کو دعاؤں کی تلقین (خطبه جمعه فرموده ۶ را پریل ۱۹۸۴ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ ) أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَّا يَشْعُرُونَ (البقره: ۱۲-۱۳) اور پھر فرمایا: مذہب کی تاریخ کے مطالعہ سے خصوصاً اس تاریخ مذہب کے مطالعہ سے جس کو قرآن کریم نے محفوظ فرمایا ہے یہ پتہ چلتا ہے کہ جب بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے کسی کو مامور کیا جاتا ہے اور بنی نوع انسان کی اصلاح کے لئے بھیجا جاتا ہے تو اس بات سے قطع نظر کہ وہ صاحب شریعت ہو یا بغیر شریعت کے آیا ہو ، آزاد نبی ہو یا کسی بلند تر بالا تر آقا کا غلام ہو ، لازماً دنیا اس وقت ایک ہی دعوے کو پیش کرتے ہوئے دو مختلف گروہوں میں بٹ جاتی ہے اور دونوں گروہ ایک ہی مقصد بیان کرتے ہیں، ایک ہی سمت کی طرف جانے کے دعویدار ہوتے ہیں لیکن رستے الگ الگ بیان کرتے ہیں اور چلنے کے طریق بھی مختلف بیان کرتے ہیں اور اس وقت دنیا بڑے شش و پنج میں مبتلا ہو جاتی ہے کہ ایک ہی نام سے اٹھنے والی دو آوازوں میں سے کس کی پیروی کریں؟ دونوں خدا ہی کی طرف بلاتے ہیں ، دونوں خدا ہی کے نام پر ایک تعلیم دیتے ہیں اور سننے والے ناسمجھ حیران و ششدر دونوں طرف
خطبات طاہر جلد ۳ 188 خطبه جمعه ۶ را پریل ۱۹۸۴ء کی باتیں سنتے اور بعض اوقات کو فیصلہ کرنے کے اہل نہیں پاتے اپنے آپ.وہ کہتے ہیں کہ دونوں وہی باتیں کرتے ہیں خدا کے نام پر اور مقدس لوگوں کے نام پر اور اصلاح کے نام پر اور امن کے نام پر اور دونوں ایک دوسرے سے اتنے دور اور اتنے مخالف اور اتنے متحارب ہیں کہ سمجھ نہیں آتی کس کے پیچھے چلیں اور کس کے پیچھے نہ چلیں؟ ایسے ہی ایک مناظرے کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا قِيلَ لَهُمُ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ کہ حضرت محمد مصطفی علی اللہ کے زمانہ میں بھی ایسا ہی ہوا اور جب ان کو کہا گیا کہ لا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ کہ دیکھو زمین میں فساد برپا نہ کر وقَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ انہوں نے کہا کہ یقیناً ہم ہی تو ہیں وہ جو اصلاح کرنے والے ہیں لیکن تم الٹا ہمیں فساد کے طعنے دیتے ہو، ہم تو اصلاح کی غرض سے کھڑے ہوئے ہیں اور اصلاح کر کے دکھائیں - أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ قرآن کریم فرماتا ہے ان کو جواب دو خبردار! وہی مفسدین ہیں وَلكِنْ لَّا يَشْعُرُونَ لیکن وہ سمجھتے نہیں ، اس بات کی عقل نہیں رکھتے.تو معلوم یہ ہوا کہ لاشعوری طور پر بھی بعض دفعہ فساد کی تعلیم دی جاتی ہے یعنی بظاہر انسان بڑے زور اور قوت اور شدت کے ساتھ اصلاح کے دعوے کرتا ہے لیکن عملاً فساد کی تعلیم دے رہا ہوتا ہے.ان دو گروہوں کے درمیان ما بہ الامتیاز کیا ہے؟ کیسے پہچانا جائے کہ کون سا گر وہ واقعی مصلحین کا گروہ ہے اور کون سا گروہ فی الحقیقت مفسدین کا گروہ ہے؟ یہ ہے وہ سوال ہے جو ہمیشہ اٹھتا رہا اور آج بھی اسی قسم کا سوال دنیا کے سامنے در پیش ہے.قرآن کریم اس کا جواب مذاہب کی تاریخ کی شکل میں دیتا ہے ، دلائل سے بڑھ کر گزشتہ انبیاء علیہم السلام کے واقعات اور ان کے مخالفین کے واقعات کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور انسانی پر یہ فیصلہ چھوڑ دیتا ہے کہ وہ پہچانے اور غور کرے اور یہ جاننے کی کوشش کرے کہ دونوں میں عقل.سے مصلح کون ہے اور مفسد کون ہے.الله آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں ان دو مختلف دعاوی کی بڑے زور کے ساتھ لڑائی ہوئی ہے، بڑی شدت کے ساتھ کا رزار گرم ہوا ہے اور دونوں طرف کی آواز میں دعوے کے لحاظ سے ایک تھیں لیکن طریق کار کے لحاظ سے بالکل مختلف تھیں.مثلاً آنحضور ﷺ اور آپ کے ساتھیوں کی اصلاح
خطبات طاہر جلد ۳ 189 خطبه جمعه ۶ را پریل ۱۹۸۴ء کے لئے جودشمنوں نے جو منصوبے بنائے اور تعلیم دی وہ یہ تھی کہ ان کو بزور شمشیر اپنی ملت میں واپس لے آؤ اس کے بغیر یہ مانیں گے نہیں ، ان کو گھروں سے نکال دو یا گھروں سمیت آگ لگا دو، ان کی کمائیاں لوٹ لو اور اپنی ہر ملکیت سے ان کو محروم کر دو، ان کے بائیکاٹ کرو ، ان کو فاقے کی سزائیں دو، ان کو پانی کے لئے تر ساؤ اور ان کے بچوں کو ذبح کرو اور ان کے بڑوں کو قتل کرو، ان کے گھروں کو ہی نہیں بلکہ خدا کے نام پر جو یہ گھر بناتے ہیں ان کو بھی منہدم کر دو اور ان کی عبادت گاہوں کو مٹا ڈالو تا کہ ان کو عبادت کرنے کے لئے کوئی جگہ نظر نہ آئے.نَحْنُ مُصْلِحُونَ ہم اصلاح کی غرض سے کھڑے ہوئے ہیں اس لئے ہمارا فرض ہے اور ہمارا دین ہمیں مجبور کرتا ہے کہ اصلاح کے نام پر یہ ساری حرکتیں کریں.اس کے مقابل پر خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کو بھی ایک مقابلہ کا طریق سکھایا اور فرمایا: فَذَكَّرُ ۖ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرُةُ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُضَيْطِرِن إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَةٌ فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَةُ صد الله (الغاشیه آیت ۲۲-۲۵) اے محمد و اصلاح کے نام پر یہ سارے ہتھیار لے کر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں تیرے مقابلہ کے لئے.یہ وہی ہتھیار ہیں جو پہلے بھی استعمال ہو چکے ہیں اور پہلے بھی ناکام ہو چکے ہیں اس لئے ہم تجھے یہ بتاتے ہیں کہ تو نے انبیاء کے ہتھیار کے سوا اور کوئی ہتھیار استعمال نہیں کرنا.فَذَكِّرْ إِنَّمَا انْتَ مُذَكَّره تو مقابل پر نیک نصیحت کرتا چلا جا اور بڑی شدت سے کر.جتنے زور سے یہ شور و غوغا بلند کرتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کو خدا کی طرف بلا اور دعوت الی اللہ دے.إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّر تو تو بنایا ہی مُذَكِّر گیا ہے.تیری تو سرشت ہی یہی ہے کہ تو نصیحت کرنے والا ہے.تجھے تخلیق اس طرح کیا گیا ہے کہ تذکیر کے سوا تیرا اور کوئی مقام خدا نے مقرر نہیں فرمایا.پس پیغام پہنچاتا چلا جا، نیک نصیحت کرتا چلا جا اور اپنے ماننے والوں کو بھی یہی ہدایت دے.اسی مضمون کو قرآن کریم نے مختلف جگہ مختلف شکلوں میں بیان فرمایا: يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ (التوبه : ۷۱) که محمد مصطفی ﷺ کے غلاموں کو خدا نے ایسی سرشت دی تھی ، ایسی فطرت عطا فرمائی تھی،
خطبات طاہر جلد۳ 190 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء ایسا مہذب بنایا اور ایسا ادب سکھایا کہ انہوں نے عمر بھر ایک ہی وطیرہ اختیار کئے رکھا کہ لوگوں کو نیک باتوں کا حکم دیا کرتے تھے اور بری باتوں سے روکتے تھے.پس دیکھئے دونوں دعوے خدا کے نام پر تھے.جبراً مذ ہب کو تبدیل کرنے کا دعویٰ بھی خدا کے نام پر تھا اور جبر امذ ہب کو تبدیل نہ کرنے کی ہدایت بھی خدا ہی کے نام پر تھی.ایک طرف کہنے والے یہ کہتے تھے کہ ہم مصلح ہیں اور اصلاح کی وجہ سے ہمیں حق نصیب ہو گیا ہے کہ ہم جبراً ملتیں بدلنے والوں کو واپس ان میں لوٹا دیں اور ایک طرف خدا ہی کے نام پر ، اصلاح کے نام پر یہ اعلان ہو رہا تھا: لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ فَمَنْ يَكْفُرُبا لَمَّا غُوتِ وَيُؤْ مِنَ بِاللَّهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انْفِصَامَ لَهَا (البقره: ۲۵۷) کہ دین کے نام پر کوئی جبر نہیں چلے گا ، نہ اس طرف سے تمہاری جانب اور نہ تمہاری طرف سے ادھر ہماری جانب چلے گا اور اگر کوشش کرو گے تو ناکام رہے گا.وہ لوگ جنہوں نے رشد کو پالیا ہو ان کے لئے ممکن ہی نہیں کہ رشد کو چھوڑ کر واپس لوٹ جائیں.ایسے کڑے پر ان کا ہاتھ پڑ گیا ہے لَا انفِصَامَ لَھا جس سے علیحدگی ان کے مقدر میں نہیں ہے، ان کی طاقت میں نہیں رہی.ناممکن ہے.لَا انفِصَامَ لَهَا سے زیادہ قوت کے ساتھ اس مضمون کو بیان نہیں کیا جاسکتا گویا خدا فرما رہا ہے ناممکن ہے کہ یہ ہاتھ اس کڑے سے الگ ہو جائے جس کڑے پر ڈال دیا گیا ہے کیونکہ یہ رشد و ہدایت کا کڑا ہے.تو دیکھئے اصلاح کے نام پر کتنی مختلف تعلیم دی جارہی ہے.ایک طرف عبادت گاہوں کے منہدم کرنے کی تعلیم دی گئی اسلام کے نام پر اور ایک طرف آنحضور عل عیسائیوں کو یہ تحریر عطا فرما رہے تھے کہ فلاں جگہ کے عیسائی میری خدمت میں حاضر ہوئے ہیں میں ان کو ایک تحریر دیتا ہوں اور وہ تحریر یہ ہے کہ ان کی عبادت گاہ کی طرف کوئی میلی آنکھ سے نہیں دیکھے گا، ان کی صلیب کی حفاظت کی جائے گی اور اگر کسی نے ایسا نہ کیا تو اس کا میرے اور میرے خدا سے کوئی تعلق نہیں.کتنا بڑا فرق ہے اصلاح کی دو آوازوں کے درمیان.ایک طرف اصلاح کے نام پر عبادت گاہوں کو ملیا میٹ صلى الله
خطبات طاہر جلد ۳ 191 خطبه جمعه ۶ را پریل ۱۹۸۴ء کرنے کی تعلیم دی جارہی ہے اور دوسری طرف خدا اور اصلاح کے نام کے اوپر غیروں کی عبادت گاہوں کی حفاظت کی تعلیم دی جارہی ہے.اب اس زمانہ میں اگر مقابلہ ہو جا تا تو بڑی دلچسپ صورت حال سامنے آتی.کچھ لوگ اصلاح کے نام پر مسجد میں گراتے ہوئے مارے جاتے اور کچھ لوگ اصلاح کے نام پر مسجدوں کی حفاظت کرتے ہوئے مارے جاتے.تو تاریخ کو کھول کھول کر خدا نے بیان فرما دیا اور فیصلہ انسان پر چھوڑ دیا کہ اتنی کھلی کھلی تصویر یں تمہارے سامنے ہیں ، عنوان کے پیچھے کیوں چلتے ہو؟ کیوں نہیں دیکھتے کہ ان عناوین کے تابع کیا تصویر میں بنائی جارہی ہیں ؟ ایک طرف نہایت مکروہ اور سیاہ اور تاریک اور گھناؤنی تصویر بن رہی ہے اور ایک طرف روشن روشن، اجلے اجلے منظر ہیں جو دن کا منظر پیش کر رہے ہیں.ایک طرف تحریروں میں تاریکی اور سیاہی ہے دوسری طرف کی تحریروں میں حسن ہے اور روشنی ہے اور خدا کا نور ہے، تو کیوں تم نہیں پہچانتے ؟ پس یہ مقابلے تو ہمیشہ سے ہوتے آئے ہیں اور ہمیشہ جاری رہیں گے.نہ مخالفین نے اپنی اصلاح کا طریق کبھی بدلا ہے نہ ان سے توقع کی جاسکتی ہے.نہ خدا کے نام پر آواز بلند کرنے والوں نے اپنا طریق کبھی ان کی وجہ سے بدلا ہے اور نہ ان سے توقع کی جاسکتی ہے.اس تاریخ اور اس مقابلہ کا خلاصہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایالَكُمْ دِينُكُمْ وَلِى دِيْنِ ) کا فرون: ۷) تمہارے لئے تمہارا دین ہے.تم جو سمجھتے ہو کر ولیکن میرے دین کو تم تبدیل نہیں کر سکتے.میرا دین ایک غیر مبدل دین ہے یعنی میرا چلنے کا طریق ، وہ مسلک جس پر میں قائم ہوں یہ مسلک ازل سے اسی طرح چلا آرہا ہے کبھی تبدیل نہیں ہو سکا.کسی تلوار نے اس مسلک کو تبدیل نہیں کیا اور تمہاری طرز حیات ، تمہارا مسلک بھی ایک غیر مبدل مسلک ہے.جب سے اللہ تعالیٰ نے نبوت کا آغاز فرمایا اس دنیا میں نبوت کے مخالفین ہمیشہ یہی طریق اختیار کرتے آئے.پس قرآن کریم جس تاریخ کو بیان فرماتا ہے وہ ایک غیر مبدل تاریخ ہے اس میں کبھی کوئی تبدیلی آپ نہیں دیکھیں گے.ایک اللہ کی سنت ہے اور ایک اللہ کے مخالفین کی سنت ہے.اور دونوں سنتیں اپنی اپنی جگہ پر قائم چلی آرہی ہیں.اس کے بعد انسان کا کام ہے یہ فیصلہ کرنا کہ دونوں میں سے صالح کون ہے مصلح کون ہے ، کون صلاح پر قائم ہے اور کون حقیقتا دوسرے کی اصلاح کر رہا ہے؟ پس جماعت احمدیہ کے لئے تو کوئی مشکل کام نہیں ہے.یہ دو کھلی کھلی باتیں دیکھ کر اپنے لئے کون سی راہ
خطبات طاہر جلد ۳ 192 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء آپ اختیار کرنی ہے؟ یہ ایک ایسی واضح اور کھلی بات ہے کہ اس میں کسی کو بتانے اور کہنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں.جب بھی مقابلہ ہوگا آپ کے ہتھیار اور ہوں گے اور آپ کے دشمن کے ہتھیار اور ہوں گے.اور دشمن کے ہتھیاروں کے ساتھ آپ نے ان کا جواب نہیں دینا بلکہ اپنے آقا ومولا محمد مصطفی ع کے ہتھیاروں کے ساتھ آپ نے دشمن کا جواب دینا ہے اور وہ ہتھیا رسب سے قوی اور سب سے مضبوط اور سب سے زیادہ گہرا اثر کرنے والے ہتھیار دعا ہی کے ہتھیار تھے.پس میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ آج دعاؤں کی طرف توجہ دلاتا ہوں.دیکھیں جب خطرات پیدا ہوتے ہیں تو لوگ سرحدوں کی حفاظت کیا کرتے ہیں.جب خطرات پیدا ہوتے ہیں تو لوگ فوجوں کو تیار ہونے کا حکم دیتے ہیں، ان کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دیتے ہیں.جب خطرات پیدا ہوتے ہیں تو قو میں توقع رکھتی ہیں کہ اپنے حقوق کو بھی چھوڑ دیں لوگ اور وقت کے لحاظ سے قربانی کریں.پھر لوگ اپنے ہتھیاروں کو نکالتے ہیں ان کو مانجتے ہیں، ان کو صیقل کرتے ہیں، ان کو چمکاتے ہیں.اگر پریکٹس چھوڑ دی تھی تو ان کو چلانے کی پریکٹس شروع کر دیتے ہیں.ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے اگر اپنی حدود کا دفاع مقصود ہو تو یہی طریق ہے.ہاں ہتھیار سب کے الگ الگ ہوتے ہیں.ہمارے وہ کون سے ہتھیار ہیں جنہیں اب باہر نکال لینا چاہئے ؟ اگر پہلے نہیں نکلے ہوئے تھے ان کو بھی نکال لینا چاہئے جو ان سے غافل تھے اور اپنے صندوقوں میں بند کر کے ان کو رکھا ہوا تھا نکالیں اور ان کو چمکائیں اور ان کے استعمال کی پریکٹس شروع کریں.اور یہ وہ ہتھیار ہیں جن کی سب سے زیادہ پریکٹس رات کو ہوا کرتی ہے تہجد کے وقت میں جب ساری دنیا سوئی ہوئی ہوتی ہے اس وقت مسلمان ریجمنٹیشن ہو جاتی ہے.مسلمان فوجیں رات کو اپنے خدا کے حضور کھڑی ہو جاتی ہیں اور ان ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی خوب پریکٹس کرتی ہیں بڑی کثرت کے ساتھ ان کو استعمال کرتی ہیں اور پھر جب وقت آتا ہے تو یہی ہتھیار ان کے کام آتے ہیں اور مخالف کے سارے ہتھیار نا کام ہو جاتے ہیں.چنانچہ ان ہتھیاروں میں سب سے بڑا اور سب سے اہم ہے اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور اللہ کی تحمید کرنا.اب دیکھیں کتنا مزیدار مقابلہ ہو گا ہمارا، ایک طرف سے بڑی گندی گالیاں دی جارہی ہوں گی اور دوسری طرف سے سُبحَانَ الله و بحمدہ سبحان اللہ العظیم کی آوازیں بلند ہو رہی ہوں گی.دن کو بھی اور رات کو بھی ، ہر شہر سے جہاں احمدی بستے ہیں، ہر گلی سے جہاں احمدی ،
خطبات طاہر جلد ۳ 193 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء رہتے ہیں، ہر گھر سے جو احمدیوں سے آباد ہے، ہر گالی کے جواب میں سبحان الله و بحمده سبحان اللہ العظیم کی آواز بلند ہو رہی ہوگی.اور پھر جب حضرت مسیح موعود کو وہ گالیاں دیں گے تو آپ کا ہتھیار کیا ہے؟ آپ کہیں گے اللھم صل علی محمد و آل محمد و بارک وسلم انک حمید مجید.اس کو کہتے ہیں مقابلہ کتنا شاندار مقابلہ ہونے والا ہے.اس مقابلہ کے لئے آپ کو خوب Excite ہو جانا چاہئے.خوب اچھی طرح تیار ہو جانا چاہئے.پس آپ ہر گالی کے جواب میں درود بھیجیں حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کی آل پر اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ آپ کی آل کا سب سے زیادہ مستحق کو نسا وجود ہے؟ کون ہے جو آپ کی آل کہلانے کا سب سے زیادہ حق دار ہے؟ پس اللهم صل على محمد وال محمد ان گالیوں کے جواب ہے جو وہ حضرت مسیح موعود کو دیتے ہیں یا دیں گے.پھر ان دو باتوں کے بعد یعنی تسبیح اور تحمید اور درود کے بعد پھر دوسری دعائیں ہیں، یہ بھی وہی ہتھیار ہیں جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائے ہیں یا آنحضرت ﷺ نے ہمیں ان کی تربیت دی ہے.دوسری دعا جس کو خصوصیت سے کرنا چاہئے وہ یہ ہے: يَا حَفِيظٌ يَا عَزِيزُ يَا رَفِيق کہ اے حفاظت کرنے والے ! ہم پر چاروں طرف سے حملہ ہو رہا ہے اور یہ حملہ تیرے نام پر ہو رہا ہے.ہم کمزور ہیں لیکن جانتے ہیں کہ تو عزیز ہے، غالب ہے اور قدرت والا ہے اور تیرے مقابل پر کوئی جیت نہیں سکتا.پس اے حفاظت کرنے والے! ہم تجھے پکار رہے ہیں اور اے غالب مقدرت والے خدا! ہم تجھے پکاررہے ہیں اور اسے رفیق ! اے ہمارے دوست اور ساتھی ہم تجھے پکاررہے ہیں تیرے سوا آج کوئی ہمارا دوست نہیں ہے اور کوئی نہیں جو ہمیں ان خطرات سے بچا سکے.یا حی یا قیوم یہ زندگیاں لوٹنے کی تعلیم دے رہے ہیں مگر ہمارا تو تجھ سے تعلق ہے اے کی خدا! جو ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہمیشہ زندہ رہے گا اور جس سے زندگی کے چشمے پھوٹتے ہیں ، وہ خود بھی قائم ہے اور دوسروں کو بھی قائم رکھنے کی طاقت رکھتا ہے.اے قیوم ! ہم تجھ سے اپنا تعلق جوڑتے ہیں تو ہمیں قائم رکھ اور تو ہمیں قیام بخش اور ہماری زندگی کو غیروں کے حملے سے بچا اور وہ اسے جتنا چھوٹا کرنا چاہتے ہیں تو اسے اتنا ہی لمبا کر دے کیونکہ تیری زندگی تو ہمیشہ کی زندگی ہے.پس قومی لحاظ سے ہم جب ہم تجھ سے تعلق جوڑ لیتے ہیں تو ہماری زندگی بھی تیری زندگی جیسی ہو جانی چاہئے ، جس طرح تجھ پر فنا نہیں تیرے بندوں پر
خطبات طاہر جلد ۳ 194 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء بھی بحیثیت جماعت کے کبھی فنا نہیں آنی چاہئے بر حُمَتِكَ نَسْتَغِيت.ہم تیری رحمت کے بھکاری ہیں.ہم تیری رحمت کے حضور فریادی بن کر آئے ہیں.نَسْتَغیث کا مطلب ہے فریاد کرتے ہیں تیری، دہائی دیتے ہیں اے خدا ! ہم تیری رحمت کے بھکاری اور فریادی بن کے حاضر ہو گئے تجھے تیری حفاظت کی یاد دلانے کے لئے ، تجھے تیری عزت کی یاد دلانے کے لئے اور تجھے تیری رفاقت کی یاد دلانے کے لئے.پس اے جی وقیوم ! آ اور ہمارا ساتھی بن.پھر ایک دعا بھی ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ گویا کہ اسم اعظم ہے.ایسی طاقت والی دعا ہے جو ہر صورت حال پر کام کرتی ہے.یہ ہر مرض کی دوا ہے اور وہ دعا ہے: رَبِّ كُلُّ شَيْءٍ خَادِمُكَ رَبِّ فَاحْفَظْنِي وَانْصُرُنِي وَارْحَمُنِي اس کو اگر قومی طور پر کیا جائے تو رَبِّ فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا بھی پڑھا جا سکتا ہے رَبِّ فاحفظنی کی بجائے رَبِّنَا فَاحْفَظْنَا وَانْصُرْنَا وَارْحَمْنَا کہ اے خدا! تو ہمارا رب ہے اور ہر چیز تیری خادم ہے، کوئی بھی کائنات میں ایسا وجود نہیں ہے جو تیرے قبضہ قدرت سے باہر ہو.پس جب ہر چیز تیری خادم ہے تو ہم تجھ سے مدد مانگتے ہیں.جس آقا کے ہم غلام ہیں ایسا کر کہ ہر وہ چیز جو اس آقا کی غلام ہے وہ ہماری غلام بنادی جائے ، ہماری خدمت پر مامور ہو جائے یعنی تیری کائنات کی ساری طاقتیں ہمارے لئے وقف ہو جائیں ہماری حفاظت کے لئے وقف ہو جائیں.فَاحْفَظْنِی میری حفاظت فرما، وَانصُرُ نِی اور میری نصرت فرما، وارحمني اور مجھ پر رحم فرما.رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا (ال عمران: ۱۳۸) اے خدا! ہمارے گناہ بخش دے.ایسا نہ ہو کہ ہماری مغفرت اور تیری نصرت کے درمیان ہمارے گناہ حائل ہو جائیں.ایسا نہ ہو کہ ہم تیری نظر میں حق دار ہی نہ رہے ہوں اس حفاظت اور رفاقت کے جس کے ہم تجھ سے طلب گار ہیں.رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا.آج تو خطروں کے دن ہیں ، آج تو بخششوں کے دن ہیں، آج تو صرف نظر کے دن ہیں، جو کچھ ہو رہا ہے تیرے نام پر ہورہا ہے اور تیری وجہ سے ہو رہا ہے اس لئے آج ہمارے گناہوں سے بھول جا.آج ہمارے گناہوں پر نظر کرنے کے دن نہیں ہیں.وَ اِسْرَافَنَا فِی اَمْرِنَا ہم نے اپنی جانوں پر بہت زیادتیاں کی ہیں اور ایسے کام
خطبات طاہر جلد ۳ 195 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء کئے ہیں جن سے جانیں ہلاک ہو جایا کرتی ہیں مگر آج ان باتوں کا دن نہیں کہ ان چیزوں کو گنا جائے آج تو یہ دن ہے کہ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا ہمارے قدموں کو ثبات بخش ، ایسی قوت عطا فرما کہ یہ پیچھے ہٹنے کا نام نہ جانیں.وَ انصُرْنَا اور ہمیں غلبہ عطا فرما عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ ان لوگوں پر جو تیرے پیغام کے منکر ہیں.پھر یہ دعا کریں اَللَّهُمَّ إِنَّا نَجْعَلُكَ فِي نُخُورِهِمْ وَ نُعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُوْرِهِمْ.اے ہمارے خدا! اے ہمارے رب ! اے اللہ! إِنَّا نَجْعَلُكَ فِی نُحُورِهِمُ ان کے سینوں میں ہم کوئی رعب داخل نہیں کر سکتے لیکن تجھے ان کے سینوں میں رکھتے ہیں، تو ہر سینہ میں داخل ہونے کی طاقت رکھتا ہے، تو قوت اور شان اور ہیبت کے ساتھ ان کے سینوں میں اتر اور وہی کرنے پر مجبور کر جو تو چاہتا ہے.وَنُعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمُ اور ان کے سینوں سے جو ارادے بداعمال بن کر پھوٹیں گے اور شر بن کر ہم پر پڑنے والے ہیں ان شرور سے ہم تیری حفاظت میں آتے ہیں یعنی شر کے مبداً پر بھی پکڑ لے ان کو اور شر جن پر پڑنے والا ہے اُن کے اور ان کے درمیان تو حائل ہو جا.کیسی کامل دعا ہے یعنی شر پہلے سینوں سے پھوٹا کرتا ہے، وہ وہاں جنم لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھایا کہ یہ دعا کیا کرو اللهم إنا نجعلک فی نُحورهم اے خدا ! وہاں سے پکڑ جہاں سے شر پھوٹ رہا ہے، جہاں جنم لے رہا ہے.اگر ان سینوں میں تو داخل ہو گیا تو شر رحمت میں تبدیل ہو جائے گا.شر کا باقی کچھ نہیں رہے گا اس لئے جن سینوں میں خدا داخل ہو جائے وہاں یہ توفیق ہی نہیں مل سکتی شر کو کہ وہاں سے نکلے اور دنیا میں فساد برپا کرے اور اگر کچھ بد بخت ایسے ہوں جن کے سینے تیرے لئے بند ہیں یعنی خدا ز بر دستی چاہے تو ہر سینے میں جاسکتا ہے لیکن اس نے بھی اپنا ایک قانون مقرر فرمایا ہوا ہے کہ بعض سینے جو بد بختی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں ان میں خدا انہیں اترا کرتا تو ایسی صورت میں پھر ہمارے اور ان شروں کے درمیان حائل ہو جا جو سینوں سے پھوٹ کر پھر بداعمال میں تبدیل ہو جایا کرتے ہیں.اور پھر یہ دعا کریں: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ ذُهَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ (ال عمران : ٩) اے خُدا! ہم تجھ سے یہ دعا کرتے ہیں کہ غیروں کے سینوں میں اتر جا اور ان کی اصلاح فرما دے تو
خطبات طاہر جلد ۳ 196 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء کیسے ہوسکتا ہے کہ اپنے دلوں اور سینوں کو بھول جائیں اے خدا الَا تُزِغْ قُلُوبَنَا اے ہمارے رب یہ نہ ہو کہ ہم غیروں کی اصلاح کی فکر میں ہوں اور ہمارے دل بگڑ جائیں، ہمارے دلوں کوکسی حال میں بگڑنے نہیں دینا بَعْدَ اِ ذُهَدَيْتَنا اس واقعہ کے بعد کہ تو نے محض اپنے فضل سے ہمیں ہدایت عطا فرما دی ہے.وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً ہمیں تیری رحمت کی ضرورت ہے جو تیری طرف سے آئے یعنی صرف رحمتک نہیں فرمایا بلکہ مِن لَّدُنْكَ رَحْمَةٌ میں پیار کا اظہار ہے اور غیر کی نفی کی گئی ہے یعنی ہمیں کسی غیر کی رحمت کی کوئی پرواہ نہیں ہے.دنیا میں ہم پر کوئی رحم کھائے یا نہ کھائے ہمیں اپنی جناب سے رحمت عطا فرما.اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ تو بہت ہی بار بار رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا وجود ہے پس ہم پر رجوع برحمت ہو.پس یہ وہ ہتھیار ہیں جو ہمارے ہتھیار ہیں.کچھ احمدی ایسے ہیں جو تنگی ہو یا آسائش ہو، دن ہو یا رات ہو ہمیشہ مستعد رہتے ہیں.امن کی حالت میں بھی وہ راتوں کو اٹھتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں اور ان کی یہ عادت فطرت ثانیہ بن چکی ہے لیکن قوم کا کچھ حصہ ایسا بھی ہوا کرتا ہے کہ وہ اس وقت تک اپنے ہتھیاروں کو نکالتے اور صاف نہیں کرتے جب تک کہ خطرات سر پر منڈلانے نہ لگیں.پس آج ایسا وقت ہے جماعت پر کہ ہر مردوزن ، ہر بوڑھے اور بچے کو اپنے ہتھیاروں کو اٹھا لینا چاہیئے اور صاف کرنا چاہئے اور چمکانا چاہئے اور جیسا کہ وقت خدا نے ہمیں عطا فرمایا ہے پانچ نمازوں کے علاوہ خصوصیت کے ساتھ راتوں کو تہجد میں اٹھ کر ان ہتھیاروں کو استعمال کریں اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو ان ہتھیاروں کا مقابلہ کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ پر میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.سب سے پہلے تو آپ فرماتے ہیں کہ میرا مقصد کیا ہے؟ یعنی جماعت کو متوجہ کرتے ہیں کہ اس مقصد کو کبھی نہ بھلانا.وہ کام جس کے لئے خدا نے مجھے مامور فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ خدا اور اس کی مخلوق کے رشتے میں جو کدورت واقع ہوگئی ہے اسے دُور کر کے محبت اور اخلاص کے تعلق کو دوبارہ قائم کروں: ”خدا نے مجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا میں حلم اور خلق اور نرمی سے گم گشتہ لوگوں کو خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف کھینچوں“.تریاق القلوب روحانی خزائن جلد ۱۵ صفحه ۱۴۳۰)
خطبات طاہر جلد ۳ 197 خطبه جمعه ۶ راپریل ۱۹۸۴ء اس ایک فقرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مقصد بھی بیان فرما دیا ہے اور طریق کار بھی واضح کر دیا ہے.فرمایا میرا مقصد تو یہ ہے کہ خدا اور اس کی پاک ہدایتوں کی طرف بنی نوع انسان کو کھینچوں اور میرا طریق کار یہ ہے کہ حلم کے ساتھ ، خلق کے ساتھ اور نرمی کے ساتھ یہ کام سرانجام دوں لیکن آپ جانتے تھے کہ اس کے باوجود جیسا کہ ہمیشہ سے مقدر ہے خلق اور حلم اور نرمی کا جواب سختی اور ظلم اور ستم کے ساتھ دیا جائے گا اور نرمی سے اپنی طرف بلانے کی بجائے جبر کے ساتھ اپنی طرف بلایا جائے گا تو ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے آپ کو جو تسلی دی وہ آج میں بھی آپ کو تسلی دلاتا ہوں.کیونکہ خدا کا یہ کلام غیر مبدل اور اٹل ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت کے لئے ہمیشہ کے لئے خدا کا یہ کلام زندہ رہے گا اور قائم رہے گا اور کوئی نہیں ہے جو اس کو بدل سکے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائیگا اور وہ میرے سلسلہ کو تمام زمین پر پھیلائے -"B پھر آپ فرماتے ہیں: اور یہ یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خداسب کو درمیان سے اٹھا دے گا“.تجلیات الہی روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه: ۴۰۹) مقصد کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اور اس مقصد کو پورا کرنے کا طریق کیا ہے؟ یہ خوب کھول دیا ہے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اپنے الفاظ میں اور دشمن جب ڈرائے گا تو حوصلہ نہیں چھوڑ نا دعائیں کرنی ہیں اور یقین میں ادنی سا بھی تزلزل نہیں آنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں غالب کرنے کے لئے پیدا فرمایا ہے.زمین کے چپے چپے پر اسلام کو غالب کرنے کے لئے ہمیں پیدا فرمایا ہے.یعنی روحانیت کے زور سے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کی طاقت کے ساتھ دلوں پر غلبہ نصیب ہوتا ہے ہمیں، حکومتوں پر غلبہ نہیں،انسانوں کے قلوب پر غلبہ ہونا
خطبات طاہر جلد۳ 198 خطبه جمعه ۶ را بریل ۱۹۸۴ء ہے ان کے جسموں پر نہیں.اس بات کو ہمیشہ جماعت کو اپنے پیش نظر رکھتے رہنا چاہئے اور ہمیشہ ان دعاؤں میں اور اس کے علاوہ بہت سی قرآنی دعائیں اور آنحضرت کی سکھائی ہوئی دعاؤں میں مشغول رہنا چاہئے.یقین رکھیں کہ لازما آپ ہی غالب آئیں گے اور لازما آپ کو مٹانے والے خود مٹ جائیں گے لیکن آپ کو کبھی نہیں مٹا سکیں گے.انشاء اللہ تعالیٰ.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک دعا میں بیان کرنی بھول گیا تھا وہ بھی بہت اہم دعا ہے اور اس سے دل میں نرمی ورحلم پیدا ہوتا ہے اور غیظ و غضب اور نفرت کی بجائے بنی نوع انسان کی محبت زیادہ جوش مارتی ہے اور وہ بھی مسنون دعا ہے وہ یہ دعا ہے: اَللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اے خدا ہم پر ظلم کرنے والے نادان ہیں.وہ ہم پر جہالت اور لاعلمی میں ہم پر ظلم کر رہے ہیں.ہماری دعا یہی ہے کہ ان کو ہدایت دے اور ان کو اپنی راہ پر ڈال دے.پس یہ دعا اگر عربی کے الفاظ یاد نہ ہوں تو مضمون میں نے بیان کر دیا ہے اس مضمون میں اپنے پر ظلم کرنے والوں کے حق میں ضرور یہ دعائیں کریں کیونکہ مظلوم جب اپنے ظالم کے حق میں دعا کرتا ہے تو یہ ایک خاص موقع ہوتا ہے اس میں ایک خاص قوت پیدا ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت ایسی دعا کو ضرور قبول فرمالیتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 199 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۸۴ء صبر وصلوٰۃ کی تشریح اور ثمرات ( خطبه جمعه فرموده ۱۳ اپریل ۱۹۸۴ء بمقام مسجد بیت الذكر اسلام آباد، پاکستان ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصُّبِرِينَ وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللهِ أمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءِ وَ لَكِن لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْأَمْوَالِ وَالْأَنْفُسِ وَالثَّمَرَاتِ وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ ) الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ أو ليك عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقره: ۱۵۴ - ۱۵۸) اور پھر فرمایا: قف انسان کے مقدر میں خوف بھی ہے اور بھوک بھی ہے اور اموال کا نقصان بھی ہے اور جانوں اور پھلوں کا نقصان بھی ہے اور اس امر کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں.کوئی انسان مذہبی ہو یا غیر مذہبی، خدا پر ایمان رکھنے والا ہو یا د ہر یہ ہو، مادہ پرست ہو یا روحانیت کا قائل ہو اس کی زندگی میں یہ ساری چیزیں اس کے ساتھ لگی ہوئی ہیں.خوف طرح طرح کے انسان کو گھیرے ہوئے ہیں لیکن ہر خوف
خطبات طاہر جلد ۳ 200 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۸۴ء سے بہتر وہ خوف ہے جو خدا کی خاطر انسان پر عائد کیا جائے.کوئی اور خوف اس خوف کا مقابلہ نہیں کرسکتا.ویسے تو ایسی بدقسمت مائیں بھی ہوتی ہیں جو خود اپنے بچوں کو خوف دلاتی ہیں اور ان دیکھی چیزوں کا خوف دلاتی ہیں.بعض بچے بیچارے جنوں بھوتوں کے تصور میں ڈرتے ڈرتے اپنا بچپن گزارتے ہیں اور ایسا خوف زدہ دل لے کر بڑا ہوتے ہیں کہ ساری زندگی وہ خوف میں مبتلا رہتے ہیں.بعض قو میں ہیں جن کو خوف گھیرے ہوئے ہیں کئی قسم کے ، بعض بادشاہتیں ہیں جن کو یہ خوف ہے کہ کسی وقت ہمارا تختہ نہ الٹ دیا جائے ، بعض حکومتیں دوسری حکومتوں کا خوف کھا رہی ہیں بعض اقتصادی نظام بعض دوسرے اقتصادی نظاموں کا خوف کھا رہے ہیں تو خوف سے تو کوئی مبرا نہیں ناممکن ہے کہ انسان خوف کے بغیر زندگی گزار سکے.مگر قرآن کریم ایک ایسے خوف کا ذکر فرماتا ہے جو محض اللہ ہو، انسان کا کوئی قصور نہ ہو، کوئی اس کی خواہش نہ ہو جو کسی دوسرے کی خواہش پر بداثر ڈالنے والی ہو، کوئی اس کی حرص نہ ہو جس حرص نہ کے نتیجہ میں کسی غیر کا نقصان ہوتا ہو، کوئی علاقہ فتح کرنے کی تمنا نہ ہو، کوئی جبر اور حکومت کی تمنا اس کے دل میں نہ ہو، کوئی مراد ایسی نہ ہو جو دوسرے کی مراد سے ٹکراتی ہو بلکہ خالص وہ بنی نوع انسان کی بہبود کے لئے کوشاں ہو اور نیک ارادے رکھتا ہو.ایسا انسان جس سے کسی دوسرے انسان کو کوئی خوف نہ ہو وہ جب غیروں سے ایسے حالات دیکھتا ہے، ایسے بدارادے اس کو نظر آتے ہیں کہ ان کے نتیجہ میں بظاہر اس کے دل میں خوف پیدا ہونا چاہئے لیکن اپنے کسی قصور کے نتیجہ میں نہیں بلکہ فی الحقیقت اپنی بعض نیکیوں کے نتیجہ میں اس کو خوف لاحق ہو جاتا ہے غیروں سے ایسے خوف کا خداذ کرفرماتا ہے کہ یہ خوف محض اللہ کی خاطر اس پر عائد کیا گیا ہے.ایسے خوف کو خدا تعالیٰ خوش خبری کے طور پر پیش کرتا ہے ڈرانے کے طور پر نہیں، انذار کے طور پر نہیں.فرماتا ہے کچھ میرے نیک بندے ہیں ان کے مقدر میں ایسا خوف بھی ہوتا ہے کہ جو خوف محض خدا کی خاطر ان پر ڈالا جاتا ہے باوجود اس کے کہ ان کی طرف سے کسی کو کوئی خوف نہیں ہوتا.ان کا قول سلام ہوتا ہے، ان کا فعل سلام ہوتا ہے.وہ ہر ایک کو امن کی دعوت دیتے ہیں، اپنی طرف سے بے خوفی کا پیغام دیتے ہیں اس کے باوجود بعض لوگ ان پر ایسی مصیبتیں کھڑی کرنے کی کوششیں کرتے ہیں کہ پیشتر اس کے کہ وہ مصیبتیں عملی جامہ پہنیں ایک خوف کی حالت طاری کر دی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی صورت میں ہم تمہیں آزمائیں گے
خطبات طاہر جلد ۳ 201 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۸۴ء بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ ایک خاص قسم کے خوف میں سے ایک حصہ تمہیں دیا جائے گا اور اس وقت تم آزمائش میں مبتلا ہو گے اگر تو واقعہ یہ خوف خدا کی خاطر ہے تو تمہیں یہ خوف متاثر نہیں کر سکے گا.تمہیں یہ خوف اس طرح ڈرا نہیں سکے گا جیسے اہل دنیا کو دنیا کے خوف ڈرا دیا کرتے ہیں.یہ ہے ابتلا کا معنی آزمائش کا معنی اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مسلمان جو سچا مومن ہو جو اللہ پر توکل رکھتا ہو وہ خوف کے نتیجہ میں خوفزدہ اور ہیبت زدہ ہو جاتا ہے کیونکہ قرآن کریم کی دوسری آیت اس مضمون کی نفی فرمارہی ہے.اللہ تعالیٰ واضح طور پر فرماتا ہے: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس :۶۳) کہ دیکھو اللہ کے دوست جو اللہ کے ہو جاتے ہیں ان کے اوپر تو کوئی خوف نہیں ہوتا.تو بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوفِ کا یہاں مطلب یہ ہوگا کہ دنیا کی طرف سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ، دنیا کی طرف سے خوف پیدا کرنے کی کوشش کی جائے گی اور اس وقت اللہ آزمائے گا اپنے بندوں کو جو اس کے ہوں گے ان کے دل پر اس خوف کا کوئی اثر نہیں ہوگا.جولوگ اللہ کے نہیں ہوں گے یا کسی حد تک غیر کی ملونی ان کے دلوں میں شامل ہوگی اس حد تک وہ اس خوف سے متاثر ہو جائیں گے.پھر اسی طرح یہی آیت کریمہ ہمیں بتاتی ہے کہ بھوک بھی انسان کے مقدر میں ہے.بڑے سے بڑا امیر آدمی بھی ہو اس کے اوپر بھی ایسے حالات آجاتے ہیں کہ کسی نہ کسی وقت وہ بھوک کا شکار ہوتا ہے.پیسہ ہونے کے باوجود وہ بعض دفعہ ایسی حالت میں پکڑا جاتا ہے کہ اس کا پیسہ اس کے لئے کچھ خوراک کا انتظام کر نہیں سکتا.بڑی بڑی امیر قومیں ہیں جن کے ہاں کھانا اتنا ضائع ہو رہا ہوتا ہے کہ بعض غریب قومیں ان کے ضائع شدہ کھانے پر پل سکتی ہیں لیکن بعض ایسے حالات آتے ہیں کہ وہ بھی بھوک کا شکار ہو جاتی ہیں.گزشتہ جنگ عظیم میں انگلستان کی حکومت جو کسی زمانہ میں بہت بڑی اور قوی حکومت سمجھی جاتی تھی جن کا اقتصادی نظام بہت مستحکم تھا اس حکومت کے باشندوں کے لئے بھی اس ملک کے باشندوں کے لئے بھی ایسی بھوک کا سامان کرنا پڑا کہ ان کے امیر اور ان کے غریب، ان کے چھوٹے اور ان کے بڑے ساروں کو لباس الجوع پہنا دیا گیا یعنی بھوک ان کا لباس بن گئی
خطبات طاہر جلد ۳ 202 خطبه جمعه ۱۳ را بپریل ۱۹۸۴ء تھی.چھوٹی چھوٹی چیزوں کے لئے وہ ترستے تھے.میٹھا دیکھنے کو ان کی آنکھیں ترس گئی تھیں.عام کھانے کی چیزیں مثلاً ڈبل روٹی جس کی حیثیت ہی نہیں وہاں کی خوراک میں سمجھی جاتی تھی اس کے لئے بھی لائنیں لگانی پڑتی تھیں بڑے بڑے لمبے Que ہوتے تھے اور بڑا خوش قسمت ہوتا تھا جس کو ڈبل روٹی مل جائے.جرمنی میں ایک ایسی حالت آئی فاقہ کی کہ بعض اوقات دنوں کے فاقے کرنے پڑتے تھے لوگوں کو اور جو حالات میں نے مطالعہ کئے ہیں اس زمانے کے حیران رہ جاتا ہے انسان کہ کتنی سخت جانی کے ساتھ کتنی ہمت کے ساتھ ان قوموں نے ان تکلیفوں کو برداشت کیا ہے اور ان کا مقابلہ کیا ہے.تو جوع بھی انسان کے مقدر میں ہے اور بعض اوقات انسان ایک لمبے عرصہ تک اس سے نہیں آزمایا جا تا بعض دفعہ جب پکڑ لیتی ہے خدا کی تقدیر تو چھوٹا ہو یا بڑا ہو وہ سارے ان میں سے ہر ایک انسان لازماً جوع کو چکھتا ہے.قرآن کریم نے اس کا محاورہ استعمال فرمایا ہے لباس الجوع.ایسے وقت آتے ہیں کہ جب ہم قوموں کو بھوک کے لباس پہنا دیتے ہیں یعنی ان کے لئے چارہ نہیں رہتا بھوک کے سوا ان کا اوڑھنا بچھونا ہو جاتی ہے بھوک تو دنیا میں بسنے والے دنیا کی خاطر بھی بھوک کا شکار ہو جاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کو بھی اپنی خاطر تھوڑی سے بھوک سے آزمانے والا ہوں بعض دفعہ ان کو اس وجہ سے فاقہ کرنا پڑے گا کہ وہ خدا سے محبت کرتے ہیں اور خدا سے پیار کرتے ہیں اور کوئی اور قصور ان کا نہیں ہوتا.یہ وجہ نہیں ان کی بھوک کی کہ وہ نکھے ہیں، یہ وجہ نہیں ہے کہ قحط سالی ہے ملک میں ، یہ وجہ نہیں ہے کہ ان کا اقتصادی نظام کسی دوسرے سے ٹکرایا اور نا کام رہا، کوئی دنیاوی وجہد ان کی بھوک کی آپ بیان نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ وہ اللہ سے محبت کرتے ہیں.چنانچہ حضرت اقدس محمد مصطفی علی کے اور آپ کے ساتھیوں کو اسی قسم کی بھوک میں آپ کی قوم نے مبتلا کیا.تین سال تک شعب ابی طالب میں جو ایک وادی تھی ابو طالب کی وہاں ان کو قید کیا گیا اور ان کا اقتصادی بائیکاٹ کیا گیا اور بڑے لمبے عرصہ تک قبیلے پہرے دیتے رہے کہ کوئی ان کا دوست مخفی طور پر بھی ان کو کھانے کی کوئی چیز نہ پہنچا سکے.چنانچہ بہت سے صحابہ ان تکلیفوں کی وجہ سے جاں بحق ہو گئے.حضرت خدیجہ رضی اللہ عنھا کا بھی وصال ہوا اور بہت سے صحابہ تھے جو انتڑیوں کی بیماریوں کی
خطبات طاہر جلد ۳ 203 خطبه جمعه ۱۳ر اپریل ۱۹۸۴ء وجہ سے اور بھوک کے لمبے اثرات کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ گھل گھل کر مر گئے.اتنا شدید فاقہ تھا بعض دفعہ اس کی تکلیف اتنی بڑھ جایا کرتی تھی کہ ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں کہیں سے گزر رہا تھا میرے پاؤں کے نیچے ایک نرم سی چیز آئی مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر میں نے دیکھا کہ وہ کیا ہے تو ہوسکتا ہے مجھے معلوم ہو جاتا کہ وہ ایک گندگی ہے، مجھے یہ معلوم ہو جاتا کہ وہ کوئی کیڑا ہے مکروہ قسم کا جسے میں کسی قیمت پر بھی کھا نہیں سکتا لیکن بھوک کی اتنی شدت تھی کہ میں برداشت نہیں کر سکتا تھا اس لئے میں نے اسے دیکھا نہیں اسے اٹھایا اور اپنے گلے میں اس طرح لٹکا یا اپنے حلق میں کہ زبان کو مس بھی نہ کر سکے، یہ پتہ نہ لگے کہ وہ کیا چیز تھی ؟ چنانچہ وہ نشانہ ایسا میں نے لگایا کہ وہ سیدھا حلق میں جا گرا اور میں اسے نگل گیا اور کہا کرتے تھے ہنس کر کہ مجھے آج تک پتہ نہیں ہے کہ وہ کیا چیز تھی جو میں کھا گیا تھا.درختوں کے پتے بھی صحابہ نے کھائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں ہم ان کو آزماتے ہیں اور یہ وہ بھوک ہے جو صرف اللہ کی خاطر دی جاتی ہے.جو اللہ کے بندے ہیں وہ اس پر صبر کرتے ہیں، وہ راضی رہتے ہیں، کوئی واویلہ کی بات نہیں کرتے ، کوئی شکوے کا کلمہ زبان پر نہیں لاتے ہر حالت کو وہ خدا کی رضا کی خاطر تسلیم کے ساتھ قبول کر لیتے ہیں.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَنو الي مال بھی دنیا میں لوٹے جاتے ہیں کئی وجوہات سے اور قو میں قوموں پر یلغار کرتی ہیں، چور لے جاتے ہیں مال ، ڈاکو لے جاتے ہیں ، آگ لگ جاتی ہے گھروں کو ، ہزار ہا ذریعے ہیں مالوں کے نقصان کے مگر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کے اموال محض میری رضا کی خاطر لوٹے جاتے ہیں.وہ خود لٹیرے نہیں ہوتے ، وہ کسی پر ظلم نہیں کر رہے ہوتے بلکہ ان کی تو فطرت یہ ہوتی ہے کہ اگر کسی کے مال کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتو وہ جد و جہد ، کوشش کر کے بھی اسے خطرہ سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان سے خیر ہی خیر دنیا دیکھتی ہے.اس کے باوجود ان کے اموال خدا کی خاطر یعنی اس وجہ سے کہ وہ خدا کے ہو چکے ہیں لوٹے جاتے ہیں.وَالْاَنْفُسِ اور کچھ جانیں بھی ان کی ضائع ہوتی ہیں.اب دیکھئے خدا کے جان لینے کے کتنے طریق ہیں ؟ ہزار ہا ذریعے ہیں جن سے موت انسان کو آجاتی ہے بعض لوگ چھینک سے مرجاتے ہیں ، بعض لوگ بغیر بیماری کے سوئے سوئے جان دے دیتے ہیں یہ بھی ایک بیماری کہلاتی ہے جس بیماری کا کوئی علم نہیں کہ کیوں ہے؟ ایک انسان اچھا بھلا سویا ہے اور نیند کی حالت میں ڈوبتے
خطبات طاہر جلد۳ 204 خطبه جمعه ۱۳ را بپریل ۱۹۸۴ء ڈوبتے وہ موت کا شکار ہو جاتا ہے.ٹھوکر لگتی ہے تو بعض لوگوں کی جان نکل جاتی ہے، دھما کا ہوتا ہے بعض لوگوں کی جان نکل جاتی ہے، بعض لوگ چھوٹی بیماریاں برداشت نہیں کر سکتے وہ چھوٹی بیماری سے جان دے دیتے ہیں ، بعض بڑی بیماری سے جان دے دیتے ہیں ، بعض چھوٹے جانور کے ڈسنے سے مارے جاتے ہیں.چنانچہ ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں کہ بھڑ کاٹ گیا کسی کو اور اس کی جان نکل گئی.تو بے شمار ہیں رستے موت کے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان سے ایک رستہ ہے میری رضا کی خاطر مرنا اور میں اپنی قوموں کو جو میرے ہو چکے ہوتے ہیں اس لحاظ سے بھی آزما تا ہوں کہ بعض دفعہ کوئی ان کا قصور نہیں ہوتا پھر بھی دشمن از راہ ظلم قتل کر دیتے ہیں.وَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوْا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ (البروج : ٩-١٠) ان کی دشمنی کی وجہ کوئی اور نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ وہ اللہ اور اللہ کی طرف سے آنے والوں پر ایمان لا چکے ہوتے ہیں.یہی ایک دشمنی کی وجہ بن جاتی ہے.تو ان آزمائشوں میں خدا تعالیٰ نے ایک وعدہ بھی دیا ہے اور ایک خوشخبری بھی دی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ڈرانے کی خاطر نہیں ہے یہ آیت بلکہ حوصلہ دلانے کی خاطر ہے.اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ عام دنیا میں انسان اسی طرح زندہ رہتے ہیں کئی قسم کی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں اور ان کی مصیبتیں تمہاری مصیبتوں سے زیادہ ہوتی ہیں.چنانچہ بشی کے لفظ نے یہ واضح فرما دیا کہ مذہبی قوموں کے مقابل پر غیر مذہبی قوموں کی مصیبتیں اور مشکلات بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن ان کا کوئی والی نہیں ہوتا.ان کا متولی کوئی نہیں ہوتا.مذہبی قوموں کا خدا والی ہوتا ہے اور ان کا ولی بن جاتا ہے اس لئے ان کو غیر مذہبی قوموں کے مقابل پر ہمیشہ کم نقصان پہنچتا ہے لیکن جو بھی نقصان پہنچتا ہے چونکہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر وہ برداشت کرتے ہیں اور اللہ کے نام پر ان کو نقصان پہنچایا جاتا ہے اس لئے اس نقصان کا بھی خدا کفیل ہو جایا کرتا ہے اور خدا ان کا وکیل بن جایا کرتا ہے اور ذمہ دار ہو جاتا ہے ان نقصانات کو پورا کرنے کا.یہ خوشخبری دی گئی ہے چنانچہ آخر پر تیجہ نکالا وَبَشِّرِ الصُّبِرِينَ.عجیب کلام ہے یہ ایک طرف ڈرانے کی باتیں ہو رہی ہیں مسلسل مضمون یہ خبر دے رہا ہے کہ ہم تمہیں خبر دیتے ہیں کہ تمہارے ساتھ کچھ ہونے والا ہے خوف کے حالات آنے والے ہیں، بھوک
خطبات طاہر جلد۳ 205 خطبه جمعه ۱۳ / اپریل ۱۹۸۴ء کے حالات آنے والے ہیں، خطرات تمہارے سر پر منڈلا ئیں گے تمہارے بے وجہ بغیر اس کے کہ تم نے کسی کا قصور کیا ہو مال لوٹے جائیں گے.بے وجہ تمہاری جانیں تلف کی جائیں گی.یہ سارا مضمون تو خوف کا مضمون ہے اور ڈرایا جا رہا ہے لیکن نتیجہ دیکھیں یہ آیت کیا نکالتی ہے فرماتا ہے وَبَشِّرِ الصبرین کہ ہم ڈرانے کی خاطر نہیں کہہ رہے تمہیں یہ خوش خبریاں دے رہے ہیں.کیونکہ وہ مومن جس کا مال خدا کی خاطر لوٹا جاتا ہے اللہ اس کے مال میں بہت زیادہ برکت دیتا ہے لیکن وہ دنیا دار جس کا دنیا میں مال لوٹا جاتا ہے اس کا کوئی ضامن نہیں ہے وہ مومن جس کی جان خدا کی راہ میں تلف کی جاتی ہے اللہ اس کی جان میں برکت دیتا ہے اور وہ جان دینے والا جو ہیضہ سے مرجاتا ہے یا ایکسیڈنٹ سے مرجاتا ہے یا بھڑ کاٹنے سے مرجاتا ہے یا سوتے سوتے جان دے دیتا ہے اس کے لئے کوئی ضمانت نہیں.وہ ایک قانونِ قدرت کا شکار ہے تو ساتھ ہی کہہ کر یہ بھی فرما دیا کہ یہ آزمائشیں دنیا والوں کی آزمائشوں سے بہت کم ہیں یہ بھی تمہارے لئے خوشخبری ہے اور ان آزمائشوں میں اگر تم ثابت قدم رہو گے تو تمہارے لئے بے انتہا اجر ہے جب کہ دنیا والوں کے لئے کوئی اجر نہیں اس لئے وَبَشِّرِ الصَّبِرِینَ فرمایا لیکن صابرین میں ایک ایسی مومن کی خاصیت بیان کردی کہ جس کے ساتھ بشارت کو وابستہ فرما دیا ہے یعنی ہر مومن جو ان مصائب میں سے گزرے گا ان تکالیف کو برداشت کرے گا اس کے لئے بشارت نہیں دی وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ نہیں فرمایا وَ بَشِّرِ الصَّبِرِینَ ان لوگوں کے لئے بشارت ہے جو صبر کرتے ہیں.صبر کا کیا معنی ہے؟ اس کا ایک معنی تو عام ہے یعنی یہ کہ جب کوئی تکلیف پہنچے تو واویلا نہ کرے، بے وجہ نوحہ کناں نہ ہو جائے ، پیٹنا نہ شروع کر دے ، شکوے نہ شروع کر دے اس حالت کو صبر کہتے ہیں خاموشی سے اپنے دکھ کر برداشت کرے اور اپنے دل پر لے لے.اور صبر کا ایک معنی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بیان فرمایا کہ اس نیکی کو پکڑ کر بیٹھ جائے جس نیکی کو اس سے چھینے کی کوشش کی جاتی ہے اور کسی حالت میں بھی اپنی نیکی کی حالت کو ہاتھ سے جانے نہ دے ان معنوں میں صبر بہت ہی وسیع ہو جاتا ہے.مراد یہ ہے کہ خدا کی خاطر جب تم دنیا میں ایک جہاد شروع کرتے ہو جس کے ساتھ دنیا کی بقا وابستہ ہوتی ہے، جس کے ساتھ دنیا کا امن وابستہ ہوتا ہے تو اس کے مقابل پر دنیا تم سے ایک مجادلہ شروع کر دیتی ہے اور ناحق تم پر مظالم شروع کر دیتی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ تمہارے
خطبات طاہر جلد ۳ 206 خطبه جمعه ۱۳ر اپریل ۱۹۸۴ء پاؤں اکھیڑ دے اور تم ان مقاصد سے پیچھے ہٹ جاؤ جن مقاصد کی خاطر تم دنیا میں ایک عظیم الشان الہی جہاد کا آغاز کر چکے ہوتے ہو.تو صابر کا مطلب یہاں یہ ہوگا کہ نہ کوئی خوف اور نہ کوئی بھوک ، نہ کوئی مال کا نقصان اور نہ کوئی جان کا نقصان ان کو اپنے مقصد سے پیچھے کر سکتا ہے جو مرضی قیامت ٹوٹ جائے ان پر ان کا ہر قدم لازماً آگے بڑھتا ہے ان نیکیوں میں جن نیکیوں کی خاطر ان پر مظالم کئے جاتے ہیں، ان کے لئے بشارت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے لوگوں کے لئے ہم بشارت دیتے ہیں کہ لامتناہی ترقیات ہیں.الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُونَ جب ان پر کوئی مصیبت ٹوٹتی ہے تو وہ یہ کہتے ہیں.انا للہ ہم تو اللہ ہی کے ہیں اور اللہ ہی کی وجہ سے ہم پر ایک مصیبت ٹوٹ رہی ہے.اس کا نتیجہ کیا نکلے گاوَ اِنَّا اِلَيْهِ رَاجِعُونَ یہاں بھی اس کے دو معانی ہیں.ایک معنی تو عام یہ کیا جاتا ہے کہ ہم اللہ کی طرف مرنے کے بعد لوٹ جائیں گے لیکن ہر مصیبت کے نتیجہ میں تو موت واقع نہیں ہوتی.مصیبتیں تو کئی قسم کی خدا بیان فرما چکا ہے.خوف کے نتیجہ میں تو فوراً انسان اللہ کی طرف لوٹ کر نہیں جایا کرتا یا بھوک کے نتیجہ میں ہر بھوکا مر تو نہیں جایا کرتا.مال لٹنے سے تو نہیں سب مر جایا کرتے یہاں ہر مصیبت کے نتیجہ میں جب وہ کہتے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ تو اس کا کیا مطلب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں تم مصیبتیں ہم پر اس لئے ڈال رہے ہو کہ ہم اپنے خدا سے دور ہٹ جائیں لیکن تمہاری عائد کردہ مصیبتیں ہمیں اور زیادہ خدا سے قریب کر دیتی ہیں.ہم اپنے رب کی طرف اور تیزی کے ساتھ لوٹ جاتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شعر میں دراصل اسی آیت کی تفسیر فرمائی ہے.آپ فرماتے ہیں: عدوّ جب بڑھ گیا شور وفغاں میں نہاں ہم ہوگئے یار نہاں میں ( در تمین صفحه: ۵۰) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رُجِعُوْنَ کی ایک یہ غیر ہے کہ تم عجیب بیوقوف لوگ ہو کہ تمہاری ہر کوشش الٹ جاتی ہے.ہر محنت اکارت جاتی ہے.تم جو نتیجہ حاصل کرنا چاہتے ہو اس سے محروم رہ
خطبات طاہر جلد ۳ 207 خطبه جمعه ۱۳ر اپریل ۱۹۸۴ء جاتے ہو.تم ہمیں اس لئے ڈراتے ہو اس لئے ہم پر مظالم کرتے ہو کہ ہم اپنے خدا کو چھوڑ دیں اور تمہیں خدا تسلیم کرلیں ، تمہارے سامنے سر جھکا دیں لیکن یہ مصیبتیں ہمیں دور ہٹانے کی بجائے اور زیادہ اپنے رب کے قریب کر دیتی ہیں اور زیادہ ہم اپنے رب کی پناہ میں آجاتے ہیں.تو إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ میں جو طرز بیان ہے وہ بہت پیاری ہے.رُجِعُونَ فعل نہیں ہے بلکہ ایک اسم کی حالت میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے.(جعُونَ کا معنی ہے ہماری تو فطرت یہ ہے اور ہماری زندگی کا یہ عادت حصہ بن چکی ہے کہ جب بھی ہمیں خدا کے نام پر ڈرایا جائے گا اور تکلیف پہنچائی جائے گی تو ہمارا رخ لا زم خدا ہی کی جانب ہو گا خدا سے دوری کی جانب کبھی نہیں ہوسکتا.تو جس قوم کی یہ تقدیر ہو کہ ہر حالت اس کو اپنے مقصد کے قریب تر کر دے اور دور نہ کر سکے اس کو یہی کہا جائے گا کہ بَشِّرِ الصُّبِرِینَ.اے محمد مصطفی علیہ اے میرے رسول ! خوشخبری دے دے صبر کرنے والوں کو کہ ان لوگوں کے مقدر میں کوئی گھاٹا اور کوئی نقصان نہیں ہے یعنی لوگوں کی کوششیں تو مقصد سے دور کیا کرتی ہیں یعنی دشمنوں کی کوششیں دنیا میں اپنے دشمنوں کو مقصد سے کر دیا کرتی ہیں اور یہ عجیب قوم ہے جن کی دشمنی جب بڑھتی ہے ان کو مقصد کے اور قریب کر دیتی ہے.أو ليكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ وَ رَحْمَةٌ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ صلوٰۃ بھیجتا ہے.صل علی محمد جب آپ کہتے ہیں تو صلوٰۃ کا کیا معنی ہے؟ کبھی اس پر غور کریں.ہر وہ چیز جو بہتر ہے، ہر وہ چیز جواللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور رحمت نازل ہوتی ہے اس کو صلوٰۃ کہا جاتا ہے ان معنوں میں تو آنحضرت ﷺ کی نسبت سے صلوۃ صلى الله کے معنی روشن ہوتے ہیں.جب ہم کہتے ہیں صَلِّ عَلی محمد تو چونکہ آنحضرت ﷺ اپنے رب سے بہترین کے حق دار ہیں تو صلوٰۃ کے معنی یہ بنیں گے کہ اے خدا! تیری ساری کائنات میں جوسب سے اچھا ہے وہ ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عطا کر دے.تو جب خدا یہ فرماتا ہے أوليْكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِنْ رَّبِّهِمْ کہ یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے صلوۃ نازل ہوتی ہے اور اس کی رحمت نازل ہوتی ہے تو اس کے معنی بھی یہ ہوں گے کہ دنیا تو ہر بری چیز ان کی طرف پھینک رہی ہوتی ہے اور خدا اور خدا کے فرشتے ہر اچھی چیز ان کے اوپر نازل فرمار ہے ہوتے ہیں اور کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ ان پر صلوۃ بھیجتا ہے اور ان سے رحمت کا سلوک
خطبات طاہر جلد۳ 208 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۸۴ء فرماتا ہے.أُولَبِكَ هُمُ الْمُهْتَدُونَ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت پانے والے ہیں.یہ وہ کیفیت ہے جو ایک دائمی حالت کا نام ہے.جب سے دنیا میں نبوت ظاہر ہوئی ہمیشہ سے یہ آیت یا اس آیت کا مضمون کارفرما رہا ہے.ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ وہ لوگ جن کو خدا کی خاطر ظالموں کا نشانہ بنایا جاتا ہے وہ ناکام ہو گئے ہوں.ان کے مقدر میں ہمیشہ کامیابی ہوتی ہے مگر اللہ تعالیٰ ان کو یہ نصیحت فرماتا ہے کہ تمہاری اپنی کوشش سے کچھ نہیں ہو سکے گا اس لئے ہم تمہیں یہ ہدایت دیتے ہیں کہ ہماری طرف رجوع کیا کروکثرت کے ساتھ ایسے حالات میں عبادت کو بھی بڑھا دو اور دعا کو بھی بڑھا دو کیونکہ مختلف انسان مختلف حالتوں پر ہوتے ہیں.ہر شخص کی ایک جیسی ایمانی حالت نہیں ہوتی.ہر شخص میں ایک جیسی صبر کی طاقت نہیں ہوتی اس لئے اس آیت کا عنوان خدا تعالیٰ نے یہ بتایا ہے خطرات کے بیان سے يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّبِرِينَ.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تمہارے اندر فی ذاتہ کوئی طاقت نہیں ہے.نہ تمہیں صبر کا حوصلہ ہے، نہ تمہیں برداشت کی طاقت نہ تم دنیا کا مقابلہ کر سکتے ہو کیونکہ تم ایک کمزور جماعت ہو.ایسی کمزور ہو کہ لوگ تمہیں ظلم وستم کا نشانہ بناتے ہیں طاقتور کو تو کوئی ظلم کا نشانہ نہیں بنایا کرتا.اس کیفیت کو پیش نظر رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے استَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ہم یہ حل تمہیں بتاتے ہیں کہ تم خدا سے مدد مانگنا.صلوۃ کے ذریعہ اور صبر کے ذریعہ.یہاں صلوۃ معنی ہے عبادت کرنا وہ چیز جو ہماری طرف سے خدا کی طرف جاتی ہے اور یہ معنے اس معنی کے بظاہر الٹ ہیں جب خدا صلوۃ بھیجتا ہے تو وہ عبادت تو نہیں کرتا بندہ کی وہ صلوۃ کے نتائج پیدا فرما تا ہے اس لئے وہاں بھی لفظ صلوۃ استعمال ہوتا ہے جب بندہ کو صلوٰۃ کی تاکید کی جاتی ہے تو یہ صلوۃ بالکل اور معنی بن جاتی ہے.یہاں ہے عبادت کرنا، خدا کے حضور جھکنا، اپنا کچھ نہ رہنے دینا، سب کچھ اس کا بنادینا، اس سے پیار اور محبت کا تعلق جوڑنا اور اس کی تشریح نماز میں آنحضرت ﷺ نے ہمیں یہ بتائی جو التحیات میں ہم پڑھتے ہیں التحیات لِلهِ والصَّلواتُ والطيبات صلوت کیا چیزیں ہیں؟ یہ التحیات ہیں، یہ تھے ہیں.صلوات میں بہترین کا مضمون وہاں بھی تھا جہاں خدا بندے پر صلوٰۃ نازل فرماتا ہے اور بہترین کا مضمون یہاں بھی ہے جہاں بندہ عبادت کے ذریعہ خدا کا قرب ڈھونڈتا ہے.ایسا حیرت
خطبات طاہر جلد ۳ 209 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۸۴ء انگیز کامل نظام ہے اسلام کا کہ ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے.جب بندہ کو صلوۃ کا حکم دیا تو اس کا معنی یہ کر دیا خود ہی التحیات.صلوۃ نام ہے تمہارے تحفوں کا اور یہ جاہل سے جاہل آدمی بھی جانتا ہے کہ تحفہ چنتے وقت انسان گندی چیز نہیں چنا کرتا ، اونی چیز نہیں چنا کرتا بلکہ بہترین چیز چتا ہے اور اس کی پیکنگ بھی بعض دفعہ بہت اچھی کرتا ہے، بہت خوبوصورت رنگ سجا کر پیش کرتا ہے.تحفے کے اندر یہ بات داخل ہے سب سے اچھی چیز تحفہ ہو اور تحفہ ہر دوسرے مالی تبادلہ سے مختلف چیز ہے.صدقہ دیتے وقت بعض لوگ جو یہ نہیں سمجھتے کہ خدا کی خاطر دے رہے ہیں وہ ادنی چیز چن لیا کرتے ہیں.ٹیکس دیتے وقت لوگ کم سے کم دینے کی کوشش کرتے ہیں.جب زمینوں کی حد بندی ہورہی ہو اور کوئی زمین دینی پڑے تو وہ کلر والاٹکڑا چنیں گے یا نا کارہ چنیں گے کہ یہ دے دیا جائے.صرف ایک تحفہ ہے جس میں تحفہ دینے والا بہترین چیز چتا ہے اور اگر وہ بدترین چنے گا تو وہ تحفہ رہے گا ہی نہیں تحفہ کی ذات کے خلاف ہے یہ بات کہ گندی چیز دی جائے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ ایسے واقعات آنے والے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں تمہیں صلوٰۃ کی ضرورت پڑے گی اور صلوٰۃ اس عبادت کو کہتے ہیں جو بہترین ہو جس میں انسانی زندگی کا بہترین حصہ شامل ہو، پیار اور محبت کے نتیجہ میں کی جائے اور تحفہ نے ہی یہ بات ہم پر روشن کر دی کہ عبادت قبول نہیں ہوسکتی جب تک اس میں محبت الہی نہ ہو کیونکہ تحفہ صرف محبت کے نتیجہ میں ہوتا ہے جبر کا اس میں کوئی پہلو نہیں ہے.بیگار کا نام تو تحفہ نہیں رکھا جا سکتا.ٹیکس کا نام تو تحفہ نہیں رکھا جاسکتا تحفہ تو ہے ہی وہ جو دل کو مجبور کر دے اور تکلیف بھی انسان اٹھائے تو اس میں مزہ حاصل کر رہا ہو.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی عبادت کرو کہ جس کی وجہ محبت الہی ہو.اس عبادت میں تمہارا پیار جان ڈال دے، ایک زندگی پیدا کر دے اور ایسی حالت میں اپنے رب سے مدد مانگا کرو کہ تمہارا دل وفور محبت سے اس کے لئے اچھل رہا ہو.بالصبر اور نماز پر صبر سے قائم ہو جاؤ.کسی حالت میں بھی اس صلوۃ کی حالت کو نہیں چھوڑنا اور دوسرے معنی ہے اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ بظاہر اگر تمہاری دعا قبول نہ بھی ہوتی ہو تب بھی تم نے دعا نہیں چھوڑنی.بظاہر تم یہ دیکھ رہے ہو کہ خدا تعالیٰ سے ہم مانگ رہے ہیں اور وہ نہیں دے رہا تو استَعِينُوا بِالصَّيْرِ کا مطلب یہ ہے کہ تم نے پیچھے نہیں ہلنا مانگتے چلے جانا ہے جیسا کہ بارہا حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ عنہ اولیاء اللہ کی حکایات میں سے
خطبات طاہر جلد ۳ 210 خطبه جمعه ۱۳ راپریل ۱۹۸۴ء بارہا یہ مثال دیا کرتے تھے اور وہی مثال صادق آتی ہے اس آیت پر.ایک ولی کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ وہ ہر روز رات کو تہجد میں ایک دعاما نگا کرتا تھا اور ہر روز اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو آواز آیا کرتی تھی کہ ہم نے تیری دعا قبول نہیں کی.اس کا ایک مرید تھا جو اس کے ساتھ کھڑا ہوا کرتا تھا.چند دن اس کو بھی یہ آواز آئی، بعض الہامات میں ساتھیوں کو بھی شامل کر لیا جاتا ہے.چنانچہ یہ تو آنحضرت ﷺ سے بھی ثابت ہے کہ وحی قرآن کے وقت بعض دفعہ کاتبوں کو بھی وہی لفظ سنائی دیئے.(سیرۃ الحلبیہ جلد سوم نصف آخر زیر فتح مکه صفحه: ۲۷۶،۲۷۵) بہر حال اسکو بھی یہ آواز آتی تھی کہ یہ دعا کر رہا ہے میرا پیر اور اللہ کہتا ہے کہ تیری دعانا مقبول.چند دن میں وہ تھک گیا اور بیزار ہو گیا اور اس نے اپنے پیرومرشد سے عرض کی کہ یہ کیا حالت میں دیکھ رہا ہوں روزانہ اللہ تعالیٰ آپ سے فرماتا ہے کہ میں نے رد کر دی ہے آپکی دعا اور روزانہ اٹھ کر پھر وہی دعا شروع کر دیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ تم اتنی جلدی تھک گئے ہو میں بارہ سال سے یہ دعا کر رہا ہوں اور میں نہیں تھکا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہ مالک ہے اور میں فقیر ہوں.فقیروں کا کام مانگنا ہے اور مالک کا کام ہے چاہے تو دے اور چاہے تو نہ دے اس لئے میں تو بہر حال اپنی عبودیت کی حالت کو قائم رکھوں گا اور مانگتا چلا جاؤں گا.جب اس نے یہ فقرہ کہا تو اس وقت اس کو الہام ہوا کہ اے میرے بندے میں نے تیری یہ دعا بھی قبول کر لی ہے اور اس عرصہ میں تو نے جتنی دعائیں مانگی ہیں وہ ساری قبول کر لی ہیں.یہ معنی ہیں اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوۃ کہ تم اپنی دعاؤں سے عاجز نہ آجانا ، اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہو جانا کہ خدا تعالیٰ سن نہیں رہا.بعض دفعہ وقتی طور پر بعض کمزور انسانوں پر اندھیروں کا وقت آجاتا ہے اور وہ قومی مصالح کو سمجھ نہیں رہے ہوتے.وہ بھول جاتے ہیں اس آیت کے مضمون کو کہ کچھ نہ کچھ ان کے اوپر تولا زماً مصیبت پڑنی ہے.ساری قوم بحیثیت قوم نہیں بچائی جاتی بعض افراد کو قربانی دینی پڑتی ہے.وہ یہ سمجھتے ہیں غلطی سے کہ ہماری دعا قبول نہیں ہوئی.تو اللہ تعالیٰ شروع میں ہی ان کو بتا دیتا ہے کہ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.چنانچہ پہلی آیت میں جو دو چیزیں بیان فرمائی گئیں آخر پر وہی دو نتائج پیدا کئے گئے ہیں اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوۃ میں صبر کی تلقین فرمائی اور صلوٰۃ کی تلقین فرمائی اور نتیجہ کیا نکالابشِّرِ الصّبِرِینَ کہ جو صبر کرنے والے ہیں ان کو خوشخبری دے دے دے اے محمد
خطبات طاہر جلد۳ 211 خطبه جمعه ۱۳ر اپریل ۱۹۸۴ء مصطفی ﷺ ! کہ تمہارا صبر قبول ہو گیا ہے درگاہ الہی میں اور جو صلوٰۃ کا جواب تھا وہ اس طرح دے دیا.أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتٌ مِّنْ رَّبِّهِمْ اے بندو! ایک وقت وہ تھا کہ تم صلوۃ بھیج رہے تھے اپنے خدا کے حضور اب خدا کی صلوۃ تم پر نازل ہو رہی ہیں.وہ ساری عبادتیں تم پر خدا تعالیٰ سے بے انتہا بڑھ کر لوٹ رہی ہیں.یہ ہیں خوش خبریاں جن کا اس آیت میں ذکر ہے اور بعض لوگ غلطی سے سمجھتے ہیں کہ ڈرایا جارہا ہے.اس میں ڈرانے کی کون سی بات ہے اس میں تو خوش خبریوں، کامیابیوں اور عظیم کامیابیوں کی بشارتیں دی گئی ہیں.پس جماعت احمد یہ بھی انہی الہی جماعتوں میں سے ہے جن کے اوپر بلا قصور ظلم کئے جاتے ہیں.باوجود اس کے کہ تمام دنیا کے ہم خیر خواہ ہیں اس خیر خواہی کے نتیجے میں ظلم وستم کا سلوک کیا جاتا ہے ہمارے ساتھ.ہم دعائیں دے رہے ہوتے ہیں مخالف گالیاں دے رہے ہوتے ہیں، ہم سچائی سے کام لے رہے ہوتے ہیں وہ مسلسل جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں اور یہاں تک حالت ہو چکی ہے کہ اگر ہم جھوٹ کے جواب میں یہ لکھیں کہ تم جھوٹ بول رہے ہو خدا کے واسطے قوم پر ظلم نہ کرو تو کہتے ہیں اچھا! تم ہمیں اشتعال دلاتے ہو تم ہمارے جھوٹ کو جھوٹ کہہ رہے ہو.اس سے بڑا ظلم کیسے ہوسکتا ہے؟ تمہیں جرات کہ ہم جھوٹے الزام لگا ئیں اور تم انکار کر دو کہ یہ الزام درست نہیں.اس سے بڑھ کر حالت ہو سکتی کسی قوم کی ! اور کھلم کھلا جماعت احمدیہ کے خلاف اشتعال انگیزی کی تعلیم دی جارہی ہے سیارے ملک میں ہر گھر لوٹنے کی تعلیم دی جارہی ہے ، مال لوٹنے کی تعلیم دی جارہی ہے قتل و غارت کی تعلیم دی جارہی ہے اور ان سب سے زیادہ تکلیف دہ یہ کہ خدا کے گھر لوٹنے کی تعلیم دی جارہی ہے اور ان کو برباد کرنے کی تعلیم دی جارہی ہے ، ان کو منہدم کر دو.اس کے نتیجہ میں بعض نادان بیچارے جن کو خود بھی علم نہیں ہوتا وہ ایسی حرکتیں کر بیٹھتے ہیں اور جگہ جگہ سے بِشَيْ مِن الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِنَ الْاَمْوَالِ وَالْأَنْفُس کی اطلاعیں آ رہی ہیں.ابھی پچھلے دنوں کچھ عرصہ پہلے سندھ میں ہمارے ایک بہت ہی ہر دلعزیز استاد جوسارے علاقہ میں بڑے ہی محبوب تھے.عبد الحکیم ابڑو وہ نہایت ہی ظالمانہ طور پر شہید کئے گئے تھے اور پرسوں یہ اطلاع آئی ہے کہ محراب پور کے پریذیڈنٹ چوہدری عبدالحمید صاحب کو بھی نہایت ظالمانہ طریق پر شہید کر دیا گیا ہے اور وہ ایک ایسے معصوم انسان، ایسے نیک دل اور بھلائی کرنے والے تھے کہ قاتل
خطبات طاہر جلد ۳ 212 خطبه جمعه ۱۳ر اپریل ۱۹۸۴ء کو غیر احمدیوں نے پکڑا ہے اور انہوں نے پولیس کے سپر د کیا ہے اور سارے شہر میں ایک نہایت ہی دکھ کی لہر دوڑ گئی کہ ایک معصوم آدمی کو کیوں چھرا گھونپ دیا گیا؟ لیکن چونکہ علماء یہ کہہ رہے ہیں اور بعض جاہل عوام یہ سمجھتے ہیں کہ سب سے آسان سرٹیفیکٹ جنت کا یہ ہے کہ کسی اور کو مار دیا جائے قتل کر دیا جائے اس لئے چونکہ باقی نیکیوں کی توفیق نہیں ملتی یہ آسان نیکی کر دیتے ہیں.لیکن ایک بات میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ قرآن کریم ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ شہید کرنے والے کبھی نہیں جیتے ہمیشہ شہید ہونے والے جیتا کرتے ہیں.مال لوٹنے والوں کے اموالوں میں کبھی برکت نہیں پڑی ان کے اموال میں برکت پڑتی ہے جن کے خدا کی وجہ سے مال لوٹے جاتے ہیں.پھل برباد کرنے والوں کے اپنے پھل مصائب کا شکار ہو جاتے ہیں اور وہ اپنی محنتوں کے پھلوں سے محروم کر دیئے جایا کرتے ہیں اور خدا کی وجہ سے جن کے پھل برباد کر دیئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے پھلوں میں برکت دیتا ہے.ہر وہ چیز جو خدا کی خاطر خدا کی ماننے والی قو میں لٹایا کرتی ہیں ہر اس چیز میں اللہ تعالیٰ برکت دیتا ہے.پس جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہمیں تو اپنے مقصد سے کوئی چیز ہٹا نہیں سکتی.ہر دکھ ہمیں خدا سے اور زیادہ قریب کر دے گا.چنانچہ میں جانتا ہوں کہ ہر شہادت کے بعد خوف کے خط نہیں آتے بلکہ یہ خط آتے ہیں منتیں لئے ہوئے کہ خدا کے لئے ہمارے لئے دعا کریں کہ اللہ ہمیں بھی شہادت کی توفیق عطا فرمائے.جس قوم کی یہ حالت ہو اس قوم کو کون شکست دے سکتا ہے؟ کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.قرآن کریم فرماتا ہے: لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ وَيَحْيى حْيِي مَنْ حَيَّ عَ عَنْ بَيِّنَةِ (الانفال :۴۳) کہ دیکھو اس مقابلہ میں تو بینہ ہی جیتے گی.جوروستم ، مظالم قبل و غارت ، آگئیں لگانا، اس اسلوب کے مقدر میں کبھی فتح لکھی ہی نہیں گئی.جب بھی یہ چیزیں مذہبی معاملات میں دخل انداز ہوتی ہیں ، جب بھی مذاہب کو دبانے کی کوشش کرتی ہیں، آگئیں اور قتل و غارت اور اموال کا لوٹنا اور پھلوں کا نقصان، تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہمیشہ ان کے مقدر میں نا کا می لکھی جاتی ہے اور پھر جیتتا کون ہے اس کے لئے یہ دوسری آیت کھلے لفظوں میں ہمیں بتاتی ہے.تيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةِ
خطبات طاہر جلد۳ 213 خطبه جمعه ۱۳ر اپریل ۱۹۸۴ء وَيَحْيى مَن مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةِ - - یہ مقابلے خدا تعالیٰ اس لئے کرواتا ہے اور یہ نبرد آزمائی اس لئے ہوتی ہے تا کہ وہ شخص ہلاک ہو جائے جس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے جس کے پاس کوئی نشان نہیں ہے کیونکہ بینة کا معنی دلیل کے بھی ہے اور بینہ کا معنی نشان کے بھی ہیں وَيَحْيِي مَنْ حَيَّ عَنْ بَيِّنَةِ اور وہ جیت جائے جس کے پاس برہان ہے جس کے پاس دلائل ہیں اور وہ جیت جائے جس کو خدا تعالیٰ کے امتیازی نشانات نصیب ہوں اور غیر معمولی طور پر اللہ تعالیٰ اس کی نصرت فرما رہا ہو.پس اگر جماعت احمدیہ کے مقدر میں دلیل ہے اور برہان ہے تو دلیل کے مقابل پر تلوار کبھی بھی نہیں جیتی.یہ ہے جو اللہ تعالی بیان فرمانا چاہتا ہے اور دلیل کے مقابل پر جب تلوار آتی ہے تو تلوار ٹکڑے ٹکڑے ہو جایا کرتی ہے اور ضرور نا کام ہوا کرتی ہے اور ہر ایسے مقابلہ میں ایک نئی زندگی ملتی ہے دلیل والوں کو.وہ فلسفہ حیات جو زندہ رہنے کے قابل ہے وہ ا ز ما زندہ رہا کرتا ہے وہ فلسفہ حیات جومٹ جانے کے لائق ہے وہ لا زمامٹ جایا کرتا ہے.مزید برآں یہ کہ بینہ کا ایک معنی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے غیر معمولی نصرت ، ایسانشان جو فرق ظاہر کر دے ان لوگوں میں جو خدا کے ہیں اور ان لوگوں میں جو خدا کے نہیں ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محض ایک عام قانون کے طور پر ہم بیان نہیں کر رہے کہ دلیل والے جیت جایا کرتے ہیں یا وہ فلسفہ حیات زندہ رہا کرتا ہے جس کے اندر قوت استدلال ہو بلکہ فرماتا ہے اس کے علاوہ آسمان سے بھی نشان ظاہر ہوتے ہیں اور جب وہ نشان ظاہر ہوتے ہیں تو لازماً ہلاک ہونے والے ہلاک ہو جایا کرتے ہیں اور جن کو خدا زندہ رکھنا چاہتا ہے ان کونئی زندگی عطا ہو جایا کرتی ہے.پس آخری خلاصہ ان سب باتوں کا یہی ہے کہ اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلوة جماعت احمدیہ کو کبھی صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا.صبر کے ہر مفہوم کو صبر کے ساتھ پکڑ کر بیٹھے رہنا ہے اور عبادت میں ترقی کرنی ہے اور عبادت میں محبت ڈال دینی ہے، عبادت میں آنسوؤں کو شامل کر دینا ہے.خشک پودے پھل نہیں دیا کرتے اسی طرح خشک عبادتیں بھی ضائع ہو جایا کرتی ہیں.عبادت میں وہ مفہوم پیدا کر دیں جو اللہ تعالیٰ پیدا فرمانا چاہتا ہے پھر دیکھیں کہ کس طرح کثرت کے ساتھ آپ پر صلوات نازل ہوں گی خدا تعالیٰ کی طرف سے.صبر میں صبر والا مفہوم پیدا کر دیں تو آسمان بشارتیں دے گا آپ صبر کرنے والوں کو اور کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو آپ کو نقصان پہنچا
خطبات طاہر جلد ۳ 214 خطبه جمعه ۱۳ را بپریل ۱۹۸۴ء سکے.یقیناً ایسا ہی ہوگا نا دان چند دن کی زندگی میں چند اور دن یہ دیکھیں گے کہ ہم بظاہر فتح یاب ہور ہے ہیں.چند دن کی زندگی میں تھوڑا عرصہ ان کو یہ نظر آئے گا کہ گویا ہم نے نقصان پہنچا دیا لیکن تاریخ احمدیت بتارہی ہے کہ ہر ایسے مصیبتوں کے سائے سے گزرنے کے بعد جماعت پر اللہ کا نور زیادہ شان کے ساتھ نازل ہوا ہے.ہر ایسے خطرات کے دور میں سے گزرنے کے بعد زیادہ قوی ہو کر جماعت گزری ہے اس لئے ہماری تاریخ گواہ، ہمارا قرآں گواہ، ہمارا خدا ہمیں بشارتیں دے رہا ہے اور وہ کبھی اپنی بشارتوں کو جھوٹا نہیں ہونے دے گا.لازماً ہم جیتیں گے اللہ کے فضل کے ساتھ کیونکہ خدا کی خاطر ہم ہی ہیں جود کھ اٹھانے والے ہیں اور کوئی نہیں ہے جو خدا کی خاطر آج دنیا میں دکھ اٹھا رہا ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: ابھی جمعہ کی نماز کے بعد عبد الحمید شہید کی نماز جنازہ غائبانہ ہوگی اور اس میں ان کے لئے جو دعا ہے مغفرت کی جو بھی مسنون دعائیں ہیں وہ تو ہم کریں گے اس کے علاوہ ان کے جو بھائی احمدی نہیں ہیں ان کے لئے بھی دعا کی جائے کیونکہ خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے جب ایک لیتا ہے تو زیادہ دے دیتا ہے اور اس رنگ میں ان کا خاندان زیادہ مستحق ہے اس انعام کا.کیونکہ بڑی قربانی کر کے اپنے خاندان میں سے یہ الگ ہو کر آئے تھے اس لئے جو بھائی یا جو رشتہ دار ابھی تک احمدیت کا فیض نہیں پاسکے یہ بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے اور ایک کی بجائے دسوں نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہمیں نصیب ہوں.یہ جو نماز جنازہ ہے اس میں یہ بات یاد رکھیں صرف مرنے والوں کے لئے دعا نہیں کی جاتی بلکہ زندوں کے لئے پہلے دعا بتائی گی ہے اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِحَيْنَا وَ مَيِّتِنَا اس میں زندوں کے لئے پہلے دعا مانگی گئی ہے اس لئے اگر کسی کے دماغ میں یہ غلط نہی ہو کہ یہ تو مرنے والوں کے لئے دعا کی جاتی ہے ہم زندوں کے لئے کیوں کریں تو میں یہ غلط فہمی دور کر دیتا ہوں آنحضرت ﷺ نے جو طریق سکھایا ہے نماز جنازہ کا اس میں زندوں کو پہلے پیش نظر رکھا جاتا ہے پھر مرنے والے کے لئے دعا کی جاتی ہے.بہر حال اب نماز جنازہ غائب ہوگی اس میں مرحوم کے لئے بھی دعا کریں اور ان کے رشتہ داروں کے لئے بھی اور اس قوم کے لئے بھی جس سے یہ تعلق رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ بکثرت ان میں احمدیت کو پھیلا دے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 215 خطبه جمعه ۲۰ راپریل ۱۹۸۴ء ر بالمعروف نیز منافقت کے خلاف جہاد ( خطبه جمعه فرموده ۲۰ را پریل ۱۹۸۴ء بمقام بیت الذكر اسلام آباد، پاکستان ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُوْنَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَيْكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (ال عمران: ۱۰۵) كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَوْا مَنَ أَهْلُ الْكِتُبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمْ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفَسِقُونَ.(ال عمران: ۱۱۱) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی جن دو آیات کی میں نے ابھی تلاوت کی ہے ان میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعلیم دی گئی ہے.اور اس دوسری آیت میں امت محمد مصطفی ﷺ کے بہترین ہونے کی دلیل ہی یہ قائم فرمائی أُخْرِجَتْ لِلنَّاس وہ لوگوں کی بھلائی کے لئے ،ان کی بہتری کے لئے ، اُن کی خدمت کے لئے قائم کی گئی ہے اور اس خدمت کی بہترین مثال یہ بیان فرمائی تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ کہ اے امت محمدیہ اتم جو بہترین امت ہو اللہ کی نظر میں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ تم اچھی باتوں کی نصیحت کرتے ہو
خطبات طاہر جلد ۳ 216 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ اور بری باتوں سے روکتے چلے جاتے ہو.وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو وَلَوْ أَمَنَ أَهْلُ الكِتب كاش اہل کتاب بھی اگر ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَاَكْثَرُهُمُ الْفُسِقُونَ.کچھ اُن میں مومن بھی ہیں لیکن اکثر ان میں سے فاسق ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نھی عن المنکر کا قوموں کی زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے اور کوئی قوم بھی ان دو صفات کے بغیر لمبے عرصے تک زندہ نہیں رہ سکتی.بظاہر اس میں یہ تعلیم ہے کہ دوسروں کو نصیحت کرو، دوسروں کو بری باتوں سے روکو اور اچھی باتوں کا حکم دو لیکن اس تعریف کے اندر، اس حکم کے اندر ایک مخفی حکم ہے جس کا اس جماعت کی ذات سے بھی تعلق ہے جو اچھی باتوں کا حکم دیتی ہے اور بری باتوں سے روکتی ہے اور قرآن کریم نے دوسری جگہ اس مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے پہلی قوموں کی ہلاکت کی یہ وجہ بیان فرمائی کہ انہوں نے یہ کام چھوڑ دیئے تھے اور آنحضور ﷺ نے بھی مختلف تمثیلات کے رنگ میں اس بات کو واضح فرمایا کہ وہ قو میں جو نیک باتوں کا حکم دینے سے رک جایا کرتی ہیں اور بری باتوں سے روکنے سے رک جایا کرتی ہیں وہ بالآخر ہلاک ہو جایا کرتی ہیں.ایک کشتی کی مثال دے کر آپ نے واضح فرمایا کہ دیکھو اگر ایک ہی کشتی میں ایسے لوگ سوار ہوں جو نیک ہوں اور بچنا چاہتے ہوں اور ایسے لوگ بھی سوار ہوں جو بد ہوں اور جن کے مقدر میں ہلاکت لکھی ہو.اگر وہ ہلاک ہونے والے کشتی میں سوراخ کر دیں تو وہ لوگ جن کو بچنا چاہئے جو نیک ہیں وہ ان کو باز نہ رکھیں اور ان کو سمجھا ئیں نہیں تو جب کشتی ڈوبے گی تو پھر نیک اور بد میں فرق نہیں کرے گی.بہت ہی ایک عظیم الشان طرز بیان ہے حضور اکرم ﷺ کا جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر معاشرہ بد ہورہا ہواگر ماحول خراب ہو رہا ہو اور چند نیک لوگ یہ سمجھیں کہ ہمیں اس سے کیا فرق پڑتا ہے لوگ تباہ ہوتے ہیں تو تباہ ہو جائیں ، ان کو یا د رکھنا چاہئے کہ جب قو میں تباہ ہوا کرتی ہیں تو اس وقت پھر نیک و بد کی تمیز نہیں رہا کرتی.بعض عذاب ایسے ہیں جیسا کہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جو نیک و بد میں تمیز نہیں کرتے ، وہ قومی عذاب ہوتے ہیں اس لئے زندہ رہنے والی قوموں کے لئے ایک مجبوری ہے، اگر وہ زندہ رہنا چاہتی ہیں تو ان کا فرض ہے اپنی بقا کی خاطر وہ نیک کاموں کی نصیحتیں کرتی چلی جائیں اور برے کاموں سے روکتی چلی جائیں اور سارے معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری
خطبات طاہر جلد۳ 217 خطبه جمعه ۲۰ راپریل ۱۹۸۴ء ان چندلوگوں پر ہوتی ہے جن کو خدا تعالیٰ اس کام کے لئے چن لیا کرتا ہے.تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ میں دوسری بات قابل توجہ یہ ہے کہ اس میں کسی مذہبی عقیدہ کی تفریق کا کوئی ذکر نہیں.یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ لوگ کسی خاص عقیدہ کی تبلیغ کرتے ہیں اور بعض خاص عقیدوں سے روکتے ہیں بلکہ اصلاح معاشرہ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، ان بدیوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جو ہر مذہب کے نقطہ نگاہ میں، الا ماشاء الله بعض بگڑے ہوئے مذاہب کے بعض تصور بگڑ جاتے ہیں لیکن بالعموم ہر مذہب کے نقطہ نگاہ میں وہ بدیاں کہلاتی ہیں، ان باتوں کا حکم دیتے ہیں جو اکثر مذاہب کی رو سے نیکیاں کہلاتی ہیں یعنی انسانی سطح کی نیکیاں اور انسانی سطح کی بدیاں.حقوق العباد سے تعلق رکھنے والی نیکیاں اور حقوق العباد سے تعلق رکھنے والی بدیاں.ان امور میں تمام قوموں کے مصالح مشترک ہوتے ہیں ، ان کے مقاصد مشترک ہوتے ہیں.ایک ہی وطن میں مختلف مذاہب کے ماننے والے بس رہے ہوتے ہیں لیکن یہ وہ قدر مشترک ہے جو ہر انسان کے درمیان پائی جاتی ہے اور مذہب کا اختلاف حائل نہیں ہوسکتا اس بات میں اس لئے نیک بات کی نصیحت کرنے کا جو ارشاد فرمایا ہے امت محمدیہ کو اللہ تعالیٰ نے اس پر کوئی اعتراض یہ نہیں اٹھ سکتا کہ تمہارے تو عقائد مختلف ہیں مثلاً ہندوان کو یہ نہیں کہہ سکتے ، عیسائی ان کو یہ نہیں کہہ سکتے ، دنیا کے کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والا کوئی معقول انسان ان کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم ہمیں کیوں کہتے ہو کہ سچ بولو اور جھوٹ نہ بولو.تم کیوں ہماری فکر کرتے ہو کہ ہم رشوت لیتے ہیں اور ہمیں رشوت سے باز رکھنے کی کوشش کرتے ہو؟ تم کیوں ہمارے پاس آتے ہو دردمند دلوں کے ساتھ کہ دنیا پر ظلم کرنا چھوڑ دو اور ہمیں ظلم سے باز رہنے کی تلقین کرتے ہو؟ تمہارا مذ ہب اور ہے اور ہمارا مذہب اور ہے، تمہارا عقیدہ اور ہے اور ہمارا عقیدہ اور ہے.کوئی معقول آدمی یہ نہیں کہہ سکتا.دنیا کے پردہ پر دہر یہ بھی یہ نہیں کہہ سکتا کیونکہ دہریہ کے اندر بھی خدا تعالیٰ نے ایک اندرونی نظام (In built) نیکی اور بدی کی تمیز کا رکھ دیا ہے.بعض باتیں ایسی ہیں جن کو دنیا کی ہر قوم بدی سمجھتی ہے، بعض باتیں ایسی ہیں جن کو دُنیا کی ہر قوم نیکی سمجھتی ہے اس لئے یہ وہ نصیحت ہے جس کا تعلق نہ مذہب کے اختلاف سے ہے نہ مذہب کے ماننے والوں اور نہ ماننے والوں کے درمیان یہ کوئی فرق کرتا ہے.یہ نظام ایسا ہے جو عالمی نظام ہے نصیحت کا اور اس کی ضرورت بہت ہے.اگر یہ نظام مٹ جائے تو جیسا کہ میں نے بیان کیا قرآن کریم مثالوں پر مثالیں دیتا پرانی قوموں کی ہے جو اس وجہ
خطبات طاہر جلد ۳ 218 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء سے ہلاک ہو گئیں کہ انہوں نے نیک باتیں کہنا چھوڑ دیا تھا اور بد باتوں سے روکنا چھوڑ دیا تھا.اس کا دوسرا اثر جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا تھا تو موں کے اندرونی حالات سے بھی ہوتا ہے.وہ لوگ جو دوسروں کو نصیحت کرتے ہیں اس کا ایک رد عمل ان کی ذات پر ظاہر ہوتا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ کوئی انسان اللہ پر ایمان لانے والا ہو یہ شرط خدا نے ساتھ رکھ دی ہے اور جانتا ہو کہ خدا میرے ظاہر کو بھی دیکھ رہا ہے اور میرے باطن کو بھی دیکھ رہا ہے اور پھر ایسی نصیحتیں کرے کہ خودان پر عمل نہ کرتا ہو اور نصیحت کرتے وقت اس کے چر کا نہ لگے ، نصیحت کرتے وقت اس کا ضمیر اسے کاٹے نہ یہ ہو نہیں سکتا.ایک دہریہ کے لئے تو ممکن ہے لیکن خدا کو ماننے والا جو اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھتا ہو اور جانتا ہو کہ وہ علِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ ہے اس سے یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ نصیحت کرے اور اندرونی کمزوری کی طرف متوجہ نہ ہو اس لئے قوموں کی اندرونی اصلاح کے لئے اور اندرونی بقا کے لئے بھی بہت ضروری ہے، وہ لوگ جو نصیحتوں سے رک جایا کرتے ہیں ان کے رکنے میں بھی بسا اوقات یہ وجہ شامل ہوتی ہے کہ وہ بدیاں کرنا چاہتے ہیں، بعض معاشرتی برائیوں میں مبتلا ہونا چاہتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اگر ہم نے روکا لوگوں کو تو اچانک ہم ان کے سامنے آجائیں گے اور پھر ان برائیوں میں خود ملوث نہیں ہوسکیں گے.بیرونی ملکوں میں میں نے مشاہدہ کیا کہ بعض احمدی اس لئے نظام جماعت سے الگ ہو کر خاموش ہوئے کہ وہ بعض بدیاں کرنی چاہتے تھے اور اس لئے وہ غیروں کو نصیحت نہیں کرتے تھے کہ جانتے تھے کہ ہمارے اندر یہ کمزوریاں ہیں بلکہ بالا رادہ کرنا چاہتے تو چونکہ بدی کے آخری مقام پر نہیں تھے پہلا قدم اٹھ رہا تھا اس لئے منافقت کرنے کی ان میں جرات نہیں تھی یعنی اس میں ایک نیکی بھی شامل تھی، یہ قدم اٹھانا چاہتے تھے لیکن بیک وقت اپنے نفس کے چرکوں سے بچنا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ خاموش ہو گئے اور بہت سی جگہ آپ یہ مشاہدہ کرینگے کہ ایسا واقعہ ہوتا چلا جا رہا ہے ہماری سوسائٹیوں میں اور جو نیک نصیحت کرتا ہے اگر اس کے اندر کمزوریاں ہیں بھی تو وہ رفتہ رفتہ دور ہونے لگتی ہیں کیونکہ نیک نصیحت کے نتیجہ میں ایک اندرونی نظام دل کی طرف سے حملوں کا نظام شروع ہو جاتا ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ بیرونی نصیحت سے بہت زیادہ یہ اندرونی نصیحت کا نظام کارگر ہوا کرتا ہے اور یہ جدو جہد ضمیر کو زندہ رکھتی ہے.جن قوموں کا ضمیر نہ مرے ان کے متعلق زندگی کی ضمانت دی جاسکتی ہے، جن کا ضمیر مرجائے ان کے لئے زندگی کی کوئی ضمانت نہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 219 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۸۴ء تو نصیحت کا نظام باوجود اس کے کہ کمزوریاں ہوں یہ زندگی کی ضمانت ہے اور منافقت کو دور کرنے کے لئے ایک عظیم الشان نظام ہے لیکن بعض اوقات بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم چونکہ کمزور ہیں، ہم بدیوں میں ملوث ہیں اسلئے ہمیں نصیحت نہیں کرنی چاہئے اور بہت سے لوگوں کو یہ دیکھا گیا ہے کہ بعض بیعت کرنے میں اس لئے کتراتے ہیں وہ کہتے ہیں ہمیں سمجھ تو آگئی ہے لیکن ہم بڑے کمزور ہیں اور اپنی کمزوریوں پر نگاہ کر کے اس عہد بیعت کو نباہ نہیں سکتے.اور ہمارا ضمیر ہمیں شرمندہ کرے گا اور بعض لوگ تبلیغ سے اس لئے باز رہتے ہیں کہ ہمارے اندر اپنی کمزوریاں ہیں ہم کس منہ سے دوسروں کو بلائیں.چنانچہ حضرت مرزا سلطان احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بہت بعد بیعت کی تھی جبکہ زندگی میں ایمان لے آئے تھے اور اپنے بیٹے حضرت مرزا عزیز احمد صاحب کو آپ نے خود نصیحت کی کہ بیعت کر لو اور ایمان لانے کے باوجود بیعت نہیں کرتے تھے جب پوچھا گیا، بعض دوستوں نے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ میرا باپ سچا ہے میں تو اس گھر کا پلا ہوا ہوں لیکن میرے اندر کمزوریاں ہیں، میرا انفس مجھے شرمندہ کرتا ہے کہ تم اس قابل نہیں کہ اس عظیم باپ کی بیعت کر سکو.یہ بھی ایک خیال ہو جاتا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ منافقت نہیں ہے.منافقت ایک اور چیز کا نام ہے ، میں اس کی وضاحت ابھی کروں گا.ہر انسان کچھ کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہے اور کوئی انسان بھی کامل نہیں سوائے انبیاء علیہم السلام کے جن کو معصومیت اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ نے ان کو نمونہ بنانا ہوتا ہے اور ان معصوم انبیاء میں سب سے زیادہ معصوم حضرت اقدس محمد مصطفی عمل تھے کیونکہ وہ جملہ نبیوں کے لئے بھی ایک ماڈل (Model) تھے.یہ تو ایک خاص قسم کے مقدس اور برگزیدہ طبقہ کا حال ہے کہ وہ معصوم ہیں لیکن یہ خدا کے خاص فضل کے نتیجے میں اپنی طاقت کی بنا پر نہیں.باقی انسان کسی بھی مقام پر کھڑا ہو وہ معصوم عن الخطاء قرار نہیں دیا جاسکتا.پس اگر اسے منافقت سمجھا جائے کہ ایک انسان کمزور ہو کچھ کمزوریاں اپنے اندر رکھتا ہو اور اس کے باوجودلوگوں کو نصیحت کرے تو پھر تو یہ آیت کریمہ سوائے انبیاء علیھم السلام کے کسی کے اوپر بھی صادق نہیں آئے گی.یہ صرف نبی ہی ہیں جو جرأت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم منافق نہیں ہیں.ہمارا ظاہر و باطن سو فیصدی ایک ہے اور ہمیں خدا نے مامور فرمایا ہے اس لئے ہم لوگوں کو نصیحت کرتے ہیں اور اکیلا نبی اگر یہ کام شروع
خطبات طاہر جلد ۳ 220 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء.کرتے تو دنیا کی یہ کایا پلٹ ہی نہیں سکتی ، بڑی بڑی قوموں کو مخاطب کرنا ہوتا ہے، بڑے بڑے معاند لوگوں کو اس نے مخاطب کرنا ہوتا ہے جو نصیحت کے بدلہ میں نہایت سنگین سزائیں تجویز کر رہے ہوتے ہیں کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اکیلا میدان میں چھوڑ دے اور ان کے ساتھیوں پر یہ فریضہ عائد نہ کرے اس لئے تاریخ انبیاء بتاتی ہے کہ ایمان لانے والے تمام جان اور تمام طاقت کے ساتھ اور تمام خلوص کے ساتھ انبیاء کی مدد کے لئے حاضر ہو جایا کرتے ہیں ،سب کچھ پیش کر دیتے ہیں.مَنْ أَنْصَارِي اِلَی اللہ کی آواز اٹھتی ہے اور مقابل پر آواز اٹھتی ہے نَحْنُ أَنْصَارُ اللهِ.تو پھر نصیحت کے ساتھ کیا منافقت کا بھی تعلق ہے؟ یہ سوال اٹھتا ہے.تو آنحضرت علہ جو دراصل حقیقی عارف باللہ تھے اور تمام عرفان کا چشمہ آپ سے پھوٹتا تھا، آپ نے منافق کی جو تعریف فرمائی اس میں اس فرق کو ظاہر فرما دیا.منافق وہ نہیں ہے جس کے اندر کمزوریاں ہیں، ان کمزوریوں پر شرمندہ ہے ، خدا کے حضور گریہ وزاری کرتا ہے، اس سے معافیاں مانگتا ہے، کوشش کرتا ہے کہ یہ کمزوریاں دور ہو جائیں، اتنے سچے دل سے اپنی کمزوریاں سمجھتا ہے کہ غیروں میں بھی ان کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ منافق نہیں ہے.منافق وہ ہے جس کے اندر بالا رادہ دھوکہ پایا جائے اور منافقت اور ارادہ کا ایک ایسا ساتھ ہے کہ آنحضور ﷺ نے اس حقیقت کو خوب کھول کر واضح فرما دیا.آپ نے چار علامتیں منافقت کی بیان فرمائیں اور ان چاروں میں ارادہ پایا جاتا ہے.آپ فرماتے ہیں: اَرْبَعٌ مَّنْ كُنَّ فِيْهِ كَانَ مُنَافِقًا خَالِصًا وَمَنْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ كَانَتْ فِيْهِ خَصْلَةٌ مِّنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا إِذَا أُتُمِنَ خَانَ وَ إِذَا حَدَّتْ كَذِبَ وَ إِذَا عَاهَدَ غَدَرَ وَإِذَا خَاصَمَ فَجَر.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب علامۃ النفاق ) کہ چار صفات ایسی ہیں کہ اگر وہ کسی شخص میں پائی جائیں یعنی چاروں بیک وقت پائی جائیں تو وہ خالص منافق ہے اس کے اندر نفاق ہی نفاق ہے، یعنی نفاق میں اخلاص رکھتا ہے اور ایمان کا کچھ بھی اس میں باقی نہیں رہتا.ان میں سے پہلی یہ ہے کہ جب وہ إِذَا أَتُمِنَ خَانَ جب اس کے سپر دامانت کی جاتی ہے تو وہ امانت میں خیانت کرتا ہے اور امانت سے یہ مراد نہیں ہے کہ چند روپے رکھوادیئے جائیں، کوئی سامان رکھوا دیا جائے اور اس میں کوئی خیانت کر جائے.امانت ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 221 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء مذہبی اصطلاح ہے جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور امانت سے اول مراد شریعت محمد مصطفی ﷺ ہے قرآن کی اصطلاح میں.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ (الاحزاب : ۷۳) کہ دیکھو ہم نے جب امانت سپرد کرنا چاہی آسمانوں نے بھی انکار کر دیا اور پہاڑوں نے بھی اور زمین نے بھی انکار کر دیا اور خوف زدہ ہو گئے یہ سارے تب وہ انسان کامل سامنے آیا جس کا نام محمد مصطفی ﷺ ہے.تو امانت تو ایک بہت وسیع مضمون ہے اور پہلی منافقت کی نشانی یہ ہے کہ قومی امانتیں جب سپرد ہوں تو ان میں کوئی خیانت کرے اور اس ملک میں بہت سے ایسے واقعات ہیں کہ قومی امانتیں ہیں مختلف سطح کی اور نصیحت کا فرض ہے جماعت احمدیہ کا.اگر وہ ایمان لانے والوں میں شامل ہے تو ان کا فرض ہے کہ وہ نصیحت کریں اور خود قو می امانت میں کبھی خیانت نہ کریں.جب کسی کے سپرد کوئی کام کیا جاتا ہے وہ کسی شعبے سے تعلق رکھنے والا کام ہو، پولیس کا افسر ہو یا واپڈا میں ملازم ہو یا کسی اور جگہ حکومت کے کارندے کے طور پر کام کر رہا ہو یا کمپنیوں میں پرائیویٹ ملازم ہو تو اس حد تک وہ اس کی امانت کا دائرہ بن جاتا ہے جس حد تک وہ کام اس کے سپرد ہے اور اس حد تک وہ امانت بنتی ہے جس حد تک شریعت محمد مصطفی ﷺ اس سے اس بارہ میں کچھ توقع رکھ رہی ہے.ہر دائرہ کی توقعات الگ الگ ہوں گی لیکن کوئی بھی دائرہ ایسا نہیں ہوگا جہاں آنحضرت علی کی وسیع امانت کچھ نہ کچھ دخل نہ رکھتی ہو.بعض معاملات میں وہ امانت آپ سے تقاضا کرے گی کہ اگر تم محمد مصطفی امی کے امین ہو جو خدا تعالیٰ کے امین تھے اور تم اس واسطہ سے خدا کے امین بن جاتے ہو تو ان دائروں میں اپنی امانتوں کی حفاظت کرو.شریعت جو تم سے تقاضے کرتی ہے ان کو پورا کرو.تو جس شخص میں اس حد تک خیانت پیدا ہو جائے جو اس کے دائرہ سے تعلق رکھتی ہے خواہ روپیہ پیسہ رکھوایا گیا ہو یا نہ رکھوایا گیا ہو ، سامان سپرد کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو، خواہ ایک استاد کے سپرد بچے کئے گئے ہوں وہ بھی پوچھا جائے گا خدا کے حضور کہ تم نے اس امانت کا حق کیوں ادا نہیں کیا اور اگر وہ نہیں کرے گا تو آنحضور ﷺ فرماتے ہیں کہ اس حد تک وہ منافق بن جائے گا.منافقت کا ایک صلى الله داغ اس کے دل پر لگ جائے گا اور دل کا چوتھا حصہ اسکا غائب ہو گیا ، اس بد سایہ کے نیچے آ گیا.
خطبات طاہر جلد ۳ 222 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء اس ملک میں تو بد قسمتی سے ایسے بہت واقعات ہیں اور بکثرت جماعت کو نصیحت کرنی چاہئے اور اس نصیحت کے نتیجہ میں جماعت کے اپنے اخلاق کی حفاظت ہوگی کیونکہ جب وہ نصیحت کریں گے تو اپنے دل پر غور کریں گے اور شرمندہ ہوں گے اگر ان کے اندر کمزوریاں پائی جاتی ہیں، ان کو دور کرنے کی کوشش کریں گے اور اگر وہ نہ کریں گے تو نصیحت کرنے والے کو دوسروں کے طعنے مجبور کر دیا کرتے ہیں ٹھیک ہونے پر کیونکہ ایک اور فائدہ اسکو یہ ہے اندرونی نظام بھی اٹھ کھڑا ہوا ہے اور بیدار ہو گیا ہے اور جن کو نصیحت کی جاتی ہے وہ ادنی سا بھی داغ دیکھیں تو مقابل پر طعنہ دیتے ہیں اور وہ چر کا بعض دفعہ ایسا کام کر جاتا ہے کہ ضمیر کا چر کا جہاں نا کام ہو گیا ہے وہاں مخالف کا چھہ کا کام کر دیتا ہے.تو کتنا عظیم الشان حفاظت کا نظام ہے جو قرآن اور حضرت محمد مصطفی ﷺ نے پیش کیا ہے جس سے قومی کردار کی حفاظت ہوتی ہے.یہاں تو یہ حال ہے کہ بعض جگہ، میں ایک دورے پر گیا تھا تو وہاں پتا لگا کہ ایسے سکول ہیں جہاں استاد سارا مہینہ آتا ہی نہیں اور مہینے کے آخر پر تنخواہ لینے کے لئے رجسٹر پر دستخط کرنے کے لئے آتا ہے اور مانیٹر بنائے ہوئے ہیں بعض جو آگے بچوں کو پڑھاتے ہیں یا نہیں پڑھاتے اللہ بہتر جانتا ہے اور اس کثرت سے یہ واقعات ہو رہے ہیں کہ سارا معاشرہ دکھا ہوا ہے اس سے.وہ بچے قوم کے کتنی عظیم الشان امانت ہیں ان اساتذہ کے پاس جنہوں نے مستقبل بنانا ہے قوم کا.تو بظاہر ایک چھوٹا سا سکول ماسٹر ہے جو بعض لوگوں کی نظر میں کوئی حقیقت نہیں رکھتا لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جب اس کے سپر د قوم کے بچے ہو گئے تو اسی نسبت سے اس استاد کو عظمت نصیب ہوتی ہے.اگر وہ امانت کا حق ادا کرے تو اسی نسبت سے خدا کی نظر میں وہ عظمت پاتا ہے اور اگر امانت کا حق ادا نہ کرے تو خدا کی نظروں میں بھی ذلیل ہوگا اور قوم کی نظر میں بھی مجرم ہوگا اور ایک قومی خود کشی کے مترادف ہوگی یہ بات کہ ایسے لوگوں کو سمجھایا نہ جائے اور روکا نہ جائے نیک نصیحت کے ذریعہ.پس جماعت احمدیہ میں منافقت کی کوئی بھی خصلت نہیں ہونی چاہئے.بہت بڑا کام ہے ساری دنیا کی اصلاح کرنے کا کوئی معمولی کام تو نہیں ہے.اگر ہم منافقت کا شکار ہو جائیں گے تو پھر باقی کیا رہے گا؟ یہ تو ویسی ہی بات ہوگی جیسے ایک دفعہ حضرت امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ جارہے تھے، بارش ہو رہی تھی، کیچڑ تھا تو آپ نے دیکھا کہ ایک بچہ بڑی تیزی سے دوڑ رہا ہے تو حضرت امام ابوحنیفہ نے اسکو کہا بیٹے ! ذرا آہستہ پھسل نہ جانا.وہ بڑا ذہین بچہ تھا فورا مڑا اور اس نے کہا امام
خطبات طاہر جلد ۳ 223 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء صاحب! میں پھسلوں گا تو ایک بچہ پھیلے گا آپ نہ پھسل جانا کیونکہ اگر آپ پھسلیں گے تو قوم پھسل جائے گی.کتنا عظیم الشان جواب دیا اس نے ! پس وہ جماعت جو امین مقرر کی گئی ہو ساری دنیا کی اس کو اپنی امانتوں کی حفاظت کا خیال نہ رہے تو وہ کیا ر ہے گی باقی ! کس طرح دنیا کی اصلاح کر سکے گی ! اس لئے ان امانتوں کی حفاظت سب سے زیادہ اہم اور اول فرض جماعت احمدیہ کا ہے.کوئی ایک بھی علامت منافقت کی آپ کے اندر نہیں رہنی چاہئے اگر خدانخواستہ ہے تو اس کو دور کریں.اور جب آپ نصیحت شروع کر دیں تو کمزوریاں دور ہونی شروع ہو جائیں گی اور بالا رادہ منافقت کا تو میں خیال بھی نہیں کر سکتا کہ کوئی احمدی اس کا مرتکب ہو سکے.منافقت کی جیسا کہ میں نے کہا تھا دو قسمیں نظر آتی ہیں.ایک ہے مجبوری کی کمزوریاں جن سے انسان شرمندہ ہو اور نفس اس کا اسکو ذلیل کرتا رہے اور خدا کے حضور روئے اور گریہ وزاری کرے دور کرنے کی کوشش کرے اور مجبور سمجھے اس بات پر اپنے آپ کو کہ میں نے دنیا کو نصیحت کرنی ہی کرنی ہے.ایسے شخص کو اسلامی اصطلاح میں منافق نہیں کہا جاتا لیکن جب بالا رادہ کام کرتا ہے اور امانت میں خیانت کرتا ہے تو پھر وہ لازماً منافق بن جاتا ہے.دوسری علامت آنحضور ﷺ نے یہ بیان فرمائی جب بات کرے تو جھوٹ بولے اور یہ اتنی بیماری بن گئی ہے خصوصاً پسماندہ اقوام میں اس میں کوئی ایک ملک خاص نہیں ہے عموماً پسماندہ اقوام میں جھوٹ بہت کثرت سے بولا جاتا ہے اور جو بڑی قومیں ہیں ان میں انفرادی سطح پر جھوٹ بہت کم ملتا ہے.وہ اس کمی کو پورا کر لیتی ہیں قومی فتنوں کے وقت جھوٹ بول کر قومی مصالح کے وقت جھوٹ سے کام لے کر اور جھوٹے پروپیگنڈے کر کے وہ اپنی طرف سے تو پیاس بجھا لیتی ہیں اس کی لیکن جہاں تک انفرادی سطح کا تعلق ہے وہ بہت بہتر ہیں ان قوموں سے جنہیں ہم پسماندہ قومیں کہتے ہیں یا ترقی پذیر تو میں کہتے ہیں اور اس لحاظ سے بھی جماعت احمدیہ پر عظیم ذمہ داری ہے.جھوٹ کو تو زہر قاتل سمجھنا چاہئے.منافقت کا سب سے بڑا ز ہر جھوٹ ہے.ایک انسان بات کرے اور جھوٹ بول رہا ہو کیونکہ جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کی حقانیت کا انکار.جھوٹ بولنے والی قومیں دنیا میں کسی شعبے میں بھی ترقی نہیں کیا کرتیں.آپ کی آنکھ جو دیکھ رہی ہے اگر وہی ہو تو یہ سچ ہے اور اگر آپ کو غلط نظر آرہا ہو تو یہ بیماری ہے لیکن آپ دیکھ کچھ اور رہے ہوں اور بیان کچھ اور کر رہے ہوں یہ جھوٹ ہے.تو جو جھوٹی قوموں ہوتی ہیں ان کو پھر آنکھوں کی بیماریاں بھی لاحق ہو جایا کرتی ہیں، ان کا
خطبات طاہر جلد ۳ 224 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء Vision بگڑ جاتا ہے، ان کو نظر بھی کچھ اور آنے لگ جایا کرتا ہے اور ایسے بھی واقعات ہوتے ہیں کہ جھوٹ بولنے والا پھر اپنے ہی جھوٹ کا شکار خود ہو جاتا ہے جھوٹ بول بول کر اس جھوٹ پر ایمان لے آتا ہے اور ایک لمبے عرصہ کے بعد سمجھنے لگتا ہے کہ یہ واقعہ ہے.تو نہایت ہی خطرناک اور مہلک بیماری ہے جھوٹ جو آنحضرت ﷺ کے نزدیک ایک منافقت کا نشان ہے اور جھوٹ اگر قوموں سے دور ہو جائے تو بہت عظیم الشان فوائد ملتے ہیں مثلاً Scienctist جھوٹ کے ساتھ ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھا سکتا.سائنسدان کی ترقی مبنی ہے اس بات پر کہ وہ خوش فہمیوں کے پیچھے نہ چلے، اپنی خواہشات کی پیروی نہ کرے بلکہ جو نظر آ رہا ہے خواہ اس کی خواہشات کے بالکل مخالف ہوا سے تسلیم کر لے ، دل چاہتا ہے ، ایک خیال آتا ہے، ایک تھیوری (Theory) ایک نظریہ Develop ہوتا ہے اس کے دماغ میں اور وہ محسوس کرتا ہے کہ مجھے تلاش کرنا چاہئے شواہد میں کہ واقعہ یہ بات درست بھی ہے یا نہیں.اگر وہ شواہد کو اپنی خواہشات کے مطابق چلانے کی کوشش کرے گا تو یہ جھوٹ ہے اور کچھ بھی اس کے ہاتھ نہیں آئے گا.اگر واقعات جدھر اس کو لے جا رہے ہیں ان کے پیچھے چلنے لگے تو یہ بیچ ہے اور تمام سائنسی ترقی کی بنیاد سچائی پر ہے.جہاں جھوٹ داخل ہو وہاں تو ہمات اور جادو گری اور فتنے اور احمقانہ باتیں داخل ہو جاتی ہیں اور سائنس کی دنیا سے انسان الگ ہو جاتا ہے.تو سائنس کی دنیا سچائی کی دنیا ہے اور سائنس کہتے ہیں خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو جو نظام کائنات کی صورت میں ہمیں ملتی ہے اس کا مطالعہ، اور روحانیت اور مذہب کہتے ہیں خدا تعالیٰ کی قولی شہادت اور نظریات کا نظام اور اخلاقیات کا نظام اور جو ہمیں اسکی کتابوں میں ملتا ہے.تو جولوگ خدا تعالیٰ کی فعلی شہادت کو جھٹلانے والے نہیں بنتے ان کو زیادہ توفیق ملتی ہے ،ہل سکتی ہے کہ وہ اس کی قولی شہادت کو بھی نہ جھٹلائیں اور جو لوگ عادی ہو جائیں جھوٹ کے عام دنیا کی باتوں میں ان کے اوپر خدا تعالیٰ کی کتاب کا رنگ چڑھ ہی نہیں سکتا.ہر کپڑے پر ہر رنگ تو نہیں چڑھا کرتا.پہلے ایک بنیادی صفائی ہوا کرتی ہے اس میں سے گزارے بغیر کوئی رنگ نہیں چڑھایا جاسکتا تو جھوٹے لوگوں پر شریعت کا رنگ نہیں چڑھ سکتا کیونکہ شریعت نام ہے سچائی کا اور کچھ بھی وہ نہیں پاسکتے ، نہ معرفت اور نہ اس دنیا کے فوائد نہ آخرت کے فوائد.جھوٹا کلیۂ محروم رہ جاتا ہے.ہر شعبہ زندگی میں وہ نا کام ہوتا ہے اور بظاہر وہ فوائد حاصل کر رہا ہوتا ہے تھوڑے تھوڑے ادنی فوائد عارضی
خطبات طاہر جلد ۳ 225 خطبه جمعه ۲۰ را پریل ۱۹۸۴ء لیکن حقیقت یہ ہے کہ قومی طور پر اگر کسی نے خود کشی کرنی ہو تو اس سے بہتر کوئی علاج نہیں اس کا کہ وہ جھوٹ اختیار کرلے.تمام بدیوں کی جڑ جھوٹ ہے اور لطیفے کے طور پر بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہئے، ماؤں کو بچوں کے سامنے جھوٹ نہیں بولنا چاہئے ، جھوٹے بہلاوے نہیں دینے چاہئیں، جھوٹی کہانیاں نہیں سنانی چاہئیں.ماؤں کی گودوں میں سچ اور جھوٹ کے فیصلے اکثر ہو جایا کرتے ہیں.جب مائیں کہتی ہیں دل بہلاوے کے طور پر کہ تم چپ کر جاؤ ہم تمہیں ابھی مٹھائی لا کر دیں گی اور جانتی ہیں کہ ہم جھوٹ بول رہی ہیں تو بچے کے دل میں جھوٹ اس طرح جاگزیں ہو جاتا ہے کہ جب بڑے ہو کر انکو نصیحت کرتیں ہیں وہی مائیں کہ جھوٹ نہ بولو تو ان کا دل کہتا ہے کہ یہ اوپر کی باتیں ہیں اندر کی باتیں وہی ہیں جو ماں کیا کرتی تھی اور اوپر کی باتیں وہ ہیں جو کہتی ہے اور جھوٹے بچے، جھوٹی نسل پیدا ہو جاتی ہے.تو بہت اہم فرض ہے جماعت احمدیہ کا کہ جھوٹ کے خلاف ایک جہاد کریں اور اپنی سوسائٹی میں جہاد کریں، لوگوں کو بھی روکیں جھوٹ سے اس کے نتیجہ میں عظیم الشان روحانی فوائد حاصل ہوں گے اور دنیاوی ترقیات بھی اس قوم کو عطا ہوں گی.تیسری علامت منافق کی یہ بیان فرمائی کہ جب معاہدہ کرے تو غداری کرے، جب عہد کرے تو غداری کر جائے اور عہد سے پھر جائے اور یہ ایک ایسی بدی ہے جس کے نتیجہ میں امر واقعہ یہ ہے کہ تمام وہ نظام جو اعتبار پر چلتے ہیں وہ ختم ہو جاتے ہیں اور ہماری پسماندہ اقوام یا ترقی پذیر اقوام کی تجارتوں میں ناکامی کا ایک بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ معاہدہ پر پوری نہیں رہتیں.معاہدہ ہوتا ہے کسی سے کہ اس معیار کی چیز اس Dimention کی ، اس شکل کی ہم تمہیں دیں گے اور جب وہ چیز پہنچتی ہے تو اور معیار کی اور شکل کی اور کیفیت کی چیز ہوتی ہے.اور بڑا گہرا نقصان پہنچایا ہے اس بد عہدی نے ہماری معاشیات اور اقتصادیات کو جبکہ بعض دہر یہ تو میں بعض مشرک قو میں اس راز کو سمجھ گئیں اور انہوں نے معاہدہ کی پابندی کر کے بہت عظیم الشان فوائد اٹھائے ہیں.جو کہتے ہیں وہ چیز اندر سے نکلتی ہے.تو معاہدہ کی خلاف ورزی میں جھوٹ بھی پایا جاتا ہے اور جھوٹ کے علاوہ کچھ ذاتی فوائد ایسے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں انسان بات سے پھرتا ہے.بظاہر تو جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے لیکن جھوٹ سے کچھ زائد عملی شکل اس میں پائی جاتی ہے، اس کو بدعہدی کہتے ہیں اور بد عہدی بعض دفعہ شروع ہی سے نیت میں داخل ہوتی ہے بعض دفعہ مشکل حالات انسان کو بدعہدی پر مجبور کر دیتے ہیں لیکن آنحضرت ﷺ کا اسوہ یہ تھا کہ کبھی کسی عہد کو آپ نے نہیں تو ڑا.سخت ترین آزمائش کے وقت
خطبات طاہر جلد۳ 226 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء بیٹی حضرت حمد بھی آپ نے کبھی کسی عہد کو نہیں تو ڑا.ساری زندگی ہمیشہ دشمن اپنے عہد توڑتے رہے لیکن حضر مصطفی امی نے عہدوں کی حفاظت فرمائی ہے اور اسی کی تلقین فرمائی.پس جماعت احمدیہ کو بھی اس بات کو مضبوطی سے پکڑ لینا چاہئے خواہ وہ تاجر ہوں یا Industrialist یعنی کارخانے دار ہوں، خواہ وہ ملازم ہوں، اب ملازمت میں بھی ایک معاہدہ ہوتا ہے اور بظاہر انسان کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ میں جھوٹ بول رہا ہوں لیکن معاہدہ شکنی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جھوٹ ہی کی ایک قسم ہے.معاہدہ ہوتا ہے اور بعض دفعہ تحریری بعض دفعہ غیر تحریری، توقع کی جاتی ہے بعض ملازموں سے کہ جب ہم تمہیں اتنی تنخواہ دیں گے تو تم یہ کام کرو گے.جب آپ ڈیسک سے اٹھ کر چلے جائیں گے اور وہ کام نہیں کریں گے بہت سا وقت گپوں میں لگا دیں گے تو جھوٹ تو نہیں آپ بول رہے لیکن بد عہدی ضرور کر رہے ہیں اور عملی جھوٹ کی ایک قسم ہے بدعہدی اس لئے آنحضور ﷺ نے اسکو جھوٹ سے الگ بیان فرمایا ہے کیونکہ اس کا دائرہ بعض دفعہ مختلف ہو جاتا ہے.پھر ایک اور آنحضور ﷺ نے وضاحت فرمائی منافق کی کہ جب مباحثہ کرے جب اختلافی امور پر گفتگو کرے تو گالیاں اور بخش کلامی شروع کر دے.فرمایا مومن کی شان کے یہ خلاف ہے.اور اب دیکھیں کہ نصیحت کرنے والوں کے لئے کتنا ضروری ہے یہ.ایک ایسی جماعت جو نصیحت پر مامور ہو اگر کوئی اس کو آگے سے اس سے بدسلوکی سے پیش آئے اسکی بات نہ مانے یا ختی کرے اور ایسی جماعت جو نکلی ہے دنیا کونصیحت کرنے کے لئے اور ان کی اصلاح کے لئے وہ مقابل پر یہ خش کلامی شروع کر دے تو اس کا تو سارا اثر باطل ہو جائے گا اس لئے جماعت احمدیہ میں خواہ کتنی ہی بدکلامی ان کے مخالف کی جائے جواب میں بدکلامی نہیں ہونی چاہئے.اگر چہ بعض مواقع پر قرآن کریم اجازت دیتا ہے اسکی اور اصلاح کی خاطر اور بعض حقائق کو دلوں میں اتارنے کے لئے لیکن اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے وہ بندے جو مامور ہوں وہ خاص مصالح کے پیش نظر سختی کرتے ہیں.جیسا کہ ایک مجلس میں سوال کیا گیا تھا کہ قرآن کریم میں جو آتا ہے عُتُلٍ بَعْدَ ذَلِكَ زَنِيْهِ ( القلم :۱۳) کہ وہ جھوٹا بد کردار بلکہ حرام زادہ ہے جو مخالف ہے.اتنے شدید اور اتنے سخت الفاظ قرآن کریم میں اور دوسری طرف قرآن کریم فرماتا ہے کہ گالی نہ دو.تو یہ مراد ہرگز نہیں کہ مسلمانوں کو قرآن کریم اجازت دے رہا ہے کہ تم اس قسم کے سخت لفظ لوگوں کے لئے استعمال کیا کرو.مامورمن اللہ کو اللہ کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 227 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء رہا ہے کہ تیرے مخالفوں کی یہ حالت ہے اور بعض دفعہ بیماری کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بتانا پڑتا ہے لیکن وہ جس کا کام ہے جس کو مامور کیا گیا ہے وہ بیماریوں کی حالت کھول کر بیان کرتا ہے اور اس کے اپنے اسوہ پر اس کا کوئی بھی اثر نہیں پڑتا ، روز مرہ کی زندگی میں وہ اسی طرح حوصلہ والا اور برداشت والا ہوتا ہے.لوگ اس کو گالیاں دیئے جاتے ہیں اور وہ حوصلے سے برداشت کرتا ہے اور لوگوں کو بھی اس کے مقابل پرسختی نہیں کرنے دیتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق آتا ہے کہ ایک مجلس میں آپ تشریف فرما تھے.غالبا یو.پی سے ایک آدمی آیا اور اس نے نہایت بد کلامی کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب جواب دیا تو اس نے کہا میں جانتا ہوں ایسے دھو کے بازوں اور دجالوں کو ، مجھ سے تم کیا بات کرتے ہو.صحابہ کوطیش آیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے روک دیا ، بالکل کچھ نہیں کہنا.جب وہ بات ختم کر لیتا تھا تو حضور اس کا جواب دینا شروع کر دیتے تھے یہاں تک کہ آخر پر اس نے کہا کہ میں نے ساری زندگی میں ایسا حو صلے والا انسان کبھی نہیں دیکھا.(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از یعقوب علی عرفانی صاحب جلد سوم صفحه: ۴۵۱) تو خدا تعالیٰ کے ماموروں کو جب اللہ تعالیٰ ایک دوا کے طور پر ایک بیماری کے تجزیے کے طور پر بعض حقائق بتاتا ہے تو اسے گالی نہیں کہا جاتا لیکن ان باتوں کو پکڑ کر آگے لوگوں میں اس طرح کہنا یہ منع ہے اور اس کی قرآن کریم اجازت نہیں دیتا.چنانچہ قرآن کریم میں ان آیات کے باوجود ہرگز ثابت نہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے یا آپ کے صحابہ نے گلیوں میں لوگوں کو یہ کہنا شروع کر دیا ہو عُتُلٍ بَعْدَ ذلِكَ زَنِيْمِ نہایت نرمی ،محبت اور پیار سے گفتگو فرماتے تھے اور یہ چیز اور مقصد کی خاطر ہے اور خدا تعالیٰ کے خاص ایماء پر بیان کی گئی ہے.تو جماعت احمدیہ کو ہرگز گالی نہیں دینی.جتنی مرضی دشمن آپ کو گالیاں دے، جتنا مرضی فحش کلامی سے کام لے آپ نے صبر اور حوصلے سے کام لینا ہے اگر نہیں لیں گے تو آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ منافق ہو جاؤ گے.عجیب علامت منافق کی بتائی ہے جس کا عام دنیا کی عقل سے تعلق نہیں ہے ایک غیر معمولی عارف باللہ ہی یہ سوچ سکتا ہے کہ یہ منافقت ہے.اب غور کریں کہ یہ منافقت کیوں ہے؟ منافقت اس لئے ہے کہ مومن کی فطرت ایسی ہے جو ہر ایک سے محبت کرتی ہے پیار کرتی ہے، اور خدا تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم بنی
خطبات طاہر جلد ۳ 228 خطبه جمعه ۲۰ ر اپریل ۱۹۸۴ء نوع انسان کے لئے رحمت ہو جاؤ اور جو شخص رحمت ہو جاتا ہے اس کی زبان کسی کو چر کے لگائے اور دکھ دے یہ ہو ہی نہیں سکتا.اس لئے وہ اپنی ذات کا منافق ہے اپنے اندرونے کا منافق ہے.جب وہ زخم لگاتا ہے غیر کو تو اپنی فطرت پر زخم لگا رہا ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ نے اسے عطا فرمائی ہے جس کی اس سے توقع رکھتا ہے.جماعت احمدیہ کے اندر بہر حال منافقت نہیں ہونی چاہئے اور جہاں منافقت کی یہ چار صفات آپ دیکھیں و ہیں نصیحت اور محبت اور پیار کے ساتھ انکو دور کرنا شروع کر دیں کیونکہ جس حد تک منافقت دور ہوتی ہے معاشرہ سے اس حد تک وہ حق کو قبول کرنے کے قریب آتا چلا جاتا ہے.جس حد تک منافقت بڑھتی چلی جاتی ہے اس حد تک وہ حق کو قبول کرنے سے دور ہٹتا چلا جاتا ہے اس لئے یہ ابتدائی چار قدم ہیں قوم کی آخری اصلاح کے لے اگر یہ قدم آپ نہیں اٹھا ئیں گے تو آخری اصلاح ممکن ہی نہیں ہے.اور میرا مخاطب پاکستان کا احمدی نہیں ہے، میرا مخاطب تمام دنیا کا احمدی ہے.امریکہ کا بھی ، افریقہ کا بھی ، انگلستان کا بھی ، پین کا بھی ، چین کا بھی ، جاپان کا بھی کیونکہ ہر ملک میں یہ چاروں بیماریاں مختلف سطح پر پائی جاتی ہیں.بعض جگہ پالش کی گئی ہے جس طرح Pill یعنی کڑوی گولی پر پالش کر دی جاتی ہے میٹھے کی تاکہ پتہ نہ لگے تو بعض قو میں نہایت بیہودہ کلامی کرتی ہیں ایک دوسرے سے لیکن نہایت مرصع بڑی بھی ہوئی زبان میں.جیسے یوپی (ہندوستان ) میں جب تہذیب نے ترقی کی تھی تو بڑی تہذیب کے ساتھ گالیاں دیتے تھے ایک دوسرے کو، بڑے ادب کے ساتھ کہ جناب والا آپ کی شان میں گستاخی نہ ہو تو میں عرض کروں گا کہ آپ بڑے خبیث فطرت انسان ہیں.تو چاہے آپ لپیٹ لیں مرصع کریں پالش کریں میٹھا بنا لیں گالی تو گالی ہی رہے گی اس لئے جماعت احمدیہ کو منافقت کی ہر قسم کے خلاف نصیحت کا جہاد کرنا چاہئے.اگر آپ یہ کریں گے تو قرآن کریم آپکو خوش خبری دیتا ہے کہ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تم ہی وہ بہترین امت ہو جس کو میں نے زمانہ کی اصلاح کے لئے اور اسکے فوائد کی خاطر پیدا کیا ہے.اس سے عظیم الشان مقام کیا ہوسکتا ہے کہ ایک جماعت پر خدا کے پیار کی نظریں پڑ رہی ہوں اور فرشتے یہ تحسین کے کلمے کہہ رہے ہوں کہ ہاں تمہی وہ بہترین امت ہو ! ہاں تم ہی وہ بہترین امت ہو ہاں تم ہی وہ بہترین امت ہو جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی میں دنیا کے فائدہ کی خاطر پیدا کی گئی ہو.
خطبات طاہر جلد ۳ 229 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء مَنْ أَنْصَارِى إِلَى اللهِ خطبه جمعه فرموده ۴ رمئی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللهِ كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ مَنْ اَنْصَارِى إِلَى اللَّهِ ۖ قَالَ الْحَوَارِيُّونَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللهِ فَأَمَنَتْ طَابِفَةٌ مِّنْ بَنِي إِسْرَائِيلَ وَ كَفَرَتْ ظَابِفَةٌ فَأَيَّدُنَا الَّذِيْنَ امَنُوْا عَلَى عَدُوهُمْ فَأَصْبَحُوا ظُهِرِينَ (الصف: ۱۵) اور پھر فرمایا: قوموں کی زندگی میں بعض ایسے وقت آتے ہیں جن میں بہت ہی اہم اور بنیادی فیصلوں سے تو میں دو چار ہوا کرتی ہیں.مذہبی قوموں کی زندگی میں بھی ایسے دن آیا کرتے ہیں اور دنیاوی قوموں کی زندگی میں بھی ایسے دن آیا کرتے ہیں اور دنیا کی زبان میں جب ایسا وقت آتا ہے تو یہ سوچا جاتا ہے کہ To be or not to be.That is the Question اب ہم نے رہنا ہے یا نہیں رہنا یہ سوال ہے جو آج پیش نظر ہے.لیکن مذہبی دنیا میں یہ سوال اس طرح نہیں اٹھایا جاتا کیونکہ مذہبی دنیا جو خدا کی نمائندہ ہوتی ہے اس کے لئے نہ رہنے کا کوئی سوال نہیں ہوا کرتا ، اس کے لئے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ہم نے رہنا ہے اور ہم نے رہنا ہے اور ہم نے رہنا ہے اور اس راہ
230 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء خطبات طاہر جلد ۳ میں ہر قربانی پیش کرنے کے لئے ہم تیار ہیں.پس آج جماعت احمدیہ کی تاریخ میں بھی ایک ایسا ہی وقت ہے اور جو آیت میں نے تلاوت کی وہ اس وقت کے عین مناسب حال ہے.قرآن کریم فرماتا ب يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ اللهِ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کے انصار بن جاؤ اللہ کے مددگار ہو جاؤ کہ آج مدد کا وقت ہے كَمَا قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ لِلْحَوَارِينَ جیسا کہ عیسی ابن مریم نے اپنے ساتھیوں سے کہا تھا مَنْ أَنْصَارِی إِلَى اللهِ کون ہے جو آج اللہ کی خاطر، اللہ کی جانب میری مدد کرنے والا ہے؟ قَالَ الْحَوَارِثُونَ نَحْنُ أَنْصَارُ الله ان حواریوں نے یہ جواب دیا کہ ہم ہیں اللہ کے انصار فَأَمَنَتْ طَائِفَةٌ منْ بَنِي اِسراءیل تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ کو اللہ نے یہ توفیق بخشی کہ وہ ایمان لے آئے اور ایک گروہ نے انکار کر دیا.پس اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے ان لوگوں کی مدد فرمائی جو ایمان لائے تھے اور ان لوگوں کو ان پر غالب کر دیا جنہوں نے انکار کیا تھا.یہ واقعہ جس کی طرف قرآن کریم نے اشارہ فرمایا ہے ایک حیرت انگیز واقعہ ہے.جب اس پہلو سے دیکھتے ہیں تو وہ لوگ جن سے حضرت مسیح نے خدا کے نام پر ، خدا کی طرف ،خدا کی جانب مدد مانگی تھی ان کی اپنی حیثیت کیا تھی ؟ گنتی کے چند درویش صفت لوگ تھے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا.ایک عظیم مغربی مملکت میں جس کی حدیں مشرق وسطی سے شروع ہوتی تھیں اور مغرب تک چلی جاتی تھیں، جس میں وہ آباد تھے اور اپنے وطن اپنے شہر میں بھی ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی.اتنے مظلوم اور بے کس تھے کہ جب حضرت مسیح کو صلیب پر لٹکایا گیا تو ان میں سے کوئی بھی کچھ نہیں کر سکا.پھر وہ کیسی مد تھی جو حضرت مسیح نے اُن سے مانگی؟ اگر وہ مدد اس لائق نہیں تھے کہ اس کا ذکر کیا جاتا تو ناممکن ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کے وہ واقعہ یاد دلایا جا تا اور یہ ارشاد فرمایا جاتا کہ تم بھی اسی طرح کہو کہ مجھے انصار کی ضرورت ہے جس طرح مسیح میرے ایک مظلوم بندے نے کہا تھا.تو یہ ہوتا ہے یہ انصارِی اِلَی اللہ کا مضمون کوئی دنیا کے مضمون سے مختلف مضمون ہے جہاں فوجی اور جفاکش اور حملہ آور اور جنگجوؤں کی ضرورت نہیں ہے یعنی دنیا کے بڑے بڑے مال داروں کی ضرورت نہیں ہے، دنیا کے بڑے بڑے طاقتور سیاستدانوں کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے اس آواز پر لبیک کہا ہو.وہ کون لوگ تھے جن پر دنیا ہنستی تھی، معلوم
خطبات طاہر جلد ۳ 231 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء جن کی کوئی شہری حیثیت باقی نہیں رکھی گئی تھی ، جو چاہتا تھا ان کوز دوکوب کرتا ، ان کو مارتا، انکو گالیاں دیتا ، ان کو گلیوں میں گھسیٹتا اور اس کے باوجود حضرت مسیح یہ کہہ رہے ہیں کہ میرے لئے اللہ کی خاطر، اللہ کی جانب مدد گار بن جاؤ.اگر اس واقعہ میں کوئی عظمت نہیں تھی، کوئی مخفی پیغام نہیں تھا تو ناممکن ہے کہ آنحضور ﷺ کو مخاطب کر کے انہی الفاظ میں مددگار طلب کرنے کی ہدایت دی جاتی.ایک تو یہ پہلو ہے جو تعجب انگیز ہے اور قابل غور اور ایک اور یہ پہلو ہے کہ اللہ کو مددگاروں کی ضرورت کیا ہے؟ مدد تو اللہ کی طرف سے آتی ہے.یہ کیا قصہ ہے کہ چند مظلوم بندوں کو چند مقہور بندوں کو خدا مدد کے لئے بلا رہا ہے جب کہ وہ آپ مدد کے بہت محتاج ہیں؟ جب اس پہلو پر ہم غور کرتے ہیں تو یہ سارا معمہ حل ہو جاتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ جب تک تم اپنے دل و جان سے خدا کی مدد کے لئے تیار نہیں ہو گے اس وقت تک اللہ کی مدد تمہارے اوپر نازل نہیں ہوگی اور خدا اعدادوشمار میں اور کیمیت اور کیفیت میں ہر مدد سے مستغنی ہے اس لئے یہ سوال نہیں ہوا کرتا کہ تم خدا کی مدد کے لئے کیا پیش کرو گے؟ اللہ تعالیٰ صرف یہ تقاضا کرتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ پیش کر دو اور میرے پاس جو کچھ ہے میں اس کے جواب میں پیش کردوں گا اس کے نتیجہ میں غلبہ نصیب ہوگا.اگر کوئی غریب ہے جس کے پاس چار آنے ہیں تو اللہ کی مدد کے لئے وہ چار آنے پیش کرے گا اور خدا جو تمام خزانوں کا مالک ہے کیسے ممکن ہے کہ جب اس غریب کو مدد کی ضرورت پڑے تو اپنے سارے خزانے اس کے لئے نہ کھول دے ! پس یہ مضمون ہے جو ان آیات میں بیان فرمایا گیا اور آنحضرت ﷺ کو متوجہ کیا گیا کہ دیکھو میرے معاملہ میں کسی مایوسی کا کوئی سوال نہیں ، سب سے کمزور نبی کی مثال میں تمہیں دیتا ہوں ، ایسا نبی جس کے مقابل پر کمزوری میں سارے عالم میں کوئی اور نبی نظر نہیں آئے گا.اس کے ماننے والے اتنے کمزور اور بے بس اور نہتے تھے اور ان کے مقابل پر اتنی عظیم سلطنت تھی کہ ان کی کوئی حیثیت ہی نہیں تھی اس قدر وہ بے حیثیت لوگ تھے اور اتنا بے حیثیت واقعہ تھا کہ روم کی تاریخ سالہا سال بعد تک بھی اس واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کرتی.یہ دل گھٹانے والا واقعہ نہیں یہ دل بڑھانے والا واقعہ ہے.یہ اللہ تعالیٰ بیان فرمانا چاہتا ہے کہ جب انہوں نے میرے نام کی خاطر اپنے وہ بیکار وجود پیش کر دیئے اور میں نے انھیں کو قبول کیا تو اے محمد عربی عملہ اتم جو اس کا ئنات کا خلاصہ ہو تم جب
خطبات طاہر جلد ۳ 232 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء سب کچھ میرے حضور پیش کر دو گے تو میں کیا کیا کچھ تمہارے لئے نہیں کروں گا.یہ تھا وہ پیغام جو آنحضرت کو دیا گیا اور یہی پیغام ہے جو میں آپ کی غلامی میں آج آپ کو دیتا ہوں.آج بھی جماعت کی تاریخ پر ایک ایسا وقت آیا ہے کہ اس سے پہلے کبھی ایسا وقت نہیں آیا اس لئے تمام دنیا کے احمدیوں کو میں آواز دیتا ہوں کہ مَنْ اَنْصَارِی اِلَی اللہ اے خدا کے اس زمانے کے محبوب کے غلامو! میں تمہیں اللہ کے نام پر مدد کے لئے بلاتا ہوں.اپنا سب کچھ خدا کے حضور حاضر کر دو اور خدا کی قسم خدا اپنی ساری کائنات آپ کی خدمت میں حاضر کر دے گا.کوئی دنیا کی طاقت نہیں جو پھر اس تقدیر کو بدل سکے.یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو لازماً ہو کر رہے گا اور لازماً اس کے مقدر میں کامیابی ہے اور کامیابی کے سوا کچھ نہیں کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَى عدوهم ان مظلوم بیکار بندوں پر ہم نے رحمت کی نظر کی جن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور میرے حضور حاضر ہوئے کہ اے اللہ ! ہم حاضر ہیں تیری مدد کے لئے فَأَيَّدْنَا الَّذِينَ آمَنُوا ہم نے انکی مدد کی ہم تو ان کی مدد کے محتاج نہیں تھے.کیسی تشریح خود فرما دی کہ جب خدا کے نام پر مدد مانگی جاتی ہے تو اسی طرح جس طرح بچے کو پیار کے ساتھ اس کی آزمائش کے لئے کسی طرف بلایا جاتا ہے.فرمایا ہم نے ان کی مدد کی اور ان کے غالب دشمن پر ان کو غالب کر دیا.پس آج جماعت کی تاریخ میں ایسا ہی وقت ہے لیکن اس مدد کو کیسے استعمال کیا جائے گا اور کس طریق پر جماعت احمدیہ کی تمام قوت کو اللہ کے حضور پیش کیا جائے گا یہ فیصلہ کوئی آسان فیصلہ نہیں ہے.بہت ہی اہم اور بنیادی فیصلہ ہے اور میں دن رات اس پر غور بھی کر رہا ہوں اور اللہ تعالیٰ سے راہنمائی بھی طلب کر رہا ہوں.پہلی مدد میں آپ سے یہ مانگتا ہوں کہ بکثرت دعائیں کریں اور اس معاملہ میں میری مدد کریں تا کہ اللہ تعالیٰ اپنی واضح راہنمائی کے ذریعے ہمیں ایک ایسا کشادہ اور صاف اور کھلا ہوا رستہ دکھائے جو لازماً کامیابی کی طرف لے جانے والا ہو.نہ میں اپنی قربانی سے ڈرتا ہوں نہ میں جماعت کی قربانی سے ڈرتا ہوں.اللہ نے مجھے وہ عزم اور حوصلہ عطا فرمایا ہے کہ جب وقت آئے گا اور جس قسم کا وقت آئے گا میں کسی قسم کی کوئی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے حکمت بھی عطا فرمائی ہے اور لازماً جہاد میں حکمت کی اول ضرورت پیش آیا کرتی ہے اس لئے جماعت احمدیہ کی زندگی، جماعت احمدیہ کی جان و مال کا ایک ذرہ ایک اونس بھی میں ضائع کرنے کے لئے تیار نہیں اور
خطبات طاہر جلد ۳ 233 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء اگر خدا نے چاہا اور سب کچھ اس کی راہ میں جھونکنے کا وقت آیا اور یہی تقاضا ہوا حکمت کا اور ایمان کا اور خلوص کا تو ایک ذرہ بھی بچانے کے لئے میں تیار نہیں پھر ہماری زندگی اس جہان کی زندگی ہے پھر اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے اور کیا ہوگا لیکن جو کچھ میں نے پڑھا ہے جو کچھ میں قرآن کے مطالعہ سے اخذ کر سکا ہوں جو کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے میں نے نتیجہ نکالا ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ناممکن ہے کہ آپ پر کوئی فتح یاب ہو سکے.آپ کے لئے ضروری ہے اپنے دلوں پر فتح یاب ہوں، اپنے کردار پر فتح یاب ہوں ، اپنی نیتوں پر فتح یاب ہوں، اپنے اعمال پر فتح یاب ہوں.یہ فتح آپ نے کرنی ہے اللہ کی مدد سے اور پھر ساری دنیا کو آپ کا مفتوح ہمارے خدا نے بنانا ہے.یہ وہ تقدیر ہے جوائل ہے، جو لکھی جا چکی ہے.زمین و آسمان کی حرکتیں بدل سکتی ہیں، کائنات ریزہ ریزہ ہو سکتی ہے لیکن اللہ کی تقدیر نہیں بدل سکتی نہیں بدل سکتی نہیں بدل سکتی.اس ایمان کے ساتھ آپ نے زندہ رہنا ہے، اس ایمان کے ساتھ مرنا ہے.یہی سب سے بڑا قیمتی ہمارا سرمایہ ہے.جہاں تک فوری فیصلوں کا تعلق ہے میں چند باتیں کھول کر جماعت کے سامنے بیان کرنی چاہتا ہوں.چونکہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام نے مَنْ اَنْصَارِی کا اعلان فرمایا تھا اس سے بعض لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ کسی حالت میں بھی کسی قیمت میں ہمیں اپنے دفاع کا حق استعمال نہیں کرنا.یہ بالکل غلط نتیجہ ہے، قرآن کے اس مضمون کے واضح منافی ہے کیونکہ آنحضرت ﷺے مخاطب ہیں اور حضرت عیسی کی مثال جیسے کہ میں نے بیان کیا تھا حوصلہ بڑھانے کی خاطر دی گئی ہے.اب یہ حکم مسیح ناصری کا حکم نہیں رہا اب یہ محمد مصطفی ﷺ کا حکم ہے اور آپ کو یہ فرمایا گیا ہے يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا اَنْصَارَ الله آپ کی زبان سے یہ فرمایا گیا ہے اس لئے یہ مضمون اب بدل چکا ہے، اب اس پر سنت محمد مصطفی میلے کا رنگ چڑھ چکا ہے اور ہمارے لئے سوائے قرآن کے اور کوئی مشعل راہ نہیں ہے.قرآن کریم وقت کی حکومت کی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور واضح حکم دیتا ہے اور اسی حکم کی تعمیل میں ہم غدار کہلائے ، دنیا جہان کے ایجنٹ بنائے گئے لیکن ہم سر موبھی اپنی راہ سے نہیں ہے اور قرآن کریم کی اطاعت کے سامنے ہم نے سرتسلیم خم کئے رکھا.قرآن کریم فرماتا ہے أطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِى الْأَمْرِ مِنْكُمْ (النساء: ۲۰) دیکھو اللہ کی
خطبات طاہر جلد ۳ 234 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور جو بھی حاکم وقت ہے اس کی اطاعت کرو چنانچہ ہم نے اس حکم سے کبھی بھی جماعت کی تاریخ میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں ہے کہ اس حکم سے سر موفرق کیا ہولیکن یہ آیت یہاں ختم نہیں ہو جاتی آگے چلتی ہے اور یہ مضمون آنحضرت ﷺ کی امت کی عظمت کو بیان کرنے کی خاطر ایک اور منزل میں داخل ہو جاتا ہے فرماتا ہے فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ اگر مذہبی معاملہ میں اختلاف ہو جاے فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ پھر تم نے أُولِي الْأَمْرِ کی طرف دیکھنا نہیں ہے پھر صرف اللہ اور رسول کے تابع رہ کر فیصلے کرنے ہیں.کس طرح أولى الأمر کو نکال کر اس مضمون سے باہر کر دیا ؟ دنیاوی معاملات میں جہاں تک أولى الْأَمْرِ اپنے دائرہ اختیارات میں رہتا ہے اور ان سے تجاوز نہیں کرتا اور خدا اور محمد مصطفیٰ کے احکامات میں دخل اندازی نہیں کرتا لازماً ہم اس کی اطاعت کریں گے اور جہاں وہ دخل اندازی کرے گا اور قرآن اور رسول سے ہمیں الگ کرنے کی کوشش کرے گا لازماً ہم اس کی اطاعت نہیں کریں گے خواہ اس کے لئے جانیں دینی پڑیں.کوئی پرواہ نہیں جتنے سر کٹتے ہیں کٹیں گے لیکن قرآن اور محمد مصطفی ﷺ سے جماعت کو کوئی دنیا کی طاقت جدا نہیں کر سکتی.اب میں یہ بھی آپ کو بتادیتا ہوں کہ اگر کسی کو یہ وہم ہو کہ جماعت احمدیہ کو مٹا سکتا ہے تو یہ وہم اس کو دل سے نکال دینا چاہئے.بڑے بڑے دعوے دار آئے ہیں ان کے نشان خدا نے مٹا دیئے ، پارہ پارہ کر دیا ان کی صلى الله طاقتوں کو.تو ہم نے جب سب کچھ خدا کے حضور پیش کیا تو ہماری تو طاقت ہی کوئی نہیں.میں تو یہ توجہ دلا رہا ہوں کہ ہمیں ان سے بھی کم سمجھ لو جو مسیح کے حضور سب کچھ پیش کرنے والے، چند انصاری تھے، ہم تو اتنے عاجز بندے ہیں کہ ہمیں اس کا کوئی شوق نہیں کہ ہماری طاقتوں کو بڑی بڑی طاقتوں کے پیمانوں پہ نا پا جائے ، ہم تو خود عاجز ہیں اور اقراری ہیں اپنی کمزوریوں کے.ہم تو کہتے ہیں کہ اے اللہ ہم میں وہ طاقت بھی نہیں ہے جو مسیح کے حواریوں میں تھی مگر جب انہوں نے سب کچھ پیش کر دیا اور تو نے انہیں غالب کر کے دکھایا تو آج بھی ہم سے ویسا ہی فضل فرما بلکہ اس سے بڑھ کر فضل فرما کیونکہ ہم حضرت محمد مصطفی حملے کے غلام ہیں اس لئے صبر کا یہ معنی لینا کہ قرآن کی حدود سے باہر نکل کر عیسائی تصور میں صبر کیا جائے گا بالکل غلط ہے.یہ میں خوب کھول کر واضح کر دینا چاہتا ہوں.صبر کا
خطبات طاہر جلد ۳ 235 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء مفہوم انہی پیمانوں سے طے ہو گا جو قرآن بیان فرما رہا ہے اور جو سنت محمد مصطفی علہ بیان فرما ر ہے ہیں ان کے دائرے کے اندر طے ہوگا اور جہاں خدا صبر کی تعریف میں یہ بات داخل کر دے گا کہ تم نے دفاع کرنا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو کچھ ہوتا ہے اس پر صبر کرو تو صبر کا یہ مفہوم ہو گا کہ تم نے دفاع کرنا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو کچھ گزرتی ہے تمہیں برداشت کرنا پڑے گا.مثلاً ابھی کل ہی یہ حیرت انگیز ظالمانہ بات مجھے معلوم ہوئی کہ ربوہ میں حکومت کے باشندوں نے یہ حکم دیا جماعت کو کہ کلمہ لا الہ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ جہاں جہاں تم نے اپنی مسجدوں پر اور دیواروں پر لکھا ہے اس کو مٹا دو اَلْحَمْدُ لِلهِ کہ خدا نے ان کو صحیح فیصلے کی توفیق بخشی، انہوں نے کہا کہ ناممکن ہے جماعت احمدیہ اپنے ہاتھ سے کلمہ کو نہیں مٹائے گی.تم نے جو کچھ کرنا ہے بے شک کرو چنانچہ جب مجھے اطلاع ملی تو میں نے ان کو فورافون کروایا کہ آپ نے بالکل ٹھیک فیصلہ کیا ہے.کوئی احمدی کلمہ توحید کو نہیں مٹائے گا.اس کے ہاتھ کاٹے جائیں گے، اس کا سر قلم ہو سکتا ہے لیکن اپنے ہاتھوں سے وہ کلمہ توحید کو مٹادے یہ تو ناممکن ہے ہمارے اختیار کی بات نہیں.تو اسی طرح مذہب کی مبادیات ہیں وہاں پہنچ کر آپ یہ خوف دل سے دور کر دیں کہ گویا نعوذ باللہ من ذلک آپ باغی شمار ہوں گے، باغی آپ تب شمار ہوں گے جب خدا اور رسول کے احکام کے مقابل پر کسی دنیا دار کی بات مانیں گے.جب دنیا دار کے احکام کے مقابل پر خدا اور رسول کی بات مانیں گے جب ٹکرا رہی ہوگی وہ بات تو پھر آپ باغی نہیں شمار ہوں گے پھر وہ باغی شمار ہوں گے خدا کے جنہوں نے کوشش کی کہ اپنے حکم کو خدا اور رسول کے حکم پر فوقیت دیں.اس لئے یہ بھی میں خوب اچھی طرح کھول دیتا ہوں تا کہ دنیا میں جہاں بھی کہیں احمدی ہیں وہ اس کو خوب سمجھ لیں.صرف ایک ملک کا سوال نہیں ہمارے مقدر میں تو بڑی قربانیاں ہیں، ملک ملک ہم نے اپنے خون سے رنگین کرنے ہیں ، ملک ملک ہماری قربانیوں نے روحانی انقلابات بر پا کرنے ہیں اس لئے میرا مخاطب تمام جہان کا انسان ہے اور مَنْ اَنْصَارِی کی آواز بھی تمام جہان کے احمدیوں کے لئے ہے اس لئے جب آپ اس آواز پر لبیک کہتے ہیں اور مجھے یقین ہے کہ ساری جماعت لبیک کہتی ہے تو اس کے لئے یہ ضروری اب نہیں ہوگا کہ ہر ایک آدمی لکھ کر مجھے بھیجے.اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک کروڑ خط میں کیسے سنبھال سکتا ہوں اور ایک کروڑ خطوں کا مطالعہ کرنا اور ان کو فائلیں کرنا ہی اتنا بڑا
خطبات طاہر جلد ۳ 236 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء کام ہے کہ آج کل کے زمانہ میں تو مجھے ملاقاتون کی بھی فرصت نہیں ہے اس لئے ہر احمدی کو یہ اختیار ہے کہ اگر وہ کسی پہلو سے بھی قربانی کے کسی میدان میں تر در محسوس کرتا ہے تو وہ مجھے لکھ کر بھیج دے.میں اسے جماعت سے خارج نہیں کروں گا، میں اسے کمزور احمدی کے طور پر جماعت میں رہنے دوں گا لیکن یہ کھلی چھٹی ہے سب کے لئے صرف انہی کی فہرست بنے گی جو دل کی کمزوری یا حالات کی مجبوری کی وجہ سے دیانت داری سے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہر قربانی کے لئے اپنے آپ کو پیش نہیں کر سکتے اور جو ایسا نہیں کریں گے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ کے انصار میں شمار کئے جائیں گے اور دعائیں کریں میں بھی دعائیں کرتا ہوں.راتوں کو بھی دعائیں کریں اور دن کو بھی دعائیں کریں ، گریہ وزاری سے اپنی سجدہ گاہوں کو تر رکھیں اللہ کی رحمت سے قدموں کو بھگوتے رہیں اور یقین رکھیں کہ کم قربانیاں لے کر اللہ آپ کو زائد کرے گا کیونکہ حضرت محمد ﷺ کا سایہ ہے جو ہر سایہ سے بڑا اور افضل ہے اور زیادہ ٹھنڈا اور زیادہ رحمت ہے اس لئے ایک لمحہ کے لئے بھی اپنے دلوں میں کوئی شک اور کوئی غیر یقینی حالت پیدا نہیں ہونے دیتی.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو، اللہ تعالیٰ میرے ساتھ ہو ہمیں صحیح فیصلے کی توفیق بخشے اور بہت جلد اپنے وعدوں کو پورا ہوتے دکھائے اور ہماری آنکھوں اور ہمارے دلوں کو ٹھنڈا کرے.پاکستان کے احمدیوں کی حالت نا قابل برداشت ہے.اس قدر دکھ کی حالت ہے کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.بڑے دکھ انہوں نے دیکھے ہیں، بڑی بڑی قربانیاں دیں، باپوں کے سامنے بیٹے ذبح ہوئے اور اس میں کوئی فرضی بات نہیں ہے.بیٹوں کے سامنے باپوں کو ذبح کیا گیا،گھر لٹ گئے ، ساری عمر کی جائدادیں لٹ گئیں لیکن یہ دکھ ان کے چہرے کی مسکراہٹیں نہیں چھین سکے تھے لیکن خدا کی قسم آج ان کے چہرے کی مسکراہٹ چھینی گئی کیونکہ ان کو خدا تعالیٰ کا نام بلند کرنے کی اجازت نہیں دی گئی.آج وہ اس طرح تڑپ رہے ہیں جس طرح بکرے ذبح کیا جاتے ہیں، جس طرح قربانیاں ذبح کی جاتی ہیں.اتنا دکھ اتنا گہرا دکھ کہ وہ انتظار میں ہیں کی کب میں ان کو زندگیاں پیش کرنے کا حکم دوں اور وہ اس ابتلا سے نکل جائیں.اس حالت میں وہ آپ کی دعاؤں کے شدید محتاج ہیں.کچھ ان کے لئے تڑپیں کچھ ؟ خدا کی قسم اصل میدان جس میں ہم نے جیتنا ہے وہ دعاؤں ہی کا میدان ہے.دعاؤں کے مقابل پر دنیا کی کوئی طاقت نہیں جیتا کرتی.خدا کے فضل حیرت انگیز
خطبات طاہر جلد ۳ 237 خطبه جمعه ۴ رمئی ۱۹۸۴ء معجزے دکھایا کرتے ہیں، خدا خود ظاہر ہو جایا کرتا ہے، آسمان سے خود اترا کرتا ہے ان بندوں کے لئے اس لئے آخری اور سب سے اہم یہ پیغام ہے کہ اپنے بھائیوں کے لئے بالخصوص جو پاکستان میں بے انتہا مظلومیت کی حالت میں دن گزار رہے ہیں کثرت سے دعائیں کریں، کثرت سے دعا ئیں کریں، ان کے لئے تڑپیں تا کہ اللہ کی رحمت جلد وہ اپنی آنکھوں کے سامنے نازل ہوتا دیکھیں.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ابھی نماز کے بعد ایک شہید احمدیت کا جنازہ بھی پڑھایا جائے گا.جو ( محترم قریشی عبدالرحمن صاحب ہمارے سکھر کے امیر تھے.75 سال ان کی عمر تھی اور موتیا کی وجہ سے وہ ایک دو گز سے زیادہ دیکھ بھی نہیں سکتے تھے.جس رات ان ظالموں نے آکر مسجد کا لفظ مٹایا ہے اس رات بہت دیر تک وہ اکیلے بیٹھے رہے.جب سب نمازی چلے گئے اور وہ خود خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے رہے اور جب واپس گئے تو بھرے بازار میں چار پانچ آدمیوں نے چاقو مار مار کے، اُن میں سے ہر ایک نے حصہ لیا اور انہیں وہیں موقع پر شہید کر دیا.اللہ بہتر جانتا ہے کہ انہوں نے کیا دعا کی تھی شاید یہی دعا قبول ہوئی ہو لیکن بہر حال وہ نعرے لگاتے رہے اللہ تعالیٰ کی تکبیر بلند کرتے رہے کہ خدا نے ہمیں اس ظلم کی توفیق بخشی ہے.ان کا جنازہ ہوگا سب سے اول اور سب سے اہم اس کے بعد چوہدری علی قاسم انور صاحب ہمارے نائب امیر بنگلہ دیش کے، وہ بڑے مخلص فدائی سلسلہ کے کارکن تھے اچانک ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ وفات پاگئے ہیں.ایک ہمارے نوجوان انگلستان کی جماعت کے وہ بھی اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے وفات پاگئے ہیں ابرار احمد صاحب قریشی ان تینوں کا جنازہ ہوگا نماز جمعہ کے معاً بعد اس لئے نماز جمعہ کے بعد احباب باہر تشریف لے جائیں.ایک جنازہ سامنے موجود ہے اس کو تو سامنے رکھنا ہے تو جب صف بندی ہو جائے گی تو میں بھی آجاؤں گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 239 خطبه جمعه ارمنی ۱۹۸۴ء انبیاء کا مخالفین کے مقابل پر دعا کا ہتھیار (خطبه جمعه فرموده ۱۱ارمئی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِيْنَ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ذلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيْدِ (ابراہیم : ۱۳ - ۱۵) قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ لِشُّعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوْا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كُرِهِيْنَ ) (الاعراف: ۸۹) وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَجِدِينَ قَالُوا أَمَنَّا بِرَبِّ الْعَلَمِينَ رَبِّ مُوسى وَهُرُونَ قَالَ فِرْعَوْنُ أَمَنْتُمُ بِهِ قَبْلَ انْ اذَنَ لَكُمْ إِنَّ هَذَا لَمَكْرُ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ لَا قَطِعَنَّ أَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ مِنْ خِلَافٍ ثُمَّ لَا صَلْبَنَّكُمْ
خطبات طاہر جلد ۳ 240 خطبہ جمعہ الارمئی ۱۹۸۴ء أَجْمَعِينَ قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبَّنَا مُنْقَلِبُونَ وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إلَّا أَنْ اُمَنَّا بِالتِ رَبَّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ (الاعراف:۱۲۱ - ۱۲۷) وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لاَنْفُسِهِمْ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمُ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ( آل عمران : ۱۷۹) اور پھر فرمایا: یہ تمام آیات جو میں نے آپ کے سامنے مختلف سورتوں سے اخذ کر کے تلاوت کی ہیں ان سے متعلق میں گزشتہ ایک سال میں مختلف خطبات میں اظہار خیال کر چکا ہوں اور ان کے مضمون کو جماعت کے سامنے مختلف شکلوں میں واضح کر چکا ہوں لیکن آج ان سب کو اکٹھا اس لئے میں نے پڑھا ہے کہ ان پر اجتماعی غور کرنے سے ایک نیا مضمون سامنے آتا ہے جس کا موجودہ حالات سے ایک بہت گہرا تعلق ہے اور ایک ایسا فلسفہ انسان کے سامنے ابھرتا ہے جو تاریخ انبیاء کے مطالعہ کے سوا انسان پر روشن نہیں ہوسکتا.ان آیات کے اجتماعی مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ظہور نبوت ہمیشہ ایسے حالات میں ہوتا ہے جب دنیا بالعموم یا کوئی قوم بالعموم دہر بیت کا شکار ہو چکی ہوتی ہے اور دہریت کے ساتھ ظہور نبوت کا ایک گہرا تعلق ہے.دیگر بد اعمالیاں بھی نبوت کی اصلاح کے تابع ہوتی ہیں لیکن دہر یت ایک ایسی بیماری ہے جب یہ خون میں داخل ہو جائے اور ایک زہر بن کر پھیل جائے تو اس کا علاج سوائے نبوت کے اور کوئی نہیں.چنانچہ جب قوم دہریت کی طرف مائل ہو جاتی ہے اس وقت ضرورت نبوت ہوتی ہے جیسا کہ پہلے کبھی نہیں پیش آئی ہوتی اور اس کے سوا چارہ کوئی نہیں رہتا.یہ دہریت ابتدا میں ایک مخفی حالت میں رہتی ہے.قو میں بظاہر مذاہب کی طرف منسوب ہوتی ہیں اور مذاہب کے نام پر بڑا افساد بھی بر پا کرتی ہیں اور بلند بانگ دعاوی بھی کرتی ہیں اور مذاہب کی تبلیغ میں بھی مصروف نظر آتی ہیں لیکن اندر سے ان کا ایمان کھایا جا چکا ہوتا ہے اور حقیقت میں اللہ کی ہستی پر ان کا ایمان اٹھ چکا ہوتا ہے.یہی وہ فلسفہ ہے جس
خطبات طاہر جلد ۳ 241 خطبه جمعه الارمئی ۱۹۸۴ء کو آنحضور ع نے ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ لو كان الايمان عند الثريالنا له رجل من هؤلاء يا رجال من هؤلا ( بخاری کتاب التفسیر باب قوله تعالی و آخرین منھم ) یعنی سورہ جمعہ میں جب آنحضور ﷺ کی بعثت ثانیہ کا ذکر آیا تو اس کی تشریح میں آپ نے صحابہ کے سامنے یہ نقطہ بیان فرمایا کہ دوبارہ آنے کی ضرورت یعنی میرے دوبارہ آنے کی کسی غلام کی شکل میں ضرورت اس لئے پیش آئے گی کہ ایمان ثریا پر جا چکا ہوگا یعنی عملاً وہ زمانہ دہریت کا زمانہ ہوگا.( صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ و آخرین منھم ) پس نبوت کا دہریت کے ساتھ ایک بڑا گہرا تعلق ہے ویسا ہی گہرا تعلق جیسے زہر کا تریاق کے ساتھ ہوا کرتا ہے اور جب زہر حد سے بڑھ جائے تو اسی قدر تریاق کی شدت بھی زیادہ ہونی چاہئے.چنانچہ نبوت وہ آخری علاج ہے زمانے کا اگر یہ ظاہر نہ ہو تو وہ زمانہ لازمامٹ جایا کرتا ہے.پس اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو ایک اور مضمون ابھرتا ہے اور یہ جو سارا مضمون ہے مختلف رنگ میں اللہ تعالیٰ نے ان آیات میں بیان فرمایا ہے.پہلی آیت جس کی میں نے تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضرت نوح" اور بعد میں آنے والے انبیاء کا ذکر فرما کر وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لِرُسُلِهِمْ جب بھی خدا کی طرف سے رسول آئے ہیں ان کےانکار کر نے والوں نے یہ کہا لَنُخْرِ جَنَّكُمْ مِنْ اَرْضِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا کہ ہم لازما تمہیں اپنی زمین سے نکال دیں گے اور بے وطن کر دیں گے یا یقینا تمہیں ہماری ملت میں لوٹ کر واپس آنا ہوگا.یہ کلمہ ہے دہریت کا کلمہ جب تک کوئی کہنے والا خدائی اختیار اپنے ہاتھ میں نہ لے اس وقت تک یہ فقرہ کہہ ہی نہیں سکتا کیونکہ وہ وطن جو سب کا مشترک وطن ہو اس کو یہ کہنا کہ یہ میرا وطن ہے اور میں اس وطن سے تمہیں نکال دوں گا یہ سوائے دہریت کے کلمہ ذہن میں آہی نہیں سکتا اور وطن سے نکالنے کا صرف یہ مطلب نہیں کہ جسم کے لحاظ سے اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے گا.وطن سے نکالنے کا یہ بھی مفہوم ہے اور انبیاء کی تاریخ سے ثابت ہے کہ شہری حقوق سے محروم کر دیا جائے گا، تم ہمارے برابر کے ہم وطن نہیں رہو گے خواہ تمہیں ہم زبردستی نکال دیں یا ویسے نکالیں.ان دونوں چیزوں کا نام وطن سے نکالنا ہے بلکہ وہ پہلی شکل بعض دفعہ زیادہ مرغوب ہوا کرتی ہیں قوموں کو کہ وطن سے نہ نکلنے دیا جائے اور پھر بھی بے وطن کر دیا جائے چنانچہ انہی آیات کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ فرعون نے یہی شکل اختیار کی تھی.اس نے کہا تھا کہ میں تمہیں یہاں رکھوں گا اور نہیں نکلنے دوں گا اور اس کے باوجود
خطبات طاہر جلد۳ 242 خطبه جمعه الارمئی ۱۹۸۴ء تمہیں میں بے وطن کر دوں گا، تم ایک مغلوب قوم کی طرح میرے تابع رہو گے اور نہایت درد ناک زندگی تمہاری ہوگی ورنہ تمہیں واپس ہماری ملت کی طرف لوٹ آنا ہوگا.تو بے وطن کرنے کا ایک یہ مضمون ہے جو دہریت کے سوا پیدا ہی نہیں ہو سکتا.اس موقعہ پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب جنگ واضح ہو جاتی ہے، معاملہ کھل جاتا ہے تو پھر میرے اور میرے بندوں کے مخالفین کے درمیان سے میرے بندے ایک طرف ہٹ جاتے ہیں اور درمیان میں کوئی نہیں رہتا پھر میں جانوں اور میرے بندوں کے مخالفین جانیں پھر یہ جنگ میری اور ان لوگوں کی شروع ہو جاتی ہے جو میرے بندوں کو میرے نام پر دکھ دیتے ہیں.لیکن اس مضمون پر مزید روشنی ڈالنے سے پہلے میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ان آیات کے مطالعہ سے بہت ہی واضح طور پر یہ بات انسان کے ذہن میں ابھرتی ہے کہ جب قوم کو کوئی نبی مخاطب کرتا ہے خدا کے نام پر تو جیسا کہ میں نے بیان کیا اس سے پہلے، اس واقعہ سے پہلے ان کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ دہر یہ ہو چکے ہیں.جب خدا کے نام پر مخاطب کیا جاتا ہے تب ان کو یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ہم تو کہانیوں میں ایمان لائے ہوئے تھے.گزشتہ زمانوں میں ایسے واقعات ہو گئے ہوں تو فرق کیا پڑتا ہے لیکن اس زمانے میں اس روشنی کے زمانے میں ہو کیسے سکتا ہے کہ ایک بندے سے خدا کلام کرے اور خدا کے نام پر وہ ہمارے اوپر مسلط کیا جائے اس لئے وہ اس کا انکار کر دیتے ہیں اور جب انکار کرتے ہیں تو قدم قدم پر ان کو اپنی دہریت کا اقرار کرنا پڑتا ہے کیونکہ نبوت کے مقابلے پر جس کے ساتھ عقل کل ہوتی ہے جس کے ساتھ ہر قسم کی منطق ہوتی ہے اور الہی نشان ہوتے ہیں اس کے مقابل پر سوائے اس کے کہ غیر معقول طرز اختیار کی جائے کوئی چارہ نہیں رہتا دشمن کے لئے اور غیر معقول طرز اختیار کرنے کے لئے ، دھاندلی اختیار کرنے کے لئے ، جبر کے لئے خدائی اختیار ہاتھ میں لینے پڑتے ہیں کیونکہ اگر خدائی اختیار نہ ہوں اور بندے کے برابر کے اختیار ہوں تو ان میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہیں کی جاسکتی.تو ایک مجبوری در پیش ہے مخالفین کو ان کو انکار نبوت دہر میت کی طرف دھکیل دیتا ہے اور پھر ان سے خدا نمودار ہوتا ہے اور وہ جھوٹا خدا سچے نبی کی مخالفت کا علم ہاتھ میں اٹھا کر تمام وہ ذرائع اختیار کرنے کی کوشش کرتا ہے انسانی فطرت جس کو دھکے دیتی ہے اور اس سے کراہت محسوس کرتی ہے.تو فطرت انسانی بھی نتھر کر الگ ہو جاتی ہے، معقولیت بھی نظر کر الگ ہو جاتی ہے، قربانیاں اور ایثار نتھر کر الگ
خطبات طاہر جلد۳ 243 خطبہ جمعہ ا ارمئی ۱۹۸۴ء ہو جاتے ہیں اور اس کے مقابل پر دھاندلی اور جبر اور غیر معقولیت اور تکبر اور خدائی کے دعوے یہ ایک طرف کھڑے ہو جاتے ہیں.اس کو کہتے ہیں لِيَمِينَ اللهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ (الانفال:۳۸) اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ ہم تمہیں اس حال پر رہنے دیں جس حال میں تم ہو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ خبیث اور طیب کی تمیز نہ کر دے.ایک Polarization وجود میں آتی ہے، ایک صف آرائی ہوتی ہے جس میں نا معقولیت، جبر، اپنی بات پر ضد اور دھاندلی اور دعوی خدائی ان معنوں میں کہ انسانی حقوق کی پامالی کا حق ایک قوم اختیار کر لیتی ہے اور اس کے مقابل پر بظاہر بے طاقتی اور بے بسی لیکن صبر اور معقولیت اور دلائل اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر ایمان اور پورا تو کل یہ نظر کر الگ ہو جاتے ہیں.تو یہ وہ آخری Polarization ہے، آخری صف آرائی ہے جس کے بعد پھر خدا کے دخل دینے کا وقت آتا ہے لیکن اس سے پہلے ایک اور واقعہ رونما ہو جاتا ہے جس کا قرآن کریم کی بعض اگلی آیات ذکر کریں گی.دوسری آیت جس کی میں نے تلاوت کی تھی اس میں اس مضمون کو استکبار کے ذریعے کھول کر بیان فرمایا - قَالَ الْمَلَأُ الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا مِنْ قَوْمِه که یہ دراصل دہریت کے نتیجہ میں نبوت کا انکار ہوا کرتا ہے کیونکہ استکبار اور دہریت ایک ہی چیز کے دونام ہیں.استکبار کہتے ہیں خدا کے کبر کو اس کی ذات سے چھین کر اپنی ذات کی طرف منسوب کر دینا.بڑائی تو صرف اللہ ہی کی ہے، اللہ اکبر میں یہی تعلیم دی جاتی ہے اگر انسان اپنے آپ کو اکبر کہنے لگ جائے تو اس کا نام ہے استکبار.وہ کبر جو کسی کی ذات کو زیبا نہ ہو، جو اس کا حق نہ ہوا سے وہ چھین کر کسی سے زبردستی اپنا لے.یہ باب استفعال سے استکبار نکلا ہے جس کے یہ معنی ہیں کہ کسی کی چیز کو اپنا لینا.استحصال جس طرح ہے چیز حاصل نہ کر سکے تو استحصال کرے، چھین لے ہضم کر لے ،غصب کرلے تو خدا تعالیٰ کا کبر چھین لینے کا نام استکبار ہے اور یہ سوائے دہریت کے پیدا نہیں ہوسکتا.حضرت شعیب کے مخالفین نے بھی اس آیت سے پتہ چلتا ہے یہی دعویٰ کیا لَنُخْرِجَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا یا تمہیں واپس لوٹ کر آنا ہوگا.اگلی آیت میں اس قوم کی یا ان لوگوں کی خدائی کا بھانڈہ پھوڑ دیا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 244 خطبہ جمعہ الارمئی ۱۹۸۴ء ،شعیب نے ایسا پیارا جواب دیا ہے کہ سارا Inflated غبارہ جو ہے وہ ایک دم Collapse کر کے بالکل بے معنی اور خالی ہو جاتا ہے اپنے استکبار سے.جواب وہ دیتے ہیں قَالَ أَوَلَوْ كُنا کرِهِینَ کہ تم کہتے ہو کہ ہماری ملت میں لوٹ آؤ تو ملت میں تو لوٹ آنا تو ذہن اور دل سے تعلق رکھنے والی بات ہے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہمارے دل قائل نہ ہوں اور تم زبردستی اپنی ملت میں ہمیں واپس لے آؤ.تو تم تو اتنے بے اختیار ہواے خدائی کے دعویدارو! کہ تمہارا تو اتنا بھی اثر نہیں ہے ہمارے دماغ اور دل پر کہ تمہاری تلوار میں ہمارے دماغوں اور دلوں کو یہ قائل کر سکیں کہ تمہاری ملت میں آنا بہتر ہے.کتنا عظیم الشان جواب ہے، اظہار درد کا بھی کمال ہے اور اظہار حکمت کا بھی کمال ایسی غالب دلیل دی ہے اس جھوٹی خدائی کے خلاف کہ جس کے سامنے کسی کی پیش نہیں جاسکتی کہ تم تو بہت بڑے بن رہے ہو تم تو کہتے ہو ہماری زمین ہے ہم تمہیں نکالیں گے یا ز بر دستی واپس لے آئیں گے تو حالت تمہاری یہ ہے کہ نہ ہمارے دل کو قائل کر سکو نہ دماغ کو قائل کر سکو.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ مضمون آگے بڑھ کر فرعونیت میں تبدیل ہو جاتا ہے کیونکہ ان تین مثالوں کے بعد پھر فرعون کی مثال آتی ہے اور جس میں ایک اور پیغام ہے وہ یہ ہے کہ جب تم کچی نبوت کا انکار کرو گے اور اپنے لئے خدائی کی صفات اپنے لئے ہتھیانے کی کوشش کرو گے تو تم پر ایک جھوٹا خدا مسلط کیا جائے گا جس کے قبضہ قدرت سے پھر تم نہیں نکل سکو گے اور دردناک عذاب میں مبتلا کئے جاؤ گے کیونکہ بچی نبوت سے اگر تم بچنا چاہتے ہو تو اس کا متبادل آزادی نہیں رہی اب.جب خدا فیصلہ کرتا ہے تمہیں اپنے قبضے میں لینے کا تو دو ہی شکلیں ہیں یا تمہیں اللہ کے قبضے میں آنا پڑے گا یا غیر اللہ کے قبضے میں جانا پڑے گا تو جو تمہارے انکار کا فلسفہ ہے جو نفسیاتی کیفیت انکار پر منتج ہورہی ہے وہ تو دہریت ہے اور خدائی کا دعوی ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ تم پر پھر ایک فرعون مسلط کیا جائے گا.اس مضمون کو اللہ تعالیٰ بیان فرماتا ہے کہ وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَجِدِينَ کو دیکھو جب جادوگروں نے جو فرعون کی تائید میں کھڑے تھے انہوں نے دیکھا کہ خدا موسٹی کی طرف ہے اور نہ ہماری طرف ہے اور نہ ہمارے فرعون کی طرف ہے تو باوجود اس کے کہ نہایت عاجز اور کمزور لوگ تھے قَالُوا أَمَنَّا بِرَبِّ الْعَلَمِینَ انہوں نے کہا کہ ہم تو رب العلمین پر ایمان لے آتے ہیں اور یہ وضاحت کرنے کے لئے کہ کہیں غلطی سے فرعون نہ یہ سمجھ لے کہ میں ہی رَبِّ الْعَلَمِینَ ہوں انہوں
خطبات طاہر جلد ۳ 245 خطبه جمعه ارمئی ۱۹۸۴ء نے مزید کہا کہ رب موسیٰ و ھارون ہم اس خدا کو رَبِّ الْعَلَمِینَ تسلیم کرتے ہیں جو موسیٰ اور ھارون کا خدا ہے.قَالَ فِرْعَوْنُ امَنتُم بِهِ قَبْلَ أَنْ اذَنَ لَكُم بڑے بیوقوف لوگ ہو اور بڑے سرکش ہو کہ میری اجازت کے بغیر کسی اور خدا پر ایمان لاتے ہو؟ گویا فرعون کا یہ کہنا بتا رہا ہے کہ وہ اپنے آپ کو رب العلمین سے بالا سمجھ رہا تھا، یہ کہہ رہا تھا کہ میرے سوا تو اور کوئی رب نہیں ہے جس کی تم اطاعت کرو اور مجھ سے پوچھے بغیر کسی ماتحت کی اطاعت کا تمہیں کوئی حق نہیں ہے چنانچہ کہتا ہے کہ دیکھو فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ اس جرات اور اس سرکشی کی سزا بھی میں تمہیں دوں گا اگر میں تمہارا خدا نہیں ہوں تو سزا دینے کا حق مجھے کیسے حاصل ہو گیا؟ سزا دینے کی طاقت مجھے کیسے نصیب ہوگئی اور سزا جو اس نے تجویز کی وہ یہ تھی لَا قَطِعَ أَيْدِيَكُمْ وَاَرْجُلَكُمْ کہ ہم تمہارے ہاتھ کاٹ دیں گے اور پاؤں کاٹ دیں گے بازو کاٹ دیں گے اور پاؤں کاٹ دیں گے مخالف سمتوں سے اور کلیتہ بیکا ر کر دیں گے.روزی سے محروم کرنے کے لئے اور انتہائی ذلت اور فلاکت کی حالت میں کسی قوم کو مبتلائے عذاب کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہو سکتا.ہاتھ کاٹنے سے مراد ہے روزی کے ذریعے کاٹ دیئے جائیں.ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں کہ کلیتہ ان کی اقتصادی حالت کو تباہ کر دیا جائے اور پاؤں کاٹنے سے مراد یہ ہے کہ جائے فرار نہ رہنے دی جائے ، وہ بھاگنا چاہیں تو ان کو نہ بھاگنے دیا جائے.چنانچہ فرعون نے آگے جا کر اس بات کو واضح کر دیا کہ میں تمہیں، ایک اور آیت میں بڑے کھلم کھلا کہتا ہے کہ یہ تو تمہیں یہاں سے بھگانا چاہتا ہے اور میں نہیں بھاگنے دوں گا تو گویاہاتھ بھی کاٹ دوں گا اور پاؤں بھی کاٹ دوں گا قَالُوا إِنَّا إِلَى رَبَّنَا مُنْقَلِبُونَ کہ تم جو خدائی کا ، اس میں ہر جگہ جو جواب ہے انبیاء کا حیرت انگیز ہے، اس میں اپنے ایمان کا اثبات بھی ہے، تو کل علی اللہ بھی ہے ، صبر اور مظلومیت بھی ہے اور ایک جھوٹے خدا کا ایسا منہ توڑ جواب ہے کہ اس کے بعد اس کا کوئی جواب ممکن نہیں رہتا.ان جادوگروں نے جو حضرت موسیٰ پر ایمان لے آئے تھے انہوں نے کہا کہ اچھا یہ سب کچھ تم کرو گے إنَّا إِلى رَبَّنَا مُنْقَلِبُونَ اگر تم یہ سب کچھ کرو گے تو ہم اپنے رب کی طرف لوٹ جائیں گے.کیسا عظیم الشان جواب ہے اس پر غور کریں تو فصاحت و بلاغت کا یہ ایک معراج ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 246 خطبه جمعه الارمئی ۱۹۸۴ء إنَّا إِلى رَبَّنَا مُنْقَلِبُونَ کہ تم تو دشمن خدا ہو جاؤ گے نا تم تو ایک مخالف خدا بن جاؤ گے.ہمارے اس لئے ہمارے پاس تم یہ سمجھو گے کہ ایک تمہارے ظلموں کے نتیجہ میں ہم تمہاری طرف آئیں گے! کتنے بیوقوفوں والا خیال ہے! ہمارے پاس تو اور بھی اس کے سوا چارہ نہیں رہے گا کہ اپنے خدا کی طرف لوٹ جائیں جو ہمارا رب ہے اور ہم اس کے قریب ہو جائیں گے جتنا تم ہمیں دور کرنے کی کوشش کرو گے کیونکہ ظلم کے نتیجہ میں تو ق میں دور ہٹا کرتی ہیں قریب نہیں آیا کرتیں کیسی حماقت ہے فرعون کی جس کو ظاہر کر دیا ان چند جادوگروں نے کہ تم کہتے ہو جبر کے ذریعے ہمیں واپس لے آؤ گے اور ہم تمہیں بتا رہے ہیں کہ جبر کے ذریعے ہم تمہاری طرف واپس نہیں آئیں گے.جس خدا کا تم انکار کر رہے ہو اس کی طرف زیادہ تیزی کے ساتھ دوڑیں گے اور اگر تم ہمیں ہلاک کرنے میں کامیاب ہو گئے تو تمہاری خدائی کا دعوی و یسے ہی جھوٹا ثابت ہو جائے گا کیونکہ اس دنیا کی ہلاکت کا مطلب ہے تمہارے چنگل سے آزادی پھر بھی تمہارے قریب نہیں رہتے ، پھر بھی اپنے رب ہی کی طرف لوٹ کر ہمیں جانا ہوگا.کیسی بے اختیاری ہے ان انسانوں کی جو خدائی کا دعوی کر دیتے ہیں جس کو اس جواب میں ظاہر کیا گیا ہے اور ساتھ ہی کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ تمہیں تکلیف کیا ہے؟ کس بات کا غصہ ہے وَمَا تَنْقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ أَمَنَّا بِايَتِ رَبَّنَا تم سوائے اس کے کسی بات کو برا نہیں منا رہے کہ ہم نے اپنے رب کے نشانات کو دیکھا اور انہیں قبول کیا جب وہ ہمارے پاس آئے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ اے خدا! یہ ہمارے ارادے ہیں کہ ہم تیری خاطر اپنا سب کچھ لٹانے کے لئے تیار بیٹھے ہیں لیکن ہم خدائی کے دعوے دار تو نہیں ، ہم تو عاجز بندے ہیں اس لئے یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اس کی توفیق پائیں گے جب تک تو توفیق نہیں دے گا.کیسا کامل مضمون ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے! اس کو کہتے ہیں قرآن کریم کی صداقت کا معجزہ اور نشان ، حیرت انگیز کتاب ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں آپ کو نہیں مل سکتی.ایک مربوط مضمون ہے جس میں صرف سطح پر من پر مضمون نہیں چل رہا بلکہ اس کے اندر ڈوبے ہوئے گہرے مضامین کا سلسلہ ساتھ ساتھ جاری ہے.رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا کہتے ہیں اے خدا! ہم تو تیرے نام پر یہ دعوے کر بیٹھے ہیں سب کچھ ، اپنے لئے تو ہم نے کچھ بھی نہیں کہا ہم تو یہ کہتے ہیں فرعون کو جو دنیا کا سب سے بڑا جابر ہے آج اور سلطنت کی طاقتوں پر قابض ہے کہ تو یہ سب کچھ کر اور ہم اس کے مقابلہ پر پہلے سے بڑھ کر
خطبات طاہر جلد ۳ 247 خطبه جمعه الارمئی ۱۹۸۴ء اپنے رب کے حضور حاضر ہوں گے اس لئے اے خدا! جب ہم نے تجھے رب تسلیم کر لیا ہے تو ہمارے ان دعووں کوسچا کر دکھا! أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا ہمیں صبر کی تو فیق عطا فرما او تَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ اور یہ ظالم چاہتے ہیں کہ ہم غیر مسلم ہو کر مریں لیکن خدا کی قسم ہم مسلم ہو کر مریں گے اگر تو ہمیں توفیق بخشے گا.یہی پیغام ہے آج ہر احمدی کے لئے ایک احمدی بھی غیر مسلم کے طور پر نہیں مرے گا ہر احمدی اگر جان دے گا تو مسلمان کے طور پر جان دے گا اور اللہ تعالیٰ سے صبر مانگتا ہوا جان دے گا.پھر خدا فرماتا ہے کہ یہ کچھ ظلم ہو بھی جائیں گے اور ہو سکتا ہے تم دیکھو کچھ دیر کے لئے مہلت مل رہی ہو لیکن اس مہلت سے تم نے گھبرانا نہیں ہے کیونکہ یہ ہماری تقدیر کا حصہ ہے ہم کچھ حصہ آزمائش کا ڈالا کرتے ہیں اپنے مومنوں پر اور وہ کیوں؟ اس لئے کہ اس کے بغیر خدا کا وجود ثابت نہیں ہوسکتا.امر واقعہ یہ ہے کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس میں دہریت اور خدا پر ایمان کی آخری جنگ کا نقشہ کھینچا گیا ہے اور یہ جنگ ہمیشہ نبوت کے ظہور پر پیدا ہوتی ہے دہریت اور ایمان باللہ یہ دونوں صف آرا ہو جاتے ہیں ایک دوسرے کے مقابل پر.اس وقت یہ ضروری ہے کہ ان لوگوں کی کمزوری اور بے چارگی کو ظاہر کیا جائے کیونکہ اگر وہ کمزور اور بے چارے اور بے بس نہ ہوں تو ان کی فتح کوئی معجزہ نہیں، ان کی فتح کسی خدا کی ہستی کا کوئی ثبوت نہیں، ایک طرف ظاہری طاقتیں اپنے عروج پر آجائیں اور ساری طاقتوں کے سرچشمے ان کے ہاتھوں میں چلے جائیں اس کے مقابل پر بالکل نہتے اور بے بس جن کے ہاتھ میں نہ اپنا رزق رہے نہ جائے فرار رہے ایسے لوگوں کو جب کچھ دیر کے لئے دکھ دیئے جاتے ہیں تو پھر جو ان کی فتح ہے وہ خدائی کو ثابت کرتی ہے، وہ بتاتی ہے کہ خدا اس کا ئنات کا موجود ہے چنانچہ فرمایاوَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُ و امومن تو صبر اور شکر کے ساتھ گزارے کرتے چلے جائیں گے اور اپنے خدا سے غافل نہیں ہوں گے دکھوں کے نتیجہ میں اور خدا سے دور ہٹنے کی بجائے جیسا کہ پچھلی آیت میں بیان ہوا تھا خدا کے اور بھی قریب جائیں گے لیکن ہو سکتا ہے کافر کسی جھوٹے زعم میں مبتلا ہو جائیں اور جھوٹی خوشی میں مبتلا ہو جائیں اور وہ یہ تعلی کر نے لگیں کہ دیکھو کوئی خدا نہیں تھا ان بندوں کا کوئی خدا نہیں تھا کیونکہ ہم نے ان کو ہر قسم کے عذاب دیئے اور ان کے تمام حقوق چھین لئے ، اس کے باوجود ان کی مددکو کوئی باہر کی طاقت نہیں آئی.یہ وہم نہ پیدا ہو جائے اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مومنوں کے لئے نہیں کافروں کے لئے کیونکہ مومنوں کا
خطبات طاہر جلد ۳ 248 خطبہ جمعہ الارمئی ۱۹۸۴ء نقشہ جو پہلے کھینچا گیا ہے اس میں تو ہر دکھ خدا کے قریب کرتا ہے مومن کو نہ کہ اس سے دور کرتا ہے تو فرمایا وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا اس وہم میں مبتلا نہ ہو جائیں انکار کرنے والے أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لِاَنْفُسِهِمْ کہ ہم جو انہیں مہلت دے رہے ہیں یہ ان کے لئے بہت اچھی بات ہے، بہت ڈھیل مل رہی ہے ان کو فرمایا اِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمَام انہیں مہلت دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے گناہوں میں اور بڑھ جائیں اور ان کا کفر اور ان کا تمر داوران کا خدائی کا دعویٰ اور کھل کر سامنے آجائے دنیا کے یہاں تک کہ کوئی شک کی گنجائش نہ رہے کسی کے لئے آج خدائی اور بے خدائی کی جنگ ہونے والی ہے.فرمایا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ جتنے بڑے وہ دعوے کرتے تھے اتنا ہی ذلیل کن عذاب ان کے لئے مقدر ہے.اس بات کو کوئی دنیا میں ٹال نہیں سکتا ایک ایسا مقدر ہے جسے کوئی تبدیل کر ہی نہیں سکتا چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی لئے فرمایا کہ اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ کو ملامت آنے والی ہے تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه: ۵۹۵) کتنا عظیم الشان دعوی ہے لیکن ایک عاجز بندے کا دعویٰ ہے اپنی طاقت کی بنا پر یہ دعویٰ نہیں یقین کی بنا پر دعوی ہے، کامل غیر متزلزل ایمان کی بنا پر دعویٰ ہے.یہ وہ صورت حال ہے جس میں مذہب کی فتح اور غیر مذہبی قوتوں کی شکست آخری شکل میں ظاہر ہوتی ہے.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ میں جماعت کو جب مجھ سے پوچھا گیا کہ کیا ہمیں کرنا چاہئے تو سب سے زیادہ میں نے دعاؤں کی طرف توجہ دلائی اور بعض لوگوں کو اطمینان نصیب نہیں ہوا کیونکہ اتنا جوش ہے طبیعتوں میں، اتنے ولولے ہیں اپنی زندگیاں پیش کرنے کے لئے، اپنی ہر چیز خدا کی راہ میں داؤ پر لگادینے کا جوش تو وہ کہتے ہیں آپ نے تو کچھ بھی ہمیں جواب میں نہیں بتایا، ٹھیک ہے دعا تو ہم کرتے ہی ہیں لیکن اور کچھ بتا ئیں تا کہ ہمیں تسلی ہو کہ ہم کچھ کر رہے ہیں.میں جماعت کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ جماعت کے مفاد میں، اسلام کے مفاد میں ان حدود کے اندر رہتے ہوئے جن کی قرآن کریم اجازت دیتا ہے جب بھی مجھے کسی قربانی کی کسی شخص کی
خطبات طاہر جلد ۳ 249 خطبه جمعه الارمئی ۱۹۸۴ء قربانی کی ضرورت پیش آئے گی کسی جماعت کی قربانی کی ضرورت پیش آئے گی میں ہرگز اس سے گریز نہیں کروں گا لیکن یہ صورت حال ایسی ہے کہ اس وقت سب سے بڑا ہتھیارا ہما را دعا ہے اور دعاؤں میں اپنے آپ کو اس طرح ہلکان کر دینے کی ضرورت ہے کہ ناممکن ہو جائے اللہ تعالیٰ کی رحمت کے لئے کہ وہ مزید دیر کرے.اس کے سوا اور کوئی اس وقت صورت حال ہے نہیں.کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ خفی کفر اور ظاہر کفر ان دونوں کی ایمان باللہ کے مقابل پر ایک جنگ چل رہی ہے اور جب آپ اپنے دلوں کو ٹولیں گے تو آپ پر یہ ایک حیرت انگیز انکشاف ہوگا کہ آپ کے اندر بھی یہ جنگ شروع ہو چکی ہے.پردہ غیب پر ان حالات میں ایمان لانا اور دعا کو ایک موثر ذریعہ سمجھنا یہ بھی ایک بہت بڑا امتحان ہوا کرتا ہے اور ہر مومن بھی ایمان کی ایک حالت پر نہیں ہوا کرتا بہت سے مومن ایسے ہوتے ہیں جب ان کے ذرائع یعنی مادی اور دنیاوی ذرائع کاٹ دیئے جاتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو بے بس سمجھ کر اس لئے دعا کرتے ہیں کہ اب اور کوئی چارہ نہیں رہا.یہ بھی ایک دہریت کی مخفی قسم ہے کیونکہ جو خدا کا بندہ ہے وہ سب سے پہلے خدا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور دنیاوی ذرائع کی طرف اس لئے متوجہ ہوتا ہے کہ میرے خدا کا حکم ہے کہ جو کچھ مقدور بھر ہے وہ تم ضرور کرو چنانچہ ایسی حالت میں حقیقت میں ایمان پہنچانا جاتا ہے جب کہ ذرائع ہاتھ سے مسدود ہو جائیں.پھر ایک اور طرح کا امتحان بھی آتا ہے اس وقت بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ دعا تو ہم کر رہے ہیں مگر ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں ہے، اس وقت ایمان بالغیب کے امتحان کا وقت ہوا کرتا ہے.اگر ایسی صورت میں جماعت یعنی ایک مظلوم جماعت جس پر ظلم کئے جارہے ہیں اور ساری مادہ پرستی کی طاقتیں اس کے مقابل پر کھڑی ہوگئی ہیں وہ اگر ایمان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑے اور دعا اس یقین سے کرے کہ لازماً قبول ہوگی ، ساری کائنات کی طاقتیں ہماری پشت پر کھڑی ہیں اور ہمارے مد مقابل کو وہم ہے کہ وہ طاقتور ہے.جب اس یقین سے دعا کی جاتی ہے تو الہی غیب اور دنیا کے حاضر کی لڑائی ہو جاتی ہے، وہ قوم جس کے ہاتھ میں کچھ بھی نہ آرہا ہو جب وہ دعا کرتی ہے تو ایمان بالغیب کا وہ امتحان کا وقت ہوا کرتا ہے اور اگر وہ یقین کرے کہ سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے تو عظیم الشان تبدیلیاں اس کے اندر پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہیں ، ساری فتوحات کے دروازے ایمان بالغیب کی راہ سے کھلتے ہیں.سب سے پہلے تو نفس کی اصلاح ہے، اللہ تعالیٰ کا قرب ہے جو دعا کے نتیجہ میں حاصل ہوتا
خطبات طاہر جلد۳ 250 خطبه جمعه ارمئی ۱۹۸۴ء ہے اور دل کے اندر انسان اپنے دہریت کے زنگوں کو دھونا شروع کر دیتا ہے،ساتھ ساتھ دعا کرتا ہے، ادھر سے خوف بڑھا ہوا ہوتا ہے دل ڈرا رہا ہوتا ہے کہ پتہ نہیں یہ ہتھیار کوئی ہے بھی کہ نہیں اور پھر جب اس کو توفیق ملتی ہے ایک آخری فیصلہ کرنے کی کہ ٹھیک ہے اگر خدا نہیں ہے تو پھر مقابل ضرور جیتے گا اور اگر خدا ہے تو لازماً اس کے مقدر میں شکست ہے اور ساری فتوحات میرے ہاتھ میں ہیں.تو آخری صورت پھر وہی بنتی ہے دہریت اور خدائی کی جنگ اور دعا کے ذریعہ بندہ اپنے بوجھ کو اپنے رب کی طرف منتقل کر رہا ہوتا ہے اور خود بیچ میں سے نکل جاتا ہے اس لئے جیسا کہ میں نے پہلے بھی زور دیا تھا آئندہ بھی اس بات پر زور دوں گا کہ سب سے زیادہ آج جو ہتھیار ہمارے کام آسکتا ہے وہ دعا کا ہتھیار ہے.اس سے زیادہ عظیم الشان کوئی ہتھیار نہیں ہے اور اگر یہ ہتھیار کام نہیں کرتا تو پھر کوئی خدا ہے.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ نے یہی دعا عرض کی اپنے رب کے حضور جنگ بدر میں نہیں اللهم إن أهلكتَ هذهِ العِصَابَةَ فَلَنْ تُعْبَدَ في الارض ابداً - (مسلم کتاب الجهاد والسير باب الامداد بالملانگته في غزوة بدر ) کہ اے خدا آج ان لوگوں کو تو نے مرنے دیا تو پھر تیری عبادت کبھی نہیں کی جائے گی کیونکہ یہی عبادت کا خلاصہ ہیں ، یہی وہ لوگ ہیں جو غیب پر ایمان لانے والے ہیں.یہ مٹ گئے تو دنیا داروں نے کہاں تیری پھر عبادت کرنی ہے اس لئے دعا سب سے اہم اور آخری اور فیصلہ کن ہتھیار ہے.اس ہتھیار کے ذریعے دنیا کی بڑی سے بڑی طاقتوں کے ٹکڑے اڑ سکتے ہیں اگر وہ خدا سے ٹکر لیں تو جماعت احمدیہ کا تو سب کچھ دعا ہے اس لئے جب میں دعا کہتا ہوں تو ہرگز یہ نہ سمجھیں کہ کوئی اور چیز سمجھ میں نہیں آ رہی ہوتی میں کہتا ہوں کہ چلو دعا ہی کرو نعوذ باللہ من ذلک ہرگز ایسی کوئی صورت نہیں.میں جانتا ہوں کہ دعا ہی کے ذریعہ سارے کام بنتے ہیں ، میں جانتا ہوں کہ دعا ہی کے ذریعہ جماعت احمدیہ کو تمام فتوحات نصیب ہوئی ہیں لیکن اس طرح دعا کریں جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا منگن جا سومرر ہے مرے سوئمنگن جا ایک محاورہ ہے پنجابی کا جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے استعمال فرمایا.بہر حال یہ بہت ہی پیارا پنجابی کا فقرہ ہے منگن جاسومر رھے مرے سومنکن جا کہ اگر تم نے مانگنے جانا ہے تو پھر مرجاؤ یعنی عجیب بات ہے کہ مرے سومنگن جا میں بھی بڑا لطیف ایک پیغام ہے کہ مانگنا خود ہی ایک ایسی چیز ہے جب انسان موت قبول کر لیتا ہے
خطبات طاہر جلد ۳ 251 خطبه جمعه ارمئی ۱۹۸۴ء اپنے اوپر پھر مانگنے پر آمادہ ہوا کرتا ہے.اپنی غیرت پر ، اپنے نفس پر ، اپنی انانیت پر اور اس کے بغیر مانگنا ہے ہی بے معنی تو خدا کے متعلق جب یہ استعمال ہوتا ہے فقرہ تو بہت عظیم الشان معنی اختیار کر لیتا ہے.منکن جاسومر ر ہے کہ جب خدا کے حضور مانگنے جاتے ہو تو اپنی انانیت، اپنی دنیا کی تدبیروں کا خدا، اپنے دوسرے ذرائع کو ساتھ لے کر کیوں چلتے ہو پہلے ان پر موت وار د کر لو کچھ بھی نہ چھوڑو اپنا اور پھر اس نیت سے جاؤ کہ مر جائیں گے اس راہ میں لے کر واپس آئیں گے، اس کے نتیجہ میں بکریوں کی طرح لوگ ذبح ہور ہے ہوتے ہیں، دعا میں ایک ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے مرے سومنگن جا اگر مر چکے ہو تو پھر جاؤ مانگنے اس کے بغیر تمہیں مانگنے کا کوئی لطف نہیں ، مانگنے کے کوئی معنی نہیں ہیں.تو جماعت احمد یہ جب ان معنوں میں اللہ تعالیٰ کے حضور جھکے گی اور گریہ وزاری کرے گی تو انشاء اللہ تعالیٰ دیکھتے دیکھتے عظیم الشان تبدیلیاں واقعہ ہوں گی.جس غیب پر آپ ایمان لاتے ہیں پھر غیب سے ہی تو ہاتھ ظاہر ہوں گے، آپ کسی حاضر پر تو ایمان لانہیں رہے.غیب کے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ وہاں سے آپ کی مدد کے لئے فرشتے اتریں جہاں سے دنیا ان کو دیکھ ہی نہیں سکتی، ایسی نصرت کے سامان پیدا ہوں کہ آپ کا تصور بھی نہیں جاسکتا کہ کہاں کہاں سے نصرت کے سامان پیدا ہوں گے، بارش کے قطروں کی طرح ہر طرف سے پھر اللہ تعالیٰ کی نصرت نازل ہونے لگ جاتی ہے لیکن یہ کامل یقین رکھیں کہ لازماً آپ نے جیتنا ہے ،سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کسی جھوٹے خدا کے جیتنے کا اور اس یقین کے ساتھ قربانی کے لئے تیار ہیں کیونکہ مرے سومنگن جامیں یہ پیغام بھی ہے کہ جب تم خدا کے حضور مانگنے کے لئے جارہے ہو تو اس کے حضور اپنی ہر چیز ، اپنی ہر خواہش پر بھی موت طاری کر لو پھر جو کچھ مٹ جاتا ہے مٹ جائے فرق ہی کوئی نہیں پڑتا.وہ قوم جو مرنے پر تیار ہو چکی ہوتی ہے مارنے پر نہیں بلکہ مرنے پر اس قوم کو دنیا میں کوئی شکست نہیں دے سکتا.چنانچہ یہ دوسرا واقعہ بھی جنگ بدر سے ہی ثابت ہے ، دعا کا آخری مفہوم بھی جنگ بدر سے پتہ چلتا ہے اور یہ مضمون بھی جنگ بدر سے ثابت ہوتا ہے چنانچہ جب آنحضرت ﷺ کے صحابہ اپنی نہایت غربت اور کسمپرسی کی حالت میں صف آرا تھے ، تین سو تیرہ جن میں بوڑھے بھی تھے ، بچے بھی تھے، ایسے بھی تھے جن کے ہاتھ میں لکڑیوں کی تلوار تھی ایسے بھی تھے جولنگڑے تھے ،ایسے غریب بھی تھے کہ جب وہ شہید ہوئے تو ان کے بدن کی چادر ان کو پورا ڈھانپ نہیں سکتی تھیں ، اوپر کا جسم ڈھانپتے تھے تو نیچے کا نگا ہو جاتا
خطبات طاہر جلد ۳ 252 خطبہ جمعہ الارمئی ۱۹۸۴ء تھا، نیچے کا ڈھانپتے تو اوپر کا نگا ہو جاتا، نہایت ہی کسمپرسی کی حالت تھی.اس کے مقابل پر ایک ہزار عرب کا چوٹی کا چنیدہ جوان سرخ اونٹوں پر سوار اور گھوڑوں پر سوار اور ساتھ ان کے طبلے اور بینڈ اور عور تیں جو مشہور جنگی گیت گایا کرتی تھیں اور مخالفین پر ان کی آواز میں ایک رعب طاری کر دیا کرتی تھیں اور اپنے ساتھیوں کے دلوں میں بڑے بڑے ولولے جاگنے لگتے تھے ان آوازوں سے.وہ طائفے بھی ساتھ تھے جو جنگی نغمے گانے کی بڑی چوٹی کی ماہرین عورتیں تھیں.تو اس حالت میں جب کفار مکہ نے ایک نمائندہ کو بھیجا کہ پتہ تو کرو که محد مصطفی ﷺ کے لشکر کا حال کیا ہے وہ ہیں کون لوگ جو ہمارے مقابل پر آئے ہیں تو وہ آدمی آیا اس نے ایک نظارہ کیا لشکر کا اور واپس گیا اور اس نے جا کے کہا کہ یہ حالت ہے اس لشکر کی اور سارا نقشہ کھینچا کہ تمہارے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں ، لولے لنگڑے، بڑھے، بیمار، کمزور نہتے لوگ ،غریب فاقہ کش، یہ تمہارے مقابلے پر نکلے ہیں لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ جیتیں گے وہی تم کبھی نہیں جیت سکتے.سننے والوں نے تعجب سے پوچھا کہ یہ تم کیا پاگلوں والی بات کر رہے ہو، اس نے کہا کہ یہ پاگلوں والی بات نہیں ہے میں جانتا ہوں میں وہاں تین سو تیرہ موتیں دیکھ کر آیا ہوں، تین سو تیرہ زندہ لوگ نہیں دیکھ کر آیا.ان میں سے ہر ایک یہ فیصلہ کر چکا ہے کہ ہم مر جائیں گے لیکن واپس نہیں جائیں گے اس لئے جب مرچکی ہو کوئی لڑنے والی قوم تو اس پر تم کبھی فتح نہیں پاسکتے.تمہارے اندر زندگی کی تمنائیں ہیں وہ اپنی زندگی کی تمنا ئیں چھوڑ آئے ہیں پیچھے، اس لئے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ جیتیں گے اور تم ہارو گے.تو اس رنگ میں دعا کریں کہ زندگی کی تمنائیں ختم کر چکے ہوں کچھ بھی باقی نہ رہے.اس سے ایک عجیب بے خوفی پیدا ہوتی ہے ایک نئی زندگی امن کی نصیب ہوتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس :۶۳) اس کا یہ بھی ایک مفہوم ہے کہ ولی تو تب بنتے ہیں جو سب کچھ دے بیٹھتے ہیں خدا کو، کہتے ہیں ہمارا نہیں ہمارے دوست کا ہو گیا، زندگیاں بھی ، سب چیزیں بھی.تو دشمن تو یہی چیزیں ان سے چھین سکتا ہے وہ تو ان کی رہتی نہیں ہیں.وہ کہتے ہیں ہر چیز ہمارے خدا کی ہو چکی ہے تو لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمُ اس کے نتیجہ میں ان کے سارے خوف دور ہو جاتے ہیں.تو اس رنگ میں دعائیں کریں اور یقین رکھیں، میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یقینا اور یقینا اور یقیناً مسیح موعود کے غلام جیتے گے اور اس کے مقابل پر تمام رکبر کی طاقتیں پارہ پارہ ہو جائیں گی.
خطبات طاہر جلد ۳ 253 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء پاکستان میں مخالفت اور احمدیت کی ترقیات (خطبه جمعه فرموده ۱۸ مئی ۱۹۸۴ بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت کی : ارَءَ يْتَ الَّذِي يَنْهَى عَبْدًا إِذَا صَلَّى أَرَعَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى أَرَعَيْتَ اِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى اَلَمْ يَعْلَمُ بِأَنَّ اللَّهَ يَرى كَلَّا لَ بِنْ لَّمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ قُ نَاصِيَةِ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ پھر فرمایا: (العلق: ۱۰-۱۹) قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کا ذکر کرتا ہے جو خدا کی عبادت سے اس کے بندوں کو روکتے ہیں اور ایک ایسے عجیب رنگ میں یہ ذکر فرمایا گیا ہے کہ اس کے معنی خاص بھی ہو جاتے ہیں اور عام بھی ہو جاتے ہیں محدود ہو کر ایک نقطے پر بھی سمٹ جاتے ہیں اور ایسی وسعت بھی اختیار کر جاتے ہیں کہ تمام بنی نوع انسان پر وہ حاوی ہو جاتے ہیں.آج کل جو پاکستان میں ہو رہا ہے جو کچھ ہو چکا ہے اس سے زیادہ بد ارادے دشمن کے ہیں اور وہ ارادے مختلف جگہوں سے مختلف مونہوں سے ظاہر بھی ہونے لگے ہیں اور ایسے ایسے لوگوں کے
خطبات طاہر جلد ۳ 254 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء منہ سے وہ ارادے ظاہر ہو رہے ہیں جو بالعموم بغیر کسی بات کے بغیر کسی سہارے کے منہ نہیں کھولا کرتے اس لئے اللہ بہتر جانتا ہے کہ کون ان باتوں کے پیچھے ہے؟ ان مخفی ارادوں کے اظہار کے لئے جو وقت چنا گیا ہے اس کے بعد آئندہ مستقبل میں کیا ارادے ہیں.لیکن ایک بات مجھے معلوم ہے کہ یہ ارادے کسی اور پر ظاہر ہوں یا نہ ہوں اللہ تعالیٰ پر ہمیشہ سے ظاہر تھے اور ہیں اور آج سے چودہ سو برس سے بھی زائد عرصہ سے پہلے قرآن کریم میں ان ارادوں کا ذکر موجود ہے اور ان کے نتائج کا بھی ذکر موجود ہے.مثلاً جو نئے ارادے ظاہر کئے گئے ہیں وہ یہ ہیں کہ ان کو ز بر دستی نماز با جماعت سے روک دیا جائے ، ان کی مسجدیں منہدم کر دی جائیں اور پھر علماء کی سرکردگی میں تمام ان کے چیلے اور ہم نوا جلوس کی شکل میں ان کو لے کر جائیں مقتل کی طرف اور وہاں ان کو سنگسار کیا جائے تب ہمارے دل ٹھنڈے ہوں گے.عجیب بات ہے کہ اگر سنگسار ہی کرنا ہے تو پھر مسجدیں توڑنے کا گناہ کیوں لیتے ہواور نمازوں سے روکنے کا گناہ کیوں سر پر لیتے ہو؟ جب عقلیں اکھڑ جاتی ہیں راستوں سے تو پھر کوئی بھی ان کی سمت نہیں رہا کرتی بھٹکتی رہتی ہیں مگر بہر حال اس سے غرض کوئی نہیں.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے جماعت احمد یہ ہر قربانی کے لئے تیار تھی اور ہے اور رہے گی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ خدا کی راہ میں جان دیتے ہوئے احمدی فزت برب الكَعْبَةِ کا نعرہ لگائیں گے کہ رب کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا.لیکن ان لوگوں کا کیا حال ہے اور کیا ہوگا ان کے متعلق میں نے قرآن کریم کی وہ آیات تلاوت کی ہیں جن میں نماز سے روکنے کا ذکر فرمایا گیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کیا تم نے دیکھا نہیں ایک ایسے شخص کو یعنی ہر اس شخص کو جو نماز سے روکتا ہے عَبْدًا إِذَا صَلی.خدا کے بندے کو جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہونے لگتا ہے عبدا میں نکرہ استعمال کیا گیا ہے اور العبد نہیں فرمایا یعنی خدا کے خاص بندے کو یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی علا اللہ کو عبدًا کی شکل میں ظاہر نہیں فرمایا.کیوں؟ اس لئے اس میں ایک حکمت ہے لیکن اس کے باوجود اولین طور پر آنحضور ﷺ ہی کا ذکر ہے کیونکہ تمام عبادتوں کا نقطۂ معراج آپ ہیں ،تمام عبادتیں آپ سے پھوٹتی ہیں اور بنی نوع انسان میں پھیلتی ہیں اس لئے عَبدًا میں ذکر بھی فرما دیا گیا اور اس لفظ کو عام بھی رکھا گیا.ذکر اس طرح فرمایا کہ نکرہ میں ایک یہ بھی معنے پائے جاتے ہیں کہ اگر کسی ہت عظیم الشان وجود کا ذکر کرنا ہو تو اس کو آل کے لفظ سے مخصوص کرنے کی بجائے نکرہ رہنے
خطبات طاہر جلد ۳ 255 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۸۴ء دیتے ہیں مثلار سولاً کہہ دیا جائے تو یہ بھی مراد ہوگی کہ بہت ہی بڑا رسول ، اتنا عظیم الشان رسول کہ وہ آل کا محتاج ہی نہیں ہے.ہے ہی وہی مراد ان معنوں میں اول ہی وہ سامنے آتا ہے.تو عبدا جب فرمایا گیا کہ عَبْدًا اِذَا صَلَّی تو مراد یہ ہے کہ ایک عظیم الشان خدا کا بندہ ہے اس سے بڑی عبادت کرنے والا پیدا ہی نہیں ہوا، ایسا ہے کہ جب عبد کا لفظ آئے تو اس کے سوا ذہن میں اور کوئی وجود ہی نہیں آتا خدا کی نسبت کے ساتھ تو اس لئے آل کی ضرورت ہی کوئی نہیں ،حضرت محمد صلى الله مصطفی ﷺ اول اور آخر اس میں ظاہر و باہر ہیں.تو یہ معنی بنے کہ اس بد بخت کو تو دیکھو جو حضرت محمد مصطفی عه یعنی عبد کامل کو عبادت سے روکتا ہے جب وہ کھڑا ہوتا ہے اور دوسرے عبدا کے ذریعہ اس کو عام بھی کر دیا گیا اور حیرت انگیز وسعت دے دی اس لفظ میں.یہ نہیں فرمایا کہ مومن کو جو روکتا ہے عبادت سے، یہ نہیں فرمایا کہ جو مسلم کو عبادت سے روکتا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ جو ابراہیم کی نسل والوں کو عبادت سے روکتا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ جو زرتشی کو عبادت سے روکتا ہے یا کنفیوشس کے مریدوں کو عبادت سے روکتا ہے.فرمایا میرا ہر بندہ میری عبادت کا حق رکھتا ہے خواہ اس کا کوئی مذہب ہو اور وہ سب سے بڑا ظالم انسان ہے جو میرے بندے اور میرے درمیان حائل ہونے کی کوشش کرتا ہے اس وقت جب کہ وہ مجھ سے تعلق قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے.تو دیکھئے کتنا عظیم الشان کلام ہے کہ ایک خاص انداز بیان کے ذریعے مفہوم کو ایک نقطے پر بھی اکٹھا کر دیتا ہے اور پھر اس طرح بکھیر دیتا ہے کہ تمام بنی نوع انسان اس میں شامل ہو جاتے ہیں، ہر مذہب و ملت کا انسان اس میں شامل ہو جاتا ہے، نہ ہندو اس سے باہر رہتا ہے، نہ سکھ اس سے باہر رہتا ہے، نہ عیسائی نہ یہودی، نہ زرتشی ، نہ بدھ تمام بنی نوع انسان کی عبادت کی حفاظت کرتا ہے یہ کلام.أَرَعَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوى اس میں بھی دو معنی ہیں اَرعَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى اَوْ اَمَرَ بِالتَّقویت کہ وہ یہ کیوں نہیں دیکھتا ظالم کہ اگر یہ جس کو وہ روک رہا ہے ہدایت پر ہوا اور تقویٰ پر قائم ہوا تو پھر اس روکنے والے کا کیا بنے گا اور دوسرا معنی یہ ہے کہ کاش اس کو یہ سمجھ آجاتی کہ وہ ہدایت پر رہتا اور تقویٰ سے کام لیتا اور ان معاملات میں دخل نہ دیتا جن میں دخل دینا اس کا کام نہیں ہے کیونکہ بندے اور خدا کے معاملے میں دخل دینے کا کسی انسان کو حق عطا نہیں کیا گیا.
خطبات طاہر جلد ۳ ہے 256 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء اگلی آیت کے بھی اسی طرح دو معانی بنیں گے اَرَعَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى کہ تم یہ سمجھ رہے ہو کہ ہم اس لئے روکنے کا حق رکھتے ہیں کہ كَذَّبَ وَتَوَلی کہ یہ جھوٹا ہے اور پھر گیا ہے دین سے اس لئے ہمیں حق ہے کہ ہم مداخلت کریں اور عبادت سے روک دیں اللہ تعالیٰ فرماتا ب الم يَعْلَمُ بِأَنَّ اللهَ يَری اے بیوقوفو! اے عقل کے اندھو! تم کیا خدا کو بھی اندھا سمجھ رہے ہو؟ جس کی وہ عبادت کر رہا ہے اگر یہ پھرا ہوا ہے، بے دین ہے، جھوٹا ہے تو اس کو بھی نظر نہیں آرہا کہ یہ جھوٹی عبادت کر رہا ہے اور صرف تمہیں دکھائی دے رہا ہے؟ کیسی عمدگی کے ساتھ اس دلیل کو تو ڑا گیا ہے، کلینتہ پارہ پارہ کر دیا گیا ہے اس دلیل کو کہ چونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ جھوٹا ہے ، ہم سمجھتے ہیں کہ اپنے دین سے پھرا ہوا ہے اس لئے اس کو عبادت کا حق نہیں دوسرے معنی یہ ہیں کہ أَرَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلی ان کو یہ خوف نہیں آتا کہ اگر وہ خود جھوٹے ہوں ،خود حق کی مخالفت کرنے والے اور سیچوں کی تکذیب کرنے والے ہوں اور خود دین سے پھر چکے ہوں تو پھر ان کا کیا بنے گا؟ پھر وہ ایک ایسے وجود کی مخالفت کر رہے ہوں گے،ایک ایسے عبادت کرنے والےکوروک رہے ہوں گے کہ وہ تو دین حق پر قائم ہے، ہدایت پر ہے اور تقویٰ پر ہے اور یہ کذاب ہیں اور یہ دین حق سے پھرے ہوئے ہیں.کتنا عظیم الشان کلام ہے جو آنحضرت محمد علیہ کی عظمت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور شرف انسانیت کو بھی قائم کر رہا ہے ساتھ ہی تمام بنی نوع انسان کی عظمت کو قائم کرتا ہے اور پھر فرمایا كَلَّا لَبِنْ لَّمْ يَنْتَهِ خبر در! ایسا نہیں ہوگا جیساوہ چاہتا ہے، ہم متنبہ کرتے ہیں کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے کیونکہ جب بندے اور خدا کی راہ میں کوئی حائل ہوتا ہے تو دو باتیں بڑی واضح ہیں ایک تو یہ کہ جب تک وہ بندہ کمزور نہ ہو جس کو عبادت سے روکا جا رہا ہے کوئی عبادت سے روک ہی نہیں سکتا ، سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اگر عیسائی طاقتور ہوں کہیں تو عیسائیوں کو عبادت سے نہیں روکا جاتا ، ہند و طاقتور ہوں تو ہندؤں کو تو عبادت سے نہیں روکا جاتا سکھ طاقتور ہوں تو ان کو بھی عبادت سے نہیں روکا جا تا اور اس وقت جو پاکستان قانون بنا ہے وہ صرف احمدیوں کے لئے ہے کسی طاقتور قوم کے مخالف وہ قانون نہیں ہے.تو اس میں تو یہ پہلے سے خبر دی گئی تھی کہ کمزور بندوں کے خلاف کچھ ہوگا اور ہونے والا ہے.كَلَّا لَبِنُ لَمْ يَنْتَهِ اگر وہ باز نہیں آئے گا تو اس کو یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ بندہ تو کمزور ہے کیونکہ اگر کمزور نہ ہوتا تو تم اس کو عبادت سے نہ روکتے لیکن وہ خدا کمزور نہیں ہے
خطبات طاہر جلد۳ 257 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء جس کی عبادت کے لئے کھڑا ہوا ہے ، جس کے حضور اس کی پیشانی بھکتی ہے جس کے حضور یہ سجدہ ریز ہوتا ہے اور اپنی گریہ وزاری اور بکا کے ساتھ ایک طوفان برپا کر دیتا ہے جس کے قدموں میں اس کے آنسو بہتے ہیں، وہ خدا کمزور نہیں ہے.كَلَّا لَبِنُ لَّمْ يَنْتَهِ خبر دار سن لے کہ اگر وہ باز نہ آیا ہم پکڑیں گے اس کی پیشانی کے بالوں سے اس کو اور جب ہم پکڑتے ہیں پیشانی کو تو لازماً وہ پیشانی جھوٹی ہوا کرتی ہے كَلَّا لَبِنْ لَّمْ يَنْتَهِ بڑی جھوٹی پیشانی ہے بڑی خطا کار پیشانی ہے نَاصِيَةِ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةِ لیکن اس سے پہلے فَلْيَدْعُ نَادِيَہ کے متعلق کچھ کہوں نَاصِيَةِ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ کا ذکر کیوں اس طرح آیا اس کے متعلق کچھ بتا تا ہوں.عبادت میں پیشانی کو ایک خاص مقام حاصل ہوا کرتا ہے.جب پیشانی خدا کی حضور زمین سے لگ جائے تو یہ بظاہر عجز کی انتہا لیکن حقیقت میں عبادت کا معراج ہے.سب سے زیادہ سر بلندی اس وقت انسان کو نصیب ہوتی ہے جب اس کی پیشانی خدا کے حضور پوری سچائی کے ساتھ زمین کے ساتھ لگ جاتی ہے تبھی اللہ تعالیٰ نے رَبّی اعلیٰ پڑھنے کا حکم فرمایا کہ اس وقت خدا اپنے اعلیٰ رب کو یادکرنا کیونکہ جس کے حضور تم جھکے ہو وہ خود بہت بلند ہے اور سب سے زیادہ بلند ہے تمہیں ان بلندیوں سے ہمکنار کر دے گا جن بلندیوں کا وہ خود مالک ہے.تو پیشانی عبادت کا مظہر ہوا کرتی ہے.اللہ تعالیٰ یہ پیغام دے رہا ہے ایسے لوگوں کو کہ جب تم نے میرے عاجز بندوں کی پیشانی کو میری راہ میں جھکنے سے روکا تو ثابت کر دیا کہ تمہاری پیشانیاں جھوٹی ہیں، تمہارے سارے سجدے اکارت گئے ،وہ نشان جو ظاہری بنے ہوئے ہیں ان کی کوئی بھی حقیقت نہیں میری نظر میں اس لئے ان جھوٹی پیشانیوں کو میں پکڑوں گا کیونکہ میرے بندوں کو یہ اختیار نہیں ہے کہ وہ ان پیشانیوں پر ہاتھ ڈال سکیں.فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ اور یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اپنے مددگاروں کو بلا ؤ فرمایا اپنی مجالس کو بلا ؤ تم نے بھی تو بہت سی مجالس بنا رکھی ہیں، اب آواز دو اپنی مجالس کو کہ وہ تمہاری مدد کریں فَلْيَدْعُ نَادِیے ہم اپنی پولیس کو بلائیں گے اور پھر دیکھیں گے کہ مجالس جیتی ہیں یا اللہ کے سپاہی جیتے ہیں جب وہ اترا کرتے ہیں کسی کی مددکو اور کسی کو ہلاک کرنے کے لئے ؟ کتنی حیرت انگیز صفائی کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے عبادت سے روکنے والوں کی نفسیات کا بھی ذکر فرمایا، عبادت کا فلسفہ بھی بیان فرمایا، یہ بھی بتادیا کہ آنحضرت ﷺ کی ذات میں یہ عبادت مجتمع ہو جاتی ہے اور پھر منتشر ہو کر کسی ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 258 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء شخص کو حق نہیں دیتی عبادت کا، تمام بنی نوع انسان کو برابر کا حق دے دیتی ہے رحمۃ للعالمین اس کو کہتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر عیسائیوں کو یہ تحریر لکھ کر دی کہ اگر کسی مسلمان نے ان کے گرجے کو بد نظر سے دیکھا، ان کی صلیبوں کو تو ڑا تو ان کا میرے ساتھ کوئی تعلق نہیں.قرآن کریم کی اسی قسم کی آیات کا تفسیری مظاہرہ ہے آنحضور ﷺ کا تو بہر حال جو ایک بدارادے پر قائم ہو جاتے ہیں بعض دفعہ وہ نہیں سمجھتے تنبیہات بریکار جایا کرتی ہیں اس لئے دعاؤں کی بھی ضرورت ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے، ان کو ایسے معاملات میں دخل اندازی سے باز رکھے جس میں دخل اندازی کا خدا نے کسی انسان کو حق نہیں عطا فرمایا.جہاں تک ہمارا تعلق ہے ہم تو یہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر نے ہمیشہ ان باتوں کے الٹ نتائج ظاہر کئے ہیں جو ہمارے خلاف دشمنوں نے مکر اور تدبیریں کیں.احمدیت کی تاریخ میں ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جب کہ دشمن کے ارادوں کے وہ نتائج ظاہر ہوئے ہوں اور ان کی تدابیر کے وہ نتائج برآمد ہوئے ہوں جو مقصد تھا انکا کہ ہم یہ کریں گے تو یہ نتیجہ نکلے گا.چنانچہ آپ دیکھ لیں جب بھی انہوں نے جب بھی جماعت احمدیہ کے مال لوٹے ہیں جماعت کے اموال میں برکت ہوئی، جب مسجدوں کو منہدم کیا ہماری مسجدوں میں برکت ہوئی ، ہمارے نفوس ذبح کئے ہمارے نفوس میں برکت ہوئی، جب قرآن کریم جلائے احمدیوں کے پکڑ کر حالانکہ وہ ہی قرآن تھا جو محمد مصطفی عمل اللہ کا قرآن تھا تو قرآن کی اشاعت میں بے شمار برکت ہوئی، جب انہوں نے تبلیغ پر پابندیاں لگا ئیں تو تبلیغ میں برکت ہوئی تو آپ دیکھ لیں کہ جب 1974 ء میں یہ فیصلہ ہوا کہ یہ غیر مسلم ہے تو اس سے یہ علما اس بات کو کھول چکے تھے کہ واقعہ یہ ہے کہ لوگ بھولے پن میں دھو کے میں آکر احمدی ہورہے ہیں جب تک ان پر مسلمان کا لیبل لگا ہوا ہے وہ ہوتے رہیں گے.جب مسلمان کا لیبل ہٹا دیں گے تو پھر دیکھنا کہ کس طرح لوگ رک جاتے ہیں، کسی کو جرات نہیں ہوگی کسی کو ہمت نہیں ہوگی کہ غیر مسلم کا بورڈ آگے لگا ہوا ہوا اور پھر حد کر اس کر کے پار اتر کر وہ غیر مسلموں میں شامل ہو جائیں لیکن ان کی ہر تد بیر کا خدا نے ہمیشہ الٹ نتیجہ نکالا اور 74ء کے بعد اتنی تیز رفتاری پیدا ہوگئی تبلیغ میں کہ ان کی عقلیں گم ہوگئیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ ہو کیا رہا ہے.جتنی بڑی دیوار بناتے ہیں اتنی بڑی بڑی
خطبات طاہر جلد ۳ 259 خطبه جمعه ۱۸ مئی ۱۹۸۴ء چھلانگیں لگا کر لوگ پارا تر نے شروع ہو جاتے ہیں، جتنا کر یہ المنظر بورڈ آویزاں کرتے ہیں اتنا ہی ذوق اور شوق اور محبت کے ساتھ لوگ ان کی طرف دوڑے چلے جارہے ہیں.یہی واقعہ تھا یہ گواہی ہے آج جو کچھ ہو رہا ہے اس حق میں کہ جو میں کہہ رہا ہوں وہ سو فیصد ہی درست بات ہے ، ان کو سمجھ آگئی کہ ہماری ہر تدبیر الٹ ہوگئی ہے ہر تد بیر نا کام ہوگئی ہے اس لئے اب آگے بڑھو اور اور روکیں کھڑی کرولیکن یہ نہیں جانتے کہ ہمارا خدا ہر روک کو توڑنا جانتا ہے جتنی روکیں تم کھڑی کرو گے اتنی زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ اور لوگ احمدیت میں داخل ہوں گے اور یہی ہو کر رہے گا.اب نمازوں سے روکنے کی طرف انہوں نے توجہ کی تو اس قدر ایک طوفان آ گیا ہے روحانیت کا کہ آپ تصور نہیں کر سکتے ، چھوٹے چھوٹے بچے خط لکھتے ہیں اور رو رو کر وہ کہتے ہیں کہ ہم اپنے آنسوؤں سے یہ خط لکھ رہے ہیں کہ خدا کی قسم ہمیں ایک نئی روحانیت عطا ہوگئی ، ہم تہجدوں میں اٹھنے لگے، ہماری عبادتوں کی کیفیت بدل گئی ہے.اس جماعت کو کون مارسکتا ہے جس کے مقابل پر ہر تدبیر خدا نے الٹادی ہو؟ عبادتوں پر حملہ کیا تو جن بچوں کے متعلق آپ تصور بھی نہیں کر سکتے تھے وہ پانچ نمازیں بھی نہیں پڑھا کرتے تھے آج وہ تہجد میں اٹھ کر روتے ہیں اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں اور نمازوں کا لطف حاصل ہو گیا ہے ان کو.تو یہ تو بہر حال خدا کی ایک ایسی تقدیر ہے جو نہیں بدل سکتی، ساری کائنات مل کر زور لگا لے اس تقدیر کو کوئی نہیں بدل سکے گی، جتنی یہ مخالفتوں میں زیادہ بڑھیں گے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ جماعت کو ہر اس سمت میں برکت دے گا جس سمت میں یہ روکنے کی کوشش کریں گے.اس لئے مبارک ہو آپ کو کہ ان کے ارادے بہت بد ہیں کیونکہ خدا کے ارادے بہت ہی نیک ہیں ہمارے حق میں ہر بدار ادے کو توڑ دیا جائے گا اور الٹ نتیجے پیدا کئے جائیں گے لیکن ایک یہ بات بھی ہے کہ جب خدا کی تقدیر کی ہوا چلتی ہے تو ہماری تقدیروں کو بھی تو اس کی سمت میں چلنا چاہئے اسی طرف قدم اٹھانے چاہئے، یہ تو نہیں ہوا کرتا کہ خوش گوار ہوائیں چلیں تو کشتی والے اپنے بادبان لپیٹ لیں ، وہ تو کھول دیتے ہیں بادبانوں کو اور اسی کا نام تدبیر ہے.خدا کی تقدیر کے رخ پر قوموں کو تد بیر اختیار کرنی چاہئے ، اس وقت تو بعض اوقات چپو بھی لہرانے لگتے ہیں ساتھ کہ پھر کبھی ایسی اچھی ہوا ملے کہ نہ ملے اس لئے اپنے دست بازو کی کوشش کو بھی ساتھ شامل کر لو.آج وہی وقت
خطبات طاہر جلد ۳ 260 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء ہے جماعت پر اس لئے ہر تدبیر کے مقابل پر ہم بھی ایک خدا کی تقدیر کے تابع ہیں اس کی ہواؤں کے رخ پر چلنے والی تدبیر کو ظاہر کریں گے اور یہی جماعت کا ہمیشہ سے طریق رہا ہے اور یہی انشاء اللہ تعالیٰ ہوکر رہے گا.چنانچہ اس ضمن میں میں ایک سات نکات کا پروگرام آپ کے سامنے رکھتا ہوں.عبادت کو روکنے کی انہوں نے کوشش کی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے تمام دنیا میں ہر احمدی اپنی عبادت کے معیار کو بلند کر دے یعنی اپنے عجز کو، بجز کے معیار کو ایسا بلند کرے کہ خدا کے حضور اور زیادہ جھک جائے ، اس کی روح سجدہ ریز رہے خدا کے حضور اور وہ اپنی زندگی کو عبادت میں ملا جلا دے ایسے گویا کہ اس کی زندگی عبادت بن گئی ہو.عبادت والوں کو خدا کبھی ضائع نہیں کیا کرتا اور عبادت سے روکنے والوں کو کبھی خدا نے پنے نہیں دیا.سب سے زیادہ قوی ہتھیا عبادت ہے ایک روحانی جماعت کے ہاتھ میں یہ دعائیں وغیرہ یہ سب عبادت کا حصہ ہیں اس لئے وہ کہتے ہیں کہ ہم عبادت سے روکیں گے تو ہم عبادت میں پہلے سے بڑھ جائیں گے یہی جواب ہونا چاہئے.مجھ سے لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کی سی آئی ڈی پھر رہی ہے ہر جگہ، ہر جگہ لوگ ٹوئیں لیتے پھر رہے ہیں کہ ان کا رد عمل کیا ہے کہ ہمارا رد عمل تو وہی ہوگا جو الہی جماعتوں کا ہوا کرتا ہے.جس سمت میں تم روکیں ڈالو گے اس سمت کے مخالف ہمارا رد عمل ہوگا، اللہ کی تقدیر کے مطابق ہمارا ردعمل ہوگا.ایک مذہبی جماعت کا اول رد عمل یہ ہوتا ہے کہ جب خدا سے دور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ اور خدا کے قریب ہو جاتی ہیں.پس عبادت سب سے اہم بات ہے.لوگ پوچھتے ہیں کہ ہمیں قربانی کی طرف بلاؤ، بتاؤ کیا کرنا ہے؟ آپ اگر اپنا وقت خدا کی خاطر قربان نہیں کر سکتے ، اگر آپ اللہ کے حضور عبادت کا حق ادا نہیں کر سکتے تو باقی قربانیاں بے معنی ہیں کیونکہ یہی مقصد حیات ہے، اس کی خاطر خدا نے انسان اور جن کو پیدا فرمایا اس لئے عبادت پہلا جواب ہے اور یہی سب سے اہم طریقہ کا رہے ہمارے ہاتھ میں ، یہی سب سے بڑی تدبیر ہے ہماری اس لئے اس تدبیر پر زور ماریں جس حد تک ممکن ہے عبادت کی طرف توجہ کریں ، اپنے گھروں کو جگا دیں عبادت کے لئے.بچہ بچہ، بوڑھا بوڑھا، عورتیں، مردسارے عبادت گزار خدا کے بندے بن جائیں.
خطبات طاہر جلد ۳.261 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء دوسرا ہمیں تبلیغ سے روکا جا رہا ہے اس لئے ظاہر بات ہے کہ الٹ رد عمل ہوگا.رد عمل تو کہتے ہی اس بات کو ہیں کہ کوئی چیز جس طرف سے رو کے اس کے مخالف ایک قوت پیدا ہو جائے اور یہی زندگی کی ایک نشانی ہے اس لئے ہم تو زندہ قوم ہیں اللہ کے فضل سے ہمیں تو جس سمت میں تم روکو گے اس سمت میں آگے بڑھیں گے اپنے رب کے فضل کے ساتھ اور اس کی نصرت کے ساتھ اس لئے تبلیغ کو پہلے سے کئی گنا زیادہ تیز کر دیں.مجھے علم ہے کہ پہلے سے بہت زیادہ تعداد میں لوگ تبلیغ میں مصروف ہیں.کئی نوجوان بھی ہیں ہمارے ہاں اس وقت اس جمعہ میں بھی بیٹھے ہوئے ہیں کہ ایک ہندو سے مسلمان ہونے والے نوجوان جنکو احمدی نوجوانوں نے تبلیغ کی ہے عیسائیوں سے بھی انفرادی تبلیغ کے نتیجہ میں مسلمان ہورہے ہیں، قادیان سے خبریں آرہی ہیں اور سارے ماحول میں حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہو رہی ہے.ہندوستان کے بعض علاقوں میں ایسی تبدیلی پیدا ہورہی ہے کہ جہاں پارٹیشن سے لے کر اب تک پندرہ سو ایک جگہ احمدیوں کی تعداد تھی اب پچھلے چند مہینوں میں وہاں ڈھائی ہزار نئے احمدی شامل ہو چکے ہیں ان میں اور سارے پنجاب میں ایک تبدیلی واقع ہورہی ہے اس لئے کہ انہوں نے انفرادی تبلیغ پر زور دیا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی کوششوں سے بہت ہی زیادہ غیر معمولی طور پر پھل نصیب ہوئے.تو ہر جگہ ہر مذہب میں ہر طبقہ فکر میں تبلیغ کو تیز کرنا ہے اور انفرادی تبلیغ پر زور دینا ہے اور ہر احمدی عہد کرے کہ اب میں نے اگر پہلے ایک بنانا تھا تو اب پانچ بناؤں گا اور اگر اور زور ڈالیں گے کہ تبلیغ بند کرنی ہے تو پھر میں دس بنا کے دکھاؤں گا اور اللہ کے فضل سے جب آپ خدا کی خاطر یہ عہد کریں گے تو خدا پورا کرنے کی توفیق بھی عطا فرمائے گا اور اس میں ہر طبقہ کے احمدی کو شامل ہونا ضروری ہے.ہمارے اندر کوئی چوہدریوں کا طبقہ نہیں ہے کہ وہ سمجھیں کہ ہم چونکہ بڑے لوگ ہیں اس لئے ہم تبلیغ نہیں کر سکتے ، ہم اپنے طبقے میں شرماتے ہیں تبلیغ کرنے سے یہ تو درمیانے لوگوں کا کام ہے.اگر یہ درمیانے لوگوں کا کام ہے تو درمیانوں کو خدا بڑا کرے گا اور ان کو چھوٹا کر دے گا جو اپنی بڑائی کی وجہ سے تبلیغ سے باز رہتے ہیں، خدا کی خاطر تبلیغ سے شرمانا! کون ہے جو خدا کے حضور بڑا ہوسکتا ہے؟ وہی جو خدا کے حضور گرنا جانتا ہو اس لئے ہر گز کوئی خیال نہیں کرنا کہ میں کس طبقے سے تعلق رکھتا ہوں؟ لوگ کیا کہیں گے یہ سیاست دان تھا، اتنا بڑا سائنس دان تھا، یہ اتنا بڑا بیوروکریٹ تھا، اس
خطبات طاہر جلد ۳ 262 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء کو کیا ہوگیا ہے کہ اپنے دوستوں میں تبلیغ شروع کر دی ہے؟ اچھے بھلے ہمارے تعلقات، اچھے بھلے ہمارے مراسم ، اس کا مذہب اپنی جگہ میرا اپنی جگہ تبلیغ تو کبھی اس نے نہیں کی تھی پہلے.اس شرم کو توڑنا ہے یہ جھوٹی شرم ہے اور احمدیت کی راہ میں روک بنی ہوئی ہے اس لئے جب دشمن نے للکارا ہے تو غور کریں کہ کیا کیا نقائص ہیں آپ کے، ان نقائص کو دور کریں.لٹریچر کی اشاعت پر پابندی ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم اور اس کی توفیق کے ساتھ ساری دنیا میں اشاعت لٹریچر کے کام کوکئی گنا زیادہ بڑھا دینا ہے اتنا کہ ان سے سنبھالا نہ جائے، جتنی فرضی دنیا کی دولتیں ان کی پس پشت پر ہوں میں جانتا ہوں کہ کس قسم کا لٹریچر یہ شائع کرنا چاہتے ہیں اور کر رہے ہیں اور کہاں سے پیسہ آ رہا ہے لیکن ہمارے غریبانہ پیسے میں جو خدا نے برکت دینی ہے اس کے ساتھ دنیا کے پیسے کا مقابلہ ہی کوئی نہیں ہو سکتا ، اس پیسے میں تو جلنے کی سرشت شامل ہے اس لئے وہ پیسہ تو جل کر خاک ہو جائے گا.جماعت احمدیہ کا پیسہ تو آنسوؤں سے بنتا ہے یہ تو جل ہی نہیں سکتا دنیا کی طاقتوں کے مقابل پر اس لئے جماعت کے پیسے میں بہت برکت ہوگی انشاء اللہ تعالیٰ.تمام دنیا میں اشاعت کتب کا ، اشاعت لٹریچر کا ایک بہت زبر دست منصوبہ ہے میرے ذہن میں جس کو انشاء اللہ تعالیٰ حسب توفیق آہستہ آہستہ کھولوں گا اور جہاں تک خدا توفیق عطا فرمائے گا اس پر عمل درآمد شروع کیا جائے گا.لٹریچر کی اشاعت میں نئی زبانوں کو شامل کرنا ہے اور اس ذریعہ سے کثرت کے ساتھ ایسے ممالک میں داخل ہونا ہے جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی، ایسی قوموں میں داخل ہونا ہے جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی، ایسے طبقات میں داخل ہونا ہے جہاں ابھی تک احمدیت داخل نہیں ہوئی اور بہت سے جزیرے بنے ہوئے ہیں، بہت سے خلا ہیں، کئی قسم کے لوگ ہیں، کئی قسم کی بولیاں بولنے والے، کئی قسم کے طبقات فکر سے تعلق رکھنے والے،اتنے بڑے بڑے خلا ہیں جن تک ہم ابھی اس لئے نہیں پہنچ سکتے ہیں کہ ہمارے پاس لٹریچر نہیں ہے.تو نہ صرف یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب اور موجود لٹریچر کو زیادہ شائع کرنا ہے بلکہ نئی زبانوں میں لٹریچر پیدا کرنا ہے لہذا ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت پیش آئے گی ، ترجمہ کرنے والوں کو اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کرنا پڑے گا اور کثرت سے ایسے رضا کار چاہئے ہوں گے جو دن رات اس کام میں مدد
خطبات طاہر جلد ۳ 263 خطبه جمعه ۸ ارمئی ۱۹۸۴ء.مثلاً ہمارے یہاں ایک گجراتی جانے والا خاندان ہے انہوں نے ہی مجھے مشورہ دیا اورلکھا ایک خط چند دن ہوئے کہ گجراتی زبان میں بہت بڑا خلا ہے اس کی طرف توجہ کرنی چاہئے یہ بالکل درست ہے اور گجراتی لوگوں میں نیکی بھی، احمدیت کی مخالفت نیکی کی وجہ سے کرتے ہیں اپنی طرف سے اور ان کو کچھ علم نہیں کہ جماعت احمد یہ کیا ہے چنانچہ بسا اوقات ایسا ہوا ہے جو لکھوکھا روپیہ دیا کرتے تھے جماعت کی مخالفت میں جب ان کو علم ہوا کہ کس قماش کے لوگوں کو دے رہے ہیں اور کیسے لوگ ہیں جن کی مخالفت میں دے رہے ہیں تو وہ باز آگئے، فوراً انہوں نے ہاتھ روک لیا.تو ان کے اندر ایک سادگی بھی ہے ایک بنیادی شرافت موجود ہے اس لئے اس طبقے کو ضرور ہمیں مخاطب کرنا چاہئے اور جولوگ گجراتی جانتے ہیں ان کو پیش کرنا چاہئے کہ ہم گجراتی میں تیار ہیں لٹریچر کے تراجم کے لئے.اسی طرح فرنچ میں تو پہلے بھی ہیں مگر بہت زیادہ ضرورت ہے، اٹالین تقریباً خالی پڑی ہے، سپینش میں اللہ تعالیٰ نے آدمی دے دیئے ہیں لیکن ابھی کافی کام باقی ہے، اسی طرح پولش ہے، چیکوسلواکین ہے اور اس طرح یوگو سلاو کی کئی زبانیں ہیں، البانین ہے سلاوک اور ایک زبان کہلاتی ہے رشین زبان میں تو بہت بڑا خلا ہے.ہنگرین زبان ہے بہت ساری زبانیں ہیں جن میں تقریباً خلا ہے کلیتہ جماعت کے لٹریچر کا.تو اس کے لئے انشاء اللہ تعالیٰ کوشش کی جائے گی.اور لٹریچر کی اشاعت کے ساتھ سمعی و بصری ذرائع کے متعلق ایک الگ پروگرام ہے چنانچہ اس سلسلہ میں میری بعض غیر ملکیوں سے بات ہوئی ہے اور وہ اس بات پر تیار ہیں کہ اگر انگریزی میں ان کو ہم کیسٹس تیار کر دیں تو وہ اپنی زبان میں کچھ اجرت پر اور بعض ویسے تیار تھے شوقیہ کہ ہم خدمت کے لئے تیار ہیں اپنی زبان میں اس کا ترجمہ کریں گے اور پھر اچھی طرح بھر پور آواز کے ساتھ اس کو بھر دیں گے تو بکثرت یہ کام پھیلایا جا سکتا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ.لٹریچر کی تقسیم میں بھی بعض دقتیں ہوتی ہیں، لٹریچر کی طباعت میں بھی بعض وقتیں ہوتی ہیں اور زیادہ روپیہ پھنسانا پڑتا ہے لیکن آڈیو ویژول یعنی سمعی و بصری ذرائع کو اگر ہم استعمال کریں تو فوری کام شروع ہوسکتا ہے اور تھوڑے خرچ سے اور آج کل زمانہ بھی ایسا ہے کہ آہستہ آہستہ طبیعتیں نظر کونرمی کا عادی بنا رہی ہیں یعنی آسانی پیدا کر رہی ہیں نظر کے لئے بھی ، بیٹھ کر passively وہ ایک نظارہ دیکھ لیں اور خود بخود کانوں میں ایک آواز آ رہی ہو اس کو زیادہ پسند کرتے ہیں بہ نسبت اس کے کہ محنت سے توجہ سے
خطبات طاہر جلد ۳ 264 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء پڑھیں.تو اس میں کچھ خرابیاں بھی ہیں کچھ بدقسمتی بھی ہے اس دور میں لیکن فوائد بھی کچھ ہیں.تو ہمیں دونوں طرح کے مزاج کے لوگوں کو احمدیت اور اسلام کی طرف متوجہ کرنا ہے اس لئے یہ ایک الگ سکیم چلے گی ساتھ.قرآن کریم کی اشاعت کے کام کو تیز کرنا ہے اور نئی زبانوں میں اب اس کو شائع کرنا ہے.اس وقت اب خدا کے فضل سے فرانسیسی کا کام تقریباً مکمل ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ ایک مہینہ یا دو مہینے میں جیسا کہ آفتاب احمد خان صاحب جن کے سپرد یہ کام ہے وہ مجھے تسلی دلاتے ہیں کہ مہینے یا دو مہینے تک انشاء اللہ پریس میں چلا جائے گا.اٹالین کے متعلق ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ذمہ داری لی تھی کہ ترجمہ اور اس کی تصحیح اور دہرائی وغیرہ وہ سارا اپنے خرچ پر کریں گے چنانچہ ان کی طرف سے ان کی بیگم نے تین دن ہوئے خوش خبری دی تھی کہ آدھا کام ہو چکا ہے اللہ کے فضل سے.اسی طرح اور زبان روسی ہے، روسی میں قرآن کریم کا ترجمہ موجود تو ہے لیکن ہمیں ابھی تسلی نہیں کہ وہ بعینہ قرآن کے مطابق بھی ہے کہ نہیں اس لئے کچھ روسی جاننے والے سکالرز کی ضرورت ہے اور کچھ کو ہم تیار کر رہے ہیں.وہ تو ایسے ہیں اللہ کے فضل سے جامعہ احمدیہ سے فارغ التحصیل ہیں، دین کا علم بھی خوب جانتے ہیں اور اگر وہ روسی زبان سیکھ جائیں گے تو پھر انشاءاللہ تعالی تسلی ہوگی کہ یہ جو ہمارا ترجمہ ہے قرآن کے مطابق ہے بالکل.مگر اور بھی اگر دنیا میں کہیں روسی زبان کے احمدی ماہر ین ہوں جیسا کہ ہندوستان میں مجھے علم ہے کہ ایک ہیں لیکن بدقسمتی سے وہ کچھ ٹھنڈے ہو گئے ہیں خدمت دین میں تو بہر حال جس کے کان میں بھی میری آواز پڑے وہ روسی زبان میں مدد کر سکتا ہو اسے اپنا نام پیش کرنا چاہئے.ان اغراض کو پورا کرنے کے لئے ایک بہت بڑے Complax کی ضرورت ہے اور ایک جگہ نہیں کئی جگہ کہ جن مختلف ملکوں میں ہم ایسی تعمیرات کریں ایسے بڑے بڑے مشن قائم کریں جن میں ان ساری چیزوں کے لئے سامان مہیا ہوں اور پھر مختلف ملکوں کے سپر د مختلف کام کردیں کیونکہ یہ بہت بڑے کام ہیں.یہ انگلستان کے بس کی بات ہی نہیں ہے یا جرمنی کے بس کی یا صرف امریکہ کے بس کی ، تمام دنیا میں ایسے بڑے بڑے مراکز قائم کرنے پڑیں گے جن کے سپرد کر دیا جائے گا کہ اس کام کا بیڑا آپ اٹھا لیں، اس کام کا فلاں مشن اٹھا لے.اس کام کا فلاں مشن اٹھائے
خطبات طاہر جلد ۳ 265 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء اس غرض سے امریکہ میں پہلے سے میری سکیم یہ تھی کہ پانچ بڑے مراکز قائم کئے جائیں.اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت امریکہ نے بہت وسعت قلبی سے قربانی کا مظاہرہ کیا ہے اور بعض جگہ تو حیرت انگیز قربانی کا مظاہرہ ہوا ہے کہ انسان کی روح وجد کرنے لگتی ہے.اپنی ساری عمر کی کمائیاں بعض لوگوں نے پیش کر دی ہیں اور بڑے جوش و خروش کے ساتھ اپنے مکان چھوڑ دیئے دوسرے کام چھوڑ دیئے اور اس طرف توجہ کی لیکن ایک ابھی بڑا طبقہ وہاں بھی موجود ہے جو اپنے معیار اور توفیق کے مطابق ابھی سامنے نہیں آیا لیکن بہر حال مجھے شیخ مبارک احمد صاحب نے جائزہ لینے کے بعد تسلی دلائی ہے کہ اس وقت تک ہمیں تسلی ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ امریکہ خود اس بوجھ کو اٹھا لے گا اور کام پیچھے نہیں رہیں گے پیسے کی کمی کی وجہ سے.چنانچہ تین مشن اس وقت تک وہاں نئے پروگرام کے مطابق لئے جاچکے ہیں اور وسیع زمین خریدی جا چکی ہے، ایک جگہ عمارت خریدی گئی ہے.تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت جلد وہاں اس کا م کو بڑھا دیا جائے گا.دونئے مراکز یورپ کے لئے بنانے کا پروگرام ہے ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں.انگلستان کو یورپ میں ایک خاص حیثیت حاصل ہے اس لئے انگلستان میں بہر حال ایک بہت بڑا مشن چاہئے جس ضرورت کو یہ مشن پورا نہیں کر سکتا.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اب تو آپ کو عید کی نماز کے لئے بھی مشکل پڑ جاتی ہے، جمعہ کی نماز کیلئے بھی مشکل پڑ جاتی ہے روز کی شام کی مجلس کے لئے بھی مشکل پڑ جاتی ہے تو یہ مجد تو کافی نہیں ہے اس کے لئے.پھر دفاتر ہیں، کئی قسم کی ضروریات ہیں جونئی سامنے آئیں گی اس لئے ایک انگلستان میں بہت بڑا مرکز قائم کرنا ہے انشاء اللہ تعالیٰ.اس کے لئے کمیٹی بٹھا دی گئی ہے اور ایک جرمنی میں کیونکہ جرمنی کی جماعت بہت مخلص اور تبلیغ میں دن رات منہمک ہے.بہت بچارے غریب مزدور پیشہ لوگ ہیں علم بھی زیادہ نہیں، پاکستان سے نہایت غریب سوسائٹی سے اکثر تعلق رکھنے والے ہیں لیکن ایسا اللہ نے ان کو اخلاص بخشا ہے کہ جب چندے کی ضرورت پڑی تھی تو جرمنی کا مشن بہت سے دوسرے مشنوں کے لئے کفیل بن گیا تھا اور حیرت انگیز قربانی کے مظاہرے انہوں نے کئے تھے.اب جب تبلیغ کا کہا تو لاعلمی کے باوجود انہوں نے کیسٹس پکڑیں اور ٹیپس (Tapes) اٹھا ئیں اور ہر طرف تبلیغ شروع کر دی اور خدا کے فضل سے ایک انقلاب آ رہا ہے جرمنی میں تبلیغی نقطہ نگاہ سے.تو جرمنی کی جماعت کا حق ہے کہ اسے بہت وسعت دی
خطبات طاہر جلد ۳ 266 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء جائے اس لئے ایک مشن وہاں بنانا ہے.اس کے لئے اللہ تعالیٰ روپیہ اپنے فضل سے مہیا کرے گا.ایک ہمشیرہ ہیں ہماری سعیدہ جو غالباً عبدالطیف صاحب ایڈوکیٹ ہیں (انکے رشتہ دار ہیں ) بہر حال سعیدہ بیگم نام ہے انہوں نے اس علم سے پہلے ہی کہ میں کیا سکیم پیش کرنے والا ہوں چھ ہزار کچھ سو پونڈ جو ایک لاکھ روپے کے برابر رقم بنتی ہے از خود مجھے بھجوا دیئے ہیں چیک کی شکل میں اور کہا کہ اس کو جماعت کی نئی ضروریات سامنے آرہی ہیں ضرور پیدا ہوں گی اس لئے میں ان کے لئے یہ پیش کرتی ہوں.تو اللہ تعالیٰ ان کو بھی جزا دے.انشاء اللہ تعالیٰ روپیہ تو آئے گا اللہ کے فضل سے کبھی یہ ہوا ہی نہیں کہ ضرورت پڑی ہو اور روپیہ مہیا نہ ہو گیا ہو.اس طرح میں اس تحریک کا آغاز کرتا ہوں اور یہ یوروپین ممالک کے لئے ہے یعنی یورپین ممالک میں بسنے والے احمدی اس میں حصہ لیں گے لیکن فی الحال ہر ملک میں نہیں بلکہ ان دو ممالک میں مراکز قائم کئے جائیں گے جو سارے یورپ کے لئے ہوں گے، ان کے مشترکہ کاموں کو سرانجام دیں گے.بہر حال جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ہم نے تو وہی کرنا ہے جس کی خاطر خدا نے ہمیں پیدا فرمایا ہے اور ہمیشہ یہی کرتے چلے آئے ہیں.ہمارے کام تو رکنے نہیں ہیں اور جتنی بڑی روکیں دشمن ڈالتا چلا جاتا ہے ہم نے ہمیشہ یہی دیکھا ہے کہ خدا کا فضل اتنا ہی زیادہ قوت پیدا کرتا چلا جارہا ہے ہماری روش میں اور پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہم آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اس لئے ان بادلوں سے ڈریں نہیں.حضرت مصلح موعودؓ نے بہت ہی خوب فرمایا تھا کہ : تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت ٹپکیں گے با دل آفات و مصائب کے چھاتے ہیں اگر تو چھانے دو ( کلام محمود صفحه : ۱۵۴) اس لئے بجلیاں ہیں تو کسی اور کے لئے ہوں گی ہمارے لئے تو رحمت کی بارشیں ہی ہیں اس لئے ہرگز کوئی خوف نہیں کرنا اور پہلے سے زیادہ ہمت اور توکل کے ساتھ خدا کی راہ میں آگے قدم بڑھانا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر ہمیشہ پورا ہوتا رہے گا اور ایک دن ایسا نہیں آئے گا اس شعر کی راہ میں کوئی دن کھڑا ہو سکے.ایک رات ایسی نہیں آسکتی جو اس شعر کے مضمون پر اندھیرا ڈال سکے.
خطبات طاہر جلد ۳ 267 خطبه جمعه ۱۸ رمئی ۱۹۸۴ء لوائے ما پینہ ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں نشان ما باشد (در مشین فارسی صفحه: ۱۹۵) کہ یہ ہمارا جھنڈا ہو گا جو ہر سعید فطرت کے لئے پناہ کا موجب بننے والا ہے اور کوئی جھنڈا نہیں ہے دنیا میں نہ امریکہ کا جھنڈا، نہ روس کا جھنڈا ، نہ چین کا جھنڈا ، نہ جاپان کا جھنڈا، اگر سعید فطر توں کو کسی جھنڈے کے نیچے پناہ ملنی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جھنڈے کے نیچے پناہ ملتی ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا جھنڈا ہے آپ ہی کی غلامی میں دوبارہ کھڑا کیا گیا ہے.لوائے ما پنہ ہر سعید خواهد بود ندائے فتح نمایاں نشان ما باشد ہمارا نمایاں نشان تو یہ ہے کہ فتح نمایاں کی آواز جب اٹھے گی ہماری سمت سے اٹھے گی.جب یہ اعلان بلند ہوگا یہ نعرہ بلند ہوگا کہ نمایاں فتح نصیب ہوئی تو یاد رکھنا ہمیشہ ہماری سمت سے یہ آوازا اٹھے گی کسی اور سمت سے کسی کو یہ آواز اٹھانے کی توفیق نہیں ملے گی.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج ایک ضروری مصروفیت کی وجہ سے نماز عصر بھی جمعہ کے ساتھ جمع کروائی جائے گی اس لئے جمعہ کے بعد نماز عصر کے لئے صفیں درست کر لیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 269 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء احمدیت کی مخالفت میں عالم اسلام کی حالت اور دعا کی تحریک ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ مئی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: پاکستان میں جو جماعت احمدیہ پر اور احمدیت پر جو مظالم توڑے جا رہے ہیں ان کا دائرہ صرف جماعت احمد یہ یا احمدیت ہی نہیں بلکہ در حقیقت پاکستان پر اور عالم اسلام پر اور اسلام پر مظالم توڑے جارہے ہیں اور ان کے اتنے خوفناک اور بداثرات ظاہر ہونے والے ہیں کہ جن کے تصور سے بھی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اگر اس کو خوف خدا ہو اور عالم اسلام سے یا اسلام سے محبت ہو.بہر حال تحریک میں بظاہر جو رخ اختیار کیا ہے اس میں جماعت احمد یہ ہی کو ہدف کا نشانہ بنایا جارہا ہے.قطع نظر اس کے کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقت میں آج اسلام کا دوسرا نام ہے، قطع نظر اس کے کہ آج احمدی ہی اللہ کے وہ عبادت گزار بندے ہیں جن کی خاطر بلکہ بعض ان میں سے ایسے بھی ہوں گے کہ ان میں سے ایک ایک کی خاطر قوموں کو مٹایا جاسکتا ہوخدا کی نظر میں.میں اس عالم اسلام کی بات بھی کر رہا ہوں جسے مختلف ممالک مختلف اوطان میں قانونی حقوق بھی حاصل ہیں، میں اس اسلام کی بات کر رہا ہوں جو بہتر (۷۲) فرقوں میں بٹا ہوا ہے اور جس کے مختلف عقائد ایک دوسرے سے متضاد ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہو کر صرف احمدیت کی مخالفت میں زندہ
خطبات طاہر جلد ۳ 270 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء ہیں.اُس عالم اسلام کو بھی خطرہ ہے اور اُس اسلام کو بھی خطرہ ہے اور اُس عالم اسلام کا دردبھی ہمارے ہی جگر میں ہے اور اُس اسلام کا درد بھی ہمارے ہی جگر میں ہے کیونکہ ایک عرب شاعر نے کیا خوب کہا تھا: قومی هم قتلوا اميـمـة اخي وان رميتهم يصيبني سهمى کہ میری ہی قوم ہے جس نے میرے بھائی امیمہ کوقتل کیا اگر میں انہیں تیر مار دوں تو وہ تیر مجھے ہی پہنچے گا کیونکہ بھائی کا دکھ بھی بچے بھائی کو ہی ہوتا ہے.اس لئے حالات بہت ہی سنگین اور نہایت ہی خطر ناک ہیں اور تاریکی اس سے زیادہ ہے جس کا آپ تصور باندھ رہے ہیں.فی الحال جو شکل یہ تحریک اختیار کر رہی ہے اس کا نقشہ تو ایک جہنم کا سا ہے جس کا پیٹ نہیں بھرتا.ایک مطالبے کے بعد دوسرا مطالبہ اور جب یہ کہا جاتا ہے کہ اب یہ تمہارے مطالبے منظور ہو گئے هَلِ امْتَلَاتِ کیا جہنم تیرا پیٹ بھر گیا تو جواب یہ ملتا ہے هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ (ق:۳۱) کہ ہمارا پیٹ تو بھرنے والا نہیں اور کیا مطالبات پورے ہونگے ان کے خلاف اور بعض علما تو بڑے فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ دیکھو ہم نے تمہیں پہلے ہی بتا دیا تھا کہ فلاں فلاں مطالبات منظور ہو جائیں گے اور دیکھا ہم نہیں کہتے تھے کہ ہمیں کچھ علم ہے ، کوئی وجہ ہے جو ہم یہ کہہ رہے ہیں اس لئے آئندہ جو مطالبات ہم کہتے ہیں پورے ہوں گے اور تم کرو اس کے پیچھے بھی کوئی بات ہے، کوئی تعلق ہے تبھی تو ہم بات کر رہے ہیں بغیر تعلق کے کس طرح ہم بغیر کھونٹے سے ناچ سکتے ہیں.بہر حال یہ تو اللہ کی تقدیر پر منحصر ہے وہ جماعت جو اپنا سب کچھ اپنے رب کے حضور پیش کر بیٹھی ہو، اپنا کچھ بھی باقی نہ رکھا ہو وہ خوف کے مقام سے گزر چکی ہوتی ہے وہ ایک ہی جماعت ہے دنیا میں جس کو کوئی خوف نہیں کیونکہ جوسب کچھ دے بیٹھی ہو اپنی زندگیوں میں اور صرف منتظر ہو کہ کب خدا کیا چیز ہم سے مانگتا ہے، کس قربانی کا مطالبہ کرتا ہے؟ وہ تو امانتیں لئے بیٹھی ہے جماعت.اس کی تو زندگیاں بھی امانت ہیں، اس کے اثاثے امانت ہیں، اسکے بچے امانت ہیں، اس کے بوڑھے امانت ہیں، اس کی عورتیں امانت ہیں، کچھ بھی اس کا اپنا نہیں رہا تو اس کو کیسے ڈرا سکتے ہیں؟ مگر بہر حال اللہ جانتا ہے کہ کب تک اس نے یہ آزمائش کے دن چلانے ہیں؟ ایک امر بہر حال یقینی ہے کہ جماعت کی ہر مخالفت جس طرح پہلے
خطبات طاہر جلد ۳ 271 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء ذلیل اور نامراد کر کے مٹادی گئی تھی یہ مخالفت بھی اس سے بڑھ کر شدت کے ساتھ ذلیل اور نامراد کر کے مٹادی جائے گی.آپ زندہ رہیں گے اللہ کے فضل سے اور دیکھیں گے کہ ایک ایک شکوہ جماعت کا دور کیا جائے گا، ایک ایک دکھ کو خوشی میں تبدیل کیا جائے گا لیکن خطرہ یہ ہے کہ اس وقت جو حالات ہیں اس کے نتیجہ میں اگر سابقہ تقدیر خدا کی چلے تو قوم پر بڑے ہی عذاب کے دن آنے والے ہیں، بہت ہی دکھ کے دن مقدر معلوم ہوتے ہیں سابقہ اللہ کی تقدیر تو یہی ہے کہ جو مخالفت کی گئی جو بدا را دے لے کر لوگ اٹھے وہ ان پر الٹائے گئے.فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رَبُّكَ سَوْطَ عَذَابٍ إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِة (الفجر: ۱۴-۱۵) صَبَّ عَلَيْهِمُ میں جو الٹانے کا نقشہ ہے وہ ہم نے اپنی آنکھوں سے بارہا پورا ہوتے دیکھا ہے.ہر وہ کوشش جو جماعت کے خلاف کی گئی بعینہ برعکس نتیجہ لے کر مخالفین کے خلاف ظاہر ہوئی اس لئے اب جو کوششیں ہیں وہ بہت ہی زیادہ گندی اور ناپاک ہیں.حالت یہ ہے کہ وہ لوگ جو وطن بنانے والے تھے ، جو صف اول کے شہری تھے ان کو اپنے ہی وطن میں بے وطن کر دیا گیا ہے.اگر یہ حالت تبدیل نہ ہوئی تو ناممکن ہے کہ یہ سزا اس قوم کو نہ ملے جو مظلوموں اور معصوموں کو یہ سزا دے رہی ہے.یہ ہے جو سب سے خوف ناک اور ہولناک بات ہے جس سے انسان کا دل لرزنے لگتا ہے.ان کو تو ہمارے بے وطن ہونے کا کوئی غم نہیں لیکن ہمیں ان کے بے وطن ہونے کا بہت غم ہو گا.ہم ان سے سچا پیار کرنے والے ہیں.اپنے وطن سے سچا پیار کرنے والے ہیں.ہماری مثال تو اس ماں کی سی ہے جس کا ایک جھوٹی ماں سے جھگڑا ہوا بچے کی ملکیت کے متعلق اور وہ دونوں مائیں جھگڑتی ہوئیں حضرت سلیمان کے حضور حاضر ہوئیں.ایک یہ کہتی تھی دعوے دار ماں بننے کی کہ یہ بچہ میرا ہے اور دوسری کہتی تھی کہ یہ بچہ میرا ہے اور دونوں ہی بڑا واویلا کرتی تھیں اور بظا ہر روتی تھیں اور کہتی تھیں کہ ہم اس بچے کے بغیر رہ نہیں سکتے.اس وقت حضرت سلیمان نے جو حکمت کے ایک خاص مقام پر فائز کئے گئے تھے یہ فیصلہ فرمایا کہ بہت اچھا چونکہ فیصلہ کرنا مشکل ہے اس لئے اس بچے کو نصف سے دو ٹکڑے کر دیئے جائیں اور آدھا ایک ماں کے سپرد کر دیا جائے اور آدھا دوسری ماں کے سپرد کر دیا جائے تب جو حقیقی ماں تھی وہ زار زار رونے لگی اور اس نے کہا کہ میرے آقا میں جھوٹ بولتی تھی بچہ میرا
خطبات طاہر جلد ۳ 272 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء اہے بچہ اس کا ہے اس کو دے دیں اس کے دو ٹکڑے نہ کریں ، تو آج تو ہمارا یہ حال ہے کہ جھوٹی ماؤں کے مقابل پر اپنے بچے فدا کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں اور یہ پسند نہیں کریں گے کہ ہمارا وطن ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے خواہ ہمیں اس وطن سے بے وطن ہی کر دیا گیا ہو اس لئے حالات بہت خطر ناک ہیں اور ابھی بہت زیادہ دعاؤں کی ضرورت ہے.ملک ایک ایسے دور میں داخل ہو گیا ہے جو دنیا کی نظر میں تمسخر سے بھی آگے معاملہ بڑھ چکا ہے.جب بتائی جاتی ہیں باتیں لوگوں کو یا اخبار دکھائے جاتے ہیں پاکستان کے جن میں بڑے فخر سے بعض اعلانات چھپ رہے ہیں تو لوگ مانتے نہیں، وہ کہتے ہیں دیکھو اس طرح نہ کرو جھوٹ کی بھی تو حد ہونی چاہئے ، یہ بھی ہوسکتا ہے آج کے زمانے میں! چنانچہ ایک جگہ ایک معاملے میں ایک شخص نے اپنے حالات پیش کئے تو اس کا آفسر تھا جس کے سامنے حالات پیش ہو رہے تھے اس نے کہا کہ دیکھو دیکھو بس کرو اس سے زیادہ تو یقیناً جھوٹ ہے اگر تم نے جھوٹ شامل کر دیا تو تمہارا کیس خراب ہو جائے گا.اس نے کہا کہ یہ تو ابھی سارا ہے ہی نہیں یہ تو معمولی چند باتیں ہیں، اس نے کہا کہ میں تو مان ہی نہیں سکتا کہ یہ ممکن ہے یہ ہو سکتا ہے کسی زمانے میں، یہ صدی کونسی ہے، تم باتیں کس زمانے کی کر رہے ہو.چنانچہ خدمت اسلام بھی نئے نئے ادوار میں داخل ہوئی ہے.ابھی چند دن پہلے کراچی میں تین بڑھوں کو جو چھتر سال سے زائد عمر کے تھے جن کو میں ذاتی طور پر بھی جانتا ہوں، وہ بیچارے تو ایک چڑیا کا دل بھی کھانے کے قابل نہیں ، نہایت دعا گو اور سادہ مزاج لوگ ، ان کو ملک کے خلاف باغیانہ کوششوں اور نہایت ہی خوفناک اشتعال انگیزیوں کے جرم میں قید کر دیا گیا اور وجہ؟ وجہ یہ کہ بس میں سفر کر رہے تھے اور ساتھ ہی ان کے ایک ایک آدمی بیٹھا.اس نے جب وہ اترے تو دیکھا کہ کس گھر میں جا رہے ہیں اور باتوں میں اسکو پتہ چل چکا تھا کہ یہ احمدی ہیں چنانچہ جا کر پولیس کو رپورٹ کی کہ فلاں گھر میں تین چھاپہ مار گھسے ہیں نہایت ہی خوفناک قسم کے اور وہ احمدی ہیں اگر ان کو نہ پکڑا تو ملک تباہ ہو جائے گا.چنانچہ فوراً تھانیدار نے کوئی ( تاخیر کے بغیر کاروائی کی ) ، اس معاملے میں تو اتنی ہمدردی ہے ملک سے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہر دوسرے معاملے میں ہمدردی کا فقدان ہے لیکن احمدیت کو ظلم کے معاملے میں بڑی گہری ہمدردی پیدا ہو چکی ہے ملک سے اور اسلام سے یعنی اس فرضی ملک اور فرضی اسلام سے جس کی وہ اس وقت پوجا کر رہے ہیں.تو یہ حالات ہیں اور کوئی کسی کو حیا نہیں کوئی شرم نہیں کہ ان لوگوں کو
خطبات طاہر جلد ۳ 273 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء جن کے چہروں سے معصومیت ٹپکتی ہے انہوں نے کیا ظلم ڈھانے تھے اور کون سی قیامت برپا کر دینی تھی اس ملک میں ، یہ بھی خدمت اسلام کے سنہری کارنامے نئے لکھے جارہے ہیں اور خدمت اسلام کے سنہری کارنامے یہ بھی لکھے جارہے ہیں ، ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے کہ سندھ میں ایک احمدی کو اس جرم میں قید کیا گیا ہے کہ وہ ہندؤں میں تبلیغ کر رہا تھا.عقل کی کوئی حد ہونی چاہئے ، یعنی بے عقلی کی کوئی حد ہونی چاہئے یہاں تو اس قسم کا معاملہ الٹ چکا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ حسد اور غیض نے قبضہ کر لیا ہے دماغوں پر کچھ باقی نہیں رہا، ایک آگ لگی ہوئی ہے حسد کی کہ جب تک جماعت کا کوئی شخص زندہ ہے ہمیں چین نہیں نصیب ہوگا یعنی خدمت اسلام کا یہ اندازہ کیجئے کہ ہندوکو مسلمان بنانے کی کوششیں کر رہے ہو اور تم اپنا مسلمان بنانے کی کوشش کر رہے ہو اس لئے اتنا بڑا جرم تو ہم نہیں ہونے دیں گے، ہم تو اقلیتوں کے حقوق کے ذمہ دار ہیں یعنی عیسائیوں کے حقوق کے ذمہ دار ہیں، سکھوں کے حقوق کے ذمہ دار ہیں اور ہندؤں کے حقوق کے ذمہ دار ہیں اور ان کو بھی تمہاری زد سے بچائیں گے.جس طرح انگریزی میں کہتے ہیں The cat is out of the bag یہ بات تو نکل آئی دل سے کہ تم اقلیت نہیں ہو بہر حال اگر اقلیت ہوتے تو جس طرح ہر اقلیت کی حفاظت کر رہے ہیں حقوق کی تمہاری بھی کرتے لیکن تم تو ایک غالب آنے والی اکثریت ہو اس سے بیچ کوئی نہیں سکتا جتنا ہم تمہیں دبانے کی کوششیں کرتے ہیں تم اتنا اور زیادہ تیزی کے ساتھ اکثریت میں تبدیل ہوتے چلے جارہے ہو اس لئے نہ صرف تم سے اپنے آپ کو بچائیں گے بلکہ دوسری اقلیتوں کو بھی بچائیں گے کیونکہ ان کو بھی تمہاری ذات سے خطرہ ہے اور یہ امر واقعہ ہے کہ سچائی کے پھیلنے کا جو خطرہ ہے وہ تو ہر ایک کو لاحق ہے ہم سے.چنانچہ عیسائیوں نے عیسائی بڑے بڑے پادریوں نے وہاں بیان دیئے کہ اللہ تعالیٰ مبارک کرے یہ عظیم الشان دور کہ جس میں ہمیں احمدیوں سے بچالیا گیا ہے، ہمیں تو مصیبت پڑی ہوئی تھی ، یہ چھوڑتے نہیں تھے ہمیں اور ایسی ایسی دلیلیں دیتے تھے کہ ہمارے خداوند کو مار رہے تھے.اے مبارک قوم ! تم نے تو حد کر دی آج تو ہم پر اتنا بڑا احسان کر دیا کہ احمدیوں کی مصیبت سے ہمیں نجات بخشی.یہ مبارک باد کے خطوط چھپے ہیں اخباروں میں بیانات شائع ہوئے ہیں.یہ حالت ہو چکی ہے قوم کی تو اندازہ کریں کہ آخر اللہ تعالیٰ کی تقدیر کب تک انتظار کرے گی؟ ان حالات کو دیکھ کر امر واقعہ یہ ہے کہ دعا کرتے وقت بڑی مشکل میں پڑتی ہے جماعت،
خطبات طاہر جلد ۳ 274 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء اس کثرت سے مجھے خط آتے ہیں اور وہ رو رو کے عرض کرتے ہیں لوگ کہ ہم کیا کریں آپ نے حکم دے رکھا ہے باندھ دیا ہے ہمیں کہ دعا کریں لیکن اتنے دردناک حالات ہیں کہ دعا نکلتی نہیں اور ہمیں یوں لگتا ہے جیسے ہم جرم کر رہے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے جب ان باتوں کو دیکھتے ہیں تو اس کا جو دوسرا پہلو ہے وہ اتنا خطرناک ہے کہ اسکو مد نظر رکھ کر دعا نکلتی نہیں ہے دل سے.چنانچہ آپ تصور کیجئے کہ پاکستان کا نام کبھی دنیا میں اتنا بدنام نہیں ہوا تھا جتنا آج اس دور میں بدنام ہوا ہے.ہر دوسرے ملک کی بدنامی کو اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اور کہتے یہ ہیں کہ احمدی بدنام کر رہے ہیں إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ احمدی تو بد نامی کا دکھ برداشت کرنے کے لئے زندہ ہیں.بد نام تو وہ کر رہے ہیں جو بڑے فخر سے سرخیاں جما رہے ہیں اخباروں میں، ہر روز کالے ہوئے ہوئے ہیں اخباروں کے منہ بڑے فخر کے ساتھ کہ اس طرح ہم نے نعشیں اٹھا کر باہر پھینکیں ، اس طرح ہم نے بڑھوں کو مارا.جب وہ چاقو مار رہے تھے ایک بڑھے کو جو پچھتر سال سے بڑی عمر کا تھا جس کو نظر نہیں آتا تھا آنکھوں سے تو اس طرح نعرہ ہائے تکبیر بلند ہوئے.چار پانچ آدمیوں نے باری باری ثواب کی خاطر ان کے جسم میں چاقو ا تارے اور پھر بسم سے وار کیا اور ہر آدمی نعرہ تکبیر بلند کرتا تھا کہ اس بڑھے بیچارے اندھے کو جس کو نظر بھی نہیں آتا اس کو مار کر ہم نے اتنی عظیم الشان اسلام کی خدمت کر لی اور یہ واقعات فخر سے اخباروں میں شائع ہورہے ہیں، اب تو کیفیت یہ ہے.ے ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو تمہاری دوستی کافی ہے قوموں کو تباہ کرنے کے لئے ، تمہاری ہمدردیاں کافی ہیں اپنوں کو ہلاک کرنے کے لئے اس لئے جماعت احمدیہ کو کیا ضرورت ہے کہ تمہیں بدنام کرے، بڑے بدنام کرنے والے مقرر ہیں جو ہر روز بد نام کرتے چلے جارہے ہیں اور ان کا پیٹ نہیں بھر رہا ان کا دل ٹھنڈا نہیں ہورہا.تو جس کو پاکستان سے محبت ہے احمدیوں میں سے وہ ویسے تکلیف اٹھائے گا کیونکہ وہ پاکستانی ہے لیکن جو پاکستانی نہیں ہے وہ بھی تکلیف اٹھا رہا ہے کیونکہ احمد بیت اس اسلام کا نام ہے جس کی تعریف حضرت محمد مصطفی ﷺ نے یہ فرمائی تھی کہ ایک بدن کی طرح ہے اس کے کسی دور کے حصے کو بھی ایک چھنگلی کو بھی اگر کانٹا چبھ جائے تو سارا بدن بے قرار ہو جاتا ہے یہ تو نہیں کہا جاتا کہ یہ چھنگلی فلاں میز پر پڑی ہوئی ہے یا فلاں کے گھر میں داخل ہو گئی تھی اس لئے مجھے اس کا کوئی غم
خطبات طاہر جلد ۳ 275 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء نہیں.عالم اسلام میں پھیلی ہوئی ساری جماعت ایک وجود ہے اس لئے پاکستان کا دکھ ہو یا کسی اور کا، جماعت احمدیہ کو ہر جگہ محسوس ہوگا اس لئے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ جو پاکستانی نہیں ہیں وہ آرام سے بیٹھے ہیں وہ بھی اس تکلیف میں شامل ہیں.اور دوسرا حصہ ہے اسلام کی بدنامی کا، یہ سارے مظالم کرتے اپنے نام پہ کرتے.بڑے بڑے ڈکٹیٹر دنیا میں آئے بڑے بڑے ظالم دنیا میں پیدا ہوئے ہیں انہوں نے بڑی جرات اور اخلاقی ہمت کا حو صلے کا مظاہرہ کیا ہے اس معاملہ میں صرف انہوں نے کہا کہ ہاں ہم یہ کرتے ہیں اپنے نام پر کرتے ہیں اس مذہب کو بدنام کرنا جو دنیا کا سب سے بڑا محسن ،سب سے بڑا حو صلے والا مذہب ہے اور اس کا دکھ سب سے زیادہ جماعت احمدیہ کو ہے.جب اسلام بدنام ہوتا ہے تو کئی قسم کی مصیبتیں جماعت احمدیہ کے سامنے آکھڑی ہوتی ہیں.ایک سو سال گزر گئے ہیں ہمیں یہ جدو جہد کرتے ہوئے، دنیا کو یہ سمجھاتے ہوئے کہ اسلام ظالم مذہب نہیں، اس کا تلوار سے کوئی تعلق نہیں، تلوار ہمیشہ غیروں نے اٹھائی ہے اس لئے غیروں سے پوچھو کیوں انہوں نے جبر کے ساتھ اسلام کو دبانے کی کوشش کی تھی؟ اسلام نے تلوار اٹھانے میں پہل نہیں کی.بیسیوں سال کی محنتیں اچانک یوں معلوم ہوتا ہے جیسے ایک دم غائب ہو گئیں، ان کا وجود باقی نہیں رہا، ایک ظالم ہاتھ اس کو مٹا کے رکھ دیتا ہے جب کوئی اٹھتا ہے اسلام کے نام پر جبر کی تعلیم لے کر اور جبر کی تعلیم دے کر اور اس کے عملی نمونے دکھا کر.تو یہی احمدی جو مظلوم ہیں جو جبر کا نشانہ بنائے جار ہے ہیں ان پر سب سے بڑا ظلم اس وقت ہوتا ہے جب یہ غیر کو تبلیغ کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ تم اپنا حال تو دیکھو تم کہاں کھڑے ہو؟ کس اسلام کی طرف ہمیں بلا رہے ہو؟ یہ اسلام کہ جس نے یہ حال کر رکھا ہے کہ تمہارے سارے حقوق کو پامال کر دیا ؟ ہم ان سے کہتے ہیں کہ نہیں یہ اسلام نہیں ہے جس کی طرف ہم تم کو بلا رہے ہیں ہم تم کو اپنے آقا اور مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسلام کی طرف بلا رہے ہیں جو تمام رحمتوں کا سرچشمہ تھا جس نے ایسے دکھ برداشت کئے کہ کبھی کائنات میں کسی جان نے اتنے دکھ اپنی جان پر نہیں لئے تھے.ہم اس پاک وجود کے اسلام کی طرف تمہیں کو بلاتے ہیں لیکن جب ہم یہ کہتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ہاں تم ماضی میں بسنے والے لوگ ہو اس حال کا اس دور کا اسلام تو مختلف ہے.پس ہمیں ہر طرف سے وار پڑتے ہیں، ہر طرف سے دکھ محسوس ہوتا ہے لیکن ہم کہتے چلے جاتے ہیں اور جانتے ہیں کہ بالآخر
خطبات طاہر جلد۳ 276 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء ہماری آواز کو اللہ مزید طاقت بخشے گا یہ آواز غالب آئے گی اور وہ اسلام زندہ ہو گا جو حضرت محمد مصطفیٰ کا اسلام ہے، وہ اسلام زندہ ہو گا جب وہ مکہ میں داخل ہور ہا تھا تو ان لوگوں میں داخل ہور ہا تھا جنہوں نے جرائم کی حد کر دی تھی ، ایسے خوفناک جرائم ایسے ہولناک دکھ مردوں اور عورتوں بچوں کو دیئے گئے کہ آج بھی جب تاریخ میں ان کو پڑھتے ہیں تو لرزہ طاری ہو جاتا ہے بدن پر.140 درجہ کی دھوپ میں سنگلاخ زمینوں پر لٹا کر اوپر پتے ہوئے پتھر رکھے گئے ، کتوں کی طرح رسیاں باندھی کر ٹانگوں کے ساتھ ان کو پتھریلی زمینوں پر گھسیٹا گیا، عورتوں کو خو د پہنا کر گرمی کی شدت میں کھڑا کر دیا گیا اور کہا یہ گیا کہ لا الہ الا اللہ نہیں پڑھنا.آج یہی مطالبہ جماعت احمدیہ سے ہو رہا ہے آج یہ کہا جا رہا ہے کہ اپنے ہاتھ سے لا الہ الا اللہ مٹا دو کیونکہ ہمیں غصہ آتا ہے دیکھ کر کلمہ لا الہ الا اللہ لکھا ہوا.اس دور کی باتیں ہیں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اس دور میں ہوسکتا ہے لیکن ہو رہا ہے.بہر حال یہ جرائم تھے جو مکہ میں کئے گئے ، بچوں کو ماؤں سے جدا کیا گیا، ماؤں کو بچوں سے جدا کیا گیا ،نمازیں تکلیف دیتی تھیں اتنی کہ بعض جگہ گھروں میں گھس کر روکا گیا ز بر دستی نمازوں سے اور آج یہی کراچی میں ہورہا ہے.انہوں نے کہا کہ پہلے تو ہم یہ کہتے تھے کہ مسجدوں میں نہیں پڑھنے دیں گے اب تم اپنے گھروں میں اپنی لائبریریوں میں نمازیں پڑھتے ہو؟ تمہارا کیا حق ہے نمازیں پڑھنے کا.کوئی ایک واقعہ نہیں ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانہ میں ہوا ہو آج جسے دو ہرایا نہ گیا ہو لیکن اُن مظالم کی بستی میں جب حضرت محمد مصطفی ملے واپس تشریف لے کر گئے تو ہم لوگوں کو یہ بتاتے ہیں کہ ہم تو اس اسلام کے علمبر دار ہیں.جب آپ واپس تشریف لے کے گئے دنیا کے فاتحین کی طرح آپ کا سر فخر سے بلند نہیں تھا بلکہ روتے روتے ہمارے مقدس آقا کی گردن جھک گئی اور سواری کی پیٹھ سے لگ گئی کہ گردن سے لگ گئی بے حد گر یہ آزاری کر رہے تھے اور خدا کے حضور جھک رہے تھے.اس شان کا فاتح تھا ، یہ تھا وہ اسلام کا وہ علمبردار جس کی طرف ہم تم کو بلاتے ہیں.اس شہر میں داخل ہوا جہاں وہ لوگ بستے تھے جنہوں نے آپ کے چا کو شہید کروایا اور پھر سینہ پھاڑ کے جگر چبالیا، وہ جب اس بستی میں داخل ہورہے تھے تو یہ اعلان فرما رہے تھے لا تشریب علیکم الیوم کوئی غم نہیں، کوئی تمہیں فکر نہیں ، میری طرف سے تمہیں کوئی پکڑ نہیں ہوگی.وہ بلال جسے گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا اس کا جھنڈا بلند کیا گیا اور کہا کہ آج جو بلال کے جھنڈے تلے آجائے گا اس کو بھی معاف کر دیا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 277 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء (السير و الحلبیہ جلد سوم نصف آخر ز یر فتح مکہ ) ہم نے تو یہ اسلام سیکھا ہے ، یہی ہماری گھٹی میں ہے ، یہی ہماری فطرت ثانیہ بن چکا ہے، اس کے سوا ہمیں کسی اسلام کا کوئی علم نہیں اس لئے یہ اسلام کچھ اور ہے ہم ہرگز اس کی طرف نہیں بلاتے لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے اسلام کی طرف ہم نہ بلانا چھوڑ سکتے ہیں نہ کبھی چھوڑیں گے اور یہی وہ اسلام ہے جو زندہ رہنے کا حق رکھتا ہے.اسلام کی ہر دوسری چھاپ مٹا دی جائے گی مگر میرے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسلام کی چھاپ زندہ رہنے کے لئے قائم کی گئی ہے مٹنے کے لئے قائم نہیں کی گئی تھی.بہر حال جب یہ مظالم دیکھتے ہیں کہ اسلام پر بھی ظلم ہورہا ہے اور خود مسلمان کہلانے والے انتہائی ظالمانہ طریق پر اسلام کو بدنام کر رہے ہیں تو امر واقعہ یہ ہے کہ میرے منہ سے بھی آئمتہ الکفر کے لئے یہ دعا نہیں نکلتی پس آج میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں کیسے جماعت کو رو کے رکھوں جب میں خود اس لائق اپنے آپ کو نہیں پاتا، بہت زور مارتا ہوں اللہ کے حضور استغفار کرتا ہوں، روتا ہوں کہ اے خدا! مجھے توفیق دے کہ ان کے ائمتہ الکفر کے لئے بھی دعا کر سکوں لیکن دعا دل سے نہیں نکلتی اس لئے میں جماعت کو بھی اس معاملے میں آزاد کرتا ہوں.میرا کوئی حق نہیں ہے جس سخت اور کٹھن منزل تک میں نہیں پہنچ سکتا میں کیسے جماعت کو پابند کر سکتا ہوں؟ اس لئے وہ سارے جو روتے ہوئے اور گریہ وزاری کے ساتھ خطوط لکھ رہے ہیں کہ ہم نہیں کر سکتے ہمیں معاف کریں، خدا سے معافی مانگیں میں تو اپنے لئے اللہ سے معافی مانگتا ہوں کہ اے خدا! مجھے بھی توفیق نہیں مل رہی.پس ائمتہ الکفر کے اوپر آپ اب دعا کرنے کے پابند نہیں ہیں انہوں نے حد کر دی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہامات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک ایسا وقت آئے گا کہ اگر دعا کرو گے بھی تو بعض ظالم ایسے ہیں ان کے حق میں دعا نہیں قبول ہوگی.لیکن ائمتہ الکفر چند ہیں سارا ملک تو ائمۃ الکفر میں شامل نہیں وہ تو خود مظلوم ہیں، انتہائی ظلموں کی چکی میں پیسا جارہا ہے ہمارا وطن اور اسلام اس وقت انتہائی ظلموں کی چکی میں پیسا جا رہا ہے اس لئے ان کے لئے دعا نہیں چھوڑنی، ان کے لئے تو میرے دل سے اس طرح بے ساختہ دعائیں نکلتی ہیں جس طرح پہاڑی چشمے ابلتے ہیں اپنے زور کے ساتھ.نادانی میں بعض ظلم کرنے والے ہیں، عامتہ الناس نہایت شریف لوگ ہیں آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ ہر بڑے ابتلا میں ہر بڑی مصیبت کے وقت یہ پاکستان کے شرفا تھے جنہوں نے مخالفتوں کے باوجود
خطبات طاہر جلد ۳ 278 خطبه جمعه ۲۵ رمئی ۱۹۸۴ء احمدی بھائیوں کی مددیں کی.بڑے بڑے خطرات مول لئے ہیں، اپنے گھروں میں بلالیا ہے جلتے ہوئے گھروں سے نکالا ہے ان کو ، تو کس طرح قوم کے خلاف آپ بددعا کر سکتے ہیں سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی طرف منسوب ہونے والی قوم اگر شرارت اور فساد میں بالا رادہ نہ ہو تو اس کی بھاری اکثریت گر کے بھی ، بظاہر مٹنے کے باوجود بھی بہت ہی عظیم قوم ہے، بہت ہی عظیم ملت ہے.اس کے اندر گہری صفات ہیں، صفات حسنہ جو دب تو گئیں ہیں لیکن ختم نہیں ہوئیں اس لئے پاکستان کے عوام کو ہرگز دعاؤں میں نہیں بھولنا ، عالم اسلام کے عوام کو ہرگز دعاؤں میں نہیں بھولنا، عرب کے عوام کو دعاؤں میں نہیں بھولنا، ہندوستان کے مسلمان عوام کو دعاؤں میں نہیں بھولنا.کتنا بڑا ظلم ہورہا ہے ان کے اوپر ، وہ ظلم بھی ہمارے سینوں پر ہو رہا ہے، کوئی آواز نہیں اٹھتی.اتنی بڑی بڑی طاقتیں ہیں مسلمان ممالک کی ، عالم اسلام کی محبت کے قصے سوائے احمدیت کی دشمنی کے کچھ بھی نہیں رہے.دس کروڑ کی آبادی ہے ہندوستان میں جس کے اوپر ایسے مظالم ہورہے ہیں جیسے حیثیت ہی کوئی نہیں.بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح ہو رہے ہیں ، زندہ مکانوں میں جلائے جارہے ہیں اور کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا.اسلام کو کوئی خطرہ نہیں عالم اسلام کو کوئی خطرہ نہیں.حد سے زیادہ جرائم ہو رہے ہیں، حد سے زیادہ رشوت ستانیاں اور کئی قسم کی بدیاں ہیں جو پھیلتی چلی جارہی ہیں.ان سے کوئی عالم اسلام کو خطرہ نظر نہیں آتا اور ان کا دکھ بھی ہمارے ہی سینے پر ہے اس لئے دعاؤں کا معیار بڑھا دیں اور اپنی گردنیں جھکانے کی اور بھی زیادہ کوشش کریں ، ماتھے رگڑیں خدا کے حضور اور عرض کریں کہ اے خدا! آج تو اپنوں کا دکھ بھی ہمارا ہے اور غیروں کا دکھ بھی ہمارا ہے اس سے زیادہ بھی مظلوم حالت کسی قوم کی ہوسکتی ہے؟ ہم ان کے لئے بھی تڑپ رہے ہیں جن پر مظالم ہور ہے ہیں اور ان کے لئے بھی بے قرار ہیں جن کو مظالم کرنے پر مجبور کیا جارہا ہے لاعلمی کے نتیجے میں.ہر قسم کا دکھ آج عالم اسلام کا اور عالم انسانیت کا ہمارے سینوں میں اکھٹا ہو گیا ہے اے خدا !صرف تیری خاطر اس کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں، کوئی وجہ نہیں، کوئی لالچ نہیں، کوئی حرص نہیں ، صرف تیری رضا چاہتے ہیں اس لئے اب تو رحم فرما اس لئے جو جس کے دل میں جیسی بات آتی ہو اپنے رب کے حضور عرض کرے.دعا ئیں ضروری نہیں ہوا کرتا کہ خاص ترکیب یا خاص الفاظ میں کی جائیں ، دعاؤں میں تو جان پڑتی ہے بے تکلف پیار سے، سچائی سے محبت سے.اللہ کے حضور جس طرح آپ عاجزی
خطبات طاہر جلد ۳ 279 خطبه جمعه ۲۵ مئی ۱۹۸۴ء اختیار کر سکتے ہیں جس طرح رحم کو کھینچ سکتے ہیں رحم کو کینچیں کیونکہ جتنا وقت گزرتا جا رہا ہے میں پھر یقین دلاتا ہوں آپ کو جماعت احمدیہ کو کوئی خطرہ نہیں.احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو کوئی خطرہ نہیں ہے اس نے لازماً جیتنا ہے دکھوں کے رستوں سے گزر کے جیتنا ہے اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن جیتنا بہر حال ہے لیکن ان ظالموں کو خطرہ ہے جو خدا اور خدا کی جماعت سے ٹکر لے بیٹھے ہیں اس لئے اپنی دعاؤں میں اس بات کا خیال کریں اور وہی بات کہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں کہ ے اے دل تو نیز خاطر ایناں نگاه دار کا خر کنند دعوائے حُبّ پیغمبرم ( در متین فارسی صفحه : ۱۰۷) کہ اے میرے دل بہت دکھ اٹھائے تو نے قوم سے لیکن اس طرف تو خیال کر یہ بھی تو نگاہ میں رکھ.کا خر کنند دعوائے حب پیغمبرم.آخر میں میرے ہی محبوب حضرت محمد مصطفی حملے کی محبت کے یہ بھی تو دعوے دار ہیں.تو اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے ، حو صلے عطا فرمائے اور وہ دن جلد لائے جب خدا تعالیٰ کے فضل سے ہمارے سب دکھ خوشیوں میں تبدیل کئے جائیں گے ، تمام غم راحت واطمینان میں بدل دیئے جائیں گے، تمام فکر میں دور کی جائیں گی اور اگر ظالم باز نہ آئے تو ہر ظلم ان پر لوٹایا جائے گا.اللہ ہمیں اس دن کے دیکھنے سے محفوظ رکھے اور خدا کرے کہ ایسا ہو کہ ظالم ظلم سے باز آجائیں، ائمہ الکفر کو عبرت ناک سزائیں ملیں اور عالم اسلام ان سزاؤں سے محفوظ رہے.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۳ 281 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء پاکستان میں جماعتی حالات اور افضال الہی کی بارش خطبه جمعه فرموده یکم جون ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے فضل سے رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے اور تمام دنیا میں اللہ سے محبت کرنے والے اور خدا کے دین کی خاطر اپنا سب کچھ پیش کرنے کی تمنا رکھنے والے اس مبارک مہینے میں پہلے سے بھی بڑھ چڑھ کر ہر میدان میں زیادہ اخلاص کی روح کے ساتھ خدا کے حضور قربانیاں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں.پاکستان میں جو دردناک حالات گزر رہے ہیں ، وہ دردناک حالات صرف احمد یوں پر ہی نہیں بلکہ غیر احمدی بھائیوں پر بھی ہیں کیونکہ کچھ ایسے بدقسمت لوگ ہیں جنہوں نے اپنی نیکیاں بھی تباہ کر دیں اور اپنے پیچھے چلنے والوں کی نیکیاں بھی تباہ کر دیں اس لئے بڑے مظلوم ہیں وہ جن کے ساتھ اسلام کے نام پر یہ ظلم ہوا کہ ان کی نیکیوں کو ان کے راہنماؤں نے برباد کر کے رکھ دیا اور یہ عذر اگر پیش کیا جائے کہ ہم نہیں جانتے ، ہمارے راہنماؤں نے جو کچھ کہا ہم ان کے پیچھے چلے تو قرآن کریم اس عذر کور دفرما دیتا ہے اور کہتا ہے کہ قیامت کے دن یہ عذر پیش کیا جائے گا اور میں اس عذر کو رد کر دوں گا کیونکہ لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى (فاطر:۱۹) کا بھی ایک قانون ہے کہ ہر فرد b بشر، ہر جان اپنے بارہ میں خود ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے متعلق پوچھا جائے گا.پس احمدیوں سے زیادہ ایک پہلو سے دیکھیں تو پاکستان میں بسنے والے ہمارے غیر احمدی بھائی مظلوم ہیں کہ جن
خطبات طاہر جلد ۳ 282 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء پر انہوں نے ظلم کیا جو ان کے اپنے کہلاتے تھے ، جن کے ہاتھ میں انہوں نے اپنی امامت کی زمام دے رکھی تھی ، جن کے پیچھے آنکھیں بند کر کے چلنے کا عہد کر بیٹھے تھے کیونکہ آج وہاں دو قسم کے روزے رکھے جارہے ہیں ایک وہ روزے ہیں جو اذانوں سے محروم ہیں ، نہ سحری کے وقت ان بے قرار کانوں کو اذان کی آواز سنائی دیتی ہے نہ افطاری کے وقت دکھے ہوئے دلوں پر اذان کی آواز مرہم لگاتی ہے.اس قدر درد سے تڑپ رہا ہے آج وہاں کا احمدی کہ باہر کی دنیا والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.پاکستان میں نے کچھ عرصہ ہوا فون کیا ، بڑی شدید گرمی پڑ رہی ہے لیکن گرمی کا دکھ ان کو اتنا نہیں تھا جتنا اس بات کا دکھ تھا کہ رمضان کی لذتیں ہم سے چھینے کی کوشش کی گئی لیکن اس کے مقابل پر ان کے دل کو یہ تو تسلی ہے کہ آج اگر کسی جماعت کے دنیا میں روزے قبول ہو رہے ہیں، اگر خدا کی نظر اپنے کسی بندے پر پیار اور محبت کے ساتھ پڑ رہی ہے تو یہ وہ لوگ ہیں اور لاکھوں کروڑوں ایسے ہوں گے جو شریک جرم ہونے کی وجہ سے اپنی نیکیوں کے پھل سے محروم ہوئے بیٹھے ہیں کیونکہ آنحضرت ﷺ ایسے روزے داروں کو ان روزوں سے ڈراتے ہیں جو ان کے لئے محض مشقت اور دکھ اور مصیبت لے کر آتے ہیں لیکن نیتوں کے بگاڑ کے باعث ان میں کوئی ثواب کا پہلو باقی نہیں صلى الله رہتا.ایک مرتبہ نہیں دو مرتبہ نہیں بیسیوں مرتبہ آنحضور ﷺ نے ایسے روزہ رکھنے والوں کو متنبہ فرمایا اور نصیحت فرمائی کہ دیکھو اپنے روزوں کی روح کی حفاظت کرو.اللہ تمہاری ظاہری مشقت سے خوش نہیں ہوگا اگر تمہاری نیتیں صاف اور پاک نہ ہوئیں.اگر خالصتہ اللہ تم نے روزے نہ رکھے، اگران روزوں کے ایام میں تم نے بد خیالات اور بد اعمال سے اجتناب نہ کیا تو تمہارے روزے کی ساری مشقتیں بیکار جائیں گی، تمہارے جسم کو دکھ تو دیں گے لیکن تمہاری روح کے لئے کوئی تسکین کا سامان پیدا نہیں کر سکیں گی.تو بظاہر اس وقت جماعت احمدیہ کی حالت دردناک ہے اور بڑے کرب کے ساتھ جماعت پاکستان میں تڑپ رہی ہے اور اس کرب کے نتیجہ میں باہر کی جماعت بھی اسی طرح بے قرار ہے اور دکھ سے بے حال ہوئی جاتی ہے لیکن اگر امر واقعہ دیکھا جائے تو سب سے زیادہ دردناک حالت ان کی ہے جو آج شادیانے بجارہے ہیں.ان کی ساری محنتیں ، ان کی ساری مشقتیں ، سب کچھ بریکار گئیں اور ان کی سزا ابھی باقی ہے.یہ جو دور ہے یہ سزا کا دور نہیں ہے یہ ایک طبعی نتیجہ ہے لیکن سزا کا
خطبات طاہر جلد ۳ 283 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء دورا بھی ان کے لئے باقی ہے اور اللہ تعالیٰ سزا میں ڈھیل تو کر دیتا ہے لیکن خدا کے ہاں اندھیر بہر حال نہیں ہے وَ امْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِينُ (الاعراف :۱۷۴) کا قانون لازماً چلتا ہے.اس لئے کوئی دنیا کی طاقت نہیں ہے جو کسی قوم کو اس وقت بچا سکے جب خدا اس کی پکڑ کا ارادہ کر لے.پس اس پہلو سے دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی قوم کے لئے دعا کرنی چاہئے کیونکہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک بڑی تعداد ایسی پیدا ہورہی ہے جن کے اندر شرافت اور انسانیت جاگ رہی ہے، جن کے اندر اسلام کی نیکی کی روح کروٹیں بدل کر بیدار ہورہی ہے اور اپنے عمل سے بعض اور بعض اپنی زبان سے بھی بڑی شدت کے ساتھ ان مذہبی راہنماؤں سے سخت بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں جنہوں نے اسلام کے نام پر اسلام پر ظلم کیا ہے.تو یہ ایک بہت ہی نیک آثار ہیں ، بہت ہی اچھی ہوا ہے جو چلی ہے اور اس کے عقب میں لازماً اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی بڑی خوش خبریاں آنے والی ہیں.تو ان لوگوں کو خصوصیت کے ساتھ دعا میں یادرکھیں اور یہ دعا کریں کہ ساری قوم پر یہ جذبہ غالب آجائے اور ان کی نیکیاں ان کی بدیوں کو دبا جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو یہ بھی فرماتے ہیں کہ میں دشمن کے لئے دعا سے بھی باز نہیں رہ سکتا.چنانچہ آپ فرماتے ہیں: میرا تو یہ مذہب ہے کہ دعا میں دشمن کو بھی باہر نہ رکھے جس قدر وسیع ہوگی اسی قدر فائدہ دعا کرنے والے کو ہوگا اور جس قدر دعا میں بخل کرے گا اسی قدر اللہ تعالیٰ کے قرب سے دور ہوتا چلا جائے گا اور اصل تو یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے عطیہ کو جو بہت وسیع ہے جو شخص محدود کرتا ہے اس کا ایمان کمزور ہے.“ پس دعا میں دشمن کو یاد رکھنا یہ بھی ایک سنت ابرار ہے اور آنحضرت ﷺ نے بھی بارہا دشمنوں کے لئے دعائیں کیں.پس وہ جو دوست بن رہا ہو، وہ دوست جس کے دل میں اللہ تعالیٰ ایک پیار کی ہوا چلا رہا ہو اور رفتہ رفتہ اس کی کیفیت بدل رہی ہو جس طرح موسم بدلتا ہے اچھے موسم میں ، تو شروع میں ہوا کے ہر اول دستے آتے ہیں وہ تھوڑا تھوڑا ٹھنڈ کا پیغام لاتے ہیں پھر اس کے پیچھے بھر پور برساتی یا بہار کی ہوائیں چلنے لگتی ہیں ویسے ہی آثار مجھے خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پاکستان میں نظر آرہے ہیں اور دشمنوں کے دلوں کو بھی اللہ تعالیٰ بدلتا چلا جارہا ہے.حیرت انگیز
خطبات طاہر جلد ۳ 284 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء واقعات سامنے آرہے ہیں یہاں تک کہ بعض لوگوں کے متعلق یہ معلوم ہوا جب انہوں نے بیعت کی تو ان کے والدین نے ان کو گھروں سے نکال دیا، ان کا بائیکاٹ کیا اور شدید اذیتیں دیں لیکن اب جب یہ آرڈنینس جاری ہوا ہے تو انہی لڑکوں کی طرف سے اطلاع ملی کہ ہم دوبارہ گئے گھر تو ہمارے والدین ہم سے گلے لگ لگ کے پھوٹ پھوٹ کر روئے کہ کیا اندھیر ہو گیا ہے اور انہوں نے اعلان کیا کہ اب ہمیں سمجھ آئی ہے کہ تم لازما سچے ہو کیونکہ بچوں کے سواکسی قوم کے ساتھ یہ سلوک نہیں ہوا کرتا.ایسی تبدیلی حیرت انگیز پیدا ہو رہی ہے قلوب میں کہ وہ لوگ جو پہلے احرار کا ایندھن بنا کرتے تھے یعنی عوام الناس، گلیوں میں پھرنے والے، ریڑھوں والے، غریب ، مزدور، رکشا چلانے والے، اب اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ اپنے علما کو چھوڑ چھوڑ کر جماعت کے حق میں غیر معمولی طور پر جرات کے مظاہرے کرنے لگے ہیں.ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ بعض غیر احمدی نوجوانوں نے احمدیت کی ایسی جرات کے ساتھ تائید کی اور خصوصاً اس مظلومیت کے بارہ میں کہ ان کی اپنے بعض دوستوں سے لڑائیاں ہو گئیں اور بمشکل لوگوں کو بیچ میں پڑ کر چھڑانا پڑا.ایک ہمارے ربوہ کے دوست فیصل آباد گئے چند دن ہوئے جس رکشے میں بیٹھے اس رکشے والے کو محسوس ہوا کہ یہ احمدی ہیں، اس نے پوچھا کہ کیا آپ احمدی ہیں، اس نے کہا ہاں میں احمدی ہوں.وہ کہتے ہیں کہ روتے روتے اس سے رکشا چلانا مشکل ہو گیا، اس نے کہا آپ کو پتہ نہیں کتنی تکلیف ہے لیکن جو آپ کے ساتھ ظلم ہوا ہے وہ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا اور رکشے سے اتار کے بہت انہوں نے کوشش کی لیکن وہ پیسے نہیں لیتا تھا.آخر بڑی منت کر کے اس کو محبت اور پیار سے دلا سے دے کر زبر دستی اس کو پیسے دیئے.یہ قدرت کی جو ہوائیں چل رہی ہیں کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے کسی انسان کے ہاتھ کا کھیل نہیں ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ صبر ہے جو جماعت دکھا رہی ہے اور صبر سے بڑی قوت کوئی دنیا میں نہیں ہے، حیرت انگیز انقلاب برپا کر دیتی ہے صبر کی قوت اور صبر ہی ہے جو مقبول دعاؤں میں ڈھلتا ہے.پس اس صبر کو بھی زندہ رکھیں اور ان دعاؤں کو بھی زندہ رکھیں اور جہاں تک بس ہو دشمن کے لئے بھی دعا کریں اور جن دشمنوں سے بڑی کثرت کے ساتھ محبت کے قطرات ظاہر ہورہے ہیں، جن دشمنی کے بادلوں سے وہ قطرات برسنے لگے ہیں آپ کے اوپر ان کے
خطبات طاہر جلد ۳ 285 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء حق میں بھی اور دعائیں تیز کر دیں.لیکن جیسا کہ میں نے گزشتہ خطبہ میں بھی کہا تھا اسلام ایک متوازن مذہب ہے کوئی جذباتی مذہب نہیں ہے جو یک طرفہ رخ اختیار کرے اور پھر اسی سمت چلتا ہی چلا جائے ، آنحضرت ﷺ سے توازن سیکھنا چاہئے.حضرت اقدس محمد مصطفی علی ہے جو شدید دشمنوں کے لئے بھی دعا کرنے والے تھے خصوصاً وہ جو جہالت میں ظلم کرتے تھے.آپ کے متعلق آتا ہے کہ جب بدن زخمی تھا، لہولہان تھا اپنے ہی خون سے آپ کے موزے اس طرح بھر گئے تھے اور جوتے کہ چلا نہیں جاتا تھا.اپنے خون کی پھسلن بن گئی تھی ، اس وقت بھی آپ نے ان کے لئے دعا کی کیونکہ آپ جانتے تھے کہ یہ لوگ جاہل ہیں اور ان کو علم نہیں ہے یہ کیا کر رہے ہیں اور کس کے ساتھ کر رہے ہیں لیکن اس کے باوجود ائمۃ الکفر کے خلاف، ائمۃ التکفیر کے خلاف آپ نے بددعا بھی کی ہے اور ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ بددعا کی ہے کیونکہ بعض دفعہ انسان کی فطرت صحیحہ یہ بتا دیتی ہے کہ بعض لوگ اپنے ظلم اور سفا کی میں ایسا بڑھ چکے ہیں اور امام بن گئے ہیں تکفیر کے ، ان کے مقدر میں ہدایت ہو ہی نہیں سکتی.ایسے موقع پر چوٹی کے بعض لوگ جو اس ظلم اور سفاکی کے راہنما ہوں اور لیڈر ہوں اور اپنی شرارت میں پیچھے ہٹنے کی بجائے دن بدن آگے بڑھتے چلے جارہے ہوں ان کے لئے بددعا سنت نبوی ہے اس لئے میں نے بددعا کی جب اجازت دی تو کوئی اپنی طرف سے نعوذ باللہ من ذالک سنت سے گریز نہیں کیا بلکہ سنت نبوی کو مد نظر رکھتے ہوئے ایسی بات کہی.چنانچہ حضرت ابن عباس کی روایت ہے بخاری میں کہ جنگ بدر کے وقت بعض ائمہ التکفیر کے خلاف آنحضرت ﷺ نے نام لے لے کر بددعائیں کیں اور پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بتایا کہ ان کی لاشیں کہاں کہاں پڑی ہوں گی.(السیرۃ الحلبیہ جلد دوم نصف آخر زیر غزوہ بدر صفحه ۴۰۰) چنانچه وہ کہتے ہیں کہ ہم نے دیکھا کہ ایسے بدحال میں ان کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں کہ دھوپ نے ان کو متغیر کر دیا تھا اور وہ عبرت کا نشان بنے ہوئے تھے.اس لئے سنت نبوی کے مطابق وہ لوگ جو آنکھیں کھول کر شرارت اور فساد کی نیت سے اور نہایت ظالمانہ بے باکی کے ساتھ دن بدن مظالم میں بڑھتے چلے جارہے ہیں ان کے خلاف بددعا بھی مومن کی تقدیر کا ایک حصہ ہے اس لئے اس رمضان سے پورا فائدہ اٹھائیں، اپنی دعاؤں کو بھی انتہاء تک پہنچادیں اور خدا کی نظر میں جوائمۃ التکفیر ہیں ان کے
خطبات طاہر جلد ۳ 286 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء لئے بددعا کو بھی انتہا تک پہنچا دیں تا کہ ایک طرف اللہ کے نیک دل اور پاک بندوں پر بے انتہا فضل نازل ہوں اور ایک طرف وہ جو دنیا کو بے راہ روی کی تعلیم دیتے ہیں، ان کی گمراہی میں ممد بنتے ہیں ان کو خدا تعالیٰ دنیا کے لئے ایسا عبرت کا نمونہ بنا دے کہ ان کو دیکھ کر پھر ہدایتیں جاری ہوں.یہ تو عام کیفیت ہے جو اس وقت ہر احمدی کے دل میں موجود ہے اور اسی کیفیت کو میں ابھار رہا ہوں اور نمایاں کر رہا ہوں لیکن ایک بات میں یقین دلاتا ہوں کہ ان سارے امور کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اتنی دعائیں کر گئے ہیں کہ وہ ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ پیچھے چھوڑ گئے ہیں.ہم دعائیں کریں گے اور شاید ہمارے دماغ میں یہ خیال پیدا ہو جائے کہ ہماری دعاؤں کے زور سے ہی یہ سب کچھ ہو رہا ہے.یہ ویسی ہی بات ہوگی جیسا باپ بچے کو کوئی وزن اٹھوانے کے لئے کہہ دے اور کہے کہ اٹھاؤ اور ایک طرف سے خود اس کو پکڑ لے اور بچہ سمجھے کہ میں اٹھا رہا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ دو دفعہ یہ عظیم الشان واقعات دنیا میں گزر گئے ہیں سب سے پہلے حضرت محمد مصطفی علیہ کے زمانے میں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کی دعائیں معجزے دکھا رہی تھیں لیکن وہ معجزے صحابہ کے ہاتھوں سرزد ہورہے تھے اس لئے وہ جو عارف باللہ نہیں ہے اس کو یہ نظر آرہا تھا کہ صحابہ کے ہاتھ یہ کام دکھارہے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کچھ اور نظر آیا.آپ نے فرمایا جانتے ہو جو عرب کے بیابانوں میں ماجرا گز راوہ کیا تھا اور اس کے بعد فرماتے ہیں وہ ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں.( برکات الدعا روحانی خزائن جلد 4 صفحہ :۱۱،۱۰) تو اس دور میں بھی اللہ نے حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی غلامی میں ایک فانی فی اللہ ہمیں عطا کیا ہے اور اس کثرت کے ساتھ آپ نے اپنے وقت کے لئے اور آنے والے وقت کے لئے جماعت کے لئے دعائیں کی ہیں اور اس طرح گریہ وزاری کے ساتھ خدا کے حضور تڑپے ہیں کہ وہ ایک نہ ختم ہونے والا خزانہ ہے.اس لئے وہ دعائیں ہیں جو کام کریں گی اور ان دعاؤں کے ساتھ جب ہماری دعاؤں کی ہوا بھی چلے گی، جب ہماری آہیں بھی شامل ہو جائیں گی ، جب ہماری حقیر کوششیں بھی مل جائیں گی تو محسوس تو یہ ہوگا کر عظیم الشان نتائج خدا ہمارے ہاتھوں دکھا رہا ہے لیکن بھولنا نہیں کہ ہمارے امام اور ہمارے آقا کی گریہ وزاری ہے جو دراصل آج بھی ہمارے کام آرہی ہے ، آج بھی ہمارے اوپر چھتری بن گئی ہے،
خطبات طاہر جلد ۳ 287 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء آج بھی ہمارے اوپر فضلوں کا سایہ بنی ہوئی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی دعا کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: راه زهره ابدال ، بایدت ترسید على الخصوص ، اگر آه میرزا باشد در شین فارسی صفحه : ۲۱۰) که خبر داراے دشمن زمرہ ابدال کی آہوں سے تمہارے لئے خوف لازم ہے علی الخصوص اگر وہ میرزا کی دعا ہو جائے تو اس سے تمہیں ڈرنا چاہئے.کتنا عظیم الشان کلام ہے! جب تک ایک اللہ تعالی کا بندہ جانتانہ ہو کہ خدا لازماً ہمیشہ ہر آن میرے ساتھ ہے اس وقت تک یہ کلام منہ سے نہیں نکل سکتا.فرماتے ہیں کہ ابدال کی بد دعاؤں سے ڈرنا چاہئے ہر انسان کو لیکن ابدال میں سے بھی میں میرزا جس کا خدا سے ایسا پیار کا تعلق ہو اس کی بددعا کو کس طرح تم نظر انداز کر سکتے ہو؟ اس لئے احمدیت کے دوستوں کے حق میں، بالعموم انسان کے حق میں، بالعموم ان دشمنوں کے حق میں جو دوسرے درجہ کے دشمن کہلاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت دعائیں کر گئے ہیں لیکن ایک طبقہ ایسا بھی ہے جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی بد دعا کر گئے ہیں اس لئے ہم بھی اگر کچھ کوشش کریں گے تو اللہ تعالیٰ حیرت انگیز کام دکھائے گا.یہ تو خبریں ہیں کچھ حال کی کچھ مستقبل کی اور حال کا غم کس طرح مستقبل میں خوشیوں میں تبدیل ہوگا یہ مضمون ہے لیکن حال کا غم حال کی خوشیوں میں بھی تو بدل رہا ہے اس کی طرف بھی تو توجہ کرنی چاہئے تا کہ دل حمد اور شکر سے لبریز ہو جائیں.جماعت احمدیہ پر جب بھی مصیبت آئی ہے جتنی بڑی مصیبت آئی ہے اتنا ہی زیادہ جماعت نے ہمیشہ اخلاص اور وفا کا نمونہ دکھایا ہے.حیرت انگیز جماعت ہے اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ہے.کوئی دنیا کی جماعت ایسی نہیں ہے جس پر ایسے خطرناک ابتلا آئیں اور وہ اپنی وفا اور ایثار اور قربانی میں پہلے سے بھی زیادہ بڑھ جائے.پس پاکستان میں بھی جماعت کا یہی حال ہے اور حیرت انگیز اخلاص کے اندر اضافے ہورہے ہیں.جو خطوط آتے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ وہ لوگ جو بعض دفعہ مسجد کی زیارت سے بھی محروم رہتے تھے وہ تہجدوں میں اٹھ کر گریہ وزاری کرتے ہیں اور اس کثرت سے دعاؤں کے خط آتے ہیں کہ دعا
خطبات طاہر جلد۳ 288 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء کریں ہمارے لئے اللہ میں شہادت نصیب کرے اور ہر طرف سے، گزشتہ کچھ عرصہ سے خاندان مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بچوں کی طرف سے بھی بڑے دردناک خط آرہے ہیں کہ یہ دعا کریں اور ہمیں وعدہ دیں اپنا کہ جب آپ نے جان کی قربانی کا مطالبہ کیا تو پہلے ہمیں موقعہ دیں گے دوسروں کو بعد میں دیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خاندان کا یہ بھی حق ہے کہ وہ قربانی کے ہر میدان میں آگے آئے.چنانچہ ذہنی طور پر میں تیار ہوں اور میں نے بعض عہد کر لئے ہیں انشاء اللہ تعالیٰ ان نوجوان بچوں کا اخلاص ضائع نہیں جائے گا لیکن ساری جماعت کا یہ حال ہے پاکستان کی ، بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو حیران ہیں کہ ایسا معجزہ ہم نے کبھی زندگی میں سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ ظاہر ہوگا.وہ لوگ نہایت بیچارے جن کو ہم ردی سمجھتے تھے اس قدر جوش اور محبت اور اخلاص کے ساتھ جان دینے کے لئے تڑپ رہے ہیں کہ صرف ایک اشارے کی ضرورت ہے.تو یہ جماعت کوئی مٹنے والی جماعت تو نہیں ہے.کون دنیا کی طاقت ہے جو ایسی جماعت کو مٹا سکے جو ہر ظلم کے وقت زیادہ روشن ہوتی چلی جائے ، ہر اندھیرے پر اس کو نیا نور خدا کی طرف سے عطا ہو.چنانچہ باہر کی جماعتوں میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہی اخلاص ، یہی جذبہ ہے.گزشتہ خطبہ میں میں نے مالی قربانی کی تحریک پیش کی تھی کہ یورپ میں سر دست دو یورپ کے مراکز بنانے کا ارادہ ہے کیونکہ سلسلے کے کام بہت تیزی سے پھیلتے چلے جارہے ہیں اور یہ چھوٹا سا رقبہ جو کسی زمانے میں بہت بڑی جگہ نظر آیا کرتی تھی یہ تو بالکل ناکافی ہو چکا ہے.لنڈن کی جماعت کے لئے بھی نا کافی ہو چکا ہے کجا یہ کہ انگلستان یا یورپ کے ایک حصہ کا مرکز بنے اور پھر جو تبلیغ کے منصو بے نئے بن رہے ہیں عظیم الشان، ان کے لحاظ سے تو بہت بڑے بڑے کام ہونے والے ہیں، بہت بڑے بڑے دفاتر کی ضرورت ہے، مشینوں کی ضرورت ہے، کام کرنے والوں کی ضرورت ہے اس لئے لازماً ہمیں سر دست دو مرکز ضرور یورپ میں بنانے پڑیں گے وسیع پیمانے پر، ایک انگلستان میں اور ایک جرمنی میں پھر آہستہ آہستہ اور مراکز بن جائیں گے اور ایک ایک ملک کا ایک مرکز ہو جائے گا تو اس تحریک کے نتیجہ میں خدا کے فضل سے اب تک اگر چہ بہت سے احباب کے وعدے آنے والے ہیں لیکن جو سر دست وعدے آئے ہیں انگلستان کے وعدے ایک لاکھ اکانوے ہزار سات سو باون پاؤنڈ کے وصول ہو چکے ہیں اور مغربی جرمنی کی طرف سے پچاسی ہزار پانچ سو پچاس
خطبات طاہر جلد ۳ 289 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء پاؤنڈ کے وعدے آچکے ہیں.اسی طرح امریکہ کی طرف سے ایک لاکھ چالیس ہزار آٹھ سو پینتالیس پونڈ کے وعدے وصول ہو چکے ہیں اور کل وعدے اب تک چار لاکھ انیس ہزار ایک سوسینتالیس پاؤنڈ کے بنتے ہیں جن میں سے پینتالیس ہزار پاؤنڈ سے کچھ اوپر یا چھیالیس کے قریب یہ تو نقد وصول ہو گئے ہیں اور بعض دوستوں نے مثلاً ایک ہمارے انگلستان کے ایک بڑے مخلص دوست ہیں انہوں نے پچاس ہزار پاؤنڈ کا وعدہ کیا ہے وہ فرماتے تھے کہ میں جون میں ادا کر دوں گا، وہ آج کل بیمار بھی ہیں ان کے لئے دعا بھی کریں اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اور اسی طرح امریکہ کے ایک نو جوان ڈاکٹر نے باوجود اس کے کہ امریکہ کو براہ راست مخاطب نہیں کیا گیا تھا پچاس ہزار ڈالرز کا وعدہ کیا ہے جو وہ عنقریب بھجوا دیں گے انشاء اللہ تعالی.یہ وعدے تو ہیں جو عموماً موٹی موٹی رقموں کے لیکن جماعت کے دونوں کنارے اللہ تعالیٰ نے قربانی اور اخلاص کے ساتھ مزین کر رکھے ہیں، ایک طرف ایسے ایسے مخلص افراد ہیں جو لکھوکھا کے وعدے کر رہے ہیں اور دوسری طرف ایسے غربا ہیں جن کے پاس سو پاؤنڈ جمع تھے یا دو سو پاؤنڈ جمع تھے کسی ضرورت کے لئے رکھے ہوئے تھے بلاتر در انہوں نے وہ پیش کر دیئے ہیں اور پھر وہ نظارہ نظر آ رہا ہے جو تحریک جدید کے آغاز پر مستورات کا میں بچپن میں اپنے گھر میں دیکھا کرتا تھا.عورتیں، بچیاں، کسی نے چوڑی پکڑی ہوئی کسی نے کڑا پکڑا ہوا، کسی نے بندے اور بڑے عجیب جذ بے جوش کے ساتھ حضرت مصلح موعودؓ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتی تھیں کہ ہماری یہ قربانی قبول فرمائیں.انگلستان کی جماعت میں بھی بکثرت ایسی مستورات ہیں جنہوں نے بڑے ذوق و شوق کے ساتھ اپنے ہاتھوں کے کنگن اتار دیئے ، اپنی چوڑیاں اتار دیں، اپنے بندے اتار دیئے ، اپنے سر کے زیورا تار دیئے ، اور بعضوں نے تو ایسی پیاری ادا کے ساتھ بھجوایا ہے کہ بچیوں کی انگوٹھیاں ان کے بندے چھوٹے چھوٹے ہر ایک کا نام لکھ کر سجا کر جس طرح جاہل لوگ دنیا میں بکرے سجاتے ہیں وہ تو اپنی ریا کی خاطر سجاتے ہیں لیکن خدا کے بندے اپنے تحفوں کو خدا کے حضور سجا کر پیش کرتے ہیں کسی ریا کی خاطر نہیں بلکہ محض للہی محبت میں.تو بڑے پیار سے سجا کر ان زیوروں کو بھجوایا گیا.بعض نوجوان جوڑوں نے اس قربانی کا مظاہرہ کیا خصوصاً ان کی بیویاں تو غیر معمولی طور پر دعاؤں کی مستحق ہیں کہ خاوند نے اپنی جگہ چندے دیئے اور بیوی کی تسکین نہیں ملی.اس نے کہا کہ جب تک میں زیور نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 290 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء دوں گی مجھے تو چین نہیں ملے گا چنانچہ باوجود اس کے کہ خاوند نے سارے خاندان کو شامل کیا ہوا تھا انہوں نے پھر بھی اپنا زیور بھجوا دیا.ایک بچی نے معلوم ہوتا ہے کہ اپنا وہ سیٹ بھی بھجوادیا ہے جو اس کو بری میں ملا تھا اور وہ بھی بھجوا دیا ہے جو جہیز میں ملا تھا کیونکہ دو کمل سیٹ ہیں اور بڑی عاجزی کے ساتھ یہ عرض کرتے ہوئے کہ اس کو قبول فرمائیں اور میرے دل کی تسکین کا سامان کریں.تو عجیب دنیا ہے یہ، کچھ لوگ ہیں جو ناحق لوگوں کے چھین کر اپنے ہاتھوں میں پہنتے ہیں اور لوگوں کی دولتوں کو اپنی گردنوں کے کڑے بنادیتے ہیں جو آخر طوق بننے والے ہیں لیکن ایسے بھی لوگ دنیا میں ہیں اور کچھ ایسے ہیں جن کو اپنے ہاتھوں کے زیور برے لگنے لگتے ہیں ، ان سے نفرت ہونے لگتی ہے، وہ اپنے گلوں کے ہارا تار دیتے ہیں خدا کی خاطر اور اس بات میں ان کو تسکین ملتی ہے کہ ہم خالی ہو گئے ہیں اپنے رب کے حضور.اس جماعت کو دنیا کی کون طاقت مار سکتی ہے ! بڑا ہی جاہل ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ میں اٹھا ہوں اس دنیا میں اس جماعت کو تباہ کرنے کے لئے ، بڑے بڑے پہلے آئے ہیں، بڑے بڑے ہم نے پہلے دیکھے ہیں آئے اور نیست و نابود ہو گئے ، ان کے نشان مٹ گئے اس دنیا سے، لیکن ان غریبوں کی قربانیوں کو خدا نے قبول فرمایا اور پہلے سے بڑھ کر عظمت اور شان عطا کی جنہوں نے اپنے گھر خدا کے لئے خالی کئے.ان پر اتنی برکتیں نازل فرما ئیں کہ آج ان کی اولادیں بھی ان کی نیکیوں کا پھل کھا رہی ہیں اور وہ ختم نہیں ہو رہا.تو اس نئے قربانی کے دور میں جماعت جو داخل ہوئی ہے ،نئی خوش خبریوں کے دور میں داخل ہوئی ہے، نئی عظیم الشان ترقیات کے دور میں داخل ہوئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ اب ہم ان مقاصد کو بھی حاصل کر رہے ہیں جن کی خاطر ان چندوں کی تحریکات کی گئیں تھیں.چنانچہ آج ہی امریکہ سے یہ خوشخبریاں موصول ہوئی ہیں جو جماعت کو معلوم ہونی چاہئیں کیونکہ جہاں اللہ کی راہ میں دکھ کا مزہ ہے وہاں خدا کی طرف سے جو فضل نازل ہوتے ہیں ان کا بھی تو ایک مزہ ہے اور وہ بھی عجیب مزہ ہے اس لئے یہ دونوں باتیں اکٹھی چلنی چاہئیں اور مومن کی عجیب شان ہے اس کے دکھ میں بھی لذت ہے، اس کی خوشی میں بھی لذت ہے اس کا دکھ بھی آنسو بن کر گرتا ہے خدا کے حضور اس کی خوشیاں بھی خدا کے حضور آنسو بن کے گرتی ہیں.یہ دنیا ہی الگ ہے اور دنیا والے اس دنیا کو سمجھ نہیں سکتے.بہر حال جو واشنگٹن سے شیخ مبارک احمد صاحب نے خوش خبریاں
خطبات طاہر جلد ۳ 291 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء بھجوائی ہیں وہ میں آپ کو بتاتا ہوں کہ نیو یارک میں ایک بہت ہی عظیم الشان بہت ہی مفید اور سلسلے کی ضروریات کو بہت حد تک پورا کرنے والی عمارت کا چار لاکھ ستاون ہزار ڈالرز میں سودا ہو چکا ہے اور ماہرین نے جو دیکھا ہے وہ انہوں نے کہا ہے کہ یہ اس کی قیمت چھ لاکھ ڈالرز سے کم نہیں تھی.یہ جماعت کی خوش قسمتی ہے کہ اتنی اچھی عمارت نیو یارک میں اتنی اچھی جگہ پر ان کو میسر آجائے اور ساتھ ہی ایک احمدی دوست نے یا بعض احمدی دوستوں نے مل کر ایک ملحقہ پلاٹ جس پر رہائشی مکان بھی موجود ہے انہوں نے مل کر جماعت کو تحفہ دینے کا فیصلہ کر لیا ہے تاکہ مبلغ جو وہاں ٹھہرے اس کی ضروریات الگ بھی پوری ہوسکیں اور ایک مہمان خانہ بھی مل جائے.لاس اینجلس میں چارا یکٹر کا پلاٹ خریدا جا چکا ہے اور شکاگو میں پانچ ایکٹر کا پلاٹ خریدا جاچکا ہے.ڈیٹرائٹ میں جہاں مظفر شہید ہوئے تھے سات ایکٹر کا ایک پلاٹ کا سودا ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ مکان بھی شامل ہے اور واشنگٹن میں جو ہمارا مرکز ہے وہاں خدا کے فضل سے چوالیس ایکٹر کا رقبہ خرید لیا گیا ہے اور اب صرف Formalities باقی ہیں.یہ تو پانچ وہ مراکز ہیں جن کے متعلق میں نے نشاندہی کر کے اہل امریکہ سے کہا تھا کہ یہ پانچ مراکز وہ جلد از جلد قائم کریں لیکن ساتھ ہی میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ اگر دس ہو جائیں اور باقی جو پانچ ہیں وہ جماعت مقامی طور پر اس قربانی کے علاوہ کوشش کر کے بنائے تو اس سے مجھے بہت ہی خوشی پہنچے گی ایک تحریص کا ذریعہ تھا، چنانچہ جماعت نے اس کو بھی قبول کیا اور یارک میں ایک عمدہ عمارت اس چندے کی تحریک کے علاوہ خریدی جا چکی ہے اور وہ پارک کا سنٹر بن گیا ہے اور نیو جرسی میں ایک کونے کا نہایت عمدہ پلاٹ جو ایک ایکٹر کا ہے وہاں کے ہمارے ایک مخلص احمدی ڈاکٹر جو پچیس ہزار ڈالر چندے کا اس تحریک میں بھی دے چکے تھے انہوں نے خواہش ظاہر کی ہے بلکہ خرید کر پیش کر دیا ہے اور کا روائی مکمل ہورہی ہے.تو یہ خوش خبریاں بھی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اور آج ہم انشاء اللہ تعالی شام کو ایک پلاٹ دیکھنے جائیں گے جو آپ کے یورپ کے پہلے مرکز کے لئے خریدا جا رہا ہے.احباب دعا کریں اللہ تعالیٰ اس میں بھی ہماری راہنمائی فرمائے اور وہ ایک غالباً سولہ ایکٹر یا اٹھارہ ایکٹر، سولہ سے اٹھارہ ایکٹر تک کا رقبہ ہے جس میں ایک عمارت بھی بنی ہوئی ہے اور ساتھ وسیع پیمانے پر زمین بھی مل رہی ہے.میرا جو اندازہ تھا وہ یہ تھا کہ پانچ پانچ لاکھ پاؤنڈ کے دومراکز ہم سر دست قائم کریں گے تو
خطبات طاہر جلد ۳ 292 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء اس لحاظ سے تو امید نظر آرہی ہے کہ انشاء اللہ بہت جلد یہ ٹارگٹ پورا ہو جائے گا کیونکہ پانچ لاکھ کے لگ بھگ تو چندوں کے وعدے آچکے ہیں اور زیورات کی قیمتیں لگ کر ابھی ان کو اس میں داخل کرنا باقی ہے تو بہر حال جو بھی اللہ تعالیٰ عطا فرمائے اس کے بہترین مصرف کی توفیق عطا فرمائے اور جو ہم عمارت خریدیں اس کے لئے دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اسے اسلام کی خدمت میں ، ہر ہر اینٹ اس کی اسلام کی خدمت میں استعمال ہو ہر ہر کو نہ اس کا ، ہر سائے کی جگہ، ہر دھوپ کی جگہ، اندر اور باہر اللہ کی برکتیں اس پر نازل ہوں اور قیامت تک کے لئے وہ عمارتیں ان لوگوں کے لئے دعا بن جائیں جنہوں نے ان کی خرید میں قربانیاں پیش کی ہیں اور ان کی تعمیر میں حصہ لیا ہے.تو ایک ہم عمارت کا جائزہ لینے آج جائیں گے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے جرمنی کو بھی ہدایت کر دی گئی ہے کہ وہ جلد از جلد جائزہ لیں.تو دشمن تو ہمیں مارنے کے منصوبے بنا رہا ہے ہمیں کچھ اور نظر آرہا ہے.بالکل الٹ نتائج ظاہر ہورہے ہیں.زیادہ قوت، زیادہ شان کے ساتھ جماعت آگے بڑھ رہی ہے اور تمام دنیا سے میرا ارادہ ہے اور ایک حصہ اس کا پورا بھی ہو چکا ہے کہ باری باری مختلف جگہوں سے وفود منگوا کر ان سے ان کے علاقوں میں خصوصی تبلیغ کی مہم تیز کرنے کے لئے مشورے ہوں گے اور پھر ان منصوبوں پر عمل درآمد ہوگا.چنانچہ ایک وفد حال ہی میں رخصت ہوا ہے ابھی ، تقریباً ہفتے سے زائد انہوں نے یہاں قیام کیا ان سے بڑی تفصیلی گفتگو ہوئی اور نہایت ہی مفید مشورے ہوئے ایسے ایسے Avenues، ایسے ایوان کھلے کاموں کے کہ پہلے اس کی طرف تصور بھی نہیں جا سکتا تھا.تو اس طرح مختلف جگہوں کے بعض جگہ دورہ کرنا ہے ، بعض جگہ لوگوں کو یہاں بلوانا ہے تو میں امید کرتا ہوں کہ جس طرح ہمیشہ دشمن کو اس کی مخالفت اس کی توقع سے بہت زیادہ مہنگی پڑی ہے یہ مخالفت، اتنی مہنگی پڑے گی اتنی مہنگی پڑے گی کہ نسلیں ان کی پچھتائیں گی جو دشمن رہیں گی اور آپ کی نسلیں دعائیں دیں گی ایک وقت آکر ان لوگوں کو جن کی بے حیائی کے نتیجہ میں اللہ نے اتنے فضل ہمارے اوپر فرمائے ہیں.ایک یہ بھی طریق ہوتا ہے جواب کا کہ ہم دعا دیتے ہیں ظالم تجھے کہ تیرے ظلم کے نتیجہ میں اتنے فضل خدا نے ہم پر نازل فرما دیئے.چنانچہ ایک دفعہ ایسا ہی واقعہ گزرار بوہ میں، ایک پرانے زمانے کی بات ہے یعنی اتنی پرانی
خطبات طاہر جلد ۳ 293 خطبه جمعه ارجون ۱۹۸۴ء بھی نہیں لیکن تقریباً تیرہ چودہ سال کی ، ایک پیپلز پارٹی کے راہنما جو وزیر بھی تھے وہ ربوہ دیکھنے کے لئے آگئے اور حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے مجھے فرمایا کہ تم ان کو دکھاؤ چنانچہ ان کو دکھاتے دکھاتے جب میں نے تحریک جدید کا دفتر دکھایا تو انہوں نے کہا یہ کیا چیز ہے؟ میں نے کہا یہ آپ لوگوں کا تحفہ ہے.انہوں نے کہا ہم نے کون سا تمہیں تحفہ دیا ہے؟ میں نے کہا نہیں آپ سے پہلے لوگ دے چکے ہیں اور پھر وقف جدید کا دکھایا تو انہوں نے کہا یہ کیا ہے؟ میں نے کہا یہ بھی آپ لوگوں کا تحفہ ہے پھر انہوں نے تعجب کیا تو میں نے کہا یہ آپ سے پہلے لوگ دے چکے ہیں تحفہ، لیکن میں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ آپ بھی ایک تحفہ دینے والے ہیں اور وہ بعد میں ظاہر ہوگا تو آخر انہوں نے بے چین ہوکر کہا کہ کچھ بتاؤ تو سہی اب کہ کیا کہ رہے ہو؟ کن معموں میں باتیں کر رہے ہو؟ میں نے کہا تحریک جدید کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب کہ جماعت نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے توفیق پاکر مسلمانوں کی ایک بہت عظیم الشان خدمت کی تھی یعنی کشمیر میں اور بدقسمتی سے اس دور کے راہنماؤں نے سمجھا کہ اب اگر اس خدمت کو قبول کر لیا گیا تو جماعت بڑی تیزی سے پھیل جائے گی اس لئے اس کا بدلہ ظلم کے سوا اور کوئی بدلہ نہیں ہے.چنانچہ مجلس احرار قائم ہوئی اور یہ ارادے ہوئے کہ قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے، یہ دعوے ہوئے کہ ایک بھی نہیں بچے گا یہاں اس بستی میں جو مرزا صاحب کا نام بھی جانتا ہوں.اس وقت ایک اور آواز ہم نے اٹھتی ہوئی سنی اور وہ آواز یہ اعلان کر رہی تھی کہ میں احرار کے پاؤں تلے سے زمین نکلتی ہوئی دیکھ رہا ہوں اور اس کثرت سے خدا ہمیں پھیلائے گا کہ دنیا کے کونے کونے میں ہمیں پھیلا دے گا اور دنیا کے کونے کونے میں کناروں تک اللہ اپنے فضل کے ساتھ مسیح موعود کی تبلیغ کو پہنچائے گا.چنانچہ وہی ہوا اور اس ظلم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ نے تحریک جدید کے طور پر ہم پر فضل نازل فرمائے.تو یہ ایک ایسا تحفہ ہے تمہارے ظلم کا کہ جب خدا کی تقدیر ہم تک پہنچانے سے پہلے پہلے اسے فضل میں بدل دیتی ہے.جو تم ظلم دے کر چلاتے ہو وہ فضلوں میں تبدیل ہوتا چلا جاتا ہے.میں نے کہا یہ کوئی نیا واقعہ نہیں ہے یہ ازل سے اسی طرح ہوتا آیا ہے.ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام یہ کے ساتھ کیا ہوا تھا ؟ آگ ہی بھڑکائی گئی تھی نا، لیکن ابراہیم تک پہنچنے سے پہلے پہلے وہ گلزار میں تبدیل ہو چکی تھی يُنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَةٌ (الانبياء: ۷۰)
خطبات طاہر جلد ۳ 294 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء کی آواز حائل ہو جاتی ہے رستہ میں.تو تحفے تو تمہارے ہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اللہ کی تقدیر ایک(Swarm) کرتی چلی جاتی ہے جس طرح گندگی کو نہایت ہی خوبصورت پھولوں اور پھلوں میں تبدیل کر دیتی ہے خدا کی تقدیر ، اللہ سے کون لڑسکتا ہے؟ تم گندگی کے تھنے بھیجتے ہو وہ رحمتوں کے پھول بن کر ہم پر برستے ہیں، تم ظلم کے تھے بھیجتے ہو وہ فضل بن کر ہم پر نازل ہوتے ہیں.تو ہے تمہارا ہی تحفہ اس میں کوئی شک نہیں لیکن تقدیر الہی سے ہو کر آیا ہے ہم تک.پھر وقف جدید کا میں نے بتایا اور ابھی وہ موومنٹ نہیں چلی تھی جو بعد میں پیپلز پارٹی نے چلائی تو میں نے ان کو کہا کہ آپ دیکھیں گے کہ آپ بھی ایک تحفہ دیں گے ہمیں اور اس تحفے کو بھی خدافضلوں میں تبدیل کرے گا اور جماعت پہلے سے بہت زیادہ تیزی کے ساتھ بڑھے گی چنانچہ یہی ہم نے دیکھا.تو جس خدا کی یہ اہل تقدیر جماعت نے دیکھی ہو اور ہر دکھ کو رحمتوں اور فضلوں اور خوشیوں میں تبدیل ہوتے دیکھا ہو اس جماعت کے حوصلے کون مٹا سکتا ہے؟ اس جماعت کو شکست کون دے سکتا ہے؟ اس لئے لازماً جماعت احمد یہ جیتے گی.لازماً آپ جیتیں گے اور خدا کے یہ عاجز اور غریب بندے جیتیں گے جن کو آج دنیا کمزور سمجھ کر جو ظالم اٹھتا ہے اس پر ظلم شروع کر دیتا ہے مگر تقدیر الہی نے آپ کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑنا.کبھی ہمت نہ ہاریں، ہمیشہ دعاؤں اور صبر کے ساتھ اپنی اس راہ پر قائم رہیں اور دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کس کثرت کے ساتھ آپ پر فضل نازل فرماتا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: جو خوش خبریاں میں نے آپ کو سنائیں ان میں ایک ایسی خوشخبری کا بھی اضافہ کرنا چاہتا ہوں جوان سب پر بھاری ہے، اس سے زیادہ عظیم الشان خوش خبری کوئی احمدی اپنے متعلق سوچ بھی صلى الله نہیں سکتا اور وہ خوش خبری ہمیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے دی ہے.آپ فرماتے ہیں، کنز العمال میں ہے یہ حدیث ، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے جن کے سارے حقوق تلف کر لئے جائیں گے لیکن وہ اپنی طرف سے تمام حقوق ادا کیا کریں گے باوجود اس کے کہ ایک طرف لوگ ان کے حقوق تلف کر رہے ہوں گے وہ اپنی طرف سے تمام حقوق ادا کرتے رہیں گے.ایسے لوگوں کے متعلق آنحضرت علی نے خوش خبری دی کہ یہ وہ لوگ ہیں جو میرے ہیں اور میں ان کا ہوں.خدا ان پر فضل نازل فرمائے گا ، اللہ ان کو ضائع نہیں کرے گا اور میں
خطبات طاہر جلد ۳ 295 خطبہ جمعہ ارجون ۱۹۸۴ء یہ خوش خبری ان کو دیتا ہوں کہ وہ میرے ہیں اور میں ان کا ہوں.(کنز العمال، الا کمال الباب السابع ، فضائل في هذه الامة المرحومة، المجلد الثانی عشر) تو جس جماعت کے نصیب میں ، جس کے مقدر میں یہ لکھا جائے کہ چودہ سو سال پہلے حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کو ان کا حال بتا دیا گیا تھا، بتایا گیا تھا کہ ان کے سارے حقوق تلف کر لئے جائیں گے لیکن وہ اپنی طرف سے سارے حقوق ادا کرتے رہیں گے اور چودہ سو سال پہلے حضور نے یہ پیغام بھیجا ہو ہمیں کہ میں تمہارا ہوں تم میرے ہو اس سے بڑھ کر اور کیا جنت ہمارے لئے ہوسکتی ہے.پس یہ بھی خوش خبری ہے و طوبیٰ لکم اے محمد مصطفی ﷺ کے غلاموا تمہیں طوبی ہو، تمہیں بے انتہا بر کتیں اور خوش خبریاں خدا کی طرف سے پہنچتی رہیں کہ تم محمد مصطفی ﷺ کے ہو چکے ہو اور محمد مصطفی ﷺ تمہارے ہو گئے.اس کے بعد ایک اعلان کرنا ہے دو جنازہ ہائے غائب کا، ایک جنازہ غائب تو مکرم محترم مولانا سید شاہ محمد صاحب سابق مبشر انڈونیشیا کا ہے.بڑے فدائی، خدمت کرنے والے، دعا گو، صاحب کشف بزرگ تھے اور حتی المقدور ہمیشہ خدمت میں مصروف رہے.ان کے متعلق معلوم ہوا کہ ان کو انڈو نیشیا میں ہارٹ اٹیک ہوا جس کی وجہ سے وہ وفات پاگئے.اسی طرح ایک خاتون ہیں آپا سلیمہ بیگم جو حیدر آباد دکن کے ایک نہایت مخلص خاندان کی خاتون ہیں اور سیٹھ غلام غوث صاحب کی صاحبزادی ہیں.ان کو ہمیشہ سے ہی جماعت سے بہت ہی غیر معمولی عشق رہا ہے اور مجھے یاد ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام آتے ہی یا آپ کے خلفاء کا بلکہ آپ کے بچوں کا، بے اختیار ان کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگتے تھے اور ان کی یہ چھیٹر بن گئی تھی کہ آپا کو تو بس نام لے لو کوئی مسیح موعود علیہ السلام یا خلیفہ وقت کا یا آپ کے بچوں کا تو یہ وفور جذبات سے رونے لگ جاتی ہیں اور واقعتہ آنسوؤں سے روتی تھیں یعنی ایسی محبت تھی کہ برداشت نہیں ہوتی تھی.تو یہ بھی بڑی ایک لمبی بیماری کے بعد وفات پاگئی ہیں کراچی میں ، یہ غیر معمولی چونکہ عشق کا جذبہ رکھتی تھیں اس لئے ان کا بھی حق ہے ان کے لئے بھی نماز جنازہ غائب پڑھائی جائے گی.
خطبات طاہر جلد ۳ 297 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء الہی جماعتوں کو پیش آنے والے ابتلاؤں کا فلسفہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ جون ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِمَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا مِنْهُمْ وَاتَّقَوْا أَجْرٌ عَظِيم الَّذِينَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ إِيمَانًا وَقَالُوا حَسْبُنَا اللَّهُ وَنِعْمَ الْوَكِيْلُ فَا نَقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٍ وَاتَّبَعُوا رِضْوَانَ اللَّهِ وَاللَّهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ إِنَّمَا ذُلِكُمُ الشَّيْطنُ يُخَوِّفُ اَوْ لِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ اِنْ كُنْتُم مُّؤْمِنِينَ
خطبات طاہر جلد ۳ 298 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء وَلَا يَحْزُنُكَ الَّذِينَ يُسَارِعُوْنَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللهَ شَيْئًا يُرِيدُ اللهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظَّا فِي الْآخِرَةِ ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِيْمَانِ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا ۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمُ وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لَّا نْفُسِهِمْ ۖ إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ لِيَزْدَادُوا إِثْمًا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ مَا كَانَ اللهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمْ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيْنَ الْخَيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ وَمَا كَانَ اللهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللهَ يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرُسُلِهِ وَإِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرُ عَظِيم (آل عمران :۱۷۳-۱۸۰) ه اور پھر فرمایا: ہر انسان کا ایک مطمح نظر ہوتا ہے اور جتنا جتنا وہ اس تطمح نظر کے قریب ہوتا چلا جاتا ہے اس کے لئے ایک روحانی لذت کا سامان پیدا ہوتا جاتا ہے اور جب وہ زیادہ قریب ہو جائے تو پھر لوگوں کی انگلیاں اٹھتی ہیں اور وہ کہتے ہیں دیکھو یہ اس کے کتنا قریب ہے یا کتنا مشابہ ہے.وہ لوگ جو دنیا دار ہیں ان کے دنیاوی مح نظر ہوتے ہیں.جو مذہبی لوگ ہیں ان کے مذہبی مح نظر ہوتے ہیں چنانچہ بعض ایسے بھی ہیں جو اس بات میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ فلاں ایکٹر (Actor) سے ان کی تصویر ملتی ہے اور وہ حلیہ بھی ویسا بنانے لگ جاتے ہیں اپنے بالوں کی قطع تراش کا رنگ ڈھنگ،اپنے چلنے پھرنے کا انداز یہاں تک کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اب لوگوں کی بھی انگلیاں اٹھیں گی کہ دیکھو یہ فلاں ایکٹر سے ملتا ہے.بعض شاعر ایسے ہوتے ہیں جن کا انداز کلام کسی گزشتہ بڑے شاعر سے ملتا ہے اور وہ اس پر فخر کرتے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو اسے فلاں شاعر کا سا انداز نصیب ہو گیا چنانچہ اس شوق میں ایک شاعر یہاں تک بھی کہتا ہے کہ نہ ہوا پر نہ ہوا میر سا انداز نصیب ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا مط تو کوشش بھی کرتے ہیں محنت بھی کرتے ہیں لیکن بعض اپنے مطمح نظر کے قریب نہیں پہنچ سکتے.یہ سارے
خطبات طاہر جلد۳ 299 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء لوگ اپنے اپنے رنگ میں اپنی اپنی فکر اور اپنی اپنی ہمت کے مطابق اس زندگی کے مزے لوٹتے ہیں جوان کے نزدیک زندگی ہے لیکن سب سے خوش نصیب وہ لوگ ہیں جن کی شکلیں ، جن کی صورتیں، جن کے انداز ، جن پر گزرنے والے حالات حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے اور ان سے ملتے ہوں جو آپ کے ساتھ تھے.چنانچہ یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں انہی حالات کا ذکر ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصویر جو کبھی مکہ میں بنائی گئی تھی جس پر ہمارے آقا و مولیٰ ، اللہ ہمارے پیارے خدا کی نظریں پیار سے پڑ رہی تھیں اور جس نے اس تصویر کو اس کے ایک ایک نقش کومحفوظ کر لیا، وہ تصویر اب دوبارہ بنائی جارہی ہے اور یہ تصویر بنانے والے آپ ہیں یعنی احمدی جماعت کے خوش نصیب جن کا رنگ آج حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے غلاموں سے مل رہا ہے اور وہ فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں ، اس فخر سے جس کی مذہب اجازت دیتا ہے کہ آج ہم وہ لوگ ہیں جن کی شکل اُن لوگوں سے ملتی ہے جن کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ ط فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيْمَا هُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ (الفتح:٣٠) یہ جو آیات میں نے تلاوت کی ہیں یہ دراصل اسی آیت کی تفصیل ہے اور وہی تصویر جو اس آیت میں مختصراً کھینچی گئی ہے اس کو زیادہ تفصیل کے ساتھ ان آیات میں بیان کیا گیا ہے جو میں نے شروع میں تلاوت کی تھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الَّذِينَ اسْتَجَابُوَالِلَّهِ وَالرَّسُوْلِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ.کہ دعویدار تو بہت ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ اور اس کے رسول کی بات مانتے ہیں لیکن ایسے دعوے دار کہاں ہیں اور کتنے ہیں جو جب زخم پہنچتے ہوں اس راہ میں تب بھی کہیں ہاں ہم اپنے اللہ اور اپنے رسول کی بات مانتے ہیں اور اسی پر قائم رہیں گے تو فرماتا ہے الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ مِنْ بَعْدِ مَا أَصَابَهُمُ الْقَرْحُ کہ ایسے بھی خدا کے بندے ہیں جن کو جب زخم پہنچتے ہیں اس وقت بھی وہ خدا اور رسول کی بات کو مانتے چلے جاتے ہیں لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا مِنْهُمُ اور پھر ان میں ایسے بھی ہیں جو اپنے اس حسن کو درجہ کمال تک پہنچا دیتے ہیں وَاتَّقَوا اور اللہ کا تقویٰ اختیار کرتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے اَجْرٌ عَظِيم.ہے،
خطبات طاہر جلد ۳ بہت بڑا اجر ہے.300 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء چنانچہ آج پاکستان میں بعینہ یہی نقشہ نظر آ رہا ہے بلکہ کچھ اور بھی رنگ اس میں ایسے داخل ہوئے ہیں کہ عقل متعجب ہوتی ہے.کچھ لوگ جو پہلے ثابت قدم تھے ان کو تو اللہ تعالیٰ نے اَحْسَنُوا کے مقام پر پہنچا دیا اور کچھ وہ لوگ جو پہلے کمزور تھے اور پیچھے تھے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ اسْتَجَابُو اللَّهِ وَالرَّسُولِ کی خوش قسمت فہرست میں ان کے نام نہیں ہوں گے وہ بھی آگے بڑھے ہیں اور اس کثرت سے خط آتے ہیں حیرت اور تعجب کے اظہار پر مشتمل کہ ایسے ایسے لوگ ایسے ایسے نوجوان جن کو کبھی سوائے عید بقر عید کے مسجد میں دیکھا ہی نہیں گیا تھا اس کثرت سے مسجدوں میں آتے ہیں، اس کثرت سے مسجد میں بھر گئی ہیں کہ وہ جو پہلے بڑی نظر آیا کرتی تھیں اب چھوٹی دکھائی دینے لگی ہیں.کل ہی ربوہ سے ایک خط ملا.ایک محلے کے ہمارے ایک بزرگ ہیں ان کی طرف سے، انہوں نے کہا کہ میں حیران ہوں کہ یہ مسجد جو بڑی کھلی تھی اور لوگ اس کے تھوڑے سے حصے میں سما جایا کرتے تھے اب جتنا زیادہ خوف پیدا کیا گیا ہے اور ڈرا کر خدا کی عبادت سے روکنے کی کوشش کی گئی ہے اسی قوت کے ساتھ جذبۂ عبادت ابھرا ہے اور اس شان کے ساتھ ابھرا ہے کہ چھوٹے کیا اور بڑے کیا، جوان کیا اور بوڑھے کیا، سارے پانچوں وقت مسجدوں میں آتے ہیں بلکہ تہجد کے وقت بھی پہنچ رہے ہیں اور مسجد کا صحن بھر جاتا ہے اور جہاں جوتیاں رکھی جاتیں تھیں وہاں بھی لوگ سجدے کر رہے ہیں.تو یہ وہ نظارہ ہے جس کا قرآن کریم نے آج سے چودہ سو سال پہلے ذکر فرمایا تھا.کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی تصویر میں ان لوگوں سے مل رہی ہیں جن پر ہمارے خدا کے پیار کی نظریں پڑی تھیں.الَّذِینَ قَالَ لَهُمُ النَّاسُ إِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوا لَكُمْ فَاخْشَوْهُمْ فَزَادَهُمْ اِيْمَانًا.وہ لوگ جن کو لوگوں نے جا کر یہ ڈرایا اور کہا کہ دیکھو لوگ تو تمہارے خلاف اکھٹے ہو گئے ہیں پس ان کا خوف اختیار کر ولیکن وہ عجیب قوم ہے کہ خوف کی بجائے ان کا ایمان ترقی کر گیا وقَالُوا حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَكِيلُ انہوں نے کہا ہمارا اللہ ہمارے لئے بہت ہے وَنِعْمَ الْوَکیلُ اور اس کے سپر دہم سب کچھ کرتے ہیں جو سب سے بہتر سپر د داری کا حق ادا کرنے والا ہے.
خطبات طاہر جلد۳ 301 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء چنانچہ پاکستان میں بعض نہایت کمزور جگہوں پر بھی ایسی جگہوں پر جہاں صرف ایک احمدی تھا اور وہ بھی تازہ ابھی چند ماہ پہلے ہوا تھا وہاں بھی اس نے صبر واستقامت کا ایسا حیرت انگیز نمونہ دکھایا ہے کہ سارے علاقے میں اس کی باتیں شروع ہو گئیں.سرگودھا کے ایک علاقے میں ایک احمدی ہوا، چند ماہ پہلے وہ ربوہ آیا، مجلس سوال و جواب میں دلچسپی پیدا ہوئی ، اس نے قبول کر لیا اور کہنا تو یہ چاہئے کہ اللہ کے فرشتوں نے اس سعید فطرت کو مجبور کر کے احمدی بنا دیا.اس قدر شدید اس کی مخالفت ہوئی سارے گاؤں کی طرف سے بائیکاٹ ہی نہیں بلکہ حملے کر کے اس کے گھر کی دیوار گرادی گئی، پانی بند کر دیا گیا، کھانے کے سارے راستے اس کے بند کر دیئے گئے ، بول چال اس کی بند ہوگئی اور جب احمدی اس کو باہر سے تسلی دلانے کے لئے گئے تو اس نے کہا تم کیا کہتے ہو مجھے تو اب ایمان کا مزہ آیا ہے.تسلی کس بات کی میں تمہیں تسلی دلاتا ہوں کہ میری طرف سے کوئی خوف نہ کرو مجھے تو اب زندگی کا مزہ آنا شروع ہوا ہے کہ ایمان کی زندگی ہوتی کیا ہے.پس جتنا لوگوں نے ڈرایا اتنا ہی زیادہ ایمان بڑھنا شروع ہوا اور یہ ایک جگہ کا واقعہ نہیں ہزار ہا ایسے واقعات پاکستان میں آج گزر رہے ہیں کہ جتنے خوف بڑھ رہے ہیں اتنا ایمان ترقی کرتا چلا جارہا ہے.فرماتا ہے فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِّنَ اللهِ وَفَضْلٍ لَّمْ يَمْسَسْهُمْ سُو کہ وہ ایسے لوگ ہیں جو ان خطرات میں سے اس حال میں لوٹے کہ ان کی جھولیاں خدا کے فضلوں سے بھری ہوئی تھیں اور اس کی نعمتیں اور فضل لوٹ کر وہاں سے لوٹے.یہ عجیب قوم ہے کہ جہاں موت بنتی ہو جہاں دکھ تقسیم کر رہے ہوں وہاں سے فضل اور نعمتیں لے کر لوٹ رہی ہولَمْ يَمْسَسْهُمْ سُو ان کو برائی نہیں پہنچ سکی ، برائی کی لمس سے وہ محفوظ رکھے گئے.یہاں سُوع کا لفظ بہت ہی حکمت کے ساتھ اختیار کیا گیا ہے.دکھ تو پہنچ جاتے ہیں مومن کو جیسا کہ قرآن کریم بارہا دوسری جگہ ذکر فرماتا ہے لیکن ان دکھوں کے پیچھے جو برائی مقدر ہوتی ہے وہ برائی نہیں پہنچتی.پس سو سے دکھ کے نتیجہ کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے دکھ تو اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ لوگ مرتد ہو جائیں ، دکھ تو اس لئے دیئے جاتے ہیں کہ ان کے ایمان میں کمزوری آجائے اور خدا کا خوف چھوڑ کر وہ بندوں کا خوف شروع کر دیں.جب ان سارے مصائب اور ساری تکلیفوں اور سب آزمائشوں کا نتیجہ بالکل برعکس نکل رہا ہو تو بجا ہے اس وقت یہ کہنالَمْ يَمْسَسْهُمْ سُوءٍ کوئی برائی ان کو نہیں پہنچ سکی و اتَّبَعُوا رِضوان الله
خطبات طاہر جلد ۳ 302 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء اور وہ اللہ کی رضا کی پیروی کرتے رہے اور رضائے باری تعالیٰ کے حاصل کرنے والوں میں شمار ہوۓ وَاللهُ ذُو فَضْلٍ عَظِيمٍ اور اللہ تعالیٰ بہت ہی بڑا فضل کرنے والا ہے.لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن پر خوف اثر کر جاتا ہے جن کو برائی پہنچ جاتی ہے اور قرآن کریم ایک حقیقت اور سچائی کی کتاب ہے، محض فرضی دعاوی کرنے والی کتاب نہیں ہے جو کسی قوم کی تعریف میں رطب اللسان ہو تو ہر دوسری چیز کو نظر انداز کر دے.ایسی کامل کتاب ہے کہ کسی پہلو کو ، فطرت کے کسی پہلوکو، حقیقت کے کسی پہلو کونہیں چھوڑتی.چنانچہ ان خوش نصیبوں کا ذکر کرنے کے بعد جو اللہ کے فضل سے اس وقت لکھوکھا جماعت پاکستان میں موجود ہیں ان چند بد قسمتوں کا بھی ذکر فرماتا ہے.اِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَنُ يُخَوِّفُ اَوْلِيَاءَ یہ تو شیطان تھاجو تمہیں ڈرانے آیا تھا اور یہ اپنے جیسوں کو ڈراتا ہے اولیاء ہ اس کے جو ولی ہیں، اس کے جو دوست ہیں، جو اس کے ہم مزاج ہیں صرف ان کو ڈرا سکتا ہے.اس آیت میں ایک بہت ہی لطیف اشارہ اس بات کی طرف کیا گیا ہے کہ ہر جماعت میں کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو جماعت کے معاندین کے زیادہ قریب ہوتے ہیں اپنی فطرت کے لحاظ سے، اپنی اُٹھک بیٹھک کے لحاظ سے، اپنی طرز کلام کے لحاظ سے، اپنے قلبی جذبات کے لحاظ سے بہ نسبت مومنین کے اور ان کو مومنین کا اولیا کہنا غلط ہے.وہ معاندین کے اولیا ہوتے ہیں ہمیشہ سے لیکن جب زلزلے آتے ہیں تو پھر چھان پھٹک ہوتی ہے، اس وقت جو معاندین کے اولیاء ہیں وہ ان سے جا ملتے ہیں اور جو مومنین حقہ ہیں ان کے متعلق پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ ان کا ایمان اور بھی ترقی کر جاتا ہے فرماتا ہے اِنَّمَا ذَلِكُمُ الشَّيْطَنُ يُخَوِّفُ أَوْلِيَاءَهُ فَلَا تَخَافُوهُمْ وَخَافُونِ إِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ پس اب یہ فرق کرنے کا وقت آ گیا ہے جو شیطان کے دوست ہیں وہ خوف زدہ ہو جائیں گے اس کی آواز پر اور جو شیطان کے دوست نہیں ہیں اور سچا ایمان لانے والے ہیں وہ اور بھی زیادہ خدا کے خوف میں مبتلا کئے جائیں گے، اور بھی زیادہ خدا کے خوف کے سامنے ان کی گردنیں جھکیں گی اور ان کے دل لرزیں گے.فرمایا پس اگر تم بھی مومن ہو خَافُونِ اِنْ كُنتُم مُّؤْمِنِينَ پھر مجھ سے ڈرو.اس کے بعد مضمون بدل کر ان دونوں گروہوں کا ذکر فرماتا ہے یعنی شیاطین جو باہر سے حملہ کرتے ہیں اور وہ اولیاء جو مومنوں کی سوسائٹی کے اندر موجود ہوتے ہیں اور اس موقع پر ٹھوکر کھا جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد۳ 303 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء فرماتا ہے وَلَا يَحْزُنُكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ ال محمد ﷺ تجھے وہ ائمة التکفیر جو کفر میں بہت زیادہ سعی کرنے والے ہیں وہ بھی تجھے کوئی دکھ نہ پہنچا سکیں یعنی اس میں ایک پیار کا بھی رنگ ہے کہ نہ پہنچا سکیں.جس طرح دعائیہ کلمہ ہوتا ہے تو خدا کی طرف سے تو دعائیہ کلمہ نہیں ہوتا اس کے لئے ہم کہیں گے پیار کا اظہار ہے.اور دوسرے معنے اس کے یہ ہیں کہ ایک خوشخبری ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہوگا وہ تجھے نہیں پہنچا سکیں گے تکلیف.فرماتا ہے ہرگز تجھے وہ لوگ جو تکفیر میں بہت آگے آگے ہیں اور پیش پیش ہیں وہ تجھے کوئی تکلیف نہیں پہنچاسکیں گے.إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللهَ شَيْئًا کیونکہ وہ لوگ خدا کوکوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتے.کتنا عظیم الشان کلام ہے! صرف دعوی ہی نہیں اس کی دلیل ساتھ پیش کر دی گئی فرمایا کہ خدا کو تو تم جانتے ہو اور ہر انسان جانتا ہے کہ کوئی بندہ تکلیف نہیں پہنچا سکتا تو جو خدا کا ہو چکا ہو جو خدا کی خاطر دکھ اٹھانے کے لئے تیار بیٹھا ہو اس کو بھی وہ تکلیف نہیں پہنچا سکتے کیونکہ اس کو تکلیف پہنچانا خدا کو تکلیف پہنچانا ہو جایا کرتا ہے.کس حسن کے ساتھ ان دونوں باتوں کو خدا سجا کے پیش فرماتا ہے لَا يَحْزُنُكَ الَّذِيْنَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ تجھے ہر گز تکلیف نہیں پہنچا سکیں گے جو کفر میں غیر معمولی سعی کرتے ہیں کیوں ؟ إِنَّهُمْ لَنْ يَضُرُّوا اللَّهَ شَيْئًا کیونکہ وہ خدا کو کوئی تکلیف نہیں پہنچا سکتے يُرِيدُ اللهُ لا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظَّا فِي الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم اور اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے اور جب خدا چاہتا ہے تو لاز م وہی ہوتا ہے کہ ان کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہ ہو وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِیم اور ان کے لئے ایک بہت ہی بڑا ج عذاب مقدر ہے.یہاں آخرۃ سے مراد صرف مرنے کے بعد کی دنیا نہیں ہے بلکہ آخرۃ سے مراد انجام ہے.فرماتا ہے تکلیف اگر وہ عارضی تجھے پہنچا بھی دیں اور بظاہر یہ معلوم ہو کہ اللہ والوں کو دکھ پہنچ گیا اور نقصان پہنچ گیا تو چونکہ خدا کو کوئی تکلیف نا کام نہیں کر سکتی اس لئے ثبوت اس کا یہ ہے صرف دعوی نہیں کہ انجام کارلاز مادہ نامراد اور ناکام رہیں گے.آخرت میں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے فِي الآخِرَةِ بالآخر انجام کار لازماً ان کے مقدر میں نامرادی اور نا کا می لکھی گئی ہے.دیکھیں صرف دعوئی ہی نہیں کرتا کیسا عجیب کلام ہے دلائل ساتھ دیتا چلا جا رہا ہے اور ایسے دلائل ہیں جن کے پیچھے ہزاروں سال کی
خطبات طاہر جلد ۳ 304 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء انسانی تاریخ گواہ بن کے کھڑی ہے.ایک بات بھی ایسی نہیں جسے تاریخ سے غلط ثابت کیا جاسکے.إِنَّ الَّذِينَ اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِيْمَانِ جیسا کہ میں نے کہا تھا اب ان لوگوں کا ذکر پھر آ گیا جو سوسائٹی کے اندر رہتے ہوئے شیطانوں کے اولیاء بنے ہوئے ہوتے ہیں ایسے موقع پر اشْتَرَوُا الْكُفْرَ بِالْإِیمَانِ وہ مرتد ہو جایا کرتے ہیں ، وہ کفر کے ساتھ ایمان کا سودا کر لیتے ہیں.ہے یا ایمان کے ساتھ کفر کا سودا کر لیتے ہیں ایسے بھی لوگ ہیں جن کے متعلق خدا فرماتا لَنْ يَضُرُّوا اللهَ شَيْئًا ان کے متعلق بھی ہم تمہیں بتا دیتے ہیں کہ یہ اندرونی دشمن بھی ہرگز تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے اور آگے اس دلیل کو خدا کھول کر بیان فرماتا ہے کہ کیوں نقصان نہیں پہنچا سکیں گے بلکہ نقصان کی بجائے فائدہ پہنچا جائیں گے.وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیم اور ان کے لئے ایک دردناک عذاب مقدر ہے.فرماتا ہے وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ خَيْرٌ لَّا نُفُسِهِمُ یہ لوگ جنہوں نے کفر اختیار کیا ایک عرصہ تک وہ ضرور خوشیاں منائیں گے اور وہی مومنوں کی آزمائش کا دور ہے ، وہی دور ہے جس میں سچا مومن جھوٹے سے اور حقیقی مومن منافق سے الگ ہو جایا کرتا ہے.فرماتا ہے یہ دور اس لئے ہے إِنَّمَا نُمْلِي لَهُمْ کہ ہم انہیں مہلت دیتے ہیں لیکن ان کو یہ ہم بتادیتے ہیں کہ یہ مہلت ان کے لئے خیر کا موجب نہیں بنے گی.کبھی خدا کی طرف سے دی ہوئی مہلت ظالموں کے لئے خیر کا موجب نہیں بنا کرتی.مہلت کا جو مضمون ہے اس کا صبر سے بڑا گہرا تعلق ہے اور امر واقعہ یہ ہے کہ صبر اور مہلت جو حقیقی صبر ہے اور جو مہلت ہے وہ بعض جگہ جا کر ایک ہی مضمون کے دونام بن جاتے ہیں.صبر کے دو پہلو ہیں ایک تو یہ کہ کمزور انسان جو بدلہ نہ لے سکے اگر بدلہ نہیں لے سکتا تو واویلا تو نہ کرے، کم سے کم بے اختیاری ہے تو اپنے زخموں کو لوگوں کے سامنے کھول کر خود اپنی جگ ہنسائی نہ کروائے یا اپنی بے چارگی کے چرچے نہ کرے.یہ بھی صبر کا ایک پہلو ہے اور صبر کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ اختیار کے باوجود طاقت کے با وجود انسان بے طاقتی کا اظہار کر رہا ہو یوں معلوم ہوتا ہو گویا وہ بے بس ہے لیکن کوئی دنیا وی بے بسی اس کو نہیں ہوتی.گالی کا جواب کمزور انسان بھی گالی سے دے سکتا ہے اور بعض اوقات لوگ جان پر کھیل جانے کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں برداشت نہیں ہوتا ان سے چنانچہ بیسیوں مرتبہ ایسا ہوا ہے ایک دفعہ نہیں کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 305 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء بعض نوجوانوں نے روتے ہوئے ، بلبلاتے ہوئے ، سکیاں لیتے ہوئے مجھ سے کہا ہے کہ ہم سے برداشت نہیں ہوتا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دی جاتی ہیں، ہماری ذمہ داری ہے، ہمیں اجازت دیں ہم اپنا دل ٹھنڈا کریں لیکن بڑے مضبوط ہاتھوں سے میں نے ان کو روکا اور ایک نے بھی نافرمانی نہیں کی.اس کو بھی صبر کہتے ہیں یعنی بے چارگی کا صبر نہیں ہے بلکہ غیر معمولی طاقت کے باوجود جب انسان جان کی بازی لگا دینے پر تڑپ رہا ہو اس وقت کوئی اصول کا مضبوط ہاتھ اس کو روک لے اور کہے کہ یہ نہیں ہوگا.پس ایسے لوگ بھی صبر کرتے ہیں اور خدا تعالیٰ خود صبور ہے وہ بھی پکڑ سکتا ہے.صبور ہونے کے نتیجہ میں جب وہ نہیں پکڑتا تو اس کو کہتے ہیں مہلت دینا.تو امر واقعہ یہ ہے کہ بندے کا صبر کہلاتا ہے اور جب صبر خدا کی طرف سے ظاہر ہو تو اسے ہم مہلت کا نام دے دیتے ہیں.اس کے پس منظر میں ایک ہی قسم کے محرکات ہیں یعنی مومن کا صبر اور اللہ تعالیٰ کی مہلت دینا اور دونوں کے ایک ہی سے نتیجے ظاہر ہوتے ہیں یعنی مہلت کے نتیجے میں یہ لوگ بجائے اس کے کہ اپنے جرم سے باز آجائیں وہ اور زیادہ بڑھنے لگ جاتے ہیں اور صبر کے نتیجہ میں وہ سمجھتے ہیں کہ یہ کمزور لوگ ہیں ان کو رگید و جتنا چا ہو، کوئی فرق نہیں پڑتا اور خدا تعالیٰ خوش خبری دے رہا ہے مومنوں کو کہ جس طرح میرا مہلت دینا ان کے کسی کام نہیں آئے گا تمہارے صبر کے نتیجے میں ان کا شوخیاں دکھانا بھی کسی کام نہیں آئے گا.ہم تو اس لئے یہ کرتے ہیں کہ جو کچھ انہوں نے کرنا ہے کر لیں ، ایک دفعہ کھلی چھٹی مل جائے ، حسرتیں اپنی نکال لیں کہ یہ بھی ہم نہیں کر سکے تھے اب یہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں اب کس طرح بچیں گے، فرماتا ہے نتیجہ کیا نکلے گا وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ لازماً ان کے لئے رسوا کن عذاب ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ الہام ہو اني مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهَانَتَک ( تذکره صفحہ ۲۷) کہ وہ جو تیری اہانت کا ارادہ کرے گا میں اسے رسوا کروں گا.پس خدا کے بندوں کا صبر ان کی طرف سے نہیں ٹوٹتا بلکہ آسمان کی طرف سے ٹوٹا کرتا ہے ان لوگوں پر.جتنا زیادہ وہ دکھ برداشت کرتے 2 ہیں ذلتوں پر اتنا ہی زیادہ آسمان کی طرف سے ان لوگوں پر ذلتیں برسائی جاتی ہیں یہ معنیٰ ہے وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ کا کہ تمہاری طرف سے تو ان کو ذلتیں نہیں پہنچیں گی لیکن وہ خدا جو عزتوں اور ذلتوں کا مالک ہے اس خدا کی طرف سے جب ان پر ذلتوں کی مار پڑے گی تو کوئی ان کو بچانہیں سکے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 306 خطبہ جمعہ ۱۸ جون ۱۹۸۴ء مَا كَانَ اللَّهُ لِيَذَرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلَى مَا أَنْتُمُ عَلَيْهِ حَتَّى يَمِيْنَ الْخَبِيثَ مِنَ الطب اب جا کر آخر پہ ساری بات کا راز کھول دیا گیا کہ آخر کیوں خدا یہ ایسا کر رہا ہے؟ مومنوں کو مصیبت پڑی ہوئی ، تکلیف میں مبتلا ، گریہ وزاری کرتے ، سینے چھلنی ہوئے ہوئے ، حال سے بے حال ہوئے ہوئے ہیں اور لکھوکھا گھروں میں کہرام مچا ہوا ہے درد کا اور خدا تعالیٰ یہ کیوں کرتا چلا جاتا ہے مہلت دیتا کیوں ہے؟ کیوں نہیں فور وہ اپنے جلال کا نشان دوسروں کو اور اپنے جمال کا نشان اپنوں کو دکھاتا ؟ فرماتا ہے اس لئے کہ اس کے پیچھے ایک حکمت ہے خدا تعالیٰ محض انسانی جذبات کی طرح یا انسانوں کی طرح جذبات میں کھیل کر فیصلے نہیں فرماتا اس کے ہر فعل کے پیچھے حکمتیں ہیں اور وہ اپنے بندوں سے جذبات کے اور پیار کے کھیل بھی کھیلتا ہے لیکن ان کے پیچھے بھی حکمتیں ہوا کرتی ہیں اس لئے خدا ایسا نہیں کرتا ہر گز ہو نہیں سکتا کہ مومنوں کو خدا اس حال میں چھوڑ دے جس پر تم ہو حَتَّى يَمِيزَ الْخَبِيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ یہاں تک کہ خبیث کو طیب سے جدا نہ کرلے.یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سوسائٹی میں بعض نا پاک لوگ ، بعض منافقین بھی شامل ہو گئے تھے اور جس طرح بعض دفعہ آندھیوں کے وقت کمزور شاخوں کا امتحان آتا ہے، سوکھے ہوئے پتوں کا امتحان آیا کرتا ہے اور وہ جھڑ جایا کرتے ہیں وہی جن میں زندگی باقی ہوتی ہے وہی بیچتے ہیں.پس یہ زلزلے اس لئے آتے ہیں کہ پاک لوگوں میں جو بد شامل ہو چکے ہیں وہ خشک ٹہنیاں جو ساتھ اٹکی ہوئی ہیں اور جو باقی درخت کو بھی نقصان پہنچا رہی ہیں ان کو یہ زلازل اور یہ طوفان تو ڑ کران سے الگ کر دیں.يَمِيْنَ الْخَيْثَ مِنَ الطَّيِّبِ کا یہ وہ مضمون ہے جو ہمیشہ ہر نبوت کی دفعہ پورا ہوا ہے کبھی ایسا واقعہ نہیں ہوا کہ خدا کی طرف سے کوئی آیا ہو اور یہ مضمون نہ کھول دیا گیا ہو اور اس میں ایک خوش خبری عظیم الشان ہے اور وہ خوش خبری ایک دلیل کا رنگ بھی رکھتی ہے.وہ یہ دلیل بنتی ہے کہ جب بھی الہی جماعتوں پر ابتلا آتے ہیں تو ان کے بدان سے الگ ہوتے ہیں اور کبھی نیک ان سے الگ نہیں ہوتے اور جب دنیاوی جماعتوں پر ابتلا آتے ہیں تو اس بات کی کوئی ضمانت نہیں ہوا کرتی.چنانچہ یہ عجیب بات ہے کہ احمدیت پر جب بھی ابتلا آئے ہیں جھڑنے والے ہمیشہ وہ ہوئے ہیں جو یا تو جماعت کے پہلے معتوب تھے یا پیسے کھا کر پیسے نہیں دے رہے تھے اور جماعت نے
خطبات طاہر جلد ۳ 307 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء ان کو پکڑا تھا کہ ایسی بے ہودہ حرکتیں کیوں کر رہے ہو یا نظام جماعت کو تو ڑ کر دوسری بے ہودہ حرکتیں کرتے تھے یا شرا میں پی رہے تھے یا جوئے کھیل رہے تھے یا اور بدکرداریاں ان کے اندر آ گئیں تھیں اور وہ کنارے پر بیٹھے ہوئے تھے اگر اور کچھ نہیں تو چندے دینے میں بڑے ست تھے اور جان نکلتی تھی ان کی پیسے سے علیحدگی کے لئے اور وہ کہتے تھے ہمیں اسی حال میں رہنے دو.تو جب الگ ہوتے ہیں تو یہ لوگ الگ ہوتے ہیں اور جس جماعت سے اس قسم کے لوگ الگ ہوں اس کا نقصان کیسے ہوسکتا ہے؟ فرمایا اگر ابتلا کے نتیجے میں تمہارے طیب الگ ہونے شروع ہو جائیں تو پھر تو تمہارے لئے بڑے صدمہ کی بات ہوگی لیکن اگر طیب اور زیادہ مضبوط ہو جا ئیں اور ان کے ایمان بڑھنے لگیں اور وہ لوگ جو نا پاک اور گندے تھے تم میں سے تم جانتے ہو کہ تم میں سے وہ گندے تھے وہ الگ ہوتے ہیں تو پھر تمہارے لئے صدمے کا کیا موقعہ ہے؟ چنانچہ جماعت کی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمیشہ اسی قسم کے کمزور الگ ہوئے ہیں بلکہ ایک موقع پر ایک غیر مبائع دوست نے بڑی عجیب بات کہی.ربوہ تشریف لائے تھے تو مجھ سے بھی ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا کہ میں نے اپنے غیر مبائعین دوستوں کو یہ ایک بات بتائی میں نے کہا تم لوگ ایک بات محسوس نہیں کر رہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارے میں سے جو جاتا ہے ربوہ کی طرف وہ بہت اچھا آدمی ہوتا ہے ماسٹر فقیر اللہ ہوئے ، یعقوب خان صاحب ہوئے ، مولوی غلام حسن صاحب پشاوری ہوئے.وہ کہتے ہیں ایسے ہوتے ہیں وہ جن پر ہماری نظریں رشک سے پڑتی ہیں بڑے بڑے معزز ، بڑے بڑے صاحب مقام لوگ ہیں اور ان کی طرف سے جو آتا ہے وہ سزا یافتہ اور گندہ آتا ہے.پیسے کھا کر بھاگا ہوا ، کسی اور گندگی میں مبتلا ناراض ہو کر جماعت ان کو الگ کرتی ہے اور تم اسے قبول کر لیتے ہو.تو اس نے یہ بات کہنے کے بعد بڑی دلچسپ بات یہ کہی کہ گویا تم تو قادیانیوں کی بدرو ہو، ان کا گندہ پانی بہتا ہے تو تمہاری طرف آجاتا ہے اور تمہارا صاف پانی بہتا ہے تو ان کی طرف چلا جاتا ہے.بہت پیاری بات اس نے کہی لیکن یہ در اصل کلام الہی میں موجود ہے اور ہمیشہ یہی واقعہ ہوتا ہے کہ ابتلاؤں کے وقت الہی جماعتوں کے گندے بہہ کر باہر نکلتے ہیں اور ابتلاؤں کے وقت ان سے زیادہ تعداد میں مخالفین کی جماعت کے بہترین دوڑ دوڑ کر اس طرف آرہے ہوتے ہیں.اب یہ دونوں باتیں ایک عجیب شان کے ساتھ ان حالات میں پوری ہو رہی ہیں.
308 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء خطبات طاہر جلد ۳ طورة چنانچہ پاکستان سے اور ساری دنیا سے جو خبریں آرہی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ غیر معمولی پر تبلیغ کا رحجان بڑھ گیا ہے اور بکثرت بیعتیں شروع ہوگئی ہیں اور ایسی ایسی باتوں پر حیرت انگیز طریق پر بیعتیں ہو رہی ہیں کہ انسان پہلے سوچ بھی نہیں سکتا تھا.اس ابتلا کے وقت جب مار پڑ رہی ہو کسی کا ایسی جماعت میں داخل ہونا لازماً اس کی سچائی کی نشانی ہے.جب ہار پڑ رہے ہوں اور شیر بینیاں تقسیم ہو رہی ہوں اور دعوتیں ہو رہی ہوں اس وقت تو گندے لوگ جایا کرتے ہیں اس طرف.تو بعینہ یہ دو نظارے پاکستان میں عجیب شان کے ساتھ منظر پہ ابھرے ہیں.ایک طرف جماعت کے کمزور اور نکھے اور فضول بعض ان میں سے ، وہ بھی زیادہ نہیں ہیں بہت تھوڑے ہیں ،اس حال میں جاتے ہیں غیروں کی طرف کہ دیگیں بٹ رہی ہوتی ہیں اور پھولوں کے ہار پڑ رہے ہوتے ہیں اور مٹھائیاں تقسیم ہورہی ہوتی ہیں اور وہ ان کے کئی دن کے دعوتوں کے سامان ہو جاتے ہیں اور ان سے بہت زیادہ تعداد میں ایسی جماعت میں اس وقت پاکستان میں داخل ہور ہے ہیں جو ماریں کھا کر داخل ہو رہے ہوتے ہیں ، جو گالیاں کھا کر داخل ہو رہے ہوتے ہیں ، جو اپنے گھر لٹا کر داخل ہو رہے ہوتے ہیں ، جو اپنی بیویوں کو چھوڑ کر داخل ہوتے ہیں ، جو اپنے بچوں کی جدائی قبول کر کے داخل ہوتے ہیں.ایسے داخل ہو رہے ہیں جن کے ماں باپ مار مار کر اپنے بچوں کے حلیے بگاڑ دیتے ہیں اور بالکل بے زر اور بے زور کر کے گھروں سے نکال کے باہر پھینک دیتے ہیں.چنانچہ اس کی بھی بڑی عجیب مثالیں سامنے آرہی ہیں.چنانچہ ایک ہی جگہ جہاں شدید مخالفت ہوئی اور دو تین لوگوں کے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جس قماش کے وہ تھے اسی قماش کے تھے، ان کے ارتداد کی خبریں آئیں اور بغیر کسی تبلیغ کے نو افراد نے اسی دن آکر بیعت کی اور بڑی کثرت کے ساتھ اب وہ مسجد میں آکر گریہ وزاری کے ساتھ جماعت کی نمازوں میں شامل ہو رہے ہیں اور عجیب و غریب خدا سامان پیدا کر رہا ہے.کل کی رپورٹوں میں یہ بھی معلوم ہوا کہ بی بی سی کا انٹرویوسن کر مختلف جگہوں میں جہاں پیغام ہی کبھی نہیں پہنچا تھا احمدیت کا، وہاں سے لوگ آئے جماعت سے ملے اور انہوں نے کہا ہم نے سن کر فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ جماعت کچی ہے اس لئے ہماری بیعت قبول کرو.دو یا چار یا پانچ یا دس گندے نکل رہے ہوں اور سو یا ہزار خدا کے فضل سے نیک اور صاحب عزم لوگ داخل ہو رہے ہوں قربانیوں کا فیصلہ کرتے ہوئے، اپنی سچائی کو
خطبات طاہر جلد ۳ 309 خطبہ جمعہ ۸/ جون ۱۹۸۴ء ثابت کرتے ہوئے تو ایسی جماعت کا کیا نقصان ہوسکتا ہے؟ پس قرآن کریم کی ہر آیت اپنے ساتھ ایک دلیل رکھتی ہے ایک بھی دعوئی ایسا نہیں جس کے ساتھ دلیل نہ ہو اور جس کے ساتھ حکمتوں کا بیان نہ ہو.فرماتا ہے وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ عَلَى الْغَيْبِ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَجْتَبِي مِنْ رُّسُلِهِ مَنْ يَشَاءُ فَامِنُوْا بِاللهِ وَرُسُلِیم تم غیب کی باتوں کو تو نہیں دیکھ سکتے تمہیں توفیق نہیں ہے کہ غیب پر نظر کر سکومگر اللہ جن کو پسند کرتا ہے غیب کی باتیں بتانے کے لئے جب وہ تمہیں بتاتے ہیں اور دلائل ساتھ دیتے ہیں تو ان کی باتیں کیوں نہیں مانتے؟ تم تو اندھے ہو، تمہیں تو حال کا بھی کچھ نظر نہیں آرہا مستقبل کی کامیابیوں کو یعنی مومنین کی مستقبل کی کامیابیوں کو کیسے دیکھ سکو گے؟ پس ایک ہی طریق ہے کہ وہ جن کو خدا غیب سے آگاہ کرتا ہے ان کی باتیں غور اور ہوش سے سنو اور ان کے پیچھے چلو وإن تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوا فَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمُ کوئی دشمنی نہیں ہے سچائی کو کسی کے ساتھ إن تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوا اگر تم بھی ایمان لے آؤ اور تقویٰ اختیار کر وفَلَكُمْ أَجْرٌ عَظِيمٌ تمہارے لئے بھی اللہ اسی طرح اجر عظیم لے کر منتظر بیٹھا ہے تمہیں بھی وہ اجر عظیم عطا فرمائے گا.پس یہ وہ نقشہ ہے جو قرآن کریم میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا اور آپ کے ساتھیوں کا کھینچا گیا ہے اور آج بعینہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے جماعت کے حالات کو دیکھ دیکھ کر جو پاکستان میں گزر رہے ہیں کوئی شخص یہ تصویریں کھینچ رہا ہے.پس کتنے خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کی شکلیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں سے ملنے لگی ہیں.ایک شاعر بڑے فخر سے کہتا ہے کہ میری داستان تو ہر طرف چمن میں بکھری پڑی ہے.چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستان میری کچھ لعلوں کی شکل میں ، کچھ کلیوں کی شکل میں، کچھ بلبلوں کی صورت میں.تو بڑی خوش نصیب ہے وہ جماعت جس کی داستان قرآن کے چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے جو صرف اس بات پر خوش نہیں ہوتی کہ اس کی خوشیاں پہلوں سے مل رہی ہیں ، وہ اس بات پر بھی خوش ہو رہی ہے کہ اس کے غم اور اس کے دکھ پہلوں سے مل رہے ہیں ، وہ اپنے زخموں سے بھی
خطبات طاہر جلد ۳ 310 خطبہ جمعہ ۱۸ جون ۱۹۸۴ء جنت حاصل کر رہے ہیں اور اپنے مرہم سے بھی جنت حاصل کر رہے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جو بھی دنیا میں نا کام نہیں ہو سکتے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک اور خوش خبری آپ کے لئے یہ ہے کہ یورپ کے دومرا کز کے لئے جو میں نے تحریک کی تھی اس میں خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی شاندار رنگ میں جماعت قربانی کی توفیق پارہی ہے اور فَاسْتَبِقُوا الْخَیرات ( البقرہ : ۱۴۹) کا ایک عجیب نظارہ ہے.عورتیں ہیں تو زیور پیش کر رہی ہیں ، مرد ہیں تو اپنے بچے ہوئے سرمائے پیش کر رہے ہیں.ایک نوجوان نے مجھے تفصیل لکھی خط میں کہ ساری عمر جوڑ کر اتنے ہزار مارک میں نے اکھٹے کئے اور ایک مقصد تھا کہ اس کے ذریعہ سے میں یہ چیز حاصل کروں گا.اس نے لکھا کہ میں روتے ہوئے یہ خط لکھ رہا ہوں، میری خوشی کا سامان پورا کریں، یہ ساری رقم آپ لے لیں.نفرت ہے مجھے اس پیسے سے آپ اس کو حاصل کر لیں تب مجھے چین آئے گا تو اس میں سے کچھ میں نے قبول کیا اور کچھ میں نے اس سے کہا کہ اللہ تعالیٰ اسے بھی قبول فرمائے اور اس میں تمہارے لئے بہت برکتیں ڈالے اور پھر اور تم دل کھول کر خدا کے حضور چندے پیش کرو.لیکن عجیب نظارے ہیں دنیا کے پردے پر اس جماعت کی کوئی مثال نظر نہیں آسکتی ، جرمنی کے غریب مزدور بہت معمولی کمائیوں والے لوگ ہیں اور بڑی بڑی مشکلوں میں پھنسے ہوئے ،مقدمات میں اٹکے ہوئے ، ان کی طرف سے اب تک خدا کے فضل سے تقریباً پانچ لاکھ مارک کے وعدے آچکے ہیں اور تیزی سے وصولیاں بھی ہو رہی ہیں.انگلستان کی طرف سے بھی جن صاحب کا پچاس ہزار پونڈ کا وعدہ تھا انہوں نے کل ادا کر دیا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ ، اور اس کے علاوہ بھی بڑی تیزی کے ساتھ ادائیگی کی رفتار بڑی تیز ہے.یہ حیرت انگیز بات ہے وعدے تو لوگ کر لیا کرتے ہیں پھر بڑی محنت کرنی پڑتی ہے وصولیوں کے لئے تو یہ جماعت ایسی ہے کہ ایک بھی آدمی نہیں گیا کہیں وصول کرنے کے لئے اور وصولیاں خود بخود پہنچنی شروع ہوگئی ہیں تو زَادَتْهُمْ إِيمَانًا (الانفال :۳) کا کوئی فرضی قصہ نہیں ہے کہ ایمان بڑھ گیا یہ بھی ایمان کی نشانی ہے کہ جب ایمان بڑھتا ہے تو اخلاص اور قربانی کا معیار ساتھ بڑھتا ہے.تو اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ حیرت انگیز جماعت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو عطا فرمائی اس نے اپنے فضل اور احسان کے ساتھ.
خطبات طاہر جلد ۳ 311 خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء ابتلا میں احمدیوں کی قربانی ( خطبه جمعه فرموده ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُوْنُوْا مَعَ الصُّدِقِيْنَ ® مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَّسُوْلِ اللهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَا وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَّغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ لِيَجْزِيَهُمُ اللهُ أَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ (التوبہ: ۱۱۹ - ۱۲۱) پھر فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ توبہ کی ۱۹ اسے لے کر ۱۲۱ تک کی آیات ہیں.ان میں اللہ تعالیٰ انسانی فطرت کے بہت سے لطیف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے اور یہ انسانی
خطبات طاہر جلد ۳ 312 خطبه جمعه ۵ ارجون ۱۹۸۴ء فطرت جب مومن کے قالب میں ڈھل کر ایک نئی ضیاء ایک نئی چمک پیدا کر لیتی ہے تو اس کا بھی بہت ہی احسن رنگ میں ذکر فرماتا ہے.اس میں دو پہلو بڑے نمایاں طور پر پیش فرمائے گئے ہیں.ایک پہلو تو ہے کمز ور لوگوں کا جو قربانی میں بہت پیچھے ہیں اور جو توقعات ان سے وابستہ ہیں ان توقعات پر پورا نہیں اتر رہے اور اس کی جو وجہ بیان فرماتا ہے وہ بظاہر عام دنیا کے حالات سے مختلف اور الٹ وجہ نظر آتی ہے.بظاہر تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اگر کسی راہنما کے ساتھ لگ کر تکلیفیں اٹھانی پڑیں تو انسان کا تعلق اس سے کمزور ہو جاتا ہے اور اگر کسی راہنما کے ساتھ لگ کر نعمتوں سے محرومی حصہ میں آئے تو انسان کا تعلق اس سے کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے، محبت ٹھنڈی پڑنے لگتی ہے اور بسا اوقات پھر ایسے لوگ تعلق تو ڑ کر بالکل جدا ہو جاتے ہیں.لیکن ایک بالکل الٹ نقشہ کھینچا گیا ہے اور الہی جماعتوں میں جب انسانی فطرت کارفرما ہوتی ہے تو بالکل اسی نقشے کے مطابق کام کرتی ہے.جہاں تک الہی جماعتوں کا تعلق ہے ایسے لوگوں کی بیماری کا تجزیہ کرتے ہوئے جو کمزوری دکھا رہے ہیں اور جو حق تھا وہ ادا نہیں کر رہے اس کی وجہ یہ بیان فرمائی گئی کہ انہوں نے خدا کی راہ میں تکلیفیں نہیں اُٹھائیں ، یہ آسانی کی زندگی بسر کرنے والے لوگ ہیں جن کو حضرت محمد مصطفی مے کے ساتھ وابستہ ہونے کے بعد طرح طرح کے دکھوں کی آزمائشوں میں سے نہیں گزرنا پڑا اور چونکہ ان کو اس تعلق کے نتیجے میں مصیبتیں نہیں پڑیں اس لئے یہ کمزور ہیں، اس لئے یہ قربانیوں میں پیچھے ہیں.اس کے برعکس وہ لوگ جن کو مشکلات پڑتی ہیں ، جن کو طرح طرح کی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان کے متعلق فرماتا ہے کہ وہ قربانی کرنے والوں کی صف اول میں ہیں.گویا ہر مصیبت ان کو پیچھے دھکیلنے کی بجائے اور بھی آگے بڑھا دیتی ہے.یہ ہے وہ مضمون جس کے متعلق میں نے شروع میں ہی کہا تھا کہ ہے تو انسانی فطرت کی بات لیکن انسانی فطرت جب مومن کے قالب میں ڈھلتی ہے تو ایک نیا رنگ اختیار کر لیتی ہے اور اس وقت جو مضمون ظاہر ہوتا ہے نفسیات کا اس کی بحث قرآن کریم فرما رہا ہے.فرماتا ہے يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصّدِقِينَ کہ اے وہ لو گو جو تقوی اختیار کرتے ہو اللہ کا، دوہی گروہ ہیں یا بچوں کے یا جھوٹوں کے، یا بچوں کا گروہ ہے یا جھوٹوں کا گروہ ہے تو
خطبات طاہر جلد ۳ 313 خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ بچوں کے گروہ میں شامل ہو جاؤ اور اس کے بعد صرف یہ کہہ کر بات چھوڑ نہیں دی گئی بلکہ جیسا کہ قرآن کریم کا طریق ہے انگلی پکڑ کر پھر رستوں پر چلاتا ہے جو دعویٰ کرتا ہے وہ دکھاتا ہے کہ دیکھو کمزوروں کے چہرے ایسے ہوتے ہیں، بچوں کے چہرے ایسے ہوتے ہیں، جھوٹوں کے ایسے ہوتے ہیں اور خوب اچھی طرح پہچان کروادیتا ہے تا کہ کوئی شخص اس غلط نہی میں مبتلا نہ رہے کہ ہمیں کہ تو دیا گیا تھا کہ بچوں کے ساتھ ہو جاؤ لیکن ہم پہچان نہیں سکے، دھوکہ کھا گئے، غلطی سے جھوٹوں کو سچا سمجھ بیٹھے.چنانچہ اس عنوان کے تحت یہ ایک عنوان ہے دراصل يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ، بیچوں میں شامل ہو جاؤ.اس عنوان کے تحت پھر دو گروہوں کا تعارف فرماتا ہے مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْأَعْرَابِ دینہ کے بعض لوگوں میں سے اور ان میں سے جو اعراب کہلاتے ہیں یعنی بدو، اردگرد بسنے والے لوگ ہیں ان کو یہ زیبا نہیں تھا، ان کے لئے یہ مناسب نہیں ها أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَّسُولِ اللهِ کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے رہ جائیں اور جس طرف رخ کر کے وہ چلے اس طرف رخ کر کے وہ نہ چلنا شروع کر دیں.زیب نہیں دیتا ان کو کہ محمد مصطفی علی کے قدم تو کسی اور سمت میں اٹھ رہے ہوں اور ان کے قدم کسی اور سمت میں اٹھ رہے ہوں.وہ آگے بڑھ رہا ہو اور یہ پیچھے رہ رہے ہوں.دوسری بات یہ زیب نہیں دیتی وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَن نَّفْسِ کہ وہ اپنے نفوس کو محمد مصطفی ﷺ کے نفس پر ترجیح دینے لگ جائیں ، اپنے آرام کا زیادہ خیال رکھیں اور آنحضور ﷺ کے آرام کا کم خیال رکھیں ، اپنے دل کی باتوں کو محمد مصطفی ﷺ کی مرضی پر فوقیت دینے لگیں.فرماتا ہے یہ ان کے لئے زیبا نہیں تھا، مناسب نہیں تھا مگر فرماتا ہے کیوں ایسا ہوا؟ الذلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَا وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ في سَبِيلِ اللہ محض اس لئے ایسا ہوا ہے کہ ان کو مصیبت نہیں پہنچی ان کو تکلیف نہیں اٹھانی پڑی نہ پیاس کی ، نہ مشقت کی ، نہ بھوک کی، اللہ کے راستے میں انہوں نے یہ تکلیفیں نہیں اٹھا ئیں اور یہ تعلق ایسا ہے دینی تعلق کہ تکلیف کے نتیجہ میں مضبوط ہوتا ہے کمزور نہیں پڑتا.چنانچہ اسی مضمون کو حضرت
خطبات طاہر جلد ۳ مصلح موعودؓ بیان فرماتے ہیں ایک نظم میں کہ: 314 جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے پھر گالیوں سے کیوں ڈرتے ہو دل جلتے ہیں جل جانے دو ( کلام محمود صفحه ۵۴) خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء تو فرمایا کہ یہ سونا صفت لوگ ہوتے ہیں خدا کے مومن بندے، یہ آگ میں پڑتے ہیں تو کندن بن جاتے ہیں اور وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے ہیں لیکن تم ان میں کندن کی سی چمک نہیں دیکھ رہے.ان کا اتنا قصور بھی نہیں وہ ابھی آگ میں ڈالے نہیں گئے جب وہ بھی آگ میں ڈالے جائیں گے تو ان میں سے بھی بہت سے لوگ چمک چمک کر نکلیں گے اور نئی شانیں ان کو بھی عطا کی جائیں گی.اس مضمون میں ساتھ ہی ابتلا کا فلسفہ نہایت ہی پیارے رنگ میں ، نہایت ہی عمدہ پیرائے میں بیان فرما دیا گیا.جب سے آدم دنیا میں تشریف لائے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے وقت تک کہ جب مذہب اپنے درجہ کمال کو پہنچا اور معراج کے مقام میں داخل ہوا تمام مذہب کی تاریخ محفوظ ہے اور ایک بھی نبی ایسا نہیں ملتا جس کو خدا تعالیٰ نے پھولوں کی سیچوں پر چلنے کا حکم دیا ہو، سب کے رستے میں کانٹے بچھائے جاتے ہیں ، طرح طرح کی مصیبتیں ان پر پڑتی ہیں، کئی قسم کی تکالیف ان کو دی جاتی ہیں ان کے ساتھ بھی قوم ظلم کا سلوک کرتی ہے اور ان کے ماننے والوں کے خلاف بھی ظلم کا سلوک کرتی ہے اور ایک نادان یہ سوچ سکتا ہے اور کئی ایسے نادان ہیں جو سوال کرتے ہیں اور بعضوں نے اپنی کتابوں میں بھی یہ اعتراض اٹھائے ہیں کہ تم کہتے ہوا نبیا ء خدا کے پیارے ہوتے ہیں، محمد مصطفیٰ کا ذکر کرتے ہو کہ خدا کے بہت محبوب تھے تو اگر خدا کا وہ اتنا ہی پیارا تھا تو اتنی مصیبتوں میں کیوں مبتلا کر دیا؟ تو اس آیت میں ضمناً اس فلسفے کا بھی ذکر فر ما دیا کہ یہ تو ایک ایسی سرشت رکھنے والی جماعت ہوتی ہے، خدا کی جماعت ، خدا پر ایمان لانے والوں کی کہ ان کی خوبیاں تکلیفوں میں ابھرتی ہیں اور ان کے دبے ہوئے خواص مصیبتوں کے وقت چمک اٹھتے ہیں.جتنا زیادہ ان پر مصیبت پڑتی ہے جو خدا کی تقدیر کے مطابق خاص اندازوں کے مطابق ڈالی جاتی ہے اور اس اندازے میں یہ بات ملحوظ رکھی جاتی ہے کہ ان کی استطاعت کتنی ہے؟ ان کی توفیق کتنی ہے؟ اس توفیق کے مطابق ان کو آنچ
خطبات طاہر جلد ۳ 315 خطبه جمعه ۱۵؍ جون ۱۹۸۴ء دی جاتی ہے اور اس آنچ کے نتیجہ میں پھر وہ چمک کر ایک نئی قوم بن جاتے ہیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت علﷺ اور آپ کے صحابہ کا ذکر کر کے فرماتے ہیں: صَادَفْتَهُمْ قَوْماً كَرَوْثٍ ذِلَّةٍ فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ الْعِقْيَانِ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۵۹۱) صلى الله کہ اے محمد مصطفی ع تو تو نے اس قوم کو ایک گوبر اور غلاظت کی طرح حقیر اور گری پڑی چیز کے طور پر پڑا فَجَعَلْتَهُمْ كَسَبِيكَةِ الْعِقْيَانِ اور دیکھو کیسا معجزہ دکھایا کہ سونے کی ڈلیوں میں تبدیل کر دیا.یہ جو دو مختلف جہتیں ہیں ایک گندگی کی اور دوسری سونے کی چمکتی ہوئی ڈلی ان دونوں کے درمیان جو فاصلے ہیں وہ مصیبتوں اور دکھوں کے فاصلے ہیں.وہ کون سا معجزہ تھا جس نے ان کو تبدیل کیا ؟ وہ یہی معجزہ تھا کہ صحابہؓ کو جس حالت میں پکڑا ہے وہ اپنی دنیا کے عیش و عشرت میں مبتلا تھے ، دنیا کی آسائشوں میں پڑے ہوئے تھے، آنحضرت ﷺ نے ان کو دکھوں کی چکی میں داخل کیا ہے اور ایک طرف سے وہ گندگی داخل ہورہی تھی اور دوسری طرف سے چمکتی ہوئی سونے کی ڈلیاں نکل رہی تھیں.تو یہ وہ مضمون ہے جس کو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں یہاں کھول کر بیان فرمارہا ہے کہ دیکھو جب مصیبت پڑتی ہے الہی جماعتوں پر تو ان کو مٹانے کے لئے اور کمزور کرنے کے لئے نہیں پڑا کرتی ان کے دبے ہوئے خواص کو چمکانے کے لئے ، ابھارنے کے لئے صیقل کرنے کے لئے مصیبتیں ان پر عائد کی جاتی ہیں اور نتیجہ بتاتا ہے کہ یہ ایک نظام کے تابع بات ہوئی ہے، نتیجہ بتا تا ہے کہ حوادث کی کوئی اتفاقی چکی نہیں تھی کیونکہ ان حوادث کو جو مومنوں پر ڈالے جاتے ہیں ان کو اجازت نہیں دی جاتی کہ مومنوں کو پیس ڈالیں بلکہ بالکل برعکس نتیجہ ان کی ذات پر وہ پیدا کرتے ہیں.اس ذکر کے بعد پھر اللہ تعالیٰ ایک اور مضمون میں اس آیت کو داخل فرما دیتا ہے اور رفتہ رفتہ مومنوں کا ذکر شروع ہو جاتا ہے اور اس میں بھی ایک بہت ہی بار یک انسانی فطرت کا پہلو اجاگر کر کے پیش فرمایا گیا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جتنے بھی قربانی کرنے والے ہیں ان کے مختلف طبقات ہیں مختلف ترقی کے درجے پر وہ کھڑے ہوتے ہیں، جتنا زیادہ انسان اپنے ذہنی نشو ونما میں بلند مقام پر پہنچا ہوا ہو، جتنا زیادہ اس کے جذبات لطیف ہوں اتناہی قربانی کا پھل بھی لطیف ہوتا چلا جاتا ہے
خطبات طاہر جلد ۳ 316 خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء اور وہ عام ظاہری موٹی موٹی چیزوں کے بدلوں کی طرف تھوکتا بھی نہیں.وہ زیادہ لطیف بدلہ چاہتا ہے اپنی قربانیوں کا اور سب سے زیادہ انسان کی پہنچ قربانی کے معاملہ میں یہ ہے کہ مقابل پر اس کو مادی طور پر کچھ نہ دیا جائے لیکن جس شخص کے لئے قربانی کی گئی ہے ، جس محبوب کے لئے کچھ کیا جارہا ہے اس کو معلوم ہو جائے اور صرف معلوم ہونا ہی اس کی جزا بن جاتی ہے.ادنی آدمی جو چھوٹے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں انسانیت کے ان کی قربانی کے اندر کچھ نہ کچھ بدلے کے پہلو موجود ہوتے ہیں چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَا تَمْنُنْ تَسْتَكْثِرُ ( المدر:) تم ایسے احسان نہ کیا کرو کہ جس کے نتیجہ میں مقابل پر کچھ بدلے بھی چاہتے ہو، تمہاری نیتوں میں یہ بات داخل ہو جائے کہ کچھ نہ کچھ فیض تو مل ہی جائے گا.جس طرح ہمارے زمیندار پنجاب میں کمیوں پر احسان کرتے ہیں اور پھر سو دفعہ جتاتے بھی ہیں اور جب بیماری ہو تو کہتے ہیں فلاں وقت تم روٹی کے وقت تو آگئے تھے ، بھوک کے وقت تو آگئے تھے اب ہمیں تکلیف ہے تو مٹھی چاپی کے وقت تمہیں خیال نہیں آیا ؟ تو یہ بہت ہی گھٹیا قسم کی قربانیاں یا گھٹیا قسم کے تھے ہیں.مومن کا مقام بہت ہی بلند ہے اور جب خدا مومن کا ذکر کرتا ہے تو سب سے اعلیٰ درجے کی فطرت انسانی کا ذکر کرتا ہے.چنانچہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب انسان قربانی کرے تو بدلہ تو بہر حال چاہتا ہے یہ بات تو غلط ہے کہ بدلہ نہیں چاہتا لیکن اس کا بدلہ لطیف ہوتا چلا جاتا ہے، اس کے احساسات اس کے تصورات کی چمک دمک کے مطابق اس کا بدلے کا تصور بھی ساتھ پالش ہوتا چلا جاتا ہے.چنانچہ مائیں جب بچوں کے لئے قربانیاں کرتی ہیں تو صرف یہی جذبہ پیش نظر ہوتا ہے کہ ان کو معلوم ہو کہ ہم ان کے لئے کیا کر رہے ہیں چنانچہ پنجابی میں کہا جاتا ہے ستے پتر دامنہ کی چمناں اگر سویا ہوا ہو بچہ تو کہتے ہیں اس کو پیار کرنے کا کیا فائدہ؟ اس کو پتہ ہی نہیں لگنا کہ کس نے پیار کیا؟ فائدہ کیا ہوا؟ تو پتہ تو ضرور لگنا چاہئے.لیکن اس میں پتہ لگنے میں اور ریا کاری میں پھر آگے فرق پڑ جاتا ہے.ریا کارلوگ وہ ہوتے ہیں کہ اگر پتہ نہ لگے تو قربانی نہیں کرتے لیکن سچے پیار کرنے والے اور محبت کرنے والے چاہتے تو یہی ہیں یہ فطرتِ انسانی کا ایک حصہ ہے اس سے وہ ہٹ نہیں سکتے ، جدا نہیں ہو سکتے.چاہتے تو یہی ہیں کہ محبوب کو ہماری قربانیوں کا پتہ تو چلے کہ کس نے کیا کیا ہے اس کے لئے لیکن اگر نہ بھی پتہ چلے تو قربانیوں سے پیچھے نہیں ہٹتے.بچے جو بے ہوش ہوتے ہیں بعض ایسے بچے بھی ہیں جو حادثات میں بے ہوش ہو گئے اور کئی کئی مہینے بلکہ بعض بچوں کو میں جانتا ہوں
خطبات طاہر جلد ۳ 317 خطبه جمعه ۱۵ جون ۱۹۸۴ء کئی سال سے ایک بچی ہے جو بے ہوش پڑی ہے لیکن ماں ہے جو خدمت سے باز نہیں آرہی ،مسلسل دن رات اس کے لئے وقف ہے.تو سچا پیار اور سچی محبت چاہتی تو یہی ہے کہ پتہ لگ جائے اس دوست کو جس کے لئے میں قربانی کر رہا ہوں لیکن اگر نہ پتہ چلے تو تب بھی سچی محبت کرنے والا قربانی سے باز نہیں آتا.اس کے برعکس ریا کارجو ہیں ان کا بالکل الٹ منظر ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ قرآن کریم میں ریا کاروں کا ذکر کر کے بھی مومنوں کو ان سے ممتاز کرتا ہے اور ریا کے خطروں سے بھی بڑی وضاحت کے ساتھ متنبہ فرماتا ہے.ایسی عجیب کتاب ہے یہ تربیت کی کہ فطرت کا کوئی باریک سے باریک پہلو بھی نہیں چھوڑتی.بہر حال ریا کار کا جو فلسفہ بیان کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ جب تک پتہ لگتا رہے قربانی کرتا رہتا ہے جب پتہ نہ لگے تو بسا اوقات قربانی لینے لگ جاتا ہے.چنانچہ اس سلسلے میں جاحظ نے کتاب البخلاء میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ لکھا ہے.وہ کہتا ہے ایک بخیل کے پاس میں مہمان ٹھہرا تو جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا حالانکہ میں سوچا کرتا تھا کہ لوگ مبالغے کرتے ہیں اور ایسا نہیں ہوسکتا کوئی لیکن اس کے معاملے میں یہ بات درست تھی کہ جیسا سنا ویسا پایا.کہتے ہیں ایک ہی تکیہ تھا تو رات اس نے مجھے کہا کہ اس تکیہ کے ایک سرے پر تم سر رکھ لو اور دوسرے پر میں رکھ لیتا ہوں اور اس طرح دونوں آرام سے سوتے ہیں.اس نے کہا ایک تو گندا تھا مجھے کراہت آرہی تھی دوسرے مجھے خیال آیا کہ نہ اس کو نیند آئے گی نہ مجھے، سر ٹکرا رہے ہوں اور تکیہ ایک ہو تو کس طرح سو سکتے ہیں دو مختلف مزاج کے مرد؟ میں نے بہت تکلف کیا لیکن اس نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ میری مہمان نوازی کے خلاف ہے چنانچہ اس وقت مجھے شک پڑا کہ یہ ایک ایسا موقع ہے جہاں بتانے والوں نے مبالغہ کر دیا تھا ایسا یہ نہیں ہے آخر ایک مبالغہ پکڑا ہی گیا تو اس کے تکلف کے نتیجہ میں، بے انتہا اصرار کے نتیجہ میں جاحظ لکھتا ہے کہ میں مجبور ہو گیا اور میں نے بھی اسی تکیہ پر سر رکھ لیا لیکن نیند کہاں آنی تھی مجھے.کچھ عرصہ کے بعد اس نے جب محسوس کیا کہ سو گیا ہوگا تو آرام سے میرا سراٹھا کر زمین پر رکھ دیا اور تکیہ پورا نکال لیا.تو یہ ریا کاری ہے.عام جو قربانی کے نتیجہ میں علم ہونا بالکل اور بات ہے لیکن جب علم نہ ہو تو جو کچھ ہے وہ بھی کھینچ لوسر کے نیچے سے، یہ ہے ریا کاری اور جھوٹ.تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ ہماری اس بات پر نظر ہے کہ تمہارا دل چاہتا ہے کہ جس کی خاطر
خطبات طاہر جلد ۳ 318 خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء قربانی کر رہے ہو اس کو علم ہو لیکن تم سے زیادہ ہماری اس بات پر نظر ہے کہ تمہیں علم ہو کہ ہمیں علم ہے.یہ ایک عجیب نیا مضمون داخل فرما دیا اس کے اندر یعنی محبت کے تعلقات میں اللہ تعالیٰ نے ایک نیا پہلو داخل فرما دیا ہے.فرماتا ہے کہ تمہارے اور ہمارے معاملے میں ایک فرق ہے تم بسا اوقات بھول جاتے ہو کہ جس کی خاطر قربانی کر رہے ہو اس کی تم پر نظر ہے بھی کہ نہیں اور قربانی کرتے چلے جار ہے ہوتے ہو.ہم تمہیں بتاتے کہ تم بھول بھی جاتے ہو تب بھی ہم نظر ڈال رہے ہوتے ہیں محبت کی ، ایک ادنی سا پہلو بھی تمہاری قربانی کا ایسا نہیں ہے جس پر ہماری نظر نہ پڑ رہی ہو چنانچہ جب مومنوں کا ذکر چلتا ہے آگے دراصل تو وہیں سے شروع ہو گیا تھا کہ تمہیں یہ تکلیف نہیں پہنچی مراد یہ تھی کہ جن کو پہنچی ہے ان کی حالت اور ہو چکی ہے جن کو خدا کے رستے میں دکھ ملے ہیں ان کی تو کیفیت بدل گئی ہے فرماتا ہے إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ) یاد رکھو کہ اللہ تعالٰی مومنوں کا اجر خصوصاً ان مومنوں کا جو حسن ہیں یعنی اپنی نیکیوں کے اندر ایک خاص حسن پیدا کر دیتے ہیں ان کا اجر خدا کبھی ضائع نہیں کرتا.اس موقع پر نیکی کا حسن کیا ہے ، اس بات کو بھول کر کہ کسی کو علم ہو بھی رہا ہے کہ نہیں قربانی کے میدان اپنی استطاعت کے مطابق قربانی دیتے چلے جارہے ہیں.فرماتا ہے لیکن ہمارا یہ حال ہے وَلَا يُنْفِقُونَ نَفَقَةً صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً کہ کوئی چھوٹی سے چھوٹی چیز بھی اور کوئی بڑی سے بڑی چیز بھی ایسی نہیں جو مومن خدا کی راہ میں خرچ کر رہا ہو اور اللہ کی محبت کی نظر اس پر نہ پڑ رہی ہو ، کوئی دولت کا فرق یا اس مضمون میں فرق نہیں ڈال سکتا.غربت اور امارت ایک ہی صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں.اگر چھوٹا سا ایک تنکا بھی انسان خدا کی راہ میں قربان کرنے کی طاقت رکھتا ہے اور وہ کرتا ہے تو خدا یہ فرماتا ہے کہ تم تو شاید اس قربانی سے شرما رہے ہو اور واقعہ یہ ہے کہ بعض لوگ حقیر قربانی پیش کرتے ہیں تو سو معذرتیں بھی ساتھ کرتے ہیں کہ بڑی سخت شرم آ رہی ہے، یہ تو پیش کرنے والی چیز کوئی نہیں لیکن مجبور ہیں.اللہ فرماتا ہے کہ ہم تمہاری قربانیوں سے نہیں شرماتے ہم تو ان کو قبول فرماتے ہیں، ان پر محبت کی نظر ڈالتے ہیں وَلَا يَقْطَعُونَ وَادِيًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ اور کوئی ایسی وادی نہیں ہے جہاں وہ قدم رکھتے ہوں مگر ان کے لئے عمل صالح لکھ دیا جاتا ہے.لِيَجْزِيَهُمُ اللهُ اَحْسَنَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ تا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ان کے اعمال کے بہترین حصہ کی بہترین جزا عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلد ۳ 319 خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء اس میں ایک حصہ مضمون کا بیچ میں سے رہ گیا تھا وہ میں اسے بیان کردوں جس کا خاص طور پر آج کل کے حالات سے تعلق ہے وَلَا يَطَئُوْنَ مَوْطِئًا يَّغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُةٍ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ فرماتا ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں کمزور اور پیچھے رہنے والے انہوں نے کبھی ان وادیوں میں قدم نہیں رکھا جہاں جب وہ قدم رکھتے ہیں تو کفار غیظ کی نگاہیں ڈالتے ہیں ان پر اور بڑی نفرت سے ان کو دیکھتے ہیں.مراد یہ ہے کہ مومن وہ ہے جس کا ہر قدم غیر کو غصہ دلا رہا ہوتا ہے، اس کی زندگی کی ہر حالت ہر شکل دشمن کو غیظ دلا رہی ہوتی ہے یعنی قدم بھی اٹھاتے ہیں تو دشمن غیظ کی نگاہ سے دیکھتا ہے یہ مضمون ہے.وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوِ نَيْلًا اور ان کو دشمنوں سے دکھ پہنچتا ہی رہتا ہے، مسلسل دل آزاری ہوتی چلی جاتی ہے.فرماتا ہے یہ جب ہورہا ہوتا ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ ان کے ساتھ حسن واحسان کا معاملہ نہ کرے کیونکہ ان کی ساری زندگی ایسی شکل اختیار کر جاتی ہے خدا کی محبت میں کہ غیر اللہ ان سے نفرت کرنے لگتا ہے اور شدید دل آزاری کرتا ہے، ہر قدم پر ان کو دکھ پہنچاتا ہے بلکہ فرمایا کہ وہ گلیوں میں چل رہے ہوں گے قدم اٹھا رہے ہوں گے تو دوسرے دیکھ رہے ہوں گے غصے کے ساتھ کہ آخر یہ قدم کیوں اٹھارہے ہیں؟ ایسی نفرت پیدا ہو جاتی ہے ان سے کہ ان کے لئے جینا دوبھر ہو جاتا ہے.چنانچہ پاکستان میں آج کل جو حالات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے وہ یہی ہے.شدید نفرت کے لئے کوشش کی جارہی ہے اور یہ محض اللہ کا احسان اور فضل ہے کہ اس مرتبہ عوام الناس اس دھو کے میں مبتلا نہیں ہور ہے.اخبارات وقف ہیں، ریڈیو اور ٹیلی وزن وقف ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق نہایت جھوٹے اور گھناؤنے الزام لگانے پر ، اخبارات کے منہ کالے ہوئے ہوئے ہیں گندگی اچھال اچھال کے.ایسا بغض ہے جو ختم ہی نہیں ہونے میں آرہا.روزانہ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب احمدیوں پر یا احمدیت پر نہایت ہی گندے، بھیانک، جھوٹے ، مگر وہ الزام نہ لگ رہے ہوں اور ساری جماعت بڑی تکلیف میں مبتلا ہے.کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ سلسلہ کیوں ختم نہیں ہوتا، آخر گندگی کی کوئی حد ہونی چاہئے.ایک بد رو کو بھی صاف کریں تو آخر صاف ہو جاتی ہے لیکن مطالبات کی ایسی بدرو جاری ہے جو کسی قیمت پر ختم ہونے میں نہیں آرہی اور اس طرح جھوٹ بولا جا رہا ہے کھلم کھلا کہ گویا حیا کا کوئی تصور ہی باقی نہیں رہا.آنحضرت ﷺ کی
خطبات طاہر جلد۳ 320 خطبه جمعه ۱۵رجون ۱۹۸۴ء طرف منسوب ہو کر آپ کے منبر پر کھڑے ہو کر بے انتہا افترا پردازی سے کام لیا جا رہا ہے اور جانتے ہیں سارے کہ جھوٹے لوگ ہیں، اس قدر کھلم کھلا جھوٹ ایسا بے بنیاد جھوٹ اور اجازت ہے، کوئی ان کو پکڑ نہیں، کوئی ان کو روکنے والا نہیں ، کوئی ان کو تہذیب سکھانے والا نہیں ہے.صل الله ان حالات میں جو اس وقت پاکستان کے احمدیوں کی حالت ہے وہ نقشہ کھینچا جارہا ہے یہاں دراصل، آپ جہاں چلتے ہیں، جن گلیوں میں آپ کو دیکھ کر تو کسی کو غصہ نہیں آتا.اگر آتا بھی ہوگا تو وہ Race کے نتیجہ میں آتا ہے کالے ہیں ان پر غصہ کرو لیکن یہ غصہ تو نہیں آتا کہ محمد مصطفیٰ کے غلام چل رہے ہیں ان پر غصہ کرو.یہ حالت آج پاکستان میں ہے، اس آیت کی تصویر بنا ہوا ہے پاکستان کہ احمدی جہاں نظر آتا ہے وہاں مولویوں کو غصہ آنا شروع ہو جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ یہ بیان فرما رہا ہے کہ جب میری خاطر تم نفرتوں کا نشانہ بنائے جاتے ہو تو ہو کیسے سکتا ہے کہ میں تم سے بے انتہا محبت نہ کروں؟ بھلا ہو سکتا ہے کہ میں تمہارے ظلم کو اس طرح دیکھوں جیسے میرا تم سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے سب کچھ میری خاطر، میرے منہ کے لئے کر رہے ہو.چنانچہ اسی محبت کو ابھارنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے عرض کرتے ہیں : تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۲۲۵) کیسا عجیب انداز ہے پیار کو ابھارنے کا اور یہی مقصد ہے زندگی کا.فرماتے ہیں کوئی پرواہ نہیں، تجھے خدا پہنچا دے یہ بات کہ تیرے عشق میں ایک دیوانہ اس طرح تڑپتا رہا ہے اور تیری خاطر ساری دنیا اس کو کا فر وملحد و دجال کہہ رہی ہے، دن رات اس کو گالیاں دے رہی ہے.تجھے علم ہو جائے تو میں راضی ہوں یہی میری جنت ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندوں کو بتا تا ہوں کہ تمہیں وہ جنت نصیب ہو چکی ہے، کوئی نفرت کی نگاہ ایسی نہیں ہے جوتم پر پڑتی ہو اور اس کے مقابل پر محبت کی نگاہیں میں نہ ڈال رہا ہوں.کوئی دکھ تمہیں نہیں پہنچ رہا جس کے متعلق میں ارادہ نہ کر چکا ہوں کہ اسے بے انتہا فضلوں میں تبدیل کر دیا جائے گا.کوئی اندھیرا نہیں ہے جس میں سے تم میری خاطر گزر رہے ہو مگر میں تمہیں بتاتا ہوں کہ اسے روشنیوں میں تبدیل کیا جائے گا.تم نے بہت ہی حسین نظارے
خطبات طاہر جلد ۳ 321 خطبه جمعه ۱۵/ جون ۱۹۸۴ء دکھائے مگر خدا احسن رنگ میں تمہیں بدلے عطا فرمائے گا.یہ ہے وہ مضمون جس کو قرآن کریم نے نہایت ہی لطیف پیرائے میں بیان فرمایا اور آج اس مضمون کی تصویریں پاکستان میں کثرت سے بن رہی ہیں اس لئے بکثرت دعا کریں اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے کہ اللہ ان کو حو صلے دے اور ان کی توجہ ہمیشہ اس بات کی طرف رہے کہ جس ذات کی خاطر ہم یہ کر رہے ہیں وہ ہمیں دیکھ رہی ہے.ایک لمحہ بھی خدا کی حضوری سے باہر نہ کئے ان کا کیونکہ اگر یہ علم ہو کہ میرے محبوب کو معلوم ہو رہا ہے تو پھر کوئی دکھ دکھ نہیں رہا کرتا پھر اعلیٰ صفات کا انسان اپنے اعلیٰ مقاصد کو پا جاتا ہے وہی اس کی جنت ہوتی ہے وہی اس کا بدلا ہوا کرتا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: اس ضمن میں یہ بھی خوش خبری میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے احمدیوں پر جس قسم کے حالات ہیں اس کے نتیجہ میں ان کی قربانی کا جذبہ بہت زیادہ ابھر چکا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ.ابھی مجھے جو اطلاع ملی ہے ناظر صاحب بیت المال کی طرف سے اس اطلاع سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان مخدوش حالات میں چندہ گرنے کی بجائے پہلے سے بہت بڑھ گیا ہے اور دس تاریخ تک ابھی بجٹ کا کافی عرصہ باقی ہے یعنی ہمیں دن وصولی کے باقی ہیں اور ان ہیں دنوں کے اندر یعنی دس سے لے کر آخر ماہ تک عموماً رقمیں زیادہ آیا کرتی ہیں تو ناظر صاحب اعلیٰ نے مجھے یہ اطلاع دی ہے کہ ناظر صاحب بیت المال کی اطلاع کے مطابق اب تک گزشتہ سال سے اکتیس ۳۱ لاکھ روپے زائد وصول ہو چکے ہیں خدا کے فضل اور احسان کے ساتھ.تو عجیب یہ جماعت ہے کون دنیا میں اس جماعت کو شکست دے سکتا ہے؟ کون اس سے ٹکر لے سکتا ہے؟ یہ مختلف لوگ ہیں، ان کا عام دنیا کے انسانوں کو تصور بھی نہیں ہو سکتا کہ کیا مخلوق خدا نے پیدا کر دی ہے.وہی مخلوق ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺ نے پیدا فرمائی تھی اور آپ کے سوا کوئی پیدا کر بھی نہیں سکتا.یہ معجزہ ہر کس و ناکس کے بس میں ہے ہی نہیں کہ حقیر گندے دنیا کے کیڑوں کو اُٹھائے مٹی میں سے اور پھر وہ بنا کے رکھ دے جو محمد رسول اللہ ﷺ کے صحابہ تھے یا جو آج احمدی خدا کے فضل سے پاکستان میں بس رہے ہیں یا باقی دنیا میں بس رہے ہیں.ہر ایک کا یہی حال ہے دراصل، بعضوں پر ابتلا آ گئے اور انہوں نے اپنی وفا کے ساتھ اپنے خلوص کے ساتھ ، اپنی اندرونی خوبیوں کو ظاہر کر دیا ہے.بہت سے ایسے ہیں جو قرآن کریم کے بیان
خطبات طاہر جلد ۳ 322 خطبه جمعه ۱۵ جون ۱۹۸۴ء کے مطابق منتظر ہیں.جب ان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا تو وہ بھی ویسے ہی صادق ثابت ہوں گے.تو اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور اس پر جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے کہ مصیبت کی انتہا کے وقت بھی پاکستان کی جماعتوں نے قربانی میں بھی انتہاء کر دی ہے الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ )
خطبات طاہر جلد ۳ 323 خطبه جمعه ۲۲ جون ۱۹۸۴ء ليلة القدر كى لطيف تغيير ( خطبه جمعه فرمود ۲۲ جون ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) / تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ القدر کی تلاوت فرمائی: اِنَّا اَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِةٌ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍةٌ تَنَزَّلُ الْمَلبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ ۚ مِنْ كُلِّ امْرِه سَلَّمُ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر) رمضان مبارک اپنے تیسرے دہا کے میں یعنی آخری عشرے میں داخل ہو چکا ہے اور یہ وہ عشرہ ہے جس کا ایک مدت سے مسلمانوں کو انتظار رہتا ہے.رمضان میں داخل ہوتے ہی توجہ آخری عشرے کی طرف مائل ہونے لگتی ہے اور جوں جوں رمضان آگے بڑھتا ہے اس عشرے کی برکات سے فائدہ اٹھانے کی تمنا اور بھی زیادہ بے قرار ہوتی چلی جاتی ہے.اس آخری عشرے میں وہ کیا بات ہے جس کے لئے مومن کا دل بڑی بے چینی کے ساتھ انتظار کرتا ہے؟ وہ لیلۃ القدر ہے دراصل جس کی تلاش ، جس کی تمنا میں مومن اس سے زیادہ بے چینی سے لیلۃ القدر کی راتوں کا انتظار کرتا ہے جس طرح وہ اپنی محبوب ترین چیز کے لئے ہجر میں تڑپتا ہو اور پھر اس کے آنے کی خبر اسے مل گئی ہو اور آنے کی خبر تو مل گئی ہو لیکن ابھی آیا نہ ہو اور پھر یہ خطرہ بھی محسوس کر رہا ہو کہ وہ آئے گا تو مجھے مل بھی سکے گا کہ نہیں.وہ جو کیفیت ہے اس سے زیادہ شدید کیفیت ایک عارف باللہ کے دل میں لیلۃ القدر کے
خطبات طاہر جلد ۳ 324 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء انتظار میں پیدا ہو جاتی ہے کیونکہ دنیا کا محبوب تو اب نہ آیا تو پھر آ گیا اور اس کا آنا اور جانا عارضی حقیقتیں ہیں اور وہ لذتیں جو پیچھے چھوڑ کر جاتا ہے وہ بھی اس قدر عارضی ہوتی ہیں کہ بسا اوقات ان کی یا دلذت پیدا کرنے کی بجائے دکھ پیدا کر دیتی ہے، یعنی لذتیں بھی عارضی اور ان کی یاد بھی دکھ کا موجب لیکن جس لیلۃ القدر کی مومن انتظار کرتا ہے اس کی بالکل مختلف کیفیت ہے.وہ اگر چند لمحوں کے لئے بھی آئے تو ساری زندگیاں سنوار جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ وه ہزار مہینوں سے بہتر ہے الف کا لفظ عربی میں صرف ہزار کے لئے نہیں بولا جاتا بلکہ تکمیل عدد کے لئے استعمال ہوتا ہے.جس طرح باقی زبانوں میں لاکھ ، دس لاکھ، کروڑ ، ارب اس قسم کے الفاظ موجود ہیں عربی میں نہیں ،عربی میں ہزار وہ آخری عدد ہے جس کا ذکر عربی زبان میں ملتا ہے.تو چونکہ آخری ہے اس لحاظ سے تکمیل کا مظہر بن جاتا ہے اس سے اوپر کوئی عدد ہو نہیں سکتا.تو جب کہنا ہو کہ ایک ایسا مقام جس کے اوپر کوئی اور مقام نہ ہو اعداد کی دنیا میں تو اس کے لئے الف لفظ استعمال ہوتا ہے.چنانچہ اس کے معانی صرف یہ نہیں ہیں کہ وہ ہزار مہینوں سے بہتر ہے بلکہ یہ مراد ہے تم اپنی گنتی کو جس انتہا تک بھی پہنچا دو اس سے بھی وہ رات بہتر ہے کیونکہ ہم نے تکمیل کے عدد میں اس کی خوبی کا ذکر کیا ہے.یہ رات کیا چیز ہے اور اس سے کس طرح استفادہ ہونا چاہئے؟ اس مضمون سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نہایت ہی عارفانہ روشنی ڈالی ہے اور نئے پہلوؤں سے اس رات کے متعلق اس کی حقیقتوں سے متعلق ہمیں متعارف فرمایا.خصوصیت کے ساتھ آپ نے یہ بیان فرمایا کہ اس لیلتہ القدر سے مراد در اصل اول طور پر وہ زمانہ ہے یعنی وہ تاریکی اور ظلمات کا زمانہ جو قرآن کے نزول کا زبان حال سے مطالبہ کر رہا تھا اور آنحضرت ﷺ کے دل کی بے قرار تمنا جو اس رات میں عرش تک پہنچی وہ قرآن کریم کے نزول کا موجب بنی.تو رات کے اندر جو کیفیات ہوتی ہیں مختلف ان کا ذکر فرما کر آپ نے قرآن کریم کے نزول کو اس فجر سے تشبیہ دی جس کا اس سورت میں ذکر ملتا ہے لیکن اس کو سمجھانے کے لئے چونکہ عموماً عربی زبان کا معیار بہت تھوڑا ہے کچھ زیادہ تفصیل سے بیان کرنا پڑے گا.رات کے لئے بہت سے الفاظ ہیں لیکن لیل اور لیلة یہ دو لفظ ملتے جلتے عربی میں موجود ہیں.لیل کا جوالٹ ہے اس کا عکس نھار بیان کیا جاتا ہے اور لیلہ کا Opposite Number
خطبات طاہر جلد ۳ 325 خطبہ جمعہ ۲۲ / جون ۱۹۸۴ء یعنی اس کے متقابل لفظ وہ نھار نہیں بلکہ یوم ہے اور اسی سے لیل اور لیلہ کا فرق سمجھنے میں آسانی ہو جاتی ہے نھار تو عرف عام میں اسی دن کو کہتے ہیں جو سورج کے ساتھ چڑھا اور سورج کے ڈوبنے کے ساتھ ڈوب گیا اور بڑے وسیع عرصے یا اہم زمانے کے لئے نھار کا لفظ استعمال نہیں ہوتا.چنانچہ قرآن کریم نے زمین و آسمان کی پیدائش کا یا اور بڑے اہم واقعات کا جہاں بھی ذکر فرمایا ہے وہاں یوم کا لفظ استعمال فرمایا ہے نھار کا لفظ کہیں استعمال نہیں کیا تو یوم ایک بہت ہی وسیع المعنی لفظ ہے، بہت بڑے زمانے پر بھی اطلاق پاتا ہے یہاں تک کہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ پچاس ہزار سال کا بھی ایک یوم ہوتا ہے.تو اس کا سورج کے چڑھنے یا ڈوبنے سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن زمانوں کے بعد جب سورج کا ذکر آئے گا تو مراد ہے عظیم الشان کامیابی، غیر معمولی خوش خبریاں ، بہت ہی حیرت انگیز بشارتوں کا دور تو جس طرح یوم ایک Metaphoric Figuer of Speach بن جاتا ہے، ایک استعارہ ہو جاتا ہے اسی طرح سورج بھی انہی معنوں میں ایک دوسرے مضمون کی طرف اشارہ کرنے والا لفظ ہے.چنانچہ قرآن میں جب لیل کے بجائے لیلۃ کا لفظ استعمال فرمایا تو مراد یہ ہے کہ جس طرح بعض دن لمبے ہوتے ہیں اور خاص اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح بعض راتیں بھی لمبی ہوا کرتی ہیں اور خاص اہمیت رکھتی ہیں.راتوں کے اندر جو مضامین پائے جاتے ہیں وہ دو قسم کے ہیں.ایک ہے ظلم اور تاریکی اور دراصل تاریکی عرف عام میں جسے ہم ظلم کہتے ہیں یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.جب انسانی فطرت خدا کی روشنی سے دور ہو جاتی ہے تو وہ ظلم اور سفا کی پر آمادہ ہو جاتی ہے اور ایک ہے غم ، یہ بھی رات کے اندر مفہوم پایا جاتا ہے پس ظلم کے پہلو سے یعنی پہلے اندھیرے کے معنوں میں ہر قسم کے ظلم کے جرائم ، ہرقسم کی سفاکیاں اور ایک دوسرے پر تعدی کرنا یہ سارا مضمون لیلۃ کے تابع آجاتا ہے.ایک ایسا لمبازمانہ تاریکی کا جس میں جرم اپنی انتہا کو پہنچ جائیں اور انسان انسان کو دکھ پہنچانے میں جس حد تک اسے توفیق ہے وہ اس توفیق کو حاصل کرلے، اپنی استطاعت کے درجہ کمال کو پہنچ جائے دکھ پہنچانے میں ، اس کے مقابل پر دکھ اٹھانے والوں کی بھی ایک رات ہوگی جو خدا تعالیٰ فرماتا ہے اس کی حیثیت سے لمبی ہوگی.اسی حیثیت سے گہری ہو جائے گی جتنا جرائم کرنے والے اپنے جرموں میں بڑھیں گے اسی نسبت سے ان جرموں کا نشانہ بننے والے غیر معمولی دکھ اٹھا رہے ہوں
خطبات طاہر جلد ۳ 326 خطبہ جمعہ ۲۲ / جون ۱۹۸۴ء گے اور وہ دکھوں اور مصیبتوں کی رات بن جائے گی.اس کے برعکس دوسرا معنی یہ تو ایک معنی کے دوشاخیں تھیں.دوسرا معنیٰ اس کا یہ بنتا ہے کہ ایک طرف تو جرم کرنے والے خدا تعالیٰ کے عذاب کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں اور اس تقدیر شر کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے لئے مقدر ہوتی ہے اور دوسری طرف دکھ اٹھانے والے یا غیروں کا دکھ محسوس کرنے والے بڑی گریہ وزاری کرتے ہیں راتوں کے وقت اور بعض راتیں جیسا کہ دنیا کی ہر زبان کے اشعار میں ذکر ملتا ہے اتنی بھاری اور اتنی بوجھل معلوم ہوتی ہیں کہ بے قراری کے ساتھ انسان اٹھ اٹھ کر دیکھتا ہے کہ کب صبح کی شفق طلوع ہوگی کب فجر پھوٹے گی؟ بیماروں کی حالت ایسی ہوتی ہے ایک ایک لمحہ انتظار کرتے ہیں کہ کب صبح کی خوش خبری ملے گی.تو صبح کے ساتھ ایک سکون کا پہلو بھی ہے اور جرائم کے ختم ہونے کا پہلو بھی ہے.چوروں اچکوں کے جو وقت ہیں وہ راتوں کے وقت ہوتے ہیں اور دن کے وقت ان کو پکڑنے کے وقت ہوتے ہیں.تو وہ رات جو عرب میں اس وقت جاری ہوئی جب آنحضرت ﷺ کا زمانہ تھا اس میں یہ ساری کیفیات اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی تھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم: ۴۲) جہاں تک جرائم کا اور خدا تعالیٰ سے دوری کا تعلق ہے خشکی بھی گندی ہوگئی تھی اور تری بھی گندی ہوگئی یعنی مذاہب کی دنیا بھی تباہ ہو چکی تھی اور غیر مذہبی دنیا بھی تباہ ہو چکی تھی اور ایک طرف جرائم مطالبہ کر رہے تھے کہ خدا تعالیٰ اس دوسری تقدیر کو ظاہر کرے اور جرائم جو مطالبہ کرتے ہیں نئی تقدیر کا اس میں دونوں باتیں آجاتی ہیں.اول یہ کہ جرائم زبان حال سے یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اب بہت ہو چکی ہے اب وقت بدل دے، اب مزید جرائم سے دنیا تباہ ہو جائے گی اور دوسری طرف جرائم زبان حال سے سزا کا مطالبہ کر رہے ہوتے ہیں اور اس کے مقابل پر کچھ لوگ گریہ وزاری میں انتہا کر دیتے ہیں خدا کے حضور کہ اے خدا صبح کا منہ دکھا.اس وقت آنحضرت ﷺ نے جو دعائیں کیں وہی دعا ئیں تھیں، جو خدا کے فضل کو کھینچ لانے کا موجب بنیں اور اس کے نتیجہ میں پھر شریعت کا سورج طلوع ہوا ہے.پس لیلۃ کولیل کی بجائے ایک حرف کے اضافے سے حیرت انگیز وسعت عطا فرما دی قرآن کریم نے اور ایسی وسعت جو ہر قسم کے مضامین کو سمیٹ لیتی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی رات میں سلام کا ذکر ہے امرالہی کے ساتھ اور یہ فرمایا
خطبات طاہر جلد ۳ 327 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء دج گیا هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ.یہ کیا مطلب ہے؟ مِنْ كُلِّ أَمْرٍ فُ سَلَمُ هِيَ حَتَّى مطلع الْفَجْرِ مَطْلَعِ الْفَجْرِ کے بعد کیا فرشتے نازل نہیں ہوں گے؟ تَنَزَّلُ الْمَلَبِكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ اَمْرِفُ سَلم.ہے پوری آیت جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں کہ کثرت کے ساتھ فرشتے نازل ہوتے ہیں.اللہ تعالٰی کے حکم کے ساتھ مِنْ كُلِّ اَمْرِفُ سَلَمُ هِيَ حَتَّى ہرامر میں وہ سلامتی کا پیغام دے رہے ہوتے ہیں هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ یہاں تک کہ صبح کا سورج طلوع ہو جائے.تو کیا سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ پھر خدا کی رحمتیں چلی جاتی ہیں؟ بشارتیں ہٹ جاتی ہیں اور سلامتیاں غائب ہو جاتی ہیں یہ کیا مطلب ہے؟ اس کا دراصل مطلب یہ ہے کہ سورج جب تک نہیں نکلتا اس وقت تک تسلی دینے کا وقت ہوا کرتا ہے جب سورج طلوع ہو جائے تو پھر تو سب کچھ نصیب میں آگیا اس لئے خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ وہ رات خدا کے بعض بندوں پر چونکہ بہت بھاری ہوتی ہے اور یہ بھی بتانا چاہتا ہے کہ صبح انہی کی وجہ سے طلوع ہوتی ہے اگر خدا کے وہ پیارے بندے نہ ہوں جن کا دکھ عرش پر محسوس کیا جاتا ہے تو خدا کو کوئی پرواہ نہیں کہ یہ راتیں کتنی لمبی ہو جائیں.انھی کی بے قراری ہے جن پر نظر کر کے خدا پھر ان راتوں کو دنوں میں تبدیل کیا کرتا ہے ورنہ ایسے ظلم کی راتیں بھی آتی ہیں کہ ہزار ہزار سال کی رات چلی چلی جاتی ہے.بڑی بڑی ایمپائرز ہیں جو تباہ ہوئیں، بڑی بڑی قومیں مظلوم ہوئیں ، غلام بنائی گئیں لیکن کوئی ان کی نہیں سنی گئی، کوئی ان کے لئے فریاد کرنے والا ایسا نہیں تھا جو خدا تعالیٰ کی رحمت کو بھینچ لاتا اس لئے دنیا کے مسائل کی راتیں بعض دفعہ تو بہت ہی لمبی ہو جایا کرتی ہیں جیسا کہ میں نے شاید پہلے بھی ایک دفعہ ذکر کیا تھا چر چل سے جب ٹراٹسکی ملا ہے تو اس نے یہ شکایت کی کہ میں تو سمجھا تھا کہ کیمونسٹ دنیا میں کمیونزم کے ذریعہ روس آزاد ہو جائے گا اس لئے میں جدو جہد کر رہا تھا لیکن میں نے تو یہ دیکھا ہے کہ میرا ہم وطن گہری غلامی کی زنجیروں میں جکڑا گیا ہے اور مجھے یہ خوف ہے کہ ایک بہت ہی لمبی رات ہے جس نے ویسٹ روس کو ڈھانپ لیا ہے اس سے اب مفر کی کوئی صورت نہیں رہی ، میں اس لئے باہر آ گیا ہوں حالانکہ وہ لینن کے پہلے کا لیڈر تھا اور اس کے ساتھ مل کر بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اتفاق تھا کہ لینن او پر آ گیا ور نہ ٹراٹسکی بھی آسکتا تھا اتنے مقام کا وہ اشترا کی لیڈر تھا جس نے بے شمار
خطبات طاہر جلد۳ 328 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء قربانیاں دی ہیں اشتراکیت کے لئے لیکن جب اس نے اشتراکیت کو حاصل کیا یعنی اشتراکیت کے پھل کو تب اس کو محسوس ہوا کہ یہ تو کڑوا پھل ہے.بہر حال چرچل نے اس کو تسلی دینے کے لئے کہا اس نے خود اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ میں نے اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ دیکھورا تیں آیا کرتی ہیں اور دیکھو روم کی ایمپائر جب ختم ہوئی تھی تو پھر ایک رات ہی آئی تھی نا اب دیکھو یورپ کی روشنی اسی رات میں سے پیدا ہوئی ہے تو یہ ہوتارہتا ہے ہم اتنے مایوس نہ ہو روس بھی اسی طرح صبح کا منہ دیکھ لے گا تو ٹراٹسکی نے اس کو جواب دیا کہ ہاں مجھے علم ہے لیکن مجھے یہ بھی علم ہے کہ روم کا سورج جب غروب ہوا تھا تو ایک ہزار سال کی رات تھی جس کے بعد پھر دوبارہ سورج طلوع ہوا ہے یورپ پر تو کیا تم مجھے یہ خوش خبری دے رہے ہو کہ روس کے لئے ایک ہزار سال کی رات مقدر ہو چکی؟ یہ تو کوئی خوش خبری خوش خبری دے رہے ہو ؟ نہیں.تولیلۃ کا زمانہ بڑا لمبا بھی ہو جاتا ہے، اتنا لمبا کہ بعض تو میں جن کا کوئی پرسان حال نہ ہو ان کی ایک رات ہزار سال کی رات بھی بن جاتی ہے مگر قرآن کریم فرماتا ہے کہ ایسی راتیں بھی آتیں ہیں اور وہ لیلۃ القدر ہے جن میں خدا کے کچھ بندے ایسے ہیں جو ان راتوں کو تبدیل کر دیا کرتے ہیں اپنی گریہ وزاری کے ساتھ ، اپنی عبادتوں کے ساتھ.ایسی ہی ایک رات آئی تھی جب محمد مصطفیٰ ظاہر ہوئے تھے ، یہ آپ کی گریہ وزاری تھی ، یہ آپ کی غار حرا کی عبادتیں تھیں جنہوں نے وہ سورج طلوع کیا جو ہزار ہا راتوں سے بڑھ کر اہم تھا اور جس کا زمانہ نہ ختم ہونے والا زمانہ ہے پس آلف جو ہزار مہینوں کا ذکر ہے یہ وہ عام ہزار مہینے نہیں ہیں بلکہ ہزار کا لفظ جب انسانی زندگی پر بولا جاتا ہے تو یہ معنے ہوں گے کہ پوری انسانی زندگی سے بڑھ کر ہے وہ رات لیکن جب قومی زندگی پر اطلاق پائے گا تو مرادصرف یہ ہوگی کہ نہ ختم ہونے والا ایک دن آنے والا ہے، ایسا دن جو پھر کبھی غروب نہیں ہوگا اور اس لئے ہوگا کہ فرشتے نازل ہو رہے تھے کسی کی بے قراری کو دیکھ کر یعنی حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے لئے اور وہ تسلی یہ دے رہے تھے کہ فکر نہ کرو روشنی کا زمانہ بہت دور نہیں ہے تم عنقریب سورج کو طلوع ہوتے دیکھو گے اور یہاں جس سورج کی خوش خبری دی جارہی تھی عجیب لطف کی بات ہے کہ ایک پہلو سے وہ خود حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی تھے کہ اس رات میں سے تو تو طلوع ہونے والا ہے تجھے کیا غم تو نے ہی دنیا کو اجاگر کرنا ہے اور ان کے اندھیروں کو روشنیوں میں بدلنا ہے.تو یہ جو
خطبات طاہر جلد ۳ 329 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء سلم کی خوش خبریاں تھیں اس سے مراد یہ نہیں تھی کہ صبح تک سلام ہے اس کے بعد سلامتی ختم ہے.مراد یہ ہے کہ اندھیرے میں بے چینی کے وقت مریض کو تسلی دی جاتی ہے دکھ اٹھانے والے کو دلا سے دیئے جاتے ہیں.مائیں جس طرح بچوں کو کہتی ہیں کوئی بات نہیں دیکھ صبح سورج طلوع ہوگا تو تم ٹھیک ہو جاؤ گے، ڈاکٹر آ جائے گا فلاں مدد کو پہنچے گا.ان معنوں میں فرشتے نازل ہوتے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ فکر نہ کر وہ دن دور بہت نہیں ہے جس کا انتظار ہے.یہ تو قومی لحاظ سے لیلۃ کے معنی ہیں اور انفرادی طور پر بھی انسان کی زندگی میں ایسا زمانہ آتا ہے کہ جب وہ جرائم کی دنیا میں غرق ہو جاتا ہے بسا اوقات اس پر تاریکی کی رات آتی ہے.ایسا زمانہ بھی آتا ہے کہ جب وہ دکھوں میں مبتلا ہوتا ہے اور یوں محسوس کرتا ہے کہ یہ دکھ اب کبھی ختم نہیں ہوں گے.اس وقت بھی اسی قسم کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اور وہ خاص وقت دعا کا جو قبولیت کا ، غیر معمولی قبولیت کا وقت ہوتا ہے وہ لیلۃ القدر ہے جس کا اس سورت میں انفرادی زندگی کے لحاظ سے ذکر کیا جا رہا ہے.اس وقت ایک بے قرار دل میں تمنا اُٹھتی ہے.بعض دفعہ گناہ گاروں کے لئے بھی ایک رات آتی ہے جب وہ تو بہ کرتے ہیں اور وہ تو بہ کا لمحہ ان کی ساری زندگی سے بہتر ہوا کرتا ہے اور بعض دفعہ دکھ اٹھانے والوں کی زندگی میں بھی ایک رات آتی ہے ان کی گریہ وزاری کی رات جو اس مقام کو پہنچ جاتی ہے جس کے بعد سوال ہی باقی نہیں رہتا کہ سورج طلوع نہ ہو.اور یہ انفرادی زندگی کی رات جو ہے بعض دفعہ اس سے بھی زیادہ آگے بڑھ جاتی ہے مختصر نسبتا مگر قومی زندگی کی رات بن جاتی ہے.ایک رات تو ہے قومی زندگی کی جس کا سورج کبھی طلوع ہی نہیں ہوگا اور پھر وہ دن کبھی واپس نہیں آئے گا.ان معنوں میں کہ ہمیشہ کے لئے قرآن اور محمد رسول اللہ ہے کے سورج کو دنیا کی نظر سے اوجھل کر دیں ایک تو وہ رات ہے.ایک مختصر دور بھی آتے ہیں قومی زندگی میں جس میں افراد سے بڑھ کر معاملہ ہو جاتا ہے لیکن اتنا لمبا نہیں اور وہ دور ایسے ہیں جن میں قو میں داخل ہوتی بھی رہتی ہیں اور ان سے نکلتی بھی رہتی ہیں.کبھی یہ راتیں چھوٹی ہو جاتی ہیں کبھی یہ راتیں لمبی ہو جاتی ہیں.آج کل جماعت احمد یہ جس دور سے گزر رہی ہے.یہ بھی ایک ایسا ہی لیلۃ القدر کا دور ہے.اس کو سمجھنے کے لئے لفظ قدر کو سمجھنا بھی ضروری ہے کیونکہ قدر کو سمجھے بغیر لیلۃ القدر کی حقیقت تو معلوم نہیں ہوسکتی.قدر کہتے ہیں ایک لحاظ سے تقدیر کو یعنی قسمتیں بنانے والی رات یا قسمتیں
خطبات طاہر جلد ۳ 330 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء بگاڑنے والی رات ، ایسی رات جو تقدیروں کا فیصلہ کرنے کے لئے آتی ہے.چنانچہ اس پہلو سے جب آنحضرت ﷺ کے زمانے پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک ہی رات تھی جس نے ایک وقت میں مسلمانوں کی قسمت بنانے کا فیصلہ کر دیا اور مشرکین کی قسمت مٹانے کا فیصلہ کر دیا.وہ غرق کر گئی آنحضرت ع کے مخالفین کو اور بچا گئی آپ کے ماننے والوں کو اور ہر معاند ہر مخالف کی تقدیرلکھ دی کہ وہ لا ز ما نا کام و رسوا اور ذلیل ہوگا.ہر مومن کے لئے یہ تقدیرلکھی گئی کہ وہ بہر حال ہر قیمت پر یقیناً کامیاب ہو کر رہے گا.پس ان معنوں میں تقدیر بنانے والی اور تقدیر بگاڑنے والی رات آیا کرتی ہے.ایسی ہی ایک رات میں ہم اس وقت گزر رہے ہیں اور ہماری دعائیں ہی ہیں اللہ کے فضل کے ساتھ جو ہمیں تو فیق دے رہا ہے کہ جس نے اس رات کا فیصلہ کرنا ہے.دوسرا پہلو قدرکا ، قدر کے اندر ایک معنی پائے جاتے ہیں قدرت نمائی کے یعنی ایسی باتیں جو بظاہر ناممکن ہوں ، انسانی طاقت میں نہ ہوں وہ باتیں بھی خدا اس رات کے بعد دکھایا کرتا ہے.یعنی ایک طرف آنحضرت ﷺ اور آپ کا عجز اور آپ کی انکساری اور آپ کے بے کس ساتھی بے بس کوئی طاقت کو ئی اختیار نہیں تھا.ہر سفلہ انسان، ہر کمینہ انسان دنیا کے سب سے بڑے معززین پر حملے کر رہا تھا.زبانیں دراز کر کر کے بھی اور جسمانی دکھ دے کر بھی.کس قدر بے بسی کی رات ہے.ان کی بے بسی کی رات قدرت کے دن میں تبدیل کی جاتی ہے، خدا اپنی قدرت نمائی کا نشان دکھاتا ہے اور کمزوروں کو طاقتور بنا دیتا ہے اس لئے قدر کا ایک معنی عام لحاظ سے قدرت نمائی معجزہ دکھانا اور قوت کا اظہار غیر معمولی قوت کا اظہار یہ بھی اس کا معنی ہے.تو مراد یہ ہے کہ ایک ایسی رات آتی ہے جو کمزوروں کو قوی کر دیتی ہے اور اس رات کا بوجھ جب پڑتا ہے.تو بڑے بڑے طاقتور کمزور اور بے کار ہو جاتے ہیں.نہتے ہو کر رہ جاتے ہیں، ان کو وہ ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے تو دراصل تو وہی تقدیر خیر وشر کے معانی ہیں لیکن زیادہ تفصیل سے جب ہم معانی پر غور کرتے ہیں تو تقدیر کی نئی شکلیں سامنے آتی ہیں.پھر قدر کا ایک معنی وہ بھی ہے جسے ہم اردو میں کہتے ہیں اس کی بڑی قدر کی گئی ہماری کب قدر کرے گا کوئی ہم نے تو بہت کچھ کیا لیکن قدر نہ کی گئی.یہ قدر در اصل قیمت سے معنی نکلا ہے یہ جو عرف عام میں ہم قدر کہتے ہیں ، یہ عربی میں دراصل قیمت کے نتیجے میں یہ اردو کو معنی بخشا گیا.قدر
خطبات طاہر جلد ۳ 331 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء کہتے ہیں قیمت کو تو مراد یہ ہوتی ہے کہ ہماری قیمت کب ڈالی جائے گی ؟ کب ہمیں پوچھا جائے گا ؟ کب ہماری محنتوں کی طرف نگاہ کی جائے گی ؟ تو ان معنوں میں قدر کی رات سے مراد یہ ہے کہ ایسی دکھوں کی رات جب بعض دکھ اٹھانے والوں کی قیمت ڈالی جائے گی.ان کو بے سہارا نہیں چھوڑا جائے گا.اللہ کے پیار کی نگاہیں ان پر پڑیں گی اور ان کی قیمت ڈال کر بتائیں گی کہ دنیا میں اگر کوئی قیمتی وجود تھے تو یہی تھے.ان کے مقابل پر بڑے سے بڑے لوگوں کی بھی کوئی قیمت نہیں ، بڑی سے بڑی قوموں کی بھی کوئی قیمت خدا کی نظر میں نہیں ہے.تو قیمتیں ڈالنے والی رات لکھی چیزوں کو رد کرے گی کہ تمہاری کوئی قیمت نہیں ہے، وہ کمی چیزیں رد کی جائیں گی جو بظاہر بڑی شان وشوکت والی بظاہر بڑی چمک دمک والی نظر آتی تھیں اور کچھ کمی نظر آنے والی چیزوں کی قیمت ڈالی جائے گی جو دنیا کی نظر میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھیں، بڑی ان کو قیمت ملے گی.چنانچہ آنحضرت مے کے ساتھ اور آپ کے غلاموں کے ساتھ خدا تعالیٰ نے یہی سلوک فرمایا اور آپ کا بھی مزاج چونکہ اپنے رب کا مزاج تھا اس لئے آپ بھی اسی طرح لوگوں کے لئے قدر کی رات بن گئے تھے ، لوگوں کے لئے قیمتیں اس طرح ڈالتے تھے جس طرح خدا اپنے بندوں کی قیمتیں ڈالا کرتا ہے.چنانچہ ایک دفعہ آنحضرت عمﷺ کے متعلق بہت پیارا واقعہ ہے جو با ربار جماعت کے درسوں اور خطبوں میں بیان ہوتا رہتا ہے لیکن ایک ایسا پیارا واقعہ ہے جس کی لذت ختم ہی نہیں ہوسکتی اور اس کا تعلق بھی لیلۃ القدر کے ان معنوں سے ہے.آنحضرت ﷺ ایک دفعہ بازار سے گزر رہے تھے تو ایک ایسا حبشی یا معمولی حیثیت کا انسان ضروری نہیں کہ حبشی تھا وہ جو نہایت ہی بدصورت تھا، ایسا بدصورت کہ لوگ اس کے چہرے پر نظر ڈال کر گھبرا کر دوسری طرف منہ کر لیا کرتے تھے اور بالکل بے زرتھا، نہایت مفلس اور گندے کپڑے، پسینے میں لت پت ، مزدوری کرنے والا ایک نہایت غریب انسان.وہ ایک موقعہ پر کھڑا اپنی حالت کے اوپر غور کر رہا تھا.آنحضرت ﷺ کا وہاں سے گزرہوا اور آپ نے اس کے چہرے کی کیفیت پہچان کر پیچھے سے جا کر جس طرح ما ئیں بعض دفعہ بچوں کو لپیٹ لیتی ہیں اپنی بانہوں میں یا آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیتے ہیں پیار کرنے والے اس طرح آپ نے پیچھے سے جا کر اسکو اپنی بانہوں میں لپیٹ لیا، سمیٹ لیا اور اس زور سے جکڑ لیا کہ وہ مڑ کے دیکھ نہیں سکتا تھا کہ کون ہے.اس نے اپنے ہاتھ آنحضرت علیہ کے جسم پر پھیر نے شروع کئے اور پھیرتا
خطبات طاہر جلد ۳ 332 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء چلا گیا.حضور نے فرمایا کہ بتاؤ میں کون ہوں؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! آپ کے سوا ہو کون سکتا ہے.یہ محبت یہ شفقت کسی اور کو نصیب کیسے ہو سکتی ہے.میں تو صرف اس لئے دیر کر رہا تھا کہ مجھے زیادہ موقع مل جائے آپ کے جسم کے ساتھ اپنے جسم کو مکس کرنے کا میں تو اس لئے رگڑ رہا تھا اپنے بدن کو یہ دن مجھے کب نصیب ہوں گے.(مسند احمد کتاب باقی مسند المکثرین باب مسندانس بن مالک ) یہ ہے وہ قدر کی رات جن کے لئے قدر کی رات آتی ہے وہ پھر آگے یہ قدریں تقسیم کرنے والے بن جایا کرتے ہیں ، پسماندہ قوموں کو وہ اٹھاتے ہیں، غریبوں اور بے سہاروں کا سہارا بن جایا کرتے ہیں، ان کے ذریعے پھر اللہ کی قدریں تقسیم ہوتی ہیں اور قیمتیں ڈالی جاتی ہیں.اس وقت آنحضرت ﷺ نے بڑی محبت سے اس کی مزید دلجوئی کے لیے فرمایا کہ ایک میرا غلام ہے میں جسے بیچتا ہوں.ہے کوئی لینے والا ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! کون مجھے خریدے گا.میری تو کوئی قیمت نہیں.آپ نے فرمایا نہیں نہیں یہ نہ کہو میرے خدا کی نظر میں تمہاری بہت قیمت ہے اُس کی تو اُسی وقت قیمت پڑ گئی تھی جب رسول اللہ ﷺ کی محبت کی نظر اس پر پڑی.تو وہ لوگ جن کی قیمتیں نہیں ڈالی جاتیں ، یہ قدر کی رات اس طرح اس شان کے ساتھ ان پر ظہور کیا کرتی ہے کہ وہ آگے قیمتیں ڈالنے والے بن جایا کرتے ہیں.بے سہارا اور کمزور اور بے قیمت لوگ ان کے فیض سے پھر قیمتیں پایا کرتے ہیں.اس دور میں سے بھی ہم گزر رہے ہیں.آج جماعت احمد یہ بعض ممالک میں اتنی ذلیل اور بے قیمت اور ایسی بے سہارا ہے کہ ہر سفلہ انسان اٹھتا ہے اور جماعت کے اوپر زبان طعن دراز کرنے لگتا ہے اور ان کی عزتوں پر ہاتھ ڈالتا ہے اور فخر کیا جا رہا ہے اس بات پر بڑے سے بڑے صاحب اقتدارخوش ہوتے ہیں ان کے ساتھ شامل ہونے میں اور اپنے آپ کو ان کے ساتھ ان کے ہم جولی بتانے میں ان کا ساتھی بتانے میں آپ کی کوئی قیمت نہیں ہے لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ لازماً خدا کی نظر میں آپ کی قیمت ہے اور خدا کی نظر آپ کو قیمتی بنا کر دکھائے گی اور جھوٹی قیمتیں مٹائی جائیں گی.آپ قیمتیں ڈالنے والے بنیں گے، خدا کی قسم آپ قیمتیں ڈالنے والے بنیں گے، آپ قیمتیں ڈالنے والے بنیں گے.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: نماز جمعہ کے بعد کچھ غائب جنازے ہوں گے.ایک تو ہمارے ڈاکٹر عبدالقادر صاحب شہید جو چند دن پہلے فیصل آباد میں بڑے ظالمانہ طریق سے شہید کئے گئے ان کا جنازہ ہے اور ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 333 خطبہ جمعہ ۲۲ جون ۱۹۸۴ء سیدہ نصیرہ بیگم صاحبہ بیگم حضرت مرزا عزیز احمد صاحب جو معروف ہیں ساری جماعت میں اللہ کے فضل کے ساتھ ، حضرت میر محمد اسحاق صاحب کی صاحبزادی تھیں اور حضرت اماں جان کی بھانجی اور مرزا عزیز احمد صاحب مرزا سلطان احمد صاحب کے بڑے صاحب زادے تھے.معلم ابراہیم بیچی صاحب نائیجیریا میں بڑے مخلص فدائی جماعت کے پرانے کارکن.یہ بھی وفات پاگئے ہیں اور اسی طرح ایک سلسلے کے بڑی محبت کرنے والے درویش صفت دوست ڈاکٹر چوہدری بشیر احمد صاحب.ان سب کا نماز جنازہ غائب پڑھا جائے گا.ایک اور خاتون ہیں جرمنی میں انہوں نے دو تین سال پہلے بیعت کی تھی.آرڈر ہائیڈ مسز ایل مبارک طاہر یہ بھی گو تھوڑی دیر ہوئی بیعت کی تھی لیکن بہت تیزی کے ساتھ سلسلے سے محبت اور اخلاص میں ترقی کر رہیں تھیں اور جب کسی جرمن احمدی کو دیکھتی تھیں تو کھل اٹھتی تھیں خوشی سے کہ الحمد للہ وقت آ رہا ہے کہ سارا جر منی احمدی ہو جائے گا اور اپنے بچوں کو بھی بڑی باقاعدگی سے مسجد لے کر جاتی تھیں یہ بھی نو جوانی کی عمر میں ہی اچانک ہارٹ فیل سے وفات پاگئی ہیں.ان سب کی نماز جنازہ غائب جمعہ کے بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۳ 335 خطبہ جمعہ ۲۹ جون ۱۹۸۴ء تحریک مراکز یورپ و امریکہ پر والہانہ لبیک (خطبه جمعه فرموده ۲۹ جون ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں: لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِيْنَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُوْلِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمُن وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوْا وَ أَعْيُنُهُمْ تَفِيْضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنَا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنْفِقُونَ (التوبة : ۹۱ - ۹۲) اور پھر فرمایا: اس ماہ کے آغاز میں میں نے یوروپین مراکز کے قیام کے لئے تحریک کی تھی کہ دو مراکز کے لئے یورپ کے احباب چندہ دیں اور ایک مرکز اس سے انشاء اللہ تعالیٰ جرمنی میں بنانے کا ارادہ تھا اور ایک انگلستان میں.اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے غیر معمولی اخلاص کا نمونہ دکھایا ہے اور قربانی کے نئے سنگ میل رکھے ہیں.اسی طرح میں نے امریکہ میں پانچ مراکز کے لئے دو سال قبل تحریک کی تھی اور امریکہ کی جماعت کا ایک حصہ بھی خدا کے فضل سے قربانی کے معیار میں بہت آگے ہے اور بعض انفرادی نمونے قربانی کے تو حیرت انگیز ہیں لیکن ان دونوں مراکز میں جو اس وقت
خطبات طاہر جلد ۳ 336 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء صورت حال نظر آ رہی ہے وہ یہی ہے کہ اس تحریک کو مزید پھیلا نا پڑے گا.جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے امریکہ میں تو ابھی ایک حصہ ایسا ہے جو قربانی میں حصہ لینے کی استطاعت رکھتے ہوئے بھی حصہ نہیں لے رہا.معلوم ہوتا ہے امریکہ کی جماعت کا یہ حصہ عدم تربیت کا شکار رہا ہے اور اس طرف جماعت کو توجہ کرنی چاہئے اور ایک طبقہ ان میں سے ایسا بھی ہے جو خواہش رکھتا ہے، بلند ارادے رکھتا ہے لیکن ان کو توفیق نہیں ہے اور ایک مخلصین کا ایسا حصہ ہے کہ جو صف اول میں بھی سابقون میں ہیں یعنی صفِ اول کے اگلے حصوں میں نمایاں ہیں اور یہ وہ حصہ ہے جس کے متعلق میں نے تجربہ کیا ہے کہ جب بھی مجھے جماعت امریکہ کی طرف سے یہ اطلاع ملتی ہے کہ ابھی ضرورت پوری نہیں ہوئی ابھی ہم ضرورت سے پیچھے ہیں آپ دوبارہ تحریک کریں تو جب میں تحریک کرتا ہوں تو یہی لوگ دوبارہ پھر اسی میں حصہ لیتے ہیں اور سہ بارہ تحریک کروں تب بھی یہی لوگ حصہ لیتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں پھر اور بعض تو اپنی استطاعت کے آخری کناروں تک پہنچ گئے ہیں.پہلے کسی نے اگر دس ہزار ڈالر کا وعدہ کیا تھا دوبارہ تحریک کی تو پچیس ہزار کا کر دیا حالانکہ دوبارہ ان کو تحریک نہیں کی گئی تھی.پھر جب تحریک کی گئی کہ ابھی امریکہ کی جماعت کو مزید ضرورت ہے تو پچیس کی بجائے پچاس ہزار کر دیا.تو گوشیخ مبارک احمد صاحب کا خط آیا تھا ان کو میں نے جواب یہ دیا ہے کہ اب میں امریکہ میں مزید تحریک نہیں کروں گا کیونکہ مجھے علم ہے کہ وہی لوگ جو حد استطاعت تک پہنچ چکے ہیں انہوں نے مزید قربانیاں کرنی ہیں اور اپنے وہ حقوق بھی وہ تلف کر دیں گے جن کے متعلق قرآن کریم حفاظت کرنے کی تلقین فرماتا ہے.اولاد کے بھی حقوق ہیں، دوسرے بھی حقوق ہیں نفس کے بھی حقوق ہیں اور یہ نہیں ہو سکتا کہ خلیفہ وقت اس جرم میں شریک ہو جائے کہ اتنا زیادہ قربانی طلب کرے اور قبول کر لے کہ جو قران کریم کی ہدایات کے خلاف ہوں.آنحضرت ﷺ نے قرآن کریم کو سمجھنے کے بعد جو تفصیلات کے ساتھ ہمارے سامنے نقشہ کھینچا ہے کہ اس قسم کی قربانی ہونی چاہئے ، یہ یہ حقوق ہیں جو ادا ہونے چاہئیں، ان کوملحوظ رکھنا پڑے گا اور ملحوظ رکھا جاتا ہے.چنانچہ بعض اوقات آنحضرت ﷺ نے قربانی رد فرما دی کہ نہیں تمہاری اولاد کا حق ہے اور یہ بھی فرمایا کہ خدا یہ پسند نہیں کرتا کہ اپنی اولاد کو فقیر چھوڑ جاؤ اور اتنی زیادہ قربانی پیش کرو.تو بہر حال ایسے لوگ جو جس حد تک ممکن تھا قربانیاں کر چکے ہیں ان سے مزید کا مطالبہ نہیں
خطبات طاہر جلد۳ 337 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء ہوسکتا اور ایسے لوگ جو قربانی کی خواہش رکھتے ہیں اور قربانی کی توفیق نہیں پاتے ان کے اوپر بھی کوئی شکوہ نہیں کوئی حرج نہیں ہے.یہ میں اس لئے بیان کرنا چاہتا ہوں آج کہ کثرت سے مجھے ایسے خطوط آرہے ہیں جو نہایت دردناک ہیں، یورپ سے بھی اور دوسری جگہوں سے بھی اور وہ جب قربانیوں کا حال سنتے ہیں جو بیان کیا جاتا ہے خطبوں میں تو تڑپ جاتے ہیں اور بے انتہا درد کا اظہار کرتے ہیں کاش ہمارے پاس کچھ ہوتا تو ہم وہ پیش کر سکتے.بعض خود بیچارے محتاج ہیں، قرضوں میں دبے پڑے ہیں، بعض ایسے ہیں جن کو نان و نفقہ کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے تو یہ لوگ تو ہماری دعاؤں کے محتاج ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرے، ان کی ضرورتیں پوری فرمائے اور ان کی خواہشیں پوری فرمائے.ان کے لئے خوش خبری یہ ہے، ایسے لوگ جو استطاعت نہیں رکھتے لیکن تمنار کھتے ہیں تو ان کا بھی قرآن میں بڑے پیار سے ذکر ہے.ایسی کامل کتاب ہے ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں آپ کو نظر نہیں آسکتی.صرف صف اول کی قربانی کرنے والوں کا محبت سے ذکر نہیں فرماتی بلکہ وہ جو قربانیوں سے محروم ہیں لیکن دل میں اخلاص رکھتے ہیں ان کا بھی بڑے ہی پیار اور بڑی ہی محبت سے ذکر فرماتی ہے چنانچہ یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی ان آیات میں ان ہی خوش قسمتوں کا ذکر ہے جن کے پاس کچھ نہیں لیکن ایک نیک تمنا رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کا بھی بڑی محبت اور بڑے پیار سے ذکر فرمایا ہے.فرماتا ہے.لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا لِلهِ وَرَسُولِهِ کہ دیکھو میرے کمزور بندوں پر کوئی حرج نہیں ، ان پر زبان طعن دراز نہیں کرنی تم نے ، ان کو تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھنا اور مریضوں پر بھی کوئی حرج نہیں اور ان لوگوں پر بھی حرج نہیں جو چاہتے ہوئے بھی اپنے پاس کچھ نہیں پاتے کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کرسکیں.شرط یہ ہے کہ اِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ کہ ان کے دل میں اللہ اور رسول کی خالص محبت ضرور ہو، اگر وہ خدا اور رسول سے محبت رکھتے ہیں تو ان لوگوں پر پھر کوئی حرج نہیں ہے.نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ کا ایک دوسرا معنی یہ ہے جس کی سند حدیث سے بھی ملتی ہے کہ اگر وہ خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں پاتے یا جسمانی استطاعت نہیں رکھتے کہ قربانی کے میدانوں میں آگے بڑھ سکیں جسمانی طور پر اور وہ خدا اور رسول کی خاطر نیک نصیحت کرتے ہیں تو ان پر بھی کوئی
خطبات طاہر جلد ۳ 338 خطبه جمعه ۲۹ جون ۱۹۸۴ء حرج نہیں، ان کی طرف سے وہ نیک نصیحت ہی قبول کر لی جائے گی.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ وہ لوگ جن کے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ نہیں ہے اگر وہ نیک نصیحت ہی کر دیں تو یہی اللہ کی راہ میں قبول ہو جائے گا ایک صدقے کے طور پر.مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ.فرمایا ہر وہ جو احسان کرنے والا ہے.جو اپنے اعمال کو حسن بخشتا ہے اس کے اوپر کوئی حرج نہیں ہے.وَاللهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ اور اللہ تعالیٰ تو بہت ہی بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے.یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسی تحریک کرے جس کے نتیجہ میں بجائے اس کے کہ وہ رحم کرنے والا ثابت ہو الٹا ظلم کرنے والا ثابت ہو جائے.وہ تو تمہارےان حالات پر تمہاری دردناک حالتوں پر بڑی رحمت کی نگاہ فرما رہا ہے اور تم سے مغفرت کا سلوک فرما رہا ہے ان نیکیوں کے متعلق جو تم نہیں کر سکتے.غَفُورٌ رَّحِیم میں بہت بڑی خوش خبری ہے ان لوگوں کے لئے فرمایا تم تو یہ رور ہے ہو، اس قدر درد کا اظہار کر رہے ہو کہ ہم کچھ خرچ کر نہیں سکتے ہمارا کیا بنے گا ؟ خدا کہتا ہے کہ تمہاری یہ ادا ہمیں پسند آ گئی تمہارے لئے تمہارا خدا غفور بن کے ظاہر ہوگا.تمہاری بخششیں کرے گا اس خواہش پر کہ کاش کچھ ہوتا تو ہم خرچ کر سکتے اور بڑی رحم کی نگاہ سے تمہارا خدا تمہیں دیکھ رہا ہے جس کا مطلب ہے کہ ان کی حالتیں تبدیل کی جائیں گی.ان کی غربت اور لاچاری کی حالتوں کو غنا میں تبدیل کر دیا جائے گا اور قوت میں تبدیل کر دیا جائے گا.یہ ہے معنی یہاں غَفُورٌ رَّحِیم کا.اللہ تعالیٰ نے صفات کے ذریعہ ان کو خوش خبری عطا فرمائی.پھر فرماتا ہے وَلَا عَلَى الَّذِيْنَ إِذَا مَا آتَوُكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمُ عَلَيْهِ کہ ان لوگوں پر بھی کوئی حرج نہیں جن کے پاس کچھ خرچ کے لئے نہیں تھا لیکن وہ اپنی جانیں لے کر تیرے حضور حاضر ہو گئے اور چونکہ سفر لمبا تھا اور سواریاں درکا رتھیں اور غربت کا یہ عالم تھا عالم اسلام کا کہ تو نے بھی آگے سے یہ عذر پیش کیا کہ اگر تمہارے پاس کچھ نہیں ہے تو میرے پاس بھی تو کچھ نہیں ہے کہ میں تمہاری جسم کی قربانی کو ہی قبول کرلوں.میں وہ سواریاں نہیں پاتا جن پر سوار کر کے تمہیں سینکڑوں میل کی مسافت پر قربانیوں کے طور پر بھجواؤں کیونکہ جس موقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے اس وقت شام کی سرحدوں پر خطرہ درپیش تھا اور دور کی مسافت طے کر کے صحابہ کو جانا تھا اور قربانیاں گویا کہ سواریوں پر لاد کر پیش کی جانی تھی خدا کے حضور.چونکہ سواریاں
خطبات طاہر جلد ۳ 339 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء میسر نہیں تھیں اس لئے آنحضور ﷺ نے یہ عذر فرمایا کہ میرے پاس تو اتنی بھی استطاعت نہیں کہ میں تمہاری جان کی قربانی کو قبول کرلوں.فرمایا ایسی صورت میں تَوَلُّوا وہ ایسی حالت میں واپس مڑے ہیں کہ ان کی آنکھیں درد سے آنسو بہارہی تھیں اور یہ عرض کرتے جاتے تھے کہ اے خدا ہم کچھ بھی خرچ نہیں کر سکتے تیرے حضور، ایسے ناکارہ ایسے بے کار ہو گئے ہیں کہ جان تھی وہ لے کر حاضر ہو گئے ہیں لیکن وہ بھی قبول نہیں ہو رہی.فرمایا ان پر بھی کوئی حرج نہیں ہے.یہ جو محاورہ ہے کوئی حرج نہیں یہ بظاہر تو ایک معمولی سا انکار کا کلمہ لگتا ہے لیکن جیسا کہ انگریزی زبان میں بھی بعض دفعہ Negative میں بہت عظیم الشان تعریف کی جاتی ہے اسی طرح عربی میں بھی یہ محاورہ ہے کہ نفی کے رنگ میں بہت زیادہ مثبت مضمون قائم کیا جاتا ہے.تو کوئی حرج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادنی سا بھی وہ خدا کی طرف سے یا خدا کے بندوں کی طرف سے پکڑ کے نیچے نہیں آئیں گے.خبردار جو ان پر ہاتھ ڈالا، خبر داران کو بدنظر سے دیکھا.یہ خدا کی حفاظت میں آنے والے لوگ ہیں ، جب خدا اعلان کرتا ہے کہ کوئی حرج نہیں تو مراد یہ ہے کہ کسی طرف سے ان کو تنگی نہیں دی جائے گی.إِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَى الَّذِينَ يَسْتَأْذِنُونَكَ وَهُمْ أَغْنِيَاءُ ( التوبه (۹۱-۹۳) فرمایا صرف ان لوگوں پر حرج ہے جو تو فیق پاتے ہوئے بھی قومی ضرورتوں کے وقت خدا کی راہ میں کچھ خرچ نہیں کرتے.تو جہاں تک تو صف اول کے قربانی کرنے والوں کا تعلق ہے ان کے متعلق میں پہلے آیات تلاوت کر چکا ہوں کہ خدا تعالیٰ نے کس محبت سے ان کا ذکر فرمایا ہے.جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو توفیق نہیں پاتے ، ان کا بھی بڑی تفصیل سے قرآن کریم نے ذکر فر مایا اور بڑی محبت اور پیار کے ساتھ ذکر فر مایا اور مغفرت کی بھی خوشخبریاں دی اور رحم کی بھی خوشخبر یاں دیں.لیکن وہ طبقہ جو توفیق کے باوجود حصہ نہیں لے رہا ان کے متعلق فکر کرنی چاہئے وہ مستغنی ہو گئے ہیں دین کی ضرورتوں سے اس لئے یہ تو بہر حال یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان سے مستغنی کر دے گا اور دین کو ان کی فقیری ، انکی احتجاج کی ضرورت نہیں پیش آئے گی.ایک طرف سے ضرورت پوری نہیں ہو سکے گی تو خدا دوسری طرف سے ضرورت پوری کرنے کے سامان پیدا کرے گا.لیکن صرف یہ کہنا بھی کافی نہیں ہے کیونکہ مالی قربانی کی جو اصل روح ہے وہ روحانی ترقی
خطبات طاہر جلد ۳ 340 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء ہے اور انسان کو گناہوں سے نجات دلا کر مالی قربانی خدا کے رستوں کی طرف پر گامزن کرتی ہے زکوۃ اس کا نام رکھا ہوا ہے اسی لئے کہ یہ نشو و نما پیدا کرتی ہے، تزکیہ نفس کرتی ہے مخفی خوابیدہ صفات حسنہ کو ابھارتی ہے، جگاتی ہے اور بہت ترقی دیتی ہے.اسی طرح ہر مالی قربانی تزکیہ نفس بالعموم یہ کرتی ہے کہ بہت سے گناہ جھڑ جاتے ہیں، بہت سی مزید نیکیوں کی توفیق پاتا ہے انسان.تو ایسے لوگوں کو چھوڑ دینا اس خیال سے کہ خدا ضرورتیں پوری کر دے گا ہم محتاج نہیں ہیں یعنی خدا کا دین محتاج نہیں ہے یہ درست نہیں ہے.پیسہ ان سے آپ نہ مانگیں شروع شروع میں بلکہ وضاحت کر دیں کہ ہم پیسہ مانگنے نہیں آئے ہیں لیکن ان کی روحانی تربیت تو بہر حال فرض ہے، جماعت کا.اس لئے جماعت امریکہ ان کو کاٹ کر الگ نہ کرے بلکہ اگر ایسا کرے گی تو یہ خدا تعالیٰ کے منشا کے مخالف ہوگا اور ایک متکبرانہ فعل ہوگا.تکبر بھی ایک ایسی ظالم بلا ہے کہ وہ کئی طریق سے انسان کے نفس کے اندر داخل ہو جاتا ہے.نیکی کرتے کرتے نیکی میں تکبر داخل ہو جاتا ہے.چندہ دینے والے بعض دفعہ یہ سوچنے لگ جاتے ہیں کہ ہم تو اب چندہ دے بیٹھے ہیں اور یہ قربانیاں پیش کر دیں اب یہ جو لوگ چندہ نہیں دے رہے یہ بڑے ذلیل لوگ ہیں اور بعض اوقات خط آجاتے ہیں کہ ان لوگوں کو کاٹ کر پھینک دیا جائے ، یہ کیا حق رکھتے ہیں جماعت میں رہنے کا؟ ان کو ننگا کیا جائے ، ان کو ظاہر کیا جائے.وہ بیچارے غلطی سے ایسا کرتے ہیں میں ان کے لئے استغفار کرتا ہوں، سمجھا تا ہوں کہ یہ تمہاری سوچ غلط ہے، یہ مومن کی سوچ نہیں ہے.اللہ اس قسم کے بندے نہیں پیدا کرنا چاہتا، اللہ تعالیٰ تو اخلاص اور محبت کے ایسے نمونے قائم کرنا چاہتا ہے کہ دشمن کی بھی اصلاح کی طرف توجہ ہو کجا یہ کہ اپنوں کو انسان رد کر دے.تو امریکہ کی جماعت کو تو بالخصوص میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ روپیہ تو اللہ تعالیٰ لے آئے گا اور انشاء اللہ تعالیٰ بہت سے ایسے دوست ہیں جو بکثرت مجھے چھٹیاں لکھ رہے ہیں کہ آپ کیوں محدود کرتے ہیں ان تحریکوں کو ہم بھی تڑپ رہے ہیں ہمیں بھی موقعہ دیا جائے.چنانچہ افریقہ سے بھی ایک احمدی خاتون کا خط آیا ہے کہ آپ مانگیں نہ مانگیں میں نے تو زیور دے دیا ہے اب اٹھا لیں اس کو جس طرح مرضی کرنا ہے، ہم کیوں محروم رہیں اس نیکی سے؟ چنانچہ ان کو میں نے لکھا کہ ٹھیک ہے آپ محروم نہیں ہوں گی آپ جماعت کو زیور پیش کردیں.اسی
خطبات طاہر جلد ۳ 341 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء طرح بہت سے دیگر ممالک سے خط آ رہے ہیں.ایک پاکستان سے ایک بچی نے خط لکھا کہ مجھے ایک غیر متوقع طور پر پچاس ہزار روپیہ خدا تعالیٰ نے عطا فرما دیا تو وصیت کا میرا باقی تھا وہ میں نے ادا کر دیا ہے باقی پندرہ ہزار بچے ہیں اور یہ آپ نے مانگا تو نہیں ہے مگر میں نے دے کے چھوڑنا ہے، یورپ والی جو تحریک ہے اس میں آپ ضرور مجھ سے لے لیں.وہ بچی ہماری عزیز ہے، بے تکلف ہے، وہ اسی قسم کے خط لکھا کرتی ہے کہ بس میں نے دینا ہی ہے اب آپ جس طرح بھی ہے لینا ہی پڑے گا اس کو اور امانت پڑی ہوئی ہے مجھے فورا بتا ئیں کہ کہاں داخل کراؤں؟ اسی طرح پاکستان کی ہی ایک اور بچی کا خط آیا ہے کہ میں نے کافی دیر سے جوڑ کر ڈیپ فریزر کی خواہش میں پیسے جمع کئے تھے لیکن میری خوش قسمتی کہ جب اتنے پیسے ہوئے جتنے میں اس وقت ڈیپ فریز آتا تھا جب میں نے جمع کرنے شروع کئے تھے اور وہ میرا ٹارگٹ تھا تو بجٹ آ گیا اور قیمتیں بڑھ گئیں ڈیپ فریزر کی اور ساتھ ہی یورپ کی تحریک بھی میرے کانوں تک پہنچ گئی تو اس وقت میں نے اپنی خوش قسمتی پر ناز کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس طرح مجھے بچالیا ہے ورنہ میں خرید لیتی اور یہ روپیہ اب میں یورپ کی تحریک کے لئے پیش کر رہی ہوں.تو خدا تعالیٰ کی راہ میں دینے والے مچل رہے ہیں ہر جگہ، بے قرار ہیں روحیں.ایک بیمار عورت جو ہسپتال میں ہے اس کا خط آیا ہے کہ میرا زیور تو ایسی جگہ پڑا ہے کہ میں جاؤں خود ہی نکالوں جا کے اور میں بڑی بے قرار ہوں کہ میرا پتہ نہیں کیا بنتا ہے، میرے لئے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جلد توفیق دے میرے پر ایک بوجھ بن گیا ہے زیور، جب تک میں دے نہ لوں مجھے تسلی نہیں ہوگی.ہسپتال سے فارغ ہوں اور جاؤں اور پھر تلاش کر کے دوں اور ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ جو میرے ہاتھ میں ہے اس وقت وہ تو میں دے رہی ہوں.تو خدا کے کام تو نہیں رکیں گے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ایک ملک کی ضروریات اگر وہ ملک پوری نہیں کر سکتا تو دوسرے ملک ان ضروریات کو پورا کریں گے لیکن فکر کرنی چاہئے ایسے احمدیوں کی جن کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے.خصوصاً ایسے حالات میں جب کہ قوم بہت عظیم خطرات کے دور میں سے گزر رہی ہو.اس وقت قوم کے ایک حصہ کو غیر معمولی قربانیاں کرتے ہوئے دیکھنا اور پھر خاموش بیٹھے رہنا ، یہ اتنا بڑا گناہ ہے، اتنی بڑی سخت دلی ہے کہ اگر ان کو فوراً سنبھالا نہ گیا تو یہ لوگ ضائع ہو جائیں گے اور خدا کی ناراضگی کے نیچے آجائیں گے اس لئے ان کی فکر کریں، ان سے بالکل
خطبات طاہر جلد ۳ 342 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء پیسہ نہ مانگیں ، ان کو پیار سے سمجھا ئیں محبت سے جماعت کے قریب لائیں ،معلوم کریں کیا وجہ ہوگئی کیوں یہ اکھڑ گئے ہیں.عبادتوں میں کمی تھی یا کوئی اور دنیا داری کی چیزوں نے ان کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے.بہر حال ایک مہم چلا کر ان کی تربیت کی طرف توجہ کرنی چاہئے.اب میں آپ کو چند مثالیں دیتا ہوں کہ کس طرح جماعت کے دوست قربانی میں اپنے اخلاص اپنی محبت میں کیسے کیسے بلند مقامات کو چھورہے ہیں.زیورات کی تحریک تو نہیں کی گئی تھی مستورات نے خود ہی ، انگلستان کی مستورات نے زیورات دینے شروع کئے اور بہت ہی اعلیٰ نمونہ دیکھایا ہے انگلستان کی خواتین نے.جب اس کا ذکر آیا جمعہ میں تو بات پھیل گئی اور جرمنی میں جواحمدی نوجوان ہیں ان کی بیویوں نے بھی اس میں حصہ لینا شروع کیا اور جہاں تک جرمنی کی جماعت کا تعلق ہے اب تک کے اعداد وشمار سے تو یہی لگتا ہے کہ وہ بعد میں آنے کے باوجود آپ سے آگے بڑھ گئے ہیں یعنی انگلستان کی جماعت سے اور غیر معمولی طور پر اپنی آمد کے مقابل پر انہوں نے خدا کی راہ میں زیادہ کھل کر چندے دیئے ہیں.یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ انفرادی طور پر ہر فرد آگے بڑھ گیا یہ تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اللہ کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ انفرادی طور پر کون آگے بڑھا ہے.دل کے حالات پر خدا کی نظر ہے، کمزوریوں پر، مجبوریوں پر خدا کی نظر ہے اس لئے یہ فتویٰ تو نہ میں دینے کا اہل ہوں، نہ مجاز ہوں، نہ دوں گا لیکن جو عمومی نظر آتی ہے چیز ، ایک تصویر عمومی ابھرتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی کی جماعت اللہ کے فضل سے بہت آگے بڑھ گئی ہے.چنانچہ آپ اس سے اندازہ کریں جہاں تک تعداد جماعت کا تعلق ہے انگلستان کی جماعت جرمنی کی جماعت کے مقابل پر چھ سات گنا کم سے کم زیادہ ہے اور اگر مالی حالات برابر سمجھے جائیں حالانکہ برابر نہیں ہیں کیونکہ وہاں بہت سے نو جوان بے کا ر بھی ہیں اور کئی قسم کی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں، کئی ہیں جو صرف حکومت سے جو گزارے مل رہے ہیں اسی پر رہ رہے ہیں.یہاں بھی ایسے ہوں گے مگر وہاں تعداد زیادہ ہے.تو بہر حال چھ سات گنا زیادہ تعداد ہے انگلستان کے احمدی احباب کی اور اب تک انگلستان کی طرف سے پاؤنڈوں میں اگر پیش کیا جائے تو دولاکھ ترانوے ہزار تین سوننانوے پاؤنڈ چندہ موصول ہوا ہے یعنی وعدے موصول ہوئے ہیں.اور جرمنی کی طرف سے اب تک دولاکھ بتیس ہزار دوسو چالیس پاؤنڈ کے وعدہ موصول ہو چکے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 343 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء جہاں تک دیگر قربانیوں کے نمونوں کا تعلق ہے اس لحاظ سے بھی خدا کے فضل سے جرمنی پیچھے نہیں ہے بلکہ بعض بڑے دلچسپ ایمان افروز واقعات پہنچ رہے ہیں.مثلاً ایک نوجوان آئے ہوئے تھے میٹنگ کے سلسلے میں فرینکفرٹ اور وہیں ان کو اطلاع ملی کہ یورپ کے لئے تحریک ہوئی ہے، اس سے پہلے ان کے وکیل کی چٹھی آچکی تھی کہ تمہارا جو کیس چل رہا ہے عدالت میں اس کی میری دو ہزار مارک فیس ہے وہ تیار رکھو کیونکہ اس کے بغیر وہ کیس نہیں چلے گا تو دو ہزار مارک ہی ان کے پاس تھا اس وقت انہوں نے فیصلہ کیا کہ میں نے تو اب اس تحریک میں حصہ لینا ہی ہے دیکھا جائے گا ملک مجھے باہر نکالتا ہے یا رہنے دیتا ہے ، وکیل کی فیس دے سکوں یا نہ دے سکوں.کانوں میں آواز پہنچ گئی ہے اس لئے میں نے بہر حال یہ روپیہ دے دینا ہے.چنانچہ وہاں سے وہ دے کر اٹھے اور واپس جانے کے بعد ان کو وکیل کی طرف سے چٹھی آئی کہ تم بالکل فکر نہ کر وحکومت نے تمہاری طرف سے فیس ادا کر دی ہے.عجیب اللہ کی شان ہے اس لئے کوئی نہیں کہہ سکتا کہ دل کی کیا کیفیت تھی قربانی کے وقت اور خدا تعالیٰ کس حالت میں انسان کو پاتا ہے اور کس طرح اس پر رحمت کی نظر فرماتا ہے؟ ہم تو جوا طلائیں ملتی ہیں ان سے اندازہ لگاتے ہیں مگر خدا عالم الغیب ہے عالم الشہادۃ ہے ہر چیز پر نظر رکھتا ہے یہ یقینی طور پر ایک ضمانت ہے کہ خدا کسی قربانی کرنے والے کی کسی محسن کی قربانی کو ضائع نہیں فرمائے گا بلکہ بندے اسے ہمیشہ غفور اور رحیم پائیں گے.ایک جرمنی میں ایک احمدی دوست نے چٹھی لکھی مبلغ کو وہ انہوں نے پھر مجھے بھجوادی.اس میں ایک عجیب نقشہ کھنچا ہوا تھا جو کچھ ان کے پاس تھا وہ تو انہوں نے چندے میں دے دیا اور واپس جا کر ساتھ ٹیپ لے گئے ، کیسٹ ایک خطبہ کی جس میں قربانی کرنے والوں کا ذکر تھا اور اپنی بیوی کوسنانی شروع کی.وہ معلوم ہوتا ہے غریب لوگ ہیں زیادہ ان کے پاس زیور نہیں تھا خاتون کے پاس لیکن انہوں نے جو نقشہ کھینچا ہے وہ بڑا ہی دردناک ہے.کہتے ہیں وہ ٹیپ سنتی جاتی تھی اور بلک بلک کے رو رہی تھی کہ کاش میرے پاس بھی ہوتا تو میں پیش کرتی اور جو ہے وہ اتارتی جاتی تھی ساتھ ساتھ اور بالکل خالی ہوگئی.یہ جو کچھ ہے یہ تو فوراً بھجواؤ لیکن میں اس بات پر رو رہی ہوں کہ کاش میرے پاس ہوتا یہ تو پیش کرنے والی چیز کوئی نہیں ہے.اس خاتون کو بھی میں خوش خبری دیتا ہوں تمہارا بھی قرآن کریم میں ذکر ہے، اللہ تعالیٰ ان رونے والوں کا جب ذکر فرماتا ہے تو تم بھی اس میں شامل
خطبات طاہر جلد ۳ 344 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء ہو کتنی عجیب کتاب ہے! کیسا عظیم کلام ہے اور کیسے عظیم ہمارے آقا میں محمد مصطفی ہے کہ جس حالت میں بھی ہمیں وہ خدا پاتا ہے آپ کی غلامی میں ہم پر رحمت اور فضل ہی کی نظر ڈالتا ہے.ایک اور بچی کے متعلق اطلاع ملی کہ نئی نئی دلہن پاکستان سے آئی تھی اور زیورات جو دیئے تھے اس کی خواہش تو یہی تھی کہ جاؤں گی خاوند سے ملوں گی تو زیورات پہن کر سچ کر پھر مجالس میں جایا کروں گی تو جب اطلاع ملی تو ابھی اس نے زیور پہنا نہیں تھا کوئی.چنانچہ ایک دفعہ بھی نہیں پہنا سارا زیور اسی وقت جماعت کی خدمت میں پیش کر دیا اور پھر ایسے جو قربانی کرنے والے ہیں وہ اپنے اوپر کوئی رحم نہیں کرتے یعنی یہ خیال نہ کریں کہ وہ بڑے درد محسوس کرتے ہیں کہ ہم سے یہ کیا ہوگیا ہمارے ہاتھ خالی ہو گئے کیونکہ جو خط آتے ہیں اس میں اصل لطف کی بات یہ ہے وہ اتنے پیار اور محبت سے اپنے خالی ہاتھوں پر نظر ڈالتی ہیں عورتیں پھر جب شیشوں میں دیکھتی ہیں اپنے چہروں کو کہ وہاں جھومر نہیں ہے کوئی کوئی بندے باقی نہیں رہے، کوئی بالی باقی نہیں رہی تو بڑا ہی سرور حاصل کرتی ہیں کہتی الْحَمْدُ لِلہ یہ ہے زینت جو خدا کی راہ میں ہمیں نصیب ہوئی ہے.تو یہ ایک ایسی جماعت ہے جس کی کوئی مثال نہیں ہے.ساری کائنات میں جماعت احمدیہ جیسی آج کوئی جماعت نہیں ہے یہ خلاصہ ہے کا ئنات کا.کیسے ممکن ہے کہ خدا اس جماعت کو مٹنے دے؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.بڑے بڑے متکبر آئے ہیں پہلے بھی مٹانے کے لئے اور خود مٹ کر صفحہ ہستی سے غائب ہو گئے اور بھی بہت آئیں گے کیونکہ جماعت کا جو رستہ ہے یہ تو رستہ ہی قربانیوں کا رستہ ہے لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ ان بندوں کو خدا انہیں مٹنے دے سکتا جن کے اندر خدا کی محبت اس طرح ٹھاٹھیں مار رہی ہو اور جو کچھ خدا نے دیا ہو وہ پیش کرتے ہوں اور پھر روتے ہوں کہ ہم پیش کچھ بھی نہیں کر سکے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بہت سے خطوط ہیں اس کثرت سے روزانہ آتے ہیں کہ جو زخم غیر لگاتے ہیں وہ ان کے اوپر لگتا ہے پھاہا رکھ رہے ہیں یعنی بیک وقت ایسی اطلاعیں ملتی ہیں کہ جماعت کے دوستوں کے اوپر ظلم ہو رہا ہے، احمدیت پر مظالم ہورہے ہیں جس سے سینہ چھلنی ہو جاتا ہے اور ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ یہ اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے اس قسم کے نمونوں کے ساتھ کہ جماعت کے اندر جو اخلاص بڑھ رہا ہے پہلے سے محبت بڑھتی چلی جارہی ہے، قربانی کی روح بڑھتی چلی جارہی ہے جس طرح وہ اظہار کرتے ہیں اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں پیش کرنے کی تمنائیں لے کر آتے ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۳ 345 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء ساری ایسی چیزیں ہیں جو ساتھ ساتھ ان زخموں کو مندمل کرتی چلی جاتی ہیں ورنہ جس قسم کے حالات میں سے جماعت گزر رہی ہے وہ کوئی زندہ رہنے والے حالات نہیں ہیں.یہ جماعت کا اخلاص ہی ہے جو بچائے چلے جا رہا ہے، سہارے دیتا چلا جارہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے کہ ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا ایک تیغ تیز جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا سرمه چشم آرید روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۵۲ ) تو بیک وقت غم اغیار بھی ہے اور دلبرا کی پیاری نگاہیں بھی ہیں جونم اغیار کے جھگڑے کو کالتی چلی جاتی ہیں.ایک انگلستان کی بچی کے ذکر کے بعد میں اس مضمون کو فی الحال ختم کرتا ہوں.بچیوں کا بھی تو ذکر آنا چاہئے کہ احمدی بچیاں کس مزاج کی ہیں.ایک بچی بھتی ہے کہ یہ جو پاؤنڈ ہے، ایک پاؤنڈ یہ مجھے فلاں وقت حضرت چھوٹی آپا نے انعام دیا تھا اور یہ جو پیسے ہیں یہ سیدہ مہر آپا جب آئی تھیں تو انہوں نے انعام دیا تھا اور یہ جو پیسے ہیں یہ طاہرہ صدیقہ جب تشریف لائیں تھیں پچھلی دفعہ تو انہوں میری حسن تلاوت یا حسن قراءت پر انعام دیا تھا اور یہ جو پیسے ہیں یہ سکول نے مجھے اچھی تقریر پر انعام دیا تھا اور یہ جو پیسے ہیں یہ مجھے فلاں وقت انعام میں دیا تھا اور میں نے سب جمع کئے ہوئے تھے ، اب تحریک سن کے میں سارے پیش کر رہی ہوں لیکن اس التجا کے ساتھ کہ دعا یہ کریں اب کہ آئندہ جب بھی مجھے خدا دیا کرے میں تھوڑے سے اپنے پاس رکھ لیا کروں باقی سارے خدا کی راہ میں پیش کر دیا کروں.عجیب نمونے ہیں جو میں کہہ رہا تھا کہ نئے سنگ میل رکھے جار ہے ہیں اس میں کوئی مبالغہ نہیں.چھوٹی سی عمر کی بچی اس کے جذبات کا اندازہ کریں کہ کس طرح خدا کی راہ میں پیش کر رہی ہے اور پھر یہ تمنالے کر آتی ہے، درخواست یہ کر رہی ہے کہ آئندہ بھی ساری زندگی کے لئے میرے لئے یہ دعا کریں کہ تھوڑا سا اپنے پاس رکھا کروں باقی سارا اپنے اللہ کی راہ میں پیش کر دیا کروں.تو جماعت جس درد کے دور سے گزر رہی ہے اس کے ساتھ انعام بھی تو نازل ہورہے ہیں خدا کے ، دن بدن لمحہ بہ لمحہ اس جماعت کی کایا پلٹ رہی ہے.نئی رفعتیں حاصل ہو رہی ہیں.آج
خطبات طاہر جلد۳ 346 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء جماعت اس مقام پر نہیں کھڑی جس پر جماعت آج سے دو مہینے پہلے کھڑی تھی.اگر آپ پیچھے مڑکر دیکھیں تو جس طرح بہت بلند پہاڑوں پر چڑھنے والے کوہ پیما جایا کرتے ہیں تو تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ نیچے نظر ڈالتے ہیں تو بہت پیچھے، بہت نیچے اپنی پرانی جگہیں دکھائی دیتی ہیں.تو مجھے تو یوں ہی لگ رہا ہے کہ میں ایک عظیم پہاڑ کے اوپر چڑھ رہا ہوں جماعت کے ساتھ اور ہر آن جب میں نظر ڈالتا ہوں تو پہلا مقام بہت پیچھے اور بہت نیچے دکھائی دیتا ہے اس لئے اس خدا سے کبھی شکوہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوسکتا جو مصیبتوں کے وقت بھی ایسے فضل اور ایسے انعام لے کر آتا ہے.پس اپنے صبر کا معیار بھی بڑھا ئیں اپنے شکر کا معیار بھی بڑھا ئیں اور پھر دیکھیں کہ اللہ تعالی آپ کو دن بدن کتنی ترقیات عطا فرمائے گا اور ابھی اس کے نزدیک یہ ابتلا کا دور ہے، انعام کے دروازے ابھی کھلنے والے ہیں.یہ ابتلا ہیں جو انعام بن کر آ رہے ہیں جماعت کے لئے اور اس کے بدلے میں پھر انعام آنے والے ہیں.اللہ کے فضلوں کی کوئی انتہا نہیں ہوتی، اس کا کوئی کنارہ نہیں ہے اس کے فضلوں کے سمندر کا کہ جس تک آپ پہنچ کر کہیں کہ اب ہم یہاں پہنچ گئے.اس لئے آپ کی زندگی اس کے فضلوں کے اندر ختم ہوگی اس کے فضل آپ کی زندگیوں میں ختم نہیں ہو سکتے.ایسے خدا سے ہم نے تعلق جوڑا ہے ایسے خدا سے سودا کیا ہے.آخر پر میں اب یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ وہ سب دوست مرد اور خواتین جو مجھے باہر سے خطوط لکھ رہے ہیں کہ ہمیں بھی ضرور موقع دیں کیونکہ یہ آج کل خاص ایام ہیں اور غیر معمولی لذت پاتی ہے جماعت قربانی میں، اس لئے میں اپنے پہلے فیصلے کو بدلتا ہوں اور یورپ اور امریکہ کے مراکز کے لئے ساری جماعت کو اجازت دیتا ہوں کہ جس جس جگہ سے بھی کوئی مخلص کچھ پیش کرنا چاہئے وہ پیش کر دے.لیکن یہ خیال رکھیں کہ حد اعتدال میں رہیں، بعض اوقات ایسے آتے ہیں قوموں پر جب کہ ابھارنا پڑتا ہے کہ ابھی تمہارا معیار تھوڑا ہے اور بلند کرو.آج جس دور میں سے گزر رہے ہیں مجھے ا یہ فکر ہے کہ ذرا کم کرو اتنا زیادہ آگے نہ بڑھو کیونکہ مجھے ذہن میں ہمیشہ وہ حقوق آتے ہیں جو خدا تعالیٰ نے فرض فرما دیئے ہیں اور یہ خوف پیدا ہوتا ہے کہ وہ بنیادی حقوق تلف کر کے کہیں قربانی کی راہوں میں آگے نہ بڑھیں اس لئے توازن کو قائم رکھتے ہوئے اپنے دوسرے حقوق ادا کرتے ہوئے عفو کا جوطریق خدا تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ جو بچتا ہے پھر وہ سب کچھ پیش کر دو.تو ساری دنیا کی
خطبات طاہر جلد۳ 347 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء جماعتیں اب آزاد ہیں کہ حسب توفیق عفو کے مطابق قرآنی تعلیم کی حدود میں رہتے ہوئے وہ بھی ان لذتوں سے حصہ پائیں جن لذتوں سے آج اہل یورپ بالخصوص اور اہل امریکہ کا ایک حصہ ایک طبقہ بڑے نمایاں طور پر حصہ پا رہا ہے.جہاں تک دیگر مالی رپورٹوں کا تعلق ہے یہ جو آخری جمعہ ہوا کرتا ہے مالی سال کا یہ عموماً اسی ذکر پر محدود ہوتا ہے، یعنی مالی قربانی کے ذکر پر اور صدر انجمن اور دیگر جماعت کی جو انجمنیں یا مجالس ہیں ان کی قربانیوں کو جانچنے کا یہ آخری ہفتہ ہوتا ہے کیونکہ اب ایک دو دن تک تو مہینہ اور سال ختم ہو جائے گا لیکن افسوس ہے کہ تفصیلی رپورٹ مجھے پاکستان سے ابھی تک نہیں مل سکی.پاکستان میں تو منٹ منٹ کی رپورٹ آرہی ہوتی تھی کہ اب یہ حالت ہو گئی ہے، اب یہ ہو گئی ہے لیکن کل تک کل کی جو اطلاع ناظر صاحب اعلیٰ کی فون سے ملی تھی وہ یہ تھی کہ اگر چہ پچھلے سال کے مقابل پر بجٹ غیر معمولی طور پر زیادہ تھا غالبا دو کروڑ چھ لاکھ تھا جو بڑھ کر دو کروڑ ستر کے لگ بھگ پہنچ گیا تھا.تو کل کی خوشخبری یہ تھی کہ بجٹ سے کئی لاکھ روپے زائد وصولی ہو چکی ہے ابھی تک اللہ کے فضل سے اور یہ جو خدشہ تھا کہ ان حالات میں ان پریشانیوں میں برا اثر نہ پڑے یہ اللہ نے فضل فرمایا ہے نہ صرف یہ کہ برا اثر نہیں پڑا بلکہ بڑھ گیا ہے چندہ اور باقی جو دو دن ہیں ان میں ابھی بہت سی رقمیں آنے والی ہیں، بہت سے حساب دیر میں پہنچتے ہیں.ہوتا یہ ہے کہ مالی سال جب بند ہو بھی جائے تو چند دن بعد تک بھی اطلاعیں ملتی رہتی ہیں اس لئے امید یہی ہے کہ ان شاء اللہ تعالیٰ جس طرح پہلے پاکستان کی جماعتوں کو بجٹ سے لکھوکھہا روپیہ زائد دینے کی توفیق ملتی رہی ہے اس دفعہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ یہی ہوگا.ان سارے مخلصین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں ، بہت سی جماعتیں بھی اطلاعیں بھجوا رہی ہیں رمضان کی آخری دعاؤں میں شامل ہونے کی لالچ میں اور وقت تو میرے پاس نہیں ہے کہ انکا تفصیل سے یہاں ذکر کروں.نہ ہمارے پاس یہاں اس وقت اتنا عملہ ہے کہ سارے کام کو احسن رنگ میں سمیٹ سکے.عملہ پرائیوٹ سیکریٹری اتنا ہوا کرتا تھا پاکستان میں کہ وہ یہاں کے ایک دو کارکن اور جمع رضا کار یہ ان کے مقابل پر بہت ہی تھوڑے ہیں تعداد کے لحاظ سے لیکن یہ بھی میں ذکر کرنا چاہتا ہوں کہ جماعت انگلستان کو اللہ تعالیٰ وقت کی قربانی کی عظیم الشان توفیق عطا فرمارہا ہے اور یہ چند رضا کارمل کے جو دن رات اپنے آپ کو پیش کئے ہوئے ہیں خدمت میں ہر سارے کام کو
خطبات طاہر جلد ۳ 348 خطبہ جمعہ ۲۹/ جون ۱۹۸۴ء سنبھال رہے ہیں.مجھے تو سمجھ نہیں آتی یہ کام چل کیسے رہا ہے؟ اتنی ڈاک ہوتی ہے لیکن اللہ کے فضل سے روز کے روز بغیر قرض رکھے ہم ڈاک نکال دیتے ہیں اور دوسرے کام اس کے علاوہ ہیں تو مالی قربانی ہو یا جانی قربانی ہو ہر پہلو سے معیار بہت بڑھ گیا ہے تو بالعموم سب کو یاد رکھیں جتنے بھی قربانی کرنے والے ہیں ان کو رمضان کا جتنا وقت بھی باقی ہے اب اس میں خصوصیت کے ساتھ یا درکھیں اس لئے درس کے بعد جو دعا ہو گی اس میں دوبارہ ان کے متعلق تفصیلی اعلان کی ضرورت نہیں ہوگی.جن دوستوں تک یہ آواز پہنچ رہی ہے وہ آخری دعا میں مالی قربانی کرنے والوں کو بھی، جانی قربانی کرنے والوں کو بھی اور ان کو بھی جن سے جبر نہایت دردناک قربانیاں لی جارہی ہیں ان سب کو اپنی دعاؤں میں خصوصیت سے یادرکھیں.اللہ تعالیٰ جلد فضل لے کر آئے اور ہمارا صبر نہ ٹوٹے ہمیں توفیق دے کہ ہم ہمت اور حوصلہ کے ساتھ اس کی راہ میں قربانیاں دیتے چلے جائیں.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۳ 349 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء اللہ تعالیٰ کی صفت قومی اور عزیز ( خطبه جمعه فرموده ۶ / جولائی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِى إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (المجادلة : ٢٣) فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صُلِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَمِنْ خِزْيِ يَوْ مِيذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (هود: ۶۷) وَرَدَّ اللهُ الَّذِينَ كَفَرُوْا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوْا خَيْرًا وَكَفَى اللهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللهُ قَوِيًّا عَزِيزًان ( الاحزاب : ۲۶) اللهُ لَطِيفُ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ ۚ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (الشوری: (۲۰) وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (الحدید: ۲۶) وَلَيَنْصُرَنَّ الله مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللَّهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزُه ( ج :) یہ چند آیات اور آخر پر بعض آیات کے ٹکڑے جو میں نے تلاوت کئے ہیں ان سب میں اللہ
خطبات طاہر جلد ۳ 350 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء تعالی کی صفت قومی اور صفت عزیز کو دہرایا گیا ہے ان آیات میں اور بار بار ایک خاص مضمون کے تعلق میں ان صفات کا ذکر فرمایا گیا ہے.پہلی آیت جو میں نے پڑھی اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اللہ نے اپنے اوپر فرض کر لیا ہے لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِىی کہ یقیناً میں اور میرے رسول غالب آکر رہیں گے اور اغل بن میں بھی ایسی شدت کے ساتھ غلبہ کا اظہار فرمایا گیا ہے کہ اس سے بڑھ کر شدت سے غلبہ کا اظہار عربی زبان میں ممکن نہیں.اول تو لفظ کتب حد سے زیادہ زور دینے کے لئے استعمال ہوتا ہے اس سے اوپر عربی زبان میں کوئی لفظ نہیں ہے زور کا کہ خدا نے فرض فرما لیا ہے اپنے اوپر اور پھر لاغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِی میں نون ثقیلہ استعمال فرمایا جس کا مطلب ہے کہ لازماً یہ ہوکر رہے گا اس کے سوا کچھ ہو نہیں سکتا.تو خدا جو دوسروں پر کچھ فرض فرماتا ہے اس موقع پر اپنے پر بھی کچھ فرض فرمارہا ہے اور کن لوگوں کے لئے اپنے اوپر فرض فرما رہا ہے؟ ان لوگوں کے لئے جو خدا کے عائد کردہ فرائض کا حق ادا کرتے ہیں اس لئے اس موقع پر ڈسلی کا لفظ استعمال فرمایا اور باقیوں کا ذکر نہیں کیا کیونکہ رسول خدا کے بندوں میں سے وہ ہیں جو خدا کے عائد کردہ تمام فرائض کو ان کے حق کے مطابق ادا کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں اللہ اپنے اوپر ایک بات فرض کر لیتا ہے ان کے لئے کہ یہ وہ بندے ہیں جو ضائع نہیں کئے جائیں گے، لازماً ان کو غلبہ نصیب کیا جائے گا اور آنا کہہ کر ساتھ رُسُلِی کو شامل کرنا بہت ہی عظیم الشان اعزاز ہے جو ان کو بخشا گیا ہے.پس غلبہ تو لازماً عطا ہوتا ہے اور خدا کے رسولوں کو عطا ہوتا ہے لیکن وہ جو ساتھ چلنے والے ہوتے ہیں وہ غلامان در جو گرتے پڑتے اس قافلے میں شامل ہو جاتے ہیں اور خواہ حق ادا نہ بھی کر سکیں حق ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی فیض پا جاتے ہیں اور ایک زمانہ ایسا آتا ہے کہ بظاہر رسول تو موجود نہیں ہوتے لیکن ان کے ماننے والوں کو غلبہ عطا ہو رہا ہوتا ہے.بڑے ہی بیوقوف ہوں گے وہ جو یہ سمجھتے ہوں کہ ہماری طاقت سے ہمارے اعمال صالحہ کے نتیجہ میں غلبہ عطا ہوا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب خدا رسالت کو جاری فرماتا ہے اس وقت یہ تقدیر لکھی جاچکی ہوتی ہے کیونکہ کتب میں ایک معنی لکھے جانے کا بھی ہے.مراد یہ ہے کہ آج لکھ دیا گیا ہے جب میں نے بھیجا ہے کسی کو اور اس کی خاطر لازما میں غالب کر کے دکھاؤں گا بلکہ یہاں تک کہ بعض اوقات قو میں
خطبات طاہر جلد ۳ 351 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء بھٹک بھی جاتی ہیں راہوں سے تب بھی غلبہ نصیب ہوتا ہے کیونکہ وہ وعدہ جو خدا اپنے رسولوں سے کرتا ہے اس کو کبھی ٹالتا نہیں.یہ قومی اور عزیز کی جو صفات دہرائی گئی ہیں ہر ایسے موقع پر جہاں رسولوں یا ان کے ساتھیوں کو غلبہ عطا کرنے کا وعدہ ہے، ان کے ساتھ رحمتوں کے وعدے ہیں، ان کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھنے کے وعدے ہیں.ان صفات کے کیا معنی ہیں؟ ان پر ہم کچھ مزید غور کرتے ہیں.قوی کا مطلب تو عام اردو میں بھی معروف ہے طاقت ور کو قوی کہتے ہیں اور عزیز کو غالب کے طور پر سمجھا جاتا ہے یعنی اس کا ترجمہ جو آپ قرآن کریم میں پڑھیں گے تو ہر جگہ آپ کو غالب ہے، ان معنوں میں اور مضبوط ہے اور طاقت ور ہے ، ان معنوں میں اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے لیکن جہاں تک قوی کا تعلق ہے صرف اردو میں جس کو قومی کہتے ہیں وہی معنی یہاں چسپاں نہیں ہوتے یا انسان کے تعلق میں جو قوی لفظ سمجھا جاتا ہے وہی معنی خدا کے اوپر چسپاں نہیں ہوتے کیونکہ قوی میں ایک قوت کا استقلال پایا جاتا ہے.قوی ایسے شخص کو کہتے ہیں جس کی قوت کی حالت ہمیشہ برقرار رہتی ہے اور جاری رہتی ہے اور دنیا میں کوئی بھی انسان خواہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس کے متعلق یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ اس کی قوت کی حالت میں استقرار ہے اور کبھی اس میں زوال نہیں آسکتا.وقتی زوال تو بڑے بڑے عظیم الشان جرنیلوں کی قوتوں میں بھی آجاتا ہے.وہ بے ہوش ہو جاتے ہیں ، وہ غش کھا کر جا پڑتے ہیں، ان کے قومی معطل ہو جاتے ہیں کچھ عرصے کے لئے یا عموماً آخری عمر تک جا کر انحطاط پذیر ہو جاتے ہیں.تو کوئی بھی دنیا میں آپ تصور نہیں کر سکتے ایسا وجود جس کے اوپر لفظ قوی اپنی تمام شان کے ساتھ صادق آتا ہو ، وہ ایک ہی وجود ہے یعنی اللہ جل شانہ جس کے متعلق لفظ قوی استعمال ہو سکتا ہے.اور اسی نسبت سے دوسرے درجہ پر رسولوں کے متعلق استعمال ہوتا ہے اگر چہ رسولوں پر بھی کمزوری کی حالت آتی ہے لیکن ایک قومی لفظ میں پوٹینشل (Potential) کے معنی بھی پائے جاتے ہیں.اس لحاظ سے رسولوں کے متعلق ہم قوی کا لفظ استعمال کر سکتے ہیں کہ چونکہ ان کو غلبہ کا وعدہ دیا گیا ہے اور ایسے قوی کی طرف سے وعدہ دیا گیا ہے جس کی قوت میں زوال کوئی نہیں اس لئے پوٹینشل کے لحاظ سے بالقویٰ وہ قوی ہی رہتے ہیں مگر اول طور پر لفظ قوی بہر حال اللہ ہی کی ذات اور اس کی شان کے بارے میں استعمال ہو سکتا ہے.
خطبات طاہر جلد۳ 352 خطبه جمعه ۶ رجولائی۴ ۱۹۸ء جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات میں اس لفظ کو قوت کے طور پر یا قومی کے طور پر مختلف جگہوں پر استعمال فرمایا گیا مختلف صفات کے ساتھ استعمال فرمایا گیا.اس کے جو معنی کھل کر سامنے آتے ہیں وہ چار ہیں.قومی سے مراد محض جسمانی طور پر قوی نہیں ہے بلکہ قوت کا لفظ چار حالتوں کے او پر بولا جاتا ہے اور قرآن کریم میں استعمال ہوا ہے.جسمانی قوت ، اخلاقی قوت، نفسیاتی قوت، اخلاقی اور نفسیاتی کو آپ ایک ہی شمار کرلیں کیونکہ در اصل مختلف طرز بیان ہے تو نفسیاتی قوت ہی کہنا چاہئے بنیادی طور پر جب Develop ہوتی ہے، تربیت اور تعلیم پاتی ہے تو پھر اسے اخلاقی قوت کہہ دیا جاتا ہے.تو اول جسمانی قوت ، دوسرے اخلاقی قوت اور تیسرے فکری اور نظریاتی قوت ذہن اور عقل کی قوت، اور چوتھے روحانی قوت.تو ان چاروں کے اوپر قرآن کریم سے ثابت ہے کہ قوت کا استعمال ہوا ہے.پس جب خدا کی ذات میں قومی کا لفظ استعمال ہوگا تو نفسیاتی طور پر تو ہم نہیں کہہ سکتے لیکن بالا رادہ کہیں گے وہ اپنے ارادے اور عزم میں قوی ہے وہ اس لحاظ سے قوی ہے کہ جو چاہے کر کے دکھا سکتا ہے، وہ اس لحاظ سے قومی ہے کہ اس کے ارادوں پر کوئی تزلزل نہیں آتا ، وہ اس لحاظ سے قوی ہے کہ اس کی صفات بہترین اخلاق کا مظاہرہ کرتی ہیں اور اس کی صفات میں کوئی بدزیبی نہیں ہے اور ہر صفت اپنے حسن کے اعتبار سے قوت رکھتی ہے اور اس کی کسی صفت پر حسن کے اعتبار سے کوئی زوال نہیں آتا اور فکر اور تدبر کے لحاظ سے وہ قوی ہے.اسی کی فکر ، اسی کا تدبر، اسی کی ترکیب، اسی کی تدبیریں دنیا میں قوت کے ساتھ جلوہ نما ہوتی ہیں اور اس کے مقابل پر کوئی قوت اور کوئی تدبیر کام نہیں کرتی.تو یہ چاروں معانی قوی میں پائے جاتے ہیں.اس کے ساتھ عزیز کا لفظ کیوں رکھا گیا اس میں بھی ایک حکمت ہے کیونکہ بعض دفعہ قوی ایک ایسے شخص یا ایسی ذات کو بھی کہہ دیا جاتا ہے اور اس سے قوت کا مظاہرہ ہوتا ہے جو غلط موقع پر ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں بظاہر ایک انسان قوی ہوتا ہے لیکن ذلیل ہو جاتا ہے.اس کی قوت میں بھی ذلت پائی جاتی ہے یعنی ایک کمزور ایک معصوم انسان کو ایک طاقت ور جب کچلتا ہے، رگیدتا ہے ، اس کو ذلیل ورسوا کرنے کی کوشش کرتا ہے تو قوی تو بظاہر وہی ہے لیکن ذلیل بھی وہی ہے اور ایسے شخص کو عزیز نہیں کہہ سکتے.تو خدا تعالیٰ نے جہاں اس موقع پر قومی کا لفظ استعمال فرمایا وہاں ساتھ عزیز بھی فرما دیا کیونکہ عزیز میں جو غلبہ ہے وہ دراصل براہ راست اس کے معنوں میں نہیں پایا جا تا بلکہ عزت کے لفظ
خطبات طاہر جلد۳ 353 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء سے وہ معنی اس کو عطا ہوتے ہیں.بنیادی عزیز کے اندر جو معنی ہیں وہ عزت کے ہیں اور عزیز ایک ایسے شخص کو کہتے ہیں جو ہمیشہ عزت کی حالت میں رہتا ہے یعنی اتنا طاقت ور ہے کہ اس کی عزت اس سے چھینی نہیں جاسکتی.پس غالب ہے اپنی عزت کے اعتبار سے، اپنے کرم کے اعتبار سے، اپنے شرف اور اپنے مرتبہ کے اعتبار سے ایسی ذات کو عزیز کہا جاتا ہے.پس جب قوی عزیز کی تکرار کی گئی مومنوں کے تعلق میں یا بنیادی طور پر رسل کے تعلق میں تو یہ سارے وعدے ان کو عطا کر دیئے گئے گویا ان سے یہ کہا گیا کہ اے میرے بندو ! تم جسمانی لحاظ سے حقیر سمجھے جارہے ہو اور لوگ سمجھتے ہیں کہ تم سے جس طرح چاہیں ہم سلوک کریں کوئی نہیں ہے جو ہمیں روک سکے لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ قومی خدا تمہارے ساتھ ہے اور جسمانی لحاظ سے بھی تم عزت پاؤ گے، ہم غلبہ پاؤ گے اور تمہارے دشمن ذلیل اور نا کام ہو جائیں گے.پھر قوی میں یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ نفسیاتی اعتبار سے تمہیں ذلیل ورسوا کر کے تمہارے اعصاب کو توڑا جاتا ہے اور دشمن یہ سمجھتا ہے کہ تمہارے اعصاب کو شکستہ کر دے گا ، پارہ پارہ کر دے گا اور تمہارے ارادوں کو مضمحل کر دے گا تمہاری قوت ارادی پر حملہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمہارا تو میرے ساتھ تعلق ہے میں قوی ہوں اس لئے جو مجھ سے تعلق جوڑ گیا ہے اس کے ارادوں کو قوت عطا کی جائے گی ، بظاہر کمزوری کی حالت میں بھی ایک غیر متزلزل عزم ان کو عطا ہوگا، کسی قیمت پر وہ ٹلنے والے لوگ نہیں ہیں انہیں ثبات بخشا جائے گا.یہ دوسرا وعدہ ہے جو قوی میں ان سے کیا گیا اور تیسرا وعدہ ان سے یہ کیا گیا ہے کہ ان کی عقلیں تیز کی جائیں گی ، حکمت ان کو عطا کی جائے گی اور حکمت اور عقل کا غلبہ بھی انہیں کو نصیب ہوگا اور چوتھا وعدہ اور آخری وعدہ یہ ہے کہ صرف یہی نہیں بلکہ روحانیت میں وہ جلد جلد ترقی کریں گے اور جتنا زیادہ کمزور سمجھ کر دشمن ان کو ذلیل و رسوا کرنے کی کوشش کرے گا اتنی ہی زیادہ وہ روحانی رفعتیں حاصل کرتے چلے جائیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ روحانیت کے لحاظ سے بھی قوی ہے اور چونکہ خدا کے ساتھ ان کا تعلق قائم ہے اس لئے ان کو یہ چاروں نعمتیں جو عطا ہوں گی ان میں ثبات ہوگا، ان میں استمرار ہوگا ، ان میں استقلال پایا جائے گا اور کسی حالت میں بھی ان سے یہ چھینی نہیں جاسکیں گی.کتنے عظیم الشان وعدے ہیں جو بار بار ایک ہی تعلق میں دہرائے جارہے ہیں اس لئے خدا جب صفات کو اختیار فرماتا ہے بیان کرنے کے لئے تو اس کے
خطبات طاہر جلد۳ 354 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء اندر بڑی گہری حکمتیں ہوتی ہیں.صفات باری تعالیٰ کے مضمون پر آپ غور کریں تو قرآن کی بہت سی آیات جو ویسے آپ کو سمجھ نہیں آئیں گی صفات باری تعالیٰ کی کنجی سے حل ہوتی ہوئی دکھائی دیں گی.عزیز میں ساتھ یہ بتایا گیا کہ عزت خدا کے لئے ہے اور ہر عزت خدا کے لئے ہے.عزت کے ساتھ قرآن کریم ایک دوسری جگہ فرماتا ہے کہ ہر عزت خدا کے لئے ہے تو مراد ہوا کہ عزیز میں کوئی ایک پہلو نہیں ہے بلکہ مختلف پہلو ہیں اور عزت کی جتنی قسمیں ہیں ان سب قسموں سے ان کو غلبہ نصیب ہوگا کیونکہ عزیز خدا ظاہری قوت کے لحاظ سے بھی عزیز ہے اور باقی تمام قوتوں کے لحاظ سے بھی عزیز ہے مثلاً ایک انسان جسمانی طور پر تو قوی ہو سکتا ہے کہ انفرادی قوت ہے لیکن قومی اعتبار سے وہ قوی نہیں ہوتا اس کی قوم کمزور ہوتی ہے اور کمزور قوم کو دیکھ کر لوگ اس کو ذلیل ورسوا کرتے ہیں.چنانچہ حضرت صالح علیہ السلام کے متعلق جو آیت میں نے پڑھی ہے اس میں اس کا برعکس مضمون بتایا گیا ہے کہ صالح کی قوم معزز اور طاقت ور تھی لیکن بعض انبیاء کی قو میں اپنی تو بہر حال طاقتور اور معزز ہوتی ہیں اُن کے ماننے والوں کی قومیں معزز اور طاقت ور نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں ان کو چھوڑ دیا جاتا ہے اور ان کے ماننے والوں کو ذلیل ورسوا کیا جاتا ہے اور یہ دنیا دار یہ فرق کر کے دکھاتے ہیں.مکہ کی زندگی میں یعنی مکی دور میں آنحضرت ﷺ کے صحابہ دو حصوں میں منقسم ہو گئے تھے ایک وہ تھے جن کی قومیں ذاتی طور پر جن کے ساتھ ان کا تعلق تھا جن قوموں کے ساتھ وہ قو میں قوی تھیں اور عزیز تھیں نیچے ان قوموں کے افراد کے ساتھ بھی عزت کا سلوک ہو رہا تھا با وجود اس کے کہ وہی بات کہتے تھے جو اس قوم کے غریب کہتے تھے یعنی ایک وقت میں ایسی حالت آتی تھی کہ حضرت ابو بکر تو عزت اور شرف کے ساتھ سراٹھا کر پھر رہے ہیں لیکن بلال کوگلیوں میں گھسیٹا جارہا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ جو بظاہر کمزوری کی حالت ہے یہ جو سمجھا جا رہا ہے کہ تمہاری قوم کمزور ہے جن لوگوں سے تم وابستہ ہو وہ کمزور ہیں.اگر ایسی حالت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کمزوری کی حالت کو بھی عزت میں تبدیل کر دے گا یعنی مراد یہ ہے کہ ایسے عزیز سے تمہارا تعلق ہو گیا ہے کہ ہر ماننے والے ہر تعلق والے کی ہر ذلت کو عزت میں تبدیل کیا جائے گا اور غلبے میں تبدیل کیا جائے گا.اسی طرح بادشاہ ہوتے ہیں جو قوموں سے بڑھ کر عزت پاتے ہیں لیکن ضروری نہیں کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 355 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء بادشاہ کو ہر قسم کی عزت نصیب ہو بعض عزتوں کا تعلق اموال سے ہوتا ہے.ایک بادشاہ خواہ کتنا بڑا بادشاہ ہو حکومتیں بعض دفعہ غریب ہوتی ہیں نتیجہ ان کو محتاج ہونا پڑتا ہے دوسروں کا اور جب تک مال کی قوت نصیب نہ ہو مالی لحاظ سے وہ ذلیل ہو جاتے ہیں.چنانچہ جنگ کے مواقع پر بڑی بڑی عظیم یورپین قومیں مال کی کمی کی وجہ سے ذلیل ہوئیں اور یہود کے ساتھ ان کو معاہدے کرنے پڑے اور یہ جو اسرائیل کا مسئلہ کھڑا ہوا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی ایک محرک یہ بھی تھا کہ اسرائیل کا وعدہ انہوں نے اس بنا پر کیا کہ اپنی جنگ کے لئے یہود سے پیسہ لے کر استعمال کر رہے تھے اگر چہ یہود کو کوئی نقصان نہیں تھا اس پیسہ دینے میں کیونکہ وہ زیادہ بڑھا کر وصول بھی کر رہا تھا لیکن وقت پر جب ضرورت پڑتی ہے تو چاہے سود پر بھی پیسہ ملے انسان زیرا احسان آجاتا ہے.تو کتنی بڑی بڑی عظیم الشان یوروپین تو میں آپ کے سامنے ہیں جو عزیز تو تھیں ایک پہلو سے لیکن دوسرے پہلو سے عزیز نہیں تھیں اور جس پہلو سے عزیز نہیں تھیں اسی پہلو سے اُن کے لئے آئندہ ذلتوں کے سامان بھی پیدا ہوگئے ، بنیاد میں قائم ہو گئیں ان کے ذلیل کئے جانے کی یعنی ایک ظلم کرنے پر مجبور ہو گئے.بہر حال عزت کے بہت سے پہلو ہیں تو اللہ تعالیٰ جب فرماتا ہے میں عزیز ہوں تو ایک انسان کی طرح کا عزیز نہیں ہے خدا ، وہ عزت کے ہر پہلو میں عزیز ہے اموال کے لحاظ سے بھی عزیز ہے، دولتوں کے لحاظ سے بھی عزیز ہے، بادشاہتوں کے لحاظ سے بھی عزیز ہے اور ذاتی شرف کے لحاظ سے بھی عزیز ہے چنانچہ قرآن کریم اسی لئے رزق کے تعلق میں بھی عزیز اور قوی کی صفات بیان فرماتا ہے.اگر صفات باری تعالیٰ کے مضمون پر یکجائی نظر نہ ہو تو انسان حیران ہوتا ہے کہ یہاں رازق کہنے کا تو موقعہ تھا قوی اور عزیز کہنے کا کون سا موقع ہے لیکن جب آپ صفات کی حکمتوں کو سمجھیں تو پھر چابی کی طرح جس طرح چابی سے تالہ کھلتا ہے اس طرح مضمون کھلنے شروع ہو جاتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اللَّهُ لَطِيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَاءُ ۚ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (الشورى: ٢٠) کہ خدا کے بعض بندے رزق کی مشکلات میں خدا کی خاطر مبتلا کئے جاتے ہیں ان کا ذکر ہے.فرماتا ب اللهُ لَطِيفُ بِعِبَادِہ اپنے ان بندوں کی بار یک ضرورتوں پر بھی نگاہ رکھنے والا ہے خدا ، ان کو نظر انداز نہیں کرتا.يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ رزق تو اس کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہتا ہے رزق عطا
خطبات طاہر جلد ۳ 356 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء کرتا ہے اور کن کو عطا کرتا ہے وہ جن کے بارے میں بار ہا واضح کر چکا ہے کہ ان کے لئے وہ قوی ہے اور عزیز ہے.تو قوی اور عزیز کی صفات جس مضمون کے ساتھ دہرائی جارہی ہیں ،جس موقعے پر دہرائی جاتی ہیں ان کی یہاں تکرار میں بتا دیا کہ یہاں کون سے بندے مراد ہیں؟ کن کا ذکر ہو رہا ہے اور رزق جن کو عطا ہونا ہے یہ وہی لوگ ہیں جن کو خدا کے نام پر تکلیفیں دی جاتی ہیں جن کو سمجھا جاتا ہے کہ ان کو رزق کے لحاظ سے ذلیل کر دو.چنانچہ گزشتہ بعض تحریکات کے موقع پر بعض متکبر لوگوں نے یہ بھی کہا کہ ہم ! ہم تو جماعت کے ہاتھ میں کشکول پکڑا دیں گے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے ہاتھوں میں کشکول پکڑا دیا.تو اس کا مطلب یہ ہے کہ رزق اگر خدا کی خاطر چھینا جائے ،اگر خدا کے نام پر کسی بندے کو رزق سے محروم کیا جائے تو اس کو اللہ تعالیٰ قوت دیتا ہے یہ فرما کر اس کو حوصلہ عطا کرتا ہے کہ اللهُ لَطِيفُ بِعِبَادِہ وہ اپنے بندوں کی باریک ترین ضروریات پر ، ان کی دلی کیفیات پر نظر رکھنے والا خدا ہے وہ لازماً ان کو رزق عطا فرمائے گا.چونکہ یہ سارا مضمون مقابلے کا ہے اس لئے اس کا دوسرا پہلو یہ ہے جہاں یہ چار صفات مومنوں کے لئے اثبات کا پہلو رکھتی ہیں وہاں یہ چاروں صفات مخالفین کے لئے سلب کا پہلو اختیار کر جاتی ہیں یعنی محض خدا اپنے بندوں کے لئے قومی اور عزیز نہیں ہے بلکہ بعض دوسروں کے مقابل پر ان کے لئے قومی اور عزیز ہے جس کا معنی یہ ہے کہ ان کے لئے قومی نہیں رہے گا ، ان کے لئے اپنی قوت کا مظاہرہ نہیں کرے گا ، ان کو اپنی قوت میں سے حصہ نہیں دے گا تو سلب قوت کا معنی پایا جاتا ہے جہاں دشمنوں کا تعلق ہے اور جہاں اپنوں کا تعلق ہے وہاں اثبات قوت کا معنی پایا جاتا ہے.چنانچہ دوسری آیت میں یہ سارا مضمون مختلف آیات میں مختلف مواقع پر روشنی ڈالتے ہوئے بیان فرمایا گیا ہے.ایک دوسری آیت میں جو میں نے ابھی تلاوت کی تھی جہاں حضرت صالح" کا ذکر ہے وہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجَّيْنَا صُلِحًا وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِّنَّاوَ مِنْ خِزْيِ يَوْمِيذٍ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيزُ (هود: ۶۷)
خطبات طاہر جلد ۳ 357 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء یعنی ایک مدت تک ہم نے صالح علیہ السلام کو اور اس کے ساتھیوں کو آزمایا اور خدا کے نام پر انہیں کئی قسم کی تکالیف دی گئیں لیکن پھر وہ وقت جب آیا جب خدا کے فیصلے نے ظاہر ہونا تھا امرنا سے مراد یہ ہے کہ ہم نے جس دن اپنے فیصلہ کو ظاہر فرمانا تھا جب وہ وقت آیا تو ہم نے صالح کو بھی اور اس کے تمام ساتھیوں کو بھی اپنے فضل سے اپنی رحمت سے نجات بخش دی.مِنْ خِزْيِ يَوْ مِينِ اس دن کی ذلت سے نجات بخشی.پس یہاں قومی اور عزیز کے اجتماعی معنی اکٹھے دکھائے گئے ہیں یعنی وہ دن جو ہار اور جیت کا دن ہے وہاں قوت کو بھی ظاہر ہونا پڑتا ہے اور عزت کے مضمون کو بھی ظاہر ہونا پڑتا ہے اور اس دن صرف قوت ہی عطا نہیں ہوتی بلکہ اتنی نمایاں فتح ایسی عزت نصیب ہوا کرتی ہے کہ دشمن بالکل خائب و خاسر اور ذلیل ہو جایا کرتا ہے.پھر ایک دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض دفعہ لوگ جتھے بنا کر حملے کر کے آتے ہیں اور اس کے مقابل پر میرے بندے بالکل کمزور اور نہتے ہوتے ہیں اور بڑا سخت خوف کا مقام پیدا ہو جاتا ہے.بعض دفعہ خدا ان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنا دفاع کریں اور کمزوروں کو طاقتوروں پر غلبہ نصیب فرماتا ہے لیکن فرماتا ہے کہ بعض ایسی حالتیں بھی ہوتیں ہیں کہ ان کو میں نہ لڑنے کی اجازت دیتا ہوں اس وقت نہ ایسا موقع پیدا کرتا ہوں بلکہ خدا خودان کی خاطر لڑتا ہے اور بجائے اس کے کہ ان کے ہاتھوں دشمن شکست کھائے اللہ تعالیٰ کی عظیم الشان مخفی ، نہ نظر آنے والی قوتوں کے ذریعے دشمن شکست کھا جاتا ہے.چنانچہ فرمایا: وَرَدَّ اللَّهُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمْ لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا وَكَفَى اللهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًان (الاحزاب : ۲۶) کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو جو بہت غیظ کے ساتھ بہت غصے کے ساتھ اور جوش دکھاتے ہوئے میرے بندوں پر حملہ آور ہوئے تھے ان کو اس حالت میں رد فر ما دیا ، لوٹا دیا کہ وہ اپنا غیظ اپنے ساتھ ہی لے کے لوٹے یعنی ان کو غیظ نکالنے کا موقعہ عطا نہیں ہوا ، وہ اپنی حسرتیں لے کر واپس لوٹ گئے کہ ہم نے تو یہ کرنا تھا وہ کرنا تھا اور یہ یہ ظلم ڈھانے تھے ، اس طرح اپنے سینوں کو ٹھنڈا کرنا تھا لیکن جو آتش غیظ ان کے سینوں میں بھڑک رہی تھی وہ اسی طرح بھڑکتی رہ گئی اور اپنی اس آگ کو واپس لے کر لوٹ
خطبات طاہر جلد ۳ 358 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء گئے.لَمْ يَنَالُوا خَيْرًا اس حال میں کہ کوئی بھی نفع ان کو نصیب نہ ہوا، کوئی بھلائی ان کو نہ پہنچی.خیرا کونکرہ کے طور پر رکھ کر یہ معنی ہے کہ کسی قسم کی بھی کوئی بھلائی ان کو نصیب نہ ہوئی، اپنے ہر ارادے میں ناکام ہو گئے وَكَفَى اللهُ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ اور دیکھو یہاں اللہ لڑا ہے مومنوں کی طرف سے كَفَى اللهُ الْمُؤْمِنِيْنَ الْقِتَالَ کا مطلب ہے کہ خدا کا لڑنا مومنوں کے لئے کافی ہو گیا ان کو ضرورت ہی پیش نہیں آئی.جب خدا لڑتا ہے تو بعض دفعہ اس طرح لڑتا ہے کہ مومن کو اپنے دفاع کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی.وَكَانَ اللهُ قَوِيًّا عَزِيزًا یہاں بھی وہی مضمون ہے کہ اللہ قوی ہے اور عزیز ہے.تو جہاں جہاں بھی مقابلے کا مضمون ہے وہاں اللہ تعالیٰ کی قوت اور اس کی عزت کا ذکر ، اس کی تکرار فرمائی گئی ہے.پھر آگے جو میں نے دو آیات کے ٹکڑے پڑھے تھے ان میں ایک اور مضمون کی طرف بھی اشارہ فرما دیا گیا فرمایا ہے: وَلِيَعْلَمَ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ إِنَّ اللَّهَ قَوِيٌّ عَزِيزُ (الحديد (٢٦) کہ اللہ قوی اور عزیز تو ہے اس میں تو شک نہیں ہے لیکن اس کی قوت اور عزت کے اظہار سے پہلے ایک ایسا وقت بھی آتا ہے کہ خدا اپنے بندوں کو دیکھنا چاہتا ہے، ان کو آزمانا چاہتا ہے کہ وہ ایسی حالت میں اللہ کی نصرت کے لئے تیار ہوتے ہیں کہ نہیں کہ نہ اس کی قوت ان کو نظر آ رہی ہوتی ہے نہ اس کی عزت ان کو نظر آ رہی ہوتی ہے، پردہ غیب میں ہوتے ہیں دونوں.یعنی جب خدا کی قوت مخفی ہوتی ہے ابھی اور اپنے پورے جلال کے ساتھ ظاہر نہیں ہوئی ہوتی ، جب یہ حقیقت کہ خدا نے بہر حال غالب آنا ہے اور عزت کے ساتھ غالب آنا ہے یہ حقیقت موجود تو ہوتی ہے مگر منصہ شہود پر ابھری نہیں ہوتی ایسے وقت میں ایک انتہائی کمزوری کا عالم آتا ہے مومنوں کی جماعت پر اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا وہ خدا کی مدد کر رہے ہیں بجائے اس کے کہ خدا ان کی مدد کر رہا ہے.فرماتا ہے ہم یہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ ان بندوں میں کیسی وفا ہے؟ کیا یہ استحقاق رکھتے بھی ہیں کہ نہیں کہ میں ان کی مددکروں تو فرماتا ہے کہ ایسی حالت میں میں اپنے بعض بندوں کو پاتا ہوں کہ نہ تو میری قوت ظاہر ہوئی ہوتی ہے نہ میری عزت ظاہر ہوئی ہوتی ہے اور وہ غائبانہ اندھا دھندا پناسب کچھ میری
خطبات طاہر جلد ۳ 359 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء راہ میں جھونک دیتے ہیں، بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ سارا نقصان کا سودا ہے ہرقسم کی کمزوریاں ان کو نصیب ہوتی ہیں ہر قسم کی بے عزتیاں ان کے مقدر میں گو یا لکھی جاتی ہیں، دنیا کی طرف سے خدا کی طرف سے نہیں لیکن اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ جو چاہے اٹھتا ہے دو کوڑی کا آدمی ان کو ذلیل رسوا کر دیتا ہے.فرماتا ہے یہ کس لئے ہے؟ اس لئے نہیں ہے کہ میں ان کو اس حالت میں چھوڑ دوں اس لئے ہے کہ بالآخر یہ بات ظاہر ہو کہ اللہ ہی ہے جو قوی اور عزیز ہے یعنی بندے نہیں ہیں.پھر ایسے بھی واقعات رونما ہوتے ہیں کہ بظاہر بندوں کے ذریعہ غلبے نصیب ہورہے ہوتے ہیں، بظاہر بندوں کے ذریعے خدا کے دین کو تمکنت نصیب ہو رہی ہوتی ہے لیکن اگر انہی بندوں کی نظر اس کمزوری کے دور کی طرف مبذول ہو جائے تو وہ یقیناً سمجھیں گے کہ ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا ہم تو سب کچھ گنوا بیٹھے تھے، اللہ ہی ہے جو قوی اور عزیز ہے وہی اب ہماری مدد کو آیا ہے تو ہماری حالت بدلی ہے.چنانچہ فرماتا ہے پھر خدا کیا کرتا ہے وَلَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ جو خدا کی مدد کرتے ہیں لَيَنْصُرَنَّ الله لازما ضرور اللہ ان کی مدد کو آتا ہے اِنَّ اللهَ قَوِيٌّ عَزِيزٌ پھر وہی تکرار ہے قوی اور عزیز کی.فرماتا ہے اپنی تمام قوت کے ساتھ اپنی تمام شان کے ساتھ اپنی تمام عزتیں لے کر اپنے بندوں کی مدد کے لئے خدا حاضر ہو جاتا ہے اور جو غیب تھا وہ حاضر میں ظاہر ہونے لگتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وو وہ خدا بڑا ز بر دست اور قوی ہے جس کی طرف محبت اور وفا کے ساتھ جھکنے والے ہرگز ضائع نہیں کئے جاتے.دشمن کہتا ہے کہ میں اپنے منصوبوں سے ان کو ہلاک کر دوں اور بداندیش ارادہ کرتا ہے کہ میں ان کو کچل ڈالوں مگر خدا کہتا ہے کہ اے نادان کیا تو میرے ساتھ لڑے گا اور میرے عزیز کو ذلیل کر سکے گا.“ یعنی وہ جو خدا سے تعلق رکھتے ہیں وہ عزیز ہو جاتے ہیں.میرے عزیز میں کتنا پیارا اظہار ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصاحت و بلاغت کا بھی ایک کرشمہ ہے.عزیز پیارے کو بھی کہتے ہیں اردو میں اور یہ مضمون بھی ہے کہ میرے پیارے کو اور دوسرا مضمون یہ ہے کہ جب میرا ہو گیا تو میں عزیز نہیں ہوں؟ وہ میرا عزیز بن گیا ہے کیونکہ اس نے مجھ سے عزت حاصل کر لی ہے تو جو
خطبات طاہر جلد ۳ 360 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء میری وجہ سے عزیز بنایا گیا ہے اس کو تم کیسے ذلیل کر دو گے؟ دو در حقیقت زمیں پر کچھ نہیں ہوسکتا مگر وہی جو آسمان پر پہلے ہو چکا.“ كَتَبَ اللهُ لَأَغْلِبَنَّ أَنَا وَ رُسُلِی کی طرف اشارہ ہے کہ لکھا جا چکا ہے.اور کوئی زمین کا ہاتھ اس قدر سے زیادہ لمبا نہیں ہو سکتا جس قدر کہ وہ آسمان پر لمبا کیا گیا ہے.“ مہلت کا مضمون اس فقرے میں بیان فرمایا گیا ہے أُهْلِيُّ لَهُمْ إِنَّ كَيْدِي مَتِيْنٌ (القلم : ۴۶) کہ میں ان کا ہاتھ لمبا کر دیتا ہوں فرمایا لمبا تو کیا جاتا ہے مگر اسی قدر لمبا کیا جاتا ہے جس قدر آسمان پر لکھا گیا ہے کہ اس حد تک میں اس کو ہاتھ لمبا کرنے اور پھیلانے کی اجازت دوں گا.پس ظلم کے منصوبے باندھنے والے سخت نادان ہیں جو اپنے مکروہ اور قابل شرم منصوبوں کے وقت اس برتر ہستی کو یاد نہیں رکھتے جس کے ارادے کے بغیر ایک پتہ بھی گر نہیں سکتا لہذا وہ اپنے ارادوں میں ہمیشہ نا کام اور شرمندہ رہے ہیں اور ان کی بدی سے راست بازوں کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا بلکہ خدا کے نشان ظاہر ہوتے ہیں اور خلق اللہ کی معرفت بڑھتی ہے اور قومی اور قادر خدا اگر چہ ان آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا مگر اپنے عجیب نشانوں سے اپنے تئیں ظاہر کر دیتا ہے.“ پھر فرماتے ہیں: ” جب ایک شخص اس کے آستانے پر ایک نئی روح لے کر حاضر ہوتا ہے اور اپنے اندر ایک خاص تبدیلی محض اس کی رضا مندی کے لئے پیدا کر لیتا ہے تب خدا بھی اس کے لئے ایک تبدیلی پیدا کر لیتا ہے کہ گویا اس بندے پر جو خدا ظاہر ہوا ہے وہ اور ہی خدا ہے نہ وہ خدا جس کو عام لوگ جانتے ہیں جو وہ ایسے آدمی کے مقابل پر جس کا ایمان کمزور ہے کمزور کی طرح ظاہر ہوتا ہے لیکن جو اس کی جناب میں ایک نہایت قوی ایمان کے ساتھ آتا ہے وہ اس کو دکھلا دیتا ہے کہ تیری مدد کے لئے میں بھی قومی ہوں اسی طرح انسانی تبدیلیوں کے مقابل
خطبات طاہر جلد ۳ 361 خطبہ جمعہ ۶ جولائی ۱۹۸۴ء پر اس کی صفات میں بھی تبدیلیاں واقعہ ہوتی ہیں.“ پس آج جماعت جس دور سے گزر رہی ہے بکثرت بلکہ ہرطرف سے پاکستان کے کونے کونے سے یہی اطلاعیں آرہی ہیں کہ خدا کے وہ مظلوم بندے خدا کے آستانے پر نئی روحیں لے کر حاضر ہو چکے ہیں ان کے اندر عظیم تبدیلیاں واقعہ ہو گئیں ہیں ایک بھی دیکھنے والا ایسا نہیں ، ایک بھی صاحب حال ایسا نہیں جس کی رپورٹ، جس کی اطلاع اس کے برعکس ہو، بچے کیا اور عورتیں کیا، جوان کیا اور بوڑھے کیا، سندھی کیا اور پنجابی کیا، پٹھان کیا اور بلوچی کیا ، تمام احمدی ایک عظیم تبدیلی کی حالت سے گزر کر نئی روحیں لے کر اپنے رب کے آستانے پر حاضر ہو چکے ہیں اور وہ پاک تبدیلیاں جن کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہاں ذکر فرمایا ہے وہ ظاہر ہو گئیں ہیں.پس ان سب کو میں خوش خبری دیتا ہوں کہ اے خدا کے بندو! تم پر جو خدا ظاہر ہوگا وہ عام انسانوں کی طرح کا خدا نہیں ہوگا.وہ عزیز اور قوی خدا ہے جو تم پر ظاہر ہونے والا ہے اور تم پر جلوہ دکھانے والا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی.آپ عزت و شرف کی خاطر پیدا کئے گئے ہیں اور عزت و شرف کے مقام پر فائز کئے جائیں گے، آپ قوتوں اور عزتوں کی خاطر بنائے گئے ہیں اور قوتوں اور عزتوں کے مقام پر فائز کئے جائیں گے یہ ہو کر رہے گا اور کوئی نہیں جو اس خدا کی تقدیر کو بدل سکے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: دو جنازے ہوں گے ایک تو حاضر ہے، ہمارے ایک مخلص دوست رشید حیات صاحب کے داماد تھے جوانی میں فوت ہو گئے ہیں ، ( حضور نے دوران خطبہ انکے عزیزوں سے نو جوانوں کی بیماری کے بارہ میں پوچھا.) عبدالوحید صاحب ہیں جو چھوٹی عمر میں ہی وفات پاگئے، تینتیس 33 سال کی عمر میں.ایک ہماری پرانی محمودہ خاتون ہیں جو درد صاحب مرحوم کے خاندان کی.نہایت ہی مخلص خاتون تھیں.حکم حمید احمد اختر المنار والے ہیں ان کی والدہ محمودہ بیگم.ان کی بڑی دیر بینہ خواہش تھی کہ میں ان کا جنازہ پڑھوں.میں تو وہاں موجود نہیں تھا ایک مجبوری تھی اس لئے ان کی اس خواہش کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں ان کا نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا.ان کے ساتھ ہی یہ اکٹھا ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۳ 363 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء مخالفت اور ابتلا میں احمدیوں کا جذبہ قربانی (خطبه جمعه فرموده ۱۳ جولائی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِى لِلْإِ يُمَانِ اَنْ مِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَّاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ المِيعَادَ ( آل عمران: ۱۹۴-۱۹۵) پھر فرمایا: قرآن کریم کا ایک نام الفرقان بھی ہے یعنی ایک ایسی یہ کتاب ہے جو ایسے کھلے کھلے اور روشن نشانوں سے اور امتیاز کرنے والے دلائل سے بھری ہوئی ہے جو بینات کی صورت ہیں جیسے دن اور رات میں تمیز مشکل نہیں ہوتی سوائے اس کے کہ کوئی اندھا ہو.اسی طرح حق اور باطل کی تمیز ایسی نمایاں کر دیتا ہے کہ سوائے ان لوگوں کے جن کی آنکھوں پر پردے پڑے ہوں ان کے لئے حق کو باطل سے الگ کر کے دیکھنا مشکل نہیں رہتا.ان دلائل میں سے جو حق اور باطل کے امتیاز کے قرآن کریم پیش فرماتا ہے ایک دلیل یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ حق والوں کی دل آزاری کا تصور اور ہوتا ہے اور باطل والوں کی دل آزاری کا تصور
خطبات طاہر جلد ۳ 364 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء اور ہوتا ہے.باطل اور وجوہات مشتعل ہوتا ہے اور حق اور وجوہات سے مشتعل ہوتا ہے اور پھر دونوں کے دل آزاری کے رد عمل بھی مختلف ہوتے ہیں.چنانچہ متعدد قرآنی آیات میں یہ مضمون بکھرا ہوا ہے.ایک طرف تو وہ لوگ جو مومن کو دیکھ کر مشتعل ہو جاتے ہیں ان کے اشتعال کی اندرونی کیفیت کا تجزیہ یوں فرمایا گیا کہ جب وہ ان کو نشو و نما پاتے دیکھتے ہیں، جب وہ دیکھتے ہیں کہ وہ ہر صورت بڑھ رہے ہیں اور ہماری کوئی تدبیر کارگر نہیں ہورہی اس سے ان کو اشتعال آتا ہے چنانچہ فرمایا: لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ (اف:۳۰) ایک بہت ہی خوبصورت طرز بیان ہے.یہ نہیں کہا گیا کہ مومنوں کی بعض حرکات کے نتیجہ میں اُن کو غصہ آتا ہے.فرمایا لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّار مومنوں کو دیکھ کر غصہ آتا ہے یعنی ان کے وجود سے غصہ آتا ہے.اب وجود تو کوئی جرم نہیں ہے لیکن ان کی آنکھیں ٹھنڈی نہیں ہوسکتیں ،ان کے سینوں کی آتش بجھ نہیں سکتی جب تک مومنوں کو وہ چلتا پھرتا دیکھ رہے ہوں اس لئے لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّار میں اتنا گہرا فلسفہ اتنے مختصر الفاظ میں بیان فرما دیا کہ اس سے زیادہ اس اشتعال انگیزی کی تعریف ممکن نہیں ہو سکتی.فرمایا مومن تو ضرور اشتعال دیتا ہے یہ نہیں کہ مومن اشتعال نہیں دیتا مگر اپنی حرکتوں کے ذریعے نہیں اپنے وجود کے ذریعہ اور غیر مطمئن ہو ہی نہیں سکتا جب تک کہ مومن کا چلتا پھرتا وجود اسکو نظر آرہا ہے جب تک وہ وجود نہ مٹ جائے اس کے دل کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو سکتی اور اس کے برعکس مومن کی جو دل آزاری کرتا ہے اس کی تصویر حضرت آدم سے لے کر آنحضرت محمد مصطفی علیہ کے زمانے تک سارے انبیاء کی تصاویر کھینچ کر جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے بڑی تفصیل سے بیان کر دیا گیا ہے.کوئی ذریعہ ایسا نہیں چھوڑ تا دشنام طرازی کے ذریعہ یا بدنی سزاؤں کے ذریعہ یا سازشوں کے ذریعہ جتنے بھی ذریعے انسان کے لئے ممکن ہیں دکھ دینے کے وہ ذریعے اختیار کرتا ہے اور پھر بھی شکوہ رہتا ہے کہ یہ چند لوگ یہ ہمیں مشتعل کرتے ہیں.لَشِرْذِمَةٌ قَلِيلُونَ (الشعراء:۵۵) حضرت موسیٰ کے مقابل پر فرعون نے یہ کہا اور اس کے ساتھیوں نے کہ تَشِرُ ذِمَةٌ قَلِيلُونَ ہے، یہ عجیب خبیث چیز ہے، یہ قوم کہ تھوڑی سی ہے، چھوٹی سی ہے لیکن اتنا ناز ہے اپنی طاقت پر اور اپنے خدا پر کہ تھوڑی سی ہو کر بھی ہمیں غیظ دلاتے ہیں.ان کی مجال کیا ہے! ان کی حیثیت کیا ہے! پاؤں تلے ہم ان کو چل دیں اور تھوڑے سے لوگ یہ باز ہی نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 365 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء آ رہے ، غصہ ہی دلائے چلے جارہے ہیں اور غصہ ہے کیا ؟ یہ کہ مرنہیں رہے، مٹ نہیں رہے ہم سے، ہم سارا زور لگا رہے ہیں لیکن یہ بڑھتے چلے جارہے ہیں.تو یہ خلاصہ کھینچ دیا کہ غصہ دلاتے ہیں اور ساتھ اس میں ان کا دفاع بھی فرما دیا.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا پہلے بھی بارہا کہ قرآن کریم دعوے کے ساتھ دلیل بھی بیان کر دیتا ہے.بہت سے لوگ جو سرسری نظر سے قرآن کریم کو دیکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں صرف دعوی کیا گیا ہے حالانکہ دلیل موجود ہوتی ہے.لَشِرْ زِمَةٌ قَلِيلُونَ کہہ کر انھوں نے اپنے اعتراض کا خودرو کر دیا.غصہ تو ان کو جرات ہوتی ہے دلانے کی جو بڑی بڑی قومیں ہوا کرتی ہیں وہ جذبات سے کھیلتے ہیں، وہ لوگوں کے احساسات کو کچلتے ہیں اور غصہ دلاتے چلے جاتے ہیں اور پرواہ نہیں کرتے کیونکہ ان کو گھمنڈ ہوتا ہے اپنی طاقت کا.لَشِرْ زِمَةٌ قَلِيلُونَ بیچاری کہاں سے غصہ دلائے گی تو لَشِرْذِمَةُ قَلِيلُونَ کہہ کر مومنوں کا دفاع بھی فرما دیا ساتھ ہی کہ تم جن کو گندہ سمجھ رہے ہو ، جن کو غصہ دلانے والا کہہ رہے ہو ساتھ ہی یہ بھی تو کہہ رہے ہو کہ ایک پڑی کی حیثیت ہے ان کی اور پھر کہتے ہو غصہ دلاتے ہیں.تو عقل کے خلاف باتیں کر رہے ہو تمہارا دعویٰ تمہارے خود اپنے دعوے کی تردید کر رہا ہے.ایک طرف تو غصہ دلانے کی نہایت ہی عمدہ تشریح فرما دی اور امتیاز کر دیا، مومن کے غصہ دلانے میں اور کافر کے غصہ کو دلانے میں.سچ اس طرح غصہ دلایا کرتا ہے اور جھوٹ اس طرح غصہ دلایا کرتا ہے اور دوسری طرف یہ بتا دیا کہ سچ مشتعل ہوتا ہی نہیں باوجود اس کے کہ غصہ دلانے کے سارے ذرائع باطل اختیار کرتا ہے اور اس کے باوجود سچ مشتعل نہیں ہوتا.اس کی سرشت میں اشتعال نہیں ہے اور باوجود اس کے کہ غصہ دلانے کا کوئی طریق بھی مومن اختیار نہیں کرتا دشمن مشتعل ہو جاتا ہے.یہ وہ حقیقت ہے جس کو سارے انبیاء کی تاریخ دو ہرا رہی ہے ان معنوں میں کہ کچھ لوگ ناری وجود ہیں اور کچھ نورانی وجود ہیں یا پانی کے اور مٹی کے بنے ہوئے.مٹی کو تو آگ نہیں لگ سکتی جو گوندھی ہوئی مٹی ہو اور جو ناری وجود ہے اس کو دیا سلائی دکھاؤ یا نہ دکھاؤ جلتی رہے گی وہ چیز ، اس وجود کی سرشت میں جانا ہے.تولیغِیظُ بِهِمُ الْكُفَّار میں یہی مضمون بیان فرمایا کہ ان کو دیکھتے ہیں اور وہ غیظ پکڑ جاتے ہیں، مشتعل ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کی سرشت میں مشتعل ہونا ہے اور جن کو
خطبات طاہر جلد ۳ 366 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء اشتعال دلایا جارہا ہے، جن کے خلاف ہر قسم کے ظلم آزمائے جارہے ہیں ان کو غصہ ہی نہیں آتا ان کا رد عمل کیا ہوتا ہے؟ وہ آنحضرت علی کی صورت میں بتایا.اللہ فرماتا ہے: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكيف : ) کہ اے محمد ﷺ تجھے کیا ہو گیا ہے کہ یہ جوا تنا ظلم کر رہے ہیں ، اس شدت کے ساتھ تیری تکفیر کر رہے ہیں اور کسی طرح ایمان نہیں لا رہے ظلم کی حد کر رہے ہیں ان کی خاطر تو اپنی جان ہلاک کر رہا ہے غم میں کہ یہ لوگ ہلاک ہو جائیں گے.ایسا عجیب نقشہ ہے کہ انسان ، عام انسان کا تصور جس کو مذہب میں صیقل نہ کر دیا ہو اس بات تک پہنچ نہیں سکتا کہ یہ واقعہ ہوسکتا ہے.یقین نہیں آسکتا ان کو.چند دن ہوئے ایک پاکستان کے پرانے صاحب اثر دوست تھے وہ تشریف لائے ہوئے تھے.انہوں نے کہا کہ آپ کی جماعت ہے ہی عجیب، میں بھی یقین نہیں کر سکتا کہ آپ کا ان باتوں کا یہ رد عمل ہو گا اس لئے حکومت بچاری کیا کرے اور صاحب اقتدار کیا کریں؟ وہ تو اپنے اوپر سوچتے ہیں.ان کا تصور پہنچ ہی نہیں سکتا اس بات کو کہ دنیا میں کوئی ایسے شریف بھی خدا کے بندے بستے ہیں کہ ان کا وہ رد عمل نہیں ہو سکتا جو وہ سمجھتے ہیں اس لئے وہ ظلم کرتے ہیں پھر خوف کھاتے ہیں کہ ہم نے ظلم کیا ہے اور یہ ردعمل ہوگا پھر اور زیادہ ظلم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ اس مقام کو پہنچ جاتے ہیں جہاں خدا کی پکڑ ان کو گھیر لیتی ہے اور پھر کوئی واپسی کا رستہ نہیں رہتا.یہ جو دو مختلف تصویریں ہیں یہ آج پاکستان میں جس طرح نمایاں طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہیں ان کو دیکھ کر اگر کوئی بالکل عقل کا اندھا نہ ہو تو احمدیت کو قبول کرنے کے لئے اس کی راہ میں کوئی روک باقی نہیں رہنی چاہئے.جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں یہ دو تصویر میں نکھر کر ابھری تھیں ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی مشابہت نہیں تھی اسی طرح حضرت اقدس محمد مصطفیٰ کے غلاموں کو آج پھر توفیق ملی ہے کہ انہیں نقوش کو پھر ابھار دیں جنہیں آنحضور ﷺ اور آر کے غلاموں نے ابھارا تھا اور دشمنوں کو پھر تو فیق مل رہی ہے کہ پھر انہیں بدزیبائیوں کو، ان بدصورتیوں کونمایاں کریں جو پہلے دنیا نے دیکھیں تھیں اور جن کو خدا کی آنکھ نے رد کر دیا تھا ان کو اس قابل نہیں سمجھا تھا کہ وہ زندہ رکھی جائیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 367 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء ربوہ میں جس طرح رمضان گزرا، جیسے عید آئی اور چلی گئی اور جولوگوں کا حال ہوا اس کے او پر اتنے خطوط آ رہے ہیں، اہل پاکستان میں عموماً اور بوہ میں خصوصاً جو حال گزرے لوگوں پران سب کا بیان تو ممکن نہیں ہے مگر چونکہ ایک یہ تاریخ احمدیت کا قیمتی سرمایہ ہیں اس لئے چند نمونے میں آج آپ کو پڑھ کر سناتا ہوں.یہ ایذا رسانی جس کو وہ کہتے ہیں وہ کیا ہے اور اس کے مقابل پر وہ خود کیا کرتے ہیں اور پھر مومن کا رد عمل اس پر کیا ہوتا ہے مگر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ تو اتنا تفصیلی مضمون ہے کہ ہزار ہا خطوط ہیں سینکڑوں خطوط روز آرہے ہیں اور اکثر ان میں یہ مضمون ہوتا ہے.تو ہزار ہا خطوط سے بھی زیادہ بن جاتے ہیں یعنی ہزار ہادر ہزار ہا ہیں.ان کو سب کو جماعت کے سامنے پیش کرنا یہ تو اس وقت ممکن نہیں ہے اور بعضوں کے اقتباسات لئے ہیں لیکن اس کے ہم پلہ سینکڑوں اور ہیں جن کے اقتباسات لئے جاسکتے تھے اس لئے نام تو میں کسی کا بھی نہیں لوں گا لیکن جن کا نہیں آئے گا وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہمارے جذبات کو کم سمجھ کر چھوڑا گیا ہے، بے اختیاری کی بات ہے، ناممکن ہے کہ ساری جماعت کے جذبات کو اس طرح کھل کر پیش کیا جا سکے.ایک بچی جو باہر سے آئی تھی رمضان گزارنے کے لئے ویکھتی ہے کہ آج کل میں رمضان گزار نے ربوہ آئی ہوئی ہوں کیونکہ ان کو ایک ماہ کی چھٹیاں بھی ہیں.ربوہ میں آپ کی غیر موجودگی کا احساس اور بھی شدید ہوتا ہے.اس دفعہ رمضان کے مہینے میں وہ رونق اور مزہ نہیں ہے جو اس سے پہلے ہوتا ہے.پہلے دو دن تو بہت ہی عجیب لگا کہ ہم بغیر اذان کے روزہ رکھتے ہیں اور وقت دیکھ کر بغیر اذان کے ہی روزہ کھولتے ہیں.انسان کی فطرت ہے کہ جو نعمت خدا تعالیٰ نے اس کو دی ہواس وقت اس کو اتنا احساس نہیں ہوتا جتنا کہ جب وہ چھن جائے تب.یہی حال آج کل ہم سب کا ہے.شادی سے پہلے کبھی ہم کہ دیا کرتے تھے کہ ربوہ میں ہر وقت صرف اذانیں ہی ہوتی ہیں لیکن اب پتہ چلا کہ ربوہ کی اصل خوبصورتی اور حسن انہیں چیزوں سے ہے کہ پانچوں وقت مسجدوں.ނ اللہ تعالیٰ کا نام بلند ہو.تو جو لوگ دل آزاری کرتے ہیں ہم یعنی جن پر الزام لگایا جاتا ہے ان کی دل آزاری کیا ہے کہ وہ اذانیں دیتے ہیں کہ وہ خدا کا نام بلند کرتے ہیں اس سے دل آزاری ہو رہی ہے اور جوان آوازوں کو گھونٹ رہے ہیں جو سینوں میں مچلنے لگ گئی ہیں اور گریہ وزاری میں تبدیل ہورہی ہیں.وہ
خطبات طاہر جلد ۳ 368 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء دل آزاری نہیں کر رہے؟ عجیب عقل ماری گئی ہے قوم کی ، بعد میں آنے والے لوگ حیران ہو کر دیکھیں گے کہ یہ وہ ہوا کرتے تھے ہمارے آباؤ اجداد یہ ان کی عقلیں تھیں.ایک بچی لکھتی ہے، پیارے ابا حضور اس دفعہ عید پر عجیب سماں تھا، لاؤڈ سپیکر کی اجازت نہ ہوتے ہوئے بھی اتنے لوگ تھے کہ جگہ بہت مشکل سے ملی، ایک دوسرے کے قدموں پر سجدے کئے تھے اور منظر تھا کہ دیکھ دیکھ کر رونا آرہا تھا.پیارے آقا اس دفعہ پتہ بھی نہیں چل رہا تھا کہ عید ہے.ایک بچی لکھتی ہے کہ پیارے ابا حضور اس وقت عجیب سے جذبات ہیں جن کو الفاظ کا رنگ نہیں دے سکتی ہیں دل چاہتا ہے کہ ابھی میں قربان ہو جاؤں.ایک اور عزیز لکھتی ہیں کہ خطبہ کی آواز نہیں آ رہی تھی اور عورتوں کا یہ حال تھا کہ زار و قطار روتیں اور اپنے رب کو مدد کے لئے پکار رہیں تھیں.ایک ایسا دردناک منظر تھا کہ بیان سے باہر ہے.ایک کہرام مچا ہوا تھا.اس دردناک چیخ و پکار سے اس وقت عرش الہی کے کنگرے بھی ہل رہے ہوں گے.ایک سلسلہ کی بزرگ خاتون لکھتی ہیں، آپ کے بغیر تو عید کا تصور ہی نہ تھا.سارا ر بوہ عید پڑھنے پہنچا ہوا تھا مگر خطبہ کی آواز ایک محدود تعداد تک پہنچ سکی کیونکہ لاؤڈ سپیکر کا انتظام نہیں تھا بلکہ ایک حصہ تک تو ایک رکعت پڑھنے کی آواز نہیں پہنچی.ایک پہرے دار نے تکبیر کہنی شروع کی تو دوسری رکعت پڑھی.جو عورت ملتی تھی گلے لگ کر رونے لگ جاتی تھی.یہ دل آزاریاں ہیں جو جماعت کر رہی ہے ، یہ اسلام کے خلاف سازشیں اور حرکتیں ہیں جو قانونا بند کی گئی ہیں کہ دل آزاری ہوتی ہے.اتنی خطرناک سازشیں اسلام کے خلاف ! تم منہ کالا کر رہے ہو سارے اسلام کا (نعوذ بالله من ذلک ) نمازیں پڑھ کر، تکبیر میں کہہ کر ، اذانیں دے کر اور نمازوں میں پھر گر یہ وزاری کر کے اور پھر اس کو سنانا چاہتے ہو سب کو.ایک نوجوان جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک بزرگ صحابی کے پوتے ہیں وہ لکھتے ہیں.(حضور نے فرمایا ) یہ سارے خط تو میرے لئے ممکن نہیں یعنی جو خط چنے ہیں وہ بھی سارے پڑھ سکوں کیونکہ ان میں بعض جگہ جذبات کا اس شدت سے اظہار ہے کہ میرے لئے پڑھ کر سنا نا ممکن نہیں کہ جہاں جہاں میرا ذکر آجاتا ہے وہ مجھے کا ٹنا بھی پڑتا ہے بیچ میں سے مگر کہیں کہیں مجبور امضمون کو قائم رکھنے کے لئے پڑھنا بھی پڑتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 369 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء یہ نو جوان لکھتے ہیں، بلکتے بلکتے ماہ رمضان بھی بیت گیا ، روتے روتے عید بھی گزر گئی.کس کرب اور دکھ کے دن تھے، یہ ربوہ کی فضائیں کس قدر بو جھل اور کس قدر مضطرب اور حزیں تھیں، ہزاروں میل دور بیٹھے ہوئے بھی تجھ سے بڑھ کر اس دکھ کو کون سمجھ سکتا ہے.میں جانتا ہوں کہ ہر بھیگی ہوئی آنکھ کے ساتھ تو بھی نمناک تھا اور ہر مجروح دل کے ساتھ تو بھی تڑپ رہا تھا.ہر زخمی روح کی پکار گویا تیرے قلب حزیں کی صدا تھی اور ہر در دبھر انغمہ گویا تیرے ہی ساز وجود سے اٹھتا تھا.ہم حاضر ہیں ہمارے آقا ! ہم حاضر ہیں ہمارے آقا ! ذرے ذرے میں تبدیل ہونے کو ، ہر آگ کا ایندھن بنے کومگر تجھ تک گردنہ اٹھے، تجھ تک کوئی آنچ نہ آئے.پھر لکھتے ہیں اور پھر دکھی عید ” عید تو ہے چاہے کردیا نہ کرو کے تحت گزر ہی گئی مگر آمدن عید مبارک بادت کی خوش خبری بھی دے گئی اور انہیں دکھوں کی کوکھ سے جنم لینے والی راحتوں کی یہ خوش خبریاں یہاں دلوں کو کس طرح گرما رہی ہیں کس طرح یہاں درد میں ڈوبی ہوئی آہیں بھی ہیں، غم میں بھیگے ہوئے آنسو بھی ہیں اور امید سے بھری ہوئی دعا ئیں بھی ہیں.یعنی کوئی اہل نظر ہی جان سکتا ہے ربوہ کی اداس مگر پر عزم فضا میں کیا بچے ، کیا جوان ، کیا بوڑھے سبھی ایک ہی آگ میں جل رہے ہیں جو نہ جانے کس کس کو خاکستر کر دیگی اور کس کس کو کندن بنادے گی.میں نے بڑے بڑے جابر لوگوں اور بے حس نو جوانوں کو بے طرح بلکتے اور مرغ بسمل کی طرح تڑپتے دیکھا ہے ، ان کے بھیگے ہوئے چہروں پر رنج وغم اور عزم اور امید کی ایسی گہری پر چھائیاں تھیں جو ہر گز قابل بیان نہیں.ناسمجھ بچے بھی جس طرح اراد تا چیخ چیخ کر روتے اور دعائیں کرتے ہیں اس کا اندازہ کچھ اسی سے لگا لیجئے کہ جمعۃ الوادع کی نماز کے آخری سجدے بڑے رقت انگیز تھے.لوگ حقیقتا ایسے تڑپ رہے تھے جیسے بکرے ذبح کئے جارہے ہوں.میں نے محسوس کیا کہ میرے پہلو میں میرا آٹھ سالہ بیٹا منور بھی با آواز بلند رورہا تھا.جب اس نے سجدے سے سراٹھایا تو اس کی سجدہ گاہ آنسوؤں سے تر تھی اور ان آنسوؤں کو اور واضح کرنے کے لئے اس نے اپنے بچپن میں ان میں لکیریں بھی کھینچ رکھی تھیں.میں تڑپ گیا اور اپنے رب سے کہا کہ خدایا ان معصوم آنسوؤں کے صدقے ان تمام گڑ گڑاتے ہوئے سجدوں کو قبول فرمالے.بعد میں وہ بچہ مجھے کہنے لگا ابو میں نے آپ کے لئے تو کوئی دعا نہیں کی امی کے لئے اور اپنے کسی دوست کے لئے بھی کوئی دعا نہیں کی میں صرف اپنے حضور کے لئے دعا کرتا رہا ہوں.“
خطبات طاہر جلد ۳ 370 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء ایسی عید ہمارے بعض خدا کی راہ کے قیدیوں پر بھی آئی اور ان میں سے دونو جوان جور بوہ کی حوالات میں تھے ان کے ہاتھ کا لکھا ہوا خط ہے وہ میں آپ کو سناتا ہوں وہ کہتے ہیں ان دنوں ہم دونوں ربوہ حوالات میں ہیں اور خدا کی قسم آپ کی دعاؤں اور ایک کروڑ احمدیوں کی دعاؤں کی بدولت خدا وند کریم نے ہمارے لئے اس جگہ کو بھی جنت بنادیا ہوا ہے“.یعنی جو باہر تھے ان کا وہ حال تھا اور جو خدا کی راہ میں قیدی تھے ان کو خدا نے ایک اور ہی منظر ایک اور ہی عالم میں پہنچا دیا تھا حالانکہ زندگی میں ہم نے آج تک ایسی جگہ کی شکل نہ دیکھی تھی.شرفا تو نہیں جایا کرتے حوالات میں اور پولیس کے قبضے میں اور ان کے لئے سوال ہی کوئی نہیں تھا صرف وہ خدا کی راہ میں ایک دعویٰ کرنے والے پر ایمان لانا ان کا جرم تھا.کہتے ہیں ” خداوند کریم نے ہمارے لئے اسی جگہ کو جنت بنایا ہوا تھا حالانکہ زندگی میں ہم نے آج تک ایسی جگہ کی شکل نہ دیکھی تھی مگر خدا تعالیٰ کو یہی منظور تھا اور آزمائش تو ڈالی مگر ہم میں اتنا حوصلہ اور استقامت بھی تو بخشی کہ ہمیں کسی قسم کی کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی.حضور ہماری طرف سے آپ کو فکر مند ہونے کی کوئی ضرورت نہیں بس صرف اور صرف اپنے غلاموں کے لئے خاص دعا کریں اور دعا کریں کہ خدا وند کریم ہمیں اس سے بھی مزید حوصلہ اور ہمت عطا فرمائے اور ہماری جان اور مال اور عزت سب راہ مولیٰ پہ قربان ہو.حضور یہ لوگ ہمیں کسی خوف اور دکھوں سے دھمکا کر ہمیں اپنے دین سے ہٹا نہیں سکیں گے.اگر انہیں معلوم ہو جائے کہ احمدیوں کے ایمان کتنے مضبوط ہیں تو ان کی روحیں لرز جائیں.شیر ہمیشہ شیر ہی رہتا ہے چاہے اسکو پنجرے میں بند کر دو اس کی دہشت پھر بھی رہتی ہے اور خدا کی قسم ہم احمدیت کے شیر ہیں.“ ایک نوجوان نے ایک عجیب رنگ میں اپنی جان کی قربانی پیش کی ہے ویسے تو کثرت سے لوگ لکھ رہے ہیں لیکن اس نے تو معلوم ہوتا ہے گریبان پکڑ کر زبر دستی مجھے کہا ہے کہ میری قربانی لوور نہ کہتے ہیں کہ ایک خطبہ میں آپ نے فرمایا تھا کہ خاندان مسیح موعود علیہ السلام کے خدام نے آپ کو لکھا ہے کہ جہاں جہاں جان کی قربانی کی ضرورت ہو ہمیں پہلے موقع دیا جائے.حضور آپ پر میری جان بھی قربان مجھے بھی اس فہرست میں شامل کر لیں ، خدا کی قسم اگر آپ نے ہمیں اس فہرست میں شامل نہ کیا تو ہم قیامت والے دن یہ ضرور کہیں گے کہ آپ نے اپنے خاندان سے رعایت کی ہے.“ مالی قربانی کے متعلق پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں.یہ رد عمل ہے دل آزاری کا رد عمل، ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 371 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء وہ ہے اور ایک یہ ہو رہا ہے اور عجیب بات ہے کہ یہ خاص دور ہے، پہلے دوروں میں زبر دستی مالی قربانی ہم سے لی جاتی تھی غیر کی طرف سے اور جماعت تو طوعی قربانی کرتی چلی آئی ہے.لیکن اس دفعہ اس میں کمی آئی ہے اور اس کو خدا نے اس طرح پورا فرما دیا کہ جماعت از خود دونوں ہاتھوں سے اپنے ہے.اموال کولٹا رہی.ایک بچی بھتی ہے میں اپنے زیور کے سیٹ میں سے ایک سیٹ دینا چاہتی ہوں جو میں نے ابھی پہنا نہیں ہے اور شاید وہ میرے استعمال میں اسی لئے نہیں آیا کہ وہ احمدیت کے لئے وقف تھا.آپ اس سیٹ کو جس مرضی تحریک میں شامل کر لیں ، چاہے یورپ کی تحریک میں شامل کر لیں ، چاہے امریکہ کی تحریک میں شامل کر لیں میں نے یہ سیٹ وقف کر دیا ہے اب آپ جس مرضی تحریک میں شامل کر لیں لیکن پلیز (Please) مجھے انکار نہ کریں، اگر خدانخواستہ انکار بھی کیا تو یہ سیٹ میرے کسی کام کا نہیں رہے گا اور نہ کبھی میں اس کو استعمال کروں گی اس لئے پلیز میرے اس سیٹ کو کسی بھی تحریک میں ضرور شامل کر لیں اور میرے لئے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ مجھے اس سے بھی زیادہ قربانی دینے کی توفیق عطا فرمائے.ایک نوجوان لکھتے ہیں : پیارے آقا عید الفطر کی نماز پر فرینکفورٹ گیا تھا.ہائی وے پر کارکو اوور ٹیک کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اچانک ذہن میں سوال پیدا ہوا کہ اس تیز رفتاری میں مسابقت کا نتیجہ کیا ہوگا سوائے اس کے کہ مال و جان کا نقصان اور اس کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہیں اور پھر یہ سوال پیدا ہوا کیوں نہ اس مسابقت کی روح کو مذہبی دنیا میں تبدیل کیا جائے اور میں نے نیت کر لی کہ یوروپین مراکز کی تحریک میں جس شخص کا سب سے زیادہ وعدہ ہوگا اس سے بڑھ کر وعدہ بمعہ ادا ئیگی کروں گا.مسجد پہنچنے پر معلوم ہوا کہ ایک تاجر احمدی دوست جو یہاں مستقل رہائش پذیر ہیں انہوں نے چالیس ہزار ڈینیش مارک کا وعدہ کیا ہے.میں نے پوری تحقیقات کرنے کے بعد کہ اس سے بڑھ کر کسی کا وعدہ نہیں ہے چالیس ہزار پانچ سو ڈ منیش مارک کا وعدہ اپنے دل میں خدا تعالیٰ کے ساتھ کر لیا.چالیس ہزار مارک جو میرا اندوختہ ہے اور پانچ سوانشاء اللہ تعالیٰ اس ماہ کی تنخواہ سے مل جائیں گے.میں مجبور ہوں میراقصور نہیں، میرے بس کی بات نہیں میں کیا کروں ، دشمن کی دن رات کی ذلیل حرکتوں اور کارروائیوں سے جو آپ کو تکلیف پہنچ رہی ہے میرا دل یہ کرتا ہے کہ جو
خطبات طاہر جلد ۳ مجھ سے ہو سکے وہ تو کر گزروں.372 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء ایک نوجوان یہ خبر دے رہے ہیں اور یہ عجیب ہے کہ اللہ تعالیٰ کی دین کا اس کی عطا کا سلسلہ بھی اس شدت کے ساتھ جاری ہے کہ کوئی اس میں ادھار نہیں ہے.قرض نہیں رکھتا اللہ تعالیٰ.ایک نوجوان جرمنی کے لکھتے ہیں کہ میں بہت ہی دلبرداشتہ تھا کہ میرے پاس کچھ زیادہ نہیں اور مجھے جو آٹھ سومارک ملتے ہیں یہ حکومت کی طرف سے ہیں اس میں مجھے نوکری نہیں ملی ہوئی کوئی اس میں سے چار سو کرائے کے نکل جاتے ہیں باقی چار سو میں گزارہ کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن ایسی سخت میرے دل میں تمنا تھی کہ میں نے اپنی حیثیت سے بڑھ کر وعدہ کر لیا اور دوسرے ہی دن اللہ تعالیٰ نے مجھے نوکری عطا فرما دی اور میں نے یہ چندہ جتنا بھی لکھایا تھا وہ خدا کے فضل سے پورا ادا کر دیا ہے.ہالینڈ کی جماعت کے متعلق اطلاع ہے کہ مربی لکھتے ہیں کہ جس والہانہ انداز سے انہوں نے آواز پر لبیک کہا ہے ، مستورات نے زیور دے دیئے اور سب نے اپنی توفیق سے بڑھ کر قربانیاں دی ہیں وہ معجزہ سے کم نہیں.احباب کو جلد از جلد ادائیگی کی طرف توجہ دلائی جا رہی ہے، ان سب مخلصین کے لئے دعا کریں اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.ایک خاتون کا خط میں آخر پر پڑھ کر سناتا ہوں جن سے خدا تعالیٰ نے 74 ء میں بھی قربانی ٹی تھی لیکن اس قربانی کا اور مزہ تھا اب اس قربانی کا اور مزہ ہے اور یہ خوش قسمت بہن دونوں مزے لوٹ رہی ہیں.وہ لکھتی ہیں پیارے آقا 74ء میں لائل پور (فیصل آباد ) میں تھی غالبا شادی کے ایک سال بعد ہی خدا تعالیٰ نے محض اپنے خاص فضل سے اس گناہ گار بندی کو ان چندلوگوں میں چن لیا جن کو خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کرنے کی توفیق ملی.گھر جلایا گیا، سامان لوٹا گیا ، میاں کو سخت زدوکوب کیا گیا اور آخر کھمبے کے ساتھ باندھ کر جلانے کا پروگرام بنایا گیا تو خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے ان کے ارادے خاک میں ملا دیئے اور مارنے والوں نے خود ہی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور میرے میاں کو چھوڑ دیا.باقی افراد خانہ نگے سر اور ننگے پاؤں گھر سے نکالے گئے.دوسرے دن جب میرے میاں وہ جلا ہوا گھر دیکھنے گئے تو یہ دیکھ کر بڑی حیرت ہوئی کہ باقی تو تمام چیزیں لوٹ لیں یا جلائی گئیں لیکن زیور جو ایک معمولی سے لکڑی کے ڈبے میں رکھا ہوا تھا اس کو بے کار چیز سمجھ کر باہر صحن میں پھینک گئے اس طرح خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے معجزانہ طور پر میرا
خطبات طاہر جلد ۳ 373 خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء تمام زیور بچا لیا اور اس حال میں بھی اس گناہ گار کو خالی ہاتھ نہ ہونے دیا.اس دن کے بعد ہم نے خدا تعالیٰ کے فضلوں اور انعامات کو بارش کے قطروں کی طرح اپنے اوپر اترتے دیکھا.خدا تعالیٰ نے وہ وہ چیزیں دیں ہیں کہ جن کا وہم و گمان بھی نہ کیا تھا.خدا تعالیٰ نے اس معمولی سی قربانی کو اتنا بڑھا چڑھا کر قبول فرمایا اس وقت سے اس گناہ گار کے دل میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ زیور جو جاتے جاتے رہ گیا تھا اس کو اپنے ہاتھ سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کروں.“ انتِيَا طَوْعًا اَوْ كَرْهًا ( حم السجدہ :۱۲) کی ایک یہ بھی تفسیر ہے کہ جب خدا کہتا ہے کہ گڑھا بھی آؤ میرے پاس اور طوعا بھی آؤ.تو جب مومنوں پر اس آیت کا اطلاق ہوتا ہے تو مراد یہ ہے کہ میری راہ میں تکلیف اٹھاتے ہوئے بھی آؤ، ایسی قربانیاں بھی پیش کر و جوز بر دستی تم سے لی جائیں گی اور طوعا بھی آؤ یعنی طوعی قربانیاں پیش کرتے ہوئے بھی میری راہ میں آؤ.تو یہ اس فقرے میں اسی کی تفسیر ہے.(وہ لکھتے ہیں ) اس وقت سے اس گناہ گار کے دل میں بڑی شدت سے یہ خواہش پیدا ہوئی کہ یہ زیور جو جاتے جاتے رہ گیا تھا اس کو خود اپنے ہاتھ سے خدا تعالیٰ کے حضور پیش کروں.نومبر 83ء میں آپ کی تحریک بیوت الحمد میں اس عاجزہ نے چار چوڑیاں پیش کر دیں تھیں باقی زیور خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر آپ کی خدمت میں پیش کرتی ہوں، آپ اس کو کسی فنڈ میں استعمال کر لیں یہ اس خادمہ پر بڑا احسان ہوگا، خدا تعالیٰ کی رضا چاہتی ہوں ، خدا تعالیٰ اس حقیر قربانی کو قبول فرمائے.آمین.زیور کہاں بھجوایا جائے ؟ حکم کی منتظر ہوں.“ 66 یہ ہے جماعت احمد یہ جو خدا کے ان بندوں پر مشتمل ہے جن کے وجود سے غیر طیش کھا رہا ہے اور جن کے اوپر مظالم کی انتہا کر دی گئی ہے اور خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے کے بعد ان کا یہ رد عمل ہے کہ جو کچھ تم نے زبردستی چھین لیا اس کے علاوہ جو رہ گیا ہے وہ ہم تو ایسے خدا کے بندے ہیں کہ خود اپنے ہاتھوں سے، شوق سے ، ولولوں کے ساتھ خدا کے حضور میں پیش کرنے کے لئے حاضر بیٹھے ہیں.ایسی قوم کا کوئی کیسے کچھ بگاڑ سکتا ہے! اور پھر عجیب حال ہے کہ یہ لوگ یہ ساری باتیں یہ محبت بھرے خط یہ پیاری باتیں یہ عشق کے افسانے لکھتے ہیں اور ساتھ یہ بھی لکھتے ہیں بڑے فکر کے ساتھ کہ ہمارے لئے فکر نہ کیا کرو، ہمارا خیال نہ کیا کرو، یہ ہو کیسے سکتا ہے؟ یہ تو ناممکن ہے.کل ہی ایک خط کے جواب میں میں نے اس کو یہ لکھا ایک شعر پڑھا کرتا تھا لیکن یہ نہیں پتا تھا کہ کبھی مجھے
خطبات طاہر جلد ۳ پر یہ اطلاق پائے گا کہ 374 پیار کرنے کا جو خوباں ہم پہ رکھتے ہیں گناہ ان سے بھی تو پوچھئے وہ اتنے کیوں پیارے ہوئے خطبہ جمعہ ۱۳؍ جولائی ۱۹۸۴ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت اتنی پیاری ہے کہ اس سے پیار نہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے.بے اختیاری کا عالم ہے، میں تو ایک ہی غم میں گھل رہا ہوں کہ خدا تعالیٰ مجھے یہ توفیق بخشے کہ اس عظیم جماعت کی جو مسیح موعود کی میرے پاس امانت ہے اس کے حقوق ادا کر سکوں اور اس حال میں جان دوں کہ میرا اللہ مجھے کہ رہا ہو کہ ہاں تم نے حقوق ادا کر دیئے.
خطبات طاہر جلد ۳ 375 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۸۴ء جماعت احمدیہ کے خلاف آرڈنینس پر تبصرہ (خطبه جمعه فرموده ۲۰ جولائی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنیہ تلاوت فرمائیں: قَالَتِ الْأَعْرَابُ أَمَنَّا قُل لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلَكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الإيْمَانُ فِي قُلُوبِكُم وَإِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتُكُمْ مِّنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمُ اور پھر فرمایا: (الحجرات: ۱۵) حکومت پاکستان نے جو احمدیوں کے خلاف آرڈینینس جاری کیا اس کا عنوان ہے کہ احمدیوں کی یعنی انھوں نے تو قادیانی لفظ استعمال کیا ہے کہ قادیانیوں کی غیر مسلم سرگرمیوں کے خلاف آرڈنینس تا کہ قادیانیوں کو ان غیر مسلم سرگرمیوں سے باز رکھا جا سکے اور غیر مسلم سرگرمیاں کیا ہیں؟ سب سے پہلی آذان کہ غیر مسلم اگر کوئی آذان دے گا تو یہ غیر مسلم سرگرمی کہلائے گی اس لئے صرف غیر مسلموں کو غیر مسلم سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور مسلمانوں کو غیر مسلم سرگرمیوں کی اجازت دی جا سکتی ہے.دوسری غیر مسلم سرگرمی یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں تو مسلمان کہنا ایک بہت بڑی غیر مسلم سرگرمی بن گئی اور چونکہ یہ غیر مسلم سرگرمی ہے اس لئے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ غیر مسلموں کو اس غیر مسلم سرگرمی کی اجازت نہیں دی جاسکتی اور مسلمانوں کو اس غیر مسلم سرگرمی
خطبات طاہر جلد ۳ 376 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء کی اجازت دی جاسکتی ہے.علی ہذا القیاس یہ منطق اسی طرح آگے چلتی چلی جاتی ہے.اس وقت اس کے تجزیہ کے متعلق تو میں کچھ مزید نہیں کہنا چاہتا یہ تمہید میں نے اس لئے باندھی ہے کہ جب جماعت کی طرف سے یہ سوال اٹھایا گیا کہ وہ غیر مسلم سرگرمیاں اگر یہ ہیں تو یہ تو بڑی تعجب کی بات ہے پھر تو سب کو روکنا چاہئے ان غیر مسلم سرگرمیوں سے مسلمانوں کو بھی روکنا چاہئے غیر مسلموں کو بھی روکنا چاہئے صرف قادیانی ہی رہ گئے ہیں ان سرگرمیوں سے روکنے کے لئے ،تو حکومت نے پھر ایک وائٹ پیپر White Paper شائع کیا ، ویسے تو وہ وائٹ پیپر چونکہ جھوٹ کا پلندہ ہے اور دل آزاری نہایت گندی قسم کی کی گئی ہے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نہایت بے ہودہ اور ذلیل الزام لگائے گئے ہیں، کوئی بنا نہیں ہے اس کی ، نہ قرآن پر بنا ہے نہ سنت پر بنا ہے اس لئے سیاہ کا غذ تو اس کو نام رکھنا چاہئے سفید کاغذ نام رکھنے کی تو کوئی اس کی گنجائش نہیں لیکن اس پہلو سے شاید ٹھیک ہو کہ سفید جھوٹ بھی کہا جاتا ہے.تو اگر اس محاورے کی رو سے اسے وائٹ پیپر کہا جاتا ہے یعنی قرطاس ابیض تو پھر تو کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے اور ہے بھی وہ یہ انہی معنوں میں.باوجود اس کے کہ اس میں شدید دل آزاری سے کام لیا گیا ہے ایک پہلو سے مجھے خوشی ہے کہ کچھ بولے تو سہی وہ اور جماعت کو اس کے نتیجے میں اپنی جوابی کاروائی کا موثر موقع ملے گا لیکن بولے عجیب طرح ہیں.ایک طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کتب سے ایسے فرضی حوالے نکالے گئے ہیں جو کسی اور موقع پر کسی اور کے لئے استعمال ہوئے ہیں کچھ اور مضمون رکھتے ہیں اور ان سے ان کو اس طرح اخذ کیا گیا ہے کہ گویا وہ شدید دل آزاری کا موجب ہیں مسلمانوں کے لئے اور دوسری طرف وہ اصل کتب ضبط کر لی گئی ہیں جن میں وہ حوالے ہیں اور ان کی اشاعت کی اجازت نہیں.گویا کہ وائٹ پیپر تو یہ تشہیر کرے گا کہ دیکھو یہ یہ ہماری دل آزاریاں ہو رہی ہیں یعنی دل آزاریاں تو جاری رہیں گی اور اصل کتاب کو دیکھ کر یہ معلوم کرنے کا موقع کسی کو میسر نہیں آئے گا کہ دل آزاری ہوئی بھی تھی کہ نہیں.اس کو تو کسی شاعر نے خوب ادا کیا ہے: که سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد ( دست صبا از نسخہ ہائے وفاصفحہ :۱۶۱) کہ پتھروں کو تو باندھ دیا گیا ہے اور کتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے.فرضی دل آزاری کو تو آزاد کر دیا گیا
خطبات طاہر جلد۳ 377 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۸۴ء ہے اور جوابی کاروائی کو بند کر دیا گیا.تو جتنی خوشی اس پہلو سے ہوسکتی تھی کہ ایک جواب کا موقع پاکستان میں میسر آجائے گا وہ خوشی تو ساتھ ہی اس طریق کار نے زائل کر دی لیکن جہاں تک غیر دنیا کا تعلق ہے ، خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس کا موقع تو بہر حال میسر آئے گا.کہاں کہاں حکومت پاکستان کا قانون احمدیوں کی زبان بندی کرے گا آخر آزاد د نیا وسیع پڑی ہے، وہاں سے آواز اٹھ سکتی ہے، اٹھے گی، پھیلے گی اور جہاں جہاں انھوں نے یہ تقسیم کرایا ہے اس سے زیادہ کثرت کے ساتھ انشاء اللہ تعالیٰ اس کے نقطہ بہ نقطہ جوابات تیار کر کے تقسیم کئے جائیں گے.کچھ تو میں اپنے خطبات میں بھی بیان کروں گا تا کہ وہ لوگ جنہیں پڑھنے کا زیادہ موقع میسر نہیں آتا اور خطبے ضرور سنتے ہیں ان تک بھی بات پہنچ جائے اور اس طرح احمدیوں کو اپنے دفاع میں کچھ ہتھیار میسر آجائیں.ان پڑھ احمدی بھی جب خطبہ غور سے سنتا ہے تو کافی حد تک سمجھ جاتا ہے بات کو اس لئے ان کے لئے ایک اچھا موقع مل جائے گا اور چونکہ لمبا بھی ہوا تو ہوسکتا ہے اور خطبات دوسرے مقاصد کے لئے بھی استعمال کرنے ہوتے ہیں اس لئے اگر کچھ حصہ رہ جائے بیچ میں سے تو وہ ویسے بھی پمفلٹ کی صورت میں چھپوانا ہی تھا، وہ چھپوایا جائے گا اور سب تک وہ پہنچ جائے گا اس لئے کوئی خلا نہیں رہے گا انشاء اللہ تعالیٰ.جہاں تک غیر مسلم دنیا کا تعلق ہے ان کے سامنے جو انہوں نے موقف اختیار کئے ہیں وہ بھی سراسر جھوٹ اور غیر منطقی اور نہایت لغو موقف ہیں.ان کے متعلق جہاں جہاں اطلاع ملتی ہے ہم اس کا جواب بتاتے ہیں اور زیادہ دیر تک تو کسی کو دھوکے میں رکھا نہیں جاسکتا.ان کے موقف کی ایک مثال یہ ہے جو نیوز ویک میں شائع ہوئی کہ ایک بڑے پاکستان کے افسر نے اپنے جواز میں یہ بات پیش کی کہ دیکھو یہ تو بڑی منطقی بات ہے کہ غیر مسلموں کو کیسے اجازت دی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کا بھیس اوڑھ کر ، بھیس بدل کر مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر وہ لوگوں کو دھوکا دے کہ وہ مسلمان ہیں، آخر حکومت کا فرض ہے کہ دھو کے بازوں کو پکڑے اور ان کے خلاف کاروائی کرے.تو یہ ایک منطقی دلیل انہوں نے قائم کی غیر دنیا کے لئے جن کو قرآن اور سنت سے تو غرض کوئی نہیں ہے نہ ان کو یہ پتا ہے کہ کوئی غیر مسلم حقیقت میں ہے بھی کہ نہیں لیکن ان کے سامنے اتنی سی بات رکھ دی گئی کہ ہماری حکومت نے فیصلہ کر لیا اور ایک اسمبلی کا حوالہ دیا گیا کہ فلاں اسمبلی نے یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 378 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء فیصلہ کیا اس لئے اس فیصلہ میں بھی ہمارا قصور کوئی نہیں ، ہم نے تو ورثے میں پایا تھا یہ فیصلہ اور جب ہم نے ورثے میں یہ فیصلہ پایا کہ فلاں جماعت غیر مسلم ہے تو اس فیصلے پر نفاذ کروانا عمل درآمد کروانا ہمارا کام تھا وہ ہم نے کروایا ہے، اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.یہ بات تو انہوں نے پہنچا دی لیکن اس کے اندر اتنی لغویات مضمر ہیں کہ جب وہ ہم دوسروں کو پہنچا ئیں گے اور پہنچا رہے ہیں تو کیسے کوئی یقین کر سکتا ہے کہ یہ دھو کہ لمبے عرصے تک چل سکتا ہے.سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.سب سے پہلے تو اسمبلی کی حیثیت سن لیجئے.یہ وہ اسمبلی ہے جس کے اوپر خود پاکستان نے ایک وائٹ پیپر شائع کیا اور سارے اسمبلی کے ممبران کا منہ کالا کر دیا اس وائٹ پیپر کے ذریعے اور یہ اعلان کیا کہ ان میں سے کوئی بھی اس قابل نہیں تھا کہ شریف انسان کہلا سکے.مسلمان تو در کنار ایک عام شریف انسان کہلانے کے بھی مستحق نہیں، یہ لوگ فلاں بھی تھے، فلاں بھی تھے، جتنی بدیاں ہیں وہ ان لوگوں کے متعلق گنائی گئیں اور یہ چھپا ہوا پیپر موجود ہے اس لئے حکومت مجبور تھی یعنی نئی حکومت ایسی اسمبلی کو ختم کرنے پر اخلاقا پابند تھی.اس اسمبلی نے جن کا یہ حال ہے آپ فرماتے ہیں کہ ایک قانون پاس کیا تھا شرعی اور اس کی شرعی حیثیت ہے کیونکہ اس اسمبلی نے جس میں سارے ملک کے نمائندے موجود تھے، نے یہ اعلان کیا جماعت احمدیہ غیر مسلم ہے.تو ہم تو اس اسمبلی کے پابند ہیں اس لئے لازما ہم اس کی آگے بڑھ کر مزید پابندی کروائیں گے تو جس اسمبلی کی اپنی حیثیت یہ تھی کہ وہ شریف انسان کہلانے کی ان کے نزدیک مستحق نہیں تھی باہر کی دنیا کے نزدیک بے شک ہو اس کے فیصلے پر اس قدر سرتسلیم خم کرنا اور سر جھکا لینا یہ بڑے تعجب کی بات ہے اور مزید بات یہ کہ اس کے فیصلے کی حالت یہ ہے کہ سارا قانون جو بڑی محنت سے اس نے تیار کیا تھا اور دستور اساسی کی صورت میں ان کو دیا تھا وہ معطل اور ترمیم کی عزت افزائی ہو رہی ہے صرف یعنی 73 ء کا قانون تو معطل اور 74ء کی ترمیم جاری.آخر کچھ تو احترام ہونا چاہئے نا اسمبلی کا.یہ تو ویسی بات بنتی ہے کہ ایک عورت صبح اٹھ کر کھا رہی تھی سحری کے وقت کسی کو پتا تھا کہ وہ روزہ نہیں رکھتی ، اس نے کہا بی بی تم روزہ تو رکتی نہیں تو یہ آدھی رات کو اٹھ کے کھانا کیوں کھاتی ہو؟ اس نے کہا روزہ نہیں رکھتی تو کافر تو نہ نہ ہو جاؤں کچھ تو احترام کروں رمضان کا.جہاں تک کھانے والا حصہ ہے وہ تو مجھے پورا کرنا چاہئے بہر حال.چنانچہ افطاری بھی کرتی تھی سحری بھی کرتی تھی اور بیچ میں بھی کھانا کھاتی تھی تو یہ احترام ہے ان کے نزدیک اس اسمبلی کا کہ جس کی ساری بنائی گئی Constitution ( کانسٹی
خطبات طاہر جلد ۳ 379 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء ٹیوشن ) ، تمام دستور اساسی تو دوکوڑی کے لائق نہ رہا ہو اور یہ رہ جائے باقی اور پھر ایک اور اس میں دھوکہ اور مغالطہ آمیزی یہ کہ یہ بھی شکل نہیں بن رہی عملاً عملاً یہی شکل بنتی ہے کہ سارا دستور مع ترمیم کے معطل تھا اور آرڈینینس کے ذریعے دوبارہ یہ ترمیم جاری کی گئی تو ایک شخص کا فیصلہ ہے اب تو اسمبلی والی بات ختم ہوگئی.جب سارا قانون معطل ہو گیا اور ترمیم بھی ایک دفعہ معطل ہوگئی، دوبارہ جاری کیا گیا ایک آرڈینینس تو پھر اب اس کی قانونی شکل صرف یہ ہے کہ ایک شخص کا فیصلہ ہے تو یہ چیزیں جب دنیا کے سامنے آئیں گی تو پاگل تو نہیں دنیا کہ وہ نہ سمجھ سکے مگر قطع نظر اس کے کہ یہ فیصلہ کس کا تھا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ موقف ہی حماقتوں کا پلندہ ہے کہ اس منافقت کی ہم کیسے اجازت دے سکتے ہیں.سب سے پہلے تو یہ کہ منافقت کہتے کس کو ہیں؟ قرآن وحدیث کی بات کرتے ہو تو اس سے معلوم کرو اور منافق کو کس چیز کی اجازت دی جاسکتی ہے اور کس کی نہیں دی جاسکتی ؟ اول تو یہ فیصلہ کہ کسی کے دل میں کیا ہے.جو وہ دعوی کرتا ہے اس کے دل میں وہ ہے بھی کہ نہیں سوائے خدا کے کوئی نہیں کر سکتا اس لئے آپ اس کو جو چاہیں کہیں یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو تم منہ سے کہہ رہے ہو ہم اعلان کرتے ہیں کہ تمہارے دل میں یہ نہیں ہے.یہ کام سوائے خدا کے اور کوئی نہیں کرسکتا.چنانچہ آنحضرت ﷺ اور خلفا کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں کہ کسی نے اپنے آپ کو مسلمان کہا ہو اور حضوراکرم ﷺ یا خلفا نے یہ رد کر دیا ہو اور فرمایا ہو کہ تم اندر سے غیر مسلم ہو اور منافق ہو ایک بھی ایسا واقعہ نہیں.جہاں تک قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں کہ قرآن اس موضوع پر کیا فرماتا ہے تو جو آیت میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی اس میں اس کا موثر جواب موجود ہے.قرآن کریم تو ایک کامل کتاب ہے، کسی پہلو کو نہیں چھوڑتی، کوئی مستقبل کا فتنہ ایسا نہیں ہے جس کا ذکر اور اس کا تدارک قرآن کریم میں موجود نہ ہو چنانچہ اس سارے آرڈنینس کا تدارک قرآن کریم میں موجود ہے.دلیل کا بھی اور جو بعد میں موقف اختیار کیا گیا اور آرڈینینس کی جو تفاصیل ہیں جب میں آپ کو سناؤں گا اس آیت کی تشریح تو آپ حیران ہوں گے کہ ان سب چیزوں کا ذکر موجود ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آنحضرت ﷺ کو خبر دیتے ہوئے قَالَتِ الْأَعْرَابُ امَنَّا اعراب یہ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئیں ہیں قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا ہم تمہیں بتا رہے ہیں جس کی دل پر نظر ہے کہ ایمان نہیں لائے کہہ دو ان کو بے شک لمْ تُؤْمِنُوا تم ہرگز ایمان نہیں لائے
خطبات طاہر جلد ۳ 380 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء وَلكِن قُولُوا أَسْلَمْنَا لیکن تمہارا مسلمان کہلانے کا حق میں پھر بھی نہیں چھینوں گا.یہ کہنے کے باوجود کہ خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ تم ایمان نہیں لائے ہو ساتھ ہی ان کا خوف دور کرو.اگر ان کو یہ خوف پیدا ہو جائے کہ اب شاید وہ مسلمان نہیں کہہ سکتے اپنے آپ کو تو کھل کر بتا دو.قُولُوا أَسْلَمْنَا میں تمہیں کہتا ہوں جو اول المسلمین ہوں کہ تم کہہ سکتے ہو کہ ہم اسلام لے آئے.وَلَكِنْ قُوْلُوْا أَسْلَمْنَاوَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيْمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ یہ کہو کہ ہم اسلام لے آئیں ہیں حالانکہ ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا.اس سے بڑا منافق بھی کوئی متصور ہوسکتا ہے جس کے متعلق خدا گواہی دے آسمان سے اور اپنے سب سے برگزیدہ رسول کو خود بتائے.اصدق الصادقین کو اطلاع دے رہا ہو کہ ایک یہ لوگ جو دعوی کرتے ہیں کہ ہم مومن ہیں ان کے دلوں میں ایمان نے جھانک کے بھی نہیں دیکھا لیکن ساتھ ہی یہ حکم بھی دیتا ہے کہ اس کے باوجود ان سے مسلمان کہلانے کا حق تم نے نہیں چھینا بلکہ اپنی زبان سے یہ کہو ہمیں علم ہے ایمان تمہیں حاصل نہیں ہوا تمہارے اندر داخل ہی نہیں ہوا پھر بھی خدا مجھے کہتا ہے کہ تمہیں کہہ دوں کہ تم مسلمان کہو اپنے آپ کو اس سے تمہیں کوئی نہیں روک سکتا.تو جہاں تک یہ جو دعویٰ تھا کہ منافقت سے مسلمان بنتے ہیں اس لئے ہم نے ان کو روکا ہے.یہ آیت کس طرح اس کو پارہ پارہ کر رہی ہے اس دعوے کو یعنی اس آیت کا پہلا حصہ یعنی سو چتے نہیں کہ آنحضرت علیہ کے زمانے میں قرآن کریم سے ثابت ہے کہ منافقوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی.ایک سورۃ المنافقون نازل ہوئی اس کے اوپر اور جگہ جگہ ان منافقین کا ذکر ہے تو آج ان کو پتا چلا ہے کہ منافقین سے کیا سلوک ہونا چاہئے؟ آنحضرت ﷺ کو علم ہی کوئی نہیں تھا جن پر قرآن نازل ہورہاتھا.اس کثرت سے منافقین کا ذکر ہو اور ایک منافق کو بھی حضور اکرم ﷺ نے زبر دستی غیر مسلم کہنے پر اپنے آپ کو مجبور نہ کیا ہو بلکہ رئیس المنافقین وہ جو دل آزاری میں اس حد تک بڑھ گیا کہ آنحضرت کے متعلق ایک غزوہ سے واپسی پر اس نے یہ اعلان کیا کہ جو اس مدینہ اس شہر کا سب سے معزز شخص ہے وہ نعوذ باللہ من ذالک اس شہر کے سب سے ذلیل شخص کو نکال دے گا جب گھر پہنچے گا اور صحابہ جانتے تھے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے چنانچہ اس قدر ان کے خون میں جوش پیدا ہوا، اس انتہائی خوفناک ہتک کے اوپر اس گستاخی پر کہ ان کی تلوار میں بے نیام ہونے لگیں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا کچھ نہیں کہنا اس کو روک
خطبات طاہر جلد ۳ 381 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۸۴ء دیا حکماً یعنی منافق بھی منافقوں کا سردار اور اتنے خوفناک جرم کا وہ مرتکب ہو گیا ہو کہ دنیا کے سب سے معزز انسان کو دنیا کا سب سے ذلیل انسان کہہ رہا ہو اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا رد عمل اس دل آزاری پر یہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ صحابہ کو منع فرمایا بلکہ جب اس کا اپنا بیٹا جو ایک سچا مسلمان تھا وہ غیرت میں یہ بات برداشت نہیں کر سکا، اس نے اجازت چاہی کہ یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں میں اس باپ کا سر قلم کرتا ہوں تو آپ نے فرمایا تمہیں بھی اس بات کی اجازت نہیں.( بخاری کتاب التفسیر باب قولہ تعالیٰ ذالک با هم آمنوا ثم كفروا) شاید اس کے دل میں یہ خیال آیا ہو کہ باقی لوگوں کو اگر اجازت دی تو شاید رسول صلى الله اللہ ﷺ کو میرا خیال ہو میرے جذبات کا کہ بیٹا تو مخلص ہے اس کے دل کو تکلیف نہ پہنچے کہ کوئی اور اس کے باپ کو قتل کر رہا ہے.کیسا عظیم نمونہ وہ دکھاتا ہے! خود حاضر ہوتا ہے اور کہتا ہے یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں.آپ نے فرمایا نہیں لیکن وہ ایسا تڑپ رہا تھا ایسا بے قرار تھا کہ جب مدینہ میں داخل ہونے کا وقت آیا تو آگے جا کر رستہ روک کر کھڑا ہو گیا اپنے باپ کا ، اس نے کہا خدا کی قسم میں تمہیں نہیں داخل ہونے دوں گا اس شہر میں جب تک یہاں یہ اعلان نہ کرو کہ تم دنیا کے سب سے ذلیل انسان ہو اور محمد مصطفی اللہ دنیا کے سب سے معزز انسان ہیں.اس نے یہ اعلان کیا اور پھر اس کو مدینہ میں داخل ہونے کی اجازت دی گئی.تو جو منافقوں کا سردار تھا وہ مسلسل اپنے آپ کو مسلمان کہتا رہا اور آنحضرت ﷺ کی یہ خواہش رہی کہ میں خود اس کا جنازہ پڑھوں.(بخاری کتاب التفسیر باب قوله تعالی استغفرلهم اولا تغفر لهم ) یه ہے اسوہ محمد مصطفی امیہ یہ ہے قرآن کریم کی تعلیم منافقین کے متعلق.اب کوئی نیا قرآن نازل ہو رہا ہے پاکستان کے اوپر کہ جہاں نئی تعلیمات جاری کی جائیں گی منافقین کے بارے میں اور پھر یہ بھی پتا نہیں کہ منافق ہے کون؟ تم منافق ہو یاوہ منافق ہیں جن کے متعلق تم کہہ رہے ہو کہ یہ منافق ہیں.اس کا فتویٰ کون صادر کرے گا؟ تم کہتے ہو ہمیں کہ تم منافق ہواسی منہ سے ہم کہہ دیتے ہیں تم منافق ہو.فیصلہ کون کرے گا منافقت کا؟ منافقت کا فیصلہ تو خدا کے سوا کر کوئی نہیں سکتا اور خدا کا یہ فیصلہ ہے کہ جب میں فیصلہ کر دوں تب بھی تمہارا کام نہیں ہے کہ صلى الله زبر دستی کرو یہ میرا کام ہے زبر دستی کروں یا نہ کروں.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے متعلق فرمایا: إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِرَة لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرِ ( الغافية : ۲۲-۲۳) کہ اے محمد یہ سب دنیا کا سردار ہے تو لیکن تجھے داروغہ نہیں بنایا صرف نصیحت کرنے
خطبات طاہر جلد ۳ 382 خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۸۴ء والا بنایا ہے لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍ (القافية : ۲۳) نہ زبردستی تو ان کو تبدیل کرے گا نہ تیری جواب طلبی کی جائے گی کہ کیوں تو نے زبردستی نہیں کی.مصيطر کے دونوں معنی ہیں.لیکن یہ داروغہ بن گئے اور دنیا کو کہتے ہیں کہ ہم کیسے اجازت دے سکتے ہیں ایک اسلامی ملک میں کہ منافق بس رہے ہوں اور وہ اپنے آپ کو مسلمان بنا رہے ہوں اور دنیا کو دھوکا دے رہے ہوں.جو یقینی منافق تھے جن کے متعلق خدا نے گواہی دی تھی ان سے یہ سلوک کیوں نہیں ہوا سوال تو یہ ہے؟ ان کو کیوں اجازت دی گئی کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے رہیں؟ اور جو فرضی منافق ہیں ان سے یہ کیوں سلوک کیا جارہا ہے لیکن صرف یہی نہیں میں نے تو یہ عرض کی تھی کہ لغویات کا ایک پلندہ ہے یہ سارا قصہ.امر واقعہ کیا ہے؟ منافقت دور کرنے کے لئے نہیں بلکہ منافقت پیدا کرنے کے لئے قانون جاری کیا گیا ہے.چالیس لاکھ احمدی جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اور یقین رکھتا ہے اس کو یہ قانون مجبور کر رہا ہے کہ اپنے منہ سے تم وہ کہو اپنے متعلق جو تم اپنے آپ کو نہیں سمجھتے.یہ منافقت ہے یا وہ منافقت ہے کہ تم ان کو بے شک جھوٹا سمجھ رہے ہو لیکن اپنے آپ کو وہ مسلمان ہی سمجھ رہے ہیں.پس ایسا شخص جو اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے اس کو کوئی دوسرا جو مرضی سمجھے فرق کیا پڑتا ہے یا تو اس دوسرے نے قیامت کے دن خدا کی جگہ بیٹھا ہونا ہو پھر تو فرق پڑ جائے گا لیکن اگر فیصلہ عالم الغیب نے کرنا ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا.ہم تمہیں جو مرضی سمجھیں تم ہمیں جو مرضی سمجھو فیصلہ قیامت کے دن ہوگا.لیکن اگر فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے جائیں تو پھر فرق پڑتا ہے اور اس قانون کی اب یہ شکل بن جاتی ہے کہ اگر کوئی احمدی اپنے آپ کو دل کی گہرائیوں کے ساتھ بھی مسلمان سمجھتا ہو جس کا معنی یہ ہے کہ توحید باری تعالیٰ کا قائل ہو ، فرشتوں کا قائل ہو، حشر نشر کا قائل ہو ، حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ کی صداقت کا قائل ہو اور ان تمام اعمال کا قائل ہو جو اسلام نے فرض فرمائے ہیں ، قرآن کریم کی حقانیت کا قائل ہو اور یہ یقین رکھتا ہو کہ نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ یہ سارے فرائض ہیں ان پر عمل کرنا ضروری ہے.ایسے شخص کو یہ قانون کہے گا کہ ہماری نظر میں چونکہ تم منافق ہو اس لئے غیر مسلم ہونے کا اعلان کرو اور غیر مسلم ہونے کا اعلان ان ساری چیزوں کا برعکس ہے بالکل اس کے سوا غیر مسلم بن ہی کوئی نہیں سکتا یعنی قانون کہے گا کہ خدا کو واحد تسلیم کرتے ہوئے بھی کہو کہ میں اس کو ایک نہیں سمجھتا، محمد رسول کریم ﷺ کو سچا جانتے ہوئے بھی اعلان کرو کہ وہ نعوذ باللہ جھوٹے ہیں، قرآن کو سچی کتاب
خطبات طاہر جلد ۳ 383 خطبہ جمعہ ۲۰ ر جولائی ۱۹۸۴ء حقانی کتاب اور واجب العمل کتاب سمجھتے ہوئے بھی اس کی تکذیب کرو کہ جھوٹی ہے، یہ قابل عمل نہیں ہے اور یہ اعلان کرو کہ یوم حشر نشر سب کہانیاں اور قصے ہیں اور فرشتوں کا کوئی وجود نہیں.یہ اعلان کرو ور نہ قانون تمہیں سزا دے گا.یہ ہے وہ منافقت دور کرنے کا علاج جو اس قانون میں تجویز کیا گیا ہے.حیرت کی بات ہے کہ منافقت وہ ہے یا یہ منافقت ہوگی کہ قانون مجبور کر کے یہ باتیں کہلوا رہا ہو اور دل میں کچھ اور ہو تو منافقت کی تعریف ہی بدل دی ہے.تعریف یہ کی گئی ہے کہ جو دل میں ہے وہ اگر تم کہہ دو گے تو تم منافق اور جو دل میں نہیں ہے وہ کہو گے تو تمہاری منافقت دور ہوگی.اس کا جواب بھی اس آیت میں موجود ہے اور ساتھ یہ کہ چونکہ تم جھوٹے ہو ہم تمہیں عمل نہیں کرنے دیں گے اب قرآنی تعلیمات پر عمل ہم نہیں کرنے دیں گے کیونکہ تمہارا تعلق ہی کوئی نہیں ، رشتہ کیا ہے تمہارا قرآن کریم سے جب ہم نے تمہیں غیر مسلم کہ دیا تو اب تمہارا رشتہ ٹوٹ گیا قرآن کریم سے اس لئے یہ ساری باتیں جو میں نے بیان کی تھیں یہ قرآنی تعلیم ہے.تو حید ، آنحضرت ﷺ کی صداقت کا اعلان ، قرآن کو سچ سچ سمجھنا، برحق سمجھنا ، واجب التعمیل سمجھنا، یہ ساری باتیں قرآن سے ہی تو ملی ہیں ہمیں ان میں سے ایک بھی ایسی نہیں ہے جو قرآن سے باہر ہو.تو یہ اب نتیجہ نکالا جارہا ہے کہ چونکہ ہم نے تمہیں غیر مسلم سمجھ لیا اور اعلان کر دیا اس لئے اب تمہارا قرآن سے تعلق ٹوٹ گیا ہے.اس شریعت پر تم عمل نہیں کر سکتے ، اس شریعت کی اصطلاحیں استعمال نہیں کر سکتے ، اس شریعت کی عبادت کے طریق اختیار نہیں کر سکتے کیونکہ یہ ہماری ہوگئی اور ہم نے تمہیں اس شریعت سے نکال دیا اور قرآن کریم کے متعلق دیکھئے کہ وہ کیا کہتا ہے اس صورت حال میں ؟ فرماتا ہے: وَإِنْ تُطِيعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلتَكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا (الحجرات: ۱۵) کہاے منافقو ! جن کو ہم منافق کہہ رہے ہیں یعنی عرش کا خدا کہ رہا ہے، اے وہ لوگو جن کے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا اس اعلان کے باوجود ہم تمہیں یہ بھی تسلی دیتے ہیں کہ غیر مومن ہوتے ہوئے منافق ہوتے ہوئے بھی اگر تم ایک بھی اچھا عمل کرو گے تو خدا اس عمل کو بھی ضائع نہیں کرے گا.یعنی قرآن پر عمل کرنے کی دعوت بھی ساتھ ساتھ دے رہا ہے.فرما رہا ہے کہ منافق ہو اور ساتھ دعوت نہیں بلکہ حکم دے رہا ہے تسلی دلا رہا ہے کہ ہاں پھر بھی آؤ اور قرآن سے فائدہ اٹھاؤ اور
خطبات طاہر جلد ۳ 384 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء یہ کتاب کسی کے لئے خاص نہیں ہے.رحمۃ للعلمین کے اوپر نازل ہوئی ہے، تمام جہانوں کے لئے رحمت ہے، مومنوں کے لئے بھی رحمت ہے اور منافقوں کے لئے بھی رحمت ہے یعنی ان منافقوں کے لئے جن کو خدا منافق کہتا ہے اور ان کو بھی یہ تسلی دیتی ہے کتاب کہ تم بھی میرے فیض سے باہر نہیں رہے اس جھوٹ کے باوجود ، اس دوغلی زندگی کے باجود ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اگر تم قرآن پر عمل کرو گے اور نیک اعمال کرو گے تو اللہ ان کو ضائع نہیں کرے گا اور یہاں کیا نتیجہ نکالا جارہا ہے کہ چونکہ ہم نے تمہیں منافق قرار دے دیا ہے اس لئے قرآن پر عمل نہیں کرنے دیں گے.بالکل ایک نئی شریعت نازل ہوئی ہے اس لئے منافقت کیوں کرتے ہیں تسلیم کریں ہماری شریعت الگ ہے اور ہم اپنی شریعت کے ڈنڈے سے تمہیں ہانکیں گے خود تو منافق نہ بنیں قرآن کریم کے اوپر ایک جھوٹا الزام لگا کر کہ قرآنی تعلیم ہے یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ ساری دنیا میں قرآن کریم کو بدنام کرنا اور اپنی دھاندلی کے لئے قرآن کریم سے جواز ڈھونڈ نا اور جواز نہ ملے تب بھی قرآن کی طرف منسوب کر کے وہ بات شروع کر دینا.یہ واقعہ ہو رہا ہے اس لئے منافقت کا اول تو سوال ہی کوئی نہیں، منافق تو وہ ہوتا ہے جو جھوٹ بول کر اپنے عقیدے کے برخلاف بات کرتا ہوں.ہمیں تو کہتے ہیں تم کرو اس طرح پس منافقت سے بچانے والا قانون نہیں ہے منافق بنانے والا قانون ہے اور عملاً اس قانون کے فیض میں احمدیوں کے سوا ہر قسم کے خیالات کے لوگ داخل ہو سکتے ہیں اس سے فیض پاسکتے ہیں.اس کو ذرا آگے بڑھ کر دیکھئے ، ایک طرف یہ کہتے ہیں کہ تم جھوٹ بولتے ہو دل میں کچھ اور ہے اوپر سے کچھ اور کہتے ہو اور دوسری طرف کامل یقین ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انکار نہیں کریں گے اس لئے اسلام میں داخل ہونے کی شرط میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا انکار داخل کردیا، نوکریاں چھوڑ دیں گے، جائدادوں سے محروم ہو جائیں گے، اپنے سارے حقوق تلف کر والیں گے لیکن دل سے جانتے ہیں اور یہ گواہی دے رہے ہیں ساتھ ہی کہ اتنے سچے لوگ ہیں کہ شدید سے شدید تکلیف برداشت کرلیں گے لیکن جھوٹ نہیں بولیں گے اور یہی ہو رہا ہے.تو منافق اس کو کہتے ہیں کہ ہر قسم کے دکھوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھے اور قبول کرلے اور جھوٹ نہ بولے تو اپنا عمل کھول کر بتا رہا ہے کہ منافق ہم نہیں ہیں بلکہ کوئی اور ہے اور وہی ہے جس کو خدا کی تقدیر ظاہر کرے گی کہ تم منافق ہو.
خطبات طاہر جلد ۳ 385 خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۸۴ء پھر ایک اور اس عذر میں حماقت کا پہلو یہ ہے کہ کہا یہ جارہا ہے کہ احمدی مسلم بن کر گویا سوسائٹی کو دھوکا دے رہے ہیں اور اس طرح عوام الناس بیچارے یہ سمجھ کر کہ یہ بھی مسلمان ہیں وہ ان کے دھوکے میں آجاتے ہیں.ایسی احمقانہ بات ہے کہ جس کے متعلق یہ فیصلہ ہوا ہو 74ء کی اسمبلی میں کہ وہ غیر مسلم ہیں وہ عوام الناس کو کیا دھوکا دیتے ہیں کہ ہم کچھ اور ہیں.یا تو غیر احمدی بن کر اپنے اندر شامل کرتے ہوں پھر تو دھوکا ہے، احمدی بن کر جب شامل کرتے ہیں تو پھر کس طرح دھوکا ہو گیا اور پھر دھوکا کیسے ہو گیا جب کہ احمدی ہونے کے نتیجے میں سزا ملتی ہے؟ عجیب بات یہ ہے کہ جب بھی کوئی احمدی ہوتا ہے پاکستان میں خصوصیت کے ساتھ اس کے ساتھ ایسا خوفناک سلوک کیا جاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں دو باتیں طبعی نتیجے کے طور پر سامنے آتیں ہیں اول یہ کہ یہ جماعت دھوکا دینے والی نہیں ہے کیونکہ دھوکا دینے والا تولالچ دیتا ہے کہ تمہیں یہ ملے گا اور وہ ملے گا، تمہیں جائیداد میں ملیں گی تمہیں نوکریاں ملیں گی، تمہیں فلاں نعمتیں نصیب ہوں گی.جس جماعت میں داخل ہونے کے ساتھ ہی پہلی نعمتیں بھی ہاتھ سے جاتیں رہیں، نوکریاں چھٹ رہی ہوں، ماں باپ گھر سے نکال رہے ہوں، بیویاں روٹھ کر گھروں میں جا کر بیٹھ جائیں، قیامت برپا ہو جائے شہر میں، جہاں معزز تھا وہاں کا ذلیل انسان بن جائے ، باپ اپنے بیٹوں کو جائیدادوں سے محروم کر دیں، مائیں اتنا مار میں کہ حلیے بگاڑ دیں مار مار کے، چھوٹے بھائی اٹھ کر گالیاں دیں اور منہ پر تھپڑ ماریں.یہ سارے واقعات پاکستان میں ہورہے ہیں اور ہوتے ہیں ہمیشہ.یہ کہا جارہا ہے کہ تم دھوکا دے کر ان لوگوں کو ساتھ شامل کر رہے ہو.عجیب دھوکا ہے ، دھوکا تو وہ ہے جو تم کرتے ہو کہ وہ دو چار مرتد جو ہیں ان کے لئے دیگیں پکتی ہیں، ان کے گلوں میں ہار ڈالے جاتے ہیں، ان کے لئے گیٹ بنتے ہیں اور دو چار دن دعوتیں ہوتی ہیں ان کی.اس کو تو دھوکا کہا جاسکتا ہے یہ کس طرح دھوکا ہو گیا کہ مار پڑ رہی ہو اور یہ دھوکا دے کر بلایا جار ہا ہے.عجیب قسم کا دھوکا ہے! ہر تعریف اُلٹ گئی ہے، ہر بات ہی الٹی ہوگئی اور پھر یہ بھی ثابت ہو جاتا ہے ساتھ ہی دوسرا پہلو یہ ہے کہ آنے والا منافق نہیں ہے نہ وہ جماعت منافق ہے جس میں آرہا ہے نہ وہ آنے والا منافق ہے کیونکہ جھوٹ کی خاطر کوئی ایسی مصیبت برداشت نہیں کر سکتا.یہ کیسے ممکن ہے کہ اعلان تو یہ ہورہا ہو کہ فلاں شخص کی چوری ہوگئی ہے اور جو چور پکڑا جائے گا اس کو ہم منہ کالا کریں گے، گدھے پر سوار کریں گے، جو تیاں مارتے ہوئے شہر سے نکال دیں گے اور کوئی شخص جس نے چوری نہ کی ہو وہ جھوٹ بول کر منافق
خطبات طاہر جلد ۳ 386 خطبہ جمعہ ۲۰ جولائی ۱۹۸۴ء بن کر چور بن جائے.ایسا پاگل پن بعض عقلوں کو تو نصیب ہوتا ہوگا لیکن عام دنیا کی عقلوں میں نہیں آ سکتا.اگر یہ کہا جائے کہ فلاں چور کو حلوے تقسیم ہوں گے ، مٹھائیاں کھلائی جائیں گی اور گلے میں ہار ڈالے جائیں گے پھر تو بڑے چوری کے دعویدار پیدا ہو جائیں گے لیکن جہاں سزا ملتی ہو وہاں جھوٹے کا کام ہی کوئی نہیں وہ تو کوسوں بھا گتا ہے ایسے موقعہ سے جہاں سزا ملتی ہو.تو احمدیت کی سچائی کے لئے تو خدا نے ایک بار بنادی ہے اور انہی کے ہاتھوں سے بنوائی ہے جو منافق کہہ رہے ہیں اور جو جھوٹ کا الزام لگاتے ہیں.احمدیوں نے خود تو نہیں یہ باڑ بنائی اور یہ وہی باڑ ہے جو ہر نبی کے وقت بنائی جاتی ہے اور نبوت کی صداقت کا سب سے بڑا نشان بنتی ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے کون سا نعوذ باللہ جھوٹ بولا تھا وہ تو صِدِّيقًا نَّبِيًّا (مریم:۴۲) تھے.نبی ہوتے ہی سچے ہیں پر ایسے بچے تھے کہ اللہ نے بار بار صدیق فرمایا.کس منافقت کی سزا ملی اور اس کے بعد ایک کے بعد دوسرے نبی کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا.ناممکن تھا کسی کے لئے اس جماعت تک پہنچنا جب تک آگ میں سے گزر کے نہ وہ جاتا ، پھولوں کی سیج تو نہیں تھی ہاں کانٹوں پر سے گزرنا پڑتا تھا.تو منافق اس طرح پیدا ہوتے ہیں دنیا میں؟ ماریں کھاتے ، سزائیں لیتے شدید تکلیفوں میں مبتلا ہو کر پھر بھی مسکراتے ہوئے مزید تکلیفوں کی طرف بڑھ رہے ہیں.بھٹی کوئی احمق انسان ہو گا جو ایسے شخص کو منافق کہے یا عقل کے پیمانے بدل جائیں، تاریخیں سب تبدیل ہو جائیں پھر ٹھیک ہے جو مرضی کرو لیکن عام دنیا کی عقل کے مطابق یہ شخص پاگل کہلائے جاسکتے ہیں زیادہ سے زیادہ اور انبیاء کو پاگل اسی لئے کہا جاتا ہے.کہتے ہیں تم تو دیوانے ہو گئے ہو منافق نہیں کہہ سکتے.پہلے لوگوں کو عقل تھی اب اتنی بھی باقی نہیں رہی.قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ پہلے لوگوں نے جادو گر بھی کہا اور جھوٹا بھی کہ دیا اور پاگل بھی کہ دیا اور عاشق بھی کہہ دیا اپنے رب کا لیکن کبھی کسی نے منافق نہیں کہا کیونکہ منافقت کے یہ طور نہیں ہوا کرتے.ہاں پاگل ہو جائے کوئی تو پھر تکلیفیں اٹھاتا ہے ضرور اس لئے یہ بات بھی نہایت ہی لغو اور بے معنی ہے کہ جماعت دھو کے سے لوگوں کو داخل کرتی ہے اپنے اندر اور اس دھوکے سے بچانے کی خاطر ان سے مسلمان کہلانے کا حق چھین لیا گیا ہے جو بھی آرہا ہے اس وقت احمدی ہورہا ہے وہ جانتا ہے کہ مجھ سے کیا ہوگا؟ مجھے غیر مسلم کہا جائے گا، گھروں سے نکالا جائے گا، مارا جائے گا، تکلیفیں دی جائیں گی پھر آتا ہے وہ اس لئے اس کو منافق کہنے کا تو تمہارے لئے
خطبات طاہر جلد ۳ 387 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء کوئی جواز ہی کوئی نہیں اور یہ قانون تمہارا اپنا کیا حال کر دے گا اور کر رہا ہے.اس پر بھی غور کرو، ہم تمہیں نیک نصیحت کرتے ہیں وہ امت جو امت مسلمہ کے نام سے اس قانون کے نتیجے میں ابھرے گی اس کی شکل کیا ہوگی؟ احمدی تو اپنی سچائی کی وجہ سے چونکہ خدا کے قائل ہیں اور خوف رکھتے ہیں ، پتہ ہے ہم نے جان دینی ہے شدید تکلیفیں اٹھاتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ والسلام کا انکار نہیں کرتے اس لئے وہ تو کسی صورت میں اس مصنوعی تعریف کے اندر داخل ہو نہیں سکتے ان کے لئے رستے بند ہیں پہلے سے لیکن ایک دہریہ کے لئے تو یہ روک نہیں ہے.ایک دہر یہ کو تو کھلی چھٹی ہے جو چاہے کہے اس لئے پاکستان میں اگر ایک کروڑ دہر یہ بھی ہو تو اس قانون کی رو سے وہ سچا مسلمان کہلائے گا.ایک دہریہ کے لئے کون سی مشکل ہے یہ لکھ دینا کہ مسیح موعود علیہ السلام جھوٹے ہیں جو دل میں خدا کو بھی جھوٹا سمجھتا ہو اس کا وجود ہی تسلیم نہ کرتا ہو سارے نبیوں کو وہ جھوٹا لکھوانا ہو اس سے لکھوا لیں گے اس کے لئے کون سی مشکل ہے! اگر تعریف یہ ہوسچا مسلمان ہونے کی کہ اول سے لے کر آخر تک جتنے نبوت کے دعویدار تھے سارے ہی جھوٹے تھے تو شوق کے ساتھ یہ جو د ہر یہ ہیں یہ اس پہ دستخط کریں گے کہ ہاں ہم مسلمان بنتے ہیں تو ایک حضرت مرزا صاحب کا انکار ان کے لئے کون سا مشکل ہے؟ تو عملاً یہ ہو رہا ہے.پاکستان میں احمدیوں کے سوا جتنے مسلمان پیدا ہوئے ہیں ان میں دنیا کو علم ہے یہ کون انکار کر سکتا ہے اس بات کا کہ ان میں دہریہ شامل نہیں ہیں.وہ سارے کے سارے مسلمان ہیں اس تعریف کی رو سے کیونکہ وہ جھوٹ بول سکتے ہیں.پھر جو عدالتوں میں جھوٹی گواہی دینے کا عادی ہو جو اپنی منفعت کے لئے اسلام کو نظر انداز کرنے کا عادی ہو اس کے لئے کون سا مشکل ہے جھوٹ بولنا تو قانون اب یہ بن گیا کہ جو بچے ہیں جو سچائی کے لئے قربانی دینے پر آمادہ ہیں اور ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار ہیں وہ تو منافق ہیں اور جب تک غیر منافق قرار نہیں دیئے جائیں گے جب تک جھوٹ بول کر ہمارے اندر داخل نہ ہوں اور جو جھوٹ بولتے ہیں ان پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں شوق سے آئیں اور مہریں لگواتے رہیں کہ تم مسلمان ہو تم بھی مسلمان ہو اور تم بھی مسلمان ہو.یہ نقشہ نیا ایک شریعت کا ابھر رہا ہے پاکستان میں اور کوئی خوف نہیں کر رہا اور پھر اس کا بڑے فخر سے پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے ساری دنیا میں.تمام دنیا کی حکومتوں کو یہ لکھ لکھ کر بھیجا جارہا ہے کہ یہ وجہ تھی ہم اس لئے مجبور ہو گئے تھے
خطبات طاہر جلد ۳ 388 خطبہ جمعہ ۲۰ ر جولائی ۱۹۸۴ء احمدیوں کو منافق قرار دینے پر اور ان سے مسلمانی کا حق چھینے پر اول تو حق تمہیں دیا ہی کسی نے نہیں، یہ خدا کے کام ہیں، اللہ بہتر جانتا ہے کون مسلمان ہے کون نہیں ہے؟ جن کو مسلمان کہہ رہے ہو ان کا جائزہ تو لو بھی کوئی حقیقت میں اسلام کے قائل بھی ہے کہ نہیں ؟ کثرت سے اشترا کی ہیں ان میں جو خدا کا مذاق اڑاتے پھرتے ہیں.آج بھی پاکستان کے اخباروں میں رسالوں میں وہ تمسخر اڑا رہے ہیں اور کسی کو جرات نہیں کہ ان کو غیر مسلم کہہ سکے کیونکہ قانون ایسا بنا دیا اس قانون کی زد میں وہ نہیں آسکتے یہ تو ویسی بات ہے کہ رحمتیں تیری ہیں اغیار کے کا شانوں پر برق گرتی ہے تو بیچارے مسلمانوں پر عجیب قانون ہے کہ سوائے مسلمانوں کے کسی پر حملہ نہیں کرتا یعنی جو بچے ہیں اپنے دل کے ساتھ جن کو جھوٹ بولنے کی استطاعت نہیں ہے ان کو لا ز ما یہ نکال کر باہر کر دیتا ہے.باقی جہاں تک تعلق ہے دوسرے یعنی So Called دلائل مبینہ مزعومہ دلائل جوقر طاس ابیض میں دیئے گئے ہیں ان کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا انشاء اللہ ایک ایک حصہ اس کالے کر جماعت پر واضح کیا جائے گا اور میرا ارادہ ہے انشاء اللہ کہ اب چونکہ خدا تعالیٰ نے موقع میسر کر دیا ہے انہوں نے ساری دنیا میں یہ جھوٹ پھیلایا ہے اس لئے اس کا جواب جس جس ملک تک پہنچا ہے اس کی زبان میں ترجمے کروا کر کثرت سے تقسیم کروایا جائے گا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اب احمدیت کو ایک تبلیغ کا ایک بہت اچھا موقع میسر آ گیا ہے.عجیب بات ایک اور بھی ہے اس میں کہ ایک طرف تبلیغ بند کر دی ہے احمدیوں کے لئے دوسری طرف احمدیوں کے خلاف دلائل جاری کئے.سوچنا یہ چاہئے کہ اس کا مقصد کیا ہے؟ پاکستان کے متعلق سوچیں تھوڑی دیر کے لئے کہ وہاں جب احمدیوں کے خلاف دلائل سکھائے گئے مبینہ مسلمانوں کو تو یعنی ہم تو انہیں مسلمان ہی کہتے ہیں.مبینہ اس لئے میں کہہ رہا ہوں کہ سرکار کے حوالے سے ورنہ جہاں تک جماعت احمدیہ کا موقف ہے اس میں غلطی کوئی نہ لگے.جماعت احمدیہ ان کو غیر مسلم کبھی نہیں کہتی نہ بھی کہا ہے نہ آئندہ کہے گی.کفر دون کفر کا مسئلہ جہاں تک ہے اس کے اندر ہر فرقہ ایک دوسرے کو کافر کہتا رہا ہے اب بھی کہہ رہا ہے لیکن غیر مسلم کہنا اور بات ہے.غیر مومن کو کافر کہتے ہیں اور قرآن سے پتہ چلتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 389 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء خدا تعالیٰ نے خود فرمایا رسول ﷺ کو کہ ان کو کہ دوسم غیر مومن ہو، اسی کو کافر کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی غیر مسلم نہیں کہا نہ مجبور کیا کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم کہو، یہ دو الگ الگ اصطلاحیں ہیں.تو اس لئے جب میں کہتا ہوں مہینہ تو مراد یہ نہیں کہ ہم مسلمان نہیں تسلیم کرتے ہم تو یہ اقرار کرتے ہیں کہ جو منہ سے جو کہتا ہے، جس مذہب کی طرف منسوب ہوتا ہے اسے یہ حق بہر حال دیا جائے گا کہ وہ اس مذہب کی طرف منسوب ہو.جب ہم کہتے ہیں کا فر ہے تو مراد صرف یہ ہے کہ فی الحقیقت جہاں تک اس مذہب کے مغز کا تعلق ہے وہ اس سے عاری ہے اور مراد صرف اتنی ہے کہ جب وہ وفات پائے گا تو خدا تعالیٰ کے حضور حاضر ہوگا ، اس کے اعمال اس کو کافر بتا رہے ہوں گے یا اس کے بعض بدعقائد اس کو کا فر بتا رہے ہوں گے اس سے زیادہ اس ہمارے فتوے کی کوئی حقیقت نہیں.تو بہر حال یہ جو دوسرے مسلمان ہیں اس پاکستان میں ان کے متعلق ہم پر یہ پابندی ہے کہ ان کو تبلیغ نہیں کرنی حالانکہ یہ سوچا ہی نہیں گیا کہ تبلیغ تو دو دھاری تلوار ہوتی ہے ایک طرف سے بند ہو ہی نہیں سکتی جب تک دوسری طرف سے بند نہ ہو تو عوام الناس پاکستان کے بیچارے سوچ ہی نہیں سکے کہ ہوا کیا ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ ان پر بھی یہ پابندی عائد ہوگئی ہے کہ انہوں نے ہمیں تبلیغ نہیں کرنی اگر یہ نہیں ہے تو پھر یہ شکل نکلتی ہے حکومت پاکستان کا یہ فیصلہ ہوگیا کہ اگر احمدیوں کو کوئی غیر احمدی تبلیغ کرے تو انہوں نے نہایت خاموشی سے تبلیغ سننی ہے اور جواباً کچھ نہیں کہنا سمجھ آئے یا نہ آئے یک طرفہ بات سنتے چلے جائیں اور جواب میں کچھ نہ کہیں یہ قانون ہے، کہاں سے لیا ؟ قرآن سے حاصل کیا سنت محمد مصطفی ﷺ سے اخذ کیا ؟ آنحضور علے تو جب تبلیغ کرتے تھے تو دو پہلو نمایاں تھے.ایک یہ کہ دنیا کا کوئی فرد بشر آپ کی تبلیغ کے فیض سے باہر نہیں رہا نہ قرآن نے اجازت دی کہ کسی کو چھوڑ دو، یہودیوں کے پاس بھی گئے ، دکھ اُٹھا کر ماریں کھا کر بھی گئے، اور تبلیغ کی تو یہ کون سی شریعت ہے کہ احمدیوں کو تبلیغ نہیں کرنی اور اگر تبلیغ کرنی ہے تو پھر یہ سنت کہاں سے نکال لی کہ تم بولے جاؤ اور احمدی نہیں بولے گا کیونکہ آنحضرت ﷺ کا تو یہ تبلیغ کا نمونہ نہیں تھا.آپ تو گھنٹوں دیتے تھے غیروں کو ان کو تبلیغ کرتے تھے پھر ان کی باتیں سنتے تھے بڑے تحمل اور پیار سے سنتے تھے، بلکہ ایسے بھی تھے جو آ کر نہایت گستاخیاں کر جاتے تھے بڑی سخت گستاخیاں کر جاتے تھے گفتگو کے دوران اور ان کو موقع دیتے چلے جاتے تھے.
خطبات طاہر جلد ۳ 390 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء قُولُوا انْظُرْ نَا ( البقرہ: ۱۰۵) جو قرآن کریم میں حکم آتا ہے راعنا منہ بگاڑ کر نہ کہا کرو یہ کس طرف اشارہ ہے؟ یہ تو نہیں تھا کہ رسول کریم ﷺ کو علم نہیں ہوتا تھا کہ کیا ہورہا ہے ؟ گفتگو ہوتی تھی، مجالس ہوتی تھیں ، یہود آتے تھے کئی قسم کے سوال کرتے تھے، جواب دیتے تھے.تو رسول اللہ و تبلیغ کرسکتا ہے یہودی نعوذ باللہ من ذالک اور آپ کو تبلیغ نہیں ہو سکتی.یہ کون سا قرآن کریم نکالا ہے نیا؟ اور پھر آنحضرت علیہ تبلیغ کرتے تھے اور پھر جواب سنتے تھے اور نئی شریعت یہ ہے کہ تمہیں اگر تبلیغ کی جائے گی تو جواب کی اجازت نہیں ہوگی ورنہ تبلیغ ہی نہیں کی جائے گی.اگر نہیں کی جائے گی تو غیر شرعی طور پر باقی سب مسلمانوں کا حق تم نے چھین لیا، شریعت اسلامیہ کے مخالف حق ان سے چھینا اور اگر ہمیں جواب کی اجازت نہیں تو شریعت اسلامیہ کے مخالف ہمارا حق چھین لیا.جس پہلو سے اس کا تجزیہ کریں ہر پہلو احمقانہ ہے ایک بھی عقل والا پہلو اس میں نہیں.یہی وہ موقع ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے آلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدُ (ھود: ۷۹) کہ کیا ہو گیا ہے اے قوم تمہیں، کیا ایک بھی عقل والا تم میں باقی نہیں رہا ؟ غور کرو تم کہاں پہنچ گئے ہو ہر بات کو تم نے الٹ کر دیا ہے، ہر منطقی نتیجے سے محروم رہ گئے ہو اور علم نہیں ہو رہا تمہیں کہ کہاں پہنچا دے گی تمہیں یہ منطق ، تمہارے دلائل تمہیں کس طرف دھکیل کے لے کر جارہے ہیں.بس اب جو وائٹ پیپر ہے اس کا میں نے ذکر کیا کہ تفصیل سے میں بعد میں بتاؤں گا اس وائٹ پیپر میں تو یہی شکل بنتی ہے کہ ہماری شریعت کے مطابق ہم تمہارے اوپر جتنے چاہیں الزام لگاتے چلے جائیں، یہ تبلیغ ہے ہماری ہم تمہیں تبلیغ کر رہے ہیں لیکن تمہیں جواب کی اجازت نہیں.یہ سنت تو قرآن سے ثابت ہوتا ہے کفار کی تھی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تو نہیں تھی.وہ یہ کہتے تھے کہ اپنی باتیں کر لیا کرو اور جب وہ قرآن پڑھنے لگے آگے سے جب وہ جواب دینے لگے تو شور مچا دیا کرو کہ یہ نہیں ہم کرنے دیں گے.تو سنتیں بتا رہی ہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے؟ اپنے پاؤں پر تو کلہاڑی نہ ماریں اگر ہمیں غیر مسلم سمجھتے ہیں تو آپ تو مسلم بنیں.یہ میری نصیحت ہے آپ کو لیکن اگر نہیں بنتے اور لازماً جبر کا فیصلہ کر لیا ہے.تو پھر قرآن بیچارے کو الزام تراشی سے محفوظ رکھیں.آنحضرت ﷺ کے اسوہ حسنہ پر تو حملہ نہ کریں.کھل کر کہیں کہ ہم ایک نئی شریعت کے تابع ہیں جس کا نہ قرآن سے تعلق ہے نہ سنت سے کیسٹ کی ریکارڈنگ واضح نہیں ہے....کہ قر آن پر آپ حملہ
خطبات طاہر جلد ۳ 391 خطبہ جمعہ ۲۰ / جولائی ۱۹۸۴ء کر رہے ہیں اور ہمیں جواب کی اجازت نہیں.حضور اکرم ﷺ کی سنت کو بگاڑ رہے ہیں اور دنیا کے سامنے نہایت بھیا نک نقشہ پیش کر رہے ہیں اور ہمیں جواب کی اجازت نہیں.ٹھیک ہے جہاں بس چلتا ہے جواب کی اجازت نہ دیں لیکن جہاں ہمارا بس چلے گا ہم بڑی قوت اور بڑی فہم کے ساتھ ، حکمت کے ساتھ شرافت کے دائرے میں رہتے ہوئے کثرت سے جواب دیں گے.اس لئے احمدی کا فرض ہے کہ انفرادی طور پر بھی وہ جوابی کاروائی کے لئے تیار ہو جائے اور جب لٹریچر مہیا کیا جائے تو اس کی تقسیم میں بھی بھر پور حصہ لے.ایک پمفلٹ یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ والسلام اور احمدیت کے خلاف شائع کریں تو دس سو نہیں تو دس پمفلٹ تو ضرور سر دست شائع کیا جائے گا جواب میں اور پھر جب خدا توفیق بڑھائے گا تو پھر ایک کے جواب میں سو بھی ہم شائع کرنے لگیں گے انشاء اللہ تعالی.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: ایک اور نہایت ہی درد ناک اور بھیانک تازہ ظلم کی اطلاع آئی ہے.اس سلسلہ میں میں احباب جماعت کو دوبارہ دعاؤں کی طرف متوجہ کرتا ہوں اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے بہت دعا کریں.پہلے تو انہوں نے باجوہ صاحب (چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ) اور مولوی خورشید صاحب ( مولوی حکیم خورشید احمد صاحب) وغیرہ کے کیس میں ایک بالکل جھوٹا اور فرضی من گھڑت کیس ان کے خلاف بنالیا اور کہا کہ یہ بوڑھے بیچارے اور بیمار یہ ایک مولوی کو اغوا کر رہے تھے اس وقت پکڑے گئے اور جب دنیا میں اس کے خلاف احتجاج ہوا تو ایک گند دوسرے گند پر مائل کر دیتا ہے ایک جھوٹ دوسرے جھوٹ کی انگیخت کر دیتا ہے.انہوں نے اس ظلم کے اوپر مزید ظلم یہ کیا کہ وہ جو دو نوجوان پکڑے ہوئے تھے ان پر اتنے دردناک اور ہولناک مظالم کئے ہیں پولیس نے کہ ان کے تصور سے بھی آدمی کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.ایسی بھیانک ایسی بے حیائی کے ساتھ ان پر ظلم کیا گیا ہے کہ اسلام کے نام پر جھوٹ اگلوانے کے لئے اس قدر مظالم ! تعجب ہے کہ ان کو کوئی خوف ہی نہیں ہے کہ ہم نے ایک خدا کو جان بھی دینی ہے کہ نہیں.اس اطلاع کے متعلق تو ہدایت دے دی ہیں کہ ساری دنیا میں اس واقعہ کو مشتہر کرنا چاہئے.اور سزا یہ دے رہے تھے کہ ان بڑھوں کو شامل کرو اور تحریر لکھ کے دو ہمیں کہ تم بھی اغوا کرنا چاہتے تھے اور وہ دونوں بھی اغوا کروانا چاہتے تھے اور ان کی ہدایت پر تم اغوا کر وار ہے تھے تا کہ دنیا سے جو احتجاج
خطبات طاہر جلد ۳ 392 خطبہ جمعہ ۲۰ ؍ جولائی ۱۹۸۴ء آرہے ہیں ان کو پھر وہ تحریر شائع کر کے دکھا دیں کہ یہ دیکھ لو حریر اور ایک ایک رات میں بعض دفعہ پانچ پانچ دفعہ وہ بے ہوش ہوئے ماریں کھا کھا کر اور ننگے بدن کر کے ان کو گاؤں والوں کو دعوت دی گئی کہ آئیں ان کو دیکھیں اور انتہائی گندی مغلظات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اور ان کے والدین اور ان کے عزیزوں کے خلاف جو گندی گالیاں سوچی جاسکتیں ہیں وہ دی گئیں اور پھر بلیڈوں سے ان کو چیرا گیا اور ان کے اوپر مرچیں چھینکی گئیں ، الٹے لٹکائے گئے یہاں تک کہ اسی حالت میں وہ بے ہوش ہوئے.ہر دکھ جو آپ سوچ سکتے ہیں وہ ان کو دیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو استقامت عطا فرمائی اور باجوہ صاحب اور ان بیچارے مظلوم کے متعلق انہوں نے آخر وقت تک نہیں بیان دیا اور جب یہ دیکھا کہ اب ہمارے پاس چارہ کوئی نہیں رہا اس سے زیادہ تو پھر موت رہ گئی تھی باقی تو اب اس کیس کو پولیس نے سفارش کر دی ہے کہ مارشل لاء میں آزمایا جائے کیونکہ سول ہتھیار جو ہمارے پاس تھے وہ تو ہم نے استعمال کر لئے یہ تو ہتھکنڈے ہیں نا سول Civil ان سے بڑھ کر تو سول Civil کے پاس ہتھکنڈا کوئی نہیں ہے.ہاں مارشل لاء جس کو چاہے موت کی سزا دے دے تو اب وہ کیس مارشل لاء میں بھجوایا جارہا ہے تو دعا کریں ان لوگوں سے واسطہ ہے اس وقت اسلام کو اور اسلام پر یہ ہیں ظلم کرنے والے انتہائی خوف ناک.اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے اور باز رکھے کیونکہ یہ معاملہ تو اتنا بڑھ چکا ہے کہ اس کے بعد پھر خدا کی طرف سے سوائے اس کے کہ ایسی قوموں کی ہلاکت کی تقدیر لکھ دی جائے پھر اور کچھ رہتا نہیں باقی.اپنی بے حیائی میں اور ظلم اور سفا کی میں اور سچائی کو جھٹلانے میں یہ ایک حد سے آگے نکل چکے ہیں.بظاہر تو واپسی کی صورت نظر نہیں آرہی مجھے لیکن دعا کرنی چاہئے ہمارا فرض ہے، ہمارا اپنا وطن ہے، ہمیں اس سے محبت اور پیار ہے کہ چند شریروں کی وجہ سے سارے وطن پر عذاب آجائے اور مصیبت پڑے اس کا بھی تو ہمیں ہی دکھ پہنچنا ہے.ان کو کہاں سے اس کا دکھ ہوگا ؟ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے یہ دعا کی تحریک جو کر رہا ہوں خاص طور پر یا درکھیں.راتوں کو اٹھیں تہجد میں ، دن رات ان بھائیوں کے درد کی حالت کو سوچ کر اور اپنی اس نعمت کی حالت کو سوچ کر کہ آپ آرام میں پھر رہے ہیں خاص طور پر ان کے لئے دعائیں کرتے رہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 393 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء مخالفین انبیاء کا بندش تبلیغ اور قتل مرتد کا مطالبہ خطبه جمعه فرموده ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: قَالُوا لِنُوحُ قَدْ جَدَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَالَنَا فَأْتِنَا بِمَا تَعِدُ نَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصُّدِقِينَ.(هود: ۳۳) قَالُوا لَبِنْ لَّمْ تَنْتَهِ يُنُوْحُ لَتَكُونَنَّ مِنَ الْمَرُجُوْمِينَ ) (الشعراء: ۱۱۷) لَنُخْرِجَنَّكَ يُشُعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ مِنْ قَرْيَتِنَا أوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كُرِهِينَ (الاعراف : ۸۹) ہمارا غیر احمدی علما کے ساتھ جو اختلاف ہے اس کی تفاصیل پر غور کر کے دیکھیں تو یہ ایک عجیب بات سامنے آتی ہے کہ بنیادوں پر اتفاق ہوتے ہوئے بھی اور سو فیصدی اتفاق ہوتے ہوئے بھی بنیادی اختلافات موجود ہیں.یہ حیرت انگیز تضاد ہے جو بظاہر سمجھ نہیں آسکتا لیکن جب میں اس کی تفصیل بیان کروں گا تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ بالکل یہی صورت ہے یعنی بنیادوں پر
خطبات طاہر جلد ۳ 394 خطبہ جمعہ ۲۷/ جولائی ۱۹۸۴ء سو فیصدی اتفاق ہے.اس کے باوجود آپس میں بنیادی اختلافات انہیں امور پر موجود ہیں جن میں بنیادی اتفاق ہے مثلاً غیر از جماعت علما جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ مرتد کی سزا قتل ہے اور قرآن سے ثابت ہے اور تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی یعنی باطل کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ حق کو تبلیغ کرے.اس میں ہمارا اور ان کا کوئی بھی بنیادی اختلاف نہیں کیونکہ یہ امر واقعہ ہے کہ قرآن سے یہ ثابت ہے سو فیصدی قطعی طور پر ثابت ہے کہ جب سے مذہب کی تاریخ معلوم ہے ہمیشہ سے یہی دستور چلا آیا ہے کہ مرتد کی سزا قتل قرار دی گئی اور تبلیغ کی اجازت نہیں دی گئی ان کی طرف سے جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور دوسرے کو باطل پر سمجھتے تھے.تو جماعت احمد یہ اس حقیقت کا کیسے انکار کرسکتی ہے جو قرآن سے ثابت ہو اور مذہب کی تاریخ سو فیصدی اتفاق کے ساتھ اس کے حق میں گواہی دیتی ہو.جن آیات کریمہ کی میں نے تلاوت کی ہے متفرق سورتوں میں سے، اُن میں اسی مضمون کو بیان کیا گیا ہے مثلاً حضرت نوح کو مخاطب کر کے ان کی قوم نے کہا قَدْ جَدَلْتَنَا فَأَكْثَرْتَ جِدَ النَّار نوح! تو نے بہت تبلیغ کرلی ہمیں ، بہت جھگڑا کیا ہم سے حد ہی کر دی ہے تو نے تبلیغ کی لیکن اب مزید اجازت نہیں دی جاسکتی.اب تو یہی ہوگا کہ جس چیز کا تو دعوی کرتا ہے کہ تمہیں بطور سزا ملے گی اب اپنے رب کو پکارو اور سزا کی دعائیں کرو اس سے زیادہ ہم مزید تمہیں تبلیغ کی اجازت نہیں دے سکتے.تو جب قرآن کریم بتا رہا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے انھوں نے ان لوگوں کو جن کو وہ باطل پر سمجھتے تھے تبلیغ کی اجازت نہیں دی تو ہم یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کریم میں یہ موجود نہیں، یہ تو بنیادی حقیقت ہے.پھر یہ کہنا کہ مرتد کی سزا قتل نہیں ہے یہ بالکل غلط بات ہے.قرآن کریم سے ثابت ہے کہ مرتد کی سزا قتل ہے یعنی بعض لوگوں کے نزدیک اور مذہب کی تاریخ اس کو ثابت کرتی ہے.چنانچہ اگلی آیت میں جو میں نے تلاوت کی تھی اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے حضرت نوح کو مخاطب کر کے ان کی قوم نے کہا کہ اب تو تیرا علاج سوائے اس کے کوئی نہیں ہے کہ تجھے سنگسار کر دیا جائے کیونکہ تبلیغ سے تو باز نہیں آرہا اور مرتد کرتا چلا جارہا ہے ، باتوں سے نہیں مانا اس لئے اب ہمیں مقابل پر عمل کرنا پڑے گا.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ حق کھلی چھٹی دے دے فتنے کی اور باطل کھل کھیلے اور جو چاہے کرتا چلا جائے حق کے ساتھ یہ تو اجازت نہیں دی جاسکتی اس لئے چونکہ ہم تمہیں باطل پر سمجھتے ہیں اور چونکہ ہم یقین رکھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم تمہیں زبر دستی روکیں تو نے فتنہ پھیلانے میں کوئی کسر
خطبات طاہر جلد ۳ 395 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء چھوڑی نہیں ہے باز نہیں آرہے، سمجھا یا تمہیں کئی دفعہ کئی طریقے سے کہ بس کرو کافی ہو گئی لیکن رک نہیں رہے، تو اس فتنے کا تو پھر یہی علاج ہے کہ تمہیں سنگسار کر دیا جائے.حضرت شعیب کی قوم نے بھی اُن سے یہی سلوک کیا.چنانچہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ انھوں نے کہا.لَنُخْرِجَنَّكَ يُشْعَيْبُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَكَ کہ اے شعیب! تمہارا ہم نے یہ علاج سوچا ہے کہ تمہیں سنگسار تو نہیں کریں گے لیکن تمہیں اپنے گھروں سے بے وطن کر دیں گے، تمہارے تمام شہری حقوق چھین لیں گے.اَو لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا یا تمہیں واپس ہماری ملت میں لوٹ کر آنا ہوگا یعنی ارتداد کی ایک یہ بھی سزا سوچی گئی.وہ کہتے رہ گئے اَوَلَوْ كُنَّا کر ھیں کہ اگر دل نہیں مانے گا تو کیسے تمہاری ملت میں لوٹ آئیں گے لیکن کسی نے ایک نہیں سنی.یہی مضمون قرآن کریم آگے بڑھاتا چلا جاتا ہے اور متفرق سورتوں میں قصص انبیاء کے طور پر جو واقعات بیان فرماتا ہے، اس میں یہی مضمون مختلف رنگ میں مختلف شکلوں میں مختلف مواقع کے اوپر قرآن کریم کھولتا چلا جارہا ہے.فرماتا ہے اُس کے بعد ابراہیم کی باری آئی اور ابراہیم سے بھی یہی کہا خود اس کے چچا آذر نے جسے باپ کا بھی مقام حاصل تھا اس لئے بطور باپ کے بیان کیا گیا ہے.اس نے یہی کہا کہ تو باز آجاور نہ تجھے سنگسار کر دیا جائے گا اور پھر یہ بھی کہا ان کی قوم نے کہ تمہارا تو اب اس کے سوا علاج نہیں کہ جلتی ہوئی آگ میں جھونک دیا جائے کیونکہ ارتداد کو کوئی قوم دنیا میں برداشت نہیں کر سکتی.کیسے ہو سکتا ہے کہ ملت میں فتنہ برپا کیا جارہا ہو اور بنیادی امور میں اختلاف ہو اور پھر جس قوم کو اکثریت حاصل ہے، جس کو طاقت حاصل ہے، وہ آنکھیں بند کر کے اجازت دے دے کہ جو چاہے، جتنا چاہے فتنہ پھیلا تا چلا جائے، کوئی حد ہونی چاہئے.تمہارا علاج اس کے سوا کوئی نہیں کہ تمہیں زندہ آگ میں جلا دیا جائے.پھر قرآن کریم حضرت شعیب کے علاوہ صالح کا بھی ذکر فرماتا ہے.ہود کا بھی ذکر فرماتا ہے حضرت لوط کا بھی ذکر فرماتا ہے اور ہر طرح پھیر پھیر کر تصریف آیات کے ذریعے اس بات کو ثابت کرتا چلا جاتا ہے کہ مذہب کی معروف تاریخ سے لے کر حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کے زمانے تک ہمیشہ انسان نے یہ حق اپنے لئے اختیار کیا، اسے اپنایا اور اس پر عمل کیا.چنانچہ حضرت لوط
خطبات طاہر جلد ۳ 396 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء کو مخاطب کرتے ہوئے ان کی قوم نے جو کہا اُس کا ذکر کرتے ہوئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَا كَانَ جَوَابَ قَوْمِةٍ إِلَّا أَنْ قَالُوا أَخْرِجُوهُمْ مِّنْ قَرْيَتِكُمْ ۚ إِنَّهُمُ اُ نَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ (الاعراف:۸۳) بڑے پاکباز بنے پھرتے ہیں یہ لوگ ، لوط اور لوط کے ماننے والے، ان کا تو ایک ہی علاج ہے کہ اگر یہ اتنے پاکباز بنتے ہیں تو اپنے شہروں سے ان کو نکال دو اور بے وطن کر دو.تو کوئی ایک بھی نبی ایسا نہیں ہے جس کے زمانے میں یہ دونوں واقعات دہرائے نہ گئے ہوں.بہت سی آیات میں خدا تعالیٰ کھول کر بیان فرماتا ہے کہ یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ تم باطل پر ہو ہم حق پر ہیں، ہمارے آباؤ اجداد کا مذہب چلا آ رہا ہے ، تم نے بدامنی پھیلا دی ہے، تم نے فتنہ وفساد برپا کر دیا ہے، تم ایک کو دوسرے سے الگ کر رہے ہو، ہر قسم کے بظاہر جائز عذرتراشے گئے لیکن بنیادی دعویٰ یہی تھا کہ وہ انسان جسے اکثریت حاصل ہوا سے یہ لازمی حق ہے کہ اقلیت کو اگر وہ جھوٹ پر سمجھے تو اُسے تبلیغ کی اجازت نہ دے اور اختلاف مذہب کے نتیجے میں نہ صرف جبر کا حق ہے بلکہ اگر کوئی ہماری قوم میں سے نکل کر دوسرے عقیدے میں داخل ہو جائے تو اسے قتل کرنے کا بھی حق ہے.آنحضرت ﷺ کے زمانے میں بھی بعینہ یہی ہوا اور قرآن کریم کھول کر اس مضمون کو بیان فرما رہا ہے اور تاریخ اسلام اس پر خوب تفصیل سے روشنی ڈال رہی ہے کہ یہی دو باتیں آپ کے وقت میں بھی بیان کی گئیں کہ تم ہماری ملت سے پھر رہے ہو اس لئے تمہارا علاج موت ہے اور ہر قسم کی سزائیں دینا ہمارا حق ہے کیونکہ ہم اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں ،تمہیں باطل پر سمجھتے ہیں اور تبلیغ کی اجازت نہیں دی جاسکتی.کسی قیمت پر یہ نہیں ہوگا کہ باطل جو چاہے فساد پھیلاتا پھرے، فتنے کھڑا کرے اور حق چپ کر کے سنتار ہے اور تبلیغ کی اجازت دے دے.یہ کیسے ممکن ہے؟ چنانچہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے ساتھی شدید تکلیفوں اور مصائب کے باوجود جب تبلیغ سے رکے نہیں تو وہ مشہور واقعہ جو عام طور پر مسلمان بچوں کو بھی علم ہے وہ پیش آیا کہ ابو طالب کے پاس اُن کی قوم گئی اور بڑا واویلا کیا اور کہا کہ دیکھو تمہاری پناہ حاصل ہے تمہارے بھتیجے کو لیکن چونکہ اب فتنہ و فساد کی حد ہوگئی ہے اور ہمارے معبودوں کو وہ گالیاں دیتا ہے، انہیں جھوٹا قرار دیتا ہے، جن کی ہم عزت کرتے ہیں ان کو بے عزت کرتا ہے اور ہماری قوم میں افتراق پیدا کر رہا ہے اس لئے اب مزید
خطبات طاہر جلد ۳ 397 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی.صرف اس حالت میں وہ یہاں رہ سکتا ہے کہ اب خاموش رہے اور تبلیغ نہ کرے.چنانچہ حضرت ابو طالب حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے.اور کہا میرے بھتیجے، میرے بیٹے ، اس طرح قوم مجھ سے کہہ رہی ہے.اور صرف یہی نہیں کہ رہی بلکہ وہ اس پیشکش کے ساتھ کچھ مراعات بھی تمہیں دینا چاہتی ہے اور پیغام یہ ہے کہ اگر تم یہ چاہتے ہو کہ عرب کا بادشاہ بن جاؤ تبلیغ کا مقصد یہی ہوگا کہ ساری قوم تمہارے پیچھے لگ جائے، تمہیں اکثریت حاصل ہو جائے اور حکومت کے بھوکے ہو تمہیں حکومت عطا ہو جائے تو تبلیغ چھوڑ دو حکومت ہم تمہیں دیتے ہیں.یہ کون سی بات ہے، حکومت سے ہمیں کوئی اختلاف نہیں ، حکومت ہم دینے کے لئے تیار ہیں.وہ قوم موجودہ زمانے کی قوموں سے اس لحاظ سے ضرور مختلف تھی.آج کل کہتے ہیں حکومت نہیں دینی اور جو مرضی کر لو لیکن اُن قوموں میں اتنی عقل تھی کہ اصولوں کی حفاظت کرتے تھے.وہ کہتے تھے ہمیں اصولی اختلاف ہے ،حکومت کی لالچ نہیں ہے اس لئے حکومت بے شک لے لو لیکن اصول نہیں ہم توڑنے دیں گے بہر حال بہت بہتر نمونہ تھا اس لحاظ سے.چنانچہ حضرت ابوطالب نے پیغام جاری رکھا اور فرمایا کہ دیکھو وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر تمہیں دنیا کی حسین ترین عورت چاہئے ہو کیونکہ انسانی زندگی کی جو دوڑ ہے، جو جد و جہد ہے اس میں حکومت بھی ہے اور عورت کی تمنا بھی ہوتی ہے اور بے انتہا فساد جو سوسائیٹیوں میں پھیلا ہوا ہے اس میں یہی چاہت پیچھے سے کام کر رہی ہے.چنانچہ کیسا اچھا نفسیاتی تجزیہ کیا انہوں نے ، انہوں نے کہا تم انگلی رکھو اور عرب کی حسین ترین دوشیزہ ہم تمہارے خدمت میں حاضر کر دیں گے لیکن تبلیغ سے باز آ جاؤ.پھر انہوں نے کہا کہ ایک تیسری چیز جس نے ساری دنیا میں فساد برپا کر رکھا ہے وہ دولت ہے تو ہوسکتا ہے ان کی خواہش یہ ہو کہ عربوں میں تبلیغ کر کے جب حکومت بنالوں گا تو سارے عرب کی دولت سمیٹ لوں گا، دکانداری بنانی ہے.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اگر دولت کی بحث ہے تو پھر فساد چھوڑ و، دولت ہم دینے کے لئے حاضر ہیں، سارے عرب کی دولت تمہارے قدموں پر نچھاور کر دیں گے لیکن تم خاموش ہو جاؤ.آنحضرت عل خاموشی سے اور بڑے درد سے اس بات کو سنتے رہے اور پھر فرمایا کہ اے میرے چچا! معلوم ہوتا ہے آپ مجھے پناہ دیتے دیتے تھک گئے ہیں.اور اب چاہتے ہیں کہ اپنی پناہ کو اٹھا لیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ مجھے تو آپ کی پناہ کی ضرورت نہیں مجھے تو میرے خدا کی پناہ کی ضرورت
خطبات طاہر جلد ۳ 398 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء ہے اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ آپ اپنی پناہ ہٹاتے ہیں اور کوئی شکوہ نہیں آپ اپنی پناہ کو دور کر لیجئے مگر جہاں تک ان کے پیغام کا تعلق ہے خدا کی قسم اگر یہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ پر بھی لا کر رکھ دیں اور چاند کو میرے بائیں ہاتھ پر لا کر بھی رکھ دیں تب بھی میں تبلیغ اسلام سے باز نہیں آؤں گا.یہ جواب تھا حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا.(السیرۃ النبوی لا بن هشام جلد۲ صفحہ: ۱۰۱۹۷) تو اس دور تک جو سید الانبیاء کا دور ہے، اس وقت تک تو یہ دستور نہیں بدلا تھا.ہم یہ کہتے ہیں کہ تمہیں بھی اتفاق ہے اس پر.یہ تاریخ متفق علیہ ہے ، قرآن کی بیان کردہ ہے اور سنت نے اس کی حفاظت فرمائی ہے کہ اختلاف صرف اتنا ہے کہ اب یہ بتاؤ کہ یہ پھر دستورالٹا کس وقت ہے.کب یہ فیصلے ہوئے تھے؟ کس کتاب میں اس کا ذکر ملتا ہے کہ خدا تعالیٰ نے اچانک اس سارے مضمون کو الٹا دیا ہو.جن لوگوں پر لعنتیں ڈالتا آیا ہو اور ساری تاریخ میں اُن لوگوں کا ذکر کر کے ان پر لعنتیں ڈالی ہوں کہ کیسے ظالم لوگ تھے کہ اس وجہ سے کہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے تھے اور کسی کو باطل پر سمجھتے تھے.انسانی بنیادی حقوق پر تبر رکھ دیا اور با ہمی تبادلہ خیالات کی روکو روک دیا جس کے بغیر نہ انسانی عقل ترقی کر سکتی ہے، نہ معاشرہ ترقی کر سکتا ہے، نہ صداقت پنپ سکتی ہے اور سزائیں تجویز کیں اختلاف عقیدہ کے نتیجے میں تبادلہ خیالات پر اور وہاں دخل دیا جہاں انسان دخل دے نہیں سکتا یعنی دل کے او پر حملہ کیا اور کہا کہ اس دل کو بدلاور نہ ہم تمہیں قتل کر دیں گے کیونکہ ایمان اور یقین کا تعلق تو دل سے ہے یعنی جسے عام دنیا کے عرف عام میں دماغ بھی کہا جاتا ہے لیکن قرآنی محاورے میں اسے دل کہتے ہیں تو کہتے ہیں دل تبدیل کرو ورنہ ہم تمہیں قتل کریں گے.یہ جنگ چلی آرہی ہے جب سے مذہب کی تاریخ ہمیں معلوم ہے جس کی قرآن نے حفاظت کی اور اُسے بار بار دہرایا اور ہر مرتبہ قرآن کریم نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ لوگ ہلاک ہو گئے فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ (الدخان: ۳۰) ان کے اوپر آسمان نے پھر آنسو نہیں بہائے اس طرح ان کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا کہ ان کے نشان مٹ گئے ، ان دو جرائم کے نتیجے میں کہ وہ تبلیغ سے روکتے تھے اور قتل مرتد کا عقیدہ رکھتے تھے اور کہتے یہ تھے بات کو سجا کر اور بنا کر کہ ہمارے آباؤ اجداد کا مذہب ہے ، ہم حق پر ہیں تم باطل پر ہو ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں، کھلم کھلا مفتری سمجھتے ہیں اس لئے ہمیں یہ حق ہے.اختلاف ہمارا اور غیر احمدیوں کا صرف اتنا ہے کہ ہم کہتے ہیں یہاں تک تو درست ہے لیکن یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 399 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء بتاؤ کہ یہ دستور بدلا کب ہے کہ حق نے وہ ساری باتیں اختیار کر لی ہوں جس پر لعنتیں ڈالتا آیا تھا اور باطل کے ذمہ وہ ساری خوشنودیاں لگا دی ہوں وہ اچھے دستور لگا دیئے ہوں جس کی قرآن کریم تعریف کرتا چلا آیا تھا کہ بڑے صبر اور حوصلے سے انہوں نے ان باتوں کو برداشت کیا.وہی بات ہے کہ پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا (فیض) اور پرانی قومیں قیامت کے دن خدا کو مخاطب کر کے کہ کیا یہ نہیں کہیں گی کہ اے خدا! تیرے قرآن میں جو سب سے اعلیٰ کتاب بیان کی گئی ، سب سے کامل کتاب اسے کہا گیا، اس نے تاریخ میں ہمارا ذ کر کیا اور ان دو عقیدوں کی بنا پر ہم پر لعنتیں ڈالیں اور پھر کیا واقعہ ہو گیا کہ نعوذ باللہ من ذالک سید ولد آدم کے مذہب کو تو نے خود ویسا ہی بنا دیا ہے جس پر تو لعنتیں ڈالتا چلا آ رہا ہے اس سے بڑا ظالمانہ الزام حضور اقدس علوے کے پاک مذہب پر نہیں لگایا جاسکتا.اس لئے دل آزاری ہماری ہوتی ہے نہ کہ ان کی تبلیغ سے دل آزاری کی کوئی سند قرآن کریم میں موجود نہیں لیکن یہ ظالمانہ فعل کہ سید ولد آدم جس کا مذہب سب سے زیادہ پاک، سب سے زیادہ حسین جو رحمتہ للعالمین ہو اور اس کا مذہب بھی تمام رحمت ہی رحمت ہو اس پر یہ الزام کہ اس نے از خود سارے زمانے کے دستور کو بدل کر مکروہ چیزیں نعوذ باللہ اپنے پہلے میں رکھ لیں اور جو حسین چیزیں تھیں وہ دشمن کے ہاتھ میں پکڑا دیں اتنا جاہلانہ تصور ناممکن ہے کہ آنحضور ﷺ کے ساتھ سچی محبت ہو اور پھر بھی کوئی اختیار کر جائے.جہالت کی بھی تو کوئی حد ہونی چاہئے.لیکن یہ بھی نہیں سوچتے کہ قرآن کریم ان معنوں میں بھی کامل کتاب ہے کہ جو وہ تعلیم دیتی ہے اس کے برعکس پر عمل ممکن ہی نہیں ہے یعنی اختیار کی بات نہیں رہتی انسان کے لئے.رشد اس کو کہتے ہیں کہ ایسی تعلیم جس کا انکار کرنے کی تو تمہیں اجازت ہوگی لیکن جب تم اس پر عمل کرنے لگو گے تو بے بس پاؤ گے اپنے آپ کو، بے اختیار ہو جاؤ گے اور کوئی چارہ نہیں رہے گا..چنانچہ دیکھنے مقتل مرتد کے عقیدے کے نتیجے میں کیا نتیجہ پیدا ہوتا ہے؟ بالکل برعکس نتیجہ ان مقاصد کے برعکس پیدا ہوتا ہے جن مقاصد کے نام پر قتل مرتد کا عقیدہ جاری کیا گیا یعنی اس لئے کہا گیا قتل مرتد جائز ہے کہ حق کی حفاظت کی جائے اور جھوٹ کو اور باطل کو اپنی سوسائٹی سے باہر نکال کے پھینک دیا جائے.یہ دعوی ہے، اگر یہ دعوی سچا ہے تو قتل مرتد کے عقیدے پر عمل کر کے دیکھئے کہ نتیجہ کیا
خطبات طاہر جلد ۳ 400 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء نکلتا ہے.ظاہر بات ہے بالکل معمولی سی عقل بھی رکھتا ہو انسان تو اسے یہ بات سمجھ آجائے گی کہ جس سوسائٹی میں قتل مرتد کا عقیدہ رائج کر دیا جائے وہاں جو لوگ صادق القول ہیں اور جو اپنے ظاہر و باطن میں ایک ہیں ان میں کوئی نفاق نہیں ہے اور وہ سچائی کی خاطر ہر قربانی دینے کے لئے تیار ہیں.ایسے وہ لوگ جو انسانیت کا خلاصہ ہیں، یہ سارے قتل کر دیئے جائیں گے کیونکہ ایک بھی ان میں سے پیچھے نہیں ہٹے گا.وہ کہے گا کہ سچ کے نام پر میں سچ کا انکار کیسے کر سکتا ہوں کیونکہ میرا دل کہتا ہے کہ یہ بات درست ہے اس لئے تم بے شک اسے باطل سمجھو میں جب تک درست سمجھتا رہوں گا.اس وقت تک میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ میں اسے جھوٹ کہہ دوں.یہی وہ جواب تھا حضرت شعیب کا اَوَلَوْ كُنَّا کر میں 10 مقو! دعوی وہ کر بیٹھے ہو ، جس پر عمل کروا نہیں سکتے.ہمارے دل ہی نہیں مان رہے تو کیسے تلوار سے دل منوالو گے.پس تمام وہ لوگ جو بچے ہیں اپنے قول اور فعل میں اور ان کے کردار میں کوئی تضاد نہیں وہ اصول کے رسیا ہیں اور اصولوں پر قائم رہنا جانتے ہیں.ایسی سوسائٹی میں ان کا قتل عام ہو جائے گا اور ایک بھی نہیں بچے گا اور وہ جو جھوٹے ہیں، بد کردار ہیں جو منافق بنا پسند کرتے ہیں اپنے لئے اور اصولوں کی کوئی قیمت نہیں سمجھتے وہ سارے کے سارے قتل مرتد کے نتیجے میں اس سوسائٹی میں لوٹ جائیں گے جس کی طرف انہیں بلایا جا رہا ہے.اعلان یہ ہورہا تھا کہ حق کی حفاظت کی خاطر باطل کو مٹانے کے لئے ہم نے یہ فعل کیا.نتیجہ یہ نکلا کہ حق کو مٹا دیا اور باطل کو سینے سے لگالیا اور منافقت کی پرورش کی.قرآن کریم میں انبیاء کے آنے کی غرض یہ بیان فرمائی گئی لِيَمِينَ اللهُ الْخَبِيْثَ مِنَ الطيب (الانفال: (۳۸) کہ اللہ تعالیٰ خبیث چیز کو طیب سے الگ کر دے اور قتل مرتد کے عقیدہ نے نتیجہ کیا پیدا کیا کہ خبیث کو الگ نہیں ہونے دینا اگر ہو بھی گیا تھا کمبخت کہیں، تو واپس لے آؤ اور اچھی طرح طیب میں ملا جلا دو تا کہ کچھ سمجھ نہ آئے دانہ صاف کون سا ہے اور گندہ کون سا ہے؟ یہ نہیں سوچا کہ ایک قطرہ پیشاب بکری کا اگر دودھ میں مل جائے یا ایک مینگنی بھی مل جائے تو سارا دودھ گندہ ہو جاتا ہے.تو جتنی محنت کی تھی انبیاء نے جتنی قربانیاں دی تھیں اور سب سے بڑھ کر حضرت اقدس محمد مصطفیٰ نے محنت فرمائی اور قربانیاں دیں اس ساری محنت کو اس ایک عقیدے کے ذریعہ ضائع کر دیا بلکہ بالکل برعکس نتیجہ پیدا کر دیا.وہ کمائی محنت کی جس کے نتیجے میں خبیث الگ ہورہے تھے اور پاکیزہ
خطبات طاہر جلد ۳ 401 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء الگ ہورہے تھے اور اس کے لئے ایک باقاعدہ دستور العمل جاری کیا گیا تھا اور وہ دستور عمل یہ تھا کہ پاکیزہ کے لئے ضروری قرار دے دیا کہ بختی کی چھانٹی میں سے گزرو تکلیفوں اور مصیبتوں میں سے نکل کر دکھاؤ تب ہم مانیں گے تم پاکیزہ ہو اور جو خبیث تھے ان کے لئے یہ دستور العمل مقر فر مایا کہ تم پر کوئی حرج نہیں تم زندگی کے عیش کرو، جو چاہو لذتیں حاصل کرو اور تمہیں قربانی پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہاں اگر فساد برپا کرنا ہو تو پیسے لے کر کسی سے بیشک کرو، کھلی چھٹی ہے لیکن جن کو ہم طیب بنانا چاہتے ہیں ان کے لئے یہ دستور ہے کہ وہ قربانیاں بھی دیں اور پھر پیسے بھی ساتھ خدا کی راہ میں خرچ کریں.غریب ہوتے ہوئے بھی اپنے آپ کولٹا ئیں اللہ کی راہ میں، یہ دستور العمل تھا جو ہمیشہ سے چلا آ رہا ہے اور آنحضرت کو کے زمانے تک جاری رہا اور اب پھر جاری ہے ان کی نظر میں جن کی نظر اندھی نہیں ہوگئی ان کو تو نظر آ رہا ہے.تو اس ساری محنت کو جو تاریخ کی گہرائیوں میں پیوست چلی آرہی ہے اُس کو آنا فانا باطل کر کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کر دیا کہ نہیں، باطل کو حق سے الگ نہیں ہونے دیا جائے گا.مارکر، جوتیاں مار کر تکلیفیں دے کر قتل کر کے زندہ جلا کر ، گھروں سے نکال کر ، سب ہتھیار استعمال کر کے واپس لے آیا جائے گا اپنی ملت میں اور کہا جائے گا تم یہیں سجتے تھے تم یہیں آجاؤ اور جو بچے ہیں ان کو قتل و غارت کر کے ختم کر دیا جائے.یہ ہے وہ دستور جس کے اوپر بڑے بڑے وقت کے علم اتنی لمبی لمبی تقریریں کر رہے ہیں.حیرت ہوتی ہے ان کو دیکھ کر ان کی شکلیں دیکھ کر یہ کہ کیا ر ہے ہیں؟ کس کی طرف منسوب ہورہے ہیں؟ جہاں تک تبلیغ کا تعلق ہے اس میں بھی چونکہ قرآن کی تعلیم کے خلاف بات ہے اس لئے نہیں چل سکتی.میں نے ایک دفعہ بڑی تفصیل سے غور کر کے دیکھا تو حیران رہ گیا کہ قرآنی تعلیم کا یہ امتیاز ہے ایک عجیب کہ دنیا کی ہر دوسری تعلیم سے کہاس تعلیم کو چھوڑ کر اگرتم عمل کرنے کی کوشش کرو گے تو نا کام ہو جاؤ گے.عمل کر ہی نہیں سکتے اور عمل کرو گے اگر زبردستی تو نتیجہ الٹ نکلے گا.اس کو کہتے ہیں حق کا کھلم کھلا بینات کے طور پر واضح ہو جانا یعنی کسوٹی ہے کہ آپ استعمال کر کے دیکھ لیں اسلامی تعلیم کو چھوڑ کر بر عکس اختیار کریں.نتیجہ الٹ جائے گا ساتھ ہی.تو یہ یقین ہو گیا کہ یہ تعلیم اپنی تمام تفاصیل میں سچی ہے.تبلیغ کے متعلق دیکھیں وہاں بھی یہی صورت حال نظر آئے گی.کہتے ہیں باطل کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ حق کو تبلیغ کرے کیا اس کے نتیجہ میں اس کا برعکس بھی درست ہے کہ حق کو اجازت نہیں دی جاسکتی کہ باطل کو تبلیغ
خطبات طاہر جلد۳ 402 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء کرے؟ کہتے ہیں نہیں، بالکل درست نہیں.حق کو حق ہے کہ باطل کو تبلیغ کرے.یہاں تک تو بات سمجھ میں آ گئی.آگے چلئے تبلیغ کیسے کرے کہ تم یہ بات مان جاؤ اور اگر نہیں مانو گے تو ڈنڈے ماریں گے اور اگر نہیں مانی تو نہ مانولیکن آگے سے جواب دینے کا حق تمہیں کوئی نہیں ہے.تمہیں سمجھ آئے یا نہ آئے تم خاموشی سے سنتے رہو.یہ تبلیغ کا دستور کہاں سے لیا گیا ہے؟ یہ تو ساری قرانی تاریخ اس دستور کو جھٹلا رہی ہے ، بخشیں ہوا کرتی تھیں بلکہ برعکس نتیجہ تھا.قرآنی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انبیاء دلائل پیش کرتے تھے اور وہ ڈنڈوں پر آجاتے تھے مخالفین اور وہ کہتے تھے بس کرو اب ورنہ آیا ڈنڈا اور انبیاء کہتے رہ جاتے تھے کہ تبلیغ کرو ہمیں هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ (البقرہ:۱۱۲) ایک جگہ نہیں متعدد جگہ قرآن کریم میں یہ آیت موجود ہے اسی مضمون کی کہ بار بار انبیاء کہتے رہے کہ دلیل تو لاؤ بھائی؟ دلیل سے بات کرو.وہ کہتے تھے دلیل دلیل ہم نہیں جانتے اب کافی ہوگئی ہے اب ہم ڈنڈا اٹھا ئیں گے تو یہ بلیغ تھی انبیاء کی نعوذ باللہ من ذالک، وہ کہتے تھے کہ مانو ورنہ ہم اٹھاتے ہیں ڈنڈا اور یہ چل نہیں سکتی یہ تو ویسی تبلیغ ہے جیسے کسی بادشاہ کا بت تھا جو ایک کسی زمانے میں لاہور میں چیرنگ کر اس میں نصب ہوتا تھا.اس کے ایک ہاتھ میں تلوار تھی اور ایک ہاتھ میں قلم تھا اور انسکر پشن (Inscription) یہ بتاتی تھی کہ باتوں سے مان جاؤ ورنہ تلوار گرے گی اور زبردستی تمہیں ٹھیک کریں گے.یہ برٹش حکومت کا خلاصہ تھا جو اس بت کی شکل میں بیان کیا گیا کہ زبان سے مانو ورنہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے پھر لاتیں بھی آئیں گی پیچھے.تو یہ وہ انگریزی قوم کی تبلیغ تھی جو کہ نعوذ باللہ من ذالک قرآن کریم نے اختیار کرلی ہے یا جسے سنت انبیاء فرمایا نعوذ باللہ من ذالک.بالکل نہیں.وہ تبلیغ جو تم کہتے ہو چل ہی نہیں سکتی پس اگر یہ کہو گے کہ ہماری باتیں سنو اور جواب میں تمہارے ذہن میں کوئی بھی خیال آئے اس کو تمہیں بتانے کا حق نہیں تو پھر تبلیغ کا راستہ عملاً بند کر دیا یعنی حق کی تبلیغ کا راستہ بند کر دیا کیونکہ جب تک شکوک بیان نہ کئے جائیں اُس وقت تک کسی انسان پر تبلیغ کارگر نہیں ہوسکتی.تو کہنا یہ چاہتے تھے کہ باطل کی تبلیغ کا رستہ بند کر رہے ہیں، نتیجہ یہ نکالا کہ حق کی تبلیغ کارستہ بند کر دیا اپنے ہاتھوں سے، بالکل برعکس نتیجہ ہے اور اگر اجازت دے دیں ان کو بولنے کی تو پھر ہاتھ کیا آیا ؟ وہ جب جواب دیں گے وہی تو ان کی تبلیغ ہے.جب وہ کہیں گے کہ میاں ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی ہمیں تو قرآن کریم یوں لگتا ہے کہ یہ کہہ رہا ہے تو کیا وہ تبلیغ نہیں ہوگی ؟ تو کس طرح بند کریں گے؟ ناممکن ہے سوائے اس کے کہ خود کشی کی جائے اور تبلیغ کا
خطبات طاہر جلد ۳ 403 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء بالکل برعکس نتیجہ پیدا کر دیا جائے ، اس وقت تک یہ قانون جاری ہی نہیں ہوسکتا کسی ملک میں.تو کتنا عظیم الشان کلام ہے خدا کا، کیسا حسین اور کامل ہے کہ برعکس اختیار کرنے کے اجازت ہی نہیں دیتا.زور لگا کے دیکھ لوتم نا کام اور نا مراد رہ جاؤ گے اور قرآنی تعلیم کے برعکس تعلیم کو جاری نہیں کر سکتے یا جاری کرو گے تو برعکس نتیجے بھی ساتھ حاصل کرو گے.اپنے مقصد کے نتائج کے حاصل نہیں کر سکتے.لیکن جب قوموں کی عقلیں ماری جاتی ہیں تو پھر یہی ہوا کرتا ہے.اصل بات یہ ہے کہ یہ بھی نہیں سوچا جارہا کہ اس کے دوسرے لوازمات کیا ہیں اور اس کے بعد میں پیدا ہونے والے اثرات دنیا پر کیا ہوں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ سارے عالم میں اسلام کی تبلیغ بند کرنے کی اس سے بہتر ترکیب کسی ظالم کو نہیں سوجھ سکتی تھی کیونکہ اگر ایک ملک میں کوئی انسان اپنی اکثریت کی بنا پر یہ حق منوالے کہ چونکہ ہم اکثریت میں ہیں اور ہم حق پر ہیں، یہ یقین رکھتے ہیں اپنے آپ کو کہ ہم حق پر ہیں.حق پر ہونے کا انسانی نسبت کے لحاظ سے اس سے زیادہ معنی کیا ہی نہیں جاسکتا کیونکہ Absolute اور غیر مشروط فیصلہ سوائے خدا کے کوئی نہیں کر سکتا لیکن یہ ضرور ہے کہ بہت سے انسان بعض باتوں پر پیدا ہوتے ہیں، ورثے میں حاصل کرتے ہیں اور موت تک وہ کامل یقین اس بات کا رکھتے ہیں کہ ہم حق پر ہیں اور ہمارے مخالفین باطل پر ہیں اور ایک لمحہ کے لئے بھی ان کو اس بات میں شک نہیں پڑتا.تو اگر دنیا کے کسی ملک میں کوئی اکثریت یہ فیصلہ کرے کہ چونکہ عقلاً باطل کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ حق میں فتنہ پھیلائے اور پھسلا کر اور کئی طریقے اختیار کر کے ہماری آدمی توڑنے شروع کر دے اور اقلیت کو اکثریت میں بدلنے لگ جائے.یہ ملک میں اتنا بڑافتنہ کسی نظریاتی مملکت میں برداشت نہیں کیا جاسکتا.یہ نظریاتی مملکت کا محاورہ بھی اشتراکیوں سے ایسا سیکھا ہے بعض لوگوں نے کہ عقلیں گم ہوگئی ہیں سوچتے ہی نہیں کہ یہ کیا محاورہ ہم نے اختیار کر لیا ہے اور چونکہ رائج ہو چکا ہے اس لئے بغیر سوچے سمجھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ بھی اس کو چپ کر کے تسلیم کر رہے ہیں کہ کسی نظریاتی مملکت میں اس نظریہ کے خلاف بات تسلیم نہیں کی جاسکتی یعنی اس کو اجازت نہیں دی جاسکتی.کل تک تو اشترا کیوں کو ظالم قرار دیتے تھے، کہتے تھے حد ہوگئی ، اندھیر نگری ہے کہ نظریات کے اوپر پہرے بٹھا دیئے ہیں اور آج یہ اتنا منجھا ہوا محاورہ بن گیا ہے کہ بڑے بڑے بظاہر تعلیم یافتہ لوگ بھی اسے با قاعدہ دلیل کے
خطبات طاہر جلد ۳ 404 خطبہ جمعہ ۲۷/ جولائی ۱۹۸۴ء طور پر پیش کرتے ہیں کہ نظریاتی مملکت میں اجازت نہیں دی جاسکتی.چونکہ یہ اس کے پس منظر میں بعض بڑی طاقتیں کام کر رہی ہیں ، مذاہب سے کھیل رہی ہیں اس لئے ان کی انٹیلی جینس کے بنائے ہوئے محاورے ہیں یہ سراسر اس سے زیادہ ان کی کوئی حقیقت نہیں ہے.بہر حال اس اصول کو اگر تسلیم کر لیا جائے تو یہ تسلیم کئے بغیر یہ اصول تسلیم ہو ہی نہیں سکتا کہ انسان کو حق ہے کہ جس بات کو حق سمجھے اور یقین کرے اگر اس کا زور چلے تو اس کے برعکس بات سننے سے بھی انکار کر دے اور سنوانے کی اجازت بھی نہ دے کسی کو ، سنانے کی اجازت بھی نہ دے اور کسی کو سنے کی بھی اجازت نہ دے.یہ بنیادی حق جب تک انسان کا تسلیم نہ ہو کسی مذہب کو اس کے اختیار کرنے کی اجازت دی نہیں جاسکتی.تو جب آپ تسلیم کرلیں گے تو وہاں تو تبلیغ اسلام اس طرح بند ہوگئی ملک میں کہ اگلے بیچارے کو بولنے کی اجازت نہیں.وہ بولے گا تو مار کھائے گا نہ بولے گا تو ایمان گنوائے گا.اس بیچارے کے لئے تو نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن ، کوئی صورت ہی نہیں رہتی گا.اس سوائے اس کے کہ دل ہی دل میں مذہب سے متنفر ہونا شروع ہو جائے اور کہے کہ سارا قصہ ہی بکواس ہے یہ ظلم اور خدا کے نام پر ! ہم کیسے یہ مان سکتے ہیں.تو وہاں تو نا کام ہوگیا یہ اور غیر ممالک کا جہاں تک تعلق ہے وہ اس حق کو استعمال کریں گے.چنانچہ ہندوستان ہے وہاں ہندو اکثریت ہے اور وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں اور مسلمانوں کو بالکل باطل سمجھتے ہیں اور ان کی کتاب کی تعلیم ہماری کتاب کی تعلیم سے مختلف ہے.وہ بگڑی ہوئی تعلیم جو انہوں نے ورثے میں پائی ہے اس کی روسے تو ہر غیر کو انتہائی ظالمانہ تکلیفیں دے کر ختم کرنا عین ثواب ہے.یہ عجیب بات ہے کہ اس کو اپنا لیا گیا ہے وہاں سے اور اختیار کیا جارہا ہے لیکن میں قرآن کا مقابلہ کر رہا ہوں.اگر چہ آج کل بعض مسلمان کہلانے والوں نے بھی یہ ہند و تعلیم اپنالی ہے لیکن قرآن میں اس کا ذکر نہیں اس لئے جب میں کہتا ہوں کہ قرآن کے مقابلے پر ان کی یہ ظالمانہ تعلیم ہے تو بالکل درست کہ رہا ہوں بہر حال ان کو حق ہے اور اگر وہ اس حق کو استعمال کریں تو چند لاکھ، چند نفوس کو تباہ و برباد کرنے کے نتیجے میں چودہ کروڑ مسلمانوں کے لئے ہلاکت کے سامان پیدا کر لیں گے اور جائز حق دے دو گے بظاہر ایک قوم کو.بعینہ یہی سوال جو 1953ء کی تحقیقاتی عدالت تھی اس میں جسٹس منیر نے مولانا مودودی
خطبات طاہر جلد ۳ 405 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء صاحب سے کیا اور بڑے ذہین آدمی تھی بڑی باریک بین نظر تھی ان کی.انہوں نے مولانا مودودی صاحب سے سوال کیا کہ مولانا آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ حق حاصل ہے ہمیں کہ چونکہ ہم حق پر ہیں اس لئے باطل کو نہیں پنپنے دیں گے اور باطل کے خلاف ڈنڈا استعمال کریں گے اور یہ عقلی بنیادی حق انسان کو حاصل ہے.اگر یہ بات درست ہے تو انہوں نے پوچھا کہ آپ کے ہمسائے میں ہندوستان ہے کیا ہندوؤں کو بھی آپ یہ حق دیں گے یا اُن کو انسانیت سے ہی خارج کر دیں گے تو مولانا مودودی نے فرمایا کہ ہاں ہندو کو بھی ہم حق دیں گے.انہوں نے کہا بہت اچھا اگر ہندو کو حق دیں گے تو وہ آپ کو اچھوت بنائے گا اپنے مذہب کے مطابق اور یہ یہ مظالم کرے گا اور اگر گزرتے ہوئے کسی وقت آپ کے کان میں وید کی آواز پڑ جائے تو سیسہ پگھلا کر اس کان میں ڈالا جائے گا.اگر سایہ پڑ جائے کسی ہندو کے کھانے کی جگہ پر تو عذاب دے کر مروایا جائے گا اور یہ تفاصیل اور یہ ہندو مذہب ہے وہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتے ہیں.تو کیا آپ کے نزدیک یہ ٹھیک ہے؟ انہوں نے کہا بالکل درست ہے، ہمیں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کہ ہندوستان کے مسلمانوں پر کیا ظلم ہوتے ہیں ، ہم تو قائم رہیں گے اس بات پر.یہاں پہنچ جاتا ہے انسان جب حق کو چھوڑتا ہے.بس قرآن کریم کی تعلیم اپنے حسن کو زور سے منواتی ہے یعنی زور دلیل سے، عقل کی قوت سے اور بے اختیار کر کے رکھ دیتی ہے مقابل کے باطل کو ، اس کی پیش ہی نہیں جانے دیتی.جب ایک غلط قدم اٹھا لیں گے تو مخالف پر غلط قدم اٹھتے اٹھتے بالکل برعکس نتائج پیدا ہوں گے، مسلمان قوم کی حفاظت کی بجائے مسلمان قوم کی ہلاکت کے سامان پیدا کرلیں گے اگر آپ قرآن کی تعلیم سے پیچھے ہٹیں گے اور ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ بند کیونکہ Reciprocal Basis پر کام چلتا ہے آج کل، پہلے بھی چلا کرتا تھا ، اب بھی چلتا ہے، آئندہ بھی یہی ہوگا.جب ایک قوم میں کسی دوسرے نظریہ کے حقوق کو تلف کیا جائے تو دوسری قوم انہیں حقوق کو خود استعمال کرتی ہے پھر دوسرے کے مقابل پر تو اس سے زیادہ ظالمانہ سکیم، ایسی خوفناک سازش جس دماغ میں آئی ہے یا جن دماغوں میں اس نے پرورش پائی ہے ان کا تو بعد میں اگر وہ اجازت دیں تو معلوم کرنا چاہئے کہ کس نوع کے وہ دماغ تھے کہ ہر بات میں الٹ.خود کشی کا اس سے زیادہ خوفناک طریقہ سوچا ہی نہیں جا سکتا اور پھر قرآن کی طرف منسوب کیا جارہا ہے نعوذ باللہ من ذالک، رسول اکرم علی کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے.تو
خطبات طاہر جلد۳ 406 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء جب یہاں تک دستور پہنچ جائے.تو پھر واقعہ وہی بات رہتی ہے کہ اب تم چھوڑ دو اس بات کو ، اب خدا سے وہ مانگو جس کا تم ہمیں وعدہ دیا کرتے تھے.اس بات میں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ پرانی قومیں عقل کے لحاظ سے بہتر تھیں کئی باتوں میں، بعض نتیجے وہ بالکل درست نکالتے تھے.وہ کہتے تھے کہ جب ہم نے حد ہی کر دی ہے ظلم کی تم پر تو اب اس کے سوا اور رستہ ہی کوئی نہیں رہا کہ تم جس خدا کی طرف منسوب ہوتے ہو جس کے برتے پر ناچ رہے ہو اور ایسی بڑی بڑی باتیں کرتے ہو پھر اس کو بلا ؤ ، اب تو ہمارا فیصلہ وہی کرے گا اور قرآن ان کے اس دعوے کو تسلیم کرتا ہے اور یہی اعلان کرتا ہے بعد میں کہ ہاں پھر یہی ہوگا.اب تمہارا اور ہمارا معاملہ ختم ہے اب ہمارے خدا کا اور تمہارا معاملہ ہے اور پھر تم سے وہی سلوک کرے گا جو اس سے پہلے اس کردار کے لوگوں سے سلوک ہوتا چلا آیا ہے.اس لئے دعائیں بہت کریں کثرت سے کریں، ابھی یہ مضمون آگے بڑھ رہا ہے رک نہیں گیا.جو دلوں میں بغض ہیں وہ ابھی پوری طرح کھل کر نہ باہر آئے ہیں نہ ان کی پیاس بجھی ہے کیونکہ جہنم کی یہ تعریف قرآن کریم نے بتائی ہے کہ اس کی پیاس نہیں بجھا کرتی اور یہ ایسی ایک لازمی حقیقت ہے، ایسی غیر مبدل حقیقت ہے کہ ہمیشہ کے لئے یہ دستور جاری ہے کوئی اس کو بدل نہیں سکتا کہ محبت کی پیاس تو بجھ جایا کرتی ہے وصل سے لیکن نفرت کی پیاس انتقام کے باوجود نہیں بجھا کرتی.بھڑک جاتی ہے اور بھی، کہتے ہیں اور بھی کچھ بوهَلِ امْتَلَاتِ جب پوچھا جاتا ہے تو کہتی ہے هَلْ مِنْ مَّزِيْدِ ( ق :۳۱) کہ اللہ میاں ابھی کہاں ابھی کچھ اور ڈال، ہماری آگ میں ذرا اور بھی بھڑ کن پیدا ہوتو زیادہ لطف آئے گا، تو یہ سلسلہ ختم نہیں ہوا.خدا کی تقدیر کے سوا کوئی طاقت نہیں ہے جو اس سلسلے کو ختم کر سکے اس لئے بار بار گر یہ وزاری کے ساتھ خدا کی طرف جھکیں اور جھکتے چلے جائیں اور بے صبری نہ دکھا ئیں کیونکہ بے صبری دعاؤں کو کاٹ دیا کرتی ہے اور بے صبری ہمیشہ کفر پر منتج ہو جایا کرتی ہے اور پھر ایسے بڑے بول انسان بولنے لگ جاتا ہے کہ ہم تو مٹ گئے سجدوں میں، ہم تو اتنا روئے ، کہاں تھا وہ خدا وہ تو کہیں نہیں آیا ہماری مدد کے لئے ؟ بے صبری تو پھر وہیں پہنچا دے گی.جہاں شیلے کو جو انگرینPoet تھا اس کے بے صبری نے پہنچایا تھا.چند غاروں میں جا کے آواز میں دیں کہ خدا ہے، ہے کہ نہیں ہے اور گونج پیدا ہوتی رہی اس کے سوا اس کو کچھ حاصل نہ ہوا اور تھوڑی دیر کے بعد اعلان کر دیا میں تو سب غاروں میں پھر آیا ہوں ،
خطبات طاہر جلد ۳ 407 خطبہ جمعہ ۲۷ جولائی ۱۹۸۴ء آواز میں دے آیا ہوں، خدا کوئی نہیں ہے.تو مومن کے لئے بے صبری ایک زہر قاتل کا حکم رکھتی ہے اسی لئے قرآن کریم میں بے انتہاء صبر پر زور دیا ہے.صبر کے ساتھ دعائیں کرتے چلے جائیں اور یہ فیصلہ کر لیں کہ اگر ہمیں ہزار سال کی بھی زندگی ملے اور نعوذ باللہ، اللہ تعالیٰ نے ہزار سال سے لمبی آزمائش ہماری مقدر کر دی ہو تو ہم اپنے رب کا دامن نہیں چھوڑیں گے اور کوئی کلمہ کفر اس کے مقابل پر نہیں کہیں گے.ہم بندگی کا حق ادا کرتے رہیں گے اور یہ عرض کرتے رہیں کہ اے مالک! تو اپنی مالکیت کے حق جب چاہے ادا کرے ہمارا کچھ بھی نہیں ہے.یہ روح آپ پیدا کریں پھر دیکھیں کہ خدا تعالیٰ کس طرح کائنات کو آپ کی خاطر تبدیل کر دے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: دو جنازے غائب ہیں جو نماز کے بعد پڑھے جائیں گے یعنی نماز عصر کے بعد.آج چونکہ خدام کا اجتماع ہے اس لئے آج انشاء اللہ جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہو جائے گی اور اس کے بعد دوست کھڑے ہو جائیں دوبارہ صف بندی کر لیں تا کہ دو نماز جنازہ پڑھے جائیں گے غائب.ایک محمد ادریس ہیں جو پرانے صدر انجمن کے ایک ڈرائیور تھے محمد اسماعیل صاحب، بڑے مخلص تبلیغ کا بڑا شوق رکھنے والے، اُن کا بائیس سالہ جوان بیٹا ان ہنگاموں کے دوران پہاڑی پر ڈیوٹی دے رہا تھا تو وہاں کہیں پاؤں رپٹ گیا اس کا اور پہاڑی سے گرا تو پھر جانبر نہیں ہوسکا صدموں سے.تو یہ بھی ایک شہادت کا ایک رنگ ہے اور یقیناً شہادت کا رنگ ہے.دوسرے ہمارے ایک کراچی کے بہت پرانے خادم سلسلہ عبدالرحیم صاحب مدہوش وہ بھی ایک حادثے میں وفات پاگئے.چونکہ خدمت دین میں ان کو ایک نمایاں حیثیت حاصل رہی ہے، بہت پرانے کراچی کے خادموں میں سے صف اول میں تھے اس لئے ان دونوں کی نماز جنازہ عصر کے بعد ہوگی.عصر کے بعد یہ جو ہمارے خدام یا انصار باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں ان میں سے جو غیر ملکی یعنی پاکستان کے نقطہ نگاہ سے غیر ملکی اور جن ملکوں سے آئے ہیں وہاں کے ملکی ہیں حقیقی ، وہ مجھے مل لیں فوراً بعد.باقی پھر انشاء اللہ دوبارہ ملاقات ہوگی لیکن ایک دفعہ ان سے مصافحہ ہو جائے یعنی جرمنی سے آنے والے جرمن اگر ڈنمارک سے کوئی ڈین آیا ہوا ہے تو وہ بھی اگر سویڈین سے کوئی سویڈ آیا ہوا ہے وہ بھی یہ میری مراد ہے وہ بھی نماز کے فوراً بعد یہاں مل لیں مجھے جب رستہ بنایا جائے تو یہاں کھڑا کر دیں انہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 409 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء اسلامی شعائر اختیار کرنے کی سزا کا قانون خطبه جمعه فرموده ۳ را گست ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًا (الاحزاب :۲۲) الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيُّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَالَّذِي أُنْزِلَ مَعَةً أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ، قُلْ يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعَا الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُخي وَيُمِيتُ فَامِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ النَّبِيِّ الْأُمِّيِّ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ b
خطبات طاہر جلد ۳ 410 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء تَهْتَدُونَ (الاعراف: ۱۵۸-۱۵۹) اور پھر فرمایا: آج کل جماعت احمدیہ کو جو اسلامی عبادات اور شعائر سے روکا جا رہا ہے اس کی بڑی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ تم ہماری نقالی کرتے ہو اور ہم تمہیں اپنی نقالی کی اجازت نہیں دے سکتے.یہ ایک ایسا مذہب کی دنیا میں ایک عجوبہ تصور ہے کہ سارے انسان کی تاریخ میں کبھی ایسا واقعہ اس سے پہلے نہیں ہوا.نقالی کرنے کے جرم میں اگر سزا دی گئی ہے تو صرف ایک مذہب میں یہ واقعہ ملتا ہے اس لئے یہ کہنا تو درست نہیں کہ ساری دنیا میں یہ واقعہ نہیں ہوا ہاں ایک مذہب میں ایسا واقعہ ضرور گزرا ہے کہ جس میں نقالی کے جرم میں بعض لوگوں کو سزائیں دی گئیں اور مذہب کا حصہ بنا کر دی گئیں اور وہ ہندو مذہب ہے.ہندومت میں جو مختلف ذاتوں کے تصور ہیں ان کی رو سے جو برہمن کو عبادت کے حقوق ہیں وہ شودر کو حاصل نہیں اس لئے وہ جو برہمن کی عبادتیں ہیں ان میں اگر شودر بھی شامل ہو جائے اور وہی باتیں شروع کر دے جو برہمن کرتے ہیں تو اس کیلئے ایک سزا مقرر ہے بلکہ کئی سزائیں مقرر ہیں مثلاً اگر وہ اللہ کا ذکر اس رنگ میں سنے جس رنگ میں برہمنوں کے لئے سنے کا حکم ہے تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلایا جائے گا اور اگر وہ دیکھے ان باتوں کو جن باتوں کو برہمن کو دیکھنے کا حکم ہے تو اس کی آنکھیں اندھی کر دی جائیں گی.غرض یہ کہ برہمن کا مذہب اور ہے اور شودر کا مذہب اور ، اور یہ سارے ہندو مذہب کے تابع ہی ہیں اس لئے اس مذہب میں ایک مثال ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ کہ ایک ہی مذہب کے اندر دو مختلف طبقوں کو تعلیم دی گئی ہے یعنی یہ نہیں کہا گیا کہ اچھے کام کی نقالی منع ہے بلکہ ایک مذہب کے دو حصے بنا کر ان کے ذمہ الگ الگ عبادتیں کی گئی ہیں.لیکن بہر حال اس کی سند موجود ہے.ہم سے جو یہ کہا جا رہا ہے تم ہماری نقالی نہ کرو اس کے لئے تو قرآن کریم میں کوئی سند موجود نہیں.اس کے لئے دیگر مذاہب میں ہندومت کو چھوڑ کر دیگر مذاہب میں بھی کوئی سند موجود نہیں اور ہمیشہ اس کے برعکس نظارے نظر آتے ہیں.اگر کوئی شخص نقالی نہ کرے بلکہ مخالفت کرے تو یہ برا
خطبات طاہر جلد ۳ 411 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء منایا جاتا ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا میں بڑی بڑی سمجھدار قوموں نے ہمیشہ اپنی تہذیب کی نقالی کروا کر حکومت کی ہے اور بر عکس طریق کو پسند نہیں کیا چنانچہ آپ دیکھیں کہ انگریزی حکومت کا جب عروج تھا تو خصوصیت کے ساتھ یہ اپنی تہذیب کی نقالی کرواتے تھے.رنگ تو نہیں بدل سکتے تھے جو کالے تھے وہ کالے ہی رہتے تھے لیکن ادائیں ساری صاحبوں والی ہو جاتی تھیں.وہی اٹھنا بیٹھنا وہی معیار وہی صبح کے وقت نماز کے لئے عادت نہ بھی ہو اٹھنے کی تو بیڈ ٹی کی خاطر اٹھنا پڑتا تھا.تو ساری ادا ئیں اس قوم نے اپنی دے دیں غلاموں کو غلام بنانے کے لئے اپنے رنگ میں رنگین کر کے.تو ایسی چیزیں ملتی ہیں رومن ایمپائر کے متعلق بھی جب وہ عروج پرتھی یہی پتہ چلتا ہے کہ لوگ رومن ایمپائر میں رہنے والوں کی نقل کیا کرتے تھے.انگریزی میں ایک محاورہ بھی ہے While in Rome do as Romans do جب تم روم میں جاؤ تو وہی کیا کرو جیسار و من کرتے ہیں کیونکہ اچھا لگتا ہے اس میں ہم آہنگی پیدا ہو جاتی ہے تو ایسی مثالیں تو ملتی ہیں کہ غیر قوموں نے اپنی نقالی پر مجبور کیا ہو.چنانچہ آج کل ہندوستان میں ہندومذہب کے برخلاف بعض مسلمانوں کو اپنی نقالی پر مجبور کیا جارہا ہے کیونکہ انہوں نے یہ بات سیکھ لی ہے مغربی قوموں سے کہ جب تہذیب میں اپنے ساتھ شامل کر لو تو قو میں اثر کے تابع آجایا کرتی ہیں.چنانچہ کلکتہ میں خصوصیت کے ساتھ ایک دفعہ مجھے دیکھنے کا موقع ملا.عام طور پر مسلمانوں کی تہبند اور طرح باندھی جاتی ہے اور ہندو اور طرح تہبند باندھتے ہیں اسی طرح پگڑی کے انداز میں بھی فرق ہے لیکن وہاں مجھے دیکھ کر یہ بڑا دکھ پہنچا کہ مسلمانوں نے ہندؤوں جیسی تہبند باندھنی شروع کر دی اور انھیں کی طرح پگڑیاں پہننے لگ گئے اور جب میں نے پتہ کیا بعض مسلمان لیڈروں سے اس بات پر گفتگو کی تو انہوں نے کہا ہمارا بھی فائدہ ہے ان کا بھی فائدہ ہے.وہ پسند کرتے ہیں اس بات کو ہم ان جیسے ہو جائیں تو وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پھر اس پر کوئی اعتراض نہیں رہتا.ہمارا معاشرہ ایک ہو جائے گا اور ہمیں فوائد ہیں یہ جو راہ چلتے لوگ چھرا گھونپ دیتے ہیں وہ تو نہیں گھو نہیں گے پھر.تو ہندوستان میں بھی اپنے مذہب کے برخلاف عقل والی قوموں سے عقل سیکھی اور اپنے پیچھے چلانے کے لئے وہی رخ سکھائے ان کو جو رخ ان کے اپنے تھے تا کہ ذہنی طور پر یہ ہمارے تابع ہو جائیں.لیکن ہم سے جو یہ کہا جارہا ہے کہ تم ہماری نقالی نہ کرو اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے، بہت دکھ ہوتا ہے.یہ ایک عجیب واقعہ ہے جس کے اندر کوئی بھی عقل کا پہلو مضمر نہیں ، نہ ظاہر ہے نہ
خطبات طاہر جلد ۳ 412 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء باطن، عقل سے کوئی دور کا بھی اس بات کو تعلق نہیں اس لئے اس کے مختلف پہلو میں آج آپ کے سامنے کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں کیونکہ عام طور پر جب کوئی غیر احمدی مسلمان احمدیوں کو کہتا ہے کہ تمہارا کیا حق ہے؟ ہمارے جیسے کیوں بنتے ہو؟ چھوڑ دو بننا، کیا فرق پڑتا ہے تمہارا مذہب اور ہے تمہیں ہم نے غیر مسلم کہ دیا ہے.تو عام بیچارے جو سادہ لوح احمدی ہیں ان کو پوری طرح جواب بن نہیں پڑتا کہ کیا کہیں؟ دل تو گواہی دیتا ہے کہ بالکل لغو بات کر رہا ہے لیکن مجلس میں دوسروں کو سمجھانے کی خاطر کھل کر کیا تجزیہ ہونا چاہئے اس کا کیا اس پر تبصرہ ہونا چاہئے؟ ان باتوں سے بعض احمدی بے بہرہ ہیں اس لئے تفصیلی تربیت کی خاطر مجھے یہ چیزیں باری باری لینی پڑی رہی ہیں یعنی موضوع کے طور پر ان کو میں چن رہا ہوں باری باری.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر کسی مذہب کا بھی Patent ہوسکتا ہو اور وہ مذہب والے یہ پسند نہ کریں کہ دوسرے اسے اختیار کریں تو ان کو Patent کروانے چاہئیں مذہب.ساری دنیا میں Patent کا ایک رواج ہے اس کو اخذ کریں اور اپنے اپنے مذاہب Patent کروائیں کہ جو شخص بھی اس مذہب کی نقل کرے گا اس کے اوپر یہ سزا یا یہ جرمانہ ہوگا اس کو.مذہب کے قانون کے تابع تو کوئی سزامل نہیں سکتی مذہب کی نقالی کی اس لئے دنیا کے قانون کے رو سے ہوسکتی ہے سزا جیسا کہ Patent کی ہو جایا کرتی ہے تو اگر دنیا میں یہ ممکن ہو تو وہ ایسا کر سکتے ہیں.لیکن سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہم ان کی نقالی کرتے نہیں ہیں بلکہ ان کی نقالی سے ہمیں کراہت آتی ہے.جھوٹ بول رہے ہیں کہ ہماری نقالی کرتے ہو.ہم ان کی نقالی کیسے کر سکتے ہیں نہ تو ہم ان کی طرح اذان سے پہلے گانے گاتے ہیں ، نہ اذان کے بعد وہ پڑھتے رہتے ہیں کچھ اور گھنٹہ گھنٹہ لوگوں کو تکلیف پہنچاتے ہیں ، ان کے گھروں کے آرام میں مخل ہوتے ہیں، بیماروں کو تکلیف.پہنچاتے ہیں بجائے اس کے کہ آنحضرت ” کی اذان پر عمل کیا جائے آپ " کی سنت پر عمل کیا جائے ، آج کل جو اذانیں دی جارہی ہیں ان کے تو رنگ ہی بالکل مختلف ہیں.صبح بعض دفعہ اذان سے پہلے آدھ آدھ گھنٹہ ہمارے ربوہ میں تو مولوی صاحب خاص طور پر تنگ کرنے کی خاطر بعض دفعہ کئی کئی گھنٹے پہلے گانے گایا کرتے تھے اور بعد میں پتہ چلا کہ وہ Recorded ہوتے تھے.ان کو کیا ضرورت تھی خوامخواہ آپ بھی ساتھ اٹھیں، ان کا مقصد تو لوگوں کو تنگ کرنا تھا اس لئے وہ ٹیپ ریکارڈر
خطبات طاہر جلد ۳ 413 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء میں پنجابی کے گانے بھر لیتے تھے اذان سے پہلے اور پھر اذان کے بعد ایک اور گانوں کا سلسلہ اور گالیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا تھا.تو آپ کی نقالی کریں تو ہم تو ایسی اذانیں دیں پھر.ہم تو حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کی نقالی کرتے ہیں آپ لوگوں کی نقالی سے ہماری طبیعت متنفر ہے، کراہت پاتی ہے کیونکہ ایسی ایسی ادا ئیں آپ نے اختیار کر لی ہیں جن کا ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی عمل سے کوئی بھی تعلق نہیں تھا ہمارے ہاں بھی شادیاں ہوتی ہیں ، ہمارے ہاں بھی لوگ فوت ہوتے ہیں ہم کب آپ کی نقالی کرتے ہیں کبھی بھی نہیں کی.سادگی سے شادیاں ہوتی ہیں نہ بینڈ باجے ، نہ ڈھول ڈھمکے، نہ اسراف نہ دکھاوے، نہ نمائشیں ، نہ نیوندرے ڈالنا.کون سی ادا ہم نے آپ کی سیکھی ہے جس سے آپ کو تکلیف ہورہی ہے؟ ہمارے ہاں بھی لوگ مرتے ہیں نہ ہم کھانے تقسیم کرتے ہیں ، نہ گیارہویں ، نہ چالیسویں جو رسمیں ہیں آپ کی ہم نے تو کبھی بھی نہیں اختیار کیں اس لئے یہ بالکل جھوٹا الزام ہے کہ ہم آپ جیسا بنا چاہتے ہیں.آپ تو ہم سے ناراض ہوتے ہیں کہ ہم جیسا کیوں نہیں بنتے ؟ بھول گئے ہیں اس بات کو ، عجیب طبیعت ہے آپ کی جس طرح چاہیں موڑ لیں اپنے آپ کو کل تک تو یہ الزام دیا کرتے تھے کہ ہماری طرح کیوں نہیں کرتے ،تم ہاتھ کیوں نہیں اٹھاتے نماز کے فوراً بعد، چالیسویں کیوں نہیں مناتے ، گیارہویں کیوں نہیں مناتے ،فلاں شرینی کیوں تقسیم نہیں کرتے ، قوالیاں کیوں نہیں کرتے ، ہر رسم جو آپ کی ہے وہ ہم چھوڑ بیٹھے تھے اور یہ ناراضگی تھی کل تک کہ ہمارے جیسے کیوں نہیں بنتے اور اب ایسا الٹے ہیں کہ دماغ الٹ گیا ہے بالکل کلیتہ یہ کہہ رہے ہیں ہمارے جیسے کیوں بنتے ہو حالانکہ جھوٹ ہے، بالکل ہم تو آپ جیسا نہ بنتے ہیں نہ بننا پسند کرتے ہو.ہم تو وہ بننا چاہتے ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے تمام دنیا کے لئے نمونہ بنایا تھا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح:٣٠ ) یعنی حضرت محمد مصطفی اور ان لوگوں کی پیروی کرنا چاہتے ہیں اور کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو آنحضور کے ساتھ تھے یعنی آپ اور آپ کے ساتھیوں کی اس لئے اگر آپ تجزیہ کریں الزام کا تو سارا الزام ہی جھوٹا ہے.اب یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی غلامی سے کون سا دنیا کا قانون یا شریعت اسلامیہ کا قانون روک سکتا ہے یا روکتا ہے اور کس حد تک غلامی سے روکتا ہے اور کس کو روکتا ہے؟ سارے قرآن کریم میں تمام احادیث میں نہ کوئی آیت نہ کوئی حدیث اشارہ یا کنایہ بھی کسی کو آنحضرت ﷺ کی
خطبات طاہر جلد ۳ 414 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء غلامی سے روک رہی ہے نہ قرآن پر عمل کرنے سے منع کیا جار ہا ہے بلکہ قدر مشترک کہہ کہہ کے غیروں کو بلایا جا رہا ہے تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ ( آل عمران : ۶۵) کہ اے اہل کتاب ہم تو قد رمشترک کی طرف بلانے والے لوگ ہیں جو تم مانتے ہو ہماری باتیں وہ تو اختیار کرلو جن میں اختلاف رکھتے ہو تمہارا حق ہے جو چاہو اختلاف کرو لیکن جو تم اپنے منہ سے کہتے ہو کہ ہاں یہ تمہاری باتیں اچھی ہیں وہ کیوں اختیار نہیں کرتے.کیسا عظیم الشان مذہب ہے ! ساری دنیا کو اشتراک کی دعوت دے رہا ہے.اس مذہب کا حلیہ بگاڑ کر یہ کہا جارہا ہے کہ یہ قدراشتراک پسند نہیں کرتا.غصہ آجاتا ہے اگر کوئی حضور اکرم ﷺ کی غلامی اختیار کرے اور آپ کے پیچھے چلے.جو آیات میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھیں ان میں یہی مضمون ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللهَ كَثِيرًاہ کہ اے لوگو! تمہارے لئے اللہ کے رسول یعنی محمد مصطفی ملے میں ایک بہت ہی حسین اسوہ بنایا گیا ہے ایک ایسا خوبصورت نمونہ رکھ دیا گیا ہے کہ اب جو کوئی بھی اللہ کو چاہتا ہے وہ اس اسوہ کی پیروی کرے اور جو یوم آخر کی خواہش رکھتا ہے کہ یوم آخر میں وہ نجات دہندہ شمار ہو اس کو بھی یہی چاہئے کہ وہ اس اسوہ کی پیروی کرے.یہاں تو آنحضور ﷺ کے اسوہ کی پیروی کے لئے نہ مسلمان ہونا شرط قرار دیا گیا ، نہ کسی فرقے کی شرط رکھی گئی.ایک چیز مذہب کی قدر مشترک جو ہے وہ بیان فرمائی گئی ہے.کیسا عظیم کلام ہے! کوئی پہلو نہیں چھوڑتا خیر کا.فرمایا لِمَنْ كَانَ يَرْجُوا اللهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ جو اللہ کو چاہتا ہے اور یوم آخر چاہتا ہے اس کے لئے چارہ نہیں ہے اسکے سوا کہ محمد مصطفی ﷺ کی پیروی کرے.تو جب تک یہ قانون نہ بنائیں کہ اللہ کو چاہنا جرم ہے اور یوم آخرت میں اپنی نجات پانا نجات ڈھونڈ نا جرم ہے.جب تک یہ دو قانون Percieve نہ کریں پہلے نہ بنائے جائیں اس وقت تک حضرت محمد مصطفی امیہ کی غلامی سے کوئی روک ہی نہیں سکتا کسی کو.تو آیات پر تبر رکھ کر آپ جو چاہیں کریں لیکن ہماری گردنیں کاٹنے سے پہلے آیات کی گردنیں کاٹنی پڑیں گی.قرآن کریم میں کتر بیونت ( قطع و برید) کرنے پڑے گی.کیونکہ اتنی کھلی کھلی کتاب ہے ، اتنا واضح کر دیتی ہے اپنے مضمون کو کہ کوئی بھی شک کی گنجائش باقی نہیں چھوڑتی.پھر فرماتا ہے ان لوگوں کا ذکر
خطبات طاہر جلد ۳ 415 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء کر کے الَّذِينَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوَريةِ وَالْإِنْجِيلِ کہ وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں رسول نبی کی یعنی محمد مصطفی ﷺ کی جو امی بھی ہے اور اس کا وہ ذکر پڑھتے ہیں اپنی کتابوں میں فِي التَّوْريةِ وَالْإِنْجِيلِ تورات میں بھی انجیل میں بھی اب الَّذِي يَجِدُوْنَهُ مَكْتُوْبَاعِنْدَهُمُ سے مراد صاف پتہ چل رہا ہے کہ اہل کتاب ہیں کیونکہ مسلمانوں کی دوکتا ہیں تو نہیں ہیں.یہ الَّذِينَ سے مراد کون ہیں؟ وہ کون لوگ ہیں جو پیروی کرتے ہیں ؟ کن کا ذکر چل رہا ہے الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبَاعِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَةِ وَالْإِنْجِيلِ یہ وہ لوگ ہیں جو تو رات اور انجیل میں محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لکھا ہوا دیکھتے ہیں اور پیشتر اس کے کہ وہ مسلمان ہوجائیں ان کے دل میں آنحضرت کی محبت پیدا ہو جاتی ہے اور پھر وہ آپ کی پیروی کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں پھر ایمان ان کو نصیب ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ ان لوگوں سے کیا سلوک کرتے ہیں کیا کہتے ہیں ان کو قرآن کریم میں چھ کام بتائے آنحضرت کے.جو کوئی بھی حضور اکرم " سے محبت کرنے لگے اور اپنے آپ کو آپ کے حضور پیش کر دے کہ اب جس طرح چاہیں مجھے بنا دیں میں حاضر ہوں تو فرمایا امر بالمعروف کرتے آنحضرت، اچھے نیک کاموں کا حکم دیتے ہیں اور نہی عن المنکر کرتے ہیں، برے کاموں سے روکتے ہیں اور طیبات کو حلال کرتے ہیں فرماتے ہیں کہ اچھی چیزیں پاکیزہ چیزیں کھایا کرو اور خبائث کو، گندگی اور بیہودہ چیزوں کو منع فرماتے ہیں کہ یہ چیزیں نہ کھایا کرو اور بوجھ اتارتے ہیں تمہارے رسم و رواج کے جو بو جھ تم نے اپنے اوپر لا در کھے ہیں اور گردنوں کے طوق کاٹ کر دور کر دیتے ہیں.یہ چھ احسانات ہیں آنحضرت ﷺ کے جو آپ کے اسوہ میں ملتے ہیں.اس کے مقابل پر فر مایا پھر ایمان لے آؤ ایسے شخص پر ایمان لانا ضروری ہے کیونکہ آخر پر ان ساری باتوں کے بیان کر دینے کے بعد فرمایا فَامِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ کیوں کہ اہل کتاب کا ذکر چل رہا تھا اس لئے فرمایا ایسا رسول جو اتنا بڑا تمہارا محسن ہے، ایسے ایسے اچھے کام کر رہا ہے، ایسی پاکیزہ تبدیلیاں تمہارے اندر پیدا کر رہا ہے فَا مِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ الله اور اس رسول پر ایمان لے آؤ الَّذِي يُؤْمِنُ بِاللهِ وَكَلِمَتِهِ وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اس رسول نبی امی پر ایمان
خطبات طاہر جلد ۳ 416 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء لاؤ جو اللہ پر ایمان لاتا ہے خود اور اس کے کلام پر ایمان لاتا ہے.وَاتَّبِعُوہ اس کی پیروی کرو لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ تا کہ تم ہدایت پا جاؤ.یہ ہے قرآن کریم کا حکم اور بعض حکومتوں کا حکم یہ ہے کہ اس کی پیروی نہ کرو کیونکہ ہمارے نزدیک چونکہ تم مسلمان نہیں ہو اس لئے ہم یہ حکم دیتے ہیں کہ محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروی نہ کرو ورنہ سزا ملے گی.تو آپ کی ہم پیروی کرتے ہی نہیں پہلے نہ ہمیں کوڑی کی پرواہ ہے آپ کی پیروی کی.ہم تو جس کی پیروی کرتے ہیں قرآن میں حکم ہے کہ اس کی پیروی کرو اس لئے یہ دیکھنا پڑے گا کہ اگر پیروی منع ہے تو کس کس جگہ منع ہے کون کون سی جگہ منع نہیں ہے یعنی آنحضرت جب معروف کا حکم دیتے ہیں اگر یہ نقالی ہے اور اس سے آپ کو تکلیف ہوتی ہے تو احمدیوں کے لئے پھر یہ جرم ہونا چاہئے کہ وہ سچ بولیں ، احمدیوں کے لئے جرم ہونا چاہئے نبی عن المنکر فرماتے ہیں رسول اللہ ہے کہ وہ اگر چوری نہ کریں تو یہ جرم ہے.جتنی نیکیاں اسلام میں لکھی ہوئی ہیں حضرت اقدس محمد رسول اکرم علی نے اپنی سنت سے کر کے دکھائی ہیں وہ ساری نقالی ہیں ان میں سے کون سی ہے جو نقالی نہیں ہے اور جتنی برائیاں منع فرمائی ہیں ان سے بچنا نقالی ہے تو پہلے یہ تو قانون بناؤ کہ پاکستان میں اگر کسی احمدی نے کسی کو گالی نہ دی تو جرم ہوگا اور اگر کسی احمدی نے کسی کی چوری نہ کی تو یہ جرم ہوگا اگر قتل نہیں کرے گا تو جرم ہوگا، اگر ڈا کہ نہیں ڈالے گا تو جرم ہوگا ، اگر غریبوں کی حق تلفی نہیں کرے گا تو جرم ہوگا ، اگر شراب نہیں پئے گا تو جرم ہوگا، اگر سور نہیں کھائے گا تو جرم ہوگا ، اگر وہ لوگوں کو حرام نہیں کھلائے گا تو جرم ہوگا.ہر نیکی کو قانونا الٹانا پڑے گا آپ کو کیونکہ یہ نیکیاں ہم نے حضرت محمد مصطفی ﷺ سے سیکھی ہیں اور قرآن فرمارہا ہے کہ آپ سے ہی سیکھو گے تم آئندہ کے لئے ہر خیر کا پیمانہ آنحضور کے غم خانے سے ملے گا اس لئے جب باہر کچھ رہا ہی نہیں تو نقالی کے بغیر چارہ ہی کوئی نہیں ہے.کون سی دنیا کی قوم ہے جو حضور ا کرم کی نقالی کے بغیر ہی دنیا میں پنپ سکتی ہے اور تہذیب سیکھ سکتی ہے کیونکہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ہر قسم کی تہذیب، ہر قسم کی اعلیٰ زندگی ، ہر قسم کی پاکیزگی آنحضرت علی سے وابستہ فرما دی گئی.پس اگر آپ روکتے ہیں کہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچتی ہے تو پھر قانون تفصیل سے بنائیے کہ جو بھی جس کو بھی ہم کہیں گے غیر مسلم ہے اس کو آنحضرت ﷺ کی ہر بات میں الٹ چلنا ہوگا تب ہمارے دل کو ٹھنڈ پڑے گی.وہ احسان کیا کرتے تھے اگر تم بھی احسان کرو گے تو ہمیں بہت تکلیف
خطبات طاہر جلد ۳ 417 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء ہوگی ، بڑا غصہ آئے گا اس لئے ہم کہیں گے کہ تم احسان کروا کر احسان فراموشی کیا کرو.آنحضور سیچ بولتے تھے اور ہم نے تو تمہیں کا فرسمجھ لیا ہے اس لئے تمہارا کیا حق ہے رسول اللہ ﷺ کی پیروی کا.تم جھوٹ بولا کرو اور اگر سچ بولو گے تو قانون تمہیں تین سال کے لئے اندر کر دے گا.آنحضرت اپنا حق چھوڑتے تھے غیروں کے لئے تم لوگوں کا حق مارو تم کون ہوتے ہو حضور " کی پیروی کرنے والے! اس لئے جب تک ہمارے حقوق نہیں تلف کرو گے ہم تمہیں سزائیں دیں گے.آنحضور ﷺ جان اور عزت کی حرمت قائم فرماتے تھے اس لئے تم کون ہوتے ہو کہ جان اور عزت کی حرمت قائم کرو.یہ شکلیں ہیں آنحضور کی.یہ کام تھے جو آپ کیا کرتے تھے.ان چیزوں کی طرف لوگوں کو بلاتے تھے تو سارا اسلام چھوڑ کر آپ کو صرف اذان کہاں سے نظر آگئی ہے یا مسلمان کہلانا کہاں سے نظر آ گیا ہے کہ بس یہی دو چیزیں ہیں گویا اسلام کی.میں آپ کو وجہ بتا تا ہوں کیوں باقی چیز میں بھول گئیں اس لئے کہ وہ مشکل ہیں، وہ آپ نہیں کرتے ، بہت سارے چھوڑ بیٹھے ہیں اس لئے مشکل کام جو ہیں وہ تو آپ نہیں ان سے ہور ہے وہ یہ ہمیں کیا کہیں گے کہ ہماری نقالی کرتے ہو تم.اس لئے جو کام آسان ہیں اور چند آدمیوں نے کرنے ہیں وہاں انہوں نے نقالی ڈھونڈ لی ہے.ایک مولوی نے اذان دے دی اور جماعت کھڑی کرا دی اور مسلمان کہہ دیا اپنے آپ کو جب کوئی فارم بھرنا ہوا اس میں کون سا مشکل کام ہے! تو جو مشکل کام تھے ان سے ہمیں نہیں روک رہے کیونکہ آپ سے نہیں ہوتے وہ.نیکیاں خود کریں تو پھر کہیں نا کہ ہماری نقالی کرتے ہو.جھوٹی قسموں سے باز آئیں عدالتوں میں تو پھر کہیں نا کہ ہماری نقالی کرتے ہو.ظلم اور سفا کی اور لوگوں کے اموال لوٹنا اور ہر روز قتل و غارت اور چوریاں اور ڈا کے یہ سارے کام ہورہے ہیں اس ملک میں جہاں احمدی غیر مسلم ہیں اور بڑی کثرت سے ہورہے ہیں.تو ان سب کاموں میں ہمیں کیسے روکیں گے کیونکہ اگر وہ روکیں گے تو آپ تو کر نہیں رہے، نقالی کس بات کی ہوگی پھر؟ پس یہ دو آسان کام ہیں اس میں بڑی آسانی کے ساتھ الزام لگ سکتا تھا کہ نقالی کرتے ہو کیونکہ ہر مسجد میں اذان ہوتی ہے اور ہر مسلمان جو مسلمان کہلانا چاہتا ہے ہر شخص خواہ دل میں ایمان ہو یا نہ ہو ،ساری زندگی اس نے کبھی نماز پڑھی ہو یا نہ پڑھی ہو، بدکاریوں میں مبتلا ہو، چور ہوا چکا ہو، کمیونسٹ ہو چکا ہو، اسلام پر ہنستا ہو اس کے لئے مسلمان کہنا کون سا مشکل کام ہے اور اگر اس کے دل میں کوئی تقوی ہی
خطبات طاہر جلد ۳ 418 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء نہیں ہے تو حضرت مسیح موعود کا انکار کرنا اس کے لئے کون سا مشکل ہے.سو بسم اللہ کر کے وہ یہ دو شرطیں پوری کرے گا.تو یہ وجہ ہے جو انہوں نے چنی ہے، تبلیغ چھوڑ دی ہے خود، ہمیں جو تبلیغ والے معاملے میں ایک استثناء ہے میں اس لئے الگ اس کو کہہ رہا ہوں ، غیروں میں تبلیغ چھوڑ دی ہے اور ہمیں تبلیغ سے اس لئے منع کرتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں تمام دنیا میں احمدیت کا غلبہ ہو جائے گا وہ تو براہ راست Hit کرتی ہے چونکہ تبلیغ اس لئے یہ مشکل بنی ہوئی ہے ان کو ور نہ تو خود بھی تبلیغ چھوڑ بیٹھے ہیں.عام دستور تو یہ ہے کہ جو خود چھوڑ بیٹھے ہیں ان میں منع نہیں کیا جو خود کرنا آسان تھا وہ منع کر دیا.ایک تیسری چیز تبلیغ ہے وہ کیوں فرق کیا گیا ہے وہ میں بتارہا ہوں کیونکہ تبلیغ کے متعلق یہ سمجھتے ہیں کہ اگر تبلیغ کی ان کو اجازت دی گئی تو اس تیزی کے ساتھ جماعت پھیلتی چلی جائے گی کہ ایک دن ہماری اکثریت اقلیت میں تبدیل ہو جائے گی اور ان کی اقلیت اکثریت میں تبدیل ہو جائے گی اس لئے مجبوری ہے.بہر حال یہ تمام امور وہ ہیں جو آنحضرت علیہ فرمایا کرتے تھے اور جن کی طرف لوگوں کو بلایا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں یعنی محمد رسول اللہ علے کی نقالی کرتے ہیں أُولبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ جو لوگ اللہ سے پیار کرتے ہیں، اللہ کو چاہتے ہیں وہ نیک لوگ نجات دہندہ ہیں.جو لوگ آخرت کے دن سرخرو ہونا چاہتے ہیں وہ نجات دہندہ ہیں.تو یہ سارے قانون پہلے بنانے پڑیں گے کہ اللہ کو چاہنا جرم ہے اس ملک میں ، یوم آخرت میں سرخرو ہونا جرم ہے ، آنحضرت علی کی نیک باتوں میں پیروی جرم ہے اور پھر نیک باتوں کی تفصیل بتائی جائے اور جتنی بڑی نیکی اتنی بڑی سزاملنی چاہئے کیونکہ جرم بھی اتنا بڑا ہوگا.اگر سچائی سب سے بڑی نیکی ہے تو سب سے بڑی سزا سچائی پر ملنی چاہئے اور آپ یہ سمجھ رہے ہوں گے کہ یہ ایسی باتیں ہیں جو ہو نہیں سکتیں ، کچھ ہو بھی چکی ہیں ان میں سے.اس وقت پاکستان دنیا کا ایک واحد ملک ہے جہاں سچائی کے جرم میں سزا مقرر ہو چکی ہے مثلاً جب احمدی کو کہتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو غیر مسلم کہو تو وہ شخص جو دل سے حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ایمان رکھتا ہو اور قرآن کو واجب التعمیل کتاب سمجھتا ہو اور اس کے سارے ایمان کی بنیادیں وہی ہوں جو قرآن کریم نے مقرر فرمائی ہیں تو جب وہ منہ سے یہ کہے گا کہ میں غیر مسلم ہوں تو جھوٹ بول رہا ہوگا.پس ایک ہی ملک ہے ساری دنیا میں جہاں جھوٹ پر شاباش مقرر ہوئی ہے اور سچ پر سزا مقرر ہوگئی ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 419 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء تو میں نے جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا تھا قرآن کریم کی تعلیم ایسی عظیم الشان تعلیم ہے کہ جب اسکو آپ چھوڑتے ہیں آپ کے اندر کجیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور لغویات آپ کی ظاہر ہونی شروع ہو جاتی ہیں آپ کے لئے چارہ نہیں رہتا کہ قرآنی تعلیم کو چھوڑنے کے بعد لغویات اور کجیوں سے خود بچ سکیں.تو چونکہ قرآنی تعلیم کے خلاف ایک حکم دیا تھا اسکی لغویت خود بخود ظاہر ہونی شروع ہوگئی.عملاً یہ پہلا قدم اٹھالیا گیا ہے اس ملک میں کہ سچ بولنے کی سزا تین سال قید با مشقت اور لا متناہی جرمانے بھی ہو سکتے ہیں.سچ اور جھوٹ کی تعریف اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتی کہ جو انسان سمجھتا ہو اس کے خلاف بیان دے.بیچ یہ نہیں ہے کہ واقعہ وہ بات درست ہے کہ نہیں، سچ یہ ہے کہ جو میں نے دیکھا اور میں نے سمجھا اس کو بیان کروں.مثلاً زاویہ نگاہ بدلنے سے چیزیں مختلف دیکھی جاتی ہیں.ایک انسان کی آنکھ میں بیماری ہے وہ سبز رنگ نہیں دیکھ سکتا صرف کالا ہی دیکھ سکتا ہے.غالباً Colour Blindness اس کو کہتے ہیں ، Red نہیں دیکھ سکتا Green نہیں دیکھ سکتا.وہ دونوں Black and White یا ان کے Shades نظر آتے ہیں اس کو تو یہ جو شکل ہے اس میں اگر ایک آدمی ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے، وہ کہتا ہے کہ بتاؤ کیا دیکھ رہے ہو تم اور اس کو سبز رنگ سیاہ نظر آ رہا ہو.اگر وہ یہ کہے کہ مجھے سبز نظر آ رہا ہے تو جھوٹ بول رہا ہے حالانکہ واقعہ وہ سبز ہے.اس لئے سچ اور جھوٹ کا تعلق ہر ذات کے اندرونے سے ہے.واقعہ کوئی چیز بیچ تھی یا نہیں تھی اس بات کا تعلق تحقیق سے ہے اور سب سے زیادہ حقیقی علم اللہ رکھتا ہے.لیکن جہاں تک انسان کا تعلق ہے سچ اس کو کہتے ہیں جو وہ سمجھ رہا ہے جو وہ دیکھ رہا ہے.اگر اس کے برخلاف بیان کرے گا تو وہ جھوٹا ہے تو اگر ہم اسلام کو سچا سمجھ رہے ہیں تو اس کے برخلاف بیان کرنے سے لازما جھوٹے ثابت ہوں گے.ایک خرابی تو ان کو یہ اختیار کرنی پڑ رہی ہے.دوسرے یہ کہ نہ صرف جھوٹا بنانا چاہتے ہیں بلکہ مذب بنا رہے ہیں یعنی جب کہتے ہیں تم کہو ہم غیر مسلم ہیں تو غیر مسلم بغیر تعریف کے تو کوئی چیز نہیں ہے نہ کسی مذہب کا نام ہے.غیر مسلم ایک منفی نام ہے جس کے نتائج بھی محض منفی ہیں یعنی ہندو سکھ کہنا تو اور بات ہے لیکن جب غیر مسلم کہتے ہیں تو یہ ایک منفی مذہب ہے جس کا مطلب ہے کہ مسلم نہیں ہو، اسلام کی تکذیب کرنے والے ہو.اس لئے کہتے ہیں تم اپنے آپ کو غیر مسلم کہو یعنی انکار کرو کہ خدا ایک ہے اس کے بغیر مسلم نہیں بن سکتا.یہ کہو کہ حضرت
خطبات طاہر جلد ۳ 420 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء اقدس محمد مصطفی ﷺ نعوذ باللہ جھوٹے تھے اور سب قرآن اپنی طرف سے بنالیا تھایہ کہو کہ فرشتوں کا کوئی وجود نہیں ہے نہ جنت جہنم حق ہیں یوم آخرت یہ سب قصوں کی باتیں ہیں اور یہ کہو کہ قرآن کیا حقیقت رکھتا ہے.کچھ بھی اس کے معنی نہیں.یہ ساری باتیں کہو تب غیر مسلم بنتے ہو.اور وہ جب ہمیں کہتے ہیں غیر مسلم کہو اپنے منہ سے تو صرف یہ نہیں کہتے کہ تم جھوٹ بولو اپنے لئے وہ کہتے ہیں ان سب بچوں کی تکذیب بھی کرو ساتھ.کاذب بھی بنو مکذب بھی بنو یہ قانون بنا ہے اس وقت ملک میں.کیسے ممکن ہے کہ کوئی احمدی جھوٹ بولے اور پھر مکذب بھی بن جائے لیکن کہتے یہ ہیں کہ ہمیں تکلیف ہوتی ہے یعنی تم اگر کہو میں مسلمان ہوں تو عوام الناس بے چارے اس سے یہ نتیجہ نکالیں کے غلطی سے کہ تم کہ رہے ہو اللہ ایک ہے اور تمہارا یہ کہنا کہ اللہ ایک ہے کتنی تکلیف دے گا لوگوں کو.کہتے ہیں ہمارے دلوں میں تو آگ لگ جاتی ہے اس بات سے ، اتنی ہمیں تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ اپنی سینوں کی آگیں تمہارے گھروں میں منتقل کر دیں اور پھر ہم کرتے بھی ہیں یعنی غیر احمدی علما کا یہ ہے اصل دعوی.کہتے ہیں دیکھ لو ہم سارے پاکستان میں تقریر میں کر رہے ہیں کہ ان کے گھروں کو آگ لگا دو.جب تک یہ اپنے آپ کو غیر مسلم نہ کہیں تو گویا سینے کے اندروہ آگ جو تم نے بھڑ کا دی ہے اللہ کو ایک کہہ کر وہ تو سمجھ ہی نہیں سکتی جب تک تمہارے گھروں کو آگ نہ لگادیں.تم کہتے ہو حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ سچے ہیں اور واجب التعمیل ہیں ان کی پیروی کرنا ضروری ہے کہتے ہیں اتنا بڑا ظلم ہمیں تو بڑی سخت تکلیف ہوتی ہے کہ کوئی شخص کہے کہ رسول اللہ یہ سچے ہیں.اس صلى الله لئے جب تک جھوٹا نہیں کہو گے ہمارے دل کو ٹھنڈ نہیں پڑے گی قرآن کو جھوٹا کہوفرشتوں کو جھوٹا کہو یوم آخرت کو غلط کہانی بیان کرو پھر ہم کہیں گے ہاں الحمد اللہ اب تم ہمارے بھائی ہو.اب تمہیں ہم سارے ہی حقوق دیتے ہیں جو پہلے تم سے ہم نے چھین لئے تھے قرآن کریم کو چھوڑ کر جب آپ ایک طریق اختیار کرتے ہیں تو ہر چیز الٹ جایا کرتی ہے اس کو کہتے ہیں کتاب کا کمال کہ کھیلنے نہیں دیتی اپنے آپ سے جب آپ اس سے کھیلنے کی کوشش کریں گے جس طرح بڑی طاقت کی بجلی ہو اس کا غلط استعمال دھکا دیتا ہے بعض دفعہ ہلاک کر دیتا ہے تو قرآن تو اتنی قوی کتاب ہے.اس کے قانون کے مطابق آپ اس کو استعمال کریں تو ایک عظیم الشان طاقت ہے.اس کے اندرونی قانون کے برعکس جب بھی اس کو استعمال کرنے کی کوشش کریں گے یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 421 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء ہلاک کر دے گی آپ کو.دنیا کی بجلیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں اس کے مقابل پر یہ تو وہ کلام ہے کہ اگر پہاڑ بھی جرات کریں اور بڑی بڑی دنیا کے عظمتوں کے پہاڑ بھی ہوں یعنی بڑی بڑی قو میں ہوں تو ان کو بھی یہ قرآن پارہ پارہ کر سکتا ہے ایک جھٹکے میں اگر غلط استعمال کریں گے تو.تو یہ ہو رہا ہے اس وقت کہ قرآن کریم کی تعلیم کونہ سمجھنے کے نتیجے میں ہر بات الٹ جاتی ہے ہر بات بے معنی اور لغو ہو گئی ہے جو چیزیں اچھی لگنی چاہیں وہ بری لگنے لگ گئی ہیں اور جو بری لگنے والی ہیں وہ اچھی لگنے لگ گئی ہیں.قرآن کریم ایک ایسی کامل کتاب ہے کہ ہر احتمال کوملحوظ رکھتے ہوئے اس کا بھی ذکر فرماتی ہے اور کوئی احتمال بھی باقی نہیں چھوڑتی.چنانچہ یہ کہنا اس پہلی آیت میں جو فر مایا گیا یہ وہ لوگ ہیں یہ کام کرتے ہیں اور یہی ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں یا نجات یافتہ ہیں تو یہ سوال جیسا کہ اٹھایا گیا ہے اس پر میں بحث کر چکا ہوں کہ یہ ساری چیزیں مسلمانوں کے لئے ہیں.غیر مسلموں کو کوئی حق نہیں ہے آنحضرت کی پیروی کرنے کا وہ نافرمانی کریں گے تو ہمیں ٹھنڈ پڑے گی.اگلی آیت میں قرآن کریم انہی علما کو مخاطب کرتا ہے.فرماتا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں محمد مصطفی امیے نہ کسی قوم کے لئے ہیں نہ کسی ایک مذہب کے لئے ہیں بلکہ ساری کائنات کے لئے خدا نے ان کو بنا کر بھیجا ہے اور یہاں یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا کہہ کر مخاطب نہیں فرمایا بلکہ فرمایا قُل يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا ۚ الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ۚ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُ کہ اے محمد ! یہ اعلان کر دے اور ان کے دماغوں کی پیدا کردہ ہر قسم کی غلط فہمیاں دور کر دے.يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعَا اے بنی نوع انسان ! اے آدم کی اولاد ! جو روئے زمین پر بستے ہو مجھے خدا نے تم سب کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے اور کیوں نہ ہو میں اس خدا کی باتیں کرنے آیا ہوں.الَّذِى لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ جو زمینوں کا بھی خدا ہے اور آسمانوں کا بھی خدا ہے وہ ساری کائنات کا مالک ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ يُحْيِ وَيُمِيتُو ایک ہی خدا ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں.وہی ہے جو زندہ کرتا ہے وہی ہے جو مارتا ہے.پس اے زندگی کے خواہاں ! میری طرف آؤ! اور اے موت سے ڈرنے والو! تم بھی میری طرف آؤ کیونکہ آج اس خدا کی ملوکیت میں تقسیم کر رہا ہوں اس کی ملکیت میں تقسیم کر رہا ہوں جو زندگی اور موت کا خدا ہے.یہ اعلان ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا جو تمام بنی نوع انسان کو خیر میں شامل کر رہا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 422 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء کسی کو بھی اپنے خیر کے ایک ذرے سے بھی باہر نہیں نکال رہا.اگر کوئی تو ہم دل میں تھا بھی ، کوئی وہم باقی بھی تھا کہ شاید یہ ساری اچھی باتیں ان کے لوگوں کے لئے ہیں جن کو ہم مسلمان سمجھتے ہیں تو اللہ نے فرمایا نہیں وہ تو سارے انسانوں کے لئے ہیں.پھر فرمایا وَ اتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ تم پیروی کرو اس کی اگر تم ہدایت چاہتے ہو تو اس رسول کی پیروی کے سوا اے بنی نوع انسان تمہارا گزارا نہیں.اس پر ایمان لاؤ اللہ پر ایمان لاؤ اس کے کلمات پر ایمان لاؤ اور جیسا کہ یہ کرتا ہے وَاتَّبِعُوهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ.اور یہاں آنحضرت علی کا اللہ پر ایمان بتا کر خدا سے وسیلہ ہونا بھی بتا دیا گیا ہے کہ اللہ پرحقیقی ایمان لانے والا تو یہی ہے.اگر تم اللہ پر ایمان لانا چاہتے ہو تو اس کے واسطے سے اس کے وسیلہ سے آؤ گے.جس خدا کو یہ سمجھا جس خدا کو اس نے دیکھا اس پر ایمان لاؤ تب خدا پر ایمان ہوگا.تو کس طرح کاٹ سکتے ہیں یہ لوگ امت محمدیہ سے اس شخص کو جو بنی نوع انسان کا ایک جزو ہے اگر وہ یہ چاہے اور فیصلہ کرے کہ اس پیغام کو سن کر لبیک کہے تو ہے کون جو رستے میں روک ڈال دے اور کھڑا ہو جائے کہ نہیں میں نے تمہیں رسول اللہ کی پیروی نہیں کرنے دینا.عملاً اس کا نتیجہ ایک اور نکلے گا ہر بات جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا قرآن کے خلاف جاتی ہے تو برعکس نتیجہ بھی پیدا کر دیتی ہے.یہ چاہتے تھے ہمارے حقوق پر قدغن لگانا، ہمارے حقوق کو محدود کرنا اور نتیجہ یہ نکالا کہ آنحضرت ﷺ کے حقوق پر قدغن لگادی اور آپ کے حقوق کو محدود کر دیا.اگر وہ ہمارے لئے رسول نہیں ہیں تو قرآن تو کہتا ہے کہ بنی نوع انسان کے لئے رسول ہیں اگر وہ احمد یوں کے لئے رسول نہیں ہیں تو حضرت محمد مصطفی عمل ہے جن کے لئے بھیجے گئے تھے ان میں احمدیوں کو آپ نے نکال کر ایک طرف کر دیا اور حضرت اقدس محمد مصطفی علیہ کا دائرہ چھوٹا کر دیا اپنی طرف سے تو دیکھئے قرآن کریم کی نافرمانی تو آپ کو کہیں کا بھی نہیں چھوڑے گی حملہ کسی اور جگہ کرنا چاہتے تھے اور وار کہیں اور پڑا ہے.جیسے بعض لوگ بیمار ہو جاتے ہیں قدم کسی اور طرف رکھنا چاہتے ہیں اور طرف پڑ جاتا ہے قدم تو مخبوط الحواس ہو جاتے ہیں جو قر آنی تعلیم اس کی روح کو چھوڑ کر پھر کوئی اقدام کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ہر قدم لاز ماغلط پڑے گا اگر قرآنی تعلیم کو آپ چھوڑ دیں گے تو اور یہ اس کا نمونہ ہے.قرآن کہہ رہا ہے اے بنی نوع انسان تم سب کے لئے رسول ہے اور تم سارے اس کی اطاعت کرو اور اس کی پیروی کرو اور یہ کہہ رہے ہیں نہیں سب کے لئے رسول نہیں جن کو ہم غیر مسلم
خطبات طاہر جلد ۳ 423 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء قرار دیں ان کے لئے محمد رسول اللہ رسول نہیں ہیں اور اگر وہ پیروی کریں گے تو قرآن کے بیان کے مطابق تو ہم ان کو قتل کریں گے.گویا کچھ قتل کرنے والے اس جرم میں قتل ہورہے ہوں گے کہ بچے رسول کریم کی پیروی کر رہے تھے اور یہ سارے جرم قرار دینے پڑیں گے.سیرت کے اوپر پہلے مضمون تیار ہوگا کہ یہ یہ باتیں ہیں جو سیرت کا حصہ ہیں اور اول سے آخر تک سارے جرائم بن جائیں گے ان کے لئے جن کو یہ غیر مسلم سمجھتے ہیں.یعنی سیرت کی دو شکلیں بن جائیں گی یہی سیرت بنی نوع انسان کے حقوق سے تعلق رکھنے والی سیرت بعض لوگوں کے لئے نیکی اور بعض لوگوں کے لئے جرم تو کسی پہلو سے بھی کوئی عقل کی بات نظر نہیں آتی جس کے یہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں.تبھی قرآن کریم ایک آیت میں ان لوگوں کے ذہنوں کا نقشہ کھینچتا ہے آلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ (هود: ۷۹) ایک بھی عقل والائتم میں باقی نہیں رہا.کیوں نہیں دیکھتے بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ہم کر کیا ر ہے ہیں.بہر حال جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ تو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا دامن نہیں چھوڑے گی اور جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ میں بار بار کہتا ہوں بڑی شدت اور قوت کے ساتھ کہ لازماً ہم جیتیں گے کیوں کہتا ہوں اس لئے کہ اب یہ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر حملہ کر رہے ہیں اور قرآن پر حملہ کر رہے ہیں.جس تعلیم سے ہمیں روکتے ہیں وہ قرآن کی تعلیم ہے ، جس سنت سے ہمیں باز رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ محمد مصطفی ﷺ کی سنت ہے اور یہ وہ دو ایسی چیزیں ہیں جن کی خدا سب سے زیادہ غیرت رکھتا ہے.ناممکن ہے کہ قرآن پر حملہ کرنے دے ان کو اور چھوڑ دے خالی اور سنت محمد مصطفی ﷺ پر حملہ کرنے دے اور باز پرس نہ فرمائے اس لئے ان کا معاملہ تو اب براہ راست خدا سے ٹکر کا معاملہ بن چکا ہے.جہالت کی حد ہے کہ قرآنی تعلیم پر عمل کرو گے تو ہمیں غصہ آئے گا ، آنحضرت کی غلامی کا دم بھرو گے تو ہمیں اتنی تکلیف ہوگی کہ جب تک تمہیں مار نہ لیں قتل نہ کر لیں تمہیں انسانی حقوق سے محروم نہ کرلیں ہمارا سینہ ٹھنڈا نہیں ہوگا یہ شکل بن چکی ہے اب تو اللہ فضل فرمائے جو قوم کی موجودہ حالت ہے یہ بہت ہی خطرناک ہے اور مظالم میں بڑھتے چلے جاتے ہیں رکتے نہیں ہیں کسی جگہ.مثلاً میں نے آپ کو سنایا تھا با جوہ صاحب ( مکرم چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ) وغیرہ کا قصہ سنایا کہ کس طرح ان پر ظلم ہوا یعنی بوڑھے اور بزرگ گھروں میں بیٹھے ہوئے اس جرم میں ان کو
خطبات طاہر جلد ۳ 424 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء پکڑ کر گھروں سے نکالا گیا کہ آپ نے ایک مولوی کو اغوا کرنے کی کوشش میں شامل تھے.ان کی عمریں دیکھو ان کا مقام دیکھو ان کا سابقہ ریکارڈ دیکھو تمام دنیا کی پولیس میں سے جو جاہل سے جاہل لوگ بھی ہیں وہ بھی ان باتوں کا خیال رکھتے ہیں لیکن ایک توقع تھی انصاف کی کہ شاید عدالتوں میں انصاف مل جائے.اب ان کی حالت یہ ہے کہ ہائی کورٹ نے کل ضمانت یہ کہہ کر مستر د کر دی ہے کہ ہمیں حکومت کی طرف سے حکم آیا ہے کہ ہم اس مقدمہ کو تم سے لے کر فوجی عدالت میں دینا چاہتے ہیں اس لئے تم با اختیار ہی نہیں ہو کسی ضمانت قبول کرنے کے یعنی صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس مقدمہ میں کچھ بھی نہیں ہے جھوٹ ہی جھوٹ ہے لیکن یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ ہم نے ظلم سے باز نہیں آنا اس لئے کب تک خدا ان کو ظلم کی اجازت دیتا ہے یہ تو ہم نہیں کہہ سکتے لیکن ہر قدم سفا کی کی طرف اٹھ رہا ہے یہ ہم کہ سکتے ہیں اور کب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وہ تقدیر ظاہر ہوگی جو مجرموں کے حق میں ہمیشہ ظاہر ہوا کرتی ہے یہ بھی ہم نہیں کہہ سکتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ جب تک اللہ ہمیں آزمائے گا ہم صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں گے اور مسلمین کہتے ہوئے جان دیں گے راضی برضا ر ہتے ہوئے اپنا سب کچھ لٹائیں گے ایک بھی ایسا احمدی نہیں ہوگا انشاء اللہ تعالیٰ جو خدا تعالیٰ پر شکوہ کرتا ہوا مر رہا ہو.وہ مالک ہے لَهُ مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ہم تو اس پر ایمان لائے ہیں اس لئے جب تک چاہتا ہے اپنے بندوں کو آزمائے گا.ہم انشاء اللہ تعالیٰ غلامی کی ساری شرطیں پوری کریں گے.یہ بات کبھی نہ چھوڑیں اپنے ہاتھ سے.صبر حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ سے سیکھیں اور جس طرح آپ نے صبر کیا ہے ویسا صبر کریں اس صبر کے دوران کئی لوگ ہیں جو مظلومی کی حالت میں مرے تھے.کتنے ہی تھے جو تکلیفیں برداشت نہ کر کے جان دے گئے بیشتر اس کے کہ فتح مکہ ہوتی.امر واقعہ یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی زندگی کے تقریباً تمام دن ہی صبر میں گذرے ہیں.فتح مکہ کے بعد تو صرف ایک سال آپ زندہ رہے اس دنیا میں اور پھر جلد وصال ہو گیا.اور مدینہ کا دور بھی تو مظلومیت ہی کا دور تھا ادھر سے حملے ہورہے تھے غیروں کی طرف سے ادھر سے گھر کے اندر یہودی ریشہ دوانیاں کرتے تھے.کہیں زہر دیا جاتا تھا، کہیں چکی کے پاٹ پھینکے جاتے تھے اوپر سے، کہیں مسلمان عورتوں کی بے عزتیاں کی جاتی تھیں اور دکھ دیا جاتا تھا آنحضور ﷺ کو تو ساری زندگی دکھوں میں کئی ہے.آخری جو ایک سال یا ڈیڑھ سال کی زندگی ہے وہ ہے جس کو آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 425 خطبه جمعه ۳ را گست ۱۹۸۴ء امن کا دور آیا تھا لیکن کلیۂ امن کا وہ بھی نہیں تھا.کیونکہ بعض غزوے اس کے بعد ہوئے اور ہر طرف سے بے اطمینانی کی خبریں بھی ملتی تھیں تو اسوہ رسول کو اگر آپ سختی سے پکڑ لیں یعنی بڑی مضبوطی کے ساتھ اس پر کار بند ہو جائیں تو پھر آپ کا کوئی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا.ہم میں سے بعض ایسے بھی ہوں گے جو بچارے فتح کی تمنالئے ہوئے دنیا سے رخصت ہو جائیں گے مگر مرتے وقت ان کو راضی برضار ہنا چاہئے اور ان کی ان نیکیوں کے بدلے ان کی ان بھلائیوں کے صدقے ایسی نسلیں آنے والی ہیں جو فتح میں آنکھیں کھولیں گی اور وہ سوچ بھی نہیں سکیں گی کہ ہمارے ماں باپ نے کیسی کیسی دردناک قربانیاں دی تھیں اس فتح کے لئے.اس لئے یہ تو بہر حال ہوگا کہ جس شخص نے قرآن پر ہاتھ ڈالا ہے وہ لاز م ہاتھ کاٹا جائے گا.جس نے محمد مصطفی عدلیہ کے فیض کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے اس کے فیض کے چشمے سوکھیں گے محمد رسول اللہ ہی ہے کے فیض کے چشمے کو کوئی سکھا ہی نہیں سکتا اس لئے لازماً ان کے مقدر میں حسرت ناک شکست ہے اس کے سوا کچھ نہیں یہ یقین آپ رکھیں کیونکہ اس کے لئے ساری تاریخ ہمیں بتا رہی ہے کہ ایسا ہی ہوتا رہا ہے ایسا ہی ہوگا.ہاں چند آدمی بچارے جو پہلے وفات پا جائیں یا ان کے دکھوں کی تاب نہ لاکر جانیں دے دیں ان کا معاملہ ان کے خدا کے ساتھ ہے.میں تو صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ ایک سانس بھی مرتے وقت احمدی کا ناشکری کا نہیں ہونا چاہئے.راضی برضا ر ہتے ہوئے ہنستے ہوئے اپنے رب سے مخاطب کرتے ہوئے جان دے کہ اے خدا ! میں تیرے بندوں کی طرح رہا تیرے بندوں کی طرح جان دے رہا ہوں تو مجھے اپنے بندوں میں لکھ لے اور آج مجھ سے وہ پیار کا سلوک فرما جس کا تو نے قرآن میں وعدہ دیا تھا کہ اے میرے بندو تم نے بندگی کا حق ادا کردیا.فَادْخُلِي فِي عِبدِي وَادْخُلِي جَنَّتِي ( الفجر ۳۰.۳۱) آؤ میرے بندوں کی جنت میں داخل ہو جاؤ جو میری جنت ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 427 خطبه جمعه اراگست ۱۹۸۴ء ابتلا میں جماعت کی مالی قربانی اور صبر کے نمونے خطبه جمعه ۱۰ را گست ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَكَايِّنُ مِنْ نَّبِيِّ قَتَلَ مَعَهُ رِبِيُّونَ كَثِيرٌ ۚ فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ وَمَا ضَعُفُوا وَمَا اسْتَكَانُوا وَاللهُ يُحِبُّ الصُّبِرِينَ وَمَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَإِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ فَانهُمُ اللهُ ثَوَابَ الدُّنْيَا وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ (آل عمران : ۱۴۷- ۱۴۹) اور پھر فرمایا: سوره آل عمران کی یہ تین آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں ان اللہ والوں کا ذکر ہے جو انبیاء کے ساتھ مل کر خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں اور ان کی صفات یہ بیان فرمائی گئی ہیں فَمَا وَهَنُوا لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ الله کی راہ میں جو دکھ بھی ان کو پہنچتا ہے خواہ وہ کسی قسم کا ہو کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو مَا وَهَنُوا اس کے نتیجے میں وہ کمزور نہیں پڑ جاتے اور بوسیدہ نہیں ہو جاتے.وھن کا مطلب ہے غم کی شدت یا عمر کی زیادتی سے کمزوری پیدا ہو جانا یا فی ذاتہ اتنا
خطبات طاہر جلد ۳ 428 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء کمزور ہونا کہ دفاع کی طاقت اس میں نہ ہو چنانچہ حضرت زکریا کی دعا میں یہی لفظ ملتا ہے ان معنوں میں.رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا (مریم:۵) کہ اے اللہ ! میری تو روتے روتے ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں اور عمر کے نتیجے میں بھی طاقت نہیں رہی مجھ میں مزید صبر اور برداشت کی اور اَوْهَنَ الْبُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبوتِ (العنکبوت: ۴۷) میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے معنوں میں وھن کو استعمال فرمایا کہ جس طرح مکڑی کا جالا فی ذاتہ کمزور ہوتا ہے تازہ بنا ہوا ہو تب بھی کمزور ہوتا ہے بوسیدہ ہو جائے تب بھی کمزور ہوتا ہے اور اس میں کوئی دفاع کی طاقت نہیں ہوتی تو فرمایا جورِ بیون ہیں اللہ والے جو میرے ابنیاء کے ساتھ مل کر جہاد کرتے ہیں مَا وَهَنُوا کسی قسم کی کمزوری بھی ان میں نہیں ہوتی، نہ سرشت کے اعتبار سے وہ کمزور ہوتے ہیں نہ مسلسل جدو جہد کے نتیجے میں وہ کمزور پڑتے ہیں بلکہ مسلسل دفاع میں خدا کی خاطر اپنے اندر ایک مضبوطی کی قوت پاتے ہیں.مضبوطی کی حالت پاتے ہیں لِمَا أَصَابَهُمْ فِي سَبِيلِ اللهِ جو خدا کے رستے میں ان کو دکھ پہنچتا ہے اور جو بھی عمل کریں کمزور ان کو نہیں کرتا وَ مَا ضَعُفُوا اور وہ ضعیف نہیں ہو جاتے وَهَنُوا کے بعد ضَعُفُوا میں ایک اور معنی بھی پیدا کر دیا گیا کہ بعض دفعہ اللہ کی راہ میں جہا دلمبا ہو جاتا ہے اور ضَعُفُو میں جو بڑھاپے کے معنی ہیں ایسے آثار پیدا ہو جاتے ہیں کہ گویا ان کی عمریں گزر جائیں خدا کی راہ میں جہاد کرتے کرتے اور بچپن جوانی میں اور جوانی بڑھاپے میں ڈھل جائے لیکن اس قوم پر بڑھاپے کے آثار ظاہر نہیں ہوتے خواہ کتنا لمبا خدا کی راہ میں جہاد کرنا پڑے مَا ضَعُفُو اوہ کمزور نہیں پڑتے اور ان میں کسی طرح بھی بڑھاپے کے آثار ظاہر نہیں ہوتے وَمَا اسْتَكَانُوا اور وہ دشمن کے سامنے کبھی عاجزی نہیں دکھاتے ، دشمن کے سامنے جھکتے نہیں ہیں اور صرف خدا کے سامنے جھکتے ہیں اِستَكَانُوا لِلہ میں ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان مومنوں کو یہ نہیں کہ جھکنا نہیں آتا، جھکنا آتا تو ہے لیکن صرف خدا کے سامنے جھکنا آتا ہے.جہاں تک دشمن کا تعلق ہے، دنیا والوں کا تعلق ہے مَا اسْتَكَانُوا وہ جھکنا جانتے ہی نہیں وَاللهُ يُحِبُّ الصبِرِينَ اللہ صبر کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.تو صبر کی یہ تعریف ہے جو قرآن کریم نے اس موقع پر بیان فرمائی نہ سرشت میں کمزوری ہو، نہ پے در پے حملوں کے نتیجے میں کوئی کمزوری واقع ہو ، نہ ابتلا کے لمبا ہو جانے کے نتیجے میں کوئی کمزوری
خطبات طاہر جلد ۳ 429 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء آئے اور نہ دشمن کی ہیت کے نتیجے میں کسی قسم کا جھکاؤ پیدا ہو کسی قسم کا تذلل پیدا ہو ان سب مصیبتوں میں سے گزرنے کے بعد ، ان سب امتحانوں میں ثابت قدم رہتے ہوئے بھی وہ یہ جانتے ہیں کہ ہمارا مولی ، ہمارا نصیر، ہمارا مددگار، ہمارا سہارا دینے والا خدا کے سواکوئی نہیں اور محض اپنی طاقت سے ہم کچھ بھی حاصل نہیں کر سکتے اس لئے وہ مسلسل دعائیں کرتے چلے جاتے ہیں اور دعاؤں کے ذریعہ وہ طاقت حاصل کرتے ہیں فرمایا وَ مَا كَانَ قَوْلَهُمْ إِلَّا أَنْ قَالُوا رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا - وہ ساتھ ساتھ یہ کہتے چلے جاتے ہے کہ اے اللہ ! ہم تو بہت گناہگار ہیں تو نے کیوں ہمیں چن لیا اس مقصد کے لئے ہم نہیں جانتے.ہمیں تو یہ علم ہے کہ گنا ہوں سے ہمارا بدن چور ہے، زخمی ہے اغْفِرْ لَنَ ہمارے گناہوں کو ڈھانپ لے ہمیں بخش دے وَ اِسْرَافَنَا فِي أَمْرِنَا اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم نے بہت سی زیادتیاں کی ہوئی ہیں.ایسی زیادتیاں جو ہمارے مفاد کے خلاف جاسکتی ہیں، ایسے گناہوں میں ملوث ہو چکے ہیں جن کے نتیجے میں ہم پر قومی لحاظ سے بداثر بھی پڑ سکتا ہے تو اے خدا ! تو ہمارا اسراف بھی معاف فرما دے آج کیونکہ آج وہ دن نہیں ہیں کہ تو ہمیں ناراضگی کی آنکھ سے دیکھے.آج تو ہم تیری راہ میں جہاد میں مصروف ہیں.کیسے ہوگا، کیسے ہم سے برداشت ہوگا کہ دشمن بھی غضب کی آنکھ سے دیکھ رہا ہو اور آج تو بھی غضب کی آنکھ سے ہمیں دیکھنے لگے اس لئے آج ہماری پشت محفوظ ہو جانی چاہئے ہمیں یہ فکر نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارے گناہوں کے نتیجے میں تو بھی ہمیں ناراضگی کی آنکھ سے آج دیکھ رہا ہے.وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا آج تو دن وہ ہیں کہ ہمارے پاؤں کو ثبات بخش.ہمارے قدموں کو قوت عطا فر ، وَ انْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ اور کافروں پر جو انکار کرنے والے ہیں ان پر ہمیں فتح نصیب فرما.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان حالات میں جب یہ دعا کی جاتی ہے خدا اسے ضرور قبول فرماتا ہے.جب انسان اپنے تن من دھن کی بازی لگارہا ہو خدا کی راہ میں اور ہمت نہ ہارے کہ مقابل پر جھکنا نہ جانے خدا کے سوا کسی کے لئے جھکے نہیں اور ساتھ ہی دعائیں کر رہا ہو تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ناممکن ہے کہ ایسی دعا کو میں قبول نہ کروں ، میں اسے بتاتا ہوں فَانهُمُ الله ثَوَابَ الدُّنْيَا یہاں یہ نہیں فرمایا کہ يُؤْتِيهم الله ثوابُ الدُّنْیا کہ اللہ ان کو دنیا کا ثواب بھی دے گا بلکہ اچانک ماضی میں بدل دیا سب قصہ کو کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو دے دیا ثَوَابَ الدُّنْيَا ان کے منہ سے یہ کلی ہوئی دعا اتنی یقینی طور پر قبول ہوئی گویا کہ ایک ماضی کا واقعہ تھا خدا نے دے دیا ان کو.
خطبات طاہر جلد ۳ 430 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء ثَوَابِ الْآخِرَةِ ثَوَابِ الدُّنْیا کے متعلق تو کوئی کہ سکتا تھا کہ ماضی کا قصہ چل رہا ہے اس لئے ماضی میں ذکر ہونا تھا مگر ثَوَابِ الْآخِرَةِ تو بعد کی بات ہے وہ تو مرنے کے بعد ہوتا ہے اس کے لئے بھی لفظ ماضی استعمال فرمایا یقینی بنانے کے لئے.اس بات کو سو فیصدی یقینی کرنے کے لئے ماضی کا طریق اختیار کیا گیا ہے کیونکہ قرآن کریم کی دوسری جگہ بھی یہی ادا ہے یہی اسلوب ہے کہ جب بات میں قوت پیدا کرنی ہو اور یقینی بنانا ہو تو مستقبل کے واقعات کو بھی ماضی کے صیغہ سے بیان کیا جاتا ہے.وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.یہاں دو جزا ئیں بیان نہیں ہوئیں بلکہ تین ہوئی ہیں.ثَوَابَ الدُّنْیا پہلی جزا کہ اس دنیا میں بھی وہ ذلیل نہیں ہوں گے ہم یقین دلاتے ہیں کہ اس دنیا میں بھی انہیں کو فتح نصیب ہوگی.وَحُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ دنیا تو عارضی چیز ہے آخرت کا ثواب اس سے بہت زیادہ حسین ہے جو آخرت میں جزا ملنے والی ہے اس کا اس کے ساتھ اس دنیا کی جزا کا کوئی مقابلہ ہی نہیں لیکن سب سے بڑی جزا یہ ہے وَاللهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ کہ اللہ تم سے محبت کرنے لگے گا تم اللہ کے پیاروں میں شمار ہو جاؤ گے.یہ جو کیفیات ہیں یہ دنیا والوں کے لئے تو تاریخی واقعات ہیں اگر عام مسلمان جو احمدی نہیں ہے ان باتوں پر غور کرتا ہے تو اس کی نظر آنحضرت عیہ کی طرف لوٹ جاتی ہے اور آپ کے زمانے کے لوگوں کی طرف جو حضور اکرم ﷺ کو نہیں مانتا وہ اگر اس مضمون پہ غور کرے گا عیسائی ہوگا تو حضرت عیسی کے زمانے کی طرف چلا جائے گا ، اگر یہودی ہوگا تو حضرت موسیٰ“ کے زمانے کی طرف اس کا ذہن چلا جائے گا اگر کسی اور مذہب کا ہے اور ابراہیمی ہے تو حضرت ابراہیم کے زمانے کی طرف اس کی نظر لوٹ جائے گی.گویا سارے کے سارے ان کے ذہن یقینی واقعات کی طرف منتقل ہوتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کے باوجود یہ سارے ماضی میں بسنے والے لوگ ہیں حال میں ان کو ایسے کوئی واقعات دکھائی نہیں دیتے.یہ جماعت احمدیہ کی خوش نصیبی ہے کہ ہمارا ماضی ہمارا حال بن گیا ہے اور وہ خوشخبریاں جو پہلوں کو عطا ہوگئی تھیں وہ ہمارا مستقبل بن گئی ہیں.اب ہم قصہ پارینہ میں بسنے والے لوگ نہیں ہیں بلکہ وہ زندہ قوم ہیں جن کے اوپر یہ ساری واردات گزر رہی ہیں ہم شاہد ہیں اس بات کے اور اس بات کے بھی شاہد ہیں کہ اللہ اپنے فضل لے کر آیا کرتا تھا اور آج بھی آرہا ہے اور کل بھی ہم پہلے سے
خطبات طاہر جلد ۳ 431 خطبه جمعه ار ا گست ۱۹۸۴ء بہت بڑھ کر حُسْنَ ثَوَابِ الْآخِرَةِ ہمیں عطا فرمائے گا.اس انتہائی خوفناک مخالفت اور دردناک مظالم کے نتیجے میں جماعت کا رد عمل بالکل وہی ہے جو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان فرمایا گیا ہے.قربانی کی روح پہلے سے کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جارہی ہے.جتنا دشمن ڈرانے کی کوشش کر رہا ہے، دبانے کی کوشش کر رہا ہے اسی قوت کے ساتھ جماعت کا دفاع کا جذبہ ابھرتا چلا جا رہا ہے.حوصلے بڑھ رہے ہیں، ہمت میں ایک مزید قوت عطا ہورہی ہے.دن بدن جماعت کی کیفیت بدلتی چلی جارہی ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ ان آیات کی مصداق آج دنیا میں جماعت احمدیہ کے سوا اور کوئی جماعت نہیں.چنانچہ جب خطرات ہوں اور کئی قسم کے ایسے دہشت ناک واقعات ہو رہے ہوں کہ جس سے انسان کو یہ محسوس ہو کہ کچھ نہ کچھ پس انداز کر کے بچانا چاہئے پتہ نہیں کیا حالات ہوتے ہیں، کس طرح ہمیں گھروں سے نکالا جائے؟ کس طرح ہم لوٹائے جائیں؟ تو ایسے وقت میں دنیا کی قوموں میں یہ ردعمل ہوتا ہے کہ جو کچھ ہے وہ سمیٹتے ہیں اور بچالیتے ہیں لیکن اللہ کی قوم کا رد عمل یہ ہے کہ جو کچھ گھر میں تھا وہ سمیٹ سمیٹ کر جھاڑو دے دے کر خدا کے حضور پیش کرنے لگ جاتے ہیں.یہ رد عمل خدا والوں کی علامت ہے.ان لوگوں کو ر بتون کہا جاتا ہے قرآنی اصطلاح میں کہ اللہ والے لوگ رب والے لوگ.چنانچہ یہ جو مختلف وقتوں میں جماعت کی طرف سے قربانی کی اطلاعیں آرہی ہیں اور مختلف ممالک سے یہ اس کثرت کے ساتھ ہیں کہ ناممکن ہے انہیں ایک دو خطبات میں بیان کیا جا سکے بلکہ ہزار ہا صفحات کی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں.میں نے بعض قربانیوں کا ذکر گزشتہ ایک خطبہ میں کیا تھا لیکن اس کے بعد بعض ایسے غربا کی بعض بچوں کی ، بعض کمزور لوگوں کی ایسی عظیم الشان قربانیوں کی اطلاعیں ملی ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کو بھی اس ذکر میں شامل کرنا ضروری ہے کیونکہ جماعت کے امیر بھی جس طرح قربانی کر رہے ہیں اسی طرح جماعت کے غریب بھی قربانیاں کر رہے ہیں اور جماعت کے غربا کی بعض صورتوں میں قربانیاں اتنی عظیم الشان ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ یہ قربانیاں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں خدا کی نظر میں یا امرا کی قربانیاں.آج تو یہ کیفیت نظر آتی ہے کہ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز امیر اور غریب اپنی قربانیوں میں بالکل ایک صف میں کھڑے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں مگر
خطبات طاہر جلد ۳ 432 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء پھر بھی غریب چونکہ اس سطح پر اپنی اقتصادی لحاظ سے اس ادنی سطح پر واقع ہوتا ہے کہ جب وہ قربانی دیتا ہے تو اسے بھوک کی شدت بھی برداشت کرنی پڑتی ہے، اسے دوسری تنگیاں بھی اٹھانی پڑتی ہیں اس لئے اس پہلو سے وہ یقیناً امرا پر فضیلت لے جاتا ہے اور بعض لوگ کچھ بھی پیش نہیں کر سکتے سوائے رونے کے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان کے وہ آنسو ہیں جو خدا کی نظر میں موتیوں سے بڑھ کر قیمتی ہو جاتے ہونگے.چنانچہ ایک صاحب اس سلسلہ میں مجھے لکھتے ہیں کہ آپ نے جو نئے مشن کی تحریک فرمائی اس کی کیسٹ گھر میں سن رہے تھے میری بچیاں بھی ساتھ بیٹھی تھیں.جب آپ نے یہ فرمایا کہ فلاں بچی نے یہ زیور دیا اور فلاں بچی نے یہ روپیہ دیا تو یہ آواز سن کر اس عاجز کی بچیاں آنکھوں سے آنسو بہا کر پکار اُٹھیں کہ کاش ہمارے پاس بھی زیور یا روپیہ ہوتا تو حضور کے قدموں میں رکھ دیتیں اس وقت تو قرضہ کا بوجھ اس قدر ہے کہ یہ خط لکھتے وقت اپنی بچیوں کا وقت یاد آ گیا اور میری آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں.تو یہ وہ جماعت ہے جس کا رد عمل ان مصیبتوں اور دکھوں کے وقت اللہ کی راہ میں اور بھی زیادہ قربانیاں دینے کی تمنا کی صورت میں ظاہر ہورہا ہے.بچوں کے متعلق ایک دوست لکھتے ہیں کہ میرے بچوں نے جو پیسے ان کے پاس تھے کہا کہ امی ہم نے یہ رقم دینی ہے.میری ایک بچی جس کی کراچی سے روانہ ہوتے وقت آخری دن آپ کی ملاقات ہوئی تھی اور آپ نے از راہ شفقت اس کو قلم دیا تھا اس نے اپنے جیب خرچ میں سے اپنے گلہ میں یعنی وہ مٹی کا برتن جس میں پیسے جمع کرتے ہیں بچے جو کچھ بھی جمع کیا ہوا تھاوہ سارا اس نے پیش کر دیا.ایک بچہ جو بڑی عمر کا ہے نسبتا اس نے موٹر سائیکل کے شوق میں پیسے جمع کئے ہوئے تھے اور اب تک اس کے پاس 2100 روپے جمع ہو چکے تھے.اس نے مجھے لا کر دیئے کہ ابا میں بالکل موٹر سائیکل نہیں لینا چاہتا، مجھے کوئی شوق نہیں رہا اس لئے یہ ساری رقم یورپ کے ان مراکز کے چندے میں پیش کر دیں اور میری طرف سے درخواست کریں کہ مولا! ہماری یہ حقیر قربانی قبول فرمائے.ایک بچی لکھتی ہے، ہمارے ایک مبلغ کی بچی ہے، کہ میں نے تین سال کے عرصہ میں جیب خرچ اور عیدی کی ساری جمع شدہ رقم کا گلہ مشنری انچارج (Missionary Incharge ) یعنی اپنے ابا کے سپرد کر دیا ہے.جو پانچ صد شلنگ بنتے ہیں اس رقم کو قبول فرمائیں.ایک مربی سلسلہ اطلاع کرتے ہیں اور جتنے بھی خدا کے فضل سے مربیان سلسلہ ہیں ان سب کا
خطبات طاہر جلد ۳ 433 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء یہی حال ہے کوئی ایک کا ذکر کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی دوسرا قربانی میں پیچھے ہے.صرف نمونۂ جماعت کے سامنے لانے کے لئے بعضوں کو میں نے چنا ہے، کہتے ہیں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد سیدھا مربی ہاؤس گیا فوڑا بیوی سے ملا اور اس کی طرف دیکھتا رہ گیا کیونکہ میں اس امید کے ساتھ گیا تھا کہ میرے جانے سے قبل میری بیوی اپناز یورا تار چکی ہوگی جاتے ہی مجھے کہے گی کہ یہ تو اسے حضور کی خدمت میں پیش کر دو.میں نے جب اس کے بدن پر زیور دیکھا تو میں نے اس سے کہا کہ میں یہ کیا دیکھ رہا ہوں میں تو اس امید سے آیا تھا کہ تم سارا زیور اتار چکی ہوگی اس پر اس نے کلائی میری طرف بڑھائی اور کہنے لگی کہ خودا تار واور کہنے گی خدا کی قسم میں تو یہ زیور اس وقت سے وقف کر چکی ہوں جب حضور نے تحریک فرمائی تھی اور انتظار کر رہی تھی کہ کب ہمیں بھی اجازت ہو اس تحریک میں شامل ہونے کی لو اسے اتارواب میں اسے نہیں پہن سکتی.کہنے لگی کچھ زیور میرا فلاں گھر پڑا ہے وہاں سے منگوا لو ،ایک ہلکا سالاکٹ اور بالیاں کانوں میں دیکھیں تو میں نے کہا یہ کیوں نہیں اتار رہی تو اس نے جواب دیا کہ حضور نے فرمایا ہے کہ کچھ اپنے بچوں کے لئے بھی رکھو میں محض خدا کی ناراضگی کے خوف سے یہ نہیں اتارتی کہ نافرمانی نہ ہو جائے لیکن جو ہلکا زیور ہے وہ اپنے بچوں کے لئے رکھ لیا ہے اور جو کچھ بھاری زیور تھا وہ خدا کی راہ میں پیش کر دیا ہے.ایک پرانے خادم سلسلہ جو اکثر زندگی کا حصہ کلرک کے طور پر گزارتے رہے اور ابھی بھی کلرک کی اوپر کی سطح کے آدمی ہیں وہ یہ لکھتے ہیں.اس وقت دل میں اپنے مولا کے ساتھ آپ کی تحریک میں مبلغ تیرہ ہزار روپے 313,000 Rs ) جو میری ساری عمر کی کوڑی کوڑی پس انداز کی ہوئی رقم ہے دینے کا وعدہ کر لیا ہے.میری یہ پس خوردہ رقم حاضر ہے جس مرکز کے لئے چاہیں خرچ کریں اور مجھے جمع کروانے کا ارشاد فرما ئیں.اللہ تعالیٰ میری یہ حقیر قربانی قبول فرمائے آئندہ بھی محض اپنے فضل سے مزید قربانیوں کی توفیق عطا فرماتا چلا جائے.یہ پس انداز کی ہوئی رقم کچھ رقم تو بچیوں کے وظیفوں کی تھی کچھ تھوڑی تھوڑی اپنی بچت اور کچھ بڑے بچے کی دی ہوئی امداد یہ سب اس لئے اکھٹی کر رہا تھا کہ دو بڑی بچیاں جن کا نکاح جلسہ پر ہوا تھا ان کا رخصتانہ کرنا باقی ہے بہر حال اللہ تعالیٰ ان بچیوں کے رخصتانے کا انتظام تو خود فرمادے گالیکن یہ حیرت انگیز قربانیاں تو ایسی نہیں ہیں جو خدا والوں کے سوا کوئی اس دنیا میں پیش کر سکے.احمدیت تو یوں لگتا ہے ساری دنیا سے مختلف ایک اور قوم بن کر ابھری ہے اس زمانے میں ، اس دنیا کے لوگ ہی یہ نہیں نظر آتے.اگر خدا نے ہمیں نہ بتایا ہوتا اتنا پیارا پیارا محاورہ ربیون تو ہم نہیں کہہ
خطبات طاہر جلد ۳ 434 خطبه جمعه ار ا گست ۱۹۸۴ء سکتے تھے کہ ان کو کیا کہیں! تو اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا نام پر بیون رکھ دیا ہے رب والے لوگ ہیں یہ دنیا سے تعلق رکھنے والے لوگ نہیں.ایک غریب استانی لکھتی ہیں آپ کی باتیں سن کر دل بھر آیا اور آنکھیں نم ناک ہوگئیں قربانی کے لئے دل مچل اٹھا لیکن میرے پاس کوئی قیمتی چیز نہیں جسکو جماعت کی نذر کر سکوں ،کوئی زیور نہیں کوئی بینک بیلنس نہیں ہاں ایک سفید پوشی کا بھرم ہے تمام اخراجات کے بعد میرے پاس ساٹھ روپے بچتے ہیں جو کہ میں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ ہر ماہ چندہ دیا کروں گی ، روزانہ کھانے پینے کے اضافی اخراجات کو امکانی حد تک ختم کرنے کی کوشش کروں گی.قادیان کی لجنات کے متعلق مجھے ایک رپورٹ ملی ہے اور اس کا مجھے انتظار تھا کیونکہ جب تحریک جدید کی قربانیوں کا آغاز ہوا تھا تو قادیان کی مستورات کو غیر معمولی قربانی کے مظاہرہ کی توفیق ملی تھی اب تو بہت تھوڑی خواتین وہاں رہ گئی ہیں لیکن جتنی بھی ہیں مجھے انتظار تھا کہ ان کے متعلق بھی اطلاع ملے کیونکہ ان کا حق ہے کہ وہ قربانی کے میدان میں آگے رہیں اور قادیان کا نام جس طرح اس زمانے میں خواتین نے اونچا کیا تھا آج پھر اسے اونچا کریں تو الحمد للہ کہ وہاں کی رپورٹ بھی موصول ہوئی ہے.صدر لجنہ اماءاللہ بھارت اطلاع دیتی ہیں کہ میں نے قادیان کی لجنہ اور ناصرات کے وعدے نئے مراکز کے لئے حضور کی خدمت میں ۱۶ / جولائی کو لکھے تھے.حضور کے خطبات نے ایک تڑپ یہاں کی عورتوں میں پیدا کر دی اور محض اللہ کے فضل سے جو کچھ ان کے پاس تھا انہوں نے پیش کر دیا ہے لیکن پیاس ہے کہ ابھی نہیں بھی اتنی شدید تڑپ ابھی ہے کہ اور ہو تو خدا کے کاموں کے لئے اور بھی پیش کر دیں.چھوٹی چھوٹی بچیوں نے اپنی کجیاں جن میں پانچ پانچ دس دس پیسے کر کر کے کچھ جمع کیا تھا تو ڑ توڑ کر جو کچھ نکلا اللہ کے حضور پیش کر دیا.اللہ تعالیٰ کا شکر اور احسان ہے کہ اس وقت تک قادیان کی عورتوں اور بچیوں کا وعدہ زیور کی قیمت لگا کر اور نقدی ملا کر چھیالیس ہزار نو سو تیرہ روپے اور ادا ئیگی چھتیں ہزار آٹھ سو چونسٹھ روپے ہو چکی ہے لیکن قادیان کی لجنہ کی شدید خواہش ہے کہ حضور دعا کریں اللہ تعالی محض اپنے فضل سے ہمیں اور دے اور ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم مزید اس مد میں ادا کر سکیں.ایک عورت لکھتی ہیں کہ میں نے جب یہ تحریک سنی ، بڑا دردناک خط ہے کہ میرے دل کی کیا حالت ہوئی ، میں نے جب سنا کہ عورتوں نے یہ قربانی کی اور زیوروں کے سیٹ اتارا تار کر دیئے تو دل کی
خطبات طاہر جلد ۳ 435 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء جو کیفیت تھی وہ خدا ہی بہتر جانتا ہے.میرے پاس تو کچھ نہیں ہے میرے آقا! میرے پاس کوئی زیور کوئی جائیداد نہیں ہم غریب طبقے کے لوگ ہیں لیکن میرے پاس تین لڑکے ہیں میں اپنا ایک بیٹا قربانی کے لئے دینا چاہتی ہوں اسے قبول فرمائیں.ایک خاتون لکھتی ہیں کہ جب میں نے سنا کہ ہمیں بھی اجازت مل گئی ہے تو میرا دل خوشی سے بھر گیا میرا سارا زیور آج سے چھ سال قبل چوری ہو گیا تھا ایک نکلس ہار اس بکس میں پڑا ہوا ہے جو چوروں کی نظر سے بچ گیا تھا اس ہار کو میں آقا کے حضور اس تحریک میں پیش کرتی ہوں.سیہ وہ جماعت ہے جس کو مٹانے کا بعض بد قسمت لوگ منصو بہ بنارہے ہیں.بڑی بدبختی ہے کہ جو خلاصہ ہوں کا ئنات کا جن سے انسانیت کی اقدار زندہ ہوں جو گزشتہ مذہبی تاریخوں کو کہانیوں سے نکال کر عمل کی دنیا میں ڈھال دیں ان کو برباد کرنے کے درپے ہو جائے دنیا اس سے زیادہ بد قسمتی اور کیا ہوسکتی.اس موقع پر تو آنحضرت ﷺ کی وہ دعا یاد آتی ہے جو بدر کے موقعہ پر آپ نے بڑی گریہ وزاری کے ساتھ کی اور حقیقت یہ ہے کہ جس خیمہ میں آپ دعا کر رہے تھے وہی خیمہ تھا جو اس جنگ بدر کو جیتنے کا میدان بن گیا تھا.بظاہر ایک لڑائی باہر ہو رہی تھی لیکن ایک لڑائی اس خیمے کے اندر جاری تھی اور وہ دعا کے ذریعے کی جارہی تھی.آنحضرت معدے کی حالت یہ تھی کہ دعا کرتے ہوئے گریہ وزاری کے ساتھ بار بار آپ کا کپڑا آپ کے کندھے سے نیچے گر جاتا تھا اور حضرت ابو بکر اس کپڑے کو اٹھا اٹھا کر واپس آپ کے کندھے پر ڈالتے تھے اور ایک زلزلہ سابدن پر طاری تھا.دعا آپ یہ کر رہے تھے اللهم ان اھلکت هذه العصابة فَلَنْ تُعْبَدُ في الارضِ اَبَدًا ( صحيح مسلم كتاب الجهاد والسير باب امداد الملائكنت في غزوة بدر ) که اے اللہ! مجھے ان جانوں کی تو پروانہیں میں تو تیری عبادت کرنے کا عاشق ہوں، مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ اے اللہ ! اگر آج ان لوگوں کو تو نے مٹنے دیا، ان لوگوں کو ہلاک ہونے دیا تو پھر قیامت تک تیری کبھی عبادت نہیں کی جائے گی کیونکہ ان سے بہتر عبادت کرنے والے جنہوں نے مجھ سے عبادت کے راز سیکھے ہیں پھر کبھی پیدا نہیں ہو سکتے تو آج بھی یہ دعائیں کریں خدا کے حضور کہ اے خدا! یہ وہ لوگ ہیں جن کو مٹانے کے دنیا در پے ہے اگر آج تو نے ان کو مٹنے دیا تو انسانیت کی صف لیٹی جائے گی پھر اعلی مذہبی اقدار و اعلیٰ روحانی اقدار دنیا سے ہمیشہ کے لئے غائب ہو جائیں گے، پھر انسان زندہ رکھنے کے لائق نہیں رہے گا اس لئے تو آج ان کو نہ مٹنے دے کیونکہ آج تمام کائنات کا خلاصہ مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے.اس موقع پر میں جماعت سے یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ گریہ وزاری درست اپنی جگہ بہت رونا
خطبات طاہر جلد ۳ 436 خطبه جمعه ار ا گست ۱۹۸۴ء چاہئے خدا کے حضور لیکن اس رونے کے نتیجے میں دل میں ایسی نرمی نہیں پیدا ہونی چاہئے جو غیر کے سامنے جھکنے والے دل ہو جائیں ان دو چیزوں میں بڑا فرق ہے لیکن پیشتر اس سے کہ میں اس مضمون کے متعلق کچھ کہوں ایک اور دلچسپ زیور کے سلسلہ میں بات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں احمدیوں کے دماغ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسے ہیں کہ عجیب عجیب ان کو نقطے سوجھتے ہیں اور قربانیوں میں ایک حیرت انگیز حسن اور لطف پیدا کر دیتے ہیں چنانچہ چونکہ زیوروں کی باتیں آج کل ہو رہی ہیں کہ فلاں نے سونا دے دیا فلاں نے زیور دے دیا انگلستان کی ایک خاتون نے مجھے دو اشرفیاں بھیجیں اور کہا کہ مجھے خیال آیا کہ یہ رسم زیور دینے کی تو منشی اروڑے خان صاحب نے شروع کی تھی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد وہ حاضر ہوئے تھے اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ گئی تھی ، حضرت مصلح موعودؓ نے جب بار بار پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھ سے بیان نہیں ہو سکتا ہے جو ہو گیا ہے میری ساری عمر یہ خواہش تھی کہ میں سونے کی اشرفیاں لے کر کسی دن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حاضر ہوں اور ان کو نذرانہ پیش کروں اور جب سونا نہیں تھا تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام موجود تھے جب سونا آیا تو حضور موجود نہیں اس لئے میں حضرت اماں جان کی خدمت میں وہ اشرفیاں پیش کر کے اپنے دل کی بھڑاس نکالنا چاہتا ہوں اور یہ درد کہ کاش مسیح موعود ہوتے مجھے کھائے جارہا ہے.حضرت مصلح موعود بتایا کرتے تھے کہ بہت مشکل سے ٹکڑوں ٹکڑوں میں اُنہوں نے یہ بات بیان کی تو اس بچی کو خیال آیا کہ اس کا نام بھی تو زندہ ہونا چاہئے اور انہوں نے وہ دوا شرفیاں جو ان کے پاس تھیں وہ مجھے دیں تو ایک نیکی چونکہ دوسری نیکی کی طرف منتج ہو جاتی ہیں مجھے خیال آیا کہ یہ تو اللہ تعالیٰ نے اس تحریک میں منشی اروڑے خان کو شامل کرنے کا ذریعہ بنا دیا ہے.ہم بھول چکے تھے مگر خدا تو نہیں بھولا چنا نچہ ان کی طرف سے میں نے وہ دواشرفیاں بھی اس تحریک میں شامل کر دیں ہیں اور مجھے بڑا لطف آ رہا ہے اس بچی کے اس خیال پر اور خدا کے اس احسان پر کہ ایک شخص نے کسی خاص جذبے سے قربانی دی تھی اسے زندہ کرنے کے لئے کیسا عمدہ بہانہ بنالیا اور کس ترکیب سے اس نام کو دوبارہ زندہ کر کے اس تحریک میں شامل کر دیا اور اس سے پھر مجھے ایک اور خیال آیا کہ میں نے اپنی والدہ کی طرف سے بھی تو کچھ نہیں دیا چنا نچہ کچھ معمولی ساسونا تھا وہ میں نے اپنی والدہ کی طرف سے بھی دے دیا تو اس طرح ایک نیکی دوسری نیکی کے بچے پیدا کرتی چلی جاتی ہے، جس طرح بدی سے بدی کے بچے پیدا ہوتے ہیں، جس طرح نفرت سے نفرت پھوٹتی
خطبات طاہر جلد۳ 437 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء ہے اس طرح یہ اللہ کا قانون ہے کہ نیکیاں اور نیکیاں پیدا کرتی چلی جاتی ہیں تو یہ بہت بڑا ایک احسان ہے کہ جماعت کے اندر نیکیاں پھل پھول رہی ہیں.میں جو کہتا ہوں کہ خدا نے ابھی سے ہمیں بہت انعام دینے شروع کر دیئے ہیں یہ کم انعام تو نہیں ہیں کسی جماعت کے اندر عظیم الشان روحانی اقدار جاگ اٹھیں اس کے اندر نیکیاں نشو نما پانے لگ جائیں اور کثرت کے ساتھ نیکیاں بچے دینے لگیں اور ایک نیکی دوسری نیکی پر منتج ہو.یہ جو سلسلہ ہے یہ بہت ہی عظیم الشان خدا کا احسان ہے.جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو بعض دفعہ خط لکھتے وقت کچھ بے صبری دکھا جاتے ہیں ان کے لئے اب میں چند باتیں کہنی چاہتا ہوں.بعض مجھے لکھتے ہیں کہ اب تو روتے روتے ہمارا برا حال ہو گیا ہے اور خدا کیوں مدد کو نہیں آرہا ابھی تک.کب تک آخر ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف گالیاں سنیں گے اور دل آزاری کی باتیں سنیں گے ؟ خصوصاً اہل ربوہ کے اوپر چونکہ زیادہ سخت امتحان ہیں اس لئے بعض لوگ وہاں سے جو خط لکھتے ہیں اس میں بے انتہا بے قراری پائی جاتی ہے کیونکہ ایک طرف احمدیوں کی اذانیں بند ہیں، خدا کا نام لینا بند ہے اور دوسری طرف علما کو وہاں لاؤڈ سپیکر پر گالیاں دینے کی کھلی چھٹی ہے اور بعض دفعہ وہ سارا سارا دن انتہائی مغلظات بکتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف تو یہ دکھ ہے جو بے قرار کر دیتا ہے.وہ کہتے ہیں ہم روتے ہیں ساری ساری رات گریہ وزاری کرتے ہیں لیکن آخر کب تک ہم سے یہو گا ؟ خدا کیوں ہماری مدد کو نہیں آرہا؟ تو در اصل ان کو بھی اُسی آیت کی طرف متوجہ ہونا چاہئے جس کا میں نے ذکر کیا تھاما استَكَانُوا کی کیفیت اپنے اندر پیدا کریں ،آنسو بہت ضروری ہیں لیکن حو صلے کو نرم کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونے چاہئیں بلکہ اس طرح استعمال ہونے چاہئیں جس طرح بھٹی میں چپ لو ہا ڈالا جاتا ہے تو اسے بار بار نکال کر پانی میں اس لئے داخل کیا جاتا ہے کہ اس سے اس پر آب مزید آجائے اگر صرف بھٹی جلتی رہے تو لو ہے خواہ کتنے ہی سخت ہوں اپنے ذات کے لحاظ سے وہ کچھ دیر کے بعد نرم ہو کر پکھل جاتے ہیں لیکن اگر بار بار ان کو پانی میں ڈبویا جائے تو بجائے نرمی آنے کے ان میں اور زیادہ بختی آنی شروع ہو جاتی ہے یہی قانون ہے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ، یہی سلوک ہے انبیاء کی جماعتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا چنانچہ ایک طرف دشمن ان کو بھٹی میں جلانے کی کوشش کرتا ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے انکو رحمت کے آنسو عطا کرتا ہے، وہ خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں، ایک دوسرے کے غم میں بے انتہا درد محسوس کرتے ہوئے ان کی
خطبات طاہر جلد ۳ 438 خطبه جمعه ار ا گست ۱۹۸۴ء آنکھیں اللہ کے حضور آنسو بہاتی ہیں تو دل جہاں اپنوں کے لئے نرم ہو جاتے ہیں وہاں غیروں کے لئے اور زیادہ ان میں دفاعی شدت پیدا ہوتی چلی جاتی ہے، کمزوری کی بجائے ان میں ایک خاص توانائی پیدا ہو جاتی ہے.اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سَيْمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ اثَرِ السُّجُودِ ( الفتح ۳۰) که محمدمصطفی علیہ اور ان کے ساتھیوں کا ایک عجیب حال ہے اپنوں کے لئے وہ بے انتہار تم دل ہیں اور ان کے دکھ ان سے برداشت نہیں ہوتے لیکن یہ دکھ ان کو دفاعی لحاظ سے کمزور نہیں کرتے ، ان میں نئی قوت عطا کرتے چلے جاتے ہیں اَشدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ غیر کے مقابل پر تو دیکھے گا کہ انتہائی شدید ہو جاتے ہیں یہ کیسے حاصل ہوتی ہے قوت اندرونی طور پر نرمی اور بیرونی طور پر شدت میں اضافہ فرماتا ہے تَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا یہ کیسے بات پیدا ہوتی ہے؟ خدا کے حضور گریہ وزاری کے نتیجے میں رکوع میں بھی جھک جاتے ہیں سجدوں میں گرتے ہیں دعائیں کرتے ہیں تو جہاں دل کو ایک ٹھنڈک ملتی ہے خدا کے حضور آنسو بہانے سے وہاں جو تپش ہے وہ نرم کرنے کی بجائے اس میں اور زیادہ سختی پیدا کر دیتی ہے غیروں کے مقابل پر اور ایک نئی ہمت ان کو عطا ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں یہ نمونے بھی ہیں اور میں ان کو جو کچھ دیر رونے کے بعد گھبرا جاتے ہیں کہتے ہیں ابھی تک کیوں نہیں ہوا ان کو میں بتاتا ہوں کہ مَا ضَعُفُو سے بھی تو سبق سیکھیں بعض نسلیں بوڑھی ہو جاتی ہیں خدا کی راہ میں قربانیاں کرتے کرتے اور پھر بھی ان کے اندر کوئی بڑھاپے کے آثار پیدا نہیں ہوتے اس لئے اللہ کا کام ہے وہ فیصلہ کرے کہ کب اس کی تقدیر نصرت کے رنگ میں ظاہر ہو.ایک نصرت تو وہ ہر وقت ہماری فرما رہا ہے اسے کیوں بھول جاتے ہیں.جب بھٹی میں کسی قوم کو ڈالا جاتا ہے اگر تو وہ جل کر باہر نکل رہی ہو پھر تو یہ خطرہ ہے کہ کیوں دیر ہورہی ہے؟ سارے جسم ہو جائیں گے اگر جلنے کی بجائے اُس میں مزید قوت پیدا ہونی شروع ہو جائے، دشمن بجائے اس کے کہ اس کو مٹانے میں کامیاب ہو وہ پہلے سے بڑھنی شروع ہو جائے تو پھر اس بے صبری کا کیا جواز ہے؟
خطبات طاہر جلد ۳ 439 خطبه جمعه ۰ ار ا گست ۱۹۸۴ء اگر تو ان مخالفتوں کے نتیجے میں جماعت کے اندر کمزوری آجاتی ، اگر تو ان مخالفتوں کے نتیجے میں احمدیت پھیلنا بند ہو جاتی ، احمدیت کی طاقت میں کمی آجاتی تو پھر یہ خطرہ برحق تھا کہ اے خدا ! بس کر اب تو مارے گئے جس دین کے لئے ہم قربانیاں دے رہے ہیں وہ دین مٹتا چلا جارہا ہے لیکن یہ بات تو نہیں ہے بالکل برعکس نتیجے پیدا ہورہے ہیں اس لئے دکھ کا معاملہ تو درست ہے کہ بعض دفعہ دیکھ نا قابل برداشت نظر آنے لگتا ہے لیکن دکھ کے نتیجے میں ہلاکت بہر حال نہیں ہے اس لئے دیر بھی ہوگئی تو جماعت آگے ہی بڑھے گی جس جماعت کے مقدر میں بہر حال آگے بڑھنا ہے اس کے لئے خوف کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوا کرتا.وہ لوگ جو قربانیاں کر رہے ہیں جو واقعی اس وقت جماعت کی نمائندگی کر رہے ہیں دکھ اٹھانے میں اُن کے حوصلے تو خدا کے فضل سے کم نہیں ہوئے.چنانچہ بعض ایسے ہی حوصلہ مند نو جوانوں کے ذکر میں ربوہ کی ایک بچی مجھے لکھتی ہیں کہ میں اپنے بڑے بھائیوں سے اکثر سنتی تھی کہ حضرت مسیح موعود کے افراد دور سے پہچان لئے جاتے ہیں یہ سن کر میں بہت حیران ہوتی تھی کہ شکلیں تو انسان کی ایک جیسی ہیں پھر یہ کیا کہتے ہیں مگر آج خود ہی انداز ہو گیا.میں آج تقریبا 10 بجے اپنی بھتیجی کے ساتھ گولبازار سبزی لینے گئی مسجد مہدی کے ساتھ پکی سڑک جواڈے والی ہےاڈے کی طرف سے دولڑکوں کو ہتھ کڑیاں لگی ہوئی دیکھیں اور پانچ یا چھ پولیس میں ساتھ ہیں عدالت کی طرف جارہے ہیں میں نے بھی ادھر ہی جانا تھا پردہ میں زیادہ تو نظر نہ آیا لیکن جتنا بھی نظر آیا میں نے دیکھا کہ وہ لڑ کے مجھے بڑے عزم حو صلے اور شریفانہ انداز میں چلتے ہوئے نظر آئے.میرے دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ لڑکے تو احمدی ہیں ساتھ خوف کا دھڑ کا بھی لگ گیا، پھر آگے چلتے گئے سڑک کے دونوں طرف چلنے والے مسافر کیا عورتیں کیا مرد کیا بچے سارے ذرا سا رکتے تھے کچھ کہتے اور پھر نہ جانے دل میں کیا کیا دعائیں کرتے ہوئے آگے گزرتے جاتے تھے.عدالت کے قریب جاتے جاتے تو بے شمار لوگ اکٹھے ہو گئے مجھ سے رہا نہ گیا میں نے ایک آدمی سے پوچھ ہی لیا کہ یہ دونوں خدام ہمارے وہ احمدی تو نہیں جن کے متعلق سنا گیا تھا کہ ان کو بڑی تکلیفیں دی گئی ہیں تو کہنے لگا جی ہاں باجی وہی ہیں میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہو گئے اور میں ان کے لئے دعا کرنے لگی کہ یہ تو مسیح موعود کی پاک جماعت کے ہونہار، صابر ، حوصلہ مند خدام ہیں.یہ تو لاکھوں کروڑوں میں پہچانے جاتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ حضور رسول اکریم عل اللہ کے غلام عاشق صادق کے غلام ہیں اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 440 خطبه جمعه ار ا گست ۱۹۸۴ء منٹوں میں وہاں ربوہ والوں کا اتنا ہجوم ہو گیا کہ وہاں سے گزرنا مشکل ہور ہا تھا اور ہر ایک آگے بڑھ کر ان دونوں کو گلے مل رہا تھا اور وہ دونوں مسکرا مسکرا کر سب کو تسلیاں دے رہے تھے یعنی دنیا میں تو الٹ ہوا کرتا ہے کہ جو لوگ قید ہوتے ہیں باہر والے آکر ان کو تسلیاں دیتے ہیں لیکن اللہ کی راہ میں قید ہونے والوں کا عجیب حال ہے کہ باہر والے بے قرار اور بے چین ہیں اور وہ ان کو تسلیاں دے رہیں ہیں.تسلی کے سلسلہ میں ایک آپ کو لطیفہ بھی سنا دوں.ایک بچی نے مجھے یہ لکھا ہے کہ آپ جماعت کی بالکل فکر نہ کریں اگر یہ جماعت آپ کو پیاری لگتی ہے تو اللہ کوبھی تو پیاری لگتی ہے وہ خود اس کی فکر کرے گا جو اللہ کو پیاری لگتی ہے مجھے اور پیاری کیوں نہ لگے؟ پھر یہ عجیب بات ہے اصل بات یہ ہے کہ آنحضرت علﷺ سے ہم نے سبق سیکھنے ہیں.آنحضرت ﷺ تو دشمن کے غم سے بھی اتنا در دمحسوس فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کو خود یہ کہنا پڑا کہ لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۴۰) کہ اے محمدعلی تو ان ظالموں کے لئے اپنے آپ کو غم میں ہلاک کر لے گا جو ایمان نہیں لاتے ! تو ہم نے تو حضوراکرم اللہ سے ڈھنگ سیکھنے ہیں.معلوم ہوتا ہے کہ اس بچی کے ذہن میں وہ ابر ہ والا واقعہ رہ گیا ہے جب غالبا عبدالمطلب کی بات ہے کہ انہوں نے یہ کہا کہ مجھے اپنے اونٹوں کی فکر ہے کیونکہ میں اونٹوں کا مالک ہوں رب الکعبہ کو کعبہ کی فکر ہو گی کیونکہ وہ کعبہ کا مالک ہے یر عبدالمطلب کے منہ سے تو بات بجتی ہے لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کبھی یہ نمونہ نہیں دکھایا.جو رب کعبہ کا تھا وہ آپ کا بھی تھا.جو رب کعبہ کو عزیز تھا وہ آپ " کو بھی عزیز تھا اس لئے جو محمد مصطفیٰ ﷺ کا اسوہ ہے ہم نے تو اس کو اپنانا ہے، ہمیں اس سے کیا غرض کہ عبدالمطلب نے کیا جواب دیا تھا.ایک شیخو پورہ کے دوست اپنی بچی کا حال لکھتے ہیں یہ وہی آنسو ہیں جو دلوں میں ایک توانائی پیدا کر نے والے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ میں بھی مسجد مبارک پہنچا جس دن آپ آخری رات وہاں دوستوں کو خطاب کر رہے تھے اس رات کی بات ہے.یہ دوسری جگہ سے چل کر آئے تھے انہوں نے کہا میں نے اپنے دو بچے ساتھ لئے اس ارادہ سے کہ وہاں جا کر اپنے آپ کو اپنے بچوں کو شہادت کے لئے پیش کر دوں اور چونکہ ہمیں خطرہ تھا کہ آپ کی ذات کو خطرہ ہے اس لئے یہ تمنالے کر چلے تھے کہ ہماری لاشوں پر سے گزر کے دشمن آپ تک پہنچے ورنہ آپ تک نہ پہنچ سکے.جب ہم چلنے لگے تو
خطبات طاہر جلد ۳ 441 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء عجیب نظارہ دیکھا کہ میری بچی جو چھٹی جماعت میں پڑھتی ہے وہ روتی روتی ہم سے پہلے آگے نکل کھڑی ہوئی اور ربوہ پہنچے تو مسجد کی طرف دوڑی اور سب سے آگے بڑھ کر وہ اس بات کی منتظر بیٹھی تھی کہ جب آواز آئے کہ کون قربانی کے لئے تیار ہے تو سب سے پہلے میں اُٹھ کر کھڑی ہوں چنانچہ جب آپ مغرب کی نماز کے بعد دوستوں سے مخاطب ہوئے تو یہ بچی چیخ چیخ کر پکار رہی تھی کہ حضور ہماری جانیں حاضر ہیں لبیک لبیک.پس ہم تو اُس کو دیکھتے دیکھتے خاموش رہ گئے.ایک عجیب منظر تھا اس بچی کی کیفیت کا اور بچوں کی یہ جو کیفیت ہے یہ ایک عظیم الشان روحانی انقلاب بر پا کر رہی ہے اُن میں یہ کوئی جذباتی ایسے واقعات نہیں ہیں جو آئے اور گزر گئے بلکہ غیر معمولی طور پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو اللہ تعالیٰ ولی بنا رہا ہے.ایک ایسے ہی بچے کا ذکر کرتے ہوئے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نظم لیے لیے گنگنا کر پڑھنے لگا تو میرا چھوٹا بچا جس کی عمر نو اور دس سال کے درمیان ہے میرے پاس لیٹ گیا اور نظم سنے لگا اور اس شعر پر اس نے کہا کہ یہ شعر دوبارہ پڑھیں اے خدا اے چارہ ساز در دہم کو خود بچا اے میرے زخموں کے مرہم دیکھ میرا دل فگار براهین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحہ: ۱۳۹) میں نے اسے مکرر پڑھا.کہنے لگا پھر پڑھیں ، پھر پڑھا، آگے چل کر جب یہ شعر آیا تو پھر بار بار مجھ سے پڑھوایا: تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے ایسے جینے سے تو بہتر مر کے ہو جانا غبار براهین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه: ۱۳۹) خیر سارے اشعار پڑھے خاص غور و جذ بے سے لیٹے لیٹے سنتا رہا.میں بھی ایک خاص کیفیت میں اسے سنا تا رہا.خدا کی قسم وہ بچہ اس درد سے چیخا کہ ہم سب بھی اسے دیکھ کر رونے لگ گئے.اس کی امی اسے تسلی دیتے ہوئے کہنے لگی کہ بیٹا نمازوں میں یہ کیفیت پیدا کر اپنے اللہ سے، اپنے قادر وتوانا خدا سے جسے وہ دن لانے میں دیر نہیں لگتی ، وہ نظارے واپس لانے میں دیر نہیں لگتی جین کے لئے تم ا، بے چین ہو اس کے حضور دعائیں کرور و نہیں.خیر وہ سنبھلا اور چپکے سے اٹھ کر اندر جا کر میض پہنی اور
خطبات طاہر جلد۳ 442 خطبه جمعه ار اگست ۱۹۸۴ء کمرے میں پنکھا چلا کر نفل شروع کر دیئے اور ہمیں اس وقت اس کا علم ہوا جب وہ سچ سچ اپنی امی کے کہنے کے مطابق سر سجدے میں رکھ کر چلا رہا تھا، اس نے دو رکعت نماز پڑھی پر کیا پڑھی ! ہم سب حیران رہ گئے ! اتنی چھوٹی عمر میں اتنا درد اس کے سینے میں چھپا ہوا تھا کہ حضور وہ فقرات جو وہ دہراتا رہا من وعن نوٹ نہیں ہو سکتے.یوں لگتا تھا کہ یہ اس کی زبان نہیں تھی کسی اور کے الفاظ اس کی زبان پر جاری تھے.یہ وہ اللہ کے احسانات ہیں جو جماعت احمدیہ کو اس نے اس دور میں عطا فرما دئے ہیں.یہ دور کچھ لمبا بھی چل جائے تو کیا قیامت ہے ! یا تو جماعت کا ایمان مٹ رہا ہو تو ہمیں خوف پیدا ہو یا تو جماعت مرتد ہونا شروع ہو جائے نعوذ باللہ من ذالک تو ہمیں خوف پیدا ہو یا تو پھیلنا بند کر دے اور غیر احمدی اس کو قبول کرنا چھوڑ چکے ہوں تب ہمیں خوف پیدا ہو.جس جماعت کا ہر قدم ہر حالت میں بہر حال ترقی کی طرف اٹھ رہا ہے اور ایسی ایسی روحانیت کی عظمتیں اور رفعتیں اسے نصیب ہو رہی ہیں کہ ارب ہارو پیہ خرچ کر کے بھی تو میں اگر اپنی قوموں میں یہ حالت پیدا کرنے کی کوشش کریں تو یہ نہیں کر سکتیں.ساری عرب کی دولت اگر اسی کام پر خرچ ہو جائے کہ مسلمانوں میں روحانیت کا وہ مقام پیدا کر دیں جس کے نظارے آج احمد بیت دیکھ رہی ہے تو وہ نا کام ہوں گے کیونکہ روحانیت دولت کے ذریعے نہیں عطا ہوا کرتی.روحانیت تو اس کیفیت سے عطا ہوتی ہے جب دولتوں سے نفرت ہونے لگتی ہے اور انسان لٹنے کے باوجود بھی جو کچھ بیچ چکا ہوتا ہے وہ بھی خدا کے رستے میں لٹانا شروع کر دیتا ہے اس لئے ہرگز حوصلہ نہ ہاریں، جتنے لمبے دن بھی خدا نے آزمائش کے ڈالنے ہیں ہاں یہ دعا ضرور کرتے چلے جائیں کہ اے اللہ ! ہمارے گناہ ہماری راہ میں حائل نہ ہو جائیں ، اے خدا! ہماری وہ کمزوریاں جو ہمیں نظر آ رہی ہیں وہ جماعت کے لئے وبال نہ بن جائیں.آج دن نہیں ہیں تیری ناراضگی کے اے خدا! آج ہم کیسے برداشت کریں گے دشمن بھی ہمیں غضب کی آنکھ سے دیکھے اور ہمارا آقا ومولیٰ جس کے لئے ہم مرتے اور جیتے ہیں وہ بھی ہم سے ناراض ہو جائے اس لئے گناہ گار نہ ہلاک ہوں ، آج ہم سے حساب نہ لے، آج ہم سے بخشش کا سلوک فرما، آج ہم سے رحم کا سلوک فرما، آج ہم سے مغفرت کا سلوک فرما اور ہمیں ثبات قدم بخش تا کہ جتنی دیر تو چاہے ہم کامل ہمت اور استقلال کے ساتھ تیری راہ میں آگے قدم بڑھاتے رہیں یہاں تک کہ وہ وقت آ جائے جس کا تو نے وعدہ دیا ہے اور ہمیں غیروں کے مقابل پر عظیم نصرت اور فتح عطا.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 443 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء شرعی عدالت کا فیصلہ خطبه جمعه فرموده ۱۷ اگست ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُوْنُوْا قَوْمِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ پھر فرمایا : (المائده: (۹) ابھی چند دن پہلے اس عدالت کی طرف سے جسے ” شریعت کورٹ کا نام دیا گیا ہے حکومت پاکستان کی طرف سے بعض احمدیوں کی طرف سے ایک پیش کردہ مقدمہ کا فیصلہ سنایا گیا ہے.اس کے متعلق تو میں پہلے بھی کچھ کہہ تو سکتا تھا لیکن چونکہ معاملہ ابھی عدالت میں تھا اور میں یہ نہیں پسند کرتا تھا کہ ان کو کوئی بہانہ ہاتھ آئے کہ چونکہ مقدمہ کے دوران فلاں شخص نے یہ بات کہہ دی ہے اس لئے ہمیں عذ رمل گیا ہے فلاں بات کرنے کا اس لئے میں نے عملاً اس کے متعلق کچھ کہنے سے گریز کیا ہے مگر جماعت کو میں بتانا چاہتا ہوں کہ اس کا پس منظر کیا ہے کیا واقعہ ہوا اور کیوں ایسا ہوا ؟
خطبات طاہر جلد ۳ 444 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۸۴ء پہلی بات تو یہ بیان کرنی ضروری ہے کہ اس میں جماعت احمد یہ ایک فریق نہیں تھی.کسی سیح پر بھی جماعت احمد یہ اس مقدمہ کا فریق نہیں بنی.میں نہیں جانتا کہ غیر مبائعین بحیثیت غیر مبائع جماعت کے فریق بنے ہیں یا نہیں لیکن جماعت احمد یہ بہر حال اس مقدمہ کا کوئی فریق نہیں اس لئے یہ غلط فہمی اگر کسی کو ہو تو وہ دور ہو جانی چاہئے اور نہ ہی جماعت احمد یہ کسی اس نوع کی عدالت میں بطور جماعت احمدیہ کے جاسکتی ہے جس کی کوئی شرعی حیثیت نہ ہو.جہاں تک بعض افراد کا تعلق ہے جو جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں انہوں نے کیوں ایسا کیا اور کیوں انہیں میں نے نہیں روکا؟ یہ سوال ہے صرف جس کے متعلق جماعت کو علم ہونا چاہئے.انہوں نے ایسا اس لئے کیا ان کے ذہن میں جو دلیل تھی وہ یہ تھی کہ تمام دنیا میں حکومت پاکستان یہ پراپیگنڈہ کر رہی ہے کہ جماعت احمدیہ نے اس فیصلے کو قبول کر لیا ہے اور احمدیوں نے تسلیم کر لیا ہے کہ یہ جو کچھ بھی فیصلہ ہوا ہے یہ درست ہے اور ہم اسی کے مطابق عمل کریں گے یعنی دل سے گویا ہمیں تسلیم ہو گیا ہے.تو اگر کچھ احمدی مقدمہ کر دیں ان کی شرعی عدالت میں یعنی مبینہ طور پر شرعی عدالت میں اور پوری طرح اس معاملہ کو کھنگالیں تو فائدہ اس کا یہ ہوسکتا ہے کہ اول تو یہ الزام خود بخود دنیا کی نظر میں گر جائے گا اور بے معنی ہو جائے گا.دوسرے جماعت کی طرف سے جو دلائل پیش کئے جائیں گے وہ اتنے قومی اور واضح ہوں گے کہ اگر عدالت نے خلاف بھی فیصلہ دے دیا جیسا کہ دینا ہے تو تب بھی کوئی فرق نہیں پڑتا جو لوگ پڑھیں گے ان کے لئے بہتوں کے لئے ہدایت کا موجب ہو جائے اور جو لوگ کا روائی سنیں گے اور روزانہ اخبارات میں شائع ہوگی ان کو ایک بہت فائدہ پہنچے گا بلکہ ایسے ملک میں جہاں ایک طرف یہ تبلیغ بند کر رہے ہیں خود ان کی عدالت تبلیغ کرنے کا ایک موقع مہیا کر دے گی کیونکہ وہ سارے امور جو اختلافی مسائل سے تعلق رکھتے ہیں وہ بیچ میں آنے تو ہیں بہر حال.چونکہ ان کے اس موقف میں کافی وزن نظر آتا تھا اگر چہ یہ خدشہ بھی تھا کہ وہ اس کا روائی کو اسی طرح چھپا جائیں جس طرح اس سے پہلے نیشنل اسمبلی کی کاروائی کو آج تک بصیغہ راز رکھا گیا ہے اور اس فائدہ سے جماعت محروم رہ جائے جو ان نو جوانوں کے ذہن میں تھا جنہوں نے مقدمہ میں حصہ لیا ہے لیکن چونکہ یہ بھی امکان تھا کہ عدالت ہے اور اسمبلی نہیں ہے ہو سکتا ہے اس کو وہ کھلم کھلا منعقد کریں کیونکہ کسی جرم کی عدالت تو نہیں ہے یہ تو
خطبات طاہر جلد ۳ 445 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء شرعی مسلک سے تعلق رکھنے والی عدالت ہے.اس لئے کوئی بعید نہیں کہ یہ اسے کھلم کھلا لوگوں کے سامنے اس کا روائی کو چلائیں اور اخباروں کو بھی اجازت ہو کہ وہ پوری کا روائی کو آگے چھاپنا شروع کر دیں لیکن جب مقدمہ شروع ہوا تو تعجب ہوا کہ اس معاملہ میں بھی انتہائی Secrecy یعنی راز برتا گیا ہے اور سوائے ان چیدہ آدمیوں کے جن کو ٹکٹ دیا گیا فریقین کی طرف سے اخبارات کو نہ تو کاروائی شائع کرنے پر اجازت تھی اپنی طرف سے اور نہ احمدیوں کو جو مقدمہ کے ایک فریق تھے ان کو اجازت تھی کہ وہ اس کا روائی کو شائع کریں اور صرف عدالت کی طرف سے جو مختصر نوٹ جاری ہوتا تھا وہی صرف شائع کیا گیا.اس سے ایک تو ان کا رحجان بڑا واضح ہو گیا کہ وہ کیا چاہتے ہیں اور ایک تو بڑی قطعی بات ہے جس دن یہ فیصلہ کیا گیا اور پہلے دن ہی یہ فیصلہ کیا گیا ہے اس سے ایک بات واضح ہوگئی کہ اگر ان کے نزدیک دلائل حکومت کی طرف ہوتے جنہوں نے یہ آرڈینینس جاری کیا ہے تو ناممکن تھا کہ وہ اس کو چھپاتے اس بحث کو ان کو تو اشتہار دے کر بلوانا چاہئے تھا ساروں کو کہ آکر دیکھ لو یہ جو احمدی کہتے ہیں کہ حکومت نے ظلم کیا ہے ابھی ثابت ہو جائے گا قرآن کریم کی رو سے کہ بالکل جھوٹ کہتے ہیں اور حکومت بالکل حق پر ہے اور عین شریعت کے مطابق فیصلے ہوئے ہیں.تو وہی وجہ جو اس سے پہلے نیشنل اسمبلی کے فیصلوں کو چھپانے کی بنی اور اس کا روائی کو چھپانے کی وہی وجہ اب پھر حائل ہوگئی اس کا رروائی کو مشتہر کرنے میں.بہر حال ابھی بھی کوشش تو کی جارہی ہے اور وکلا نے درخواستیں دی ہیں جنہوں نے مقدمہ کیا تھا کہ ہم فریق ہیں ہمارا حق ہے کہ ساری کاروائی کی Tape ہمیں بھی دی جائے اور تحریری عدالت کی مصدقہ نقول بھی ہمیں دی جائیں کہ مقابل پہ لوگ کیا کہتے تھے ہم کیا کہتے رہے.تو اگر وہ مان گئے تو یہ فائدہ اب بھی حاصل ہوسکتا ہے اور ساری دنیا میں اس کیس کی اشاعت ہو جائے گی اور اصل حج تو خدا ہے لیکن خدا کے بعد بندوں میں تبلیغ کے طور پر یہ کاروائی بہت کام آسکتی ہے کیونکہ مسلسل جماعت احمدیہ کے وہ ممبران جنہوں نے انفرادی حیثیت سے یہ مقدمہ کیا ان میں ہمارے وکیل جو خاص طور پر پیش پیش تھے جنہوں نے بہت محنت کی ہے وہ شیخ مجیب، شیخ تو غلطی سے ان کے نام کے ساتھ لگ جاتا ہے مجیب الرحمن صاحب ہیں بنگال کے ہیں چونکہ نام مجیب الرحمن ہے اس لئے اکثر شیخ خود بخو د ساتھ لگ جاتا ہے.وہ کئی دفعہ احتجاج بھی کر چکے ہیں اب تو بیچارے جواب دے بیٹھے ہیں کہتے ہیں
خطبات طاہر جلد۳ 446 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۸۴ء اب مجھ سے بار بار احتجاج نہیں ہوتے جو مرضی کہو مجھے لیکن چونکہ کہنے والوں کی نیت بدنہیں اس لئے تَنَابَزُوا بِالألقاب (الحجرات :۱۲) میں بہر حال نہیں آتا خیر یہ تو سمنی بات تھی.انہوں نے تو اتنی محنت کی ہے کہ جو دوست مختلف کاروائیاں سننے والے تھے اور جو جانتے ہیں، جو قریب رہے ان کی طرف سے مسلسل مجھے دعا کے خط آتے رہے اس لئے میں اس موقع پر میں ان کے لئے دعا کی بھی درخواست کرنا چاہتا ہوں.شروع میں ہی ان کو نظر آ گیا تھا کہ ان سے کیا ہونی ہے؟ پانچ گھنٹے مسلسل ان کو بولنا پڑتا تھا اور جب انہوں نے درخواست کی کہ میں نے تیاری کرنی ہوتی ہے جو میں کام کر رہا ہوں مجھے ساری رات جاگنا پڑتا ہے اور پانچ گھنٹے بولنے کے لئے آپ لوگ جانتے ہیں وکیل رہ چکے ہیں کہ کتنی بڑی تیاری کی ضرورت ہے تو اس وقت کو کچھ کم کریں سہولت سے چلیں.لیکن معلوم ہوتا ہے کچھ ہدایات تھیں یا کچھ مقاصد تھے جو ظاہر نہیں کئے گئے عدالت کی طرف سے.وہ چاہتے تھے کہ افراتفری میں جتنی جلدی ہوسکے یہ معاملہ نبیڑا جائے.چنانچہ ان کی درخواست کو صاف رد کر دیا گیا اور کہا یہ گیا کہ ہم تم سے بوڑھے ہیں ہم جب بیٹھتے ہیں پانچ گھنٹے تو تمہارا پانچ گھنٹے کھڑے ہونے میں کیا فرق پڑتا ہے.ہم چونکہ سنتے ہیں پانچ گھنٹے اس لئے تمہارا 19 گھنٹے تیاری سے کیا فرق پڑ جاتا ہے؟ تو عجیب دلیل تھی.لیکن یہ بھی پتہ لگ گیا کہ آئندہ کس قسم کی دلیلیں آنے والی ہیں؟ بہر حال مقد مہ دونوں طرف سے بڑے جوش و خروش سے لڑا گیا اور بار بار ہمارے احمدی وکیل یہ کہتے رہے کہ ہم قرآن وسنت سے بات کر رہے ہیں.آپ بعد کے فقہاء کی باتیں کرتے ہیں.شریعت کی بات کرنی ہے تو قرآن وسنت سے فیصلہ ہونا چا ہے.یہ کیا قصہ ہے کہ فلاں فقیہ نے یہ کہا اور فلاں فرقے کے فلاں امام نے یہ کہہ دیا ؟ ہم تو قرآن اور محمد رسول اللہ ﷺ کو امام مانتے الله ہیں اس لئے آنحضور ﷺ کا حوالہ دیجئے شوق سے ، قرآن کریم کے حوالے دیجئے اس سے باہر کی دنیا جو کئی سو سال بعد پیدا ہوئی ہے اس کے حوالوں میں ہمیں کیوں کھینچتے ہیں.مگر چونکہ عدالت ان کے ان حوالوں کو سراہ رہی تھی اور واہ واہ کر رہی تھی اور بڑے بڑے دلچسپ ریمارکس ساتھ دیتی چلی جا رہی تھی اس لئے ان وکلا کے لئے مجبوری تھی کہ جس میدان میں بھی وہ گھسیٹیں اُس میدان میں جائیں اور اُس میدان میں بھی اُن پر فتح پائیں.چنانچہ یہ ایک غیر معمولی محنت سے تیار کیا ہوا مقدمہ تھا
خطبات طاہر جلد۳ 447 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء مجیب الرحمن صاحب کا جس میں دشمن بھی اس معاملہ میں عش عش کر اٹھا اور جو رپورٹیں مخالفین اور معاندین کی باہر لاتی تھیں وہ بلا استثنا یہی کہہ رہے تھے کہ جیتیں گے، ہم فیصلہ ہمارے حق میں ہو گا لیکن دلائل میں احمدیوں کے وکیل کا کوئی مقابلہ نہیں ہے.وہ لے گیا بازی اور Panic ڈالتے تھے مولوی اور کہتے تھے کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ کچھ کرو کہیں سے کچھ نکالو.تو جو خلق خدا کی آواز ہے وہ تو خدا والوں کے ساتھ ہی ہے اور جو حکومت والوں کی آواز ہے اس نے حکومت کے ساتھ ہی ہونا ہے ظاہر بات ہے اس میں تو کوئی فرق نہیں پڑے گا.چنانچہ میں نے شروع میں ہی ان کو لکھ دیا تھا کہ : قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں (دیوان غالب صفحه: ۱۵۹) جوانہوں نے کہنا ہے تمہیں پہلے ہی پتہ ہے.تمہارا مقصد ہی کچھ اور تھا وہ مقصد خدا کرے حاصل ہو جائے پورے کا پورا مگر یہ ان کو ضرور بتا دو کہ تمہاری شرعی حیثیت کوئی نہیں ہے اور یہ بھی بتا دو کہ اصل اپیل ہماری سپریم کورٹ میں نہیں بلکہ خدا کی عدالت میں ہوگی اور خدا فیصلہ کرے گا اور یہ بھی ان کو بتا دو کہ آج جوتم وقتی تاثرات کے تابع فیصلے کرو گے اس سے اسلام کی ایک نہایت ہی خوفناک اور مضحکہ خیز تصویر بھی دنیا کے سامنے ابھر سکتی ہے اور دنیا یہ کہے گی کہ پاکستان کی شرعی عدالت میں قرآن کا یہ تصور پیش کیا گیا تھا اور انسانی حقوق کا یہ تصور پیش کیا گیا تھا اس لئے صرف یہ سوال نہیں ہے کہ انسانوں کے ساتھ کیا سلوک ہونا چاہئے اور ان کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟ اس لئے تم خدا کے سامنے جواب دہ ہو گے اور ہم بھی خدا کے پاس ہی اپیل کریں گے اگر تم نے کوئی ناجائز اور ظالمانہ فیصلہ کیا.یہ تو وارنگ انہوں نے دی ہوگی کیونکہ میں نے واضح طور پر ان کو ہدایت کی تھی کہ میں نے آپ کو اجازت تو دی ہے مشروط لیکن اس شرط کے ساتھ کہ یہ باتیں آپ عدالت کو صاف کھول کر بتا دیں اور تفصیلی کاروائی کچھ آئی تو ہے میرے پاس جو انہوں نے اپنی یاد داشت سے لکھی ہے ہمارے نمائندوں نے وہ میں پڑھوں گا امید ہے ہمارے وکلا نے ضرور یہ بتا دیا ہوگا بہر حال اب میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ کئی اسکے دلچسپ پہلو ہیں.چونکہ یہ معاملہ کئی جگہ زیر بحث آئے گا کئی جگہ لوگ کہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 448 خطبه جمعه ۷ اراگست ۱۹۸۴ء گے دیکھو جی شریعت کی عدالت نے فیصلہ دے دیا اس لئے احمدیوں کے علم میں ہونا چاہئے.کچھ تو یہ پس منظر معلوم ہونا چاہیے کہ کس حیثیت سے ان کے پاس گئے تھے اور ان کو بتایا گیا تھا کہ تمہاری ہم کیا حیثیت سمجھتے ہیں اور مقصد کیا تھا اور جہاں تک بنیادی بحث کا تعلق ہے وہ تو کوئی لمبی چوڑی بحث ہی نہیں ہے.بے وجہ چونکہ مخالف غلط میدانوں میں گھیسٹتا رہا اس لئے ان لوگوں کو بھی مجبور اوہاں جا کر بھی ان کو غلط ثابت کر نا پڑا مگر جو بنیادی بحث ہے وہ زیادہ لمبی ہے ہی نہیں.مختصر دو تین امور سے تعلق رکھتی ہے اور وہ احمدیوں کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینے چاہئیں.پہلی بنیادی بحث یہ ہے کہ کیا قرآن کریم یا سنت نبوی اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ کسی شخص کی طرف وہ مذہب منسوب کیا جائے جو وہ خود تسلیم نہیں کرتا؟ مثلاً کوئی شخص کہتا ہو میں مشرک نہیں ہوں اور قرآن اجازت دے اور آنحضرت ﷺ نے ایسا عمل کر کے دکھایا ہو کہ تم کہتے تو ہو کہ میں مشرک نہیں ہوں لیکن تم ہو مشرک ! تم کہتے تو ہو کہ میں عیسائی ہوں مگر تم عیسائی نہیں ہو یعنی دونوں قسم کی صورتیں کیا قرآن کریم سے کہیں ثابت ہیں اور سنت نبوی سے اس کی کوئی مثال ہے؟ یہ بنیادی چیز ہے.اگر اس کی ایک بھی مثال نہیں اور قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی انسان کو یہ حق نہیں دیتی کہ کسی کے مذہب کے ادعا کے خلاف اس کی طرف کوئی مذہب منسوب کر دے تو اگلی بحثیں ہی ساری بے معنی ہیں، بے تعلق باتیں ہو جاتی ہیں.دوسری بحث یہ نہیں ہے کہ غیر مسلموں کے حقوق کیا ہیں اسلام کے نزدیک؟ یہ بھی عملاً یہاں ہمارے معاملے میں بے تعلق ہے.سوال یہ ہے کہ کیا کسی غیر مسلم کو قرآن کریم کو سچا سمجھنے کا حق ہے کہ نہیں ؟ اور خدا کو ایک سمجھنے کا حق ہے کہ نہیں ؟ اور آنحضرت ﷺ کی سچائی کا اعلان کرنے کا حق ہے کہ نہیں؟ یہ بنیادی بحث ہے.اگر نہیں ہے تو تم یہ تبلیغ کیا کرتے پھر رہے ہیں غیر مسلموں کو ان کو تو حق ہی نہیں ہے کہ اسلام کو سچا سمجھیں اور اگر یہ حق ہے تو کیا اکٹھا حق ہے کہ ایک دم سارے اسلام کو سچا سمجھیں یا یہ بھی حق ہے کہ جتنا سمجھ میں آتا ہے وہ مانتے چلے جائیں.اگر یہ حق نہیں ہے تو پھر یہ شکل بنے گی کہ اگر وہ بحث کے دوران یہ مان جائیں کہ خدا ایک ہے تو آپ کہیں گے نہیں ! ہرگز تمہیں ہم یہ حق نہیں دیتے کہ خدا کی وحدت کا اعلان کرو کیونکہ تم نے باقی باتیں نہیں مانیں.اگر اس کے دماغ میں یہ بات پڑ جائے کہ اللہ بھی ایک ہے اور حضرت محمد مصطفی میت یہ بھی ایک ہیں لیکن حشر نشر کی سمجھ نہیں
خطبات طاہر جلد۳ 449 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۸۴ء آ رہی تو کیا اسلام یہ کہے گا کہ تم ان دو باتوں کو بھی نہیں مان سکتے کیونکہ تم حشر نشر کے قائل نہیں اور اگر اُن کو یہ سمجھ آجائے کہ قرآن کریم جو سچ کی تعلیم دے رہا ہے، بدیوں سے بچنے کا حکم دے رہا ہے، عبادت کا حکم دے رہا ہے یہ طریق بالکل ٹھیک ہے اس پر تو ہمیں عمل کرنا چاہئے لیکن روزوں کی ہمیں سمجھ نہیں آتی تو کیا قرآن کریم روک دے گا اسکو نماز پڑھنے سے بھی؟ اور اکثر ایسے مسلمان ہیں جو ایک حصہ کرتے ہیں قرآن کریم پہ عمل اور دوسرے حصے پر نہیں کرتے تو ان کی پھر کیا حیثیت رہ جائے گی ؟ تو بہر حال بنیادی بات قابل بحث یہ تھی کہ قرآن کریم کے کسی حصہ پر اگر کسی کو ایمان ہو جائے تو کیا شریعت اسلامیہ کسی انسان کو یہ حق دیتی ہے کہ جس حصے پر کوئی شخص ایمان لاتا ہو اس پر عمل سے روک دے؟ اتنی سی بات ہے ساری.ہمارے معاملہ میں جو انہوں نے طریق اختیار کیا وہ بالکل بر عکس اختیار کیا ہے.انہوں نے یہ طریق اختیار کیا کہ پہلے ہمارا نام کچھ اور رکھا مثلاً کسی چمن کو کوئی صحرا کہہ دے کہ ہم نے نام رکھ دیا ہے.پہلے نام رکھا پھر کہا کہہ جب صحرا ہم کہہ رہے ہیں تو بوٹوں کا کیا کام ہے یہاں پھلدار درختوں اور پھولدار درختوں کا کیا مطلب؟ ان کیاریوں کے کیا معنی یہاں پانی دینے کا کیا مطلب؟ نکالو سارے درخت پودے بوٹے گھاس واس سب بکواس ہے کیونکہ ہم جب صحرا کہہ رہے ہیں تو اس کو صحرا ہونا چاہئے.تو پہلے نام رکھا غیر مسلم اور یہ بھی بڑی جہالت ہے.غیر مسلم تو کوئی نام ہی نہیں ہے مذہب کا.غیر مسلم جب کہہ دیا جائے تو جب تک کسی مذہب کی تعین نہ ہو یہ نہیں پتہ لگ سکتا کہ کس کے کھاتہ میں پڑیں گے اور چونکہ ان کے ادعا کے برخلاف ہے اس لئے سوائے اس کے آپ کے لئے چارہ کوئی نہیں کہہ دیا تو کہیں کہ ہم غیر مسلم کہہ دیں گے لیکن تمہاری مرضی جو مرضی کرو، جو مذ ہب اپنے لئے عملاً سمجھوٹھیک ہے لیکن ہم تمہیں غیر مسلم سمجھتے رہیں گے یہ تو معقول بات ہوئی یا پھر یہ کہیں کہ چونکہ ہم تمہیں غیر مسلم کہتے ہیں اس لئے اسلام کے کسی حکم پر تمہیں عمل نہیں کرنے دیں گے.یہ وہ جہالت ہے جو انہوں نے اختیار کی ہے.پھر تیسری شکل یہ بنتی تھی کہ اچھا! غیر مسلم بھی ہمیں کہ دیا اور اسلام پر عمل بھی نہیں کرنے دینا تو اب پھر ہماری شریعت کوئی بنائے گا یا نہیں؟ وہ کہتے ہیں جو مرضی بنالو یعنی گویا انسان شریعت بنائے خود یہ بھی بڑی جہالت کی بات ہے جو مرضی کسی طرح بنا لو.شریعت تو وہ ہوتی ہے جو خدا بناتا ہے اس
خطبات طاہر جلد ۳ 450 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء لئے آپ ہمارے عقیدہ پر جو مرضی حملہ کریں ہمارے لئے یا تو کوئی شریعت بھی بنا کر دیں نا ایک کہ ہم چونکہ تمہیں غیر مسلم کہتے ہیں اسلام پر عمل نہیں کر سکتے اور اب فلاں شریعت تمہارے لئے بنائی جاتی ہے اور چونکہ قدر اشتراک تکلیف دہ ہے کہ فلاں چیز فلاں سے ملنی نہیں چاہئے ،تمہاری کوئی بات مسلمانوں سے ملنی نہیں چاہئے یہ بنیاد بنائی گئی ہے کیونکہ مانی نہیں چاہئے اس لئے کوئی نئی شریعت بنا کے دکھا ئیں کوئی.اس کے متعلق پہلے بھی میں ذکر کر چکا تھا تفصیل سے کہ ہر جگہ جہاں اسلام نے کوئی حکم دیا ہے وہاں منفی بنا ئیں گے تو شریعت بنے گی ورنہ جہاں مثبت کے ساتھ کوئی مثبت مل گیا وہاں آپس میں اتفاق ہو جائے گا اور پھر لوگ کہنے لگ جائیں گے کہ دیکھو یہ مسلمانوں والی بات ہے اور جہاں منع کیا ہے قرآن کریم نے وہاں پر منا ہی پہ مثبت ڈالنا پڑے گا ورنہ ملنے جلنے لگ جائے کی ہماری شریعت اور تمہاری شریعت ، ظاہر بات ہے.اس لئے یہ کوئی طریق ایجاد کرنا پڑے گا صرف یہ ایک فیصلہ کافی نہیں یہ کہ اسلام حق نہیں دیتا تمہیں، یہ طریق ایجاد کرنا پڑے گا کہ جس کو اسلام، اسلام پر عمل کرنے کا حق نہیں دیتا اس کے لئے شریعت کیسے بنائی جائے گی ؟ جب اسلام پر عمل کرنے کا حق نہیں دیتا تو اس کا منفی خود بخو دثا بت ہو جاتا ہے اس کو حکم دیتا ہے کہ ہر غیر اسلامی حرکت کر واس ملک میں جس ملک میں یہ قانون بنایا گیا ہے اور اس پر دل راضی ہوں گے اور اگر کوئی اسلامی حرکت کر بیٹھے تو آگ لگ جائے گی اور یہی آگ ہم تمہیں لگانے کی کوشش کریں گے.یہ فیصلہ بنتا ہے شریعت کورٹ کا کہ چونکہ قدر اشتراک کی اجازت نہیں دے سکتے اس سے شبہ پڑتا ہے لوگوں کو کہ تم مسلمان ہو اس لئے مجبوری ہے اشتراک نہیں ہم ہونے دیں گے.چار چیزوں میں حکومت نے اشتراک منع کر دیا باقیوں میں قرآن کریم بھی پھر منع کرے گا اگر قرآن کریم کے اوپر مسئلہ ہے.اگر انحصار تھا ہی قرآن کریم پر تو یہ اصول پہلے ثابت کرنا پڑے گا کہ اسلام اچھی باتوں میں یا احکامات میں اشتراک کی اجازت نہیں دیتا.اصل بات یہ ہے ، خلاصہ کلام یہ کہ ساری مصیبت ان کو اس بات پر پڑی ہوئی ہے کہ مسلمانوں کو غیر مسلم کہہ بیٹھے ہیں اور غیر مسلم کہنے کے بعد ان کے اطوار، ان کا اٹھنا بیٹھنا، اُن کی عبادتیں ، ان کا عمل قرآن کریم کے احکام پر ، مناہی سے رکنا، اُن کو یہ نظر آنا شروع ہو گیا کہ جن کو ہم مسلمان کہتے ہیں ان سے بھی بہتر ہیں اس معاملہ میں.نمازیں یہ زیادہ پڑتے ہیں، دیانت داریہ
خطبات طاہر جلد۳ 451 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۸۴ء زیادہ ہیں ، رشوت یہ نہیں لیتے ظلم اور سفا کی سے یہ کام نہیں لیتے ، عدالتوں میں جھوٹ یہ نہیں بولتے تو لوگ جب ہم سے پوچھیں گے کہ تم غیر مسلم کہہ رہے ہو ان کا عمل مسلمان کہہ رہا ہے اپنے آپ کو تو ہم کیا جواب دیں گے؟ انہوں نے کہا بہت اچھا پھر بنا کر دکھاتے ہیں غیر مسلم.چونکہ ہم نے کہہ دیا ہے اس لئے بد اعمالیاں جب تک تم نہیں کرتے اور اسلام سے انحراف نہیں کرتے اور قرآن کو نا قابل عمل کتاب تسلیم نہیں کرتے اپنے لئے اور یہ عقیدہ نہیں رکھتے کہ جو کچھ بھی اسلام نے کہا ہے تم اس کا برعکس کرو گے اس وقت تک ہم تمہیں اجازت نہیں دے سکتے.تو یہ معاملہ تو پھر یہاں تک نہیں ٹھہرے گا صرف چار باتیں تو اسلام نے نہیں کہیں.قدر اشتراک تو پھر بہت بڑھے گی پھر تو ہر احمدی سے زبر دستی قتل کروانے پڑیں گے کیونکہ اسلام مقتل سے روکتا ہے اور یہ قانون بنانا پڑے گا کہ جو قتل نہیں کرے گا احمدی اسے قتل کیا جائے گا کیونکہ یہ اسلام سے مشابہ ہورہا ہے.اگر جان بچانی ہے کسی احمدی نے تو وہ قتل کرے تاکہ مسلمانوں کے مشابہ نہ ہو، جو سچی گواہی احمدی دیتا ہے اسے پر جری (Perjury) کے جرم میں سزاملنی چاہئے جھوٹی شہادت کے جرم میں کیونکہ وہ مسلمانوں جیسی حرکت کر رہا ہے اور جو جھوٹ بولتا ہے عدالت میں وہ جزاک اللہ، بہت اچھی حرکت کی اس نے مسلمان نہیں بنا، حالانکہ بیچاروں کو یہ نہیں پتا کہ آج کل جو عام حالات ہیں ان میں جھوٹ بولنے والے مسلمان زیادہ ہیں اور اس میں کوئی تکلیف والی بات نہیں واقعہ یہی ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں جتنا جھوٹ بولا جارہا ہے ساری دنیا کو پتہ ہے، سارے حج جانتے ہیں، سارے وکلا کو پتہ ہے، پولیس جس قسم کے کیسز بنا رہی ہے تو آپ نے اسلام سے روک کر ہمیں مشابہ بنادیا ہے غلطی سے یہ بات آپ کو خیال نہیں آئی کہ ہم نے جس بات سے روکا تھا اس لئے کہ اسلام کے مشابہ نہ ہو جائیں ہم تو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر ان کو مسلمانوں کے مشابہ بنا رہے ہیں.پہلے تو ایک فرق نظر آجاتا تھا اب آپ کہتے ہیں وہ فرق بھی نہیں رہنے دینا تو جس طرح مرضی ہاتھ ڈالیں وہ کامیاب ہو نہیں سکتے ، اُلٹے نتیجے نکلیں گے.بہر حال اصل جو میدان ہے وہ تو دعا کا میدان ہے ان لوگوں نے جو حرکتیں کرنی ہیں کر چکے کچھ کریں گے اور معاملے تو وہاں تک پہنچا رہے ہیں جیسا کہ میں نے بار بار متنبہ کیا ہے اسکے بعد خدا کی تقدیر لاز مادخل دیا کرتی ہے.اس قسم کے تمسخر جب شروع ہو جائیں دین سے اور دین کی
خطبات طاہر جلد ۳ 452 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء طرف منسوب ہونے والے ظلم کی حد کر رہے ہوں اپنے دین پر ہی اور ایسے خوفناک حلئے بنا کر اسلام کے پیش کر رہے ہوں کہ جو دنیا میں پہلے مسلمان ہونے کا فیصلہ کرنے والا تھا وہ بھی تو بہ کر کے واپس بھاگ جائے تو پھر یہ سوچ لینا کہ خدا کی تقدیر ہاتھ نہیں ڈالے گی بڑی غلطی ہے.وہ ایسی صورت میں ضرور ہاتھ ڈالا کرتی ہے اس لئے اب اس کی فکر کریں ہماری تو فکر چھوڑیں، ہمارا تو فکر کرنے والا خدا موجود ہے اپنی فکر کریں کہ خدا کی مخالفت کرنے کے بعد پھر کوئی والی نہیں ہوا کرتا کسی کا کیونکہ جب خدا کی پکڑ فیصلہ کر لیا کرتی ہے تو فَلَا مَرَدَّ لَهُ (الرعد: (۱۲) کوئی نہیں ہے جو خدا کو اس بات سے روک سکے کہ وہ کسی قوم کے متعلق جو بری تقدیر کا فیصلہ کرے تو وہ جاری نہ ہو سکے.اب میں مختصر ادو باتیں بعض دوستوں کے خطوط سے متعلق کہنی چاہتا ہوں.پاکستان سے بہت سے خطوط مجھے آتے رہے ہیں اور اب تو انہوں نے جماعت انگلستان کو بھی انہوں نے لکھنا شروع کر دیا ہے، متفرق لوگوں کو کہ ہم نے تو جہاں تک پیش گئی ہمت ہوئی خلافت کی حفاظت کرنے کی کوشش کی اب آپ کے اوپر یہ ذمہ داری ہے اور آپ اس حق کو ادا کر یں.جذباتی لحاظ سے تو یہ سمجھ آسکتی ہے یہ بات لیکن ویسے جماعت انگلستان پر بدظنی کا کسی کو کوئی حق نہیں.خلیفہ وقت جہاں بھی جاتا ہے وہ جماعت احمدیہ میں ہی جاتا ہے آخر.یہ کہنا کہ پاکستان کے احمدیوں کو زیادہ خیال تھا اور یہاں کے احمدیوں کو کم ہے یہ بالکل غلط بات ہے اس لئے جن کو لوگ خط لکھتے ہیں اول تو ان کو سمجھنا چاہئے کہ اس معنی میں نہیں لکھتے کہ گویا وہ جماعت احمدیہ انگلستان کو اپنے سے کم درجہ سمجھتے ہیں ایمان میں بلکہ صرف یہ وجہ ہے کہ محبت کے جوش میں ایسے وقت میں ایسی باتیں منہ سے نکل جایا کرتی ہیں.چنانچہ تاریخ اسلام سے پتہ چلتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ پر خطرات آتے تھے تو صحابہ ایسی باتیں کیا کرتے تھے.بعض شہید ہوتے وقت دم توڑتے وقت یہ آخری پیغام دے گئے.(السیرۃ الحلبیہ زیر غزوہ احد جلد ۲ نصف آخر صفحہ ۴۰۰) یہ مراد تو نہیں تھی کہ وہ یہ کہتے تھے کہ ہم تو زیادہ مخلص ہیں اور تم لوگ اس معاملے میں ہم سے پیچھے ہو بلکہ یہ اظہار محبت ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں لیکن اگر کسی کے دماغ میں باہر یہ وہم ہو سچ سچ کہ یہ انگلستان کی جماعت اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کر رہی تو میں یہ وہم دور کر دینا چاہتا ہوں کیونکہ انگلستان کی جماعت اپنی توفیق سے اگر بڑھ کر نہیں تو تو فیق
خطبات طاہر جلد ۳ 453 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء کے کناروں تک اپنے فرائض کو ادا کر رہی ہے.اتنی بڑی ذمہ داریاں قبول کی ہیں اور اس محبت اور شوق اور اخلاص سے کہ بعض لوگوں نے تو دن رات اپنا ایک کیا ہوا ہے اور سمجھ نہیں آتی کہ ان کو اپنے ذاتی کاموں کے لئے وقت کہاں سے ملتا ہو گا ؟ ایک نوجوان کو میں نے زبر دستی اٹھا کر یہاں سے مجلس عرفان سے بھجوایا تھا کہ اسکی بچی کی حالت زیادہ خراب تھی.اس کے متعلق پتہ یہ لگا تھا کہ وہ صبح اٹھتا ہے اس وقت جب کہ لوگ ابھی سوئے ہوئے ہوتے ہیں اور کام سے سیدھا یہاں خدمت کے لئے آتا ہے جماعتی کاموں میں اور واپس اس وقت جاتا ہے رات بارہ ایک بجے جب سب سو چکے ہوتے ہیں.تو مدت سے پتہ ہی نہیں کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کہاں رہتا ہے؟ بیگم کوتو شاید علم ہو جا تا ہو وہ اٹھتی ہونگی اس کے لئے لیکن عموماً بچوں سے کم از کم وہ بے تعلق ہو چکے تھے.تو ایک کا نہیں بہت کثرت سے یہ حال ہے اور میں نے حساب لگا کر دیکھا تو جو آدمی ، جو خدام اور انصار اور مستورات اس وقت غیر معمولی ہنگامی حالات کے پیش نظر خدمت کا کام کر رہے ہیں ان کے وقت کی اگر دنیا کی نظر سے قیمت لگائی جائے تو کم از کم اڑھائی تین لاکھ سو پونڈ سالانہ کا وقت ہے جو جماعت احمد یہ انگلستان قربان کر رہی ہے.اب آپ یہ دیکھ لیجئے کہ ساری ڈاک جو پرائیویٹ سیکرٹری کی ہوتی تھی وہ جماعت نے ہی سنبھالی ہوئی ہے اور نہایت عمدگی سے سنبھالی ہوئی ہے.اس طرح حفاظت کی ساری ذمہ داری صرف ایک افسر حفاظت ہے باقی وہاں تو بڑی تعداد تھی اور بہت سے کام ہیں.کھانا خود پکانے والے ہیں ، وہاں تو لنگر موجود تھا اور یہاں پکانے والے بھی خود پکاتے ہیں اور کئی نمونے ہیں اس کثرت سے مستورات نے بھی بڑی خدمت کی ہے اور کر رہی ہیں کہہ کر بعض کام اپنے ذمہ لئے ہیں.تو تمام جماعت کی مرکزی ذمہ داریاں جو خلافت کے ساتھ ساتھ چلتی رہتی ہیں ساری جماعت نے بڑے شوق سے سنبھالی ہیں اس لئے اظہار محبت کے رنگ میں آپ جو مرضی لکھ دیں مجھے اس پر اعتراض نہیں لیکن بدظنی نہ کریں.میں باہر کے احمدیوں کو پیغام دیتا ہوں بلکہ ان کا حق اور فرض ہے کہ دعائیں کریں ایسی جماعت کے لئے جس کو اللہ تعالیٰ نے جو ذمہ داری ڈالی انہوں نے بڑے خلوص اور محبت سے کما حقہ جیسا کہ حق ہے ویسا ادا کر کے اسکوادا کیا.ایک دوسری بات جو دوست لکھتے ہیں ایک ذکر میں نے پہلے بھی کیا تھا اس کے متعلق میں
خطبات طاہر جلد۳ 454 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء کچھ سمجھانا چاہتا ہوں.میرا فرض ہے، جذبات کا معاملہ اپنی جگہ لیکن تربیت کروں، بتاؤں کہ کہاں قرآن کیا تقاضا کرتا ہے کس قسم کا غم کرنا چاہئے؟ کس قسم کا نہیں کرنا چاہئے ؟ اس لئے میں جذبات کو مجروح کرنے کی خاطر نہیں بلکہ جذبات کا رخ درست کرنے کی خاطر بعض دفعہ بعض تربیتی باتیں کہتا ہوں.مثلاً کثرت سے لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ تم غم نہ کرو ہمارا جو مرضی ہو.یہ بالکل غلط بات ہے اصولاً بے معنی بات ہے.وہ تفریق نہیں کرتے بعض باتوں میں قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے کہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا ( حم السجدہ: ۳۱) کہ فرشتے نازل ہوتے ہیں ان پر اور کہتے ہیں غم نہ کرو.تو اس کا وہ مطلب نہیں سمجھتے.اس سے مراد ہرگز نہیں ہے کہ دین کا غم نہ کرو.اگر یہ مطلب لیا جائے کہ دین کا غم نہ کرو اور اپنے مسلمان بھائیوں کا غم نہ کرو تو پھر آنحضرت ﷺ کو تو غم ہونا ہی نہیں چاہئے تھا، ذاتی غم تھا کوئی نہیں ، پرواہ ہی کوئی نہیں تھی دنیا کی ، اس طرف دنیا آئی اس طرف سے پھینک دی، بے تعلق تھے دنیا سے کلیہ اتنا ہی تعلق تھا جتنا خدا کہہ کے رکھواتا تھا اور دین کا اگر یہ ترجمہ کیا جائے لَا تَحْزَنُوا کہ فرشتے نازل ہو رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ غم نہ کرو تو پھر رسول کریم نے کیوں غم کو لگائے بیٹھے تھے سینے سے وہاں اور مراد ہے لَا تَحْزَنُوا لِكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُمْ (آل عمران : ۱۵۴) یہ معنی ہیں کہ اس چیز کا غم نہ کرو جو خدا کی راہ بھی تم سے کھوئی گئی ہے.خدا کثرت سے دے گا اور ویسے بھی جب خدا کی خاطر تم نے کھوئی ہے تو اس میں غم کا کیا سوال ہے؟ محبوب کی محبت تم نے جیت لی ایک وقت میں تم دونوں باتیں کس طرح حاصل کرنا چاہتے ہو.اگر قربانی کی کوئی روح تھی ،کوئی مقصد تھا، کوئی اعلیٰ ہستی تھی جس کا پیار حاصل کرنا تھا تو اول تو وہیں بات ختم ہو جانی چاہئے کہ جب خدا کی خاطر کھوئی تو بات ختم ہوگئی.دوسرے ایک اور وجہ بھی ہے کہ خدا تو واپس کر دیا کرتا ہے بڑھا کے واپس کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں غم کرنا نہایت ہی بڑی بیوقوفی ہے.یہ مضمون ہے جو قرآن کریم بار بار سمجھاتا ہے لَا تَحْزَنُوا کے معنوں میں، دین کا غم نہ کرنا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اور جہاں آنحضرت
خطبات طاہر جلد ۳ 455 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۸۴ء ایک موقع پر منع فرمایا گیا ہے کہ تو ان کے غم میں اپنے آپ کو ہلاک نہ کر جو انکار کرتے ہیں وہاں بھی دراصل فاتَكُم کا مضمون ہے.مسلمانوں کے غم سے کہیں نہیں روکا.بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ ) (التوبہ: ۱۲۸) بتایا ہے بے انتہادر در کھنے والا بے انتہا نرم مومنوں کے لئے.جہاں منع کیا ہے وہاں یہ کہ وہ لوگ جو ضائع ہو گئے ہیں جو مسلمان نہیں ہو سکے اور خدا کی نظر میں ضائع ہو گئے اور کھوئے گئے ان کا غم نہ کرو یہ بالکل اس آیت کے مطابق ہے لِكَيْلَا تَحْزَنُوا تا کرغم نہ کر تم اس چیز کا جو مَا فَاتَكُم جو تم سے کھوئی گئی ہے.تو قرآن کریم Consistent ہے اس میں کوئی تضاد نہیں ہے اور آنحضر کو الله تعالیٰ نے سمجھایا کہ جو لوگ ضائع ہو گئے ہیں ان کا غم نہ کرو اور آنحضور ﷺ کا دل اس معاملہ میں اتنا نرم تھا کہ بعض باتوں میں نہ کر سکنا نا فرمانی نہیں ہوتی بلکہ ایک بے اختیاری ہوتی ہے.خدا نے فرمایا رسول اکرم ﷺ از مار کے ہوں گے اور پوری باگیں ڈال دی ہوں گی اپنے جذبات پر لیکن جو دل نرم ہو وہ بہر حال کڑھتا رہتا ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ جو طاقت میں نہیں ہے انسان کے وہ کر سکے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشعار پڑھیں ایسے ایسے دردناک مناظر ملتے ہیں کہ: کیا میرے دلدار تو آئے گا مرجانے کے دن تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۷۳۹ ) شور کیسا ہے تیرے کوچے میں لے جلدی خبر خوں نہ ہو جائے کسی دیوانہ مجنوں وار کا سرمه چشمه آریہ روحانی خزائن جلد ۲ صفحه ۴ ) پڑھیں تو سہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا کلام، کس صحابی نے آپ کو لکھا تھا کہ غم نہ کرو.ایک بھی واقعہ نہیں ملتا اس لئے نہ میں آپ کو کہتا ہوں غم نہ کریں نہ آپ مجھے کہیں اور ویسے بھی بیوقوفی ہے اس موقع پرغم نہ کرنے کا مشورہ دینا کیونکہ تم تو آج کل ہمارے لئے ایک دولت ہے ،خزانہ ہے، غم کی طاقت سے تو ہم نے یہ میدان جیتنے ہیں.غم کیا چیز ہے؟ غم وہ جذبہ ہے جو مومن کو خدا کی طرف مائل کرتا ہے اور بڑے درد سے دعائیں اٹھتی ہیں اس کے نتیجہ میں تو غم کے بغیر دعا کیسے کروں گا پھر آپ
خطبات طاہر جلد ۳ 456 خطبه جمعه ۷ ار ا گست ۱۹۸۴ء یہ بھی کہیں گے کہ دعا بھی چھوڑ دو.سوکھے منہ کی دعائیں ہیں بھی کوئی حیقیت رکھتی ! بے معنی چیزیں ہیں اس لئے نہ میں نے آپ کو غم سے روکا بلکہ یہ کہا کہ جب تک خدا کی تقدیر اترتی نہیں ہے خوشخبریاں لے کر اور یہ آپ کو نہیں کہتی ظاہر ہو کر کہ اب غم نہ کرو اس وقت تک غم کو نہیں بھلا نا آپ نے کیونکہ یہ آپ کا خزانہ ہے، یہ آپ کے لئے نعمت ہے.غم ہوگا تو دعائیں کریں گے غم نہیں ہوگا تو دعائیں کس طرح کریں گے آپ.ہاں اسلام ہر بات کی تربیت کرتا ہے، اسے لگا میں دیتا ہے،اسے سلیقہ کے ساتھ معین راہوں پر ڈالتا ہے.یہ فرماتا ہے کہ غم لے کر دنیا کے سامنے نہ پھریں جھولیاں لے کر، یہ فرماتا ہے کہ اپنے غم کو خدا کے حضور گریہ وزاری میں لگا دو تا کہ ایک ایک ذرہ غم کا تمہارے کام آجائے ضائع کچھ نہ ہو، یہ بات تو درست ہے.دوسرا ایک اور غم کا بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ غم کے نتیجہ میں جو لوگ سمجھتے ہیں کہ صحت خراب ہو جاتی ہے بالکل غلط ہے.یہ تجزیہ بھی میں آپ کے سامنے رکھ دینا چاہتا ہوں کیونکہ بعض لوگ جو مجھے لکھتے ہیں وہ ساتھ اس کی وجہ بھی بتادیتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہمیں فکر ہے تمہاری صحت گر جائے گی حالانکہ میری صحت تو پہلے سے اچھی ہو گئی ہے اللہ کے فضل سے اور زیادہ قوت پاتا ہوں میں اپنے اندر مقابلہ کی اس لئے یہ تو وہم ہے آپ کا کہ میری صحت گر گئی ہے.غم سے صحت نہیں گرا کرتی یہ میں آپ کو بتا تا ہوں اور آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیسی بات کر رہا ہے لیکن میں تجزیہ کر کے بتاؤں گا آپ کو.دو قسم کے غم ہوتے ہیں.ایک غم وہ ہوتا ہے جو مایوسی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے اور بے اختیاری کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے جس میں کوئی امید کی کرن نہیں رہتی.وہ هَا فَاتَكُم والا غم ہی ہے اصل میں یعنی کسی کا پیارا ہاتھ سے نکل جائے بے بس ہو جاتا ہے وہ ساری عمر روتا رہے اور وہ ہاتھ نہ آئے.یہ غم تو خدا نے پہلے ہی منع کر دیا ہے اس لئے مومن تو ایسا غم نہیں کیا کرتا اور یہی غم ہے جو صحتوں کو کھا جاتے ہیں ، روتے روتے آنکھیں اندھی ہو جاتی ہیں ماؤں کی ، ان کے کلیجے جل جاتے ہیں.لیکن ایک غم وہ ہے کہ جو بجائے اس کے کہ صحت گرائے صحت میں اضافے کا موجب بنتا ہے.یا یوں کہنا چاہئے کہ صحت کو سنبھالنے کے لئے ضروری ہے.جب اعصابی تناؤ پیدا ہو جائیں، جب
خطبات طاہر جلد ۳ 457 خطبه جمعه ۷ ار اگست ۱۹۸۴ء نہایت ہی خوفناک اور تکلیف دہ باتیں کی جارہی ہوں چاروں طرف سے اور ان لوگوں کو گالیاں دی جارہی ہوں جن پر انسان جان نچھاور کرنے کو تیار ہو اور بے بسی کا عالم ہو اس وقت اگر کوئی غم نہیں کرتا ہے تو وہ مارا جائے گا.اگر وہ زبر دستی کرے اپنے اوپر اور اپنے آنسو نہ نکلنے دے اور فیصلہ کر لے کہ میں نے کچھ نہیں کرنا اور زبردستی ہنسنے کی کوشش کرے تو وہ تو مریض بن جائے گا اعصابی ، وہ تو پاگل ہو جائے گا، ہو سکتا ہے ایسے لوگ کچھ عرصے کے بعد خود کشیاں شروع کر دیں.تو خدا کی راہ میں جب غم آنسو بہانے کا موقع دیتا ہے تو سارے طبیعت کے تناؤ دور ہو جاتے ہیں، تازہ دم ہو کر ہلکا پھلکا جسم لے کر انسان دعاؤں میں سے باہر نکلتا ہے.تو وہ غم جو رحمت ہے اسے زحمت سمجھنا یہ تو بڑی سادگی ہے.بیوقوفی تو میں نہیں کہتا کیونکہ محبت کے جذبات سے لوگ باتیں کرتے ہیں لیکن جن سے محبت ہو ان کی بیوقوفیوں کو بعض دفعہ سادگی کہنا پڑتا ہے اس لئے مجھے بھی چونکہ آپ سے پیار ہے اس لئے میں آپ سے کہتا ہوں کہ آپ بہت سادگی کی باتیں کر رہے ہیں.آپ کا مطلب یہ ہے کہ غم نہ کرو اور اپنی صحت برباد کرلوں.جتنے تناؤ ہیں ان کے لئے کوئی راہ نہ نکلے اس لئے اللہ کی راہ میں غم کی اجازت ایک نعمت ہے، رحمت ہے اللہ تعالیٰ کی ، دعاؤں میں ڈھلتا ہے غم تب رحمت بن جاتا ہے، اعصابی تناؤ کو دور کرتا ہے تب رحمت بن جاتا ہے.اس لئے اس مضمون کو ختم کریں، آپ بھی کریں اور مجھے بھی کرنے دیں اور یہ شرط ضرور ہے کہ اس غم کو سوائے خدا کی راہوں میں ڈھالنے کے اور کسی راہ میں نہ ڈھالیں، ذاتی انتقام میں تبدیل نہ کریں، بے صبریوں میں تبدیل نہ ہونے دیں، مایوسیوں میں تبدیل نہ ہونے دیں.یقین کامل ساتھ رکھیں پھر دیکھیں کہ یہ غم کتنی بڑی رحمت بن جاتا ہے آپ کے لئے اور ساری جماعت کے لئے.تو ہوش کے ساتھ معاملات کو سمجھ کر پھر انسان کو مومن کو اپنا رد عمل معین کرنے چاہئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی مرضی کی راہوں پر چلنے کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 459 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء نیا بھر میں تبلیغی ثمرات اور افضال الہی ( خطبه جمعه فرمود ۲۴۰ را گست ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًان اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ وَإِلَى رَبِّكَ فَارْغَبْ (الم نشرح: ۶-۹) اور پھر فرمایا: یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے عموماً ان میں سے پہلی آیت یعنی فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْران کا ترجمہ یہ کیا جاتا ہے کہ ہر تنگی کے بعد ایک آسائش کا زمانہ بھی ہے اور یہ ترجمہ درست ہے.لیکن فَاِنَّ بَعْدَ العُسر يسراً نہیں فرمایا گیا بلکہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْران فرمایا گیا ہے کہ عسر کے ساتھ یعنی تنگی کے ساتھ ایک آسائش ہے.اور یہاں بعد کے لفظ کو چھوڑ کر مع' کے لفظ استعمال کرنے میں ایک گہری حکمت ہے.ایک تو بعد میں کچھ دوری پڑ جاتی ہے.ہوسکتا ہے عُسر کے زمانہ کے بعد ایک لمبے عرصہ کے وقفے کے بعد پھر یسر شروع ہو تو یہ جو خوف ہے کہ بعد کتنا لمبا ہو جائے گا اس خوف کو دور کرنے کے لئے جمع سے بہتر لفظ استعمال نہیں ہو سکتا تھا کہ تمہارے عُسر اور تمہارے یسر کے درمیان کوئی فاصلے نہیں ہیں.عُسر کے معابعد بڑی تیزی کے ساتھ تم یسر کا زمانہ دیکھو گے.ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 460 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء تو جمع نے یہ ایک نیا معنی پیدا کر دیا اور دوسرے بیک وقت عُسر اور یسر کے نظارے کو دکھانے کے لئے بھی مع کے لفظ نے ایک اور مضمون اس آیت میں بھر دیا.مطلب یہ ہے کہ اگر تم خدا کی طرف سے بعض آزمائشیں دیکھ رہے ہو تو یہ کیوں نگاہ نہیں کرتے کہ ان آزمائشوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی حمتیں بھی تو بہت نازل ہو رہی ہیں.جہاں تمہیں تنگی دکھائی دے رہی ہے وہاں ان آسائشوں کو بھی دیکھو کہ جو آسمان سے تمہارے لئے ساتھ ساتھ نازل ہو رہی ہیں ان میں نہ بعد پایا جاتا ہے نہ دوری پائی جاتی ہے.بیک وقت ظاہر ہونے والا ایک نظارہ ہے جسکی طرف توجہ مبذول کروادی گئی.چنانچہ پاکستان میں جہاں آج کل مظلومیت کا خاص دور ہے وہاں بھی بکثرت لوگ اللہ تعالیٰ کی غیبی تائید اور رحمت کے ایسے نظارے دیکھ رہے ہیں کہ سینکڑوں خطوط ایسے موصول ہوتے ہیں جن میں حیرت انگیز خدا کے پیار اور محبت کے واقعات درج ہوتے ہیں اور باہر کی دنیا والوں کو پاکستان والے وہ واقعات لکھ لکھ کر تسلیاں دیتے ہیں.چنانچہ بہت سے لوگ جن کو خطوط موصول ہوتے ہیں ایسے پاکستان سے وہ مجھے بھجوا دیتے ہیں.تو باہر بیٹھے اپنے رشتہ داروں کو عزیزوں کو وہاں سے وہ تسلیاں دیتے ہیں کہ فکر نہ کر وہم اللہ کے فضل سے بالکل ٹھیک ہیں.جہاں بعض آزمائشیں ہیں وہاں خدا کے فضل بھی اس کثرت سے نازل ہو رہے ہیں اور اتنی روحانی ترقی نصیب ہورہی ہے کہ قو میں سینکڑوں سال کی ریاضتوں میں سے گزر کر جو مقامات حاصل کیا کرتی ہیں وہ اللہ تعالیٰ ہفتوں اور مہینوں میں عطا فرمارہا ہے.تومَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا کا ایک یہ بھی مفہوم ہے اور ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ بعض جگہ آزمائشیں ہیں تو بعض دوسری جگہ کثرت سے فضل ہی فضل نازل ہورہے ہیں اور یہاں معیت میں علاقہ بدل جائے گا.بعض علاقے آزمائشوں کے ہیں تو سارے آزمائشوں ہی کے تو علاقے نہیں ہیں خدا کے جس طرح موسم بدلتے رہتے ہیں اور بیک وقت بھی ایک وقت میں دنیا میں مختلف موسم پائے جاتے ہیں آگے پیچھے بھی موسم بدلتے ہیں اور Space میں ایک موقع پر بھی موسم بدلے ہوئے دکھائی نہیں دیتے ہیں.تومَعَ الْعُسْرِ يُسْرًا نے ایک یہ جہاں بھی معنوں کا ہمارے سامنے کھول دیا.تو میں آج چند نمونے اللہ تعالیٰ کے احسانات کے جماعت کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ ان کو
خطبات طاہر جلد ۳ 461 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء علم ہو کہ خدا تعالیٰ کس طرح تمام دنیا میں کثرت سے اپنے فضل نازل فرما رہا ہے اور اسکے لئے میں نے آج تبلیغ کا موضوع چنا ہے.جانی قربانی اور مالی قربانی اور جذبات کی قربانی سے متعلق اور ان جہات میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ذکر میں بارہا پہلے کرتا آیا ہوں.اب میں تبلیغ کے موضوع پر آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ساری دنیا میں تبلیغ کی ایک نئی روچل پڑی ہے اور ایسے ممالک جہاں بہت ہی سست رفتار تھی وہاں بھی خدا کے فضل سے بڑی تیزی آرہی ہے اور ایسی قومیں جن میں احمدیت کا نفوذ بہت ہلکا تھا سست روی پائی جاتی تھی ان میں بھی بڑی تیزی سے اب جماعت کی طرف رجوع ہو رہا ہے.چنانچہ گذشتہ ایک دو ماہ کے اندر عربی بولنے والی قوموں میں سے خدا کے فضل سے ۲۷ بیعتیں موصول ہوئی ہیں اور اہل عرب خالص بھی ہیں اور شمالی افریقہ کے عرب بھی اس میں شامل ہیں تو یہ رجحان پہلے نظر نہیں آتا تھا.یورپ کے دو ممالک میں بلکہ تین میں خدا کے فضل سے عربوں نے وہاں بیعتیں کیں اور بڑے مخلص ہیں.ڈنمارک میں تو اوپر تلے دوعرب نو جوانوں نے بیعتیں کی ہیں اور بڑی تیزی کے ساتھ وہ اخلاص میں ترقی کر رہے ہیں، لٹریچر لے رہے ہیں، توجہ دلا رہے ہیں، مشورے دے رہے ہیں کہ کس طرح ہماری قوم میں تبلیغ ہونی چاہئے اور اچھے خاصے وہاں کے تعلیم یافتہ اور اعلیٰ خاندانوں کے افراد ہیں.تو یہ بھی ایک اللہ کا غیر معمولی فضل ہے جس کو نظر میں رکھنا چاہئے.صرف درد کے ساتھ دعا نہیں ہونی چاہئے شکر کے ساتھ بھی دعا ہونی چاہئے یہ پہلو جو ہے اس کو آپ نظر انداز نہ ہونے دیں کبھی بھی کیونکہ درد سے ہلکی سی شکایت پیدا ہو جاتی ہے.جتنا زیادہ ادب کا مقام ہواتنا انسان اس شکایت کو دبا لیتا ہے اپنی آواز میں لیکن اس کی سسکیاں پھر بھی بیان کر دیتی ہیں اس شکایت کو، چھپ تو نہیں سکتی اس لئے خدا کے حضور جہاں در دبھری سسکیاں لیتے ہیں وہاں شکر کا بھی اظہار کیا کریں کہ ان اندھیروں میں بھی وہ روشنی کے سامان پیدا فرما رہا ہے.جرمنی کے متعلق میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ یورپ کے سب ملکوں میں سب سے آگے ہے خدا کے فضل سے اور سو ( 100 ) کا جو میں نے ان کو سال کا ٹارگٹ دیا تھا اس میں سے وہ نصف تک پہنچ چکے ہیں یعنی نصف جولائی تک ساڑھے چھ مہینے میں خدا کے فضل سے ۵۰ بیعتیں وہاں ہو چکی ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۳ 462 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء ابھی ساڑھے پانچ ماہ باقی ہیں اور جس طرح چندوں میں دیکھا جاتا ہے کہ آخر پر جا کر رفتار تیز ہو جاتی ہے اگر اسی طرح ہم ان سے امید لگا ئیں تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی سو سے آگے بڑھ جائیں گے.انگلستان دوسرے نمبر پر ہے اس میں ۸ بیعتیں ہوئی ہیں حالانکہ جماعت بہت بڑی ہے.اب کچھ خطوں سے لگتا ہے کہ توجہ شروع ہوئی ہے لیکن چونکہ Late Starters ہیں بعد میں آنے والے ہیں اور اس میدان میں اسلئے کچھ وقت لگے گا.تبلیغ کے لئے تو پہلے تیاری ہوا کرتی ہے واقفیت پیدا کرنا،تعلقات بڑھانے پھر ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں، زمینیں بدلنی پڑتی ہیں، بعض تجربے کئے ناکام رہے پھر دوسری جگہ شروع کئے ، بعض طرز اختیار کی وہ ناکام رہی نئی طرز پھر بدلی تو رفتہ رفتہ فن آئے گا ایک ہی دن میں تو انسان پہلوان نہیں بن جایا کرتے.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ جس طرح مجھے خطوط سے اندازہ ہو رہا ہے انگلستان کی جماعت بھی جب پوری طرح انہماک سے تبلیغ شروع کرے گی تو ۷، ۸ کا قصہ نہیں بلکہ سینکڑوں میں بات جا پہنچے گی انشاء اللہ تعالیٰ.ڈنمارک اور سویڈن میں بھی جیسا کہ میں نے بتایا تھا بیعتیں ہوئی ہیں اور دو جگہوں پر ایسی بیعتیں ہیں جو خاص طور پر قابل ذکر ہیں.(Iron Curtain) جو کہلاتا ہے یعنی اشترا کی دنیا اس میں ایک تو یوگوسلاویہ میں پہلے ہی خدا کے فضل سے جماعت قائم ہے اور وہاں جب بھی وقف عارضی والے گئے ہیں ان کو خدا تعالیٰ نے نیا پھل عطا فرمایا ہے.وہاں امکانات ہیں اور جو یوروپین ممالک، ایسے یورپین ممالک جن میں یوگو سلاو ، زیادہ کثرت سے جاتے ہیں ان کو ان کی طرف توجہ کرنی چاہئے.ان میں بیداری پیدا ہو رہی ہے اسلام کی طرف اسلام کی طرف رحجان پایا جاتا ہے اسلئے ان کوضر ور خاص طور پر پیش نظر رکھیں.دو ملکوں کی بیعتیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے وہ اسکے علاوہ ہیں.پولینڈ سے ابھی تازہ اطلاع وقف عارضی کے وفد کی طرف سے آئی ہے کہ خدا کے فضل سے دو بیعتیں ہوئی ہیں اور امام زک کی کوششوں سے خدا کے فضل سے پھل ملا ہے.واقفین عارضی نے لکھا ہے کہ یہ ہماری محنت سے نہیں بلکہ امام زک نے پہلے سے تیار رکھی ہوئی تھیں اور پولینڈ میں چونکہ پہلے بھی اسلام کا اثر ہے اور اب چونکہ ایک بددلی پیدا ہو رہی ہے اشترا کی فلسفے سے اسی لئے عیسائیت وہاں دوبارہ پہنپ رہی ہے تو اسلام کے پنپنے کے بھی خدا کے فضل سے امکانات ہیں اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے ان کو مزید تو ایک بنیاد بن رہی ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ ایک مضبوط جماعت پر منتج ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۳ 463 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء Greece ( یونان ) میں پہلی مرتبہ گریکس کے مسلمان ہونے کی خوشخبری ملی ہے بیعت ہوئی تو انگلستان میں ہی ہے لیکن دوگر یک مائیں ہیں جنہوں نے احمدیت قبول کی ہے اور ان کے بچے بھی ساتھ ہیں خدا کے فضل سے.تو یہ بہت خوشخبری کی بات ہے ایک تو واپس چلی گئی ہیں یہاں سے اور بہت ہی نیک ارادے لے کر گئی ہیں اور انہوں نے عہد کیا ہے کہ جاکے میں اپنے خاندان میں اور علاقے میں تبلیغ کی کوشش کروں گی.امریکہ میں اگر چہ جماعت بہت تعلیم یافتہ ہےاور مقامی طور پر امریکن بھی خدا کے فضل سے کافی تعداد میں احمدی ہیں لیکن تبلیغ میں امریکہ پیچھے ہے.ایک ڈٹین کی جماعت کبھی کبھی جوش دکھاتی ہے اور ایک دم پنپنا شروع کرتی ہے پھر ان پر نیند بھی آجاتی ہے پھر کچھ دیر آرام کرتے ہیں تو امریکہ کو توجہ دلانی چاہئے کچھ امریکن نمائندے یہاں موجود ہیں اس وقت ان کو میں خاص طور پر پیش نظر رکھ رہا ہوں کہ امریکہ میں پاکستانی بالکل تبلیغ نہیں کر رہا.جو امریکن افریقین ہیں وہ تو خدا کے فضل سے کر بھی لیتے ہیں اور ان میں وائٹس (Whites) بھی کرتے ہیں اور پچھلے سال بھی سفید فام امریکنوں میں بھی بیعتیں ہوئیں لیکن وہ بھی جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کبھی اٹھتے ہیں کبھی سو جاتے ہیں.ایک استقلال جو مومن کی زندگی میں نظر آنا چاہئے وہ نہیں ہے اور پاکستانی تو تبلیغ میں بہت ہی نکھے ہیں بیچارے زیادہ سے زیادہ جو بہت مخلص کہلاتے ہیں وہ چندے میں مخلص ہیں اور بعض لوگ اپنے بچوں کو قرآن شریف وغیرہ پڑھا دیتے ہیں گھر میں اور تربیت بھی کر رہے ہیں.یہ بڑا اہم کام ہے بہت بنیادی کام ہے لیکن تبلیغ میں پیچھے رہ گیا ہے امریکہ خصوصاً امریکن پاکستانی شاید ان کو خدا تعالیٰ نے چونکہ سہولیتیں زیادہ دی ہیں، ان کے مقام زیادہ بلند ہیں مالی دنیاوی لحاظ سے تو شاید وہ سمجھتے ہوں کہ ہم تبلیغ والے لوگ نہیں ہیں، تبلیغ تو نچلے آدمیوں کا کام ہے تو یہ درست نہیں ہے میں نے پہلے بھی کہا تھا اونچا وہی ہے جو تبلیغ میں اونچا ہے اور وہی اونچے ہوں گے آئندہ اور انہی کی نسلیں اونچی کی جائیں گی جو تبلیغ میں اونچے ہوں گے جو اس میں گر جائیں گے ان کی نسلوں کی بھی کوئی ضمانت نہیں ہے.نائیجیریا سے فضل الہی صاحب انوری اطلاع دیتے ہیں بعض خوشخبریاں دے رہے ہیں ایک تو ئسر وا کے مقام پر بارہ ایکٹر زمین برائے سکول مل گئی ہے، وہاں ایک نیا سکول جاری کیا جائیگا انشاء اللہ.اور اوگا تو نسر وا موشا سے پندرہ میل دور ایک قصبہ میں 16 افراد نے بیعت کی ہے اور ایک نئی جماعت
خطبات طاہر جلد ۳ 464 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء وہاں خدا کے فضل سے قائم ہوگئی ہے اور 16 سے 31 جولائی یعنی پندرہ دن میں 81 بیعتیں ہوئی ہیں نا یجیریا میں جو گزشتہ رجحان کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ رجحان بلندی کی طرف مائل ہے.یوگنڈا میں پچھلے دو سال کے اندر 23 نئی جماعتیں قائم ہوئی تھیں لیکن گزشتہ چند ماہ سے وہاں کمزوری آگئی ہے سنتی آگئی ہے اس لئے یوگنڈا کو توجہ کرنی چاہئے.وہ اپنے پہلے Momentum کو قائم رکھیں ورنہ پھر وہیں اگر جماعتوں کو اسی حالت میں نیند آگئی تو پھر دوبارہ جگانا مشکل ہو جائے گا.چنانچہ وہاں سے دو دو، چار چار، پانچ پانچ بیعتوں کی تو اطلاعیں تو مل رہی ہیں مختلف علاقوں سے مثلاً کمپالا سے دو ہوئیں یا محمد علی صاحب کائرے جہاں ہیں وہاں سے اطلاع مل رہی ہے لیکن جو پہلے رو چلی تھی وہ اب رو والی شکل نہیں رہی.تنزانیہ میں خدا کے فضل سے مورو گور و مشنری ٹرنینگ کالج کا افتتاح ہو گیا ہے اور ایک خوشکن رپورٹ یہ بھی ہے کہ 51 افراد غیر مسلموں میں سے اسلام میں داخل ہوئے ہیں جو پہلے اپنی بدقسمتی کے نتیجہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی ذات مبارک سے پر خاش رکھتے تھے اور نفرت رکھتے تھے اور اب ایسی محبت میں ان کی حالت بدل گئی ہے کہ دل و جان نچھاور کر رہے ہیں.نئے ممالک میں جماعتوں کے قیام کا منصوبہ جو بنایا گیا تھا سب ممالک کے سپر د کئے گئے تھے کہ تم نے فلاں ملک میں نئی جماعت قائم کرنی ہے.اس میں بہت سے لوگ سستی سے کام لے رہے ہیں اور با قاعدہ رپورٹیں نہیں بھیج رہے تو ان کا اگر یہ خیال ہو کہ میں بھول جاؤں گا یہ غلط ہے.یہ تو میری زندگی کا مقصد ہے میں کیسے بھول سکتا ہوں.میں نے توجہ دلائی ہے تبشیر کو کہ بار باران کولکھ کر پوچھیں اور وہ خود بھی خیال کریں اور آپ کے انگلستان کی طرف سے بھی اس بارہ میں کوئی رپورٹ نہیں مل رہی حالانکہ یہاں تو دو ہفتے کا کیا سوال ہے ہر چوتھے پانچویں دن تبلیغی صورت حال کے متعلق رپورٹ مل سکتی ہے.تو ہر ملک کے امیر کو چاہئے کہ وہ ہر رپورٹ میں لازماً ذکر کرے کہ اس مہینے میں کتنے احمدی ہوئے ہیں مقامی طور پر سال سے اب تک کتنے ہوئے ہیں اور نئے ممالک جو سپرد کئے گئے تھے ان میں سے کن ممالک میں خدا کے فضل سے پودا لگا ہے.اور نئی جماعتیں بنانی تھیں یہ بھی ایک سکیم کا حصہ تھا.تو تمہاری جماعتیں اگر سو (100) ہیں تو ان کو ڈبل کرو دوسو (200) کرو.بعض بڑے اچھے مبلغ ہیں جو توجہ سے ان باتوں کی طرف رپورٹیں کرتے ہیں اور بعض
خطبات طاہر جلد ۳ 465 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء پھر سو جاتے ہیں سمجھتے ہیں بھول گئے ہوں گے سارے تو تنزانیہ کے مبلغ جو ہیں وھاب صاحب انہوں نے بڑی اچھی رپورٹ کی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہمارے سپر د جو نئے ممالک میں جماعتوں کے قیام کا منصوبہ تھا اس میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جسے روانڈا کہتے ہیں میں 16 مئی کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے 22 افراد پر مشتمل جماعت احمدیہ کی بنیاد رکھ دی گئی ہے اور اب ایک نیا ملک بھی جماعت احمدیہ کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے.پہلے بھی اس میں تبلیغ ہو کے کچھ احمدی ہوئے تھے لیکن با قاعدہ جماعت کا قیام اب ہوا ہے اور روانڈا کے علاقے کے چیف نے جس جگہ بیعتیں ہوئی ہیں چارا یکڑ زمین وقف کی ہے جو ایک نہایت ہی خوبصورت پہاڑی پر اونچی جگہ پر واقع ہے اور باوجود شدید مخالفت کے اور سازشوں کے وہ اپنی بات پر قائم رہا ہے اور اس نے قطعاً کوئی تردد نہیں کیا یہ تحفہ جماعت کو پیش کرنے میں.اللہ تعالیٰ اسکو بھی جزا دے.سیرالیون میں سیکنڈری سکول لیوٹن کا سنگ بنیا د رکھ دیا گیا ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ڈیڑھ لاکھ لیون کا تو فورا ہی انتظام فرما دیا یعنی ستر ہزار پونڈ کا اور بقیہ جماعت اپنی طرف سے کوشش کر کے مزید ا کٹھا کر لے گی انشاء اللہ فری ٹاؤن میں مسجد اور دفتر کی عمارت کا کام شروع ہو گیا ہے اور پندرہ روزہ رپورٹ جو آتی ہے اس میں 35 بیعتوں کا ذکر ہے.سیرالیون کے لحاظ سے یہ بھی بہت تھوڑی ہیں ان کو مزید توجہ کرنی چاہئے مگر گزشتہ کے مقابل پر اگر نظر ڈالیں تو بہت خدا کا فضل ہے ہر جگہ سے بالعموم الا ماشاء اللہ اکثر ملکوں سے رجحان تیزی کی طرف دکھائی دے رہا ہے.غانا میں چندہ کی رپورٹ جو انہوں نے بھیجی ہے وہ تو یہ ہے کہ لجنہ کے اجتماع میں 36 ہزار، خدام الاحمدیہ کے اجتماع میں 40 ہزار اور وا کی ریجنل کا نفرس کے موقع پر 5لاکھ اور ٹیما کی ریجنل کانفرس کے موقع پر 2 لاکھ 70 ہزارسیڈیز اکٹھی ہو ئیں اور وہ یہ کہتے ہیں کہ یہ اللہ کا خاص فضل ہے کہ اگر چه اقتصادی لحاظ سے بہت ہی گری ہوئی حالت ہے غانا کی لیکن چندوں کے لحاظ سے گرنے کی بجائے بڑھ رہی ہے جسکا مطلب ہے کہ جماعت میں اخلاص بڑا ترقی پر ہے تو یہ جو چندوں کا ذکر یہاں کیا گیا ہے دراصل یہ اخلاص کے پیمانے کے طور پر کہ شدید گرتی ہوئی اقتصادی حالت میں جہاں فاقے پڑ رہے ہوں بلکہ فاقوں سے لوگ مر رہے ہوں وہاں احباب جماعت چندوں میں اضافے کر رہے ہوں یہحیرت انگیز نشان ہے خدا کے فضل کا کہ اخلاص میں کمی آنے کی بجائے ترقی ہورہی ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 466 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء اور جہاں تک بیعتوں کا تعلق ہے ان کی سوڈیڑھ سو یعتیں ماہانہ کی اطلاعیں آتی ہیں لیکن ان کے لحاظ سے بہت کم ہے.سابقہ کے مقابل پر وہ خوش ہیں اور اس میں وہ حق بجانب ہیں کہ پہلے سے رفتار تیز ہے لیکن غانا جیسے ملک میں جہاں جماعت کا غیر معمولی اثر ورسوخ ہے وہاں رفتار زیادہ تیز ہو جانی چاہئے.بلکہ بیسیوں گنا سے زیادہ تیز ہونی چاہئے بہر حال یہ خوشکن خبر ہے وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات نے تبلیغ کی راہیں وسیع کر دی ہیں اور جب سے پاکستان سے احمدیوں پر مظالم کی خبریں آنی شروع ہوئی ہیں عوام الناس کے علاوہ بڑی تیزی کے ساتھ اہم شخصیات اور اداروں کا جماعت کی طرف رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے تو اس کے نتائج بھی انشاء اللہ اکٹھے نکلیں گے کیونکہ یہ رجمان جب پیدا ہوتے ہیں تو چند دنوں میں تو نہیں وہ بیعتوں میں بدلا کرتے ، کچھ وقت لگتا ہے مگر امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس کا بہت اچھا پھل ہمیں وہاں عطا ہوگا.متفرق بعض ممالک ہیں ان میں بھی بعض میں تو بالکل غیر معمولی رجحان میں تیزی آئی ہے.گیمبیا والے نمبر تو لگا رہے ہیں بیعتوں پر لیکن یہ نہیں بتارہے کہ یہ کتنی دیر کے نمبر لگے ہوئے ہیں مثلاً ان کا جواب نمبر آیا ہے آخری وہ 2109 کا ہے.اب یہ نہیں پتہ لگ رہا کہ ایک سال کی ہیں یا پانچ سال کی ہیں تو اسلئے جو بھی رپوٹیں بھیجا کریں اس میں وضاحت کر دیا کریں.آئیوری کوسٹ چھوٹا سا ملک ہے جماعت بھی چھوٹی سی ہے لیکن وہاں خدا کے فضل.جولائی کے مہینہ میں 57 بیعتوں کی اطلاع ہے اور نجی میں 6 بیعتوں کی اطلاع ہے اور ایک نیا جزیرہ جہاں دو رومن کیتھولک عیسائی، رومن تھے یا دوسرے چرچ سے مگر بڑے شدت کے عیسائی تھے، دواحمدی ہوئے تھے ان میں سے ایک تربیت حاصل کرنے کے لئے نجی سووا (Suva) پہنچا وہاں اس نے با قاعدہ بڑے جوش و خروش سے تربیتی کلاس میں حصہ لیا اور نئے ارادے لے کر اپنے جزیرہ میں واپس لوٹ رہا ہے.وہ بھی دعا کی درخواست کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ اسکو وہاں کا مبلغ بنادے.ٹرینیڈا د میں کچھ عرصہ سے بالکل خاموشی ہو گئی تھی اب پچھلے مہینے وہاں سے 47 بیعتوں کی اطلاع ملی ہے.ماریطانیہ بھی نیا ملک ہے جہاں جماعت قائم ہوئی ہے وہاں سے بھی 16 بیعتوں کی اطلاع ملی ہے اور بعض جگہ تو خدا کے فضل سے وہ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًان (انصر: ٣)
خطبات طاہر جلد ۳ 467 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء کے رجحان ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں، وہاں سے اطلاعیں آرہی ہیں.ہندوستان کے بعض علاقوں میں خدا کے فضل سے بڑا رجحان ہے.ان میں جو آندھرا پر دیش میں جہاں بیعتیں پہلے ہوئی تھیں وہاں کی خوشخبری یہ ہے کہ سات مزید گاؤں خدا کے فضل سے احمدی ہو چکے ہیں اور سات گاؤں تیار بیٹھے ہیں اب آنے کے لئے اور جتنی مخالفت بڑھ رہی ہے اتنا زیادہ احمدیت کی طرف توجہ بڑھتی جارہی ہے.اور جہاں تک کینیا کا تعلق ہے.کینیا والے جانتے ہیں کہ وہاں جماعت بڑی اچھی اور مضبوط ہوا کرتی تھی لیکن تبلیغ کے لحاظ سے کافی سستی بھی تھی اور افریقنوں کو انہوں نے نظر انداز کیا ہوا تھا.افریقنوں میں کینیا میں بہت کم تبلیغ کی گئی ہے.اسی وجہ سے مغربی افریقہ میں تو بہت بھار تجما عتیں مقامی بنی ہیں لیکن کینیا میں زیادہ تر پاکستانی اور ہندوستانی نثراد احمدی تھے اور جب وہ یہاں منتقل ہو گئے انگلستان میں تو وہاں کی جماعت بہت کم رہ گئی اور کمزور ہوگئی.تو اب وہاں کے مبلغین خدا کے فضل سے توجہ کر رہے ہیں لیکن ان کی توجہ سے بہت بڑھ کر اللہ تعالی خود بخود ایسے سامان پیدا فرما رہا ہے کہ کثرت سے بعض جگہ رحجان ہوا ہے.چنانچہ کوالے(Kwale)اس کا تلفظ پتا نہیں کو الے ہے یا کیا کے علاقیسے کئی نئی جماعتوں کے بنے کی اطلاع ملی ہے حال ہی میں 407 افراد بیعت کر کے داخل ہو چکے ہیں اور تیزی سے اس علاقے میں رحجان پیدا ہوا ہے ان کو میں نے لکھا ہے کہ اس کو اور زیادہ تیزی اور شدت پیدا کرنے کی خاطر وقف عارضی کی مہم میں بدلیں اور صرف مبلغ نہ رہے یا بیعتیں کروا کے واپس نہ آجائے کیونکہ ایسے علاقوں میں جہاں تیزی ہو وہاں خطرات بھی ہوتے ہیں.بعض دفعہ تیزی سے رجحان ہوتا ہے اور پھر لوگ بیٹھ جاتے ہیں عدم تربیت کا شکار ہو کر پھر بعض واپس جانا شروع ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب نعمتیں عطا ہوں تو ان کی قدر کرنی چاہئے.شکر کا ایک یہ بھی طریق ہے کہ اس طرف ساری جماعت کا رخ موڑ دیا جائے.چنانچہ ہندوستان میں جب آندھرا پردیش سے مجھے اطلاع ملی تھی ابتدا میں کہ وہاں رجحان ہے تو زیادہ تر اس رجحان کو تقویت وقف عارضی کے ذریعہ ملی تھی اور حیدر آباد دکن کی جماعت مخلصیں اور اردگرد کی جماعتوں کیبلکہ ہندوستان کی دوسری جماعتوں سے بھی بعض ہم نے واقفین عارضی بھجوائے اور ایک رجحان پیدا ہوا اور بھی بڑی تیزی سے اللہ نے وہاں جماعتوں میں ترقی دی.یعنی گزشتہ ایک سال میں
خطبات طاہر جلد ۳ 468 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء اتنے احمدی وہاں نئے احمدی ہوئے اب اور بھی ہو رہے ہیں کہ حیدر آباد دکن میں جب سے احمدیت آئی ہے وہاں سے اب تک اتنے احمدی نہیں تھے پرانے موجود، بچوں سمیت جتنے خدا نے نئے احمدی دے دیئے کثرت سے ہزاروں کی تعداد میں آئی ہیں اب تو رحجان سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور جہاں رجحان دیکھا جائے وہاں پوری قوت کو اس طرف صرف کر دینا چاہئے.یہ لکھتے ہیں کہ ایک بنی بنائی مسجد بھی مل گئی ہے جسکے امام صاحب احمدی ہو گئے اور ان کے ساتھ ان کے نمازی بھی احمدی ہو گئے.تو اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور پورا امام اور مسجد اور نمازی اکٹھے کے اکٹھے خدا کی طرف سے تحفہ مل گیا.تو چونکہ ادھر رجحان ہے اس لئے کینیا والوں کو اب چاہئے کہ اپنے سابقہ داغ دھوئیں تبلیغ کی کمزوری کے اور ادھر تیزی کے ساتھ چڑھائی کریں فوج در فوج اور دیہات میں پھریں.عیسائی مبلغین بڑی تکلیفیں اٹھاتے تھے احمدیوں کو تو اس سے زیادہ تبلیغ کے میدان میں قربانی کے نمونے دکھانے چاہئیں کیونکہ وہ مسیح محمدی کے غلام ہیں.عیسائی پادریوں نے قربانی کے حیرت انگیز کام کئے ہیں.جنگلوں میں جا کے بس گئے.واقف عارضی کو تو صرف دس پندرہ دن کے لئے تکلیف اٹھانی ہوگی لیکن بعض تو ایسے پادری تھے جنہوں نے وہاں عمریں گزار دیں، بیماریوں میں ملوث ہوئے دکھ اٹھائے بعض جنگلی جانوروں کا شکار ہوئے، بعض کو وہاں آدم خور کھا گئے لیکن انہوں نے اپنی تبلیغ نہیں چھوڑی.تو بڑی قربانیاں ہیں اس عیسائیت کے پس منظر میں جو آپ کو افریقہ میں نظر آرہے ہیں.اس لئے جہاں بھی خدا تعالیٰ رجحان پیدا کر رہا ہے وہاں کی جماعتوں کو چاہئے کہ اب مبلغ پر نہ رہنے دیں بلکہ فوراً اپنی ساری قوتوں کو اس طرف جھونک دیں اور کوشش کریں کہ فوج در فوج پھر اس علاقے میں احمدیت پھیلنی شروع ہو جائے.جہاں تک پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے ان کیلئے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات پڑھ کر سناتا ہوں اور مخاطب خاص طور پر تو وہ ہیں لیکن باقی جماعت کے لئے بھی اس میں بڑے سبق ہیں اور گہری نصیحتیں ہیں جن پر عمل کر کے اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے تو انسان بہت ترقی کر سکتا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں، یہ تین اقتباس میں نے چنے ہیں.آپ فرماتے ہیں: روز روشن کے ظہور سے پہلے ضرور ہے کہ خدا تعالیٰ کے فرستادوں پر
خطبات طاہر جلد ۳ 469 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء سخت سخت آزمائشیں وارد ہوں اور ان کے پیرو اور تابعین بھی بخوبی جانچے اور آزمائے جائیں تا خدا تعالیٰ بچوں اور کچوں اور ثابت قدموں اور بزدلوں میں فرق کر کے دکھلا دیوے گا.“ عشق اول سرکش و خونی بود تا گریزد که بیرونی بود پھر فرماتے ہیں: یہ ابتلا اس لئے نازل نہیں ہوتا کہ ان کو ذلیل اور خوار اور تباہ کرے یا صفحہ عالم سے ان کا نام ونشان مٹادیوے کیونکہ یہ تو ہرگز ممکن ہی نہیں کہ خدا وند عز وجل اپنے پیار کرنے والوں سے دشمنی کرنے لگے اور اپنے سچے اور وفا دار عاشقوں کو ذلّت کے ساتھ ہلاک کر ڈالے بلکہ حقیقت میں وہ ابتلا کہ جو شیر ببر کی طرح اور سخت تاریکی کی مانند نازل ہوتا ہے اس لئے نازل ہوتا ہے کہ تا اس برگزیدہ قوم کو قبولیت کے بلند مینار تک پہنچا دے اور الہی معارف کے بار یک دقیقے ان کو سکھا دے.یہی سنت اللہ ہے جو قدیم سے خدائے تعالیٰ اپنے پیارے بندوں کے ساتھ استعمال کرتا چلا آیا ہے.“ سبز اشتہار روحانی خزائن جلد ۲ صفحہ ۴۵۷ - ۴۵۸) یہاں جو شیر بر کی طرح ابتلا کے آنے کا ذکر ہے اس ضمن میں مجھے دوخوا میں بھی یاد آ گئیں جو پاکستان سے دو مختلف بزرگوں نے لکھ کر بھیجیں اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ ایک عجیب خدا تعالی کی طرف سے توارد ہو رہا کہ ایک ہی مضمون کی خوا ہیں جو آگے پیچھے پہلے نہیں آیا کرتی ہیں لوگوں کو وہ ایک ہی دن مجھ تک پہنچتی ہیں اور پھر وہ اکٹھا مضمون ظاہر ہو کر پھر اس کے بعد مضمون بدل جاتا ہے پھر ایک اور مضمون کی خواہیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.تو ایک ہی ان دو مختلف بزرگوں نے خواہیں دیکھیں کہ شیر بر کو مارا ہے انہوں نے اور خواب کی طرز ایسی تھی جو ان کے لئے حیرت انگیز تھی.اور شیر کو پھر وہ بعض جگہ بند کیا ہے اور جب وہ انہوں نے دیکھا ہے وہ خود ہی مر چکا ہے اور ایک جگہ اس ویسے مارا ہے.علم تعبیر کی رو سے فاسق اور فاجر حاکم کو بھی شیر کہا جاتا ہے جو ظلم کی راہ اختیار
خطبات طاہر جلد ۳ 470 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء کرے.لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے جب یہ فرمایا جہاں یہ فرمایا ہے کہ شیر ہبر کی طرح ابتلا نازل ہوتا ہے اس وقت مجھے بھی تعبیر سمجھ آئی کہ مراد یہ ہے کہ یہ ابتلا جو شیر بر کی طرح نازل ہو رہا ہے گویا کھا جائے گا اور ہلاک کر دے گا یہ ابتلا خود ہلاک ہونے والا ابتلا ہے.پھر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: اگر یہ ابتلا درمیان میں نہ ہوتا تو ابنیاء اور اولیاء ان مدارج عالیہ کو ہرگز نہ پاسکتے کہ جو ابتلا کی برکت سے انہوں نے پالئے.اجتلانے ان کی کامل وفاداری اور مستقل ارادے اور جانفشانی کی عادت پر مہر لگادی اور ثابت کر دکھایا کہ وہ آزمائش کے زلازل کے وقت کس اعلیٰ درجہ کا استقلال رکھتے ہیں اور بچے وفا دار اور عاشق صادق ہیں کہ ان پر آندھیاں چلیں اور سخت سخت تاریکیاں آئیں اور بڑے زلزلے ان پر وارد ہوئے اور وہ ذلیل کئے گئے اور جھوٹوں اور مکاروں اور بے عزتوں میں شمار کئے گئے اورا کیلے اور تنہا چھوڑے گئے یہاں تک کہ ربانی مردوں نے بھی جن کا ان کو بڑا بھروسہ تھا کچھ مدت تک منہ چھپا لیا اور خدا تعالیٰ نے اپنی مربیانہ عادت کو بہ یکبارگی ایسا بدل دیا کہ جیسے کوئی سخت ناراض ہوتا ہے اور ایسا انہیں تنگی اور تکلیف میں چھوڑ دیا کہ گویا وہ سخت مورد غضب ہیں اور اپنے تئیں ایسا خشک سا دکھلایا کہ گویا وہ ان پر ذرا مهربان نہیں بلکہ ان کے دشمنوں پر مہربان ہے اور ان کے ابتلاؤں کا سلسلہ بہت طول کھینچ گیا.ایک کے ختم ہونے پر دوسرا اور دوسرے کے ختم ہونے پر تیسرا ابتلا نازل ہوا.غرض جیسے بارش سخت تاریک رات میں نہایت شدت سختی سے نازل ہوتی ہے ایسا ہی آزمائشوں کی بارشیں ان پر ہوئیں پر وہ اپنے پکے اور مضبوط ارادہ سے باز نہ آئے اور سست اور شکستہ دل نہ ہوئے بلکہ جتنا مصائب اور شدائد کا باران پر پڑتا گیا اتنا ہی انہوں نے آگے قدم بڑھایا اور جس قدر وہ توڑے گئے اسی قدر وہ مضبوط ہوتے گئے اور جس قدر انہیں مشکلات راہ کا خوف دلایا گیا اسی قدرا نکی ہمت بلند اور شجاعت ذاتی جوش میں آتی گئی.بالآخر وہ ان تمام
خطبات طاہر جلد ۳ 471 خطبه جمعه ۲۴ / اگست ۱۹۸۴ء امتحانات سے اول درجہ کے پاس یافتہ ہوکر نکلے اور اپنے کامل صدق کی برکت سے پورے طور پر کامیاب ہو گئے اور عزت اور حرمت کا تاج ان کے سر پر رکھا گیا اور تمام اعتراضات نادانوں کے ایسے حباب کی طرح معدوم ہو گئے کہ جو گویا وہ کچھ بھی نہیں تھے.“ (سبز اشتہار روحانی خزائن جلد ۲ صفحه: ۴۵۸ تا ۴۶۰) پس اے پاکستان کے مظلوم احمد یو! تمہیں مبارک ہو کہ بلند ہمت اور شجاعت ذاتی اور اولوالعزمی کے وہ آثار تم سے ظاہر ہورہے ہیں کہ وہ وقت دور نہیں جب اول درجہ کے پاس یا فتہ ہو کر تم ان ابتلاؤں سے نکلو گے اور عزت اور حرمت کا تاج تمہارے سروں پر رکھا جائیگا.وہ دن لازماً آئیں گے کہ مسیح دوراں کو کانٹوں کا تاج پہنانے والے خود کانٹوں میں گھیسٹے جائیں گے اور ذلت اور رسوائی کا تاج ان کے سروں پر رکھا جائے گا.
خطبات طاہر جلد۳ 473 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء شرعی عدالت کی دینی حیثیت خطبه جمعه فرموده ۳۱ راگست ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعَمَا يَعِظُكُمْ بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا (النساء: ۵۹) اور پھر فرمایا: پاکستان سے بعض دوست جو یہاں تشریف لائے اور مجھ سے ملاقات کا بھی ان کو موقع ملا اور مجھے ان سے ملاقات کا موقع ملا ان کی بعض باتوں سے مجھ پر یہ تاثر ہے کہ پاکستان کے بعض احمدی اس بارہ میں تشنگی محسوس کرتے ہیں کہ شرعی عدالت کی شرعی حیثیت کیا ہے اور ان کی یہ خواہش ہے کہ اس موضوع پر میں نسبتا تفصیل سے روشنی ڈالوں کہ قرآن اور سنت کی رو سے شرعی عدالتوں کے قیام کا کس حد تک جواز ہے؟ کس کو یہ حق ہے؟ ان کے فیصلے کی شرعی نوعیت کیا ہوگی ؟ اور جو ایسی عدالت میں جائیں ان پر پھر شرعی ذمہ داری کیا عائد ہوتی ہے؟ چنانچہ اس پہلو سے جب میں نے قرآن کریم پر غور کیا تو مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ شرعی عدالت کے قیام کے نظام کا قرآن کریم میں کوئی ذکر نہیں.ایک ہی شرعی عدالت کا ذکر ملتا ہے اور وہ جو اللہ کا رسول ہے یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی عمل ہے جو اس قانون کے تابع ہے جس کو شریعت
خطبات طاہر جلد ۳ 474 کہا جاتا ہے چنانچہ جب بھی اختلاف کی صورت ہو ہدایت یہ ملتی ہے.خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ ( النساء:۲۰) نہ کسی عدالت کا ذکر نہ کسی حاکم یا آمر کا ذکر.فرمایا جب بھی تمہارا اختلاف ہو ایک ہی شریعت ہے اور ایک ہی عادل ہے اس شریعت کا تو اللہ یعنی قرآن کی طرف رجوع کرو اور شریعت کے فیصلوں پر خدا نے جسے مقرر فرمایا ہے اس کی طرف رجوع کرو.اس کے علاوہ تنزل کے طور پر اگر دوسرے درجہ پر اتر کر دیکھیں تو پھر خلیفہ وقت کی حیثیت بنتی ہے شرعی عدالت کا فیصلہ کرنے کی.یعنی وہ بھی خلافت کے رنگ میں شرعی عدالت کہلا سکتا ہے لیکن وہ لوگ جن کی یہ ساری شرعی عدالتیں ماضی میں رہ گئی ہوں ان کے لئے کیا صورت ہے؟ نہ کوئی ایک خلیفہ ہو جس کی وہ متابعت کرنے کے پابند ہوں اور نہ کوئی اتحاد ہو عالم میں، بے انتہا اختلافوں کی امت شکار ہو چکی ہو تو کیا قرآن کریم اس صورت حال پر بھی روشنی ڈالتا ہے اور کوئی طریق کار بیان فرماتا ہے جس سے عدالتیں شرعی عدالتیں کہلا سکیں؟ تو یہ کیسی عظیم کتاب ہے کہ اس صورت حال کا بھی ذکر فرماتی ہے لیکن عدالت کے قیام کا حق کسی کو نہیں دیتی.ہر عدالت کو ایک لائحہ عمل دیتی ہے، ایک نصیحت کرتی ہے کہ اگر تم اس طریق کار کے مطابق کام کرو گے تو تمہاری حیثیت شرعی عدالت کی حیثیت ہو جائے گی اور وہ یہ قانون ہے: قن وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى اَلَّا تَعْدِلُوا اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (النساء:۲۰) کہ اسے دنیا کی تمام عدالتو! اگر تم چاہتے ہو کہ خدا کی نمائندگی تمہیں بھی نصیب ہو جائے تو قطع نظر اس کے کہ تمہیں کس نے مقرر کیا ہے؟ کیا تمہاری حیثیت ہے، اپنے ملک میں یا بین الاقوامی حیثیت کے لحاظ سے ایک بات کے پابند ہو جاؤ : اِعْدِلُوا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوَى (النساء:۲۰) عدل سے کام لو اور اگر تم عدل سے کام لو گے تو خدا کی نظر میں تمہارا یہ فیصلہ درست اور شرعی فیصلہ ہوگا اور اگر عدل سے گر جاؤ گے تو قطع نظر اس کے کہ تمہیں کس نے مقرر کیا ہے کسی اسلامی حکومت نے مقرر کیا ہے یا عیسائی حکومت نے مقرر کیا ہے بہر حال جو بھی تمہارا فیصلہ ہوگا اس کو شریعت محمدیہ سے کوئی نسبت نہیں ہوگی.دوسری جگہ جہاں تنازعہ کا ذکر فر مایا وہاں بھی عدالت تو مقرر نہ فرمائی لیکن یہ طریق ضرور
خطبات طاہر جلد۳ 475 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء سمجھا دیا کہ جب بھی تمہارا اختلاف ہوا کرے اس وقت تم نے آمر کی بات نہیں مانی بلکہ قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرنا ہے.اس کے سوا کسی شرعی عدالت کے طریق کار کا کوئی ذکر قرآن کریم میں نہیں ملتا لیکن جہاں تک بعد کے زمانے کے علما کے من گھڑت قصے ہیں ان پر بنا کی جاتی رہی.وہ جو بعد کے سلاطین کے زمانہ میں پیدا ہونے والے جو علما تھے جنہوں نے سلاطین وقت کو خوش کرنے کے لئے شریعت کے ساتھ بھی کھیل کھیلنے میں کوئی حرج نہ سمجھا انہوں نے سلاطین کو بعض حقوق دیئے اور قطع نظر اس کے قرآن کس سلطان کو حکم دیتا ہے کہ نہیں اسے انہوں نے تسلیم کیا.چنانچہ موجودہ شرعی عدالت یعنی So Called مزعومہ طور پر جسے شرعی عدالت کا نام دیا گیا ہے اس کی بھی یہی حیثیت ہے.تمام بحث کے دوران احمدیت کے مخالف علما سلاطین کے حقوق کا ذکر کرتے رہے.نہ قرآن کا ذکر نہ رسول کا ذکر بلکہ سلاطین کو یہ حق ہے جو مسلمان سلطان ہو اس کو یہ حق ہے کہ یہ کرے، اس کو یہ حق ہے کہ وہ کرے اور اس حق کی بحث میں یہ بتاتے رہے کہ فلاں فقیہہ نے یہ کہا ہے کہ حق ہے، فلاں عالم نے یہ کہا ہے کہ یہ حق ہے، قرآن نے کہاں سلطان کا حق مقرر فرمایا ہے اور کس تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے اس کا کوئی ذکر نہیں.چنانچہ اگر سلاطین کی بحث کو لیجئے تو اس پر مزید غور کرتے ہیں کہ شرعی عدالت پھر کیسے بنے گی.جب تک سلطان نہ پہلے بن جائے جس کو شریعت حق دے سلطانی کا اس کے شرعی عدالت بننے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اگر سلطان کو کوئی شرعی عدالت بنانے کا حق بھی ہو تو اول تو وہ قرآن کریم کی اس واضح ہدایت کے تابع رہے گا حق : وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَانُ قَوْمٍ عَلَى الَّا تَعْدِلُوا النساء :۲۰) عام حالات تو کیا اگر کسی قوم سے دشمنی بھی ہو تو کوئی عدالت بھی اگر عدل سے عاری ہوگی ، گر جائے گی عدل کے مقام سے تو قرآن کی رو سے وہ شرعی عدالت نہیں رہے گی مگر اس سے قطع نظر ہم فی الحال سلطان کی طرف چلتے ہیں کہ سلطان ہے کیا چیز ؟ قرآن کریم کس کو سلطان کہتا ہے اور جس کو سلطان کہتا ہے کیا اس کو شریعت کی نمائندگی کا بھی حق ملتا ہے؟ یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر مسلمانوں کی اکثریت ہو تو ان کا سلطان شرعی نمائندہ کہلا سکتا ہے.غالباً یہی موقف تھا جو وہ لیتے رہے لیکن وہ کس قسم کا سلطان ہو؟ کیا موروثی سلطان کو قرآن کریم شرعی حق دیتا ہے سلطانی کا یا ایسے انقلاب کے
خطبات طاہر جلد ۳ 476 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء ذریعہ آنے والے سلطان کو حق دیتا ہے جو عوامی انقلاب ہو یا فوجی جنتا کے ذریعہ آنے والے آمر کو قرآن کریم سلطانی کا حق دیتا ہے؟ یہ تین بنیادی سوال ہیں جب تک یہ طے نہ ہو جائیں کیسے پتہ چلے گا کہ کوئی سلطان شریعت کے لحاظ سے حکومت کا حق بھی رکھتا ہے کہ نہیں رکھتا ؟ اس لئے ان تین پہلوؤں پر کوئی بحث میرے علم میں نہیں آئی حالانکہ یہ بنیادی باتیں تھیں.جب تک پہلے کسی کی سلطانی کا حق مسلم نہ ہو جائے اس کے بغیر اگلے حقوق اس کو کس طرح مل سکتے ہیں اور پھر شریعت سے کھیلنے کا حق یہ سب سے بنیادی چیز ہے.یہ فیصلہ ہونا چاہئے تھا کہ قرآن اور رسول کے فرمودات کے مطابق اس طرح سلطان بنا کرتے ہیں؟ اسلام انتظار کیا کرتا ہے فوجی انقلاب کا ؟ جب کسی ملک میں فوجی انقلاب آ جائے تو قطع نظر اس کے کہ سارا ملک اس سے بیزار ہے یا نہیں بیزار، اس کے حق میں ہے یا مخالف ہے،شریعت اسلامیہ فوراً اپنے تمام حقوق اس کو تفویض فرما دیتی ہے اور کہتی ہے جاؤ اب سلطانی کے حقوق کے مزے لوٹو اور شریعت کے نام پر جو چاہو فیصلے کرو قرآن تمہارے پیچھے اور رسول تمہارے پیچھے ہے.یہ فیصلہ اگر ہے تو پھر دینا چاہئے تھا کیونکہ اس کے بغیر تو اگلا فیصلہ ہو ہی نہیں سکتا لیکن یہ خاموش فیصلہ ہے جو عملاً دے دیا گیا ہے.سب سے بڑا ظلم جو اسلام کے نام پر ہوا یہ ہوا ہے.جب اگلا قدم اٹھا لیا گیا تو یہ تسلیم شدہ فیصلہ ہے اس کے اندر کہ شرعی عدالت کے نزدیک یعنی جو پاکستان کی شرعی عدالت ہے ہر وہ فوجی جو فوجی طاقت کے ذریعہ ملک میں انقلاب بر پا کر کے اس کو اسلام سلطانی کے حقوق دیتا ہے قطع نظر اس کے کہ جمہور اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں اور پھر قرآن اور سنت کی نمائندگی کا حق دیتا ہے، قرآن اور سنت کے نام پر جو چاہے آرڈینینس جاری کرے اور جو چاہے شریعت میں مداخلت کرے اس کی بات مانی جائے گی اور جس عدالت کو وہ شرعی عدالت قرار دے دے اس عدالت کے سارے فیصلے شرعی کہلائیں گے.یہ ان لفظوں میں نہیں کہا گیا کیونکہ ان کی بنیاد کوئی نہیں تھی لیکن جب عدالت نے اپنا حق تسلیم کر لیا شرعی عدالت کہلانے کا تو یہ اس کے اندر مضمر باتیں ہیں خود بخو داس کے اندر داخل ہو گئیں.مگر اس فیصلے کے بعد نظر کرتے ہیں کہ عالم اسلام یا تو نبوت کے نیچے ایک رہتا ہے یا خلافت کے نیچے ایک رہتا ہے، جب سلطانیاں شروع ہو جاتی ہیں وہ تو بٹ جایا کرتا ہے اور یہی ہوا اسلام کے ساتھ.آج ایک سلطان تو نہیں ہے آج تو بہت سے سلاطین ہیں، کوئی سعودی عرب کا
خطبات طاہر جلد۳ 477 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء سلطان ہے، کوئی ایران کا سلطان ہے، کوئی شام کا سلطان ہے، کوئی لیبیا کا سلطان ہے، کوئی شمالی یمن کا سلطان ہے اور کوئی جنوبی یمن کا سلطان ہے اور ایک پاکستان کا بھی سلطان ہے.تو سوال یہ ہے شریعت کی رو سے اب یہ فیصلہ تو ضروری ہے کہ ان سلاطین میں سے جو مختلف نوعیت کے سلاطین ہمیں نظر آتے ہیں اور ان کے رجحانات بھی الگ الگ ہیں، اسلامی شریعت کس کو اسلام کی نمائندگی میں سلطانی کا حق دے رہی ہے اور وہ تمیز کونسی ہے جس کی رو سے ہم یہ کہہ سکیں کہ پاکستان کا سلطان تو شرعی سلطان ہے لیکن ایران کا سلطان شرعی سلطان نہیں.سنی سلطان تو شرعی سلطان ہے لیکن شیعہ سلطان شرعی سلطان نہیں.شمالی یمن کا سلطان جو سعودی عرب کے ساتھ رجحان رکھتا ہے وہ شرعی سلطان ہے لیکن جنوبی یمن کا سلطان شرعی سلطان نہیں حالانکہ دونوں مسلمان ممالک ہیں.لیبیا کا سلطان تو شرعی سلطان ہے لیکن مصر کا سلطان یا سوڈان کا سلطان شرعی سلطان نہیں یا یہ کہ عراق کا سلطان تو شرعی ہے لیکن شام کا نہیں ہے.تو یہ تفریق کس آیت کی رو سے کس حدیث نبوی کی رو سے ہوگی ، جب تک ہم اس بحث میں نہ داخل ہوں پہلا فیصلہ خواہ دھاندلی سے بھی کیا گیا ہو بے معنی ہو جایا کرتا ہے اور بے معنی ہو جائے گا.اگلے فیصلے میں سوائے اس کے چارہ نہیں کہ ہر سلطان کو اسلامی شریعت کا سلطان مانا جائے اس کے بغیر تو آپ اس مخمصے سے نکل ہی نہیں سکتے.اب ان سلطانوں کو شرعی عدالتیں قائم کرنے دیجئے.ایک شرعی عدالت خمینی صاحب کے تابع ہوئی ہے ایک نمیری صاحب کے تابع بنی ہے، ایک جنرل قذافی کے تابع بن گئی ایک پاکستان میں بنی ہوئی موجود ہے پہلے سے ہی.اور سعودی عرب کی بھی شرعی عدالتیں ہیں تو ایک ہی موضوع پر ان سب کے فیصلوں کا اختلاف کیا نتیجہ نکالے گا کہ اسلام کی تعلیم اس طرح آپس میں بٹی ہوئی ہے جس کے متعلق قرآن کا دعویٰ تھا کہ کوئی تضاد تمہیں ساری کائنات میں نظر نہیں آئے گا اس کا کلام اس طرح تضادات کا شکار کہ ہر سلطان دوسرے کا دشمن، ایک دوسرے کا مخالف ، ایک دوسرے کی طرز حکومت کو غلط قرار دینے والا اور قرآن کہتا ہے یہ سارے سلطان درست کہہ رہے ہیں ہم نے حق دیا ہے اور ہر سلطان کی شرعی عدالت ایک الگ فیصلہ کر رہی ہے اور اس فیصلے کی رو سے اگر اس فیصلے کو تسلیم کر لیا جائے تو یہ حق بنے گا کہ ہر شرعی عدالت کا فیصلہ عین قرآن کا فیصلہ ہے.جب ایک سلطان کہہ رہا ہے کہ فلاں بات یوں ہے ، یوں نہیں ہے یا اسکی شرعی عدالت کہہ رہی ہے کہ فلاں بات یوں نہیں ہے اور دوسری
خطبات طاہر جلد۳ 478 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء ہے.عدالت کہہ رہی ہے کہ نہیں تم غلط کہتے ہو یہ شیعہ نقطۂ نظر سے ہوگی ہمارا فیصلہ ہیکہ یہ نہیں ہے ایک شرعی عدالت کہہ رہی ہے کہ وھابی یا اہل حدیث نقطہ نظر سے یہ فیصلہ ہم دیتے ہیں اور ایک شرعی عدالت کہہ رہی ہے کہ بالکل غلط بریلوی نقطۂ نگاہ سے تو یہ فیصلہ ہے اور چونکہ ہمارے ملک میں بریلوی اکثریت ہے ہمارا سلطان بریلوی ہے اس لئے ہماری شرعی عدالت کا فیصلہ چلے گا اور اتنے نمایاں فرق ہیں بنیادی کہ بیک وقت اگر سب کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ قرآن کریم اتنے تضادات کا مجموعہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے دیکھ کر کہ ایسے نقضا دایک جگہ سا کیسے گئے؟ ایک نیام میں دو تلوار میں تو نہیں سما سکتیں لیکن شیعہ فیصلے اور سنی فیصلے سا جائیں گے؟ بریلوی فیصلے اور دیوبندی فیصلے سما جائیں گے یہ تو ناممکن ہے ان کا اختلاف تو اس سے بھی زیادہ شدید ہے اور پھر یہی نہیں بلکہ اگر آغا خانی عدالت کہیں قائم ہو جائے تو وہ بھی شامل کرنے پڑیں گے فیصلے شریعت کی رو سے اور آغا خانی فیصلوں میں یہ بھی فیصلہ شامل ہے کہ تمہیں پاروں کا قرآن جو ہے وہ تو Obsolete ہو چکا ہے بوسیدہ ہو گیا ہے ایک دس پاروں کا قرآن جو آغا خانی ائمہ پر نازل ہوا تھا اس کے بغیر بات نہیں بنتی اور قرآن اور سنت کے مقابل پر غنی یعنی گانا کو بگڑا ہوا غنی کہتے ہیں لیکن اصل میں وہ غنی تھا غنی بگڑ کر گنا بن گیا ہے.تو جو انہوں نے گانے بنائے ہوئے ہیں شریعت کے متعلق ان کا فیصلہ لازمی چلے گا اور وہی غالب آئے گا اور ان فیصلوں میں ایک یہ بات بھی لکھی ہوئی ہے کہ حضرت علی ہی اصل خدا ہیں اگر غلط فہمی نہ ہو چنانچہ کلمہ کے اندر داخل کر لیا گیا ہے اس بات کو کہ فلاں یہ ہے فلاں یہ ہے اور علی اللہ برحق ہے اور جو اس کے خلاف فیصلہ دے گا وہ شریعت اسلامیہ کے خلاف ہے.تو ایک عدالت آغا خانیوں کی بیٹھ کر بھی فیصلے دے گی تو کیا بنے گی شریعت کی حالت ؟ اس لئے چارہ نہیں رہتا سوائے اس کے کہ انسان مجبور ہو جائے قرآن کی طرف رجوع کرنے پر اور قرآنی رجوع کے سوا ان مسائل کا کوئی اور حل ممکن نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم میں دو طریق پر شرعی عدالتوں کو قائم فرمایا اور آزاد کر دیا کہ سارے بنی نوع انسان اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں.اس کو کہتے ہیں رحمہ للعالمین یعنی آنحضرت ﷺ پر جوتعلیم نازل ہوئی ہے وہ ایسی عظیم رحمت ہے ساری کائنات کے لئے رحمت ہے کہ اگر انگریز بھی اس پر عمل کرے گا تو وہ بھی شریعت اسلامیہ کے مطابق فیصلہ کرنے کا مجاز ہو جائے گا، اگر یہودی اس پر عمل
خطبات طاہر جلد۳ 479 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء کرے گا تو وہ بھی مجاز ہو جائے گا، اگر ہندو اس پر عمل کرے گا تو وہ بھی مجاز ہو جائے گا.دوشرطیں ہیں ایک یہ کہ عدل پر قائم رہو اگر عدل نہیں ہوگا تو پھر شریعت کے ساتھ تمہارے فیصلوں کا کوئی تعلق نہیں.دوسرا فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ (النساء:۲۰) باتوں کو اپنے فقیہوں یا مولویوں کی طرف نہ لوٹایا کرواگر فیصلہ دیتے وقت تم قرآن اور سنت کی طرف لوٹاؤ گے اور وہیں تک محدود رہو گے تو پھر تمہارے فیصلے قرآن اور سنت کے فیصلے کہلا سکتے ہیں، ایک شرط کے ساتھ کہ وہ تقویٰ کے ساتھ کئے گئے ہوں.چنانچہ بار بار تقویٰ کا مضمون بھی ساتھ باندھ دیا جن آیات میں یہ ذکر فر مایا وہاں تقویٰ کا بھی ساتھ ذکر فرمایا.تقویٰ شرط ہے، اگر تقویٰ کے ساتھ کرو گے اور دیانتداری کے ساتھ تقویٰ کو مد نظر رکھتے ہوئے قرآن اور سنت کے مطابق بات کرو گے تو تم نا فرمان نہیں کہلا سکتے لیکن پھر بھی تمہارا فیصلہ ایسے شخص پر لاگو نہیں ہو گا جس کے نزدیک قرآن اور سنت کچھ اور بات کہہ رہے ہوں.یہ بھی ساتھ وضاحت ہوگئی کیونکہ یہ حکم سب مسلمانوں کو عام ہے اور اس کے لئے جو سب سے بڑی سند ممکن ہے پیش کرنی جو بعد کے سب مسلمانوں کو قبول ہونی چاہئے وہ میں اپنے ساتھ رکھتا ہوں وہ میں آپ کو سناؤں گا کہ نبوت کے بعد کوئی اگر شرعی عدالت قائم ہو تو اس کے حقوق کیا ہیں.ایک ایسا واقعہ گذرا ہے عالم اسلام میں جب کہ ایک ایسی شرعی عدالت قائم کی گئی تھی جس کو خلیفہ وقت کی سند حاصل ہوئی اور اس عدالت کے مقابل پر اس عدالت کی جو آج بنی یا کل بن سکتی ہے کوئی حیثیت ہی نہیں اور اس عدالت نے ایک فیصلہ دیا ہوا ہے.اور بڑا واضح اور کھلا فیصلہ ہے.شرعی عدالت قائم کرتے وقت یہ فیصلہ دیا ہوا ہے کہ اس عدالت کی حیثیت یہ ہے اور حیثیت یہ ہے کہ اگر یہ خلاف بھی فیصلہ دے تو وہ فریق جو یہ سمجھتا ہو کہ قرآن اور سنت کے مطابق فیصلہ نہیں ہے وہ اس فیصلے کا پابند نہیں رہے گا.اس سے بڑھ کر شرعی عدالت کیسے قائم ہوسکتی ہے؟ وہ میں شرعی عدالت کا قصہ آپ کو سناتا ہوں.حضرت علی کرم اللہ وجہہ یعنی اسلام کے چوتھے خلیفہ اور حضرت معاویہ کے درمیان اختلافات کا حال سب کو معلوم ہے.یہ اختلافات اتنے شدید ہو گئے کہ جنگ پر نوبت پہنچی اور مسلمان ایک دوسرے کا خون کرنے لگے.بڑی ہی تکلیف دہ صورت حال تھی اور آج تک اسلامی تاریخ کا یہ
خطبات طاہر جلد۳ 480 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء ایک انتہائی دردناک واقعہ ہے.آنحضور ﷺ کے وصال کو ایک صدی تو کیا ایک نصف صدی بھی نہیں گزری تھی کہ اس قسم کے شدید اختلافات پیدا ہو گئے.شامی فوج جوز زیادہ تر خارجیوں پر مشتمل تھی وہ حضرت معاویہ کی حمایت کر رہی تھی اور اہل مدینہ اور دوسرے مسلمان جو زیادہ نسبتاً تربیت یافتہ تھے، آنحضرت ﷺ کو قریب سے دیکھا تھا وہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے ساتھ تھے.عین میدان جنگ میں جب عمرو بن العاص جو اس وقت معاویہ کے ساتھ لڑ رہے تھے انہوں نے یہ دیکھا، بڑے ہوشیار آدمی تھے کہ حضرت علی کی فوج کا پلہ بھاری ہو گیا ہے تو انہوں نے یہ ترکیب پیش کی کہ کیوں نہ قرآن کریم کو حکم بنایا جائے کیونکہ قرآن کریم خود کہتا ہے کہ اختلافات کی صورت میں قرآن کی طرف معاملے لوٹاؤ: فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ (النساء: ۶۰) اگر چہ بات بہت اچھی کی گئی تھی لیکن اس کے پیچھے فتنہ مقصد تھا اور جب ان کو یہ خوف پیدا ہوا کہ شاید مسلمان اس بات کو تسلیم نہ کریں.یعنی حضرت علی کا کیمپ اس کو تسلیم نہ کرے حالانکہ قرآن کا حوالہ دیا جا رہا ہے، اس خیال سے کہ اس میں نیت گندی ہے ، نام تو بہت پاکیزہ ہے لیکن نام لینے والوں کی نیت بہت گندی ہے.دوسرے دن انہوں نے یہ ترکیب کی کہ خارجی لشکر نیزوں پر قرآن کریم اٹھالایا اور نعرے لگانے لگا کر قرآن کریم کوحکم بناؤ قرآن کریم کوحکم بناؤ.اس کا اتنا جذباتی گہرا اثر پڑا حضرت علی کے ساتھیوں پر کہ بھاری اکثریت ان کی اس سے اثر انداز ہو کر یہ کہنے لگ گئی اور مطالبہ کرنے لگ گئی کہ ہاں لازماً قرآن کو حکم بنایا جائے گا لیکن کیسے حکم بنایا جائے گا؟ اب یہ سب سے مشکل امر جو تھا یہ در پیش آیا.چنانچہ دونوں کے درمیان ایک طریق کار طے ہوا اور ثالثی لکھی گئی یعنی صرف شرعی عدالت ہی نہیں بنائی گئی بلکہ فریقین نے ثالثی نامے کے طور پر اپنا اپنا نمائندہ اس شرعی عدالت میں مقرر کیا.یہ جو شرعی عدالت ہے اس میں تو کوئی احمدی نمائندہ نہیں تھا لیکن میں یہ بتاؤں گا کہ نمائندہ ہوتا بھی تب بھی کیا شکل بنتی ؟ اس شرعی عدالت کا تو صرف یہ حال ہے جیسے غالب نے کہا تھا: پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا (دیوان غالب صفحه : ۸۰) یعنی یک طرفہ عدالت اور میں آگے اس گفتگو کو بڑھاؤں گا تو پتہ چلے گا کہ شرعی عدالت
خطبات طاہر جلد۳ 481 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء اختلافی مسائل میں ہو ہی نہیں سکتی.دنیاوی مسائل میں تو ہو سکتی ہے شرعی اختلافی مسائل میں کوئی شرعی عدالت دنیا میں قائم ہو ہی نہیں سکتی.چنانچہ اس مثال سے بھی آگے میری بات واضح ہوگی.بہر حال حضرت علیؓ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو مقرر کیا گیا جب کہ خود حضرت علی کا دل اس پر پوری طرح مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ حضرت ابن عباس کو اپنا نمائندہ بنانا چاہتے تھے لیکن مشکل یہ در پیش ہوئی کہ دوسرے بہت سے ساتھیوں نے کہا کہ نہیں ابو موسیٰ اشعری کو ہونا چاہئے اور حضرت علی نے یہ کہا بھی کہ وہ ویسے بڑے بزرگ آدمی ہیں لیکن دماغی حالت ایسی نہیں ہے، سادہ ہیں مزاج کے اور ڈر ہے مجھے کہ وہ سادگی کی وجہ سے کہیں خواہ مخواہ قابونہ آجائیں.مقابل پر عمرو بن العاص بہت ہوشیار آدمی ہیں بہر حال عمرو بن العاص دوسرے فریق کی طرف سے ثالث مقرر ہوئے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی طرف سے حضرت ابو موسیٰ اشعری.اب دیکھئے ! کہ یہ وہ سنگم ہیں جہاں سلطانی بھی ابھری تھی اور خلافت بھی موجود تھی.وہ لوگ جو سلطانیوں کی باتیں کرتے ہیں اس سے بڑا سلطان اس کو پیش نہیں کر سکتے جو صحابہ میں سے ہو اور آج تک جس کے لئے ایک بہت بھاری طبقہ، دلیل ہاتھ میں ہو یا نہ ہو، حمایت میں بہت کچھ کہہ رہا ہے.تو سلطان میں اس سے بڑا سلطان نہیں لا سکتے اور خلافت راشدہ موجود تھی اس میں شیعوں کا بھی اتفاق ہے اور سنیوں کا بھی اتفاق ہے، ایک بھی مسلمان نہیں جو اختلاف کرے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ خلیفہ راشد نہ تھے.تو اگر کسی خلیفہ کو حق ہے شریعت کی عدالت بنانے کا تو حضرت علی کو ضرور تھا.اگر کسی سلطان کو حق ہے تو اس سلطان کو ضرور تھا جو پہلا سلطان تھا اسلام میں اور پھر دونوں کا اتفاق ہو گیا.اب تو کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ شرعی عدالت قائم ہوگئی اور فیصلہ یہی ہے کہ قرآن اور سنت سے فیصلہ ہوگا.فیصلہ کیا ہوتا ہے اس سے پہلے وہ عہد نامہ جولکھا جاتا ہے وہ میں آپ کو پڑھ کر سنا تا ہوں عہد نامہ کے الفاظ یہ ہیں یعنی ان کا اردو تر جمہ: علی اور ان کی جماعت نے ابو موسیٰ اشعری کو اور معاویہ اور ان کی جماعت نے عمرو بن العاص کو حکم مقرر کیا ہے.یہ دونوں کسی فریق کی رور عایت کے بغیر امت کی خیر خواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق فیصلہ کریں گئے
خطبات طاہر جلد ۳ 482 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء وہی بات فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ سنت رسول اللہ کے مطابق جو فیصلہ کر دیں گے وہ فریقین کے لئے واجب التسلیم ہوگا“.اس میں کسی خلیفہ کا حوالہ بھی نہیں آیا پہلے حالانکہ تین خلفا گزرچکے تھے، کسی اور عالم کے حوالے کو تسلیم نہیں کیا گیا صرف قرآن اور سنت ہی کافی ہے اس کے بغیر ہم فیصلہ نہیں مانیں گے.جو فیصلہ کر دیں گے وہ فریقین کے لئے واجب التسلیم ہوگا یہ الفاظ ہیں : اور جو فریق اس کے ماننے سے انکار کرے گا حکم اور عام مسلمان کروائے.اس کے خلاف دوسرے فریق کو مدد دیں گے“.لیکن شروع ہو جاتا ہے یہ وہ فقرے ہیں جو حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے خود داخل دد لیکن اگر یہ فیصلہ کتاب اللہ اور سنت رسول ﷺ کے خلاف ہو یا اس میں کسی فریق کی جنبہ داری پائی جائے ( یعنی عدل نہ ہو ) تو اس کی پابندی ضروری نہیں ہوگی.حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو بہت گہری قرآن کی فراست تھی، اتنی حیرت انگیز کہ آپ کے اقوال تفاسیر کے مضمون پر ملتے ہیں ان کو آپ پڑھیں تو ایک خزانہ ہے، ایک سمندر ہے موتیوں کا چنانچہ یہ دونوں باتیں لکھوانا عین قرآن کے مطابق تھا گویا جیسا کہ میں نے پہلے کہا تھا کہ شرعی عدالت ان معنوں میں قائم ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کا فیصلہ ہر فریق کو پابند ہو خواہ وہ فریق خود قرآن کی وہ تشریح نہ سمجھتا ہو جب تک اس کا دل مطمئن نہ ہو جائے اس فیصلے کوسن کر کہ قرآن واقعی یہ کہ رہا ہے اس وقت تک وہ پابند نہیں ہو گا کسی فیصلہ کا تو گویا شرعی عدالت کی حیثیت صرف مشیر کی ہوگی اس سے زیادہ تو حیثیت ہی کوئی نہ رہی.جتنے اختیارت اس کو دے بیٹھے تھے وہ اگلے فقرے نے سارے چھین لئے.ایسی صورت میں ہر فریق خود اپنا فیصلہ کرنے کے لئے آزاد ہوگا فیصلہ کے اعلان تک جنگ بالکل ملتوی رکھی جائے گی اور کامل امن وامان قائم رہے گا.اگر فیصلہ کے اعلان سے قبل دونوں امیروں یا حکموں میں سے کوئی
خطبات طاہر جلد ۳ 483 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء امیر یا حکم مرجائے تو اس کی جماعت کو اس کی جگہ دوسرے امیر اور حکم کے انتخاب کا حق حاصل ہوگا، دونوں حکموں کی جان اور مال محفوظ رہے گا.رمضان تک فیصلہ کا اعلان ہو جانا چاہئے لیکن اگر حکم اس میں کچھ تاخیر کرنا چاہیں تو اس مدت میں توسیع کر سکتے ہیں.اب سنئے فیصلہ ! جیسا کہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا وہی واقعہ ہوا حضرت ابو موسیٰ اشعری نے ایک بات طے کی اپنے ساتھی حکم سے اور سادگی میں الگ الگ فیصلہ سنایا دونوں نے اور حضرت ابوموسیٰ کو کہا عمر و بن العاص نے کہ پہلے تم فیصلہ سنادو میں بعد میں سناتا ہوں اور سنئے ابوموسیٰ اشعری کا سادگی کا فیصلہ بالکل درست ہے اس لحاظ سے کہ دونوں کا فیصلہ یہ تھا یہ درست ہے بات لیکن فیصلہ فی ذاتہ شریعت کے خلاف ہے وہ اس بات کو سمجھ نہیں سکے.اما بعد ، لوگو! ہم نے اس مسئلہ پر غور کیا، اس امت کے اتفاق اور اتحاد اور اصلاح کی اس کے علاوہ اور کوئی صورت نظر نہ آئی کہ علی اور معاویہ دونوں کو معزول کر کے خلافت کو شوری پر چھوڑ دیا جائے“.حالانکہ خلیفہ برحق اگر دونوں میں سے کوئی ایک تھا تو اس کو تو معزول کر ہی نہیں سکتا انسان.وہ تو خدا کی پہنائی ہوئی چادر ہے اور اگر تھا ہی نہیں تو معزول کس کو کر رہے ہو؟ پھر کوئی اور ہونا چاہئے.موجود ہوگا کوئی اور تو شریعت کے لحاظ سے تو کوئی یہ فیصلہ نہیں ہے لیکن اس لحاظ سے ضرور ہے کہ دونوں کا متفقہ یہی فیصلہ تھا.عام مسلمان جسے اہل سمجھیں اسے منتخب کر لیں اس لئے میں علی اور معاویہ دونوں کو معزول کرتا ہوں آئندہ تم جسے پسند کرو اپنا خلیفہ بناؤ“.یہ تو فیصلہ ہو گیا حضرت ابوموسی" کا اب عمرو بن العاص کی باری آئی ان کا فیصلہ سنئے : اما بعد لوگو! ابو موسیٰ کا فیصلہ آپ لوگوں نے سن لیا انہوں نے اپنے آدمی کو معزول کر دیا میں بھی اس کو معزول کرتا ہوں“.جو ڈر تھا حضرت علی کو وہی ہوا کہ وہ بہت ہوشیار آدمی ہے یہ سادہ آدمی اس کو بنا دے گا اور بجائے اس کے کہ متفقہ فیصلہ لکھ کر اکٹھے دستخط کرتے اور وہ سنایا جا تا الگ الگ فیصلہ اور پھر پہلے
خطبات طاہر جلد۳ 484 ابو موسیٰ سنائے بعد میں میں سناؤں گا اسی میں سارا وہ داؤ کھیل گئے.خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء انہوں نے اپنے آدمی کو معزول کر دیا میں بھی اس کو معزول کرتا ہوں لیکن اپنے آدمی معاویہ کو برقرار رکھتا ہوں وہ امیر المومنین عثمان کے ولی اور ان کے قصاص کے طالب ہیں اس لئے ان کی قائمقامی کے یہ سب سے زیادہ مستحق ہیں.یہ فیصلہ جب ہوا تو آخر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا جو فیصلہ نامہ میں دخل دے کر اس میں احتیاطی پہلو کو اختیار کرنا تھا وہ موقع پر کام آ گیا.اگر وہ عبارت حضرت علی بیچ میں نہ لکھواتے تو بہت خطرناک فساد پیدا ہو جانا تھا اگر خلافت کا مسئلہ بھی اُٹھ کھڑا ہوتا اور پھر حضرت علی اگر مانتے تو حیرت انگیز بات ہوتی کہ خدا کا مقرر کردہ خلیفہ ایک انسان کے بنائے ہوئے خلیفہ کے سامنے سر جھکا رہا ہے اور نہ مانتے تو نعوذ باللہ جھوٹے کہلاتے کہ عہد کیا ، عدالت میں پیش ہوئے اور پھر فیصلے کا انکار کر کے باہر آ گئے.حضرت علی کا تبصرہ اس پر سنئے.جنہیں حکم بنایا تھا، انہوں نے اپنے نفس کی پیروی کر کے کتاب اللہ کے خلاف فیصلہ کیا اس لئے ہم نے اس فیصلہ سے براءت ظاہر کی اور اب پھر اپنی پہلی حالت پر آگئے.کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ میں نے سرپنچوں سے شرط لی تھی کہ وہ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ کریں گے.میں نے تم کو اسی وقت آگاہ کر دیا تھا کہ تحکیم کی تجویز محض فریب ہے لیکن تم ہی نے اس کو قبول کرنے پر اصرار کیا.میں نے اسی شرط پر اسے منظور کیا تھا کہ دونوں حکم اس چیز کو زندہ کریں گے جسے قرآن نے زندہ کیا ہے اور اس کو ختم کریں گے جسے قرآن نے ختم کیا ہے لیکن چونکہ ایسا نہیں ہوا اس لئے اس شرط کے مطابق یہ فیصلہ قابل قبول نہیں.“ تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کو اور قرآن کو ایک بڑے فتنے سے بچالیا اور آئندہ کے لئے شرعی عدالتوں کی حیثیت کو ہمیشہ واضح فرما دیا.اب کبھی بھی اس بات میں کسی مسلمان کے لئے اشتباہ کی گنجائش نہیں خواہ وہ خلافت کا قائل ہو خواہ وہ سلطانی کا قائل ہو اور وہ سلطان جسے دوسرے تسلیم نہ
خطبات طاہر جلد۳ 485 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء کرتے ہوں یہ بحث نہیں ہے وہ جسے خود تسلیم کرتے ہوں ان کے فیصلوں اور ان کے بنائی ہوئی عدالتوں کے اوپر بھی اب یہی فیصلے چلا کریں گے ہمیشہ کیلئے اس کے سوا اور کوئی فیصلہ نہیں چلے گا ورنہ نہ وہ سلطانی کے قائل رہیں گے نہ وہ خلافت کے قائل رہیں گے.تو تاریخ اسلام کا ایک ہی وہ مقام ہے جہاں خلافت اور سلطانی کا سنگم ملتا تھا اور اس مقام پر ایک شرعی عدالت قائم ہوئی تھی اس شرعی عدالت کی کیا حیثیت تھی یہ ہمیشہ کے لئے بات کھل چکی ہے اور اس سے بڑھ کر اس شرعی عدالت کو کوئی حیثیت نہیں دی جاسکتی ، اس سے بہت ادنیٰ حیثیت ہے، نہ ان کا فقہ کا وہ مقام، نہ انہوں نے حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ سے تربیت پائی، اپنے علم ، اپنے مرتبہ، اپنی حیثیت ، اپنے تقوی کسی لحاظ سے بھی اگر کہا جائے کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگا تیلی تو ان کو اس سے ناراضگی نہیں ہوگی.مجھے یقین ہے کہ وہ سمجھتے ہیں اپنا مقام اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا مقام سمجھتے ہیں اور اس کے مقابل پر ان کی قائم کردہ عدالت کو دیکھ کر یقیناً کہیں گے کہہ اس مثال سے بھی ہماری عزت افزائی ہوئی ہے راجہ بھوج سے گنگا تیلی کو یا گنگو تیلی کوکوئی نسبت تھی لیکن ہمیں تو ابو موسی اشعری اور عمرو بن العاص سے تو وہ بھی نسبت نہیں اگر ان میں کچھ تقوی ہو تو یہ بات مانیں گے تو جو ان کی حیثیت نہیں تھی وہ تمہاری حیثیت کہاں سے ہو گئی ؟ جو قرآن اور سنت نے ان کو اختیار نہیں دیا تھا وہ تمہیں کہاں سے اختیار حاصل ہو گیا ؟ اب ایک اور سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شرعی عدالت کا جو دائرہ کار ہے اس کے لحاظ سے شرعی عدالت ، عدالت تو جیسا کہ بیان کیا ہے یہ نام ہی فرضی ہے کوئی حقیقت ہی نہیں اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے ہی نہیں.حکم ہو سکتے ہیں لیکن حکم میں تو فریقین ہونے چاہئیں لیکن جو بھی مزعومہ طور پر شرعی عدالت قائم کی بھی جائے تو میں اس لحاظ سے شرعی عدالت کہہ رہا ہوں یہ نہیں کہ مجھے تسلیم ہے یہ کوئی شرعی عدالت ، تو شرعی عدالت کے دو طرح کے دائرہ کار ہیں ایک ہے دنیاوی امور اور معاملات میں فیصلہ کرنا اور ایک ہے اختلافی امور یعنی عقائد کے لحاظ سے فیصلہ دینا.جہاں تک معاملات کا تعلق ہے اس کی تو اس واقعہ سے کچھ سند حاصل کی جاسکتی ہے جو میں نے بیان کیا لیکن اعتقادی امور میں تو کسی شرعی عدالت کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اعتقادی اختلافات میں تو صرف ایک فیصلہ کرنے والا ہے اور وہ اللہ ہے اور اس کی عدالت قیامت کے دن لگے گی.
خطبات طاہر جلد۳ 486 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء دو قسم کے اختلافی امور ہیں میں اس کی وضاحت کر دوں.جہاں دنیا کے دیگر مذاہب کا تعلق ہے ایک بھی واقعہ نہیں کہ آنحضور ﷺ نے دوسری شریعتوں میں، دوسرے کے معاملات میں ان کے مذاہب میں دخل دیا ہو.ہاں اسلام کا جہاں تک تعلق ہے آپ آخری فیصلہ کرنے والے تھے اور آپ کا حکم معاملات میں بھی اُسی طرح چلتا تھا جس طرح اعتقادات میں چلتا تھا اسی لئے قرآن کریم نے تنازعہ کے وقت اللہ یعنی کتاب کے بعد رسول یعنی سنت کو شامل فرما دیا.یہ حیثیت ہے آنحضور ﷺ کی.اس حیثیت کے بعد جہاں تک اعتقادات کا تعلق ہے اس کا شریعت اسلامیہ کے اندر رہتے ہوئے بھی اگر کسی کو حق ہو سکتا تھا تو خلافت کو ہوسکتا تھا اس کے سوا کسی کو حق نہیں کیونکہ خلافت ایک مرکزی حیثیت ہے جس کے ساتھ سارا عالم اسلام منسلک ہوتا ہے.خلافت کے بعد پھر اعتقادی امور میں کسی کا کوئی حق کسی قسم کا بھی نہیں بنتا یعنی اندرون اسلام بھی نہیں بنتا کجا یہ کہ اپنے سے باہر جا کر فیصلے دے.یہ ہے شرعی حیثیت عدالت کی اگر عدالت صحیح ہو اور وہ سلطان درست ہو جس نے عدالت قائم کی ہوان شرطوں کے ساتھ اس حیثیت سے جب ہم غور کرتے ہیں تو امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے سوا جو میں نے فیصلہ قرآن اور سنت پر مبنی اپنی رائے ظاہر کی ہے اسکے سوا کوئی صورت بن سکتی ہی نہیں.عقلاً آپ زور لگا کر دیکھ لیں اس کے سوا کوئی صورت نہیں بنتی.اسلام کے دائرہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی اللہ کے سوا اور خلفاء راشدین کے سوا کسی کو فیصلہ دینے کا حق بن ہی نہیں سکتا.جہاں تک اعتقادی اختلافات کا تعلق ہے، جہاں تک معاملاتی اختلاف کا تعلق ہے وہ فیصلے جاری رہتے ہیں اور رہے ہیں آئندہ بھی جاری رہیں گے.اگر فرض کریں کہ آپ یہ کہیں کہ نہیں بن سکتا ہے تو ہم پھر اس کو عملاً بنا کر دیکھتے ہیں کیسے بنے گا؟ پھر سمجھ آجائے گی بات کی.اعتقادی اختلاف سے مراد ہے فرقہ وارانہ اختلاف کیونکہ فرقے اعتقاد پر بنے ہیں.ان کے اختلاف کے نتیجے میں بنے ہیں نہ کہ معاملات پر اس لئے ایک شیعہ فرقہ ہے، ایک بریلوی فرقہ ہے، ایک یہ سنی ہے ایک دیو بندی اور اہلحدیث اور ایک بریلوی.ان چاروں کو مد نظر رکھ کر دیکھیں کوئی عدالت ایسی ہو سکتی ہے شرعی جو یہ فیصلہ دے کہ شیعہ عقیدہ درست ہے اور سنی غلط ہے یا اہلحدیث کا عقیدہ درست ہے اور بریلوی غلط ہے یا اس کے برعکس بنا کر دکھایئے کوئی عدالت ایسی عدالت بن سکتی نہیں کیونکہ یا تو آپ ان میں سے کوئی ایک کو چنیں گے یعنی فیصلے کے لئے یا شیعیوں کو چن لیں گے
خطبات طاہر جلد ۳ 487 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء یہ شیعہ حج ہیں یہ فیصلے دین گے کہ سنی ٹھیک ہیں یا شیعہ ٹھیک ہیں یا اہلحدیث کو چن لیں گے کہ وہ فیصلہ دیں بریلوی ٹھیک ہیں یا کہ اہلحدیث اور جب وہ اہلحدیث اور بریلوی ملا کر فیصلہ دیں اگر تو اول تو کسی اہلحدیث کو یہ قبول نہیں ہوگا نہ کسی بریلوی کو یہ قبول ہوگا کہ برابر کی تعداد میں دونوں حج فیصلہ دیں اور اگر شریعت کے معاملے میں اعتقادی لحاظ سے یہ مان لیا جائے تھوڑی دیر کے لئے کہ ایک عدالت قائم ہوگئی جس میں دو ان کے اور دوان کے نمائندہ ہو گئے تو جس وقت کوئی نمائندہ اگر وہ پہلے اہلحدیث تھا وہ بریلوی خیال کا اظہار کرے گا تو فوراً شور مچا دیں گے وہ لوگ کہ تم تو بریلوی ہو گئے ہو اس لئے عدالت کا تناسب بگڑ گیا.اب تین بریلوی رہ گئے ہیں ایک اہلحدیث رہ گیا چار میں سے اور اگر کوئی بریلوی عالم جس کو عدالت میں بٹھایا گیا ہو وہ اہلحدیث کے حق میں فیصلہ دے تو کیا وہ سارا بریلوی فرقہ مان لے گا؟ ہر گز نہیں.وہ کہیں گے یہ اہلحدیث ہو گیا ہے اس لئے اس کا فیصلہ قابل قبول نہیں.تو حج جب بھی کوئی فیصلہ دے شریعت کے معاملے میں اعتقادی لحاظ سے اس کا فیصلہ اس فرقے قبول ہو ہی نہیں سکتا نہ بھی ہوا ہے آج تک.چنانچہ اگر یہ عدالت مثلاً احمدیوں کے حق میں کوئی فیصلہ دیتی تو لوگوں نے کہنا تھا کہ یہ تو احمدی ہو گئے ہیں ان کو فارغ کرو ایک اور عدالت بٹھاؤ کیونکہ انہوں نے جب احمدی عقیدہ مان لیا تو یہ تو پارٹی بن گئے.یہی وجہ ہے کہ عدالت بار بار یقین دلاتی رہی اپنے مولویوں کو دیکھ دیکھ کر کہ ہم پانچوں کا سو فیصدی عقیدہ ہے کہ احمدی دائرہ اسلام سے خارج ہیں گویا اپنا پارٹی ہونا تسلیم کر لیا تو جب تم چلے ہی اس مفروضے سے ہو کہ تم ایک پارٹی ہو تو تمہارا عدلیہ کا حق کہاں رہا باقی ؟ پارٹی تو فیصلے نہیں دیا کرتی اس لئے مذہبی امور میں کوئی عدالت قائم ہو ہی نہیں سکتی سوائے نبی کی عدالت کے جو خدا سے علم پا کر فیصلہ دیتا ہے.جونبوت کا دعویدار نہ ہو وہ عدالت قائم نہیں کر سکتا اور نبوت کا فیصلہ خدا آپ ہی منواتا ہے پیچھے پڑ کر ، زبر دستی آسمان کی قضا نازل ہو کر منواتی ہے اس لئے کوئی مانے نہ مانے وہ منوایا جاتا ہے لیکن دنیا کی عدالتوں کے فیصلے تو منوانے والا ہوتا ہی کوئی نہیں ، دو چار دن کسی کا ڈنڈا چل گیا دو چار دن کسی اور کا ڈنڈا چل گیا یہ اونچ نیچ ہوتی رہتی ہے دنیا میں.اس لئے شرعی عدالت میں اعتقادی امور میں ، یہ بار بار میں کہہ رہا ہوں اعتقادی امور میں، ایک مذہب کے دائرہ کے اندر رہتے ہوئے کسی کو سوائے نبی کے اختیار نہیں ہے یا اس کی نمائندگی میں اگر برحق نمائندہ ہو اس کے خلفا تک
خطبات طاہر جلد۳ 488 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء زیادہ سے زیادہ حق جا سکتا ہے کہ وہ کوئی فیصلہ دے اور دیگر مذاہب میں تو کسی کا حق بنتا ہی نہیں.اس کے متعلق تو قرآن کریم نے نہ آنحضرت ﷺ کو مقر فرمایا اور نہ آپ نے یہ بات کی دائرہ اسلام کے اندر رہتے ہوئے آپ نے جو فیصلے دیئے ہیں.پس اگر کوئی اور فریق ایسا آجائے شرعی عدالت کے سامنے جس کو مسلمان ہی نہ سمجھتے ہوں تو ان کے بارے میں پھر وہ کیسے فیصلے دیں گے؟ قرآن اور سنت کی رو سے وہ کہہ سکتے ہیں ، مثال ایک دے سکتے ہیں کہیں گے کہ ٹھیک ہے، ایک مین میخ نکالی جاتی ہے، اس کو بھی میں واضح کر دوں کہ جب یہ کوئی اُٹھائے مسئلہ کو تو اس کا یہ جواب ہے.جماعت احمدیہ نے اول تو اس کی شرعی حیثیت کوئی تسلیم نہ کی ، جو احمدی گئے وہ یہ کہتے ہوئے گئے ہیں کہ قرآن یہ کہ رہا ہے ہم قرآن کو تسلیم کریں گے تمہیں تسلیم نہیں کریں گے اور جب کوئی یہ کہے کہ میرے نزدیک قرآن یہ کہتا ہے تو اس وقت حضرت علی اور حضرت معاویہ کا متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ ایسی صورت میں عدالت تمہارے خلاف بھی دے تو تم نے قرآن کے فیصلے کو پکڑنا ہے عدالت کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں خواہ اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کا خون ہو جائے خواہ ایسا اختلاف ہو کہ وہ جاری ہو جائے ہمیشہ کے لئے لیکن قرآن کو نہیں چھوڑنا اگر تم سمجھتے ہو کہ قرآن یہ کہتا ہے تو تم نے قرآن کو پکڑ لینا ہے اس لئے وہ مثال یہاں نہیں آتی یہ مثال صادق آتی ہے تو اس لحاظ سے جماعت احمدیہ کا یہ موقف بڑا واضح ہے.تمہاری جو حیثیت قرآن مقرر کرتا ہے پہلے سلطان کی تو کر لو جب سلطان بن جائے گا تو پھر اگلی بات ہوگی.اگر سلطان کی بھی حیثیت کوئی نہیں تو پھر تمہاری حیثیت کیا ہے؟ اور اگر تمہاری ہو بھی اور اتنی بڑی حیثیت بھی ہو جائے کہ حضرت علی نے تمہیں مقرر فرمایا ہو اور معاویہؓ نے صاد کیا ہو تب بھی اگر قرآن کے خلاف تمہارا فیصلہ ہوگا تو ایک بھی فریق اس فیصلے کو نہیں مانے گا آزاد ہے ہر فریق.اس حیثیت سے جو بھی فیصلے کی حیثیت بنتی ہے اس کو دیکھ لیجئے.ان امور میں فیصلہ کی حقیقت یہ ہے کہ سوائے خدا کے اور کوئی نہیں کر سکتا چنا نچہ قرآن کریم اس معاملہ میں بڑی واضح تعلیم دیتا ہے فرماتا ہے: إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الحَقَّ وَهُوَ خَيْرُ الْفَصِلِينَ ) (الانعام: ۵۸) کہ جہاں تک سچائی کا معاملہ ہے، حق کا معاملہ ہے سوائے اللہ کے کوئی فیصلہ کرنے والا نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 489 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء ہے.وہی حق بیان فرماتا ہے اور وہی کھول کر بتاتا ہے کہ حق کس کے ساتھ ہے اور اس کو طاقت بھی ہے.فیصلے کے ساتھ طاقت کا ہونا ضروری ہے.یعنی ایسا فیصلہ جوصرف مشورہ ہی ہواس کی حیثیت ہی کوئی نہیں رہ جاتی.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں جو فیصلہ دیتا ہوں پھر مجھے طاقت ہوتی ہے کہ میں اسے نافذ کر کے دکھاؤں اَلَا لَهُ الْحُكْمُ وَهُوَ اَسْرَعُ الْحَسِبِينَ (الانعام : ٦٣) خدا جب فیصلے کیا کرتا ہے تو پھر وہ حساب بھی کرتا ہے اس کے ساتھ اور سب سے زیادہ تیز حساب کرنے والا پھر اللہ ہے اور یہ کہ کر آنحضرت ﷺ کی زبان سے مخالفین کو یہ کہلوایا کہ جہاں تک مذہبی امور میں اختلافات کا تعلق ہے جو تجھے تسلیم نہیں کرتے ان کے اور تیرے درمیان خدا کے سوا کوئی اور فیصلہ کر ہی نہیں سکتا ایسی صورت میں : فَاصْبِرُوا حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَنَا وَهُوَ خَيْرُ الْحَكِمِينَ (الاعراف: ۸۸) ایک ہی اعلان ہو سکتا ہے کہ صبر کرو اللہ فیصلہ کرے گا اور وہی بہترین فیصلہ کرنے والا ہے.پس یہ ہے جماعت احمدیہ کا مؤقف اور ہر احمدی کو یہی کہنا چاہئے اپنے مد مقابل کو کہ اللہ أَسْرَعُ الْحَسِبِيْنَ ہے وہی بہتر فیصلہ کرنے والا ہے اس لئے تم صبر کرو اور دیکھنا کہ خدا کی تقدیر کس کو سچا ثابت کرتی ہے اور کس کو جھوٹا ثابت کرتی ہے.ایک عدالت آج لگی ہے ایک قیامت کے دن لگے گی وہاں پر یہ نہیں کہ کون کون سے سلطان سامنے ہوں گے اور کون کون سے نہیں ہوں گے اور کس قسم کی شرعی عدالتیں ہوں گی اور کیا حالت ہوگی ان کی اپنی؟ اس وقت یہ معاملات پیش ہوں گے اَحْكُمُ الْحَاكِمِینَ کچھ فیصلے دنیا میں بھی دے گا اور ہمیں علم ہے کہ ضرور دے گا لیکن آخری فیصلہ وہی ہے جو قیامت کے دن ہوگا ، اس دن پتہ چلے گا کہ کون سچے تھے اور کون خدا کی رحمت کے سائے تلے زندگی بسر کیا کرتے تھے اور کون خدا کے غضب کے تلے زندگی بسر کرنے والے تھے لیکن ان کو علم نہیں تھا کہ وہ کس حالت میں زندہ رہ رہے ہیں.بعض پہلو اس کے ایسے ہیں جو انشاء اللہ تعالیٰ اگلے خطبہ میں بیان کروں گا.دو قسم کے احکام میں نے بیان کئے ہیں، ایک وہ جو عدلیہ سے تعلق رکھتے ہیں قرآن کریم کے اور ایک وہ جو حکومت سے تعلق رکھتے ہیں دونوں جگہ بنیادی شرط عدل کی قائم فرمائی.تو عدالت نے کس قسم کا عدل قائم کیا اور
خطبات طاہر جلد۳ 490 خطبه جمعه ۳۱ را گست ۱۹۸۴ء حکومت کس قسم کے عدل قائم کر رہی ہے جب یہ بات کھول دی جائے گی تو پھر سب کو پوری طرح پستہ چل جائے گا کہ ان فیصلوں کی حیثیت کیا ہے کیونکہ وقت نہیں ہے اس لئے میں انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ خطبہ میں اس پہلو پر روشنی ڈالوں گا کہ جہاں تک عدل کا تعلق ہے واقعہ کیا ہوا ہے؟ یہ بحث تو صرف قانونی تھی کہ قرآن کیا حق دے رہا ہے اور کیا نہیں دے رہا؟ آئندہ خطبہ میں میں انشاء اللہ بتاؤں گا کہ عدل کیا کیا گیا ہے اور قرآن کی رو سے عدل کا کیا تصور قائم ہوگا اور یہ عدل دونوں پہلوؤں سے کیا حیثیت رکھتا ہے پاکستان میں عدلیہ کے لحاظ سے بھی اور حکومت کے لحاظ سے بھی.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: جماعت کے ایک بہت دعا گو صاحب کشف والہام بزرگ ماسٹر محمد بخش صاحب سولنگی وفات پاگئے ہیں اور ان کے بیٹے کا خط آیا ہے کہ ان کی بڑی گہری خواہش تھی جس کا بار ہا تذکرہ کر چکے تھے کہ ان کا جنازہ میں پڑھاؤں ویسے بھی چونکہ ان کا جماعت میں ایک خاص نیکی کا مقام ہے میری اپنی بھی یہ خواہش ہوتی کہ میں ان کا نماز جنازہ پڑھاؤں.علاوہ ازیں ایک سلسلہ کے پرانے خادم سیالکوٹ کے جن کا سارا خاندان خدا کے فضل سے اخلاص میں بہت پیش پیش ہے مکرم خواجہ عبدالرحمان صاحب وہ بھی وفات پاگئے ہیں تو ان دونوں کی نماز جنازہ جمعہ کے بعد ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۳ 491 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء پاکستان میں احمد یوں پر مظالم (خطبہ جمعہ فرموده ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ جمعہ کے خطبہ میں میں نے قرآن کریم کی بعض آیات کی تلاوت کے بعد یہ بتایا تھا کہ جہاں تک قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے شرعی عدالت یا شرعی حکومت کا ایک ہی تصور ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے اور وہ ہے انصاف.اگر عدل مشترک ہو حکومت میں اور عدالت میں ہو تو دونوں ہی شرعی عدالیں اور شرعی حکومتیں کہلا سکتی ہیں کیونکہ قرآن کریم نے نہ تو کوئی طرز حکومت بیان فرمائی ہے اور نہ ہی کوئی طرز عدالت بیان فرمائی ہے.البتہ ایک بنیادی شرط رکھ دی دونوں میں اور وہ ہے عدل اور انصاف کا قیام.اگر کوئی حکومت غیر کی بھی ہولیکن عدل پر قائم ہو تو اس سے ملک کے شہریوں کو کسی قسم کا کوئی خطرہ نہیں لاحق ہو سکتا.کوئی آپ تصور ہی نہیں کر سکتے کہ حکومت عدل پر قائم ہو یعنی اقتصادی عدل بھی کر رہی ہو ، معاشی عدل بھی کر رہی ہو، تمدنی عدل بھی کر رہی ہو ، انتظامی عدل بھی کر رہی ہو.وہ حکومت کیسے آئی تھی کیوں آئی تھی کون لوگ تھے اس سے قطع نظر اس ملک کے باشندوں کا حق غصب نہیں کیا جاسکتا ہے اور انہیں ہر طرح کی آزادی نصیب ہو جائے گی کیونکہ آزادی کے لئے پہلی شرط عدل ہے اور اگر عدالت کا تصور باندھیں تو وہاں بھی اگر عدل کا قیام ہے تو ہر عدالت خواہ اس عدالت کے منصفین کوئی بھی مذہب رکھتے ہوں اگر عدل کے مطابق فیصلے کریں گے تو وہ خدا
خطبات طاہر جلد ۳ 492 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء کی رضا کے مطابق فیصلے کریں گے اور اسی کا نام شرعی عدالت ہے لیکن اگر کسی ملک میں نہ تو حکومت میں عدل پایا جاتا ہو اور نہ عدالت میں عدل پایا جاتا ہو اور حکومت ایک عدالت کو شرعی عدالت کہے اور عدالت ایک حکومت کو شرعی حکومت کہے تو اس سے تو وہی مثال سامنے آجاتی ہے کہ مسن تر ا حاجی بگوئم تو مرا حاجی بگو کہ بھائی آؤ اتحاد کر لیتے ہیں.میں تمہیں حاجی کہتا ہوں تم مجھے حاجی کہا کرو دونوں کا کام بن جائے گا تو بعض ملکوں میں اسی قسم کی شرعی عدالتیں قائم ہیں نہ تو حکومت شرعی نہ انکی بنائی ہوئی عدالتیں شرعی اور دونوں ایک دوسرے کو شرعی قرار دے رہے ہیں.جہاں تک پاکستان کی حکومت کا تعلق ہے اسکے انصاف کے کارنامے تو بہت ہی ایک وسیع مضمون ہے ، اس میں تو جہاں تک ملکی حالات کا تعلق ہے عام انصاف جس طرح بٹ رہا ہے اس پر میں کچھ لب کشائی نہیں کرنا چاہتا.سارا ملک جانتا ہے کہ وہاں انصاف کا کیا عالم ہے.انصاف بکتا ہے یا خریدا جاتا ہے یا ز بر دستی حاصل کیا جاتا ہے یا سفارش چاہئے انصاف کیلئے یا پولیس کا ڈنڈا چاہئے جو کچھ بھی حالات ہیں سارے ملک پر روشن ہیں اور کسی بحث کی ضرورت نہیں ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ انصاف کسی جانور کو کہا جاتا ہے لیکن جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے وہ ہم پر گزر رہی ہے وہ ہم جانتے ہیں کہ کیا ہورہا ہے؟ اسکے متعلق میں چند باتیں یاد دہانی کے طور پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ قرآنی اصطلاح میں یہ حکومت کس حد تک شرعی حکومت کہلانے کے مستحق ہے اور ان سلطانوں کا نام اسلامی سلطان رکھا جاسکتا ہے یا نہیں.حیرت انگیز بات ہے کہ ایک حکومت جو انصاف پر قائم ہو اور حق پرستی کا اعلان کر رہی ہو وہ قانون بنا کر اپنے شہریوں کو جھوٹ بولنے پر مجبور کرے.ایسی حیرت انگیز بات ایسا تضاد دنیا میں سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ اعلان یہ ہے کہ ہم حق پرست ہیں اور حق کی بنا پر جو کر رہے ہیں وہ کر رہے ہیں.ہمارا ہر فیصلہ شریعت کے مطابق اور شریعت کے منشا کو پورا کرنے کی خاطر ہے اور فیصلہ یہ ہے کہ اگر تم نے جھوٹ نہ بولا تو تمہیں سزادی جائے گی.جو کچھ تم اپنے متعلق یقین کرتے ہوا گر اسکے برعکس بات نہ کہی تو نہ صرف قانون کی زد میں آؤ گے بلکہ بعض بنیادی شہری حقوق سے محروم کئے جاؤ گے مثلاً ان حقوق میں سے ایک ہے کہ ووٹ دینا اور اپنے حاکم کو چنے میں جو شہری حق ہے اس کا استعمال کرنا.
خطبات طاہر جلد ۳ 493 خطبه جمعه ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء قطع نظر اسکے کہ باقی کسی کو یہ حق نصیب ہوا ہے یا نہیں لیکن باقیوں کو کم از کم کاغذی حق تو نصیب ہے اس شرط کے ساتھ کہ اگر کبھی الیکشن ہوں اور اس شرط کے ساتھ کہ وہ الیکشن انصاف پر مبنی ہوں اور اس شرط کے ساتھ کہ اگر وہ انصاف پر مبنی ہوں تو ان پر عمل درآمد بھی ہو.اگر باقیوں کو حق یہ نصیب ہے قانونی طور پر یا رسمی اور کاغذی طور پر تو ہمیں یہ بھی نصیب نہیں.ایک بھی احمدی سارے پاکستان میں الیکٹوریٹ (Electorate) لسٹ پر نہیں ہے جس کو (Disenfranchisement) کہتے ہیں انگریزی میں یعنی حق انتخاب سے کلینتہ ہر احمدی کو محروم کر دیا گیا ہے.وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ جب تک تم اپنے ضمیر کو نہیں کچلتے ، اپنے عقیدہ کے خلاف خود اپنے ہاتھ سے نہیں لکھتے کہ میرا عقیدہ وہ نہیں ہے یہ ہے اس وقت تک تمہیں ہم اس بنیادی حق کا حصہ دار قرار نہیں دے سکتے.اور یہ جو چھری ہے یہ اتنی وسیع چل رہی ہے کہ ایک بھی سارے ملک میں ایسا شعبۂ زندگی نہیں جو اس چھری سے متاثر نہ ہوا ہو، جس میں احمدیوں پر ظلم کی یہ چھری نہ چلائی گئی ہو اور یہ چھری ایسی ہے جو ماضی میں جا کر بھی ذبح کرتی ہے صرف مستقبل میں نہیں.یعنی چھری تو آج ایجاد ہوئی ہے لیکن ذبح کر رہی ہے گزشتہ سالوں میں جب کہ یہ چھری ابھی بنائی ہی نہیں گئی تھی.جب بے انصافی ہو تو بچارے زمانہ سے بھی نا انصافی ہو جاتی ہے.چنانچہ اب جو خبریں آرہی ہیں کہ بہت سے طلبا کو اس جرم میں کالجوں سے نکال دیا گیا کہ انہوں نے اس آرڈی نینس کے بننے سے پہلے، کہ جو احمدی اپنے آپ کو مسلمان لکھے گا اسکو یہ سزا ملے گی اس سے ایک سال پہلے ، یا دو سال پہلے یا تین سال پہلے اپنے آپ کو مسلمان کیوں لکھا تھا ؟ تو چھری تو بعد میں بنی اور ذبح پہلے کر رہی ہے اور یہ واقعات جو ہیں یہ نا انصافی کی دنیا میں ملتے ہیں.اندھیر نگری جب ہو تو قانون ہی کوئی نہیں چلتا.زمانہ بھی نہیں دیکھا جاتا حالات بھی نہیں دیکھے جاتے بس جس طرف بھی زور چلے اسی کا نام قانون بن جاتا ہے.پھر ایسے احمدی موجود ہیں جنہوں نے پاسپورٹ پر قانون بننے سے پہلے اپنے آپ کو احمدی مسلمان لکھوایا.بعض صورتوں میں لکھنے والے نے احمدی لکھ دیا اور مسلمان کاٹ دیا.کسی شریف النفس کو خیال آیا کہ واقعی مسلمان ہیں کہتے ہیں تو میں کیوں نہ لکھوں اس نے مسلمان لکھ دیا اور یہ سارے
خطبات طاہر جلد۳ 494 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء واقعات اس آرڈی نینس کے بننے سے پہلے کے ہیں.آرڈی نینس بننے کے بعد ان لوگوں کو قید کیا گیا جن کا علم حکومت کو ہوا ان کے اوپر مقدمے بنائے گئے اور بعض ابھی بھی ان میں سے قید میں ہیں کہ تم نے آرڈی نینس بننے سے پہلے کیوں نہیں پتہ کر لیا کہ یہ آرڈی نینس بنے والا ہے.یہ جرم ہے.السلام علیکم کہنے کے جرم میں احمدی پکڑے گئے اور قید میں بھگتنے لگے.اس جرم میں کہ ہمارا مولوی کہتا ہے کہ اسکو تمہاری جان سے خطرہ ہے احمدی پکڑے گئے اور پھر ان کی ضمانتیں نہیں لی گئیں یہاں تک کہ پشاور ہائیکورٹ تک بات پہنچی.یہ پھگلہ ضلع ہزارہ کا واقعہ ہے.تمام ضلعی عدالتوں نے انصاف دینے سے انکار کر دیا کہ اتنا بڑا جرم کہ ہمارا مولوی کہتا ہے اسکو فلاں سے خطرہ ہے اور ہم تمہیں چھوڑ دیں اور جب وہ عدالت میں ہائی کورٹ میں بالآخر ضمانت ہوئی تو انہوں نے بہت اچھی ترکیب نکالی.جو مقدمہ سننے آئے ہوئے تھے ان میں سے احمدی پکڑ کر قید کر دیئے کہ اچھا جتنے چھڑواتے ہیں اتنے ہم دوبارہ پکڑ لیتے ہیں بلکہ ان کی تعداد زیادہ ہے جو بعد میں پکڑے گئے.یہ انصاف کا پیمانہ ہے جس کے ذریعہ احمدیوں کو انصاف مل رہا ہے.باقی ملک کا جو حال ہوا ہوگا وہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا ہے.اس نا انصافی میں بھی احمدی بہر حال شریک ہے کیونکہ ملک کی عام نا انصافی میں بھی احمدی حصہ دار ہے لیکن یہ زائد ہے.ایک اغوا کا قصہ بڑا دلچسپ قصہ چل رہا ہے ملک میں.کوئی مولوی کہیں غائب ہو جائے اور کوئی یہ اعلان کر دے کہ احمدی نے اغوا کیا ہے تو جس کا نام لے گا وہ پکڑا جائے گا.چنانچہ بعض ایسے علما بھی پکڑے گئے بعد میں خود جن کے متعلق سارے ملک میں شور پڑ گیا کہ دیکھ لو دیکھ لو جماعت احمدیہ نے اغوا کر وا دیا ہے ایک اور مولوی اور وہ چلے تھے سکھر کے لئے تو پہنچے ہوئے تھے کوئٹہ اور جب کوئٹہ سے پکڑے گئے تو مولانا کا بیان یہ تھا کہ بس پتہ نہیں میرے دماغ کو کیا ہو گیا تھا جہاں میں نے جانا تھا وہاں اترنے کی بجائے کہیں اور چلا گیا.وہ اس لئے کہ وہ پکڑا گیا پتہ لگ گیا کہ کہاں پہنچا ہوا ہے ورنہ ایک اور اغوا کا کیس بننا تھا اور اب یہاں تک کہ بعض علما یہ نہیں پسند کرتے کہ ان کے بچے واقعۂ نظر سے غائب ہو جائیں اب انہوں نے ایک اور ترکیب سوچی ہے کہ مثلاً مولا نا منظور چینوٹی صاحب ہیں ان کا دماغ ان باتوں میں بڑا زرخیز ہے، ان کو یہ ترکیب سوجھی کہ ایک اور لڑکے کے
خطبات طاہر جلد۳ 495 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء متعلق یہ الزام لگایا گیا کہ بعض احمدی اس لڑکے کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہے تھے مولانا منظور چنیوٹی صاحب کا بچہ سمجھ کر اس لئے وہ پکڑے جانے چاہئیں.پرانے معاملات نکال کر جہاں غنڈوں، لفنگوں نے نہایت ہی گندے الزام کسی پر لگائے ہوئے تھے پولیس نے یہ سمجھا کہ اتنے لغو اور بے ہودہ الزامات ہیں ان کی شنوائی نہیں ہونی چاہئے اس لئے ان کا غذات کو داخل دفتر کر دیا گیا تھا.اب وہ پرانے کاغذات نکال کر پھر ان پر مقدمے بنائے جارہے ہیں.تو انصاف جس طرح بٹ رہا ہے اسکی میں ہر ایک جہت میں ایک ایک دو دو مثالیں دے رہا ہوں ورنہ ان کی بکثرت مثالیں موجود ہیں.ملازموں کو برطرف کیا جا رہا ہے نہ صرف یہ کہ حکومت کے ملازموں کو بلکہ حکومت سے باہر جو پرائیویٹ ادارے ہیں ان کو بھی حکماً برطرف کروایا جارہا ہے ملازمتوں سے.ایک واقعہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ایک مل ہے اس مل کے ایک احمدی ملا زم کو ڈپٹی کمشنر کے حکم سے اس لئے بر طرف کروایا گیا کہ وہ سٹینو گرافر تھا اور یہ حکم جاری ہوا کہ اتنا بڑا اہم عہدہ کہ کوئی سٹینوگرافر ہو اور تم کہتے ہو کہ (Key Post) پر احمدی نہیں کلیدی آسامی نہیں ہے.اس مینجر بیچارے کو بھی ڈانٹ پڑی جس نے پہلے یہ جواب دیا تھا کہ کوئی احمدی کلیدی آسامی پر نہیں ہے اور اسکو حکما بر طرف کروا دیا گیا.ایک مل کے ایک ملازم سے نیکی اور ثواب کی خاطر فوراً کوارٹر چھین لیا گیا کہ تم احمدی ہو تمہارا مل کے کوارٹروں میں رہنے کا کوئی حق نہیں.اس نے مجھے اطلاع دی کہ مجھے پہلے یہ خیال آیا کہ میری قربانی ہے مجھے وہ کہتے تھے کہ تم کہہ دو میں احمدی نہیں ہوں ہم تمہیں فورا دے دیتے ہیں تو میں نے کہا اس کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تم مجھے نکال دو جو مرضی ظلم کرو لیکن یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں کوارٹر کی خاطر یا کوئی دنیا کے لالچ کی خاطر احمدیت سے انکار کر دوں.انہوں نے نکال دیا لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ مجھ سے زیادہ تو میری بیوی کی قربانی ہے، آٹھ ماہ کی حاملہ بہت چھوٹی سی کوٹھڑی میں انتہائی گرمی میں جہاں پنکھے کا بھی انتظام نہیں تھا اور پہلے سے اسکی طبیعت خراب تھی نہ صرف یہ کہ حو صلے سے وقت گزارتی رہی بلکہ مجھے حو صلے دیتی رہی کہ خبر دار کسی بات میں دینے کی ضرورت نہیں ہے.جو کچھ ہوگا بالکل ٹھیک ہے.یہ اسلامی نظام کا نفاذ ہورہا ہے.ایک اور دلچسپ قصہ یہ چلایا جارہا ہے کہ دھمکیاں ملنے لگ گئی ہیں علما کو تحریری اور ہر تحریری
خطبات طاہر جلد۳ 496 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء دھمکی جو منسوب کی جاتی ہے کسی احمدی کی طرف اس پر مقدمہ قائم کر دیا جاتا ہے اور ایسی ایسی لغو اور جاہلانہ باتیں سامنے آرہی ہیں کہ دنیا کی کوئی حکومت تصور بھی نہیں کر سکتی کہ ان باتوں پر بھی مواخذہ ہو سکتا ہے اور کوئی ان کو اہمیت دے سکتا ہے کہ ہاں ایسا ہو سکتا ہے.ہمارے ناظر صاحب اصلاح وارشاد ہیں سلطان محمود انور صاحب ان کے نام پر، ان کے پیڈ کے اوپر ایک مولانا کے نام جور بوہ کے مولا نا ہیں ان کے نام دھمکی کا خط کہ میں ناظر اصلاح وارشاد تمہیں بتا تا ہوں کہ اگر تم بکواس کرنے سے باز نہیں آؤ گے تو میں تم سے ایسا سلوک کروں گا کہ جہاں اسلم قریشی ہے وہاں پہنچا کر چھوڑوں گا اور یہ دھمکی کا خط اور دستخط جیسے ان کے نہیں ہیں.دستخط بھی بنانے کی کوشش کی نہیں بن سکے اس سے اور یہ ایک با قاعدہ پولیس میں مقدمے کے طور پر درج ہوا ہوا ہے کہ ہاں یہ بالکل ٹھیک ہے تم نے لکھا تھا.جہالت کی بھی کوئی حد ہوتی ہے.اشترا کی حکومتوں کے متعلق فرضی داستانیں ہیں.یہ اللہ بہتر جانتا ہے مگر بڑی ظلم کی داستانیں مشہور ہیں ان کی طرف منسوب کردہ لیکن جہالت اتنی نہیں ہے.وہ بناتے ہیں تو سلیقے اور عقل سے بات بناتے ہیں.یہاں تو نہ سلیقہ رہا ہے نہ تو عقل ہے صرف ظلم کا فیصلہ ہے کہ ہم نے بہر حال ظلم کرنا ہے.دنیا کی متمدن حکومتوں میں کبھی یہ نہیں دیکھا گیا تھا کہ حکومت مذہبی لحاظ سے فریق بن گئی ہو اور اپنے شہریوں سے حاصل کردہ ٹیکس سے ان کے خلاف فریق بن کے ان کے مذہب پر حملے کرنے لگ جائے.بعض حکومتوں میں بعض مذاہب کے متعلق کہا جاتا ہے یا بعض فرقوں کے متعلق کہ وہ Ban ہو گئے ہیں لیکن یہ تماشہ ان متعصب حکومتوں میں بھی کبھی نہیں دیکھا گیا کہ حکومت ایک مذہبی فریق بن کر ان کے خلاف نظریاتی لڑیچر شائع کرے اور لٹریچر بھی شائع نہ کرے بلکہ نہایت جھوٹا اور ذلیل اتہامات پر مبنی لٹریچر شائع کرے اور جب اسکے مقابل پر آواز اٹھائی جائے کہ اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے ہمیں اجازت دی جائے تو وہ کہیں کہ تم کیا حق رکھتے ہو جواب دینے کا ؟ یہ تو صرف ہمارا کام ہے فیصلہ دینا اور لکھو کہا روپیہ دے کر بعض رسائل کے منہ کالے کروا دیئے گئے ہیں.نہایت گندے اور بودے الزامات حضرت مسیح موعود علیہ السلاۃ والسلام کے اوپر لگوا کر اور بکواس کروا کر اور پھر جھوٹ بولنے میں بھی عقل ذرا نہیں کی گئی.بعض جھوٹے حوالے جو نیشنل اسمبلی میں حضرت مسیح
خطبات طاہر جلد ۳ 497 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا بعض کتب کی طرف منسوب کر کے پیش کئے گئے تھے اور وہاں حضرت خلیفة أصبح الثالث نے بتا دیا تھا کہ میاں حوالے تو درست کر لو جو کہنا ہے کہو لیکن کم سے کم حوالے تو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ حوالہ یہ نہیں یہ ہے مثلاً ایک کتاب ہے جو حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کی ہے جب 1974ء میں نیشنل اسمبلی میں معاملہ پیش ہوا تو اس کتاب کو حضرت خلیفتہ امسیح الثانی کی طرف منسوب کر کے یہ الزام لگایا گیا کہ اب بتاؤ تم تو کہتے تھے کہ ہمارے علما نے کچھ لکھ دیا ہوتو ہمیں غرض نہیں ہے.اب تو یہ تمہارے خلیفہ کی بات ہے خلیفہ یہ لکھ رہا ہے.حضرت خلیفہ اسیح الثالث نے فرمایا کہ اتنے غلط حوالے تم دیتے ہو ایک یہ بھی ہے.اس میں تم نے مصنف کا نام ہی بدل دیا ہے.یعنی مرزا بشیر احمد نام ہے یہ خلیفہ نہیں تھے بلکہ مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ تھے.درستی کروادی، اب پھر جو حکومت نے وائٹ پیپر شائع کیا ہے اس میں وہی حوالہ اسی طرح دے دیا ہے.اتنی بھی تکلیف نہیں کی کہ جو جھوٹ پہلے سے جماعت نے کھول دیا تھا اور بتا دیا تھا بلکہ ترکیب بتادی تھی کس طرح تم نے اسکو استعمال کرنا ہے اتنی بھی عقل نہیں ہے.بعض کتابیں جن کے فرضی نام تھے.وہ کتا بیں ہی نہیں.وہ بھی وائٹ پیپر میں اسی نام سے شائع ہو گئیں.مثلاً کوئی ایسا نام کہ مرزا غلام احمد صاحب کے ارشادات اور مصنفہ مرزا غلام احمد قادیانی.ایسی ایسی لغو باتیں اور پھر سیاق و سباق سے اٹھا کر جو حوالے سچے وہ بھی جھوٹے ان معنوں میں کہ نہ دائیں سے دیکھا اور نہ بائیں سے دیکھا جو مضمون بیان کرنا مقصد ہی نہیں ہے لکھنے والے کا اس مضمون میں حوالے پیش کئے گئے اور ثابت کیا جا رہا ہے کہ نعوذ بـالــلــه مـن ذلک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آپ کو آنحضرت علی اللہ سے افضل سمجھتے تھے.جہالت کی حد ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی کسی نے کتا میں سرسری نظر سے بھی ب کتابیں پڑھی ہوں وہ اور جو کچھ کہے گا مگر یہ الزام نہیں لگا سکتا.ایسے بڑے بڑے مخالفین گزرے ہیں جو یہ کہا کرتے تھے کہ باقی سب کچھ ہے لیکن ہیں عاشق آنحضرت ﷺ کے.ظفر علی خان مرحوم نے اپنی مسجد پر جو شعر لکھوائے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تھے.جب عشق رسول کی بات ہوتی تھی تو بعض پرانے زمانہ کے شدید مخالف بھی لازماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی کے اقتباسات
خطبات طاہر جلد ۳ 498 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء استعمال کرتے تھے اسکے بغیر چارہ نہیں تھا.شعر بھی وہیں سے لیتے تھے نثر بھی وہیں سے لیتے تھے لیکن اس زمانہ کا تو سارا حلیہ ہی بگڑ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ الزام کی جرات ہے کہ نعوذ باللہ حضرت رسول کریم ﷺ سے اپنے آپ کو افضل سمجھتے تھے.آپ یہ لکھتے ہیں کہ میرے اعمال اگر کوہ ہمالہ کے برابر بھی ہوتے اور ایک معاملے میں بھی میں حضرت محمد مصطفی میت ہے روگردانی کرتا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان اعمال کی اتنی بھی قیمت نہیں تھی کہ جتنی ایک؟ کی ہوتی ہے وہ سارے اعمال اٹھا کر جہنم میں پھینک دیئے جاتے.( تجلیات الہسید روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱ ۴۱۲) یہ عظمت ہے اور یہ جلال ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا آپ کے دل میں اور اس مبینہ مزعومہ وائٹ پیپر میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ دیکھ لو ثابت ہو گیا کہ نعوذ باللہ افضل سمجھتے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ بھی ایک الزام ہے کہ خدا ہونے کا دعویٰ کیا ہے.ساری دنیا جانتی ہے، سارا پاکستان جانتا ہے، یہ سب لوگ بھی جانتے ہیں خود کہ یہ جھوٹ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اپنے آنے کے دو مقاصد بیان کرتے ہیں.ایک توحید کا قیام اور ایک بنی نوع انسان کی سچی ہمدردی.میں ان دو مقاصد کے لئے معبوث کیا گیا ہوں.اور تمام کلام عظمت تو حید سے بھرا ہوا ہے.حضرت مسیح موعود کی تحریرات میں خدا تعالیٰ کی محبت اور عشق کے جو کلمات ہیں وہ اتنی قوت رکھتے ہیں اپنے اندر کہ عام سنے والا وجد میں آجاتا ہے.ایک دفعہ گورنمنٹ کالج میں نیو ہوٹل کی بات ہے میں نے کشتی نوح پڑھتے پڑھتے وہ میں نے نماز کا وقت ہو گیا تھا اسی طرح رکھ دی جہاں وہ ذکر ہے.”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے.ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کشتی نوح روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ: ۲۱) اور نماز شروع کر دی اتنے میں میرے ایک غیر احمدی دوست وہاں آئے اور انتظار میں انہوں نے وہ کتاب وہیں سے اٹھائی اور پڑھنی شروع کی اور ان سے برداشت نہ ہوسکا کہ میرا انتظار ہی کرلیں اونچی آواز سے جھومتے جھومتے وہ فقرے پڑھنے لگے اور ساتھ کہ حیرت انگیز کلام ہے، کس کا کلام ہے؟ اور نماز سے فارغ ہو کے میں نے انہیں بتایا کہ یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام ہے تو کچھ تھوڑی سی اوس تو پڑی لیکن اسکے بعد پھر
خطبات طاہر جلد۳ 499 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء مخالفت کا رنگ نہیں رہا.شرافت اس زمانہ میں موجود ہوتی تھی یعنی با وجودا سکے کہ وہ جوش نہیں دکھایا جو پہلے تھا لیکن پھر اسکی کا یا اس لحاظ سے پلٹ گئی تھی کہ پھر اس نے کبھی بھی مخالفت نہیں کی اس دوست نے بلکہ بعض غیر مجالس میں بھی بیٹھ کر وہ ہمیشہ احمدیت کے متعلق یہ ضرور کہا کرتے تھے کہ یہ لوگ آنحضرت ﷺ اور خدا کے عاشق ہیں.تو بہر حال وہ زمانہ بدل گیا اب حکومتیں اپنے خرچ پر ایسا مواد شائع کروا رہی ہیں جن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو نعوذ باللہ خدا ثابت کیا جائے ، آنحضرت ﷺ سے افضل کہا جائے.کیوں ہورہا ہے یہ؟ واضح حقیقت یہ ہے کہ جب ایک شخص کے اندر حسن ہوگا اور یہ خطرہ ہو کہ جو اسے دیکھے گا وہ اسکا عاشق ہو جائے گا تو پھر ایک فرضی انسان بنا کر مکروہ اور منحوس اس کی صورت میں پیش کیا جاتا ہے.احمدیت کو اب یہ اس طرح پیش کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں.ان کے لئے کوئی اور چارہ نہیں رہا.احمد بیت کو اپنے اصلی لباس میں اپنی اصل حالت میں جو ہم یقین رکھتے ہیں جو ہمارے ارادے جو ہماری سوچ ہے اگر اسی طرح یہ دنیا کے سامنے پیش ہونے دیں تو دیکھتے دیکھتے ملک احمدی ہونا شروع ہو جائیں.ملک کے بعد ملک احمدی ہونا شروع ہو جائیں گے.اب یہ ساری تکلیف ان کو یہ ہے کہ احمدیت کو بگاڑ کر پیش کیا جائے تا کہ اصلی حقیقت کسی کے سامنے نہ آئے اسلئے فرضی باتیں بنارہے ہیں.زمانہ جاہلیت میں انگلستان میں بھی یہ رواج تھا کہ پتلے بنا کر ان کو سوئیاں چبھو یا کرتے تھے اور یہ جادو تھا ان کا.اصلی آدمی تک رسائی نہ ہو تو پتلوں کو سوئیاں چبھو یا کرتے تھے کہ اس کا دکھ اسکو پہنچے گا اس لئے جو فرضی احمدیت انہوں نے بنائی ہے اسکو یہ کانٹے چھورہے ہیں لیکن پہلا جادو تو کام نہیں کیا کرتا تھا یہ جادو اس حد تک ضرور کام کر گیا ہے کہ اس فرضی پہلے کو جو سوئیاں چھوتے ہیں اس کا دکھ احمدی کو ضرور پہنچتا ہے.احمدی جانتا ہے کہ پہلا فرضی ہے لیکن میخیں ان دلوں میں ٹھونکی جاتی ہیں جو اصلی اور حقیقی ہیں کیونکہ ان کے پیاروں کو گندی گالیاں دی جاتی ہیں ان کے اوپر جھوٹے الزام لگائے جاتے ہیں ان کے متعلق ہر قسم کی مخش کلامی کی جاتی ہے اور اس کا نام انصاف ہے.جب احمدی ان باتوں کا ذکر کرتے ہیں کہ اس ملک میں یہ ہو رہا ہے اور انصاف کا عالم یہ ہے کہ مردے اکھیڑ دیئے گئے ہیں اور زبردستی لاشوں کو باہر نکلوایا گیا کہ اس سے باقی قبرستان ناپاک ہو
خطبات طاہر جلد ۳ 500 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء جائے گا.ساری دنیا میں کس قسم کے لوگ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ دفن ہیں؟ کیسے کیسے وہ وجود تھے کن کن وجودوں کے ساتھ انکی قبریں ہیں؟ یہ بڑا لمبا تحقیق طلب معاملہ ہے.کہیں کوئی بزرگ ولی اللہ ہے اسکے ساتھ کوئی چور ڈاکو زانی شیطان ساتھ دفن ہوا ہوا ہے اور ایک کی قبر دوسرے پر کوئی اثر نہیں ڈال رہی یہاں تک کہ صحابہ کی قبروں کے پاس مشرکین کی قبریں ہیں اور یہ تاریخی طور پر ایک ثابت حقیقت ہے کہ بڑے بڑے بزرگ صحابہ کے ساتھ مشرکین کی قبریں ہیں لیکن اُن کو کوئی دیکھ نہیں پہنچتا.ایک احمدی کی قبر ایسی ہے جسکی وجہ سے فورا ساتھی کو عذاب ملنا شروع ہو جاتا ہے.یہ عجیب بات ہے اللہ تعالیٰ کا انصاف بھی پتہ نہیں کہاں چلا گیا یا یہ نظام کیسے بدل گیا اگر ایک احمدی کا عذاب ساتھی کو ملتا ہے تو شاید اس کا ثواب اس احمدی کو مل رہا ہو یہ بھی تکلیف ہے.ہر بات الٹ گئی ہے کیونکہ دماغ الٹے ہیں اس لئے سمجھتے ہیں کہ اللہ کے ہاں بھی کوئی انصاف نہیں ہے.ایک احمدی کسی غیر احمدی قبرستان میں دفن ہو جائے گا تو سارے مردوں کو عذاب ملنا شروع ہو جائے گا.اس لئے اکھیڑ کے قبریں باہر پھینک دو اور ان سب باتوں پر فخر ہے یعنی لطف کی بات یہ ہے کہ ان سب باتوں پر سر اونچے ہو رہے ہیں ملک میں اور داد میں دی جارہی ہیں ایک دوسرے کو.اخبارات ہیں جو وقف ہو گئے سلطان کی تعریف میں کیسا عظیم الشان اسلامی سلطان آیا ہے جس نے اتنے عظیم الشان کارنامے کر دیئے ہیں کہ ملک کی ساری فضا بدل دی ہے احمدیوں کے خلاف اور جب یہی باتیں احمدی باہر لوگوں کو بتاتے ہیں تو پھر یہ الزام شائع ہوتے ہیں کہ احمدی ملک کے دشمن ہیں ملک کو بدنام کر رہے ہیں.بھئی تمہارے کارناموں کو بتا رہے ہیں جن پر تمہارے سر فخر سے اونچے ہیں بدنامی کیسے ہو گئی ملک کی.بدنامی تو تب ہوتی تم اپنے ملک میں کوئی حیا کرتے اور ان چیزوں کو چھپانے کی کوشش کرتے.اگر تم چھپانے کی کوشش کر رہے ہوتے دبانے کی کوشش کر رہے ہوتے اور احمدی باہر بتا رہے ہوتے تو پھر کچھ الزام لگ جاتا کہ دیکھو ہم تو گناہ کرتے تھے لیکن چھپاتے تھے ان لوگوں نے پردہ دری کر دی.مگر کوئی ایک دن کا اخبار تو نکالوجس میں یہ خبریں فخر سے شائع نہ ہوئی ہوں.ایک خبر کسی احمدی نے کسی دوسرے اخبار کو نہیں دی جس کا حوالہ پاکستان کے اخباروں میں سے نہ ملتا ہو.کسی احمدی نے چائے پی کسی ہوٹل میں تو اس کے برتن تو ڑ کر اس سے پیسے
خطبات طاہر جلد ۳ 501 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء وصول کئے گئے اور اخبار فخر کر رہے ہیں کہ دیکھو کتنا عظیم الشان کارنامہ ہے احمدی بر تن گندے کر گئے اور یہودی ، دہریہ، رشوت خوردن رات حرام کھانے والے ان برتنوں میں کھاتے پیتے گند کرتے اور کسی کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی.سارا نظام بگڑ گیا ہے، ساری فضا غیر منصفانہ ہوگئی ہے اور جب یہ باتیں باہر کی دنیا کو بتائی جارہی ہیں کہ دیکھو قابل فخر کارنامہ تو پھر یہ شکوہ ہے کہ تم ہمیں بدنام کرتے ہو.کبھی نیک نامیوں سے بھی کوئی بدنام ہوا کرتا ہے؟ اور اگر نیک کام نہیں ہے تو جو باہر جا کر بد کام بن جاتے ہیں وہ ملک کے اندر کیسے نیک کام ہو گئے.بجائے اس کے کہ طبیعت استغفار کی طرف مائل ہوتی اور توبہ کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے دن بدن یہ جحان بڑھ رہا ہے اور حکومت اس میں کھلم کھلا ذمہ دار ہے کہ زیادہ تنگ کرو، زیادہ ان کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ، زیادہ مصیبتوں میں مبتلا کرو تا کہ کسی طرح یہ تنگ آکر یا اپنا مذ ہب چھوڑ دیں اور یا پھر اس ملک میں اس طرح کی زندگی بسر کریں جیسے بے وطن ہو جاتے ہیں اور اسکی بڑی وجہ ایک خوف ہے.حکومت کو دن بدن یہ خوف بڑھتا چلا جا رہا ہے کہ ہم اتنے مظالم کر چکے ہیں یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ جماعت نے مقابل پر کوئی سکیم تیار نہ کی ہو.ساری دنیا سے ٹو ہیں لی جارہی ہیں کہ اب یہ کیا کر رہے ہیں اور کیا سوچ رہے ہیں اور چونکہ نظر کچھ نہیں آتا اس لئے اندازہ لگاتے ہیں کہ ضرور کچھ نہ کچھ کر رہے ہوں گے اس لئے اور مارنا چاہئے اور ابھی بھی چونکہ ہم نے اور مارا ہے اسلئے کوئی سکیم ان کے دماغ میں آگئی ہوگی اس لئے کچھ اور مارنا چاہئے تا کہ اٹھ ہی نہ سکیں.یہ ویسی ہی بات ہے جیسے ایک اندھے نے اور ایک سو جا کھے نے مل کر مشتر کہ پیسوں سے ایک دفعہ مٹھائی خریدی.جب وہ کھانے لگے تو کچھ دیر بعد اندھے کو خیال آیا کہ مجھے تو نظر نہیں آرہا ہو سکتا ہے یہ جو سو جا کھا ہے یہ تیز کھا رہا ہو اس لئے مجھے بھی تیز کھانا چاہئے تو اس نے بڑی تیزی سے کھانا شروع کر دیا اور کچھ دیر کے بعد اسکو یہ خیال آیا کہ وہ بھی تو تیز کھا رہا ہے اور میں بھی تیز کھا رہا ہوں وہ دیکھ رہا ہے میں دیکھ نہیں رہا کچھ اور شاید اس نے ترکیب کی ہو تو خیال آیا کہ دونوں ہاتھوں سے کھا رہا ہو گا چنانچہ اس نے فوراً دوسرا ہاتھ بیچ میں ڈالا اور فور آبیچ میں سے کھانا شروع کر دیا اور وہ جو دیکھ رہا تھا وہ ہنس کر ایک طرف ہو گیا تماشہ دیکھنے کے لئے کہ یہ کیا کر رہا ہے.پھر حافظ جی کو خیال آیا
خطبات طاہر جلد ۳ 502 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء کہ یہ تو کافی نہیں ہے ضرور اس نے کوئی اور ترکیب کی ہوگی.تو کچھ دیر کے بعد اس نے ایک دم پلیٹ میں ہاتھ مارا اور کہا کہ بس تم نے جو کھانا تھا کھا لیا باقی میرا ہے اب یہ میرے لئے رہنے دو.وہی حال اس پاگل حکومت کا ہوا ہوا ہے کہ چونکہ نظر نہیں آرہا کہ احمدی ہمارے خلاف کیا کر رہے ہیں اس لئے ضرور کچھ کر رہے ہوں گے اور چونکہ کر رہے ہوں گے اس لئے علاج یہ ہے کہ ان کو اور دکھ دیا جائے اور تکلیف دی جائے اور ان کے حقوق ان سے چھینے جائیں اس کے بغیر یہ باز نہیں آتے اور چونکہ اور ہم نے حقوق چھین لئے ہیں اس لئے اور کچھ کر رہے ہیں اس لئے اب ”میرا حصہ“ والی بات رہ گئی ہے.چنانچہ اس کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں یعنی ” میرے حصہ“ کی.اب سارے ملک میں جو ایک ہی ملک ہے جو ساری دنیا میں اپنی مثال ہے کہ جس میں صرف احمدیوں کی جائیدادوں کے حساب گورنمنٹ تیار کر رہی ہے کہ ان کی تجارتیں اور ان کی جائیدادیں ، انہوں نے کیا مال بنائے؟ کہاں زمین خریدی؟ کس بنجر کو آباد کیا گناہ کر کے اور ملازمتوں میں پرائیویٹ ملازمتوں میں، کہاں کہاں ہیں صرف حکومت کے ملازمتوں کی بات نہیں.تو معلوم ہوتا ہے کہ وہی دماغ میں پڑا ہوا ہے کہ باقی ” میرا حصہ.اب احمدیوں نے جو کرنا ہے کر لیا ہے اب ہمارا حصہ باقی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کب تک ان کو یہ توفیق ملتی ہے اور کس حد تک ان کے خطرے بجا ہیں؟ خطرہ تو ان کو ضرور ہے احمدیوں سے یہ بھی بتادیتا ہوں لیکن اس سمت سے نہیں ہے جس سمت میں یہ دیکھ رہے ہیں.بڑے بد قسمت وہ لوگ ہوتے ہیں جو خطرے کا احساس کرتے ہیں اور کسی خاص سمت میں خطرہ سے بچنے کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں اور خطرہ کسی اور سمت سے آجاتا ہے.جس سمت سے ان کو خطرہ ہے اس سمت کی طرف ان کا تصور ہی نہیں جا سکتا کیونکہ یہ سفلی لوگ ہیں، یہ دنیا کے کیڑے ہیں اور یہ نہیں جانتے کہ الہی قوموں کی طرف سے جب خطرے آتے ہیں تو وہ آسمان سے نازل ہوا کرتے ہیں وہ زمین سے نہیں اٹھا کرتے.خدا کی خاطر صبر کرنے والوں کے صبر آسمان تو ڑا کرتا ہے وہ نہیں توڑا کرتے.پہلے کتنی قو میں آئی تھیں جن سے اس زمانے کی قوموں نے بھی اسی قسم کے خطرات محسوس کئے تھے.وہ یہی سوچتے رہے کہ انہوں نے ہمارے خلاف سازش
خطبات طاہر جلد ۳ 503 خطبه جمعه ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء کر لی ہوگی.کسی ملک کو اوپر چڑھانے کے لئے انتظام کر رہے ہوں گے.غیر آرہے ہیں اور سازشیں ہورہی ہیں.کبھی لوظ پر یہ الزام لگایا، کبھی صالح پر یہ الزام لگایا اور ساری مذہب کی تاریخ اس قسم کے فرضی خطرات سے بھری پڑی ہے لیکن خدا ہمیں بتاتا ہے کہ خطرات تو ضرور ان قوموں کو در پیش تھے لیکن وہ زمین سے آنے والے خطرات نہیں تھے وہ آسمان سے نازل ہونے والے خطرات تھے.پھر ایسی آندھیاں آئیں، ایسے خوفناک خدا تعالیٰ کی طرف سے عذاب کے پکڑنے والے ایسے فرشتے آئے کہ ان کا کوئی وجود باقی نہ رہا، وہ کہانیاں بن گئے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم نے یہ دیکھنا ہو کہ ان پر کیا بنی اور کیا گزری تو مٹی ہوئی قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کروان راہوں پر سفر کرو جن راہوں پر وہ کبھی آباد تھے اب وہ زیر زمین دفن ہیں.یہ بھی ہم ان کو بتارہے ہیں ان کو نظر نہیں آسکتا کہ میاں خطرہ تو تمہیں ضرور ہے ہماری طرف سے لیکن یہ خطرہ آسمان سے نازل ہونے والا خطرہ ہے.اس لئے اس طرف اپنے بچاؤ کا کوئی انتظام کرو کچھ اس طرف سے اپنی حفاظت کا کوئی خیال کرو.یہ تمام باتیں اور بھی بہت سے قصے ہیں لیکن یہ تو بہت ہی وسیع مضمون ہے میں نے نمونہ چند باتیں بتائی ہیں یہ بتانے کی خاطر کہ یہ جو کچھ ہو رہا ہے اس ملک کو اس حکومت کو اگر شرعی سلطان کہہ دیا جائے تو یہ ظلم یہاں تک نہیں رہتا پھر یہ منتقل ہو جاتا ہے قرآن کریم کی طرف کہ حضرت اقدس محمد نے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے اور خدا کی طرف منتقل ہو جاتا ہے.پس عدالت نے جو شرعی عدالت کے نام پر قائم تھی جب یہ فیصلہ دیا کہ اس حکومت کو وہ حق تھا سب کچھ کرنے کا جو انہوں نے جماعت سے کیا تو بنیاد یہ بنائی گئی ہے کہ مسلمان سلطان کو جو شرعی سلطان ہے اس کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ مسلمانوں کو فتنہ سے بچانے کے لئے جو چاہے کرے.اس حکومت کو جب شرعی سلطان کا نام دے دیا گیا تو سارے پاکستان میں جو ظلم ہورہے ہیں وہ سارے شرعی ہو گئے.گویا یہ اتھارٹی مل گئی کہ آئندہ کے لئے دنیا میں جہاں کہیں بھی جب بھی فوجی انقلاب بر پا ہوگا وہ انقلاب قرآن کریم کے مطابق شرعی انقلاب کہلائے گا اور اگر ایک شرعی انقلاب پیدا ہوا ہے اور دوسرا انقلاب اس کو آکر مٹادے اور اسکے ٹکڑے اڑا دے تو قرآن کی رو سے وہ بھی شرعی انقلاب ہے.اگر ایک انقلاب دن کو رات کہتا ہے اور رات کو دن تو وہ بھی شرعی انقلاب ہے.دوسرا اس کے دن کو رات
خطبات طاہر جلد ۳ 504 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء اور اسکی رات کو دن قرار دے رہا ہے وہ بھی شرعی انقلاب ہے کیونکہ سلطان کا نام شریعت بن گیا ہے.جو حکومت سر تا پا ظلم کا شکار ہوگئی ہو ظالم بن گئی ہو.جھوٹ روز مرہ کی عادت بن چکی ہو، حق نام سے نا آشنا ہو، اس حکومت کو شریعت کی طرف سے یہ اجازت دے دی گئی ہے یعنی شرعی عدالت کی طرف سے کہ تم جو کچھ کرتے ہو سلطان ہو خدا کے بنائے ہوئے ہو اس لئے تمہیں سب حق حاصل ہے.اس سے تو وہی قصہ یاد آجاتا ہے کہ ایک دفعہ ایک آدمی لولا لنگڑا بیچارہ.لولا لنگڑا بیچارہ تو نہیں ایک دھو کے باز لولا لنگڑا بن کر بیٹھا تھا، بیچارہ بن کے اور ایک گھڑ سوار جارہا تھا اس نے آواز دی کہ میاں دیکھو! میری حالت پر رحم کرو.میں لولا لنگڑا بیچارہ میں چل نہیں سکتا.مجھے اپنے ساتھ بٹھا لو میں نے لمبا سفر کرنا ہے.اس نے اس کو ساتھ بٹھا لیا اور وہ تھا ٹانگیں لٹکائے ہوئے ویسے تھا بالکل ٹھیک ٹھاک.جب وہ بیٹھا تو اس نے دھکا دے کر سوار کو گرایا اور گھوڑے کو ایڑھ دی دوڑانے کے لئے تو سوار نے کہا میاں میں تو اب تمہیں نہیں پکڑ سکتا اس لئے جلدی کی کوئی بات نہیں.میرے قریب آؤ ذرا بات تو سنتے جاؤ.اس نے کہا دیکھیں کیا بات ہے.وہ واپس آیا اور کہا بتاؤ کیا کہنا ہے؟ اس نے کہا گھوڑا تو تم لے جاؤ لیکن ایک بات میں تمہیں بتا دیتا ہوں کہ اب لولے لنگڑوں کو سواری کوئی نہیں دیا کرے گا اور قیامت تک جتنے ظلم ہوں گے اس وجہ سے کہ ایسے واقعات ہو جاتے ہیں ان سب کا گناہ تمہارے سرتھو پا جائے گا.اس لئے شرعی عدالت نے یہ جو فیصلہ دیا ہے اس کے لئے خدا کے سامنے تو جواب دہ ہے ہی.اس فیصلے کی بنا پر اب قیامت تک شرعی عدالتوں کا اعتبار کسی کو نہیں ہوگا اور شرعی عدالت کی جو بیان کردہ حکومتیں ہیں اُن سے بھی یہ دنیا متنفر ہو جائے گی.اسلام سے متنفر کرنے کی سازش ہے یہ، حقیقت یہ ہے اور یہ سازش باہر کے ملکوں میں عیسائی دنیاؤں کی تیار کردہ ہے.تمام دنیا میں اسلام کو بدنام اور ذلیل کرنے اور رسوا کرنے کے لئے یہ قصے چلائے جارہے ہیں کہ اسلام کے نام پر نہایت غیر اسلامی حکومتیں قائم کی جائیں جو ظلم کی راہ سے اسلام کی دھجیاں ادھیڑ دیں.یہ سب کچھ ہو رہا ہے اور اسکے متعلق ایک عدالت نے یہ فیصلہ دیا ہے شرعی کہلاتی ہے کہ یہ شریعت کے عین مطابق ہے اور شرعی سلطان ہے اور اسکی ہر کارروائی عین شریعت کے مطابق ہے اور درست ہے اس لئے یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ رحم کرے قوم پر اور باقی مسلمان
خطبات طاہر جلد۳ 505 خطبہ جمعہ کا رستمبر ۱۹۸۴ء ممالک پر بھی جو بین الاقوامی سازشوں کا شکار ہورہے ہیں.استعماری طاقتیں استعمال کر رہی ہیں ان کو اور اس بات کا ثبوت اس سے بڑا اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ ہر وہ ایسی حکومت جو شریعت کے نام پر اسلام پر ظلم کر رہی ہے اسکی پشت پناہی ان طاقتوں کو حاصل ہے.وہ ایک دن کے لئے اپنی پشت پنا ہی ہٹالیں تو ان حکومتوں کے ٹکڑے اُڑ جائیں.یہ ہے سازش اسلام کے خلاف اس کا دردبھی تو احمدی کو کرنا ہے.اس لئے جماعت احمدیہ کو یہاں دعا یہ کرنی چاہئے کہ ملک کی اکثریت کو اللہ تعالیٰ ان فتنوں کے عذاب سے بچائے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب ایک حکومت مظالم میں حد سے بڑھ جاتی ہے تو ایک وقت ہوتا ہے مقرر جس کے بعد خدا کی پکڑ لا زما آتی ہے.اگر اس کے ظلم کا نشانہ خدا والے لوگ ہوں تو پھر لازماً اسکی پکڑ آجاتی ہے.اگر اس کا نشانہ عام دنیا والے ہوں تو پھر کوئی ضروری نہیں ہے جیسی روح ویسے فرشتے ، جس قسم کی دنیا ویسی ان کی حکومتیں، خدا کو کیا ضرورت ہے کہ ہر جگہ ظالموں کے اوپر ظالم حاکموں کو پکڑتا رہے.لیکن یہ ایک قانون قدرت ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی ساری شریعت کی تاریخ بتا رہی ہے کہ جب بھی کسی سلطان نے خدا کے بندوں پر ہاتھ ڈالا اس حکومت کو یقیناً خدا نے تباہ کیا.آج کیا ہو یا کل کیا ہو لیکن بالآخر جب خدا کی پکڑ آئی ہے تو وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ (ص:۴) پھر انکے بچنے کی کوئی راہ بھی نظر نہیں آئی.لیکن بعض دفعہ اس پکڑ کے ساتھ جس طرح آٹے کے ساتھ گھن بھی پیسا جاتا ہے بعض سادہ اور صاف نفس لوگ بھی مارے جاتے ہیں.بھاری اکثریت ہمارے ملک کی نیک دل ہے.یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں جو گنا ہوں میں ملوث بھی ہیں وہ بھی فطرتا سعید ہیں ، مجبور ہیں بچارے حالات سے.اگر اُن کو پنپنے کا ماحول میسر آجا تا تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں.بڑا وسیع میں نے جائزہ لیا ہے امت محمدیہ کا.اس امت کی مٹی زرخیز ہے یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں.صرف مشکل یہ ہے کہ ظالم جو اسکی آبیاری کرتے ہیں وہ غلط ہیں.پاکستان میں سے تو وہ احمدی نکلے جو آج حیرت انگیز صبر اور استقلال اور ایثار کے نمونے دکھا رہے ہیں وہ کسی اور ملک کی مٹی تو نہیں.کابل کی سرزمین سے ہی تو
خطبات طاہر جلد ۳ 506 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء عبداللطیف شہید پیدا ہوئے تھے اس لئے قوم کو رد کر دینا اور یہ کہنا شروع کر دینا کہ قوم گندی ہوگئی ہے ماری جائے یہ بالکل ظالمانہ طریق ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ لیڈ ر تباہ ہو جاتے ہیں تب جا کے قوموں پر عذاب آتے ہیں.اس لئے قوم کی دعائیں نہیں چھوڑنی.اگر یہ قوم گندی ہوتی تو آج سینکڑوں کی بجائے ہزاروں لاکھوں احمدی مصیبت میں مبتلا ہوتے یہ میں آپ کو بتا دیتا ہوں.بے شمارا ایسے واقعات ہیں جو آپ کے علم میں نہیں آر ہے جہاں جھوٹے الزام لگائے گئے ہیں اور وہ عام مجسٹریٹ جو دنیا کی خاطر رشوت بھی کھانے والے تھے اتنا خوف خدا کا ضرور رکھتے ہیں کہ خدا کے نام پر ظلم برداشت نہیں کرتے اور وہ ان مقدموں کو خارج کر دیتے ہیں اور قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں، روزانہ ایسی خبریں بھی آرہی ہیں.ایسے پولیس کے آدمی ہیں جو ویسے تو دنیا داری میں ملوث اپنے نفس کی خاطر گناہ بھی کر لیتے ہیں لیکن اتنا خوف خدا کا ضرور رکھتے ہیں کہ ایک آدمی واضح طور پر بغیر کسی جرم کے محض خدا کے نام پر پکڑا ہوا آرہا ہے وہ اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں.تو یہ جو واقعہ ہورہا ہے کہ ہزار ہا کوششوں میں سے صرف چند کوششیں کامیاب ہوتی ہیں یہ اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ قوم کا دل گندہ نہیں ہے.اگر قوم کا دل گندہ ہوتا تو آپ کے حالات بالکل مختلف ہوتے میں یہ آپ کو یقین دلاتا ہوں.اس لئے اپنی قوم کے اس احسان کو بھولنا نہیں ہے.بھاری اکثریت ہے قوم کی جس نے اس فیصلے کو رد کیا ہے اور وہ اس کو ظلم قرار دیتے ہیں کہ اسلام کے نام پر اذانیں بند کی جائیں، اسلام کے نام پر مسلمان کہلانے کے حق سے محروم کیا جائے ، اسلام کے نام پر اپنے دفاع کا حق چھین لیا جائے ، اسلام کی نام پر اپنے مذہب کی تبلیغ سے باز کر دیا جائے.بھاری اکثریت ہے آپ کے ملک کی یعنی پاکستان کی میرا مطلب ہے پاکستان کی بھاری اکثریت ایسی ہے احمدیت تو خیر بین الاقوامی ہے لیکن چونکہ پاکستان کا ذکر ہورہا ہے اس لئے آپ کا ملک جب میں نے کہا تو مراد پاکستان تھا.پس پاکستان کو اس طرح رد کر دینا کہ گویا نعوذ باللہ من ذالک پاکستان ظالم ہو گیا ہے، یہ بالکل غلط ہے.بعض اخبارات میں مجھے یہ خبریں دیکھ کر بڑی تکلیف پہنچی کہ بعض لکھنے والے جو احمدی نہیں ہیں.انگریز ہیں یا جرمن ہیں یا افریقن ہیں انہوں نے ان مظالم کو اس طرح پیش کیا ہے کہ گویا پاکستان ظالم ہے حالانکہ حقیقت یہ کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 507 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء پاکستان مظلوم ہے.پاکستان ظالم نہیں ہے، پاکستان پر ایسے حاکم قابض ہیں جو نہ پاکستانی کہلانے کا حق رکھتے ہیں نہ مسلمان کہلانے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ ملک کے خلاف بھی ظالمانہ فیصلے کر رہے ہیں اور مذہب کے خلاف بھی ظالمانہ فیصلے کر رہے ہیں.آنکھیں کھول کر جھوٹ بول رہے ہیں اور ہر بدی میں مبتلا ہو چکے ہیں.اس لئے غریب ملک کو کیوں آپ ظالم کہتے ہیں یا ظالم کہنا برداشت کرتے ہیں؟ ہر جگہ جہاں جہاں احمدی ہے اس کا فرض ہے انصاف کے تقاضے کے لحاظ سے بھی اور احسان مندی کے تقاضے کے لحاظ سے بھی کہ کسی جگہ پاکستانی قوم کے اوپر ظلم کے داغ کو برداشت نہ کرے.وضاحت کرے کہ جھوٹ بولا جارہا ہے اگر یہ کہا جارہا ہے.ہم مظلوم ہیں لیکن پاکستان کے مظلوم نہیں ان لوگوں کے مظلوم ہیں جن کا سارا پاکستان مظلوم ہے.صرف فرق یہ ہے کہ ہم پر زیادہ ظلم ہورہے ہیں ان پر کم ہورہے ہیں.لیکن ایک پہلو سے وہ ہم سے بھی زیادہ مظلوم بن جاتے ہیں.ان کا والی کوئی نہیں ، ان کے اوپر خدا کی وجہ سے ظلم نہیں ہورہے ، خدا کے نام پر ظلم نہیں ہور ہے اس لئے وہ ان قوموں کی صف میں کھڑے ہیں جن میں بعض دفعہ ہزار ہا ظلم ہوئے اور سال ہا سال ظلم ہوتے رہے مگر کبھی ان کی شنوائی نہیں ہوئی.بعض قوموں پر ایک ایک ہزار سال کے مظالم ہوئے ہیں.اس لئے اگر بنظر غور دیکھیں تو پاکستانی جو غیر احمدی ہیں وہ آپ سے ہزاروں گنا زیادہ مظلوم ہیں.ان کا کوئی والی کوئی وارث نہیں ہے.وہ بیچارے بھیڑ بکریوں کی طرح مظالم کا نشانہ بنائے جارہے ہیں اور کوئی مستقبل کی امید ان کو نظر نہیں آرہی.احمدی کو تو مستقبل ہی نظر نہیں آرہا بلکہ ایک شاندار ماضی بھی نظر آرہا ہے اپنی ضمانت کے طور پر.وہ جانتا ہے کہ ہم اس خدا کے نام پر ظلموں کا نشانہ بنائے جارہے ہیں جو زندہ خدا ہے، غیور خدا ہے، اس نے کبھی پہلے ہمیں بے سہارا نہیں چھوڑا تھا آج وہ ہمیں کیسے چھوڑ دے گا.تو مظلوم تو وہ ہیں جن کا سہارا کوئی نہیں آپ کیسے مظلوم ہوئے ان معنوں میں میرا مطلب ہے؟ یعنی مظالم تو ہیں لیکن ان مظالم کی داستان کسی اور طرف ختم ہونے والی داستان ہے.یہ مظالم ایسے نہیں کہ جن پر ہوتے ہیں ان کو مٹایا کرتے ہیں یہ وہ مظالم ہیں جو ظلم کرنے والے ہاتھوں کو مٹا دیا کرتے ہیں.تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ (اللعب : ٢) کی آواز آپ سنیں، یہ وہ آواز ہے جو چودہ سو سال پہلے مکہ میں اس وقت بلند ہوئی تھی جب کہ وہم و گمان بھی کوئی نہیں کر سکتا تھا کہ ابولھب اور
خطبات طاہر جلد ۳ 508 خطبہ جمعہ کا استمبر ۱۹۸۴ء اسکے ساتھی سردار اس طرح ہلاک ہونگے کہ ان کے دونوں ہاتھ کاٹے جائیں گے.کس شان کے ساتھ وہ آواز پوری ہوئی؟ تو جس قوم کے حق میں یہ آوازیں بلند ہورہی ہوں تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ (اللعب (۲) ہلاک ہو گیا ابولھب اور اسکے دونوں ہاتھ بھی کاٹے گئے اس کے لئے یہ کہنا مظلومیت سے مغموم ہو جانا اور دب جانا اس کی کوئی حقیقت نہیں.پس اپنے مظلوم بھائیوں کے لئے دعا کریں اور دعا یہ کریں کہ ایک ظالم کا ظلم ان کے اوپر نہ ٹوٹے کیونکہ بعض دفعہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ جب قومی عذاب آتے ہیں تو پھر کھرے کھوٹے کی تمیز نہیں کی جاتی.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے ، اور ان کو ہوش دلائے.مجھے یہ نظر آرہا ہے کہ وقت قریب سے قریب آرہا ہے اور بہت ہی بھیانک سزائیں مقدر ہیں ان لوگوں کے لئے اور یہ مجھے پتہ ہے کہ آپ کے دل خواہ کتنے ہی دکھی ہوں آپ کا دل کتنا ہی یہ کہتے ہوں کہ یہ ہو وہ ہو جب سزا آئے گی تو سب سے زیادہ آپ کو تکلیف پہنچے گی کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کو پاک دل بنا دیا ہے اپنی دعاؤں سے، اپنی گریہ وزاری سے، اپنی نیک نصائح سے، معاف کرنے والا دل دیا ہے، حلیم دل دیا ہے، اپنے دشمن کے دکھ پر بھی رونے والا دل دیا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ایک عجیب واقعہ ہے کہ جب آٹھم کے متعلق پیشگوئی تھی تو جس رات وہ وقت ختم ہونا تھا اس رات سارا قادیان بے چین تھا اور یہ دعائیں کر رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ آج اس پر عذاب آجائے اور حضرت مسیح موعود الصلوۃ والسلام سچے ثابت ہوں.صبح اٹھ کر کسی صحابی نے یہ ذکر کیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ ہم تو یہ دعا کرتے رہے ہیں کہ اللہ اسکوتوبہ کی توفیق دے اور نہ عذاب آئے.جسکی سچائی کا سوال تھا اس کا تو یہ دل تھا اس لئے ہمیں تو وہی دل ملا ہے کہ جب سزائیں ملیں گی تو سب سے زیادہ درد ہمیں ہی پہنچے گا.اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور اس وقت سے پہلے اس قوم کو سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے.میں نے جس کتاب کا ذکر کیا تھا وہ فصل الخطاب نہیں ہے بلکہ القول الفصل ہے.فصل الخطاب حضرت خلیفہ مسیح الاوّل کی کتاب ہے اور القول الفصل حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی ہے.تو پہلے یہی یہ حرکت کر چکے ہیں کہ القول الفصل کو حضرت میاں بشیر احمد کی طرف
خطبات طاہر جلد۳ 509 خطبہ جمعہ ۷ ستمبر ۱۹۸۴ء منسوب کرنے کی بجائے حضرت خلیفہ مسیح الثانی کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور باوجود اس کے کہ غلطی ظاہر کی گئی تھی پھر دوبارہ اس کا تکرار معلوم ہوتا ہے بد دیانتی سے کیا جارہا ہے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج دو غائب جنازے پڑھے جائیں گے.ایک حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی بیگم حضرت یو صاحبہ کہلاتی تھیں اور ہمارے ناظر اعلیٰ صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی والدہ ، وہ چند دن ہوئے ہیں وفات پاگئی ہیں اور اس میں تو میری اپنی خواہش تھی کہ میں یہ جنازہ پڑھ سکتا لیکن مجبوری تھی اس لئے یہ جنازہ غائب پڑھا جائے گے.اسکے علاوہ ایک سلسلہ کے پرانے خادم ہیں، ان کے لئے اگر چہ درخواست کوئی نہیں آئی لیکن میرے اپنے دل کی یہی تمنا ہے کہ ان کی نماز جنازہ میں میں بھی شامل ہوں ، مولوی محمد صدیق صاحب امرتسری ، کافی بڑا لمبا عرصہ دیار افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ہے اور بہت ہی محنت اور خلوص سے اور بہت بے لوث خدمت کی ہے اور بڑی بڑی مصیبتوں میں سے گزرے ہیں.ان کی ایک کتاب ” روح پرور یادیں بڑی دلچسپ کتاب ہے اور واقعی بڑی روح پرور ہے، میں نے وہ پڑھی ہے.ان کے اپنے واقعات بھی ہیں اور سلسلہ کے دوسرے مبلغین کے واقعات بھی ہیں افریقہ میں حالات بہت ہی زیادہ تکلیف دہ تھے اور جماعت کے لئے بے انتہا مصیبتیں تھیں اور کوئی ذرائع میسر نہیں تھے.ایسے ذرائع بھی نہیں تھے کہ جس کو بھیجا جائے اسکو وقت پر واپس بلایا جائے.بعض دفعہ سالہا سال ایسے آئے کہ ایک آنہ بھی مبلغ کو نہیں بھجوایا جا سکتا تھا وہ جڑیں نکال کر اور مرچ لگا کر کھاتے اور گزارہ کرتے رہے.یہ بعض مبلغین ہیں جنہوں نے اس زمانہ میں بڑی تکلیفیں اٹھائی ہیں.انکی کتاب ضبط کر لی گئی تھی اور اس جرم میں ان کو قید بھی کیا گیا اور ابھی مقدمہ کی حالت میں ہی تھے، ابھی بھی آزاد نہیں ہوئے تھے کہ ان کی وفات ہوگئی.جب خدا کسی کو آزادی دیتا ہے تو کون ہے جو اسکو روک سکتا ہے؟ یہ تو اپنی جنت میں چلے گئے ہیں اللہ تعالی پکڑنے والوں پر رحم کرے ان کے لئے کیا مقدر ہے یہ خدا ہی بہتر جانتا ہے.تو ان کا غائب جنازہ بھی ہوگا.
خطبات طاہر جلد ۳ 510 خطبہ جمعہ کار ستمبر ۱۹۸۴ء
خطبات طاہر جلد ۳ 511 خطبه جمعه ۱۴ار ستمبر ۱۹۸۴ء شریعت کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ خطبه جمعه فرموده ۱۴ ستمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ خطبہ میں میں نے قرآن کریم کی آیات سے استنباط کرتے ہوئے جماعت پر یہ واضح کیا تھا کہ جہاں تک قرآنی تعلیم کا منشا اور مدعا ہے کوئی حکومت بھی جو انصاف سے عاری ہو اسلامی حکومت کہلانے کا حق نہیں رکھتی اور کوئی عدالت بھی جو انصاف سے عاری ہوشرعی عدالت کہلانے کا حق نہیں رکھتی.اس سلسلہ میں ایک اسلامی کہلانے والی حکومت میں جو کچھ انصاف کے نام پر ہو رہا ہے اسکی چند مثالیں میں نے آپ کے سامنے پیش کی تھیں.آج میں ایک ایسی عدالت کا ذکر کرتا ہوں جو شرعی کہلاتی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ انصاف کے مطابق کام کر رہی ہے یا انصاف سے تہی ہے؟ اگر یہ قطعی طور پر ثابت ہو کہ وہ عدالت انصاف پر قائم نہیں تو قرآن کریم کی بات مانی جائے گی اس عدالت کا دعوی نہیں مانا جائے گا اور ہر گز کسی ایسی عدالت کو شرعی عدالت نہیں کہا جائے گا یا تسلیم نہیں کہا جا سکتا جو قرآن کی رو سے انصاف پر مبنی فیصلے نہیں کرتی.ہمارا جو معاملہ بعض احمدی وکیلوں نے پاکستان میں قائم کردہ ایک شرعی عدالت میں پیش کیا اس کے تفصیلی فیصلے کا تو ابھی انتظار ہے اور جب بھی وہ تفصیلی فیصلہ آئے گا میدان وکلا کا کام ہے جنہوں نے ابتدا میں مقدمہ پیش کیا تھا کہ وہ یہ فیصلہ کریں کہ آیا اسکی اپیل کسی بالا عدالت مثلاً سپریم کورٹ میں کرنی ہے یا نہیں کرنی اور جو دلائل وہ دیں گے ان کو دیکھیں کہ کس حیثیت سے ان دلائل کے اوپر بحث
خطبات طاہر جلد ۳ 512 خطبه جمعه ۱۴ ستمبر ۱۹۸۴ء ہونی چاہئے.میرا یہ کام نہیں ، میں تو صرف اس حصے سے متعلق کچھ بیان کروں گا کہ آیا اس عدالت کا فیصلہ قرآن کی رو سے منی بر انصاف ہے یا نہیں ؟ اگر انصاف پر مبنی نہیں ہے اس کا حق بہر حال نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو شرعی عدالت سمجھے.فیصلے کا جو خلاصہ انہوں نے بڑا افراتفری میں فوری طور پر لکھ کر دیا ہے اس کا مرکزی نقطہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ پر کسی قسم کا کوئی ظلم نہیں کیا گیا ، جماعت احمد یہ کوکسی بنیادی حق سے محروم نہیں کیا گیا اور حکومت جماعت احمدیہ کو اجازت دیتی ہے کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو چاہو تو نبی تسلیم کر وشوق سے کرو اور مسیح موعود مانتے ہو تو بیشک مانو.جب یہ دو باتیں تمہیں بتا دی گئی ہیں حکومت کی طرف سے کہ تم اپنے سلسلہ کے بانی کو نبی بھی یقین کرو اور مسیح موعود بھی تسلیم کر تو پھر تمہیں کیا اعتراض ہے یا پھر تم کیسے کہہ سکتے ہو کہ تمہارے بنیادی حقوق میں دخل اندازی ہو رہی ہے.یہ ہے خلاصہ اس منطق کا لیکن اس کے ساتھ ہی اسکے کچھ منفی پہلو بھی ہیں.فیصلہ یہ ہے کہ اگر چہ تمہیں تو حق ہے بنیادی طور پر یہ تو حق ہے کہ بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ کو نبی تسلیم کر لیکن نبی کے لوازمات اسکے متعلق استعمال نہیں کرنے.نبی جس چیز کو کہا جاتا ہے، اسکے جو نتائج پیدا ہوتے ہیں ان میں سے کوئی نتیجہ بھی اس کے بارے میں ہم تمہیں اختیار کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے.مثلاً جب کوئی انسان کسی کو نبی تسلیم کرتا ہے تو وہ اسکے متعلق مسنون دعا ئیں جو نبی کے لئے ثابت ہیں قرآن سے بھی اور سنت سے بھی وہ خود بخود زبان پر آتی ہیں.عليه الصلوۃ والسلام کے بغیر کوئی شخص کسی نبی کا ذکر نہیں کرتا.تو عدالت کہتی ہے دیکھو! ہم نے تمہیں بنیادی حق سے تو محروم نہیں کیا، نبی تو تسلیم کرنے دیا ہاں نبی کے لوازمات ہم نہیں مانیں گے نبی والا سلوک نہیں کرنے دیں گے اس سے صرف نبی تسلیم کرنے دیں گے اور تمہارے بنیادی حق پر کوئی بڑا اثر نہیں پڑتا.کہتے ہیں نبی جس کو تسلیم کیا جاتا ہے اسکی اطاعت بھی کی جاتی ہے اسکی تعلیم پر بھی عمل کیا جاتا ہے لیکن ہم تمہیں نبی تسلیم کرنے کی تو اجازت دیتے ہیں اسکی تعلیم پر عمل کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتے ، وہ تعلیم کیا ہے، جس کو ہم نے نبی تسلیم کیا اس نے ہمیں کیا کہا؟ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعت اسلام میں سے ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 513 خطبه جمعه ۱۴ ستمبر ۱۹۸۴ء.ذرہ کم کرے یا ایک ذرہ زیادہ کرے یا ترک فرائض اور اباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ بچے دل سے اس کلمہ طیبہ پر ایمان رکھیں کہ لا الہ الا الله محمد رسول الله اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اور تمام کتابیں جن کی سچائی قرآن شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم اور صلوۃ اور زکوۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اسکے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیات کو منہیات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کار بند ہوں.“ (ایام الصلح روحانی خزائن جلد ۴ صفحه ۳۲۳) جس کو نبی سمجھتے ہو اسکی تعلیم پر عمل نہیں کرنا یہ اعلان بن گیا کیونکہ جس کو ہم نبی سمجھتے ہیں وہ تو یہ کہتا ہے جو میں نے پڑھ کر سنایا ہے.لا اله الا الله محمد رسول اللہ تک مساجد پر اگر لکھنے کی اجازت نہ ہو تو کہا یہ جاتا ہے کہ اس میں انصاف میں کوئی فرق نہیں پڑا ، سو فیصدی قرآن اور سنت کے مطابق تم سے معاملہ کیا جارہا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ حکومت کے نمائندوں کے ساتھ پولیس اور بعض دفعہ فوج کے سپاہی آئے ہیں اور احمدیوں کو مجبور کیا گیا ہے کہ اپنی مساجد پر سے کلمہ طیبه لا اله الا الله محمد رسول الله لکھا ہوا مٹاڈالیں اور بلا استثناء ہر موقع پر احمدی نے یہی جواب دیا ہے کہ ہم اپنے ہاتھوں سے نہیں مٹائیں گے نہ تمہارے ملاؤں کو مٹانے دیں گے.جو کچھ قیامت سر پر گزرتی ہے گزرے، جو تم نے کرنا ہے کرو، ہاں اگر حکومت اپنے ہاتھ سے مٹانا چاہتی ہے، اپنے کارندوں کے ذریعہ مٹوانا چاہتی ہے تو کرے خود ہم یہ لعنت قبول کرنے کے لئے تیار نہیں.چنانچہ حکومت کے نمائندوں نے یہ لعنت قبول کی اور اپنے ہاتھوں سے کلمات طیبات کو مٹایا گیا.ایک جگہ نہیں ، دو جگہ نہیں ، بیسیوں ایسی مثالیں ہیں اور ابھی عدالت عالیہ شرعیہ کا فیصلہ یہ ہے کہ یہ جو حرکتیں ہو رہی ہیں ان میں سے کوئی بھی شریعت کے خلاف نہیں ، عین شریعت کے منشاء کے مطابق ہے.اگر جماعت احمدیہ کا نعوذ بالله من ذلک قرآن پر ایمان نہیں تو یہ حق تو تم دے چکے کہ حضرت مرزا صاحب پر ایمان ہے اور ان کی تعلیم پر ایمان ہے تو ان کی تعلیم تو وہ ہے جو میں نے پڑھ کر سنائی ہے، اس میں تو سب سے اول کلمہ طیبہ ہے اور پھر نماز
خطبات طاہر جلد ۳ اور ا سکے لوازمات ہیں.514 خطبه جمعه ۱۴ ستمبر ۱۹۸۴ء دوسرا فیصلہ یہ ہوا کہ تمہیں حضرت مرزا صاحب کو نبی ماننے کی تو اجازت ہے لیکن جب وہ کہیں مسجدیں بناؤ تو مسجد کو مسجد کہنے کی اجازت نہیں اس کا نام گر جارکھ لو ، مندررکھ لوجو بھی چاہو پسند کرو لیکن مسجد نہیں کہہ سکتے حالانکہ تمہارے امام نے تمہیں مسجد ہی بنانے کے لئے کہا ہے.اذان کے متعلق امام کا حکم ہے تو تم نے نہیں ماننا اسکی بجائے کچھ ڈھول بجاؤ، کوئی صور پھونکو جو چاہو کر ولیکن بہر حال اذان نہیں دینی اس سے دل شکنی ہو رہی ہے.تو ہر وہ حق جو نبوت کا ہے وہ چھین لیا گیا ہے اور محض نام میں نبی تسلیم کرنے کے حق کو یہ کہتے ہیں کہ یہ عین شریعت اسلامیہ کے مطابق اور مبنی بر انصاف فیصلہ ہے.اسکی مثال تو بالکل وہی بنتی ہے کہ کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں تمہیں انسان کا بنیادی حق دینے پر کوئی اعتراض نہیں رکھتا.تم ہر انسان کے بنیادی حق کو استعمال کرنے کے مجاز ہو لیکن اسکی تشریح یہ ہے میں جب کہتا ہوں کہ تم انسان کہلانے کے مجاز ہو انسانی حقوق رکھنے کے مجاز ہو تو میری تشریح یہ ہے کہ تم اپنے آپ کو انسان سمجھ سکتے ہو اور یہی مراد ہے انسانی حقوق سے لیکن تم انسانوں والی خوراک نہیں کھا سکتے تمہیں گھاس پھوس کھانا پڑے گا اور وہ غذا جو جانور کھاتے ہیں ہر قسم کی وہ استعمال کرو ہمیں کوئی اعتراض نہیں.انسان کہلانا اور بات ہے تمہارا بنیادی یہ حق ہے اس سے تمہیں باز نہیں رکھ رہے لیکن انسانوں کی طرح کھانا کھانے لگ جاؤ یہ کس طرح برداشت ہو سکتا ہے؟ انسان سمجھنے کا ہم تمہیں حق دیتے ہیں لیکن انسان کہلانے کا حق بھی نہیں دیتے.تم کہا نہ کرو اپنے آپ کو انسان کیونکہ اس سے انسانوں کو تکلیف ہوتی ہے.تمہیں یہ تو حق ہے کہ تم انسان سمجھو اپنے آپ کو لیکن یہ حق نہیں ہے کہ زبان استعمال کرو کیونکہ کلام کرنا تو انسان کا کام ہے اور ہم تمہیں کسی حق سے محروم نہیں کر رہے.دیکھو ہم تمہیں کہتے ہیں تم اپنے آپ کو انسان سمجھو لیکن بولنا نہیں انسانوں کی طرح، ہم تمہیں کہتے ہیں تم اپنے آپ کو انسان سمجھو مگر انسانوں کی طرح لکھنا بھی نہیں ہے کیونکہ قلم استعمال کرنا جانور کو کب ہم نے حق دیا ہے، جانور کا تو کام ہی نہیں کہ قلم سے کام لے، ہنسنا انسان کا کام ہے ہم تمہیں حق دیتے ہیں کہ تم اپنے آپ کو انسان سمجھو مگر ہنسنے کا حق نہیں دیتے.ہر وہ حق جو انسان کا ہے وہ چھین لیا اور انسان سمجھنے کی اجازت دے دی اور فیصلہ یہ ہے کہ تمہیں کسی بنیادی حق سے محروم نہیں کیا.اب اس کو انصاف کہیں گے یا ظلم کہیں گے یہ فیصلہ تو کرنے کا ایک طریق ہے وہ میں ابھی
خطبات طاہر جلد ۳ 515 خطبه جمعه ۱۴ر تمبر ۱۹۸۴ء آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں لیکن پہلے یہ تو سوچیں ان لوگوں کی عقلوں کو ہو کیا گیا ہے؟ دنیا میں پہلے بھی انبیاء کی مخالفت ہوئی ہے مگر اتنی بے وقوف اور اتنی پاگل قوم پہلے نہیں کبھی آپ نے دیکھی ہوگی.ہر چیز الٹ گئی ہے، جہالت کی حد ہے انسان سمجھنے دیں گے تمہیں اپنے آپ کو لیکن تم نے ایک کام بھی انسانوں والا نہیں کرنا اس سے انسانوں کی دل آزاری ہوگی.انسان سمجھیں گے کہ یہ بھی گویا ہم جیسا ہو گیا ہے، یہ تکلیف ہے ساری ، یہ تو بائیل کی تعلیم لگتی ہے قرآن کی تعلیم تو نہیں لگتی اور بگڑی ہوئی بائیبل کی تعلیم لگتی ہے کیونکہ سچی بائبل کی یہ تعلیم نہیں ہو سکتی.جو رویہ آج کی شرعی عدالت کا ہم سے کر رہی ہے وہ حضرت آدم کے زمانہ میں نعوذ باللہ من ذلک خدا نے آدم کے ساتھ اختیار کیا تھا.اور خداوند خدا نے کہا دیکھو انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک کی مانند ہو گیا.“ ( پیدائش باب ۳ آیت ۲۱) کتنا بڑا ظلم ہو گیا یعنی ہم سے مراد خدا اور فرشتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے نعوذ باللہ من ذالک بائبل کے بیان کے مطابق کہ کتنا بڑا اندھیر ہو گیا ہے کہ انسان نیک و بد کی پہچان میں ہم میں سے ایک طرح ہو گیا ہے.” اب کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ اپنا ہاتھ بڑھائے اور حیات کے درخت سے بھی کچھ لے کر کھائے اور ہمیشہ جیتار ہے.‘ ( پیدائش باب ۳ آیت ۲۲) اگر وہ آگے بڑھ گیا اور کوئی زندگی بخش کوئی پھل کھا گیا تو پھر تو ہم بالکل ہی مارے جائیں گے کہ آدم زندہ ہو جائے.تعلیم جو انسانی فہم سے بالا ہے اور ہر صاحب فہم یقین رکھتا ہے کہ لاز ما یہ بعد میں کسی جاہل آدمی کی بنائی ہوئی ہے.یہ تعلیم بائیبل میں خدا کی طرف منسوب کی ہوئی ہے.یہ تو سمجھ آسکتی ہے کہ کسی جاہل انسان نے بنائی ہو لیکن پہلے اس سے چند سال پہلے تک مجھے یہ نہیں سمجھ آیا کرتی تھی کہ وہ کس قسم کے انسان ہونگے جنہوں نے ایسی احمقانہ تعلیم بنائی ہوگی ، اب سمجھ آگئی ہے کہ ایسے بھی ہو سکتے ہیں.جب تک دیکھا نہ جائے اس وقت تک کیسے پتہ چل سکتا ہے باقی تو نظریاتی باتیں ہیں صرف.تو وہ جو قصے تھے کہ ضرور کسی نے بنایا ہوگا یہ معاملہ ایسے بھی انسان ہو سکتے ہیں جو ایسی ایسی جاہلانہ تعلیمی بنا کر خدا کی طرف منسوب کر دیں.تو ان قصوں کو آج ہم نے حقیقت میں دیکھا.آدم کا
خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۸۴ء خطبات طاہر جلد ۳ 516 زمانہ لوٹ آیا ہے اور ویسی باتیں بنانے والے انسان اور پھر خدا کی طرف منسوب کرنے والے آج بھی ویسے ہی ہیں.آج بھی ان باتوں کو بنا کر خدا کی طرف منسوب کیا جارہا ہے لیکن شریعت اول کی طرف نہیں شریعت آخر کی طرف.ابتدائی شریعت کی طرف نہیں بلکہ اس شریعت کی طرف جو اپنے ارتقاء کے انتہائی منازل طے کر چکی ہے گویا نعوذ باللہ آج بھی اس شریعت کی آواز یہ ہے کہ نیک و بد کی تمیز میں کوئی انسان ہم جیسا نہ ہو جائے ورنہ لوگ سمجھیں گے کہ یہ بھی انسان ہے.قرآن کریم کی تو یہ تعلیم نہیں.قرآن کریم میں جو خدا آنحضور ﷺ کو ارشاد فرماتا ہے وہ تو بالکل اور ہے.خدا تعالی یہ فرماتا ہے: قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللهُ (آل عمران :۳۲) کہ اے محمد اعے ہر اچھی چیز جو ہم نے تمہیں دی ہے.اعلان کر کہ آؤ اور اسے قبول کرو اور میرے جیسے بنتے چلے جاؤ.یہ ایسی نعمت نہیں ہے جس سے میں تمہیں محروم کرنے کے لئے آیا ہوں اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو دوڑ کر میری طرف آؤ اور میرے جیسا بننے کی کوشش کرو.جو کچھ میں کرتا ہوں وہ کرتے چلے جاؤ تو خدا بھی تم سے محبت کرنے لگے گا.کہاں یہ تعلیم اور کہاں بائیبل کی وہ تعلیم کہ نیک و بد کی تمیز میں ہم جیسا نہ ہو جائے.انا للہ وانا الیہ راجعون.اور اس پاک کلام کی طرف یہ چیز آج منسوب کی جانے لگی ہے.قرآن کریم کہتا ہے آنحضرت ﷺ کے متعلق کہ ہم نے ساری دنیا کے لئے اسوہ بنا کر بھیجا ہے اور یہ اسوہ حسنہ ہے اور اسوہ حسنہ تو اسکو کہتے ہیں اس جیسا بنا جائے اور دعوت عام ہو تمام دنیا کے لئے کہ آؤ مجھے جیسا بن کے دکھاؤ.لوگ بننے کی کوشش کریں ،ساری زندگیاں خرچ کر دیں اور مجاہدات کریں کچھ نہ کچھ تو ویسے ہو جائیں لیکن ویسا بن کر دکھا نہ سکیں بعینہ وہ چیز نہ بن یمیں.یہ وہ مقام محمدی ہے جسکو قرآن کریم نے ہمارے سامنے پیش کیا ہے کہ ہم تمہیں نقالی سے منع نہیں کر رہے، ہم تمہیں یہ نہیں کہتے کہ محمد جیسا نہ بننے کی کوشش کرو ورنہ اس سے ہمیں تکلیف پہنچے گے.ہم تو ایک چیلنج دیتے ہیں کہ آؤ اور محمد جیسا بننے کی کوشش کرو.ساری زندگیاں تم یہ مجاہدے کرتے رہو گے کچھ نہ کچھ ضرور بنو گے لیکن پھر بھی محمد ﷺ دوبارہ نہیں بن سکتے لیکن قانو ناروکا نہیں جارہا، قانوناً
خطبات طاہر جلد۳ 517 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۸۴ء صلى الله تو حکم دیا جا رہا ہے کہ ضرور بنو.یہ الگ بات ہے کہ وہ شان الگ ہے جو باقی انسانوں کی طاقت میں نہیں ہے کہ ایسا ہو سکے ورنہ خدا تعالیٰ نے اگر نعوذ باللہ من ذلک بائیبل جیسی تعلیم قرآن میں دینی ہوتی تو پھر یہ کہنا چاہئے تھا کہ محمدحمد اللہ کی شان اتنی بلند ہے کہ ہم کسی کو اسکی Imitation ( نقالی) کی اجازت نہیں دے سکتے.کوئی شخص بھی اگر نقل اتارے گا رسول اکرم کی تو اسکو سزاملنی چاہئے کہ گویا وہ نعوذ باللہ من ذلک محمد بن رہا ہے.ایک یہ بھی تو رجحان ہو سکتا ہے.ایک یہ بھی طرز اختیار کی جاسکتی ہے کتنی بڑی گستاخی ہے یہ نہ ہو کہ لوگ کہیں اس کو مد علیہ ہی سمجھنے لگ جائیں نعوذ باللہ من ذلک.حضرت محمد مصطفی ﷺ کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اول تو یہ کہ ساری دنیا کی کوششیں محمد پیدا کر ہی نہیں سکتیں لیکن دعوت یہ ہے کہ ضرور بننے کی کوشش کرو.یہ نہیں ہے کہ ویسا نہیں بنا ورنہ بے عزتی ہو جائے گی.یہ تعلیم تو اس زمانہ کی ایسی ایجاد بلکہ ایجاد تو نہیں کہنا چاہئے تکرار ہے آدم کے زمانہ کی اب دوبارہ جس کی تکرار کی جاری ہے، اگر اچھوں جیسا بننے کی کوشش کرو گے تو اچھوں کی بے عزتی ہو جائے گی اور کہا یہ جاتا ہے کہ یہ انصاف ہے اور شریعت کے عین مطابق ہے کس شریعت کے مطابق ہے؟ قرآنی شریعت میں تو اس کا کوئی اشارہ کوئی ذکر بھی نہیں ملتا.آنحضور ﷺ جیسا بننے کی کوشش کرنا اگر آنحضور" کی نعوذ باللہ من ذالک تک نہیں ہوتی تو عام مسلمان جیسا بننے سے عام مسلمان کی ہتک کیسے ہو جائے گی؟ تم نعوذ باللہ حضور اکرم سے بڑھ کر معزز ہو خدا کی نظر میں کہ وہاں تو عام دعوت دی جارہی ہے کہ آؤ اور محمد مصطفی بننے کی کوشش کرو اور یہاں یہ حکم دے رہی ہے شریعت کہ عام مسلمان جیسا بھی نہیں بنناور نہ مسلمان کی بے عزتی ہو جائے گی.کوئی ایک ہو جہالت کی بات تو انسان اسے بیان بھی کر سکے یہاں تو جہالت کا ایک ایسا مرکب تیار ہوا ہے جیسے حکیم معجون بناتے ہیں جو دماغ میں چیز آتی ہے اسے بیچ میں ڈالتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ کوئی سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا چیز تھی وہ؟ جہالت کا ایک مرکب بن گیا ہے یہ فیصلہ اور بار بار یہ اعلان ہے کہ نہیں یہ تو تمہارے ساتھ عین انصاف ہے.تم یہ کہنے کا کیا حق رکھتے ہو کہ ہم نا انصافی کر رہے ہیں.تمہیں ہم نے حق دے دیا ہے نبی سمجھو یہ الگ بات ہے کہ ساتھ یہ بھی کہہ دیا ہے کہ نبیوں جیسا سلوک بالکل نہیں کرنا، کوئی بات نہیں ماننی، جو حکم ہے اسکی نافرمانی کرنی ہے،اس سے کیا فرق پڑ جائے گا ؟ ہم تمہیں انسان کہتے ہیں، انسان جیسا سمجھتے ہیں لیکن ساتھ یہ بھی کہہ رہے
خطبات طاہر جلد ۳ 518 خطبه جمعه ۴ ارستمبر ۱۹۸۴ء ہیں کہ انسانوں جیسی کوئی حرکت نہیں کرنی.چارہ پٹھا کھاؤ، چار پاؤں پر چلو بجائے دو ٹانگوں کے، انسانی زبان سے کام نہیں لینا ، انسان جیسی حرکتیں کوئی نہیں کرنی ، اگر انسان جیسی حرکتیں بھی کرو گے تو تمہیں زنجیروں سے باندھ دیا جائے گا اور کم سے کم تین سال پھر گلیوں میں پھرنے نہیں دیا جائے گا.انسان جیسے لباس نہیں پہنے، انسان جیسا معاشرہ اختیار نہیں کرنا.ہم تو صرف اتنا کہہ رہے ہیں اور تم پاگلوں کی طرح ساری دنیا میں بدنام کر رہے ہو کہ ہمیں حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے.الٹا ہمیں کہتے ہیں کہ تم بڑے جاہل ہو جھوٹے الزام لگا رہے ہو کہ ہم تمہیں حقوق سے محروم کر رہے ہیں.ہم تو کہتے ہیں بے شک انسان سمجھتے رہو اپنے آپ کو بس اتنی سی بات ہے کہ انسان جیسی باتیں کوئی نہیں کرنی یہ کس طرح حقوق سے محرومی ہو گئی؟ یہ اعلان ہوا ہے شریعت کی کورٹ سے.آیا یہ درست ہے عقل اور انصاف کے مطابق ہے اس کا فیصلہ کیسے ہوگا ؟ آپ کی عقلیں جو سوچ رہی ہیں وہ تو ان کی عقلیں نہیں ہیں.اگر وہ ایسا سوچیں تو ہو سکتا تھا کہ ایسا جاہلانہ فیصلہ کرتیں اس لئے خطبہ سننے والے جو مسکرا رہے ہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ وہ عقلیں اور قسم کی ہیں ان کو ان باتوں کی سمجھ نہیں آرہی اگر سمجھ آ رہی ہوتی یہ فیصلہ ہی نہ دیتی.ان کیلئے ایک اور طریق ہے وہ میں ان کے سامنے پیش کرتا ہوں کہ اگر واقعی یہ انصاف ہے تو ہم سے تبادلہ کر لو انصاف کا.آج کے بعد تم اپنے آپ کو مسلمان سمجھو لیکن مسلمان کہنا نہیں اور ہم کہیں گے کہ ہاں دیکھو کیسا عمدہ انصاف ہوا ہے.آج کے بعد تم عبادت اپنے اوپر فرض سمجھو اور قرآن کریم کی اطاعت فرض سمجھو اور اذانیں دینی بند کر دو اور پھر ہم کہیں گے کہ دیکھو کیسا عمدہ انصاف ہے! ہم تو تمہیں کہتے ہیں کہ بعینہ انصاف کے مطابق ہم تمہیں یہ انصاف دے رہے ہیں کہ مسلمان بے شک سمجھو کہنا نہیں.تم بے شک آنحضرت عمے کو واجب التعمیل سمجھو لیکن حکم بالکل نہیں ماننا، کسی سنت پر کسی حدیث پر عمل نہیں کرنا، کسی نصیحت کو نہیں ماننا اور پھر ہمیں یہ نہ کہنا کہ نا انصافی ہوئی ہے کیونکہ تمہارا فیصلہ ہے کہ یہ نا انصافی نہیں ہے مسلمان کا حق مل گیا.اگر انصاف ہے تو پھر انصاف میں تو تبادلے ہو جایا کرتے ہیں.اگر کسی کو تقسیم کے لئے دیا جائے اور وہ تقسیم ٹھیک نہ کرے تو پھر عام دنیوی طریق کے مطابق کہتے ہیں بہت اچھا اگر تم سمجھتے ہو ٹھیک ہے تو بانٹ لیتے ہیں ہم آپس کی تقسیم تم میری لے لو میں تمہاری لے لیتا ہوں.زمیندارا کثر اسی قسم کے فیصلے کرتے ہیں اور وہ ایسی مشکل میں
خطبات طاہر جلد ۳ 519 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۸۴ء ڈال دیتے ہیں ضد کرنے والوں کو ان کو اختیار ہی نہیں رہتا.کہتے ہیں اچھا یا فیصلہ تم کرو اور ہمیں اجازت دو کہ ہم جو حصہ چاہیں اٹھا لیں یا ہم سے فیصلہ کر والو اور تم پھر اٹھا لو جو چاہو.یہ انصاف کا ایک عام طریق ہے جس کو کوئی بدل نہیں سکتا.بڑے سے بڑا ضدی بھی اگر ایک دفعہ یہ بات مان جائے تو وہ قابو آ جاتا ہے تو چونکہ آپ سے ہم نے فیصلہ کروایا ہے اس لئے ہمیں پھر اپنا حصہ تو اٹھانے دیں.آپ تو کہتے ہیں برابر کی تقسیم ہے تو پھر اب اختیار ہمیں ملنا چاہئے کہ کون سا تم اپنے لئے قبول کرتے ہو.تو ہم تو پھر یہی قبول کریں گے کہ جو تم ظلم سمجھ رہے ہو وہ ہمارے حصے ڈال دو.ظلم میں نے کیوں کہا؟ وہ اس لئے کہ بعض علما یہ اعلان کر رہے ہیں اور اخباروں میں چھپ رہا ہے کہ احمدیوں کے ساتھ ظلم نہیں ہوا، مسلمانوں یعنی ان کے ساتھ ظلم ہو گیا ہے.تو اگر یہ فیصلہ ابھی بھی اتنا پورا نہیں ہوا ان کے نزدیک ابھی اتنا شدید نہیں ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ جو فیصلہ ہوا ہے اصل بات یہ ہے اس میں کہ احمدی خواہ مخواہ شور مچاتے ہیں کہ ظلم ہو گیا ہے ظلم ہوا ہے مسلمانوں کے ساتھ یعنی ان کے ساتھ اور احمدیوں کو حق سے زیادہ مل گیا ہے.تو پھر تقسیم کر لو، ہمیں مظلوم بنادو جس کو تم ظلم سمجھتے ہو اور آپ ظالم بن جاؤ اپنی اصطلاح میں ہمیں منظور ہے اور پھر اگلے فیصلے بھی جو کرنے ہیں وہ بھی اسی حساب سے کرتے چلو جاؤ.تو اگر دنیا کے عام انصاف کے طریق کو اختیار کیا جائے تو کوئی مسئلہ مشکل رہتا ہی نہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہر فیصلہ جہالت کا کہیں یا ظلم کا کہیں وہ خدا کے نام پر کیا جا رہا ہے.یہ ہے سب سے بڑی تکلیف کہ اسلام اور شریعت کو ایسا بد نام کیا جارہا ہے کہ ساری دنیا میں اگر یہ باتیں دنیا کے سامنے رکھی جائیں تو حیران ہو کر دیکھتے ہیں بعض ان کو تسلیم بھی نہیں کرتے.لاء کمیشن کے سامنے جب ایک وفد پیش ہوا، انہوں نے کہا یہ باتیں ہوئی ہیں تو وہ تو مانتے ہی نہیں تھے شروع میں.کہتے تھے ہوسکتا ہی نہیں، یہ ناممکن ہے اس زمانہ کے انسان کی عقل میں ایسی بات آہی نہیں سکتی.تو یہاں تک پہنچ گئے ہو تم لوگ.حد ہوتی ہے گراوٹ کی ، انصاف کے نام پر ظلم اور شریعت محمدیہ کے نام پر یہ اندھیر نگری نعوذ باللہ من ذلک.جو کچھ کہنا ہے اپنی طرف سے کہو اپنے دل کی تاریکی کو قرآن کی طرف کیوں منسوب کرتے ہو؟ ہم جو اسلام کی خدمت کرنے والے ہیں، ہم جو تمام دنیا میں اسلام کی تبلیغ کرنے والے ہیں تم پشت پر سے بھی ہمیں چھرے گھونپو اور آئندہ آگے بڑھنے کے
خطبات طاہر جلد ۳ 520 خطبه جمعه ۱۴ر تمبر ۱۹۸۴ء لئے بھی ہماری راہیں بند کرو اور دشمن کے ہاتھ مضبوط کر و اسلام کے خلاف؟ کوئی حد تو ہونی چاہئے.اس سے باز آنا چاہئے اب کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بار بار یہ وقت اب تھوڑا رہ گیا ہے میرے نزدیک.وہ دن قریب ہیں جب خدا کی پکڑ ان کو لے لے گی اور جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو قرآن کریم فرماتا ہے.وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ (ص:۴) اس وقت وہ گھیرا پڑ چکا ہوتا ہے.پھر باہر نکل کر بھاگنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.تو اللہ تعالیٰ کا خوف کرو اور خدا کے نام پر قرآن کریم سے مذاق نہ اڑاؤ.اسلام کے تصور انصاف کی دھجیاں نہ بکھیر و.تقویٰ کے نام پر ہر جہالت کی تعلیم نہ دو کیونکہ اس کے نتیجے میں خدا تعالی زیادہ دیر تک تمہیں ڈھیل نہیں دے گا.یہی میری نصیحت ہے اللہ تعالیٰ معاف کرے اس قوم کو.اس میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں اس میں کوئی شک نہیں.میں پھر تکرار کرتا ہوں کہ وہ لوگ جو اس وقت جماعت احمد یہ پرظلم کر رہے ہیں وہ بہت تھوڑے ہیں تعداد میں.ایک معمولی اقلیت ہے جسکی کوئی بھی حیثیت نہیں ملکی اکثریت کے مقابل پر اور وہ اقلیت نافذ ہو چکی ہے بد بختی سے اس لئے اسکے داغ سارے ملک کی طرف احمدی نے منسوب نہیں کرنے یہ میں دوبارہ تاکید کرتا ہوں اور وہ دکھ جو ہیں ان کے نتیجہ میں اکثریت کو کوئی بد دعا نہیں دینی.امر واقعہ یہ ہے کہ اکثریت کی شرافت ہے جو جماعت احمدیہ کے اوپر مزید مظالم نہیں ٹوٹے.بہت زیادہ خوفناک حالات ہو سکتے تھے اگر بھاری اکثریت شریف نہ ہوتی.عدالتیں ہیں، پولیس ہے، ہر قسم کے محکمے ہیں بعض لوگ ہیں جو بت پرست رجحان رکھنے والے وہ حکومت کی خاطر ہر ظلم کر جاتے ہیں لیکن وہ بہت ہی تھوڑے ہیں، گنتی کے چند ہیں وہ.بھاری اکثریت ہے جس کا دل اس فیصلے میں نہیں ہے، کھلم کھلا وہ کہتے ہیں جب ان کے پاس اس قسم کی شکائتیں آتی ہیں تو وہ رد کر دیتے ہیں ان کو کہتے ہیں جو چاہو کر وحکومت سے ہماری شکایت کرو لیکن ہم یہ جاہلا نہ بات نہیں کریں گے.تو قوم کی حالت نہ صرف یہ کہ اتنی خراب نہیں جتنی مجھی جارہی ہے بلکہ دن بدن قوم کو ان اندھیروں کو دیکھنے کے نتیجے میں روشنی ملنی شروع ہو گئی ہے اور وہ باتیں جو اس سے پہلے آپ نہیں سمجھا سکتے تھے آج قوم خود سمجھنے لگ گئی ہے کہتے ہیں: تنزل کی حد دیکھنا چاہتا ہوں کہ شاید یہیں ہو ترقی کا زینہ
خطبات طاہر جلد ۳ 521 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۸۴ء تو بعض دفعہ قوموں کو تنزل کی حد میں جا کر ترقی کے زینے ملتے ہیں یہی حال اس وقت پاکستان کی قوم کا ہے.بعض ظالموں نے ظلم کی اور جہالت کی انتہا کر دی یہاں تک کہ ایک ردعمل پیدا ہو گیا ہے اور عوام الناس دن بدن دیکھنے لگے ہیں کہ یہ کیا ہو رہا ہے اور جماعت احمدیہ کے ساتھ ہمدردیاں دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہیں.اتنی شدید کوشش کی ہے حکومت نے لکھو کہا روپیہ خرچ کر کے کہ جماعت احمد یہ بدنام ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف نہایت گندی کتا بیں شائع کروا ئیں.ڈرامے لکھوائے لوگوں سے ذلیل، ربوہ کے متعلق عجیب و غریب کہانیاں شائع کروائی گئیں.ہر قسم کا گند اور خبث باطن جو ان کا اپنا تھا وہ نکلوا کر جماعت پر پھینکا.عام حالات میں آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اگر ایسی بات ہوتی تو کیسی قیامت وہاں ٹوٹ سکتی تھی مگر جتنی یہ زیادہ کوششیں ہو رہی ہیں اتنا ہی زیادہ عوام رد عمل دکھا رہے ہیں اور جماعت کے زیادہ قریب آتے چلے جارہے ہیں.اس لئے بڑی جہالت ہوگی کہ جب آپ اُن کے پیچھے جا رہے تھے اور وہ آگے دوڑ رہے تھے اس وقت تو آپ دعائیں کر رہے ہوں اور جب وہ آپ کی طرف دوڑنے لگے ہیں تو آپ ان کے لئے بددعا شروع کر دیں اس لئے بعض بے صبرے لوگ جو خطوں میں بے قرار ہو کر کہتے ہیں کہ قوم تباہ ہو جائے نعوذ باللہ من ذلک یہ ہو جائے ان کو میں بتا رہا ہوں کہ تمہارا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں ہے اگر تم اس قسم کی سوچ سوچو.تم نے بھلائی سوچنی ہے بنی نوع انسان کی اور خاص طور پر اپنے اہل وطن کی اس لئے پاکستانی کا فرض ہے خصوصیت کے ساتھ اور احمدی کا بالعموم احمدیت کی بقا کی خاطر کہ یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ اس رجحان کو اور زیادہ بڑھائے اور زیادہ تقویت دے، ان پر رحمتیں نازل فرمائے جنہوں نے مخالف حالات میں بھی سچ کی خاطر زبان کھولنی شروع کر دی ہے، ان کے گھروں کو برکتیں عطا فرمائے جنہوں نے تحریک اور تحریض کے باوجود، حکومت کی چھتری کے باوجود احمدیوں کولوٹنے سے احتراز کیا.آج سے زیادہ بہتر موقع احمدی کے خلاف ظلم کا پاکستان میں نہیں آسکتا اور اس کے باوجود بھاری اکثریت ہے جو موقع پانے کے باوجودرک رک رہی ہے اور اس کو استعمال نہیں کر رہی.تو اس قوم کے لئے تو بہت دعائیں کرنی چاہئیں.اللہ تعالیٰ اس قوم کو توفیق عطا فرمائے کہ جلد جلد ان کی آنکھیں کھلتی چلی جائیں جیسا کہ نظر
خطبات طاہر جلد ۳ 522 خطبه جمعه ۴ ار ستمبر ۱۹۸۴ء آرہا ہے کہ کھل رہی ہیں اور آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ تعالیٰ جب خدا ان ظالموں کو سزادے گا تو کس تیزی کے ساتھ یہ قوم احمدیت میں داخل ہونا شروع ہوگی جتنی زیادہ انہوں نے روکیں ڈالی ہیں اتنی ہی قوت اور جوش کے ساتھ ، جس طرح سیلاب کے بندٹوٹ جاتے ہیں اس طرح میں پاکستانیوں کو خدا کے فضل سے احمدیت میں داخل ہوتا ہوا دیکھ رہا ہوں.( انشاء اللہ تعالیٰ )
خطبات طاہر جلد ۳ 523 خطبه جمعه ۲۱ / ستمبر ۱۹۸۴ء نصرت الہی ، احمدیوں کا صبر اور ربوہ سے محبت ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدُوةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّلِمِينَ وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا اَ هَؤُلَاءِ مَنَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّكِرِينَ وَإِذَا جَاءَ كَ الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِايْتِنَا فَقُل سَلْمٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوءَ أَبِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمُ وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ پھر فرمایا: (الانعام:۵۳-۵۶) کچھ عرصہ ہوا پاکستان سے یہ اطلاع ملی کہ سندھ کے ایک فقیر ہیں جو دنیا سے قطع تعلق کر کے اللہ کی یاد میں بیشتر وقت صرف کرتے ہیں اور بہت معمر ہیں انہوں نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں صدر پاکستان اور دیگر ارباب حل و عقد کو مخاطب کر کے بڑے کھلے کھلے انذار کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۳ 524 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء اس فیصلے کی پاداش سے متنبہ کیا ہے جو انہوں نے جماعت کے خلاف کچھ عرصہ پہلے کیا تھا اور اپنے خرچ پر اس کی بہت سی کا پیاں طبع کروا کر انہوں نے تمام پاکستان میں بھی تقسیم کروائی ہیں.جب مجھے اس کا علم ہوا تو کری کی جماعت کے امیر صاحب کو میں نے لکھا کہ یہ سنی سنائی باتیں ہیں آپ با قاعدہ پتہ کریں کہ وہ دوست کہاں رہتے ہیں اور وفد بجھوائیں اور جو ان سے مل کر معلوم کرے کہ آیا یہ واقعہ درست ہے آپ ہی نے لکھا ہے یہ اشتہار اور اگر لکھا ہے تو کیوں؟ کیونکہ جہاں تک میرا علم ہے ایسے کسی دوست کا جماعت سے تو پہلے کوئی تعارف نہیں تھا.بہر حال وہ وفد گیا اور ان کی ایک بڑی دلچسپ لمبی رپورٹ موصول ہوئی ہے اس رپورٹ کے بعض اقتباسات میں آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں.د و احمدی احباب کا وفد گیا انہوں نے تلاش کے بعد جب ان کے گاؤں پہنچ کر دستک دی تو کہتے ہیں کہ فقیر صاحب ہمیں ایک کمرہ میں لے گئے یعنی یہ امیر وفد لکھ رہے ہیں، میری آمد کی وجہ دریافت کی میں نے انکا اشتہار ان کے سامنے رکھا اور کہا کہ یہ آپ ہی کی طرف سے ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہاں یہ میں نے ہی لکھا ہے.میں نے عرض کیا کہ اس کے محرک کون سے اسباب ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ جس دن صدر ضیاء الحق نے جماعت احمدیہ کے خلاف نیا آرڈینینس جاری کیا مجھے سن کر دیکھ اور رنج ہوا کہ یہی ایک جماعت اسلام کی خدمت میں کوشاں ہے.یہ تو بڑا ظلم ہے، مجھے سخت تکلیف تھی چین نہیں آتا تھا ، میں کراچی چلا گیا اور دعا کرتا رہا کہ اے خدا ! یہ جماعت تیرے دین کی خادم ہےان کے خلاف ایسا حکم جاری کرنے والا تو میرے نزدیک بڑا ظالم ہے.مجھے آواز آئی قرآن کھولو ! میں نے کہا کہ قرآن تو میں ہر روز پڑھتا ہوں، پھر آواز آئی قرآن کھولو تمہارے دکھ کا تدارک ہو جائے گا.اسی طرح تیسری دفعہ بھی یہی آواز آئی یہ ۱۳ رمئی ۱۹۸۴ء کا واقعہ ہے.تیسری آواز پر میں اٹھا وضو کیا، قرآن مجید کو بطور فال کھولا تو میرے سامنے سورۃ انعام کی آیت ۵۳ کھلی اور اس آیت پر میری نظر پڑی جس کا ترجمہ یہ ہے کہ : تو ان لوگوں کو جو اپنے رب کو صبح و شام اس کی توجہ چاہتے ہوئے پکارتے ہیں مت دھتکار.ان کے حساب کا کوئی حصہ بھی تیرے ذمہ نہیں اور تیرے حساب کا کوئی حصہ ان کے ذمے نہیں پس اگر تو انہیں دھتکارے گا تو ظالم ہو جائے گا.“
خطبات طاہر جلد ۳ 525 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء پس اس پر میں نے سمجھ لیا کہ خدا کے نزدیک یہ لوگ ظالم ہیں اور اس کی سزا سے نہیں بیچ سکتے تو میں نے چاہا کہ اس الہی ارشاد کو پاکستان کے صدر اور گورنر صاحبان اور افواج کے افسران اور شرعی عدالت کے ممبران تک پہنچا دوں یہ میرا فریضہ ہے.یہ اشتہار بکثرت طبع کرا کر صدر پاکستان ضیاء الحق اور چاروں صوبوں کے گورنر صاحبان، تینوں فوجوں کے سربراہان مجلس شوری کے ممبران اور شرعی عدالت کے جج صاحبان کو رجسٹریاں کی گئیں اور باقی اسی طرح تقسیم کروا دیئے گئے.یہ لکھتے ہیں کہ ان بزرگ کی عمر نوے ۹۰ سال ہے مگر صحت اچھی ہے.ایک بات انہوں نے اور بھی بہت دلچسپ بتائی اور وہ یہ تھی کہ میں آجکل قرآن شریف کی تفسیر لکھ رہا ہوں جس میں سورتوں کے نام میں نے مضامین کے لحاظ سے خود رکھے ہیں یعنی تفسیری نام، مثلاً اسمه احمد کی تفسیر لکھ رہا ہوں اور سورۃ کا نام سورۃ احمد یہ رکھا ہے.آج میں نے یہی تفسیر شروع کی ہوئی تھی کہ آپ کے آنے کا پیغام ملا تو میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ میں نے چونکہ سورہ احمدیہ کی تفسیر شروع کی ہے شاید ملاقات کرنے والے بھی احمدی ہی ہوں چنانچہ میرا یہ خیال درست نکلا.تو اللہ تعالیٰ کے مختلف بندے خدا سے تعلق رکھنے والے ایسے بھی ہیں جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو الہام بتایا گیا تھا کہ يَنصُرُكَ رِجَالٌ نُوحِي إِلَيْهِمُ مِنَ السماء “ ( تذکرہ صفحہ ۳۹) ہم اپنے بندوں پر الہام کریں گے اور وہ تیری مدد کے لئے کھڑے ہو جائیں گے.چنانچہ اسی بزرگ کے متعلق یہ بھی لکھا ہے کہ جب میں نے یہ اشتہار شائع کیا وہ کہتے ہیں تو میرے مرید بکثرت آئے اور مجھے انہوں نے کہا یہ تم نے کیا غضب کر دیا ؟ حکومت سے ٹکر لینی ٹھیک نہیں تو میں نے جواب دیا کہ مجھے میرے اللہ کا حکم ہے اس لئے میں تو بہر حال اس پر عمل کرونگا جو میرے خدا کا حکم ہے.مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ میں کس سے ٹکر لے رہا ہوں اور کوئی میرا کیا بگاڑتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ آسمان سے الہام فرما کر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مدد فرما رہا ہے اور یہ صرف ایک واقعہ نہیں بکثرت ایسی اطلاعیں ملنی شروع ہوئی ہیں پاکستان سے کہ خدا تعالیٰ کے فرشتے دلوں میں تبدیلی پیدا کر رہے ہیں اور ظالم کے خلاف نفرت دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہے اور مظلوم کے لئے ہمدردیاں نمایاں ہوتی جاتی ہیں یہاں تک کہ بعض لوگ جن کو واضح طور پر الہام یا رؤیا کے ذریعہ خبر نہیں بھی دی گئی ان کے دلوں کو بھی خدا کے فرشتے تقویت دے کر جماعت
خطبات طاہر جلد ۳ 526 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء کی مدد پر ابھارنے لگے ہیں اور ایسے واقعات عام ہونے لگے ہیں کہ افسران اپنے بالا افسران کی ناراضگی سے بالکل بے پرواہ ہو کر احمدیوں کے حق میں آواز اٹھانے لگے ہیں.چنانچہ یہ جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں ان میں سے پہلی آیت وہی ہے جو اس فقیر منش بزرگ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دکھائی گئی کہ یہ آیت پڑھو اس میں ان لوگوں کا ذکر ہے اس کے بعد کی آیات میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكَذلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ اسی طرح ہم بعض کو بعض دوسروں کے ذریعہ آزمائش میں ڈال دیتے ہیں اور یہ عجیب بات ہے کہ بظاہر تو کچھ کمزور، کچھ غریب، کچھ بے کس لوگ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں لیکن قرآن کریم نے جس رنگ میں اس آزمائش کا ذکر کیا ہے وہاں ان کو چھوڑ کر ان لوگوں کو آزمائش میں مبتلا قرار دیا ہے جو دوسرے بندوں کو آزمائش میں ڈالتے ہیں.یہ ایک عجیب انداز ہے کلام الہی کا جو حیرت انگیز ہے یعنی یہاں وہ مظلوم جن کو آزمائش میں ڈالا گیا ہے ان کا ذکر چھوڑ کر یہ فرما رہا ہے کہ آزمائش میں وہ ڈالے گئے ہیں جو تم پر ظلم کر رہے ہیں.چنانچہ فرمایا ليَقُولُوا اَ هَؤُلَاءِ مَنَ اللهُ عَلَيْهِمْ مِّنْ بَيْنِنَا دیکھو! کیسی آزمائش میں مبتلا ہو گئے کہ خدا کے غریب فقیر بندوں کو جن کو خدا کی خاطر دکھ دیا جاتا ہے ان کے متعلق باتیں بناتے ہیں اور کہتے ہیں کیا ان لوگوں کے اوپر اللہ نے احسان کیا ہے؟ ہم میں سے خدا کو بس یہی نظر آئے چننے کے لئے اور اپنا بنانے کے لئے؟ خدا فرماتا ہے أَلَيْسَ اللهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّكِرِينَ کیا اللہ کوعلم نہیں ہے کہ اس کے کون سے بندے شکر گزار ہیں اور کون سے بندے پیار کے لائق ہیں؟ ان جاہلوں کو علم ہے کہ کن بندوں سے خدا کو پیار کرنا چاہئے اور کن سے نہیں کرنا چاہئے ! پھر فرماتا ہے وَإِذَا جَاءَ كَ الَّذِيْنَ يُؤْمِنُوْنَ بِايْتِنَا فَقُلْ سَلَم عَلَيْكُمْ اے محمد ﷺ جب خدا کے صلى الله یہ غریب بندے جو دھتکارے جا رہے ہیں تمام دنیا کی طرف سے جب تیرے پاس آئیں تو ان کو ہماری طرف سے سلام پہنچا کہہ دے سلمٌ عَلَيْكُم تم پر سلامتی ہو.كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ " تمہارے رب نے اپنے اوپر تمہارے لئے رحمت فرض کر لی ہے.انَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنْكُمْ سُوء ا تم میں سے جو کوئی بھی غلطی سے غفلت کی وجہ سے برائی میں مبتلا ہو چکا ہو جہالت کے نتیجہ میں ثُمَّ تَابَ مِنْ بَعدِہ پھر اس کے بعد اس نے توبہ کر لی ہو وَأَصْلَحَ اور اصلاح پذیر ہو گیا ہو فَانَّهُ غَفُورٌ رَّحِیم تو اللہ بہت ہی بخشنے والا اور بہت ہی
خطبات طاہر جلد ۳ رحم کرنے والا ہے.527 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء وَكَذَلِكَ نُفَصِّلُ الْأَيْتِ وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ ہم اسی طرح اپنی آیات کو کھولتے رہے ہیں، کھول کھول کر لوگوں کے سامنے بیان کرتے رہے ہیں.وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ تا کہ مجرموں کی راہ کھل کر الگ ہو جائے.یہ جو آخری آیت ہے اس میں ایک بہت ہی گہری حکمت کی بات یہ بیان فرمائی گئی ہے کہ حق کو باطل سے الگ کرنے کے لئے بعض دفعہ ایسے دور آتے ہیں کہ حق ممتاز ہو کر نتھرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور بعض دفعہ ایسے دور آتے ہیں کہ ظلم اور ستم اور جاہلیت نتھر کر خود الگ ہونا شروع ہو جاتی ہے یہاں تک کہ نظریں فرق محسوس کرنے لگ جاتی ہیں.یہ دو قسم کے واقعات کچی قوموں کی زندگی میں آتے ہیں.بعض آنکھیں سچ کو پہچاننے کی طاقت رکھتی ہیں ، وہ جب پاک پیشانیوں پر نظریں ڈالتی ہیں تو جان لیتی ہیں کہ یہ صداقت ہے، اس میں صفائی ہے اسکے سوا کچھ بھی نہیں.الله صلى الله چنانچہ ایسے دور بھی انبیاء کی تاریخ میں آتے ہیں جب کہ صرف نظروں نے دیکھا سچائی کو اور قبول کر لیا.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ایمان لانے کا واقعہ اسی کی ایک مثال ہے آپ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آنحضور علیہ نے دلائل دینے کی کوشش کی تاکہ ان کو ٹھوکر نہ لگے اور بات سمجھ جائیں تو بار بار یہی پوچھتے رہے کہ یا رسول اللہ! میں دلائل نہیں پوچھ رہا، بلکہ اے محمد! میں دلائل نہیں پوچھ رہا اس وقت تک تو ابھی رسول تسلیم نہیں کیا تھا.میں صرف یہ پوچھتا ہوں کہ آپ نے دعوی کیا ہے کہ نہیں ؟ آخر دو تین کوششوں کے بعد آنحضور ﷺ نے دلائل دینے کا ارادہ ترک فرما دیا اور کہا ہاں ابوبکر ! میں نے دعوی کیا ہے اور خدا نے مجھے اپنا رسول بنا کر بھیجا ہے.یہ سنتے ہی حضرت ابو بکر بے اختیار بول اُٹھے اَشْهَدُ اَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَاَشْهَدُ أَنْ مُحَمَداً رَسُولُ اللَّهِ - اگر آپ نے دعوی کیا ہے تو میں بھی گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی معبود نہیں اور آپ اے محمد ! خدا کے رسول ہیں اور پھر خود وضاحت کی کہ یا رسول اللہ ! میں تو اس لئے دلیل نہیں سننا چاہتا تھا کہ میں نے آپ کا چہرہ دیکھا ہوا ہے اور اس چہرے کا حسن ، اس کی صداقت ایسی ظاہر وباہر ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 528 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء میں اپنے ایمان کو دلائل کے ذریعہ گدلا نہیں کرنا چاہتا تھا.میں نہیں چاہتا تھا کہ دلائل کی میل میرے ایمان میں داخل ہو جائے ، مجھے تو صداقت صاف نظر آ رہی تھی.السيرة الحلبيه جلد اول نصف آخر صفحه : ۲۱۶).اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے واقعات بھی ہیں.بعض صحابہ سے میں نے خودسنا ہے کہ ہم نے تو کوئی دلیل نہیں سنی نہ کسی دلیل کی ضرورت سمجھی.قادیان گئے تھے بعض لوگوں نے ہمیں بتایا کہ اس طرح دعویدار پیدا ہوا ہے اور پہلی نظر جو اس چہرے پر پڑی ہے اسی نظر نے گواہی دے دی کہ یہ بچے کا منہ ہے جھوٹے کا منہ نہیں.تو بعض دفعہ صداقت نتھر کر الگ ہوتی ہے اور کچھ آنکھیں ان کو پہچانتی ہیں جو سچا منہ رکھتے ہیں.لیکن دنیا کی اکثر آنکھیں میلی ہو چکی ہوتی ہیں اس لئے وہ سچائی کو پہچاننے کی اتنی اہلیت تو نہیں رکھتیں لیکن جھوٹ جب نظر کے سامنے آتا ہے تو اس کو پہچاننے لگ جاتی ہیں.ایک منفی رنگ میں ان پر صداقت کا اظہار ہوتا ہے کیونکہ اکثر گندگی کی عادی ہو چکی ہوتی ہیں نظریں، گند میں پلتی ہیں، گند کو دیکھتی ہیں تو بعض دفعہ خدا اس عادت کو توڑنے کے لئے گند کو چمکاتا ہے اور ابھارتا ہے تا کہ اچانک ان کے دل میں یہ شعور پیدا ہو کہ یہ تو محض گند ہے، جھوٹ ہے، اس میں صداقت کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.چنانچہ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيْلُ الْمُجْرِمِینَ میں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ہم آیات کو اس طرح کھولتے ہیں کہ کبھی بچوں کی راہ الگ کر کے دکھاتے ہیں تو کبھی جھوٹوں کی راہ الگ کر کے دکھاتے ہیں اور خوب کھول دیتے ہیں کہ یہ لوگ محض گندے ہیں ان میں کوئی سچائی کی علامت نہیں پائی جاتی.ایسے ہی واقعات آج پاکستان میں بکثرت ہو رہے ہیں اور وہ منزل آ رہی ہے قوم کے لئے جہاں گندے لوگ اپنے گند میں اتنا بڑھ گئے ہیں کہ اب عام قوم جو پہلے غفلت کی نظر سے ان کے گند کو دیکھ رہی تھی اب باشعور طور پر دیکھ رہی ہے اور پہچانے لگی ہے.چنانچہ بکثرت واقعات میں سے ایک واقعہ میں یہ بیان کرتا ہوں اور اس ظلم کے نتیجہ میں جو جماعت کا وہاں حال ہے اس کی چند ایک مثالیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ ربوہ میں چند دن پہلے مختلف مولوی اور ان کے چیلے چانٹے اکٹھے ہوئے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف اس قدر مخش کلامی کی کہ جیسے کسی
خطبات طاہر جلد ۳ 529 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء عورت کی زبان بے لگام ہو جائے اور یہ سب کچھ اسلام کے نام پر اور ناموس محمد مصطفی ﷺ کے نام پر کیا جارہا تھا پھر یہ جلوس بازار سے گالیاں دیتا اور نہایت گندے بھنگڑے ڈالتا ہوا گزرا.اس وقت ہمارا کلیجہ شق ہوا جاتا تھا لیکن ہم نے آپ کے جانے سے پہلے آپ کے ہاتھ پر صبر کی بیعت کی تھی اور اس بیعت کو ہم بھولے نہیں تھے اور خدا کو حاضر ناظر جان کر یہ اقرار کیا تھا کہ ہم آپکی اطاعت سے باہر نہیں نکلیں گے لیکن جو اس وقت اہل ربوہ کی حالت تھی وہ نا قابل بیان ہے.اچانک اس وقت میری نظر ایک غریب بوڑھے کھوکھے والے پر پڑی جو اس نظارے کو دیکھ دیکھ کر روروکر نڈھال ہوا جاتا تھا اور اس کے بدن پر شدت گریہ سے رعشہ طاری تھا، یہ دیکھ کر دل قابو میں نہ رہا اور میں دوڑتا ہوا گھر چلا گیا تا کہ تنہائی میں اپنے مولیٰ کے حضور اپنے دل کا غبار نکال سکوں.سیہ وہ کیفیت ہے وَلِتَسْتَبِيْنَ سَبِیلُ الْمُجْرِمِينَ اتنا گند اور بغض کھل کر باہر آ گیا ہے کہ ناممکن ہے کہ کوئی نفس جس میں شرافت کی رمق باقی ہو وہ اس گند کو پہچان نہ سکے کیونکہ آنحضرت کی طرف منسوب ہو کر اس قسم کی غلاظت، اس قسم کی بے حیائی تو کوئی عام مسلمان بھی تصور میں نہیں لاسکتا اور یہ صرف ربوہ کا حال نہیں سارے پاکستان میں ایک عجیب حالت میں سے جماعت گزر رہی ہے.ایک دوست جو پہلے شاعر نہیں تھے ان کو اس غم کی حالت نے شاعر بنا دیا ہے لیکن یہ ایک ہی نہیں ایسے بکثرت خطوط آتے ہیں جن میں ایسے لوگ جنہوں نے کبھی بھی کو ئی نظم نہیں کہی تھی وہ درد کی شدت اور عشق کے معراج کے باعث شاعر بن بیٹھے ہیں، بن گئے ہیں کہنا چاہے.بعضوں کو وزن بھی نہیں آتا لیکن ان کے کلام میں صداقت نے سچائی نے اتنا گہرا اثر کر دیا ہے کہ شعریت اور نفسگی گویا ان کے اندر اللہ نے ودیعت کر دی ہے.ایک صاحب نے ایک سرائیکی کی نظم بھیجی ہے اور اس نظم کا بھی ایک عجیب حال ہے.بہت ہی گہرا اثر رکھنے والی نظم ہے لیکن سرائیکی مجھے پوری طرح نہیں آتی اس لئے انہوں نے ترجمہ بھی ساتھ کیا ہے.میں اپنے ترجمے کے چند کلمات سناتا ہوں.کہتے ہیں : " آج تک اتنی اداسی اور غمگینی نہیں ہوئی.دل سے ٹھنڈی آہیں نکلتی ہیں اور زار و قطار رونا آتا ہے.دیکھوں بھرا دل اور گھٹی گھٹی روح تڑپ رہی ہے.آپ نے تو اوروں کے وطن قیام کوطول دے دیا.چپ چاپ ربوہ جیسے رات کا سناٹا طاری ہو، ہونٹ سختی سے سلے ہوئے ہیں مگر دل میں ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 530 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء آگ بھڑک رہی ہے.وہ مقام جہاں پانچ بار اللہ اکبر اللہ اکبر کی ندا بلند ہوتی تھی وہاں اب بغیر آذان کے باجماعت نماز کے لئے لوگ جوق در جوق جاتے اور مسجدوں کو بھر دیتے ہیں.خدا کے حضور یہ عاجز بندے گڑ گڑاتے اور فریادیں کرتے ہیں.حیران حیران چہرے ہیں، بھولی بھولی آنکھیں مگر آتش غم سے ان کی روتی ہوئی آنکھیں انار کی طرح سرخ ہو چکی ہیں.“ ایک ربوہ کے ہمارے ڈاکٹر وہ ایک مریض کا حال لکھتے ہیں یہ بھی بڑا عجیب ہے.اللہ تعالیٰ جماعت کو ایک عجیب عشق و محبت کے دور سے گزار رہا ہے جو صدیوں کے مجاہدوں سے بھی حاصل نہیں ہوسکتا تھا، کیفیتیں ہی پلٹ گئی ہیں، ایک عظیم روحانی انقلاب بر پا ہو رہا ہے اور اس کے مقابل پر سَبِيْلُ الْمُجْرِمِينَ کھل کر الگ ہوتی چلی جارہی ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ ایک ایسا عجیب میری زندگی کا واقعہ گزرا ہے جو میں لکھنے پر مجبور ہوں.ایک بوڑھا غریب مریض جان کنی کی حالت میں تھا ہسپتال لایا گیا اور فورا اس کو آکسیجن لگائی گئی یہ پتہ نہیں تھا کہ بیچ سکے گا کہ نہیں مگر اللہ نے فضل کیا اور کچھ دیر کے بعد اسے ہوش آیا.ہوش آنے پر اس نے پہلا سوال یہ کیا کہ کیا حضور خیر بیت سے ہیں اور کب آئیں گے؟ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اس فقرہ نے جو میرے دل کا جو حال کیا سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا.وہ شخص جو اپنی زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا تھا ہوش آنے کے بعد اس کا پہلا سوال یہ تھا اور پہلا فکر یہ تھا.ایک خاتوں لکھتی ہیں کہ خدا گواہ ہے کہ انتیس اپریل کو میرے پیارے ابا جان کی وفات ہوئی مجھے اس کا غم نہیں تھا بس غم تھا تو اپنے پیارے امام کا.لوگ مجھے میرے والد کے بارے میں بتاتے تھے پنجاب سے آکر کہ وہ بڑے پر نور اور پر وقار تھے اور مرنے کے بعد وہ نہایت ہی نورانی چہرہ تھا مگر بے چین ہو کر یہ پوچھتی تھی کہ ربوہ کا حال بتاؤ ، حضور کا حال بتاؤ، دل غم کی شدت سے معلوم ہوتا تھا پھٹ جائے گا.حضور یہ نا چیز نہایت ہی عاجزی سے درخواست کرتی ہے کہ خدا گواہ ہے کہ میرے پاس اس وقت نہ کوئی زیور نہ کوئی پیسہ ہے مگر ایک مشین ہے جس کی قیمت پانچ ہزار ہے وہ میں چندہ میں دیتی ہوں خدا را قبول کریں اور دعا کریں کہ خدا تعالیٰ اسے قبول فرمائے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق خدا تعالیٰ یہ نہیں فرما تا کہ یہ ابتلا میں ڈالے گئے ہیں.یہ عظیم الشان کلام الہی ہے بلکہ یہ فرمارہا ہے کہ جو ان پر ظلم کرنے والے ہیں وہ ابتلا میں ڈالے گئے ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۳ 531 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء جہاں تک ان کی حالت ہے اس کے متعلق عجیب شان ہے.کلام الہی کی ان حالات میں خوشخبریاں دے رہا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی زبان سے ان پر سلام بھیج رہا ہے.فَقُلْ سَلمٌ عَلَيْكُمُ اے خدا کے در کے فقیر و ! تم پر سلامتیاں ہوں.كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةُ اللہ نے فرض کر لیا ہے کہ وہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے گا.یہ عجیب لوگ ہیں ان کو پہلے تو یہ فکر ہوا کرتا تھا اور میں نے آپ کو ایک دفعہ سنایا بھی تھا ایک دلچسپ واقعہ کہ مجھے یہ لکھتے تھے کہ ہمیں فکر ہے کہ انگلستان کے لوگ آپکا پورا خیال رکھتے بھی ہیں کہ نہیں اور جس طرح خلافت کی ذمہ داریاں ہیں وہ ادا کر رہے ہیں کہ نہیں.جب میں نے خطبہ میں بتایا اور ویسے بھی دوستوں نے واپس جا کر وہاں باتیں پہنچائیں کہ انگلستان کی جماعت تو اپنی ذمہ داریاں فرائض سے بہت بڑھ کر پورا کر رہی ہے اور کسی قسم کی کوئی کمی کوئی وہم میں بھی نہیں آنی چاہئے کسی کی کہ اس جماعت کی طرف سے سرزد ہو اور اللہ تعالیٰ نے جتنی توفیق دی ہے جہاں تک میراعلم ہے اس توفیق سے بھی بڑھ کر جماعت حتی المقدور تمام دینی فرائض کو سرانجام دے رہی ہے.تو ان اطلاعوں کے بعد اب ان کا فکر اور ہو گیا ہے یعنی عشق کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ وہ آئیں مرگ شادی ہے نہ آئیں مرگ ناکامی ہمارے واسطے راہ عدم یوں بھی ہے اور یوں بھی ایک ہمارے بہت ہی دلچسپ اور پیار کرنے والے دوست ہیں ان کا خط آیا ہے کہ مجھے تو یہ فکر ہے ہی نہیں نہ ہوئی تھی کبھی کہ انگلستان کے لوگ خیال نہیں رکھیں گے اور اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہیں کریں گے مجھے تو ایک فکر کھا رہا ہے اور پنجابی میں انہوں نے اس فکر کا اظہار کیا کہ کہیں آپ کو ”مل ہی نہ لیں ملنے کا لفظ جو اہل پنجاب ہیں جن کا بچپن پنجاب میں گزرا ہو وہ اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں.جب ہم سٹاپو وغیرہ اس قسم کی چیزیں کھیلا کرتے تھے تو کبھی گیٹیاں ملا کرتے تھے کبھی خانے ملا کرتے تھے اور کبھی کبڈی میں کھلاڑی مل لیا کرتے تھے تو جو ایک دفعہ ملا جائے وہ اسی کا ہو جاتا ہے.تو انہوں نے چونکہ بچپن میں ان کا بھی یہی معاشرہ تھا وہ اسی قسم کی کھیلوں میں کھیلتے رہے اور ملنے کا لفظ ان کے دل و دماغ کو مل چکا ہے اس لئے یہ بہت ہی پیارا اظہار انہوں نے کیا کہ مجھے تو فکر یہ ہے کہ آپ کو کہیں انگلستان کی جماعت مل ہی نہ لے.تو میں ان کو بھی بتا تا ہوں کہ تمام اہل پاکستان کو بھی
خطبات طاہر جلد ۳ 532 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء بتاتا ہوں اور خاص طور پر ربوہ کے درویشوں کو کہ ” میں تو ملا جا چکا ہوں.میری زندگی میرا اٹھنا بیٹھنا میرا جینا اور میرا مرنا آپ کے ساتھ ہے.یہ ناممکن ہے کہ میں خدا کی راہ کے درویشوں کی محبت کو کبھی بھلا سکوں کوئی دنیا کی طاقت اس محبت کو میرے دل سے نوچ کر باہر نہیں پھینک سکتی.کوئی دنیا کی کشش ، کوئی دنیا کی نعمت میری نگاہوں کو آپ کی طرف سے ہٹا کر اپنی طرف منتقل نہیں کرسکتی.لاکھوں خدا کے پیارے ہیں جو مجھے بھی بہت پیارے ہیں، لاکھوں پیارے ہیں جو آپ کی طرح اپنے امام سے اور مجھ سے محبت کرتے ہیں صرف اس لئے کہ خدا کی طرف سے میں اس مقام پر فائز کیا گیا ہوں لیکن وہ سب محبتیں اپنی جگہ مگر اے ربوہ کے پاک درویشو! اے خدا کے در کے فقیرو! جو خدا کی خاطر دکھ دیئے جا رہے ہو تمہاری محبت کا ایک الگ مقام ہے، اس کی ایک عجب شان ہے ،اس کا کوئی دنیا میں مقابلہ نہیں کر سکتا.ایک شعر میرے ذہن میں آیا ہے اس سے شاید میرا مافی الضمیر ادا ہو جائے.ایک شاعر نے خوب کہا ہے کہ ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور تم سے جہاں میں لاکھ سہی تم مگر کہاں خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک خوشخبری جو میں نے پہلے بھی دی تھی اب پھر آپ کو بھی دیتا ہوں اور باقی جماعت کو بھی کہ جو یوروپین مشن بنانے کی تجویز بھی اس کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے انگلستان میں ایک بہت ہی موزوں جگہ میسر آ گئی ہے.چھپیں ایکٹر کا رقبہ ہے سرے Surrey میں اور مسجد لندن سے قریبا چالیس منٹ یا 35 منٹ کا فاصلہ ہے بہت اچھی اور جگہ کشادہ.آپ کی ساری ضروریات انشاء اللہ تعالیٰ وہاں پوری ہو جایا کریں گی بلکہ یوروپین جلسے بھی جب آپ کریں گے تو انشاء اللہ وہ بھی خدا کے فضل سے وہاں بآسانی سماسکیں گے لیکن سر دست وہ جگہ آپ کی ضرورت سے زائد معلوم ہوتی ہے کیونکہ کھلی ہے اور لی اس نیت سے ہے کھلی جگہ کہ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ ہمیشہ جب ہم مسجدیں بڑھاتے ہیں یا دفاتر بڑھاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کو چھوٹا کر دیتا ہے اس لئے اس نیت اور دعا کے ساتھ یہ جگہ لی ہے تا کہ آپ تبلیغ کریں اور بکثرت پھیلیں اور دیکھتے دیکھتے یہ جگہ چھوٹی ہو جائے.تو یہ دعائیں کریں خاص طور پر خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے کہ اس وقت جو جگہ وسیع نظر آ رہی ہے وہ بہت جلد ہمیں
خطبات طاہر جلد ۳ 533 خطبه جمعه ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء چھوٹی دکھائی دینے لگے اور پھر اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اور بھی زیادہ وسیع جگہ حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین اس کے علاوہ ایک جنازے کا اعلان ہے.ہمارے ایک بہت ہی مخلص دوست ہیں فرخ صاحب ( منیر احمد فرخ صاحب آف اسلام آباد ) چوہدری عبد الاحد صاحب ان کے والد کا نام تھا فضل عمر ریسرچ انسٹیٹیوٹ والے، فرخ صاحب تھے ان کی والدہ وفات پاگئی ہیں اور فرخ صاحب وہ ہیں جنہوں نے بہت محنت کی تھی ہمارے ٹرانسلیشن سسٹم کے لئے ،جلسہ سالانہ کے اوپر جو Equipment تیار کئے ہیں وہ انکی کارکردگی کا نتیجہ ہے اور ان کے ساتھیوں کی کارکردگی کا.ایک گروپ تھا جنہوں نے بڑی محنت سے وہ کام پورا کیا تھا.یہاں تک کہ جس خرچ کا اندازہ کمپنیوں کی طرف سے کم از کم چالیس لاکھ اور بعض کے خیال میں ساٹھ ستر لاکھ روپے تک پہنچ جاتا تھا وہ انہوں نے ایک لاکھ کچھ ہزار روپے کے اندر پورا کر دیا.تو ان کی والدہ کی وفات ہوئی ہے اور ان کا مجھے فون ملا ہے کہ والدہ کی بڑی شدید خواہش تھی کہ آپ جنازہ پڑھائیں اس لئے ان کی والدہ کا جنازہ جمعہ کے بعد پڑھا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 535 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء انفاق فی سبیل اللہ (خطبه جمعه فرموده ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ وَلَا تَيَمَّمُوا الْخَيْثَ مِنْهُ تُنْفِقُونَ وَلَسْتُمْ بِاخِذِيْهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوافِيْهِ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدُ الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللَّهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلًا ۖ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ يُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ ۚ وَمَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِي خَيْرًا كَثِيرًا وَمَا يَذَّكَّرُ إِلَّا أُولُوا الْأَلْبَابِ وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَّفَقَةٍ أَوْ نَذَرْتُم مِّنْ نَّذْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُهُ وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ إِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّاهِيَ ۚ وَإِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَّاتِكُمْ وَاللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ لَيْسَ عَلَيْكَ هُدْهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ ۖ وَمَا
خطبات طاہر جلد ۳ 536 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ فَلِاَنْفُسِكُمْ وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللهِ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرِفُهُمْ بِسِيْمُهُمْ ۚ لَا يَلُونَ النَّاسَ الْحَافًا وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِه عَلِيمٌ (البقره: ۲۶۸-۲۷۴) یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ البقرہ کے ۳۷ ویں رکوع پر مشتمل ہیں اور ۲۶۸ سے لے کر ۲۷۴ تک آیات ہیں.ان آیات میں انفاق فی سبیل اللہ کی حکمت اور ان لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو انفاق فی سبیل اللہ سے ڈرتے ہیں یا پیچھے رہ جاتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ کا فلسفہ اور وہ تمام ضروری آداب ان آیات میں ہمیں سکھائے گئے ہیں جو انفاق فی سبیل اللہ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ سے تعلق رکھتے ہیں.ان آیات کے مطالعہ سے مجھے یوں محسوس ہوا جیسے چودہ سوسال پہلے کسی نے جماعت احمدیہ کے آج کل کے حالات کو سامنے دیکھ کر اس کی تصویر اتاری ہو اور جماعت کے دشمنوں کی بھی کچھ جھلکیاں اس میں دے دی گئی ہوں کہ ان کا کیا حال ہے اور ان لوگوں کا کیا حال ہے؟ بڑے بڑے اچھے دنیا میں مصور ہوتے ہیں جو عکاسی میں کمال کر دیتے ہیں، تصویر کشی کو حد انتہا تک پہنچا دیتے ہیں لیکن جیسی تصویر کشی قرآن کریم نے فرمائی ہے اس کی کوئی مثال دنیا میں اور نظر نہیں آتی.تصویر کشی کا کمال صداقت کے ساتھ تعلق رکھتا ہے سچائی اور تصویر کشی کا گہرا تعلق ہے جتنا سچا آرٹسٹ ہوگا اتنی اعلیٰ درجہ کی اس کی تصویر ہوگی اور کوئی آرٹسٹ بھی سچائی کا حق ادا کر نہیں سکتا کیونکہ وہ عالم الشهادة تو ہو جاتا ہے کسی حد تک عالم الغیب نہیں ہوتا اس لئے مناظر کی سطحیں تو وہ بھینچ لیتا ہے، مناظر کے پس پردہ کیفیات اس کی نظر اور اس کے قلم سے اوجھل رہتی ہیں مگر ہمارا خدا وہ عـــالــم الغَيبِ وَ الشهادة خدا ہے جو ظا ہر کو بھی دیکھتا ہے اور اس کی بھی تصویر کشی کرتا ہے اور باطن پر بھی نظر رکھتا ہے اور بار یک در بار یک لطیف کیفیات کو بھی نظر سے اوجھل نہیں رہنے دیتا.قرآن کریم فرماتا ہے: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَنْفِقُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا كَسَبْتُما اے ایمان لانے
خطبات طاہر جلد۳ 537 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء والو! جو کچھ تم کماتے ہو ان میں سے طیبات خدا کے حضور پیش کیا کرو وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ اور ان چیزوں میں سے پیش کیا کرو جو خود ہم نے ہی تمہارے لئے زمین میں سے نکالی ہیں.انسان کے لئے زمین سے جو چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان میں سے وہ بہترین چیزیں خدا تعالیٰ نے انسان کے لئے مقدر کی ہیں اور طیبات کا فلسفہ اس میں بیان کیا کہ تم خدا کی طرف مال کو واپس لوٹاتے ہوئے طیب کو چنا کرو.کیونکہ زمین میں کروڑوں، اربوں قسم کی چیزیں پیدا کی گئی ہیں ان میں خبیث بھی ہیں اور طیب بھی اور جتنی طیب ہیں وہ ساری انسان کے لئے رکھی گئیں اور جتنی خبیث ہیں وہ دوسرے ادنی جانوروں کے کام آتی ہیں یہاں تک کہ انسان کا پھینکا ہوا فضلہ بھی دوسرں کے کام آتا ہے اور اس فضلے کو بھی دوسرے خدمت کر کے پھر طیب میں بدل رہے ہوتے ہیں.تو سارا نظام کا ئنات اگر آپ غور کریں تو خبیث کو طیب میں بدلنے کا ایک نظام ہے اور جب وہ طیب بن جاتا ہے تو پھر انسان کے حضور پیش ہو جاتا ہے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دو باتوں کو پیش نظر رکھنا ایک تو یہ کہ تم ہمیں نہیں دے رہے بلکہ ہم تمہیں دے رہے ہیں اور اگر ہم دینا بند کر دیں تو تمہارے پاس کچھ بھی نہیں رہے گا.اگر زمین اُگانا بند کر دے، اگر آسمان برسنا بند کر دے تو جن امور پر تم فخر کرتے ہو اور اپنا سمجھ رہے ہو ان میں سے کچھ بھی تمہارے پاس باقی نہ رہے اور پھر یہ بھی خیال رکھنا کہ ہم تمہیں بہترین دے رہے ہیں زمین میں سے تم ہمیں دیتے وقت ایسی خبیث چیز نہ دینا ایسی گندی چیزیں نہ دینا وَلَسْتُمْ بِاخِذِيهِ إِلَّا أَنْ تُغْمِضُوا فِيهِ کہ خود کوئی تمہیں پیش کرے تو شرم اور حیا سے تمہاری آنکھیں جھک جائیں یا چھپ کر لینا تو قبول کر لوسر عام لینا قبول نہ کرو.چنانچہ اکثر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے صدقات اور خیرات میں یہی طرز اختیار کی جاتی ہے کہ جو گندی چیز ہو جو کسی کام کی نہ رہی ہوا سے لپیٹ لپٹ کرتا کہ لینے والے کو بھی نہ پتہ لگے کہ کیا دیا جا رہا ہے اس طرح پیش کر دیا جاتا ہے کہ گھر جاتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ کیا چیز تھی.تُغْمِضُوا کا خیال تو اب دینے والے رکھنے لگ گئے ہیں.پہلے زمانے میں شاید انسان کی یہ کیفیت ہوتی تھی کہ کھلم کھلا دے دیا کرتا تھا کہ یہ کمزوری ہے اس میں چاہتے ہو تو لے لو تو اس وقت نگاہیں نیچی کرنے کا سوال تھا اب ایسے ایسے بھی پیدا ہو چکے ہیں انسان جو دیتے وقت اس طرح لپیٹ دیتے ہیں کہ کسی کو
خطبات طاہر جلد ۳ 538 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء آنکھیں نیچی نہ کرنی پڑیں.چنانچہ ایک میراثی بیچارے کے متعلق آتا ہے قصہ کہ کسی چوہدری نے اس کو پگڑی لپیٹ کر دی جو پلو با لکل صاف تھا وہ اوپر لپیٹ دیا اور یہ نہیں پتہ لگ رہا تھا کہ اندر ہے کیا.تو جا کے اس نے کھولی تو وہ تو ساری سوراخ سوراخ تھی جہاں سے ہاتھ پڑتا تھا وہ پھٹنے لگ جاتی تھی.خیر میراثی بھی اپنا انتقام لے لیا کرتے ہیں.دوسرے دن وہ حاضر ہوا اور اس نے پگڑی اسی طرح لپیٹ کر واپس پیش کی کہ حضور یہ پگڑی واپس لے لیں یہ تو بہت اونچی ہے مجھ سے، یہ تو بہت بزرگ پگڑی ہے مجھے سونے نہیں دیا ساری رات لا اله الا اللہ پڑھتی رہی ایک منٹ خاموش نہیں ہوئی.تو چوہدری نے کہا بیوقوف لا اله الا اللہ پڑھتی رہی محمد رسول اللہ نہیں پڑھا، اس نے کہا نہیں ! حضور سے پہلے کی تھی ، اس زمانہ سے پہلے کی ہے.تو یہ ہے وہ انسان کا طریق خدا کی راہ میں پیش کرنے کا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تو خبیث چیزیں نہیں بلکہ طیب چیزیں تمہیں دیتے ہیں تمہاری خبیث پھینکی ہوئی چیزوں کو بھی ہمارا سارا نظام خدمت کے طور پر مسخر ہوتا ہے اور اسے صاف کر کے طیب بنا بنا کر پھر تمہیں پیش کرتا چلا جاتا ہے اور تم ہماری طیب دی ہوئی چیزوں کو خبیث بنا بنا کر ہمارے سامنے پیش کرتے ہو کچھ حیا تو کرو اس لئے جب ہمارے حضور پیش کیا کرو تو یا درکھنا کہ ہم ہی تمہیں دینے والے ہیں اور ہم تمہیں بہترین دینے والے ہیں اس لئے بھی تم بہترین کر کے واپس ہماری خدمت میں پیش کیا کرو.وَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ غَنِيٌّ حَمِيدٌ اور یا درکھو خدا تعالیٰ غنی ہے یعنی اس کو مال کی ضرورت نہیں ہے اور حمید ہے وہ صاحب تعریف ہے اس کا طبیب سے تعلق ہے.جو حمید ہو اس کو طیب کے سوا کچھ پہنچ ہی نہیں سکتا اور جوغنی ہو وہ ویسے مال سے مستغنی ہے.تمہارا رکنا، تمہارانہ دینا، کچھ بھی خدا کے خزانے میں کمی پیدا نہیں کر سکتا.اس کے اور مقاصد ہیں اور وہ مقاصد پھر اب خدا تعالی بیان فرماتا ہے کہ ہم جو تم سے راہ خدا میں خرچ کرنے کی توقع رکھتے ہیں، تمہیں ہدایت دیتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ دو قسم کے نظام خدا تعالیٰ نے اب یہاں بیان فرمائے ہیں ایک شیطانی نظام اور ایک رحمانی نظام.فرماتا ہے الشَّيْطَنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور ساتھ ہی وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاء اور ساتھ تمہیں فحشا کا حکم بھی دیتا ہے.
خطبات طاہر جلد۳ 539 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء اس میں غیر اللہ کے اخراجات اور ان کے رجحان کی بہت ہی پیاری تصویر کھینچی گئی ہے.پیاری ان معنوں میں کہ مکمل تصویر ہے اور گہری تصویر ہے.تو حیرت کے ساتھ آپ اس آیت کو غور سے پڑھیں اور سنیں تو حیرت کے ساتھ دیکھیں گے کہ کس تفصیل کے ساتھ ان لوگوں کا نقشہ کھینچا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق نہیں پاتے.ایک طرف تو شیطان ان کو فقر سے ڈراتا ہے کہ تمہارے پاس کیا رہے گا دوسری طرف ایسے اخراجات پر اکساتا ہے جو انسانی ضروریات سے زائد بلکہ مضر ہیں یعنی فحشا کی تعلیم دیتا ہے، ان کو گندی اور بے حیا زندگی بسر کرنے پر اکساتا ہے اور ساتھ یہ ڈراتا ہے کہ اگر تم نے کچھ راہ خدا میں خرچ کیا تو یہ عیش پھر کیسے کرو گے؟ تو یہ معنی ہیں اَلشَّيْطنُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ تمہیں حکم یہ دیتا ہے کہ فحشا کی زندگی بسر کرو اور فحشا کی زندگی بسر کرنے کیلئے تو پھر پیسے زیادہ چاہئیں راہ خدا میں خرچ کرنے والے بیچارے کہاں سے وہ پیسے سمیٹیں گے اور کہاں سے پیسے بچائیں گے عیاشیوں کے لئے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کا یہ طریق کار ہے دو طرح سے تمہیں مارتا ہے ، راہِ خدا میں خرچ سے روک دیتا ہے، تمہاری راہ میں کھڑا ہو جاتا ہے اور بدیوں کی زندگی پر اکساتا ہے ہر طرح سے تم اس کے مشورہ میں آکر مارے جاتے ہو.انفاق فی سبیل اللہ ا سکے بالکل برعکس نتائج پیدا کرتا ہے اور وہ تمہارے لئے ہیں، تمہارے اپنے فائدہ کے لئے ہیں.واللهُ يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاً ط بعض دفعہ قرآن کریم اس طرح مضمون ملاتا ہے کہ جو اول مذکور ہے اس کو اوّل سے ملا دیتا ہے جو بعد میں ذکر ہوا ہے اس کو بعد سے ملا دیتا ہے.لف و نشر مرتب کہتے ہیں یعنی اسی ترتیب سے ذکر کرتا ہے.بعض دفعہ آخری لفظ کو پہلے لے لیتا ہے اور پہلے بیان کردہ کو بعد میں لے لیتا ہے اور اس میں ایک حکمت ہوتی ہے چنانچہ یہاں یہی دوسرا طریق اختیار فرمایا ہے.شیطان نے فقر یعنی غربت اور تنگ دستی کا ڈراوا دیا.اس کے مقابل پر فضل آتا ہے لفظ یعنی خدا کثرت سے تمہیں عطا فرمائے گا، تمہاری دولت کو بڑھائے گا، تمہارے رزق میں برکت دے گا تو یہاں ”فضل“ کو خدا نے بعد میں رکھا اور فحشا کے مقابل پر جو مغفرت آتی ہے مغفرت کا پہلے ذکر کر دیا یعنی شیطان تو فقر سے ڈراتا ہے اور فحشا کا حکم دیتا ہے اللہ تعالیٰ مغفرت کا وعدہ کرتا ہے اور فضل کا وعدہ کرتا ہے.تو ترتیب الٹ دی ہے مضمون کی اور اس میں ایک گہری حکمت ہے.سب سے اہم بات مغفرت ہے خدا کے نزدیک دنیا
خطبات طاہر جلد ۳ 540 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء کی دولت اور پیسے یہ کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتے اللہ کی مغفرت کے مقابل پر.پس جہاں قدر اور منزلت کے لحاظ سے اول اور آخر کو اختیار کیا جاتا ہے ترجیح دی جاتی ہے.وہاں یہی بہتر ہے کہ جو اعلیٰ درجہ کی چیز ہو، مناسب ہو ، سب سے اوپر کا مقام رکھتی ہو پہلے اس کا تذکرہ ہو پھر بعد میں نسبتاً دوسری چیز کا ذکر ہو.تو ترجیحات قائم کی گئیں ہیں مال میں اور مغفرت میں.شیطان کو چونکہ مال زیادہ عزیز ہے اور دنیا کی دولتیں اس کی نظر میں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں اور شیطانی گروہوں کو بھی ، اس لئے مادہ پرستی سے ہی سب فحشا پھوٹتے ہیں اور مادہ پرستی اول ہے ہر بیماری کی جڑ.چنانچہ وہاں مال کا پہلے ذکر کر دیا اور باقی چیزوں کا بعد میں ذکر فر مایا ایک تو یہ حکمت ہے کہ مغفرت کی اہمیت ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ فحشا کی تعلیم دیتا ہے اور میں تمہیں مغفرت کی طرف بلاتا ہوں یعنی بجائے اس کے کہ گناہوں میں آگے بڑھائے اسلام کی تعلیم جو گناہ تم سے پہلے سرزد ہو چکے ہیں ان کے بوجھ بھی کم کرتی ہے، ایسے رستوں کی طرف بلاتی ہے کہ جس سے تمہارے گناہ بخشے جائیں تو جب تم اموال خرچ کرتے ہو اللہ کی راہ میں اسکا سب سے بڑا اہم فائدہ تمہیں یہ پہنچتا ہے کہ تمہارے گناہ بخشے جاتے ہیں اور تمہیں مغفرت نصیب ہوتی ہے اور آخر پر جا کر اس مضمون میں ایک اور نئی بات بھی پیدا فرما دی وہ اسکا موقع پر آکر ذکر کرونگا.b = وَفَضْلاً اور فضل بھی ملتا ہے اللہ کی طرف سے غربت نہیں آیا کرتی خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر، یہ ضمناً ذکر فرما دیا.اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہیں اتنی دولتیں عطا ہوں گی، اتنے اموال دیئے جائیں گے کہ شیطان ہر لحاظ سے جھوٹا ثابت ہوگا.تم شیطان کا انکار کرو تو تم فقر کا انکار کر رہے ہو گے، تم شیطان کا انکار کرو تو تم فحشا کا انکار کر رہے ہو گے اور اس کے برعکس نتائج تمہارے سامنے ظاہر ہونگے تمہیں اللہ تعالیٰ مغفرت بھی عطا فرمائے گا اور دولتیں بھی عطا کرے گا.دوسری حکمت اس ترتیب میں یہ نظر آتی ہے کہ وہ دولت جو مغفرت کے بغیر آئے وہ تو تباہی کا موجب بن جایا کرتی ہے.پہلے گناہ صاف ہونے چاہئیں پھر دولتیں نصیب ہونی چاہئیں، پہلے رجحانات درست ہونے چاہئیں.تقوی آنا چاہئے ، اللہ تعالیٰ کی محبت بڑھنی چاہئے پھر دولت آئے تو وہ نعمت ہی نعمت ہے لیکن اگر دولت پہلے آ جائے تو پھر وہ دولت مغفرت کی راہ میں حائل ہو جایا کرتی ہے یعنی ایسی دولت جو تقویٰ کے بغیر ہو.تو اس ترتیب سے اس مضمون کو بھی خدا تعالیٰ نے بیان فرما دیا
خطبات طاہر جلد ۳ 541 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء يَعِدُكُمْ مَّغْفِرَةٌ مِّنْهُ وَفَضْلاً خدا کہتا ہے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی عادت ڈالو تمہیں مغفرت نصیب ہو تمہیں مال کی محبت کم ہو جائے دلوں میں اور تم تقویٰ کی زندگی اختیار کرو پھر خدا کی طرف سے جو اموال آئیں گے وہ برکتیں لے کر آئیں گے، وہ رحمتیں لے کے آئیں گے، وہ تمہارے لئے ابدی سکون کی جنت لے کر آئیں گے.وہ تمہاری دنیا بھی سنوار دیں گے اور تمہاری آخرت بھی سنوار دیں گے مگر مال پہلے آجائیں اور دل کی حالت میں پاک تبدیلی نہ ہو یہ باتیں مصر ہیں اور نقصان دہ ہیں.پس جب خدا تعالیٰ الہی جماعتوں کو خطرات میں سے گزارتا ہے اور ابتلاؤں میں سے گزارتا ہے اور پھر ان کو خرچ کرنے کی طرف بھی بلاتا ہے کہ ان خطرات اور مصیبتوں اور مشکلات کے وقت میں میری راہ میں اور خرچ کرو تو عملاً یہ ایک ایسے دور کی خوشخبری ہے جو بہت ہی رحمتوں اور برکتوں والا دور بعد میں آنے والا ہے اور اس سے پہلے دلوں کے زنگ دور ہو رہے ہیں اور صفائیاں ہو رہی ہیں.جس طرح جلسہ سالانہ میں مہمانوں کے آنے سے پہلے ہم دیگیں صاف کروایا کرتے تھے کہیں وہ تیز اب دھل رہے ہیں ان کے اندر تو کہیں قلعی ہو رہی ہیں اور صفائیاں ہر قسم کی.تو بہت کثرت سے چیز ملنی ہو تب یہ صفائیاں ہوا کرتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم اس لئے کر وار ہے ہیں مغفرت کا انتظام کہ تمہیں ہم بہت دینے والے ہیں سنبھالا نہیں تم سے جائے گا.اگر مغفرت سے پہلے تمہیں دے دیا تو پھر تم مارے جاؤ گے.پھر تمہارا حال انہی قوموں کی طرح ہو جائے گا جن کو دولتیں ملیں لیکن ان کی دنیا بھی مٹائی گئیں اور انکی آخرت بھی مٹائی گئی.وَاللهُ وَاسِعٌ عَلِیم اللہ تعالی تنگی ڈالنے کے لئے تم سے نہیں لے رہا وسعتیں عطا کرنے کے لئے لے رہا ہے.گویا خدا کی راہ میں جتنا خرچ کرو گے اتنا تمہیں وسعتیں نصیب ہونگی ہر جہت میں وسعتیں نصیب ہوگی تمہارا مال بھی بڑھے گا، تمہارا رعب بھی بڑھے گا تمہارے نفوس میں بھی برکت پڑے گی ، نئے خطے تمہیں نصیب ہونگے ، تمہارے مکانوں کو وسیع کیا جائے گا، تمہارے تعلقات وسیع ہونگے.گویا ہر پہلو سے اللہ تعالیٰ کو تم واسع پاؤ گے اور عَلِیمٌ.عَلِیم ان معنوں
خطبات طاہر جلد ۳ 542 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء میں کہ اس کو علم ہے کہ کس حد تک وسعت عطا کرنی ہے کس حد تک نہیں کرنی اور آنکھیں بند کر کے، جذبات میں آکر وہ وسعتیں دینے والا نہیں ہے بلکہ علم کی بنا پر جانتے ہوئے کہ کون سی وسعت کیا نتیجہ پیدا کرے گی وہ وسعتیں عطا فرماتا ہے.تُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَشَاءُ یہ حکمت کی باتیں ہیں چنانچہ فرماتا ہے جسے چاہتا ہے وہ حکمت عطا کرتا ہے اور اگر آپ غور کریں تو انسانی زندگی کا جو اموال سے تعلق ہے اور دونوں قسم کے جو تعلقات ہیں وہ کیا نتائج پیدا کرتے ہیں.ان پر آپ غور کریں تو آپ کے سامنے تمام انسانی تاریخ کو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے کھول کر رکھ دیا ہے اور ماضی کو نہیں مستقبل کو بھی کھول کر رکھ دیا ہے.آج کل تو بالکل یوں نظر آتا ہے جس طرح جماعت احمدیہ کو سامنے ملحوظ رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ انسانی فطرت کا نقشہ کھینچ رہا ہے کہ کچھ لوگ اس طرح عمل کیا کرتے ہیں ، کچھ اس طرح عمل کیا کرتے ہیں، کچھ لوگ گندگیاں تقسیم کر رہے ہیں خدا کی راہ میں پھٹے ہوئے کپڑے دے رہے ہیں، کچھ ہیں جو اپنے زیورا تارا تار کر پیش کر رہی ہیں عورتیں اور پھر بھی ان کے دل کو چین نہیں ملتا.ایک نگ بھی باقی رہ جائے تو ان کا دل کڑھتا رہتا ہے کہ کاش ہمیں اجازت ہوتی تو ہم یہ بھی پیش کر دیتے.یہ جو دو فریق ہیں ان کے نقشے اتنے کھل کر سامنے رکھے گئے ہیں کہ اگر کسی نے صداقت کو پہچاننا ہو تو انفاق فی سبیل اللہ کرنے والوں کو دیکھے، خدا کے نام پر کون کس طرح خرچ کر رہا ہے؟ جس کا نقشہ ان آیات کے مطابق ہوگا اس کو خبیث آپ نہیں کہہ سکتے.اس کو گندے لوگ نہیں کہہ سکتے ،اس جماعت کو.جس کا نقشہ دوسری جہت پر ہو گا جو قرآن کریم نے خود کھینچا ہے ان کو آپ پاک باز نہیں کہہ سکتے ان کو خدا والے نہیں کہہ سکتے.تو جس طرف بھی آپ نظر ڈالیں آپ کو صداقت کا پہچاننا کوئی مشکل نہیں ہے قرآن کریم نے خوب کھول کھول کر یہ مضامین بیان فرمائے ہیں.چنانچہ ایک ایسی عورت کا بھی ہمیں اپنی سوسائٹی میں ذکر ملتا ہے اور یہ کسی احمدی کا بنایا ہوا لطیفہ نہیں ہے یہ تو مشہور عام ہے کہ ایک بی بی نے ایک مولوی صاحب کو گاؤں کے جو مولوی ہیں ان کو کھیر بھیجی ایک مٹی کے برتن میں اور وہ جب کھیر لے کر گیا تو اس کے مولوی صاحب تو بڑے متعجب ہوئے کیونکہ ان کو اکثر تو وہ بچی ہوئی روٹیاں اور باسی سالن وغیرہ دیا کرتی تھی.تو مولوی صاحب نے کہا کہ آج کیا بات ہے؟ خیر ہے گھر میں کوئی مبارک بات ہے کہ آج کھیر آگئی ہے وہاں تو بچہ بیچارہ
خطبات طاہر جلد۳ 543 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء معصوم تھا اس نے کہا نہیں مولوی صاحب وہ کتا منہ ڈال گیا تھا اس میں اس لئے امی نے بجھوادی.مولوی صاحب کو غصہ آیا انہوں نے اٹھا کر برتن پھینکا، مٹی کا برتن تھا ٹوٹ گیا تو بچہ رونے لگا کہ مولوی صاحب آپ نے تو مروا دیا مجھے واپس جاؤں گا امی ماریں گی کہ اب منے کو پیشاب کس چیز میں کروایا کریں گی اسی برتن میں کرایا کرتی تھیں.تو ایک خدا کے نام پر ایسا حیا نہ خرچ بھی ہے کہ جن کو تم قوم کا معزز سمجھتے ہو ، جن کے ہاتھ میں اپنے دین کی لگام دی ہوئی ہے تم نے ہم سمجھتے ہو کہ جن کی باتوں پر اعتماد کر کے تمہارے لئے جنت یا جہنم کے فیصلے ہوں گے جو عملاً حقیقت میں قوم کے سردار کہلانے چاہئیں ان کو تم خدا کے نام پر یہ خبیث چیزیں دیتے ہو اور پھر کہتے ہو کہ تم خدا والے ہو اور ایک طرف احمدی خواتیں ہیں کہ جن کو نفرتیں ہوگئی ہیں اپنے زیوروں سے.بعض ایسی ہیں جن کے مرحوم ماں باپ نے بڑی محنت اور پیار کے ساتھ نشانیاں دی تھیں اور نشانیاں اتارا تار کر گلوں سے پھینک رہی ہیں اور اپنے ہاتھوں سے اتار کر پھینک رہی ہیں اور اس کثرت کے ساتھ ایسی اطلاعیں مل رہی ہیں کہ ان کا بیان ہی ممکن نہیں.وہ کہتے ہیں یہ جو ہماری سب سے اچھی چیز ہے یہ ہم خدا کو پیش کرنا چاہتے ہیں.کہاں یہ جماعت کہاں وہ جماعت اور یہ آیت ہے اس کو پڑھ لیں دوبارہ اور نقشہ دیکھ لیں کہ خدا تعالیٰ کا کلام کس جماعت کو اپنی جماعت قرار دے رہا ہے اور کس جماعت کو دوسروں کی جماعت قرار دے رہا ہے؟ فرماتا ہے تُؤْتِي الْحِكْمَةَ مَنْ يَّشَاءُ یہ حکمت کا کلام ہے ہم جسے چاہیں عطا کریں وَ مَنْ يُؤْتَ الْحِكْمَةَ فَقَدْ أُوتِ خَيْرًا كَثِيرًا اور حکمت ہی اصل دولت ہے.وہ خیر جوفضل کی صورت میں بعد میں تمہیں ملے گی اس میں تو تمہیں دلچسپی اب کوئی نہیں رہی ہم حکمتیں جو تمہیں عطا کر رہے ہیں اور تمہیں حکمتوں کا عاشق بنا دیا ہے ہم نے تو دیں گے تو ہم ضرور لیکن اعلیٰ مقاصد میں خرچ کی خاطر، تمہاری تمنا پوری ہوگی حکمتوں کے نتیجہ میں جو ہم تمہیں عطا کرتے ہیں کیونکہ تمہارے نزدیک سب سے بڑی دولت اللہ کی طرف سے عطا کردہ حکمت ہے اور یہ باتیں صاحب عقل لوگوں کے سوا کسی کو نہیں سمجھ آیا کرتیں.فرماتا ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ تم خدا کی راہ میں جو خرچ کرتے ہو تو وہ خرچ کسی کے علم میں بھی آیا ہے کہ نہیں تو اللہ فرماتا ہے وَمَا أَنْفَقْتُمْ مِنْ نَفَقَةٍ جو تم خرچ
خطبات طاہر جلد۳ 544 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء کرتے ہو او نَذَرْتُمْ مِّنْ نَّذْرٍ اور جو خرچ کی تمنا رکھتے ہو تمہارا دل چاہتا ہے کہ کریں اور نہیں ہوتا پھر تم نذریں مانتے ہو کہ اے خدا! یہ ہمیں مل جائے تو ہم یہ خرچ کریں گے وہ مل جائے تو وہ خرچ کریں گے.فرماتا ہے کہ کئے ہوئے خرچ پر بھی خدا کی نظر ہے اور اس خرچ پر بھی نظر ہے جس کی حسرتیں تم دلوں میں رکھتے ہو، جن کی تمنائیں لئے ہوئے ہو گویا دونوں خدا نے مقبول کر لئے.يعلمہ کا یہ مطلب نہیں کہ صرف نظر ہے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم میں آیا گویا خدا کومل گیا تمہاری طرف سے.وَمَا لِلظَّلِمِينَ مِنْ اَنْصَارٍ اور ظالموں کے لئے تو کوئی مددگار نہیں ہوا کرتا مراد یہ ہے تمہارے لئے تو ضرور مددگار آئیں گے.ہم تو ظالموں کو نہیں مدد دیا کرتے لیکن ایسے پیاروں کو جو ہماری خاطر خرچ کرتے ہیں اور پھر خرچ کی اتنی تمنار کھتے ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہم ان کو مدد کے بغیر چھوڑ دیں.اِنْ تُبْدُوا الصَّدَقَتِ فَنِعِمَّا هِيَ وَاِنْ تُخْفُوهَا وَتُؤْتُوهَا ط الْفُقَرَاءَ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ وَيُكَفِّرُ عَنْكُمْ مِنْ سَيَاتِكُمْ * اب صدقات تم اگر کھلم کھلا پیش کرو تا کہ لوگوں میں تحریک پیدا ہو اور خدا کی راہ میں ایک دوسرے سے بڑھ کر اموال خرچ کئے جائیں تو یہ بھی بہت اچھی نیت ہے اور اگر تم چھپا کر غریبوں میں وط اس طرح دو کہ کسی کی نگاہ نہ پڑے تو یہ بھی تمہاری لئے بہتر ہے.خَيْرٌ لَّكُمْ سے مراد یہ ہے کہ تمہیں اس خطرہ سے بچائے گی یہ بات کہ تم میں ریا پیدا ہو جائے، تم میں دکھاوا آ جائے اور بظاہر نیکی پر خرچ کر رہے ہو لیکن عملاً اپنی انانیت کے او پر خرچ کر رہے ہو ان خطرات سے بچ جاؤ گے.وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرٌ اور جس طرح بھی تم خرچ کرو گے یہ یاد رکھ لینا کہ اللہ کی اس پر نظر ہے.تو ظاہر کا خرچ بھی اور باطن کا خرچ بھی یہ دونوں خرچ تب مقبول ہوں گے اگر اس طریق پر کئے جائیں کہ انسان واقف ہو اس بات سے کہ خدانظر رکھتا ہے اور خدا کی نظر کو لوظ رکھتے ہوئے اگر ہم کھلم کھلا خرچ کریں تو اس کو ریا کاری نہیں کہا جا سکتا کیونکہ ریا کاری تو خدا کے سامنے اس طرح غائب ہو جاتی ہے جس طرح شبنم اڑ جاتی ہے سورج کو دیکھ کر.جس کی توجہ خدا کی طرف ہو کہ اللہ میرے معاملات سے باخبر ہے، میری روح کی پاتال تک نظر رکھتا ہے، وہ جب کھلم کھلا خرچ بھی کرتا ہے تو خدا کی نظر کی خاطر کرتا ہے.اس وجہ سے تا کہ قوم میں تحریک پیدا ہوا ایک عام رجحان پیدا ہو جائے اور
خطبات طاہر جلد ۳ 545 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء جب وہ چھپ کر کرتا ہے تو تب بھی جانتا ہے کہ میں اپنی کسی چیز کو خدا سے چھپا نہیں سکتا.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے لَيْسَ عَلَيْكَ هُدُهُمْ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَنْ يشَاءُ کہ اے محمد ہے تجھے پر ان کی ہدایت نہیں ہے تجھے ہم نے ذمہ دار نہیں ٹھہرایا اگر وہ ہدایت نہیں پائیں گے تو تجھ پر کوئی گناہ نہیں وَلكِنَّ اللهَ يَهْدِي مَنْ يَشَاءُ کیونکہ خدا تعالیٰ بہت باریک بین ہے اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی باریک در بار یک نیتوں سے واقف ہے اس لئے وہی فیصلے کیا کرتا ہے کہ کون اس لائق ہے کہ اس کو ہدایت دی جائے اور کون اس لائق ہے کہ ہدایت نہ دی جائے.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرِ فَلا نُفُسِكُمْ فرماتا ہے جو کچھ بھی خرچ کرتے ہو ہم تمہیں دوبارہ بتا دیتے ہیں کہ اس میں سے ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جو جسمانی اور مادی لحاظ سے خدا کو پہنچ جائے فَلا نُفُسِكُم وہ بالآخر تمہارے اندر خرچ ہوتا ہے یاوہ تمہاری انفرادی بھلائی کے لئے خرچ ہوتا ہے یا وہ تمہاری قومی بھلائی کے لئے خرچ ہوتا ہے.قومی زندگی نصیب ہوتی ہے، قوم کو طاقت عطا ہوتی ہے تو تم جو سوچ رہے تھے کہ ہم خدا کو دے رہے ہیں تو یہ دماغ سے نکال دو بالکل کہ عملاً اس کا کچھ حصہ مادی لحاظ سے خدا کو پہنچ رہا ہے.تمہاری اپنی تقویت کا موجب ہے.وہ قو میں جو خرچ کرتی ہیں قومی لحاظ سے ان کی کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں.ان میں عظیم الشان طاقتیں پیدا ہو جاتی ہیں اور وہ افراد جن پر اب تو میں خرچ کیا کرتی ہیں ان افراد کی بھی حالتیں بدلنے لگتی ہیں ان لوگوں میں فقیر نہیں رہتے ، ان لوگوں میں مسکین نہیں رہتے ، رفتہ رفتہ ساری قوم کی حالت بدل جاتی ہے.تو فرمایا سب کچھ یاد رکھو کہ تمہارے لئے ہے لیکن ایک بات ہم تمہیں بتا دیتے ہیں ہمارے لئے کیا ہے ایک چیز ہمارے لئے بھی ہے.وَمَا تُنْفِقُونَ إِلَّا ابْتِغَاء وَجْهِ اللهِ ہمارے لئے یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ تم نے قوم کی خاطر خرچ نہیں کیا تھا تم نے ہماری خاطر کیا تھا تم نے جو کچھ دیا تھا ہماری محبت میں دیا تھا.یہ وہ چیز ہے جو ہمیں پیاری ہے اور یہ ہمارے لئے ہے اور ہم اس کے نتیجہ میں ایک اور وعدہ بھی تم سے کرتے ہیں کہ چونکہ تم نے ہماری خاطر خرچ کیا تھا.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ تم نے جو کچھ بھی خرچ کیا ہے ہماری راہ میں اگر چہ پہلے ہی وہ تمہیں فائدہ پہنچارہا ہے، تمہارے اپنے لئے ہے لیکن اس وجہ سے کہ ہماری خاطر تھا ہمارا نام بیچ میں آ گیا ، ہم تم سے یہ بھی وعدہ کرتے ہیں کہ اس کی پائی پائی
خطبات طاہر جلد ۳ 546 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء تمہیں واپس لوٹائی جائے گی.وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کو بظاہر تو یہ مطلب ہے تم ظلم نہیں کئے جاؤ گے مگر عربی میں یہ محاورہ ہے جس طرح انگریزی میں بھی ہے کہ نفی جتنی مضبوط ہوا تنا ہی زیادہ مثبت معنی آجاتے ہیں.وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُونَ کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تم سے نا انصافی نہیں کی جائے گی لا تُظْلَمُونَ کا مطلب یہ ہے تمہیں اس کثرت سے دیا جائے گا کہ گویا تم سے سنبھالا نہ جائے.بالکل بر عکس معنی ہے اس کا نا انصافی کا تو سوال ہی کوئی نہیں تُوَفَّ إِلَيْكُمُ میں وہ نا انصافی والا حصہ پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا.یوف کا مطلب ہے پورا پورا تمہیں دے دیا جائے گا.جب پورا پورا دے دیا گیا تو پھر نا انصافی کا کیا سوال ہے؟ لَا تُظْلَمُونَ کا مطلب یہ ہے کہ اس سودے میں تم یہ دیکھو گے کہ تم گھانا کھانے والے نہیں ہو بہت کثرت سے تمہیں خدا تعالیٰ عطا فرمائے گا.لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ یہاں ایک معنی معروف اس آیت کا یہ ہے کہ یہ خرچ جو تمہارے لئے معنوں میں تمہارے لئے ہے؟ فَلا نُفُسِكُم كن لِلْفُقَرَاءِ الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ یہ ان غریبوں کو عطا ہو گا قوم کی طرف سے ان کے او پر خرچ کیا جائے گا.الَّذِيْنَ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللہ جن کو خدا کی راہ میں چلنے کی بھی مقدرت نہیں رہی، گھیرے پڑ گئے ہیں ، قوم نے ان کے لئے نجات کی راہیں بند کر دی ہیں.يَسْتَطِيعُونَ ضَرْبًا فِي الْأَرْضِ ان کو یہ بھی اجازت نہیں کہ وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلے جائیں.يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ أَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّفِ تعفف کی وجہ سے جاہل ان کو امیر سمجھ داردج.رہا ہے.تَعْرِفُهُمْ بِیمُهُمْ تو ان کے چہروں کی نشانیوں سے ان کو پہچانتا ہے لَا يَسْتَلُونَ النَّاسَ الْحَافَا وہ کسی انسان سے مانگتے نہیں پیچھے پڑ کر.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ جو تم خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہو اللہ اس سے واقف ہے.تو ایک معنی تو معروف یہ ہے کہ یہ خرچ جو تم کرتے ہو خدا کی راہ میں یہ بالآخر قوم کے غریبوں ، قوم کے کمزوروں کو پہنچتا ہے ان میں طاقت پیدا ہوتی ہے لیکن ایک اور معنی بھی یہ ہے جو نہایت اعلیٰ درجہ کا معنی اول درجہ کے خدا کے مخلصین کے لئے ہے وہ یہ ہے:
خطبات طاہر جلد ۳ 547 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ يُوَفَّ إِلَيْكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أَحْصِرُوا تمہیں خدا کثرت سے جو دے گا وہ کن لوگوں کو عطا ہو گا قوم کے ان غریبوں کو جو خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے والے ہیں اور خدا کی راہ میں گھیرے میں آگئے ان لوگوں کے لئے خدا اپنے خزانے کھول دے گا اور اس کثرت سے ان کو عطا کرے گا کہ گویا ان سے سنبھالا نہ جائے اور ان کی راہیں کشادہ کی جائیں گی.واسع کا اب معنی سمجھ آیا پوری تفصیل سے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا کی راہ میں تنگ کیا جارہا ہے مالی لحاظ سے بھی ، عزتوں کے لحاظ سے بھی اور زمین کی کشادگی کے لحاظ سے بھی زمین تنگ کر دی گئی ہے.نکلنے کی راہیں بند کی جارہی ہیں، ہر مصیبت سے نکلنے کی راہ بند ہونا بھی اس میں مراد ہے صرف ظاہری طور پر ہجرت مراد نہیں بلکہ ہر مشکل میں پھنسا کر پھر یہ کوشش کرنا کہ اس مشکل میں انسان اٹکار ہے، نکل کر باہر نہ بھاگ سکے.سیہ وہ رجحان ہے جو اس وقت جماعت احمد یہ قوم میں ہر طرف سے دیکھ رہی ہے.اس نقشہ کو کھینچ کر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان لوگوں کے لئے میں عطا لے کر آؤنگا اور ہر کوشش جوان کوننگ کرنے کی کی جارہی ہے اسے ناکام بنا کر برعکس نتیجہ پیدا کرونگا.تو چونکہ اُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللهِ کا مضمون آنا تھا اس لئے واسطح پہلے ہی فرما دیا کہ اللہ تعالیٰ تمہیں تنگ نہیں رہنے دے گا، تمہاری زمینیں تنگ کی جائیں گی خدا کشادہ زمینیں عطا کرے گا تمہیں ایک ملک میں روکا جائے گا خدا نئے نئے ملک تمہیں عطا کرے گا تمہارے رزق کی راہیں تنگ کی جائیں گی اللہ تمہارے رزق کی راہیں کشادہ فرما دے گا.اور علیم کے معنی یہاں یہ ہیں کہ بظاہر عام انسان کی نظر اس وقت نہیں جاسکتی ان حالات تک کیونکہ ظاہری حالات کو دیکھو تو یہ نتیجہ نکلنا ہی نہیں چاہئے.علیم ہے خدا تعالیٰ یہ آئندہ ہونے والا واقعہ ہے جس کو بتا رہا ہے ان حالات میں تو تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ ایسی قوم کے ساتھ یہ مختلف سلوک ہوگا اور بالکل برعکس صورت میں ان کے ساتھ معاملہ کیا جائے گا.چونکہ اللہ تعالیٰ علیم ہے وہ جانتا ہے اس لئے بتا رہا ہے کہ یہ ہوکر رہے گا.يَحْسَبُهُمُ الْجَاهِلُ اَغْنِيَاءَ مِنَ التَّعَفُّف اس کا تر جمہ عموما یہ کیا جا تاہے اور یہ بھی درست ہے کہ جاہل لوگ ان کو اپنے غنائے نفس کی وجہ سے التَّعَفُّف سے مراد لی جاتی ہے غنائے نفس یعنی
خطبات طاہر جلد ۳ 548 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء سوال نہیں کرتے بچتے ہیں سوال سے اس وجہ سے اغنیاء سمجھ لیتے ہیں یعنی امیر سمجھ لیتے ہیں لیکن ایک اور معنی بھی اس آیت کا ہے اور وہ اصل اور حقیقی ہے اور جو پہلی آیات گزری ہیں ان کے ساتھ مطابقت کھانے والا معنی ہے.تعفف کا معنی ہے پاکیزگی جو فحشا کا برعکس ہے اور تعفف کا معنی ہے مستغنی ہونا یعنی کسی دوسرے کے احتیاج سے آزاد ہو جانا.تو یہاں الہبی جماعتوں کا ایک حیرت انگیز نقشہ کھینچا گیا ہے جو شیطانی کوشش کے بالکل برعکس ہے اور یہ اسی آیت کی ایک برعکس تصویر کھینچی گئی ہے جو پہلے گزرگئی ہے کہ شیطان تمہیں فحشا کی تعلیم دیتا ہے اور فقر سے ڈراتا ہے کہ تم نے تو فحشا کی زندگی اختیار کرنی ہے میں تمہارے دل میں تمنائیں پیدا کر چکا ہوں اور فقر اس کی راہ میں حائل ہو جائے گا اس لئے بچاؤ اور ایسے لوگ اپنی غربت کے ڈھنڈورے پیٹنے لگ جاتے ہیں بعض دفعہ اس ڈر کے مارے بیچارے کہ کوئی ہم سے مانگ نہ بیٹھے.کہتے ہیں جی اتنا نقصان ہو گیا لوگ کیا سمجھتے ہیں وہ لوگ سمجھتے ہیں جی بڑی تجارتیں ہیں یہ نہیں نا پتہ کہ آگے سے نقصانات کتنے کتنے ہوتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں بڑی تنخواہ مل رہی ہے لیکن پھر ٹیکس، پھر اخراجات ، پھر سفید پوشیاں.اچھا بھلا خدا نے رزق عطا کیا ہوتا ہے اور وہ تعفف وہ بھی اختیار کرتے ہیں برعکس قسم کا.فقر سے ڈر کر وہ خود اپنے فقر کے ڈھنڈورے پیٹتے رہتے ہیں کہ کہیں غریب نہ ہو جائیں اس لئے کیوں نہ خود ہی اپنے آپ کو غریب کہنا شروع کر دیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ جاہل دیکھو اپنے آپ کو خود فقیر بنا کر ظاہر کر رہے ہیں کہ مارے جائیں گے اگر ہم خرچ کریں گے یہ جو فرمایا ہے يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ شیطا تمہیں فقرے ڈراتا ہے اس کے یہی معنی ہیں کہ وہ اپنے آپ کو فقیر ظاہر کرتے ہیں ڈر کے مارے کہ ہم فقیر نہ ہوجائیں.دوسری طرف کچھ غریب بندے ہیں خدا کے اس کے در کے فقیر لیکن وہ اتنے پاک باز ہو چکے ہیں کہ ان کی ضروریات سکڑ گئی ہیں.نیکی اور تقویٰ کی وجہ سے زندگی کی زائد ضروریات میں ان کو دلچسپی نہیں ہے اور اس کی وجہ سے انہیں ایک اور تعفف نصیب ہوتا ہے یعنی فحشا کے برعکس ایک ہی لفظ رکھا جس نے دونوں معنی پیدا کر دیئے ، فحشا کے خلاف مضمون بھی ادا کر دیا اور فقر کے خلاف بھی مضمون دے دیا اس لفظ میں اور وہ دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ اپنی عصمت، اپنی پاکیزگی، اپنی قناعت نفس کی بنا پر امیر ہو جاتے ہیں.وہ دنیا کی احتیاج سے باہر نکل جاتے ہیں ان کو سوال کی حاجت ہی نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 549 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء رہتی کسی سے اور دنیا کہتی ہے بڑے امیر لوگ ہیں.چنانچہ جماعت احمدیہ کے متعلق بعینہ یہی ہو رہا ہے آجکل، بڑی بڑی تیل کی دولتیں ہیں لوگوں کو نصیب ، بڑی بڑی دنیا کی تجارتیں ہیں حکومتوں کے قبضہ میں اور انڈسٹریز ہیں بڑی بڑی امیر قومیں ہیں لیکن ان لوگوں سے بھی جب آپ بات کریں تو وہ کہتے ہیں جماعت احمد یہ بڑی امیر ہے.چنانچہ مجھے تعجب ہوا مجھ سے کئی ملنے والے آتے رہتے یہاں جب سنتے ہیں کہ میں یہاں آیا ہوا ہوں تو انگلستان کے بعض بڑے بڑے فہم والے لوگ اور بعض دفعہ امریکہ کے بھی دوسرے ممالک کے بھی یہاں آتے ہیں تو ملتے ہیں.احمدیوں کو عادت ہے وہ بتا دیتے ہیں کہ فلاں شخص آیا ہوا ہے اور شوق بھی ہوتا ہے کے ملائیں چنانچہ وہ ذکر کرتے ہیں تو لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں اور ایک نہیں کئی مرتبہ لوگوں نے یہ کہا جو خو د ارب ہا ارب روپے کے مالک ہیں کہ آپکی جماعت بڑی امیر ہے.مجھے کوئی تعجب نہیں ہوتا تھا کیونکہ مجھے علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں بتایا ہوا ہے کہ تمہاری صفات ایسی ہیں کہ تم دنیا کو امیر نظر آؤ گے ان کا کوئی قصور نہیں ہے ہماری خوبیاں ہیں بعض اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں عطا فرمائی ہیں جن کے نتیجے میں ہم غیروں کو امیر ہی نظر آتے ہیں.کبھی نہ احمدی کسی سے مانگنے جاتا ہے اور نہ احمد یہ جماعت امریکہ کے سامنے کشکول پھیلاتی ہے یا کسی عرب ملک سے مانگتی ہے یاSheikhdom (شیخ حکمران) سے مانگتی ہے یا ایران سے مطالبہ کرتی ہے یا جاپان سے مدد مانگتی ہے.ساری دنیا یہ دیکھ رہی ہے کہ اتنے بڑے کام اتنی بڑی ضرورتیں پھیلی ہوئی اور ہاتھ ہی نہیں پھیلا رہے کسی کے سامنے.ایک تو طبعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ تعفف ہے یعنی محتاج نہیں رہے کسی کے اور نتیجہ یہ نکالتے ہیں بہت ہی امیر ہیں اور جہالت یہ ہے کہ اصل امارت ان کی نہیں دیکھ رہے کہ اصل امارت کیا ہے ؟ اصل امارت نفس کی ہے، وہ قناعت ہے جو خدا نے عطا فرمائی ہے.خرچ اس لئے سکڑ گئے ہیں کہ ان کے دنیا میں دلچسپیاں نہیں رہیں، ان کی نظر سکڑ گئی ہے دنیا کی حرص و ہوا سے اس لئے مقابل پر ان کو ایک وسعت نصیب ہوئی ہے اور یہ وسعت دیکھنے والوں کو بہت ہی بڑی دولت اور امارت نظر آتی ہے اور اللہ تعالیٰ واقعہ اس کو پھر اسی میں تبدیل فرما دیتا ہے.وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ خَيْرٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ اے میرے متعفف بندو! اے خدا
خطبات طاہر جلد ۳ 550 خطبه جمعه ۲۸ ر ستمبر ۱۹۸۴ء کی راہ میں اپنے اخراجات کو سمٹینے والو اور اپنی آمد نیوں کو خدا کی راہ کی طرف موڑ دینے والو! یا د رکھو کہ ہماری نگاہیں تم سے غافل نہیں ہیں ہم خوب جانتے ہیں کہ تم کن نیتوں سے خدا کی راہ میں خرچ کر رہے ہو اور ہم خوب جانتے ہیں کہ دنیا تمہیں کیا سمجھ رہی ہے؟ ہم بھی تمہیں کچھ سمجھ رہے ہیں اور تمہارا مستقبل ہم تم پر روشن کرتے ہیں کہ ساری دنیا کی دولتیں تمہارے قدموں پہ نچھاور کی جائیں گی مگر ایسی حالت میں نچھاور کی جائیں گی جب تم عفیف ہو چکے ہو گے، جب تم میں ان سے کوئی دلچسپیاں باقی نہیں رہیں گی ، جب ہم جان چکے ہوں گے کہ جب پہلے بھی تمہیں دولتیں عطا ہوئی تھیں تو تم نے ان سے منہ موڑ لیا تھا تب خدا دنیا کے خزانوں کی کنجیاں تمہارے سپرد کرے گا.یہ ہیں وہ خوشخبریاں جو ان آیات میں دی گئی ہیں لیکن سب سے مزے کی جو لطف کی بات مجھے اس میں محسوس ہوتی ہے وہ یہ کہ چودہ سو سال پہلے اللہ تعالیٰ ان باتوں کو دیکھ رہا تھا جو آج ہونے والی تھیں اور ہماری تصویر کیسے پیار سے کھینچی ہے جیسے کہ مصور اپنا قلم لے کر بیٹھ جاتا ہے کسی کو سامنے بٹھا کر اور ناک پلک ایک ایک چیز کا نقشہ اتارتا چلا جاتا ہے صرف فرق یہ ہے کہ دنیا کا مصور تو ظاہر کو دیکھتا ہے ہمارا آقا ہمارا مالک غریب کے دل پر بھی نظر رکھتا ہے جس کے دل میں صرف حسرت ہے اور تمنا ہے کہ کاش! میرے پاس کچھ ہوتا تو میں خرچ کرتا.اللہ فرماتا ہے اے میرے پیارے بندے میں نے تیرے دل کو دیکھ لیا ہے.میں اس کی بھی تصویر اتار رہا ہوں.میں جانتا ہوں کیا حسرتیں تو لئے بیٹھا ہے اور میں اس کا بھی تمہیں اجر عطا فرماؤں گا میری طرف سے میرے در سے کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: عارف صاحب کا جنازہ آ گیا ہے جمعہ کے بعد جنازہ ہو گا.ہمارے ایک سلسلہ کے بڑے مخلص خادم جو محمد عارف بھٹی کہلاتے تھے.یہ اچانک حرکت قلب بند ہونے سے وفات پاگئے ، بہت مخلص تھے بہت معمر تو نہیں لیکن پھر بھی ۷۵ سال کے قریب عمر تھی اور یہاں بڑے شوق سے خدام سے بھی زیادہ بڑھ کر مستعدی سے ڈیوٹی دیا کرتے تھے اور دیکھنے میں اللہ کے فضل کے ساتھ بہت اچھی صحت تھی.میں تو سمجھتا تھا کہ پچپن چھپن سال کے ہوں گے بعد میں پتہ لگا کہ ۷۵ سال عمر تھی مگر اپنی مستعدی، شوق اور ولولے کی وجہ سے چھوٹے نظر آتے تھے.تو ان کو اچانک Heart Failure
خطبات طاہر جلد ۳ 551 خطبه جمعه ۲۸ ستمبر ۱۹۸۴ء ہوا ہے.پہلے تو کوئی اور بیماری بتائی گئی تھی السر کہتے تھے پھٹا ہے مگر بہر حال جو بھی ہوا اللہ تعالیٰ کی مشیت جب آئے جس طرح آئے ہم راضی برضا ہیں.ان کی نماز جنازہ ابھی جمعہ کے بعد ہوگی اس لئے سنتیں پڑھتے ہی دوست باہر جا کر صفیں بنالیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 552 خطبه جمعه ۲۸ / ستمبر ۱۹۸۴ء
خطبات طاہر جلد ۳ 553 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۴ء تخلیق کائنات حق کے لئے ہوئی ہے جمعه فرموده ۱٫۵ اکتو بر۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللهِ اَكْبَرُ وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِي أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأَنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَالْهُنَا وَإِلَهُكُمْ وَاحِدٌ وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ (العنکبوت : ۴۵ - ۴۷) پھر فرمایا: قرآن کریم کی جو یہ آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سب سے پہلے اس امر کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو اور زمین کو حق کے ساتھ بنایا ہے اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِيْنَ اس بات میں ایک بہت بڑا نشان ہے مومنوں کے لئے.اس امر پر غور کرتے ہوئے کہ کیوں اللہ تعالیٰ نے بعض جگہ آیات کا ذکر فرمایا ہے اور بعض جگہ آیت کا ذکر فرمایا ہے میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ جہاں ایہ کا ذکر فرمایا گیا ہے وہاں کوئی بہت ہی بڑا حکمت کا راز پوشیدہ ہے جس کی طرف
خطبات طاہر جلد ۳ 554 خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۸۴ء اشارہ کیا جا رہا ہے.آیات کے مقابل پر بظاہر آیت ایک چھوٹا لفظ ہے یعنی ایک آیت ایک نشان لیکن جب اسے نکرہ میں بیان کیا جائے ایک تو مراد یہ ہوتی ہے کہ ایک بہت ہی عظیم الشان نشان ہے.چنانچہ جہاں شہر کی صفات کا ذکر فرمایا فِيهِ شِفَاء لِلنَّاسِ وہاں بھی فرمایا إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ (الحل :٧٠) اور جہاں بنی نوع انسان کے فوائد کا اس سے پہلے انعام یعنی چوپاؤں کے ساتھ ہونے کا ذکر فرمایا اور جہاں پھلوں کا ذکر فرمایا یہی دو انسانی غذا اور اس کی بقا کا موجب ہیں یعنی چوپائے اور زمین جو پھل اگاتی ہیں ان پر بنیاد ہے انسانی زندگی کی اور وہاں بھی آیات کے بجائے حالانکہ بہت سی چیزوں کا ذکر ہے ، وہاں آیات کے بجائے ایہ کا لفظ فرمایا اِنَّ فِي ذَلِكَ لَآيَةً لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ( انحل: ۶۸) اس میں ایک نشان ہے ان لوگوں کے لئے جو عقل کرتے ہیں.تو بظاہر ایہ ہے لیکن جن لوگوں کے لئے نشان ہے وہاں فرمایا لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ اور دوسری جگہ فرمایا قَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ کہ بظاہر ایک نشان ہے لیکن قو میں اس پر غور کرتی چلی جائیں اور اپنی عقلیں دوڑاتی چلی جائیں لیکن اس نشان کی ماہیت کو پوری طرح پانہیں سکیں گی.یـعـقـلـون میں ایک جاری مضمون ہے کہ وہ نشان جو ہے چلتا چلا جاتا ہے اور عقلیں اسکے اوپر آزمائش کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر بھی اس نشان کی کنہ کو یا حقیقت کو پوری طرح پانہیں سکتیں.اسی طرح لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ کہہ کے یہ فرمایا ایک پوری قوم فکر میں مبتلا ہو جائے، غور وفکر کرے، تدبر کرے تب بھی اس نشان کی ماہیت کو پوری طرح اخذ کرنے کی اہل نہیں ہو سکتی.تو یہاں جو فرمایا خَلَقَ اللهُ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ، یہاں تو ساری کائنات کی پیدائش کا ذکر فرما دیا ہے اور اس کثرت سے نشانات ہیں اس میں کہ جو گنے نہیں جاسکتے.چنانچہ قرآن کریم ان نشانات کا ذکر کلمہ کے طور پر کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ اگر : لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِكَلِمَتِ رَبِّي لَنَفِدَ الْبَحْرُ قَبْلَ أَنْ تَنْفَدَ كَلِمَتُ رَبِّيٌّ وَلَوْ جِئْنَا بِمِثْلِهِ مَدَدًا (الكهف: ١١٠) کہ ہمارے نشانات تو اس کثرت سے ہیں کہ اگر سمندر سیاہی بن جائیں اور ان نشانات کو لکھتے لکھتے وہ خشک ہو جائیں اور پھر اور سمندر ہم لے آئیں ان کی مدد کی خاطر تب بھی وہ سمندرسوکھ جائیں گے اور نشانات ختم نہیں ہوں گے اور خلق الله السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ط
خطبات طاہر جلد ۳ 555 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء میں تو صرف ظاہری زمین و آسمان مراد نہیں بلکہ روحانی اور باطنی زمین و آسمان بھی مراد ہیں.جب انبیاء آتے ہیں تو نئے آسمان پیدا کئے جاتے ہیں ، نئی زمینیں ان کو عطا کی جاتی ہیں اور تمام قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ یہی مضمون ایک جس طرح متوازی خطوط چل رہے ہیں جس طرح صرف ظاہری تخلیق پر ہی حاوی نہیں بلکہ روحانی تخلیق پر بھی حاوی ہے.تو زمین و آسمان کی تخلیق میں جو لا انتہا نشانات ہیں اسی طرح روحانی دنیا کی تخلیق میں بھی لا انتہا نشانات ہیں اور ان دونوں کو اکٹھا کر کے ایک ہی نشان کے طور پر پیش کر کے فرمایا إِنَّ فِي ذلِكَ لَآيَةً لِلْمُؤْمِنِينَ اس میں مومنوں کے لئے ایک نشان ہے.تو مراد یہ نہیں ہے کہ ان سارے نشانات کا احاطہ کیا جا رہا ہے یا ان کی فہرست گنائی جانی مقصود ہے.مراد یہ ہے کہ اگر تم مومن ہو اور اس بات پر غور کرو کہ حق کے ساتھ پیدا کیا ہے تو تمہیں اس میں حکمت اور فلسفے کا ایک عظیم الشان راز ملے گا.ایک ایسا قیمتی را ز تمہیں اس سے ملے گا کہ تمہارے سارے مسائل اس راز کو سمجھنے کے نتیجہ میں دور ہو سکتے ہیں تو تمہارے لئے ایک بہت بڑا فائدہ کی چیز ہے یہاں یہ مراد ہے ان امور پر غور کرنا تمہارے لئے ایک بہت ہی عظیم الشان فائدہ رکھتا ہے، بہت ہی عظیم الشان راز ہے جو تمہاری مشکلات کوحل کر دے گااور اس کے بعد فرماتا ہے اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَاَقِمِ الصَّلوةَ تجھ پر جو کچھ وحی کی گئی ہے اس کو پڑھتا رہ، اس کی تلاوت کر اور اس پر غور کر وَأَقِمِ الصَّلوةَ اور نماز کو قائم کر.سوط إِنَّ الصَّلوةَ تَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَلَذِكْرُ اللَّهِ أَكْبَرُ اور نماز فحشا سے منع کرتی ہے اور نا پسندیدہ باتوں سے منع کرتی ہے وَلَذِكْرُ اللہ اکبر اور اللہ کا ذکر اس سے بڑا ہے وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے جو تم کرتے ہو.اب اس کا بظاہر پہلے مضمون سے کوئی تعلق نہیں.کہاں یہ بات کہ زمین و آسمان کو خدا تعالیٰ نے پیدا کیا حق کے ساتھ اور اس میں ایک نشان ہے تمہارے لئے اور کہا اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوۃ.لیکن جب آپ اس مضمون کو سمجھیں کہ تخلیق السموات والارض سے اصل مراد اول مراد روحانی کتاب میں روحانی تخلیق ہوا کرتی ہے اور جب حق کے مضمون پر آپ غور کریں تو پھر آپ کو اس کا ایک گہرا تعلق سمجھ آجائے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 556 خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۸۴ء امر واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا اپنا نام حق ہے اور قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو حق کے طور پر پیش کرتا ہے اور اس موقع پر حق کی نفی فرما دیتا ہے.هُوَ الْحَقُّ ، اللہ ہی ہے جو حق ہے اس کے سوا کوئی چیز حق نہیں اور آنحضرت مہ کو بھی حق فرمایا گیا قرآن کریم میں اور قرآن کریم کو بھی حق فرمایا گیا اور یوم آخرت کو بھی حق فرمایا گیا تو اللہ تعالیٰ اس طرف متوجہ فرمانا چاہتا ہے کہ تم کائنات کا راز سمجھنا چاہتے ہو تو اس بات کو سمجھ لو کہ اس کا آغاز بھی حق ہے اور اس کا انجام بھی حق ہے یعنی سچائی کے ساتھ پیدا کیا ہے ایک بچے کی طرف سے روح نازل ہوا ہے، ایک کچی روح پر نازل ہوا ہے، ایک سچی کتاب میں اسکی تفصیل بیان فرمائی گئی ہے اور تمہیں اس انجام تک پہنچائے گا جسے یوم الحق کہا جاتا ہے.ذلِكَ الْيَوْمُ الْحَقُّ (النبا : ٤٠) جس طرح سورۃ النبا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یعنی وہ آخرت کا دن جس دن حساب کتاب ہوگا.اگر تم اس بات پر غور کرو تو پھر تمہیں ایک بہت بڑی حقیقت معلوم ہو جائے گی جس میں تمہاری بقا کا راز بھی ہے اور فنا سے بچنے کے دلائل بھی ہیں.تم حق سے اپنا تعلق جوڑ لو تو یہ زمین و آسمان تمہارے ہو جائیں گے.تم حق کے ہو جاؤ تو ساری کائنات کی چابیاں تمہارے ہاتھوں میں پکڑا ئی جائیں گی کیونکہ اول سے آخر تک تخلیق کا مقصد ہی حق کی پیدائش ہے، حق نے پیدا کیا حق بات کی خاطر پیدا کیا، حق طریق پر پیدا کیا جق وجود پر نازل کیا گیا حقیقت آسمانی اور زمینی کو اور بالآخر اس کا انجام بھی حق پر جا کر ختم ہوگا.حق کیا ہے؟ اس کی مزید تفصیل پر آپ غور کریں تو ایک بہت بڑا مضمون قرآن کریم میں بکثرت آیات میں حق کے اوپر پھیلا ہوا ہے بحث فرمائی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ حق کیا چیز ہے اور کس طرح حاصل کیا جاسکتا ہے؟ لیکن صرف مختصراً اس وقت اس کا ایک عرف عام کا جو معنی ہے یعنی سچائی اس کی طرف میں متوجہ کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سچائی کو اختیار کر لو اور سچائی کو پکڑ کر بیٹھ جاؤ اور کسی حال میں بھی سچائی سے الگ نہیں ہونا.اگر تم سچے ہو جاؤ گے تو زمین و آسمان کی پیدائش کے مقاصد میں سے ایک مقصد بن جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ مقاصد کو ضائع نہیں کیا کرتا اور مقاصد کی حفاظت فرماتا ہے اور ہر اس طاقت کو توڑ دیتا ہے جو مقاصد کے اوپر حملہ کرتی ہے اور تمہارے لئے ایک ہی طریق ہے فتحیاب ہونے کا اور ہمیشہ کی زندگی پانے کا کہ تم حق بن جاؤ اور حق کو اختیار کر لو اور اس کا طریق کیا
خطبات طاہر جلد۳ 557 خطبه جمعه ۱٫۵ اکتوبر ۱۹۸۴ء ہے؟ اس کا طریق آگے بیان ہوا اُتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِنَ الْكِتَبِ وَأَقِمِ الصَّلوةَ اگر تم حق بننا چاہتے ہو تو اے محمد ﷺ انہیں یہ نمونہ دکھا اس چیز کی بکثرت تلاوت کر جو تجھ پر نازل کی گئی ہے اور قرآن کریم پر غور کرتارہ اور اسکے مطالب کو سمجھ پھر تجھے حق کی حقیقت معلوم ہوگی اور وہ طریق معلوم ہوں گے جن سے انسان حق کی طرف حرکت کرتا ہے.وَأَقِمِ الصَّلوۃ اور اس کے لئے ایک بہت بڑا ذریعہ عبادت ہے.اگر خدا کی عبادت کرو گے تو خدا کی طرف تمہارا سفر شروع ہو جائے گا اور بالآخر عبادت تمہیں حق تک پہنچا دے گی اور حق تک پہنچنے کے رستے میں جو روکیں ہیں وہ بھی عبادت کے ذریعہ دور ہونگی.اِنَّ الصَّلوةَ تَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ فحشا اور ناپسندیدہ امور اور ظالمانہ طریق یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو حق تک پہنچنے سے روک دیتی ہیں.جن کا جھوٹ سے تعلق ہے، باطل سے تعلق ہے.فرمایا دو باتیں ہوں گی اقامتہ الصلوۃ کے ذریعہ تم اللہ تعالیٰ تک پہنچو گے اور یہی عبادت تمہارے رستے کی روکیں بھی دور کرے گی اور تمہارے نفس کے اندر جو کبھی ہے جو تمہیں حق تک پہنچنے سے روکتی ہے اس کو بھی یہ سیدھا کرتی چلی جائے گی وَلَذِكْرُ الله اکبر اور اللہ کی یاد سب سے بڑی ہے.بعض صوفیا اس آیت کا یہ غلط مفہوم لیتے ہیں.نہ وہ پہلی آیت کا مفہوم سمجھتے ہیں اور نہ اس آیت کا اور بالآخر اس آیت میں جو ارتقا پیش کیا گیا ہے اسکونہ سمجھنے کے نتیجہ میں ان کی طرف سے ایک خلاف اسلام طریق اختیار کر لیا گیا ہے.وہ صوفیا یہ کہتے ہیں کہ نماز کا مقصد کیا ہے برائیوں سے روکنا اور منکر سے روکنا.لیکن ذکر اللہ نہیں ہے یہ اصل میں ، ذکر اللہ اسکے علاوہ ہے اور ہم جو ذکر کرتے ہیں یہ عبادت سے افضل ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم فرماتا ہے وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ اسے نماز کے علاوہ پیش کیا گیا ہے.پہلے عبادت کا مضمون بیان ہوا اسکی پہنچ بتا دی گئی کہاں تک ہے؟ عبادت تو بس اتنا کام کرے گی کہ فحشا اور منکر سے روک دے گی لیکن اصل عظیم الشان جوطریق ہے اللہ تعالیٰ کو پانے کا وہ ذکر ہے.چنانچہ وہ نئے نئے ذکر ایجاد کرتے رہتے ہیں اور نماز سے زیادہ ایک الگ ذکر بنا کر اسکو اہمیت دیتے ہیں حالانکہ ہرگز یہ مراد نہیں ہے.یہ تو ایک سفر بتایا جارہا ہے کس طرح تم حق کی طرف سفر شروع کرو گے اور نماز ہی کی یہ صفت بیان ہوئی ہے وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ کہ عبادت کے ذریعہ صرف تمہیں منفی پہلوؤں سے نجات نہیں ملے گی بلکہ ایک عظیم الشان کامیابی تک پہنچ جاؤ گے
خطبات طاہر جلد ۳ 558 خطبه جمعه ۱۵ اکتوبر ۱۹۸۴ء کیونکہ نماز تمہیں اللہ کی یاد عطا کرے گی اور یہ اس کا سب سے بڑا فائدہ ہے.وَلَذِكْرُ اللهِ أَكْبَرُ کا مطلب یہ ہے کہ فحشا سے روکنا نماز کا یہ بھی ایک فائدہ ہے، منکر سے روکنا یہ بھی ایک فائدہ ہے لیکن یہ فوائد منفی نوعیت کے ہیں.منفی ضرر سے تمہیں بچانے والے لیکن یہ یادرکھواصل فائدہ نماز کا خدا تک پہنچانا ہے، اس کی یاد تمہارے دلوں میں پیدا کرنا ہے اس لئے وہی عبادت برحق ہے اور آخر تک پہنچانے والی ہے جو ذکر اللہ پر مشتمل ہو اور اسکی عظمت سے غافل نہ ہونا نماز کے وقت اگر تمہاری نماز ذکر اللہ سے غافل رہے اللہ کی یاد میں تمہیں مبتلا نہ کرے تو اصل اور اعلیٰ مقصد سے تم محروم رہ جاؤ گے.وَاللهُ يَعْلَمُ مَا تَصْنَعُونَ اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو.اس کے بعد خدا تعالیٰ نے پھر اس مضمون میں ایک نئی کروٹ پیدا کی.عجیب کتاب ہے یہ اور ہر آیت بعض اوقات یوں رنگ بدلتی ہے جیسے کہ قرآن کریم فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِى شَأْنٍ (الرحمن :۳۰) ہر وقت وہ ایک نئی شان کے ساتھ جلوہ گر ہو رہا ہے اور بوریت نہیں ہونے دیتی.یکسانیت کے نتیجہ میں جو نیند آجاتی ہے اس کا خود علاج کرتی چلی جاتی ہے.رابطہ مضمون بھی قائم رہتا ہے اور مضمون کی شکل بھی بدلتی رہتی ہے.اب آپ نے دیکھا کہ پہلی آیت بظاہر اور مضمون سے شروع ہوئی تھی دوسری آیت اور مضمون بیان کر رہی ہے لیکن فی الحقیقت ایک ہی مضمون ہے جس میں رنگ بدلا گیا ہے اور یہاں بھی آگے وہی مضمون جاری وساری ہے لیکن ایک اور طریق پر فرمایا: وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کہ جب تم اپنے نفس کی تربیت کر لو اور اللہ کی یاد کے نتیجہ میں تم خدائی صفات اپنے اوپر وارد کر لوتو یہ زندگی کا آخری مقصد نہیں ہے.انفرادی تربیت کے بعد اسلام خاموش نہیں ہو جا تا بلکہ بعض قومی ذمہ داریوں کی طرف تمہیں توجہ دلاتا ہے.اگر تم احسن رنگ میں رنگین ہو گئے ہو اور دوسروں کو اس رنگ کی طرف نہیں بلاتے تو تم اپنے مقصد میں نا کام ہو.Creation سے بات شروع ہوئی تھی یعنی تخلیق سے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم نے تمہیں تخلیق کے ڈھنگ سکھا دیئے ہیں، اب تخلیق کرو.زمین و آسمان کی پیدائش کا مقصد یہ تھا کہ تمہیں پیدا کیا جائے احسن الخلق کے طور پر اور پھر تمہیں احسن الخلق کے اطوار سکھائے گئے.اب جس طرح خدا نے تمہیں حسن عطا کیا ہے اس طرح آگے اس حسن کو پھیلا ؤ اور تم بھی روحانی تخلیق میں مصروف ہو جاؤ
خطبات طاہر جلد ۳ 559 خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۸۴ء لیکن اس دوران وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ احسن طریق پر یہ کام کرنا.مجادلہ جو قرآن کریم میں آتا ہے بار بار اس کا ذکر یہ تبلیغ کے معنوں میں آتا ہے.اس سے مراد تلوار کا جہاد نہیں ہے بلکہ جہاں جہاں تبلیغ کے مضمون کا ذکر ہے وہاں لفظ مجادلہ استعمال ہوا ہے.وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (النحل : ۱۳۶) جس طرح فرمایا وہاں بھی تبلیغ ہی کا مضمون ہے فرماتا ہے.وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ وہی مضمون ہے دوسرے رنگ میں پیش فرمایا گیا ہے کہ تم ہر گز اہل کتاب سے مجادلہ نہ کروان کو تبلیغ نہ کر وگر نہایت احسن رنگ میں إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ سوائے ان لوگوں کے جو ان میں سے ظلم کرتے ہیں.وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِى أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَأَنْزِلَ إِلَيْكُمْ وَالْهُنَا وَالْهُكُمُ وَاحِدٌ وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ ) اب سوال یہ ہے کہ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا کا کیا مطلب ہے؟ وہ لوگ جو ان میں سے ظلم کرتے ہیں ان کو احسن رنگ میں تبلیغ نہ کرو.کیا یہ معنی ہے؟ تبلیغ تو بہر حال احسن رنگ میں ہوگی لیکن إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا کے نتیجہ میں وہ کیا استثنا فرمایا گیا ہے ان سے کیا طریق کار اختیار کرو؟ اس کو قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک دوسری جگہ بیان فرماتا ہے: لَا يُحِبُّ الله الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا اِنْ تُبْدُوا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوهُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْءٍ فَإِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا قَدِيرًا (النساء: ۱۴۹-۱۵۰) فرماتا ہے لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلِمَ لَه جب تم تبلیغ کرو گے تو تمہاری دل آزاری کی جائے گی اور نہایت گندے بول تمہارے اوپر بولے جائیں گے اور ہو سکتا ہے کہ نہایت ہی دل آزار باتیں تمہارے ایسے پیاروں کے متعلق کہی جائیں جن کوتم برداشت نہ کر سکو.ایسے موقع پر کیا ہدایت ہے؟ لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ یہ یاد رکھو کہ اللہ تعالی اونچی آواز میں بد کلام کو پسند نہیں کرتا إِلَّا مَن ظلم سوائے اس کے کہ ایک مظلوم کے منہ سے بے اختیار کوئی کلمہ نکل جائے یعنی پسند اس کو بھی نہیں کرتا.لَا يُحِبُّ اللَّهُ الجَهْرَ بِالسُّوءِ ایک عام قانون ہے کہ مخش کلامی ، دل آزاری، لوگوں کو زبان کے ذریعہ دکھ پہنچانا اور پھر ان باتوں کی
خطبات طاہر جلد ۳ 560 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء تشہیر اور سر عام بازاروں میں گندگیاں بکنا اور جلسوں اور جلوسوں میں گالی گلوچ سے کام لینا، اللہ تعالیٰ فرماتا - لا يُحِبُّ الله الجَهْرَ بِالسُّوءِ اگر تمہارے دل میں کسی چیز کی نفرت ہے تو دل میں رکھو لیکن اس کا اظہار اس طرح کرنا کہ دل آزاری کا موجب ہو اور تکلیف پھیل جائے سوء کا مطلب ہے، عام گلیوں میں بازاروں میں اور تمہارے معاشرہ میں عام ہو جائے تکلیف اور تم باز نہ آؤ تکلیف پہنچانے سے اللہ تعالیٰ اس کو پسند نہیں فرماتا.إِلَّا مَنْ ظلم ہاں اتفاقاً کسی کے منہ سے بے اختیاری میں بات نکل جائے جب کہ وہ خود مظلوم ہوا ور لوگ اس کے پیچھے ہی پڑ گئے ہوں.چنانچہ چند دن ہوئے ایک ہمارے دوست نے لکھا کہ میں بڑا سخت شرمندہ ہوں اور بڑا سخت استغفار کر رہا ہوں.ایک صاحب میرے پیچھے اتنا پڑ گئے ایک مجلس میں اس قدر گالیاں دیں انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس وقت پھر آخر مجھ سے صبر نہ ہو سکا اور میں نے بھی اس سے سختی کی اور جب میں نے سختی کی تو پھر اس کو سمجھ آئی کہ یہ کیا با تیں ہوتی ہیں تو اس نے معافی کا خط لکھا اور دعا کا کہ اللہ تعالیٰ معاف بھی کرے اور میرے لئے دعا کریں کہ خدا تعالیٰ آئندہ مجھے صبر کی توفیق بخشے.تو صبر بہر حال بہت بہتر ہے لیکن اگر ظلم انتہا کو پہنچ جائے اور بے اختیاری میں کوئی کلمہ بختی کا منہ سے نکل جائے تو اللہ تعالیٰ اس کو مستثنیٰ قرار دیتا ہے اس لئے بعض انبیاء نے بعض دفعہ بختی کی ہے ایک جواب میں اور ا لا میں وہ بھی شامل ہیں مثلاً حضرت مسیح علیہ السلام جن کے متعلق عام جو تصویر بنتی ہے وہ نہایت نرمی کی ہے.ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسری گال بھی پیش کر دو.تمہارا فرغل اتارے تو تم قمیص بھی اتار کر پیش کر دو ایسی تعلیم ہے لیکن بعض جگہ ایسی سختی کی ہے جواب میں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے اور اسی قسم کے بعض مواقع ہیں جن صلى الله میں دشمن کو سمجھانے کے لئے.خصوصاً ان عیسائیوں کو جواب میں جو آنحضرت عیہ کے خلاف زبان درازی کرنے لگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بھی برداشت نہیں ہوا.آپ نے چند کلمات سختی کے ان کے لئے استعمال کئے اور آج تک خود مسلمان بھی پیچھا نہیں چھوڑ رہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ ان عیسائیوں پر جو رسول اللہ ﷺ پر اس قدر گندا چھال رہے تھے تم نے سختی کیوں کی؟ ان کو پتہ ہونا چاہئے کہ قرآن کریم فرماتا ہے.إِلَّا مَنْ ظُلم اور ظلم کا جو معیار ہے وہ
خطبات طاہر جلد ۳ 561 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء الگ الگ ہے ہر ایک کے لئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لئے ظلم کا جو معیار ہے وہ نہیں تھا جو عام آدمیوں کا ہوتا ہے.آپ کے متعلق یہ آتا ہے کہ ایک صاحب آئے باہر سے اور نماز کے بعد جب آپ تشریف فرما تھے تو نہایت گندی گالیاں دینی شروع کر دیں اور جب وہ گالیاں دیتے دیتے تھک گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسکرا کر فرمایا کہ کچھ اور فرمائیے.چنانچہ پھر اس نے بدکلامی شروع کی کہ میں جانتا ہوں تمہارے جیسے دھو کے باز کو دجال کو، یہ چالا کیاں کسی اور سے کرو ، یہ میرے ساتھ نہیں چلیں گی.اس قسم کی باتیں کرتے اور گالیاں دیتے اور جب وہ تھک گیا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر مسکراتے ہوئے فرمایا اگر کچھ اور کہنا ہے تو کہہ لو.یہاں تک کہ وہ اس حال میں واپس گیا.اس نے اعلان کیا جاتے جاتے میں نے بہت دنیا میں سفر کئے ہیں اور بہت لوگ دیکھے ہیں مگر ایسا صبر اور حوصلے والا انسان میری زندگی میں کبھی میرے سامنے نہیں آیا.اپنے بارہ میں صبر کا یہ حال ہے اور جب لیکھرام نے حضور اکرم ﷺ کے متعلق بد زبانی کی تو آپ سے برداشت نہیں ہوا.جب عیسائیوں نے آنحضرت ﷺ کے متعلق شدید بد زبانی کی تو بعض جگہ آپ کو سختی کے کلمات کہنے پڑے لیکن یہ بالعموم نہیں تھا بھاری اکثریت آپ کے خطابات کی ان ظالموں سے بھی نرمی کی تھی سمجھانے کی ہے اور بے اختیاری ہے جہاں بھی منہ سے کوئی کلمہ نکلا ہے.تو احمدیوں کو بھی صبر کو اس مقام تک پہنچانا چاہئے.یہ بہانہ نہیں بنانا چاہئے کہ إِلَّا مَنْ ظُلم کے نتیجہ میں اب ان کو زبان کھولنے کی اجازت مل گئی ہے.زبان کھولنے کی کہاں تک اجازت ملی ہے کن حالات میں ملی ہے اسکو تو ہم سنت سے ہی اخذ کریں گے اور سنت انبیاء یہ ہے کہ صبر کو انتہا تک پہنچا دیتے ہیں یہاں تک کہ بہت شاذ کے طور پر معمولی کلمات سختی کے ایسے نکلتے ہیں جو اصلاح کے لئے ضروری ہوتے ہیں.جذبات سے مغلوبیت کا نشان نہیں ہوتے بلکہ دشمن کو سمجھانے کی خاطر بعض دفعہ وہ سختی بھی ضروری ہو جاتی ہے چنانچہ اس سختی میں بھی حکمت ہوتی ہے اور یہ جو فیصلہ ہے کہ یہاں سختی حکمت کے مطابق ہوگی یا نہیں ہوگی یہ فیصلہ بھی ہر کس و ناکس نہیں کر سکتا اسلئے جہاں تک جماعت کا تعلق ہے جماعت کو کامل صبر سے کام لینا چاہئے لیکن اگر بے اختیاری ایسی ہو جائے کہ کچھ ہو ہی نہ سکے.اب ایک آدمی کو بات کرتے
خطبات طاہر جلد ۳ 562 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء کرتے کھانسی آجاتی ہے جتنا مرضی چاہے اسکو روک نہیں سکتا تو بے اختیاری سے مراد ایسی بے اختیاری ہے جو واقعہ بے اختیاری ہے.آپ چاہیں بھی تو روک نہ سکیں اس میں ارادے کا دخل نہ ہو.اگر ایسا ہو گیا تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو مغفرت کی نظر سے دیکھے گا عفو سے کام لے گا اس سے وَكَانَ اللهُ سَمِيعًا عَلِيمًا اور اللہ تعالیٰ خوب سننے والا ہے اور خوب جاننے والا ہے.سننے والا اور جاننے والا ان معنوں میں کہ جو کچھ کوئی کہہ رہا ہے وہ اللہ تعالی سنتا ہے اور جو کچھ تم دلوں میں چھپائے ہوئے ہو اس کے جواب میں وہ حال بھی اللہ تعالیٰ جانتا ہے اسلئے تمہیں اونچا بولنے کی ضرورت کیا ہے؟ اگر تو خدا تعالیٰ صرف سمیع ہوتا ہے تو پھر شاید تمہارے لئے ایک فکر کی بات ہوتی کہ اگر ہم نے جواب نہ دیا تو ہمارے دل کا حال خدا کو پتہ نہیں لگے گا.فرمایا جس طرح وہ سننے والا ہے جو ظلم تم پر ہورہا ہے وہ تمام کا تمام اس کے علم میں آرہا ہے اسی طرح وہ تمہارے دلوں کی کیفیات کو جانے والا ہے.ان دلوں کی کیفیات پر بھی اسکی نظر ہے.اِنْ تُبْدُوا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوهُ اَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوا قَدِيرًا (النساء: ۱۵۰) یہاں ایک بہت ہی عمدہ مضمون ہے مومنوں کی صفات کے متعلق إِلَّا مَنْ ظُلِمَ کہنے کے بعد ان کی دل کی اصل کیفیت بیان فرما دی.اِنْ تُبْدُوا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوهُ تم اگر خیر ظاہر کر دیا اسے چھپا لو اَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوءٍ فَإِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا قَدِيرًا (النساء: ۱۵۰) بات تو ہو رہی تھی سو کی کہ خدا بری بات کے اظہار کو پسند نہیں فرماتا إِلَّا مَنْ ظُلِم سوائے اس کے کہ وہ مظلوم ہو اور جب مظلوموں کی بات شروع کی تو وہاں سور کا ذکر ہی کوئی نہیں کیا اِن تُبْدُوا خَيْرًا اَوْ تُخْفُوهُ اگر تم بھلائی کو ظاہر کر دیا بھلائی کو چھپا لو تو یہاں وہی بات ظاہر فرما دی گئی جو میں نے بیان کی کہ انبیاء جب بظاہر سو کی بات کرتے ہیں جواب میں تو خیر مقصود ہوتی ہے ان کی.ہر گز دکھ دینا ان کو پیش نظر نہیں ہوتا اس لئے ان کا اظہار بظاہر سور ہے، بظا ہرسختی ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم نے خیر کا اظہار کیا ہے.وہ ہیں مستثنیٰ لوگ جن کے متعلق إِلَّا مَنْ ظُلِم کہہ کر بظاہر یہ بتایا گیا کہ انہوں نے جوا با سختی کی ہے لیکن معا خدا نے یہ غلط فہمی دور فرما دی ان کی سختی بھی خیر کے نتیجہ میں ہے.وہ بھلائی چاہتے تھے ان کی
خطبات طاہر جلد ۳ 563 خطبه جمعه ۱٫۵ اکتوبر ۱۹۸۴ء اور جانتے تھے کہ بعض دفعہ سختی کے نتیجہ میں بھلائی پہنچ جاتی ہے.چنانچہ ان مواقع پر بڑی حکمت کے ساتھ جو انہوں نے اظہار کیا تو وہ دراصل خیر ہی کا اظہار ہے اَوْ تُخْفُوهُ اور جوان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وہ بھی شر نہیں ہے وہ بھی خیر ہی خیر ہے.دو متقابل گروہ اور ان کی صفات پیش ہو گئیں.ایک وہ ہیں کہ جو جب بولتے ہیں گند بولتے ہیں اور ظلم کی بات کرتے ہیں اور سختی سے حق کو دبانے کی بات کرتے ہیں اور جوان کے سینوں میں چھپا ہوا ہے وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ اَكْبَرُ ( آل عمران : ۱۱۹) وہ اس سے بھی زیادہ گند ہے یعنی ان کا ظاہر بھی گند ہے اور ظلم و ستم ہے اور ان کا باطن بھی گندا اور ظلم و ستم ہے بلکہ زیادہ گند ہے جو ان کے دلوں میں چھپا ہوا ہے.اسکے مقابل پر کچھ لوگ ہیں کہ کبھی اگر سخت کلامی بھی کرتے ہیں تو خیر کی خاطر کرتے ہیں اور ان کے سینے میں تو خیر ہی خیر ہے شر کا کوئی بھی پہلوان کے سینے میں پیدا نہیں ہوتا.اَوْ تَعْفُوا عَنْ سُوء خواہ تم اس کو چھپالو یا سوء سے کلیت درگزر فرمالو گویا کچھ بھی نہیں ہوا.اس طرح تحمل کے ساتھ برائی کے پاس سے گزر جاؤ اسی مضمون کو دوسری جگہ خدا نے فرمایا وَ إِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا ( الفرقان : ۶۴) گویا کہ ان کے رد عمل تین ہو گئے.جب بولیں گے تو خیر کی خاطر بولیں گے اور خیر کی بات کریں گے ورنہ اپنے دکھ سینوں میں چھپائے رکھیں گے اور یہ علم ہوگا ان کو کہ خدا جانتا ہے کہ ہمارے دلوں پر کیا گزررہی ہے اور اگر ان کے لئے ممکن ہو تو اس مجلس کو چھوڑ دیں گے اور جب جاہل ان سے بات کرے گا تو کہیں گے سلھا اچھا ہم رخصت ہوتے ہیں.اب ہماری یہاں مزید بیٹھنے کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی.فَإِنَّ اللهَ كَانَ عَفُوا قَدِيرًا (النساء:۱۵۰) ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کو عفو پائیں گے.انہوں نے خدا کی خاطر عفو سے کام لیا ان کو یقین رکھنا چاہئے کہ اللہ تو ان سے بہت بڑھ کر عفو کرنے والا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اس ادا کے نتیجہ میں جو خدا کو پسند آئے گی بکثرت ان کے گناہ بخشے جائیں گے.کتنا عظیم الشان دور ہے یہ صبر کا دور جس میں خدا کی خاطر آپ صبر سے کام لیتے ہیں اور آپ کے ماضی کے سارے گناہ اور داغ صاف دھلتے چلے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ عفو کا سلوک فرماتا چلا جاتا ہے.اور فرماتا ہے قدیر اوہ قدیر ہے.یعنی ان حالات کو اس طرح نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 564 خطبه جمعه ۱٫۵ اکتوبر ۱۹۸۴ء رہنے دے گا بلکہ ان کو تبدیل فرمادے گا اور اس بات پر قادر ہے کہ بالآخر یہ سُوع کا اظہار کرنے والے سور کو سینوں میں چھپانے والے اس صفحہ ہستی سے مٹا دیئے جائیں گے اور خدا کے عفو کر نے والے بندے اور خیر دلوں میں رکھنے والے اور خیر زبان سے جاری کرنے والے اللہ تعالیٰ ان کو غالب فرمائے گا.تو یہ وہ مضمون ہے جہاں فرمایا إِلَّا مَنْ ظُلِمَ یعنی لَا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلَّا مَنْ ظُلم کے متعلق میں ذکر کر رہا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَا تُجَادِلُوا أَهْلَ الْكِتَبِ إِلَّا بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا مِنْهُمْ جو ان میں سے ظلم کرنے والے ہیں ان کے ساتھ تم کیا سلوک کرو.وہ سلوک اس دوسری آیت میں بیان فرما دیا گیا جہاں إِلَّا الَّذِينَ ظَلَمُوا کہ جو لوگ مظلوم ہیں ان کو کیا کرنا چاہئے؟ تو الا سے مراد وہ لوگ ہیں جو ظلم کرنے والے اور وہ سلوک ہے جس کی تفصیل یہاں بیان فرمائی اور اب پھر حسن بات کو مزید کھول کر بیان کرتا ہے اس وقتی اعراض کے بعد کہ ظلم کیا ہے اور ظالموں سے کیا سلوک تمہیں کرنا چاہئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ قول حسن کیا ہے؟ وَقُولُوا آمَنَّا بِالَّذِى أُنْزِلَ اِلَینا تم ان لوگوں سے کہو کہ جو کچھ خدا نے ہماری طرف نازل فرمایا ہے ہم اس پر ایمان لانے والے ہیں.وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ تمہیں کیا تکلیف ہے ہم سے ہم تو اس وحی پر بھی ایمان لاتے ہیں جو تم پر نازل کی گئی یعنی جس پر تم ایمان لاتے ہو.اگر تو ہماری وحی تمہاری وحی سے اس طرح ٹکراتی کہ جو کچھ تمہارے اوپر نازل کیا گیا یعنی جس پر تم ایمان لاتے ہو اس کا ہم انکار کر دیتے تو پھر ایک ٹکراؤ کی شکل تھی.ہم تو کلیۂ اس پر ایمان لا رہے ہیں جس پر تم ایمان لاتے ہواس کے علاوہ جس کو ہم خدا کا کلام سمجھ رہے ہیں اس پر بھی ہم ایمان لاتے ہیں تم اس پر ایمان نہیں لاتے اس لئے اگر کوئی غصہ کا موقع ہے تو ہمارے لئے ہونا چاہئے نہ کہ تمہارے لئے.ہم جو تم کہتے ہو امنا و صدقنا کہتے ہیں.ایک ایک بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہاں یہ بھی سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے اور یہ بھی سچ ہے اور اس کے سوا جو ہم کہتے ہیں تم ہر بات پر کہتے ہو جھوٹ بولتے ہو ، جھوٹ بولتے ہو، جھوٹ بولتے ہو.اگر عقل سے کام لیا جائے تو غصہ کا موقع تو ہمارے لئے ہونا چاہئے نہ کہ تمہارے
خطبات طاہر جلد ۳ 565 خطبه جمعه ٫۵اکتوبر ۱۹۸۴ء لئے اور عجیب الٹ قصہ ہے کہ غصہ تم کر رہے ہو اور ہم معاف کرتے چلے جارہے ہیں وہی بات ہے کہ : ان کو آتا ہے پیار پر غصہ اور ہم کو غصہ پر پیار آتا ہے یہ ہیں مومن خدا کے بندے.عجیب نقشہ کھینچتا ہےاللہ تعالیٰ انا وَ الْهُنَا وَ الْهُكُمْ وَاحِدٌ اور پھر یہ دیکھو تمہارا معبود اور ہمارا معبود ایک ہی ہیں.ونَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ اور ہم جو اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اس ایک خدا کی طرف منسوب ہو کر اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں.اسلام تو خدا کے ہاتھ پر لایا جاتا ہے ہم تو اپنے رب کے لئے اسلام لائے ہیں تمہیں اس کی کیا تکلیف پہنچ رہی ہے؟ تمہیں یہ تکلیف ہے کہ ہم تمہاری تصدیق کرتے چلے جارہے ہیں، تمہیں یہ غصہ ہے کہ جو تمہارا ایمان ہے، ہم کہتے ہیں سو فیصدی درست ہے! تمہیں یہ تکلیف ہے کہ جو خدا نے نازل فرمایا ہے ہم ہر بات کو مانتے چلے جاتے ہیں اور یہ غصہ ہے کہ اس خدا کو کیوں مانتے ہو جو سب کا خدا ہے اور اس کے نام پر کیوں مسلمان ہو گئے ؟ یہ تو کوئی عقل کی بات نہیں ، یہ تو کوئی انصاف کی بات نہیں.یہ ہے حق کی تفصیل جو خدا نے بیان فرمائی.پہلے اپنے نفوس کو پاک وصاف کرو، عبادت کے طریق سیکھو اور عبادت میں یاد الہی پر سب سے زیادہ زوردو.اگر تم ذکر اللہ کی عادت ڈالو گے اور اللہ کو یاد کرو گے تو تم کائنات کے مقاصد میں شمار ہونے لگو لگے تم حق بن جاؤ گے اور اگر تم ایسا کرو گے تو پھر خدا تم سے یہ توقع رکھے گا کہ اس حق کو پھیلاؤ.کیونکہ حسن کو پھیلانا یہ مومن کی پیدائش کا مقصد ہے اور جوحسن تم نے خدا سے سیکھا ہے اسے اب دنیا میں پھیلانا شروع کر دو.اس کے نتیجہ میں جب تمہیں بدی ملے، نیکی کے بدلہ میں بدی سے تم سے سلوک کیا جائے تو تم پھر بھی حسن کے ذریعہ اس کا جواب دو اور پہلے سے بڑھ کر احسان کا معاملہ کرو.ہر برے قول کا جواب خیر کے نتیجہ میں دینا ہے، خیر کی نیت سے دینا ہے اور دل میں بھی خیر ہی رکھنی ہے.اگر تم یہ کرو گے اور کامل ایمان لاؤ گے پہلی کتب پر بھی اور جو بھی خدا بندوں پر نازل کرتا ہے ان پر تم ایمان لاتے چلے جاؤ گے تو یہ کوئی ایسا فعل نہیں کہ دنیا میں کسی قسم کی دل آزاری ہو سکے.یہ وہ طریق ہے جو ہمیشہ سے مومن اختیار کرتے چلے آئے ہیں.فرماتا ہے پھر تمہیں ہم یقین دلاتے ہیں کہ ایسی صورت میں خدا تعالیٰ یقیناً تمہاری
خطبات طاہر جلد ۳ 566 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء مددفرمائے گا اور تمہیں غالب کرنے پر خدا قادر ہے.کس طرح حق کو غالب فرمائے گا یہ ایک الگ بڑا تفصیلی مضمون ہے.کیونکہ وقت زیادہ ہو رہا ہے اس لئے میں اسے چھوڑتا ہوں لیکن صرف آخری بات میں یہ کہہ دیتا ہوں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو اس نے پہلے بھی یہ واقعہ گزر چکا ہے.اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلًا إلى قَوْمِهِمْ فَجَاءُ وَهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِينَ أَجْرَمُوْا وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم: ۴۸) کہ دنیا میں ہم نے پہلی مرتبہ تو نبی نہیں بھیجے.یہ ایک لمبا دستور ہے نہ ختم ہونے والا کہ ہم ابنیاء بھیجتے چلے آئے ہیں اور جب بھی اس قوم نے جن کی طرف ابنیاء آئے انکار کیا فَانْتَقَمْنَا مِنَ الَّذِيْنَ أَجْرَمُوا.پھر ان ظلم کرنے والوں سے ہم نے بدلہ لیا ہے.وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِيْنَ اور ہم پر حق ہے یہ بات کہ ہم مومنوں کی مدد کریں.اب یہاں بھی لفظ حق استعمال فرمایا اور کس طرح اس سارے مضمون کو کامل کر دیا ہے! ایک پورا دائرہ مکمل فرما دیتا ہے اللہ تعالیٰ کہ حق سے آغاز ہوا ہے کا ئنات کا حق ذریعوں سے آغاز ہوا ہے، حق بنانے کی خاطر آغاز کیا گیا ہے کا ئنات کا.یہ جو زمین و آسمان روحانی دنیا کے بنائے جاتے ہیں یہ اسی لئے ہیں تا کہ تمہیں حق بنادیں اور جب تم حق ہو جاؤ گے تو پھر خدا کی اپنی ذات کی اپنے حق کی قسم کھاتا ہے کہ وہ اپنے اوپر تمہاری مددفرض کرلے گا ناممکن ہے پھر کہ دنیا تمہیں ہلاک کر سکے.ہم سزا دیں گے ان کو جو تمہارے خلاف زیادتیاں کرتے ہیں اور ظلم کرتے ہیں اور ہم تمہاری مدد کو آئیں گے اور ضرور آئیں گے.اتنا عظیم الشان وعدہ ہو جس قوم کے ساتھ اس کے لئے آزمائش کے چند دن کیا حیثیت رکھتے ہیں اور آزمائش کے وہ دن جو دن بدن ، لمحہ بہ لمحہ ان کی کیفیت بدلتے چلے جارہے ہیں اور اندھیروں سے روشنی میں نکال کر رہے ہیں اور خدا تعالیٰ سے نئی محبتیں عطا کرتے چلے جاتے ہیں اور نئے روحانی مراتب عطا کر رہے ہیں وہ ابتلا بھی احسان ہی کا رنگ رکھتا ہے جس کے آخر پر پھر یہ وعدہ ہو اور خدا حق ذات کی قسم کھا کر یہ کہہ رہا ہے کہ میں ضرور تمہاری مددکو آؤں گا تم نے بالکل مایوس نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 567 خطبه جمعه ۵/اکتوبر ۱۹۸۴ء ہونا.ایسے لوگوں کے لئے مایوسی کا کیا سوال یا کسی شکوہ کی کون سے گنجائش ہے؟ اس لئے جماعت احمدیہ کی طرف سے تو اپنے رب کے حضور سوائے اسکے کوئی آواز نہیں اٹھ سکتی کہ اے ہمارے آقا! تیرا ابتلا بھی ایک احسان ہی ہے جس کا ہم جتنا چاہیں شکر ادا کریں مگر ہم حق ادا نہیں کر سکیں گے اور ہمیں جو اس کام کے لئے تو نے چن لیا ہے یہ بھی تیرا احسان ہے ورنہ ہم حق دار نہیں تھے اور اس کے نتیجہ میں تو فرماتا ہے کہ ہم تمہاری مدد اور تمہاری نصرت کو آئیں گے اے خدا! ہم تو کسی چیز کے بھی حق دار نہیں.تو ہی حق ہے، تیرے ہی بنا پر ہم نے حق کی ادائیں سیکھیں اور ہماری غفلتوں سے پردہ پوشی کے بھی تو نے ہی وعدے فرمائے اور عفو کے طریق بھی ہمیں سکھائے اور پھر عفو کا سلوک بھی ہم سے فرمایا.پس جو کچھ ہے تو ہی تو ہے ہم تو کوئی حقیقت نہیں رکھتے.ع حق تو یہ ہے کہ حق کہ حق ادا نہ ہوا (دیوان غالب صفحه: ۶۵) اس سے بہتر مومن کے دل کی اور کوئی آواز خدا کے حضور نہیں اٹھ سکتی.
خطبات طاہر جلد ۳ 569 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء سورۃ ھود کی آیت ۱۱۴ تا ۱۲۴ کی تفسیر ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ را کتوبر۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد سورہ ھود کی حضور نے درج ذیل آیات تلاوت فرمائیں: وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَي النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنْتِ يُذْهِبْنَ السَّيَاتِ ذلِكَ ذِكْرَى لِلذَّكِرِينَ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةِ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيْلًا مِّمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوْامَا أُتْرِفُوْا فِيْهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمِ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ.وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِيْنَ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ وَ لِذلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَشَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِيْنَ وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ.
خطبات طاہر جلد ۳ 570 خطبه جمعه ۱۲ / اکتوبر ۱۹۸۴ء وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوْا عَلَى مَكَانَتِكُمْ إِنَّا عَمِلُونَ وَانْتَظِرُوا إِنَّا مُنْتَظِرُونَ وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُكُلَّهُ فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَارَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ (ہود: ۱۱۴-۱۲۴) پھر فرمایا: قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے اگر چہ یہ تلاوت جمعہ کے لئے جو وقت مضمون مقرر ہوتا ہے اندازا اسکی نسبت ذرا زیادہ ہے لیکن مجبوری یہ درپیش ہے کہ اس میں ایک مکمل من ہے جو اوّل سے آخر تک مربوط چلتا ہے اور کسی جگہ بھی اس تلاوت کو اس سے پہلے جو میں نے ختم کیا ہے اگر ختم کیا جاتا تو وہ بات مکمل نہ ہو سکتی اس لئے جہاں تک بار یک تفسیری پہلو ہیں ان کو چھوڑتے ہوئے نسبتاً اس مضمون سے تعلق رکھنے والی بنیادی باتوں کو لیتے ہوئے میں ان آیات پر کچھ روشنی ڈالتا ہوں.سب سے پہلے تو خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے: وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اَوْلِيَاءَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُونَ کہ وہ لوگ جو ظلم کرنے والے ہیں ان کی طرف کسی پہلو سے بھی جھکو نہیں اور ان سے پناہ لینے کا خیال دل سے نکال دو.رکن کہتے ہیں اس ستون کو جو مضبوطی سے ایک جگہ قائم ہواور اس پر سہارا لینے کور گن کہتے ہیں، اس نے سہارا لیا رَكَنَ يَرْكَنُ سہارالیا یا سہارا لیتا ہے.تو فرمایا جو لوگ تم پر ظلم کرنے والے ہیں ان سے کسی قسم کی بھی امید نہیں رکھنی اور کوئی سہارا ان پر نہیں لینا فَتَمَسَّكُمُ النَّارُ تمہیں بجائے اس کے کہ ان سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا تمہیں آگ کا عذاب پکڑلے گا.وَمَالَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اَوْلِيَاء اور تمہارے لئے خدا کے سوا اور کوئی ولی نہیں ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ اگر اس ولی کو چھوڑ کر تم کسی اور کی طرف جھکو گے تو لا تُنصَرُونَ کہیں سے کسی طرف سے بھی تمہاری مدد نہیں کی جائے گی.یہ ایک بہت ہی اہم بنیادی نکتہ ہے جسے مومن کو سمجھنا چاہئے.امر واقعہ یہ ہے کہ جب خدا کے نام پر کسی مومن کو تکلیف دی جاتی ہے تو غیر اللہ سے مدد کی
خطبات طاہر جلد۳ 571 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء ہرا میداٹھ جایا کرتی ہے اور وَمَا لَكُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اَوْلِيَاء میں یہی نقشہ کھینچا گیا ہے کہ تم تو ایسی حالت میں آچکے ہو کہ باقی ساری کشتیاں تمہاری جل گئیں ہیں ، ساری راہیں تم نے اپنے او پر بند کر دی ہیں کیونکہ دنیا والے تو کسی نہ کسی قدر مشترک کسی بنا پر مدد کیا کرتے ہیں، دنیا والے تو سودوں کے نتیجے میں مدد کیا کرتے ہیں، کچھ اپنے اصول چھوڑنے پڑتے ہیں اور کچھ ان کے اپنانے پڑتے ہیں لیکن ایک ایسی جماعت جو کل یہ اللہ کی ہو چکی ہو اور اصول میں ایک ذرہ برابر بھی نرمی کے لئے تیار نہ ہو، جس کو خریدا نہ جا سکتا ہو، جس کو اپنے مقاصد کے لئے ان کے اصولوں کے خلاف استعمال نہ کیا جاسکتا ہو ان کی حالت تو یہ ہے کہ گویا ان کے لئے مدد کے سارے راستے ویسے ہی بند ہو چکے ہیں اور چونکہ یہ محض اللہ کی خاطر ہے اس لئے تمہارے لئے خدا کے سوا اور کوئی ولی نہیں اور اگر ایک دفعہ خدا کو ولی بنا کر اور دنیا کو اللہ کی وجہ سے دشمن بنا کر تم دنیا کی طرف جھکنے کی کوشش کرو گے تو تمہیں آگ ملے گی.آگ سے مراد یہاں جہنم کے سوا دنیا میں ناکامی اور حسرتوں کی آگ ہے.تم جتنی کوشش کرو گے تمہیں ہر طرف سے مایوسی اور حسرت کی آگ پہنچے گی اور تمہیں تسکین کے لئے کوئی چیز میسر نہیں آسکے گی اسلئے فرماتا ہے وَمَالَكُمْ مِنْ دُونِ اللَّهِ مِنْ أَوْلِيَا ءَ یاد رکھو اللہ کے سوا تمہارا کوئی ولی نہیں رہا.ثُمَّ لَا تُنصَرُونَ خدا کے سوا تم کسی سے مدد نہیں کئے جاؤ گے.یہاں مرتدین کا بھی ذکر آ گیا وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا میں اس خیال سے کہ ہم ان کے عذاب سے بچ جائیں خدا کے دشمنوں کی طرف جھک جانے کا معنی یہ بھی ہے کہ ارتداد اختیار کر لو، ان کے ساتھ جا ملو.فرمایا اس صورت میں بھی امر واقعہ یہ ہے کہ تمہارا کوئی حقیقی مددگار نہیں بن سکتا خدا کے سوا اور اللہ سے جب وہ آگ دینے کا کسی کو فیصلہ کرے تو دنیا کی کوئی قوم کسی کو خدا کے سوا بچا نہیں سکتی لَا تُنصَرُونَ مراد یہاں یہ ہوگی.یہ تو ہے منفی حصہ کیا نہیں کرنا ، اب کرنا کیا ہے.کوئی عمل کی تعلیم بھی تو ہونی چاہئے فرماتا ہے وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِي النَّهَارِ وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ عبادت کرو نمازوں کو قائم کرو دن کے دونوں طرف میں بھی اور رات کے ایک حصہ میں بھی اور رات کے آخری حصے یعنی ایک کنارے پر بھی.اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ یا د رکھو حسنات برائیوں کو دور کر دیا کرتی ہیں.ذلِكَ ذِكْرَى لِلہ کرین اس بات میں ایک بہت بڑی نصیحت ہے نصیحت پانے والوں کے لئے اور
خطبات طاہر جلد ۳ نصیحت کرنے والوں کے لئے.572 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء اب بات تو یہ بظاہر بڑی عجیب لگتی ہے اور دشمن ہمیشہ اس بات پر تعجب بھی کیا کرتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ تمہارا لائحہ عمل کیا ہے، تم مقابل پر کیا تدبیر کر رہے ہو؟ تو تم لوگ آگے سے کہ دیتے ہو کہ ہم تو دعا کرتے ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور سنے والا بڑے تعجب سے دیکھتا ہے کہ بڑی بیوقوف قوم ہے، بڑے جاہل لوگ ہیں؟ دنیا ہر قسم کی تدبیریں کر رہی ہے ، ہر قسم کے دکھ پہنچانے کے سامان کر رہی ہے اور ہر قسم کے ہتھیاروں سے لیس ہے اور یہ عجیب جاہلوں کی قوم ہے جب ہم ان سے کہتے ہیں کچھ ہاتھ ہلاؤ، کچھ جوابا کا روائی کرو جواب یہ دیتے ہیں کہ ہم تو عبادت کر رہے ہیں اور یہ یہی حالت قرآن کریم بھی پیش کر رہا ہے.فرماتا ہے اس کا حل یہ ہے ان سارے مصائب کا ان ساری مصیبتوں کا وَ اَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِي النَّهَارِ اپنے دن کو بھی عبادتوں سے گھیر لو طَرَقَ النَّهَارِ کا مطلب ہے گھیر لو سارے دن پر تمہاری عبادتیں پھیل جائیں وَ زُلَفًا مِنَ الَّيْلِ اور رات کا ایک حصہ بھی عبادت سے زندہ کرو.اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ اور یہ قانون یاد رکھو کہ ہمیشہ حسن بدیوں کو کھا جایا کرتا ہے.یہاں جو یہ فرمایا کہ ذلِكَ ذِكْرى لِلذَّكَرِيْنَ اس میں کون سی نصیحت ہے؟ یہ تو سب کو پتہ ہے کہ دن کے بعد رات آتی ہے اور رات کے بعد دن آتا ہے اور یہی قانون ہے یہی ہمیشہ سے انسان دیکھتا چلا آیا ہے اس میں خاص نصیحت کون سی ہے.اس نصیحت کی کنجی اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ میں ہے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ یہ اتفاقی باتیں ہیں ، اندھیرا کبھی دن کو کھا جاتا ہے اور کبھی دن اندھیرے کو کھا جاتا ہے.فرمایا غور کر واند ھیرے کی تو کوئی حقیقت نہیں.یہ ہمیشہ روشنی ہوتی ہے جو تاریکی کو کھایا کرتی ہے اور روشنی کے نہ ہونے کا نام اندھیرا ہے اس لئے یہ نہ سمجھو کہ یہ اتفاقی حادثات ہیں اسی طرح چلتا چلا آرہا ہے کبھی اس کی باری اور کبھی اس کی باری ان معنوں میں نہیں ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جب نیکیاں اٹھ جاتی ہیں تو ان کے نہ ہونے کا نام تاریکی ہے اور جب نیکیاں واپس آجاتی ہیں تو تاریکی کے لئے بھا گنا مقدر ہے اس کے سوا تاریکی کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتی روشنی کا.تو فرمایا اپنے وجود کو روشنی سے بھر دو کیونکہ تمہارے مقابل پر تاریکی ہے اور روشنی عبادت الہی سے نصیب ہوتی ہے.فرمایا اپنے دن بھی روشن کرو گے اور اپنی راتیں بھی
خطبات طاہر جلد ۳ 573 خطبه جمعه ۱۲ / اکتوبر ۱۹۸۴ء روشن تر کر دو اور پھر دیکھو کے تمہارے مقابل کی ساری تاریکیاں زائل ہو جائیں گی.فَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ لیکن اس کے لئے صبر کی ضرورت ہوتی ہے.یہ ٹھیک ہے راتیں ملتی ہیں لیکن فرماتا ہے کہ بعض دفعہ راتیں بڑی بوجھل بھی ہو جایا کرتی ہیں اور روشنی آتی تو ہے اور اندھیرے کو نور میں بدل دیتی ہے لیکن جو لوگ دکھوں سے گزر رہے ہوتے ہیں ان کے لئے لمحہ لمحہ ایک عمر لگتا ہے گزر گئی اس لئے ساتھ صبر کی تعلیم ساتھ دی.کیونکہ قرآن کریم تو Slognism پیدا نہیں کرتا محض یہ دعوی کر کے کہ تم جیتو گے تم جیت گئے.تم روشنی ہو اور دشمن اندھیرا ہے یہ باتیں کر کے قرآن کریم تسلیاں دے کر چھوڑتا نہیں ہے بلکہ جس لائحہ عمل کے اوپر داخل کرتا ہے انسان کو اس لائحہ عمل کے خطرات سے بھی آگاہ فرماتا ہے.فرماتا ہے کہنے کو تو آسان بات ہے ،صبح ہوئی اور رات ٹل گئی لیکن جنہوں نے دکھوں کی رات کائی ہو ان کو علم ہوتا ہے کہ کتنی مصیبتوں کے بعد، کتنے انتظار کے بعد وہ صبح طلوع ہوئی تھی جس کے لئے وہ آنکھیں لگائے بیٹھے تھے.فرمایا وَ اصْبِرُ صبر ضرور تمہیں کرنا پڑے گا.فَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ لیکن یہ یقین رکھو کہ حسن پیدا کرنے والوں کے اجر کو اللہ تعالیٰ ضائع نہیں کیا کرتا.محسن سے مراد نیک اعمال کرنے والا بھی ہے.محسن سے مراد تمام سوسائٹی میں تمام معاشرہ میں حسن بکھیر نے والا بھی ہے اور محسن سے مراد عبادت کو اتنے خوبصورت رنگ میں ادا کرنے والا بھی ہے کہ اللہ کی نگا ہیں اس پر پڑ رہی ہیں.چنانچہ آنحضرت علی نے محسن کی ایک یہ بھی تعریف فرمائی کہ اس طرح عبادت کرو.احسان کیا ہے؟ اس طرح عبادت کرنا جیسے تم خدا کو دیکھ رہے ہو اور پھر خدا تمہیں دیکھ رہا ہے.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل النبی له عن الایمان والاسلام والاحسان ) ایسی خوبصورت ہو جائے تمہاری عبادت کہ اللہ کے پیار کی نگاہیں پڑنے لگیں.فرمایا ایسی صورت میں تمہیں کیسے نقصان پہنچ سکتا ہے؟ تم تو خدا کی آنکھوں کے سامنے رہو گے دن کو بھی خدا کی نگاہوں کے سامنے رہو گے اور راتوں کو بھی خدا کی نگاہوں کے سامنے رہو گے اس لئے وہم و گمان بھی دل میں نہ لا نا کہ تم نا کام ہو گے.یہ تو مومنوں سے خطاب ہے.اس کے بعد فرماتا ہے ان لوگوں کے متعلق جو ظلم کرنے والے ہیں جو اپنے مقدر بیگاڑ لیتے ہیں اپنے ہاتھوں سے فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد ۳ 574 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ کاش ایسا کیوں نہ ہوا کہ تم سے پہلے جولوگ گزرے جو بستیاں آئیں ان میں صاحب عقل لوگ ہوتے.عقل و دانش سے کام لیتے ، وہ دنیا کے اوپر نظر ڈال کر اسکے تجارب سے فائدہ اٹھانے والے ہوتے اور فساد سے روکنے والے بن جاتے.اِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ مَگر ایسے لوگ بہت تھوڑے تھے اور ان کو ہم نے ان لوگوں کے ساتھ نجات عطا کر دی جن کو ہم نے نجات بخشنی ہی تھی یعنی مومن.یہاں فساد کے روکنے والوں سے مراد ظالموں کی قوم میں سے صاحب عقل لوگ مراد ہیں.إِلَّا قَلِيلًا مِّمَّنْ اَنْجَيْنَا مِنْهُمْ میں اس طرف اشارہ ہے کہ جن کو ہم نے نجات بخشی یعنی مومنین ان میں تھوڑے سے وہ بھی شامل تھے، ایسا تو ہوتا رہا لیکن قوم کی اکثریت نے فساد سے روکنے کا کام نہیں کیا.اس میں ایک بہت بڑی گہری حکمت کی بات ہے اور وہ یہ کہ جب ظلم شروع ہو جائے کسی قوم کی طرف سے تو خدا تعالیٰ چونکہ متنبہ کر چکا ہے کہ ان کی ہلاکت کے دن پھر آیا کرتے ہیں.اس وقت یہ عذر پھر خدا کے سامنے پیش نہیں ہوا کرتا کہ اے خدا! ہم تو ظلم کرنے والے نہیں تھے ، ہم تو پسند نہیں کرتے تھے اس بات کو.فرمایا تمہاری ذمہ داری ادا نہیں ہوئی تم ان لوگوں میں سے کیوں نہیں ہوئے جنہوں نے فساد کو روکا؟ جب تم ظلم اور فساد کو دیکھتے ہوا گر تم نے اس کو روکنے کی کوشش نہیں کی تو تمہاری ذمہ داری ادا نہیں ہوتی اس لئے جب پکڑ کا وقت آتا ہے تو ایسے لوگ بھی ساتھ مارے جاتے ہیں.وہ یہ نہیں کہہ سکتے پھر کہ جی ہم تو شریف لوگ تھے ہم نے تو حصہ ہی نہیں لیا اور جب پکڑ کے وقت آتے ہیں تو ہر سطح پر یہی ہوتا ہے، کچھ لوگ جرم کر رہے ہوتے ہیں، کچھ خاموشی سے ان کا تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں، کچھ باہر کھڑے داد دے رہے ہوتے ہیں.جب سزا ملنے لگتی ہے تو کہتے ہیں جی ہم تو نہیں شریک اس نے مارا تھا میں نے تو نہیں مارا تھا اور بعض فرقے بھی پھر ایسی باتیں کرتے ہیں کہ جی فلاں فرقے والے تھے ہم تو نہیں تھے.تو اللہ تعالیٰ نے قانون ہی وہ رکھ دیا بچنے کا جس میں منہ کی باتیں کام نہیں آسکتیں.جس میں اتنا کردار ہے ، اتنی مردانگی ہے، اتنی شرافت ہے کہ وہ بدی کو دیکھ کر برداشت نہیں کر سکتا اور اگر ہاتھ سے نہیں روک سکتا تو منہ سے کم سے کم اس کے خلاف اعلان کرنا
خطبات طاہر جلد۳ 575 خطبه جمعه ۱۲ / اکتوبر ۱۹۸۴ء شروع کر دیتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ ظلم ہے یہ غلط ہے تو ینھون سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کو طاقت بھی ضروری ہے.فرماتا ہے اگر وہ منہ سے ہی کہنا شروع کر دیں کہ ہے ظلم اور یہ مناسب نہیں ہے یہ نہیں ہونا چاہئے تو اس کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو ان لوگوں کے ساتھ بخش دیا کرتا ہے اور نجات دیتا ہے جن کو نجات دینے کا اس نے پہلے سے فیصلہ کیا ہوا ہے.وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوا مَا تُرِفُوْا فِيْهِ وَ كَانُوا مُجْرِمِينَ اور وہ لوگ جو ظالم ہیں، یہ تو شرفا کا حال ہے قوم کا کہ خاموش رہے اور روکا نہیں اور جو ظالم ہیں جو خدا نے ان کو نعمتیں ،آسائشیں دی ہو ئیں تھیں ان میں وہ ڈوبتے چلے گئے.وَكَانُواهُجْرِ مِيْنَ اور وہ مجرم تھے.اس حالت میں انہوں نے ہماری نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی کہ ان کا حق نہیں تھا.مجرم کے لئے تو اللہ تعالیٰ نے نعمتیں پیدا نہیں کیں.جب خدا کی نعمتوں کو کوئی بگاڑتا ہے اور جرم کرتا چلا جاتا ہے تو اس کا استحقاق ختم ہو جاتا ہے.وَمَا كَانَ رَبُّكَ لِيُهْلِكَ الْقُرَى بِظُلْمٍ وَأَهْلُهَا مُصْلِحُونَ اللہ تعالیٰ کسی بستی کو ظلم کی راہ سے ہلاک نہیں کیا کرتاؤ اَهْلُهَا مُصْلِحُونَ.یہاں تعریف فرمائی ایک اور جو عام دنیا والے اپنے لئے کہتے ہیں کہ ہم اصلاح کرنے والے ہیں ان سے مختلف ہے.یہ پہلی آیت کی روشنی میں تعریف کی گئی ہے سنو کہ روکنے والے ظلم کو اور شقاوت قلبی کو ختم کرنے والے یہ مصلحین ہوا کرتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے پہلے بھی اس مضمون کو اس طرح بیان فرمایا: وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ (البقره: ۱۳) وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں.ہم تو زبر دستی روک رہے ہیں فتنہ پر داری سے ہم تو زبردستی لوگوں کے ایمان ٹھیک کر رہے ہیں، مار مار کر ان کے کلمے درست کرا رہے ہیں ، مار مار کر ان کو نمازیں پڑھوا رہے ہیں.ہمیں کہتے ہو کہ ہم فسادی ہیں! فرماتا ہے: أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْمُفْسِدُونَ وَلَكِنْ لَّا يَشْعُرُونَ (البقره: ۱۴) بیوقوفو! سنو تم ہی فسادی ہو، اللہ جانتا ہے کہ تم فسادی ہو.یہاں اس کی مزید تشریح فرما دی
خطبات طاہر جلد ۳ 576 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء کہ جب دنیا میں دکھ دیئے جاتے ہیں، ناجائز ظلم کئے جاتے ہیں خدا کے نام پر ہر قسم کے ستم ڈھائے جاتے ہیں اس وقت جو منہ سے بھی نہیں روکتا وہ فسادی ہے اور مصلحین وہی لوگ ہیں جو ظلم کی حالت میں جب بستیوں پر ظلم ہور ہے ہوں اس وقت وہ پھر اصلاح کی کوشش کیا کرتے ہیں.تو بڑا کھول دیا ہے مضمون تا کہ کسی کو غلط فہمی نہ رہے.فرماتا ہے جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہم ایک امت بنانے کے لئے زبردستی کر رہے ہیں ، ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کے لئے فتوں کی جڑیں کاٹ رہے ہیں تو فرمایا یہ تو اللہ کا کام ہے یہ تمہارا کام نہیں.وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً تم کون ہوتے ہو امت واحدہ بنانے والے؟ اگر اللہ چاہتا تو سارے بنی نوع انسان کو ایک امت بنا دیتا.کیا تمہارے ڈنڈے کا انتظار کر رہا ہے خدا تعالیٰ کہ تم ڈنڈے ہاتھ میں پکڑو تو خدا کی امت واحدہ بن جائے دنیا ؟ فرماتا ہے وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ ہم یہ بھی بتا دیتے ہیں کہ جتنا مرضی زور لگا لیں ان کے اختلاف دور نہیں ہو سکتے کبھی کیونکہ جب تک خدا فیصلہ نہ کرے کہ ایک امت واحدہ بن جائے اس وقت تک یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان اپنے اختلاف دور کر لے.دوسروں کو مارو گے کہ ہمارے اندر ملو اور امت واحدہ بنو ورنہ ہم تمہیں چھوڑیں گے نہیں جبکہ خود تمہارے اندر فتنے پھوٹ رہے ہوں گے ہم خود ایک دوسرے کے گھروں کو آگیں لگا رہے ہو گے، خود ایک دوسرے کی مسجد میں جلا رہے ہو گے، وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ تمہارا تو مقدرہی یہ ہے ، تم خدا سے دور جاپڑے ہو، تم مصلحین نہیں رہے، تم فساد کی باتیں کرتے ہو.فساد تمہاری جزا ہے اور خدا یہ اعلان کر رہا ہے وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ تمہارے اختلاف کبھی ختم نہیں ہو سکتے آپس میں اب تم نے جھوٹ بول کر خدا کے نام پر اختلاف دور کرنے کا بہانہ بنا کر ظلم کی راہ اختیار کی ہے تمہاری سزا یہ مقدر کی گئی ہے وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ کیا عظیم کلام ہے! کسی باریک پہلو کو چھوڑتانہیں اور جو پیشگوئی کرتا ہے بعینہ پوری ہوتی چلی جاتی ہے.کسی کا بس ہی نہیں کہ اس پیشگوئی کو ٹال سکے.إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ فرماتا ہے ہاں وہ لوگ جن پر خدا رحم کرنے کا فیصلہ کر لیتا ہے وہ ایک ہوا کرتے ہیں.جن کو تیرا رب اسے محمد اعﷺ ایک ہاتھ پر اکٹھا کرنے کا فیصلہ کرلے وہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جایا کرتے ہیں اور ان کے اندر پھر تو کوئی اختلاف نہیں دیکھے گا.جن پر خدا نے رحم کیا
خطبات طاہر جلد ۳ 577 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء ہو وہ غیر کے مقابل پر شدید ہو جایا کرتے ہیں رَّحِمَ رَبُّكَ کی تفصیل دوسری جگہ قرآن کریم میں موجود ہے کہ وہ کون لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کیا کرتا ہے؟ فرماتا ہے وہ خود رحیم ہو جاتے ہیں.أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (محم:۳۰) یعنی غیروں کے مقابل پر سخت ہو جاتے ہیں ان کے اندر کوئی اختلاف نہیں رہتا رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ایک دوسرے سے نہ صرف مل جاتے ہیں بلکہ بے انتہا رحم کرنے والے ہو جاتے ہیں ایک دوسرے پر ، دور ممالک میں کہیں کسی کو دکھ پہنچتا ہے تو نہ ان کا قومی رشتہ نہ ان کو کوئی اور قرب نصیب دور بیٹھے ایسے لوگوں کے لئے رونے لگتے ہیں جن کو انہوں نے کبھی دیکھا بھی نہیں ہوتا.چنانچہ مجھے یاد ہے جب 74ء کے بعد امریکہ کے نیشنل پریزیڈنٹ مظفر احمد ظفر ان کا نام ہے وہ امریکن نیشنل ہیں وہ جب 74 ء کے دو سال بعد ربوہ تشریف لائے اور جلسہ کے بعد ان سے کہا گیا کہ جلسہ کی آخری رات تھی غالبا کہ چند منٹ کے لئے آپ خطاب کریں احباب سے بتائیں کہ آپ کے کیا تاثرات ہیں تو ان کے تاثرات کیا تھے وہ تو آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ گئی ، سارا بدن ان کا سسکیوں سے کانپ رہا تھا اور بات منہ سے نکلتی نہیں تھی ، بڑی مشکل سے ٹکڑوں میں انہوں نے یہ کہا کہ میرے تاثرات کیا ہیں 74ء میں جو حال ہمارا ہوا تھا تم لوگوں کی خاطر تمہیں کیا پتہ کیسے سخت دن ہم نے کاٹے ہیں تمہارے لئے دکھوں میں اور آج خدا کے شکر سے میری آنکھیں آنسو بہا رہی ہیں کہ آپ سب کا چہرہ میں دیکھ رہا ہوں کتنا اطمینان ہے، کتنا سکون ہے اور اللہ تعالیٰ نے ہر مصیبت سے آپ کو نجات بخشی ہے.تو یہ ہے إِلَّا مَنْ رَّحِمَ رَبُّكَ ہاں ایک وہ ہوا کرتے ہیں جن پر خدا آسمان سے رحم فرماتا ہے، جن کے ایک ہونے کا فیصلہ کر لیا کرتا ہے اور وہ کیسے ہوتے ہیں رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ (الفتح ۳۰) وہ ایک دوسرے پر بے حد رحیم و کریم ہوتے ہیں ، ایک دوسرے کے گھروں کو آگیں نہیں لگایا کرتے ، ایک دوسرے کی مسجدیں نہیں جلایا کرتے ، ایک دوسرے کی عورتوں کی بے حرمتی نہیں کیا کرتے اور سروں کی چادریں نہیں اتارتے وہ تو سروں پر چادر میں ڈالنے والے لوگ ہیں.یہ امت واحدہ ہے جو خدا کے فضل سے بنا کرتی ہے.تم کس امتِ واحدہ کی باتیں کر رہے ہو وہ جو نفرتوں کا شکار ہیں آپس میں؟ جس کی ساری زندگی ایک دوسرے کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتی ہے ؟ وَ لِذلِكَ خَلَقَهُم فرمایا یہ ہے تخلیق کا مقصد.ایسی قوم پیدا ہونا جن کے اندر
خطبات طاہر جلد۳ 578 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء بے انتہا پیار ہو آپس میں بے حد محبتیں ہوں، اخیار ہوں، قربانیاں ہوں، خدا کے نام پر وہ ایک دوسرے سے محبت کرتے ہوں، ایک دوسرے کے لئے فدا ہوتے ہوں، ایک دوسرے کے غم میں آنسو بہاتے ہوں فرماتا ہے وَ لِذلِكَ خَلَقَهُم دیکھو میری تخلیق کا مقصد پورا ہوگیا.جب یہ لوگ دنیا میں آئے تب میں کہتا ہوں و لِذلِكَ خَلَقَهُمُ اس لئے خدا نے پیدا کیا تھا اس کا ئنات کو کہ ایسے لوگ وجود میں آئیں.لیکن افسوس کہ اکثریت ویسی نہیں ہے.وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَا مُلَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ حسرت کا مقام یہ ہے کہ اس مقصود کو بھلا کر باوجود اس کے کہ پیدائش کا مقصد یہ تھا کہ ایسے رحیم بندے خدا کے پیدا ہوں پھر بھی اکثریت ایسی ہے جو جہنم کا ایندھن بننے والی ہے اور ان میں بڑے لوگ بھی اور ان میں چھوٹے لوگ بھی ہیں.وَكُلًّا نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَاءِ الرُّسُلِ اے محمد ﷺ اس طرح ہم تجھے انبیاء کی باتیں سناتے ہیں مَا نُثَبِّتُ بِهِ فُؤَادَكَ تا کہ غموں اور دکھوں کے وقت میں تمہارے دل کو ڈھارس ملے، تمہیں سہارا ملے.یہ وہ راتوں کے قصے ہیں جو آنحضرت اللہ سے اللہ تعالیٰ پیار اور محبت میں کیا کرتا تھا جس طرح دکھوں کی راتوں میں مائیں سہارا دیتی ہیں بچوں کو کوئی بات نہیں ابھی دن آنے والا ہے، صبح ہو جائے گی، فکر نہ کرو تسلی رکھو، اس طرح ہی ہمارا رب حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو تسلیاں دیتا تھا اور یہ انداز ہے تسلی کا.ساتھ ساتھ پرانے لوگوں کی باتیں.کس طرح قو میں مخالفتوں میں ہلاک ہوئیں؟ کس طرح دکھوں سے لوگ گزرے اور خدا کے رحم کی علامت کیا ہے؟ کس طرح مخالفین آپس میں ہی ایک دوسرے سے لڑتے اور ایک دوسرے کے خلاف حسد کی آگ میں جلتے ہیں؟ کس طرح مومنین کا حال ہے کہ وہ ایک دوسرے کے غم میں ایک دوسرے کے دکھ کیلئے اپنی جان پر ایک موت وارد کر لیتے ہیں.فرمایا اور آخر پر یہی جیتا کرتے ہیں.یہ ہمارا انداز تسلی دیکھو کس طرح ہم تجھے پیار سے باتیں سکھا کر تمہارے لئے ڈھارس دیتے ہیں تمہیں سہارا دیتے ہیں کہ تسلی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے پیار کی باتیں سنتے ہوئے یقین کی حالت میں ان دکھوں کے وقت سے گزر جاؤ.وَجَاءَكَ فِي هَذِهِ الْحَقُّ وَمَوْعِظَةٌ وَ ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ.فرمایا تیرے مضبوط ہونے کے ساتھ مومن مضبوط ہوتے ہیں.تیرا ایک دل تقویت نہیں پاتا بلکہ تیراوہ دل ہے جس میں سارے مومنین کے دل دھڑک رہے ہیں.جب ہم تیرے دل کو ڈھارس دیتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 579 خطبه جمعه ۱۲ / اکتوبر ۱۹۸۴ء تو مومنوں کے دل ڈھارس پا جاتے ہیں الْحَقُّ وَ مَوْعِظَ ہم نے حق اور موعظہ اس کتاب میں بھیجی ہے و ذِكْرَى لِلْمُؤْمِنِینَ کہ مومنوں کے لئے اس میں بہت عظیم الشان کلام ہے.وہ پڑھتے ہیں، سنتے ہیں اور ان کے دلوں کو تقویت مل جاتی ہے.یہ درمیانی خطاب مومنوں سے ہے پھر یعنی ظلم والوں کا بیان کرنے کے بعد پھر مومنوں کی طرف اللہ تعالیٰ واپس آیا اور اب مومنوں سے مخاطب کر کے کہتا ہے ہم نے جو تجھ سے باتیں کی ہیں ہم تو تمہیں ایسی تقدیریں بتا چکے ہیں جو بدلا نہیں کرتیں اہل ہیں.اب تم ہماری طرف سے اس مقام پر فائز ہو کہ کھل کر یقین کے ساتھ دشمن کو مخاطب کر کے یہ باتیں کہو.وَقُلْ لِلَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ اعْمَلُوْا عَلَى مَكَانَتِكُم الى محمد على الالم اب تو کھڑا ہو جا اور ہم نے جو تجھے ڈھارس دی ہے ، ہم نے تجھے جو یقین دلایا ہے اس برتے پر یہ جانتے ہوئے کہ تیری پشت پر تیرا خدا کھڑا ہے اور کائنات کا خدا کھڑا ہے تو اعلان کر دے، ان سے کہہ دے اعْمَلُوا عَلَى مَكَانَتِكُم اب جو چاہتے ہو تم کر لو انا عمِلُونَ ہم بھی وہ کریں گے جس کا خدا نے ہمیں حکم دیا ہے.وَانتَظِرُوا إِنَّا مُنتَظِرُونَ اور اب تو وہ بات آگئی ہے کہ زبان کی باتیں ختم ہو چکی ہیں تم بھی انتظار کرو اور ہم بھی انتظار کریں گے.تم سے تمہارے شیاطین کچھ باتیں کرتے ہیں، تمہیں جھوٹے وعدے دیتے ہیں، تمہیں فساد پر ابھارتے ہیں ہم اس کے مطابق عمل کرو.ہم سے ہمارا خدا کچھ باتیں کرتا ہے، کچھ طریق ہمیں بتاتا ہے، وہ ہم نے اس سے سیکھنی ہیں اب ہم ان پر عمل کریں گے اور دونوں انتظار کریں گے.وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَإِلَيْهِ يُرْجَعُ الْأَمْرُكُله فَاعْبُدْهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ وَمَارَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ وَلِلَّهِ غَيْبُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ الله کے لئے آسمان اور زمین کے غیب ہیں وہی جانتا ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے.انتظار کے جواب میں کیا ہوگا یہ بتارہا ہے اللہ تعالیٰ کہ تم بھی بندے ہو تمہارے مقابل بھی بندے ہیں لیکن ان کو یہ بتانے والا کوئی نہیں کہ ان کا انجام کیا ہے لیکن تمہیں بتانے والا تمہارا رب موجود ہے کیونکہ وہ غیب کو جانتا ہے اور اسی کی طرف ہر امر لوٹتا ہے.مطلب یہ ہے کہ تمام حکومت ، تمام قوت، ہر فیصلہ خدا کی مرضی سے ہوا کرتا ہے تو فرمایا جس کے ہاتھ میں غیب ہے اسی کے
خطبات طاہر جلد ۳ 580 خطبه جمعه ۱۲ اکتوبر ۱۹۸۴ء ہاتھ میں قوت بھی ہے، اسی کے ہاتھ میں طاقت کے سب سرچشمے ہیں اس لئے تمہیں کس بات کا خوف ہے.تو ان کا غیب تو ظلم اور تباہی سے بھر سکتا ہے تمہارا غیب تو بہر حال روشن رہے گا.تمہارے لئے جوظلم آنا تھا ان کی طرف سے آپکا اب تو دن کا تم انتظار کرو اور خدا ان کے دنوں کو راتوں میں بدلنے والا ہے یہ یقین رکھو فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ پھر وہی خلاصہ نکالا.دیکھئے کس طرح یہ سارا مضمون سمٹ کر پھر آخر عبادت پہ جا کر ختم ہو جاتا ہے.فرمایا خلاصہ کلام یہ ہے بات لمبی کیا کی جائے مختصر یہی ہے فَاعْبُدُهُ وَتَوَكَّلْ عَلَيْهِ ایک کام کی بات یہ ہے کہ عبادت کر اور اللہ پر توکل رکھ.عبادت کرنے والے دنیا میں کبھی ہارا نہیں کرتے اور عبادت کرنے والوں کو خدا کبھی چھوڑ نہیں کرتا.تو کل کا مطلب یہ ہے یقین رکھو کہ کبھی خدا نے کا ئنات میں اپنے عبادت کرنے والوں کو ضائع نہیں فرمایا.وَمَا رَبُّكَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ اور جو کچھ تم کر رہے ہو اللہ ان باتوں سے غافل نہیں ہے.تم لوگ سمجھتے ہو کہ اتنی دیر ہوگئی روتے ہوئے گڑ گڑاتے ہوئے اب کب جواب آئیں گے ہماری سجدہ گاہوں کے آنسوؤں کے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تو کل رکھو حو صلے نہ ہارو.کیوں یقین نہیں کرتے ، کیوں نہیں جانتے کہ جب تم سور ہے ہوتے ہو اس وقت بھی تمہارا خدا تمہارے لئے جاگ رہا ہوتا ہے وہ تو کسی حالت سے بھی غافل نہیں اس لئے تم تو خدا کی آنکھوں کے سامنے بسنے والی قوم ہو تمہیں کس بات کا خوف ہے؟ جو خدا کے رحم سے اوجھل رہ کر ، خدا کی نظر سے اوجھل رہ کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں ان کے لئے خوف ہوسکتا ہے غیب میں لیکن تمہارا غیب یقینی ہے.لازماً تمہارے حق میں پردہ غیب سے ایسی ایسی نعمتیں نازل ہوں گی، ایسی ایسی نصرتوں کے سامان ہوں گے جن کا تصور بھی تم نہیں کر سکتے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: چند دن ہوئے ربوہ سے اطلاع آئی تھی کہ حضرت سیدہ نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک اولاد میں سے مبشر اولاد میں سے آخری بیٹی ہیں جو زندہ ہیں ان کی طبیعت اچھی نہیں ہے اور مجھ سے اجازت لی تھی کہ ان کو لاہور منتقل کیا جائے.چنانچہ میں نے کہا کہ فوری طور پر لاہور جانا چاہئے.چند دن ہوئے ہیں لاہور سے یہ اطلاعیں مل رہی تھیں کہ ڈاکٹر تحقیق
خطبات طاہر جلد۳ 581 خطبه جمعه ۱۲ / اکتوبر ۱۹۸۴ء کر رہے ہیں اور کافی تشویش کی صورت ہے.بظاہر تو اس وقت فوری خطرہ کوئی نہیں ہے لیکن جس بیماری کی تشخیص ہوئی ہے اس سے ڈاکٹر بہت متفکر ہیں اور اس وقت یہ سوچ رہے ہیں کہ آپریشن ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے.تو احباب جماعت خاص طور پر بڑے الحاج سے دعا میں یاد رکھیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عشق اور محبت کا تقاضا یہ ہے کہ جس حد تک بھی ہو سکے ہمارے اندر آپ کی اولا د میں سے جو مبشر اولاد ہے اس میں سے نشانیاں باقی رہیں اور رہیں بھی تو امن کی حالت میں، خیر وخوبی کے ساتھ ، خوشیوں کے ساتھ ، دکھوں کے ساتھ نہیں.تو یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں جہاں تک بھی تقدیر یل سکتی ہے اللہ تعالیٰ ٹال دے اور حضرت سیدہ موصوفہ کو صحت و عافیت کے ساتھ ،خوشیوں کے ساتھ برکتوں والی زندگی عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 583 خطبه جمعه ۱۹ / اکتوبر ۱۹۸۴ء حبل اللہ کو تھامتے ہوئے حالت اسلام پر جان دینا خطبه جمعه فرموده ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يايُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مسْلِمُونَ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَاذْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ عَلَيْكُمُ إِذْ كُنْتُمْ أَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمُ أَيْتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ أوليكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ هُمُ الْبَيِّنتُ ، وَأُولَيكَ لَهُم عَذَابٌ عَظِيمُ يَوْمَ تَبْيَضُ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ قت بَعْدَ إِيْمَانِكُمُ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ وَأَمَّا الَّذِيْنَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ اللهِ هُمْـ فِيهَا خُلِدُونَ (آل عمران : ۱۰۳ - ۱۰۸)
خطبات طاہر جلد ۳ پھر فرمایا: 584 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء قرآن کریم کی جو آیات میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں یہ سورۃ آل عمران سے لی گئی ہیں اور 103 سے لیکر 108 تک کی آیات ہیں جو میں نے تلاوت کی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اس طرح کرو کہ تقویٰ کا حق ادا ہو جائے حَقَّ تُقتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ اور کیسے حق ادا ہوگا ؟ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ کر تم نے جان نہیں دینی، تم نے مرنا نہیں جب تک تم یہ یقین نہ کرلو کہ تم پوری طرح مسلمان ہو چکے ہو.ہرگز ایسی حالت میں جان نہیں دینی کہ تم مسلمان نہ ہو.وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا یہ ایک بہت ہی بڑا مشکل کا مقام ہے اور تقویٰ کا حق ادا کرنا جیسا کہ قرآن کریم سے ظاہر ہوا ہے ایک ایسا فرض ہے جو زندگی کے ہر لمحہ ساتھ رہتا ہے اور ایک لمحہ بھی اس سے جدا نہیں ہوتا کیونکہ موت کا کوئی وقت مقرر نہیں کوئی لمحہ ایسا نہیں، جس کے متعلق کہہ سکے کہ میں فلاں لمحہ مروں گا اس لئے اس وقت تقوی اختیار کرلوں گا.تو شرط اتنی مشکل کر دی، تعریف اتنی مشکل بنادی کہ جب تک انسان ہر لمحہ پر تقویٰ کے ساتھ نگران نہ ہو جائے اس وقت تک حَقَّ ثقته والی بات پوری نہیں ہو سکتی کیونکہ کس لمحہ بھی موت آ سکتی ہے اور ہرلمحہ انسان کو اپنے تقویٰ کا نگران ہونا پڑے گا.ایک عجیب آیت ہے جو بظاہر اتنی مشکل ہے کہ کسی انسان کے بس میں اس کے مقصد کو پورا کرنا نظر نہیں آتا.غیر معمولی طور پر اللہ کا فضل کسی بندے پر ہو تو وہ تو یہ کام کر سکتا ہے لیکن ہر انسان کے قبضہ قدرت میں بظاہر یہ بات نظر نہیں آتی کہ تقویٰ کا ایسا حق ادا کرے کہ دن اور رات سوتے اور جاگتے زندگی کا ایک بھی لمحہ اس پر نہ گزرے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کے خوف کے تابع زندگی نہ بسر کر رہا ہو لیکن جوں جوں ہم آگے بڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ اس مضمون کو آسان بھی کرتا چلا جاتا ہے اور ایسے طریق بتاتا چلا جاتا ہے جن کو اخذ کرنے کے نتیجہ میں کمزور حصہ بھی ایک حد تک اپنی ذمہ داری کو ادا کر سکتا ہے.چنانچہ اس سے اگلی آیت میں ایک اور تقویٰ کا معیار پیش فرمایا گیا:
خطبات طاہر جلد ۳ 585 خطبه جمعه ۱۹ / اکتوبر ۱۹۸۴ء وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا تم ایک بات پر اگر قائم ہو جاؤ تو یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسی عطا ہوگی جس کے نتیجہ میں تمہاری نیکیاں قبول کی جائیں گی اور تمہاری کمزوریوں سے درگزر کی جائے گی اور وہ یہ ہے کہ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو وَلَا تَفَرَّقُوا اور آپس میں افتراق نہ کرو، ایک دوسرے سے پھٹ نہ جاؤ ایک دوسرے کے ساتھ رہو اور اپنی جمعیت کو منتشر نہ ہونے دو.حبل اللہ کیا ہے اس کے متعلق حقیقی اور اصلی تعریف تو یہ ہے کہ حبل اللہ نبی اللہ کو کہتے ہیں کیونکہ آسمان سے کوئی رسی ظاہری طور پر ایسی نظر نہیں آتی اترتی ہوئی جس پر کوئی مومن ہاتھ ڈال لے اور پھر وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنے لگے.جو کچھ بھی آسمان سے اترتا ہے وہ ابنیاء کے دلوں پر اترتا ہے اور انبیاء ہی حبل اللہ ہوتے ہیں جن کا ہاتھ انسان مضبوطی سے تھام لے تو گویا خدا کا ہاتھ تھام لیا.چنانچہ بیعت کا یہی فلسفہ ہے.حبل اللہ کو تھامنے والے وہ تھے جنہوں نے حضرت محمد مصطفی ﷺ کا ہاتھ تھاما اور پھر وہ ہاتھ کاٹے تو گئے لیکن الگ نہ ہوئے.ایسا جڑے اس ہاتھ سے کہ پھر دنیا کی کوئی طاقت ان ہاتھوں کو محمد مصطفی ﷺ کے ہاتھ سے الگ نہ کر دے.چنانچہ دوسری جگہ اسی مضمون کو واضح کرتا ہوا فرما تا ہے لَا انفِصَامَ لَهَا ان کا ہاتھ ایسے کڑے پر پڑ جاتا ہے لَا انفِصَامَ لَهَا وہ کڑ انہیں ٹوٹ سکتا اور اس کڑے سے وہ ہاتھ جدا نہیں ہو سکتا کسی طرح بھی وہ علیحد گی پھر ممکن نہیں رہتی.تو فرمایا کہ تم اگر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور محمد مصطفی ﷺ کا دامن نہ چھوڑو تو پھر تمہیں کوئی خوف نہیں.پھر جس آن بھی تمہاری موت آئے گی اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہ موت تقویٰ کی موت ہوگی.اب جو بظاہر ایک بہت ہی مشکل مضمون تھا اور واقعہ اسکے باریک پہلو بہت ہی مشکل ہیں اور حقیقت میں وہ حق ادا کرنے والا جس کا پہلی آیت میں ذکر ہے سوائے محمد مصطفی ﷺ کے کوئی اپنی کامل صورت میں ممکن ہی نہیں ہے.سوائے اس کے کہ آپ کی پیروی میں کوئی قدم آگے بڑھائے اور ظل
خطبات طاہر جلد ۳ 586 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء بن جائے لیکن فی ذاتہ اول طور پر یہ مقام صرف اور صرف حضرت محمد مصطفی علیہ کا مقام ہے جو اس آیت میں بیان ہواوَ لَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ بہر حال آپ کے غلاموں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مزید آسانیاں پیدا فرمائیں اور یہ بنیادی شرط مقرر فرما دی کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑ لو اور تفرقہ اختیار نہ کرو.جب انبیاء گزر جاتے ہیں تو انبیاء کے بعد ان کے خلفاء ان کی نمائندگی کرتے ہیں اور بیعت خلافت بھی اسی لئے لی جاتی ہے.خلیفہ فی ذاتہ تو اللہ کی رسی نہیں ہے لیکن اللہ کی رسی کی نمائندگی کر رہا ہوتا ہے اسلئے حقیقت میں جب آپ خلافت کے ہاتھ میں بیعت کا ہاتھ تھماتے ہیں تو فی الحقیقت حضرت محمد مصطفی عملے کی غلامی کا عہد کر رہے ہوتے ہیں اسکے سوا تو خلیفہ کی کوئی حیثیت نہیں اگر وہ غلامی حاصل نہ ہو تو دو کوڑی کی بھی قیمت نہیں ہے خلیفہ کی اس لئے جب اس طرف توجہ مبذول ہوتی ہے تو بیعت کی قیمت بھی بہت بڑھ جاتی ہے بیعت کی ذمہ داریاں بھی بہت بڑھ جاتی ہیں اور وَلَا تَفَرَّقُوا کے نتیجے میں جو انذار بھی ہے اسکی طرف بھی توجہ مبذول ہو جاتی ہے کہ کوئی انسان جب بیعت کرنے کے بعد ایسی حرکت کرتا ہے جس سے افتراق پیدا ہو جس سے دل پھٹتے ہوں اس کا بہت ہی خطرناک نتیجہ نکل سکتا ہے اور تقویٰ کے اوپر ضرب لگانے والی بات ہے.پھر اللہ تعالیٰ اس مضمون کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اور کسی قدرنرمی اور رحم اور شفقت کے ساتھ بیان فرماتا ہے وَاذْكُرُ وَ نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمُ اگر تم ویسے خوف نہیں کھاتے تو کچھ یہ احساس ہی کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر کتنا احسان کیا تھا، کتنی بڑی نعمت تھی جو اللہ تعالیٰ نے تم پر نازل فرمائی اور کن تباہیوں سے تمہیں بچایا ہے اتنا ہی احساس کرو.مختلف رنگ ہوتے ہیں سمجھانے کے بعض لوگ انذار سے سمجھتے ہیں، بعض لوگ احسان یاد دلانے سے سمجھتے ہیں، بعض تبشیر سے سمجھتے ہیں اور قرآن کریم کا یہ طریق ہے کہ ہر رنگ اختیار فرماتا ہے جو دل جس مزاج کا ہوا سکے دل پر کوئی نہ کوئی بات اثر کر جاتی ہے.فرمایا وَاذْكُرُ وا نِعْمَتَ اللهِ عَلَيْكُمْ اللہ کی نعمت کا خیال کرو کتنی عظیم الشان نعمت خدا نے تم پر کی اِذْ كُنْتُمْ اَعْدَاءً فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ تم تو دشمن تھے باہم دگر ہم تو ایک دوسرے کی نفرتوں میں مبتلا تھے اور غیظ و غضب کی آگ بھڑک رہی تھی
خطبات طاہر جلد ۳ 587 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء تمہارے سینوں میں ایک دوسرے کے خلاف فَأَلَّفَ بَيْنَ قُلُوبِكُمْ تمہارے دلوں کو اس طرح محبت سے باندھ دیا اللہ تعالیٰ نے فَأَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا کہ تم بھائی بھائی بن گئے.غیر معمولی محبتیں نصیب ہوئی ہیں محمد مصطفی ﷺ کی وساطت سے آنحضرت کے غلاموں کو اور اسی طرف اشارہ ہے.اتنا شدید دشمنی میں مبتلا تھا عرب کہ ہر قبیلہ دوسرے سے بٹا ہوا تھا، ہر عہد اور دوستی کے پیمان دراصل نفرت پر مبنی ہوا کرتے تھے جس طرح آجکل کے زمانہ میں دنیا نفرتوں میں بٹی ہوئی ہے اور دوستی کے عہد و پیمان کا مطلب ہے فلاں قوم کے خلاف ہماری دوستی ہے، فلاں دشمن کے خلاف ہماری دوستی ہے.اسی طرح عربوں کی حالت تھی اور دنیا جب تباہی کے کنارے پر پہنچا کرتی ہے تو اس کا یہی حال ہو جایا کرتا ہے.دوستی اپنے مثبت معنی چھوڑ دیتی ہے اور منفی معنی اختیار کر لیتی ہے.کسی کو دکھ پہنچانے کے لئے دوستی کسی پر ظلم کرنے کے لئے دوستی کسی کی دشمنی میں اتحاد، کسی کی عدوات میں اتفاق یہ سارے قرینے تباہی اور ہلاکت کے قرینے ہیں اور آنحضرت ﷺ کے زمانے میں عرب سوسائٹی میں بہت نمایاں طور پر یہ خصوصیات پیدا ہو گئی تھیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَكُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ تم آگ کے کنارے پر پہنچ چکے تھے جس طرح آج کل دنیا آگ کے کنارہ تک پہنچ چکی ہے اور بڑھ رہی ہے تو وہی حالت اس وقت کے عرب کی تھی فرماتا ہے فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا عام دستور تو یہ ہے کہ جب قوموں میں یہ علامات پیدا ہو جایا کریں تو پھر وہ واپس نہیں آیا کرتیں.پھر وہ ہلاک ہو جایا کرتی ہیں فرمایا یہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے کہ ہلاکت کے منہ سے تمہیں کھینچ کر واپس نکال لیا اور محمد مصطفی ﷺ کے توسط اور آپ کے احسان کے نتیجے میں تمہیں اس تباہی سے آزاد کر دیا.كَذلِكَ يُبَيِّنُ اللهُ لَكُمْ أَيَتِهِ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ اى طرح اللہ تعالیٰ کھول کھول کر اپنی آیات تمہارے سامنے رکھتا ہے تا کہ تم ہدایت پاؤ.جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے یہ اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اگر چہ مرور زمانہ سے بعض جماعتوں میں اختلافات بھی پیدا ہو گئے تھے ، بعض نفرتوں نے بھی جگہ لے لی تھی.اتفاقات اختلافات میں بدل رہے تھے اس کے باوجود یہ جو دشمنی کا دور آیا ہے اور خاص طور پر حکومت کی طرف سے جو معاندانہ رویہ اختیار کیا گیا اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک دفعہ پھر جماعت پر یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 588 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء.فضل فرمایا اور یہ بھی ایک بہت ہی عظیم الشان فضل ہے جسے جماعت کو کبھی بھلا نا نہیں چاہئے کہ بہت سی ایسی جماعتیں جن میں تھیں تھیں چالیس چالیس سال سے دشمنیاں چلی آ رہی تھیں.ان کے اندر سارے اختلافات دور ہو گئے اور باہمی محبت کے ساتھ ایک دوسرے کے ساتھ ایثار اور قربانی کی روح سے وہ ملنے لگے.چنانچہ کثرت کے ساتھ ایسی رپورٹیں مجھے موصول ہوتی رہی ہیں اور اب بھی ہو رہی ہیں کہ جن جن جماعتوں کے متعلق اختلافات کا پتہ چلا وہاں مرکزی نمائندے پہنچے اور ان کو بتایا کہ دیکھو! یہ دن کون سے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اپنی نعمت کے ساتھ تمہیں لڑنے والوں، افتراق پیدا کرنے والوں ، دشمنی کرنے والوں سے نکالا اور ایک ہاتھ پر اکٹھا کیا تھا اب تم اس حالت میں دوبارہ واپس لوٹ رہے ہو جب کہ غیر بھی تمہارے دشمن ہو چکے ہوں اگر خدا کو بھی تم نے اپنا نہ بنایا تو تمہارا کیا رہے گا؟ چنانچہ یہ سادہ نصیحت کے کلمات جب جماعت کے کانوں تک پہنچے تو جو ردعمل دکھایا ہے وہ حیرت انگیز ہے اور بعض معاف کرنے والوں کی چٹھیاں بھی مجھے آئی ہیں اور بعض معافی مانگنے والوں کی چٹھیاں بھی آئی ہیں اور جو کیفیات انہوں نے لکھی ہیں وہ نا قابل بیان ہیں.کہتے ہیں آپ تصور نہیں کر سکتے کہ کیسی لذتیں ہمیں عطا ہوئی ہیں اللہ کی طرف سے دشمنیاں بھلانے کے نتیجے میں اور معافیاں دینے کے نتیجہ میں.بیسیوں سال اپنی جہالت میں ہم نے عناد پالے، ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کی تعلیم دی، خاندانوں کو بانٹا.ان کے لئے بھی آگ پیدا کی اپنے لئے بھی آگ پیدا کی لیکن یہ عجیب دور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احسان کے ساتھ ساری نفرتیں مٹادیں اور بڑی محبت کے ساتھ ہم ایک دوسرے سے ملنے لگے ہیں.چنانچہ ایک صاحب کا ابھی کل ہی خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ بہت دیر نیہ میری اپنے عزیزوں، اپنے چا، اپنے بعض دوسرے دوست لوگوں سے، رشتہ داروں سے قریبی شریکے کی دشمنیاں چلی آرہی تھیں.نماز تو ہم ایک ہی مسجد میں پڑھتے تھے لیکن کبھی ایک دوسرے کو السلام علیکم نہیں کہا.کہتے ہیں کہ اب جب ان کو تو غالباً کسی نے نصیحت بھی نہیں کی خود ہی خیال آیا یہ اللہ تعالیٰ کے فرشتے بھی جماعت کو ایک ہاتھ پر اکٹھا کر رہے ہیں، ان کو ایک دن خیال آیا کہ یہ تو بڑا ظلم ہے کہ دشمن بھی ہمیں ماررہا ہو اور ہم بھی ایک دوسرے سے نفرت کا شکار ہوں یہ تو نہیں ہوگا چاہے مجھے
خطبات طاہر جلد ۳ 589 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء جھکنا پڑے، چاہے مجھے اپنا حق چھوڑنا پڑے میں نے معافی میں پہلا ہاتھ بڑھانا ہے.کہتے ہیں چنانچہ میں نے اپنے بزرگ سے جا کر نماز سے فارغ ہوئے ہی تھے تو ان سے معافی مانگی اور وہ بھی جس طرح بے اختیارا انتظار میں ہوں دوڑ کر گلے لگ گئے.کہتے ہیں جو ہماری آنکھوں کا حال تھا جو ہمارے دل کی کیفیت تھی کوئی دنیا میں اس کا تصور نہیں کر سکتا.ایسی روحانی لذت تھی کہ خدا کے فضل کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہو سکتی.کہتے ہیں اس چسکے میں میں وہیں بیٹھ گیا کیونکہ میرا ایک اور بھی عزیز تھا جس سے میری لڑائی تھی میں نے کہا وہ نماز سے سلام پھیرے تو میں اس سے بھی ملکر جاؤں اور عجیب کہتے ہیں اتفاق تھا کہ اسکے دل میں بھی نماز کے دوران یہی کیفیت پیدا ہوگئی.میں اس کو تاک رہا تھا اس نے سلام پھیرا اور دوڑ کر میری طرف آیا اور کہا میں پہل کرتا ہوں حالانکہ فیصلہ پہلے میں بھی کر چکا تھا کہ میں نے ہی پہل کرنی ہے.یہ شہروں میں بھی واقعات ہو رہے ہیں ، دیہات میں بھی واقعات ہور ہے ہیں اور دور دراز علاقوں میں آزاد کشمیر کے چھوٹے چھوٹے دیہات ہیں وہاں بھی یہ واقعات رونما ہور ہے ہیں.یہ خدا تعالیٰ کے فرشتے ہیں جو خدائی تقدیر کے مطابق کام کر رہے ہیں اور ایک دفعہ پھر وہی دور آ رہا ہے اللہ کے فضل اور احسان کے ساتھ کہ جس میں خدا تعالیٰ کے فرشتے دلوں کو باندھا کرتے ہیں انسان کے بس کی بات نہیں.چنانچہ ایک صاحب نے اس تجربے کے بعد لکھا کہ اب تو یوں لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے زمانہ میں پہنچ گئے ہیں.اس طرح ہمارے دل صاف ہوئے ہیں اس طرح محبتیں پیدا ہوئیں ہیں اپنے بھائیوں کے لئے کہ وہ واقعات جو تاریخ میں پڑھتے تھے وہ ذہن میں آنے لگ گئے ہیں.چنانچہ یہ وہ مضمون ہے جسے خدا تعالیٰ پہلے خوف دلا کر توجہ دلاتا ہے جس کی طرف اعلیٰ ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے پھر آسان طریق بتا دیتا ہے کہ اتنا تو کر سکتے ہو کہ ایک ہاتھ جو حضرت محمد مصطفی اے کے ہاتھ میں دے دیا اسے واپس نہیں لینا.کاٹا جائے ،تم پارہ پارہ کئے جاؤ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاؤ لیکن اب یہ ہاتھ جو ہے یہ اب واپس نہیں جائے گا.یہ فیصلہ کر لو تو ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تم سے وہی سلوک کریں گے جو ان لوگوں سے ہوتا ہے جنکے متعلق فرمایا وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُم مُّسْلِمُونَ جس لمحہ بھی اب تم پر موت آئے گی اس حالت میں وہ
خطبات طاہر جلد ۳ 590 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء لحہ تمہارے اسلام کا لمحہ لکھا جائے گا.پھر وہ ان کو جذبات کی دنیا میں داخل کر دیتا ہے احسانات کی باتیں فرماتا ہے کہ کس طرح تم پر نعمتیں کیں تم سے پیار کا سلوک کیا ، کیا تم ایسے ہو جاؤ گے ناشکرے کہ اب یہ نعمتیں پانے کے بعد پھر ان حالتوں میں واپس لوٹ جاؤ گے! اسکے بعد فرمایا کہ جو نعمتیں تم نے پالی ہیں ان کو اپنے تک محدود نہ رکھو ان کو آگے پھیلا ؤ اور یہ جو حکم آتا ہے اب اس میں صرف مسلمانوں کی جماعت مراد نہیں ہے بلکہ غیر مسلم سوسائٹی تک بھی ان نعمتوں کو پھیلانے کی کوشش کرو.یہ ہے اللہ تعالیٰ کا احسان اور یہ ہے قرآن کریم کی حیرت انگیز تعلیم کہ جو نعمت اتارتا ہے اسے عام کرتا چلا جاتا ہے.مسلمان سوسائٹی کو پہلے اس بات کی اہل بناتا ہے کہ وہ اس نعمت کو خود قبول کرلے اور خود قبول کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ تم نے اس پر بیٹھ نہیں رہنا.تمہاری منزل صرف یہ نہیں ہے کہ تم ایسے ہو جاؤ اپنے ماحول کو بھی ایسا بناؤ.فرمایا: وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةً يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.کہ اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو ! تم نے اس نعمت کو خوب پالیا اب اس نعمت کو پھیلانے کی کوشش کرو.اپنے گردو پیش اپنے ماحول میں یہی محبتوں کی نہریں جاری کر دو کیونکہ اسی کا نام جنت ہے.تم میں ایک امت اس بات پر وقف ہو جائے کہ لوگوں کو بھلائی کی طرف بلائے ، امر بالمعروف کرے اور نھی عن المنکر کرے وَ أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ.یہی وہ لوگ ہیں جو بالآخر نجات پائیں گے اور فلاح پائیں گے.چنانچہ پاکستان کے احمدیوں کے اوپر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے ان پر اپنی نعمت نازل فرمائی ان کے دل ملا دیئے تو اس بات پر خوش نہ ہوں نـعــو ذبالله من ذالک کہ غیر آپس میں لڑ رہے ہیں، جو ان کا مقدر ہے وہ ان کے ساتھ ہے مگر تمہارا مقدر ان کی وجہ سے نہیں بدلنا چاہئے تمہارا مقدر بہر حال یہی رہے گا کہ تم غیروں کو بھی نیکی کی طرف بلا ؤ اور ان کے دکھوں پر خوش ہونے کی بجائے ان کے دکھ دور کرنے کی کوشش کرو کیونکہ فلاح کی یہی راہ ہے جو قرآن کریم سے ہمیں معلوم ہوئی.پس اس وقت جو پاکستان کا معاشرہ مناقشتوں میں بٹ گیا
خطبات طاہر جلد۳ 591 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء ہے، بے انتہا دکھ دیئے جارہے ہیں ایک دوسرے کو خدا کے نام پر مساجد میں نہایت گندی مغلظات ایک دوسرے کے فرقے کے خلاف بولی جارہی ہیں اور کھلم کھلا یہ تعلیم دی جارہی ہے مساجد سے کہ فلاں فرقے کے گھر جلاؤ تو تم جنت میں جاؤ گے، فلاں فرقے کے مال لوٹو گے تو تم جنت میں جاؤ گے، فلاں فرقے کے بزرگوں کی توہین کرو تو تم جنت میں جاؤ گے.فلاں فرقے کے معززین کو گندی گالیاں دو تو تم جنت میں جاؤ گے، عجیب عجیب نسخے بانٹے جارہے ہیں جنت کے! تو اس بات پر خوش ہونے کا کوئی مقام نہیں کہ یہی چیزیں پہلے تمہارے خلاف ہورہی تھیں بلکہ قرآن تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تمہیں جس طرح ہم نے اپنے فضل سے بچایا اور محمد مصطفی ﷺ کے صدقے تم پر نعمتیں نازل فرما ئیں اب یہ نعمتیں تم غیروں میں بانٹو اور انکی سوسائٹی کی بھی اصلاح کی کوشش کرو.پس تمام پاکستان کی جماعتوں پر یہ فرض ہے، قرآن کریم کی طرف سے عائد کردہ ہے وہ میرا حکم نہیں ہے کہ وہ تمام پاکستان کی سوسائٹی میں بھی اصلاح کی کوشش کریں.اصلاح معاشرہ کے لئے جہاں تک ممکن ہے جدو جہد کریں اور لڑنے والوں کو سمجھائیں کہ دیکھو خدا کے نام پر نفرتیں نہیں پھیلایا کرتے خدا کے نام پر تو محبتیں پھیلا کرتی ہیں.یہ عجیب دن چڑھارہے ہو تم کہ سورج کے نام پر تاریکیاں اتارنے لگے ہو.محمد مصطفی ﷺ کی محبت میں عورتوں کو بیوائیں بنارہے ہو، بچوں کو یتیم کر رہے ہو، گھروں کو جلا رہے ہو، زندہ جلا دیئے ہیں بعض لوگ گھروں میں اور مساجد کو ویران کر رہے ہو اور مساجد کو منہدم کر رہے ہو پھر آگیں لگا رہے ہو تیل چھڑک چھڑک کر کس کی طرف سے تم آئے تھے کس کی طرف سے پیغام دینے لگے ہو؟ کون سا تم نے اپنا رخ مقرر کیا تھا کس طرف تمہاری منزل پھر گئی ہے؟ کچھ خدا کا خوف کر وہ نصیحت جو دل سے نکلتی ہے وہ اثر کرتی ہے.آپ دل کی آواز اگر پہنچا ئیں گے اپنے معاشرہ میں تو یقیناً اس کا فائدہ پہنچے گا.انشاء اللہ فرمایا وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنْتُ کہ تم نصیحت بھی کرو اور پھر نصیحت پکڑو بھی ان سے کیونکہ تم جب نصیحت کرو گے تو تم زیادہ اس بات کے اہل ہو گے کہ ان سے نصیحت حاصل کر سکو اور تمہاری اندورنی جمعیت کو مزید تقویت ملے گی.
خطبات طاہر جلد ۳ 592 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء کیسے عظیم الشان فطرت کے بار یک راز ہیں جو اللہ تعالیٰ ہمیں بتاتا چلا جاتا ہے.عجیب کلام ہے، یہ تو ایسا کلام ہے کہ پڑھتے پڑھتے عاشق ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا کوئی انسان.فرماتا ہے ہم جو تمہیں کہتے ہیں دوسروں پر احسان کرو تو دراصل یہ تمہارا اپنے اوپر احسان ہو گا تم یہ نہ سمجھو کہ تم محسن بن جاؤ گے خدا کی تقدیر ایسی ہے کہ نیکی کرنے والے کو اسی وقت تازہ تازہ جزا بھی ساتھ ملنی شروع ہو جاتی ہے کسی نیکی میں خدا ادھار نہیں رکھتا.فرمایا پھر تو جب نصیحت کرو گے تو تمہیں خیال آئے گا کہ افسوس یہ لوگ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے ، ان کا کیا حال ہوا اور تم ان سے نصیحت پکڑو گے اور تمہارے دل تقویت پائیں گے اور یہ فیصلے کرو گے کہ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِيْنَ تَفَرَّقُوا ان لوگوں کی طرح اب ہم نے نہیں ہونا جنہوں نے تفرقہ اختیار کر لیا وَاخْتَلَفُوا اور آپس میں اختلاف کر گئے.مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَتُ بعد اس کے کہ خدا کی طرف سے کھلے کھلے نشانات ان پر نازل ہوئے تھے.وَأُولَكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيم اور ان لوگوں پر عذاب عظیم آنے والا ہے اس لئے ان کو بچاؤ بھی اور ان حالتوں سے بچنے کی بھی مزید کوشش کرو.فرماتا ہے یہ تو ہو گا لیکن بعض لوگوں کے مقدر میں بعض چیزیں لکھی جاتی ہیں تم کوشش کرو گے اسکی جزا پا لو گے لیکن جن کے مقدر میں فلاح نہیں ہے، جن کے مقدر میں ہدایت نہیں ہے انہوں نے اپنے رستے پر چلتے رہنا ہے.اس لئے جب کوئی نا کامی اور نا مرادی دیکھ لے اور پھر کوئی بچنے کی راہ نہ پائے اس وقت چہرہ کالا پڑ جایا کرتا ہے ایک نحوست سی چھا جاتی ہے چہرے کے اوپر تو فرمایا یہ نحوست تمہارے اپنے اعمال کا پھل ہے تمہیں خدا نے ایک نعمت عطا فرمائی تم پر نعمت نازل کی تم نے اس نعمت کا انکار کیا.محمد مصطفی اے نے تمہیں محبت کی تعلیم دی تم نے اس تعلیم کو نفرتوں میں بدلا.محمد مصطفی ﷺ نے رحم اور شفقت کی تعلیم دی تم نے غیظ وغضب میں اس کو تبدیل کر دیا اس کے نتیجہ میں سوسائٹی میں عذاب کا پیدا ہونا ایک لازمی امر تھا.اب جب تم اس مقام پر پہنچ گئے ہو تو یہ ہے منہ کا کالا ہونا لیکن تم یہ جو سمجھ رہے ہو کہ یہ کھیل ہیں اور ان باتوں کے نتیجہ میں خدا کی غیر معمولی عذاب کی تقدیر نازل نہیں ہوا کرتی تو ہم تمہیں یہاں متنبہ کرتے ہیں یہ کہ کوئی کھیل نہیں تھا.یہ انتہائی خوف ناک جرم ہیں خدا کی نظر میں.اس دنیا میں تو جو سزا تمہیں مل رہی ہے وہ مل رہی ہے لیکن اللہ تعالیٰ تمہیں بتاتا ہے کہ تم نے جو عذاب کا انکار کیا ہے کہ ان باتوں کے
خطبات طاہر جلد ۳ 593 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء وہ نتیجہ میں عذاب نہیں آیا کرتے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو ان باتوں کے نتیجہ میں عذاب آجایا کرتے ہیں.یہ جو عذاب ہے یہ دوسرا عذاب ہے ، ایک عذاب تو ہے لڑائی جھگڑے فساد کے نتیجہ میں سوسائٹی ویسے ہی دکھوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور اسکے باوجود کھیلتے رہتے ہیں یہ لوگ اپنی زبان چاٹنے والی بلی کی طرح وہ مزے لوٹتے رہتے ہیں عذابوں کے اور سمجھتے ہیں کہ بس یہی ہے ہم نے مارا ہمیں مزہ آیا، انہوں نے مارا کچھ انہوں نے لطف اٹھا لیا یہ کھیل چلتی ہے لیکن ایسی قومیں پھر ہلاک ہو جایا کرتی ہیں، ان کے اوپر خدا کے عذاب کے فرشتے پھر مسلط کئے جاتے ہیں.فرمایا تم جو یہ سمجھ رہے تھے کہ یہ نہیں ہوگا یہ بھی ہوگا اور اب تم اس عذاب کی تیاری کرو جو خدا کی طرف سے ان حالتوں میں نازل ہوا کرتا ہے.وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِى رَحْمَةِ اللَّهِ ہاں وہ لوگ جن کے چہرے سفید ہیں نورانی ہو گئے خدا کے فضل کے ساتھ اللہ کی رحمت میں ہیں هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ وه ہمیشہ اللہ کی اسی رحمت میں رہیں گے.جو علامتیں ظاہر ہو رہی ہیں اس وقت پاکستان میں وہ نہایت ہی قابل فکر ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آپس کے اختلافات صرف مذہبی دنیا تک نہیں ہیں بلکہ سیاسی دنیا میں بھی اس طرح کی تفریقات ہو چکی ہیں.صرف مذہبی حقوق نہیں دبائے جار ہے بلکہ سیاسی حقوق بھی دبائے جار ہے ہیں.صرف مذہبی امور میں ہی غلط روش اختیار کرنے والوں کی حوصلہ افزائی نہیں ہو رہی بلکہ سیاسی امور میں بھی پیشہ ور پیسہ لے کر غلط نظریات پھیلانے والوں کی حوصلہ افزائی ہورہی ہے.کچھ اندر سے ہو رہی ہے کچھ باہر سے ہو رہی ہے.نہایت ہی خوفناک حالت تک پاکستان اس وقت پہنچ چکا ہے.آنکھیں بند کرنے والوں کو تو کچھ بھی نظر نہیں آیا کرتا لیکن جن کو خدا تعالیٰ نے بصیرت عطا فرمائی ہے وہ دیکھ رہے ہیں کہ کس مقام کی طرف پاکستان پہنچ چکا ہے اور اس سے آگے پھر کیا ہے.چونکہ جماعت احمدیہ پر ذمہ داری ہے کہ قوم کو ہر قسم کی ہلاکت سے بچانے کی کوشش کرے اسلئے یہ وقت ایسا نہیں ہے کہ آپ اپنے انتقام لیں اور چونکہ آپ پر ظلم کئے گئے ہیں اس لئے خوش ہوں کہ کوئی فرق نہیں پڑتا اب ان کو مار پڑ رہی ہے.قرآن کریم ایسے عذابوں کی بھی خبر دیتا ہے جو قومی عذاب ہوتے ہیں.ان میں نیک لوگ بھی پھر تکلیفیں اٹھایا کرتے ہیں بدوں کے ساتھ اس لئے
خطبات طاہر جلد۳ 594 خطبه جمعه ۱۹ / اکتوبر ۱۹۸۴ء جس حالت تک پاکستان پہنچ چکا ہے اور آگے بڑھتا چلا جارہا ہے وہ ایسے عذاب کی خبر دے رہی ہے حالت جس میں قومی طور پر عذاب آجایا کرتے ہیں.پھر بعض دفعہ نیک و بد میں وہ تمیز نہیں رہا کرتی جو عام حالات میں پیدا کر دی جاتی ہے.ایک تمیز تو بہر حال ہوگی اس میں تو کوئی شک نہیں کہ جہاں تک احمدیت کی صداقت کا تعلق ہے، احمدیت کے قرب الہی کا تعلق ہے اپنے نیک بندوں کو خدا تعالیٰ غیروں سے ممتاز ضرور کرے گا اس میں تو کوئی شک نہیں لیکن قومی عذابوں میں نیک بندوں کو بھی تکلیفیں ضرور پہنچ جایا کرتی ہیں اور ایک تکلیف تو بہر حال پہنچتی ہے جب اپنے بھائی بندوں کو دکھوں میں مبتلا دیکھتے ہیں تو سب سے زیادہ دکھ پھر یہی لوگ محسوس کرتے ہیں اس لئے تیاری کریں اس بات کی جو نعمت اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہے اسے غیروں تک پہنچائیں اور ان کو متنبہ کریں اور انہیں بتائیں کہ یہ اچھی راہیں نہیں ہیں جن کو تم نے اختیار کیا ہے اور دن تھوڑے رہ گئے ہیں تمہارے اس لئے خوف کرو اور تقویٰ اختیار کرو.لیکن افسوس کہ جو اطلاعیں وہاں سے مل رہی ہیں وہ ایسی اطلاعیں نہیں ہیں جن پر انسان اطمینان حاصل کر سکے.واپسی کی بجائے بعض معاملات میں مزید آگے بڑھ رہے ہیں.چنانچہ آج ہی اطلاع ملی ہے ٹیلیفون پر کہ گوجرانولہ کی ہماری مسجد پر سے مولویوں نے خود اوپر چڑھ کر کلمہ مٹایا کالی سیاہیاں پھیر کر اسکی تصویر میں بھی پہنچی ہوئی ہیں میرے پاس.چند دن پہلے کی بات ہے کوئی خدا کا خوف نہیں کیا.کوئی حیا نہیں کی کہ ہم کن لوگوں میں شمار کئے جائیں گے.کلمہ مٹانے والوں کے اوپر جب اس حالت میں موت آئے تو ان کے متعلق کون کہہ سکتا ہے کہ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ کا حق تم نے ادا کر دیا.بہر حال جس تاریکی میں وہ بس رہے تھے اس کا انہوں نے حق ادا کیا اور اس گواہی کو اپنے ہاتھ سے مٹایا کالا رنگ پھیر کر کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اور اسکے سوا کوئی معبود نہیں ہم گواہی دیتے ہیں کہ محمد مصطفی علی اسکے بندے اور رسول ہیں.احمدیوں نے دوبارہ نسبتاً اونچی جگہ پہ وہی کلمہ مسجد میں لکھ دیا اور انہوں نے کرنا ہی تھا اور یہی کریں گے.کوئی نہیں ہے دنیا میں ایسی طاقت جو احمد یوں کو کلمہ پڑھنے سے یا کلمہ لکھنے سے روک سکے جو سزا میں تمہاری پٹاری میں موجود ہیں بے شک نکالتے چلے جاؤ بہر حال احمدی کلمہ سے نہیں ہے گا.یہ وہم دل سے نکال دے اگر کسی حکومت یا کسی قوم کے دماغ میں یہ وہم ہے.چنانچہ انہوں نے
خطبات طاہر جلد ۳ 595 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء لکھا اور ٹھیک لکھا اور میری یہی ان کو ہدایت تھی بلکہ میری ہدایت کا کیا سوال ہے میری ہدایت تو مانتے ہی کلمہ کی وجہ سے ہیں.کلمہ کا رشتہ نہ ہو تو میں کیا چیز ہوں ان کی نظر میں؟ اسلئے بہر حال ہر احمدی کلمہ پڑھے گا، کلمہ لکھے گا، کلمہ اس کا اوڑھنا بچھونا ہوگا، کلمہ اسکی زندگی کی ہر رگ میں دوڑے گا.چنانچہ ان پر اب با قاعدہ اس حکومت میں یہ مقدمہ درج ہوا ہے کہ احمدی کلمہ لکھ کر مسلمان بن رہے تھے اسلئے اس جرم میں ان کو تین سال کی سزاملنی چاہئے اور چونکہ ان کے یعنی بات تو سچی ہے کہ احمدیوں نے لکھا ہے اس میں کوئی جھوٹ نہیں ہے لیکن چونکہ ان کے پاس کوئی گواہ نہیں تھا رات کو کسی نے لکھا اس لئے ان کی عادت یہ ہے کہ سچ بھی ہو تو اس میں جھوٹ کی ملونی ضرور ملانی ہوتی ہے.چنانچہ تین آدمیوں کے نام چن لئے انہوں نے کہ یہ وہ آدمی ہیں جن کے اوپر ہم گواہی دلوائیں گے.عجیب بیچاری قوم کا حال ہو گیا ہے کہ قسمت سے سچ بولنے کا موقع بھی ہاتھ آئے تو وہ بھی گنوا دیتے ہیں.یہ کہہ دیتے کہ ٹھیک ہے کسی نے لکھا ہے ہم تحقیق کریں گے لیکن اوپر سے یہ لعنت بھی مول لے لی کہ جھوٹا الزام ان لوگوں پر لگایا جنہوں نے نہیں لکھا تھا لیکن وہ بھی عدالت میں پیش ہوں گے تو کہیں گے کہ اگر نہیں لکھا تو اب ہم لکھنے کے لئے تیار ہیں ابھی بھی ہم تمہارے سامنے یہ گواہی دیتے ہیں کہ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے اور محمد مصطفی علیہ ا سکے بندے اور اس کے رسول ہیں اور یہ کلمہ پڑھ کر ان کو گواہی دینی چاہئے عدالت میں.پس اگر یہ فیصلہ کر لیا ہے قوم نے تو پھر کرے پھر تو یہ جیلیں تھوڑی رہ جائیں گی آپ کیلئے پھر تو آپ کو اور جیلیں بنانی پڑیں گی.لیکن جس قسم کے تفرقات پھیل رہے ہیں مجھے تو ڈر ہے کہ اور بھی ہمارے پیچھے ایسے آنے والے ہوں گے جن کے ضمیر کچلے گئے ہیں ، جن کی زبانوں پر تالے لگے ہوئے ہیں.یہ تو اب رکنے والا معاملہ نہیں ہے اسلئے جو کچھ بھی ہوگا اور ایک احمدی بھی اس حالت میں نہیں مرے گا کہ وہ کلمہ مٹا رہا ہو.ہاں اس حالت میں جان دے گا کہ کلمہ لکھتے ہوئے اس پر حملہ کی گیا اور کلمہ لکھنے کے نتیجہ میں اسے موت کی سزا ملی.یہ ہے وہ مقام جس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنْتُمْ مُّسْلِمُونَ اے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! تم نے محمد کے ہاتھ پر بیعت کی ہے.یہ ہاتھ تم نے نہیں چھوڑ نا خواہ یہ ہاتھ کاٹا جائے.یہ ہاتھ تم نے نہیں چھوڑ نا خواہ
خطبات طاہر جلد۳ 596 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء تمہارے سر قلم کئے جائیں اور گردنیں کاٹی جائیں اس ہاتھ کے ساتھ وابستہ رہوتو خدا کی قسم آسمان کا خدا گواہی دیتا ہے کہ اس حالت میں اگر تم مرو گے تو آسمان اور زمین کا ذرہ ذرہ یہ گواہی دے رہا ہوگا کہ تم مسلمان ہو تم مسلمان ہو تم مسلمان ہو اور لعنتی ہیں وہ جو کلمہ مٹاتے ہوئے مارے گئے یعنی کلمہ مٹانے کے زور میں اگر فساد ہوا اس حالت میں جن کی جان نکل رہی ہوگی خدا کے فرشتے ان پر لعنت پھینک رہے ہوں گے.پس عجیب قوم ہے، یہ عجیب حکومت ہے کہ وہ لعنتیں اپنے ذمے سہیڑ رہے ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے زمانے میں کفار مکہ کے مقدر میں لکھی گئی تھیں.جب ایک دفعہ قدم غلط سمت میں اٹھتا ہے تو کس طرح اٹھتے اٹھتے ایسے مقام کو پہنچ جاتا ہے جہاں کہ منہ کی سیاہی سامنے پڑی ہوئی نظر آنے لگ جاتی ہے.وہ سارے ہاتھ جو کلمہ پر سیاہیاں مل رہے ہیں یہ وہی تو سیاہیاں ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ.انہیں سیاہیوں سے تمہارے منہ کالے کئے جائیں گے قیامت کے دن اور اس دنیا میں بھی.اس لئے احمدی نے تو کسی نے باز نہیں آنا یہ میرا پیغام ہے.اگر پاکستان کے احمدی قید میں چلے جائیں گے سارے تو باہر کے احمدی جائیں گے وہاں اور کلمہ پڑھتے ہوئے داخل ہوا کریں گے.لیکن نہیں رکیں گے کلمہ پڑھنے سے یہ وہ مقام نہیں ہے جہاں ہم تم سے تعاون کر سکتے ہیں کسی قسم کا بھی اس لئے و ہم بھی یہ دل سے نکال دو.اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے.اپنے بھائیوں کے لئے بھی دعائیں کریں اور ان ظالموں کے لئے بھی دعائیں کریں جو اپنے لئے اپنے مقدر کو اتنا تاریک بنا چکے ہیں کہ روشنی کی کوئی کرن باقی رہتی ہوئی نظر نہیں آتی.وہ سیاہی جس کا قرآن ذکر فرما رہا ہے خود اپنے مونہوں پر مل بیٹھے ہیں.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے اگر یہ باز نہیں آئیں گے تو میں یہ آپ کو بتا دیتا ہوں کہ پھر یہ قوم اپنے ملک کے ظالموں کے نہیں بلکہ غیر ملک کے ظالموں کے سپر د کی جائے گی کیونکہ قرآن کریم یہ بتاتا ہے کہ جب ظلم حد سے بڑھ جایا کرتا ہے تو تم پر جلا داور سفاک مقرر کئے جاتے ہیں اسلئے بہت خوف اور خطرے کا مقام ہے اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور جماعت احمدیہ کو ان کو نجات بخشنے
خطبات طاہر جلد ۳ کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: 597 خطبه جمعه ۱۹ اکتوبر ۱۹۸۴ء ابھی چونکہ بارش ہے موسم خراب ہے عصر کے وقت بھی کچھ لوگ باہر سے آتے ہیں نماز پڑھنے کے لئے تو اسلئے نمازیں جمع ہونگی اور ایک نکاح ہونا تھا وہ آج عصر کی بجائے انشاء اللہ پھر مغرب کے بعد پڑھا دیا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 599 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان (خطبه جمعه فرموده ۱/۲۶ اکتوبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: یہ جمعہ اس سال کے اکتوبر کا آخری جمعہ ہے اور حسب روایت اس جمعہ میں جو اکتوبر کا آخری جمعہ ہوتا ہے عموماً تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کیا جاتا ہے اور اگر کسی وجہ سے اس جمعہ میں نہ ہو سکے تو پھر نومبر کے پہلے جمعہ میں یہ اعلان کیا جاتا ہے.قبل ازیں تو اس جمعہ کے ساتھ مجلس انصار اللہ کے اجتماع کا افتتاح بھی اکٹھا ہو جایا کرتا تھا لیکن امسال حکومت نے مجلس انصار اللہ ک تو اجتماع کی اجازت نہیں دی لیکن علما کو جو غیر احمدی علما ہیں ان کو ربوہ میں اکٹھے ہو کر تین دن ، دن رات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلاۃ والسلام اور بزرگان سلسلہ اور علما سلسلہ کو نہایت گندی گالیاں دینے کی اجازت دی کیونکہ ان کا یہ ایمان ہے حکومت کا کہ اس ملک میں انصاف ہونا چاہئے اور ان کا یہ بھی دعوی ہے کہ انصاف کیا جارہا ہے اور جس طرح ایک احمدی کی حیثیت ہے اس ملک میں اسی طرح صدر پاکستان کی حیثیت ہے تو اس لئے اس بات کو سو فیصدی ثابت کرنے کے لئے وہ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تا کہ کسی قسم کے اشتباہ کا کوئی سوال نہ رہے کہ کس قسم کا انصاف اس ملک میں قائم ہے؟ بہر حال اللہ تعالیٰ سے ہی ہماری ساری امیدیں اور توقعات وابستہ ہیں اور خیر الحاکمین تو وہی ہے.جب اس کے انصاف کا وقت آیا کرتا ہے تو مالکیت کی کنجیاں چونکہ اس کے ہاتھ میں ہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 600 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء اس لئے ہر دوسرا انسان انصاف کے مقام سے معزول کیا جاتا ہے اور خدا کی تقدیر جب اپنے ہاتھ میں انصاف لیتی ہے تو پھر کسی کا بس نہیں چلتا کہ اس انصاف کے مقابل پر کوئی بات کہہ سکے.تو ہمیں تو خیر الحاکمین سے ہی توقع ہے کہ وہ انصاف فرمائے گا لیکن دعا ہماری یہی ہے کہ اللہ تعالی اس قوم پر رحم فرمائے.بہر حال یہ جمعہ چونکہ مجلس تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کا جمعہ ہے اس لئے میں آج مجلس تحریک جدید کے نئے مالی سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں اور اس ضمن میں سب سے پہلی خوشخبری جماعت کو یہ دینی چاہتا ہوں کہ گزشتہ سال نئے سال کے آغاز کے وقت میں نے اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ چونکہ پچاس سال تحریک جدید کو پورے ہورہے ہیں اور آئندہ سال جب اعلان ہو رہا ہوگا آغاز کا تو اس وقت اکاون واں سال شروع ہو چکا ہوگا اور چونکہ یہ ایک جماعت کی تاریخ میں ایک Landmark ہے، ایک خاص نشانِ منزل ہے اس لیے پہلے تو وعدے پچاس سال تک لاکھوں میں ہوتے رہے اب میری خواہش ہے کہ آئندہ سال ہم کروڑ تک پہنچ جائیں اور آئندہ پھر کروڑوں میں باتیں ہوں یہاں تک کہ صدی کے آخر پر جا کر تحریک جدید کا بجٹ اربوں میں پہنچ چکا ہو.الحمد اللہ خدا تعالیٰ نے احسان فرمایا اور نا مساعد حالات کے باوجود اور باوجود اس کے کہ دوسری بہت سی تحریکات بھی تھیں اور بہت اقتصادی بوجھ بھی تھا جماعت پر.اب تک اس سال کے وعدے جو گزشتہ سال گزرا ہے ایک کروڑ تین لاکھ انتہبر ہزار (1,03,69000) تک پہنچ چکے ہیں اور جماعت پاکستان نے بھی اس معاملہ میں غیر معمولی قربانی کا اظہار کیا ہے اور باہر کی جماعتوں نے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں اضافہ کے ساتھ وعدے پیش کئے.پاکستان کے اضافے بیرونی دنیا کے اضافوں سے نسبت کے لحاظ سے زیادہ آگے ہیں.جہاں تک انگلستان کا تعلق ہے جماعت انگلستان کے گزشتہ سے قبل سال کے وعدے بائیس ہزار پاؤنڈ (22,000 ) تھے اور گزشتہ سال یعنی جو اب ختم ہو رہا ہے اس میں یہ وعدے بڑھا کر چھبیس ہزار (26,000) تک پہنچادیے گئے لیکن وصولی میں ابھی انگلستان کچھ پیچھے ہے اور وصولی اکیس اکتوبر تک وصولی اکیس ہزار پاؤنڈ (21,000) تک پہنچی ہے یعنی بیاسی فیصد (%82) تو یہ بہت معمولی سا فرق ہے.معلوم ہوتا
خطبات طاہر جلد ۳ 601 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء ہے عدم توجہ کی وجہ سے یا غالبا یوروپین مشنز کی تحریک ہے اس کے نتیجہ میں شاید کچھ غفلت ہوگئی ہومگر میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ ذراسی کوشش سے ہی چند دن کے اندر یہ کمی بھی پوری ہو سکتی ہے.پاکستان کا جو مجموعی وعدہ اس کے مقابل پر بھی وصولی میں کچھ کمی ہے لیکن گزشتہ سال کے مطابق اگر ہم جائزہ لیں تو معلوم یہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں عموماً اکتوبر میں جو فصلیں آتی ہیں ان پر ادا ئیگی ہوتی ہے اس لئے چند دن پاکستان کی جماعتیں تاخیر سے ادا ئیگی کرتی ہیں کیونکہ اکثر زمیندار جماعتیں ہیں.چنانچہ گزشتہ سال اکتوبر تک اکیس لاکھ پچاس ہزار (21,50,000) کی وصولی تھی لیکن سال کے آخر تک تمہیں لاکھ گیارہ ہزار (30,11,000 ) تک پہنچ گئی اسی سے توقع رکھتے ہوئے میں امید رکھتا ہوں کہ اب انشاء اللہ پاکستان کا وعدہ اپنے نہ صرف معیار کو پہنچے گا بلکہ آئندہ سال انشاء اللہ اور بھی آگے بڑھ جائے گا.بیرون پاکستان اور پاکستان کی جماعتوں کے موازنہ کے لئے چند چارٹس تیار کروائے گئے ہیں وہ میں آپ کو سنانا چاہتا ہوں.پاکستان کا جہاں تک تعلق ہے سال 49 میں اڑ میں ہزار ایک سو بیاسی (38,182 ) وعده کنندگان نے حصہ لیا اور تمہیں لاکھ بجٹ تھا.اکتوبر تک وصولی اکیس لاکھ پچاس ہزار روپے (21,50,000) تھی.لیکن سال کے اختتام کے بعد چند دن کے اندر اندر کل وصولی تمہیں لاکھ گیارہ ہزار دو سو تیس روپے (30,11,233 ) تک پہنچ چکی تھی اور سالِ رواں جو گزر رہا ہے اس میں وعدہ کنندگان ہی انتالیس ہزار نو سو آٹھ (39,908) تک پہنچ گئے یعنی خدا تعالی کے فضل سے سترہ سو چھبیس (1726 ) وعدہ کنندگان کی تعداد میں اضافہ ہوا.یه وعده کنندہ گان کا اضافہ زیادہ تر دفتر سوم میں ہے اور دفتر سوم میں خصوصی کوشش چونکہ لجنہ اماءاللہ کے سپرد ہے اس لئے اس کا سہرا ایک حد تک لجنہ اماءاللہ کے سر پر بھی بنتا ہے اللہ تعالی خواتین کو جزا دے ان کے سپر د جب بھی جماعت کی طرف سے کوئی کام کیا جاتا ہے تو وہ نہایت ہی مستعدی سے اسے سرانجام دیتی ہیں اور تمام دنیا کی عورتوں کا یہ اعتراض کہ ایک مسلمان عورت پردہ میں بٹھا کر کھی بنادی گئی ہے یہ جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ جہاں تک جماعت کی تاریخ کا تعلق ہے سب سے زیادہ کام کرنے والی پردہ دار عورت ہے اور تمام نیک تحریکات میں سب باتوں میں آگے بڑھنے والی خدا تعالی کے فضل سے پردہ دار عورت ہے بلکہ مردوں کے لئے کام کرنے والی بھی جو تحریکات مردوں
خطبات طاہر جلد۳ 602 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء سے تعلق رکھتی ہیں اگر ان میں کمی ہو اور عورتوں کے سپرد کی جائیں تو اس میں بھی آگے بڑھ کر ان کے ہاتھ بٹاتی ہیں.تو یہ اعتراض تو عمل سے جھوٹا ثابت ہو جاتا ہے کہ پردہ کے نتیجہ میں قوموں کے اندر کچھ ستی پیدا ہو جاتی ہے، ایک وجود کا حصہ معطل ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدی وجود میں تو اس کے بالکل برعکس نمونے نظر آ رہے ہیں.جو بے پردہ عورتیں ہیں ان کے رجحانات دنیا داری اور دنیا طلبی کی طرف زیادہ ہیں اور دوسرے مشاغل اور فیشن پرستیاں بھی ان کے اوپر برے رنگ میں اثر انداز ہوتی ہیں لیکن لجنہ کی پردہ دار خواتین اللہ تعالی کے فضل سے قربانی اور خدمت کے ہر معیار میں بہت ہی پیش پیش ہیں اور آزاد قوموں کی عورتوں کی کوئی تنظیم بھی اپنی مستعدی اور وقت کے بہترین مصرف کے لحاظ سے ان کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتی اور اصل جواب جو موجودہ دنیا میں اسلام پر حملوں کے ہیں وہ عملی لحاظ سے پیش کرنے چاہئیں اور وہی قابل قبول ہوا کرتے ہیں.تو دفتر سوم میں لجنہ اماءاللہ نے اللہ تعالی کے فضل سے نمایاں کام کیا اور گزشتہ سال بھی میں نے محسوس کیا تھا کہ بہت ہی اچھا کام کیا ہے اور رغیر معمولی اضافہ کیا ہے وعدہ کنندگاں میں بھی اور چندوں کی مقدار میں بھی.بجٹ سال 49 کا تمیں لاکھ روپے تھا اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر چہ وسط اکتو بر تک صرف اکیس لاکھ روپے وصولی تھی لیکن سال کے آخر اور کچھ دن بعد تک تمہیں لاکھ سے بڑھ گئی.اس مرتبہ بجٹ چالیس لاکھ رکھا گیا اور وسط اکتو بر تک ستائیس لاکھ اس ہزار (27,80,000 ) وصولی ہو چکی تھی اور اگر گزشتہ سال کی نسبت کوملحوظ رکھا جائے تو امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی یہ وصولی توقع سے بڑھ جائے گی.بجٹ میں اضافہ امسال %33 کیا گیا تھا اور گزشتہ کے مقابل پر یہ اضافہ %29 تھا جو اللہ تعالی کے فضل سے پورا ہو چکا ہے.دفتر اول، دفتر دوم اور دفتر سوم کے مواز نے بھی اعداد و شمار کی صورت میں موجود ہیں لیکن ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں.صرف دفتر اول کے متعلق میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ دفتر اول سے متعلق میں نے یہ تحریک کی تھی کہ دفتر اول چونکہ ایک بہت ہی عظیم الشان تاریخی حیثیت کا دفتر ہے اس لئے جماعت اس دفتر کو کبھی بھی مرنے نہ دے یعنی وہ لوگ جنہوں نے سب سے پہلے اس تحریک کی قربانیوں میں عظیم الشان حصہ لیا تھا ہمارے ماں باپ یا بعضوں کے دادا ہوں گے اور ان لوگوں نے پہلا قدم اٹھایا ہے عظیم الشان نیکی کی طرف اور یہ تمام دنیا میں جو کثرت کے ساتھ جماعتیں پھیل
خطبات طاہر جلد ۳ 603 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء گئی ہیں اور ملک ملک اللہ تعالیٰ کے فضل سے احمدیت کے خدام نعرہ ہائے تکبیر بلند کر رہے ہیں اور غیروں کو اسلام سکھا رہے ہیں یہ ساری برکت ان قربانی کرنے والوں کی قربانی کی ہے جنہوں نے دفتر اول کا آغاز کیا تھا.عورتیں کیا ، مرد کیا، اور بچے کیا عجیب عاشقانہ رنگ میں نہایت ہی غریبانہ حالت کے باوجود انہوں نے بہت بڑا بوجھ اٹھایا جو توقع سے بڑھ کر تھا اور پھر اس کو مسلسل تا زندگی وفا کے ساتھ نبھاتے رہے.اس لئے میں نے یہ تحریک کی تھی کہ جن کے والدین نے اس تحریک میں حصہ لیا تھا اور وہ فوت ہو گئے وہ صدقہ جاریہ کے طور پر اور اپنے والدین کے احسان کے طور پر اپنے دادا یا اور بزرگوں کے احسان کے طور پر جہاں سے وہ چندہ منقطع ہوا تھا وہاں سے اس چندہ کو دوبارہ شروع کر دیں اور چونکہ اس زمانہ کے مالی حالات کے پیش نظر وہ بہت بڑی رقمیں نظر نہیں آتیں آج کل کے حساب سے اگر دیکھا جائے تو اس لئے ہر شخص کے بس میں ہے کیونکہ ان لوگوں کے خاندان اللہ کے فضل سے بہت دنیاوی وجاہت پاگئے ہیں اور مالی لحاظ سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو کشائش عطا فرمائی ہے سہولتیں عطا فرمائی ہیں اس لئے اگر وہ سابقہ بقایا بھی دینے کی کوشش کریں تو ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ نہ صرف دیں بلکہ بڑھا کر دیں.چند بچے بھی اگر مل کر یہ فیصلہ کرلیں کہ ہم نے اپنے ماں باپ کے نام کو مرنے نہیں دینا اور قیامت تک ہماری نسلیں ان کی طرف سے چندے دیتی رہیں گی تو یہ بہت ہی ایک عظیم الشان قدم اٹھایا جائے گا اور جو لوگ اس میں حصہ لیں گے ان کے بھی نام اللہ کے رجسٹر میں ہمیشہ زندہ رہیں گے.بہر حال نسلاً بعد نسل اس دفتر کو ہم نے زندہ رکھنا ہے اور یہ دفتر ویسے بھی بہت ہی عظیم الشان معززین کا دفتر ہے.اس میں صحابہ کرام شامل ہیں، اس میں احمدیت کے نام پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پیغام سننے کے بعد شامل ہو کر قربانیاں دینے والے بکثرت لوگ شامل ہیں اور پھر تا بعین بھی اول نسل کے شامل ہیں اس لئے یہ دفتر جماعت کا خلاصہ ہے اور میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کے ملک میں بھی اگر کسی کے علم میں ہو کہ ان کے ماں باپ تحریک میں حصہ لیتے تھے تو وہ ضرور کوشش کریں کہ ان کے نام کو زندہ رکھیں.جو اطلاعیں ملی ہیں غالباً سولہ سو ایسے کھاتے تھے جن کو آپ Dead کھاتہ کہتے ہیں یعنی مرا ہوا کھانہ اور چونکہ ان لوگوں کی قربانیاں خدا کی نظر میں زندہ رہنے کے قابل تھیں اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں تحریک ڈال دی اور جب میں نے تحریک کی تو سولہ سو (1600) کھاتے سے کچھ
خطبات طاہر جلد۳ 604 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء زائد اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک زندہ ہو چکے ہیں اور ان کے ورثا نے بڑی محبت اور عشق کے اظہار کے طور پر قربانیاں پیش کی ہیں اور سارے بقایا جات پورے کر دیئے ہیں اور اب وہ آئندہ یہ عہد کر چکے ہیں کہ ہم ان کو جاری رکھیں گے اور ہمارے بعد وہ دعا کرتے ہیں کہ ہماری نسلیں بھی انشاء اللہ اس کو جاری رکھیں گی.لیکن بہت سے نام ایسے ابھی باقی ہیں جن کے متعلق تحریک جدید کے پاس ریکارڈ نہیں ہے کہ ان کے بچے کہاں گئے ہیں اور باوجود اس کے کہ جماعتوں کو سر کر دیا گیا تھا لیکن عموماً یہ ہوتا ہے کہ سرکلر امیر ، مربی تک پہنچتا ہے پھر بعض کارکنان تک پہنچ جاتا ہے اور رفتہ رفتہ اس کے اندر کمزوری آنی شروع ہو جاتی ہے اور یہ محنت نہیں اٹھائی جاتی کہ ساری جماعت کے ایک ایک فرد تک پیغام پہنچ جائے اور پھر یاد دہانی کروائی جائے اس لئے اس خطبہ میں میں خود یادہانی کرواتا ہوں کیونکہ اب تو ٹیسٹس (Cassettes) کے ذریعہ ساری دنیا میں پیغام پہنچ رہا ہوتا ہے تو جس جس احمدی کے کانوں تک یہ آواز پہنچے وہ تلاش کرے خود کہ میرے والدین یا میرے دادا پر دادا نے یا بعض اور بزرگوں نے حصہ لیا تھا کہ نہیں تحریک جدید میں اور اگر لیا تھا تو پھر اسے وہ زندہ کرنے کی کوشش کرے.اگر کوئی ایسے بزرگ ہوں جنکی اولاد نہ ہولا وارث مر چکے ہوں خدا نخواستہ ایسے بھی ہوتے ہیں بہر حال تو میری تحریک جدید سے یہ گزارش ہے کہ ان کے نام میرے سپرد کریں میری خواہش ہے کہ میں ان کی طرف سے بھی چندہ دوں اور آئندہ بھی میری اولاد کی جو بھی شکل ہوان کو بھی وصیت کروں کہ اللہ تعالیٰ ان کے نام زندہ رکھنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین.ایک حصہ تحریک جدید کا اعمال کی دنیا سے تعلق رکھتا ہے اس کے متعلق میں چند باتیں بعد میں بیان کروں گا اس سے پہلے کہ میں شروع کروں تحریک جدید کے بیرونی حصہ سے متعلق کچھ اعدادوشمار آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.گزشتہ سال بیرونی ممالک میں خدا تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ ترپن لاکھ اٹھاون ہزار تین سو پچاس روپے (53,58,350) کے وعدے تھے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس میں بھی نمایاں اضافہ ہوا اور اب تریسٹھ لاکھ انسٹھ ہزار چار سو چونتیس روپے (63,59,434) کے وعدے بیرونی ممالک سے وصول ہو چکے ہیں.ان میں جو نمایاں قربانی کرنے والی جماعتیں ہیں ان میں سے پین نے اضافہ کیا ہے.تعداد تو اگر چہ تھوڑی ہے لیکن بہر حال ان کے اخلاص کا معیار کافی
خطبات طاہر جلد۳ 605 خطبه جمعه ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۴ء بلند ہے.ایک سوتر اسی فیصد اضافہ کیا ہے پین نے.سری لنکا پیچھے تھا جو اور گزشتہ دور ہوا وہاں اس کے نتیجہ میں جماعت میں ایک نئی بیداری پیدا ہوئی.تحریک جدید میں بھی انہوں نے خدا کے فضل سے ایک سوا کہتر فیصد (171) اضافہ کے ساتھ چندے دیئے.سیرالیون میں ایک سو چھپیں فیصد (%125) اضافہ، سنگا پور میں سو فیصد ( %100 ) ، برما میں پچھتر فیصد (%75)، سوئٹزرلینڈ اڑسٹھ فیصد ( %68 ) ، گیمبیا میں چونسٹھ فیصد ( 64 ) ،لائبیریا میں تریسٹھ فیصد ( %63)، گی آنا میں اڑتیس فیصد ( 38 ) ، آئیوری کوسٹ میں اکتیس فیصد (%31)، یوگنڈا میں پینتیس فیصد (35)، غانا میں تمیں فیصد ( %30 ) ، ناروے میں اٹھائیس فیصد ( %28)، ٹرینیڈاڈ پچپیس فیصد (%25) اور شرق اوسط میں اٹھاون فیصد (58) اضافہ ہوا ہے.الحمد للہ.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزا عطا فرمائے.باقی جو ممالک ہیں جن میں معمولی اضافہ نسبتاً ہے ان کی فہرست پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن کچھ ممالک ایسے ہیں جو پیچھے بھی ہٹے ہیں اور میرا یہ خیال ہے کہ اس میں انتظامی وقت ہے یعنی انتظامی کمزوری ہے ورنہ یہ ناممکن ہے کہ جماعت کا قدم پیچھے ہٹے کیونکہ ہمارا تجربہ تو یہی ہے کہ جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ (آل عمران: ۱۳۵) جماعت کے اوپر چاہے تنگی کا زمانہ ہو چاہے خوشحالی کا زمانہ ہو یہ بہر حال آگے قدم بڑھاتی ہے..چنانچہ ربوہ کی مثال آپ دیکھ لیجئے.ربوہ میں جو فہرست ہے شہروں کی ، پاکستان کے شہروں کی اس میں سب سے زیادہ حیرت انگیز طور پر ربوہ میں اضافہ ہوا ہے حالانکہ ربوہ میں نسبتا غربا کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ایک بہت بڑی تعداد تو ایسی ہے کہ جن کو اگر سلسلہ گندم اور ضروریات مہیا نہ کرے تو ان کے لئے رہن سہن مشکل ہو جائے ، بہت ہی تکلیف دہ حالات پیدا ہوں اور بہت سے واقفین ہیں.اسی طرح مختلف مصائب کے مارے ہوئے پناہ کیلئے باہر سے یہاں آجاتے ہیں.تو عمومی معیار، اللہ تعالی اس کو بلند فرمائے ، فی الحال یہ بہت کم معیار ہے لیکن گزشتہ تین سال کے اندر ربوہ نے اخلاص میں جو ترقی کی ہے وہ اس سے ظاہر ہوتی ہے کہ سال 48 میں دو لاکھ ان کا وعدہ تھا اور اس سے آئندہ سال تین لاکھ انہتر ہزار کا ہوا اور امسال جو گزرا ہے خدا تعالیٰ کے فضل سے چار لاکھ سے کچھ اوپر وعدہ ہو چکا ہے، یہ وعدہ نہیں ہے وصولی ہے.ربوہ کے تین سال پہلے یعنی آج سے
خطبات طاہر جلد ۳ 606 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء - تین سال پہلے جو وصولی تھی وہ دولاکھ نو ہزار (2,09,000) تھی اور آج اس کی وصولی چار لاکھ ایک ہزار نو روپے ہو چکی ہے حالانکہ حالات ایسے خطر ناک رہے ہیں ربوہ میں اور ایسی پریشانیاں رہی ہیں کہ خطرہ یہ تھا کہ سب سے زیادہ ربوہ کے چندوں پر برا اثر پڑے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے جو مومنوں کی صفات بیان فرمائی ہیں قرآن کریم میں ان میں ایک یہ ہے وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بهِمْ خَصَاصَةٌ له (الحشر: ۱۰) کہ وہ اللہ کی ضروریات کو یعنی دین کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں خواہ وہ تنگی کی حالت میں ہی اور نہایت مشکلات کی حالت میں گزارہ کر رہے ہوں.تو یہ تعریف اللہ تعالی کے فضل سے سب جماعتوں پر پورا اترتی ہے لیکن ربوہ کو اللہ تعالی نے یہ خاص مقام عطا فرمایا کہ فیصد اضافہ کے لحاظ سے سارے پاکستان کی بلکہ ساری دنیا کی جماعتوں میں آگے بڑھ گیا ہے.دوسرے نمبر پر سیالکوٹ آتا ہے یہاں اضافہ %54.5 ہے لیکن سیالکوٹ کا جو اضافہ ہے وہ اس لحاظ سے اتنا زیادہ خوشکن نہیں کہ سیالکوٹ کی جماعتیں کچھ ضرورت سے زیادہ دیر سے سوئی ہوئی ہیں اور جوان کے اندر اصل معیار ہے جو خدا تعالیٰ نے ان کو استطاعت عطا فرمائی ہے اس سے ابھی بھی پیچھے ہیں.چنانچہ سارے سیالکوٹ کا بڑھنے کے بعد بھی36,000 تک وعدہ پہنچا ہے اور ربوہ کا ایک شہر کا چار لاکھ سے اوپر ہے.حالانکہ سیالکوٹ ہی میں اس وقت سب سے زیادہ جماعتوں کے تعداد ہے لیکن مشکل یہی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ ایک لمبے عرصہ تک سیالکوٹ نے نیند کے مزے اڑائے ہیں یا ایک اور بات بھی ہے کہ سیالکوٹ والے سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا میں جو قربانیاں دے رہے ہیں احمدی ان میں سب سے آگے سیالکوٹی ہیں اس لئے وہی کافی ہیں ہماری طرف سے، وہ کام کرتے رہیں ہماری صف اول بن کر ہم ان کے ثواب میں حصہ لیتے رہیں گے.یہ امر واقعہ ہے کہ سارے پاکستان میں بھی بلکہ ساری دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے سیالکوٹیوں کو غیر معمولی طور پر جماعتی خدمات کی توفیق ملی ہے اور مل رہی ہے.تو یہ میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ آپ سیالکوٹ بیچارے کو بالکل ہی نکما نہ سمجھ لیں.اس میں بھی جان ہے خدا کے فضل سے لیکن باہر جا کر زیادہ جان پڑتی ہے سیالکوٹ میں رہ کر کم پڑتی ہے.باہر کے سیالکوٹیوں کو بھی چاہئے کہ کچھ ان کیطرف فکر کریں.اپنے عزیزوں کو لکھیں ان کو کہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد ۳ 607 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء نے تمہیں کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا تھا اس کی لاج رکھ لو اور جس طرح ہم باہر نکل کر قربانیوں میں پیش پیش ہیں تم بھی پیش پیش ہو.یہ درست ہے کہ وہاں جو پیچھے رہنے والے ہیں ان کے مالی حالات بہت قابل فکر ہیں بہت حد تک اور زمینیں چونکہ بٹ گئی ہیں پھر اور بٹ گئیں اس کے نتیجے میں کچھ اختلاف بھی پیدا ہوئے کچھ بے برکتیاں بھی پیدا ہوئیں اور اس کی وجہ سے مالی حالات پر برا اثر ہے لیکن مالی حالات اچھے کرنے کا بھی یہی علاج ہے کہ چندے دیں یہ نکتہ کبھی نہیں بھولنا چاہئے جو لوگ قربانیاں کرتے ہیں خدا کی خاطر اور اپنی ضروریات پر ترجیح دیتے ہیں دین کی ضرورت کو، اللہ تعالی ان کے گھر بھی برکتوں سے بھرتا ہے اور ان کی نسلوں کے گھر بھی برکتوں سے بھر دیتا ہے اور کبھی بھی کوئی انگلی خدا کی طرف اس شکوہ کے ساتھ نہیں اٹھ سکتی کہ ہمارے ماں باپ نے قربانیاں دی تھیں تو ہم فقیر رہ گئے.ان کی نسلیں کھاتی ہیں ماں باپ کی قربانیوں کو اس لئے سیالکوٹ کی مالی مشکلات کا بھی یہی حل ہے کہ وہ چندہ میں آگے بڑھیں.مجھے آج ہی میں جو میں ڈاک دیکھ رہا تھا اس میں ایک دلچسپ خط ملا.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے پچھلے سال اپنی آمد کا 1/3 کم لکھوایا چندہ میں اور اگر چہ آپ کی آواز میرے کانوں تک پہنچی تھی کہ اگر نہیں دے سکتے پورا تو دیانتداری سے کہہ دو ہم تمہیں معاف کردیں گے لیکن جھوٹ نہیں بولنا لیکن وہ ان صاحب سے غلطی ہو گئی حالانکہ تاجر آدمی ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل سے آمد اچھی تھی.وہ کہتے ہیں 1/3 لکھوا دیا اللہ تعالی نے مجھے کچھ سبق اس طرح دینا تھا کہ آخر پر جب میں نے حساب کیا تو گزشتہ سال کی جو آمد تھی اس سے بعینہ 1/3 کم آمد ہوئی اور اس وقت مجھے معلوم ہوا کہ یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے.اللہ تعالی مجھے بچانا چاہتا ہے.چنانچہ میں نے پھر اس آمد پر نہیں لکھوایا بلکہ اس سے پچھلے سال کی جو زائد آمد تھی اس پر بجٹ لکھوایا جو اس سال گزر رہا ہے اور نتیجہ یہ نکلا کہ میری گمی ہوئی چیز میں واپس مل گئیں، چوری کئے ہوئے مال واپس آنے شروع ہو گئے ، جو پیسے مارے گئے تھے وہ واپس آنے شروع ہو گئے اور اس سے بھی آمد میری بڑھ گئی.تو اللہ تعالی کے اپنے بندوں سے بعض د لیکھے ہوتے ہیں خاص سلوک ہوتے ہیں اور جماعت احمدیہ سے تو یہ سلوک مجھے علم ہے اور وسیع علم کی بنا پر میں بتارہا ہوں کہ ایسا پختہ، ایسا یقینی ہے
608 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء خطبات طاہر جلد ۳ کہ کبھی اس سلوک میں آپ تبدیلی نہیں دیکھیں گے.اس لئے سیالکوٹ والے اگر کچھ کمزور ہیں تو ان فضلوں کا علاج بھی یہی ہے کہ وہ قربانیوں میں آگے بڑھیں اور پھر دیکھیں کہ خدا تعالی کس طرح ان پر فا کی بارشیں نازل فرماتا ہے.فیصل آباد میں بھی خدا کے فضل سے نمایاں ترقی ہوئی ہے یعنی تین سال پہلے اٹھاون ہزار تھا اب پچاسی ہزار ہے لیکن فیصل آباد میں بھی ایک مشکل یہ ہے کہ وہاں ابھی مجھ پر یہ تاثر ہے کہ جس قدر توفیق ہے اتنا وہ آگے نہیں آرہے.لاہور میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اگر چہ %44 اضافہ ہوا ہے یعنی فیصل آباد اور سیالکوٹ سے پیچھے ہے لیکن 3,49,000 کی رقم بتاتی ہے کہ لاہور کا قربانی کا معیار ماشاء اللہ اچھا ہے.راولپنڈی میں بھی نمایاں اضافہ کا رجحان ہے.پشاور بہت پیچھے چلا گیا تھا اس میں بھی اب خدا کے فضل سے نمایاں اضافہ کا رجحان ہے.کوئٹہ میں بھی حیدر آباد میں بھی اور کراچی میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں اضافہ کا رجحان ہے ان کا وعدہ بھی چار لاکھ دس ہزار تک پہنچ چکا ہے.اللہ تعالیٰ ان جماعتوں کو بہترین جزاء عطا فرمائے اور پہلے کی نسبت زیادہ تیز رفتاری سے آگے بڑھنے کی توفیق بخشے.آمین.جو بعض جزائر کی جماعتیں ہیں ان میں ماریشس اور نجی کو توجہ کرنی چاہے وہ بد قسمتی سے ان جماعتوں میں ہیں جن کی یا اطلاع نہیں پہنچ سکی یا واقعہ وہ گزشتہ سال کی نسبت کچھ پیچھے رہ گئے ہیں.اللہ تعالیٰ ان کی حالت پر رحم فرمائے اور گزشتہ کمی کو پورا کرنے کی توفیق بخشے.اعد او د شمار تو بہت لمبے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ خلاصہ پیش کرنے کے نتیجہ میں آپ کو اندازہ ہو گیا ہوگا کہ اس وقت مالی لحاظ سے جماعت با وجود مشکلات کے خدا کے فضل سے چندوں میں آگے جا رہی ہے اور یہ چندے کے لئے تھرما میٹر کے طور پر کام کرنے والی چیز اور یہ دراصل اخلاص کا مظہر ہیں.روپے تو کوئی ایسی حقیقت نہیں رکھتے خدا کے سامنے اگر خدا تعالیٰ نے ویسے روپے دینے ہوتے کاموں کے لئے تو آسمان سے بھی پھینک سکتا ہے ، خزانے کھول سکتا ہے اپنے وہ آپ کے ذریعہ کیوں روپے وصول کرتا ہے اس میں کیا حکمت ہے؟ اس میں سب سے بڑی حکمت یہ ہے کہ آپ کا اخلاص ترقی کرتا ہے اور تزکیہ نفس ہوتا ہے اور یہ ایک دوسرے کے ساتھ براہ راست تعلق رکھتی ہیں دونوں چیزیں.جو لوگ اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنے عزیز مال سے جدا ہوتے ہیں ان کی کیفیت اس
خطبات طاہر جلد ۳ 609 خطبه جمعه ۲۶ اکتوبر ۱۹۸۴ء قربانی کے بعد کچھ اور ہوتی ہے اس قربانی سے پہلے کچھ اور ہوتی ہے.ان کی محبت خدا سے بڑھ چکی ہوتی ہے، ان کا تعلق زیادہ گہرا ہو جاتا ہے، خدا کے پیار کے زیادہ جلوے وہ پہلے کی نسبت دیکھنے لگتے ہیں اور ان کی کیفیات میں فرق پڑ جاتا ہے اس لئے خدا تعالیٰ نے عام طور پر چندہ کا نام زکوۃ رکھا ہے.زکوۃ کا مطلب ہے بڑھنے والی چیز اور بڑھانے والی چیز.جس کو ادا کرنے کے بعد آپ کی کمی نہیں ہوتی بلکہ اموال بڑھنے لگتے ہیں اور زکوۃ کا مطلب ہے پاکیزگی.چنانچہ ایک ہی لفظ میں دونوں پیغام دے دیئے کہ چندے ادا کرنے والے، خدا کی راہ میں مال خرچ کرنے والے اپنے مالوں میں بھی برکت دیتے ہیں اور جہاں ان کا مال جاتا ہے وہاں بھی برکت پڑتی ہے اور اپنی روحانیت اور اخلاص میں بھی برکت دیتے ہیں اور ان کو دیکھ کر دوسرے بھی برکت پکڑتے ہیں.تو یہ ہے فلسفہ چندے کا کیوں اللہ تعالیٰ انسانوں کو اس بات پر آمادہ کر کے ان کے بھی پیسے لیتا ہے اور جہاں تک اس کے کھاتے کا تعلق ہے پہلا بھی اسی کا دیا ہوتا ہے.لیکن بعد میں پھر اتنا زیادہ دے دیتا ہے کہ دینے والا اگر غور کرے تو صرف شرمندہ ہو گا کہ میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا تھا آئندہ مجھ سے وعدے کئے جنت کے، مجھ پر فضلوں کی بارشیں نازل فرمائیں ، مجھ سے پیار کا سلوک کیا اور جتنا میں نے دیا تھا وہ بھی زیادہ واپس کر دیا.تو اللہ کا سلوک ہے جہاں تک وہ تو یہی رہا ہے اور آئندہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ یہی رہے گا.اب میں مالی حصہ کے علاوہ جو عملی کام ہیں ان میں سے ایک کی طرف متوجہ کرتا ہوں.میں نے تحریک کی تھی کہ انفرادی تبلیغ کو بڑھایا جائے جب تک جماعت انفرادی طور پر تبلیغ کی طرف توجہ نہیں کرتی اس وقت تک ہماری ترقی کی باتیں ، ہمارے غلبہ کی باتیں ، اسلام کے تمام دنیا پر چھا جانے کی باتیں محض خواہیں رہیں گی اور اتنا تو ہمیں ملتا رہے گا کہ ہم زندہ رہیں لیکن غلبہ حاصل کرنا، غیروں میں نفوذ کر کے قوموں کے اعداد و شمار بدل ڈالنا یعنی جہاں عیسائی آبادی اکثریت میں ہے وہاں مسلمان آبادی اکثریت میں ہو جائے اس کے لئے تو غیر معمولی قربانی کی ضرورت ہے بہت زیادہ تیز اقدام کی ضرورت ہے اور وہ اس کے سوا ممکن نہیں کہ آپ میں سے ہر ایک مبلغ بن جائے پس اس لئے اس کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت ہے.جو تعدا د شروع میں تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی مقرر کی گئی تھی وہ پانچ ہزار تھی.اب یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 610 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء تعداد بڑھ کر تقریباً پچاس ہزار ہو چکی ہے اس لئے جیسا کہ میں نے پانچ لاکھ مبلغ مانگے تھے جماعت سے اگر اس میں وقت لگنا ہے اور واقعی وقت لگے گا کیوں کہ مبلغ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اپنی سابقہ عادتوں کو توڑنا اور بدلنا ایک آدمی بوڑھا ہو گیا بغیر تبلیغ کئے ، دوستوں کے ساتھ اس نے روابط قائم کئے لیکن ان سے بات کبھی نہیں کی ، اس کی راہ میں بڑی نفسیاتی الجھنیں حائل ہو جاتی ہیں.ایک ایسا شخص جس کے ساتھ مراسم میں تبلیغ شامل نہیں ہوئی اچانک اس کو تبلیغ کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے اس لئے بہت وقت لگے گا اور پھر تبلیغ کو موثر طریق پر کرنا اور ساتھ ساتھ تربیت حاصل کرنا تعلیم کی طرف توجہ دینا لٹریچر کا حصول پھر جماعت کے اندر یہ استطاعت کہ جس جس جگہ جس جس احمدی کو جس قسم کے لٹریچر کی ضرورت ہے وہ مہیا کرے یہ نظام وقت چاہتا ہے.اور جہاں تک جماعت احمدیہ کی مرکزی تنظیموں کا تعلق ہے اس کی طرف توجہ دی رہی ہے اور امید ہے کہ ایک سال یا دو سال کے اندر اندر انشاء اللہ تعالی بڑی کثرت کے ساتھ ہر زبان میں ضروری لٹریچر مہیا کر دیا جائے گا اور اس کے علاوہ ٹیپس کی شکل میں اور وڈیویسٹس کی شکل میں بھی مدد گار مواد مہیا کیا جائے گا.لیکن پہلا ٹارگٹ جو مبلغین کا ہے ان مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے میں یہ مقرر کرتا ہوں کہ جتنے چندہ دہندگان ہیں کم سے کم اتنے مبلغ ضرور بنیں اور صرف تحریک کی ایک ٹانگ نہ ہو آگے بڑھنے کی دو ٹانگیں مکمل ہو جائیں.ایک ٹانگ سے دوڑتے دوڑتے کہیں پہنچ گئی ہے خدا کے فضل سے زمین کے کناروں تک پیغام پہنچ گیا ہے.اب اندازہ کریں کہ جب یہ دوسری ٹانگ مکمل ہوگی تو پھر کس تیز رفتاری کے ساتھ جماعت آگے بڑھے گی.آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کتنا حیرت انگیز Impact دنیا پر ہوگا جب پچاس ہزار چندہ دہندگان کے ساتھ پچاس ہزار مبلغین بھی ساتھ شامل ہو جائیں گے اور مجھے یہ خوشی ہے کہ تمام دنیا کے خطوط سے اندازہ ہورہا ہے کہ لوگوں میں بے قراری شروع ہو گئی ہے اور بعض لوگ تو سخت بے چینی کا اظہار کر رہے ہیں کہ ہم تو اب راتوں کو اٹھ کر روتے بھی ہیں خدا کے حضور کہ ہمیں جلدی پھل دے ہمارے دل کی تمنا پوری ہو اس لئے آپ بھی مدد کریں دعا کے ذریعے کہ اللہ تعالیٰ جلد ہمیں پھل دے اور پھر پھلوں کی بھی ایسی اچھی اچھی پیاری پیاری اطلاعیں آنی شروع ہوگئی ہیں کہ بہت ہی طبیعت خوش ہوتی ہے.ایسے علاقوں سے بھی جہاں شدید دشمنی ہے جماعت کی ، وہاں بھی ایسے نو آموز مبلغین جن کو زیادہ علم بھی نہیں تھا ان کو خدا تعالیٰ نے
خطبات طاہر جلد ۳ پھل دینا شروع کر دیا ہے.611 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء چنانچہ پاکستان کے ایک شدید دشمنی کے علاقہ سے ایک نوجوان نے یہ اطلاع دی ہے کہ ایک اس کی تبلیغ کے نتیجہ میں ایک نوجوان احمدی ہو گیا ہے اور اس کے ماں باپ نے اس کی مخالفت بھی کی لیکن وہ قائم رہا اور اس نے مجھے خط لکھا کہ ان حالات میں اس نوجوان نے قربانی کی ہے اور اس طرح اس کی اپنی خواہش ہے کہ اس کے والدین بھی احمدی ہو جائیں.تو کہتا ہے کہ آپ نے جو جواب مجھے لکھا میں نے وہ اس کے والدین کے سامنے جا کر اس کو پڑھ کے سنایا جب وہ جواب سن رہے تھے تو ان کی آنکھوں میں مجھے ایسی چمک نظر آئی کہ مجھے لگا کہ اب انہوں نے آہی جانا ہے بہر حال.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور آج کا جو خط تھا اس کے ساتھ اس نے ایک ہی خاندان کی 12 بیعتیں بھجوائی ہیں.تو ہر جگہ جہاں خدا تعالیٰ توفیق عطا فرما رہا ہے احمدی کو اخلاص کے ساتھ اور دعا کرتے ہوئے وہاں پھل لگنے شروع ہو گئے ہیں.تمام دنیا سے اطلاعیں آ رہی ہیں.افریقہ کے ممالک سے جنہوں نے تبلیغ شروع کی ہے خدا ان کو پھل دے رہا ہے.جرمنی نے ایک سو کا وعدہ کیا ہے اور کل کی اطلاعات کے مطابق پینسٹھ یا چھیاسٹھ تعداد ان کی بیعتوں کی ہوچکی ہے اور ان میں سے بھاری اکثریت وہی ہے جو مبلغ کے ذریعہ نہیں یعنی مرکزی مبلغ کے ذریعہ بلکہ یہ جو نئے رضا کار مبلغ ہیں ان کے ذریعہ احمدی ہو رہے ہیں اور جو تیاری کی اطلاعیں ہیں اس سے مجھے اندازہ ہوتا ہے کہ انشاء اللہ تعالی سال کے اختتام سے پہلے وہ (100) سے بھی بڑھ جائیں تو ہر گز تعجب نہیں ہوگا.انگلستان بیچارہ کچھ پیچھے تھا اس میں اور ابھی بھی پیچھے ہے لیکن جن لوگوں نے کام شروع کیا ہے ان کو خدا پھل بھی دینے لگ گیا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یارک شائر (York Shire) شہر کے دو خاندان ہیں ڈاکٹر سعید اور ان کا خاندان اور ڈاکٹر حامد اللہ خان اور ان کا خاندان جن کو بڑا تبلیغ کا جنون ہے اور پہلے اللہ کے فضل سے یہاں سے خوشخبری ملی تھی جو (Greek) فیملی کے احمدی ہونے کی اب یہاں دو ایک میاں بیوی دونوں اساتذہ ہیں وہ پیچھے انصار اللہ کے اجتماع پر آکر بیعت کر کے گئے ہیں انہیں کی کوششوں کے نتیجے میں.اس کے علاوہ دو پاکستانی بھی وہیں ان کی کوششوں کے نتیجے میں ایک اور نوجوان جو ان کے ساتھ کام کرتے ہیں وہ بھی خدا کے فضل سے احمدی ہوئے
خطبات طاہر جلد۳ 612 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء ہیں اور مزید انہوں نے لکھا ہے کہ بڑی تیزی سے رجحان ہے اور بعض لوگ تو انتظار کر رہے ہیں کہ اللہ تعالی خواب کے ذریعہ اب ان کی رہنمائی کرے تو وہ قدم اُٹھالیں.ایسے بھی ہیں ان میں سے جو پہلے احمدیت کا نام تک نہیں سننا چاہتے تھے یعنی ایک وہاں صوفی موومنٹ سے تعلق رکھنے والے انگریز ہیں ان کی بیوی کا رجحان ہو گیا اور وہ اس قدر شدید نفرت کرتے تھے احمدیت سے کہ انہوں نے لکھا ہے کہ جب ہم نے بیوی کو Tapes دینی شروع کیں اور اُس پر زیادہ اثر ہوا تو ایک دن وہ بلانے گئے بیوی کو اطلاع دینے کے لئے کہ فلاں میٹنگ میں تم نے آتا ہے، خاوند اس دن گھر پر تھا تو اس نے کہا کہ تم یوں کرو کہ یہ کیسٹ تم اپنی واپس لے جاؤ اور یہ میں میوزک کا ٹیچر ہوں یہ میوزک کی ٹیپ تم لے جاؤ جتنی تمہیں اس میں دلچسی ہوگی اتنی مجھے اس میں دلچسپی ہے جوتم نھیں (Tapes) دے رہے ہو اور میں نہیں پسند کرتا خیر ا نہوں نے ہمت نہیں چھوڑی.اور ایک کیسٹ تھی غالباً سوال وجواب کی جس میں یعنی متفرق باتیں تھیں یہاں کی جو مجلس ہوتی ہے وہ انہوں نے پھر بیوی کو دی اور اُس نے ایسے وقت میں لگائی جب خاوند بیٹھا گھر میں ہی تھا اور وہ سننے پر مجبور ہو گیا اور جب اس نے سنی تو اس نے خود مطالبہ بھیجا کہ مجھے اور چاہئیں اور پھر اس نے مٹینگنز میں حاضر ہونا شروع کیا اور اب وہ دعا کے لئے کہہ رہے ہیں کہ بس اب دعا یہ بات رہ گئی ہے دعا کرو کہ میں بھی ساتھ شامل ہو جاؤں.اسی طرح ایک Moroccan (مراکشی ) نے بھی یہاں حال ہی میں بیعت کی ہے.تو جماعت انگلستان میں بھی اللہ کے فضل سے تبلیغ کی طرف توجہ ہو رہی ہے لیکن رفتار ابھی تھوڑی ہے جتنی ہماری Man power ہے یہاں اس کو اگر آپ استعمال کریں اور سارے بوڑھے، بچے ، عورتیں، مرد سارے مصروف ہو جائیں تو انشاء اللہ تعالیٰ بہت عظیم الشان یہاں امکانات ہیں اور آپ کو بالکل بدلی ہوئی فضا نظر آئے گی ایک سال کے اندر اندر تبلیغ کرنے والی جماعتوں کی تو کیفیت ہی بالکل اور ہو جایا کرتی ہے.شرابیوں کا محاورہ ہے کہ ظالم تو نے پی ہی نہیں تجھے کیا پتہ کہ کیا چیز ہے؟ یہ سب سے زیادہ محاورہ مبلغ پر صادق آتا ہے.مبلغ جس کو عادت پڑ جائے تبلیغ کی اور جس کو خدا تعالیٰ یہ مزہ دے دے کہ اس کے ذریعہ کوئی احمدی ہو گیا ہے وہ دوسروں کو کہتا ہے زبانِ حال سے اگر ویسے نہ کہے کہ ظالم تو نے تو پی ہی نہیں تجھے کیا پتہ کہ تبلیغ میں کتنا مزہ ہے اور روحانی اولاد میں کتنا مزہ ہے؟
خطبات طاہر جلد ۳ 613 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء روحانی اولاد میں جو مبلغ کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے یا رضا کار کے ذریعے حاصل ہوتی ہے اس میں ایک اور فرق بھی ہے.مبلغ کے ذریعہ جو احمدی ہوتے ہیں وہ مختلف علاقوں میں پھیلے ہوئے لوگ ایسے لوگ بھی جن کا ذہنی طور پر ضروری نہیں کہ مزاج مبلغ سے ملے اور ایسے لوگ جن کا ذاتی خاندانی تعلق مبلغ سے نہیں ہوتا یہ لوگ بھی ہوتے رہتے ہیں.تو مبلغ جتنے احمدی بناتا ہے ان کی تربیت کی استطاعت نہیں ہوتی اس میں نہ اتنا رابطہ وسیع ، ظاہری فاصلوں کی دوری کی بنا پر یا مزاج کی اختلاف کی بنا پر یا خاندانی روابط کی کمی کے نتیجہ میں کئی مشکلات ہیں وہ ذاتی تربیت میں اتنا وقت نہیں دے سکتا لیکن جو انفرادی تبلیغ کے ذریعہ احمدی ہوتے ہیں عموماً ان میں پہلے مراسم چلتے ہیں دوستیاں ہوتی ہیں، خاندان ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں اور جب ان کے ذریعہ کوئی احمدی ہو جاتا ہے تو ایک دم محبت میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے.تو ہر احمدی ہونے والے کو ایک مربی خاندان ساتھ مل جاتا ہے اس لئے اصل دیر پا طریق جو تبلیغ کا ہے وہ یہی ہے تو میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ دن بدن اس میں نمایاں اضافہ ہوگا.ایک خوش خبری آخر پر آپ کو دینی چاہتا ہوں.جہاں تک لٹریچر کی اشاعت کا تعلق ہے بہت کمی تھی ، بہت سی زبانوں میں، بہت سے مسائل پر لٹریچر کی، اس کو ایک با قاعدہ منصوبہ کے ماتحت پورا کرنے کے لئے نہ صرف سکیم مرتب کی گئی ہے بلکہ نئے مضامین لکھوائے جارہے ہیں.گزشتہ سابقہ زبانوں سے کتا ہیں اکٹھی کر کے ان کو دوبارہ از سر نو شائع کرنے کا انتظام کیا جارہا ہے.کام بہت وسیع ہے کیونکہ ہر کتاب کا جائزہ لینا پڑتا ہے کہ اگر وہ بیس سال پہلے مفید تھی تو آج بھی مفید ہے کہ نہیں اور ہر قوم کے حالات کا جائزہ لینا پڑتا ہے کہ ان کے رجحان بدل چکے ہیں ان کو اب کس مضمون کی ضرورت ہے؟ پھر اس کے لئے لکھنے والے ڈھونڈے جاتے ہیں پھر ان سے پیچھے پڑھ کر مضامین لکھوائے جاتے ہیں پھر ان کو دوبارہ دیکھا جاتا ہے زبان کے لحاظ سے اور مسائل کے لحاظ سے پیشکش کے لحاظ سے تو بہت ہی وسیع کام ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں انصار بھی مہیا کر رہا ہے اور بکثرت طوعی طور پر خدمت دین کرنے والے اس کام میں مدد کر رہے ہیں اور کچھ لٹریچر تیار ہو کر طبع ہو چکا ہے اور کچھ ایسا ہے جو عنقریب انشاء اللہ تعالی طبع ہو جائے گا.اس وقت ہم پتے اکٹھے کر رہے ہیں اور لٹریچر کی اشاعت سے پہلے سکیم یہ ہے کہ ایک تو
خطبات طاہر جلد۳ 614 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء احمدی براہ راست اپنے روابط وسیع کر لیں اور مبلغ بن چکے ہوں تا کہ جب ان کو ضرورت پیش آئے ہم اس وقت انہیں مہیا کریں اور ذاتی تعلق کی بنا پر وہ لٹریچر پیش کریں.دوسرے پتے اس کثرت سے اکٹھے ہو جائیں کہ ڈاک کے ذریعے ہمیں ہزار تمیں ہزار فی الحال میرا اندازہ یہ ہے کہ اس کو بڑی جلدی بڑھا کر ایک لاکھ تک پہنچا دیا جائے.ایک لاکھ پتوں کا میں نے مطالبہ کیا ہے اور ابھی تک بعض جماعتوں کی طرف سے اس میں کمزوری ہے.انگلستان بھی پتے مہیا کرنے میں کمزور ہے حالانکہ میں نے بار بار تاکید کی تھی بعض دور کے ممالک نے بڑی اچھی Response دکھائی ہے لیکن انگلستان میں ابھی کمزوری ہے.میں نے اہل عرب کے پتے مانگے تھے تو انہوں نے وہ ڈائریکٹری اٹھا کے یا شاید عرب Embassies کی کتابیں منگوا کر ان سے پتے نوٹ کر کے بھیج دیئے حالانکہ اس قسم کے پتے نہیں چاہئیں.پتے ایسے چاہئیں کہ جہاں پتہ بھیجنے والے کی نظر ہو کہ یہ کس قسم کا آدمی ہے، عمر اس کی کتنی ہے، رجحان کیا ہیں؟ ضروری تو نہیں کہ جتنے پتے آپ بھیجیں ان سب کو لٹریچر بھجوانا مناسب بھی ہو.اس لئے یہاں بھی کافی چھان بین کرنی پڑتی ہے.تو ایک پہلو سے تو انگلستان نے ابھی کمزوری دکھائی ہے لیکن ایک اور پہلو سے غیر معمولی طور پر خدمت بھی کی ہے.یہ سارا کام پتوں کو مرتب کرنا اور پھر یاد دہانیاں کروانا لجنہ اماء اللہ یوکے کر رہی ہے اور نہایت مستعدی سے کام کر رہی ہے.قریباً تمیں ہزار پتہ جات کو وہ مرتب کر چکے ہیں اور پھر ان کو کارڈز پر منتقل کرنا اور پھر ان کو کمپیوٹر میں Feed کرنا بہت بڑا کام ہے تیاری کا.لیکن مجھے اندازہ ہے انشاء اللہ تعالیٰ جس وقت ہم لٹریچر کے لحاظ سے تیار ہوں گے اس کے ساتھ یہ بھی تیار ہو چکا ہوگا.تو ایک نئے دور میں جماعت داخل ہونے والی ہے بہت وسیع تبلیغ کے دور میں اس کے لئے آپ بھی تیاری کریں اور جو علم دوست ہیں احباب وہ اپنی خدمات پیش کریں اور مضامین لکھیں، غیروں کے لٹریچر کی نگرانی کریں.امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ یہ کام اب بڑی تیزی سے آگے بڑھے گا.ایک بہت بڑی خوش خبری اسی ضمن میں یہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے سپرد یہ کام کیا گیا تھا کہ وہ Italian ترجمہ قرآن کا کام اپنی نگرانی میں مکمل کروائیں.چنانچہ پرسوں وہ آکر مجھے وہ آخری شکل میں مسودہ دے گئے ہیں.مکمل ہو چکا ہے خدا کے فضل سے.بہت سی کمپنیوں کی رائے
خطبات طاہر جلد۳ 615 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء لینے کے بعد گزشتہ ترجموں کو رد کر دیا گیا ان میں خامیاں تھیں.اس ترجمہ کے متعلق اب رائے یہی ہے کہ بہت ہی عمدہ اعلیٰ معیار کا ترجمہ ہے.چونکہ قرآن کریم میں احتیاط زیادہ کرنی پڑتی ہے اس لئے تھوڑی سی اور احتیاط کی جائے گی اور پھر انشاء اللہ امید ہے کہ اسی سال یہ شائع ہونے کے لئے دے دیا جائے گا.فرانسیسی ترجمہ بھی تمام مراحل سے گزر کر اب مکمل ہو چکا ہے.روسی ترجمہ جو حضرت مولوی جلال الدین صاحب شمس کے زمانہ میں یہاں سے کروایا گیا تھا وہ حسن اتفاق سے ایسا اچھا کیا گیا کہ اس زمانہ کے سارے ترجمہ آج کے صاحب علم لوگوں نے ردکر دیے سوائے روسی ترجمہ کےاور روسی ترجمہ سے متعلق جہاں رائے ملی ہے انہوں نے حیرت انگیز تعریف کی ہے.روسیوں نے بھی جو مثلاً پاکستان میں سکالرز ہیں یہاں کے ماہرین نے بھی سب نے کہا ہے کہ بہت ہی اعلیٰ معیار کا ترجمہ ہے صرف لکھنے کی طرز میں اس زمانے سے اب کچھ تبدیلی پیدا ہوئی ہے اس کو ماہرین کہتے ہیں ٹھیک کر والیا جائے تو ہر لحاظ سے معیاری ہے تو ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین نئی زبانوں میں قرآن کریم شائع کرنے کیلئے تیار کھڑے ہیں اور اس کے لئے روپیہ بھی موجود ہے.Italian ترجمہ کے لئے ڈاکٹر (عبد السلام ) صاحب نے پیش کش کی تھی کہ میں اپنی طرف سے پیش کرنا چاہتا ہوں اور چونکہ نیکی سے آگے بڑے بچے پیدا ہوتے ہیں نیکی بڑی Fertile چیز ہے.جب مکمل کر لیا تو ان کا اتنا لطف آیا اس کا کہ وہ ساتھ ہی یہ درخواست کر گئے ہیں کہ اس کی طباعت کا خرچ بھی مجھے برداشت کرنے کی اجازت دی جائے تو جس اخلاص اور محبت سے انہوں نے ترجمہ کروایا تھا اور جس طرح انہوں نے ظاہر کیا تو میں نے ان سے حامی بھر لی ہے کہ ہاں ٹھیک ہے آپ شائع کروائیں.اسی طرح روسی زبان کے متعلق چوہدری شاہ نواز صاحب نے پہلے ترجمہ کے متعلق درخواست کی تھی ان کا پیچھے پیچھے خط پہنچ گیا کہ اس کے سارے اخراجات میں برداشت کرنا چاہتا ہوں.ان کو بھی میں نے اس کے لئے اجازت دے دی اور وہ خدا کے فضل سے بالکل تیار ہیں.تو فرانسیسی کے لئے صد سالہ جو بلی سے رقم مل جائے گی انشاء اللہ یعنی پیسے کی کوئی کمی نہیں ہے جماعت کے لئے.کاموں کی تیاری رکھے جماعت ، آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرے تو اللہ
خطبات طاہر جلد ۳ 616 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء تعالی کوئی کمی کسی طرح کی بھی رستے میں حائل نہیں ہونے دے گا انشاء اللہ تعالیٰ اور یہی ہے اصل ہمارا انتقام دشمنوں سے.وہ جتنا بدیوں میں بڑھتے چلے جارہے ہیں ہم اتنا نیکیوں میں ترقی کر رہے ہیں.جتنا وہ ہمیں اسلام سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں اتنا زیادہ تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ ہمیں اسلام کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرماتا چلا جا رہا ہے.ایسی جماعت سے کون مقابلہ کر سکتا ہے جس کی دوڑ ہی نیکیوں میں ہے اور وہ مخالف سمت میں دوڑ رہے ہیں؟ کیسی بے وقوفی کی بات ہے.قرآن کریم نے فرمایا تھا وَلِكُلِّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَتِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَتِ (البقره: ۱۴۹) کہ ہم تمہارے لئے دوڑ مقرر کرتے ہیں اور وہ دوڑ یہ ہے کہ نیکیوں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو اور ہم تو نیکیوں کو قبلہ بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں اور دوڑنے کی خواہش ان کو ہے لیکن سمت کا پتہ نہیں بیچاروں کو وہ بر کس سمت میں دوڑ رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ وہ ہم سے آگے نکل جائیں گے.جن کا قبلہ اور رخ اور ہو چکا ہو وہ کیسے آگے نکل سکتے ہیں؟ وہ تو جتنا دوڑیں گے اتنا زیادہ ہمارے فاصلے بڑھتے چلے جائیں گے.ان کے لئے بھی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہوش عطا فرمائے.نیکی میں کسی نے مقابلہ کرنا ہے تو ساری دنیا کو چیلینج ہے ہمارا، کسی سے ہم ڈرنے والے اور خوف کھانے والے نہیں اگر بدیوں کا مقابلہ ہے تو پھر تمہیں مبارک ہو ہم بہر حال اس میدان کے شیر نہیں ہیں.اللہ تعالی ان بھائیوں کو بھی توفیق عطا فرمائے اور ہر آئندہ سال مجھے بھی توفیق بخشے کہ جماعت کیلئے نئی سے نئی ، تازہ سے تازہ خوشخبریاں پیش کر سکوں تا کہ دوسری طرف سے جو ان کو زخم پہنچتے ہیں وہ نہ صرف مندمل ہوں بلکہ نئی خوشیوں کے پھول ان کے دلوں میں کھلتے رہیں.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: دو جنازہ ہائے غائب کا اعلان کرنا چاہتا ہوں.پہلے مکرم مولوی مجید احمد صاحب سیالکوٹی جو ہمارے انگلستان کے مبلغ ہیں اور نہایت مخلص واقف زندگی ہیں ان کے والد صاحب مکرم چوہدری محمد عبد اللہ صاحب اچانک مختصر علالت کے بعد ۲۲ اکتوبر کو وفات پاگئے.انا للہ وانا الیہ راجعون.ان کی نماز جنازہ غائب ہوگی جمعہ کے بعد.دوسرے ہمارے ایک پرانے سلسلہ کے مخلص کارکن ماسٹر سعد اللہ خان صاحب صدرمحله فیکٹری ایریا (ربوہ) کی اہلیہ امتہ السلام صاحبہ وفات پاگئی ہیں.یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ
خطبات طاہر جلد ۳ 617 خطبه جمعه ۲۶/اکتوبر ۱۹۸۴ء والسلام کے ایک صحابی مولوی محمد اسماعیل صاحب سرساوی کی بیٹی تھیں اور سرساوی صاحب کو قادیان والے لوگ تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں ان کی یاد تازہ ہوگی ، یہ بھی بڑی مخلص خاتون تھیں.ان دونوں کی نماز جنازہ غائب ہوگی.اور ایک بات یہ کہ پاکستان سے جو خبریں آئی ہیں آج ان میں بھی کچھ تشویش کا پہلو ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مولوی فساد پر تلے بیٹھے ہیں.تو خاص طور پر اپنے پاکستانی بھائیوں کو آئندہ چند دنوں میں غیر معمولی طور پر یا درکھیں اور تہجد جو نہیں پڑھ رہے ان کو بھی چاہئے کہ وہ تہجد کے لئے اٹھیں خاص طور پر اس مقصد کے لئے اور خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں.
خطبات طاہر جلد ۳ 619 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء شرعی عدالت کے فیصلہ پر تبصرہ نیز مخالفین انبیاء کی تاریخ ( خطبه جمعه فرموده ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَقُلْ اِنّى اَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ كَمَا أَنْزَلْنَا عَلَى الْمُقْتَسِمِينَ ) الَّذِينَ جَعَلُوا الْقُرْآنَ عِضِيْنَ فَوَرَبَّكَ لَنَسْتَلَنَّهُمْ أَجْمَعِيْنَ عَمَّا كَانُوا يَعْمَلُوْنَ فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِيْنَ إِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِعِيْنَ الَّذِيْنَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللهِ اِلَهَا أَخَرَ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُوْلُوْنَ فَسَبِّحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السُّجِدِينَ وَاعْبُدُ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ.پھر فرمایا: (الحجر: ٩٠ - ١٠٠) جیسا کہ احباب کو معلوم ہے بعض احمدی وکلا نے اس عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا تھا جسے پاکستان میں شرعی عدالت کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 620 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء اس کے بعض پہلوؤں پر تو میں نے پہلے روشنی ڈالی تھی کہ قرآن کریم معاملات میں فیصلوں سے متعلق کسی عدالت کو شرعی سمجھتا ہے اور کسے غیر شرعی سمجھتا ہے اور سوائے اس کے کہ عدل کی تعریف شرعی عدالت پر صادق آتی ہو قرآن کریم سے اس کے سوا کچھ بھی استنباط نہیں ہوتا لیکن جہاں تک عقائد کا تعلق ہے، نظریات کا تعلق ہے قرآن کریم انبیا کے سوا کسی شرعی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا اور انبیاء کے بعد پھر خدا کو احکم الحاکمین قرار دے کر اس شرعی عدالت کی سپریم کورٹ قرار دیتا ہے اور اس سلسلہ میں قرآن کریم میں دونوں قسم کے احکامات ملتے ہیں.ایسے احکامات بھی جن کا تعلق بنی نوع انسان کے آپس کے معامالات سے ہے اور اس میں قرآن کریم بار بار یہی ہدایت فرماتا ہے کہ اگر تم میری نمائندگی کرتے ہو، اگر تم میرا خوف کرتے ہو تو پھر عدل سے فیصلے کرو خواہ فیصلہ کرتے وقت ایک فریق ایسا بھی ہو جو تمہارا دشمن ہو اور خواہ فیصلہ کرتے وقت ایک فریق ایسا بھی ہو جو تمہارا مذہبی دشمن ہو اور جس نے تمہیں تمہارے اس بنیادی حق سے بھی محروم کر دیا ہو کہ تم اول البیت میں جا کر خدا کے نام پر حج کرو.اس سے زیادہ شدیدمذہبی دشمنی کا ایک مسلمان کے لئے کوئی تصور نہیں.چنانچہ قرآن کریم مذہبی دشمنی کی مثال دے کر اس بات کو خوب کھول دیتا ہے کہ ہماری مراد یہ نہیں کہ معمولی دشمنی ہو بلکہ اتنی شدید نفرت ہو اس قوم کو تم سے کہ تمہیں حج بیت اللہ کی بھی اجازت نہ دیں.ایسی صورت میں بھی جب تم انصاف کی کرسی پر بیٹھو تو انصاف سے کام لو یہ ہے شرعی عدالت کا جہاں تک معاملات کا تعلق ہے قرآنی نظریہ اس کے لئے تو کسی حد تک بلکہ مجبوری ہے انسان سے فیصلے کروانے پڑتے ہیں.لیکن جہاں تک نظریات کا تعلق ہے نہ قرآن کریم اجازت دیتا ہے نہ اس کا کوئی تصور پیش کرتا ہے کہ نبی یا خدا کے سوا نظریات کا فیصلہ کسی اور سے کروایا جائے بلکہ اگر نظریات کے فیصلے کے لئے کسی اور کی طرف رجوع کیا جائے تو اس کے لئے میں قرآن کریم میں بہت سخت انذار پایا جاتا ہے.چنانچہ اسی موضوع کے متعلق سورہ نساء میں ۶۱ ویں آیت میں قرآن کریم فرماتا ہے: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ أَنَّهُمْ أَمَنُوا بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ يُرِيدُونَ أَنْ يَّتَحَاكَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ وَقَدْ أُمِرُوا أَنْ يَكْفُرُوا بِهِ وَيُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَنْ يُضِلَّهُمْ
خطبات طاہر جلد ۳ ضللا بَعِيدًان (النساء: (1) 621 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء کیا تو نے ایسے لوگوں کے متعلق خبر نہیں پائی یا ایسے لوگ نہیں دیکھے جو دعوی تو یہ کرتے ہیں یا گمان یہ کرتے ہیں کہ وہ ایمان لے آئے ہیں اس چیز پر جو تیری طرف اتاری گئی ہے اور اس پر بھی ایمان لے آئے ہیں جو تجھ سے پہلے اتاری گئی.يُرِيدُونَ اَنْ يَّتَحَا كَمُوا إِلَى الطَّاغُوتِ لیکن اس کے باوجود وہ طاغوت یعنی غیر اللہ کی طاقتوں کی طرف فیصلوں کے لئے رجوع کرتے ہیں.وَقَدْ أُمِرُوا أَن يَكْفُرُوا بہ اور واضح طور پر ان کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ ان کا انکار کر دیں، ان کے فیصلے کی اہلیت کا ہی انکار کر دیں، ان کے اس دعوی کا ہی انکار کر دیں کہ وہ مذہبی معالات میں فیصلے کے مجاز ہیں وَيُرِيدُ الشَّيْطَنُ أَنْ يُضِلَّهُمْ ضَللًا بَعِيدان اور شیطان یہ چاہتا ہے کہ تمہیں بہت بری طرح گمراہ کر دے.چنانچہ ان معاملات میں اللہ تعالی انبیاء کوحکم قرار دیتا ہے اور قرآن کریم میں بکثرت ایسی آیات پائی جاتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام انبیاء خدا تعالیٰ کی طرف سے حکم بن کر آئے تھے اور انبیاء کی تعریف میں ہی ان کا حکم ہونا شامل فرما دیا گیا.یہی وجہ ہے کہ آئندہ زمانہ میں بھی آنحضرت ﷺ نے ایک حکم کی خبر دی اور فرمایا کہ جب اختلافات بڑھ جائیں گے اور مسلمانوں کی حالت خراب ہو جائے گی تو اس وقت خدا تعالیٰ نازل فرمائے گا حکـمـاعـد لا ایسی عدالت کو نازل فرمائے گا جو حکم ہوگی، عدل ہوگی، فیصلے کرے گی اور انصاف کے ساتھ فیصلے کریں گی اور وہ عدالت مسیح موعود ہے.کسی جگہ بھی اشارہ بھی یہ بات بیان نہیں فرمائی، مومنوں کو یہ حکم نہیں دیا گیا کہ جب تمہارے آپس میں مذہبی عقائد کے اختلافات واقع ہو جائیں تو تم اپنے فیصلے اپنے علما سے کرواؤ کہ کس کا عقیدہ سچا ہے؟ بلکہ فرمایا کہ انتظار کر وایسی صورت میں اللہ کی طرف سے دوبارہ عدالت قائم کی جائے گی اور حکم عدل ہی یہ فیصلے کرے گا کہ کس کا عقیدہ سچا تھا اور کس کا غلط تھا؟ چنانچہ اس مضمون کے اوپر آنحضرت علیہ نے مزید روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ ایک ایسا وقت آئے گا جبکہ مسلمانوں کے درمیان شدید اختلافات پیدا ہو جائیں گے اور ان اختلافات کے نتیجہ میں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے.شدید بے چینی کی کیفیت پیدا ہوگی ، ایک بدنظمی پیدا ہو جائے
خطبات طاہر جلد ۳ 622 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء گی.اس وقت سادہ لوح عوام الناس اپنے علما کے پاس جائیں گے کہ فیصلے کروائیں لیکن وہاں جو کچھ وہ دیکھیں گے فیصلہ کرنے کے مجاز لوگ نہیں ہونگے کچھ اور ہی ان کو نظر آے گا اور جو الفاظ آنحضرت ﷺ نے اختلافات کے زمانہ کے علما کے بارے میں استعمال فرمائے ہیں وہ ایسے سخت ہیں کہ وہی الفاظ اگر میرے منہ سے یا کسی اور احمدی کے منہ سے یہ علماسنیں تو قتل و غارت پر آمادہ ہو جائیں گے اس لئے اتنا ہی کہنا کافی ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالی نے آئندہ زمانہ کے حالات کی خبر دی، یہ بتایا تھا کہ امت میں اختلافات پیدا ہو جائیں گے عقائد میں خصوصاً اور جب نظریات بٹ جاتے ہیں تو امتیں بٹ جایا کرتی ہیں ایسی صورت میں یہ نہیں فرمایا کہ علما کے پاس جاؤ اور ان سے فیصلے لو، فرمایا وہ جو غلط نہی سے علما کے پاس جائیں گے فیصلوں کی خاطر ان کو وہاں کچھ اور ہی نظر آئیگا.دوسری جگہ ان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں.شَرُّمَنُ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ (السنن الواردة في الفتن از ابوعمر وعثمان بن سعيد المعترى الدانی باب ما جاء في شدة الزمان وفساد الدین سیہ وہ لوگ ہیں جو آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہوں گے اور ظاہر بات ہے کہ یہ اختلافات کے دور کی بات ہے اختلافات کے دور کے علماء کی بات ہے اس لئے اتنی واضح ہدایات کے باوجود جبکہ آنحضرت کا شدید انذار موجود ہے قرآن کریم کھول کھول کر اس مضمون کو بیان فرمارہا ہے کہ مذہبی عقائد کے معاملہ میں کسی بندہ کو فیصلے کا اختیار نہیں سوائے اللہ کے نبی کے اور وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ خدا سے علم پا کر فیصلے کرتا ہے اور اگر اس سے تمہارا ختلاف ہے تو پھر خدا فیصلہ کرے گا، کسی اور کا کام نہیں ہے وہ فیصلے کرے اس کے باوجود کوئی مسلمان کسی دوسرے عالم کے پاس اپنے مذہبی عقائد لے کر فیصلوں کے لئے جاہی نہیں سکتا.چنانچہ یہ جو ہمارے وکلاء جو اس مبینہ شرعی عدالت میں پہنچے یہ ہرگز اس عرض کے لئے وہاں نہیں گئے تھے نہ انہوں نے یہ پیش کش کی ، اور نہ انہوں نے پوچھا کہ تمہارا ہمارے متعلق کیا خیال ہے؟ ہم مسلمان لگتے ہیں تمہیں کہ غیر مسلم نظر آتے ہیں؟ نہ یہ پوچھا کہ خاتم النبیین کی صحیح تشریح ہمیں بتائیں کہ وہ کیا ہے؟ جن کو خدا تعالیٰ نے نور عطا فرمایا ہو، جن کے اند رحکم اور عدل نازل ہو گیا ہو، جو اللہ سے علم پا کر قرآن کا عرفان انہیں بخش رہا ہو ان کا کیا کام ہے کہ منکرین کے پاس جا کر ان سے پوچھیں کہ ہم بچے ہیں یا جھوٹے ہیں؟ یہ تو بحث ہی نہیں تھی ، بحث صرف یہ تھی کہ تم لوگ بچے ہو کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 623 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء جھوٹے ہو؟ تم لوگوں نے جو یہ آرڈنینس جاری کیا ہے قرآن سے دیکھ کر ہمیں بتاؤ کہ تمہیں یہ کیا لگتا ہے ، کیا قرآن اس آرڈینینس کے پیچھے ہے یا اس کے مخالف کھڑا ہوا ہے؟ یہ تھا فیصلہ والا مسئلہ اور صرف مرکزی نکتہ اتنا تھا کہ قرآن کریم کی رو سے کسی انسان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کسی ایسے شخص کو جو قرآن کریم کو سچا تسلیم کرتا ہو اور واجب التعمیل سمجھتا ہو اور یہ ایمان رکھتا ہو کہ قرآن کریم کا حکم ماننا ضروری ہے اس کو قرآن کریم پر عمل کرنے سے کسی رنگ میں بھی محروم کر سکتا ہے یا نہیں ؟ یہ دوٹوک اتنی بات تھی صرف اور اپنے متعلق کچھ نہیں پوچھا گیا تھا ان کے فیصلہ کو چیلنج کیا گیا تھا کہ تمہارے غلط فیصلے ہورہے ہیں اور تم اپنی قوم پر ظلم کر رہے ہو.ایک ایسے آمر کو جس کا آمریت کا جواز عوام الناس کی طرف سے بھی نہیں ملتا اس کو خدا کا نمائندہ بنارہے ہو، اس کو یہ حق دے رہے ہو کہ وہ شریعت کے متعلق فیصلے کروائے اور شرعی عدالتیں مقرر کرے.یہ مسئلہ تھا حل طلب اور اس کے اوپر کوئی بحث نہیں ہوئی.حیرت کی بات ہے، وہ سارا فیصلہ آپ پڑھ لیں اس میں اشارہ بھی یہ بحث موجود نہیں کہ کیوں احمدیوں کے دلائل اس معاملہ میں غلط ہیں؟ قرآن کہاں یہ فیصلہ دیتا ہے کہ قرآن کریم کو واجب التعمیل سمجھنے والے کو جو ایمان رکھتا ہو قرآن کریم پر عمل ضروری ہے اس کو قرآن کریم پر عمل سے محروم کیا جا سکتا ہے.اور دوسری بات یہ پوچھی گئی تھی کہ اگر یہ دیتا ہے فیصلہ تو کہاں دیتا ہے اور کس کو دیتا ہے اختیار؟ کیا جمہور کو اختیار دیتا ہے کہ وہ جسے چاہیں یا ان کے نمائندے جسے چاہیں محروم کر دیں قرآن پر عمل کرنے سے؟ یا نسلی سلطان کو اجازت دیتا ہے؟ یا کسی فوجی آمر کو اجازت دیتا ہے؟ اس کا ذکر کہیں قرآن اور سنت میں ہونا چاہئے تھا ، آخر اتنا اہم معاملہ ہے، ایک بندہ کو اس کے مذہبی حقوق سے محروم کیا جارہا ہے اور قرآن اور سنت میں اس کا ذکر ہی کہیں نہ ہو یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تو اس بات کا کوئی ذکر نہیں.جو ذکر ہے وہ گالی گلوچ ہے، ایسی عامیانہ زبان ہے، ایسی بے ہودہ کلامی کی گئی ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف کہ وہ تو لگتا ہی نہیں کہ کوئی شرفاء کی زبان استعمال کی گئی ہے کجا یہ کہ کوئی عدالت ہو اور عدالت بھی چھوڑیں شرعی عدالت.چنانچہ انہوں نے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے کر کہا ہے وہ یہ کہا ہے کہ جھوٹا ہے نعوذ باللہ من ذلک ، خدا پر افترا کرنے والا ہے، مکار ہے، دھو کے باز ہے اور اس لئے
خطبات طاہر جلد ۳ 624 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء قرآن کریم حق دیتا ہے کہ جو قرآن کو سچا سمجھتے ہیں وہ اس پر عمل نہ کریں.اگر دھو کے باز کوئی اور اس کے ماننے والے ہدایت پا جائیں نعوذ باللہ من ذلک اور قرآن پر عمل کا فیصلہ کر لیں اگر یہی شکل بنتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں ہدایت نہیں اب تمہیں پانے دی جائے گی ، قرآن کریم کو سچا سمجھنے کا حق ہی تم سے چھین لیا جائے گا اور سچا سمجھتے ہو تو خدا کا حکم ایک طرف ہوگا اور آمر وقت کا ایک طرف اور آمر کی بات تمہیں ماننی پڑے گی قرآن کو چھوڑنا پڑے گا یہ فیصلہ کیا گیا ہے.دوسری دلیل ان کی اس سے بھی زیادہ دلچسپ ہے.دوسری دلیل یہ ہے کہ ظفر اللہ خاں نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا.اس سے کیا تعلق اس بات کا کہ شریعت اسلامیہ کسی آمر کو اجازت دیتی ہے کہ نہیں کہ وہ قرآن پر عمل کرنے سے کسی کو محروم کر دے؟ اگر یہ دلیل درست ہے تو پھر وہ لوگ جو قائد اعظم کو کا فراعظم کہتے تھے وہ تو ان کی طرف کھڑے تھے ، وہی احرار تھے جو کل تک قائد اعظم کو کافر اعظم کہہ رہے تھے ( ہفت روزہ چٹان لاہور مورخہ ۶ نومبر ۱۹۵۰) اور ان میں سے کسی نے ان کا جنازہ نہیں پڑھا تھا بلکہ وہ تو لعنتیں ڈالنے والے لوگ تھے، وہ تو کہتے تھے کہ سب سے بڑا ظلم کیا ہے اسلام پر جو ، پاکستان بنادیا قائد اعظم نے اور وہ قائد اعظم کو کافر اور اس کے پاکستان کو پلیدستان کہتے تھے.(خطبہ صدارت شیخ حسام الدین از تاریخ احرار مرتبہ امیر افضل حق صفحه ۵۹ ناشر مکتبہ احرار اسلام مارچ ۱۹۶۸) ان کے متعلق پھر کیا حکم ہوگا شرعی عدالت کا؟ نہ جنازہ پڑھنے والے سے اگر یہ سلوک کرتا ہے قرآن کریم یعنی قائد اعظم کا جو جنازہ نہیں پڑھے گا اس کے متعلق پیشگوئی ہے کہ یہ اس سے ہو جانا چاہئے تو پھر جو اس کو کافر اعظم کہتے ہیں، جو اس کے بنائے ہوئے ملک کو پلیدستان کہتے ہیں ان کے متعلق بھی آخر کوئی سلوک ہونا چاہئے ! وہ بھی نکالیں اور پھر آگے بڑھیں.واقعہ یہ ہے کہ پلیدستان کہنے والے آج زور لگا ر ہے ہیں کہ کسی طرح پلیدستان بن جائے کیونکہ جو حرکتیں ہیں وہ پاکستان والی نہیں ہیں.پوری کوشش ہے کہ ہم بنا کے دکھا دیں اور بعد میں کہیں کہ دیکھو ہم کہتے نہیں تھے کہ پلیدستان بنے گا.قائد اعظم مرحوم بیچارے نے تو پاکستان ہی بنایا تھا لیکن اب ایسے لوگ اوپر آگئے ہیں جو فیصلہ کر کے آئے ہیں کہ ہم نے اس کو پلیدستان بنا کر چھوڑنا ہے کیونکہ جو رویہ ہے، جو طرز ہے وہ ساری یہی ہے.جہاں تک طرز کلام کی بات ہے یہ طرز کلام تو وہی ہے جو گزشتہ زمانوں میں ہمیشہ سے
خطبات طاہر جلد ۳ 625 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء خدا کے انبیاء کے مخالفین اختیار کیا کرتے تھے.چنانچہ قرآن کریم اس کا پورا ریکارڈ رکھتا ہے، ایک بڑی تفصیلی تاریخ بیان فرما رہا ہے.فرماتا ہے: وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا إِفْتُ افْتَرَيَهُ وَأَعَانَهُ عَلَيْهِ قَوْمُ أَخَرُونَ فَقَدْ جَاءُ وَظُلْمًا وَزُوران ( الفرقان: ۵) فرماتا ہے کہ یہ لوگ جو تیرا انکار کرتے ہیں کہتے ہیں اِنْ هَذَا إِلَّا إِفْكُ افْتَرَاهُ یہ تو ایک بہت بڑا جھوٹ ہے جو اس نے اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، نہ خدا نے کلام کیا، نہ کوئی بات ہوئی، گھر بیٹھے خدا کی طرف باتیں منسوب کرنے لگ گیا ہے.دیکھ لیجئے نوائے وقت کے عنوانات پڑھ لیں اور جنگ کے عنوانات پڑھ لیں اور فیصلہ کریں کہ کیا اس زبان میں اور اس زبان میں کوئی اور فرق ہے ؟ فَقَدْ جَاءُ وَظُلْمًا وَ زُوران فرماتا ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو ظلم لے کر آئے ہیں اور شدید جھوٹ بولتے ہوئے آئے ہیں ظلم کے ساتھ آئے ہیں.وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ اكْتَتَبَهَا فَهِيَ تُمْلَى عَلَيْهِ بُكْرَةً وَأَصِيلًا اور وہ یہ کہتے ہیں کہ پرانے اس قسم کے جھوٹے لوگ ہوتے چلے آئیں ہیں، پہلے بھی آئے تھے بہت سے جھوٹے یہ ایسی باتیں ہیں کہ اس کو پڑھانے والے پڑھایا کرتے تھے یہ اپنی طرف سے باتیں نہیں کرتا.پھر دوسری جگہ فرماتا ہے: وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ أَيْتُنَا بَيِّنَتٍ قَالُوْا مَا هُذَا إِلَّا رَجُلٌ يُرِيدُ أَنْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ابَاؤُكُمْ وَقَالُوْا مَا هُذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرَى وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ وَاللْحَقِّ لَمَّا جَاءَهُم إِنْ هَذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ (: ۳۴) دوسری ایک یہ بھی دلیل دی گئی ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد کے مذہب سے اکھیڑتے ہیں ہمیں اور اس وجہ سے یہ حق ہے ایک آمر کو وہ تبلیغ روک دے ایک یہ دلیل ہے.قرآن کریم فرماتا ہے که یه دلیل تو دشمن دین دیا کرتے ہیں.حق کے دشمن دیا کرتے ہیں کیونکہ جہاں تک حق کا تعلق ہے اس کو تو تبلیغ سے کوئی خوف نہیں.یہ آنحضرت ﷺ اور آپ کے غلام تو نہیں تھے جو لوگوں کو مکہ آنے سے روکتے تھے کہ تم ہمیں آکر تبلیغ کرتے ہو ہم تمہیں ماریں گے.طائف والے کچھ اور لوگ
خطبات طاہر جلد ۳ 626 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۸۴ء تھے جن کی شکلیں ہی اور تھیں وہ روکا کرتے تھے کہ ہمارے شہر میں نہیں آنا تم نے.تم تبلیغ کرتے ہواور ہمارے آباؤ اجداد کے دین سے ہمیں منحرف کرتے ہو چنانچہ فرماتا ہے وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ ایتنا بنت جب ان کے اوپر کھلے کھلے ہمارے نشانات پڑھے جاتے ہیں وہ کہتے ہیں قَالُوا مَا هُذَا إِلَّا رَجُلٌ کہ نبی ولی کوئی نہیں انسان ہے صرف ایک عام تمہاری طرح کا تُرِيدُ انْ يَصُدَّكُمْ عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ ابَاؤُكُم صرف یہ چاہتا ہے کہ تمہارے دین سے تمہیں منحرف کر دے، اس دین سے منحرف کر دے جو تمہارے باپ دادا مانتے چلے آئے تھے.وَقَالُوْا مَا هَذَا إِلَّا إِفْكٌ مُفْتَرَى وہ کہتے ہیں کہ سوائے اس کے کہ ایک جھوٹ ہے جو خود بخو دگھڑ لیا گیا ہو اس کے سوا اس کی کوئی حقیقت نہیں اور وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے یہ کہا کہ ان هذا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ یہ تو جادو گری اور جھوٹ ہے اس کے سوا کچھ بھی نہیں.پھر اور بھی بہت سے لفظ ہیں جو استعمال کئے گئے مجنون إِنَّكَ لَمَجْنُونَ (الحجر:۷) کہ تو تو پاگل ہو گیا ہے.تجھے تو مرگی کے دورے پڑتے ہیں اور غیروں نے بھی پھر یہی آواز پکڑی.آج تک اسلام کے شدید دشمن گندہ دہن یہی باتیں آنحضور ﷺ کے متعلق استعمال کرتے ہیں.اس کثرت سے اس مضمون کی آیات ہیں کہ ناممکن ہے کہ ایک جگہ وہ ساری آیات پڑھ کر سنا دی جائیں لیکن قرآن کریم جو جواب سکھاتا ہے وہ ایسا ہے جو ہمیشہ کے لئے زندہ جواب ہے، جب بھی ایسی صورتِ حال پیدا ہو تو وہی جواب ہے جو ہمیں دنیا چاہئے.فرماتا ہے أمْ يَقُولُونَ افْتَرمہ اے محمد ﷺ کیا وہ یہ کہتے ہیں کہ تو نے جھوٹ بنالیا ہے، مفتری ہے تو ؟ قُلْ اِنِ افْتَرَيْتُهُ فَلَا تَمْلِكُونَ لِي مِنَ اللهِ شَيْئًا اگر میں نے جھوٹ بنالیا ہے تو یہ سوال نہیں ہے کہ تم ماروسوال یہ ہے کہ تم بچانا بھی چاہو تو اللہ سے مجھے بچا نہیں سکو گے.کیسا عمدہ جواب ہے! بیک وقت انسان کے دخل کی نفی کر دی گئی ہے دونوں طرف سے، حیرت انگیز کلام ہے.یہ نہیں فرماتا کہ ایسی صورت میں تم نہ مجھے مارو اللہ مارے گا.فرماتا ہے تمہارا مارنا تو درکنار اگر تم سارے میری حفاظت پر بھی مامور ہو جاؤ گے اور اپنی ساری طاقتیں مجھے بچانے کے لئے استعمال کرو گے تب بھی نہیں بچا سکو گے مجھے.هُوَ اَعْلَمُ بِمَا تُفِيضُونَ فِيهِ اللہ بہتر جانتا ہے جو تم بیہودہ سرائی کرتے
خطبات طاہر جلد ۳ 627 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء ہو اور گندے کلام کرتے ہو.گفی بِهِ شَهِيدًا بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ میرے اور تمہارے درمیان وہی کافی ہے گواہ اللہ جو بہتر جانتا ہے کہ اس نے مجھے بھیجا ہے یا نہیں بھیجا وَهُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ (الاحقاف (۹) اور بہت مغفرت کرنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے.پھر فرماتا ہے وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَاكٍ أَثِيو جھوٹا کون ہے گناہ گار کون ہے.يَسْمَعُ آیتِ اللهِ تُتْلَى عَلَيْهِ ثُمَّ يُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَانْ لَّمْ يَسْمَعُهَا فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ الیم افاک اور اٹیم جو کہنے والے ہیں ان کی خدا تعالی تعریف بتاتا ہے کہ افاک اور اور اثیم ہمارے نزدیک کون ہوا کرتا ہے؟ فرماتا ہے وہ جو اللہ کے نشانات کو سنتا ہے پھر تکبر کرتے ہوئے پیٹھ پھیر کر منہ موڑ لیتا ہے اور اصرار کرتا ہے اپنے تکبر پر اس طرح طرز عمل اختیار کرتا ہے جیسا اس نے کچھ سنا ہی نہیں.اس کو عذاب الیم کی خوش خبری دے دو.وَ إِذَا عَلِمَ مِنْ ايْتِنَا شَيْئًا اتَّخَذَهَا هُزُوًا اور دوسری علامت ان لوگوں کی وہ ہے کہ خدا کے کلام کی باتیں ہورہی ہوتی ہیں.یہ بحث ہوتی ہے کہ اللہ نے کسی سے کچھ کہا یا نہیں کہا وہ کوئی تمسخر کا وقت تو نہیں ہے.فرماتا ہے ایسے موقع پر یہ تمسخر شروع کر دیتے ہیں اور یہ ایک ایسی عادت مستمرہ ہے جھوٹے لوگوں کی کہ حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر آنحضرت کے وقت تک کی جو تاریخ قرآن نے محفوظ فرمائی اس میں ایک بھی استثناء قرآن نہیں بتا تا.انبیاء استہزا نہیں کرتے ان سے، جب وہ قرآن کی باتیں کرتے ہیں وہ سنجیدگی سے ان کو جواب دیتے ہیں، جب وہ پہلی کتابوں کی باتیں کرتے ہیں وہ سنجیدگی سے ان کو جواب دیتے ہیں، جب وہ مذہب اور دین اور آخرت اور ان سنجیدہ امور کی گفتگو کرتے ہیں حوالے دیگر کتب سے جن کا انسان کی زندگی اور مابعد الموت سے تعلق ہے تو وہ بڑی سنجیدگی سے اس کلام کا جواب دیتے ہیں لیکن ایک گروہ ایسا ہے جو تمسخر سے پہچانا جاتا ہے، گندی گالیاں دینے والا ، جھوٹ بولنے والا اور تمسخر کرنے والا.فرمایا یہ وہ لوگ ہیں أُولَكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ ( البانیہ : ۱۰۸) ان کے لئے مُّهِينٌ عذاب مقرر ہے.مھین سے مراد ہے جو چھوٹا کر دینے والا ذلیل اور رسوا کر دینے والا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے الہاما فرمایا ہے اِنّى مُهِينٌ مَنْ أَرَادَ اهانتكَ ( تذکرہ صفحہ: ۲۷) میں اسے ذلیل ورسوا کروں گا جو تجھے ذلیل ورسوا کرنے کا ارادہ کرتا صد الله
خطبات طاہر جلد ۳ 628 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء ہے.تو کیسا بر موقع ہے یہ الہام انہیں لوگوں کے متعلق ہے جو انکار کرتے ہیں قرآن کریم یہ محاورہ استعمال فرماتا ہے أُولَبِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے ایمان لانے والوں کا تعلق ہے قرآن کریم ان کے متعلق فرماتا ہے وَإِنْ كَانَ طَابِفَةٌ مِنْكُمْ أَمَنُوْا بِالَّذِي أُرْسِلْتُ بِهِ وَطَابِفَةٌ ثَمُ يُؤْمِنُوا ان کا اور غیروں کا مقابلہ جو چل پڑا جو لوگ ایمان لے آئے اُن کے اور غیروں کے درمیان کیسے فرق ہوگا، کون فیصلہ کرے گا؟ اس کے متعلق قرآن کریم فرما رہا ہے وَانْ كَانَ طَائِفَةٌ مِنْكُمْ أَمَنُوا بِالَّذِى أُرْسِلْتُ بِه آنحضرت ﷺ کی زبان مبارک سے یہ اعلان کیا جارہا ہے کہ اگر تم میں سے ایک گروہ اس بات پر ایمان لے آیا ہے جسے میں لے کر آیا ہوں، جس کی خاطر مجھے بھیجا گیا ہے وَطَائِفَةٌ لَّمْ يُؤْمِنُوا اور ایک گروہ ہے جو نہیں ایمان لایا.یہی شکل پیدا ہوا کرتی ہے جب بھی کوئی خدا کی طرف سے دعوی کرتا ہے، تو دنیا پھر دوگروہوں میں بٹ جاتی ہے، ایک ایمان لانے والا اور ایک نہ ایمان لانے والا ہے.اس کا علاج کیا ہے؟ کوئی اعلان جنگ نہیں کوئی گالی گلوچ کا اعلان نہیں ہے.فرمایا فَاصْبِرُوا حَتَّى يَحْكُمَ اللهُ بَيْنَنَا ۚ وَهُوَ خَيْرُ الحكمِينَ (الاعراف: ۸۸) تم پھر ایسے موقع پر صبر سے کام لو انتظار کرو.کیونکہ ایسے موقع پر ضرور فیصلے کیا کرتا ہے جب تک خدا فیصلہ نہ فرمادے اب ان دو گروہوں کے درمیان کوئی لڑائی نہیں ہے خدا کے فیصلے کا انتظار کرو.وَهُوَ خَيْرُ الْحَکمتیں اور وہ بہترین فیصلے فرمانے والا ہے.ان امور کی روشنی میں ناممکن تھا کہ کوئی احمدی کسی بھی دنیا کی عدالت میں خواہ اس کا کوئی بھی نام ہو یہ معاملہ لے کر جاتا کہ آپ ہمارے درمیان فیصلہ کریں کہ ہم بچے ہیں یا ہمارا مخالف سچا ہے، اعتقادات کے لحاظ سے.دنیاوی معاملات میں تو ایک مسلمان کو غیر مسلم کی عدالت میں جانا پڑتا ہے.اپنے سے اختلاف رکھنے والے کی عدالت میں جانا پڑتا ہے اور دنیاوی معاملات میں اسلام مذہب کی تفریق ہی کوئی نہیں کرتا ، یہودی آنحضور ﷺ کی عدالت میں آجایا کرتے تھے فیصلوں کے لئے.خلیفہ وقت اپنے مخالف فریق کو اختیار دیتا ہے کہ تم چن لوکوئی نمائندے ہم فیصلہ کرواتے ہیں لیکن دنیاوی امور میں تو ان لوگوں کے بعد جہاں تک قرآن کا حکم ہے اس معاملہ میں کوئی فیصلہ تسلیم نہیں کیا جائے گا.دنیاوی امور تک ٹھیک ہے اور یہ بھی ممکن ہے جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 629 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء تسلیم کیا کہ یہ فیصلہ قرآن سے کرلو کہ قرآن کس کو اجازت دیتا ہے اور کیا اجازت دیتا ہے اس قسم کے امور میں؟ لیکن عقیدوں کے معاملہ میں تمہاری بات نہیں مانی جائے گی.اگر اصول میں تم نے دخل دیا اور وہ اصول قرآن کی رو سے صحیح ثابت نہ ہو تو میں پابند نہیں ہوں کہ تمہاری بات مانوں قرآن کی بات چلے گی تمہاری نہیں چلے گی.تو خاص شرطوں کے ساتھ اور یہ شرطیں لازم ہیں ہر مسلمان پر صرف حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا معاملہ نہیں تھا ہر مسلمان کے لئے یہی حکم ہے.تم غیروں کی عدالت میں دوسروں کی عدالت میں آپس کے جھگڑے طے کرنے کی خاطر صلح کی خاطر، امن کی خاطر ، مقد مے لے جاسکتے ہو لیکن یہ اجازت نہیں ہو سکتی کسی فریق کو کہ وہ قرآن کے فیصلے کے خلاف تم سے بات کرے اور پھر تمہیں وہ بات واجب التعمیل ہو اور تمہیں تسلیم کرنا ضروری ہو.تم اس صورت میں آزاد ہو جاتے ہو.بہر حال نہ وہ اس غرض سے گئے نہ کوئی احمدی کسی دنیا کی عدالت کا یہ حق تسلیم کرتا ہے اور اصل موضوع کو چھوڑ کر بالکل بے تعلق باتیں اور گالی گلوچ شروع کر دی.یہ باتیں دیکھ کر مجھے جسٹس کیانی یاد آگئے بڑے وہ دلچسپ انسان تھے بڑا اونچا ان کا علم بھی اور عدالت کا مقام بھی، ان کا فہم اور ان کی پہنچ اور نہایت لطیف باتیں کرنے والے تھے.انہوں نے مولوی کے متعلق بعض باتیں بیان کی ہیں.ان کا یہ ایمان تھا کہ مولوی جہاں بھی ہو جس طرح بھی ہو اس کا جو نام رکھ لو، جس زمانہ کا ہو وہ وہی رہتا ہے اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی.عدالت کے باہر ہویا عدالت کے اندر ہو، عادل کہلائے یا غیر عادل کہلائے ، مولوی مولوی ہی رہے گا اور دوسرا ان کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ ایک ایسی چیز ہے جس کا زمانہ سے بھی تعلق نہیں.ان کا ایمان تھا کہ ہر زمانہ کا مولوی ایک جیسا ہی ہوتا ہے.چنانچہ اس مضمون کو اپنے خاص لطیف انداز میں بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ زمانے بدل گئے اور بہت سی تبدلیاں آگئیں، نئے نئے مضمون آگئے دنیا میں اور بظاہر مولوی بھی بدل گئے.کہتے ہیں لیکن بظاہر بدلے، جہاں تک مضمون کا افتاد طبع کا تعلق ہے ان کی دلچسپیوں اور ان کے موضوعات کا تعلق ہے ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی.کہتے ہیں آج بھی ان کی دلچسپی کا مضمون روڑا ہی ہے کہ روڑا کو کس طرح استعمال کرنا چاہیئے ؟ صرف بدلی ہے تو اصطلاح بدلی ہے.پہلے زمانہ میں یہ بحث ہوا کرتی تھیں دائیں سے بائیں یا بائیں سے دائیں؟ ماڈرن مولوی یہ بحث کرتا ہے کہ کلاک
خطبات طاہر جلد ۳ 630 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء وائز (Clock Wise ) یا اینٹی کلاک وائز (Anti Clock Wise ) اس کے سوا اور کوئی تبدیلی نہیں ہوئی مولوی میں.ان کے مضمون پر آپ غور کریں یہ مذاق نہیں ہے ایک بڑا گہرا مضمون بتایا گیا ہے ملائیت کے تصور کے متعلق کہ ملائیت کی حقیقت کیا ہے.وہ بھیس بدلتی رہتی ہے زمانے کے مطابق وہ لیکن اس کی اصلیت نہیں بدلتی.ایک رجحان ہے ایک ذہنیت ہے اس کا نام ملائیت ہے.چنانچہ اسی اصول کو اگر آپ چسپاں کر کے دیکھیں تو اُن کا مطلب یہ ہے کہ اگر قاضی شریح جس نے حضرت امام حسنؓ اور امام حسین اور آپ کی آل پر فتویٰ دیا تھا اس زمانہ میں قاضی کہلا تا تھا، اگر وہ آج پیدا ہوتا تو اس کا نام جسٹس ہوتا لیکن جسٹس کہلانے سے اس کی شریحیت تو نہیں بدل سکتی تھی جس قسم کے قاضی پہلے پیدا ہوئے ویسے ہی قاضی پیدا ہوتے رہتے ہیں اور اگر تقویٰ نہ ہو تو نہ قاضی کہلانے سے اس کے اندر کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ مولوی کہلانے سے فرق پڑتا ہے.نہ جسٹس کہلانے سے فرق پڑتا ہے.قرآن کریم تقویٰ کی شرط پیش کرتا ہے.تقویٰ کے بغیر کوئی بھی مضمون باقی نہیں رہتا.جہاں تک گالیوں کا تعلق ہے ایک احمدی تو گالیوں کا جواب گالیوں سے نہیں دے گا اس لئے اس فیصلہ کے خلاف کیا اپیل ہوگی جو گالیاں ہیں.ایک دفعہ سندھ میں جہاں ہم ہندؤوں میں تبلیغ کرتے ہیں وہاں کا ایک واقعہ مجھے یاد آ گیا ایک علاقے میں جہاں خدا کے فضل سے بکثرت ہندو مسلمان ہونے شروع ہوئے، کلمہ پڑنے لگے، شرک چھوڑا.علما کو پتہ چلا تو انہیں بہت غصہ آیا انہوں نے کہا یہ احمدی ہوتے کون ہیں کہ ہندؤوں میں تبلیغ شروع کر دی ہے اور ہندووں کو کلمہ پڑھا رہے ہیں.چنانچہ ایک جماعت اسلامی کے مولوی صاحب ایک گاؤں میں جا پہنچے جس کا نام پھول پورہ ہے اور وہاں کی آدھے سے زیادہ آبادی احمدی ہو چکی تھی اللہ کے فضل سے اور نمازیں پڑھنے لگ گئے تھے اور درود بھجتے تھے آنحضور ﷺ پر اور بچے صل الله بھی کلمہ پڑھتے تھے نہایت ہی پیاری آواز میں.تو مولوی صاحب وہاں پہنچے اور احمدیوں کے خلاف گندہ دہنی شروع کر دی.سٹیج لگایا اور اتنی گالیاں دیں کہ وہ حیران ہو کر تعجب سے دیکھتے رہے کہ ہوا کیا ہے مولوی صاحب کو ہم تو سمجھے تھے کہ اسلام کی باتیں بتائیں گے کچھ اپنے مذہب میں آنے کی دعوت دیں گے.یہ تو ان کو گالیاں دے رہے ہے.چنانچہ گاؤں کا نمبر دار تھا وہ بھی ہندو ہی تھا وہ اُٹھ کر کھڑا
خطبات طاہر جلد۳ 631 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء ہو گیا.اس نے کہا مولوی صاحب ! پہلے میری ایک بات سُن لیں اسکے بعد باقی با تیں.بات میں یہ کہنا چاہتا ہو کہ جب یہ لوگ یہاں آئے تھے ہمیں مسلمان بنانے کے لئے تو انہوں نے ہمیں بہت پیاری پیاری باتیں بتائی تھیں، اللہ کا ذکر کرتے تھے محبت سے اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے، خدا کے پیار کی باتیں کرتے تھے ، اپنے نبی کی پیار کی باتیں کرتے تھے اور کہتے تھے خدا کا کوئی شریک نہیں اور محمد علہ اس کا بندہ اور رسول ہے اور سب نبیوں سے افضل ہے اور پھر اسلام کے اخلاق کی باتیں کرتے تھے کہتے تھے سب بھائی بھائی ہیں، کوئی دشمنی نہیں، کوئی نفرت نہیں تو ان باتوں نے ہمارے دل جیتنے شروع کئے.اگر چہ میں ابھی تک مسلمان نہیں ہوالیکن میرا گاؤں میری آنکھوں کے سامنے مسلمان ہو رہا ہے اور میں نے کبھی نہیں روکا کسی کو کیونکہ کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جس پر مجھے اعتراض ہو اس لئے میں نے کوئی دخل نہیں دیا لیکن آج آپ ایک اسلام کا تصور لے کر آئے ہیں اور اس میں آپ گندی گالیاں دے رہے ہیں تو اگر سچائی کی یہی دلیل ہے تو اس نے کہا کر میرالڑکا میرے پاس ہے میں اس کا دوسری طرف سٹیج لگوا دیتا ہوں اور گالیوں میں اس سے مقابلہ آپ کر لیں لیکن شرط یہ ہے کہ اگر میرا بیٹا جیت گیا تو آپ پھر ہندو ہو جائیں اور اگر آپ جیت گئے تو میں اور میرا بیٹا مسلمان ہو جائیں گئے کیونکہ گالیوں کے سوا دلیل ہی کوئی نہیں دے رہے آپ یہ بھی اس کی خوش قسمتی تھی که مولوی صاحب نہیں مانے یہ بات ورنہ جس قسم کی زبان استعمال کرتے ہیں بیٹے نے ہار جانا تھا.اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو وہ ربوہ میں انصار اللہ اور خدام الاحمدیہ کے اجتماع بند کر کے جس جلسے کی مولویوں کو اجازت دی ہے حکومت نے اسکی Tape سن لے کوئی.اس قدر گندہ دینی ہے، اس قدر جھوٹے الزامات اور اتہامات کو آپ ایک طرف چھوڑیں ، حضرت اقدس مسیح مود علیہ الصلواۃ والسلام اور دیگر خلفائے سلسلہ کے متعلق ایسی ناپاک اور ایسی گندی زبان استعمال کی ہے کہ میں نہیں سمجھتا کہ پھول پورہ کا کوئی ہندو بھی اس مقابلہ میں جیت سکے.یہ حالات ہو چکے ہیں ! یہاں تک قوم پہنچ رہی ہے اس کو کو نظر نہیں آرہا کہ ہم کہاں چلے گئے ہیں اور کیا ہمارا حال ہو چکا ہے؟ جہاں تک قضاء کا تعلق ہے دنیا کی عدالتیں فیصلے کیا کرتیں ہیں اور بعض دفعہ خدا کے بندوں کے خلاف فیصلے کیا کرتی ہیں، اس سے کوئی انکار نہیں لیکن احکم الحاکمین کے فیصلے بھی ضرور پیچھے آیا
خطبات طاہر جلد۳ 632 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء کرتے ہیں اور جب خدا کا فیصلہ نافذ ہوتا ہے تو پھر قوموں کا کچھ بھی باقی نہیں رہتا.ان مخالف قوموں کا جو تکبر میں آکر اللہ اور اس کے بندوں کے خلاف فیصلے دیتی ہیں.چنانچہ سورہ طہ میں ایک اسی قسم کے فیصلہ کا ذکر ہے جب فرعون نے حضرت موسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے ماننے والوں کے خلاف فیصلہ دیا تو اس وقت انہوں نے جواب یہ دیا.فَاقْضِ مَا اَنْتَ قَاضٍ إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْيَات اور یہ بہت ہی عمدہ طرز کلام ہے اور نہایت ہی پیارا اور فصاحت و بلاغت کا ایک عظیم الشان مرقع اس کا ہے فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضِ کا عملا یہ معنی بنتا ہے کہ جس فیصلے پر تو تلا بیٹھا ہے قاض تو نے کرنا ہی کرنا ہے، تو ظاہر کر دے اس فیصلہ سے مراد یہ ہے کہ تو عدالت کی کرسی پر نہیں بیٹھا ہوا.تو نے ایک بہانہ بنایا ہے اور ایک تمسخر ہے فیصلوں کے ساتھ پہلے ہی سے نیت ہے تیری یہ فیصلہ دینے کی فَاقْضِ مَا أَنْتَ قَاضٍ جس فیصلہ کی تو نیت لئے بیٹھا ہے، جو تو نے کرنا ہی ہے تو کر دے اس کو.إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْيَات ( ل :۷۳) تو صرف دُنیا کا فیصلہ کر سکتا ہے اس سے آگے کا نہیں کرسکتا چھوٹی سی آیت میں ایک حکمتوں کا سمندر بند ہے اس میں إِنَّمَا تَقْضِي هَذِهِ الْحَيَوةَ الدُّنْیات کا مطلب ہے کہ اس دنیا کے معاملات میں تو تیرا زور چل جائے گا.ہمیں سزائیں مل جائیں گی ، ہمارے خلاف کچھ بدارا دے ہیں جن پر عمل کیا جائے گا لیکن اس سے زیادہ کا تیرا کوئی زور نہیں اور دوسرا معنی یہ ہے تو دنیا کی چیز ہے، دنیا کے معاملات کے بارہ میں فیصلہ کر سکتا ہے، مذہب کے ساتھ تیرا تعلق ہی کوئی نہیں تو اس دنیا کی باتیں کر ٹھیک ہے لیکن مذہب میں کیا تعلق ہے تیرا ! دنیاوی سلطنتوں کو ، دنیاوی بادشاہتوں اور عدالتوں کو مذہب کے معاملہ میں دخل اندازی کا کیا حق ہے اور اگر وہ کریں گے تو اس دنیا میں ان کا فیصلہ رہ جائے گا.قیامت کے دن دنیا کا کیا ہوا کوئی مذہبی فیصلہ آگے نہیں چل سکتا هذِهِ الْحَيُوةَ الدُّنْيَات نے بتایا کہ تیرے فیصلوں کی پہنچ یہاں تک ہے بس قبر کے آگے تیرا فیصلہ نہیں گزرسکتا اور پھر احکم الحاکمین کے ہاتھ میں فیصلہ چلا جاتا ہے.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الْأَمْرَ مضمون یہ ہے کہ اَنَّ دَابِرَ هَؤُلَاءِ مَقْطُوعُ مُصْبِحِيْنَ (الحجر:۶۷) که خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے بھی ایک فیصلہ کیا ہے
خطبات طاہر جلد۳ 633 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء اور اس فیصلہ کی طرز اپنے نبی پر اس فیصلے کا اظہار کر دیا ہے.وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الْأَمْرَ کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے ایک فیصلہ کیا اور پھر اپنے نبی پر اس فیصلے کا اظہار فرما دیا وہ فیصلہ کیا تھا ؟ اَنَّ دَابِرَ هَؤُلَاءِ مَقْطُوعُ مُصْبِحِيْنَ کہ ان کے متعلق فیصلہ یہ ہے کہ ان کی جڑیں کاٹی جائیں گی.اور قصبحِینَ کا لفظ خاص طور پر قابل توجہ ہے.ایک تو یہ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اکثر قوموں پر عذاب رات کے پچھلے پہر آئے ہیں جب کہ صبح ہونے والی تھی اور جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہامات اور پیشگوئیوں کا تعلق ہے وہاں بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ رات کے پچھلے پہر دفعہ ، اچانک، غیر متوقع طور پر خدا تعالیٰ کی پکڑ آئے گی.اس کثرت سے تذکرہ میں یہ مذکور ہے کہ اس میں کوئی حکمت ہے.پچھلے پہر عذاب آنے میں کئی باتیں ہیں قابل غور.اس کو مُصْبِحِينَ فرماتا ہے اللہ تعالیٰ اور پھر فرماتا ہے فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِينَ (الصافات: ۱۷۸) جن کو ڈرایا گیا تھا اُن کی کیسی صبح طلوع ہوئی ؟ تو انقلاب کے لئے جو ایک روحانی انقلاب برپا ہونا ہوتا ہے اس کے لئے یہ بہترین وقت ہے.ایک طرف ظالم صبح کی انتظار کر رہا ہوتا ہے اور ایک طرف مظلوم صبح کی انتظار کر رہا ہوتا ہے.تو ان کی تباہی اور مظلوم کی صبح کے درمیان فاصلہ کوئی نہیں ہوتا ہے.یعنی یہ ایسے وقت میں تباہی آتی ہے کہ اس کے ساتھ ہی مظلوم کی صبح کا سورج طلوع ہورہا ہوتا ہے اور ان کی صبح ایسی بدتر ہوتی ہے کہ رات سے بھی بدتر صبح آتی ہے.ایسی صبح آتی ہے جیسے ایک عرب شاعر نے کہا ہے: الا أَيُّهَا اللَّيْلُ الطَّوِيلُ انْجَلِي بِصُبْحٍ فَمَا الَّا صُبَاحٌ مِنْكِ بِأَمْثَلِي اے لمبی تاریک رات صبح میں تبدیل ہو جا فما الاصباح منک بامثلی لیکن ٹھہر ! صبح بھی کون سی تجھ سے بہتر آنے والی ہے وہ بھی تجھ سے بدتر آئے گی.تو اس شعر کا اطلاق کسی اور پر ہو یا نہ ہو لیکن خدا تعالیٰ کے دشمنوں پر ضرور ہوتا ہے اور ایک ہی وقت میں ایک قوم کے لئے حقیقی صبح طلوع ہورہی ہوتی ہے اور ایک قوم کے لئے رات سے بدتر صبح طلوع ہورہی ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُنْذَرِینَ جن کو ڈاریا جاتا ہے ان کے لئے کیسی ہی بد بخت صبح ہے جو ان
خطبات طاہر جلد۳ کے لئے آئی ہے اور پھر فرماتا ہے: 634 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنْتٍ وَعُيُونٍ وَزُرُوعٍ وَ مَقَامٍ كَرِيْمِ قن وَنَعْمَةٍ كَانُوْا فِيْهَا فَكِهِينَ كَذَلِكَ وَأَوْرَثْهَا قَوْمًا أَخَرِيْنَ فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ وَمَا كَانُوا مُنْظَرِينَ ) (الدخان: ۲۶-۳۰) کتنے ہی جنات کیسے باغات اور چشمے تھے جو انہوں نے اپنے پیچھے چھوڑے وزُرُوع اور لہلہاتی کھیتیاں تھیں ومَقَامٍ كَرِیمِ اور عزتوں کے مقامات تھے ان کے پاس وَنَعْمَةٍ كَانُوا فِيهَا فکھائیں اور ایسی ایسی نعمتیں تھیں کہ جن میں وہ زندگی کے تعیش لوٹ رہے تھے گذلك يقينا اسی طرح تھاوَ أَوْرَثْهَا قَوْمًا أَخَرِينَ ) لیکن دیکھو ہم نے ان کا کسی اور قوم کو وارث بنا دیا کیونکہ وہ اس بات کے اہل نہیں تھے کہ وہ ان چیزوں کو اپنے پاس رکھیں امانت میں خیانت کرنے والے لوگ تھے اس لئے خدا نے وہ امانت ان سے چھین لی وَأَوْرَثْهَا قَوْمًا أَخَرِيْنَ اور قو میں ایسی ہوتی ہیں جن سے ان کی نعمتیں چھین کر دوسروں کو دے دی جاتی ہیں لیکن فرمایا ان کا اور ان قوموں کا ایک فرق ہے بعض قوموں کے جب دن پھرتے ہیں! دن بدل جاتے ہیں ، جب ان کے بلندی کے زمانے تنزل میں تبدیل ہو جاتے ہیں تو بعض دفعہ صدیاں چھوڑ کر ہزاروں سال لوگ انکی اس حالت پر روتے ہیں، وقت یاد کرتے ہیں، کیسے کیسے عظیم الشان وقت تھے وہ آئے اور ہاتھوں سے نکل گئے.بغداد پر جو تباہی آئی اس کو سینکڑوں سال ہو چکے ہیں آج تک لوگ اس تباہی کے اوپر روتے ہیں اور آنسو بہاتے ہیں.پین پر جو تبا ہی آئی اور مسلمانوں سے حکومت چھینی گئی ،کتنا درد ناک واقع گزرا ہے؟ آج تک مسلمان جب اس تاریخ کو پڑھتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں.اسی طرح رومن امپائر کو رونے والے دنیا میں موجود ہیں مگر فرمایا کہ وہ لوگ جو خدا کے انبیاء کا انکار کرتے ہیں ان کی ہلاکت اور ان ہلاکتوں میں ایک فرق ہے ، ان کو کوئی رونے والا نہیں ہوا کرتا جو بعد میں آئے فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالْأَرْضُ نہ ان پر آسمان روئے گا اور نہ ان پر
خطبات طاہر جلد ۳ 635 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء زمین روئے گی.نہ کبھی آسمان ان پر رویا اور نہ کبھی زمین نے ان پر آنسو بہائے وَمَا كَانُوا مُنظرین اور پھر وہ کبھی مہلت نہیں دیئے گئے.کیسا عظیم الشان ایک اظہار ہے اور اتنا ہی درد ناک ہے.آپ انبیاء کی تاریخ پڑھ لیں دنیا کی قوموں پر خواہ وہ ظالم بھی ہوں اگر وہ انبیاء سے نہیں ٹکرائیں تو ان پر رونے والے آپ کو ملیں گے لیکن ان قوموں پر جو انبیاء سے ٹکر لے کر ماری گئی ہیں ان پر کوئی رونے والا آپ کو نہیں ملے گا.وہ لوگ جو نوح علیہ السلام کے مقابل پر آکر ہلاک ہوئے اور غرق کئے گئے ان کے تذکرے آپ پڑھتے ہیں اور تمام دنیا کی کتابوں میں اور تمام کہانیوں میں ان کا ذکر ملتا ہے لیکن ایک بھی آنکھ ایسی نہیں جو ان لوگوں پر آنسو بہاتی ہو.آج اگر کسی ایسے علاقے میں بھی جہاں سیاسی لحاظ سے دشمن قابض ہوں وہاں بھی اگر (Flood) زیادہ آجائے اور دو چار سو جانیں ہلاک ہو جائیں تو مخالف نظریہ رکھنے والے بھی رو پڑتے ہیں بعض دفعہ.عام تباہیاں جو ہیں دنیا کی ان میں پھر اپنے اختلافات بھول جاتے ہیں اب دیکھیں وہاں اتھوپیا میں، ایسے سینیا میں وہ ایک اشترا کی ملک ہے، بڑا سخت مخالف ہے لیکن اس کے باوجود چونکہ ایک تبا ہی عام ہے یہاں یورپ میں انگلستان میں اور امریکہ میں ان کے حالات پر لوگ آنسو بہارہے ہیں اور قربانیاں بھی پیش کر رہے ہیں لیکن یہ ایک عجیب استثناء ہے کہ وہ قو میں جو خدا کے انبیاء سے ٹکراتی ہیں اور اس جرم میں ہلاک کی جاتی ہیں ان پر کبھی کسی آنکھ نے آنسو نہیں بہائے.سماء سے مراد روحانی لوگ ہیں اور ارض سے مراد زمینی لوگ ہیں.مراد یہ ہے یہ ایسے بد بخت لوگ ہوتے ہیں کہ نہ ان پر پھر آسمانی لوگ آنسو بہاتے ہیں نہ ان پر زمینی لوگ آنسو بہاتے ہیں.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے ہم نے تو مذہب قرآن سے سیکھا ہے اور یہی ہمارے لئے کافی ہے.قرآن جس مذہب کی تاریخ پیش کر رہا ہے وہی تاریخ ہے جو ہمارے لئے ایک سند ہے اور اگر ہماری تاریخ بھی اسی خون سے لکھی جائے جس خون سے پہلے انبیاء کے ماننے والوں کی تاریخ لکھی گئی تھی تو یہ ایک بہت ہی بابرکت مقام ہوگا، بہت ہی عزت اور شرف کا مقام ہوگا لیکن اس تاریخ پر ہم قرآن کریم کی زبان میں لعنت ڈالتے ہیں جو انبیاء کے منکرین کی تاریخ ہے.فَبُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (المومنون (۳۲) ہلاکت ہو بلعنت ہوان لوگوں پر جنہوں نے ظلم کی راہ
خطبات طاہر جلد ۳ 636 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۸۴ء اختیار کی اور قرآن کریم بار بار اس بات کو دوہراتا ہے اور بار بار بڑے درد ناک طریق پر لوگوں کو جگانے کی کوشش کرتا ہے کہ جب بھی خدا کی طرف سے کوئی آئے اس کی مخالفت مول نہ لو اس سے شرافت اور نجابت کا سلوک کرو.اگر تمہیں نہیں یقین آتا تو ایک طرف ہٹ جاؤ لیکن تمہارا یہ حق نہیں ہے کہ گندہ کلامی کر کے خدا تعالیٰ کے عذاب کو سہیڑ لو.لیکن عجیب بدقسمتی ہے انسان کی کہ بار بار پھر اسی تاریخ کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے جو مغضوب کی تاریخ ہے، جو ضالین کی تاریخ ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس معاملہ کو بڑی وضاحت سے دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ کا اپنے مجرموں سے دو قسم کا معاملہ ہے اور مجرم دو قسم کے ہیں ایک وہ مجرم ہیں جو حد سے زیادہ نہیں بڑھتے اور گو نہایت درجہ کے تعصب سے ضلالت کو نہیں چھوڑتے مگر وہ ظلم اور ایذاء کے طریقوں میں ایک معمولی درجہ تک رہتے ہیں اور اپنے جوروستم اور بے باکی کو انتہاء تک نہیں پہنچاتے.پس وہ تو اپنی سزا قیامت کو پائیں گے اور خدائے علیم ان کو اس جگہ نہیں پکڑتا کیونکہ ان کی روش میں حد سے زیادہ سختی نہیں.لہذا ایسے گناہوں کی سزا کے لئے صرف ایک ہی دن مقرر ہے جو یوم المجازات اور یوم الدین اور یوم الفصل کہلاتا ہے.دوسری قسم کے وہ مجرم ہیں جو ظلم اور ستم اور شوخی اور بے باکی میں حد سے بڑھ جاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ خدا کے ماموروں اور رسولوں اور راستبازوں کو درندوں کی طرح پھاڑ ڈالیں اور دنیا سے ان کا نام ونشان مٹادیں اور ان کو آگ کی طرح بھسم کر ڈالیں.ایسے مجرموں کے لئے جن کا غضب انتہاء تک پہنچ جاتا ہے سنت اللہ یہی ہے کہ اسی دنیا میں خدا تعالیٰ کا غضب ان پر بھڑکتا ہے اور اسی دنیا میں وہ سزا پاتے ہیں علاوہ اس سزا کے جو قیامت کو ملے گی.(تحفہ گولر و یه روحانی خزائن جلد ۷ صفحه ۲۱۳ ۲۱۴) پس اب تو وقت ایسا آرہا ہے، جیسا کہ میں نے بار با توجہ دلائی تھی آخر میں پھر میں جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس وقت غضب کو جوش میں لانے کا وقت نہیں ہے رحم کو جوش میں لائیں.کیونکہ
خطبات طاہر جلد ۳ 637 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء غضب کو جوش میں لانے والی حرکتیں جو قوم کر رہی ہے وہ کر ہی رہی ہے.یہ وقت بددعاؤں کا نہیں ہے، یہ وقت اس دعا کا ہے کہ اللہ رحم فرمائے ہمارے ہم وطنوں پر اور چند بد قسمتوں کے نتیجہ میں قوم کو سزا نہ ملے.اس تیزی سے حالات گندگی کی طرف بڑھ رہے ہیں اور بے حیائی اور گستاخی اور بے با کی اس طرح سر اٹھا رہی ہے کہ دن بدن مجھے تو یہ خوف پیدا ہو رہا ہے کہ اس ملک پر کب اور کیا آفت ٹوٹے گی اور جو اس آفت کو لانے میں زور لگارہے ہیں ان کو فکر ہی کوئی نہیں یعنی ان کی فکر بھی ہمیں ہی کرنی پڑ رہی ہے اس لئے جماعت کو میں پھر تاکید کرتا ہوں کہ ایک تو صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں.یہ نہ ہو کہ جماعت کی طرف یہ منسوب ہو سکے کہ جماعت کی بے صبری نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ اس کے نتیجہ میں ملک کی شامت آگئی حتی المقدور صبر سے کام لیں اور صبر پر قائم رہیں.اور دوسری بات یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو، جہاں تک بس چلے اپنی قوم کے لئے دعا کریں اور جو پاکستانی نہیں ہیں وہ پاکستان کے لئے دعا کریں ، آخر انسان ہیں وہاں بسنے والے.بھاری اکثریت ان مظلوموں کی ہے بھاری اکثریت ناواقفوں کی ہے، ان کو کچھ پتہ ہی نہیں کہ کیا ہو رہا ہے جو اخبارات جو کچھ لکھ رہے ہیں جو مولوی کی آواز سنتے ہیں بچارے اپنی معصومیت میں وہ ماننے لگ جاتے ہیں اس لئے ان کا معاملہ غفلت کا ہے بالا رادہ ظلم کرنے والے لوگ تھوڑے لوگ ہیں.ان کے لئے دعا کریں اگر کچی انسانیت ہے تو کسی کے دُکھ میں اس کی سزا میں مزا نہیں آیا کرتا.استغفار کی کیفیت تو پیدا ہوتی ہے، اللہ کا خوف بڑھ جاتا ہے لیکن بعض دفعہ جو ائمۃ الکفر ہیں ان کے لئے ضرور استغفار کے ساتھ ایک لذت بھی پیدا ہو جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم ایسی صورتوں کا بھی ذکر کرتا ہے اور کہ جب بہت حد سے بڑے ہوئے لوگوں پر خدا کی پکڑ آتی ہے تو اس دن مومن جو ہیں وہ فرح محسوس کرتے ہیں وَيَوْمَذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ ) ( الروم: ۵) ان کی طبعیت کشادہ ہو جاتی ہے اور بشاش ہو جاتی ہے لیکن عام حالت نہیں ہے.عام حالات میں عذاب اور سزا کے اوپر مومن کا دل کڑھتا ہے اور اپنے بھائی کی تکلیف سے دکھ محسوس کرتا ہے اس لئے اس فرق کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں اور جہاں تک لائحہ عمل کا تعلق ہے میں بار بار بتا چکا ہوں آپ کو ہمارے لئے وہی لائحہ عمل ہے جو قرآن کریم نے پیش فرمایا ہے فرماتا ہے اِنَّا كَفَيْنَكَ الْمُسْتَهْزِيْنَ اے محمد ﷺ! تجھ سے مذاق کرنے والوں کے لئے،
خطبات طاہر جلد ۳ 638 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء وہ استہزاء کرنے والوں کے لئے ہم کافی ہیں الَّذِينَ يَجْعَلُونَ مَعَ اللهِ الَهَا أَخَرَ وه لوگ جنہوں نے خدا کے سوا معبود بنالئے ہیں بعض دفعہ بندوں کو بنا لیتے ہیں بعض دفعہ خواہشات کو بنا لیتے ہیں فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ وہ ضرور یقیناً جان لیں گے کہ وہ گھاٹے والے ہیں.وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہمیں پتہ ہے کہ تیرے دل کو کیا دکھ پہنچتا ہے جب یہ باتیں کرتے ہیں؟ یہ میں نے اس لئے آیت پڑھی ہے کہ ایک احمدی سمجھتا ہے کہ میرے دل کی پتہ نہیں کیا حالت ہوگئی کٹ گیا، مر گیا اور اللہ ابھی تک رحم نہیں فرمارہا اور کیوں اللہ تعالیٰ اچانک ساری تبدیلیاں نہیں پیدا کر دیتا ؟ یہ جو کیفیت ہے یہ حضرت محمد مصطفی عملے کے دل کی کیفیت ہے جو قرآن بیان فرما رہا ہے اور تیرہ سال مسلسل اور اس کے بعد بھی اس کیفیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے سب سے زیادہ محبوب بندے کو رکھا اور وہ تبدیلیاں جو اس کے نزدیک مقدر تھیں وہ اسی وقت آئیں جب وہ وقت مقدر تھا.تو بڑا ظلم ہوگا کہ ایک انسان بے صبری دکھائے اور اپنے دل کی حالت جانتے ہوئے جو اس پر گزر رہی ہے وہ یہ باتیں کہنی شروع کر دے اپنے رب کے اوپر کہ اتنی دیر ہوگئی روتے ہوئے اور سجدہ گاہوں میں تڑپتے ہوئے اے خدا! کہاں گیا تو تیری رحمت کیوں نہیں آ رہی ! یہ جوش دلانے کے لئے محبت اور پیار کے فقرے تو ٹھیک ہیں لیکن دل کی کیفیت یہ نہیں ہونی چاہئے.بعض دفعہ انسان لاڈ سے بعض دفعہ اپنے محبوب کو روٹھے ہوئے کومنانے کے لئے ایسی ادا ئیں کر لیتا ہے ، یہ قصے یہ اور دنیا کے ہیں.لیکن میں سنجیدگی کی بات کر رہا ہوں ، اپنے دل پر خدا کے متعلق میں نہیں لانی کیونکہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے خدا فرماتا ہے وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ہم جانتے ہیں، ہمیں پتہ ہے تیرے دل پر کیا گزر رہی ہے اور اس سے زیادہ کسی دل پر نہیں گزرسکتی جو حضرت محمد مصطفیٰ کے دل پر گزرا کرتی تھی.غیروں کا غم جیسا کہ قرآن سے ثابت ہے اور اپنوں کا غم جن کے متعلق فرماتا ہے کہ رؤف و رحیم تھے.کبھی کسی انسان کے متعلق خدا تعالی نے کسی کتاب میں یہ گواہی نہیں دی کہ وہ ر ء، وُفٌ رَّحِیم تھا.یہ خدا کی صفات آنحضرت ﷺ کے متعلق فرماتا وَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمُ (التوبه (۱۳۸)
خطبات طاہر جلد ۳ 639 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء کہ جھوٹا ہے وہ دعویدار جو یہ کہتا ہے کہ میں محمد مصطفی ماہ سے زیادہ کسی سے پیار کرتا ہوں.ماؤں سے بڑھ کر پیار ممکن ہے لیکن محمد مصطفی ﷺ سے بڑھ کر پیار ممکن نہیں ہے.تو اس دل پر کیا گزرتی ہوگی جب صحابہ کو تکلیف پہنچ رہی تھی؟ اور اس صورت حال میں تلقین کیا فرماتا ہے اللہ تعالیٰ؟ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّجِدِينَ خدا سے شکوہ نہیں کرنا جو حالت گزرجائے تیرے دل پر.فَسَحُ بِحَمْدِ رَبِّكَ اپنے رب کی حمد کے گیت گاتا چلا جاؤ كُنْ مِنَ السَّجِدِينَ اور ہمیشہ سجدہ ریز رہ، خدا کی رضا کے حضور اپنا سر اطاعت جھکائے رکھ وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ اور یہ فیصلہ لے کر بیٹھ خدا کے در پر کہ اس رب کی میں عبادت کرتا چلا جاؤں گا حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ فی یہاں تک کہ مجھے موت آجائے.الْيَقِین کا ترجمہ مفسرین نے موت کیا ہے.حالانکہ یقین کا ظاہری معنی تو ہے یقین تک پہنچ جانا یعنی کسی یقینی بات کا رونما ہو جانا.مفسرین نے جو معنی کیا ہے وہ بھی درست ہے بالکل صحیح ہے.مراد ان معنوں کی یہ بنیں گی کہ تیرا کام یہ ہے کہ خدا کی عبادت اور اسکے حضور اطاعت کے جذبات میں ایسا پختہ ہو جا اور یہ ارادہ لے کر بیٹھ ، یہ ارادہ لے کر خدا کے حضور سجدہ کر کہ کچھ بھی ہو جائے موت سے پہلے میرا سجدہ ختم نہیں ہوگا.یعنی یہ مقصد نہیں بنایا کہ فتح تک میرا اسجدہ رہے گا، کامیابی تک میرا سجدہ رہے گا، فرمایا موت تک سجدہ رہے اس موت سے پہلے جو تو دکھا تا ہے تیری مرضی ہے دکھائے یا نہ دکھائے لیکن میری فطرت کے ساتھ ! میرے ارادہ کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں.میرے سجدہ پر دنیا کے حالات کوئی اثر نہیں ڈال سکیں گے ، میں تیرا مطیع بندہ رہوں گا، آخر وقت تک ایک لمحہ کے لئے بھی تیری اطاعت سے باہر نہیں نکلوں گا.یہ ہے تعلیم جو خداتعالی نے حضرت محمد مصطفی ﷺ ک دی تھی پس ہر احمدی کو اس تعلیم پر قائم ہونا چاہئے اور یہ ارادہ لے کر خدا کے حضور سر جھکانا چاہئے کہ سرکٹ تو جائے گا لیکن تیرے مقابل پر اٹھ نہیں سکتا.جس قسم کے بھی ابتلا آئیں زندگی کے آخری سانس تک ہم حاضر ہیں اے ہمارے آقا ! جس طرح تو چاہے تو ہمیں آزما لے.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز آج جمع کی جائے گی کیونکہ اب یہاں کے وقت بدل چکے
خطبات طاہر جلد ۳ 640 خطبه جمعه ۲ / نومبر ۱۹۸۴ء ہیں اگر جمعہ کی نماز ڈیڑھ بجے شروع کی جائے تو عصر کی نماز کے لئے الگ وقت نہیں رہتا بلکہ دونوں وقت مل جاتے ہیں.نمازوں کے بعد ایک جنازہ غائب ہوگا.عبد الخالق صاحب لدھیانوی کراچی میں وفات پاگئے ہیں.مرحوم بہت ہی مخلص اور سلسلہ کا کام کرنے والے فدائی احمدی تھے.ان کا جنازہ ربوہ لے جایا گیا لیکن کسی وجہ سے نماز جنازہ میں زیادہ دوست شامل نہ ہو سکے.مرحوم کی بچی کی درخواست تھی کہ ان حالات میں چونکہ آپ نے منع کیا تھا اس لئے جنازہ غائب کی درخواست نہیں کی گئی مگر وہ انداز ایسا تھا کہ پھر میں خود ہی اس سے رک نہیں سکا.اللہ تعالی ان کو غریق رحمت فرمائے.بہت ہی مخلص اور فدائی احمدی تھے.ایک دفعہ وہ چندہ جیب میں ڈال کر جا رہے تھے ادائیگی کے لئے سیکرٹری مال کے پاس جمع کروانے کے لئے جار ہے تھے رستے میں ان کی جیب کٹ گئی.چنانچہ کراچی کی جماعت نے انہیں یہ پیشکش کی کہ ہم آپ کو جانتے ہیں، نہایت مخلص اور دین دار آدمی ہیں، غلط بیانی کا کوئی سوال ہی نہیں، ہم یہ چندہ چھوڑ دیتے ہیں.انہوں نے کہا کہ معافی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.واپس آئے ، اپنی بیوی سے کہا یا کسی عزیز سے کہا،گھر کا زیور بیچا اور اللہ کے فضل سے سارا چندہ ادا کر دیا.لیکن یہ داغ نہیں لیا کہ کوئی یہ کہہ سکے کہ خدا کا مال تھا کھا گیا.اسکے معا بعد ایک عجیب واقعہ رونما ہوا.ان کو پتہ بھی نہیں تھا ان کی کوئی رقم ایسی ہے جو دفتر میں زیر غور پڑی ہوئی ہے.چنانچہ جب وہ چندہ کی رقم ادا کرنے کے بعد دفتر گئے تو پتہ لگا انہوں نے جتنی رقم ادا کی تھی اس سے دوگنی رقم دفتر میں ان کا انتظار کر رہی تھی.کوئی پرانا حساب تھا جو اس موقع پر ان کو ادا کر دیا گیا.پس جو آدمی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اخلاص کا اعلی نمونہ پیش کرتا ہے اللہ تعالی کا سلوک بھی اس سے ایسا ہی ہوتا ہے.اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے.نمازوں کے بعد ان کی نماز جنازہ غائب پڑھی جائے گی.اور پھر اس کے بعد ایک نکاح کا اعلان کیا جائے گا.میرے ماموں زاد بھائی بشیر الدین صاحب کی بیٹی عائشہ بشیر الدین کا نکاح میر مظہر صاحب سے قرار پایا ہے جس کا یہیں نمازوں کے بعد اعلان کیا جائے گا.
خطبات طاہر جلد ۳ 641 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء افریقہ کیلئے امداد کی تحریک اور جماعت کی روحانی ترقی کی مثالیں (خطبه جمعه فرموده ۹ نومبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اَلَمْ نَجْعَلْ لَّهُ عَيْنَيْنِ وَ لِسَانًا وَشَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ وَمَا أَدْرِيكَ مَا الْعَقَبَةُ ) فَكُ رَقَبَةٍ أو اطعم فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ يَتِيما ذَا مَقْرَبَةِ أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ امَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ أو ليك أصْحَبُ الْمَيْمَنَةِ (البلد :٩-١٩) پھر فرمایا: خدا کی تقدیر کچھ یہ معلوم ہوتی ہے کہ دشمن جتنا زیادہ مغضوب اور ضالین کی راہ میں آگے بڑھتا چلا جارہا ہے اتنا ہی خدا تعالیٰ اپنے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمدیہ کوصراط مستقیم پر پہلے سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا فرما تا چلا جائے.یہ تقدیر ہر روز ہر ملک میں احمدیوں کے ہر طبقہ پر نظر ڈالنے سے روشن تر ہوتی چلی جارہی
خطبات طاہر جلد ۳ 642 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء ہے اور کوئی ایک بھی خطہ دنیا ایسا نہیں جہاں سے اس پہلو سے ہر روزنئی سے نئی خوشخبریاں عطا نہ ہورہی ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے دشمن کے دکھوں اور ظلموں سے تنگ آکر ایک مرتبہ ایک ایسا شعر فرمایا جس کی صحیح حقیقت حقیقی روح اب ہمیں معلوم ہورہی ہے کہ وہ کیا تھی آپ فرماتے ہیں: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غم اغیار کا ( در شین) جتنا زیادہ دشمن ظلم اور سفا کی میں آگے بڑھتا چلا گیا اتنا ہی اللہ تعالی نے اپنی رحمت اور شفقت کے سلوک کو بڑھا دیا.چنانچہ یہی اللہ کی رحمت اور شفقت ہے جو ایسے دکھوں کے دور میں انسان کو زندگی کی توفیق عطا فرماتی ہے.چنانچہ اللہ کی اس تقدیر کے اشاروں کو سمجھتے ہوئے جماعت احمدیہ کے سامنے جب بھی نیکی کی کوئی راہ بھی آئے گی وہ یقیناً اس میں پہلے سے زیادہ تیز رفتاری سے اور آگے بڑھنے کی کوشش کرتی رہے گی اور نئے نئے نیکی کے راستے خدا کھولتا چلا جائے گا اور دشمن خواہ یہ سمجھتار ہے کہ جماعت کی توفیق ختم ہو چکی ہے مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ تعالی اپنے فضل سے ہرنئی نیکی کے لئے توفیق بھی بڑھاتا چلا جائے گا اور یہ ناممکن ہے کہ جماعت احمد یہ کسی نیک اقدام کا فیصلہ کرے اور خدا تعالیٰ اس توفیق کو نہ بڑھا دے جو نیکی کی خاطر ہمیں محض خدا نے اپنے فضل.د ނ عطا فرمائی ہے.جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کے متعلق نہ صرف سبق ہیں بلکہ بعض خطر ناک غلطیوں سے متنبہ بھی فرمایا گیا ہے.نیکی کیا ہے، سچی ہمدردی کس کو کہتے ہیں، اس کے مقاصد کیا ہیں ، کون سے خطرات ہیں جن سے بچنا چاہئے.یہ تمام مضمون قرآن کریم نے ان آیات میں تفصیل سے بیان فرمایا اور حقیقت میں یہ آیات اس زمانہ کے متعلق ایک عظیم الشان پیشگوئی کا رنگ رکھتی ہیں لیکن چونکہ ایک خطبہ جمعہ میں تفصیلی تفسیر کا وقت تو میسر نہیں آسکتا لیکن میں مختصراً اس مقصد کی خاطر جس کی طرف میں آپ کو لے جانا چاہتا ہوں کچھ حصے ان آیات کے آپ پر کھولنا چاہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۳ 643 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء اللہ تعالی فرماتا ہے اَلَمْ نَجْعَل لَّهُ عَيْنَيْنِ وَ لِسَانًا وَشَفَتَيْنِ وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةَ کہ کیا ہم نے اسلام سے یا دین سے بے بہرہ لوگوں کو آنکھیں عطا نہیں فرمائی تھیں.اگر چہ واحد میں ذکر چل رہا ہے لیکن اس سے مراد قوم ہے یا انسان بحیثیت انسان ہے.تو ایسا انسان جو دین سے بے بہرہ ہو اس کو مخاطب کر کے فرماتا ہے کیا ہم نے تمہیں آنکھیں عطا نہیں فرمائی تھیں اور کیا تمہیں بولنے کے لئے اعضاء عطا نہیں کئے گئے تھے.وَلِسَانًا وَشَفَتَيْنِ زبان نہیں دی تھی تمہیں اور ہونٹ نہیں دیئے تھے تا کہ اگر کوئی بات تمہیں معلوم نہیں ہو سکتی تھی تو پوچھ کر معلوم کر لیتے ؟ اگر تم بے خدا تھے تو خدا والوں سے یہ سلیقے سیکھ لیتے یہ مراد ہے وَهَدَيْنَهُ النَّجْدَيْنِ اور ہم نے اسکے اوپر کیا دور استے نہیں کھول دیئے تھے؟ جن میں سے ایک راستہ ترقی کا تھا اور ایک تنزل کا.اسکے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے فَلَا اقْتَحَمَ الْعَقَبَةُ اس نے اوپر جانے والا راستہ اختیار نہیں کیا اور تنزل کا راستہ اختیار کر لیا جس میں محنت اور مشقت کرنی پڑتی ہے اس راستہ کو چھوڑ دیا اور آسانی کا راستہ اپنے لئے اختیار کر لیا جو دنیا کی طرف لے کر جاتا ہے.وَمَا أَدْريكَ مَا العَقَبَةُ اور تمہیں کیا چیز بتائے، کیسے سمجھایا جائے کہ عقبہ کیا ہے یعنی نیکیوں میں بلندی کی راہ اختیار کرنا کیا چیز ہے؟ ان آیات پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نیکیاں بھی دو قسم کی ہیں نـجــدیــن سے مراد یہ نہیں ہے کہ بدی کا راستہ بالمقابل نیکی کے راستہ کے، یہ دور استے ہیں اس تعلق میں نـــجـــدیــن کا مطلب یہ ہے کہ دو قسم کی نیکیوں کے راستے ہم نے اس کے لئے کھولے تھے، ایک دنیا داری کی، مادہ پرستی کی نیکیاں ہیں جو بے خدا لوگوں میں بھی نظر آجاتی ہیں اور ایک وہ نیکیاں ہیں جو حقیقی نیکی کی روح رکھتی ہیں، جو آخر خدا تک انسان کو پہنچا دیتی ہیں.ان دونوں نیکیوں میں بظاہر مشابہت کے با وجود ایک نمایاں فرق ہے اور بسا اوقات اس زمانہ میں لوگ اس فرق کو نہ پہچان کر یہ کہنے لگ جاتے ہیں کہ ہم نے تو مذہبی لوگوں میں وہ نیکیاں نہیں دیکھیں جو ہمیں غیر مذہبی دنیا میں نظر آ رہی ہیں.تو اللہ تعالی دو قسم کی نیکیوں میں تمیز فرما رہا ہے ایک عقبہ کی نیکی ہے جو محنت کو مشقت اور جان کو جوکھوں میں ڈال کر خدا کی خاطر نیکی کو اختیار کرنا اور اس کی اپنی صفات ہیں.ایک دنیا کی خودرو نیکیاں ہیں اور
خطبات طاہر جلد۳ 644 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء ان نیکیوں کی اپنی صفات ہیں اور وہ دونوں ایک دوسرے سے ایک دوسرے کو ممتاز کر دیتی ہیں.چنانچہ فرمایا وَمَا أَدْرِيكَ مَا الْعَقَبَةُ تمہیں ہم کیسے عقل دیں کیسے سمجھائیں کہ عقبہ کیا چیز ہے؟ اس کی بنیادی شرط یہ بیان فرمائی فَكُ رَقَبَةٍ یہ وہ نیکی جو بنی نوع انسان کی ہمدردی سے تعلق رکھتی ہے اس میں ہمدردی کے دوران بندشیں نہیں ڈالی جایا کرتیں Ties نہیں ہوا کرتی ، اُس کے ساتھ کوئی Strings نہیں ہوا کرتیں، یعنی انسانی ہمدردی ہو اور پھر سیاسی مقاصد پیش نظر ہوں ، انسانی ہمدردی ہو اور قومی مقاصد پیش نظر ہوں ، رنگ اور نسل کی تمیز ہو جائے اور انسان کوشش یہ کرے کہ نیکی کے ذریعہ کسی قوم کو اپنا غلام بنالے.فرمایا اگر یہ بات تمہاری نیکی میں پائی جائے تو وہ عقبہ والی نیکی نہیں، اس نیکی کے نتیجہ میں تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا کیونکہ تم نے نیکی کے نام پر قوموں کو غلام بنانے کا فیصلہ کیا ہے تم نے نیکی کے نام پر اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کا فیصلہ کیا ہے.تو اس روح کو جو قرآن کریم نے بیان فرمائی اس کو مد نظر رکھ کر آج آپ بڑی بڑی قوموں کی بظا ہر نیکیوں پر نگاہ ڈالیں تو ان میں سے ہر ایک فَ رَقَبَةٍ کی صفت سے عاری نظر آتی ہے.ابھی پچھلے دنوں بہت زیادہ چرچا ہوا ہے.ابے سینیا میں یعنی حبشہ میں فاقہ کی آفات کا اور اچانک ٹیلی ویژن میں، ریڈیو میں، اخباروں میں بڑی شدت سے وہاں کے متعلق خبریں آنے لگی ہیں اور قومیں حرکت میں آئی ہیں.یورپ حرکت میں آگیا ہے، امریکہ حرکت میں آگیا ہے ، روس حرکت میں آگیا ہے اور اس سے پچھلے سال سینی گال میں اور دوسرے ممالک میں اس قدر فاقے پڑے ہیں کہ جانو رتباہ ہو گئے بھوک سے، انسان تباہ ہو گئے ، بچے مارے گئے.اتنے خوفناک مناظر ہیں اس زمانے کے جو بعد میں تصویروں میں پیش کئے گئے کہ علاقے کے علاقے صحرا پنجروں سے بھرے پڑے ہیں جو جانور ایک ساتھ رہ نہیں سکتے بھوک کی شدت نے ان کو ایک انسانی زندگی کے انس کے نتیجہ میں اکٹھا کر دیا، شیر بھی وہیں مرا پڑا ہے، بکری بھی وہیں مری پڑی ہے، ہاتھی بھی وہیں مرا پڑا ہے، خرگوش بھی وہاں مرا پڑا ہے اور ان کے پنجر بتا رہے ہیں کہ ان میں یہ بھی استطاعت نہیں رہی تھی آخر پہ آ کر کہ وہ ایک دوسرے کو نقصان پہنچا سکیں.پانی نہیں تھا جب پیاس کی شدت ہو جائے اور جسم نڈھال ہو جائے تو کھانے کی خواہش ہی باقی نہیں رہتی.ہاتھیوں نے پاؤں سے گڑھے نکالے، کنویں نکالے جس حد تک بھی ہاتھی کو استطاعت ہے اور وہ کافی گہرا گڑھا کھود لیتا ہے.ان کے
خطبات طاہر جلد ۳ 645 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء نکالے ہوئے کنوؤں سے مٹی چوس چوس کے جانوروں نے پانی پیئے یہاں تک انسان وہاں پہنچتے رہے، وہ پانی بھی خشک ہو گیا اور کوئی قوم حرکت میں نہیں آئی.نہ روس کو خیال آیا کہ اس طرح انسانیت بھوکوں مر رہی ہے ، اور نہ امریکہ کو خیال آیا ، نہ یورپ کی قومیں جاگیں.اب افریقہ ایک حصہ میں صرف یعنی ابی سینیا میں جو بھوک پڑی ہے تو اچانک یہ بیدار ہو گئے ہیں وجہ یہ ہے کہ وہاں ان کی سیاسی کشمکش چل رہی ہے دونوں گروہوں یعنی مشرق اور مغرب کی طاقتیں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کر رہی ہیں.ان کو پتہ ہے کہ آج جو ان کا پیٹ بھرے گا وہ اس کے غلام ہو جائیں گے،اُس کے ساتھ اس کے سیاسی روابط بڑھ جائیں گے.تو جب مغرب کو یہ پتہ چلا کہ روس نے کثرت کے ساتھ ٹرکس بھجوانے شروع کر دیئے ہیں اور کچھ گندم کے ذخائر بھجوانے لگے ہیں تو اچانک ان کی دلی ہمدردی انسانی ہمدردی جاگ گئی اور بڑی تیزی کے ساتھ وہاں ایک دوسرے سے انہوں نے دوڑ شروع کر دی اور دوڑ کا آخری مقصد کیا ہے کہ اس ساری قوم کو ہم اپنا غلام بنائیں.اس کے ساتھ چاڈ بھی ہے وہاں بھی لوگ بھوکوں مررہے ہیں اس کا کوئی خیال نہیں آرہا اور دیگر ممالک بھی ہیں.تو اس لئے قرآن کریم کی یہ عجیب عظمت ہے کہ ایک چھوٹے سے فقرہ میں آئندہ زمانہ میں پیدا ہونے والے سارے فتنوں کا بھی ذکر فرما دیا اور آئندہ زمانوں میں پیدا ہونے والے حالات کا ذکر فرما دیا اور وہ بنیادی بات بیان کر دی جس کے نتیجہ میں ظاہری نیکیاں حقیقی اور گہری نیکیوں سے ممتاز ہو جایا کرتی ہیں.ایک فاقہ اہل مکہ پر بھی پڑا تھا جو شدید دشمن تھے آنحضرت ﷺ کے جب ان کو گندم کی ضرورت پڑی تو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے غلاموں کو حکم دیا کہ جو قافلے ان کے گندم لینے کے لئے شام کی طرف جاتے ہیں ان پر کوئی حملہ نہیں کرنا.کیونکہ آج انسان بھوک میں مبتلا ہے.چنانچہ یہ فرق ہے بنیادی وہاں ایک نیکی ہے غلامی سے آزاد کرنے والی نیکی ایک نیکی ہے غلام بنانے والی نیکی تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ دور استے کھلے ہیں انسان کے لئے اگر ان کو نیکیوں کا سلیقہ نہیں تھا تو میرے وہ بندے جن کو میں نے خود نیکیوں کے سلیقے سکھائے ہیں ان سے پوچھ لیتے ، ان سے معلوم کرتے کہ نیکی کی روح کیا ہے یعنی محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے غلاموں سے پوچھتے.فَكُ رَقَبَةٍ أو إطعمُ فِي يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ أَوْ مِسْكِيْنًا نَا مَتْرَبَةٍ
خطبات طاہر جلد ۳ 646 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء فرمايا أو إطعم في يَوْمٍ ذِي مَسْغَبَةٍ کھانا ایسے زمانہ میں کھلا نا جب کہ بھوک عام ہو.یہ جو ہے بھوک عام ہونے کا وقت اس سے مراد صرف یہ نہیں ہے کہ کسی اور جگہ بھوک عام ہو.مراد یہ ہے کہ کچھ لوگ تو ہیں جو خود آسائش میں ہیں اور وہ کھانا کھلا دیتے ہیں جب اُن کو ضرورت نہ ہو اور کچھ خدا کے وہ بندے بھی ہیں جب کہ وہ خود بھوک کا شکار ہورہے ہوتے ہیں خود فاقوں میں مبتلا ہوتے ہیں خود ان کو ضرورت ہوتی ہے اس وقت وہ دوسروں کو کھانا کھلاتے ہیں یہ ہے عقبہ.ہاں بیٹھے Surplus Food ہے بے شمار کھانا بچا ہوا ہے اور یہ مسئلے درپیش ہیں کہ کھانے کا کریں کیا ؟ اگر مارکیٹ میں پھینکیں تو اقتصادی حالات بگڑ جاتے ہیں، گوشت سستا ہو جائے تو گوشت پیدا کرنے سارے نظام پر وہ بری طرح اثر انداز ہوتا ہے، اگر انڈا سستا ہو جائے تو جتنے انڈے بنانے کے لئے مختلف فارمز ہیں مرغی پالنے والے وہ سارے کے سارے اس قدر بعض دفعہ متاثر ہوتے ہیں اقتصادی لحاظ سے کہ کچھ دن انڈ زیادہ رہتا ہے پھر اس کے بعد ایسا مارکیٹ سے غائب ہو جاتا ہے کہ پھر سنبھالا نہیں جاتا.تو آج کل کے دور میں یورپ میں اس وقت حالت یہ ہے کہ کھانا اتنا کثرت سے پیدا کر چکے ہیں کہ اب یہ سوچ رہے ہیں کہ کھانے کو کم کس طرح کریں.اور وہ کھانا یہاں Rot ( گلنا سڑنا) کرتا رہا ہے.آج کی بات نہیں ہے پچھلے سال بھی یہ مسئلہ تھا اس سے پچھلے سال بھی یہ مسئلہ تھا، اس سے پچھلے سال بھی یہی مسئلہ تھا.گوشت زیادہ ہوا ہے، انڈے زیادہ ہوئے ہیں ،خوراک کی دوسری چیزیں بڑھ گئی ہیں ان کے استعمال کی طاقت سے اور اہل حبشہ یہ کہتے ہیں اور ان کے ایک وزیر نے بیان دیا ہے کہ تم آج جو ہماری طرف اب دوڑ رہے ہو جب کہ حالت یہ ہے کہ خطرات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اب تم لوگ ایک دوسرے سے دوڑ بھی لگاؤ تو لکھوکھہا انسان تمہاری آنکھوں کے سامنے بھوکے مر جائیں گے اور کوئی ان کو بچا نہیں سکتا کیونکہ ذرائع آمد ورفت نہیں ہیں.حالات ان کے ایسے ہیں کہ ان صحراؤں میں اس تیزی سے پہنچ ہی نہیں سکتے اور نہ اس تیزی سے وہاں تقسیم کر سکتے ہیں.وہاں جو انتظامی مشینری ہے وہ بھی مکمل نہیں ہے تو صرف کھانا اب تم پہنچانے آئے ہو، ان کا یہ بیان آیا اور ہم پر احسان چڑھا رہے ہو.تمہیں علم تھا، وزیر نے حوالے دیئے ہیں؟ تمہاری یونائیٹڈ نیشنز کی رپورٹوں میں آج سے دو سال پہلے یہ پیشگوئی تھی کہ فلاں جگہ فلاں وقت
خطبات طاہر جلد ۳ 647 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء میں بہت شدید قحط پڑنے والا ہے، کثرت سے لوگ فاقوں مریں گے اور دوسرے ممالک کے متعلق بھی تھی اور تم چپ کر کے بیٹھے رہے اور اب جب کہ سیاسی دوڑ شروع ہوئی ہے تو ایک دوسرے پہ سبقت لے جا رہے ہو.أو إظعُمُ فِي يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ اس سے مراد یہ ہے کہ خدا کے کچھ بندے ایسے وقت میں بھی کھانا کھلاتے ہیں جب کہ خود وہ فاقوں کا بھی شکار ہورہے ہوتے ہیں ،خود ان پر مالی تنگی پڑ رہی ہوتی ہے، ان کے حالات اقتصادی ان کو بظا ہر ا جازت نہیں دیتے کہ وہ دوسروں پر خرچ کریں ایسے عام حالات میں وہ پھر خدا کی خاطر آگے بڑھتے ہیں: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنَا وَ يَتِيمَا وَ أَسِيرًا (الدھر:۹) ایک دوسری جگہ فرمایا تو اس وقت جب کہ کھانے سے محبت ہو جاتی ہے انسان کو فاقہ کشی کی وجہ سے.عام طور پر کھانا سب کو عزیز ہے لیکن جب کھانا عام ملتا ہو تو اس سے محبت نہیں ہوا کرتی لیکن جب غائب ہونا شروع ہو جائے کھانا تو اس سے محبت ہو جاتی ہے اسی لئے لوگ کہتے ہیں کہ فلاں وقت جو مزہ دال روٹی کا آیا تھا ویسا پھر کبھی مزہ نہیں آیا اس لئے کہ بھوک کا شکار ہوتے ہیں.شکار کے ذریعہ یا کسی اور پکنک کے ذریعہ یا ویسے ہی بعض حالات کے نتیجہ میں وقتی طور پر کھانا میسر نہیں آتا اور ایک احمدی جو کھانے کا عادی ہے با قاعدہ اس کو اتنی بھوک لگتی ہے اتنی بھوک لگتی ہے کہ ترس جاتا ہے کھانے کے لئے.اس وقت اس کو کھانے سے محبت ہو جاتی ہے تو فرمایا وَ يُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِيْنًا وَيَتِيما و اسیران جب محبت ہو چکی ہوتی ہے کھانا سے عشق ہو جاتا ہے انسان کو اس وقت بھی وہ خدا کی خاطر دوسرں کو دے رہے ہوتے ہیں.چنانچہ یہ وہی نقشہ ہے أو إطعم في يَوْمٍ ذِى مَسْغَبَةٍ اس وقت وہ کھانا کھلاتے ہیں جب کہ بھوک عام ہو جاتی ہے.يَتِيْمَاذَا مَقْرَبَةِ أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةِ ایسے یتیم کو بھی کھانا کھلاتے ہیں جس کے پوچھنے والے لوگ موجود ہیں اور یہ خیال نہیں کرتے کہ اس کے ساتھ اس کے تعلقات ہیں، وہ زیادہ ذمہ دار ہیں کہ اس بات کے کہ وہ اس کو کھانا کھلا ئیں.يَتِيْماذَا مَقْرَبَةٍ کا عام معنی لیا جاتا ہیں کہ اپنے عزیز قیموں کو لیکن خدا نے تو یہاں کہیں یہ ضمیر ان کی طرف نہیں پھیری.یہ تو کلام الہی کی شان ہے کہ اس مضمون کو کھول دیا اور وسعت عطا فرما دی.پس يَتِيْمًا ذَا مَقْرَبَةٍ کا مطلب
خطبات طاہر جلد ۳ 648 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء ہے کوئی یتیم جس کے کوئی بھی قریبی ہوں چنانچہ اسی مضمون کو جب آپ قوموں کی شکل میں اطلاق کرتے ہیں تو یہ منظر سامنے آتا ہے کہ بعض تو میں بعض کی دوست ہوتی ہیں وہ ان کا سہارا اور ولی ہوتے ہیں اور بعض قو میں ہیں جو بیچاری بے سہارا ہو جاتی ہیں ان کا کوئی سیاسی دوست نہیں ہوتا تو ایسی قومیں جن کے سیاسی دوست بھی ہوتے ہیں.اگر وہ خدا والی قومیں ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسی صورت میں وہ یہ انتظار نہیں کریں گے کہ ان کا فلاں دوست ہے اس سے یہ کیوں نہیں کھانا لیتے.روس سے تعلقات ہیں اور روٹی لینے ہمارے پاس آگئے ہیں.جو خدا کے بندے ہیں وہ پھر یہ نہیں دیکھا کرتے ، ان کو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ خدا کے بندے ہیں اور تکلیف میں مبتلا ہیں اس لئے ان کی خدمت شروع کر دیتے ہیں.أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةِ اور ایسے لوگ یا ایسی قومیں بھی ہوتی ہیں جو پراگندہ حال، خاک آلود مسکین جن کو پوچھنے والا کوئی نہ ہو مثلاً نائیجر ہے مثلاً چاڈ ہے آج کل یا اور شمالی افریقہ کے بعض ممالک کے جنوبی حصے خصوصیت کے ساتھ بہت ہی شدید تکلیف میں مبتلا ہیں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو ان کو بھی وہ کھانا کھلاتے ہیں.ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا پھر ایک اور تعریف یہ بیان فرمائی کہ جولوگ عقبہ کی طرف حرکت کرتے ہیں بلندی کی طرف یعنی نیکیوں میں سے اعلیٰ نیکی کو پکڑتے ہیں اور ظاہری دکھاوے کی نیکی کو چھوڑ دیتے ہیں وہ بلندی پر چڑھتے چڑھتے خدا تک پہنچ جایا کرتے ہیں کیونکہ سچی نیکی لازما انسان کو خدا تک لے جاتی ہے ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا اور یہ صفت ہے ایسے رنگ میں جو گزشتہ صفات کے اوپر ایک نگر ان کے طور پر مقرر ہو گئی ہے.یہ صفت بتاتی ہے کہ پہلی صفات حقیقی رنگ میں موجود تھیں یا نہیں.اگر یہ نصیب ہو جائے تو یقین جانو کہ تمہاری نیکی سچی تھی اور بلندی کی طرف حرکت کر رہی تھی.اگر تمہیں ایمان نصیب نہیں ہوتا نیکیوں کے نتیجہ میں اور دنیا کے کپڑے رہتے ہو تو ان نیکیوں کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.چنانچہ ایک دفعہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں ایک صحابی نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! جب میں مشرک تھا، بے دین تھا اس وقت بھی میں نیکی کیا کرتا تھا، اس وقت بھی مجھے غریبوں سے
خطبات طاہر جلد ۳ 649 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء محبت تھی ، اس وقت بھی میں تیموں کو کھانا کھلایا کرتا تھا تو کیا وہ میری ساری نیکیاں ضائع چلی جائیں گی ؟ آنحضور ﷺ نے فرمایا کیا کہ رہے ہو؟ یہ اسلام انہی نیکیوں ہی کا تو انعام ہے.فرمایا ثُمَّ كَانَ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا پھر خدا ایسے بندوں کو بے دست و پا نہیں چھوڑتا بے سہارا نہیں رہنے دیتا ان کو ایمان نصیب کرتا ہے.فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اس بات کے حق دار ہیں اور اس بات پر مامور کئے جاتے ہیں وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃ کہ وہ دوسروں کو صبر کی اور رحمت کی تلقین کریں.اب صبر کی تلقین کرنے والے بھی دو قسم کے ہیں وہ جن کے پیٹ بھرے ہوں ، جنہوں نے قربانیوں میں حصہ نہ لیا ہو وہ خالی بیٹھے صبر اور رحم کی تلقین کر رہے ہوں اس کی حیثیت ہی کوئی نہیں اور کچھ وہ لوگ جو دوسروں کی خاطر دوسروں کے دکھ بانٹنے کے لئے اپنے آپ کو مشکلات میں ڈال دیتے ہیں ان کے منہ سے جو صبر کا کلمہ نکلتا ہے وہ سچا کلمہ ہے اس کے اندر طاقت ہوتی ہے.وہ اس بات کے حق دار ہیں، اور رکھتے ہیں یہ شان کہ دوسروں کو کہیں ہاں تم صبر کرو، دیکھو تمہاری خاطر ہم نے بھی تمہارے دکھ بانٹے.ہم بھی تمہارے ساتھ شامل ہوئے اور پھر ان غریبانہ حالتوں کو نفرتوں میں نہیں بدلتے.میں نے جیسا کہ بیان کیا تھا آئندہ زمانہ کی سیاسی پیشگوئیاں بھی اس میں موجود ہیں وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَةِ.باوجود اس کے کہ اس وقت غریب اس حالت میں ہوتا ہے کہ اگر اس کو انگیخت کیا جائے تو وہ امیروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو اور بڑی بڑی قوموں کے خلاف نفرتیں پھیلائی جاسکتی ہیں ان لوگوں کے دلوں میں لیکن خدا کے بندے جو عقبہ پر جانے والے ہیں وہ خدا کے بندوں کے خلاف صبر کی تلقین تو کرتے ہیں مشتعل ہونے کی تلقین نہیں کرتے.رحمت کی تلقین تو کرتے ہیں نفرت کی تلقین نہیں کرتے.یہ ہے مقام حضرت اقدس محمد مصطفی امیہ کے غلاموں کا.پس جب مجھے یہاں کے بعض دوستوں نے بھی توجہ دلائی لیکن اس سے پہلے ہی میں سوچ رہا تھا افریقہ کے لئے بھی تحریک کروں تو بعض دوستوں کے خطوں سے مجھے خیال آیا کہ وہ سمجھ نہیں رہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے.چنانچہ ایک صاحب نے تو از خود ہی ان کو چندہ دے دیا ابے سینیا کے لئے ان کو جواب میں میں نے یہ لکھا الإِمَامُ جُنَّةٌ يُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِه ( صحیح بخاری کتاب الجهاد والسير باب يقاتل
خطبات طاہر جلد ۳ 650 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء من وراء الامام و یتقی بہ ) امام تو ڈھال ہوتا ہے اس کے پیچھے رہ کر لڑنا چاہئے.تم نے جلد بازی کی ہے مجھے خود احساس ہے تم سے زیادہ احساس ہے کہ کیا ہو رہا ہے، ساری دنیا کی ضرورتیں میرے پیش نظر ہیں، اسلام کی ساری ضروریات پیش نظر ہیں اور تمہارے لکھنے سے پہلے میں فیصلہ کر چکا تھا کہ تمہیں ساری بات سمجھا کر پھر تحریک کروں گا.جہاں تک جماعت کی استطاعت کا تعلق ہے اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ساری جماعت اپنی ساری دولت بھی لٹا دے تو اس وقت جو بھوک کا دن آ گیا ہے اس کو دور نہیں کرسکتی.آٹے میں نمک کے برابر بھی ہمارے اندر توفیق نہیں کہ ہم ان لوگوں کی تکلیف دور کر سکیں لیکن اس وقت ایک میدان خالی ہے جہاں يَتِيمَا ذَا مَقْرَبَةٍ موجود ہے یا أَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ بھی موجود ہے.کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ چاڈ کے فرانس سے تعلقات ہیں وہ مدد دے یا لیبیا سے تعلقات ہیں قذافی کیوں نہیں دیتا ان کو؟ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ نائیجر کا فرق ہی کو ئی نہیں پڑتا جتنے مرضی بھو کے مر جائیں ان سے کیا فرق پڑتا ہے نہ وہ اس طرف کے اور نہ وہ اس طرف کے اَوْ مِسْكِيْنًا ذَا مَتْرَبَةٍ بھی وہاں موجود ہیں.چنانچہ پیشتر اس کے کہ میں تحریک کرتا میں نے تمام افریقہ کے مبلغین کو یہ لکھوایا ہوا ہے کہ آپ پوری طرح جائزہ لیں کہ کس طرح ان غریبوں کی جماعت مددکر سکتی ہے؟ کون سا بہترین ذریعہ ہے اور اس میں مسائل کیا در پیش ہوں گے.صرف ٹرانسپورٹ ہی ایک ایسی چیز ہے کہ اگر ہم ٹرانسپورٹ پیدا کرنے کی کوشش کریں اپنے لئے ، تو سارے وسائل کام آجا ئیں گے لیکن ہم نہیں کر سکیں گے لیکن اس سے قطع نظر ہمیں اپنے دل کا اطمینان ہونا چاہئے.میں جو تحریک کر رہا ہوں وہ اس وجہ سے کر رہا ہوں کہ قطع نظر اس کے کہ کام ہماری طاقت سے بڑھ کر ہے ہماری نیت یہ ہونی چاہئے کہ ہم اپنے رب کے حضور اپنے تعمیر کو مطمئن پائیں ، ہمارے دل میں یہ تسکین ہو کہ ہم بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے شدید مشکلات میں مبتلا تھے، اپنے وطنوں میں احمدی بے وطن ہورہے تھے ، ان کے اقتصادی ذرائع پر ضربیں لگائی جارہی تھیں، ان کو ہر طرح بد حال اور مفلوک الحال کیا جارہا تھا، ان پر دنیا کو احمدی مسلمان بنانے کی ذمہ داریاں تھیں، ان کو بے شمار
خطبات طاہر جلد ۳ 651 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء میدانوں میں لٹریچر پر خرچ کرنا تھا، تنظیموں پر خرچ کرنا تھا، مساجد پر خرچ کرنا تھا، نیکیوں کے نئے سے نئے رستے کھلتے چلے آرہے تھے اور ہر آواز پر وہ اپنی ساری طاقتیں خرچ کر کے اپنی طرف سے جیبیں خالی کر چکے تھے اس وقت خدا کی نظر یہ دیکھے گی اور دیکھ رہی ہے کہ اسی جماعت کو جب تحریک کی گئی کہ آج اس بھوک کے دن کو مٹانے کے لئے بھی کچھ نہ کچھ پیش کرو تو وہ ضرور کچھ نہ کچھ پیش کرتے ہیں.یہ وہ لوگ ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں ان لوگوں میں سے بنایا ہے قطع نظر اس کے کہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم ہیں احمدی ہیں یا دشمن ہیں احمدیت کے جہاں بھی تکلیف ہوگی وہاں جماعت احمدیہ ضرور تکلیف کو دور کرنے کی کوشش کرے گی.چنانچہ ابھی کراچی میں کچھ عرصہ پہلے جب بہت خطرناک بارش ہوئی اور بہت ہی زیادہ تکلیف پہنچی ہے غریب گھرانوں کو تو احمدی عورتیں لجنہ کی جو کچھ ان کے بس میں تھا کوئی کمبل کپڑے، کوئی کھانا لے کر غریبوں کے گھر پہنچیں اور خدمت شروع کی اور کوئی تبلیغ کی نیت نہیں تھی نہ ان کا ارادہ نہ اس خیال سے وہاں وہ گئیں.صرف تکلیف دور کر رہی تھیں تو بعض احمدی بہنوں نے مجھے جو یہ واقعات لکھے ہیں حیرت انگیز ہیں.وہ کہتی ہیں کہ بعض لوگ اکٹھے ہو کر ہمارے پیچھے پڑ گئے کہ تم ہمیں بتاؤ تم کون ہو اور کیوں آئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم تمہیں نہیں بتانا چاہتے تمہیں تکلیف ہوگی اور اگر ہم نے بتا دیا ہو سکتا ہے تم ہم سے لینا بند کر دو.تم اپنی ضرورت پوری کرو تمہیں اس سے کیا غرض ہے کون آیا تھا، کیوں آیا تھا، کیا دے گیا ؟ اس پر وہ کہتے ہیں کہ عجیب نظارے ہم نے دیکھے.بعض لوگوں نے کہا کہ دیکھو ہم یہ جانتے ہیں اس بھرے پاکستان میں اور کسی کو خیال نہیں آسکتا تم احمدی تو نہیں؟ تمہارے دل پر بیتی ہے اور کسی اور کے دل پر نہیں بیتی ہم نے ہمارا دکھ محسوس کیا اور کسی اور نے محسوس نہیں کیا.ہم تمہاری پیشانیوں سے پہچانتے ہیں تم چھپاؤ جو چاہو کرو ہمیں پتہ لگ گیا ہے کہ تم کون ہو چنانچہ مجبوراً پھر ان کو بتانا پڑا.تو جس قوم نے مظالم کی حد کر دی تھی جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے یا آئندہ پہنچے گی تو تب بھی انشا اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ پیش پیش ہوگی اور جہاں تک جیبوں کا تعلق ہے یہ نہ میں نے بھری تھیں نہ آپ نے بھری ہیں یہ اللہ تعالیٰ عطا کرنے والا ہے اور اپنی راہ میں خرچ کرنے والوں کا نقشہ یہ کھینچا ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہم نے جو ان کو عطا کیا اس سے وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور جتنا وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں ہم عطا کرتے چلے جاتے ہیں یعنی ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 652 خطبہ جمعہ ۹ نومبر ۱۹۸۴ء سلسبیل ہے، ایک جاری سلسلہ ہے جو بھی ختم نہیں ہو سکتا.ایک طرف سے پانی بہ رہا ہے لیکن بہنے کے سوراخ تو چھوٹے ہیں کیونکہ انسانی ہاتھوں کے بنائے ہوئے ہیں اور ایک طرف سے پانی آ رہا ہے اور وہ آسمان کا سوراخ ہے جو خدا کے ہاتھوں کا بنایا ہوا ہے اس لئے ناممکن ہے کہ آنے والی راہ نکلنے والی راہ سے چھوٹی ہو جائے ایک جاری مضمون ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ہمیشہ ایسا ہوتا چلا جاتا ہے.پس جماعت احمدیہ کو تو اس بات کا کوئی خوف نہیں، جتنی توفیق ہوگی ہم اتنا ضرور دیں گے اور صرف یہی نہیں کریں گے کہ آج کی ضرورت پوری کرنے کی کوشش کریں بلکہ جس طرح ہم نے افریقہ میں پہلے سے ہی پروگرام شروع کر دیا ہے ان کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کی ہم نے کوشش کرنی ہے یہ آتے ہیں اور فقیروں کی طرح تقسیم کر کے چلے جاتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ ان کو زراعت میں تعلیم دینے کی ضرورت ہے ، ان کو زراعت میں خود کفیل کرنے کی ضرورت ہے، اس معاملہ میں وہ بالکل بے خبر بے پراہ ہوتے ہیں تا کہ وہ قومیں ہماری محتاج رہیں اور جب احتیاج ہو تو پھر ہماری طرف دوڑیں.ہم نے افریقہ میں ایک سکیم شروع کی تھی اللہ کے فضل سے بہت کامیاب رہی ہے اور ساری قوم نے اس کو امید کی نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ہے.ایک ہزار ایکڑ کا فارم لے کر اگرچہ پہلے سال شدید نقصان ہوالیکن میں نے ان سے کہا کہ اب جاری رکھیں کوئی پرواہ نہیں ہے.اللہ تعالیٰ کی خاطر ہم کر رہے ہیں وہ خود فضل کرکے گا چنانچہ اس دفعہ رپورٹ یہ آئی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ہر فصل بہت ہی اچھی ہوئی ہے اور نہایت کامیاب تجربہ رہا ہے.اسی طرح نائیجریا کو ہم نے خود کفیل بنانے کے طریق سکھانے شروع کر دیئے ہیں بہر حال ہم سکھا تو سکتے ہیں اور حتی المقدور کوشش بھی کر سکتے ہیں اس لئے باقی ممالک میں بھی ہم اس سکیم کو عام کریں گے اور بعض احمدی وہاں وقف کر کے گئے ہیں اسی نیت سے جنہوں نے ان کو کام سکھانے کی نیت کی ہوئی ہے.ان کی خاطر وہ بڑی مشکلات میں مصیبتوں میں پڑ کر وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن رات محنت کر رہے ہیں اور آہستہ آہستہ سلیقہ دے رہے ہیں ان کو.ان کو بالکل علم نہیں تھا کہ چاول کس طرح لگایا جاتا ہے، گندم کس طرح لگائی جاتی ہے، ان سب چیزوں سے وہ نابلد تھے.تو یہ اللہ کا احسان ہے کہ وہ ہمارے لئے نیکیوں کی راہیں کھول رہا ہے اور نیکی کی راہوں
خطبات طاہر جلد ۳ 653 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء میں ہمیں آگے سے آگے بڑھاتا چلا جارہا ہے.ان فضلوں کو جب ہم دیکھتے ہیں تو پھر ان کے دیئے ہوئے دکھ ان کی دی ہوئی گالیاں، ان کی لغو باتیں ، ان کے فضول قصے بالکل حقیر اور بے معنی دکھائی دینے لگتے ہیں.اس وقت دل حمد سے بھر جاتا ہے اور اللہ کے حضور حمد وشکر سے بھر کر آنکھیں آنسو بہاتی ہیں اور یہ عرض کرتی ہیں اپنے رب سے کہ: ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اک تیغ تیز جس سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑ ا م اغیار کا (در مشین) تو خدا کے فضل اس کثرت سے نازل ہورہے ہیں اور ہر جگہ نازل ہورہے ہیں کہ آپ باوجود اس علم کے کہ ہورہے ہیں پھر بھی تصور نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کو ساری اطلاعیں اس کثرت سے نہیں آرہیں جس طرح مجھے آتی ہیں.کوئی جاپان سے خط آ رہا ہے اور کوئی پاکستان سے خط آ رہا ہے کوئی افریقہ کے ممالک سے خط آ رہا ہے، کوئی ہندوستان سے آرہا ہے.گاؤں کے گاؤں احمدی ہوتے چلے جارہے ہیں.ایسی تیزی آگئی ہے تبلیغ میں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.انگلستان بھی جاگ رہا ہے اللہ کے فضل سے، پہلے میں نے آپ کو خوشخبری دی تھی کہ ایک جوڑا ، نہایت ہی سلجھا ہوا مخلص انگریز میاں بیوی کا نوجوان جوڑا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے نشان دیکھ کر احمدی ہوا ہے اسی جگہ سے یعنی یارک شائر سے ، اب کل رات مجھے چٹھی ملی ہے کہ ایک اور خاتون احمدی ہو ئیں تھیں کچھ عرصہ پہلے وہ ایک اور خاتون کو ساتھ لانے لگیں اور کل انہوں نے ایک بہت زبر دست تبلیغی پارٹی کی ہوئی تھی.بڑا ہی خدا کے فضل سے ان کو جنون ہے یعنی ڈاکٹر سعید اور سلمی سعید جوان کی بیگم ہیں تو اسی (۸۰) آدمی قریباً بلائے ہوئے تھے ،اڑھائی گھنٹے وہ کہتے ہیں کہ ہمیں تبلیغ کا موقعہ ملا اور کثرت سے پہلے کئی دن دعائیں کرتے رہے کہ اے اللہ ! ہمیں تو علم نہیں ہے تو ہمیں روشنی عطا فرما، حکمت عطا فرما.ہماری زبان کھول.سلمی سعید لکھتی ہیں کہ میں حیران ہوگئی تھی کہ مجھے جواب کیسے آرہے ہیں اور کس طرح میری زبان چل رہی ہے خود بخود یہاں تک کہ اس کثرت سے فون آنے شروع ہوئے کہ اب ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ تمہارا اسلام سچا ہے اور باقی سب جو قصے ہیں فرضی باتیں ہیں.بعض لوگوں نے کہا کہ ہمیں تو نفرت تھی اسلام کے نام سے.یہ جو ملا ازم اسلام
خطبات طاہر جلد۳ 654 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء پیش کر رہا ہے جس قسم کے تنگ نظر وہ اسلام کی طرف منسوب کر کے پیش کرتے ہیں جس قسم کا تمہارے رسول کا تصور انہوں نے بنایا ہوا ہے انہوں نے بتایا سلمی سعید کو کہ ہم تو دن بدن نفرتوں سے بھر رہے تھے.آج ہمارے دل میں اسلام کی محبت پیدا ہو گئی ہے.بعضوں نے دعا کے لئے کہا کہ دعا کرواب ہمیں اللہ جلد ہدایت نصیب کرے.ایک لڑکی جس کا میں نے ذکر کیا ہے اس نے کہا کہ میں نے ابھی بیعت کرنی ہے.جو ساتھ لے کر آئی ہوئی تھی اس نے کہا کہ بی بی ابھی بیعت نہ کرو کچھ اور سوچ لو ابھی تو تم نئی ہو اس نے کہا تمہیں نہیں پتہ کیا بات ہے.میں نے چند دن ہوئے ایک خواب دیکھی اور اس خواب میں ایک موسیٰ کا ذکر تھا اور ایک کفن کا ذکر تھا اعصائے موسیٰ اور اس کا جیت جانا اور ایک کفن کا ذکر تھا جو مسیح کا کفن تھا اور مجھے کچھ مجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ خواب کیا ہے؟ جب یہ سلمی سعید سوال کا جواب دے رہی تھیں تو جو الفاظ ان کے منہ سے نکلے بعینہ وہی خواب میں مجھے بتائے گئے تھے اور کفن کا جو ذ کر انہوں نے کیا ہے وہی ذکر خواب میں چل رہا تھا تو اب تو میں ایک منٹ بھی نہیں رہ سکتی.چنانچہ وہاں سے واپس جا کر گھر پھر انہوں نے فون کیا انہوں نے کہا میں بے قرار ہو گئی ہوں، مجھ سے ابھی بیعت لو.چنانچہ انہوں نے.پھر بلایا اور بیعت ان کی لی اور اب خدا کے فضل سے وہ بیعت مجھے رات ہی بھجوادی گئی.جرمنی میں خدا کے فضل سے ستر سے اوپر احمدی ہو چکے ہیں اللہ کے فضل سے جو تازہ اطلاع ملی ہے اور رجحان بڑھ رہا ہے تیزی سے.ہندوستان میں جیسا کہ میں نے بیان کیا گاؤں کے گاؤں بعض علاقوں میں احمدی ہور ہے ہیں کل ایک خط آیا ہے کہ وہاں جب احمدیت کے پھیلنے کی خبریں ملیں تو دور دراز سے بڑے بڑے علم پہنچے نفرتیں پھیلانے کے لئے پہنچے اور ان لوگوں کو ، علما کو گاؤں والوں نے نکال دیا انہوں نے کہا کہ ہمیں تمہارا اسلام نہیں چاہئے تم نفرتیں لے کر آئے ہو تم گالیاں لے کر آئے ہو.انہوں نے تو ہمیں زندہ کر دیا ہے ، انہوں نے تو ہمیں خدا کا پیار عطا کیا ہے، تم کیا باتیں کرتے ہو.یہ کس طرح جھوٹے ہو گئے جو خدا کی باتیں اور رسول کی باتیں کرتے ہیں.جنہوں نے ہمیں اللہ کی محبت سکھائی ، جنہوں نے ہمیں نماز روزہ بتایا اور تم ہمیں آکر ان کے خلاف گالیاں دے کر ان سے بدظن کرنا چاہتے ہو، تمہارا ہم سے کوئی تعلق نہیں.بعض گاؤں والوں نے ان سے کہا، یہ ہندو علاقہ تھا، جب ہندو ہمیں ہندو بنا رہے تھے جب ہماری تہذیب تباہ ہورہی تھی اس
خطبات طاہر جلد۳ 655 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء وقت تمہارا اسلام کہاں سویا ہوا تھا ؟ تمیں کوئی خیال نہیں آیا کہ علاقوں کے علاقے ایسے پڑے ہوئے ہیں ہندوستان میں جہاں ہندو کلچر مسلمانوں کو تباہ کر رہا ہے اور دن بدن ان کو اسلام سے متنفر کر کے خاموشی کے ساتھ ہندوازم کی طرف واپس لے جا رہا ہے اس وقت تمہارے کانوں پر جوں نہیں رینگی اور اب جب کہ احمدی یہاں پہنچے ہیں ہمیں اسلام سکھانے کے لئے اور ان سے مقابلہ سکھانے کے لئے غیروں سے تو اب تم آگئے ہو کہ ان کو چھوڑ دو.افریقہ میں جو صد سالہ سکیم تھی اس کے تابع ہم نے بعض ممالک کے سپر د بعض ممالک کئے تھے جہاں کوئی بھی احمدی نہیں تھا اور یہ فیصلہ تھا کہ اللہ کے فضل کے ساتھ ہر ملک سوسالہ جو بلی کے تھے کے طور پر دو یا تین ملک ایسے خدا کے حضور پیش کرے جہاں پہلے احمدیت نہیں ہے.چنانچہ افریقہ کے ایک ملک کے متعلق پہلے بھی اچھی خبر آئی تھی اب کل پھر اطلاع ملی ہے غانا کے سپر د کیا گیا تھا کہ خدا کے فضل سے وہاں دیہات کے دیہات احمدی ہوئے ہیں اور اب ان کی طرف سے مطالبہ آیا ہے کہ فوراً آکر ہمارے اندر جماعتیں قائم کرو، ہمیں نظام سکھاؤ اور اللہ کے فضل سے رجحان ایسا تیزی سے پھیل رہا ہے کہ وہ کہتے ہیں ہمیں فوری طور پر وہاں مبلغ مقرر کرنے کی ضرورت ہے.چنانچہ ان کو میں نے کولکھا ہے.آپ خود جائیں تنظیم قائم کریں اور آگے پھر اس کو سنبھالیں تو خدا کی دین ہے وہ تو نہیں رکنی.جتنا یہ روک رہے ہیں اتنا ہی خدا کھولتا چلا جا رہا ہے ہماری راہیں جتنا یہ ہمارے رزق پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اتناہی اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے چندوں میں برکت ڈالتا چلا جارہا ہے، جتنا یہ گندی گالیاں ہمیں دیتے ہیں اتنا ہی اللہ تعالیٰ ہمیں روحانی وجود بناتا چلا جارہا ہے.جتنا یہ متنفر کرتے ہیں ہمارے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے دین سے اتنا ہی زیادہ عشق بڑھتا چلا جا رہا ہے اور اسی کثرت سے احمدی درود بھیج رہا ہے.جتنا یہ مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیتے ہیں.اتنا زیادہ احمدیوں میں حضرت مسیح موعود کی محبت موجیں مار رہی ہے.یہ دو الگ الگ واقعات رونما ہورہے ہیں.ایک مغضوب علیھم اور ضالین کی راہ ہے جو پہچانی جاتی ہے اور ایک وہ راہ ہے جن پر خدا نے انعام فرمایا اور وہ بھی پہچانی جاتی ہے چنانچہ وہ کام جو ہماری تربیتی تنظیمیں کبھی بھی نہیں کر سکتی تھیں وہ کام خود بخو دخدا کی تقدیر ظاہر فرما رہی ہے اس کثرت سے اطلاعیں ملتی ہیں ایسے احمدیوں کی جو یا تقربیاً بے دین خدا تعالیٰ سے اپنے
خطبات طاہر جلد ۳ 656 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء گناہوں کی وجہ سے تھے یا بے تعلق تھے یا نمازوں میں سست تھے کوئی دین کی محبت ان میں نہیں تھی یا چندے ادا نہیں کرتے تھے ان کی چٹھیاں پڑھتا ہوں میں تو آپ اندازہ نہیں کر سکتے کہ خدا کی حمد سے دل کس طرح بھر جاتا ہے اور کس طرح آنکھیں اللہ کے حضور شکر کے آنسو بہاتی ہیں.ٹھیک ہے بہت گند بکنے والے لوگ ہیں اس دنیا میں ، ٹھیک ہے بہت دکھ دیئے ہیں لیکن ان انعامات کو بھی دیکھیں کہ اس کے مقابل پر آپ سے خدا کیا سلوک کر رہا ہے.پس پاکستان کے احمدیوں کو خصوصاً میں توجہ دلاتا ہوں کہ خدا کی پیاری نگاہوں کو دیکھنا شروع کر دیا کریں جب یہ دکھوں اور مصیبتوں کے انبار آپ پر پھینکتے ہیں، ایک ہی علاج ہے اور اس یہ علاج کے سوا کوئی علاج نہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بتایا ہے.اس وقت اللہ تعالیٰ کے لطفوں کو یاد کیا کریں، اللہ تعالیٰ کے احسانات کو یاد کیا کریں، خدا کے کرم جو بارش کی طرح برس رہے ہیں ان کو دیکھا کریں.چنانچہ میں آپ کو ایک بچے کا ، مثال کے طور پر میں نے بعض خط چنے ہیں ایک نوجوان کا خط میں آپ کو بتاتا ہوں یہ ایک مثال نہیں ہے ایسی سینکڑوں مثالیں ہیں اور ہزار ہا اور ایسی مثالیں ہیں.لیکن ہر نوع کے احمدیوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک پاک تبدیلی پیدا ہورہی ہے.ایک صاحب لکھتے ہیں غیر ملک سے یعنی پاکستان کے باہر کسی ملک سے کہ میں گزشتہ چھ سال احمدیت سے کافی دور چلا گیا تھانہ نماز، نہ روزہ، لیکن اس آرڈینینس کے بعد خدا کے فضل اور بزرگوں کی دعاؤں سے واپس کھنچا چلا آیا ہوں.میں نے خدا تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی توبہ کی اور نمازیں اور روزے شروع کئے اور ہر نماز میں خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے دوبارہ مجھے نیکی کی توفیق عطا فرمائی گویا کہ یہ آرڈی نینس میرے لئے تو بڑا ہی بابرکت ثابت ہوا اور اس وقت آپ کے یہ الفاظ میرے کان میں گونج رہے ہیں کہ اگر مسلمان کو آگ میں ڈالا جائے تو وہ کندن بن کر نکلتا ہے.اس تبدیلی کی ایک خاص وجہ یہ تھی کہ آرڈینینس کے معابعد میں نے اپنے والدین جو کہ پاکستان میں ہیں ان کو خط لکھا کہ آپ لوگ اپنے پاسپورٹ کی فوٹو کاپی مجھے بھیجیں تا کہ میں آپ کا ویزہ بھیج کر آپ لوگوں کو یہاں بلوا لوں.اس خط کا جواب اس طرح آیا اگر بیٹا تم نے سیر کی غرض سے بلوایا ہوتا تو ہم ضرور آتے لیکن تم حالات سے ڈر کر ہمیں بلوا ر ہے ہو تو یہ ذہن سے نکال دو کہ ہم ڈر کی وجہ سے آجائیں گئے.ہم تو شہید ہونے کے لئے
خطبات طاہر جلد ۳ 657 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء بے چینی سے وقت کا انتظار کر رہے ہیں.وہ بچہ لکھتا ہے کہ یہ خط مجھ پر بجلی بن کر گرا اور اس کے بعد پھر میں نے احمدیت کی کتابیں پڑھنی شروع کیں اور اب تو جہاں موقع ملتا ہے تبلیغ کی بھی کوشش کرتا ہوں.میری اس تبدیلی کو دیکھ کر دوست احباب حیران ہو جاتے ہیں کہ اسے کیا ہو گیا ہے.تو یہ ایک انعام ہے جو اللہ تعالیٰ عطا کر رہا ہے جماعت کو اور کثرت سے عطا کر رہا ہے.چھوٹے چھوٹے بچے ولی بن رہے ہیں اور خدا کی راہ میں آنسو بہانے لگے ہیں.ایک صاحب لکھتے ہیں کہ بعض اوقات تو بڑے رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آتے ہیں.جب ہم خطبات کی کیسٹس (Cassettes) سنتے ہیں تو دوست اتنا روتے ہیں اتنا روتے ہیں کہ بعض دفعہ برداشت نہیں ہوتا تو اونچی آوازوں سے رونا شروع کر دیتے ہیں.وہ دوست جن کو کبھی نمازوں میں ست دیکھا جاتا تھا وہ بھی اب عبادت کے وقت زار و قطار آنسو بہانے لگتے ہیں.سمجھ نہیں آتی کہ اتنی جلدی چند ماہ میں یہ حیرت انگیز تبدیلی پیدا کیسے ہوگئی؟ جہاں تک چندوں کا تعلق ہے اس کثرت سے خطوط ہیں حیرت انگیز قربانیوں کے کہ ناممکن ہے کہ میں آپ کو بتا سکوں.وہ محفوظ کئے جارہے ہیں اور انشاء اللہ تعالی آئندہ زمانے کے لئے یہ تاریخ محفوظ کی جائے گی.ایسے عجیب خدا تعالیٰ نے دلوں کے اوپر تصرفات فرمائے ہیں اور ایسی ایسی ہمتیں عطا کی ہیں قربانی کے لئے ، ایسا جوش پیدا کیا ہے، ایسی لذتیں عطا کی ہیں قربانی کرنے والوں کو کہ یہ تو اب ٹھہر نے والا قصہ ہی نہیں ہے، یہ تو میں روکتا ہوں تو رکتے نہیں ہیں بعض دفعہ میں واپس کرتا ہوں کہ یہ تمہاری طاقت سے بڑھ کر ہے منتیں کر کے دوبارہ دیتے ہیں.کئی دفعہ ایسا ہوا.ایک دفعہ نہیں ہوا، ایک نوجوان سے میں نے کہا کہ یہ تمہاری ساری عمر کی کمائی ہے علم ہے میں یقین دلاتا ہوں کہ خدا کی راہ میں یہ منظور ہو گئی ہے اور میں تمہیں یہ واپس کر رہا ہوں تم بالکل فکر نہ کرو لیکن اتنا حصہ میں تمہارا قبول کرتا ہوں.اسکی وہ کیفیت ہوئی خط پڑھ کر کہ میری قربانی کو گو یا رد کر دیا گیا ہے کہ ایسا روحانی عذاب میں بے چارہ مبتلا ہوا کہ بعد میں یہ مجھے پتہ چلا تو شدید مجھے دکھ پہنچا کہ میں نے کیوں اس کو ایسا کہا تھا اور آخر اس نے وہ دیکر ہی چھوڑا.تو بظاہر جو لوگ محروم ہو رہے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ اب ایسی روحانی لذتیں عطا کر رہا ہے اس کا تصور بھی کوئی دنیا میں نہیں کر سکتا.ایک غریب عورت نے یہ لکھا کہ جب میں نے دیکھا اپنی بہنوں کو قربانی کرتے ہوئے
خطبات طاہر جلد ۳ 658 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء ہر طرف تو اس قدر مجھے شدید تکلیف تھی کہ میں کیا کروں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے.کہتی ہیں اچانک مجھے خیال آیا کے یہ جو گائے میں نے لی ہے بچوں کو دودھ پلانے کے لئے یہ تو ہے تمہارے پاس اگر تمہیں اس گائے سے محبت ہے اور دل میں خواہش قربانی کی زیادہ ہے تو پھر اس گائے کو پیش کر دو.چنانچہ آج کے بعد سے یہ گائے میری نہیں ہے جب تک آپ اس کو سنبھال کر یا بیچ کر انتظام نہیں کر لیتے اس وقت تک جو دودھ میں اس سے لوں گی اسکے پیسے ادا کرونگی.عجیب دیوانے لوگ ہیں دنیا تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ احمدی کیا ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟ وہ تو آپ کے ظاہر کو بھی نہیں پہچانتی آپ کے باطن میں کیسے اسکی نگاہیں اتر سکتی ہیں.ایک بچی کا بہت پیارا خط آیا.کہتی ہے (Cassette) کیسٹ چل رہی تھی عورتوں کی قربانیوں کے جو آپ واقعات بیان کر رہے تھے ، چھوٹی بچی ہے وہ کہتی ہے کہ میرے دل میں عجیب تڑپ اٹھی اور میں نے اپنی ماں کو کہا کہ امی آپ کے دل پر کوئی اثر نہیں ہوتا.کہتی ، یہ کہتے کہتے جو میری نظر اٹھی تو دیکھا کہ ماں اپنی بالیاں اتار رہی ہے اور روتی چلی جارہی ہے.اس وقت مجھے خیال آیا کہ میں نے اپنی ماں پر بدظنی کی تھی وہی بالیاں اس کے پاس تھیں اور ادھر بیٹی کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہوئی ادھر وہ ماں کے ہاتھ پہلے ہی اس طرف اٹھ چکے تھے.یہ قوم ہے جس کو یہ ظالم مٹائیں گے ! خدا کی قسم آپ نہیں مٹ سکتے ، آپ ہمیشہ زندہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں یہ محمد مصطفی ﷺ کی روحیں ہیں جو آپ کے اندر زندہ ہو رہی ہیں، یہ محمد مصطفی ﷺ کی صفات ہیں جو آپ کو نئی زندگی عطا کر رہی ہیں ان کو خدا مٹنے دے گا؟ یہ تو ہو ہی نہیں سکتا یہ ناممکن ہے ساری کائنات مٹ سکتی ہے لیکن احمدیت کی روح نہیں مٹ سکتی کیونکہ یہ محمد مصطفی ﷺ کی غلامی کی روح ہے اور خدا اس روح کو کبھی مٹنے نہیں دے گا.یہ کلمے مٹارہے ہیں.عجیب تاریخ بن رہی ہے اسلامی ملک اور سپاہی اور ملازم مقرر کئے گئے ہیں حکم دے کر کہ کلمے مٹاؤ کبھی دنیا کی تاریخ میں ایسا بھی واقعہ آیا تھا.یہ دن بھی بدقسمتوں نے دیکھنے تھے کہ اسلام کے نام پر اللہ کی عطا کی گئی تھی ایک ملک کے طور پر اور وہاں کی حکومت کو اور کوئی کام ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ کلمے کے پیچھے پڑ جائے کہ کلے مٹادو.یہ نظارہ بھی سامنے آیا کہ ایک مسجد میں جب ایک مجسٹریٹ اور پولیس پہنچی کہ ہمیں اوپر سے حکم آیا ہے کہ اگر یہ مولویوں کو نہیں ر
خطبات طاہر جلد ۳ 659 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء مٹانے دیتے تو تم جا کر حکومت کی طرف سے کلے مٹاؤ.پہلے تو انہوں نے کوشش کی ان کو حکم دیا ہم تمہیں یہ کریں گے اور وہ کریں گے تم مٹاؤ کلمہ انہوں نے کہا جو کرنا ہے کر وہ قتل کرتے ہو، مارتے ہو، پیتے ہو جو چاہو کر واحمدی کا ہاتھ کلمہ نہیں مٹائے گا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.انہوں نے یہ کہا بہت اچھا پھر ہمیں یہ حکم ہے کہ ہم خود مٹائیں گے.انہوں نے کہا تم جس حکومت کے کارندے ہو ویسی ہی صفات تمہاری ہیں جو چاہو کرو.چنانچہ انہوں نے سیڑھیاں پکڑیں اور کلمہ مٹانے کے لئے مجسٹریٹ نے حکم دیا سپاہی کو کہ جاؤ او پر اور سیاہی پھیر دو اور احمدی اس وقت سجدہ میں گر گئے اور اس قدر روتے روتے ان کی ہچکیاں بندھ گئیں کہ اے خدا ! یہ دنیا میں دن دیکھنے تھے کہ تیرا نام تیرے نام پر مٹایا جارہا ہے تیرا نام لے کر تیرا کلمہ مٹایا جا رہا ہے ایک خادم لکھتے ہیں کہ جب سجدے سے اٹھ کر میں نے دیکھا مجسٹریٹ بھی بے اختیار روہا تھا.اس نے کہا تھا کہ میرے لئے دعا کرو کہ میں بد بخت ہوں جو اس حکومت کے حکم پر مجبور ہو گیا ہوں میری کوئی پیش نہیں جارہی ، یہ دو نظارے پیدا ہورہے ہیں.اب معمولی سی عقل والا انسان بھی پہچان سکتا ہے کہ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ کا رستہ کون سا ہے اور أنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ کا رستہ کون سا ہے؟ ادھر وہ کلمے مٹا رہے ہیں ادھر ہماری چھوٹی بچیوں کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کلمے کی محبت اتنی پیدا کرتا چلا جا رہا ہے اتنی بڑھا رہا ہے کہ ان کا سینہ روشن ہو گیا ہے کلمہ کے نور سے.ایک بچی کے متعلق ایک صاحب واقعہ لکھتے ہیں، کہتے ہیں.میری بچی نے جب یہ سنا کہ اب کلے مٹانے کے حکم آگئے ہیں چھوٹی سی عمر کی بچی ہے بڑے جوش سے کہنے لگی کہ ہم سے کلمہ چھینا چاہتے ہیں ابا ! ہم تو کلمہ نہیں چھوڑیں گے چاہے ہماری گردنیں کاٹ دیں، ہمیں جنگلوں میں بند کر دیں.ہمیں کمروں میں بند کر دیں یہ بچی کی باتیں ہیں بیچاری کی، ہم نے تو کلمہ طیبہ پڑھنا ہی پڑھنا ہے میرا دل ایسے حضور کو چھوڑنے کو نہیں کرتا اور یہ کہ کر زار و قطار رونے لگ گئی بہت ہی روئی ، بہت ہی روئی پھر کہنے لگی اب تو میرا مولا آہی گیا ہے اب تو اس نے ان کا کچھ نہیں چھوڑنا ہم نے ان کو کچھ نہیں کہنا ہمارا خدا ان کو مارے گا پھر یہ روئیں گے اور کہیں گے ہمیں کیا پتہ تھا نہیں تو ہم ایسا نہ کرتے.چھوٹے چھوٹے بچوں کے دل پر جس خدا نے آسمان کے نور سے کلمہ لکھ دیا ہے ان کے اوپر ان کے کردار کی سیاہیاں کیسے پھر سکتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 660 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء حقیقت یہ ہے کہ یہ کلمہ نہیں مٹار ہے یہ اپنے نام ونشان مٹانے کے سامان کر رہے ہیں.ان کی سیاہیاں احمدی کے دل تک نہیں پہنچ سکتیں.جتنا یہ ظاہری کلموں کو مٹائیں گئے اتناہی زیادہ روشن حروف میں اتنے ہی زیادہ نمائندہ و پائندہ و تابندہ حروف میں احمدیت کے دلوں پر کلمہ لکھا چلا جائے گا لکھا چلا جائے گا اور ہمیشہ کی زندگی احمدیت کو عطا ہوگی.دلوں کے کلمے پر دنیا کے گندے اور کوتاہ ہاتھ نہیں پہنچ سکتے اور کوئی اُن کو مٹانے کی طاقت نہیں رکھتا.ایسی قو میں خود مٹ جایا کرتی ہیں اور وہ تو میں ہمیشہ کی زندگی پا جاتی ہیں جو خدا کے نام پر اپنا سب کچھ مٹانے کے لئے خود تیار ہو کر بیٹھ جاتی ہیں.اس لئے خوش نصیب ہیں وہ بڑے اور وہ چھوٹے ، وہ مرد اور وہ عورتیں ، وہ بوڑھے اور وہ بچے جو آج اللہ کی راہ میں سب کچھ فدا کرنے کے لئے تن من دھن کی بازی لگائے بیٹھے ہیں اور کوئی پرواہ نہیں، کوئی غیر اللہ کا خوف ان کے دل میں نہیں ہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کی خاطر کا ئنات کو پیدا کیا گیا تھا اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی خاطر کائنات کو رکھا جائے گا یا مٹایا جائے گا.اگر انہوں نے اس بات کو تسلیم کر لیا، اس آواز کو تسلیم کر لیا جو خدا نے اپنے ایک بندہ کی زبان سے جاری کروائی تھی تو وہ اپنی بقا کا سامان کریں گے اور یا درکھیں اگر وہ اس شرارت پر مصر رہے، اگر وہ ان گندگیوں میں آگے بڑھتے چلے گئے تو پھر خدا کی تقدیر ان کا کوئی نشان باقی نہیں چھوڑے گی.کبھی اس تقدیر نے پہلی قوموں سے اس کے سوا کوئی سلوک نہیں کیا.وہی خدا آج بھی زندہ خدا ہے وہ آج بھی ویسی ہی تقدیریں دکھائے گا جیسے پہلے دکھاتا چلا آیا ہے.اس لئے دعائیں کریں اللہ تعالیٰ ہمیں مزید استقامت عطا فرمائے ، ہمیں صبر کی اور زیادہ توفیق عطا فرمائے ، ہمیں اپنی راہ میں قربانیوں کی اور زیادہ تو فیق عطا فرمائے.ہمارے بچوں کو بھی ولی بنادے اگر وہ جو قبروں میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اگر ان کو بھی آج تک تقویٰ کے پہلے سبق یاد نہیں تو اے خدا! ہم تیری تقدیر پہ راضی ہیں کہ تو ہمارے بچوں کو اولیاء کے مقام عطا فرما رہا ہے دن بدن وہ روحانیت کے ارفع سے ارفع مقامات کی طرف حرکت کر رہے ہیں.ہم نے دیکھا کہ جو چلنا بھی نہیں جانتے تھے انہوں نے چلنا سیکھ لیا اس دور میں ، جو چلا کرتے تھے قدم قدم وہ دوڑنے لگے اور خدا کی قسم آج ایسے احمدی پیدا ہو چکے ہیں جو پہلے دوڑتے تھے آج روحانیت کے آسمان اور روحانیت کی رفعتوں میں وہ پرواز کرنے لگے ہیں اور دن بدن اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر ہمیں رفعتیں اور عظمتیں
خطبات طاہر جلد ۳ 661 خطبه جمعه ۹ نومبر ۱۹۸۴ء عطافرما تا چلا جارہا ہے.الحمدللہ علی ذلک.خطبہ ثانیہ کے درمیان فرمایا: جیسا کہ پہلے بھی اعلان کیا گیا تھا جمعہ کے بعد چونکہ نماز عصر کا الگ وقت نہیں رہتا اور جمع کا وقت ہو چکا ہوتا ہے یعنی عصر کا وقت شروع ہو جاتا ہے اس لئے آج بھی نمازیں جمع کی جائیں گی اور ساری سردیاں جب تک یہ مجبوری ہے جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع کی جایا کرے گی.کل کے متعلق اعلان ہے کہ چونکہ فیصلہ ہوا تھا کہ سوال و جواب کی مجلس جس میں ہم اکٹھے بیٹھ کر شامل ہوتے ہیں وہ ہفتہ اور اتوار کو ہوا کرے گی مغرب کی نماز کے معا بعد.لیکن ان دو دونوں میں عشاء کی نماز کا کوئی معین وقت نہیں ہے.اگر یہ مجلس پہلے ختم ہو گئی اور عشا کی نماز کا وقت ہوا تو اسی وقت عشا کی نماز پڑھ لی جائے گی یعنی ساڑھے سات ہونا ضروری نہیں ہے ہفتہ اور اتوارکو.اور اگر بعض دفعہ بعض دوست دلچسپ سوال لے کر آتے ہیں اور تھوڑے وقت میں ختم نہیں ہوتے تو لمبا بھی کرنا پڑے تو لمبا بھی کرلیں گے انشاء اللہ.تو دونوں دنوں میں عشا کی نماز پر آنے والے احتیاطاً اگر وہ مجلس کے لئے نہیں آسکے تو ذرا پہلے آجائیں تا کہ ان کی نماز نہ ضائع ہو.ہاں ایک بات میں بھول گیا تھا کہ کل کا مجلس سوال و جواب کا پروگرام یہاں نہیں ہوگا.کل ہمارا انشاء اللہ تعالی اسلام آباد میں ایک پروگرام ہے.تو یہ اتوار یعنی پرسوں سے شروع ہوگی.(انشاء اللہ تعالیٰ )
خطبات طاہر جلد ۳ 663 خطبه جمعه ۱۶ / نومبر ۱۹۸۴ء جماعت کی مخالفت اور الہی تائید ونصرت ( خطبه جمعه فرموده ۱۶ نومبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: هُوَ الَّذِى اَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا مُحَمَّدُ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَرَبُهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ذلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَمَثَلُهُمْ فِى الْإِنْجِيلِ كَزَرْعِ أَخْرَجَ شَطْئَهُ فَازَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ وَعَدَ اللهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً قَ اَجْرًا عَظِيمًا (الفتح:۳۰۲۹) اور پھر فرمایا: دنیا بھر سے جو خطوط موصول ہو رہے ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ آج کل جماعت کے دل اس نہایت ہی غلیظ اور ظالمانہ فیصلہ سے بہت ہی دکھی ہیں جسے پاکستان میں شرعی عدالت کے
خطبات طاہر جلد ۳ 664 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء فیصلہ کا نام دے کر بہت اچھالا گیا ، اخبارات میں بھی اور ٹیلی ویژن پر بھی اور ریڈیو پر بھی اور بڑے فخر کے ساتھ بعض علما کو پروگراموں میں پیش کیا گیا اور بار بار حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی شان میں انتہائی غلیظ زبان استعمال کر کے اپنی دانست میں انہوں نے اپنی فتح کے شادیانے بجائے.پاکستان سے جو خطوط آرہے ہیں ان میں تو شاید ہی کوئی ایسا ہو جس میں انتہائی درد اور کرب کا اظہار نہ کیا گیا ہو.بچوں کی طرف سے بھی اور بڑوں کی طرف سے بھی ، مردوں کی طرف سے بھی اور عورتوں کی طرف سے بھی ، ایک انتہائی دردناک کیفیت کا منظر سامنے آتا ہے ان خطوط کو پڑھ کر.یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مچھلی پانی کے بغیر تڑپتی ہو اس طرح نہایت ہی تکلیف سے احمدی احباب اور احمدی خواتین ، بڑوں اور بچوں نے تڑپ تڑپ کر کچھ راتیں اور کچھ دن گزارے ہیں.میں ان کے لئے خود بہت دردمند ہوں جہاں تک بس چلتا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کرتا ہوں اور ساری جماعت جو ساری دنیا میں ہے اس کی یہی کیفیت ہے.ایک بدن کا ایک حصہ دیکھ رہا ہو تو مومن کا سارا بدن سارا وجود اس دکھ کو محسوس کرتا ہے اس لئے پاکستان کے احمدی اس غم میں اکیلے نہیں.ایک تو براہ راست حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کی خبروں سے ہر جگہ احمدی کا دل دکھا ہوا ہے.پھر پاکستان کے احمدیوں کی مجبوریاں اور لاچاریاں دیکھ کر دوہری تکلیف ہوتی ہے اس لئے واقعہ یہی ہے کہ کل عالم کا احمدی اس وقت شدید بے قرار اور درد میں مبتلا ہے.لہذا میں اس مضمون میں آج کے خطاب میں آپ کی توجہ اس طرف مبذول کروانی چاہتا ہوں کہ یہ واقعات کوئی اتفاقی حادثات نہیں ہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ایک وسیع عالمی تدبیر کا ایک حصہ ہیں اور جو کچھ آپ کے ساتھ آج ہورہا ہے یہ ازل سے مقدر تھا کہ اسی طرح ہو اور اس میں جماعت احمدیہ کے لئے عظیم الشان خوش خبریاں پوشیدہ ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ انتہائی غضب ناک کیفیت جو احمدیت کی دشمنی کی آج ہمیں نظر آرہی ہے اس کی طرف بھی دھیان کریں کہ یہ کس چیز کا نتیجہ ہے؟ قرآن کریم پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں یہ مقدر تھا کہ خوبصورت نرم و نازک کونپلوں کی طرح اسلام کا پیغام از سرنو پھوٹے اور پھر دیکھتے دیکھتے بڑھتا چلا جائے اور جتنا وہ بڑھے اور نشو ونما پائے اسی قدر دیکھنے والے دشمن اس پر غیظ و غضب میں مبتلا ہو جائیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 665 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء جن آیات کی میں نے تلاوت آپ کے سامنے کی ہے اس میں اسی مضمون کو دوحصوں میں بیان فرمایا گیا ہے.آغاز میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِيْنِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِهِ، وہی خدا ہے جس نے محمد مصطفی علی کو رسول بنا کر بھیجا ہدایت اور دین حق کے ساتھ ليُظهِ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ تا کہ اس دین کو بھی ساری دنیا پر غالب کر دے اور محمد مصطفی ﷺ کو بھی ساری دنیا پر غالب کر دے.یہ کیسے ہو گا ! اس کی آگے دو تصویریں کھینچی گئی ہیں.ایک پہلا جلوہ اسلام کا جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی اعلی اپنے ابتدائی ساتھیوں کے ساتھ موجود تھے.یہ وہ جلالی شان تھی جس میں بڑی تیزی کے ساتھ اسلام نے پھیلنا تھا اور ایک دوسرا جلوہ بھی یہاں بیان ہے اور پہلا جلوہ تو تو رات کے حوالے سے ہے اور دوسرا جلوہ انجیل کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے یعنی محمدی شان کو تو تو رات کے حوالے سے بیان کیا گیا اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلہ ہی کی احمدی شان کو مسیح کی زبان سے بیان کیا گیا گویا مسیح کے زمانہ میں اس شان نے ظاہر ہونا تھا.چنانچہ گزشتہ علما اور مفسرین بھی اس آیت کی تفسیر میں یہی لکھتے چلے آئے کہ یہ اظہار حق جس کا وعدہ کیا گیا ہے یہ حضرت مسیح کے نزول کے وقت پوری شان سے دنیا کے سامنے ظہور پذیر ہوگا.چنانچہ یہ جماعت احمدیہ ہی ہے جس کا یہاں ذکر ہے اور ان آیات میں جو نقشہ ہے وہ یہ ہے کہ دیکھو ان کی مثال جو اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے لئے دوبارہ اللہ تعالیٰ کے دین کی خدمت پر مامور ہونگے یعنی محمد مصطفی اللہ کے وہ غلام جو آخرین کے دور میں ظاہر ہونے والے ہیں ان کی کیفیت ایسی ہوگی کہ جیسے روئیدگی زمین سے پھوٹے اور پھر وہ روئیدگی اپنی کونپلوں کو طاقت دے اور وہ کونپلیں پھر مضبوط ہو جائیں فَاسْتَوى عَلَى سُوقِہ اور پھر اپنے تنے پر مضبوطی اور شان کے ساتھ قائم ہو جا ئیں - يُعْجِبُ الرُّرَاعَ لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ جو ہونے والے ہیں بیچ وہ تو اس کو دیکھ کر بہت ہی خوشی کا اظہار کریں، ان کے دل خوش ہو جا ئیں لِيَغِيظُ بِهِمُ الْكُفَّارَ لیکن منکرین اور کفار کے دل غیظ و غضب سے بھر جائیں.یہ اتنا واضح نقشہ ہے، غیظ وغضب کی وجہ بیان فرما دی گئی اور روئیدگی کی مثال ایسے پیار اور ایسی عمدگی کے ساتھ بیان کی گئی ہے کہ آپ اگر اس پر غور کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ کس شان کے ساتھ یہ جماعت احمدیہ کے اوپر پوری اترتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 666 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء پہلی بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ روئیدگی پھوٹتی ہے اور پھر تنا مضبوط ہو جاتا ہے یا روئیدگی مضبوط ہو جاتی ہے فرمایا روئیدگی پھوٹتی ہے اور اپنی کونپلوں کو پہلے طاقت دیتی ہے.اس میں نہ صرف یہ کہ گہر ا فلسفہ بیان کیا گیا ہے الہی قوموں کی ترقی کا بلکہ جس حوالہ سے بات کی جارہی ہے زراعت کے حوالے سے اس کے بھی ایک راز کی گہری حقیقت پر روشنی ڈالی جارہی ہے، ایک زرعی قانون پر روشنی ڈالی جارہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ اکثر لوگ اس بات سے بے خبر ہیں کہ جب بیج روئیدگی نکالتا ہے تو پہلے جب تک بیج اس کو طاقت دے کر آگے نہ بڑھا دے وہ روئیدگی خود اپنی طاقت سے ایک کو نیل کو ظاہر نہ کرے اس وقت تک وہ بیرونی غذا کے محتاج نہیں ہوتے اور بیرونی غذا اس کو فائدہ پہنچا بھی نہیں سکتی.اپنے پاؤں پر پودا نہیں کھڑا ہوسکتا جب تک پہلے پیج کی اس طاقت سے جو روئیدگی یعنی سبزے میں تبدیل ہو جاتی ہے براہ راست قوت نہ پائے.تو ابتدائی حصہ الہی قوموں کی نشو ونما کا خدا تعالیٰ کے برگزیدہ بندوں کی ذاتی تربیت میں اور ان کی قوت سے فیض پاکر نشو نما پاتا ہے.جس طرح انڈے میں ایک زردی ہوتی ہے جو غذا کا کام دیتی ہے چوزے کے لئے اگر چہ سفیدی سے اس کا جسم بنتا ہے لیکن زردی اسکے پیٹ میں غذا کے طور پر ہوتی ہے اگر وہ زردی موجود نہ ہو تو چوزہ نشو ونما نہیں پاسکتا.ناممکن ہے خواہ سارا جسم بھی بن جائے وہ زندہ نہیں رہ سکتا.تو فرمایا اللہ تعالیٰ کے ایسے بندے بھی ہوتے ہیں جو بیج بوتے ہیں اور پھر انہی کی طاقت سے ابتدائی روئیدگی کونپلوں میں تبدیل ہو جاتی ہے.ان کی قوت قدسیہ ہے جو کار فرما ہوتی ہے، انکی روحانیت ہے جو ایک نئی زندگی عطا کرتی ہے اپنے ماننے والوں کو.جب یہ واقعہ ہو جائے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا جماعت کا وقت آجائے یعنی اس الہی جماعت کا تو وہاں سے پھر یہ مثال شروع ہوتی ہے فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَى عَلَى سُوقِہ پھر وہ مضبوط ہونی شروع ہو جاتی ہے، فَاسْتَوى عَلى سُوقِه پھر وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جاتی ہے اس پر بلوغت کا وقت آجاتا ہے.جب وہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہوتی ہے یہ ایک ایسی کیفیت ہے جسے دشمن برداشت نہیں کر سکتا اور شدید غیظ وغضب میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پورا زور لگا تا ہے کہ اسکو مٹادے.تو جماعت کے خلاف جتنی دشمنی ہے، جتنا غیظ آپ دیکھ رہے ہیں یہ لازماً اس بات کا نتیجہ ہے کہ آپ ترقی کر رہے ہیں، قرآن کریم کی پیشگوئی بعینہ اسی طرح پوری ہو رہی ہے اگر جماعت
خطبات طاہر جلد۳ 667 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء احمد یہ ترقی نہ کرتی تو یہ غیظ و غضب نہ پیدا ہوتا اور غیظ و غضب کے باوجود جماعت ضرور ترقی کرے گی یہ دوخوشخبریاں ہیں جو اس آیت میں دی گئی ہیں کیونکہ نتیجہ یہ نکالتا ہے اللہ تعالیٰ اس کیفیت کا کہ اگر چہ غضب بھی ان میں پیدا ہوتا ہے اسکے نتیجے میں لیکن خدا نے یہ تقدیر اس لئے جاری کی ہے تا کہ بیج بونے والوں کے دل خوش ہوتے چلے جائیں یعنی وہ بڑھتے چلے جائیں.اگر وہ بڑھیں گے نہیں تو انکے دل کیسے خوش ہو سکتے ہیں؟ تو غضب کے باوجود دلوں کی خوشی کا سامان ان کی ترقی میں ہے یہ راز بتایا گیا ہمیں اور جماعت کو یہ نکتہ سمجھایا گیا کہ جب شدید غضبناک حالتوں میں تم اپنے دشمنوں کو پاؤ گے تو اس وقت بھی تمہارے دلوں میں یہ خوشی ہونی چاہئے کہ تم ترقی کر رہے ہو شدید مخالفتوں کے باوجود، تلواروں کے سائے میں تم لوگ آگے بڑھ رہے ہو.اس طرف نظر رکھو گے تو تمہارا دل خوش رہے گا.اگر اپنی ترقی کی طرف نظر نہیں رکھو گے تو پھر تمہاری خوشیاں چھین لیں گے لوگ اس لئے خدا کی رحمتوں ، خدا تعالیٰ کے افضال پر نظر کر کے وہ فرحت حاصل کریں جس کے لئے قرآن کریم کی پیشگوئی کے مطابق آپ پیدا کئے گئے ہیں.آپ کے دلوں کو خدا نے ترقی کی طرف نظر ڈال کر خوش ہونے کے لئے بنایا ہے اس لئے ان کے غضب سے آپ کی وہ مسرتیں جو اسلام کی ترقی کے نتیجے میں آپ کے دل میں پیدا ہونی چاہئیں وہ تو نہیں چھینی جاسکتیں تو اس طرف نظر ڈالیں اور اس سے طاقت حاصل کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ ہر غیظ و غضب کی حالت میں نہ صرف یہ کہ ترقی کرتی ہے بلکہ پہلے سے بڑھ کر ترقی کرتی ہے اور اس وقت یہی نظارہ ہم سب دنیا میں دیکھ رہے ہیں ایک بھی استثناء نظر نہیں آتا ، ساری جماعت کی تاریخ میں کہ کبھی دشمن نے عناد کی آگ لگائی ہو اور جماعت کا کوئی حصہ جل کر بھسم ہو گیا ہو.ہر بار بلا استثنا جب دشمن نے آگ بھڑکائی ہے جماعت کندن بن کر نکلی ہے، پہلے سے زیادہ قوت سے ظاہر ہوئی ہے، پہلے سے زیادہ شان و شوکت کے ساتھ ابھری ہے، اس میں نئی نئی شاخیں پھوٹی ہیں، نیا وجود اس کو زندگی کے اعتبار سے ملا ہے، نئے نئے وجود ملے ہیں، نئے ملکوں میں پھر وہ قائم ہوئی ہے ،نئی حدوں کو پار کر کے وہ آگے بڑھ گئی ہے.کوئی ایک سمت بھی ایسی نہیں آپ بتا سکتے جس میں جماعت دشمنی کے نتیجہ میں سکڑ گئی ہو، جہاں پیچھے ہٹ گئی ہو.زندہ قوموں کی ترقی کے جو بھی معیار آپ سوچ لیں ایک ایک معیار کو چسپاں کر کے دیکھیں.ہر معیار کے اعتبار
خطبات طاہر جلد ۳ 668 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نہ صرف آگے مسلسل بڑھتی چلی جارہی ہے بلکہ دشمنیوں کے وقت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ جاتی ہے.چنانچہ اس وقت جو ایک طرف ان دکھوں کی خبروں کی طرف نظر پڑتی ہے تو دوسری طرف اللہ کے ان فضلوں کی طرف بھی نظر پڑتی ہے کہ پہلے سے بہت زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جماعت پھیلنی شروع ہو گئی ہے.اب بعض دفعہ تو مجھے ڈیڑھ ڈیڑھ دو دو سو بیعت فارموں کے جواب دینے کے لئے دستخط کرنے پڑتے ہیں اور ساری دنیا سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے نئی نشو ونما کی خبریں آرہی ہے.لیکن یہ کیفیت ابھی اور بہت زیادہ شان کے ساتھ آپ کے سامنے ابھرنے والی ہے.ابھی تو یہ آغاز ہے کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں ساری جماعت کو مبلغ بننا ہے انشاء اللہ تعالیٰ اور اس کے لئے جب تک میری زندگی کا آخری سانس ہے میں کوشش کرتا رہوں گا کیونکہ وہ آخری ترقی جس کے لئے ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے تیاری کر رہے ہیں اور وہ آخری جنگ جو اسلام کی فتح کے لئے غیروں سے ہم نے لڑنی ہے اسکے لئے ایک فوج تیار ہو رہی ہے خدا کے فضل سے، اس تیاری میں کچھ وقت ابھی لگے گا.جس طرح زمیندار جانتے ہیں جب وہ چھٹا دیتے ہیں بیجوں کا تو شروع میں اس محنت کا کچھ بھی نتیجہ دکھائی نہیں دیتا.میں خود زمیندار ہوں اپنے ہاتھ سے کاشت کی ہوئی ہے.مجھے پتہ ہے کئی دفعہ گندم کا چھٹا ڈالا اس کے بعد اسکو مٹی میں دبایا اور خصوصاً جب موسم نا خوشگوار ہو، ناموافق ہوتو بعض دفعہ بڑی دیر تک دانے نہیں نکلتے اور گھبراہٹ پیدا ہوتی ہے کہ کیا ہو رہا ہے؟ ساری محنت مٹی میں دب گئی لیکن پھر خدا کے ہاں وقت مقدر ہیں، وہ محنت رنگ لاتی ہے اور خدا کے فضل سے کہیں کہیں سے روئیدگی پھوٹے لگتی ہے اور زمیندار کی جو کیفیت ہوتی ہے اس کو دیکھ کر زمیندار ہی جان سکتے ہیں اس کو شروع میں تو جب جاتے ہیں کھیتوں میں تو تلاش کرتے ہیں کہاں سے کوئی دانہ پھوٹا ہوا ہے اور بعض دفعہ ایک صرف سارے ایکٹر میں یا بعض دفعہ سینکڑوں ایکڑوں میں جو پہلا سبزہ ان کو نظر آتا ہے اس کو دیکھ کر ان کا دل ایسا خوش ہوتا ہے کہ گویا سارے جہان کی دولتیں نصیب ہوگئی ہیں.پھر رفتہ رفتہ وہ روئیدگی بڑھتی ہے اور اچانک مٹیالا رنگ سبزے میں تبدیل ہو جاتا ہے، سارا منظر ہی بدل جاتا ہے لیکن اس وقت بھی اس کی حالت اتنی نازک ہوتی ہے کہ جب تک بیچ کی طاقت اس کو حاصل نہ ہو اس
خطبات طاہر جلد ۳ 669 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء وقت تک فصل اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہوسکتی.چنانچہ میں بھی اسی کیفیت میں سے آج کل گزر رہا ہوں.تمام دنیا میں تمام جماعت کے ذرائع اس بات پر صرف ہورہے ہیں کہ احمدی جلد از جلد مبلغ بن جائے اور اس کوشش کے نتیجے میں اس وقت جو منظر ہے وہ یہ ہے کہ کہیں کہیں سے کوئی سبزی کا دانہ پھوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اس کے پیچھے جماعت کی انتظامیہ کی طاقت ہے جو اس پیج کی طرح ابھی ان کی سر پرستی کر رہی ہے، اس روئیدگی کو بڑھا رہی ہے لیکن عنقریب آپ دیکھیں گے کہ جب ساری دنیا کا احمدی روئیدگی بن کر پھوٹے گا اور پھر مبلغ کی کونپل اس سے نکلے گی اور مضبوط ہو جائے گی اور پھر وہ ایک تناور درخت کی طرح اپنے قدموں پر کھڑا ہو جائے گا تو ساری دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک عظیم انقلاب برپا ہو جائے گا.یہی وہ طریق ہے اسی مثال میں خدا تعالیٰ نے ہمیں غالب آنے کی حکمت بھی بتادی ہے.جس قوم کی مثال یہ ہو کہ کھیتی کی طرح تمہیں بویا جائے گا، کھیتی کی طرح تم نے بڑھنا ہے اور پھر جب تم پھوٹ جاؤ گے اور بڑھ جاؤ گے اور اپنے پاؤں پر کھڑے ہو جاؤ گے تو غیظ وغضب تو ضرور بڑھے گا لیکن یہ غیظ و غضب تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا.يُعْجِبُ الزراع کیوں کہ ہم نے اس خاطر پیدا کیا ہے اس کھیتی کو کہ اس کے بونے والے اسے دیکھ کر خوش ہوں.اگر چہ غضب بھی پیدا ہورہا ہے لیکن غضب ہونا مقصد نہیں ہے مقصد اس کھیتی کا یہ ہے کہ اس سے بونے والوں کو خوشی نصیب ہو.تو اس لحاظ سے بہت ہی عظیم الشان مستقبل مجھے ان خطرات میں سے پھوٹتا دکھائی دے رہا ہے اور یہ فرضی باتیں نہیں ہیں ہر جگہ نئے مبلغ پیدا ہور ہے ہیں، نئے آدمی اپنے آپ کو دن رات تبلیغ کے لئے وقف کر رہے ہیں.دعائیں کر رہے ہیں اور ابھی ان کی کوششیں بھی پوری طرح روئیدگی میں تبدیل نہیں ہوئیں کیونکہ ساری جماعت کی کوششیں مبلغ بنانے والی تو ابھی نسبتاً بہت ہی کم ہیں جو روئیدگی کی صورت میں پھوٹی ہیں.میں تو اس تصور کے ساتھ ہی ایک عجیب عالم میں پہنچ جاتا ہوں خوشی کے کہ جب ساری جماعت اللہ کے فضل سے مبلغین کی جماعت بن چکی ہو اور لکھوکھا احمدی ساری دنیا میں مختلف ادیان کے اوپر اسلام کو اور محمد مصطفی ﷺ کو غالب لانے کیلئے دن رات وقف کئے ہوئے ہوں اور یہ تصور ہی
خطبات طاہر جلد ۳ 670 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء اتنا پیارا ہے، اتنا حسین ہے کہ اس میں کھو کر انسان جنت میں پہنچ جاتا ہے.جب یہ ہوتا دیکھیں گے ہم تو کیا عالم ہوگا ہمارے دل کا اساری دنیا کی طاقتیں آپ کو سمیٹنے کی کوشش کریں گی ،تمام دنیا کی طاقتیں آپ کے گرد باڑیں لگانے کی کوشش کریں گی ، تمام دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں دیوار میں کھڑی کریں گی جس طرح پاکستان کی حکومت آج کل دیواریں کھڑی کرنے میں مصروف ہے لیکن خدا کی قسم آپ کے اندر ایسی قوتیں پیدا ہو جائیں گی خدا کی طرف سے کہ آپ چھلانگیں لگاتے ہوئے ہر اونچی دیوار کو پھلانگ کر آگے نکل جائیں گے، ہر حد کو توڑ دینگے اور لازماً اسلام کی یہ لہر ساری دنیا پر غالب آتی چلی جائے گی.یہ مقدر ہے احمدیت کا جو مجھے اس دشمنی کے پارا اسکے دوسری طرف نظر آرہا ہے اس لئے جماعت کا رد عمل یہی ہونا چاہئے جو قرآن کریم نے مقرر فرمایا ہے.اس غیظ و غضب کو بھول جائیں اور اپنی ترقی کی طرف نگاہ کریں اور روئیدگی کی طرح پھوٹیں اور پھر اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں.پھر اس کے بعد جو مبلغ بن جائے گا پھر اس کو جماعت کو کہنے کی ضرورت نہیں پڑے گی.یہ نقشہ بھی قرآن کریم نے کھینچا ہوا ہے اور بالکل فطرت کے مطابق ہے.ابتدا میں مبلغ کو بنانے کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے وہ بیج سے طاقت لے کر مبلغ بنتا ہے مگر ایک دفعہ بن جائے تو پھر سوال ہی نہیں پیدا ہوتا بیچ اس کے ساتھ وابستہ ہی نہیں رہا کرتا وہ تعلق بھی بعض دفعہ ٹوٹ جاتا ہے پھر بھی وہ بڑھتا ہے اور پھولتا ہے اور پھلتا ہے اور نشو و نما پاتا ہے.یہ ایک ایسا چسکا ہے کہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا جس کو تبلیغ کا چسکا ایک دفعہ لگ جائے پھر اس کو کہنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی کہ تم تبلیغ کر وہاں بعض دفعہ روکنے کی ضرورت پڑتی ہے کہ میاں ذرا ہوش سے، آہستگی سے ، ملائمت سے نرمی سے ، اتنا بھی زیادہ زور نہ دکھاؤ، روکنا پڑتا ہے پھر کئی مبلغین جن کو مجھے سمجھانا پڑتا ہے کہ اتنی تیزی سے نہ کرو کچھ حکمت سے بھی کام لوذ را نرم روش اختیار کرو.لیکن جو مبلغ بنا ہوا ہو اس کو پھر یہ Coax کرنے کی یا انگیخت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ تم نے تبلیغ کرنی ہے.بعض گھرانے جو مبلغ بن چکے ہیں وہ رفتہ رفتہ اتنا بڑھ گئے ہیں کہ نہ ان کے اپنے آرام ان کے پیش نظر ہیں نہ بچوں کے آرام پیش نظر ہیں.بعض دفعہ انگلستان میں ہی بعض خاندان ہیں ساری ساری رات پھر وہ تبلیغ میں صرف کر دیتے ہیں.ہم دیکھتے ہیں تو لگتا ہے باہر والے قربانی دے رہے ہیں لیکن ان سے پوچھیں تو وہ ایک ایسی لذت پاتے ہیں کہ ان کو روکنے والا ان کو برا لگتا ہے کہ یہ مجھے کیا کہہ رہا ہے؟ پس وہ کیفیت ہے
خطبات طاہر جلد۳ 671 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء جماعت کی جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم اسکی طرف بڑھ رہے ہیں اور اور بھی زیادہ تیزی سے قدم بڑھا ئیں گے.ابھی تک افریقن ممالک اور انڈونیشا کے بعد جرمنی اپنی بیداری کے لحاظ سے آگے آگے بڑھ رہا ہے اور انگلستان ابھی بہت پیچھے ہے.چودہ صرف بیعتیں ہوئی ہیں ان کی جب سے میں آیا ہوں اور جرمنی کی ستر سے اوپر ہو چکی ہیں اللہ کے فضل سے اور جو تیاری کی خبریں آرہی ہیں اس سے لگتا ہے کہ بہت سے بیچ جو بس پھوٹنے کے لئے تیار بیٹھے ہوئے ہیں.اسی طرح ہالینڈ خدا کے فضل سے بہت اچھا کام کر رہا ہے بہت چھوٹی سی جماعت ہے لیکن گزشتہ چند مہینوں میں سات بہت اچھے، قابل تعلیم یافتہ احمدی ہوئے ہیں جن کے ساتھ انشاء اللہ ان کا خاندان بھی آئے گا اور پھر جو احمدی ہوتے ہیں ان کے ساتھ خدا تعالیٰ اپنے فضل کے بھی عجیب عجیب کھیل کھیلتا ہے ایسی معجزانہ شان سے ان پر ظاہر ہوتا ہے کہ وہ واقعات بھی عجیب روح پرور واقعات ہیں کثرت سے مختلف لوگ وہ واقعات لکھتے ہیں.بعض نواحمدی خود اپنے واقعات لکھتے ہیں کس طرح خدا نے ان سے پیار کا سلوک کیا خوابوں کے ذریعہ ان پر ظاہر ہوا، ان کو تقویت دی اور پھر معجزانہ طور پر اپنے قرب کا اور اپنے پیار کا جلوہ دکھا کر ان کے دلوں کو زیادہ مطمئن کیا، اپنی ذات پر زیادہ گہرا ایمان ان کے اندر پیدا کر دیا.ان واقعات میں سے ایک ہالینڈ کا واقعہ میں آپ کو بتاتا ہوں.ایک تعلیم یافتہ عیسائی دوست تھے ان کو اسلام میں دلچسپی پیدا ہوئی.انہوں نے مسجد سے رابطہ قائم کیا اور یہ دلچسپی دراصل پیدا اس لئے ہوئی تھی کہ وہ کینسر کے مریض تھے اور ڈاکٹروں نے یہ اعلان کر دیا تھا ان کے متعلق یعنی ظاہر کر دیا تھا کہ ہماری سائنس کے مطابق پندرہ دن سے زیادہ یہ زندہ نہیں رہ سکتا تو ان کو شدید گھبراہٹ پیدا ہوئی کہ میں مرنے سے پہلے سچا راستہ تو پالوں، اپنے رب کے حضور جاؤں گا تو اس سوال کا کیا جواب دوں گا کہ تم نے مجھے تلاش بھی کیا تھایا کہ نہیں ؟ اس جذ بہ سے اس فکر کے نتیجہ میں انہوں نے جستجو شروع کی اور جب وہ ہالینڈ مسجد پہنچے تو ایک دو دن کے اندر ہی ان کو اطمینان ہو گیا اور انہوں نے کہا الحمد للہ اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے اور بیعت فارم پر کر دیا اور ساتھ ہی دعا کے لئے کہا کہ اب دعا کرو، اللہ تعالیٰ مجھے کچھ زندگی اسلام میں دے تاکہ میں اسلام میں رہ کر کچھ خدمت کرسکوں.چنانچہ وہ پندرہ دن کی جو پیشگوئی کی تھی اس کو اب سات مہینے گزر چکے ہیں اور ان کی صحت
خطبات طاہر جلد ۳ 672 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء بجائے گرنے کے اتنی بہتر ہو گئی کہ اب وہ سفر پر آجکل امریکہ گئے ہوئے ہیں اور وہ خود حیرت زدہ ہیں کہ یہ مجھ سے کیا ہو گیا، میں نے تو جانے کی تیاری میں بیعت فارم پر کیا تھا یہ تو میرے جانے کے تو دن ہی مل گئے.تو ایک واقعہ نہیں بہت سے ایسے واقعات ہورہے ہیں اور ویسے بھی ایک تو روئیدگی ہے غیروں کے مقابل پر ایک ہے اندرونی روئیدگی.اس کی مثالیں میں بار ہا آپکے سامنے بیان کر چکا ہوں اس کثرت سے جماعت کے اندر روحانیت زندہ ہو رہی ہے اور نشو ونما پا رہی ہے کہ ان گالیوں کا اگر صرف یہی پھل ملتا تو بھی بہت ہی بڑا اور پیارا پھل تھا.ایک طرف گالیاں بکنے والے اپنے دلوں کو گندہ کر رہے ہیں، اپنی فطرتوں کو مزید مسخ کر رہے ہیں،ان کو لذت آہی نہیں سکتی ان چیزوں میں کبھی بدی میں بھی کوئی لذت ہے؟ جتنا مرضی وہ بولیں ، جتنی مرضی گالیاں دیں، یہ کیفیت ان کے دل کی نہیں بدل سکتی جو خدا نے مقرر فرمائی ہے.لیغیظ بِهِمُ الْكُفَّارَ وہ غیظ و غضب میں مبتلا رہیں گے، غیظ و غضب والا جب تک وہ یہ نہ دیکھ لے کہ جس کے خلاف میرا غیظ ہے وہ مر چکا ہے، مٹ چکا ہے اس وقت تک اس کا غلیظ مٹا نہیں کرتا.تو آپ اپنی تکلیف دیکھ رہے ان کی تکلیف پر بھی تو نظر کریں کیا ان کا حال ہو گیا ہے؟ اچھے اچھے تعلیم یافتہ لوگ بھی بالکل پاگل ہو گئے ہیں.غیظ وغضب میں گالیاں دے دے کر اپنے دلوں کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن آپ مریں تو دل ٹھنڈے ہوں نا ان کے! آپ تو بڑھ رہے ہیں انکی آنکھوں کے سامنے، مزید نشو ونما پار ہے ہیں.پس آپ کے دلوں کے لئے خدا نے فرحت مقدر فرمائی ہے اور اُن کے لئے غیظ وغضب مقدر فرمایا ہے اور وہ جو غیظ و غضب ہے وہ بہت زیادہ تکلیف دہ حالت ہے.احمدی جو درد سے روتے ہیں اور گریہ وزاری کرتے ہیں اور بعض دفعہ اپنے اوپر بڑا رحم بھی کرنے لگ جاتے ہیں.اوہو ہمارا کیا حال ہو گیا اے اللہ ! ہم کہاں پہنچ گئے حالانکہ وہ خود جانتے ہیں ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا کہ خدا کی راہ میں آنسو بہانے میں جو لذت ہے اس کا دنیا کی دوسری لذتیں مقابلہ ہی نہیں کرسکتیں اور حسد کے نتیجہ میں جلنا اور گالیاں دینا اس میں لذت ہی کوئی نہیں.ان کے دلوں پر نظر ڈال کر دیکھیں تو وہ تو پاگل ہوئے پڑے ہیں بے چارے، ایک آگ میں جل رہے ہیں جو بھسم کر رہی ہے ان کو اور ان کو چین نصیب نہیں ہورہا.جتنا زیادہ آپ کو بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں اتنا زیادہ تکلیف میں مبتلا ہیں.واقعاتی
خطبات طاہر جلد ۳ 673 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء حالت تو وہی ہے جو قرآن نے بیان فرمائی ہے.خدا عالم الغیب والشھادۃ ہے اس کی گواہی درست ہے اور واقعہ اگر آپ غور کر کے دیکھیں تو عملاً وہ قابلِ رحم ہیں.آپ کی تو لذت ، آپ کا تو در دہی اور قسم کا ہے.ایسی روحانی لذتیں پارہی ہے ساری جماعت اور دن بدن ترقی کر رہی ہے کہ اللہ کے فضلوں کو دیکھ رہی ہے.اس کے مقابل پر وہ حسد میں جلنے والے ان کی لذت کیسے ہوگی؟ گالیاں دے دے کر لذت کبھی کسی کو آئی ہے؟ پاگل ہو جاتے ہیں بول بول کر ، جھا گیں نکال نکال کر گھر واپس جاتے ہیں پھر ان کو چین نہیں آتا کہ ہم کیا کریں، کچھ پیش نہیں جارہی ، ابھی بھی یہ بڑھ رہے ہیں! ابھی بھی یہ بڑھ رہے ہیں ! ان کے لئے حسرتیں لکھی ہوئی ہیں.آپ کے لئے امنگوں کا پورا ہونا مقدر ہے.زمین و آسمان کا فرق ہے آپ میں اور ان میں اس لئے بظاہر جو اُن کے غلبہ کی حالت ہے بظاہر جو ان کی فتح کی حالت ہے.دراصل اس غلبہ اور فتح میں ہی ان کی نکبت اور ذلت اور ادبار لکھے گئے ہیں اور دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ ان کی حالت قابل رحم حالت ہے وہ قابل فخر حالت نہیں ہے.پھر خدا تعالیٰ ایسی عظمتیں عطا فرما رہا ہے جماعت کو کہ حیرت ہوتی ہے دیکھ کر بعض ایسے اضلاع جہاں بعض گزشتہ ابتلاؤں میں نہایت ہی کمزوری دکھائی تھی جماعت نے اور ان واقعات کو بعض ادوار میں ہم نے دیکھا ہے جب ہم غور کرتے ہیں ان واقعات پر تو شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ بعض احمدی جماعتوں نے کمزوری دکھائی.انہیں علاقوں میں اب خدا تعالیٰ کے فضل سے ایسی عظمت کردار پیدا ہوگئی ہے، ایسا ایثار کا جذبہ بیدار اور زندہ ہو گیا ہے کہ وہ تو آسمان کے ستاروں کی طرح آج روشن دکھائی دے رہے ہیں.ایک ایک آدمی ، ایک ایک عورت، ایک ایک بچہ شدید مخالفتوں کے مقابل پر یوں کھڑا ہے جیسے چٹان کھڑی ہو سیلاب کے سامنے.ایک ذرہ بھی ان کو پروا نہیں.کوئی خوف ان کے اوپر نہیں ہے.ان کے واقعات جب آتے ہیں نظر کے سامنے تو میرا دل تو سجدے کرتا ہے خدا کے حضور کہ عجیب شان ہے تیری ! اتنے خطرناک حالات میں اتنی کمزور جماعتوں کو تو نے کیسی طاقت عطا فرما دی! تو جس جماعت کو خدا اس طرح حو صلے دے رہا ہو اس کا نقصان کا سودا کون سا ہے؟ اس جماعت کے واقعات میں آپ کو بتاتا ہوں مثلاً ایک دلچسپ واقعہ کہ ایک گاؤں ہے چھوٹا سا ایک بڑے گاؤں کے قریب نسبتاً جہاں صرف ایک احمدی گھرانہ تھا.جب انہوں نے قصبوں میں زور لگایا، احمدیوں کو جیلوں میں پھینکا، سلام کرنے کی سزائیں دیں ٹھٹھیوں میں بند کیا، طعنے
خطبات طاہر جلد ۳ 674 خطبه جمعه ۱۶ نومبر ۱۹۸۴ء دیئے، جلوس نے گالیاں دیں، ہر طرح کوشش کر کے دیکھ لی اور جب دیکھا کہ ایک بچہ، ایک عورت، ایک مرد کوئی ایک بھی اپنے دین سے نہیں پھرا اور بڑی شان کے ساتھ سراٹھا کر پھرتا ہے اور ایک ذرہ بھی اس نے کمزوری نہیں دکھائی تو انہوں نے پھر اعلان کرنا شروع کیا مساجد میں تقریریں شروع کر دیں کہ اب ان کا ایک ہی علاج ہے کہ ان سب کو آگئیں لگا دو، مکانوں میں زندہ جلا دو.بڑی شدید اشتعال انگیز تقریریں شروع کیں، کسی احمدی کے ماتھے پر کوئی بل نہیں پڑا بالکل کوئی خوف ظاہر نہیں ہوا اور اسی طرح وہ سر اٹھا کر ان کی گلیوں میں پھرتے رہے کہ اب جو کرنا ہے کرو ایک ذرہ بھی ہم نے تمہارے سامنے نہیں دبنا، جو پیش جاتی ہے تمہاری تم کر کے دکھا دو.ان دنوں کی بات ہے ، ابھی بھی ویسے ہی دن چل رہے ہیں کہ جس گاؤں کا میں نے ذکر کیا ہے وہاں کا ایک احمدی جو گھر کا سر براہ ہے وہ کراچی گیا ہوا تھا تو کراچی میں اس نے جب یہ خبریں سنیں وحشتناک تو اس کا ایمان ڈول گیا دور بیٹھے.اپنے لئے تو شاید نہ ڈولتا لیکن اس نے اپنی بیوی ، اپنی ماں ، اپنے کمزور بچے پیچھے چھوڑے ہوئے تھے.اس نے ایک گاؤں کے مولوی کو خط لکھا جو نسبتاً بڑا گاؤں پاس ہے اور خط میں نے اس نے لکھا کہ دیکھو مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس طرح تم لوگ ارادہ کر رہے ہو تو میں مرزائیت سے تو بہ کرتا ہوں اس لئے بجائے اس کے کہ تم میرے گھر کو آگ لگاؤ اور جا کر تکلیف دو میرے معصوم بچوں کو میں تمہارے سپردکرتا ہوں اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ آؤں گا تو تمہاری مسجد میں کھڑے ہو کر اعلان بھی کر دوں گا کہ میرا جماعت سے کوئی تعلق نہیں اس لئے اب تم ان کو جا کر تسلی دو اور ان کی حفاظت کا انتظام کرو.مولوی صاحب تسلی دینے پہنچ گئے وہاں گھر اس کی بوڑھی ماں اور بیوی گھر میں تھے جب انہوں نے سنا تو ان کو تو آگ لگ گئی.انہوں نے کہا مولوی ! تم کس خیال میں آئے ہو! تم ہماری حفاظت کرو گے؟ جو کچھ تم سے بنتی ہے کرو، ہمارا صرف خدا حافظ ہے، ہمیں ایک ذرہ بھی پروا نہیں تمہاری حفاظتوں یا تمہاری دشمنیوں کی اور کس کی بات کر رہے ہو؟ اس شخص سے تو ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہے جس شخص کا تم نے نام لیا ہے آئندہ اس کا نام ہمارے سامنے نہیں لینا اور پھر دونوں ماں اور بیوی نے ایک خط لکھا اس کو اور خط میں لکھتی ہے ایک فقرہ اسکا میں آپ کو سناتا ہوں : اگر عید پر آکر تم نے اعلان کیا کہ میں احمدی نہیں ہوں تو اس گاؤں میں اپنے لئے بیوی بھی اور کر لینا اور ماں بھی کسی اور کو بنالینا.ہمارا تمہارے
خطبات طاہر جلد ۳ 675 ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے.خبردار! جو اس گھر میں قدم رکھ کے بھی دیکھا.“ خطبه جمعه ۱۶ رنومبر ۱۹۸۴ء یہ احمدی عورتوں اور بوڑھوں کی حالت ہے جو ایک شدید خطرناک علاقے میں دشمنوں کے درمیان گھرے بیٹھے ہیں.دشمن حفاظت کے لئے پیشکش کرتا ہے اور یہ اس حفاظت کو دھتکار دیتے ہیں ہمیں کوئی پرواہ نہیں ہے تمہاری حفاظتوں کی ، صرف خدا ہے جو ہمارا حافظ وناصر ہے.اسی علاقے میں اللہ تعالیٰ نے دلوں کو ڈھارس دینے کے لئے بعض دلچسپ رنگ میں اپنی تائید کے، اپنی نصرت کے اظہار بھی فرمائے.بظاہر چھوٹے سے واقعات ہیں لیکن حقیت یہ ہے کہ جن پر گزر رہی ہو جو صاحب تجربہ ہوں ان کو پتہ ہوتا ہے کہ بعض دفعہ پیار کے انداز بظاہر چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ان میں کتنا گہرا پیار پوشیدہ ہوتا ہے.اب جو میں واقعہ آپ کو سنانے لگا ہوں اگر کوئی مخالف سنے تو ہنسے گا ، مذاق اڑائے گا.وہ تو ہر بات پر مذاق اڑاتے ہیں کہ لوجی ان کا خدا اس طرح ان کی تائید کرتا ہے لیکن جن کا خدا جن کی تائید کرتا ہے ان کو پتا ہے کہ خدا کے ایک ہلکے سے اشارہ میں ایک غفلت کی نظر میں بھی کتنا پیار پوشیدہ ہوتا ہے اور کتنا لطف پوشیدہ ہوتا ہے.وہاں ایک احمدی دوست ، جس علاقے کی میں بات کر رہا ہوں اسی بڑے گاؤں کے ایک احمدی دوست ہمیشہ عید کے موقع پر ایک بیل ذبح کیا کرتے تھے اور پرانا ان کا دستور تھا اور وہ بڑی محبت سے بڑے شوق سے بیل پالتے تھے اور پھر اسے اپنے گھر کے صحن میں ذبح کیا کرتے تھے.پچھلی جو عید آئی تو وہ قید کر لئے گئے ، جو لوگ پکڑے گئے ان میں سے ایک یہ صاحب بھی تھے.کئی لوگوں کے نام لکھائے گئے کہ انھوں نے ہمیں دھمکیاں دیں ہمیں گالیاں دیں.بہر حال یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرضی قصہ مولویوں نے بنایا تھا کہ ہمیں قتل کی دھمکیاں دیں یہ ان میں سے تھے.عید کا دن آگیا مگر اس صحن میں اس دن کوئی بیل ذبیح نہیں ہورہا تھا اور گھر والے بڑی حسرت سے یاد کر رہے تھے کہ کبھی عید کے دن ہمارا باپ یا بھائی یا خاوند جوبھی تھاوہ یہاں یہ کام کیا کرتا تھا، ذبیح کرتا تھا خدا کے نام پر تو ایک عجیب نظارہ انہوں نے دیکھا.انہوں نے دیکھا کہ اچانک دروازہ کھلا ہے اور ایک بیل دوڑتا ہوا اس گھر میں داخل ہوا ہے اور اس کی گردن آدھی کٹی ہوئی ہے اور پیچھے پیچھے کچھ لوگ بڑی وحشت سے دوڑتے ہوئے داخل ہوئے صحن میں اور انہوں نے بیل کو پورے زور سے اسی گھر سے باہر نکالنے کی کوشش کی لیکن بیل نے انکار کر دیا، کسی قیمت پر وہ وہاں سے نہیں نکلتا
خطبات طاہر جلد ۳ 676 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء تھا.واقعہ یہ ہوا کہ اس گھر کے قریب ایک اور جگہ کچھ لوگ ایک بیل کو ذبح کر رہے تھے، ابھی آدھی گردن اس کی کئی تھی کہ وہ اٹھ کر دوڑا اور دوڑ کر اس شخص کے صحن میں داخل ہوا.وہ احمدی جو قید تھا خدا کے نام پر اور جو اپنے گھر میں بیل ذبح کیا کرتا تھا اور پھر وہ نہیں نکلا یہاں تک کہ جس جگہ وہ بیل ذبح کیا کرتا تھا وہاں اس کو انہوں نے لٹایا تو پھر وہاں وہ لیٹا ہے اور وہیں اس کو ذبح کیا گیا.اب وہ بیچارے تو شاید سمجھتے رہے ہوں کہ یہ وہ قربانی دے رہے ہیں یہ اللہ جانتا ہے کہ وہ قبول کس کی طرف سے ہوئی ہوگی.اب یہ چھوٹا سا واقعہ ہے لیکن اس سے خدا تعالیٰ کے پیار کا کیسا اظہار ہوتا ہے ! کس طرح وہ بار یک نظر سے اپنے بندوں کو دیکھتا ہے اور اپنے پیار کے چھینٹے دیکر انہیں زندہ رکھتا ہے.یہ تو پیار کے اظہار کا ہے ، خدا تعالیٰ کے انتقام بھی اسی طرح جگہ جگہ ظاہر ہور ہے ہیں اور بڑی کثرت سے اطلاعیں مل رہی ہیں کہ انفرادی طور پر بعض احمدیوں کے دل دکھتے ہیں، ان کے دل سے ایک آہ نکلتی ہے تو اس رنگ میں خدا تعالیٰ فوراً حساب چکاتا ہے کہ وہ حیران رہ جاتے ہیں دیکھ کر.ایک احمدی استانی نے مجھے لکھا کہ میں ایک گاؤں میں استانی مقرر ہوئی جہاں کوئی احمدی نہیں ہے تو مجھے ایک غیر احمدی معزز خاندان نے جو بہت ہی شریف لوگ ہیں انہوں نے جگہ دی کہ تم بہت دور سے تو آہی نہیں سکتی اتنا دور ہے تمہارا اصل گھر یہاں ہمارے پاس ٹھہر جاؤ چنانچہ میں ان کے پاس ٹھہری ہوئی تھی.مخالفت جب ہوئی تو شور مچا دیا سب نے کہ اس کو گھر سے نکالو.گھر والے شریف تھے انہوں نے کہا ہم نہیں نکالیں گے.انہوں نے کہا اچھا اگر نہیں نکالو گے تو ہمارے گاؤں کے کنوئیں سے تم نے پانی نہیں بھرنا کیوں کہ اس پلید عورت کو گاؤں کا پانی پلایا جائے گاؤں کے کنواں کا یہ بھی ہم برداشت نہیں کر سکتے.چنانچہ انہوں نے اپنے گھر میں نلکا لگالیا اور پانی پینے لگے.کچھ دن کے بعد گاؤں میں شور پیدا ہوا کہ اس کنواں کا پانی جو ہے وہ کچھ بدل سا گیا ہے اس میں عجیب قسم کی بد بو پیدا ہونی شروع گئی ہے تحقیق کی تو پتہ لگا کہ ایک کتا وہاں گر کر مر گیا تھا جس کا کسی کو پتہ نہیں چلا.جب وہ گل کر بد بو چھوڑ گیا اس وقت جا کر ان کو پتہ چلا کہ جتنی دیر انہوں نے مرزائین کا پانی بند کئے رکھا ہے اتنی دیروہ کتے کا مرا ہوا گندا پانی پی رہے تھے اور وہ عورت کہتی ہے کہ میرا دل جو تھا پہلے بڑا سخت درد محسوس کرتا تھا میں سخت بے قراری محسوس کرتی تھی دل میں کہ اے اللہ ! مجھے کتوں سے زیادہ ذلیل سمجھا ہوا ہے انہوں نے کہ پانی جو میں پی لونگی دور بیٹھے وہ اور وہ اس پانی کو بھی پلید کر دے گا جہاں سے نکل
خطبات طاہر جلد ۳ 677 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء کر آیا ہے! تو جب خدا نے یہ نظارہ مجھے دکھایا تو ایسی مجھے لذت حاصل ہوئی خدا کے پیار کے اظہار پر کہ سارے دکھ پچھلے بھول گئے بلکہ میں شرمندگی محسوس کرتی ہوں کہ میں نے اس بات پر تکلیف کیوں محسوس کی؟ یہ جو ایک دو واقعات میں بیان کر رہا ہوں وقت کی مناسبت سے مجبوراً تھوڑے واقعات بیان کرنے پڑتے ہیں.ایک دفعہ دو تین پچھلے خطبے لمبے ہو گئے تھے تو ہمارے ایک نوجوان ہیں نوجوان تو نہیں مگر بہر حال بوڑھے بھی نہیں ہوئے ابھی مخلص ہیں بچارے یہاں تشریف لائے ہوئے تھے جمعہ پر اور ذیا بیطس کے مریض ہیں تو انہوں نے مجھ سے شکوہ کیا کہ آپ نے اتنا خطبہ لمبادیا کہ میرا تو بھوک کے مارے برا حال تھا، میں ذیا بیطس کا مریض ہوں مجھے لگتا تھا میں بے ہوش ہو کر جا پڑوں گا.واقعہ یہ ہے کہ مجھے علم ہے بعض دفعہ خطبے لمبے ہو جاتے ہیں لیکن اصل میں صرف آپ نہیں ہیں جو میری آنکھوں کے سامنے بیٹھے ہیں.پاکستان کے لوگ بیچارے اتنا تر سے ہوئے ہیں کہ ان کو لمبے خطبے بھی چھوٹے لگتے ہیں اور اکثر مجھے یہ شکوہ آتا ہے ہر خط میں کہ ابھی ہم نے شروع ہی کی تھی Tape تو ختم بھی ہوگئی ، ہم تو انتظار کر رہے تھے کہ ابھی اور مزہ آئے گا تو اچانک Tape ختم ہوگئی اس لئے بعض دفعہ آپ کو اگر صبر کا مظاہرہ کرنا پڑے، کوفت بھی اٹھانی پڑے تو اگر ان بھائیوں کا خیال کریں گے تو آپ کو اللہ تعالیٰ اس کی جزا عطا فرمائے گا.غالب کہتا ہے: کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں میری آواز گر نہیں آتی ( دیوان غالب صفحه : ۲۵۰) میرا بھی یہی حال ہے.میں تو اپنے لئے نہیں بولتا مجھے تو ان پیاروں کی یاد آتی ہے جوان دنوں کو ترس گئے ہیں جب مسجد اقصیٰ میں خطبے ہوا کرتے تھے ، لوگ اکٹھے ہوا کرتے تھے، باہر سے دور دور سے لوگ آتے تھے اور وہ یادیں ان کو آتی ہیں، تو انتظار ہی ان کا اب یہ رہ گیا ہے کہ کب ٹیپ (Tape) آئے اور کب ہم ان آوازوں کو سنیں.جہاں تک اہل ربوہ کا تعلق ہے میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ خدا کے فضل سے ان کو غیر معمولی قربانی کی توفیق مل رہی ہے اور نشو و نما ان کے ہاں بھی بڑی حیرت انگیز ہورہی ہے.سارے
خطبات طاہر جلد ۳ 678 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء پاکستان میں ایمان کی عجیب کیفیت ہے، یوں لگتا ہے کہ روحوں پر انقلاب بر پا ہو گیا ہے.جن لذتوں سے بالکل نا آشنا ، نابلد تھے لوگ ان روحانی لذتوں کو پاگئے ہیں اور اب ان لذتوں سے دل لگا بیٹھے ہیں.عبادتوں کے رنگ بدل گئے ، گفتگو کے رنگ بدل گئے ، باہمی تعلقات کے رنگ بدل گئے.اس کثرت سے اطلاعیں آرہی ہیں ایک دوسرے کو معاف کرنے کی میں نے پہلے بھی واقعات بتائے تھے کہ حیرت ہوتی ہے یہ دیکھ کر گاؤں کے گاؤں ایسے ہیں جہاں شدید پرانی دشمنیاں چلی آرہی تھیں اب وہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں مبتلا ہو کر ان کی کیفیات بدل گئی ہیں رُحَمَاءُ بَيْنَهُم بنتے چلے جارہے ہیں تو اہل ربوہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایمان میں عجیب ترقی کر چکے ہیں چنانچہ ایک نوجوان کے ایک خط سے اقتباس آپ کو سناتا ہوں وہ لکھتے ہیں : ربوہ کی مقدس سرزمین کے شب وروز کا تذکرہ کرنے لگا ہوں اور معصوم چہروں والے اداس اداس پھرنے والے اپنے امام کے انتظار میں بے قرار آنکھوں والے صبر کی انتہائی بلندیوں کو چھونے والے فقیروں کی داستان بیان کرنے لگا ہوں.حضور ! نفوس میں عجیب اور عظیم الشان تبدیلی کا بڑا ہی دلکش منظر ہے.جوں جوں آگ نفرت کی ، غلیظ گالیوں کی فتنوں کی ، حقوق کی تلفی کی اور زندگی چھین لینے کی بھڑکائی جارہی ہے آپ کے درویش کندن بن رہے ہیں،ان کے چہرے دن بدن روشن ہوتے جارہے ہیں.ابھی کچھ دن پہلے کا واقعہ ہے کہ خاکسار نے آپ کا ۲۱ ستمبر ۱۹۸۴ء کا خطبہ جمعہ محلہ کے کچھ احباب کو سنانے کا انتظام کیا، کیسٹ لگا کر ایک طرف ہو کر بیٹھ گیا، جیسے ہی تلاوت کی آواز کمرے میں گونجی چہرے اس طرح کھل اٹھے اور روشن ہو گئے جس طرح اندھیرے کمرے میں اچانک کسی نے روشنی کر دی ہو.وہ چہرے جو کچھ دیر پہلے تھکے تھکے مرجھائے مرجھائے اور اداس تھے ، کچھ دنیاوی کاموں کی وجہ سے، کچھ مسجد اسٹیشن کے لاؤڈ سپیکروں سے آنے والی مولانا کی گندی گالیوں کی وجہ - سے.یہ سب مزدور پیشہ لوگ تھے ،کوئی چائے کا کام، کوئی روغن کا کام، کوئی
خطبات طاہر جلد ۳ 679 خطبه جمعه ۱۶ رنومبر ۱۹۸۴ء مستری کا کام کرتا ہے.یہ اس طبقہ کے لوگ تھے جو روزمرہ کے معاملات میں عموماً سخت دل ہوتے ہیں.ان کی گھریلو زندگی بسا اوقات تلخیوں کا شکار ہوتی ہے اور وہ اپنی اولاد سے بھی بعض دفعہ بہت سختیاں روا ر کھتے ہیں.اس عمومی مشاہدہ کے نتیجہ میں میں بھی انہیں سخت دل ہی سمجھا کرتا تھا مگر جیسے جیسے باتیں آگے بڑھتی نہیں ان کی آنکھوں سے عقیدت اور پیار کے انمول موتی موسلا دھار بارش کی طرح برسنے لگے اور برستے چلے گئے.آج مجھے یہ سب بہت معصوم اور پیارے لگ رہے تھے اور نرم خو بچوں سے بھی زیادہ نرم دکھائی دے رہے تھے.جیسے ہی احمدیت کے ان دیوانوں نے یہ الفاظ سنے ” اے ربوہ کے مقدس درویشو ! اور اے خدا کے در کے فقیرو میں تو ملا جا چکا ہوں“.تو خدا کی قسم دھاڑیں مار مار کر رونے لگے جیسے دریا کا بند اچانک ٹوٹ جائے.میں حیران و پریشان یہ منظر دیکھتا رہا.اس وقت ہوش آیا جب آنکھوں سے گرم گرم قطرے ٹپک ٹپک کر مجھے تر کرنے لگے.جانے کب سے یہ سلسلہ عشق جاری تھا میں نے سوچا ہاں یہی لوگ خلیفہ وقت کے اصل درویش ہیں.ہاں یہی اللہ کے در کے فقیر ہیں.ربوہ کے ان باسیوں کو آپ کس نام سے پکاریں گے.دلوں کو چیر کرکون سے پیمانے سے اس پیار اور محبت اور عقیدت کو ما پا جائے گا.ان کا بس چلے مگر افسوس کہ ان کا بس نہیں چلتا.دنیاوی لوگوں کو تو بڑے بڑے خطابات سے نوازا جاتا ہے اور وہ ان خطابات کے نتیجہ میں اپنی بڑائی اور تکبر میں اور بھی زیادہ آگے نکل جاتے ہیں.مگر اے جان سے عزیز آقا! ربوہ کے بسنے والے یہ لوگ درویش اور خدا کے در کے فقیر کے خطاب سے اس قدر خوش ہیں کہ خوشی سے پھولے نہیں سماتے.ان کو معلوم ہے کہ یہ آسمانی خطاب ہیں جو ان کے چہروں پر لکھے گئے ہیں.عجیب شان ہے ان کی سبحان الله وبحمدہ سبحان الله العظیم“.تو ایک طرف دشمن گندگی میں غیظ و غضب میں اپنے نفس کو جلانے میں بہت تیزی کے
خطبات طاہر جلد۳ 680 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء ساتھ آگے بڑھ رہا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ احمدیوں کو اپنے فضل سے روحانیت کے بلند سے بلند تر آسمانوں کی طرف اڑائے لئے چلا جارہا ہے.یہ منزلیں خواب و خیال میں بھی نہیں آسکتی تھیں کسی ریڑھی لگانے والے کے، کسی موچی کے کسی دن بھر مزدوری میں اپنی جان دلانے والے کے تصور میں بھی نہیں آسکتی تھیں.یہ روحانیت کی کیفیات ہیں جو اللہ کے پیار کے نتیجہ میں نصیب ہوتی ہیں.تو وہ نشو ونما جس کا ان آیات میں ذکر ہے جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھیں وہ زندگی کے ہر میدان میں دکھائی دے رہی ہے اور جب یہ دکھائی دے رہی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ غضب پیدا نہ ہو؟ اب ہم اپنا بڑھنا تو نہیں روک سکتے کہ غیر کو تکلیف ہوتی ہے اور غیر کی تکلیف آپ کا بڑھنا نہیں روک سکتی کیونکہ ان کے لئے مقدر نہیں ہے اس لئے بے فکر ہو کر آگے بڑھتے چلے جائیں.اللہ تعالیٰ نے پہلے مجھے رویا کے ذریعہ بعض خوشخبریاں عطا فر ما ئیں اور پھر ایک بہت ہی پیارا کشفی نظارہ دکھایا جو میں آپ کے سامنے بیان کرنا چاہتا ہوں.چند روز پہلے تقربیا دو ہفتے پہلے شاید اچانک میں نے ایک نظارہ دیکھا کہ اسلام آباد جو انگلستان میں ہے اس وقت ہمارا یورپین مرکز انگلستان کے لئے.وہاں میں داخل ہو رہا ہوں اس کمرے میں جہاں ہم نے نماز پڑھی تھی اور سب دوست صفیں بنا کر بیٹھے ہوئے ہیں اسی طرح انتظار میں تو عین.مصلے کے پیچھے چوہدری محمد ظفر اللہ خاں صاحب اپنی اس عمر کے ہیں نظر آرہے ہیں جو ۲۰/۱۵ سال پہلے کی تھی اور رومی ٹوپی پہنی ہوئی ہے، وہ جو پرانے زمانہ میں پہنا کرتے تھے اور نہایت ہشاش بشاش عین امام کے پیچھے بیٹھے ہوئے ہیں.مجھے دیکھتے ہی وہ نماز کی خاطر اٹھ کر کھڑے ہوئے اور میں ان کی طرف بڑھنے لگا کہ پوچھوں چوہدری صاحب آپ کب آگئے ، آپ تو بیمار تھے اچانک کیسے آنا ہوا؟ تو وہ نظارہ جا تا رہا.آنکھیں کھلی تھیں اور جو منظر سامنے ویسے تھا وہ سامنے آ گیا.تو اللہ تعالیٰ ایسی خوشخبریاں بھی عطا فرما رہا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی نصرت اور اسکے ظفر کے وعدے انشاء اللہ تعالیٰ جلد پورے ہوں گے تو یہ باتیں ان کے علاوہ ہیں.جماعت تو ہر حال میں ترقی کر ہی رہی ہے جتنا خدا انتظار کروائے ہم کریں گے انشاء اللہ کیونکہ ہم کھو کچھ نہیں رہے ہمارے ہاتھ سے جا کچھ نہیں رہا.ایک دکھ ہے اللہ کے لئے جو ہمیں پہلے سے زیادہ اور آگے بڑھاتا چلا جارہا ہے اس لئے نقصان کا کوئی سودا تو ہے ہی نہیں ، میں اس لئے تسلی نہیں دے رہا مگر میں یہ بتا رہا ہوں کہ اللہ کے رنگ عجیب ہیں.وہ بظا ہر قربانی
خطبات طاہر جلد ۳ 681 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء لیتا ہے اور حقیقت میں وہ ترقی ہورہی ہوتی ہے اور پھر اس مزے اس روحانی لذت کے بھی بدلے عطا فرماتا ہے.یہ وعدے ہیں خدا کے جن کی طرف میں آپ کو توجہ دلا رہا ہوں.چنانچہ اس کشفی نظارہ کے بعد پھر اللہ تعالیٰ نے ایک اور کرم یہ فرمایا جن دنوں پاکستان کے حالات کی وجہ سے بعض شدید کرب میں راتیں گزریں تو صبح کے وقت الہاما بڑی شوکت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” السلام علیکم اور ایسی پیاری ایسی روشن کھلی آواز تھی اور آواز مرزا مظفر احمد کی معلوم ہو رہی تھی یعنی بظاہر جو میں نے سنی آواز اور یوں لگ رہا تھا جیسے وہ میرے کمرے کی طرف آتے ہوئے السلام علیکم کہتے ہوئے باہر سے ہی شروع کر دیا السلام علیکم کہنا اور اندر داخل ہونے سے پہلے السلام علیکم کہتے ہوئے آنے والے ہیں.تو اس وقت تو خیال بھی نہیں تھا کہ یہ الہامی کیفیت ہے کیوں کہ میں جا گا ہوا تھا پوری طرح لیکن جو ماحول تھا اس وقت اس سے تعلق کٹ گیا تھا.چنانچہ فوراً میرا رد عمل ہوا کہ میں اٹھ کر باہر جا کر ملوں ان کو اور اسی وقت وہ کیفیت جو تھی وہ ختم ہوئی اور مجھے پتہ چلا کہ یہ تو خدا تعالیٰ نے نہ صرف یہ کہ السلام علیکم کا وعدہ دیا ہے بلکہ ظفر کا وعدہ بھی ساتھ عطا فرما دیا ہے کیونکہ مظفر کی آواز میں ”السلام علیکم پہنچانا یہ ایک بہت بڑی اور دوہری خوشخبری ہے اور پہلے بھی ظفر اللہ خاں ہی خدا تعالیٰ نے دکھائے اور دونوں میں ظفر ایک قد رمشترک ہے.تو اس لئے میں آپ کو اطمینان دلاتا ہوں، یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ ظلم کی آگ بھڑ کا نا بند کر دیں گے.ابراھیم علیہ السلام کے مخالفین نے ظلم کی آگ بھڑ کانی بند تو نہیں کی تھی بھڑ کانے کے نتیجہ میں خدا نے فرمایا تھا: ينَارُ كُونِى بَرْدًا وَّ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ (الانبياء: ٧٠) چنانچہ آگ شاید اور بھی بھڑ کا ئیں لیکن یہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ آگ اسی طرح آپ کی بھی غلام ہوگی جیسے مسیح موعود علیہ السلام کی غلام بنائی گئی تھی اور خدا تعالیٰ کی سلامتی کا وعدہ آپ کی حفاظت فرمائے گا.بالکل بے خوف ہوں اور شیروں کی طرح غراتے ہوئے اس میدان میں آگے بڑھتے چلے جائیں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس الہام کے بعد مجھے کامل یقین ہے ایک ذرہ بھی اس میں شک نہیں، سارے میرے خوف خدا نے دور فرما دیئے ہیں اور میں کامل یقین رکھتا ہوں کہ یہ چند مولویوں کی لعنتیں کیا چیز ہیں ساری دنیا کی زمینی اگر لعنتیں ڈالیں گے، کروڑوں اربوں لعنتیں بھی اگر زمین سے
خطبات طاہر جلد ۳ 682 خطبه جمعه ۱۶/ نومبر ۱۹۸۴ء اٹھیں گی تو خدا کی قسم زمین کی لعنتیں آپ کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکیں گی.میرے خدا کا ایک سلام ایسی قوت رکھتا ہے کہ ساری لعنتیں اس سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائیں گی اور نا کام ہونگی اور نا مراد ہونگی.خدا کی آواز میں السلام علیکم جماعت کو میں پہنچاتا ہوں اور یقین دلاتا ہوں کہ یہ سلامتی آپ کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے.کوئی نہیں جو اس سلامتی کومٹا سکے.یہ کیا چیز ہیں ان کی گالیاں کیا چیز ہیں؟ ان کا ایک ہی جواب ہے پہلے سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ آگے بڑھیں ، زیادہ شان کے ساتھ اسلام کا قافلہ شاہراہ غلبہ اسلام پر آگے سے آگے بڑھتا چلا جائے.یہ شور و غوغا ، یہ تو قافلوں کے مقدر میں لکھا ہوا ہے، ان کی آواز میں بے معنی اور حقیر ہیں اور یہ پیچھے رہ جانے والی آواز میں ہیں.ہر منزل پر نئے شور آپ سن سکتے ہیں لیکن ہر منزل کے شور مچانے والے پیچھے رہتے چلے جائیں گئے.ایک ہی علاج ہے کہ اپنی رفتار کو تیز سے تیز تر کر دیں یہاں تک کہ ان کا شور و غوغا آپ کی گرد کو بھی نہ پہنچ سکے.اس تیزی کے ساتھ ، اس شان کے ساتھ غلبہ اسلام کی شاہراہ پر آگے بڑھتے چلے جائیں کہ دیکھتے دیکھتے وہ وعدہ جو اس آیت میں کیا گیا ہے لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّم آپ کے ذریعہ ہاں آپ کے ذریعہ وہ دن ہم اپنی آنکھوں کے ساتھ ابھرتا ہوا دیکھیں ، وہ سورج اپنی آنکھوں کے سامنے ابھرتا ہوا دیکھیں کہ اسلام سارے ادیان پر غالب آچکا ہو اور میرے آقا ومولا آپ کے آقا و مولا ہمارے آقا و مولا حضرت محمد مصطفی ﷺ تمام دنیا پر غالب آچکے ہوں.ایک ہی خدا ہو اور ایک ہی رسول ہو اور ایک ہی راجدھانی ہو اور وہ اسلام کی راجدھانی ہو.(آمین)
خطبات طاہر جلد ۳ 683 خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۸۴ نیک خیالات کے مطابق اپنے اعمال نیک بنا ئیں (خطبه جمعه فرموده ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ وَالَّذِيْنَ يَمْكُرُونَ السَّيَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَكْرُ أُولَبِكَ هُوَ يَبُوْرُ (فاطر: ۱۱) اور پھر فرمایا: جیسے مادی دنیا میں ہر حرکت کیلئے ایک توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ویسا ہی حال انسانی معاملات کا ہے اور ہر انسانی حرکت کے لئے خواہ وہ جسم کی ہو یا تصورات کی ہو کسی نہ کسی توانائی کے ذخیرہ کی ضرورت ہوا کرتی ہے اور بعینہ یہی عالم روحانی دنیا کا بھی ہے.روحانی دنیا میں بھی کسی توانائی کے ذخیرہ کی ضرورت پڑتی ہے.مادی دنیا میں خواہ کیسی ہی طاقتور اور عمدہ اور کارآمد مشین بنائی گئی ہو یا نہایت ہی بڑا اعلیٰ پیمانے کا کارخانہ تیار کر دیا گیا ہو اگر توانائی آپ اس سے کھینچ لیں تو وہ ساری محنت، ساری کوشش، ساری صناعی بے کار چلی جائے گی.اسی طرح انسانی معاملات میں بھی کئی قسم کے توانائی کے ذخیرے ہیں جن کو استعمال کر کے انسانی معاملات حرکت میں لائے جاتے ہیں.محبت بھی اس میں اثر انداز ہوتی ہے اور نفرت بھی اثر انداز ہوتی ہے.غصہ بھی اثر انداز ہوتا ہے اور رحم بھی اثر
خطبات طاہر جلد ۳ 684 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ انداز ہوتا ہے.بشاشت کا بھی انسانی اعمال اور انسانی تصورات کی حرکت پر اثر پڑتا ہے اور پژمردگی کا بھی انسانی اعمال اور انسانی تصورات پر اثر پڑتا ہے.غرضیکہ آپ انسانی معاملات کی کنہ تک پہنچ کر دیکھیں تو ایک بھی ایسا انسانی تصور یا انسانی فعل نہیں جو حرکت میں آیا ہو اور اس کے پیچھے کوئی جذ بہ کار فرمانہ ہومگر جذبات کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ وہ دونوں طرح سے استعمال ہو سکتے ہیں اور یہی حال توانائی کے ہر دوسرے ذخیرہ کا ہے.دریا کا پانی ایک توانائی ہے جو بہہ رہا ہے.اگر عقل مند ہوشیار تو میں اس کو قابو کر کے مسخر کر کے بجلی بنانے کے کام میں نہ لائیں یا نہریں چلا کر زمینوں کی آبیاری کے کام میں نہ لائیں تو وہی پانی بعض دفعہ سیلاب بن کر امڈتا ہے اور دور دراز تک کے علاقوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے، زندگی کی بجائے موت کا پیغام بکھیر دیتا ہے تو توانائی فی ذاتہ اگر چہ ضروری ہے اور اس کے بغیر کوئی انسانی عمل یا تفکرات حرکت میں نہیں آ سکتے مگر کس رنگ میں وہ حرکت میں آئیں گے؟ اس توانائی کا کیا اثر انسانی زندگی پر رونما ہو گا ؟ یہ ہے وہ بنیادی مسئلہ جو غور طلب ہونا چاہئے.قرآن کریم نے اس کے ہر قسم کے اثرات کا مختلف آیات میں ذکر کیا ہے چنانچہ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں خوف کا بھی انسانی زندگی پر اثر پڑتا ہے اور طمع کا بھی انسانی زندگی پر اثر پڑتا ہے.بعض اوقات خوف کے نتیجہ میں لوگ پژمردہ ہو کر ہمتیں ہار دیا کرتے ہیں اور مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں، بعض دفعہ خوف کی زیادتی لوگوں کے ایمان کو متزلزل کر دیتی ہے اور بعض دفعہ خوف کے نتیجہ میں مایوس ہونے کی بجائے ان کی امیدیں اور بڑھ جاتی ہیں تو صرف توانائی فی ذاتہ کافی نہیں اہم تر مسئلہ یہ ہے کہ اس توانائی کو کیسے استعمال کیا جائے اور کیا اثرات اس کے مترتب ہوں؟ چنانچہ قرآن کریم ان دونوں قسم کی توانائی کی کیفیات کا مختلف آیات میں ذکر فرماتا ہے ایک جگہ فرماتا ہے: فَإِذَا جَاءَ الْخَوْفُ رَأَيْتَهُمْ يَنْظُرُونَ إِلَيْكَ تَدُورُ أَعْيُنُهُمْ كَالَّذِي يُغْشَى عَلَيْهِ مِنَ الْمَوْتِ (الاحزاب : ۲۰) کہ بعض لوگ ایسے ہیں کہ جب ان پر خوف آتا ہے اے محمد علے تو انہیں دیکھے گا کہ ان کی آنکھیں اس طرح پلٹ رہی ہوتی ہے جیسے کسی شخص پر موت کی غشی طاری ہو جائے ، آنکھیں پلٹ جاتی ہیں سیاہی نظر نہیں آرہی ہوتی صرف سفیدی دکھائی دیتی ہے.تو فرمایا ایک ایسے لوگ بھی ہیں جن پر
خطبات طاہر جلد۳ 685 خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۸۴ خوف کا یہ اثر ہے اور دوسری جگہ فرمایا کہ دوسری طرف ایسے بھی تیرے غلام ہیں فَزَادَهُمْ إِيمَانًا ( آل عمران : ۱۷۴) اسی خوف نے ان کے ایمان کو بڑھا دیا ہے ان کے اندر نئی زندگی پیدا ہوگئی ہے.پھر ایک اور جگہ خوف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (السجده: ۱۷) که عجیب خدا کے بندے ہیں کہ جن پر خوف طاری ہوتا ہے تو بجائے اس کے کہ ان کی امیدیں لے جائے ، ان کی امنگوں کو کھا جائے ، وہ خوف ، جب وہ تیرے حضور رات کو اٹھ کر جھکتے ہیں اور اپنے خوف کو استعمال کرتے ہیں دعاؤں کیلئے تو وہ مایوسی کی بجائے طمع کا موجب بن جاتا ہے.خَوْفًا وَطَمَعًا دونوں کو اکٹھا استعمال فرمایا حالانکہ بظاہر خوف کے ساتھ طمع کا تعلق کوئی نہیں.جب خوف ہو تو امیدیں، تمنائیں ساری ملنی شروع ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ خوف کوئی آرزو باقی نہیں چھوڑتا لیکن خدا کے پاک بندوں پر خوف کا ایک بالکل مختلف اثر پڑتا ہے.وہ چونکہ خوف کے نتیجہ میں خدا کے حضور اٹھتے ہیں اور دعائیں کرتے ہیں اس لئے ان کا خوف ان کے لئے طمع لے کر آتا ہے.اس لئے پہلے خوف کا ذکر فرمایا بعد میں طمع کا ذکر فرمایا.ان کا ایک دوسرے کے ساتھ یہی تعلق ہے کہ خوف کے نتیجہ میں وہ مجبور ہو جاتے ہیں اپنے رب کے حضور راتوں کو اٹھ کر گریہ وزاری کے لئے اور جب وہ خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہیں تو حیرت انگیز ایک انقلاب رونما ہوتا ہے.ان کا خوف طمع میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے اور وہ امیدیں لگا بیٹھتے ہیں خدا سے کہ خوف ہمارا نقصان نہیں کرے گا بلکہ ہمیں کچھ دے کر جائے گا اور ایسا ہی ہوتا ہے.وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ پھر جو کچھ ہم ان کو عطا کرتے چلے جاتے ہیں تو وہ اور خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور خرچ کا خوف بھی اڑ جاتا ہے پھر کوئی خوف بھی نہیں رہتا.ایک خوف دنیا کا ایک انسانی جذبہ کو حرکت میں لاتا ہے انسانی تفکرات کو حرکت میں لاتا ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ وہ خوف اپنے ہی خوف میں وجود کو چاٹ جاتا ہے اور اس کی بجائے ایک
خطبات طاہر جلد ۳ 686 خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۸۴ طمع رونما ہوتی ہے اور امید رونما ہوتی ہے اور امید کے پھر نتائج پیدا ہوتے ہیں اس کو پھل لگتے ہیں.یہ معاملہ ہے خدا کے مومن بندوں کا اور دوسری طرف وہ جو کمزور ہیں ان کے متعلق فرمایا کہ ان کو سامنے موت نظر آنے لگ جاتی ہے اور ان کی آنکھیں پھر جاتی ہے.تو یہ ضروری ہے کہ انسانی اعمال اور انسانی تنظکرات کی حرکت کے لئے کوئی نہ کوئی جذبہ کار فرما ہو.یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ جذبات کی کوئی قیمت نہیں عقل چاہئے صرف یہ عقل کے بغیر انسان ایسی بات کر سکتا ہے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ عقل تو ایک مشین ہے ایک موٹر کی طرح ، ایک گھڑی کی طرح، ایک ریڈیو کی طرح، اس سے زیادہ عقل کی کوئی حیثیت نہیں.اس مشین کو توانائی جذبات مہیا کرتے ہیں.اگر انسانی زندگی سے جذبات کو آپ نکال لیں تو بالکل Stand Still ہو جائے گی ،ایک مقام پر آکر جامد ہو جائے گی.جتنے بھی بڑے بڑے مفکرین ہیں خواہ وہ فلسفوں اور نظریوں کے موجد تھے یا انہوں نے سائنس کی دنیا میں ایجادات کیں، ان کی ہر ایجاد سے پہلے ایک غم ، ایک فکر ، ایک بے چینی تھی جس نے ان کو مجبور کیا ہے.ایک شخص ایک تکلیف کی حالت سے گزرا ہے تو اس کا رد عمل ہوا ہے اگر وہ سائنسدان تھا تو اس نے اس تکلیف کی حالت کو دور کرنے کے لئے سوچنا شروع کیا کہ میں کیسے اپنے اور اپنے بھائیوں کے فائدہ کیلئے کوئی ایسی چیز ایجاد کروں کہ اس سے یہ تکلیف رفع ہو جائے.ایک مفکر تھا تو اس نے یہ سوچنا شروع کیا کہ انسانی معاملات میں یہ وجوہات ایسی ہیں جو غم پیدا کرتی ہیں، دکھ پیدا کرتی ہیں، یہ نظام ناقص ہے اس کی تبدیلی ہونی چاہئے اور وہ ذاتی صدمہ جو اس کو کسی سے پہنچا تھا ، وہ ٹھوکر جو اس کے جذبات کو لگی تھی اس نے اس کے دماغ کو حرکت دی اور وہ ایک نظریہ لے کر دنیا کے سامنے آیا.غرضیکہ ہر انسانی فکر کے پیچھے کوئی نہ کوئی جذبہ کار فرما آپ کو نظر آئے گا.وہی جذ بہ برعکس نتیجے بھی پیدا کر دیتا ہے بجائے اس کے کہ ایجاد کی طرف توجہ مائل ہوا ایک غم جو ہے مایوسی کی طرف اور دنیا سے پیچھے ہٹ کر دنیا سے بھاگنے کی طرف انسان کو مجبور کر دیتا ہے، کا ہلی اور سستی پیدا کر دیتا ہے، انسان نفسیاتی مریض بن جاتا ہے.اسی طرح تفکرات کی دنیا میں بھی تفکرات منفی بھی پیدا ہو جاتے ہیں بعض جذبوں سے کئی ایسے نظریے آپ کو نظر آئیں گے جن میں Escapism نظر آئے گا کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 687 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ چھوڑ دو بھاگ جاؤ، دنیا کو قطع کر دو، دنیا سے قطع تعلقی اختیار کر لو اور الگ ہوکر موت کا انتظار کرو.اس فکر کے پیچھے بھی ایک جذبہ ہے.غرضیکہ جذبات اور عقل کا تعلق بالکل وہی ہے جیسے مشین کا اس توانائی سے ہو جس کے بغیر وہ مشین چل نہیں سکتی.قرآن کریم بھی ہر جگہ جذبات سے کام لیتا ہے.کہیں جذبات کو ابھارتا ہے کہیں ان کو مناسبت عطا کرتا ہے ، ان کو توازن بخشتا ہے اور جس طرح ایک سائنٹسٹ (Scientist) توانائی سے کام لے رہا ہوتا ہے اس سے بہت زیادہ عقل اور فراست کے ساتھ قرآن کریم انسانی توانائی کو توازن بخشتے ہوئے ان کو کارآمد چیزوں پر لگا تا ہے.یہ زمانہ جس میں سے ہم گزررہے ہیں یہ اس لحاظ سے ایک بہت ہی خوش نصیبی کا زمانہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے اوپر جو حالات وارد ہوئے انہوں نے جذبات میں ایک طوفان برپا کر دیا ہے.وہ تمام محرکات جو جذبات کو انگیخت کرتے ہیں وہ سارے موجود ہیں.دوسروں کی نفرتیں جو مومنوں کے دل پر قیامت ڈھاتی ہیں اس کے نتیجہ میں بھی جذبات پیدا ہوتے ہیں.دوسروں کے غصے خواہ وہ عمل کی شکل میں ہوں یا گالی گلوچ کی شکل میں ہوں وہ بھی چر کے لگاتے ہیں اور تکلیف پہنچاتے ہیں اس کے نتیجہ میں بھی جذبات پیدا ہوتے ہیں.دوسروں کے بلند بانگ دعاوی کہ ہم تمہیں ہلاک کر دیں گے، تباہ کر دیں گے، تمہارا کچھ نہیں چھوڑیں گے ، وہ ایک قسم کا خوف پیدا کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بھی جذبات پیدا ہوتے ہیں.ان جذبات کا کچھ اظہار تو ہم دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ ان جذبات کے نتیجہ میں جو جماعت احمدیہ کے پاس اس وقت ایک طوفان کی شکل میں موجود ہیں، احمدی بے ہودہ حرکتیں نہیں کر رہے ، گالی گلوچ میں حصہ لے کر اپنے جذبات کو ضائع نہیں کر رہے ، نفرتیں کر کے خود اپنے آپ کو اپنے دل کو اور اپنے اندرونوں کو جلا نہیں رہے بلکہ ہر طرف خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا یہ ردعمل ہے کہ راتوں کو اٹھتی ہے اور خدا کے حضور گریہ وزاری کرتی ہے.جو نمازی نہیں بھی تھے وہ بھی نمازی بن رہے ہیں ، جن کو عبادت کا سلیقہ نہیں تھا انہوں نے سلیقے سیکھ لئے، جن کو لذت نہیں آیا کرتی تھی دعاؤں میں ان کو اللہ تعالیٰ نے دعاؤں کی لذتیں بخش دیں لیکن صرف یہی کافی نہیں.قرآن کریم صرف اچھے خیالات یا اچھے کلمات پر بات کو نہیں چھوڑ تا بلکہ اس سے زیادہ استفادہ کی طرف توجہ دلاتا ہے.ایک ایسی عظیم الشان روحانی سائنس کا
خطبات طاہر جلد ۳ 688 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ کلام ہے کہ کوئی اس کی نظیر دوسری جگہ آپ کو نظر نہیں آئے گی.بظاہر یہ ایک بہت ہی اچھا منظر ہے کہ جماعت احمدیہ کے منہ سے پاک کلمات نکل رہے ہیں، دعائیں بلند ہورہی ہیں اور نیک ارادے ہیں.بہت ہی خوشکن منظر ہے لیکن قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہ کافی نہیں کچھ اور بھی چاہئے ، تمہارے پاس بہت بڑی طاقت موجود ہے اس طاقت سے تمہاری جو مشینری حرکت میں آنی چاہئے اس کا ایک بہت بڑا حصہ بعض دفعہ خاموش پڑا رہ جاتا ہے، تم اس کو حرکت میں نہیں لاتے.چنانچہ اسی کی طرف توجہ دلا رہا ہے اس آیت کریمہ میں جو میں نے تلاوت کی ہے: مَنْ كَانَ يُرِيْدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (فاطر (1) جو کوئی بھی عزت کی تمنا رکھتا ہے وہ سنے کہ للهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ہر قسم کی تمام تر عزتیں اللہ ہی کے پاس ہیں اس لئے عزتوں کے لئے خدا کی طرف رجوع کرنا چاہئے.جب دنیا ذلیل کر رہی ہو تو اور زیادہ توجہ اس کی طرف مبذول ہونی چاہئے کہ عزتیں خدا کے ہاتھ میں ہیں وہ جسے چاہے عزت عطا فرماتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کر دیتا ہے لیکن خدا کے ہاں عزت پانے کا طریق کیا ہے ؟ فرمایا إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ تمہارے جو پاک کلمات ہیں نیک ارادے، نیک تمنائیں ،حمد اور تسبیح ، دعا ئیں اور عبادتیں یہ ساری چیزیں خدا کی طرف حرکت کرتی ہیں اور آسمان کی طرف بلندی کی طرف اٹھتی ہیں.چنانچہ اس منظر کو ہم دیکھ رہے ہیں یہی ہورہا ہے لیکن فرماتا ہے کہ تم یہ نہ سمجھ لینا کہ محض جذبات کے نتیجہ میں براہ راست دل سے اٹھنے والی دعائیں براہ راست اٹھنے والے خیالات جو کسی انسانی عمل میں سے گزر کر نہیں جاتے وہ اتنے بلند ہو سکتے ہیں کہ خدا تک پہنچ جائیں.اس جذبات کے پانی کو اپنے اعمال کی مشین میں سے گزار و پھر وہ طاقت پیدا ہوگی جس کے نتیجہ میں تمہاری باتیں آسمان تک پہنچا کریں گی کیونکہ بلندی کی طرف چڑھنا بغیر توانائی کے ممکن نہیں ہے.کسی دنیا کی کتاب میں آپ ایسا کلام، اس کا ادنی سا نمونہ بھی نہیں دیکھ سکتے جیسا کہ قرآن کریم میں ہمیں جگہ جگہ
خطبات طاہر جلد ۳ 689 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ نظر آتا ہے.فرما تا ہے بہت اچھی بات ہے تم دعائیں کرتے ہو تم تسبیح کرتے ہو، تم تحمید کرتے ہو اور اللہ کا ذکر کر نے لگ گئے ، خدا کے حضور رونے لگ گئے ، دعائیں کرنے لگ گئے لیکن فرمایا کہ یہ نہ گمان کر لینا کہ یہ سیدھی چیزیں آرام سے اوپر پہنچ جائیں گی اور خدا کے عرش کو ہلا دیں گی.فرمایا وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ عمل صالح ضروری ہے ان کو بلندی عطا کرنے کے لئے وہ توانائی جو عمل صالح مہیا کرتا ہے اس کی طاقت سے پاک کلام اوپر چڑھا کرتا ہے ورنہ اس میں اوپر چڑھنے کی طاقت کوئی نہیں ہوگی.مشین تو ایک بن جائے گی لیکن توانائی کے بغیر حرکت میں نہیں آئے گی.کیسا عظیم کلام ہے! کتنا گہرا فلسفہ ایک چھوٹی سی آیت میں بیان فرما دیا.چنانچہ اس وقت جماعت کو اس طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ان جذبات کو اس طرح کام میں لائیں اور اس میں ایک اور بڑا گہرا فلسفہ ہے.بہت سے لوگ بہت ہی گریہ وزاری سے دعائیں کرتے ہیں اور روتے ہیں کہ اے خدا! ہماری دعا قبول کر ہمارا دکھ دور کر دے اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ خدا نے نہیں سنا.اللہ نے تو بتا دیا تھا کہ میں وہی سنوں گا جو مجھ تک پہنچے گا اور مجھ تک وہی پہنچے گا جس کے پیچھے تمہارے نیک اعمال اس کو قوت بخش رہے ہوں اس کے بغیر میرے آسمان تک تمہاری کوئی صدا نہیں پہنچے گی.چنانچہ اس بات پر غور کرتے ہوئے ایک اور پہلو بڑا لطیف اس آیت میں سامنے آتا ہے کہ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ میں تو کلم جمع کا صیغہ استعمال فرمایا کہ پاک کلام کثرت جو انسان کے دل سے اٹھتے ہیں، خیالات یا کلام منہ سے نکلتا ہے یہ سارے کے سارے ایک جمع کی شکل میں بیان فرمائے.نیک تمنائیں، دعائیں، نیک جذبات، یہ ساری چیزیں اللہ تک پہنچتی ہیں.وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُه میں واحد کا صیغہ استعمال فرمایا کہ نیک اعمال یا نیک عمل اس کو اوپر چڑھاتا ہے.پہلے جمع کی بات ہو رہی تھی یہ واحد کہاں سے آگیا بیچ میں؟ چنانچہ بعض لوگوں نے اس
خطبات طاہر جلد ۳ 690 خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۸۴ آیت کا ترجمہ بدلا دیا اس جمع کے بعد واحد کے صیغہ کی مشکل کے نتیجہ میں اور یہ معنی کرنے کی کوشش کی گئی ہے بہت سارے تراجم میں وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُہ اور عمل صالح کا جہاں تک تعلق ہے اللہ اس عمل صالح کو رفع بخشتا ہے.بات تو کلام کی ہورہی تھی بات تو پاکیزہ جذبات کی ہو رہی تھی اس کی رفع کے لئے کون سی طاقت ہے اگر عمل کو اللہ رفع بخشا ہے تو پھر اسکو رفع کون بخشتا ہے؟ اس لئے اس کا وہی معنی ہے کہ ہ کی ضمیر پہلے جو بیان کیا گیا ہے اسی کی طرف جارہی ہے کہ عمل صالح فاعل ہے وہ رفع بخشتا ہے اس چیز کو جو پہلے گزری ہے.حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نے اس کا حل ایک بہت پیارا تجویز فرمایا ہے.آپ فرماتے ہیں کہ بسا اوقات قرآن کریم میں جمع کی طرف واحد کا صیغہ چلا جاتا ہے اور اس میں کچھ معنی مخفی ہوتے ہیں.یہاں معنی یہ ہوں گے کہ ہر کلام کے لئے ایک عمل صالح کی ضرورت ہے رفع بخشنے کیلئے یعنی پاک کلام خدا کی طرف رفع پاتا ہے، بلندی اختیار کرتا ہے بشر طیکہ نیک اعمال ان میں سے ہر کلام کو قوت بخش رہے ہوں.جب اس بات پر آپ غور کریں تو اس آیت میں ایک اور معانی کا جہان کھلتا ہوا روشن ہوتا ہوا دکھائی دینے لگتا ہے.مراد یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ آپ کے خیالات، آپ کے جذبات ، آپ کی دعا ئیں خواہ کتنی بھی ہوں ایک یا دو یا چند اعمال صالحہ ان سب کو رفع بخش دیں گے بلکہ ہر نیکی یعنی خیالات کی نیکی کے ساتھ ایک نیک عمل وابستہ ہوا کرتا ہے اور اتنے ہی خیالات رفع پائیں گے جن کے ساتھ تطبیق رکھنے والا ، اطلاق پانے والا ایک عمل صالح بھی رونما ہورہا ہو، وہ بھی وجود پکڑ رہا ہو.یعنی آپ اگر کسی کو نیکی کی نصیحت کرتے ہیں تو وہاں آپ کو یہ اندازہ ہو جائے گا کہ اس آیت کا کیا مفہوم ہے.ایک انسان اگر بدیوں میں ملوث ہو لیکن ایک خوبی اس میں ہو وہ جب اس خوبی کے متعلق نصیحت پکڑتا ہے تو اس بات میں اثر ضرور ہوتا ہے لیکن اگر اعمال صالحہ کیسے بھی ہوں ایسی نصیحت کر رہا ہو جو نصیحت تو کر رہا ہے لیکن آپ اس پر عمل نہیں کر رہا اس نصیحت میں جان نہیں پڑے گی.تو ہر بات جو تم خدا کے حضور پیش کرتے ہو اس بات کے ساتھ مطابقت رکھنے والا ایک عمل صالح ضروری ہے جو اس کو قوت بخش رہا ہو.اگر تم رحم مانگ رہے ہو اللہ تعالیٰ سے اور تمہارے اندر رحم
خطبات طاہر جلد۳ 691 خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۸۴ نہیں ہے،اگر خدا تعالیٰ سے تم رزق مانگ رہے ہو لیکن بددیانتیاں کر کے خدا کے غیر سے رزق حاصل کر رہے ہو، اگر خدا تعالیٰ کی غیرت کو کچوکے دے رہے ہو اور خود اللہ کے دین کیلئے اس نام کیلئے غیرت نہیں رکھتے تو جس جس نیک ارادے یا نیک تمنا کے ساتھ اسی قسم کا عمل موجود نہیں ہے وہ چاہے رو کر دعائیں کی جائیں یا خشک آنکھوں سے کی جائیں ان میں جان ہی نہیں پیدا ہوگی ، اٹھ کر اوپر جاہی نہیں سکتیں تو فرماتا ہے کہ بعض دفعہ نیک جذبات ضرور پیدا ہوتے ہیں اس کی وجہ سے نیک خیالات بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن اگر تم واقعی چاہتے ہو کہ وہ رفعتیں پکڑ جائیں تو ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہر نیک خیال کے ساتھ ایک نیک عمل وابستہ ہے.جب تم وہ نیک عمل اختیار کرو گے تو وہ نیک خیال جو تمہارے دل میں اس کے مطابق ہے وہ رفعت پا جائے گا اور یہ ہے عزت حاصل کرنے کا طریق اللہ تعالیٰ کے ہاں پوپلی نرم منہ کی باتیں کام نہیں آتیں محض جذبات کا رونا کام نہیں آتا بلکہ اس نے ایک بڑا تفصیلی حکیمانہ طریق سکھایا ہے فرمایا یہ اختیار کرو اور پھر دیکھو کہ میں کس طرح دعاؤں کو سنتا ہوں.ایک بھی چیز ایسی نہیں ہوگی جو تمہارے دل میں تمہارے جذبات میں ، تمہارے خیالات میں حرکت میں آئی ہو وہ آسمان تک نہ پہنچ جائے ، عمل صالح پیدا کرو.چنانچہ اس پہلو سے جماعت کو توجہ دلانے کی ضرورت ہے.اتنا بڑا خزانہ ہے جذبات کا جو اس وقت عطا ہوا ہے جماعت کو اگر اس میں سے اسی طرح گزر گئے اور اپنے اعمال کو سدھارنے کی طرف توجہ نہ کی تو بہت بڑی نعمتوں سے محروم رہ جائیں گے.یہ اچھی بات ہے کہ مسجد میں آباد ہورہی ہیں، یہ اچھی بات ہے کہ لوگ راتوں کو اٹھ رہے ہیں مگر اگر باقی انسانی زندگی کے اجزا پر، اس کے شعبوں پر اسکا اثر نہ ہو تو یہ پانی سر سے گزر جائے گا اور بعد میں اسی طرح خالی کی خالی جماعت بیٹھی رہ جائے گی اس لئے بڑی تفصیلی طور پر ہر جگہ جماعت کو تنظیم کے لحاظ سے بھی اس طرف توجہ کرنی چاہئے اور کوشش کرنی چاہئے کہ جہاں جذبات انگیخت ہو چکے ہیں ان کو اعمال میں پاک تبدیلی کی خاطر استعمال کرنا شروع کریں اور انفرادی طور پر بھی ہر شخص کو اپنا محاسبہ کرتے ہوئے ان جذبات سے استفادہ کرنا چاہیئے بہت سی ایسی کمزوریاں ہیں خصوصاً پاکستان میں کیونکہ وہاں کا معاشرہ بڑا گندا ہو چکا ہے جو احمدیوں میں بھی کسی نہ کسی حد تک داخل ہوئی ہوئی ہیں اس سے ان کو انکار نہیں کیا جاسکتا.ہمارے
خطبات طاہر جلد ۳ 692 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ صناع ویسے دیانت دار نہیں جیسا کہ اسلام انہیں دیکھنا چاہتا ہے.ہمارے مزدور اس طرح دیانتداری سے اپنی مزدوری کا حق ادا نہیں کرتے جس طرح اسلام ان کو دیکھنا چاہتا ہے.ہمارے کارخانہ دار اپنے صناعوں سے ویسا حسن سلوک نہیں کرتے جیسا کے اللہ تعالیٰ ان دیکھنا چاہتا ہے.ہمارے مالک جو مزدور سے کام لے رہے ہوتے ہیں وہ اس کے جذبات کا، اس کی ضرورتوں کا ، اس کے احساسات کا ویسا خیال نہیں کرتے جیسا کے اللہ تعالیٰ ان کو دیکھنا چاہتا ہے اور ہمارے تاجر بسا اوقات ایسی رپورٹیں ملتی ہیں کہ ان میں ایک بڑا حصہ ایسا ہے جو دیانتداری کے اعلیٰ تقاضوں کو پورا نہیں کرتا.ربوہ کے دوکانداروں کو انہی دنوں میں میں توجہ دلایا کرتا تھا، ربوہ کے مزدوروں کو توجہ دلایا کرتا تھا، ربوہ کے تانگہ بانوں کو توجہ دلایا کرتا تھا کیونکہ جلسہ کے دن قریب آنے تھے کہ اس طرف توجہ کرو بہت دور دور سے لوگ آئیں گے اور دیکھیں گے.لیکن اب تو لوگ آئیں یا نہ آئیں، احمدی آکر دیکھیں یا نہ دیکھیں تمام دنیا کی نگاہیں جماعت احمدیہ کی طرف مرکوز ہو چکی ہیں اس لئے جلسہ سالانہ کا ایک ایسا منظر پیدا ہو گیا ہے کہ ساری دنیا ہی اس جلسہ سالانہ میں سے گزررہی ہے.کبھی جماعت کو اس غور سے نہیں دیکھا گیا جیسا اس دور میں دیکھا جا رہا ہے.کثرت سے لوگ آتے ہیں اور آکے توجہ کرتے ہیں پوچھتے ہیں.جہاں جہاں سے خطوط ملتے ہیں دنیا کے ہر حصے سے یہ خبر بڑی نمایاں ملتی ہے کہ جن لوگوں کو کبھی کوئی پیغام بھی نہیں ملا تھا وہ اس عام شور کی وجہ سے جو دنیا میں بپا ہوا ہے لوگ آتے ہیں دیکھتے ہیں کہ کس قسم کے لوگ ہیں ، کیا ان کے حالات ہیں، کیسی ان کی زندگیاں ہیں ،اور بڑی گہری نظر سے جماعت کا مطالعہ کر رہے ہیں.اصل تو خدا کے در کے درویش اور فقیر وہ ہیں جو خدا کی خاطر بداعمالیوں سے ہجرت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیوں کی طرف حرکت کرتے ہیں.یہ وہ حرکت ہے جو خیالات کو رفعتیں بخشے گی ، یہ وہ حرکت ہے جو ان کی دعاؤں کو طاقت عطا کرے گی اور وہ بلند ہونگی.اس حرکت کی ضرورت ہے اس لئے ربوہ بالخصوص اس لئے میرا مخاطب ہے کہ ربوہ جماعت کا مرکز ہے اور ربوہ میں جتنا دکھ اس وقت موجود ہے اتنا میری ہوش میں تو کبھی یاد نہیں کہ اتنا شدید دکھ بھی پیدا ہوا ہو.بچہ بچہ شدید دکھ میں مبتلا ہے اس لئے یہ ایک خزانہ ہے اگر ہم قرآن کی حکمتوں کے مطابق اسے استعمال کریں، ان حکمتوں کے مطابق جو قرآن ہمیں سکھاتا ہے اور قرآن فرماتا ہے کہ اس سے صرف جذباتی فائدہ نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 693 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ اٹھانا، اس سے نظریاتی فائدہ صرف نہیں اٹھانا بلکہ عملی فائدہ اٹھاؤ اور عملی زندگی میں ایک تغیر بر پا کر دو.یہ اگر پیدا ہو جائے تو اس ابتلا سے ہر پہلو سے جماعت کامیاب اور سرخرو ہوکر نکلے گی ،ایک نئی جماعت وجود میں آجائے گی ، ایک نئی زمین پیدا ہو گی ، ایک نیا آسمان پیدا ہوگا اس لئے بہت ضرورت ہے کہ ہم بڑی تفصیلی کوشش اور محنت کے ساتھ جماعت کے تنظیمی اداروں کے سر براہ بھی اور افراد اپنے طور پر بھی یہ کوشش کریں کہ ہم اپنی بدیوں کو جھاڑ دیں، اس ابتلا کے دوران اور نیکیاں پیدا کر کے نیکیوں کا لباس اوڑھ کر اس سے نکلیں اور اس وقت یہ سب سے آسان ہے.اگر اس وقت اس سے کام نہ لیا گیا تو پھر جو جماعت ابتلا میں اصلاح نہ کر سکے پوری طرح وہ اچھے حالات میں کبھی نہیں کیا کرتی یہ تو اصولی بات ہے.کہتے ہیں لوہا جب نرم ہو اسی وقت اس کو شکلیں عطا کی جاسکتی ہیں.جب لوہا سخت ہو جائے تو پھر جس حالت میں سخت ہو گیا ہو پھر ویسا ہی رہ جاتا ہے.لوگ کہتے ہیں کہ سونا جب آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے.ضرور نکلتا ہے لیکن کندن بنانے کا طریقہ ہوتا ہے اس لئے اسے کندن بنانے کی فکر کریں.اس آگ سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھائیں اور اب تو دن بھی معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑے رہ گئے ہیں اس لئے پیشتر اس کے کہ وہ آسانی کے دور آجائیں اور اللہ تعالیٰ کی فتح کو ہم نازل ہوتے دیکھیں ، ہم اس فتح کیلئے ایک سبھی ہوئی دلہن کی طرح تیار ہو جائیں ، سولہ سنگھار کر لیں اپنے اخلاق اور اعمال کی دنیا میں ایک نئی جماعت وجود میں آئے.یہ ہے وہ حقیقی فتح جس کا انتظار ہونا چاہئے اگر یہ فتح نصیب نہ ہو تو پھر دوسری ہر فتح بے معنی ہے.اگر یہ حالت پیدا ہو جائے تو اس حالت میں جو شخص بھی مرتا ہے وہ لاز مأخدا کے حضور ایک معز ز انسان کے طور پر مرتا ہے کیونکہ یہی ہے جو کلام الہی ہمیں بتا رہا ہے: مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا (فاطر:1) تم عزتیں چاہتے ہو تم جن کو دنیا میں ذلیل کیا گیا ہے، تو عزتوں کے طریقے ہم تمہیں سیکھا دیتے ہیں تم یہ طریق اختیار کرو کہ اپنے پاک خیالات کے مطابق اپنے اعمال کو پاک بنانا شروع کر دو تو تم اس دنیا کی نہیں بلکہ آسمان کی عزتیں پا جاؤ گے، تم ملاء اعلیٰ میں شمار کئے جاؤ گے، تمہاری باتیں ہی صرف عرش کے کنگروں کو نہیں چھو رہی ہونگی بلکہ تمہارا وجود آسمان کے بہشتوں میں داخل کیا جائے گا.اس دنیا میں رہتے ہوئے بھی تم آسمانی وجود شمار کئے جاؤ گے.کتنا عظیم الشان ایک انعام ہے جس کی طرف قرآن کریم کی یہ آیت ہمیں بلاتی ہے
خطبات طاہر جلد۳ 694 خطبه جمعه ۲۳ نومبر ۱۹۸۴ اور صرف بلاتی ہی نہیں بلکہ اس کے سارے طریق بھی سکھاتی ہے.عجیب کلام ہے خدا کا روح فدا ہوتی ہے اور سجدے کرتی ہے جب اس پر غور کرتے ہیں.پس میں تمام دنیا کے احمدیوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ اس سے بھر پور فائدہ اُٹھائیں اور خصوصاً اہل ربوہ ، اہل ربوہ کو تو اس لئے بھی اٹھانا چاہئے فائدہ اس موقع سے کہ اگر وہ نہیں اٹھا ئیں گے تو لوگ مجھے طعنے دیں گے اور دیتے ہیں.پچھلی دفعہ جو دو خطبے پہلے میں نے اہل ربوہ کے غریبوں ، درویشوں سے محبت کا اظہار کیا.اول طور پر تو میرے ذہن میں وہاں کے واقفین زندگی ، وہ لوگ جو خدا کی خاطر ہجرت کر کے آئے ، وہاں بیٹھ رہے وہی تھے لیکن عام غر با بھی واضح طور پر میرے پیش نظر تھے تو بعض لوگوں نے یہ طعنہ شروع کر دیا کہ فلاں مزدور بے ایمانی کرتا تھا ، فلاں صناع پیسے کھا گیا، فلاں تاجر دھو کے باز ثابت ہوا تو امر واقعہ یہ ہے کہ جس طرح ماں کسی بچے سے زیادہ پیار کرے تو اس بچے کے طعنے ماں کو ملا کرتے ہیں.کوئی معمولی سی بھی حرکت بے چارہ کر بیٹھے تو ماں کا سینہ چیر دیتے ہیں لوگ کہ تمہارے بچے نے یہ حرکت کی تم تو بڑی تعریفیں کیا کرتی تھی.وہی کیفیت میرے ساتھ کی جاتی ہے، غیر بھی لکھتے ہیں، غیر احمدیوں کے خط آنے شروع ہو گئے کہ آپ تو جماعت کے متعلق یہ باتیں کرتے ہیں اور اچھی روحانی جماعت بن رہی ہے کہ فلاں شخص فلاں کے پیسے کھا گیا ، فلاں شخص نے اپنی بیوی سے ظلم کیا، فلاں نے بچے سے حسن سلوک نہیں کیا.عورتوں نے خط لکھنے شروع کر دیئے ہیں ، یہ اچھے درویش ہیں جو بیویوں کا حق ادا نہیں کرتے ، یہ اچھی نندیں ہیں جو بھائیوں کو بیویوں کے خلاف کرتی ہیں، ان کے ذہن میں گندی باتیں بھرتی ہیں ان کی بیویوں سے متعلق ، یہ اچھی مائیں ہیں جو اپنے بیٹوں کے گھر اجاڑ رہی ہوتی ہیں.یہ ایک دو کی بات نہیں ہے بیسیوں خط اس مضمون کے آتے ہیں اور ہر خط مجھے تکلیف پہنچاتا ہے اور یہ جائز ہے اور اس لحاظ سے ان کا حق ہے کہ مجھے لکھیں اور جو اس کے نتیجہ میں مجھے دکھ پہنچتا ہے وہ میرا کام ہے کہ اسے حوصلے سے برداشت کروں اور اس کو بھی استعمال کروں جماعت کی اصلاح کے لئے ، یہ بھی تو ایک جذبہ ہے اور یہ بھی تو ایک توانائی ہے.پس ان سب باتوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے میں اہل ربوہ کو خاص طور پر کہتا ہوں خواہ ان کے
خطبات طاہر جلد ۳ 695 خطبه جمعه ۲۳ / نومبر ۱۹۸۴ امیر ہوں یا ان کے غریب.امیر تکبر کے نتیجہ میں اپنے آپ کو تباہ نہ کریں اور غریب اپنی غربت کو کفر میں نہ تبدیل ہونے دیں.خدا پر بھروسہ رکھیں، رزق خدا تعالیٰ عطا فرماتا ہے.اگر دیانتداری سے کام لیں گے دیانتداری سے کام کریں گے اپنی تجارتوں کو پاک اور صاف کریں گے تو اللہ خَيْرُ الرُّزِقِینَ ہے اس کا وعدہ یہ ہے کہ جب خوف اور طمع کی حالت میں تم مجھے اٹھ کر پکارتے ہو وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ 0 پھر ایسے لوگوں سے میں یہ سلوک کرتا ہوں کہ ایک جاری چشمہ ان کو نعمتوں اور رزق کا عطا فرماتا ہوں ، وہ خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور میں دیتا چلا جاتا ہوں.خدا کرے کہ ایسا ہی منظر ہم دیکھیں.آمین.
خطبات طاہر جلد ۳ 697 خطبه جمعه ۳۰ نومبر ۱۹۸۴ء الہی جماعتوں کے مخالفین کا انجام (خطبه جمعه فرموده ۳۰ نومبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَأَقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَبِنُ جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَى مِنْ إحْدَى الْأُمَمِ ۚ فَلَمَّا جَاءَ هُم نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفَوْرَافُ اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَ مَكْرَ السَّيُّ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِاَهْلِه فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا اَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْ فِي السَّمَوتِ وَلَا فِي الْاَرْضِ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى ۚ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا (فاطر:۴۶۴۳)
خطبات طاہر جلد ۳ پھر فرمایا: 698 خطبه جمعه ۳۰ نومبر ۱۹۸۴ء گزشتہ خطبہ میں میں نے جس آیت کریمہ کی تلاوت کی تھی اس میں دوگروہوں کا ذکر تھا ایک وہ جو اپنی عزتیں اللہ ہی سے حاصل کرتے ہیں ان کی تمام دعاؤں کا رخ ان کی التجاؤں کا رخ آسمان کی طرف رہتا ہے اور عمل صالح ان کے پاکیزہ کلمات کو مزید رفعتیں بخشتا رہتا ہے.اسی آیت کے دوسرے حصے میں ان لوگوں کا بھی ذکر تھا اور ہے جو وَ الَّذِيْنَ يَمْكُرُونَ السَّيَّاتِ کہ جو گندی اور بری اور نا پاک تدبیریں کرتے ہیں اور ان کے متعلق فرمایا لهُمْ عَذَابٌ ان کے لئے بہت ہی سخت عذاب مقدر ہے.یہ مَكْرَ الشَّيْتُ سے کیا مراد ہے؟ اس سلسلہ میں جب ہم اسی سورۃ فاطر کے آخر پر پہنچتے ہیں تو مَكْرَ الشيئ کے مضمون کو قرآن کریم خود ہی کھول دیتا ہے.فرماتا ہے وہ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے خدا کی بڑی بھاری قسمیں کھائیں اور یہ کہا کہ اگر ان کے پاس کوئی ڈرانے والا خدا کی طرف سے آیا ہو یا آجائے تو یقینا وہ پہلی قوموں سے زیادہ ہدایت پانے والے ہو جائیں گے لیکن افسوس ان کے حال پر کہ جب ان کے پاس ڈرانے والا آیا تو نفرتوں کے سوا انہوں نے کسی چیز میں ترقی نہیں کی.اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ کیونکہ یہ زمین میں تکبر اختیار کرنے والے لوگ ہیں تکبر اختیار کرتے ہوئے انہوں نے آنے والے کا انکار کر دیا وَ مَكْرَ الشَّيْئُ اور اس وجہ سے انکار کیا کہ یہ بری تدبیر میں جانتے تھے.ایسے لوگ تھے جن کو یہ گھمنڈ تھا کہ ہم زمین میں بڑے بھی ہیں اور سازشوں اور جھوٹی سکیمیں بنانے میں ہمارا کوئی جواب نہیں، ہر قسم کی گندی تدبیریں بنانی ہمیں خوب آتی ہیں اس لئے جس قوم کے پاس طاقت بھی ہو بڑائی بھی ہو اور مکر اور فریب کی تدبیریں بنانے کی بھی ماہر ہو اس کو خدا کی طرف سے آنے والے کسی شخص کی پروا نہیں رہتی.وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہی دو چیزیں ہیں جو دنیا میں کامیابی کا گر ہوا کرتی ہیں.جن کے پاس دنیا کی ظاہری بڑائی آجائے اور اس کے علاوہ وہ سازشی دماغ بھی رکھتے ہوں اور گندی مکر وفریب کی تدبیریں بنانا ان کا روز مرہ کا کام ہو وہ خدا کی طرف سے آنے والے ایک عاجز بندے پر کیسے ایمان لا سکتے ہیں؟ تو قوم کی ساری نفسیاتی حالت اسے انکار پر آمادہ کرتی ہے اس کا نقشہ اس آیت کے ایک چھوٹے سے ٹکرے میں کھینچ دیا گیا استِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ الشَّيْيُّ ان دو چیزوں نے قوم کو
خطبات طاہر جلد ۳ 699 خطبه جمعه ۳۰ /نومبر ۱۹۸۴ء ہدایت پانے سے محروم کر دیا.لیکن ایک بات تو بھول جاتے ہیں وَلَا يَقِيقُ الْمَكْرُ السَّيْئُ إِلَّا بِأَهْلِه گندی اور ناپاک تدبیر تو بنانے والے کے سوا کسی کو گھیرے میں نہیں لیا کرتی.کسی کا گھیر انہیں ڈالتی، کسی کو نا کام اور ذلیل ورسوا نہیں کرتی، کسی کو ہلاک نہیں کرتی مگر اسی کو جس نے وہ تدبیر بنائی ہو اور فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ پس وہ کیا گزرے ہوئے لوگوں کے اوپر جو واقعات گزر گئے ان کے سوا کچھ چاہتے ہیں؟ کیا وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اس دفعہ وہ واقعات ان پر نہیں گزریں گے جو پہلی قوموں پر گزرتے رہے ہیں جن پر تاریخ گواہ ہے؟ کیا وہ خدا سے کسی اور سلوک کی توقع رکھ رہے ہیں؟ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا لیکن یا درکھیں اور اے مخاط اتو یاد رکھ کہ تو خدا کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھے گا.وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا اور خدا کی تدبیر میں اور خدا کی سنت میں تو کبھی کوئی ٹال مٹول نہیں دیکھے گا واضح اور یقینی اور غیر مبدل سنت جیسے ہمیشہ سے کام کرتی چلی آتی ہے ویسے ہی آج کرے گی.اس آیت میں جو ایک قابل توجہ بات ہے یہ ہے کہ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ میں تو پہلوں کی سنت کا ذکر فرمایا گیا تھا کہ کیا یہ پہلوں کی سنت کے سوا بھی کسی سنت کی توقع رکھتے ہیں؟ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا میں پہلوں کی سنت کے دہرائے جانے کی بجائے اللہ کی سنت کا ذکر فر ما دیا گیا تو مراد یہ ہے کہ وہ پہلے لوگوں جیسی حرکتیں کر رہے ہیں اور پہلے لوگوں جیسے انجام سے بے خبر ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ان کا انجام ویسا نہیں ہوگا اور چونکہ یہ انجام خدا کی طرف سے آیا کرتا ہے اس لئے جب نتیجہ ظاہر فرمایا تو وہاں سُنتَ الْأَوَّلِينَ کی بجائے سنت اللہ کی طرف اشارہ فرما دیا کہ جب پہلے لوگوں نے ایک خاص طریق اختیار کیا، ایک خاص رنگ ڈھنگ اپنایا تو ان کی ہلاکت خدا کی تقدیر کے نتیجہ میں ہوئی تھی، ایک طبعی نتیجہ کے طور پر نہیں ہوئی اس لئے مضمون کو بدل کر سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ کی بجائے نتیجے کے وقت اللہ کی سنت کا ذکر فر ما دیا، یہ چونکہ پہلی قوموں کی سنت پر چل پڑے ہیں اور توقع یہ رکھ رہے ہیں کہ پہلی قو میں تو بیوقوفی کی وجہ سے یا کسی اور مقصد یا کسی اور کوتاہی کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں ہم زیادہ ہوشیار ہیں ، ہم زیادہ بڑے ہیں، ہم زیادہ چالاکیاں جانتے ہیں، ہم اس انجام سے بچ جائیں گے.یہ وہم پیدا ہوتا ہے بدسکیمیں بنانے والوں کے دماغ میں اور مَكْرَ السَّيِّئ کرنے والوں کے دماغ میں اگر وہ یہ یقین رکھتے کہ اللہ کی طرف سے پھر
خطبات طاہر جلد ۳ 700 خطبه جمعه ۳۰ رنومبر ۱۹۸۴ء ایک سنت جاری ہوا کرتی ہے تو ان کو کبھی وہم و گمان بھی نہ آتا کہ ہم اپنی بدند بیروں کے بدنتائج سے بچ جائیں گے.تو چونکہ وہ پہلوں کی سنت پر دھیان اس طرح کرتے ہیں جیسے کچھ گزری ہوئی قومیں تھیں ان سے یہ بیوقوفی سرزد ہوگئی، ان سے وہ بے وقوفی سرزدہوگئی ، ایسے بعض بڑے بڑے لوگ تھے ان کی تاریخ پڑھتے ہیں کہتے ہیں ان سے یہ حماقت ہوئی، یہ نہ ہوتا تو نپولین نہ مارا جاتا ، وہ نہ ہوتا تو فرعون کے ساتھ وہ سلوک نہ ہوتا.تو وہ تاریخی نقطہ نگاہ سے ان کی غلطیاں دیکھنے لگ جاتے ہیں اور ان کی سنت کی طرف ان کا دھیان رہتا ہے اور یہ بات بھول جاتے ہیں کہ جب یہ تو میں دنیاوی قو میں اللہ کے مقابل پر آتی ہیں تو پھر اللہ کی بھی ایک سنت جاری ہوا کرتی ہے،اس سنت میں وہ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے، اس سنت میں وہ کبھی ٹال مٹول نہیں پائیں گے.أوَلَمْ يَسِيرُوا فِى الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً وہ کیوں غور نہیں کرتے اور کیوں جائزہ نہیں لیتے اپنے گردو پیش کا وہ قوموں کی اس دبی ہوئی تاریخ کا مطالعہ کیوں نہیں کرتے جو ہلاک ہوکر زیرزمین دفن ہوچکی ہیں يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ دنیا میں پھریں اور دیکھیں کہ پرانی قوموں کا کیا انجام ہواوَ كَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَةٌ وہ ان سے زیادہ طاقتور تھیں اور ان کے مقابل پر خدا کی طرف سے آنے والے بندے بظاہر ان سے بہت زیادہ کمزور تھے.وَمَا كَانَ اللهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْ اب پھر اسی طرز میں جس طرح پہلے قوم کی سنت کا ذکر کر کے اچانک سنت کا مضمون خدا کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا تھا اب ان کی اس قوم کو أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوةٌ بیان کرنے کے بعد کہ وہ بہت بڑی طاقتور قو میں تھیں اچانک مضمون کو پھر خدا کی طرف پھیر دیا اور فرمایا : وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعْجِزَهُ مِنْ شَيْءٍ فِي السَّمَوتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ لیکن بدقسمتی سے ان کا مقابلہ خدا سے پڑ گیا یعنی مضمون یہ بیان کیا جارہا ہے کہ اگر ان کی ط قوت پر صرف انحصار کیا جائے اور عام تاریخی مطالعہ ہو تو نتیجہ یہی نکلنا چاہئے جو اس زمانہ کے بیوقوف نکالتے ہیں کہ جب بڑی قوموں کی چھوٹی قوموں سے ٹکر ہوتی ہے تو ان کو ہلاک کر دیا کرتی ہیں ، جب زیادہ مکار اور چالاک لوگوں کی سادہ لوح انسانوں سے لڑائی ہوتی ہے تو مکار اور چالاک غالب آ جایا
خطبات طاہر جلد۳ 701 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۸۴ء کرتے ہیں، یہ طبعی نتیجہ ہے.تو فرمایا وہ پہلے تو ان سے بھی زیادہ طاقتور تھے جو آج ہیں لیکن وہ ناکام اور ہلاک ہوئے اس لئے کہ خدا تعالیٰ کے مقابل پرزمین و آسمان میں کوئی چیز بھی نہیں آسکتی ، کوئی چیز بھی ٹھہر نہیں سکتی.دنیا کی کوئی طاقت خدا تعالیٰ کو عاجز نہیں کر سکتی إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيراوه.م بھی ہے اور قدرت بھی بہت رکھتا ہے.وَلَوْ يُؤَاخِدُ اللهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوْا مَا تَرَكَ عَلى ظَهْرِهَا مِن دَآبَّةٍ اگر اللہ لوگوں کی بداعمالیوں پر لوگوں کو پکڑے تو زمین پر کسی جاندار کو بھی نہ چھوڑے.و لكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّی لیکن وہ ایک مدت معینہ تک جو ان کے لئے مقدر - ہے ان کو ڈھیل دیتا چلا جاتا ہے فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيْرَان جب ان کی ہلاکت کا وقت آجاتا ہے فَاِنَّ اللهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا اس وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر بہت نظر رکھنے والا ہوتا ہے.عموماً ترجمہ کرنے والوں کا ذہن اس طرف جاتا ہے کہ ان کی بداعمالیوں پر نظر رکھ کر ان کو سزا دیتا ہے اور اس وقت وہ یہ جانتے ہیں کہ ہاں اللہ تعالیٰ خوب بصیر تھا.ایک یہ معنی بھی ممکن ہے لیکن زیادہ موزوں بر حل معنے اس کے برعکس ہیں کیوں کہ بِعِبَادِہ بَصِيرًا میں ایک پیار کا اظہار پایا جاتا ہے.اپنے بندوں پر نظر رکھنے والا ہے مراد یہ ہے کہ قومی عذاب کے وقت بھی جب کہ عالمی طور پر انسان پکڑا جائے یا قومی طور پر کوئی بعض جغرافیائی تو میں پکڑی جائیں اس قسم کے وسیع پیمانے کے آنے والے عذابوں کے وقت بھی اپنے بندوں پر اللہ پیار کی نظر رکھتا ہے اور ان کو ان مصیبتوں سے بچاتا ہے ورنہ تو قومی پکڑ کے وقت یہ خطرات درپیش ہوتے ہیں کہ کمزور لوگ جو پہلے ہی بیچارے طاقتور دشمنوں کے ہاتھوں ظلم اٹھا ر ہے ہیں ستم اٹھارہے ہیں وہ لوگ اور بھی زیادہ مصیبتوں کا شکار نہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کی طرف سے آنے والے عذابوں میں ایک امتیاز تم دیکھو گے.عام عذابوں کی طرح وہ سب کو برابر نہیں پیسیں گے بلکہ چونکہ اپنے بندوں کی حفاظت کے لئے اور اپنے بندوں سے پیار کے اظہار کے لئے خدا ایسا کرتا ہے اس لئے پھر ایسے حالات میں ان پر نظر بھی رکھتا ہے اور ان کو ان مصیبتوں سے بچاتا بھی ہے.یہ وہ آیات کریمہ ہیں جن کے ذکر میں بظاہر تو انسان کا دماغ ہزاروں سال کی مذہبی تاریخ کی طرف منتقل ہو جاتا ہے لیکن ایک احمدی کی نظر سے دیکھا جائے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ قرآنی تاریخ
خطبات طاہر جلد ۳ 702 خطبه جمعه ۳۰ رنومبر ۱۹۸۴ء آج ہمارے سامنے اس طرح گزر رہی ہے ، اس طرح دوہرائی جارہی ہے جیسے ایک فلم چلائی جارہی ہو.وہ زمانے جو کھوئے گئے تھے ، وہ قومیں جو زمین میں پیوست ہو کر تہہ خاک سو بھی چکی تھیں مدتوں سے، قصے اور کہانیاں بن چکی تھیں، ان کی تاریخ بھی زندہ ہورہی ہے اور ان قوموں کی تاریخ بھی زندہ ہو رہی ہے جن قوموں کو ہلاک کرنے کے لئے یہ گڑھے مردے پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں لیکن یہ زندگی جو مَكْرَ الشيئ کرنے والوں کی زندگی ہے یہ ایک عارضی زندگی ہے اور وہ جن کو ہلاک کرنے کے یہ درپے ہیں وہ انہی حالات میں سے ہمیشہ کی زندگی پا جائیں گے فَإِنَّ اللهَ كَانَ بِعِبَادِہ بَصِيرًا اس لئے زندگی پا جائیں گے کہ اللہ اپنے بندوں پر پیار کی نظر رکھتا ہے اور کبھی ان کو اکیلا نہیں چھوڑا کرتا.یہ ہے مضمون اس آیت کا یا ان چند آیات کا جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.اس سلسلہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعض متعلقہ اقتباسات بھی میں پڑھ کر سنانا چاہتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ گزشتہ تقریباً دو سال سے میں مسلسل قوم کو متنبہ کر رہا ہوں کہ اپنی ہلاکت کے سامان اپنے ہاتھوں سے نہ کرو تم سے پہلے بڑی بڑی قومیں گزری ہیں، بڑے بڑے طاقتور آئے ہیں، بڑے بڑے فرعون اس دنیا میں پیدا ہوئے اور چلے بھی گئے اور ہر ایک نے ان میں سے کوشش کی تھی کہ خدا کی طرف سے اٹھائی جانے والی آواز کو دبا دیں اور ہلاک کر دیں اور جب بھی انہوں نے ایسا کیا وہ ہمیشہ خود ہلاک ہوئے اس لئے باز آؤ اور اپنی ان حرکتوں سے تو بہ کرو اور استغفار کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ استغفار کرنے والوں کو کبھی ضائع نہیں فرمایا کرتا ہے بے انتہا رحم کرنے والا اور بے حد تو بہ قبول کرنے والا خدا ہے لیکن اس بات کی سمجھ نہیں آئی کسی کو اور دن بدن وہ پہلے سے زیادہ اپنی شرارت میں بڑھتے چلے گئے یہاں تک کہ اب یہ حالت پہنچ چکی ہے کہ براہ راست کلمہ طیبہ پر ہاتھ ڈالنے کا قوم نے فیصلہ کیا ہوا ہے یعنی قوم کے چند شریر سر برا ہوں نے لیکن چونکہ وہ قوم کی نمائندگی کر رہے ہیں، چونکہ قوم ان کے ہاتھ نہیں روک رہی اس لئے ان کے شر سے قوم بھی پھر بچ نہیں سکے گی اس لئے اب میں اس قوم کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اپنے بڑوں کے ہاتھ اس ظلم سے روک لو جو لا زمنا تمہیں ہلاک کر دے گا کیوں کہ اب مقابلہ اس بات کا نہیں ہے کہ احمدی کتنے ہیں اور اس کے مقابل پر احمدیوں کے دشمن کتنے ہیں؟ اگر ساری دنیا بھی کلمہ طیبہ کو
خطبات طاہر جلد ۳ 703 خطبه جمعه ۳۰ نومبر ۱۹۸۴ء مٹانے کی کوشش کرے گی تو لازماً کلمہ اس دنیا کو ہلاک کر دے گا.آج کلمہ کی طاقت کا غیر توحیدی طاقتوں سے مقابلہ ہو گیا ہے.آج قوم نگی ہو کر اور کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ان کے مدعا اور مقاصد کیا تھے؟ اسلام کی تاریخ کا یہ سب سے دردناک دور ہے کہ اسلام کے نام پر اسلام کے دشمنوں کی تاریخ دہرائی جارہی ہے.ایک وہ دور تھا کلمہ طیبہ مثانے کا جب آنحضرت ﷺ نے دعوئی فرمایا اور کلمہ کی حفاظت کرنے والے مکہ کی گلیوں میں گھسیٹے گئے.ان پر ایسے ایسے مظالم ہوئے کہ ان کا ذکر پڑھنے سے ہی انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا وقت یاد کریں کہ کس طرح کلمہ کے جرم میں ان کو مکہ کی سنگلاخ زمینوں پر اس طرح گھسیٹا جا تا تھا جس طرح ایک مرے ہوئے کتے کوٹانگوں میں رسی ڈال کر بچے گھسیٹتے ہیں.ان کو اور بعض اور غلاموں کو پیتے ہوئے صحراؤں میں جب کہ درجہ حرارت ۴۰ درجہ پہنچ جایا کرتا تھا، تپتی ریت پر لٹا کر پھر گرم پتھر کی سلیں ان کی چھاتیوں پر رکھی جاتی تھیں اور کہا جاتا تھا کہ اب بھی تو بہ کرو گے کہ نہیں کلمہ طیبہ سے؟ اور راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اس حالت میں بے ہوش ہوا کرتے تھے کہ اسهدان الا اله الا اللیکی آواز ان کی بلند ہو رہی ہوتی تھی آخری وقت تک اور جب ہوش آتی تھی تو پہلا کلمہ خود بخو دمنہ سے نکلتا تھا اسهدان الا اله الا الله محمدارسول الله.کیسا بد بختی کا زمانہ ہے کہ وہ دور جس میں دشمن اسلام نے کلمہ کو مٹانے کا فیصلہ کیا اور اس راہ میں انتہائی مظالم اختیار کئے وہ محمد مصطفی ﷺ کے دشمنوں کا دور اور ان کا کردار آج کے مسلمانوں نے اپنا بنانا شروع کر دیا ہے اور سارے پاکستان کی مساجد میں یہ اعلان ہورہے ہیں کہ ہم احمدیوں کی مساجد سے ان کے درو دیوار سے کلمہ مٹا کر چھوڑیں گے اور حکومت کے نمائندے ،میرے پاس تصویر میں ہیں بے شمار ایسی پڑی ہوئی وہ سیڑھیوں پر چڑھ چڑھ کر، دیواروں پر چڑھ چڑھ کے کلمہ پر سیاہی پھیر رہے ہیں.کوئی حیا نہیں، کوئی خوف نہیں خدا کا کچھ پتا نہیں کہ وہ اپنی کیا تصویر بنا رہے ہیں.ایک بات بہر حال آخری اور یقینی ہے کہ جماعت احمد یہ کلمہ کی حفاظت میں جان دے گی اور ہرگز کسی قیمت پر اس بات کو قبول نہیں کرے گی.آمر ہو یا غیر آمر، ایک دنیا کی طاقت ہو یا ساری دنیا کی طاقتیں ہوں، ہرگز کوئی احمدی کسی آمر کی کوئی ایسی بات قبول نہیں کرے گا جو دین کے اصولوں پر حملہ آور ہو رہی ہو اور کلمہ طیبہ تو دین کی جان ہے اصول تو دوسری باتیں ہیں یہ تو وہ مرکزی حصہ ہے جس
خطبات طاہر جلد ۳ 704 خطبه جمعه ۳۰ رنومبر ۱۹۸۴ء سے سارے اصول نکلتے ہیں.وہ بیچ کی جڑ ہے جس سے آگے جڑیں پھوٹتی ہیں اس لئے اس بات کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی احمدی کلمہ طیبہ کو چھوڑ دے گا یا کلمہ طیبہ کو مٹانے دے گا ان ظالموں کے ہاتھوں.اگر کوئی حکومت بد کردار خود مٹاتی ہے تو دیکھیں اس حکومت کے ساتھ پھر خدا کیا سلوک کرتا ہے لیکن حکومت کے علاوہ جو لوگ ہیں خواہ احمدی کتنے ہی اس راہ میں مارے جائیں ان کو نہیں ہاتھ ڈالنے دیں گے.بعض اصول ہیں جن کے نتیجہ میں ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ اگر حکومت کے نمائندے کسی قانون کے تابع مٹاتے ہیں تو مزاحمت نہیں کی جائے گی لیکن کلمہ لکھا جائے گا، حکومت کا یہ حکم تسلیم نہیں کیا جائے گا کہ تم نے کلمہ چھوڑنا ہے.اس راہ میں جو کچھ گزرتی ہے گزرے گی اس لئے ان دو باتوں کے درمیان میں رہنا ہوگا.کسی آمر کی یہ بات تسلیم نہیں کی جائے گی کہ تم کلمہ چھوڑ دو اور قانون تمہیں منع کر رہا ہے اس لئے اپنا یہ حق اپنے ہاتھوں سے ترک کر دو.جو چاہے وہ کر گزرے ہم دیکھیں گے ہمارا خدا اس سے زیادہ طاقتور ہے یا وہ ہمارے خدا سے زیادہ طاقتور ہے.آنحضرت عمﷺ کو بھی ایک وقت کے جبار آمر نے اسی قسم کا ایک پیغام بھیجا تھا اور اس یمن کے بادشاہ کے ذریعہ یہ پیغام بھجوایا تھاکہ تمہاری گردن ہمارے ہاتھ میں ہے اس لئے حکم سنتے ہی چلے آؤ ہماری طرف.چند دن دعا اور استخارہ کے بعد آنحضرت ﷺ نے جواباً یہ پیغام بھیجا کہ اس سے جا کر کہہ دو کہ میرے خدا کے ہاتھ میں اس کی گردن ہے اس لئے میرے خدا نے مجھے بتایا ہے کہ ہم نے آج اسے ہلاک کر دیا تو اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ساری دنیا کی طاقتوں کی گردنیں ہیں.پتہ نہیں کیوں دنیا کے متکبران باتوں کو بھول جاتے ہیں اس لئے اللہ تعالیٰ سے ٹکر لینا ایک بہت ہی بڑا جہالت کا کام ہے، خود کشی ہے اور جب انسان ایسے مقامات پر فائز ہو جہاں وہ قوم کی نمائندگی کرتا ہو تو یہ قومی خود کشی بن جاتی ہے اس لئے ہم تو ایک حرف نصیحت کے طور پر اتنا کہ سکتے ہیں کہ یہ فعل نہ کرو اگر تم کلے مٹاؤ گے تو خدا کی قسم خدا کی غیرت کا ہاتھ تمہیں لازماً مٹادے گا اور پھر کوئی دنیا کی طاقت تمہیں بچا نہیں سکے گی لیکن چونکہ تمہارے دکھ بھی پھر ہمیں پہنچنے ہیں اس لئے ہم بار بار تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ ایسے افعال سے، ایسے بد افعال سے باز آجاؤ.اتنی جہالت ، اتنا اندھا پن ہے کہ ان کو نظر نہیں آرہا کہ جن کو غیر مسلم کہتے ہیں وہ کلمے کی حفاظت میں مارے جار ہے ہوں گے اور وہ لوگ جو مسلمان بنتے ہیں وہ کلمہ مٹارہے ہوں گے.یہ بھی ان کو نظر نہیں آرہا کہ کہاں تک وہ پہنچ چکے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 705 خطبه جمعه ۳۰ نومبر ۱۹۸۴ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات کا میں نے ذکر کیا تھا جو صورت حال پر چسپاں ہونے والے ہیں ان کو پڑھ کر میں اس خطبے کو ختم کرتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”خدا تعالیٰ ان متکبر مولویوں کا تکبر توڑے گا اور انہیں دکھلائے گا کہ وہ کیوں کرغریبوں کی حمایت کرتا ہے اور شریروں کو جلتی ہوئی آگ میں ڈالتا ہے؟ شریر انسان کہتا ہے کہ میں اپنے مکروں اور چالاکیوں سے غالب آجاؤں گا مَكْرَ السَّيِّئ کا جو ذکر پہلے قرآن کریم میں گزرا ہے یہ اسی کی طرف اشارہ فرمایا جا رہا ہے.اور میں راستی کو اپنے منصوبوں سے مٹا دوں گا اور خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت اس سے کہتی ہے کہ اے شریر ! میرے سامنے اور میرے مقابل پر منصوبہ باندھنا تجھے کس نے سکھایا، کیا تو وہی نہیں جو ایک ذلیل قطرہ رحم میں تھا؟ کیا تجھے اختیار ہے جو میری باتوں کو ٹال دے؟“ پھر آپ فرماتے ہیں: یہ ان لوگوں کی غلطی ہے اور سراسر بد قسمتی ہے کہ میری تباہی چاہتے ہیں.میں وہ درخت ہوں جس کو مالک حقیقی نے اپنے ہاتھ سے لگایا ہے جو شخص مجھے کا شنا چاہتا ہے اس کا نتیجہ بجز اس کے کچھ نہیں کہ وہ قارون اور یہودا اسکر یوطی اور ابو جہل کے نصیب سے کچھ حصہ لینا چاہتا ہے.میں ہر روز اس بات کے لئے چشم پر آب ہوں کہ کوئی میدان میں نکلے اور منہاج نبوت پر مجھ سے فیصلہ کرنا چاہے پھر دیکھے کہ خدا کس کے ساتھ ہے؟.....اے لوگو! تم یقینا سمجھ لو کہ میرے ساتھ وہ ہاتھ ہے جوا خیر وقت تک مجھ سے وفا کرے گا.اگر تمہارے مرد اور تمہاری عورتیں اور تمہارے جوان اور تمہارے بوڑھے اور تمہارے چھوٹے اور تمہارے بڑے سب مل کر میرے ہلاک کرنے کے لئے دعا ئیں کریں یہاں تک کہ سجدے کرتے کرتے ناک گل جائیں اور ہاتھ شل ہو جا ئیں تب بھی خدا ہر گز تمہاری دعا نہیں سنے گا اور نہیں رکے گا جب تک وہ اپنے کام کو پورا نہ کرے اور اگر انسانوں میں سے
خطبات طاہر جلد ۳ 706 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۸۴ء ایک بھی میرے ساتھ نہ ہو تو خدا کے فرشتے میرے ساتھ ہوں گے اور اگر تم گواہی کو چھپاؤ تو قریب ہے کہ پتھر میرے لئے گواہی دیں.پس اپنی جانوں پر ظلم مت کرو.کا ذبوں کے اور منہ ہوتے ہیں اور صادقوں کے اور.......خدا کے مامورین کے آنے کے لئے بھی ایک موسم ہوتے ہیں اور پھر جانے کے لئے بھی ایک موسم.پس یقیناً سمجھو کہ میں نہ بے موسم آیا ہوں اور نہ بے موسم جاؤں گا.خدا سے مت لڑو! تمہارا یہ کام نہیں کہ مجھے تباہ کر دو.“ پھر آپ فرماتے ہیں: (تحفہ گولڑویہ روحانی خزائن جلد۷ اصفحہ ۴۹.۵۰) چنانچہ میں بار بار کہتا ہوں کہ تو بہ کرو کہ زمین پر اس قدر آفات آنے والی ہیں کہ جیسا کہ نا گہانی طور پر ایک سیاہ آندھی آتی ہے اور جیسا کہ فرعون کے زمانہ میں ہوا کہ پہلے تھوڑے نشان دکھلائے گئے اور آخر وہ نشان دکھایا گیا جس کو دیکھ کر فرعون کو بھی کہنا پڑا کہ: قَالَ أَمَنْتُ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا الَّذِي أَمَنَتْ بِهِ بَنُوا إِسْرَاوِيْلَ خدا عناصر اربعہ میں سے ہر ایک عنصر میں نشان کے طور پر ایک طوفان پیدا کرے گا اور دنیا میں بڑے بڑے زلزلے آئیں گے یہاں تک کہ وہ زلزلہ آجائے گا جو قیامت کا نمونہ ہے تب ہر قوم میں ماتم پڑے گا کیونکہ انہوں نے اپنے وقت کو شناخت نہیں کیا.“ پھر حضور فرماتے ہیں: دنیا میں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اسکو قبول نہیں کیا لیکن خدا اُسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اُس کی سچائی ظاہر کر دے گا.“ یہ انسان کی بات نہیں خدا تعالیٰ کا الہام اور رب جلیل کا کلام ہے اور میں یقین رکھتا ہوں کہ ان حملوں کے دن نزدیک ہیں مگر یہ حملے تیغ و تبر سے نہیں ہوں گے اور تلواروں اور
خطبات طاہر جلد ۳ 707 خطبه جمعه ۳۰ / نومبر ۱۹۸۴ء بندوقوں کی حاجت نہیں پڑے گی بلکہ روحانی اسلحہ کے ساتھ خدا تعالیٰ کی مددا ترے گی اور یہودیوں سے سخت لڑائی ہوگی.وہ کون ہیں؟ اس زمانہ کے ظاہر پرست لوگ جنہوں نے بالا تفاق یہودیوں کے قدم پر قدم رکھا ہے.ان سب کو آسمانی سیف اللہ دوٹکڑے کرے گی.“ (فتح اسلام روحانی خزائن جلد ۳ صفحه ۹-۱۰) فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتا ہوں کہ یہی حال اس زمانہ کے جفا کارمنکروں کا ہوگا.ہر ایک شخص اپنی زبان اور قلم اور ہاتھ کی شامت سے پکڑا جائے گا جس کے کان سُننے کے ہوں سنے.“ پھر فرماتے ہیں: یا درکھو! کہ آخر یہ لوگ بہت شرمندگی کے ساتھ اپنے منہ بند کر لیں گے اور بڑی ندامت اور ذلت کے ساتھ تکفیر کے جوش سے دستکش ہو کر ایسے ٹھنڈے ہو جائیں گے کہ جیسے کوئی بھڑکتی ہوئی آگ پر پانی ڈال دے.لیکن انسان کی تمام قابلیت اور زیر کی اور عقلمندی اس میں ہے کہ سمجھانے سے پہلے سمجھے اور جتلانے سے پہلے بات کو پا جائے.اگر سخت مغز خوری کے بعد سمجھا تو کیا سمجھا.بہتوں پر عنقریب وہ زمانہ آنے والا ہے کہ وہ کافر بنانے اور گالیاں دینے کے بعد پھر رجوع کریں گے اور بدظنی اور بدگمانی کے بعد پھر حسن ظن پیدا کریں گے.“ پھر آپ فرماتے ہیں: خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم و معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ وہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے.اور ہر ایک قوم اس چشمہ کا پانی پئے گی اور یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 708 خطبه جمعه ۳۰ نومبر ۱۹۸۴ء سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا.بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا............سوا سے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہوگا.“ خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: تجلیات الہیہ صفحہ روحانی خزائن جلد نمبر ۲۱ صفحه: ۴۰۹-۴۱۰) پاکستان میں اس وقت جماعت پر جو حالات گزر رہے ہیں ان کو مدنظر رکھ کر آئندہ چند روز میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں کریں اور بہت کثرت کے ساتھ اور عاجزی اور گریہ وزاری کے ساتھ اور آئندہ چند ماہ بھی مسلسل خصوصی دعا ئیں جاری رکھیں کیونکہ آئندہ چند ماہ جماعت کی تاریخ میں ایک غیر معمولی مقام رکھتے ہیں اور میں اللہ کے حضور سے امید رکھتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی طرف انشاء اللہ جماعت کو عظیم خوشخبریاں عطا کی جائیں گی.ނ
خطبات طاہر جلد ۳ 709 خطبہ جمعہ ۷/ دسمبر ۱۹۸۴ء کلمہ توحید کی حفاظت کا عزم خطبه جمعه فرموده ۱۷ دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد فضل لندن ) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت کی تلاوت فرمائی: قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ تَعَالَوْا إِلَى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللَّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ ( آل عمران : ۱۵) پھر فرمایا: یہ وہ دعوت ہے جو ایک مشترک کلمہ کی طرف ایسے اہل کتاب کو دی گئی تھی جو اس کلمہ کا جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمایا گیا اس کے صرف ایک جزو پر یعنی نصف پر ایمان رکھتے تھے اور یہ دعوت آج سے چودہ سو برس سے کچھ اوپر سال پہلے آنحضرت عہ کی زبان مبارک سے اہل کتاب کو دی گئی تھی.یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے عظیم الشان مضامین پر مشتمل ہے اور آج کی دنیا کے جھگڑوں کو حل کرنے کے لئے بھی ایک ایسا روشن اور بین اصول دنیا کے سامنے پیش کرتی ہے جس کے نتیجہ میں بہت سے جھگڑے جو اس زمانہ کے انسان کو مصیبت اور عذاب میں مبتلا کئے ہوئے ہیں بڑی آسانی کے ساتھ طے ہو سکتے ہیں.بجائے اس کے کہ اختلاف کی طرف انسان نگاہ کر کے
خطبات طاہر جلد۳ 710 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء نفرتوں کے بیج بوئے ، اس قدر اشتراک کی طرف نظر دوڑائے جو مختلف قوموں کے درمیان اختلافات کے باوجود موجود رہتی ہے اور اس کے ذریعہ محبت کے بندھن استوار کرے.یہ روح ہے اس آیت کریمہ کی جس کی روشنی میں حضرت اقدس محمد مصطفی علی اللہ نے ان اہل کتاب کو یہ دعوت دی جو آپ کو جھوٹا سمجھتے تھے ، ان اہل کتاب کو یہ دعوت دی جو آپ کی تکذیب میں فخر کرتے تھے، ان اہل کتاب کو یہ دعوت دی جنہوں نے آپ کی دشمنی میں کوئی بھی ذریعہ ایسا نہ چھوڑا جس سے آپ کو یا آپ کے ماننے والوں کو ہلاک کیا جاسکتا ہو اور انہوں نے اختیار نہ کیا ہو.نفرتیں پھیلائیں،شعروں میں ہجو کہی اور سارے عرب میں اس ہجو کو مشتہر کیا، گندے اور جھوٹے ناپاک الزامات لگائے، ساحر کہا، کبھی مسحور کہا، کبھی جادوگر بتایا، کبھی وہ جس کے جادو کے اثر سے حواس مختل ہو چکے ہوں، کبھی عاشق قرار دیا، کبھی مجنون، کبھی شاعر ٹھہرایا، کبھی محمد مصطفی ﷺ کے پاک نام کو بدل کر مذمم کہنا شروع کر دیا.ہر قسم کے چر کے جو زبانیں لگاسکتی تھیں وہ بھی آپ پر لگائے اور ہر قسم کے زخم جو تلوار میں لگا سکتی تھیں وہ بھی آپ کے بدن پر لگائے اور ہر وہ وار جو نیزے سینہ پر کرتے ہیں اور سینوں کو چھلنی کر دیا کرتے ہیں وہ وار بھی آپ کے سینوں پر چلائے گئے.کوئی دکھ کی کوئی قسم انسان ایسی سوچ نہیں سکتا جو آپ کو دی نہ گئی اور بظاہر یوں معلوم ہوتا کہ پھر اس کے بعد قدر اشتراک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی.بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ اب دو قو میں ہمیشہ کے لئے پھٹ چکی ہیں اور ان کے ایک مقام پر اکٹھے ہونے کی کوئی سبیل نہیں رہی.ایسی نفرتوں کے معراج کے وقت ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی اللہ نے یہ انسانیت کا عظیم الشان پیغام اور درس قوموں کو دیا: قُل يَاَهْلَ الْكِتَب تَعَالَوْا إِلى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اب بھی یہ قدر اشتراک ہمارے درمیان موجود ہے تم مجھے جھوٹا بھی کہو تو اپنے خدا کو تو جھوٹا نہیں سمجھتے ، اس کی محبت کے تو دعویدار ہو پس اگر تم خدا کی محبت کے دعوے میں سچے ہو تو پھر آؤ اسی کلمہ پر ہم اتحاد کر لیتے ہیں اور یہ مشترک اعلان کرتے ہیں کہ آج کے بعد ہم کسی غیر کی عبادت نہیں کریں گے اور اپنے رب کے سوا کسی کو معبود نہیں ٹھہرائیں گے.یہ نصف کلمہ تھا اور باوجود اس کے کہ دوسرے نصف حصہ پر وہ ایمان نہیں رکھتے تھے یعنی محمد رسول اللہ ﷺ پر ان کا قطعاً کوئی ایمان نہیں تھا
خطبات طاہر جلد ۳ 711 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء اور اس کی بنا پر ساری دشمنی کا سلوک انہوں نے کیا تب بھی حضرت اقدس محمدﷺ نے ان نفرتوں کو بھلا کر اس قدر مشترک کی طرف قوم کو بلایا.آج میں جن سے مخاطب ہوں وہ کلمہ کے دونوں جزو پر ایمان رکھتے ہیں.وہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ لا الہ الا اللہ اور اس بات کا بھی دعوی کرتے ہیں کہ محمد عبده و رسولہ اور اس کے باوجود کلمہ کے ان دونوں اجزا کی وجہ سے محبت کی بجائے دشمنی کا بیج بور ہے ہیں اور نفرتیں پھیلا رہے ہیں اور آج یہ غلامان مصطفی ہونے کے دعوے دار، یہ محبت خدا ہونے کے دعوے دار کلمہ کے پہلے جزو کو بھی اس نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں اور دوسرے جز و کو بھی اس نفرت کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ احمدیوں کے درودیوار پر ، ان کی مساجد پر ، ان کے محراب و منبر پر جہاں بھی کلمہ ان کو لکھا ہوا دکھائی دیتا ہے ان کے دل نفرت اور غیظ وغضب سے بھڑک اٹھتے ہیں ، یہ عجیب دور ہے! کلمہ ہے کیا ؟ کلمہ تو عبدیت اور الوھیت کے کامل اتصال کا نام ہے.کلمہ تو حضرت اقدس محمد مصطفی علے کے اس معراج کا مظہر ہے جس نے بندہ کو خدا سے ملا دیا تھا اور جس سے اوپر وصل کا کوئی مقام نہیں ہے، کلمہ تو وہ نور ہے جو تاریکیوں کو روشن کرتا ہے، کلمہ تو وہ آب حیات ہے جس سے مردہ دل زندگی پاتے ہیں اور جس سے زندوں کو ایک ایسی لازوال حیات نصیب ہوتی ہے کہ جو موت کے نام سے نا آشنا ہو.وہ کلمہ ہی ہے جو آسمان کو بھی روشن کئے ہوئے ہے اور زمین کو بھی روشن کئے ہوئے ہے.یہی وہ کلمہ تھا جو پاکستان کی تعمیر کا موجب بنا، یہی وہ کلمہ تھا جس کی بنا پر اس زمانہ میں جب کہ پاکستان کی تعمیر خطرہ میں تھی ، کیا سنی اور کیا غیر سنی ، کیا شیعہ، کیا بریلوی اور کیا غیر بریلوی اور کیا احمدی تمام اس کلمہ کی حفاظت کے لئے اس کلمہ کی خاطر ایک وطن قائم کرنے کے لئے دل و جان کے ساتھ ایک جہاد میں مصروف تھے اور اس جہاد کی صف اول میں احمدی اسی طرح شامل تھے جس طرح دیگر فدایان کلمہ تو حید شامل تھے.لاکھوں جانیں قربان ہوئیں اس جدوجہد میں ، اتنا خون بہا کہ جو اگر دریاؤں میں بہتا تو دریاؤں کو سرخ کر دیتا، ان گنت بچے یتیم بنائے گئے ، ان گنت عورتوں کے سہاگ لئے لیکن قوم نے کلمہ توحید کونہیں چھوڑا اور یہ اس کلمہ توحید کی برکت تھی کہ وہ تو حید جو بھی آسمان
خطبات طاہر جلد ۳ 712 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء میں رہتی تھی وہ زمین پر اتر آئی اور وہ دن تھے جب برصغیر میں مسلمان ایک ملت واحدہ کے طور پر ابھرے تھے.اسی کلمہ کی برکت نے پاکستان کو بنایا اور وہ علماء جو اسلام کے نام پر پاکستان کی مخالفت کرتے تھے کلمہ نے ان کی طاقتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور وہ عظیم الشان عوام کے پلیٹ فارم جن پر کھڑے ہو کر وہ قائد اعظم اور پاکستان کو گالیاں دیتے تھے ، وہ پلیٹ فارم جن کو وہ مضبوط اور طاقتور سمجھتے تھے ، وہ ان کے پاؤں کے نیچے سے ایک بہتی ہوئی ریت کی طرح نکل گئے اور تمام امت مسلمہ کلمہ کے نام پر قائد اعظم کے گرد اکٹھی ہوگئی.وہ شہدا جنہوں نے جانیں دیں اس ملک کے لئے ، ان کے وہم و گمان میں اور ان کے تصور میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی کہ ایسا بد قسمت زمانہ بھی ظاہر ہونے والا ہے، ایسے بد بخت دن بھی اس پاک وطن کو دیکھنے ہوں گے کہ اسلام کے نام پر ایک حکومت کے کارندے مجسٹریٹ کیا اور پولیس کے سپاہی کیا، حوالدار کیا اور تھانیدار کیا، یہ سارے بالٹیوں میں سیاہیاں بھرے ہوئے ، ہاتھوں میں برش پکڑے ہوئے کلمہ مٹانے کے لئے نکل رہے ہوں گے اور ان کے ساتھ مولویوں کا ایک ٹولہ ہوگا ، کچھ اُن کے چیلے چانٹے ہوں گے اور وہ یہ نعرے لگا رہے ہوں گے کہ ہم کلمہ مٹانے جائیں گے ، ہم کلمہ مٹا کر چھوڑیں گے ، ہم گنبد گرانے جائیں گے ہم گنبد گرا کر چھوڑیں گے ، ہم قبلہ بدلانے جائیں گے ہم قبلہ بدلا کر چھوڑیں گے.یہ بد بخت دن بھی پاکستان کو دیکھنے نصیب ہونے تھے اور یہ کوئی فرضی قصہ نہیں جو میں آپ کو بتارہا ہوں یہ نعرے واقعتہ بہت سی دیوبندی مسجدوں سے بلند ہوئے اور یہ پھیلتے چلے جارہے ہیں، ان کے جلسوں میں بھی یہ نعرے بلند ہورہے ہیں ، ان کی نجی محفلوں میں بھی یہی باتیں ہورہی ہیں کہ یہ وہ نعرے ہیں جو عوام کے دل کو پکڑ لیں گے ، ان نعروں کی برکت اور ان نعروں کی قوت سے تم باطل کو مٹا دو گے یعنی باطل کیا کلمہ توحید اشهد ان لا اله الا الله و اشهدان محمدارسول اللہ اب یہ ان کی نگاہ میں باطل بن چکا ہے اور مٹانے والے جہاد کا تصور لے کر مٹانے کے لئے نکل رہے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ہم سروں پر کفن باندھ کر نکلیں گے اور کوئی دنیا کی طاقت ہمارے ہاتھ روک نہیں سکے گی ، کوئی دنیا کی قوت ہمارے قدم نہیں تھام سکے گی ، ہم جائیں گے اور احمدیوں کو قتل و غارت کرتے ہوئے پاکستان کی گلیوں میں خون کی ندیاں بہا دیں گے اور ان کی مسجدوں کے رخ پلٹا دیں
خطبات طاہر جلد ۳ 713 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء گے، قبلہ بدلا دیں گے، کلمہ کو مٹادیں گے اور وہ گنبد جو مسجد کی تصویر لئے ہوئے آسمان سے توحید کی باتیں کرتے ہیں ان گنبدوں کو ہم گرا دیں گے.عجیب یہ زمانہ پلٹا ہے کہ پہلے وقت کے انسان کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی تھی.ایک وہ وقت تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ مرتدین سے اور باغیوں سے لڑائی میں مصروف تھے اور شدید بد ارادوں کے ساتھ عرب میں ایک نہایت ہی خوفناک بغاوت اسلام کے خلاف رونما ہو چکی تھی.قبائل میں اتنا جوش پیدا کر دیا گیا تھا کہ فوج در فوج لوگ مدینہ کو گھیر رہے تھے اور اسلام کا نام مٹانے کے لئے تیار کھڑے تھے.ایسے شدید اور خوف ناک وقت میں بھی حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے مجاہدین کو یہ ہدایت دی کہ اگر تمہیں خدا فتح نصیب کرے اور یقینا تمہیں خدا فتح نصیب کرے گا تو جو لوگ محمد مصطفی ﷺ کے قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا، جو ہماری نماز ادا کرتے ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا ، جو ہماری زکوۃ ادا کرتے ہیں ان کو کچھ نہیں کہنا اور کجا یہ اعلان آج حضرت ابوبکر صدیق کا نام لے کر کیا جارہا ہے اور انہیں کے حوالے سے کیا جا رہا ہے کہ جو اس قبلہ کی طرف منہ کرتے ہیں ان کی گردنیں کاٹ دو جب تک کہ وہ قبلہ نہ بدل دیں اور جو اسلامی نماز ادا کرتے ہیں ان کو مار مار کر ہلاک کر دو جب تک کہ وہ اس نماز کو ادا کرنا نہ چھوڑ دیں جو محد مصطفی ﷺ کی نماز ہے اور جو اسلامی زکوۃ دیتے ہیں ان کی زکوۃ ان کے منہ پر مارو اور وہ ہاتھ کاٹ دو جن سے وہ زکوۃ دینے کی کوشش کرتے ہیں.یہ ایک ہی اعلان ہیں دونوں، جب قوم پاگل ہو جایا کرتی ہے تو کچھ ہوش نہیں رہتی وہ کہہ کیا رہی ہے آمْ عَلَى قُلُوبِ اقْفَالُهَا (محمد: ۴۵) کا منظر ہے، یہ تدبر نہیں کرتے قرآن پر یا پھر ان کے دلوں پر تالے پڑ چکے ہیں.ایک ایسی ہی کیفیت سے آج بدقسمت پاکستان گزر رہا ہے جہاں کے علما کا ایک طبقہ بھی حکومت کی سر براہی اور حکومت کے سائے تلے یہ ظالمانہ حرکتیں کرتا چلا جارہا ہے اور کوئی نہیں جو ان کے ہاتھ روکے اور کوئی نہیں جو ان کو عقل دے کہ دیکھو! تم اپنی ہلاکت کے سامان مت پیدا کرو، کلمہ مٹانے والوں کو خدا کی تقدیر ہمیشہ مٹادیا کرتی ہے لیکن وہ دن بدن بجائے غور کرنے کے، بجائے سمجھنے کے بجائے تنبیہات کو سن کر ان پر عمل کرنے کے وہ جسارت میں بڑھتے جارہے ہیں.ان کے نعرے نہایت ہی ظالمانہ اور خوفناک نعرے بن چکے ہیں جن کا اسلام سے کوئی دور کا تعلق بھی باقی نہیں رہا اور
خطبات طاہر جلد ۳ 714 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء پھر ایسے لوگ ہیں وہ جو اپنے آقاؤں کی عزت کا بھی خیال نہیں کرتے جن سے لے کر کھاتے ہیں ان کی بدنامی کرنے میں بھی ان کو کوئی باک نہیں ہے.چنانچہ یہی علما جو دیو بندی علما ہیں اس وقت جنہوں نے اپنے ہاتھ میں کلمہ مٹانے کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے یہ اپنی مجالس میں اپنے دوستوں کے سامنے بڑی تعلمی سے یہ باتیں کرتے ہیں کہ احمدی ہمارے سامنے کیا چیز ہیں ہمارے ساتھ مذہبی امور کی وزارت ہے، ہم جیل میں بھی ہوں تو ٹیلیفونوں پر ہمارے رابطے ہوتے ہیں وزراء سے اور وہ ہمیں پیغام دیتے ہیں اور وہ ہمارے نائبین کے طور پر کام کرتے ہیں.یہ احمدی کیا اور ان کا کلمہ کیا یہ ان کی طاقت کی باتیں یہ سب قصے ہیں پوری حکومت کی مشینری ہمارے ساتھ ہے یعنی اپنے فخر اپنی تعلمی میں اتنا خوف بھی نہیں کرتے ، اتنی حیا بھی نہیں کرتے کہ جن کے ہاتھ سے لیکر ہم کھا رہے ہیں ان کی عزت کا خیال کریں، ان کو کیوں بدنام کرتے ہیں؟ وہ حکومت جو ساری دنیا میں یہ اعلان کر رہی ہے کہ ہمارا کوئی تعلق نہیں ، ہم مجبور ہیں ، مولوی ہمیں تنگ کر رہا ہے اسی حکومت کے متعلق وہی کارندے کھلم کھلا فخر سے بیان کرتے پھر رہے ہیں اور یہ عام بات پھیلتی چلی جارہی ہے اور ہر دنیا کے انسان کو معلوم ہوتی چلی جارہی ہے کہ یہ کہانی یہ قصہ کیا ہے یہ ڈرامہ کھیلا جا رہا ہے؟ چنانچہ عجیب و غریب باتیں یہ خود مشہور کرتے ہیں.اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس میں کہاں تک صداقت ہے لیکن جو کچھ پیچھے ہوتا رہا ہے اس کو سمجھنے کیلئے یہ چابیاں ضرور تھما دیتے ہیں.چنانچہ اب یہ کہا جارہا ہے کہ ہمیں تو وزارت مذہبی امور کی طرف سے با قاعدہ ہدایت ملی ہے کہ تم لوگ کھلم کھلا حکومت کو بھی بے شک گالیاں دو اور یہ اعلان کرو کہ اگر ضیاء نے یا گورنر صاحب نے ہماری بات نہ مانی تو ہم خون کی ندیاں بہا دیں گے تاکہ حکومت کے ہاتھ میں کوئی جواز تو آئے ایسے مزید قوانین پاس کرنے کا جن کی رو سے کلمہ لکھنا ایک جرم عظیم سمجھا جائے گا اس لئے ہم جب کھلم کھلا کہتے ہیں تو مجال نہیں ہے پولیس کی کہ ہمارے اوپر ہاتھ ڈال سکے کیونکہ حکومت کہتی ہے کہ گالیاں دو اور یہ ظاہر کرنے کے لئے گالیاں دو کہ تمہارا ہمارے ساتھ کوئی تعلق نہیں.ایک طرف حکومت بیچاری کو اپنی عزت کی فکر ہے اور دنیا کی نظر میں ذلیل نہ ہونے کا ایسا خیال ہے کہ اپنے وطن میں گالیاں کھا رہی ہے اور دوسری طرف یہ کارندے ایسے بے نصیب اور بے حیا بیچارے ہیں کہ جس عزت کی خاطر وہ گالیاں کھا رہے ہیں اس عزت کو خود سے لٹا رہے ہیں اپنے ہاتھوں سے، گالیاں بھی دے رہے ہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 715 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء اور یہ بھی بتاتے چلے جا رہے ہیں کہ بیچ میں اصل کارستانی کس کی ہے سازش کہاں پیدا ہوتی ہے کہاں پرورش پاتی ہے اور کیوں ہم یہ حرکت کر رہے ہیں؟ ایک طرف وہ اس حکومت کو بد نام کر رہے ہیں دوسری طرف سعودی عرب کی حکومت کو بدنام کرتے چلے جارہے ہیں اور کھلم کھلا یہ کہتے ہیں کہ اگر موجودہ حکومت ہمارا ساتھ نہ بھی دے تو ہمارا پیسہ تو سعودی عرب سے آرہا ہے اور سعودی عرب کی حکومت کا رعب اس ملک پر ہے مجال ہے کہ کوئی ہماری بات کو ٹال سکے.چنانچہ اب وہ یہ باتیں بھی کہنے لگ گئے ہیں کہ ہمارا تو وزیر مذہبی امور اور سعودی عرب سے براہ راست تعلق ہے اور اگر ضیاء صاحب یا یہ جرنیل جو چند سمجھتے ہیں کے طاقت ان کے ہاتھ میں ہے اگر یہ چاہیں بھی تو اب ہماری بات کو رد نہیں کر سکتے کیونکہ اصل طاقت کا Axis قائم ہوا ہے محور بن گیا ہے، ہم اور مذہبی امور کی وزارت اور سعودی عرب، یہ براہ راست تعلق ہے ہمارا اور سعودی عرب کے پیچھے امریکہ کی طاقت موجود ہے اس لئے موجودہ حکومت کی مجال نہیں کہ وہ مل سکے کسی بات سے تو ادھر ان کو بھی بدنام کر رہے ہیں.موجودہ حکومت کے متعلق تو میں جانتا نہیں کہ وہ کیا باتیں ہیں کس حد تک اور کیوں وہ یہ باتیں ہونے دے رہے ہیں یا ان کو ان باتوں کا علم نہیں ہے لیکن سعودی عرب کے متعلق تو میں تصور بھی نہیں کر سکتا کہ وہ کلمہ توحید مٹانے کی کسی سازش میں بھی شریک ہو سکتے ہیں.سعودی عرب کی حکومت تو وہ ہے جو اس وقت منصہ شہود پر ابھری جب شرک نے خانہ کعبہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا تھا ، جب نہایت ہی ناروا حرکتیں ہو رہی تھیں خانہ کعبہ میں جن کا اسلام سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں تھا.اس وقت ان کے جد امجد نے عظیم الشان کارنامہ اسلام کی خدمت کا یہ سر انجام دیا کہ مولانا عبدالوھاب کے ساتھ مل کر شرک کے قلع قمع کرنے کی ایک تحریک چلائی جس نے رفتہ رفتہ پھیلتے سارے عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا.پہلے سرزمین حجاز سے وہ آواز بلند ہوئی اور پھیلتے پھیلتے وہ حجاز کی زمین سے باہر نکل کر ارد گرد کے علاقوں میں بھی پھیل گئی اور اتنی عظیم الشان قوت نصیب ہوئی کلمہ توحید کے نتیجہ میں کہ آج یہ جتنی دولتوں کے مالک بنے ہوئے ہیں،ساری دنیا میں جتنا ان کا نفوذ ہے وہ تمام تر اگر یہ ادنی سا غور کریں تو کلمہ توحید کی برکت سے ہے.اگر تو حید کی حفاظت میں یہ جہاد نہ شروع کرتے تو ناممکن تھا ان کے لئے خانہ کعبہ اور حجاز کی سرزمین پر قابض ہو جاتے.جہاں سے آج تیل کے چشمے ابلے ہیں اور ہر گز بعید نہیں کہ اللہ جو تو حید کے لئے بے انتہا غیرت رکھتا
716 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء خطبات طاہر جلد ۳ ہے اسی ایک نیکی کے عوض میں کہ کسی زمانہ میں ان لوگوں نے کلمہ توحید کے لئے سر دھڑ کی بازی لگائی تھی آج ان کو اس قدر بے شمار دولتوں سے نوازا ہو.پس کیسے ممکن ہے، کیسے ہم یقین کریں کہ سعودی عرب کا یہ خاندان جو توحید کے نام پر قائم ہوا اور توحید کے نام پر اس نے جو کچھ پایا، پایا تو حید ہی کی برکت اور توحید ہی کی خیرات آج تک کھاتا چلا جارہا ہے، آج ایسا سر پھرا ہو جائے گا کہ کلمہ توحید مٹانے کی سازشیں خانہ کعبہ سے اٹھیں گی.یہ ناممکن ہے ہم جانتے ہیں کہ یہ جھوٹے لوگ ہیں ہمیں تجربہ ہے کہ پاکستان کا مولوی ایک اور قسم کی مخلوق ہے اگر ہر مولوی نہیں تو دیو بندی مولوی کے کردار پہچانتے ہیں.اتنا جھوٹ بولتے ہیں جیسے شیر مادر بچہ پیتا ہے اس طرح جھوٹ بولتے چلے جاتے ہیں.کسی نے منیر انکوائری رپورٹ پڑھی ہو تو وہ ان کے کردار کو شاید پہچان سکے.آپ پڑھ کر دیکھیں کس طرح جسٹس منیر اور جسٹس کیانی جو احمدی نہیں تھے اور بڑے عظیم الشان جج تھے ان کی عدالت کے قصے آج تک مشہور ہیں ساری دنیا میں ان کی قوت انصاف اور عدلیہ معاملات میں علم کی شہرت ہے، وہ بڑی بیبا کی اور جرات سے لکھتے ہیں کہ یہ تو بکاؤ لوگ تھے جو ہمیشہ پاکستان کی دشمن طاقتوں کے ہاتھ میں کھیلتے رہے اور جب بھی پاکستان دشمن طاقتوں سے انہوں نے پیسے حاصل کئے پاکستان کے اور دوسرے تمام مسلمانوں کے مفادات کے خلاف پک جاتے رہے.وہی لوگ ہیں یہ جو مسجد شہید گنج کے غازی ہیں لیکن عجیب بد قسمتی ہے قوم کی کہ اتنی کچی یادداشت اتنی کمزور یادداشت کہ ہر دفعہ انہیں بھولتی چلی جارہی ہے.لیکن احمدی کی یادداشت تو اتنی کمزور نہیں ہے اس لئے میں کسی قیمت پر بھی یہ ماننے کے لئے تیار نہیں کہ سعودی عرب کلمہ تو حید کو مٹانے کی سازش میں ان کی پشت پناہی کر رہا ہو.جھوٹ بول رہے ہیں، ان کے ساتھ بھی جھوٹ بولتے ہوں گے ان کو جا کر کچھ اور کہانیاں بتاتے ہوں گے اس لئے وہ اپنی سادگی میں اور کم علمی میں ممکن ہے ان کو روپیہ دے رہے ہوں اس سے میں انکار نہیں کرتا کیونکہ وہ ساری دنیا میں جہاں بھی وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کی خدمت ہورہی ہے وہ اپنا روپیہ تقسیم کر رہے ہیں.جاپان تک سعودی عرب کا روپیہ پہنچا ہوا ہے ، کوریا میں سعودی عرب کا روپیہ پہنچا ہوا ہے، ملائشیا میں پہنچا ہوا ہے ، انڈونیشیا میں پہنچا ہوا ہے، بنگلہ دیش میں پہنچ رہا ہے، دنیا کے کونے کونے میں ، افریقہ کے ممالک میں پھیل رہا ہے اور جہاں بھی کوئی مان تنظیم یہ فیصلہ کرتی ہے کہ ہم نے اسلام کی خدمت میں کوئی کام کرنا ہے اور سعودی عرب کی مسلمان
خطبات طاہر جلد ۳ 717 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء حکومت کو مطمئن کر دیتی ہے کہ یہ خدمت اسلام کا کام ہے تو وہ اپنے خزانے کھول دیتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ ہم کیسے مان لیں کہ توحید کے علمبر دار تو حید کی خیرات کھانے والے اس دولت سے جو تو حید کے ہاتھوں انہوں نے پائی، کلمہ توحید مثانے میں جد وجہد اور کوشش شروع کر دیں گے ناممکن ہے یہ بات ہو نہیں سکتی.یقیناً دھوکہ دیا جارہا ہے.مگر بہر حال یہ ہو رہا ہے آج کے زمانہ میں اور ضرورت ہے کہ تمام دنیا کو بتایا جائے کہ اس وقت کیا شکل بن رہی ہے پاکستان کی.یقینا یہ پاکستان کو مٹانے اور صفحہ ہستی سے ہمیشہ کے لئے نابود کرنے کی ایک نہایت ہی شیطانی چال ہے کیونکہ یہ تو کوئی مسلمان کمزور سے کمزور بھی ہوا اتنا علم تو اس کو بھی ہونا چاہئے کہ کلمہ توحید کو مٹانے کی سازش خدا کبھی پہنے نہیں دے سکتا، کبھی کامیاب ہونے نہیں دے سکتا اگر کوئی ملک اس سازش میں شامل ہو تو وہ ملک پارہ پارہ کر دیا جائے گا مگر کلمہ توحید کو بھی ٹوٹنے نہیں دیا جائے گا.اس لئے جب یہ کلمہ پر حملہ کرتے ہیں تو عوام الناس کو پتہ نہیں کہ یہ تو حید باری تعالیٰ پر حملہ کر رہے ہیں اور اس ملک پر حملہ کر رہے ہیں جہاں یہ سازش تیار ہورہی ہے اس لئے بہت ہی گندے دن آنکھوں کے سامنے آرہے ہیں اس بدقسمت ملک کے لئے جہاں یہ ہو رہا ہے اور اس کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی جارہی یا موثر آواز نہیں اٹھائی جارہی لیکن نہ ان کو پتہ ہے حقیقت میں نہ ان کے سر براہوں اور ان کے مالکوں کو پتہ ہے کہ اللہ کی تقدیر در پردہ کام ضرور کر رہی ہے.ان کو ابھی نظر نہیں آرہا کہ کیا ہو رہا ہے لیکن ایک عظیم الشان تقدیر الہی ہے جو باطن میں ایک الٹ رو چلاتی چلی جارہی ہے.کبھی پاکستان کی تاریخ میں یہ واقعہ نہیں ہوا تھا کہ اینٹی احمد یہ تحریک کے دنوں میں کھلم کھلا بعض مساجد سے احمدیت کی تائید میں اعلان ہونے شروع ہو جائیں یا عوام الناس اور صاحب علم طبقہ میں جگہ جگہ یہ باتیں شروع ہو جائیں کہ یہ سچ پر ہیں اور ان کے مٹانے والے جھوٹ بول رہے ہیں انہوں نے اپنی جہالت میں اب وہاں قدم رکھ دیا ہے جہاں بات کھل چکی ہے اور ویسا ہی مضمون ظاہر ہو رہا ہے کہ خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس کا ہے دیں پاک کر دینے کا تیرتھ کعبہ ہے یا ہردوار ( در این صفحه ۱۵۳)
خطبات طاہر جلد ۳ 718 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء اب تو یہ ہر دوار کی باتیں کر رہے ہیں، کوئی زمانہ تھا کہ جب اسلامی حکومتیں سومنات کو مٹانے کے لئے اور کلمہ تو حید کو مندروں کے اوپر اور پہاڑوں کے اوپر اور وادیوں میں اور چٹانوں میں نمایاں روشنائی کے ساتھ لکھنے کے لئے جہاد کیا کرتی تھیں.آج یہ زمانہ آ گیا ہے کہ سومناتی طاقتیں اسلام کے نام پر کلمہ پر حملہ آور ہو رہی ہیں، آخر کتنے بھی لوگ غافل ہوں اتنے اندھے بھی تو نہیں.چنانچہ اس وقت پاکستان کی اطلاعوں کے مطابق ایک گہری رو چل پڑی ہے بڑی نمایاں طور پر جو دن بدن Surface کی طرف یعنی باہر کی سطح کی طرف حرکت کرتی چلی آرہی ہے اور اس کی تھر تھراہٹ کو یہ جاہل لوگ محسوس نہیں کر رہے مگر ہم دیکھ رہے ہیں اور کہیں کہیں اس کے بلبلے اٹھنے بھی لگے ہیں چنانچہ یہ بھی ایک عجیب ہے Irony of Fate جس کو کہتے ہیں یعنی تقدیر کا مذاق ہے ان لوگوں کے ساتھ کہ وہ بریلوی جن کو یہ مشرک کہا کرتے تھے، وہ بریلوی جن کے متعلق یہ کہتے تھے کہ ان کا اسلام سے کوئی تعلق بھی نہیں یہ تو بنارس کے پنڈت ہیں ، یہ تو بت پرست ہیں ، یہ تو قبروں کو سجدہ کرنے والے ہیں، ہم ہیں دیو بندی جو کلمہ توحید کے محافظ ہیں.آج یہ عجیب کھیل کھیلا ہے قدرت نے ان دیو بندیوں کے ساتھ کہ یہ کلمہ توحید کو مٹانے والے بن رہے ہیں اور بریلوی مسجدوں سے لعنت برس رہی ہے ان کے اوپر کہ کچھ حیا کرو، احمدی جو کچھ بھی ہیں کلمہ تو حید تو لکھتے ہیں اور کلمہ توحید کی خاطر مارے جارہے ہیں، ہم نہیں کہیں گے تمہارے مرنے والوں کو شہید ہاں جو کلمہ تو حید مٹانے والوں کو روکتے ہوئے مارا جائے گا.وہ شہید ہے اگر شہید ہے تو.یہ اعلان بھی بریلوی مسجدوں سے ہونے شروع ہو گئے ہیں اور میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ آواز بڑھے گی کیونکہ آخر بریلوی جیسے بھی ہوں ان کو خدا اور محمد مصطفی ﷺ سے محبت ضرور ہے.محبت میں غلو بھی کرتے ہیں ، مجھے اس سے انکار نہیں جب محبت زیادہ دیر تک بے لگام ہو کر چلتی رہے ایک رستہ پر تو محبت بھی بہت بڑھ کر غلو میں داخل ہو جایا کرتی ہے اور حقیقتوں کو بدلا دیا کرتی ہے لیکن یہ کہنا درست ہے پھر بھی کہ غلو ہے تو محبت ہی میں غلو ہے ناں ، اس کے برعکس غلو نہیں ہے.بدقسمتی سے وھابی لوگوں نے اور دیو بندی لوگوں نے کلمہ توحید کے نام پر ایسا غلو اختیار کیا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کی سچی محبت اور اللہ کی محبت کے نور سے بھی غافل ہوتے چلے گئے اور اب یہ دل خالی ہو گئے ہیں، ایسے دل بن گئے ہیں جہاں گھونسلے کی شکل تو باقی ہے، ان کے اندر کوئی زندہ پرندہ موجود
خطبات طاہر جلد ۳ ا صلى الله 719 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء نہیں رہا ، وہ محبت کا پرندہ جس کی پھڑ پھڑاہٹ محسوس ہو گھونسلے میں تو گھونسلے میں زندگی پیدا ہوتی ہے.وہ محبت کی پھڑ پھڑاہٹ اب ان کے دلوں میں باقی نہیں ہے.اگر ایک ادنی سانور بھی محبت کا دلوں میں باقی ہوتا تو مر جاتے اس بات سے پہلے کہ اپنی زبان سے یہ کلام نکالتے کہ ہم کلمہ مثانے جائیں گے، ہم کلمہ مٹا کے چھوڑیں گے ، ہم قبلہ بدلانے جائیں گے ہم قبلہ بدلا کے چھوڑیں گے.لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہے بریلوی غلو کرنے والے غلطی خوردہ ہی سہی مگر بہر حال محبت میں غلو ہے اور احمدیت کی دشمنی پر ان کی محبت محمد مصطفی ﷺ اور محبت خداوند غالب آتی چلی جارہی ہے.ہر چند کہ وہ بھی ہمارے شدید دشمن ہیں، ہر چند کہ کسی آنکھ ہمیں وہ پنپتا نہیں دیکھنا چاہتے لیکن اس محبت کا غلبہ ایسا ہے کہ اس نے ڈھانپ دیا ہے اس نفرت کو اور آج یہ آواز میں بلند کرنے لگے ہیں کہ جھوٹے ہیں جو کہتے ہیں کہ کلمہ مٹانا چاہئے ،کسی کافر کی زبان سے بھی اگر کلمہ نکلے گا تو ہمیں خوش ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے محبوب کا نام ہے، خدا کی توحید کا اعلان ہے.کوئی مشرک بھی یہ اعلان کرے گا تو ہمارے دل باغ باغ ہو جانے چاہئیں کہ دیکھو اللہ کی توحید کا ایک مشرک کی زبان سے بھی اعلان ہونے لگا ہے.تو یہ آوازیں بڑھ رہی ہیں اور پھیل رہی ہیں.نہ اس حکومت کو پتہ ہے کہ کیا ہو رہا ہے اور خدا کی تقدیر کس طرح ان کے ساتھ کھیل رہی ہے اور کیا ارادے رکھتی ہے ان کے ساتھ اور نہ ان بدقسمتوں کو پتہ ہے جو چند پیسوں کی خاطر خدا کے نام پر توحید کے علمبر دار کہلاتے ہوئے بھی تو حید کو مٹانے کے درپے ہو چکے ہیں جو ناموس مصطفی " کے نام پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نام کے اوپر سیاہیاں پھیر نے میں باک محسوس نہیں کرتے.بہت ہی خوفناک اور دردناک دن آنے والے ہیں پاکستان پر لیکن میں پاکستان کے عوام سے اپیل کرتا ہوں خواہ وہ بریلوی ہوں، خواہ وہ دیو بندی ہوں ، خواہ وہ شیعہ ہوں، کسی طبقہ فکر سے تعلق رکھتے ہوں وہ براہ راست علما کی کھیلوں میں ملوث نہیں ہوا کرتے لیکن ایک سادہ لوح مسلمان کے طور پر جہاں تک عوام کا تعلق ہے ان میں بریلوی کیا اور دیو بندی کہلانے والے کیا اور وھابی کیا اور دیگر فرقوں کے لوگ کیا ان کے سادہ سے ایمان میں کلمہ کو ایک نمایاں شان حاصل ہے.اگر وہ غریب بھی ہیں تو ان کی گودڑیوں میں لعلوں کی طرح کلمے چمک رہے ہیں.یہ وہ آخری چیز ہے جو ان کی زندگی کا سرمایہ ہے جس سے وہ بے انتہا محبت کرتے ہیں تو میں ان کو اس محبت کا واسطہ دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ
خطبات طاہر جلد۳ 720 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء اٹھو اور بیدار ہو اور ہر اس تحریک کی مخالفت کرو جو کلمہ مٹانے کی تحریک آپ کے پاک وطن سے اٹھتی ہے، مخالفت کرو اور بیدار ہو جاؤ اور حرکت میں آؤ کیونکہ اگر تم وقت پر حرکت میں نہیں آؤ گے تو خدا کی قسم خدا کی تقدیر تمہارے خلاف حرکت میں آجائے گی اور اس ملک کو مٹا کر رکھ دے گی جو آج کلمہ کے نام کو مٹانے کے درپے ہوا ہوا ہے.جس ملک کو کلمہ نے بنایا تھا، کلمہ میں اتنی طاقت ہے کہ اگر اس کلمہ کو مٹانے کے لئے وہ سارا ملک بھی اکٹھا ہو جائے تو وہ کلمہ پھر بھی غالب آئے گا اور وہ ملک اس کلمہ کے ہاتھوں سے توڑا جائے گا جس کو کسی زمانہ میں اسی کلمہ نے بنایا تھا.اللہ اس وقت سے ہمیں بچائے اور محفوظ رکھے اور اس قوم کو عقل دے اور ان کے تالوں کو تو ڑ دے.یہ ہوش سے بیدار ہوں کہ کہاں سے آئے تھے اور کہاں چلے گئے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: یہ خطبہ زیادہ تر قوم سے ہی خطاب تھا تو بحیثیت مجموعی اس میں احمدی کے لئے کوئی نمایاں الگ پیغام تو نہیں تھا لیکن یہ میں جانتا ہوں اور ہر احمدی کو علم ہے اس لئے کسی الگ پیغام کی میں نے ضرورت محسوس نہیں کی کہ احمدی کسی قیمت پر بھی کلمہ سے جدا نہیں ہوں گے.ان کی زندگیاں ان کو چھوڑ سکتی ہیں مگر کلمہ احمدی کو نہیں چھوڑے گا اور احمدی کلمہ کو نہیں چھوڑیگا.ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کرسکتی ہے مگر کلمہ کو ساتھ لے کر اٹھے گی اور ناممکن ہے کہ ان کی روح سے کلمہ کا تعلق کا ٹا جائے.ان کی رگ جان تو کائی جاسکتی ہے مگر کلمہ کی محبت کو ان سے الگ نہیں کیا جاسکتا.احمدیوں کی کیفیت تو یہ ہے کہ جس طرح حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے ظاہری وجود کو جب خطرہ تھا تو انصار کے دل سے ایک بے ساختہ آواز اٹھی تھی کہ یا رسول اللہ ! ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے اور آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے آپ کے دائیں بھی لڑیں گے اور آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور خدا کی قسم دشمن نہیں پہنچ سکتا آپ تک جب تک ہماری لاشوں کو روندتا ہوا نہ نکلے.(السیرة الحلبیہ جلد دوم نصف اول صفحه: ۳۸۵ ذکر غزوة بدر ) آج حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا ظاہری وجود تو ہم میں نہیں ہے لیکن آپ کی یہ پاک نشانی ہمیں دل و جان سے زیادہ پیاری ہمارے اندر موجود ہے یعنی وہ کلمہ طیبہ جس میں توحید باری تعالیٰ کا محمد مصطفی ﷺ کی ذات کے ساتھ اتصال ہوتا ہے جو کچھ بھی عزیز تر ہوسکتا ہے انسان کو وہ سب اس میں مجتمع ہے اس لئے ہم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب
خطبات طاہر جلد ۳ 721 خطبہ جمعہ ۷ / دسمبر ۱۹۸۴ء کر کے یہ وعدہ ضرور کرتے ہیں کہ اے خدا کے پاک رسول جو سب محبوبوں سے بڑھ کر ہمیں محبوب ہے خدا کی قسم تیری اس پاک نشانی تک ہم لوگوں کو نہیں پہنچنے دیں گے.ہم اس کے آگے بھی لڑیں گے اور اس کے پیچھے بھی لڑیں گے اور اس کے دائیں بھی لڑیں گے اور اس کے بائیں بھی لڑیں گے اور دشمن کے ناپاک قدم نہیں پہنچ سکیں گے جب تک ہماری لاشوں کو روندتے ہوئے یہاں تک نہ پہنچیں.اس لئے یہ تو ہر احمدی کے دل کی آواز ہے.میں نے یہ سوچا کہ چونکہ ظاہری طور پر ذکر نہیں تھا میں خطبہ ثانیہ کے درمیان اس کا ذکر کر دوں ورنہ احمدی یہ نہ سمجھیں کہ دوسروں کی باتیں تو بتاتے رہے ہیں ہمارے دل کی کیفیات کو آواز نہیں دی، ان کو زبان عطا نہیں کی تو یہ وہ زبان اور سچی زبان ہے جو ہر احمدی کے دل کی زبان ہے آسمان کا خدا اس زبان کو سنے گا اور اسے ضائع نہیں کرے گا.ہر قربانی کے لئے آپ تیار رہیں کوئی بھی پرواہ نہ کریں.یہ وہ مقام ہے جہاں سے ایک قدم بھی ہم پیچھے نہیں ہٹ سکتے.ہمارے پیچھے کلمہ کا ایک پہاڑ ہے جو ہماری پشت پناہی کر رہا ہے اس لئے اب ہمارے لئے آگے بڑھنے کا راستہ تو ہے پیچھے ہٹنے کا ایک قدم بھی باقی نہیں رہا.یہ وہ دامن ہے کلمہ کا جہاں ہم سب کچھ نچھاور کرنے کیلئے تیار ہیں پھر دشمن جو چاہتا ہے آزما کر دیکھ لے کسی ایک احمدی کو بھی بزدل اور کمزور اور زنخا بنا ہوا نہیں پائے گا.انشاء اللہ تعالی.
خطبات طاہر جلد ۳ 723 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء جماعت پر لگائے گئے مبینہ الزام کی تروید ( خطبه جمعه فرموده ۱۴ دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد مبارک ہالینڈ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: قوموں کے سربراہ جب ذہنی توازن کھو بیٹھتے ہیں اور حق و باطل کی تمیز اٹھا دیتے ہیں تو ایسی صورت میں قوموں پر زلازل اور مصائب آتے ہیں اور ہر طرف سے ان کو گھیر لیتے ہیں.قرآن کریم نے ان قوموں کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین بھی ان کو پناہ نہیں دیتی اور زلزلوں کے ذریعہ تہ و بالا کر دی جاتی ہے اور آسمان سے بھی مصائب نازل ہوتے ہیں.بجائے نور اور روشنی کے اور ایسی قومیں جن کے سر براہ حق و باطل کی تمیز چھوڑ دیں اور ضابطہ اخلاق سے عاری ہو چکے ہوں اگر وہ قو میں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ توفیق نہ پاسکیں کہ وہ ایسے سر براہوں سے نجات حاصل کر لیں تو پھر وہ قو میں بھی بدنصیبی سے اپنے سربراہوں کے مقدر سے حصہ پاتی ہیں.کچھ اس قسم کے خطرناک اور نہایت ہی تشویشناک حالات آج کل پاکستان میں پیدا ہور ہے ہیں اور موجودہ صدر دن بدن یوں معلوم ہو رہا ہے جیسے بالکل توازن کھوتے چلے جارہے ہیں اور ساری قوم شدید بے چینی میں مبتلا ہے اور کسی کی کچھ پیش نہیں جارہی کہ وہ کیا کرے اور کس طرح اس تاریکی میں سے روشنی کی راہ ڈھونڈ نکالے؟ جہاں تک سیاسی حالات کا تعلق ہے ان پر تبصرے کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں کیونکہ میں ایک مذہبی راہ نما ہوں اور سیاست دان جہاں تک ان کی زبان یارا کرتی ہے ، جہاں تک ان کے کلام پر پہروں کے باوجود وہ اظہار بیان کر سکتے ہیں یہ ان کا کام ہے لیکن بحیثیت ایک مذہبی راہ نما کے مذہب
خطبات طاہر جلد ۳ 724 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء میں دخل اندازی اور مذہبی اقدار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کسی مذہبی جماعت پر نہایت گندے بہتان تراشنا اور جھوٹے الزام لگانا یہ ایسے معاملات ہیں جن کے متعلق میری ذمہ داری ہے کہ میں ان کو متنبہ کروں.چنانچہ چند دن پہلے پاکستان کے اخبارات میں صدر پاکستان کی طرف ایک ایسا بیان منسوب کیا گیا ہے جسے عقل تو باور نہیں کرتی کہ کسی ملک کے بھی ذی ہوش صدر کی طرف سے ایسا بیان جاری ہوا ہولیکن جب عجیب و غریب حرکتیں ہو رہی ہوں اور معاملات غلط روش پر چل پڑے ہوں تو کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کیا ہورہا ہے.ویسے ہمارے ملک کی صحافت بھی بد قسمتی سے اتنی قابل اعتماد نہیں اور جھوٹے الزامات لگانا، جھوٹ بولنا اور غلط افواہیں مشہور کرنا یہ تو ان کا روز مرہ کا کام ہے اس لئے Benefit of Doubt یعنی شک کی گنجائش کہاں رکھی جائے یہ بھی سمجھ نہیں آسکتی کہ کس کو مبر اسمجھا جائے غلط بیانی سے کس کو غلط بیانی میں ملوث قرار دیا جائے ، بہر حال وہ بیان ایسا ہے کہ اگر وہ سچ ہے تو پھر تہذیب اور تمدن اور عقل اور شرافت کے سارے تقاضے توڑ دیئے گئے ہیں کچھ بھی باقی نہیں رکھا گیا.وہ بیان تمام تر تو میں آپ کے سامنے پڑھ کر نہیں سنا تا لیکن اس کی بنیادی باتیں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.پہلا حصہ اس الزام کا جماعت احمدیہ کے متعلق ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک جماعت احمد یہ گستاخ رسول ہے اور آنحضرت ﷺ کی شدید گستاخی کرتی ہے.حیرت کی بات ہے کہ وہ جماعت جو حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں اپنا سب کچھ داؤ پر لگا بیٹھی ہے، وہ جماعت جو تنہا سارے عالم میں آنحضرت ﷺ کی عزت اور شرف کی خاطر ایک عظیم جہاد میں مصروف ہے، وہ جماعت جس نے گزشتہ ایک سو سال سے تمام دنیا میں اسلام کا سر بلند کرنے کے لئے اپنی جانیں، اپنی عزتیں ، اپنے اموال ، اپنی اولادیں سب کچھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان کر رکھے ہیں ، وہ جماعت جس کے متعلق دشمن بھی اپنے عناد کے باوجود یہ ضرور تسلیم کر لیتے ہیں کہ اس سے بڑھ کر اسلام کی تائید میں ، اسلام کی محبت میں خدمت دین کرنے والی اور کوئی جماعت سارے عالم میں نظر نہیں آتی.وہ جماعت جس کے سربراہ کے متعلق مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے یہ لکھا کہ گزشتہ تیرہ سو سال میں آنحضرت ﷺ کے بعد اگر اس سے بڑھ کر کوئی مجاہد کبھی پیدا ہوا ہو جس نے اپنی زبان سے، اپنے افعال سے، اپنی مالی قربانی سے، اپنی جانی قربانی سے، دلائل اور براہین سے، اسلام
خطبات طاہر جلد ۳ 725 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء کی ایسی خدمت کی ہو تو کوئی بتائے تو سہی وہ کون تھا ؟ مولانا محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں کہ ان کی نظر میں ایسا کوئی شخص نہیں جو حضرت مرزا صاحب کے مقابل پر ایسی شان سے اسلام کے حق میں جہاد کر رہا ہو اور پھر وہ مزید تاکیداً لکھتے ہیں کہ کوئی اسے ایشیائی مبالغہ نہ سمجھے، تاریخ عالم پر نگاہ ڈالو اور بتاؤ کون ہے وہ مرد میدان جو مرزا صاحب کے مقابل پر جہاد اسلام میں آپ کی برابری کا دعویٰ کر سکتا ہو؟ الفاظ تو یہ میرے ہیں لیکن ان کے الفاظ جو تحریر میں ایک خاص شوکت رکھتے ہیں مجھے زبانی تو یاد نہیں لیکن وہ ہر بار پڑھنے سے ایک عجیب لذت محسوس ہوتی ہے کہ وہ جو عقائد میں آپ سے مختلف تھے ، جن کا آپ سے ایک عالمانہ دوستی کا تعلق تو تھا لیکن وہ عقائد جو جماعت احمدیہ کے عقائد ہیں ان سے ان کا دور کا بھی کوئی نہیں تھا لیکن خدا تعالیٰ نے جب حق نکلوایا زبان سے تو حق نکلا اور بڑے زور سے نکلا.ایک دفعہ چوہدری ظفر اللہ خاں صاحب کے متعلق کسی نے سرفضل حسین صاحب سے شکایت کی کہ آپ تو ان کو سینے سے لگاتے ہیں اور یہ تو مرزا صاحب کے مرید ہیں جو نعوذ باللہ من ذلک آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے والے ہیں تو اندر سے وہ درمین اٹھا لائے اور انہوں نے کہا کہ مجھے اور تو کچھ پتہ نہیں کسی میں کچھ ذرہ ہی بھی شرافت ہو وہ اس کلام کو پڑھ لے اس کے بعد جو چاہے الزام لگائے حضرت مرزا صاحب کے اوپر رسول اکرم ﷺ کی دشمنی کا الزام نہیں لگا سکتا.اس سے بڑھ کر عاشق رسول میری نظر سے نہیں گزرا.یہ اس زمانے کی بات ہے جب کہ سیاست میں شرافت اور حیا موجود تھی جبکہ شرف انسانی کی اقدارا بھی زندہ تھیں.لیکن یہ تو بہت پرانی بات ہے اس عرصہ میں ملکوں میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں، قوموں کے حالات اور اخلاق میں تبدیلیاں پیدا ہوئیں، یورپ میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، ایشیا میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں اور اب ہم ایک ایسے مقام پر نکل آئے ہیں جہاں سیاست تو سیاست مذہبی راہ نما بھی ان اقدار سے عاری ہو چکے ہیں جوان کے مذہب ان پر عائد کرتے ہیں اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں کسی قسم کا کوئی معیار بھی باقی نہیں رہا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور جماعت احمد پر یہ الزام کہ نعوذ باللہ من ذلک وہ گستاخ رسول ہیں اس سے زیادہ جھوٹا اور بہیمانہ اور ظالمانہ الزام اور کوئی نہیں لگایا جاسکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہی نے تو ہمیں عشق محمد مصطفی یہ سکھایا.آپ ہی نے تو ہمیں وہ آداب بتلائے کہ کیسے محبت کی جاتی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے؟ ہمیں وہ طریق سکھلائے کہ کس
خطبات طاہر جلد ۳ 726 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء طرح جانیں شار کی جاتی ہیں حضرت اقدس محمد مصطفی مے کے نام پر ہمیں یہ سمجھایا کہ : جان ودلم فدائے جمال محمد است خاکم نثار کوچه آل محمد است ایں چشمہ رواں کہ بخلق خدا دہم یک قطره زبحر کمال محمد است ( در تمین فارسی صفحه : ۸۹) آپ ہی نے ہمیں یہ بتایا کہ تم اگر زندہ ہو اور زندگی کی لذتیں چاہتے ہو یعنی روحانی زندگی کی تو وہ ساری لذتیں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے عشق کے سرچشمہ سے ملیں گی.یہ آپ ہی تھے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ زندگی جو محد مصطفی میلے کے در سے دور ہے اور آپ کے عرفان سے عاری ہے وہ زندگی اس لائق نہیں کہ وہ باقی رہے اس سے وہ موت بہتر ہے جو درست اور نادرست کے احساس سے ہی نابلد ہے.آپ ہی نے ہمیں یہ بتایا کہ میرا کوئی مقام نہیں مگر یہی کہ میں خاک پائے مصطفی عمل ہوں اور جو کچھ بھی برکتیں تم مجھ پر نازل ہوتے دیکھتے ہو یہ کثرت درود کی برکتیں ہیں.یہ وہ برکتیں ہیں جو عشق محمد مصطفی عملے کے نتیجے میں آسمان سے مجھ پر درود کے جواب میں نازل ہوتی ہیں، یہ آپ ہی تھے جنہوں نے ہمیں بتایا کہ : سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا وہ جس نے حق دکھایا وہ مہ لقا یہی ہے اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں وہ ہے میں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے ( قادیان کے آریہ اور ہم روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه : ۴۵۰ ) اردو کلام کو اٹھا کر دیکھئے، عربی کلام کو اٹھا کر دیکھئے ، فارسی کلام کو اٹھا کر دیکھئے منظوم کلام کو اٹھا کر دیکھئے نثر کے کلام کو اٹھا کر دیکھئے، ان الزام لگانے والوں کے آباؤ اجداد بیسیوں پشتوں تک جو کچھ آنحضرت ﷺ کی محبت کا اظہار کر چکے ہیں ان سب کو اکٹھا کر دیں تکڑی کے ایک پلڑے میں ڈال دیں اور دوسری طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی ایک کلام کا نمونہ رکھ دیں ،خدا
خطبات طاہر جلد ۳ 727 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء کی قسم خدا کی نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق رسول کا پلڑا یقینا زیادہ بھاری ہوگا اور ان کی ساری تحریریں جو کھو کھلی اور سرسری اور ایک دنیا پرستی کی بظاہر محبت کی تحریریں ہیں اُن کا کوئی بھی وزن خدا کی نظر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عشق کے مقابل پر نہیں ٹھہر سکتا ان کے متعلق یہ الزام اور ان کے ماننے والوں کے متعلق یہ الزام کہ نعوذ باللہ من ذلک آنحضرت علی کے متعلق گستاخی سے پیش آتے ہیں.پھر اس کے بعد جو نتیجہ ہے وہ سنئے اعقل دنگ رہ جاتی ہے، ایک سر براہ مملکت کی طرف سے یہ کلام نازل ہورہا ہے کہ اگر کوئی کسی کے باپ کو گالی دے تو وہ اسے قتل کر دیتا ہے پھر ہم یہ کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ کوئی نعوذ باللہ من ذلک حضرت محمد مصطفی ﷺ ہمارے آقا و پیشوا کو گالیاں دے اور ہم اسے چھوڑ دیں؟ حیرت کی بات ہے! اس کے اندر کیا با تیں مضمر ہیں ان پر غور کیجئے اول تو یہ کہ حکومت دونوں حصوں کو تلقین کر رہی ہے قتل و غارت کی.جو ذمہ دار ہوتی ہے امن وامان کی اس کے سربراہ کی طرف سے ایک طرف نہایت ہی جھوٹا اور ناپاک الزام لگا کر احمدیوں پر ،مسلمانوں کو انگیخت کیا جارہا ہے یعنی غیر احمدی مسلمانوں کو کہ میں بطور صدر مملکت سر براہ مملکت تمہیں بتا تا ہوں کہ یہ نعوذ باللہ من ذلک گستاخان رسول ہیں ان کا قتل و غارت شروع کر دو اور دوسری طرف احمدیوں کو غیرت دلائی جارہی ہے کہ میں اور میری حکومت دن رات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتے ہیں جو تمہیں اپنے باپوں سے بڑھ کر ہے غیرت نہیں اپنے امام کی تم کیوں نہیں اٹھتے اور ہمارا قتل و غارت کیوں نہیں شروع کرتے؟ جہالت کی بھی حد ہے اور غیر ذمہ داری کی بھی حد ہے.دنیا کی تاریخ میں کبھی کسی صدر کے منہ سے ایسے جاہلانہ کلمات آپ نے نہیں سنے ہوں گے جیسے یہ کلمات آج جاری ہو رہے ہیں.عجیب و غریب بارش ہے عرفان کی کہ دنیا کے کسی تقاضے کسی پیمانے کی رُو سے بھی کوئی بھی اس میں نور کا کوئی ادنی پہلو بھی نہیں ہے؟ شرافت کے لحاظ سے دیکھیں ،اخلاقی معیار سے عام دنیا کے اخلاق کے معیار سے دیکھ لیجئے.سیاسی زبان کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں اُن کے لحاظ سے دیکھ لیجئے.مذہبی اقدار تو خیر بہت بلند ہیں عام شرف انسانی کے متعلق ایسے انسانوں کا تصور جو خدا پر یقین بھی نہیں رکھتے اس کے لحاظ سے بھی دیکھ لیں تو کسی پہلو سے بھی اور کسی معیار کی رو سے بھی ان کلمات میں کوئی روشنی نظر نہیں آئے گی محض تاریکی ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 728 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء پھر آگے یہ کہنا کہ جو گالیاں دیتے ہیں ان کو ہم ایسا کریں گے نعوذ باللہ من ذلک جماعت احمدیہ کے تو دستور میں ہی گالی نہیں ہے.جماعت احمدیہ کی تو سرشت ہی اس بات سے ناواقف ہے کہ دوسرے کو گالیاں دی جائیں.ہمارا سارا کردار سب کے سامنے روشن پڑا ہے اللہ کے فضل سے سوسالہ تاریخ میں گالیاں دینے والے تو ہمارے مخالف ہیں، گالیاں دینے والی تو خود یہ حکومت ہے جو صفحوں کے صفحے سیاہ کرتی چلی جارہی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کو گالیاں دیتے ہوئے اور ساری دنیا میں مشتہر کر رہی ہے، اور اس بات پر فخر کر رہی ہے کہ یہ اسلام کی خدمت ہو رہی ہے تو جماعت احمدیہ کی تو ساری تاریخ گواہ ہے کہ نہ کبھی جماعت گالیوں کی قائل ہوئی ، نہ کبھی ایسی گندگیوں میں ملوث ہوئی، نہ اس رویئے کو انسانی اقدار کے مطابق قابل قبول سمجھتی ہے.جماعت احمد یہ جس مذہب سے وابستہ ہے، جس رسول سے وابستہ ہے ، جس آقا ومولا کے عشق کے دعوے کرتی ہے ان کا دھیان کر کے تو زیب ہی نہیں دیتا کسی احمدی کو کہ وہ گندی گالیوں میں ملوث ہو جائے یا گستاخیوں میں ملوث ہو کجا یہ کہ آنحضرت ﷺ کی شان میں گستاخی کرے.خدا تعالیٰ کی عظمت کی قسم کھا کر ہم کہتے ہیں خدا کے جتنے بھی مقدس نام ہیں ان سب ناموں کی قسم کھا کر کہتے ہیں، ان ناموں کی بھی جو دنیا کو معلوم ہیں اور ان مقدس ناموں کی بھی جن کی کنہ اور جن کی انتہا کا کسی کو کوئی علم نہیں کہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کے سر سے پاؤں تک عاشق ہیں، آپ کے قدموں کی خاک کے بھی عاشق ہیں.اس زندگی پر ہم لعنت بھیجتے ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے تعلق سے عاری ہو.اگر یہ الزام سچ ہے تو اے خدا! ہم پر بھی لعنتیں نازل فرما اور ہماری نسلوں پر قیامت تک لعنتیں کرتا چلا جا کیونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ سے دوری کا ہم کوئی تصور نہیں کر سکتے.یہی وہ لعنت ہے، اس لعنت کو ہم کسی قیمت پر قبول کرنے کے لئے تیار نہیں اور اگر یہ جھوٹ ہے تو پھر قرآن کریم کی زبان سے زیادہ میں اور کوئی زبان استعمال نہیں کرتا کہ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ لَعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ لَّعْنَتَ اللهِ عَلَى الْكَذِبِينَ اب یہ آسمان کا خدا بتائے گا اور آنے والی تاریخ بتائے گی کہ آسمان کس پر لعنتیں برسا رہا ہے اور کس پر رحمتیں نازل فرماتا ہے؟ کس کو عزت اور شرف سے یاد رکھا جاتا ہے اور کس کو ذلت اور نامرادی کے ساتھ یا درکھا جاتا ہے؟
خطبات طاہر جلد ۳ 729 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء گالیاں دینا ہمارا دستور تو نہیں مگر اس ملک میں یہ دستور عام ہے جس ملک میں یہ باتیں کی جارہی ہیں اس میں کوئی شک نہیں ، باپوں کو گالیاں دینے پر قتل تو اب دور کی بات رہ گئی ہے کسی زمانہ میں ہوا کرتے ہوں گے.اب تو ماں بہن کی گندی گالی پاکستان کی گلی گلی میں سنی جاتی ہے.چنیوٹ کے بازاروں میں آپ پھر یئے اُن کے گھروں سے بھی یہی آوازیں بلند ہو رہی ہیں، ان کی گلیوں سے بھی یہی آوازیں بلند ہو رہی ہیں.جھنگ کے دیہات میں آپ چلے جائیے وہ اپنے جانوروں کو بھی ماں باپ کی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور اپنے ماں باپ کو بھی ماں باپ کی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور کوئی قتل نہیں کرتا کسی کو ، یہ تو اب عام دستور ہوگیا ہے.جماعت احمد یہ تو گالیوں کی قائل ہی نہیں رہی مگر جو لوگ گالیوں کے قائل ہیں ان کا حد سے معاملہ آگے بڑھ چکا ہے اور عجیب بات ہے کہ باوجود اس کے کہ شدید ظلم کئے گئے ہیں جماعت احمدیہ پر اور نہایت ہی گندی زبان استعمال کی گئی ہے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ کے عاشق صادق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف اس کے باوجود جماعت کو چونکہ صبر کی تلقین ہے گالیاں سن کے دعا دینے کی تلقین ہے اس لئے جماعت کے صبر کا پیمانہ بھی خدا بڑھاتا چلا جارہا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کے کسی ایک شخص نے بھی کبھی کسی کو جسمانی نقصان پہنچانے کا تصور بھی نہیں کیا اس وجہ سے کہ وہ گالیاں دیتا ہے مگر جن لوگوں کے ہاں یہ تصور ہے جو ان اصولوں کے قائل ہیں ان کے سامنے اب کھلا امتحان ہے.مثلاً پیچھے پاکستان میں داتا صاحب کے دربار کے عرس کے موقع پر لاکھوں بریلوی اکٹھے ہوئے اور باوجود اس کے کہ حکومت نے ہر طرف پہرے بٹھا رکھے تھے سب پہروں کو توڑکر ان سے بے نیاز ہو کر وہ اکٹھے ہوئے اور حکومت کی مشینری کی پیش نہیں جاسکی تھی.اتنا عظیم انبوہ تھا انسانوں کا اور اس انبوہ عظیم میں دو قسم کی گالیاں دی گئیں.ایک ان کو گستاخ رسول قرار دیا گیا تھا کہ جو جماعت احمدیہ کو گستاخ رسول کہتے ہیں اور اتنی شدید گالیاں دی گئیں ہیں دیو بندی اور وہابی اور اہلحدیث اور احراری مسلک اور کھلم کھلا کہا گیا ہے کہ یہ اصل خبیث تو یہ لوگ ہیں ، اصل گندے لوگ تو یہ ہیں کیونکہ یہ ہیں گستاخ رسول اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان میں ہم کسی گستاخی کو قبول نہیں کریں گے اور منظور نہیں کریں گے.عجیب یہ ہے خدا تعالیٰ کی تقدیر! ایک طرف حکومت کے کارندے یہ احراری ہمارے اوپر لگے ہوئے ہیں کہ ہمیں گستاخ رسول قرار دیں اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس
خطبات طاہر جلد ۳ 730 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء کے فرشتے پاکستان کی اکثریت کو ان کے اوپر چلا آرہی ہے اور وہ ان کو اُکسا رہے ہیں.یقیناً یہ خدا کے فرشتے ہیں جو اُکسا ر رہے ہیں کہ اُٹھو اور جواب دو اس معصوم جماعت کی طرف سے جن کی زبانیں میں نے رو کی تھیں.اٹھو اور صبر کے پیمانے تو ڑ دو اس جماعت کی طرف سے جن کو اپنے صبر کے پیمانوں کی حفاظت کی میں نے تلقین کر رکھی ہے.عجیب نشان ہے خدا تعالیٰ کا! صرف یہی نہیں بلکہ صدر پاکستان کے متعلق اتنی گندی زبان استعمال کی گئی کہ سارے پاکستان کی تاریخ میں کبھی کسی صدر کے متعلق چھوڑ کے کسی گندے جانور کے متعلق بھی ایسی گندی زبان استعمال نہیں کی گئی.آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ وہ کیا زبان تھی جو وہاں استعمال ہوئی اور میں بھی نہیں چاہتا تھا کہ دنیا کوعلم ہو، دنیا کو بتاؤں.ہمیں تو سب Cassette Tape مل جاتی ہیں، تمام خبریں پہنچ رہی ہوتی ہیں لیکن منا سب نہیں سمجھتا تھا لیکن ہمارے آقا و مولا پر ایسا گندہ حملہ کیا گیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گستاخ رسول قرار دینا ! حد ہوتی ہے کسی چیز کی.تو میری زبان تو اب بھی جواباً کوئی گالی نہیں دے گی مگر میں ان کو بتانا چاہتا ہوں کہ آپ کو یہ دنیا کس طرح یاد کر رہی ہے؟ آپ کے ملک کے لوگ کس طرح یاد کر رہے ہیں؟ سندھ کی گلیاں اور سندھ کے بازار اورسندھ کے کھیت اور سندھ کے ویرانے اور سندھ کی آبادیاں آج آپ کو کیا کہہ رہی ہیں اور بلوچستان کی زبان میں آپ کا کیا نام ہے، اور پنجاب کے یہ جیالے جو اہل سنت کہلاتے ہیں جو عشق رسول کا دعویٰ کرتے ہیں ان کی زبان پر آپ کے لئے کیا نام ہے؟ اس طرف بھی نگاہ کیجئے ! پھر اگر یہ بات درست ہے کہ جو باپ کے خلاف گستاخی کو برداشت نہیں کر سکتا اور قتل کر دیتا ہے تو پھر وہ دیو بندی وہ وہابی جو آج آپ کو امیر المومنین کہہ رہے ہیں جو آپ کو باپ سے بڑا مقام دے رہے ہیں آج ان کو یہ پھر تلقین ہونی چاہئے کہ ان کا قتل و غارت شروع کر دیں ،صدر مملکت کی طرف کھلی اجازت ہونی چاہئے کہ ایک طرف تو مجھے امیر المومنین سمجھتے ہو ایک طرف تم مجھے اتنی عزت دے رہے ہو کہ وہ سارے مسائل جود نیا میں کوئی حل نہیں کر سکا میں نے حل کر دیئے ، اب کیوں سن رہے ہو میرے خلاف ایسی گندی زبان؟ فوج کی طاقت آپ کے ساتھ ہے، ان احراری ملاؤں کی طاقت آپ کے ساتھ ہے، اٹھیں اور پھر جواب دیں اور اپنے دعووں کو سچا کر دکھا ئیں کہ جسے محبت ہو، جس کو باپ کا مقام دیا جائے اس کے خلاف انسان بات برداشت نہیں کر سکتا.اس وقت آپ کہاں چلے
خطبات طاہر جلد ۳ 731 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء گئے؟ آپ کی فوجیں کہاں گئیں ؟ آپ کی پولیس کہاں گئی ؟ جب کہ لاکھوں کا مجمع نہایت ہی غلیظ گالیاں دے رہا تھا آپ کو اور آپ کے چیلے چانٹوں کو مجال تھی اس وقت حکومت کے کسی ادارے کی قریب بھی پھٹک سکے.صرف ان شریف انسانوں پر آپ کا ظلم چل سکتا ہے جو اس لئے خاموش نہیں کہ وہ بزدل ہیں، وہ تو اپنی جانیں فدا کرنے کے لئے بے تاب بیٹھے ہوئے ہیں ، اس لئے خاموش ہیں کہ خدا نے ان کو خاموشی کا حکم دیا ہوا ہے اس لئے صبر دکھا رہے ہیں کہ قرآن اور محمد مصطفی ﷺ کی سنت نے ان کو صبر پر مجبور کر رکھا ہے.آپ کے لئے تو کوئی سنت نہیں کیونکہ اگر سنت محمد مصطفی کے پیش نظر ہوتی تو وہ تو حیرت انگیز صبر اور حیرت انگیز حوصلے اور حیرت انگیز اخلاق کے اعلیٰ معیار پیش کرتی ہے.ایسے معیار جو اس سے پہلے کبھی کسی انسان نے نہیں دیکھے تھے اور نہ کبھی بعد میں قیامت تک کوئی انسان ایسے معیار دیکھ سکتا ہے.صلى الله حظ عظیم پانے والے تھے وہ لوگ جن کو محمد مصطفی ﷺ نے تربیت دی.عجیب و غریب واقعات رونما ہورہے تھے.وہ عشاق جو آنحضرت ﷺ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے اور جنگ کی شدت کے دوران اپنے ہاتھ حضور اکرم کے چہرہ کے سامنے کر دیا کرتے تھے کہ کوئی تیر آپ کے چہرہ مبارک کو زخمی نہ کر سکے اور ان کے ہاتھ چھلنی ہو جایا کرتے تھے.( صحیح بخاری کتاب المناقب باب مناقب ابی طلحہ ) ان لوگوں نے آنحضرت علیہ کے خلاف گستاخیاں سنیں اور ایک ہاتھ نہیں اٹھا ان گستاخیوں کے خلاف کیونکہ حضرت محمد مصطفی علی نے ان کو روک رکھا تھا؟ ان کو قتل وصبر کی تلقین کر رکھی تھی.وہ سب سے بڑا گستاخ رسول عبد اللہ بن ابی بن سلول جس نے نعوذ باللہ من ذلک آنحضرت ﷺ کے متعلق ایسے الفاظ کہے ایک مسلمان کی زبان پر آتے نہیں، بیان کرنے کی کوشش بھی کی جائے اور مورخین نے لکھے بھی ہیں اور کتابوں میں لکھنے بھی پڑتے ہیں لیکن دل نہیں چاہتا کہ ان کو دو ہرایا جائے اس موقع پر یہ درست ہے کہ باپ کی غیرت نہیں لیکن باپ سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غیرت نے عبداللہ کے بیٹے کے دل میں جوش مارا اور وہ آنحضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے یہ عرض کیا یا رسول اللہ ! برداشت سے بڑھ گیا ہے یہ معاملہ میرے باپ نے یہ ذلیل حرکت کی.اجازت دی جائے کہ میں اسے قتل کروں.آنحضرت ﷺ نے فرمایا نہیں یہ اجازت میں تمہیں نہیں دوں گا.( صحیح بخاری کتاب التفسیر باب قولہ ذالک بانهم آمنوا ثم كفروا..) یہ ہے سنت محمد مصطفی.
خطبات طاہر جلد۳ 732 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء وہ اخلاق اور تہذیب اور عظمت اور شرف انسانی کی وہ عظیم داستانیں ہیں جو کہانیاں نہیں بلکہ عملی دنیا میں آسمان کے سورج نے ایک ایسے دور میں دیکھیں جب کہ حقیقت میں سورج آسمان پر نہیں بلکہ زمین پر اتر آیا تھا.جب کہ آسمان کا سورج حضرت محمد مصطفی علیہ کے سورج کے سامنے اندھیرا دکھائی دیا کرتا تھا.ان سے تو تمہیں کوئی نسبت نہیں لیکن اپنا وہ ضابطہ حیات جسے تم فخر سے پیش کر رہے ہو اس پر خود کیوں عمل کر کے نہیں دکھاتے ؟ اگر یہ بات درست ہے کہ ایک صدر پاکستان اہل پاکستان کو اجازت دیتا ہے کہ وہ اپنے باپ کی بے عزتی برداشت نہ کریں اور اپنے محبوب آقا کی بے عزتی کرنے والے کو یا جس پر الزام بھی لگ جائے کہ وہ بے عزتی کرتا ہے اس کا قتل وغارت شروع کر دیں تو پھر سب سے پہلے جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جو لوگ آپ کو امیر المومنین کہتے ہیں ان کو کیوں نہیں اکساتے اور پھر آپ کی اپنی اولاد بھی تو ہے؟ کیا ان کو باپ کی غیرت نہیں ہے؟ کیا دوسرے رہ گئے ہیں باپوں کی غیر تیں دکھانے والے؟ وہ کیوں نہیں اٹھتے اور ان بریلوی علما کو قتل کیوں نہیں کرتے جنہوں نے آپ کو گالیاں دی ہیں اور سندھ پر کیوں دھاوا نہیں بولتے جو دن رات آپ کو گالیاں دے رہا ہے؟ وہ مائیں آپ کو گالیاں دے رہی ہیں جن کی گودوں کے بچے چھینے گئے صرف اس لئے کہ انہوں نے سیاست میں آزادی ضمیر کا تقاضا کیا تھا.وہ باپ گالیاں دے رہے جن کے معصوم ان کے ہاتھوں سے نکل گئے ، وہ بیوائیں گالیاں دے رہی ہیں جن کے خاوند چھینے گئے وہ بچے گالیاں دے رہے ہیں جو خود یتیم رہ گئے اور بے دردی سے ان کے سینوں پر گولیاں چلائی گئیں صرف اس لئے کہ وہ آزادی ضمیر کا تقاضا کر رہے تھے.وہ یہ تقاضا کر رہے تھے کہ ہمیں اپنے وطن میں آزاد رہنے دیا جائے.سارا بلوچستان گالیاں دے رہا ہے.پاکستان کی بھاری اکثریت جو اہل سنت ہے وہ مذہبی نقطہ نگاہ سے گالیاں دے رہی ہے اور سارا پاکستان بحیثیت مجموعی دن رات شدید بغض و عناد میں مبتلا ہے اور بس نہیں چل رہا کسی کا کہ کس طرح اس ظالمانہ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرے.تو آپ کی اولاد تو بہر حال جسمانی اولاد ہے اگر روحانی نہیں تو جسمانی اولا د تو موجود ہے.آپ کے بیان کئے ہوئے اصول کے مطابق ان کو تلواریں ہاتھ میں لے کر نکل جانا چاہئے پھر جب تک بس چلے کبھی سندھ میں جا کر قتل و غارت شروع کر دیں، کبھی بریلویوں پر ہلہ بول دیں اور ان کا
خطبات طاہر جلد۳ 733 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء قتل و غارت شروع کر دیں ،کبھی بلوچستان میں کبھی پنجاب کی گلیوں میں خون بہائیں.یہ پھر ان کے لئے لائحہ عمل بڑا کھلا کھلا آپ نے پیش کر دیا لیکن جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے یہ محض فساد پھیلانے والی باتیں اس سے زیادہ کوئی ان میں کوئی حقیقت نہیں اس لئے نہ خود عمل کریں گے اس پر نہ ان کی اولا داس پر عمل کرے گی اور وہ غیرت کے تقاضے جو خود پیش کر رہے ہیں ان پر اپنے بچے پورے نہیں اتریں گے کبھی ، میں چیلنج کرتا ہوں کر کے دکھا ئیں.سر سے پاؤں تک سارا جھوٹ ہی جھوٹ ہے کوئی حیا نہیں رہی کہ وقت کے امام کے متعلق جس کو خدا نے اپنے ہاتھوں سے قائم کیا ہے اس کے متعلق زبانیں کھلتی چل جارہی ہیں اور کوئی کنارہ نہیں ہے ان کی بے حیائی کا.جماعت احمد یہ تو خدا تعالیٰ کے فضل سے ایک والی رکھتی ہے، ایک ولی رکھتی ہے.جماعت احمدیہ کا ایک مولا ہے اور زمین و آسمان کا خدا ہمارا مولا ہے لیکن میں تمہیں بتاتا ہوں کہ تمہارا کوئی مولا نہیں.خدا کی قسم جب ہمارا مولا ہماری مدد کو آئے گا تو کوئی تمہاری مدد نہیں کر سکے گا.خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام ونشان مٹادیئے جائیں گے اور ہمیشہ دنیا تمہیں ذلت اور رسوائی کے ساتھ یاد کرے گی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عاشق محمد مصطفی ﷺ کا نام ہمیشہ روز بروز زیادہ سے زیادہ عزت اور محبت اور عشق کے ساتھ یاد کیا جایا کرے گا.عجیب و غریب بہانے بنائے گئے ہیں.ہم کیسے برداشت کر سکتے ہیں کہ ایک جھوٹا نبی، ایک جھوٹا دعویدار ، ایک مفتری نعوذ باللہ من ذلک حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مقابل پر نبوت کا اعلان کر دے.جو شعر میں نے ابھی آپ کو پڑھ کر سنائے ہیں جو نظم ونثر اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جو ہزار ہا صفحات پر مشتمل ہے اس کو کوئی پڑھ کر وہم وگمان بھی نہیں کر سکتا اس ذات کے متعلق ایسا نا پاک حملہ بھی نہیں کیا جا سکتا ہے کہ بالمقابل ایک نبوت کا دعوی کیا ہے.آپ نے تو وہی دعوی کیا ہے جو تمہارا اپنا بھی ایمان ہے کہ ایسا ضرور ہو کر رہے گا.آپ کا تو یہ دعویٰ ہے کہ میں وہ امام مہدی ہوں جس کو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق اس زمانہ میں بھیجا گیا ہے اور امام مهدی از خود تو نہیں بن جایا کرتے نہ لوگوں کے کہنے سے تو کوئی امام مہدی نہیں بن جایا کرتا ہے.امام تو ہوتا ہی وہی ہے جس کو خدا کھڑا کرے، جسے خدا خود مقرر فرمائے ، جس کو الہام نازل کرے کہ میں تجھے زمانہ کا امام مقرر کرتا ہوں.اگر وہ نہیں ہے تو دوسرے اماموں کے منہ پر تھوکتا بھی کوئی نہیں، دو
خطبات طاہر جلد ۳ 734 خطبه جمعه ۱۴؍ دسمبر ۱۹۸۴ء کوڑی کی بھی حیثیت نہیں ان اماموں کی جن کو دنیا والے از خود بنالیا کرتے ہیں.وہ امام ہے عزت کے لائق اور شرف کے لائق جن کو خدا مقرر کیا کرتا ہے تو امام مہدی کیسے ہونگے ، ان کا مقام کیا ہوگا، جن کو خدا خود مقرر فرمائے گا اور جن کا ماننا تمام امت پر لازم قرار دے گا.امام مہدی کے یہ دو خواص ہیں.بتاؤ تو سہی کہ کیا ان خواص کا حامل کبھی دنیا میں غیر نبی بھی پیدا ہوا ہے؟ سارے مذہب کی تاریخ میں سے کوئی ایک نکال کر دکھا دو ایسا شخص جس کو خدا نے خود مقررفرمایا ہو اور ایسا شخص جس کے انکار کو کفر قرار دے دیا گیا ہو.یہی تعریف ہے نبوت کی ہم خود یہ دونوں باتیں امام مہدی میں مانتے ہو لیکن اتنی جرات نہیں ہے، صداقت کے ساتھ ایسی وابستگی نہیں ہے کہ روشنی کو روشنی کہ سکو اور اندھیرے کو اندھیرا کہہ سکو.جب تک تمہارے اندر امام مہدی کے آنے کا تصور موجود ہے تم جھوٹ بولو گے اگر حضرت مرزا صاحب کے متعلق یہ الزام لگاؤ گے کہ نعوذ باللہ آنحضرت ﷺ کے مقابل پر کسی نبوت کا دعویٰ کیا ہے.آپ نے تو ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ مجھے خالی نبی نہ لکھا کر وجب لکھوامتی نبی صلى الله لکھو کیونکہ مجھے میری ساری شان حضرت محمد مصطفی ﷺ کی غلامی اور آپ کی امت میں سے ہونے میں ہے.پھر دوسری جگہ فرماتے ہیں اگر میرے اعمال کوہ ہمالیہ کے برابر بھی ہوتے اور میں حضرت محمد صلى الله مصطفی ﷺ سے وابستہ نہ ہوتا تو خدا ان سارے اعمال کو اور مجھے اٹھا کر جہنم میں پھینک دیتا، پھر کوئی بھی قدر نہ رہتی کیونکہ جب سے حضور اکرم ﷺ کا نور ظہور پذیر ہوا ہے اس کے بعد سے وہی قبول کیا جائے گا جو محمد مصطفی معے کے رستے سے آسمانی بادشاہت میں داخل ہوتا ہے اسی کو وسیلہ کہتے ہیں.(تجلیات الہیہ روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحه ۴۱۱-۴۱۲) ایسے عقیدہ رکھنے والے پر نعوذ باللہ من ذلک یہ الزام کہ وہ مقابل کی کسی نبوت کا دعویدار ہے سراسر جھوٹ ہے سر سے پاؤں تک جھوٹ ہے.جہاں جھوٹ کے معاملہ میں کوئی عار باقی نہ رہ گئی ہو تو پھر ٹھیک ہے جو چاہو کہتے چلے جاؤ مگر حقائق کو تو جھوٹ نہیں بدلا کرتے.یہ کہنے کے بعد پھر آخری بات یہ فرمائی گئی ہے اس بیان میں جو صدر پاکستان کی طرف منسوب کیا گیا ہے کہ ہم تو یہ برداشت نہیں کر سکتے اس لئے اب تمہارے لئے دو ہی رستے ہیں یا تو ملک چھوڑ جاؤ اور یا پھر سیدھی طرح کلمہ پڑھ کر مسلمان بن جاؤ تو ہم تمہیں چھاتی سے لگالیں گے.کوئی ایک بھی کل اس بیان کی سیدھی نہیں.ہم ایک محاورہ سنا کرتے تھے اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل
خطبات طاہر جلد ۳ 735 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء سیدھی! لیکن یہ محاورہ ہی تھا ہم نے تو ہر چیز پر غور کیا کوئی نہ کوئی سیدھی کل نظر آجایا کرتی تھی یعنی یہ بیان آج ایسا میری نظر سے گزرا ہے کہ اس کی کوئی بھی کل سیدھی نہیں.ملک سے نکل جاؤ ، ملک کوئی لوگوں کے باپوں کی جاگیریں تو نہیں ہوا کرتی ، ملک تو قوم کا اجتماعی سرمایہ ہوتا ہے.ملک سے کون کسی کو کیسے نکال سکتا ہے؟ پاکستان ان پاکستانی احمدیوں کا وطن ہے جنہوں نے پاکستان کے لئے قربانیاں دیں، جن کے آباؤ اجداد نے قربانیاں دیں، جو آج بھی جب پاکستان کو خطرات درپیش ہوتے ہیں صف اول کے مجاہدین بنتے ہیں.کوئی ایک بھی احمدی نہیں ہوتا جو غداری کر جائے ملک سے، ان کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ وطن چھوڑ جائیں تم لگتے کیا ہو اس ملک کے جو وطن چھوڑ جائیں، کوئی حیثیت اپنی ثابت کرو.بتاؤ کہ تمہیں کس طرح یہ ملک جا گیر یا ورثے میں ملا تھا کہ اہل وطن کو وطن سے نکالنے کا حق رکھتے ہو؟ اگر وطن سے نکالنے کا کسی کے متعلق کوئی حق ہے کسی کو تو پھر ان لوگوں کو نکالنا چاہئے جو پاکستان کی پ“ بھی بنانے نہیں دینا چاہتے تھے، جو قائداعظم کو کافر اعظم کہتے تھے ، جو یہ کہا کرتے تھے کہ کسی ماں نے وہ بچہ نہیں جنا جو پاکستان بنا کے دکھائے یا پاکستان کی پ“ بھی بنا کے دکھائے.جو یہ کہا کرتے تھے جو بھی بنے گا پلیدستان بنے گا پاکستان نہیں بنے گا.جو ہندو کانگرس کی غلامی پر فخر کیا کرتے تھے اور یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ مسلمان کا صرف اتنا کام ہے کہ سیاست میں قربانی دے اور پھر جو کچھ حاصل کرے، جو ملک اس کے نتیجہ میں ہاتھ میں آئے وہ ہندو اکثریت کے حضور پیش کر دے اور یہی اس کا کام ہے اور پھر وہ اللہ اللہ میں مصروف ہو جائے.یہ وہ چیلے چانٹے تھے ہندو کانگرس کے ، یہ ان کے نصب العین تھے، ان کا تو حق ہے کہ اس وطن میں آکر ٹھہریں جس کو احمدیوں نے اپنا خون دے کر بنایا اور احمدی کا حق نہیں ہے کہ اس وطن میں رہے؟ کوئی کچھ تو عقل کا پاس ہونا چاہئے.اتنا تو نہیں کہ کلیۂ عقل کو ایسی چھٹی دے دی جائے کہ قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے ، ہر بات کو الٹ دیا جائے.اب یہ احمدیوں کو کہا جارہا ہے کہ وطن چھوڑ دو اور پھر اگلی بات ورنہ کلمہ پڑھ لو.إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رجِعُونَ کلمہ پڑھنے کے نتیجے میں تو مارے جارہے ہیں ابھی تک بے چارے اس جرم میں تو وہ سزائیں دیئے جار ہے ہیں کہ کلمہ کیوں پڑھتے ہیں؟ اسی جرم کی پاداش میں جیلیں بھر رہے ہو تم کہ احمدی کلمہ کیوں پڑھتے ہیں اور سیاہیاں پھر وار ہے ہو.یہ وہ اسلامی حکومت ہے جو اسلام کے نام پر قائم کئی گئی تھی اور اب اسلام ہی کے نام پر کلے مٹانے پر لگی ہوئی ہے.ہر ڈاک میں ایسی
خطبات طاہر جلد ۳ 736 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء اطلاعیں آتی ہیں کہ حکومت کے کارندے جن کو حکومت کے افسران نے مجبور کیا ہے حکماً جاتے ہیں اور بعض دفعہ روتے ہیں وہاں احمدیوں کے سامنے کہ ہم مجبور ہیں، ہماری نوکری کا سوال ہے.لیکن مشرک ہوچکے ہیں ، خدا کی پرواہ نہیں کرتے بندے کی نوکری کا سوال ہے اس لئے وہ اپنے ہاتھوں سے کلمہ مٹانے لگ جاتے ہیں.تو کلمہ مٹانے والے تو تم ہو، کلمہ کو سینے سے لگانے والے تو ہم ہیں اور ہمیں کون سا کلمہ پڑھوانا چاہتے ہو؟ تمہارا کلمہ تو ہم نہیں پڑھیں گے، تمہارے ملاؤں کا کلمہ تو ہم نہیں پڑھیں گے، ہماری زبانیں گدی سے کھینچوا دو اگر کھنچوانے کی طاقت ہے، ہماری گردنیں کاٹ دو اگر کاٹنے کی طاقت ہے، ہمارے اموال تلف کر دو اگر تلف کرنے کی طاقت ہے، مگر خدا کی قسم محمد مصطفی ﷺ کا کلمہ پڑھیں گے اور تمہارا کلمہ نہیں پڑھیں گے.ایک بھی احمدی ماں یا بیٹا نہیں ہے، ایک جوان یا بوڑھا نہیں ہے جو محد مصطفی ﷺ کے کلمہ کو چھوڑ کر کسی صدر مملکت کسی سر براہ حکومت کا کلمہ پڑھ لے.اس لئے ان سے کلمے پڑھواؤ ان کو چھاتیوں سے لگاؤ جن کو تمہاری چھاتیوں سے لگنے کی پروا ہے.جو مرتے ہیں کہ کسی طرح تمہاری چوکھٹ تک پہنچیں اور سجدے کریں تمہاری حکومت کو.ہمیں تو ان چھاتیوں کی کوئی پرواہ نہیں جن چھاتیوں میں جھوٹ ہے، جن چھاتیوں میں بغض ہے، جن چھاتیوں میں کوئی انسانی قدر باقی نہیں رہی.ہم کیسے حمد مصطفی ﷺ کے غلام کی چھاتی کو چھوڑ کر تمہاری چھاتی سے لگنا گوارہ کریں؟ کیسی دھمکی ہے کیا لالچ ہے! اس قوم کو تو چھاتی سے لگاتے نہیں جو تمہارے نزدیک وہی کلمہ پڑھ رہی ہے جو تم پڑھ رہے ہو، اس قوم کی عزت سے تو کھیل رہے ہو جس قوم سے تمہارا کوئی مذہبی اختلاف نہیں ہے.وہ کونسی چھاتیاں تھیں جن کو تم نے چھلنی کیا سندھ میں، جن کو بلوچستان میں چھلنی کیا ، جن کو پنجاب اور صوبہ سرحد میں چھلنی کیا ؟ کیوں کیا ؟ کیا وہ ، وہ کلمہ نہیں پڑھتی تھیں جو تم سمجھتے ہو کہ تم پڑھتے ہو؟ پھر کس جرم اور کس کی سزا میں تم نے ان پر یہ مظالم روا ر کھے اور بعض گلیوں کو خون سے بھر دیا ؟ بڑوں کے خون لئے ، بچوں کے خون لئے ، جوانوں کے خون لئے ، عورتوں کو شدید اذیت ناک مصیبتوں قیدوں میں مبتلا رکھا اور ان کی بے عزتیاں کروائی گئیں.اس اسلامی حکومت میں تم یہ کہہ رہے ہو کہ ہماری چھاتی سے لگو کلمہ پڑھ کر کلمہ پڑھ کر تو ہم چھاتی سے لگنے کے اہل نہیں رہتے ، ہم تو جیلوں کے قابل ہو جاتے ہیں.لیکن جن کے متعلق تم سمجھتے ہو کہ کوئی مذہبی اختلاف نہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 737 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء ہے، ایک ہی کلمہ ہے ، ایک ہی زبان ہے ، ان کی چھاتیوں سے کیوں نہیں لگتے ؟ ان کو کیوں اپنی چھاتیوں سے نہیں لگاتے ان کو کیوں پاؤں تلے روندتے ہی روند تے چلے جارہے ہو؟ کوئی ایک کل تو ہو جو سیدھی ہو ، اول سے آخر تک محض تاریکی ہی تاریکی ہے اس بیان میں، ضیاء اور نور کا کوئی بھی پہلو باقی نہیں.اللہ تعالیٰ ایک غیرت رکھتا ہے اپنے پیاروں کے لئے ، اللہ تعالیٰ مظلوموں کی حمایت کیا کرتا ہے خصوصا ان مظلوموں کی جن کے متعلق خدا جانتا ہے کہ سوائے اس کے کہ میری خاطر یہ دکھ دیئے جارہے ہیں اور کوئی انہوں نے جرم نہیں کیا اس لئے اگر خدا کا کوئی ایمان اور کوئی یقین دل میں باقی ہے تو خوف رکھو اور جانو کہ تم کہاں تک پہنچ چکے ہو اور کس حد سے آگے بڑھ رہے ہولیکن مجھے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ خدا کی کوئی غیرت ، خدا کا کوئی خوف باقی نہیں رہا.اگر غیرت ہوتی تو فرضی طور پر جن کے او پر الزام لگائے جا رہے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذلک یہ گستاخ رسول ہیں.ان کے اوپر تو تمہارے غصے جوش پکڑ رہے ہیں اور غیظ و غضب کی ہنڈیاں ابل رہی ہیں لیکن وہ جو دعویٰ کرتے ہیں کہ ہاں ہم حضرت محمد مصطفی عمل اللہ کو نعوذ باللہ من ذلک جھوٹا سمجھتے ہیں ان کی چھاتیوں سے لگ رہے ہو.وہ ہندو ہیں جو خدا کے بھی قائل نہیں یعنی اس خدا کے قائل نہیں جو قرآن پیش کرتا ہے.انہوں نے فرضی جھوٹے خدا ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں بنائے ہوئے ہیں ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو کئی کئی دن سوگ منائے جاتے ہیں ملک میں، ان سے مصافحہ کرنے میں فخر کیا جاتا ہے.وہ عیسائی جو آنحضرت ﷺ کومفتری قرار دیتے ہیں ان کی چھاتیوں سے لگتے ہو، ان کے ہاتھ کی روٹی کھاتے ہو، ان سے خیرات مانگتے ہو اور فخر سے اعلان کرتے ہو کہ ان عیسائی ممالک نے ہمیں اتنی خیرات صلى الله دینے کا اعلان کر دیا ہے تو کہاں جاتی ہے اس وقت غیرت محمد مصطفی ؟ غیرت کے اظہار کے لئے عشاق رسول ہی رہ گئے ہیں.جو دشمنان رسول ہیں، جو کھلم کھلا گالیاں دیتے اور جھوٹا اور مفتری سمجھتے ہیں ان کے لئے تمہاری کوئی غیرت جوش میں نہیں آتی اور جو خدا کے دشمن ہیں وہ ان کی چھاتیوں سے کبھی جا کے لگتے ہو وہ چینی جو معززین آتے ہیں وہ تو خدا کی ہستی کے ہی قائل نہیں ، کوئی غیرت نہیں ہے خدا کی؟ اس لئے ان باتوں کے پیش نظر مجھے یہ یقین کرنے کی کوئی بھی وجہ نہیں کہ ایسے لوگ خدایا -
خطبات طاہر جلد ۳ 738 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء رسول کی محبت یا کچی غیرت رکھتے ہوں کیونکہ ان کا عمل ان غیرتوں کو جھٹلا رہا ہے کوئی بھی واسطہ نہیں رہنے دیتا ان کے ساتھ اس لئے پھر کس کا واسطہ ہم تمہیں دیں ؟ کس کے خوف سے ہم تمہیں ڈرائیں؟ اُس کے خوف سے جس کا خوف بالائے طاق رکھنے کے بعد تم ان حرکتوں پر آمادہ ہوئے؟ اسکی محبت کا واسطہ دیں جسکی محبت سرے سے تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوئی ؟ لیکن پھر بھی تم مانو یا نہ مانو قرآن کا کلام جس طرح پہلے سچا تھا اس طرح آج بھی سچا ہے جس طرح آج سچا ہے اس طرح کل بھی سچا ثابت ہو گا.فراعین کے مظالم اور بڑے بڑے بد کردار اور متکبرین کے مظالم کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم کئی قسم کے آفات کا ذکر کرتا ہے جنہوں نے ایسے لوگوں کو گھیر لیا جو زمینی بھی تھیں اور سماوی بھی تھیں.کچھ ایسی بھی تھیں جن میں بندوں کا دخل نہیں تھا محض وہ آسمان سے نازل ہوئیں یا زمین سے پھوٹیں اور کچھ ایسی بھی تھیں جن میں بندوں کا بھی دخل تھا اور بندوں کو استعمال کیا گیا ان کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم آئندہ کے بارہ میں ایک ایسی پیشگوئی فرماتا ہے جو بعینہ ان حالات پر پوری لگتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ کہنے والے کی زبان سے قرآن کریم یہ کہلواتا ہے: وَيُقَوْمِ اِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ الثَّنَادِ ( المؤمن :۳۳) کہ اے میری قوم میں تم پر ایک ایسے عذاب سے بھی ڈرتا ہوں جو تمہیں آلے گا جسکی شکل صورت یہ ہوگی کہ اہل وطن ایک دوسرے کو تمہارے خلاف مدد کے لئے پکاریں گے.التناد اس کو کہتے ہیں جب شور پڑ جائے اور واویلا شروع ہو جائے اور وہ لوگ جو پنجاب کے دیہات سے خصوصاً واقف ہیں ان کو علم ہے خصوصاً جھنگ وغیرہ کے علاقے میں اگر رات کو کوئی چوری ہو جائے یا کوئی اور آفت پڑ جائے تو لوگ، زمیندار چھتوں پر نکل جاتے ہیں اور واویلا شروع کر دیتے ہیں اور سارے ملک کو اپنی مدد کے لئے پکارتے ہیں ظالم کے خلاف.چنانچہ وہ آواز جہاں پہنچتی ہے پھر وہ آگے آواز چل پڑتی ہے پھر اس سے آگے چل پڑتی ہے پھر اس سے آگے چل پڑتی ہے اور جہاں جہاں وہ آواز پہنچتی ہے.لوگ گھروں سے نکل کر جو ان کے ہاتھ میں آتا ہے وہ لے کر نکل کھڑے ہوتے ہیں کہ ایک مظلوم کی مدد کے لئے چلیں تو اس کو کہتے ہیں یوم التناد معلوم ہوتا ہے عرب بھی اس دستور سے واقف تھے کیونکہ یہ عربی محاورہ استعمال کیا گیا ہے تو ایسا واقعہ گزشتہ کسی فرعون کے زمانہ میں تو پیش نہیں آیا.آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ
خطبات طاہر جلد ۳ 739 خطبه جمعه ۱۴ / دسمبر ۱۹۸۴ء لیجئے کبھی کسی فرعون کے زمانہ میں یہ واقعہ پیش نہیں آیا.نہ حضرت موسیٰ کے زمانہ میں آیا ہے نہ اس کے علاوہ کسی اور تاریخ میں ذکر ملتا ہے اور ہے بھی یہ مستقبل کا صیغہ اور قرآن کی بات تو لازماً پوری ہونی ہے فرمایا یہ گیا ہے وَيُقَوْ إِنِّى أَخَافُ عَلَيْكُمْ يَوْمَ التَّنَادِن اور التَّنَادِ کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جو کسی ظالم کے خلاف دوسری قوموں کو اپنی مدد کیلئے پکارتے ہیں.یہ تو بہت ہی خوفناک منظر ہے اس لئے تمہیں قرآن پر یقین ہو یا نہ ہو تم خدائی تقدیر کے قائل ہو یا نہ ہو جماعت احمد یہ تو خدا کی ہستی پر اس طرح یقین رکھتی ہے کہ دن کے سورج پر اس سے کم یقین رکھتی ہے اور اپنے وجود پر اس سے کم یقین رکھتی ہے.ہم جانتے ہیں کہ اگر کوئی قابل یقین قابل ایمان ہستی ہے تو صرف خدائے وحدہ لاشریک ہے اور ہر وہ دوسری چیز جو ایمان کے لائق ہے وہ اس کے واسطے سے ایمان کے لائق ہے.وہی ہے جو واحد ہے، لا یموت ہے،احد ہے اور غالب ہے اور قہار ہے اور غیور ہے اور منتظم ہے.ہم ایک ایسے زندہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں جس کے مقابل پر کوئی بھی چیز غالب نہیں آسکتی اس لئے تم اس آواز کو سنو یا نہ سنو ہم اس آواز کو لازما تمہیں پہنچائیں گے کہ خدا کی اس تقدیر سے ڈرو جب کہ زمین میں تمہارے خلاف الثنادِ کی سی کیفیت پیدا ہو جائے اور سارا ملک ایک دوسرے کو تمہارے ظلم اور جبر کے خلاف آواز دینے لگے کہ اٹھو اور اس ظالم کو چکنا چور کر کے رکھ دو، اس کو ملیا میٹ کر کے رکھ دو اور اگر یہ بس نہ جائے تو قو میں دوسری قوموں کو اپنی طرف بلائیں.یہ تقدیر الہی ہے تو لازماً پوری ہو کر رہے گی.آج نہیں تو کل تم اس کا نمونہ دیکھو گے کیونکہ خدا تعالیٰ کے ہاں دیر تو ہے اندھیر کوئی نہیں.وہ ڈھیل تو دیا کرتا ہے مگر جب اس کی پکڑ آیا کرتی ہے تو وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ (ص:۴) کوئی بھاگنے کی جگہ باقی نہیں رہتی.ایسا کامل گھیرا پڑ جاتا ہے کہ سوائے حسرت و نامرادی کے اور کچھ بھی انسان کے قبضہ قدرت میں نہیں ہوتا.اس وقت وہ یاد کرتا ہے کہ کاش ! میں اس سے پہلے اس دائرے سے باہر نکل چکا ہوتا مگر نکلنے کی کوئی راہ باقی نہیں.لیکن افسوس ہے ان قوموں پر جو ایسے وقت تک انتظار کریں کہ جب خدا کی تقدیر ایسی غضبناک ہو چکی ہو تو ان سربراہوں کے ساتھ قوموں پر بھی خدا کی ناراضگی کا عذاب ٹوٹ پڑے.ہمیں دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے پاک وطن کو ہمارے پیارے وطن کو ان شدید مصائب اور مظالم سے نجات بخشے کیونکہ جیسا کہ میں نے بار بار یہ کہا ہے ہماری ایک حیثیت تو عالمی
خطبات طاہر جلد۳ 740 خطبه جمعه ۱۴/ دسمبر ۱۹۸۴ء ہے یعنی ایک مسلمان کی حیثیت سے ہم ایک عالمی دین رکھتے ہیں، ایک عالمی وطن رکھتے ہیں لیکن مختلف حیثیتیں انسان کی ہوا کرتی ہیں ، ایک حیثیت پاکستانی احمدیوں کی پاکستانی کی بھی ہے اور پاکستان کا سب سے زیادہ سچا پیارا اگر کسی کو ہے اہل وطن میں سے تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں وہ احمدی کو ہے اس لئے فکر کریں دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ظالموں کے ہاتھ مزید ظلم سے روک دے اور ایسے دن نہ دکھائے ہمیں کہ ان کا ظلم پھر ساری قوم پر تاریکی بن کر ٹوٹ پڑے اور تاریکی کے اندر جو آفات کھول دی جاتی ہیں آسمان کی طرف سے ہر قسم کی بلائیں جو باہر نکل آیا کرتی ہیں اپنی کمین گاہوں سے وہ بلائیں اس قوم کو گھیر لیں.اللہ ہمیں وہ دن دیکھنا نصیب نہ فرمائے اور اگر وہ دن آئے تو اللہ تعالیٰ اپنی خاص تقدیر سے جماعت کو ہر آفت اور ہر بلا سے محفوظ رکھے.(آمین) ( نوٹ : خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے مکرم عبدالحکیم اکمل صاحب مربی ہالینڈ کو مخاطب کر کے کسی فہرست کے بارہ میں ہدایت فرمائی کہ اس کا ہالینڈ کی زبان میں ترجمہ کر دیں تا کہ لوکل احمد یوں کو آج رات تک مہیا کی جاسکے )
خطبات طاہر جلد ۳ 741 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء مخالفین انبیاء کا انجام اور جماعت کا روشن مستقبل ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام مسجد نور فر نیکفرٹ ، جرمنی) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت فرمائیں: يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُنَاسِ بِاِمَامِهِمْ ۚ فَمَنْ أُوتِيَ كِتُبَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَبِكَ يَقْرَءُونَ كِتْبَهُمْ وَلَا يُظْلَمُوْنَ فَتِيلًا وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِى الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذَا لَّا تَخَذُوكَ خَلِيلًا وَلَوْلَا اَن ثَبَّتْنَكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيْلًا إِذَا لَّا ذَقْتُكَ ضِعْفَ الْحَيُوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذَا لَّا يَلْبَثُونَ خِلْفَكَ إِلَّا قَلِيلًا سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (بنی اسرائیل : ۷۲ - ۷۸ )
خطبات طاہر جلد ۳ پھر فرمایا : 742 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں سے پہلی آیت میں یہ عظیم الشان اعلان فرمایا گیا ہے کہ یوم حشر کو جب کہ خدا تعالیٰ انسانوں کی بعثت ثانیہ فرمائے گا تو ہر انسان کو اس کے امام کے نام پر اٹھایا جائے گا، اس کے امام کے نام کے ساتھ اس کو بلایا جائے گا یعنی وہ جس کو وہ سچا امام سمجھتا ہے، جس کے پیچھے اس نے اپنی زندگی کی حرکت و سکون کو لگا دیا وہ جس کے پیچھے اس نے اپنا لائحہ عمل طے کیا اور جسے مقصود بنا کر اس کے پیچھے پیچھے قدم رکھتا رہا، اسی کے ساتھ قیامت کے دن اس کا حشر ہوگا.اگر تو اس نے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو اپنا امام بنالیا ہے تو آپ ہی کے ساتھ اس کا حشر ہوگا اور کوئی دنیا کی طاقت اسے اپنے اس مقدس امام سے الگ نہیں کر سکے گی اور اگر اس نے دشمنان محمد مصطفی ﷺ کا وطیرہ اختیار کیا ہے اور ان کو عملی زندگی میں اپنا امام بنا رکھا ہے تو کوئی دنیا کی طاقت اس امامت سے ہٹا کر اس کو محد مصطفی ﷺ کی امامت میں حشر کی توفیق نہیں بخش سکتی.ایک ایسا اعلان ہے جس میں کوئی تبدیلی نہیں.ہر شخص اپنے امام کے پیچھے یعنی اس حقیقی امام کے پیچھے جس کے ساتھ اس نے اپنی زندگی کی ساری تمنائیں، ساری امنگیں، ساری آرزوئیں وابستہ کر رکھی ہیں اور جس کے تمام اعمال بھی ان امنگوں ان آرزوؤں کی تصدیق کرتے میں فَمَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَمِينِهِ فَأُولَبِكَ يَقْرَءُونَ كِتْبَهُمْ وَلَا يُظْلَمُونَ فَتِيلًان پر جن لوگوں کی تقدیر کا فیصلہ ان کے داہنے ہاتھ میں پکڑایا جائے گاوہ اس کتاب کو پڑھیں گے اور ایک ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کئے جائیں گے.یمین سے مراد وہ ائمہ ہیں جو حقیقی مذہبی ائمہ ہیں کیونکہ شمال اور یمین کی تقسیم قرآنی محاورے کے مطابق مذہبی اور غیر مذہبی دنیاؤں کی تقسیم ہے.پس مراد یہ ہے اگر اس نے مذہبی امام کو اپنا متبوع بنالیا اور کسی ایسے امام کو جس کو خدا نے مقرر فرمایا ہے تو پھر اس کے مقدر چمک اٹھے اور اس کے دائیں ہاتھ میں یعنی روحانی لحاظ سے خدا کی خوشنودی کے رنگ میں اسے وہ کتاب دی جائے گی جو اس کے مقدر کی کتاب ہے جس میں اس کی قسمت کا فیصلہ لکھا ہوا ہوگا کیونکہ اس نے اس کو امام بنایا جو خدا کے دائیں ہاتھ پر ہے.وَمَنْ كَانَ فِي هَذِهِ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى وَأَضَلُّ سَبِيلًا اور جوکوئی اس دنیا میں اندھا ہو وہ قیامت کے دن بھی اندھا ہی اٹھے گا وَ أَضَلُّ سَبِيلان بلکہ اس سے بھی بدتر حال میں
خطبات طاہر جلد ۳ اٹھایا جائے گا.743 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء بظاہر تو پہلے مضمون کے ساتھ کوئی قطعی تعلق اس دوسرے مضمون کا نظر نہیں آتا لیکن اہل شمال کا ذکر پہلی آیت میں نہیں ہے وہی ذکر اندھے کے طور پر دوسری آیت میں کیا گیا ہے.دائیں ہاتھ والوں کا ذکر تو موجود ہے بائیں ہاتھ والوں کا ذکر موجود نہیں تھا اور اندھے کے طور پر ان کا ذکر چلا ہے اور يتعلق فَأُولَبِكَ يَقْرَءُونَ كِتُبَهُمْ سے پیدا ہوا ہے جس کی آنکھوں میں بصیرت ہو وہی تقدیر کا لکھا پڑھ سکتے ہیں اور جن کی آنکھوں میں بصیرت نہ ہو وہ کچھ بھی پڑھ نہیں سکتے تو فرمایا جن کو دائیں ہاتھ میں کتاب دی جائے گئی ان کی قسمت کا لکھا وہ پڑھیں گے کیونکہ وہ اہل بصیرت تھے.پہلی دنیا میں بھی اہل بصیرت تھے اور دوسری دنیا میں بھی اہل بصیرت کے طور پر اٹھائے گئے تھے.جن کو پہلی دنیا میں تقدیر کے لکھے پڑھنے آتے تھے وہ دوسری دنیا میں بھی تقدیر کا لکھا پڑھ سکیں گے.جو پہلی دنیا میں اندھے رہے خدا کی تقدیر کے نشان افق میں رونما ہوتے دیکھے بھی اور ان کو سمجھ نہ آئی ، ان کی آنکھیں خدا تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی سنت سے غافل رہیں ، وہ اس دنیا میں بھی اندھوں کے طور پر اٹھائے جائیں گے بلکہ اس سے بدتر ان کا حال ہوگا.یہ امر واقعہ ہے کہ مذہب کی مخالف قوموں کی تقدیر اس سے بہتر بیان نہیں ہوسکتی کہ وہ اندھے ہو جاتے ہیں کئی قسم کے اندھیرے ہیں جن میں وہ مبتلا کئے جاتے ہیں.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ نور نبوت کو پہچان نہیں سکتے.وہ سمجھ نہیں سکتے کہ خدا کی طرف سے آنے والے کس رنگ میں رنگین ہو کر آتے ہیں اور خدا سے ہٹے ہوئے لوگوں کے چہرے کیسے ہوتے ہیں.وہ سچ اور جھوٹ میں تمیز نہیں کر سکتے ، مذہبی راہنمامذہب کے نام پر ان کو گند کی تعلیم دیتے ہیں، گندی زبانیں استعمال کرتے ہیں ، خدا کے بندوں کو جلانے ، لوٹنے اور مارنے کی تلقین کرتے ہیں اور انہیں کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ پیغامبر خدا کے پیغامبر ہو ہی نہیں سکتے ، نور سے اندھیرا پھوٹ ہی نہیں سکتا.یہ بنیادی بات بھی وہ سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے اور چونکہ وہ بصیرت سے عاری ہو جاتے ہیں اس لئے نہ صرف یہ کہ روحانی بصیرت سے عاری ہوتے ہیں بلکہ دنیاوی بصیرت سے بھی عاری ہو جاتے ہیں.وہ اپنی زندگی کا پروگرام بنا کر ، روشنی میں دیکھ کر ایک منصوبہ کے مطابق آگے قدم بڑھانے کے اہل نہیں رہتے.ان کو یہ توفیق نہیں ملتی کہ وہ اس طرح چل سکیں جس طرح ایک روشنی کو دیکھنے والا صاحب بصیرت انسان
خطبات طاہر جلد۳ 744 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء قدم اٹھاتا ہے اور دور تک نظر کرتا ہے راستہ پر، جس راستہ کو بند پائے اس سے وہ پہلے ہی گریز کر جاتا ہے ، جس راستہ کو گڑھوں یا خطرات میں ختم ہوتا دیکھتا ہے اس سے پہلے ہی ہٹ کر ایک نئی راہ تجویز کرتا ہے.لیکن اندھے بے چارے کا حال یہ ہے کہ جب تک کسی دیوار سے ٹکر نہ لگ جائے یا کسی گڑھے میں جانہ پڑے اس بے چارے کو کچھ پتہ نہیں لگتا کہ میں کس راہ پر چل رہا ہوں اور بعض دفعہ عین کنارے پر جا کر پتہ چلتا ہے، بعض دفعہ کنارے پر جا کر بھی پتہ نہیں چلتا.جب ہلاکت اس کو گھیر لیتی ہے اس وقت اس کو پتہ چلتا ہے کہ میں نے غلط اقدام کیا تھا.بعینہ یہی صورت حال ہر زمانے میں خدا کے بیچوں کو جھٹلانے والوں کے ساتھ پیش آتی رہی ہے ایک بھی استثنا آپ اس میں نہیں دیکھیں گے.جس طرح انبیاء کی سنت یقینی اور قطعی ہے انبیاء کے مخالفین کی سنت بھی سو فیصد یقینی اور قطعی ہے اور کبھی کوئی تبدیلی آپ کو اس میں دکھائی نہیں دے گی.ایک ہی طرح کے دعاوی کرتے ہیں، ایک ہی طرح کی مخالفت کے ڈھنگ اختیار کرتے ہیں، اس سے پہلے لوگ وہ ڈھنگ اختیار کر چکے ہوتے ہیں اور نا کام ہو چکے ہوتے ہیں لیکن وہ وہی چالاکیاں دوبارہ دہرانے کی کوششیں کرتے ہیں اس امید میں کہ شاید اس مرتبہ ہم کامیاب ہو جائیں.یہ اندھے ہیں جن کی نہ ماضی پر نظر ہے نہ مستقبل پر نظر ہے.اندھا تو نہ آگے دیکھ سکتا ہے نہ پیچھے دیکھ سکتا ہے.تو بعینہ یہی حال انبیاء کو جھٹلانے والی قوموں کے ہو جاتے ہیں.نہ وہ تاریخ سے سبق حاصل کر سکتے ہیں یعنی ماضی میں مڑ کر دیکھ نہیں سکتے اور نہ وہ ایسا منصوبہ بنا سکتے ہیں جو ان کے مستقبل کو روشن کر دے.ان کا اگلا قدم بھی ہلاکت کا قدم ہے اور ان کا پچھلا قدم بھی ہلاکت کا قدم ہے اور عقلوں سے پھر عاری ہو جاتے ہیں.یہی حال اس زمانے میں ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جھٹلانے والوں کا پایا اور جو کچھ شکوک پہلے رہ گئے تھے باقی وہ اس تحریک نے پوری طرح مکمل کر دئیے.اب کا کوئی ایسا رنگ نہیں ہے جو مخالفین انبیاء کا آپ کو تاریخ مذاہب میں نظر آئے جو انہوں نے اپنے اوپر چڑھا نہ لیا ہو.کوئی ایسا ظلم کا داغ نہیں ہے اور کوئی سرخ نشان نہیں ہے ظلم و ستم کا جو انہوں نے جماعت احمدیہ کے اوپر لگانے کی کوشش نہ کی ہو.ابھی حال ہی میں کلمہ مٹانے کی ایک تحریک چلائی گئی جو آج کل بھی بڑے زور وشور سے جاری ہے اور مطالبات ہورہے ہیں کہ اگر حکومت نہیں مٹائے گی تو ہم مٹادیں گے اور حکومت ان سے
خطبات طاہر جلد ۳ 745 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء بڑھ بڑھ کر مٹانے کی کوشش کر رہی ہے لیکن اتنے اندھے ہیں کہ انکو یہ سمجھ نہیں آرہی کہ کلمہ سے ایک ایسی محبت مسلمان کو ہے کہ جاہل سے جاہل آدمی کے دل میں بھی کلمہ کی محبت لکھی ہوئی ہے خواہ وہ فاسق فاجر ہو، خواہ وہ رشوتیں لینے والا یا رشوتیں دینے والا ہو ظلم سے مال لوٹنے والا ہو، عبادت کے کبھی قریب نہ پھٹکا ہو ،سارا دن ذکر الہی کی بجائے گندی گالیاں دیتا ہولیکن نام اگر مسلمان ہے اس کا تو کلمہ سے اس کو محبت ہے.وہ شیعہ ہو یا سنی یا خارجی ہو کوئی نام بھی اس کا رکھ لیں کلمہ ایک ایسی بنیادی حقیقت ہے جس سے ہر مسلمان طبعا اور فطرتاً پیار کرتا ہے.چنانچہ یہی نتیجہ اس کا نکلا وہ اپنی قوم کے ہاتھ پہ اس میں سے ہونے کے باوجود نبض پر ہاتھ نہیں رکھ سکے اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ ایک غلط فیصلہ کر بیٹھے اور کلمہ کو مٹانے کی جوں جوں تحریک آگے بڑھ رہی ہے اس کا شدید رد عمل ان علماء کے خلاف پیدا ہو رہا ہے.چنانچہ تازہ اطلاعات کے مطابق چنیوٹ کے عوام نے جو ہماری مخالفت کا گڑھ ہے ، ہمیشہ سے چلا آیا ہے بلکہ اس بات پر فخر کرتا ہے کہ سب سے زیادہ شدید مخالف شہر ہے.چنیوٹ کے عوام میں مولویوں کی کلمہ مٹانے کی تحریک کے خلاف شدید رد عمل پیدا ہوا اور اس پر علما نے چنیوٹ میں یہ باتیں کیں کہ ہم سے منصوبہ بندی میں غلطی ہوگئی اور وہ غلطی یہ تھی کہ ہم نے پہلے لوگوں کو کلمہ مثانے کے اوپر پوری طرح آمادہ نہیں کیا.یہ تحریک پہلے چلانی چاہئے تھی کہ کلمہ مثانے میں حرج کوئی نہیں اور وہ احترام جو کلمہ کا مسلمان کے دل میں تھا پہلے اسے مٹانا چاہئے تھا پھر جا کر یہ تحریک چلاتے تو بہت کامیاب ہوتے اب اس کو اگر جہل مرکب نہ کہیں تو اور کیا کہہ سکتے ہیں یعنی احمدیوں سے کلمہ چھینے کی خاطر ہر مسلمان کے دل سے کلمے کا احترام مٹانا پڑے گا اور اس کیلئے یہ تیار ہو چکے ہیں.اس سے بڑی ہولناک تباہی اور کیا ہوسکتی ہے؟ اس سے زیادہ خوفناک روحانی خود کشی اور کیا ہوسکتی ہے؟ سوائے اس کے کہ روحانی آنکھ کا اندھا ہو اتنی سی بات بھی انسان کو نظر نہ آئی یہ کیسے ہوسکتا ہے! بہر حال نہ صرف یہ کہ یہ تیار ہیں اس کام کیلئے بلکہ ایسے دلائل تجویز کر رہے ہیں کہ جن کے نتیجہ میں ان کو یقین ہے کہ آخر مسلمان کے دل سے کلمہ کی محبت اٹھ جائے گی اور جو احترام ذرا سا باقی رہ گیا ہے، جواوٹ باقی رہ گئی ہے جو حیا اور شرم کا پردہ ہے وہ بھی تار تار ہو جائے گا اور ایک ان کے علما میں سے جو بظاہر ان میں سب سے زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور پی.ایچ.ڈی.بھی کہلاتے ہیں انہوں
خطبات طاہر جلد ۳ 746 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء نے ایک عظیم الشان تقریر کی ہے ایک ترکیب سوچی ہے جس کے نتیجہ میں ان کا خیال ہے کہ سارے مسلمان اب کلمہ مٹانے پر آمادہ ہو جائیں گے اور ترکیب ان کو یہ سوجھی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے صلح حدیبیہ کے موقع پر ( ان کے بیان کے مطابق) کلمہ مٹا دیا پس یہ سنت رسول ہے کلمہ مٹانا اور اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ چونکہ وہ کلمہ بے محل تھا اس لئے سنت رسول سے ثابت ہوا کہ جہاں بھی بے محل کلمہ دیکھواس کو مٹا دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جے آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سوسو حجاب اس ایک بات میں بھی سو حجاب حائل ہیں تب جا کر ایسی بات کی جاسکتی ہے.جاہل ہے اور جہل مرکب ہے، ایک اندھیرے کا پردہ نہیں بلکہ پردے پر پردے پڑے ہوئے ہیں.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وہاں تو کلے مٹانے یا کلمہ رکھنے کی بحث ہی کو ئی نہیں تھی.تاریخ اسلام کو یہ توڑ مروڑ کر اس کا حلیہ بگاڑنے سے باز نہیں آرہے.صلح حدیبیہ کا واقعہ مشہور و معروف ہر بچے بچے کے علم میں ہے اور ان کے علما کو یہ پتہ نہیں کہ وہ قصہ کیا تھا.وہاں تو یہ بات چل رہی تھی کہ الله حضرت اقدس محمد مصطفی عملے کا معاہدہ ہو رہا تھا کفار سے صلح کا اور تحریر میں یہ بات لکھی گئی کہ یہ معاہدہ ملکہ کے قریش کے درمیان اور محمد رسول اللہ کے درمیان ہے کلمہ کی تو کوئی بحث نہیں تھی.اس پر وہ جو نمائند ہ کفار مکہ کا آیا ہوا تھا اس نے کہا کہ دیکھو اگر محمد رسول اللہ کو ہم تسلیم کر لیں کہ محمد کی حیثیت رسول اللہ کی ہے تو ہم اتنے پاگل تو نہیں ہیں کہ تمہیں حج سے روکنے آئیں، تمہاری مخالفتیں کریں، تمہارے مقابل پر ایسا طوفان بدتمیزی بپا کر دیں تو کم سے کم تھوڑی سی عقل کا حق تو ہمیں دو.ہم اس لئے مخالفت نہیں کر رہے ہیں کہ یہ رسول اللہ ہے، ہم اس لئے مخالفت کر رہے کہ یہ رسول اللہ نہیں ہے اس لئے ہم سے وہ معاہدہ کرو گے تو پھر دونوں طرف کی بات برابر چلتی ہے.بحیثیت محمد ہم معاہدہ کرنے کیلئے تیار ہیں بحیثیت رسول اللہ اگر ہم معاہدہ کریں گے تو خود اپنی ہلاکت کا سامان پیدا کر رہے ہوں گے اپنی تحریر سے یہ ثابت کر دیں گے کیونکہ ہمارے بھی دستخط ہونے ہیں گویا ہم اپنی تحریر سے ثابت کر دیں گے کہ اللہ کا رسول سمجھتے ہوئے ہم نے اس کی مخالفت کی ہے.ایک نہایت معقول بات تھی اس کو بڑی عمدہ بات سو جبھی ہے اس کے نقطہ نگاہ سے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اس لئے لفظ ” رسول اللہ کاٹنے کی اجازت دے دی کہ آپکی اپنی تحریر نہیں تھی دشمن نے اس پر دستخط
خطبات طاہر جلد ۳ 747 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء کرنے تھے اور دشمن کو بھی مجبور نہیں کیا جاسکتا ایمان لانے پر.( صحیح بخاری کتاب الشروط باب شروط الجهاد والمصالحة مع اہل الحرب وكتابه ) يه لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرہ:۲۵۷) کی ایک اور لطیف تشریح تھی کہ دین میں ادنی سا بھی جبر نہیں.جب غیروں سے معاہدہ کرو گے ، جب ان کو تحریروں پر دستخط کرنے پر مجبور کرو گے کیونکہ معاہدوں میں تو دونوں طرف سے دستخط ہوا کرتے ہیں اس لئے تو پھر وہاں بھی تمہیں جبراً اپنے دین کے عقا ئدان پر ٹھونسنے کا کوئی حق نہیں.اتنا عظیم الشان اسوۂ رسول محمد مصطفی میں ہے کہ وہ ساری دنیا کو روشن کرنے کا اہل ہے.ان آنکھ کے اندھوں کے لئے وہ بھی اندھیرا ہی ثابت ہو رہا ہے اور یہ نتیجہ نکالا جا رہا ہے کہ نعوذ باللہ من ذلک کلمہ کو مٹا دینا یہ سنت رسول ہے اور صرف یہی نہیں اگر کلمہ بھی ہوتا تو یہ نتیجہ نکالا نہیں جا سکتا جواب یہ نکال رہے ہیں.اس صورت میں تو دو فریق یہ بنیں گے ، ایک فریق تھا جو کہتا تھا کہ ضرور مٹانا ہے اور وہ مشرکین کا فریق تھا وہ کلمہ کے انکار کرنے والوں کا فریق تھا اور ایک فریق پر ٹھونسا جارہا تھا کلمہ مٹانا جو کلمہ کو تسلیم کرتا تھا اگر کلمہ مثانے کی بحث تھی تو پھر یہ نتیجہ نکلے گا کہ ہم مشرکین ہیں یعنی دعوی کرنے والے یہ اعلان کریں کہ اے احمد یو! ہم مشرک ہیں ہمارا امام محمد مصطفی کے سے کو ئی بھی تعلق نہیں اور عليسة ہمارے اور تمہارے درمیان یہ قدر مشترک ہے ہی نہیں تم مانتے ہو یہ کلمہ ہم نہیں مانتے اور چونکہ ہمارے ملک کا قانون ہے اس لئے مجبور تمہیں جھکنا پڑے گا اور اپنے رسول کی سنت پر عمل کرتے ہوئے یہ مٹانے پر آمادہ ہو جاؤ.پھر تو یہ گزارش کرنی چاہئے ان کو.ان کو کلمہ مٹانے کا کیسے حق ملا؟ ہم تو مخالفت نہیں کر رہے کلمہ کی.آنحضرت ﷺ نے تو اگر مٹایا بھی تھا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کلمہ کی بحث نہیں تھی مگر جو کچھ بھی تھا لفظ رسول اللہ بھی مٹایا تو دشمن کے اصرار پر وہ یہ کہتا تھا کہ معاہدے کی شکل میں ہم اس پر دستخط نہیں کر سکتے ، ہم مجبور ہو جائیں گے تمہیں رسول اللہ تسلیم کرنے پر.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے نہ تسلیم کرو یہ تمہارا حق ہے.لیکن اگر وہی صورت حال یہاں ان کو چسپاں ہوتی دکھائی دے رہی ہے تو یہ پھر کفار مکہ کے نمائندہ بن گئے اور ہمیں محمد مصطفی امیہ کے ساتھ باندھ رہے ہیں جن سے کاٹنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کے ساتھ ہمیشہ کے لئے وابستہ کر رہے ہیں اور یہ مثال دے رہے ہیں کہ دیکھو جب دشمن پسند نہ کرے کلمہ لکھنا تو محمد مصطفی ﷺ کی سنت یہ ہے کہ دشمن کے دباؤ کو مان لیا کرتے ہیں اس لئے تم بھی ہمارا دباؤ مان جاؤ.اپنے آپ کو ان ائمہ کے پیچھے لگا لیا جو کفار مکہ کہلاتے
خطبات طاہر جلد ۳ 748 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء تھے اور ہمیں دنیا کے سب سے مقدس امام کے ساتھ وابستہ کر دیا.ان کے نقطہ نگاہ سے تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْرى (النجم :۲۳) بڑی ہی بیوقوفوں والی تقسیم تم نے کی وَأَضَلُّ سَبِيلان حد سے زیادہ گمراہی کا لیبل ان کے اوپر چسپاں ہو جاتا ہے اس واقعہ سے اور امر واقعہ یہ ہے کہ مذہبی تاریخ میں یہ واقعہ پہلی دفعہ رونما ہورہا ہے.ہمیشہ اختلاف کے نتیجہ میں دباؤ ڈال کر چیزیں مٹائی جاتی ہیں، نقش مٹائے جاتے اس لئے کہ ایک آدمی کو وہ نقش پسند نہیں.خدا کے مخالفین نے خدا کے ماننے والوں پر دباؤ ڈالے کہ تم جو بات کہتے ہو خدا ایک ہے یہ ہمیں پسند نہیں ہے اس لئے مٹا دو، تم کہتے ہو کہ تمہارا رسول فلاں ہے یہ بات ہمیں پسند نہیں ہے اس لئے اس کو ختم کردو لیکن کبھی آج تک تاریخ عالم میں یہ واقعہ نہیں گزرا تھا کہ کسی قوم نے اپنے عقیدے کے اوپر ہاتھ صاف کرنے شروع کئے ہوں اور یہ کہ کر دشمن کو مجبور کیا ہو کہ تم ہمارا عقیدہ تسلیم کر رہے ہو اس لئے اس کو مٹادو.یہ تو ایسے ہی بات ہے جیسے کہا جائے کہ ہمارے اپنے دل میں نہیں ہے تو پھر تم اپنا کیا حق رکھتے ہو پھر اسے استعمال کرتے ہو، ہمیں تو غصہ آتا ہے.ویسی بات ہے جیسے کسی نے کسی کو زبر دستی کلمہ پڑھانے کی کوشش کی تھی ، آخر کار آکے اس بیچارے نے کہا قتل نہ کرو پڑھا دو کلمہ تو اس نے کہا شکر کرو بچ گئے تم مجھے تو آپ ہی کلمہ نہیں آتا.وہ دلیل تو لگ جاتی ہے یہاں.یہ کہیں کہ تم عجیب احمدی بیوقوف لوگ ہو ہمارا کلمہ پڑھ رہے ہو جبکہ ہم نہیں پڑھ رہے وہ کلمہ، ہمارا کلمہ لکھتے ہو جب کہ ہمارے دل اس رسم سے خالی پڑے ہیں، تم محبت کا اظہار کر رہے ہو جب کہ ہمارے دل محبت سے اس طرح خالی ہیں جس طرح گھونسلے کو پرندہ چھوڑ دیا کرتا ہے، اس لئے ہمیں غصہ آرہا ہے، تم مٹاؤ اس کلمہ کو ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے.یہ واقعہ مذہب کی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا کہ اختلاف کی بنا پر جبر روانہ رکھا گیا ہو بلکہ اتفاق کی بنا پر جبر روا رکھا گیا ہو.اس کو کہتے ہیں اندھا پن اور کسی نے خوب کہا ہے کہ اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی تو یہ ہے قرآن کریم کا منشاء روشنی والوں کو دائیں ہاتھ والوں کو ممتاز کر کے الگ کر دیا پھر ذکر فرمایا: وَمَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْمَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْمَى جنہوں نے اس دنیا میں محمد مصطفی ﷺ کا نور نہیں پہنچانا نہیں دیکھ سکتے تھے ، جن کو سوسو حجاب حائل ہو چکے تھے ، جو سنت نبوی کی تمیز نہیں کر سکتے تھے کہ سنت نبوی کیا ہے اور سنت کفار کس کو کہتے ہیں ، وہ یہ
خطبات طاہر جلد ۳ 749 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء گمان دل سے مٹا دیں کہ محمد مصطفی ﷺ کی امامت میں وہ قیامت کے دن اٹھائے جائیں گے.وہ ان ائمہ کی امامت میں اٹھائے جائیں گے جن آئمہ کی وہ پیروی کر رہے ہیں، جو ہمیشہ مذہب کی مخالفت کیا کرتے تھے.وَاِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُوْنَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِى عَلَيْنَا غَيْرَهُ وَإِذَا لَّا تَّخَذُوكَ خَلِيْلًا جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کوئی ایک بھی ایسی بات نہیں جو اس سے پہلے دشمنان اسلام نے کی ہو اور انہوں نے اختیار نہ کر لی ہو.چنانچہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو بھی فتنوں میں ڈالتے تھے، مصیبت میں مبتلا کرتے تھے ، دکھ دیتے تھے کہ اپنے قول سے اپنے مسلک سے ذرا سا سرک جاؤ اور کبھی لالچ دیتے تھے اور یہی دو چیزیں ہیں بعینہ آج احمدیوں کے متعلق پاکستان میں جماعت کے دشمن اختیار کر رہے ہیں.لَيَفْتِنُونَكَ میں جو فتنے کا ذکر ہے قرآنی محاورے کے مطابق آپ ایک جگہ نہیں متعدد جگہ اس لفظ کو ان معنوں میں پڑھیں گے کہ جو دشمن جبر کے ذریعہ مذہب کو تبدیل کرنے کی کوشش کرے تو اسے قرآن کریم فتنہ کہتا ہے.وہ لوگ جب قرآن کریم کی رو سے آگئیں لگاتے ہیں، مال لوٹتے ہیں گھر جلاتے ہیں اور صرف وجہ یہ ہوتی ہے دشمنی کی کہ یہ لوگ خدا کے بھیجے ہوئے پر ایمان لے آئے ہیں.ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے اگر وہ فتنہ سے باز نہیں آئے اور انہوں نے تکرار کی تو پھر ہم بھی انہیں پکڑیں گے اور ہم بھی پکڑ میں تکرار کریں گے.اِنَّ الَّذِينَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَتِ ثُمَّ لَمْ يَتُوبُوا فَلَهُمْ عَذَابٌ جَهَنَّمَ وَلَهُمْ عَذَابُ الْحَرِيقِ ) ( البروج : 1) توفَتَنُوا الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنت کا جو نقشہ کھینچا ہے اس سے پہلی آیات میں اس کی تفصیل موجود ہے کہ وہ لوگ جو مومنوں کو فتنہ میں ڈالتے ہیں آگئیں لگا کر اور جلا کر اور ظلم کر کے اور ستم ڈھا کر اس بات کا پابند کرتے ہیں کہ وہ اپنے دین سے منحرف ہو جائیں.اللہ تعالیٰ انہیں یقیناً شدید سزا دے گا.تو یہاں بھی فتنہ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ورنہ حضرت محمد مصطفی علیہ کو کون فتنے میں ڈال سکتا تھا؟ خدا کا رسول کیسے فتنہ میں پڑھ سکتا ہے تو سوائے اس کے کوئی معنی نہیں کہ تجھ پر مذہبی تشدد کیا جائے گا، تجھ پر مذہبی لحاظ سے مظالم ڈھائے جائیں گے ستم توڑے جائیں گے.
خطبات طاہر جلد ۳ 750 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء وَإِنْ كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ اگر ان کی پیش جائے اگر ان کا بس چلے تو ہر طرح سے تجھ کو ظلم وستم کا نشانہ بنا دیں بلکہ قریب ہے کہ یہ بنادیں گے.وان گادو ا کے یہ دونوں معانی نکلتے ہیں کہ عنقریب یہ واقعہ ہونے والا ہے لَيَفْتِنُونَكَ تجھے فتنہ میں ضرور ڈال دیں گے.عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ اس وجہ سے یعنی نیت ان کی یہ ہوگی کہ تجھے خدا تعالیٰ کی وحی سے جو تجھ پر نازل کی جاتی ہے جو ہم تجھ پر نازل کر رہے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے، اس سے تجھے ذرا سا ہٹنے پر مجبور کر دیں کہ تو اتنی سی بات ہماری مان جاور نہ ہم تمہیں ماریں گے، ورنہ تشدد کریں گے، ورنہ مظالم کا نشانہ بنائیں گے، خدا تعالیٰ یہ کہتا ہے تمہیں لیکن تم ہماری خاطر ذرا سایہ بات مان جاؤ ور نہ تو ہر قسم کے جبر سے ہی کام لیں گے تیرے خلاف اور اگر تو جبر سے نہیں مانے گا تو یہ کہیں گے کہ اچھا تم ہماری بات مان کر دیکھو ہم تمہیں سینے سے لگالیں گے.وَإِذًا لَّا تَّخَذُوكَ خَلِيْلًا اگر تم ان کی بات مانو گے تو تمہیں یہ ضرور سینے سے لگالیں گے.یہ تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ آج کل پاکستان کی باتیں دیکھ کر خدا تعالیٰ نے یہ خبر بھیجی ہے یہی ہمیں کہا جارہا ہے کہ سیدھے ہو جاؤ خدا تعالیٰ نے جس کو امام بنایا ہے تمہارے لئے یعنی محمد مصطفی ﷺ اس کا کلمہ چھوڑ دو یا پھر اپنے مسلک سے تھوڑا سا ہٹ جاؤ، اگر نہیں ہٹو گے تو ہم تمہیں ماریں گے اور اگر ہٹ جاؤ گے اپنے مسلک سے تو ہم تمہیں سینہ سے لگالیں گے تمہیں اپنا دوست بنا لیں گے.ہمارا بھی ان کو وہی جواب ہے جو محم مصطفی ﷺ کا جواب ہے کہ اے خدا کے مقابل پر ہمیں سینہ سے لگانے والو! ہم ان سینوں پر تھوکتے بھی نہیں ہیں خدا کے مقابل پر لعنت ڈالتے ہیں ان سینوں پر جومحمد مصطفی ﷺ کے دشمنوں کا جذبہ اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں.ہمیں تو محمد مصطفی ہے کے قدموں کی خاک ان سینوں سے کروڑوں، اربوں گنا زیادہ پیاری ہے، ہم نہیں چھوڑیں گے اس امام کو جس امام سے تم ہمیں کاٹنا چاہتے ہو اور اس امام کو بھی نہیں چھوڑیں گے جو اس کی غلامی سے پیدا ہوا ہے جو اس کی کامل محبت کے نتیجہ میں تخلیق کیا گیا ہے.اس سے بڑھ کر عاشق صادق کبھی اسلام میں پیدا نہیں ہوا جس طرح حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام نے حضرت محمد مصطفی علی سے محبت کی اور اب آپ کے عشق میں اپنا سب کچھ لٹایا.نہ ہم اپنے امام کامل حضرت محمد مصطفی ﷺ کو چھوڑیں گے نہ اس امام مہدی کو چھوڑیں گے جو آپ کی خاطر بنایا گیا جو آپ کے پیغام کو دنیا میں شائع کرنے کے لئے خدا تعالیٰ نے مبعوث فرمایا.جو آپ کی قدموں کے خاک سے بنایا گیا.کیسے ممکن
خطبات طاہر جلد ۳ 751 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء ہے کہ تمہارے سینیوں سے لگنے کی خاطر ہم ان مقدس وجودوں کی خاک پاک چھوڑ دیں، وہم ہے، یہ گمان ہے تمہارا تم جانتے نہیں کہ خدا کی تقدیر نے پہلے تم جیسوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے.تمہارا ماضی بھی اندھا ہے اور تمہارا مستقبل بھی اندھا ہے.پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَلَوْلَا أَنْ تَبَّتْنَكَ لَقَدْ كِدْتَ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيْلًان صلى الله اے محمد (ﷺ) ہم جانتے ہیں کہ تجھ پر دباؤ انتہائی شدید ہے، حد سے زیادہ مظالم توڑے جارہے ہیں اور تن تنہا انسان کے بس کی بات نہیں ہے کہ وہ ثابت قدم رہ سکے ان باتوں پر اگر ہم تجھے ثبات قدم عطا نہ فرماتے اے محمد مصطفی ﷺ اور تیرے غلاموں کے قدموں کو قائم نہ فرماتے تو ہوسکتا تھا کہ تم کچھ نہ کچھ اپنے مسلک سے سرک جاتے.یہ خدا کی تقدیر اس کے فرشتے ہیں جو دلوں کو تھامے ہوئے ہیں جو قدموں کو طاقت بخش رہے ہیں.إِذًا لَّا ذَقْتُكَ ضِعْفَ الْحَيَوةِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ اگر ایسا ہوتا کہ خدا تعالیٰ تمہیں ثبات قدم نہ عطا فرماتا اور تم کچھ سرک جاتے اپنے مسلک سے تو پھر ان کے سینے سے تم لگتے یا نہ لگتے خدا کا غضب تم پر ضرور بھڑک اٹھتا اور اس دنیا میں بھی تم ذلیل کر دیے جاتے اور آخرت میں بھی ذلیل کر دیئے جاتے.دنیا میں بھی دوہرا عذاب تمہارے مقدر میں لکھا جاتا اور آخرت میں بھی دو ہر اعذاب تمہارے مقدر میں لکھا جاتا.یہ ہے ہمارے لئے متبادل را کچھ ادنیٰ سے ادنی ایمان والا احمدی بھی ان دو متبادل رستوں کو دیکھنے کے بعد جو کلام الہی نے ہم پر روشن فرمائے ہیں ایک لمحہ کے لئے بھی یہ فیصلہ نہیں کر سکتا کہ دنیاوی سینوں سے لگنے کی خاطر خدا کے سینہ سے الگ ہو جائے اور خدا کے غضب کا مورد بن جائے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسے حالات میں جب کہ دشمن ارتداد پر مجبور کرتا ہے لالچ دے کر بھی اور ظلم و ستم ڈھا کے بھی تم خدا سے ثبات قدم مانگو تم دعائیں کرو کہ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ ثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ) (البقره: ۳۵۱) کیوں کہ ثبات قدم محض تمہارے دعاوی سے نصیب نہیں ہوسکتا اتنے شدید دباؤ بڑھ جایا کرتے ہیں بعض دفعہ کہ ایک مومن کا پاؤں بھی کچھ نہ کچھ سرکنے لگتا ہے.فرمایا اس لئے مجھ سے
خطبات طاہر جلد ۳ 752 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء مانگو ثبات قدم وہ بھی میں ہی تمہیں عطا کروں گا کیونکہ اگر تم نے ثبات قدم مجھ سے نہ مانگایا میں نے تمہیں ثبات نہ بخشا تو پھر جانتے ہو کہ اس کے متبادل کیا ہے غیر تمہیں سینہ سے لگا رہا ہوگا اور ہم تمہاری دنیا بھی نیست و نابود کر دیں گے اور تمہاری آخرت بھی نیست و نابود کر دیں گے.تم ان سینوں سے لگو گے جو مٹائے جانے کیلئے بنائے گئے ہیں، جنکی تقدیر میں ہلاک ہونا لکھا گیا ہے کیا رہ جائے گا تمہارا؟ دنیا کی خاطر ہمیں چھوڑنے والوں کو دنیا نہیں ملا کرتی.یہ ہے متبادل تقدیر جو قرآن کریم نے روشن فرما دی ہے.پس بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ خدانیحضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خبر دے رکھی ہے کہ بادشاہ ہو یا غیر بادشاہ اگر تیری مخالفت میں اٹھے گا تو کاٹا جائے گا.یہ وہ تقدیر ہے جو نہیں بدل سکتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذَا لَّا يَلْبَثُونَ خِلْفَكَ إِلَّا قَلِيْلًا کہ ہم جانتے ہیں کہ تم نہیں مانو گے ان کی بات ، ہمیں علم ہے کہ کیسے کیسے بندے محمد مصطفی ﷺ اور ان کے غلاموں کی صورت میں ہماری عبادت کے لئے پیدا ہوئے ہیں.اس قوم کے کردار کو ہم جانتے ہیں، یہ پیچھے ہٹنے والی قوم نہیں.پھر دشمن کیا کرے گا؟ فرماتا ہے: وَإِنْ كَادُوا لَيَسْتَفِزُّونَكَ مِنَ الْأَرْضِ ثمن اب یہ چاہے گا،اگر اس کا بس چلے تو تمہارے پاؤں اکھیڑ دے، تمہیں ہلکا کر دے، مضبوط قدم نہ رہیں تمہارے، ثبات قدم کا بالکل الٹ نقشہ جو ہے وہ يَسْتَفِزُونَكَ میں پیش فرمایا گیا ہے، ہم تمہیں ثبات قدم عطا فرما رہے ہیں اور دشمن یہ چاہے گا کہ تمہارے قدم اکھڑ جائیں تمہیں اپنے مسلک پر ایمان نہ رہے، اپنے عقائد پر یقین کامل نہ رہے اور رفتہ رفتہ تم شبہات میں گرفتار ہونے لگ جاؤ.کبھی یہ سوچو کہ پتہ نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے بھی کہ نہیں کبھی یہ وہم اُٹھنے لگے کہ پتہ نہیں تاریخ مذہب جو سنا کرتے تھے وہ سچی ہے بھی کہ نہیں؟ یہ نہ ہو کہ دشمن دندنا تا ہوا نکل جائے اور ہم اسی طرح ذلیل و خوار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو جائیں.کئی قسم کے تو ھمات ایسے حالات میں انسان کے دل میں اٹھتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہی چاہتے ہیں لَيَسْتَفِذُونَكَ تا کہ تمہارے قدم اکھیڑ دیں اور صرف یہی نہیں تمہارے قدم اکھیڑ میں بلکہ پھر تمہیں بے وطن کر دیں لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا تا کہ تمہیں اپنے وطن سے باہر نکال دیں.
خطبات طاہر جلد ۳ 753 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء اب وہ آواز جو چودہ سو سال پہلے مکہ میں محمد مصطفی ﷺ کے دشمن بلند کر رہے تھے کہ سیدھے ہوتے ہو کہ نہیں.سینے سے لگنا ہے تو اپنے مسلک کو چھوڑ دو ورنہ اس وطن کو چھوڑ دو جو ہمارا وطن ہے، وہی آواز آج پاکستان سے اٹھائی جارہی ہے.ایک ذرہ کا بھی فرق نہیں.حیرت ہوتی ہے کہ جب خدا تعالیٰ انسانوں کو اندھا کر دیتا ہے تو پھر کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے کہ وہ کیا کہ رہے ہیں کس نج پر کلام کر رہے ہیں؟ انبیاء والی با تیں کر رہے ہیں یا انبیاء کے دشمنوں والی باتیں کر رہے ہیں؟ فرماتا ہے : لِيُخْرِجُوكَ مِنْهَا وَإِذَا لَّا يَلْبَثُونَ خِلْفَكَ إِلَّا قَلِيلًا مگر یہ لوگ کس خیال میں بیٹھے ہوئے ہیں اے محمد ( ﷺ ) اگر یہ تجھے نکالنے میں کامیاب ہو گئے تو ہم تجھے بتاتے ہیں کہ تیرے بعد پھر یہ خود بھی نہیں رہیں گے، تیری وجہ سے یہ لوگ قائم ہیں، تیرے بعد پھر یہ بھی صفحہ ہستی سے مٹادیئے جائیں گے.جہاں سے تو نکالا جائے گا وہاں یہ بھی بسنے کے لائق نہیں رہیں گے.یا پھر دوسرا معنی یہ ہوگا کہ لَّا يَلْبَثُونَ خِلْفَكَ إِلَّا قَلِيْلًا یا پھر ان کو جلدی تو به کرنی پڑے گی تھوڑے دن ہی تیری مخالفت کریں گے اور اس کے بعد اگر باز آگئے پھر یہ بچ جائیں گے.یہ دونوں معافی نکل سکتے ہیں اس کے تو اب اس قوم کے بچنے کی صرف یہ صورت ہے کہ یا تو وہ تجھے تسلیم کر لیں اور تجھے اپنے مسلک سے ہٹانے کے بجائے تیرے مسلک کو اختیار کر لیں اور پھر اللہ تعالیٰ ان کو بچالے گا، انکے لئے نجات کے سامان پیدا فرمائے گا اگر نہیں تو ظلم کی راہ سے نکالنے والوں کے لئے ان کے اپنے وطن کی زمین تنگ کر دی جائے گی.سُنَةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَاوَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًان یہ وہ سنت ہے جو ہم نے انبیاء کے لئے تجھ سے پہلے جاری فرمائی یعنی خدا تعالیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مخاطب کر کے فرما رہا ہے کہ ہم جو یہ باتیں کہتے ہیں یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ہمیشہ سے اسی طرح ہوتا چلا آیا ہے، ہمیشہ سے انبیاء نے یہی طریق اختیار کیا جو تو نے اختیار کر رکھا ہے.صبر اور خدا سے دعاؤں کے ذریعہ ثبات مانگنے کا طریق اور ہمیشہ سے مخالفین نے یہی دھمکیاں دیں اور یہی طریق اختیار کئے.کبھی وہ کہتے تھے ہٹ جاؤ اور ہمارے سینوں سے لگ جاؤ ، کبھی وہ کہتے تھے کہ ہم تو ظلم و تشدد کی انتہا کر دیں گے اور جب دونوں باتوں میں پیش نہیں جاتی تھی تو یہ کہا کرتے تھے کہ اچھا تمہیں ہم اپنی زمین سے نکال دیں گے تو یہاں تمہارے لئے کوئی گنجائش نہیں.خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۳ 754 خطبه جمعه ۲۱ / دسمبر ۱۹۸۴ء پہلے بھی ایسے لوگ آئے تھے اور ان کے مقابل پر انبیاء کے حق میں جو سنت ہم نے جاری فرمائی وہی سنت اب بھی جاری ہوگی وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا اور تو کبھی بھی ہماری سنت میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھے گا.نہ پہلے یہ تبدیل ہوئی تھی نہ آج ہوئی ہے نہ آئندہ کبھی تبدیل ہوگی.پس کتنا روشن مستقبل ہے جماعت احمدیہ کا جو کلام الہی ہمارے سامنے پڑھ کر ہمیں سنا رہا ہے.وہ کلام ہمیں سنا رہا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے مظہر اور مقدس دل پر نازل ہوا، وہ کلام ہمیں مستقبل سنا رہا ہے، شاندار مستقبل کی نوید دے رہا ہے جس کلام سے زیادہ مطہر کلام ، جس کلام سے زیادہ یقینی اور قطعی کلام کبھی کسی نبی کے دل پر نازل نہیں ہوا.وہ کلام جس کا پہلا دعوی یہی ہے لَا رَيْبَ فِيْهِ ( البقرہ:۳) اس میں کوئی شک نہیں، کسی قسم کے وہم کی گنجائش تک نہیں.لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ تو حضرت محمد مصطفی ﷺے مخاطب ہیں ہم تو ادنی چا کر آپ کے غلامان در کے بھی غلامان در کے بھی غلام ہیں ہمیں کیسے یقین ہو کہ خدا کا یہ طریق جو انبیاء کے ساتھ جاری ہے وہ ہمارے ساتھ بھی ہوگا ؟ ہم کیسے یہ کامل یقین رکھ سکتے ہیں کہ وہ غیر مبدل سنت جو اللہ تعالیٰ اپنے انبیاء کی محبت میں ان کی غیرت کے لئے دکھایا کرتا ہے آج ہم ادنی غلاموں کے لئے بھی ویسی ہی دکھائے گا؟ یہ ایک سوال باقی رہ جاتا ہے.تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان آیات میں سے جو پہلی آیت میں نے تلاوت کی تھی مضمون یہاں مکمل ہوا ہے اور اسی میں ان تو ھمات کا جواب دے دیا گیا ہے.فرمایا يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أَنَاسِ بِاِمَامِهِم ہم قوموں سے ان کے آئمہ والا سلوک کیا کرتے ہیں، قیامت کے دن بھی یہی سلوک ہوگا اور دنیا میں بھی تم سے وہی سلوک ہوگا جو تمہارے امام کے ساتھ خدا کرتا چلا آیا ہے.تم بچائے جاؤ گے تو محمد مصطفی کی برکت سے بچائے جاؤ گے تم کامیاب کئے جاؤ گے تو محمد رسول اللہ کی برکت سے کامیاب کئے جاؤ گے تم دونوں جہانوں میں سرخرو بنائے جاؤ گے تو اپنے آقا و مولیٰ محمد مصطفیٰ کے قدموں کی برکت سے دونوں جہانوں میں سرخرو بنائے جاؤ گے.پس اس امام کو کبھی نہ چھوڑنا، اس امام کو کبھی نہ چھوڑنا اس میں دنیا کی فلاح بھی تمہارے لئے وابستہ ہے اور آخرت کی فلاح بھی اسی میں مضمر ہے.
خطبات طاہر جلد ۳ 755 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء جماعت کے خلاف ایک عالمی سازش خطبه جمعه فرموده ۲۸ دسمبر ۱۹۸۴ء بمقام پیرس، فرانس) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: ص وَالْقُرْآنِ ذِي الذِّكْرِ بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ قَ شِقَاقٍ كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ فَنَادَوْا وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِّنْهُمْ وَقَالَ الكفِرُونَ هَذَا سُحِرَّ كَذَّابٌ.(ص: ۲-۵) پھر فرمایا: قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے صادق نام کا ذکر فرما کر قرآن کی قسم کھا کر یہ بیان کرتا ہے یعنی خدا تعالیٰ کے الفاظ میں پہلے خدا کی صادق صفت ا ذکر فرمایا گیا اور پھر قرآن عظیم کی قسم کھا کر یہ بیان کیا گیا کہ یہ ذی الذِّكْرِ کتاب ہے یہ ایک ایسی کتاب ہے جس میں ہر قسم کی نصیحتیں موجود ہیں، ہر قسم کے ایسے واقعات موجود ہیں جن سے اہل بصیرت نصیحت پکڑ سکتے ہیں.بَلِ الَّذِيْنَ كَفَرُوا فِي عِزَّةٍ وَشِقَاقٍ اس کے باوجو د بل کے ساتھ کیا گیا بل کا لفظ لا کر کہ باوجود اسکے کہ ایسا ہے اور ہر اہل فہم اہل بصیرت اس قرآن کریم سے نصیحت پکڑ سکتا ہے لیکن افسوس ان لوگوں پر جنہوں نے انکار کیا.وہ عزت اور شقاق میں مبتلا ہیں، جھوٹی عزت کا زعم ان کو گھیرے ہوئے ہے ، ان کو ہوش نہیں آنے دیتا، ان کو حقائق کو دیکھنے سے محروم کئے ہوئے ہے اور
خطبات طاہر جلد ۳ 756 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء شدید دشمنی میں مبتلا ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ جھوٹی عزت کا تصور بھی انسان کی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے اور غصہ بھی انسان کی عقل پر پردے ڈال دیتا ہے.غرضیکہ ان کی عقلوں پر دوہرے پر دے ہیں.ایک عزت نفس کا جھوٹا پر دہ اور ایک وہ دشمنی جو ہمیشہ سے اہل حق کے خلاف اہل باطل رکھتے رہے ہیں.ان دونوں پردوں نے انکی عقل کو مفلوج کر دیا ہے اور وہ دیکھ نہیں سکتے کہ قرآن کریم جو ذی الذِّكْرِ کتاب ہے.تمام دنیا کی نصیحتیں اس میں موجود ہیں اس کو دیکھیں اور اس سے استفادہ کریں اور وہ نہیں دیکھ سکتے كَمْ أَهْلَكْنَا مِنْ قَبْلِهِمْ مِنْ قَرْنٍ کہ یہ پہلا واقعہ تو نہیں ہوا کہ خدا تعالیٰ نے مختلف زمانے کے لوگوں کو ہلاک کیا ہو لَاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ.ایسے وقت آئے صاحب عزت قوموں پر اور ان قوموں پر جو حق کی دشمنی میں پاگل ہوئی چلی جاتی تھیں کہ خدا تعالیٰ کے بیان کے مطابق جب انکی پکڑ کا وقت آیا انہوں نے ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکار او لاتَ حِيْنَ مَنَاصٍ لیکن وہ وقت مدد کا وقت نہیں رہا تھا، وہ ایسا وقت نہیں تھا کہ خدا کی پکڑ کے خلاف کوئی ان کی مدد کو آسکتا اور آغاز ان کے انکار کا تعجب کی بنا پر ہے وَعَجِبُوا أَنْ جَاءَهُمْ منذر ان کو تعجب یہ ہے کہ ان میں سے ہی ایک ڈرانے والا کیسے پیدا ہو گیا؟ وَقَالَ الْكَفِرُونَ هَذَا سُحِرٌ كَذَّابٌ اور انکار کرنے والوں نے کہا کہ یہ بھی کوئی جادوگر ہے اور بہت بڑا جھوٹا ہے.اس آخری آیت میں قرآن کریم نے انکار کرنے والوں کی نفسیاتی کیفیت بیان فرما کر انکار کی بنیادی وجہ بیان فرما دی.اگر چہ اس ذکر کا آغا ز عزت اور شقاق سے فرمایا یعنی وہ جھوٹی عزتوں میں مبتلا ہیں ، وہ نفرت میں مبتلا ہیں لیکن جب تجزیہ فرمایا کہ آغاز کیسے ہوا کفر کا تو اس میں دو باتیں بیان فرمائیں کہ وہ ساحر کہتے ہیں اور کذاب کہتے ہیں اور تعجب اس لئے ہے کہ ان ہی میں سے کیسے ایک نذیر آ گیا ؟ اگر آپ اس آیت پر غور کریں تو آپ کو ایک بہت ہی حکمت کی بات ہاتھ آئے گی ، ایک گہرا نکتہ نظر آئے گا نفسیاتی جس کی بناپر قو میں وقت کے انبیاء کا انکار کیا کرتی ہیں.اس آیت کو سمجھنے کے لئے کلید اس بات میں ہے کہ وَعَجِبُوا اَن جَاءَهُمْ مُنْذِرٌ مِّنْهُمْ ان کو تعجب یہ ہے کہ ان میں سے کیسے کوئی نذیر، کوئی ڈرانے والا پیدا ہو گیا ؟ بات یہ ہے کہ ایسے وقت میں جب کہ انبیاء تشریف لاتے ہیں تو میں جھوٹی اور فریبی ہو چکی
خطبات طاہر جلد ۳ 757 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء ہوتی ہیں.سحر سے مراد فریب کاری ہے اور کذاب جھوٹے کو کہتے ہیں کذب سے نکلا ہے یہ لفظ.تو جو دو الزام ابنیاء پر رکھتے ہیں کہ فریب کا ر ہے اور جھوٹا ہے اور یہ اس وجہ سے رکھتے ہیں کہ وہ خود جھوٹ اور فریب کاری میں مبتلا ہو چکے ہوتے ہیں اور اتنے فریب کا ربن چکے ہوتے ہیں اتنے جھوٹے ہو چکتے ہیں کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ اللہ تعالیٰ نے ان جیسے لوگوں میں سے نبی چن لیا ہے اپنے لئے ، ساری قوم جو جھوٹی ہو چکی ہو جو فریب کا ر ہو چکی ہو الا ماشااللہ ہر قوم میں استثناء موجود ہوتے ہیں لیکن قرآن کریم جب قوموں کی بات کرتا ہے تو عمومی حالت پر بات کرتا ہے مراد یہ ہے کہ انبیاء ایسے وقت میں آتے ہیں کہ جبکہ قومیں خود بھی فریب میں مبتلا ہوتی ہیں اور دوسروں کو بھی فریب دے رہی ہوتی ہیں خود بھی جھوٹی ہوتی ہیں اور دوسروں کو بھی جھوٹا سمجھ رہی ہوتی ہیں.اس وقت جب اللہ تعالیٰ ان کی تقدیر بدلنے کا فیصلہ فرماتا ہے اور ان میں سے ہی ایک عام انسان کو اپنے لئے چن لیتا ہے کہ وہ قوم کو ڈرائے تو وہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ ہم جیسے لوگوں میں سے کیسے خدا تعالیٰ کو ایک ایسا انسان مل گیا جو نہ فریب کار ہو اور نہ جھوٹا ہو؟ تو دراصل یہ ان کی نفسیاتی حالت کا پر تو ہے جو انبیاء کو جھٹلانے کا موجب بنتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اسکے باوجود جیسا کہ ہمیشہ سے خدا تعالیٰ کی تقدیر کام کرتی چلی آئی ہے ایسی قومیں بالآخر اللہ کی پکڑ کے نیچے آجاتی ہیں اور جب خدا کی پکڑ کا وقت آتا ہے تو خواہ وہ کتنا ایک دوسرے کو مدد کے لئے پکاریں یا اپنے سے باہر سے کسی کو مدد کے لئے پکاریں اس وقت بچنے کا وقت ہاتھ سے نکل چکا ہوتا ہے.جو حالات اس وقت پاکستان میں گزر رہے ہیں ان کو دیکھتے ہوئے تشویش زیادہ پیدا ہو رہی ہے بہ نسبت اسکے کہ ان کی حرکتوں پر غصہ آئے.دن بدن میر افکر تو ان کے لئے بڑھتا چلا جارہا ہے اور صرف ان کے لئے ہی نہیں عالم اسلام کے لئے بھی عموماً اور اس تمام دنیا کے لئے اس زمانہ کے انسانوں کے لئے بھی اس کی وجہ سے کہ جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے یہ کوئی تنہا ایک ملک میں ہونے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک عالمی سازش کے نتیجہ میں ہو رہا ہے.اس عالمی سازش میں دنیا کی بڑی طاقتیں بھی ملوث ہیں اور اسلامی ممالک میں سے بعض ملک بھی ملوث ہیں اس لئے ان واقعات کی جڑیں بہت گہری اور بہت دور تک جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی.ہم اگر یہ کہیں کہ فلاں بھی اس میں ذمہ دار ہے اور فلاں بھی اس میں ذمہ دار ہے تو دنیا والے تو کہیں گے تم اسی طرح
خطبات طاہر جلد ۳ 758 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء باتیں کرتے ہو جس طرح لوگوں کو عادت ہے ہر بات کوکسی بڑی طاقت کے سر پر تھوپ دینا، ہر بات کو اس سے پہلے کی گئی کسی سازش کا نتیجہ قرار دے دینا، یہ ساری باتیں دنیا میں ہوتی رہتی ہیں اور کوئی بھی ہمارے کہنے پر اس کو تسلیم نہیں کر سکتا لیکن فی الحقیقت ایسا ہی ہے اور بڑی گہری نظر سے اور بڑی وسیع نظر سے میں نے جو حالات کا مطالعہ کیا ہے تو مجھے یہ دکھائی دے رہا ہے کہ ان واقعات کے پیچھے ایک بہت بڑی سازش ہے جو دراصل عالم اسلام کے خلاف ہے اور عالم اسلام ہی کو اس سازش کا آلہ کار بنایا جارہا ہے اور جن کو آلہ کار بنایا جارہا ہے ان کو علم بھی نہیں کہ وہ کیا کر رہے ہیں، کیوں کر رہے ہیں؟ کن مقاصد کے لئے کن اسلام کے دشمنوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کر رہے ہیں اس لئے کوئی آپ کی بات یا میری بات کو تسلیم نہیں کرے گا لیکن اللہ کی نظر تو حقائق کے پاتال تک ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز مخفی نہیں ہے اس لئے جب وہ سزا کا فیصلہ کرتا ہے تو سب مجرموں کو پکڑتا ہے.اسی وجہ سے میں جماعت کو اس طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ صرف جماعت احمدیہ کے ان مظلوموں کے لئے دعانہ کریں جو اس بد قسمت ملک میں اس وقت مظالم کا شکار ہیں بلکہ عالم اسلام کے لئے بھی دعا کریں اور تمام دنیا کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ جب خدا تعالیٰ کی پکڑ آتی ہے تو بعض دفعہ اس پکڑ کا طریق ایسا ہوتا ہے کہ اس میں بعض معصوم بھی تکلیف اٹھاتے ہیں اور عالمی جنگوں کی صورت میں یا اور ایسے عذابوں کی صورت میں جو تمام دنیا پر چھا جاتے ہیں پھر یہ تفریق مشکل ہو جاتی ہے کہ کون معصوم ہے اور کون معصوم نہیں.یہ حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کی حفاظت خدا تعالیٰ فرمائے گا اس میں کوئی بھی شک نہیں لیکن جماعت احمدیہ بہر حال ایک تکلیف کے دور میں سے پھر بھی گزرے گی ، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہر فر د جماعت خواہ وہ معصوم بھی ہو اس کی ضمانت بھی نہیں دی جاسکتی اور اس میں بھی ذرا شک نہیں کہ دنیا میں سب آدمی خطا کار نہیں ہوتے ، بڑے بڑے شرفا ، بڑے بڑے نیک لوگ ہر مذہب میں پائے جاتے ہیں ہر خطے میں پائے جاتے ہیں اور قرآن کریم ان کا ذکر فرماتا ہے قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہود میں سے بھی ایسے ہیں کہ جن کے پاس اگر دولتوں کا ڈھیر بھی رکھوا دو تو وہ ہرگز بد دیانتی کی نظر اس پر نہیں کریں گے یعنی بنیادی طور پر ان میں شرافت پائی جاتی ہے.عیسائیوں میں سے بھی بہت نیک لوگ اور خدا ترس لوگ ہیں جو خدا کا ذکر سنتے ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۳ 759 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء ان کے دل نرم ہو جاتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ تو ہر جگہ نیکی کی قدر فرماتا ہے ہر قوم میں نیکی کے وجود کا اثبات کرتا ہے ہمیں بتاتا ہے کہ قوموں کو بحیثیت مجموعی رد نہیں کرنا چاہئے.اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں ہر جگہ حسن پایا جاتا ہے، ہر جگہ اچھے لوگ ملتے ہیں تو وہ سارے لوگ بھی بڑی مصیبتوں کے وقت میں دکھ اٹھاتے ہیں، معصوم بچے دکھ اٹھاتے ہیں، عورتیں اٹھاتی ہیں، مرد بھی اٹھاتے ہیں، بوڑھے اور بیمار دکھ اٹھاتے ہیں.تو یہ جو حرکت ہے یہ ایک بہت ہی خطرناک حرکت ہے.جماعت احمدیہ کے لئے جو خطرات ہیں یہ تو ہمیں خواہ کتنے سنگین دکھائی دیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ ہر خطرہ کے بعد جماعت احمدیہ کے اوپر اللہ تعالیٰ کی بے شمار رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں نازل ہوئی ہیں.کوئی بھی ایسا وقت نہیں آیا جماعت پر جسے ہم کڑا وقت کہہ سکتے ہیں جس کے بعد اللہ تعالیٰ نے بے انتہا فضل نہ فرمائے ہوں.تو ہمارا تو ایک ضامن موجود ہے.ہمارا تو ایک مقتدر موجود ہے جس کے ہاتھ میں ہمارا ہاتھ ہے وہ کبھی ہمیں ضائع نہیں ہونے دے گا.اس کامل یقین کے ساتھ ہم ہمیشہ زندہ رہے ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے لیکن وہ بد نصیب جو اس مقتدر سے غافل ہیں جو اس کی تقدیر کے خلاف ترکیبیں سوچ رہے ہیں.وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں برخلاف شہریار (براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه : ۱۳۲) اللہ تعالیٰ کے ارادوں کے خلاف، اس کی تقدیر سے ٹکرانے والی تدبیریں سوچ رہے ہیں ان کا تو کوئی ضامن، کوئی محافظ نہیں کوئی ولی نہیں ہے انکا اور امر واقعہ یہ ہے کہ انسان جو شریف النفس ہو جا تا ہے تو خواہ وہ کتنا چاہے کہ اس کا دشمن ہلاک ہو، دشمن پر ذلت آئے لیکن نفس کی شرافت کا یہ دستور ہے کہ جب دشمن پر بھی تکلیف آتی ہے تو وہ دکھ محسوس کرتی ہے.جتنا چاہیں آپ دل میں یہ غبار رکھیں کہ ہم پر بہت ظلم ہوئے ، ہم پر بڑے ستم ہوئے ، اللہ کی پکڑ کب آئے گی؟ لیکن میں آپ کو بتاتا ہوں کہ جب بھی خدا کی پکڑ آئے گی آپ کو دکھ ہوگا کیونکہ شریف النفس انسان اپنے سامنے غیر کی تکلیف دیکھ نہیں سکتا.خواہ کیسا ہی اس کو صدمہ پہنچا ہو جب تکلیف کا وقت آتا ہے تو وہ ساری باتوں کو بھلا دیتا ہے.بالکل برعکس حال ہے لیم اور کمینے انسان سے ایک کمینہ فطرت انسان خواہ کتنے ہی
خطبات طاہر جلد ۳ 760 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء اُس پر احسان کئے گئے ہوں جب وقت آتا ہے آزمائش کا تو سب احسانوں کو بھلا کر مقابل پر وہ تکلیف پہنچاتا ہے اور تکلیف دیکھنی چاہتا ہے لیکن ایک شریف النفس انسان کا حال بالکل برعکس ہوتا ہے، لاکھ اس پر مظالم کئے گئے ہوں جب مصیبت کا وقت آتا ہے تو اس کے دل کی آواز بولتی ہے اور وہ اس ظالم کے لئے بھی بسا اوقات دل میں ہمدردی محسوس کرتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ مومن کو خدا تعالیٰ سارے زمانہ کے لئے ایک ماں کا مقام عطا فرماتا ہے.اور وہ ماں کا مقام ایک ایسا مقام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ہے دنیا میں، کسی رشتے میں اس کی مثال نہیں ہے.مائیں تکلیفیں اٹھاتی ہیں اور بعض دفعہ اپنے بچوں کے ہاتھوں تکلیفیں اٹھاتی ہیں اور پھر بھی ان کی خیر چاہتی چلی جاتی ہیں اور جب مامتا حد سے زیادہ بڑھ جاتی ہے تو بعض دفعہ وہ بچوں کی خیر چاہنے میں اس کا نقصان بھی کر دیتی ہے لیکن اس کے باوجود اس کے خیر چاہنے کے جذبہ میں کبھی کوئی فرق نہیں آتا.چنانچہ ایک ماں کا ایسا ہی قصہ مشہور ہے کہ ایک ماں نے اپنے بچے کی پرورش کی اور اس کے ساتھ بے حد محبت کی یہاں تک کہ وہ بچہ تربیتی لحاظ سے بہت ہی ناقص رہ گیا کیونکہ جب محبت بڑھ جائے تو بعض دفعہ تربیت میں کمی آجاتی ہے.کئی بدیاں ، کئی خرابیاں، کئی برائیاں اس میں پیدا ہوئیں یہاں تک کہ بڑھتے بڑھتے وہ اپنی ماں کی طرف سے بھی بالکل غافل ہو گیا اور بے تعلق ہو گیا.اس کی جب شادی ہوئی تو بد قسمتی سے اس کی بیوی بھی اسی قسم کی اسی مزاج کی تھی اور اس نے ماں کے خلاف مزید کان بھرنے شروع کئے اور بچے نے ظلم پر ظلم شروع کئے اپنی ماں کے اوپر لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے بعض مامتائیں ایسی ہیں کہ وہ ہر تکلیف کے بعد بھی خیر کا کلمہ ہی بولتی ہیں اپنے بچوں کے لئے چنانچہ وہ بھی ایک ایسی ماں تھی جو کسی آزمائش کے وقت بھی بچے کی مخالف نہیں ہوئی بلکہ جہاں ا تک اس کا بس چلا اس کے لئے دعائیں بھی کیں اسکو خیر بھی پہنچائی اس کی بھلائی چاہی.بعض دفعہ ایک انسان جب برائی کے بدلہ میں بھلائی کرتا چلا جاتا ہے تو بجائے اس کے کہ ظالم اس کو سرا ہے اور اسکے نتیجہ میں تبدیلی پیدا کرے وہ چڑنے لگتا ہے کہ کیا وجہ ہے اس کو غصہ کیوں نہیں آرہا، اسے تکلیف کیوں نہیں پہنچ رہی اور یہ واقعات ایسے ہیں جو روزمرہ کی زندگی میں ہمیں دکھائی دیتے ہیں.ایک انسان کسی کو دکھ پہنچانا چاہتا ہے تو اگر وہ آگے سے ہنستا رہے تو رلانے والا
خطبات طاہر جلد ۳ 761 خطبه جمعه ۲۸ دسمبر ۱۹۸۴ء یا رلانے کی کوشش کرنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اسے وہ دکھ پہنچ نہیں رہا میں کہاں سے اس کو تکلیف پہنچاؤں کس جگہ ضرب لگاؤں کہ یہ بلبلا اٹھے ! چنانچہ صاحب حوصلہ لوگوں کو بعض دفعہ دشمن اور بھی زیادہ تکلیف دیتا چلا جاتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ تکلیف ہو ہی نہیں رہی شاید ورنہ اتنا صبر کیسے ہو گیا ؟ چنانچہ اس ماں کے متعلق یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب یہ حالت دیکھی بہونے کہ یہ تو کسی طرح غصہ میں نہیں آرہی، کسی طرح اس کو تکلیف پہنچ ہی نہیں رہی تو اپنے خاوند سے اس نے یہ درخواست کی کہ میں تو تب راضی ہونگی جب اس ماں کا سرکاٹ کر تھال میں سجا کر میرے سامنے پیش کرو گے کیوں کہ اب تک تو اس کو کوئی تکلیف نہیں پہنچی، جو کچھ بھی تم نے کیا ہے اس کے باوجود یہ بڑی خوش ہے اور اس بد کردار بیٹے نے ایسا ہی کیا.جب وہ تھال پر سر سجا کر اپنی بیوی کی طرف جارہا تھا تو کہانی کے مطابق ٹھوکر لگی اور وہ سرزمین پر جاپڑا اور ساتھ ہی بیٹا بھی گر گیا.اس وقت کہتے ہیں ماں کے منہ سے یہ آواز نکلی کہ اے میرے بیٹے ! تجھے چوٹ تو نہیں لگی ، تجھے تکلیف تو نہیں کوئی پہنچی یعنی کٹا ہوا سر کہانی میں بول پڑتا ہے.اس میں تو کوئی تعجب کی بات نہیں ایک واقعہ بیان کرنے کے لئے ایک مضمون سمجھانے کے لئے ایسی کہانیاں بنائی جاتی ہیں.مراد یہ تھی کہ ماں کا سر کٹا ہوا زمین پر گرتا ہے اسے اپنی ہوش نہیں لیکن وہ بیٹا جوٹھو کر کھا گیا ہے اس حالت میں بھی اس کو اس ٹھوکر کی تکلیف پہنچ رہی ہے کہ میرے بیٹے کو اس سے کوئی صدمہ نہ پہنچا ہو، کوئی زیادہ چوٹ نہ لگ گئی ہو.تو اللہ کے شریف النفس بندے بھی فی الواقعہ ماؤں کی طرح ہو جاتے ہیں.ان کو قوم کی تکلیف کے نتیجہ میں لازما دکھ پہنچتا ہے خواہ وہ اسی وجہ سے تکلیف اٹھا ئیں کہ انہوں نے ان پر ظلم کیا ہے.سب سے بڑھ کر اس کی مثال حضرت اقدس محمد مصطفی می کی ہے.کتنا عظیم الشان خطاب ہے خدا کا آپ سے لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ (الشعراء:۴۰) کہ اے محمد ( ع ) تجھے دکھ دینے والے ہمیشہ تیرا برا چاہنے والے ایسے ہیں کہ جب میں ان کی ہلاکت کی خبر دیتا ہوں تو ان کے غم میں تو اپنے آپ کو ہلاک کرنے لگ جاتا ہے.کیسا دل ہے تیرا کہ تیرے دشمنوں کی ہلاکت کی میں تجھے خبر دیتا ہوں اور مجھے تیری فکر پڑ جاتی ہے کہ تو نہ اس غم میں ہلاک ہو جائے کہ تیرے دشمن ہلاک ہو جائیں.یہ ایک ایسا واقعہ ہے کہ جس سے زیادہ سچا واقعہ بیان کرنا ناممکن ہے.وہ کہانی جو میں نے
خطبات طاہر جلد ۳ 762 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء آپ کے سامنے بیان کی ہے یہ تو ایک قصہ ہے، ایک فرضی بات ہے، لوگوں نے ایک مثال گھڑ لی ورنہ تو یہ ساری بات ہی جھوٹی ہے.مائیں بھی ایسی دیکھی ہیں جن کو بچوں پر غصہ آجاتا ہے، مائیں بھی ایسی میں نے دیکھی ہیں جو بدعائیں دیتی ہیں، ایسی مائیں بھی میں جانتا ہوں جو مرتے وقت تک بچوں کو معاف نہ کر سکیں اور آخری کلام جو ان کے منہ سے نکلا وہ بددعا کا تھا.لیکن محمد مصطفی ملالہ جیسی ماں کبھی دنیا کو نصیب نہیں ہوئی.ناممکن ہے کہ اس رحمۃ للعالمین کی کوئی مثال دنیا میں پیش کر سکے.خدا گواہی دے رہا ہے کسی انسان کا بنایا ہوا فرضی قصہ نہیں ہے ، رب العالمین جو عالم الغیب ہے عالم الشہادۃ ہے وہ مخاطب کر کے فرماتا ہے اور ایک جگہ نہیں دو مرتبہ ایسا ہی واقعہ قرآن کریم میں ہمیں نظر آتا ہے.سورہ کہف میں بھی یہی مضمون عیسائیوں کی ہلاکت کے متعلق جب خدا نے خبر دی تو آنحضرت ﷺ کے دل کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے بیان فرمایا: فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى أَثَارِهِمْ اِنْ لَمْ يُؤْمِنُوْا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا (الكهف:2) کہ اے محمد ! کیا حال ہے تیرے دل کا کہ ان لوگوں کی ہلاکت کی جب میں تجھے خبر دیتا ہوں تو حسرت کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہ کاش یہ اس رستہ پر نہ چلتے جن راہوں پر یہ چل پڑے ہیں، ان را ہوں کے آثار دیکھتے ہوئے تیرے دل کا یہ حال ہو جاتا ہے کہ غم کے مارے اپنے آپ کو ہلاک کر لے گا.پس ہم تو محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں، آپ ہی کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں، آپ ہی کی سیرت کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، کیسے ممکن ہے کہ خدا تعالیٰ نے ہمارے دلوں کو ایسا سخت کر دیا ہو کہ دشمن کی ہلاکت کے نتیجہ میں ہمیں صرف خوشی پہنچے؟ دشمن کی ہلاکت کے نتیجہ میں ایمان تو ہمارا ضرور بڑھے گا، دشمن کی ہلاکت کے نتیجہ میں ایک قسم کی فرحت ضرور محسوس ہوتی ہے جو خدا تعالیٰ کے دین کے غلبہ کی خوشی کے نتیجہ میں پہنچتی ہے کسی کے دکھ کے نتیجہ میں نہیں پہنچتی.محض اس لئے ہوتی ہے کہ خدا کی تقدیر پوری ہوئی ، خدا کا غلبہ ہوا ، خدا کا دین غالب آیا.وہ لوگ جو جھٹلایا کرتے تھے جو شیخیاں بگھارا کرتے تھے، کہ کون ہے ان کا؟ ان کو خدا نے دکھا دیا کہ میں ان کا ہوں.دنیا پر ہمارے اللہ سے تعلق ظاہر ہو گئے.ان باتوں کی خوشی انبیاء بھی محسوس کرتے ہیں، ان
خطبات طاہر جلد ۳ 763 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء کے ماننے والے بھی محسوس کرتے ہیں اور مومنوں کے متعلق جس فرح کا ذکر قرآن کریم میں ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ خدا کی مددکو اپنے لئے آتا دیکھ کر ان کو خوشی اس بات کی ہوتی ہے کہ ہم عاجز اور حقیر بندے ہیں، ہم تو اس لائق نہیں تھے کہ اللہ اپنے تعلق کا ثبوت دے ہمارے ساتھ لیکن کیسا عالی شان خدا ہے ! ہمارا کیسا پیار کرنے والا محبت کرنے والا خدا ہے کہ ہم جیسے حقیر اور عاجز بندوں کے لئے وہ ظاہر ہوا یہ خوشی ضرور پہنچتی ہے لیکن اس کے باوجود جب وہ دکھ پھیلتے ہیں ساری دنیا میں ، جب لوگ مصیبتوں میں مبتلا ہوتے ہیں تو سب سے زیادہ تکلیف پھر خدا کے وہی بندے محسوس کرتے ہیں جن کی خاطر اللہ تعالیٰ کے عذاب آیا کرتے ہیں.تو قوم کے لئے بھی دعا کریں اور ان مسلمان ممالک کے لئے بھی دعا کریں جو بد قسمتی سے لاعلمی میں آلہ کار بنے ہوئے ہیں بعض دشمنان اسلام طاقتوں کا اور پھر کل عالم کے لئے بھی دعا کریں کیونکہ یہ جو حالات ہیں جب یہ زیادہ آگے بڑھیں گے تو ہمارا ایک خدا ہے جو غیرت رکھنے والا خدا ہے جو بعض اوقات جب حد سے زیادہ اس کے پیاروں کو ستایا جائے تو بڑے جلال کے ساتھ دنیا پر ظاہر ہوا کرتا ہے اور جہاں تک حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شان میں گستاخی کا تعلق ہے یہ ملک یعنی پاکستان تو حد سے بڑھ چکا ہے یعنی کبھی دنیا میں کسی نے کوئی حکومت ایسی نہیں دیکھی ہوگی جس کے سر براہ مخش کلامی کو اپنے لئے عزت افزائی کا موجب سمجھیں، تکذیب کو اپنے لئے ایک عظمت کا نشان بنالیں اور بڑے فخر کے ساتھ افترا پردازی کریں، جھوٹ بولیں، جھوٹ کو شائع کریں اور پھر خدا کے پاک بندوں پر گند اچھالیں اور پھر قوم سے داد لینے کی خواہش کریں.ایسے واقعات تو کبھی دنیا میں کسی حکومت کی طرف سے رونما نہیں ہوئے ہوں گے سوائے قدیم زمانوں کے فرعون جن کے قصے ہم سنا کرتے تھے لیکن سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ اس جدید زمانے میں یہ واقعات ہو سکتے ہیں.جو سازش ہے احمدیت کے خلاف وہ بہت گہری ہے اور ابھی کلیۂ پوری کھل کر آپ کے سامنے بھی نہیں آئی.جو واقعات آپ کے سامنے آچکے ہیں انکی بھی کہنہ کو آپ میں سے بہت سے نہیں پہنچ سکتے.ان کو معلوم نہیں ہوسکتا دیکھنے والوں کو کہ آخر یہ کون سی منزل ہے جس کی طرف یہ واقعات ایک جلوس کی شکل میں روانہ ہورہے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت کی جڑوں پر حملہ کیا گیا ہے اس
خطبات طاہر جلد۳ 764 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء مرتبہ اور احمدیت کے استیصال کی ایک نہایت ہی خوفناک سازش ہے اور صرف ایک ملک میں نہیں تمام عالم میں اس سازش کے کچھ آثار ظاہر ہونے شروع ہو گئے ہیں اور ان کی کڑیاں مل رہی ہیں مثلاً انڈونیشیا میں بھی اسی نہج پر کام شروع ہو گیا ہے جس طرح آج سے دس سال پہلے پاکستان میں اس کی بنیاد رکھی گئی تھی.ملائیشیا میں بھی انہی بنیادوں پر کام شروع ہو چکا ہے جماعت احمدیہ کے خلاف اسی طرح افریقن ممالک کو بھی رشوتیں دی جارہی ہیں اور روپے کا لالچ دے کر ان کو اکسایا جارہا ہے کہ جماعت کے خلاف اقدامات کریں اور ان ممالک کے ذمہ دار افسران چونکہ نسبتاً بہت زیادہ شریف النفس ہیں وہ سر دست تو اس دباؤ کا مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ خود جماعت کو مطلع کر رہے ہیں کہ ہم سے یہ مطالبات ہورہے ہیں اور یہ صرف جماعت احمدیہ کے خلاف سازش نہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک سازش ہے عالم اسلام کے خلاف جس کا مقصد یہ ہے کہ ملا کی حکومت تمام مسلمان ممالک پر قائم کر دی جائے اور ملا چونکہ زمانہ کے حالات سے بے خبر اور جاہل ہوتا ہے، اسے پتہ ہی نہیں کہ کسی قوم کے مفادات کا تقاضا کیا ہے، اس کو تو صرف اپنے ذاتی مقاصد سے غرض ہے اور نہ قرآن کا علم نہ دین کا علم اور نہ دنیا کا علم اس لئے اگر ایک جاہل قوم کو مذہب کے نام پر کسی ملک پر مسلط کر دیا جائے تو پھر وہ آقا جوان لوگوں کو مسلط کرتے ہیں وہ بے دھڑک جو چاہیں ان سے کام لیتے ہیں.چنانچہ عجیب بات ہے کہ ہر جگہ جہاں بھی مذہبی جنونی حکومت قائم کی گئی ہے خواہ وہ اشترا کی ملکوں کی طرف سے قائم کی گئی ہو خواہ وہ مغربی ملکوں کی طرف سے قائم کی گئی ہو ایک ہی دین کے نام پر بالکل برعکس سمت میں وہ حکومتیں حرکت کر رہی ہیں یعنی ایسی اسلامی حکومتیں آپ کو ملیں گی جو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے حق میں کام کر رہی ہیں اور ایسی اسلامی حکومتیں بھی آپ کو ملیں گی جو اسلام کے نام پر اشتراکیت کے خلاف اور آمریت یا مغربی جمہوریت کے حق میں کام کر رہی ہیں یا Capitalism کے حق میں کام کر رہی ہیں.ایک ہی مذہب ہے، ایک ہی کتاب ہے، ایک ہی نبی ہے لیکن بالکل برعکس نتیجے نکالے جا رہے ہیں.وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں کو او پر لا یا گیا ہے خاص مقاصد کی خاطر لایا گیا ہے اسلام کا نام محض بدنام کرنے کے لئے استعمال ہورہا ہے.مقصد یہ ہے Intolerant Regimes قائم کی جائیں.ایسی حکومتیں قائم کی جائیں جن کے اندر نہ عقل ہو، نہ فہم ہو صرف ایک بات پائی جائے ایک خوبی ان میں موجود ہو کہ وہ ڈنڈے کے زور سے اپنی بات
خطبات طاہر جلد ۳ 765 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء منوانا جانتی ہوں اور عقل کو کلیتہ چھٹی دے کر اس بات سے بے نیاز ہوکر کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہتی ہے کیا سوچتی ہے، جو بات ان کو سمجھائی جائے وہ اس کو کر گزرنے کے لئے آمادہ ہوں.ایسی Regimes ایسی طاقتیں جب بھی دنیا میں آتی ہیں تو تباہی مچا دیا کرتی ہیں.چنانچہ اسلام کے ساتھ اس وقت یہ ہو رہا ہے.جہاں مشرقی طاقتوں کا زور چل رہا ہے وہ اپنی مرضی کی حکومتیں مذہب اسلام کے نام پر قائم کئے ہوئے ہیں.جہاں مغربی طاقتوں کا زور چل رہا ہے وہ اپنی پسند کی حکومتیں قائم کر رہے ہیں اور دونوں کی اس معاملہ میں ایک دوسرے سے سبقت کی دوڑ ہورہی ہے.چنانچہ پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے یا مشرق وسطی میں جو کچھ ہورہا ہے یا مشرق وسطی کی جن طاقتوں کو ان اغراض کے لئے استعمال کیا جارہا ہے یہ ساری باتیں عالمی سیاست کا اور مشرق اور مغرب کی جنگ کا ایک طبعی نتیجہ ہیں اور یہ ساری کڑیاں ان کے ساتھ جا کر ملتی ہیں.بہر حال اس وقت جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے یہ ابھی پوری طرح آپ کے سامنے کھل کر نہیں آیا، میں مختصراً آپ کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ سوائے اس کے کہ اللہ کی تقدیر کسی ایسے وقت میں آکر ان کی اس تدبیر کو کاٹ دے اور خدا کی پکڑ کا وقت ان کی سکیموں کے مکمل ہونے کے وقت سے پہلے آجائے ان کے ارادے ایسے ہیں کہ ان کو سوچ کر بھی ایک انسان جس کا کوئی دنیا میں سہارا نہ ہو اسکی ساری زندگی بے قرار ہو سکتی ہے.اس کے تصور سے بھی انسان کا وجو دلرز نے لگتا ہے لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ نہ مجھ پر یہ اثر ہے نہ آپ پر یہ اثر ہوگا کیونکہ میں بھی جانتا ہوں کہ ہمارا خدا موجود ہے جو ہمارے ساتھ رہا ہے ہمیشہ اور ہمارے ساتھ ہمیشہ رہے گا اور آپ بھی یہ جانتے ہیں اس لئے جب میں آپ سے یہ بات کرتا ہوں تو ڈرانے کی خاطر نہیں کرتا صرف بتانے کے لئے کہ آنکھیں کھول کر وقت گزاریں کہ کیا ارادے ہیں جن کی طرف یہ ملک حرکت کر رہا ہے جن کو رفتہ رفتہ کھول رہا ہے.اس دور میں یعنی ۱۹۸۴ء کی جو شرارت ہے اس میں ایک مکمل سکیم کے تابع پاکستان میں جماعت احمدیہ کے مرکز کو ملیا میٹ کرنے کا ارادہ تھا اور جماعت احمدیہ کی ہر اس انسٹی ٹیوشن ہر اس تنظیم پر ہاتھ ڈالنے کا ارادہ تھا جس کو مرکزی حیثیت حاصل ہے.چنانچہ سب سے پہلے انہوں نے ایسے قانون بنائے جن کے نتیجہ میں خلیفہ وقت پاکستان میں رہتے ہوئے خلافت کا کوئی بھی فریضہ سرانجام نہیں دے سکتا.ایک احمدی جو دیہات میں زندگی بسر کر رہا ہے یا شہروں میں بھی غیر معروف زندگی
خطبات طاہر جلد ۳ 766 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء بسر کر رہا ہے وہ اپنے آپ کو مسلمان کہے بھی ، اسلام کی تبلیغ بھی کرے جیسا کہ کرتا ہے تو نہ حکومت کو اسکی کوئی ایسی تکلیف پہنچتی ہے نہ وہ حکومت کی نظر میں آتا ہے اور اگر کبھی آ بھی جائے تو اسکے پکڑے جانے سے فرق کوئی نہیں پڑتا.اسکی تو اپنی خواہش پوری ہو جاتی ہے کہ میں پکڑا جاؤں اور خدا کی خاطر میں بھی کوئی تکلیف اٹھاؤں لیکن ایک خلیفہ وقت اگر پاکستان میں السلام علیکم بھی کہے تو حکومت کے پاس یہ ذریعہ موجود ہے اور وہ قانون موجود ہے جس کو بروئے کار لا کر وہ اسے پکڑ کر ۳ سال کے لئے جماعت سے الگ کر سکتے ہیں اور یہی نیت تھی اور ابھی بھی ہے کہ جہاں تک جماعت کے بڑے آدمی یعنی جو دنیا کی نظر میں بڑے کہلاتے ہیں لیکن مراد یہ ہے کہ جماعت کے ایسے لوگ ، ایسے ذمہ دار افسران جو کسی نہ کسی لحاظ سے مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، ارادے یہ ہیں کہ ان کے اوپر کسی طرح ہاتھ ڈالا جا سکے اور اس کا آغا ز انہوں نے خلافت سے کیا.چنانچہ میرے آنے سے دو تین دن پہلے کے اندر جو واقعات ہوئے ہیں ان کا اس وقت تو ہمیں پورا علم نہیں تھا کیونکہ خدا کی تقدیر نے خاص رنگ میں میرے باہر بھجوانے کا انتظام فرمایا.اسکی تفاصیل کچھ میں نے بیان کی تھیں کچھ آئندہ کسی وقت بیان کروں گا لیکن میں جس بات کی طرف جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ خلافت کے قلع قمع کی ایک نہایت بھیانک سازش تھی جسکی پہلی کڑی یہ سوچی گئی تھی کہ خلیفہ وقت کو اگر وہ کسی طرح بھی مسلمان ظاہر کرے اپنے آپ کو تو فوری طور پر قید کر کے تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دیا جائے اور ہمارے آنے کے بعد جو اطلاعیں ملیں ان سے معلوم ہوا کہ یہ آرڈرز جاچکے تھے بلکہ بعض حکومت کے افسران نے جو بڑے ذمہ دار اور اوپر کے افسران ہیں انہوں نے بعض احمدیوں کو بتایا کہ حیرت کی بات ہے تم لوگ کس طرح اتنی جلدی حرکت میں آگئے اور تمہیں کیسے پتہ چلا کہ کیا ہونے والا ہے کیونکہ آرڈرز یہ تھے کہ اگر یہ خطبہ دے جو آرڈینینس کے دوسرے دن آ رہا تھا تو خطبہ چونکہ ایک اسلامی کام ہے اور صرف اسی بہانے پر اس کو پکڑا جاسکتا ہے کہ تم مسلمان بنے ہو خطبہ دے کر، تشہد پڑھا ہے اس کے نتیجہ میں پکڑا جا سکتا ہے تو اگر خطبہ دے تو تب پکڑو اور اگر خطبہ نہ دے تو پھر کوئی بہانہ تلاش کرو اور ایک بھی مسجد میں ربوہ کے اگر اذان ہو جائے یا کوئی اور بہانہ مل جائے تو تب بھی اس کو پکڑ لو اور آخری آرڈر یہ تھا کہ اگر کوئی بہانہ نہ بھی ملے تو تر اشواور پکڑو.مراد ی تھی کہ خلیفہ وقت اگر ربوہ میں رہے تو ایک مردہ کی حیثیت سے
خطبات طاہر جلد ۳ 767 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء وہاں رہے اور اپنے فرائض منصبی میں سے کوئی بھی ادا نہ کر سکے.اگر وہ ایسا کرنے پر تیار ہو ایک مردہ کی طرح زندہ رہنے پر تیار ہو تو ساری جماعت کا ایمان ختم ہو جائے گا ،ساری جماعت یہ سوچے گی کہ خلیفہ وقت ہمیں تو قربانیوں کے لئے بلا رہا ہے، ہمیں تو کہتا ہے کہ اسلام کا نام بلند کرو اور خود ایک لفظ منہ سے نہیں نکالتا.چنانچہ جماعت کے ایمان پر حملہ تھا یہ اور اگر خلیفہ وقت بولے جماعت کا ایمان بچانے کے لئے تو اس کو تین سال کے لئے جماعت سے الگ کر دو.چونکہ نظام جماعت ایک نئے خلیفہ کا انتخاب کر ہی نہیں سکتا جب تک پہلا خلیفہ مر نہ جائے اس وقت تک اس لحاظ سے تین سال کے لئے جماعت اپنی مرکزی قیادت سے محروم رہ جائے گی اور جس جماعت کو خلیفہ وقت کی عادت ہو جو نظام خلیفہ کے محور کے گرد گھومتا ہو اس کو کبھی بھی خلیفہ کی عدم موجودگی میں کوئی انجمن نہیں سنبھال سکتی.یہ ایک بہت تلخ تجربہ ہم نے خود دیکھا ہے اس میں سے گزرے ہیں کہ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیمار تھے، آخری دنوں میں خصوصیت کے ساتھ جب آپ کی تکلیف بڑھ گئی اور جماعت نہیں چاہتی تھی کہ فیصلوں کے لئے زیادہ تکلیف دے.اگر چہ اہم فیصلے آپ ہی کرتے تھے اور فیصلے کی قوت میں کوئی بھی فرق نہیں تھا لیکن بیماری کی وجہ سے ڈاکٹر ز بھی یہ ہدایت دیتے تھے کہ کم سے کم بوجھ ڈالا جائے اور جماعت خود بھی نہیں چاہتی تھی تو بہت سے فیصلے بہت سے کام جو خلیفہ وقت کیا کرتا تھا جو کرتا ہے ہمیشہ وہ صدرانجمن یا تحریک جدید یا دوسری انجمن کرنے لگیں اور وہ دور جماعت کے لئے سب سے زیادہ بے چینی کا دور تھا کیونکہ عادت پڑی ہوئی تھی خلیفہ وقت سے رابطے کی ، اس سے فیصلے کروانے کی ، اس سے رہنمائی حاصل کرنے کی تو انجمنوں کے ذمہ جب یہی کام لگے تو اس وقت محسوس ہوا کہ کتنا فرق ہے انجمنوں کے کاموں میں اور خلیفہ وقت کے کاموں میں اور ایک لحاظ سے یہ جماعت کے لئے بہت ہی مفید ثابت ہوا کیونکہ وہ لوگ جو پہلے غیر مبائعین سے متاثر تھے اور وہ لوگ جو کچھ نہ کچھ اثر لے چکے تھے ان کے پروپیگنڈے کا ، وہ کلیہ تائب ہو گئے اس بات سے ان کو اس وقت محسوس ہوا اس بیماری کے دوران کہ خلافت کا کوئی بدل نہیں ہے.ناممکن ہے کہ خلافت کی کوئی متبادل چیز ایسی ہو جو خلافت کی جگہ لے لے اور دل اسی طرح تسکین پا جائیں.تو تین سال کا عرصہ جماعت سے خلافت کی ایسی علیحدگی کہ کوئی رابطہ قائم نہ رہ سکے یہ اتنی خوفناک سازش تھی کہ اگر خدانخواستہ یہ عمل میں آجاتی تب آپ کو اندازہ ہوتا کہ کتنا بڑاحملہ جماعت کی
خطبات طاہر جلد ۳ 768 خطبه جمعه ۲۸ دسمبر ۱۹۸۴ء مرکزیت پر کیا گیا ہے.ساری دنیا کی جماعتیں بے قرار ہو جاتیں اور ان کی رہنمائی کرنے والا کوئی نہ رہتا، کچھ سمجھ نہ آتی کہ کیا کر رہے ہیں ، کیا کرنا ہے اور پھر جذبات سے بے قابو ہوکر غیر ذمہ دارانہ حرکتیں بھی ہو سکتی تھیں.جس طرح شدید مشتعل جذبات کو اور زخمی جذبات کو اللہ تعالیٰ نے مجھے توفیق دی سنبھالنے کی، خلیفہ وقت کی عدم موجودگی یا بے تعلقی کے نتیجہ میں تو ناممکن تھا کہ جماعت کو اس طرح سے کوئی سنبھال سکتا.بعض لوگ مجھے خط لکھتے ہیں تو آپ تصور نہیں کر سکتے کہ ان کا حال کیا ہے کس طرح وہ تڑپ رہے ہوتے ہیں! اس وقت وہ کہتے ہیں خدا کی قسم اگر آپ کے ہاتھ پر ہم نے یہ عہد نہ کیا ہوتا کہ ہم صبر دکھائیں گے ناممکن تھا ہمارے لئے ، ہمارے ٹکڑے ٹکڑے بھی کر دیئے جاتے، ہمارے بچے ہمارے سامنے ذبح کر دیئے جاتے تب بھی ان ظالموں سے ہم ضرور بدلہ لیتے یہ حالت ہو جس جماعت کے اخلاص کی اور محبت کی اور عشق کی اسے خلافت کے سوا سنبھال ہی کوئی نہیں سکتا اس لئے ایک نہایت خوفناک سازش تھی.اور پھر اس کی انگلی کڑیاں تھیں.جن لوگوں کو جھوٹ کی عادت ہو ظلم اور سفا کی کی عادت ہو افتراء پردازی کی عادت ہو وہ کوئی بھی الزام لگا کر کوئی جھوٹ گھڑ کے پھر خلیفہ کی زندگی پر بھی حملہ کر سکتے تھے اور اس صورت میں جماعت کا اٹھ کھڑے ہونا اور اپنے قومی پر سے قابو کھو دینا، جذبات سے بھی قابو کھو دینا اور دماغی کیفیات پر سے بھی نظم وضبط کے کنٹرول اتار دینا ایک طبعی بات تھی.ناممکن تھا کہ جماعت ایسی حالت میں کہ ان کو پتہ ہے کہ خلیفہ وقت ایک کلیتہ معصوم انسان ہیں، ان باتوں میں ہماری جماعت کبھی پڑی نہ پڑسکتی ہے، اس پر جھوٹے الزام لگا کر ایک بد کردار انسان نے اسے موت کے گھاٹ اتارا ہے.ناممکن تھا کہ جماعت اس کو برداشت کر سکتی.جبکہ برداشت کرنے کے لئے خلافت کا جو ذریعہ خدا نے بخشا ہے اس کی رہنمائی سے محروم ہو تو اس صورت میں جماعت کا کوئی بھی رد عمل ہو سکتا تھا جو اتنا بھیانک ہو سکتا تھا اور اتنے بھیانک نتائج تک پہنچ سکتا تھا کہ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور باوجود اس کے کہ ان باتوں کا ہمیں پہلے علم نہیں تھا ایک رات جس رات یہ فیصلہ ہوا ہے اس رات خدا تعالیٰ نے اچانک مجھے اس بات کا علم دیا اور ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایک بڑے زور سے یہ تحریک ڈالی کہ جس قدر جلد ہو اس ملک سے تمہارا نکلنا نظام خلافت کی حفاظت کے لئے ضروری ہے، تمہاری ذات کا کوئی سوال نہیں.ایک رات پہلے یہ میں عہد کر چکا تھا
خطبات طاہر جلد ۳ 769 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء کہ خدا کی قسم میں جان دونگا احمدیت کی خاطر اور کوئی دنیا کی طاقت مجھے روک نہیں سکے گی اور اس رات خدا تعالیٰ نے مجھے ایسی اطلاعات دیں کہ جن کے نتیجہ میں اچانک میرے دل کی کایا پلٹ گئی.اس وقت مجھے محسوس ہوا کہ کتنی خوفناک سازش ہے جماعت کے خلاف جسے ہر قیمت پر مجھے نا کام کرنا ہے اور وہ سازش یہ تھی کہ جب خلیفہ وقت کو قتل کیا جائے اور جماعت اس پر اُبھرے تو پھر نظام خلافت پر حملہ کیا جائے ، ربوہ کو ملیا میٹ کیا جائے فوج کشی کے ذریعہ اور وہاں نیا انتخاب نہ ہونے دیا جائے خلافت کا، وہ انسٹی ٹیوشن ختم کر دی جائے اس کے بعد دنیا میں کیا باقی رہ جاتا.خدا تعالیٰ کے اپنے کام ہوتے ہیں اور جن حالات میں اللہ تعالیٰ نے نکالا یہ اس کے کاموں ہی کا ایک ثبوت ہے یہ نہیں میں کہتا کہ یہ ہوسکتا تھا ناممکن تھا کہ یہ ہو جا تا ورنہ اللہ تعالیٰ کی ذات پر سے ایمان اٹھ جاتا دنیا کا کہ خدا نے خود ایک نظام قائم کیا ہے، خود اس کے ذریعہ ساری دنیا میں اسلام کے غلبہ کے منصوبے بنارہا ہے اور پھر اس جماعت کے دل پر ہاتھ ڈالنے کی دشمن کو توفیق عطا فرما دے جس جماعت کو اپنے دین کے احیا کی خاطر قائم کیا ہے، یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا اسی لئے خدا تعالیٰ نے یہ انتظام فرمایا کہ دشمن کی ہر تد بیر نا کام کر دی اس ایک تدبیر کو نا کام کر کے اتنا بڑا احسان ہے خدا تعالیٰ کا کہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کیا جائے اتنا ہی کم ہے.آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ کتنے خوفناک نتائج سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو بچالیا، کتنی بڑی سازش کو کلیتہ نا کام کر دیا.اس کے بعد دوسرے درجہ پر ان کا ہاتھ ابھی تک مرکزی تنظیموں پر اٹھ رہا ہے.ربوہ کی مرکزیت کے خلاف وہ سازشیں کر رہے ہیں اور ان سازشوں کے نتیجہ میں ایک ایک کر کے وہ اپنی طرف سے ربوہ کے مرکزی خدو خال کو ملیا میٹ کرتے چلے جارہے ہیں.چنانچہ شروع میں بظاہر معمولی بات تھی لیکن اسی وقت مجھے نظر آ گیا تھا کہ آگے ان کے کیا ارادے ہیں چنانچہ میں نے وہ لوگ جو خوش فہمی میں کوششیں کر رہے تھے ان کو بلا کر سمجھایا کہ تم کیوں وقت ضائع کر رہے ہو یہ کام نہیں ہوگا.شروع میں انہوں نے کھیلوں پر ہاتھ ڈالا کہ ربوہ میں کبڈی ہوگی تو عالم اسلام کو خطرہ پیدا ہو جائے گا یعنی ربوہ میں اگر کبڈی ہوئی تو اس سے تمام دنیا میں عالم اسلام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا.ربوہ میں اگر باسکٹ بال کا میچ ہوا تو اس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں گے اور پھر پتہ نہیں کیا ہو جائے گا.پھر کھیلوں سے یہ آگے بڑھے اور اجتماعات پر ہاتھ ڈالنے شروع کئے کہ لجنہ اماءاللہ کا اجتماع
خطبات طاہر جلد ۳ 770 خطبه جمعه ۲۸ ؍ دسمبر ۱۹۸۴ء ہوا تو عالم اسلام پر تباہی آجائے گی ، خدام الاحمدیہ کا اجتماع ہوا تو پتہ نہیں کیا خوفناک حالات دُنیا میں پیدا ہو جائیں گے جس کے نتیجہ میں اسلام نعوذ باللہ من ذلک تباہ ہو جائے گا.بوڑھوں کا اجتماع ہوا تو اس سے ان کو خطرات وابستہ نظر آنے لگے کہ اس اجتماع سے بھی یا وطن ہلاک ہو جائے گا تباہ ہو جائے گا یا عالم اسلام کو نقصان پہنچے گا.یہ فرضی قصے پہلے حکومت کے منشا کے مطابق حکومت سے سمجھوتے کے مطابق علماء ایک دم جس طرح برسات میں مینڈک بولنے لگ جاتے ہیں سارے پاکستان میں وہ علماء کا ٹو لہ جو حکومت کے ہاتھ میں اس وقت کھیل رہا ہے آلہ کار بنا ہوا ہے وہ ایک دم یہی راگ الاپنے لگ جا تا تھا اور کسی کو شرم نہیں آتی تھی کسی کو حیا نہیں تھا کہ ہم کیا کہہ رہے ہیں کہ اطفال کے اجتماع سے دنیا تباہ ہو جائے گی.مستورات کے لجنہ کے اجتماع سے عالم اسلام ہلاک ہو جائے گا یہ کیا با تیں کر رہیں ہیں لیکن جب شرم اور حیا اور تمام اعلیٰ اقدار ختم ہو چکی ہوں ، جب ذہنی قوتیں مفلوج ہو جائیں، جب حیا ہی باقی نہ رہے تو پھر انسان ہر قسم کی حرکت کر سکتا ہے.چنانچہ آپ پاکستان کے اخبارات کا مطالعہ کر کے دیکھیں آپ کو ہر موقع پر اچانک اسی قسم کی خبریں نظر آنی لگ جائیں گی یعنی ایک صبح کو اٹھیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ تمام پاکستان میں ایک خاص طبقہ علماء ایک دم یہ شور مچانے لگ گیا ہے کہ انصار اللہ کا اجتماع نہیں ہوسکتا ور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے.پھر اچا نک علماء کو خیال آتا ہے کہ خدام الاحمدیہ کا اجتماع نہیں ہوسکتا ور نہ عالم اسلام کو خطرہ ہے، کبڈی نہیں ہوسکتی ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے ، باسکٹ بال نہیں ہوسکتا ورنہ عالم اسلام کو خطرہ ہے.تو یہ جو سرالاپتے تھے سارے آخر اس کی مرکزی جڑیں تھیں وہاں سے آواز نکلتی تھی تو یہ سب تک پہنچتی تھی اور پھر حکومت کے اخبار تھے ، حکومت کے ٹیلی ویژن اور حکومت کے ریڈیو یہ ساری باتیں اچھالتے تھے کہ علماء یہ کہہ رہے ہیں تا کہ نفسیاتی طور پر قوم پر یہ اثر پیدا ہو کہ ہاں ایک بہت ہی خطرناک بات ہونے لگی ہے اور حکومت مجبور ہورہی ہے گویا کہ ان لوگوں کی آواز کے سامنے سر جھکانے پر حالانکہ حکومت کی طرف سے یہ باتیں پیدا کی جاتی تھیں اور یہ سب کچھ ہمارے علم میں تھا.تو بعض لاعلم بچارے جب کھیلوں پر پابندی شروع ہوئی تو بعض ہمارے کھلاڑی شوقین بڑے زور کے ساتھ حرکت میں آگئے کہ ہم ڈی سی کے پاس جائیں گے.ہم کمشنر سے ملیں گے ، ایک صاحب تو جوش میں آکر اسلام آباد پہنچ گئے مرکزی حکومت
خطبات طاہر جلد ۳ 771 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء کو جھنجھوڑنے کے لئے اور سیکریڑی تعلیم سے ملے بھی.مجھے علم ہوا تو میں ان پر ناراض ہوا.میں نے ان بلایا میں نے کہا تم کر کیا رہے ہو؟ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ کیا واقعات گزررہے ہیں کیوں گزررہے ہیں.ان افسروں کے بیچاروں کے قبضہ میں ہے ہی کچھ نہیں یہ تو His Masters Voice میں گوش بر آواز آقا ہیں اور جوان کا آقا ہے وہ خود غلام ہے غیر طاقتوں کا ، وہ ان کی آواز پر کان لگائے بیٹھا ہے اور جس طرف ان کے لب ہلتے ہے اسی طرف اس کے لب ہلنے لگ جاتے ہیں تو ایک بہت بڑی عالمی سازش کا جماعت احمد یہ شکار ہے.تم لوگ کیا حرکتیں کر رہے ہو، نہیں کرنے دیتے نہ کرنے دیں کوئی پرواہ نہ کر و دیکھو آگے کیا کرتے ہیں اور کس طرح آگے بڑھتے ہیں؟ پھر اجتماعات پر انہوں نے پابندی لگا دی وہی نظر آ رہا تھا کہ یہاں سے شروع کریں گے.سیڑھیاں جس طرح انسان چڑھتا ہے ایک دو تین چار اس طرح اوپر تک پہنچے لگیں گے.پھر جلسہ سالانہ ان کے لئے خطرہ بن گیا اور اس قدر شور مچایا گیا سارے ملک میں کہ گویا اگر یہ بات حکومت نے نہ مانی تو حکومت تباہ ہو جائے گی.جلسہ سالانہ اتنا بڑا واقعہ جماعت احمدیہ کا کیا حق ہے کہ جلسہ سالانہ کرے؟ چنانچہ جلسہ سالانہ ختم کر دیا گیا اور آج جلسہ سالانہ پر یہ ہمارا اختتامی خطاب ہونا تھا.آج اٹھائیس ہے اور ۲۸ تاریخ کو اختتامی تقریب ہوا کرتی تھی جس میں قرآن کے معارف بیان ہوتے تھے ،اسلام کی خوبیاں بیان ہوتی تھیں، غیر مذاہب پر اسلام کی فوقیت بیان ہوتی تھی.یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ایسی باتیں ہوں، جلسہ سالانہ پر اس کے مقابل پر کیا برداشت کر سکتے ہیں ربوہ کی مساجد جن میں لاؤڈ سپیکر کھلے ہیں یعنی مولویوں کی مساجد اس میں جمعہ کے دن ایسی فحش کلامی ہوتی ہے کہ آپ تصور نہیں کر سکتے کہ اس سے ربوہ کے رہنے والوں کا حال کیا ہوتا ہے؟ شدید گندی زبان استعمال کی جاتی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف، جماعت احمدیہ کے سربراہوں کے خلاف ،خلفا کے خلاف بزرگوں کے خلاف اور اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ تعجب ہوتا ہے کہ اسلام کا نام لینے والے، اسلام کی طرف منسوب ہونے والے جھوٹ اتنا بول کیسے سکتے ہیں؟ گھر بیٹھے کہانیاں گھڑتے رہتے ہیں اور پھر فخر سے بتاتے ہیں بعد میں مولوی اپنے ساتھیوں کو کہ دیکھا کس شان کا میں نے جھوٹ گھڑا ہے! یہ میں نے گھڑا تھا، کسی اور نے مجھے نہیں بتایا، یہ میرا دماغ چلا ہے اس طرف اور سارے جانتے ہیں اور ان کے ماننے والے بھی جانتے ہیں اور سارا ماحول جانتا ہے، حکومت جانتی ہے کہ محض گند پر منہ مار رہے
خطبات طاہر جلد ۳ 772 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء ہیں.لیکن جب حکومت خود جھوٹی ہو، بد کردار ہو چکی ہو،خود مذہب کے نام سے کھیل رہی ہو تو پھر ان لوگوں سے ان کا دل بڑا لگتا ہے.اس قسم کے لوگ قصر شاہی تک دسترس رکھتے ہیں ، وہاں تک رسائی ہو جاتی ہے، ان کے ساتھ باقاعدہ مل کر منصوبے بنائے جاتے ہیں.یہ حال ہو چکا ہے اس ملک کا اور اس حال میں صرف احمدی نہیں پیسا جارہا آپ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ سارا ملک پیسا جارہا ہے.جن حقوق سے انہوں نے آپ کو محروم کیا ہے باقی قوم کو کب وہ حقوق دیئے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ جس دن سے جماعت احمدیہ کو ووٹ کے حق سے محروم کیا ہے سارا ملک ووٹ کے حق سے محروم ہے.جب جماعت احمدیہ پر پابندی لگائی جاتی ہے کہ تم نے اپنے دفاع میں کچھ نہیں کہنا ہم جو مرضی یک طرفہ تمہارے خلاف کہتے چلے جائیں گے تو باقی ملک پر بھی یہی پابندی لگانی پڑتی ہے پھر کیونکہ خدا کی تقدیر اسی طرح کام کر رہی ہے کوئی ایسا حق نہیں ہے جو جماعت سے چھینا گیا ہو اور خدا تعالیٰ نے باقی قوم کے پاس وہ حق رہنے دیا ہو.یہی لوگ پھر باقی قوم سے بھی حق چھینے پر مجبور کر دیئے جاتے ہیں.ابھی کچھ عرصہ پہلے جماعت کے پریس پر پابندی تھی ، جماعت کی کتابیں ضبط ہو رہی تھیں یہ قانون بن گیا تھا کہ جماعت احمد یہ اگر اپنے دفاع میں کچھ کہے گی تو ان کو قید کیا جائے گا ان کو سزادی جائے گی، تین سال تک قید بھی ہو سکتی ہے اور جرمانہ بھی ہوسکتا ہے اور کچھ دن کے بعد ہی حکومت اس بات پر مجبور کر دی گئی خدا کی تقدیر کی طرف سے کہ سارے ملک کے خلاف بالکل یہی پابندی لگائے کہ الیکشن کے معاملہ میں، ریفرنڈم کے معاملہ میں اگر کوئی بولا تو اس کی جائیداد میں ضبط اسکی عزتیں ضبط ، اس کی آزادی ضبط بلکہ اس سے زیادہ سخت زبان میں جماعت احمدیہ کے خلاف استعمال کی گئی تھی پاکستان کے ہر شہری کے حقوق ضبط کر لئے گئے کوئی چیز ان کے پاس نہیں رہنے دی گئی تو اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اللہ کی تقدیر بھی ساتھ ساتھ ایک خاموش کام کرتی چلی جارہی ہے جن باتوں سے آپ کو محروم کیا جا رہا ہے ان باتوں سے ساری قوم بھی ساتھ محروم ہوتی چلی جارہی ہے، ایک ہی کشتی میں اکٹھے ہورہے ہیں سارے لیکن فرق صرف یہ ہے کہ کچھ صرف اس لئے ظلم وستم کے نیچے پیسے جار ہے ہیں کہ وہ خدا کا نام لے رہے ہیں اس زمانہ میں ، وہ اللہ کی محبت اور اللہ کے رسول کی محبت کی باتیں کرتے ہیں اور باقی قوم کو اس جرم میں سزا دی جارہی ہے کہ وہ خاموشی سے
خطبات طاہر جلد ۳ 773 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء کیوں ان باتوں کو برداشت کرتے ہیں میں تو اس طرح ان حالات کو دیکھ رہا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے خلاف ایک ظلم کیا جاتا ہے اور ساری قوم اس وقت خاموش رہتی ہے اور برداشت کر جاتی ہے اور کہتی ہے کہ کوئی حرج نہیں ان کے ساتھ ہی ہو رہا ہے نا اور چند دن کے بعد بعینہ ان کے ساتھ وہ سلوک بلکہ اس سے زیادہ شدت کے ساتھ وہ سلوک ہونے لگتا ہے.کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے جماعت احمدیہ کومحروم کیا گیا ہو اور قوم کو وہ پھر عطا ہو گئی ہو.آپ دیکھ لیں ایک دو سال کی جو تاریخ ہے اس کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں عملاً یہی سلسلہ چلا ہوا ہے اور اس کے نتیجے پھر بڑے بھیا نک ہوں گے اس سے تو کوئی انکار نہیں.لیکن بہر حال اس وقت دشمن کا ارادہ یہ ہے کہ جماعت احمد یہ کوکلیتہ نہا کر دے، جماعت احمدیہ کے ہاتھ بھی جکڑ دے، جماعت احمدیہ کے پاؤں بھی جکڑ دے اور پاکستان سے جماعت احمدیہ کی مرکزیت کی ساری علامتیں مٹادے.چنانچہ ہر گز بعید نہیں کہ اس سمت میں یہ آگے قدم بڑھائیں مرکزی انجمنوں کے خلاف بھی سازش کریں ہر قسم کی اور جماعت کے وجود جماعت کی تنظیم کے خلاف سازش کریں.جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے کسی انصاف کے تقاضے کو لوظ رکھتے ہوئے آپ کے ساتھ کوئی رحم کا سلوک نہیں کرنا.جہاں تک ان کا بس چلے گا انہوں نے ہر انسانی حقوق سے جماعت احمدیہ کومحروم کرنے کی مزید کوششیں کرنی ہیں اور یہ سلسلہ آگے تک بڑھانے کا ان کا ارادہ ہے ، کہاں تک بات پہنچے گی یہ ابھی تفصیل میں بیان نہیں کرتا لیکن مجھے علم ہے کہ ان کے ارادے کیا ہیں اس لئے میں جماعت کو متنبہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ یہ نہ سمجھ لیا کریں ہر دفعہ کہ ایک ظلم کے بعد ان کے دل ٹھنڈے پڑ چکے ہوں گے.وہ یہ نہ سمجھ لیا کریں ہر دفعہ کہ ایک ستم کے بعد یہ راضی ہو جائیں گے کہ بس اب کافی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ جتنا ظلم کرتے چلے جائیں گے اتنا زیادہ یہ آپ سے خوف محسوس کریں گے.جتنا یہ ظلم کرتے چلے جائیں گے اتنی بیقراری بھی ان کی بڑھتی چلی جائے گی، بے چینی بھی بڑھتی چلی جائے گی کہ یہ ایک منتظم جماعت ہے ہم اس سے بے خوف اب نہیں رہ سکتے اس لئے مزید آگے بڑھیں گے اور چونکہ جماعت صبر اور شکر کے مقام پر فائز ہے اور ان کے سامنے سر جھکانے پر کسی قیمت پر بھی آمادہ نہیں ہے اس لئے اور بھی زیادہ ان کا غیظ وغضب بڑھتا چلا جائے گا.یہ مزید تکلیف محسوس کریں گے کہ ہم نے تو ان کو اتنا دکھ پہنچایا ہے لیکن آگے سے ان لوگوں کا سر ہی نہیں جھک
خطبات طاہر جلد۳ 774 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء رہا، یہ اسی طرح سر بلند کر کے پھر رہے ہیں گلیوں میں اسی طرح ان کو کامل یقین ہے اپنے خدا پر ، اسی طرح یہ آسمان کی طرف سے نصرت آنے کے انتظار میں آنکھیں لگائے بیٹھے ہیں.کیوں ان کے ایمان پر حملہ نہیں کر سکے، کیوں ان کے عزم کو ہم تباہ نہیں کر سکے ، کیوں ان کے ولولے ہم نہیں مٹا سکے ، کیوں آج بھی یہ زندہ ہیں انسانی قدروں کے ساتھ بلکہ ہم سے بہتر انسانی قدروں کے ساتھ یہ زندہ ہیں؟ یہ بات جوں جوں وقت گزرتا چلا جا رہا ہے ان کو تکلیف دیتی چلی جارہی ہے اور اسی بد بخت بہو کی طرح جس نے اپنے خاوند سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ اپنی ماں کا سرکاٹ کر جب تک نہ دکھاؤ اس وقت تک میں راضی نہیں ہوگی یہ بھی سمجھتے ہیں کہ جب تک انتہا نہ کر گزریں گے اس وقت تک جماعت احمد یہ ذلیل و رسوا نہیں ہوسکتی ، اس وقت تک ہمارے دل کو چین نصیب نہیں ہو سکتا.اس لئے اپنے شیاطین کی طرف یہ جاتے ہیں اور مزید بڑے سے بڑے مطالبے اور سے اور مطالبے کرنے شروع کر دیتے ہیں کہ نہیں ابھی ہمارا دل راضی نہیں ہوا، اب یہ کام اور کر گزرو تو ہم راضی ہوں گے ، اب یہ کام اور کر دو پھر ہم راضی ہوں گے.لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ جماعت احمدیہ کے ہاتھ باندھ بھی دیں ، جماعت احمدیہ کو کلیتہ نہتا بھی کر دیں تب بھی خدا کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی جیتے گی کیونکہ خدا کے شیروں کے ہاتھ کبھی کوئی دنیا میں باندھ نہیں سکا.یہ زنجیریں لاز ماٹوٹیں گی اور لازمآیہ زنجیریں باندھنے والے خود گرفتار کئے جائیں گے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جسے دنیا میں کوئی بدل نہیں سکتا، کبھی خدا کے ہاتھ بھی کسی نے باندھے ہیں؟ اس لئے خدا والوں کے جب ہاتھ باندھے جاتے ہیں تو عملاً یہ دعوی ہوتا ہے کہ ہم خدا کے ہاتھ باندھ سکتے ہیں.اس لئے خدا کے ہاتھ تو کھلے ہیں قرآن کریم اعلان فرمایا رہا ہے بَلْ يَدَهُ مَبْسُوطَتَن (المائدہ: ۶۵) اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں اس کا دایاں ہاتھ بھی کھلا ہے اور اس کا بایاں ہاتھ بھی کھلا ہے اور کوئی دنیا کی طاقت خدا کے ہاتھوں کو نہیں باندھ سکتی اس لئے آگے بڑھیں گے یہ ظلموں میں اس میں کوئی شک نہیں لیکن یہ بھی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ جماعت احمدیہ کے شیر خدا کے فضل سے بندھے ہوئے ہاتھوں کے ساتھ بھی ان پر غالب آکر رہیں گے.کوئی دنیا میں ان کے ایمان کا سر جھکا نہیں سکتا کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے عزم کا سر جھکا نہیں سکتا، کوئی دنیا میں جماعت احمدیہ کے صبر کا حوصلہ تو ڑ نہیں سکتا.بڑھتے رہیں جس حد تک یہ آگے بڑھتے ہیں ہم بھی انتظار میں ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ خدا کی تدبیر بھی حرکت میں ہے خدا کی
خطبات طاہر جلد ۳ 775 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء تقدیر بھی حرکت میں ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں جیسا کہ فرماتا ہے: إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا (الطارق : ۱۲ - ۱۷) یہ بھی کچھ تدبیر میں کر رہے ہیں اور میں غافل نہیں ہوں میں بھی تدبیر کر رہا ہوں اور بالآخر یقیناً خدا ہی کی تدبیر غالب آئے گی.کب آئے گی کتنی دیر میں آئے گی یہ میں ابھی آپ کو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن اتنا میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ جب زیادہ تشویش کے دن آتے ہیں اللہ تعالیٰ مسلسل مجھے خوشخبریاں عطافرماتا ہے اور صرف مجھے ہی نہیں بلکہ ساری جماعت کو تمام دنیا میں کثرت کے ساتھ خوشخبریاں ملنی شروع ہو جاتی ہیں.جتنے بھیانک دن آتے ہیں اتنا ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے روشنی کے وعدے زیادہ نمایاں ہو کر سامنے آنے لگتے ہیں.یہ عجیب قسم کے واقعات ہیں جو عام دنیا کے حالات سے بالکل مختلف ہیں.اگر یہ خوا میں نفسیاتی ہوں، اگر یہ خوابیں نفس کے دھو کے ہوں، یہ کشوف نفس کے دھو کے ہوں تو نفس کی کیفیت تو یہ ہے اور دنیا کے سارے ماہرین نفسیات جانتے ہیں کہ جتنا زیادہ مایوسی بڑھتی چلی جائے اتنا ہی ڈرانے والی خوا ہیں آنی شروع ہو جاتی ہیں.جتنا زیادہ انسان تاریکیوں میں گھر جاتا ہے اتنا ہی زیادہ ہولناک مناظر وہ دیکھنے لگتا ہے، غموں کے مارے ہوئے مصائب کے ستائے ہوئے ، خوفوں میں مبتلا لوگوں کو Hallucination(فریب خیال ) شروع ہو جاتے ہیں امن کی حالت میں بیٹھے ہوئے بھی ان کو خطرات دکھائی دینے لگتے ہیں.یہ صرف بچوں کی علامت ہوتی ہے کہ انتہائی تاریکی کے وقت میں خدا ان سے روشنی کے وعدے کرتا ہے اور ان کو روشنی کے نمونے دکھاتا ہے.انتہائی تکلیف کے وقت میں بھی خدا تعالیٰ ان کے ساتھ دل آرام باتیں کرتا ہے، ان کے دلوں کو راحت اور اطمینان اور سکون سے بھر دیتا ہے.پس جب حضرت محمد مصطفی ﷺ پر مصائب کا انتہائی شدید وقت تھا تو وہی وہ دن تھے جب کہ اسلام کی فتح کے وعدے آپ سے کئے جارہے تھے.تعجب ہوتا ہے کہ ادھر جنگ احزاب کے وقت ایسا وقت آیا تھا قرآن کریم کے بیان کے مطابق کہ جیسے ایک زلزلہ آ گیا ہو قوم کے اوپر اور وہ لوگ جن کے ایمان قوی نہیں تھے وہ سمجھتے تھے کہ اب موت سر پر آ کھڑی ہوئی ہے اور کوئی اس کو روک نہیں سکتا.آنکھیں پتھرا گئی تھیں لوگوں کی اس وقت جب کہ بھوک کے مارے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے
خطبات طاہر جلد ۳ 776 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء سب نے اس وقت جب کہ نقاہت کا یہ عالم تھا کہ چلنا پھرنا بھی مسلمانوں کے لئے دُوبھر ہوا ہوا تھا ایسے وقت میں ایک صحابی نے آنحضرت ﷺ کے رحم کو اپیل کرنے کے لئے کہ یا رسول اللہ ! کچھ کریں ہم کیا کریں یہ حال ہو گیا ہے اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھایا تو آپ نے دیکھا کہ پتھر بندھا ہوا ہے یہ بتانے کے لئے کہ میرے حال زار کو دیکھیں تو سہی کہ پتھر باندھ باندھ کر میں بھوک مٹارہا ہوں.آنحضرت نے اپنی زبان سے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اپنے پیٹ سے کپڑا اٹھا یار اوی بیان کرتا ہے کہ اس صلى الله دو پتھر بندھے ہوئے تھے.(سنن الترمذی کتاب الزھد عن رسول الله له باب ماجاء فی معیشۃ النبی آپ نے بتایا کہ میں تم سے زیادہ بھوکا ہوں جس تکلیف میں تم مبتلا ہو تم سے زیادہ شدت سے میں اس تکلیف کو محسوس کر رہا ہوں.یہ نہ سمجھو کہ میں پتھر دل ہوں، مجھے تم سے زیادہ تم سے بڑھ کر تمہارا درد ہے لیکن خدا کی خاطر جو بھی تقدیر ہے ہم راضی برضا ر ہیں گے.ان انتہائی گہری تکلیف کی راتوں میں بھی خدا تعالیٰ نے آپ کو عظیم الشان خوشخبریاں دیں ایسے حیرت انگیز مناظر آپ کو دکھائے کہ عقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے.وہی دراصل وقت ہوتا ہے یقین کامل کے اظہار کا.ایک پتھر ٹوٹ نہیں رہا تھا.ایک خندق کھودتے ہوئے آنحضور ﷺ کو بلایا گیا.آپ سے عرض کی گئی، حالانکہ وہ بڑے قوی لوگ تھے جو پتھر توڑ رہے تھے، یا رسول اللہ ! یہ پھر راہ میں حائل ہے اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے، اتنی طاقت نہیں ہے کہ خندق کو پتھر کو چھوڑ کر لمبا کریں اور دور سے کھود کر لائیں تو آنحضور علی نے پھاوڑایا جو بھی چیز تھی جس سے پتھر توڑ رہے تھے اس کو اپنے ہاتھ میں لیا اور پتھر پر مارا تو جیسا کہ رگڑ سے چنگاری نکلا کرتی ہے اس سے ایک چنگاری نکلی لیکن چنگاری کو دیکھ کر آنحضرت ﷺ نے بڑے زور سے نعرہ تکبیر بلند کیا اللہ اکبر، اللہ اکبر پھر دوبارہ کدال ماری تو پھر ایک چنگاری نکلی پھر آنحضرت علی نے بڑے جوش کے ساتھ ایک نعرہ تکبیر بلند کیا.صحابہ نے عرض کی یارسول اللہ! پتھر تو خیر ٹوٹ گیا کیونکہ خدا کی تقدیر نے یہی چاہا تھا کہ محمد رسول اللہ علیہ کے ہاتھوں سے وہ پتھر ٹوٹے ،صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا بات تھی؟ آپ نے فرمایا کہ جب پہلی دفعہ جب میں نے پتھر پر ضرب لگائی تو اس چنگاری میں خدا تعالیٰ نے مجھے خیبر کے قلعے دکھائے کہ ان قلعوں کو میں تمہارے لئے سر کر کے دکھاؤں گا اور دوسری دفعہ میں نے پتھر پر ضرب لگائی تو مجھے قیصر و کسریٰ کی حکومتیں دکھائی گئیں اور وہ محل دکھائے گئے جو مسلمانوں کے قبضہ میں خدا تعالیٰ نے دینے کا فیصلہ کر لیا ہے.(السیرۃ الحلبیہ زیر غزوہ
خطبات طاہر جلد ۳ خندق.جلد دوم نصف آخر صفحه : ۳۶۲-۳۶۳) 777 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء دن یہ تھے کہ چند عرب قبائل کے مقابل پر مسلمان بالکل بے طاقت دکھائی دے رہے تھے اور یہ حالت تھی کہ چند دن بھی اور اگر محاصرہ رہ جاتا تو ان کے ہاتھوں نہ مارے جاتے تو فاقوں کے ہاتھوں مارے جاتے اور خدا تعالیٰ یہ باتیں کر رہا تھا کہ میں تمہیں خیبر کی چابیاں بھی عطا کر رہا ہوں، میں تمہیں قیصر و کسری کے خزانہ بھی عطا کر رہا ہوں ، میں تمہیں روم پر بھی قوت دوں گا، میں تمہیں اہل فارس پر بھی طاقت عطا کروں گا.تمام دنیا میں تم پھیل جاؤ گے، تمام دنیا کی بڑی طاقتیں تمہارے سامنے سرنگوں ہو جائیں گی یہ خوشخبریاں اس حالت میں دی جارہی تھیں تو اللہ تعالیٰ کی عجیب شان ہے کہ ادھر غم بڑھ رہے ہوتے ہیں ادھر بظاہر تاریکی چھار ہی ہوتی ہے اور کوئی رستہ نہیں دکھائی دیتا انسان کو نکلنے کا ، ادھر اللہ تعالیٰ بشارتوں پر بشارتیں دیتا چلا جاتا ہے.ابھی چند دن پہلے دو تین دن پہلے کی بات ہے کہ شدید بے چینی اور بے قراری تھی بعض اطلاعات کے نتیجہ میں اور ظہر کے بعد میں ستانے کے لئے لیٹا ہوں تو میرے منہ سے جمعہ جمعہ کے الفاظ نکلے اور ساتھ ہی ایک گھڑی کے ڈائل کے اوپر جہاں دس کا ہندسہ ہے وہاں نہایت ہی روشن حروف میں دس چمکنے لگا اور خواب نہیں تھی بلکہ جاگتے ہوئے ایک کشفی نظارہ تھا اور وہ جو دس دکھائی دے رہا تھا با وجود اس کے کہ وہ دس کے ہند سے پر دس تھا جو گھڑی کے دس ہوتے ہیں لیکن میرے ذہن میں وہ دس تاریخ آرہی تھی کہ Friday the 10th یہ انگریزی میں میں یہ کہہ رہا تھا.Friday the 10th اور ویسے وہ گھڑی تھی اور گھڑی کے اوپر دس کا ہندسہ تھا.تو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ وہ کون سا جمعہ ہے جس میں خدا تعالیٰ نے یہ روشن نشان عطا فرمانا ہے مگر ایک دفعہ یہ واقعہ نہیں ہوا ہر دفعہ یہ ہوا کہ جب بھی شدت کی پریشانی ہوئی ہے جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے مسلسل خوشخبریاں عطا فرما ئیں.اس سے چند دن پہلے رویا میں اللہ تعالیٰ نے بار بار خوشخبریاں دکھا ئیں اور چار خوشخبریاں اکھٹی دکھا ئیں.جب میں اٹھا تو اس وقت زبان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ شعر تھا.غموں کا ایک دن اور چار شادی فَسُبحان الذى اخرى الاعادی (در این صفحه (۴۶)
خطبات طاہر جلد ۳ 778 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء یعنی چار خوشخبر یوں کی حکمت یہ ہے چار دکھانے کی کہ ایک غم پائے گا تو خدا تعالی چارخوشخبر یاں دکھائے گا اور دشمنوں کو بہر حال ذلیل کرے گا کیونکہ اس وقت جماعت کی حالت سب سے زیادہ دنیا کی نظر میں گری ہوئی ہے کلیتہ بیچارگی کا عالم ہے اور کامل بے اختیاری ہے.یہ وقت ہے خدا کی طرف سے خوشخبریاں دکھانے کا اور یہ وقت ہے ان خوشخبریوں پر یقین کرنے کا.آج جو اپنے خدا کے دیئے ہوئے وعدوں پر یقین رکھتا ہے، آج جس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں ہے وہی ہے جو خدا کے نزدیک معزز ہے، وہی ہے جس کو دنیا میں غالب کیا جائے گا اور اسے خدا کبھی نہیں چھوڑے گا کیونکہ جو تنزل کے وقت اپنے خدا کی باتوں پر ایمان اور یقین رکھتا ہے اس کے ایمان میں کوئی تزلزل نہیں آتا.اللہ تعالیٰ کی تقدیر اس کے لئے ایسے کام دکھاتی ہے کہ دنیا ان کا تصور بھی نہیں کر سکتی.پس آج وقت ہے اپنے رب کے ساتھ گہرا تعلق قائم کرنے کا ، اپنے رب کے ساتھ پیار کرنے کا، محبت کا رشتہ مضبوط کرنے کا.آج آپ یقین رکھیں کہ ہمارا خدا ہم سے سچے وعدے کرتا رہا ہے، آج بھی سچا وعدہ کر رہا ہے کل بھی بچے وعدے کرتا رہے گا اور بظاہر دنیا کے نزدیک ہم ذلت کی کسی بھی انتہا تک پہنچ چکے ہوں لیکن تمام عزتوں کا مالک خدا ہمارے ساتھ ہے اور ہمارا ساتھ کبھی نہیں چھوڑے گا.اس یقین پر حرف نہ آنے دیں اس کی حفاظت کریں کیونکہ آج کا وقت ہی دراصل آپ کے کل کا فیصلہ کرنے والا ہے.اگر آج آپ نے خدا پر اپنے ایمان کو کمزور کر دیا ، اگر آج خدا کے وعدوں پر آپ کو شک پیدا ہونے شروع ہو گئے تو کل اگر تقدیر بگڑی تو آپ اس تقدیر کو بگاڑنے والے ہوں گے اس لئے اپنے یقین کی حفاظت کریں اور جہاں تک آپ کا بس چلتا ہے تدبیر کا بھی ہر طریق اختیار کریں.ایک مومن کے لئے جو خدا تعالیٰ نے منصوبہ پیش فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ ایمان کامل رہے اور خدا کی تقدیر کے اوپر ایک دن بھی بے یقینی پیدا نہ ہو اور اسکے ساتھ اپنی تد بیر کو بھی انتہا تک پہنچا دے اس لئے جتنا دشمن جماعت احمدیہ کی مرکزیت پر حملہ کرنے کے لئے کوشش کر رہا ہے یا حملے کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے اسی حد تک اس کا جماعت کی طرف سے برعکس ردعمل پیدا ہونا چاہئے چنانچہ میں نے جماعت کو بارہا یہ توجہ دلائی ہے کہ جب یہ آپ کی زندگی پر حملہ کر رہے ہیں یہ آپ کو نیست و نابود کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں اور یہی منصوبے بنارہے ہیں تو اس کا رد عمل یہ ہونا چاہئے کہ اس
خطبات طاہر جلد ۳ 779 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء قوت کے ساتھ آپ ابھریں اور بڑھیں اور پھیلیں کہ دشمن کلیتہ خائب و خاسر اور نامراد ہو جائے حسرتوں کے سوا اس کے ہاتھ کچھ نہ آئے.ایک جگہ جماعت کو دباتے ہیں تو دس جگہ آپ پھیل جائیں ایک احمدی کو شہید کرتے ہیں تو ہزاروں لوگوں کو احمدی بنائیں ،ایک ملک میں جماعت احمدیہ کی مسجدوں کو ویران کیا جاتا ہے تو ہزاروں ملکوں میں جماعت احمدیہ مسجدیں بنائے ، یہ جواب ہے ایک زندہ قوم کا ، یہ جواب ہے ایک صاحب ایمان قوم کا اس لئے میں بار بار جماعت کو تبلیغ کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور خدا کے فضل سے بعض ممالک میں بہت ہی اچھے نتائج پیدا ہور ہے ہیں.انگلستان بڑی دیر سے سویا پڑا تھا ابھی چند مہینے کے اندر اندر ان کو جھنجھوڑا ہے تو آج کی ڈاک میں بھی اطلاع آئی ہے کہ مزید بیعتیں ہوئی ہیں خدا کے فضل سے چنانچہ پہلے دو چار پانچ پر راضی ہوا کرتے تھے بڑا خوش ہوتے تھے کہ چار بیعتیں ہو گئیں اس سال اب تک چند مہینوں میں ۶۰ ساٹھ بیعتیں خدا کے فضل سے ہو چکی ہیں اور ابھی ساری کوششیں پکی بھی نہیں.آخر پھل پکنے میں وقت لگتا ہے.جرمنی کا سوکا وعدہ تھا وہ ۱۲ یا ۱۱۴ تک پہنچ گئے ہیں یعنی اپنا ٹا رگٹ پورا کر کے آگے نکل گئے ہیں اور ملاقاتوں کے دوران اور بعض گفتگو کے دوران جو میں نے اندازہ لگایا ہے ابھی بھاری اکثریت ہے ہمارے جرمن احمدیوں کی جن کی کوششوں کو ابھی پھل نہیں لگا.یہ صرف چند احمدی ہیں جن کی کوششوں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ۱۱۲ کے قریب نئے احمدی ایک سال میں جرمنی کو عطا فرمائے ہیں اور جہاں تک میرا اندازہ ہے اس ایک سال سے پہلے جو ہمارے لئے خاص ابتلاؤں کا سال تھا جب سے جرمنی کا مشن بنا ہے سارے ملا کر بھی آج تک سو سے اوپر احمدی نہیں ہوئے تھے تو کہاں یہ کیفیت کہاں یہ کیفیت کہ ابتلا سخت ہوتا جا رہا ہے اور خدا کی رحمتیں اتنی زیادہ نمایاں ہوکر برسنے لگی ہیں.اس میں نہ میری کوشش کا دخل ہے نہ آپ کی کوشش کا دخل ہے یہ خاص خدا کا نشان ہے اس کے قرب کا یہ نشان ظاہر ہو رہا ہے کہ چند جگہ تمہیں خطرات نظر آرہے ہیں.ان چند خطرات کے مقابل پر میں ہر جگہ تم پر رحمتیں نازل فرما رہا ہے اور جہاں خطرات دکھائی دے رہے ہیں وہاں بھی رحمتیں نازل فرمارہا ہے اگر دیکھنے کی آنکھیں ہوں.تو آپ اہل فرانس کیوں محروم ہیں اس نعمت سے؟ میں متوجہ کرنا چاہتا ہوں آپ کو ایک ایک
خطبات طاہر جلد۳ 780 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء کر کے ملک جاگ رہے ہیں.امریکہ سے بھی خوشخبریاں آنے لگی ہیں مزید بیعتوں کی نجی آئی لینڈ ایک دور دراز کا علاقہ ہے جو یہاں سے اتنی دور ملک ہے کہ اس سے زیادہ دور ملک کوئی بھی نہیں ہوگا یہاں سے اور وہاں سے بھی خوشخبریاں آنے لگی ہیں ایک دو تین چار، رجحان بیعتوں کا بڑھنا شروع ہو گیا ہے.ہر طرف بیعتوں کا رجحان بڑھنا شروع ہو گیا ہے تو فرانس تک کیوں یہ خبر نہیں پہنچ رہی مجھے یہ تعجب ہے.فرانس کے احمدیوں میں سے بعض مجھے خط لکھتے ہیں معلوم ہوتا ہے تو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اللہ کے فضل سے وہ حرکت میں آگئے ہیں لیکن بحیثیت جماعت زندہ فعال جماعت کے طور پر منصو بہ بنا کر اہل فرانس کو اسلام میں داخل کرنے کے وہ آثارا بھی ظاہر نہیں ہوئے جن کی میں آپ سے توقع رکھتا ہوں اس لئے میں اسی پر اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.ان سارے حالات کی روشنی میں آپ سوچیں کہ آپ کو خدا تعالیٰ نے یہاں ایک قسم کا امن عطا فرمایا ہوا ہے.ہزار ہا مصیبتوں میں آپ کے بھائی اور بہنیں اور بچے مبتلا ہیں جن سے آپ دور بیٹھے ہوئے ہیں اس وقت اس لئے اول تو ان حالات میں اپنے دل کو تسکین نہ پانے دیں، ان کے غم میں بے قرارر ہیں، ان کے لئے دعائیں کریں، ان کے دکھوں سے حصہ پائیں.پہلا رد عمل تو آپ کا یہ ہونا چاہئے بھولو نہیں ان کو جو آپ کے بھائی وہاں بیٹھے ہوئے ہیں کیونکہ زندہ تو میں کبھی نہیں بھولا کرتیں.آنحضرت ہ فرماتے ہیں کہ مومن تو ایک جسم کی طرح ہیں.انگلی کے کنارے پر بھی ایک دکھ پہنچے تو سارے وجود کو دکھ پہنچتا ہے.( صحیح مسلم کتاب البر والصلة والادب باب تراحم المومنين وتعاشهم وتعصدهم ) ہمارے تو مرکزی حیثیت کے لوگوں کو شدید دکھ پہنچ رہا ہے ربوہ اہل پاکستان کا ہی مرکز نہیں ہے تمام دنیا کا مرکز ہے جماعت احمدیہ کے لئے ، وہاں دکھ پہنچ رہا ہے.پاکستان کو ایک مرکزی حیثیت ہے وہاں احمدیوں کو شدید دکھ پہنچ رہا ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ باقی احمدی چین سے بیٹھے رہیں؟ اس لئے اپنی زندگی کے اطوار بدلیں، اپنے اندر جفا کشی پیدا کریں، اپنے دل کو اپنے بھائیوں کے لئے نرم کریں، ان کے لئے دعائیں کریں اور جن کاموں سے ان کو محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ان میں اتنا زور لگائیں کہ حیران رہ جائے دشمن کہ ہم ایک جگہ دبانے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ سینکڑوں جگہ ابھرنے لگتے ہیں.یہ ہے حقیقی جواب جو آپ کو تدبیر کے ذریعہ دینا چاہئے.خدا کی تقدیر تو ضرور کام کرتی ہے کرے گی ہمیں یقین ہے اس کی باتیں تو میں بہت کر چکا ہوں آپ کے سامنے لیکن تدبیر کے ذریعہ خدا تعالیٰ کو یہ بتائیں کہ ہم
خطبات طاہر جلد ۳ 781 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء تیری تقدیر کے تابع اسی کی روش پر اسی کے رخ پر خود بھی حرکت کر رہے ہیں.یہ دو چیزیں جب مل جاتی ہیں تقدیر الہی اور خدا کے بندوں کی تد بیر تو پھر دنیا میں عظیم الشان نتائج ظاہر ہوا کرتے ہیں اسلئے تبلیغ کی طرف غیر معمولی توجہ کریں اور حقیقی خوشی مجھے جماعت فرانس کی طرف سے تب پہنچے گی کہ دیکھتے دیکھتے جماعت کی کایا پلٹ جائے.جہاں کوئی بھی وجود بظاہر احمدیت کا نظر نہیں آتا تھا وہاں ایک عظیم الشان جماعت قائم ہو جائے اور صرف فرانس کے لئے نہیں تمام دنیا میں جہاں فرانسیسی بولی جاتی ہے وہاں کے لئے فرانس میں ایک مضبوط مرکز قائم ہو، اس کے لئے ہم نے ایک جگہ خرید لی ہے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور انشاء اللہ میں کوشش کرؤں گا جلد از جلد آپ کو ایک مرکزی مبلغ بھی مل جائے جوفرانسیسی زبان اچھی طرح جانتا ہو.کل اس سلسلہ میں مشورے ہوئے ہیں انشاء اللہ بہت دیر نہیں لگے گی.قرآن کریم کا ترجمہ بھی فریج میں تیار ہے اور اسی طرح لٹریچر کی طرف توجہ دی جارہی ہے.بہت سے کام ہم بڑی دیر سے کر رہے ہیں یعنی گزشتہ چھ سات مہینے سے خاموشی کے ساتھ یہ کام ہورہے ہیں آپ کو علم بھی نہیں لیکن آپ کو مسلح کرنے کے لئے یہ کام کر رہے ہیں، آپ کو ہتھیار دینے کے لئے یہ کام کر رہے ہیں.تو یہ سب چیزیں تقریباً تیار ہو چکی ہیں یا تیاری کے دور میں سے گزر رہی ہیں عنقریب انشاء اللہ آپ تک پہنچ جائیں گی اپنے آپ کو تیار کریں.ہر احمدی اپنے اوپر فرض کر لے کہ میں نے ضرور یہاں احمدیت کا پودا لگانا ہے اور صرف پاکستانیوں میں کام نہ کریں ان کا بھی حق ہے ان میں بھی بے شک کام کریں لیکن کوشش یہ کریں کہ اہل فرانس سے آپ کے تعلقات ہوں اور فرانسیسیوں تک آپ پیغام پہنچا ئیں.ماریشس میں میں نے لکھ دیا ہے اور جرمنی میں بھی بعض فرنچ احمدی خواتین ہیں ان کو بھی میں نے اس بات پر آمادہ کیا ہے کہ وہ فرنچ میں کیسٹ تیار کریں کیوں کہ فریج ، فرنچ مزاج کو سمجھتا ہے اور وہ کیتھولکس میں سے مسلمان ہوئی ہوئی خواتین ہیں اس لئے بطور خاص ان کو میں نے تاکید کی ہے کہ اس طرح سے کیسیٹس تیار کریں کہ آپ کو تسلی ہو کہ فرنچ قوم جب یہ سنے گی تو ان کے دل پر اثر پڑے گا اور اسی طرح ماریشس کے لوگ بھی فرانسیسی جانتے ہیں اور فرانسیسی مزاج کو سمجھتے ہیں ان کو بھی لکھا ہے کہ وہ جلد از جلد ایسی کیسٹیں تیار کریں.تو ہوسکتا ہے چند مہینوں کے اندر بلکہ اس سے پہلے بھی آپ کو کیسٹیں بھی مانی شروع ہو جائیں اور وڈیوز بھی ملنی شروع ہو جائیں ان کو استعمال کریں.جرمنی میں تو یہی ہورہا ہے
خطبات طاہر جلد ۳ 782 خطبه جمعه ۲۸ / دسمبر ۱۹۸۴ء اکثر لڑکوں کو جس طرح آپ میں سے اکثر کو زیادہ گہرا دین کا علم نہیں ہے تبلیغ کا سلیقہ نہیں ہے.پتہ نہیں کس طرح بات شروع کرنی ہے، زبان پر عبور نہیں ہے، بڑی دقتیں ہیں اسی طرح جرمنی میں بھی تھیں.لیکن وہاں تو میں نے دیکھا ہے کہ بالکل کو رے ان پڑھ جن کو کہہ سکتے ہیں وہ بھی کامیاب تبلیغ کر رہے ہیں خدا کے فضل سے کیسٹ لے لیتے ہیں ایک دو اور ٹوٹی زبان میں انہوں نے کام کے سلسلے میں سیکھی ہے دوستوں کو آمادہ کر لیتے ہیں اور سادگی میں ایک طاقت ہے جو بڑا اثر کرتی ہے.بعض دفعہ ایک جاہل آدمی جو سادہ ٹوٹی پھوٹی زبان میں بات کرتا ہے تو وہ زیادہ اثر کر جاتی ہے بہ نسبت ایک قابل ہوشیار آدمی کے تو اللہ نے ان کے چونکہ دل میں جذبہ رکھا ہے ان کی زبان میں اثر بھی پھر ڈال دیا ہے.وہ کہتے ہیں جی ہماری ٹیپ سن لو.تو بہت سے لوگ تماشے میں مذاق کے طور پر ہی سہی یا دلداری کی خاطر کہتے ہیں اچھا ٹھیک ہے سن لیتے ہیں.ایک کیسٹ سنتے ہیں ان کو دلچسپی پیدا ہوتی ہے دوسری سنتے ہیں اور زیادہ دلچسپی پیدا ہو جاتی ہے اور کئی احمدی ایسے ہیں جو صرف ٹیپیں سن سن کر ہی احمدی ہو گئے ہیں یعنی ٹیسٹس کو وہاں ٹپس کہتے ہیں عام طور پر پنجابی میں یہی محاورہ چلا ہوا ہے تو بہت خوش ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ٹیپوں کے ذریعہ ہی ایک احمدی بنانے کی توفیق عطا فرما دی.تو آپ کیوں اس لذت سے محروم رہتے ہیں؟ آپ بھی کوشش کریں جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انشاء اللہ تعالیٰ لڑ پچر بھی آپ کو خوب مہیا کیا جائے گا.یسٹس بھی آنی شروع ہو جائیں گی لیکن ان کا انتظار کئے بغیر اپنی سادہ زبان میں دعا مانگتے ہوئے آپ تبلیغ شروع کر دیں.نتیجہ یہ نکلے کہ چند مہینے کے اندر یا ایک سال کے اندر یہاں مقامی دوستوں کی ایک جماعت قائم ہو جائے.یہ ہے جواب اہل پاکستان کے دشمنانِ احمدیت کو ، یہ ہے وہ طریق جس سے آپ کے دل بچے رنگ میں ٹھنڈے ہوں گے.تب آپ کو چین آئے گا تب آپ کہیں گے ہاں اس طرح سے ہم لوگ ہیں تم ہمیں مٹانے کی کوشش کرو ہم بڑھیں گے، تم ہمیں دبانے کی کوشش کرو ہم اور ابھریں گے.تمہاری چھاتی پر مونگ دلیں گے اپنی کامیابیوں کی.یہ ہے ہمارا انتقام تمہیں بھی احمدی بنا کر چھوڑیں گے اور ساری دنیا کو اسلام میں داخل کر کے تب ہم سکون پائیں گے کس طرح تم ہمیں اسلام سے جدا کر سکتے ہو؟ یہ ہیں زندہ قوموں کی نشانیاں، یہ ہیں زندہ قوموں کے جواب یہ ہیں زندہ قوموں کے انتقام ! اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم زندگی کی ہر راہ میں پہلے سے بڑھ کر تیز رفتاری کے ساتھ آگے قدم بڑھاتے رہیں.آمین.
اشاریہ مرتبہ : محمد محمود طاہر
فہرست اشاریہ 37- 1 آ 39_ -b 5 41----- 41----- 45____ 47 49--- ظ.17 ع غ ف ق 16 51---- 53- 54---- 55 60- ل.م ن 61- 62- 63---- ی.21- :) 23 23.24- ج چ 24- こ 27.خ 28-- 31- 32- 33- 0 34_ 35__ س.ش.
1 آ حضرت آدم علیہ السلام آزادی مذہب اشار آئیوری کوسٹ 627 آیات قرآنی (بلحاظ ترتیب سور ) البقرة ہر شخص کو بلا تمیز عقیدہ و مذہب اللہ کی عبادت کا حق ہے 256 وَإِذَاقِيْلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا (۱۲-۱۳) مذہبی آزادی کا حسین اسوۂ رسول آذر، حضرت ابراہیم کے چچا 258 وَاذْوَعَدْنَا مُوسَى 395 قولوا انظُرُنَا (or_or)..(1+0).مسر آرڈر ہائیڈ اہلیہ مبارک طاہر صاحب آف جرمنی 333 هَاتُوا بُرُهَانَكُمْ...(۱۱۲) صِبْغَةَ اللَّهِ وَمَنْ اَحْسَنُ (۱۳۹) آرڈینس ، نیز دیکھئے قانون جماعت احمدیہ کے خلاف ۱۹۸۴ء کا آرڈینینس 375 284 وَلِكُلّ وِجْهَةٌ هُوَ مُوَلِيُّهَا...(۱۳۹) )......جماعت کے خلاف آرڈینینس ایک شخص کا جاری کردہ ہے 379 يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبر جماعت کے خلاف آرڈینینس کا تدارک قرآن 379 میں موجود ہے جماعت کے خلاف قانون کی کوئی سند قرآن میں موجود نہیں 410 اینٹی احمدیہ آرڈینینس کیا یہ قرآن کے مطابق ہے یا مخالف 622 وَالصَّلوة.....(۱۵۴-۱۵۸) 466'605 187'575 16 390 402 148 310'616 199 لَايُؤَاخِذُ كُمُ الله باللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ....(۲۲۲) 147 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا....(۲۵۱) لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ.....(۲۵۷) قَولٌ مَعْرُوفٌ وَ مَغْفِرَةٌ خَيْرٌ....(۲۶۴) پاکستان کی اکثریت نے مذمومہ آرڈینینس کو رد کر دیا ہے 506 يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا انْفِقُو.....(۲۲۸-۲۷۴) جنرل ضیاء الحق کے جاری کردہ آرڈینینس کے خلاف سندھ کے ایک صوفی بزرگ کا اشتہار جماعت کے خلاف آرڈینینس منافقت دور کرنے نہیں بلکہ منافقت پیدا کرنے کیلئے جاری ہوا 524 751 190 746 147 535 121 لِلَّهِ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ....(۲۸۵-۲۸۶) آل عمران رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا.(9)..382 قل ان كُنتُمْ تُحِبُّونَ الله (۳۲) مذہبی شعائر اختیار کرنے پر سزا کا منفرد اور بد نام قانون 410 قُل يَا هُلَ الْكِتَابِ تَعَالَوا....(۲۵) حکومت کے آرڈینینس کے بعد جماعت میں پاک تبدیلی 657 لَنْ تَنَالُوا البِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا....(۹۳) آغا خانی مکتبہ فکر 196 516 414 709 164 478 يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقتِه....(۱۰۳-۱۰۸)583 آفتاب احمد خان صاحب آف برطانیہ 263 وَلَتَكُن مِنكُمُ أُمة...(۱۰۵) أُمَّةٌ آندھرا پردیش، ہندوستان 467 كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاس...(1) 215 215
239 409 283 310 243'400 212 41 14 2 وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمُ اكْبَرُ...(١١٩) 563 وَالْقِيَ السَّحَرَةُ سَجِدِينَ....(۱۲۱- ۱۲۷) يُنْفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ....(۱۳۵) 605 | الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبي...(۱۵۹ - ۱۵۸) وَكَاتِنُ مِنْ نَّبِيِّ قَاتَل مَعَهُ.....(۱۴۷_۱۴۹) 427 اُملِي لَهُمُ إِنَّ كَيْدِى مَتِين....(۱۸۴) رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا.(IMA)..194 لِكَيْلا تَحْزَنُوا عَلَى مَا فَاتَكُم....(۱۵۴) 454 | زَادَتْهُمْ إِيمَانا....(۳) لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ....(۱۴۰) 135 الَّذِينَ اسْتَجَابُوا لِلَّهِ وَالرَّسُولِ.....(۱۷۳-۱۸۰) 297298 الانفال لِيَمِينَ اللهُ الْخَبِيثَ مِنَ الطَّيِّبِ....(۳۸) لِيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَنْ بَيِّنَةٍ...(۴۳) وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا.....(۱۷۹) 240 | أُذُنُ خَيْرٍ لَّكُمُ....(٦١) (190_197)....رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا..النساء 363 التوبه إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوا غَفُورًا - (۴۴) إنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤدُّوا.....(۵۹) أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ...(٦٠) الَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يَزْعُمُونَ (٦١) لا يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوء....(۱۴۹-۱۵۰) المائدة يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ (۱) 15 473 لَيْسَ عَلَى الضَّعَفَاءِ وَلَا عَلَى 233 وَالخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمُ....(۱۰۲) 620 559 وَاخِرُونَ مُرْجُونَ لامر الله....(۱۰۲) وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ...(۱۱۴) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا الله....(۱۱۹-۱۲۱) يأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ.....(۹) 443 وَبِالْمُؤْمِنِينَ رَءُ وُفٌ رَّحِيم (۱۳۸) يَدَهُ مَبْسُوطَتَن (۶۵) الانعام ۱۰۰۰۰۰۰ وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمُ....(۵۳-۵۶) وَإِذَا جَاءَ كَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ (۵۵) ان الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ..الا لَهُ الْحُكْمُ..(۵۸) (۶۳) 774 523 یوس 190 335*339 131 131 166 311 638 الا إِنَّ أَوْلِيَاء اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ....(۶۳) 201252 هود 83131 قَالُواينُوحُ قَدْ جَادَلْتَنَا (۳۳) 488 489......فَلَمَّا جَاءَ أَمْرُنَا نَجِّيْنَا صَالِحًا.....(۶۷) أَلَيْسَ مِنْكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ (۷۹).......393 349'356 390'423 569 35 32'452 239 وَ كَذلِكَ نُصَرِّفُ الْآيَاتِ...(۱۰۲) الاعراف خُذِ الْعَفْوَ وَأمُرُ بِالْعُرْفِ (۲۰) ۱۰۰۰۰۰۰ وَمَا كَانَ جَوابَ قَومِه......(۸۳) وَإِنْ كَانَ طَائِفَةٌ مِنْكُمْ آمَنُوا.....(۸۸) قَالَ الْمَلَا الَّذِينَ اسْتَكْبَرُوا.....(۸۹) 42 وَلَا تَرْكَنُوا إِلَى الَّذِينَ ظَلَمُوا....(۱۱۴-۱۲۴) الرعد 25 اللهُ يَعْلَمُ مَا تَحْمِلُ كُلُّ أنفي...(٩-١٣) 395 489'627 239'393 إِنَّ اللَّهَ لَايُغَيِّرُ مَا بِقَوم...(۱۲) ابراہیم وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُ والرُسُلِهِمْ (۱۴_۱۵)
624 الفرقان وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِنْ هَذَا إِلَّا الكَ....(۵) 3 وَقَالُوا أَسَاطِيرُ الْأَوَّلِينَ.وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ....(۶۴) إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ....(۷۲۷۱) الشعراء 625 (Y).563 83 107'440'761 365 393 428 لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ......(۴) لَشِرُذِمَةٌ قَلِيلُون.....(۵۵) قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ يَا نُوحُ...(۱۱۷) العنكبوت أَوهَنَ البُيُوتِ لَبَيْتُ الْعَنْكَبوتِ...(٤٢) خَلَقَ اللهُ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ...(۴۵ - ۴۷) 553 الروم وَيَوْمَئِذٍ يَفْرَحُ الْمُؤْمِنُونَ (۵) ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي البَرِّ وَالبَحْر.....(۴۲) اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ رُسُلاً (۳۸) السجده 637 326 566 يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا....(۱۷) 108'685 الاحزاب فَإِذَا جَاءَ الْخَوُقُ رَأَيْتَهُمُ (٢٠) 684 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (٢٢) 409 وَرَدَّ اللهُ الَّذِينَ كَفَرُوا بِغَيْظِهِمُ.....(۲۶) إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَواتِ.....(۷۳) 349 357 221 سیا 625 683 282 101 626 632 619 559 49 157 741 وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِي....(۱۲) إِنَّكَ لَمَجْنُونَ....(۷) وَقَضَيْنَا إِلَيْهِ ذَلِكَ الْآمُرَ (۶۷) وَقُلْ إِنِّي أَنَا النَّذِيرُ الْمُبِينُ (۹۰-۱۰۰) النحل وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ....(١٢٦) بنی اسرائیل وَلَا تَقْفُ مَالَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ...(۳۷) تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَوَاتُ السَّبُعُ وَالْأَرْضِ....(۴۵) يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أَنَّاسِ بِاِمَامِهِمُ (۷۲-۷۸) الكهف 106 366 762 554 428 386 632 فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ......(۷) لَوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا....(١١٠) مریم رَبِّ إِنِّي وَهَنَ العَظْمُ مِنِّي....(۵) صِدِّيقًا نَبِيًّا....(۴۲) طه فَاقُضِ مَا أَنتَ قَاضِ....(۷۳) الانبياء ينَارُ كُونِي بَرُدَّاوَسَلْمًا عَلَى إِبْرَاهِيم...(۷۰) 293681 امج وَلَيَنصُرَنَّ اللَّهُ مَنْ يَنصُرُهُ (۳۱) ذلِک وَ مَنْ عَاقَبَ بِمِثْل....(٦١) المومنون فَبُعْدَ اللْقَوْمِ الظَّلِمِين.....(۴۲) 349 359 21 وَإِذَا تُتْلَى عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا.....(۴۴) فاطر مَنْ كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ...(١١) 635 لَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى.....(۱۹)
وَاقْسَمُوا بِاللَّهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمُ....(۴۳-۴۶) الصافات فَسَاءَ صَبَاحُ الْمُندَرِين (۱۷۸) ص ص وَالْقُرْآن ذى الذكر (۵۲).......وَلَاتَ حِيْنَ مَنَاص......(۴) المومن وَيقَوْمِ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ....(۳۳) 697 633 هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى....(۲۹_۳۰) 663 مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةٌ...( 3 )299364413438......الحجرات يَأَيُّهَا الَّذِينَ مَنُوا اجْتَنِبُوا 755 | قَالَتِ الْأَعْرَابِ مَنَّا....(۱۵) 505 520 739 حم السجدة اثْتِيَا طَوْعًا أَوْ كَرْهًا....(۱۲) تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ...(۳۱) الشورى 738 373 ق هلِ امْتَلاتِ....(۳۱) النجم تِلْكَ إِذَا قِسْمَةٌ ضِيْرى (۲۳) الرحمن 454 كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ...(۳۰) الحديد اللهُ لطيفٌ بِعِبَادِهِ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ...(۲۰) 355 349 | وَلِيَعْلَمَ اللَّهُ مَنْ يَّنْصُرُهُ....(٢٦) (۱۳) 49 55'375'383 270'406 747 558 349 358 349 606 229 151 24 163 70 226 المجادلہ كَتَبَ اللهُ لَاغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِي....(۲۲) وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمُ....(۱) الصف يَايُّهَا الَّذِيْنَ امَنُوا كُونُوا أَنْصَارَ اللَّهِ (۱۵) الجمعه هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّنَ رَسُولاً (۳) التغابن يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمُ....(۱۵) 15 17 19 633 398 627 626 713 ان تُقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا....(۱۸) 577 القلم وَلَا تُطِعُ كُلَّ حَلافٍ مَّهِين....(۱۱-۱۵) عُتُلٍ بَعْدَ ذَلِكَ زِنِيمٌ.....(۱۴) 125 وَهُوَ الَّذِي يَقْبَلُ التَّوْبَةَ (٢٦) فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجُرُهُ....(٣١) الدخان كَمْ تَرَكُوا مِنْ جَنْتٍ وَعُيُون.....(۲۶-۳۰) فَمَا بَكَتْ عَلَيْهِمُ السَّمَاءُ وَالأَرْضُ...(۳۰) الجاثیہ وَيْلٌ لِكُلِّ أَفَّابٍ أَلِيم (٨-١٠) الاحقاف امُ يَقُولُونَ اقْتَربة...(۹) محمد اَمُ عَلَىٰ قُلُوبِ أَقْفَالُهَا....(۲۵) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمُ...( ۳۰ ) الفتح لِيَغْفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنبِك...(۳)
201 312 302'306 693 307 308 314 314 346 ابتلا 5 ابتلا کے معانی اور مفہوم ابتلا کا فلسفہ اور الہی جماعتوں کا ردعمل ابتلا خبیث اور طیب کے درمیان فرق کرنے کیلئے 73 360 316 647 إِذَا تُتْلَى عَلَيْهِ آيَاتُنَا....(۱۶-۱۷) أُهْلِى لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِينٌ.....(۴۶) المدثر وَلَا تَمُتُنُ تَسْتَكْثِيرُ (۷) الدہر ويُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّه.....(٩) النيا ذلِكَ الْيَوْمُ الحَقُّ...(٤٠)..الطارق إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا...(۱۶-۱۷) الغاشیہ فَذَكِّرُ انَّمَا أَنْتَ مُذَكِّرٌ....(۲۲-۲۵) الفجر فَصَبَّ عَلَيْهِمْ رُبُّكَ...( ۱۴-۱۵) فَادْخُلِي فِي عِبَادِي....(۳۰-۳۱) البلد الَمُ نَجْعَلُ لَهُ عَيْنَيْن....(٩-١٩) آتے ہیں 556 ابتلا اعمال درست کرنے کا بہترین موقع 774 189'381 ابتلا کے وقت بعض معتوب لوگ ارتداد کرتے ہیں اور جماعت میں سعید فطرت لوگ داخل ہوتے ہیں ابتلا میں گندے بہہ جاتے ہیں اور بہترین دوڑ دوڑ کر آتے ہیں 271 آنحضرت اور صحابہ پر ابتلاء آئے جماعت پر ابتلا انعام بن کر آیا 425 انبیاء کی جماعتوں پر ابتلا شروع سے آتے رہے ہیں 641 ابتلا میں پاکستان میں تبلیغ میں تیزی اور استقامت کے نظارے شیر ببر کی طرح ابتلا نازل ہونے کا مطلب 308 470 جماعت پاکستان کو ابتلا کے حوالہ سے چند اقتباسات سنانا 468 287 237 129'459 ابدال 323 ابدال کی بد دعاؤں سے دشمن کو ڈرنا چاہئے ابرار احمد قریشی صاحب آف انگلستان حضرت ابراہیم علیہ السلام 255 395 430 681 386 156 آپ صدیق نبی تھے آپ کیلئے حلیم کا لفظ استعمال ہوا 65 65 191 507 الم نشرح إذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ (۲۲) العلق ارءَ يُتَ الَّذِي ينهي (١٩١٠) القدر إِنَّا أَنزَلْتَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ (٣-٦) احمزه وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لمَزَة.....(٢-١٠) الکافرون لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ (۷) اللهب تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ.....(۲)
6 آپ کی حلیمی اور اواہ کی صفات آپ کا اپنے باپ کیلئے استغفار کرنا آگ آپ تک پہنچنے سے پہلے گلزار ہوگئی معلم ابراہیم بیچی صاحب آف نائیجیریا ابرہہ ابلاغ عامہ دیکھئے پر لیس حضرت ابن عباس حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے ایمان لانے کا واقعہ 166 167 293 333 اٹالین وقف کریں اٹالین ترجمہ قرآن کی تیاری اٹالین زبان میں ترجمہ قرآن کی ذمہ داری ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے لی ہے اجتماع 440 ربوہ میں انصار خدام کے اجتماعات پر پابندی 42 57 285 481 354 435 527 آپ نے آنحضور سے نماز میں پڑھنے کیلئے دعا سکھی 144 فتنہ ارتداد کے وقت اسلامی لشکر کو ہدایت حضرت امام ابو حنیفہ حضرت ابو دردا حضرت ابوذرغفاری حضرت ابوسعید خدری ابو طالب، آنحضور کے چچا ابولہب حضرت ابو موسی اشعری رض حضرت ابو ہریرة 43 89 125 138`153 713 احرار احراری علماء ( نیز دیکھئے عالم علماء ) 179 263 615 631 284 624 729 730 مجلس احرار کے قادیان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے دعوے احزاب، جنگ 293 شدید مشکلات میں عظیم خوشخبریاں عطا ہوئیں 775776 جنگ کے موقع پر ایک صحابی اور اس کی بیگم کی طرف سے آنحضور اور صحابہ کی دعوت اور اس میں برکت کا واقعہ 182 احسان 222 آنحضور کی بیان فرمودہ احسان کی تعریف 151 137 90 202 396 507 مومن قربانی اور نیکی کا احسان نہیں جتلاتا پنجاب کے زمیندارکمیوں پر احسان کر کے سو بار جتلاتے ہیں احمدیت / جماعت احمدیہ قیام کے مقاصد، مقام اور عقائد اسلام کا دوسرا نام احمدیت 481 | اسلام کی نشاۃ ثانیہ احمدیت کے ذریعہ اسلام کی خدمت کرنے والی جماعت 573 316 316 269 274 665 519 جماعت آنحضرت کے نقوش کو دوبارہ ابھار رہی ہے 367 اتھو پیا را بے سیناد یکھئے حبشہ اٹلی راٹالین ہم حضرت محمد کے غلام ہیں جماعت محمد مصطفی " کا دامن کبھی نہیں چھوڑ سکتی 234 423 ہم امام کامل محمد اور امام مہدی علیہ السلام کو نہیں چھوڑ سکتے 750
7 ہم محمد مصطفی " کا کلمہ پڑھیں گے خواہ ہماری گردنیں 736 حکومت پاکستان کی طرف سے جماعت کی شدید مخالفت اور اس کے حربے 521 کٹ جائیں جماعت کلمہ کی حفاظت کیلئے جان دے دیگی 703 احمدیوں کے خلاف حکومت پاکستان مذہبی فریق بن گئی ہے 496 431 پاکستان میں آرڈینینس کے بعد احمدی پر حکومتی مظالم احمدی ربیون یعنی خدا والے لوگ ہیں جماعت احمد یہ اب کا ئنات کا خلاصہ ہے احمدی عزت و شرف کیلئے پیدا کئے گئے ہیں 435 361 اور مقدمات حکومت پاکستان کا پراپیگنڈا کہ احمدیوں نے حکومتی آرڈینینس کو قبول کر لیا ہے جماعت احمد یہ واحد جماعت جس کو دنیا کا کوئی خوف نہیں 270 جماعت کے خلاف آرڈینینس منافقت خوش نصیب جماعت ہم پرانی خوشخبریوں کے بھی وارث ہیں 430 پیدا کرنے کیلئے جاری ہوا جماعت مٹنے کیلئے نہیں ہمیشہ زندہ رہنے کیلئے پیدا کی گئی ہے 658 پاکستان میں عبادت سے روکنے کا قانون صرف 513 احمدیوں کیلئے ہے جماعت کے عقائد اور تعلیمات نہیں روک سکتی دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کو کلمہ پڑھنے اور لکھنے سے احمدی پاکستان میں بنیادی شہری حقوق سے محروم ہیں 595 جماعت احمدیہ کے خلاف ایک عالمی سازش 235 پاکستان میں جماعت کی مرکزیت کی تمام علامتیں ہم کبھی کلمہ طیبہ کو اپنے ہاتھوں سے نہیں مٹائیں گے آسمان وزمین کا ذرہ ذرہ گواہی دے گا کہ تم مسلمان ہو 596 مٹانے کی سازش ہم کسی کو غیر مسلم نہیں کہتے ہمارا غیر احمدیوں سے بنیادی اختلاف کوئی نہیں اگر ہم غیر مسلم ہیں تو ہماری شریعت کون بنائے گا 493 444 382 256 492 758 773 389 جماعت احمدیہ کے مرکز اور خلیفہ وقت کو ختم کرنے کا بدارادہ 765 393 449 احمدیت کے خلاف سازش میں اس بار جماعت کی جڑوں پر حملہ کیا گیا ہے احمدیوں کے خلاف مقدمات صدر پاکستان کی طرف سے جماعت پر گستاخ رسول ہونے کا الزام جماعت پر مذہبی نقالی کا الزام 763 675 جماعت احمد یہ ہر قربانی کیلئے تیار رہے گی اور فُزُتُ بِرَبِّ الْكَعْبَۃ کا نعرہ لگائیں گے خلیفہ وقت جہاں بھی جائے وہ جماعت احمدیہ میں ہی جاتا ہے مخالفت اور نصرت الہی جماعت احمد یہ لیلۃ القدر کے دور سے گزر رہی ہے 254 452 جماعت سے مذہبی نقالی نہ کرنے کا مطالبہ کی کوئی سند قرآن حدیث میں موجود نہیں 329 جماعت پر منافق ہونے کا جھوٹا الزام 724 410 410 384 437 پاکستانی احمدیوں کے حالات آنحضرت کے ساتھ ملتے ہیں 309 جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان میں مولویوں کی شورش 254 آنحضرت کے زمانہ میں ہونے والے ہر ظلم کے واقعہ غیر احمدی علماء لاؤڈ سپیکر پر گالیاں دیتے ہیں کو آج احمدیوں پر دوہرایا جا رہا ہے 276 پاکستانی اخبارات میں جماعت کے خلاف کھلم کھلا خبروں کی اشاعت پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور مخالفت 320 319 جماعت کے خلاف حکومت پاکستان کا بدنام زمانہ آرڈینینس 375 حکومت پاکستان کی جماعت کے خلاف معاندانہ کاروائیاں 501 ارتداد اختیار کرنے والے معتوب ہوتے ہیں پاکستان کے احمدیوں کی قربانی 500 307 236
پاکستان میں جماعت پر توڑے جانے والے مظالم 269 مظلومیت کے دور میں تائید و نصرت الہی کے نظارے جماعت پر بلا قصور ظلم کئے جاتے ہیں 211 جماعت پر نصرت الہی کے دلکش نظارے 460 259 جماعت کے خلاف اشتعال انگیز تعلیم دی جاتی ہے قومی اسمبلی پاکستان میں جماعت کے خلاف الزامات جماعتی مخالفت پر ہمارا مثبت رد عمل جماعت کی حفاظت اللہ تعالیٰ فرمائے گا جماعت کا ایک مولیٰ ہے جو ہماری مدد کو آئے گا اور خدا کی تقدیر تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کر دیگی 211 496 259 758 733 خلافت کی حفاظت اور کامیاب ہجرت اللہ کے کاموں کا ثبوت 769 تشویش کے ایام میں اللہ تعالیٰ بکثرت مجھے اور جماعت کو خوشخبریاں عطا فرماتا ہے اللہ تعالیٰ کا مالی برکت کے حوالے سے جماعت احمدیہ سے ایمان افروز سلوک پاکستان کے ایک صاحب اثر دوست کے جماعت کے بارہ میں نیک خیالات مخالفت احمدیت کی تحریک نا کام ونامرادر ہے گی جماعت میں پاک تبدیلی روحانیت میں اضافہ احمدیت پر اللہ کا احسان ہے جماعت احمدیہ جیسی مخلص جماعت آج دنیا میں 775 اور کوئی نہیں اللہ کی طرف سے السلام علیکم کے ذریعہ سلامتی کا وعدہ 681 پاکستان میں نزول ملائکہ کے واقعات احمدیوں کو گستاخ رسول کہنے والوں کو بریلویوں نے گستاخ رسول کہا 525 730 182 183 366 271 442 344 جماعت احمد یہ آنحضور کی سر سے پاؤں تک عاشق ہے 728 جماعت عشق رسول میں سرشار اور اس راہ میں سب کچھ داؤ پر لگا چکی ہے جماعت کی روحانی ترقی اور پاک تبدیلی کی مثالیں مخالفین سے اللہ تعالیٰ کا انتقام پانی بند کئے جانے والے احمدیوں کی روحانی رفعت کی پرواز میں کنوئیں میں کتا مر گیا امیر لوگ بھی جماعت احمدیہ کو بہت امیر سمجھتے ہیں جماعت احمد یہ کسی ملک سے مددنہیں مانگتی جماعت کے کام وسعت پذیر اور بڑھ رہے ہیں دشمن کا غیظ و غضب اور مخالفت جماعت کی ترقی کی علامت ہے جماعت دشمنی و مخالفت کے وقت زیادہ ترقی کرتی ہے دشمن کو ہماری مخالفت بہت مہنگی پڑے گی 676 جماعت کی روحانی ترقی کا ذکر 550 ابتلا کے بعد جماعت کی روحانی ترقی 550 173 667 667 292 ابتلا کے بعد احباب جماعت میں حیرت انگیز روحانی تبدیلی احمدیوں کا حیرت انگیز اخلاص ووفا ساری دنیا کی جماعت احمد یہ ایک وجود ہے ابتلا کے وقت غیر معمولی مالی قربانی 724 656 661 672 346 300 287 275 321 اللہ کے فضل سے جماعت کی مالی ضرورت بڑھ رہی ہے 179 ابتلا میں بیعتوں کی کثرت اور ان کی استقامت صداقت احمدیت کی دلیل ہے 308 جماعت احمدیہ کو کوئی مٹا نہیں سکتا مٹانے والے خود مٹ گئے 344 ہر مخالفت میں جماعت کی ترقی ہوئی 258 موجودہ حالات نے احمدیوں میں جذبات کا طوفان برپا کر دیا ہے ابتلا میں جماعت پاکستان کا اخلاص اور قربانی 687 287 یورپ میں احمدیہ مراکز کی تحریک اور جماعت کا لبیک 336 جماعت احمد یہ ساری دنیا میں ایک الگ دنیا ہے ابتلا اور مشکل کے دور میں آپس کے اختلاف دور پاکستان میں احمدیت کے حق میں تائید و نصرت کے نظارے 284 کر دیئے اور باہمی اخوت کے نمونے دکھائے 178 587
پاکستان کے حالات پر ساری دنیا کے احمدی تکلیف پاکستان کے حالات اور ان پر جماعتی رد عمل میں ہیں 664 تاریخ احمدیت کا قیمتی سرمایہ ہیں برادر مظفر احمد ظفر آف امریکہ کی 74ء کے بعد جلسہ سالانہ جماعت احمد یہ بطور جماعت شرعی عدالت کی نوع 577 کی عدالتوں میں نہیں جاسکتی ربوہ پر رقت آمیز تقریر احمدیوں کا صبر 305 جماعت کے بارہ شرعی کورٹ کے فیصلہ کا خلاصہ 367 444 512 جماعت احمدیہ جیسی قربانی کرنے والی جماعت کو کوئی حکومت پاکستان کے وائٹ پیپر میں شائع شدہ الزامات 497 شکست نہیں دے سکتا مظالم اور مخالفت میں جماعت کا رد عمل کہ قربانی کی روح میں اضافہ جماعت کی مالی قربانی کا ذکر احباب جماعت کی مالی قربانی اور اس کی مثالیں 321 کلمہ کی خاطر قربانیاں ربوہ میں حکومت کی طرف سے مساجد سے 431 کلمہ مٹانے کا حکم 180 گوجرانوالہ میں تین احمدیوں پر کلمہ لکھنے پر مقدمہ 736 235 595 274 ایک احمدی بوڑھے کا ظالمانہ قتل اور اس پر فخر 431 تا 437 440 پاکستانی احمدیوں کو ملازمتوں سے فارغ کروایا جاتا ہے 495 احمدی بچوں کا جذ بہ قربانی اور اس کی مثالیں 442 441 | احمدی مُردوں کی بے حرمتی تاریخ احمدیت جماعت نے ہمیشہ حاکم وقت کی اطاعت کی ہے ہماری تاریخ انبیا والی تاریخ ہوگی ہماری تاریخ بتارہی ہے کہ ہر مصیبت میں جماعت 635 مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کی مساعی جماعتی ترقی کیلئے حضرت خلیفہ المسیح الرابع " کا پر اللہ کا نور زیادہ شان سے ظاہر ہوا 500 234 615 260 264 265 288 533 262 263 465 178 600 601 213 سات نکاتی پروگرام حصول پاکستان کے جہاد میں احمدی صف اول میں تھے 711 امریکہ میں پانچ بڑے مراکز بنانے کا منصوبہ 1953 ء،1974 ءاور موجودہ دور مظالم میں ایٹمی جنگ کا خطرہ بڑھا 79 انگلستان اور جرمنی میں دو بڑے مراکز سلسلہ بنانے کا منصوبہ 1974ء کے فیصلہ کے بعد جماعت کی ترقی 258 تحریک مراکز یورپ میں جماعت کا والہانہ لبیک 1974ء میں جماعت کا معاملہ قومی اسمبلی میں 1974ء میں ایک احمدی خاندان کا گھر لوٹ کر جلا دیا گیا 372 زمین کی خریداری جماعت کے خلاف 1984 ء کا آرڈنینس 1984ء کے حالات جماعت کی تاریخ میں اہم وقت 230 روانڈا میں جماعت احمدیہ کا قیام 497 یورپین مشن لندن کیلئے اسلام آبا دیلفورڈ کی 284 دعوت الی اللہ کیلئے مختلف منصوبوں کا اعلان دور حاضر جیسا وقت تاریخ احمدیت میں جماعت پر نہیں آیا 232 کوریا میں جماعتی وفد کی آمد اور کا میابیاں تحریک جدید کے پچاس سال 1984 ء میں جماعت کی مرکزیت اور خلافت کو ختم کرنے کا بدارادہ کیا گیا 765 احمدی مستورات پاکستان میں احمدیوں پر گزرنے والے درد ناک حالات 281 تاریخ احمدیت میں بہترین کام کرنے والی پردہ دار 1984 ء کے حالات پر جماعتی رد عمل 373t367 خواتین ہیں
10 احمدی خواتین کی استقامت کا ایمان افروز واقعہ 674 صفت علیم اور صفت علیم کو اختیار کریں 543 جماعت احمد یہ علم کا جھنڈا بلند کرے احمدی خواتین کو اپنے زیوروں سے نفرت ہوگئی ہے احمدی خواتین کی مالی قربانی کی مثالیں 436-372432 371 جماعت احمدیہ غیبت اور بدظنی کے خلاف لجنہ اماءاللہ قادیان کی مالی قربانی ایک خاتون نے حضرت منشی اروڑے خان صاحب 434 عالمی سطح پرمہم چلائے 152 156 63 دوسروں کو گالی دینا جماعت کی سرشت میں شامل نہیں 728 651'652 670`754 759 754 197 233 کی قربانی کی یاد کو زندہ کیا 436 جہاں تکلیف ہوگی وہاں احمدیت اس کو دور کرنے لجنہ کراچی کی متاثرین بارش کی امداد 651 کی کوشش کرے گی نصائح اور ذمہ داریاں جماعت کا روشن مستقبل ہم نے اسوہ محمد کو اپنانا ہے 440 احمدیت کا روشن مستقبل احمدی محمد کے اور آنحضرت ہمارے ہو چکے ہیں 295 ہمارا ایک ضامن ہے اے محمد کے غلامو! تم نے محمد کے ہاتھ پر بیعت کی جماعت کے ساتھ سنت انبیاء والا سلوک ہوگا یہ ہاتھ تم نے نہیں چھوڑنا جماعت کا سب کچھ دعا ہی ہے 596 جماعت کی ترقی کیلئے حضور اقدس کی پیشگوئی 250 جماعت کی فتح کی تقدیریل نہیں سکتی عالم اسلام اور عالم انسانیت کا ہر دکھ ہمارے سینے میں ہے 278 مخالفین نیست و نابود ہونگے اور اسلام کی بدنامی کا سب سے زیادہ دکھ ہمیں پہنچتا ہے 275 جماعت ترقی کرے گی عالم اسلام کا درد ہمارے جگر میں ہے 270 جماعت احمدیہ کو کوئی نہیں مٹا سکتا آج کوئی احمدی غیر مسلم کے طور پر نہیں مرے گا 247 جماعت احمد یہ لازماً جیتے گی جماعت ہر نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کرے گی احمدیت کی طرف قوموں کا رجحان 290 424 425 234 279 198*294*774 178 642 میں سیلاب کی طرح پاکستانیوں کو احمدیت میں داخل جماعت احمد یہ سب دنیا کی امین مقرر کی گئی ہے 223 ہوتا دیکھ رہا ہوں اللہ کی نعمتوں کو پوری سوسائٹی میں پھیلانا ہے 590 احمدی لوگوں کی قیمتیں ڈالنے والے بنیں گے جماعت کی مالی ضرورت بڑھ رہی ہے احمدیت میں داخل ہونے والے کو قربانیاں دینی پڑتی ہے 385 کا تاج رکھا جائے گا احمدیت کیلئے قربانی کی ضرورت پیش آئی تو ضرور دی جائینگی 249 اخبارات و رسائل دیکھئے پریس اور کتابیات ، 179 پاکستان کے مظلوم احمدیوں کے سروں پر عزت و حرمت 522 332 471 587'588 571 اخوت احمدیوں کے اخوت کے واقعات ارتداد سورۃ ہود آیت ۱۱۴ میں مرتدین کا ذکر 412 388 جماعت احمد یہ غیر احمدی طرز رسم و رواج کی نقالی نہیں کر سکتی احمدیت کا پیغام قرطاس ابیض کے جواب کے ذریعہ پھیلانے کا موقع
11 ارتداد اختیار کرنے والے شیطان کے دوست ہوتے ہیں جماعت سے ارتداد اختیار کرنے والے معتوب لوگ ہوتے ہیں اسلام ایک متوازن مذہب ہے 302304 عظیم الشان مذہب جو کہ اشتراک پسند ہے اسلام ظالم مذہب نہیں ہے 307 اسلام میں رخصت و رعایت کا پیارا نظام ایک جگہ ارتداد کے بعد زیادہ لوگوں نے احمدیت قبول کی 308 محض انفرادی تربیت پر خاموش نہیں رہتا بلکہ قومی اردو زبان ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے 285 414 275 119 اردو دان کو سائنس ادب کے مضامین کا جاننا بھی ضروری ہے 179 اسلامی تعلیمات سے نظر اندازی دنیا کی جنگوں کی وجہ 436 عالم اسلام نبوت یا خلافت کے نیچے ایک رہتا ہے حضرت منشی اروڑے خان صاحب استغفار استغفار کی حقیقت استغفار کی روح دعا ہے 124 145 تاریخ اسلام میں خلافت اور سلطانی کے سنگم پر ایک 558 19 477 485 شرعی عدالت کا قیام اور اس کا فیصلہ مختلف اسلامی ممالک میں مختلف رجحان سلاطین ہیں 477 حضرت مسیح موعود کی بیان فرمودہ استغفار کی عارفانہ تفسیر 136 انصاف سے عاری حکومت یا عدالت اسلامی نہیں کہلا سکتی 511 آنحضرت کے استغفار کرنے کی حقیقت انبیاء کے استغفار کی حقیقت استغفار میں ربوبیت کے پہلو 124 132 134 جماعت احمدیہ کو سنت کے مطابق استغفار کرنے کی تلقین 145 بلعم باعور استکبار کی وجہ سے استغفار سے محروم رہا استقامت 133 مذہبی جنونی حکومتیں قائم کر کے اسلام کے خلاف عالمی سازش 764 کلمہ مٹانا اسلام کی تاریخ کا دردناک دور کیا غیرمسلم اسلام کو سچا سمجھ سکتے ہیں نشأة ثانيه نشاۃ ثانیہ اسلام کا غلبہ اور دشمن کا غیظ وغضب اسلام کی نشاۃ ثانیہ احمدیت کے ذریعہ اسلام کے غلبہ کے دن آ رہے ہیں 703 448 664 665 29 پاکستان میں ماریں کھا کر احمدیت میں داخل ہورہے ہیں 308 حضرت محمد کے اسلام کی طرف بلانا ہم کبھی نہیں چھوڑ سکتے 277 ایک گاؤں میں احمدی خواتین کی استقامت کا ایمان افروز واقعه سرگودھا کے ایک نواحمدی کی استقامت ایک مل کے احمدی ملازم کی فراغت اور استقامت اسرائیل 674 301 495 3'4 عالم اسلام کا درد ہمارے جگر میں ہے اسلام کو بد نام کرنے والے ہمیں دکھ پہنچاتے ہیں یورپی ممالک میں اسلام کی طرف رجحان 270 275 462 ہندوؤں کا اسلام کی طرف رجحان اور وقف جدید کی خدمات 2 اسلام آباد، پاکستان اسرائیل کا مسئلہ یورپ نے یہود سے جنگی امداد کے اسلام آباد، ٹلفورڈ سرے عوض کھڑا کیا اسلام 354 مولوی اسلم قریشی اسمبلی 770 661 680 496 حیرت انگیز کامل نظام اسلام 208 قومی اسمبلی پاکستان میں جماعت کے خلاف الزامات 496
12 قومی اسمبلی پاکستان ۱۹۷۴ء کی کارروائی بصیغہ راز رکھی گئی 444 اصلاح کے نام پر فساد کی تعلیم احمدیوں کو غیر مسلم قراردینے والی اسمبلی کی حیثیت 378 اطاعت 191 احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے والی اسمبلی کے خلاف حکومت جماعت احمدیہ نے ہمیشہ حاکم وقت کی اطاعت کی ہے 234 پاکستان نے وائٹ پیپر شائع کیا اسیر را سیران راه مولی 378 حاکم کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کے احکام کے خلاف نہیں ہوگی مولویوں کو دھمکی دینے کے فرضی قصہ پر احمد یوں کی اسیری 675 اطفال الاحمدیہ ربوہ کے دو اسیر خدام کے حوصلہ کا ذکر 439 ربوہ کے بچے گرمیوں میں لوگوں کو پانی پلاتے ہیں اسیران راهہ مولیٰ ربوہ کی حوالات میں عید کا حال 370 ربوہ میں اجتماع پر پابندی ربوہ کے احمدی اسیران پر پولیس کے مظالم پھگلہ ضلع ہزارہ کے احمدی اسیران اشتراکیت راشترا کی ممالک اشتراکیت کے روس میں متائج اشتراکیت کے غلبہ کے بعد فرد کی کوئی حیثیت نہیں رہی 391 اعداد 494 عربی میں الف کا لفظ تکمیل عدد کا مظہر ہے سو کا عدد درجہ کمال کا مظہر ہے افریقہ، براعظم 235 32 لله لا 770 324 90 403 328 79 177 228 468 509 611 648 653 655 70 716 763 496 اشترا کی حکومتوں کے مظالم کی داستانیں اشترا کی دنیا ز یر اثر ممالک کو اٹھنے نہیں دیتی 69 بعض اسلامی ممالک اشتراکیت کیلئے کام کر رہے ہیں 764 اشترا کی ممالک نے ولد الحرام بچوں کی گنتی کرنی چھوڑ دی ہے یورپ میں اشترا کی فلسفہ سے بے زاری کا اظہار 72 462 462 جماعت افریقہ کو ان کے پاؤں پر کھڑا کریگی اور ان کو زراعت میں خود کفیل کرے گی افریقہ کیلئے امداد کی تحریک 652 650 افریقہ کے غریبوں کی مدد کیلئے مبلغین کو جائزہ لینے کا ارشاد 650 افریقہ کے ابتدائی واقفین اور ان کی تصاویر افریقہ کی ایک احمدی خاتون کا بغیر تحریک کے زیور پیش کردینا 176 340 افریقن ممالک کی خشک سالی کیلئے دعا کی تحریک 170 33 48 176 177 161 263 324 یورپ کے اشترا کی ممالک میں احمدیت کی تبلیغ اشتعال انگیزی تعریف اور فلسفہ اصلاح اصلاح کرنے والوں کی قرآنی تعریف اصلاح خلق کا دعوی کرنے والے کو محبت اور نرم اخلاق والا ہونا پڑے گا پاکستان کی جماعت سوسائٹی میں اصلاح کی ذمہ داری پوری کرے 364 قحط سالی سے افریقہ میں اموات اکاؤنٹنٹ 575 جماعتی کاموں کیلئے اکاؤنٹنٹس کی ضرورت کی الٹراوائیلٹ شعاعیں 135 البانین زبان 591 الف عربی میں الف کا لفظ تکمیل عدد کا مظہر
13 اللہ تعالیٰ ہستی باری تعالیٰ اللہ تعالیٰ کا اسلامی تصور خیرالحاکمین صفت الحق کائنات کی ہر چیز اس کی تسبیح کر رہی ہے 158 صفت حلیم صفات باری تعالیٰ کا نظام بہت گہرا اور مربوط ہے صفات الہیہ پر غور کرنے سے تربیت کا ایک نیا سلیقہ آجاتا ہے ہر جانور ایک عظیم الشان جہان اور اللہ کی ہستی کا ثبوت ہے اللہ کے مددگار ہونے کی حقیقت ظالموں کو مہلت دینے میں اللہ کی حکمت صفات الہیہ صفات الہی کا دلچسپ اور لامحد و مضمون 50 163 160 161 231 304 39 158 37*147*149 صفات الہیہ کے مضمون پر غور کرنا صفات الہیہ کا باہم ربط صفات باری تعالیٰ کا نظام بہت گہرا اور مربوط ہے ہر صفت دوسری صفت سے ملتی ہے آنحضور صفات الہی کے مظہر اتم صفات الہیہ پر غور کرنے سے تربیت کا ایک نیا سلیقہ آجاتا ہے سورۃ الفاتحہ میں موجود صفات باری صفت ربوبیت صفت رحمانیت صفت رحیمیت صفت مالکیت 50 39 صفت حمید حیی یعنی حیا کرنے والا صفت رازق صفت ستار صفت ستیر صفت ستر اور ستار میں فرق صفت سمیع صفت شکور صفت صادق صفت صبور عالم الغيب والشهادة صفت عزیز صفت عفو صفت عفو کاستاری سے تعلق صفت علیم صفت غفار 600 556 1700147 538 37 355 47 36 50 51 53 440 40 40 562 164 755 305 536`672 361t350 3215 36 50`51`53 36 152 542 548 562 163 صفت غفار کا مالکیت سے گہرا تعلق صفت غفور صفت غنی 86 صفت قوی 61 133 134 61'86 338 61 86 133 137 138 701 اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات باری صفت بصیر صفت تواب صفت تو اب کا صفت عفو اورستاری کے ساتھ تعلق احکم الحاکمین 84 تا 96 84 628'631 صفت مصور صفت واسع 121-130 132 137 16 61 86 338 538 361*350 536 542'548 204 صفت ولی تعلق باللہ اور نصرت الہی محبت الہی کا مضمون محبت الہی کے کروڑوں رہتے ہیں 1170111 115
14 اللہ کی جس صفت کے مشابہ ہونگے اس معاملہ میں دعا قبول ہوگی ذکر اللہ نماز کے ذریعہ حاصل ہوگا جماعت میں اللہ تعالیٰ کی نصرت کے واقعات اللہ تعالیٰ ہم سے سچے وعدے کرتا ہے اور کر رہا ہے امریکہ میں پانچ مشن ہاؤسز بنانے کا منصوبہ 26 جماعت امریکہ سے حضرت خلیفۃ اسیح الرابع کی دس نئے مشن ہاؤسز کے قیام کی خواہش 557 675 778 امریکہ میں نے مشنوں نیو یارک، لاس اینجلس، شکاگو واشنگٹن، ڈیٹرائٹ، نیو جرسی کی خرید یورپ اور امریکہ کے مراکز کیلئے تحریک عام اللہ تعالیٰ کا احمدی مخالفین سے انتقام لینے کا ایک واقعہ 676 مالی برکت میں جماعت سے سلوک الہام نیز دیکھئے رویا رکشوف رخواب الہام میں بعض دفعہ ساتھیوں کو بھی شامل کیا جاتا ہے امام رآئمه آئمۃ الکفر کے بارہ میں دعا نہیں نکلتی آئمۃ التکفیر کیلئے بددعا کرنا سنت نبوی ہے 182 210 قیام مراکز کیلئے جماعت امریکہ کے وعدہ جات جماعت امریکہ کی قربانی اور مشن ہاؤسز کی خرید جماعت امریکہ کے ایک مخلص احمدی ڈاکٹر کا 50 ہزار ڈالرز کا وعدہ جماعت امریکہ کی مالی قربانی کا تذکرہ 277 جماعت امریکہ قربانی نہ کرنے والوں کی روحانی 285 تربیت کرے قوموں سے حشر کے دن ان کے آئمہ والا سلوک ہوگا 754 مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مبلغ امریکہ امام مهدی امام مہدی نبی ہوگا امانت امانت سے اول مرا د شریعت محمدی ہے احمدی قومی امانت میں کبھی خیانت نہ کریں حضرت صاحبزادی امتہ الحفیظ بیگم صاحبہ حضور کو خواب میں دکھائی گئیں آپ کی صحت کیلئے دعا کی تحریک نیشنل پریذیڈنٹ برادر مظفراحمد ظفر صاحب کا ذکر 734 پودوں کے شعور پر امریکہ میں ہونے والی تحقیق 221 221 98 581 امریکہ میں 30 فیصد بچوں کی تعدا د ولد الحرام ہے بچوں پر مظالم امن سچے امن کے قیام کیلئے تین قرآنی اصول انبیاء انبیاء کی تعریف میں حکم ہونا شامل ہے 264 291 291 346 289 290 289 336 340 336 577 159 72 22 29 22 22 621 انبیاء کے ذریعہ نئے آسمان اور زمینیں پیدا کی جاتی ہیں 555 امۃ السلام صاحبہ اہلیہ ماسٹر سعد اللہ خان صاحب 616 تمام انبیاء معصوم عن الخطا تھے سعداللہ خان امر معروف و نہی عن المنکر انبیاء کے استغفار کی حقیقت 219 132 اہمیت و تشریح اور جماعت احمدیہ کی ذمہ داری 215 تا 228 انبیاء کے حق اور مخالفین کے لئے اللہ تعالی کی جاری سنت 753 سنت انبیاء یقینی ہے اس میں تبدیلی نہیں ہوتی 744 امریکہ، ریاست ہائے متحدہ 715"644645`550635 228 179 قرآن انبیاء کے علاوہ کسی شرعی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا 620 جماعت امریکہ میں تبلیغ کی صورتحال کا تذکرہ 463 انبیاء کی آمد پر دنیا دو گروہوں میں بٹ جاتی ہے یعنی 187 مفسدین اور مصلحین ہیں 779 بیعتوں کی خوشخبریاں
15 دشمنوں سے بعض دفعہ سختی کرنے کی حکمت 560 مالی حالات بہتر کرنے کا نسخہ چندے زیادہ دیں 562 چندہ کم دینے سے آمد کم ہوئی اور بجٹ زیادہ کرنے انبیاء کی سوء میں بھی خیر مقصود ہوتی ہے سے آمد زیادہ بعض لوگ انبیاء کو ان کے چہرے دیکھ کر قبول کرتے ہیں 527 انبیاء کو دھمکیاں دینے والے دہریہ ہوتے ہیں 241242 احباب جماعت کی مالی قربانی اور اس کی مثالیں مخالفین انبیاء کی ہلاکت پر کوئی رونے والا نہیں ہوتا انبیاء کے انکار کی ایک نفسیاتی وجہ انبیاء کو جھٹلانے والوں کا انجام 634 756 744 607 607 371.431-437.657 سال 84-1983 ء کے جماعتی بجٹ کے اعداد و شمار 347 ابتلاء میں پاکستان کے چندوں میں غیر معمولی اضافہ 321 جماعت جرمنی اور انگلستان کی مالی قربانی کا موازنہ پہلی قوموں نے انبیاء پر منافق ہونے کا الزام نہیں لگایا 386 غانا میں مالی قربانی میں اضافہ مومنوں سے کفار کا غصہ کھانے کی تاریخ انبیاء جماعت احمدیہ کی تاریخ انبیاء کی تاریخ ہوگی انڈونیشیا 365 الی تحریک پر جماعت ہالینڈ کا والہانہ لبیک 635 یور چین و امریکہ کے مراکز کی تحریک میں احباب جماعت 763'671716 کی حیرت انگیز قربانی 342 465 372 345t336 مکرم مولانا سید شاہ محمد صاحب مبلغ انڈونیشیا کی وفات 295 یورپ کے تبلیغی مراکز کیلئے جماعت کی قربانی کی مثالیں 310 حضرت انس انصار الله حکومت کی طرف سے اجتماع کی اجازت نہیں ملی 88 87 یورپ میں دومراکز سلسلہ کے قیام کی تحریک میں 599 631 769 جماعت کا والہانہ لبیک انگلستان کے ایک مخلص کا 50 ہزار پونڈ اور امریکہ 288 ڈیوٹی پر موجود خدام یا انصار صفیں پھلانگنے والوں کو بغیر بولے روک دیں انصار مدینہ انفاق فی سبیل اللہ مالی قربانی حکمت اور فلسفہ اللہ کی راہ میں اعلیٰ مال خرچ کرنا 50 720 کے ڈاکٹر کا 50 ہزار ڈالرز کا وعدہ احمدی خواتین کے اتفاق کا جذبہ افریقہ کی ایک خاتون کا بلا تحریک زیور پیش کر دینا 289 543 340 پاکستان کی ایک احمدی بچی کا بلا تحریک مالی قربانی کرنا 341 احمدی مستورات کی مالی قربانی کے شاندار نظارے 289 341 342 371 372 432 433 434 436*658 348 535 تا 609،551 | مالی قربانی کرنے والوں کیلئے دعا کی تحریک 164 انکوائری رپورٹ انفاق سے گناہ بخشے جاتے اور فضل ملتا ہے 540 | 1953 ء کی منیر انکوائری رپورٹ کی انگریز قوم را نگریز حکومت مالی قربانی کی اصل روح روحانی ترقی ہے زکوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے قربانی کی استطاعت نہ رکھنے والوں کی تڑپ اور ان کا قرآن میں ذکر 716 340 انگریز حکومت کا عروج تھا تو یہ اپنی تہذیب کی نقالی کرواتے تھے 411 انگریزی حکومت کا خلاصہ لاہور میں ایک مجسمہ کی 337 صورت میں دکھایا گیا انگریز وقف کریں انفاق سے کسی جماعت کی صداقت پہچانی جاسکتی ہے 542 402 179
16 انگلستان برطانیہ 550'179201228237437463464 کو انسانیت کا عظیم پیغام دیا نفرتوں کے معراج کے وقت آنحضور نے اہل کتاب 614 635 671 680 ایٹم بم رایٹمی جنگ انگلستان اور جرمنی میں دو بڑے مراکز سلسلہ بنانے کا منصوبہ 265 ایٹم بم کی ایجاد کی قرآنی پیشگوئی انگلستان میں ایک مرکز احمدیت کی تحریک 336 ایٹم بم کا بیان کردہ قرآنی نقشه 710 62'66 74'75 انگلستان میں یورپ کے لئے بڑے مرکز کی خرید کیلئے ایٹمی جنگ کا جماعت احمدیہ پر مظالم کے دور سے گہرا تعلق 79 حضور رحمہ اللہ کی جگہ دیکھنے کیلئے روانگی اسلام آبا د تلفورڈ سرے کی زمین کی خریداری جماعت انگلستان کی تبلیغی مساعی اور ثمرات انگلستان میں بڑے مرکز کے قیام کی تحریک اور جماعت انگلستان کا وعدہ جماعت انگلستان کی مالی قربانی کا جائزہ جماعت انگلستان کا چندہ تحریک جدید 291 533 462 611 653 779 288 342 600 1953 1974ء اور موجودہ دور میں ایٹمی جنگ کا خطر ہقریب ہوا اٹامک جنگ کا مطالعہ کرنے والی سائنسدانوں کی 79 79 725 ایک کمیٹی ایشیا ایکٹر فنکار بعض لوگ کسی ایکٹر سے تصویر ملنے پر فخر محسوس کرتے ہیں 298 جماعت انگلستان کے ایک مخلص کا پچاس ہزار پونڈ کا وعدہ 289 جماعت انگلستان کی خواتین کی قربانی انگلستان کی ایک بچی کی قربانی کا ذکر 342 بارش 345 افریقہ میں بارش کیلئے دعا کی تحریک جماعت انگلستان کے اخلاص اور فرائض کی ادائیگی کا ذکر 452 جماعت انگلستان کی غیر معمولی قربانی بدر 453 جنگ بدر کے موقع پر آنحضور کی مقبول دعا جماعت انگلستان اپنے فرائض پورے کر رہی ہے 531 جنگ بدر آنحضرت کے خیمہ میں جیتی گئی دفتر پرائیویٹ سیکرٹری لندن میں جماعت انگلستان کی رضا کارانہ خدمات ایک دوست کا حضور کولکھنا کہ کہیں جماعت انگلستان آپ کو مل نہ لے 32'33 170 250`435 81 جنگ بدر میں آنحضرت کی ائمۃ الکفر کیلئے بددعائیں 347 اور ان کی قبولیت 285 جنگ بدر میں مسلمانوں کے بے سروسامانی اور کمپرسی 251 532 جنگ بدر میں کفارا پیچی نے ۳۱۳ مسلمانوں کی موتیں دیکھیں 252 255 20 605 زمانہ جاہلیت میں یکے بنا کر سوئیاں چھونے کا رواج 499 اور کفار کی شکست بتائی اہل حدیث مکتبہ فکر 478 487 اہل سنت مکتبہ فکر 711 732 اہل کتاب بدھ مت برلن ، جرمنی کا شہر بر ما اہل کتاب کو مشترک امور میں تعاون کی دعوت 710
133 730 732 736 237'716 168 17 بریک تحمل انسان کیلئے بر یک کا کام کرتا ہے تیز رفتار موٹر کیلئے اچھی بریکیں ہونگیں بلعم باعور 168 بلوچستان 169 بنگلہ دیش بریلوی مکتبہ فکر 478487711718719732 | بہادری جیسے بھی ہوں لیکن ان کو اللہ اور رسول سے محبت ضرور ہے 718 آنحضرت کی بیان کردہ بہادری کی تعریف داتا صاحب کے عرس پر حکومت اور دیوبندی مسلک کو کھلم کھلا گالیاں دیں اور گستاخ رسول کہا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب آپ کی کتاب القول الفصل کو حضرت مصلح موعود 729 بھارت ، دیکھئے ہندوستان بیعت بیعت کا فلسفہ اور بیعت خلافت بعض لوگ اپنی کمزوری کا اظہار کر کے بیعت کرنے کی طرف منسوب کیا گیا 497508 | سے کتراتے ہیں ڈاکٹر چوہدری بشیر احمد صاحب 333 بعض عربوں کی صدق وصفا کے ساتھ حضرت مسیح موعود سید بشیر الدین صاحب (حضور کے ماموں زاد ) 640 کی بیعت حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفہ اسیح الثانی مخالفت میں بیعتوں کی رفتار میں اضافہ 436497508 | شدید مخالفت میں نو افراد کی بیعت 164 سرگودھا میں ایک نوجوان کی بیعت اور استقامت 585 219 7 668 308 301 قرض حسنہ پر تفسیر صغیر میں حیرت انگیز ترجمہ تفسیری نکتہ جمع کی طرف واحد کا صیغہ جانے کا مطلب 690 یورپ، امریکہ اور جزائر میں بیعتوں کے رحجان میں اضافہ 779 آپ کی بیان فرمودہ ایک حکایت تحریک جدید کے آغاز پر عورتیں آپ کے پاس 209 ہالینڈ میں ایک مریض کی بیعت اور معجزانہ شفا یارک شائر انگلستان میں انگریز خاتون کی بیعت اپنے زیور لے کر آتیں آپ کی بیماری جماعت میں سب سے بے چینی کا دور تھا 767 ہے بعض بد قسمت اس کو بھی بدظنی کا نشانہ بناتے ہیں 289 جس کے ہاتھ پر غیبت بدظنی نہ کرنے کی بیعت کی جاتی آپ کے اشعار بيوت الحمد سکیم 671 654 63 تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت نیکیں گے 266 ایک خاتون نے اس تحریک میں اپنی چوڑیاں پیش کردیں 373 جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے 314 بغداد حضرت بلال 634 109 354 اہل مکہ کے آپ پر مظالم اور آپ کا کلمہ شہادت پڑھنا 703 بلال کے جھنڈے تلے امان دی گئی پاکستان 52 70 146 179 228 446 529`652'563 750 711 276 کلمہ طیبہ پاکستان کی تعمیر کا موجب بنا
18 پاکستان کا خطہ امت محمدیہ کی زرخیز مٹی ہے 505 حکومت پاکستان احمدیوں کے خلاف مذہبی فریق بن گئی ہے 496 اہل وطن کی بھلائی کیلئے دعا حب الوطنی اور پاکستان کیلئے دعا کی تحریک 521636 | اہل پاکستان سے کلمہ کی حفاظت کیلئے اپیل 739 کلمہ طیبہ پر ہاتھ ڈالنے کا مذموم فیصلہ حصول پاکستان کے جہاد میں احمدی صف اول میں تھے 711 حکومت پاکستان کے کارندوں کی طرف سے کلمہ طیبہ ہمیں اپنے وطن سے پیار ہے ہمیں پاکستان سے سچا پیار ہے پاکستان ظالم نہیں اس کے حاکم ظالم ہیں 392 مٹانے کے واقعات 739 حکومتی کارندے کلمہ منارہے ہیں 719 702 659 712 703 596 617 506 پاکستان کی مساجد میں اعلان کہ ہم احمدیوں کی مساجد پاکستان کو جماعت میں ایک مرکزی حیثیت حاصل ہے 780 سے کلمہ مٹادیں گے پاکستان میں جماعت کے خلاف ہونے والے حالات ایک گہری عالمی سازش پاکستان میں جماعت پر توڑے جانے والے مظالم کا تذکرہ پاکستان میں احمدیوں پر گزرنے والے دردناک پاکستان کے احمدی کلمہ کیلئے قید ہو جائیں تو باہر کے احمدی 758 وہاں کلمہ پڑھتے جائیں گے مولوی فساد پر تلے ہیں.پاکستانی بھائیوں کیلئے 269 دعا کی تحریک حالات کا تذکرہ حضرت مسیح موعود کی گستاخی میں یہ ملک حد سے بڑھ چکا ہے 281 763 پاکستانی احمدیوں کے حالات آنحضرت کے ساتھ ملتے ہیں 309 پاکستان میں جماعت کے حالات پر دعاؤں کی تحریک 708 پاکستان میں احمدیوں کے خلاف شورش پاکستان میں احمدیوں کے خلاف نفرت اور جھوٹ کی مہم 319 آج سے بہتر موقع پاکستانی کیلئے احمدی پر ظلم کا نہیں 254 593 آسکتا تھا 521 پاکستان کے خوفناک حالات پاکستان کے حالات پر تشویش حکومت پاکستان کی طرف سے جماعت احمدیہ کے خلاف پاکستان میں احمدیوں کے تکلیف دہ حالات پر مینی 375 خطوط کی آمد 757 664 بدنام زمانہ آرڈینینس کی تفصیلات 765 آج پاکستان میں وہ آواز اٹھائی جارہی جو مکہ میں پاکستان جماعت کی مرکزیت پر حملہ کا بدا رادہ پاکستان سے جماعت کی مرکزیت کی تمام علاقوں کو مٹانے کی سازش آنحضور کے دشمنوں نے اٹھائی تھی 773 پاکستان کے احمدیوں کی قربانی صدر پاکستان کی طرف سے جماعت پر گستاخ رسول پاکستان میں عبادت سے روکنے کا قانون صرف احمدیوں 724 کیلئے ہے کسی طاقتور قوم کے خلاف نہیں ہے ہونے کا جھوٹا الزام صدر پاکستان ذہنی توازن کھو بیٹھے ہیں پاکستان میں صدر پاکستان کے خلاف لوگوں کی نفرت اور بیزاری 723 پاکستان میں ایک دہر یہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتا ہے لیکن احمدی نہیں 730 غیر احمدی علماء کی جماعت کے خلاف تقریریں حکومت پاکستان کی جماعت کے خلاف معاندانہ کاروائیاں 501 | حکومت پاکستان کا پراپیگنڈا کہ جماعت احمدیہ نے 753 236 256 387 420
505 277 520 277 507 772 451 492 772 593 281'282 388 737 596 418 19 حکومتی آرڈینینس کو قبول کر لیا ہے احمدیوں کے خلاف ایک پاکستانی افسر کی غیر منطقی دلیل جو نیوز ویک میں شائع ہوئی پاکستانی اخبارات میں جماعت کے خلاف خبریں شرعی عدالت کے فیصلہ کے بعد پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے مظالم شرعی ہو گئے؟ 444 پاکستان کی اکثریت نیک دل اور سعید فطرت ہے ابتلا میں پاکستان کے شرفاء نے احمدیوں کی مدد کی 377 پاکستان کی اکثریت میں شرافت ہے ان کیلئے بددعا 500 مرگز نہیں کرنی ملک سفاک اور ظالم ہو گیا تو تقدیر الہی کے مطابق غیر قوموں سارا ملک ظلم کا شکار ہو رہا ہے کے جلا داور سفاک مسلط کئے جائیں گے مظلومیت کے دور میں اللہ تعالیٰ تائید و نصرت کے نظارے 460 وہ سب کو علم ہے پاکستان میں جماعت پر نزول ملائکہ کے واقعات سندھ کے ایک فقیر منش کی طرف سے احمدیوں کے حق میں اشتہار شائع کر کے تقسیم کرنا 525 523'525 ابتلا کے بعد احباب جماعت پاکستان میں حیرت انگیز روحانی تبدیلی پاکستانی عوام الناس کی جماعت کے حق میں جرات کے مظاہرے پاکستان میں ابتلا میں تبلیغ میں اضافہ نواحمدی کی استقامت ایک نوجوان کی قبولیت احمدیت کا واقعہ پاکستان میں احمدی خواتین کی مالی قربانی کی مثالیں پاکستان کے احمدیوں کی قربانی پاکستان کے عامتہ الناس شرفا ہیں 503 پاکستانی غیر احمدی احمدیوں سے زیادہ مظلوم ہیں 597 پاکستانی عدالتوں میں جس قدر جھوٹ بولا جاتا ہے حکومت پاکستان میں عدل و انصاف کا شدید فقدان پاکستان میں ہر شہری کے حقوق ضبط کئے گئے ہیں یہاں صرف مذہبی ہی نہیں بلکہ سیاسی اور دوسرے حقوق بھی دبائے جارہے ہیں 300 پاکستان کے غیر احمدی غلط راہنمائی کی وجہ سے زیادہ مظلوم ہیں 284 308 301 611 341 پاکستان میں شریعت کا نیا نقشہ عیسائی ممالک سے خیرات لے کر فخر کرتے ہیں حکومت پاکستان وہ لعنتیں اپنے ذمے لے رہی ہے جو کفار مکہ کے مقدر میں لکھی تھیں 321 واحد ملک جہاں سچائی کے جرم کی سزا مقرر ہے ابتلا میں جماعت پاکستان کی قربانی اور اخلاص 287 مساجد میں ایک دوسرے فرقے کے خلاف نفرت پاکستان میں احمدیت کیلئے بہار کے آثار 284 کی تعلیم دی جاتی ہے پاکستان سے خلافت کی حفاظت پر مبنی خطوط کی آمد میں سیلاب کی طرح پا کستانیوں کو احمدیت میں داخل ہوتا دیکھ رہا ہوں 452 اقلیتوں کے حقوق کے محافظ ہونے کا دعویٰ؟ پاکستان میں احمدیوں کو تمام نیکیوں سے روکنے اور 522 برائیاں کرنے کا قانون بنانا پڑے گا 591 273 416 پاکستان کے مظلوم احمدیوں کے سروں پر عزت و حرمت کا علماء پاکستان کو پلیدستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں 624 تاج رکھا جائے گا 471 احراری علما نے پاکستان کو پلیدستان کہا پاکستان کی بھاری اکثریت نے احمدیوں کے خلاف علماء حصول پاکستان کے وقت قائد اعظم اور پاکستان 506 کو گالیاں دیتے آرڈینینس کو رد کر دیا ہے 624 712
41 48 79 20 20 کانگرسی علماء نے پاکستان کو پلیدستان کہا اور انفرادی گناہوں پر پردہ پوشی اور اجتماعی قصور پر قائد اعظم کو کا فراعظم 735 اطلاع دینے کا حکم داتا صاحب کے عرس پر بریلویوں نے دیو بندیوں پریس رذرائع ابلاغ اور حکومت کو کھلی گالیاں دیں اور گستاخ رسول کہا پاکستانی دیہاتوں میں چوری ہو تو لوگ چھتوں پر چڑھ کر 729 بی بی سی کے ایک پروگرام کا ذکر پاکستان کے اخبارات، ریڈیو، ٹی وی جماعت احمدیہ واویلا کرتے اور مدد کیلئے پکارتے ہیں جماعت پاکستان کیلئے چند اقتباسات پڑھنا 738 کے خلاف گند اچھالتے ہیں 468 شرعی عدالت کی کارروائی کو اخبارات کو شائع کرنے پاکستان کے ترسے ہوئے لوگوں کیلئے لمبے خطبے 677 کی اجازت نہ تھی پاکستان کے گندے معاشرے میں احمدیوں کو 319 445 پاکستانی اخبارات کی جماعت کے خلاف کھلم کھلا خبر میں 500 625 637 644 664 724 770 770 جماعت کے بارہ میں روزنامہ نوائے وقت اور 691 اعمال درست کرنے کی زیادہ ضرورت ہے پاکستان کی جماعتیں سوسائٹی میں اصلاح کی کوشش کریں 591 جنگ کی جھوٹی خبریں پاکستان کے احمدی غیروں کو نیکی کی طرف بلائیں اور ان کے دکھ دور کریں پاکستان کے ایک صاحب اثر دوست کی حضور سے ملاقات پراپیگنڈا مخفی اور ظاہری پراپیگنڈا سرد جنگ کا نقشہ چغل خور گھر گھر پراپیگینڈا کرتا ہے حکومت پاکستان کا پیرا پیگینڈا کہ احمدیوں نے حکومتی آرڈنینس کو تسلیم کر لیا ہے پرائیویٹ سیکرٹری دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کا کام بہت وسعت پذیر ہے پاکستانی اخبارات کا ذکر 590 افریقہ کی خشک سالی اور فاقہ کے بارہ میں ذرائع ابلاغ میں چرچا 366 پاکستانی ذرائع ابلاغ میں شرعی عدالت کے فیصلے کو بہت اچھالا گیا 68 67 پاکستانی اخبارات میں صدر ضیاء کا بیان اور جماعت 68 کے خلاف الزام تراشی 71 پاکستانی اخبارات میں ایک خاص طبقہ کی جماعت کے بارہ میں بیانات 444 حکومتی میڈیا میں جماعت کے بارہ میں پراپیگنڈا پاکستانی اخبارات میں خاص طبقہ علماء کے جماعت 174 کے بارہ میں بیانات 770 608 146 732 736 عملہ پرائیویٹ سیکرٹری ربوہ اور انگلستان کا ذکر 347 پشاور پرده پرده دار خواتین قربانی اور نیکی کے میدان میں پنجاب پنجاب کے زمیندار کمیوں پر احسان کر کے جتلاتے ہیں 316 پیش پیش ہیں پرده پوسی پردہ پوشی کی دینی تعلیم 602 | پورے پودے بھی حساس ہیں اور ان میں نروس سسٹم موجود ہے 159 47639 | پودوں کا شعور انسانی شعور سے باریک ہے 159
21 پولینڈر پولش 263 69 | تبلیغ دیکھئے دعوت الی اللہ واقفین عارضی کے ذریعہ تبلیغ وبیعتیں اور امام زک کا ذکر 462 | ترک پولیس اللہ تعالیٰ کی پولیس ترجمه کتب 257 جماعت میں ترجمہ کرنے والوں کی ضرورت مت میں ترجمہ کرنے والوں پاکستانی پولیس اور حکام نے احمدیہ مساجد سے کلمہ مٹایا 513 پاکستانی پولیس کے احمدی اسیران پر مظالم پولیس کے ربوہ کے احمدی اسیران پر مظالم پھگلہ ضلع ہزارہ پاکستان پھول پورہ ، سندھ پیپلز پارٹی پاکستان 423 ظن سے تجسس پیدا ہوتا ہے 177 262 51`55 391 تحریک جدید، انجمن احمد یہ نیز دیکھئے وکیل روکالت 494 630 تحریک جدید کا کام پھیل رہا ہے نئی وکالتوں کا قیام وکالت مال ثالث وکالت صد سالہ جوہلی ایک راہنما کی ربوہ آمد اور حضور رحمہ اللہ سے ملاقات 292 حضور کا فرمانا کہ پیپلز پارٹی بھی ہمارے خلاف تحریک چلائے گی پیشانی 294 وکالت سمعی بصری شعبہ شماریات اور مخزن تصاویر 174 176 176 176 174 176 174 176 یورپین ممالک کی زبانوں میں لٹریچر کی تیاری کے آغاز کیلئے ایک وکالت کی ضرورت تحریک جدید کے آغاز پر احمدی مستورات کی شاندار مالی قربانیاں 178 289 تحریک جدید کے آغاز پر قادیان کی مستورات کی قربانی 434 609-599 603 602 603 604 601 660 661 نئے سال کا اعلان اور اعداد و شمار کا بیان دفتر اول میں صحابہ، تابعین اول شامل تھے یہ دفتر جماعت کا خلاصہ ہے دفتر اول تاریخی اہمیت کا حامل ہے اس کو کبھی مرنے نہیں دینا دفتر اول کے مجاہدین کو ان کی اولا دیں زندہ رکھیں دفتر اول کے لاوارث مجاہدین کی طرف سے حضور کی طرف سے چندہ دینے کا اعلان دفتر سوم میں لجنہ اماء اللہ کی خصوصی مساعی پاکستان میں چندہ میں اضا فہ اور اعدادوشمار 257 8 146 191 367 عبادت میں پیشانی کو خاص مقام حاصل ہے بلکہ عبادت کا معراج ہے پیشگوئی اہل مکہ کے فوج در فوج حزب اللہ میں داخل ہونے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی دنیا میں خطرات و مصائب آنے کے بارہ حضرت مسیح موعود کی پیشگوئی تاریخ قرآن کریم کی بیان کردہ تاریخ غیر مبدل ہے پاکستان میں احمدیوں کے حالات اور ان پر جماعتی رد عمل تاریخ احمدیت کا قیمتی سرمایہ ہیں تاریخ احمدیت، دیکھئے احمدیت
22 بیرون ممالک کے چندوں کے اعداد و شمار چندہ تحریک جدید بڑھ رہا ہے تحریک جدید کے پچاس سال پورے ہونے پر 180 چندہ لاکھوں سے کروڑوں میں داخل ہونے کی خواہش 600 پیپلز پارٹی کے راہنما کو حضور نے بتایا کہ یہ آپ کی طرف سے 34 ء کے حالات کا تحفہ ہے تخلیق کائنات تخلیق کائنات کا مقصد حق کی ترویج ہے زمین و آسمان کی تخلیق سے اول مرا در وحانی تخلیق ہوا کرتی ہے تحقیق پودوں کی حساسیت پر امریکہ میں تحقیق شہد کی مکھی پر تحقیق تربیت را تربیت اولاد اسلام انفرادی تربیت کے بعد خاموش نہیں رہتا بلکہ بعض قومی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتا ہے 293 567*553 ی کا کمال صداقت سےتعلق رکھتا ہے اری تعلیم اس ندی کی صورت عمیرات شعبہ تعمیرات کیلئے واقفین انجینئر ز، آرکیٹکٹس وغیرہ کی ضرورت بیرون ممالک میں تعمیراتی کاموں کا ذکر ان 536 174 175 177 ن میں تعمیراتی کام کیلئے ایک واقف زندگی اورسیئر کا ذکر 177 فسیر ، نیز دیکھئے آیات قرآنی 555 قرآنی اسلوب کہ بات میں یقین پیدا کرنے کیلئے ماضی کا صیغہ استعمال کرتا ہے 159 قرآن کریم میں آیات کی بجائے آیت کا لفظ 161 استعمال کرنے کی حکمت جمع کیلئے واحد کا صیغہ استعمال ہونے کی تفسیر سورۃ جمعہ میں آنحضور کی بعثت ثانیہ کا ذکر مفسرین نے یقین کے معنی موت کئے ہیں تربیت اور اصلاح محبت خلق کے بغیر ممکن نہیں 135 صفات الہیہ پر غور کرنے سے تربیت کا نیا سلیقہ آ جاتا ہے 163 استغفار کی تفسیر ماں کی محبت بچے کیلئے بڑھ جائے تو تربیت میں کمی آجاتی ہے 558 مفسرین نے لکھا ہے کہ اسلام کے اظہار حق کا وعدہ مسیح موعود کے دور میں پورا ہوگا 760 سندھ کے ایک صوفی کی تفسیر قرآن اور ایک سورۃ کا نام مائیں بچوں کو جھوٹے بہلاوے نہ دیا کریں 225 سورۃ احمد یہ رکھنا بعض مائیں اپنے بچوں کو خوف دلاتی ہیں 200 تقدیر بعض مائیں غصہ میں بددعائیں دیتی ہیں 761 جماعت احمدیہ کی فتح کی تقدیر ائل ہے تسبیح وتحمید کائنات کی ہر چیز اللہ کی تسبیح کر رہی ہے تقویٰ تقوی کا حق ادا کرنا 158 430 554 690 241 136 638 665 525 233 584 اللہ کی تسبیح و تحمید سب سے بڑا ہتھیار ہے 192 تکبر راستکبار تصویری تصویرکشی تحریک جدید میں مخزن تصاویر کے شعبہ کا قیام جو جماعتی تصاویر اکٹھی کرے گا استکبار کا مفہوم اور مخالفین انبیاء کا استکبار 243 تکبر کئی طریق سے انسان کے نفس میں داخل ہوتا ہے 340 176 خوشی ملنے پر تکبر بھی پیدا ہو جاتا ہے 109
23 23 بلعم باعوراستکبار کی وجہ سے استغفار سے محروم رہا تمثیل آنحضرت کی بیان کردہ تمثیل کہ کشتی میں سوراخ خطرناک ہوگا تنزانیہ 133 رض حضرت جابر جاپان ج 87 228 653 716 177 216 جاپانی لٹریچر کا جماعتی لائبریری میں موجود ہونا چینی جاپانی وقف کریں تبلیغی مساعی اور مشنری ٹریننگ کالج کا افتتاح 465 464 جاحظ، ایک عرب مصنف توانائی قرآن کریم توانائی کے استعمال اور اثرات کی کیفیات کا ذکر کرتا ہے ہر حرکت کیلئے توانائی کی ضرورت ہے دریا کا پانی توانائی ہے 684 683 684 عقل مشین کی مانند ہے جس کو جذبات تو انائی مہیا کرتے ہیں 686 عمل صالح کی توانائی سے انسان کو بلندی ملتی ہے توبه تو بہ کے مضمون کی حقیقت آنحضرت کی توبہ کا مفہوم تو بہ کے بارہ میں چند احادیث تو بہ کا فلسفہ بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود تہجد دعا کے ہتھیار کی سب سے زیادہ پریکٹس تہجد میں 689 جانورر جاندار 179 317 ہر جانور ایک جہان اور اللہ کی ہستی کا ثبوت ہے 161 160 افریقہ میں فاقہ سے جانور ہلاک ہو گئے جبر اتفاق کی بنا پر تاریخ مذہب میں پہلی بار کلمہ مٹانے کے ذریعہ جبر روا رکھا گیا جبر کے ذریعہ دین بدلانے کوفتنہ قرار دیا گیا ہے حضرت جبرائیل جذ بہ جذبات 85 انسانی عقل مشین کی مانند ہے جس کو جذبات توانائی 126 دیتے ہیں 87 تا 91 قرآن کریم جذبات سے بھی کام لیتا ہے 92 موجودہ حالات نے احمدیوں میں جذبات کا طوفان برپا کر دیا ہے جرمنی 644 748 749 54 686 687 687 407 671 781 ہوتی ہے ٹاپکسٹ بیرون ممالک میں ٹائٹلٹس کی ضرورت ٹراٹسکی کیمونسٹ لیڈر ٹرینیڈاڈ 192 196 176 327 466`605 انگلستان اور جرمنی میں دو بڑے مراکز سلسلہ بنانے کا منصوبہ 265 جرمنی میں ایک مرکز احمدیت کیلئے تحریک 336 جماعتی مرکز کے قیام کی تحریک اور جماعت جرمنی کے وعدہ جات جماعت جرمنی کے اخلاص کا تذکرہ جماعت جرمنی کی مالی قربانی کا جائزہ 288 265 342
24 جماعت جرمنی میں مالی قربانی کرنے والوں کی مثالیں 344 343 | جھوٹ کذب بیانی جماعت جرمنی کی خواتین کی مالی قربانی کی مثالیں 342 | جھوٹے کی تعریف جرمنی کے ایک نوجوان کی مالی قربانی بیعتوں میں یورپ میں سب سے آگے ملک 372 سائنسدان جھوٹ کے ساتھ ایک قدم بھی آگے 461 نہیں بڑھ سکتا بیعتوں کی تعداد، مساعی اور ثمرات 611654779 | جھوٹ بولنا منافق کی علامت ہے جرمنی کی تقسیم اور جرمن قوم کے ساتھ کئے جانے والے مظالم 20 منافقت کا سب سے بڑاز ہر جھوٹ ہے حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب 615 جھوٹ خود کشی کے مترادف ہے جلسہ سالانہ پاکستان میں جلسہ سالانہ پر پابندی ۲۸ دسمبر کو جلسہ کا اختتامی خطاب ہوتا تھا بر اور مظفر احمد ظفر آف امریکہ کی جلسہ سالانہ ربوہ پر رقت آمیز تقریر مہمانوں کی آمد سے قبل دیگوں کی صفائی ربوہ کے دکانداروں ، مزدوروں، تانگہ بانوں کو دیانت داری کی طرف توجہ شعبہ ٹرانسلیشن میں انجینئر منیر احمد فرخ صاحب اور ان کی ٹیم کی خدمات کا تذکرہ جماعت اسلامی 541 مائیں بچوں کو جھوٹے بہلاوے بھی نہ دیں بڑی اقوام قومی فتنوں کے وقت جھوٹ سے کام 419 224 223 223 225 225 223 223 771 771 جماعت احمدیہ جھوٹ کے خلاف سوسائٹی میں جہاد کرے 225 771 پسماندہ اقوام میں جھوٹ کثرت سے بولا جاتا ہے 577 لے لیتی ہے جماعت کے خلاف علماء اور حکومت کا جھوٹ 692 چاڈ، افریقہ کا ملک چرچل ، برطانوی وزیر اعظم 533 چغل خوری 630 تشریح اور اس کے بد اثرات 33 645 648 650 20`327 جوبلی، صد سالہ منصوبہ 181 180 176 | چندہ جات ، نیز دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ جنبلات ، لبنانی لیڈر جنگ 76 انجمن اور تحریک جدید کے چندے بڑھ رہے ہیں چندہ صد سالہ جو بلی کی طرف توجہ دنیا کی جنگوں کی وجہ اسلامی تعلیمات کو نظر انداز کرنا ہے 19 چیکوسلواکیہ جنگ عظیم دوم میں بعض مستحکم قوموں کو بھی فاقہ کشی کا چین 80066 179 180 177 179'288 729 201 چنیوٹ 70 شدیدردعمل کلمہ کو مٹانے کی تحریک کے خلاف عوام کا شدید رد عمل 745 سامنا رہا جنوبی امریکہ جہاد 81 جھنگ پاکستان کا شہر 729738 حضرت حارث بن سوید 88
25 25 ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب آف انگلستان 612 حب الوطنی ہم اپنے وطن سے سچا پیار کرنے والے ہیں اہل وطن کی بھلائی کیلئے دعا احمدیوں کو پاکستان سے سچا پیار ہے حبشہ، ابے سینیا، ایتھوپیا حبل اللہ 271 521 739 لو كان الايمان عند الثريا..ليس الشديد بالصرعة.......من ستر عورة اخيه المسلم.من غش العرب لم يدخل في شفاعتي.من نفس عن مؤمن كربة..يقول في النجوة..حبل اللہ سے مراد نبی اللہ ہیں 644 645 646 649 585 انبیاء کے بعد خلفاء اللہ کی رسی کی نمائندگی کرتے ہیں 586 قاضی حبیب الرحمن صاحب لکھنوی صلح حدیبیہ کا مشہور واقعہ صلح حدیبیہ کے موقع پر آنحضور نے معاہدہ میں سے 177 احادیث با معنی ( بلحاظ ترتیب صفحات ) 241 168 43 26 6 43 43 نه له 23 مقتول کے ورثاء کو معافی اور دیت کی نصیحت صدقہ کی تحریک فرمائی اور ایک شخص نے عزت کا صدقہ دیا 25 قطع رحمی کرنے والوں کو خدا چھوڑ دیتا ہے سزا کا حکم دلوانے پر آپ کا چہرہ متغیر ہوگیا غیبت منع ہے نیز چغل خور کی مثال غیبت اور بہتان کا فرق 746 نیت کے وقت اپنے بھائی کی مدد نہ کرنا گناہ ہے غیبت کرنے والوں کو عذاب کفار کے مطالبہ پر رسول اللہ کے الفاظ حذف کر دیئے 746 مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو حدیث (کتاب میں مذکور احادیث ) احبوا العرب لثلاث.احبوا العرب وبقاء هم.حسد، غیبت ، سودے پر سودا نہ کرو 5 غیبت اور چغل خوری ایمان کو کانٹ چھانٹ دیتی ہے 6 غیبت کے نتیجہ میں نیکیاں مٹادی گئیں 28 40 52 53 54 لله الله له چه ما د ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی ی 56 56 57 59 54 55 اربع من كن فيه كان منافقا خالصا.غیبت کرنے والوں کو نماز اور روزہ دوبارہ رکھنے کا حکم دیا 57 اللهم ان اهلكت هذه العصابة..435 250 غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ اس کیلئے بخشش کی دعا الامام جنة يقاتل من ورائه.ان الله عز وجل يحب الحياء والستر.ان الله عزوجل حَيّى ستير اني دعوت للعرب.حب العرب ايمان.رب اغفرلی و تب عليي العرب نور الله فى الارض.علماء هم شر من تحت اديم السماء.649 40 40 4 6 125 5 622 خطا کار انسانوں میں سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو تو بہ کرتے ہیں تو بہ کرنے والے کے گناہ اللہ بھلا دیتا ہے تو بہ کی حالت میں فوت ہونے والا شخص بہت ہی گناہ سے بچی تو بہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے خوش نصیب ہے کوئی گناہ نہیں کیا اللہ اپنے بندے کی تو بہ پر اس شخص سے زیادہ خوش ہوتا 87 87 80 87 88
285 294 332 337 338 26 ہے جس کو صحرا میں اپنی گمشدہ سواری مل جائے 88 ائمۃ الفکر کے لئے آپ کی بددعا آسمان تک گناہ پہنچ چکے ہوں تب بھی تو بہ کرو تو اللہ قبول کر سکتا ہے ننانوے قتل کرنے والے کی تو بہ کیا میں عبد شکور نہ بنوں 89 امت کے بعض لوگوں کے حقوق تلف ہونگے وہ حقوق ادا کریں گے میں ان کے ساتھ ہوں گا 90 اپنے ایک معمولی صحابی کو کہنا کہ میر اغلام ہے 109 جسے میں بیچتا ہوں میں ستر بار سے زائد روزانہ استغفار کرتا ہوں 125 آپ نے بعض وقت مالی قربانی رو فرما دی سورۃ ہود نے مجھے بوڑھا کر دیا صفت مالکیت کے بارہ حضور ابوذر سے مروی ایک حدیث قدسی 128 جو مال نہیں رکھتے ان کا نصیحت کرنا ہی قبول ہے آنحضور نے رئیس المنافقین کی طرف سے اہانت 137 کے بعد بھی اسے ضرر پہنچانے سے منع کر دیا اللہ بندے سے اس کے گمان کے مطابق سلوک کرتا ہے 139 احسان کی تعریف حکم عدل مسیح موعود کی آمد کی پیشگوئی امت کے بگاڑ کی پیشگوئی اور نقشہ 381 573 621 621 اسلام کا قبول کرنا زمانہ جاہلیت کی نیکیوں کا انعام ہے 649 140 میں مرجاؤں تو جلا کر خاک اڑا دینا خشیت الہی سے ایک انصاری کا اپنے آپ کو گھر میں قید کر لینا ہوا سے خشک پتے گرنے اور سبز باقی رہنے والے در مخت کی مثال 141 141 142 میرے خدا نے تمہارے خدا کو ہلاک کر دیا ہے تمام مومن ایک جسم کی مانند ہیں خشیت کے نتیجہ میں کفل نامی شخص کی بخشش 143 142 اہل حدیث مکتبہ فکر قرض معاف کرنے والے شخص کی بخشش اللہ کا حضرت عیسی کو کہنا کہ میں اس قوم کو اپنے حلم اور علم کے خزانے سے عطا کروں گا رشتہ داروں سے علم کا سلوک کرنے والا جو قدرت کے باوجود غصہ کے وقت ضبط کرے گا اللہ اس کو خاص انعام کا مستحق ٹھہرائے گا آپ کا بیان فرمودہ صبر کا معنی آپ کی بیان فرمودہ تمثیل کہ کشتی میں سوراخ باعث ہلاکت ہوگا گرجے اور صلیب کو بدنظری سے دیکھا تو اس کا میرے سے کوئی تعلق نہیں مومن کی مثال ایک بدن کی سی ہے 144 151 153 155 205 216 258 274 آپ نے بد اعمال کرنے والے روزہ داروں کو انذار کیا 282 حرام دور حاضر میں ولد الحرام کی بکثرت پیدائش 704 780 478'487 72 امریکہ اور اشتراکی ممالک میں ولد الحرام بچوں کی تعداد 72 کی حضرت حز قیل جوج روس کے بارہ میں آپ کی پیشگوئی حضرت امام حسن بن حضرت امام حسین حکومت انصاف سے عاری اسلامی حکومت نہیں کہلا سکتی حق حق سے کیا مراد ہے؟ حقوق العباد 73 629 629 511 556
27 آپ نے علم اور حلم کو قائم کیا 163 152 168 احمدی پاکستان میں بنیادی شہری حقوق سے محروم ہیں 492 | خاندان خانگی مسائل حلم و بردباری تعریف اور تشریح حلم کی دینی تعلیم رشد کامل کو حلم کہتے ہیں خاندان حضرت مسیح موعود کے بچوں کا اخلاص اور قربانی 149 | کی تڑپ 151 خاندانی جھگڑوں کی شکایت اور وجوہات خدام الاحمدیہ اجتماع پر پابندی ربوہ کے دوا سیر خدام کے حوصلہ کا ذکر 288 26'28 407 631'769 439 ڈیوٹی پر موجود خدام یا انصار صفیں پھلانگنے والوں کو 169 167 168 169 166 بغیر بولے روک دیں 50 خدمت خلق جماعت احمد یہ ہر تکلیف کو ختم کرنے کی کوشش کریگی 652 651 حضرت مسیح موعود کے بیان کردہ علم کے پہلو علم کی صفت اختیار کرنے سے معاشرہ سدھر جاتا ہے 166 حلم اور جذبات کا جوڑ حلم جذبات میں توازن پیدا کرتا ہے متحمل بریکوں کا کام کرتا ہے حلم انسان کو لگا میں لگاتا ہے حضرت ابرا ہیم کی صفت حلیمی حضرت مسیح موعود کی حلم اور بردباری کے واقعات خاندانی جھگڑوں کی وجہ حلم میں کمی جماعت افریقہ کو ان کے پاؤں پر کھڑا کر یگی اہل افریقہ کی امداد کی تحریک 227 170 105 ربوہ کے بچوں کی گرمیوں میں پانی پلانے کی خدمت حضرت سیدہ حمامة البشرکی، مہر آیا حکیم حمید احمد اختر صاحب المنار والے 153 345 361 652 650 32 لجنہ کی طرف سے کراچی میں بارش سے متاثرہ افراد کی امداد 651 سے سے کی حضرت خدیجہ خشک سالی پاکستان اور افریقہ کی خشک سالی دور ہونے کیلئے 202 حواری مسیح کے حواریوں کا قرآن میں ذکر حیا بے حیائی کا نتیجہ ہے کہ بکثرت ولد الحرام بچوں کی پیدائش ہورہی ہے حیدر آباد دکن 234 دعا کی تحریک خشیت الہی خشیت سے مراد 72 خشیت کے نتیجہ میں بخشش کا مضمون 32 33 171 142 142 295 ، 467 خشیت الہی سے ایک انصاری نے اپنے آپ کو گھر قید کر لیا 141 حیدر آبادسندھ خ خارجی خوارج حضرت علی کے مقابل پر شامی فوج زیادہ تر خارجیوں پر مشتمل تھی 608 خشیت کے نتیجہ میں کفل نامی شخص کی بخشش کی مثال 142 480 خطبہ جمعہ حضور نے فرمایا میں ترسے ہوئے پاکستانیوں کیلئے خطبے لمبے دیتا ہوں 677
خلافت خلیفه خلافت کا کوئی بدل نہیں ہے خلیفہ کی بیعت کا فلسفہ خدا کا خلیفہ انسان کے بنائے خلیفہ کے سامنے سر نہیں جھکا سکتا خلیفہ برحق معزول نہیں ہو سکتا خلیفہ وقت جس ملک میں بھی جائے وہ جماعت احمدیہ 767 586 484 483 28 28 میر درد کا شعر دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے درود شریف مخالفین جس قدر دین سے متنفر کرینگے احمدی اتنا ہی زیادہ درود بھیجے گا دشمن دشمن کیلئے دعا کرنا سنت ابرار ہے 148 656 283 میں ہی جاتا ہے خلیفہ کے ساتھ جماعت کی محبت اور جذباتی لگاؤ حضرت خلیفہ المسح الثانی کی بیماری میں بعض امور خلافت انجمنیں سرانجام دینے لگیں خلیفہ کا کام کوئی انجمن نہیں سنبھال سکتی خلیفہ وقت کے خلاف سازش پاکستان میں ایسے قوانین کہ خلیفہ کو قید کیا جاسکتا ہے خلافت کے قلع قمع کی بھیانک سازش خمینی ،ایرانی شیعہ رہنما خودکشی 452 768 دعا کی اہمیت دعا کا فلسفہ 767 دعا سے دنیا میں انقلاب پیدا ہوئے دعا کے بغیر کوئی محنت شمر بار نہیں ہوا کرتی 767 765 765 766 477 102 100 100 81 جنگ بدر آنحضرت کی دعاؤں سے جیتی گئی آنحضرت کی دعا کے معجزات جو صحابہ کے ہاتھوں سرزد ہوئے 286 حضرت مسیح موعود کی دعاؤں کا نہ ختم ہونے والا خزانہ 286 استغفار کی روح دعا ہی ہے ابدال کی بد دعاؤں سے دشمن کو ڈرنا چاہئے 145 287 جھوٹ اختیار کرنا خودکشی کے مترادف ہے 225 احباب جماعت علم بڑھانے کیلئے بکثرت خوراک دعائیہ خطوط لکھتے ہیں افریقہ میں خوراک کی شدید قلت اور فاقہ کشی 644 دشمن کے ہتھیار کا جواب دعا کے ہتھیار سے دینا ہے یورپ میں خوراک کی کثرت اور زیادتی حکیم مولوی خورشید احمد صاحب خوف مومنون کو خوف ایمان میں بڑھاتا ہے خیبر فتح خیبر کی خوشخبری 646 غیبت چغل خوری جیسی برائیاں دعا سے ختم ہونگیں 391 آداب و قبولیت دعا آداب دعا کا بیان 685 776 152 191 63 قبولیت دعا کیلئے عمل صالح ضروری ہے قبولیت دعا کے لوازمات 249 250 251 690 102 جس صفت الہی کے مشابہ ہونگے اس معاملہ میں دعا قبول ہوگی 26 26
194 193 193 193 145 29 29 رب کل شی ء خادمک ( حضرت مسیح موعود نے اسم اعظم قرار دیا ) یا حیی یا قیوم برحمتک نستغيث سبحان الله و ، وبحمده سبحان الله العظيم.یا حفیظ یا عزيز يا رفيق.آنحضور کی دعا اللهم انی ظلمت نفسی.146 192 104 107 108 نماز میں دعا کرنا قطعی طور پر جائز ہے دعا کے ہتھیار کی سب سے زیادہ پریکٹس تہجد کے وقت ہوتی ہے دعا میں طاقت پیدا کرنے والی تین چیزیں دعا میں خشوع پیدا کریں خوشی کی حالت میں دعا کرنا اللهم اني ظلمت نفسی......کی دعا جماعت آنحضرت غم اور خوشی دونوں حالتوں میں دعا کرتے 109 کثرت سے پڑھے عبد شکور بننے سے دعا میں طاقت پیدا ہوتی ہے دعا میں طاقت کا تیسرا ذریعہ محبت ہے 110 111 جنگ بدر کے موقع پر آنحضرت کی مقبول دعا آنحضرت کی دعا سے حضرت عمر مسلمان ہوئے ضرورت اور غرض کے بغیر بھی اللہ تعالیٰ سے دعا کی جائے 103 ائمة التکفیر کیلئے بددعا کرنا سنت نبوی ہے دعا شکر اور درد دونوں کے ساتھ ہو غم کے بغیر دعا ممکن نہیں دعا میں بے صبری نہ دکھائیں 461 455 حضرت مسیح موعود آتھم کو تو بہ کی توفیق پانے کی دعا کرتے رہے 47:406 لیکھرام کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی دعا میں دعا میں صبر کرنے والے ایک بزرگ ولی کا واقعہ 210 | عشق رسول اور غیرت کارفرما تھی حضرت مسیح موعود کا فرمان کہ دعا میں دشمن کو بھی نہیں بھلانا 283 حضرت ذکریا کی دعا دشمن کے لئے بھی دعا کی جائے دشمن کیلئے دعا کرنا سنت ابرار ہے 30 احمدیت کی طرف پاکستانیوں کا رجحان مزید 283 بڑھنے کیلئے دعا بے بسی میں بے یقینی سے دعا کرنا مخفی دہریت ہے 249 احمدیوں کے خلاف اسلام دشمن سازش کی ناکامی بعض ظالموں کے حق دعا قبول نہیں ہوتی 277 کیلئے دعا کی تحریک دعا اور جماعت احمدیہ ہمارا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے جماعت کا سب کچھ دعا ہی ہے ہر احمدی دعا گو بنے اور ولی بنے آئمۃ الکفر کیلئے دعا کرنے کے احمدی پابند نہیں ہیں خاص دعائیں اللهم اهد قومى فانهم لا يعلمون ربنا اغفر لنا ذنوبنا.ربنا لا تزغ قلوبنا........اللهم انا نجعلك في نحورهم.مظلوم بھائیوں کیلئے دعا کریں 249 پاکستان کے مظلوم احمدیوں کیلئے دعا کریں 250 پاکستانی بھائیوں کیلئے دعا کی تحریک 146 435 31 285 508 104 428 521 505 508 235 617'780 103 پاکستان میں جماعت کے حالات پر دعا کی خصوصی تحریک 708 277 198 194 196 195 عالم اسلام کے لئے دعا کی تحریک پاکستان، اسلام اور عالم اسلام کیلئے دعا کی تحریک پاکستان کیلئے دعا کریں بارش کیلئے دعا کی تحریک خشک سالی دور ہونے کیلئے دعا کی تحریک افریقہ میں بارش کیلئے دعا کی تحریک 758 277 636 48`63 32 170
30 30 بارش اور عربوں کیلئے دعا کی تحریک 79 مبلغ بنانے کیلئے ابتدا میں محنت کرنی پڑتی ہے اور پھر ہر احمدی کے دل سے عرب قوم کیلئے دعائیں نکلیں 12 چسکا پڑنے کے بعد کہنے کی ضرورت نہیں رہتی عرب اقوام کیلئے خصوصی دعاؤں کی تحریک غیبت سے بچنے کیلئے دعا ثبات قدم ملنے اور قربانی دیتے رہنے کی دعا 44864 انفرادی تبلیغ ہی دیر پا طریق تبلیغ ہے 59 جماعتی ترقی کیلئے انفرادی تبلیغ کو بڑھایا جائے 442 دعوت الی اللہ کیلئے سمعی و بصری ذرائع اختیار کرنے دعائے جنازہ میں زندوں کیلئے پہلے دعامانگی گئی ہے 214 کا منصوبہ شوری کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک 185 قرطاس ابیض کے جواب کے ذریعہ دعوت الی اللہ رمضان کی آخری دعا میں قربانی کرنے والوں کیلئے دعا 348 کا ایک نیا موقع دعوت الی اللہ اہمیت و فرضیت آنحضور کو تبلیغ بند کرنے کے عوض لالچ دیا گیا آنحضور نے کفار کے لالچ کو یکسر ٹھکرا دیا 396 397 حضرت محمد کے اسلام کی طرف بلانا ہم کبھی نہیں چھوڑ سکتے 277 اونچا وہی ہو گا جو تبلیغ میں اونچا ہے یہ میری زندگی کا مقصد ہے تبلیغ کیلئے آخری سانس تک کوشش کرنے کا عزم تبلیغ کا حق نہ دینے کا باطل کا طریق کار تبلیغ دو دھاری تلوار ہے جو بند نہیں ہوسکتی ہر احمدی مبلغ بنے ہر احمدی مبلغ بن جائے پھر اس سے کونپل نکل کر تناور درخت بنے گا 463 464 668 401 670 613 609 263 388 ہر احمدی قرطاس ابیض کے جواب کی تقسیم میں حصہ لے 391 واقفین عارضی کے تبلیغی وفود اور ثمرات داعی الی اللہ کو علم کی ضرورت پیش آتی ہے تبلیغ سے روکنا آنحضور کے دشمنوں کی سنت ہے غیر احمدی خود اسلام کی تبلیغ چھوڑ بیٹھے ہیں دعوت الی اللہ اور جماعت احمدیہ ہر طبقہ کے احمدیوں کو دعوت الی اللہ کرنا ہے ہمارے اندر کوئی چوہدریوں کا طبقہ نہیں نئی قوموں میں احمدیت کے نفوذ کا منصوبہ نئے ممالک میں جماعتوں کے قیام کا منصوبہ 389 جماعت تبلیغ کے وسیع دور میں داخل ہونے والی ہے 610 669 ابتدا میں پاکستان اور دنیا بھر میں تبلیغ کے رجحان میں اضافہ دعوت الی اللہ کیلئے مختلف زبانوں میں لٹریچر کی تیاری 462 168 625 418 261 262 464 614 308 262 263 ہر احمدی دعوت الی اللہ کے ذریعہ احمدی بنانے کا عہد کرے 261 کا منصوبہ فرانس کا ہر احمدی اپنے اوپر دعوت الی اللہ فرض کر لے 781782 کم از کم چندہ دہندگان کی تعداد کے برابر مبلغ ضرور بنیں 610 پہلے سے کئی گنا تبلیغ تیز کرنے کی تلقین دعوت الی اللہ اور استغفار کا مضمون 260 جماعتی لٹریچر کو تبلیغ میں استعمال کرنے کیلئے 130 دعوت الی اللہ کے شیریں ثمرات ظالم تو نے پی ہی نہیں کا محاورہ مبلغ پر صادق آتا ہے 13 دعوت الی اللہ کو روحانی شمر عطا ہورہے ہیں طریق اور ذرائع آنحضور کی دعوت الی اللہ کے طریق اور مشکلات دعوت الی اللہ کی رو چل پڑی ہے 389 ساری دنیا میں تبلیغ کی رو چل پڑی ہے 614 100 99 461 قرآن کریم نے تبلیغ کیلئے مجادلہ کا لفظ استعمال کیا ہے 559 ماریں کھا کر بھی لوگ پاکستان میں احمدیت میں آرہے ہیں 308
31 177 دنیا بھر میں دعوت الی اللہ کے نازل ہونے والے شیر میں ثمرات دفتری امور 461 468 جماعتی دفتری امور چلانے کیلئے واقفین آفس مختلف ممالک میں دعوت الی اللہ کے شیریں ثمرات 671779 | سپرنٹنڈنس کی ضرورت آئیوری کوسٹ نجی ٹرینیڈاڈ ، ماریطانیہ، ہندوستان کینیا کی تبلیغ کا ذکر دل آزاری حق والوں اور باطل والوں کی دل آزاری کا جد اتصور 364 افریقہ کے ایک نئے ملک میں دیہات کے دیہات کا قبول احمدیت دوستی 655 دوستی کی بنیادی وجہ صفات کا ملنا ہے 149 افریقہ اور یورپ میں تبلیغی مساعی اور ثمرات اشترا کی یورپی ممالک میں تبلیغ و ثمرات 611 462 جماعت انگلستان کی بیعتوں کی تعداد 73 240 247 دہریہ ادہریت بدی کا نقطہ معراج دہریت ہے 462 دہریت کے وقت ظہور نبوت ہوتا ہے انگلستان میں دعوت الی اللہ کے شیریں ثمرات 612 رسولوں کو ان کے وطن سے نکالنے کی دھمکی کلمہ 463 دہریت ہے 464 بے بسی اور بے یقینی سے دعا کرنا مخفی دہریت ہے دہر یہ بھی نیکی اور بدی کی تمیز رکھتا ہے 241 242 249 217 611 پاکستان میں ایک دہر یہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ سکتا ہے 387 جماعت امریکہ کی تبلیغی صورتحال تنزانیہ کی تبلیغی مساعی کا ذکر پاکستان میں ایک نوجوان کا قبول احمدیت اور پھر با شمر داعی بننا پولینڈ میں تبلیغ وثمرات روانڈ میں تبلیغی مساعی اور ثمرات 465 اہل پاکستان اور اہل ربوہ کو دیانت کے معیار جرمنی میں بیعتوں کا گوشوارہ 461 بڑھانے کی طرف توجہ جرمنی میں کامیاب تبلیغ 781 دیوبندی مکتبہ فکر 462 | دیانت 692 478 716 712 714 718 سیرالیون میں تبلیغی مساعی اور ثمرات عربی زبان بولنے والوں کی بیعتیں غانا میں دعوت الی اللہ کے مواقع اور ثمرات گیمبیا کی تبلیغی مساعی ہندوستان میں تبلیغ میں تیزی اور ثمرات 465 دیوی بندی علما ء شیر مادر کی طرح جھوٹ بولتے ہیں 461 دیوبندی مساجد سے کلمہ مٹانے اور احمدیوں کو قتل 466 کرنے کے نعرے بلند ہورہے ہیں 466 وزارت مذہبی امور، حکومتی مشینری ہمارے ساتھ ہے 261'653 علماء کا دعویٰ آندھراپردیش ہندوستان میں تبلیغ کے شیریں ثمرات 468 کلمہ طیبہ کے مسئلہ پر بریلوی مساجد سے دیو بندیوں 407 461 462 ایک ہندو کا قبول احمدیت عیسائیوں میں انفرادی تبلیغ سے قبول اسلام 261 261 کی مخالفت ڈ یوگنڈا کی تبلیغی مساعی یونانی باشندوں کا قبول احمدیت 464 ڈنمارک 463
32 32 ڈیٹرائیٹ ، امریکی شہر جماعتی مشن کیلئے پلاٹ کی خرید ڈیٹین ، امریکہ کا شہر راولپنڈی راہب ربوه ربوہ تمام دنیا کیلئے جماعتی مرکز ہے 291 463 ایک نظم میں ربوہ کی فضاؤں کی منظر کشی ربوہ کے روزے اور عید کے مناظر پر مبنی خطوط کے نمونے 530 371t367 اہل ربوہ پر سخت امتحان اور بے قراری کے خطوط کی آمد 437 608 ربوہ کے ایک مریض کا ہوش میں آنے پر حضور کے 90 441'496'581 بارہ میں پوچھنا ربوہ کے دوا سیر خدام کے بلند حوصلہ کا تذکرہ 780 ربوہ میں ایک غیر مبائع دوست کی آمد 530 439 307 ربوہ کے ساتھ احباب کی محبت اور وابستگی کے واقعات 530 پیپلز پارٹی کے ایک وزیر کی ربوہ آمد اور حضور سے ملاقات 292 ربوہ اور ربوہ کے درویشوں سے حضور کا والہانہ محبت کا اظہار ربوہ کے درویشوں سے مراد و اقفین زندگی اور اللہ کی خاطر رہنے والے اہل ربوہ کو خصوصی نصائح ربوہ کی مساجد سے کلمہ مٹانے کا ظالمانہ حکم 532 پاکستان میں سازش کہ اگر خلیفہ ربوہ میں رہے تو مردہ کی مانند رہے 694 ربوہ اور خلافت پر حکومتی حملہ 694 ربوہ میں ذیلی تنظیموں کے اجتماعات پر پابندی ابتلاء کے بعد ربوہ کی مساجد بھرنے کے بعد چھوٹی پڑ گئیں 300 ربوہ میں کبڈی ، باسکٹ بال پر پابندی 692 ربوہ میں مولویوں کو کانفرنس کی اجازت اہالیان ربوہ کا دکھ اور ان کی ذمہ داریاں جلسہ ربوہ پر 74 ء کے بعد برادر مظفر احمد ظفر صاحب آف امریکہ کی رقت آمیز تقریر اہل ربوہ کی غیر معمولی قربانی اور روحانی نشو ونما 235 766 769 769 769 599 اجتماعات پر حکومتی پابندی اور مولویوں کو جلسوں کی اجازت 631 577 ربوہ میں غیر احمدی مولوی اذان سے پہلے اور بعد میں 677 تنگ کرنے کیلئے لاؤڈ سپیکر استعمال کرنا مولوی کی فحش کلامی اور احمدیوں کے صبر کا نمونہ ربوہ کے شب و روز اور اہالیان ربوہ کی کیفیت پر مبنی ایک خط 678 تحریک جدید کی مالی قربانی کا ذکر چند و صد سالہ جو بلی میں دنیا بھر کی جماعتوں میں اول رہا ربوہ میں زبانوں کے انسٹیٹیوٹ کے قیام کا منصوبہ ربوہ میں گرمیوں میں پانی پلانے والے احمدی 605 181 182 179 412 529 ربوہ کی مساجد سے علماء کی جماعت کے بارہ میں گندہ دہنی 771 مخالفین نے ربوہ کے بارہ عجیب و غریب کہانیاں شائع کیں 521 ربوہ کے احمدی کے ساتھ فیصل آباد کے رکشہ ڈرائیور کا ہمدردی میں کرایہ نہ لینے پر اصرار رخصت و رعایت 284 119 413 دینی احکامات میں رخصت و رعایت کا نظام رسم و رواج شادی بیاہ اور موت پر رسومات 32 692 بچے خشک سالی دور ہونے کیلئے دعا کریں جلسہ سالانہ کے موقع پر ربوہ کے دوکانداروں، مزدوروں تانگہ بانوں کو دیانتداری کی طرف توجہ
33 رشد کی تعریف رشید حیات صاحب آف لندن رواداری 167 کیا کرتے تھے 361 تم روم میں ہو تو روم جیسے ہو جاؤ کا محاورہ رو یار خواب کشف تعبیر الرؤيا 411 411 آنحضور نے عیسائیوں کوگر جوں اور صلیب کی حفاظت رویا اور مبشرات کے ذریعہ اللہ بندوں کو بھینچ کر لا رہا ہے 100 258 علم تعبیر رویا میں فاسق اور فاجر حاکم کو شیر کہا جاتا ہے 470 کی تحریر لکھ کر دی روانڈا روحانی رروحانیت جماعت احمدیہ نے ابتلاء میں روحانیت میں ترقی کی جو اللہ تعالیٰ کے احسان ہیں روز ویلٹ ، امریکی صدر روزه / رمضان رصیام رمضان کا آخری عشرہ اور لیلۃ القدر کی حقیقت 465 مایوسی میں ڈارونے خواب آتے ہیں مختلف بادشاہوں کے قبول احمدیت کے بارہ حضرت مسیح موعود کا خواب 442 حضور کے تین مبشر رویا 20 حضور کے دور ویا وکشوف جن میں سلامتی وظفر 323 کا وعدہ دیا گیا حضور کا Friday the 10th کا کشفی نظارہ 775 9 99*97 680 777 777 469 654 317 316 317 166 77 179 179 آنحضور نے بد اعمال روزہ داروں کو انذار کیا 282 حضور کو چار خوشخبریاں اکٹھی دی گئیں پاکستانی احمدیوں کے روزوں کا منظر ربوہ کے روزے ایک عورت روزہ تو نہ رکھتی لیکن سحر و افطار کر کے 282 پاکستان میں ابتلاء کے حوالہ سے دو بزرگوں کے 367 رؤیا کا ذکر ایک انگریز خاتون کی خواب اور بیعت کرنا احترام کرتی کہ یہ نہ کروں تو کافر ہو جاؤں 378 | ریا کاری روس 644645648 قرآن کریم میں ریا کاروں کا ذکر روس کے زیر اثر یورپی ممالک کی حالت کمیونزم انقلاب کے بعد آزادی یا غلامی کا دور ؟ روسی ترجمہ قرآن کی تیاری روسی زبان جاننے والے سکالرز کی ضرورت 69 ریا کار لوگ قربانی دکھاوے کیلئے کرتے ہیں ریا کاری سے مال خرچ کرنا 327 264615 ریڈیائی شعائیں 264 روی ترجمہ قرآن کے اخراجات چوہدری شاہ نواز صاحب زبان دان دیں گے روم ارومن ایمپائر حضرت عیسی کے وقت سلطنت روم کی طاقت روم کی فتح کی خوشخبری 9634 انسٹیٹیوٹ کا منصوبہ 615 زبان دانوں کی ضرورت اور ربوہ میں اس کے 231 زبان دان کو قادر الکلام ہونے کیلئے وسیع المطالعہ 776 ہونا ضروری ہے رومن ایمپائر جب عروج پر تھی تو لوگ ان کی نقل
224 688 161 77 78 108 34 زراعت از میندار قرآن کریم میں بیان فرمودہ ایک زرعی قانون 666 ترقی نہیں ہو سکتی بعض دفعہ بیج کاشت کرنے کے بعد زمیندار کو اس کی محنت کا پھل دکھائی نہیں دیتا اہل افریقہ کوزراعت کی تعلیم اور خود کفیل بنانے کی ضرورت اور جماعتی اقدامات 668 652 پنجاب کے زمیندار کمیوں پر احسان کر کے جتلاتے ہیں 316 زرتشت از تنشی مذهب سائنس دنیا کی سچائی ہے.جھوٹ سے سائنس میں قرآن کریم عظیم الشان روحانی سائنس کا کلام ہے شہد کی مکھی پر سائنسدانوں کی تحقیق حیرت انگیز اور تیز رفتار کیمروں کی ایجاد نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی ایک کمیٹی جو اٹا مک کلاک کا مطالعہ کرتی ہے پسماندہ اقوام سائنس میں پیچھے ہیں اور لاعلمی کی وجہ سے 255 خزانوں سے استفادہ نہیں کر سکتیں حضرت زکریا علیہ السلام زکوۃ نیز دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ اس کا مطلب اور مقصد زکوۃ تزکیہ نفس کرتی ہے امام زک، پولینڈ زود نویسی حضرت بو زینب صاحبہ اہلیہ حضرت مرزا شریف احمد صاحب زیور 428 سپین سپینش 609 سٹالن ، روی لیڈر سچائی رقول سدید 340 462 حق یعنی سچائی سے مراد 175 509 سچ اور جھوٹ کی تعریف 228 263 605 634 20 پاکستان دنیا کا واحد ملک جہاں سچائی کے جرم کی سزا مقرر ہے انفاق فی سبیل اللہ سے کسی جماعت کی صداقت پہچانی جاسکتی ہے احمدی خواتین نے اللہ کی راہ میں اپنے زیور پیش کر دیئے 289 سرائیکی زبان س سال نو سرحد، صوبہ سرگودھا حضور کی طرف سے احباب کو سال نو کی مبارکباد 1 سرگودھا کے نواحمدی کی استقامت 556 419 418 542 530 736 301 605 616 599 سری لنکا 1 ماسٹر سعد اللہ خان صاحب ربوہ سعودی عرب موجودہ سعودی حکمران کلمہ توحید کی حفاظت اور 224 تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان وقف جدید کے سال نو کا اعلان سائنس رسائنسدان سائنس خدا کی فعلی شہادت ہے
اس کی برکت سے وجود میں آئی سعودی عرب پوری دنیا میں اسلام کی خدمت کیلئے روپیہ خرچ کر رہا ہے پاکستان میں کلمہ مثانے کی تحریک میں سعودی عرب شامل نہیں ہوسکتا 715 716 716 علماء پاکستان کا دعویٰ کہ ہمیں سعودی عرب سے پیسہ آ رہا ہے 715 ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب آف انگلستان 35 آپا سلیمہ بیگم صاحبہ بنت سیٹھ غلام غوث صاحب کا ذکر خیر سندھ 295 221 730 732 736 سندھ کے ایک فقیر منش کا احمدیوں کے حق میں اشتہار تقسیم کرنا ایک احمدی پر ہندوؤں کو تبلیغ کے جرم میں مقدمہ 523 273 سعیدہ بیگم صاحبہ 612'653 265 ہند و علاقے میں جماعتی تبلیغ اور اس کے ثمرات اور مخالفت 630 سنگاپور 605 سکول سوال و جواب پاکستان میں ایسے سکول ہیں جہاں مہینہ بھر استاد نہیں مسجد فضل لندن میں حضور کی مجالس سوال و جواب آتا صرف تنخواہ لینے آتا ہے 222 237'494 سوئٹزرلینڈ سکھ مت 256 255 | سویڈن سلاوک زبان سلطان رسلاطین 263 سہل بن سعد سیالکوٹ 661 119 407'462 141 490 607 علماء نے سلاطین کو خوش کرنے کیلئے بعض شرعی حقوق دیئے 475 حضرت مسیح موعود نے اپنا دوسرا وطن قرار دیا کس سلطان کو شریعت کی نمائندگی کا حق 476 ساری دنیا میں سیالکوٹیوں کو غیر معمولی جماعتی خدمت کی مختلف اسلامی ممالک میں مختلف رجحان کے سلاطین ہیں 477 توفیق مل رہی ہے 606 حضرت صاحبزادہ مرزا سلطان احمد صاحب جماعت سیالکوٹ کو قربانی کا معیار بڑھنے کی طرف توجہ 606 مولانا سلطان محمود انور صاحب سلمی سعید صاحبہ اہلیہ ڈاکٹر سعید احمد خان صاحب آف انگلستان حضرت سلیمان علیہ السلام حکمت کے خاص مقام پر فائز تھے 219'333 496 653 271 کمزوری دور کرنے کیلئے قربانیوں میں آگے بڑھیں سیرالیون سینیگال شام 608 465 605 644 9'645
36 شاعر ر شاعری رحمتیں تیری ہیں اغیار کے کا شانوں پر جماعتی غم میں بعض لوگ شاعر بن گئے ہیں 529 پر ترے عہد سے آگے تو یہ دستور نہ تھا بعض شاعر اپنا انداز کلام کسی شاعر سے ملنے پر فخر کرتے ہیں سرائیکی زبان میں ایک نظم کا ترجمہ شعر دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفیٰ ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز 298 اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بیچا 530 تیرے بن اے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں کتاب میں موجود اشعار بلحاظ تر تیب صفحات کیا میرے دلدار تو آئے گا مر جانے کے بعد 112 شور کیسا ہے تیرے کوچے میں لے جلدی خبر شور کیسا ہے ترے کوچے میں لے جلدی خبر 112 پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق 113 تنزل کی حدد یکھنا چاہتا ہوں در دو عالم مرا عزیز توئی اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی 117 وہ آئیں مرگ شادی ہے نہ آئیں مرگ نا کامی ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک دل بھی تیرے ہی ڈھنگ سیکھا ہے عدو جب بڑھ گیا شور وفغاں میں اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے تو بدل دے جو میں کہتا ہوں لوائے ماپنہ ہر سعید خواهد بود تم دیکھو گے کہ انہی میں سے قطرات محبت نیکیں گے قومی هم قتلوا اميمة اخي 127 127 148 148 206 248 266 266 270 ہم جس پہ مر رہے ہیں وہ ہے بات ہی کچھ اور ان کو آتا ہے پیار پر غصہ حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا الا ايها الليل الطويل انجلى خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس ہے دیں جان و دلم فدائے جمال محمد است ایں چشمہ رواں کہ مخلق خداد ہم ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسماں کیوں ہو 274 سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا اے دل تو نیز خاطر اینا نگاه دار زآہ زمرہ ابدال بایدت ترسید نہ ہوا پر نہ ہوا میرسا انداز نصیب چمن میں ہر طرف بھری پڑی ہے داستان میری 279 اس نور پر فدا ہوں اس کا ہی میں ہوا ہوں 287 اندھے کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی 299 وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں بر خلاف شہریار 309 غموں کا ایک دن اور چار شادی 388 398 431 441 441 447 455 455 480 521 531 532 565 567 633 717 726 726 726 726 748 759 777 جب سونا آگ میں پڑتا ہے تو کندن بن کے نکلتا ہے 314 مولانا سید شاہ محمد صاحب مبلغ انڈونیشیا 295 315 چوہدری شاہ نواز صاحب بانی شیزان انٹر نیشنل 615 صادفتهم قوما كروث ذلة تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمد ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا ایک تیغ تیز 320 قاضی شریح 345 شریعت پیار کرنے کا جو خوباں ہم یہ رکھتے ہیں گناہ 374 شریعت اللہ بناتا ہے انسان نہیں که سنگ و خشت مقید ہیں اور سنگ آزاد 376 شریعت سچائی کا نام ہے 629 449 224
37 شریعت کی عدالت چلانا نبی یا خلیفہ کا کام ہے 474 شعب ابی طالب شرعی عدالت کا حق نبوت یا پھر خلافت کو ہو سکتا ہے 487 486 حضرت شعیب علیہ السلام قرآن انبیاء کے علاوہ کسی شرعی عدالت کو تسلیم نہیں کرتا 620 شکاگو، امریکی شہر کس سلطان کی شریعت کی نمائندگی کا حق ہے؟ پاکستان میں شریعت کا ابھرتا ہوا نیا نقشہ کیا شریعت اسلامیہ غیر مسلم کو قرآنی حکم پر عمل کرنے سے روک سکتی ہے؟ 476 388 احمد یہ مشن کیلئے پلاٹ کی خرید شہد 449 | شہد کی مکھی کی بصارت پر ایک تحقیق اگر جماعت غیر مسلم ہے تو ہماری شریعت کون بنائے گا؟ 449 شہید شہادت شرعی عدالت یا حکومت کا ایک ہی قرآنی تصور عدل و انصاف ہے شرعی عدالت پاکستان شرعی عدالت کی دینی حیثیت شرعی اختلافی مسائل میں کوئی شرعی عدالت قائم نہیں ہو سکتی شہید ہونے والے ہمیشہ جیتا کرتے ہیں 202 243'395 291 161 212 491 ایک احمدی کو شہید کرتے ہیں تو ہزاروں کو احمدی بنا ئیں 778 476 شہادت پانے کی تمنا کرنے والے احمدی 473 490 مکرم عبد الحکیم ابر و صاحب اور چوہدری عبدالحمید صاحب آف محراب پورسندھ کی شہادتوں کا ذکر 481 212 211 محمد ادریس بن محمد اسماعیل کی وفات شہادت کا ایک رنگ ہے 407 اعتقادی امور میں کسی شرعی عدالت کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا 485 شیخوپورہ 503 شیر ببر شرعی عدالت پاکستان کا فیصلہ شریعت کورٹ پاکستان کے فیصلہ پر تبصرہ 4520443 522 551 619 509 حضرت مرزا شریف احمد صاحب شعار اشعائر الله شیر ببر کا خواب میں آنا اور اس کی تعبیر شیعہ مکتبہ فکر شیلے، انگریز شاعر آنحضرت نے صحابہ کو جھنڈے کی حفاظت کی تلقین فرمائی 80 شعائر اللہ کی حفاظت حقیقی جہاد ہے شعائر اللہ کی حفاظت کیلئے مسلمانوں کو اٹھ کھڑے ہونا چاہئے جماعت احمد یہ شعائر اسلام کی حفاظت کیلئے جہاد کیلئے حاضر ہے 81 80 440 470 477 478 487'711'719 حضرت صالح علیہ السلام مبر صبر کی قرآنی تعریف 80 صبر کے معافی شعار کی ذلت قبول کرنے والی قومیں ہلاک ہو جاتی ہیں 80 شعاع الٹراوائیلیٹ شعاعیں 161 صبر کا مضمون اور اس کی تشریح اللہ کی خاطر صبر کا مفہوم ص 406 354 356 395 503 428 205 304 234
38 خدا کی خاطر صبر کرنے والوں کے صبر آسمان تو ڑتا ہے 502 | صحابہ حضرت مسیح موعود 213 | بعض صحابہ نے آپ کے چہرہ کو دیکھ کر قبول کیا صبر کے نتیجہ میں بشارتیں ملیں گی بے صبری مومن کے لئے زہر قاتل ہے اور دعاؤں کو گالی دینے والے شخص سے سختی کرنے والے صحابی کو 406 حضرت مسیح موعود نے روک دیا کاٹ دیتی ہے آنحضرت کی ساری زندگی صبر میں گذری 424 حضرت مسیح موعود کے ایک بزرگ صحابی کے پوتے احمد یوں کا صبر جماعت کے لئے صبر کا دور 305 563 کا حضور کو خط صحافت نیز دیکھئے پر لیس اللہ جماعت کے صبر کا پیمانہ بڑھاتا چلا جاتا ہے 731 729 پاکستان کی صحافت قابل اعتماد نہیں جھوٹ روز مرہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں صبر کا اعلیٰ مقام اور جماعت کو نصیحت پاکستانی احمدیوں کے صبر و استقلال کے نمونے ربوہ میں احمدیوں کے صبر کا نمونہ جماعت احمدیہ کے صبر کے شیریں ثمرات جماعت احمد یہ صبر اور شکر کے مقام پر فائز ہے صبر کی تلقین کرنے والوں کی دواقسام صحابه رسول آپ نے صحابہ کوسونے کی ڈلیاں بنادیا 636 561 505 529 285 773 649 315 کا کام ہے صحت و تندرستی غم سے صحت نہیں گرا کرتی خدا کی راہ میں آنسو بہانے سے اعصابی تناؤ دور ہو جاتے ہیں صدرا مجمن احمد یہ نیز دیکھئے ناظر رنظارت صدرانجمن میں بڑی تیزی سے کام پھیل رہا ہے انجمن کے چندوں کے بارہ میں سال میں ایک خطبہ انجمن کے باقاعدہ چندے بڑھ رہے ہیں 528 105 368 724 456 457 174 180 179 صد را منجمن کا مشوره که نظارت خدمت خلق قائم کی جائے 175 آنحضرت کی دعاؤں کے معجزے جو صحابہ کے ہاتھوں صد سالہ جو بلی سرزد ہوئے 286 صحابی کا سوال کیا زمانہ جاہلیت کی نیکیاں کام آئیں گی؟ 649 وکالت صد سالہ جو بلی کا قیام چندہ صد سالہ جو بلی کی طرف توجہ جنگ احزاب کے موقع پر صحابہ کی فاقہ کشی اور آپ سے صد سالہ جوبلی کے منصوبے مدد کے طلب گار ہوئے 775 276 صف بندی شعب ابی طالب میں صحابہ کی فاقہ کشی اور مشکلات 202 صفیں سیدھی اور درست بنانے کی ہدایت ابتدائی صحابہ رسول پر اہل مکہ کے مظالم نماز میں صفوں سے پھلانگ کر آگے جانا منع ہے جھنڈے کی حفاظت کرتے تین صحابہ سپہ سالار شہید ہوئے 80 صفیں پھلانگنے والوں کو خدام یا انصار منتظمین بغیر صحابی کی آنحضور اور آپ کے ساتھیوں کی دعوت اور کھانے میں برکت 182 بولے روک دیں صفوان بن محرر 176 180 180`655 96 560 50 50 43
391ť 376 277 292 366 119 668 532 39 صفوان بن يعلى صوفی صوفیا ذکر عبادت سے افضل ہے صوفیا کا غلط نظریہ b 557 40 حکومتی وائٹ پیپر پر آپ کا تبصرہ اور شق وار جواب میرے منہ سے آئمۃ الکفر کے لئے دعا نہیں نکلتی پیپلز پارٹی کے ایک وزیر کور بوہ دکھانا حضرت مرزا طاہر احمد خلیفہ مسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی پاکستان کے ایک صاحب اثر دوست کی حالات و واقعات میں ایک مذہبی رہنما ہوں اللہ نے مجھے عزم حوصلہ اور حکمت عطا فرمائی ہے میں کبھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کروں گا حضور سے ملاقات 723 آپ نے سفر میں جمعہ کی بجائے ظہر ادا کی 232 میں صاحب تجر بہ زمیندار ہوں 232 بچپن کی کھیلوں کا تذکرہ تعلق باللہ اردیا ا پیشگوئیاں میں عہد کر چکا تھا کہ میں احمدیت کی خاطر جان دوں گا 768 نئی جماعتوں کا قیام اور دعوت الی اللہ میری زندگی کا مقصد ہے تبلیغ کے لئے میں زندگی کے آخری سانس تک کوشش کرتا رہوں گا لمبے خطبے پاکستانی احباب کے لئے دیتا ہوں ربوہ کے ساتھ محبت کا والہانہ انداز ” میرا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے“ ایک دوست کا آپ کو لکھنا کہ کہیں جماعت انگلستان آپ کومل نہ لے آپ کا جماعت سے پیار اور محبت کا اظہار 464 668 677 532 جب زیادہ تشویش کے دن آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ مسلسل مجھے خوشخبریاں عطا فرماتا ہے آپ کو " السلام علیکم کا الہام ہوا آپ کے دور ویا و کشوف جن میں حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب آئے اور اللہ نے ظفر کے وعدے دیئے آپ کو چار خوشخبریاں اکٹھی دی گئیں Friday The 10th کا کشف اور خوشخبری اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ خلافت کی حفاظت 532 کے لئے پاکستان سے ہجرت کروں 374 ہجرت پاکستان اللہ کے کاموں کا ایک ثبوت آپ کو ہزار ہا خطوط پاکستان کے بارہ میں آتے ہیں 367 میں اسلام کا غلبہ دیکھ رہا ہوں غم نہ کرنے کے بارہ میں بکثرت خطوط کی آمد اور اس کی وضاحت غم سے میری صحت نہیں گرتی آپ سے احباب جماعت کی محبت کے واقعات تحریک جدید کے لاوارث مجاہدین کی طرف سے چندہ دینے کا اعلان آپ کی لندن میں مجالس سوال وجواب 454 456 530 604 خدا کی تقدیر جب تمہیں ٹکڑے ٹکڑے کرے گی تو تمہارے نام ونشان مٹا دیئے جائیں گے یقیناً یقیناً مسیح موعود کے غلام جیتیں گے 775 681 680 777 777 768 769 29 29 733 252 احمدیوں کو عزت و شرف ملنے کی تقدیر کو دنیا بدل نہیں سکتی 361 پاکستان کے مظلوم احمد یوں کے سروں پر عزت و حرمت کا تاج رکھا جائے گا میں سیلاب کی طرح پاکستانیوں کو احمدیت میں داخل 661 ہوتا دیکھ رہا ہوں 471 522
40 تحریکات جماعت کو مخصوص دعاؤں کی تحریک عرب اقوام کے لئے خصوصی دعائیں کریں عوام الناس کے لئے دعا اور ائمہ التکفیر کے لئے آنحضرت کی تعلیم پر ہر احمدی کو عمل کرنا چاہئے 192 امام کامل محمد مصطفی " کو کبھی نہ چھوڑیں اس میں 4 فلاح وابستہ ہے سنت رسول کے مطابق استغفار کرنے کی تلقین 286 عبد شکور بن جائیں 639 754 145 116 بددعا کی تحریک جماعتی ترقی کے لئے آپ کا سات نکاتی پروگرام 260 احمدی کا مرتے دم تک ایک سانس بھی ناشکری کا نہ ہو 425 عبادت میں پہلے سے بڑھ کے زور لگانے کی تحریک 261 کوئی احمدی غیر مسلم کے طور پر نہیں مرے گا اشاعت قرآن کے کام کو تیز کرنے کا منصوبہ 263 اللهم انی ظلمت نفسی کی دعا جماعت التزام مختلف زبانوں میں اشاعت لٹریچر کا منصوبہ 261 کے ساتھ اختیار کرے دعوت الی اللہ اور جماعتی ترقی کے لئے حضور کے منصوبے نئے ممالک میں جماعتوں کے قیام کا منصوبہ امریکہ میں پانچ بڑے مراکز بنانے کا منصوبہ امریکہ میں دس نئے مشن ہاؤسز کے قیام کی خواہش تحریک تعمیر مراکز یورپ اور جماعت کا لبیک 262 263 464 264 291 288 247 146 ہر احمدی کے دل سے عرب قوم کے لئے دعائیں اٹھیں 12 تمام احمدی کو انصار الی اللہ بننے کی دعوت دعاؤں سے میری مددکریں ہراحمدی جلد از جلد مبلغ بن جائے پانچ لاکھ مبلغین کی خواہش 232 232 669 610 دعوت الی اللہ کو پہلے سے بہت تیز کرنے کی تلقین 261 260 یورپ اور امریکہ کے مراکز کی تحریک کا عالمگیر پھیلاؤ 346 جماعت فرانس کے ہر احمدی کو دعوت الی اللہ اپنے انگلستان اور جرمنی میں دو بڑے مراکز سلسلہ بنانے کا منصوبہ افریقہ کے لئے امداد کی تحریک 265 650 781'782 او پر فرض کرنے کی ہدایت فرانس میں مضبود امشن اور جماعت کے قیام کی خواہش 780 نصائح اخواہشات جماعت کو محبت الہی کرنی پڑے گی جماعت فرانس کو تبلیغی مساعی تیز کرنے کی ہدایت 113 تحریک جدید کے پچاس سال پورے ہونے پر ہر احمدی دعا گو اور ولی اللہ بننے کی کوشش کرے 103 چندہ لاکھوں سے کروڑوں میں پہنچنے کی خواہش 779 600 جماعت کو عبادت میں آگے بڑھنے کی نصیحت 260 جماعت امریکہ قربانی نہ کرنے والوں کی اصلاح کرے 340 اپنے رب کا دامن پکڑے رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کائنات تبدیل کر دے گا احمدی کبھی کلمہ سے جدا نہیں ہو گا احمد یوں کو اپنے اعمال درست کرنے کی تلقین 406 احمدی گھروں میں خاندانی جھگڑوں کی برائی ختم کریں 720 عفو اورستاری اختیار کریں پاکستان کے احمدی کلمہ کے لئے قید ہو جائیں تو باہر کے احمدیوں کو صبر کا اعلیٰ مقام پیدا کرنا چاہئے احمدی کلمہ پڑھتے وہاں جائیں گے محمد کا ہاتھ کسی صورت میں تم نے نہیں چھوڑ نا خواہ سر قلم ہو جائیں 596 صبر سے کام لیں اور ہم وطنوں کے لئے دعا کریں غیبت کی عادت چھوڑنے کی نصیحت 691 29 47 561 636 53 596 جماعت عالمی سطح پر غیبت اور بدظنی کے خلاف مہم چلائے 63
جماعت احمد یہ علم کا جھنڈا بلند کرے صفت علیم اور صفت حلیم کو اختیار کریں 156 152 41 ظ احمدی قومی امانت میں کبھی خیانت نہ کریں 221 مولوی ظفر علی خان جماعت احمدیہ میں منافقت کی کوئی خصلت نہیں ہونی چاہئے جماعت جھوٹ کے خلاف جہاد کرے مسجد پر حضرت مسیح موعود کا شعرلکھوایا 222 ظلم اظالم 497 جماعت احمد یہ عہدوں کی پاسداری کرے 226 | ظن جماعت احمدیہ نے ہرگز گالی نہیں دینی خدا کی نظر میں آپ کی قیمت ہے اور آپ دنیا کی قیمتیں ڈالنے والے بنیں گے جماعت نصیحت کا حق ادا کرے پاکستان کے احمدی غیروں میں نیکی پھیلائیں اور ان کے دکھ دور کریں 225 | فساد سے نہ روکنے والے بھی ظلم میں شامل ہیں 228 اللہ پر ہمیشہ حسن ظن رکھیں حسن ظن کے نتیجہ میں معافی 332 بدظنی کی بیماری 222 چوہدری ظہور احمد باجوہ صاحب ع 590 عالم / علماء / مولوی پاکستان کی جماعتیں سوسائٹی میں اصلاح کی کوشش کریں 591 آسمان کے نیچے بدترین مخلوق ہونے کے بارہ میں پاکستان کی اکثریت میں شرافت ہے ان کے لئے ہرگز بد دعا نہیں کرنی 520 آنحضور کی پیشگوئی ملائیت کی حقیقت اہالیان ربوہ کا دکھ اور ان کی ذمہ داریاں 692694 | مولوی کے بارہ میں جسٹس کیانی کا دلچسپ تجزیہ اہل پاکستان اور اہل ربوہ کو دیانت کا میعار بڑھانے کی طرف توجہ منیر انکوائری رپورٹ میں علماء کو بکا و مال کہا گیا جو 692 پاکستان کے دشمن تھے جماعت افریقہ کو ان کے پاؤں پر کھڑا کرے گی 652 علماء کا دعویٰ کہ مرتد کی سزا قتل ہے ہر احمدی قرطاس ابیض کی تقسیم میں حصہ لے 391 علماء نے بادشاہوں کو خوش کرنے کے لئے شرعی اہل پاکستان سے کلمہ توحید کی حفاظت کے لئے اپیل محترمہ طاہرہ صدیقہ ناصر صاحبہ حرم حضرت خلیفة اصبح الثالث طائف طیب احلال طیبات کا فلسفہ 719 عدالت کے حقوق دیئے دیوبندی علما ء شیر مادر کی طرح جھوٹ بولتے ہیں 574 139 139 51 391 423 622 629 629 716 393 475 716 345 گاؤں کے مولویوں کو لوگ ادنی چیزیں خیرات کرتے ہیں 543 625 علماء کا دعوی کہ حکومت پاکستان اور سعودی حکومت 537 ہمارے ساتھ ہے ہندو نمبر دار کا مولوی کو گالی گلوچ میں مقابلہ کا چیلنج احراری علماء نے قائد اعظم کو کا فراعظم اور پاکستان کو 715 631
211 214 639 42 پلیدستان کہا 624 شہادت کا ذکر حصول پاکستان کے وقت علماء قائد اعظم اور پاکستان نما ز جنازہ اور خاندان کے لئے دعا کی تحریک کو گالیاں دیتے کانگرسی علماء نے پاکستان کو پلیدستان اور قائد اعظم کو کا فراعظم کہا 712 735 عبد الخالق لدھیانوی صاحب قریشی عبدالرحمان صاحب شہید سکھر خواجہ عبدالرحمان صاحب آف سیالکوٹ پاکستانی علماء اس کو پلیدستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں 624 آپ کی شہادت کا ذکر علماء پاکستان کی طرف سے جماعت کے خلاف شورش غیر احمدی علماء سے ہمارے اختلاف کی حقیقت غیر احمدی علماء لاؤڈ سپیکر پر جماعت احمدیہ کو گالیاں دیتے ہیں جماعت اسلامی کے ایک مولوی کی پھول پورہ سندھ میں جماعت کے خلاف گالی گلوچ علماء چنیوٹ کا کلمہ مٹانے کی تحریک چلانے کا جواز 257 258 393 437 630 745 771 حضرت مولانا عبدالرحیم در دصاحب عبدالرحیم مد ہوش آف کراچی ڈاکٹر عبدالسلام صاحب اٹالین ترجمہ قرآن کے اخراجات کی ذمہ داری ڈاکٹر عبدالقادر شہید آف فیصل آباد حضرت سید عبداللطیف شہید کابل 237 490 361 407 615 263 332 506 265 88 508 731 125 142 40 40 440 361 465 715 56 56 ربوہ کی مساجد میں جماعت کے خلاف گندہ دینی علماء پاکستان اور حکومت کی جماعت کے خلاف مشتر کہ جد و جہد عائشہ بشیر الدین عائلی زندگی عائلی زندگی جنت نظیر بنانے کے اصول میاں بیوی کے جھگڑے خاندانوں کے جھگڑے عبادت، دیکھئے نماز حضرت عباس 770 640 2 عبداللطیف ایڈووکیٹ حضرت عبد الله پادری عبد اللہ آتھم عبداللہ بن ابی بن سلول 20 حضرت عبد اللہ بن عمرؓ 22 26 حضرت عبداللہ بن مسعود عبدالمطلب 141 | عبدالوحید صاحب آف لندن چوہدری عبدالاحد فضل عمر بسر جانسٹی ٹیوٹ والے 33 عبدالوہاب احمد شاہد صاحب مربی سلہ عبد العلیم ابر و صاحب شہید لاڑکانہ عبدالحکیم المل صاحب، مربی ہالینڈ چوہدری عبد الحمید صاحب شہید آف محراب پور 211 740 مولانا عبدالوہاب سعودی عرب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ
عجز و انکسار 43 وہ دنیا کو علم ہے دنیا کے انقلاب اللہ کی طرف سے منکسر بندوں کو عطا ہوتے ہیں عدالت اعدل وانصاف 100 1953 ء کی تحقیقاتی عدالت میں جسٹس محمد منیر کا مولانا مودودی سے سوال ربوہ کے احمدی اسیران کا مقدمہ سول سے مارشل لاء قرآن کریم ہر عدالت کو طریق کار کالائحہ عمل دیتی ہے 474 عدالت میں منتقل قرآن نے عدالت کے لئے عدل وانصاف کا ہائی کورٹ پنجاب نے احمدی اسیران کی ضمانت حکومت تصور دیا ہے 491 کے حکم پر مستر د کر دی عدل کے ساتھ تقویٰ کی شرط لگائی گئی ہے 479 عذاب 451 404 392 423 دنیاوی امور کے لئے یہود بھی آنحضور کی عدالت میں فیصلے کرواتے 628 آنحضرت کی تعلیم سے روگردانی اور فساد سے سوسائٹی میں عذاب آتا ہے مسیح موعود کی عدالت عدل و انصاف پر مبنی فیصلے کرے گی 621 قومی عذابوں میں نیک و بد کی تمیز نہیں رہتی پاکستان میں عذاب الہی کے نزول کی کیفیت دنیاوی فیصلوں کے لئے غیر مسلم کی عدالت میں بھی جانا پڑتا ہے شرعی عدالت کی دینی حیثیت شرعی اختلافی مسائل کے لئے شرعی عدالت 628 پیدا ہوگئی ہے 473 عرب قوم | عرب ممالک 481 آنحضرت کے وقت عرب کی حالت عرب قوم میں علم اور حلم مفقود تھا 593 594 593'594 9'12'442 586'587 151 قائم نہیں ہو سکتی مختلف اسلامی فرقوں کی عدالتیں الگ الگ شرعی فیصلے کریں گی شرعی عدالت کا فیصلہ وفاقی شرعی عدالت پاکستان کا احمدیوں کے کیس پر 478 503 آنحضور کو کفار کی طرف سے حکومت اور دولت کی پیشکش 397 عرب قوم سے محبت کے لئے آنحضور کے فرمودات عرب قوم کی اسلام کے لئے قربانیاں عربوں کی شان بیان فرمودہ حضرت مسیح موعود 5 4 11 عرب قوم سے محبت کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کی تحریرات 7 فیصلہ اور اس پر تبصرہ 522619-443511-452 بعض عربوں کی صدق وصفا کے ساتھ حضرت مسیح موعود کی جماعت کی اپیل سپریم کورٹ میں نہیں بلکہ خدا کی عدالت میں ہوگی 447 بیعت کرنا عرب قوم کی خصوصیت 7 4 آنحضور کی وفات کے بعد عربوں میں فتنے و بغاوت 713 جماعت احمدیہ بحیثیت جماعت شرعی عدالت و غیره میں نہیں جا سکتی 444 | عربوں کے لئے خصوصی دعاؤں کی تحریک دینے میں حکمت وفاقی شرعی عدالت میں کیس دائر کرنے کی اجازت وفاقی شرعی عدالت کی کارروائی کو خفیہ رکھا گیا 445 عربی زبان بولنے والوں کی بیعتیں پاکستانی عدالتوں میں جتنا جھوٹ بولا جاتا ہے عربوں سے محبت اور ان کے لئے دعا کریں 444 عرب ممالک مظالم کا نشانہ ہیں 4 64 3 461 اہل عرب کو تبلیغ کرنے کے لئے پتہ جات کی ضرورت 614
479 478 237 690 691 31 480 28 225 44 عرب شاعر کا ایک شعر 633 حضرت معاویہ کے ساتھ اختلافات اور حکم کا فیصلہ مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی یہودی مذموم سازش 80 آغا خانی فرقہ کے نظریات میں حضرت علی کو خدا کا عربی زبان درجہ حاصل ہے عربی میں الف تکمیل عدد کا مظہر ہے 324 چوہدری علی قاسم انور صاحب نائب امیر عربی زبان میں صفت مبالغہ کا مفہوم 89 جماعت بنگلہ دیش 255 عمل صالح عربی زبان میں نکرہ کا استعمال عظمت شان کے لئے عربی زبان میں نفی کے محاورہ میں بہت زیادہ اثبات کا مضمون عربی میں نفی کے محاورہ کا اثبات کے لئے استعمال ہر دعا کے ساتھ عمل صالح ضروری ہے 339 ہر نیک خیال کے ساتھ ایک نیک عمل وابستہ ہے 546 حضرت عمر ، رضی اللہ عنہ آپ آنحضرت کی دعا سے مسلمان ہوئے 328 150 عربی زبان میں لیلۃ سے مراد لمبا تاریک دور عربی میں قَام اور اسْتَقَامَ کے معنی حضرت عمر بن العاص عربی میں کتب اور نون ثقیلہ کا استعمال زور کے لئے 350 243 حضرت عمرو بن شعیب عہد کی پاسداری / عہد نامہ 26 آنحضرت نے دشمن سے بھی کبھی عہد نہیں تو ڑا عربی میں باب استفعال کے معنی عزت عزت کی قربانی پیش کرنا حضرت مرزا عزیز احمد صاحب 333 19332 عہد کی پاسداری سے دہر یہ قوموں نے بھی فائدہ اٹھایا 225 225 226 481 عفو و درگزر معاہدہ توڑنا منافق کی علامت عفو کا مطلب 50 بد عہدی عملی جھوٹ کی ایک قسم ہے عفو درگذر کے معافی اور دینی تعلیمات 15 تا 32 حضرت علی اور حضرت معاویہ کے درمیان فیصلہ کرنے 367 368 370 124 151 230 560 عفو کے نتیجہ میں ستاری پیدا ہوتی ہے عضو کے فقدان سے نظن اور تجسس کی برائی پیدا ہوتی ہے احمدیوں کے آپس کے عفو و درگذر کے واقعات 51 کے لئے عہد نامہ 51 588 احمدیوں کے ایک دوسرے کو معاف کرنے کی کیفیت 678 عقل و دانش انسانی عقل مشین کی مانند ہے جس کو جذبات توانائی دیتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ کو قرآن کی گہری فراست تھی 686 488 628 482 عید ربوہ میں 1984 کی عید الفطر کے جذباتی نظارے اور جذبات پر مبنی خطوط اسیران راه مولی ربوہ کی حوالات میں عید کا حال حضرت عیسی علیہ السلام حواریوں سے اللہ کے نام پر مدد مانگنے کا فیصلہ دشمن کے لئے سخت الفاظ استعمال کرنے میں حکمت
45 عیسائیت انصرانیت 217 255 256 430 560 758`762'737 468 عیسائی پادریوں کی تبلیغ میں قربانیاں اشترا کی فلسفہ سے بیزاری سے یورپ میں عیسائیت پنپ رہی ہے اسلام کے خلاف عیسائی دنیا کی تیار کردہ سازشیں بائبل کی بگڑی ہوئی تعلیم کی ایک مثال انفرادی تبلیغ کا نتیجہ عیسائیوں میں قبول اسلام 462 کفار کا مومنوں سے غصہ کھانے کا فلسفہ کفار کے غصہ پر مومنوں کا ردعمل 365 366 حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام بعثت، دعوی 504 آپ نے امتی نبی اور امام مہدی ہونے کا دعویٰ کیا 733 734 197 102 750 513 112 498 11 105 498 560 515 مجھے جو کچھ علاوہ آنحضور کی غلامی میں ملا 261 آپ کی بعثت کا مقصد پاکستان میں عیسائی پادریوں کے مبارکباد کے خطوط اخباروں پہلے انبیاء سے آپ کی مشابہت میں چھپے کہ آپ نے ہمیں احمدیوں سے نجات دلوائی 273 آنحضور کے عاشق صادق اور امام مہدی آپ کے بیان فرمودہ عقائد جماعت احمد یہ غ سیرت طیبہ غار حرا آپ کی محبت الہی غارحرا کی عبادتوں نے سورج طلوع کیا 328 غالب، مرزا اسد اللہ خان کے اشعار ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد محبت الہی کے بارہ میں آپ کی تحریر کو چہ محمد ، عرب ملک جانے کی تمنا اور تڑپ آپ کا عشق رسول کا واقعہ دریائے معاصی تنگ آبی سے ہوا خشک قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں 127 127 447 آنحضرت کے مقام کے بارہ میں آپ کی تحریر آنحضور کے خلاف زبان درازی کرنے والوں کے لئے سخت کلمات کا استعمال پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق 480 لیکھرام کی آنحضور کے بارہ میں بد زبانی برداشت نہ ہوئی 561 وہ آئیں مرگ شادی ہے نہ آئیں مرگ نا کامی 531 آپ نے ہمیں عشق رسول سکھایا کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں غانار گھانا تبلیغ کی مساعی کا ذکر نہ 677 | عشق رسول پر مبنی آپ کی تحریرات اور اشعار 655 605 33:79 آپ کی تحریرات بابت عشق رسول کا پلڑ اتمام تحریروں چندوں میں اضافہ اور اخلاص میں ترقی غانا میں تعمیراتی کام کے لئے ایک واقف زندگی او در سئیر کا تذکرہ دعا کے نتیجہ میں وسیع بارش ہوئی غصہ آنا 466 کے مقابل پر بھاری ہوگا 465 عرب قوم سے محبت کے بارہ میں آپ کی تحریرات 725 726 727 7 آپ کے مخالفین بھی آپ کے عشق رسول کے قائل ہیں 497 177 آپ کے عاشق رسول ہونے پر سرفضل حسین کی گواہی 725 63 آپ کی خدمت اسلام پر مولوی محمد حسین بٹالوی کی گواہی 724 آپ کی دعاؤں کا نہ ختم ہونے والاخزانہ آپ مجسم حلم تھے 286 170
آپ کے علم کا واقعہ 170 46 آپ کی تفسیر آپ کے تحمل اور بردباری کا ایک واقعہ آپ کا حلم اور وسعت حوصلہ کا واقعہ 227 آپ کی فصاحت و بلاغت 105 | اللہ تعالیٰ کی صفت قوی کی تفسیر آپ کا وسعت حوصلہ ایک مخالف کی مسلسل گالیاں سنتے آپ نے دعا کے موضوع کو تفصیل سے بیان کیا رہے اور کچھ نہ کہا آپ کا صبر گریہ وزاری میں ٹوٹتا تھا آتھم کو تو بہ کی تو فیق پانے کی دعا کرنا تعلیمات دشمن کے لئے بھی دعا کی جائے تو سینہ صاف ہوگا آپ نے پنجابی محاورہ ”مرے سومنگن جا“ کا استعمال کر کے دعا کا طریق بتایا کچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلل اختیار کرو آپ کے بیان کردہ علم کے پہلو پردہ پوشی اورستاری کے بارہ میں فرمودات غیبت کے خلاف آپ کے ارشادات آپ نے عربوں سے بہت محبت کی اور محبت کی تعلیم دی ابتلا کے موضوع پر آپ کی تحریر 561 آپ کا بیان فرمودہ تو بہ کا فلسفہ 105 استغفار کے بارہ میں آپ کی تفسیر 508 سورۃ النصر کی تفسیر 30 250 آپ کے شعر میں آیت قرآنی کی تفسیر آپ کے اشعار ( بلحاظ تر تیب صفحات ) حمامتنا تطير بريش شوق.......154 دیکھ سکتا ہی نہیں میں ضعف دین مصطفی 168 45 59 60 6 469 شور کیسا ہے تیرے کوچے میں لے جلدی خبر در دو عالم مرا عزیز توئی اے محبت عجب آثار نمایاں کر دی عدو جب بڑھ گیا شور وفغاں میں 359 359 102 92 128*125*36 اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں الہامات / پیشگوئیاں لوائے ما پنہ ہر سعید خواهد بود يدعون لك ابدال الشام..مینوں کوئی نہیں کہہ سکدا.....انی مهین من اراد اهانتک ينصرك رجال نوحى اليهم.مختلف ممالک کے بادشاہوں کے قبول احمدیت کے بارہ میں آپ کا خواب 9 اے دل تو نیز خاطر اینا نگاه دار 99 زآہ زمرہ ابدال بایدت ترسید 305`627 صادفتهم قوما كروث ذلة 525 تیرے منہ کی ہی قسم ہے میرے پیارے احمد 129 206 12 112 112'455 113 117 148'206 248 266 279 287 315 320 ہیں تیری پیاری نگاہیں دلبرا ایک تیغ تیز 642653 345 9 اے خدا اے چارہ ساز درد ہم کو خود بچا آپ کے الہامات میں اچانک نا گہانی پکڑ کا ذکر 632 تیرے بناے میری جاں یہ زندگی کیا خاک ہے 197 کیا میرے دلدار تو آئے گا مر جانے کے بعد سلسلہ احمدیہ کی ترقی کے لئے پیشگوئی اہل مکہ کے فوج در فوج حزب اللہ میں داخل ہونے کی خوشخبری 8 عشق اول سرکش و خونی بود ایک غلام علیم کی پیشگوئی عطا ہوئی اللہ نے آپ کو خبر دی کہ تیرے مخالفین کاٹے جائیں گے 752 جان و دلم فدائے جمال محمد است دنیا میں مصائب و شدائد آنے کی پیشگوئی 146 ایں چشمہ رواں کہ خلق خداد ہم 156 خوب کھل جائے گا لوگوں پر کہ دیں کس ہے دیں 441 441 455 469 717 726 726
47 سب ہم نے اس سے پایا شاہد ہے تو خدایا 726 غم کی دو اقسام 456 اس نور پر فدا ہوں اسکا ہی میں ہوا ہوں 726 غم کے بغیر دعا ممکن نہیں وہ ارادے ہیں کہ جو ہیں بر خلاف شہریار 759 دین اور بھائیوں کا غم کرنا ضروری ہے غموں کا ایک دن اور چار شادی مخالفت 777 حضرت مسیح موعود کے اشعار میں غم اور درد کے مناظر ملتے ہیں حکومت پاکستان کے قرطاس ابیض میں آپ پر ذلیل غم نہ کرنے کے بارہ میں حضور کو خطوط کی آمد 376 آج غم جماعت احمدیہ کے لئے ایک دولت ہے اور گندے الزامات لگائے گئے پاکستان میں اسلام میں داخل ہونے کے لئے آپ کی غم کے نتیجہ میں صحت نہیں گرا کرتی 384 غیبت / چغل خوری تکذیب ضروری قرار دی گئی آپ پر لگائے جانے والے بعض الزامات کا ذکر 498 497 غیبت کی تعریف اور اس کی تفصیل غیبت سے چغل خوری پیدا ہوتی ہے 514 غیبت کے بارہ میں بیان کردہ دینی فلسفہ پاکستانی قانون میں آپ کو نبی سمجھنے کی اجازت دی لیکن تمام حقوق نبوت چھین لئے شرعی عدالت میں آپ کے خلاف سخت گندہ دینی کی گئی 623 غیبت کے بارہ میں آنحضور کے اندار بھرے آپ کی شان میں گستاخی پر احمدیوں کے دل دکھتے ہیں 664 ارشادات ربوہ کی مساجد میں علماء کی آپ کے خلاف شدید گندہ پنی 771 غیبت سے بچنے کے بارہ میں حضرت مسیح موعود متفرق آپ کی دعائیں آج بھی جماعت کے کام آ رہی ہیں آپ کا علم کلام ذہنوں کو روشن کر دیتا ہے کے ارشادات اللہ کی صفت عفو اور ستاری کو دھتکارنے کے نتیجہ میں یہ 287 286 بیماری پیدا ہوتی ہے 178 غیبت زنا سے بھی بڑا گناہ ہے جماعت کی ترقی اور دشمن کی ناکامی پر مبنی آپ کی تحریرات 705 غیبت کے ہولناک نتائج قوموں کی ہلاکتوں کا سبب آپ کی پیاری جماعت سے پیار نہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں یہ بیماری عورتوں میں زیادہ ہے 374 غیبت ایک عالمی بیماری بن چکی ہے آپ سے محبت کا تقاضا ہے کہ آپ کی مبشر اولا د کے لئے غیبت کا کفارہ دعا کی جائے 455 454 455 454 455 456 51`53 52 این لا 70 53 54 59 60 53 58 62 62 52 58 581 غیبت اور بدظنی کے خلاف جماعت عالمی سطح پر مہم چلائے 63 خاندان حضرت مسیح موعود کے بچوں کا اخلاص اور قربانی کی تڑپ 288 فارس ف آپ کے ایک بزرگ صحابی کے پوتے کا حضور کو خط 368 فاقہ کشی حضرت مولانا غلام حسن پشاوری غم کرنا 307 اہل مکہ پر فاقہ کے وقت آنحضرت نے کفار کے قافلوں پر حملہ کرنے سے منع کر دیا 9 645
779 463 725 48 افریقہ کے ممالک میں فاقہ کی آفات فان ش ، ایک سائنسدان فتنہ وفساد 644 161 بیعتوں کے رجحان میں اضافہ فضل الہی انوری صاحب فضل حسین جبر کے ذریعہ مذہب تبدیل کرنے کو قرآن نے فتنہ قرار دیا 749 فضل عمر ہسپتال اصلاح کے نام پر فساد کی تعلیم فرانس ایک مضبوط جماعتی مرکز کے قیام کا اعلان 191 650 عملہ کی ضرورت فقه افقیہ 780 فقہی مسائل فرانس میں ایک عظیم الشان جماعت قائم ہو تو مجھے حقیقی دینی احکامات میں رخصت و رعایت کا نظام خوشی پہنچے گی 780 نماز میں دعا کرنے کا مسلہ 175 475 479 485 مرکزی مبلغ بھی جلد بھجوایا جائے گا اور لٹریچر بھی تیار ہے 781 حضرت مسیح موعود نے ایک بار جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہر احمدی فرض کر لے کہ میں نے یہاں احمدیت کا پودا لا زمی لگانا ہے فرانسیسی زبان فرانسیسی ترجمہ قرآن کی تیاری پڑھ کر سنت پر عمل کیا 781 779 حضرت خلیفہ المسیح الرابع" کا ایک بارسفر میں جمعہ کی کا 263 615 بجائے ظہر کی نماز ادا کرنا 119 146 119 119 119 50 96 267 184 407 597 661 639 307 213 179 نماز جمعہ کی جگہ نماز ظہر کا مسئلہ صفوں کو پھلانگ کر گزرنا منع ہے نماز میں صفیں سیدھی رکھنا دینی مصروفیات کی وجہ سے نماز جمع کرنا مجلس شوری کی وجہ سے نمازوں کا جمع کرنا جماعتی پروگرام کی وجہ سے نماز جمع کرنا خرابی موسم کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا سردی کے موسم میں کمی وقت کی وجہ سے نماز ظہر و عصر جمع کرنا نماز جمعہ کے ساتھ عصر کا مسئلہ بوجہ تبدیلی موسم حضرت ماسٹر فقیر اللہ صاحب فلسفه زندہ رہنے والا فلسفہ حیات دعوی کی قبولیت کے لئے فلسفہ کا مضبوط ہونا بھی ضروری ہے فریچ ترجمہ قرآن اور دیگر لٹریچر کی تیاری فرشتے ملائکہ بخشش اور عذاب کے فرشتے جماعت میں نزول ملائکہ کے واقعات اللہ کے فرشتے احمدیوں کے دلوں کو باندھ کر محبت پیدا کرتے ہیں پاکستان میں فرشتے جماعت کی مدد کو آئے فرعون 781 91 525 589 730 244 245 246 700 702 738 فرینکفرٹ ، جرمنی کا شہر فری ٹاؤن ، سیرالیون فتویٰ / فتاوی، نیز دیکھئے فقہی مسائل قاضی شریح کا امام حسین کے بارہ میں فتویٰ جی ، آئی لینڈ 343'371 465 629 466 608
500 405 394 405t394 477'650 246 337`343 379 420 645 49 الہی قوموں کی ترقی کا فلسفہ فلسطین فن لینڈ فیصل آباد الاسکپور 666 | قبرستان 70 177 608 پاکستان سے احمدی مُردوں کو قبرستان سے نکلوایا گیا تحتل مرتد قتل مرتد کا دعویٰ اور اس کے نتائج 1974 میں ایک احمدی خاندان کی قربانی اور افضال 372 مخالفین کی طرف سے قتل مرتد کا مطالبہ ڈاکٹر عبدالقادر صاحب آف فیصل آباد کی شہادت 332 قذافی لیبیا کا صدر ایک رکشہ ڈرائیور کا ہمدردی میں احمدی سے کرایہ نہ لینے پر اصرار ق قادیان قادیان کی لجنات کی مالی قربانی کا ذکر 284 قرآن کریم ، نیز دیکھئے آیات قرآنی اہمیت اور عظمت کامل کتاب جو کہ قربانی نہ کر سکنے والے مخلصین کا بے نظیر اور کامل کتاب 261508528617 بھی محبت سے ذکر کرتی ہے 434 | ایک کامل کتاب قادیان کو تباہ کرنے کے مجلس احرار کے دعوے 293 قرآن ایک قومی کتاب ہے قانون / قوانین نیز دیکھئے آرڈینینس عظمت اور فصاحت و بلاغت پاکستان میں عبادت سے روکنے کا قانون صرف احمدیوں کے لئے ہے 256 کا نقشہ کھینچا قرآن کریم نے فصاحت و بلاغت سے معاشرتی برائیوں آنحضرت کی غلامی سے کوئی قانون نہیں روک سکتا 413 ایک کامل کتاب جو کوئی احتمال نہیں چھوڑتی حکومت پاکستان نے 73 ء کا آئین معطل کر دیا لیکن 74ء کی ترمیم جاری کردی قرآن دعوی کے ساتھ دلیل بیان کرتا ہے 72 421 365 378 قرآن محض جیت کے دعوے نہیں کرتا لائحہ عمل بھی رہتا ہے 573 جماعت کے خلاف آرڈینینس ایک شخص کا فیصلہ ہے 379 مطہر اور یقینی کلام 754 414 363 حکومت پاکستان کی طرف سے جماعت کے خلاف کھلی کھلی اور بین کتاب ( زبان بندی) کا قانون 377 قرآن کا ایک نام الفرقان ہے یعنی بینات سے بھری پاکستان میں ایسے قانون بنائے گئے کہ خلیفہ وقت کتاب خلافت کا کام سرانجام نہ دے سکے 765 ایسا کلام کہ پڑھتے پڑھتے انسان عاشق ہو جاتا ہے 592 جماعت کے خلاف بننے والے قوانین کے بعد تقدیر الہی تربیت کے لیئے عجیب کتاب کہ فطرت کا کوئی باریک کے تحت تمام پاکستانیوں کے خلاف بھی قانون سازی ہوئی 772 پاکستان میں احمدیوں کو نیکیوں سے روکنے اور برائیاں کرنے کا قانون بنا نا پڑے گا 416 پہلو بھی نہیں چھوڑتی عظیم الشان روحانی سائنس کا کلام قرآن حقیقت پر مبنی کتاب ہے محض دعاوی کرنے والی نہیں 317 688 302
687 263 615 781 317 249 180 376 50 جس نے قرآن پر ہاتھ ڈالا وہ ہاتھ کاٹا جائے گا 425 قرآن ہر جگہ جذبات سے کام لیتا اور تونائی کو مضامین / تعلیمات حیرت انگیز تعلیمات پر مبنی کتاب توازن بخشتا ہے 21 اشاعت قرآن عظیم الشان تعلیم ، جب اس کو چھوڑیں گے تو کجیاں اشاعت قرآن کے کام کو تیز کرنے کا منصوبہ پیدا ہوں گی شریعت قرآن ساری کائنات کے لئے رحمت ہے اس میں تمام قسم کی نصیحتیں موجود ہیں 418 479 756 مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کی تیاری کا ذکر فریچ ترجمہ قرآن تیار ہے قربانی قربانی کا فلسفہ قرآن کی ہر آیت سے مضامین کے چشمے پھوٹتے ہیں 122 قرآن کی ہر آیت اپنے ساتھ دلیل رکھتی ہے احمدیت کے لئے قربانی کی ضرورت پیش آئی تو ضرور قرآن کریم میں آیت اور آیات کے لفظ سے معانی کا فرق 554 309 749 دی جائے گی جبر کے ذریعے دین کو بدلنے کو قرآن نے فتنہ قرار دیا 474 جماعت کی مالی قربانی کا ذکر عظیم کتاب جو ہر عدالت کو ایک لائحہ عمل دیتی ہے قرآن نے شرعی عدالت یا حکومت کے لئے عدل وانصاف قرطاس ابیض کا تصور پیش کیا ہے قرآن کی بیان کردہ تاریخ غیر مبدل ہے 491 حکومت پاکستان کی طرف سے جماعت کے خلاف شائع 191 ہونے والا قرطاس ابیض کیا غیر مسلم کو قرآن کریم کو سچا سمجھنے کا حق حاصل ہے اسلوب بیان 448 وائٹ پیپر جھوٹ کا پلندہ ہے 376 حکومت پاکستان کے وائٹ پیپر میں شائع اعتراضات 497 قرآنی اسلوب کہ آنحضور کو مخاطب کر کے امت کو نصیحت حکومتی وائٹ پیپر پر تبصرہ اور شق وار جوابات 376 تا 391 25 | قرض حسنہ کرتا ہے لف ونشر مرتب و غیر مرتب کا قرآنی اسلوب 539 اللہ کو قرض حسنہ دینے کا مطلب جمع کی طرف واحد کا صیغہ جانے کا قرآنی اسلوب 690 | قوت بات کو یقینی بنانے کے لئے ماضی کے صیغے کا استعمال 430 قوت کا لفظ چار حالتوں پر بولا جاتا ہے 742 قوم / اقوام یمین اور شمال کا قرآنی محاورہ لباس الجوع کا قرآنی محاورہ 202 164 352 754 723 776 قوموں سے ان کے آئمہ والا سلوک حشر کے دن ہوگا قوموں کے سربراہ جب ذہنی توازن کھو جاتے ہیں تو قوموں پر مصائب آتے ہیں فتوحات قیصر و کسری کی خوشخبری 649 پیشگوئیاں آئندہ زمانہ کی پیشگوئیاں ایٹم بم اور دوسرے ہولناک آلات کی ایجاد کی پیشگوئی 62 قیصر و کسری سورۃ الھمزہ میں ایٹم بم کی پیشگوئی غیبت ،فحشا، بے حیائی پیدا ہونے کی پیشگوئی يوم التناد کے آنے کی قرآنی پیشگوئی 66 68 738
248'455 624 624 51 حقیقۃ الوحی ہفت روزہ چٹان لاہور خطبات احرار 498 در شین (اردو، عربی ، فارسی ) 117 128 148 206 267 279 287'315 320 653 717'746'777 163 کالج گورنمنٹ کالج لاہور کائنات کائنات کی پیدائش اور انسانی شعور کتابیات آئینہ کمالات اسلام ابن ماجه سفن دیوان غالب ناشرخزینہ علم و ادب اردو بازار لاہور ابی داؤد سنن اسلامی اصول کی فلاسفی ایام الصلح بائیل البخاری، صحیح الجامع 9'315'320 43'88 138 54 126 روح پر دریا دیں سبز اشتہار 512 74 515 516 517`665 59 سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کے جواب سرمه چشم آریہ 112 345'455 السيرة الحلبيه 276285396452527776 127 447 481`531`568 677 509 469 470 136 براہین احمدیہ بركات الدعا 44 55 110 144 168 183 220 241` 285 380 381 573 650 731 732 95 112 129 441 759 286 السیرت النبویہ ابن ہشام شعب الایمان بھتی فتح اسلام فصل الخطاب قادیان کے آریہ اور ہم القول الفصل 398 141 706 508 726 497 508 تاریخ احرار تجليات البسيه تحفہ گولڑویہ تذکرہ، مجموعہ الہامات حضرت مسیح موعود 624 كتاب النجلاء 498708734 197 | کلام محمود 706 635 | کنز العمال کشتی نوح 317 266 314 4'5'56'294 9 99 305 627 632 524 الترغيب والترهيب الترمذى الجامع 54 87 89'138 6 37 43 56 87 126 139 142 155 775 لجة النور لیکچر لاہور مسند احمد بن حنبل المسلم ، صحیح 498 8 96 40 55 57 140 145 151 331 51 55 87 88 89 90 92' 153'250'435 780 196 164 7'11'12 تریاق القلوب تفسیر صغیر از حضرت مصلح موعود حمامة البشرى
52 52 مشكوة المصابيح ملفوظات حضرت مسیح موعود نسخہ ہائے وفا نسائی سنن 57'58 کلمہ سے محبت ہر مسلمان کو ہے 745 احمدی اپنے ہاتھ سے کبھی کلمہ توحید نہیں مٹائے گا 659 235 303145465860929395146169 دنیا کی کوئی طاقت احمدیوں کو کلمہ پڑھنے اور لکھنے سے نور الحق حصہ دوم نیوز و یک الواردو الفتن ، السنن 376 نہیں روک سکتی 40 احمدیوں کے دلوں پر کلمہ طیبہ لکھا چلا جائے گا پاکستان میں کلمہ مٹانے کی تحریک 8 377 کلمہ مٹانا اسلام کی تاریخ کا دردناک دور کلمہ مٹانے کا قدم تاریخ مذہب کا پہلا واقعہ کہ اتفاق کی 595 660 744 703 کراچی 622 405 432 524 608`639`674 کراچی کے بعض احمدی احباب کی ہندو علاقے میں وقف عارضی کا ذکر خیر جماعت کراچی کے صد سالہ جو بلی کا چندہ اور وصولی کے اعداد و شمار تین احمدی بوڑھوں پر جھوٹا مقدمہ کراچی میں احمدیوں کو نماز سے روکا گیا لجنہ کراچی کی متاثرین بارش کیلئے امداد 3 182 بنیاد پر جبر روارکھا گیا کلمہ مٹانا مشرکین اور کفار کی سنت ہے 748 747 کلمہ مٹانا آنحضرت کے دشمنوں کا کردار ہے 703747 حکومت پاکستان کا کلمہ طیبہ پر ہاتھ ڈالنے کا مکروہ فیصلہ 702 احمدی مساجد سے کلمہ طیبہ مٹانے کے واقعات حکومتی کارندے کلمہ مٹارہے ہیں 659 712 پولیس اور حکام پاکستان نے احمد یہ مساجد سے کلمہ کو مٹایا 513 272 ربوہ کی مساجد سے کلمہ طیبہ مٹانے کا ظالمانہ حکم 276 کلمہ طیبہ پاکستان کی تعمیر کا موجب بنا 651 اسلامی حکومت جو کلمہ کے نام پر بنی اب کلمہ مٹانے پر آپا سلیمہ بیگم صاحبہ آف حیدر آباد دکن کی کراچی میں وفات 295 لگی ہوئی ہے عبدالرحیم مد ہوش صاحب کراچی کے صف اول کے خادم سلسلہ کا ذکر وفات کرکٹ دیکھئے کھیل / کھلاڑی کعبه، خانه خدا خانہ کعبہ کو تباہ کرنے کے لئے ابرہہ کی آمد اور عبدالمطلب کا جواب کلکتہ کلمه طیبه کلمہ کیا ہے؟ کلمہ مٹانے کے حق میں ایک بھونڈی دلیل 407 دیوبندی مساجد سے کلمہ مٹانے کے نعرے بلند 70`589 715 440 411 ہورہے ہیں کلمہ کی خاطر احمد یوں کی قربانیاں پاکستان کے احمدی کلمہ پڑھتے قید ہو جائیں تو باہر کے احمدی وہاں کلمہ پڑھتے جائیں گے جماعت کلمہ کی حفاظت کے لئے جان دے دے گی اور حکومت کے اس فیصلہ کو قبول نہیں کرے گی گوجرانوالہ کی احمد یہ مسجد سے مولویوں نے کلمہ مٹایا 711 اور دوبارہ لکھنے پر احمد یوں پر مقدمہ کلمہ کی حفاظت کے لئے حضور کا احمدیوں کو پیغام 235 711 735 746 712 736 596 703 594 720
53 کلمہ طیبہ کی حفاظت کے لئے ہم اس کے آگے پیچھے اور دائیں بائیں بھی لڑیں گے ہم محمد مصطفی " کا کلمہ پڑھیں گے خواہ ہماری گردنیں کٹ جائیں کلمہ کی حفاظت کے لئے احمدیت کے حق میں بریلوی مساجد سے تائیدی اعلانات پاکستانی کرکٹر مقصود احمد کے 99 پر آؤٹ ہونے پر 721 ایک بچے کا ہارٹ فیل گ 736 718 گالی گلوچ کلمہ مٹانے والی قومیں خود مٹ جایا کرتی ہیں 702 660 دشمن کے بعض حقائق کے بیان کو گالی نہیں کہا جا سکتا جس ملک کو کلمہ نے بنایا تھا تو کلمہ میں اتنی طاقت ہے کہ وہ یو پی ہندوستان میں تہذیب کی ترقی کی وجہ سے گالی اس کو مٹا بھی دے 720 بھی بڑے ادب سے دی جاتی ہے جو ملک کلمہ مٹانے کی سازش میں شامل ہو گا وہ پارہ پارہ گالی دینا تو پاکستان کی گلی گلی کا رواج ہے کر دیا جائے گا کمپالا ، یوگنڈا کا شہر کمپیوٹر جماعتی کام کے لئے کمپیوٹر کی ضرورت 717 464 90 467 228 228 729 دوسروں کو گالی دینا جماعت کی سرشت میں شامل نہیں 728 دشمن کی گالی گلوچ کا جواب دعا سے دینا ہے دشمن جس قدر چاہے گالیاں دے جماعت نے گالیاں ایک شخص کا حضرت مسیح موعود کو سخت گالیاں دینا اور 178 | نہیں دینی کمیشن لاء کمیشن کے سامنے پیش ہونے والا وفد کمیونزم 519 آپ کا صبر اور وسعت حوصلہ شرعی عدالت میں حضرت مسیح موعود کے خلاف سخت 327 گندہ دینی کی گئی 193 228 561 623 630 631 729 631 262 594 روس میں کمیونزم انقلاب کنری و سیندھ کا ایک شہر حضرت کنفیوشس کوریا کوریا میں جماعتی وفد کی آمد اور کامیابیاں کھیل رکھلاڑی بچپن کی کھیلوں کا تذکرہ ربوہ میں کبڈی ، باسکٹ بال کی کھیلوں پر پابندی 255 خلاف سندھ میں گالی گلوچ 524 جماعت اسلامی کے ایک مولوی کی جماعت کے ربوہ میں مولویوں کے جلسہ میں جماعت کو گالیاں 178 بریلویوں نے دیو بندیوں کو داتا صاحب کے عرس 494608 | پر گالیاں دیں 532 ہند و نمبر دار کی مولوی کو گالی گلوچ کے مقابلے کا چیلنج گجراتی زبان 769 گجراتی زبان میں اشاعت لٹریچر کا منصوبہ کرکٹ میں 99 رنز پر آؤٹ ہونے پر زیادہ صدمہ ہوتا ہے 90 گوجرانوالہ
گیانا 54 605 لجنہ اماء الله گیمبیا ل لاس اینجلس، امریکی شہر احمد پی مشن کی خرید ایک مخلص احمدی ڈاکٹر کی مالی قربانی کا ذکر لاہور 466`605 ربوہ میں اجتماع پر پابندی 769 دفتر سوم تحریک جدید کے لئے خصوصی مساعی 601602 لجنہ اماءاللہ قادیان کی ایمان افروز مالی قربانی احمدی مستورات کی مالی قربانی کی مثالیں 291 احمدی مستورات کی ایمان افروز مالی قربانیاں 183 لجنہ کراچی کی متاثرین بارش کی امداد 434 236t232 289 651 581608 لجنہ یو کے کی پتہ جات مرتب کرنے کے حوالہ سے مساعی 614 چندہ صد سالہ جو بلی میں جماعت لاہور کے اعداد و شمار 182 لطیفہ الطائف چیرنگ کر اس پر ایک برطانوی بادشاہ کا مجسمہ لائبیریا لائبریری 402 میراثی کو بوسیدہ پگڑی کا تحفہ اور واپسی.538 543 97 ہر ملک کے جماعتی مشن میں ایک اعلیٰ میعار کی لائبریری قائم ہو ہر ملک کی جماعتی لائبریری میں تمام زبانوں کا لٹریچر موجود ہو 605 گاؤں کے مولوی کو گندی کھیر بھجوانے کا قصہ صاحبزادہ مرزا القمان احمد صاحب 177 177 لگام حلم انسان کو لگا میں لگاتا ہے لگام کے مقابل پر مہمیز ہوتی ہے گھوڑے کو لگام قابورکھنے کے لئے ڈالی جاتی ہے قاضی حبیب الرحمان صاحب لکھنوی تجر به کا ر لائبریرین حضرت لوط علیہ السلام کا وقف کرنا لبنان لٹریچر اشاعت لٹریچر کا منصوبہ جماعت کے خلاف ایک پمفلٹ شائع ہو گا تو ہم دس پمفلٹ جواب کے شائع کریں گے مختلف زبانوں میں جماعتی لٹریچر کی اشاعت کا ذکر لڑائی جھگڑا میاں بیوی کے جھگڑے خاندانوں کے آپس کے جھگڑے 177 لیسا 76 پنڈت لیکھرام پیشاوری ليلة القدر 261 391 613 لیلۃ القدر کی تفسیر قدر کے مختلف معانی حضرت مسیح موعود کی عارفه تشریح آنحضرت کا زمانہ لیلۃ القدر ہے 169 168 168 395'503 650 104 106 561 جماعت احمد یہ لیلۃ القدر کے دور سے گذر رہی ہے لیفن ، روی لیڈر 26 22 22 لیوٹن، سیرالیون کا شہر 332t323 329 330 324 328 329 327 465
55 ماریشس ماریطانی مولانا شیخ مبارک احمد صاحب مربی امریکہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ آپ کے بارہ میں حضرت مسیح موعود کا پنجابی الہام حضرت خلیفہ رابع کو خواب میں دکھائی گئیں مبائع رغیر مبائعین ایک غیر مبائع دوست کی ربوہ آمد ربوہ جماعت میں اچھے لوگ جبکہ غیر مبائعین میں سزایافتہ جاتے ہیں ایک تجزیہ مبلغ رمربی نیز دیکھئے واقفین زندگی ہر احمدی مبلغ بنے شریعت کورٹ میں پیش ہونے والے احمدی وکیل غیر معمولی محنت سے مقدمہ تیار کیا کہ دشمن بھی 608781 | عش عش کر اٹھا 445 446 467 مجید احمد صاحب سیالکوٹی (مربی انگلستان) 616 مجیداحمد محاورہ محاورے 336 290 لباس الجوع کا قرآنی محاورہ 99 99 307 307 610 ظالم تو نے پی ہی نہیں“ کا محاورہ مبلغ پر صادق آتا ہے 613 کم از کم چندہ دہندگان کی تعداد جتنے مبلغ بنیں مبلغ بننا مشکل کام ہے 610 یمین اور شمال کا قرآنی محاورہ قرآن کا بیان کردہ دل کا محاورہ کوئی حرج نہیں کا عربی محاورہ عربی میں نفی کے محاورہ کا اثبات کیلئے استعمال عربی میں التناد کا محاورہ نظریاتی مملکت کا اشترا کی محاورہ اردو محاورے اونٹ رے اونٹ تیری کونسی کل سیدھی برتے پر نا چنا بغیر کھونٹے کے ناچنا جیسی روح ویسے فرشتے چھاتی پر مونگ دلنا سفید جھوٹ کا محاورہ بیرون ممالک مبلغین پر کام کا بوجھ افریقہ کے مبلغین کی قربانیاں مربیان کی طرف سے تبلیغی مساعی کی رپورٹس 610 176 509 465 مبلغین افریقہ کو غریبوں کی امداد کا جائزہ لینے کا ارشاد 650 مجادله مجادله قرآن کریم میں تبلیغ کے معنوں میں آتا ہے مجسٹریٹ کلمہ مٹانے والا مجسٹریٹ روپڑا مجیب الرحمن صاحب ایڈووکیٹ ، راولپنڈی 559 659 شرابیوں کا محاورہ کہ ” ظالم تو نے پی ہی نہیں“ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے پنجابی محاورے ستے پتر دا منہ کی چمناں پنجابی محاورہ مل لینا منگن جاسومر ر ہے مرے سومنگن جا فارسی محاورے من ترا حاجی بگوئم تو مراحا جی بگو نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن 202 742 398 339 546 738 403 734 405 270 505 782 376 613 402 316 532 250 492 404
56 انگریزی محاورے The cat is out of the bag While in Rome do as Romans do یعنی روم میں جاؤ تو رومنز جیسے ہو جاؤ حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبی عمله بعثت آپ کی غارحرا کی عبادتوں سے سورج طلوع ہوا آپ کا پہلا جلوہ تو رات کے حوالہ سے اور جلوہ ثانی انجیل کے حوالہ سے بیان کیا گیا آپ کو مذکر بنایا گیا قرآن میں بیان کردہ آپ کے چھے کام آپ تمام کائنات کے رسول تھے آنحضور اور آپ کے ساتھیوں کے خلاف دشمن کے منصوبے عظیم فتوحات کی خوشخبریاں دیں 273 آپ کو بھی قرآن نے حق فرمایا آپ ایک عبد شکور تھے 411 آپ رؤف و رحیم تھے آپ مومنوں کیلئے رؤف و رحیم تھے آپ کا دل نہ ختم ہونے والا سمندر اور رحمت تمام 328 665 189 415 421 189 آپ پر اعتراض که محبوب خدا تو مصائب کیوں آئے؟ 314 صفات / مقام صفات الہی کے مظہر اتم آپ اللہ اور بندوں کے درمیان وسیلہ ہیں آپ سب سے زیادہ معصوم اور جملہ انبیاء کے لئے بھی نمونہ تھے آنحضور کا استغفار آپ کو نذ کر یعنی نصیحت کرنے والا بنایا گیا آنحضرت کیلئے عہد کے لفظ کونکرہ استعمال کرنے کی حکمت آپ کی توبہ کی حقیقت عالم پر محیط آپ کی صفت امین آنحضور کی صفت مستغفر اور مز کی آپ مجسم عفو تھے آپ نے فتح مکہ پر لاتثریب علیکم الیوم آبکر سب کو معاف کر دیا آپ کا عفو اورستاری آپ کی برداشت اور صبر آپ کا وسعت حوصلہ اور عفو، درگز رئیس المنافقین کے ساتھ حسن سلوک اسوہ ، سیرت طیبہ 39 | آپ کو تمام دنیا کیلئے اسوہ بنا کر بھیجا گیا 422 775 556 110 638 455 182 221 134 25 276 41'42 636 381 516 747 ساری دنیا کو روشن کرنے والا اسوہ محمدی جس نے آپ کو امام بنالیا اس کا حشر آپ کے ساتھ ہوگا 742 219 آپ نے تمثیلات کے رنگ میں بھی امت کو سمجھایا 134 132 آپ کے ارشادات ایک دوسرے کو تقویت دیتے اور 189 آپس میں مربوط ہوتے ہیں دین میں توازن آپ سے سیکھنا چاہئے 254 آپ غم اور خوشی دونوں حالتوں میں دعا کرتے 85 123 128 آپ کی ذات میں عبادت مجتمع ہو کر بنی نوع میں منتشر ہوتی ہے شدید مصائب کے دور میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو 258 آپ نے بار بار دشمن کیلئے بھی دعائیں کیں جنگ بدر آپ کی دعاؤں سے جیتی گئی آپ نے آئمۃ التکفیر کیلئے بددعائیں کیں آپ کے دعوت الی اللہ کے طریق اور مشکلات کفار کی ہدایت کیلئے جان ہلاک کرتے رہے 216 58 285 109 283 81'435 285 389 366
57 آنحضور کا تبلیغ سے باز نہ رہنے کے بارہ ابوطالب کو جواب آپ سے تبلیغ بند کرنے کا کفار کا مطالبہ جنگ احزاب میں آپ نے پیٹ پر دو پتھر باندھ رکھے تھے آپ کا ترحم اور شفقت علی الناس آپ نے صحابہ کو علم کی تعلیم دی آپ نے علم اور علم کو قائم کیا آنحضرت ” کا آمر وقت کو جواب فتح مکہ پر آپ کا سر فخر سے جھک گیا آپ کا خوشخبری دینا کہ میں حقوق ادا کر نے والوں کے ساتھ ہوں گا آپ دشمن کے غم سے بھی درد محسوس کرتے آنحضور کا معجزہ کھانے میں برکت 397 امت محمد یہ عظیم قوم ہے 396 ہم دامان مصطفے بھی نہیں چھوڑ سکتے امام کامل آنحضور کی برکت سے نجات ہوگی اس امام 776 کو کبھی نہ چھوڑیں 761 151 152 704 276 بہت خوش نصیب ہیں وہ جن کی صورتیں اور حالات آنحضرت سے ملتے ہیں پیشگوئیاں آپ نے حکم عدل مسیح موعود کی پیشگوئی فرمائی 294 440 صاحب حلم قوم کے پیدا ہونے کی پیشگوئی محمد ابراہیم خان ذوق ، معروف شاعر ذوق کا شعر 731 نہ ہوا پر نہ ہوا میرسا انداز نصیب عبد اللہ بن ابی بن سلول کی گستاخی پر اس کے بیٹے کو قتل کرنے کی اجازت نہیں دی محمد ادریس ابن محمد اسماعیل آپ نے عیسائیوں کو ان کی عبادت گاہ کی حفاظت کی تحریردی عیسائیوں کو تحریر لکھ کر دی کہ گرجے اور صلیب محفوظ رہیں گے اہل مکہ پر فاقہ کے وقت کفار کے خوراک کے قافلوں پر حملہ سے منع کر دیا 190 حضرت میر محمد اسحاق صاحب محمد اسماعیل، صدر انجمن کے ایک ڈرائیور 258 حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب سرساوی صحابی حضرت مسیح موعود 645 ماسٹر محمد بخش سولنگی صاحب آپ کی تعلیم سے روگردانی سے سوسائٹی میں عذاب مولوی محمد حسین بٹالوی پیدا ہوتا ہے قوت قدسیه آپ نے حقیر قوم کوسونے کی ڈلیاں بنا دیا حشر میں آپ کی برکت سے کامیابی ہوگی 592 315 754 آپ نے اپنے صحابہ کی بڑی بڑی قدر ڈالی اور مقام بلند کیا 331 آپ کی دعاؤں کے معجزے جو صحابہ کے ہاتھوں سرزد ہوئے مولا نا محمد صدیق امرتسری صاحب ذکر خیر اور ان کی کتاب کا تذکرہ جنرل محمد ضیاء الحق پاکستانی فوجی آمر 182 278 750 754 299 621 156 299 407 333 407 617 490 724 509 524 525 714 715 جماعت کے خلاف گستاخ رسول ہونے کا الزام 286 پاکستان کے لوگوں کی ضیاء سے نفرت اور بے زاری آپ کی دعا سے حضرت عمر ” مسلمان ہوئے 31 باپ کو گالیاں دینے والوں کے خلاف اولادکو غیرت 723 730
58 کیوں نہیں آتی 732 حضرت سیدہ مریم صدیقہ ، چھوٹی آپا حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب مزاح دیکھئے لطیفہ الطائف قائد اعظم کا جنازہ نہ پڑھنے پر اعتراض محمد عارف بھٹی صاحب چوہدری محمد عبد اللہ صاحب ( والد مجید احمد صاحب سیالکوٹی ) قائد اعظم محمد علی جناح ، بانی پاکستان 680 725 مسجد / مساجد 345 624 ہم مسجدیں بڑھاتے ہیں تو اللہ انہیں چھوٹا کر دیتا ہے 533 کردیتا 552 ابتلا اور پابندیوں کے بعدر بوہ کی مساجد چھوٹی پڑ گئیں 300 مسجدوں کو گرانے کی غیر اسلامی تعلیم 191 جماعت کو مسجد کا لفظ استعمال کرنے سے روک دیا گیا 514 پاکستان میں مساجد کو منہدم اور ویران کیا جاتا ہے ایک احمدی مسجد ویران کرتے ہیں تو جماعت ہزاروں 591 ملکوں میں مسجد میں بنائے احمد یہ مساجد سے کلمہ مٹانے کے واقعات 778 659 513 احراری علماء نے آپ کو کا فراعظم اور پاکستان کو پلیدستان کہا کانگرسی علماء نے آپ کو کا فراعظم کہا 617 712 624 735 احمدیہ مساجد سے حکام نے کلمہ طیبہ مٹایا محمد علی کا ئرے صاحب مربی سلسلہ یوگنڈا 464 احمدیہ مسجد گوجرانوالہ سے مولویوں نے کلمہ مٹایا اور جسٹس محمد منیر جسٹس ایم.آر.کیانی 404716 صاحب علم اور فہم و فراست والے دلچسپ انسان، علماء کے بارہ میں ان کا تجزیہ سیاہی پھیری 716 پاکستان میں احمدیوں کی مساجد سے کلمہ طیبہ مٹانے کے 629 محمودہ بیگم صاحبہ والدہ حکیم حمید احمد اختر صاحب 361 مدینه منوره آنحضرت کا مدینہ کا دور بھی مظلومیت کا تھا مذہب / مذاہب ہر مذہب نے نیکی کا حکم دیا غیر مسلم کوئی مذہب نہیں ہے 380 381 713 424 217 449 غیر احمدیوں کی مساجد سے اعلان احمدیوں کی مسجدوں کے رخ تبدیل کرنے کے نعرے دیو بندیوں مساجد سے بلند ہورہے ہیں پاکستان میں بعض مساجد سے تائید احمدیت میں اعلان ہوئے 594 703 712 717 ربوہ کی غیر مساجد سے جماعت کے خلاف گندہ دہنی 771 قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی مذموم یہودی 80 440 439 سازش مسجد مبارک ربوه تاریخ مذہب کا پہلا واقعہ کہ اختلاف کی بجائے اتفاق کی بنا پر جبر روا رکھا گیا مسجد مهدی گولبازارر بوه 748 مشاورت شوری اگر کسی مذہب کا Patent ہے تو اسے رجسٹر کروانا چاہئے تا دوسرا استعمال نہ کرے 412 دعاؤں کے ذریعہ تمام احمد کی شوری میں شامل ہو سکتے ہیں 184 مجلس مشاورت کی وجہ سے نمازیں جمع کرنا مشتاق احمد شائق صاحب 184 175
59 مشرق مشرقی وسطی 76605764 | قسم کے مقدمات طمح نظر گوجرانوالہ کے تین احمدیوں پر کلمہ لکھنے پر مقدمہ ہر انسان کا ایک مطمح نظر ہوتا جس کو پانے کی وہ کوشش احمدی طلبہ، پاسپورٹ میں مسلمان لکھنے ، السلام علیکم کرتا ہے 298 حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب 681 ڈاکٹر مظفر احمد صاحب شہید ا مریکہ برادر مظفر احمد ظفر آف امریکہ میر مظہر احمد صاحب حضرت معاذ بن انس 291 577 640 کہنے اور اغوا کے مقدمات مقصود احمد، پاکستانی کرکٹر مکه مکرمه 493 595 493 494 90 299 424 625 645 703 747 753 اہل مکہ کی حزب اللہ میں فوج در فوج داخل ہونے کی خوشخبری 154 مسلمانوں پر اہل مکہ کے مظالم 479 488 ملائشیا 8 276 716'763 حضرت معاویہؓ معراج منافق رمنا فقت معراج میں آپ کو غیبت کرنے والوں کو عذاب دیئے آنحضرت کی بیان فرمودہ منافق کی تعریف اور منافق جانے کا منظر بھی دکھایا گیا معلم معلمین معلمین وقف جدید کی ضرورت 54 کی چار علامتیں منافقت کی تعریف 2 منافقت کی دو قسمیں معلمین وقف جدید کی خدمت و قربانی کا تذکرہ 2 منافقت کا سب سے بڑا ز ہر جھوٹ ہے منافق ٹھہرانا صرف اللہ تعالیٰ کا کام ہے کوئی مغرب رمغربی اقوام نیز دیکھئے یورپ 76 پراپیگنڈے کے ذریعہ دوسروں کو منہدم کرنے کا طریق 68 غریب ممالک کو مسکینی کی حالت تک پہنچا دیا ہے 68 انسان نہیں کہ سکتا آنحضرت نے رئیس المنافقین کو بھی غیر مسلم نہ کہا بلکہ اس کا جنازہ پڑھانے کی خواہش کی 220 379 223 223 379 381 380 مغربی اقوام کی طرف سے قائم کی گئی اسلامی حکومتیں اور پہلی قوموں نے انبیاء پر منافق ہونے کا الزام نہیں لگایا 386 ان کے مفادات مغفرت مغفرت الہی کا مضمون مقدمه مقدمات جماعت کے خلاف جھوٹے مقدمات حکومتی آرڈینینس 84ء کے بعد احمدیوں پر مختلف 764 130t121 جماعت پر منافق ہونے کے الزام کی حقیقت جماعت کے خلاف آرڈینینس سے منافقت کی جماعت احمدیہ میں منافقت کی کوئی خصلت نہیں تعریف ہی بدل دی گئی 384 383 222 272 ہونی چاہئے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب 509
60 مولوی منظور احمد چنیوٹی 494 آپ نے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کی ڈیوٹی لگائی 292 احمد لگائی انجینئر منیر احمد فرخ صاحب آف اسلام آباد حضرت خلیفہ مسیح الرابع کو خواب میں ملے شعبہ ٹرانسلیشن میں آپ کی خدمات کا تذکرہ اور والدہ حضور کی یاد میں ربوہ میں ایک لاکھ لوگوں کی گنجائش کا کا جنازہ موت موت کی بے شمار وجوہات اور رستے 533 ناصر ہال تعمیر کرنے کی سکیم ناظر را نظارت 204 ناظر صاحب اعلی پاکستان ناظر صاحب بیت المال مولانا مودودی، ابوالاعلیٰ امیر جماعت اسلامی 404 97 185 321`347 321 موروگورو، تنزانیہ کا شہر 464 نظارت امور عامہ کے کام کی وسعت 175 حضرت موسیٰ علیہ السلام مومن مومنین مومن کو اللہ ماں کا مقام عطا کرتا ہے مومنوں سے کفار کی دل آزاری مہلت ڈھیل ظالموں کو مہلت دینے میں خدا تعالی کی حکمت مہلت کے مضمون کا صبر سے گہرا تعلق مهمان نوازی ایک بخیل کی مہمان نوازی، مہمان کے سرسے تحکمیہ نکال لیا ناروے 16 152'430 760 364 امور عامہ کے خدمت کے کاموں کیلئے نظارت خدمت خلق کے قیام کا مشورہ نظارت تصنیف و اشاعت کام بڑھ رہا ہے نا پینجیر، افریقی ملک نا پنجیریا تبلیغ کی مساعی اور ثمرات 175 174 33`648`650 33`652 463 304 نسروا اور اوگا ماشا مقامات پر سکول اور نئی جماعت کا قیام 463 304 نباتات نباتات میں بھی شعور موجود ہے نبوت 317 نبوت کی تعریف ظہور نبوت دہریت کے زمانہ میں ہوتا ہے مذہبی مخالفین اور اندھے نور نبوت پہنچان نہیں سکتے 605 حکومت نے نبی کہنے کی اجازت دی لیکن تمام حضرت مرزا ناصر احمد صاحب خلیہ آج الثالث | حق نبوت چھین لئے آپ نے جماعت کے علمی معیار بڑھانے کی طرف نپولین 160 734 240 247 743 514 700 خاص توجہ دلائی 152 حضرت سیدہ نصرت جہاں بیگم ، ام المومنین 1974 ء میں اسمبلی میں آپ نے بعض حوالے 333`436 درست کروائے پیپلز پارٹی کے راہنما کی ربوہ آمد پر ربوہ دکھانے کیلئے آنحضور کو نصیحت کرنے والا مقرر کیا گیا 497 | نصیحت 189
61 نصیحت کا عالمی نظام جماعت نصیحت کا حق ادا کرے سیده نصیرہ بیگم صاحبہ اہلیہ حضرت مرزا عزیز احمد صاحب نفسیات انبیاء کے انکار کا ایک نفسیاتی نکتہ ماہرین نفسیات متفق ہیں کہ مایوسی میں ڈارونے خواب آتے ہیں نقالی 217 | حضرت نوح علیہ السلام 222 نیکی 232 نیکی دو اقسام نیکی بدی کی تمیز ہر مذہب میں موجود ہے 101 241 634 643 217 756 ایک نیکی دوسری نیکی کے بچے پیدا کرتی چلی جاتی ہے 437 نیوجرسی ، امریکی ریاست 775 نیویارک ، امریکی شہر دریاست 291 290 78.290 291 183 331 203 170 676 675 674 210 114 760 517 410 واشنگٹن، امریکہ کا دار الحکومت آنحضرت جیسا بننے کی دعوت عام دی گئی جماعت احمدیہ پر مذہبی نقالی کا الزام جماعت غیر احمدی طرز رسم و رواج کی نقالی نہیں کر سکتی 412 احمد یہ مشن کیلئے پلاٹ کی خرید اگر کسی مذہب کا Patent ہے تو پھر اسے رجسٹر کروانا واقعات چاہئے تا کوئی اختیار نہ کرے سمجھدارا قوام نے اپنی تہذیب کی نقالی کروا کر حکومت کی غیر قوموں نے اپنی نقالی پر لوگوں کو مجبور کیا کلکتہ میں مسلمانوں نے ہندوطرز تہبند اور پگڑی باندھنا شروع کردی نماز رصلوۃ رعبادت حقیقی عبادت کی تشریح مشتمل ہو وہی عبادت برحق ہے جو اللہ کے ذکر پر متنم عبادت الہی سے روشنی نصیب ہوتی ہے عبادت کرنے والے کبھی ہارا نہیں کرتے نماز کے فوائد اور مقاصد دعا کے ہتھیار کی پریکٹس تہجد میں ہوتی ہے عبادت الہی کا حق ہر شخص کو حاصل ہے عبادت میں پیشانی کا خاص مقام حاصل ہے جو کہ 412 410 411 411 209 558 573 580 557 192 256 آنحضور کا اعجازی نشان صحابی کی دعوت پر کھانے میں برکت آنحضرت کا ایک بدصورت اور معمولی صحابی کی قدر ڈالنے کا واقعہ ایک صحابی کا فاقہ کشی کے عالم میں ایک نرم چیز نگل جانے کا واقعہ حضرت مسیح موعود کے علم کا واقعہ اللہ تعالیٰ کا مخالفین احمدیت سے انتقام لینے کا واقعہ نصرت و تائید الہی کے واقعات احمدی خواتین کی استقامت کا واقعہ دعا میں صبر کرنے والے ایک ولی کا واقعہ ایک بزرگ اور ان کے شاگردوں کا لڈو کھانے کا واقعہ بزرگ کا محبت الہی میں استغراق بے تربیت بچے کے والدہ کو قتل کرنا اور والدہ کا بچے کیلئے رحم کا قصہ 256 عبادت کا معراج ہے
29 62 اند تھے اور سو جا کھے کا مشترکہ پیسوں سے مٹھائی کھانے کا واقعہ ایک بخیل کی مہمان نوازی کا واقعہ رضار کار واقفین نے اٹھایا ہوا ہے 501 قاضی حبیب الرحمن صاحب لکھنوی تجربہ کار 317 | لائبریرین کا زندگی وقف کرنا دھو کے سے لنگڑ اپن سواری چھیننے والے کا واقعہ 504 | بیرون ممالک میں واقفین مبلغین پر کام کا بوجھ گاؤں کے مولوی کو گندی کھیر بھجوانے کا واقعہ 543 افریقہ کے ابتدائی واقفین اور ان کے حالات کی چوہدری کی طرف سے میراثی کو پرانی پگڑی کا تصاویر اکٹھی کی جائیں 538 ربوہ کے درویشوں سے مراد واقفین زندگی 174 177 176 176 694 تحفہ اور اس کی واپسی کا قصہ وائٹ پیپر ( نیز دیکھئے قرطاس ابیض ) 376 مربیان سلسلہ اور ان کی بیویوں کی مالی قربانی کا ذکر 433 432 714 وقف جدید صد را جمن احمدیہ 293 وزارت مذہبی امور پاکستان وطن سے نکال دینے کی سنت اشرار 241 وقف جدید کے سال نو کا اعلان اور افضال الہی کا تذکرہ 12 جماعت کی حب الوطنی 2 وکیل روکالت ہندوؤں کے علاقوں میں اسلام کی ترویج کیلئے 392 سال ۱۹۸۳ء کے چندہ کے اعداد و شمار تحریک جدید میں ایڈیشنل وکالت تصنیف ، وکالت مال ثالث، معلمین کی ضرورت وکالت صد سالہ جو بلی ، شماریات اور سمعی بصری کا قیام 176 وقف عارضی وکالت تبشیر یورپین ممالک کی زبانوں میں کام کے آغاز کیلئے ایک وکالت کی ضرورت 464 ہندو علاقے میں خدمت کیلئے ڈاکٹر و تا جر حضرات 2 3 462 72 718'719 372 671 192 294 وقف عارضی کریں 177 واقفین عارضی کے تبلیغی وفود اور ان کے ثمرات شرعی عدالت میں بعض احمدی و کلانے کیس پیش کیا بعض احمدی و کلا کی طرف سے شرعی عدالت میں 511 ولد الحرام دنیا میں ولد الحرام بچوں کی بکثرت پیدائش 619 وهابی مسلک 174 ہالینڈ دائر مقدمہ اور اس پر حضور کا تبصرہ وقف رواقف زندگی کام بڑھنے کی وجہ سے نئے واقفین آگے آئیں 178 175 جماعت ہالینڈ کا مالی قربانی کی تحریک پر والہانہ لبیک دنیا کے ہر قوم کے لوگوں کی ضرورت ہے کہ وہ وقف کریں 179 کینسر کے مریض کی بیعت جو شفایاب ہو گیا انگریز ، اٹالین ، چینی اور جاپانی لوگ وقف کریں اور اپنی زبان کے کام کو سنبھالیں تحر یک وقف بعد ریٹائر منٹ پر جماعت کا لبیک شعبہ تعلیم میں مستورات کا وقف دفتر پرائیویٹ سیکرٹری کے بہت سے کاموں کا بوجھ 179 174 174 ہتھیار اللہ کی تسبیح وتحمید سب سے بڑا ہتھیار ہے ہمارا سب سے بڑا ہتھیار دعا ہے دشمن کے ہتھیاروں کا جواب ہم نے دعا کے ہتھیار
265 462 346 63 سے دینا ہے ہسپتال فضل عمر ہسپتال کی وسعت اور عملہ کی ضرورت 192 یورپ کیلئے انگلستان اور جرمنی میں دو بڑے مراکز سلسلہ 175 بنانے کی تحریک اشترا کی یورپی ممالک میں تبلیغ احمدیت مراکز یورپ کی تحریک عام 336'371 434 310'432 533 227 ہندوستان بھارت 52 70 146 179 404 405 411 قبول احمدیت کی لہر گاؤں کے گاؤں احمدی ہو رہے ہیں ہندوستان میں مسلمانوں پر مظالم 261 654'655 278 یہاں ہندوؤں کی اکثریت ہے وہ مسلمانوں کے خلاف تبلیغ کی پابندی اور قتل مرتد کا حق استعمال کرتے ہیں 404 ہندومت یوروپین مراکز کی تحریک میں ایمان افروز مالی قربانی کے نمونے یورپ کے احمد یہ مراکز کیلئے قادیان کی لجنات کے وعدے اور وصولیاں یورپ کے احمد یہ مراکز کیلئے مالی قربانی یورپین مشن کیلئے لندن کے قریب (اسلام آباد ) جگہ کی خرید یو، پی ہندوستان کا ایک صوبہ 630655735737`405 256404 255 217 | تہذیب میں ترقی کی وجہ سے گالی بھی بڑے ادب ہندومت میں مذہبی ذات پات کا تصور اور شودر کیلئے سزائیں سے دی جاتی ہے 410 یوگنڈا ہندوؤں کے علاقے میں اسلام کا پھیلاؤ معلمین کی ضرورت اور ان کی با شمر کوششیں تبلیغی مساعی اور نئی جماعتوں کا قیام 2 یوگوسلاویہ ہندوؤں کو تبلیغ کے جرم میں احمدی پر مقدمہ یارک، امریکی شہر احمد یہ مشن کیلئے جگہ کی خرید یارک شائر ، انگلستان یعقوب خان صاحب یمن ی 273 یونان یہود 228 605 464 77'263'462 463 255 424'430'758 628 354 80 آپ سے فیصلے کروانے آیا کرتے تھے یورپ نے جنگی امداد کیلئے یہود سے معاہدہ کیا 291 مسجد اقصیٰ کو بم سے اڑانے کی مذموم یہودی سازش 611 653 307 704 یورپ ریورپی اقوام نیز دیکھئے مغربی اقوام 725 69 خوراک کی کثرت اور زیادتی جنگی امداد کی خاطر یورپین اقوام نے یہودو اسرائیل سے معاہدہ کیا 646 354