Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعه ۱۹۸۳ء فرمودة سیدنا حضرت مرزاما برای خلیفه اسبح الرابع رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد ) 2
نام کتاب اشاعت خطبات طاہر جلد 2 طبع اول (فروری 2005ء)
نمبر شمار خطبه فرموده 1 २ ۵ ۶ ۹ 7 جنوری 1983ء 14 جنوری 1983ء 21 جنوری 1983ء 28 جنوری 1983ء 4 فروری 1983ء 11 فروری 1983ء 18 فروری 1983ء 25 فروری 1983ء 4 / مارچ 1983ء فہرست خطبات عنوان آنحضرت ساینم کا ہرعمل عظیم تعلیمات کا سمندر اللہ کا رنگ اختیار کرو پردہ کی تحریک اور عورتوں کے حقوق غلبہ دین کے لیے ہر احمدی داعی الی اللہ بنے داعی الی اللہ اور استقامت استقامت دکھانے والوں پر نزول ملائکہ داعی الی اللہ کے لیے احسن قول و عمل اور صبر صفحہ نمبر ۱۹ ۳۹ ۵۱ ۶۳ ۷۵ ۸۷ ۱۰۷ ۱۳۳ ۱۴۳ ۱۵۷ ۱۶۹ ۱۸۷ ۲۰۳ ۲۱۷ ۲۲۹ ۲۴۱ ۲۵۷ دعوت الی اللہ میں حکمت کے تقاضے دنیا کو بچانے کے لیے ہر احمدی مبلغ بنے 11 / مارچ 1983ء اللہ سے سچا تعلق اور داعی الی اللہ 18 / مارچ 1983ء صد سالہ جو بلی کی تیاریاں اور توکل 25 / مارچ 1983ء اسلام کا اقتصادی نظام یکم اپریل 1983ء 8 را پریل 1983ء 11 ۱۲ ۱۳ ۱۴ ۱۵ 10 15 اپریل 1983 ء ۱۶ ۱۷ 22 اپریل 1983ء 12 29 اپریل 1983 ء | ΙΔ 6 مئی 1983ء قیام نماز تفسیر سورۃ العصر اور صبر کے ساتھ نصیحت کی تلقین مجلس صحت کا قیام اور مسابقت فی الخیرات سورۃ العصر کے مضامین حضرت نوح کا طریق نصیحت حضرت نوح اور انبیاء کی تبلیغ میں سبق
نمبر شمار خطبہ جمعہ ۱۹ 13 مئی 1983ء عنوان اللہ تعالیٰ کی تیار کردہ کشتی جماعت احمدیہ صفحہ نمبر ۲۶۹ ۲۸۱ ۲۹۳ ۳۰۵ ۳۱۵ ۳۳۱ ۳۳۹ ۳۵۱ ۳۶۳ ۳۷۵ ۳۸۵ ۳۹۳ ۴۰۳ ۴۱۷ ۴۲۵ ۴۳۵ ۴۵۱ ۴۶۵ ۴۷۹ ۴۹۵ 20 مئی 1983ء قرآن کریم کا انداز نصیحت ۲۱ 27 مئی 1983ء اقوام عالم سے جماعت احمدیہ کا مقابلہ ۲۲ 3 / جون 1983ء شان ابراہیمی اور عصمت انبیاء ۲۳ 10 جون 1983ء روزوں کی برکات ۲۴ 17 جون 1983ء رمضان کو زندگیوں میں داخل کریں ۲۵ 25 جون 1983ء اولیاء اللہ کوکوئی خوف اور غم نہیں ۲۶ یکم جولائی 1983ء اللہ کے پیاروں کی علامتیں پیدا کریں ۲۷ 8 جولائی 1983 ء | جمعۃ الوداع اور لیلۃ القدر ۲۸ 15 جولائی 1983 ء | عبادت کے بغیر ہماری کوئی زندگی نہیں ۲۹ 22 جولائی 1983 ء پاکستان کے نا گفتہ بہ حالات اور جماعت کی حب الوطنی 30 29 جولائی 1983 ء روحانی طور پر آزاد قوم کہلانے کے مستحق ۳۱ Σ نیکی اور بدی کا مقابلہ اور ہماری ذمہ داریاں 5 / اگست 1983ء ۳۲ 12 اگست 1983ء ۳۳ 19 اگست 1983 ء ۳۴ 26 اگست 1983ء ۳۵ 2 ستمبر 1983ء ڈاکٹر مظفر احمد صاحب آف امریکہ کی شہادت حضرت زکریا کی دعا وسعتیں بڑھانے کی دعا کریں تعمیر بیت اللہ کے مقاصد اور ہمارے فرائض 9 ستمبر 1983ء دورہ مشرق بعید اور ایک الہام کی تشریح 23 ستمبر 1983ء اسلام میں توحید کا عظیم الشان تصور 30 ستمبر 1983ء آسٹریلیا میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد ۳۶ } ۳۷ ۳۸
نمبر شمار خطبہ جمعہ عنوان ۳۹ | 14 اکتوبر 1983ء دورہ نبی کے حالات اور سورۂ فاتحہ میں مذکور صفات الہیہ صفحہ نمبر ۵۱۳ ۵۳۳ ۵۴۷ ۵۵۹ ۵۷۱ ۵۷۹ ۵۸۹ ۶۰۱ ۶۱۵ ۶۲۵ ۶۳۹ ۶۵۱ 21 /اکتوبر 1983ء 28 اکتوبر 1983ء دورہ فجی کے حالات تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان 4 نومبر 1983ء انتظامات جلسہ سالانہ کے لیے ہدایات 11 نومبر 1983ء بیوت الحمد سکیم میں وسعت 18 نومبر 1983ء قرآن کریم کا اسلوب ہدایت 25 نومبر 1983ء خشیت الہی 2 دسمبر 1983ء حق امانت کی ادائیگی 9 دسمبر 1983ء آنحضرت صلی ایام کی صفت امین 16 دسمبر 1983ء بد رسومات کے خلاف جہاد 23 دسمبر 1983ء جلسہ سالانہ میں مہمان نوازی کے فرائض 30 دسمبر 1983ء اللہ تعالیٰ کا عظیم کارخانہ قدرت ۴۰ ۴۱ ۴۲ ۴۳ ۴۵ ۴۶ ۴۷ ۴۸ ۴۹ نوٹ : ۱۶ ستمبر اور ۷ /اکتوبر ۱۹۸۳ء کو بوجہ سفر نماز جمعہ ادا نہیں کی گئی.
خطبات طاہر جلد ۲ 1 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۸۳ء آنحضرت علی کا ہر عمل عظیم الشان تعلیمات کا سمندر ہے (خطبہ جمعہ فرموده ۷ جنوری ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: گذشته خطبہ جمعہ میں میں نے ان مہمانوں کی عظیم الشان قربانی کا ذکر کیا تھا جو بہت سردی میں باہر جلسہ گاہ میں بیٹھے رہے اور اس آزمائش پر حیرت انگیز صبر کے ساتھ پورے اترے.اس خطبہ کے بعد بیرون ملک سے آئی ہوئی ایک خاتون نے بڑے ہی لطیف انداز میں مجھے سے شکوہ کیا اور کہا کہ تمہاری بہنوں اور بچیوں کا کیا قصور تھا کہ ان کا تم نے ذکر نہیں کیا اور انہوں نے اس شکوہ کی وجہ یہ بیان کی کہ جماعت احمدیہ میں ایک تاریخ بن رہی ہے اور اس تاریخ میں خلفاء وقت کے خطبات ایک بہت اہم کردار ادا کر رہے ہیں.چنانچہ اگر وقت کی قربانیوں کا ذکر محفوظ ہو جائے تو آئندہ نسلوں کو دعا کی تحریک ہوتی ہے اس لئے انہوں نے مختصر یہ کہا کہ دراصل احمدی بہنوں کو دعا سے محروم نہیں رکھنا چاہئے اس لیے ان کا ذکر کرنا چاہئے تھا اور یہ شکوہ بجا ہے.واقعہ یہ ہے کہ جو حالات میرے علم میں آئے ہیں ان کی رو سے احمدی بہنوں نے مردوں
خطبات طاہر جلد ۲ 2 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۸۳ء سے کم نہیں بلکہ زیادہ قربانی کا مظاہرہ کیا ہے.مثلاً ۲۸؍ دسمبر کو پہلے وقت میں جب کہ ابھی بارش ہو رہی تھی اور شدید سردی تھی اس وقت ہم نے جو جائزہ لیا تو معلوم یہ ہوا کہ مردوں کے جلسہ گاہ میں نسبتاً بہت کم آدمی ہیں لیکن عورتوں کے جلسہ گاہ میں بہت زیادہ خواتین ہیں.باوجود اس کے کہ ان میں بیشتر کی گود میں بچے بھی تھے اور ہاتھوں میں سلیپر یا گر گا بیاں (جو بھی وہ پہنتی تھیں وہ ) اٹھارکھی تھیں اور کیچڑ میں لت پت بڑے صبر کے ساتھ انتظار کرنے لگیں کہ جلسہ کے بارہ میں کیا فیصلہ ہوتا ہے اور شام کو بھی اسی طرح مستورات باوجود اس کے کہ بچے شدید سردی میں تکلیف بھی محسوس کر رہے تھے لیکن بڑے صبر کے ساتھ وہ پورا وقت بیٹھی رہیں اور ان میں کوئی اٹھ کر بھی نہیں گئی.پس تاریخ احمدیت کے یہ ایسے واقعات ہیں جو واقعہ محفوظ ہونے چاہئیں تا کہ آئندہ نسلیں اپنے آباؤ اجداد کی عظیم ہمتوں کا ذکر کر کے ان کے لئے دعا کرتی رہیں.دوسرے میں ربوہ کے دکانداروں کا از خود ذکر کرنا چاہتا ہوں.مجھے خیال آیا کہ یہ حصہ بھی ایسا ہے جو دعا کا مستحق ہے.اس دفعہ ایک دو مرتبہ خطبات میں یہ ذکر کیا گیا کہ جلسہ کے دوران دکانیں کھلی رہتی ہیں اور اس سے برا اثر پڑتا ہے دکاندار خود بھی نیکیوں سے محروم رہ جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی محروم رکھتے ہیں اور اسی طرح نمازوں کے اوقات میں دکانیں بند نہیں کرتے اور اپنے کاروبار میں مصروف رہتے ہیں.اس جلسہ پر جو جائزہ لیا گیا اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک بھاری اکثریت، غیر معمولی طور پر نمایاں اکثریت نے ان نصائح پر عمل کیا اور جلسہ کے دوران دکانیں بند رکھیں اور نمازوں کے اوقات میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ دکانوں کا کاروبار چھوڑ کر مساجد میں حاضر ہوتے رہے.پس یہ لوگ بھی خاص طور پر ہماری دعاؤں کے مستحق ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ خلافت کی برکات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بعض دفعہ بظاہر نصیحت عمل نہیں کر رہی ہوتی لیکن جب خلیفہ وقت کی زبان سے وہی نصیحت نکلتی ہے تو اس میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی اثر پیدا کر دیتا ہے.یہ وہ دکاندار ہیں جن کو سالہا سال سے میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا.ان کے کئی اجلاس بلائے گئے کیونکہ افسر صاحب جلسہ سالانہ نے بحیثیت نائب افسر یہ میری ذمہ داری لگا رکھی تھی کہ میں تربیت کے امور کی عمومی نگرانی
خطبات طاہر جلد ۲ 3 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء کروں لیکن کوئی اثر نہیں ہوتا تھا حالانکہ میں بہت زور مارتا رہا لیکن وہی جس طرح کہتے ہیں پہنچوں کا کہنا سر آنکھوں پر لیکن پر نالہ وہیں رہے گا.تو سر آنکھوں پر بات کر کے جب یہ واپس جاتے تھے تو الا ما شاء اللہ اسی طرح دکانیں کھول دیتے تھے.اب بھی وہی میں ہوں.بحیثیت ذات کے تو وہی ہوں لیکن چونکہ یہ آواز خلافت کی طرف سے بلند ہوئی اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس میں غیر معمولی اثر رکھ دیا.لیکن ضمناً ایک بات کی طرف میں توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ یہ تواللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے خلافت کی آواز میں اثر رکھا ہے اور جماعت میں غیر معمولی اطاعت کی روح رکھی ہے لیکن جو اصل مومنوں کی جماعت ہے جو حضرت محمد مصطفی علی سے دیکھنا چاہتے ہیں اس جماعت میں نصیحت اہمیت رکھتی ہے نصیحت کرنے والے کی کوئی اہمیت نہیں ہے یعنی امر واقعہ یہ ہے کہ جہاں تک نصیحت سننے والے کا تعلق ہے اس کو یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ تم یہ نہ دیکھو کہ کس نے تمہیں کیا بات کہی ہے بلکہ تم یہ دیکھو کہ وہ بات ہے کیا جو کہی جارہی ہے.اگر اچھی بات ہے تو خواہ کسی شخص سے بھی ملے وہ بہر حال تمہاری چیز ہے اور تمہاری دولت ہے.كلمة الحكمة ضالة المؤمن (جامع ترندی، باب ماجاء فی فضل الفقه على العبادة ) اس کو اس طرح قبول کروگو یا تمہاری اپنی چیز کھوئی تھی ، اس کو اٹھاؤ ،صاف ستھرا کرو.اگر اس بات میں کوئی خم ہے، کوئی کبھی ہے، کوئی طعن شامل ہو گیا ہے تو یہ تو باتوں کے گند ہوتے ہیں.تمہاری چیزیں بھی بعض دفعہ گند کے ڈھیروں پر گر جاتی ہیں.تم ان کو اٹھاتے ہو، دھوتے ہو ، صاف کرتے ہوتو ان حکمت کی باتوں کو بھی اسی طرح قبول کر لیا کرو.پس یہ ہے وہ اصل تصور مومنوں کی جماعت کا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے قائم فرمایا اور یہ سب سے اعلیٰ تصور ہے یعنی اپنی ڈیفنس لائن (Defence Line) کو کناروں تک پہنچا دو.یعنی اطاعت میں انتہائی حدوں پر قدم مارو.اسی مضمون کو قرآن کریم نے بیان فرمایا را بطوا ( آل عمران (۲۰۱) کے ایک لفظ میں کہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو.سیکنڈ ڈیفنس لائن ( Second Defence Line) یا تھرڈ ڈیفنس لائن (Third Defence Line) سنٹرل ڈیفنس لائن پر اگر تم واپس جلدی جلدی آنا شروع ہو گے تو تمہارے لئے کئی قسم کے خطرات درپیش ہونگے.پس نصیحت کے معاملہ میں رابطوا کا حکم یہ ہوگا کہ ادنی آدمی نصیحت کرے یا اعلی آدمی
خطبات طاہر جلد ۲ 4 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۸۳ء نصیحت کرے تمہارے دل میں اس کی عزت ہے یا اسکے لئے تحقیر پائی جاتی ہے ، تمہارے دل میں اس کے لئے خواہ نفرت ہے خواہ محبت پائی جاتی ہے، آنحضرت ﷺ کی طرف اگر تم منسوب ہوتے ہو تو نصیحت کی بات کو دیکھو، یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے.جب یہ جذبہ ہو جاتا ہے تو پھر نصیحت میں جو نوافل ہیں ان پر عمل کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے.نصیحت میں کچھ فرائض ہیں جن کا عدل کے ساتھ تعلق ہے، کچھ نصیحت میں نوافل ہیں.پس جن لوگوں کو نصیحت کے عدل کی توفیق ملتی ہے اللہ تعالیٰ ان کو نوافل کی اس رنگ میں تو فیق عطا فرماتا ہے کہ جب ایسے لوگوں کی طرف سے بات ملے جن کے لئے دل میں زیادہ محبت اور زیادہ احترام پایا جاتا ہےتو وہ یہ نہیں دیکھا کرتے کہ یہ بات کہنے کا حق بھی ہے یا نہیں یا ہم پر فرض بھی ہے یا نہیں.منہ سے بات نکلتی ہے اور اسے پورا کر دیتے ہیں مثلاً آنحضرت علی ایک دفعہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے تو باہر سے آنے والے کچھ (اب بھی جس طرح دیر سے آرہے ہیں اس طرح ) لوگ مسجد میں پہنچ رہے تھے.کچھ لوگ مسجد نبوی میں پیچھے کھڑے تھے آنحضور علی لے نے ارشاد فرمایا کہ بیٹھ جائیں.چنانچہ باہر سے آتے ہوئے ایک شخص کے کان میں یہ آواز پڑی تو وہ بیٹھ گیا اور پرندوں کی طرح پھوک پھدک کر مسجد کی طرف چلنے لگا.ایک اور آدمی پاس سے گزر رہا تھا اس نے جب یہ حیرت انگیز منظر دیکھا، اس کو ہنسی بھی آئی ہوگی ، اس نے کہا تمہیں کیا ہو گیا ہے یہ کیا حرکتیں کر رہے ہو.اس نے جواب دیا میرے کان میں حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آواز پڑی ہے کہ بیٹھ جاؤ تو میں بیٹھ گیا ہوں.اس نے کہا آپ نے تو مسجد والوں کو فرمایا ہوگا ، یہ تو نہیں فرمایا کہ جو راستوں میں چل رہے ہیں وہ بھی بیٹھ جائیں.اس نے جواب دیا میں نے یہ نہیں سنا کہ کس کو کہا تھا میرے کان نے تو بیٹھ جاؤ کی آواز سنی ہے اور میں بیٹھ گیا ہوں.( ابوداؤ د کتاب الصلوۃ باب الامام يكلم الرجل في خطبتم ) پس اگر کوئی قوم ادنی بنیادی مقامات پر قائم ہو جائے تو پھر اطاعت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کی اسے توفیق ملتی ہے.اس کے بہت فوائد حاصل ہوتے ہیں.حضور اکرم ﷺ کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں بھی قوموں کے عظیم الشان ترقی کے راز ہیں.اگر آپ کے غلام ان کی طرف توجہ نہ کریں اور ان پر غور کرنا چھوڑ دیں تو بہت بڑی نعمتوں سے محروم ہو جائیں گے.اس لئے جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ نصیحت کے معاملہ میں اس بات کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ اصل نصیحت وہی ہے
خطبات طاہر جلد ۲ 5 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء جو حضرت محمد مصطفی نے کی ہے.پس یہ نہ دیکھیں کہ کس نے ان کو کیا نصیحت کی ہے یہ دیکھا کریں کہ نصیحت اپنی ذات میں کیا ہے.اگر اس میں کہنے والے کے نفس کی کچھ ملونی بھی شامل ہوگئی ہو تو مثلاً بعض لوگ نصیحت میں دراصل اپنے بدلے اتار رہے ہوتے ہیں، ان کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو فائدہ پہنچے وہ اپنے دل کا دکھ نکالتے ہیں، ایسی صورت میں بھی اتنی عظیم الشان نصیحت ہے.فرمایا : ضالة المؤمن ( سنن ترمذی، کتاب العلم ، باب ما جاء في فضل الفقه على العبادة ) تم یہ سمجھنا کہ تمہاری گم شدہ چیز ہے اور گم شدہ چیزوں میں بھی بعض دفعہ جب گند لگ جاتے ہیں اور خرا بیاں پیدا ہو جاتی ہیں انسان اپنا حق سمجھ کر ان کو لے لیتا ہے اور ان خرابیوں کو دور کر دیتا ہے، اس کو اصل کی طرف لوٹا دیتا ہے.اس چھوٹی سی بات میں اتنا گہرا فلسفہ ہے کہ انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.اگر آپ اس پر عمل کریں گے تو پھر انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو ایسی حیرت انگیز اور عظیم الشان اطاعت کی توفیق ملے گی کہ جس کے تصور سے بھی دنیا عاری ہے.اس طرح جماعت احمد یہ اطاعت کے معاملہ میں جس مقام پر فائز ہو گی دنیا اس کا وہم بھی نہیں کر سکے گی کیونکہ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کے نتیجہ میں ہم نے یہی نظارے دیکھے ہیں.الله تیسری بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آنحضرت علیہ نے عفو ، رحم اور شفقت کا جو سلوک فرمایا اور اس کے پاک نمو نے قائم فرمائے ان کا ذکر تو بہت ہی طویل ہے یعنی ایک مجلس تو کیا سینکڑوں مجالس میں بھی اس ذکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ حضور اکرم ﷺ کی سیرت کا ایک عظیم الشان پہلو یہ ہے کہ وہ دور سے بھی حسین نظر آتی ہے اور قریب سے بھی حسین نظر آتی ہے.اور قریب جا کر حسن کے نئے نئے پہلو سامنے آنے لگتے ہیں.جس طرح باغ کو آپ بھی ایک نظر سے دیکھتے ہیں آپ کو بڑا حسین نظر آتا ہے لیکن جب تتلیاں پھولوں کا رس چوستی ہیں تو ان کو پھول کا ایک اور حسن نظر آنے لگتا ہے.گویا کسی چیز کو قریب سے دیکھیں تو اس کے حسن کی تفاصیل نظر آتی ہیں.پس کامل حسن جو ظا ہری بھی ہو اور باطنی بھی ہو اسکی ایک خصوصی علامت یہ بھی ہے کہ وہ دور سے بھی اچھا دکھائی دیتا ہے اور قریب سے بھی.البتہ جتنا قریب آئیں اس کا حسن زیادہ جاذب نظر ہوتا چلا جاتا ہے اس لئے آنحضرت ﷺ کی سیرت کا اس پہلو سے بھی مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے.ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی زندگی کے چھوٹے چھوٹے واقعات پر بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 6 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء آپ غور کریں تو ان کے اندر بھی آپ کی سیرت طیبہ کے بہت سے عظیم الشان پہلو دکھائی دیتے ہیں لیکن جو سب سے اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ جب سیرت کے مضمون کو ہم سنتے ہیں تو اس طرح نہیں سنتے جس طرح سنے کا حق ہوتا ہے.آپ ایک کھلاڑی کی کھیل کا باہر بیٹھے نظارہ کرتے ہیں.مثلاً کرکٹ کی بہت اچھی کھیل ہو رہی ہے، آپ باہر بیٹھے دیکھ رہے ہیں اور بڑا لطف اٹھارہے ہیں.کھیل کے بعد گھر کو رخصت ہوتے ہیں.آپ کو بلا بھی پکڑنا نہیں آتا.کوئی آپ کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم اتنی تعریفیں کر رہے تھے اب بلا تو پکڑ کے دکھاؤ.آپ کہیں گے تم پاگل ہو گئے ہو.بلے کا مجھ سے کیا تعلق میں تو نظارہ کر رہا تھا.مجھے لطف اٹھانے کا حق ہے ہاں مجھے کھیل سے کوئی واقفیت نہیں.لیکن سیرت کے کے مضمون میں کوئی انسان یہ نہیں کہہ سکتا.سیرت کا مضمون اور وہ بھی اس سیرت طیبہ کا مضمون جو اسوۂ حسنہ بن گئی ہو اس میں یہ جواب قابل قبول ہی نہیں ہے.یہ جواب بلکہ عقل کے خلاف ہے.جب اسوہ کو سامنے رکھ کر آپ اس حسن کا مطالعہ کرتے ہیں یا حسن کا ذکر کرتے ہیں تو لازماً اس کو اختیار کرنے کی پابندی آپ پر عائد ہو جاتی ہے.حسب توفیق جتنا بھی اختیار کر سکیں اختیار کریں یعنی اپنی اپنی حیثیت اور توفیق کے مطابق لازماً اس طرف قدم آگے بڑھانے پڑیں گے.اگر سیرت کے حسن کا لطف اٹھانے کی خاطر آپ گھروں کو لوٹ آئیں اور اتباع نبوی کی طرف ایک بھی قدم آگے نہ بڑھا ہو تو یہ منافقت ہے یہ سراسر جھوٹ ہے.ایسے لوگوں کو نہ رسول اکرم ﷺ پر درود بھیجے کا حق رہ جاتا ہے نہ ان کے درود کے کوئی معنے بنتے ہیں کیونکہ جن کا عمل ان کے قول کو جھٹلا رہا ہو ، جن کا فعل ان کے نظریات کی تردید کر رہا ہو، ان کے اعمال اور اقوال کی کوئی بھی حقیقت نہیں رہتی.چنانچہ قول کا حسن بھی حسن عمل کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا جیسا کہ قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ( تم السجدة: ۳۴) بڑا حسین قول ہے کہ اللہ کی طرف آؤ.خدا کی طرف بلانے سے بہتر اور کون سا بلا وا ہوسکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ عمل اس قول کی تائید کر رہا ہو.جس کی طرف بلاتے ہو تم بھی تو نظر آؤ کہ اس کی طرف سے آئے ہو.یہ تو نہیں کہ انسان بلائے تو حسن کی طرف اور نظریہ آرہا ہو کہ وہ انتہائی گندگی سے نکل کر آیا ہے.پس یہی وہ مضمون ہے جس کو ہم جب سیرت پر اطلاق کر کے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 7 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۸۳ء آنحضرت ﷺ کی سیرت کا مضمون بیان کرنا بھی انتہائی ذمہ داریوں کو دعوت دیتا ہے اور سننا بھی انتہائی ذمہ داریوں کو دعوت دیتا ہے.اس لئے اس مضمون میں انسان کوحتی المقدور یہ دعا کرتے رہنا چاہئے اور یہ کوشش کرتے رہنا چاہئے کہ وہ جو کچھ سنے ویسا بننے کے لئے کچھ نہ کچھ کوشش ضرور کرے.اگر معمولی پاک تبدیلی بھی پیدا ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبول فرماتا ہے اور آگے بڑھا صلى الله دیتا ہے اس لئے جب آپ سنتے ہیں کہ آنحضور ﷺے صدیق تھے تو سچ کے معیار میں کچھ اضافہ کرنا ضروری ہو جاتا ہے.جب آپ سنتے ہیں کہ آپ امین تھے تو دیانت کے معیار کو بڑھانا ضروری ہو جاتا ہے.جب آپ سنتے ہیں کہ آپ محسن تھے اور بخشش کرنے والے تھے تو اپنی بخشش کے معیار کو بڑھانا ضروری ہو جاتا ہے.لیکن آنحضور علی بخشش کیسے کرتے تھے، کیوں کرتے تھے ، کہاں بخشش فرماتے تھے اور کہاں نہیں فرماتے تھے ؟ اس نقطہ نظر سے آپ کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو صرف نیک عمل کی توفیق نہیں ملتی بلکہ آنحضرت ﷺ کے کردار کے پس منظر میں ایک گہرا فلسفہ دکھائی نا ہے.آپ کے ایک چھوٹے سے عمل میں بھی عظیم الشان تعلیمات کا ایک سمندر نظر آتا ہے.اس پہلو سے جب ہم آپ کی سیرت طیبہ پر غور کرتے ہیں اور دیگر حسن والوں سے حضور اکرم ﷺ کا موازنہ کرتے ہیں تو ان کی کوئی بھی حیثیت آنحضور ﷺ کے مقابل پر نظر نہیں آتی.الله حسن یوسف بہت مشہور ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کا جو اصل حسن ہے جس کا سیرت سے تعلق ہے قرآن کریم نے اس کا واقعہ بیان کرتے ہوئے چند الفاظ میں محفوظ کیا ہے.فرمایا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف : ۹۳) آج کے دن تم پر کوئی پکڑ نہیں ہے.یہ معافی کا بڑا عظیم الشان اعلان ہے اور بہت ہی خوبصورت قصہ دکھائی دیتا ہے.لیکن آنحضرت ﷺ کی طبیعت میں جو بجز اور انکسار تھا اس میں ایک یہ بات بھی حیرت انگیز طور پر سامنے آتی ہے کہ جب فتح مکہ کے بعد آپ نے قوم کو معاف فرمایا تو حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف توجہ پھیر دی اور وہ الفاظ استعمال فرمائے جو حضرت یوسف علیہ السلام استعمال کر چکے تھے.آپ نے فرمایا جس طرح میرے بھائی یوسف نے کہا تھا میں بھی وہی کہتا ہوں.حالانکہ اگر آپ تجزیہ کر کے دیکھیں، دیانت داری سے مقابلہ کریں تو حسن یوسف کو حسن محمد مصطفی ﷺ سے کوئی نسبت ہی نہیں رہتی.حضرت یوسف علیہ السلام نے کیا معاف کیا اور کس طرح معاف کیا ، اس پر ذرا غور کر کے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت
خطبات طاہر جلد ۲ 8 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کا تو یہ سلوک تھا کہ آپس کے مشورہ کے بعد انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یوسف کو کنویں میں پھینکو جو اندھا کنواں ہو اور بچنے کے امکان ہوں ، وہاں سے قافلے گزرتے ہوں اور کسی قافلہ والے کی نظر پڑ جائے اور ہمارے بھائی کو بچا کر لے جائے.یہ بھی ظلم تو تھا.لیکن ہرگز نہ کسی نے نہ چھیڑ ماری ، نہ دکھ دیا ، نہ گالیاں دیں بلکہ پڑے پیار کے ساتھ وہاں کھیلتے کھلاتے اسے کنویں میں چھوڑ کر خود بھاگ آئے.اس ظلم کے واقعہ کے بعد کتنے ہی سال گزر جاتے ہیں پھر جب وہ دوبارہ اپنے بھائی کے سامنے آتے ہیں اور ایسے حال میں آتے ہیں کہ ان کی حالت بڑی قابل رحم ہے، فاقوں سے ان کے پیٹ ان کی کمروں کے ساتھ لگے ہوئے ہیں ، بھوک سے تنگ آکر انہوں نے کتنی مشقت کا سفر اختیار کیا، ایسی قابل رحم حالت میں اتنی مدت کے بعد اگر ایسا بھائی کوئی مل جائے تو انسان فطرت میں از خود رحم کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے اور پھر بعد کے حالات سے پتہ چلتا ہے کہ ایک دفعہ آئے پھر دوسری دفعہ آئے.ملکی قانون اتنا سخت تھا کہ اپنے بھائی کو قانون ملک کے خلاف اپنے پاس روک بھی نہیں سکتے تھے انہوں نے بدلہ کیا لینا تھا.بدلہ تو لیتا ہے مطلق العنان حاکم جس کے قبضہ قدرت میں کئی چیزیں ہوں.قرآن کریم کا یہ احسان ہے کہ حضرت یوسف کے حسن کو اس رنگ میں پیش فر مایا ورنہ اگر آپ تجزیہ کر کے دیکھیں تو بدلہ کی تو طاقت کوئی نہیں تھی.معافی سے مراد یہ ہے کہ میں نے دل سے تمہارا دکھ دور کر دیا.اس سے زیادہ اس معافی کے کوئی معنی نہیں.لیکن جہاں تک انتقام نہ لینے کا تعلق ہے اس کا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ سے وہاں کوئی تعلق نہیں بنتا کیونکہ اس ملک کے قانون میں حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ دخل نہیں تھا کہ قانون تبدیل کر کے اپنے بدلے چکانے کے لئے کسی پر کوئی زیادتی کر سکیں یہ قرآن کریم کی گواہی ہے.اس کے مقابل پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کا واقعہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ دیکھیں تو کوئی نسبت آپس میں نظر نہیں آتی.یہ بھی حضور اکرم ﷺ کا احسان تھا کہ حضرت یوسف کا ذکر فرما دیا اور ان کے الفاظ میں ذکر فر مایا اور بجز کی انتہا ہے کہ اپنی طرف سے توجہ ہٹا کر حضرت یوسف کی طرف پھیر دی حالانکہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا واقعہ جو مکہ میں رونما ہوا اس کی الگ الگ اور ہر پہلو سے حیرت انگیز شانیں ہیں.الله اس کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ واقعہ تھا کیا ؟ سب سے پہلے یہ دیکھیں کہ عرب قوم کا اپنا طریق کیا تھا، کیا ان میں معافی کے جذبے پائے جاتے تھے اور یہ کہ وہ کس قد رعفو
خطبات طاہر جلد ۲ 9 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء کرنے والے لوگ تھے اور کس حد تک وہ کینوں میں مبتلا قوم تھی.اس قومی پس منظر کو بھلا کر ہم کس طرح اس واقعہ کا جائزہ لے سکتے ہیں.عرب قوم کے معاملات کا چھوٹا سا اندازہ آپ اس طرح لگا سکتے ہیں کہ انکی بعض لڑائیاں سوسو سال تک چلتی رہی ہیں، معمولی معمولی باتوں پر بدلہ لینا ان کی سرشت میں داخل تھا ، وہ ہرگز معافی کا نام نہیں جانتے تھے ، بدلہ کے معاملہ میں اپنے عزیز ترین اقربا سے بھی بدلہ لیتے تھے اور اس میں ان کے تشدد کا یہ حال تھا کہ ادنی ادنی چیزوں کا بدلہ اعلیٰ اعلیٰ چیزوں سے لیا کرتے تھے اور پھر اس پر فخر کرتے تھے.خانہ کعبہ میں ایسے قصیدے لٹکائے جاتے تھے جن میں اپنے مظالم کی داستانوں پر فخر کیا جا تا تھا.یعنی وہ اس بات پر فخر کرتے تھے کہ ہم بدلہ لینے والی قوم ہیں اور ہرگز معاف نہیں کر سکتے چنانچہ عرب میں ایک ایسی جنگ لڑی گئی جس میں بنو تغلب اور بنو بکر کے درمیان جنگ اس وجہ سے شروع ہوئی کہ بنو تغلب کا سردار کلیب بڑا طاقتور اور صاحب اثر عرب رئیس تھا.اس کی بیوی حلیلہ قبیلہ بنو بکر سے تھی.اس حلیلہ کا ایک بھائی تھا جس کا نام جساس تھا جو اپنی خالہ بسوس کے ساتھ رہا کرتا تھا.بسوس کے پاس ایک شخص سعد نامی بطور مہمان آکر ٹھہرا.سعد کی ایک اونٹنی تھی جو کلیب کی چراگاہ میں جساس کی اونٹنیوں کے ساتھ مل کر چرا کرتی تھی.کلیب نے ایک پرندہ کو پناہ دی.پناہ بھی کیا دی ایک دن ایسا اتفاق ہوا کہ کلیب ایک درخت کے نیچے سے گزر رہا تھا کہ درخت کے اوپر سے اس کو ایک پرندہ کی آواز آئی ، کلیب نے نظر اوپر اٹھا کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ ایک پرندہ نے اس درخت پر ایک گھونسلہ بنا کر اس میں انڈے دے رکھے تھے.کلیب نے اس پرندہ کی طرف دیکھ کر کہا "اچھا میں تمہیں پناہ دیتا ہوں تمہارا کوئی کچھ نہیں بگاڑے گا“.دوسرے دن جب کلیب وہاں سے گزرا تو اس نے اوپر نظر اٹھائی، دیکھا کہ گھونسلہ ٹوٹا ہوا ہے اور انڈے درخت سے نیچے گرے پڑے ہیں اور پرندہ او پر درد بھری آواز نکال رہا ہے.اس نے ادھر ادھر نظر کی تو سعد کی اونٹنی چر رہی تھی اسے شک پڑا کہ شائد اس اونٹنی نے درخت کے پتے کھاتے کھاتے پرندہ کا گھونسلہ بھی تو ڑ دیا ہو.چنانچہ وہ غصہ سے مغلوب ہو کر اپنی بیوی کے بھائی جساس کے پاس گیا اور کہا دیکھو جساس! آج میرے دل میں ایک سودا سمایا ہوا ہے کہ شاید میں کچھ کر گزروں.آج کے بعد تمہارے مہمان کی اونٹنی میری چراگاہ میں نہیں چھرے گی اور اگر یہ میری چرا گاہ میں دیکھی گئی تو میں اس کے دودھ دان میں تیر مار کر اسے دکھوں کے ساتھ ہلاک کر دوں گا.یہ تھی
خطبات طاہر جلد ۲ 10 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء عرب قوم ! اب اس کی بیوی کے بھائی کا جواب بھی سنیں.وہ کہنے لگا میرے مہمان کی اونٹنی کے دودھ دان میں اگر تو نے تیر مارا تو میں خود تمہارا سینہ تیر سے چھید کر رکھ دوں گا.یہ واقعہ گزر گیا.کلیب کی بیوی حلیلہ نے صلح صفائی کی بڑی کوشش کی لیکن کھچاؤ پیدا ہو گیا.آخر ایک دن جب کلیب اپنے اونٹوں کو پانی پلا رہا تھا اتفاقا جساس کے مہمان کی اونٹنی کلیب کے اونٹوں میں آکر پانی پینے لگ گئی اس نے تیر مارا جو سیدھا دودھ دان پر جالگا.اونٹنی بلبلاتی ہوئی واپس دوڑی اور اپنی مالکہ بسوس جو جساس کی خالہ تھی اس کے دروازہ پر نڈھال ہو کر گر گئی اور دم توڑ دیا.بسوس نے واویلا کیا کہ اے بنو بکر ! تمہارے مہمان کی اونٹنی کو مار کر تمہیں ذلیل کر دیا گیا ، اٹھو اور بدلہ لو.جساس نے غصہ میں آکر اپنے بہنوئی کلیب کو قتل کر دیا.چنانچہ اس پر تغلب اور بنو بکر میں ایک خطرناک جنگ چھڑ گئی جو چالیس سال تک جاری رہی.(الاغانی جلد نمبر صفحہ ۲۶.۳) اس میں اتفاقتل وخون ہوا، اتنی عورتیں بیوہ ہو گئیں اور اتنے بچے یتیم ہو گئے کہ خدا کی پناہ.انسانیت نے اس کے نتیجہ میں وسیع الله پیمانے پر دکھ اٹھائے لیکن عرب اس بات پر قائم رہا کہ ہم معاف نہیں کر سکتے.ہم بدلہ لیتے ہیں.یہ تھے حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ہم وطن لوگ جن میں آنحضور ﷺ کا نور پھوٹا تھا اور پھر یہ دیکھیں کہ آپ نے معاف کن کو کیا ہے.کیسے کیسے ظلم کی داستانیں بکھری پڑی تھیں.اسلام کے ساتھ وابستہ ہو کر آپ کے غلاموں کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹنے والے، مسلمان عورتوں کی شرمگاہوں میں نیزے مار کر ہلاک کر دینے والے، بچوں کو ذبح کر دینے والے، گھروں سے نکالنے والے، تین سال تک فاقوں کے دکھ دینے والے کوئی ایک دکھ تھا.بے انتہا دکھ تھے اور آنحضرت علی کے ساتھ حضرت یوسف کے بھائیوں والا سلوک کب ہوا تھا.آپ کے گرد تو پہرہ لگا ہوا تھا کہ آپ کو زندہ بچ کر جانے ہی نہیں دیں گے.عرب کے سارے قبائل نے یہ عہد کیا تھا کہ وہ سب آپ کے قتل میں شامل ہوں گے.ہر قبیلہ کا نیزہ آپ کے سینے پر پڑے گا.یہ وہ لوگ تھے جن کو فتح مکہ کے موقع پر معاف کیا گیا تھا اور معاف بھی اس شان سے کیا ہے که لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے صرف ایک فقرہ پر اکتفا نہیں کیا ہے.اس کے بعد معافی کا جو سمندرکھل جاتا ہے وہ آپ کی صداقت کی ایک عظیم الشان دلیل ہے.اسکی داستان بڑی طویل ہے.صلى الله ایک ایک مجرم جس کا آپ قصہ سنیں کہ اس نے کیا کچھ کیا تھا اور کس طرح حضور اکرم ﷺ نے اس سے
خطبات طاہر جلد ۲ 11 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء معافی کا سلوک فرمایا ہے تو عقل دنگ رہ جاتی ہے.صرف یہ کہہ دینا کہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ یہ تو کوئی چیز ہی نہیں ہے.دیکھنا یہ ہے کہ لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے کیا اثرات ظاہر ہوئے ، کہاں کہاں ظاہر ہوئے ، کن کن لوگوں پر وہ ظاہر ہوئے.یہ ہے وہ تفصیل جو غور کے لائق ہے.ابوسفیان کی بیوی ہند وہ عورت تھی جس نے حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر چبا لیا تھا اور زبان سے خون چاٹا تھا.آنحضرت ﷺ کو جنگ احد میں سب سے زیادہ دکھ حضرت حمزہ کی شہادت کا تھا.اسقدر بے قراری سے آپ اس دکھ کا اظہار فرماتے تھے کہ میں نے ساری تاریخ میں کسی اور دکھ کا اس طرح ذکر نہیں پڑھا.چنانچہ فتح مکہ کے موقع پر ہند نقاب اوڑھ کر بیعت کرنے والیوں میں شامل ہوگئی.آنحضرت ﷺ نے فیصلہ فرمایا تھا کہ اس کو معاف نہیں کروں گا لیکن وہ بیعت کرنے والی عورتوں میں شامل ہوگئی.آنحضور ﷺ کو اس کی آواز اور حرکتوں سے پتہ چل گیا کہ کون عورت ہے لیکن آپ کو تو معاف کرنے کا بہانہ چاہئے تھا.فرمایا اچھا ٹھیک ہے تم کو بھی معاف کرتا ہوں.وہ ایک دفعہ بولی دو دفعہ بولی اس وقت بھی اس نے گستاخیاں کیں.مثلاً آنحضرت ﷺ نے جب بیعت کے الفاظ دو ہرائے تو کہنے لگی کہ مردوں سے تو آپ یہ بیعت نہیں لیتے عورتوں سے کیوں بیعت لے رہے ہیں.آنحضور عملہ سمجھ گئے کہ یہ کون ہے؟ پھر اس کے بعد آنحضرت ﷺ نے یہ عہد لیا کہ اپنے بچوں کو قتل نہیں کرے گی.ہند بولی کہ ہم نے جو بچے پال پوس کر جوان کئے تھے وہ تو جنگ بدر کے دن آپ نے قتل کر دیئے تھے.اس لئے آپ کا اور بچوں کا معاملہ باہم رہا، ہم نے پال پوس کر جوان ہی کئے تھے نا.اس وقت آنحضرت ﷺ کے زخموں پر نمک پاشی ہو رہی تھی.ایسا شخص جو اس قدر ڈھٹائی کے ساتھ آگے سے جواب دے رہا ہے اور گستاخیاں کر رہا ہے اس پر بھی آنحضرت علی نے جوابا مسکرا کر فرمایا ہند! میں جانتا ہوں تم عقبہ کی بیٹی ہو.پھر جب آنحضرت ﷺ نے یہ فرمایا کہ دیکھو چوری بھی نہ کرو.اس پر بھر وہ بولی کہ چوری ! بس میں تو ابوسفیان کی تھوڑی سی چوری کر لیتی ہوں.ابوسفیان بھی وہیں تھا.اس نے کہا میں اسکو پچھلی ساری چوریاں معاف کر دیتا ہوں، یا رسول اللہ ! آب بھی معاف کر دیں.کہاں خاوند کے چند پیسے معاف کرنا اور کہاں ہند کو معاف کر دینا جس نے آپ کے چچا کا جگر چبا لیا تھا.آپ نے فرمایا ٹھیک ہے میں اس کو معاف کرتا ہوں.(الاصابۃ فی تمیز الصحابہ، ذکر هند بنت عتبہ بن ربیعة - السیرۃ الحلبیہ جلد نمبر ۳ صفحه ۴۶- ۴۷) یہ تھے ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی امی
خطبات طاہر جلد ۲ 12 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۸۳ء اور یہ تھا لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا حسین مظاہرہ جو حضور اکرم سے رونما ہوا.پھر عکرمہ بن ابی جہل کو معاف کرنے کا واقعہ بھی کچھ کم نہیں ہے.وہ ابو جہل جو سب سے زیادہ خباثت اور دکھ دینے میں آگے بڑھ گیا تھا اس کا بیٹا عکرمہ بھی ان لوگوں میں سے تھا جس کو آنحضرت ﷺ نے شروع میں معاف نہ کرنے کا فیصلہ فرمایا تھا.یہ وہی عکرمہ ہے جس نے جنگ احد میں خالد بن ولید کے علاوہ غیر معمولی کردار ادا کیا تھا.اس جنگ میں مسلمانوں کے خلاف پانسہ پلٹنے کا اگر کوئی سہرا کہلا سکتا ہے تو وہ اس کے سر پر تھا.یہ نہایت تیز طرار اور بڑا قابل جرنیل تھا.یہ فتح مکہ کے موقع پر اس خوف سے بھاگ گیا کہ میں آنحضرت ﷺ کے حلقہ اثر ہی سے نکل جاؤں گا یعنی جہاں تک حضور اکرم ﷺ کا اثر ہے وہاں سے باہر نکل جاؤں.چنانچہ وہ جنوب کی طرف بھاگا اور پھر وہاں سے حبشہ کی طرف جانے کے لئے کشتی میں بیٹھ رہا تھا تو اتنے میں اس کی بیوی وہاں پہنچ گئی اسے کہنے لگی تمہارے دماغ کو کیا ہو گیا ہے تم دنیا میں سب سے بڑے محسن اور سب سے زیادہ بخشش کرنے والے سے بھاگ رہے ہو.اس نے کہا کیا رسول اللہ علہ مجھے بھی معاف کر دیں گے؟ وہ کہنے لگی تم چل کر دیکھو تو سہی.رسول اللہ ﷺ کو معلوم ہو گیا کہ عکرمہ کو اس کی بیوی لینے گئی ہے اور شاید اس کو لے کر واپس آجائے اب دیکھیں کہ آپ انتقام کس طرح لے رہے ہیں لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا کیا مفہوم اس وقت ظاہر ہوتا ہے صحابہ کو نصیحت فرمائی کہ دیکھو! عکرمہ بن ابی جہل نہ کہنا اس سے اسکو دکھ پہنچے گا.مردوں کے دکھ تم زندوں میں کیوں منتقل کرتے ہو.ابو جہل مر گیا وہ خدا کے حضور حاضر ہو گیا اس کے ساتھ جو سلوک ہونا ہے وہ تو اس کے ساتھ ہوگا مگر اس کی وجہ سے تم زندوں کو کیوں دکھ دیتے ہو.اس لئے عکرمہ کو ہر گز عکرمہ بن ابی جہل نہیں کہنا.جب وہ آیا اور آنحضرت علی کو خبر ملی تو اسی وقت اٹھ کھڑے ہوئے اور چادر بھی نہیں لی.چل پڑے اور فرمانے لگے مــــرحبـــا بالراكب المهاجر.مرحبا بالراكب المهاجر اوٹنی کے سوار مہاجر کو مرحبا مرحبا! وہ واپس آگیا.(المنتظم فی تاریخ الملوک و الامم، ذکر عکرمہ بن ابی جھل جلد ۲ صفحہ ۱۵۶.صفوة الصفوة ، ذکر عکرمہ بن ابی جھل جلد اصفحہ ۷۳۰.الاصابۃ فی تمییز الصحابہ، ذکر عکرمہ بن ابی جہل جلد ۴ صفحه ۵۳۸) یہ تھا سلوک حضرت محمد مصطفی میلے کا اپنے جانی دشمنوں کے ساتھ اور یہ تھالَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کا منظر جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے.آپ نے اسی پر بس نہیں کی بلکہ اپنی
خطبات طاہر جلد ۲ 13 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء چادر عکرمہ کو عطا کر دی.اس نے کہا یا رسول اللہ (ﷺ ) مجھے معاف کر دیں، میں نے بہت ظلم کئے ہیں، میں نے آپ کو بہت دکھ دیئے ہیں.آپ نے فرمایا کیسی معافی ، میں تو تمہیں معافی سے کچھ زیادہ دینا چاہتا ہوں.آپ نے اسکو معاف بھی کر دیا اور فرمایا میں تمہیں کہتا ہوں مانگو جو مانگتے ہواگر میری طاقت میں ہوا تو خدا کی قسم میں تمہیں عطا کر دوں گا.عکرمہ نے کہا یا رسول اللہ ! اگر آپ نے عطا کرنا ہے تو پھر میں یہ مانگتا ہوں کہ میرے لئے بخشش کی دعا کریں.اللہ تعالیٰ میرے سارے گناہ معاف فرما دے.آپ نے اسی وقت دعا کی اے اللہ ! عکرمہ کے سارے گناہ معاف فرما دے، میں تیرے حضور اس کی بخشش کی التجا کرتا ہوں.یہ تھے ہمارے آقا حضرت محمد مصطفی ہے جنہوں نے اپنے دشمنوں کو معاف کر کے ایک کامل اور بے مثال نمونہ قائم کر دیا.پس جب لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کے ان واقعات پر آپ غور کریں گے تو ایک نہیں دو نہیں ایسے سینکڑوں واقعات آپ کے سامنے آئیں گے جن کے اثرات پھیلتے چلے جاتے ہیں اور عجیب شان کے ساتھ وہ اثرات نئے اثرات میں تبدیل ہو جاتے ہیں یعنی احسان ایک جگہ جا کر رک نہیں جاتا بلکہ اس سے نئے احسانات کے چشمے پھوٹنے لگ جاتے ہیں.یہ خیال کر لینا کہ آنحضور علی نے جب معاف کر دیا تھا تو معاف کرنا بڑا آسان تھا، اس سے بڑی بیوقوفی کوئی نہیں کیونکہ ابھی تو وہ خون تازہ تھا جو مسلمان مظلوموں کا بہایا گیا تھا.ابھی تو اس کا رنگ بھی تبدیل نہیں ہوا تھا.حضوراکرم ﷺ جب ہند کو معاف فرمارہے تھے تو کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ حضور بھول گئے تھے کہ حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ کیا ہوا تھا، جب حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر ظلم کرنے والوں کو معاف فرما رہے تھے تو کیا آپ کو یاد نہیں رہا تھا کہ بلال کو کس طرح گلیوں میں گھسیٹا جاتا تھا.ایک ایک چیز آپ کے ذہن میں تھی ، ایک ایک دکھ تازہ تھا کتنا غیر معمولی صبر آپ نے کیا ہوگا.کتنا غیر معمولی دکھ برداشت کر کے آپ نے معاف کیا ہوگا.یہ بھی آپ کی سیرت طیبہ کا ایک حسین منظر ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے دکھ کو ان لوگوں کے دکھ میں تبدیل کر دیا جن کو آپ نے معاف کیا تھا.بے شک معافی تو ان کو مل گئی لیکن انہوں نے ہمیشہ پریشانی کی حالت میں زندگی بسر کی.ان کے دلوں کے دکھ تازہ رہے.حضور اکرم نے ان کو معاف کرتے وقت جو دکھ محسوس کیا ہوگا معاف ہونے کے باوجود وہ ساری عمر ا نکے سینوں میں دکھ بن کر کھٹکتا رہا.معافی کے نتیجہ میں بعض دفعہ بے حیائی پیدا
خطبات طاہر جلد ۲ 14 خطبہ جمعہ ۷ /جنوری ۱۹۸۳ء ہوتی ہے اور بعض دفعہ پشیمانی پیدا ہوتی ہے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: ۴۱) که معاف کرنا بہت اچھی بات ہے لیکن یہ فیصلہ کر لینا چاہئے کہ معافی کے نتیجہ میں (معاف کئے جانے والے آدمی کے دل میں ) پشیمانی پیدا ہوگی اور اسکی اصلاح ہوگی یا بے حیائی پیدا ہوگی.اگر تم سمجھتے ہو کہ بے حیائی پیدا ہوگی تو تمہیں معافی کی اجازت نہیں ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جہاں یہ دیکھا کہ معاف کرنے سے اصلاح نہیں ہوگی وہاں معاف نہیں فرمایا اور جہاں یہ دیکھا کہ معافی سے اصلاح ہوگی وہاں معاف فرمایا.چنانچہ ایسی حیرت انگیز اصلاح کے نمونے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی تاریخ میں اس کی کوئی مثال نظر نہیں آتی.جن لوگوں کو معاف کیا گیا تھا ان کے دلوں میں ایک عظیم الشان انقلاب آ گیا.ایک دفعہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج کے لئے مکہ تشریف لے گئے.وہاں بڑے بڑے رؤوساء آپ سے ملنے کے لئے آئے.ایک بڑا ہجوم تھا جس میں بہت سے پرانے غلام بھی شامل تھے جو آپ سے ملنے کے لئے حاضر ہوئے تھے ، اس موقع پر حضرت عمر نے نام لے لے کر غلاموں کو آگے بلانا شروع کیا.رؤوساء مکہ کو دیکھ رہے تھے لیکن ان کو آگے نہیں بلاتے تھے.چنانچہ ان رؤوساء نے یہ دیکھ کر بڑی سخت ذلت محسوس کی.یہ وہی جساس والی قوم تھی جو ایک پرندہ کے انڈوں کی چھوٹی سی بات پر شدید قتل و غارت کر سکتی تھی.بہر حال ایک کے بعد دوسرے غلام کو حضرت عمرؓ آگے بلاتے رہے اور بڑے بڑے سردار پیچھے بیٹھے رہ گئے.اس وقت ابو سفیان کی متعلق ایک روایت میں آتا ہے کہ وہ بھی انہی لوگوں میں شامل تھا اس نے کہا آج سے زیادہ ذلت کا دن دیکھنا ہمیں کبھی نصیب نہیں ہوا.اس پر سہیل بن عمر و جو صلح حدیبیہ کے وقت کفار کی طرف سے معاہدہ لکھنے والا اور بڑا سمجھ دار آدمی تھا ،اس نے کہا کہ اس وقت جن لوگوں کو آگے بلایا جارہا ہے یہ وہ ہیں کہ جب تمہیں ہدایت کی طرف بلایا جا رہا تھا تو تم محروم رہے اور لبیک نہیں کہی لیکن ان غلاموں نے ہی تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی آواز پر لبیک کہا اس لئے اس موقع پر ہمیں تو اس بات کا دکھ ہونا چاہئے کہ اس وقت ہم اس عظیم سعادت سے محروم رہ گئے تھے اور اس کے مقابل پر بھلا یہ بھی کوئی سعادت ہے جس سے محرومی کا تم شکوہ کر رہے ہو کہ آج
خطبات طاہر جلد ۲ 15 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء ہمیں آگے جگہ نہیں ملی.یہ تو کوئی چیز ہی نہیں اس سعادت کے مقابل پر جس سے تم محروم رہ گئے تھے.اصل سعادت تو یہ تھی کہ جب حضرت محمد مصطفی ﷺ تمہیں اسلام کی طرف بلا رہے تھے تم ایمان لے آتے لیکن تم اپنی پیٹھیں پھیر کر دوسری طرف جا رہے تھے.اس جواب کوسن کر ابوسفیان اور بعض دوسرے سرداروں نے خود ہی فیصلہ کیا کہ اب ہم پتہ تو کریں کہ اس کا حل کیا ہے.آخر عرب تھے با غیرت قوم تھی.اس احساس کے باوجود کہ وہ قصور وار ہیں پھر بھی وہ یہ چاہتے تھے کہ وہ ان عزتوں کو حاصل کریں جو کھوئی گئی ہیں.چنانچہ انہوں نے آپس میں مشورہ کیا اور پھر حضرت عمرؓ کے پاس چلے گئے.دو آدمیوں کے متعلق پتہ چلتا ہے.ایک حارث بن ہشام جو ابوجہل کا سگا بھائی تھا اور دوسرے حضرت سہیل بن عمرو، یہ دونوں حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا امیر المومنین ! ہمیں معلوم ہے کہ ہم سے یہ سلوک کیوں ہوا ہے.ہم اس کا شکوہ لے کر نہیں آئے ہم صرف یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا اس کے ازالہ کی کوئی صورت ہے ؟ حضرت عمرہ کے متعلق لکھا ہے دکھ کی وجہ سے آپ کی آواز گلو گیر ہوگئی ، منہ سے کوئی لفظ نہیں نکل رہا تھا.اس وقت شام میں لڑائی ہو رہی تھی.آپ نے اس طرف اشارہ کیا کہ ایک یہ صورت ہے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے گو تمہارے قصور تمہیں بخش دیئے ہیں لیکن میں جانتا ہوں جب تک تم اپنا خون نہیں بہاؤ گے اس وقت تک چین نصیب نہیں ہوگا اور تم اپنی کھوئی ہوئی عزتوں کو حاصل نہیں کر سکتے.پس بخشش کا ایک یہ نمونہ بھی تھا.یہ اثر بھی تھا.یعنی بخشش ایک اور حسن میں تبدیل ہو گئی.چنانچہ اس بخشش کے نتیجہ میں قربانی کے ایسے عظیم الشان مظاہرے دیکھنے میں آئے کہ وہ دنیا کی تاریخ میں چاند اور سورج کی طرح روشن دکھائی دیتے ہیں.چنانچہ حضرت سہیل اور حارث دونوں نے وہ اشارہ سمجھ لیا.سہیل نے اپنا سارا خاندان اپنے ساتھ لیا سوائے ایک بیٹی کے جو پیچھے چھوڑ دی گئی اور حارث نے بھی اپنا سارا خاندان ہمراہ لیا اور شمال کی طرف جہاد میں شرکت کرنے کے لئے چلے گئے.مؤرخین کہتے ہیں کہ صرف وہ بیٹی بچی جو یہاں رہ گئی تھی اور حارث کا ایک بیٹا بچ گیا باقی سارا خاندان یا وہاں شہید ہو گیا یا سفر کی حالت میں انہوں نے جان دے دی.(اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ ذکر حارث بن هشام ، ذکر سہیل بن عمرو بن هند بن عبد شمس) پس یہ نیکی جو وہاں نظر آتی ہے اور حسن و احسان کا یہ حیرت انگیز نمونہ جو وہاں دکھائی دیتا ہے یہ کہاں سے پیدا ہوا تھا.یہ دراصل حضرت محمد مصطفی علی اللہ کی بخشش کا ایک چھوٹا سا پھل تھا.گویا ہر
خطبات طاہر جلد ۲ 16 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء نیکی حضور اکرم ﷺ کی ذات سے پھوٹ رہی تھی.آپ ہی ہر حسن کا منبع اور سر چشمہ تھے اس لئے صرف لَا تَغرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ کہہ دینا کافی نہیں ہے یا محض سر دھنا کہ بڑا مزہ آیا حضور ا کرم کے لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ فرما دینے پر ، دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کن دکھوں سے گزر کر یہ لَا تَثریب فرمایا گیا تھا.آجکل تو جو جھگڑے میرے سامنے آتے ہیں مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے کہ بعض لوگ ادنی ادنی لڑائیوں کے نتیجہ میں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی معاف نہیں کر سکتے.کہتے ہیں ہم کس طرح معاف کریں ہماری غیرت برداشت نہیں کر سکتی.فلاں نے ہمارے باپ کو یہ کہا تھا فلاں نے چچا کو یہ کہا تھا، کیا ہم میں غیرت نہیں ہے؟ ہم کس طرح اس کو منہ لگائیں لیکن دوسری طرف حضرت محمد مصطفی ﷺ کی تعریف میں روتے بھی ہیں اور آنحضور کو دشمنوں نے جو تکلیفیں پہنچائیں ان کے ذکر پر ان کا دل واقعتہ کڑھتا بھی ہے اور وہ غم اور دکھ بھی محسوس کرتے ہیں لیکن یہ محسوس نہیں کرتے کہ اس اسوہ کو ہم نے اپنی ذات میں بھی تو جاری کرنا ہے.لیکن عجیب احسان ہے حضور اکرم ﷺ کا یا اللہ تعالیٰ کا آپ کی ذات پر کہ ایسی کامل تعلیم عطا فرمائی کہ جو معاف نہیں کر سکتے ان کے لئے بھی کوئی طعنہ نہیں رکھا یہ بھی آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.یہ نہیں کہ آپ خطبہ سن کر جب اپنے گھروں میں واپس جائیں تو ان لوگوں کو طعنے دینا شروع کر دیں جو واقعی طور پر مظلوم ہیں اور معاف نہیں کر سکتے.قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اسکی بھی تمہیں اجازت نہیں.کسی کو اس قسم کا طعنہ دینا بھی اس حسن کے خلاف ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے معاشرہ میں اللہ تعالیٰ پیدا فرمانا چاہتا ہے.فرمایا جو مظلوم ہے اگر وہ معاف نہیں کر سکتا تو اتنا بدلہ لینے کی اجازت ہے اور اس پر کوئی حرف نہیں ہے کوئی پکڑ نہیں ہے اور تمہیں اجازت نہیں ہے کہ تم اس کو طعنے دو اور کہو کہ تم نے معاف کیوں نہیں کیا ؟ جب رسول اللہ ﷺہ معاف فرمایا کرتے تھے تو تم بھی ضرور معاف کرو.وہ کہہ سکتا ہے میں ادنیٰ مقام پر فائز ہوں ، میں عدل سے آگے بڑھنے کی طاقت نہیں پاتا.لیکن فَمَنْ عَفَا وَ أَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللهِ (الشوری: ۴۱) جو آگے بڑھ سکتا ہے اور معاف کر سکتا ہے اس کا اجر اللہ پر ہے.غرض سوسائٹی کو حسین بنانے کے لئے قرآن کریم اور سنت نبوی میں بڑی واضح تعلیم دی گئی ہے اور سوسائٹی کو ہر انسانی دکھ سے محفوظ رکھنے کے لئے ہر کوشش کی گئی ہے.چنانچہ زبانوں کو روکا گیا، صلى الله
خطبات طاہر جلد ۲ 17 خطبہ جمعہ ۷ / جنوری ۱۹۸۳ء زبانوں کو ادب سکھایا گیا، ہر ایک کو اپنا مقام بتایا گیا کہ کہاں تک تم نے رہنا ہے ، کہاں آگے بڑھنا ہے، کہاں رک جانا ہے.حسن و احسان کے یہ سارے کرشمے حضرت محمد مصطفی علی کے ذریعہ سے پھوٹے تھے.یہ حسن و احسان کا قلزم آپ سے جاری ہوا ہے جس نے ساری دنیا کو بھرنا ہے لیکن عملاً ابھی تک نہیں بھر سکے اس لئے کہ قربانی کرنے والے وہ لوگ نہیں ہیں جو اپنی ذات میں اس حسن کو جاری کریں.جماعت احمدیہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے.ہر فرد کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ آنحضور ﷺ کے قائم فرمودہ عدل پر بھی قائم ہو، آپ کے احسان پر بھی قائم ہو اور پھر دعا کرے کہ خدا تعالیٰ اسے اس عالی مقام پر بھی فائز فرما دے جس کو ایتاء ذی القــر بــی کہا جاتا ہے.آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ میں اس کے عجیب و غریب اور حیرت انگیز مناظر ہیں لیکن اب ان کے بیان کا وقت نہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے ہم حضوراکرم ﷺ کی پاک سیرت کو اپنا ئیں اور آپ کے خلق کو اپنی ذات میں زندہ کر کے دنیا کے سامنے پیش کریں.(روز نامه الفضل ربوه ۲۱ / اپریل ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 19 19 خطبه جمعه ۱۴/ جنوری ۱۹۸۳ء اللہ کا رنگ اختیار کرو (خطبه جمعه فرموده ۱۴ جنوری ۱۹۸۳ء بمقام دارالذکر لاہور ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے اس آیہ کریمہ کی تلاوت فرمائی: صِبْغَةَ اللهِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللَّهِ صِبْغَةً (البقرة : ۱۳۹) اور پھر فرمایا: اللہ کا بھی ایک رنگ ہے اور اللہ سے بہتر اور کس کا رنگ ہو سکتا ہے.اس مختصر سی آیت میں تمام نصیحتوں کا نچوڑ بیان فرما دیا گیا.تمام دنیا کی کتابوں کی نصیحتیں اکٹھی کرلیں اور قرآن کریم میں بیان فرمودہ نصیحتوں کی تشریحات کرتے چلے جائیں،اس آیت کے مرکزی نقطہ کے دائرہ سے وہ نصیحتیں باہر نہیں جاسکتیں.فرمایا اللہ کی صفات کو اختیار کرو اور ویسا بننے کی کوشش کرو.نصیحت کا یہ وہ مرکزی نقطہ ہے جس سے آگے تمام نصیحتیں بھی پھوٹتی ہیں اور نصیحت کرنے والے اپنے اختیار بھی لیتے ہیں.پس جب یہ کہا گیا کہ آنحضرت ﷺ کو اسوہ بنایا گیا ہے لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( الاحزاب : ۲۲) تو بات حضور اکرم سے شروع نہیں کی گئی بلکہ بات یہاں سے شروع کی گئی کہ یہ وہ شخص ہے جس نے اللہ کے ہر رنگ کو بہترین طور پر اپنالیا اور جس حد تک انسان کے لئے اپنی تشکیل اور تخلیق کے لحاظ سے ممکن ہے تمام صفات باری تعالیٰ کو اپنے اوپر وارد کر لیا
خطبات طاہر جلد ۲ 20 20 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء اس لئے یہ اسوہ بنا ہے.ورنہ ایک انسان کو کسی دوسرے انسان کے لئے نہ ناصح بنے کا حق ہے نہ اسوہ بنے کا حق ہے.مالک سے بات پھوٹتی ہے اور خالق سے بات چلتی ہے.جب تک کسی کو اللہ تعالیٰ کی نمائندگی کا حق عطا نہ ہو نہ وہ نصیحت کرنے کا اہل ہوتا ہے نہ نصیحت کرنے کا حق رکھتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے ان چند کلمات میں حیرت انگیز طور پر نصیحت کے معاملہ میں تمام حکمتیں بیان فرما دیں اور اسی سے پھر آگے نصیحت کے متعلق جو ضروری ہدایات ہیں مثلاً کیا کیا چیز میں اختیار کرنی چاہئیں اور کیا کیا نہیں کرنی چاہئیں، یہ تمام باتیں بھی اسی ایک چھوٹے سے جملے سے پھوٹتی ہیں.فرمایا گیا، اللہ کا رنگ ہے اور اس سے بہتر رنگ کون سا ہے جس کو تم اختیار کرو گے.لیکن سب دنیا والے جانتے ہیں کہ رنگ خواہ کتنا ہی اچھا ہوا گر رنگ قبول کر نیوالے مادہ میں اہلیت موجود نہ ہو اور وہ اسے قبول نہ کر سکے تو گھنٹوں کیا ، دنوں کیا ، سالوں بھی اس مادہ کو رنگ میں ڈبوئے رکھیں گے وہ اسی طرح بغیر رنگ کا اثر قبول کئے باہر نکل آئے گا تو پھر لازماً قرآن کریم پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی تھی کہ رنگ کرنے والوں کے اطوار اور اخلاق کو بھی بیان کرے، ان کی ذمہ داریوں کو بھی بیان کرے، ان کو یہ بتائے کہ کس طرح رنگ چڑھائے جاتے ہیں اور جن پر رنگ چڑھانا ہے ان کی تمام ذمہ داریوں کو بھی بیان کرے اور ان کمزوریوں سے ان کو متنبہ کرے جن کے نتیجہ میں صفات باری تعالیٰ کے حسین رنگ چڑھ ہی نہیں سکتے.چنانچہ اس مضمون پر قرآن کریم میں حیرت انگیز تفصیل کے ساتھ تعلیم موجود ہے.ایک مسلمان اگر دنیا کی تمام کتابوں کے مقابل پر قرآن کریم کی ایک تعلیم ہی کو سامنے رکھ لے اور قرآن کریم کی آیات پر غور کر کے خود ذہنی طور پر تیار ہو جائے تو وہ بے تکلف اور بلا جھجک دنیا کے سارے مذاہب کو یہ چیلنج دے سکتا ہے کہ تم صرف اسی تعلیم کی کوئی نظیر ایک مذہب سے نہیں سارے مذہبوں کے مجموعہ سے پیش کر کے دکھا دو اور یہ دعوای محض ایک بڑا نہیں ، خواہ مخواہ کی لاف زنی نہیں کیونکہ جیسا کہ میں بیان کروں گا جب بات کھلے گی تو کھلتی چلی جائے گی اور یہ حقیقت واضح ہو کر سامنے آ جائے گی کہ قرآن کریم نے اس موضوع پر بڑی گہری روشنی ڈالی ہے ( اور ابھی ان تمام آیات کو میں نے مجتمع نہیں کیا کیونکہ وقت بھی تھوڑا تھا اور بہت سی مثالیں دینے سے بھی قاصر رہوں گا ) سر دست اس مختصر وقت کی رعایت سے میں چند آیات آپ کے سامنے رکھوں گا ان سے آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ اس
خطبات طاہر جلد ۲ 21 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء معاملہ پر قرآن کریم کس تفصیل کے ساتھ بحث اٹھاتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا رنگ قبول کرنے سے پہلے جو بیماریاں اس راہ میں حائل ہو جاتی ہیں وہ دور کرنی ضروری ہیں.جب تک پہلے وہ داغ صاف نہ ہوں اور وہ چکنائی نہ اترے جو طبیعتوں پر چڑھی ہوئی ہے اور وہ بنیادی وجوہات دور نہ ہوں جن کے نتیجہ میں انسان نصیحت قبول کرنے سے عاری رہ جاتا ہے اس وقت تک نصیحت مؤثر ثابت نہیں ہوسکتی.چنانچہ اس پہلو پر میں آج مختصراً قرآن کریم کی چند آیات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.پہلی بات قابل توجہ یہ ہے کہ بہت سے نصیحت نہ قبول کر نیوالے اس وجہ سے نصیحت کے نیک اثر سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کے نفس بہانے بہت پیش کرتے ہیں.ان کو اپنے دفاع کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے اور جب بھی انہیں کوئی بات کہے ان کو ایک Inferiority Complex یعنی احساس کمتری دل میں پیدا ہوتا ہے کہ یہ بات جو باہر سے کر رہا ہے گویا مجھے ادنی سمجھ رہا ہے اور مجھے یہ بتانا چاہتا ہے کہ تمہارے اندر کمزوریاں ہیں اس لئے میں بھی اپنی ہر کمزوری کا دفاع کروں گا.چنانچہ وہ اپنے نفس سے بھی جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اور اس کہنے والے کے مقابل پر بھی جھوٹ بول رہا ہوتا ہے اور اتنے عذر تلاش کرتا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَوْ اَلْقَى مَعَاذِيْرَهُ ) (القیامہ (۱۲) بڑے لمبے چوڑے عذر یوں پھوٹنے لگتے ہیں جس طرح پہاڑوں سے چشمے ابلتے ہیں اور وہ خود بھی بعض دفعہ ان باتوں سے ناواقف ہوتا ہے.اگر غور کرے تو ضرور ان کی حقیقت کو پالے لیکن اکثر انسان غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ وہ جو باتیں کہہ رہے ہیں ان میں کوئی حقیقت بھی ہے یا نہیں.چنانچہ اس ذکر کے بعد کہ بلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيْرَةٌ وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيْرَهُ (القيامة : ۱۶،۱۵) قرآن کریم نہایت ہی پیارے رنگ میں ایسے عذر پیش کر نیوالوں کو سمجھاتا ہے.کہتے ہیں دائی سے بھی عیوب کبھی چھپ سکتے ہیں.وہ کہتی ہے میں تو تمہارے پوتڑوں تک سے واقف ہوں.لیکن قرآن کریم اس سے بھی بہت پہلے سے بات شروع کرتا ہے فرماتا ہے: اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ أَنْشَاكُمْ مِّنَ الْأَرْضِ وَإِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ أُمَّهَتِكُمْ ۚ فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم:۳۳)
خطبات طاہر جلد ۲ 22 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء سب سے پہلے دل کو نرم کرنے کے لئے اور خوف دور کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو تسلی دلاتا ہے جو بہانہ سازیا بہانہ جو ہوتے ہیں اور فرماتا ہے کہ تم جو بہانے پیش کر رہے ہو اور اپنے افعال کا دفاع کر رہے ہو اس خوف سے کہ سزا ملے گی تو سنو ! ہم تمہیں تسلی دیتے ہیں کہ : اِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃ اے انسان! تیرا رب بہت وسیع مغفرت والا ہے اس لئے تم بے ضرورت باتیں کر رہے ہو.وہ تو ایسا مغفرت والا ہے کہ اس کے سامنے سیدھی اور صاف بات اور جرم کا صاف اقرار سزا کا مستوجب نہیں بناتا بلکہ مغفرت کا مستوجب بنا دیتا ہے.اور پھر بہانہ سازی کی یہ کوشش لا طائل اور لا حاصل ہے اس سے کوئی مقصد حاصل نہیں ہو سکتا.فرماتا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ إِذْ انْشَاكُم مِّنَ الْأَرْضِ وہ تمہیں اس وقت سے جانتا ہے جب اس نے زمین سے تمہیں پہلی بارا ٹھایا تھا.جب تمہیں آغاز تخلیق میں وجود کی خلعت بخشی گئی تھی جس کا مطلب یہ ہے کہ کروڑہا کروڑ سال (اتنے سال پہلے کہ عام آدمی ان کا تصور بھی نہیں کر سکتا ) جب زندگی کا آغاز ہوا تو اس وقت بھی اللہ تعالیٰ واقف تھا کہ اس جنس میں کیا کیا کمزوریاں پیدا ہوں گی ، اس میں کون سی صفات حسنہ ہوں گی اور کون سی صفات سیئہ ہوں گی.اس آیت سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسان کا بلیو پرنٹ یعنی اس کی تخلیق کا خاکہ اسکی پیدائش سے بہت پہلے بنادیا گیا تھا کیونکہ جب تک پہلے یہ خاکہ تیار نہ ہو یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا کہ ہم تمہیں اسوقت سے جانتے ہیں جبکہ تم بحیثیت انسان ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے تھے بلکہ کائنات میں زندگی کے آغاز کے وقت انسان اپنی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں کروٹیں بدل رہا تھا اس وقت سے ہم تمہیں جانتے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کا آغاز جس وقت سے بھی ہوا اور جس شکل میں بھی ہوا آخر تک انسان کے اندر جو جو صفات پیدا ہوئی تھیں ان سب کا ابتدائی نقشہ اس وقت بھی موجود تھا.پھر فرماتا ہے کہ پھر ایسا وقت بھی آیا کہ تم انسان کی شکل میں دنیا میں ظاہر ہوئے لیکن دائیاں تو تمہارے پوتڑوں سے واقف ہوتی ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِذْ اَنْتُمُ أَجِنَّةٌ فِي بُطُونِ اُمَّهَتِكُمْ تم سے ہم اس وقت سے واقف ہیں جب تم ماں کے پیٹ میں جنین تھے ، دوحقیر سے ذرے آپس میں مل رہے تھے اور کچھ واقعات رونما ہو رہے تھے، کچھ تبدیلیاں پیدا ہو رہی تھیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم جبکہ اس وقت بھی جانتے تھے کہ تم کیا بننے والے ہو تو ہمارے ہی سامنے کیا عذر
خطبات طاہر جلد ۲ 23 23 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء پیش کرتے ہو.کیا پاگلوں اور بے وقوفوں والی بات ہے.اس خدا سے عذرات پیش کر کے اپنے افعال کا دفاع کیا جا رہا ہے جو تخلیق آدم سے پہلے بھی انسان سے واقف تھا اور جنین کی ہر تبدیلی سے واقف تھا اور جانتا تھا کہ اس ماں کے پیٹ میں کن کن بد خیالات کے اثرات مجتمع ہورہے ہیں ، کن کن نیک خیالات کے اثرات مجتمع ہور ہے ہیں اور کس قسم کا بچہ پیدا ہونے والا ہے.پس بے معنی باتیں کرتے ہو.فرمایا فَلَا تُزَكُوا أَنْفُسَكُمْ میرے سامنے اپنے آپ کونیک نہ بنایا کرو.هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى تمہارا رب خوب جانتا ہے کہ تم میں سے نیک کون ہے اور صحیح معنوں میں اس سے ڈرنے والا کون ہے.اس ایک آیت میں سارے عذرات کا قلع قمع کر دیا گیا ہے اور انسان کو کیسا انکسار سکھا دیا اور اس کی حیثیت بتادی کہ اس سے آگے بڑھ بڑھ کر تم باتیں نہ کیا کرو.نصیحت قبول کرنی ہے تو اپنے اندر عجز اور انکساری پیدا کر واپنے دفاع کی عادت نہ ڈالو اور جان لو کہ خدا تعالیٰ کے سامنے تمہاری کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.جب انانیت کا یہ داغ دور ہو جاتا ہے اور کاٹا جاتا ہے (اگر دوسرے داغ نہ ہوں ) تو پھر ایسا انسان اللہ تعالیٰ کا رنگ پکڑنے کا اہل ہو جاتا ہے.پس کیسی حکمت کے ساتھ ایک داغ کو دور فرمایا اور اس آیت نے اس کا ادنیٰ سے ادنی نشان بھی باقی نہیں رہنے دیا.پھر فرماتا ہے مادہ پرستی اور عقوبت سے بے نیازی کی سوچ بھی انسان کے نصیحت پکڑنے کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے یعنی نصیحت اور انسان کے درمیان یہ باتیں حائل ہو جاتی ہیں.جب ان کو نصیحت کی جاتی ہے، جب خدا کا رسول انہیں نیکیوں کی طرف بلاتا ہے تو وہ کہتے ہیں: وَقَالُوْا مَا هِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيَا نَمُوتُ وَنَحْيَا وَمَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ وَمَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ إِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ (الجاثیه: ۲۵) وہ کہتے ہیں ہمیں تو سوائے اس حیات دنیا کے اور کچھ نظر نہیں آتا نَمُوتُ وَنَحْيَا اس دنیا میں ہم جیتے بھی ہیں اور مر بھی جاتے ہیں تم ہمیں کیوں ایسی باتوں کی طرف بلاتے ہو جن کے اثرات موت کے بعد ظاہر ہو سکتے ہیں.اگر موت کے بعد کی کوئی زندگی ہو تو تم کیسی یہ باتیں کرتے ہو کہ خدا زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے حالانکہ مَا يُهْلِكُنَا إِلَّا الدَّهْرُ ہمیں تو صرف زمانہ ہی
خطبات طاہر جلد ۲ لله 24 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء مارتا ہے.ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ وہ زندگی اور موت کے فلسفہ سے ناواقف ہیں.وہ یہ نہیں جانتے کہ زندگی کے محرکات کتنے عظیم الشان اور کتنے گہرے اور کتنے وسیع ہیں اور موت کا نظام بھی کتنا کامل نظام ہے اور کس طرح مربوط اور منضبط ہے.ان کو کوئی علم نہیں ہے مَا لَهُمْ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ اِنْ هُمْ إِلَّا يَظُنُّونَ فنی باتیں ہیں ان کی یعنی اس زمانہ کا انسان بھی اس آیت کا مخاطب ہے اور جوں جوں انسان کا شعور اور بصیرت بڑھتی چلی جاتی ہے وہ اپنی لاعلمی کا پہلے سے بڑھ کر اقرار کرتا چلا جاتا ہے.موت اور زندگی کے جو محرکات ہیں اور اس کے جو اسباب اور موجبات ہیں یہ اتنے گہرے اور اتنے تفصیلی ہیں اور یہ ایک ایسا عظیم الشان نظام ہے کہ اگر اس کو اس علم کے مطابق بھی بیان کیا جائے جو آج تک انسان کو حاصل ہوا ہے تو مدتیں چاہئیں اس کے بیان کے لئے اور آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جب کہ انسان کا شعور بہت ہی ابتدائی مرحلہ پر تھا یا انسان کا علم اس معاملہ میں بہت ہی ابتدائی مرحلہ پر تھا اس وقت بھی جاہل بڑی بڑی چھلانگیں مارتے تھے اور حقیقت یہ ہے کہ تکبر ہمیشہ جہالت کی پیدا وار ہوتا ہے اور علم سے ہمیشہ انکسار پھوتا ہے.تومَا لَهُمُ بِذلِكَ مِنْ عِلْمٍ کہہ کر ان کے تکبر کی طرف بھی اشارہ کر دیا.جاہل لوگ ہیں، پتہ ہی کچھ نہیں اس لئے بے دھڑک ہو کر باتیں کرتے ہیں.اگر ان کو ذرا بھی علم ہوتا کہ کیا نظام ہے تو وہ خدا تعالیٰ کے سامنے خوف زدہ ہو جاتے.پھر نصیحت کے تعلق میں انسان کی اس بے نیازی کو بعض دفعہ اموال بھی بڑھا دیتے ہیں یعنی انسان کو ایک تحفظ حاصل ہو جاتا ہے کہ گویا میں مالدار ہوں اور میں نصیحت کرنے والے کا محتاج نہیں ہوں.وہ غریب آدمی ایک ایسا انسان جو غلاموں میں مقبول ہے اور خود بھی غریب ہے اور اسے کئی وقت کی روٹی بھی میسر نہیں آتی ، جو ملکیت تھی وہ لوگوں کو دے بیٹھا اب تو اس کے پاس کچھ بھی نہیں رہا یعنی محمد مصطفی لیے یہ مجھے کہتے ہیں اور مجھے عاقبت سے ڈراتے ہیں ان کی تو اپنی حیثیت کوئی نہیں.میرے پاس اموال ہیں، میرے پاس دولتیں ہیں، میں ان نصیحتوں سے بے نیاز ہوں.جب انسان کے دل میں یہ خیالات پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان نصیحت کو قبول کرنے کا اہل نہیں رہتا.یعنی جھوٹا اور غلط تحفظ انسان کو نصیحت کی احتیاج سے مستغنی کر دیتا ہے.اس کا جواب دیتے ہوئے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد ۲ 25 خطبه جمعه ۱۴/ جنوری ۱۹۸۳ء وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فَرَادَى كَمَا خَلَقْنَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَتَرَكْتُمُ مَّا خَوَّلْنَكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ (الانعام: ۹۵) اس مضمون کو اور بھی کئی جگہ مختلف شکلوں میں پھیلا کر بیان فرما رہا ہے.یہاں اللہ تعالیٰ یہ فرماتا ہے وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادی تم اکیلے ہمارے پاس آؤ گے.اگر تمہیں اموال کا تحفظ حاصل ہے تو وہ بھی نہیں رہے گا.اگر تمہیں دوستیوں کا اور افراد کا اور جتھے بندیوں کا تحفظ حاصل ہے یا خاندانی عظمتوں کا تحفظ حاصل ہے تو وہ بھی تمہیں حاصل نہیں رہے گا.جب جواب دہی کا وقت ہوگا تو ہمارے سامنے تم اکیلے حاضر ہو گے.كَمَا خَلَقْنَكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ اسی طرح اکیلے اور تنہا جس طرح ماں کے پیٹ سے نکلے تھے کوئی قوت تمہارے ساتھ نہیں آئی تھی دوسروں پر تمہارا کلیتہ انحصار تھا بالکل اسی طرح اس وقت بھی تمہارا سارا انحصار مجھ پر ہو گا اس لئے اگر تمہیں یہ خیال ہے کہ اموال و دولت کا تحفظ حاصل ہو گیا ہے اس لئے تم حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نصیحت کو قبول نہیں کر رہے تو فرمایا وَتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلُنَكُمْ وَرَاءَ ظُهُورِكُمْ جو کچھ بھی ہم نے تمہیں عطا کیا تھا سب کچھ اپنے پیچھے چھوڑ آؤ گے.کیسی عمدگی اور صفائی کے ساتھ دل کے اس داغ کو بھی کاٹ دیا، اس گند کو بھی صاف کیا کیونکہ جب تک انسان کے دل میں یہ وہم موجودر ہے کہ میں مستغنی ہوں، مجھے کوئی پرواہ نہیں ، میرے پاس دولتیں ہیں ، میرے پاس دیگر سہارے ہیں، اس وقت تک انسان نصیحت کو قبول کرنے کا اہل نہیں بنتا.اور یہ ایک ایسی ٹھوس حقیقت ہے کہ انسان کے تنزل کی تاریخ میں ایک بہت بڑا کردار ادا کرنے والی حقیقت ہے.کتنی بڑی بڑی بادشاہتیں اس بنا پر ٹوٹ گئیں کہ بادشاہتوں کو اپنی دولتوں اور عارضی طاقتوں کا تحفظ حاصل ہوا اور انہوں نے غریب درویشوں کی باتوں کو نہیں سنا.چنانچہ اموال کا تکبر بھی انسان کی راہ میں حائل ہو جاتا ہے اور نصیحت کو قبول کرنے کے قابل نہیں رہتا.پھر نفس کی جھوٹی عزت بھی بہت سے لوگوں کو اچھی باتوں سے محروم کر دیتی ہے.اور ایک تو نفس کا استکبار ہے.یعنی ایک ہے بیرونی طور پر انسان کے مالک ہونے کا استکبار اور دوسرانفس کا استکبار ہے.ان دونوں کو آنحضور ﷺ نے الگ الگ بیان فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو وہ متکبر سب سے برا لگتا ہے جو غریب بھی ہو اور پھر بھی متکبر.یعنی جس کے پاس مال و دولت ہو، تکبر کے لئے کوئی
خطبات طاہر جلد ۲ 26 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء چیز ہو اس کے متعلق تو کہہ سکتے ہیں کہ بے چارے کو غلط نہی پیدا ہوگئی لیکن بعض ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا نفس متکبر ہوتا ہے جبکہ ان کے پاس کوڑی کی چیز بھی نہ ہو تب بھی وہ متکبر رہتے ہیں.ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَإِذَا قِيْلَ لَهُ اتَّقِ اللَّهَ أَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْإِثْمِ فَحَسَبُهُ جَهَنَّمُ وَلَبِئْسَ الْمِهَادُ (البقرة: ۲۰۷) کہ جب اسے کہا جاتا ہے کہ اللہ کا خوف کرو تمہیں خدا کی خاطر نصیحت کی جا رہی ہے اَخَذَتْهُ الْعِزَّةُ بِالْاِتم اس کو اپنے نفس کی عزت پکڑ لیتی ہے گناہ کے ساتھ.یعنی یہ قرآن کریم کی عجیب ترکیب ہے جس کا معنی یہ ہے کہ نفسانی عزت اسے گناہ پر چمٹے رہنے پر مجبور کر دیتی ہے وہ سمجھتا ہے کہ اگر میں نے اس معمولی نظر آنے والے انسان کی بات مان لی تو گویا میں جھک جاؤں گا اور میری عزت نفس کو نقصان پہنچے گا اس لئے یہی ٹھیک ہے کہ گناہ ہے تو گناہ ہی سہی.میں اپنے اس گناہ کو چھوڑ نے کے لئے تیار نہیں.یعنی خودی کا جو بگڑا ہوا تصور ہے اس کو بھی قرآن کریم نے بیان کر دیا.پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بعض لوگ ذاتی طور پر نیک مزاج بھی ہوتے ہیں، اثر قبول کرنے والے ہوتے ہیں، ان کے دلوں میں نرمی بھی پائی جاتی ہے لیکن ان کی نرمی کمزوری میں تبدیل ہو جاتی ہے.یعنی وہ نرمی صفت حسنہ بننے کی بجائے ایک برائی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور وہ معاشرہ سے ڈرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ اکثریت کیا کر رہی ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ بہت سی برائیاں اس وقت عام ہو جاتی ہیں جب لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ اکثریت نے اختیار کر لی ہیں.بہت کم لوگ ایسے ہیں جن کو اس وقت نیکیوں کا جھنڈا بلند کرنے کی توفیق ملتی ہے.کہتے ہیں ٹھیک ہے اب تو عام ہو گیا ہے.جس طرح پردہ کے متعلق میں نے بیان کیا تھا کہ بعض کمزوروں نے کہنا شروع کر دیا اب تو جی سب لوگ بے پردہ ہو رہے ہیں، یہی ٹھیک ہے کہ اب اپنے منہ کھول لو اور با ہر نکل آؤ.قرآن کریم کی اس حصہ پر بھی نظر ہے.فرمایا ٹھیک ہے ساری کی ساری قوم بھی اگر گناہوں میں مبتلا ہوکر ہلاک ہو جائے تب بھی وہ ایک ہی عزت کے لائق ہو گا جو اس بہاؤ کے خلاف نیکیوں کے ساتھ چمٹا رہے گا اور اس ایک کے دل کو بڑھاتا ہے اور برائیوں کو کثرت سے اختیار کرنے والوں کو حقیر قرار دیتا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد ۲ 27 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء قُل لَّا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ وَلَوْ أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيْثِ فَاتَّقُوا اللهَ يَأُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (المانده: ۱۰۱) اے محمد ! ایسے لوگوں سے کہدے کہ لَا يَسْتَوِي الْخَبِيثُ وَالطَّيِّبُ کہ یہ ہو نہیں سکتا کہ پاک اور بد ، صاف اور گندا ایک جیسے ہو جائیں.خدا تعالیٰ نے جو طیب کو امتیاز بخشا ہے وہ اپنی ذات میں قائم رہتا ہے اور اس بات سے آزاد ہے کہ اکثر گندے ہیں یا اکثر پاک ہیں.فرمایا لو أَعْجَبَكَ كَثْرَةُ الْخَبِيثِ اے انسان! اگر تجھے کثرت کے ساتھ خباثت اور گندگی نظر آئے اور تو اس سے مرعوب ہو جائے تب بھی یہ ممکن نہیں ہے کہ خدا کی نظر میں طیب اور بد کا معاملہ الٹ جائے.بدا گر کروڑوں کروڑ بھی ہوں گے تو بدرہیں گے اور نیک اگر کروڑوں کی سوسائٹی میں ایک بھی ہو گا تو خدا کی نظر میں وہ نیک ہی رہے گا.وہ برابر نہیں ہو سکتے.بدیوں کے پھیلنے اور ان کو روکنے کا یہ اتنا گہرا فلسفہ ہے کہ اگر انسان اس سے واقف ہو جائے تو بہت سی بدیاں جنہوں نے سیلابوں کی طرح کناروں کو کھالیا ایسے لوگوں کی وجہ سے روکی جاسکتی تھیں جو اس بات پر اگر اٹھ کھڑے ہوتے کہ ہم تعداد میں خواہ کتنے ہی کم ہوں ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں، ہم نیکی کو پکڑ کے رہیں گے.یہ فلسفہ بہت گہرائی کے ساتھ انسانی فطرت میں کارفرما نظر آتا ہے.چنانچہ ووٹوں کے وقت اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ وہی کمزوری جس کا قرآن کریم نے یہاں ذکر کیا ہے وہی خاموشی کے ساتھ سر اٹھالیتی ہے اور انسان کو پتہ بھی نہیں لگتا کہ میں کیا کر رہا ہوں.دنیا میں الیکشن ہوتے ہیں تو بسا اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر کسی شخص کے لئے زیادہ ہاتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہوں تو ایک طبقہ جو اس وقت تک خاموش بیٹھا ہوا تھا وہ بھی اپنے ہاتھ اٹھانے لگ جاتا ہے.حالانکہ اس سے پہلے اگر انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے تو لا ز مادل نے فیصلہ کیا تھا کہ یہ شخص طیب نہیں ہے یعنی اس نقطہ نگاہ سے طیب نہیں ہے یا اس نقطہ نگاہ سے موزوں نہیں ہے اس کے باوجود جب کثرت کو دیکھا تو ہاتھ اٹھا دیئے.یہ کریکٹر کی کمزوری ہے جو انسان کے اندر ایک دبی ہوئی بیماری کے طور پر موجود رہتی ہے اور یہ کمزوری برائیوں کے پھیلنے میں بہت مدد دیتی ہے.قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر تم میں سے ہر آدمی اس بات کو
خطبات طاہر جلد ۲ 28 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء خوب اچھی طرح سمجھ لے کہ طیب طیب ہی رہتا ہے اور اسکی فضیلت اپنی جگہ قائم رہتی ہے ، وہی عزت کے لائق ہے اور خبیث چیز کثرت کے باوجو د خبیث رہتی ہے بلکہ اور زیادہ گھناؤنی بن جاتی ہے کیونکہ گند بڑھتا ہے تو اور زیادہ مکروہ ہوتا چلا جاتا ہے.تو اس سے تمہیں بہت سے سبق ملیں گے اور نصیحت کو بہتر رنگ میں قبول کرنے کے اہل ہو جاؤ گے.اور یہ امر واقعہ ہے کہ انسان کا نفس خود اس بات کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے کہ کسی شخص میں اکیلے رہنے کے باوجود ایک اعلیٰ قدر کو پکڑنے کی اہلیت موجود ہے یا نہیں.اور بعض دفعہ انسان کی طبیعت پر اس کا اتنا گہرا اثر پڑتا ہے کہ ایک چھوٹا سا واقعہ اس کی ساری زندگی پر حاوی ہو جاتا ہے.انگریزوں کے ساتھ جب افغانستان کی لڑائیاں لڑی جا رہی تھیں، ۱۸۵۵ء میں جب انگریزوں کی فوج کو افغانوں نے مختلف طریق سے مثلاً جنگی چالیں چل کر اور کہیں حکمت عملی سے کام لے کر نہ صرف شکست دی بلکہ گلیه تباہ و برباد کر دیا، اس وقت انگریزوں کی فوج کے جو جرنیل اور چند آدمی بچے ان کی داستان لکھتے ہوئے وہ جرنیل لکھتا ہے کہ ہم سے دھو کے پر دھو کہ ہور ہا تھا، عہد شکنی پر عہد شکنی ہو رہی تھی یہاں تک کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ ساری قوم میں سوائے بد عہدی اور عہد شکنی کے اور کوئی بات باقی نہیں رہی.وہ ایک واقعہ لکھتا ہے اور کہتا ہے ایک دفعہ ہمیں کہا گیا کہ آؤ خوانین بیٹھے ہیں اور صلح کا معاہدہ ہو گا اور اپنے چوٹی کے آدمی ساتھ لے لو.یہ خودان میں شامل تھا لیکن اس کے ایک بہت ہی پرانے دوست خان نے اس کو بڑی حکمت کے ساتھ پناہ دے دی اس لئے بچ گیا.کہتا ہے اس وقت ہزار ہا کا مجمع وہاں کھڑا تھا اور لوگ قتل و غارت کر رہے تھے.کہتا ہے اس سارے مجمع میں ایک ایسی آواز بلند ہوئی جس نے ہمیشہ کے لئے میری زندگی پر اثر ڈال دیا ہے اور میں کبھی اس آواز کو فراموش نہیں کر سکتا.ایک شخص خدا کا خوف رکھنے والا ایسا تھا جس نے قطعا پر اوہ نہیں کی کہ لوگ مجھے کیا کہیں گے.اس نے بلند آواز سے کہا اے لوگو! خدا کا خوف کرو اور تقویٰ اختیار کرو اور اپنے عہدوں کو پورا کرو اور بد عہدیاں نہ کرو تم کس طرف جا رہے ہو.کہتا ہے اس ایک آواز نے میرے دل میں اس قوم کی عزت قائم کر دی کہ ایسے حالات میں بھی ایسے ایسے نیک دل اور پاک لوگ موجود ہیں جن کے اندر عظمت کر دار پائی جاتی ہے.حضرت صاحبزادہ سید عبد اللطیف صاحب کے متعلق ابھی چند سال ہوئے ایک بڑی
خطبات طاہر جلد ۲ 29 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء دلچسپ روایت معلوم ہوئی.ہمارے صوبہ سرحد کے ایک مخلص احمدی دوست ہیں جن کے تعلقات کا دائرہ بڑا وسیع ہے.چند سال پہلے افغانستان سے ایک ایسے دوست ان سے ملنے کے لئے آئے یا یہ گئے وہاں ملنے کے لئے مجھے اس وقت صحیح یاد نہیں بہر حال ان کی ملاقات ہوئی.یہ وہ شخص ہیں جنہوں نے افغانستان کی آزادی کی روح کا Symbol یعنی نشان قائم کیا ہے یعنی یہ وہ آرکیٹیکٹ ( نقشہ بنانے والے ) ہیں کہ جب افغان قوم نے یہ فیصلہ کیا کہ افغان آزادی کی روح کا ایک Symbol یعنی یاد گار قائم کی جائے تو یہ کام اسی آرکیٹیکٹ کے سپرد تھا کہ تم ڈیزاین بھی کرو یہ بھی فیصلہ کرو کہ اس کے لئے سب سے زیادہ موزوں جگہ کون سی ہے.ہمارے احمدی دوست کہتے ہیں میں جب ان سے ملا تو میں بھی وہ مینار دیکھنے گیا تو پتہ لگا کہ وہ موزوں جگہ پر نہیں ہے.ایک ایسی جگہ پر ہے جو آرکیٹیکچر یعنی فن تعمیر کے نقطۂ نگاہ سے موزوں نہیں تھی.ایسی جگہ کمانڈنگ ہونی چاہئے، اونچی ہونی چاہئے ، کھلا منظر ہو تا کہ دور دور سے نظر آئے لیکن وہ مکانوں میں گھری ہوئی ایک چوک کے اندر جگہ تھی مجھے بڑا تعجب ہوا.میں نے اس بوڑھے سے پوچھا کہ تم تو بڑے قابل آرکیٹیکٹ ہو تم نے اس یادگار کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیوں کر لیا.اس نے جواب یہ دیا کہ اس کا انتخاب اس لئے کیا کہ مجھے یہ کہا گیا تھا کہ افغان روح آزادی کو خراج تحسین ادا کرنا ہے یعنی یہ کہ وہ تمام دنیا کے اثرات سے آزاد ہے اس کو دنیا کا کوئی خوف نہیں ہے اور حق پر قائم رہنا جانتی ہے یہ تھی اس کی روح.اور میں جب بچہ تھا میں نے یہاں اسی چوک میں ایک ایسا واقعہ دیکھا تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیش کے لئے میرے دل پر ثبت ہو گیا.میں نے یہ دیکھا کہ ایک بزرگ زنجیروں میں جکڑا ہوا سنگسار کر نے کیلئے لے جایا جارہا تھا.ہم بھی بچوں میں شامل ہو کر اسکا نظارہ دیکھنے کے لئے گئے.میں نے اسکے چہرہ پر ایسی عظمت دیکھی، ایسی آزادی دیکھی، ایسی بے خوفی دیکھی اور ایسا اطمینان تھا اور اس کے چہرہ پر طمانیت کی ایسی مسکراہٹ تھی کہ وہ میرے ذہن سے کبھی نہیں اترتی.پس جب مجھے میری قوم نے کہا کہ افغان روح آزادی کو خراج تحسین ادا کرنا ہے اور اس کے لئے ایک مینار قائم کرنا ہے تو میں نے سوچا کہ اس سے بہتر اور کوئی جگہ نہیں جہاں میں نے اس آزادی کی روح کو دیکھا تھا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ كَثْرَةُ الخَبِيثِ سے تو کوئی بات نہیں بنتی.تم میں اگر ایک بھی طیب ہوگا ، ایک بھی صالح ہو گا تو وہی غالب آئے گا ، اُسی کی یاد میں باقی رکھی جائیں گی.خباثت کو
خطبات طاہر جلد ۲ 30 30 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء ملیا میٹ کر دیا جائے گا.پس اس وجہ سے کہ لوگ زیادہ گندے ہو گئے ہیں تم اگر گندگی کو اختیار کر رہے ہو تو یہ تمہاری بڑی بیوقوفی ہے.چنانچہ اس جذبہ کا بھی خوب تجزیہ کر کے انسانی کپڑے سے صاف اور پاک کر دیا تا کہ اللہ کے بہتر رنگ اختیار کرنے کے وہ قابل ہو سکے.پھر ایک اور وجہ ناصح پر عدم اعتماد ہوتا ہے.بعض دفعہ مقصد پر عدم اعتماد ہوتا ہے.یعنی کہنے والے پر اعتماد نہیں کہ وہ ہے کیسا لہذا اسکی طرف سے جو نصیحت آتی ہے وہ نصیحت ہی مشکوک ہو جاتی ہے.پھر بعض دفعہ کہنے والا اچھا بھی ہو تو جس مقصد کی طرف بلا رہا ہے وہ مقصد بعض دفعہ اچھا نہیں ہوتا.چنانچہ کہنے والے کی نصیحت وہاں بھی بے کار چلی جاتی ہے.پھر بعض دفعہ انسان سمجھتا ہے کہ ٹھیک ہے دونوں باتیں ٹھیک ہیں لیکن میں نہ بھی مانگوں گا تو کیا فرق پڑ جائے گا.میں نے کون سا پکڑے جانا ہے.ان تینوں چیزوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُوا لِلَّهِ وَلِلرَّسُوْلِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَأَنَّةَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ (الانفال: ۲۵) کہ اے لوگو! اللہ اور رسول کی بات پر لبیک کہو کیونکہ اللہ اور محمد مصطفی ﷺ سے بہتر نصیحت کرنے والا تمہیں اور کوئی نہیں مل سکتا.اللہ وہ ہے جو تمام حکمتوں کا سر چشمہ ہے ، ہر اچھی بات اس کی ذات سے پھوٹتی ہے، اسکی ذات پر بدظنی کا تو تمہیں کوئی حق نہیں اور محمد مصطفی ہے اس لئے کہ اللہ کے رنگ اس شخص سے بہتر کسی نے اختیار نہیں کئے اور اس کمال کے ساتھ کسی نے اختیار نہیں کئے جس طرح محمد مصطفی ﷺ نے اختیار کر لئے ہیں.پس جہاں تک نصیحت کرنے والے کا تعلق ہے اس سے بہتر اور کوئی نہیں ہوسکتا، پھر کیوں پیٹھ پھیر کر بھاگ رہے ہو.جہاں تک مدعا اور مقصود کا تعلق ہے فرمایا لِمَا يُحْيِكُم یہ تو تمہیں موت سے زندگی کی طرف بلا رہا ہے نصیحت کا اس سے بہتر مقصد اور کیا ہوسکتا ہے.اس چھوٹی سی بات میں آنحضرت ﷺ کی تمام نصائح کے مقصود کو بیان فرما دیا.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ باقی باتیں تو ٹھیک ہیں لیکن یہ باتیں ذرا ٹھیک نہیں یہ ہمارے لئے مناسب نہیں ہیں یا نہ بھی کریں تو فرق نہیں پڑتا.یہ آیت بتا رہی ہے کہ اگر تم حضرت محمد مصطفی مے کی کسی ایک بات
خطبات طاہر جلد ۲ 31 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء سے بھی منہ موڑو گے تو اس حصہ میں زندگی پر موت کو ترجیح دینے والے ہو گے.موت کے بھی مختلف دائرے ہوتے ہیں.آپ نے دیکھا ہوگا یہ ضروری نہیں کہ انسانی جسم یک لخت مرجائے.بعض لوگوں کی انگلی مرجاتی ہے ، بعض کا صرف ناخن مرتا ہے، بعض کا بازو شل ہو جاتا ہے اور ٹکڑ اٹکڑا موت بھی آتی ہے.بعض اعضا مر جاتے ہیں آنکھ مرجاتی ہے ، بعض دفعہ آنکھ کا پردہ مر جاتا ہے یا آنکھ کی ایک رگ مرجاتی ہے.پس یہ ضروری نہیں کہ موت کامل طور پر آئے.جس حصہ میں بھی زندگی کے تقاضوں سے اجتناب کیا جائے گا اس حصہ کو موت پکڑلے گی.یہ قانون ہے اور اس آیت نے ہمیں یہ بتایا کہ چونکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نصیحت کا تمام تر مقصد یہ ہے کہ وہ تمہیں زندگی بخشیں اس لئے اگر تم حضور اکرم ﷺ کے کسی فرمان سے اجتناب کرو گے تو اگر وہ چھوٹا ہوگا تو چھوٹی موت قبول کر رہے ہو گے اور اگر بڑا ہو گا تو بڑی موت قبول کر رہے ہو گے لیکن اس سے کوئی مفر نہیں ہے کہ تم اپنے لئے موت کو چن رہے ہو اور زندگی کو چھوڑ رہے ہو.پھر جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عقوبت سے بچ جائیں گے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ عقوبت سے بچنے کے دو قسم کے امکانات انسان کے لئے پیدا ہوتے ہیں اور اس چھوٹی سی آیت میں ان دونوں کا ذکر فرما دیا گیا.اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ میں ایک پہلو سے بحث فرمائی گئی وَاَنَّةَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ میں دوسرے پہلو سے بحث اٹھائی گئی.مجرم کو اگر یہ یقین ہو جائے کہ میں پکڑا نہیں جاؤں گا یا غالب گمان یہ ہو کہ جیسا کہ اکثر مجرموں کو ہوتا ہے کہ وہ عقوبت سے بچ جائیں گے کیونکہ میری بات کسی کے علم میں نہیں آئے گی تو ایسا مجرم بھی نصیحت کو رد کر دیتا ہے.وہ کہتا ہے تم بے شک نیکی کی نصیحت کرتے رہو مجھے بدی اختیار کرنے سے فرق کیا پڑتا ہے.میں ایسی چالا کی کے ساتھ کروں گا کہ میری بدی کا تو کسی کو پتہ ہی نہیں لگے گا اور کسی کو خبر تک نہ ہوگی.اس لئے تمہاری نصیحت تو ان بیوقوفوں کے لئے ہے جو پکڑے جاتے ہیں.میں تو پکڑے جانے سے آزاد ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کے نام پر تمہیں جو نصیحت حضرت محمد مصطفی علیہ کر رہے ہیں وہاں تمہارے لئے اس بے خوفی کا کوئی موقع نہیں.میں کا.اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ الله تعالیٰ انسان کے جسم اور روح کے درمیان حائل ہے.جو باتیں بھی انسان کے قلب میں یعنی اس کی روح میں پرورش پاتی ہیں اور جن باریکیوں کے
خطبات طاہر جلد ۲ 32 32 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء ساتھ وہ سوچتا ہے اس کے احکامات جسم کو صادر ہو رہے ہوتے ہیں.جس طرح بعض دفعہ سائنسدان تجربے کی چیزوں میں ایسی نالیاں رکھتے ہیں جہاں سے ایک مواد ایک خاص حالت کے بعد گزرتا ہے تو وہ اس کی نگرانی کر سکتے ہیں کہ کس حالت میں گزر رہا ہے.اس کا رنگ، اس کا Flow ، اس کی Volume وغیرہ یہ چیزیں ٹھیک ہیں یا نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہارے ہر ارادہ اور ہر فعل کے درمیان بیٹھے ہوئے ہیں.یہ ممکن ہی نہیں کہ تمہارا کوئی ارادہ فعل میں تبدیل ہورہا ہو اور خدا کے علم سے باہر رہ جائے اَنَّ اللهَ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَ قَلْبِہ کا یہ مطلب ہے.پس تمہاری یہ بے خوفی تو بے حقیقت ہو گئی.اور اگر تم اس وجہ سے بیٹھے ہو اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی نصیحتیں رد کر رہے ہو تو پھر یہ غلط نہی دل سے نکال دو.اور ساتھ ہی فرما دی وَ أَنَّةَ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ جہاں تک اس وہم کا تعلق ہے کہ اگر پتہ لگ بھی جائے گا تو کوئی فرق نہیں پڑتا میں بیچ کر کہیں بھاگ جاؤں گا تو فرمایا خدا سے بیچ کر تو کوئی نہیں بھاگ سکتا.آخر تم پکڑے پکڑائے وہیں پہنچو گے.اسی سرکار میں تم نے حاضر ہونا ہے.کائنات کی کوئی چیز اس سے بچ نہیں سکتی.تم جہاں بھی جاؤ گے وہاں خدا کو پاؤ گے.میں نے پہلے بھی ایک واقعہ سنایا تھا.لاہورہی کے ایک مخبوط الحواس شخص کا واقعہ ہے اور وہ اس مضمون پر ایک خاص رنگ میں روشنی ڈالتا ہے اس لئے میں اس کو پھر بیان کرتا ہوں.کہتے ہیں کہ لاہور میں ایک نیم مجذوب دیوانہ سا آدمی اپنے خیالات میں مست پھرا کرتا تھا.ایک دن اس نے بڑی خوشی کا اظہار کیا کہ آج بہت مزہ آیا.کسی نے پوچھا کس بات کا مزہ آیا.اس نے کہا مزہ یہ ہے کہ میں نے اللہ کو خوب بتا دیا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ مجھے تیری دنیا پسند نہیں آئی اور یہ کہہ کر دل ہی دل میں موجیں لوٹ رہا تھا کہ دیکھو میں نے خدا کو کیسی بات کہہ دی کہ مجھے تیری دنیا پسند نہیں آئی.دوسرے تیسرے دن اس کو دیکھا گیا کہ سر نیچے کیا ہوا ہے، غم میں ڈوبا ہوا ہے اور بے چارے کا برا حال ہے تو اسی پوچھنے والے نے پوچھا کہ بابا! آپ دو چار دن پہلے تو بڑے خوش تھے، اب آپ کو کیا ہو گیا اتنے اداس کیوں ہیں؟ انہوں نے کہا جواب آگیا ہے اور جواب یہ آیا ہے کہ پھر جس کی دنیا پسند آئی ہے وہاں چلے جاؤ.خدا کے سوا د نیا ہی کسی کی نہیں.اس لئے پسند کر دیا نہ پسند کرو.طوعاً و کرھا تمہیں اپنے رب سے راضی رہنا پڑے گا اور لا ز ما تم اسی کے حضور پہنچو گے.ایسی کوئی جگہ نہیں ہے کہ تم کسی ملک کا بارڈر کراس کر کے اس سے بچ جاؤ.تم خواہ کسی رنگ کو اختیار کرو کسی بھیس کو تبدیل کر لو تم نے ہر حال میں بالآخر اپنے رب کے حضور حاضر ہونا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 33 ل لاله خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء ان سب باتوں کے باوجود بعض بیماریاں ایسا گہرا اثر کر جاتی ہیں کہ وہ ایک قسم کا کینسر بن جاتی ہیں اور خدا تعالیٰ ان کا بھی ذکر فرماتا ہے یعنی پچھلی ساری برائیاں اور داغ اگر دھو بھی دیئے جائیں تب بھی بعض لوگوں کی بیماریاں ان کا احاطہ کر لیتی ہیں ایسی صورت میں پھر ان پر اللہ کا رنگ نہیں چڑھ سکتا.وہ نصیحت کو قبول نہیں کر سکتے.چنانچہ فرمایا: بَلَىٰ مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً وَ أَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَيْكَ أصْحَبُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ (البقرة :٨٢) که ان سب باتوں کے باوجود کچھ بدقسمت لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی بیماری عادت بن کر ، فطرت ثانیہ بن کر ان کی ذات کا جزو بن جاتی ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے یہ کہنے کی بجائے کہ ذات کا جزو بن جاتی ہے بہت ہی پیارا کلمہ اختیار فرمایا کہ اَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ بیماری ان پر گھیرا ڈال لیتی ہے اور یہ گھیرا توڑ کر کوئی نکل نہیں سکتا.فوج میں جب کسی دوسری فوج کو مغلوب کرنا ہو تو گھیرا ڈالا جاتا ہے اسی طرح بیماری انسان پر ایسا سخت گھیرا ڈال لیتی ہے کہ وہ تو ڑ کر باہر نہیں جاسکتے.ایسے لوگوں کے متعلق فرمایا کہ جس طرح بیماری نے ان پر گھیرا ڈال لیا اور ان کی بدی میں ایک ابدیت آگئی عذاب جہنم میں بھی ایک ابدیت پیدا کر دی جائے گی اور ان کی سزا بھی اسی طرح جاری وساری ہوگی.چنانچہ آنحضور ﷺ نے اس مضمون کو کشفی طور پر مختلف صورتوں میں دیکھا.آنحضور ﷺ کو جب کشفی نظارے کے طور پر جہنم دکھائی گئی تو آپ نے ایک ایسے تنور کو بھی دیکھا جس میں آگ بھڑک رہی تھی اور اس میں جلنے والا باہر نکلتا تھا اور پھر اس میں پڑ جاتا تھا ، باہر نکلتا تھا اور پھر اس میں پڑ جاتا تھا.اس پر جبرائیل علیہ السلام نے آپ کو بتایا کہ یہ وہ بد کردار شخص ہے جو بد کرداری کا اتنا شکار ہو چکا تھا کہ اس سے الگ نہیں ہو سکتا تھا.شہوانی جذبہ پورا ہو گیا تو وہ تو بہ کی طرف مائل ہو گیا، دوبارہ عود کر آیا تو پھر گناہ میں ملوث ہو گیا تو جس طرح اس کی زندگی کی حالتیں تھیں وہی موت کے بعد اس کی حالتیں تبدیل کر دی گئیں اور ایسا ہوتا ہے.غالب کہتا ہے: رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم دھوئے دھتے جامہ احرام کے (دیوان غالب صفحہ) ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں.اور بعض دفعہ دونوں حالتیں بے اختیاری کی ہو جاتی ہیں.جب
خطبات طاہر جلد ۲ 34 خطبه جمعه ۱۴/ جنوری ۱۹۸۳ء تو بہ کر رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی واقعی دل خدا کے حضور نرم ہوا ہوتا ہے، جب وہ گناہ کر رہے ہوتے ہیں تو واقعی گناہ کی طرف مائل ہوتے ہیں اس لئے ان کی سزا کا نظارہ بھی ویسا ہی دکھایا کہ بیماری کا گھیرا پڑا ہوا ہے اس سے نکل نہیں سکیں گے لیکن تھوڑ اسا ریلیف ہو جایا کریگا، کچھ سکون مل جایا کریگا ، پھر اس کے بعد دوبارہ واپس.پھر وہ باہر نکلیں گے ، پھر تھوڑا سا سکون ملے گا ، پھر دوبارہ واپس جہنم میں ڈال دیئے جائیں گے.پس خدا نے اس بیماری کو بھی خوب کھول کھول کر واضح کر دیا لیکن اس کے باوجود مایوسی سے منع فرمایا کیونکہ بیماری کا گھیرا انسان کو پڑ سکتا ہے خدا کو تو کوئی بیماری نہیں گھیر سکتی کیونکہ وہ ہر گھیرے سے آزاد اور ہر عیب سے پاک ہستی ہے.وہ اگر رحم کرنا چاہے اور اس سے دعا کا تعلق جوڑا جائے تو گناہ خواہ کتنے ہی بڑے ہوں وہ سارے کے سارے ختم ہو سکتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی مغفرت انسان کو پوری طرح ڈھانپ سکتی ہے.یہ باتیں بیان کرنے کے ساتھ اس پہلو کو بھی خوب کھول کر بیان فرما دیا تا کہ کسی کے دل میں مایوسی گھر نہ کر لے.وہ یہ نہ سمجھ لے کہ چونکہ میری برائی نے گھیرا ڈال لیا ہے اس لئے میں ہمیشہ کے لئے جہنمی ہو چکا، اب میرے بچنے کی کوئی راہ نہیں چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اس کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: قُلْ يُعِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ ط الرَّحِيمُ (الزمر :۵۴) اے میرے بندو! جنہوں نے اپنے نفوس پر بے انتہا زیادتیاں کی ہیں ، ہر موقع پر اسراف سے کام لیا ہر موقع پر گناہ میں ملوث ہو گئے یعنی ایک بدی میں نہیں گویا دنیا کی سب بدیوں نے ان کے گھیرے ڈال لئے.لَا تَقْنَطُوا مِنْ رَّحْمَةِ الله تب بھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہونا.اِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا اگر تم سچی توبہ کرو گے ( یہاں بظا ہر تو بہ کا ذکر نہیں لیکن دوسری آیتوں میں اس مضمون کو کھولا گیا ہے اس لئے اس کا مفہوم اس آیت کے اندر داخل ہے ) تو وہ تمام گناہوں کو بخشنے کی طاقت رکھتا ہے، وہ مالک ہے اِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ وہی تو ہے جو غفور رحیم ہے اس کے سوا ہے کون جو غفور رحیم ہو.
خطبات طاہر جلد ۲ 35 خطبه جمعه ۱۴؍ جنوری ۱۹۸۳ء پس گناہوں کے تجزیے بھی خوب مکمل کئے.ہر بیماری کی خبر دی، بیماریوں کے حد سے بڑھنے کی اطلاع بھی دی اور پھر بیماریوں کے اس گھیرے کو توڑنے کی ترکیب بھی بتادی کہ غفور رحیم خدا سے تعلق جوڑ لو، اس سے محبت کرو، اس سے پیار کرو اور جب بھی تمہیں سچی توبہ کی توفیق ملے تو تم اس بات کا یقین کر لینا کہ تمہاری تمام بدیاں اللہ تعالیٰ کے قبضہ قدرت میں ہیں اور وہ ان کو اس طرح زائل کر سکتا ہے کہ گویا کبھی موجود ہی نہ تھیں.احادیث میں بھی ہمیں اس کی بہت تفاصیل ملتی ہیں.آنحضرت عل اس مضمون کو مختلف رنگ میں مختلف واقعات کی شکلوں میں بیان فرماتے ہیں.کبھی مثال دیتے ہیں ایک ایسی فاحشہ کی جو تمام عمر بدیوں اور گندگیوں میں مبتلا رہی، اس کے جسم کا ذرہ ذرہ داغدار تھا لیکن ایک صحرا سے گزرتے ہوئے اس کی نظر ایک ایسے کتے پر پڑی جو پیاس سے بلک رہا تھا ، اسکی زبان پیاس کی وجہ سے سوکھ کر باہر نکلی ہوئی تھی ، پاس ہی ایک کنواں تھا لیکن کتے کے بس میں نہیں تھا کہ وہ کنویں سے پانی پی لے اور وہاں کوئی ڈول نہیں تھا.اس فاحشہ نے اپنے کپڑے جو بھی وہ اتار سکتی تھی وہ اتار کر رہی بنائی.اپنی جوتی کو کنویں میں لٹکایا اور اس وقت تک تھوڑا تھوڑا پانی نکالتی رہی جس وقت تک کتے کی پیاس نہیں بجھ گئی.آنحضرت علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس واقعہ کو اس پیار سے دیکھا کہ اسکی ساری عمر کے گناہ معاف فرما دیئے اور اس کو جنت میں داخل فرما دیا.( صحیح بخاری کتاب احادیث الانبیاء باب حديث الغار) إِنَّ اللهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا گناہوں کے پہاڑ بھی ہوں تو وہ ان کو معاف فرماسکتا ہے.پھر آنحضور عملہ مختلف رنگ میں اور بھی بڑے دلچسپ واقعات بیان کر کے ان کے مختلف پہلوانسان کے سامنے رکھتے ہیں تا کہ اس کے دل میں خدا کی خشیت بھی پیدا ہو اور اس سے محبت بھی پیدا ہو اور اس کو کسی بہانے سے مغفرت کے سامان نصیب ہو جائیں.آنحضور ﷺ کو بنی نوع انسان سے اتنا پیار اور اتنی ہمدردی ہے کہ بعض دفعہ ایسی جذباتی باتیں بیان فرماتے ہیں کہ گو یا اللہ مجبور ہو جائے ان جذباتی باتوں کو سن کر کہ چلو معاف ہی کر دو.پس ٹھیک ہے کہ خدا سے بخشش اور معافی مانگنے کے طریق سکھائے گئے ہیں.ایک موقع پر آپ فرماتے ہیں کہ ایک شخص جو بالآخر ہر طرف سے مایوس ہونے کے بعد
خطبات طاہر جلد ۲ 36 خطبه جمعه ۱۴/ جنوری ۱۹۸۳ء تو بہ کے ارادہ سے ایک طرف چل پڑا اور پیشتر اس کے کہ وہ اپنی منزل مقصود کو پہنچتا اس کی موت واقع ہوگئی.فرشتوں نے یہ معاملہ خدا تعالیٰ کے حضور پیش کیا اور عرض کیا اے اللہ ! اس سے کیا سلوک کیا جائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ تو بہ کے ارادہ سے چل پڑا تھا تم یوں کرو کہ دونوں طرف کی زمین ناپو، جس طرف اس نے جانا تھا اس طرف کی بھی ناپ لو اور جس طرف سے چلا تھا اس طرف کی بھی ناپ لو اور جس طرف کی زمین زیادہ ہو اسی کے حق میں فیصلہ کر دو.اور ساتھ ہی خدا کی تقدیر نے یہ کیا کہ فرشتہ جب اس طرف کی زمین ناپ رہا تھا جو گناہ کی طرف کی زمین تھی تو وہ زمین سکڑتی چلی گئی اور جب اس طرف کی زمین ناپ رہا تھا جو نیکی کی طرف کی زمین تھی تو زمین پھیلتی چلی گئی.یہاں تک کہ بالآ خر نیکی والا عرصہ بدی والے عرصہ پر غالب آ گیا اور خدا نے اس کو معاف فرما دیا.(صحیح مسلم کتاب التوبة باب قبول توبتہ القائل و ان کثر قتلہ ) اب بظاہر یہ ایک عجیب سی بات لگتی ہے.لیکن اگر آپ غور کریں تو یہ ایک مربوط نظام کی طرف اشارہ کرتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَجَزَوا سَيِّئَةِ سَيِّئَةٌ مِثْلُهَا (الشوری: ۴۱) ہر بدی کا بدلہ بدی سے زیادہ نہیں دیا جائے گا اور اگر اللہ چاہے تو اس بدی کو معاف بھی کر سکتا ہے یعنی اس زمین کو اور بھی چھوٹا کر سکتا ہے.اور جہاں تک نیکیوں کا تعلق ہے فرمایا اس کی کوئی حد ہی نہیں ہے جتنا خدا چاہے اس کو بڑھاتا چلا جائے.تو یہ مضمون ہے جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا.یہ کہہ کر کہ اس کی بدیوں کی زمین تنگ کی گئی.جب خدا تعالی بخشش پر آمادہ تھا تو اصل بدیوں سے زیادہ تو جزا دینے کا سوال ہی نہیں تھا.وہ بدیاں کم کرتا چلا جار ہا تھا اور نیکیوں کی جزا اس کے قبضہ میں تھی وہ بڑھاتا چلا گیا اس لئے ہر قسم کے گناہوں پر ادنیٰ سے ادنی نیکی بھی غالب آسکتی ہے اگر اللہ تعالیٰ مغفرت کا ارادہ فرمالے.صل الله پھر آنحضرت ﷺ نے بنی نوع انسان کو توجہ دلانے کے لئے اور خدا تعالیٰ کا رحم جیتنے کے لئے ایک عجیب واقعہ بیان فرمایا.آپ نے فرمایا کہ خدا کی خشیت بھی بعض دفعہ ایسا محرک بن جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ گویا بخشش پر مجبور ہو جاتا ہے اور بخشش کے سوا اور کوئی راستہ نہیں ملتا.ایس مُشتِ خاک گرنه خشم چه کنم.یہ مضمون پیدا ہو جاتا ہے.اس خاک کی مٹھی کو میں نہ بخشوں تو کروں کیا.ایسی ہی ایک خاک کی مٹھی کی آنحضور ﷺ نے مثال دی اور فرمایا کہ ایک شخص اتنا گناہگار تھا کہ ہر طرف سے اس کو مایوسی تھی اور وہ جانتا تھا کہ دنیا کی کوئی بدی نہیں ہے جو میں نے نہ کی ہو اس لئے جانتا تھا کہ میں
خطبات طاہر جلد ۲ 37 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء نے لازماً جہنم میں جانا ہے مرنے سے پہلے اس نے اپنے بچوں کو اکٹھا کیا اور یہ نصیحت کی کہ دیکھو جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا کر خاکستر کر دینا، ایک ذرہ بھی میرے جسم کا جلے بغیر باقی نہ چھوڑنا اور جب سارا جسم خاک بن جائے تو اسے تیز آندھی والے دن اس طرح اڑا دینا کہ اس کا نشان بھی کہیں نہ ملے.یا ایک روایت میں یہ بیان کیا ہے کہ پانی کی تیز دھار موجوں میں اس طرح بہا دینا کہ اس کا کوئی نشان باقی نہ رہے.جب وہ مر گیا تو اس کے بچوں نے ایسا ہی کیا.چنانچہ خدا تعالیٰ نے ہواؤں اور پانیوں کو حکم دیا کہ اسکے جسم کے سب ذروں کو اکٹھا کر کے پھر اس کو اصل شکل میں تبدیل کر دو.اس پر جب وہ خدا کے حضور حاضر ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اس سے فرمایا : اے میرے بندے! تجھے کس بات نے مجبور کیا تھا کہ تو اپنے بچوں کو اس قسم کی وصیت کرے؟ اس نے کہا اے خدا! میں نے اتنے گناہ کئے تھے، مجھے تیرا اتنا خوف تھا کہ میں نہیں چاہتا تھا کہ اتنے گناہوں کے ساتھ تیرے حضور حاضر ہوں.اللہ نے فرمایا اچھا! خوف وجہ تھی تو پھر میں تجھے معاف کرتا ہوں.( بخاری کتاب التوحید.ابن ماجہ کتاب الزهد باب ذكر التوبة ) ایک طرف یہ خدا ہے.دوسری طرف اتناباریک بین ہے کہ انسان اور اس کے ارادوں کے درمیان حائل بیٹھا ہوا ہے.ایک طرف حضور اکرم یہ خوف دلاتے ہیں تو حد کر دیتے ہیں کہ انسان ساری عمر کی نیکیوں پر بنا کرتے ہوئے بھی اپنی بخشش کی امید نہیں رکھ سکتا.دوسری طرف گناہگاروں سے مایوسی دور فرماتے ہیں تو کمال ہو جاتا ہے.یہ ہے نصیحت کرنے والا محمد مصطفی عملے جو ہمیں عطا ہوا.پس جو نصیحت بھی آپ نے کی یا آپ کے نام پر کی جاتی ہے، جماعت احمدیہ کو اسے تخفیف کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے.ان ساری باتوں کو سمجھ کر اپنے کپڑے صاف کریں کیونکہ آج صبغۃ اللہ کے بغیر دنیا کی نجات ممکن نہیں ہے اور صِبْغَةَ الله حضرت محمد مصطفی علیہ سے حاصل ہو سکتا ہے.لیکن پہلے اپنے نفوس کو اس قابل بنائیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ذریعہ اللہ کے رنگ آپ کی روح اور جسم کے ذرہ ذرہ پر حاوی اور مسلط ہو جائیں.اگر یہ کجیاں ، یہ گندگیاں، یہ برائیاں اسی طرح ساتھ رہیں تو ان داغوں کے اوپر تو اللہ کے رنگ نہیں چڑھ سکتے.اللہ تعالیٰ ہمیں صفات الہیہ کے رنگ میں رنگین ہونے کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلد ۲ 38 خطبه جمعه ۱۴/جنوری ۱۹۸۳ء خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج جمعہ کی نماز کے ساتھ نماز عصر جمع ہوگی.میں بحیثیت مسافر دو گا نہ پڑھوں گا.جو دوست مسافر ہیں وہ میرے ساتھ سلام پھیریں گے.مقامی دوست بغیر سلام پھیرے کھڑے ہو جائیں گے.یہ بار بار بتانے کی اس لئے ضرورت پیش آتی ہے کہ چھوٹے بچے بھی بڑے ہور ہے ہیں.بعض دفعہ بڑے ہونے کے باوجود بھی بعض باتوں کی طرف توجہ نہیں رہتی تو بار بار بتا نا پڑتا ہے.لیکن جب آپ نے کھڑے ہونا ہو تو انتظار کریں، امام دوسرا سلام مکمل کر لے تب کھڑے ہوں کیونکہ جب امام ایک سلام پھیرتا ہے تو ابھی وہ خود کھڑے ہونے کے قابل نہیں ہوتا اور جب تک امام نماز سے آزاد نہ ہو مقتدی آزاد نہیں ہو سکتا.اس لئے جب امام دونوں سلام پھیر لے تب کھڑے ہونا چاہئے.اس کے نتیجہ میں آپ کے اندر ایک صبر بھی پیدا ہوگا ،نماز میں بے صبری نماز کوختم کر دیتی ہے اور اگر آپ اس عادت سے صبر سیکھ جائیں تو آپ کی نماز کے دیگر ارکان بھی سنور جائیں گے.روزنامه الفضل ربوه ۱۳ را پریل ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 39 39 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء پردہ کی تحریک پر مثبت رد عمل اور عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: گزشتہ جلسہ سالانہ پر مجھے مستورات سے خطاب میں ” پر دے“ کی طرف توجہ دلانے کی توفیق عطا ہوئی.اس کے نتیجے میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ احمدی مستورات کے ردعمل کی جور پورٹیں موصول ہو رہی ہیں وہ انتہائی خوش کن ہیں اور اس لائق ہیں کہ ان کو پڑھ کر دل حمد اور شکر سے بھر جائے.ان خواتین کے لئے دل سے دعا نکلتی ہے جنہوں نے اللہ اور رسول کے نام پر کی جانے والی تحریک کو سعادت مندی کے ساتھ اور عہدِ بیعت کو وفاداری کے ساتھ نباہتے ہوئے قبول کیا اور غیر معمولی قربانی کے مظاہرے کئے.بڑی کثرت کے ساتھ مختلف جماعتوں کے عہدیداران کے بھی اور خودان مستورات کے بھی خطوط آرہے ہیں جنہوں نے اپنی غفلتوں پر اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کی اور بڑے ہی درد کے ساتھ توبہ کی اور آئندہ کے لئے یہ عہد کیا کہ وہ انشاء اللہ تعالیٰ اسلام کی ہر تعلیم پر پوری طرح کار بند رہیں گی.یہ خطوط ایسے ایسے عجیب قلبی جذبات اور کیفیات پر مشتمل ہوتے ہیں کہ ناممکن ہے کہ ان کو پڑھ کر اللہ تعالیٰ کے حضور ان خواتین کے لئے دل سے دعا ئیں نہ نکلیں.ان خطوط میں بعض ایسے
خطبات طاہر جلد ۲ 40 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء واقعات بھی بیان ہوتے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر از جماعت سوسائٹی پر بھی اس تحریک کا گہرا اور وسیع اثر پڑا ہے اور وہ یہ مانے پر مجبور ہو گئی ہے کہ اگر آج کسی جماعت نے اسلامی قدروں کو زندہ رکھا تو وہ جماعت احمد یہ ہوگی.ایک خط میں ، جس میں انہی باتوں کا ذکر تھا، ایک دلچسپ واقعہ بھی بیان کیا گیا ہے.کچھ بچیاں جو پہلے بے پردہ تھیں انہوں نے اس تحریک کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حیرت انگیز تبدیلی کا مظاہرہ کیا.ایک اور خاندان کی بچیاں جو پردہ کرتی ہیں انہوں نے جب اپنی غیر احمدی سہیلیوں کو یہ واقعات سنائے اور یہ مثالیں بتائیں تو ان کی والدہ لکھتی ہیں کہ ان میں سے دولڑ کیاں بے اختیار کہہ اٹھیں کاش! ہم بھی کسی احمدی گھرانے میں پیدا ہوئی ہوتیں.حقیقت یہ ہے کہ آج احمدی عورت احمدیت کی تاریخ میں ایک نئے سنہری باب کا اضافہ کر رہی ہے اور جس طرح بعض دفعہ بادلوں میں سے گزرتے ہوئے معلوم نہیں ہوتا کہ ہم بادلوں میں سے گزر رہے ہیں اسی طرح بعض تاریخ ساز ادوار ایسے ہوتے ہیں جن میں سے گزرتے ہوئے انسان پوری طرح محسوس نہیں کر سکتا کہ ہم کتنے عظیم تاریخی دور سے گزر رہے ہیں.ہاں، جب مؤرخ بعد میں ان واقعات کو دور سے دیکھتا ہے تو اس کا دل ان سے متاثر ہوتا ہے اور اس کا قلم ان قوموں کو خراج تحسین ادا کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے جن کو وہ دور سے ایک خاص بلندی پر چمکتا ہواد یکھتا ہے.لیکن مذہبی قو میں جب اپنی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کرتی ہیں یا پرانے مٹے ہوئے ابواب کو دوبارہ اجاگر کرتی ہیں تو ان کی نظر کسی انسان کی تحسین پر نہیں پڑا کرتی ، وہ اس بات سے بے نیاز ہوتی ہیں کہ دنیا ان کو پہلے کیا بجھتی تھی اور اب کیا سمجھے گی، وہ اس بات سے مستغنی ہوتی ہیں کہ مستقبل کا مؤرخ ان کو کس نظر سے دیکھے گا اور اس کا قلم ان کی تعریف میں کیا کیا جولانی دکھائے گا.ان کی نظر محض اپنے رب رحیم و کریم کی رحمت پر اور اس کے پیار پر پڑا کرتی ہے اور ان کے لئے بس وہی کافی ہوتا ہے.پس ہمیں اپنے رب کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ ہمیشہ یہی التجا کرتے رہنا چاہئے کہ ہمارے تمام نیک اعمال جو اسی کے فضلوں سے ہمیں کرنے کی توفیق ملتی ہے محض اسی کی رضا کی خاطر ہوں اور اگر چہ دنیا کا قانون جاری و ساری رہے گا اور دنیا ہماری تعریف میں رطب اللسان ہو جائے
خطبات طاہر جلد ۲ 41 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء گی لیکن اس تعریف کی ہمیں ایک ذرہ بھی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.ہماری تمام تر توجہ اپنے رب کی رضا کی طرف رہنی چاہئے کیونکہ اس کی محبت اور پیار کی ایک نظر انسان کی دنیا بھی سنوار دیا کرتی ہے اور اس کی عاقبت بھی سنوار دیا کرتی ہے.پس احمدی خواتین کو بھی ہمیشہ یہی مقصود بنالینا چاہئے کہ قطع نظر اس کے کہ ان کے معاشرے نے ان کے کسی فعل پر کیا ردعمل دکھایا ، اس بات سے بے پرواہ ہوکر کہ ان کے خاوندوں اور بھائیوں اور بہنوں نے انہیں کس حال میں دیکھا اور اس بات سے مستغنی ہو کر کہ جماعتی اداروں نے ان کی تحسین کی یا نہ کی ، وہ اس یقین کے ساتھ زندہ رہیں کہ جو فعل انہوں نے محض رضائے باری تعالیٰ کی خاطر کیا ہے اس کے نتیجے میں اللہ کے پیار کی نظریں ان پر پڑ رہی ہیں اور جس انسان پر خدا کے پیار کی نظریں پڑ جائیں وہ کبھی ضائع نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ محض اس کی محبت میں سرشار ہو کر محض اس کی رضا کی خاطر ہم پہلے سے بڑھ کر نیکیوں کی طرف قدم مارتے رہیں.اس ضمن میں میں دو باتیں ایسی کہنا چاہتا ہوں جن میں سے ایک کا تعلق لجنہ کی تنظیم سے ہے اور دوسری کا تعلق مردوں سے ہے.لجنہ کی تنظیم کو چاہئے کہ اس صورت حال سے پورا فائدہ اٹھائے.حقیقت یہ ہے کہ نیکی کسی منزل کا نام نہیں بلکہ ایک سفر کا نام ہے.کسی مقام کو نیکی نہیں کہتے بلکہ ایک حرکت کو نیکی کہتے ہیں.یہ اسی وقت تک نیکی رہتی ہے جب تک جاری وساری رہے.جہاں وہ کھڑی ہو جائے وہاں وہ نیکی کا نام پانے سے بھی محروم ہو جاتی ہے اور نیکی کی تعریف سے نکل جاتی ہے.پس ہر نیکی کو ایک اور نیکی کی شکل میں ڈھلنا چاہئے اور ہر خوبی کو ایک نئی خوبی کو جنم دینا چاہئے اس لئے جماعتی تنظیموں کا کام ہے کہ ہر وہ دل جس میں تھوڑی سی پاک تبدیلی بھی پیدا ہوئی ہو اس کے لئے آئندہ نیکی کی راہیں آسان کریں اور آئندہ نیک قدم اٹھانے کے سلسلہ میں ایسے افراد کی رہنمائی اور مدد کریں.وہ تمام احمدی بچیاں اور خواتین جنہوں نے پردے کے سلسلے میں نیک قدم اٹھایا ہے، ان کے دل میں اس وقت خاص طور پر نیک آواز کو قبول کرنے کا مادہ پیدا ہو چکا ہے اور ان کی توجہ اپنے رب کی طرف ہے اور وہ اس خیال سے لذت یاب ہو رہی ہیں کہ ہم نے خدا کی رضا کی خاطر یہ قدم اٹھایا ہے.پس اس وقت اگر لجنہ اماءاللہ ان کو مزید قربانیوں کی راہیں دکھائے اور ان کی تربیت کا
خطبات طاہر جلد ۲ 42 خطبه جمعه ۲۱ / جنوری ۱۹۸۳ء انتظام کرے اور ان کو نیک کاموں میں اپنے ساتھ شامل کرے تو انشاء اللہ یہ ایک نیکی آئندہ دس نیکیوں پر منتج ہوگی اور وہ دس نیکیاں آئندہ سینکڑوں نیکیوں پر منتج ہوں گی.حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کو نیک کاموں سے وابستہ کرنا اس پر ایک بہت بڑا احسان ہے.اس لحاظ سے جماعت کی تمام تنظیمیں اس بات کی ذمہ دار ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ممبران کو نہ صرف نیک کاموں کی طرف بلائیں بلکہ ان پر ذمہ داریاں ڈالنے کی کوشش کریں کیونکہ ذمہ داری کا احساس بھی انفرادی تربیت میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے.یہ امر واقعہ ہے کہ اگر آپ خصوصیت سے پچھلی دو نسلوں کو دیکھیں جو جماعت احمدیہ میں تنظیموں کے قائم ہونے کے بعد پیدا ہوئیں تو بلا شبہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہزار ہا احمدی عورتیں اور مرد ایسے ہیں کہ اگر وہ ذمہ داری کے کام سے الگ رہتے اور ان کے سپرد یہ کام نہ کئے جاتے تو ان کی تربیت کی شکلیں آج کی تربیت کی حالت سے بالکل مختلف ہوتیں.حقیقت یہ ہے کہ جماعت کے جتنے بھی عہدیدار ہیں خواہ وہ سیکرٹریان مال ہوں ، خواہ وہ صدران ہوں، خواہ ان کو آپ زعیم کہیں یا قائد کہیں یا لجنہ کی سیکرٹریات ہوں وہ سب کے سب اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر ان پر جماعتی ذمہ داریوں کے بوجھ نہ ڈالے جاتے تو ان کی انفرادی تربیت کی حالت موجودہ تربیت کی حالت سے ضرور مختلف ہوتی.حقیقت یہ ہے کہ نیک کام کرنے کی توفیق پانا اور نیک کام کروانے کی توفیق پانا، یہ بھی دو الگ الگ چیزیں ہیں.جب لجنہ تربیت کرتی ہے تو نیک کام کرنیکی توفیق پاتی ہے اور جب دوسروں سے کام لیتی ہے تو نیک کام کروانے کی توفیق پاتی ہے.اور جس شخص کو نیک کام کروانے کے لئے اپنے وقت کی قربانی کا مزا آنا شروع ہو جائے وہ بہت تیزی کے ساتھ روحانی میدانوں میں ترقی کرنے لگتا ہے.پس لجنہ کو چاہئے کہ ان بچیوں کے سپر د دینی کام کریں ، دین کی خدمت کے کام ان کو سونپیں، ان کو اپنے وقت کا بہتر مصرف بتائیں ، ان کو نیکی کرنے کی مزید لذتوں سے آشنا کریں ، ان پر چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ڈالیں تا ان کو یہ خیال نہ رہے کہ ہم اور چیز ہیں اور لجنہ کی عہدیداران کوئی اور چیز ہیں، وہ حکم دینے والی ہیں اور ہم حکم قبول کرنے والی ہیں بلکہ چاہئے کہ ان کو ہر نیکی کے کام میں شامل کریں.حقیقت یہ ہے کہ لجنہ کے کام اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں کہ ان کی انجام دہی اب لجنہ کی چند عہد یداروں کے بس کی بات نہیں رہی اس لئے انہیں اپنی ضرورت کی خاطر بھی مزید کارکنات
خطبات طاہر جلد ۲ 43 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء چاہئیں.پس اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر وہ اپنے دائرہ کار کو بڑھائیں اور بچیوں کو چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں تقسیم کریں تو مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ لجنہ کے کاموں میں بھی برکت پڑے گی اور ان بچیوں کی ساری زندگی بھی سنور جائے گی.ہماری ان بچیوں نے ایک ایسا فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ان کی سوسائٹی کا ایک رخ بدلنے والا ہے کیونکہ جو آزادلڑ کیاں تھیں وہ آزاد سوسائٹی میں جایا کرتی تھیں.وہاں ان کے وقت کے کچھ مصرف تھے، وہاں ان کے لئے دلچسپی کے کچھ سامان تھے ، اب جبکہ انہوں نے خدا کی خاطر ان راہوں سے منہ موڑا ہے تو ہمارا اور بھی زیادہ فرض ہے کہ ان کے لئے بہتر لذتوں کے سامان پیدا کریں اور ان کے وقت کا بہتر مصرف ان کو بتا ئیں.پس لجنہ اماءاللہ اگر تمام دنیا میں ایک با قاعدہ سکیم کے تحت ان بچیوں اور ان عورتوں کو بھی جنہوں نے غیر معمولی عزم اور ہمت اور حوصلے کے ساتھ اپنی زندگی کو بدلنے کا فیصلہ کیا ہے، آگے بڑھ کر ان کا استقبال کریں اور نظام جماعت میں ان کو جذب کریں اور ان سے خدمت لیں اور ان کو بتائیں کہ زندگی کا اصل لطف دین کی خدمت میں ہے اور اس کے مواقع مہیا کریں تو میں امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ تعالیٰ جماعت کے مستقبل کے لئے یہ قدم بہت ہی با برکت ثابت ہوگا.مردوں سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عورتوں کو پردے کی تعلیم اس لئے نہیں ہے کہ وہ مردوں کی غلام بنائی جائیں.خدا تعالیٰ نے عورتوں کو اپنی عصمت کی حفاظت کی تلقین اس لئے نہیں فرمائی کہ وہ مردوں کی باندیاں بنادی جائیں.حقیقت یہ ہے کہ مرد اور عورت کے حقوق خدا کی نظر میں برابر ہیں مگر چونکہ ان کی خلقت میں کچھ فرق ہے اور ان کی تخلیق کے تقاضے کچھ مختلف ہیں اس لئے بعض ذمہ داریاں ان مختلف تقاضوں کے پیش نظر بدل جاتی ہیں اور تعلیمات کے کچھ حصے بھی اسی فرق کے پیش نظر مختلف ہو جاتے ہیں لیکن جہاں تک حقوق کا تعلق ہے مرد اور عورت کے حقوق میں ایک ذرہ بھی فرق نہیں ہے.لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت تکلیف پہنچتی ہے کہ معاشرے کے بداثرات کے نتیجے میں جماعت احمدیہ میں بھی بہت سے مرد ظالم ہیں.وہ اپنی عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے.وہ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کا کام صرف یہ ہے کہ وہ بچے پیدا کرنے والی مشینیں بن جائیں اور ہماری خاطر ہر قسم کے دکھ اٹھا ئیں اور ہر قسم کی مصیبتیں برداشت کریں اور اُف تک نہ کریں اور پھر بھی اگر ادنی سا شکوہ بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 44 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء ان کے خلاف پیدا ہو تو وہ گویا ان کو مارنے کا بھی حق رکھتے ہیں.ایسی بہت سی مثالیں سامنے آکر دل کو انتہائی تکلیف پہنچتی ہے.ابھی حال ہی میں لاہور میں مستورات کی ایک مجلس سوال و جواب منعقد ہوئی جس میں انہیں موقع دیا گیا کہ وہ عورتوں سے متعلق مسائل وغیرہ پوچھیں.ایک خاتون نے سوال کیا کہ کیا عورتیں مردوں کی جوتیوں کے طور پر پیدا کی گئی ہیں؟ اس خاتون کے سوال میں بڑا دردتھا.مجھے بہت تکلیف پہنچی کہ جو اس نے نہیں کہا وہ بھی اس سوال کے پس منظر سے ظاہر تھا.اس کو میں نے کہا کہ مرد عورتوں کی جوتیوں کے نیچے ہیں اس معنی میں کہ اللہ تعالیٰ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھ دی ہے.اس لئے تم نے جو سمجھا غلط سمجھا.لیکن میں جانتا ہوں کہ تم ایسا کیوں کہہ رہی ہو؟ دنیا میں کچھ ایسے بد بخت بھی ہوتے ہیں جو ماؤں کے قدموں سے جنت کی بجائے جہنم لیتے ہیں اور بجائے اس کے کہ عورت کے حقوق کا خیال رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کریں وہ نہ صرف یہ کہ خود ظالم بنتے ہیں بلکہ دنیا کے سامنے اسلام کو بھی ایک ظالم مذہب کے طور پر پیش کرتے ہیں.ان بد مثالوں نے اس کثرت کے ساتھ اسلام کی بدنامی کے سامان مہیا کئے ہیں کہ باہر کی دنیا یہ جھتی ہے کہ اسلامی تہذیب محض مرد کی خدائی اور حکمرانی کا نام ہے اور اسلامی تہذیب نام ہے عورت کو انتہائی ذلت کے ساتھ زندگی پر مجبور کرنے کا.غیر مسلم، ”اسلام“ نام سمجھتے ہیں زنجیروں کا، رسم ورواج کی زنجیروں کا اور ظلم و تشدد کی زنجیروں کا جن میں مسلمان عورت باندھی جاتی ہے اور مرد اس پر راج کرتا ہے.یہ تصور آخر اہل مغرب کے دل میں کیوں پیدا ہوا؟ یہ درست ہے کہ بہت حد تک اسلام کے تاریک زمانوں کی تاریخ اس تصور کو پیدا کرنے کی ذمہ دار ہے لیکن وہ تاریک زمانے تو چلے گئے اب تو روشنی کا دور آگیا.اب تو اسلام کی از سرنو عظمتوں کی خاطر، اسکی بلندی کی خاطر اور اس کی رفعتوں کی خاطر احمدیت کا سورج طلوع ہوا ہے.پس مذہبی نقطہ نگاہ سے بھی اندھیروں کے دور ختم ہوئے اور دنیا کے نقطۂ نگاہ سے بھی زمانہ ایسے دور میں داخل ہو چکا ہے کہ اس قسم کے خیالات قصہ پارینہ بن رہے ہیں اور ہر جگہ عورت بیدار ہورہی ہے اور اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہی ہے.پس اس دور میں بھی اگر ظلم وتشدد کی ایسی مثالیں نظر آئیں تو وہ لوگ بہت ہی بدقسمت ہوں
خطبات طاہر جلد ۲ 45 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء گے جن کی وجہ سے آج جب کہ اسلام کے چہرے سے داغ دور کرنے کا وقت ہے کچھ لوگ نئے داغ اسلام کے چہرے پر لگا رہے ہیں.بعض مردوں کی یہ بدقسمتی صرف پاکستان اور ہندوستان کی جماعتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دنیا کی دوسری جماعتوں سے بھی ایسی دردناک تکالیف کی شکایتیں ملتی ہیں اور جب تحقیق کی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت حد تک مرد کا قصور تھا.چنانچہ میں نے اپنے دورے کے دوران ایک ملک میں ایک کمیشن مقرر کیا جو ان حالات کا جائزہ لے اور رپورٹ کرے کہ کیوں خانگی معاملات میں یہ تکلیف دہ صورتیں پیدا ہو رہی ہیں؟ تو اس کمیشن نے جو بڑے ذمہ دار آدمیوں پر مشتمل ہے، مجھے رپورٹ کی کہ ہمارے جائزے کے مطابق اکثر و بیشتر مرد کا قصور ہے.مرد کے ان اقدامات کے نتیجے میں اگر عورت آزادی کی طرف مائل ہو یعنی اسلام سے باہر کی آزادی کی طرف اور ان ظالمانہ اقدامات کے خلاف اس رنگ میں بغاوت کرے کہ وہ بغاوت بالآخر اسلام کے خلاف بغاوت پر منتج ہو جائے تو یہ سارے مرد خدا کے حضور جوابدہ اور ذمہ دار ہوں گے.تحقیق کے بعد جو واقعات معلوم ہوئے ہیں وہ تو ایک دردناک کتاب ہے اور یہ موقع ہی نہیں اور نہ وقت ہے کہ میں ان کا تفصیلی ذکر کر سکوں.صرف ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں تا کہ آپ کو اندازہ ہو کہ اس دنیا میں آج کے دور میں بھی مرد عورت کے خلاف کیسا سفاکی کا معاملہ کر رہا ہے.بہت پرانی بات ہے جبکہ میں ربوہ میں قائد مجلس خدام الاحمدیہ ہوا کرتا تھا.ایک دفعہ مجھے اطلاع ملی کہ ایک احمدی نوجوان جو فوج میں ملازم تھا اور چھٹی پر آیا ہوا تھا دریا کے کنارے جہاں دریا نے چھوٹی چھوٹی جھیلیں بنائی ہوتی ہیں نہاتے ڈوب گیا ہے اور تلاش کے باوجود اس کی لاش دستیاب نہیں ہو سکی.چنانچہ میں بھی وہاں گیا اور لاش تلاش کرنے کی کوشش کی.بالآخر وہ آدمی ایک چٹان کی تہ میں پھنسا ہوا نظر آیا.چنانچہ میں نے اس کی بغل میں ہاتھ ڈال کر اس کی لاش کو وہاں سے باہر نکالا.یہ واقعہ بڑا دردناک تھا لیکن اس واقعہ کی کوکھ سے بعض اور درد ناک باتوں نے جنم لینا تھا جو اب میرے سامنے آئیں.اس شخص کی بیوہ نے بڑے دردناک اور تکلیف دہ حالات میں اپنی اس بچی کی پرورش کی جو یتیم رہ گئی تھی.سکول میں ٹیچر ہوئی ، قربانیاں دیں، دکھ کا بڑا لمبا زمانہ نہایت صبر کے
خطبات طاہر جلد ۲ 46 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء ساتھ کاٹا اور بہت کچھ جمع کیا ، صرف اس لئے کہ اس بچی کی زندگی بن جائے.اس بچی کی شادی ایک ایسے بد قسمت انسان سے کی گئی جس نے مطالبہ کیا کہ مجھے غیر ممالک میں بھجواؤ تاکہ میں اس کی زندگی بہتر بناؤں.اس بچی کی ماں نے اپنی ساری عمر کی جو پونجی جوڑ جاڑ کر رکھی ہوئی تھی ، بیچ کر اس کے باہر جانے کا انتظام کیا.چنانچہ وہ غیر ممالک میں تعلیم کے لئے چلا گیا اور آہستہ آہستہ اس نے رابطہ توڑ دیا.پھر معلوم ہوا کہ وہ واپس آگیا ہے اور اپنا پتہ بھی نہیں بتا رہا اور جس طرح ماں نے بیوگی کا زمانہ کا ٹا تھا اسی طرح اس کی بچی خاوند کی زندگی میں بھی ایک قسم کی بیوگی کے عالم میں زندگی بسر کر رہی ہے اور اس کا ایک بچہ بھی ہے.یہ ایسے واقعات تو نہیں جن کے متعلق انسان یہ کہہ سکے کہ ان کے مرتکب لوگ اللہ تعالیٰ کی عقوبت کے نظام سے بچے رہیں گے.ایک نسل کے بعد دوسری نسل کو ظلم اور درد کا شکار بنادینا انتہائی سفا کی ہے.اس سفاکی کے جو بھی موجبات اور محرکات ہیں انہیں اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے لیکن اس قسم کے واقعات جس سوسائٹی میں ہورہے ہوں وہ اس سوسائٹی کے لئے ناسور بن جاتے ہیں.پھر وہ ناسور پھیلتے ہیں اور ان کے دکھ دور دور تک محسوس ہوتے ہیں.ہم نے تو تمام دنیا کے سامنے اسلام کے اعلیٰ معاشرے کے نمونے پیش کرنے ہیں.ہم تعلیم کے میدان میں خواہ کتنی بھی ترقی کر جائیں ، اسلام کے احکامات کے فلسفے سے متعلق کتنی ہی دلنشین تقریریں کیوں نہ کریں ، جب تک ہمارے قول کی تائید میں ہمارا عمل ایک نمونہ پیش نہ کر رہا ہو دنیا پر ان باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوتا.چنانچہ جب بھی مجھے باہر اسلامی تعلیم کے متعلق گفتگو کرنے کا موقعہ ملا بلا استثنا آخر پر ہمیشہ یہی سوال ہوا کرتا تھا کہ جو کچھ آپ نے بتایا ہے وہ سب کچھ ٹھیک ہے مگر اس کے عملی نمونے تو دکھا ئیں.اگر چہ یہ تعلیم بہت پیاری ہے لیکن اگر یہ قابل عمل ہی نہیں تو ہمیں اس تعلیم کے متعلق کیا باتیں سناتے ہیں.صرف باہر ہی نہیں بلکہ ابھی حالیہ سفر لاہور میں مختلف اہل فکر سے گفت و شنید کے دوران جب ایک گروہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمدیہ کے نظریات سے متاثر ہوا تو ان میں سے ایک شخص نے یہی سوال کیا کہ آپ نے اسلام کے بارے میں جو تصورات پیش کئے ہیں وہ بہت خوشکن ہیں اور توجہ کو کھینچ رہے ہیں لیکن عملاً اس کی کوئی تصویر دنیا میں ہے بھی یا نہیں؟ اور اگر کروڑہا
خطبات طاہر جلد ۲ 47 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء مسلمان دنیا میں بس رہے ہوں اور ایک چھوٹی سی بستی میں اس تصویر کی کوئی جھلک دکھائی نہ دے تو باہر کی دنیا کو آپ کس طرح اسلام کی طرف بلا سکتے ہیں؟ جن امور سے متعلق وہ گفتگو تھی ان کے کچھ نمونے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ میں موجود ہیں.چنانچہ میں نے ان کو توجہ دلائی اور بتایا کہ اگرچہ ساری دنیا میں ہم پر بے شمار بوجھ ہیں اور خواہش کے باوجود تمام انسانی حقوق ادا کرنے کی ہم استطاعت نہیں رکھتے.پھر بھی جو باتیں ہم کہتے ہیں ان کا کسی قدر نمونہ آپ کو ربوہ میں مل سکتا ہے.میں نے ان کو تفصیل بتائی اور وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مطمئن ہو گئے.لیکن جہاں تک اسلامی معاشرے میں عورت کے مقام کا تعلق ہے،امر واقعہ یہ ہے کہ جب تک غیر معمولی طور پر پاکیزہ اور خوش حال اور جنت نشان سوسائٹی ہم پیدا نہیں کرتے اس وقت تک دنیا کی قومیں اس تعلیم کی طرف توجہ نہیں کریں گی.دنیا کی عورت کو یہ محسوس ہونا چاہئے کہ احمدی عورت زیادہ خوش ہے اور زیادہ مطمئن ہے، اس کے گھر میں جنت ہے، اس کے پاؤں تلے جنت ہے، آئندہ نسلوں کو بھی وہ جنت کا پیغام دے رہی ہے اور موجودہ نسل کو بھی جنت کی طرف بلا رہی ہے.پاؤں تلے جنت ہونے کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ آئندہ نسلوں کے لئے وہ ایسی جنت کا سامان چھوڑ رہی ہے کہ ان کی پاکیزہ نسلوں کو دیکھ کر لوگ ان ماؤں پر سلام بھیجیں گے اور ان کے لئے رحمت کی دعا کریں گے کہ بڑی ہی خوش قسمت ما ئیں تھیں جنہوں نے ایسے بچے پیدا کئے.پس اس نقطہ نگاہ سے مرد پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہ لا زمامرد کو ادا کرنی چاہئیں.یہ درست ہے کہ بعض دوسرے جرائم اور بھیا نک نظام شکنی کے نتیجہ میں مقاطعہ کی یا نظام جماعت سے اخراج کی سزائیں دی جاتی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جو مرد بنیادی انسانی حقوق ادا نہیں کر سکتا اور جس میں رحمت اور شفقت نہیں ہے وہ اسلام کی طرف منسوب ہونے کا اہل ہی نہیں ہے.اگر اس کا خیال ہے کہ وہ گھر میں ظلم و ستم روا رکھ کر اور غریب عورتوں کو دکھ دے کر اور محض تشدد کی مشین بن کر اسلامی حقوق ادا کر رہا ہے اس لئے وہ جنت میں چلا جائے گا تو یہ اس کا وہم ہے.خواہ وہ کتنی ہی نمازیں کیوں نہ پڑھے وہ جنت میں نہیں جا سکتا.وہ جنت الحمقاء میں تو جاسکتا ہے لیکن اس جنت میں نہیں جاسکتا جو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں کے لئے بنائی گئی ہے.ہمارے معاشرے میں غریب گھروں کے کچھ ایسے دکھ ہیں جو ہماری زندگی کا ایک حصہ
خطبات طاہر جلد ۲ 48 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء بن گئے ہیں.بچے پیدا ہور ہے ہیں لیکن ان کے لئے پورے سامان مہیا نہیں ہیں.نہ کپڑے ہیں نہ دیکھ بھال کا پورا انتظام ہے.پھر گرمیوں میں مچھروں کی وجہ سے راتوں کو جاگنا پڑتا ہے.علاوہ ازیں وبائی بیماریاں ہیں جو پیچھا نہیں چھوڑتیں.مرد محسن بھی ہوں تب بھی عورتیں ان مصیبتوں کی چکی میں پیسی جاتی ہیں.سارا دن مردوں کے کھانے پکانے ، بچوں کی دیکھ بھال، ان کے گند صاف کرنے ، راتوں کو ان کے لئے جاگنا، ان کی بیماریوں میں ان کے لئے تڑپنا اور خدمت کرتے کرتے راتوں کے بعد راتیں اپنی نیند حرام کر دینا اور بعض اوقات سکون کا لمحہ بھی نصیب نہ ہونا ، ان حالات سے عورت کو بہر حال دو چار ہونا پڑتا ہے.اگر مرد شفیق بھی ہو تب بھی یہ بڑی سخت زندگی ہے.خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم ان سارے دکھوں کو دور کریں لیکن یہ دور آنے پر خدا جانے کتنا وقت لگے لگا.مگر یہ کہاں کی انسانیت ہے کہ ان دکھوں میں مرد ایک یہ لعنت داخل کر دے کہ وہ ظالم بن جائے اور عورت کا احسان مند ہونے کی بجائے اس پر تحکم کرے اور اس پر بدظنیاں کرے.وہ اس کے لئے بچے پیدا کرے اور مرد کہے کہ تم بد چلن ہو.ایسا ظالم اور سفاک ہو کہ اس کو کسی طرح چین نہ لینے دے اس کا جسم بھی جہنم میں جھونک دے اور اس کی روح بھی جہنم میں جھونک دے.ایسا شخص تو انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں ہے کجا یہ کہ وہ اسلام کی طرف منسوب ہو اور اسلام بھی وہ جو آج احمدیت کی شکل میں دنیا کے سامنے نمودار ہوا ہے جس پر ابھی لمبا زمانہ نہیں گزرا.پس ایسے مردوں کو میں توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنی اصلاح کریں.اسی طرح جماعتوں کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ نگرانی کریں کہ اگر ایسے مردوں کی اصلاح نہ ہوئی اور وہ ظلم اور سفاکی سے باز نہ آئے تو اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ ان کو جماعت سے الگ کر دیا جائے.جس اسلام کو جماعت احمدیہ پیش کرے گی لازما اس کے نیک نمونے ساتھ لے کر چلے گی ورنہ ہمیں فتح نصیب نہیں ہوگی.ان بدنمونوں کو اپنے پہلو میں سمیٹ کر چلنے کی ہم میں طاقت نہیں.پس اگر وہ اسلام کا ایک پاک نمونہ پیش کر کے جماعت کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں تو وہ جماعت کے ساتھ بے شک چلیں.اللہ تعالیٰ ان کو توفیق عطا فرمائے کہ وہ پہلے سے بڑھ کر پاک نمونے پیش کریں.ان کے گھروں میں ایسی عورتیں ہوں جو گواہی دیں کہ ہمارے مرد دوسرے مردوں سے زیادہ رحیم ، زیادہ شفیق اور اور زیادہ محبت اور پیار کرنے والے اور ہمارا زیادہ خیال رکھنے والے ہیں.اگر وہ ایسے ہیں تو وہ حق رکھتے ہیں کہ احمد بیت
خطبات طاہر جلد ۲ 49 49 خطبه جمعه ۲۱ جنوری ۱۹۸۳ء کے قلعے میں شامل رہیں.لیکن اگر انہوں نے احمدیت کے ساتھ چل کر ایسے مناظر پیش کرنے ہیں جن کو دیکھ کر گھن آتی ہے تو بہتر ہے کہ وہ خود الگ ہو جائیں.اگر وہ خود الگ نہیں ہونگے تو نظام جماعت کو انہیں الگ کر نا پڑے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم عورتوں کے حقوق پوری طرح ادا کریں.جماعتیں اس بات کی نگرانی رکھیں اور حتی المقدور پیار اور محبت کے ساتھ پہلے اصلاح کی کوشش کریں.اگر جماعتیں ان کی اصلاح میں ناکام ہو جائیں تو پھر مجھے لکھیں کہ فلاں فلاں مرد ایسے ہیں جو ہر گز احمدی کہلانے کے مستحق نہیں ہیں.اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے کہ ہم جلد از جلد معاشرے کی ساری بیماریوں کو دور کر سکیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: خطبہ میں میں نے جس واقعہ کا ذکر کیا ہے اس میں جو پہلی نسل یعنی بیوہ کا دکھ ہے جو خاوند کے ڈوب جانے کے حادثے کے نتیجہ میں پیدا ہوا.جماعت احمد یہ بھی ایک حد تک یوں اس کی ذمہ دار ہے کہ بیوہ کا دکھ کم کرنے اور نگہداشت کرنے کی ذمہ داری جماعت سنبھالتی.آخر اسلام نے بیوگان کی نگہداشت کے بارہ میں اور ان کی دوبارہ شادیوں کے بارہ میں جو تعلیم دی ہے اگر احمدی سوسائٹی اس طرف توجہ نہ کرے اور فوری طور پر بیوگان کی سر پرست نہ بن جائے ، اسلامی تعلیم بتا کر ان کی غلط قدروں کو زائل کرنے کی کوشش نہ کرے اور ان کو صیح اسلامی تعلیم سے آگاہ کر کے اچھے نیک مردوں سے جو یتامی کا خیال رکھ سکیں ان کی دوبارہ شادی کا انتظام نہ کرے تو اس بے اعتنائی کی وجہ سے پہلی نسل کے دکھ میں جماعت بھی کسی حد تک شریک ہو جاتی ہے.خطبہ میں میں یہ بات بھی بتانی چاہتا تھا لیکن اس وقت نظر سے رہ گئی.اب اس کو بھی شامل کر لیں کہ جہاں بھی بیوگان اور یتامیٰ پائے جائیں جماعتیں فوری طور پر ان کی سر پرستی کا انتظام کریں اور ان کی مادی ضروریات کے علاوہ اخلاقی اور روحانی ضروریات کا بھی خیال رکھیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ / مارچ ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 51 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء غلبہ دین کے لئے ہر احمدی داعی الی اللہ بنے کا عزم کرے (خطبه جمعه فرموده ۲۸ جنوری ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ حم السجدۃ کی درج ذیل آیت تلاوت فرمائی: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ (آیت ۳۳) اور پھر فرمایا: دنیا میں ایسے جتنے بھی لوگ ہیں جو کسی مطلوب کی طرف بلانے والے ہوا کرتے ہیں خدا تعالیٰ کے نزدیک ان میں سے سب سے زیادہ پیاری ، سب سے زیادہ مستحسن اور سب سے زیادہ قابل تعریف آواز اس بلانے والے کی ہے جو اپنے رب کی طرف بلائے لیکن اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے کچھ شرطیں بھی مقرر فرما دیں.پہلی شرط یہ رکھی کہ وہ بلانے والا اپنے رب کی طرف بلا رہا ہو اور اس کا عمل اس کے قول کی پوری تصدیق کرتا ہو کہ وہ اپنے رب ہی کی طرف بلا رہا ہے، اپنی نفسانی خواہشات کی طرف یا شیطانی خیالات کی طرف نہیں بلا رہا اور عمل صالح اس کے قول کو حسین بنارہا ہو کیونکہ قول کا حسن عمل کے قابل نفرت ہونے کے ساتھ زائل ہو جایا کرتا ہے.بلانے والا خواہ کتنے ہی خوبصورت مقصود اور مطلوب کی
خطبات طاہر جلد ۲ 52 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء طرف بلائے اگر اس کا عمل مکر وہ ہو تو اسکے قول کا حسن بھی جاتا رہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے عمل صالح کی شرط ساتھ لگا دی اور اس کے ساتھ ایک اور شرط بھی لگادی فرمایا وَ قَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ساتھ ہی پھر یہ دعوی بھی کرے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں کیونکہ اگر خدا کی طرف بلانے والا ہو اور بظاہر عمل صالح بھی رکھتا ہو لیکن اگر وہ اسلام کی طرف دعوت نہیں دیتا اور خود کو مسلمانوں میں سے قرار بھی نہیں دیتا تو یہ تیسری شرط باطل ہو جائیگی اور قول حسن کو بھی ساتھ ہی باطل کر دیگی.غرض ہر وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ کی نظر میں ایک حسین داعی الی اللہ کا کردار ادا کرنا ہے اور ہر وہ شخص جو یہ چاہتا ہے کہ جب میں بلاؤں تو خدا کے پیار کی نظریں مجھ پر پڑیں اور میرا قول حسین ہو جائے اس کے لئے قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق یہ تین شرطیں لازم ہیں.وہ بلائے اپنے رب کی طرف اپنی خواہشات کی طرف نہ بلائے ، اپنے ذاتی مقاصد کی طرف نہ بلائے اور خدا کے نام پر بلا کر پس پردہ کچھ اور مقاصد نہ رکھتا ہو، خالصتاً اللہ کے لئے بلا رہا ہو.مثلاً جماعت احمد یہ دنیا کو خدا کی طرف بلا رہی ہے.اگر کسی جگہ اس دعوت الی اللہ کا مقصد یہ ہے کہ ہماری تعداد بڑھ جائے اور ہم دنیاوی غلبہ حاصل کر لیں تو یہ اللہ کی طرف بلانا نہیں رہے گا.ہماری دعوت محض اللہ کے لئے ہے اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ اللہ کے سوا کوئی اور مقصود اس میں شامل نہ کرے تا کہ یہ بات اس دعوی کو گندا نہ کر دے.نہ کوئی ذات اس کا مقصود ہو اور نہ کوئی جماعت، نہ کوئی اور الہ اس کا مقصود ہو اور نہ کوئی خواہش ، وہ خالصتا اللہ کی طرف بلا رہا ہو اور اس کا عمل صالح اس بات کی تصدیق کرے کہ ہاں اپنے رب ہی کی طرف بلا رہا ہے.عمل صالح کیا ہے؟ اس سلسلہ میں رب کی طرف بلانے والوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے ایک سودے کا اعلان فرمایا ہے.اور اس نسبت سے عمل صالح کا خلاصہ اس سودے کے بیان کے اندر پیش فرما دیا گیا.فرمایا: اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبة: (1) کہ وہ لوگ جو میرے ہو گئے ، جو میری طرف بلانے والے لوگ ہیں، جو خالصتا مجھ سے ایک سودا کر چکے ہیں ، ان کا سودا یہ ہے کہ اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ
خطبات طاہر جلد ۲ 53 خطبه جمعه ۲۸ /جنوری ۱۹۸۳ء خدا نے ان سے ان کے نفوس بھی خرید لئے ہیں اور ان کے اموال بھی خرید لئے ہیں.بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ اور اس کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ انہیں جنت عطا فرمائے گا.اس آیت کے کئی بطن ہیں اس لئے اس کی مختلف تفاسیر کی جاسکتی ہیں اور مختلف تو جیہات پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اس موقعہ پر میں خصوصیت کے ساتھ اس بات کی طرف توجہ دلانے کے لئے یہ آیت پڑھ رہا ہوں کہ نفوس اور اموال دونوں اس سودے کا لازمی حصہ ہیں.نہ محض نفوس اس سودے کی شرط کو پورا کریں گے نہ محض اموال اس سودے کی شرط کو پورا کریں گے.پس ایسے لوگ جو عمل صالح کے دعویدار ہوں اگر ان دونوں چیزوں میں سے ایک کی بھی کمی آگئی تو ان کے عمل صالح میں نقص پڑ جائے گا اور اسی نسبت سے ان کی دعوت الی اللہ میں بھی نقص پیدا ہو جائے گا.جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت احمد یہ تمام دنیا کی جماعتوں میں خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتی ہوں یا کسی سیاست سے تعلق رکھتی ہوں ایک نمایاں امتیاز کے ساتھ پیش پیش ہے.جہاں تک نفوس کی قربانی کا تعلق ہے بلا شبہ اس پہلو سے بھی جماعت احمد یہ دنیا کی دوسری جماعتوں سے آگے ہے.اگر چہ دوسری جماعتوں کی قربانی کے معیار مختلف ہیں لیکن ہماری قربانی کے معیار ان سے بالکل مختلف اور بلند تر ہیں اور اتنے بلند ہیں کہ ان کی قربانی کے معیار کے مقابل پر ہماری قربانی کے معیار کو وہی نسبت ہے جوز مین کو آسمان سے ہوسکتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن سے سودا کیا ہے.وہ ایک جماعت کے چند نفوس پر راضی نہیں ہوتا، چند بلانے والوں پر راضی نہیں ہے بلکہ مسلمان کی تعریف میں اس بات کو داخل فرما دیا کہ اگر تم مسلمان ہو تو تمہیں لاز مأخدا کی طرف بلانا پڑے گا اور تمہیں اپنے اسلام کو چھپانے کی اجازت نہیں دی جائے گی.اگر تم اسلام کو چھپا کر خدا کی طرف بلاؤ گے تو خدا کے نزدیک تمہارا یہ قول قول حسن نہیں رہے گا.پس اسلام کی قربانی کا معیار تو اتنا بلند اور اتنا وسیع ہے کہ ایک فرد بشر میں جو اپنے آپ کو ان لوگوں میں داخل کرنا چاہے جن کا قول خدا کے نزدیک حسین ہو جایا کرتا ہے، اسے قربانی کے دونوں معیار پر پورا اترنا چاہئے.یعنی مالی قربانی کے لحاظ سے بھی عمل صالح ہو اور نفس کی قربانی کے لحاظ سے بھی عمل صالح ہو.اس سے یہ ثابت ہوا کہ ہر مسلمان کے لئے نفس کی قربانی لازمی ہے اور دعوت الی اللہ بھی لازمی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہر انسان اپنے دوسرے کاموں میں مشغول اور اپنی زندگی کی بقا
خطبات طاہر جلد ۲ 54 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء کی جدو جہد میں مبتلا ہوتے ہوئے اپنا سارا نفس کس طرح خدا کے حضور پیش کر سکتا ہے.تو اس سلسلہ میں قرآن کریم نے مختلف مواقع پر مختلف قسم کے گروہوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کچھ سابقون ہیں، کچھ درمیانے درجہ کے لوگ ہیں، کچھ نسبتا پیچھے رہنے والے لوگ ہیں، کچھ تیز قدموں سے چلنے والے لوگ ہیں، کچھ درمیانے درجہ کے لوگ ہیں، کچھ نسبتاً آہستہ چلنے والے لوگ ہیں.غرض قرآن کریم نے مختلف قسم کے انسان اور ان کی قربانی کا ذکر کر کے یہ باور کرا دیا ہے کہ ہر نفس کو کسی نہ کسی رنگ میں یہ بہر حال پیش کرنی ہوگی.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اپنا سارانفس جماعت کے سامنے پیش کر کے دعوت الی اللہ کرتے ہیں اور اپنے وقت کا کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا جو کچھ بھی ہے وہ خدا کا ہے، ہماری زندگی کا ہرلمحہ دین کے لئے قربان ہے، اب جس طرح چاہو کام لو، جس طرح چاہو خدمت لو، ہمارا اپنا کچھ نہیں رہا، سب کچھ خدا کے لئے وقف ہے.ان میں سے اکثر اپنے اس دعوئی پر پورے اترتے ہیں اور اپنے عمل صالح کے ساتھ اپنے اس دعوئی کی تصدیق کر دیتے ہیں.اور کچھ وہ لوگ ہیں جو کچھ نہ کچھ وقت دے سکتے ہیں.دنیا کے دھندوں میں لازماً قوم نے مبتلا ہونا ہے.اجتماعی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھی دنیا کمانا ضروری ہے لیکن مقصود ان کا بھی خدمت دین ہوتی ہے.چنانچہ جو اموال بڑی محنت کے ساتھ کماتے ہیں وہ خدا کے حضور پیش کر دیتے ہیں اور اس طرح وہ بھی اپنے دعوئی کو سچا کر کے دکھاتے ہیں.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نفوس بھی میرے حضور پیش کرنے ضروری ہیں بلکہ نفوس کا پہلے ذکر فرماتا ہے اس لئے ہر وہ احمدی جو مالی قربانی تو کر رہا ہے لیکن وقت کی قربانی پیش نہیں کر رہا وہ قرآن کریم کی اس آیت کی رو سے ایک لنگڑ ا مسلمان ہے.اس کی دو ٹانگوں میں سے ایک ٹانگ نہیں ہے اور لنگڑا ہونے کے نتیجہ میں انسان اپنی اجتماعی قوت کے سوویں حصہ کے قابل بھی نہیں رہا کرتا.یعنی دو ٹانگوں میں سے صرف ایک ٹانگ کے کٹنے کے نتیجہ میں انسان کی قوت آدھی نہیں ہو جاتی بلکہ بعض اوقات سوواں حصہ بھی نہیں رہتی اس لئے مسلمان دعویدار آدھا مسلمان رہ جائے یہ تو ایک بہت بڑا نقص ہے.پس اگر پہلے ضرورت تھی کہ نفوس کی قربانی میں جماعت بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھے تو آج اس سے بھی زیادہ ضرورت ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہمارے جتنے مبلغ میدان میں کام کر رہے تھے آج اس کا سوواں حصہ بھی نہیں کر رہے جبکہ ضرورتیں پھیل چکی ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۲ 55 55 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء ہمارے Contact Points بہت بڑھ گئے ہیں.اس زمانہ میں ہندوستان ایک ایسا ملک تھا جہاں جماعت احمدیہ کا رابطہ اور واسطہ زیادہ تر اسلام کے دشمنوں کے ساتھ تھا لیکن اب تو دنیا میں شاید گنتی کے چند ملک ایسے ہوں گے جہاں جماعت قائم نہ ہو ورنہ کوئی ایسی جگہ آپ کو نہیں ملے گی جہاں جماعت کا رابطہ کسی نہ کسی رنگ میں نہ رہا ہو یا اس وقت موجود نہ ہو.مثلاً روس ایک ملک ہے.باوجود اس کے کہ وہاں تبلیغ کی اجازت نہیں وہاں کے ایک رسالہ نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ جماعت احمد یہ روس کے علاقوں میں بھی موجود ہے اگر چہ ان کا اپنے مرکز سے رابطہ نہیں.پس جب میں یہ کہتا ہوں کہ دنیا میں ہر جگہ احمدی پائے جاتے ہیں تو اسی کی بنا پر کہتا ہوں.یہ ایک حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کا وجود چین میں بھی ہے، روس میں بھی ہے، مشرقی یورپ میں بھی ہے، بلکہ مشرقی یورپ کے ایک ملک کے متعلق ایک مصدقہ اطلاع یہ ملی ہے کہ وہاں اس وقت خدا تعالیٰ کے فضل سے جتنے مسلمان ہیں ان میں ایک بھاری اکثریت جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی ہے.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب Contact Point وسیع ہو گیا ہو تو خدمت کی ضرورت اور بھی زیادہ پیش آیا کرتی ہے لیکن یہ ایک امر واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جتنا احمدی مبلغ تھا اور دعوت الی اللہ کیا کرتا تھا آج اس سے کم ہے.اس وقت ہر احمدی مبلغ تھا ، ہر شخص دعوت الی اللہ کر رہا تھا.ایک زمیندار کھیتوں میں ہل چلاتا تھا تو وہ بھی تبلیغ کر رہا ہوتا تھا، ایک تاجر جب لفافوں میں سودا ڈال کر گاہکوں کے ہاتھ فروخت کر رہا ہوتا تھا تو اس وقت بھی وہ تبلیغ کر رہا ہوتا تھا، ایک حکیم جب دوائیوں کی پڑیاں بنا کر کسی کو دیتا تھا یا ڈاک میں پارسل بھیجتا تھا تو وہ ساتھ تبلیغ کر رہا ہوتا تھا، کوئی احمدی کسی بھی حیثیت کا ہو خواہ وہ وکیل ہو یا ڈاکٹر ہو، خواہ وہ تاجر ہو یا کوئی اور پیشہ ور ہو، خواہ نجار ہو یا لوہار ہو، ہر حیثیت میں وہ پہلے مبلغ تھا اور اس کی دوسری حیثیت بعد میں تھی.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دلیکچر لدھیانہ میں یہ بات واضح فرمائی کہ جہاں تک بیعتوں کے اعدادوشمار کا تعلق ہے دو ہزار، چار ہزار، چھ ہزار تک بیعتیں موصول ہوتی ہیں.(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد نمبر 20 صفحہ 258 ) اگر مبلغ نہیں تھے تو یہ بیعتیں کہاں سے آ رہی تھیں.اس زمانہ میں ہر ماہ چھ چھ ہزار بیعتیں عام روٹین (Routine) یعنی معمول کے مطابق ہوا کرتی تھیں جس کا مطلب ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بہتر ہزار بیعتیں
خطبات طاہر جلد ۲ 56 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء سالا نہ ہوا کرتی تھیں.علاوہ ازیں بعض ایسے اوقات بھی آتے تھے جب غیر معمولی شان کے ساتھ کوئی نشان ظاہر ہوتا تھا تو اچانک بیعتوں کی رفتار میں غیر معمولی اضافہ ہو جایا کرتا تھا.بعض اوقات ڈا کیا پھیرے مارتے مارتے تھک جاتا تھا.بیعتوں کا ایک تھیلا اٹھا کر لایا، پھر دوسرا تھیلا لے جانے چلا جاتا تھا.پھر وہ تیسرا لینے چلا جایا کرتا تھا.یہ برکت اس وجہ سے تھی کہ نفوس کی قربانی میں بھی برکت تھی.خدا تعالیٰ کی برکتیں ہماری قربانیوں کی برکتوں کے ساتھ ایک نسبت رکھتی ہیں.یہ درست ہے کہ ہماری قربانیوں سے سینکڑوں گنا زیادہ اللہ کے فضل ہوتے ہیں مگر وہ نسبت پھر بھی قائم ہے.اگر ایک اور سو کی نسبت آپ کہیں تو جب دس قربانیاں نازل کریں گے تو ہزار فضل نازل ہوں گے.یہ تو نہیں کہ ایک قربانی کے بعد سو اور دس کے بعد بھی سو ہی رہیں اس لئے فضلوں کو بڑھانے کی بھی تو کچھ ادا ئیں ہوا کرتی ہیں وہ ادا ئیں اختیار کرنی پڑیں گی.اس وقت تمام دنیا میں جو عیسائی مبلغ کام کر رہے ہیں ان کی تعداد دو لاکھ پچھتر ہزار کے قریب ہے اور یہ وہ عیسائی مبلغ ہیں جو عام پادری نہیں جو چرچوں میں عبادت کی خاطر مقرر ہوتے ہیں بلکہ یہ خالصتا تبلیغی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور ان کی زندگی کا مقصد تبلیغ کے سوا اور کچھ نہیں.اگر صرف ان کی تنخواہوں ہی کا حساب لگا کر آپ دیکھیں تو حیران رہ جائیں گے.اس کے علاوہ بے شمار دوسرے خرچ ہیں جو ہر ایک پادری کے ساتھ لگے ہوئے ہیں.مثلاً لٹریچر کی اشاعت ہے، دولت کی مفت تقسیم ہے ، لوگوں کو سامان مہیا کرنا ، ان کو ہر قسم کے لالچ پیش کرنا، ہسپتالوں ،سکولوں اور کالجوں کے ذریعہ ان کی مددکرنا وغیرہ.یہ اتنی بھاری رقم بن جاتی ہے کہ ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.صرف ان کی تنخواہوں پر ہر سال ارب ہا ارب روپیہ خرچ ہو رہا ہے جبکہ ہم بے چارے تو غریب لوگ ہیں ہمارے پاس سالانہ بجٹ چند کروڑ میں ہے.اگر یہ سارا رو پی بھی ہم مبلغوں پر خرچ کر دیں اور ایک آنہ بھی دوسری جگہ خرچ نہ کریں تب بھی تعداد میں ہزاروں مبلغوں سے آگے نہیں بڑھ سکتے اور وہ دولاکھ پچھتر ہزار کے لگ بھگ ہیں.اعداد و شمار دینے والے مختلف لوگ ہیں کچھ فرق سے اعداد و شمار دیتے ہیں لیکن جو میں نے جائزہ لیا ہے اس کے مطابق تقریباً پونے تین لاکھ با قاعدہ عیسائی مبلغ اس وقت دنیا میں کام کر رہے ہیں اور اگر اس کے ساتھ مار من چرچ کے پچاس ہزار سالانہ واقفین زندگی کو بھی شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد سوا تین لاکھ بن جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 57 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء اب سوال یہ ہے کہ سوا تین لاکھ کے مقابل پر ہمارے سود وسو یا تین سو مبلغ کس طرح نبرد آزما ہوسکیں گے؟ اس کا علاج قرآن کریم نے بیان کر دیا ہے اور یہ کیسا آسان اور کیسا پاکیزہ علاج ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم بلا ؤ اور عمل صالح کے تقاضے پورے کرو اور عمل صالح کے تقاضوں میں یہ بات داخل کر دی ہے کہ انسان نفوس کی قربانی بھی دے اور اموال کی قربانی بھی دے بلکہ مسلمان کی شرط میں یہ داخل کر دیا کہ دعوت الی اللہ کرنے والا ہو.اس سے زیادہ کھول کر اور کیا بات کی جاسکتی ہے.گویا یہ آیت یہ کہہ رہی ہے کہ تم اسلام کا بے شک دعوی کرو تمہیں کوئی نہیں روکتا لیکن اگر ایسے اسلام کا دعوی کرو گے جو خدا کی نظروں میں حسین اسلام ہے بلکہ سب حسنوں سے زیادہ حسن رکھنے والا اسلام ہے تو پھر دعوت الی اللہ لازمی اور پہلی شرط ہے.پھر دوسری شرط عمل صالح ہے.پھر اجازت ہے کہ اب کہو کہ ہاں میں مسلمان ہوں.نہ صرف اجازت ہے کہ بلکہ فرض ہے کہ پھر یہ کہو کہ میں مسلمان ہوں.غرض مبلغین کی کمی کا علاج ہمیں بتا دیا.اگر ہر احمدی اپنے آپ کو اول طور پر مبلغ بنالے اور نفس کی قربانی میں سب سے زیادہ اہمیت دعوت الی اللہ کو دے تو آپ کے مبلغوں کی تعدا د ساری دنیا کے عیسائی مبلغوں کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے.بعض جگہ ایک ایک ملک میں آپ کے مبلغوں کی تعداد ساری دنیا کے عیسائی مبلغوں کی تعداد سے بڑھ جاتی ہے اور یہ خیال کر لینا کہ مبلغ ہونے کے لئے با قاعدہ جامعہ سے پاس ہونا ضروری ہے، بڑی ہی بیوقوفی اور نادانی ہے، انسان اپنی حیثیت کو نہ پہچاننے کے نتیجہ میں یہ بات سوچتا ہے.امرواقعہ یہ ہے کہ ہر مسلمان جو میدان جہاد میں داخل ہونا چاہے اس کا سب سے بڑا ہتھیار دعائیں ہیں.انسان جب اللہ کی طرف بلاتا ہے تو مدد بھی تو اللہ ہی سے مانگتا ہے اسی لئے وہ ہر روز پانچ وقت ہر نماز کی ہر رکعت میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ:۵) پڑھتا ہے کہ اے خدا! میں تیری ہی عبادت کروں گا.وعدہ کر چکا ہوں ، نیت یہی ہے لیکن اب مدد بھی میں نے تجھے سے مانگنی ہے تو مددگار ہوگا تو حق ادا ہوں گے.پس دعوت الی اللہ کا سب سے بڑا ہتھیار تو اللہ کی مدد ہے اور دعا ہے.دعا کے ذریعہ ایک مسلمان جب میدان جہاد میں داخل ہوتا ہے تو ساری دنیا کی طاقتیں اس کے مقابل پر کوئی حیثیت نہیں رکھتیں اس لئے تمام دنیا کے احمدیوں کو میں اس اعلان کے ذریعہ متنبہ کرتا ہوں کہ اگر وہ پہلے مبلغ نہیں تھے تو آج کے بعد ان کو لازماً مبلغ بنا پڑے گا.اسلام کو
خطبات طاہر جلد ۲ 58 80 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء ساری دنیا میں غالب کرنے کے بہت وسیع تقاضے ہیں اور یہ بہت بڑا بوجھ ہے جو جماعت احمدیہ کے کندھوں پر ڈالا گیا ہے.عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا کوئی معمولی کام نہیں لیکن عیسائی دنیا کے اندر جو مزید بگاڑ پیدا ہو چکے ہیں وہ اتنے خطرناک اور خوفناک ہیں کہ ان کی اصلاح کا کام ایک بہت بڑا منصوبہ چاہتا ہے اور بے انتہا ذہنی اور عملی قو تیں اس پر صرف کرنی پڑیں گی.یہ ایک حقیقت ہے کہ اس وقت عیسائیت کے نتیجہ میں دنیا میں بہت گند پھیل چکا ہے.کئی قسم کی روحانی بیماریاں جڑیں پکڑ چکی ہیں.بعض بیماریاں کینسر کی شکل اختیار کر چکی ہیں.دعاؤں کے نتیجہ میں اللہ چاہے تو اصلاح فرمادے لیکن عملاً جہاں تک انسان غور کرتا ہے، انسان کے بس میں ان کی اصلاح نظر نہیں آتی.اسی طرح دہریت نے دنیا میں جتنا فروغ حاصل کیا ہے اس کی اصل ذمہ داری بھی عیسائیت پر عائد ہوتی ہے جیسا کہ قرآن کریم میں آتا ہے.كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ إِنْ يَقُولُونَ إِلَّا كَذِبًا (الكيف : ٦) بعض نادان سمجھتے نہیں ، وہ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کا کیا نقصان ہے اگر ہم نے ایک شریک بنالیا تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے ہم نے اپنا ہی نقصان کیا.آخر خدا کیوں عیسائیت کے اتنا پیچھے پڑ گیا ہے.کیوں بار بار یہ کہتا ہے کہ تین خدا بنالئے اور ظلم ہو گیا اور اندھیر نگری ہوگئی تو اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ آج کی تاریخ اور انسانی انحطاط کا تجزیہ کریں تو اکثر بیماریوں کی ذمہ داری عیسائیت پر عائد ہوگی.وہ سر چشمہ بنتی ہے آج کی ساری بیماریوں کا.یہ ایک بنیادی حقیقت ہے کہ اگر نظر یہ نا معقول ہو جائے تو اس کے نتیجہ میں بالآخر جس طرف وہ نظریہ بلانے والا ہے اس پر بھی یقین اٹھ جاتا ہے.چنانچہ عیسائیت نے دہریت کو جنم دیا ہے، عیسائیت نے اشتراکیت کو جنم دیا ہے، عیسائیت نے بے حیائی کی ہر تحریک کو جنم دیا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائیت کا عقیدہ بنیادی طور پر انسانی عقل سے ٹکرا رہا تھا وہ قابل قبول نہیں تھا.ظاہر ہے جب خدا کی طرف بلانے والے ایک نامعقول بات کی طرف بلانے لگیں تو خدا کی ہستی کا اعتبار اٹھ جاتا ہے.چنانچہ اس وقت عیسائی دنیا کے وسیع جائزہ سے جو اعداد و شمار مشہور امریکی رسالہ "Time" میں شائع ہوئے ہیں ان سے یہ معلوم ہوا ہے کہ عیسائی کہلانے والوں میں سے صرف ۲۲ فیصد ایسے ہیں جو یہ دعویٰ کرتے ہے کہ وہ خدا کی ہستی کے قائل ہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 59 59 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء باقی عیسائی کہلانے والے خدا کی ہستی کے قائل ہی نہیں اور جو عیسائیت کے قائل ہیں ان کی بیماریاں بھی بے شمار ہیں.پس نا معقول نظریہ کے نتیجہ میں دنیا دکھوں میں مبتلا ہو جاتی ہے اور ایسے خطرناک فتنے پھوٹتے ہیں جو انسان کے لئے بڑی وسیع تباہی کا موجب بنتے ہیں.یہ اس تجزیہ کا وقت تو نہیں لیکن اشارۃ آپ کو یہ بتا رہا ہوں کہ اگر آپ غور کریں اور تدبر سے کام لیں تو آج کے زمانہ کی اکثر بیماریاں اور مصیبتیں عیسائیت سے پھوٹتی ہوئی نظر آئیں گی اس لئے عیسائیت کے خلاف سب سے زیادہ جہاد کی ضرورت ہے اور اس جہاد میں ہر احمدی کو لازماً شامل ہونا پڑے گا.مجھے یقین ہے اگر ہر احمدی اس جہاد میں شامل ہو جائے تو ہماری تعداد ان کے مبلغین سے کئی گنا بڑھ سکتی ہے.تبلیغ کے نتیجہ میں علم خود بخود آ جاتا ہے.پہلے علم حاصل کر کے تبلیغ کرنا بھی اچھی بات ہے لیکن جس شخص کو یہ توفیق نہ ہو اور اکثر کو نہیں ہوتی ان کو انتظار کئے بغیر میدان میں کودنا پڑے گا.اس سلسلہ میں دعا اصل چیز ہے.میں ایک لمبا عرصہ تبلیغ کے کام سے منسلک رہا ہوں.میرا یہ تجربہ ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ کسی بھی بڑے سے بڑے عالم کی کوششیں ثمر آور نہیں ہوتیں جب تک وہ بنیادی طور پر منتقی اور دعا گو نہ ہو.اور بڑے بڑے ان پڑھ میں نے دیکھے ہیں جن کو دین کے لحاظ سے کوئی وسیع علم نہیں تھا لیکن ان کی باتوں میں نیکی اور تقویٰ تھا، ان کو دعاؤں کی عادت تھی وہ بڑے کامیاب مبلغ ثابت ہوئے اس لئے جو اصل ہتھیار ہے وہ تو ہر ایک احمدی کو مہیا ہے پھر وہ باقی چیزوں کا انتظار کیوں کرتا ہے.ہاں جب تبلیغ کے میدان میں وہ کو دیں گے تو رفتہ رفتہ اللہ تعالیٰ خود ان کی تربیت فرمائے گا، ان کے ذہنوں کو جلا بخشے گا، ان کے علم میں برکت ڈال دے گا.یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک عام انسان جب کوئی کام شروع کرتا ہے تو قانون قدرت خود بخود انتظام کرتا ہے کہ اس کا کام پہلے سے بہتر ہوتا چلا جائے.مثلاً بچہ ہے وہ پہلے چلنا سیکھتا ہے تو پھر دوڑ نے لگتا ہے.دوڑتا ہے تو پھر بڑے بڑے عظیم الشان کارنامے سرانجام دینے لگ جاتا ہے.ہر ورزش کے نتیجہ میں (سوائے اس کے کہ انسانی طاقت سے بڑھ کر کی جائے) پہلے سے بڑھ کر طاقت پیدا ہوتی ہے.اسی طرح آپ تبلیغ کے میدان میں جائیں گے تو خدا تعالیٰ خود آپ کو مضمون سکھائے گا.اور عیسائیت تو اتنی بودی ہے، اتنی بے معنی ہے، اتنی بے حقیقت ہے ، اس کا نظریہ اتنا کلچر ہے کہ کسی احمدی کے لئے عیسائیت کے مقابل پر کسی تیاری کی کیا ضرورت ہے.جس کے عقیدہ میں عیسائی خدا کے بیٹے کی موت داخل ہوگئی ہو، جس
خطبات طاہر جلد ۲ 60 60 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء کی گھٹی میں یہ عقیدہ پڑا ہو کہ حضرت عیسی علیہ الصلوۃ والسلام فوت ہو چکے ہیں، جس کو ماں نے دودھ میں یہ بات پلائی ہو کہ کوئی فانی انسان دنیا میں کبھی ابدی زندگی نہیں پاسکتا صرف ایک خدا ہے جو ابدی زندگی پانے والا ہے، تمام انبیاء فوت ہو چکے ہیں.تو ایسے احمدی کو عیسائیت کے سامنے جانے سے کیا عار ہوسکتی ہے یا اس کو کیا تر در پیدا ہوسکتا ہے؟ امر واقعہ یہ ہے کہ عیسائی احمدیوں سے بھاگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے اور اپنی صداقت کے ثبوت میں یہ بات غیروں کے سامنے پیش فرمائی ہے کہ دیکھو! خدا تعالیٰ نے مجھے کسر صلیب کے لئے بھیجا تھا اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک عام احمدی جو میری طرف منسوب ہوتا ہے، جب وہ عیسائی پادریوں کے سامنے جاتا ہے تو ان کو جب یہ پتہ لگتا ہے کہ یہ شخص احمدی ہے تو وہ خود بخود بھاگ جاتے ہیں، مزید کسی بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی.ہم نے بچپن میں خود تجربہ کر کے دیکھا ہے.باوجود اس کے کہ ہم معمولی بچے تھے اور علم کے لحاظ سے بھی عملاً کورے تھے پھر بھی بعض عیسائی پادری ہمارے مقابل پر آنے سے کترا گئے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ ڈلہوزی میں ایک چرچ میں ہم چلے گئے، اس وقت ہم سکولوں میں پڑھتے تھے.وہاں ایک دیسی پادری صاحب تھے، ان سے ہم نے گفتگو شروع کر دی، کچھ دیر کے بعد ان کا ایک بڑا پادری آگیا.مجھے پتہ نہیں عیسائیت کے کس فرقہ سے وہ تعلق رکھتا تھا لیکن یورپین تھا.اس نے جب ہماری باتیں سنیں تو کچھ دیر کے بعد اس کو ہماری باتوں سے اندازہ ہو گیا کہ ہم احمدی ہیں.اس نے آگے بڑھ کر ہم سے پوچھا بچو! تم کون ہو، کیا تم جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتے ہو؟ ہم نے کہا ہاں ہم احمدی ہیں.اس نے کہا اچھا! پھر تم سے ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں ہے.یہ کہہ کر اس نے ہمیں رخصت کر دیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو دعوئی فرمایا تھا اس کو تو احمدی بچوں نے بھی سچا ہوتا اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اس لئے بالغ نظر احمدی جو دنیا کی تعلیم سے بھی مزین ہیں اور ساری دنیا میں پھیلے پڑے ہیں ان کے لئے عیسائیت کے سامنے جانے میں کون سا خطرہ ہے وہ پہلے سے ہی علمی لحاظ سے ہتھیار بند ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے علم کلام نے احمدی کے ذہن میں ایک ایسی روشنی پیدا کر دی ہے اور ایک ایسی جلا بخش دی ہے کہ جس نے عیسائیت کا مطالعہ نہ بھی کیا ہو وہ بھی عیسائی پادریوں سے ٹکر لینے کا اہل ہے اس لئے کسی انتظار کی ضرورت نہیں ہے صرف
خطبات طاہر جلد ۲ 61 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء ایک پہنی تبدیلی کی ضرورت ہے.آج کے بعد اگر ہر احمدی یہ سوچ لے کہ وہ جس ملک میں اور جہاں بھی ہے وہ لازماً دنیا کمائے گا کیونکہ اس کے بغیر گزارہ نہیں ہے اور دین کی خاطر کچھ پیش کرنے کے لئے اسے دنیا کمانی چاہئے لیکن وہ ہمیشہ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ اس کا مال کمانے کا مقصد بھی اللہ تعالیٰ کی طرف دعوت دینا ہو گا اور اس کی زندگی کے ہر لمحہ کا جواز اس بات میں مضمر ہوگا کہ وہ خدا کی خاطر جیتا ہے اور خدا کی طرف بلانے کے لئے جیتا ہے.اس عہد کے ساتھ جب وہ کام شروع کرے گا تو آپ دیکھیں گے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دنیا میں کس کثرت کے ساتھ اور کس تیزی کے ساتھ وہ انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائے گا جس کی ہم تمنا لئے بیٹھے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہ انقلاب آپ کی راہ دیکھ رہا ہے، آپ کے خلوص کی راہ دیکھ رہا ہے، آپ کی بلند ہمتی کی راہ دیکھ رہا ہے، آپ کے قلب کے عزم صمیم کی راہ دیکھ رہا ہے.ان چیزوں کے بغیر جب آپ اس انقلاب کے پیچھے جاتے ہیں تو یہ انقلاب زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ سے دور بھاگ رہا ہوتا ہے.آج اگر دنیا کا ہر احمدی یہ عزم کرلے کہ اس نے اپنے نفس کی قربانی داعی الی اللہ کے رنگ میں خدا کے حضور پیش کرنی ہے اور خدا کی طرف بلانا ہے تو وہ انقلاب جو ہم سے دور بھاگتا ہوا نظر آ رہا ہے آپ دیکھیں گے کہ وہ ایک مقام پر ٹھہر گیا ہے، پھر وہ پلٹا ہے، پھر وہ آپ سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ آپ کی طرف جھپٹتا ہوا نظر آئے گا تب کوئی نہیں کہہ سکے گا کہ ہم انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں یا انقلاب ہماری طرف بڑھ رہا ہے.اس وقت کیفیت یہ ہو جائے گی کہ جیسے ماں دیر کے بعد بچھڑے ہوئے بچہ کو دیکھتی ہے اور بچہ دیر کے بعد بچھڑی ہوئی ماں کو دیکھتا ہے کوئی نہیں کہہ سکتا کون کس کی طرف زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ جھپٹا تھا، دل سے ایک بے اختیار چیخ نکلتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کی طرف لپکتے ہیں.اسی طرح اگر ہر احمدی اپنے دل میں عزم صمیم پیدا کر لے کہ وہ خدا کی خاطر زندہ ہے اور خدا کی خاطر زندہ رہے گا اور خدا کی طرف بلاتا رہے گا تو پھر آپ دیکھیں گے کہ وہ عظیم الشان انقلاب جو ہم نے دنیا میں برپا کرنا ہے وہ ہم سے زیادہ تیز رفتاری کے ساتھ ہماری طرف جھپٹے گا.وہ ہم سے دور جا تا ہوا دکھائی نہیں دے گا.پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ داعی الی اللہ بننے کا عزم کریں اور دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمیں
خطبات طاہر جلد ۲ 62 خطبه جمعه ۲۸ / جنوری ۱۹۸۳ء توفیق عطا فرمائے.زمانہ بڑی تیزی کے ساتھ ہلاکتوں کی طرف بڑھ رہا ہے.اس کے قدم روکنے ہیں تو ہم نے روکنے ہیں ، اسکی نجات کے سامان پیدا کرنے ہیں تو خدا کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ ہم نے پیدا کرنے ہیں اسے خدا کے قدموں میں حاضر کرنا ہے تو ہم نے حاضر کرنا ہے.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: اس اعلان کے تمہ کے طور پر یہ بات بھی میں احباب کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں کہ جولوگ دعاؤں کے خط لکھتے ہیں وہ اگر اپنے خطوں میں اس بات کا ذکر بھی کر دیا کریں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے داعی الی اللہ بن چکے ہیں اور انہوں نے دعوت الی اللہ کا کام شروع کر دیا ہے تو ان کے اس خط کے ساتھ میرے لئے یہ بہترین نذرانہ ہو گا.اور امر واقعہ یہ ہے کہ نذرانہ کا فلسفہ بھی یہی ہے کہ کسی کے ساتھ تعلق محبت کے نتیجہ میں دل میں بے اختیار دعا پیدا ہو اور جتنا تعلق بڑھتا ہے اتنی زیادہ د عادل سے اٹھتی ہے.پس جہاں تک میرے دل کا تعلق ہے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس سے زیادہ پیارا اور اس سے زیادہ عزیز نذرانہ میرے لئے اور کوئی نہیں ہو گا کہ احمدی خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بچہ ہو یا بوڑھا مجھے دعا کے ساتھ یہ لکھے کہ میں خدا کے فضل کے ساتھ ان لوگوں میں داخل ہو گیا ہوں جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں، جن کا عمل صالح ہے اور جو خدا کے فرمان کے مطابق یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں.جب یہ بات ساتھ لکھی ہوئی ملے گی اور اس کے ساتھ پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے بعد میں بیعتیں بھی آنی شروع ہوں گی تو پھر آپ دیکھیں گے کہ کس طرح میرے دل سے دعا ئیں پھوٹ پھوٹ کر نکلیں گی ، میرے دل ہی سے نہیں ہر احمدی کے دل سے ان لوگوں کے لئے پھوٹ پھوٹ کر دعائیں نکلیں گی.اللہ تعالیٰ آپ کو ایسے نذرانے دینے والا بنادے اور مجھے ایسے نذرانے قبول کر کے ان کا حق ادا کرنے والا بنا دے.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۶ را پریل ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 63 83 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء داعی الی اللہ کو ابتلا میں استقامت دکھانا ضروری ہے ( خطبه جمعه فرموده ۴ فروری ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ حم السجدۃ کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ۚ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىَ أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُوْنَ نُزُلًا مِنْ غَفُوْرٍ رَّحِيمٍ (تم السجدة :۳۱-۳۳) اور پھر فرمایا: میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں احباب جماعت کو داعی الی اللہ بننے کی تلقین کی تھی.قرآن کریم نے جہاں داعی الی اللہ کی تعریف فرمائی ہے اس سے پہلے وہ پس منظر بھی بیان فرمایا ہے جو اس جماعت کا پس منظر ہے جس میں سے داعی الی اللہ نکلتے ہیں اور ان حالات پر بھی روشنی ڈالی ہے جن حالات کے باوجود یا جن حالات کے نتیجے میں داعی الی اللہ پیدا ہوتے رہتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 64 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء چنانچہ جو آیات میں نے ابھی تلاوت کی ہیں ان میں اسی مضمون کو تفصیل سے بیان فرمایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ وہ داعی الی اللہ کون ہیں اور کن لوگوں میں سے نکلتے ہیں.چنانچہ ان کے متعلق فرمایا انَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر اس دعویٰ پر استقامت اختیار کرتے ہیں.جہاں تک ربنا اللہ کے دعوی کا تعلق ہے اس کے ساتھ بظاہر تو استقامت کی کوئی بات نظر نہیں آتی کہ کیوں اس دعوی کی وجہ سے استقامت اختیار کرنے کی ضرورت پیش آئے.اس لیے کہ سب لوگوں کا رب اللہ ہے اور فی ذاتہ محض یہ دعویٰ کرنا کہ اللہ ہمارا رب ہے بظاہر دشمنوں کو انگیخت نہیں کرتا اور کوئی عقلی وجہ سمجھ میں نہیں آتی کہ اس دعوی کے نتیجے میں دنیا ایسے لوگوں پر کیوں مصیبتیں برپا کرے گی جن کی وجہ سے استقامت کا سوال پیدا ہو گا.لیکن معلوم یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ جور بنا الله کہتے ہیں ان کا انداز عام دنیا کے ربنا الله کہنے والوں سے مختلف ہوتا ہے.ان کے اندر زیادہ سنجیدگی پائی جاتی ہے، ان کے اندر زیادہ خلوص پایا جاتا ہے اور ربنا الله کا دعویٰ ان کے اعمال میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر دیتا ہے کہ یہ لوگ عام دنیا کے لوگوں سے کچھ مختلف شکلیں اختیار کر جاتے ہیں.رَبُّنَا اللہ کا معنی ہے، اللہ ہمارا رب ہے.وہی ہے جس نے پیدا کیا، وہی ہے جو پرورش کرتا ہے، وہی ہے جو تربیت دے کر آگے بڑھاتا ہے.مربی بھی ہمارا وہی ہے اور پالن ہار بھی وہی.اسی سے ہم دنیا کے رزق حاصل کرتے ہیں اور اسی سے روحانی رزق حاصل کرتے ہیں.یعنی جسمانی اور روحانی، دونوں غذا ئیں ہمیں اپنے رب سے ملتی ہیں اور وہ ہمیں کافی ہے.اس کے ہوتے ہوئے ہمیں کسی اور رب کی ضرورت نہیں.اگر آپ اس دعوئی پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ایک طرف تو یہ دعوی کلیہ اللہ پر انحصار کر دیتا ہے اور دوسری طرف کلیۂ غیر اللہ سے مستغنی بھی کر دیتا ہے.ربنا اللہ کا دعوی کرنے والوں پر کئی قسم کے ابتلا آتے ہیں جن کے نتیجے میں انہیں استقامت دکھانی پڑتی ہے.کچھ تو اندرونی ابتلا ہیں اور کچھ بیرونی ابتلا.اندرونی طور پر تو یہ قوم تربیت کے ایسے مشکل رستوں سے گزرتی ہے کہ قدم قدم پر ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ جس رب کے پیچھے تم چل رہے ہو
خطبات طاہر جلد ۲ 65 59 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء اس کے نتیجے میں تو تمہارا رزق کم کیا جائے گا اور تم مشکلات اور مصیبتوں میں مبتلا کئے جاؤ گے.تم عجیب پاگل قوم ہو کہ بڑی محنت کے ساتھ اپنی حکمتوں کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی جسمانی طاقتوں کا استعمال کرتے ہوئے تم روپیہ کماتے ہو اور پھر اس روپے کو از خود خدا کے نام پر خرچ کر دیتے ہو اور دعوی یہ ہے کہ ربنا الله، اللہ ہمارا رب ہے.اچھا اللہ تمہارا رب بنا کہ پہلے حال سے بھی بدتر ہو گئے.دنیا کمانے والے جو تمہارے بھائی بند ہیں وہ تو کمانے کے رستے بھی زیادہ رکھتے ہیں اور خرچ بھی خالصتاً اپنی ذات پر کرتے ہیں.ان کا رزق زیادہ بابرکت ہے یا تمہارا جن کی آمد کے رستے تنگ ہیں اور خرچ کے رستے زائد ہو گئے اور تم ایسی جگہ بھی خرچ کرنے لگے جس کے نتیجے میں تمہیں کوئی ذاتی فائدہ نہیں پہنچتا.اب دیکھیں کتنا بڑا ابتلا ہے کہ ربنا اللہ کہنے والوں نے جھوٹ کی کمائی کے رستے اپنے اوپر بند کر دیئے.ربنا الله کہنے والوں نے رشوت کی کمائی کے رستے بند کر دیئے.ربنا الله کہنے والوں نے ظلم کے ذریعے ہتھیائی ہوئی جائیدادیں حاصل کرنے کے رستے اپنے اوپر بند کر دیئے.ربنا الله کہنے والوں نے تکڑی کے تول میں خرابی کے ذریعے زیادہ آمدن پیدا کرنے کے رستے بند کر دیئے.ربنا اللہ کہنے والوں نے چوری کے رستے بند کئے ، ڈاکے کے رستے بند کئے اور دھو کے کے رستے بند کئے.باقی دنیا کے لئے رزق کے کتنے ہی رستے کشادہ ہیں اور کتنی ہی ان گنت راہیں ہیں جو دنیا والوں کے لئے کھلی ہیں مگر ربنا الله کہنے والوں نے ان سب راہوں سے منہ موڑ لیا اور پھر خرچ کی راہوں میں اپنے لئے ایسی راہیں تجویز کیں کہ وہ پاکیزہ رزق جو بظاہر تنگ رستوں سے انہیں حاصل ہوتا ہے اور دنیا کے مقابل پر ان کی آمد کے وسائل بہت محدود نظر آتے ہیں ، اپنی اس قلیل آمد کو بھی وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے لگ گئے اور دعویٰ یہ ہے کہ ربنا اللہ اللہ ہمارا رازق ہے.یہ وہ اندرونی آزمائش ہے جس میں سے یہ لوگ گزرا کرتے ہیں اور اسی کا نام استلقاء ہے کہ اپنے دعویٰ کو سچا ثابت کر کے دکھاتے ہیں اور ہر قسم کے مصائب کو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے ہیں اور کسی قسم کا خوف نہیں کھاتے اور یقین رکھتے ہیں کہ وہی رازق ہے اور اسی سے ساری برکتیں حاصل ہوتی ہیں اور اسی کے نام پر خرچ کرنے میں دراصل رزق کی برکتوں کی چابی رکھی گئی ہے.اس یقین کے ساتھ وہ استقامت اختیار کرتے ہیں.پھر ایک بیرونی ابتلا ان پر آتا ہے.باہر کی دنیا کہتی ہے کہ اچھا اگر تم اللہ کوہی رب سمجھ رہے
خطبات طاہر جلد ۲ 99 66 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء ہو اور سمجھتے ہو کہ وہی تمہارے رزق کا انتظام کرتا ہے اور وہی تمہیں بچاتا ہے تو تمہاری اندرونی قربانی کافی نہیں ، ہم بھی کچھ حصہ ڈالیں گے.یعنی کچھ تمہاری دوکانیں ہم لوٹیں گے، کچھ تمہاری جائیدادیں ہم برباد کریں گے، کچھ جائز ورثوں سے تمہیں ہم محروم کر دیں گے، کچھ جائز تر قیات سے تمہیں ہم عاری کردیں گے اور ان کے رستے میں روکیں کھڑی کر دیں گے، کچھ حصول تعلیم کے حق تم سے چھین لیں گے اور وہ تعلیم جو تمہارے رزق کا ذریعہ ہے ، ہم حتی المقدور کوشش کریں گے کہ تم اس تعلیم میں قدم آگے نہ بڑھا سکو.غرض یہ کہ ہر قسم کی مشکلات جو رزق کے حصول کے رستے میں حائل کی جاسکتی ہیں وہ تمہاری راہ میں حائل کریں گے پھر دیکھیں گے کہ تم کس شان کے ساتھ اور کس یقین کے ساتھ ربنا الله کہتے ہو.یہ استقامت کا دوسرا دور شروع ہو جاتا ہے.استقامت کا مطلب یہ ہے کہ کوئی چیز ایسی حالت میں بھی کھڑی رہے کہ جب اس کے کھڑے رہنے کی راہ میں روکیں ہوں اور اس کو ہر طرف سے دھکے پڑرہے ہوں.ویسے تو کوئی چیز کھڑی ہو تو اس کے لئے کام کا لفظ بولتے ہیں.درخت کھڑے ہیں ان کی اس حالت کے متعلق بھی قام کا لفظ استعمال کریں گے.انسان کھڑا ہوتو وہ بھی کام کی حالت میں ہوتا ہے لیکن شدید آندھی میں بھی جو درخت قائم رہ جائے اس کے متعلق انتقام کا لفظ استعمال کریں گے.اسی طرح شدید زلازل میں بھی کوئی عمارت نہایت شان کے ساتھ سر بلند کھڑی رہے اور سرنگوں نہ ہو ، اس کے متعلق بھی اِسْتَقَامَ کا لفظ بولیں گے.اسی طرح شدید مشکلات اور مصائب میں کوئی انسان اپنے موقف پر قائم رہے اور ایک انچ بھی اس سے انحراف نہ کرے اس کے متعلق بھی اِستَقَامَ کا لفظ ہی استعمال کریں گے.اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہر قسم کے ابتلا ان لوگوں پر عائد کئے جاتے ہیں جو ربنا اللہ کا دعویٰ کرتے ہیں.تقدیر خداوندی کی طرف سے ان کے امتحانات لئے جاتے ہیں.ان پر ایسے اندرونی اور بیرونی ابتلا آتے ہیں جو حد کر دیتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اسْتَقَامُوا کہ کوئی مصیبت کوئی زلزلہ، کوئی قیامت ان کے پائے ثبات میں لغزش نہیں پیدا کرسکتی ،کوئی چیز ان کو اس راہ سے ہٹا نہیں سکتی جس پر یہ گامزن ہوتے ہیں اور اسی لیے ان کی راہ کا نام بھی مستقیم رکھا گیا اور مستقیم راہ پر قائم رہنے کے لئے یہ دعا سکھائی گئی اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ إِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کے بعد اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
خطبات طاہر جلد ۲ 90 67 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء کی دعا یہ بتارہی ہے کہ ربنا اللہ یعنی اللہ کی عبادت کرنا اور کسی اور کی طرف منہ نہ کرنا، اس دعوی کے نتیجے میں لازماً مشکلات پیدا ہوں گی اور اگر دعا ئیں نہیں کرو گے تو ان مشکلات میں ثابت قدم نہیں رہ سکو گے.پس صراط مستقیم در اصل استقامت کی تشریح ہے یا استقامت صراط مستقیم کی تشریح ہے.یہ دونوں ایک دوسرے پر روشنی ڈال رہے ہیں.پس فرمایا کہ جب وہ استقامت اختیار کرتے ہیں تو ہم انہیں اس سے پہلے استقامت کا گر سکھا چکے ہوتے ہیں.وہ اپنے زور بازو سے مستقیم نہیں رہ سکتے بلکہ ہم انہیں دعائیں سکھاتے ہیں وہ گریہ وزاری کے ساتھ ہماری طرف جھکتے ہیں اور اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ کی دعا جاری رہتی ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ انہیں استقامت عطا فرماتا ہے.پھر جب وہ استقامت دکھاتے ہیں تو ان کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ فرمایا تَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ الَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا یعنی بکثرت ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور یہ کہتے ہوئے نازل ہوتے ہیں اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کہ کوئی خوف نہ کرو، کوئی غم نہ کھاؤ.لیکن یہ عجیب بات ہے کہ استقامت دکھانے والے لوگوں کو یہ فرشتے کہتے ہیں کہ کوئی غم نہ کھاؤ اور کوئی خوف نہ کرو حالا نکہ غم کی وجوہات بھی نظر آتی ہیں اور خوف کی وجوہات بھی نظر آتی ہیں پھر اس پیغام کا کیا مطلب ہے کہ کوئی غم نہ کھاؤ اور کوئی خوف نہ کرو؟ کیونکہ استقامت خود ایسے حالات کی متقاضی ہوتی ہے جن کے نتیجے میں غم بھی پیدا ہوگا اور خوف بھی پیدا ہوگا.مثلاً اگر کسی ایسے انسان کو جسے نقصان پہنچا ہو آپ کہہ دیں کہ غم نہ کرو تو اس سے اس کا غم کس طرح دور ہو گا؟ یا اگر خوف کے مقام پر آپ یہ اعلان کر دیں کہ خوف نہ کرو تو اس سے خوف کس طرح زائل ہو سکتا ہے؟ اس لئے دیکھنا یہ ہے کہ وہ فرشتے ایسی باتیں کر کے ان کے زخموں پر نمک پاشی کر رہے ہوتے ہیں یا یہ پیغام کوئی اور معنی رکھتا ہے؟ لیکن اس سے پہلے کہ ہم اس مضمون میں داخل ہوں، ہم استقامت کی طرف واپس لوٹتے ہیں.استقامت کے سلسلے میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے غلاموں اور ساتھیوں نے جو عظیم الشان نمونے دکھائے ، تاریخ اسلام ان واقعات سے روشن ہے اور ہمیشہ روشن رہے گی.وہ واقعات ایسی روشنائی سے لکھے گئے ہیں کہ جن کی چمک کبھی ماند نہیں پڑسکتی اور جن کا کچھ ذکر میں نے جلسہ سالانہ کی پہلے دن کی تقریر میں کیا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کا بڑا ہی عظیم احسان ہے کہ اس نے جماعت احمدیہ کو بھی ان درخشندہ مثالوں کی پیروی کی توفیق بخشی اور بخشتا چلا جارہا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 68 80 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء ہم ایک ایسی تاریخ بنارہے ہیں جو اس دور میں اسلام کی استقامت کی تاریخ ہے اور یہ تاریخ بھی اتنی روشن اور درخشندہ ہے کہ ہزاروں سال کے بعد بھی ماضی کے پردے پھاڑتے ہوئے اس کی روشنی چمکا کرے گی اور آنے والی نسلیں مڑ کر دیکھیں گی اور اپنی آنکھوں کو ان نظاروں سے خیرہ کیا کریں گی.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید ا نہیں لوگوں میں سے تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا جنہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر استقامت دکھائی اور اپنے اس دعوئی سے سر مو بھی انحراف نہیں کیا.جب آپ کو شہادت کے لئے اس مقام کی طرف لے جایا جارہا تھا جہاں آپ کو سنگسار کر کے شہید کیا جانا تھا تو امیر کابل نے کہا کہ یہ کافی نہیں اس کے ناک میں سوراخ کرو اور جس طرح بیل کو ناک میں رسی ڈال کر اور کھینچ کر لے جایا جاتا ہے، اسی طرح قربانی کے بیل کو لے کر جاؤ.چنانچہ آپ کے ناک میں سوراخ کر کے رسی ڈالی گئی اور ایک بہت بڑا ہجوم تھا جو ہنستا ، شور مچاتا اور طعن و تشنیع کرتا ہوا آپ کے ساتھ چلا جار ہا تھا اور ان کے درمیان کا بل کی گلیوں سے استقامت کا شہزادہ سر اٹھائے ہوئے گزر رہا تھا اور کوئی خوف اور کوئی بلا اس سر کونگوں نہیں کر سکی.وہ اس عظمت اور شان کے ساتھ ان گلیوں سے گزرا ہے کہ اس کی یاد میں وہ گلیاں قیامت تک نہیں بھلا سکیں گی.جب صاحبزادہ صاحب شہید کوزمین میں چھاتی تک گاڑ دیا گیا تو بادشاہ وقت نے جو آپ سے ہمدردی رکھتا تھا آپ سے کہا کہ اب بھی آپ مسیح موعود کا انکار کر دیں.اپنی جان کا خیال کریں ، اپنے اموال اور جائیداد کا خیال کریں اور اپنے بچوں کا خیال کریں.حضرت صاحبزادہ صاحب نے سراٹھا کر کہا کہ اے بادشاہ! ایمان کے مقابل پر میری جان کیا چیز ہے؟ میرے اموال کیا حیثیت رکھتے ہیں اور میرے بچوں کی کیا قیمت ہے؟ کچھ بھی نہیں اس لئے تم وہی کرو جس کا تم ارادہ کر چکے ہو.اس پر بادشاہ وقت نے کہا کہ اگر تم انکار نہیں کرنا چاہتے تو مجھے اجازت دو کہ میں تمہاری طرف سے اعلان کر دوں.انہوں نے فرمایا نہیں ، میں اس کی بھی اجازت نہیں دیتا اور تم نے جو کچھ کرنا ہے جلدی کرو.چنانچہ بادشاہ نے قاضی وقت سے کہا کہ پہلا پتھر تم مارو.قاضی نے جواب دیا کہ آپ بادشاہ ہیں اس لئے پہلا پتھر آپ چلائیں.بادشاہ نے کہا نہیں، شریعت کے بادشاہ تو تم بنے ہوئے ہو، تمہارا حکم چل رہا ہے میرا نہیں ، اس لئے پہلا پتھر بھی تم مارو.چنانچہ قاضی نے پہلا پتھر مارا اس کے بعد پتھروں کی اس طرح بوچھاڑ ہوئی کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 69 69 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء حضرت صاحبزادہ صاحب کے سر کے اوپر پتھروں کا ایک ڈھیر بن گیا جس میں یہ وجود غائب ہو گیا.یہ وہ واقعہ ہے جسے بعض غیروں نے بھی دیکھا اور مدتوں اس کی کسک ان کے دل میں رہی چنانچہ ایک انگریز چیف انجینئر نے جو انگلستان سے آیا ہوا تھا اور اس موقع پر موجود تھا، اپنی کتاب میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے.وہ لکھتا ہے کہ اس مرد مجاہد کے چہرے پر کوئی خوف نہیں تھا.اس نے وفات سے پہلے کہا کہ اے قوم ! تم ایک معصوم انسان کو مار رہے ہو لیکن یاد رکھو کہ خدا تمہیں اس کا خون نہیں بخشے گا اور بلائیں اور مصیبتیں تمہیں گھیر لیں گی.اس انگریز مصنف کے قول کے مطابق یہ وہ آخری اعلان تھا جو حضرت صاحبزادہ صاحب شہید نے کیا اور اس کے بعد پتھراؤ شروع ہو گیا.پھر اسی سرزمین پر حضرت صاحبزادہ نعمت اللہ صاحب شہید آپ کی پیروی میں آئے.وہ جانتے تھے کہ دعویٰ ایمان کے نتیجے میں انسان کو کیا کیا مصیبتیں سہنی پڑتی ہیں اور مصائب کے کن کن رستوں سے گزرنا پڑتا ہے.حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی یاد ان کے ذہن اور دل میں تازہ تھی اس کے باوجود انہوں نے وہی نمونہ دکھایا جو اس سے پہلے ایک مرد مجاہد نے دکھایا اور کوئی پرواہ نہیں کی.قید کی حالت میں انہوں نے ایک خط لکھا جو کسی ذریعے سے ایک احمدی دوست تک پہنچ گیا اور وہ محفوظ کر لیا گیا.اس خط میں وہ لکھتے ہیں کہ : ” مجھ سے خدا کا عجیب سلوک ہے کہ روزن بند ہے اور دن کے وقت بھی رات کی تاریکی ہے مگر جوں جوں اندھیرا بڑھتا ہے میرا رب میرے دل کو روشن تر کرتا چلا جاتا ہے اور ایک عجیب نور کی حالت میں میرا وقت بسر ہو رہا ہے.“ (الفضل قادیان، ۹ را گست ۱۹۲۴) ان کو جب اس قید خانے سے نکال کر حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی طرح گلیوں میں پھر ایا گیا اور طعن و تشنیع کی گئی اور مذاق اڑایا گیا تو اس وقت بھی باہر کا ایک گواہ تھا جو مشہور اخبار ڈیلی میل انگلستان کا نمائندہ تھا.اس نمائندے نے اس ذکر کو زندہ رکھنے کے لئے ایک ایسا بیان دیا جو تاریخی حیثیت رکھتا ہے اور جسے اس زمانے کے ”ڈیلی میل میں شائع کیا گیا.وہ کہتا ہے کہ میں نے دیکھا کہ باوجود اس کے کہ اس شخص پر انتہائی ذلت پھینکی جارہی تھی اور اسے گالیاں اور تکلیفیں دی جارہی تھیں، وہ کابل کی گلیوں میں پابجولاں پھرتا ہوا ایک آہنی عزم کے ساتھ مسکرارہا تھا.اس کی
خطبات طاہر جلد ۲ 70 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء روح ایسی غیر مفتوح اور ناقابل تسخیر تھی کہ اس کا نظارہ کبھی بھلایا نہیں جاسکتا اسی حالت میں اس کو اس مقام پر لے جایا گیا جہاں اس کو سنگسار کرنا تھا اور ہمارے سامنے پتھر بر سے لیکن اس نے اف تک نہ کی.ہاں ، پتھراؤ سے پہلے صرف یہ خواہش کی کہ مجھے دو نفل پڑھنے کی اجازت دی جائے اور اس طرح انہوں نے دو نفلوں کے ساتھ ان مسلمان مجاہدین کی یاد کو پھر زندہ کیا جنہوں نے آنحضور ﷺ کے زمانے میں اسی شان کے ساتھ شہادت پائی تھی.چنانچہ کا بل کی سرزمین پر انہوں نے دو نفل پڑھے اور اس کے بعد ان کو بھی حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی طرح زمین میں گاڑ دیا گیا اور پھر پتھراؤ کیا گیا.تاریخ احمدیت اس دور سے گزر رہی ہے اور بن رہی ہے اور بنتی رہے گی اور انشاء اللہ تعالیٰ احمدی کبھی بھی اپنے ایمان کی صداقت پر حرف نہیں آنے دیں گے.ان کی آواز ہمیشہ یہی رہے گی اور صرف صاحبزادہ عبداللطیف صاحب شہید کی آواز نہیں ہوگی بلکہ ہزاروں ، لاکھوں، کروڑوں آواز میں بن کے وہ آواز گونجتی رہے گی کہ یہ زندگی کیا چیز ہے، یہ اموال کیا چیز ہیں اور ان اولادوں کی کیا قیمت ہے؟ تم نے جو کرنا ہے کرو اور کر گز رو.ہم اپنے ایمان پر ثابت قدم رہیں گے.یہ ہیں وہ لوگ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ثُمَّ اسْتَقَامُوا انہوں نے یہ دعویٰ کیا کہ اللہ ہمارا رب ہے.کتنا پیارا دعویٰ ہے، کتنا پاکیزہ دعوی ہے، کوئی وجہ نہیں ہے کہ اس دعوی کے بعد کوئی قوم ان سے نفرت کرنے لگے، ان سے حقارت کا سلوک کرے، ان کے امول لوٹے ، اور ان کی جانیں لے لیکن فرماتا ہے کہ تم سے یہی سلوک ہوگا.ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر جو لوگ استقامت اختیار کریں گے ان کے ساتھ میرا بھی ایک سلوک ہوگا اوروہ یہ کہ تنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَئِكَةُ کثرت کے ساتھ ان پر فرشتے نازل ہوں گے یہ کہتے ہوئے اَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کر تم کوئی خوف نہ کرو اور کوئی غم نہ کھاؤ، ہم تمہیں اس جنت کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے.نَحْنُ أَوْ لِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ ہم اس دنیا میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی رہیں گے.وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَشْتَهِىَ اَنْفُسُكُمْ اور تمہارے لئے اس جنت میں جس کی خوشخبری لے کر ہم آئے ہیں وہ کچھ ہے جو تمہارے دل چاہتے ہیں وَلَكُمْ فِيْهَا مَا تَدَّعُوْنَ اور وہ کچھ ہے جس کا تم ادعا کرتے ہو، جو تمہارا مطلوب اور مقصود ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 71 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء جیسا کہ میں نے پہلے بیان کیا، ان لوگوں میں کچھ شہید بھی ہوئے انہوں نے اپنی جانیں خدا کی راہ میں دے دیں.بہت سے ہیں جن کے اموال لوٹے گئے بہت سے ہیں جن کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے قتل کئے گئے بہت سے ہیں جن کی ساری عمر کی کمائی ان کی آنکھوں کے سامنے جلا کر خاک کر دی گئی.پھر الَّا تَخَافُوا کا کیا مطلب ہے اور وَلَا تَحْزَنُوا کے کیا معنی ہیں؟ وہ جنت کیسی ہے جس کی خبریں فرشتے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ جنت اسی دنیا میں شروع ہوگئی ہے؟ اس کے اور بھی معانی ہوں گے لیکن دو معانی کی طرف میں آپ کو اس وقت توجہ دلانا چاہتا ہوں.ایک معنی تو یہ ہے کہ یہ قومی خطاب ہے کیونکہ اس میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ قومی تقدیر اس طرح پر بنے گی کہ فرشتے نازل ہوں گے گوانفرادی طور پر کچھ نقصان بھی پہنچیں گے لیکن بالآخر ہر نقصان کے بعد ایسے سامان پیدا کئے جائیں گے کہ وہ مومنین جو استقامت دکھائیں گے وہ پہلے سے بہت بہتر حالت میں ہونگے.ان کے چند روپے لوٹے جائیں گے تو وہ لکھوکھا میں تبدیل ہو جائیں گے ان کی چند جانیں جائیں گی تو لکھوکھا اور لوگ ان میں شامل ہوں گے اور ان کی اولادوں میں بھی برکت دی جائے گی.یہ ایسی قوم ہے جس کو ہمیشہ حزن ہی کے راستوں پر نہیں چلنا ان کے غم پیچھے رہتے چلے جائیں گے اور خوشیاں ان کے آگے آگے دوڑیں گی اور ان کے تمام خوف امن میں تبدیل کر دیئے جایا کریں گے.اور دوسرا معنی یہ ہے کہ ان استقامت دکھانے والوں میں خدا کے کچھ ایسے بندے بھی ہوں گے جن کو خدا کے رستے کے غم غم نظر نہیں آئیں گے.جن کو جب خدا کے نام پر ڈرایا جائے گا اور خدا کا نام لینے کے نتیجہ میں ڈرایا جائے گا تو وہ خوف سے آزاد لوگ ہوں گے.چنانچہ اس گروہ کے متعلق ایک دوسری جگہ خدا نے فرمایا: ألَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ (یونس : ۶۳) کہ انہی لوگوں میں جن پر فرشتے نازل ہو کر یہ کہتے ہیں کہ غم نہ کھاؤ اور خوف نہ کرو کچھ ایسے لوگ ہیں جو غم اور خوف سے پہلے سے ہی آزاد کر دیئے گئے ہیں کیونکہ یہ اولیاء اللہ ہیں.اور ان دونوں معنوں کے لحاظ سے جنت کی خوشخبری کی تعبیریں بھی الگ الگ کی گئیں.یعنی
خطبات طاہر جلد ۲ 72 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء وہ لوگ جو شہید ہوتے ہیں ان کو جب فرشتے کہتے ہیں کہ خوف نہ کھاؤ اور غم نہ کر د یاغم نہ کرو اور خوف نہ کھاؤ تو اس کے کیا معنی ہوتے ہیں ، کیا وہ لوگ اس کو طعن سمجھتے ہیں؟ ہرگز نہیں کیونکہ خدا کی راہ میں جو کچھ وہ پیش کرنا چاہتے ہیں وہ ان کے دل کی تمنا ہوتی ہے اور وہ یہی چاہتے ہیں کہ خدا کی راہ میں شہید کر دیئے جائیں.چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ایسے اولیاء اللہ بھی گزرے ہیں جنہوں نے الحاح کے ساتھ دعائیں کرائیں کہ یا رسول اللہ ! دعا کریں کہ ہم شہید ہو جائیں.ایک صحابی کے متعلق آتا ہے کہ جنگ احد میں وہ دشمن پر بار بار اس لئے حملے کرتے تھے کہ شہادت پائیں لیکن ہر بار سلامت واپس لوٹ آتے.یہاں تک کہ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! میرے لئے دعا کریں کہ میں واپس نہ آؤں بلکہ شہید ہو جاؤں اور شہید ہو گئے اور پھر واپس نہیں لوٹے.پس خدا کی راہ میں قربانیاں دینا ہی ان لوگوں کی جنتیں ہو جاتی ہیں.یہ نہیں کہ فرشتے ان سے دھو کہ کر رہے ہوتے ہیں اور طفل تسلیاں دے رہے ہوتے ہیں.جس طرح غریب مائیں بعض دفعہ چاہتی تو ہیں کہ بچوں کی خواہش پوری کریں لیکن نہیں کر سکتیں پھر وہ طفل تسلیاں دیتی ہیں کہ کوئی بات نہیں ابھی چیز مل جائے گی یا پیسے مل جائیں گے یا یہ کہ اب گھر آجائیں گے.لیکن خدا تو غریب ماں کی طرح نہیں کہ طفل تسلیاں دے.اس کے فرشتے تو خالی ہاتھ نہیں ہوا کرتے.ہاں اللہ ان کے دلوں پر نظر ڈالتا ہے اور جانتا ہے کہ ان کے دل کی اصل تمنائیں کیا ہیں.پس وہ فرشتے ان کے پاس یہ کہتے ہوئے آتے ہیں کہ یہی تو وہ جنت تھی جس کا تم انتظار کر رہے تھے ہم وہ جنت لیکر آگئے ہیں وہ مسکراہٹ جوان شہداء کے چہروں پر دیکھی گئی ، وہ اسی جنت کی خوشخبری کی مسکراہٹ تھی.ان کے دل کی کیفیت کا حال دنیا والے نہیں جانتے نہیں سمجھ سکتے ، وہ ان سے بے خبر ہیں.یہ اس دنیا کے لوگ نہیں ہیں یہ اہل بقا ہیں جو اس فانی دنیا میں بھی بقا کی جنت پا جاتے ہیں اور ان کے دل کی کیفیت کے مطابق ان سے سلوک کیا جاتا ہے.پس چونکہ وہ پہلے سے ہی غموں سے اور خوف سے آزاد ہوتے ہیں اس لئے ان کے متعلق یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ وہ کسی وقت بھی غم اور خوف کی حالت میں وقت گزار رہے ہوں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ زندہ رہتے ہیں.چنانچہ جہاں تک قومی زندگی کا تعلق ہے ظاہر میں بھی ایک خوف امن میں بدلتا چلا جاتا
خطبات طاہر جلد ۲ 73 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء ہے.ہر حزن کے بدلے میں اتنا عطا کیا جاتا ہے کہ اس دنیا میں بھی وہ جنت نظر آنے لگتی ہے جو قربانیوں کے بعد عطا ہوا کرتی ہے.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تاریخ بھی اس پر گواہ ہے اور ہم خدا کے عاجز بندے بھی جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں ہم نے بھی بارہا دیکھا کہ خدا کی راہ میں اگر ایک احمدی نے چند روپے کا نقصان برداشت کیا تو اس کے نتیجے میں اس کو سینکڑوں روپے عطا ہوئے سینکڑوں کا نقصان ہوا تو ہزار ہا عطا ہوئے اور ہزاروں کا نقصان برداشت کیا تو لکھوکھا عطا ہوئے.پس جس جماعت کو خدا کی طرف سے یہ ضمانت دی گئی ہو کہ تمہارا ہر غم خوشی میں تبدیل کر دیا جائے گا وہ خدا کی راہ میں کس طرح قدم پیچھے ہٹا سکتی ہے، جس جماعت کی تاریخ اس بات کی گواہ ہو کہ تمہارا ہر خوف امن میں تبدیل کر دیا جائے گاوہ کس طرح کسی خوف کو پیٹھ دکھا کر بھاگ سکتی ہے.چنانچہ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے داعی الی اللہ پیدا ہوتے ہیں جو مصائب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آگے قدم بڑھاتے ہیں.وہ جانتے ہیں کہ ماضی ان کے لئے کیا لے کر آیا تھا لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ ہر ایسے ماضی کے بعد خدا کے فرشتے ان کے لئے کیا لے کر آئے تھے.پس وہ گواہ ہوتے ہیں ان مصائب کے بھی جو ان کو پہنچتے ہیں اور گواہ ہوتے ہیں ان جنتوں کے بھی جو مصائب کے دور کے بعد ہمیشہ ان کو عطا کی جاتی ہیں.اس حالت میں جب وہ اللہ کی طرف بلاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللہ دیکھو دیکھو! میرے ان بندوں سے زیادہ حسین ادعا دنیا میں کس کا ہو سکتا ہے.مصائب کے سارے ادوار سے گزرنے کے بعد پھر یہ میری طرف بلا رہے ہیں.پہلے یہ کہا تھا کہ رب ہمارا ہے.اب کہتے ہیں کہ اے دنیا والو ! تم بھی اسی رب کے ہو جاؤ.اپنے اس تجربے کے بعد وہ یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہم تو ایسی عظیم الشان دولت کو پاچکے ہیں کہ دل پھڑک رہا ہے کہ کاش ! تمہیں بھی دولت نصیب ہو.اس جوش اور جذبے کے ساتھ وہ خدا کے دین کی طرف لوگوں کو بلاتے ہیں.یہی وہ لوگ ہیں جن پر ایک عرب شاعر کا یہ شعر بڑی شان کے ساتھ چسپاں ہوتا ہے.وَلَا يَكْشِفُ الْعَمَاءَ إِلَّا ابْنُ حُرَّةٍ يَرَى غَمَرَاتِ الْمَوْتِ ثُمَّ يَزُورُهَا جعفر بن علیہ الحارثی، دیوان الحماسہ، صفحہ ۱۱)
خطبات طاہر جلد ۲ 74 خطبه جمعه ۴ فروری ۱۹۸۳ء یعنی وہ مصائب یا وہ جگہیں جہاں موت کے تاریک مصائب ہجوم کر رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہرے رات کی طرح سیاہ ہوتے ہیں ان مصائب کو کوئی ہٹا نہیں سکتا مگر آزاد ماں کا بیٹا جوان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتا ہوا ان کی طرف بڑھتا اور پھر ان میں داخل ہو جاتا ہے.وہ ہر تاریکی کو نور اور روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے اور ہر موت کو ایک زندگی عطا کرتا ہے.پس یہ ہیں وہ لوگ جو ربنا الله کہتے ہیں اور پھر اس دعویٰ پر استقامت اختیار کرتے ہیں، جن پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں، جن کی ہر تاریکی نور میں تبدیل کی جاتی ہے اور پھر وہ تاریکی میں بسنے والے ہر شخص کو اسی نور کی طرف بلاتے ہیں.ان کا ہر غم خوشی میں تبدیل کر دیا جاتا ہے پھر وہ دنیا کی طرف بڑھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آؤ ہم تمہارے غم بھی اٹھا ئیں اور انہیں خوشیوں میں تبدیل کریں.یہ وہی لوگ ہیں کہ جن کو خوف ڈراتے ہیں لیکن وہ ان خوفوں سے خوف نہیں کھاتے بلکہ دنیا کے خوف ہٹانے کے لئے دنیا کی طرف بڑھتے ہیں.یہ ہیں وہ داعی الی اللہ جو ہمیں بننا ہوگا کیونکہ دنیا ہزار قسم کی ظلمات کا شکار ہے، ہزار خوفوں میں مبتلا ہے، ہزار قسم کے حزن ہیں جو سینوں کو چھلنی کئے ہوئے ہیں.پس اے احمدی! آگے بڑھ اور ان خوفوں کو دور کر ، ان اندھیروں کو روشنی میں تبدیل کر دے اور ان غنموں کو راحت و اطمینان میں بدل دے کیونکہ تیرے مقدر میں یہی لکھا گیا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲ مئی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 75 خطبه جمعه ۱۱ / فروری ۱۹۸۳ء اللہ کی راہ میں استقامت دکھانے والوں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۱ار فروری ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں قرآن کریم کی اس خوشخبری کا ذکر کیا تھا کہ خدا تعالیٰ کے وہ بندے جو اس کی راہ میں استقامت دکھاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان پر بکثرت فرشتے نازل فرماتا ہے جو انہیں تسلی دیتے ہیں، غم نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہیں اور خوف سے بے نیاز ہو جانے کا پیغام دیتے ہیں.وہ انہیں کہتے ہیں کہ ہم آئے تو ہیں لیکن تمہیں چھوڑ کر چلے جانے کے لئے نہیں بلکہ اب ہمیشہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے، اس دنیا میں بھی اور اس دنیا کی زندگی کے ختم ہو جانے کے بعد بھی.میں نے مختصراً یہ بھی ذکر کیا تھا کہ یہ فرشتے مختلف صورتوں میں مختلف قسم کے درجات کے لوگوں کے لئے مختلف قسم کی خوشخبریاں لے کر آتے ہیں.تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ یہ فرشتے کبھی تمثل اختیار کرتے ہیں اور ظاہری آنکھوں سے بھی نظر آنے لگتے ہیں کبھی یہ فرشتے خوابوں میں ظاہر ہوتے ہیں اور خوابوں کے ذریعے جو پیغام دیتے ہیں وہ من و عن پورا ہو جاتا ہے کبھی یہ فرشتے سکینت بن کر دلوں پر نازل ہوتے ہیں اور ایک یقین کامل بن کر دلوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور جو دل میں بیٹھی ہوئی بات ہوتی ہے وہ مخالف حالات کے
خطبات طاہر جلد ۲ باوجود لازماً پوری ہوکر رہتی ہے.76 خطبه جمعه ۱ / فروری ۱۹۸۳ء آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب جنگ بدر میں شریک ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوشخبری کے مطابق مُسَومین فرشتے آنحضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے صحابہ کی مدد کے لئے آئے.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مُسَوّمِینَ کی یہ تفسیر فرمائی کہ یہ ایسے فرشتے ہیں جو معلوم ہو جائیں گے ان پر گویا نشان ہیں اور ان کی کچھ علامتیں ہیں.چنانچہ صحابہ رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں جوفر شتے دیکھے گئے ان کے سروں پر سیاہ پگڑیاں تھیں اور ان کی ایک یونیفارم تھی.صحابہؓ نے جب ان فرشتوں کو مختلف حالتوں میں دیکھا تو اسی طرح سیاہ پگڑیاں انہوں نے پہنی ہوئی تھیں.جب روائتیں اکٹھی ہوئیں تو وہ تعجب میں پڑ گئے.مگر جیسا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مُسَوّمِینَ کی تغییر فرمائی تھی ویسا ہی مقدر تھا اور بعینہ ایسا ہوا.اسی طرح جنگ احد میں جو فرشتے دکھائی دیئے ان کے سروں پر بطور نشان سرخ پگڑیاں تھیں.(الدر المخور زیر آیت بلی ان تصبروا و تتقوا..آل عمران ۱۲۶) سرخ رنگ میں کچھ غم کا پیغام بھی تھا کیونکہ جتنا دکھ صحابہ کو جنگ احد میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زخموں کی وجہ سے پہنچا ویسا دکھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ساری زندگی میں کبھی صحابہ کو نہیں پہنچا.ایک غم کے بعد دوسرے غم کی خبر ان کوملی اور وہ غموں سے نڈھال ہو گئے.پس اس غزوہ میں فرشتوں کی علامت کے لئے بھی ایک ایسا رنگ چنا گیا جس میں غم اور خون اور دکھ کا پہلو شامل ہے.یہ فرشتے اجتماعی طور پر بھی صحابہ کو ان کی مدد کرتے ہوئے دکھائی دیئے اور انفرادی طور پر بھی ایسی حالت میں کہ ان کو پتہ نہیں تھا کہ کیا ہورہا ہے؟ چنانچہ جب حضرت عباس قیدی بنا کر لائے گئے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتایا گیا کہ حضرت عباس کو قیدی بنانے والے ابوالیسر ہیں.ابوالیسر ایک چھوٹے ، دبلے پتلے اور کمزور سے آدمی تھے.( شاید ان کی کنیت میں بھی اسی طرف اشارہ تھا کیونکہ یسر کا معنی ہے آسانی اور ابوالیسر کا مطلب یہ ہوا کہ یہ آسانی کا باپ ہے.ہلکا پھل کا آسان سا آدمی ہے اور ہر شخص اس سے نپٹ سکتا ہے.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تعجب سے ابوالیسر کو مخاطب کر کے فرمایا کہ اے ابوالیسر ! تم تو بہت کمزور اور ہلکے پھلکے آدمی ہو اور عباس بڑے مضبوط،
خطبات طاہر جلد ۲ 77 خطبہ جمعہ اار فروری ۱۹۸۳ء بڑے توانا، ٹیم شیم اور بڑے جنگجو انسان ہیں.مجھے بتاؤ کہ تم نے انہیں کس طرح قابو کیا ؟ تو ابو الیسر نے عرض کی یا رسول اللہ ! میں نے کہاں قابو کیا تھا؟ ایک بڑا مضبوط اور طاقتور آدمی آیا تھا جس نے ان کو پکڑا، قابو کیا اور باندھ کر میرے سپرد کر دیا.اس طرح میں ان کو لے کر آ گیا ہوں میں نے کچھ بھی نہیں کیا.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ذرا اس کی نشانیاں تو بتاؤ کہ وہ کس قسم کا آدمی تھا ؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! نہ میں نے کبھی پہلے دیکھا اور نہ بعد میں دیکھا ہاں اس کی علامتیں یہ تھیں.تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا لَقَدْ اَعَانَكَ عَلَيْهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ کہ ایک ملک کریم نے تمہاری مدد کی تھی.ایک معزز فرشتہ تھا جسے خدا تعالیٰ نے تمہاری مدد کے لئے بھیجا تھا.الخصائص الکبری جز اول صفحہ ۲۰۲- تاریخ الخمیس لطیفہ فی استماع الطبل ببد رکطبل الملوک جلد اول صفحه ۳۹۰) پس واقعۂ فرشتے تمثل بھی اختیار کر لیتے ہیں اور بظاہر انسان کی شکل میں نظر آتے ہیں.جیسا کہ حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا: فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا ( مریم : ۱۸) کہ فرشتے نے حضرت مریم کے لئے ایک نہایت ہی خوبصورت اور متوازن جسم والے انسان کا روپ دھارا اور ان پر ظاہر ہوا.آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں مختلف وقتوں میں صحابہ نے بھی ایسے نظارے دیکھے.چنانچہ ایک مرتبہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجلس میں تشریف فرما تھے تو ایک اجنبی مجلس میں حاضر ہوا اس نے السلام علیکم کہا اور کچھ سوالات کئے اور پھر حضور سے اجازت لے کر رخصت ہوا.صحابہ بہت متعجب ہوئے کیونکہ وہ باہر سے آیا تھا لیکن اس کے چہرے پر تھکن کے کوئی آثار نہیں تھے ، نہ ہی کس قسم کی گرد تھی یعنی سفر کی کوئی علامتیں نہیں تھیں.نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ کپڑے پہنے ہوئے تھا.آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کے تعجب کو دیکھ کر ان سے دریافت فرمایا تم جانتے ہو یہ کون تھا؟ انہوں نے عرض کی یا رسول اللہ ! ہمیں تو کوئی علم نہیں.آپ نے فرمایا یہ جبرئیل تھا جو تمہیں تعلیم دینے کی خاطر مجھ سے سوال کر رہا تھا.چنانچہ بعض صحابہ باہر نکلے اور دور تک گلیوں میں دیکھتے رہے لیکن کسی انسان کا کوئی نشان نہیں ملا.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب سوال جبریل النبی م عن الایمان والاسلام والاحسان) پس جب ایک دفعہ یہ فرشتے صحابہ پر نازل ہوئے تو پھر یہ سلسلہ جاری رہا اور انہوں نے
خطبات طاہر جلد ۲ 78 خطبه جمعه ۱ار فروری ۱۹۸۳ء صحابہ کا ساتھ نہیں چھوڑا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان کی ولایت کا تعلق جاری رہا.انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی.چونکہ صحابہؓ بےحد منکسرالمزاج تھے اور خائف رہتے تھے کہ کہیں دوسرے لوگ ان کے اس تعلق کی اطلاع پاکر ان کے مقام کے متعلق زیادہ حسن ظنی نہ شروع کر دیں، اس لیے صحابہ عموماً اپنی واردات کو بیان نہیں کیا کرتے تھے.لیکن بعض ایسے اجتماعی رنگ کے واقعات بھی ہیں جن میں دوسرے کئی لوگ گواہ ہوئے اور وہ تاریخ اسلام میں محفوظ چلے آرہے ہیں.چنانچہ ایک دفعہ شمالی سرحد پر جنگ ہو رہی تھی ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس وقت مدینہ میں خطبہ دے رہے تھے.خطبہ کے دوران اچانک آپ نے فرمایا يَا سَارِيَةَ الْجَبَلَ - يَا سَارِيَةَ الْجَبَلَ - اور یہ کہ کر پھر خطبہ شروع کر دیا.بعد میں حاضرین میں سے کسی نے عرض کیا یا امیر المومنین ! آپ نے یہ کیا فرمایا تھا ؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ خطبہ کے دوران اچانک میرے سامنے میدان جنگ کا وہ منظر آ گیا جہاں مسلمان سار یہ جرنیل کی سرکردگی میں لڑ رہے ہیں (ساریہ اس وقت مسلمان فوج کے سپہ سالار تھے ) اور میں نے دیکھا کہ وہ پہاڑ سے ہٹے ہوئے ہیں اور خطرہ تھا کہ دشمن مسلمان فوج کو گھیرے میں لے لے.( کیونکہ مسلمان فوجوں کے مقابل پر دشمن کی تعداد بالعموم زیادہ ہوا کرتی تھی ) تو اس خطرے کے پیش نظر بے اختیار میں نے سردار لشکر کو ہدایت دی.يَا سَارِيَةَ الْجَبَلَ.يَا سَارِيَةَ الْجَبَلَ.اے ساریہ ! پہاڑ کے دامن میں آجاؤ.پہاڑ کے دامن میں آجاؤ.یہ بات ہوئی اور ختم ہو گئی.کچھ عرصے کے بعد ساریہ کی طرف سے پیغامبر خط لے کر آیا اور اس میں یہ سارا واقعہ درج تھا.خط کا مضمون یہ تھا کہ اے امیر المومنین! گزشتہ جمعہ کے روز ایک عجیب واقعہ ہوا.ہم جمعرات اور جمعہ کی درمیانی رات لڑتے رہے یہاں تک کہ دن نکل آیا اور لڑائی جاری رہی اور پھر ہم جمعہ کے وقت میں داخل ہو گئے.اس وقت ہمیں یہ خطرہ تھا کہ ہم دشمن سے شکست کھا جائیں گے اور پسپا ہو جائیں گے.تو اچانک ہمیں آپ کی ( حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ) آواز آئی يَا سَارِيَةَ الْجَبَلَ - يَا سَارِيَةَ الْجَبَل.اور سارے لشکر نے یہ آواز سنی.چنانچہ انہوں نے فوری طور پر پہاڑ کے دامن کا رخ اختیار کیا اور اس طرح اپنی پشت محفوظ کر لی.(چھوٹی فوج کے لیے ہر سمت میں لڑنا مشکل ہوا کرتا ہے.کوئی نہ کوئی سمت اس کی محفوظ ہونی چاہئے.اور پشت محفوظ ہوتے ہی بظاہر مغلوب ہونے والی
خطبات طاہر جلد ۲ 79 خطبہ جمعہ اار فروری ۱۹۸۳ء فوج اچانک غالب آگئی.اس طرح وہ معرکہ مسلمانوں کے حق میں ثابت ہو ( تاریخ انمیں جلد نمبر۲ صفحه ۲۷۰-۲۷۱ - تاریخ طبری ج ۲ صفحه ۵۵۳ ،ذکر فتح جسادسنته ثلاث وعشرین ) پس وہ خدا جس نے بدر میں مسلمانوں کی تائید و نصرت کی تھی ، اس نے بعد میں مسلمانوں کو اپنی تائید سے نوازا.وہ فرشتے جنہوں نے یہ عہد کیا تھا: نَحْنُ أَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ انہوں نے پھر اس دنیا کی زندگی میں صحابہ کا ساتھ نہیں چھوڑا.( حم السجدۃ:۳۲) یہی مضمون بغیر ظاہری نظاروں کے یا بغیر کشوف کے یا بغیر رؤیا کے بھی چلتا ہے لیکن اس قسم کے واقعات جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا انفرادی طور پر بہت زیادہ نہیں ملتے لیکن اس کے باوجود مجھے یقین ہے کہ بکثرت ایسے واقعات مسلسل رونما ہو رہے ہوں گے کیونکہ جماعت کی جو تاریخ بن رہی ہے اس میں ہم اس کثرت کے ساتھ فرشتوں کا نزول دیکھتے ہیں کہ یہ ناممکن ہے کہ صحابہ کے نقش قدم پر چلنے سے یہاں تو بکثرت فرشتے نازل ہو رہے ہوں اور نعوذ باللہ من ذالک صحابہ کی زندگی میں بکثرت نازل نہ ہوئے ہوں.کوئی ایسا ملک نہیں ہے کہ جہاں احمدیت کی تاریخ بن رہی ہے اور اس قسم کے واقعات وہاں پھیلے نہیں پڑے، بکھرے نہیں پڑے، جیسے کسی نے کہا ہے: ع چمن میں ہر طرف بکھری پڑی ہے داستاں میری اسی طرح احمدیت کے چمن میں یہ ایمان افروز نظارے ہر جگہ بکثرت دکھائی دیتے ہیں اور دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں جہاں احمدیت داخل ہوئی ہو اور ثبات قدم کے عظیم الشان نمونے اس نے نہ دکھائے ہوں اور پھر اللہ تعالیٰ کے یہ وعدے بڑی شان کے ساتھ پورے نہ ہوئے ہوں کہ : تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيْكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوْ بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ ( حم السجدة : ٣١) مولوی رحمت علی صاحب مبلغ احمدیت نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اس طرح انڈونیشیا میں خدمت اسلام میں کاٹا کہ پیچھے جوان بیوی بوڑھی ہوگئی ، اس کے کالے بال سفید ہو گئے اور بچے جوان
خطبات طاہر جلد ۲ 80 60 خطبه جمعه ار فروری ۱۹۸۳ء ہو گئے.حضرت مصلح موعوددؓ فرمایا کرتے تھے کہ بعض دفعہ بچے ماں سے اپنے ابا کے متعلق پوچھا کرتے اور خصوصیت کے ساتھ ایک بچہ جو چھوٹا تھا وہ اپنی ماں کو تنگ کرتا اور کہتا کہ امی ! دوسروں کے ابا آتے ہیں اور ان کے لئے چیزیں لاتے ہیں، میرا ابا کہاں ہے؟ وہ کبھی نہیں آتا.اس کی امی کی آواز بھرا جاتی تھی جس کی وجہ سے بول نہیں سکتی تھیں اور جس طرف بھی وہ انڈونیشیا سمجھا کرتی تھیں اس طرف اشارہ کر کے کہتیں کہ تمھارا ابا اس طرف ہے، وہاں سے کسی وقت آئے گا.اس عرصے میں وہ بچہ جوان ہو گیا اور بچپن میں باپ کی شفقت کا جو سایہ ہوتا ہے اس سے محروم رہ کر جوان ہوا.جتنی عظیم الشان قربانی کوئی خاندان خدا کی راہ میں دیتا ہے اسی شان کے فرشتے اس پر نازل ہوا کرتے ہیں.یہ ان لوگوں میں ہیں کہ جن کے منہ سے نکلی ہوئی بات کو خدا کئی دفعہ سچا کر دکھاتا ہے.یہ پہلے کہتے ہیں اور فرشتوں کو بعد میں ان کی متابعت کا حکم دیا جاتا ہے.چنانچہ مولوی رحمت علی صاحب انڈونیشیا میں جس محلہ میں رہائش پذیر تھے وہ سارے کا سارالکڑی کے مکانوں کا بنا ہوا تھا.ایک دفعہ وہاں ایسی خوفناک آگ لگ گئی جو پھیلتے پھیلتے ہوا کے رخ کے مطابق مولوی صاحب کے گھر کی طرف چل پڑی.جماعت کے پریشان حال ممبران وہاں پہنچے اور ان کی منتیں کیں کہ مولوی صاحب! آپ اس جگہ کو چھوڑ دیں کم از کم سامان ہی نکال لیں.بعد میں انسان تو جلدی سے بھاگ کر بھی باہر جا سکتا ہے یہ بہت ہی خطر ناک آگ ہے جو کسی چیز کو نہیں چھوڑے گی.پھر ہوا کا رخ ایسا ہے کہ لازماً اس نے آپ کے گھر تک پہنچنا ہی پہنچنا ہے.مولوی صاحب نے کہا، اس جگہ کو چھوڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں تو اس آقا کا غلام ہوں جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آگ ہماری غلام بلکہ ہمارے غلاموں کی بھی غلام ہے ( تذکرہ صفی ۳۲۴) اس لئے یہ آگ مجھے کچھ نہیں کہ سکتی.یہ ایک بہت بڑا دعویٰ تھا لیکن ایک بہت بڑے مومن کی زبان کا دعویٰ تھا.ایک ایسے مومن کی زبان کا دعوی تھا جن کے متعلق حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ خوشخبری ہے رُب أَشْعَثَ أَغْبَرَ......لَوْ اَقْسَمَ عَلَى اللهِ لَا بَرَّهُ (مستدرک حاکم جلد م صفحه ۳۶۴.الجامع الصغیر جز ثانی صفحه ۱۸ باب الراء) که خبر دار ! خدا کے ایسے درویش بندے بھی ہیں جو پراگندہ بال اور خاک آلود ہوتے ہیں، لیکن اگر وہ خدا پر قسم کھا جائیں تو خدا ضروران کی قسم کو پورا کرتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 81 خطبه جمعه ۱ / فروری ۱۹۸۳ء انڈونیشیا کی تاریخ کا یہ ایک درخشندہ واقعہ ہے کہ وہ آگ بڑھتی رہی اور اس نے سارے مکان جلا دیئے لیکن جب اس کے شعلے مولوی صاحب کے مکان کو چھونے لگے تو اچانک اتنی موسلا دھار بارش آئی کہ دیکھتے دیکھتے وہ شعلے بھسم ہو گئے اور آگ مکان کو ذرا سا نقصان بھی نہ پہنچا سکی.وہ آگ جو دوسری چیزوں کو بھسم کرتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی رحمت کے پانی کے نتیجے میں خود بھسم ہو گئی.پس فرشتوں کا یہ نزول بھی ہم نے دیکھا جو دلوں میں داخل ہو جاتے اور وہاں بیٹھ رہتے ہیں اور ایسا ثبات قدم عطا کرتے ہیں کہ پھر گو یا فرشتہ وہ ہو جاتا ہے جو بات کرنے والا ہے اور فر شتے اس کی متابعت کرتے ہیں اور اللہ کی تقدیر انہیں پابند کر دیتی ہے کہ میرے ان بندوں کے قول کو سچا کر کے دکھانا.فرشتوں کے اس قسم کے نزول کے بے شمار واقعات ہیں جو بڑے ہی عظیم الشان اور دلچسپ ہیں اور احمدیت کی تاریخ کا بہت قیمتی سرمایہ ہیں.میں نے چند سال پہلے ایسے واقعات اکٹھے کرنے شروع کئے تھے ، آج ان میں سے دو واقعات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.کسی ملک میں کسی گاؤں میں ایک احمدی خاتون تھیں ان کے تین یا چار بچے تھے جو مختلف عمروں کے تھے اور قریباً جوان تھے.اگر چہ گاؤں میں صرف یہی ایک گھر احمدیوں کا تھا لیکن یہ ایسا خاندان تھا جس کے گاؤں والوں پر بڑے احسانات تھے، بڑا معزز اور کریم گھرانہ شمار ہوتا تھا.ان احسانات کی وجہ سے گاؤں والوں کی نظریں ہمیشہ اس خاندان کے لوگوں کے سامنے نیچی رہتیں.اس لئے گاؤں والوں کی طرف سے انہیں کوئی خطرہ نہیں تھا ان کی شرافت ان کے ارد گرد پہرہ دے رہی تھی لیکن جب باہر سے حملہ ہوا اور ایک جتھہ آیا تو گاؤں والوں نے اپنی پناہ واپس لے لی.انہوں نے کہا کہ اس حملے کے مقابلے کی ہم میں طاقت نہیں ہے اس لئے تم یہاں سے نکلنے کی کوشش کرو اور جہاں بھی پناہ مل سکتی ہے وہاں چلے جاؤ.اس احمدی خاتون نے کہا کیسا فرار؟ اس جگہ کو چھوڑ کر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خدا کے خلیفہ کی آواز میرے کانوں تک پہنچی ہے کہ اپنے گھروں میں بیٹھے رہو اور وہاں سے باہر نہیں جانا اس لئے اگر میرے سارے بچے بھی قربان ہو جائیں تب بھی میں یہاں سے نہیں جاؤں گی.پھر اس نے ایک عجیب حرکت کی ، جس دن حملے کا خطرہ تھا یعنی یہ اطلاع تھی کہ جتھہ حملہ کرے گا، اس صبح اس نے اپنے بچوں کو بہترین کپڑے پہنائے جو عید یا شادی بیاہ کے موقع پر
خطبات طاہر جلد ۲ 88 82 خطبه جمعه ۱۱ / فروری ۱۹۸۳ء پہنے جاتے ہیں.پھر اس نے مثلاً سویاں پکائیں جو ہمارے ہاں بھی دیہات میں عموماً عید کے موقع پر پکائی جاتی ہیں اور بچوں کو خوب سجا بنا کر اور خوب اچھی خوراک دے کر ماں نے کہا بچو! اب حملہ ہونے والا ہے تم میرے چار جوان بچے ہو تم میں سے اگر ایک بھی پیٹھ دکھا کر زندہ واپس آیا تو میں اس کو کبھی اپنا دودھ نہیں بخشوں گی.جس طرح میں نے تمہاری عید بنائی ہے، تم میری عید بنانا.خدا کی راہ میں ہنتے، مسکراتے اور اپنی چھاتیوں پر وار کھاتے ہوئے جانیں دینا، پیٹھ پر وار کھاتے ہوئے نہیں.اس طرح اس نے اپنے چاروں جوان بیٹے خدا کے حضور پیش کر دیئے لیکن تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَكَةُ کا وعدہ اس شان سے اس کے حق میں پورا ہوا کہ مختلف دیہات کا یہ جتھہ گاؤں کے قریب آکر ایک ایسی افواہ کے نتیجے میں واپس لوٹ گیا جس کی کوئی بھی حقیقت نہیں تھی.حملہ کرنے والوں کو یہ خبر پہنچ گئی کہ یہاں جواحمدی خاندان ہے اس کے بہت سے ساتھی ہیں جو ہتھیار بند ہیں اور بڑے خطرناک ہتھیار ان کے پاس جمع ہیں اس لئے اگر ان کے چار مارے جائیں گے تو تمہارے سو ڈیڑھ سو مارے جائیں گے.اب بھی اگر تم نے حملہ کرنا ہے تو بیشک کرو لیکن یہ بے حقیقت خبر سن کر وہ حملہ کے بغیر ہی واپس لوٹ گئے.جس علاقے کی میں بات کر رہا ہوں وہاں کے لوگ بڑے بہادر اور لڑنے والے ہیں اس لئے وہ یونہی واپس نہیں گئے.یہ ان کے دل کا خوف نہیں تھا بلکہ الہی تصرف تھا کہ افواہ کا نتیجہ اس رنگ میں ظاہر ہوا اور اللہ تعالیٰ کے فرشتے تھے جو ان کی باگیں موڑ رہے تھے اور جب خدا کے فرشتے کسی قوم کی باگیں موڑ دیا کرتے ہیں تو پھر اس رخ پر چلنے کی اس کو استطاعت نہیں ہوتی.اسی طرح ایک اور جگہ ایک احمدی خاتون جو بیوہ تھیں، بالکل اکیلی رہتی تھیں ان کا کوئی بچہ بھی نہیں تھا سوائے ایک کے جولا پتہ تھا.جب ان کے اردگر داحمدیوں کے مکان جلنے اور لٹنے شروع ہوئے تو ان کے دل میں بڑی حسرت پیدا ہوئی کہ یہ میری طرف رخ کیوں نہیں کر رہے کہیں میرا ایمان تو کمزور نہیں کہ خدا مجھے اس آزمائش میں نہیں ڈال رہا.وہ ایسی بے قرار ہوئیں کہ باہر نکل کر چوک میں واویلا شروع کر دیا کہ ظالمو! تم نے میرے ایمان میں کیا کمزوری دیکھی ہے جو مجھے نہیں لوٹ رہے.خدا کی قسم ! میں بھی احمدی ہوں اور امام مہدی کو سچا سمجھتی ہوں.اگر باقی احمدیوں کے گھر لوٹ کر ان کے دل ٹھنڈے کر رہے ہو تو میرا بھی لوٹو.اس خلوص اور سنجیدگی کے ساتھ اس کی یہ چیخ نکلی
خطبات طاہر جلد ۲ 83 83 خطبه جمعه ا ا ر فروری ۱۹۸۳ء کہ چند دن کہ بعد حملہ ہوا اور سارا مکان مع سارے سامان کے جلا کر خاکستر کر دیا گیا اور گھر قریباً ملبے میں تبدیل ہو گیا لیکن اس کی اپنی جان بچ گئی.حملے مختلف قسم کے ہوتے ہیں، بعض دفعہ انسانی ظلم ایک حد سے آگے نہیں بڑھتا.چنانچہ حملہ کرنے والوں نے اس بڑھیا پر حملہ نہیں کیا لیکن جلنے کے واقعہ سے وہ بڑی خوش اور مطمئن تھی بلکہ اس کے متعلق آتا ہے کہ اس نے خوشی کا اس قدرا ظہار کیا کہ کسی پوچھنے والے نے کہا کہ بی بی تو پاگل ہوگئی ہے؟ اس نے کہا میں پاگل نہیں ہوئی میں نے دیکھا کہ میرا افلاں رشتہ دار فلاں وقت لوٹا گیا تھا، اس کا چھوٹا ساتھڑا تھا اور کاروبار بھی بہت مختصر تھا اور اب وہ لکھ پتی ہے اور پہلے سے بڑھ کر قربانی پیش کر رہا ہے پس میں نے تو اس طرح خدا کے فضل نازل ہوتے دیکھے ہیں میں اس لئے خوش ہوں کہ مجھ پر بھی خدا کا کوئی فضل نازل ہونے والا ہے.اس واقعہ کے تھوڑی دیر کے بعد اس کا وہ بیٹا جو کہیں جا چکا تھا کئی سال سے لا پتہ تھا اس حالت میں واپس آیا کہ اس نے باہر بہت دولت کمائی تھی.اول تو ماں کے لئے سب سے بڑی دولت اس کا بیٹا ہی ہوتی ہے اور بیٹا بھی وہ جو گم ہو چکا ہولیکن خدا نے اسی دولت پر ہی اکتفا نہیں کی بلکہ ایک عمدہ مکان کی دولت سے بھی اسے مالا مال کر دیا.اس کے بیٹے نے آ کر جب مکان کو دیکھا تو اس نے کہا امی! میں تو یہ سوچ کر آیا تھا کہ پر ا نا مکان گرا کر آپ کو ایک نیا مکان بنوا کر دوں گا اور اس طرح اپنے دل کی تمنائیں پوری کروں گا.میرے دل میں آپ کی خدمت کے لئے بڑی تمنا ئیں تھیں.اللہ کا کتنا احسان ہے کہ اس مکان کو گرانے پر مجھے کوئی خرچ نہیں کرنا پڑا.اب اس کو Demolish کرنے ،ختم کرنے اور اکھیٹر نے وغیرہ پر کم رقم خرچ ہوگی.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس نے اس جگہ ایک بہت ہی پیارا اور اچھا مکان اپنی ماں کو بنا کر دیا.اس قسم کے واقعات بڑی کثرت کے ساتھ پائے جاتے ہیں، محفوظ بھی اور غیر محفوظ بھی.کچھ اجتماعی شکل میں مسودات میں پڑے ہوئے ہیں اور بے شمار ایسے ہیں جو جماعتوں میں پھیلے پڑے ہیں اور انہیں محفوظ کرنے کی ضرورت ہے.اس قسم کے واقعات کے بیان کا مقصود یہ ہے کہ جماعت کے پاس یہ امانت ہیں اور خطرہ ہے کہ اگر آج اس امانت کی حفاظت نہ کی گئی تو یہ ضائع ہو جائے گی.یہ آپ کی اولادوں کی امانت ہے، یہ آپ کے مستقبل کی امانت ہے یہ ان قربانی کرنے والوں کی امانت ہے جن کا نام زندہ رکھنا
خطبات طاہر جلد ۲ 84 خطبہ جمعہ ار فروری ۱۹۸۳ء ہمارا فرض ہے.زندہ قومیں خدا کی راہ میں شہید ہونے والوں کو کبھی مرنے نہیں دیا کرتیں ، وہ خدا کی راہ میں قربانی کرنے والوں کی یاد کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں تاکہ قیامت تک آئندہ آنے والی نسلیں ان کو دعائیں دیتی رہیں.پس جس جس احمدی کے علم میں اس قسم کے واقعات ہیں وہ نظام کے تحت معین شہادتوں کے ساتھ ان واقعات کو مرکز سلسلہ میں بھجوانے کا انتظام کرے.اس سلسلے میں ایسے واقعات چاہئیں جن میں صبر اور استقامت کا پہلو بھی ہو اور پھر نزول ملائکہ کا پہلو بھی ہو.اس وقت کوئی ایک ملک میرا مخاطب نہیں بلکہ تمام دنیا میں جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ قائم ہے وہ ساری جماعتیں میری مخاطب ہیں.خدا کے فضل سے دنیا کے اکثر ممالک میں احمدی پائے جاتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ اللہ کے فضل کے ساتھ آج جماعت احمدیہ پر سورج غروب نہیں ہوتا.تو ان تمام ممالک کے احمدی میرے مخاطب ہیں کہ جو کچھ انہوں نے اپنے آبا ؤ اجداد سے سنا ہے اس کو بھی محفوظ کریں اور جو کچھ انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا ہے اس کو بھی محفوظ کریں.پھر جہاں تک ممکن ہو شہادات سے مزین کر کے اور جماعت کے عہدیداروں کی تصدیق کے ساتھ ( اور اگر کسی جگہ جماعت نہیں ہے تو ویسے ہی ) مرکز کو اس کی اطلاع دیں اور یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کو ہر جگہ حاسدین کے شر سے محفوظ رکھے.یہ بھی کوشش کریں کہ یہ واقعات قلمبند کر کے محفوظ طریق پر بھجوائیں تا کہ یہ قیمتی سرمایہ ضائع نہ ہو جائے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلیکہ اور ملائکہ کا یہ وعدہ کہ ہم تمہارے ساتھ رہیں گے ان کے حق میں پورا ہوتا ہے لیکن یہ وعدہ ایک اور پہلو سے بھی پورا ہوتا ہے جو اس سے زیادہ اہم ہے اور جو مقصود بالذات ہے، وہ پہلو یہ ہے کہ ملائکہ جن لوگوں کے دوست ہوں ان کا وہ تزکیہ کرتے ہیں ان کا نفس پہلے کی نسبت اور زیادہ پاک ہونے لگتا ہے کیونکہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ ملائکہ گندے لوگوں کے ساتھ دوستی کر کے بیٹھ جائیں.اور یہ جو وعدہ ہے کہ ہم تمہارا ساتھ چھوڑیں گے نہیں ، اس میں یہ بھی خوشخبری ہے کہ جو قو میں ابتلاؤں کے دور سے گزرتی ہیں ان کا تزکیہ نفس ہوتا ہے اور ایسا تزکیہ نفس ہوتا ہے کہ پھر وہ جاری رہتا ہے اور قائم رہتا ہے وہ ایسے اعمال صالحہ کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو ان کا ساتھ نہیں چھوڑتے ، اس کا طبعی نتیجہ نکالا گیا بے وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا ثم اسجدة : ۳۴) یہ وہ لوگ ہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 85 خطبه جمعه ۱۱ار فروری ۱۹۸۳ء جوا بتلاؤں کی چکی میں سے کامیابی کے ساتھ گزر کر جاتے ہیں.ان کو فرشتوں کی معیت نصیب ہوتی ہے.فرشتے کہتے ہیں ہم تمہارے اولیاء ہیں یعنی فخر فرشتے کر رہے ہوتے ہیں نہ کہ یہ لوگ ، یہ بھی عجیب طرز کلام ہے، بڑے آدمی کے پاس ہمیشہ چھوٹے آدمی آیا کرتے ہیں اور ان کی خدمت میں حاضر ہو کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے دوست ہیں تو خدا کے فرشتے بھی اسی طرح ان لوگوں کے پاس آتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں اس لئے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ ہم اپنی دوستی تمہارے حضور پیش کریں اور تم ہماری دوستی میں ہمیشہ وفا پاؤ گے.ہم بھی تمہارا ساتھ نہیں چھوڑیں گے.اس کا ایک طبعی نتیجہ یہ ہے کہ عمل صالح ان کا ساتھ نہیں چھوڑتا.ان کے اندر جو پاک تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں وہ ان کا ساتھ نہیں چھوڑا کرتیں اور جن کی پاک تبدیلیاں ان کا ساتھ چھوڑ دیں ان پر فرشتے نازل نہیں ہوا کرتے.یہ لازم و ملزوم چیزیں ہیں اس لئے جو قوم ابتلاؤں سے گزر کر وقتی طور پر اصلاح پذیر ہو جائے اور کچھ دیر کے بعد پھر انہی برائیوں میں ملوث ہو جائے اس پر آیت قرآنی نَحْنُ اَوْلِيَؤُكُمْ فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا وَ فِي الْآخِرَةِ کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ جیسا کہ یہاں بیان کیا گیا ہے اور خدا کی بات جھوٹی نہیں ہوسکتی کہ فرشتوں کی معیت عارضی نہیں وہ اس طرح نہیں آتے کہ پھر چلے جائیں اور جو نیکیاں وہ لے کر آتے ہیں ان کو بھی ساتھ لے جائیں بلکہ یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی ہے جن کے اعمال صالحہ میں دوام پیدا ہو جاتا ہے.اور اسی گروہ کا اس آیت میں ذکر ہے : وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا کہ اب بتاؤ، ان سے زیادہ پیاری بات کرنے والا دنیا میں کون ہوگا ؟ اپنے اعمال صالحہ سے ثابت کر رہے ہیں کہ یہ نیک اور خدا والے لوگ ہیں، ابتلاؤں سے گزرے ہوئے ہیں، آزمودہ کار ہیں ، خطرات کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ہوا ہے اور ان سے کامیابی کے ساتھ گزرے ہوئے ہیں.ان کی تلخیوں کو برداشت کیا ہوا ہے اور پھر ان تلخ درختوں کو خدا کی رحمت نے جو میٹھے پھل لگائے تھے ان سے لذت یاب ہیں اس لئے ان سے زیادہ پیاری بات کرنے والا اور کوئی نہیں.اس کے بعد ایک اور دور شروع ہوتا ہے، وہ کیا ہے؟ وہ اگلی چند آیات میں بیان کیا گیا ہے.چونکہ اب وقت زیادہ ہو رہا ہے اور ایک ہی خطبہ میں ان آیات کے مختلف پہلو بیان نہیں کئے جاسکتے اس لئے یہ مضمون انشاء اللہ میں اگلے خطبے میں بیان کروں گا.
خطبات طاہر جلد ۲ 86 98 خطبه جمعه ۱ / فروری ۱۹۸۳ء خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: میں ایک بات کہنی بھول گیا تھا اور وہ یہ ہے کہ میں انشاء اللہ تعالیٰ چند دن یا کچھ زائد عرصے کے لئے باہر جا رہا ہوں.اس عرصے میں صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ امیر مقامی ہوں گے.آپ دعا کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ یہ سفر کا میاب کرے اور میں دعا کرتا رہوں گا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ اپنی امان اور حفاظت اور پیار کے سائے تلے رکھے.آمین ( روزنامه الفضل ربوه ۸ مئی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 87 خطبه جمعه ۱۸ رفروری ۱۹۸۳ء داعی الی اللہ کے لیے احسن قول، احسن عمل اور صبر کی ضرورت ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ فروری ۱۹۸۳ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ کراچی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ.وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمُ وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِ عَظِيمٍ ( تم السجدة :۳۴-۳۶) اور پھر فرمایا: میں نے گزشتہ تین خطبات میں جماعت کو داعی الی اللہ بننے کی طرف توجہ دلائی تھی اور یہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں داعی الی اللہ بننے کے لئے جس رنگ میں قرآن کریم نے مومن کو توجہ دلائی ہے اس پر کچھ روشنی ڈالی تھی اور پھر وہ پس منظر بھی بیان کیا تھا جو ان آیات سے پہلے خود قرآن کریم داعیان الی اللہ کا بیان کرتا ہے کہ وہ تمدنی، معاشرتی اور دینی لحاظ سے کیسے لوگ ہوتے ہیں، وہ کیا کام شروع کرتے ہیں، ان کا مدعا کیا ہوتا ہے، دنیا ان سے کیا سلوک کرتی ہے، پھر
خطبات طاہر جلد ۲ 88 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء اس سلوک کے بعد اللہ ان سے کیا سلوک کرتا ہے اور ایسے ہر قسم کے حالات سے دو چار ہو کر اور ان میں سے گزرنے کے بعد پھر وہ پہلے سے زیادہ داعی الی اللہ بن کر ابھرتے ہیں.یہ وہ مضمون تھا جو میں نے قرآن کریم کی روشنی میں بیان کیا تھا اور میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ اس مضمون کا آغاز صرف ذاتی اور انفرادی ایمان سے ہوا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الَّذِينَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا کہ وہ لوگ جو خود اپنی ذات کے لئے یہ اعلان کرتے ہیں کہ اللہ ہمارا رب ہے لیکن اس اعلان کے بعد جب ان کو مصائب سے دو چار ہونا پڑتا ہے تو پھر وہ اس اعلان سے پیچھے ہٹنے کی بجائے داعی الی اللہ بن جاتے ہیں.یعنی دوسروں کو بھی بلانے لگتے ہیں کہ تم بھی اسی رب کی طرف آجاؤ جو ہمارا رب ہے.یہ وہ مضمون ہے جو میں نے گذشتہ تین خطبات میں بیان کیا تھا.اب اس اعلان کے بعد پیدا ہونے والے نتائج سے متعلق کچھ کہوں گا.قرآن کریم داعی الی اللہ کو اس کے مستقبل کے حالات سے بھی باخبر رکھتا ہے.چنانچہ قرآن کریم میں ایسا کوئی حکم موجود نہیں ( یہ موقع ہو یا کوئی اور موقع ہو ) جہاں حکم کے نتیجہ میں پیدا ہونیوالی ذمہ داریوں سے آگاہ نہ کیا گیا ہو، اس کے اچھے اثرات سے آگاہ نہ کیا گیا ہو، اس کے خطرات سے آگاہ نہ کیا گیا ہو، اور پھر خطرات سے بچنے کا طریق نہ سکھایا گیا ہو.پس وہ آیات جو یہاں سے شروع ہوتی ہیں وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ ان میں یہ مضمون بیان ہوا ہے.سب سے پہلی بات جو توجہ کو اپنی طرف کھینچتی ہے وہ یہ ہے کہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ میں ”لا“ کی تکرار کیوں ہے.کیونکہ قرآن کریم میں دوسری جگہ جہاں بھی حسنہ اور سیشه کا موازنہ کیا گیا ہے اور یہ کہنا مقصود ہے کہ بھلائی بدی کے برابر نہیں ہوسکتی اور بدی بھلائی کے برابر نہیں ہو سکتی وہاں ایک ہی ”لا“ نے دونوں کام کئے ہیں اور عربی قاعدہ کے مطابق موازنہ کے لئے دو دفعہ ”لا“ کی تکرار نہیں ہونی چاہئے.جیسے ہم اردو میں کہتے ہیں کہ بدی اور بھلائی ہم پلہ یعنی برابر نہیں ہو سکتے.ایک دفعہ ”نہیں“ کہتے ہیں.یہ نہیں کہتے کہ نہ بدی برابر ہوسکتی ہے نہ بھلائی برابر ہوسکتی ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو اردو میں اس کا متبادل مضمون بیان کر کے واضح کیا ہے اور بتایا ہے کہ عربی میں اس طرح کی تکرار کا ترجمہ یہ بنے گا کہ نہ بدی برابر ہوسکتی ہے نہ بھلائی برابر ہوسکتی ہے.اب دیکھنا یہ ہے کہ اس میں حکمت کیا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 89 99 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء اس کی حکمت یہ ہے کہ يَسْتَوى تَستَوِی کا محاورہ بعض دفعہ مقابلہ کے لئے آتا ہے، بعض دفعہ بغیر مقابلہ کے لئے استعمال ہوتا ہے.یہ محاورہ ایک جماعت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور شخص واحد کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور اس میں مقابلہ یا موازنہ مقصود نہیں ہوتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے متعلق قرآن کریم میں فرماتا ہے.ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ (الاعراف: ۵۵) پھر وہ عرش پر استویٰ پکڑ گیا.اور بھی کئی جگہ انہی معنوں میں استـوى، يستـوی کا استعمال ہوا ہے جن میں مقابلہ مقصود ہی نہیں اور اس کے معنی کچھ اور بن جاتے ہیں.پس لاتستوى الحسنۃ بھی اپنی ذات میں ایک مکمل اعلان ہے اور لا تستوى السيئة بھی اپنی ذات میں ایک مکمل اعلان ہے جیسا کہ فرمایا لَا تَسْتَوِى الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ دراصل یہاں دو الگ الگ اعلان ہورہے ہیں اس لئے یہاں عربی لغت کے مطابق استویٰ کا معنی یہ بنے گا کہ نہ تو نیکی کو قرار ہے نہ بدی کو قرار ہے.دونوں اپنی ذات میں Stable یعنی مستحکم نہیں ہیں.یہ بڑھتی اور گھٹتی رہتی ہیں.ان دونوں کے درمیان ہر وقت ایک مقابلہ جاری ہے.مثلاً وہ نیکی جس کی تم حفاظت نہ کرو اور جس کو بڑھانے کی کوشش نہ کرو اس کے متعلق اگر تم یہ خیال کرو کہ یہ استویٰ کر رہی ہے یعنی وہ اپنے مقام پر ٹھہری رہے گی اور اس کا نقصان نہیں ہوگا تو یہ غلط فہمی ہے، اس کو دل سے نکال دو.اسی طرح یہ خیال بھی دل سے نکال دو کہ بدی اگر تمہاری طاقت سے کمزور پڑ گئی ہے تو وہ دوبارہ سر نہیں اٹھا سکتی.قانون قدرت ایسا ہے کہ ان دونوں کے درمیان ایک مجادلہ، ایک جہاد ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گا.نہ تو حسن کو قرار ہے نہ بدصورتی کو قرار ہے نہ خوبی کو قرار ہے نہ بدی کو قرار ہے.یہ وہ مضمون ہے جو قرآن کریم بیان کرنا چاہتا ہے اور چونکہ جہاد کا مضمون چل رہا ہے اس لئے اس موز ونیت سے یہی مضمون ہونا چاہئے.چنانچہ معا بعد صرف جہاد کی طرف لوٹتا ہے.فرماتا ہے اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اب تمہارا مقابلہ ہو گا.جب تم دنیا کو نیک کاموں کی طرف بلاؤ گے تو تمہارا مقابلہ شروع ہو جائے گا.یادرکھو یہ مقابلہ تمہارے لئے بہتر ہے.تم جب تک جہاد میں مصروف رہو گے تمہاراحسن بھی بڑھتا چلا جائے گا اور مقابل کی بدیاں گھٹتی چلی جائیں گی.جب تم جہاد سے غافل ہو جاؤ گے تو تمہارے اندرونی حسن کی بھی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی کیونکہ وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ.
خطبات طاہر جلد ۲ 90 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء پھر قانون کیا ہوا.فرمایا اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ جب بھی مقابلہ ہو تو یہ بات یاد رکھنا کہ بدی کے مقابل پر صرف حسن پیش نہیں کرنا بلکہ بہترین حسن پیش کرنا ہے.ایسا حسن کہ جس سے بہتر اور حسین تصور ممکن نہ ہو.وہ بات نکالو جو بہترین ہو اور اس سے بدی کا مقابلہ کرو.یہ جو احسن دلیل کے ساتھ مد مقابل سے مجادلہ کا سوال ہے یہ بھی دو طرح سے جاری ہوتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں اس سے پہلے داعی الی اللہ کے متعلق فرمایا کہ وہ بلاتا بھی ہے اور نیک عمل بھی کرتا ہے.پس اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا اطلاق بلانے کی طرف بھی ہوگا اور نیک اعمال کی طرف بھی ہو گا.گویا ان معنوں میں یہ بات بنے گی کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ سمجھانا چاہتا ہے کہ جب تمہارا دوسروں کے ساتھ قول میں مقابلہ ہو تو احسن قول سامنے پیش کرو ، جب تمہارا اعمال میں مقابلہ ہو تو احسن عمل مقابل پر پیش کرو.جہاں تک احسن قول کا تعلق ہے، پھر آگے اس کی شاخیں بنتی ہیں.مثلاً اگر ایک دشمن گالیاں دیتا ہے، بد زبانی سے کام لیتا ہے تو اس موقع پر یہ آیت یہ تعلیم دے رہی ہے کہ اس کے مقابل پر تم نے بدزبانی نہیں کرنی تم نے گندہ دہنی سے کام نہیں لینا کیونکہ اس لڑائی کے جو اسلوب مسلمان کو بتائے جار ہے ہیں ان میں یہ بات داخل ہی نہیں کہ برائی کا بدلہ برائی سے دیا جائے.مراد یہ ہے کہ اگر تم اس مقصد کو حاصل کرنا چاہتے ہو جو ان آیات کے آخر پر بیان ہوا ہے تو پھر تمہیں اس اسلوب جنگ کو اختیار کرنا پڑے گا.جہاں تم اس کو چھوڑ دو گے تو پھر نتائج کے ذمہ دار تم ہو گے.پھر نہ قرآن ذمہ دار ہے نہ وہ ذمہ دار ہے جس نے قرآن کریم کو نازل فرمایا.پس احسن قول میں پہلی بات تو یہ ہے کہ ہر قسم کی گندہ دہنی ، گالی گلوچ اور ایذا رسانی کے مقابل پر اچھی بات کہنا سیکھو.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحه ۲۲۵) یہ ہے قول میں بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا ایک عملی نمونہ.اس کا دوسرا پہلو مجادلہ سے تعلق رکھتا ہے.جب دلائل کی جنگ شروع ہو تو پہلے کمزور دلائل
خطبات طاہر جلد ۲ 91 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء نہ نکالا کر دیا یوں ہی کوئی دلیل دینی نہ شروع کر دیا کرو بلکہ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کی رو سے تم اپنے ترکش سے سب سے اچھا تیر نکالو، سب سے مضبوط دلیل نکالا کرو اور یہ ایک بہت بڑی حکمت کی بات ہے.بعض دفعہ لوگ کسی مضمون کے بارہ میں ایک سے زائد دلائل سیکھ جاتے ہیں اور پھر اس بات کا امتیاز کئے بغیر کہ وہ کس دلیل کو زیادہ عمدگی سے پیش کر سکتے ہیں ایک، دو، تین گنتی بڑھاتے چلے جاتے ہیں.اور یہ امر واقعہ ہے کہ ہر ہتھیار کو ہر شخص پوری مہارت سے استعمال نہیں کر سکتا.اگر ہتھیا راچھا بھی ہو تب بھی اس کے استعمال کرنے کا ڈھنگ تو آنا چاہئے.بعض قوموں نے ہتھیاروں میں بالا دستی کے باوجود بعض دفعہ عبرتناک شکستیں کھائی ہیں کیونکہ ان کو ہتھیار کا استعمال نہیں آتا تھا.چنانچہ ۱۹۶۷ء کی مصر اسرائیل جنگ میں رشیا کی طرف سے مصریوں کو بڑےSophisticated) (Weapons عمدہ اور ترقی یافتہ ہتھیار دیئے گئے تھے لیکن مصریوں کو ابھی ان کا استعمال کرنا نہیں آیا تھا.نتیجہ یہ ہوا کہ دشمنوں نے ان ہتھیاروں پر قبضہ کیا اور پھر ان کو مصریوں کے خلاف استعمال کیا.پس احسن دلیل سے صرف یہ مراد نہیں کہ دلیل فی ذاتہ مضبوط ہو بلکہ اس کو پیش کرنے کا ڈھنگ بھی احسن ہو اور اس پر پوری طرح عبور بھی حاصل ہو.اس پہلو سے جب ہم تربیتی کلاسز منعقد کرتے ہیں تو ہمیں حکمت کے اس نکتے سے اس موقعہ پر بھی زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے.کوئی بھی طالب علم جس کو ایسی کلاسوں میں جانے کا تھوڑ اسا وقت ملتا ہے، اس کو بجائے اس کے زیادہ سے زیادہ دلائل سمجھائے جائیں جن سے فائدہ کی بجائے آہستہ آہستہ ذہن Confuse یعنی خلط مبحث پیدا ہو جائے، کوشش کی جائے کہ قرآنی تعلیم کے مطابق ایک چوٹی کی دلیل چنی جائے جو اس کو یاد کروائی جائے.اس میں اسے صیقل کیا جائے اس کے سارے پہلو ذہن میں اجاگر کئے جائیں تا کہ وہ اسے زیادہ عمدگی کے ساتھ استعمال کر سکے اور پھر اس دلیل پر جو حملہ ہوتا ہے اس کا جواب بھی تفصیل سے سمجھایا جائے.گویا ایک دلیل کو لے کر اس پر پوری مہارت پیدا کر دی جائے تو یہ ادْفَعُ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے حکم کی اطاعت ہوگی.چنانچہ باہر کے ملکوں میں بعض مبلغین نے یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے اور بڑا کامیاب ثابت ہوا ہے.ایک افریقن مبلغ نے مجھے بتایا کہ ایک دفعہ اس نے اپنے ایسے افریقن نومسلموں کو جن کو عام تعلیم بھی نہیں آتی تھی، ان کو بائیبل میں سے ایک دلیل سکھا دی اور ان سے بار بار سنکر اتنی پختہ کروادی
خطبات طاہر جلد ۲ 92 خطبه جمعه ۱۸ ر فروری ۱۹۸۳ء کہ پورا یقین ہو گیا کہ اب وہ اس ہتھیار کو استعمال کرنے کے ماہر ہو گئے ہیں.پھر اس دلیل پر جو عیسائی مختلف تو جیہات پیش کرتے ہیں وہ بھی بتادیں اور بڑی آسانی کے ساتھ یہ کام ہو گیا.اس کے بعد وہ دندناتے پھرتے تھے.جہاں کوئی عیسائی مجمع ہوتا تھا وہاں پہنچ جاتے تھے اور کہتے تھے کہ ہمیں زیادہ دلیلیں تو نہیں آتیں ایک دلیل آتی ہے اس کو تو ڑ کر دکھا دو.جب تم اس کو تو ڑ کر دکھا دو گے تو پھر ہم دوسری دلیل لے آئیں گے لیکن جب تک اس کو نہیں توڑو گے ہم آگے نہیں چلیں گے.اس ترکیب سے انہوں نے اردگرد کے تمام عیسائی منادوں کو مصیبت ڈال دی.ان کا بیان ہے کہ حقیقتا ان منا دوں کو وہ علاقہ چھوڑ نا پڑا.غرض ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے تابع ہر احمدی جو داعی الی اللہ بنا چاہتا ہے اس کو پہلے تمام اختلافی مسائل کی کوئی ایک دلیل چن لینی چاہئے.لیکن وہ دلیل چنی چاہئے جس پر وہ ذہنی اور علمی لحاظ سے خوب عبور حاصل کر سکتا ہو اور شروع میں اپنے علم کو بہت زیادہ نہ پھیلائے.یہ بعد کی باتیں ہیں.فی الحال تو سب سے قوی دلیل وفات مسیح کی ہے.سب سے عمدہ تشریح قرآن کریم کی آیت خاتم النبین کی ہے اور اسی طرح دیگر مسائل مثلاً صداقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے موضوع پر ایک ایک دلیل کو چنیں اور اس پر عبور حاصل کریں.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا تیسرا پہلو یہ ہو کہ جب مناظرہ شروع ہو، گفتگو شروع ہو تو تمہارا یہ کام نہیں ہے اور تمہاری گفتگو کا یہ مقصد نہیں ہے کہ تم دوسرے کو نیچا دکھاؤ اور اس کی تذلیل کرو کیونکہ قول کا حسن جاذبیت کے معنی رکھتا ہے اس لیے تم جس بات کو پیش کروا سے اس طرح پیش کرو کہ لوگوں میں اس کے لئے کشش پیدا ہو نہ کہ نفرت میں اور بھی انگیخت ہو جائے.پس یہ پہلو بھی قول کے حسن کے ساتھ بڑا گہرا تعلق رکھتا ہے.احسن کہ کر اللہ تعالیٰ نے فرمایا تمہاری گفتگو کا طریق نہایت عمدہ ہونا چاہئے.ایسی گفتگو کریں جس میں تقویٰ ہو، بچائی ہو، گہرائی ہو اور وزن ہو.لوگوں کو صداقت از خود جھلکتی ہوئی نظر آ رہی ہو.دیکھنے والے عش عش کر اٹھیں اور بے اختیار کہنے لگیں کہ یہ تو سچائی بول رہی ہے اور وہ ان کو قبول حق پر مجبور کر دے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے صحابہ کم علمی کے باوجود اس لئے کامیاب مبلغ تھے کہ ان کی بات میں وزن تھا، ان کے اندر سچائی تھی ، ان میں سادگی تھی اور سادگی بجائے خود ایک قوت تھی.ان چیزوں نے مل کر ان کی زبان میں اور ان کے
خطبات طاہر جلد ۲ 93 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء قول میں ایک حسن پیدا کر دیا تھا.ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا جو نتیجہ قرآن کریم بعد میں ذکر کرتا ہے وہ نتیجہ ان کو حاصل ہوا.داعی الی اللہ کا دوسرا پہلو اعمال کو حسین بنانے سے تعلق رکھتا ہے کیونکہ دو باتیں بیان فرمائی تھیں.ایک یہ کہ مومن داعی الی اللہ ہوتا ہے.دوسرے یہ کہ عَمِلَ صَالِحًا یعنی وہ نیک اعمال بھی بجالاتا ہے.گویا نیک اعمال کو اس طرح ادا کرتا ہے کہ وہ احسن بن جائیں.یہاں نیک اعمال بمقابلہ بداعمال مراد ہیں.یہ ایک مقابلہ کی صورت ہے جو یہاں پیش کی گئی ہے.مثلاً لوگ مال لوٹتے ہیں ، گھر جلاتے ہیں ، طرح طرح کے دکھ دیتے ہیں اسکے باوجود اپنے دل کو اس بات پر آمادہ رکھنا اور اس کی ایسی تربیت کرنا کہ خود دشمن جب دکھ میں مبتلا ہو تو اس کی مدد کی جائے گویا اعمال کے لحاظ سے يهِ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کی ایک بہترین صورت ہے.حضرت مصلح موعودؓ نے ہمیشہ اس بات پر بڑی سختی سے عمل کیا اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ احمدیت کے شدید دشمن کو آپ نے تکلیف میں دیکھا ہو اور اس کی مدد نہ کی ہو.وہ احراری جو قادیان میں بستے تھے جب بھی ان کو کسی چیز کی ضرورت پیش آتی تھی آپ ان کی مدد کیا کرتے تھے.بیماری میں ان کی مدد کیا کرتے تھے، مصائب میں ان کی مدد کیا کرتے تھے.غرض جب بھی اور جہاں سے بھی ان کو اطلاع ملتی تھی کہ کوئی دشمن کسی تکلیف میں مبتلا ہے تو آپ ہمیشہ اس کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے.مجھے یاد ہے جبکہ بیماری میں ایک دفعہ آپ مری میں مقیم تھے وہاں آپ کو یہ اطلاع ملی کہ مولانا ظفر علی خاں صاحب بہت بیمار ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے.آپ سخت بے قرار ہو گئے.آپ نے ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب سے کہا کہ آپ جا کر وہاں دیکھیں اور ان کا پورا علاج کریں.ڈاکٹر صاحب نے عرض کیا کہ حضور خود بیمار ہیں ، میں وہاں کیسے چلا جاؤں.آپ نے فرمایا بالکل نہیں.میں آپ کی ڈیوٹی لگاتا ہوں آپ جائیں اور مولانا ظفر علی خاں صاحب کا علاج کریں.ان کو محض نسخہ لکھ کر نہیں دینا بلکہ دوائیں بھی مہیا کرنی ہیں اس لئے جس قسم کی دوائی کی بھی ان کو ضرورت ہے اس کے پیسے مجھ سے لے لیں.اس کے علاوہ کوئی اور ضرورت بھی ہے تو وہ بھی پوری کرنی ہے.چنانچہ ڈاکٹر حشمت اللہ خاں صاحب نے اس حکم کی اطاعت میں یہی کیا اور مولانا ظفر علی خاں صاحب کی آخری بیماری کے ایام میں جبکہ وہ مری میں قیام پذیر تھے اللہ تعالیٰ نے جماعت احمد یہ
خطبات طاہر جلد ۲ 94 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء کے امام کو یہ توفیق بخشی کہ ان کی دیکھ بھال کریں.قطع نظر اس بات کے کہ ان کے دل پر اس کا کیا اثر پڑا اور انہوں نے اس کا اظہار کن الفاظ میں کیا.یہ امر واقعہ ہے کہ کچھ بھی رد عمل ہوتا تب بھی مومن اس جادہ سے ہٹ نہیں سکتا، اس راہ کو چھوڑ کر وہ اپنے لئے کوئی اور راہ اختیار نہیں کرسکتا کیونکہ قرآن کریم نے اس کو پابند کر دیا ہے کہ اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کی رو سے تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ تم برائی کا بدلہ بہر حال نیکی سے دو گے.کوئی مصیبت میں مبتلا ہے اس کی مصیبت کو دور کرنے کے لئے تیار رہو گے اور اپنے عمل سے ہر گز یہ ثابت نہیں کرو گے کہ تم بھی بروں کی طرح برے ہو جاتے ہو.اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا دوسرا پہلو اندرونی تربیت سے بھی تعلق رکھتا ہے.فرمایا جب بھی تمہارے اندر کوئی برائی پیدا ہونے لگے تو اس کو حسن سے دور کرو اور جب بھی معاشرہ میں تربیت کے معاملہ میں کوئی برائی پیدا ہو اس کو بھی حسن سے دور کرو.یہ مضمون بھی اپنی ذات میں بڑا گہرا او تفصیلی ہے.قرآن کریم نے کہیں بھی Annihilism یعنی ملیا میٹ کر دینے کا کوئی فلسفہ پیش نہیں کیا.قرآن کریم نے کہیں بھی کسی کو یہ تعلیم نہیں دی کہ وہ کسی موجود چیز کو مٹادے.ہاں بہتر چیز سے بدلہ دینے کی تعلیم دیتا ہے.لیکن سارے قرآن کریم میں کسی ایک جگہ بھی Annihilism یعنی ملیا میٹ کر دینے کی تعلیم نہیں دی گئی.یہ کہنا کہ : اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو کاخ امراء کے درودیوار ہلا دو ( بال جبریل نظم بعنوان فرمان خدا) قرآن کریم میں ایسی کوئی تعلیم نہیں ملتی.یہ شاعروں کی دنیا کی باتیں ہے.قرآن کریم یہ تعلیم دیتا ہے کہ اگر تم میں بہتر چیز دینے کی طاقت موجود ہے تو بری چیز کو بہتر چیز سے تبدیل کرو.اگر تم میں یہ طاقت موجود نہیں ہے تو پھر تمہیں اس بات کا کوئی حق نہیں کہ ایک موجود چیز کو مٹاؤ کیونکہ اس طرح خلا پیدا ہوتا ہے جس کی سارے قرآن میں کوئی تعلیم نہیں ہے.پس ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا یہاں مطلب یہ بنے گا کہ برائیوں کو حسن سے Replace
خطبات طاہر جلد ۲ 95 95 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء یعنی بدل دو.حسن داخل کرتے چلے جاؤ تا کہ برائیاں جگہ چھوڑتی چلی جائیں.جیسے ایک کمرہ میں زیادہ لوگوں کے بیٹھنے کی گنجائش نہ ہو تو جو لوگ پہلے بیٹھے ہوتے ہیں وہ نئے آنے والوں کے لئے جگہ خالی کرنا شروع کر دیتے ہیں.یہاں بھی اسی قسم کا مضمون ملتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم اپنی طبیعت میں حسن داخل کرتے چلے جاؤ، بدیاں خود بخود جگہ چھوڑتی چلی جائیں گی اور یہ امر واقعہ ہے کہ اس کے بغیر کبھی دنیا میں کوئی باقی رہنے والی تربیت نہیں ہوسکتی.جولوگ اس نفسیاتی سنکتے کو نہیں سمجھتے وہ ہمیشہ بدیاں دور کرنے میں ناکام رہتے ہیں کیونکہ انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ جب کسی کو یہ کہا جائے کہ یہ نہ کرو تو سوال یہ ہے کہ کیوں نہ کرے، اس سے بہتر کوئی چیز ملے گی تو نہیں کرے گا ور نہ وہ اپنی ضد پر قائم رہے گا.فطرت چاہتی ہے کوئی اس کا متبادل ہو، کوئی اس سے بہتر چیز ہو اس لئے میں نے بارہا یہ کہا ہے کہ آپ جب اپنے گھروں کی ، اپنے بچوں کی ، اپنی عورتوں کی تربیت کرتے ہیں تو اس بات کو پیش نظر رکھا کریں کہ اگر ان کو میوزک سے ہٹانا ہے یا گندی قسم کے گیتوں سے اور گندے فلمی گانوں سے ہٹانا ہے تو پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظمیں اچھی آواز میں تیار کریں جو دل پر گہرا اثر کرنے والی ہیں.جب آپ وہ نظمیں ان کو سنانا شروع کریں گے تو آہستہ آہستہ ان کی لذتوں کے معیار بدلنے شروع ہوں گے.ایک چیز داخل ہوگی دوسری کو دھکیل کر باہر کر رہی ہوگی.یہ ایک دن کا کام نہیں ہے، دو دن کا کام نہیں ہے، یہ تو بڑا لمبا اور صبر آزما کام ہے.ہمت کے ساتھ اور مستقل مزاجی کے ساتھ انسان اگر ایک پروگرام بنا کر رفتہ رفتہ یہ کام کرنا چاہے تو یقینا کامیاب ہوگا کیونکہ قرآن کریم کا یہ دعویٰ ہے اور قرآن کریم کا دعویٰ کبھی جھوٹا نہیں ہوتا.اس سلسلہ میں آپ کو تربیت کے کام کی تیاری کے لئے بہت وسیع مضمون مل جاتا ہے.مثلاً احادیث نبویہ ہیں، ان میں سے ایسی احادیث منتخب کریں جو غیر معمولی طور پر دل پر اثر کرنے والی ہوں وہ احسن کے تابع آئیں گی.آنحضرت ﷺ کی طرف سے آپ ہی کے الفاظ میں احکامات دینا بھی بہت گہرا اثر رکھتا ہے.ایسی احادیث کے ترجمے کرنا یا مختلف معاشرتی خرابیوں کے پیش نظر احادیث میں سے انتخاب کرنا بہت ضروری ہے.پھر آپ ان کو ریکارڈ کریں یا مجالس میں بیان کریں.گھروں میں چھوٹی چھوٹی مجلسیں لگیں وہاں اچھی تلاوت سنائی جائے اور پھر اس کے ترجمے ہوں.قرآن کریم تو ایک ایسی کتاب ہے جو آہستہ آہستہ سارے انسانی نظام Take Over کرتی یعنی اس پر قابض ہو
خطبات طاہر جلد ۲ 96 96 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء جاتی ہے.قرآن کا حکم چلنے لگ جاتا ہے اور غیر قرآن کا حکم خود بخود جگہ کو چھوڑ دیتا ہے.پس یہ درجہ بدرجه بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کی مثالیں ہیں.آپ Creative Programme یعنی تعمیری پروگرام بنائیں.یاد رکھیں اگر آپ میں تعمیری پروگرام بنانے کی اہلیت نہیں ہے تو دنیا آپ کی بات نہیں مانے گی.چنانچہ انبیاء علیہم السلام کی تعلیم اور ان کے دستور سے جو قرآن کریم میں بیان ہوا ہے ہمیں یہی معلوم ہوتا ہے کہ اس عمل میں وہ اس بات کا انتظار نہیں کیا کرتے تھے کہ مقابل کی سوسائٹی پہلے ایمان لائے تو پھر ان کے اندر حسن عمل پیدا کرنے کی کوشش شروع کی جائے.قرآن کریم میں ایسے جتنے بھی واقعات بیان ہوئے ہیں ان سے پتہ لگتا ہے کہ برائیوں کو دور کرنے کی تعلیم وہ پہلے شروع کر دیتے تھے.حضرت شعیب علیہ السلام نے اس بات کا کب انتظار کیا تھا کہ قوم ایمان لائے تو میں ان کو کہوں کہ تول درست کرو.حضرت لوط علیہ السلام نے اپنی قوم کی بداخلاقی کی اصلاح کے لئے کب یہ انتظار کیا تھا کہ قوم ایمان لائے تو پھر میں ان کی تربیت کا کام شروع کروں.حضرت صالح علیہ السلام نے وہ کیا با تیں کی تھیں جن کے نتیجہ میں یہ اعتراض پیدا ہوئے کہ تم ہمارے اموال میں دخل دے رہے ہو اور تم ہمارے اوپر اپنی حاکمیت جتا ر ہے ہو اور ہمیں نصیحتیں کر رہے ہو.اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء نے قوم کے عمل کو درست کرنے کے لئے کبھی اس بات کا انتظار نہیں کیا کہ وہ لوگ ایمان لاتے ہیں یا نہیں.اس میں ایک گہری حکمت ہے اور وہ حکمت یہ ہے کہ نیکی کی بات دراصل کسی دلیل کو نہیں چاہتی کسی اچھے اور خوبصورت کام کی طرف اگر آپ خوبصورت رنگ میں کسی کو بلاتے ہیں تو وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ ہم کب تمہیں مانتے ہیں کہ تم ہمیں یہ باتیں کہتے ہو.اگر کوئی یہ جواب دے تو اس کی بڑی بیوقوفی ہو گی.آپ کسی بھو کے آدمی کو یہ کہیں کہ میں تمہارے لئے کھا نالا یا ہوں تم کھانا کھالو تو وہ یہ نہیں پوچھے گا کہ میں تو تمہیں مانتا ہی نہیں، میں کیوں کھانا کھالوں.کوئی آدمی گرمی میں دھوپ میں بیٹھا ہو اور آپ اس سے کہیں کہ اٹھ کر سایہ میں آجاؤ تو وہ آگے سے یہ جواب نہیں دے گا کہ نہیں ! نہیں ! تم اور فرقہ سے تعلق رکھتے ہو میں اور فرقہ سے تعلق رکھتا ہوں.اچھی باتوں میں فرقہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.نظریاتی اختلاف الگ ہیں ان کا اپنا مقام ہے اور نیک اعمال کی تعلیم ایک بالکل الگ مسئلہ ہے اس لئے اس معاملہ میں انبیاء نے کبھی انتظار نہیں کیا اور اس میں ایک بڑی حکمت یہ تھی کہ ان کا اور
خطبات طاہر جلد ۲ 97 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء سوسائٹی کا فاصلہ زیادہ نہیں ہوا.اگر آپ اپنے ماحول کو گندہ ہونے دیں اور اجازت دے دیں کہ وہ جو رخ چاہتا ہے اختیار کرلے اور انتظار کریں کہ جب تک وہ قبول نہیں کرتا اس وقت تک آپ نے ان کے اندر حسن پیدا نہیں کرنا تو آپ میں اور اس ماحول میں جتنے فاصلے بڑھتے چلے جائیں گے اتنے آپ کے مسائل بڑھتے چلے جائیں گے.یہ بے اعتنائی واپس اٹتی ہے اور یہی گندہ ماحول پھر آپ کے گھر کو تباہ کرتا ہے.یہ ایسی بے اعتنائی نہیں ہے جس کو خدا بخش دے گا بلکہ بے اعتنائی کرنے والی قوم کو اس بے اعتنائی کی سزا دی جاتی ہے کیونکہ مخالف معاشرہ بدیوں میں جتنا آگے بڑھتا ہے وہ ساتھ ساتھ آپ سے اپنا ٹیکس وصول کرتا ہے اور آپ کے معیار کو بھی کھینچ کر نیچے لے جارہا ہوتا ہے اس لئے قرآن کریم نے انبیاء کا جو پاک نمونہ محفوظ کیا ہے اس کا یہی مقصد تھا کہ جو قو میں بھی داعی الی اللہ بننا چاہتی ہیں وہ اپنے معاشرہ کی درستی کا انتظام اس بات کا انتظار کئے بغیر شروع کر دیں کہ وہ لوگ ایمان لاتے ہیں یا نہیں.یہ ساری باتیں وہ ہیں جن کے نتیجہ میں انسان کو دکھ ملتے ہیں.قرآن کریم نے عجیب نتیجہ نکالا ہے.لیکن قرآن کریم جب یہ نتیجہ نکالتا ہے اور اس طرف توجہ دلاتا ہے تو پہلے اس طریق کار کے عظیم الشان پھل کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.فرماتا ہے کہ اگر تم اس طریق پر کار بند ہو جاؤ، اس طریق پر گامزن ہو جاؤ تو ہم تمہیں ایک ضمانت دیتے ہیں اور وہ یہ ہے فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌن کہ وہ جو پہلے تمہاری جان کا دشمن تھا وہ تمہارا جاں نثار دوست بن جائے گا اور یہی وہ اعلیٰ مقصود ہے جس کو ایک داعی الی اللہ حاصل کرنا چاہتا ہے.یہی اس کی کامیابی کا نشان یا تمغہ ہے جو اسے عطا ہوگا.نفرتیں محبتوں میں تبدیل کی جائیں گی، جان کے دشمن جانثار دوستوں میں تبدیل کئے جائیں گے اور یہ ساتھ ہی ایک کسوٹی بھی ہے یعنی اگر تبلیغ کے نتیجہ میں یہ واقعات رونما نہیں ہوتے تو اس تبلیغ میں کوئی خرابی ہے.اگر کسی تبلیغ کے نتیجہ میں ایسے واقعات رونما ہورہے ہیں تو یقینا یہی وہ صحیح طریق ہے جس پر تبلیغ کی جارہی ہے.لیکن ساتھ ہی توجہ دلائی کہ یہ ایسا آسان کام نہیں ہے کہ ادھر تم منہ سے اچھی باتیں نکالو تو اچانک وہ لوگ تمہارے دوست بن جائیں گے.ویسے اچانک کا لفظ موجود ہے.فَإِذَا الَّذِی میں اچانک پن پایا جاتا ہے لیکن اس کا معنی اور ہے، وہ میں بعد میں بتاؤں گا.غرض یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ ادھر تم نے منہ سے بات نکالی اور ادھر وہ تمہارے دوست بن
خطبات طاہر جلد ۲ 98 خطبه جمعه ۱۸ ر فروری ۱۹۸۳ء گئے کیونکہ اچانک پن کا صبر سے کوئی جوڑ نہیں یعنی اس اچانک پن کا کہ ادھر تم نے کام شروع کیا ادھر نتیجہ نکل آیا اس کا صبر سے کیا تعلق ہے.مگر قرآن کریم معاً بعد فرماتا ہے.وَمَا يُلَقْهَا إِلَّا الَّذِينَ صبر و اس نتیجہ کو صبر کرنے والوں کے سوا کوئی حاصل نہیں کر سکتا.پھر اچانک پن کا کیا مطلب ہے اور صبر کا مضمون کیا ہے؟ اب اس کو میں کھولوں گا تو بات سمجھ آجائے گی.بات یہ ہے کہ ہر نصیحت کا رستہ ایک صبر آزما مشکل کا رستہ ہوتا ہے.جب کوئی شخص کسی کو بلاتا ہے تو اس کے دو طریق ہیں.یا تو اس شخص کے ساتھ آپ کی دوستی ہے اور یادشمنی ہے.اگر دوستی ہے تو زیادہ نصیحت کرنے کے نتیجہ میں دوستیاں بھی ٹوٹ جایا کرتی ہیں.آپ اپنے دوستوں کو بار بار نصیحت کر کے دیکھیں تھوڑی دیر کے بعد وہ کہنا شروع کردیں گے، کیا تم نے کان کھانے شروع کر دیئے ہیں یار چھوڑو بھی ، اب بس بھی کرو.پھر زیادہ سختی کرنی شروع کریں گے تو وہ کہیں گے بند کرو یہ کیا رٹ لگائی ہوئی ہے.پھر کہیں گے جاؤ جہنم میں ہمارا دین الگ ہے تمہارا الگ ہے.ہم جو چاہیں کریں تم کون ہوتے ہو ہمیں نصیحتیں کرنے والے.پس تجربہ کر کے دیکھ لیں اس طرح بظاہر الٹ نتیجہ نکلتا ہے یعنی آپ جتنی نصیحت کرتے ہیں اتنی دشمنیاں بڑھتی ہیں اور پھر انبیاء کے زمانہ میں تو یہ بہت شدت اختیار کر جاتی ہیں کیونکہ باوجود دوستی کے نصیحت کا مضمون بہت بلند ہو جاتا اور جس چیز کی طرف بلایا جاتا ہے وہ اتنی مختلف ہوتی ہے اس چیز سے جس پر وہ قومیں پائی جاتی ہیں کہ اس فاصلہ کے نتیجہ میں بھی بڑی شدت سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.اب دیکھئے آنحضرت علی ہے سب سے زیادہ محبت کا پیغام لائے ہیں ، سب سے زیادہ احسن قول آپ کا قول تھا ، سب سے زیادہ احسن عمل آپ کا عمل تھا، اس کے باوجو دسب سے زیادہ مخالفت آپ سے کی گئی.تو پھر فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ كَأَنَّهُ وَلِيُّ حَمِيمٌ کا کیا مطلب ہوا ؟ اس مضمون کو صبر نے کھولا ہے.فرمایا شروع میں ایسا ہی ہو گا جب تم نیک کاموں کی طرف بلانا شروع کرو گے تو شروع میں قوم کا اسی قسم کا رد عمل ہوگا.تمہاری محبتوں کے نتیجہ میں شدید نفرتیں پیدا ہوں گی لیکن اگر تم متزلزل نہ ہوئے ، اگر تم اپنی محبت پر قائم رہے، اگر اپنے قول اور فعل کے حسن پر قائم رہے تو پھر اس صبر کے نتیجہ میں اذا الَّذِی والا واقعہ رونما ہو گا.اور جب ایسا ہوگا تو تمہیں یوں لگے گا جیسے اچانک ہو گیا ہے.حالانکہ صبر اندر ہی اندر مخالفتوں کو کھا جایا کرتا ہے.صبر میں بڑی قوت ہے.یہ
خطبات طاہر جلد ۲ 99 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء عجیب بات ہے کہ صبر کرنے والے کی دعائیں اور کوششیں جب پھل لاتی ہیں تو یوں لگتا ہے جیسے اچانک پھل لگ گیا ہے.اس تاثر کو ظاہر کرنے کے لئے قرآن کریم نے فرمایا فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ دوسرے اذَا الَّذِی میں ایک اور مضمون بھی ہے.اذَا الَّذِی اچانک پن کے علاوہ ایک غیر معمولی واقعہ کی تحسین کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے کہ دیکھو دیکھو کیسا شاندار نتیجہ نکلنے والا ہے.ان معنوں میں بھی اذا الذی استعمال ہوتا ہے.تو دوسرے معنی اس کے یہ بنیں گے کہ دیکھو ان کوششوں کا کیسا عظیم الشان نتیجہ نکلا ہے.ہم جو تمہیں کہتے تھے کہ یوں کرو تو یونہی نہیں کہتے تھے یہ حیرت انگیز انقلاب بر پا کر نیوالا مضمون تھا.فرمایا فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ دیکھنا کتنا عظیم الشان انقلاب بر پا ہوگیا کہ تمہارے خون کے دشمن جاں نثار دوست بن گئے.میں اس وقت چند ایک باتیں صبر کے مضمون میں بیان کرنا چاہتا ہوں.پہلی بات تو یہ ہے کہ صبر دونوں جگہ ہے یعنی قول میں بھی اور عمل میں بھی.جو بات کہنے کی ہے وہ کہتے چلے جانا ہے.یہ ہے قول کا صبر اور جو حسن عمل ہے اس سے پیچھے نہیں ہٹنا.آزمائش جتنی مرضی سخت ہوتی چلی جائے تم نے اپنے اعمال کے حسن کو بدی میں نہیں تبدیل ہونے دینا.یہ دو قسم کے صبر تمہیں اختیار کرنے پڑیں گے.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا چند اشارے کرتے ہوئے میں آگے چلتا ہوں.اس مضمون کو جب آپ کھولیں گے تو بہت سی کام کی باتیں اور بڑی حکمت کی باتیں آپ کے ہاتھ میں آئیں گی.دوسرے صبر کا مضمون یہ بتاتا ہے کہ تم تو محبت کر رہے ہو گے وہ تمہیں دکھ دے رہے ہوں گے اور اس دکھ کے نتیجہ میں تمہارے اندر کوئی ایسی قوت پیدا ہونی چاہئے جس سے تمہیں وہ غلبہ نصیب ہوگا جس کی طرف ہم تمہیں بلا رہے ہیں یا جس کا ہم تم سے وعدہ کر رہے ہیں.صبر کس قوت میں ڈھلا کرتا ہے؟ یہ اصل سوال ہے.اگر صبر سچا ہے اور وہ شخص اپنے دعویٰ میں سچا ہو کہ وہ اپنے نفس کی خاطر کسی کی بھلائی نہیں کر رہا بلکہ دوسرے کی بھلائی کی خاطر وہ کر رہا ہے اور جس کے لئے کوئی کام کر رہا ہو اس کے لئے رحم کا اور شفقت کا اور محبت کا حقیقی تعلق ہوتو پھر جب وہ دوسرا انکار کرتا ہے تو صبر ہمیشہ اس کے لئے دعا میں تبدیل ہوا کرتا ہے، غصہ میں تبدیل نہیں ہوا کرتا.ماں جب بیٹے کو نصیحت کرتی ہے اور وہ ضد کرتا ہے اور کہنا نہیں مانتا تو کوئی جاہل ماں ہوگی جو اس پر لعنت ڈالنا شروع کر دے ورنہ ہم نے تو یہی دیکھا ہے کہ مائیں پھر روتی ہیں، اپنی جان ہلکان کر رہی
خطبات طاہر جلد ۲ 100 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء ہوتی ہیں، راتوں کو اٹھ اٹھ کر دعائیں کرتی ہیں اور دوسرے لوگوں کو دعا کے لئے خط لکھتی ہیں کہ میرا بچہ تباہ ہو رہا ہے دعا کریں نیک بن جائے.پس صبر سے جو عظیم الشان قوت پیدا ہوتی ہے وہ دعا کی قوت ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم محض اپنی باتوں پر اور نیک اعمال پر انحصار نہ کرنا.جب ان باتوں پر صبر کرو گے پھر بھی تمہیں دکھ دیئے جائیں گے اور صبر لازماً دعاؤں میں ڈھلے گا اور وہ دعائیں عظیم الشان نتیجہ پیدا کریں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جو فرمایا ہے کہ عرب کے بیابان میں جو ایک ماجرا گز را کہ صدیوں کے مردے زندہ ہو گئے اور پشتوں کے بگڑے الہی رنگ پکڑ گئے جانتے ہو وہ کیا تھا وہ ایک فانی فی اللہ کی دعائیں ہی تو تھیں.( برکات الدعاروحانی خزائن جلد 4 صفحہ ۱۱) ایسی دعائیں صبر کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.بے صبر تو اپنے دل کی بات غصہ کے ذریعہ نکال لیتا ہے، اس کے آنسو کہاں سے نکلیں گے جو گالی کے ذریعہ جواب دے کر اپنا دل ٹھنڈا کر بیٹھا ہو، سامنے بات کرنے سے ڈرتا ہو تو پیچھے گھر میں آکر ہزار بڑ بڑ کرے کہ یہ بکواس اس نے کی، یہ کیا اور وہ کیا ، تو اس بیچارے کو کہاں سے توفیق ملانی ہے کہ رات کو اٹھ کر روئے.لیکن جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ صرف خدا کی خاطر مجھے مار پڑی ہے،صرف خدا کی خاطر مجھے تکلیف دی گئی ہے اور خاموش رہتا ہے اور اپنی توجہ کو اپنے رب کی طرف پھیرتا ہے کہ اے اللہ ! میں تیری خاطر مارا گیا، میں تیری خاطر ذلیل ہوا مگر میں صبر کرتا ہوں ، تب اندر ہی اندر اس کا دل ایسا گھلنے لگتا ہے کہ پھر جب وہ رات کو اٹھتا ہے تو اس کے آنسو بے اختیار نکلتے ہیں.ایسی حالت میں اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِيْنُ کی آواز ایسے درد کے ساتھ اور ایسی ہوک کے ساتھ اٹھتی ہے کہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ بارگاہ الہی میں مقبول نہ ہو.پس تبلیغ کا صبر سے گہرا تعلق ہے اور صبر بھی وہ صبر جو دعا پر منتج ہو جائے.جو دردناک دعاؤں میں تبدیل ہو جائے.تب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَإِذَا الَّذِى بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ تمہیں یوں محسوس ہوگا جیسے اچانک انقلاب آگیا ہے تم حیران رہ جاؤ گے کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا کل تک تو گالیاں دینے والے تھے آج ان کو کیا ہو گیا اور یہ واقعات پہلے بھی رونما ہوئے ہیں آج بھی ہو سکتے ہیں اور ہوتے ہیں لیکن ان کی اعلیٰ مثال کے طور پر مضمون کو مختصر کرتے ہوئے آخر پر قرآن کریم ایک ایسی بات بتاتا ہے جو ساری باتوں کی جامع ہے ار تمام نصیحتوں کا نبع ور سرچشمہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا يُلَقْهَا
خطبات طاہر جلد ۲ 101 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء إِلَّا الَّذِينَ صَبَرُوا وَمَائِلَقْهَا إِلَّا ذُو حَظِّ عَظِیم کہ تم میں سے جو بھی صبر کرے گا وہ بھی یہی پھل پائے گا لیکن حقیقت یہ ہے کہ جیسا ذُو حَظِّ عَظِیمٍ کو یہ نتیجہ ملا ویسا کسی کو نہیں مل سکتا.یہ ذُو حَظِّ عَظِیم کون ہے؟ حضرت محمد مصطفی علی لاتے ہیں کیونکہ آپ نے سب سے زیادہ صبر کا نمونہ دکھایا ہے ذُو حَظِّ عَظِیمٍ اس شخص کو کہتے ہیں جس نے صبر میں سب سے زیادہ حصہ پایا ہو.عام صبر کرنے والے بھی ہیں ان کو بھی خدا پھل سے محروم نہیں رکھے گا.لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم سیکھنا چاہتے ہو کہ صبر ہوتا کیا ہے تبلیغ کس طرح کی جاتی ہے، دعوت الی اللہ کیا ہوتی ہے عمل صالح کیا ہوتا ہے اور بدی کو حسن میں تبدیل کرنے کا مضمون کیا ہے؟ تو خلاصہ کلام یہ کہ ذُو حَظِ عَظِيمٍ یعنی محمد مصطفی ماله کو دیکھ لو.وہ صرف صبر میں ذُو حَظِّ عَظِیمٍ نہیں ہیں بلکہ اس مضمون کی ہر شاخ میں ذُو حَظِّ عَظِيمٍ ہیں.داعی الی اللہ کے لحاظ سے بھی دعوت کا سب سے بڑا حصہ آپ کو عطا کیا گیا عمل صالح کے لحاظ سے بھی حضرت محمد مصطفی اللہ ہی ذُو حَظِّ عَظِيمٍ بنتے ہیں ، اِدْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کے مضمون کے لحاظ سے بھی حضرت محمد مصطفی ملالہ ذُو حَظِّ عَظِيمٍ بنتے ہیں اور پھر وہ پھل پانے کے لحاظ سے کہ اچانک دشمن دوستوں میں تبدیل ہوئے اس لحاظ سے بھی آپ ذُو حَظِّ عَظِیمٍ بنتے ہیں اور صبر کے اعلیٰ مظاہروں کے لحاظ سے بھی آپ ذُو حَظِّ عَظِیمٍ بنتے ہیں.پس سیرت طیبہ و تبلیغ کا طریق سکھاتی ہے اس طرف انگلی اٹھا کر بات ختم کر دی.کہتے ہیں: ع نہ دے نامہ کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے (دیوان غالب) وہی مضمون ہے.جس طرح شاعر تنگ آکر کہتا ہے چلو میں بات ختم کروں، ایک ہی فقرہ میں ساری بات کہہ دوں.قرآن کریم نے بھی بہت ہی پیارے انداز میں ایک لفظ میں ساری بات ختم کر دی، ذُو حَظِّ عَظِيمٍ کہہ کر سارا معاملہ واضح اور روشن کر دیا.آنحضرت ﷺ کا طریق یہ تھا کہ ہمیشہ تبلیغ کے نتیجہ میں جب آپ کو دکھ دیئے گئے تو نہ آپ تبلیغ سے باز آئے نہ دیکھ دینے والوں کو بددعائیں دیں ، نہ ان سے خوف کھایا اور نہ کسی پہلو سے بھی اپنا پیغام پہنچانے سے باز آئے.باوجود اس کے کہ سوسائٹی نے آپ کا انکار کیا، آپ سوسائٹی میں حسن پیدا کرتے چلے گئے اور یہ عمل جاری رہا یہاں تک کہ آپ کے ساتھ اور صبر والے شامل
خطبات طاہر جلد ۲ 102 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء ہو گئے اور دکھ اٹھانے والے ملنے شروع ہو گئے اور دکھ اٹھانے والوں کا یہ قافلہ آگے بڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ وہ انقلاب آیا جس کے متعلق فرمایا کہ تم یہاں بیٹھ کے آج مڑ کر تاریخ کو دیکھتے ہو تو سمجھتے ہو اچانک ہو گیا اچانک نہیں ہوا تھا.اس کے پیچھے تو بہت خون بہائے گئے تھے، امنگوں کے خون، جذبات کے خون ، اپنے عزیزوں کے خون دینے سے دریغ نہیں کیا گیا تھا، اپنی تمام خواہشات ان اعلیٰ مقاصد کی بھینٹ چڑھا دی گئیں تھیں یہ صبر جب لمبا ہوا تب اللہ تعالیٰ کی قدرت نے وہ پھل لگایا جس کے متعلق فرماتا ہے.فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ.آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں یہ عظیم الشان انقلاب جس شان سے ظاہر ہوا ہے کسی نبی کی تاریخ میں اس کا عشر عشیر بھی آپ کو نظر نہیں آئے گا.حیرت انگیز انقلابات ہیں، شدید دشمنوں کا عظیم دوستوں میں تبدیل ہو جانے کی بکثرت مثالیں ہیں که انسان دنگ رہ جاتا ہے.مجاہدین کا ذکر تاریخ میں پڑھ کر لوگ آج بھی عش عش کر اٹھتے ہیں.ایک دفعہ تین مجاہدین ایسی حالت میں زخمی پڑے تھے کہ زبانیں خشک ہو رہی تھیں ، جان نکل رہی تھی لیکن وہاں پانی نہیں تھا.عکرمہ ان میں سے ایک تھے.جب پانی پلانے ولا عکرمہ تک پہنچا تو عکرمہ کی نظر اپنے قریب ایک اور زخمی پر پڑ گئی.عکرمہ نے اشارہ کیا کہ پہلے اس کو پانی پلاؤ پھر میرے پاس آنا.پانی پلانے والا دوسرے زخمی کے پاس پہنچا تو اس کی نظر ایک اور زخمی پر پڑ گئی.چنانچہ اس نے بھی وہی اشارہ کیا کہ پہلے اس کو پانی پلاؤ پھر میرے پاس آنا.بعض لوگ کہتے ہیں تین تھے، بعض کہتے ہیں زیادہ تھے مگر وہ جتنے بھی تھے یہ حقیقت ہے کہ جب اس نے بھی انکار کیا کہ نہیں پہلے دوسرے کو پلاؤ اور وہ واپس عکرمہ کے پاس لوٹا تو عکرمہ بھی دم توڑ چکا تھا اور وہ دوسرا بھی دم توڑ چکا تھا اور تیسرا بھی دم توڑ چکا تھا.(اسد الغابہ فی معرفتہ الصحابہ ذکر حارث بن ھشام جلد اول صفحہ ۴۰۰) جن لوگوں میں ایک دوسرے کی خاطر جان فدا کرنے اور ایثار کے حیرت انگیز نمونے ظاہر ہوئے ہیں یہ وہی لوگ تھے جو مسلمانوں کی جانوں کے سب سے بڑے دشمن تھے.یہ وہی عکرمہ ہے جس نے احد کی خونریزی میں سب سے زیادہ حصہ لیا تھا اور باقی جو اس کے ساتھی تھے یہ سارے وہ نو مسلم تھے جنہوں نے مسلمانوں کو شدید نقصانات پہنچائے تھے اور اب ان کی کایا پلٹی ہے تو یہ حال ہو گیا ہے کہ اپنی جان جارہی ہے، پیاس سے زبان خشک ہو رہی ہے، جب زخمی شدید گرمی میں ایک گھونٹ پانی کو ترس رہا ہوتا ہے اس وقت یہ خیال کر کے کہ ایک مسلمان بھائی اور بھی پیاس میں تڑپ رہا ہے خود پانی نہ پینا
خطبات طاہر جلد ۲ 103 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء بلکہ دوسرے کو موقع بہم پہنچانا کوئی معمولی قربانی نہیں ہے.عام پیاس کے وقت بھی جب پانی آتا ہے تو آپ کسی دن اس بات کو سوچیں کہ کس طرح دل چاہتا ہے کہ ہاتھ بڑھا کر میں تو پانی پیئوں کسی اور کی پیاس بعد میں دیکھی جائے گی لیکن زخموں کی شدت میں عرب کے تپتے ہوئے صحراؤں میں یہ واقعہ گزرجانا یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے مگر بکثرت ایسے واقعات ہوئے ، اجتماعی طور پر بھی ہوئے اور انفرادی طور پر بھی.ثمامہ بن اثال قبیلہ بنو حنیفہ سے تھے اور آنحضرت ﷺ کے شدید دشمن تھے.جب داؤ لگتا تھا مسلمانوں کا قتل و غارت کیا کرتے تھے.وہ ایک دفعہ مسلمانوں کے قابو آ گئے.ان کو جب آنحضرت ﷺ کے حضور پیش کیا گیا تو آپ نے یہ حکم دیا کہ ان کو مسجد نبوی کے ایک ستون کے ساتھ باندھ دیا جائے.آنحضور علﷺ نے اس سے پوچھا ثمامہ بتاؤ تم سے کیا سلوک کیا جائے.اس نے کہا کہ اگر تو آپ قتل کا حکم دیں تو ایک قاتل ایک خونی کے قتل کا حکم دیں گے اور آپ معاف کر دیں تو ایک محسن کی طرح حسن سلوک کر رہے ہوں گے اور اگر فدیہ چاہتے ہیں (امیر آدمی تھا) جتنا فدیہ لینا چاہیں میں دینے کے لئے تیار ہوں.رسول کریم ع کے بغیر جواب دیئے واپس تشریف لے گئے.دوسرے دن بھی یہی ہوا، تیسرے دن بھی یہی ہوا، پھر حضور نے فرمایا اس کو کھول دو.آنحضور علی کے اس ارشاد میں اگر آپ گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو حسن عمل کی ایک بڑی پیاری تصویر نظر آئے گی.کھلنے کے بعد پہلے تو وہ خاموشی سے باہر چلا گیا، غسل کیا،صاف ستھر ہو کر آیا، کلمہ پڑھ کر مسجد میں داخل ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ ! آج کے دن سے پہلے میری نظر میں سب سے زیادہ مغضوب انسان آپ تھے اور آج آپ سے زیادہ محبوب آدمی میرے لئے اور کوئی نہیں.آج سے پہلے آپ کے دین سے مجھے شدید نفرت تھی مگر آج اس سے زیادہ اچھا دین مجھے اور کوئی نظر نہیں آتا.اور اے اللہ کے رسول ! آپ کا یہ شہر مجھے سب سے زیادہ حقیر اور ذلیل دکھائی دیا کرتا تھا اور آج یہ میری آنکھوں کا تارا بن گیا ہے.مجھے سب سے زیادہ پیارا شہر یہ لگتا ہے.( صحیح بخاری کتاب الصلوۃ باب الاغتسال اذا اسلم وربط الاسیر ایضافی المسجد - اسدالغابہ فی معرفتہ الصحابہ ذکر ثمامہ بن اثال جلدا) پس فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ کے اس واقعہ کے پیچھے ایک اور حکمت کارفرما ہے.ایک انسان جس نے یہ فیصلہ کیا ہو کہ میں احسان کا جلوہ دکھاؤں اور ساری دنیا عش عش کر اٹھے
خطبات طاہر جلد ۲ 104 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء خواہ وہ احسان کتنا ہی بے محل ہو ، آنحضرت ﷺ ویسے انسان نہیں تھے.آپ حسن عمل کے قائل تھے، آپ موقع اور محل دیکھا کرتے تھے ، جہاں معافی فوری فائدہ پہنچاتی تھی وہاں فوری طور پر معاف کیا کرتے تھے ، جہاں وقت درکار ہوتا تھا وہاں انتظار کیا کرتے تھے.آنحضرت ﷺ کے اس فیصلہ میں یہ حکمت نظر آتی ہے کہ مسجد نبوی میں پانچ وقت نماز میں ہو رہی تھیں اور وہ ایک ستون کے ساتھ بندھا ہوا تھا.ویسے تو اس کو تبلیغ کرنے کا وقت نہیں تھا تو آنحضور علیہ کا منشائے مبارک یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ تین دن ہماری صحبت میں رہ جائے پھر دیکھیں گے کہ اس کا دل کس طرح بیچ کر نکلتا ہے.بہر حال وہ چپ کر کے دیکھتا رہا کہ یہ کیسے لوگ ہیں ، کیا کرتے ہیں، دن کو بھی مسجد آباد ہو جاتی ہے اور رات کو بھی آنسوؤں سے تر کی جاتی ہے.یہ عجیب قسم کے خدا کے بندے ہیں.پس جب وہ مسلمانوں کے اثر سے مغلوب ہو گیا اور ذہنی طور پر قبول حق کے لئے تیار ہو گیا تو حضور اکرم ﷺ نے اسے آزاد کرنے کا فیصلہ فرمایا.آپ نے فرمایا اس کے بند کھول دواب یہ کہیں نہیں جاسکتا.مراد یہ تھی کہ یہ اب اسلام کے حسن کا اتنا گرویدہ ہو چکا ہے.اب یہ بندھن کھول بھی دو گے تب بھی دوبارہ غلام بن کر آئے گا اور ایسا ہی ہوا.پس حسن عمل میں حکمت بھی ضروری ہے.حکمت کے ساتھ ایسا فعل کریں جو صرف ظاہر میں اچھا نظر نہ آئے بلکہ اس کے حسن میں گہرائی ہو.آنحضرت عمل کبھی بھی کسی بھی حکمت کا دامن چھوڑ کر کوئی فیصلہ نہیں کیا کرتے تھے ہر فیصلہ کے پیچھے حکمت کار فرما ہوتی.آپ کا ہر فیصلہ بڑا گہرا اور حکمت کا سر چشمہ دکھائی دیتا ہے.آپ کسی واقعہ پر ٹھہر کر غور کریں اور اس کے اندر تہہ تک غوطہ ماریں آپ کو موتی مل جائیں گے.آپ تلاش کریں آنحضور ﷺ کا کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہیں جس کے اندر گہرےحکمت کے موتی پوشیدہ نہ ہوں.غرض یہ وہ طریق تبلیغ ہے جو قرآن کریم نے سکھایا اور یہ وہ نتائج ہیں جو قرآن کریم کے بیان کے مطابق لازماً نکلا کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی نکلے.ہم نے بھی اپنی آنکھوں سے بارہا یہ نتیجے نکلتے دیکھے ہیں.ابھی چند ہفتے ہوئے لاہور میں اکٹھے بیٹھنے کا موقعہ ملا.کسی گھر میں مدتوں سے ایک خاتون رہ رہی تھیں وہ احمدی نہیں ہوتی تھیں.مطالعہ بھی کرتی رہیں، بحثیں بھی کرتی رہیں.اب جب وہ احمدی ہو ئیں تو اس وقت پھر اس آیت فَإِذَا الَّذِي بَيْنَكَ وَبَيْنَهُ عَدَاوَةٌ کا جلوہ ہم نے دیکھا.چنانچہ وہ احمدی ہونے کے بعد کئی دن روتی رہیں کہ میں احمدی تو
خطبات طاہر جلد ۲ 105 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء ہوگئی ہوں مگر جو میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیا کرتی تھی میں بخشی بھی جاؤں گی یا نہیں مجھے یہ دکھ ہورہا ہے.شدید بے قرار تھی ان کے گھر والوں نے تسلی دی، پیار کا سلوک کیا تب بڑی مشکل سے ان کو اطمینان نصیب ہوا.پس یہ کوئی ایسی آیت نہیں جو گزشتہ زمانہ سے تعلق رکھتی ہو.یہ تو ایک جاری وساری زندہ آیت ہے کیونکہ وہ لوگ جن کے ساتھ اس کا واسطہ تھا وہ مسلسل حسن سلوک کرتے رہے انہوں نے مخالفتیں بھی برداشت کیں، گالیاں بھی سنیں لیکن انہوں نے کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کی ، اپنے حسن سلوک میں کوئی کمی نہیں کی اور جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے صبر کو ہمیشہ میٹھے پھل لگتے ہیں ، وہ میٹھے پھل بھی ہم نے دیکھے.یعنی شدید مخالفت کر نیوالے لوگ اچانک جاں نثار دوست بن گئے.غرض اس طریق پر اگر آپ داعی الی اللہ بنیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر گھر میں انشاء اللہ ایک انقلاب پیدا ہونا شروع ہو جائیگا.اللہ تعالیٰ ہر داعی الی اللہ کو میٹھے پھل عطا فرمائے گا اس لئے صبر کریں اور دعائیں کریں اور خدا کی راہ میں دکھ اٹھانے کے باوجو د راضی رہیں اور اپنی شکائتیں لوگوں سے نہ کریں بلکہ اللہ سے کریں وہ کافی ہے.نِعْمَ الْمَوْلَى وَنِعْمَ النَّصِيرُ اس سے بہتر کوئی اور مولی نہیں ہے.اس کا سہارا آپ کو مل جائے تو کسی اور سہارے کی آپ کو ضرورت نہیں ہے اور پھر وہ آپ کا بہترین وکیل ہے آپ کے سب جھگڑے وہ اپنے فضل سے طے کر وائے گا اور وہ سب سے زیادہ تو کل کے لائق ذات ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل اور توفیق سے ساری جماعت جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بہترین رنگ میں داعی الی اللہ بن جائے کیونکہ زمانہ کے کتنے تیور بگڑ چکے ہیں.خوفناک ہلاکتیں منہ پھاڑے تیزی کے ساتھ دنیا کی طرف بڑھ رہی ہیں.یہ وقت گزر گیا تو پھر یہ تو میں آپ کے ہاتھ سے نکل جائیں گی.آج نفسیاتی لحاظ سے اس سے بہتر اور کوئی وقت نہیں ہے کہ آپ ان کو حق کی طرف بلائیں اور ان کے لئے امن کا انتظام کریں.ورنہ اگر عالمی مصیبتیں ٹوٹیں تو پیشتر اس کے کہ ہم دنیا کو ہدایت دے سکیں، کہیں بدوں کے ساتھ نیک بھی پس کر نہ رہ جائیں کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس عذاب سے ڈرو جس میں بدوں کے ساتھ نیک بھی پھر پس جایا کرتے ہیں.یہ بھی قرآن کریم کا کمال ہے کہ کوئی بھی صورت حال ہو اس کا کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جسے قرآن کریم بیان نہ
خطبات طاہر جلد ۲ 106 خطبه جمعه ۱۸ / فروری ۱۹۸۳ء کرتا ہو.نہ چھوٹی بات چھوڑتا ہے نہ بڑی بات چھوڑتا ہے.ایسے استثنائی وقت بھی آجایا کرتے ہیں جب تو میں غفلت کے نتیجہ میں دنیا کو ہلاک ہونے دیتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر بیچ میں تمہارا بھی حصہ ہو گا.عذاب تو ان کو مل رہا ہو گا لیکن آٹے کے ساتھ گھن پستا ہے.یہاں تو یہ فرما رہا ہے کہ گھن کے ساتھ آٹا پس جائے گا کیونکہ اکثریت تو گھن کی ہے.پس ایسے خوفناک وقت سے بچنے کے لئے بھی یہ ضروری ہے کہ آپ اپنے تبلیغ کے کام کو تیز کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے آپ کو حوصلہ دے،صبر دے، دعاؤں کی توفیق دے، اپنے نشانوں کے ساتھ آپ پر دن کو بھی ظاہر ہو اور رات کو بھی.آپ کو یہ محسوس ہو کہ ایک زندہ خدا ہمارے ساتھ ہے، ایک طاقتور ہستی کے سایہ میں بڑھتا ہوا انسان خوف نہیں کھایا کرتا بلکہ دلیر ہو جاتا ہے.کہتے ہیں گھر میں بلی بھی شیر ہوتی ہے.آپ کا مقام تو اس سے بہت بلند ہے.خدا کی حفاظت گھر کی حفاظت سے کہیں زیادہ قوی اور مضبوط حفاظت ہے.یہ مقام اپنے دل میں پیدا کریں، اپنی عظمت کا احساس پیدا کریں، پھر دیکھیں کہ انشاء اللہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی داعی الی اللہ کسی سال پھل سے محروم رہے.ایک ایک، دو دو، تین تین، چار چار پھل آپ کو لگیں گے.جس طرح خدا تعالیٰ کے فرشتے مختلف پروں کے ہوتے ہیں، اسی طرح داعی الی اللہ بھی مختلف طاقتوں کے ہوا کرتے ہیں.کوئی دو دو، کوئی چار چار پروں والا ہوتا ہے اور کوئی آٹھ آٹھ پروں والا ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جس کو چاہتا ہے پھر اس سے بھی بڑھا دیتا ہے.خدا تعالیٰ آپ کی طاقتوں کے پروں میں اضافہ کرتا چلا جائے اور ہمیشہ اس کے فضل کے سایہ تلے آپ آگے سے آگے بڑھتے چلے جائیں.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نمازیں جمع ہونگی.جمعہ کی تو خیر دو ہی رکعتیں ہوتی ہیں.اس کے بعد میں عصر کی نماز دوگانہ پڑھوں گا.جو مسافر ہیں وہ میرے ساتھ سلام پھیریں اور جو مسافر نہیں ہیں وہ جب میں دونوں سلام پھیرلوں پھر کھڑے ہو کر اپنی بقیہ دور کعتیں پوری کریں.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ مئی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 107 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء دعوت الی اللہ اور اس میں حکمت کے تقاضے خطبه جمعه فرموده ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء بمقام ناصر آبادسندھ ) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ - إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ w بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيلِهِ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ وَإِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُو قِبْتُمْ بِهِ ، وَلَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَخَيْرُ لِلصّبِرِينَ.وَاصْبِرُ وَ مَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ وَلَا تَحْزَنُ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ : إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْا وَالَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ ) (النحل : ۱۲۶-۱۲۹) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورہ نحل کی آخری چار آیات ہیں اور ان میں ایک مومن کو نہ صرف تبلیغ کی ہدایت کی گئی ہے بلکہ تبلیغ سے متعلق طریق کار اور حکمت عملی پر بھی تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے.اس سے پہلے میں نے سورۃ حم السجدۃ کی چند آیات کو اسی مضمون کا عنوان بنایا تھا اور بتایا تھا
خطبات طاہر جلد ۲ 108 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء کہ اللہ تعالیٰ یہ توقع رکھتا ہے کہ اس کے بندے احسن قول کے ساتھ اور احسن عمل کے ساتھ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی طرف بلانے والے ہونگے.اللہ ایک مشترک لفظ ہے جو تمام مذاہب میں ایک قدر مشترک کے طور پر پایا جاتا ہے.مشرک مذاہب بھی ایک نہ ایک اللہ کا تصور ضرور رکھتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے بنا کر بتوں کو پوجتے ہیں.جب ان سے پوچھا جائے تو بالآخر یہی بتاتے ہیں کہ ایک اللہ ضرور ہے اور یہ اس کے مظاہر ہیں یا چھوٹے الہ ہیں.پس اللہ کی طرف بلانے کا تصور ایک قدر مشترک ہے جو تمام مذاہب میں پائی جاتی ہے لیکن یہاں اس آیت میں اس طرز کو بدل کر اللہ تعالیٰ یہ ارشاد فرماتا ہے.اُدْعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ کہ اے محمد! ( ع ) تو اپنے رب کی طرف بلا.اب تعجب کی بات یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی علی کا رب کیا دوسروں کے رب سے مختلف تھا؟ اس میں رب کو آنحضرت ﷺ کی طرف مضاف کیوں کیا گیا.اس کی بہت سی حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ رب کا تصور جدا جدا ہوتا ہے اور اگر چہ مختلف مذاہب کے نام پر ہر ایک رب کی طرف بلاتا ہے لیکن اس ایک رب یا اللہ کے نام کے نیچے اتنے مختلف وجود نظر آتے ہیں کہ اگر آپ ان کا تجزیہ کریں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے مخالف سمتوں کی طرف بلا رہے ہیں اس لئے کہ ہر ایک کارب کے متعلق اپنا ایک الگ تصور ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے، اے محمد ! ( ع ) تو اس رب کی طرف بلا جس رب کی طرف تو خود پہنچا اور جس سے تو نے لقا حاصل کی اور جس کو تو نے اپنی قلبی رؤیت سے دیکھا اور جو پوری شان کے ساتھ تجھ پر ظاہر ہوا، اس کی طرف دنیا کو بلا کیونکہ اس سے پہلے اس خدا کی طرف کبھی کسی بلانے والے نے نہیں بلایا.موسیٰ نے بھی بظاہر اسی خدا کی طرف بلایا، عیسی نے بھی بظاہر اسی خدا کی طرف بلایا اور دوسرے بلانے والے بھی بظاہر اسی خدا کی طرف بلاتے رہے لیکن وہ رب جو محمد مصطفی " پر ظاہر ہوا اور اپنی پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہوا اس رب کے تصور میں اور موسیٰ“ کے رب کے تصور میں زمین و آسمان کا فرق ہے.بظاہر ذات ایک ہے لیکن جلوہ گری مختلف ہے.چنانچہ طور سینا کا جو واقعہ گزرا ہے جس کا قرآن کریم میں بھی ذکر ملتا ہے اس میں یہی اشارہ تھا کہ حضرت محمد مصطفی عملے کا رب اس شان کا رب تھا کہ موسیٰ اس کی تجلی کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا.باوجود اس کے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام
خطبات طاہر جلد ۲ 109 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء کو کلیم اللہ کہا جاتا ہے.خدا بار بار اس سے کلام کرتا رہا لیکن جب خدا موسی“ پر ظاہر ہوا تو وہ اپنی شان میں اور اپنے جلال میں اور اپنے جمال میں اس سے مختلف تھا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ظاہر ہوتا تھا.چنانچہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ خبر دی گئی کہ ایک عظیم الشان نبی آنے والا ہے جسے میں ایک خاص جلوہ دکھاؤں گا تو وہ بضد ہو گئے اور اصرار کرنے لگے کہ اے خدا! مجھے بھی وہ چہرہ دکھا.اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وہ آیت نازل ہوئی کہ میں پہاڑ پر وہ تجلی ظاہر کرتا ہوں اگر پہاڑ اس تجلی کا متحمل ہو جائے تو پھر میں تجھے بھی دکھا دوں گا.یہ ایک کشفی نظارہ تھا.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق قرآن کریم میں آتا ہے کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑے یعنی وہ بجلی ابھی ان پر نازل نہیں ہوئی تھی.تجلی بظاہر پہاڑ پر نازل ہوئی تھی جس کا پہاڑ تو کیا متحمل ہوسکتا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام جو پاس کھڑے تھے وہ بھی بے ہوش ہو گئے.جیسا کہ میں نے کہا ہے یہ ایک کشفی نظارہ تھا.حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی تجلیات پہاڑوں پر نازل نہیں ہوا کرتیں خصوصاً وہ خدا جو آنحضور ﷺ پر روشن ہوا وہ تو ایک کامل باشعور ہستی پر ہی روشن ہوسکتا تھا اس لئے پہاڑ بھی ایک تمثیل ہے جیسا کہ قرآن کریم کی بعض دوسری آیات میں واضح طور پر یہ فرما دیا گیا ہے کہ پہاڑ کا یہ لفظ ہم تمثیل کے طور پر بولتے ہیں.فرمایا: وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ (الحشر : ۲۲) تم ظاہرا پہاڑ نہ سمجھ لینا.مراد یہ ہے کہ لوگ سمجھ سکیں کہ اتنی عظیم الشان وحی ہے کہ گویا اگر پہاڑوں پر نازل ہوتی تو ان کا سینہ بھی پھاڑ دیتی.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو یہ مضمون اس کشف میں سمجھا دیا گیا کہ تم اس لائق نہیں کہ محمدمصطفی ﷺ کا رب تم پر بھی اسی طرح ظاہر ہو جائے.پس اُدْعُ إِلى سَبِيْلِ رَبَّكَ میں محض اللہ کی طرف بلا نا مراد نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفیٰ پر جس شان سے خدا ظاہر ہوا تھا اس تمام شان کی طرف بنی نوع انسان کو بلا نا مقصود ہے اور وہ خدا ایسا ہے جو رب العالمین ہے.موسیٰ“ کا خدا تو رب العالمین کے طور پر ظاہر نہیں ہوا تھا وہ تو بنی اسرائیل کے خدا کے طور پر ظاہر ہوا تھا.ہندوستان میں خدا ظاہر ہوا ، وہ ہندو دھرم کے لئے کرشن کو مظہر بنا کر ظاہر ہوا اور کنفیوشس کا خدا صرف چین کے لوگوں کو بلانے کے لئے تھا اور اسیران میں زرتشت
خطبات طاہر جلد ۲ 110 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء کا خدا ظاہر ہوا لیکن صرف ایرانیوں کے لئے.پس اس مضمون میں ربک کہہ کر جو نسبت دی گئی ہے اس میں بہت ہی وسیع مضمون بیان کر دیئے گئے ہیں.قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی رب محمد (ﷺ) کی صفات بیان کی گئی ہیں، اہل علم اگر غور کریں تو ان کو ہر دوسرے مذہب کے مقابلہ میں ان صفات میں ایک امتیازی فرق نظر آئے گا.غرض اس آیت میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کو اس خدا کی طرف بلاؤ جو آنحضرت ﷺ کا خدا ہے اسی لئے یہاں مخاطب صرف حضور اکرم ﷺ کو کیا گیا ہے اگر چہ پیغام تمام مسلمانوں کے لئے ہے.یہ تو نہیں فرمایا کہ اے محمد ! تو اکیلا نکل جا اور تبلیغ شروع کر دے اور تیرا کوئی ساتھی تیرے ساتھ نہ چلے.آنحضرت ﷺ کو مخاطب کیا گیا لیکن پیغام تمام مسلمانوں کے لئے ہے.اب سوال یہ ہے کہ پھر رَبِّكُمُ کیوں نہیں کہا؟ اس لئے نہیں کہا کہ اس معاملہ میں جہاں تک صفات باری تعالیٰ کا تعلق ہے اس میں ہر انسان کا رب مختلف ہو جاتا ہے.اتنا بدل جاتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ ہر انسان کا خدا گویا الگ الگ ہے.اس میں کیا حکمت ہے؟ حضور اکرم ﷺ نے اس حکمت پر بھی روشنی ڈالی ہے.آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا ہے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي ( صحیح بخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ و یحذرکم اللہ نفسہ ) میں تو اپنے بندوں کے ظن کے مطابق اپنی شکلیں ڈھال لیتا ہوں.جیسا جیسا کسی کا وسیع حوصلہ ہوگا ویسا ہی وسیع خدا اس پر جلوہ گر ہوگا.جیسا جیسا تنگ نظر انسان ہو گا ویسا ہی گویا تنگ صفات والا خدا اس پر ظاہر ہوتا اسے محسوس ہوگا.اس مضمون میں ایک اور بہت بڑے فلسفیانہ مسئلہ کو حل کر دیا گیا ہے.خدا تعالیٰ تو لا متناہی ہے لیکن مخلوق لا متناہی نہیں اس لئے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر خدا تعالیٰ کا اپنی ہر مخلوق سے تعلق کیسے قائم ہوسکتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا حل یہ پیش کر دیا کہ میں تو تمہارے ظروف کے مطابق ظاہر ہوتا ہوں ورنہ تو کوئی ظرف ایسا ہے ہی نہیں جو خدا کے تمام جلووں کو اپنی ذات میں سمیٹ سکے.پس یہ خدا کی رحمت کا ایک نشان ہے جس کی حضور اکرم ﷺ نے اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِی ہی میں خبر دی ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ میں تو اپنے بندہ کی طاقت کے مطابق اس پر ظاہر ہوتا ہوں.اگر اپنی طاقت کے مطابق ظاہر ہوں تو تمام کائنات میں ایک بھی وجود ایسا نہیں جو میری ذات کو اپنے دل کے تصور کے طور پر بھی جگہ دے سکے.
خطبات طاہر جلد ۲ 111 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء پس اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّت میں آنحضرت ﷺ کا خدا ہے جو پیش نظر ہے.فرمایا تمام دنیا کو خدا کے اس وسیع تر تصور کی طرف بلاؤ جو محمدمصطفی ﷺ کے اوپر ظاہر ہوا.پھر حسب توفیق وحسب مراتب کوئی اس خدا کے بعض جلووں کا مستحق اور حقدار بن جائے گا، کوئی بعض دوسرے جلووں کا مستحق اور حقدار بن جائے گا.مگر محد مصطفی ﷺ کا خدا جس جس پر جتنا جتنا بھی ظاہر ہوگا وہ اس کے لئے الله رحمتوں کے ابدی اور لامتناہی سلسلے کھولتا چلا جائے گا کیونکہ محمد مصطفی علیہ رحمۃ للعالمین ہیں اور آپ کا خدا رب العالمین.گویا صرف یہی دو کھڑکیاں ہیں جن کے رستے ہم محمد مصطفی معہ کے رب کا تصور باندھ سکتے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے یہ مضمون تو ایک نہ ختم ہونے والا مضمون ہے.قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ پر ظاہر ہونے والے خدا کا جو تصور پیش کیا ہے اس کا تمام کائنات کے مذاہب کے مشتر کہ تصور سے بھی موازنہ کر کے دیکھیں تو دل اس اطمینان سے بھر جائے گا کہ یہ خدا ان سب کے خداؤں کی مجموعی شان سے بھی کہیں زیادہ بلند و برتر ہے.ذات وہی ہے اس بات میں تو کوئی ابہام صلى الله نہیں رہنا چاہئے لیکن وہ ذات ظاہر کس طرح ہوئی، یہ ہے فرق.اسی طرح آنحضور ﷺ پر اس ذات کی جلوہ گری باقی تمام انبیاء پر ظاہر ہو نیوالے خدا کی جلوہ گری سے کمیت کے لحاظ سے بھی اور کیفیت کے لحاظ سے بھی ارفع اور اعلیٰ ہے.پس اتنے عظیم الشان پیغام کے آپ لوگ امین بنائے گئے ہیں جب تک اس رب سے تعلق پیدا نہیں ہو گا اس کا حق کس طرح ادا کریں گے اور اس کے امین کس طرح بنیں گے اور ساتھ ہی یہ پیغام بھی دے دیا گیا کہ چونکہ تمہارا رب ، رب العالمین ہے اس لئے دنیا کے تمام مذاہب اور تمام لوگوں کو تم نے مخاطب کرنا ہے.کوئی ایک خیال، کوئی ایک نظریہ، کوئی ایک خطہ ارض کوئی کالا ، کوئی گورا اس پیغام سے باہر نہ رہے اور اسے اس طرح عام کر دیتا ہے کہ زمین کا کوئی چپہ ایسا نہ رہے جو حضور اکرم ﷺ پر ظاہر ہونے والے خدا کی رحمت سے محروم رہ جائے.پھر اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّت میں آزادی مذہب کا بھی اعلان کر دیا گیا اور وہ اس طرح که اگر آنحضرت ﷺ کو اپنے رب کی طرف بلانے کا حق ہے تو لا ز ما تمام دنیا میں ہر شخص کو اپنے اپنے تصور کے مطابق رب کی طرف بلانے کا حق ہے.(اس موقع پر اچانک لاؤڈ اسپیکر بند ہو گیا جسے ٹھیک کرنے
خطبات طاہر جلد ۲ 112 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء میں چند منٹ لگے.اس توقف کے بعد حضور نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے فرمایا ) میں یہ بتا رہاتھا کہ اُدْعُ إلى سَبِيلِ رَبِّكَ میں آنحضرت ﷺ کو جو یہ حق دیا کہ آپ اپنے رب کی طرف لوگوں کو بلائیں تو اس میں گویا آزادی مذہب اور آزادی ضمیر کا بھی اعلان کر دیا گیا.کیونکہ اگر ایک شخص کو یہ حق ہے کہ اس رب کی طرف دنیا کو بلائے جس رب کو وہ حقیقتا رب سمجھتا ہو تو تمام دنیا میں ہر انسان کو یہ حق مل جاتا ہے ورنہ ایک کو بھی نہیں ملتا اس لئے اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رب میں ایک عظیم الشان اعلان ہے اور اس کے ذریعہ تمام دنیا کے ہر انسان کو اپنے رب کی طرف بلانے کی ایک ایسی آزادی دی گئی ہے جسے دنیا میں کوئی چھین نہیں سکتا.اگر ایک کی آزادی پر تبر رکھو گے تو تمام دنیا میں ہر انسان کی آزادی پر تبر پڑ جائے گا.اس مضمون کو ظاہر کرنے کے بعد اب آگے جا کر یہ آیت ایک اجتماعی شکل میں مسلمانوں سے خطاب کرنے لگے کی اور پھر آنحضرت ﷺ کی طرف لوٹ آئے گی.یہ ایک بہت ہی پیارا فصیح و بلیغ کلام ہے جس کی کوئی مثال آپ کو دنیا میں نظر نہیں آسکتی.جب یہ فرمایا اُدْعُ اِلى سَبِيلِ رَبِّكَ تو اس ضمن میں پہلی بات جو تبلیغ کی حکمت عملی کے طور پر بیان فرمائی گئی وہ ہے بِالْحِكْمَةِ اور پھر فرمایا وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ - موعظہ حسنہ یعنی اچھی بات جس کی طرف بلانا مقصود ہے، اس کو بعد میں رکھا اور بِالْحِكْمَةِ کو پہلے رکھ دیا.پھر آخر پر فرمایا وَجَادِلْهُمْ.اب ان سے تم مقابلہ کرو، مجادلہ کرو، لیکن بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ایسے رنگ میں مجادلہ کرو جو نہایت ہی حسین ہو بلکہ تمام حسنوں سے بڑھ کر حسین ہو.بِالْحِكْمَةِ میں حکمتوں کا ایک بہت ہی وسیع مضمون ہے.ایک چھوٹے سے لفظ کے اندر مسلمان کو تبلیغ کے ایک بنیادی اصول کی طرف توجہ دلا دی ہے.ہر شخص کی حکمت الگ ہوتی ہے، ہر ماحول کی حکمت الگ ہوتی ہے، ہر وقت کی حکمت الگ ہوتی ہے، ہر قوم کی حکمت الگ ہوتی ہے.اس لئے اس لفظ کو آزاد چھوڑ دیا گیا تا کہ حسب حال جو بھی حکمت کا بہترین طریق ہے وہ تم اختیار کر سکو.اس میں مومن کے لئے غور اور تدبر اور فکر کی ایک عظیم الشان دعوت ہے.کوئی مومن جو اس آیت کے تابع مبلغ بننا چاہے جب تک وہ اپنے دماغ کو بڑی گہرائی اور بصیرت کے ساتھ استعمال نہیں کرتا وہ مومن بننے کا اور مبلغ بننے کا حق نہیں رکھتا.حکمت میں جو مختلف امکانی پہلو ہیں وہ تو جیسا
خطبات طاہر جلد ۲ 113 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء کہ میں نے بیان کیا ہے ایک لامتناہی مضمون پر مشتمل ہیں.لیکن میں اس وقت چند ایک کی وضاحت کر دیتا ہوں تا کہ جب آپ کو میں مبلغ بنانا چاہتا ہوں تو آپ کو تبلیغ کے ان تقاضوں کا بھی علم ہو جو قرآن آپ سے کرتا ہے.اس کے بغیر تو بغیر ہتھیا لڑنے والی بات ہوگی.حکمت سے بلانا جبر سے بلانے کے بالکل برعکس ہے.حکمت سے بلانے کی ایک مثال یہ ہے کہ کوئی بچہ دیوار کے کنارہ پر پہنچا ہو اور گرنے والا ہو، اگر آپ اس کو بلند آواز سے بھی بلائیں گے تو خطرہ ہے کہ دوسری طرف جا پڑے.بعض دفعہ زمیداروں کے گھوڑے چھٹ جاتے ہیں.اگر ان کی طرف کوئی بے وقوفی سے دوڑ پڑے تو وہ اور بھی دور نکل جاتے ہیں اور کبھی قابو نہیں آتے.ان کو پرکار کر کبھی ہاتھ میں کوئی چیز دکھا کر کبھی چارہ کاٹ کر لے لیا اور وہ دکھا کر بڑے پیار سے بلانا پڑتا ہے.چنانچہ جس طرح جانور بدکتے ہیں اسی طرح انسان بھی انسانوں سے بد کہتے ہیں.تاریخ مذاہب ہمیں یہ بتاتی ہے کہ سب سے زیادہ بدکنے کا منظر اس وقت دکھائی دیتا ہے جب خدا کی طرف سے کوئی بندہ ظاہر ہوتا ہے.جب خدا کی طرف سے کوئی بلانے والا آتا ہے تو اس وقت قوم سب سے زیادہ بد کا کرتی ہے.چنانچہ قرآن کریم اس منظر کو یوں پیش کرتا ہے کہ اے محمد مصطفی ! یہ لوگ تجھ سے اس طرح بھاگ رہے ہیں، تیرے پیغام سے اس طرح بدک رہے ہیں جیسے شیر سے دوسرے جانور.مثلاً بھیڑ، بکریاں اور گائیں وغیرہ بدک جایا کرتی ہیں.چنانچہ قرآن کریم نے فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَةٍ (المدثر (۵۲) کہہ کر اس کا نقشہ کھینچا ہے.جس طرح شیر کی دہشت ہوتی ہے کہ وہ کھا جائے گا اور کمزور جانور اس سے ڈر کر بے اختیار بدکتے ہیں.اسی طرح گو یا لوگ تیرے پیغام سے بدک رہے ہیں.چنانچہ حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ ہم کس کی طرف بلانے والے ہیں.تاریخ عالم ہمیں کیا بتا رہی ہے کہ ایسے پیغامات کا نتیجہ کیا نکلا کرتا ہے.قرآن کی تاریخ بڑی واضح ہے.سب سے پیارا قول تو یہی ہے کہ خدا کی طرف بلاؤ.خدا کی طرف بلانے کے نتیجہ میں لوگ سب سے زیادہ متنفر ہوا کرتے ہیں.تو اس حکمت کا طبعی تقاضا یہ نکلا کہ اتنی ہی زیادہ نرمی ہونی چاہئے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو اس طرح ظاہر کیا کہ آنحضرت علی کو رحمتہ للعالمین قرار دے دیا.فرمایا کہ چونکہ اس پر بوجھ بہت بڑا ہے اور دنیا اس سے بدکنے والی ہے اس لئے اس کا جواب یہ ہے کہ ساری دنیا سے اتنا پیار کرنے والا ہو کہ اس کا پیار غالب آجائے اور مقابلہ میں مخالفین کی نفرتیں
خطبات طاہر جلد ۲ 114 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء ٹوٹ جائیں.گویا جتنا بڑا بوجھ تھا اتنا ہی بڑا علاج بھی عطا فر ما دیا.اتنی ہی بڑی مقابل پر طاقت بھی عطا فرما دی.پس حکمت کے تقاضے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ سب سے پہلے ہمیں تاریخ پر نظر ڈالنی چاہئے اور تاریخی واقعات کی روشنی میں یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ اس دشمنی کا علاج اپنی بڑھی ہوئی محبت اور حد سے زیادہ تلطف سے ہم دیں گے تب ہماری بات مانی جائے گی ورنہ نہیں مانی جائے گی.حکمت کا دوسرا تقاضا جسے عموماً نظر انداز کر دیا جاتا ہے وہ ہے موقع اور محل کے مطابق بات کرنا.ہر بات اپنے موقع پر اچھی لگتی ہے.ایک آدمی کو اپنے کام میں جلدی ہے یا خیالات میں افراتفری ہے اور آپ اس کو پیغام دینا شروع کر دیں تو یہ بات موقع اور محل کے مطابق نہیں ہے.اسی طرح اگر ایک آدمی اتنا کمزور ہے کہ وہ سوسائٹی سے ڈرتا ہے.اگر آپ مجلس میں جا کر اس طرح اس سے گلے ملیں گویا وہ آدھا احمدی ہو چکا ہے یا آدھے سے زیادہ احمدی ہو چکا ہے تو اس طرح آپ اس کو بد کا دیں گے.وہ خوف محسوس کریگا کہ اوہو میں تو پکڑا گیا ایسے تعلق میں کہ اب دنیا مجھے ذلیل کر دے گی.یہ بھی حکمت کے خلاف ہے.چنانچہ اس مضمون کو آپ غور سے پھیلا کر دیکھیں تو بہت سے دوست تبلیغ کے معاملہ میں ایسی غیر حکیمانہ باتیں کرتے نظر آتے ہیں.ایک طرف سے وہ دوست بنارہے ہوتے ہیں تو دوسرے رستے سے دوستوں کو باہر نکال رہے ہوتے ہیں.پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ جب نفرت ہو تو اچھی چیز بھی پیش کی جائے تو انسان اس کو پسند نہیں کرتا.جب تک پیش کرنے کا طریقہ اتنا اچھا نہ ہو کہ وہ اس نفرت پر غالب آجائے اس وقت تک تبلیغ کارگر نہیں ہوتی.مثلاً اگر ایک شخص دشمنی کی حد تک مخالفت کرتا ہے.آپ اگر اس کو کھانا پیش کریں تو بسا اوقات وہ بھوکا بھی ہوگا تو کہے گا مجھے اس میں دلچسپی نہیں، جاؤ تم کھاؤ.لیکن اگر اس کو اس طریق پر کھانا پیش کیا جائے کہ گویا آپ بچھ گئے ہیں، آپ کی جان اس پر فدا ہورہی ہے تو وہ دشمن بھی ہوگا تو بعض دفعہ اس کے دل میں انسانیت جوش مارے گی اور وہ کہے گا کہ یہ میرے سامنے اتنا گر رہا ہے تو میں ایک لقمہ کھالوں.اس کے برعکس بعض ایسے بیوقوف بھی ہوتے ہیں جو دوست سے زیادہ بے تکلف ہو جاتے ہیں.دوست کو اپنے گھر بلایا ہوا ہے اور اس سے ایسی بے تکلفی سے پیش آتے ہیں کہ جو بد تمیزی کی حد تک پہنچ جاتی ہے.کہتے ہیں اچھا، کھانا ہے تو کھا ؤور نہ بھاگ جاؤ.وہ
خطبات طاہر جلد ۲ 115 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء اپنی طرف سے پیار سے کہتے ہیں لیکن یہ طرز عمل حکمت کے خلاف ہے.جو آدمی گھر میں آیا ہوا ہوتا ہے اس کے جذبات بڑے نازک ہوتے ہیں.چنانچہ بعض دفعہ ایسے دوست پھر کہہ دیتے ہیں جاؤ جہنم میں تم کھاؤ میں کھاتا ہی نہیں.اسی بات پر بعض دفعہ لڑائیاں بھی ہو جاتی ہیں.پس آپ کا جو کام ہے وہ انتہائی نازک ہے.جہاں ایک طرف آپ کو اسوہ نبوی میں دوسروں کے لئے بے انتہا رحمت بننا پڑے گا وہاں طرز کلام بھی نہایت حکیمانہ اختیار کرنی پڑے گی اور یہ سوچ کر بات کرنی ہوگی کہ عام باتوں سے وہ دوست بہر حال بد کیں گے.ان کے لئے زیادہ ملائمت کے ساتھ بات کرنے کی ضرورت ہے، زیادہ پیار کی ضرورت ہے اور پھر ان کے حالات کو مدنظر رکھ کران کے تقاضے بھی پورے کرنے پڑیں گے.بہت سے واقعات میرے علم میں ہیں جہاں احمدی دوستوں نے بعض لوگوں کو خود بد کا دیا اور کچی حالت میں پھل توڑنے کی کوشش کی یہ بھی حکمت کے خلاف ہے.بعض لوگوں کے اندر نمبر بنانے کی بڑی تمنا ہوتی ہے وہ چاہتے ہیں کہ جلدی سے جلدی ہمارے نمبر بنیں.چنانچہ بعض لوگ تعارف کرواتے وقت ابھی دو تین باتیں ہی ان سے کی ہوئی ہوتی ہیں تو وہ ان سے کہہ اٹھتے ہیں کہ جی یہ صاحب میرے زیر تبلیغ ہیں اور میں ان کو خوب تبلیغ کر رہا ہوں اور یہ قریب آرہے ہیں، آپ دعا کریں اور مجھے اس کا بگڑتا ہوا چہرہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ یہ کیا بے ہودہ باتیں کر رہا ہے.تو یہ بھی حکمت کے خلاف ہے.حکمتوں کے تقاضوں میں سے ایک اور تقاضا یہ ہے کہ انسانی مزاج کو سمجھ کر بات کی جائے اور اس طریق کو بھی ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہر عمارت کا ایک نقشہ ہوتا ہے اور اس نقشے کے مطابق اس عمارت میں داخل ہونا پڑتا ہے اور اس کے کمروں کے بھی اپنے اپنے نقشے ہوتے ہیں.ان کے مطابق رستے تلاش کر کے ان میں داخل ہونا پڑتا ہے.آپ یہ تو نہیں کرتے کہ چونکہ یہ عمارت ہے اس میں رہنا ہے دیواروں سے ٹکریں مارتے پھریں.اور ہر عمارت ایک الگ طریق پر بنی ہوئی ہوتی ہے کسی کا نقشہ شمال جنوب کے حساب سے ہے، کسی کا مشرق مغرب کے لحاظ سے ہے ، کوئی اور طرح بنا ہوا ہے ایسی طرز پر ہے کہ بعینہ جنوب کی طرف اس کا رخ نہیں اور پھر دروازوں کی شکلیں الگ الگ ہوتی ہیں.ان کی Setting الگ الگ ہوتی ہے.روشنی میں جب آپ دیکھ کر اندر جانے کی کوشش کرتے ہیں تو آپ کو اس کا نقشہ نظر آرہا ہوتا ہے اس لئے آپ
خطبات طاہر جلد ۲ 116 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء بے دھڑک دروازوں میں سے اندر داخل ہوتے ہیں.لیکن نیا آدمی ہو اس کے لئے اس کی مثال بالکل ایسے گھر کی سی ہے جو اندھیرے میں ہے، اس کے راستوں کا اس کو پتہ نہیں.پس اگر آپ بغیر حکمت کے یہ خیال کریں گے کہ ہر طرف سے کسی آدمی کی اسلام میں دلچسپی پیدا کی جاسکتی ہے تو یہ بڑی بے وقوفی ہے.ہر ایک کا اپنا الگ الگ رستہ ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے واقفیت پیدا کرنی پڑے گی.پہلے اپنے لئے روشنی کا انتظام کرنا ہوگا.ایسی روشنی جس میں آپ اس کو پوری طرح دیکھ سکیں ، اس کے مزاج کو پوری طرح پڑھ سکیں اور یہ جان سکیں کہ اس کے رحجانات کیا ہیں، کن باتوں سے یہ بد کتا ہے پھر اس کے مطابق اس سے معاملہ کریں.پھر حکمت کا ایک اور تقاضا یہ ہے کہ اپنے مزاج اور اپنے رحجان کا بھی جائزہ لیں ، ہر انسان ہر قسم کی تبلیغ نہیں کر سکتا ہے.اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو اپنے اپنے رنگ میں استعداد میں عطا فرمائی ہیں.ہر انسان کی دوسرے سے استعدادیں مختلف ہیں.بعض ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کو خدا نے ایسی شخصیت دے رکھی ہوتی ہے کہ وہ تمام دنیا میں درویشانہ پھریں دنیا ان کو بطور درویش قبول کر لیتی ہے اور وہ بطور درویش ایک کامیاب زندگی گزارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں.قادیان میں ایک ایسے ہی صاحب تھے جن کا مزاج خدا نے ایسا بنایا تھا.ان کے اندر شخصیت کی جاذبیت بھی بخشی تھی.انہوں نے چولہ پہن لیا تھا اور اس پر مختلف عبارتیں اور دعوت کے کلمات لکھ کر وہ تمام دنیا میں فقیرانہ پھرتے رہے اور جب تک زندہ رہے وہ اسی طرح تبلیغ کرتے رہے.لیکن ہر شخص یہ کام تو نہیں کر سکتا کیونکہ ہر ایک کی استعداد الگ ہے، اس کا مزاج الگ ہے، اس کی ذمہ داریاں الگ الگ ہیں اس لئے ہر ایک کو اپنی استعداد کو بھی دیکھنا ہوگا.ہمارے بعض سائیکل سوار ہیں.مثلاً قریشی محمد حنیف صاحب ہیں، انکی استعداد یہی ہے، وہ اس کے مطابق تبلیغ کر رہے ہیں لیکن یہ کہنا کہ کسی شخص میں تبلیغ کی استطاعت نہیں ہے، یہ غلط ہے.یہ اللہ تعالیٰ پر الزام ہے اور یہ کہنا بھی درست ہے کہ ہر شخص کی استعداد چونکہ مختلف ہے اس لئے مقابل کے انسان سے معاملہ بھی الگ الگ کرنا پڑے گا.اب دیکھ لیجئے ان دونوں کی Combination یعنی ملاپ سے مختلف مسائل سامنے آتے ہیں.یعنی آپ کے مد مقابل بھی بے انتہا مزاجوں والے ہیں.ان کے اندر داخلوں کے رستے الگ الگ ہیں انہیں سمجھانے کے طریق بالکل الگ الگ ہیں ہر شخص کی ایک انفرادیت ہے اس کے مطابق اس سے بات
خطبات طاہر جلد ۲ 117 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء کرنی ہوگی اور آپ کے بھی مزاج الگ الگ ہیں ، خدا نے آپ کی استعداد میں الگ الگ بنائی ہیں ان کو مدنظر رکھ کر اپنے لئے ایک صحیح رستہ تجویز کرنا ہوگا کہ میں کیا ہوں اور میں کس طرح اس فریضہ کو بہترین رنگ میں ادا کر سکتا ہوں.بعض لوگوں کو بولنا نہیں آتا ، بعض لوگوں کو لکھنا نہیں آتا ، بعض لوگ پبلک میں لوگوں کے سامنے شرماتے ہیں لیکن علیحدہ چھوٹی مجلس میں بہت اچھا کلام کر لیتے ہیں، بعض لوگ عوامی مجلسوں میں بڑا کھلا خطاب کر لیتے ہیں تو خدا نے جو مزاج بنایا ہے اگر کوئی اس مزاج سے ہٹ کر بات کرے گا تو اس سے جگ ہنسائی ہوگی.مجھے یاد ہے ماڈل ٹاؤن لاہور میں پارٹیشن کے معابعد کی بات ہے وہاں ہمارا ایک بچہ تھا.وہ جب بھی لوگوں کو تقریر کرتے دیکھتا تو اس کو بھی بڑا جوش آتا تھا کہ میں بھی تقریر کروں اور حالت یہ تھی کہ نہ اس کو اس وقت تقریر کرنی آتی تھی نہ آج تک آسکی.اس بیچارے کا مزاج ہی ایسا نہیں کہ تقریر کر سکے لیکن ایک دفعہ اطفال الاحمدیہ کا جلسہ ہو رہا تھا تو اس نے بڑے زور وشور سے ہاتھ ہلانا شروع کیا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں.آخر ان کے زعیم صاحب نے یہ کہہ کر ان کو موقع دیا کہ اچھا اب آپ تشریف لائیں اور جو کچھ کہنا چاہتے ہیں کہیں.چنانچہ جب وہ تقریر کرنے کے لئے وہاں کھڑا ہوا تو پہلے تو کانپنے لگا اور پھر زار و قطار رونے لگ گیا.بیچارہ اتنا نروس ہو گیا کہ ایک لفظ بھی اس کے منہ سے نہ نکل سکا.اس کو بڑی تسلیاں دیں، پیار کیا، شاید کچھ انعام بھی دیا اور آرام سے بٹھا دیا.اگر چہ تقریر کرنے کی اس میں استعداد نہیں ہے لیکن (Table Talk) ٹیبل ٹاک وہ بہت اچھی کرتا ہے.اس لحاظ سے خدا کے فضل سے بہت اچھا مبلغ ہے.دو یا تین آدمیوں کے ساتھ مل کر کھانے کی میز پر یا چائے پر وہ ایسی پیار سے اور ایسی حکمت سے باتیں کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جہاں بھی وہ تبلیغ کرتا ہے اس کا گہرا اثر پڑتا ہے.پس حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ صرف دوسرے کی استعداد نہ دیکھو، اپنی استعداد بھی دیکھو.پھر وقت الگ الگ ہوتے ہیں اور زمانے الگ الگ ہوتے ہیں.وقت کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں، زمانوں کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں.ایک زمیندار خوب اچھی طرح سمجھتا ہے کہ جب وہ فصل کاشت کرتا ہے تو اس کا ایک خاص وقت ہوتا ہے اور جب وہ برداشت کرتا ہے تو اس کا بھی ایک وقت ہوتا ہے.انسان بے اختیار ہے وہ اگر چاہے بھی تو وقت اور زمانے کے تقاضوں کو بدل
خطبات طاہر جلد ۲ 118 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء نہیں سکتا.البتہ بعض دفعہ نفسیاتی لحاظ سے ایسے مواقع پیدا ہو جاتے ہیں جن میں ہدایت کو قبول کرنے کا ایک خاص وقت ہوتا ہے.حکمت کا یہ تقاضا ہے کہ ان اوقات سے بھی استفادہ کیا جائے اس لئے مختلف وقتوں میں مختلف قسم کی باتیں زیب دیتی ہیں اور وہ اثر کرتی ہیں.مثلاً جب غم کی کیفیت ہو تو اس وقت اور قسم کی بات کی جاتی ہے اور جب خوشی کی کیفیت ہو تو اور طرح کی بات کی جاتی ہے اسی طرح جب خوف و ہراس کا زمانہ ہو تو اور طریقے سے بات کرنی پڑے گی.اس سلسلہ میں مجھے بہت سے دوست واقعات بتاتے رہتے ہیں.خود میرے علم میں ایسے بیسیوں واقعات ہیں کہ ایک احمدی نے جب بھی حکمت سے کام لیا اور موقع محل کے مطابق بات کی تو بہت جلدی اس کا پھل لگا.چنانچہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا ہمارے ایک معلم وقف جدید تھے جو ان پڑھ تھے.سو فیصدی تو نہیں لیکن ان پڑھ کے قریب ترین جو آدمی ہوتا ہے وہ ان کی کیفیت تھی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تبلیغ کو سب سے زیادہ پھل لگتا تھا کیونکہ جوعلم کی کمی تھی وہ اس کو دعا اور حکمت کے ذریعہ پوری کرتے تھے.چنانچہ موقع اور محل کی تلاش میں رہنا اور حسب حالات گفتگو کرنا ان کا شیوہ تھا.کہیں شادی کی مجلس ہے تو شادی کی باتیں اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کلام شروع کر دیا جو خوشی کے موقع کا کلام ہے.اگر غم کی کیفیت ہے تو اس میں صبر کی تلقین کرتے کرتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی واقعہ سنادیتے کہ آپ کو جب دکھ پہنچتے تھے تو آپ یوں کیا کرتے تھے.غرض اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت ہی حکمت عطا کر رکھی تھی.ایک مولوی صاحب تھے جوان کے بہت شدید مخالف تھے ایسے مخالف کہ کئی دفعہ ان کو مار پڑوا کر اپنے گاؤں سے باہر نکلوا چکے تھے.مگر یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے دُھن کے ایسے پکے اور ایسے بے خوف انسان تھے کہ کبھی پرواہ نہیں کی.بار بار ماریں بھی کھائیں مگر پھر بھی ان کے پاس پہنچ جاتے تھے یہاں تک کہ مولوی صاحب تھک گئے اور انہوں نے مارنا پیٹنا چھوڑ دیا.پھر تھوڑی بہت باتیں شروع ہوئیں لیکن مولوی صاحب اپنی ضد پر قائم اور یہ اپنے فرض تبلیغ پر قائم رہے.ایک دفعہ کسی کی تدفین کے لئے مولوی صاحب جا رہے تھے تو یہ بھی ساتھ چل پڑے.جب وہ میت کو لحد میں اتارنے لگے تو اس وقت ان کو خیال آیا که مولوی صاحب نہ دلیل سے قابو آتے ہیں اور نہ تبشیر سے قابو آتے ہیں ہوسکتا ہے ڈرپوک ہوں خوف سے قابو آجائیں.چنانچہ جب وہ میت کو لحد میں اتارنے لگے تو انہوں نے بڑی جرات کے
خطبات طاہر جلد ۲ 119 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء ساتھ آگے بڑھ کر مولوی صاحب کو گریبان سے پکڑ لیا اور کہا مولوی صاحب! ایک منٹ ٹھہر جائیں.مجھے یہ بتائیں کہ جہاں آپ اس مردے کو داخل کر رہے ہیں یہ وہاں سے کبھی واپس آجائے گا.مولوی صاحب نے تعجب سے دیکھا اور کہا کہ کبھی مڑ کر واپس نہیں آسکتا.یہ بولے کہ گویا اس کے اعمال کا دور ختم ہوگیا ، اب پھر اس کو اعمال کا موقع نہیں ملے گا، جو خدا نے اس سے پوچھنا ہے وہ اس سے پوچھے گا اور یہ بے بس ہو گا واپس نہیں جاسکتا، اپنے اعمال میں کچھ بھی تبدیلی نہیں کر سکتا.مولوی صاحب نے کہا ٹھیک ہے.انہوں نے کہا پھر آپ کے ساتھ بھی یہی ہونا ہے اور یہ کہہ کر الگ ہو گئے.رات مسجد میں سوئے ہوئے تھے تو جس طرح حضرت مولوی راجیکی صاحب کا واقعہ آتا ہے ویسا ہی ملتا جلتا واقعہ ان کے ساتھ بھی پیش آیا.وہی مولوی صاحب آدھی رات کے وقت روتے پیٹتے پہنچ گئے کہ میری بیعت کرواؤ.انہوں نے کہا کہ آپ کی بیعت کرواتے ہیں لیکن یہ تو بتائیں ہوا کیا ہے.انہوں نے کہا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ حساب کتاب ہو رہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھ سے سوال ہی یہ کیا کہ امام مہدی کا زمانہ پایا تھا تو تم نے کیا کیا اور میں چیختا چلاتا ہوں اور میں کہتا ہوں مجھے واپس جانے دو، میں سمجھ گیا ہوں لیکن کہا گیا اب کوئی وقت نہیں رہا.چونکہ ہمارے معلم نے موقع اور محل کے مطابق بات کی تھی اور قرآن کریم نے وعدہ کیا ہے کہ اگر حکمت کے ساتھ بات کرو گے تو اس کا پھل بھی پاؤ گے.چنانچہ وہ مولوی صاحب خدا کے فضل سے صرف احمدی ہی نہیں ہوئے بلکہ اتنے مخلص اور خود دار احمدی بنے کہ میں نے از خود یہ سوچ کر کہ وہ مولوی تھے ان کے گزارہ کی کوئی صورت نہیں رہی ہوگی پیشکش کی کہ آپ کو وقتی طور پر جب تک آپ کو ضرورت ہے آپ کے لئے کچھ گزارہ مقرر کر دیتے ہیں.انہوں نے کہا بالکل نہیں میں اپنا ایمان خراب نہیں کرنا چاہتا.چنانچہ انہوں نے اسی گاؤں میں چھا بڑی لگائی اور جو کچھ بھی روکھی سوکھی میسر آئی اس سے گزراوقات کیا اور ایک مبلغ بن گئے.پس حکمت سے بات کرنے کے لامتناہی تقاضے ہیں.اگر آپ ان کو نظر انداز نہ کریں اور بیدار مغزی کے ساتھ ہر موقع سے فائدہ اٹھا ئیں تو ہر جگہ ایک الگ الگ جواب دینے کی توفیق ملے گی.کوئی ایسا قانون نہیں ہے جو اکٹھا بتا دیا جائے اور وہ ہر صورت حال پر اطلاق پا جائے.قرآن کریم نے جہاں اختصار اختیار فرمایا ہے وہ بھی کمال شان کا اختصار ہے.ساری حکمتوں کا خزانہ ایک لفظ حکمت میں رکھ دیا.فرمایا موقع اور محل کے مطابق تم الگ الگ اس کے ترجمے کیا کرنا الگ الگ معنے
خطبات طاہر جلد ۲ 120 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء حکمت کے نکالا کرنا.اگر تمہارا جواب درست ہوگا تو ہم اس بات کے ذمہ دار ہیں بلکہ ضمانت دیتے ہیں کہ تمہاری کوششوں کو میٹھے پھل لگیں گے.پھر حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ مناسب زمین کا انتخاب کیا جائے.دنیا میں بے شمار مخلوق ہے جس کو خدا کی طرف بلانا ہے.انسان نظری فیصلے سے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ کن لوگوں پر نسبتا کم محنت کرنی پڑے گی ، کن لوگوں پر نسبتا زیادہ محنت کرنی پڑے گی اگر وہ یہ فیصلہ نہ کرے اور نسبتا سخت زمینوں میں محنت کرنی شروع کر دے تو اس کی محنت کو لازماً بہت کم پھل لگے گا.اب یہاں سندھ میں بعض زمینیں ہیں جو بڑی سخت کلر والی ہیں ، بعض زمینیں ہیں جو بڑی زرخیز ہیں اگر تو زمیندار بے چارہ مجبور ہے اس کی زمین ہی تھوڑی ہے تو اس نے لازماً کلر کو ٹھیک کرنا ہی کرنا ہے.وہ محنت کرے گا ، زور لگائے گا لیکن اگر وسیع زمیندارہ ہو یعنی اتنی زمین ہو کہ اس کی سنبھال سے باہر ہو تو اس وقت کوئی بے وقوف ہی ہوگا جو کلر سے کام شروع کرے گا.اس وقت تو انسان اچھی زمینیں چنے گا اور اپنے اختیار اور توفیق کے مطابق اس سے بہترین پھل حاصل کرے گا.لیکن میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ بعض اوقات بعض احمدی بعض ایسے لوگوں کے ساتھ سر مارتے رہتے ہیں جن کے متعلق ان کی فطرت گواہی دیتی ہے کہ یہ ضدی اور متعصب ہیں اور ان کے اندر تقوی نہیں ہے اور اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے تو ہدایت کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے جو تقویٰ رکھتے ہیں، جن کے اندر سچائی کو سچائی کہنے کی ہمت اور حوصلہ ہے.پس ایک دفعہ، دو دفعہ، چار دفعہ جب آپ کسی سے گفتگو کرتے ہیں تو آپ کا ذہن خود ہی آپ کو بتا دیتا ہے کہ یہ نارمل آدمی نہیں ہے.نارمل دلیل کا جو اثر اس پر ظاہر ہونا چاہئے وہ ظاہر نہیں ہو رہا ہوتا.جس طرح زمیندار جب بل لے کر کھیت میں چلتا ہے تو اگر اینٹوں روڑوں والا کھیت ہو تو اینٹ روڑے اس کو بتا دیتے ہیں کہ یہ عام زمین نہیں ، یہ مختلف زمین ہے.پھر جب وہ کسی جگہ بیج پھینکتا ہے اور وہاں کلر کی وجہ سے چیز پوری طرح اگتی نہیں تو خواہ بظاہر کلر نہ بھی نظر آ رہا ہوتب بھی وہ سمجھ جاتا ہے کہ یہ زمین ٹھیک نہیں ہے.بالکل اسی طرح تبلیغ میں بھی حکمت کے تقاضے یہ ہیں کہ اگر آپ کے پاس زمین زیادہ ہے تو اچھی زمین کا انتخاب کریں کیوں وقت ضائع کرتے ہیں ایسی زمین پر جس نے خود اپنے رد عمل سے ظاہر کر دیا ہے کہ میں اس لائق نہیں ہوں کہ جلدی اصلاح پذیر ہو جاؤں اس لیے جو زیادہ لائق ہے اس
خطبات طاہر جلد ۲ 121 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء کا انتخاب کریں.حضرت مسیح علیہ السلام نے ایک بہت ہی عجیب بات کہی تھی جسے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑی بدخلقی کا کلام تھا.الزامی جواب کے طور پر ہم اسے استعمال کرتے ہیں اور کریں گے لیکن اگر آپ اس بات کی حکمت پر غور کریں تو ہے وہی حکیمانہ بات جو ہر نبی کو بجتی ہے.ایک موقع پر آپ نے فرمایا کہ میں سوروں کے سامنے کس طرح موتی ڈال دوں.( متی باب ۷ آیت ۶) مراد یہ تھی کہ تم لوگ جو سامنے آئے ہو تمہاری فطرت گندی ہے.میں جانتا ہوں، خدا تعالیٰ نے مجھے یہ بصیرت عطا فرمائی ہے کہ میں انسان کو پہچانتا ہوں.میرے پاس حق و حکمت کے جو موتی ہیں یہ تو حق داروں کو میں دوں گا جو جلدی قبول کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.سوروں کے سامنے موتی ڈالنا تو میرا کام نہیں ہے.جس طرح ہم اردو میں کہتے ہیں کہ بھینس کے سامنے بین بجانے والی بات ہے اس لئے اگر آپ بھینس کے سامنے بین بجائیں گے اور ناقدروں کے سامنے موتی ڈالیں گے تو ویسا ہی پھل پائیں گے.پس حکمت کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ خوب پہچانیں ،سعید فطرت لوگوں کو چنیں اور ان میں سے بھی پہلے جرات مندوں کو چنیں جو مردانہ صفات رکھتے ہوں.وہ ایسے ہوں کہ آپ کے مددگار بنیں، آپ کے معین بنیں، وہ خود مبلغ بن جائیں.بعض دفعہ ایسے لوگ بھی آتے ہیں جو اس مبلغ سے بڑھ کر مبلغ بن جاتے ہیں جس نے ان کو تبلیغ کی ہوتی ہے.پھر فصل کی نگہداشت کرنا بھی تو حکمت کا تقاضا ہے.آپ اپنی کھیتی میں ہل چلاتے اور محنت کر کے اس میں بیج بوتے ہیں اور پھر پانی بھی دیتے ہیں پھر اس کھیتی کو چھوڑ کر تو نہیں چلے جایا کرتے کہ اب اگلے سال جب پھل کا وقت آئے گا تو برداشت کرلیں گے.بیچ میں کئی چور بھی آئیں گے، ان میں کئی بیماریاں بھی پڑیں گی ، خشک سالی بھی آئے گی، وہ فصل تقاضے بھی کرے گی کہ اس کی تلائی ( گوڈی) کی جائے غرض سوطرح کی محنتیں کرنی پڑتی ہیں.جس طرح ایک بچہ پالا جاتا ہے اسی طرح فصلیں پالی جاتی ہیں.چنانچہ یہاں بھی اسی ایک لفظ حکمت میں یہ بھی بتا دیا گیا کہ تم جب تبلیغ کرتے ہو یا کرو گے تو بہت لطف اٹھاؤ گے کہ آج بڑا مزہ آیا ، بڑی اچھی تبلیغ ہوئی ، لیکن اگر یہ لطف لے کر واپس آجاؤ گے اور پھر دوبارہ اس شخص کی تلاش نہیں کرو گے اور دوبارہ اس سے نہیں ملو گے اور پھر سہ بارہ اس سے نہیں ملو گے اور پھر چوتھی دفعہ اس سے نہیں ملو گے اور پانچویں دفعہ نہیں ملو گے تو تم اپنے پھل سے محروم کر دیئے جاؤ گے کیونکہ وہ نیک اثر ا بھی دائمی نہیں ہوا،
خطبات طاہر جلد ۲ 122 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء ابھی وہ پھل تمہاری جھولی میں نہیں آیا ، ابھی تک وہ غیر کا ہے اور غیر کے قبضہ و تصرف میں ہے اس لئے جب تک وہ تمہارا نہیں ہو جاتا تمہیں مسلسل اس کی طرف توجہ کرنی پڑے گی اگر توجہ نہیں کرو گے تو تمہاری محنتیں ضائع ہوتی چلی جائیں گی.چنانچہ ایسے بھی مبلغ آپ کے علم میں بھی ہوں گے میرے علم میں بھی ہیں کہ وہ چند مجالس کے نتیجہ میں سمجھتے ہیں کہ ہم نے کمال کر دیا، بہت تبلیغ ہوگئی ، لوگ بڑے متاثر ہو کر واپس گئے ہیں.لیکن واپس پھر کہاں گئے؟ یہ پتہ نہیں کرتے.ہمیشہ کے لئے اندھیروں میں واپس چلے گئے ہیں یا دوبارہ واپس آنے کے لئے واپس گئے ہیں اس لئے تبلیغ کرنا یہ بھی حکمت کا تقاضا ہے.حکمت کے اور بھی بہت سے تقاضے ہیں لیکن وقت کی رعایت سے میں ایک آخری بات جو سب باتوں پر حاوی ہے وہ بیان کرتا ہوں.جب تک کسی کھیتی کی آبیاری نہ کی جائے اس وقت تک وہ پھل نہیں دے سکتی اور پانی دو طریق کے ہیں، ایک دنیا میں علم کا پانی جو آپ دیتے ہیں، یہ بھی بہت ضروری ہے لیکن اصل پھل اس فصل کو لگتا ہے جسے آسمان کا پانی میسر آئے اور وہ آپ کے آنسوؤں کا پانی ہے جو آسمان کے پانی میں تبدیل ہوتا ہے.اگر محض علم کا پانی دے کر آپ کھیتی کو سینچیں گے تو ہرگز توقع نہ رکھیں کہ اسے بابرکت پھل لگے گا.لازماً دعائیں کرنی پڑیں گی لازماً خدا کے حضور گریہ وزاری کرنی ہوگی ، اس سے مدد چاہتی ہوگی اور اس کے نتیجہ میں در حقیقت یہ مومن کے آنسو ہی ہوتے ہیں جو باران رحمت بنا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ جب فضل نازل فرمائے گا تو پھر آپ دیکھیں گے دلوں میں حیرت انگیز پاک تبدیلیاں پیدا ہونی شروع ہو جائیں گی.اب میں اور مختصر کرتا ہوا بات چلاتا ہوں.تیسری بات جو اس آیت میں بیان کی گئی ہے وہ موعظہ حسنہ ہے.حکمت کو پہلے رکھا پھر فرمایا موعظہ حسنہ سے کام لو.موعظہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ اس دعوت الی اللہ میں کوئی بھی بحث نہیں، کوئی مجادلہ نہیں، ایک یک طرفہ بات ہے.اس سے پتہ چلا که قرآن کریم بحث و تمحیص کو سب سے آخر پر نمبر دیتا ہے.سب سے پہلے حکمت کو رکھا.حکمت سے جب آپ فضا تیار کر لیتے ہیں، ماحول پیدا ہو جاتا ہے، تو پھر کیا کرنا ہے؟ فرمایا پھر موعظہ حسنہ سے کام لو.موعظہ حسنہ دلیل سے علاوہ ایک ایسی صاف اور کچی اور پاکیزہ نصیحت ہوتی ہے جو اپنے اندر ایک دلکشی رکھتی ہے اور اس کا کسی فرقہ ورانہ اختلاف سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.یہ براہ راست دل سے نکلتی
خطبات طاہر جلد ۲ 123 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء ہے اور دل پر اثر کر جاتی ہے.پس دلیلوں کا نمبر بعد میں آئے گا اس کا بھی قرآن کریم ذکر کرتا ہے.لیکن کہتا ہے ہمیشہ بات موعظہ حسنہ سے شروع کرو.تم لوگوں کو یہ بتایا کرو کہ بھائی مجھے تم سے ہمدردی ہے تم لوگ ضائع ہو رہے ہو، یہ معاشرہ تباہ ہورہا ہے، کیوں تباہ ہورہا ہے اس پر غور کرو.دیکھو! اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والے آتے ہیں اور بلا کر چلے جایا کرتے ہیں اور قو میں غافل رہ جایا کرتی ہیں.میں تمہیں پیغام دیتا ہوں ایسا آنے والا آ گیا ہے.تم اس کو قبول کرو.اب اس میں کوئی دلیل نہیں دی گئی یعنی کوئی ایسی دلیل نہیں دی گئی جس کے جواب میں کوئی الٹا یہ کہے کہ ایسا نہیں ہوتا.اس کا کوئی جواب نہیں ہے.وہ آپ کی بات مانے یا نہ مانے لیکن اس اصول کو بہر حال جانتا ہے کہ یہی ہوتا چلا آیا ہے.خدا کی طرف سے آنے والے آتے ہیں ان کو بغیر پہچان کئے رد کر کے اور دھکے دے کر رخصت کیا جاتا ہے اور پھر وہ بھی دن آتے کہ حسرت سے لوگ ان وقتوں کو یاد کرتے ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: امروز قوم من نشناسد مقامِ من روزے بگریہ یاد کند وقت خوشترم کہ دیکھو آج کا دن ایسا دن ہے کہ میری قوم نے میرے مقام کو نہیں پہچانا لیکن آج میں تمہیں بتا رہا ہوں کہ وقت آنے والا ہے کہ آہ وزاری کے ساتھ بلک بلک کر رویا کریں گے کہ کاش اس وقت ہم امام وقت کے ناصرین میں لکھے جاتے.پس یہ جو نصیحت ہے، یہ قانون قدرت سے تعلق رکھنے والی ایسی باتیں ہیں جو دراصل ہر شخص کے دل کی آواز ہوتی ہیں اور جب وہ آپ کے منہ سے نکلتی ہیں تو یہ رد نہیں کی جاسکتیں کیونکہ ہر دل کی اپنی ایک کیفیت ہوتی ہے اس لئے قوم کے مزاج کو پہچان کر اس کے دکھتے ہوئے بدن پر ہاتھ رکھ کر اس کی نبض پر اپنی انگلیاں جما کر جو بات بھی آپ کرتے ہیں وہ موعظہ حسنہ ہے یعنی ایسی بات جو دل سے نکلے اور دل میں ڈوب جائے اس لئے قرآن کریم کہتا ہے کہ بحث میں جلدی نہ کیا کرو حکمت کے ساتھ موعظہ حسنہ شروع کرو تا کہ لوگ جان لیں کہ تم ان کے ہمدرد اور سچے ہو.لوگ سمجھ جائیں گے کہ تمہیں صرف اپنی ذات میں دلچسپی نہیں ان کی ذات میں بھی دلچسپی ہے.یہ سب کچھ ہونے کے باوجود قرآن کریم یہ کہتا ہے کہ پھر بھی وہ لوگ تم سے لڑیں گے.ان
خطبات طاہر جلد ۲ 124 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء میں سے بہت سے ایسے ہوں گے کہ مارے غصے کے جن کے منہ سے جھاگ جاری ہو جائے گی آنکھوں میں خون اتر آئے گا اور وہ بڑے سخت مقابلہ کے لئے تیار ہو جائیں گے.فرمایا اس وقت بھی ہم تمہیں ہدایت دیتے ہیں کہ مقابلہ کرو اور پیٹھ نہ دکھاؤ.تم نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی کہ معاشرہ میں کوئی غصہ پیدا نہ ہو، کوئی نفرت پیدا نہ ہو، بہترین طرف بلایا، بہترین طریق سے کام لیا اور بہترین نصیحت کی.خدا فرماتا ہے کہ اس کے بعد پھر تم پر کوئی الزام نہیں ہے.اب تم تیار ہو جاؤ تمہارا پورا حق ہے کہ تم اپنی پوری قوت اور پوری شدت کے ساتھ ان لڑنے والوں کا مقابلہ کرو، لیکن مقابلہ جبر سے نہیں کرنا.فرمایا جَادِلُهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ اب بھی بدی کے ساتھ مقابلہ حسن کا ہی ہوگا.وہ بدی لے کر آئیں گے تم نے اس کی جگہ حسن پیش کرنا ہے.وہ تمہاری برائی چاہیں گے تم ان کی اچھائی چاہو گے ، وہ کمزور دلیلیں دیں گے تم ان سے زیادہ قوی اور طاقتور اور دلکش دلیلیں نکالا کرنا اور ہر مقابلہ کی شکل میں تم حسن کے نمائندہ بن جانا اور وہ نفرت اور بدیوں کے نمائندہ بن جائیں گے.جب یہ دور شروع ہو جائے گا تو خدا تعالیٰ فرماتا ہے پھر یہ باتوں تک نہیں رہے گا.پھر ایسے لوگ بھی ہوں گے جو تمہیں بدنی سزا دیں گے جو تمہاری شدید مخالفت کریں گے.ہوسکتا ہے تمہارے گھر جلائیں، ہوسکتا ہے تمہیں اذیتیں دی جائیں یہاں تک کہ تمہیں اتنا دکھ دیا جائے جتنا کسی انسان کے بس میں ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ایسی صورت میں ہم تمہیں ایک نصیحت کرتے ہیں کہ پہلے سے اس بات کو آگے بڑھایا جائے.اللہ تعالیٰ نے فرمایا إِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِيْلِهِ جب یہ لڑائی شروع ہو جائے گی یہ بات یا درکھنا کہ اللہ ہی جانتا ہے کہ کون ہدایت پر ہے وَهُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ صرف خدا جانتا ہے کہ ہدایت یافتہ کون ہے، اللہ ہی جانتا ہے بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیلِهِ کہ کون اپنی راہ سے گمراہ ہو چکا ہے.اب بظاہر یہ بڑا تعجب انگیز فقرہ بیچ میں داخل ہو گیا.ایک طرف خدا کہتا ہے اپنے رب کی طرف بلا ؤ حکمت کے ساتھ اور موعظہ حسنہ کے ساتھ بلا ؤ اور جب لڑائی شروع ہو گئی تو اچانک گویا کہ یقین ہی اڑا دیا اپنے پیغام سے یعنی اس بات سے تو یوں لگتا ہے جیسے کہا جارہا ہو کہ اب تم لڑ پڑو.لیکن یہ کوئی پتہ نہیں کہ تم سچے ہو کہ فلاں سچا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ گمراہ کون ہے اور اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ہدایت پر کون ہے.اس آیت کا اور اس مضمون کا یہاں موقع کیا ہے پہلے اس کو حل کرتے چلے جائیں پھر اس کا بقیہ حصہ انشاء اللہ زیر نظر آئے گا.
خطبات طاہر جلد ۲ 125 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ کہ تو اپنے رب کی طرف بلا اور دنیا میں ہر شخص کو اپنے رب کی طرف بلانے کا حق ہے.یہ وہی آزادی ضمیر اور آزادی مذہب کا اعلان ہے جس کی تکرار کی جارہی ہے.فرمایا جب یہ مقابلہ شروع ہو گا تو اس وقت بھی ہر انسان یہ سمجھنے کا حق رکھتا ہے کہ میں ہدایت پر ہوں اور تمہیں یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ تم چونکہ ہدایت پر نہیں ہو اس لئے تم ہمارے ساتھ بات نہ کرو تم ہم سے مقابلہ چھوڑ دو اور ہتھیار ڈال دو.یہ وہی آزادی ضمیر کا اعلان ہے جس سے بات کا آغاز ہوا تھا.وہی مضمون اب تکرار کے ساتھ دو ہرایا جارہا ہے.فرمایا ہم جانتے ہیں کہ تم حق پر ہو لیکن تمہیں یہ حق نہیں دیتے کہ ایسے اور دعویٰ کرنے والوں کے دعوی کا حق چھین لو.اپنے رب کی طرف بلانے والے ہر شخص کو یہ حق ہم عطا کرتے ہیں کہ وہ یہ اعلان کرے کہ میں ہدایت پر ہوں اور تم گمراہی پر ہو.ہاں ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ اللہ سب سے زیادہ جانتا ہے اور فیصلہ وہی کرے گا جو تمہارے حق میں ہوگا اس لئے اس میں تمہارا نقصان کوئی نہیں.تم ہر انسان کو اور ہر مد مقابل کو یہ آزادی دو کہ وہ تمہیں غلط قرار دے اور اپنے آپ کو سچا کہے اور یہ آزادی تمہارے خلاف نہیں جاتی کیونکہ اللہ تو بہر حال جانتا ہے کہ کون سچا ہے.اس بات سے کیا فرق پڑتا ہے کہ مثلاً ہندو کہیں کہ ہم زیادہ ہدایت پر ہیں اور یہودی کہیں کہ ہم زیادہ ہدایت پر ہیں اور عیسائی کہیں کہ ہم زیادہ ہدایت پر ہیں کوئی یہ نہیں کہ سکتا کہ ہم تمہیں یہ حق نہیں دیتے کیونکہ تم Minority (اقلیت) میں ہو اور یا یہ کہ ہم ہدایت پر ہیں اس لئے تم دعوئی ہی نہیں کر سکتے بلکہ عام دعویٰ کا اعلان ہے فرماتا ہے هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبیلہ یہ صرف خدا کا حق ہے کیونکہ وہ جانتا ہے وہ یہ کہہ سکتا ہے کہ فلاں ہدایت پر ہے اور فلاں ہدایت پر نہیں ہے لیکن کوئی انسان دوسرے کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتا.بظاہر اس جملہ معترضہ کے بعد جس کی بڑی شدید ضرورت تھی اللہ تعالیٰ پھر اس مضمون کی طرف واپس لاتا ہے.فرماتا ہے وَاِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوا بِمِثْلِ مَا عُو قِبْتُمْ بِه که اب لڑائی شروع ہو گئی ہے ہر چند کہ تم حسن سے کام لو گے، ہر چند کہ تم مغفرت سے کام لو گے، ہر چند کے تم عفو سے کام لو گے لیکن دشمن ایسا نہیں کریگا وہ تمہیں بدنی سزائیں بھی دے گا ، وہ تمہاری جان کے در پے بھی ہوگا، وہ تمہارے اموال کے در پے بھی ہو گا اور تمہاری عزتوں کے در پے بھی ہوگا.پس اگر
خطبات طاہر جلد ۲ 126 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء ایسی صورت پیدا ہو جائے تو فرماتا ہے کہ اگر تم یہ فیصلہ کرو کہ دشمن سے اس کے ظلم کا بدلہ لینا ہے تو ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ جتنا تم پر ظلم کیا گیا ہے اس سے ایک انچ بھی زیادہ آگے نہیں بڑھنا یعنی جس حد تک دشمن تم پر ظلم کر رہا ہے اس کا جواب دینے کا ہم تمہیں حق دیتے ہیں.یہ اعلان فرما دیا ہے لیکن اس طریق پر اعلان فرمایا کہ بِمِثْلِ مَا عُو قِبْتُم با یعنی شرط یہ ہے کہ پہل دوسرے نے کی ہو، زیا دتیاں اور سفاکیاں اور ظلم وستم کا آغاز مد مقابل نے کیا ہو، پھر تمہیں ہم حق دیتے ہیں کہ اس کے بعد اپنے دفاع میں ویسا ہی کرو لیکن اس سے آگے نہیں بڑھنا.لیکن یہاں بات ختم نہیں کرتا بلکہ فرماتا ہے وَلَبِنْ صَبَرْتُمْ لَهُوَ خَيْرٌ لِلصّبِرِینَ کہ یاد رکھو اگر تم صبر سے کام لوتو اللہ تعالیٰ تمہیں بتاتا ہے کہ صبر کرنے والے زیادہ کامیاب ہوا کرتے ہیں اور صبر کرنے والوں کا اپنے لئے یہی اچھا ہوتا ہے کہ وہ بدلہ نہ لیا کریں.خصوصاً دینی مقابلوں میں اور ہر معاملہ میں صرف نظر سے کام لیتے چلے جائیں اور اپنی برداشت اور حوصلے کے پیمانے بڑھاتے چلے جائیں لیکن عجیب خدا ہے اور ایسا انصاف ہے خدا کا کہ اپنے بندوں کو حق بہر حال دیتا ہے.فرماتا ہے کہ اگر تم پر ظلم ہوا ہے اور تم اس حد تک مقابلہ کرو جس حد تک ظلم ہوا تو تم پر کوئی حرف نہیں.خدا یہ نہیں کہے گا کہ میں تمہیں سزا دیتا ہوں تم نے ایسا کام کیوں کیا.ہاں اللہ تعالیٰ بطور نصیحت فرماتا ہے کہ اگر اپنا حق چھوڑ دو، صبر سے کام لو تو یہ تمہارے لئے بہت بہتر ہے.اب دیکھ لیجئے جو خطاب اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّک میں واحد سے شروع ہوا تھا اس نے اجتماعیت اختیار کر لی اسی لئے میں نے یہ نتیجہ نکالا تھا کہ تبلیغ کا یہ کام صرف محمد مصطفی ﷺ تک محدود نہیں بلکہ آپ کے ماننے والوں پر بھی فرض ہے ورنہ مخاطب تو آنحضور کو کیا گیا تھا اچانک یہ سارے مسلمان بیچ میں کہاں سے شامل ہو گئے.واحد کا صیغہ جمع میں تبدیل ہو گیا اور سب کو اجازت دی جارہی ہے کہ چاہو تو تم بدلہ لولیکن ہم تمہیں مغفرت کی تعلیم دیتے ہیں.اور اب پھر یہ کلام واپس لوٹے گا اور واحد کی بات شروع کر دے گا اور اس طرز کلام میں عجیب حسن پیدا ہو جائے گا کہ کبھی روئے سخن واحد سے جمع میں بدل جاتا ہے اور کبھی جمع سے واحد کی طرف لوٹ جاتا ہے.بہر حال مسلمانوں کو بدلہ لینے کی اجازت دی کیونکہ ہر قسم کے مزاج کے لوگ ہوتے ہیں.بعض لوگ برداشت نہیں کر سکتے ، بعض برداشت کر سکتے ہیں، بعض کو عادت ہے ، بعض کو عادت نہیں ہے، اس لیے انسانی فطرت کو مدنظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے اجازت دے دی کہ جتنا ظلم ہوا ہے اتنا بدلہ لے لو
خطبات طاہر جلد ۲ 127 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء لیکن اس کا نمونہ وہ پیش کیا جس نے بدلہ نہیں لینا تھا.چنانچہ فرمایا وَاصْبِرُ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللهِ کہ اے محمد ! (ع) تجھے ہم یہ نہیں کہتے کہ اگر تو چاہے تو بدلہ لے لے اور چاہے تو صبر کرے.تیرے لئے یہ ارشاد ہے واصبر تو نے صبر ہی کرنا ہے اور اس بات کو واضح کرنے کے لئے کہ یہ نیا حکم نہیں ہے بلکہ رسول کریم ﷺ کی فطرت کا ایک فیصلہ ہے جس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے توثیق کی جارہی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَمَا صَبَرُكَ إِلَّا بِاللہ ہم جانتے ہیں کہ تو صبر کر رہا ہے یعنی یہ نہیں بتایا کہ اے محمد! ( ع ) تو بے صبری دکھا رہا ہے اس لئے ہم تجھے حکم دیتے ہیں کہ بے صبری نہیں کرنی اور صبر کرنا ہے بلکہ یہ فرماتا ہے کہ اے محمد ! ( ﷺ ) تو صبر ہی کرتا چلا جا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تو پہلے ہی اللہ کی خاطر صبر کر رہا ہے.پس اس رستہ سے ہٹنا نہیں کیونکہ یہی بہترین رستہ ہے اور مسلمانوں کے لئے گویا دو رستے الگ الگ کر کے دکھا دئیے.ان کیلئے دونوں رستے کھلے ہیں یعنی صبر کا رستہ بھی اور انصاف کا بھی اور بدلہ لینے کا بھی لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کو ایک رستہ پر چلا دیا یعنی صبر کے رستہ پر.اور دراصل صبر کا اعلیٰ ظرف آپ ہی رکھتے تھے.اب بتائیے کہ کون ہے جو اس رستہ کو چھوڑ کر اپنے لئے دوسرا رستہ اختیار کرتا ہے.انصاف کے تقاضے بھی پورے کر دئیے اور ایک عام اعلان کر دیا کہ اب دوشاخیں چل رہی ہیں، تم چاہو تو انتقام کی شاخ کو انصاف کے مطابق اختیار کر لو کوئی حرج نہیں ہے اور چاہو تو صبر والے طریق کو اختیار کرلو صلى الله.اور یہ رستہ پکڑ لولیکن ہم تمہیں یہ بتا دیتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی عه صبر والے رستے پر ہی چلیں گے، انتقام لینے والے رستے پر نہیں چلیں گے اس لئے اب چاہو تو یہ قبول کر لو اور چاہوتو وہ قبول کر لو.اللہ تعالیٰ کا کتنا پیارا انداز ہے مسلمانوں کو صبر کی تلقین کرنے کا اس سے زیادہ حسین انداز اختیار ہی نہیں کیا جاسکتا.رسول اللہ ﷺ کو اس رستہ پر چلا دیتا ہے اور پھر آنحضرت ﷺ کے صبر کا تجزیہ فرماتا ہے اور یہ بتاتا ہے کہ کس قسم کا صبر ہے جو تبلیغ میں مفید ثابت ہوگا.فرمایا وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِم اب دیکھئے صبر دو قسم کے ہوا کرتے ہیں ایک غصے کا صبر اور ایک غم کا صبر.یہ دوہی صبر ہیں جن سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے.ایک آدمی کو کسی دوسرے کی حرکت پر شدید غصہ آ رہا ہے اور وہ صبر کر رہا ہے.ایک صبر یہ ہوتا ہے کہ آدمی شدید غم محسوس کر رہا ہے اور پھر بھی صبر کر ہا ہے.صبر کے ساتھ یہاں بھی دور ستے بن گئے.جانتے ہو کس صبر کی طرف ہم تمہیں بلا رہے ہیں.یہاں یہ صبر کی وہ راہ ہے جو حضرت محمد
خطبات طاہر جلد ۲ 128 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء مصطفی ﷺ نے اختیار فرمائی ہے.وہ غصہ والا صبر نہیں وہ غم والا صبر ہے.غصہ تو حضرت محمد مصطفیٰ کے قریب بھی نہیں پھٹکتا.ان کی مثالیں ایسی ہی ہیں جیسے صبر کرنے والی ایک سوتیلی ماں اپنے سوتیلے بچوں کی بے ہودہ حرکتوں پر صبر کر رہی ہو.اس کو طبعا اور فطرۃ بڑا غصہ آرہا ہوتا ہے لیکن وہ چونکہ مہذب ہوتی ہے، اپنے اوپر کنٹرول رکھتی ہے اس لئے وہ صبر کر جاتی ہے.اور ایک سگی ماں ہے جو اپنے بچوں کی حرکتوں پر صبر کرتی ہے لیکن وہ غم کا صبر ہوتا ہے وہ اپنے غم میں گھلتی چلی جاتی ہے، وہ خود بھی دعائیں کرتی ہے اور دوسروں کو بھی دعاؤں کے لئے کہتی ہے.مجھے اس صبر سے بھی آئے دن واسطہ پڑتا رہتا ہے.مائیں آتی ہیں آج بھی کل بھی اور پرسوں بھی ، یہاں بھی جو ملاقاتیں ہوتی ہیں ان میں بھی ہر روز کئی خواتین اپنے بچوں کی بعض بے ہودہ حرکتوں کا ذکر کرتے ہوئے دعا کے لئے کہتی رہتی ہیں جب بھی وہ اس قسم کی دعا کے لئے کہتی ہیں اس میں غصہ کوئی نہیں ہوتا وہ غم میں گھل رہی ہوتی ہیں، وہ رورہی ہوتی ہیں، دعا کے لئے کہتے کہتے ان کی آواز بھرا جاتی ہے کہ بچہ ضائع ہو رہا ہے اس کے لئے دعا کریں.پس تم نے اس کی پیروی کرنی ہے جس کے صبر میں غصہ کا نام ونشان بھی نہیں تھا.وہ تو سگی ماں والا صبر کرنے والا انسان ہے بلکہ اس سے بھی کہیں بڑھ کر صبر کرنے والا ہے.وہ تو ان لوگوں کے غم میں اپنی جان ہلکان کر رہا ہوتا ہے جو اس کی بات کو نہ مان کر اپنا نقصان کر رہے ہیں اسی لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمُ اور یہ کہہ کر اس بے انتہا جذ بہ غم کا اظہار فرما دیا جو آنحضور ﷺ کے قلب صافی میں موجزن تھا.ایک کہنے والے نے بہت خوب کہا ہے: کیوں ، کیا ہوا، یہ آہ شرر بار کس لئے یہ تو نہیں کہا تھا کہ تو بے قرار ہو کہ یہ کیساغم ، میں یہ تو ہیں چاہتا تھاکہ تو غمگین ہو جائے.معلوم ہوتا ہے کہ جب یہ کلام نازل ہو رہا ہے تو آنحضرت ﷺ کا دل ان لوگوں کے غم سے بھر گیا ہے جو ان ساری باتوں کے باوجود نہیں مان رہے ہوں گے اور جس کے نتیجہ میں آپ نے صبر کرنا ہے اور پہلے بھی صبر کر رہے تھے.اچانک اللہ تعالیٰ اس مضمون کو چھوڑ کر کہتا ہے.اے محمد غم نہ کر، تو تو بہت ہی مقدس وجود ہے، تیرا مقام بہت بلند ہے ، ان گھٹیا لوگوں کی خاطر تو اپنے نفس کو ہلاک کر دے گا.لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ایک جاری سلسلہ
خطبات طاہر جلد ۲ 129 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء ہے جو رسول اللہ ﷺ کے بس میں نہیں ہے.یہ صرف پیار کا اظہار ہے ورنہ خدا اس غم سے نہ روکنا چاہتا ہے نہ محمد مصطفی ﷺ نے رکنا تھا.اس نے خود آپ کو پیدا ہی اس طرح کیا تھا اس لئے لَا تَحْزَن میں پیار اور محبت کا یہ اظہار ہے کہ تو نہ غم کر تجھے کیا ہو گیا ہے، لیکن اللہ کو پتہ ہے کہ اس نے غم میں گھلتے ہی چلے جانا ہے اور اس کے غم نے ان کی اصلاح کرنی ہے.پس مبلغ کو یہ بھی بتا دیا کہ صبر کرنا ہے تو وہ صبر کرنا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے کیا تھا.یہ کیسا پاک رسول ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی جو آپ کو دکھ دے رہے ہیں، تکلیف دے رہے ہیں دکھ تو محسوس کرتا ہے لیکن غصہ محسوس نہیں کرتا.اور دیکھئے یہ ہے بھی کتنی معقول بات.کیونکہ جس کو غصہ آتا ہے وہ اکثر صبر کا دامن چھوڑ ہی دیا کرتا ہے.وہ پھر بدلہ لینے والا رستہ اختیار کر لیا کرتا ہے.فرمایا یہ حقیقت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ صبر کا رستہ اس لئے اختیار کیا کہ آپ کی فطرت میں اتنی زیادہ ہمدردی ہے کہ آپ اپنے دشمنوں کے لئے غم تو محسوس کرتے ہیں غصہ محسوس نہیں کرتے.صبر کے سوا اس کا کوئی چارہ کا رنہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِمَّا يَمْكُرُونَ کہ بظاہر یہ طریق تو بڑا ہی مشکل طریق ہے اور یوں لگتا ہے کہ گویا اس سے کامیابی نہیں ہوگی.دشمن طرح طرح کے ہتھکنڈے اختیار کر رہا ہے، طرح طرح کی تدبیریں سوچ رہا ہے.دن رات منصوبے بنارہا ہے کہ کس طرح Movement ( تحریک چلائی جائے ، کس طرح اس جماعت کو تباہ کیا جائے اور اس پر بھی کہا جاتا ہے صبر کرو، صبر کرو، اور صبر بھی غصہ والا نہیں بلکہ غم والا صبر کرو.اس موقع پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے محمد ! (ﷺ) وَمَا صَبُرُكَ إِلَّا بِاللہ ہم جانتے ہیں کہ تیرا صبر صرف اللہ کی خاطر ہے اپنے رب کی خاطر ہے اس لئے وہ اب تجھے کس طرح چھوڑ دے گا جس کی خاطر تو صبر کر رہا ہے.فرماتا ہے وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ تو اپنا سینہ کھول لے اور اس کو کشادہ کر ، ان لوگوں کے برے مکروں اور تدبیروں سے تجھے ہم کوئی بھی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے.تو ہماری خاطر صبر کرنے والا ہے ہم تیرے محافظ بن جائیں گے اور ہر آن تیری حفاظت کریں گے اور تیرے سلسلہ کی اور تیرے پیغام کی حفاظت کریں گے اور لازمنا تمہیں کامیاب کریں گے.چونکہ تیرا صبر صرف میری خاطر تھا اب میں ذمہ دار ہو گیا ہوں.پھر فرماتا ہے إِنَّ اللهَ مَعَ الَّذِينَ اتَّقَوْاوَ الَّذِينَ هُمْ مُّحْسِنُوْنَ کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہوا کرتا ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیں اور محسن ہوتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 130 خطبه جمعه ۲۵ / فروری ۱۹۸۳ء یہ جو آخری آیت ہے اس میں بھی ایک بہت ہی وسیع مضمون بیان ہوا ہے لیکن اسوقت اس کے بیان کرنے کا موقع نہیں اس لئے میں اس کو چھوڑتا ہوں پھر کسی وقت انشاء اللہ بیان کروں گا.یہ بھی اسی کے تسلسل میں ہے.اس وقت میں صرف اتنا کہوں گا کہ خدا تعالیٰ نے آنحضرت عملے کو ان تین آیات میں جو تلقین فرمائی ہے ان میں جیسا کہ آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا لامتناہی مضامین کی کھڑکیاں ہیں اور لامتناہی طریقہ ہائے تبلیغ بیان فرما دیئے گئے ہیں.اگر آپ اس مضمون کو پیش نظر رکھیں تو آپ میں سے ہر آدمی ایک بہترین داعی الی اللہ بن سکتا ہے اور مقابلہ پر جو دلیلیں دی جاتی ہیں ان کا توڑ بھی آپ کو دے دیا گیا ہے اس لئے بہترین تبلیغی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر اس رب کی طرف لوگوں کو بلائیں جو حضرت محمد مصطفی علیہ کا رب ہے.پس میں تمام احباب جماعت کو توجہ دلاتا ہوں کہ تمام دنیا کے انسان کو خدائے حی و قیوم کی طرف بلائیں.مشرق کو بھی بلائیں اور مغرب کو بھی بلائیں ، کالے کو بھی بلائیں اور گورے کو بھی بلائیں، عیسائی کو بھی بلائیں اور ہندو کو بھی ، بھٹکے ہوئے لوگوں کو بھی بلائیں اور دہریوں کو بھی مشرقی بلاک کو بھی بلانا آج آپ کے سپرد کیا گیا اور مغربی بلاک کو بلانا بھی آج آپ کے ذمہ لگایا گیا ہے، یہ آپ ہی ہیں جنہوں نے دنیا کوموت کے بدلہ زندگی بخشنی ہے.اگر آپ نے یہ کام نہ کیا تو مرنے والے مر جائیں گے اور اندھیروں میں بھٹکنے والے ہمیشہ بھٹکتے رہیں گے اس لئے اسے محمد مصطفی ﷺ کے غلامو! اور اے دین مصطفی ﷺ کے متوالو! اب اس خیال کو چھوڑ دو کہ تم کیا کرتے ہو اور تمہارے ذمہ کیا کام لگائے گئے ہیں تم میں سے ہر ایک مبلغ ہے اور ہر ایک خدا کے حضور اس بات کا جواب دہ ہوگا.تمہارا کوئی بھی پیشہ ہو، کوئی بھی تمہارا کام ہو، دنیا کے کسی خطہ میں تم بس رہے ہو، کسی قوم سے تمہارا تعلق ہو تمہارا اولین فرض یہ ہے کہ دنیا کو محمد مصطفی " کے رب کی طرف بلا ؤ اور ان کے اندھیروں کو نور میں بدل دو اور ان کی موت کو زندگی بخش دو.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: نمازیں جمع ہوں گی.جمعہ کی نماز کے معابعد میں عصر کی نماز بھی ساتھ پڑھا دوں گا کیونکہ بہت سے دوست باہر سے آئے ہوئے ہیں اور انہوں نے واپس جانا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 131 خطبه جمعه ۲۵ فروری ۱۹۸۳ء ایک بات جو میں پہلے بھی مختلف جگہوں پر دوستوں کو سمجھاتا چلا آیا ہوں یہاں بھی سمجھا دوں.دیہاتوں میں عموماً اس بارہ میں غفلت ہو جاتی ہے.امام جب تک پوری طرح سلام پھیر کر نماز سے فارغ نہیں ہوتا اس وقت تک مقتدی اس کی اقتدا سے آزاد نہیں ہوتے.نماز میں السلام علیکم سنتے ہی بعض لوگ فوراً در دڈ کرتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں.یہ ایک بدنظمی کا طریق ہے اور اسلامی نظم و ضبط کی روایات کے بھی خلاف ہے.جب امام آخر میں السلام علیکم کہتا ہے تو پھر دوبارہ بائیں طرف منہ پھیر کر السلام علیکم کہ کر فارغ ہوتا ہے اس وقت اس کو بھی نماز سے اٹھنے کی اجازت ہے اور مقتدیوں کو بھی اٹھنے کی اجازت ہے اس لئے جنہوں نے بقیہ نماز پڑھنی ہو ان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ پوری طرح صبر کے ساتھ بیٹھے رہیں.اور اس سے ایک اور بھی فائدہ ہوتا ہے کہ جس صبر کی تلقین کی جارہی ہے اس صبر کی عادت بھی پڑتی ہے.دیکھا گیا ہے جو لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بے صبری کریں وہ بڑی باتوں میں بھی بے صبری کرتے ہیں.اب امام سے پہلے اٹھنے سے کتنا وقت بچ جاتا ہے.صرف سیکنڈز میں بچتا ہے کیونکہ دوسرا السلام علیکم اگر آپ آہستہ بھی کہیں تو تمیں پینتیس سیکنڈز میں کہا جائے گا.یہ تمیں پینتیس سیکنڈ ز بچانے کے لئے جو لوگ افراتفری میں اٹھتے ہیں وہ دراصل اپنی فطرتی بے صبری کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں.آپ دیکھیں گے کہ ان کی نمازیں بھی اکثر بے صبری میں پڑھی جاتی ہیں.پس نماز کا نظم و ضبط بہت گہرے سبق رکھتا ہے اس لئے آپ نماز میں صبر کا نمونہ دکھایا کریں اور امام کی متابعت میں بھی صبر کا نمونہ دکھایا کریں.اس وقت تو کوئی موقع پیش نہیں آئے گا کیونکہ میں عصر کی نماز پوری پڑھوں گا ویسے میں مسافر تو ہوں لیکن میرا یہاں گھر ہے اور جہاں گھر ہو وہاں اگر آدمی چند گھنٹے کے لئے بھی آئے تو مسافر نہیں رہتا اس لئے اس دفعہ تو انشاء اللہ سب اکٹھے ہی سلام پھیریں گے لیکن چونکہ موقع تھا اس لئے میں نے آپ لوگوں کو بتا دیا ہے.آئندہ جب بھی کوئی ایسا موقع پیدا ہوا کرے یا آپ نماز میں بعد میں آکر شامل ہوں اور ایک آدھ رکعت رہ گئی ہو تو آپ جلدی نہ اٹھا کریں.امام فارغ ہو جائے پھر آپ کھڑے ہوا کریں.روزنامه الفضل ربوه ۲۳ مئی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 133 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء دنیا کو تباہی سے بچانے کے لئے ہر احمدی مبلغ بن جائے ( خطبه جمعه فرموده ۴ مارچ ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: دنیا ہمیشہ سے مختلف وجوہات اور اسباب کی بنا پر باہم دگر برسر پیکار رہی ہے لیکن بعض زمانوں میں اور بعض خاص وقتوں میں یہ لڑائیاں بہت زیادہ شدت اختیار کر جاتی ہیں.چنانچہ آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں اس میں انسان انسان کے ساتھ جس شدت سے برسر پیکار ہے اور جتنی زیادہ وجوہات کی بنا پر انسان انسان میں لڑائی ہو رہی ہے دنیا میں کم ہی ایسے مواقع آئے ہوں گے کہ جب لڑائی کی وجوہات بھی اتنی زیادہ ہوئی ہوں اور شدت بھی انتہائی درجے تک پہنچی ہو.بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ اگر صبر کی انتہائی قوتیں کارفرمانہ ہوں تو انسان ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے انسانیت کے وجود کو ہی ختم کر دے گا.نہ صرف یہ کہ لڑائی کی وجوہات اور اسباب بڑھتے چلے جار ہے ہیں بلکہ وہ ہتھیار جو انسان کو آج میسر ہیں وہ اتنے قوی ، اتنے ہیبت ناک اور اتنے وسیع الاثر ہیں کہ اگر وہ کسی وقت بھی لڑائی کے میدانوں میں استعمال ہونے لگیں تو حقیقت یہ ہے کہ علاقوں کے علاقے زندگی کے وجود ہی سے خالی ہو جائیں گے.بہت سے مفکرین جو جنگ کے حالات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں وہ اس بات پر متفق ہیں کہ اس وقت انسان انسان کے درمیان ایک ہولناک عالمگیر جنگ کو
خطبات طاہر جلد ۲ 134 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء روکنے کے لئے صرف ایک ہی مانع باقی ہے اور وہ ہے ہتھیاروں کا ہولناک ہونا.یہ ہتھیار اتنے خوفناک ہو چکے ہیں اور اتنی شدت اختیار کر چکے ہیں کہ اگر ان سے ایک دفعہ لڑائی چھڑ جائے تو تمام وہ لوگ جو ان ہتھیاروں کی کنہ سے واقف ہیں اور ان کے اثرات کا کچھ تصور رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ قومیں بھی تباہ ہو جائیں جو اس لڑائی میں غالب آجائیں اور وہ بھی تباہ ہو جائیں گی جو مغلوب ہوں اور دونوں طاقتوں کے ہاتھ میں عملاً کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.پس یہی ایک خوف ہے جو اس وقت جنگ میں مانع ہے.آپ نے ہیروشیما اور ناگاساکی کی تباہی کے قصے سنے ہوں گے.ان شہروں پر ایسے بم گرے تھے جنہوں نے صرف شہریوں کو ہی ہلاک نہیں کیا بلکہ ان بموں کے اثرات سے اردگرد علاقوں میں بھی انتہائی ہولناک تباہیاں پھیلیں اور سال ہا سال تک قسم قسم کی بیماریاں اور وبائیں وہاں پھوٹتی رہیں.یہ بم ان عام بموں سے بالکل مختلف ہیں جن کا تصور دنیا کے ان ممالک میں پایا جاتا ہے جہاں غیر معمولی ترقی نہیں مثلاً پاکستان اور ہندوستان و غیرہ.ان علاقوں کے عوام سمجھتے ہیں کہ بم سے مراد صرف یہ ہے کہ ایک دھما کہ ہوا جس کے نتیجے میں کچھ عمارتیں منہدم ہو ئیں اور کہیں آگ لگ گئی لیکن جن ہتھیاروں کا میں ذکر کر رہا ہوں وہ ان سے بالکل مختلف ہیں.چنانچہ ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرنے والے بموں سے جو ہلاکت ہوئی وہ وہیں ختم نہیں ہوئی کہ سارے کا سارا شہر دھپ سے اڑ گیا بلکہ انہوں نے ایسے ریڈیائی اثرات پیچھے چھوڑے جو ایسی نہ نظر آنے والی لہروں کی صورت میں موجود رہے جیسی آپ ریڈیو اور ٹیلی وژن میں دیکھتے ہیں.آپ کو علم تو ہے کہ وہ لہریں موجود ہیں کیونکہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ذریعے آپ ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن صرف بصیرت کی آنکھ سے دیکھتے ہیں ظاہری آنکھ سے وہ نظر نہیں آرہی ہوتیں.اسی قسم کی لہریں ان نئے بموں سے نکلتی ہیں جو انسانی زندگی کو تباہ کرنے کے لئے دو طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں.ایک ہے براہ راست ہلاکت لیکن اس سے بھی زیادہ خوفناک اثر یہ ہے کہ انسان مرتا بھی نہیں اور زندہ بھی نہیں رہتا بلکہ بین بین حالت میں اس طرح زندگی گزارتا ہے جس طرح کینسر کا مریض اپنی بیماری کے انتہائی خطر ناک لمحات میں زندگی گزارتا ہے.یہ لہریں انسانی زندگی کی کنہ کو تبدیل کر دیتی ہیں اور ان مرکزی خلیوں پر حملہ آور ہوتی ہیں جو اپنے اندر زندگی کا پروگرام رکھتے ہیں.حقیقت
خطبات طاہر جلد ۲ 135 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء یہ ہے کہ انسانی زندگی کا ہر ذرہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کردہ ایک خاص پروگرام کے تابع کام کر رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے اس ذرے کے اندر ارب ہا ارب معلومات چھاپی ہوئی ہیں اور ہدایات کا جواندرونی نظام ہے وہ اس کے تابع کام کرتا ہے.الغرض یہ اہریں ان ذروں پر حملہ آور ہوتی ہیں اور اس پروگرام کو تباہ کر دیتی ہیں.نتیجہ زندگی کا سارا نقشہ بدل جاتا ہے.چنانچہ جو لوگ ان بموں کے اثرات سے بعد میں متاثر ہوئے ان کے ہاں اتنے مگر وہ اور بد ہیئت بچے پیدا ہوئے جن کو دیکھ کر بھی گھن آتی تھی اور خوف محسوس ہوتا تھا.کسی کے پیٹ میں آنکھیں نکل آئیں تو کسی کے سر پر.ان لہروں نے زندگی کا تمام نظام درہم برہم کر دیا.بعض لوگوں پر بظاہر ان لہروں کے کوئی اثرات نظر نہیں آرہے تھے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسے اثرات بھی ظاہر ہوئے جن سے اگلی نسل متاثر ہوئی اور نہایت خوفناک قسم کے بچے پیدا ہونے لگے.تب ان کو پتہ چلا کہ جو ہتھیار ایجاد ہوئے ہیں ان کا کتنا خوفناک اثر انسانی زندگی پر پڑ سکتا ہے.جو مر گئے وہ تو بعد کے اثرات کو نہ دیکھ سکے لیکن جو زندہ بچ رہے انہوں نے ان بموں کے بہت ہی خوفناک اثرات دیکھے جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرائے گئے تھے.چنانچہ بعض لوگوں کے جسم گل گئے، بعض کے بال جھڑ گئے ، بعض کے ناخن گل گئے ، بعض کے جگر تباہ ہو گئے اور کئی ایک کی آنکھیں جاتی رہیں.الغرض انسان کو ایسے مختلف عوارض لاحق ہو گئے جن کا علاج انسان کے بس میں نہیں تھا.کیونکہ ریڈیائی بیماریوں سے جو اثرات پیدا ہوتے ہیں وہ اتنے خوفناک ہوتے ہیں کہ انسان دوسرے ذرائع سے ان کا علاج کرنے کی طاقت ہی نہیں رکھتا.یہ اثرات اس ایک بم کے ہیں جو ہیروشیما پر گرایا گیا تھا اور جو آج ایک قصہ پارینہ بن چکا ہے اس لئے کہ آج کی دنیا میں جو نائیٹروجن بم اور ہائیڈ روجن بم ایجاد ہوئے ہیں وہ اتنے طاقتور ہیں کہ ایک شہر یا دو شہروں کو تباہ کرنے کا سوال نہیں ہے.اب تو اس طرح گنتی کی جاتی ہے کہ سارے انگلستان کو تباہ کرنے کے لئے کتنے بموں کی ضرورت ہے؟ چنانچہ ایک دفعہ بموں کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی ہلاکت کے متعلق انگلستان کے وزیر اعظم اور امریکہ کے صدر کے درمیان گفتگو ہوئی.انگلستان کے وزیر اعظم کی مدد کے لئے ایک سائنسدان جوان باتوں سے واقف تھا وہ بھی اس کے ساتھ گیا ہوا تھا.گفتگو کے دوران اس نے امریکہ کے صدر سے کہا کہ اگر آج لڑائی چھڑ جائے تو آپ
خطبات طاہر جلد ۲ 136 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء کا ملک جو بڑا وسیع ہے اس کا کچھ نہ کچھ حصہ لازماً بچ جائے گا مگر ہمارے ملک کا کیا بنے گا؟ کیونکہ ہمارے اندازے اور جائزے کے مطابق سارے انگلستان کو ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے نابود کرنے کے لئے صرف تین یا چار بموں کی ضرورت ہے.ایک شہر نہیں ، بلکہ پورا ملک جو کروڑوں کی آبادی پر مشتمل ہے اور جس کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کا فاصلہ قریباً پندرہ سولہ سومیل کا بنتا ہے.اس کو تباہ کرنے کے لئے تین یا چار بم کافی ہوں گے.پھر اس سائنسدان نے انگریزی میں کہا To be on the safe side at most seven would be enough.اس نے Safe Side" کا محاورہ بڑے دلچسپ رنگ میں استعمال کیا کہ اگر محفوظ اور محتاط اندازہ کرنا ہو تو زیادہ سے زیادہ سات بم کافی ہوں گے اس سے زیادہ کی ضرورت پیش نہیں آئے گی.پس یہ امر واقعہ ہے کہ یہ بم ہولناک ہونے کے لحاظ سے ہماری دنیا میں بسنے والے انسانوں کے تصور کی حدود سے بہت زیادہ تجاوز کر چکے ہیں.اس قسم کے دو یا چار یا پانچ بم تیار نہیں ہوئے بلکہ ہزارہا کی تعداد میں تیار ہو رہے ہیں.بڑے بڑے ملک جو دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں ایک دوسرے کو نشانہ بنائے بیٹھے ہیں اور وہ نشا نے اس نوعیت کے ہیں کہ اگر رشین بلاک امریکن بلاک پر اچانک حملہ کر دے تو امریکن بلاک کے بم جو مقابلے کے لئے تیار بیٹھے ہیں وہ اس بات کا انتظار نہیں کریں گے کہ کوئی ان کو حکم دے تو وہ چلیں کیونکہ اگر ایسا ہو تو جو ملک حملہ میں ابتدا کرتا ہے وہ لازماً جیت جائے گا.مثلاً اگر روس ابتدا کرتا ہے اور اپنے بموں کوامریکہ پر حملہ کرنے کا حکم دیتا ہے تو امریکہ تباہ ہو جائے گا اور امریکہ کے بموں کو چلانے کے لئے آرڈر کہاں سے آئے گا ؟ اگر سارا وائٹ ہاؤس ہی تباہ ہو جائے اور وہ لوگ جو فیصلوں کے مجاز ہیں وہ اچانک صفحہ ہستی سے مٹ جائیں تو کون حکم دے گا کہ جنگ شروع ہو چکی ہے، اس لئے جوابی حملہ کرو.اب ایک نیا سسٹم رکھا گیا ہے کہ مختلف علاقوں میں ایسے میزائل جو ہر وقت حملہ کے لئے تیار رہتے ہیں ان کو یہ آرڈر ہے کہ اگر تمہیں رکنے کا آرڈر نہ ملے تو تم نے چل پڑتا ہے.یہ میزائل آبدوزوں، کشتیوں میں نصب ہیں، زیر زمین علاقوں میں بھی ہیں اور پہاڑوں میں چھپا کر رکھے گئے ہیں.اسی طرح ہوائی جہاز ہر وقت ایک دوسرے کی طرف حرکت کر رہے ہیں اور ان کو بھی یہی آرڈر ہے کہ اگر یہ آرڈر نہ ملے کہ تم نے رکے رہنا ہے تو یہ چل پڑیں گے.چنانچہ وہ علاقے جہاں یہ بم رکھے گئے ہیں وہاں کمپیوٹرز اور دیگر ذرائع سے ہر وقت
خطبات طاہر جلد ۲ 137 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء یہ آرڈر جاری ہو رہے ہیں کہ بموں نے نہیں چلنا نہیں چلنا نہیں چلنا.اگر کسی وقت وہ کمپیوٹر زخراب ہو جائیں یا وہ علاقے اچانک تباہ کر دیئے جائیں تو یہ سارے بم از خود چل پڑیں گے.پھر ان کو کوئی روک نہیں سکے گا.اس لئے حملہ آور ملک کو بھی یقین ہو چکا ہے کہ اگر میں حملے میں ابتدا بھی کرلوں اور اچانک پن، جس کو "Surprise" کہتے ہیں اس کے سارے فوائد مجھے حاصل ہو جائیں تب بھی میرے خلاف اتنے بم ضرور چل جائیں گے جن سے میرا اکثر حصہ تباہ و برباد ہو جائے گا.یہ وہ خوف ہے جو اس وقت جنگ کو روکے ہوئے ہے اور یہ خوف دونوں فریقوں کو لاحق ہے اس لئے دونوں طاقتیں یہ کوشش کر رہی ہیں کہ وہ کوئی ایسی حیرت انگیز ایجاد کریں جس کے نتیجے میں انہیں ایک دوسرے پر نمایاں فوقیت حاصل ہو جائے.یعنی اگر ان میں سے کوئی لڑائی میں پہل کرے تو اسے یہ یقین ہو کہ وہ جوا بانتباہ و برباد نہیں ہو سکے گا.جس وقت کسی بلاک کو یہ فوقیت حاصل ہوگئی اس وقت دنیا کے امن کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی.کہتے ہیں ایک بادشاہ نے ایسی تلوار بنائی ہوئی تھی جو ہر وقت اس شخص کے سر پر لٹکی رہتی تھی جو بادشاہ کے سامنے بیان دے رہا ہوتا تھا.جب بھی اسے شک پڑتا کہ یہ شخص غلط بیانی کر رہا ہے تو بادشاہ کے اشارے پر وہ تلوار گر جاتی تھی.وہ باریک سا دھاگہ جس سے تلوار لٹکی ہوتی تھی اس کو کاٹ دیا جاتا تھا اور وہ اس کو ہلاک کر دیتی تھی.آج اس سے بھی زیادہ باریک دھاگے کے ساتھ ساری انسانیت کی ہلاکت کی تلوار اس کے اوپر لٹک رہی ہے.سارے انسانوں کی ہلاکت کی تلوار کیوں باریک تر دھاگوں سے لٹکی ہوئی ہے؟ اس لئے کہ دونوں طرف اخلاق، انسانیت، انصاف اور خوف خدا کا کوئی تصور نہیں ہے.خالصہ مادہ پرستی کے موجبات اور اسباب ہیں جو حملے پر آمادہ کر رہے ہیں یا حملے سے روک رہے ہیں.اخلاقیات کا اس میں کوئی دخل نہیں.خدا تعالیٰ کے خوف کا اس میں کوئی دخل نہیں.سو فیصد خود غرضی پر مبنی خیالات اور سوچیں ہیں جنہوں نے بالآخر یہ فیصلہ کرنا ہے کہ جنگ شروع کرنی ہے یا نہیں.ایسے خطرناک دور میں جب کہ انسان کی تقدیر لا مذہبی طاقتوں کے ہاتھ میں جاچکی ہو، احمدیت پر کیا ذمہ داریاں آتی ہیں؟ یہ ہیں وہ باتیں جو ہر احمدی کو سوچنی چاہئیں.امر واقعہ یہ ہے کہ احمدیت دنیا کو ہلاکتوں سے بچانے کا آخری ذریعہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے جاری کیا گیا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 138 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء آخری ذریعہ ان معنوں میں کہ اگر یہ بھی ناکام ہو جائے تو دنیا نے لازماً ہلاک ہونا ہے.پھر اس کے بچنے کی کوئی صورت نہیں.اور آخری ذریعہ ان معنوں میں کہ اگر یہ کامیاب ہو جائے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کو اس قسم کی ہلاکت کا کوئی خوف ایک لمبے عرصے تک دامنگیر نہیں ہوگا.یہ ایک عظیم ذمہ داری ہے.اسی لئے میں بار بار یہ اعلان کر رہا ہوں کہ داعی الی اللہ بنو، دنیا کو نجات کی طرف بلاؤ، دنیا کو اپنے رب کی طرف بلاؤ، ورنہ اگر بے خدا انسان کے ہاتھ میں دوسروں کی تقدیر چلی جائے تو ان کی ہلاکت یقینی ہو جاتی ہے اور اس وقت امر واقعہ یہی ہے.نہ صرف یہ کہ بے خدا انسان کے ہاتھ میں لوگوں کی تقدیر گئی ہوئی ہے بلکہ اس کے ہاتھ اتنے مضبوط ہو چکے ہیں اور ان میں ایسے خوفناک ہتھیار آچکے ہیں کہ وہ جب بھی چاہے دنیا کے تمام انسانوں کو ہلاک کر سکتا ہے.چنانچہ جب آئن سٹائن سے پوچھا گیا کہ تیسری عالمگیر جنگ کن ہتھیاروں سے لڑی جائے گی؟ ( یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد کا واقعہ ہے ) تو اس نے یہ جواب دیا تھا کہ تیسری جنگ کے ہتھیاروں کے متعلق تو میں کچھ نہیں کہوں گا لیکن میں یہ بتادیتا ہوں کہ چوتھی جنگ ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی.مطلب یہ تھا کہ تیسری جنگ کے ہتھیا راتنے خوفناک ہو چکے ہوں گے کہ انسان نہ صرف بحیثیت انسان اس دنیا سے تقریباً مٹ چکا ہوگا بلکہ اس کی تمام سائنسی ترقیات ، تمام ماحصل، تمام تہذیب غرضیکہ ہر چیز فنا ہو چکی ہوگی.جو لوگ بچیں گے وہ شاید پتھر کے زمانہ کے لوگ ہوں یا غاروں اور پہاڑوں میں بسنے والے لوگ.ان کی لڑائی تو پتھروں اور ڈنڈوں سے ہی ہوگی کیونکہ اس سے زیادہ ہماری تہذیب میں سے کچھ بھی ان کو حاصل نہیں ہوگا اور ہمارے علم میں سے کچھ بھی ان تک نہیں پہنچا ہوگا.تمام علمی خزانے مٹ چکے ہوں گے، تمام سائنسدان تباہ ہو چکے ہوں گے اور تمام تہذیبوں کے سرچشمے ختم ہو چکے ہوں گے.بچا کھچا انسان جو اس وقت غاروں یا جنگلوں میں بس رہا ہو گاوہ ان چیزوں سے بے بہرہ ہو گا اس لئے اس کی لڑائی اس قدیم زمانے کی طرف واپس لوٹ جائے گی جو پتھروں یا غاروں کا زمانہ کہلاتا ہے.ان حالات میں ایک احمدی پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو پورے شعور، پوری بیداری اور بیدار مغزی کے ساتھ ادا کرنا پڑے گا کیونکہ اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ اگر جماعت احمد یہ ساری دنیا میں فعال ہو جائے اور تیزی کے
خطبات طاہر جلد ۲ 139 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء ساتھ بنی نوع انسان کو ہدایت کی طرف بلانا شروع کر دے اور دنیا واقعہ متاثر ہوکر اسلام کی طرف آنے لگے تو اللہ تعالیٰ یقیناً ہلاکت اور تباہی کی مہلت کو بڑھا دے گا کیونکہ وہ عذاب میں جلدی نہیں کرتا.اس کی رحمت ہر دوسری صفت پر غالب ہے.اس لئے اگر آپ دنیا کو تبلیغ کریں اور پھر وہ اس تبلیغ کو سننے اور اسلام کی طرف مائل ہونے لگے تو آپ بلاخوف وخطر اور بغیر کسی اشتباہ کے اس بات کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ خطرات لاز مائل جائیں گے اور انسان کو خدا یہ موقع نہیں دے گا کہ وہ ہلاکت کے اتنے اہم اور خطرناک فیصلے کر سکے.اگر ایسا نہ کیا گیا اور آپ نے اپنی ذمہ داری کو ادا نہ کیا تو پھر اس دنیا کے بچنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے.یہ خیال کہ اسلام نے بہر حال غالب آنا ہے اس لئے لازم ساری دنیا بچائی جائے گی، اس کے اندر تھوڑی سی Fallacy، غلط فہمی اور ایک ابہام سا پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ خدا کے انبیاء غالب تو ضرور آیا کرتے ہیں لیکن وہ غلبہ دو قسم کا ہوا کرتا ہے.ایک غلبہ تو یہ ہے کہ ساری قوم یا اس کی اکثریت ایمان لے آئے اور ایک ایسا غلبہ کہ ایمان نہ لانے کے نتیجہ میں انسان کی اکثریت کو ہلاک کر دیا جائے.یہ دونوں قسم کے غلبے ہمیں قرآن کریم میں ملتے ہیں اس لئے اس بارے میں بہر حال کوئی شک نہیں کہ اسلام لازما غالب آئے گا مگر اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جو لوگ اسلام کے پیغام کو نہ سنیں ان کو بہت وسیع پیمانے پر ہلاک کر دیا جائے اور پھر جو بچے ان پر اسلام غالب آجائے.اب سوال یہ ہے کہ ہم نے کونسا غلبہ اپنے لئے پسند کرنا ہے؟ وہ غلبہ جو کم سے کم ہلاکت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے یا وہ غلبہ جو زیادہ سے زیادہ ہلاکت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.اگر تو حضرت نوح علیہ السلام ہمارے امام ہوتے تو ہمیں دوسرے غلبے کا حاصل ہونا کوئی بعید نہیں تھا اور کوئی تعجب کی بات نہیں تھی مگر ہمارے امام تو حضرت محمد مصطفی ﷺ ہیں جن کے غلبے میں کم سے کم جانی اختلاف اور نقصان ہوا ہے.جو لوگ آنحضور ﷺ پر اسلام کو جبر سے پھیلانے کا الزام لگاتے ہیں اگر وہ تاریخ کے حقائق کو یکجا کر کے دیکھیں تو وہ حیران رہ جائیں گے کہ تمام انسانی تاریخ میں کبھی کسی انسان کو اتنا عظیم غلبہ بہت ہی کم جانی قربانی کے نتیجہ میں حاصل نہیں ہوا جو حضور اکرم ﷺ کو حاصل ہوا.سارے عرب کے غلبہ کے نتیجے میں جو جانوں کی تلفی ہوئی ان کی تعداد سینکڑوں سے زیادہ نہیں بنے گی.یعنی حضوراکرم مے کو جو غلبہ حاصل ہوا اس میں بہت کم جانی نقصان ہوا ہے.صحابہ کی شہادتیں بھی شامل
خطبات طاہر جلد ۲ 140 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء کر لی جائیں اور دشمنوں کا قتل بھی شامل کر لیا جائے تب بھی تمام جنگوں کا جانی نقصان سینکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا اور پھر بڑی بڑی قوموں کو جو فتح کیا گیا وہاں بھی نسبتاً انتہائی معمولی جانی قربانی اور نقصان کے نتیجہ میں عظیم الشان فتوحات نصیب ہوئیں.پس ہمارے لئے جو مقصد حیات مقرر کیا گیا ہے وہ تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کی پیروی اور آپ کے نمونے پر انقلاب برپا کرنا ہے اس لئے ہلاکتوں والا انقلاب تو ہمیں سجتا نہیں ، ہمیں تو ایسا انقلاب چاہئے جو آنحضرت ﷺ نے دنیا میں بر پا کر کے دکھایا.اس مقصد کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر معمولی بیداری کے ساتھ کام کریں.جو وقت کھویا جا چکا ہے وہ تو اب واپس نہیں آسکتا لیکن جو وقت ہمیں میسر ہے اس کا ایک ایک لمحہ ہمیں بہترین رنگ میں استعمال کرنا ہوگا اور یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہر احمدی بلا استثنا مبلغ بنے.وہ وقت گزر گیا کہ جب چند مبلغین پر انحصار کیا جاتا تھا.اب تو بچوں کو بھی مبلغ بننا پڑے گا، بوڑھوں کو بھی مبلغ بننا پڑے گا.یہاں تک کہ بستر پر لیٹے ہوئے بیماروں کو بھی مبلغ بننا پڑے گا اور کچھ نہیں وہ دعاؤں کے ذریعہ ہی تبلیغ کے جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں.دن رات اللہ سے گریہ وزاری کر سکتے ہیں کہ اے خدا! ہمیں اتنی طاقت نہیں ہے کہ ہم چل پھر کر تبلیغ کرسکیں اس لئے بستر پر لیٹے لیٹے تجھ سے التجا کرتے ہیں کہ تو دلوں کو بدل دے.ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھ لیں اور اس جذبے کے ساتھ کام شروع کر دیں تو مجھے سو فیصد یقین ہے کہ دنیا کی ہلاکت کی تقدیر اللہ کے فضل سے مل سکتی ہے.دنیا کے اس ہلاکت سے بچنے کے متعلق بعد میں آنے والے مؤرخین مختلف وجوہات نکالیں گے.کوئی کہے گا کہ امریکہ کے فلاں صدر نے فلاں حکمت کا کام کیا اس لئے دنیا ہلاکت سے بچ گئی ، کوئی یہ سوچے گا کہ روس کے صدر نے فلاں حکمت کا کام کیا یا صبر کا نمونہ دکھایا اس لئے دنیا ہلاکت سے بچ گئی، کوئی یہ خیال کرے گا کہ اہل یورپ کو اللہ تعالیٰ نے دانش عطا فرمائی تھی اور ان کی حکمتوں کے نتیجہ میں دونوں بلاک یعنی روس اور امریکہ سمجھ گئے اور لڑائی ٹل گئی اور بعض یہ سوچیں گے کہ شاید چین کی طاقت جو Develop ہو رہی تھی اور ترقی کر رہی تھی اس نے ایک ایسا رول Play کیا، ایسا کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں دنیا ہلاکت سے بچ گئی لیکن خدا کی تقدیر جانتی ہوگی اور بعد میں آنے والا انسان بھی اس بات کی گواہی دے گا کہ دنیا کی ہلاکت صرف اس باریک دھاگے پر لٹکی ہوئی تھی کہ وہ احمدیت
خطبات طاہر جلد ۲ 141 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء یعنی حقیقی اسلام کی طرف توجہ کرتی ہے یا نہیں.چنانچہ احمدی بیدار ہوئے ، ان کو بشدت اس بات کا احساس ہوا کہ آج دنیا کے ہلاک ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ اس امر پر ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے اس طرف توجہ کی ، گریہ وزاری سے دعائیں کیں، نیک اعمال کئے اور دنیا کو خدا کی طرف بلایا اور محض اور محض اس وجہ سے دنیا ہلاکت سے بچائی گئی.یہ ہے تقدیر کا فیصلہ اور یہی درست ہوگا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے سوا اور کوئی طریق انسان کے بچنے کا نہیں ہے.بعد میں آنیوالا جو ایک لمبے عرصہ کے بعد پیدا ہوگا وہ بھی یہی سوچے گا اور اسی نتیجے پر پہنچے گا کہ حقیقت میں دنیا کی نجات احمدیت پر منحصر تھی.احمدیوں نے اپنے فرض کو کما حقہ ادا کیا اور اللہ تعالی کے فضل سے دنیا کو بچالیا.اس لئے میں بڑی سنجیدگی کے ساتھ بار بار آپ کو توجہ دلا رہا ہوں کہ داعی الی اللہ بننے کی کوشش کریں.داعی الی اللہ بننے کے لئے کچھ ذمہ داریاں ہیں، کچھ فرائض ہیں، کس طریق پر آپ کامیاب داعی الی اللہ بن سکتے ہیں، کونسی باتیں کرنی چاہئیں اور کونسی نہیں کرنی چاہئیں ؟ اس سلسلہ میں میں چند باتیں انشاء اللہ تعالیٰ اگلے خطبے میں آپ کے سامنے رکھوں گا.اس وقت صرف یہ کہ کر خطبے کو ختم کرتا ہوں کہ جو ذمہ داری میں نے اللہ تعالیٰ کے منشا کے مطابق آپ سب پر ڈالی ہے اور توقع رکھتا ہوں کہ ہر احمدی اس ذمہ داری کو پوری توجہ، پورے انہماک اور پورے خلوص کے ساتھ قبول کرے گا.اس کے لئے ساری جماعت کو خصوصیت سے دعا کرنی چاہئے.میری زندگی کا تجربہ ہے کہ جب بھی دعا کی طرف سے غفلت ہوئی کامیابی نہیں ہوئی اور جب بھی دعا کی طرف توجہ پیدا ہوئی بظاہر مشکل اور ناممکن کام بھی بن گئے.موجودہ حالات میں یہ کہنا کہ ہر احمدی مبلغ بن جائے، اتنا مشکل نظر آرہا ہے کہ یوں معلوم ہوتا ہے جیسے میں ایک ناممکن بات کہہ رہا ہوں لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی رکھتا ہوں کہ اگر میں نے دعاؤں میں کمی نہ کی اور اسی طرح جماعت نے بھی کوئی کمی نہ کی تو یہ بات جو بظاہر ناممکن نظر آرہی ہے ضرور ممکن ہو جائے گی.اسی حقیقت کو حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے شعر میں یوں بیان فرمایا ہے.غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے اے مرے فلسفیو! زور دعا دیکھو تو ( الفضل ۲ جنوری ۱۹۲۲ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 142 خطبه جمعه ۴ / مارچ ۱۹۸۳ء اس کلام کی سچائی کا جماعت بارہا مشاہدہ کر چکی ہے.اس لئے ہر احمدی بہر حال اس بات سے اپنی تبلیغ کا آغاز کر دے کہ فوری طور پر نہایت سنجیدگی کے ساتھ دعا کرے اور روزانہ پانچوں وقت اس کو اپنے اوپر لازم کر لے.وہ خدا سے یہ التجا کرے کہ اے خدا! ہمیں یہ توفیق عطا فرما کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکیں اور تیری نظر میں داعی الی اللہ بنے کا جو حق ہے اس کو ادا کر نے لگ جائیں اور اے خدا! دنیا کو بھی یہ توفیق عطا فرما کہ وہ ہماری باتوں کو سنے ، لوگوں کے دل نرم ہوں ، ان کی عقلیں صاف اور سیدھی ہو جائیں اور وہ تیرے پیغام کو قبول کرنے لگیں.اس کے ساتھ یہ دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ نئے آنے والوں کو حوصلہ دے اور ان کو طاقت بخشے کہ وہ مخالفتیں برداشت کر کے بھی حق کو قبول کریں، ان کو برکتیں عطا کرے اور ان سے پیار کا سلوک فرمائے تا کہ وہ دوسروں کے لئے نیک نمونہ بنیں.پھر روزانہ بلاناغہ یہ دعائیں بھی کریں کہ اے خدا! ہر آنے والا داعی الی اللہ بنے ، مبلغ احمدی بنے اور پھلجھڑی کا سا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائے کہ ایک شمع روشن ہو تو وہ آگے دوسری شمع روشن کرتی چلی جائے.اگر ساری جماعت یہ دعا ئیں شروع کر دے تو دیکھتے دیکھتے اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا میں عظیم الشان انقلاب بر پا ہونے لگیں گے.پس دعا پر بہت زور دیں، دعا پر بہت زور دیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تعلیم کا خلاصہ ہی یہ ہے کہ اول بھی دعا ہے، آخر بھی دعا ہے.اگر داعی الی اللہ بنا ہے تو اللہ سے دعائیں کرنی ہونگی.اس سے مدد مانگے بغیر کس طرح داعی الی اللہ بن جائیں گے؟ جس کی طرف بلانا چاہتے ہیں اس سے محبت اور پیار کئے بغیر اس کی طرف کیسے بلائیں گے؟ لیکن ان امور سے متعلق مزید تفصیلات انشاء اللہ آئندہ خطبہ میں آپ کے سامنے رکھوں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم بہت دعائیں کریں اور خلوص دل کے ساتھ کریں.اللہ تعالیٰ ان کو قبول فرمائے.ہم ان کے نیک اثرات دیکھیں.ہماری طبیعت میں بشاشت پیدا ہو اور مایوسی ختم ہو جائے.دلوں میں ایک یقین اور عظمت کردار کا احساس پیدا ہو جائے.ہم جانے لگیں کہ ہم دوسروں سے مختلف ہیں.ہم خدا والے ہیں اور خدا کی طرف یقین کے ساتھ بلانے والے ہیں.یہ وہ احساسات ہیں جو دعا کے نتیجہ میں بیدار ہوتے ہیں اور پھر تبلیغ کامیاب ہوا کرتی ہے.روزنامه الفضل ربوه ۳۱ رمئی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 143 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء خدا تعالیٰ سے سچا تعلق پیدا کر کے داعی الی اللہ بہنیں (خطبه جمعه فرموده ا ار مارچ ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: قرآن کریم نے جہاں اللہ کی طرف بلانے کی ہدایت فرمائی ہے وہاں جو تر تیب قائم فرمائی اس میں ایک بہت ہی گہری حکمت پوشیدہ ہے اس حکمت سے مراد عددی طور پر ایک حکمت نہیں بلکہ یوں کہنا چاہئے کہ اس میں حکمت کا ایک سمندر مخفی ہے.اس پر جتنا غور کرتے چلے جائیں انسانی حکمت کے لئے مزید روشنی کی راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں.یہ ایک عجیب بات ہے کہ سب سے پہلے اللہ کی طرف بلانے کا حکم دیا اور اس میں کسی مذہب کا نام نہیں لیا.پھر عمل صالح کی تلقین فرمائی تب بھی کسی مذہب کا نام بیچ میں نہیں آتا.آخر پر فرمایا کہ ان دو شرطوں کو پورا کرنے کے بعد یہ کہو کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں.پس ان بہت سی حکمتوں میں سے جو اس ترتیب میں پوشیدہ ہیں ایک یہ ہے کہ اللہ کا تصور ایک ایسا تصور ہے جس کی طرف بلانے کے نتیجہ میں جائز طور پر غصہ کی کوئی وجہ نہیں بنتی.دنیا کو مذہبی لحاظ سے آپ دوہی بڑے حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں.ایک وہ جو خدا کے قائل ہیں اور دوسرے وہ جو خدا کے قائل نہیں.جو لوگ خدا کے قائل ہیں ان کو اگر یہ کہا جائے کہ ہم تمہیں خدا
خطبات طاہر جلد ۲ 144 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء کی طرف بلاتے ہیں تو اس میں غصہ کی کون سی بات ہے نفرت کا کوئی مقام ہی نہیں ہے اور وہ جو خدا کے قائل نہیں ہیں اگر خدا کی طرف بلائے بغیر ان کو کسی مذہب کی طرف بلایا جائے تو نہایت ہی لغو فعل ہوگا اور ساری بحثیں بے معنی اور بے حقیقت اس لئے جو د ہر یہ ہو اس سے تو لا زمابات ہی خدا کی ہستی سے شروع کرنی پڑتی ہے.پس دونوں پہلوؤں سے نہایت ہی پر حکمت کلام ہے.فرمایا أُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ اپنے رب کی طرف بلاؤ.دوسری جگہ فرمایا اللہ کی طرف بلاؤ.مذہبی تقسیمیں بعد میں آئیں گی اور وہ جب آئیں گی تو پھر اس کے متعلق بھی اللہ تعالیٰ روشنی ڈالے گا کہ کس طرح اس معاملہ میں گفتگو کرنی ہے.لیکن پہلے جہاں اللہ کی طرف بلانے کا حکم ہے وہاں اس پر مزید غور کرنا چاہئے کہ اس میں اور کیا حکمتیں پوشیدہ ہیں اور اللہ کی طرف بلانے کا اور کیا طریق ہے.مذاہب کے درمیان اللہ ایک قدر مشترک ہے اور وہ پہلا اور آخری مقصد ہے جس کی طرف ہر مذہب بلاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بات مقصد سے شروع کرو.اگر تم مذاہب کے ناموں کی تقسیم میں پڑ جاؤ گے، فرقہ بازی میں مبتلا ہو جاؤ گے تو اتنی الجھنیں پیدا ہوسکتی ہیں اور بحث اتنی طویل ہو سکتی ہے کہ ہوسکتا ہے ایک انسان بلکہ انسانوں کی ایک پوری نسل ہمیشہ اس جستجو میں منہمک رہے اور پھر بھی وہ کسی مقصد کو نہ پاسکے.دیکھئے دنیا میں مذاہب کی فہرست کتنی طویل ہے.وہ جو مر چکے ہیں ان کے بھی آثار باقیہ ابھی تک ملتے ہیں اور جو زندہ سمجھے جاتے یعنی جن کو دنیا کی اصطلاح میں زندہ کہا جاتا ہے وہ بھی ایک بہت بڑی تعداد میں دنیا میں پائے جاتے ہیں.پھر ان کے اتنے فرقے ہیں کہ انکی فہرستیں پڑھتے پڑھتے بھی خاصا وقت لگ جاتا ہے.سینکڑوں فرقے تو صرف عیسائیت ہی کے ہیں اور پھر ان فرقوں کی آگے تقسیم کی جائے تو ایک ہی فرقے ہیں متفرق الخیال لوگ اس کثرت سے ملتے ہیں کہ ان کی گنتی ممکن نہیں اور پھر یہ مذاہب مختلف ممالک میں مختلف زبانیں بولنے والے علاقوں میں پائے جاتے ہیں.ان کے علم کی کتابیں کچھ معروف ہیں اور کچھ غیر معروف بلکہ ایسی زبانوں میں جن کو دنیا کے اکثر انسان سمجھ ہی نہیں سکتے.پس اگر یہ کہہ کر بلانا شروع کیا جائے کہ ہمارے مذہب کی طرف آؤ ہمارا مذہب سچا ہے اور پھر جو علمی جستجو کے تحت انسان کو سچائی کی تلاش کرنے کی دعوت دی جائے تو یہ تحقیق کا
خطبات طاہر جلد ۲ 145 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء ایک لامتناہی سلسلہ ہے جوکسی کنارہ پر کبھی نہیں پہنچ سکتا.بات ختم ہی نہیں ہوگی.آپ ایک زبان میں سب کچھ سمجھا دیں تب بھی ایسی بہت سی زبانیں پڑی ہیں جن کے اندر بہت سے مذاہب کے علوم پھیلے پڑے ہیں.یہ یقین پیدا ہوہی نہیں سکتا کہ ان مذاہب میں جو باتیں تھیں وہ کیوں درست نہیں یا کیوں درست ہیں اس لئے پتہ کی بات کی گئی ، سیدھی بات کی گئی، جو مقصد ہے اس کو بیان فرمایا گیا کہ سارے مسلک اور یہ گورکھ دھندے اور یہ رستوں کی تفصیلیں اور یہ تعلیمات کے جھگڑے کیوں ہیں؟ کس طرف بلانے کے لئے ہیں؟ صرف اللہ کی طرف بلانے کے لئے ہیں اس کے سوا انسان کو مذہب میں دلچسپی ہو ہی نہیں سکتی.انسان کو کیا مصیبت پڑی ہے کہ وہ وید کو مانے یا قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرے یا بائیل کی مشکل تعلیمات پر قدم مارے یا اور مذاہب کے پیچھے لگ کر اپنی زندگی کو مختلف قسم کی تعلیمات کی رو سے کرو یا نہ کرو گے جھگڑوں میں مقید کرے.پاگلوں والی بات لگتی ہے.اگر اس کا وہ مقصد نہیں جو قرآن کریم نے بیان فرمایا ہے یعنی اللہ کی طرف بلانے کا کیونکہ خالق سے اس کی مخلوق کو ایک فطری تعلق ہے اور خالق کی طرف جانے کے لئے انسان کی فطرت میں ایک ایسی طبعی تمنا گوندھی گئی ہے جس کو قرآن کریم اس طرح بیان فرماتا ہے کہ ہم نے انسان سے پوچھا (اس کی تخلیق سے بھی پہلے ) کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں قَالُو ابکی (الاعراف :۱۷۳) روحوں نے کہا کہ ہاں تو ہمارا رب ہے.پس مخلوق کو خالق سے ایک فطری تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور خالق کو بھی اپنی مخلوق سے ایک طبعی محبت ہوتی ہے بیچ میں اور کوئی رشتہ باقی نہیں رہتا اس لئے فرمایا اپنے خالق کی طرف لوگوں کو بلا ؤ.جو لوگ خدا کی ہستی کے قائل ہیں ان کو تو خدا چاہئے جہاں بھی ملے جس نام پر ملے، ہاں تمہیں یہ بتانا پڑے گا کہ خدا تمہارے پاس ہے اور وہ لوگ جو خدا کی ہستی کے قائل نہیں ہیں ان کے ساتھ مذہب کی بات چل نہیں سکتی جب تک ان کو پہلے یہ نہ بتاؤ کہ خدا موجود ہے اور اس کے ماننے کے لئے ان کے دل میں ایک تمنا، ایک خواہش ، ایک ضرورت پیدا نہ کر دو.اس تعلیم کا جیسے کہ میں نے بیان کیا تھا ایک طبعی فائدہ یا ایک قدرتی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس سے کسی نفرت کا بیچ نہیں بویا جاتا اسی لئے فرمایا وَ مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا اس سے زیادہ حسین قول اور کون سا ہوسکتا ہے کہ اللہ کی طرف بلا رہے ہو لیکن عجیب بات یہ ہے کہ اسی اللہ کی طرف بلانے کے نتیجہ میں دنیا میں اتنے فساد ہوئے ہیں، اتنی لڑائیاں ہوئی ہیں، اتنے مظالم ہوئے ہیں، اتنے گھر جلائے گئے
خطبات طاہر جلد ۲ 146 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء ہیں، اتنے بچے یتیم کئے گئے ہیں، اتنی عورتوں کے سہاگ لٹ گئے اور دنیا میں اتنے دکھ پھیلے ہیں کہ انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.کوئی منطقی اور کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ اللہ کی طرف بلانے کے نتیجہ میں دنیا میں فساد پھیلیں اس لئے اس پر غور کرنا چاہئے کیونکہ آگے جا کر یہ آیات متنبہ بھی کرتی ہیں اور صبر کی تعلیم بھی دیتی ہیں.معلوم یہ ہوتا ہے کہ باوجود اس کے کہ تم اپنے خدا کی طرف پوری دیانتداری اور خلوص سے بلاؤ گے پھر بھی تمہاری مخالفتیں ہوں گی.ایسا کیوں ہوگا اس پر کچھ غور کرنا چاہئے.اللہ ایک نعمت ہے.نعمت کی طرف بلانے کے نتیجہ میں لوگوں کو غصہ تو نہیں آیا کرتا.ہاں نعمت کو اگر انسان اپنی ذات میں سمیٹ کر بیٹھ جائے اور اس پر قبضہ کر لے اور یہ کہہ دے کہ یہ نعمت کسی اور کے لئے نہیں ہے صرف میرے اور میرے عزیزوں کے لئے ہے تو پھر لازماً فساد پیدا ہوتا ہے لیکن یہاں تو دعوی کا آغاز ہی یہ کہہ کر کیا گیا ہے کہ دنیا کو اس نعمت کی طرف بلاؤ اور کہو یہ صرف ہماری ہی نہیں یہ تمہاری بھی ہے.یہ تمہارے اور ہمارے درمیان قدر مشترک ہے ہم اکیلے اس کے حق دار نہیں ہیں تم بھی آؤ اور اس میں شریک ہو جاؤ.اس اعلان کے بعد پھر فساد کیوں؟ اب آپ دیکھیں کہ امریکہ میں سونے کی کانوں کی تلاش ہوتی تھی.بے شمار ٹولیوں کی ٹولیاں سونے کی تلاش میں نکل کھڑی ہوتی تھیں.جس کو سونا ملتا تھا وہ اس کوگھیر لیتا تھا اس کے اردگرد باڑیں بناتا تھا اس پر قبضہ کر لیتا تھا اس کے نتیجہ میں بڑے خون خرابے ہوئے.بڑے جھگڑے اور لڑائیاں ہوئیں لیکن اس لئے ہو ئیں کہ نہ پانے والوں نے پانے والوں کو مارا.پانے والا کبھی نہ پانے والے کو نہیں مارتا تھا اور وجہ یہ تھی کہ پانے والے کو اس لئے مارا گیا کہ اس نے کسی اور کو شریک نہیں کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے تو بات ہی اس طرح شروع کی کہ اس میں فساد کی جڑھ ہی کاٹ دی.فرمایا اللہ تمہیں مل گیا ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر ملتے ہی اس کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کر دو تا کہ حسد کی وجہ سے با ہمی نفرت اور بغض کی جو ایک ہی وجہ پیدا ہو سکتی تھی وہ بھی زائل اور باطل ہو جائے.کہو کہ یہ تمہارا بھی رب ہے اور ہم داروغے نہیں ہیں، ہمیں اس پر ملکیت کے کوئی حقوق حاصل نہیں ہیں، وہ تمہارا بھی اسی طرح رب بن سکتا ہے جس طرح ہمارا بنا تھا.اب بتائیے ایسی صورت میں پھر نفرت کی کیا وجہ ہوسکتی ہے.تو ایک اور وجہ نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ نہ پانے والوں کے پاس نہ صرف یہ کہ خدا نہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 147 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء بلکہ وہ عملاً خدا کی ہستی کے قائل ہی نہیں رہے.ان کو جب کسی خدا کے تصور کی طرف بلایا جاتا ہے تو وہ کچھ چیزوں سے محروم ہو جانے کے خیال سے ڈر جاتے ہیں.یعنی خدا کی نعمت پر راضی نہیں بلکہ خدا کے نام پر دنیا میں اپنی سرداریوں پر راضی ہیں.خدا کی سرداری پر راضی نہیں بلکہ خدا کے نام پر اپنی لیڈرشپ قائم کرنے کے نتیجہ میں وہ مطمئن ہیں.ان کے لئے خدا بحیثیت نعمت کوئی وجود نہیں رکھتا بلکہ وہ نعمتیں اپنی ذات میں اہمیت رکھتی ہیں جو خدا کے نام پر دنیا سے حاصل کرتے ہیں اور جب خدا کی طرف بلانے والے آتے ہیں تو وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کی نعمت تو فی ذاتہ کوئی چیز نہیں ہے اس میں تو ہمیں کوئی دلچسپی نہیں.ہاں خدا کا نام لے کر یا خدا نام لینے والوں میں ہمیں شمار کرنے کے نتیجہ میں دنیا ہمیں نعمتیں عطا کرتی ہے ، ہماری سرداریوں کو قبول کرتی ہے، جتھے میں ہمارے پیچھے چلتی ہے، ان کی دوستیں ہماری راہ میں قربان کی جاتی ہیں لیکن یہ بلانے ولا ایک ایسی فرضی نعمت کی طرف بلا رہا ہے جس کے نتیجہ میں ہماری ٹھوس ظاہری دنیاوی نعمتیں ہمارے ہاتھوں سے نکل جائیں گی.پس یہ وجہ ہے جو نفرت کا سبب بن جاتی ہے.سارے مذاہب کی تاریخ کا یہی خلاصہ بنتا ہے.آنحضرت ﷺ نے جب خدا کی طرف دنیا کو بلایا تو یہ تو نہیں فرمایا تھا کہ خدا تو صرف میرا ہے اور تمہارانہیں ہے بلکہ یہ اعلان فرمایا تھا: قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ يُوحَى إِلَى أَنَّمَا الْهُكُمْ إِلَهُ وَاحِدٌ فَمَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبَّةٍ أَحَدًا (الكيف: 1) کہ اے بنی نوع انسان ! میں تم پر کسی ایسی فضیلت کا دعویٰ نہیں کر سکتا نہ کرتا ہوں جو تمہیں حاصل نہیں ہوسکتی.میں بھی تو تمہاری طرح کا ایک بشر تھا جسے وحی نے نور بنادیا ہے اور یہ وحی صرف میرے لئے مخصوص نہیں خدا کے ہر بندہ کے لئے کھلی ہے.فرمایا مَنْ كَانَ يَرْجُوا لِقَاءَ رَبِّ؟ یہ ایک کھلی دعوت ہے، ایک صلائے عام ہے، جو شخص بھی اس عظیم الشان مقام کو پسند کرے اور جو بھی اب مجھے دیکھ کر میری فضیلت کو پہچان کر اپنے رب کی طرف دوڑنا چاہے اور اس رب کو پانا چاہے جو میں نے حاصل کیا ہے اور اس کی لقا کی تمنا کرے فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا پھر وہ عمل صالح کرے تو خدا اسے مل جائے گا.دیکھئے یہاں معابعد پھر وہی عمل صالح والا مضمون داخل کر دیا گیا ہے.پہلے بھی تو یہی فرمایا تھا
خطبات طاہر جلد ۲ 148 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ وَعَمِلَ صَالِحًا.آپ نے یہ اعلان فرمایا تھا کہ سیدھا راستہ ہے تم بھی عمل صالح کرو، میں نے بھی تو عمل صالح کے ذریعہ اپنے رب کو پایا تھا اور تم بھی خدا کا شریک نہ ٹھہراؤ تمہیں بھی خدا اسی طرح مل جائے گا جس طرح مجھے ملا تھا.اب اس اعلان میں کون سی غصہ کی وجہ تھی اور کون سی نفرت کی وجہ تھی لیکن سارا عرب آپ کی جان کے، آپ کی عزت کے، آپ کے اموال کے، آپ کے اعزہ اور اقربا کے در پے آزار ہو گیا اس لئے کہ کچھ ان کے فرضی خدا تھے.ان کو خداؤں میں دلچسپی نہیں تھی ان کو دلچسپی ان دنیا وی نعمتوں میں تھی جن کو وہ خدا کے نام پر دنیا سے بٹورا کرتے تھے، ان کو دلچسپی ان جتھوں میں تھی جو خدا کے نام پر ان کے گردا کٹھے ہوئے تھے.پس اگر حقیقی خدا ظاہر ہو جاتا اور دنیا اس خدا کی طرف مائل ہو جاتی تو دنیا کی وہ نعمتیں ان کے ہاتھ سے نکل جاتیں جو خدا کے نام پر انہوں نے اکٹھی کی تھیں یا اکٹھی کیا کرتے تھے.چنانچہ دنیا میں خدا کے نام پر جب بھی بلانے والوں کی مخالفت ہوئی ہے ہمیشہ اسی وجہ سے ہوئی ہے.دراصل بنیادی طور پر وہ قومیں دہر یہ ہو چکی ہوتی ہیں ، وہ تو میں مشرک ہو چکی ہوتی ہیں اور جب یہ اعلان ہوتا ہے کہ ان سب مصنوعی خداؤں اور ان کی طرف منسوب ہونے والی نعمتوں کو چھوڑ کر حقیقی خدا کی طرف آجاؤ تو انہیں اپنے ہاتھ سے کچھ چھوڑنا پڑتا ہے.کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو انبیاء کے گردا کٹھے ہونے لگ جاتے ہیں اور خدا کو پا کر ہر قربانی کے لئے تیار ہو جاتے ہیں لیکن وہ جن کے دل کی گہرائیوں میں دہریت ہوجن کو حقیقی خدا پر ایمان نہ ہو وہ پھر لازماً مخالفت کرتے ہیں کیونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم کھو تو دیں گے لیکن پائیں گے کچھ نہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی سب سے پہلے اسی قرآنی تعلیم کے مطابق دنیا کو خدا کی طرف بلایا.رب کی طرف بلانے میں ایک اور بھی حکمت پیش نظر ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسی دولت ہے جس کو پانے کے بعد انسان تنہا اس سے لذت یاب ہو ہی نہیں سکتا.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں دو قسم کی نعمتیں ہیں.ایک وہ جن کے ختم ہونے کا خوف انسان کو لاحق ہو اور دوسری وہ جو نہ ختم ہونے والی نعمت ہو.جن نعمتوں کے ختم ہونے کا خطرہ ہو ان کے اردگرد باڑیں بن جایا کرتی ہیں، ان کے گرد فصیلیں کھڑی ہو جایا کرتی ہیں، ان کے اردگرد قانون حائل ہو جاتے ہیں اور انسان چاہتا ہے کہ یہ میرے اور میرے عزیزوں کے لئے محفوظ رہیں اور تھوڑی بہت اپنی مرضی سے کبھی وہ اس دولت کو چھوڑ
خطبات طاہر جلد ۲ 149 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء بھی دیتا ہے لیکن بالعموم اس میں شراکت کو پسند نہیں کرتا لیکن اگر ایسی دولت ہو جس سے دنیا بھی فیضیاب ہو سکے اور اس کی لذتوں میں کبھی کوئی کمی نہ آسکے تو یہ فطرت کا تقاضا ہے کہ اس کی طرف انگلیاں اٹھتی ہیں اس دولت کی طرف بلایا جاتا ہے اور مزہ پورا نہیں آتا جب تک اور شریک نہ ہو جائیں.آپ قانون قدرت کا کوئی حسین منظر دیکھ رہے ہوں ساری دنیا بھی اس کو دیکھے تب بھی آپ کی لذت میں کمی نہیں آسکتی.اسی طرح آپ اس منظر کے مالک رہیں گے جس طرح باقی دنیا مالک بنتی ہیں.چنانچہ فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو دکھانے کا مزہ آتا ہے.بعض دفعہ موٹر پر سفر کرتے ہوئے کوئی پیاری سی جگہ نظر آئے کسی بچے نے دیکھی ہوتو وہ ضد کرتا ہے کہ چلو بے شک واپس چلو لیکن وہ جگہ میں نے تمہیں ضرور دکھانی ہے.کیوں دکھانی ہے اس لئے کہ نعمت کو ایک دوسرے کے ساتھ مشترکہ طور پر حاصل کرنے میں ایک لذت ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا posession یعنی ملکیت ختم نہ ہو جائے ، اس کی اپنی ملکیت کے حقوق میں کوئی فرق نہ آجائے.اس شرط کے ساتھ آپ ہمیشہ دنیا میں دوسروں کی نعمتوں میں شریک کرنے کی تمنا کرتے ہیں بلکہ مزہ ہی نہیں آتا جب تک دوسرا شریک نہ ہو جائے.جب عید کا چاند نظر آتا ہے تو دیکھنے والا کس طرح بے قرار ہو جاتا ہے کہ باقی بھی دیکھیں.لوگوں کو پکڑ پکڑ کر دکھاتا ہے، ہاتھ اٹھا اٹھا کر انگلیاں سیدھی کرتا ہے کہ وہ دیکھو وہ عید کا چاند ہے اور اگر کوئی اور نہ دیکھے تو اس کو پورا مزہ ہی نہیں آتا.اگر پیاسوں کا ایک قافلہ جارہا ہو اور ایک آدمی کو اچانک پانی میسر آجائے مثلاً میٹھے پانی کی ایک جھیل مل جائے جسے سارا قافلہ عمر بھربھی پیار ہے تو اس کوختم نہ کر سکے، وہ تو بے قرار ہو کر ان کو بلائے گا ، کہے گا آؤ میٹھا پانی مل گیا ہے اورا کیلئے آپ کو پانی پینے کا مزہ نہ آئے گا جب تک کہ دوسرے بھی اس میں شریک نہ ہو جائیں.پس اُدْعُ إِلى سَبِيلِ رَبَّكَ میں اور مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا إِلَى اللَّهِ میں اس حکمت کی طرف بھی اشارہ فرمایا کہ اللہ کو پانے والے ایک ایسے خزانہ کو پالیتے ہیں جو نہ ختم ہونے والاخزانہ ہے.ایک ایسی نعمت ہے جس پر کوئی زوال نہیں آسکتا اور پھر تنہا اس سے لذت یاب ہونے کو ان کا دل نہیں چاہتا.وہ بے قرار ہو جاتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگ شریک ہوں اور اس سے ہم زیادہ سے زیادہ لطف اندوز ہوں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اسی حقیقت کے پیش نظر اور اسی بنیادی انسانی فطرت کے تقاضے سے اپنے رب کی طرف ان الفاظ میں بلایا:
خطبات طاہر جلد ۲ 150 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء ”ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے، ہماری اعلیٰ لذات ہمارے خدا میں ہیں.کیونکہ ہم نے اس کو دیکھا اور ہر ایک خوبصورتی اس میں پائی.یہ دولت لینے کے لائق ہے اگر چہ جان دینے سے ملے اور یہ عمل خریدنے کے لائق ہے اگر چہ تمام وجود کھونے سے حاصل ہو.اے محرومو! اس چشمہ کی طرف دوڑو کہ وہ تمہیں سیراب کرے گا.یہ زندگی کا چشمہ ہے جو تمہیں بچائے گا.میں کیا کروں اور کس طرح اس خوشخبری کو دلوں میں بٹھا دوں، کس دف سے میں بازاروں میں منادی کروں کہ تمہارا یہ خدا ہے تا لوگ سن لیں اور کس دوا سے میں علاج کروں تا سننے کے لئے لوگوں کے کان کھلیں.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحه ۲۱ ۲۲) یہ فطرت کی ایک سچی آواز ہے.ناممکن ہے کہ کسی نہ پانے والے کے دل سے یہ کلمات نکلیں.اتنی بے اختیار سچائی ہے، اس میں ایسا وفور شوق ہے، ایسا بے اختیار جذ بہ ہے کہ ہر وہ شخص جو انسانی فطرت پر ادنی سی بھی نظر رکھتا ہے وہ صرف اس کلام کو پڑھنے کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا قائل ہو سکتا ہے اور اس خدا کی طرف دوڑنے کے لئے بے چین ہو جائے گا جس کی طرف بلایا جا رہا ہے.ایک ایک لفظ سچائی میں ڈوبا ہوا ہے اور یہ طبعی نتیجہ ہے خدا کو پانے کا.دوسرے اگر خدا کی طرف بلانا ہے تو اس طبعی جذبہ سے مجبور ہو کر بلاؤ کہ گویا تم نے اسے پالیا ہے اور خدا کو پانے کے بعد خدا کی طرف جو بلانا ہے اس سے آواز میں ایک اور ہی شان پیدا ہو جاتی ہے.فرضی خدا کی طرف بلانے والی آواز اور ہوتی ہے اور خدا کو پالینے کے بعد جو بلانے والی آواز ہوتی ہے وہ اور ہوتی ہے.اس کی بے قراری اور ہو جاتی ہے،اس کی شدت اور ہو جاتی ہے.وہ آواز بن جاتی ہے جو ابھی آپ نے سنی ہے یعنی ہمارے آقا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز جو سچائی سے معمور اور حقیقت کی مظہر ہے.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ خدا کو پائے بغیر اس کی طرف کسی کو نہیں بلانا چاہئے ورنہ تمہاری آواز جھوٹی اور کھوکھلی ہو جائے گی.اس میں طاقت نہیں رہے گی.پانے والے اور نہ پانے والے کی آواز میں بڑا فرق ہوتا ہے.ایک آواز کہتی ہے شیر آیا شیر آیا دوڑنا، اور کوئی اس کی طرف توجہ نہیں کرتا
خطبات طاہر جلد ۲ 151 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء اور ایک بے اختیار چیخ نکلتی ہے شیر ! اور ابھی فقرہ پورا بھی نہیں ہو پاتا کہ دنیا اچانک اس کی طرف توجہ کرنے لگ جاتی ہے.ایک آواز کہتی ہے کہ یہاں بے حد دولتیں ہیں اور کوئی اس کی طرف کان ہی نہیں دھرتا.ایک آواز بے اختیار دنیا کو کہتی ہے کہ یہاں میں نے سب پالیا ہے، مجھے فلاں چیز حاصل ہوگئی ہے اور فلاں چیز حاصل ہوگئی ہے تو اچانک دنیا اس کی طرف دوڑ نے لگتی ہے.ظاہری فقروں اور الفاظ کی بناوٹ کے لحاظ سے آپ کو کوئی فرق نظر نہیں آئے گا لیکن وہ کیا چیز ہے جو ان آوازوں میں فرق ظاہر کرتی ہے وہ نفس کی سچائی ہے یا نفس کی سچائی کا فقدان ہے.پس اُدعُ إِلى سَبِيلِ رَبِّكَ میں اور مَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا إِلَى اللهِ میں اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ اپنے رب کو پانے کے بعد لوگوں کو دعوت الی اللہ دو.فرضی خدا کی طرف نہ بلا ناور نہ کوئی بھی تمہاری آواز پر کان نہیں دھرے گا.ایک اور جگہ اس مضمون کو اس طرح کھولا گیا کہ اگر تم فرضی خدا کی طرف بلاؤ گے تو اس نام پر جب تکلیفیں تمہیں دی جائیں گی تو تم برداشت نہیں کر سکو گے اور پھر تم پانے والوں میں نہیں رہو گے بلکہ کھونے والوں میں داخل ہو کر اس شعر کے مصداق بن جاؤ گے.نه خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے لیکن اگر تم نے خدا کو حقیقتا پالیا ہے تو اس کے بعد اس ہستی سے کوئی تمہیں جدا نہیں کر سکتا.فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى لَا انفِصَامَ لَهَا (البقرۃ: ۲۵۷) پھر دنیا کے سارے جبر اور ساری دنیا کے اکراہ بھی تمہیں اپنے خدا سے محروم نہیں کر سکیں گے اور تمہیں اس بات سے باز نہیں رکھ سکیں گے کہ تم اپنے خدا کی طرف لوگوں کو بلاؤ.ایک اور جگہ فرمایا انَّ الَّذِينَ قَالُوْارَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا (حم السجدة : ۳۱) کہ وہ لوگ جو اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارا رب اللہ ہے ثُمَّ اسْتَقَامُوا پھر مصائب پر استقامت اختیار کرتے ہیں.وہی ہیں جو اپنے دعوی میں بچے ہیں انہیں پر فرشتے نازل ہوتے ہیں.تو معلوم ہوا کہ بلانے سے پہلے پانا ضروری ہے ورنہ بلانے کے نتیجہ میں جو مصیبتیں نازل ہوتی ہیں ان کو انسان برداشت نہیں کر سکتا اور پھر جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے آواز میں نہ طاقت پیدا ہوتی ہے نہ شوکت پیدا ہوتی ہے اور نہ قوت قدسیہ آتی ہے.دلوں کو تبدیل نہیں کر سکتا ایسا انسان جس نے خدا کو پانے کے بغیر کسی کو اس کی طرف بلایا ہو.
خطبات طاہر جلد ۲ 152 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء پس جس نے بھی داعی الی اللہ بننا ہے اس کے لئے تو یہ لازم ہو جائے گا کہ پہلے وہ رب کو پائے اس سے ذاتی تعلق قائم کرے نہ کہ صرف جماعتی تعلق.ان دو چیزوں میں بہت بڑا فرق ہے.کچھ لوگ وہ ہوتے ہیں جن کے متعلق پنجابی میں کہتے ہیں کہ ”جے چڑھ گئے ہیں ان کی باراتیں جاتی ہیں اور شادیاں ہو جاتی ہیں اور کچھ وہ ہوتے ہیں جنہوں نے صرف نجے چڑھتے دیکھنا ہوتا ہے کہ ہاں کسی اور کی بارات جارہی تھی تو ہم نے بھی دیکھ لیا.اب ان دونوں میں تو زمین و آسمان کا فرق ہے.قرآنی تعلیم یہ ہے کہ تم بجے چڑھو اور پھر بلاؤ لوگوں کو اس نعمت کی طرف.یہ نہ کہو کہ ہم نے بھی دیکھا ہوا ہے.ان کی آواز تو اسی طرح ہوتی ہے جیسے گیدڑوں کی آواز جن کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رات کو جب چھینتے ہیں اور شور مچاتے ہیں تو واقعہ یہ ہوتا ہے کہ ایک گیدڑ بڑے زور سے اور بڑی تعلی سے آواز بلند کرتا ہے کہ پدرم سلطان بود، میرا باپ بادشاہ تھا.تو سارے گیدڑ آگے سے جواب دیتے ہیں کہ تراچه، تراچه، ترا چہ ( یہ آواز اسی قسم کی آتی ہے جب گیدڑ بولتے ہیں ) کہ ہاں ہوگا بادشاہ پر تجھے کیا، تجھے کیا ، تجھے کیا تو تو بادشاہ نہیں.پس خدا کی طرف بلانے والے ایسے لوگوں کے ساتھ بھی یہی سلوگ ہوگا اگر انہوں نے خدا کو پایا نہ ہو اور صرف یہ کہتے ہوں کہ فلاں پر خدا نازل ہوا تھا اور فلاں سے خدا نے کلام کیا تھا، فلاں نے خدا کو پالیا تھا اور فلاں نے خدا کو پالیا تھا.ایسے لوگوں کو تو پھر دنیا یہی کہے گی کہ ترا چہ، تراچه، ترا چہ یعنی تجھے کیا، تجھے کیا ، تجھے کیا.جب تو نے خدا کو نہیں پایا تو ہمیں کس طرح خدا سے ملا دے گا.جس نعمت کو تو خود نہیں پاسکا، تو ہمیں بلاتا ہے کہ ہمیں وہ نعمت دلوا دے گا یہ کتنی کھوکھلی اور بے معنی اور بے حقیقت آواز بن جاتی ہے لیکن کامیاب مبلغ کے لئے اس میں بے شمار حکمتوں کے پیغام ہیں.اس بات میں حکمتوں کا خزانہ مخفی ہے کہ اللہ کی طرف بلاؤ اور اسے پانے کے بعد بلاؤ.اس کا ثبوت کیا دیا فرمایا عَمِلَ صَالِحًا عجیب کلام ہے.کتنے تھوڑے لفظوں میں کیسی حیرت انگیز باتیں بیان فرما دیتا ہے.میں نے جو یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ یہ کہنا چاہتا ہے کہ خدا کی طرف بلا ؤ اور اسے پانے کے بعد بلاؤ بغیر اسے حاصل کئے نہیں بلانا.اس کا ثبوت کیا ہے.اس کا ثبوت یہ ہے جو اگلا کلمہ بتا رہا ہے که حاصل شدہ نتیجہ کو پیش کرو.اور وہ کیا ہے وہ وَ عَمِلَ صَالِحًا ہے.اگر خدا کو تم نے پایا ہے تو اس کا حسن تم میں بھی تو پیدا ہونا چاہئے.یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اللہ کو پالیا ہو اور اسی طرح بدصورت اور بدزیب، بے حقیقت اور کر یہہ المنظر انسان بنے رہو.اللہ تعالیٰ تو ایک عظیم الشان طاقت اور ایک
خطبات طاہر جلد ۲ 153 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء حسین زندگی کا سرچشمہ ہے اس کو حاصل کرنے کے بعد زندگی کی علامتیں بھی تو ظاہر ہونی چاہئیں.آپ پیاسے لوگوں کو بلا رہے ہوں کہ ادھر آؤ پانی ہے اور زبان سوکھی ہوئی ہو، ہونٹ خشک ہوں اور گلے سے آواز نہ نکلتی ہو تو کوئی کہے گا کہ میاں تمہارے پاس پانی ہے تو تم خود ایک گھونٹ پانی کا کیوں نہیں پی لیتے.پس اگر لوگ خدا کی طرف بلائیں اور ان کے عمل صالح نہ ہوں تو دنیا یہ کہے گی کہ خدا کی طرف بلا رہے ہو.کیا تم اس خدا کی طرف بلا رہے ہو جس کے ماننے کے باوجود تمہارے اندر کوئی تبدیلی پیدا نہیں ہوئی.تم اسی طرح ظالم ہو ، اسی طرح سفاک ہو، اسی طرح لوگوں کے حق مارتے ہو، اسی طرح جھگڑوں میں مبتلا ہو جس طرح دنیا جھگڑوں میں مبتلا ہے.عورتیں مردوں کے حقوق ادا نہیں کر رہیں.مرد عورتوں کے حقوق ادا نہیں کر رہے.بنی نوع انسان سے کوئی سچی ہمدردی نہیں ہے.کوئی بیمار ہو تو دل میں دکھ محسوس نہیں ہوتا.کوئی مصیبت میں مبتلا ہو تو اسے دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور پھر کہتے ہو کہ آؤ ہم تمہیں خدا کی طرف بلاتے ہیں.اگر خدا کی طرف بلانے والوں کا یہ حال ہے تو پھر نہ بلانے والوں سے فرق کیا ہے.ہم کیوں اپنی جگہ چھوڑ کر تمہارے ہاں آنے کی تکلیف کریں.غرض یہ اس بات کا طبعی نتیجہ ہے کہ اگر عمل صالح کی شرط پر عمل نہ ہو رہا ہو تو دعوت الی اللہ کامیاب ثابت نہیں ہوتی.عمل صالح یا اعمال صالحہ کا پیدا ہونا خدا کو حاصل کرنے کا نتیجہ ہے نہ کہ خدا کی طرف بلانے کا نتیجہ.یہ بات میں آپ پر کھولنا چاہتا ہوں کیونکہ خدا کی طرف بلانے والے تو لاکھوں کروڑوں بلکہ اربوں ہوں گے جن کے اعمال گندے ہیں، جن کا کردار گواہی دیتا ہے کہ انہوں نے اس ذات سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جس کی طرف بلا رہے ہیں تو عمل صالح کی شرط سے وہ کیوں محروم ہیں اس لئے کہ وہ ایک خیالی خدا کی طرف بلا رہے ہیں ، انہوں نے پایا کچھ نہیں.اگر پالیا ہوتا تو خدا ان کی ذات میں ظاہر ہو جاتا ، ان کی ذات میں نظر آنے لگتا.خدا کو پانے والوں کا تو یہ عالم ہوتا ہے کہ وہ یہ اعلان کرتے ہیں: سر سے لے کر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۳) یہ شوکت اور قوت خدا کو حاصل کئے بغیر پیدا نہیں ہوتی اس لئے داعی الی اللہ کے لئے دلیلیں
خطبات طاہر جلد ۲ 154 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء سیکھنا بہت بعد کی بات ہے.جو لوگ یہ کہتے ہے کہ جی ہم انتظار کرتے ہیں کہ پہلے تبلیغی پاکٹ بک چھپ جائے، پہلے فلاں دلیل ہمیں مل جائے، علم سیکھ لیں پھر خدا کی طرف بلائیں گے.تو ان بے چاروں کو علم نہیں کہ قرآن کریم نے تو اس بات سے ان کو شروع ہی میں آزاد کر دیا ہے فرمایا ہے کہ اپنے رب کو پالو اور اس کو پانے کے آثار اپنے اندر ظاہر کر دو پھر تم گویا پوری طرح مسلح ہو چکے ہو ان تمام ہتھیاروں سے جو جہاد فی سبیل اللہ کے لئے ضروری ہیں.زادراہ تو تمہیں مل گیا ہاں اس راہ میں آگے چل کر جوضرورتیں ہوں گی وہ خدا تعالیٰ خود پوری کرتا چلا جائے گا اور یہ امر واقعہ ہے کہ خدا کی راہ میں تقویٰ سے لیس ہو کر عمل صالح سے مزین ہونے کے بعد جن لوگوں نے جہاد شروع کیا وہ علم میں کبھی پیچھے نہیں رہے بلکہ خدا خودان کو علم عطا فرماتا ہے اور علم صرف ظاہری طور پر کتابیں پڑھنے سے نہیں آتا.اصل علم وہ ہے جو خدا عطا فرماتا ہے.چنانچہ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ حضور اکرمی جو دعوت الی اللہ دینے والوں میں سب سے ارفع و اعلیٰ مقام رکھتے تھے ظاہری طور پر ان پڑھ تھے.اگر تبلیغی جہاد کے لئے ظاہری علم اتنا ہی ضروری تھا تو پھر تو حضور اکرم ﷺ کو دعوت الی اللہ کا کام شروع کرنا ہی نہیں چاہئے تھا.پھر تو آپ پہلے تمام دنیا میں پھرتے اور اس وقت جو یو نیورسٹیاں موجود تھیں ان میں تعلیم پاتے اور پھر اس مقام پر کھڑے ہوتے کہ اب میں تمہیں خدا کی طرف بلاتا ہوں.ہمارے آقاسید ولد آدم کو کیوں ظاہری علم سے آراستہ نہیں کیا گیا؟ اس میں ایک بہت بڑی حکمت تھی اور وہ یہ کہ پھر کبھی قیامت تک کوئی انسان یہ نہ کہہ سکے کہ میں کس طرح داعی الی اللہ بن جاؤں مجھے تو ظاہری تعلیم حاصل نہیں.فرمایا جو سب دنیا کو علم سکھانے والا بنا اس نے دعوت الی اللہ کے سفر کا آغاز بغیر ظاہری تعلیم کے کیا تھا.صرف ایک صفت اس میں تھی کہ وہ اپنے رب سے پیار کرتا تھا اور اس کا رب اس سے پیار کرتا تھا.اس کے نتیجہ میں سارے علوم کے چشمے اس پر کھولے گئے حالانکہ ظاہری علم کے زیور سے وہ آراستہ نہیں تھا.پس ایک یہ تعلیم بھی ہمیں اس میں مل گئی کہ یہ انتظار نہ کرو کہ تمہیں دنیاوی طور پر وہ علوم حاصل ہو جائیں جو دنیا کی نظر میں علوم کہلاتے ہیں بلکہ اگر کورے چٹے ان پڑھ بھی ہو اور خدا سے محبت رکھتے ہواور خدا کو پالیتے ہو اور محسوس کرتے ہو کہ ایک رفیق مجھے مل چکا ہے جو ہمیشہ کا رفیق ہے جو سب رفیقوں سے بڑھ کر ہے تو پھر تم اس لائق ہو کہ دنیا کو اس خدا کی طرف بلاؤ اس سے زیادہ تمہیں کوئی
خطبات طاہر جلد ۲ 155 ضرورت ہے.اگر ہے تو خدا خود وہ ضرورت پوری کر دے گا.خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء غرض ان معنوں میں آپ کو داعی الی اللہ بنا ہے اس لئے پہلے کتابوں کی طرف توجہ نہ کریں، پہلے اپنے رب کریم کی طرف توجہ کریں اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے تمام توجہ مبذول کریں.یقیناً ہر وہ احمدی جو اپنے دل میں مطمئن ہوتا چلا جا رہا ہے کہ میں ہر روز اپنے رب کی طرف سفر کر رہا ہوں اور میرا رب مجھ سے زیادہ تیزی کے ساتھ میری طرف بڑھ رہا ہے وہ اس راستہ پر گامزن ہو چکا ہے جو کامیابی اور فلاح کا راستہ ہے وہ اس راستہ پر گامزن ہو چکا ہے جہاں نہ تو کوئی غم ہوگا اور نہ کوئی خوف ہوگا یہی وہ کامیاب داعی الی اللہ ہے جس کی آواز میں شوکت عطا کی جائے گی جس کی آواز میں طاقت عطا کی جائے گی اور اسے قوت قدسیہ نصیب ہوگی اور وہ دیکھے گا کہ دنیا حیرت انگیز طور پر اس کی بات کو سنتی اور اس کی دعوت سے متاثر ہوتی ہے.ورنہ لاکھوں بلکہ کروڑوں عالم ایسے گزرے ہیں جو عمر بھر ایک فرضی خدا کی طرف بلاتے رہے لیکن کسی نے ان کی آواز پر کان نہیں دھرا.نہ ان کی اپنی زندگی سدھر سکی اور نہ وہ دوسروں کی زندگی کو سدھار سکے.اب آخر پر میں ایک ایسے داعی الی اللہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو تین روز قبل ہم سے جدا ہو گیا یعنی حضرت مولوی محمد دین صاحب.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ۱۹۰۷ء میں پہلی مرتبہ وقف زندگی کی تحریک فرمائی.یعنی لوگوں کو اس طرف بلایا کہ اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیں اور دین کی نصرت کے لئے حاضر ہو جائیں.چنانچہ وہ تیرہ خوش نصیب جنہوں نے اس پہلی آواز پر لبیک کہا تھا ان میں حضرت مولوی محمد دین صاحب بھی تھے.انہوں نے بڑی وفا کے ساتھ اس عہد کو نبھایا.۱۹۲۳ء میں آپ کو دعوت الی اللہ کے لئے امریکہ بجھوایا گیا جہاں آپ ۱۹۲۵ء تک بڑی کامیابی کے ساتھ تبلیغی فرائض سرانجام دیتے اور دعوت الی اللہ کا حق ادا کرتے رہے.لیکن ان دو تین سالوں کا کیا ذ کر آپ تمام عمر ایک نہایت ہی پاک نفس، درویش صفت انسان کے طور پر زندہ رہے.کوئی انا نیت نہیں تھی ، کوئی تکبر نہیں تھا.ایسا بچھا ہوا و جو د تھا جو خدا کی راہوں میں بچھ کر چلتا ہے.ذکر الہی سے ہمیشہ آپ کی زبان تر رہتی تھی.آخری سانس تک آپ داعی الی اللہ بنے رہے.بظاہر بستر پر پڑا ہوا ایک ایسا وجود تھا جو دنیا کی نگاہ میں ناکارہ ہو چکا تھا مگر جیسا کہ میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا جب میں سپین سے واپس آیا اور حضرت مولوی صاحب کی خدمت میں ملاقات کے لئے حاضر ہوا، پہلی
خطبات طاہر جلد ۲ 156 خطبه جمعه ۱۱/ مارچ ۱۹۸۳ء بات انہوں نے مجھے یہی کہی کہ میں سپین کے مشن کی کامیابی کے لئے اور آپ کے دورہ کی کامیابی کے لئے مسلسل دعائیں کرتا رہا ہوں.میں نے مولوی صاحب سے کہا کہ آپ کی دعائیں مجھے پہنچتی رہی ہیں اور میں ان کو خدا تعالیٰ کی رحمت اور فضلوں کی صورت میں آسمان سے برستا ہوا دیکھا کرتا تھا اور کون جانتا ہے کہ کتنا بڑا حصہ حضرت مولوی صاحب کا تھا اس کامیابی میں جو اس سفر کو نصیب ہوئی.پس داعی الی اللہ تو وہ ہوتا ہے کہ جب ایک دفعہ عہد کرتا ہے تو پھر عمر بھر اس عہد کو کامل وفا کے ساتھ نباہتا بھی ہے اور آخری سانس تک داعی الی اللہ بنار ہتا ہے.پس ہمیں اس قسم کے داعی الی اللہ کی ضرورت ہے.ایک محمد دین اگر آج ہم سے جدا ہوتا ہے تو خدا کرے کہ لاکھوں کروڑوں محمد دین پیدا ہوں کیونکہ آج دنیا کو ایک یا دو یا سویا ہزارمحمد دین سے کامیابی نصیب نہیں ہوسکتی.دنیا کے تقاضے بہت وسیع ہیں اور دنیا کی بیماریاں بہت گہری ہو چکی ہیں اس لئے خدا کی طرف بلانے والے اور خدا کے نام پر شفا بخشنے والے لاکھوں اور کروڑوں کی ضرورت ہے.خدا کرے کہ ہر احمدی مرد اور ہر احمدی عورت ، ہر احمدی بچہ اور ہر احمدی بوڑھا اس قسم کا ایک پاکباز اور پاک نفس داعی الی اللہ بن جائے جس کی باتوں میں قوت قدسیہ ہو، جس کی آواز میں خدا تعالیٰ کی طرف سے صداقت اور حق کی شوکت عطا کی جائے.جس کی بات کا انکار کرنا دنیا کے بس میں نہ رہے.اس کے دم میں خدا شفا ر کھے اور وہ روحانی بیماریوں کی شفا کا موجب بنے.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین.روزنامه الفضل ربوه هر جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 157 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء جلسہ صد سالہ جوبلی کی تیاریاں اور تو کل علی اللہ ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا: جماعت احمدیہ کے جلسہ سالانہ کی ضروریات سال بہ سال بڑھتی چلی جارہی ہیں اور شاید ہی کوئی سال ایسا آیا ہو گا کہ جب بعض حالات کی مجبوری کی وجہ سے گزشتہ جلسہ سالانہ کے مقابل پر کسی آنے والے جلسہ کی حاضری کم ہوئی ہو.اس عمومی تدریجی ترقی کے علاوہ بعض ایسے ادوار بھی آسکتے ہیں اور ہم ان ادوار کو خوش آمدید کہتے ہیں جن میں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے غیر معمولی ترقی عطا فرمائے اور جلسہ کے مہمانوں کی آمد ہماری توقع اور عام اندازوں کے مقابل پر بہت بڑھ جائے.خصوصاً جب آپ دنیا بھر میں دعوت الی اللہ کر رہے ہیں اور دنیا کے کونے کونے میں احمدی ایک نئے عزم اور ایک نئے ولولے کے ساتھ دعوت الی اللہ کے ایک نئے دور میں داخل ہورہے ہیں تو پھر اپنے رب پر حسن ظنی کرنی چاہئے اور یہ یقین رکھنا چاہئے کہ اس دعوت میں برکت بھی ہوگی ، ہماری کوششوں کو ہماری توقعات سے بڑھ کر میٹھے پھل لگیں گے اور بکثرت لوگ احمدیت یعنی حقیقی اسلام میں داخل ہوں گے.جب ہم اپنے رب پر یہ توقع اور حسن ظنی رکھ کر سفر کریں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ دنیا بھر کی مختلف قوموں میں سے بکثرت نئے لوگ جوق در جوق سلسلہ میں داخل ہونگے اور جب ہم ان
خطبات طاہر جلد ۲ 158 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء کو اپنے مرکز میں آنے اور جلسہ سالانہ میں شمولیت کی دعوت دیں گے تو گزشتہ سالوں کے مقابلہ میں لازماً ہمیں آئندہ بہت زیادہ مہمانوں کے لئے انتظام کرنا ہوگا.یہ تو وہ اندازے ہیں جو پھیلتی ہوئی دعوت کے نتیجے میں طبعی طور پر ذہن میں آتے ہیں لیکن ایک ایسا جلسہ سالانہ بھی آنے والا ہے جسے جو بلی کا جلسہ کہہ سکتے ہیں.اس میں ان غیر متوقع اضافوں کے علاوہ بھی کچھ اضافے متوقع ہیں کیونکہ جو بلی کا سال ایک ایسا ولولے کا سال ہوگا کہ کوئی بعید نہیں اس جلسہ پر ایسے بیمار بھی چلے آئیں جن کو لوگ چار پائیوں پر اٹھا کر لا رہے ہوں اور کوئی بعید نہیں کہ بستر پر پڑے ہوئے ایسے دوست بھی جو بے قرار ہو کر اپنے رشتہ داروں اور عزیزوں کو مجبور کر دیں کہ اگر تمہیں یہ خوف ہے کہ میرے سفر سے میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے تو مجھے ربوہ پہنچ کر مرنے دو بجائے اس کے کہ میں یہاں اپنے گھر میں بستر پر جان دوں.ایسے غیر معمولی ولولے اور جوش کے سالوں میں تو وہ لوگ بھی چلے آتے ہیں جو عام طور پر نہیں آتے یا نہیں آ سکتے اس کے لئے ہم نے کیا تیاری کی ہے؟ یہ ہے وہ سوال جس کی طرف میں جماعت کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.گزشتہ متعدد سالوں کا تجزیہ کرنے سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دن بدن جماعتی قیام گاہوں کی بجائے انفرادی قیام گاہوں میں ٹھہرنے کا رجحان بڑھتا چلا جا رہا ہے اور یہ معاشرتی تبدیلیوں کا طبعی نتیجہ ہے.مجھے یاد ہے قادیان کے زمانے میں بہت سے لوگ یہ پسند کیا کرتے تھے کہ وہ جلسہ سالانہ کے موقع پر جماعتی قیام گاہوں میں ٹھہریں بلکہ بہت سے احمدی جن کا عام رہن سہن کا معیار اس زمانے کے لحاظ سے بہت اونچا تھا وہ بھی پرالی اور کھوری کے اوپر لیٹ کر دیگر مہمانوں کے ساتھ اپنا وقت بسر کرنا زیادہ پسند کرتے تھے.ذکر الہی کا بہت پیارا ماحول ہوا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب دینی باتیں بیان کیا کرتے تھے.ان کی راتیں ذکر الہی میں رچ بس جاتی تھیں اور وہ اس میں ایک غیر معمولی لذت پاتے تھے لیکن وہ ایک خاص ماحول تھا جو ان خاص دنوں کے ساتھ آہستہ آہستہ ماضی کا قصہ بن گیا.پھر معاشرتی تبدیلیاں پیدا ہوئیں خاندانی یونٹ میں زیادہ کشش پیدا ہوگئی اور آرام طلبی زیادہ ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ اس بات کو زیادہ پسند کرنے لگے کہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہیں اور اجتماعی قیام گاہوں میں نہ جائیں.اس رجحان کو تو اب ہم تبدیل نہیں کر سکتے سوائے اس کے کہ کوئی مجبوری در پیش ہو اور یہ
خطبات طاہر جلد ۲ 159 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء اعلان کرنا پڑے کہ خاندانی یونٹ کو تو ڑ کر جماعتی قیام گاہوں میں چلے آؤ لیکن یہ ایک استثنائی صورت ہے جو کسی وقت بھی پیدا ہو سکتی ہے اور پہلے بھی ایسا ہوتا رہا ہے مثلاً بارش کی وجہ سے ہمیں مجبوراً بعض اوقات یہ اعلان کرنا پڑا کہ جو خیمے خاندانوں کو الاٹ کئے گئے ہیں وہ اب ان کے لئے نہیں رہیں گے کیونکہ ان میں کم تعدا دسما سکتی ہے اس لئے عورتیں الگ ہو جائیں اور مردا لگ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت نے فور تعاون کیا.بہر حال ایسے حالات میں اب بھی یہی ہوگا لیکن بالعموم اس رجحان کواب ہم بدل نہیں سکتے.اس لئے جماعت کے وہ دوست جو انفرادی طور پر مہمان رکھنا چاہتے ہیں جیسا کہ وہ ہمیشہ سے بڑے شوق کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کو اپنے ہاں ٹھہراتے رہے ہیں ، ان کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے.وہ مہمان جن کو انفرادی طور پر گھروں میں ٹھہرایا جاتا ہے دو قسم کے ہیں.ایک وہ جو ذاتی تعلقات کی بنا پر اپنے دوستوں یا عزیزوں کے ہاں ٹھہرتے ہیں.میں ان کی بات نہیں کر رہا میرے ذہن میں اس وقت وہ مہمان ہیں جن کے ساتھ بعض گھر والوں کے کسی قسم کے ذاتی مراسم نہیں ہوتے.بعض اوقات تو انہوں نے ان کا نام بھی نہیں سنا ہوتا لیکن وہ اپنے گھر کے بعض کمرے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کی خاطر نظام کے سپرد کر دیتے ہیں تا کہ وہ دوست جو نازک طبع ہوتے ہیں اور جماعتی قیام گاہوں میں نہیں ٹھہر سکتے وہ ان کے گھروں میں ٹھہریں.بعض دفعہ غیر ملکی مہمانوں کے لئے ان کے معاشرے کے مطابق فلش سسٹم وغیرہ کی جدید سہولتیں مہیا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے.چنانچہ یہ تحریک کی گئی اور اب ربوہ میں بہت سے ایسے دوست ہیں جنہوں نے محض اس نیت سے اچھے غسل خانے بنوائے ہیں تا کہ جب سال به سال حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مہمان یہاں تشریف لائیں تو وہ ان کو ایسے کمرے پیش کر سکیں جن کے ساتھ ان کی سہولت اور مزاج کے مطابق مغسل خانے بھی ہوں.پس پرائیویٹ قیام گاہوں میں اجتماعی نظام کے تابع مہمان ٹھہرانے کی ضرورت کے پیش نظر بہت زیادہ بوجھ پڑنے والا ہے.اس کے دو ہی حل ہیں جو میرے ذہن میں آرہے ہیں.اول یہ کہ جن لوگوں کے مکان ربوہ میں بن چکے ہیں ان کو یہ تحریک کی جائے کہ انہیں ضرورت ہو یا نہ ہو،
خطبات طاہر جلد ۲ 160 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء محض اللہ اپنے گھروں میں ایسے کمروں کا اضافہ کریں جو خالصتہ جلسہ سالانہ کے مہمانوں کی خاطر ہوں اور جہاں تک ممکن ہو ان کے ساتھ غسل خانے وغیرہ بھی ایسے بنائیں کہ جہاں زیادہ سے زیادہ مہمان آسانی کے ساتھ اپنی ضروریات پوری کر سکیں.اگر اس نیت کے ساتھ ربوہ کے ہر گھر میں کچھ کمروں کا اضافہ ہو جائے تو اس سے ایک غیر معمولی سہولت مہیا ہو جائے گی.دوسری بات جو بہت ہی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ربوہ میں جو خالی پلاٹ پڑے ہوئے ہیں ان پر مکان تعمیر کئے جائیں.میں نے جب جائزہ لیا تو یہ معلوم کر کے مجھے بہت تعجب ہوا کہ ابھی تک پلاٹوں کی بہت بڑی تعداد خالی پڑی ہے.اگر ان کو آباد کیا جائے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ساتھ مزید کمرے بھی بن جائیں تو بہت محفوظ اور محتاط اندازے کے مطابق ہمارے مہمانوں کو موجودہ جگہ سے تین گنا زیادہ جگہ مہیا ہو سکتی ہے بلکہ شاید اس سے بھی بڑھ جائے.اس کی وجہ یہ ہے کہ جو آج مہمان بنے ہوئے ہیں ان میں بہت سے ایسے ہیں جن کے یہاں خالی پلاٹ موجود ہیں.وہ بجائے اپنا مکان بنا کر اس میں ٹھہرنے کے کسی اور کے گھر ٹھہرتے ہیں.اگر وہ اپنا مکان بنالیں تو اپنی ضرورت سے زائد کمرے دوسرے مہمانوں کے سپرد کر سکتے ہیں.اگر ہم بیرونی نئی آبادیوں کو شامل کرلیں تو ایک اور دو کی نسبت سے خالی پلاٹ پڑے ہوئے ہیں.ان نئے مکانوں میں زیادہ مہمان اس لئے سا سکیں گے کہ خالی پلاٹوں کے بہت سے مالک ایسے دوست ہیں جو باہر رہتے ہیں اور خود ہر سال جلسہ پر نہیں آ سکتے اس لئے اگر وہ مکان بنائیں گے تو لازماً وہ جلسہ کے مہمانوں کے کام آئیں گے.ان سارے امور کو مد نظر رکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ انشاء اللہ مہمانوں کی تعداد تین گنا بڑھ سکتی ہے یعنی تین گنا بڑھی ہوئی تعداد کے لئے جگہ کی سہولتیں مہیا ہو سکتی ہیں.جہاں تک خالی پلاٹوں کے مالکان کے حق ملکیت کا تعلق ہے دراصل ان کا کوئی شرعی یا اخلاقی یا قانونی حق ان پلاٹوں پر باقی نہیں رہا.اس کی وجہ یہ ہے کہ جب ان کو جماعت کی طرف سے پلاٹ دیئے گئے تھے تو اس معاہدے کے ساتھ دیئے گئے تھے کہ اگر تم چھ مہینے کے عرصے میں ان پر مکان تعمیر نہیں کرو گے ، خواہ وہ چھوٹا سا ہی کیوں نہ ہو، تو تم اپنا حق ملکیت کھو بیٹھو گے اور جماعت کو یہ حق حاصل ہوگا کہ جس قیمت پر تم نے یہ پلاٹ خریدے ہیں وہ قیمت واپس دے کر یہی پلاٹ پھر کسی اور کو اس قیمت پر یا کسی اور قیمت پر دے دے.
خطبات طاہر جلد ۲ 161 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء آج تک تو اس حق کو استعمال نہیں کیا گیا.نصیحت کی گئی اور سمجھایا گیا، مگر یہ ضرورت نہیں سمجھی گئی کہ اس حق کو استعمال کیا جائے لیکن جس تیزی کے ساتھ سلسلے کی ضروریات بڑھ رہی ہیں ان کے پیش نظر اب وہ وقت آگیا ہے کہ جماعت مجبوراً اس حق کو استعمال کرے.کسی کا کوئی حق نہیں ہے کہ خالی جگہوں پر قبضہ کر کے بیٹھا رہے اور وہ کسی کام نہ آ رہی ہوں.۱۹۴۹/۵۰ء میں جو جگہیں الاٹ کی گئی تھیں ان پر اب چونتیس سال گزر چکے ہیں.یہ عرصہ کوئی معمولی عرصہ تو نہیں ہے اس لئے اگر وہ مکان نہیں بنا سکتے تو جگہ چھوڑ دیں.ہماری اور بھی بہت سی ضروریات ہیں اور کچھ نہیں تو یہ جگہیں بیوت الحمد کے ہی کام آئیں گی.بہت سے غربا ہیں جو بیچارے مکانوں سے محروم ہیں ان کو یہ جگہیں الاٹ کر دی جائیں گی اور چونکہ ستی قیمت پر دی گئی تھیں اس لئے اب بھی سستی قیمت پر دی جاسکتی ہیں.پس جو دوست بھی ان جگہوں کے فرضی مالک بنے بیٹھے ہیں ان کو میں چھ مہینے دیتا ہوں.فرضی مالک اس لئے کہ حقیقی مالک تو وہ رہے نہیں شرائط کے مطابق ان کا حق ملکیت ختم ہو چکا ہے ) اس مدت کے اندر یا تو وہ مکان کی تعمیر شروع کرا دیں یا جماعت کے سامنے اپنی وجہ جواز پیش کر کے اجازت حاصل کریں کہ چھ مہینے کے اندر ہمارے لئے تعمیر شروع کرنا ممکن نہیں ہے اس لئے اگر ہمیں مزید اتنی مدت مل جائے تو ہم مکان بنانا شروع کر دیں گے.اگر وہ ان دونوں میں سے کوئی صورت بھی اختیار نہ کریں تو پھر ان کو اس فرضی ملکیت سے بھی ہاتھ دھونے پڑیں گے اور جماعت یہ ملکیت کسی ایسے شخص کو منتقل کر دے گی جو جلدی مکان بنانے کی ضمانت دے گا.جو بلی کے جلسہ میں اب صرف چند سال رہ گئے ہیں اور تعمیر کے کام ایسے ہیں جو وقت لیتے ہیں.اگر چھ مہینے میں صرف ایک دوکوٹھڑیاں ہی بنائی جائیں تو پھر انہوں نے مزید وسعت اختیار کرنی ہوتی ہے اس لئے چند سال لازما تعمیر کے کاموں پر لگ جاتے ہیں.بہر حال ہمیں جلد از جلد تعمیر کی طرف توجہ کرنی چاہئے.جہاں تک تعمیر کا تعلق ہے ایسے مالکان جن کو اس وقت زیادہ روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہے ان کی دو طرح سے مدد کی جاسکتی ہے.اول تو یہ کہ وہ اپنے مسائل جماعت کے سامنے پیش کریں اور مشورہ مانگیں کہ ان مسائل کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے؟ جہاں تک جماعت کے وسائل ہوئے اور توفیق ہوئی انشاء اللہ تعالیٰ ایسے معاملات میں جو واقعی اپنے اندر وجہ جواز رکھتے ہوں نرمی بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 162 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء کی جائے گی اور راہنمائی بھی کی جائے گی اور جہاں تک ممکن ہوامد دبھی کی جائے گی.دوسرا پہلو ہے ستے مکان تعمیر کرنے کے لئے انتظامات کرنا.اس سلسلے میں کچھ کام تو ایسے ہیں جو پہلے ہی شروع کئے جاچکے ہیں.کراچی میں ہمارے ایک احمدی انجینئر سید غلام مرتضی شاہ صاحب ہیں انہوں نے مشرقی پاکستان میں ایسے ستے مکان بنانے کا ایک منصوبہ شروع کیا تھا جو سیمنٹ اور پکی اینٹوں کے بغیر تیار کئے جاتے ہیں لیکن ان کے اندر Staying Power یعنی باقی رہنے کی اتنی طاقت ہے کہ وہ مشرقی پاکستان کے سیلابوں کو بھی برداشت کر گئے اور وہاں کی بارشوں سے بھی متاثر نہ ہوئے حالانکہ ان میں سیمنٹ وغیرہ استعمال نہیں ہوا تھا.مکرم شاہ صاحب بہت معمر ہو چکے ہیں اور چلنا پھرنا بھی مشکل ہے مگر ذہن ماشاء اللہ بہت روشن ہے.وہ تکلیف اٹھا کر ملاقات کے لئے تشریف لائے ان سے تمام پہلوؤں پر گفتگو ہوئی.ان کا کہنا تھا کہ ان مکانوں پر دو منزلیں بھی بنائی گئی ہیں اور وہ ٹھیک ہیں.جہاں جہاں وہ مکان بنے ہیں آج تک موجود ہیں.ان کی تحقیق اور جائزہ کے لئے انجینئر مقرر کئے جاچکے ہیں.مکان بنانے کی یہ ٹیکنیک اگر مزید Develop کی جائے اور اسے مزید ترقی دی جائے تو اینٹوں کا خرچ نصف سے بھی کم بلکہ ایک تہائی رہ جاتا ہے.اس کے علاوہ ایسے مکان گرمیوں میں بہت ٹھنڈے اور بہتر رہیں گے.اسی طرح یہ جائزہ بھی لیا جا رہا ہے کہ ستی چھتیں جو دیر پا بھی ہوں اور ہمارے ملک کے موسم گرما کے لحاظ سے ٹھنڈی رہنے والی بھی ہوں وہ کس طرح بنائی جا سکتی ہیں.چنانچہ ہمارے احمدی انجینئر ز نے اس سلسلے میں بھی کام شروع کر دیا ہے.علاوہ ازیں بعض ایسی کمپنیاں بھی علم میں آئی ہیں جو بہت تیز رفتاری کے ساتھ وسیع پیمانے پر مکان بنا کر دیتی ہیں.اگر ان سے ٹھیکہ کیا جائے تو وہ آٹھ سو مربع فٹ کا مکان چھہتر سے اسی ہزار روپے میں بنا دیں گی اور عام غریبانہ ضروریات کے لئے پانچ سو مربع فٹ کا مکان بھی کافی ہوسکتا ہے.کمروں کی ساخت ایسی ہو کہ ایک کمرے میں سارا گھر سمٹ جائے اور جلسہ کے مہمانوں کے لئے ایک وسیع کمرہ بنایا جائے جس کے ساتھ غسل خانے وغیرہ کی سہولت بھی ہو.اوپر کا اندازہ ان ساری چیزوں کو شامل کر کے ہے.اس قسم کی ایک کمپنی سے بھی گفت و شنید کی جا رہی ہے.ایسے احمدی احباب جو اس سکیم میں شریک ہو کر اپنے مکان بنوانا چاہتے ہوں اگر وہ اپنے ارادے سے مطلع کر دیں
خطبات طاہر جلد ۲ 163 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء تو پھر بیوت الحمد کے مکانوں کے علاوہ انفرادی مکانات کی ایک بڑی تعداد ایسی مل جائے گی جس کے نتیجے میں بڑی کمپنیاں کام کو ہاتھ میں لینے پر آمادہ ہوسکتی ہیں.اس کے علاوہ میں احمدی انجینئر ز کو دعوت عام دیتا ہوں کہ وہ جماعت احمدیہ کی خصوصی ضروریات اور ربوہ کے ماحول اور معاشرے اور اس کے مہمان نوازی کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر نسبتا ستے، سادہ مگر مضبوط اور آرام دہ گھر تجویز کریں.اگر انہیں Experimental یعنی تجرباتی ضروریات کے لئے رقم اور پلاٹ کی ضرورت ہو تو جماعت وہ بھی مہیا کرنے کے لئے تیار ہے.یہاں ربوہ میں انشاء اللہ ان کو یہ سہولتیں دی جائیں گی وہ تجربہ چھوٹا مکان بنا کر دکھا ئیں اور اللہ تعالیٰ نے انہیں جو ذہنی جلا عطا فرمائی ہے اس کو خدمت دین میں استعمال کریں.پس جہاں تک مکانات کا تعلق ہے، میں سمجھتا ہوں آئندہ چند مہینے میں ہم ذہنی طور پر اس بات کی تیاری کر لیں گے کہ کس قسم کے مکان بننے چاہئیں اور پھر یہ کہ ستے سے سستے مکان کس طریق پر بنائے جاسکتے ہیں اور جہاں تک اپنے Resources یعنی ذرائع آمد کو استعمال کر کے اور ان کو سمیٹ کر نئے مکانوں کے لئے سرمایہ مہیا کرنے کا تعلق ہے خالی پلاٹوں کے تمام مالکان ابھی سے ان باتوں پر غور شروع کر دیں اور جہاں تک ممکن ہو سر مایہ مہیا کرنے کی کوشش کریں کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے جماعت کی ضروریات اب دوستوں کی ذاتی ضروریات کا انتظار نہیں کریں گی.سلسلہ کے کاموں کو بہر حال ترجیح دی جائے گی.ہر احمدی اس عہد میں داخل ہے کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا اس لئے قانونی طور پر وہ حق بھی رکھتا ہو تو بھی سلسلہ کے مفاد کو ترجیح دے کیونکہ وہ سب کچھ سلسلہ کو دے چکا ہے اور جب بھی سلسلہ کا مفاد ہو سلسلہ یہ توقع رکھے گا کہ وہ اپنے ذاتی مفاد کو قربان کر دے.میں امید رکھتا ہوں کہ انشاء اللہ اس روح کو ملحوظ رکھتے ہوئے کسی بدمزگی کے بغیر اللہ کے فضل سے سلسلہ کے کام جاری رہیں گے.دوسری بات میں یہ کہنی چاہتا ہوں کہ جب سے مذہب کا آغاز ہوا ہے اہل مذہب کی ایک ایسی تقدیر ہے جسے آپ کبھی بھی تبدیل ہوتا نہیں دیکھیں گے.میری مراد مذاہب کے آغاز سے بھی ہے اور مذاہب کے ان ادوار سے بھی کہ جب اللہ تعالیٰ نے احیاء نو کی خاطر ان میں نئے امام بھیجے.جب بھی یہ واقعات ہوئے ہیں اور جب بھی خدا کی طرف سے آنے والے نے آواز بلند کی ہے خواہ
خطبات طاہر جلد ۲ 164 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء وہ صاحب شریعت نبی تھا یا غیر شارع تابع نبی تھا ، ایک واقعہ ایسا ہے جو ضر ور رونما ہوا ہے اور وہ یہ کہ تمام دنیا نے ماننے والوں کو تباہ و برباد کرنے کی ہر کوشش کی ہے ، تمام دنیا نے پورا زور لگایا ہے کہ الہی سلسله کو نیست و نابود کر دے اور اس ضمن میں جواز اور عدم جواز کی ساری بحثیں چھوڑ دی گئی ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان سلسلوں کو مٹانے کے لئے جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں وہ ساری کی ساری ناجائز ہیں ایک بھی جائز کوشش نہیں کی گئی کیونکہ حق کو مٹانے کے لئے کوئی وجہ جواز ہے ہی نہیں.اللہ تعالیٰ کی طرف سے بلند ہونے والی آواز کو نیست و نابود کرنے کے لئے عقلاً کوئی جائز وجہ ہو ہی نہیں سکتی جبکہ وہ آواز صرف یہ کہہ رہی ہو کہ ہم نے اللہ کی طرف سے ایک منادی کی آواز کو سنا اور امنا کہہ دیا اور اب ہم تمہیں بھی اسی کی طرف بلاتے ہیں.یہ آواز اتنی معصوم اور اتنی بے ضرر ہے کہ اس کو مٹانے کے لئے کسی کے پاس کوئی جائز وجہ نہیں ہوسکتی اس لئے طبعی نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جھوٹ اور فساد اور فتنے اور تمام نا جائز ہتھیاروں کو استعمال کر کے ان سلسلوں کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جو ایک طرف تمام الہی سلسلوں کو لاحق ہے اور دوسری طرف ان کی سچائی کا اعلان کر رہی ہوتی ہے اور تیسری طرف اس بات کی بھی ضمانت دیتی ہے کہ ان میں صرف بچے ہی داخل ہوں گے کیونکہ جھوٹوں کو یہ توفیق نہیں ہو سکتی کہ کسی بات کو قبول کرنے کے لئے ادنی سی بھی قربانی کریں.بڑے مرد میدان کا کام ہوتا ہے کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھے اور پھر آگے قدم بڑھائے اس لئے وہ سلسلے جن کے ارد گر د خدا کی تقدیر آگ کی ایک دیوار کھڑی کر دیتی ہے ان میں صرف وہی داخل ہونے کی جرات کرتے ہیں جنہوں نے ابراہیمی صفات سے ورثہ پایا ہو.وہ ابراہیمی صفات اس بات کی بھی ضامن ہوا کرتی ہیں کہ اس آگ کو گلزار بنا دیا جائے.یہ ایک ایسی تقدیر ہے جو جماعت احمدیہ کے ساتھ بھی ایک اٹل تقدیر کے طور پر ہمیشہ جاری رہے گی.اس جماعت میں کمزور دلوں کا کام نہیں اس جماعت میں ان لوگوں کا کوئی کام نہیں جو اپنے رب پر تو کل نہیں رکھتے اور جو خدا کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کر دینے کے لئے دل و جان سے آمادہ نہیں ہیں، اس جماعت میں تو صرف وہی لوگ آئیں گے اور وہی رہ سکتے ہیں کہ جنہوں نے داخل ہوتے وقت یہ فیصلہ کر لیا تھا یا تجدید بیعت کے وقت ذہنی طور پر ارادہ کر چکے تھے کہ ہم نے اپنی جانیں ،اپنے اموال، اپنی عزتیں، اپنی آبرو اور اپنے عزیز ترین اقربا کو بھی اللہ کے ہاتھ پر بیچ دیا ہے اور اب
خطبات طاہر جلد ۲ 165 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء ہمارا کچھ بھی نہیں رہا.جو کچھ بظاہر ہمارا ہے یہ اس وقت تک ہمارا ہے جب تک خدا کی تقدیر اسے بخوشی ہمارے پاس رہنے دیتی ہے.جب خدا کی تقدیر کی یہ رضا ہوگی کہ یہ ہمارے پاس نہ رہے تو ہماری رضا بھی یہی ہوگی کہ یہ ہمارے پاس نہ رہے.یہی وہ لوگ ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ (یونس: ۶۳) جولوگ سب کچھ پہلے ہی دے بیٹھے ہوں ان کو کوئی خوف ہو ہی نہیں سکتا.ہاں اگر نیت میں کھوٹ ہو اور انسان نے واقعتہ نہ دیا ہو بلکہ صرف زبانی طور پر منہ کی باتوں کے لحاظ سے دیا ہو تو ایسا انسان ہمیشہ ترساں ولرزاں رہتا ہے کہ کہیں واقعتہ یہ قربانی دینی نہ پڑ جائے لیکن جو پختہ ارادے کے ساتھ اپنے رب سے ایک سودا کرتے ہیں وہ لازماً خوف سے آزاد کئے جاتے ہیں اور ان کو تو کل کے ایک اعلیٰ مقام پر کھڑا کر دیا جاتا ہے.چنانچہ اس کا سب سے دلکش اور حسین نظارہ دنیا نے جنگ بدر کے موقع پر دیکھا جب کفار مکہ کا ایک ایچی مسلمانوں کے کیمپ کا جائزہ لینے کے لئے آیا تو اس نے واپس جا کر ایک رپورٹ پیش کی.اس نے کہا کہ میں وہاں کچھ لنگڑے دیکھ کر آیا ہوں، کچھ کمز ور دیکھ کر آیا ہوں، کچھ بوڑھے دیکھ کر آیا ہوں، کچھ بچے دیکھ کر آیا ہوں، کچھ ایسے لوگ دیکھ کر آیا ہوں جن کا اوپر کا بدن ننگا ہے کچھ ایسے دیکھ کر آیا ہوں جن کے ہاتھ میں لکڑی کی تلواریں ہیں اور کچھ ایسے دیکھ کر آیا ہوں جن کے پاس ٹوٹے پھوٹے ہتھیار ہیں پھر ان کی تعداد بھی تمہارے مقابل پر بہت کم ہے یعنی صرف ۳۱۳.وہ باتیں کر رہا تھا اور سننے والے خوش ہورہے تھے کہ یقینی فتح کی خوشخبری دی جا رہی ہے لیکن دیکھنے والے نے کچھ اور نتیجہ نکالا.اس نے کہا کہ میں یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد تمہیں واپس جانے کا مشورہ دیتا ہوں، تمہارے مقدر میں یقیناً شکست لکھی گئی ہے.کفار مکہ کے سرداروں نے بڑے تعجب سے اس سے سوال کیا کہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم باتیں کچھ اور کر رہے ہو اور نتیجہ کچھ اور نکال رہے ہو.اس نے کہا میں بالکل ٹھیک نتیجہ نکال رہا ہوں کیونکہ میں نے وہاں تین سو تیرہ (۳۱۳) زندہ نہیں دیکھے، تین سو تیرہ موتیں دیکھی ہیں جو تمہارے مقابل پر نکلی ہیں.ان میں سے ہر ایک کے چہرے پر یہ عزم لکھا ہوا
خطبات طاہر جلد ۲ 166 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء تھا کہ میں مرکر واپس جا سکتا ہوں اس کے سوامیدان جنگ سے ملنے کا کوئی اور رستہ نہیں.پس وہ لوگ جوموت کا ارادہ کر کے مرمٹنے والوں کی شکل میں نکلے ہوں ان کو دنیا میں کوئی ہلاک نہیں کر سکتا انسان کی تلوار ان کو ہلاک نہیں کر سکتی کیونکہ ان کے اپنے ضمیر کی آواز ان کو ختم کر چکی ہوتی ہے، ان کا اپنا اندرونی فیصلہ ان کو مار چکا ہوتا ہے اس لئے اس اینچی نے کہا کہ تم ان موتوں پر فتح نہیں پاسکتے ، یہی موتیں تمہیں ہلاک کریں گی چنانچہ ایسا ہی ہوا.اس اندازہ لگانے والے کا اندازہ کتنا صحیح تھا اور وہ کتنا ذہین انسان تھا.(الطبقات الکبری جلد ۲ صفحہ ۶ باب غزوۃ البدر ) اور یہ وہ تقدیر ہے جو ہمیشہ سے جاری ہے اور اس کا لازمی نتیجہ وہ ہے جو ابھی میں نے بیان کیا ہے.جب بھی الہی جماعتیں اپنے پہلے عہد میں ہی اپنا سب کچھ خدا کے حضور پیش کر دیتی ہیں اور اپنا کچھ بھی نہیں رہنے دیتیں، ان کو کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی.یہ وہ کنگال ہیں جن پر دنیا کے عظیم ترین اور متمول انسان بھی فتح نہیں پاسکتے ، یہ وہ نہتے ہیں جن پر دنیا کی سب سے زیادہ مسلح اور ہتھیار بند قو میں بھی فتح نہیں پاسکتیں کیونکہ ان کے مقدر میں شکست باقی نہیں رہتی اور اللہ تعالیٰ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ شکست ان کے نصیب میں نہیں لکھی جائے گی.یہ تو ایک دنیا دار لیکن ذہین انسان کا فیصلہ تھا کہ ایسی قومیں جو پہلے ہی سب کچھ فدا کر کے نکلی ہوں کبھی شکست نہیں کھایا کرتیں جس طرح طارق نے کشتیاں جلائی تھیں تو دنیا کے مفکرین نے یہ سمجھا کہ کشتیاں جلانے کے نتیجے میں اسے فتح نصیب ہوئی تھی لیکن اہل اللہ کے لئے ایک اور تقدیر بھی کام کرتی ہے اور ان کے حق میں جاری ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ان کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتی.وہ اس یقین کامل کے ساتھ زندہ رہتے ہیں کہ ہم سب کچھ اپنے خدا کو دے چکے ہیں اور ہمارا خدا بھی اپنا سب کچھ ہمیں دے چکا ہے.ہمارے اموال اب سانجھے ہو چکے ہیں.جو کچھ ہمارا ہے وہ خدا کا ہو چکا ہے لیکن جو کچھ خدا کا ہے وہ بھی ہمارا ہو چکا ہے اور جس قوم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی قوت اور اس کے غلبہ کی تقدیر شامل ہو جائے اسے دنیا میں کون شکست دے سکتا ہے اس لئے اس یقین کامل کے ساتھ وہ قوم زندہ رہتی ہے اور یہ یقین ہمیشہ سچا نکلتا ہے.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی علی اللہ کے زمانے تک اور پھر اس زمانے میں اپنی تاریخ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں کس دن خدا نے اپنے ان کمزور بندوں کو اکیلا چھوڑا ہے؟ کس دن خدا نے اجازت دی ہے کہ دنیا والے ان نسبتے درویشان الہی
خطبات طاہر جلد ۲ 167 خطبه جمعه ۱۸ / مارچ ۱۹۸۳ء کوشکست دیں؟ نہ پہلے کبھی ایسا ہوا، نہ آئندہ کبھی ایسا ہوگا.اس لئے میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اللہ کی نصرت اب بھی ضرور آئے گی.آپ دعاؤں سے کام لیں ہمارے ہتھیار دعائیں ہیں ، ہمارے تمام اسباب کا شہتیر دعائیں ہیں، اسباب کے بالے دعاؤں کے شہتیر پر لٹکے ہوئے ہیں.اگر آپ دعاؤں سے غفلت نہیں کریں گے، اگر آپ کا تو کل کامل ہوگا تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ آپ کا ساتھ دے گی.یہ ایک اٹل تقدیر ہے جو لا زما آپ کے لئے ظاہر ہوگی اور پہلے بھی ہمیشہ ظاہر ہوتی رہی ہے.خدا ایک ایسا وفادار دوست ہے کہ دنیا میں اس جیسی وفادار ہستی کبھی کسی نے نہیں دیکھی.وہ ایک ایسا طاقتور دوست ہے کہ اس کے مقابل پر دنیا کی ساری طاقتیں بیچ ہو جایا کرتی ہیں اور جس طرح سیلاب کے مقابل پر تنکے بہہ جاتے ہیں اسی طرح دنیا کی طاقتیں خدا کی طاقت کے مقابل پر بہہ جایا کرتی ہیں اور کوئی نشان باقی نہیں رہتا.کبھی وہ خاک بن کر اڑ جاتی ہیں ، کبھی وہ اپنی ہی آگ میں بھسم ہو جایا کرتی ہیں.خدا کی ایک تقدیر میں ہزار تقدیریں ہیں جو اپنا کام کر دکھاتی ہیں اس لئے آپ ثابت قدم رہیں ، آپ اپنے تو کل کے مقام سے نہ نہیں ، آپ اپنی دعاؤں میں انتہا کر دیں پھر دیکھیں کہ کس طرح میرے مولیٰ کی نصرت آپ کی مدد کے لئے دوڑی چلی آئے گی.چند دن صبر کر کے دیکھیں آپ لاز م یہ نظارہ دیکھیں گے کہ یہ جو آفات و مصائب کے بادل ہیں، جو خون برسانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں انہی میں سے آپ کے لئے قطرات محبت نیکیں گے.ان جان لینے والوں میں جان فدا کرنے والے دوست پیدا ہوں گے.احمدیت کے غلبہ کی تقدیر ایک اٹل تقدیر ہے اس نے جاری وساری رہنا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت نہیں جو اس تقدیر کو بدل سکے.انشاء اللہ تعالیٰ.روزنامه الفضل ربوہ ۷ جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 169 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء اسلام کا حیرت انگیز مالی نظام (خطبه جمعه فرموده ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: يَمْحَقُ الله الرّبُوا وَيُرْبِي الصَّدَقْتِ وَاللهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِيهِ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَأَقَامُوا الصَّلوةَ وَاتَوُا الزَّكُوةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَذَرُوا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِينَ فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَا ذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ وَإِنْ ج تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ ۚ لَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ ) (آیات ۷ ۲۷-۲۸۰) اور پھر فرمایا: جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان میں دو قسم کے مالی نظاموں کا مقابلہ کیا گیا ہے.ایک تو اسلامی مالی نظام ہے دوسرا سودی مالی نظام ہے جس کا آج دنیا کی اکثریت پر قبضہ ہے.اس سودی مالی نظام کی بنیاد اس بات پر ہے کہ روپے میں گویا براہ راست بذات خود نشو ونما کی طاقت پائی جاتی ہے اس لئے روپیہ دینے والا یہ توقع رکھتا ہے کہ لازماً اس روپے پر اسے سالانہ کچھ رقم ملنی شروع ہو جائے.وہ یہ سمجھتا ہے کہ میرا روپیہ بڑھ رہا ہے اور سود پر روپیہ لینے والا اس بات
خطبات طاہر جلد ۲ 170 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء سے بے نیاز ہوتا ہے کہ اسے اس روپے کے استعمال کے نتیجہ میں کیا فائدہ پہنچا ہے.اگر فائدہ اتنا زیادہ ہو جائے کہ سو فیصد یا اس سے بھی بڑھ جائے تب بھی وہ ایک معین رقم سے زیادہ روپیہ دینے والے کو روپیہ دینے کا پابند نہیں ہوتا اور اگر اس کو نقصان پہنچ جائے تو خواہ وہ اصل سرمایہ میں سے واپس کرنے پر مجبور ہو وہ یہ نہیں کہ سکتا کہ مجھے چونکہ نقصان پہنچا ہے اس لئے میں اب تمہاری رقم پر کچھ زائد دینے کا پابند نہیں ہوں وہ لاز ما پابند رہتا ہے.یہ خلاصہ ہے سودی نظام کا اور دنیا کی بھاری اکثریت اس وقت اسی نظام کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے.اس کے برعکس اسلام کا مالی نظام مقابلہ ایک بالکل ہی الگ تصور پیش کرتا ہے.یہ ایک ایسا حیرت انگیز مالی نظام ہے کہ آج کا مالیاتی مفکر اس کو سمجھنے سے قاصر ہے.چنانچہ اسلام کا مالی نظام یہ کہتا ہے کہ روپے میں بذات خود بڑھنے کی طاقت موجود نہیں بلکہ جب یہ انسانی صلاحیتوں کے ساتھ ملتا ہے تو صلاحیتوں کے ساتھ ضرب کھانے کے بعد اس کا نتیجہ منفی بھی ہو سکتا ہے اور مثبت بھی ہو سکتا ہے.اگر کسی احمق یا بد دیانت آدمی کے ہاتھ میں تمہارا روپیہ جاتا ہے تو وہ روپیہ کم بھی ہوسکتا ہے اور اگر کسی سمجھ دار اور دیانتدار آدمی کے ہاتھ میں تمہارا روپیہ جاتا ہے تو وہ بڑھ بھی سکتا ہے اس لئے روپیہ انسانی صلاحیتوں کے استعمال کے اظہار کا محض ایک ذریعہ ہے تا ہم صلاحیتوں کے ساتھ مل کر اس کا نتیجہ نکلے گا.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے ایک موقع پر سود لینے والے یعنی سود خوروں کو فرمایا کہ کیا تمہارے روپے بچے دیتے ہیں؟ مراد اسی فلسفے کی طرف اشارہ کرنا تھا کہ روپیہ محض ایک ایسا ذریعہ ہے جس کے نتیجہ میں انسانی صلاحیتیں اگر چمکدار اور ترقی یافتہ ہیں تو وہ اس روپے کو بڑھا دیں گی اور اگر وہ صلاحیتیں خوابیدہ ہیں یا ان میں بعض اور نقائص پائے جاتے ہیں تو اس روپے کو کم بھی کرسکتی ہیں اور یہی امر واقعہ ہے جس کو ظاہری طور پر اس وقت ہم دنیا میں دیکھ رہے ہیں.بعض بڑے بڑے امیر تاجروں کے بچے بہت سی دولتوں میں پیدا ہوتے ہیں لیکن جان وہ اس حال میں دے رہے ہوتے ہیں کہ اپنے ماں باپ کی ساری کمائی کو وہ اپنے ہاتھوں ضائع کر چکے ہوتے ہیں.اس کے برعکس بہت ہی غریب گھروں میں آنکھیں کھولنے والے بچے جن کے پاس کوئی جائیداد نہیں ہوتی کوئی سرمایہ نہیں ہوتا وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے پہلے تھوڑا سا سرمایہ پیدا کرتے ہیں اور پھر اس سرمائے کو بڑھا کر بہت بڑے بڑے خزانے اکٹھے کر لیتے ہیں.اسلام
خطبات طاہر جلد ۲ 171 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء صرف فطرت کے اس واقعی اظہار کو قبول کرتا ہے اور کسی فرضی مالی نظام کے تصور کو تسلیم نہیں کرتا.لیکن صرف اسی پر بس نہیں کرتا بلکہ ایک اور قدم آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ اپنے روپے کو نہ صرف قرضہ حسنہ کے طور پر دو بلکہ اس طرح دو کہ بظاہر تمہیں اس سے کچھ بھی نفع نہیں ملے گا اور خدا کی راہ میں کثرت سے خرچ کرو اور اسی کا نام زکوۃ ہے.اگر تم خدا کی راہ میں اپنے اموال کو خرچ نہیں کرو گے تو تمہارے ساتھ ایک بالکل مختلف سلوک کیا جائے گا.تمہارا مال بڑھنے کی بجائے کم ہوگا یعنی مال میں بذات خود بڑھنے کی طاقت نہیں ہے اس لئے اگر تم اس کا حکیمانہ استعمال نہیں کرو گے یا اپنے اموال کو خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرو گے تو یہ تمہارا روپیہ اسلامی قانون کے تابع کم ہونا شروع ہو جائے گا.یہ ہے اسلامی نظام کا مد مقابل کا تصور.اب یہ حیرت انگیز بات ہے کہ بظاہر اسلام مسلمانوں کے روپے کے متعلق ایسی تعلیم دیتا ہے جس کے ذریعے روپے کو اجاڑتا ہوا دکھائی دیتا ہے.دنیا کا مالی نظام اس سے اتنا مختلف ہے کہ ماہرین مالیات کو یہ بات سمجھ ہی نہیں آ سکتی.وہ کہتے ہیں عجیب مذہب ہے جو اپنے ماننے والوں کا روپیہ بڑھانے کی بجائے کم کرنے کی ترکیبیں پیش کر رہا ہے.پہلے کہتا ہے کہ جب تم روپیہ دو تو تم زیادہ سے زیادہ شراکت کر سکتے ہو اور تجارتی اغراض کے لئے جس کے پاس بھی روپیہ رکھواتے ہواگر اسے نقصان ہوا تو تمہیں پوری ذمہ داری سے اسے قبول کرنا پڑے گا.اگر اسے فائدہ ہوا تو برابر کے فائدے میں شریک ہو سکتے ہو لیکن لازماً تمہارا روپیہ بڑھے گا نہیں اس کے خطرات کمی کے بھی اسی طرح ہیں جس طرح انسانی زندگی کو ہر جگہ خطرات در پیش ہیں.پھر فرماتا ہے کہ اگر تم قرضہ حسنہ دے سکو یعنی اس پر ایک آنہ بھی نفع نہ لوتو یہ بہت اچھی بات ہے.پھر فرماتا ہے کہ بجائے اس کے کہ تم لوگوں کو قرض دو تم ہمیں قرض دو اور وہ قرض ایسا قرض ہوگا کہ اس دنیا میں بظاہر تمہیں اس میں سے ایک آنہ بھی لوٹا یا نہیں جائے گا.تم یہ فیصلہ کر کے قرض دو گے کہ یہ روپیہ ہم خدا کے نام پر خدا کے بندوں کو دے رہے ہیں یا خدا کے نام پر خدا کی جماعت کو دے رہے ہیں.گویا جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے وہ روپیہ تمہارے ہاتھ سے اب نکل گیا.یہ بات تمہاری نسیت میں شامل ہوگی کہ میں نے اب کبھی اس روپیہ کو دوبارہ واپس نہیں لینا.یہ اسلام کے مالی نظام کا
خطبات طاہر جلد ۲ 172 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء ایک اور پہلو ہے.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے تم سب کچھ خدا کے ہاتھ پر بیچ ڈالو یعنی معمولی قرضہ حسنہ نہیں بلکہ اگر ممکن ہو سکے تو اپنے سارے اموال اور ساری زندگیاں اللہ کے ہاتھ پر بیچ ڈالو.اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ کیا اسلام کا یہ مالی نظام دنیا میں پنپ سکتا ہے؟ آخر وہ لوگ کس طرح زندہ رہیں گے جن کو اموال کے بدلہ میں ، اموال کی قربانی کے نتیجہ میں مادی نقطہ نگاہ سے کچھ بھی ہاتھ نہیں آ رہا.اس حصہ پر غور کرنے سے قبل قرآن کریم کا ایک اعلان میں آپ کو سنا دیتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے مختلف جگہ پر اس مضمون پر گفتگو فرمائی ہے اور فرمایا ہے کہ جو لوگ سود کا روپیہ کھاتے ہیں اور سودی مالی نظام میں پرورش پا رہے ہیں ان کو یہ وہم ہے کہ ان کا روپیہ بڑھ رہا ہے.فرماتا ہے: فَلَا يَرْبُوا عِنْدَ اللهِ (الروم :۴۰) کیونکہ جہاں تک اللہ تعالیٰ کا تعلق ہے ( یہاں مراد نظام خداوندی ہے ) یعنی اللہ تعالیٰ نے جو اقتصادی نظام جاری کیا ہوا ہے اور جو لازماً غالب آئے گا اس نظام کی رو سے یہ روپیہ بڑھتا نہیں بلکہ حقیقتا کم ہوتا ہے اور جس روپیہ کے متعلق تم یہ سمجھتے ہو کہ بظاہر کم ہو رہا ہے یعنی زکوۃ میں دیتے ہو اور غریبوں کی خدمت میں دیتے ہو اور اللہ تعالیٰ کے دین کی خاطر چندہ بھی دیتے ہو، فرماتا ہے وہ اللہ کے نزدیک بڑھ رہا ہے.پس معلوم یہ ہوا کہ کسی ایسی باشعور اور گہری نظر رکھنے والی ہستی کا یہ نظام ہے جو جانتا ہے کہ بظاہر یہ اعتراض پیدا ہونگے ، لوگ یہ سمجھیں گے اور دنیا کے بیوقوف یہ دعوی کریں گے کہ یہ مالی نظام تو دنیا میں پنپ نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہی پہنچے گا اور تمہارا نہیں پینے گا.اور پھر فرماتا ہے اگر تم سودی کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُولِهِ پھر تم خدا اور اس کے نظام سے اور اس کے رسول کے نظام سے ٹکر لینے کے لئے تیار ہو جاؤ.پھر تمہارے مقدر میں جنگ لکھی جائے گی اور تم اس جنگ سے بچ نہیں سکتے.اسلام کا یہ حیرت انگیز دعویٰ ہے جو دنیا کے اقتصادی نظریات کو بالکل رد کر کے پھینک دیتا ہے اور اس کے بالمقابل ایک ایسا نظریہ پیش کرتا ہے جس کی بظا ہر سمجھ نہیں آتی کہ اسلام کس قسم کا نظام چلانا چاہتا ہے.اس سلسلہ میں فی الحال چند امور کی طرف
خطبات طاہر جلد ۲ 173 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء میں احباب جماعت کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں.موجودہ دور میں یہ مضمون بڑا وسیع اور بہت اہم ہے.آج اسلام کو جن خطرات کا سامنا ہے اور جو بڑے بڑے چیلنج درپیش ہیں ان میں بہت ہی اہم اور بنیادی چیلنج اقتصادی چیلنج ہے.سب سے بڑے خطرات جو اسلام کو درپیش ہیں بلکہ ساری دنیا کو در پیش ہیں وہ صحیح مالی نظام کے جاری نہ ہونے کے خطرات ہیں.قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ اگر اس مالی نظام کو صحت کے ساتھ جاری نہ کیا گیا جو خدا تعالیٰ نے قائم فرمایا ہے تو یہ امر خدا اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہے.یہاں سوال پید ہوتا ہے کہ رسول تو بظاہر دنیا سے رخصت ہو چکا ہے تو پھر خدا اور اس کے رسول سے جنگ کرنے سے کیا مراد ہے؟ مراد یہ ہے کہ نظام خداوندی اور وہ نظام جو اسوۂ نبوی کے نتیجہ میں ہمارے سامنے آیا ہے اس نظام سے جب ٹکر لو گے تو تمہیں ایک جنگ کا سامنا کرنا ہوگا.یہ مراد قطعاً نہیں ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ سودی نظام والے نظریات کے حامل لوگوں کی لڑائی ہوگی.مراد یہ ہے کہ یہ قانون ہے جس سے ٹکرانے کے نتیجہ میں تم لازماً جنگوں میں مبتلا کئے جاؤ گے اور ہلاکتیں تمہارا انجام ہوں گی اور وہ ہلاکتیں جنگوں کے ذریعہ پیش آئیں گی.یہ ہے اصل اعلان جو اس آیت میں کیا گیا ہے لیکن وہاں تک پہنچنے سے پہلے میں مختصراً صرف چند اشارے اس موقع پر اس بات کے کرنا چاہتا ہوں کہ سودی نظام کے مقابل پر اسلامی نظام کے کیا نکات ہیں.جماعت احمدیہ کو جب تک اس کی سمجھ نہ آئے اس وقت تک وہ ان سے استفادہ نہیں کرسکتی اس لئے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ اگر چہ سارے مضمون کو تو اس وقت یہاں بیان نہیں کیا جاسکتا لیکن مختصر چند نکات آپ کے سامنے رکھے جائیں تا کہ آپ کو پتہ لگ جائے کہ اسلام کس قسم کی تجارتوں کو فروغ دیتا ہے اور کس قسم کے روپے کے استعمال کی اجازت دیتا ہے اور اس کے ساتھ ہی کس طرح تحریص دلاتا ہے اور یہ اعلان کرتا ہے اور یہ تھی وعدہ کرتا ہے کہ اس طریق پر چلنے کے نتیجہ میں تمہارے روپے میں برکت پڑے گی اور وہ ضائع نہیں ہوگا.اس مضمون کے دو حصے ہیں.پہلا حصہ تو مالی قربانی سے تعلق رکھتا ہے جو بار بار جماعت کے سامنے آتا رہتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ خدا کی راہ میں اگر تم قربانی کرو گے، کچھ پیش کرو گے تو اللہ تعالیٰ اس کو ضائع نہیں کرے گا.قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر
خطبات طاہر جلد ۲ 174 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء پیش کرتے ہیں وہ اس نیت سے تو پیش نہیں کرتے کہ انہیں واپس ملیں گے لیکن جس کے حضور وہ پیش کرتے ہیں یہ اس کا اپنا معاملہ ہے کہ وہ لازماً واپس کرتا ہے اور بہت بڑھا کر واپس کرتا ہے.ہوسکتا ہے اسی دنیا میں ان کا روپیہ اس طرح بڑھ جائے جس طرح ایک دانہ سے سینکڑوں دانے پیدا ہو جاتے ہیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بیج کے طور پر ایک دانہ جو زمین میں ڈالا جاتا ہے اگر وہ ایک ایسی اچھی زمین میں پڑا ہو جس میں نشو ونما کی بہت طاقت ہو تو اس دانہ سے سات بالیاں یعنی شاخیں پھوٹیں اور ہر شاخ کو سو دانے لگیں.اس سے پتہ لگتا ہے کہ یہ بعد کی دنیا کا سوال نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اسی دنیا میں سات سو گنا تک بھی بڑھا سکتا ہے.بعد کی دنیا میں تو ان گنت ترقی ہے، اس کی تو کوئی نسبت ہی نہیں رہتی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ (البقره: ۲۶۲) تم یہ نہ سمجھو کہ تمہارا روپیہ صرف سات سو گنا تک بڑھنے کی طاقت رکھتا ہے جس زمین میں تم نے یہ بیج ڈالا ہے اس کی نشوونما کی طاقتیں لامتناہی ہیں.فرماتا ہے یہ تو تمہیں سمجھانے کی خاطر ہم بتا رہے ہیں.دنیا میں تم روزانہ یہ دیکھتے ہو کہ تم گندم کا بیج زمین میں پھینکتے ہو اور بظاہر اسے پھینک کر اپنے گھر خالی ہاتھ واپس آ جاتے ہو لیکن قانون قدرت اس کی حفاظت کرتا ہے، اس کو نشو ونما دیتا اور اس میں برکت ڈالتا ہے، اس میں سے شاخیں پھوٹتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے لہلہاتے ہوئے کھیتوں میں بدل جاتی ہیں یہاں تک کہ بالآخر ایک دانہ کو سات سو گنا زیادہ پھل لگ سکتا ہے.جس وقت آنحضرت ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی تھی اس وقت تو دنیا نے کبھی ایسا کوئی نظارہ نہیں دیکھا تھا کیونکہ ایک دانہ کا سات سودانوں میں تبدیل ہونا یہ ایک ایسا واقعہ ہے جو ابھی تک پوری طرح سامنے نہیں آیا.اگر چہ انسان زراعت میں بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کر رہا ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں ہو سکا کہ گندم کا ایک من بیج کھیت میں ڈالا جائے اور سات سو من گندم اس سے نکل آئے لیکن یہ ضرور ہم دیکھ رہے ہیں کہ قانون قدرت کے مطابق اشیاء میں نشو ونما کی جو صلاحیتیں موجود ہیں ان کے متعلق انسان دن بدن پہلے سے زیادہ علم پا رہا ہے.دن بدن بعض چیزوں کے بیج میں بڑھنے کی زیادہ طاقتیں ہمارے علم میں آ رہی ہیں اور انسان کو ان سے استفادہ کی قدرت حاصل ہورہی ہے.چنانچہ ہمارے ملک میں کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ فی ایکڑ چند سیر مکئی کا بیج ڈال کر ایک سو بیس من اوسط پیداوار لی جاسکتی ہے لیکن امریکہ میں ایسے علاقے میں نے دیکھے ہیں جہاں لکھوکھا
خطبات طاہر جلد ۲ 175 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء ایکٹر پر کئی کی کاشت کی گئی اور ان کی اوسط پیداوار ایک سو بیس من فی ایکڑ کے حساب سے بنی.یہاں تو ایک کھیت میں بھی اگر پورا زور لگا ئیں تب بھی ہم وہاں نہیں پہنچ سکتے لیکن امریکہ میں جن علاقوں میں مکئی کاشت کی جارہی ہے وہاں نسبت ایک اور سات سو کے قریب قریب پہنچ رہی ہے.اسی طرح گندم کی کاشت کے سلسلہ میں بھی نئی نئی ایجادات ہو رہی ہیں اور ہر گز بعید نہیں کہ بہت جلد ہر قسم کے بیچ کا ہر دانہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی قدرتوں کے نتیجہ میں بالآخر سات سو گنا زیادہ پھل دینا شروع الله کر دے.لیکن تعجب کی بات ہے کہ آنحضور ﷺ کے زمانہ میں تو اس کا کوئی تصور ہی موجود نہیں تھا بلکہ انسان کی سوچ اس کے قریب ترین بھی نہیں پھٹکی تھی.اس وقت قرآن کریم نے یہ دعویٰ کیا اور اس میں ایک پیشگوئی بھی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک دانہ سے سات سو دانے اگانے پر دسترس حاصل کر لے گا اور جب اسے اس پر قدرت دی جائے گی تب اس کی توجہ ہم اس بات کی طرف مبذول کرواتے ہیں کہ وہ خدا جو دنیا میں تم سے یہ معاملہ کر رہا ہے تو پھر کیوں یہ یقین نہیں کرتے کہ جب تم اس کی خاطر اس کے سپر دا پناروپیہ کرو گے تو وہ اسے کئی گنا زیادہ بڑھانے کی طاقت رکھتا ہے.پس یہ وہ مضمون ہے جو خدا تعالیٰ ان آیات میں بیان فرما رہا ہے.دنیا کا جو ظاہری اقتصادی نظام ہے اس کے قوانین میں سے کوئی بھی قانون اسلامی اقتصادی نظام میں کام نہیں کر رہا.ہاں قانون قدرت کی طرف ضرور توجہ دلائی ہے اور وہ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ بے حد فضلوں والا ہے اور بے حد کرم کرنے والا ہے.ہر انسان کا خدا کی ذات سے معاملہ ہے.مومن کیا اور کافر کیا ہر ایک خدا کے فضلوں پر ہی پنپ رہا ہے.اگر خدا تعالیٰ کے قوانین میں یہ طاقت نہ ہو کہ ایک چیز بڑھ کر سینکڑوں گنا ہو جائے تو انسانی زندگی تو کیا حیوانی زندگی بھی اس دنیا سے ناپید ہو جائے.یہ ایک قانون قدرت ہے جس میں ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کا فضل خاموشی سے کام کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور ہم اسے بغور دیکھتے ہی نہیں محسوس ہی نہیں کرتے.ہر دفعہ جب زمیندار جھولی میں بھر کر کھیتوں میں دانے پھینکتا ہوا پھر رہا ہوتا ہے تو وہ اکثریہ نہیں سوچتا کہ میں یہ کیا حرکت کر رہا ہوں، اپنے ہاتھوں مٹی میں دانے رول رہا ہوں اس لئے کہ غیر شعوری طور پر اس کو خدا کی رحمت پر کامل یقین ہوتا ہے.وہ جانتا ہے کہ خدا رحیم ہے، بار بار رحمت اور فضلوں کو لے کر آنے والا ہے اور میں جو چیز اس کے قانون قدرت کے سپر د کر دوں گا وہ کم ہو کر واپس نہیں آئے گی لازماً زیادہ ہو کر واپس آئے گی اور
خطبات طاہر جلد ۲ 176 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء یہ بات ثابت کر رہی ہے کہ خدا تعالی واقعی بے انتہا فضلوں والا ہے اور اس کا قانون انسانی کوششوں کو بھی کم نہیں کرتا بلکہ ان کو بڑھا کر واپس کرتا ہے.پس یقین دلانے کی خاطر اور اعتماد پیدا کرنے کی خاطر اللہ تعالیٰ نے اپنے وجود کو پیش فرمایا کہ دیکھو! دیکھو! میں وہی تو ہوں جو مومن و کافر دونوں سے اپنے فضلوں کا معاملہ کرتا ہوں، پھر کتنے جاہل ہوں گے وہ لوگ جو مومن ہو کر مجھ پر بدظنی کرنے لگیں کہ وہ خدا جس کا فضل ساری دنیا پر عام ہے وہ اپنے خاص بندوں سے ایسا ظالمانہ سلوک کرے گا کہ وہ خدا کی خاطر قربانیاں دیں اور اس کے باوجود وہ ان کو غریب کرتا چلا جائے.فرمایا یہ بھی نہیں ہوسکتا.يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ اس سے زیادہ مومن بندوں سے سلوک کیا جائے گا.جو خدا کے بندے ہیں ان پر دنیا کا قانون جاری نہیں ہوگا بلکہ ان سے بہت بڑھ کر معاملہ ہوگا.وہ خدا کی راہ میں جو قربانیاں دیں گے اور ان پر خدا کے جو فضل نازل ہوں گے ان میں آپس میں کوئی نسبت نہیں ہوگی.غرض وہ سارا مالی نظام جس کی رو سے خدا کے نام پر خواہ جماعت کو دیا جاتا ہے خواہ غربا پر خرچ کیا جاتا ہے وہ سب اس آیت کے تابع ہے.اس کے دوسرے پہلو کے لحاظ سے یہ دیکھنا باقی ہے کہ عام دنیا کا جو مالی نظام ہے اس کے متعلق اسلام کیا تصور پیش کرتا ہے.اس بارہ میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، اسلام کہتا ہے کہ تمہارے روپے میں براہ راست بڑھنے کی طاقت نہیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ تم رو پی دے کر خود اس کی ذمہ داری سے آزاد ہونے کے بعد یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ وہ روپیہ بڑھے گا.پھر کیا چیز سامنے آئے گی وہ میں مختصر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ظاہر ہے اس کے نتیجہ میں دوہی باتیں سامنے آ سکتی ہیں.یا تو ہر انسان اپنے سرمایہ کو کچھ نہ کچھ اپنی سمجھ اور فہم کے مطابق استعمال کرنے کے بارہ میں سوچنا شروع کر دے اس نے جو بھی پس انداز کیا ہے وہ اس کے متعلق سوچے کہ میں اس کو کس طرح بہتر رنگ میں استعمال کروں ورنہ اگر میں استعمال نہیں کروں گا تو اس نے اڑھائی فیصد کم ہو جانا ہے.یہ منفی طور پر کام کرنے والی قوت اس شخص کو مجبور کرے گی کہ وہ لازماً اپنے روپے کو کسی ایسے مصرف میں لے کر آئے کہ وہ کم نہ ہو.اور چونکہ دنیا میں اکثر لوگ یہ صلاحیت نہیں رکھتے اس لئے ایسا شخص مجبور ہوگا کہ وہ کسی با صلاحیت انسان کو تلاش کرے اور چونکہ کوئی قانون اس بات میں اس کی حفاظت نہیں کرے گا کہ دیا ہوار و پید ا ز ما بڑھ جائے اس لئے
خطبات طاہر جلد ۲ 177 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء دوسری شرط یہ ہوگی کہ وہ لازماً دیانتدار آدمی کو تلاش کرے گا کیونکہ اگر بددیانت کے پاس روپیہ چلا جائے اور وہ حساب کتاب میں ہی اس کے روپے کو ختم کر کے رکھ دے تو پھر تو اس بیچارے کے لئے کوئی چارہ نہیں ہوسکتا، کہیں بھی اس کی پیش نہیں جاسکتی کیونکہ ہوشیار انسان جو بددیانت بھی ہو وہ تجارتی حسابات کے ہیر پھیر میں سارے روپیہ کو ضائع کیا ہوا دکھا سکتا ہے.تو جہاں تک اسلامی مالی نظام کا تعلق ہے وہ پنپ ہی نہیں سکتا جب تک اس کے ساتھ ساتھ دیانتداری بھی پنپ نہ رہی ہو اور دیانتداری اگر ساتھ پہنے تو اس کی قیمت اسلامی نظام میں پڑتی ہے دوسرے مالی نظام میں نہیں پڑتی.یہاں شرط یہ ہوگی کہ دیانتدار آدمی جس کی ساکھ دنیا میں قائم ہو اس کو تلاش کیا جائے اور اس کے پاس اپنا روپیہ لگایا جائے اور پھر یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ایسے دیانتدار کے پاس روپیہ لگایا جائے جس کے اندر صلاحیتیں بھی موجود ہوں.یا پھر اشتراک کیا جائے.اگر تمہارے پاس تھوڑ اسرمایہ ہے تو تم دوسروں کے ساتھ مل کر سرمائے کی ایک مشترک کمپنی بنا لو اور آپس میں مل جل کر فیصلہ کر کے معاملات کو اپنے میں سے کسی قابل آدمی کے سپرد کر دو لیکن شرط یہ ہے کہ وہ دیانتدار بھی ہو.یہ اس قسم کا مالی نظام ہے جو واقعتہ اس سے پہلے تاریخ میں پنپ چکا ہے.اکثر لوگ جانتے ہیں کہ حضرت امام ابو حنیفہ جیسے عظیم فقیہہ اور مدبر لوگ اپنے وقت کے بہترین تاجروں میں بھی شمار ہوتے تھے.صرف امام ابو حنیفہ ہی نہیں اور بھی بہت سے مسلمان بزرگ ایسے گزرے ہیں جن کو قرآنی مالی نظام نے کچھ اس طرح فائدہ پہنچایا کہ ان کی دیانت اور ذہنی صلاحیتوں کی قیمت ڈال دی.نیچہ لوگ بکثرت ان کے پاس اپنا روپیہ لے کر آیا کرتے تھے اور ان کے سپر د کر کے چلے جاتے تھے.وہ کہتے تھے ہمیں تم پر کامل اعتماد ہے اگر نقصان ہوا تو تم نقصان دکھاؤ گے اور اگر نفع ہوا تو نفع دکھاؤ گے اس لئے ہم اس کا روبار میں شریک ہو جاتے ہیں یہاں تک کہ ایسے اموال کے استعمال کے مواقع نہیں ملتے تھے تو ر د کر دیا کرتے تھے.تاریخ میں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ لوگ اپنی پوٹلیاں نام لکھ کر پھینک کر چلے جایا کرتے تھے اور ان کو کامل یقین ہوتا تھا کہ یہ روپیہ بڑھے گا.لیکن یہ یقین صرف دیانت دارسوسائٹی میں پنپ سکتا ہے اور دیانتدار سوسائٹی کے بغیر اسلامی نظام چل ہی نہیں سکتا.اگر ساری دنیا کی طاقتیں مل کر یہ کوشش کریں کہ غیر اسلامی معاشرہ میں اسلامی نظام معیشت چلا کر دکھاویں تو یہ کئی لا حاصل ہے.اسلام اس نظام کو چلانے سے پہلے وہ زمین تیار کرتا ہے جو زرخیز
خطبات طاہر جلد ۲ 178 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء ہے اور ایک دانہ کو سات سو گنا بڑھا سکتی ہے.زمین تو ہو تھور والی اور کلر والی اور بددیانتی کے کیڑوں کی ماری ہوئی اور آپ وہاں اسلامی اقتصادی نظام ٹھونسنے کی کوشش کریں اور دانے پھینک کر گھر واپس آجائیں تو دانے ہی جل جائیں گے.آپ کو کچھ بھی واپس نہیں ملے گا.پس اسلام کے اقتصادی نظام کا ایک اور عظیم الشان پہلو یہ ہے کہ اسلامی نظام دیانتداری کو پہلے پیدا کرتا ہے اور پھر اس مالی نظام کو جاری کرتا ہے اور اس بات کی ضمانت کیا ہے کہ دیانتداری موجود ہے.اس بات کی ضمانت یہ ہے کہ روپے کی محبت پہلے کم کر دیتا ہے پہلے فرماتا ہے کہ خدا کی راہ میں خرچ کرو اور جہاں تک ہو سکتا ہے قرضے دو.وہ جماعت جو اپنے روپے کو اس طرح پھینکنے کی عادی ہو جائے کہ گویا روپے کی ہلاکت کو قبول کر رہی ہو.غریب ہوا میر ہو جو کچھ اس کا پس انداز ہے اس کے متعلق خدا تعالیٰ یہ فرمائے کہ مجھے قرض دے دو میں تمہیں واپس کروں گا اور ہوسکتا ہے تمہارا یہ روپیہ مرنے کے بعد واپس ہو.تو ظاہر ہے ایسا سودا دنیا کی کوئی ہوش مند قوم نہیں کر سکتی لیکن وہ مومن بندے جو خدا کے فضل دیکھ چکے ہوتے ہیں اور اس کے فضلوں کے گواہ بن چکے ہوتے ہیں اور روزمرہ کے معاملات میں خدا کے فضلوں کے مورد بن چکے ہوتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ یہ درست ہے.چنانچہ ان کو یہ عادت پڑ چکی ہوتی ہے کہ وہ اپنے روپے کو بظاہر منافع اور اس کی واپسی کی توقع کے بغیر خدا کے سپرد کرتے چلے جاتے ہیں اور شکریہ تک قبول نہیں کرتے.غریب لوگ جن کے اوپر وہ خرچ کرتے ہیں وہ جب ان کا شکریہ ادا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کہتے ہیں.لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (الدھر: ۱۰) ہم تو اللہ کے چہرے کی خاطر ایسا کر رہے ہیں.یہ شکریہ ادا کر کے تم ہماری نیکی کو کیوں بدمزہ کر رہے ہو.تم ہمیں ان لذتوں میں کھوئے رہنے دو جو ہمیں اپنے رب کی رضا کے نتیجہ میں حاصل ہوتی ہے اس لئے ہمارا شکر یہ تک بھی ادا نہ کرو.پس خدا کے بندوں کے یہ مزاج ہوتے ہیں.جب ایسے بندے پیدا ہو جاتے ہیں تو ان کے متعلق یہ وہم کرنا ہی دنیا کی بہت بڑی حماقت ہوگی کہ وہ لین دین کے معاملہ میں بددیانتی کریں گے.جو شخص احسان کے مقام پر کھڑا ہو وہ لازماً احسان کرتا ہے اس لئے وہ جو پہلا مالی نظام یعنی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا نظام ہے وہ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہ لوگ خدا کی خاطر انصاف اور تقویٰ پر قائم ہوں گے اور مال کی محبت اس حد تک کم ہو چکی ہوگی کہ خدا کی رضا کو چھوڑ کر مال نہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 179 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء کمائیں گے کیونکہ خدا کی رضا کی خاطر وہ اس وقت بھی اپنا مال چھوڑ بیٹھے تھے جبکہ کوئی جبر نہیں تھا.غرض جو قوم خدا کی رضا کی خاطر مال چھوڑ رہی ہو اس کے متعلق یہ توقع رکھنا غلطی ہے کہ وہ خدا کی رضا پر مال کو ترجیح دے گی اس لئے واقعتہ اگر کسی قوم میں یہ صفت پیدا ہو جائے کہ وہ اللہ کی رضا کی خاطر مال چھوڑ سکتی ہے، دکھاوے کی خاطر نہیں بلکہ اللہ کی رضا کی خاطر، دنیا کے فوائد کے لئے نہیں بلکہ محض اللہ کی رضا کی خاطر، اس قوم کی دیانتداری کی قرآن کریم ضمانت دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ ایسی قوم میں یہ نظام پینے گا جسے اسلامی مالی نظام کہتے ہیں.ایسے میں جتنا زیادہ سمجھدار اور جتنا زیادہ ذہین اور جتنا زیادہ دیانتدار انسان ابھر کر دنیا کے سامنے آتا چلا جائے گا اتنا ہی زیادہ روپیہ اس کی طرف پھینکا جائے گا.گویا دیانت داری روپے کے ارتکاز کا ذریعہ بن جائے گی اور پھر اس کی تجارت میں اور اس کی صلاحیتوں میں باقی قوم بھی شریک ہو جائے گی.اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ اسلامی مالی نظام کو کنجوسی اور نفسانیت اور خود غرضیوں سے بچایا گیا ہے جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ سودی مالی نظام کا انحصار کلیتہ خود غرضی پر ہے.دینے والا بھی خود غرضی کے ساتھ دیتا ہے اور ایک آنہ بھی ہرگز چھوڑنے کے لئے تیار نہیں.لینے والا ایک اور چالا کی میں بیٹھا ہوتا ہے وہ یہ سمجھتا ہے اس بے وقوف کو پتہ نہیں کہ جس جگہ یا جس ملک اور جس دور میں ۱۳ فیصدی سود مل رہا ہے وہاں تجارت میں ۵۰ فیصدی تک بھی فائدہ ہو جاتا ہے.۲۰.۲۵ فیصدی تو ایک عام بات ہے اس لئے بظاہر سود لے کر یہ فائدہ اٹھا رہا ہے لیکن جب میں تجارت میں سودی روپیہ لگاؤں گا تو مجھے اس سے بہت زیادہ فائدہ پہنچے گا اس لئے میری صلاحیتوں میں یہ شریک نہیں ہے میں اس کی کمائی میں شریک ہو رہا ہوں.پس دونوں جگہ خود غرضی کی مار پہ لوگ بیٹھے ہوئے ہوتے ہیں اور یہ مالی نظام پھر ایسے بد دیانت لوگوں کے قبضہ میں چلا جاتا ہے کہ جو لوگ اپنا روپیہ دے رہے ہوتے ہیں حقیقت میں ان کا روپیہ بڑھ نہیں رہا ہوتا کیونکہ جس نسبت سے سودی سرمایہ بڑھتا ہے اس سے زیادہ تیزی کے ساتھ Inflation انفلیشن یعنی افراط زر ہو کر روپے کی قیمت کم ہو رہی ہوتی ہے.ہر سال دیکھنے میں آتا ہے کہ روپے کی قیمت گرتی چلی جارہی ہے.پچھلے سال روپے کی جو قیمت تھی آج اس سے ۱۵ یا ۲۰ فیصدی کم ہو چکی ہے.اگر آپ نے بینک میں روپیہ رکھوایا ہوا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ 11 فیصدی بڑھ
خطبات طاہر جلد ۲ 180 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء جائے گا لیکن افراط زر کے ذریعہ قیمت میں کمی کی شرح اس سے زیادہ ہے.اس لئے خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ بیوقوفوا تم سمجھ رہے ہو کہ تمہارا روپیہ بڑھ رہا ہے ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ یہ گھٹ رہا ہے.پھر سودی نظام کے اندر رہتے ہوئے سودی روپے میں برکت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.یہ مالی نظام ایسے خطرناک اور ایسے ہوشیار اور کائیاں لوگوں کے ہاتھ میں چلا جاتا ہے جو دیانت سے کلینتہ عاری ہوتے ہیں اور اتنے Callous یعنی سفاک اور بے رحم ہو چکے ہوتے ہیں کہ اس مالی نظام کے شکنجے میں قوموں کے بعد قوموں کو جکڑتے چلے جاتے ہیں اور ان کو غریب سے غریب تر بناتے چلے جاتے ہیں لیکن ان کے دل میں رحم کا کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا.یہاں تک کہ روپیہ دینے والا بھی مارکھا رہا ہوتا ہے اور لینے والا بھی مستوجب سزا بن جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ پھر ایسا وقت آتا ہے کہ لینے والوں کو بھی خدا کے نظام کی طرف سے سزا ملتی ہے اور دونوں جگہ اس نظام کے نتیجہ میں لازماً بد دیانتیاں بڑھتی ہیں ، سفا کی اور خود غرضی بڑھتی ہے.اس کے برعکس اسلامی مالی نظام انسانی ذہن کونشو ونما اور جلا دینے پر مجبور کرتا ہے ورنہ جرمانہ لگاتا ہے گویالالچ کے نتیجہ میں اقتصادی نظام نہیں چلتا بلکہ جرمانہ کے خوف سے چلتا ہے.اگر یہ مالی نظام جماعت احمدیہ نے دنیا میں جاری نہ کیا تو یہ دنیا لا ز ما جنگوں کا شکار ہوگی کیونکہ قرآن کریم نے یہ تنبیہ کی ہے کہ اگر تم نے اس ظالمانہ سودی نظام کو ترک نہ کیا تو اللہ اور اس کے نظام سے اور اس کی قدرت سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ.مراد یہ ہے کہ جب خدا اور اس کے رسول کے نظام سے ٹکراؤ گے تو نتیجہ جنگ نکلے گا اور اس وقت جو جنگ ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے اس کی ایک بڑی وجہ دنیا کا موجودہ سودی مالی نظام ہے.ہم مانتے ہیں کہ تیسری عالمگیر جنگ کی اور بھی بہت سی وجوہات ہیں.بد دیانتیاں ہیں جو ایک دوسرے سے ضرب کھاتی چلی جارہی ہیں اس کے نتیجہ میں جنگ قریب سے قریب آتی چلی جارہی ہے تاہم اس کی سب سے بڑی وجہ دنیا کا سودی مالی نظام ہے جو بنی نوع انسان کو جنگ کے قریب تر کئے چلا جارہا ہے.اور اقتصادی ماہرین اس بات کو دن بدن زیادہ محسوس کر رہے ہیں کہ یہ نظام خطرہ کی حد تک پہنچ چکا ہے (اس کی تفصیل بیان کرنے کا یہاں موقع نہیں ورنہ میں بیان کر سکتا ہوں کہ یہ نظام کیوں تباہ کن ہے ) اس لئے کہ اس نظام کے اندر لازماً وہ وجوہات موجود ہیں جس کے نتیجہ میں بالآخر اس نے خود ہی مٹ جانا ہے.جب یہ نظام
خطبات طاہر جلد ۲ 181 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء ان حدود تک پہنچتا ہے جہاں اس کو شق ہو جانا ہے جہاں اس کے ٹکڑے ٹکڑے اڑ جاتے ہیں وہاں جنگیں نمودار ہوتی ہیں.پھر وہ تو میں جو لمبے عرصہ تک جس ذریعہ سے اور جس طاقت سے بھی ہو سکے دنیا میں لوٹ مار کر رہی ہوتی ہیں بالآ خر جب وہ یہ دیکھتی ہیں کہ اب ہم میں لوٹ کھسوٹ کی مزید سکت نہیں رہی ہمارا مالی نظام Collapse یعنی دفعتہ ڈھیر ہو جانے والا ہے اور غربت ہمارے سامنے کھڑی ہے تو وہی وقت ہوتا ہے جب دنیا جنگوں میں مبتلا کی جاتی ہے.آپس میں بڑا سخت ٹکراؤ اور تصادم ہوتا ہے.اس معاملہ میں جماعت احمدیہ پر جو ذمہ داری عائد ہوتی ہے ابھی اس میں وہ بہت پیچھے ہے.یہ درست ہے کہ اس وقت جماعت احمد یہ عالمی مالی نظام سے ٹکر لینے کی حیثیت میں نہیں ہے.سمندر کی لہروں میں اگر ایک قطرہ انتہائی طاقت کے ساتھ بھی پھینکا جائے تب بھی وہ بے چارہ لہروں کے رخ کو تو نہیں بدل سکتا اس لئے میں یہ تو نہیں کہتا کہ جماعت احمدیہ میں اس وقت یہ طاقت ہے کہ دنیا کے اقتصادی نظام کا رخ بدل دے لیکن یہ طاقت ضرور ہے کہ اپنے دائرہ اثر کے اندر رہتے ہوئے جہاں تک ممکن ہے وہ اسلامی مالی نظام کو جاری کرنے کی کوشش کرے.اس کی طرف میں آج آپ کو توجہ دلاتا ہوں.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ آپ سودی روپے سے نفرت کرنے لگیں اور بہانے بنا کر اپنی تجارتوں اور کاروبار میں سودی روپے کو داخل نہ کریں.جہاں تک معاشرہ کی مجبوریوں کا تعلق ہے میں جانتا ہوں کہ تجارتی لین دین کرنے والا ہر احمدی کلیتہ سودی روپیہ ( یعنی روپے پر سود دینے ) سے بیچ نہیں سکتا کیونکہ مالی نظام اس قسم کا بن چکا ہے کہ ایک احمدی تاجر کو بھی لازماً ایسے راستوں سے گزرنا پڑتا ہے ورنہ وہ تجارت میں زندہ نہیں رہ سکتا.اگر سودی کاروبار سے کلینتہ الگ ہو جائیں تو مروجہ مالی نظام میں رہتے ہوئے قومی طور پر تجارتی لحاظ سے گویا موت قبول کرنے کے مترادف ہے.اس مشکل کا حل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ پیش فرمایا ہے کہ جب تک ہم دنیا کے مالی نظام کو تبدیل نہیں کر پاتے ایک بات ہم بہر حال کر سکتے ہیں کہ جہاں بالکل مجبور ہو جائیں وہاں سود دے تو دیں لیکن خود سودی روپیہ سے استفادہ نہ کریں یعنی حرص کا پہلو ہمارے اندر پیدا نہ ہو.مجبور اگر اپنا مال چھوڑنا پڑے تو اس کے نتیجہ میں حرص تو پیدا نہیں ہوتی لیکن جب روپے کے بدلہ
خطبات طاہر جلد ۲ 182 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء میں روپے کی حرص پیدا ہو جائے تو ایسی سوسائٹی میں پھر اسلامی نظام نہیں چل سکتا.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس بار یک فرق کو ملحوظ رکھتے ہوئے فرمایا کہ جو احمدی تجار دنیا کے مالی نظام میں رہتے ہوئے سود دینے پر مجبور ہیں ان کے لئے یہ ترکیب ہے کہ اگر ان کے روپے پر کچھ سود ملے تو اس کے مقابل پر حساب میں وضع کر دیا کریں اور کوشش یہ کریں کہ سودی نظام سے نہ ان کو کچھ ملے اور نہ ان کو دینا پڑے لیکن اگر ایسا نہیں ہوسکتا تو دینے والے تو بے شک بن جائیں لیکن سودی روپے پر ذاتی فائدہ اٹھانے والے نہ بنیں.اگر ان کو ایسا روپیہ ملتا ہے اور مجبور لینا پڑتا ہے یعنی لینے کی خواہش نہیں ہے اور نہ نیت ہے تو ان کی نیت کو پاک کرنے کی خاطر فر مایا تم پر خرچ نہ ہو خدا کے دین کے لئے خرچ کرو.یعنی سودی نظام کے برعکس نتائج پیدا کرنے کے لئے خرچ کرو.غریب کی ہمدردی پر خرچ کرو کیونکہ سود تو غریب کو لوٹنا چاہتا ہے اور اسے غریب سے غریب تر کرنا چاہتا ہے.غریب قوموں کو اور زیادہ بدتر حال میں مبتلا کرنا چاہتا ہے اس لئے بالکل برعکس نتائج پیدا کر دو گے تو اس سے تمہیں نقصان نہیں پہنچے گا.یہ تھی حکمت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے فیصلہ کی (اس معاملہ کے مختلف پہلو مقررہ کمیٹیوں اور مجلس افتا کے زیر غور ہیں جن کے نتائج کا بہت جلد اعلان کر دیا جائیگا ) مگر آجکل میں یہ دیکھ رہا ہوں اور کئی مثالیں میرے سامنے آ رہی ہیں کہ بجائے اس کے کہ احمدی سودی روپے کی حرص سے کلیتہ آزاد ہو جاتے اور وہ اس بات پر مجبور کر دیئے جاتے کہ وہ تجارت کی نئی نئی راہیں تلاش کریں اور دیانتداری ان کے اندر پینے اور دیانتدار اور صاحب صلاحیت لوگ ان کی توجہ کا مرکز بنیں، جماعت کے بعض لوگ کئی بہانوں سے سودی روپے اور سودی حرص میں مبتلا ہو چکے ہیں.ایسے لوگ گو بہت تھوڑے ہیں جماعت کی بھاری اکثریت اللہ کے فضل سے پاک ہے لیکن ایک روچل پڑی ہے جو انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتی ہے.اس کو اگر بڑھنے دیا گیا تو پھر جماعت اس لائق نہیں رہے گی کہ دنیا کے مالی نظام کو تبدیل کر سکے.وہ رویہ ہے کہ بعض لوگ اپنا روپیہ بعض تاجروں کو دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں بتاؤ کتنے فیصدی منافع دو گے ، ۱۵ فیصدی ۲۰ فیصدی یا ۲۵ فیصدی؟ کتنا منافع دو گے؟ اور اپنے دل کو یہ کہہ کر ، مطمئن کر لیتے ہیں کہ ہم نے سود تو نہیں کھایا ہم نے تو منافع لیا ہے.سوال یہ ہے کہ کس کو دھوکہ دے رہے ہو؟ خدا کو دھوکہ دے رہے ہو؟ شرائط تو سودی ہیں اور نام تجارت رکھ لیا گیا ہے.جب تمہارے
خطبات طاہر جلد ۲ 183 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء ساتھ یہ سلوک کیا جاتا ہے تو تم کو دکھ نہیں پہنچتا ؟ کیا تم اس بات کو بھول جاتے ہو کہ ایک مسلمان کا غیر مسلم نام رکھنے سے کوئی فرق نہیں پڑا کرتا صرف معاشرہ میں ایک دکھ پیدا ہو جاتا ہے.نام بدلنے سے حقیقت کس طرح بدل جایا کرتی ہے.کسی درخت کو کہتا کہ دیں تو وہ درخت بھونکنا تو شروع نہیں کر دے گا.مچھلی کا نام سؤ رکھ دیں تو وہ حرام تو نہیں ہو جائے گی اور اسی طرح سؤ رکا نام کوئی بہت اچھا تجویز کر دیں مثلاً اپنے گھر کا پلا ہوا مرغا کہنا شروع کر دیں تب بھی اس کا گوشت حرام کا حرام رہے گا اور اس کے اندر ذرا بھی تبدیلی پیدا نہیں ہوگی.پس قرآن کریم اس قسم کی جہالت کی توقع نہیں رکھتا کہ اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کی جائے یا انسان اپنے ضمیر کو دھوکہ دینے کی کوشش کرے کہ سود کا نام بدل دے اور کہے یہ تجارت ہے اور اس کا مال گویا پاک ہو گیا ہے.حرام لازماً حرام رہے گا اور سود بہر حال سودرہے گا.یہ تو وہ شرطیں ہیں جو فیصلہ کریں گی کہ یہ سودی تجارت ہے یا غیر سودی تجارت ہے.چنانچہ ربوہ میں بھی میرے علم میں یہ باتیں آئی ہیں کہ بہت سے لوگ خود دوسروں تک پہنچ کر ان کو دھوکہ دیتے ہیں.وہ ان سے کہتے ہیں کہ دیکھو ہم تمہیں ۲۵ فیصدی منافع دیں گے.تم ہمیں سرمایہ دے دو ہم تمہیں منافع دیں گے.ایسے لوگ اپنے نفسوں کو بھی دھوکہ دے رہے ہوتے ہیں اور خدا کو بھی لیکن قرآن کریم فرماتا ہے وَ مَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ (البقره: ۱۰) حقیقت یہی ہے کہ صرف وہ اپنے نفسوں کو دھوکہ دیتے ہیں.وہ نہ خدا کو دھوکہ دے سکتے ہیں نہ خدا کی جماعت کو دھوکہ دے سکتے ہیں اس لئے آج کے بعد اس سودی کاروبار کو کلیتہ ختم ہو جانا چاہئے.یہ اسلام کے اقتصادی نظام سے مذاق کیا جارہا ہے اور جماعت کو تباہ کیا جا رہا ہے.جس جماعت نے دنیا کا مالی نظام بدلنا تھا اگر وہ خود ہلاکتوں کا شکار ہو جائے تو کس طرح وہ دنیا میں تبدیلی لاسکتی ہے.ع چوں کفر از کعبه بر خیزد کجا ماند مسلمانی اگر خدانخواستہ جماعت احمدیہ پر ہی سودی نظام وار کر گیا اور جماعت اس کے قبضہ میں چلی گئی تو پھر کس طرح سراٹھا کر یہ دنیا میں اعلان کرے گی کہ ہم تمہاری تقدیر بدلنے کے لئے آئے ہیں تمہاری حیات نو ہم سے وابستہ ہے.وہ کہیں گے کہ تم تو خود ہلاک ہو چکے ہو تم تو خودسود کا شکار ہو بیٹھے ہو، تم کس طرح دنیا کو تبدیل کرو گے؟
خطبات طاہر جلد ۲ 184 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء غرض وہ لوگ جو اس قسم کے لین دین میں روپیہ دے چکے ہیں ان سے میں کہتا ہوں کہ منافع کے نام پر ایک آنہ بھی لینا ان پر حرام ہے اور وہ لوگ جو اس قسم کی تجارتیں کر رہے ہیں وہ دھو کہ دیتے ہیں.میں ان سے بھی یہ کہتا ہوں کہ عالمی مالی نظام کی مجبوری کے نتیجہ میں بینکوں کی معرفت پہلے سے جو گندگی موجود ہے اور اس میں ملوث ہونے میں ہم کسی حد تک مجبور ہیں وہ کام آپ بے شک کریں لیکن تقویٰ کے ساتھ ڈرتے ڈرتے ، خدا کا خوف کھاتے ہوئے کریں اور حتی المقدور سود سے بچنے کی کوشش کریں لیکن جماعت کو گندہ نہ کریں.اگر وہ احمدیوں کے پاس جائیں گے تو پیسے کا اور زیادہ لالچ دے کر ان کو خراب کر دیں گے خواہ دیانتداری سے ایسا کریں تب بھی وہ جماعت کے لوگوں کو گندہ کر رہے ہوں گے.ایسے لوگوں کے متعلق قرآن کریم کا یہ اعلان ہے : فَإِن لَّمْ تَفْعَلُوا فَأَذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ اس میں ایک اور رنگ میں تنبیہ کی گئی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اگر تم سودی کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو پھر تم اللہ سے ٹکر لو گے تو خدا تمہیں سزا دے گا.تمہارے روپوں میں برکت نہیں رہے گی.تمہاری خوشیاں چھین لی جائیں گی.اگر ایک مومن ایسی حرکتیں کرتا ہے تو پھر جنگ کے معنی بدل جائیں گے.مراد یہ ہے کہ بہت اچھا، تم خدا سے ٹکر لیتے ہو تو پھر خدا کی طرف عقوبت کے لئے تیار ہو جاؤ.تم کس طرح زبر دستی امیر ہو جاؤ گے اور زبردستی خدا کے نظام کو نظر انداز کر کے تمہاری دولتیں کیونکر خوشیاں پہنچا سکیں گی.فَأْذَنُوا بِحَرْبٍ مِنَ اللهِ وَرَسُولِهِ کا مطلب یہ ہے کہ بہت اچھا! تم خدا کے نظام سے ٹکر لوخدا تمہیں سزا دیگا اور تمہارے روپوں کی برکتیں چھین لے گا اور تمہارے گھروں کی خوشیاں نوچی جائیں گی تمہاری اولادوں کی برکتیں اٹھ جائیں گی اور تم زبردستی خدا سے کچھ بھی نہیں لے سکتے.اللہ تعالیٰ بڑا رؤوف اور رحیم ہے.فرماتا ہے جو ہو چکا سو ہو چکا اب ہم تمہیں تو بہ کی طرف بلاتے ہیں.چنانچہ سود دینے والوں کو کہتا ہے وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوسُ أَمْوَالِكُمْ تم تو به کرو تو ہم یہ نہیں کہتے کہ تمہارا روپیہ اب واپس نہیں آئے گا اور روپے کے اب تم حق دار نہیں رہے، تم پہلے سود کھا بیٹھے ہوگئی قسم کے فائدے اٹھا چکے ہو اس لئے روپیہ اب تمہارا نہیں رہا.فرماتا ہے ہم یہ سزا تمہیں نہیں دیتے اس کی معافی دے دیتے ہیں آج کے بعد جو تمہارا اصل زر ہے وہ تم واپس لینے کا حق رکھتے ہولَا تَظْلِمُونَ وَلَا تُظْلَمُونَ جب تم توبہ کر بیٹھے ہوتو نہ تم پر ظلم کیا جائے گا اور نہ تم ظلم
خطبات طاہر جلد ۲ 185 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء کرنے والے بنو گے.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اب یہ روپیہ فوری طور پر تو واپس نہیں ہو سکے گا.پھر کیا انتظام چلنا چاہئے.فرمایا تمہیں مہلت دینی پڑے گی جن لوگوں کے پاس تم نے تجارت پر روپیہ لگایا ہوا تھا ان پر تم یہ احسان کرو کہ وہ تمہیں سود دینا بند کر دیں اور یہ بھی احسان کرو کہ ان کو کچھ مہلت دو جس میں وہ روپیہ واپس کریں اور وہ کامل دیانتداری اور تقویٰ کے ساتھ جلد از جلد لوگوں کا سرمایہ واپس کرنے کی کوشش کریں اور اگر واپس نہیں کرتے یا نہیں کر سکتے تو تجارتی اغراض سے سمجھوتہ کریں.اگر وہ تجارتی غرض سے روپیہ لگانا چاہتے ہیں تو اس کا راستہ تو کھلا ہے پھر وہ اسلامی شریعت کے مطابق نیا سمجھوتہ کریں اور نفع و نقصان میں برابر کے شریک ہوں تو پھر اس روپے کا استعمال جائز ہو جائے گا.پس یہی وہ دو طریق ہیں جو کھلے ہوئے ہیں باقی رہا یہ کہ اس نظام کی نشو و نما میں کیا ذرائع اختیار کرنے چاہئیں.ان کے متعلق جماعت کی طرف سے بعض کمیٹیاں بٹھائی گئی ہیں.علاوہ ازیں میں جماعت کو ایک صلائے عام بھی دیتا ہوں کہ اس مختصر مضمون کی روشنی میں جماعت کے اہل فکر دوست جو تجارتی ملکہ رکھتے ہیں اور ان کو ان باتوں کی سمجھ ہے ان کو چاہئے کہ وہ جماعت کو مشورہ دیں کہ جب سود پر روپیہ نہیں لگانا اور سود پر حتی المقدور روپیہ نہیں لینا تو پھر احمدی احباب کے لئے تجارت کے کون سے راستے باقی رہ جاتے ہیں اور کس طرح جماعت اندرونی طور پر کوئی ایسا نظام جاری کرے کہ دنیا کو دکھا دے اور لوگوں کو بتادے کہ اسلام کا اقتصادی نظام خدا تعالیٰ کے رحمت والے حصہ کے علاوہ دنیا کے قانون کے لحاظ سے بھی پہنے اور نشوونما پانے کی بہتر حیثیت رکھتا ہے.اس پر اہل علم بھی غور کریں اور اہل تجر بہ بھی غور کریں اور جہاں تک ممکن ہو اپنی تجاویز پورے غور اور فکر کے ساتھ مجھے بھجوائیں تا کہ وہ کمیٹیاں جو ان باتوں پر غور کر رہی ہیں ان کو وہ بھجوادی جائیں اور وہ ان کو زیر غور لا ئیں.دعا ہے اللہ تعالیٰ ہم پر فضل فرمائے ، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی توفیق بخشے.میں آپ کو یہ یقین دلاتا ہوں کہ آپ خدا کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں وہ تو ایک ایسا سودا ہے جس میں آپ کو فکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں کیونکہ خدا اپنے فضل سے ہمارے گھر برکتوں سے بھرتا رہا ہے اور بھر رہا ہے اور بھرے گا.جو لوگ اللہ کے نظام سے محبت کرتے ہیں وہ ان لوگوں سے بھی محبت کرتے ہیں جو خدا کے نظام کے لئے قربانیاں پیش کرتے ہیں اور ان کے دلوں سے خود بخو دایسے پیار
خطبات طاہر جلد ۲ 186 خطبه جمعه ۲۵ / مارچ ۱۹۸۳ء سے دعائیں اٹھتی ہیں کہ ناممکن ہے وہ نا مقبول ہو جائیں اس لئے احباب جماعت میں ایک بڑی کثرت ایسے لوگوں کی ہے جو خدا کی راہ میں قربانی کرنے والوں کے لئے دن رات دعائیں کرتے رہتے ہیں.چنانچہ جب وہ الفضل میں جماعتی یا انفرادی قربانی کا کوئی واقعہ پڑھتے ہیں تو وہ بے اختیار خدا کے حضور جھکتے اور ان لوگوں کے لئے دعائیں شروع کر دیتے ہیں.غرض دعا کا یہ نظام ایک زائد فضل کی صورت میں جاری ہے.یہ نظام بھی ان کی مدد کر رہا ہے اس لئے ان کے لئے تو کسی قسم کے خوف کا کوئی سوال ہی نہیں.جو روپیہ بچ جائے گا اگر وہ سود پر نہیں لگا ئیں گے تو اللہ تعالیٰ کی برکت کا ایک پاکیزہ نظام انہیں میسر آئے گا جو عام دنیاوی نظام سے کہیں بالا اور بہتر ہے لیکن اگر آپ ان سب باتوں کو بھی چھوڑ دیں تب بھی میں آپ کو بتادینا چاہتا ہوں کہ اسلام کا اقتصادی نظام دنیا کے قانون کے مطابق بھی زیادہ پینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور یہ لا ز ما غالب آئے گا.انشاء اللہ تعالیٰ پس جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ وہ تو کل کے ساتھ اور تقویٰ کے ساتھ اس پر عمل تو کر کے دیکھے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۱۲/جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 187 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء قیام نماز خطبہ جمعہ فرموده یکم اپریل ۱۹۸۳ء به مقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے فرمایا: قرآن کریم نے مذہب کا اور خود اپنا جو خلاصہ شروع میں پیش کیا ہے وہ تین لفظی ہے.سورۃ البقرہ کی پہلی آیت میں تو کتاب کا تعارف ہے اور اس کی تعلیم کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے.جیسا کہ فرمایا النْ ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ.اور اگلی آیت میں اس ساری تعلیم کا خلاصہ یہ بیان فرمایا الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ O یعنی ایمان بالغیب ، اقامت الصلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ.اگلی آیت یعنی وَالَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلِكَ وَبِالْآخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ میں پہلی آیت کی تفصیل بیان فرمائی کہ غیب کے کیا معنی ہیں، مومن اقامت صلوٰۃ کی تعلیم کس سے لیتے ہیں، کس طرح اس کا حق ادا کرتے ہیں اور انفاق فی سبیل اللہ جو در اصل بنی نوع انسان کے حقوق کی ادائیگی ہے، وہ کیسے اختیار کرتے ہیں.چنانچہ فرمایا کہ مومن یہ سب باتیں آنحضرت ﷺ سے سکھتے ہیں جیسا کہ آپ سے پہلے بھی خدا نے جو بزرگ بھیجے تھے ان سے لوگ سیکھتے رہے تھے اور آئندہ بھی سچی تعلیم وہی سکھائے گا جو آنحضرت ﷺ کی برکت سے خدا ہی سے پائے گا.پس اس نظام کا خلاصہ بیان فرما دیا جس کے ذریعے انسان ایمان
خطبات طاہر جلد ۲ 188 خطبه جمعه یکم اپریل ۱۹۸۳ء بالغیب سیکھتا ہے اور یہ نظام خود ایمان بالغیب کا ہی حصہ ہے پھر وہ اقامت صلوۃ یعنی حقوق اللہ کی تعلیم حاصل کرتا ہے اور پھر انفاق فی سبیل اللہ یعنی بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کے اسلوب سیکھتا ہے.الغرض پہلی تین باتیں جن کی طرف قرآن کریم مومن کو متوجہ کرتا ہے جن کے بغیر نہ وہ متقی بن سکتا ہے، نہ وہ شک سے پاک ہو سکتا ہے اور نہ ہی ہدایت کی کوئی بھی منزل پاسکتا ہے، وہ ہیں ایمان بالغیب،ا قامت الصلوۃ اور انفاق فی سبیل اللہ غیب کیا ہے؟ اس کی تفصیل جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگلی آیت میں اشارہ کر کے یہ بیان فرمائی کہ جو غیب تم نے سیکھنا ہے وہ حضرت محمد مصطفی علی اے سے سیکھ لو.ایمان بالغیب کیا ہوتا ہے؟ اس کی تفصیل بھی حضور اکرم ﷺ ہی بیان فرمائیں گے لیکن چونکہ آج کے خطبے کا موضوع یہ حصہ نہیں ، اس لئے میں اس کو فی الحال چھوڑتا ہوں.آج کے خطبے کا موضوع اس تعلیم کا درمیانی حصہ یعنی اقامت الصلوۃ ہے جو اللہ کے حقوق کی ادائیگی سے تعلق رکھتا ہے.جہاں تک انفاق فی سبیل اللہ کا تعلق ہے گزشتہ متعدد خطبات میں اس کے متعلق مختلف پہلوؤں سے میں توجہ دلا تارہا ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت میں اتنی غیر معمولی بیداری پائی گئی ہے کہ میرے تصور کی کوئی چھلانگ بھی یہ اندازہ نہیں کر سکتی تھی کہ مجھے اتنا نمایاں تعاون فی سبیل اللہ حاصل ہو گا.بعض جگہ تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ خدا کے فرشتے دلوں کو تبدیل کر کے زبر دستی مالی قربانی کی طرف متوجہ کر رہے ہیں اور بعض لوگوں نے رویا دیکھ کر اس طرف توجہ کی یعنی واضح طور پر ان کو ہدایت اور راہنمائی ملی اور پھر وہ مالی قربانیوں میں آگے بڑھے.اب میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ عبادت کی ادائیگی کی طرف بلانا چاہتا ہوں.اگر چہ بعض پہلے خطبات میں بھی میں نے اس کی طرف توجہ دلائی تھی لیکن یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جب تک بار بار اس کی طرف توجہ نہ دلائی جائے اس وقت تک نہ توجہ دلانے والا اپنے رب کے سامنے اپنی ذمہ داری ادا کر سکتا ہے، نہ وہ لوگ صحیح معنوں میں فائدہ اٹھا سکتے ہیں جن کو توجہ دلائی گئی ہو.ذکر کا مضمون ایک جاری و ساری مضمون ہے اس لئے ہمیں بعض امور کی طرف بار بار توجہ دلاتے رہنا پڑے
خطبات طاہر جلد ۲ 189 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء گا.خصوصاً نماز پر تو اس کا بہت ہی گہرا اثر پڑتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف آیات کوملحوظ رکھتے ہوئے نماز کا جو نقشہ کھینچا ہے وہ یہ ہے کہ نماز ایسی چیز ہے جو اگر زور لگا کر اور توجہ کے ساتھ کھڑی نہ کی جائے تو گر پڑے گی.آپ فرماتے ہیں کہ یہ جو بار بار کہا گیا ہے کہ نماز کو کھڑا کرو، کھڑا کرو، کھڑا کرو اور بڑی کثرت کے ساتھ مختلف طریق پر بیان کیا گیا ، اس سے اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ نماز از خود کھڑی نہیں ہوا کرتی.جب بھی تم اس کی طرف سے غافل ہو گے یہ گر پڑے گی.جس طرح ٹینٹ یعنی خیمہ بانس کے سہارے کھڑا ہوتا ہے، اگر بانس نہیں رہے گا تو خیمہ زمین پر آپڑے گا.کمرے کی طرح کی چیز تو نہیں کہ از خود کھڑا رہے.اسی طرح عبادت بھی ایک ایسی چیز ہے جو از خود کھڑی نہیں ہوتی اس کی طرف بار بار توجہ دلانے کی ضرورت ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ سورۃ فاتحہ کی آیت ايَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحہ : ۵) میں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ اے خدا! ہم کمزور ہیں اور عبادت مشکل کام ہے ذرا بھی اس سے غافل ہوئے تو اس کا حق ادا کرنے کے اہل نہیں رہیں گے، اس لئے ہر نماز کی ہر رکعت میں ہم تجھے سے درخواست کرتے ہیں ، التجا کرتے ہیں کہ ہمیں توفیق بخش کہ ہم نماز کا حق ادا کر سکیں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ نماز کی طرف توجہ دلانا ہمارا اولین فرض ہونا چاہئے.سارا نظام اس چیز کو ہمیشہ اولیت دے.( رپورٹ جلسہ سالانہ ۱۸۹۷ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد ۱ ص۴۷۰) دوسرے اس لئے بھی اس طرف خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ مذہب کا مقصد ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت ہے.حقوق العباد اس کا دوسرا حصہ ضرور ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہوسکتا.دنیا کی کسی قوم نے بھی حقوق العباد نہیں سیکھے جب تک کہ اللہ نے نہ سکھائے ہوں صحیح معنوں میں حقوق العباد کی آخری بنیاد میں مذہب میں ہی ملتی ہیں.اس کے سوا تو باقی سب کچھ چھینا جھپٹی اور اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارنا ہے.حقوق العباد کے نام پر ظلم کی تعلیم تو دی گئی ہے لیکن انسان نے کسی کو حقوق العباد نہیں سکھائے.جتنی بھی دنیوی تعلیمات ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ حقوق العباد حقیقت میں مذہب سے ہی نکلے ہیں اور وہی لوگ حقوق العباد ادا کر سکتے ہیں جو پہلے اللہ کی عبادت کا حق ادا کریں.جن کی عبادتیں کمزور پڑ جائیں وہ حقوق العباد کی ادائیگی
خطبات طاہر جلد ۲ 190 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء میں بھی کمزور پڑ جاتے ہیں.جو حقوق اللہ ادا نہیں کرتے وہ جھوٹ بولتے ہیں کہ ہم حقوق العباد ادا کرتے ہیں کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ انسان خدا کی عبادت تو نہ کرتا ہولیکن خدا کے بندوں کے حقوق ادا کر سکے.چنانچہ قرآن کریم اس مضمون کو بہت کھول کر بیان کرتا ہے.فرماتا ہے: فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ) الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ (الماعون ۶،۵) که اگر چه نماز انسان کے لئے زندگی اور اس کی بقا کا موجب ہے اور اس کو فلاح کی طرف لے جاتی ہے، لیکن کچھ نمازیں ایسی ہوتی ہیں جو ہلاکت کا پیغام دیتی ہیں فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ ہلاک ہو جائیں ایسے لوگ ایسے نمازیوں پر لعنت ہو الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُونَ جو نمازیں تو پڑھتے ہیں لیکن غفلت کی حالت میں پڑھتے ہیں.اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ نماز کی ذمہ داریوں سے غافل رہتے ہیں.نماز جن تقاضوں کی طرف بلاتی ہے یا جن تقاضوں کی طرف بلانے کے لئے نماز پڑھی جاتی ہے ان سے غافل ہو جاتے ہیں یعنی نہ اللہ کی محبت ان کے دل میں پیدا ہوتی ہے، نہ محض اللہ کام کرنے کی عادت ان کو پڑتی ہے اور نہ وہ حقوق العباد ادا کرتے ہیں.یہ ساری چیزیں نماز کی بنیادی صفات ہیں.چنانچہ ہلاکت والی نماز ادا کرنے والوں کی یہ تعریف بیان فرمائی گئی الَّذِينَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ الَّذِيْنَ هُمْ يُرَاءُونَ لا وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ (الماعون ٦-٨ ) يه وہ لوگ ہیں جو نماز کے بنیادی مقاصد سے غافل ہیں.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ ریا کاری کی خاطر نماز پڑھنے لگتے ہیں.اپنے رب کی خاطر نہیں پڑھتے.اس طرح نماز کے بنیادی مقصد یعنی اللہ تعالیٰ سے تعلق کے قیام سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو خدا کے ساتھ تعلق قائم کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں ان کی قطعی علامت یہ ہے کہ وہ خدا کے بندوں سے بھی کٹ جاتے ہیں.جو خدا کے حقوق ادا نہیں کرتے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ وہ خدا کے بندوں کے حقوق ادا کر سکیں.چنانچہ فرمایا: وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ کہ یہ لوگ اتنے خسیس ، اتنے کم ظرف ہو جاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کی معمولی معمولی ضرورتیں پوری کرنے سے بھی گریز کرنے لگ جاتے ہیں.ان کی حالت یہاں تک ہو جاتی ہے کہ اگر ان کے ہمسائے نے آگ مانگی ہے تو اس سے ان کو تکلیف پہنچتی ہے یا تھوڑی دیر کے لئے مثلاً ایک ہنڈیا طلب کی ہے تو اس
خطبات طاہر جلد ۲ 191 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء سے بھی تکلیف پہنچتی ہے.وَيَمْنَعُونَ الْمَاعُونَ میں دونوں باتیں پائی جاتی ہیں ایک یہ کہ خود بھی منع رہتے ہیں اور دوسرے یہ کہ اپنے بچوں کو اور اپنے ماحول کو بھی کہتے ہیں کہ اس نے یہ کیا رٹ لگارکھی ہے ہمسائی بار بار مصیبت ڈالتی رہتی ہے کہ فلاں چیز دو اور فلاں بھی دو، اس کو یہ چیز ہرگز نہیں دینی.پس نماز اور عبادت کا خلاصہ یہ بیان فرمایا کہ اس کے بغیر نہ اللہ سے تعلق قائم ہوتا ہے نہ اس کی مخلوق سے اسی لئے بنی نوع انسان کے حقوق کا ذکر عبادت کے بعد کیا جو بیشتر حد تک مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کی ذیل میں آ جاتے ہیں بلکہ اگر اس کی وہ تعریف کی جائے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرمائی ہے تو بیشتر کا لفظ کمزور ہے.حقیقت یہ ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ہر قسم کے حقوق مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کے تابع ادا ہوتے ہیں.اس کو عبادت کے بعد رکھا ہے اور یہ ترتیب بتا رہی ہے کہ در اصل عبادت ہی کے نتیجے میں بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا ہوتی ہے.پس جہاں تک اعمال کا تعلق ہے مذہب کا خلاصہ عبادت پر آ کر ختم ہو جاتا ہے.غیب کا معاملہ تو ایمانیات سے تعلق رکھتا ہے اور ایمان نہ ہو تو عبادت کی توفیق بھی نہیں مل سکتی.یہ درست ہے لیکن جہاں تک اعمال کا تعلق ہے ان کا خلاصہ نماز ہے.نماز قائم ہو تو حقوق اللہ بھی ادا ہوں گے اور حقوق العباد بھی ادا ہوں گے لیکن اگر یہ نہ رہے تو پھر کچھ بھی باقی نہیں رہے گا.تقویٰ کا خلاصہ بھی نماز بیان فرمایا گیا ہے.تقویٰ کی جو تعریف بیان فرمائی اس کا خلاصہ اگر نماز ہے تو متقیوں کی زندگی کا خلاصہ بھی نماز ہی بنتا ہے اس لئے عبادت مومن کی زندگی اور اس کی جان ہے اور مذہب کے فلسفے کی بنیاد اس بات پر ہے کہ انسان اپنے رب سے سچا تعلق عبادت کے ذریعے قائم کرے.اس پہلو سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا، کمزوریاں بھی آتی چلی جاتی ہیں.ایک دفعہ آپ زور لگاتے اور کوشش کرتے ہیں تو نماز میں حاضری کا معیار بڑھ جاتا ہے.پھر کچھ عرصے کے بعد نماز گر نے لگتی ہے، پھر زور لگاتے ہیں تو معیار بڑھنے لگتا ہے اور بعض دنوں میں جب زیادہ توجہ دی جاتی ہے تو خدا کے فضل سے مسجدوں کے متعلق احساس ہوتا ہے کہ چھوٹی رہ گئی ہیں.لیکن اس کے بعد پھر خالی برتن کی طرح خلخل کرتے ہوئے چند نمازی رہ جاتے ہیں اور مسجد میں قریباً خالی.تو اس لئے ہمیں اپنے نظام میں لازماً یہ بات داخل کرنی پڑے گی کہ سارا نظام بیدار ہو کر وقتاً فوقتاً نمازوں کی طرف توجہ دلائے ، ساری جماعت کو جھنجھوڑ دے اور بیدار کر دے اور اسے بتائے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 192 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء نمازوں کے بغیر تم زندہ نہیں ہو اور نہ ہی زندہ رہ سکتے ہو.تمہیں لا زم عبادتوں کو قائم کرناپڑے گا ورنہ تمہاری ساری کوششیں بریکا ربے معنی اور لغو ہوں گی.یہی وجہ ہے کہ میں نے آغاز خلافت ہی میں آج سے تقریباً چھ ماہ پہلے تمام انجمنوں کو جن میں مرکزی انجمنیں بھی شامل تھیں اور ذیلی انجمنیں بھی شامل تھیں، اکٹھا کر کے جو بنیادی ہدایت دی وہ ی تھی کہ نماز کی حفاظت ، جس کے لئے جماعت احمدیہ قائم کی گئی ہے، ہمارا ولین فرض ہے.ہمارے سارے نظام اس مرکزی کوشش کے لئے غلامانہ حیثیت رکھتے ہیں.اگر یہ نظام او پر آجائیں اور یہ آقا یعنی عبادت کا مقام نیچے ہو جائے تو معاملہ بالکل الٹ ہو جائے گا پھر تو ویسی ہی بات ہو جائے گی کہ کشتی نیچے چلی جائے اور پانی اوپر جائے.وہی چیز جو بچانے کا موجب ہوتی ہے وہ تباہی کا موجب بن جاتی ہے حالانکہ پانی اور کشتی کا تعلق وہی رہتا ہے جوکشتی کے اوپر ہے وہ بھی پانی ہے اور جو کشتی کے نیچے ہے وہ بھی پانی ہے لیکن نسبت بدلنے سے نتیجہ الٹ نکل رہا ہے یعنی اوپر کا پانی ہلاکت کا موجب بن جاتا ہے اور وہی پانی جب نیچے ہو تو بچانے کا موجب بن جاتا ہے اس لئے نسبتوں کا درست ہونا ضروری ہے.عبادت نظام جماعت کی غلام نہیں ہوگی بلکہ نظام عبادت کا غلام ہوگا.ہم تبھی زندہ رہیں گے جب نظام جماعت عبادت کا غلام ہوگا.پس میں نے ان تمام انجمنوں کو اس طرف توجہ دلائی کہ آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ کے جتنے بھی کارکن ہیں ان کی طرف توجہ کریں.ہر انجمن کے سر براہ کا فرض ہے اسی طرح ہر شعبے کے انچارج کا یہ فرض ہے کہ وہ دیکھے کہ مرکزی نمائندگان سلسلہ اپنا حق اس رنگ میں ادا کر رہے ہیں کہ وہ دوسروں کے لئے نمونہ بنیں.تمام دنیا کی آنکھیں مرکز کی طرف لگی ہوئی ہیں اور مرکز میں بھی جو سلسلہ کے کارکنان ہیں وہ بڑے نمایاں طور پر لوگوں کی نظر کے سامنے نمونہ کے طور پر ہوتے ہیں.اگر یہ لوگ بداعمالیاں کریں تو ہلاکت کا موجب بن سکتے ہیں اور اگر نیک اعمال کریں تو ان کی نیکیاں عام انسانوں کی نیکیوں کے مقابل پر ان کو کئی گنا زیادہ ثواب پہنچا سکتی ہیں.چنانچہ میں نے انہیں جو ہدایت دی اس کا خلاصہ یہ تھا کہ آپ توجہ کریں میں آپ کو چھ مہینے دیتا ہوں.بار بار نصیحت کے ذریعے کوشش کریں کہ تمام کارکنان نماز کے فریضے کی ادائیگی سے پیچھے نہ رہیں سوائے اس کے کہ کوئی بیماری کی وجہ سے مجبور ہو.اسے گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت ہے.ٹانگوں کی بیماری ہے یا کمر کی تکلیف ہے یا اسی قسم کی اور کوئی تکلیفیں ہوسکتی ہیں کہ انسان دفتر میں تو پہنچ
خطبات طاہر جلد ۲ 193 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء جاتا ہے اور کرسی پر بیٹھ کر اپنے فرائض بھی ادا کر دیتا ہے لیکن باجماعت نماز کی توفیق نہیں پاسکتا.اس لئے جہاں تک شرعی مجبوریوں کا تعلق ہے ہم ان میں دخل نہیں دے سکتے لیکن واضح اور یقینی شرعی مجبوریوں کے سوا سلسلے کے سارے کارکنان کو نمازوں میں پیش پیش ہونا چاہئے اور دوسرے لوگوں کے لئے نمونہ بننا چاہئے.بہر حال میں نے ذمہ دار احباب سے کہا کہ چھ مہینے کے بعد آپ اپنے انتباہ میں نسبتاً زیادہ سنجیدہ ہو جائیں اور کارکنوں کو بلا کر سمجھا ئیں اور کہیں کہ یہ ٹھیک ہے کہ دین میں کوئی جبر نہیں ہم تمہیں نمازوں پر مجبور نہیں کر سکتے لیکن جبر نہ ہونے کے دو نقص ہیں.اگر تم پر جبر نہیں تو جماعت احمدیہ پر کیا جبر ہے کہ وہ ضرور بے نمازیوں کو ملازم رکھے اس لئے دوطرفہ معاملہ چلے گا.صرف تم آزاد نہیں ہو جماعتی نظام بھی آزاد ہے.وہ آزاد ہے اس معاملے میں کہ جس قسم کے کارکن چاہے رکھے اور جس قسم کے چاہے نہ رکھے.اس کو اختیار ہے اس لئے ہم تمہیں موقع دیتے ہیں کہ تم اپنی نماز میں درست کرو لیکن چونکہ تم آزاد ہو ہو سکتا ہے تم یہ فیصلہ نہ مانو ہم داروغہ نہیں ہیں، داروغہ تو اصل میں خدا ہی ہے، تم نے بھی اسی کے حضور پیش ہونا ہے اس لئے اگر تم یہ فیصلہ نہیں مان سکتے تو ہم تمہیں کوئی سزا نہیں دیں گے.جزا سزا کا معاملہ اللہ سے تعلق رکھتا ہے لیکن ہم بھی اس بات میں آزاد ہیں کہ تمہارے جیسے کارکنوں کو نہ رکھیں.ہماری بعض مجبوریاں ہیں ، ہم نے ساری دنیا میں تبلیغ کی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور ساری دنیا کے لئے نمونہ بننا ہے، اگر عبادت سے غافل کا رکن مرکز میں بیٹھے ہوں تو نہ وہ دعائیں کر سکیں گے، نہ ان کے اندر تقویٰ کا اعلیٰ معیار ہوگا اور نہ ہی وہ صحیح نمونہ بن سکیں گے بلکہ جماعت کے لئے ہزار مصیبتیں کھڑی کرتے رہیں گے.کجا یہ کہ سارے مرکزی کارکنان عبادتوں کا حق ادا کرنے والے ہوں اور ان کے مجموعی تقویٰ کے نتیجے میں ایک زبر دست طاقت پیدا ہو اور کجا یہ کہ چند آدمی باقی تمام کارکنوں کا حق ادا کر رہے ہوں اور اکثریت غافل ہو اور جماعت پر بوجھ بنی ہوئی ہو.اس پہلو سے چھ مہینے کے بعد ذمہ دار افسران نے نماز سے غافل کارکنوں کو وارننگ دینی تھی لیکن میں خاموشی سے دیکھتا رہا.میرے نزدیک اس کام میں غفلت کی گئی ہے اس لئے سال کے بعد پکڑنے کی بجائے ابھی جو تین مہینے باقی ہیں ان میں ایسے کارکن فیصلہ کر لیں کہ انہوں نے سلسلہ کی ملازمت کرنی ہے یا نہیں کرنی.یہ بات مجھے اس وقت سے یاد ہے جب میں نے انجمنوں کو اس
خطبات طاہر جلد ۲ 194 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء بارے میں ہدایت دی تھی اور مسلسل یا درہی ہے اور جب بھی میں نمازیوں پر نگاہ ڈالتا ہوں تو یاد آتی رہتی ہے اس لئے کوئی یہ خیال دل میں نہ لائے کہ میں اسے بھول چکا ہوں.یہ جو فیصلہ ہے اس پر بہر حال عملدرآمد ہوگا.اللہ تعالیٰ سلسلے کو بہتر کارکن دیدے گا.انشاء اللہ.مجھے قطعاً کوئی پرواہ نہیں کہ بے نمازی نکل جائیں گے تو ہمارے کام کون کرے گا؟ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ بے نمازی نکلیں گے تو کام بہتر ہوں گے اور آپ کو یقین آئے نہ آئے مجھے اس بات پر کامل یقین ہے کیونکہ خدا کا کلام جھوٹا نہیں ہوسکتا.خدا کا کام خدا کی عبادت کرنے والے ہی ادا کر نے کا حق رکھتے ہیں.دوسروں کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ یہ کام کریں اور اگر وہ اس کو کریں بھی تو احسن رنگ میں نہیں کر سکتے.اس لئے میں ساری انجمنوں کو دوبارہ اس امر کی طرف متوجہ کر رہا ہوں اور ساری جماعت کو سنانا چاہتا ہوں کیونکہ آج مشاورت کے لئے پاکستان کی اکثر جماعتوں کے نمائندے یہاں آئے ہوئے ہیں اسی طرح باہر کی دنیا سے بھی نمائندے پہنچے ہوئے ہیں.آپ سب کے سامنے یہ بات سنانے میں حکمت یہ ہے کہ آپ بھی اپنی اپنی جگہ اسی طرح جواب دہ ہوں گے.ہر جماعت کی مجلس عاملہ اور تنظیم خواہ وہ ذیلی انجمن کی ہویا مرکزی انجمن کی بالکل اسی طرح ذمہ دار ہے جس طرح یہ انجمنیں ذمہ دار ہیں.بعض دفعہ عجیب و غریب واقعات سامنے آتے ہیں کہ ایک جگہ خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہور ہا ہوتا ہے اور نماز با جماعت کھڑی ہو جاتی ہے لیکن عاملہ کو پرواہ ہی نہیں ہوتی.وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اتنے سنجیدہ اور اہم کام میں مصروف ہیں کہ اب ہم نماز سے بالا ہو گئے ہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا جب پانی کشتی کے اوپر آئے گا تو ہلاک کر دے گا کیونکہ کشتی میں یہ طاقت ہی نہیں ہے کہ وہ پانی کو سنبھال سکے اس لئے آپ نے عبادت کا غلام بنا ہے تو زندگی پانی ہے.اگر آپ عبادت کو اپنا غلام بنانے کی کوشش کریں گے تو لازماً ہلاک ہوں گے.اسی طرح بعض دفعہ امرا کے متعلق پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی میٹنگ میں بیٹھے ہوتے ہیں اور بعض اوقات سنجیدہ باتیں نہیں بلکہ شغل کی باتیں چل رہی ہوتی ہیں اور ادھر نماز ہو رہی ہوتی ہے لیکن امرا کوئی پرواہ نہیں کرتے.پس جن باتوں کا مرکز پابند ہے انہی باتوں کی جماعتیں ہر جگہ پابند ہیں اس لئے آپ کو اس طرف توجہ دینی پڑے گی اور جماعت کے ذمہ دار دوستوں کو بہترین نمونے قائم کرنے پڑیں گے.
خطبات طاہر جلد ۲ 195 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء جہاں تک نماز با جماعت کا تعلق ہے کجا یہ کہ انسان گھر میں بیٹھا ہوا ہو یا دفتر میں ہو اور مسجد تک نہ جائے اور کجا آنحضرت ﷺ کا اسوہ اور آپ کی تعلیم کہ ایک اندھا جو دور سے اذان کی آواز سنتا ہے اس کو بھی گھر پر نماز پڑھنے کی اجازت دینے کے بعد اجازت واپس لے لیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ تمہیں جماعت کے بغیر نماز پڑھنے کی اجازت نہیں ہے.واقعہ یوں ہوا کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا اور عرض کی یارسول اللہ مدینہ کی گلیوں میں ٹھوکریں لگتی ہیں مختلف حدیثوں میں مختلف تفاصیل ملتی ہیں.کہیں آتا ہے کہ اس نے کہا رات کو جنگلی جانوروں کا خطرہ بھی ہوتا ہے اور کہیں آتا ہے کہ مجھے ساتھ لے جانے والا کوئی نہیں ہے اس لئے مجھے اجازت دی جائے کہ میں گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں.حضور نے اجازت فرما دی.جب وہ اٹھ کر جانے لگا اور ابھی قدم باہر رکھا ہی تھا تو حضور نے اسے واپس بلایا کہ بات سن جاؤ.اس نے عرض کی یا رسول اللہ ! کیا بات ہے؟ حضور نے فرمایا هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلواة کہ کیا تمہیں نِدَاء بِالصَّلوةِ آتی ہے؟ اس سے مراد اذان لے لیں یا تکبیر لے لیں حضور کا مقصد یہ تھا کہ نماز کی طرف بلانے کی آواز تمہارے کان میں پڑتی ہے یا نہیں ؟ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں آواز سنتا ہوں.تو فرمایا پھر جواب دیا کرو.تمہیں یہ اجازت نہیں ہے کہ تمہارے کانوں میں آواز پڑے اور اس کے باوجود تم انکار کردو آنحضرت ﷺ کا تعلیم دینے کا عجیب طریق تھا اور اتنا لطیف اور پیارا کہ آپ کی باتوں کی تہ میں جائیں تو حسن ہی نظر آتا ہے.اس نا بینا آدمی کو یہ تعلیم دی کہ تم آنکھوں سے تو محروم ہولیکن کانوں کو ثواب سے کیوں محروم رکھتے ہو؟ جن اعضا کے ذریعے تمہیں خدا کی طرف بلایا جا رہا ہے حید مسلم کی روایت ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ أَعْمَى فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّهُ لَيْسَ لِى قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ فَسَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَخِصَ لَهُ فَيُصَلِّي فِي بَيْتِهِ فَرَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ فَقَالَ هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلوةِ فَقَالَ نعَمْ قَالَ فَاجِبُ.(مسلم کتاب المساجد ومواقع الصلوۃ باب يجب اتيان المسجد على من سمع النداء) (جاری)
خطبات طاہر جلد ۲ 196 خطبه جمعه یکم اپریل ۱۹۸۳ء وہاں سے تو لبیک کہہ دو.ایک بدقسمتی کے نتیجے میں دوسری بد قسمتی کیوں مول لیتے ہو؟ یہ تھا حضور اکرم ﷺ کی تعلیم کا طریق اور کجا یہ کہ ہر طرف سے اذانوں کی آوازیں آ رہی ہوں اور نمازوں کی طرف بلایا جا رہا ہو لیکن کارکنان سلسلہ یا ممبران مجلس عاملہ یا سلسلہ کے دیگر کارکنان خاموشی سے سن رہے ہوں جیسے کسی اور کو بلایا جارہا ہے.بہرے کی اور کیا تعریف ہے: صُمٌّ بُكُم عَى فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ ) (البقره: ۱۹) کے روحانی معنی تو یہی ہیں کہ وہ سنتے ہیں اور نہیں سنتے.دیکھتے ہیں اور نہیں دیکھتے اور جو سنتے اور دیکھنے کی طاقت سے محروم ہو جائے وہ ہر لحاظ سے بالکل بے معنی جانور کی طرح زندگی بسر کرتا ہے.نہ اس کو بولنے کی طاقت ہے، نہ سمجھنے کی طاقت ہے اس لئے عبادت کا حق ادا کرنا نہایت ہی اہم ہے.اب میں مضمون کی طرف واپس آتے ہوئے کارکنان سلسلہ سے کہتا ہوں کہ تین مہینے کے اندر اندر یہ فیصلہ کر لیں کہ سلسلے کی ملازمت کرنی ہے یا نہیں.جہاں تک ان کے اس فیصلے کا تعلق ہے اس میں وہ آزاد ہیں.وہ جو فیصلہ بھی کریں ان کی مرضی ہو گی لیکن اگر وہ عبادت کی خاطر عبادت کریں نہ کہ ملازمت کی خاطر اور اللہ سے تعلق قائم کرنے کی خاطر نماز پڑھیں تو یہی سب سے اچھا سودا ہے اور سلسلے کو ایسے ہی کارکنوں کی ضرورت ہے لیکن اگر وہ کسی وجہ سے یہ فریضہ ادا نہیں کر سکتے تو ہمیں احسان کے ساتھ ان کو الگ کرنا ہوگا.ان کی فہرستیں بن جانی چاہئیں اور ان سے معاملہ طے ہو جانا چاہئے.جدائی میں احسان بہر حال ضروری ہے اس لئے ان کے حقوق ان کو ادا ہونے چاہئیں.افہام و تفہیم کے ساتھ احسن رنگ میں ان کو کہا جائے کہ ہمیں مجبوری ہے کہ ہم تمہیں علیحدہ کر رہے ہیں لیکن اس علیحدگی میں تمہیں ثواب ہو گا اس وقت تم سلسلے پر بار بنے ہوئے ہو پھر سلسلے کا بوجھ ہلکا کر دو گے.بقیہ حاشیہ ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ آنحضرت ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا آدمی میسر نہیں جو مجھے مسجد تک لے کر جایا کرے.اس لئے مجھے اجازت مرحمت فرمائی جائے کہ میں اپنے گھر میں ہی نماز ادا کرلیا کروں.چنانچہ حضور نے اجازت دیدی لیکن جب وہ اٹھ کر واپس جانے لگا تو حضور نے اسے بلایا اور دریافت فرمایا کیا تمہیں نماز کی طرف بلانے کی آواز آتی ہے؟ اس نے عرض کی 'ہاں یا رسول اللہ تو حضور نے فرمایا فَا جب پھر جواب دیا کرو.یعنی نماز کے لئے مسجد میں حاضر ہوا کرو.
خطبات طاہر جلد ۲ 197 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء پس محبت اور پیار سے سمجھا ئیں لیکن کوشش کریں کہ ایک بھی آدمی ضائع نہ ہو.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سلسلے کو تو کارکن مل ہی جائیں گے بلکہ بہتر ملیں گے لیکن وہ کارکن جنہوں نے ایک لمبا عرصہ سلسلے سے تعلق رکھا ہے ہم ان کو کیوں ضائع ہونے دیں.ہمارا فرض ہے کہ پوری کوشش کریں اور ان کو بچائیں.ایک ایک احمدی بنانے کے لئے ہم کتنی محنت کرتے ہیں تو جو پہلے سے موجود ہوں اور مرکز کے بہت قریب آئے ہوں اور جن کو سلسلہ کی خدمات کی توفیق ملی ہو ان کو ضائع نہیں ہونے دینا چاہئے اس لئے اس معاملے میں بے اعتنائی نہیں کرنی.ہر افسر کا فرض ہے کہ اگر کارکن اور ذرائع سے بات نہیں سنتا تو اپنے پاس بلائیں ، محبت اور پیار کے ساتھ اس کو سمجھا ئیں اور جہاں تک ممکن ہو ے سلسلے کے ہر کارکن کو ضائع ہونے سے بچانے کی کوشش کریں.دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسے کارکنان کی اولادیں نماز سے غافل ہو رہی ہیں.ہر صورت میں تو نعوذ باللہ ایسا نہیں ہے لیکن اگر سلسلے کے دس فیصدی کارکن بھی ایسے ہوں جن کی اولادیں نماز سے غافل ہیں تو یہ بڑی خطرناک بات ہے اور میرے نزدیک ایسے کارکنان کے بچوں کی تعدا د جو عملاً نماز سے غافل ہو چکے ہیں اس سے زیادہ ہے اس لئے ان کی طرف بھی توجہ دینا ضروری ہے.نظام جماعت کو ان کے بچوں کو سنبھالنے میں ایسے کارکنوں کی مدد کرنی چاہئے لیکن اصل میں تو گھر ہی تربیت کا گہوارہ ہے اور گھر کے معاملے میں آنحضرت علﷺ کی تعلیم یہ ہے کہ باپ اپنی اولا د کا ذمہ دار ہے.قرآن کریم نے مختلف رنگ میں بڑے ہی گہرے اثر کرنے والے انداز میں اس مضمون کو پھیر پھیر کر بیان فرمایا ہے.کہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی مثال دی کہ وہ کس طرح صبح اٹھ کر با قاعدہ اپنے گھر والوں کو نماز کی تعلیم دیا کرتے تھے.وہ بڑے صبر کے ساتھ اس پر قائم رہے اور ساری زندگی اس کام سے تھکے نہیں.کہیں یہ فرمایا: وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا اللهَ فَأَنْسُهُمْ أَنْفُسَهُمْ أوليكَ هُمُ الْفَسِقُونَ ) (الحشر : ٢٠) کہ دیکھو! ان بدقسمتوں کی طرح نہ ہو جانا جنہوں نے ایک دفعہ اللہ کو یاد کیا اور پھر اسے ہمیشہ کے لئے بھلا دیا فانسهُم اَنْفُسَهُم پس اللہ نے ان کو خود اپنے آپ سے بھلوا دیا.ان کو اپنے نفوس کی اور اپنے اموال کی خبر نہ رہی ، ان کو اچھے برے کی تمیز نہ رہی.انسان کے لئے سب سے بڑی ہلاکت
خطبات طاہر جلد ۲ 198 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء یہ ہوا کرتی ہے کہ اسے اچھے برے کی تمیز نہ رہے.اس کو اپنے حقیقی مقصد اور فائدے کا علم نہ ہو اور اسی کا نام پاگل پن ہے.اس کے سوا پاگل پن کی کوئی تعریف بنتی ہی نہیں.ہر وہ شخص جو اپنے مفاد کے متعلق نہ جان سکے کہ میرا اصل مفاد کس بات میں ہے، وہ ایسی باتیں کرتا ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ پاگل ہو گیا ہے.کوئی اپنی جائیداد ضائع کر دے یا کوئی ایسی بات کرے کہ لوگ کہیں بے ہودہ حرکت کر رہا ہے اور لوگوں کے سامنے بدنام ہو رہا ہوتو وہ بھی پاگل ہے.الغرض ہر بات میں پاگل پن کا خلاصہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مفاد سے بے خبر ہو جائے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَأَنَسهُم اَنْفُسَهُمْ وہ ان لوگوں کو پاگل کر دے گا اور ان کو اپنی بھی ہوش نہیں رہے گی.ان کو پتہ نہیں ہو گا کہ کس چیز میں ہمارا فائدہ ہے اور کس میں نہیں ؟ اس لئے کہ اللہ جو ہر بات کا آخری Reference ہے اس کو انہوں نے بھلا دیا.اگر خدا سے تعلق جوڑ کر راہ نمائی حاصل نہ کی جائے تو نہ فرد اپنی راہنمائی کے اہل ہوتے ہیں نہ تو میں اپنی راہنمائی کی اہل ہوتی ہیں.ساری دنیا میں تباہیوں کا جو نقشہ نظر آرہا ہے اس کی وجہ خدا سے لاتعلقی ہے.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں کبھی کوئی قوم اپنی عقل پر انحصار کر کے زندہ نہیں رہ سکتی.محض عقل پر انحصار کر کے لوگ ایسی خوفناک غلطیاں کرتے ہیں کہ خود بھی ڈوبتے ہیں اور دوسروں کو بھی لے ڈوبتے ہیں.پس فرمایا فَأَنْسَهُمْ أَنْفُسَهُمْ جب بھی لوگ خدا سے غافل ہوئے اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا چھوڑ دیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ نے ان کو پاگل کر دیا کیونکہ انہوں نے عقل اور رشد کے سرچشمے سے منہ موڑ لیا.پاگل کر دیا“ کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے ایسا فعل کیا جس کے نتیجہ میں وہ لازماً اپنی عقلوں کو کھو بیٹھے، احمق بن گئے ، بیوقوف ہو گئے.الغرض خدا کی عبادت سے غافل ہونے کی ایک یہ سزا بھی بیان فرمائی.حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں کی عبادت کا خیال نہیں کرتے ان کی اولادیں لازماً ہلاک ہو جایا کرتی ہیں اس لئے وہ اس طرف توجہ کریں اور اپنی اولا د کو اپنے ہی ہاتھوں سے قتل نہ کریں.الغرض اللہ تعالیٰ نے مختلف رنگ میں نصیحت فرمائی ہے اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ دلائی ہے.اس معاملے میں اگر چہ مردوں کو پابند کیا گیا ہے لیکن اس بات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ جب مرد با ہر ہوتا ہے تو عورت اس کی جگہ لے لیتی ہے اور اس پر بھی تربیت کی ایک بڑی بھاری
خطبات طاہر جلد ۲ 199 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء ذمہ داری عائد ہوتی ہے.مرد کو اس لئے ذمہ دار قرار دیا ہے کہ اسے عورت پر قوام بنایا گیا ہے.اگر عورت کو ذمہ دار بنایا جاتا تو مرد اس ذمہ داری سے باہر رہ جاتے.مرد کو ذمہ دار بنایا تا کہ صرف بچے ہی اس کے تابع نہ رہیں بلکہ عورت بھی تابع رہے اور مرد اس کو بھی پابند کرے اور اس طرح سارا نظام تربیت کے دائرے کے اندر جکڑا جائے.جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے.میرا تاثر یہ ہے کہ جو مائیں بے نماز ہوتی ہیں ،اگر باپ کوشش بھی کریں تب بھی ان کی کوشش اتنا اثر نہیں رکھتی جتنا اس صورت میں کہ جب مائیں نمازی ہوں اسی لئے قرآن کریم مردوں کو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سب سے پہلے اپنی عورتوں کی حفاظت کرو اور ان کوتر بیت دو.چنانچہ حضرت اسماعیل علیہ السلام والی مثال میں بچوں کا ذکر نہیں فرمایا بلکہ یہ فرمایا کہ وہ اپنے خاندان کے ہر فرد کو نماز کی تعلیم دیتے تھے.آنحضرت ﷺ کا بھی یہی طریق تھا کہ آپ اپنی بیویوں کو نماز کے لئے اٹھاتے تھے ، پھر بچوں اور دامادوں کو بھی جگایا کرتے تھے.چنانچہ حضرت علی کرم اللہ وجہ کے متعلق آتا ہے کہ حضور ان کے ہاں گئے اور فرمایا اٹھو، نماز کا اور عبادت کا وقت ہو گیا ہے.( صحیح بخاری کتاب الجمعۃ باب تحریص السمى على صلوة الليل ) پس ہمیں بھی اپنے گھروں میں یہی اسوہ زندہ کرنا پڑے گا.مرد اپنی بیویوں کو نماز کا پابند کریں اور ان سے یہ توقع رکھیں کہ جب وہ خود گھر پر نہ ہوں تو عورتیں ان کے نائب کے طور پر بچوں کی نمازوں کی حفاظت کریں گی.اگر گھروں میں نمازوں کی فیکٹریاں نہ بنیں تو پھر جماعتی تنظیم کی کوششیں پوری طرح کارآمد نہیں ہو سکتیں.خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو ان بچوں کے لئے بہت محنت کرنی پڑتی ہے جن کے والدین نماز سے غافل ہوتے ہیں.ہزار کوشش کے بعد ان کو وہ پھل ملتا ہے جو گھر میں والدین صرف چند کلمات کے ذریعہ حاصل کر سکتے ہیں.جب دیکھیں کہ نماز کا وقت ہو گیا ہے تو بچے کو بتا ئیں اور نماز کے لئے کہیں چنانچہ لجنہ اماءاللہ کی طرف سے ماؤں کو تاکید ہونی چاہئے اور خاوندوں کی طرف سے بیویوں کو تاکید ہونی چاہئے کہ وہ اس کام میں مدد کریں اور اپنی اولا دکو بچانے کی کوشش کریں.اگر ہم ساری دنیا میں یہ کام کرنے میں کامیاب ہو جائیں اور احمدیوں کی بھاری اکثریت نماز پر اس طرح قائم ہو جائے کہ جہاں باجماعت نماز پڑھی جاسکتی ہے وہاں لازماً با جماعت نماز
خطبات طاہر جلد ۲ 200 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء پڑھی جارہی ہو اور جہاں باجماعت نماز ممکن نہ ہو وہاں انفرادی نماز کا انتظام ہو، اس کو تمام شرائط کے ساتھ ادا کیا جائے ، توجہ کے ساتھ اور سوز و گداز کے ساتھ ادا کیا جائے تو اس سے اتنی بڑی طاقت پیدا ہو جائے گی کہ ساری دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس جماعت کا مقابلہ نہیں کر سکیں گی.کجا یہ کہ چند دھاگے اللہ تعالیٰ سے ملے ہوئے ہوں اور وہ جو طاقت حاصل کر رہے ہوں وہ ساری جماعت میں بٹ رہی ہو اور کجا یہ کہ ہر شجر کی شاخیں آسمان تک پہنچی ہوں اور ہر شجر کو براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کے پھل لگ رہے ہوں.بڑ کے درخت جب بوڑھے ہو جاتے ہیں تو ان میں سے بعض کی شاخیں زمین کی طرف جھک جاتی اور جڑیں بن جاتی ہیں اور ایک تنے کی بجائے کئی تنے پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.اسی طرح جماعت احمدیہ کو عبادت کے معاملے میں بڑکا وہ درخت بن جانا چاہئے جس کی ہر شاخ سے جڑیں پھوٹ رہی ہوں اور زمین کی طرف جھک رہی ہوں اور براہ راست زمین سے طاقت لے کر آسمان کی رفعتوں میں اس طرح بلند ہو جائیں کہ ہر ایک کو ہمیشہ ہر حال میں اللہ کی رحمتوں کے، الہامات کے، کشوف کے اور وحی کے پھل لگ رہے ہوں اور ہر احمدی کو خدا کی تائید حاصل ہو رہی ہو.یہ ایک عظیم الشان طاقت ہے دنیا اس کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے.یہ تو اتنی عظیم الشان طاقت ہے کہ نبی جب اکیلا ہوتا ہے تو اللہ سے تعلق کے نتیجہ میں اس کو غالب کیا جاتا ہے اور خدا سے بے تعلق دنیا کو اس ایک کی خاطر مٹا دیا جاتا ہے.کجا یہ کہ دنیا میں اسے تعلق رکھنے والے ایک کروڑ آدمی پیدا ہو جائیں.ان میں سے ہر ایک اس بات کی ضمانت ہوگا کہ اس جماعت نے لازماً غالب آنا ہے اور تمام مخالفانہ طاقتوں نے لازماً شکست کھانی ہے.ان میں سے ایک ایک اس قابل بن جائے گا کہ اس کی خاطر ساری دنیا کو مٹا دیا جائے گا اور اس کو زندہ رکھا جائے گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج سے انشاء اللہ مجلس مشاورت شروع ہو جائے گی.ایسے اہم دینی اجتماعات کے موقعہ پر چونکہ نمازیں جمع کرنے کی اجازت ہوتی ہے اس لئے سابقہ روایات کے مطابق آج بھی انشاء اللہ جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز جمع کی جائے گی.
خطبات طاہر جلد ۲ 201 خطبہ جمعہ یکم اپریل ۱۹۸۳ء مجلس شوری کے ممبران کو چاہئے کہ وہ چار بجے سے پہلے مقام شوری میں پہنچ کر اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ جائیں کیونکہ انشاء اللہ تعالیٰ ٹھیک چار بجے شوری کی کارروائی کا آغاز ہوگا.وہ سارے احمدی مرد وزن جو ممبران نہیں ہیں وہ بھی دعاؤں کے ذریعے شوری کی کارروائی میں شامل ہو سکتے ہیں.اسی طرح جہاں جہاں بھی احمدی ہوں وہ ان ایام میں بکثرت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل اور رحمت کے ساتھ تمام ممبران کے ذہن روشن فرمائے ، خدا کی خاطر اور خدا کے دین کی بہبود کے لئے بہترین فیصلوں کی توفیق بخشے اور پھر ان فیصلوں پر باحسن رنگ عمل درآمد کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روز نامه الفضل ربوه ۲۰ جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 203 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۳ء سورۃ العصر کی تفسیر اور صبر کے ساتھ نصیحت کرنے کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده ۱/۸اپریل ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشهد وتعوذ وسورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ العصر کی تلاوت کی : وَالْعَصْرِف إِن الإِنسَانَ لَفِى ر إلا الذين امنوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ اور پھر فرمایا: قرآن کریم کی اس چھوٹی سی سورۃ میں زمانہ کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے اور بتایا ہے کہ انسان اس زمانہ میں بحیثیت مجموعی گھاٹے میں جارہا ہوگا اور نقصان کے سودے کر رہا ہوگا.وَالْعَصْرِ میں اس زمانہ کی نشاندہی بھی فرما دی گئی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے یہ استنباط فرمایا ہے کہ اسلام کے پہلے تین سوسال تو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ارشاد کے مطابق روشنی کا زمانہ ہے اس لئے اس زمانہ کو ہر گز گھاٹے والا زمانہ قرار نہیں دیا جا سکتا.( صحیح بخاری کتاب المناقب باب فضائل اصحاب النبی ﷺ ) وہ تو ایسا زمانہ تھا کہ انسان بحیثیت مجموعی کبھی اتنے نفع اور اتنے فائدہ کے سودے نہیں کر رہا تھا جتنے فائدہ مند سودے حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے صحابہ اور پھر تابعین کے ہاتھوں کئے جارہے
خطبات طاہر جلد ۲ 204 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء تھے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ کا زمانہ اس روشنی کے تین سو سال بعد کا زمانہ ہے (لیکچر سیالکوٹ روحانی خزائن جلد ۲۰ ص۶.۸) اور وَالْعَصْرِ میں جس زمانہ کی قسم کھائی گئی ہے اور جس کو گواہ ٹھہرایا گیا ہے اس کی مدت بھی بیان فرما دی.(مزید تفصیل کے لیے دیکھیے خطبہ جمعہ ۲ اپریل ۸۳، ص۲۳۳) گویا یہ معنے ہوئے کہ اس ہزار سال کو ہم گواہ ٹھہراتے ہیں جو روشنی کے زمانہ کے بعد آئیں گے اور وہ بہت ہی نقصان کا سودا ہو گا.وہ زمانہ انسان کے لئے سب سے زیادہ گھاٹا کھانے والا زمانہ ہوگا.یہ زمانہ کب تک چلے گا؟ یہ اس وقت تک چلے گا جب تک دوبارہ روشنی کی پونہیں پھوٹے گی اور روشنی کی صبح طلوع نہیں ہوگی.چنانچہ اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلحت اس ہزار سال کے بعد یعنی چودہویں صدی کے سر پر پھر ایک روشنی پھوٹے گی ، پھر ایک صبح طلوع ہوگی اور ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو ایمان لانے والے ہوں گے اور عمل صالح کرنے والے ہوں گے.وہاں سے استثنا کا ایک دروازہ کھلے گا اور بڑھتا چلا جائے گا اور یہ روشنی پھیلتی چلی جائے گی اور گھاٹے والے انسان کو فائدہ والے انسانوں میں تبدیل کرتی چلی جائے گی لیکن ان کے غلبہ کے زمانہ کو ایسا فوری قرار نہیں دیا کہ ادھر صبح نمودار ہوئی اور ادھر ساری دنیا پر وہ روشنی غالب آگئی بلکہ نقشہ اس قسم کا کھینچا ہے کہ ایمان لانے والوں اور عمل صالح کرنے والوں کی صبح نے رفتہ رفتہ انسان کے گھاٹے کے سودے کو فائدے کے سودے میں تبدیل کرنا ہے.یہ جدو جہد ایک لمبے اور صبر آزما دور سے گزرے گی اور اس میں بڑی محنت اور کاوش کی ضرورت ہوگی.گویا اس قسم کا واقعہ نہیں ہوگا کہ ادھر سورج نکلا اور ادھر ساری دنیا میں روشنی نمودار ہوگئی بلکہ یہ ایک ایسی صبح ہے جسے آنسوؤں سے کھینچ کر لانا پڑتا ہے.یہ ایک ایسی صبح ہے جسے مسلسل محنت ، جد و جہد اور قربانیوں کے ذریعہ اور یقین محکم کے ساتھ رفتہ رفتہ اس طرح لانا پڑتا ہے جیسے جوئے شیر لائی جاتی ہے.چنانچہ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ میں نقشہ یہ کھینچا کہ وہ چندلوگ جو ایمان لانے والے ہوں گے اور عمل صالح کر رہے ہوں گے وہ باقی انسانوں کو تبدیل کر دیں گے.وہ کس طرح تبدیل کریں گے فرمایا وَ تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وہ تو حق کی طرف بلانا شروع کر دیں گے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ اور بڑے صبر کے ساتھ حق کی طرف بلائیں گے.یہاں بِالْحَقِّ اور بالصبر کے اور معنی بھی ہیں اور وہ یہ ہیں کہ وہ حق کی طرف بلائیں گے
خطبات طاہر جلد ۲ 205 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء اور حق طریق پر بلائیں گے.بالصغیر کے معنے یہ ہوں گے کہ وہ صبر کی طرف بلائیں گے اور صبر کے ساتھ بلائیں گے اور بڑے صبر کے ساتھ وہ اس بات پر قائم رہیں گے اور جن کو وہ حق کی طرف بلائیں گے ان کو یہ تعلیم دیں گے کہ تم بھی صبر کرو.ان چار معنوں کے لحاظ سے مضمون بہت وسیع ہو جاتا ہے.سب سے پہلے تو یہ دیکھنا ہوگا کہ حق کی طرف بلانے اور حق کے ساتھ بلانے کے کیا معنی ہیں.قرآن کریم نے جتنے بھی واقعات بیان کئے ہیں ان سب میں حق کی طرف بلانے کے اسلوب بیان کر دیئے گئے ہیں.چنانچہ انبیاء علیہم السلام کی تاریخ کو دیکھ لیں وہ اس مضمون کو خوب کھولتی چلی جاتی ہے.حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد مصطفی حملے تک یہ مضمون ارتقا پذیر ہے.یہ بڑھتا چلا جاتا ہے لیکن بِالْحَقِّ میں بیان کردہ طریق کار سے تجاوز نہیں ملے گا.یہ ایک خاص اور معین طریق کار ہے جس کو حق کا طریق کہا گیا ہے اور جسے اختیار کرنے میں انبیاء نے کمال کر دکھایا اور اگر چہ انبیاء کی تاریخ پر نظر ڈالنے سے بڑے سبق ملتے ہیں لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ذات بابرکات پہ جا کر تو یہ مضمون خوب واضح ہو جاتا ہے.آنحضرت ﷺ نے جس طرح اور جس خدا کی طرف بلایا اسی طرح اسی خدا کی طرف بلانے کا نام دراصل حق کی طرف بلانا ہے.آپ نے جس طریق پر خدا کی طرف بلایا اسی طریق کے ساتھ خدا کی طرف بلانے کا نام حق کے ساتھ بلانا ہے.اس مضمون کے متعلق بعض امور پر میں آئندہ روشنی ڈالوں گا کیونکہ یہ ایک بہت ہی گہرا اور تفصیلی مضمون ہے.اس وقت مختصراً میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حق کے ساتھ حق کی طرف بلانے میں ایک بڑا نمایاں اور واضح پیغام یہ ہے کہ تمہیں بلانے کے لئے جتنے حقوق دیئے گئے ہیں اور جو دائرہ کار تمہارا مقرر کیا گیا ہے اس سے آگے بڑھ کر تمہیں بلانے کا اختیار نہیں ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِرَةٌ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَّيْطِرٍ ( الغاشيه : ۲۲-۲۳) تجھے ہم نے بکثرت نصیحت کرنے والا اور بڑے زور کے ساتھ نصیحت کرنے والا مقرر کیا ہے ایسا نصیحت کرنے والا جو بالآخر مجسم ذکر الہی بن جاتا ہے لیکن داروغہ نہیں بنایا.تجھے یہ حق نہیں دیا کہ جو لوگ نہ سننا چاہیں ان کو زبردستی سنائے ، جو قبول نہ کرنا چاہیں زبر دستی ان کے دلوں میں بات داخل
خطبات طاہر جلد ۲ 206 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء کرنے کی کوشش کرے.إِلَّا مَنْ تَوَلَّى وَكَفَرَ (الغاشیہ : ۲۴) تیری تذکیر کے بعد جو شخص بھی پیٹھ پھیرے گا اور انکار کرے گا فَيُعَذِّبُهُ اللهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ (الغاشیہ : ۲۵) پھر اللہ کا کام ہے اس کو عذاب دینا اور وہ عذاب اکبر میں اسے مبتلا کرے گا.میں تجھے یہ حق نہیں دیتا کہ تو ان کے لئے عذاب کا سامان کرے.چنانچہ آنحضرت علی کو کسی جگہ بھی عذاب دینے والا بیان نہیں فرمایا.ہاں رحمۃ للعالمین قرار دیا ہے.پس حق کے ساتھ نصیحت کرنے کے ایک یہ معنی ہوئے کہ اگر کوئی شخص نصیحت کو سن کر پیٹھ پھیر لیتا ہے یا سننے سے انکار کر دیتا ہے تو اس کے ساتھ زبردستی نہیں کرنی ، اس کی مرضی کے خلاف سے کھینچ کر لانے کی کوشش نہیں کرنی ، اسے پیغام دینا ہے اور پیغام اس طرح دینا ہے جیسا کہ حق کا تقاضا ہے.وہ ایک الگ تفصیلی مضمون ہے.چنانچہ ایسے تمام لوگ جو احمدیت کی تبلیغ سنتے ہیں اور برا مناتے ہیں اور پیٹھ پھیر کر چلے جاتے ہیں ان تک پیغام کا پہنچانا تو ہمارا فرض تھا لیکن ان کے اس طرح صل الله پیچھے پڑ جانا کہ جو ہمارے حق سے تجاوز کرنے والی بات ہو یہ درست نہیں.آنحضور ﷺ نے پیغام دیئے ،تکلیفیں اٹھا کر بھی پیغام دیئے مگر جب لوگوں نے انکار کر دیا تو آپ واپس اپنے گھر تشریف لے آئے.چنانچہ اس مضمون کے متعلق قرآن کریم میں یہ بات اور آگے بڑھا کر بیان کرتا ہے کہ بعض دفعہ پھر آگے سے جہالت شروع ہو جاتی ہے بختی شروع ہو جاتی ہے، گالیاں دی جاتی ہیں تو اس کا جواب بھی نہیں دیتا.اس کے مقابل پر ضد نہیں کرنی.یہ ہے تمہارا دائرہ کا رچنا نچہ فرمایا: وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوْا سَلَمَّا ( الفرقان: ۶۴) اس میں دو پیغام بڑے واضح ہیں.ایک یہ کہ وہ اس جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ یہ سلام رخصت کا سلام ہے.اس میں یہ پیغام ہے کہ جب ایسے لوگوں سے تمہارا مقابلہ ہو جو جہالت پر اتر آئیں تو پھر وہاں بیٹھے رہنے کی ضرورت نہیں.ان کو اس حال میں رخصت کرو کہ ابھی امن ہو اور تمہاری طرف سے یہ پیغام ہو کہ سلامتی ہو تم پر.ہم تمہارے اندر فساد برپا کرنے کے لئے نہیں آئے.ہم تو تمہارے فساد کو سلامتی میں بدلنے کی خاطر آئے تھے.پس اگر تم اسے قبول نہیں کرتے اور اس بات پر مصر ہو کہ فساد پھیلتا رہے اور پہلے سے بڑھ جائے تو پھر ہماری جدائی ہے.ایسے موقع پر مومن کی شان یہ ہے کہ السلام علیکم کہہ کر علیحدگی اختیار کر لے.
خطبات طاہر جلد ۲ 207 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء دوسرے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا اس میں یہ پیغام ہے کہ باوجود اس کے کہ دوسری طرف سے شر پیدا ہوا ہو، مومن کی طرف سے شر کا جواب شر میں نہیں دیا جائے گا.شر کا جواب سلامتی کی دعاؤں کے ساتھ دیا جائے گا.مقابل کے فساد کی کوئی ایسی کوشش نہیں ہوگی جو مومن کو فساد پر مجبور کر دے، اس کا جواب ہمیشہ سلامتی ہو گا.پس اس طرح قرآن کریم پر غور کرنے سے حق کا مضمون کھلتا چلا جاتا ہے.مومن کا کام ہے کہ اس دائرہ کار میں رہ کر نصیحت کرے جو دائرہ کا ر قرآن کریم نے اس کے لئے مقرر فرمایا ہے اور اس دائرہ کار میں رہ کر نصیحت کرنا بہت ہی مشکل کام ہے، بڑا ہی صبر آزما مرحلہ ہے.چنانچہ معا بعد فرماتا ہے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ہم جانتے ہیں کہ یہ بہت مشکل کام ہے کہ کسی کو حق بات کی طرف بلایا جائے اور حق طریق پر بلایا جائے لیکن وہی لوگ یہ کام کر سکتے ہیں جو صبر کے ساتھ ایسا کریں.اب صبر میں بھی بہت سے مفاہیم ہیں جو ایک مذکر کو معلوم ہونے چاہئیں.اس کو پتہ ہونا چاہئے کہ قرآن کریم صبر کے لفظ کو کن معنوں میں استعمال کر رہا ہے.پس وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ میں ایک تو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ جس زمانہ کی ہم بات کر رہے ہیں اس زمانہ کے حالات آنا فانا نہیں بدلیں گے بلکہ ایسے لوگ اس زمانہ کے حالات بدلانے پر مامور ہو جائیں گے جو مسلسل ناکامی کے باوجود پھر بھی اپنے پیغام پر قائم رہیں گے اور بڑے صبر کے ساتھ اور استقلال کے ساتھ اس پیغام کو آگے بڑھاتے چلے جائیں گے.یہ ایک لمبا دور ہے ورنہ صبر کا مضمون بیچ میں داخل نہیں ہوتا.یہ ایک لمبی آزمائش ہے.اگر یہ آزمائش نہ ہو تو صبر کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا اس لئے فرمایا کہ ان کا کوئی ایسا پیغام نہیں ہوگا جو آنا انا انقلاب برپا کر دے.ہو سکتا ہے ایک نسل بظاہر نا کامی میں فوت ہو جائے ہوسکتا ہے اس کے بعد ایک اور نسل آئے اور وہ بھی بظاہر نا کام رہے لیکن ان کی سرشت میں شکست کھانا نہیں ہوگا.وہ صابر لوگ صابر بچے پیدا کریں گے اور وہ صابر نسل پھر ایک اور صابر نسل کو جنم دے گی وہ نہیں تھکیں گے اور نہیں ماندہ ہوں گے جب تک کہ انقلاب برپا نہ کر لیں جو بالآ خر انسان کی تقدیر کو بدل دے گا اور گھاٹا کھانے والے انسان کی بجائے فائدہ بخش سودا کرنے والا شخص پیدا ہو جائے گا.دوسرے صبر کے مضمون میں دکھ کا پہلو بیان ہوتا ہے.جب یہ فرمایا کہ تم نے حق کے ساتھ بات کرنی ہے اور تمہیں یہ حق نہیں دیا گیا کہ تم نصیحت میں زبر دستی اور جبر کو داخل کر دو تو اس کے بعد کیا
خطبات طاہر جلد ۲ 208 خطبہ جمعہ ۱/۸اپریل ۱۹۸۳ء ہوگا پھر وہی خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ والا مضمون شروع ہوتا ہے.فرمایا پھر مقابل پر جہالت ہوگی، مقابل پر ظلم ہونگے ، مقابل پر سختیاں ہوں گی اس کے جواب میں تمہارے عمل میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہو گی.تم اسی طرح صالح عمل کرتے چلے جاؤ گے اور صبر کے ساتھ صالح عمل کرتے چلے جاؤ گے جس طرح پہلے کرتے چلے آ رہے تھے.یہاں اعمال صالحہ کے صبر سے مراد یہ ہے کہ انسان ان اعمال صالحہ میں کوئی تبدیلی نہ ہونے دے اپنے اخلاق میں کوئی تبدیلی نہ ہونے دے خواہ کتنی بڑی آزمائش ہو اس کے اخلاق اپنی جگہ قائم رہیں اور ان میں سرِ مو بھی فرق نہ پڑے.یہ اعمال صالحہ کا صبر ہے.مختلف طریق پر یہ صبر آزمایا جاتا ہے.مثلاً ایک چھوٹی جماعت ایک غالب ماحول میں وقت گزار رہی ہے جہاں کا معاشرہ انتہائی گندا اور زہر یلا اور مذہب سے اتنا دور ہے کہ اس فضا میں جا کر رفتہ رفتہ مذہب کی حقیقت پر ہی اعتبار اٹھنا شروع ہو جاتا ہے.چاروں طرف سے وہ معاشرہ گھیر لیتا ہے اور جس طرح لوہے کو زنگ کھا جاتا ہے اسی طرح وہ معاشرہ چاروں طرف سے اعمال صالحہ کو کھانا شروع کر دیتا ہے.اس وقت وَتَوَاصَوْا بِالصَّبر کا معنی یہ ہوگا کہ وہ لوگ نہ صرف یہ کہ صبر کے ساتھ نصیحت کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ ان کے اعمال صالحہ میں بھی صبر کے پہلو نمایاں طور پر نظر آتے ہیں.ایک لمحہ کے لئے بھی ان کے اندرونے میں، ان کے اخلاق میں، ان کے کردار میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی.أَشِدَّاءُ عَلَى الكُفَّارِ (افتح ۳۰) میں جو مضمون بیان ہوا ہے اسی قسم کا مضمون یہاں صبر میں بیان ہوا ہے.پھر اس میں جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا دکھ کا پہلو بھی ہے.لوگوں کو عملاً سزائیں دی جائیں گی ، ان کے خلاف عملاً مخالفتوں کے طوفان اٹھیں گے، فرمایا پھر بھی وہ صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑیں گے.اپنے پیغام پر مسلسل قائم رہیں گے.یہ جیتنے والوں کی صفات ہیں.جس قوم میں یہ صفات پیدا ہو جائیں ان کے مقدر میں شکست نہیں رہتی.لازماً یہ لوگ غالب آیا کرتے ہیں، نہ صرف خود زندہ رہنے کا حق رکھتے ہیں بلکہ دوسروں کو زندہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں.چنانچہ فرمایا وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وہ پھر جن لوگوں کو حق کی طرف بلاتے ہیں ان کو بھی صبر کی طرف بلا رہے ہوتے ہیں یعنی یہ واضح کر دیتے ہیں کہ ہم آج جس حال میں ہیں سوائے صبر کرنے والوں کے ہم میں کوئی دخل نہیں ہو سکتا.ہم تمہیں مشکلات کی طرف بلانے والے ہیں، ہم تمہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 209 خطبہ جمعہ ۸/اپریل ۱۹۸۳ء آسان راہوں کی طرف نہیں بلا ر ہے ہم تمہیں ایسے راستوں کی طرف بلانے آئے ہیں جہاں پتھر برسائے جائیں گے اور پھول نہیں پڑیں گے، جہاں کانٹے بچھائے جائیں گے، جہاں دکھ ہوں گے، جہاں تمہارے خون کے قطرے بہیں گے، جہاں تمہارے سر کاٹے جائیں گے، جہاں تمہارے اموال لوٹے جائیں گے، جہاں یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تم جب بسیرا کرنے لگو گے تو تمہیں بسیرا نہیں کرنے دیا جائے گا، تمہارے ستانے کے انتظامات بھی تم سے چھین لئے جائیں گے، اس لئے وہ خوب کھول دیتے ہیں کہ اگر تم ہم میں داخل ہونا چاہتے ہو تو صبر کرو گے تو داخل ہو گے ورنہ نہیں ہوسکو گے.پس وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آگے پھر صبر کی نصیحت کرتے ہیں کہ جس پیغام کو تم نے پکڑا ہے اس پیغام کے نتیجہ میں جو عمل صالح اختیار کرتے ہیں ان میں بھی تمہیں صبر کرنا پڑے گا.بڑے خطرناک مقابلے ہوں گے.ایک غالب معاشرہ سے تمہاری ٹکر ہوگی لیکن تم نے اس کو تبدیل کرنا ہے.اس کے زیر اثر خود تبدیل نہیں ہو جانا.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا: إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ ی استثنا ہے.جب سارا زمانہ گھاٹے میں ہوگا یہ لوگ گھانا نہیں کھا رہے ہوں گے، جب سارا زمانہ ہلاکت کی طرف جا رہا ہو گا اس وقت نہ صرف یہ کہ یہ ہلاک نہیں ہوں گے بلکہ زمانہ کو دوبارہ فلاح کی طرف بلا رہے ہوں گے.لوگوں کو کامیابی کے پیغام دے رہے ہوں گے اور اس زمانہ کو رفتہ رفتہ تبدیل کر رہے ہوں گے.پس یہ وہ مضمون ہے جس کو بھلا کر دنیا میں کبھی کوئی قوم وہ انقلاب بر پا نہیں کرسکتی جو انقلاب مذاہب بر پا کرنا چاہتے ہیں.غیر مذہبی انقلاب جو آگ سے پکتا ہے اور آگ کھاتا ہے، جو نفرت کی تعلیم دیتا ہے اور نفرت سے نشو و نما پاتا ہے، میں اس انقلاب کی بات نہیں کر رہا.میں تو اس انقلاب کی بات کر رہا ہوں جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے اور قرآن کریم میں یہ ذکر ملتا ہے کہ جب بھی مذہب کے نتیجہ میں کوئی انقلاب برپا ہوا ، ایسے ہی لوگوں نے وہ انقلاب برپا کیا.ان لوگوں کی یہی صفات ہیں جو اوپر بیان ہوئی ہیں اور یہ تو جہاں تک بیرونی آنکھ کا تعلق ہے یہ مضمون اس سے تعلق رکھتا ہے لیکن اندرونی طور پر بھی ان کے اندر یہی صفات پائی جاتی ہیں.جب وہ اپنے اندر معاشرہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں ، جب وہ اپنے دائرہ کار میں ان لوگوں کو جو پہلے سے ایمان لے آئے ہیں ان کو اعلیٰ
خطبات طاہر جلد ۲ 210 خطبہ جمعہ ۸/اپریل ۱۹۸۳ء قدروں کی طرف بلاتے ہیں تو تب بھی وہ حق کے ساتھ بات کرتے ہیں اور حق کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں.صبر کے ساتھ بات کرتے ہیں اور صبر کی طرف بلانے والے ہوتے ہیں.یعنی صرف تبلیغ کا مضمون یہاں بیان نہیں ہوا بلکہ تربیت کا ایک اندرونی مضمون بھی بیان ہو گیا یعنی ایمان لانے والے اور عمل صالح کرنے والے لوگ اس وقت تک اپنے ایمان اور عمل صالح پر قائم نہیں رہ سکیں گے جب تک ان کے اندر یہ صفات پیدا نہ ہو جائیں کہ وہ دوسرے کو مسلسل نصیحت کریں اور حق کی طرف بلاتے رہیں اور نہ تھکیں، حق طریق پر بلاتے رہیں اور نہ تھکیں ،صبر کے ساتھ بلائیں اور نہ تھکیں اور صبر کی طرف بلائیں اور نہ تھکیں.یہ ان کے لئے اندرونی زندگی کی حفاظت کا انتظام ہے.اس مضمون پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ بہت سے احمدی تربیت کرنے میں اس لئے نا کام ہو جاتے ہیں کہ وہ اس مضمون کے تقاضوں کو پورا نہیں کرتے.ان کی نصیحت میں خشونت آ جاتی ہے، ان کی نصیحت میں ایک مخفی تکبر پایا جاتا ہے، ان کی نصیحت اعتراضوں میں تبدیل ہو جاتی ہے، ان کی نصیحت نفرت کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور نفرت پیدا کرتی ہے اس لئے ایسے لوگ لاز ما نقصان اٹھانے والے ہوں گے.وہ اپنی ذات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاسکیں گے اور نہ اپنے معاشرہ میں وہ کوئی پاک تبدیلی پیدا کرسکیں گے.مجھے چونکہ کثرت کے ساتھ خطوط آتے ہیں بعض دفعہ ایک ایک دن میں بارہ بارہ سوخطوط آتے ہیں اور ہر قسم کے مزاج کے لوگوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے اس لئے ساری دنیا میں جو احمدی ذہن اس وقت ارتقائی حالت میں سے گزر رہا ہے اس سارے ذہن پر میری نظر رہتی ہے کہ کس ملک میں کس قسم کے خیالات جگہ پارہے ہیں، کس قسم کے خیالات نشو و نما پارہے ہیں، کیا تبدیلیاں پیدا ہو رہی ہیں.چنانچہ اس مضمون سے تعلق رکھنے والے سب سے زیادہ قابل فکر خطوط پاکستان سے ہوتے ہیں.لوگ بعض دفعہ چھوٹے دل کا مظاہرہ کرتے ہیں اور نصیحت کی بجائے سختی کی طرف مائل ہو جاتے ہیں.ان کی گفتگو میں ایسی طرز ہوتی ہے اور ان کی طرز تحریر ایسی ہوتی ہے جس سے ہمدردی اور صبر کی بجائے غصہ اور نفرت کا پیغام ملتا ہے.مثلاً عورتوں پر اعتراض ہوں گے کہ جی فلاں کا برقع پتلا ہے.یہ کیا طریق ہے.اپنی طرف سے وہ برقع پہن رہی ہے.یا کہتے ہیں فلاں کا نقاب ٹیڑھا ہو جایا کرتا ہے، فلاں اچھے کپڑے پہن لیتی ہے.اور اسی طرح بعض لوگ مردوں پر اعتراض کرنے پر تلے رہتے
خطبات طاہر جلد ۲ 211 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء ہیں اور پھر ان کے مطالبے اتنے سخت ہوتے ہیں کہ ایسے لوگوں کو یا تو جماعت سے خارج کر دیا جائے یا فوری طور پر ان کے مقاطعہ کا اعلان کر دیا جائے یا جس قدر بھی ممکن ہو سکے دوسری سزائیں دی جائیں.بعض لوگوں کی طرف سے عجیب و غریب خط آتے ہیں.لکھتے ہیں تمبا کو پینے والے سگریٹ نوشی کرنے والے اور پان میں تمبا کو کھانے والے جتنے لوگ ہیں ان سب کی وصیتیں فوری طور پر منسوخ کر دی جائیں اور ان کو کسی بھی جماعتی عہدہ کا حق دار قرار نہ دیا جائے اور نہ ان کو جماعتی عہدہ کے لئے ووٹ دینے کا حق ہو بلکہ اگر لکھنے والے کا بس چلے تو وہ یہ بھی لکھ دے کہ ان کو زندہ رہنے کا بھی حق نہ دیا جائے.نصیحت اور اصلاح کا یہ ایک حیرت انگیز تصور ہے جس کا قرآن کریم میں کوئی بھی ذکر نہیں ملتا.چنانچہ اس قسم کے تشدد پسندانہ خیالات پر جب میں ایسے لوگوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ دیکھو! اصلاح احوال اس طرح نہیں ہوا کرتی.آخر تم اپنی زبان بند کیوں رکھتے ہو؟ تم کیوں ان لوگوں کے پاس نہیں پہنچتے اور ہمدردی سے ان کے اندر تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے ؟ اور جب میں توجہ دلاتا ہوں کہ دعا کرو اور دعا کے ذریعہ اللہ سے مدد مانگو تب یہ حالات تبدیل ہوں گے تو آگے سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ ہم ایسی دعاؤں کے قائل ہی نہیں.ایسے لوگوں کے متعلق میں اس کے سوا اور کیا کہ سکتا ہوں کہ اگر تم ایسی دعاؤں کے قائل ہی نہیں جو پاک تبدیلیاں پیدا کرتی ہیں تو تمہارا اس رسول سے کوئی تعلق نہیں ہے جس نے دعاؤں کے ذریعہ پاک تبدیلیاں پیدا کیں.تمہارا اس رسول کے کامل غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام سے کوئی تعلق نہیں ہے جس کا تربیت کے معاملہ میں سب سے زیادہ زور دعاؤں پر تھا.پھر ایسی جماعت میں بیٹھے تم کیا کر رہے ہو.یہ جماعت تو دعا گولوگوں کی جماعت ہے، یہ تو صبر کرنے والوں کی جماعت ہے، یہ نصیحت کرنے والوں کی ایسی جماعت ہے جن کا دل غم سے گھل رہا ہوتا ہے تب وہ نصیحت کرتے ہیں اور ان کی نصیحت میں کوئی طعن نہیں ہوتا ، لوگوں کے دلوں کو کوئی چر کا نہیں لگاتے بلکہ صبر سے نصیحت کرتے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسروں کو دکھ نہیں پہنچاتے ہاں اپنے دل کو دکھ دیتے ہیں تب ان کی نصیحت کامیاب ہوتی ہے.بالکل الٹ مضمون ہے ایک طرف نصیحت کرنے والے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ نصیحت کے ساتھ جب تک چاقو نہ چلائے جائیں ، جب تک دلوں کو کچوکے نہ دیئے جائیں اس وقت تک نصیحت کامیاب نہیں ہوسکتی.
خطبات طاہر جلد ۲ 212 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء دوسرا طریق بھی چاقو چلانے کا ہی ہے مگر اس کا رخ بدل دیا گیا ہے.غرض إِلَّا الَّذِيْنَ امَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ میں تعلیم دی گئی کہ مومن اپنے دل پر چر کے لگاتے ہیں ، خود ان لوگوں کا غم محسوس کرتے ہیں تب ان کی نصیحت میں ایک سوز پیدا ہو جاتا ہے، غم کا ایک عصر داخل ہو جاتا ہے.اس غم کے نتیجہ میں جو اپنے دل میں ان لوگوں کے لئے محسوس کر رہے ہوتے ہیں ، ان کی نصیحت میں بڑی قوت آ جاتی ہے.چنانچہ اس کی آخری اور انتہائی مثال قرآن کریم نے حضرت محمد مصطفی حملہ کی دی ہے.فرمایا: لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ أَلَّا يَكُوْنُوْا مُؤْمِنِينَ (الشعراء : ٢) اسے نصیحت کرنے والے کیا تو ہلاک ہو جائے گا اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے؟ اتنا بڑھا ہوا غم ہے کہ اللہ کی پیار کی نظریں پڑ رہی ہیں کہ اے محمد ! بس کر تو خوداب اس غم میں ہلاک ہو جائے گا اتنا بڑھ گیا ہے تیرا غم ان لوگوں کے لئے جو تیری بات نہیں مان رہے.چنانچہ جتناغم زیادہ ہو نصیحت میں اتنا ہی اثر زیادہ ہوتا چلا جاتا ہے اسی لئے آنحضور ﷺ کی نصیحت عام لوگوں کی نصیحت کی طرح نہیں تھی.آپ کی بات میں اتنا گہرا سوز تھا، اتنی سچائی تھی، اتنا گہرا احساس تھا کہ اس کے نتیجہ میں وہ دلوں کو تبدیل کرتی چلی جاتی تھی.پس تبدیلی کی کنجیاں رکھی گئی ہیں صبر میں تبدیلی کی کنجیاں رکھی گئی ہیں سوز و گداز میں لیکن اس بات میں نہیں کہ دوسروں کو چھ کے لگاؤ اور دوسروں کو دکھ پہنچاؤ پھر تم کامیاب ہو گے.بالکل الٹ نتیجہ نکلتا ہے نصیحت کے ساتھ اگر آپ طعن و تشنیع کو شامل کر دیں گے تو لوگ متنفر ہونا شروع ہو جائیں گے.بعض لوگوں کو دیکھا گیا ہے جب ان کی بات میں غصہ پایا جائے یا طعن پایا جائے تو بعض نمازیوں کو نماز سے بھگا دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں جاؤ جہنم میں تم اور تمہاری نمازیں ہم نہیں پڑھتے اگر تم نے اس طرح بات کرنی ہے.چنانچہ اس طرح ان کی پہلی تھوڑی بہت جو نیکیاں ہوتی ہیں ان سے بھی وہ محروم کر دیئے جاتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ نصیحت میں جب بھی طعن و تشنیع کا عصر پایا جائے گا اس کے پس منظر میں آپ برائی دیکھیں گے.ایسا شخص لازما متکبر ہوتا ہے.اگر نصیحت کرنے والے کے دل میں ریا کاری یا تکبر نہ ہو تو نصیحت میں تختی پیدا ہوہی نہیں سکتی.پس تکبر بعض دفعہ نیکی کا تکبر ہوتا ہے ، بعض دفعہ کسی اور
خطبات طاہر جلد ۲ 213 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء چیز کا تکبر ہوتا ہے لیکن وہ خدا بنا چاہتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ میں اس کو زبردستی ٹھیک کرتا ہوں یہ ہوتا کون ہے میری بات نہ مانے والا اور اس طرح طبیعت میں تختی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.وہ سمجھتا ہے اگر میری یہ بات نہیں مانے گا تو میری سبکی ہوگی یہ میرے دائرہ کار سے نکل جائے گا اور اپنا سر اٹھالے گا اور کہے گا کہ میں تمہارے قابو میں نہیں آؤں گا.اس سے دل میں ایک غصہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی ایسی تیسی میں اس کو ٹھیک کرتا ہوں جس طرح بھی بس چلے.اگر جسمانی طور پر بس نہیں چلتا تو پھر کہتا ہے میں طعن و تشنیع کروں گا ، بدنام کروں گا ، ساری دنیا میں اس کا مذاق اڑاؤں گا.کہوں گا یہ دیکھ لو اس قسم کا آدمی ہے.اس طرح اپنے دل کو ٹھنڈا کرتا ہے آخر دل میں کوئی آگ تھی تو اس کو ٹھنڈا کیا.دراصل یہی وہ آگ ہے جو تکبر کی آگ ہے جو دلوں میں نفرتیں پیدا کرتی ہے اور جس کے دل میں یہ آگ سلگتی ہے اس کو تو جلا کے رکھ دیتی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں کبھی کوئی پاک تبدیلی نہیں پیدا ہوئی.پھر تکبر اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ بعض نیکیاں دماغ کو چڑھ جاتی ہیں.مثلاً ایک آدمی نے داڑھی رکھی ہوئی ہے جب وہ بغیر داڑھی والے لوگوں کو دیکھتا ہے تو اس کو غصہ آ جاتا ہے.وہ کہتا ہے دیکھو! میں نے ایک ایسی نیکی کر لی ہے کہ اب یہ مجھ پر اعتراض نہیں کر سکتا اس لئے وہ ہر اس شخص کو نفرت کی آنکھ سے دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس کی بہت ہی تذلیل کر رہا ہوتا ہے جس نے داڑھی نہیں رکھی ہوتی.ایک آدمی نماز کا عادی ہے تو وہ بے نمازیوں کی تذلیل کر رہا ہوتا ہے ایک آدمی سچ بولنے کا عادی ہے تو وہ جھوٹوں کی تذلیل کر رہا ہوتا ہے اور یہ نہیں دیکھتا کہ خود اس کے اپنے اندر کتنے نقائص ہوں گے جو بعض دوسروں میں نہیں ہیں اور کتنی کمزوریاں ہوں گی جو خدا کے علم میں ہیں خواہ بندوں کے علم میں نہ بھی ہوں تب بھی یہ اس کی ذات میں موجود ہیں.تو انکسار کی بجائے جب وہ دوسروں کی کمزوریاں اور اپنی نیکیاں دیکھتا ہے تو اس کے اندر ایک تکبر پیدا ہو جاتا ہے اور جس شخص میں بھی یہ پیدا ہو جاتا ہے وہ اصلاح احوال کے قابل نہیں رہا کرتا کیونکہ تکبر کے نتیجہ میں منہ سے نکلی ہوئی بات متنفر تو کیا کرتی ہے وہ سچائی کی طرف دلوں کو کھینچ کر نہیں لایا کرتی.پھر نصیحت کرنے والے میں تو ایک غیر معمولی جذب ہونا چاہئے ، ایسا جذب جس سے کوئی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے اور کشاں کشاں اس کی طرف کھنچا چلا آئے.یہ قوت جاذ بہ ہمیشہ ہمدردی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا دکھ کے نتیجہ میں اس کونشو ونما ملتی ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 214 خطبه جمعه ۱۸ اپریل ۱۹۸۳ء حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم کی رو سے ہم ایسے ہی نصیحت کرنے والے ہیں اور ہمیں ایسی ہی نصیحت کے لئے پیدا کیا گیا ہے.ہمیں لازماً حضرت محمد مصطفی ﷺ کے نقش پا پر چلنا پڑے گا ہم ایسے نصیحت کرنے والے ہیں جنہیں محمد مصطفی ﷺ کے نقش کو چومتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا ایک قدم بھی اگر ہم نے اس راہ سے دوسری طرف ہٹایا تو ہم اس زمرہ میں شمار نہیں کئے جائیں گے جن کی قسمت میں دنیا کی تقدیر میں بدلنا ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ کی ساری زندگی اس کی گواہ ہے کسی ایک موقع پر بھی اور کسی ایک نصیحت میں بھی کوئی ادنی سا تکبر یا نفرت کا کوئی شائبہ تک نہیں ملے گا.آپ نے اپنی جان پر غم وارد کئے ، آپ لوگوں کے غم میں گھلتے رہے، آپ نے ان کے لئے راتوں کو اٹھ اٹھ کر گریہ وزاری کی یہاں تک کہ امہات المومنین کی گواہی ہے کہ بعض دفعہ آپ راتوں کو چھپ کر باہر نکل گئے اور ہم نے جب جا کر دیکھا تو اس حال میں آپ گریہ وزاری کر رہے تھے اور زمین پر اس طرح نڈھال پڑے ہوئے تھے اور اس طرح آپ کے سینہ سے آوازیں نکل رہی تھیں جس طرح کوئی ہنڈیا اہل رہی ہے.(سنن نسائی کتاب عشرۃ النساء باب الغير ة ) اس طرح راتوں کو اٹھ اٹھ کر اور پھپ چھپ کر خدا کے حضور گریہ وزاری کرنا صبر کے سوا تو پیدا نہیں ہوا کرتا.لوگوں کے ہاتھوں آپ بے انتہا دکھ اٹھاتے تھے لیکن آپ کے ہاتھوں کسی نے کبھی کوئی دکھ نہیں اٹھایا.پس اگر آپ نے کامیاب ناصح بننا ہے اور وہ مذکر بنا ہے جس کے مقدر میں خدا تعالیٰ نے لاز مافتح رکھ دی ہے اور یقیناً وہ کامیاب ہوگا تو حضرت محمد مصطفیٰ علیہ کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرنی ﷺ پڑے گی کیونکہ آپ دنیا کے سب سے بڑے مذکر تھے اس لئے ہمیں ایک ایک قدم سوچ سوچ کر رکھنا پڑے گا.اگر ہمارا ایک قدم بھی حضور اکرم ﷺ کی طرز نصیحت سے باہر نہ جائے تو پھر دیکھیں کہ خدا کے فضل سے وہ امید میں جو آپ سے وابستہ ہیں اور وہ تو قعات جو خدا تعالیٰ نے إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا کے تابع قرآن کریم میں بیان فرمائی ہیں کس طرح آپ کی شان میں پوری ہوتی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ آج اگر جماعت احمدیہ نے نصیحت اور ہمدردی کے اس اسلوب کو چھوڑ دیا تو پھر اس دنیا کو بچانے والا اور کوئی نہیں آئے گا.تم وہی آخری جماعت ہو جو دنیا کو زندہ کرنے کے لئے اور دنیا کو موت سے نجات دینے کے لئے پیدا کی گئی ہے.پھر نہ قرآن میں نہ حدیث میں اس جماعت کے بعد کسی اور جماعت کا ذکر ملتا ہے اس لئے تم اپنی نیکیوں کی حفاظت کرو، اپنے مقام کو
خطبات طاہر جلد ۲ 215 خطبه جمعه ۸ / اپریل ۱۹۸۳ء پہچانو ، اپنے منصب کو جانو اور خوب غور کرو اگر تم اس منصب سے ہٹ گئے تو پھر دنیا آئندہ کبھی کسی نصیحت کرنے والے کا منہ نہیں دیکھے گی.ہلاکت کے سوا پھر دنیا کے مقدر میں کچھ نہیں لکھا جائے گا اس لئے نصیحت خواہ اندرونی ہو یا بیرونی ، خواہ اس کا نام آپ تربیت رکھیں یا اس کو تبلیغ کہیں ، دونوں صورتوں میں لازماً ہمیں حق کی طرف ہی بلانا ہے اور حق کے ساتھ بلانا ہے، اپنے دائرہ کار کے اندر رہ کر بلانا ہے اس سے تجاوز ہرگز نہیں کرنا اور صبر کی طرف بلانا ہے.پس یہ کام آپ کرتے رہیں اور اس بات کی قطعاً پروانہ کریں کہ دنیا اس وقت غالب ہے.بڑی بڑی جماعتیں دنیا میں آیا کرتی ہیں جو ایسی چھوٹی چھوٹی جماعتوں سے ٹکر لے لیتی ہیں جن کے اندر یہ صفات حسنہ پائی جاتی ہیں اور تاریخ مذاہب ہمیں بتاتی ہے کہ یہی اقلیتیں ہمیشہ جیتا کرتی ہیں اور وہ جوان صفات سے عاری ہوتی ہیں ہمیشہ ہار جایا کرتی اس لئے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں.حق بات کی طرف بلاتے رہیں حق کے ساتھ بلاتے رہیں، صبر کی نصیحت کرتے ہوئے چلیں اور صبر اپنے اعمال میں اور اپنی گفتگو میں داخل کرتے ہوئے آگے بڑھیں.اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ہو اور جلد وہ وقت لائے جب ہم انسان کو گھاٹا پانے والے انسان کی بجائے ایک فائدہ اٹھانے والے اور فلاح کی طرف بڑھنے والے انسان میں تبدیل کر دیں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۴ / جولائی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 217 خطبه جمعه ۱۵ رابیریل ۱۹۸۳ء مسابقت فی الخیرات اور مجلس صحت کا قیام ( خطبه جمعه فرموده ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی کی تلاوت فرمائی: وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَ لِيْهَا فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ( البقرة : ١٣٩) (البقرة: ۱۳۹) اور پھر فرمایا: مجلس صحت کی طرف سے کبڈی کا جو ٹورنامنٹ منعقد کروایا گیا آج اس کا آخری دن تھا.مجلس صحت کے قیام سے متعلق میں جماعت کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں اور بتانا چاہتا ہوں کہ اس کا قیام ایک وسیع پروگرام کا چھوٹا سا حصہ ہے.وہ وسیع پروگرام جو میرے پیش نظر ہے وہ قرآن کریم کی اس چھوٹی سی آیت میں درج ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.دنیا میں کبھی اتنی مختصر گفتگو میں اتنا وسیع پروگرام کسی کو نہیں دیا گیا جتنا اس چھوٹی سی آیت میں مسلمانوں کو سامنے رکھ دیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلِكُلّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَ لِيْهَا ہر قوم کا ایک نصب العین ہوا کرتا ہے، ایک مقصود اور مطلوب ہوتا ہے جس کی وہ پیروی کرتی ہے.فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ پس اے مسلمانو! تمہارے لئے میں یہ نصب العین مقرر کرتا ہوں کہ ہر اچھی بات میں ایک دوسرے سے آگے نکل جاؤ.کتنا عظیم الشان اور کتنا وسیع پروگرام ہے اور کتنے اعلیٰ مقاصد ہیں اس پروگرام کے ہر حصے کے.یہاں یہ نہیں فرمایا گیا کہ صرف عبادتوں میں آگے نکل جاؤ یا صرف فلاں خوبی کو اختیار کرو اور اس میں آگے نکلو بلکہ فرمایا کہ تمہارا نصب العین ہر خوبی میں آگے بڑھ جاتا ہے.دیکھئے ایک نہایت مختصر
خطبات طاہر جلد ۲ 218 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء بات میں دنیا کی ہر بھلائی کو رکھ دیا گیا اور پھر اس بھلائی کے اعلیٰ رخ کو بیان کیا گیا اور اس میں سے بھی جو چوٹی کا حصہ ہے وہ مسلمانوں کے لئے مقرر کیا گیا.پس اس نقطہ نگاہ سے جماعت احمدیہ کے سامنے قرآن کریم نے جو منصوبہ رکھا ہے وہ انسانی زندگی کی ہر دلچپسی پر حاوی ہے.وہ دین پر بھی حاوی ہے اور دنیا پر بھی حاوی ہے.وہ معاشیات پر بھی حاوی ہے اور اقتصادیات پر بھی حاوی ہے، وہ تمدن پر بھی حاوی ہے اور تہذیب پر بھی حاوی ہے.وہ حاوی ہے ہماری تجارت پر ، وہ حاوی ہے ہماری سائنس پر، وہ حاوی ہے ہماری صنعت اور حرفت پر اور وہ ہماری کھیلوں پر بھی حاوی ہے، غرضیکہ انسانی زندگی کی دلچسپی کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جو سوچا جا سکتا ہو اور یہ آیت ایک مسلمان کو اس میں آگے بڑھنے کی تعلیم نہ دے رہی ہو.اس بلند مقصد کو پیش نظر رکھتے ہوئے مجلس صحت کو قائم کیا گیا اور دنیا کی وہ تمام کھیلیں جو اس وقت کسی بھی جگہ کسی نہ کسی رنگ میں کھیلی جاتی ہیں اور اتنا مقام حاصل کر چکی ہیں کہ انسان کے نزدیک وہ بین الاقوامی حیثیت اختیار کر سکتی ہیں ان کو مجلس صحت کے سپر د کیا گیا ہے.اس کے علاوہ بعض ایسی کھیلوں کو بھی مجلس صحت کے سپرد کیا گیا ہے جو ابھی تک دنیا میں رواج تو نہیں پاسکیں لیکن اپنی ذات میں وہ اس قابل ہیں کہ ان کو آگے بڑھایا جائے اور ان کی نشو و نما کی طرف توجہ دی جائے.کبڈی بھی انہیں میں سے ایک کھیل ہے.یہ ہمارے ملک کی بدقسمتی ہے کہ ہم لاشعوری طور پر احساس کمتری کا شکار رہتے ہیں.وہ آزاد قو میں جن کو دنیا پر ظاہری غلبہ بخشا گیا ان کی کھیلوں کو تو عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنی کھیلوں کے متعلق خواہ وہ صحت مندی کے لحاظ سے زیادہ مفید ہوں اور کم خرچ پر بہت بہتر رنگ میں فائدہ بخش ثابت ہوں یہی سمجھا جاتا ہے کہ ان کھیلوں کا کیا فائدہ؟ نتیجہ یہ نکلا کہ ترقی یافتہ اور مغربی قوموں کی ہر کھیل پسماندہ علاقوں میں بھی رائج کر دی گئی اور پسماندہ علاقوں کی اچھی کھیلیں بھی مغرب نے رد کر دیں گویا یہ جاہلوں کی کھیلیں ہیں.مثلاً گلی ڈنڈا ہے.بدقسمتی سے ہماری تہذیب کا یہ حصہ بن گیا کہ گلی ڈنڈے کو وقت کے ضیاع کے متبادل شمار کیا گیا اور کہا جانے لگا کہ فلاں تو گلی ڈنڈا کھیلتا رہتا ہے.گویا گلی ڈنڈا کھیلنا ایک نہایت ہی لغو اور فضول حرکت ہے اور اس قابل ہے کہ اس کی ہر طرح مذمت کی جائے.اس کے مقابل بیس بال Base Ball) جو امریکہ میں کھیلا جاتا ہے اور
خطبات طاہر جلد ۲ 219 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء اسی قسم کی دوسرے کھیلیں کھیلنے والوں نے اپنی کھیلوں کو اتنی عظمت اور اتنا مقام دیا کہ اب وہ دنیا کی چوٹی کی کھیلوں میں شمار ہوتی ہیں.ہمارے ہاں ایک کھیل میروڈ بہ تھی جو بعض پہلوؤں سے ہیں بال سے ملتی ہے لیکن میروڈ بہ کا کھیلنا کوئی خاص قابل فخر فعل نہیں سمجھا جاتا بلکہ عموماً وہی لوگ کھیلتے ہیں جن کو اور کچھ نہ میسر ہو حالانکہ اس کھیل میں بھی خوبی کے بہت سے پہلو موجود ہیں.انسان کی صحت کو ترقی دینے کے لئے اس میں پھرتی پیدا کرنے کے لئے اور ایک دوسرے سے چستی کا مقابلہ کرنے کے لئے اس میں بہت سے عناصر شامل ہیں.پس جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ دنیا کے جس ملک میں بھی جماعت پائی جاتی ہے وہاں کی مقامی کھیلوں کو بھی فروغ دے اور ان کھیلوں کو بھی فروغ دے جو اس وقت دنیا میں مسلم ہو چکی ہیں.ہمیں چاہئے کہ ہر کھیل میں باقی سب سے آگے بڑھیں اس لئے جو مسلمہ کھیلیں ہیں ان کو بھی ہم نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں.یہ درست ہے کہ آہستہ آہستہ کبڈی افریقہ میں بھی رائج ہوسکتی ہے، انڈونیشیا میں بھی رائج ہو سکتی ہے بلکہ موسم کے لحاظ سے جہاں جہاں انسان اس کو قدرتی طور پر طبعی طور پر کھیل سکتا ہے وہاں رائج ہو جانی چاہئے.لیکن جو مروجہ کھیلیں دنیا کو مسلم ہو چکی ہیں ہم ان کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے اور ان میدانوں میں بھی ہمیں لازماً دوسروں کو شکست دینی ہوگی.میری خواہش ہے کہ ہر کھیل میں مسلمان آگے بڑھیں اور یہ خواہش ہمیں اسلامی تاریخ میں سنت اولیاء کے طور پر نظر آتی ہے.آنحضرت ﷺ کی تو ساری زندگی ہی فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کا ایک عظیم الشان نمونہ تھی لیکن امت کے مختلف بزرگوں نے بھی مختلف چیزوں کو اختیار کیا اور ان میں ایسے ایسے نمونے دکھائے جو تاریخ کا ایک درخشندہ باب بن گئے.ہندوستان میں بھی ایسے بزرگ ہوئے ہیں جن کا کھیلوں سے براہ راست کوئی تعلق نہیں تھا لیکن اس میدان بھی دوسروں پر بازی لے گئے.چنانچہ ایک بزرگ کے متعلق آتا ہے کہ وہ کسی جگہ سے گزر رہے تھے تو پتہ لگا کہ ایک غیر مسلم فلاں کھیل میں اتنی ترقی کر گیا ہے کہ وہ فخر کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ آج دنیا کے کسی مذہب کا بھی کوئی پیروکار ایسا نہیں جو مجھے شکست دے سکے.اس بزرگ نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا اور جب تک ان کو اس کھیل میں کمال حاصل نہیں ہو گیا وہ وہیں ٹھہرے رہے ( شاید کئی ماہ لگے ہوں گے ) اور جب تک اس غیر مسلم کو شکست دے کر یہ ثابت نہیں کیا کہ ایسا مسلمان بھی دنیا میں موجود ہے جو تمہارے اس غرور کو توڑ سکتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 220 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء تمہارے مذہب کے ماننے والے اس میدان میں باقیوں سے آگے ہیں، اس وقت تک آگے روانہ نہیں ہوئے یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بھی اسی قسم کا ایک واقعہ آغاز جوانی کا ملتا ہے.پس یہ وہ نمونے ہیں جن کی ہم نے پیروی کرنی ہے اور پھر اپنی قوم کو آگے بڑھانا ہے اسی غرض سے مجلس صحت قائم کی گئی ہے اس لئے تمام دنیا کے احمدیوں کو چاہئے کہ جہاں جہاں کسی کھیل کا کوئی اچھا کھلاڑی موجود ہو وہ مجلس صحت مرکزیہ کو اطلاع دے تا کہ با قاعدہ نظم وضبط کے ساتھ ان کو مختلف ٹیموں میں ڈھالا جا سکے اور پھر جہاں تک ممکن ہو یہ کوشش کی جائے کہ ہر کھیل کی ایک احمدی ٹیم دنیا میں پیدا ہو جائے.یہ درست ہے کہ کھیلوں کا جو طریق اس وقت رائج ہے اس کے لحاظ سے ہم انٹر نیشنل یعنی بین الاقوامی مقابلوں میں احمدی ٹیم کے طور پر ان کو داخل نہیں کر سکتے لیکن اگر ہم ایسا نہ بھی کر سکیں تب بھی یہ احساس کہ نہایت اعلیٰ معیار کی ایک احمدی ٹیم تیار ہو چکی ہے جو واقعہ دنیا کی صف اول کی ٹیموں حضرت مصلح موعود نے اس ضمن میں حسب ذیل واقعہ کا ذکر فرمایا ہے.حضور کا اشارہ غالباً اسی واقعہ کی طرف ہے.سید اسمعیل شہید جو تیرھویں صدی میں گزرے ہیں.حضرت سید احمد صاحب بریلوی کے مرید تھے اور سید احمد صاحب بریلوی سکھوں سے جہاد کرنے کے لئے پشاور کی طرف گئے ہوئے تھے.سید اسمعیل صاحب کسی کام کے لئے دہلی آئے ہوئے تھے.جب دیلی سے واپس جاتے ہوئے کیمبل پور کے مقام پر پہنچے تو کسی نے ان سے ذکر کیا کہ اس دریا کو یہاں سے تیر کر کوئی شخص نہیں گزرسکتا.اس زمانہ میں صرف فلاں سکھ ہے جو گزرسکتا ہے مسلمانوں میں سے کوئی اس کا مقابلہ کرنے والا نہیں.وہ وہیں ٹھہر گئے اور کہنے لگے کہ اچھا، ایک سکھ ایسا کام کرتا ہے کہ مسلمان نہیں کر سکتا.اب جب تک اس دریا کو پار نہ کر لوں گا میں یہاں سے نہیں ہلوں گا.چنانچہ وہاں انہوں نے تیرنے کی مشق شروع کر دی اور چار پانچ مہینہ میں اتنے مشاق ہو گئے کہ تیر کر پار گزرے اور پارگزر کر بتا دیا کہ سکھ ہی اچھے کام کرنے والے نہیں بلکہ مسلمان بھی چاہیں تو ان سے بہتر کام کر سکتے ہیں.“ ( تفسیر کبیر جلد ۲ سورۃ البقره صفحه ۲۵۶)
خطبات طاہر جلد ۲ 221 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء میں شمار ہوسکتی ہے ایک بہت بڑی نعمت ہے.یہ احساس ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کی حمد کو اجاگر کرے گا اور اس کی حمد کی طرف توجہ پیدا کرے گا.ہم خدا کا شکر ادا کریں گے اور حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجیں گے کہ آپ نے ہمارے لئے کتنا شاندار طح نر مقر فرمایا اور پھر اس کی پیروی کی راہیں بھی ہم پر آسان کر دیں اور آج ہم دنیا کو کہہ سکتے ہیں کہ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کے صح نظر کے پیش نظر ہم فلاں چیز میں سبقت لے گئے.پھر بین الاقوامی مقابلوں میں جہاں میڈل ملتے ہیں وہاں بیشک احمدی ٹیمیں داخل نہ ہوسکیں لیکن دنیا کی کوئی کلب بھی کسی نام پر بھی اچھی ٹیموں کو چیلنج کر سکتی ہے اور کھیل سکتی ہے.اس طرح عملاً دنیا کے سامنے ہم یہ ضرور ثابت کر سکتے ہیں کہ خواہ تم ہمیں میڈل دو یا نہ دو اور خواہ تمہاری کھیلوں کا نظام ہمیں بحیثیت احمدی ٹیم کے (Recognise) یعنی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی اللہ کے یہ غلام اس میدان میں بھی دوسروں کے آگے نکل جائیں گے.انشاء اللہ.یہ وہ مقصد ہے جسے ہم نے انشاء اللہ پورا کرنا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ صرف ایک چھوٹا سا شعبہ ہے.ہمیں تو ہر نیکی میں آگے بڑھنا ہے بلکہ نیکی کی ہر شاخ میں آگے نکلنا ہے اسی غرض سے میں نے مجلس شوری میں توجہ دلائی تھی کہ ہمیں ٹریڈ اور انڈسٹری میں بھی تمام دنیا سے آگے نکلنا ہے، سائنس میں بھی آگے نکلنا ہے اور پھر سائنس کے نتیجے میں جو انسان عملاً جو صنعتی ایجادات کرتا اور انڈسٹری قائم کرتا ہے اس میں بھی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ سب سے آگے نکلنا ہوگا.چنانچہ اس مقصد کے لئے فی الحال تحریک جدید میں ایک مرکزی سیل قائم کر دیا گیا ہے اور انشاء اللہ صدر انجمن احمدیہ میں بھی قائم کیا جائے گا.پھر وہ مشترکہ طور پر اس بات پر غور کریں کہ تمام دنیا کے احمدی صنعتکاروں کے دماغ سے کس طرح استفادہ کیا جائے ، تمام دنیا کے احمدی تاجروں کے دماغ سے کس طرح استفادہ کیا جائے اور تمام دنیا کے احمدی سائنسدانوں کو اس طرف متوجہ کیا جائے کہ وہ صرف نظریاتی طور پر سائنسدان نہ رہیں بلکہ ایسے فعال، سوچنے والے اور ہر وقت نئی چیزوں کی ایجاد میں منہمک سائنسدان بنیں جن کی قوت فکر کو جماعت احمدیہ قوت عمل میں ڈھالے اور ان کی ایجادات سے استفادہ کرے اور جس طرح بعض تو میں مثلاً جاپانی اپنے اعلیٰ اور لطیف فکر اور پھر اس فکر کے نتیجے میں اعلی صنعتیں پیدا کرنے کے لحاظ سے مشہور ہیں یا امریکن یا یورپ کی دوسری قو میں جیسے
خطبات طاہر جلد ۲ 222 خطبه جمعه ۱۵ راپریل ۱۹۸۳ء جرمنی ہے جو خاص طور پر ان صنعتوں میں آگے نکل آئی ہیں.اسی طرح جماعت احمدیہ کے سائنسدان بھی احمدی سائنسدان کے لحاظ سے دنیا میں ایک نام پیدا کریں.احمدی ایجادات پر احمدیت کی ایسی چھاپ ہو جس سے معلوم ہو کہ یہ چیز لازماً اپنی نوع میں بہترین ہے.لیکن اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے دیانتداری کی بھی بہت ضرورت ہوا کرتی ہے کیونکہ سائنسدان تو ایک ایجاد پیش کر دیتا ہے لیکن اگر صنعت کار دیانتدار نہ ہوتو وہ اس ایجاد کو ضائع بھی کر سکتا ہے اور اس کا وقار کھو بھی سکتا ہے اور اپنی دیانتداری کی وجہ سے اس کا وقار بھی قائم کر سکتا ہے اور آگے بھی بڑھا سکتا ہے لیکن دیانتداری صرف اس میدان میں ہی ضروری نہیں بلکہ ہر دوسرے میدان میں بھی ضروری ہے کیونکہ دیانتداری کے بغیر کوئی انسان کسی چیز میں بھی آگے نہیں بڑھ سکتا.یہ کھیل میں بھی ضروری ہے اور تجارت میں بھی ضروری ہے اس لئے احمدی تجار کو بھی اور احمدی صنعت کاروں کو بھی اور احمدی سائنسدانوں کو بھی بلکہ ہر میدان میں آگے بڑھنے کا ارادہ رکھنے والوں کو بھی لازماً اپنی دیانت کے معیار کو بڑھانا ہوگا.بہت سے ایسے پسماندہ ملک ہیں جن کو بددیانتیوں کی وجہ سے بہت گہرے اقتصادی نقصان پہنچے ہیں.بد قسمتی سے ہمارا ملک بھی ان میں سے ایک ہے.یہاں بہت اچھی اچھی صنعتیں موجود تھیں جن کے ذریعے تمام دنیا کی منڈیوں پر قبضہ کیا جا سکتا تھا.مثلاً سیالکوٹ میں کھیلوں اور اوزاروں کی صنعت تھی بلکہ یہ دونوں صنعتیں ابھی تک موجود ہیں لیکن جس طرح یہ تمام دنیا کی منڈیوں پر قابض ہو سکتی تھیں اس طرح نہیں ہو سکیں.جب میں نے باہر جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ پاکستان کی تجارت کو زیادہ تر نقصان تاجروں یا صنعتکاروں کی بددیانتی کی وجہ سے پہنچا ہے.پس جب میں جماعت احمدیہ سے کہتا ہوں کہ وہ صنعت میں بھی سب سے آگے نکل جائے اور تجارت میں بھی سب سے آگے نکل جائے اور اس مقصد کے لئے مرکز میں ایسے سیل قائم کئے جائیں جہاں ان سب کے تبادلہ خیالات کے لئے ایک مرکز قائم ہو اور ایک دوسرے سے استفادہ کا نظام قائم ہو، تو یہ ہو نہیں سکتا جب تک جماعت کے دیانت کے معیار کو بھی اونچا نہ کیا جائے اس لئے ہمارے سارے تجار کو چاہئے کہ وہ لازماً ایک Devotion کے ساتھ ، ایک وقف کی روح کے ساتھ اپنی دیانت کے معیار کو بلند کریں اسی طرح تمام صنعتکاروں کو بھی چاہئے کہ اسی روح کے ساتھ صنعت
خطبات طاہر جلد ۲ 223 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء میں اپنی دیانت کے معیار کو بلند کریں.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر ہم قرآنی ارشاد فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کو محوظ رکھتے ہوئے محض اللہ ایسا کریں گے، اگر ہمارا مقصود یہ ہوگا کہ اللہ کے حکم کے تابع ہم نے اسلام کا جھنڈا بلند کرنا ہے تو یہ درست ہے کہ ہماری صنعتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا ، ہماری تجارتوں کو بھی فائدہ پہنچے گا، ہماری طبابت کو بھی فائدہ پہنچے گا اور ہماری اقتصادیات کا ہر شعبہ اس سے فائدہ اٹھائے گا لیکن سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ اللہ ہم سے راضی ہوگا ، اللہ کی طرف سے ہماری کوشش کو بہت برکت کے پھل لگیں گے اور جب انسانی محنت کے ساتھ اللہ کی رحمت شامل ہو جاتی ہے تو پھر دنیا کی کوئی قوم ایسے لوگوں کو شکست نہیں دے سکتی.یہ ایک ایسا عنصر ہے جو آپ کو دنیا کی تجارتوں میں بھی نظر نہیں آتا، صنعتوں میں بھی نظر نہیں آتا اور یہ علم طب میں بھی نہیں پایا جاتا.یہ صرف اور صرف آنحضرت ﷺ کے ان غلاموں کو عطا ہوگا جو خدا کی خاطر کام کرتے ہیں اور پھر دعاؤں کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے رہتے ہیں.ان کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی برکتیں عطا فرماتا ہے.یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے لیکن دنیا کے عام انسان اس کو سمجھ نہیں سکتے.مثلاً ہمارے طبیب اور ڈاکٹر جو افریقہ میں کام کر رہے ہیں وہ بکثرت ایسے واقعات پیش کرتے رہتے ہیں کہ بظاہر دنیا کی اعلیٰ یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوئے بہت بہتر طبیب موجود تھے، بظاہر ان کے ہسپتالوں سے بہت بہتر ہسپتال بھی موجود تھے جن پر حکومتوں کا کروڑ ہاروپیہ خرچ ہور ہا تھا اس کے باوجود بڑی چوٹی کے مریض جن کو حکومت کے کارندے ہونے کے لحاظ سے وہاں مفت علاج میسر آ سکتا تھا وہ ان ہسپتالوں کو چھوڑ کر احمدی ہسپتالوں کی طرف مائل ہوئے ، وہ اعلیٰ ہسپتالوں کو چھوڑ کر ایک چھوٹی سی کٹیا میں آگئے جہاں ایک میز پڑی ہوتی تھی، جہاں پوری طرح اوزار بھی مہیا نہیں تھے، جہاں پوری طرح روشنی کا انتظام بھی نہیں تھا اور پوری طرح Disinfect کرنے کا انتظام بھی نہیں تھا.انہوں نے کہا کہ ہم احمدی ڈاکٹروں سے آپریشن کروائیں گے اور دوسرے ہسپتالوں میں نہیں کروائیں گے.چنانچہ انہوں نے ایسی نوعیت کے کامیاب آپریشن کروائے جن میں زندگی اور موت ایک بہت ہی باریک دھاگے کے درمیان لٹکی رہتی ہے.بعض دفعہ ہمارے ڈاکٹروں نے تعجب سے پوچھا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو؟ انہوں نے کہا ہمیں یہ پتہ ہے کہ دنیاوی وجاہت اور دنیاوی سامان تو دوسرے
خطبات طاہر جلد ۲ 224 خطبه جمعه ۱۵ سراپریل ۱۹۸۳ء ہسپتالوں میں ہیں لیکن شفا آپ کے پاس ہے کیونکہ ہمیں یہی پتہ لگتا ہے کہ جتنے مریض آپ کے پاس آتے ہیں وہ اللہ کے فضل سے شفا پا جاتے ہیں لیکن دوسرے ہسپتالوں میں شفا کا یہ معیار نہیں ہے.اگر ظاہری اسباب کو دنیا کے کمپیوٹر میں ڈالا جائے تو یہ نتیجہ نہیں نکلنا چاہئے.یہ نتیجہ اس لئے نکلتا ہے کہ ہمارے ہاں اللہ کی رضا کا عنصر داخل ہو جاتا ہے نیتیں نیک اور پاک ہیں ان کے اندر خلوص ہے اللہ کی رضا کی خاطر ہمارے ڈاکٹر باہر گئے ہیں اور اللہ کی خاطر وہاں کام کر رہے ہیں اور جب اللہ کی رضا کا عصر بیچ میں داخل ہو جاتا ہے تو سارے نتائج کی کایا پلٹ جاتی ہے.یہ چیز اتنی تفصیل کے ساتھ ہمارے معاملات میں دخل دیتی ہے کہ اگر انسان کھلی آنکھوں کے ساتھ مطالعہ کرے تو اس کے لئے شک کی کوئی گنجائش ہی باقی نہیں رہتی.یہاں تک کہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں بھی یہ چیز کارفرما نظر آتی ہے.مثلاً کھیل کے میدان میں میچ ہو رہا ہے اور احمدی ٹیم کو شکست ہورہی ہولیکن وہاں اچانک کایا پلٹتی ہے.کیوں؟ اس لئے کہ اللہ کی رضا کا عنصر بیچ میں داخل ہو جاتا ہے.مجھے یاد ہے ایک دفعہ بٹالہ میں ایک میچ ہورہا تھا.ایک عیسائی ٹیم کے ساتھ احمدی ٹیم کا بڑے زور کا مقابلہ تھا اور وہاں یہ Issue بن گیا کہ دیکھیں! مسلمان جیتے ہیں یا عیسائی ؟ عیسائی ٹیم کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ ہماری ٹیم جو بظاہر کمزور تھی وہ ا کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی لیک اللہ تعالیٰ نے چونکہ اسلام کی خاطر ایک فضل کرنا تھا وہاں یہ بہانہ بن گیا ، حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ڈلہوزی سے واپس قادیان جاتے ہوئے وہاں سے گزر ہوا.آپ کی نظر پڑی کہ ایک جگہ کوئی ہنگامہ سا ہے اور بہت سے احمدی بھی وہاں موجود ہیں.آپ نے موٹر ٹھہرائی اور دریافت فرمایا کہ کیا ہورہا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ حضور ! یہاں تو بڑا سخت مقابلہ ہورہا ہے ہماری ٹیم شکست کھا رہی ہے اور یہ مقابلہ گویا اسلام اور عیسائیت کا مقابلہ بن گیا ہے.آپ دعا کریں.چنانچہ حضرت صاحب نے سفر کو ٹال دیا اور آپ وہیں کھڑے ہو گئے اور فرمایا میں دعا کرتا ہوں.حضور نے دعا کرائی اور دیکھتے دیکھتے کا یا پلٹ گئی اور احمدی کمزور کھلاڑی بھی مخالف ٹیم کے طاقتور کھلاڑیوں پر غالب آنے لگے.یہ کیا واقعہ ہوا تھا ؟ ان کی جسمانی حالت میں تو کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی.صرف اللہ کا ایک خاص فضل شامل حال ہوا جس نے ظاہری مقابلے کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کیا.پس جب آپ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر دیانتداری اختیار کریں گے تو فائدہ تو آپ کو ہی
خطبات طاہر جلد ۲ 225 خطبه جمعه ۱۵ سراپریل ۱۹۸۳ء پہنچے گا.(وہاں بھی جیتی تو قادیان کی ٹیم تھی اور فائدہ بظاہر کھلاڑیوں کو پہنچا تھا ) لیکن اللہ کی محبت بھی حاصل ہوگئی اس لئے جب اللہ کی رضا شامل ہو جائے گی تو احمدی تاجروں کو ، احمدی صنعت کاروں کو اور احمدی سائنسدانوں کو اور احمدی و کلا کو اللہ کا پیار نصیب ہو جائے گا.جب وہ خدا کی رضا کی خاطر اس سے دعائیں مانگتے ہوئے ہر شعبہ کی زندگی میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے تو خدا کا غیر معمولی فضل ان کے شامل حال ہوگا.پھر یہ کوشش بھی کرنی ہے کہ پوری سخاوت کے ساتھ اپنے گر اور ہنر جماعت کو پیش کریں.یہ وہ آخری حصہ ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں.تاجروں کو یہ عادت ہوتی ہے کہ ان کو کوئی گر مل جائے یا کوئی اچھا موقع تجارت کا میسر آ جائے تو وہ اسے اپنے تک محدودر کھتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ کوئی اور اس میدان میں داخل نہ ہو.ہمارے اطباء میں بھی یہ مرض پایا جاتا ہے لوگوں کو تو شفا دیتے ہیں لیکن ان کو اپنے اس مرض کی شفا نہیں.کوئی اچھا نسخہ ہاتھ آجائے جس سے بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچتا ہے تو وہ دبا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ یہ چٹکلا صرف ان سے ہی ملے گا.اسی طرح ہمارے صنعت کاروں میں بھی یہ بیماری ہے بلکہ ہمارے دوسرے شعبہ ہائے زندگی میں بھی یہ بیماری پائی جاتی ہے.اس بیماری کے ساتھ بعض صورتوں میں فرد کی ترقی کی ضمانت تو دی جاسکتی ہے لیکن قومی ترقی کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی بلکہ یہ علامت قومی تنزل کی ضمانت بن جاتی ہے.چنانچہ آپ مشرق اور مغرب کی ترقیات کا مقابلہ کریں یا تنزل اور ترقی کا مقابلہ کریں تو ایک بہت بڑا امر جوکارفرما نظر آئے گا وہ یہی ہے.ہمارے ہاں یہ بات رواج پکڑ گئی کہ جس کو کوئی علم ملا اس نے سینہ بہ سینہ اپنی اولاد میں چلانا شروع کر دیا.اور یہ سینہ بہ سینہ کا محاورہ سوائے مشرق کے دنیا میں اور کہیں ملتا ہی نہیں.عجیب وغریب محاورہ ہے اور لوگ بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ یہ راز سات پشتوں سے سینہ بہ سینہ ہمارے خاندان میں چلا آرہا ہے.راز سینہ بہ سینہ تو آرہا ہے لیکن ساری قوم کو دفن کر گیا.مغرب نے اس کے برعکس اپنے علوم کو تر ویج دی ہے.اگر کسی کے ہاتھ چھوٹا سا نکتہ بھی آیا ہے تو اس نے اس کی تشہیر کی ہے اور تمام قوم کو اس میں شامل کیا ہے.نتیجہ یہ نکلا کہ ہر فرد کی دولت ساری قوم کی دولت بن گئی ، صرف اس کی ذاتی دولت نہ رہی.اس طرح ہر فرد نے جو سیکھا وہ بھی اس کو مل گیا اور اس نے آگے دوسروں کو بھی عطا کیا.
خطبات طاہر جلد ۲ 226 خطبه جمعه ۱۵ را بریل ۱۹۸۳ء اس لئے اللہ تعالی نے ہر مسلمان کو ہر اچھی چیز میں سخاوت کا حکم دیا ہے.یہ دوسرا امر ہے جو خیرات میں ترقی کرنے کے لئے بڑا ضروری ہے.چنانچہ قرآن کریم اس نکتے کو اس طرح بیان فرماتا ب يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرۃ: ۴) کہ مومن بندے عبادتوں کو قائم کرتے ہیں اور پھر جو کچھ ہم ان کو عطا کرتے ہیں اس میں سے آگے خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.یہ بڑا دلچسپ مضمون ہے.ترتیب بھی بڑی پیاری رکھی گئی ہے.فرمایا ان کو جو کچھ عطا ہوتا ہے وہ صرف جسمانی کوشش اور محنت سے عطا نہیں ہوتا بلکہ اس میں ان کی عبادتوں کا بھی دخل ہوتا ہے.معلوم ہوا یہ عام انسان کی Achievements کا ذکر نہیں بلکہ ایسے مومن بندوں کی خصوصی Achievements کا یا جو کچھ وہ حاصل کرتے ہیں اس کا ذکر ہے جن کو جو کچھ عطا ہوتا ہے اس میں ان کی عبادتوں کا بھی دخل ہوتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کا فضل بھی شامل ہوتا ہے.ایسی سوسائٹی جب قیام صلوۃ کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کو عام بندوں سے زیادہ عطا کرتا ہے اور جو کچھ ان کو عطا کرتا ہے اسے وہ اپنے تک روک کر نہیں بیٹھ جاتے بلکہ وہ اس کو آگے جاری کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کی تفسیر میں یہ عارفانہ نکتہ ہمارے لئے بیان فرمایا کہ یہاں صرف روپے پیسے کا ذکر نہیں ہے بلکہ تمام صلاحیتوں کا ذکر ہے.(البدر جلد نمبر ۴۸ مورخ ۲۴ستمبر۱۹۰۳) اگر کوئی اچھا وکیل ہے اور اس کو وکالت کا ایک اچھا نکتہ ہا تھ آیا ہے تو وہ اس سے بھی قوم کو فائدہ پہنچارہا ہوتا ہے، کسی طبیب کو اگر کوئی اچھا نسخہ مل گیا ہے تو وہ اسے اپنے او پر روک کر نہیں رکھتا بلکہ وہ ساری قوم کو اس سے فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتا ہے، کسی صنعتکار کو اگر کوئی اچھا نکتہ ہاتھ آ گیا ہے تو وہ دوسرے صنعت کاروں میں اعلان کرتا ہے کہ آؤ مجھ سے یہ نکتہ سیکھو، اس سے بہت فائدہ پہنچے گا اسی طرح علوم کی ہر شاخ میں جس کو جو کچھ حاصل ہو جائے وہ اسے خدا کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیتا ہے.ایسے خرچ کرنے والوں کو اس آیت میں خوشخبری دی گئی ہے کہ اس خرچ کے نتیجہ میں جو اللہ کی خاطر کیا جاتا ہے کبھی بھی ان کے اموال، ان کی طاقتیں اور ان کی صلاحیتیں ختم نہیں ہوں گی کیونکہ مِمَّارَ زَقْنَهُم يُنْفِقُونَ میں ایک جاری چشمے کا ذکر ہے.ایک طرف سے نکل رہا ہے تو دوسری طرف سے پڑ بھی رہا ہے اور جس طرف سے نکل رہا ہے وہ سوراخ اس سوراخ کا مقابلہ ہی نہیں کر سکتا جس
خطبات طاہر جلد ۲ 227 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء سے پڑ رہا ہے کیونکہ پڑنے والے سوراخ کو اللہ سے جوڑ دیا.یہ نہیں فرمایا کہ جو کچھ وہ اپنی کوششوں سے حاصل کرتے ہیں اس کو خرچ کرتے ہیں کیونکہ انسانی کوششیں تو محدود ہوتی ہیں، ان کا ماحصل تو تھوڑ اسا ہوتا ہے، وہ خرچ ہو کر ختم بھی ہو سکتا ہے بلکہ فرمایا مِمَّارَ زَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ کہ ہم ان کو جو دیتے چلے جاتے ہیں وہ اس کو خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کے دینے کے راستے تو نہ ختم ہونے والے ہیں.اگر انسان تمام کائنات کی طاقتوں کو بھی خرچ کر دے تب بھی اگر ایک طرف اللہ سے تعلق قائم ہے تو اس کے خزانے ختم نہیں ہو سکتے.پس یہ کیسی عظیم الشان آیت ہے اور مومن کی ترقی کا اس میں کتنا وسیع مضمون بیان کر دیا گیا ہے.اگر آپ غور کریں تو آنحضرت ﷺ کو جو کوثر عطا ہوا وہ یہی کوثر ہے یا یوں کہنا چاہئے کہ اس کوثر کی ایک شکل یہ بنتی ہے کہ آپ کے متبعین کو اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا کہ جو کچھ بھی ہم تمہیں عطا کریں گے وہ تم نے روک کر نہیں رکھنا بلکہ اسے آگے خرچ کرتے چلے جانا ہے اور ہم اس بات کے ضامن ہیں کہ تمہارے خزانے کبھی ختم نہیں ہوں گے کیونکہ ہمارے خزانے کبھی ختم نہیں ہو سکتے.پس نیکیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانا وہ اعلیٰ مقصد ہے جس کی طرف قرآن کریم مسلمانوں کو بلاتا ہے اور جس کی طرف قرآنی ارشاد فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کے تابع میں تمام احباب جماعت کو بلا رہا ہوں.میں امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ اپنے دیانت اور تقویٰ کے معیار کو بلند رکھتے ہوئے محض خدا کی خاطر ہر بھلائی میں دنیا سے آگے نکل جائیں گے اور جتنا زیادہ آگے بڑھیں گے اتنا زیادہ دنیا پر خرچ بھی کریں گے.آپ کی تو کوئی حد نہیں ہے آپ تو وہ قوم ہیں جن کے امام کے متعلق حضرت محمد مصطفی ﷺ نے خبر دی تھی کہ وہ ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا ہوگا.فرمایا: لَوْ كَانَ الْإِيْمَانُ عِنْدَ الثَّرَيَّا لَنَالَهُ رِجَالٌ أَوْ رَجُلٌ مِّنْ هَؤُلَاءِ.(بخاری کتاب التفسیر تفسیر سورة الجمعة باب قوله تعالى و اخرين منهم لما يلحقوا بهم) کہ وہ تو اتنی عظیم ہمت والا انسان ہوگا، اتنی بلند جست ہوگی اس کی کہ اگر ایمان دنیا سے اٹھ کر ثریا پر بھی پہنچ گیا تو وہ اسے کھینچ کر دوبارہ دنیا میں لے آئے گا.پس جو امام اس شان کا ہو اور اتنی بلند ہمت رکھنے والا ہو کہ حضرت محمد مصطفی ہے اس کو یہ خوشخبری دے رہے ہوں کہ ہاں ! تو جائے گا اور آسمان کی بلندیوں سے بھی ایمان کو کھینچ کر دوبارہ لے آئے گا، تیرے قدم ثریا پر پڑ رہے ہوں گے،
خطبات طاہر جلد ۲ 228 خطبه جمعه ۱۵ را پریل ۱۹۸۳ء اس کے ماننے والے، اس کے پیچھے چلنے والے ہیں ہم، اس لئے لازماً ہمیں اپنے ارادے بلند کرنے پڑیں گے اور بلند ارادوں کے ساتھ اپنے اعمال کے معیار کو بھی بڑھانا ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج چونکہ بارش ہورہی ہے اس لئے نماز جمعہ کے ساتھ ہی نماز عصر بھی جمع کرائی جائے گی.روزنامه الفضل ربوہ ۱۴؍ جولائی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 229 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء سورۃ العصر کے مضامین اور صبر کے ساتھ مسلک پر قائم رہنے کی تلقین (خطبه جمعه فرموده ۲ را پریل ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: میں نے گزشتہ سے پیوستہ خطبہ جمعہ میں وَالْعَصْرِ کے مضمون پر روشنی ڈالتے ہوئے اس سورۃ کے دوسرے حصے کے بعض مضامین خصوصیت کے ساتھ احباب جماعت کے سامنے پیش کئے تھے.اس کے متعلق مجھے ایک دوست کا خط موصول ہوا جس سے یہ پتہ لگا کہ وَالْعَصْرِ کے متعلق جب میں بعض باتیں بیان کر رہا تھا تو اس میں مجھ سے دوغلطیاں سرزد ہوئیں.خط لکھنے والے دوست کا میں بہت ممنون ہوں کیونکہ وہ غلطی ایسی ہے کہ اس کا پہلا حصہ خصوصاً اس نوعیت کا ہے کہ اس کی اصلاح ہونی ضروری ہے.اس دوست نے مجھے لکھا کہ وَالْعَصْرِ کے متعلق میں نے یہ جو کہا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے ہزار سال مراد لئے ہیں تو یہ درست نہیں ہے اور دوسری بات یہ کہ وَالْعَصْرِ کے اعداد ایک ہزار نہیں بنتے بلکہ لَفِی خُسر کے اعداد ایک ہزار ( عملاً تو وه ۹۸۰ بنتے ہیں لیکن تقریباً ایک ہزار بنتے ہیں.انہوں نے جب اس بات کی نشاندہی کی تو اس سے ایک تو یہ فائدہ پہنچا کہ اس غلطی کا بر وقت علم ہو گیا اور دوسرے جماعت کے سامنے اس
خطبات طاہر جلد ۲ کی تصحیح ضروری سمجھی گئی.230 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء ہر چند کہ نسیان اور بھول چوک کے نتیجہ میں جو غلطی ہو وہ قابل مواخذہ نہیں ہوتی لیکن بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں غلطی پھیل کر عام ہو جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور پھر بعض مقام ایسے ہوتے ہیں جن کی طرف غلط بات منسوب کرنا خواہ بھول کے نتیجہ ہی میں کیوں نہ ہو نہایت سنگین بات بنتی ہے اس لئے بھول چوک اپنی جگہ لیکن اس محل اور موقعہ پر کہ خلیفہ وقت کا خطبہ ہورہا ہو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف بات منسوب کی گئی ہو، یہ بھول چوک بھی اپنی ذات میں ایک بڑی غلطی ہے.اس سلسلہ میں جہاں تک استغفار کا تعلق ہے وہ تو میرا اپنے رب کے سامنے ہے لیکن جہاں تک وضاحت کا تعلق ہے میں سمجھتا ہوں کہ جماعت کے سامنے وضاحتاً پیش کروں کہ کیوں ایسا ہوا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اللہ تعالیٰ سے علم پا کر کشفاً سورہ عصر کی جو تفسیر بیان فرمائی اس میں یہ بات خاص طور پر بیان کی گئی کہ اس سورۃ کے اندر جو اعداد ہیں ان میں بہت بڑی حکمتیں مضمر ہیں.مثلاً آپ نے اس سورۃ کے پورے اعداد سے یہ استنباط فرمایا ہے کہ آدم سے لے کر آنحضرت ﷺ کے وصال تک چار ہزار سات سو انتالیس برس کا عرصہ گزرا ہے اور فرمایا کہ یہ اس لئے کہ اس سورۃ کے شروع سے آخر تک کے جو اعداد ہیں وہ چار ہزار سات سو انتالیس بنتے ہیں اور یہ بھی فرمایا کہ یہ علم مجھے اللہ تعالیٰ نے کشفاً عطا فرمایا ہے کہ یہ وہ زمانہ ہے جو آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ۲۳ سالہ زمانہ نبوت کے آخر تک بنتا ہے.جب میں نے اس دوست کا خط پڑھا تو مجھے یاد آ گیا کہ میرے ذہن میں یہ اشتباہ کیوں پیدا ہوا تھا.بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب ایک تفسیر پیش فرماتے ہیں تو وہ تفسیر اتنی خیال انگیز ہوتی ہے کہ اس سے آگے بہت سے دوسرے گوشے بھی روشن ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور انسان کی توجہ تفسیر کے بعض نئے نئے پہلوؤں کی طرف منتقل ہو جاتی ہے.چونکہ کچھ عرصہ پہلے میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر کی روشنی میں اس سورۃ پر غور کیا تھا اس لئے میرے ذہن میں جو دو باتیں نمایاں طور پر سامنے آئیں وہ اس غلطی کا موجب بنیں.چنانچہ ایک زمانہ کے بعد میں نے غلطی سے یہ سمجھا کہ یہ تفسیر میں نے مسیح موعود علیہ السلام کی پڑھی تھی حالانکہ وہ خود اس تغیر پر مبنی تھی مگر تھی میری اپنی تفسیر.وہ کیا تھی ، وہ بیان کرنے سے پہلے میں کچھ اور باتیں وَالْعَصْرِ
خطبات طاہر جلد ۲ 231 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء متعلق بتانا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے پہلے یہ بات کھول دی ہے ۸/ اپریل کے خطبہ میں سورۃ العصر کے آخری حصہ کی طرف میری توجہ زیادہ تھی اور میں جماعت کو خصوصیت کے ساتھ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بالصبرِ کے مضمون کی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا اس لئے اس خطبہ کا پہلا حصہ محض سرسری طور پر مذکور ہوا لیکن وہ ایک بہت ہی دلچسپ قصہ ہے اور اپنی ذات میں اس لائق ہے کہ اس کے متعلق نسبتاً زیادہ کھول کر بات جماعت کے سامنے پیش کی جائے.عصر کا لفظ ایک حیرت انگیز لفظ ہے جو مجموعہ تضادات ہے یعنی اس کے معنوں میں ضدین پائی جاتی ہیں.مثلا عصر کا ایک مطلب ہے نچوڑنا اور ایک مطلب ہے عطا کرنا یعنی انسان کسی چیز کو نچوڑ کر رس حاصل کرتا ہے یہ بھی عصر کا مطلب ہے اور کسی پر فیض جاری کرے یہ بھی عصر کا مطلب ہے اور یہ دونوں معنے اکٹھے ہو جاتے ہیں.جب یہ کہا جاتا ہے کہ عصر کے معنے ایسی گھنگھور گھٹا کے ہیں جو پانی سے خوب بھری ہوئی ہو اور وہ کھل کر برسے.پھر ایسے موقع پر اہل عرب عصر مصدر سے فعل نکالتے ہیں اور عصر کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ ایسی گھنگھور گھٹا جو خوب کھل کر برسے.اس میں نچوڑ نے کے معنے بھی آگئے اور عطا کے معنے بھی آگئے.اور اس کے بالکل بر عکس معنے بھی عصر کے لفظ میں پائے جاتے ہیں اور وہ ہیں روک رکھنا اور ایک فیض یا تعلق کو دوسرے تک پہنچنے نہ دینا، کسی کے راستے میں حائل ہو کر اس کو محروم کر دینا.مثلاً ایک انسان فیض رساں ہو اس کے راستہ میں کوئی آکر کھڑا ہو جائے اور اس کے فیض کو دوسرے تک پہنچنے نہ دے.اللہ تعالیٰ نے اسے جو کچھ عطا کیا ہوا سے وہ اپنے تک محدود کر لے اور کنجوسی کے ساتھ اپنے تک روک رکھے یہ بھی عصر کے معنوں میں شامل ہے.پس دیکھئے پہلے معنی اور دوسرے معنی میں بالکل ضد پائی جاتی ہے.اسی طرح عصر کا معنی صبح سے لے کر سورج کے زوال تک کا وقت بھی ہے یعنی جب سورج چڑھ رہا ہو اور کائنات کو منور کر رہا ہو اور اپنے عروج کی طرف رواں ہو اس وقت کو بھی عصر کہا جاتا ہے اور پھر بالکل اس کے برعکس سورج کے زوال سے لے کر غروب تک کا زمانہ بھی عصر کے معنوں میں شامل ہے.عرب دونوں وقتوں کے لئے عصر کا لفظ استعمال کرتے ہیں.پھر عصر کے لفظ میں ایک اور عجیب ضد یہ پائی جاتی ہے کہ دن
خطبات طاہر جلد ۲ 232 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء کے لئے بھی عصر کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اور رات کے لئے بھی.پس سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ لفظ جو مجموعہ ضدّ بین ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے اس موقع کے لئے کیوں منتخب فرمایا ؟ اگر آپ غور کریں تو یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت اولی اور بعثت ثانیہ کے مضمون کو بیان کرنے کے لئے اس سے بہتر اور کوئی لفظ نہیں ہو سکتا تھا.دنیا کی کوئی زبان ایسا لفظ پیش نہیں کر سکتی ، ایسا لفظ دکھانے سے عاجز ہے جوا کیلا اس سارے مضمون کو بیان کرنے کے لئے کافی ہو.چنانچہ یہ وہ مضمون ہے جو اس ساری سورۃ کے اعداد سے نکلتا ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کشفا اللہ تعالیٰ سے علم پا کر بیان فرمایا یعنی آدم کے زمانہ سے لے کر اگر اسے انسانیت کے طلوع کا زمانہ قرار دیا جائے اس وقت تک جبکہ زمانہ ڈھل رہا تھا اور شام آگئی تھی اس عصر انسانی کے آخر پر حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت ہوئی.اس حقیقت کے اظہار کے لئے پھر عصر کا لفظ صحیح بنتا ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اعداد کے لحاظ سے بھی اس تمام زمانہ پر اس سورۃ کا مضمون صحیح اطلاق پاتا ہے.اس کا دوسرا پہلو ہے جس کا تعلق آنحضرت علی کے زمانہ میں نئے سورج کے طلوع اور طلوع سے لے کر عروج پانے سے ہے عصر کا یہ لفظ اس زمانہ کو بھی ظاہر کرتا ہے اور پھر عصر سے مراد رات بھی ہے.آنحضرت ﷺ کے ظاہر ہونے کے بعد پھر بھی ایک رات آنی تھی اور اس رات کے مضمون کو بھی اسی عصر کے لفظ میں بیان کر دیا گیا.میں نے جو استنباط کیا تھا جس سے اشتباہ پیدا ہوا اور بعد میں خود میں بھول گیا وہ لَفِی خُسر کے اعداد اور عصر کے مضمون کے تعلق میں تھا.جیسا کہ میں نے بیان کیا ،عصر کا ایک معنی رات بھی ہے تو اس سے میرا استنباط یہ ہے کہ رات کا مضمون تو گھاٹے اور نقصان کا مضمون ہے اس لئے اگر اس سورۃ میں اعداد بھی بیان کئے گئے ہیں اور اعداد پر غور کرنے سے معنے ہاتھ آ سکتے ہیں تو لَفِی خُسر کے اعداد کو دیکھا جائے تو وہ رات کے مضمون کو ظاہر کریں گے اور وہ نو سو اسی بنتے ہیں یعنی وہ رات جو زمانہ نبوی کے کچھ عرصہ کے بعد شروع ہوئی آنحضرت علی نے خود ہی اس کی تعین فرما دی تھی.آپ نے فرمایا تھا پہلے تقریباً تین سو سال روشنی کا زمانہ ہوگا ، اس کے بعد جو رات آتی ہے اس کا عرصہ کتنا ہو گا اس لئے لَفِی خُسر کے اعداد کو دیکھا جائے جو رات کے
خطبات طاہر جلد ۲ 233 خطبه جمعه ۲۲ / اپریل ۱۹۸۳ء مضمون کا بدل ہے اور وہ ۹۸۰ بنتے ہیں.گویا اس لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا زمانہ بارہ سواسی بنتا ہے اور یہی وہ زمانہ ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ظاہر ہوئے.یہ تھا میرا استنباط لیکن وقت گزرنے جانے کے بعد آہستہ آہستہ، اصل میں چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تفسیر ذہن پر غالب تھی اس لئے غلطی سے میں نے اس حصہ کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف منسوب کر دیا حالانکہ ان معنوں میں اس وضاحت کے ساتھ آپ نے یہ تفسیر نہیں فرمائی.اگر چہ من جملہ یہ ضرور بیان فرمایا ہے کہ اصل میں میرا زمانہ مراد ہے اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی تفسیر کبیر میں اس مضمون کو کھول کر بیان فرمایا ہے کہ سورہ عصر میں حضرت رسول اکرم ﷺ کے دور اول کا بھی ذکر ہے اور دور آخر کا بھی ذکر ہے ( تفسیر کبیر جلد ۹ صفحہ ۵۴۷ - ۵۴۸).جہاں تک اعداد کا تعلق ہے میں جماعت کو یہ تنبیہ کرنا چاہتا ہوں کہ یہ مضمون احتیاط کا مضمون ہے اور یہ مقام احتیاط کا مقام ہے.جن لوگوں کو یہ جنون ہو جاتا ہے کہ ہر لفظ کے اعداد نکالیں اور اس سے کچھ مضمون باندھنے کی کوشش کریں وہ بسا اوقات غلطی کر جاتے ہیں اور بعض دفعہ ایسے ایسے لغو مضمون سامنے لے آتے ہیں جن کا قرآن کریم سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اس لئے اصل محکم بات وہی ہے جو اللہ تعالیٰ عطا فرمائے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے جب اعداد کی طرف توجہ فرمائی تو اپنی طرف سے کوئی توجیہ پیش نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ علم کی بناپر تفسیر فرمائی.ایک کشف کی صورت میں آپ نے دیکھا، ضروری نہیں کہ ہر مضمون کشف کے طور پر ہی بیان کیا گیا ہو، بہت سے ایسے مضامین ہیں جن میں اعداد کی طرف توجہ ہوتی ہے.مثلاً حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے مقطعات کے اعداد سے متعلق بہت گفتگو فرمائی ہے اور بہت کچھ لکھا ہے اور اس سے تاریخ اسلام میں ہونے والے واقعات کا استنباط فرمایا ہے لیکن وہاں بھی ایک بات قابل غور ہے کہ جن امور سے آپ نے استنباط فرمایا ان کی بنیاد حضرت محمد مصطفیٰ کے ارشادات پر رکھی ہے.مثلا ا ل کے اعداد کی طرف توجہ مبذول ہوئی تو اس کی بنیاد بھی وہ تفسیر تھی جو کہ حضور اکرم ہے نے خود بیان فرمائی.اسی طرح المرا کے اعداد کی طرف اگر توجہ مبذول ہوئی تو وہ بھی حضرت اقدس رسول اکرم ﷺ کے اپنے ارشاد کے تابع تھی.آگے پھر استنباط کے راستے کھلے ہیں لیکن بنیاد بہر حال وہی تھی جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے خود قائم فرمائی تھی.
خطبات طاہر جلد ۲ 234 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء پس میرا استنباط بھی اس بات پر تھا کہ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو کشفاً دکھایا گیا کہ اس سورۃ کے اعداد خاص معانی رکھتے ہیں اور زمانہ کی تعین کے لئے استعمال کئے گئے ہیں اس لئے میں نے یہ استنباط کیا لیکن میرے استنباط سے اگر کوئی اختلاف کرے تو اس کو حق ہے کیونکہ یہ بہر حال میرا استنباط ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے استنباط سے کسی کو اختلاف کا حق نہیں.تاہم میرے استنباط سے اگر کوئی اختلاف کرے بھی تب بھی جو مضمون میں نے بیان کیا ہے وہ اپنی جگہ درست ہے یعنی اس مضمون کی صحت پر اس کا کوئی بھی اثر نہیں پڑتا کہ ان اعداد میں عصر کی رات والا وہ زمانہ مراد ہے یا نہیں یا کچھ اور مراد ہے کیونکہ عصر کے ان معنوں میں جہاں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی بعثت اولی مراد ہے وہاں بعثت ثانیہ بھی مراد ہے.یہ معنے اپنی ذات میں لازماً درست ہیں اس میں کسی قسم کے شک کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ استنباط خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ عصر میں جو مضمون بیان ہوا ہے اس کا میرے زمانہ سے بھی تعلق ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس مضمون کو کھول کر بیان کیا اور ویسے عقلاً ہونا بھی یہی چاہئے کیونکہ قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کی دو بعثتیں بیان کیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِينَ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ أَيْتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتب وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ یہ پہلی بعثت ہے اور اس کے معا بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ (الجمعة :۳-۴) وہی رسول محمد مصطفی آخرین میں بھی مبعوث ہوں گے.کن آخرین میں؟ ان آخرین میں جن کا اول گروہ یعنی صحابہ سے ابھی کوئی تعلق قائم نہیں ہوا.ان کے درمیان فاصلے ہوں گے، خواہ زمانہ کے فاصلے مراد لئے جائیں خواہ وہ ظاہری جغرافیائی فاصلے ہوں یعنی ہر قسم کے فاصلے ان کے درمیان حائل ہوں گے اور یہ بھی فرمایا کہ وہ آخر میں آنے والے اول لوگوں سے ابھی تک نہیں مل سکے.ان میں بھی حضرت مسیح موعود کی بعثت کے ذریعہ یہ خوشخبری پوری ہوتی.اس خوشخبری کو قرآن کریم
خطبات طاہر جلد ۲ 235 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء انحضرت ﷺ کی دوسری بعثت قرار دے رہا ہے تو اگر آخر کا مضمون حضور اکرم ﷺ کی بعثت سے تعلق رکھتا ہے تو لا ز مایہ تو ہو نہیں سکتا کہ بعثت کے ایک حصہ سے تعلق رکھتا ہو اور دوسرے حصہ سے تعلق نہ رکھتا ہو، اول سے تعلق رکھتا ہو اور آخر سے تعلق نہ رکھتا ہو.پس خلاصی مضمون یہ بنے گا کہ اگر عصر سے رات کے معنے لئے جائیں تو پہلی رات وہ مراد ہے جب حضوراکرم ﷺ نے رات کو دن میں تبدیل فرمایا.یہ وہ زمانہ ہے جس کے متعلق قرآن کریم کہتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :۴۲) خشکی بھی فساد میں مبتلا ہوگئی اور تری بھی فساد میں مبتلا ہوگئی ، دنیا دار بھی فسادی ہو گئے اور مذہبی لوگ بھی فسادی ہو گئے.اس وقت آنحضور علیہ نے اس گہری رات کو دن میں تبدیل فرمایا اور وَالْعَصْرِ کا یہ بھی معنی ہوگا کہ جب آنحضور ﷺ کے وصال کے ایک عرصہ کے بعد دنیا پر دوبارہ رات چھا جائے گی ، دوبارہ وہ نقشہ ظاہر ہو گا کہ خشکی اور تری دونوں فساد میں مبتلا ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ پھر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ کے فیض سے اس رات کو دن میں تبدیل فرما دے گا اور یہی وہ پو پھوٹنے اور رات کو دن میں تبدیل کرنے کا مضمون ہے جس کی طرف میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں جماعت کو متوجہ کیا تھا اور وہ الَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحَتِ میں بیان کیا گیا ہے اور اس کی تفسیر یوں بیان فرمائی ہے اور اس کا طریق کار یہ بیان فرمایا ہے وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ، فرمایا راتوں کو دن بنانا آسان کام نہیں ہوا کرتا یہ صرف کہنے کی بات نہیں کر تفسیر کی اور لذتیں حاصل کر لیں بلکہ یہ قربانی کا ایک بہت لمبا دور ہے جو راتوں کو دنوں میں بدلا کرتا ہے اور وہ دور اس طرح شروع ہوگا، ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے جو اپنے ایمان کی تجدید کریں گے اور عمل صالح پر قائم ہوں گے.وہ صرف اپنے تک حق کو محدود کرنے پر راضی نہیں رہیں گے بلکہ لازماً اس حق کو دوسروں تک بھی پہنچانے کی کوشش کریں گے.وہ خود بھی صبر کرنے والے ہوں گے اور دوسروں کو بھی صبر کی تلقین کرنے والے ہوں گے.یہ ہے صبح کا وہ مضمون جو اس رات کے بعد بیان ہوتا ہے جو عموماً دنیا پر چھا جایا کرتی ہے.اب میں اس دوسرے حصہ میں سے بھی صبر والے حصہ کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا ہمارا کام بہت اہم ہے، ہمارا راستہ بہت مشکل ہے، ہمیں دکھوں اور تکلیفوں میں سے گزرنا پڑے گا، کانٹوں سے پر راہوں پر قدم رکھنا پڑے گا، پھر کھا کے آگے بڑھنا ہوگا اس لئے
خطبات طاہر جلد ۲ 236 خطبه جمعه ۲۲ را پریل ۱۹۸۳ء جب تک ہم میں صبر کی صفت نہ پیدا ہو جائے، جب تک ہم اللہ تعالیٰ کی رضا کے تابع بہترین صبر کرنے والے نہ بن جائیں اس وقت تک ہم اس کام کو انجام دے ہی نہیں سکتے.صبر کے بغیر یہ کام سرانجام دینا ناممکن ہے.بے صبری قوم کو اس قسم کے کام کی توفیق ہی نہیں مل سکتی.ابھی چند دن ہوئے ایک ایسی اطلاع ملی جس سے معلوم ہوا کہ جماعت میں خدا کے فضل سے ایسے صبر کرنے والے موجود ہیں.ہم صرف نظریاتی طور پر صبر کا پرچار نہیں کرتے بلکہ ہماری جماعت ایک ایسی زندہ اور فعال جماعت ہے اور قول و فعل میں ایسی صادق جماعت ہے اور اس کے اندر ایسے صبر کرنے والے لوگ موجود ہیں کہ جن کے نتیجہ میں بالآخر دنیا کے دکھ دور ہوں گے.چنانچہ لاڑکانہ کے ایک قصبہ وارہ میں چند دن پہلے ایک نہایت دردناک واقعہ رونما ہوا.ایک احمدی دوست ماسٹر عبدالحکیم صاحب ابڑو تھے جو نہایت غریب طبیعت، نیک نفس اور بڑے اچھے اخلاق والے تھے.ان کا اثر سارے شہر پر بھی اچھا تھا اور اپنے طلبا پر بھی ان کا بہت ہی نیک اثر تھا اس لئے کسی ذاتی دشمنی کا تو ان کے خلاف کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہو سکتا تھا لیکن کچھ عرصہ سے وارہ کے علماء نے ان کے قتل کے فتوے دینے شروع کئے اور ان کو ایسے خطوط ملنے شروع ہوئے جن میں واضح طور پر قتل کی دھمکیاں دی گئیں اور کہا گیا کہ تم اپنے دین سے توبہ کر لو، اپنے مسلک سے ہٹ جاؤ ورنہ تمہارا انجام بہت برا ہوگا اور تمہیں بہت بری طرح مارا جائے گا.مجھے بھی انہوں نے دعا کے لئے خط لکھا.میں نے ان کو جواب میں لکھا کہ آپ خود بھی دعا کرتے رہیں اور صبر سے اپنے مسلک پر قائم رہیں، اس سے پیچھے ہٹنے کا یا روگردانی کرنے کا تو احمدی کے لئے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اللہ تعالیٰ کی جو تقدیر ہے وہ بہر حال ظاہر ہوتی ہے.چنانچہ چند دن پہلے رات کے دو بجے کچھ لوگ جو غلطی سے اسلام کا ایک اور تصور اپنے دل میں بٹھائے ہوئے تھے، کلہاڑیاں لے کر ان کے گھر میں داخل ہوئے اور سوتے کو پکڑ کر پہلے تو کلہاڑی سے ذبح کرنے کی کوشش کی گئی.اس پر جب انہوں نے مزاحمت کی تو پھر کلہاڑیوں کے کھلے وار کئے گئے چنانچہ ان کے جسم پر کلہاڑیوں کے اٹھائیس گہرے گھاؤ آئے.پھر انہوں نے اسی پر اکتفا نہ کی بلکہ ان کی بیوی کو بھی کلہاڑیوں سے شدید زخمی کیا گیا، ان کی بچی پر بھی حملہ کیا گیا ، ان کے بیٹے کو بھی زخمی کیا گیا اور یہ کام پورا کر کے انہوں نے سمجھا کہ نعوذ باللہ من ذالك ہم نے اسلام کی فتح کے سامان
خطبات طاہر جلد ۲ 237 خطبه جمعه ۲۲ / اپریل ۱۹۸۳ء کر لئے ہیں لیکن یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ہمارے ان احمد یوں میں سے ایک بھی اپنے مسلک سے پیچھے نہیں ہٹا.بڑے صبر کے ساتھ وہ آخر وقت تک اپنے ایمان پر قائم رہے اور انہوں نے اس سے سرمو بھی انحراف کی راہ اختیار نہیں کی.يهِ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ کی عملی تصویر ہے کہ ایسی جماعت قائم ہونے والی ہے جو نہ صرف صبر کی تلقین کرے گی بلکہ خود صبر کا دامن پکڑ کر بیٹھ رہے گی اور جتنی بڑی سے بڑی آزمائش میں بھی اس جماعت کو مبتلا کیا جائے گاوہ صبر کا دامن نہیں چھوڑے گی لیکن بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک صبر کرنے والے کے دکھ کو دیکھ کر اور اس کی تکلیف سے متاثر ہو کر کم حوصلہ والے لوگ صبر کا دامن چھوڑ دیتے ہیں.بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی کا آپریشن ہورہا ہو تو جس کا آپریشن ہورہا ہوتا ہے اس کو تو اتنی تکلیف نہیں ہو رہی ہوتی جتنی دیکھنے والے محسوس کرتے ہیں.میں نے خود ایک نظارہ دیکھا ہے.ایک مریض کی دانت نکلواتے وقت جو حالت تھی اس کو دیکھ کر ایک نوجوان جو پاس کھڑا تھا بے ہوش ہو کر گر پڑا لیکن جس کا دانت نکالا جا رہا تھا اس کو پر واہ بھی نہیں تھی.میں نے اس لئے اس مضمون کو اٹھایا ہے کہ ایسے واقعات رونما ہوں گے، ہماری تقدیر میں یہ لکھے ہوئے ہیں یہ تو ہمارے ساتھ پیش آئیں گے.بیٹوں کے سامنے باپ ذبح کئے جائیں گے، باپوں کے سامنے بیٹے ذبح ہوں گے، عورتیں بیوائیں ہوں گی، بچے یتیم ہوں گے.جس مسلک کو ہم نے اختیار کیا ہے اور جس راستہ کو ہم نے پکڑا ہے یہ تو وہ راستہ ہے جس کی حضرت محمد مصطفی ﷺ نے نشاندہی فرمائی ہے.اس راستہ پر چلتے ہوئے مصائب و مشکلات کا سامنا ناگزیر ہے لیکن میں اپنے ان دوستوں کو نصیحت کرنا چاہتا ہوں جو کمزور ہیں کہ وہ اپنی بے صبری کے ذریعہ ان لوگوں کی قربانیوں کو ضائع نہ کریں جو صبر پر قائم ہیں اور صبر پر قائم رہیں گے اور ہرگز کوئی ایسا رد عمل نہ دکھائیں جس کے نتیجہ میں ہمارے صبر کرنے والوں کا صبر ضائع ہو جائے.ہم نے کامل سکون کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر تو کل کرتے ہوئے اور اس سے دعائیں کرتے ہوئے اس راستہ پر آگے بڑھتے چلے جانا ہے اور ظلم کے جواب میں ظلم نہیں کرنا.ہماری سرشت میں یہ بات داخل کر دی گئی ہے اور ہم نے اس کی حفاظت کرنی ہے.ہمیں اس طور پر بنایا گیا ہے کہ ہم نے ظلم برداشت کرنے ہیں، مقابل پر ظلم نہیں کرنا.
خطبات طاہر جلد ۲ 238 خطبه جمعه ۲۲ / اپریل ۱۹۸۳ء غرض میں جماعت کو بار بار نصیحت کرتا ہوں کہ جو کچھ بھی سر سے گزر جائے پرواہ نہ کریں اور پورے صبر کے ساتھ اپنے مسلک پر قائم رہیں.دعا کریں اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے طالب رہیں اور یا درکھیں کہ ہم نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر اپنے بدلے خود نہیں اتار نے.حضور اکرم ﷺ نے جو اسوہ ہمارے سامنے پیش فرمایا ہے اس کو چھوڑ کر ہم کہاں زندگی تلاش کریں گے.صرف وہی زندگی کا ایک راستہ ہے.جب قوموں کو ایسے دور سے واسطہ ہو جو صبر کا دور کہلاتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت بھی ان کے صبر کے پیمانہ کو لبریز نہیں کر سکتی ، وہ یوں نہیں چھلکا کرتا بلکہ چھلکتا ہے تو دعاؤں میں آنسوؤں کے ذریعہ چھلکتا ہے لیکن ظلم کے بدلہ ظلم کی صورت میں نہیں چھلکتا.آنحضرت ﷺ پر جو صبر کا دور تھا وہ مکی دور تھا.ویسے تو تمام زندگی آپ صبر پر قائم رہے لیکن مکی دور میں صبر کو ایک نمایاں حیثیت حاصل تھی.حضرت خباب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جن پر بہت مظالم ہوتے تھے اور بہت تکلیفیں دی جاتی تھیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں آنحضرت علی کی خدمت میں حاضر ہوا.آنحضور اُس وقت اکیلے خانہ کعبہ کے سایہ تلے بیٹھے ہوئے تھے.میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! اب تو دکھوں کی حد ہو گئی ، صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا.وہ کہتے ہیں کہ میری بات سن کر آنحضور ﷺ کا چہرہ تمتما اٹھا اور فرمایا کہ دیکھو! تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کے گوشت کو لوہے کی کنگھیوں سے اس طرح نو چا گیا کہ ہڈیوں سے گوشت الگ کر دیئے ،لیکن انہوں نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا اور اپنے مسلک سے انحراف نہیں کیا.پھر آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو ! تم سے پہلے ایسے لوگ گزرے ہیں جن کے سر کو آروں سے اس طرح چیرا گیا کہ ان کے سر دو نیم ہو گئے لیکن نہ تو وہ اپنی زبان پر بے صبری کا کوئی کلمہ لائے اور نہ اپنے دین سے انہوں نے انحراف کیا.آنحضور ﷺ نے یہ کہ کر فرمایا کہ لازماً میرا خدا اپنے کام کو پورا کرے گا جو اس نے میرے سپر دفرمایا ہے، لازما اللہ تعالیٰ اپنے وعدوں کو پورا کرے گا یہاں تک کہ عرب کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اسلام پھیل جائے گا اور امن و امان قائم ہو جائے گا.اگر کوئی شخص صبر کرے گا تو خواہ وہ نہتا اور کمزور ہے پھر بھی اس کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوگا.( بخاری کتاب المناقب باب مالقی النبی عه واصحابه ) پس میں بھی جماعت کو یہ کہتا ہوں کہ حضرت محمد علہ جو اصدق الصادقین تھے، آپ کے منہ سے نکلے ہوئے قول اور آپ کے منہ کی نکلی ہوئی باتیں لازما اٹل ہیں وہ لازماً پوری ہوں گی.
خطبات طاہر جلد ۲ 239 خطبه جمعه ۲۲ ر ا پریل ۱۹۸۳ء آنحضرت ﷺ نے صبر کا جو راستہ تجویز فرمایا تھا اس کو پکڑے رکھیں.اب لازماً وہ انقلاب آئے گا.وہ انقلاب ہم نے برپا نہیں کرنا وہ خدا کے فضل سے برپا ہوگا.ایسے ملک جہاں صبر کے نمونے دکھائے جائیں گے وہاں ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک احمدیت پھیل جائے گی اور اگر ساری دنیا کے احمدی صبر دکھائیں گے تو تمام دنیا کو اللہ تعالیٰ احمدیت سے بھر دے گا یہاں تک کہ اس جماعت پر سورج غروب نہیں ہوگا.یہ ہے وہ پیغام جو آنحضرت علی مومنین کو دینا چاہتے ہیں اور یہی وہ مضمون ہے جو سورہ عصر میں بیان ہوا ہے جو راتوں کو دن بنانے والا مضمون ہے.مجھے بعض دفعہ تعجب ہوتا ہے بعض لوگ بڑی بے صبری سے لکھ دیتے ہیں کہ اب کیا ہوگا؟ اب تو قبریں اکھاڑ کر ہمارے مردے باہر پھینکے جانے لگے ہیں.میں ان سے کہتا ہوں کہ ایک مردہ کیا تمام احمدیوں کی لاشیں بھی اکھاڑ کر پھینک دی جائیں تب بھی وہ اپنے مسلک سے نہیں ہٹیں گے اور ہرگز نہیں ہٹیں گے.وہ اپنے رب کریم پر توکل کرتے ہوئے آگے ہی آگے بڑھتے چلے جائیں گے اور کسی صورت میں صبر کا دامن نہیں چھوڑیں گے.ہم مظلوم بن کر زندہ رہنے کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور مظلوم بن کر ہی زندہ رہیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ ہم پر ظلم کا داغ کبھی نہیں لگ سکے گا.پس احباب جماعت کو چاہئے کہ وہ خدا کی راہ میں ہر دکھ اور تکلیف برداشت کریں.خدا پر تو کل کریں اور اس سے دعائیں کریں پھر دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل آپ پر کس طرح نازل ہوتے ہیں.یہی ہماری تقدیر ہے اسی تقدیر کے ساتھ ہم نے آگے بڑھنا ہے.اسی طرح ہم نے دنیا کو فتح کرنا ہے.صبر اور نصیحت یہی دو ہتھیار ہیں جو ہمیں عطا کئے گئے ہیں.دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ صبر اور نصیحت کے طریق پر قائم رکھے، ہمارا محد ومددگار ہو، ہمارے حق میں وہ ساری خوشخبریاں پوری فرمائے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے صبر کرنے والوں کو دی ہیں اور وہ تمام خوشخبریاں پوری فرمائے جو غلبہ اسلام کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے وابستہ تھیں.حقیقت ہے کہ آج ہم وہ روحیں ہیں جن کے ذریعہ دنیا میں انقلاب بر پا ہوگا ، ہم وہ انقلابی ہیں جن کے ذریعہ ایک نہ ایک دن ضرور دنیا کی تقدیر بدل جائے گی.ہم نے دکھوں کو راحتوں میں بدلنا ہے، ہم نے راتوں کو دنوں میں بدلنا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین (روز نامه الفضل ربوه ۴ را گست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 241 خطبه جمعه ۲۹ / اپریل ۱۹۸۳ء حضرت نوح علیہ السلام کا طریق نصیحت ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ را پریل ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ الاعراف کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: لَقَدْ أَرْ سَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يُقَوْمِ اعْبُدُوا اللهَ مَالَكُمْ مِنْ إِلَهِ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ أبَلِّغُكُمْ رِسَلْتِ رَبِّي وَانْصَحُ لَكُمْ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَالَا تَعْلَمُونَ أَوَ عَجِبْتُمْ أَنْ جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُمْ لِيُنْذِرَكُمْ وَلِتَتَّقُوا وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اور پھر فرمایا: (الاعراف: ۶۳۶۰-۶۴) میں نے ایک گزشتہ خطبے میں جماعت کو ان انبیاء کے واقعات کی طرف توجہ دلائی تھی جن کو قرآن کریم نے ہمارے لئے نصیحت کے طور پر محفوظ کیا ہے.قرآن کریم کا یہ اسلوب ہے کہ جو بھی تعلیم دیتا ہے یا جن باتوں سے منع فرماتا ہے تاریخ مذاہب سے ان کی ایسی عملی مثالیں بھی ہمارے سامنے رکھتا ہے جو اپنے مضمون میں ایک خاص شان رکھتی ہیں.پس کسی موضوع پر بھی ہدایت اور رہنمائی کے لئے آپ قرآن کریم کی طرف رجوع کریں تو آپ کو نہ صرف تعلیم ملے گی بلکہ اس کے عملی نمونے بھی قرآن کریم میں نظر آئیں گے.
خطبات طاہر جلد ۲ 242 خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۸۳ء آجکل میں جماعت کو خاص طور پر داعی الی اللہ بننے کی تلقین کر رہا ہوں.اسی سلسلے میں میں نے نصیحت بالحق جس کو تواصوا بِالْحَقِّ کہتے ہیں اس کی طرف متوجہ کیا تھا.اسی طرح نصیحت بالصبر کی طرف بھی متوجہ کیا تھا.انبیاء کی تاریخ جو قرآن کریم میں محفوظ ملتی ہے اس میں ان دونوں امور کے نہایت ہی اعلیٰ نمونے نظر آتے ہیں.اور اگر ہم اس تاریخ پر اس نقطہ نگاہ سے نظر دوڑائیں کہ ہمیں بہترین نصیحت کے طریق معلوم ہوں ، نصیحت حق کے ساتھ کیسے کی جاتی ہے، کس بات کو نصیحت بالحق کہا جاتا ہے اور صبر کے بہترین طریق معلوم ہوں تو ان قصص پر ہمیں غور کرتے رہنا چاہئے.سب سے پہلے حضرت نوح علیہ السلام کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے جن کی نصیحتیں محفوظ کی گئیں.اگر چہ ان سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام، حضرت شیث علیہ السلام اور ایک اور نبی گزرے ہیں لیکن جہاں تک قرآن کریم میں انبیاء کی نصائح کو محفوظ کرنے کا تعلق ہے، پہلے نبی جن کی نصیحتوں کا نمونہ ہمارے سامنے رکھا گیا وہ حضرت نوح علیہ السلام ہیں.حضرت نوح علیہ السلام کی نصیحتوں پر غور کریں یا دیگر انبیاء کی نصیحتوں پر جیسا کہ میں بعد میں بیان کروں گا، ان سب میں ہمیں ایک بات نمایاں طور پر نظر آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ نصیحتوں میں منقولی دلائل کی بجائے فطری دلائل پر زور دیا گیا ہے.میں نے عملاً فطری دلائل کے الفاظ استعمال کئے ہیں عقلی دلائل کے نہیں اس لئے کہ عقلی دلائل میں فلسفے اور منطق کے ایچ بیچ ہوتے ہیں لیکن فطری دلائل میں ان کو کہتا ہوں جو انسانی فطرت کی آواز ہوتی ہے.اس کے لئے کسی لمبی چوڑی فلسفیانہ ، منطقیانہ یا عقلی دلیل کی ضرورت نہیں ہوتی.دل سے نکلی ہوئی سچائی کی آواز ہوتی ہے جو سیدھی دل میں اتر جاتی ہے اور چونکہ اس کے پیچھے کوئی منطقی ایچ بیچ نہیں ہوتا اس لئے اس میں کسی کج بحثی کا بھی کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.سیدھی بات ہے کہ مانو یا نہ مانو تمہاری مرضی.مانو گے تو تمہیں فائدہ ہوگا اور اگر نہیں مانو گے تو نقصان اٹھاؤ گے.یہ طرز ہے انبیاء کی نصیحت کی جو اکثر صورتوں میں ہمیں محفوظ ملتی ہے.حجت و براہین کا بھی ذکر ملتا ہے جو ایک خاص انداز کی حجت و براہین ہیں لیکن جہاں تک حضرت نوح علیہ السلام کی نصائح کا تعلق ہے وہ ساری فطری نوع کی نصائح ہیں.سب سے پہلے تو قرآن کریم فرماتا ہے کہ جب
خطبات طاہر جلد ۲ 243 خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۸۳ء حضرت نوح علیہ السلام کو خدا نے ان کی قوم کی طرف بھیجا تو انہوں نے کہا اے قوم! اللہ کی عبادت کرو، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، میں تمہیں عذاب عظیم کے دن سے ڈرا رہا ہوں.اب اس بیان میں کوئی دلیل نہیں ہے.ایک سیدھی سادی نصیحت ہے لیکن دل کی گہرائی سے نکلی ہے.حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم پر ہلاکت کا ایک خوف محسوس کر رہے ہیں اور اس کو بر وقت متنبہ کر رہے ہیں.پھر آپ کہتے ہیں اُبَلِّغُكُمْ رِسلتِ رَبِّي وَأَنْصَحُ لَكُمْ میں تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچارہا ہوں اور تمہیں نصیحت کر رہا ہوں.ایسا کیوں کر رہا ہوں؟ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ اس لئے کہ مجھے میرے اللہ نے بعض ایسی خبریں دی ہیں جن کا تمہیں علم نہیں ہے ہم نہیں جانتے کہ تمہارے ساتھ کیا ہونے والا ہے اور تم پر کیا واقعات گزر جائیں گے؟ پس میں تمہیں ایک باخبر انسان کی حیثیت سے متنبہ کرتا ہوں.پھر حضرت نوح علیہ السلام قوم کے انکار کی وجہ کا تجزیہ کرتے ہیں.کہتے ہیں میں جانتا ہوں کہ تم کیوں انکار کر رہے ہو.اَوَعَجِبْتُمْ اَن جَاءَكُمْ ذِكْرٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ کیا تمہیں اس بات پر تعجب ہے کہ اللہ نے تمہارے لئے نصیحت کا سامان کیا ہے؟ اس نے تمہارے لئے ایک مذکر ، ایک نصیحت کرنے والا بھیجا اور نصیحت کی صورت میں اپنا کلام نازل فرمایا.دوسری تعجب کی بات یہ ہے کہ عَلَى رَجُلٍ مِنْكُم تم میں سے ایک عام انسان کو اپنا نمائندہ بنا کر کیوں بھیجا؟ فرمایا لِيُنْذِرَكُمْ اس لئے بھیجا کہ وہ تمہیں ڈرائے اور تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور تاکہ تم پر رحم کیا جائے.اگر آپ اس دلیل پر غور کریں تو ایک بات واضح طور پر سامنے آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ اکثر قو میں تعجب کی بنا پر انکار کرتی ہیں.تعجب عدم ایمان کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ خدا تعالی کی ہستی پر ایمان اٹھ چکا ہوتا ہے اور یہ بات کہ واقعہ اللہ کسی بندے سے کلام بھی کرتا ہے یا کرسکتا ہے صرف قصہ اور کہانی ہو جاتی ہے.لوگ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں اس واقعہ کا ظہور تو ہم مان سکتے ہیں جو اب صرف ایک کہانی رہ گیا ہے لیکن واقعاتی دنیا میں ایسا ہو جائے ، اس پر کسی کو ایمان نہیں ہوتا.مگر اس سے بھی انکار نہیں کہ جب بھی خدا نے کسی کو بھیجا ہے اسی طرح بھیجا ہے.یہ دلیل اپنی ذات میں بظاہر کوئی وزن نہیں رکھتی اس لئے کہ یہ ایک دعوی ہے لیکن دعوی اس نوعیت کا ہے کہ جب آپ اس کا تجزیہ کریں تو اس کو مانے بغیر چارہ نہیں.جب سے دنیا بنی ہے اور خدا تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۲ 244 خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۸۳ء نے کسی کو ہدایت کے لئے بھیجا ہے ہمیشہ سب سے بڑی وجہ انکار کی یہی تعجب ہوا ہے.لوگ یہی کہتے رہے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ بیٹھے بٹھائے اچانک اللہ تعالیٰ نے ہم جیسے ایک عام انسان سے کلام شروع کر دیا ہو اور اس کو اپنا نمائندہ بنا کر بھیجا ہو کہ جاؤ اور قوم کو نصیحت کرو اور اسے ڈراؤ.قرآن کریم بار بارایسے تعجب کا ذکر فرماتا ہے اور جب آپ تاریخ ابنیاء پر نظر دوڑائیں تو ہمیشہ اس بات کو سچا پائیں گے.پس دعوی ایسا ہے جس کی تاریخ انسانی گواہی دے رہی ہے.اس کے سوا کوئی اور واقعہ نظر ہی نہیں آتا.اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میری سچائی کی دلیل اس پیغام میں ہے جو میں تمہارے پاس لے کر آیا ہوں اور وہ یہ ہے کہ لِيُنذِرَ کُھ تمہیں ڈرایا جائے ، وَلِتَتَّقُوا تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہو جائے وَلَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ اور تمہیں ایسے راستوں پر ڈالا جائے جن پر چلنے کے نتیجے میں تم پر رحم کیا جائے.یہ بھی بظاہر ایک دعوئی ہے لیکن اپنی صداقت کی دلیل اپنے اندر رکھتا ہے.آپ دنیا میں کبھی کوئی جھوٹا نہیں دیکھیں گے جو یہ کام کرنے کے لئے آیا ہو.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ جھوٹا نیکی کی تعلیم دے.جھوٹے کی تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو پتہ لگے کہ اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں رحم کیا جائے گا اور جھوٹے کی تعلیم پر عمل کریں تو معلوم ہوگا کہ بڑے خطرناک واقعات سے متنبہ کر رہا ہے کہ تم اپنی اصلاح کر لوور نہ ہلاکت تمہارے سامنے کھڑی ہے اور جلد یا بدیر تم اس ہلاکت میں مبتلا ہو جاؤ گے؟ یہ تین باتیں جو حضرت نوح علیہ السلام نے اپنے متعلق بیان فرمائی ہیں ایسی ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے کسی جھوٹے نے نہیں کہی ہیں اور نہ ہی اس کا یہ مقصد ہوتا ہے.پس قرآن کریم کی نصائح جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے سیدھی سادی نصائح ہیں جو بظاہر دلیلیں ساتھ نہیں رکھتیں لیکن مبنی برحق ہیں.اس کو کہتے ہیں توَاصَوْا بِالْحَقِّ کہ مومنوں نے حق کے ساتھ نصیحت کی.حقیقت یہ ہے کہ سچائی میں اتنا وزن ہے اور اس کے اندر قائل کرنے کی اتنی طاقت ہے کہ وہ خود اپنی دلیل بن جاتی ہے.جس طرح سورج خود اپنی دلیل بن جاتا ہے، روشنی خود اپنی دلیل ہوتی ہے اسی طرح سچائی خود اپنی دلیل ہوتی ہے.کسی ایچ بیچ کی اس کوضرورت نہیں ہوتی.حضرت نوح علیہ السلام کے پیغام کو سن کر ان کی قوم نے وہی جواب دیا جس کے متعلق وہ پہلے ہی اس کو متنبہ کر چکے تھے.آپ نے ان کو بتایا کہ میں جانتا ہوں کہ تمہارے دل کے کیا حالات ہیں؟ میں خوب سمجھتا ہوں کہ تمہارے ذہن میں کیا باتیں گزر رہی ہیں اور کیا شکوک ہیں؟ تم کہتے ہو ہماری
خطبات طاہر جلد ۲ 245 خطبه جمعه ۲۹ / اپریل ۱۹۸۳ء طرح کا ایک آدمی اٹھا ہے اور خدا نے اس سے کلام کرنا شروع کر دیا ہے، ہم یہ ماننے کے لئے تیار نہیں.اس سے ایک اور بات کا پتہ لگا اور وہ یہ کہ وہ پہلا نبی جس کی نصیحتیں محفوظ کی گئیں اس کے زمانے میں بھی یہی عقیدہ ہو گیا تھا کہ اب کوئی ہدایت دینے والا نہیں آئے گا.یعنی حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں بھی لوگ نفسیاتی لحاظ سے اس بیماری میں مبتلا ہو چکے تھے کہ اب کوئی نہیں آسکتا.پہلے زمانوں میں خدا نے کسی کو بھیج دیا ہو تو ہم مان لیتے ہیں لیکن اب کسی کی ضرورت نہیں.گویا حضرت نوح کے زمانے کا انسان اپنے آپ کو بڑا Advanced اور ایسا ترقی یافتہ سمجھ رہا تھا جس کی عقل روشن ہو چکی تھی.وہ سمجھتا تھا کہ اب میں بالغ نظر ہو گیا ہوں.پرانے لوگوں میں ان کو کوئی نصیحت کرنے والا آیا ہو تو کوئی حرج نہیں لیکن ہمارے اندر ہم میں سے کوئی اٹھے اور کہے کہ خدا مجھ سے کلام کرتا ہے یہ ہم نہیں مانیں گے.پس نبوت کے ہمیشہ کے لئے بند ہونے کا تصور اسی پہلے نبی کی قوم نے پیش کیا جس کے واقعات قرآن کریم نے ہمارے سامنے تفصیل کے ساتھ بیان کئے ہیں.فرماتا ہے: بہر حال حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے جو جواب دیا اس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فَقَالَ الْمَلَأُ الَّذِيْنَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَانَرُبكَ إِلَّا بَشَرًا مِثْلَنَا (هود: ۲۸) قوم کے بڑے لوگوں نے کہا اے نوح ! ہم تو تجھے اپنے جیسا ایک عام انسان دیکھ رہے ہیں.وَمَا نَرِيكَ اتَّبَعَكَ إِلَّا الَّذِينَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِيَ الرَّأْي (هود: ۲۸) صرف یہی نہیں کہ تم ہم جیسے عام انسان ہو بلکہ ہم میں سے بھی ایک حقیر انسان ہو کیونکہ تمہاری پیروی کرنے والے سارے کے سارے گھٹیا قسم کے لوگ ہیں.حقیر لوگوں سے تیرا آغا ز ہوا ہے.ہم کسی بڑے عالم کو تمہاری جماعت میں نہیں دیکھتے، نہ ہی کسی بادشاہ اور بڑے نواب نے تمہیں مانا ہے.بَشَرًا مِثْلَنَا کے الفاظ تو ہم تیرے احترام اور عزت کے لئے کہہ چکے مگر جب ہم صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ تو تو عام انسان بھی نہیں بلکہ ایک ذلیل انسان ہے جو حقیر اور گھٹیا لوگوں کا لیڈر بنا ہوا ہے.(نعوذ بالله من ذالك )
خطبات طاہر جلد ۲ 246 خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۸۳ء اگر آپ حضرت نوح علیہ السلام سے لے کر آنحضرت ﷺ کے زمانے تک کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ دلیل ہمیشہ قائم رہی ہے.ایک ذرے اور شعشہ کا بھی اس میں فرق نہیں پڑا.آنحضرت ﷺ تشریف لائے تو اہل مکہ نے بھی یہی اعتراض کیا کہ تو غلاموں کا مولیٰ بنا ہوا ہے.تیرے پیچھے بلال ہے، تیرے پیچھے خباب ہے.اس قسم کے گھٹیا لوگ ( نعوذ باللہ ) تیری جماعت میں شامل ہیں، ہم تجھے کس طرح مانیں.تمام رؤو سائے مکہ ایک طرف اور تھوڑے سے غریب لوگ، چند غلام اور چندلونڈیاں دوسری طرف.الغرض آپ کوئی تبدیلی بھی نہیں دیکھیں گے، نہ انبیاء کی نصیحت میں اور نہ ہی ان کی قوم کے جواب میں اور ہمیشہ قوم کو اس شک میں مبتلا پائیں گے کہ اب کوئی ہادی اور رہنما نہیں آسکتا.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کے لوگ کہتے ہیں وَمَا نَرَى لَكُمْ عَلَيْنَا مِنْ فَضْلِ کہ ہمیں تو تم میں کوئی فضیلت نظر نہیں آتی.بَلْ نَظُنُّكُمْ كَذِبین اس لئے ہم واضح طور پر بتارہے ہیں کہ ہم تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیں.تم مفتری ہو، اس سے زیادہ تمہاری کوئی حیثیت نہیں.حضرت نوح علیہ السلام اس دلیل کا کیا جواب دیتے ہیں؟ یہ ایک بہت اہم اور بنیادی بات ہے.جیسا کہ میں نے بتایا تھا ایسی نصیحت جو فطرت انسانی سے تعلق رکھتی ہو اس میں چونکہ فلسفیانہ ایچ بیچ نہیں ہوتا اس لئے بحث کی کوئی گنجائش نہیں رہتی.اس میں تو واضح کر دیا جاتا ہے کہ چاہو تو مانو اور چا ہو تو نہ مانو.مانو گے تو یہ ہوگا، نہیں مانو گے تو وہ ہوگا.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام قوم کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: يُقَوْمِ اَرَيْتُمُ اِنْ كُنْتُ عَلى بَيِّنَةٍ مِّنْ رَّبِّي وَأَثْنِي رَحْمَةً مِّنْ عِنْدِهِ فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ اَنْلْزِمُكُمُوْهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كَرِهُونَ ) (هود:۲۹) کہ اے قوم ! تم یہ کیوں نہیں سوچتے اور کیوں اس بات پر غور نہیں کرتے کہ اگر میں خدا کی طرف سے کھلے کھلے نشانوں کے ساتھ بھیجا گیا ہوں اور میرے خدا نے مجھے اپنی رحمت عطا فرمائی ہے فَعُمِّيَتْ عَلَيْكُمْ اور یہ بات تمہیں نظر نہ آئے تمہاری آنکھیں اندھی ہو جا ئیں اور نہ پہچان سکیں کہ وہ لوگ جو خدا کی رحمت کے ساتھ آتے ہیں ان کے آثار اور ہوتے ہیں تو تمہار کیا حال ہوگا؟ یہاں بھی بظاہر دعویٰ ہے لیکن دلیل اس کے اندر موجود ہے.جو اللہ کی رحمت کے ساتھ آتا ہے اس میں اور اس شخص
خطبات طاہر جلد ۲ 247 خطبه جمعه ۲۹ ر ا پریل ۱۹۸۳ء میں جو شیطان کی لعنت کے ساتھ آتا ہے زمین و آسمان کا فرق ہوتا ہے، نظری اور سرسری فیصلہ بتا سکتا ہے کہ کون خدا کے ساتھ ہے اور خدا کی رحمت کے ساتھ آیا ہے اور کون شیطانی صفات رکھتا ہے اور شیطان کی لعنتیں اس کے ساتھ وابستہ ہو چکی ہیں.فرمایا یہ تو کھلی کھلی بات ہے اگر تمہیں نظر نہیں آتا اور تم اندھے ہو چکے ہو تو میں تمہارے ساتھ کیا کر سکتا ہوں؟ انلُزِمُكُمُوْهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كُرَهُوْنَ جب تم پسند ہی نہیں کرتے تو میں کیسے زبر دستی تمہیں منوا سکتا ہوں؟ بات یہاں ختم ہوگئی ، مزید آگے نہیں چلی.حضرت نوح علیہ السلام نے صرف اتنا کہا کہ فطرت کی آواز تھی لیکن جن کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں ان تک نہیں پہنچ سکی.ایسے بصائر تھے جو بینات تھے، چاند سورج کی طرح روشن تھے.مگر جن کی آنکھیں اندھی ہیں وہ ان کو نہیں دیکھ سکے.میں اب اس سے زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا مجھ میں یہ طاقت نہیں کہ میں زبر دستی تمہیں منوالوں.ایک اور بڑی عجیب بات اس سے یہ معلوم ہوئی کہ جب سے دلائل اور مجاہدے کا آغاز ہوا ہے ایسے مجاہدے کا جس کی تفصیلات قرآن کریم نے محفوظ فرمائی ہیں ، جبر کا صداقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوا.جبر ہمیشہ مخالفین اور جھوٹوں کے ہاتھ میں رہا ہے.حضرت نوح علیہ السلام کے وقت سے لے کر حضرت محمد مصطفی حملے کے وقت تک ایک واقعہ بھی آپ کو ایسا نہیں ملے گا جس میں بچوں کی طرف سے جبر کیا گیا ہو اور جھوٹوں نے نصیحت سے کام لیا ہو.بلا استثنا سچوں نے ہمیشہ نصیحت سے کام لیا اور جھوٹوں نے جبر کی کوشش کی.پس حضرت نوح علیہ السلام نے کہا آنُلْزِمُكُمُوْهَا وَأَنْتُمْ لَهَا كُرَهُوْنَ ہمیں تو یہ بات بجتی ہی نہیں ہے کہ ہم جبر سے کام لیں.جبر سے ہمارا کوئی تعلق ہی نہیں ہے، ہمیں تو کوئی سلیقہ معلوم نہیں جس کے ذریعے ہم صداقت کو زبر دستی تمہارے اندر داخل کرسکیں.ہاں! اگر تمہیں جبر کے طریقے معلوم ہوں تو تم وہ استعمال کرتے رہو.لیکن سچائی کا جبر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں.پھر حضرت نوح علیہ السلام نے ایک لمبی نصیحت کی جس میں فرمایا کہ دیکھو! تمہیں سچائی کے آثار کیوں نظر نہیں آتے.میں تم سے کوئی لالچ نہیں رکھتا ، نہ ہی میں کوئی ذاتی مطالبات لے کر آیا ہوں، میں تو تم سے ماریں کھاتا ہوں ،تکلیفیں اٹھاتا ہوں اور پھر بھی یہی کہتا ہوں کہ میرا اجر اللہ کے پاس ہے.کبھی تم نے جھوٹوں میں بھی یہ آثار دیکھے ہیں کہ کوئی ذاتی حرص نہ ہو بلکہ اپنے اموال لٹار ہے ہوں، کوئی مدد نہ چاہیں بلکہ دوسروں کی مدد کر رہے ہوں.دوسروں کی خاطر تکلیفیں اٹھا رہے ہوں اور
خطبات طاہر جلد ۲ 248 خطبه جمعه ۲۹ را بریل ۱۹۸۳ء پھر بھی یہ کہیں کہ ہمارا اجر ہمارے خدا کے پاس ہے.اپنے ماننے والوں کے متعلق فرمایا کہ یہ جو تم کہتے ہو کہ میرے ساتھ گھٹیا اور حقیر لوگ ہیں تو میں تمہیں کیسے سمجھاؤں کہ یہ بچے ہیں.میں ان کے دل پر نظر رکھتا ہوں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ ان کے دل کتنے پاک ہیں اور ان میں میرے رب کے لئے کتنا پیار ہے.ان کے دلوں پر خدا کی نظر ہے اس لئے میں ان غریبوں کو تمہاری خاطر ہرگز دھتکار نہیں سکتا.کیسا دوٹوک اور صاف جواب ہے.باقی جہاں تک ان کی غربت اور کم مائیگی کا تعلق ہے حضرت نوح نے فرمایا کہ اگر چہ میں یہ دعویٰ تو نہیں کرتا کہ عِنْدِي خَزَائِنُ الله میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور کسی ظاہری لالچ کے نتیجے میں یہ غریب آئے بھی نہیں کیونکہ میں نے اس قسم کا دعوئی ہی نہیں کیا.میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آؤ گے تو تمہیں پیسے دوں گا بلکہ ایسے بلانے والے تو خدا کی خاطر خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے پیسے مانگا کرتے ہیں نہ کہ اپنی ذات کے لئے لیکن میں تمہیں ایک بات بتا دیتا ہوں لَا أَقُولُ لِلَّذِيْنَ تَزْدَرِى أَعْيُنُكُمْ لَنْ يُؤْتِيَهُمُ اللهُ خَيْرًا میں یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ اللہ ان کو مالدار نہیں بنائے گا کیونکہ تقدیر الہی یہی ہے کہ وہ غریب جو اپنا سب کچھ لے کر خدا کی راہ میں حاضر ہوا کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو مالدار بنا دیا کرتا ہے اور ان کو غریب نہیں رہنے دیتا.یہ لوگ تمام دنیا سے زیادہ مالدار ہو جاتے ہیں اور دنیا کے لئے معطی بن جاتے ہیں.پھر حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں اللهُ اَعْلَمُ بِمَا فِي أَنْفُسِهِمْ إِنِّى إِذَا لَمِنَ الظَّلِمِينَ کہ میرے اللہ کو پتہ ہے کہ ان کے دل کی کیا حالت ہے.اگر تمہاری طرح میں بھی ان سے تذلیل کا سلوک کروں اور ان کو گھٹیا سمجھوں تو میں ظالموں میں سے شمار کیا جاؤں گا.اس کے بعد آپ فرماتے ہیں وَلَا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ هُوَرَبُّكُمْ وَ اِلَيْهِ تُرْجَعُونَ یعنی اے لوگو! میں تمہیں نصیحت تو کرتا ہوں لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ اگر اللہ نے یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ تمہیں گمراہ رکھے تو میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گی خواہ میں کتنی بھی خواہش رکھوں کہ یہ نصیحت تمہیں فائدہ پہنچا دے.هُوَرَبُّكُمْ وَ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ تمہارا رب میں نہیں ہوں وہ ہے تمہارا رب جس کے فیصلے کے نتیجے میں یا ہدایت ملتی ہے یا ہدایت سے قو میں محروم رکھی جاتی ہیں اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے.
خطبات طاہر جلد ۲ 249 خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۸۳ء کتنی عظیم الشان اور باقی رہنے والی صداقت ہے جو بیان فرمائی گئی.حضرت نوح علیہ السلام فرماتے ہیں کہ میں نصیحت تو اس لئے کرتا ہوں کہ وہ تمہارے دلوں میں اتر جائے.میری خواہش اور ارادہ ہے کہ جس طرح بھی بن پڑے میں تمہیں سچائی کی طرف لے آؤں لیکن اس کے باوجود میں از خود کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ میں ایک بے طاقت انسان ہوں، میں اپنی بے بسی سے واقف ہوں ، میرے قبضہ قدرت میں کچھ بھی نہیں ہے.ہاں ! اللہ جو دلوں کا مالک ہے وہ اگر چاہے گا تو یہ نصیحت تمہیں فائدہ دے گی اور اگر نہیں چاہے گا تو فائدہ نہیں دے سکے گی لیکن اگر تم نے میری نصیحت نہ مانی تو تمہیں مجھ سے کوئی خوف نہیں کرنا چاہئے.مومنوں کو خدا نے کیسی عجیب نصیحت کی ہے اگر کوئی تمہاری نصیحت نہ مانے تو ہرگز غصہ نہیں کرنا، ہرگز دھمکی نہیں دینی ، قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لینا، یہ فیصلہ نہیں کر لینا کہ چونکہ فلاں نے میری نصیحت نہیں مانی اس لئے میں اس کے ساتھ یہ سلوک کروں گا.اس کے مقابل پر جیسا کہ حضرت نوح علیہ السلام نے فرمایا یہ کہنا چاہئے کہ اللہ تمہارا رب ہے میں تو تمہارا رب نہیں.جان تم نے اس کو دینی ہے اور اس کے حضور حاضر ہونا ہے.میں یہاں فیصلے کرنے لگ جاؤں کہ تمہیں یہ سزا ملے گی اور وہ سزا ملے گی تو کیسی غیر معقول بات ہوگی.اس طرز کلام میں بہت بڑی صداقت ہے.جو شخص خدا کی ہستی پر ایمان نہ لاتا ہو اور خدا پر افترا کر رہا ہو، اگر قوم اس کا پیغام قبول نہ کرے تو وہ آخرت پر بنا کر کے نہیں بیٹھ جاتا.اس کو تو نظر آ رہا ہوتا ہے کہ یہی دنیا ہے، جو کچھ ہو گا یہیں ہوگا.جھوٹے کو تو اس بات کا یقین ہوتا ہے کہ اگر میں ناکام ہوا تو ہمیشہ کے لئے ناکام ہو جاؤں گا.اگر قوم نے میری بات کو رد کر دیا اور پھر میں نے اسے سمجھانے کے اور ذرائع اختیار نہ کئے تو گویا میں اس دنیا سے نامراد جاؤں گا، اس لئے وہ بات کو یہیں نہیں چھوڑتا.جب اس کا انکار کیا جاتا ہے تو پھر وہ اور ذرائع سوچتا ہے، فراڈ سے ، دھو کے سے، چالبازیوں سے غرض یہ کہ جس طرح بھی بن پڑے وہ کوشش کرتا ہے کہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو.اگر دہشت پسندی سے اس کا کام چلے گا تو وہ دہشت پسندی کو اختیار کرنے سے بھی دریغ نہیں کرے گا.چنانچہ اس وقت جتنی بھی دہر یہ تو میں ہیں ان کے پیغام کو جب دوسری قو میں نہیں مانتیں تو وہ ہر قسم کے ہتھیار استعمال کرتی ہیں.کسی جھوٹے یاد ہر یہ سے آپ کبھی یہ بات نہیں سنیں گے کہ اگر تم اشتراکیت کو قبول کرتے
خطبات طاہر جلد ۲ 250 خطبه جمعه ۲۹ ر ا پریل ۱۹۸۳ء ہو تو کرو اور اگر قبول نہیں کرتے تو نہ کرو.خود ہی اللہ کو جواب دو گے.اسے تو یہ بات بجتی ہی نہیں.اگر ایسا کہے گا تو پاگلوں والی بات ہوگی.وہی انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے اور اسی کے منہ سے یہ کلمہ نکل سکتا جو اپنے رب پر اور یوم آخرت پر کامل یقین رکھتا ہے.اس کو کوئی فرق نہیں پڑتا.فرق ان کو پڑتا ہے جو نصیحت نہیں مانتے.جو سچا ہے وہ تو پیغام پہنچا کر ایک طرف ہو جاتا ہے.وہ کہتا ہے کہ میں تمہارا دکھ تو محسوس کر رہا ہوں لیکن تم اس دنیا میں میری طرف سے کوئی زیادتی نہیں دیکھو گے.کسی قسم کا جبر نہیں پاؤ گے کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ میرے رب نے مجھے بھیجا ہے اور مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ آخر تم نے مرنا ہے اور ایک دن خدا کے حضور پیش ہونا ہے اس لئے تم جانو اور تمہارا رب جانے.میں کیوں اس معاملے میں خواہ مخواہ دخل اندازی کروں.پھر ایک اور عجیب بات بیان کی گئی ہے.مذہب کی تاریخ ایسی ہے کہ بچے بھی ہمیشہ ایک ہی قسم کی باتیں کرتے ہیں اور جھوٹے بھی ایک ہی قسم کی باتیں کہا کرتے ہیں اس طریق میں آپ کوئی فرق اور تبدیلی نہیں دیکھیں گے.آنحضرت ﷺ کے زمانہ کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تک آجا ئیں جو آپ کے کامل غلام کا زمانہ ہے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ سو فیصدی وہی دلائل سچائی کی طرف سے دیئے جا رہے ہیں جو پہلے دیئے جاتے رہے اور سو فیصدی وہی دلائل جھوٹ کی طرف سے دیئے جار ہے ہیں جو ہمیشہ مخالفین دیتے چلے آئے ہیں.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام اپنی قوم کے انکار کی ایک وجہ بیان کر کے اس کا جواب دیتے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے آمْ يَقُولُونَ افْتَریہ کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ نوح نے اللہ پر جھوٹ بولا ہے؟ کیسی احمقانہ باتیں کر رہے ہیں قُلْ إِنِ افْتَرَيْتُهُ فَعَلَى اجرا می فرمایا اے نوح! ان سے کہہ دیں کہ اگر میں نے جھوٹ بولا ہو تو اس کا وبال مجھ پر پڑے گا، تمہیں کیا تکلیف ہے.اس میں بھی ایک حیرت انگیز فطری دلیل دی گئی ہے جس کے لئے نہ کسی علم کی ضرورت ہے نہ منطقی چالا کیوں کی ضرورت ہے.ایک سیدھی سادی دلیل ہے جو دل سے نکلتی ہے اور دل میں ڈوب جاتی ہے.پہلے یہ مسلک اختیار کیا کہ اگر تم خدا کے پیغام کو نہیں مانتے تو میرا تم پر کوئی جبر نہیں کیونکہ مجھے پتہ ہے کہ تم خود ہی جوابدہ ہو گے.اب فرمایا کہ جب میں تمہارے معاملات میں دخل نہیں دیتا، پیغام پہنچاتا ہوں اور ایک طرف ہٹ جاتا ہوں تو تمہیں کیا حق ہے کہ تم مجھ پر زبردستی کرو.اگر میں
خطبات طاہر جلد ۲ 251 خطبه جمعه ۲۹ ر ا پریل ۱۹۸۳ء جھوٹا ہوں تو عنداللہ میں سزا کے لائق ٹھہروں گا.میرے جرم کا وبال مجھ پر پڑے گا.تم کیوں تکلیف میں مبتلا ہو اور مصیبت میں پڑے ہوئے ہو کہ یہ جھوٹا ہے اس کو تباہ کر دو.جھوٹوں کو تباہ کرنا تو اللہ کا کام ہے جس پر جھوٹ بولا جاتا ہے، تم سچائی کے کیا لگتے ہو؟ کیا تم خدا کی طرف سے داروغہ بنائے گئے ہو کہ جھوٹوں کو تباہ کرنے کے لئے تمہیں کھڑا کیا گیا ہو.اگر تمہیں جھوٹوں کو تباہ کرنے کے لئے کھڑا کیا گیا ہے تو ساری دنیا جھوٹ سے بھری پڑی ہے.کہاں کہاں نیٹو گے اور کس کس کو ہلاک کرو گے؟ یہ تمہارے بس کی بات نہیں ہے.حضرت نوح فرماتے ہیں کہ معقول طریق ہے اور فطرت کی آواز ہے کہ میں تم سے ایک انسانی سلوک کر رہا ہوں.تم بھی مجھ سے اسی قسم کا سلوک کرو.میں تمہیں پیغام پہنچا تا ہوں.اگر تم اسے نہیں مانتے تو ٹھیک ہے میں تو خدا کی طرف بلا رہا تھا اور یہ کہ رہا تھا کہ ایک دن تم بھی خدا کے پاس جاؤ گے.اس کے بعد مجھے کوئی فکر نہیں رہتی.اگر میں سچا ہوں تو تم خود ہی دیکھ لو گے.اور اگر میں جھوٹا ہوں تو جس خدا پر جھوٹ بول رہا ہوں وہ مجھے پکڑے گا لیکن خدا کو تو میرے خلاف کوئی غیرت نہیں آ رہی اور تمہیں جوش آ رہا ہے.یہ کونسی معقول بات ہے.فرمایا فَعَلَى اجْرَامِی اگر میں خدا پر جھوٹ بول رہا ہوں تو میرے اس جرم کا وبال مجھ پر پڑے گا اور میں ہلاکت سے نہیں بچ سکتا اس لئے تم بالکل فکر نہ کرو.وَأَنَا بَرِى مِمَّا تُجرِمُونَ اور میں تمہارے جرموں سے بری ہوں.کیسی پاکیزہ دلیل ہے اور کیسا عمدہ طرز استدلال اس کو سمجھنے کے لئے نہ عربی دانی کی ضرورت ہے نہ انگریزی کے علم کی نہ فرانسیسی سیکھنے کی اور نہ ہی دنیا کی کسی اور زبان کو جاننے کی ضرورت ہے.انسانی فطرت کی ایک ایسی زبان ہے جسے ہر کوئی بیان کرسکتا اور سمجھ سکتا ہے.سچائی کا تعلق تو دلوں سے ہے.اگر سچائی دلوں میں داخل نہ ہو، جبر سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا.جبر سے گردنیں تو کائی جاسکتی ہیں لیکن قائل نہیں کئے جا سکتے.پس انبیاء ہمیشہ دوطرفہ آزادی کے قائل رہے ہیں، یکطرفہ آزادی کے نہیں.لیکن بعض دفعہ علما کہہ دیتے ہیں کہ آزادی ضمیر یکطرفہ ہے.یعنی سچائی کو تو جبر کاحق ہے لیکن جھوٹ کو نہیں حالانکہ یہی تو جھگڑا ہے جسے طے کرنا ہے کہ جھوٹ کونسا ہے اور سچ کونسا ہے؟ اگر دونوں فریق اپنے آپ کو سچا کہہ رہے ہوں تو اگر سچ کو جبر کا حق ہے تو دوسرے کو بھی یہ حق حاصل ہوگا اور اگر دونوں فریق ایک دوسرے کو جھوٹا سمجھ رہے ہوں تو اگر جھوٹ کو جبر کا حق نہیں تو پھر دوسرے کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہے.اس لئے
خطبات طاہر جلد ۲ 252 خطبه جمعه ۲۹ / اپریل ۱۹۸۳ء نہایت ہی احمقانہ بات ہے کہ ایک فریق کو تو جبر کا حق ہے مگر دوسرے کو نہیں.یہ ایک غیر فطری چیز ہے اس لئے چل ہی نہیں سکتی.چنانچہ علما کی بحثوں میں ایک صاحب نے ایک بڑا دلچسپ فقرہ لکھا.اس نے کہا کہ فلاں مولوی جو یہ کہتے ہیں کہ جبر یکطرفہ چلے گا.یعنی ایک طرف سے تو جبر جائز ہے مگر دوسری طرف سے نہیں ، تو یہ صداقت تو نہ ہوئی یہ تو چوہے دان ہو گیا کہ اندر جانے کا رستہ تو ہے مگر باہر نکلنے کا کوئی رستہ نہیں.لیکن انبیاء کسی چوہے دان کا تصور پیش نہیں کرتے وہ ایک کھلی فضا کا تصور پیش کرتے ہیں اور ہمیشہ سچائی نے یہی موقف اختیار کیا ہے کہ آتے ہو تو شوق سے آؤ ، جاتے ہو تو شوق سے جاؤ لیکن تمہیں یہ بتادیتے ہیں کہ یہ آزادی چند دن کی ہے.ایک وقت ایسا آنا ہے کہ تم سب نے اس دروازے سے نکل جانا ہے جو دوطرفہ نہیں یعنی موت کا دروازہ.گویا انبیاء یکطرفہ رستے کا تصور تو پیش کرتے ہیں لیکن اور معنوں میں.وہ کہتے ہیں کہ اس دنیا میں تو دو طرفہ رستے ہیں.مذہب کے رستے سے تم اندر آ بھی سکتے ہو، باہر جا بھی سکتے ہو اور ایک دفعہ نہیں ، دو دفعہ نہیں، تین دفعہ نہیں، جتنی بار چا ہو آؤ اور جاؤ.لیکن اگر باہر جا کر مرے تو ہلاکت کی موت ہو گی.اب یہ تمہارا اور خدا کا معاملہ ہے.تم بے شک یہ کھیل کھیلو.سو دفعہ آؤ سود فعہ جاؤ.لیکن اگر مذہب سے باہر پاؤں چلا گیا اور وہاں موت آگئی تو پھر تم ہلاک ہو گئے.فرمایا ایک رستہ ایسا ہے جو یکطرفہ ہے اور وہ موت کا رستہ ہے یہاں سے تم ایک دفعہ چلے گئے تو پھر واپسی کبھی نہیں ہوگی.اسی یکطرفہ رستے سے ہم تمہیں ڈراتے ہیں.اس کا تصور کر کے خوف کرو اور اپنے اعمال کا جائزہ لو.حضرت نوح اپنی قوم سے کہتے ہیں کہ تم کتنی بے باکی کے ساتھ میرا انکار کر رہے ہو.حالانکہ تمہیں انکار کا کوئی حق نہیں.تم کہتے ہو کہ میں نے خدا پر جھوٹ بولا ہے.حالانکہ اگر خدا نے مجھے سے کلام کیا تھا تو اس کا خدا کو پتہ ہے یا مجھے، تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ کلام کیا تھا یا نہیں ؟ جس نے کلام کیا وہ جانے اور جس سے کلام ہوا اس کو پتہ ہو، تیسرے آدمی کو کس طرح پتہ چل گیا کہ خدا نے کلام کیا یا نہیں ؟ یہ اس دلیل کا دوسرا پہلو ہے.فرماتے ہیں فَعَلَ اِجْرَامی میں جانوں اور میرا رب جانے.تمہارے نزدیک خدا کو تو پتہ ہی نہیں کہ مجھ پر جھوٹ بولا جا رہا ہے اور تم جن کو کانوں کان خبر نہیں ہوسکتی کہتے ہو کہ یہ دعویدار جھوٹا ہے.خدا نے اس سے ہرگز کلام نہیں کیا.
خطبات طاہر جلد ۲ 253 خطبه جمعه ۲۹ / اپریل ۱۹۸۳ء حقیقت یہ ہے کہ خدا سے کلام کے دعویدار کو دنیا میں کوئی انسان قطعیت کے ساتھ جھوٹا نہیں کہہ سکتا.زیادہ سے زیادہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہمیں علم نہیں اور ہمارا دل مطمئن نہیں ہے.ہوسکتا ہے تم بچے ہو، ہو سکتا ہے تم جھوٹے ہو، کیونکہ خدا نے ہمیں سنا کر پیغام نہیں بھیجا تھا اس لئے ہم تو صرف یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں علم نہیں ہے.جب تک خدا ہمارے دل کو اطمینان نہ بخشے ہم لاعلمی کی حالت میں زندگی بسر کریں گے.یہ ایک جائز طریق اور ایک معقول نقطہ نظر ہے اور اگر کوئی اس عقیدے پر جان دے دے اور خدا اس کی ہدایت کا سامان نہ کرے تو قیامت کے دن اسے ان مجرموں کی صف میں کھڑ انہیں کیا جا سکتا جو عمد ا کسی دعویدار کو مفتری کہتے ہیں.پس خدا سے ہمکلامی کے دعویدار کی ایک یہ دلیل بھی ہے کہ وہ کہتا ہے کہ دیکھو ! میر ادعوی تو اللہ تعالیٰ سے ہمکلامی کا ہے.اگر تم مجھے مفتری کہو گے تو تم ضرور جھوٹے ہو جاؤ گے کیونکہ جس کو جھوٹا کہنے کا حق نہ ہو اور وہ کسی کو جھوٹا کہہ دے تو اگر وہ جھوٹا بھی ہو تو اسے جھوٹا کہنے والا بہر حال جھوٹا ہے.فرض کیجئے ایک واقعہ نہیں ہوا.اب جو شخص کہتا ہے کہ یہ واقعہ ہوا ہے وہ جھوٹا ہے.لیکن ایک اور شخص جس کو پتہ ہی نہیں کہ واقعہ ہوا یا نہیں وہ یہ حلف اٹھالے کہ واقعہ نہیں ہوا تو وہ بھی جھوٹا ہوگا با وجود اس کے کہ بات کچی کر رہا ہے لیکن ہے جھوٹا.چنانچہ قرآن کریم اسی قسم کی مثال دیتے ہوئے کہتا ہے کہ منافقین اللہ کی قسم کھا کر گواہی دیتے ہیں کہ اے محمد ! تو سچا ہے.اللہ فرماتا ہے کہ یہ گواہی تو ٹھیک دے رہے ہیں لیکن ہیں جھوٹے کیونکہ جو ان کا دل مانتا ہے اس کے مطابق یہ گواہی نہیں دے رہے.ان کو اس بات کی شہادت دینے کا حق ہی نہیں ہے کہ تو سچا ہے.پس جب بھی خدا کی طرف سے کوئی دعویدار کھڑا ہو تو وہ قوم کو یہ بتاتا ہے کہ تمہیں مفتری کہنے کا کوئی حق نہیں ہے.اگر تم ایسا کہو گے تو خواہ میں سچا ہوں یا جھوٹا تم ضرور جھوٹے بن جاؤ گے.اس لئے خدا پر معاملہ چھوڑ و اور استغفار سے کام لو کیونکہ جس کو جان دینی ہے وہی بہتر جانتا ہے کہ دعویدار سچا ہے یا جھوٹا.حضرت نوح علیہ السلام کی یہ ساری نصائح اپنے اندر بہت گہرے سبق رکھتی ہیں.ان میں درد بھی پایا جاتا ہے اور سنجیدگی بھی.اور یہ چیزیں سچائی کے بغیر پیدا نہیں ہوتیں.کوئی جھوٹا نصیحت کرنے والا سنجیدگی اور درد کے ساتھ نصیحت کر ہی نہیں سکتا.اس لئے انبیاء کی باتیں اور نصائح ان کی صداقت کے دلائل بن جاتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 254 خطبه جمعه ۲۹ ر ایریل ۱۹۸۳ء چنانچہ قرآن کریم آنحضرت عیﷺ کو مخاطب کر کے فرماتا ہے: وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَانُو اِذْقَالَ لِقَوْمِهِ يُقَوْمِ إِنْ كَانَ كَبُرَ عَلَيْكُمْ مَّقَامِي وَتَذْكِيْرِى بِاتِ اللَّهِ فَعَلَى اللَّهِ تَوَكَّلْتُ فَأَجْمِعُوا أَمْرَكُمْ وَشُرَكَاءَ كُمْ ثُمَّ لَا يَكُنْ أمْرُكُمْ عَلَيْكُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَى وَلَا تُنْظِرُونِ فَإِنْ تَوَلَّيْتُمْ فَمَا سَأَلْتُكُمْ مِنْ أَجْرٍ إِنْ أَجْرِى إِلَّا عَلَى اللَّهِ وَ أُمِرْتُ أَنْ أكُونَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ (يونس:۷۲-۷۳) کہ اے محمد ! تو اپنی قوم کے سامنے نوح کی خبر بیان فرما اور انہیں بتا کہ اس وقت کو یاد کریں جب نوح نے اپنی قوم سے کہا کہ تمہیں میرا منصب برا لگ رہا ہے اور تمہارے اوپر وہ مقام بوجھل ہے جو خدا نے مجھے عطا فرمایا ہے.انسانی فطرت کا ایک اور تجزیہ کر دیا کہ جب سے دنیا بنی ہے اور خدا نے انبیاء کا سلسلہ جاری فرمایا ہے ہمیشہ ہی اس چیز سے حسد پیدا ہوتا رہا ہے کہ ایک شخص خدا کا نمائندہ بن گیا.دنیا کے نمائندگان اپنے علم کے برتے پر، اپنے خاندانوں کے برتے پر، اپنی قوموں کے برتے پر اور دیگر فضیلتوں کے نتیجے میں اپنے اپنے حلقے میں لوگوں سے اپنی بادشاہی منوا چکے ہوتے ہیں اچانک ایک آواز اٹھتی ہے کہ میں خدا کی طرف سے ہوں.پس فرمایا اے محمد ! اپنی قوم کو بتا کہ تمہارا وہی حال ہے جو ہزاروں سال پہلے نوح کی قوم کا تھا.ایک ذرہ بھی فرق نہیں.ان کے سامنے بھی جب یہ اعلان ہوا کہ خدا نے ایک شخص کو منصب نبوت پر فائز کیا ہے تو قوم کو آگ لگ گئی ، برداشت نہیں ہو سکا ، جل بھن گئے یہ دیکھ کر کہ ہم میں سے ہی ایک مسکین کو جوغریبوں اور حقیر لوگوں کا نمائندہ ہے خدا نے ہم سب پر حاکم اور اولی الامر بنا دیا اور کہا کہ یہ حکم و عدل ہوگا.اس کے فیصلے ماننے پڑیں گے.الغرض خدا نے آنحضور علیہ سے فرمایا کہ اپنی قوم کو بتا کہ جس طرح نوح نے اپنی قوم سے کہا تھا میں بھی تمہیں وہی بات کہتا ہوں کہ اگر تم پر میرا مقام اور منصب بوجھل ہو گیا ہے، گراں گزرتا ہے اور برداشت نہیں ہورہا اور تمہیں یہ بات تکلیف دیتی ہے کہ میں اللہ کی طرف سے نصیحت کرنے آیا ہوں تو میں تمہیں یہ بتا دیتا ہوں کہ ان دونوں باتوں میں میرا
خطبات طاہر جلد ۲ 255 خطبه جمعه ۲۹ ر ا پریل ۱۹۸۳ء تو کل اللہ پر ہے.میں نے کسی کے ساتھ منصوبہ بنا کر یہ مقام حاصل نہیں کیا.میں نے کسی طاقت کے ساتھ ساز باز کر کے یہ اعلان نہیں کیا کہ میں خدا کی طرف سے آیا ہوں.تمہیں شاید یہ وہم ہے کہ میں اپنے منصب کی خاطر کسی طاقت کا سہارا لئے ہوئے ہوں اس لئے میں خوب کھول کر تمہارے کانوں سے یہ بات نکال دینا چاہتا ہوں کہ مجھے خدا نے یہ منصب عطا فرمایا ہے اور وہی اس منصب کی حفاظت کرنا جانتا ہے اسی پر میرا تو کل ہے.ہاں میں تمہیں ایک اور ترکیب بتا تا ہوں اور وہ یہ کہ تم اپنی ساری طاقتیں مجتمع کرلو، خدا کے سوا جن پر تمہارا تو کل ہے ان سب کو اکٹھا کر لو، پھر مجھے ہلاک کرنے کے لئے شک کی کوئی بات نہ رہنے دو، جو تدبیریں بن پڑتی ہیں بنالو، جو کوشش کر سکتے ہو کر دیکھو، الغرض ساری قومی طاقتیں مجتمع کر لو اور خدا کے سوا جن کو طاقتور سمجھتے ہو ان سب کو اپنی طرف کر لو اور اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ یہ فلاں کے ہاتھ کا لگایا ہوا پودا ہے تو کھلا کھلا اعلان ہے کہ وہ طاقتیں تم سنبھال لو مجھے تو ان سے کوئی دلچسپی نہیں ہے.ان ساری دنیاوی طاقتوں کو اپنے پیچھے کھڑا کر لو اور پھر پورا زور لگا کر مجھے ہلاک کرنے کی کوشش کرو لیکن تم یقینا نا کام ہو گے اور میں ہلاک نہیں ہوں گا.فطرت کی کیسی عظیم الشان دلیل ہے.دل سے اٹھتی ہے اور دل پر اثر کرتی ہے.اگر کوئی نہ مانے تو اس کوکھلم کھلا چیلنج دیا گیا ہے کہ مخالفت کر کے دیکھ لو اور مخالفت کرنا تو تمہارے بس میں ہے، مجھے مٹانے کے تمام ذرائع اختیار کرنا تمہارے بس میں ہے.تم کہتے ہو کہ میرے ساتھ چند کمینے اور حقیر لوگوں کے سوا اور کوئی نہیں.اس صورت میں مجھے مٹانا کونسا مشکل کام ہے.پس ساری طاقتیں استعمال کر لو اور مجھے مٹانے کے لئے پورا زور لگاؤ لیکن میں تمہیں بتادیتا ہوں کہ تم نا کام ہو گے اور میں کامیاب ہوں گا کیونکہ مجھے خدا نے بھیجا ہے.یہ بھی ایک ازلی ابدی دلیل ہے.وہ پہلا نبی جس کے پیش کردہ دلائل محفوظ کئے گئے وہ بھی فطری باتیں کہہ رہا تھا اور آخری نبی جو صاحب شریعت اور قیامت تک کا نبی ہے وہ بھی یہی باتیں کہہ رہا تھا اور آپ کی غلامی میں جو امام مہدی ظاہر ہوا اس نے بھی یہی باتیں کیں.ایک ذرہ بھی ان باتوں میں فرق نہیں.پس یہ ہے نصیحت بالحق.اس کے اور بھی بہت سے پہلو ہیں لیکن چونکہ اب وقت زیادہ ہورہا ہے اس لئے انشاء اللہ اگلے خطبے میں اس مضمون کو جاری رکھوں گا.ابھی تو صرف حضرت
خطبات طاہر جلد ۲ 256 خطبه جمعه ۲۹ اپریل ۱۹۸۳ء نوح علیہ السلام کی باتیں بیان کی گئی ہیں.قرآن کریم نے تو بہت سے انبیاء کے متعلق مختلف رنگ میں بہت ہی عظیم الشان مضامین بیان فرمائے ہیں.پس اگر جماعت احمد یہ ابنیاء کی طرح اپنی باتوں میں اثر پیدا کرنا چاہتی ہے تو انبیاء کے وہ رنگ ڈھنگ اختیار کرے جن کا ذکر قرآن کریم میں پایا جاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ قرآن کریم نے جو طریق نصیحت بیان فرمایا ہے وہی بہتر ہے اور اسی میں سب سے زیادہ طاقت ہے.کیونکہ صاف اور سیدھی باتوں سے زیادہ کسی دلیل میں وزن نہیں ہوسکتا خواہ وہ ظاہری لحاظ سے کتنی ہی شاندار نظر آئے.اللہ تعالیٰ ہمیں بہترین رنگ میں داعی الی اللہ بننے کی توفیق عطا فرمائے اور انبیاء کی سنت کے مطابق ہمیں ایسی گہری اور وزنی باتیں کرنے کی توفیق دے جن میں ہمارا تقویٰ شامل ہو اور ان کا انکار کرنا مخالف کے بس میں نہ ہو.دل سے نکلیں اور دل میں ڈوب جائیں.کوئی پردہ نہ ہو جو درمیان میں حائل ہو سکے.اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۹ / اگست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 257 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۳ء حضرت نوح اور دوسرے انبیاء کی دعوت الی اللہ میں ہمارے لئے سبق (خطبه جمعه فرموده ۶ رمئی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: قَالَ رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا فَلَمْ يَزِدْهُمْ دُعَاءِ قَ إِلَّا فِرَارًا وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا اَصَابِعَهُمْ فِي أَذَانِهِمْ وَاسْتَغْشَوْا ثِيَابَهُمْ وَأَصَرُّوا وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًان ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَارَالٌ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًان وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَل لَّكُمْ جَنَّتٍ وَيَجْعَلْ لَّكُمْ أَنْهُرَاتٌ مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارًا وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارًا اَلَمْ تَرَوْا كَيْفَ خَلَقَ اللَّهُ سَبْعَ سَمُوتٍ طِبَاقًا وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُوْرَا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًا وَاللَّهُ أَنْبَتَكُم مِّنَ الْأَرْضِ نَبَاتَا ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيْهَا وَيُخْرِجُكُمْ إِخْرَاجًان
خطبات طاہر جلد ۲ 258 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۳ء وَاللهُ جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ بِسَاطًا لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًان قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَونِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَّمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَارًا ن وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا (نوح : ۶-۲۳) سورۃ نوح کی یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں یہ ایک مثال کے طور پر ہیں کہ انبیاء کی دعا ئیں اور نصائح بعض موقع پر اس طرح قرآن کریم میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا کر اور ہم آہنگ کر کے بیان فرمائی گئی ہیں جیسے ایک ڈوری کے بل کھاتے ہوئے دھاگے مل کر ایک ڈوری بناتے ہیں.یہ مثال بھی ایسے ہی موقع کی ہے.قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء جب تبلیغ کرتے ہیں اور اس تبلیغ کے نتیجہ میں انکار کیا جاتا ہے اور کج بحثی سے ان کا مقابلہ کیا جاتا ہے، دلائل کے مقابل پر زور دکھایا جاتا ہے، عقل کے مقابل پر جہالت کی باتیں کی جاتی ہیں تو ہمیشہ جواب میں انبیاء معاً اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور دعاہی ان کا جواب ہوتا ہے.اس کی متعدد مثالیں قرآن کریم میں ملتی ہیں کہ مکالمہ تو ہورہا ہے دشمن سے لیکن اس کو جواب دینے کی بجائے معاً نبی اپنے رب سے باتیں شروع کر دیتا ہے.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام کی تبلیغ میں بھی اسی قسم کی مثالیں قرآن کریم پیش فرماتا ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تبلیغ میں بھی اسی قسم کی مثالیں پیش فرماتا ہے اور اسی طرح دوسرے انبیاء کے ذکر میں بھی ایسی متعد د مثالیں ملتی ہیں.یہ جو مثال میں نے پیش کی ہے اس میں بھی حضرت نوح علیہ السلام دعا کی صورت میں اپنے رب کے سامنے عرض کر رہے ہیں کہ اے خدا! میں نے تو قوم کے لئے یہ کچھ کر دیا ہے اس سے زیادہ میرے بس میں کچھ نہیں تھا، اب تو ہی ان کا حساب جانے کیونکہ ان کو سمجھانے کی مجھے تو کوئی اور ترکیب سمجھ نہیں آتی.اور جس تفصیل کے ساتھ حضرت نوح علیہ السلام کی کوششوں کا یہاں ذکر ملتا ہے وہ ہمیشہ کے لئے مبلغ قوموں کے لئے ایک عظیم الشان سبق ہے.وہ عرض کرتے ہیں رَبِّ إِنِّى دَعَوْتُ قَوْمِي لَيْلًا وَنَهَارًا اے اللہ ! میں نے تو نہ دن دیکھا نہ رات راتوں کو بھی اپنی قوم کو نصیحت کی اور دن کو بھی نصیحت کی.اس میں کیسا درد ہے اور کتنی محنت ہے کہ خدا کی خاطر نہ دن کو آرام کیا نہ رات کو چین
خطبات طاہر جلد ۲ 259 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۳ء لیا.قوم کو ہلاکت سے بچانے کے لئے میں نے دن کو بھی تبلیغ کی اور رات کو بھی تبلیغ کی فَلَمْ يَزِدْهُمُ دُعَاءِى إِلَّا فِرَارًا مگر جتنا جتنا میں ان کو بلاتا چلا گیا اتنا ہی یہ مجھ سے دور بھاگتے رہے.وَإِنِّي كُلَّمَا دَعَوْتُهُمْ لِتَغْفِرَ لَهُمْ جَعَلُوا اَصَابِعَهُمْ فِى اذانهم اور جب بھی میں نے ان کو بلایا اور بلانے میں میری یہ غرض نہیں تھی کہ میری طاقت بڑھے، یہ خواہش نہیں تھی کہ میرا جتھہ پیدا ہو، نہ مجھے کوئی ذاتی حرص تھی ، خالصتاً اس لئے ان کو بلایا کہ تو ان کو بخش دے یعنی قوم پر رحم کے جذبہ کے سوا میرے بلانے میں کوئی اور نیت شامل نہیں تھی.ادھر تو میرا یہ حال تھا کہ میں خالصتاً ان کی خاطر ان پر رحم کرتے ہوئے ان کو بلا رہا تھا اور ادھر قوم کا یہ حال تھا کہ وہ میرے بلانے پر اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیتے اور اپنے سر کے اردگرد کپڑے لپیٹ لیتے تھے کہ اگر انگلیوں کے باوجود بھی کوئی آواز پڑسکتی ہے تو کپڑا لپیٹ لیا جائے اور نوح کو مایوس کر دیا جائے.وہ کلیہ یہ ارادہ ترک کر دے کہ ہمیں بھی وہ کچھ سنا سکتا ہے.واصروا اور وہ انکار پر مصر ہو گئے.وَاسْتَكْبَرُوا اسْتِكْبَارًا اور بڑے ہی تکبر سے کام لیا.ثُمَّ إِنِّي دَعَوْتُهُم جِهَارَاكُ ثُمَّ إِلَى أَعْلَنْتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَاران کہ اے میرے رب میں تو پھر گلیوں میں پکارتا ہوا بھی پھرا.بلند آواز سے اپنی قوم کو بلا نا شروع کیا کہ شاید کسی کان میں کوئی ایسی آواز پڑ جائے جس سے اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہو جائے.ایسے بھی وقت آتے ہیں بعض دفعہ بعض مبلغین پر کہ جب وہ سمجھتے ہیں کہ فردا فردا تو کوئی آدمی تو بات سننے کے لئے تیار نہیں ، عام اعلان کرتے پھرو.دیوانہ وار کہتے چلے جاؤ کہ خدا کی طرف سے آنے والا آ گیا ہے.شاید کسی کان میں کوئی بات پڑ جائے.جماعت کی تاریخ میں ایسے واقعات بھی گزرے ہیں کہ بعض جگہ جب ہمارے مبلغین گئے اور تمام دیہات کے باشندوں نے کلیۂ انکار کر دیا کہ ایک آدمی بھی تمہاری بات نہیں سنے گا تو وہ کو ٹھے پر چڑھ گئے اور انہوں نے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ اے گاؤں کی دیوارو! تم سن لو اور اسے گاؤں کی ہوا ؤ ! تم بھی سن لو اور اے آسمان ! تم بھی گواہ رہو کہ میں نے بلند آواز سے قوم کو پیغام پہنچا دیا ہے.معلوم ہوتا ہے حضرت نوح علیہ السلام پر بھی ایسے حالات آئے تھے کہ بے اختیار اور بے قرار ہو کر وہ بلند آواز سے پکارتے ہوئے گلیوں میں پھرے اور اپنے رب سے یہ عرض کی اِنِّی دَعَوْتُهُمْ جِهَارًا
خطبات طاہر جلد ۲ 260 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۳ء میرے اللہ میں نے تو بلند آواز سے بھی اس قوم کو اپنی طرف بلایا ہے ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنْتُ لَهُمْ پھر کھلی کھلی مجالس میں بھی تبلیغ کی ہے وَاَسْرَرْتُ لَهُمْ اِسْرَارًا اور چھپ کر بھی کی ہے.یہ بہت ہی حکمت کی بات ہے.بسا اوقات ایک انسان کھلی مجلس میں بات سنتا ہے اور اثر قبول کر بھی لیتا ہے لیکن ایسے انسان بھی پائے جاتے ہیں کہ کھلی مجالس میں بات سننے سے گھبراتے ہیں.ان کے اندر بنیادی طور پر بزدلی پائی جاتی ہے اور مجلس میں اگر ان سے بات کریں تو وہ اثر قبول کرنے سے بھی انکار کر دیتے ہیں تا کہ دیکھنے والے یہ نہ سمجھ لیں کہ ہم متاثر ہو گئے.ایسے لوگوں سے الگ بات کرنی پڑتی ہے، علیحدگی میں سمجھانا پڑتا ہے.چونکہ قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ تبلیغ کے لئے حکمت ضروری ہے تو معلوم ہوتا ہے حضرت نوح علیہ السلام نے حکمت کا کوئی پہلو باقی نہیں چھوڑا.کہیں کھلی مجالس میں بھی باتیں کیں تا کہ قوم کو یہ معلوم ہو جائے کہ یہ بزدل نہیں ہیں، یہ ڈرنے والے نہیں ہیں، یہ کھلے بندوں بات سب کے سامنے کرتے ہیں، کوئی لگی لپٹی نہیں رکھتے ، کوئی بات چھپا کے نہیں رکھتے اور مخالف کو خوب موقع دیتے ہیں کہ وہ بھی اپنی بات کرے.یہ أَعْلَنْتُ لَهُمْ کا فائدہ ہے لیکن پھر بھی کچھ ایسے کمزور لوگ تھے جن کو علیحدگی میں تبلیغ کرنی پڑتی تھی.وہ بھی حضرت نوح علیہ السلام نے کی اور پھر ان سے کہا فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّ كَانَ غَفَّاران اور پھر میں نے ان کو حرص بھی دلائی لالچ بھی دی.کیونکہ بہت سے لوگ خوف سے نہیں مانتے اور لالچ سے مان جاتے ہیں.ان کو میں نے کہا کہ دیکھو! تمہارے گناہ بہت سہی لیکن میرے رب کی رحمت بہت ہی زیادہ وسیع ہے، تم اس سے مایوس نہ ہو.استغفار کرو، میرا رب تو بے حد بخشنے والا رب ہے.جس خدا کی طرف میں بلا رہا ہوں وہ تو مغفرت کے بہانے ڈھونڈتا ہے.غفار کے معنے حد سے زیادہ بخشش کرنے والے کے ہوتے ہیں.اگر تم اس سے معافی مانگو گے تو تمہارے گناہوں کے باوجود تم پر رحمتیں برسانی شروع کر دے گا تُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًان وہ رحمت کے بادل بھیجے گا جوتم پر موسلادھار بارشیں برسائیں گے.وہ بارشیں تمہارے لئے رزق میں اضافہ کریں گی ، وہ برکتیں لے کر آئیں گی ہلاکتیں لے کر نہیں آئیں گی کیونکہ نتیجہ یہ نکلا و يُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ ایسی رحمتوں اور برکتوں کی بارشیں آئیں گی کہ تمہارے اموال میں بھی برکت ڈال دیں گی تمہاری اولا دوں میں بھی برکت ڈال دیں گی.یعنی موسم صحت کے لئے بھی اچھا ہو جائے گا.ایسا موسم نہیں ہوگا کہ جس میں فصلیں بھی تباہ
خطبات طاہر جلد ۲ 261 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۳ء ہونی شروع ہو جائیں اور بچے بھی مرنے لگ جائیں بلکہ ایسی رحمتوں والی اور صحت مند بارشیں آئیں گی کہ فضا پاک ہو جائے گی، فصلیں بھی پرورش پائیں گی اور نسلیں بھی پرورش پائیں گی وَيَجْعَل نَّكُمْ جنت اور تمہارے لئے بکثرت باغ اگیں گے.یہ بارش لہلہاتے ہوئے باغ پیدا کریں گی.وَيَجْعَلْ لكُمْ آنهرا اور تمہارے لئے نہریں اور دریا جاری ہو جائیں گے.پھر مَالَكُمْ لَا تَرْجُونَ لِلَّهِ وَقَارَّان کہہ کر ان کی عقل کو جھنجھوڑا اور فرمایا کہ تم کیوں ایسی حماقتوں والی باتیں کر رہے ہو.تم اپنے رب کے لئے عقل کی بات کیوں نہیں کرتے.تم نے اپنی بیہودہ اور بے وزن حرکتوں کی بنا پر اپنے رب کو بے وقرا کیوں سمجھا ہوا ہے.کیا تم سمجھتے ہو کہ نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ میں کوئی حکمت کی بات نہیں ہے کہ تمہاری بے حیائیوں کو بھی برداشت کرتا چلا جائے گا ، وہ تمہاری جہالتوں سے بھی درگزرکرتا چلا جائے تمہاری ہر قسم کی بے وقری حرکتوں سے صرف نظر کرتا چلا جائے اور کوئی نوٹس نہ لے.اس لئے اپنے رب کی طرف کوئی حکمت، کوئی عقل اور کوئی وزن کی بات منسوب کرو.وَقَدْ خَلَقَكُمْ أَطْوَارَان اس نے تو تمہیں ایسی عظیم الشان طاقتیں دے کر پیدا کیا ہے جس کے نتیجہ میں تم درجہ بدرجہ ترقی کرتے چلے آرہے ہو.ایسا عظیم الشان صاحب حکمت رب ہے اور تم اس کی طرف بے وقری کی باتیں منسوب کر رہے ہو.پھر حضرت نوح علیہ السلام نے لوگوں کو آفاق کی طرف متوجہ کیا.یہ عجیب انداز ہے پہلے ان کے نفوس کی طرف متوجہ کیا.پھر ان کو اس زمین کی طرف متوجہ کیا جہاں تو بہ کرنے والی قوموں پر خدا تعالیٰ کے فضل نازل ہو سکتے ہیں اور خدا کے فضل نازل ہوتے ہیں.پھر ان کو آفاق کی طرف متوجہ کیا کہ تم زمین اور آسمان کی طرف کیوں نہیں دیکھتے.اس زمین اور آسمان کو پیدا کرنے والا ایک ایسا خدا موجود ہے جس نے کائنات کو باطل پیدا نہیں کیا.یہ وہی رنگ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں یہ دعا سکھائی گئی ہے رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلًا ( آل عمران : ۱۹۲) اور مومن اس دعا کا یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ اے خدا! یہ جوزمین و آسمان کا نظام ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ تو نے کسی چیز کو باطل پیدا نہیں کیا اور جب باطل پیدا نہیں کیا تو پھر اس سے حساب ہو گا.چنانچہ حضرت نوح فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کو پیدا کیا اور باوجود اس کے کہ یہ سات آسمان ایک دوسرے سے کتنے ہی فاصلوں پر ہیں ان کو طبا قا پیدا کیا.یہ ایک دوسرے سے کامل طور پر منطبق ہورہے ہیں، ان کے قوانین بھی ایک دوسرے کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۲ 262 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۳ء نہیں ٹکرار ہے اور ان کا اندرونی نظام بھی ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھ رہا ہے اور ان کا بیرونی نظام بھی ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت رکھ رہا ہے.یہ اتنا حیرت انگیز واقعہ ہے کہ اربوں ارب روشنی کے سالوں پر آسمان موجود ہوں پھر بھی ان میں مطابقت ہے.یہ تو ان کو علم نہیں تھا کہ اتنے فاصلے پر ہیں لیکن فاصلوں کے جتنے بھی ان کے علم تھے اس کے مقابل پر یہی نسبت بنتی تھی.امر واقعہ یہ ہے کہ اگر چہ اس زمانہ کے انسان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ فاصلے روشنی کے سالوں میں بھی ناپے جاسکتے ہیں لیکن ان کی اپنی رفتار میں بڑی ست تھیں.ان کے زمانے گھوڑوں اور بیلوں اور گڑوں کے زمانے تھے اور ان کے اپنے فاصلوں کے تصور اتنے محدود تھے کہ اس کے مقابل پر آسمان کی وسعتیں ان کے دل پر وہی ہیبت طاری کرتی تھیں جو آج کے انسان کے دل پر اربوں سالوں کے اندر نا پے جانے والے فاصلے ہیبت طاری کرتے ہیں.اس لئے آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ قرآن کریم کی بات کا ان پر اثر نہیں تھا یا ان کو علم نہیں تھا.اپنے اپنے علم کے مطابق انسان ہمیشہ کا ئنات سے حیرت زدہ ہی رہا ہے.پس اس فطری تقاضے کو ابھارتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے ان کو حیرت میں مبتلا کیا.فرمایا زمین و آسمان میں اتنے فاصلے ہیں اور آسمانوں کے درمیان آپس میں کتنے فاصلے ہیں اس کے باوجود یہ ایک منضبط نظام ہے، طباقا ہے، ایک دوسرے سے بھی مطابقت رکھتا ہے اور اندرونی طور پر بھی مطابقت رکھتا ہے.پھر فرمایا وَ جَعَلَ الْقَمَرَ فِيْهِنَّ نُورًا وَجَعَلَ الشَّمْسَ سِرَاجًان اور دیکھو! چاند کونور کا ذریعہ بنایا جواثر کو قبول کرتا ہے، روشنی کو قبول کرتا ہے اور پھر آگے پھیلاتا ہے اور سورج کو ایسی روشنی عطا کی جو براہ راست دوسروں کو بھی روشن کر سکتا ہے.واللهُ أَنْبَتَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ نَبَاتَالُ ثُمَّ يُعِيدُكُمْ فِيهَا وَ يُخْرِجُكُمْ اِخْرَاجًان اور اس نے تمہیں زمین سے اس طرح نکالا کہ پرورش دیتا ہوا ادنیٰ سے اعلیٰ حالتوں کی طرف منتقل کر دیا.زمین سے پیدا ہوئے اور آسمانوں سے باتیں کرنے لگے ، یعنی آسمان کی وسعتوں کی طرف توجہ دلا کر انسان کو اس کا منتہا یا کرا دیا کہ تم جو زمین سے پیدا ہوئے ہوزمین کے کیڑے بننے کے لئے بازمین سے چپکے رہنے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے بلکہ ہم نے تمہیں اس طور سے پیدا کیا ہے کہ دن بدن تم زمین سے اٹھتے چلے جارہے ہو اور رفعتیں اختیار کرتے چلے جارہے ہو اور اگر تم اسی طرح ترقی کو جاری رکھو گے تو تمہارا آخری منتہا آسمان کی وسعتیں ہیں لیکن کچھ ایسے ہوں
خطبات طاہر جلد ۲ 263 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۳ء گے جو زمین میں لوٹا دیئے جائیں گے وہ زمین کو پسند کر لیں گے اور ان میں سے کچھ ایسے ہوں گے جن کو پھر خدا تعالیٰ دوبارہ نکالے گا اور پھر ان رفعتوں کی طرف بلند کرے گا جن کا وعدہ دیا جاتا ہے.اسکے بعد فرمایا وَ اللهُ جَعَلَ لَكُمُ الْاَرْضَ بِسَاطًا لِتَسْلُكُوا مِنْهَا سُبُلًا فِجَاجًان دیکھو اللہ تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے اس کے ناہموار ہونے کے باوجود تمہاری نظر میں ایسا ہموار کر دیا ہے کہ تم اس میں کھلے کھلے رستے پاتے ہو اور ان میں سفر کرتے ہو، اس نیت اور اس ارادہ کے ساتھ خدا تعالیٰ نے زمین کو تمہارے لئے ہموار کیا ہے.پس ایک قوم کو جھنجھوڑنے کے لئے جتنی بھی امکانی نصیحتیں ہو سکتی ہیں وہ ساری حضرت نوح علیہ السلام کی اس نصیحت کے اندر آ جاتی ہیں اور یہ ساری نصیحت ایک دعا کے رنگ میں ہے اور یہ نصیحت دعا اس طرح بن جاتی ہے کہ خدا تعالیٰ کے حضور حضرت نوح عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! میرے حال پر بھی نظر کرم فرما کہ میں نے تیری خاطر کتی کتنی تکلیفیں برداشت کیں کیسے کیسے جتن کئے.اس میں نہ صرف یہ کہ قرآن کریم نے نصیحت کا انداز سکھا دیا بلکہ دعا کا انداز بھی سکھا دیا اور وہ یہ کہ دعا ایسے رنگ میں کرو کہ اللہ تعالیٰ کی تمہارے دل پر اور تمہاری دلی کیفیات پر محبت اور پیار کی نظریں پڑنے لگیں تا کہ پھر خدا تمہاری دعاؤں کو رد نہ کرے بلکہ وہ اپنے فضل سے ان کو قبول فرمالے.غرض یہ حضرت نوح علیہ السلام کی طرز دعا تھی جس میں نصیحت کا ریکارڈ بھی مکمل ہو گیا اور ایک نبی کی دعا کی طر ز بھی ہمارے لئے محفوظ کر دی گئی اور یہ بھی بتادیا گیا کہ دعا کا حق وہ رکھتے ہیں جو پہلے دعا کرنے کا حق ادا کرتے ہیں.محض روکھی سوکھی منہ کی دعائیں کرنے سے تم یہ نہ سمجھو کہ خدا تعالیٰ تمہارے منہ کی نکلی ہوئی ایسی دعاؤں کو ضرور قبول کرلے گا.دعا ئیں تو وہ قبول ہوتی ہیں جن کے پیچھے گہرا جذ بہ پایا جاتا ہے، جن کے ساتھ گہرا خلوص وابستہ ہو ، تقویٰ کے اندر ان کی جڑیں ہوں، پاک اعمال سے وہ دعائیں ابھریں.چنانچہ حضرت نوح علیہ السلام نے مختلف حالات میں جو دعائیں کیں ان میں یہ ساری باتیں آجاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو تم بھی ویسی ہی کوششیں کرو.اپنی طاقتوں کے مطابق اپنی کوششوں کو انتہا تک پہنچا دو.پھر تمہارا حق ہو گا کہ تم اپنے رب کے حضور دعائیں کرو.پھر دیکھو اللہ تعالیٰ کس طرح ان کو قبول فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 264 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۳ء سیه ساری باتیں کہنے کے بعد پھر حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کیا قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّهُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَنْ لَمْ يَزِدْهُ مَالُهُ وَوَلَدُهُ إِلَّا خَسَاران کہ اے میرے اللہ! ان ساری باتوں کو سننے کے بعد انہوں نے انکار کر دیا ہے اور پیروی کے لئے اس کو چنا جس کو اس کے اپنے اموال اور اپنی اولادیں بھی فائدہ نہیں دے سکتیں یعنی ایسے دنیا داروں کو چنا ہے جن کی اولادوں اور جن کے اموال نے ان کو کبھی نفع نہیں پہنچایا ہمیشہ گھاٹوں کے سودے کرتے رہے ہیں.پس دیکھ بھال کر اور پوری طرح حالات پر نظر رکھتے ہوئے اس قوم نے اچھی چیز کوردکر دیا ہے اور بری چیز کو اختیار کر لیا ہے اور صرف یہی نہیں کہ اپنے لئے برا رستہ اختیار کیا ہے بلکہ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّاران یہ تو تیرے نام کو مٹانے کے لئے ہر قسم کے مکروں سے کام لے رہے ہیں.یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان حالات سے گزرنے کے بعد کیا بد دعا کرنی جائز ہے اور کیا اللہ تعالیٰ مومن بندوں سے یہی توقع رکھتا ہے کہ جب وہ اپنی کوشش کو انتہا تک پہنچا دیں تو پھر دعا میں بددعا کے سوا کچھ نہ کریں؟ حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا سے بعض لوگوں کو یہ غلط نہی ہوتی ہے جسے میں دور کرنا چاہتا ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ اس کے بعد حضرت نوح علیہ السلام نے قوم پر جو بد دعا کی وہ اپنے ارادہ سے نہیں کی بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کی.چنانچہ قرآن مجید میں ایک دوسری جگہ اس واقعہ کا ذکر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود حضرت نوح علیہ السلام کو خبر دی تھی کہ تم اپنی قوم کے لئے جو چاہو کر لوجتنی چاہو دعا ئیں کرو میں جو عالم الغیب خدا ہوں تمہیں بتا رہا ہوں کہ اس قوم کے مقدر میں اب کوئی ہدایت نہیں ، اب سوائے فاسق فاجر بچوں کے یہ قوم اور بچے پیدا نہیں کرسکتی.تب حضرت نوح علیہ السلام نے عرض کی کہ اے خدا! یہ دنیا پھر اس لئے تو پیدا نہیں کی گئی کہ یہاں فسق و فجور کو رواج دیا جائے اور منکرین اور ملحدین پیدا ہوں.اگر تیرے علم میں یہ بات آچکی ہے کہ اس قوم میں ایک بھی مومن پیدا نہیں ہوسکتا تو پھر ان کو ہلاک کر دے، اب یہ دنیا میں زندہ رہنے کے اہل نہیں رہے.یہ تھا اس دعا کا فلسفہ جو حضرت نوح علیہ السلام نے کی تھی.جہاں تک انبیاء علیہم السلام کی حالت کا تعلق ہے ان کے دل کی حالت تو یہ ہوتی ہے کہ اکثر اوقات سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ حکم دے وہ اس علم کے باوجود کہ قوم ہلاک ہونے والی ہے اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ قوم ہلاک ہو جائے.چنانچہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ میں جہاں نصیحت اور دعاؤں کا
خطبات طاہر جلد ۲ 265 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۳ء مضمون اکٹھا ہو جاتا ہے وہاں وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ میں بھی صبر اور دعا کا مضمون اکٹھا ہوجاتا ہے.انبیاء اتنے صبر کرنے والے ہوتے ہیں کہ انتہائی دکھ اور تکلیفیں اٹھانے کے باوجود بھی قوم کے لئے بددعا نہیں کرتے بلکہ ان کے لئے دعا ہی کرتے چلے جاتے ہیں.پس اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے جو حضرت نوح علیہ السلام کے واقعات سے بعض لوگوں کے دل میں پیدا ہوتی ہے میں دو مثالیں بیان کرتا ہوں.ایک حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مثال ہے اور دوسری حضرت لوط علیہ السلام کی.حضرت ابراہیم علیہ السلام کو جب قوم نے ہر طرح سے ناکام کرنے کی کوشش کی ، ان کو آگ میں بھی ڈالا گیا، ہر قسم کی مخالفتیں کی گئیں اور کہا گیا کہ ہم تجھے مٹا کر رکھ دیں گے.ان سب باتوں کے باوجود جب اللہ تعالیٰ نے خوشخبری دے کر فرشتے بھیجے اور بتایا کہ نہ صرف یہ کہ لوگ تجھے مٹا نہیں سکیں گے بلکہ ہم تیری نسل کو دنیا میں اس طرح پھیلا دیں گے کہ وہ ریت کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی طرح شمار نہیں کی جاسکے گی.یہ خوشخبری دینے کے بعد فرشتوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بتایا کہ ہم لوط کی قوم کی طرف جارہے ہیں تا کہ ان کو ان کی قوم کی ہلاکت کی خبر دیں.یہ تھی وہ خبر جس کا خلاصہ یہ تھا کہ ایک طرف خدا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ بتا رہا تھا کہ بنی نوع انسان کے مٹانے کا فیصلہ نہیں ہوا بلکہ تیری نسل اور تیرے تخم اور تیری ذریت سے اتنی عظیم الشان نسل دنیا میں پھیلائی جائے گی کہ ان کا شمار ممکن نہیں ہوگا.پھر اس تسلی کے بعد چھوٹی سی یہ خبر دی کہ لوظ کی قوم ہلاک ہونے والی ہے.یہ تمہید کیوں باندھی؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ گواہی دیتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے ہی نرم دل اور حد سے زیادہ رحم کرنے والے تھے.بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ان کا دل حد سے زیادہ پگھل جانے والا تھا لیکن باوجود اس کے کہ عظیم الشان خوشخبری کے پس منظر میں بڑے پیار سے خبر دی گئی تھی.جس طرح کوئی News Break کی جاتی ہے یعنی تسلی دے کر اور بہت سے دلا سے دینے کے بعد بتایا جاتا ہے کہ تا کہ صدمہ نہ پہنچے.اسی طرح یہاں بھی اس سے زیادہ عمدہ دلاسہ اور کیا ہوسکتا تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو قیامت تک کے لئے عظیم الشان نسلوں کی خوشخبری دی جارہی تھی.پھر بھی جب یہ خبر سنی کہ لوط کی قوم کے لوگ ہلاک کئے جائیں گے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام بے قرار ہو گئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جھگڑا کرنے لگے ، خدا سے بحث شروع کر دی کہ اے خدا! ان کو
خطبات طاہر جلد ۲ 266 خطبه جمعه ۶ رمئی ۱۹۸۳ء ہلاک نہ کر.قرآن کریم نے تو مختصر اذکر کیا ہے کہ بحث کی لیکن بائیل نے اس واقعہ کو کسی قدر تفصیل سے بیان کیا ہے.چنانچہ لکھا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ خبر ملی تو انہوں نے ترکیب سوچی کہ میں اپنے رب کو کس طرح مناؤں، کس طرح اس قوم کو تباہی سے بچاؤں.چنانچہ انہوں نے کہا کہ اے خدا! میں مانتا ہوں کہ قوم کی اکثریت گنہ گار ہوگئی ہے اور ہلاکت کے لائق ہے لیکن اس میں تیرے سو بندے تو ضرور نیک ہوں گے.تیری رحمت بڑی وسیع ہے، تو بہت ہی کرم کرنے والا ہے، کیا ان سو بندوں کے صدقے تو ساری قوم کو بخش نہیں سکتا.اللہ تعالیٰ نے جواب دیا کہ ہاں بخش سکتا ہوں، اگر سو آدمی نیک ہوں تو میں ضرور ان کی خاطر بخش دوں گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام گھبرا گئے کہ معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سو آدمی بھی نیک نہیں ہیں.پھر انہوں نے کہا اے خدا! اگر ان میں نوے آدمی نیک ہوں تو کیا پھر بھی قوم کو ہلاک کر دے گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہاں نوے بھی ہوں تب بھی قوم کو بخش دوں گا.حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سمجھا کہ یہ تو غلطی ہوگئی.میں نے قوم کے بارہ میں بہت ہی زیادہ حسن ظن سے کام لیا.اس پر انہوں نے اسی کی خاطر معاف کرنے کی گزارش کی اور خدا نے اسی کی خاطر بخشا بھی قبول فرمالیا.پھر ستر پر آئے ، ساٹھ تک گرے، پچاس پر اترے اور ہر دفعہ اللہ تعالیٰ یہ کہتا رہا کہ ہاں اگر پچاس بندے بھی نیک ہوں تو میں ضرور مان جاؤں گا، ان کی خاطر میں ساری قوم کو معاف کر دوں گا.یہاں تک کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دس پر آگئے اور جب اس سے نیچے جانے لگے تو پھر ان کا دل دہل گیا.انہوں نے کہا کہ اب اس بحث کو لمبا کرنا ٹھیک نہیں.معلوم ہوتا ہے کہ گنتی کے چند انسان ہیں جو نیک ہیں ان کے سوا ساری قوم گندی ہو چکی ہے.یہ ہے وہ بحث جو حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے خدا سے کر رہے تھے.(العنکبوت :۳۳٬۳۲) ( پیدائش باب ۸ آیات ۲۰-۳۳) پھر حضرت لوط علیہ السلام کی مثال بھی بڑی عجیب وغریب ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایک طرف تو ہم لوط کو یہ خبر دے رہے تھے کہ یہ قوم ہلاک ہونے والی ہے.اب فیصلہ کر دیا گیا ہے کہ تم اس شہر کو چھوڑ کر چلے جاؤ اور حضرت لوط علیہ السلام نے جب یہ خبر سنی تو ان کا یہ حال تھا کہ فرشتے جو خبر لے کر آئے تھے ان کی وجہ سے بہت تنگی محسوس کی اور اس بات کا برا منایا اور فرشتوں کے ساتھ جھگڑنے لگے کہ نہیں نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئے ، کچھ مہلت ملنی چاہئے.اور ادھر قوم کا یہ حال تھا کہ وہ فساد کرنے اور ان کو ہلاک کرنے کے لئے دوڑی چلی آرہی تھی.یہ بات بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 267 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۳ء ایسا نہیں تھا کہ لوظ کو غلطی لگی تھی اس کو پتہ نہیں تھا کہ قوم مجھ پر حملہ کر رہی ہے اس لئے ان کے لئے دعا کر رہا تھا بلکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا لوط کی قوم تو ایسی قوم تھی جو پہلے سے لوط کے ساتھ برا سلوک کرتی چلی آرہی تھی اب کوئی نئی بات وقوع میں نہیں آئی تھی.اس علم کے باوجود کہ قوم نے اب بھی مجھ سے برا سلوک کرنا ہے حضرت لوط علیہ السلام قوم کی بخشش کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے تھے.چنانچہ فرشتوں کے ساتھ بھی وہ باتیں ختم نہیں ہوئی تھیں کہ قوم حضرت لوط علیہ السلام کے دروازے کھٹکھٹانے لگی اور آپ کے مکان کے اردگرد دنگا فساد برپا کر دیا اور کہنے لگی کہ ہم دروازے تو ڑ کر اندر داخل ہو جائیں گے.یہ جو باہر سے آنے والے ہیں ان کو ہمارے سپر د کرو ہم ان سے جو بدسلوکی کرنا چاہتے ہیں کریں گے.اس حالت میں بھی حضرت لوط علیہ السلام کی زبان سے آخر وقت تک دعا ہی نکلی ہے اور اپنی قوم کے لئے اپنے رب سے بخشش کی استدعا ہی کرتے رہے ہیں.یہ ہیں وہ لوگ جو تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ اور تَوَاصَوْا بِالصَّبر کا حق ادا کرتے ہیں، حق پر قائم رہتے ہوئے حق بات کی نصیحت کرتے چلے جانا اور صبر کی بھی ایسی انتہا کر دکھانا کہ قوم ہلاکت کے در پے ہو اور مثانے کے لئے سارے ذرائع اختیار کرے اور ہلاکت کی تدبیروں پر عمل درآمد کروارہی ہو اس وقت بھی ان کے لئے دعائیں کی جائیں.یہ وہ مضمون ہے جو حضرت نوح ، حضرت ابراہیمؑ اور حضرت لوط علیہ السلام کے واقعات سے مختصراً میں نے بیان کیا ہے.جماعت احمدیہ کو میں یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو یہ واقعات محفوظ کئے یہ محض قصے کہانی کے طور پر تو محفوظ نہیں کئے.آنحضرت ﷺ کو اس طرح خبریں دی گئیں.آپ کو بتایا گیا کہ تو چونکہ ساری دنیا کے لئے رسول بنا کر بھیجا گیا ہے اس لئے سارے عالم کے رسولوں پر جو واقعات گزر گئے ہیں وہ تیری قوم سے گزرنے والے ہیں یعنی تیرے ساتھ تمام انبیاء کی کہانی دہرائی جائے گی اور اس میں اس بات کا ثبوت ہے کہ عالمی رسول آ گیا ہے.اگر صرف نوح کی کہانی دہرائی جاتی یا صرف ابراہیم کی کہانی دہرائی جاتی یا صرف لوڈ کی کہانی دہرائی جاتی تو کس طرح حضرت محمد مصطفی ملے کہہ سکتے تھے کہ میں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں.تمام جہانوں کے لئے رحمت بننے کے لئے ضروری ہے کہ تمام جہان کے دکھ برداشت کرنے کے لئے انسان کے اندر حوصلہ ہو.
خطبات طاہر جلد ۲ 268 خطبہ جمعہ ۶ رمئی ۱۹۸۳ء پس ایک طرف یہ فرمایا کہ اے رسول ! تجھے ہم نے سارے جہانوں کے لئے رحمت بنایا ہے اور دوسری طرف یہ بتایا کہ اے محمد ! ہم جانتے ہیں کہ ساری دنیا کے دکھوں کو برداشت کرنے کا تجھ کو حوصلہ ہے.پس اپنی قوم کو تیار کر کہ اس عظیم الشان مقام پر فائز ہونے کے لئے بے انتہا دکھوں کے راستوں سے تمہیں گزرنا پڑے گا.تم پر وہ کچھ بھی گزرے گا جو نوح کی قوم پر گزرگیا تمہیں وہ حالات بھی در پیش ہوں گے جو ابراہیم کی قوم کو درپیش تھے، تمہیں لوظ کی قوم کا زمانہ بھی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھنا پڑے گا غرضیکہ تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوموں سے جو دکھ اٹھائے تھے وہ تیری قوم کو جو سارے عالم کی اصلاح کے لئے پیدا کی گئی ہے برداشت کرنے پڑیں گے لیکن اس کے ساتھ خدا تعالیٰ یہ خوشخبری بھی دیتا ہے کہ وہ ساری رحمتیں جو کبھی ساری دنیا کے انسانوں پر نازل کی گئی تھیں اگر تم حق پر قائم رہے اور صبر پر قائم رہے تو ان سے بڑھ کر اے محمد ! میں تجھ پر اور تیرے ماننے والوں پر رحمتیں نازل کروں گا.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم ان رحمتوں کے وارث بنیں.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۷ اگست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 269 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء اللہ تعالی کی تیار کردہ کشتی ، جماعت احمد خطبه جمعه فرموده ۱۳ مئی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَأُوحِيَ إِلى نُوحٍ أَنَّهُ لَنْ يُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ إِلَّا مَنْ قَدْ مَنَ فَلَا تَبْتَبِسْ بِمَا كَانُوا يَفْعَلُوْنَ وَاصْعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِبُنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُونَ (هود: ۳۷ - ۳۸) پھر فرمایا: ج میں نے گزشتہ خطبہ جمعہ میں حضرت نوح علیہ السلام کی اس دعا کا بھی ذکر کیا تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا گویا آپ نے اپنی قوم کے لئے بالآخر بددعا کی اور اپنے رب سے عرض کی کہ ایک خدا! ان کا فروں میں سے کوئی ایک بھی باقی نہ رہے اور دنیا کو ان سے اور ان کی ناپاک پیدا ہونے والی نسلوں سے ہمیشہ کے لئے پاک کر دے.ساتھ ہی میں نے یہ بھی بیان کیا تھا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی یہ دعا در اصل بددعا نہیں تھی بلکہ منشاء الہی کے مطابق آپ کو پہلے سے خبر دے دی گئی تھی کہ اب اس قوم میں کوئی بھی ہدایت پانے والا موجود نہیں ہے اور چونکہ انسانی زندگی کے مقصد کے خلاف ہے کہ کوئی انسان خدا تعالیٰ کو کلیۂ بھلا کر ہمیشہ کے لئے اس سے کٹ جائے اور اس کی آئندہ نسلیں بھی نا پاک پیدا ہوں، اس لئے ان لوگوں کے لئے دعا کی اجازت ہی نہیں دی گئی تھی.
خطبات طاہر جلد ۲ 270 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء وہ آیات جن سے میں نے استدلال کیا تھا ان کی میں نے اس وقت تلاوت کی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے نوح کی طرف وحی کی کہ اب تیری قوم میں سے کوئی تجھ پر ایمان نہیں لائے گا سوائے اس کے جو پہلے ایمان لا چکا ہے.پس اب تو ان پر کسی قسم کا افسوس نہ کر ، حسرت نہ کر.جو ان کی تقدیر تھی وہ لکھی جاچکی ہے.یہ جو میں نے کہا دراصل ہر نبی اپنی قوم کے لئے دعا کرنا چاہتا ہے اور کسی حالت میں بھی بددعا نہیں کرنا چاہتا.اس کا ثبوت یہ ہے کہ اس کے معا بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَاصْعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَوَحْيِنَا وَلَا تُخَاطِنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا کہ اے نوح! ہم جانتے ہیں کہ اس خبر کے بعد بھی تیرا دل بے قرار ہوگا اور تو اپنی قوم کے لئے دعا کرنا چاہے گا مگر ہم تجھے اس کی اجازت نہیں دیتے.وَلَا تُخَاطِنِی فِی الَّذِينَ ظَلَمُوا میں اس قوم کے متعلق کچھ نہ کہہ، اس کے متعلق ہم سے ہرگز کوئی بات نہ کر جنہوں نے ظلم کیا ہے.إِنَّهُم مُّغْرَقُونَ کیونکہ ان کی یہ تقدیر کہ یہ غرق کئے جائیں گے لکھی گئی ہے، آخری ہو چکی ہے.اگر آپ ان آیات کا غور سے مطالعہ کریں تو ان میں اور بھی بہت سے گہرے سبق ملتے ہیں.فرمایا وَاصْعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنَا یہاں ایک ایسی کشتی کا ذکر ہے جس کے متعلق دو باتیں اس کو تمام دنیا میں بننے والی کشتیوں سے نمایاں اور ممتاز کر دیتی ہیں.پہلی یہ ہے کہ وَاصْنَعِ الْفُلْكَ باغیننا ہماری نگاہ کے سامنے، ہماری نظر کے سامنے یہ کشتی بنا.ایک مالک کو جو چیز بہت پیاری ہو وہ اسے اپنے سامنے بنواتا ہے لیکن نسبتا کم پیاری یا ایسی چیزیں جن کی اس کو خاص پر واہ نہیں ہوتی ان کی نگرانی ملازموں کے سپر د کر دیتا ہے اور بعض دوسروں کو بھی اس بارہ میں تاکید کر دتیا ہے.لیکن جس چیز سے اس کو غیر معمولی پیار ہو اور وہ پسند نہ کرے کہ اس کی بناوٹ میں ذراسی بھی کوئی چیز اس کی مرضی کے خلاف ہو جائے اس کو بنوانے کے لئے وہ خود کھڑا ہوتا ہے.بعض دفعہ بڑے بڑے قیمتی اوقات ا والے لوگ بھی مسلسل کھڑے ہو کر بعض چیزوں کو اپنے سامنے بنواتے ہیں.مثلاً جب تعلیم الاسلام کالج بنایا جانے لگا تو چونکہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ (اس وقت تو آپ خلیفتہ المسیح نہیں تھے ) کو تعلیم سے بڑا پیار تھا اور کالج سے بڑا پیار تھا اس لئے دن رات سردی ہوتی یا گرمی ، موسم کیسا بھی خراب ہوتا آپ اپنا سارا زائد وقت اس کی تعمیر کی نگرانی پر لگایا کرتے.خود چھت پر کھڑے ہو کر
خطبات طاہر جلد ۲ 271 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء اپنے سامنے مزدوروں کو ہدایات دیتے کہ فلاں کمی پوری کرو، فلاں نقص پیدا ہورہا ہے اس کو ٹھیک کرو.الغرض آپ نے کالج کی تعمیر پر بڑی محنت کی تھی.پس یہ ایک فطرتی تقاضا ہے کہ جس چیز سے انسان کو زیادہ پیار ہو اور جس کو وہ اہمیت دے اس پر وہ مسلسل نظر رکھتا ہے.اس لئے یہ ایک عجیب کشتی تھی کہ اس جیسی کشتی نہ کبھی پہلے بنی، نہ کبھی بعد میں ظاہری صورت میں بنائی گئی اس لئے کہ فرمایا وَاصْعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا اے نوح ! ہم اس کشتی کے اوپر مسلسل نگاہ رکھیں گے.وَوَحْيِنًا دوسری بات یہ بیان فرمائی کہ اے نوح! ہم نے تجھے جو ہدایت کی ہے اور جو کاریگری ہم نے تجھے سکھائی ہے اس کے مطابق یہ کشتی بنا.یہ کاریگری حضرت نوح نے کسی اور سے تو نہیں سیکھی تھی.کشتی بنانا تو آپ جانتے ہی نہیں تھے.پس ایک ایک کیل جوٹھونکا گیا اور ایک ایک میخ جو لگائی گئی اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ اس کو اس طرح رکھو اور اس طرح لگاؤ.الغرض یہ کشتی مسلسل اللہ تعالیٰ کی آنکھوں کے سامنے اور اس کی وحی کے تابع بنائی جارہی تھی.اس سے ایک یہ خیال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اتنی عظیم الشان اور مقدس کشتی جو اپنی نوع میں بے نظیر اور بے مثل ہو ، بعید نہیں کہ اس کا نشان آج کہیں مل جائے.نسبتا ادنی ادنی چیزیں بھی زمانے نے محفوظ رکھی ہیں.مٹی کے ڈھیر میں دبی ہوئی Fossilized شکلوں میں مختلف قوموں کی تاریخیں ملتی ہیں اور لکڑی کے بہت پرانے کام بھی ملتے ہیں.پس یہ کہنا کہ چونکہ کشتی لکڑی کی تھی اس لئے ضرور ضائع ہوگئی ہوگی ، یہ بھی درست نہیں.حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے پرانے زمانوں کی لکڑی کی بنی ہوئی چیزیں بھی اب دستیاب ہو چکی ہیں.چنانچہ یہ خیال بہت سے مفکرین اور محققین کو بھی آچکا ہے اور حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی تلاش مختلف جگہوں پر ہوتی رہی ہے.کوہ ارارات پر بھی اور بعض دوسری جگہوں پر بھی وقتا فوقتا بعض Expeditions یعنی مہمات اس کشتی کی تلاش میں بھیجی گئی ہیں.لیکن جن لوگوں نے اس تلاش کرنے کی کوشش کی ان کا جغرافیہ بائیبل پر مبنی تھا اور قرآن کریم جو جغرافیہ بیان کرتا ہے وہ اس سے مختلف ہے جو بائیبل بیان کرتی ہے، اس لئے طبعی بات ہے کہ ان کی ساری کوششیں ناکام ہوئی تھیں اور اب تک ناکام رہی ہیں.بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ کسی احمدی مہم کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ قرآن کریم کے بیان فرمودہ نقشے اور جغرافیے کے مطابق اس کشتی کو تلاش کرے اور وہ دستیاب ہو جائے.اگر یہ کشتی دستیاب ہو تو یہ ایک بے نظیر کشتی ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۲ 272 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء لیکن یہ تو بعد کی باتیں ہیں.میں ایک اور کشتی کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانی چاہتا ہوں.یہ کشتی بھی خدا کی آنکھوں کے سامنے بنائی گئی اور خدا تعالیٰ کی ہدایات کے تابع تشکیل دی گئی.وہ کشتی آپ ہیں یعنی جماعت احمدیہ.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بتایا کہ تو ایک کشتی تیار کر.وہ کشتی کیا ہے؟ وہی جماعت احمد یہ جس میں شامل ہونے کے ساتھ اللہ تعالیٰ یہ ضمانت دیتا ہے کہ تمام دنیا کی ہلاکتوں سے تم محفوظ کئے جاؤ گے.پس حضرت نوح علیہ السلام کی ظاہری لکڑی کی کشتی کی بھی بڑی قدر و قیمت ہے اور اس کو تلاش کرنے والے بھی یقینا بڑے خوش قسمت ہوں گے لیکن بہت زیادہ قیمتی ہے وہ کشتی جو حضرت نوح کی قوم کو نہیں بلکہ حضرت محمد مصطفی مے کی قوم کو عطا ہوئی جو پہلے ایک تعلیم کی شکل میں ظاہر ہوئی اور پھر اس تعلیم نے ایک جماعت کا روپ دھار لیا اور ایک جماعت کی شکل میں آج وہ دنیا میں موجود ہے اور دنیا کے ہر ملک میں اس کشتی کے نمونے بن رہے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ جتنے اعلیٰ کا ریگر نے کوئی چیز بنائی ہو اتنا ہی زیادہ ظلم ہوتا ہے اس میں دخل اندازی کرنا اور اس کی شکل کو بگاڑنا کیونکہ ایک کامل تصویر کو اگر ایک ادنی نقاش چھیڑے گا تو اس میں کوئی خوبصورتی پیدا نہیں کر سکے گا بلکہ بدصورتی پیدا کرے گا.ایک کامل صناع کی پیداوار میں اگر کوئی اناڑی دخل دے گا تو سوائے اس کے کہ اس کی اچھی بھلی صورت کو بگاڑ دے اور کوئی نتیجہ نہیں پیدا کر سکتا.پس یہ کشتی یعنی جماعت احمد یہ وہ مقدس کشتی ہے جس کے خدو خال خود اللہ تعالیٰ نے اپنی آنکھوں کے سامنے اور اپنے وحی کے مطابق تشکیل دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نظام کو ڈھالنے میں اپنی طرف سے ایک ذرہ بھی دخل نہیں دیا.آپ کی اپنی سوچ کا اس میں کوئی بھی دخل نہیں.کشتی نوح کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا، اللہ تعالیٰ بہت کھلے اور واضح طور پر فرماتا ہے کہ اس کی تمام تفاصیل ہم نے بتا ئیں اور اسے اپنی نگرانی میں بنوایا.پس اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ تعلیم جس نے جماعت احمدیہ کی شکل میں جسم اختیار کیا کشتی نوح ہے اور یقیناً یہ کشتی نوح ہے تو اس کا ہر پہلو، اس کا ہر ذرہ اور اس کی ہر نوک پلک اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع بنی ہے.اس لئے خوبصورت جماعت کے خدو خال کو زندہ اور جاری رکھیں.اگر تا بعین نے یا تبع تابعین نے ان نقوش میں فرق ڈال دیا اور تبدیلیاں پیدا کر دیں تو پہلے بھی اگر چہ جماعتیں یہ ظلم کرتی چلی آئی ہیں لیکن یہ بہت بڑا ظلم ہوگا کہ ایسی جماعت جس کو اللہ تعالیٰ نے کشتی نوح سے تشبیہ دی ہو اور نہایت
خطبات طاہر جلد ۲ 273 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء ہی پیار کے ساتھ اس کا ذکر قرآن کریم میں محفوظ فرمایا ہو، وہ دیکھتے دیکھتے دو تین نسلوں میں ہی اس کشتی کے نقوش بگاڑ دے.دوسرا پہلو اس میں یہ ہے کہ جتنے بڑے طوفان ہوں اتنی زیادہ احتیاط کے ساتھ کشتیاں بنائی جاتی ہیں اور بہت بڑے بڑے ماہر صناع اپنی ساری کوششیں اور اپنا سارا علم اس بات میں صرف کر دیتے ہیں کہ یہ کشتی یا یہ جہاز ہر قسم کے امکانی خطرے کا مقابلہ کر سکے.چنانچہ جنگ عظیم ثانی میں بھی ایسے جہاز بنائے گئے اور ان کے بارے میں بڑے بڑے دعاوی بھی کئے گئے.مثلاً انگلستان نے ایک ایسا جہاز بنایا جس کے متعلق یہ دعویٰ تھا کہ یہ ہر قسم کے امکانی خطرے کا مقابلہ کرنے کے قابل ہے لیکن جب وہ سمندر میں اتارا گیا تو پہلی دفعہ ہی ایسے طوفان سے اس کا سامنا ہوا کہ وہ پھر واپس نہیں آسکا حالانکہ اس زمانے کی سب سے Advanced ٹیکنالوجی اس کے پیچھے تھی اور دنیا کے چوٹی کے جہاز بنانے والوں نے اپنی قوتیں اس پر صرف کی تھیں.انسان تو نااہل ہوتا ہے.وہ اپنی لاعلمی کے نتیجے میں، اپنی جہالت میں بعض دفعہ بڑے دعاوی کر دیتا ہے لیکن عملاً ان دعاوی کو سچا ثابت نہیں کر دکھاتا لیکن جو کشتی اللہ تعالیٰ نے بنائی ہو اس کے متعلق یہ وہم بھی نہیں ہو سکتا کہ کوئی ایسا طوفان بھی آئے گا جو اس کشتی کو غرق کر سکے.پس اگر آپ اس کشتی کے خدو خال کی حفاظت کریں گے تو یہ خود آپ کی حفاظت کی ضمانت ہے.کتنی بڑی بڑی تحریکیں آپ کو مٹانے کے لئے چلی ہیں اور کس طرح ان کی لہریں آپ سے ٹکرا کر پاش پاش ہو گئیں اور ان کا کوئی وجود باقی نہیں رہا اور کس شان کے ساتھ مسیح موعود کے ہاتھوں کی بنی ہوئی یہ کشتی اسی طرح لہروں کے اوپر غلبے کے ساتھ تیرتی چلی گئی.پس اگر آپ نے اس مقدس صناع کی بنائی ہوئی ترکیبوں میں اپنے دماغ کی بیہودہ اور لغو ترکیبوں کو دخل نہ دینے دیا، اگر آپ نے بڑی حفاظت اور پیار کے ساتھ اور جاں سوزی کے ساتھ اس کے ادنیٰ سے ادنی نقوش کی بھی حفاظت کی تو یہ چند معمولی تحریکیں کیا چیز ہیں اگر وہ طوفان بھی اٹھے جسے عالمی طوفان نوح سے تشبیہ دی جاسکتی ہے، اگر ایسی لہریں بھی بلند ہوں جو پہاڑوں کو غرق کر دیں اور دنیا کی بڑی بڑی قوموں کو تباہ کر دیں تو میں آپ کو قرآن کریم کی تعلیم کی رو سے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام کی روشنی میں یہ خوشخبری دیتا ہوں کہ یہ وہ کشتی ہے جس کا دنیا کا کوئی طوفان بھی کچھ بگاڑ نہیں سکے گا.یہ لاز ما غالب آئے گی اور پہاڑوں کی بلندیوں پر بلند ہوگی.طوفان تھمیں
خطبات طاہر جلد ۲ 274 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء گے تو یہ نیچے اترے گی لیکن ایسا کوئی طوفان نہیں جو اس کشتی کو ڈبونے کے لئے پیدا کیا گیا ہو.لیکن شرط یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ کی بنائی ہوئی کشتی ہے، اسے انسانی ہاتھوں سے ناپاک اور گندہ نہ کریں.آيت وَاصْعِ الْفُلْكَ بِأَعْيُنِنَا وَ وَحْيِنًا....کادوسرا پہلو جو خاص طور پر توجہ کا مستحق ہے ، وہ ہے وَلَا تُخَاطِنِي فِي الَّذِينَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُّغْرَقُوْنَ کہ اے نوح! ظالم لوگوں کے متعلق مجھ سے خطاب نہ کر.حالانکہ دوسرے انبیاء کو اللہ تعالیٰ نے اپنی قوم کے لئے دعا کرنے سے منع نہیں فرمایا.نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو منع فرمایا نہ ہی حضرت لوط علیہ السلام کو.دعا کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ تو کہا کہ اب اس بات کو چھوڑ دو لیکن یہ اور طرح کا منع کرنا ہے.یہ تو فرمایا کہ ہم تمہیں خبر دے رہے ہیں لیکن یہ نہیں فرمایا کہ دعا کرنے کی اجازت نہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق تو یہاں تک فرمایا يُجَادِلُنَا فِي قَوْمِ لُوطٍ (ہود: ۷۵ ) کہ وہ ہمارے ساتھ جھگڑ رہا تھا.اب یہ جھگڑ نا بڑے پیار کا اظہار ہے.یہ مراد نہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو معلوم ہو چکا تھا کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو نا پسند نہیں کرتا اور پھر بھی وہ اصرار کر رہے تھے کہ خدا قوم لوط کو بچالے.اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اشارہ یا کنایہ بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کو دعا سے منع نہیں فرمایا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا خدا کی نگاہ میں جو مقام تھا اس کی وجہ سے یہ ناممکن تھا کہ آپ خدا کی طرف سے اشارہ پانے کے بعد کسی قسم کی گفتگو فرماتے.پس اللہ تعالیٰ کا حضرت ابراہیم علیہ السلام کو محبت اور پیار کے ساتھ مجادلے کا موقع دینا ایک بہت بڑی بات ہے.چنانچہ آپ نے قوم لوط کو ہلاکت سے بچانے کے سلسلہ میں خوب زور لگایا اور اللہ تعالیٰ نے بھی زور لگانے دیا کہ یہ دلیلیں بھی نکا لو، وہ دلیلیں بھی نکالو.اس قوم کو بچانے کے لئے جو بھی جو از تمہارے ذہن میں آسکتا ہے وہ پیش کر لو اور ہم تمہیں بتاتے چلے جائیں گے کہ یہ جواز بھی درست نہیں ، وہ جواز بھی درست نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے ابراہیم ! اس قوم کو بچانے کی اگر ایک بھی وجہ جواز ہوتی تو ہم اسے بچا لیتے.پھر منع بھی کیسے پیار سے فرمایا.یا بر هیم أَعْرِضْ عَنْ هَذَا إِنَّهُ قَدْ جَاءَ أَمْرُ رَبِّكَ (ہود: ۷۷) کہ اے ابراہیم! اب بس کر، جانے بھی دے، چھوڑ اس قصے کو اللہ کا حکم تو آبھی چکا ہے.سر پہ آ کھڑا ہے جس کو ٹالنے کی تو کوشش کر رہا ہے.اب دیر ہو چکی ہے، اب وقت نہیں رہا کیونکہ ہماری تقدیر ظاہر ہوگئی ہے.کیسا عظیم الشان پیار کا اظہار ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے اور آپ کی دعاؤں کو بھی کتنے پیار سے رد کیا ہے.ساتھ ہی
خطبات طاہر جلد ۲ 275 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء إِنَّ اِبْراهِيمَ لَعَلِيْمُ أَوَاهُ مُنِيْب ( بور ) کہہ کر آپ کی تعریف بھی کر دی اور آپ کی بڑی ہی دلجوئی فرمائی.اس کے برعکس حضرت نوح علیہ السلام کو اجازت ہی نہیں ملی کہ وہ اپنی قوم کے متعلق کوئی ذکر بھی کر سکیں.اس میں کیا حکمت تھی؟ اگر آپ غور کریں تو اس میں آپ کو بہت ہی گہرا اور بہت ہی عظیم الشان سبق نظر آئے گا.ایک ایسا سبق جو انسانیت کے مقام کو بہت بلند اور ارفع کر دیتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ السلام جس قوم کے لئے دعا کر رہے تھے اس کا آپ سے کوئی بھی رشتہ نہیں تھا.آپ کی اولاد میں سے کوئی ایک فرد بھی اس قوم میں شامل نہیں تھا جس کے لئے آپ بے قرار تھے، جس کو بچانے کے لئے آپ ترساں ولرزاں تھے اور عاجزانہ دعائیں کر رہے تھے.لیکن حضرت نوح علیہ السلام نے جس قوم کے لئے دعا کرنی تھی اس میں ان کے بیٹے نے بھی شامل ہونا تھا.اس لئے اس لطیف بات میں یہ بھی ایک انذار کا پہلو تھا کہ نوح کو اس لئے منع کیا جارہا ہے کہ انبیاء کی شان کے خلاف ہے کہ انکے ترحم میں نفس کی ادنی سی ملونی بھی شامل ہو.اللہ تعالیٰ دشمنوں کے لئے بھی دعائیں کرنے کی اجازت دے دیتا ہے لیکن چونکہ نبی کا اپنا بیٹا شامل ہو گیا ہے اس لئے فرمایا کہ اب تیرا یہ مقام نہیں رہا کہ تو اس کے لئے دعا کرے.اب اگر تو دعا کرے گا تو ہو سکتا ہے کہ کہنے والا یہ کہے اور سوچنے والا آئندہ یہ سوچے کہ نوح نے اس لئے دعا کی تھی کہ آپ کا اپنا بیٹا بھی شامل تھا.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے نوح! میں تجھ پر یہ داغ نہیں لگنے دینا چاہتا.تمام انبیاء کو دعا کی اجازت دوں گا لیکن تجھے یہ اجازت نہیں دوں گا کیوں کہ تیرے اپنے خون کا حصہ بھی ان لوگوں میں شامل ہو گیا ہے جن پر عذاب آنے والا ہے.اللہ تعالیٰ کا حضرت نوح علیہ السلام کو دعا سے منع فرمانا جس غرض سے تھا اس کو کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَقَالَ ارْكَبُوا فِيهَا بِسمِ اللهِ مَجْرَبَهَا وَ مُرْسُهَا إِنَّ رَبِّ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ وَهِيَ تَجْرِى بِهِمُ فِى مَوْجٍ كَالْجِبَالِ وَنَادَى نُوحٌ ابْنَهُ وَكَانَ فِي مَعْزِلٍ تُيْنَيَّ ارْكَبْ مَّعَنَا وَلَا تَكُنْ مَّعَ الْكَفِرِينَ قَالَ سَاوِى إِلَى جَبَلٍ يَعْصِمُنِي مِنَ الْمَاءِ
خطبات طاہر جلد ۲ 276 خطبه جمعه ۳ ارمئی ۱۹۸۳ء قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ إِلَّا مَنْ رَّحِمَ ۚ وَحَالَ بَيْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِيْنَ وَقِيلَ يَاَرْضُ ابْلَعِي مَاءَكِ وَيُسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءِ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُودِي وَقِيلَ بُعْدًا لِّلْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَنَادَى نُوحٌ رَّبَّهُ فَقَالَ رَبِّ إِنَّ ابْنِي مِنْ أَهْلِي وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ وَأَنْتَ أَحْكَمُ الْحَكِمِينَ قَالَ يُنُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صَالِحٍ فَلَا تَسْلُنِ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ إِنِّي أَعِظُكَ أَنْ تَكُونَ مِنَ الْجَهلِينَ (هود: ۴۲ - ۴۷) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت نوح نے کہا کہ اس کشتی میں سوار ہو جاؤ.یہ اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو فرمایا کہ اس کشتی میں سوار ہو جاؤ.بِسمِ اللهِ مَجْرِبَهَا وَمُرْسَهَا یہ کہتے ہوئے کہ اللہ ہی کے سپرد ہے، اسی کے نام کے ساتھ اس کا جاری ہونا اور اس کا بلند ہونا.اِنَّ رَبِّي لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ میرا رب تو بہت بخشش کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور یہ ایسی کشتی تھی جو پہاڑوں کی طرح بلند موجوں پر سوار تھی اور وہ موجیں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی تھیں.اچا نک نوح نے کیا دیکھا کہ اس کا بیٹا ایک ایسی جگہ کھڑا ہے جہاں قریب تھا کہ موجیں اس کو جالیتیں.آپ نے اسے دیکھ کر بے قراری سے آواز دی اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہو جا اور کافروں میں سے نہ ہو.نوح کے بیٹے نے جواب دیا میں تو پہاڑ پر پناہ لے لوں گا.یہ طوفان کیا چیز ہے.ایک سے ایک بلند پہاڑ میرے سامنے ہے.جوں جوں موجیں بڑھتی چلی جائیں گی میں بھی بلند تر ہوتا جاؤں گا.معلوم ہوتا ہے وہ ایسا علاقہ تھا جس کے اردگرد پہاڑ بھی تھے اور ایک کے بعد دوسری بلند چوٹی تھی.جب یہ واقعہ ہوا اس وقت نسبتاً مچلی جگہ پہ تھے.بہر حال جب حضرت نوح نے بیٹے کو پکارا تو اس نے جواب دیا یہاں تو پہاڑوں کا سلسلہ ہے.میں ایک کے بعد دوسرے پہاڑ کی طرف رجوع کرتا چلا جاؤں گا.قَالَ لَا عَاصِمَ الْيَوْمَ مِنْ أَمْرِ اللهِ الَّا مَنْ رَّحِمَ حضرت نوح نے جواب دیا.اے میرے بیٹے ! آج اللہ کے عذاب سے کوئی پناہ نہیں اگر ہے تو اس کشتی میں ہے اس کے سوا آج روئے زمین پر کوئی جگہ نہیں جو کسی انسان
خطبات طاہر جلد ۲ 277 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء کو خدا کے فیصلے سے بچا سکے.اور ابھی آپ یہ جواب دے ہی رہے تھے کہ ایک ایسی موج اٹھی جس نے آپ کے بیٹے کو نظر سے غائب کر دیا اور پھر اس کو دوبارہ نہیں دیکھا گیا کیونکہ وہ غرق ہونے والوں میں سے ہو گیا.پس یہ واقعہ ہونے والا تھا جس کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح کو خطاب کرنے سے منع فرما دیا.اس کے بعد خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس وقت تک حضرت نوح نے کلام نہیں کیا جب تک کہ یہ سارا طوفان گزرنہیں گیا.بعض لوگ غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ ادھر یہ واقعہ ہوا ادھر حضرت نوح نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ اے خدا! تو نے اس کو ہلاک کر دیا حالانکہ یہ تو میرا بیٹا تھا لیکن یہ بات ہرگز درست نہیں چنانچہ فرماتا ہے وَقِيلَ يَاَرْضُ ابْلَعِى مَاءَكِ وَلِسَمَاءُ أَقْلِعِي وَغِيضَ الْمَاءِ وَقُضِيَ الْأَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَى الْجُوْدِي وَقِيلَ بُعْدَ اللْقَوْمِ الظَّلِمِينَ (بود ۳۵) کہ خدا نے زمین کو حکم دیا کہ وہ اپنا پانی جذب کرلے اور آسمان کو فرمایا کہ وہ تھم جائے.پھر پانی نیچے ہوا اور اس کے بعد کشتی پہاڑ کی چوٹی پر جالگی.اس کے بعد حضرت نوح کے خدا سے کلام کا ذکر ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس سارے عرصے میں حضرت نوح کو اپنے بیٹے کے مرنے کا دکھ ضرور تھا لیکن اس کی موت کا استناد کھ نہیں جتنا اس تعجب کی بنا پر تھا کہ اللہ تعالیٰ نے تو فرمایا تھا کہ تیرے اہل کو میں نجات بخشوں گا پھر یہ کیا واقعہ ہو گیا ؟ پس در اصل یہ دکھ نہیں تھا کہ میرا بیٹا کیوں ہلاک ہوا بلکہ یہ دکھ تھا کہ میری پیشگوئی کیوں پوری نہیں ہوئی.خدا کا کلام جو مجھ سے ہوا تھا میں نے اس کو سمجھنے میں غلطی کی ہے یا یہ کیا واقعہ ہوا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو واضح خبر دی تھی کہ میں تیری اولاد کو بچالوں گا اور میرا بیٹا تو میری اولادتھی پھر وہ میری نظروں کے سامنے دیکھتے دیکھتے کیوں ہلاک ہو گیا.لیکن یہ عرض اس وقت کی جب یہ سارا معاملہ گزر گیا.ورنہ اس وقت تو انبیاء کی شان کے خلاف ہے کہ اشارہ یا کنایی بھی ایسا کلام منہ پر لائیں جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے کلام پر کسی معنی میں بھی کوئی حرف آئے.پس حضرت نوح علیہ السلام نے بڑی خاموشی اور صبر کے ساتھ بیٹے کی ہلاکت کو برداشت کیا اور کوئی لفظ منہ پر نہیں لائے اور جب پوچھا ہے تو یہ نہیں کہا کہ بیٹا کیوں مرا ہے اس کو تو زندہ رہنا چاہئے تھا بلکہ یہ عرض کی کہ اے خدا ! وہ تو میری اولاد تھی.وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ (هود: ۴۶) اور تیرا وعدہ بھی سچا ہے.پھر یہ کیا معمہ ہو گیا اور یہ کیا واقعہ ہو گیا کہ تیرے وعدے کے باوجود بیٹا ہلاک ہو گیا؟ اس لئے
خطبات طاہر جلد ۲ 278 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء اس طرز بیان میں کوئی گستاخی نہیں ہے.بڑی ہی عاجزی کا اظہار ہے کہ میری انسانی عقل میری بشری نظر اس معمے کوحل نہیں کر سکتی.اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ معمہ کھولا اور فرمایا نُوحُ إِنَّهُ لَيْسَ مِنْ أَهْلِكَ إِنَّهُ عَمَلٌ غَيْرُ صالح کہ اے نوح ! وہ تیرا بیٹا کس طرح ہو گیا ، وہ تیرے اہل بیت میں سے نہیں تھا اس لئے کہ اس کے عمل گندے تھے.چنانچہ ہمیشہ کے لئے اہل بیت کی تعریف فرما دی.فرمایا کوئی ظاہری رشتہ اور ظاہری خون کا تعلق کسی کو نہیں بچا سکے گا.ادنیٰ لوگوں کو بھی نہیں بچا سکے گا کیونکہ زیادہ سے زیادہ اظہار محبت اور پیار اللہ تعالیٰ نبی سے کر سکتا ہے.پس نبی کا ظاہری خون بھی اس کی ایسی اولادکو نہیں بچا سکا جس نے اس خون کی قدر نہیں کی ، اس کے پیغام کی حفاظت نہیں کی اور اپنے اعمال صالحہ میں نبی کے اعمال صالحہ کو جاری نہیں کیا اس لئے جو روحانی طور پر کاٹا گیا وہ جسمانی طور پر بھی کاٹا گیا.یہ ایک اور سبق ہے جس کی طرف میں جماعت کو توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ کشتی نوح میں حفاظت کی خوشخبری تو ضرور ہے، اہل خاندان کے لئے بھی اور ان کے لئے بھی جو خاندان سے ظاہری تعلق تو نہیں رکھتے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل کر کے اس کشتی میں سوار ہورہے ہیں لیکن یہ ضمانت اس وقت تک ہے جب تک اعمال صالحہ موجود رہیں گے.جب بھی اعمال صالحہ میں کمزوری واقع ہوئی تو وہ خدا جس نے حضرت نوح کے بیٹے کو ہلاکت سے نہیں بچایا وہ آئندہ بھی کبھی نہیں بچائے گا ورنہ وہ ہمیشہ کے لئے غیر منصف خدا سمجھا جائے گا.یہ ممکن نہیں ہے کہ حضرت نوح کے زمانے میں تو خدا نے نبی کے ظاہری بیٹے کو بچانے سے انکار کر دیا لیکن بعد کے کسی زمانے میں ظاہری اولاد کی قدر کرتے ہوئے اسے اس لئے بچالیا کہ کسی پیارے کی اولاد ہے.کیا قیامت کے دن حضرت نوح یہ سوال نہیں کر سکیں گے کہ اے خدا! مجھے بھی تو تو نے ہی نبی بنایا تھا مجھ سے بھی تو تو نے ہی پیار کا اظہار کیا تھا ایسا پیار کہ میری خاطر ساری دنیا کو ہلاک کر دیا اور کوئی پرواہ نہیں کی ، تو میرے بیٹے کو کیوں معاف نہیں کیا.جبکہ بعد میں آنے والوں کے بیٹوں کو معاف کیا گیا.ایسا کبھی نہیں ہوسکتا.اللہ تعالیٰ کے انصاف پر یہ ایک ایسا الزام ہے جو کبھی نہیں لگایا جاسکتا.اس لئے جہاں امن کا مقام ہے وہاں خوف کا بھی مقام ہے.جہاں خوشخبری سے ہمارے دل بلیوں اچھل رہے ہیں کہ تمام دنیا کے طوفان مل کر بھی ہمیں ہلاک نہیں کر سکیں گے وہاں یہ خوف بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 279 خطبه جمعه ۱۳ رمئی ۱۹۸۳ء دامن گیر رہنا چاہئے اور تقویٰ کے ساتھ استغفار کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہئے.خدا نہ کرے ہم میں سے کچھ ایسے لوگ ہوں جو بظاہر اس کشتی میں سوار ہوں لیکن حقیقت میں اس کشتی سے ان کا کوئی تعلق نہ ہو.جو بظا ہر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اہل ہوں اور جماعت کی طرف منسوب ہو رہے ہوں لیکن جب طوفان آئیں تو وہ ان کو الگ کر دیں اور کھوٹے اور کھرے میں ایسی تمیز ہو جائے کہ اس وقت معلوم ہو کہ کون احمدی تھا اور کون احمدی نہیں تھا.خدا ایسا وقت نہ لائے کہ ہم میں سے کچھ ، ہمارے پیاروں میں سے کچھ، ہمارے قریبیوں میں سے کچھ ایسے طوفان میں غرق کئے جائیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ کامل وفا کے ساتھ ، پوری احتیاط کے ساتھ ، پورے تقویٰ کے ساتھ مستقل مزاجی کے ساتھ، حق کے ساتھ اور صبر کے ساتھ اس کشتی کی حفاظت کرتے چلے جائیں، جو آج تمام دنیا کو بچانے کے لئے پیدا کی گئی ہے.(روزنامه الفضل ربوه ۴ رستمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 281 خطبه جمعه ۲۰ مئی ۱۹۸۳ء قرآن کریم کا حیرت انگیز انداز نصیحت (خطبه جمعه فرموده ۲۰ مئی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: اَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُا الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَةً وَالَّذِينَ مِنْ بَعْدِهِمْ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا اللهُ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَتِ فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ وَقَالُوا إِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِهِ وَإِنَّا لَفِي شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُوْنَنَا إِلَيْهِ مُرِيبٍ قَالَتْ رُسُلُهُمْ أَفِي اللَّهِ شَكٍّ فَاطِرِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُمُ مِنْ ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى قَالُوا إِنْ اَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا تُرِيدُونَ أَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ أَبَاؤُنَا فَأْتُوْنَا بِسُلْطَنٍ مُّبِينٍ قَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُم وَلَكِنَّ اللهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَمَا كَانَ لَنَا أَنْ نَّأْتِيَكُمْ بِسُلْطن إِلَّا بِإِذْنِ اللَّهِ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ وَمَا لَنَا أَلَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللهِ وَقَدْ هَدْنَا سُبُلَنَا وَلَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُوْنَا وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُوْنَ
خطبات طاہر جلد ۲ 282 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء وَقَالَ الَّذِيْنَ كَفَرُ والِرُسُلِهِمْ لَنُخْرِ جَنَّكُمْ مِنْ أَرْضِنَا اَوْ لَتَعُودُنَّ فِي مِلَّتِنَا فَأَوْحَى إِلَيْهِمْ رَبُّهُمْ لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِينَ وَلَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِهِمْ ۖ ذَلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيدِ وَاسْتَفْتَحُوا وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدة (ابراہیم : ۱۰-۱۶) اور پھر فرمایا: قرآن کریم کا یہ نہایت ہی پیارا اسلوب ہے کہ از منہ گزشتہ کے وہ قصے دہراتا ہے جن سے اولوالالباب نصیحت پکڑتے ہیں اور مومن کو مجادلہ کا ایسا پاکیزہ طریق سکھاتا ہے جس میں کوئی کج بحثی نہیں، کوئی جبر نہیں ، ایسی صاف اور پاکیزہ گفتگو ہے کہ اس کے نتیجہ میں اگر سنے والا متاثر ہو اور اللہ تعالیٰ کا خوف کرتے ہوئے تسلیم کرے تو اس کے لئے بہتر ہے.اور اگر وہ نہ سننے پر اصرار کرے یا تکبر اور نخوت سے کام لے تو مومن کو اس بات کی بھی اجازت نہیں کہ اس کے مقابلہ میں کج بحثی سے کام لے کجا یہ کہ دین کے حق میں جبر کو استعمال کرے.بڑے ہی ظالم ہیں وہ لوگ جو حضرت محمد مصطفی عملے اور ان لوگوں پر جو آپ کے ساتھ تھے جبر کا الزام لگاتے ہیں.کیونکہ جبر کی تعلیم دینے والوں کو یا ان کو جن کو خدا تعالیٰ کی طرف سے جبر کی تعلیم دی گئی ہو اس قسم کے واقعات تو نہیں سنائے جاتے جیسے قرآن کریم سناتا ہے.ان کا تو مزاج ہی مختلف ہوتا ہے.ان کے اندر ایک گہرا غم اور سوز پایا جاتا ہے.از منہ گزشتہ کی ایسی دردناک کہانیاں ہیں کہ ان کو سن کر دل پگھلنے لگتے ہیں اور قرآن کریم بالآخر یہ نصیحت کرتا ہے کہ صبر کے سوا ہم تمہیں اور کوئی تعلیم نہیں دیتے.جس طرح پہلوں نے صبر کیا تم بھی صبر کرنا تمہیں جتنے بھی دکھ دیئے جائیں سوائے صبر کے تمہیں اجازت ہی نہیں کہ کوئی اور طریق مقابلہ کا اختیار کرو اور جب تم صبر کرو گے تو صبر کے ساتھ پھر ہماری طرف جھکنا، ہم سے التجا ئیں کرنا اور ہم سے فتح مانگنا.فرمایا پھر انہوں نے ہم سے فتح مانگی اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو غالب کر دیا یا ان قوموں کو غالب کر دیا جن کا ذکر بیان کیا جا رہا ہے.یہ ہے خلاصہ ان آیات کے ترجمہ کا جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں.اب میں آیات کو الگ الگ لے کر ان کے متعلق کچھ تفصیل بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
خطبات طاہر جلد ۲ 283 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء الَمْ يَأْتِكُمْ نَبَوا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ اے وہ لوگو جومحمد مصطفی عملے کے مقابلے پر نکلے ہو، اے تکبر اور نخوت سے کام لینے والو اور اے اباء کرنے والو! کیا تمہیں ان قوموں کی خبریں نہیں پہنچیں جو قوم نوح تھی اور قوم عاد تھی اور قوم خمود تھی اور ان قوموں کی بھی جوان کے بعد آنے والی تھیں، ان کی تفاصیل کا اللہ تعالیٰ کے سوا اور کسی کو علم نہیں لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان سب کے پاس اللہ تعالیٰ کے رسول کھلے کھلے نشانات لے کر آئے فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ لیکن انہوں نے رسولوں کے پیغام کو رد کر دیا.فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ کا محاورہ عربی میں انکار کرنے اور کسی بات کو رد کرنے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے لیکن ہر موقع اور محل پر یہ محاورہ اطلاق نہیں پاتا بلکہ ایک خاص قسم کی صورتحال کے لئے یہ طرز بیان اختیار کی جاتی ہے.کسی پیغام کو رد کرنے والے مختلف قسم کے لوگ ہو سکتے ہیں، کچھ وہ جو بڑے ادب اور احترام کے ساتھ معذرت کرتے ہوئے رد کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ آپ کا پیغام سر آنکھوں پر لیکن ہمیں استطاعت نہیں، ہمیں توفیق نہیں، ہم مجبور ہیں اس لئے ہمیں چھوڑ دو.کچھ وہ ہیں جو برابری پر رد کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں ٹھیک ہے ہم نے تمہارا پیغام سن لیا لیکن ہم اس کو قبول نہیں کر سکتے.کچھ وہ ہیں جو تکبر اور نخوت کے ساتھ رد کرتے ہیں.یہ محاورہ ان کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اس کا ایسا پیارا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ تکبر کرنے والوں میں سے بھی وہ جو انتہا کے متکبرین ہیں.فَرَدُّوا أَيْدِيَهُمْ فِي أَفْوَاهِهِمْ کا مطلب یہ ہے کہ بات سن رہے ہیں اور انگلیاں منہ میں دانتوں تلے دبائی ہوئی ہیں.اس تکبر کے اظہار کے لئے کہ ہاں تم کہتے چلے جاؤ، ہم تو تمہیں اس لائق بھی نہیں سمجھتے کہ تمہارے جواب میں دو حرف ہی کہہ دیں.منہ سے انگلی نکالنے کی توفق نہیں پاتے اور یہ اظہار تکبر کا ایک عجیب ذریعہ ہے جس کو ہم آج تک دنیا میں رائج دیکھتے ہیں.انسان ایک ذلیل سی چیز کو اوپر سے نیچے کی طرف بڑی حقارت سے دیکھ رہا ہے.جیسے زمین کا کوئی کیڑا ہو اور انگلیاں دانتوں تلے دبائی ہوئی ہیں اور کہتا ہے ٹھیک ہے جو تم نے کہنا ہے وہ کہ لو اور اس تذلیل کے بعد جو اپنی طرف سے انہوں نے کر لی پھر آخر پر یہ نتیجہ نکالتے ہیں.اِنَّا كَفَرْنَا بِمَا أُرْسِلْتُمْ بِہ ہم کھلا کھلا انکار کرتے ہیں اس چیز کا جو تمہارے پاس بھیجی گئی ہے یا جس چیز کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو.وَإِنَّا لَفِی شَكٍّ مِمَّا تَدْعُونَنَا إِلَيْهِ هُرِیب اور ہم اس بات میں شک کرتے ہیں جس کی طرف تم ہمیں بلاتے ہو.ہم بہت ہی شک کرنے والے ہیں اس لئے اس گفتگو کو چھوڑ دو.
خطبات طاہر جلد ۲ 284 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء یہ وہ نہایت ہی متکبرانہ طرز عمل ہے جو قرآن کریم کے مطابق آنحضور ﷺ سے قبل کے انبیاء سے لوگوں نے اختیار کیا.مخاطب اول طور پر کفار مکہ ہیں اور مراد وہ سارے لوگ ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کا انکار کرنے والے تھے یا آئندہ آنے والے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے دیکھو! یہ پہلے ہی ہو چکا ہے تم بڑی حقارت سے حضرت محمد مصطفی علی کے پیغام کو دیکھ رہے ہو اور تکبر کے سارے ذرائع اختیار کر رہے ہو.تم سمجھتے ہو تم بڑی بڑی قو میں ہو اور بڑی عظمتوں کے مالک ہو اور محمد مصطفی میے پر جولوگ حقیقی ایمان لانے والے اور سچے مومنین اور آپ سے پیار کرنے والے ہیں وہ تمہارے مقابل پر تعداد میں ایک معمولی حیثیت بھی نہیں رکھتے.اگر یہ نہ ہوتا تو اس تکبر سے تم باتیں نہ کرتے لیکن ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ اس سے پہلے یہ واقعات رونما ہو چکے ہیں.تم نئے نہیں ہو اور اس سے پہلے پہلے ان قوموں کے انجام بھی گزر چکے ہیں جنہوں نے اپنے وقت کے نبی کا انکار کیا لیکن جہاں تک ان کمزوروں اور غریبوں اور نہتوں کا تعلق ہے جن کے ساتھ یہ تذلیل کا سلوک کیا گیا ان کا جواب بالکل اور تھا.انہوں نے غصہ نہیں کیا ، انہوں نے نفرت نہیں کی ، انہوں نے مقابل پرسختی کا سختی سے جواب نہیں دیا بلکہ سیدھی سادی اور صاف باتیں کہیں اور قول سدید سے نہیں ہے.ان رسولوں نے جو مختلف قوموں کی طرف بھیجے گئے قرآن کریم کے مطابق انہوں نے لوگوں سے یہ کہا فِي اللهِ شَكٍّ فَاطِرِ السَّمَوتِ تم عجیب باتیں کرتے ہو، ہم تو تمہیں خدا کی طرف بلا رہے ہیں.ہم اپنی طرف تو تمہیں نہیں بلا ر ہے.ہم تو ان نیکیوں کی طرف بلا رہے ہیں جو خدا کی ذات سے وابستہ ہیں اور ان نیک کاموں کی طرف بلا رہے ہیں جو ہمیشہ سے خدا والے کرتے چلے آئے ہیں.ہم تمہیں ایسا کوئی کام نہیں بتاتے جو خدا کے سوا کسی اور وجود کی طرف منسوب ہوسکتا ہو.ہماری تعلیم بتاتی ہے کہ ہم تمہیں اللہ کی طرف بلا رہے ہیں.جب تم یہ کہتے ہو کہ ہم شک کرتے ہیں تو کیا خدا کی ذات میں شک کرتے ہو، کیا ان نیکیوں میں شک کرتے ہو جن کی طرف ہم تمہیں بلا ر ہے ہیں.ہم تمہیں اس خدا کی طرف بلا رہے ہیں جس نے آسمانوں کو بھی پیدا کیا اور زمین کو بھی پیدا کیا.وہ تمہیں بلاتا ہے ہم نہیں بلاتے اور وہ بلاتا ہے اس غرض سے کہ تمہاری بخشش فرمائے.اس میں یہ بھی بیان فرما دیا کہ جس وقت رسول آتے ہیں اور قوم کو خدا کی طرف بلاتے ہیں، وہ انتہائی گنہگار ہو چکی ہوتی ہے.ہر قسم کے گناہوں میں ملوث ہو چکی ہوتی ہے اور سوائے اس کے کہ اللہ تعالیٰ رحمت کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۲ 285 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء ان پر رجوع فرمائے اور غیر معمولی فضل نازل فرمائے ایسی قوم کی نجات کا کوئی ذریعہ باقی نہیں رہتا.پس انبیاء ان کو سمجھاتے ہیں کہ تم اپنا حال کیوں نہیں دیکھتے.تم سر سے پاؤں تک گنا ہوں اور گندگی میں ملوث ہو چکے ہو.خدا تمہیں بلا رہا ہے اس لئے کہ تمہاری مغفرت فرمائے اور تم یہ جواب دے رہے ہو کہ ہم شک کر رہے ہیں.ہمیں تعجب ہے کہ تم کیا با تیں کرتے ہو.پھر فرمایا وَ يُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى.یہ دوسرا پیغام ہے.اس میں بہت ہی گہرا انداز ہے اور بہت ہی وسیع انداز ہے.جواب میں بظاہر کوئی دھمکی نہیں ہے.ایسے حیرت انگیز طریق پر اور ایسی ملائمت کے ساتھ بات کی گئی ہے کہ اس میں سننے والے کے لئے بظاہر غصہ کی کوئی وجہ نہیں ہے.لیکن آپ اس مضمون پر غور کریں تو اس میں اتنا گہرا انداز ہے کہ صاحب عقل اور صاحب رشد انسان کو یہ سن کر لرز جانا چاہئے.ان رسولوں نے جواب دیا کہ تمہیں بخشش کی طرف بلایا جا رہا ہے.تمہاری بخشش نہ کی گئی تو تمہاری صف لپیٹ دی جائے گی اس لئے کہ تم اس انجام کو پہنچ چکے ہو جس کے بعد قو میں زندہ نہیں رکھی جاسکتیں وہ لازماً ہلاک کر دی جاتی ہیں اس لئے خدا تمہیں بلا رہا ہے.فرمایا وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى یہ تمہیں آخری مہلت ہے تا کہ تمہاری وہ مدت جس تک تم باقی رکھے جاسکتے ہو اس کے آخری کنارے تک تم پہنچ جاؤ نہ یہ کہ پہلے کنارے پر پکڑے جاؤ.اللہ تعالیٰ نے قوموں کی جو عمریں اور مدتیں مقررفرمائی ہیں ان کے متعلق بعض آیات سے پتہ ملتا ہے کہ جب وقت آجاتا ہے تو نہ ان کو چھوٹا کیا جاسکتا ہے نہ ان کو لمبا کیا جاسکتا ہے.(الاعراف: ۳۵) سوال یہ ہے کہ کیا یہ آیت اس مضمون کے منافی ہے، کیا ان دونوں مضامین میں تضاد ہے.ایک طرف تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب قوموں کا وقت آجاتا ہے تو پھر کوئی ڈھیل نہیں دی جاتی.نہ ایک لمحہ کے لئے اس وقت کو آگے کیا جاسکتا ہے نہ ایک لمحہ کے لئے پیچھے کھینچا جا سکتا ہے.اور یہاں فرماتا ہے وَيُؤَخِّرَ كُم إِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّی اگر تم خدا کی آواز پر کان دھرو گے اور بخشش کی طرف دوڑے چلے آؤ گے تو اللہ وعدہ کرتا ہے کہ وَيُؤَخِّرَكُمْ إِلَى أَجَلٍ مُّسَمًّى تمہاری اجل مسمی تک تمہیں آگے بڑھا دے گا.معلوم یہ ہوا کہ اجل مسمی سے مراد ایک پر لا کنارا بھی ہے اور اجل مسٹمی سے مراد ایک ادھر کا کنارا بھی ہے.وہ قومیں جو بیمار ہو جاتی ہیں وہ اپنی مدت معینہ کے پہلے کنارے پر ہلاک کی جاتی ہیں اور وہ قو میں جو صحت مند ہوتی ہیں وہ آخر وقت تک عمر پاتی ہیں.یہاں تک کہ اجل مسمی کا آخری کنارا
خطبات طاہر جلد ۲ 286 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء آجائے.یہی حال ہم انفرادی زندگی میں بھی دیکھتے ہیں.کہا جاتا ہے کہ ہر انسان کی زندگی مقدر ہے، ہر انسان اجل مسمی لے کر آیا ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا جاتا ہے لكل داء دواء صحیح مسلم کتاب السلام باب لكل داء دواء) ہر بیماری کی شفا بھی ہے.دعائیں بھی مانگو، علاج بھی کرو، ہر ممکن کوشش کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہاری زندگی کولمبا فرمادے.معلوم ہوتا ہے ہر انسان کے لئے Inherent یعنی ودیعت کی ہوئی کچھ عمر ہے.وہ اپنی زندگی کو جس طرح چاہے استعمال کرے.اسی طرح کا جواب اس کی عمر کی صورت میں ظاہر ہوگا.اگر وہ اپنی عمر عزیز کو ضائع کرے گا اور سرکشی سے کام لے گا اور خدا تعالیٰ کے بیان فرمودہ قوانین کے اندر نہیں رہے گا اور اعتدا کرے گا تو وہ مدت معینہ جو اس کے لئے مقرر ہے اس کے پہلے کنارے پر وہ پکڑا جائے گا اور اگر اس نے ان سب تقاضوں کو پورا کیا تو پھر وہ آخری مدت تک پہنچایا جائے گا.چنانچہ یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لکھا ہے کہ خدمت خلق لمبی عمر کا راز ہے.(البدر جلد ۲ نمبر ۱۸ مورخہ ۲ مئی ۱۹۰۳ء) اگر عمر کی تعیین ایک لمحہ، ایک ثانیہ سے تعلق رکھتی ہے تو پھر یہ بات ہی بے معنی بن جاتی ہے.اس سے لازماً یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو نہم قرآن عطا فر مایا گیا تھا اس سے آپ نے یہ راز پایا کہ بظاہر عمر مقر ر ہے لیکن اس عمر کی دو حدیں مقرر ہیں ایک اول حد اور ایک آخر حد.پس اس مضمون کو کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو! تم اپنی ذلت اور نکبت اور بداعمالیوں میں اس مقام کو پہنچ چکے ہو کہ آسمان پر لکھا جا چکا ہے کہ اب تم پکڑے جاؤ گے لیکن یہ تمہارے پکڑے جانے کا پہلا وقت ہے.ابھی تمہارے زندہ رہنے کے لئے بہت دن باقی ہیں.خدا کی تقدیر اگر چاہے تو تمہاری عمر کو لمبا کر سکتی ہے اس لئے ہم تمہیں بلا رہے ہیں اور ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ خدا کی طرف توجہ کرو، وہ چاہتا ہے تم پر رحم فرمائے اور تمہاری عمر بڑھا دے.اب یہ اتنی معقول اور اتنی مدلل بات ہے اور اتنے پیارے انداز میں انذار کیا گیا ہے کہ اس کو سننے کے باوجود انہوں نے کہا اِنْ اَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا باتیں خدا کی کرتے ہو اور ہو ہماری طرح کے انسان.تمہاری حیثیت کیا ہے.ہم کوئی فوقیت نہیں دیکھتے جو تمہیں ہم پر حاصل ہو.تم فرشتے نہیں تم ما فوق البشر طاقتیں لے کر نہیں آئے ، ہماری طرح کھاتے پیتے ہو، ہماری طرح گلیوں میں چلتے پھرتے ہو، ہماری
خطبات طاہر جلد ۲ 287 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء طرح بھوک اور پیاس کو مٹانے کے لئے رزق اور پانی کے محتاج ہو، ہم پر تمہیں کیا فضیلت حاصل ہے.ناصح بن کر ہم پر اپنی کیا فوقیت جتاتے ہو، ایک عام انسان ہو کر خدا کی باتیں کر کے خدا کی طرف سے ہمیں پیغام دینے لگ گئے ہو.تُرِيدُونَ اَنْ تَصُدُّونَا عَمَّا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَاہم تمہاری اس حرکت کو سمجھتے ہیں.سوائے اس کے تمہارا اور کوئی مقصد نہیں کہ تم اس مذہب کو تبدیل کر دو جو ہمارے آبا واجداد کا تھا اور یہ اشتعال انگیزیاں ہیں ہم ان کو برداشت نہیں کریں گے ، فَأْتُونَا بِسُلْطنٍ مُّبِينِ اب ہم نے بات کھول دی ہے، اب کوئی معین دلیل لاؤ جو اس کے خلاف ہو.انہوں نے بھی دھمکی کے جواب میں دھمکی دی لیکن جیسے لیٹی ہوئی دھمکی پہلے دی ویسے ہی لیٹی ہوئی دھمکی اب ہے جو آگے جا کر کھل جائے گی.چنانچہ انہوں نے کہا، اچھا! تم خدا کی طرف سے ہمیں انذار کرتے ہو، خدا تو پتہ نہیں ہے یا نہیں اور اگر ہے تو کہاں ہے، ہم تو تمہارے سامنے موجود ہیں، ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ ہم تمہاری نیتوں کو سمجھ گئے ہیں اور تمہاری شرارت کو پہچان گئے ہیں، تمہارا مقصد یہ ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد جھوٹے تھے تم ان کو گالیاں دیتے ہو.تم یہ جو کہتے ہو کہ ان کے راستہ سے ہٹ جاؤ تو گویا یہ بتانا چاہتے ہو کہ ہمارے سب بزرگ جھوٹے تھے اور بد کردار تھے اور ہم نے ان کا جو راستہ اختیار کیا ہے یہ رستہ غلط ہے.اگر ہم یہ غلط بات کرتے ہیں تو اس کے مقابل پر کوئی دلیل لا وَقَالَتْ لَهُمْ رُسُلُهُمْ إِنْ نَّحْنُ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُكُمُ کیسا صاف، سادہ اور پاکیزہ جواب دیا ہے.رسولوں نے کوئی غصہ نہیں کیا.فرمایا ہاں ٹھیک ہی تو ہے ہم تمہاری ہی طرح کے انسان ہیں.ہم میں اور تم میں بشریت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے وَلكِنَّ اللهَ يَمُنُّ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِہ لیکن اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے بندوں میں سے اپنے انعام کے لئے چن لیتا ہے اور جن بندوں پر اللہ انعام فرمائے ان میں اور عام بندوں میں فرق پڑ جاتا ہے.بظاہر بشریت کے لحاظ سے ہم ایک ہیں اور ایک ہی مقام پر فائز ہیں لیکن ایک بہت بڑا فرق یہ ہے کہ اللہ ہم پر رحمتیں نازل فرمارہا ہے لیکن تم اللہ کی رحمتوں سے محروم ہورہے ہو.ان دو قسم کے بشروں میں تو بہت ہی بڑا فرق ہے.بحیثیت بشر کے ذاتی طور پر ہم میں یہ طاقت نہیں ہے اَنْ نَّأْتِيَكُمْ بِسُلْطن کہ ہم تمہارے مقابل پر کوئی دلیل پیش کریں جو تم پر غالب آجائے.سلطان ایسی دلیل اور حجت اور برہان کو کہتے ہیں جو دوسرے کو مغلوب کر دے.الَّا بِإِذْنِ اللہ ہاں جب اللہ چاہے گا تو وہ ضرور ایسے سلطان بھیجے گا جو تمہیں مغلوب کر دیں گے وَعَلَى اللهِ
خطبات طاہر جلد ۲ 288 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ اور مومن تو اللہ پر ہی تو کل کیا کرتے ہیں.باتوں کے پردہ میں پھر وہی طرز گفتگو چل رہی ہے.بڑی ملائمت کے ساتھ مخفی انداز بھی ہو رہا ہے.رسول فرماتے ہیں تم ہم سے کس دلیل کی توقع رکھتے ہو.ہم تو تمہیں بتا چکے ہیں کہ پہلے بھی انبیاء آتے رہے ہیں.جب بھی اور جس نے بھی ان کا انکار کیا وہ ہلاک ہو گیا.فرمایا غلبہ کی یہ دلیلیں اگر تم چاہتے ہو تو وہ تو ہمارے بس میں نہیں ہے.کیوں نہیں ہے تم خود ہی کہہ چکے ہو کہ ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں.جب ہم تمہاری طرح کے بشر ہیں تو پھر ہم سے کیا توقع رکھ سکتے ہو کہ ہم تم پر غالب آجائیں گے.ہم تو غالب آنے کی طاقت نہیں رکھتے، تمہاری طرح کے بشر ہیں اور تعداد میں کمزور، اپنی طاقت میں کمزور اور اپنے جتھے میں کمزور ہیں.تمہارے مقابل پر ہماری تو کوئی حیثیت ہی نہیں.ہم سے کیا مانگتے ہو جو ہستی غلبہ کی دلیل دے سکتی ہے اس کے تم منکر ہور ہے ہو اس لئے تم سے مزید گفتگو چل نہیں سکتی.اگر تم یہ تسلیم کر لیتے کہ ہم خدا کی طرف سے باتیں کرتے ہیں تو تمہارا یہ مطالبہ برحق تھا کہ سلطان مبین لے کر آؤ.تم تو مان ہی نہیں رہے کہ ہم خدا کی طرف سے ہیں اور جو تم ہمارے متعلق مانتے ہو ہم بھی اپنے متعلق مانتے ہیں کہ ہم بھی تمہاری طرح کے بشر ہیں.بشریت کے لحاظ سے تم پر کوئی فوقیت نہیں رکھتے.اس لئے تمہارا ہم سے یہ مطالبہ نہایت ہی غیر معقول ہے کہ تم بشر ہوتے ہوئے اور کمزور ہوتے ہوئے ہمارے خلاف غلبہ کی دلیل لے کر آؤ.لیکن ہم جانتے ہیں کہ اللہ ہے، ہم جانتے ہیں کہ اس نے ہمیں کھڑا کیا ہے، ہم جانتے ہیں کہ اس نے ہمیں انذار کے لئے بھجوایا ہے اس لے عَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ تو کل کرنے والے ہمیشہ اپنے رب پر تو کل کیا کرتے ہیں اور ہم بھی اپنے اللہ پر ہی تو کل کرتے ہیں اور اس پر بات کو چھوڑ دیتے ہیں.ابھی مناظرہ چل رہا ہے، ابھی گفتگو جاری ہے.انبیاء اپنی قوم کے لوگوں سے کہتے ہیں کہ تمہاری بات تو ختم ہو گئی آگے نہیں بڑھ سکتی.ہم نے تو تمہیں اس کا خوب ٹھوس جواب دے دیا ہے لیکن ہماری بات ابھی جاری ہے وَمَا لَنَا الَّا نَتَوَكَّلَ عَلَى اللہ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اللہ پر توکل نہ کریں وَقَدْ هَد نَا سُبُلَنا جبکہ وہ ہمیں ہدایت دے چکا ہے.انہوں نے اتنے یقین کے مقام پر فائز ہو کر بات کی ہے کہ جب تک کسی نے کچھ پانہ لیا ہو اس قسم کا کلام اس کے منہ سے نہیں نکل سکتا.مجھے یاد ہے ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الثانی کے پاس ایک دہر یہ آیا.یہ قادیان کی بات
خطبات طاہر جلد ۲ 289 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء ہے.مسجد مبارک میں نماز کے بعد مجلس ارشاد گی ہوئی تھی.اس نے بیٹھ کر خدا کی ہستی کے خلاف چند دلائل دینے شروع کر دیئے.وہ دلائل دیتا رہا اور حضرت صاحب مسکراتے رہے.جب اس نے بات ختم کی تو آپ نے فرمایا کہ مجھے تو تم پر ہنسی آرہی ہے تم مجھے یہ دلیل دے رہے ہو کہ خدا کی ہستی نہیں ہے حالانکہ وہ ہستی مجھ سے کلام کرتی ہے.مجھے سے پیار اور محبت کا سلوک کرتی ہے اور بارہا مجھ پر ظاہر ہو چکی ہے اور تم باہر بیٹھے مجھے پیغام دینے آئے ہو کہ وہ ہستی موجود نہیں.کیسی بے وقوفوں والی بات ہے.یہ بالکل وہی طرز استدلال ہے جو انبیاء اختیار کرتے رہے ہیں یا یوں کہنا چاہئے کہ حضرت مصلح موعود نے وہی طرز استدلال اختیار کی جو انبیاء اختیار کرتے چلے آئے ہیں.قرآن کریم کے مطابق خدا رسیدہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ پر توکل کیوں نہ کریں.انسان ہمیشہ اس چیز پر توکل کیا کرتا ہے جس پر کامل یقین ہو.تم تو کہتے ہو ہمیں شک ہے اس لئے تمہارے لئے تو کل کا کوئی سوال ہی نہیں.ہمیں تو خدا تعالیٰ سے ہدایت مل چکی ہے.ہم سے تو خدا کلام فرماتا ہے، ہم پر تو رحمتیں نازل فرما رہا ہے، اتنے پیار کرنے والے اور ایسے باوفا خدا پر ہم تو کل نہ کریں تو ہم بڑے ہی ظالم لوگ ہوں گے.ہم نہ صرف یہ کہ اس پر تو کل کریں گے بلکہ تو کل کا ثبوت اپنے صبر سے دیں گے.زبانی تو کل کرنا اور چیز ہے لیکن دکھوں کی زندگی قبول کر لینا جبکہ انسان اس زندگی سے بچ بھی سکتا ہے یہ ہے صحیح تو کل.پس اس دلیل کو کتنا مضبوط کر دیا جب فرمایا لَنَصْبِرَنَّ عَلَى مَا أَذَيْتُمُونَا خدا کی قسم ہم صبر کریں گے اس ظلم پر اور اس دکھ پر جو تم ہمیں دو گے اور دیتے چلے جارہے ہو.تم نے جتنے مصائب ہم پر توڑے ہیں چونکہ ہمارا معاملہ خدا کے ساتھ ہے اور ہم خدا کی طرف دیکھ رہے ہیں اس لئے ہم صبر کریں گے اور اس سے زیادہ کوئی اور دلیل نہیں دی جاسکتی اس بات کے حق میں کہ ہم خدا پر توکل کرنے والے ہیں قانون کو اپنے ہاتھ میں نہیں لیں گے بلکہ اللہ کے قانون کو جاری ہونے دیں گے اور یقین رکھتے ہیں کہ وہ ضروری جاری ہوگا.وَعَلَى اللهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكَّلُونَ اور ہاں ہم پھر اعلان کرتے ہیں کہ جو لوگ تو کل کرنے والے ہوتے ہیں وہ اللہ کی ذات پر تو کل کیا کرتے ہیں.یہ بات سن کر وہ لوگ جنہوں نے انکار کیا تھا.قرآن کریم کے مطابق ان پر پے در پے ایسے واقعات رونما ہوئے کہ وہ تاریخ کا حصہ بن گئے.چنانچہ قرآن کریم کہتا ہے کہ ہم تمہیں ان سارے
خطبات طاہر جلد ۲ 290 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء واقعات کا خلاصہ سنا رہے ہیں اور ایک ایسی تاریخ بتا رہے ہیں جو حضرت نوح علیہ السلام کے وقت سے جاری ہے اور ان تین انبیاء علیہم السلام کے وقت میں بھی جاری رہی جن کے ہم نے نام لئے ہیں اور پھر بے شمار ایسے انبیاء کے وقت میں بھی اسی طرح جاری رہی جن کے ناموں کو خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا.جب بھی انہوں نے یہ کہا تو مقابل پر یہ کہا گیا، انہوں نے یہ کہا تو مقابل پر یہ کہا گیا.غرض یہ باتیں سننے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر منکرین کی قوم نے اپنے رسولوں سے کہا، اچھا! تو کل کرتے ہو اپنے رب پر تو پھر تو تمہارا علاج آسان ہے ،تم تو ہمارے قبضہ قدرت میں ہو، لَنُخْرِجَنَّكُمْ مِنْ اَرْضِنَا ہم تمہیں اپنے وطن سے نکال دیں گے.گویا کہ ان کو وطنیت کے حق سے ہی محروم کر دیا.جس زمین میں وہ پہلے ، جس زمین کا انہوں نے پانی پیا، اس زمین سے رزق حاصل کیا ، اسی شہر، اسی جگہ کے وہ لوگ متوطن تھے لیکن قوم مقابل پر تکبر کی انتہا کر دیتی ہے.کہتی ہے ہمارا ملک ہے تمہارا تو نہیں اور ہم اختیار رکھتے ہیں کہ تمہیں اس زمین سے نکال دیں.خدا کے رسول اس کا کوئی جواب نہیں دیتے خاموشی اختیار کرتے ہیں اور پیشتر اس کے کہ وہ جواب دیں اللہ تعالیٰ آسمان سے ان پر وحی نازل فرماتا ہے لَنُهْلِكَنَّ الظَّلِمِینَ تمہیں ہرگز کسی معاملہ میں دخل دینے کی ضرورت نہیں ہے، کوئی ہاتھ ہلانے کی ضرورت نہیں، ہم ظالموں کو ہلاک کریں گے.ان کو آسمان سے آواز سنائی دیتی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یہ کس زمین کے مالک بن بیٹھے ہیں، وطن کس کے ہیں، خدا کے سوا کسی کے وطن نہیں ہیں اور خدا کے سوا کسی کی زمین نہیں ہے.انبیاء کے مخالفین کہتے ہیں ہم تمہیں اس زمین سے نکال دیں گے لیکن خدا کہتا ہے ہم آسمان سے تمہیں خوشخبری دیتے ہیں لَنُسْكِنَنَّكُمُ الْأَرْضَ مِنْ بَعْدِ ھم یہ لوگ تو قصہ ماضی بن چکے ہیں، یہ تو کہانیاں بن جانے والے ہیں، ان کے بعد ہم تمہیں ان زمینوں کا وارث بنائیں گے جن سے نکالنے کا یہ دعویٰ کر رہے ہیں.ذلِكَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِي وَخَافَ وَعِيْدِ یہ شاندار مستقبل اس قوم کا ہے جو میرے مقام کا خوف رکھتی ہے اور میرے وعید سے نصیحت پکڑتی ہے اور استفادہ کرتی ہے اور ان باتوں سے ڈرتی ہے جن باتوں سے میں ڈرایا کرتا ہوں.جب خدا تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ ان قوموں کو یہ پیغام دیا اور یہ جاری وساری پیغام ہے، یہ ایسی کہانیاں ہیں جو ہمیشہ دہرائی جاتی رہی ہیں اور دہرائی جائیں گی.دنیا ان کہانیوں میں ایک بھی استثناء
خطبات طاہر جلد ۲ 291 خطبه جمعه ۲۰ رمئی ۱۹۸۳ء نہیں دیکھے گی.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رسولوں نے اپنی قوم کے لوگوں سے گفتگو بند کر دی وَاسْتَفْتَحُوا اور عرض کیا کہ اے اللہ افتح تو تیرے ہاتھ میں ہے، ہم نے تجھ پر تو کل کیا تھا، تیرا بے انتہا احسان اور کرم ہے کہ پیشتر اس کے کہ ہم دعا کرتے تو اپنے فضل سے ہم پر رجوع برحمت ہوا اور تو نے آسمان سے ہمیں خوشخبریاں دینا شروع کر دیں پس ہم تجھ سے ہی فتح مانگتے ہیں.چنانچہ یہ کہتے ہوئے انہوں نے اپنے رب سے فتح مانگی وَخَابَ كُلُّ جَبَّارٍ عَنِيْدِ اور ہر وہ شخص جس نے تکبر اختیار کیا تھا اور جبر اختیار کیا تھا ہر سرکش اور حق کا دشمن ناکام و نامرادر ہا.قرآن کریم کا یہ وہ طرز بیان ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا.کتنا حیرت انگیز نصیحت کا طریق ہے، کیا پیارا انداز ہے اور کتنا یقین سے پر ہے، کتنا قطعی اور اٹل ہے اس تقدیر میں جو خدا نے بیان کی ہے نہ پہلے کبھی کوئی تبدیلی ہوئی ہے اور نہ اب کوئی تبدیلی ہوسکتی ہے.پس وہ لوگ جو ہمیشہ خدا کے نام کھڑے ہوں گے ان کے لئے ان رستوں کے سوا اور کوئی رستہ نہیں ہے اس لئے ان کو لازماً صبر کرنا پڑے گا اور لازماً خدا کی خاطر دکھوں کو برداشت کرنا ہوگا اور استقامت دکھانی ہوگی اور خدائے حیی و قیوم پر تو کل بھی کرنا ہوگا اور لوگوں کو بتانا ہوگا کہ ہم خدا پر توکل کرتے ہوئے صبر کر رہے ہیں.تب ہمیشہ ایسی قوموں پر خدا کی وہ تقدیر بھی لازم ظاہر ہوگی جس کا ان آیات میں ذکر کیا گیا ہے.دنیا کی کوئی طاقت نہیں ہے جو خدا کی راہ میں حائل ہو سکے.جب وہ فیصلہ فرماتا ہے کسی قوم کو فتح دینے کا تو لا زماوہ فتح پاتی ہے اور جب وہ فیصلہ فرماتا ہے کسی قوم کو ہلاک کرنے کا تولا زماوہ ہلاک کی جاتی ہے اور قصہ کہانی بنادی جاتی ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲ اکتوبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 293 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء اقوام عالم سے جماعت کا مقابلہ اور شاندار انجام ( خطبه جمعه فرموده ۲۷ مئی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے سورۃ انبیاء کی درج ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَلَقَدْ أَتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ مِنْ قَبْلُ وَكُنَّا بِهِ عَلِمِينَ إِذْ قَالَ لِأَبِيْهِ وَقَوْمِهِ مَا هَذِهِ التَّمَاثِيْلُ الَّتِي أَنْتُمْ لَهَا عَكِفُونَ ) قَالُوا وَجَدْنَا أَبَاءَ نَالَهَا عَبِدِينَ قَالَ لَقَدْ كُنْتُمْ أَنْتُمْ وَأَبَاؤُكُمْ فِي ضَللٍ مُّبِيْنِ.قَالُوا اَجِئْتَنَا بِالْحَقِّ أَمْ أَنْتَ مِنَ اللعبينَ قَالَ بَل رَّبِّكُمْ رَبُّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ الَّذِى فَطَرَهُنَّ * وَاَنَا عَلَى ذَلِكُمْ مِنَ الشَّهِدِيْنَ وَتَاللهِ لَا كِيْدَنَّ أَصْنَامَكُمْ بَعْدَ أَنْ تُوَتُوْامُدْ بِرِينَ فَجَعَلَهُمْ جُذْذَا إِلَّا كَبِيرًا لَّهُمْ لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُوْنَ قَالُوا مَنْ فَعَلَ هُذَا بِالِهَتِنَا إِنَّهُ لَمِنَ الظَّلِمِينَ قَالُوا سَمِعْنَا فَتًى يَذْكُرُهُمْ يُقَالُ لَةَ إِبْرَ هِيمُ قَالُوا فَا تُوْا بِهِ عَلَى أَعْيُنِ النَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَشْهَدُونَ قَالُوا ءَ اَنْتَ فَعَلْتَ هَذَا بِالِهَتِنَا
خطبات طاہر جلد ۲ 294 خطبه جمعه ۲۷ مئی ۱۹۸۳ء يَابْرُ هِيمُ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَذَا فَسْتَلُوهُمْ إِنْ كَانُوْا يَنْطِقُوْنَ فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ فَقَالُوا إِنَّكُمْ أَنتُم الظَّلِمُونَ ثُمَّ نُكِسُوا عَلَى رُءُ وَسِهِمْ لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ يَنْطِقُونَ.قَالَ اَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَنْفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّ كُمْ أَنّ لَكُمْ وَ لِمَا تَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ أَفَلَا تَعْقِلُوْنَ قَالُوا حَرِقُوْهُ وَانْصُرُوا الهَتَكُمْ إِنْ كُنتُمْ فَعِلِينَ قُلْنَا لِنَارُ كُونِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْتُهُمُ الْأَخْسَرِينَ (الانبياء ۵۲-۷۱) اور پھر فرمایا: حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے جو بہت سے مجادلات غیروں سے ہوئے ان میں سے ایک کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو پہلے ہی سے بصیرت عطا فرمائی ہوئی تھی اور ہدایت دے رکھی تھی اور ہم ابراہیم کی ذات سے بخوبی واقف تھے.اس کے اندر جتنی خوبیاں پنہاں تھیں ان سب پر ہماری نظر تھی.وہ ایک صاحب رشد انسان تھا گہری خوبیوں کا مالک تھا.وہ صاحب عقل تھا اس لئے کوئی خلاف عقل بات وہ نہیں کر سکتا تھا.یہ سب کچھ جاننے کے بعد ہم یہ واقعہ بیان کرتے ہیں.جب ابراہیم نے اپنے باپ سے اور اپنی قوم سے کہا کہ تم نے یہ کیا بت بنا رکھے ہیں جن کے سامنے تم وقف ہو بیٹھے ہو.دھرنا دے کے بیٹھ رہے ہو.آخر یہ ہیں کیا چیز؟ تو قوم کے لوگوں نے کہا ہم نے اپنے آبا ؤ اجداد کو اسی طرح دیکھا تھا کہ وہ ان بتوں کی عبادت کیا کرتے تھے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اچھا، یہ بات ہے تو تم بھی اور تمہارے آبا ؤ اجداد بھی کھلی کھلی گمراہی میں مبتلا ہو.صرف ایک نسل کا معاملہ نہیں.معلوم ہوتا ہے تم پشتوں کے بگڑے ہوئے ہو.وہ بھی غلط تھے اور تم بھی غلط ہو.یعنی اگر کوئی یہ دلیل دے کہ میں نے اپنے ماں باپ کو اسی طریق پر پایا ہے اس لئے میں سچا ہوں تو یہ بڑی نا معقول بات ہے.اگر وہ خود جھوٹا ہے تو اس کا یہ مطلب بنے گا کہ اس کے ماں باپ بھی جھوٹے ہیں.یہ نتیجہ تو نکل سکتا ہے لیکن یہ نتیجہ کیسے نکل آیا کہ چونکہ ماں باپ نے ایسا کیا تھا اس لئے ہم بچے ہیں.یہ ہے دلیل جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام
خطبات طاہر جلد ۲ قوم کی طرف الٹا رہے ہیں.295 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء پھر قوم کے لوگوں نے کہا کہ اے ابراہیم ! کیا تو کسی خاص سچائی کو لے کر ہمارے پاس آیا ہے، ایسی حقیقت کو جس کا ہم انکار نہیں کر سکتے یا محض ہم سے مذاق کر رہا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا یہ جواب دیا کہ تمہارا رب آسمان اور زمین کا رب ہے جس نے ان کو پیدا کیا اور یہ وہ بات ہے جس پر میں پوری طرح گواہ ہوں اس کے سوا میں کسی حق کو نہیں جانتا.میں اس بات پر گواہ ہوں کہ خدا کے سوا اور کوئی نہیں ہے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہو اور اس کے خلاف تم کوئی شہادت پیش نہیں کر سکتے.اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو کہا کہ میں اسی خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کا میں ذکر کر رہا ہوں کہ لازماً میں تمہارے بتوں کے خلاف کوئی تدبیر کروں گا ایسی تدبیر جس سے ان کا جھوٹ ثابت ہو جائے.لیکن یہ تدبیر میں اس وقت کروں گا جب تم لوگ مجھے چھوڑ کر الگ ہو جاؤ گے اور جب ان بتوں کو خالی یعنی بغیر حفاظت کے چھوڑ دو گے.میں نے کچھ کر نا ضرور ہے لیکن ایسا فعل کرنا ہے جس کو تمہارے ہوتے ہوئے نہیں کر سکتا کیونکہ تم مجھے روک دو گے.پس جب میں نے دیکھا کہ تمہارے بت خالی پڑے ہیں تمہاری حفاظت سے باہر ہیں تو اس وقت میں ان کے ساتھ کچھ کر دوں گا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو موقع ملا اور انہوں نے ان بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا سوائے ایک کے جو ان میں سب سے بڑا تھا.لَعَلَّهُمْ إِلَيْهِ يَرْجِعُونَ تا کہ اس بارہ میں وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف رجوع کریں.یہاں الیہ کی ضمیر بڑے بت کی طرف نہیں جاتی بلکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف جاتی ہے کیونکہ جیسا کہ بعد کی آیت مضمون کو کھول دے گی ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے واضح طور پر انہیں یہ نہیں کہا تھا کہ بڑے بت سے پوچھو بلکہ ٹوٹے ہوئے بتوں سے پوچھنے کے متعلق کہا تھا اسی لئے وہاں جمع کا صیغہ استعمال کیا ہے.پس حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا شروع سے ہی یہ موقف تھا کہ میں قوم کو متنبہ کردوں کہ میں ہی ہوں اور جب کچھ ہو جائے تو وہ میری طرف آئیں اور کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ رہیں کہ کس نے یہ کام کیا اور کیوں کیا ؟ یعنی آغا ز ہی سے آپ بات کو خوب کھولتے چلے جارہے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 296 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء قَالُوا مَنْ فَعَلَ هُذَا بِالِهَتِنا قوم کے کچھ لوگ ناواقف تھے ان کو علم نہیں تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے قوم کے بعض لوگوں سے کیا بات کی ہے اس لئے انہوں نے کہا یہ کون ہے جس نے ہمارے بتوں سے ایسا فعل کیا ہے؟ یقیناً وہ بہت بڑا ظالم ہے.تب اس گروہ نے جس سے حضرت ابراہیم کی گفتگو ہوئی تھی کہا کہ ہم نے ایک نوجوان ابراہیم نامی کو ایسی باتیں کرتے سنا تھا یعنی وہ کوئی لکا چھپا مخفی چور نہیں ہے.وہ تو کھلم کھلا کہہ رہا تھا کہ میں یہ کام کرنے والا ہوں اس لئے لازماً یہ فعل کرنے والا وہی ہے.پھر انہوں نے کہا اچھا! جو بھی ہے اسے پکڑ کر لاؤ اور عوام الناس کے سامنے پیش کرو تا کہ وہ دیکھیں تو سہی کہ یہ کون جرات مند انسان ہے جو ایسی حرکتیں کرتا ہے.چنانچہ بھری مجلس میں جب قوم اکٹھی تھی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو پیش کیا گیا انہوں نے کہا اے ابراہیم ! کیا تو نے ہمارے بتوں سے یہ فعل کیا ہے؟ قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هذا اس کے دو معانی ہو سکتے ہیں.ایک جیسا کہ تفسیر صغیر میں ہے اور ہمارے بہت سے علما نے وہ ترجمہ کیا ہے.فَعَلَہ کے بعد وقف ڈالا گیا ہے اور ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جواب دیا کہ کسی کرنے والے نے یہ فعل کیا ہے یعنی فَعَلَہ کا جو فاعل ہے حضرت ابراہیم علیہ السلام جواباً اس کا ذکر نہیں کرتے.قوم کے لوگوں نے پوچھا کیا تو نے یہ فعل کیا ہے؟ تو آپ نے کہا کسی کرنے والے نے کیا ہے.كَبِيرُهُ هذَا ان بتوں میں سے بڑا یہ ہے.فَسْئَلُوْهُمْ إِنْ كَانُوا يَنْطِقُونَ ان سے پوچھو، اگر یہ بولتے ہیں.پس یہ میری مرا تھی کہ یہاں پہنچ کر حضرت ابراہیم علیہ السلام ضمیر بڑے بت کی طرف نہیں پھیرتے کہ اس سے پوچھو، بلکہ کہتے ہیں کہ سب بتوں سے پوچھو، اگر یہ بول سکتے ہیں.یہ جواب کی ایک طرز ہے اور اس میں ایک حکمت ہے.میں بتاؤں گا کہ وہ کیا حکمت ہے؟ بہر حال اس ترجمے کو قبول کیا جاسکتا ہے اور اس کے خلاف کوئی قطعی منطقی دلیل نہیں دی جا سکتی کہ یہ ترجمہ ٹھیک نہیں ہے.ہو سکتا ہے فَعَلَنے کے بعد وقف ہو تو معنی یہ بنیں گے کہ کسی کرنے والے نے ایسا کیا ہے.ان میں سے بڑا تو یہ ہے اور ان سے پوچھ لو کہ کیا واقعہ ہوا؟ لیکن اس ترجمے پر ایک چھوٹا سا اعتراض وارد ہوتا ہے کہ جب بڑے بت کو اس لئے بچایا تھا کہ لوگ اس کی طرف رجوع کریں اور یہ ثابت کیا جائے کہ اس بڑے نے دوسرے بتوں کو توڑا ہے تو پھر یہ سوال اٹھنا چاہئے تھا کہ اس بڑے سے پوچھ لو اور صحیح سلامت بھی وہی موجود تھا اس کا ذکر کیوں نہیں کیا.ٹوٹے ہوئے
خطبات طاہر جلد ۲ 297 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء بتوں سے پوچھنے کا کیوں کہا؟ لیکن اگر فَعَلَہ کی ضمیر كبیرھم کی طرف پھیری جائے تو پھر یہ اعتراض پیدا نہیں ہوتا فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ کا مطلب یہ بنے گا کہ یقینا اس بڑے بت نے ی فعل کیا ہے.مجرم تو اقراری نہیں ہوا اس لئے جن کو مارا ہے ان سے پوچھو.اگر یہ بول سکتے ہیں تو بتا دیں گے اور اگر تمہارے خدا ایسے ہیں، انسان کے مارنے سے مرجاتے ہیں تو پھر بول نہیں سکیں گے.لیکن اگر تمہارا دعویٰ یہ ہے کہ تمہارے خدا نہیں مرتے تو پھر ان کو اس حالت میں بھی بول پڑنا چاہئے.جن پر ظلم ہوا ہے ان سے کیوں نہیں پوچھتے کہ تمہیں کس نے مارا ہے؟ عبارت کی رو سے بظاہر یہ ترجمہ زیادہ قرین قیاس نظر آتا ہے لیکن اس پر اعتراض پڑتا ہے کہ گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے نعوذ باللہ جھوٹ بولا.اس لئے سلسلہ عالیہ احمدیہ کے جتنے علما بھی پہلا ترجمہ کرتے ہیں وہ اسی احتمال سے بچنے کے لئے وہ ترجمہ کرتے ہیں.یہ ہمارے بنیادی عقائد میں داخل ہے کہ نبی معصوم ہوتا ہے اور اس کے جھوٹ بولنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس چونکہ دوسرے ترجمے سے یہ احتمال پیدا ہو جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جھوٹ تسلیم کر لیا جائے اس لئے اس اعراض کی خاطر ثانوی درجے کا ترجمہ قبول کر لیا جاتا ہے.گویا ایک مجبوری در پیش ہے ور نہ سیاق عبارت کے لحاظ سے تو دوسرا ترجمہ ہی موزوں نظر آتا ہے.جہاں تک میں نے غور کیا ہے میرے نزدیک ایسی کوئی مجبوری در پیش ہی نہیں ہے.اگر دوسرا ترجمہ بھی قبول کر لیا جائے یعنی یہ کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے بت نے مارا ہے تم ان بتوں سے پوچھ لو تو ہر گز کسی جھوٹ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.کیوں؟ میں اس کی وجہ بتا تا ہوں.اگر ہم صحیح معنوں میں جھوٹ اور سچ کا تجزیہ کریں کہ جھوٹ کیا ہوتا ہے اور سچ کیا ہوتا ہے؟ ان کی کوئی ایسی کامل تعریف کریں جو جامع اور مانع ہو تو بعض ایسی صورتیں بھی آپ کے سامنے آئیں گی کہ ایک بیان کرنے والا خلاف واقعہ بیان کرتا ہے لیکن جھوٹ نہیں بول رہا ہوتا اور ایک بیان کرنے والا واقعہ صحیح بیان کر رہا ہوتا ہے لیکن جھوٹ بول رہا ہوتا.یہ دو قطعی صورتیں ہمارے سامنے آتی ہیں.مثلاً بچہ بعض دفعہ تنگ کرتا ہے اور پوچھتا ہے فلاں چیز کہاں گئی؟ آپ کہتے ہیں کہ زمین کھا گئی یا آسمان نگل گیا.حالانکہ یہ واقعات کے بالکل خلاف ہے.یا مثلاً میز پڑی ہوئی ہے تو کوئی چڑ کر جواب دیتا ہے کہ یہ میں نے کھالی ہے میرے پیٹ سے نکال لو.حالانکہ یہ بات بھی واقعہ کے بالکل
خطبات طاہر جلد ۲ 298 خطبہ جمعہ ۲۷ مئی ۱۹۸۳ء خلاف ہے لیکن کوئی معقول انسان اسے جھوٹ نہیں کہہ سکتا اس لئے کہ کہنے والا جانتا ہے کہ دوسرا اس پر یقین نہیں کرے گا اور کہنے والا اس مقصد کی خاطر کہتا بھی نہیں کہ دوسرا اس پر یقین کرے.پس جھوٹ یہ ہوتا ہے کہ خلاف واقعہ بات اس مقصد سے کہی جائے کہ دوسرا اس پر یقین کرلے اور کہنے والے کے نزدیک اس بات کا امکان ہو کہ دوسرا اس پر یقین کر سکتا ہے لیکن اگر اس کے برعکس مطلب ہو اور کہنے والے کے دل میں کامل یقین ہو کہ دوسرا یقین نہیں کر سکتا اور اس کے نتیجہ میں وہ کچھ اور بتانا چاہتا ہے تو پھر یہ جھوٹ نہیں ہے.اسی طرح اس کے برعکس یہ مثال ہے کہ واقعہ تو سچا ہے لیکن کہنے والا جھوٹا ہے.اس کی بہترین مثال قرآن کریم میں بیان ہوئی ہے.اللہ تعالیٰ سورۃ المنافقون میں فرماتا ہے: إذَا جَاءَكَ الْمُنْفِقُونَ قَالُوْا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللهِ وَاللهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ اِنَّ الْمُنْفِقِينَ تَكْذِبُونَ (المنافقون: ۲) کہ اے محمد! ( ﷺ ) منافق تیرے پاس آتے ہیں اور حلف اٹھا کر کہتے ہیں کہ اے محمد ! ہم گواہ ہیں کہ تو اللہ کا رسول ہے اور اللہ خوب جانتا ہے کہ تو اس کا رسول ہے کیونکہ جس نے بھیجا ہے اس کو زیادہ پتہ ہے.اس کے باوجود خدا گواہی دیتا ہے کہ یہ منافق جھوٹ بول رہے ہیں.واقعہ سچا بیان کر رہے ہیں لیکن جو واقعہ بیان کر رہے ہیں اس پر ان کو اعتماد نہیں ہے.یہ مقصد نہیں ہے کہ دوسرے بھی اس کو بچے واقعہ کے طور پر تسلیم کر لیں.مقصد یہ ہے کہ دوسرے اس بات کو تسلیم کر لیں کہ ہم اس کو سچا سمجھتے ہیں اس لئے جھوٹ بن گیا.پس اگر آپ سچ اور جھوٹ کا تجزیہ کریں تو دونوں شکلیں سامنے آجاتی ہیں.خلاف واقعہ بات بیان کی جارہی ہے لیکن اس کا جھوٹ سے کوئی تعلق نہیں.بالکل سچی بات بیان کی جارہی ہے اور ایسی سچی کہ اس سے زیادہ سچی بات انسانوں کے سامنے کبھی نہیں آئی یعنی کلمہ توحید کہ اللہ ایک ہے.یہ سب سے سچی بات ہے.اس کے بعد دوسرے درجہ کی بات یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ اللہ کے رسول ہیں.خدا کہتا ہے کہ یہ منافق بظاہر سب سے سچی بات کر رہے ہیں لیکن ہیں جھوٹے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے معاملے میں کیا واقعہ ہوا؟ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا شروع میں ہی قوم کے لوگوں کو یہ بتا دینا کہ میں تمہارے بتوں سے کچھ کرنے والا ہوں قطعی
خطبات طاہر جلد ۲ 299 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء طور پر ثابت کرتا کہ آپ کوئی ایسی بات نہیں کر رہے جس کے ذریعہ اپنے اوپر سے واقعۂ الزام ٹالنا چاہتے ہیں.وہ تو کھلے طور پر بتارہے ہیں کہ میں تمہارے بتوں کے ساتھ کچھ کرنے والا ہوں اور آپ کو کامل یقین تھا کہ قوم کے لوگوں کے لئے یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ یہ مان جائیں کہ کسی اور نے یہ فعل کیا ہے اور ان کے دل گواہی دیں گے کہ یہ بات جھوٹ ہے.پس جھوٹ کی حقیقت کھولنے کے لئے واقعہ بیان ہو رہا ہے نہ کہ جھوٹ کی تائید کے لئے اور بالکل برعکس نتیجہ نکالا جارہا ہے.حضرت ابرا ہیم کا قول جھوٹ پر سے پردہ اٹھا رہا ہے نہ کہ آپ جھوٹ بول رہے ہیں اور اس کمال فصاحت و بلاغت کے ساتھ پردہ اٹھا رہا ہے کہ قرآن کریم گواہی دیتا ہے کہ جب قوم کے لوگوں نے اپنے نفسوں میں غور کیا تو ان کے دل سے یہ آواز اٹھی کہ ہاں ظالم تم ہی لوگ ہو.حقیقت یہ ہے کہ ان بتوں میں کوئی سچائی نہیں.نُكِسُوا عَلی رُءُوسِهِمْ گویا ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں وہ اوندھے منہ جا گرے.ایسی مار کھائی ہے کہ سر کے بل زمین پر جا پڑتے ہیں.الغرض مضمون کا سارا سیاق و سباق بتا رہا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی بات کو ایک نہایت اعلی منطقی دلیل کے طور پر استعمال کیا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے شروع میں فخر بیان کیا کہ ہم نے ابراہیم کو رشد دی تھی.رشد کے بعد کیا خدا تعالیٰ نے جھوٹ کا واقعہ بیان کرنا تھا؟ یہ اچھا رشد ہے کہ اللہ تعالیٰ بڑی شان سے تعریف فرما رہا ہے کہ جس بندے کا میں ذکر کر نے والا ہوں اس کو ہم نے ہی رشد عطا کی تھی اور اس کی خوبیوں سے ہم گہرائی تک واقف تھے، خوب باخبر ہونے کے بعد اس کو مثال کے طور پر پیش کر رہے ہیں اور آگے واقعہ نعوذ باللہ من ذالک جھوٹ کا بیان کر دیا.یہ بالکل لغو بات ہے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ خدا ایسا کرے.پس اس مضمون کو پہلے ہی کھول دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جھوٹ بولنے کے لئے ہر گز آمادہ نہیں تھے.انہوں نے پہلے ہی قوم کو بتا دیا تھا کہ میں یہ کام کرنے والا ہوں اس لئے بعد میں جو واقعہ خدا بیان کرتا ہے وہ فصاحت و بلاغت کا کمال ہے اور دشمن کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ایک نہایت اعلیٰ درجے کی دلیل ہے.فَرَجَعُوا إِلَى أَنْفُسِهِمْ اس کا ایک یہ ترجمہ بھی ہے کہ وہ اپنے نفسوں میں ڈوب گئے.انہوں نے اپنے دلوں میں غور کیا اور دلوں سے یہ آواز اٹھی انکم انتُمُ الظَّلِمُونَ لیکن شکست کھانے کے نتیجے میں وہ ڈھیٹ ہو گئے اور شکست تسلیم کرنے کی بجائے انہوں نے آخر یہ کہا لَقَدْ عَلِمْتَ مَا هَؤُلَاءِ
خطبات طاہر جلد ۲ 300 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء يَنْطِقُونَ کہ اے ابراہیم ! تو خود بڑی اچھی طرح جانتا ہے، تجھے ہم سے زیادہ پتہ ہے کہ یہ بت بولنے والے نہیں ہیں.یہ تو بے جان چیزیں ہیں اور ان کو تو ڑ کر تو نے بڑا ظلم کیا ہے.اس سے بھی پتہ لگا کہ قوم کے لوگ جانتے تھے کہ ابراہیم جھوٹ نہیں بول رہے.اس پر حضرت ابراہیم نے فرمایا.اَفَتَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللهِ مَا لَا يَنْفَعُكُم وَلَا يَضُر كُم تمہاری یہ بات سچ ہے کہ نہ ان بتوں نے مارا، نہ مار سکتے تھے.یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے اور اگر مارا بھی ہوتا تو بولنے کے قابل نہیں، بالکل بے جان چیزیں ہیں ان میں کوئی بھی حقیقت نہیں.اور جو اتنی بے حقیقت چیز ہو اس سے نہ تمہارا فائدہ وابستہ ہے نہ نقصان.فائدہ اس لئے نہیں کہ ان میں عمل کی کوئی طاقت نہیں.نقصان اس لئے نہیں کہ یہ کسی کو مار ہی نہیں سکتے.لوگوں کا نقصان کیا ہوگا؟ نہ یہ حق میں بول سکتے ہیں نہ خلاف بول سکتے ہیں.نہ حق میں کوئی فعل کر سکتے ہیں نہ خلاف کر سکتے ہیں.تب قوم کے لوگوں نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں ڈال دو.چنانچہ فرمایا حَرِّقُوهُ وَانْصُرُوا الِهَتَكُمْ اِنْ كُنْتُمْ فَعِلِینَ یعنی اگر تم نے کچھ کرنا ہے تو سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں رہا کہ اس کو آگ میں ڈال دو.یہ وہ نتیجہ ہے جو انبیاء کی مخالف قو میں ہمیشہ نکالا کرتی ہیں.جب دلائل کامل ہو جائیں، جب حجت اتمام کو پہنچ جائے تو اس کے بعد خدا تعالیٰ بیان فرماتا ہے، سابقہ دستور یہی رہا ہے کہ اس وقت مخالفین تنگ آکر جنگ پر آمادہ ہو جاتے ہیں اور شکست تسلیم نہیں کرتے.چنانچہ بعض مخالفین کا یہ فیصلہ ہوتا ہے کہ اب سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں کہ یا تو ایمان لانے والے زبردستی ہمارے اندر واپس لوٹ آئیں یا پھر ان کو وطن سے نکال دو یا قتل کر دو.بعض دفعہ نوٹس دیتے ہیں، اعلان کرتے ہیں کہ تمہیں تین دن دیئے جائیں گے.یا تو بہ کر لو اور تو بہ سے مراد یہ ہے کہ تم ہمارے موقف کی طرف لوٹ آؤ یا قتل ہونا منظور کر لو یا پھر اس ملک کو چھوڑ دو.تین دن کے سوا باقی باتیں وہی ہیں جو قرآن کریم فرماتا ہے حضرت نوح علیہ السلام کی قوم نے کہی تھیں.لیکن فرمایا عذاب کا صرف ایک طریقہ نہیں ہے جو مخالفین اختیار کرتے ہیں.بعض اوقات دوسرے طریقے اختیار کئے جاتے ہیں.ان میں سے ایک آگ کا عذاب اور زندہ جلانے کی کوشش ہے.دور کے واقعات تو دور کے واقعات ہیں.ہم نے تو یہ واقعات اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں اس لئے سب سے زیادہ ان آیات کی حقیقت کو احمدی سمجھ سکتے ہیں کیونکہ ان پر یہ واقعات
خطبات طاہر جلد ۲ 301 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء گزر چکے ہیں اور آئندہ بھی گزرتے رہیں گے.ہم ان آگوں سے گزرے ہیں اس لئے ہم جانتے ہیں کہ بعینہ اسی طرح ہوا کرتا ہے.آج قرآن کریم کی آیت ( قُلْنَالنَّارُكُوْنِي بَرْدًا وَ سَلَمَّا عَلَى إبراهيم (الانبیاء:۷۰).ناقل ) کی صداقت کی سب سے بڑی گواہ جماعت احمدیہ اور دوسرے حصے کی بھی گواہ ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب حضرت ابراہیم کو قوم نے کہا کہ ابراہیم کو آگ میں ڈالے بغیر چارہ نہیں رہا تب ہم نے کہائنَا رُكُونِي بَردَا وَ سَلَمَّا عَلَى ابْرُ هِیمَ کہ اے آگ ! میرے ابراہیم پر ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا اور امن کی جگہ بن جا.وَأَرَادُوا بِهِ كَيْدًا فَجَعَلْتُهُمُ الْأَخْسَرِينَ انہوں نے بھی ایک تدبیر کی لیکن ہم نے ان کی تدبیر کو الٹ دیا اور وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہو گئے.پس جس جماعت نے قرآن کی گواہی کے ایک حصے کو بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا ہے اور اس کے بعد کے حصے کو بھی بڑی شان کے ساتھ پورا ہوتے دیکھا ہے اور بارہا ایسے واقعات گزر چکے ہیں اس کو دنیا کی کون سی آگ ڈرا سکتی ہے.خواہ وہ ظاہری آگ ہو تب بھی وہ آگ مسیح موعود علیہ السلام کی غلام اور آپ کے غلاموں کی غلام بن کر رہے گی.خواہ وہ باطنی آگ ہو اور لفظ آگ معنوی طور پر استعمال کیا گیا ہوتب بھی میں آپ کو خوشخبری دیتا ہوں کہ وہ آگ مسیح موعود علیہ السلام کی غلام اور آپ کے غلاموں کی غلام بن کر رہے گی اور جس طرح پہلے ابراہیم پر آگ ٹھنڈی کی گئی تھی اس ابراہیم پر بھی ٹھنڈی کی جائے گی.یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس کو دنیا کی کوئی قوم بدل نہیں سکتی ، کوئی حکومت تبدیل نہیں کر سکتی.تمام دنیا کی طاقتیں مل کر بھی اس کو تبدیل نہیں کر سکتیں.دراصل یہ ایک جاری و ساری حقیقت ہے.کوئی نئی چیزیں نہیں ہے.جب سے آدم آئے اور جب تک اللہ کی طرف سے آنے والوں کا سلسلہ جاری رہے ہمیشہ یہی ہوتا آیا ہےاور یہی ہوتا رہے گا.وہ لوگ جوخدا کے نام پر کوئی اعلان حق کرتے ہیں ان کے لئے لازماً آگ جلائی جاتی ہے اور لازماً ان کے لئے اس آگ کو ٹھنڈا کیا جاتا ہے اور گلزار میں تبدیل کر دیا جاتا ہے.یہ دو لفظوں میں سچائی اور جھوٹ کے مقابلے کی کہانی ہے جسے قرآن کریم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعہ پر آخر پر نتیجہ نکال کر ہمارے سامنے پیش کیا.اس میں شک نہیں کہ دلائل یقینا سچائی کے ساتھ ہوا کرتے ہیں اور براہین قاطعہ ہمیشہ سچوں
خطبات طاہر جلد ۲ 302 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء کے ساتھ ہوا کرتی ہیں اور یہ دلائل مختلف شکلیں بناتے ہیں اور مختلف قوموں کے سامنے مختلف صورتوں میں آتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ متنبہ کرنا چاہتا ہے کہ تم یہ نہ سمجھ لینا کہ چونکہ دلائل ہمارے ساتھ ہیں اس لئے دلائل کے زور پر ہم فتح پا جائیں گے.جن قوموں سے تمہارا مقابلہ ہے ان میں ایسی بھی ہیں جو دلائل کو نہیں مانیں گی.وہ دلائل کے میدان میں جتنی زیادہ شکست کھا ئیں گی اتنا زیادہ ان کا غصہ بڑھتا چلا جائے گا.پس محض دلائل کے برتے پر تم اس دنیا میں زندہ نہیں رہ سکتے.تمہیں لازماً میری طرف جھکنا پڑے گا اور مجھ سے تعلق بڑھانا پڑے گا کیونکہ ایسا وقت آنے والا ہے کہ تمہارے سارے دلائل بے کار چلے جائیں گے اور تمہیں بچا نہیں سکیں گے بلکہ برعکس نتیجہ پیدا کر دیں گے.تمہارے دلائل دلوں کو نرم کرنے کی بجائے انہیں اور زیادہ سخت کر دیں گے.احساس خفت انتقام میں تبدیل ہو جائے گا.تب صرف میں ہوں جو تمہیں بچا سکتا ہوں اس لئے دلائل پر انحصار نہیں کرنا، ہمیشہ میری ذات پر انحصار کرنا ہے، میری طرف جھکنا ہے، مجھے سے تعلق جوڑنا ہے.پس اس راز کو کسی احمدی کو کبھی نہیں بھلانا چاہئے.آج ہمارا مختلف زمانوں سے مقابلہ ہے، کسی ایک زمانے سے مقابلہ نہیں ہے.ایسی قومیں بھی آج دنیا میں آباد ہیں جن کے عقائد ان لوگوں جیسے ہیں جنہوں نے حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام سے مقابلہ کیا تھا ، ایسی قومیں بھی آباد ہیں جن کے عقائد ان لوگوں جیسے ہیں جنہوں نے حضرت نوح علیہ السلام سے مقابلہ کیا تھا، ایسی قو میں بھی ہیں جن کے اعمال حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے اعمال کی طرح ہو گئے ہیں اور ایسی قو میں بھی ہیں جن کے اعمال لوط کی قوم کے اعمال کی طرح ہو گئے ہیں.پس وقت آگیا ہے کہ قرآن کریم کی یہ پیشگوئی پوری ہو وَ إِذَا الرُّسُلُ أُقِّتَتْ (المرسلت : ۱۳) کیونکہ آج سب نبیوں کی تو میں ہمیں مختلف خطہ ہائے ارض پر پھیلی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں.عقائد کے لحاظ سے بھی وہ سارے باطل عقائد آج دنیا میں موجود ہیں جو مختلف انبیاء کے زمانے میں پیدا ہوتے رہے اور اعمال کے لحاظ سے بھی وہ سارے بد اعمال آج دنیا میں موجود ہیں جو مختلف انبیاء کے زمانے میں قوموں کو گندگی سے بھر دیتے رہے.پس جماعت احمدیہ کا مقابلہ نہ کسی ایک قوم سے ہے نہ کسی ایک زمانے سے، ہم وہ ہیں جن کے اس زمانے کے امام کے متعلق فرمایا گیا:
خطبات طاہر جلد ۲ 303 خطبه جمعه ۲۷ رمئی ۱۹۸۳ء جَرِى اللهِ فِي حُلَلِ الْأَنْبِيَاءِ ( تذكره صفح ۶۳) کہ خدا کا پہلوان مختلف نبیوں کے لبادے اوڑھ کر آیا ہے اس کو کبھی ایک بدی کا مقابلہ کرنا پڑے گا اور کبھی دوسری بدی کا.اس وقت جتنی بھیا نک بدیاں اور تصورات ہمارے سامنے منہ کھولے کھڑے ہیں ان میں ہر قوم کے بد تصورات موجود ہیں اور ہر قوم کی بدیاں موجود ہیں.موسیٰ علیہ السلام کے مقابل پر دہریت کا اعلان کرنے والے بھی آج موجود ہیں اس لئے جہاں آپ کو ان سب بدیوں سے نبرد آزما ہونا ہے وہاں یہ یقین کامل بھی ہمیشہ رکھنا ہے کہ ان سب قوموں کا خدا آپ کے ساتھ ہے.اس خدا سے تعلق جوڑیں کہ وہ سارے معجزات آپ کے حق میں رونما ہوں گے جو مختلف نبیوں کے حق میں کبھی رونما ہو چکے ہیں.جتنا خطرناک مقابلہ ہے اتنا ہی شاندار انجام بھی آپ ہی کا ہے.پس دعا کریں اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں.بہت ہی خوش قسمت ہے وہ قوم جس کو اس عظیم الشان کام کے لئے چنا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہو.ہمیں ہر لحاظ سے وہ اپنے ساتھ رکھے اور اپنے پر تو کل کرنے کے طریقے سکھائے.وہ اسلوب سکھائے جس سے ہم خدا والے بن جائیں اور پھر وہ ہر معاملے میں ہر دوسرے سے بڑھ کر ہمارے لئے غیرت دکھائے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.روزنامه الفضل ربوه ۱۶ اکتوبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 305 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء شان ابراہیمی اور عصمت انبیاء (خطبه جمعه فرموده ۳ /جون ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: وَإِذْ قَالَ إِبْرَهِيمُ لِأَبِيْهِ أَزَرَ اَتَتَّخِذُ اصْنَامًا الِهَةً انى آريكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَللٍ مُّبِيْنٍ وَكَذَلِكَ تُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَلِيَكُوْنَ مِنَ الْمُوْقِنِينَ فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ رَا كَوْكَبًا قَالَ هُدَارَى فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أَحِبُّ الْأَفِلِينَ فَلَمَّارَاَ الْقَمَرَ بَازِغَا قَالَ هَذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَبِنْ لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّ لَا كُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ فَلَمَّارَا الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هُذَا رَبِّ هَذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يُقَوْمِ إِنِّي بَرِى مِمَّا تُشْرِكُونَ اِنّى وَجَهتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَّ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ ن قَالَ أَتُحَاجُونِي فِي اللهِ وَقَدْهَدَينِ * وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن تَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّ كُلَّ
خطبات طاہر جلد ۲ 306 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ) وَكَيْفَ أَخَافُ مَا أَشْرَكْتُمْ وَلَا تَخَافُونَ أَنَّكُمْ أَشْرَكْتُمْ بِاللَّهِ مَالَمْ يُنَزِّلُ بِهِ عَلَيْكُمْ سُلْطَنَّا فَأَيُّ الْفَرِيقَيْنِ أَحَقُّ بِالْأَمْنِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ الَّذِينَ آمَنُوْا وَلَمْ يَلْبِسُوا إيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ أُولَك لَهُمُ الْاَمْنُ وَهُمْ مُهْتَدُونَ وَتِلْكَ حُجَّتُنَا أَتَيْنَهَا إبْرُ هِيْمَ عَلَى قَوْمِهِ نَرْفَعُ دَرَجَتٍ مر : نَشَاءُ إِنَّ رَبَّكَ حَكِيمٌ عَلِيمٌ (الانعام: ۷۵-۸۴) قرآن کریم نے مختلف انبیاء کو مختلف صفات حسنہ سے متصف دکھایا ہے اور وہ تمام صفات حسنہ جو مختلف انبیاء میں نمایاں شان کے ساتھ نظر آتی ہیں وہ تمام کی تمام بلکہ ان سے شان میں بہت بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے مبارک وجود میں جمع ہو گئیں.قرآن کریم کا یہ اسلوب بیان اور طریق حکمت ہے جس کے ساتھ اس نے ان تمام خوبیوں کو جو انبیاء میں ورق ورق پھیلی پڑی تھیں ان کو مجموعی رنگ میں آنحضرت ﷺ کی ذات میں اکٹھا کر دیا ہے اور سب انبیاء سے آپ کو ہرشان میں بڑھ کر دکھاتا ہے.حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی جو خوبیاں قرآن کریم نے نمایاں طور پر پیش کیں ان میں ایک آپ کی سچائی تھی.فرمایا ان كَانَ صِدِّيقًا نَبِيَّان (مریم:۴۲) وہ بہت ہی سچ بولنے والا اور جھوٹ سے بہت متنفر انسان تھا.آپ کی دوسری خوبی توحید کے ساتھ عشق دکھائی گئی یعنی ایسا کامل موحد ، شرک سے ایسا بیزار کہ کبھی کسی صورت میں بھی جان ، مال ، عزت کی پرواہ نہ کی اور بے دھڑک ہر چیز خدا کی توحید کی خاطر داؤ پر لگا دی، نہ اپنوں سے خوف کھایا نہ غیروں سے، نہ ماں باپ کا احترام حائل ہوا.غرض توحید کے مقابل پر ہر دوسری قدر کو حقیر اور ذلیل سمجھا اور خالصہ اللہ ہو گئے اور واقعہ حقیقت پر قائم ہوتے ہوئے فرمایا وَ مَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ کہ دیکھو! میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں.میری طبیعت میں ہی شرک داخل نہیں ہے.میں توحید کے ساتھ عشق کے ایسے بندھن میں باندھا گیا ہوں اور میرے خمیر میں اللہ تعالیٰ کی توحید کچھ اس طرح رکھ دی گئی ہے اور میری گھٹی میں اللہ کی محبت پلا دی گئی ہے کہ شرک سے کبھی کسی مقام پر اور کسی منزل پر میرا کوئی علاقہ اور
خطبات طاہر جلد ۲ 307 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء تعلق نہیں دیکھو گے.وَمَا آنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ کسی حالت میں بھی مجھے شرک کرنے والوں میں سے نہیں پاؤ گے.علاوہ ازیں حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی تیسری خوبی یہ بیان فرمائی گئی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حجت میں کمال رکھتے تھے.دلائل اور براہین میں آپ کو ایک غیر معمولی ملکہ عطا کیا گیا تھا.مقابل پر آپ ایسے براہین پیش کرتے تھے اور ایسے دلائل دیا کرتے تھے کہ فبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ (البقرۃ: ۲۵۹) مد مقابل حیران و ششدر رہ جاتا تھا ن كموا عَلَى رُءُوسِهِمْ (الانبیاء: ۲۶ ) مخالف گویا سروں کے بل الٹ جایا کرتے تھے.لیکن بڑی بدقسمتی ہے کہ سرسری نگاہ سے ان آیات کا مطالعہ کرنے والے بعض لوگوں نے جب تفسیریں لکھیں تو ہر جگہ جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خوبی بیان کی گئی تھی وہیں اس کے برعکس ا نقص بیان کرنے شروع کر دیئے ، جہاں سچائی کا کمال دکھایا گیا تھا وہاں جھوٹ نظر آ گیا ، جہاں توحید کی شان بتلائی گئی تھی وہاں شرک دکھائی دیا اور جہاں کمال درجہ کی محبت بتائی گئی وہاں ایک ایسی لغو دلیل آپ کی طرف منسوب کر دی جو بالکل بے کار، بے معنی اور بے حقیقت ہو.بسا اوقات یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا دشمنی کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ یہ بات نہیں.نادان کی دوستی بعض اوقات ہو شیار دشمن کی دشمنی سے زیادہ نقصان دہ ثابت ہوتی ہے.غفلت کی آنکھ سے دیکھا گیا ہے دشمنی کی آنکھ سے نہیں دیکھا گیا لیکن نتیجہ وہ نکالا جو دشمن کو مطلوب تھا اور اس طرح دشمن کے ہاتھ مضبوط کئے گئے.چنانچہ میں نے ایک مثال پچھلے خطبہ میں آپ کے سامنے رکھی تھی.اب میں دوسری مثال آپ کے سامنے رکھتا ہوں.گزشتہ خطبہ میں جن آیات کی میں نے تلاوت کی تھی ان کی تفسیر میں لکھتے وقت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صدق پر بھی حملہ کیا گیا اور آپ کی حجت پر بھی حملہ کیا گیا یعنی قرآن کریم کی طرف سے جو خو بیاں بیان کی گئی تھیں ان کو الٹا کر دیکھا گیا.اللہ تعالیٰ تو بڑے فخر سے اس واقعہ کو پیش فرمارہا ہے اور فرماتا ہے دیکھو! کیسی شاندار حجت تھی ابراہیم کی لیکن اس کے برعکس بتایا یہ جاتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بت توڑنے کے بعد جھوٹ کے ذریعہ بچنے کی کوشش کی تھی لیکن ایسا کمزور اور الیسا بودا سا جھوٹ تھا کہ فوراً پکڑا گیا.اور خدا فرماتا ہے کہ دشمن نے منہ کی کھائی اور بیان
خطبات طاہر جلد ۲ 308 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء کرنے والے کہتے ہیں گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (نعوذ باللہ ) منہ کی کھائی.منہ کی تو وہ کھاتا ہے جس کا جھوٹ موقع پر پکڑا جائے اور جو ذلیل ہو جائے اور پھر اپنے کئے کی سزا پانے کے لئے اسے مقتل کی طرف گھسیٹا جائے وہ شخص منہ کی کھاتا ہے یا وہ جو دھوکے میں نہیں آتا؟ تو گویا تفسیر نے سارے مضمون کو الٹ دیا.اللہ تعالیٰ تو یہ بیان فرمارہا تھا کہ میرا بندہ اتنادلیر، اتنا قوی اور ایسے شاندار دلائل پیش کرتا ہے کہ دلائل کے رنگ میں اس نے ایک ایسی بات بیان کی کہ دشمن اپنی شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا اور دشمن جانتا تھا اس وقت بھی کہ ابراہیم محض اس کو ذلیل کرنے کی خاطر یہ طریق اختیار کر رہا ہے بچنے کی خاطر نہیں کیونکہ بچنے کی خاطر اگر طریقہ اختیار کرنا ہوتا تو پہلے خودان کو کیوں بتاتا ؟ اس لئے جب وہ ذلیل و خوار ہوئے اور حجت باقی نہ رہی تب وہ اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئے اور ابراہیم کے مقابل پر تلوار اٹھانے کی کوشش کی اور آگ میں جلانے کی دھمکی دی.جو آیات میں نے آج تلاوت کی ہیں ان میں توحید کا مضمون خصوصیت کے ساتھ بیان ہوا ہے اور انہی آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف بعض مفسرین نے شرک منسوب کیا ہے.آپ کا درجہ صداقت آپ کی حق گوئی کا کمال بھی دکھایا گیا ہے اور انہی آیات میں مفسرین کو وہ مقام مل گیا جہاں کہتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جھوٹ بولا.یعنی حق کی خاطر جھوٹ بولا ، اللہ کی خاطر جھوٹ بولا.حیرت انگیز تضاد ہے.حق اور جھوٹ کا کیا تعلق؟ روشنی اور اندھیرے کا کیا تعلق؟ خدا کی خاطر جھوٹ بولنا تو ایسا لغو فعل ہے جسے کوئی معمولی عقل کا انسان بھی نہیں کر سکتا کجا یہ کہ اللہ بڑی شان کے ساتھ ایک کامل اور صادق نبی پیش کر رہا ہو اور بیان یہ کر رہا ہو کہ دیکھو میرے بندہ نے میری خاطر جھوٹ بولنے کی کوشش کی تھی مگر کامیاب نہیں ہوا.کیسا لغو خیال بن جاتا ہے.ان آیات میں یہ بتایا گیا ہے اور اس کا آغا ز دیکھئے کہ کس شان کے ساتھ کیا گیا ہے.فرماتا ہے کہ ابراہیم تو شروع سے ہی میری خاطر لوگوں سے بحث کرنے والا تھا.بچپن سے ہی وہ میرا تھا اور اپنے چچا سے بحثیں کیا کرتا تھا کہ یہ کیا جھوٹے بت بنا کر تم ان کے آگے بیٹھ رہے ہو.میں تمہیں بھی اور تمہاری قوم کو بھی کھلی کھلی گمراہی میں دیکھ رہا ہوں.پس یہ ہے مضمون کا آغاز جس میں ایک کامل موحد کی شان بیان کرتے ہوئے پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے ابراہیم کو اسی حالت پر نہیں رہنے دیا.اس پر ہم نے عرفان کی بارش کی ، اس کو
خطبات طاہر جلد ۲ 309 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء آفاقی حکمتیں بھی سکھائیں اور اندرونی حکمتیں بھی اس پر روشن کیں.فرمایا کہ اس کی آفاقی حکمتوں کو پانے کا انداز یہ تھا کہ ابراہیم بسا اوقات اپنے رب کی ذات میں مگن ہو کر دشمن کے دلائل پر غور کیا کرتا تھا اور سوچا کرتا تھا کہ میں دشمن کو کس طرح شکست دوں.چنانچہ اسی کیفیت میں اس کی آسمان پر نظر گئی اور اس نے ستاروں کو دیکھا اور کہا اچھا یہ ہے میرا رب جو بیان کیا جاتا ہے یعنی یہ جاہل قوم ہے.ان کے بتوں کی تو ہمارے سامنے کوئی حیثیت نہیں.جب بتوں سے اوپر جائیں گے تو پھر ستاروں کو پیش کریں گے کہ یہ ہیں تمہارے رب اور پھر جب اس نے ستاروں کو ڈوبتے ہوئے دیکھا تو کہا دشمن کے خلاف کیسی اچھی دلیل ہاتھ آئی.اب میں ان سے کہوں گا کہ اچھا! یہ میرا رب ہے.لوڈوب گیا تمہارا رب.میرا تو یہ رب نہیں ہوسکتا جو ڈوب جانے والا ہو.پھر وہ اس سے بڑھ کر چاند کو میرے سامنے پیش کریں گے.یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی Soliloquy یعنی اپنے دل سے باتیں کرنے کی کیفیت دکھائی گئی ہے.ان کا از خود باتیں کرنا اور فکر میں ڈوبنا اور خدا کی خاطر دلائل تلاش کرنا ، آفاق سے دلائل حاصل کرنا جیسا کہ قرآن کریم خود بیان کر رہا ہے.نُرِى إِبْرَاهِيمَ مَلَكُوتَ السَّمواتِ وَالْاَرْضِ ہم نے اس کو زمینی حجتیں بھی دی تھیں ، زمینی دلائل بھی اس پر روشن کئے تھے اور آسمانی حجتیں بھی اس کو عطا کی تھیں اور آسمانی دلائل بھی اس پر روشن کئے تھے اور طریق کار یہ تھا کہ وہ خدا کی ذات میں گم ہو کر بیٹھا سوچا کرتا تھا.اور پھر چاند پر اس کی نظر پڑی اور اس نے کہا کہ اچھا ستاروں کے بعد یہ چاند میرا رب بنایا جائے گا گویا کہ یہ میرا رب ہے تو چاند کو بھی اس نے ڈوبتے ہوئے دیکھا جیسا کہ ہمیشہ سے دیکھا کرتا تھا اور کہا کہ اچھی دلیل ہاتھ آئی.میں کہوں گا اچھا یہ بڑا ہے، شاید یہ ہومیر ارب لیکن دیکھ یہ بھی تو ڈوب گیا اور میں ڈوبنے والوں سے محبت نہیں کرتا.اور پھر سورج کو اس نے دیکھا اور کہا اس کے بعد دشمن کے پاس اور کوئی چیز پیش کرنے والی نہیں ہے.کائنات میں سب سے بڑی سب سے طاقتور اور سب سے زیادہ موثر چیز جودشمن کو دکھائی دیتی ہے وہ سورج ہے.تو میں ان سے کہوں گا هذا رتی یہ ہے میرا رب هذا اكبر یہ سب سے بڑا ہے اس لئے اگر کوئی رب ہونے کا حق رکھتا ہے تو یہ ہے مگر یہ رب تو روز ڈوبتا ہے اور ڈوبنے والا میرا رب کس طرح ہوسکتا ہے اس لئے تمہیں یہ رب مبارک ہوں مجھے یہ اب ہر گز کسی قیمت پر قبول نہیں ہیں.انی وَجَهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِى فَطَرَ السَّمَوتِ وَالْاَرْضَ یہ دلیل کامل ہوئی کہ میں تو اپنا
خطبات طاہر جلد ۲ 310 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء چہرہ ہمیشہ اپنے رب ہی کی طرف وقف رکھوں گا جس نے زمین آسمان کو اور ان سب چیزوں کو پیدا کیا.حنیفا ہمیشہ اس کی طرف جھکا رہوں گا، وَمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ اور مجھے تم کبھی کسی حالت میں بھی شرک کرنے والا نہیں پاؤ گے.یہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے توحید کامل کو جس شان سے پیش کیا ہے اس کو الٹاتے ہوئے بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کا شرک انہی آیات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے.ان کی عقل کی حالت حیرت انگیز ہے کہ جب شرک منسوب کیا تو فوراد ماغ میں خیال آیا کہ نعوذ بالله من ذلک قرآن کریم ایسی لغو بات کیسے کر سکتا ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام روزانہ ستاروں کو دیکھتے تھے ، چڑھتے ہوئے بھی اور ڈوبتے ہوئے بھی ،.چاند کو چڑھتا دیکھتے تھے اور ڈوبتا دیکھتے تھے ، سورج ہر روز طلوع ہوتا تھا اور غروب ہو جایا کرتا تھا تو اللہ تعالیٰ یہ کیا بات کر رہا ہے کہ اچانک ایک دن ستاروں کو انہوں نے خدا بنا لیا جو ہر روز ڈوب جایا کرتے تھے.کیا اس دن پہلی دفعہ انہوں نے ستاروں کو ڈوبتا ہوا دیکھا تھا.کیا پہلی مرتبہ علم ہوا تھا کہ چاند غروب ہو جایا کرتا ہے اور سورج بھی ڈوب جاتا ہے.اس کا حل سنئیے.اس کا حل مفسرین نے یہ نہیں نکالا کہ لازماً یہ نتیجہ غلط ہے اور یہی حل ہونا چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے نبی کی طرف کوئی لغو فعل یا لغو کلام منسوب نہیں ہو سکتا اس لئے یہ نتیجہ غلط ہے.چنانچہ یہ نتیجہ نکالنے کی بجائے انہوں نے ایک کہانی بنائی جو ہمارے ملک کے بعض علاقوں میں رائج بچوں کی کتابوں میں انبیاء کی جو کہانیاں ہیں ان میں یہ کہانی درج ہے.بچوں کو اچھی طرح ذہن نشین کرانے کی خاطر کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام جو تو حید کے علمبردار اور توحید کے شہزادہ تھے دراصل وہ بھی نعوذ باللہ بڑے مشرک تھے اور یہ توجیہہ پیش کی گئی ہے کہ دراصل حضرت ابراہیم علیہ السلام جن کے متعلق بچپن سے ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ نبی بنے والا ہے اور بچپن سے ہی خطرہ تھا کہ اس نے بڑے ہو کر ہمارے خداؤں کے خلاف اعلان کرنا ہے.لہذا ان کے چچانے ان کو ایک اندھیری غار میں قید رکھا اور جب تک بالغ نہیں ہوئے انہوں نے نہ سورج دیکھا نہ چاند اور نہ ستارے کلیۂ اندھیرے میں پرورش پائی.جس دن غار سے پتھر ہٹا کر ان کو باہر نکالا گیا رات کا وقت تھا پہلے ستاروں پر نظر پڑ گئی رب کی تلاش میں بیٹھے ہوئے تھے انتظار کر رہے تھے.کہا اچھا پھر یہی رب ہوگا.(تفسیر ابن جریر طبری زیر آیت فلما جن علیہ الیل را کو کیا.الدر المنشور زیر آیت هذا ) ایسی لغو اور بے ہودہ کہانی بچپن سے لوگوں کے
خطبات طاہر جلد ۲ 311 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء دماغوں کو مسموم کرنے کے لئے پڑھائی جارہی ہے اور کوئی اس کی باز پرس نہیں کر رہا.خدا تعالیٰ نے تو بات ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تو حید کے مسئلہ پر باپ کے ساتھ جھگڑے سے شروع کی تھی یہ بتانے کی خاطر کہ تم دھوکے میں نہ پڑ جانا یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرز استدلال تھی.یعنی دشمن کے کلام کو جھوٹا کرنے کے لئے استعمال کرنا.یہ استدلال کی ایک طرز ہوا کرتی ہے.جس طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.ذُقُ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الكَرِيمُ (الدخان:۵۰) ہاں چکھ اب اس سزا کو تو تو عزیز بھی ہے اور کریم بھی ہے.تو کیا نعوذ بالله من ذالک خدا تعالیٰ نے جھوٹ بولا کہ دشمن کو، ذلیل وخوار بندہ کو جس کو جہنم میں ڈال رہا ہے ساتھ ہی یہ بھی فرما دیا کہ تو عزیز ہے اور کریم ہے ، بڑا غالب ہے اور بڑی عزت والا ہے.اگر وہاں سے جھوٹ کا نتیجہ نکلتا ہے یا شرک نکلتا ہے تو یہاں سے بھی نکلنا چاہئے.یہ ایک طرز کلام ہے استدلال کا ایک انداز ہے کہ دشمن کی بات اسی کے منہ سے بیان کی جائے اور پھر اس کو غلط ثابت کر دیا جائے اور جھوٹا ثابت کر دیا جائے.پس یہاں بھی یہی مراد تھی لیکن یہیں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایک جھوٹ کا بہتان بھی باندھ دیا گیا اور یہ کہا گیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اس گفتگو کے دوران جب اس نتیجہ پر پہنچے کہ میں ان لوگوں کو ذلیل کرنے کی خاطر ان کے بت تو ڑوں تو انہوں نے ایک موقع پر جواب دیا اِنّى اني سقيم (الصافات:۹۰) میں تو بیمار ہوں اور دراصل یہ جھوٹ تھا، حضرت ابراہیم علیہ السلام بیما کوئی نہیں تھے.ان کی نیت یہ تھی کہ یہ لوگ چلے جائیں تو پھر میں ان کے بتوں کو تو ڑ دوں.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق جوانی سقیم کا لفظ استعمال ہوا ہے اس کو بہانہ بنا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام پر جھوٹ کا بھی الزام لگا دیا گیا حالانکہ واقعہ یہ ہے سقیم کا لفظ مختلف معانی میں محاورتاً استعمال ہوتا ہے جس طرح مثلاً انگریزی میں کہتے ہیں I am sick of you میں تم سے بیمار ہو گیا ہوں، میں تھک گیا ہوں، میں بے زار ہوں.غرض کسی سے انتہائی بے زاری کے اظہار پر لفظ بیمار استعمال کیا جاتا ہے اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ تم نے تو مجھے بیمار کر دیا ہے.تم ایسے لغو دلائل پیش کر رہے ہو اور ایسی بے عقلی کی باتیں کر رہے ہو کہ تم نے تو گویا مجھے بیمار کر دیا، مجھے لاچار کر کے رکھ دیا ہے، میرے اعصاب تو ڑ دیئے ہیں.یہ بھی ایک طرز بیان ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 312 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء پس حضرت ابراہیم علیہ السلام جب محو گفتگو تھے اور دشمن نہایت ہی لغو اور بے معنی دلائل سامنے پیش کر رہا تھا اس وقت حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہلاتی سقیم میں تو تمہاری باتوں سے بیمار ہوا جاتا ہوں یا تمہارے غم میں بیمار ہوا جاتا ہوں تم کیوں ہلاک ہو رہے ہو اور کیوں پاگلوں والی باتیں کرتے ہو.چنانچہ اس اظہار کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے جھوٹ کے طور پر پیش کیا گیا کہ گویا آپ یہ کہنا چاہتے تھے کہ میں بیمار ہو گیا ہوں مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ.چنانچہ اس پر وہ ابراہیم کو اپنے بتوں کے پاس چھوڑ کر چلے گئے جو یہ کہتا تھا کہ میں بتوں کو توڑ دوں گا.وہ لوگ بھی عجیب احمق تھے کہ دھو کے میں آگئے ، بحث تو یہ ہو رہی ہے کہ اچھا جب میرا داؤ لگے گا میں بتوں کو توڑ دوں گا اور اچانک کہتا ہے میں بیمار ہو گیا ہوں.ان کا جواب تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ بیمار ہو گئے ہو تو گھر جا کے بیٹھو یہاں بت خانے میں کیا کر رہے ہو.لیکن مفسرین کہتے ہیں کہ نہیں، انہوں نے کہا اچھا اگر بیمار ہو گئے ہو تو پھر اسی بت خانے میں لیٹ جاؤ.چنانچہ وہ چلے گئے تو انہوں نے پیچھے سے بت توڑ دیئے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم احسانات میں سے ایک یہ احسان بھی ہے کہ آپ نے تمام انبیاء کی عصمت کو دوبارہ ثابت کیا اور وہ تمام الزامات جو کلام حکیم پر لگائے گئے تھے اور خدا کے مقدس انبیاء پر لگائے گئے تھے ان کو یک قلم چاک فرما دیا اور اپنے غلاموں کو ایسی سوچ عطا کی کہ جس کے نتیجہ میں کلام حکیم ایک نئی شان کے ساتھ ہم پر جلوہ گر ہوا اور انبیاء علیہم السلام کی قوت قدسیہ ہم پر خوب اچھی طرح روشن ہوئی اور ہم نے پہچان لیا کہ اللہ کے بندے جن کو خدا نبوت کے لئے چنا کرتا ہے وہ ہر قسم کے عیوب سے پاک ہوتے ہیں ہر قسم کی خوبیاں ان کو عطا کی جاتی ہیں.ان کی مثالیں ان کی خوبیوں کو زندہ رکھنے کے لئے ہمیشہ پیش کی جاتی ہیں اس لئے نہیں کہ ان کی برائیاں گنوا کر ہمیشہ کے لئے اللہ تعالیٰ ان کو دنیا میں ذلیل و خوار کرے.ایسا الٹ مضمون جب پیش کیا جاتا تھا تو ہمیشہ دشمن نے اس سے فائدہ اٹھا یا.چنانچہ مستشرقین نے سب سے زیادہ اعتراضات کلام حکیم اور انبیاء پر انہی مفسرین کے کندھوں پر بندوقیں رکھ کر چلاتے ہوئے کئے ہیں.ہر مستشرق کا اعتراض جب آپ اٹھا کر دیکھتے ہیں آپ کا دل خون ہو رہا ہوتا ہے.لیکن اس کے ہاتھ میں ہتھیار کیا ہیں.وہ یہی ہیں کہ آپ کے فلاں مفسر نے یہ لکھا ہے.آپ کے فلاں مفسر نے یہ لکھا ہے اور آپ کے فلاں مفسر نے یہ لکھا ہے ، ان مفسرین سے پوچھو جو
خطبات طاہر جلد ۲ 313 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء قرآن کو سمجھتے تھے ، جو قرآن کی زبان جانتے تھے، جو انہی لوگوں میں پیدا ہوئے ، ہم تو ان کے منہ کی باتیں کر رہے ہیں اپنے منہ کی باتیں تو نہیں کر رہے اس لئے لڑنا ہے تو ان لوگوں سے لڑو.یہ ایک ایسا لمبا سلسلہ چل پڑا تھا کہ قرآن کریم کی ہر خوبی میں دشمن کو ایک نقص نظر آنے لگا اور انبیاء کی ہر پاکیزگی میں دشمن کو ایک خرابی دکھائی دینے لگی اور کلام حکیم دشمنوں کی نگاہ میں گویا کہ ایسی داستانوں کی کتاب بن گیا جن میں نعوذ باللہ خدا تعالیٰ کے پیاروں کی بدکاریاں اور ان کے گناہ اور ان کی گندگی کا اظہار کیا گیا تھا اور قیامت تک اس کو محفوظ کر دیا گیا تھا.گویا یہ تعلیم دے رہا تھا کہ میرے پیارے تو ایسے ہوتے ہیں اور ان سے ادنیٰ درجہ کے جولوگ ہیں ان کے لئے میں کیا کچھ نہ برداشت کر جاؤں گا.جس کو میں سچائی کے شہزادہ کے طور پر پیش کرتا ہوں، وہ تو یہ ابراہیم ہے نعوذ باللہ تین جھوٹ بولنے والا.جو عام لوگ ہیں جو ولی بھی نہیں جو کسی اعلیٰ مقام پر فائز نہیں ہیں وہ اگر تین ہزار جھوٹ بول جائیں تو میں کیوں معاف نہیں کروں گا اس لئے اگر سچائی کا شہزادہ تین جھوٹ بولنے والا ہے تو عام انسان تین ہزار چار ہزار جھوٹ بے شک بولے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اگر میر اوہ بندہ جس کو توحید کے شہزادہ کے طور پر میں پیش کرتا ہوں جس کی اظہار تو حید کی شان مجھے بہت پسند آئی وہ ایسا تھا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شرک میں مبتلا ہو جایا کرتا تھا تو اے بنی نوع انسان ! تمہیں کیا فرق پڑتا ہے! اس نے اگر ستاروں چاند اور سورج کو خدا بنایا تھا تو تم زمین کے کیڑوں مکوڑوں کو اور درختوں اور جھاڑیوں کو خدا بنا لو گے تو مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا.پس تفسیروں کی رو سے واقعہ ابرہیم کی ایسی بھیانک شکل بنتی ہے جس پر مستشرقین کو اعتراضات کا بہانہ مل گیا.اور یہ کوئی استثنائی واقعہ نہیں ہے.ہر مقام پر بلا استثناء جہاں قرآن کریم میں کسی نبی کی کوئی خوبی بیان کی گئی وہیں بد قسمتی سے اس نبی میں کیڑے ڈالنے کا عذر تلاش کر لیا گیا.حضرت یوسف علیہ السلام کی مثال لیجئے جسے اللہ تعالیٰ احسن القصص کے طور پر پیش فرماتا ہے کہ دیکھو! میرا یوسف کیسا پاک تھا، کتنا عظیم الشان وجود تھا، عصمت کا شہزادہ تھا اور جتنے بھی عصمت کے واقعات گزرے ہیں ان میں سب سے پیارا واقعہ مجھے یہ پسند آیا ہے جسے میں احسن القصص کے طور پر تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں اور تفاسیر پڑھیں تو عصمت کے اس شہزادہ پر وہ ظلم کئے گئے ہیں کہ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس سے زیادہ مغلوب الشہوات انسان کوئی نہیں تھا اور نعوذ باللہ من ذالک اسے فخر کے طور پر
خطبات طاہر جلد ۲ 314 خطبه جمعه ۳/ جون ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ پیش کر رہا ہے.پس ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے احسان تلے دبے ہوئے ہیں اور آپ کے عشق کے دعوے کرتے ہیں اور آپ کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کرنے کے لئے تیار ہیں اور اس لئے تیار ہیں کہ آپ نے قرآن کو ہم پر روشن فرمایا، آپ نے انبیاء کی عصمت کو دوبارہ دلائل دے کر بیان فرمایا.دل یقین سے بھر گئے کہ اللہ کے سارے نبی پاک تھے اور سب سے زیادہ پاک حضرت محمد مصطفی ملے تھے.اللہ کی طرف سے تمام کتا ہیں حکمت اور سچائی پر مبنی تھیں اور سب کتابوں سے بڑھ کر قرآن کریم تھا جو سچائی اور حکمت پر مبنی ہے اور ہمیشہ رہے گا.اللہ تعالیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر ہمیشہ رحمتیں نازل فرما تار ہے اور آپ کے اس غلام کامل پر بھی جس نے آپ کے مقام کو بڑی پیاری شان کے ساتھ ہم پر واضح فرمایا اور ہمیشہ کے لئے آپ کی محبت میں ہمیں مغلوب کر دیا.آپ کی محبت میں ہمیشہ کے لئے ہمیں اس طرح محو کر دیا کہ جس قسم کی بھی قیامت ہمارے سر سے گزر جائے ہم حضرت محمد مصطفی ﷺ اور آپ کے در اور آپ کے قدموں کو نہیں چھوڑ سکتے.روزنامه الفضل ربوه ۲۴ /اکتوبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 315 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء روزوں کی برکات اور ہمارے فرائض (خطبه جمعه فرموده ۱۰ر جون ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ البقرہ کی مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ أَيَّامًا مَّعْدُودَتٍ فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنِ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَاَنْ تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ.شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَبَيْنَةٍ مِنَ الْهُدَى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ - يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدِيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى b
خطبات طاہر جلد ۲ 316 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة : ۱۸۴ - ۱۸۷) یہ جمعہ جو ہم آج پڑھ رہے ہیں یہ رمضان شریف سے پہلے آخری جمعہ ہے اور انشاء اللہ آئندہ جمعہ رمضان المبارک کے ایام میں آئے گا اس لئے آج کے خطبے کے لئے میں نے وہ آیات چنی ہیں جن کا تعلق رمضان المبارک سے ہے اور جن میں روزہ رکھنے سے متعلق ہدایات دی گئی ہیں اور اس کے فوائد سے آگاہ کیا گیا ہے.سب سے پہلے تو اللہ تعالیٰ مومنوں کو یہ بتاتا ہے کہ تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں.تم سے پہلے لوگوں پر بھی فرض کئے گئے تھے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو.اس کے دو مفہوم ہو سکتے ہیں.ایک تو یہ کہ پڑھنے والا یہ سمجھے گا کہ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہا ہے کہ دیکھو، ہم صرف تم پر ہی بتی نہیں کر رہے بلکہ تم سے پہلے لوگوں پر بھی کافی سختی ہوئی تھی اس لئے جہاں وہ بے چارے روزوں میں پکڑے گئے وہاں تم بھی پکڑے جارہے ہو، تو کیا فرق پڑتا ہے.لیکن یہ مفہوم ہرگز یہاں مراد نہیں ہے.دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ہم نے پہلوں کو بھی ایک نعمت عطا کی تھی.تم اس رسول کے ماننے والے ہو جس نے نعمتوں کو تمام کر دیا اور درجہ کمال تک پہنچا دیا اس لئے تمہارا زیادہ حق بنتا ہے کہ ہم یہ نعمت تمہیں عطا کریں.لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ کیونکہ روزوں کا نتیجہ تقویٰ ہے اور تقویٰ کی سے زیادہ حضرت محمد مصطفی علی نے دی اس لئے ضرور تھا کہ پہلوں سے زیادہ شان کے ساتھ تم پر روزے فرض کئے جاتے.مِنْ قَبْلِكُمُ میں قرآن کریم اس طرف بھی اشارہ فرما رہا ہے کہ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جس میں روزے فرض نہ کئے گئے ہوں اور تاریخ میں اس کا ذکر ملتا ہے.چنانچہ انسائیکلو پیڈیا برٹین کا اس مضمون پر لکھتا ہے کہ دنیا میں جتنے بھی مذاہب آئے ہیں ان میں ایک بھی ایسا نہیں جو روزے کے تصور سے خالی رہا ہو انسائیکلو پیڈیا برٹین کا زیر لفظ Fasting).یہ تحقیق اگر چہ آج کے زمانہ میں آسان ہے کیونکہ ساری دنیا کے مختلف تاریخی حالات مجتمع ہو چکے ہیں اور کتابی صورتوں میں انسان کی دسترس
خطبات طاہر جلد ۲ 317 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء میں آچکے ہیں مگر حضرت محمد مصطفی ﷺ کو جب یہ بتایا جارہا تھا تو دنیا کے مذاہب کی بھاری اکثریت ایسی تھی جن کے متعلق آنحضرت ﷺ کو اطلاع پانے کو کوئی بھی ذریعہ میسر نہیں تھا اس لئے سب سے پہلے تو توجہ اس طرف منعطف ہوتی ہے کہ عجیب شان کا رسول ہے اور عجیب شان کا کلام اس پر نازل ہو رہا ہے کہ ساری دنیا کے متعلق ایک ایسا دعویٰ کرتا ہے جس کے متعلق کوئی عقلی وجہ موجود نہیں کہ وہ تحدی سے کیا جا سکے اور پھر وہ درست بھی ثابت ہو.لیکن آج کے زمانے کا انسان جب کامل تحقیق اور ہر قسم کی جستجو کے بعد ایک نتیجہ نکالتا ہے تو وہ بعینہ وہی نتیجہ نکالتا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کو اللہ تعالی کی طرف سے آج سے چودہ سو سال پہلے بتا دیا گیا تھا.جب آپ تحقیق کریں گے تو آپ کے سامنے دوسرا پہلو یہ آئے گا کہ جس با قاعدگی اور نظام کے ساتھ ، جس تفصیل کے ساتھ اور جتنی زیادہ پابندیوں کے ساتھ مسلمانوں پر روزے فرض ہوئے ویسے کبھی کسی قوم پر فرض نہیں ہوئے.بائبل میں روزوں کا ذکر ملتا ہے.مثلاً دسویں محرم کے متعلق آتا ہے کہ یہ وہ دن تھا جب فرعون کے ظلموں سے بنی اسرائیل کو نجات دی گئی تھی.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تعلیم میں آتا ہے کہ اس دن کو یا درکھو اور روزہ رکھو ( احبار باب ۲۹:۱۴-۳۴).لیکن روزوں کا پورا ایک مہینہ فرض ہونا پہلے کبھی کسی قوم میں نظر نہیں آتا.علاوہ ازیں روزے کے متعلق جو تفصیلی ہدایات ہیں ان میں بھی بڑا فرق ہے.بعض پرانے مذاہب میں روزہ اس شکل میں ملتا ہے کہ آگ پر پکی ہوئی چیز نہیں کھانی، پھل جتنا چاہو کھا لو، فلاں چیز نہیں کھانی اور فلاں نہیں کھانی ، پانی پی سکتے ہو، دودھ پی سکتے ہو.تو یہ روزہ اسلامی روزے کے مقابل پر محض برائے نام اور سرسری سا روزہ بن جاتا ہے.پھر بعض مذاہب میں روزے کے ساتھ یہ بھی تاکید ہے کہ کام نہیں کرنا.یہ بھی عجیب بات ہے کہ کام کا بھی روزہ ہے.تو جس کو کام سے چھٹی مل جائے اس کا روزہ تو اور بھی آسان ہو جائے گا.یعنی بظاہر یہ ایسی پابندی ہے جو اسلامی روزے میں نہیں ہے.لیکن عملاً یہ پابندی نہیں ہے بلکہ رخصت لینے پر مجبور کر دیا گیا ہے کہ تم لوگ کمزور ہو تم میں طاقت نہیں ہے کہ دنیا کے کام کرو اور ساتھ روزہ بھی رکھ سکو اور اس کا حق بھی ادا کر سکو، ایسے لوگ بعد میں آئیں گے جو یہ کام کر سکیں گے.پس آنحضرت عے کو روزے کی جو تعلیم دی گئی ہے وہ ہر لحاظ سے کامل بھی ہے اور زیادہ مشقت طلب بھی ہے لیکن اس کے باوجود یہ وضاحت کر دی گئی کہ مشقت ڈالنا ہرگز مقصود نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 318 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ اس مضمون کو خوب کھول کر بیان کر دیتا ہے.اس کی ضرورت بھی اس لئے پیش آئی کہ جب انسان اسلامی روزے کی تعلیم پر غور کرتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ پہلے لوگوں پر اس کا عشر عشیر بھی فرض نہیں تھا اس لئے یہ وہم دل میں پیدا ہوسکتا ہے کہ کیا اللہ تعالیٰ سختیوں سے خوش ہوتا ہے؟ کیا اللہ تعالیٰ یہ پسند کرتا ہے کہ میرے بندوں پر بوجھ پڑے اور وہ تنگی محسوس کریں اور اس کے نتیجے میں محض تنگی اور محض تکلیف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا موجب بن جاتی ہے؟ جیسا کہ بعض مذاہب میں یہ تصور پایا جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ وضاحت فرماتا ہے کہ ہر گز ایسا نہیں.چنانچہ سہولتیں بھی دیتا چلا جاتا ہے اور پھر حکمتیں بھی بیان کرتا ہے کہ مقصد تقویٰ کو بڑھانا ہے.مراد مقصود زندگی عطا کرنا ہے تختی پیدا کرنا ہرگز مراد نہیں.یہ یمنی چیز ہے.مقصود بالذات نہیں ہے.آيا ما مَعْدُو دَتِ فرماتا ہے چند گنتی کے دن ہی تو ہیں.سارے سال میں سے صرف ایک مہینہ ہے.گویا موصی جو دسواں حصہ دیتا ہے اس سے بھی کم ، البتہ اگر رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے رکھ لیں تو پھر وصیت کا حق یعنی سال کا 1/10 بن جاتا ہے اور اس کا مضمون بھی پورا ہو جاتا ہے.بہر حال اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم پر یہ بہت معمولی بوجھ ہے اور جتنے فوائد ہیں ان کے مقابل پر یہ کچھ بھی نہیں ہے.گنتی کے چند دن آتے ہیں اور گزر جاتے ہیں.بعض لوگوں کے دل میں خوف پیدا ہور ہا ہوتا ہے اور بعض لوگ ان دنوں سے یہ حسرتیں لے کر گزررہے ہوتے ہیں کہ پتہ نہیں اگلے سال پھر یہ دن دیکھنے نصیب بھی ہوں گے یا نہیں.مگر دونوں قسم کے لوگوں کے دن تھوڑے ہی ہوتے ہیں سختی اور تنگی ترشی محسوس کرنے والوں کے دن بھی گزر جاتے ہیں اور دل میں حسرتیں لئے ہوئے لوگوں کے دن بھی گزرجاتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ہیں وہ روزے جو تم پر فرض کئے گئے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا قرآن کریم فرماتا ہے سختی کی خاطر فرض نہیں کئے گئے.اللہ تعالیٰ تم پر سختی وارد کرنے سے خوش نہیں ہوتا فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ تم میں سے جو بیمار ہو یا مسافر ہو فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ اس کے لئے فرض ہے کہ بعد کے دنوں میں روزوں کو پورا کرے.اس میں ایک سہولت دے دی گئی سختی کے روزے مثلاً انتہائی گرمی کے روزے جواب آنے والے ہیں ان میں کوئی شخص اگر بیمار ہو جاتا ہے یا سفر پر ہوتا ہے، اس پر یہ فرض نہیں ہے کہ وہ ضرور انہی دنوں میں گرمی
خطبات طاہر جلد ۲ 319 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء کی سختی میں روزے رکھے.اگر وہ بعد میں سردیوں کے آسان روزے بھی رکھ لیتا ہے تب بھی اس کا فرض پورا ہو جاتا ہے.اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ سختی اللہ تعالیٰ کے پیش نظر نہیں.وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسکین اس پر بہت سی بخشیں اٹھائی گئی ہیں کہ يُطيقُونَک سے کیا مراد ہے؟ واقعہ یہ ہے کہ اس کے جو مختلف پہلو ہیں وہ ہر امکان پر حاوی ہو جاتے ہیں.یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بعض مفسرین کے معنی ٹھیک ہیں اور دوسرے مفسرین کے غلط.امر واقعہ یہ ہے کہ انسانی زندگی کے حالات میں دونوں قسم کے مواقع بلکہ کئی قسم کے ایسے مواقع پیدا ہوتے ہیں جن پر اس حصے کے مضمون کو پھیر کر منطبق کریں تو ہر موقع پر آیت چسپاں ہو جاتی ہے.سب سے پہلے تو یطیقُونَہ کا مثبت ترجمہ ہے.یعنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جو فدیہ کی طاقت رکھتے ہیں.فرمایا ہم رخصت تو تمہیں دے رہے ہیں.بیمار ہو یا سفر پر ہو تو بے شک بعد میں روزے پورے کر لو لیکن روزہ نہ رکھنے کا تمہیں جو غم لگ جائے گا کہ سارے لوگ روزہ رکھ رہے ہیں اور ہم محروم رہ رہے ہیں، ہم تمہیں اس بوجھ کو ہلکا کرنے کی ایک ترکیب بتاتے ہیں کہ تم کسی غریب کو کھانا کھلا دیا کرو.اس سے تمہیں جو لذت حاصل ہوگی وہ اس غم کو کم کر دے گی کہ تم روزہ نہیں رکھ سکے.پس يُطيقُونَہ سے یہ مراد ہے کہ جن کو طاقت ہو، جن کے اندر استطاعت ہو کہ وہ غریب کو کھانا کھلا سکیں ان کے لئے بڑی سہولت ہے کہ وہ یہ کام کریں.اس طرح ان کا یہ غم کہ ہم روزے سے محروم رہ گئے کسی حد تک کم ہو جائے گا.لیکن اس ترجمے پر بعض دوسرے مفسرین کو اعتراض ہے کہ يُطِيقُونَہ میں ضمیر فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسکین کی طرف پھیری گئی ہے لیکن اس کا ذکر بعد میں آرہا ہے اور یہ اعلیٰ ادبی تقاضوں کے خلاف ہے کہ جس کا آپ ذکر کر رہے ہیں وہ بعد میں آئے اور ضمیر اس کی طرف پہلے پھیر دیں اس لئے انہوں نے کہا کہ یہ فصاحت و بلاغت کے خلاف ہے.دوسرے ان کو یہ اعتراض بھی پیدا ہوا کہ اگر “ کی ضمیر فدْيَةٌ کی طرف پھیریں تو فدیہ تو مونث ہے لیکن ضمیر مذکر کی پھیری گئی ہے یعنی يُطيقُونَہ میں مذکر کے لئے ہے اگر مونث کی طرف ضمیر پھیرنی ہو تو يُطِيقُونَهَا چاہئے تھا.ان دونوں باتوں کا بہترین جواب حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی نے دیا ہے.آپ کہتے ہیں کہ جہاں تک اول الذکر اعتراض کا تعلق ہے.فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينِ نحوی لحاظ 699
خطبات طاہر جلد ۲ 320 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء سے باعتبار رتبہ کے مقدم ہے گویا فی الحقیقت مبتداء ہے جو بہر حال پہلے ہوتا ہے اور یہ متعلق خبر ہے.یہ عربی کی بحث ہے زیادہ تفصیل میں میں اس وقت نہیں جاؤں گا مگر مختصر یہ کہ اس اعتراض کو انہوں نے یہ کہہ کر حل کر دیا کہ فِدْيَةٌ کا مقام باعتبار رہے کے پہلا ہے کیونکہ متبداء کا اصل مقام ہمیشہ پہلے ہی ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ جملوں میں بعض قوانین کے تابع تقدیم تاخیر ہو جاتی ہے.اس لئے یہ اعتراض رد ہو جاتا ہے اور فصاحت و بلاغت پر اس کا کوئی برا اثر نہیں پڑتا.دوسرے اعتراض کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اگر چہ لفظ فِدْيَةٌ مونث ہے مگر طَعَامُ مِسْکین اس کا بدل یعنی قائم مقام ہے جو مذکر ہے اور اصل مراد طعام مسکین ہے یعنی غریب کو کھانا کھلا نا فِدْيَةٌ کا معنی ہوگا بطور فدیہ غریب کو کھانا کھلانا.پس چونکہ اصل طَعَامُ مِسْكِينِ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے مذکر کی ضمیر اس طرف پھیر دی.حضرت شاہ ولی اللہ صاحب نے یہ دو وجوہات بیان فرمائی ہیں.ایک تیسری وجہ جو انہوں نے بیان نہیں فرمائی وہ واضح ہے کہ اگر مونث کی ضمیر پھیری جاتی تو دوسرے معانی جو اللہ تعالیٰ پیدا کرنا چاہتا تھا وہ پیدا نہ ہو سکتے کیونکہ پھر ضمیر صیام کی طرف نہیں پھر سکتی تھی اور اس میں بھی ایک نئے معنی پیدا ہو جاتے ہیں.اس لئے یہ فصاحت و بلاغت کا کمال ہے نہ کہ فصاحت و بلاغت سے گرنا کہ ضمیر کو اس طرح چنا گیا کہ بظاہر جو مونث ہے اس کی طرف بھی پھیری جاسکتی ہے اور جو مذکر ہے اس کی طرف بھی جاتی ہے اور مضمون میں بڑی وسعت پیدا ہو جاتی ہے (الفوز الکبیر: صفحہ ۱۸) اگر یہ کہا جائے کہ يُطيقُونَہ سے مراد روزہ رکھنے کی طاقت ہے تو اس سے تو مضمون الٹ پلٹ اور بے معنی ہو جاتا ہے.یہ تو بڑی واضح اور سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ يُطيقُونَهُ سے مراد فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْن ہے اور خدا تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہے کہ وہ لوگ جو کھانا کھلانے کی طاقت رکھتے ہوں ان کو ہم یہ نصیحت کرتے ہیں کہ جن دنوں وہ روزہ نہ رکھ سکیں وہ غریبوں کو کھانا کھلائیں تا کہ ان کو تسکین ملے کہ وہ بھی کسی نہ کسی رنگ میں عبادت میں شامل ہیں.مگر اس کے کیا معنی ہوئے کہ جولوگ روزے کی طاقت رکھتے ہیں وہ کھانا کھلائیں.جو روزے کی طاقت رکھتے ہیں کا جواب تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ روزہ رکھیں نہ کہ دوسروں کو کھانا کھلا کر چھٹی کر جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے يُطيقونہ کے یہ معنی بیان فرمائے ہیں کہ جو طاقت نہ
خطبات طاہر جلد ۲ 321 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء رکھتے ہوں ( بدر جلد ۶ نمبر ۳۹ مورخه ۲۶ ستمبر ۱۹۰۷) - بعض مفسرین نے بھی یہی معنی کئے ہیں لیکن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا حوالہ دوں گا.يُطيقُونَہ ایک ایسا فعل ہے جس میں منفی معنی بھی پائے جاتے ہیں کیونکہ باب افعال میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ بعض دفعہ وہ مثبت معنی دیتا ہے اور بعض دفعہ وہی باب منفی معنی بھی دے دیتا ہے.اس لحاظ سے جب يُطيقُونَہ میں کی ضمیر صیام کی طرف پھیری جائے گی تو یہ مطلب بنے گا کہ وہ لوگ جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے وہ غریب کو کھانا کھلائیں.لیکن اس کا کیا مطلب ہے کہ جو روزے کی طاقت نہیں رکھتے وہ غریب کو کھانا کھلا ئیں؟ کیونکہ جو طاقت نہیں رکھتے ان کو تو اللہ تعالیٰ چھٹی دے چکا ہے کہ وہ بعد میں روزے رکھیں.اس میں دراصل ایک اور مضمون پیدا ہو جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بعد میں ہر آدمی روزہ نہیں رکھ سکتا.کچھ لوگ ایسے ہیں جو وقتی بیمار ہوتے ہیں.چند دن بیمار ہوئے پھر صحت ہوگئی اور ان کو یہ تسلی ہو گئی کہ ہم بعد میں روزے رکھ لیں گے اور دراصل ان کا روزہ رکھنا ہی پہلے روزوں کا فدیہ ہے.پھر مسافر ہوتے ہیں جن کو عارضی سفر لاحق ہے اس کے بعد وہ فارغ ہو جاتے ہیں.لیکن کچھ بیمار ایسے ہوں گے جو دائم المرض ہیں یا عمر کے ایسے حصے کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ روزے کی طاقت ہی نہیں رکھتے.وہ کیا کریں گے؟ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ان کے لئے بھی میں ایک تسلی کا سامان رکھتا ہوں.وہ یہ دکھ محسوس نہ کریں کہ اب ہم کبھی بھی روزہ نہیں رکھ سکیں گے.وہ غریبوں کو کھانا کھلائیں اور اس طرح ان کے ساتھ شریک ہو جائیں.سوال یہ ہے کہ روزے اور غریب کو کھانا کھلانے کا کیا تعلق ہے؟ وہ تعلق دراصل یہ ہے کہ روزے میں انسان خود غریب بنتا ہے اور غریب کا دکھ بانٹ رہا ہوتا ہے.پھر روزے کا ایک یہ پہلو بھی ہے کہ جب وہ غریب کو کھانا کھلاتا ہے تو اپنا سکھ اسے دے رہا ہوتا ہے.دونوں جگہ غریب کو فائدہ پہنچ رہا ہوتا ہے.پس روزے کے بے شمار فوائد میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے امرا جن کو وافر اور کئی انواع کا کھانا میسر ہے وہ اگر روزہ نہ رکھیں تو ساری عمران کو پتہ ہی نہیں لگ سکتا کہ بھو کے پیٹ کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ شدید پیاس میں مبتلا انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ بھوکا ہو اور پھر کام کر رہا ہو اس کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ امیر جان نہیں سکتا کہ بھوک بعض دفعہ کام پر مجبور کر رہی ہوتی ہے کیونکہ کام کے بغیر بھوک نہیں ملتی.جتنا زیادہ کام کرتا ہے اتنی زیادہ بھوک بھڑکتی ہے.یہ سارے احساسات اور کیفیات
خطبات طاہر جلد ۲ 322 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء ایسی ہیں کہ جب تک کوئی ان میں سے نہ گزرے اس کو ان کا اندازہ نہیں ہوسکتا.دنیا کی باقی قوموں میں کوئی ایسا جبری نظام نہیں ہے کہ ہر امیر کو مجبور کر دیا جائے کہ کم از کم ایک مہینہ اپنے غریب بھائیوں کا دکھ محسوس کرو اور ان کا دکھ اپنے اوپر وار د کرو تا کہ تمہیں احساس ہو کہ معاشرہ کیا ہوتا ہے؟ اسلامی روزہ یہ احساس پیدا کرتا ہے جو روزہ رکھنے والے ہیں وہ جب کسی سے مزدوری لے رہے ہوتے ہیں تو ان کے دل کی اور کیفیت ہوتی ہے جو بے روزگار ہیں جن کو کوئی اندازہ ہی نہیں کہ بھوک کیا ہوتی ہے اور بھوک سے کام میں کیا مشکل پڑتی ہے ان کے دل کی اور کیفیت ہوتی ہے.اول الذکر یعنی جو روزہ رکھنے والے ہیں اور کام لے رہے ہوتے ہیں ان کے احساس کے نتیجے میں معاشرے میں بڑا حسن پیدا ہو جاتا ہے.معاشرے میں انسانی قدریں آجاتی ہیں.غریب اور امیر میں دوری بڑھتی نہیں بلکہ فاصلے کم ہو جاتے ہیں.بسا اوقات وہ مزدوروں کو خود روکتے ہیں کہ ٹھہرو، ہم تمہیں پانی پلاتے ہیں ، ہم تمہارے لئے کھانے کا انتظام کرتے ہیں، ایسی سہولتیں مہیا کرتے ہیں جو ان کے Contract یا معاہدے میں شامل نہیں ہوتیں.وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو کم از کم ایک مہینہ روزے کی ٹریننگ دے چکا ہوتا ہے.چنانچہ اس سے دوری کی بجائے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے لیکن بعض ظالم ایسے ہیں ( اور بڑی کثرت سے ایسے لوگ ملتے ہیں ) جو مزدور سے کام لے رہے ہوتے ہیں اور ساتھ گالیاں بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ تم سے چلا نہیں جاتا ، دوڑو، تیزی سے کام کرو، اپنا وقت پورا کرو.حالانکہ اس غریب کے پیٹ میں روٹی نہیں ہوتی.کمزوری محسوس ہو رہی ہوتی ہے.گرمی میں اور سردی میں اس کی جان نکل رہی ہوتی ہے اور یہ ظالم پوری طرح بے حس اور بے تعلق ہو کر مزدوروں سے زبر دستی کام لے رہے ہوتے ہیں گویاوہ کسی دوسری دنیا کی مشین ہیں.پس انسانی قدروں کو بڑھانے کے لئے روزہ ایک بہت ہی اہم چیز ہے.روزہ نام ہے غریب کے ساتھ دکھ بانٹنے کا.جب آپ مجبورا دکھ نہیں بانٹ سکتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پھر سکھ بانٹو.اپنے سکھ غریبوں کو دو اور اس طرح ان کے ساتھ شریک ہو جاؤ.جو نعمتیں تمہیں ملی ہیں وہ ان کو بھی عطا کرو.چنانچہ فدیے میں یہ روح رکھی کہ ہر شخص اپنی توفیق کے مطابق فدیہ دے.فدیہ جس کو دینا ہے اس کی حیثیت کے مطابق نہیں دینا.اس فلسفے کو اللہ تعالیٰ نے یہ فرما کر بڑا نمایاں کر دیا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 323 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس غریب کو تو ایک روٹی اور پیاز کافی ہے اس لئے میں ایک روٹی اور پیاز دے دوں گا اور میرا فدیہ پورا ہو جائے گا.اللہ تعالیٰ اس کی اجازت نہیں دیتا.سکھ تو نہ بانٹا گیا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے سکھوں میں غریبوں کو شریک کرو اگر تم اپنے لئے اعلی نعمتیں استعمال کرو اور نہایت اونچی قسم کے کھانے کھاؤ تو فدیہ تب ہوگا جب غریبوں کو بھی ویسا ہی کھانا کھلاؤ تا کہ ان کو بھی اندازہ ہو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں کیا کیا نعمتیں دی ہوئی ہیں ان کو بھی اپنے ساتھ شریک کریں.سارا سال نہ سہی ایک مہینہ ہی وہ تمہارے ساتھ شریک ہو جائیں.پس بہت سے جو مصالح ہیں ان میں سے یہ ایک دو مصالح ہیں جن کا وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ میں ذکر ہے.فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ند یہ ان پر فرض ہو گا جو روزہ نہیں رکھ سکتے.عَلَى الَّذِيْن میں جو فرض کے معنی پائے جاتے ہیں ان کا تعلق يُطيقُونَہ کے منفی معنوں کے ساتھ ہے.مراد یہ ہے کہ ایسے اشخاص جو روزے کی طاقت سے مستقلاً محروم ہو چکے ہیں ان کو لازماً فدیہ دے کر روزے کا حق ادا کرنے کا ایک اور طریق اختیار کرنا چاہئے اور یہ ان پر لازم ہے جن کے اندر فدیہ دینے کی طاقت ہے.اگر اتنا غریب ہے کہ اپنے لئے بھی کھانا میسر نہیں تو اس کو اللہ تعالیٰ مستغنی فرما دیتا ہے.اس آیت میں یہ دونوں مفہوم پائے جاتے ہیں.اب فرمایا کہ ہم جانتے ہیں ہمارے بندوں میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جو بعد میں روزہ رکھ بھی سکتے ہوں تب بھی ان کو بے قراری ہوگی کہ ہم کیوں محروم رہ رہے ہیں.فرمایا فَمَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ایسی اطاعت کی روح رکھنے والے جو اطاعت کی روح میں درجہ کمال رکھتے ہیں، خدمت کے کاموں میں پیش پیش ہیں اور دین کے کاموں میں آگے بڑھنے والے ہیں، اگر وہ اپنی طرف سے فدیہ دینا چاہیں تو ان کے لئے منع تو نہیں ہے.قطع نظر اس کے کہ وہ روزے کی طاقت رکھتے ہوں یا نہ رکھتے ہوں.جب وہ روزہ چھوڑیں تو فدیہ دیں.اس طرح ہم ان کو اس لذت میں شریک کر لیتے ہیں فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ اور یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ ان کے لئے بہتر ہوگا یعنی ساتھ فدیے کا طوعی نظام بھی جاری فرما دیا.وَان تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ یہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کو جھنجھوڑا ہے.بہت سے بیمار ایسے ہیں جو دل کے بھی بیمار ہوتے ہیں.بہت سے بیمار ایسے ہوتے ہیں جو جسم سے زیادہ روح کے بیمار ہوتے ہیں ان کو روزہ چھوڑنے کا بہانہ چاہئے.ان کو
خطبات طاہر جلد ۲ 324 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء چھینک آجائے تو وہ سمجھتے ہیں روزہ چھوڑ دینا چاہئے.ان کی طبیعت ذرا اداس ہو جائے تو وہ سمجھتے ہیں بیمار ہو گئے ہیں، روزہ چھوڑ دینا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ چھوڑ دینے کی جو اجازت ہے وہ تمہارے لئے نقصان کا سودا ہے فائدے کا سودا نہیں ہے.تمہاری مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر اللہ تعالیٰ نے روزہ چھوڑنے کی اجازت دی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو روزہ رکھتا ہے وہ اس آدمی کی نسبت بہت بہتر ہے جو مجبور اروزہ چھوڑتا ہے اس لئے عقل سے کام لینا اور اپنے فائدے کے خلاف کوئی فعل نہ کرنا.اپنے نفس کے خلاف فیصلہ نہ کر دینا کہ بظاہر تم آسانی میں پڑرہے ہولیکن حقیقت میں بہت بڑا گھاٹا کھا رہے ہو.وقت کی رعایت سے اس وقت میں درمیانی حصے کو ترک کر رہا ہوں اور آخری حصہ جو مدعا اور مقصود اور مطلوب ہے روزوں کا اس کو بیان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ کہ جب میرے بندے تجھ سے سوال کریں کہ میں کہاں ہوں اور مجھے کیسے پایا جاسکتا ہے ؟ فَإِنِّي قَرِيب تو تیرے جواب دینے سے پہلے ہم ان کو بتا رہے ہیں کہ میں ان کے قریب ہوں.یہ نہیں فرمایا کہ اے رسول! تو ان سے کہہ دے کہ میں قریب ہوں بلکہ فرمایا میں خود کہتا ہوں کہ میں قریب ہوں أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِبْوَالِى وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ میں ان کی دعوت کا جواب دیتا ہوں ، ان کی پکار کوسنتا ہوں اور قبول کرتا ہوں لیکن یہ یکطرفہ راستہ نہیں ہے.وہ یہ نہ سمجھیں گویا اللہ تعالیٰ ان کا نوکر بن گیا ہے کہ وہ حکم دیتے چلے جائیں اور اللہ تعالیٰ منظور کرتا چلا جائے گا.فرمایا یہ تعلق کا دو طرفہ رستہ ہے.فَلْيَسْتَجِوانِى وه میری باتوں کا بھی جواب دیا کریں اور ان کے فوائد کی خاطر جو صیحتیں میں ان کو کرتا ہوں ان پر عمل کیا کریں ، تب یہ رشتہ چلے گا اور یہ صیحتیں وہ ہیں جو اس سے پہلے روزے کے متعلق کی جاچکی ہیں.الغرض روزے کا اللہ تعالیٰ خود جواب ہے وہ خود اس کا پھل ہے اور اسی پھل کی طرف مذکورہ بالا آیت میں اشارہ کیا گیا ہے.فرمایا اگر تم مجھے ڈھونڈتے ہو تو روزے کی عبادت اختیار کرو یہ کامل عبادت ہے.اس عبادت کے بعد تم سب سے اعلیٰ جنتیں حاصل کر لو گے اور وہ میری رضا کی جنتیں ہیں.دنیا میں کوئی عبادت بھی ایسی متصور نہیں ہو سکتی جو ساری عبادتوں کی جامع ہو سوائے روزے کے.اس میں ہر چیز آجاتی ہے.بدنی، جسمانی، جذباتی ، روحانی غرض عبادت کا کوئی پہلو ایسا نہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 325 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء ہے جو روزے میں نہ آتا ہو.اس لئے اللہ تعالیٰ خود روزے کا مقصود بن جاتا ہے.اس مضمون کی احادیث تو بکثرت ملتی ہیں.سوال یہ ہے کہ قرآن کریم میں اس طرف کہاں اشارہ ہے؟ سواول تو یہاں ، جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے، روزے کا مقصود اللہ تعالیٰ کی ذات کو قرار دیا گیا ہے ، روزوں کے حکم کے معا بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات کو رکھ دیا.فرمایا اگر روزے رکھو گے تو میں تمہارے قریب آجاؤں گا، اگر عبادتوں کا حق ادا کرو گے تو میں تمہارے پاس ہوں گا لیکن اس سے پہلے جو آیات گزری ہیں ان میں بھی اس مضمون کو بڑے عجیب طریق پر بیان فرمایا.چنانچہ فرماتا ہے: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِّلنَّاسِ اس کا ایک معنی یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا.اس پر بہت سے علماء نے بحث اٹھائی کہ قرآن کریم کا آغاز تو ہو سکتا ہے رمضان شریف میں ہوا ہو لیکن یہ کہنا کہ رمضان میں ہی قرآن اتارا گیا، درست نہیں ہے.قرآن کریم تو نبوت کے سالوں میں مختلف وقتوں میں اتر تا رہا ہے.اس کا جواب بعض مفسرین نے یہ دیا کہ اصل بات یہ ہے کہ رمضان میں ایک دفعہ پورے کا پورا قرآن نازل ہو جایا کرتا تھا جبکہ سال کے باقی حصے میں ایسا نہیں ہوتا تھا.پس اُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ سے مراد یہ ہوگی کہ آنحضور ﷺ کو جبرائیل رمضان شریف میں قرآن دہرایا کرتا تھا یہاں تک کہ جب قرآن مکمل ہو گیا تو پھر جو رمضان آیا ہو گا اس میں لازماً سارا قرآن ایک دفعہ اتر گیا.یہ معنی بھی درست ہیں.ان کو غلط نہیں کہا جاسکتا کیونکہ قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں مگر حضرت مصلح موعودؓ نے جو تر جمہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ رمضان وہ مہینہ ہے جس کے بارے میں گویا سارا قرآن اتارا گیا ہے.یعنی قرآن شریف کیوں اتارا گیا ہے؟ اس کا جواب دیا کہ رمضان شریف کے متعلق اتارا گیا ہے ( تفسیر کبیر جلد دوم از افاضات حضرت مصلح موعود صفحه ۳۹۴.زیر آیت شهر رمضان الذی انزل فیہ القرآن ).اب بظاہر تو قرآن شریف بہت زیادہ وسیع ہے اور رمضان کے جو احکامات ہیں وہ محدود ہیں لیکن امر واقعہ یہ ہے کہ اگر آپ تجزیہ کریں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی کہ قرآن کریم جس جس مقصد کی خاطرا تارا گیا ہے وہ سارے مقاصد رمضان شریف میں پورے ہو جاتے ہیں.ایک بھی مقصد بلکہ اس کا ایک ذرہ بھی رمضان شریف سے باہر نہیں رہ جاتا.عبادت کی جتنی بھی قسمیں بیان ہوئی ہیں وہ ساری روزوں کے اندر آ جاتی ہیں.خدمت خلق کی جتنی قسمیں بیان ہو سکتی ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۲ 326 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۳ء ساری روزہ کے اندر آجاتی ہیں.روزہ ہمدردی کی انتہا بھی سکھاتا ہے اور خشوع وخضوع کا کمال بھی انسان کو عطا کرتا ہے، بجز کی راہیں بھی بتاتا ہے اور غریبوں کو اٹھا کر اپنے ساتھ شامل کرنے کے طریق بھی انسان کو سکھاتا ہے.غرضیکہ قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ رمضان شریف ہے اور جو شخص رمضان میں سے سر جھکاتے ہوئے اور اس دروازے سے کامل طور پر اللہ تعالیٰ کی اطاعت کا رنگ اختیار کرتے ہوئے گزرے گا گویا اس نے قرآنی تعلیمات کا سارا پھل پالیا اور جو کچھ بھی قرآن لے کر آیا تھا وہ سارا اس کے نصیب میں آگیا..اس تشریح کو مد نظر رکھتے ہوئے جب ہم احادیث نبوی پر غور کرتے ہیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ایک بھی بات اپنی طرف سے نہیں کی.آپ نے روزے کی تمام خوبیاں جو بیان فرمائی ہیں وہ مبنی بر قرآن بیان فرمائی ہیں.آپ نے بعض اور آیات سے بھی استنباط فرمایا ہوگا.لیکن اس آیت شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ سے تو بڑا واضح استنباط فرمایا کیونکہ وہی مضمون بیان فرماتے ہیں جو اس میں بیان ہوا ہے کہ قرآن کریم کا مقصود رمضان ہے قرآن کریم کے سارے پھل رمضان سے وابستہ ہو چکے ہیں اس لئے گویا سارا قرآن رمضان کے بارے میں اتارا گیا ہے.چنانچہ وہ ساری خوبیاں جو عبادت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہیں آنحضرت ﷺ نے رمضان کی طرف منسوب فرما ئیں.فرمایا باقی ساری عبادتیں ایسی ہیں جن میں بندے کے اغراض کا بھی دخل ممکن ہے مگر روزہ ایک ایسی عبادت ہے جو خالصہ اللہ کے لئے ہے.اللہ تعالیٰ رمضان کے روزوں کو کلیہ اپنا کہتا ہے کہ یہ میرے ہیں اور فرماتا ہے کہ باقی نیکیوں کی جزا تو مختلف قسم کی جنتیں ہیں مگر رمضان کی جزا میں خود ہوں.( صحیح بخاری کتاب الصوم باب فضل الصوم ) پس قرآن کریم کا سب سے اعلیٰ مقصد یعنی اللہ کو پالینا، یہ رمضان کے ساتھ وابستہ ہے.پھر حضوراکرم کے اور بہت سے انداز میں رمضان کی خوبیاں بیان فرمانے کے ، لیکن اب وقت نہیں ہے وہ انشاء اللہ بعد میں کسی وقت بتاؤں گا.اس وقت یہی کافی ہے کہ رمضان شریف تمام عبادتوں کا خلاصہ ہے، رمضان شریف تمام عبادتوں کا ارتقا ہے، رمضان شریف انسان کو اس مقصد کی طرف لے کر جاتا ہے جس کی خاطر انسان پیدا کیا گیا ہے، یہ انسان کو بنی نوع انسان کے حقوق ادا کرنے میں بھی درجہ کمال تک پہنچاتا ہے اور اللہ
خطبات طاہر جلد ۲ 327 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء کے حقوق ادا کرنے میں بھی درجہ کمال تک پہنچتا تا ہے.اس کے باوجود بڑے ہی بدقسمت ہوں گے وہ لوگ جو رمضان کو پائیں اور خالی ہاتھ اس میں سے نکل جائیں.رمضان کی برکتوں میں سے ہو کے نکلیں لیکن یہ پانی ان کو نہ چھوئے اور چکنے گھڑے کی طرح ویسے کے ویسے وہاں سے آگے چلے جائیں.یہ بڑی بدقسمتی ہے.ایسی بدقسمتی ہے کہ آپ کروڑوں مسکینوں کو بھی کھانا کھلا دیں تو بھی یہ نیکی اس نعمت کی محرومی کا بدلہ نہیں ہو سکتی اس لئے ہر وہ احمدی جو استطاعت رکھتا ہے اور اپنے نفس کا تجزیہ کر کے جانتا ہے کہ وہ بیمار نہیں ہے بلکہ صرف کمزوری محسوس کر رہا ہے، اس کو لازماً آگے بڑھنا چاہئے اور روزے رکھنے چاہئیں.أَيَّا مَّا مَّعْدُو دَتِ چند گنتی کے دن ہیں.اس کی سختیوں کا پتہ بھی نہیں لگتا کہ کب گزر گئیں.اور سختیاں ایسی ہیں جو انسان کے بدن کو ہلکا کرتی چلی جاتی ہیں.جسم بھی ہلکے ہوتے چلے جاتے ہیں، روح بھی ہلکی ہوتی چلی جاتی ہے اور انسان زیادہ تیزی کے ساتھ آگے قدم بڑھاتا ہے.رمضان کے بعد ہر روزہ رکھنے والا یہ جانتا اور محسوس کرتا ہے کہ اگر اس نے روزہ نہ رکھا ہوتا تو پتہ نہیں وہ کس ذلت میں پڑا ہوا ہوتا.رمضان شریف بے انتہا کمزوریاں دور کر جاتا ہے اور بے انتہا نعمتیں عطا فرما دیتا ہے.روزے میں سے گزرنے کے بعد جس طرح ہلکے پھلکے بدن کے ساتھ انسان قدم اٹھاتا ہے روزہ نہ رکھنے والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.پھر کھانے کا مزا آتا ہے، پینے کا مزا آتا ہے یعنی روحانی لذتیں تو الگ رہیں مادی لحاظ سے بھی رمضان میں سے گزرے بغیر اور اس کا حق ادا کئے بغیر انسان کو یہ اندازہ بھی نہیں ہوسکتا کہ پانی میں کیا لذت ہے اور کھانے میں کیا لذت ہے؟ روزہ دار کو صبح شام تھوڑا سا اس کا اندازہ ہوتا ہے لیکن رمضان کے بعد کہ جب چاہو ، جو چاہو پی لو، جو چاہو کھالو، یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اتنی نعمتیں عطا کی ہوئی ہیں کہ بڑی ناشکری ہے جو ہم شکر کئے بغیر ان سے گزرتے ہیں.اس لئے بچے شکر کی تعلیم بھی رمضان شریف دیتا ہے.ایک ایک گھونٹ پر اللہ کے احسانات یاد آتے ہیں اور جو پانی پینے کی مادی لذت میں نے بتائی ہے وہ اس روحانی لذت کے مقابل پر کچھ بھی نہیں رہتی جو مومن کو اس وقت حاصل ہوتی ہے جب وہ پانی سے جسم کی پیاس بجھاتا ہے تو اس کی روح کی پیاس بھی ساتھ بجھ رہی ہوتی ہے.وہ کہتا ہے شکر ہے خدا کو دوبارہ یاد کرنے کا موقع میسر آ گیا.اگر میں دو تین رمضان اسی طرح گزر جاتا تو پانی پینا اپنا حق سمجھ لیتا.خیال
خطبات طاہر جلد ۲ 328 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۳ء بھی نہ آتا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے.پھر ہر گھونٹ پر خدا کی نعمتیں یاد آتی ہیں، اس کے احسانوں کا تصور دل کو مغلوب کر لیتا ہے اور روح اس کے حضور سجدہ ریز ہو جاتی ہے.پس رمضان شریف کے بے انتہا فوائد ہیں.آپ سر جھکاتے ہوئے اس رمضان سے گزریں اپنی روح کو بھی اور اپنے جسم کو بھی خدا کے حضور پیش کر دیں.پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے کیسے فضل نازل ہوتے ہیں.ایسے لوگوں کے حق میں فرماتا ہے وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ یہ لوگ جو میری عبادت کا حق ادا کرتے ہیں یہ تجھ سے میرے متعلق پوچھتے ہیں.میں کہتا ہوں میں ان کے قریب ہوں.لیکن یہ یاد رکھیں کہ میرے حقوق وہ ضرور ادا کریں کیونکہ میرے حقوق ادا کرنے کے نتیجے میں میں ان کو ملوں گا ورنہ یہ تعلق کا یکطرفہ رستہ نہیں ہوگا.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم رمضان کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی نعمتوں سے زیادہ سے زیادہ فوائد اٹھائیں لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ اس رمضان کو اس طرح ضائع نہ کر دیں جس طرح اس سے پہلے بعض قوموں نے روزوں کو ضائع کر دیا.جب اللہ تعالیٰ نے مِنْ قَبْلِكُمْ فرمایا تو اس میں یہ بتانا بھی مقصود تھا کہ تم سے پہلے بھی روزے فرض ہوئے تھے.تم سے پہلے بھی ایسے لوگ تھے جنہوں نے روزوں سے فائدہ اٹھایا لیکن جب ان کی تاریخ پر نظر ڈالو گے تو تمہیں یہ بھی محسوس ہوگا کہ بہت سے ایسے بد بخت اور بد قسمت بھی تھے جنہوں نے فائدے کی بجائے نقصان اٹھایا.انہوں نے بھی روزے پائے لیکن ایسے گندے حال میں پائے کہ وہ روزے ان کی عاقبت سنوارنے کی بجائے ان کو دین و دنیا سے محروم کر گئے.ان کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا.پس ان لوگوں کی طرح روزے نہ رکھنا.آنحضرت ﷺ نے ان لوگوں کے متعلق تفصیل سے ذکر فرمایا ہے اور مومن کو ان کے سے افعال سے روکا ہے کہ دیکھو یہ نہ کرنا، وہ نہ کرنا، جھگڑا نہیں کرنا، فساد نہیں کرنا شہوات سے مغلوب نہیں ہونا، دکھاوا نہیں کرنا، ہر بدی سے رکنا ہے، ہر ظلم کو صبر سے برداشت کرنا ہے، کچھ لوگ تم پر زیادتیاں کریں گے.فرمایا ان کو ایک دفعہ نہیں، دو دفعہ کہوانی صائم کہ میں روزے دار ہوں ( صحیح بخاری کتاب الصوم باب وجوب فضل الصوم ).دو دفعہ کہنے میں کیا حکمت ہے؟ وہ حکمت یہ ہے کہ مومن کی تو عام شان بھی یہ ہے کہ وہ ظلم کا بدلہ ظلم سے نہیں دیتا اور جب جاہل اس سے مخاطب ہوتا ہے تو جواب میں جاہلانہ
خطبات طاہر جلد ۲ 329 خطبه جمعه ۱۰/جون ۱۹۸۳ء باتیں نہیں کرتا بلکہ سلام کہتا ہے اِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَهِلُونَ قَالُوا سَلَمًا (الفرقان : ۶۴) پس ایسا مومن جس کی عام شان یہ ہوا گر وہ روزے دار بھی ہو تو تکرار سے بتائے کہ او بے وقوفوا تم مجھ سے کیا توقع رکھ رہے ہو؟ کیا تمہاری اشتعال انگیزی سے میں مشتعل ہو جاؤں گا؟ ہرگز نہیں میں تو عام حالات میں بھی سلام ہی کہا کرتا تھا.اب تو میں روزے دار ہوں ، روزے دار ہوں ہممکن نہیں ہے کہ تم مجھ سے بے صبری کا مظاہرہ دیکھو.پس جہاں کچھ بد قسمت اپنے روزوں کو ضائع کر رہے ہوں گے وہاں آپ کے لئے اور بھی زیادہ ثواب کا موقع ہوگا.آپ صبر اور حو صلے اور ہمت اور دعاؤں کے ساتھ اس رمضان کو گزار ہیں پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کے کیسے فضل آپ پر نازل ہوتے ہیں.مِنْ قَبْلِكُمْ یعنی وہ لوگ جنہوں نے روزے ضائع کر دیئے ان کی مثال میں بائیبل سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت یسعیاہ کی یہ نصیحت بائیل میں درج ہے کہ: ”دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت کے مکے مارو.پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالم بالا پر سنی جائے“.(یسعیاہ باب ۵۸ آیت:۴) یعنی ایسے بدبخت انسان ہو کہ کوئی وقت تھا کہ تم روزوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے رحم کو جذب کیا کرتے تھے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا کیا کرتے تھے اور جھگڑوں سے روکا کرتے تھے.اب یہی رمضان آتا ہے تو تمہیں اور زیادہ اشتعال انگیزیوں پر مجبور کر دیتا ہے.تم طیش میں آکر کے مارتے ہو اور کہتے ہو ہم دیکھیں گے کہ ہمارے ظلم سے اور ہمارے ستم اور استبداد سے کون بیچ کے نکلے گا ؟ عام حالات میں بھی ہم بڑے جابر تھے.اب تو رمضان کی سختیاں آگئی ہیں.اب تو روزے آگئے ہیں.اب دیکھیں گے کون ہم سے بیچ کے نکلتا ہے.حضرت یسعیاہ یہود سے فرماتے ہیں کہ تم یہ حرکتیں کر رہے ہو.گویا یہود کی جو حالت گزر چکی ہے اور جس کے ایک پہلو کی طرف قرآن کریم من قبلکم میں اشارہ کرتا ہے، بائیبل میں یہ اس کی تفصیل ہے کہ: دیکھو تم اس مقصد سے روزہ رکھتے ہو کہ جھگڑا رگڑا کرو اور شرارت
خطبات طاہر جلد ۲ 330 خطبه جمعه ۱۰/ جون ۱۹۸۳ء کے مکے مارو.پس اب تم اس طرح کا روزہ نہیں رکھتے ہو کہ تمہاری آواز عالم بالا پرسنی جائے.فرماتے ہیں تم بڑے بد بخت ہو.کبھی تمہارے روزے ایسے ہوا کرتے تھے کہ اتنی ہلکی اور خفی آوازوں میں تم خدا کو یاد کیا کرتے تھے کہ بظاہر انسان ان آوازوں کو نہیں سن رہے ہوتے تھے.لیکن ان آوازوں میں ایسی قوت پرواز تھی کہ وہ آوازیں عالم بالا پر پہنچا کرتی تھیں اور آج تم نے شور برپا کیا ہوا ہے اور وہ آوازیں زمین سے چمٹی ہوئی ہیں اور زمین کی ہو چکی ہیں.ان میں قوت پرواز نہیں رہی.تمہارے منہ سے جھاگ نکل رہی ہے اور طیش میں آکر مکے مار رہے ہو.لیکن ان آوازوں کے مقدر میں پرواز نہیں لکھی گئی.ہاں کچھ وہ تھیں گریہ وزاری کی آواز میں جو عالم بالا پرسنی جاتی تھیں.کیسا پیارا موازنہ کیا ہے.پس اے احمد یو! تم ہمیشہ ایسی آواز میں اپنے دلوں سے نکالو جو عالم بالا پرسنی جائیں اور زمین والوں کے کان ان سے محروم ہوں تو کوئی پرواہ نہ کرو.وہی آواز دنیا میں پھیلے گی جس کو خدا سنتا ہے اور پھر خدا کے فرشتے اس کو دنیا میں پھیلا دیا کرتے ہیں.ایسی آواز میں غالب آنے کے لئے بنائی گئی ہیں ،مغلوب آنے کے لئے نہیں بنائی گئیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.روزنامه الفضل ربوه ۲۵ / جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 331 خطبہ جمعہ ۱۷/جون ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: رمضان کو اپنی زندگیوں میں داخل کر لیں (خطبہ جمعہ فرموده ۷ ارجون ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورہ بقرہ کی درج ذیل آیہ کریمہ تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) (البقرة : ۱۸۴) حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے رمضان المبارک سے متعلق فرمایا کہ جب رمضان کا مہینہ آتا ہے تو آسمان کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیطان کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے اور ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ کی رحمت کے دروازے کھولے جاتے ہیں.سوال یہ ہے کہ خواہ وہ آسمان کے دروازے ہوں یا جنت کے دروازے ہوں ان دروازوں سے کیا مراد ہے اور جو دروازے بند کئے جاتے ہیں وہ جہنم کے کون سے دروازے ہیں اور کس قسم کی زنجیریں ہیں جن میں شیطان کو جکڑا جاتا ہے اور کیا اس سے ایک عمومی کیفیت مراد ہے یا کوئی خاص معانی ہیں جو بعض حالات میں محدود ہیں اور ان کو ساری دنیا پر عمومی حالت میں چسپاں نہیں کیا جاسکتا ؟ جہاں تک رمضان کے مہینہ کا تعلق ہے یہ تو بظاہر مومنوں پر بھی آتا ہے اور کافروں پر بھی آتا ہے.خدا کے منکرین پر بھی آتا ہے اور خدا کے ماننے والوں پر بھی آتا ہے.نیک اور پاک عمل کرنے
خطبات طاہر جلد ۲ 332 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۳ء والوں پر بھی آتا ہے اور فسق و فجور میں مبتلا رہنے والوں پر بھی آتا ہے.اس لئے ایک بات تو قطعی ہے کہ اس کے عمومی معنے درست نہیں کیونکہ جہاں تک رمضان کے مہینہ کا تعلق ہے اس مہینہ میں دنیا کی بھاری اکثریت پہلے کی طرح فسق و فجور میں مبتلا رہتی ہے اور رمضان کی قطعا پر واہ نہیں کرتی.پس یہ کہنا کہ اس مہینہ میں شیطان جکڑا جاتا ہے یا رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں اور غضب کے دروازے بند ہوتے ہیں یہ دراصل حدیث کے مفہوم کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے.آنحضور ﷺ نے جب یہ فرمایا إِذَا دَخَلَ شَهُرُ رَمَضَان (سنن نسائی باب فضل شهر رمضان ) کہ جب شھر رمضان داخل ہو جاتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں کہ بالعموم ساری دنیا پر برکتیں نازل ہوتی ہیں بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ وہاں وہاں برکتیں لے کر آتا ہے جہاں جہاں وہ داخل ہوتا ہے.آنحضرت ﷺ انتہائی فصیح و بلیغ انسان تھے.آپ کی زبان مبارک میں ایسی فصاحت و بلاغت تھی کہ کتاب اللہ کے بعد کبھی کسی انسان نے کسی دوسرے انسان سے ایسی فصاحت و بلاغت نہیں دیکھی.چنانچہ اس حدیث کے آغاز ہی میں آنحضور ﷺ نے اس کو سمجھنے کی چابی رکھ دی.آپ نے فرمایا إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَان کہ جب جب اور جہاں جہاں ماہ رمضان داخل ہوگا وہاں وہاں یہ کیفیات پیدا کرے گا اور مراد یہ ہے کہ رمضان جب اپنی پوری شرائط کے ساتھ کہیں داخل ہوگا تو انسان کے لئے برکتوں کا موجب بنے گا.ورنہ عملاً رمضان کوئی ایسی چیز تو نہیں ہے جو شہروں میں داخل ہو جائے یا ملکوں میں داخل ہو جائے یہ تو انسان کے وجود میں داخل ہوتا ہے.مراد یہ ہے کہ جس انسان کے وجود میں رمضان کا مہینہ داخل ہو جائے گا اس کے جہان میں نیک تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی.اس کے زمین و آسمان میں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی یعنی جہاں تک انسان کا تعلق ہے وہ انسان جو اپنے آپ کو رمضان کے تابع کر دے تو گویا رمضان المبارک اپنی ساری برکتوں کے ساتھ اس انسان میں داخل ہو گیا.اس طرح ایسے انسان کے جہان میں جو بھی جنت کے دروازے ہیں وہ سارے کھل جائیں گے اور جہنم کے جتنے دروازے ہیں وہ بند کر دیئے جائیں گے.یعنی اللہ کی رحمت کے دروازے اس پر کھولے جائیں گے اور اس کا شیطان زنجیروں میں جکڑا جائے گا.یہ ہے اس حدیث کا اصل مفہوم.چنانچہ اس پہلو سے جب ہم مزید غور کرتے ہیں تو یہ جانا مشکل نہیں رہتا کہ وہ دروازے کون سے ہیں.جہاں تک انسان کی ذات کا تعلق ہے انسان کے پانچ حواس تو وہ ہیں جن کو حواس خمسہ کہتے
خطبات طاہر جلد ۲ 333 خطبہ جمعہ ۱۷/جون ۱۹۸۳ء ہیں یعنی سونگھنے کی طاقت، سنے کی طاقت ، دیکھنے کی طاقت، چکھنے کی طاقت اور لمس یعنی چھونے کی طاقت اور اس کے علاوہ دو قسم کے اور رستے ہیں جو انسان کو داخل ہونے کے لئے یا نکلنے کے لئے یعنی دخول اور خروج کے لئے دیئے گئے ہیں.انسان کو بعض قسم کے ایسے رستے عطا ہوئے ہیں جن کے اندر دونوں طاقتیں ہیں.ان کے اندر چیز داخل بھی ہوسکتی ہے اور خارج بھی ہوسکتی ہے.انسانی زندگی میں ان کو بہت اہمیت حاصل ہے.پس ان دروازوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو انسانی جہان کے سات دروازے بنتے ہیں ( اور سات آسمانوں کے گویا سات دروازے ہیں).یہ رمضان المبارک کی برکت ہے اور عبادت کا ایسا ایک ہی طریق ہے جو ان ساتوں دروازوں پر پہرے بٹھا دیتا ہے اس کے علاوہ ایک بھی ایسی عبادت آپ سوچ نہیں سکتے جو انسان کے ان قومی پر اور ان رستوں پر کامل طور پر حاوی ہو جائے.پس آنحضرت ﷺ کے کلام سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ جب کسی مومن کی زندگی میں رمضان داخل ہو جاتا ہے تو وہ سات قوتوں کے رستے جو اس کو جنت کی طرف بھی لے جا سکتے ہیں اور جہنم کی طرف بھی لے جاسکتے ہیں وہ ساتوں رستے جنت کی طرف لے جانے کے لئے وقف ہو جاتے ہیں.وہ ساتوں رستے آسمانوں کے دروازے بن جاتے ہیں.گویا تنزل کی بجائے رفعتوں کی طرف لے جانے کے لئے ممد اور مددگار ثابت ہوتے ہیں.شیطان ان سات رستوں سے ہی انسان پر حملے کرتا ہے.فرمایا ایسے مومن کا شیطان جکڑا جاتا ہے اور کوئی راہ نہیں پاتا کیونکہ ان ساتوں رستوں پر اللہ کی رضا کے پہرے بیٹھے ہوتے ہیں.ان ساتوں رستوں پر خدا کے فرشتوں کا پہرہ ہوتا ہے.شیطان بالکل بے بس اور عاجز آجاتا ہے.گویا روزہ ایک ایسی کامل عبادت ہے کہ جس کے نتیجہ میں شیطان کے لئے انسانی نفس میں داخل ہونے کے لئے کوئی بھی راہ باقی نہیں رہتی.پس اس کا مطلب یہ ہے کہ جب انسان اپنی ان سات قوتوں کو یا ذرائع کو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے تو گویا آسمان سے اس کے لئے سات دروازے کھولے جاتے ہیں.سات کا عدد ایک symbolic یعنی علامت ہے اور اظہار کا ایک طریق ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ وہ انسان جو اپنی ساری قوتوں کو اللہ کی مرضی کے تابع کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ کی ساری طاقتیں اس کے لئے رحمت کے دروازے کھول دیتی ہیں.ایسے شخص پر جب خدا کے فضل سے آسمان کے دروازے کھلتے ہیں تو وہ یہ سات نہیں رہتے بلکہ بے شمار دروازے کھل جاتے ہیں.اس لئے مومن کا کام یہ ہے کہ رمضان کی
خطبات طاہر جلد ۲ 334 خطبہ جمعہ ۱۷/جون ۱۹۸۳ء برکت کے نتیجہ میں اپنے وجود میں جب رمضان کو داخل کر لے تو اپنا سب کچھ خدا کے لئے کھول دے اور شیطان کے لئے بند کر دے.ایسی صورت میں ابواب رحمت یعنی اللہ کے فضلوں کے دروازے کھل جاتے ہیں جو سات کے مقابل پر ( عدداً بطور کامل عدد کے بے شک کہہ دیں لیکن عملاً بے انتہا ہیں ، ان کی گنتی نہیں ہو سکتی ، ان کا شمار نہیں ہوسکتا.گویا جب مومن اپنا جہان خدا کے حضور پیش کر دیتا ہے تو اللہ کا جہان ہر طرف اس پر رحمتیں برسانے لگتا ہے.یہ ہے آنحضرت ﷺ کی اس حدیث کا مطلب جو آنحضور علیہ نے رمضان کی برکات سے ہمیں آگاہ کرنے کے لئے ارشاد فرمائی ہے.پس یہ احمدیوں کے لئے بہت ہی مبارک مہینہ ہے اس لئے ہر احمدی کو چاہئے کہ اپنے ساتوں رستے اللہ کی رضا کے تابع کر کے اپنے سارے قومی خدا کی مرضی کے لئے اس طرح وقف کر دے کہ شیطان کو ان میں سے کسی پر دخل نہ رہے.یہ ایک مہینہ کی ایک ایسی مسلسل ریاضت ہے جس کے نتیجہ میں انسان جب رمضان سے باہر نکلے گا تو ایک بالکل مختلف کیفیت کے ساتھ ، بالکل مختلف شخصیت لے کر باہر نکلے گا.اللہ تعالیٰ اس کو پورا ایک مہینہ اس ریاضت میں رکھے گا یہاں تک کہ وہ کوئی رستہ ایسا نہیں رہنے دے گا جس کے ذریعہ شیطان نفس میں داخل ہوسکتا ہو.تا ہم اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رمضان کے بعد انسان پھر یہ سارے دروازے شیطان پر کھول دے اور اللہ پر بند کر دے.اس سے بڑی جہالت اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ انسان یہ سمجھ لے کہ رمضان عارضی نیکیاں لے کر آتا ہے اور پھر اپنے ساتھ ہی نیکیوں کو سمیٹ کر واپس لے جاتا ہے.ایسے رمضان کا کیا فائدہ جو نعمتیں دے کر واپس چھین لے اور دکھ دور کرنے کے بعد پھر عائد کر دے.اس سے پہلے جس انسان نے نعمتیں دیکھی نہیں تھیں اس کو ان نعمتوں کی عادت ڈال کر پھر واپس لے جائے.وہ شخص جو مصیبتوں کا عادی ہو چکا تھا، دنیاکے مصائب کے چنگل میں پھنسا ہوا کسی نہ کسی طرح سسک سسک کر گزارہ کر رہا تھا، رمضان آیا اور ان مصیبتوں سے اسے نجات دلائی اور تمام نفسانی بندھنوں سے اسے آزاد کیا اور جاتی دفعہ پھر وہ بندھن دوبارہ ڈال گیا تو وہ پہلے سے بھی زیادہ دکھوں میں مبتلا ہو جائے گا.جس نے آزادی نہ دیکھی ہو اور غلامی کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہو اس کو اتنی تکلیف نہیں ہوتی.جتنی ایک دفعہ آزادی ملنے کے بعد پھر اس کو دوبارہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑے جانے سے ہوتی ہے.ظاہر ہے ایک شخص جو نعمتوں سے محروم ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طرح گزارہ کر رہا ہوتا ہے اگر اس کو نعمتیں عطا کر دی جائیں اور پھر اس سے چھین لی
خطبات طاہر جلد ۲ 335 خطبہ جمعہ ۷ ارجون ۱۹۸۳ء جائیں تو اس سے اس کو زیادہ دکھ پہنچتا ہے.وہ کہتا ہے تمہیں کس نے کہا تھا کہ مجھے نعمتیں عطا کرو اور میں ان کی عادت ڈالوں جن کے بغیر مجھ سے رہا نہ جائے.پہلے تو جس طرح بھی ہو سکتا تھا گزارہ چل رہا تھا.پس رمضان المبارک کے بارہ میں یہ تصور بڑا ہی بھیانک اور بڑا ہی جاہلانہ ہے کہ ایک طرف تو ایسا مبارک مہینہ انسان کی زندگی میں داخل ہو کر انسان کی ساری طاقتوں پر فرشتوں کے پہرے بٹھادے اور شیطان کے لئے ساری راہیں بند کر دے اور اپنے رب کے لئے اور اللہ کے فرشتوں کے لئے ساری راہیں کھول دے اور دوسری طرف جب یہ مہینہ جائے تو اس حالت میں جائے کہ فرشتوں کی بجائے ہر راہ پر شیطان کے پہرے بیٹھے ہوں اور وہاں اللہ تعالیٰ کا داخلہ بند ہو اور شیطان کے لئے کھل کھیلنے کا موقع ہو اور یہ حالت اس ایک مہینہ کے بدلہ پھر گیارہ مہینے تک جاری رہے.یہ بڑے نقصان کا سودا ہے.اللہ اور اللہ کے رسول کی ہرگز یہ مراد نہیں.رمضان کی برکات سے فائدہ اٹھانے کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے کی عبادتوں کو استقلال بخشیں.اس مہینہ میں جو کچھ برکتیں پائی ہیں انکو دوام عطا کریں.جن مصیبتوں سے نجات پائی ہے پھر دوبارہ ان بندھنوں میں نہ جکڑے جائیں.ان گندگیوں کی طرف پھر منہ نہ کریں جن گندگیوں سے رمضان شریف نے آپ کو نجات دلائی.اس ضمن میں ایک اور بات میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ رمضان ہمارے لئے ایک بہت بڑی اور خاص نعمت بن کر آیا ہے کیونکہ یہ وہ دور ہے جس میں احمدیت کے دشمنوں نے اپنے غیظ و غضب کے سارے دروازے ہماری طرف کھول دیئے ہیں.یہ وہ دور ہے جن میں احمدیت کے معاندین ایک پرامن ملک میں کھلے بندوں یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ احمدیوں کے خلیفہ کو بھی قتل کر دو اور ذلیل و رسوا کر کے ٹکڑے اڑا کر پھینک دو اور اس جماعت کا ایک فرد بھی زندہ باقی نہ رہنے دو، اس ملک میں خون کی ندیاں بہا دو یہاں تک کہ ایک احمدی بھی دیکھنے کو نہ ملے.یہ تعلیم کھلم کھلا دی جارہی ہے.اس موقع پر رمضان المبارک ہمارے لئے اللہ کی رحمتوں کے دروازے کھولنے کے لئے آیا ہے.رمضان ہمارے لئے یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ پہلے بھی خدادعائیں سنا کرتا تھا لیکن اب تو اور بھی تمہارے قریب آگیا ہے وہ تم پر رحمت کے ساتھ جھک رہا ہے.دعائیں سننے کے سارے دروازے کھل چکے ہیں.تمہاری ہر آہ و پکار آسمان تک پہنچے گی.کوئی ایسی آواز نہیں ہوگی جو تمہارے دل سے اٹھے اور اللہ کے عرش کو ہلا نہ رہی ہو.
خطبات طاہر جلد ۲ 336 خطبہ جمعہ ۱۷/جون ۱۹۸۳ء پس رمضان شریف رحمتوں کا پیغام لے کر آیا ہے.اگر خدا کی نافرمانی کے دروازے کھولے جا رہے ہیں تو اللہ کی فرمانبرداری کے دروازے آپ کو امن کی دعوت دیتے ہوئے واہور ہے ہیں اور آپ کو اپنی طرف بلا رہے ہیں.مخالفت کے ہر موقع پر جماعت کو انتہائی صبر کا نمونہ دکھانا چاہئے.ساری دنیا میں ایک بھی احمدی ایسا نہیں ہونا چاہئے ، خواہ وہ بچہ ہو یا بڑا ہو، مرد ہو یا عورت ہو جو بے صبری کا ایک معمولی سا بھی مظاہرہ کرے.دنیا میں قوموں نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں اور خدا کے نام پر تو قربانی دینا الہی قوموں کے مقدر میں لکھا ہوا ہے.ادنی ادنیٰ ذلیل ذلیل قو میں جو خدا کے تصور سے بھی نا آشنا ہیں بلکہ خدا کی ہستی کے خلاف علم بغاوت بلند کرتی ہیں وہ ادنی پیغامات کے لئے بڑی بڑی قربانیوں سے دریغ نہیں کرتیں.ہم اللہ کے دین کی سر بلندی کے لئے ، اللہ کے نام اور اس کی عظمت کی خاطر اور محمد رسول اللہ علے کے قدموں سے وابستہ رہنے کے لئے بدرجہ اولی قربانیاں دیں گے اس لئے اگر ہم میں سے ہر ایک کا ٹا جائے اور پھینکا جائے تو اس کی کوئی پرواہ نہیں کریں گے.پس اگر اسلام کی زندگی ہماری ظاہری موت کا تقاضا کرتی ہے تو اے اللہ ! ہم مرنے کے لئے حاضر ہیں.ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں.دیکھو جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے دنیا میں ایسی دہر یہ قومیں بھی موجود ہیں جنہوں نے دہریت کے لئے قربانیاں دیں.پچھلی جنگ عظیم میں روس نے جو قربانی دی ہے وہ بڑی حیرت انگیز ہے.روس کا ایک کروڑ سپاہی میدان جنگ میں مارا گیا اور ایک کروڑ غیر سپاہی اس جنگ میں کام آیا.پس اگر دنیا والے دنیا کی خاطر ایک کروڑ سپاہی میدان جنگ میں کٹوا سکتے ہیں تو محمد رسول اللہ علی کے دیوانوں کے لئے ایک کروڑ جائیں فدا کرنا کون سا مشکل کام ہے.بڑے ہی غلط فہمی کا شکار ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں ڈرا کر ہمیں غلبہ اسلام کی مہم سے ہٹا دیں گے.وہ نہیں جانتے کہ ہم کس سرشت کے لوگ ہیں، کس ضمیر سے ہماری مٹی اٹھائی گئی ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق سے ہمارا خمیر گوندھا گیا ہے اللہ کی محبت اور اس کی اطاعت ہمارے رگ وریشہ میں رچی ہوئی ہے اس لئے دنیا کا کوئی خوف ہمیں ڈرا نہیں سکتا.ایک کروڑ احمدی خدا کے نام پر مرنے کیلئے تیار ہے.ہمیں یقین ہے کہ اگر ایک کروڑ احمدیوں کو دشمنی سے مار دیا جائے تو اللہ تعالیٰ کروڑہا کروڑ ایسے بندے پیدا کر دے گا جو احمدیت کی طرف منسوب ہونے میں فخر سمجھیں گے اور احمدیت کے لئے مزید قربانیاں
خطبات طاہر جلد ۲ 337 خطبہ جمعہ ۱۷/جون ۱۹۸۳ء دینے کے لئے تیار ہوں گے اس لئے یہ سودا نقصان کا سودا نہیں ہے.مگر میں آپ کو یہ بتا دیتا ہوں کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر مرنے کے لئے تیار ہو جایا کرتے ہیں اللہ ان کو مرنے نہیں دیا کرتا آج تک کبھی ایسا نہیں ہوا.وہ قو میں جو اپنے اندر قربانی کی روح پیدا کر لیتی ہیں وہ زندہ رکھی جاتی ہیں اور ہمیشہ کی زندگی پانے والی قومیں بن جاتی ہیں.ہمیشہ سے یہی ہوتا چلا آیا ہے اور یہی ہوتا رہے گا.انشاء اللہ تعالیٰ پس یہ رمضان المبارک بہت برکتوں والا مہینہ ہے، بہت بر وقت آیا ہے.ایک طرف مخالف خوف و ہراس پھیلانے کی کوشش کر رہا ہے دوسری طرف اللہ تعالیٰ کی رحمت کے دروازے کھل رہے ہیں اور حضرت محمد مصطفی ﷺ کی یہ پیاری آواز ہمارے کانوں میں گونج رہی ہے کہ جس کی زندگی میں یہ مہینہ داخل ہو جائے گا اللہ کی رحمت کے دروازے اس پر کھولتا چلا جائے گا.پس اس مہینہ کو اپنی زندگی میں داخل کر لیں خود اس مہینہ میں داخل ہو جائیں کیونکہ اس سے بہتر امن کی اور کوئی جگہ نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: عدد جب بڑھ گیا شورو فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں (درین صفحہ ۵۰) یہی وہ مضمون ہے کہ عدو جب شور و فغاں میں بڑھ گیا تو ہمیں اپنے پیارے رب کے حضور پناہ ملی اور جس طرح بچہ خوفزدہ ہو کر ماں کی گود میں گھستا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ ماں اس کو چاروں طرف سے لپیٹ لیتی ہے اور کوئی وار ایسا نہیں ہو سکتا جو ماں پر پڑے بغیر بچے پر پڑ جائے، ویسا ہی نقشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کھینچا ہے.فرماتے ہیں: عدد جب بڑھ گیا شورو فغاں میں نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں ہم تو اپنے یار نہاں میں چھپے بیٹھے ہیں.اے لوگو! اب کس پر وار کرو گے.کوئی وار نہیں ہے جو اللہ پر پڑے بغیر مجھ تک پہنچے اور کوئی وار نہیں ہے جو اللہ پر پڑ سکے اس لئے جس کو خدا کی پناہ حاصل ہو اس کے لئے خوف کا کون سا مقام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کو سمجھیں تو حقیقت یہ ہے کہ ہر دنیاوی خوف سے
خطبات طاہر جلد ۲ 338 خطبہ جمعہ ۱۷/جون ۱۹۸۳ء آپ آزاد ہو جائیں گے.کیونکہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ہے ہر مشکل کا علاج اللہ تعالیٰ کی محبت ہے اور ہ ہر ہر آگ کو ٹھنڈا کرنے کا نسخہ عشق الہی کی آگ ہے اور عشق الہی کی یہ آگ رمضان میں خوب بھڑکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس مہینہ کا’ رمضان‘ نام ہی اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں اللہ تعالیٰ کی محبت کی تپش پائی جاتی ہے.اللہ کی محبت جولانی دکھاتی ہے ایک خاص گرمی کی پیٹیں اس سے آتی ہیں اس لئے یہ بہت ہی مبارک مہینہ ہے.(الحکم جلد نمبر ۵ نمبر ۲۷ مؤرخہ ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود زیر آیت شهر رمضان الذی انزل فيه القرآن ( ہمیں سنبھالنے اور پناہ دینے کے لئے عین وقت پر آیا ہے اس لئے بہت دعائیں کریں اور خاص طور پر اپنے رب سے اس کی محبت مانگیں، اللہ کی رضا تلاش کریں اس سے التجا کریں کہ اے خدا! ہم تیری رضا پر راضی ہیں.جو بھی تیری رضا ہے ہمارے لئے ٹھیک ہے لیکن ہم بہر حال تیری پناہ میں آتے ہیں.ہمیں لپیٹ لے.ہمیں چھپالے ، ہماری کمزوریوں سے پردہ پوشی فرما، ہماری غفلتوں کو دور فرمادے اور ہماری پناہ بن جا، ہمارے لئے قلعہ بن جا جس کے چاروں طرف تو ہی تو ہوا اور دشمن ہم تک نہ پہنچ سکے جب تک تجھ پر حملہ آور ہو کر نہ پہنچے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.اگر یہ ہو جائے تو ہم نے گویا اپنی زندگی کا مقصد پالیا.جس کو خدامل جائے اس کو پھر اور کیا چاہئے.پھر تو وہ بے اختیار یہ کہے گا: فَلَسْتُ أَبَالِي حِيْنَ أَقْتَلُ مُسْلِماً عَلَىٰ أَيِّ شِقٍ كَانَ لِلَّهِ مَصْرَعِي میں تو اپنے رب کو پاچکا ہوں اب اگر تم مجھے قتل کرتے ہو تو مجھے کیا پرواہ ہے کہ میں قتل ہونے کے بعد کس کروٹ کروں گا.وذلك فِی ذَاتِ الاِلِهِ وَإِنْ يَّشَأْ يُبَارِكْ عَلَى أَوْ صَالِ شِلْوِ مُمَزَّعٍ ( بخاری کتاب المغازی باب فضل من شهد بدرًا) خدا کی قسم میرا یہ مرنا اور میرا اقتل ہونا محض اللہ کی خاطر ہوگا اور اگر وہ چاہے تو میرے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے پر رحمتیں نازل فرما سکتا ہے.پس جس قوم کو ایسی خوش نصیبی عطا ہو.جس کو ایسی ہمیشہ کی فلاح کی راہ مل جائے اس قوم کے لئے خوف و ہراس کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.اللہ تعالیٰ اپنی محبت اور رضا کی چادر میں ہمیں ڈھانپ لے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۶ جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 339 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء خدا تعالیٰ کے دوستوں کو کوئی خوف اور غم نہیں خطبه جمعه فرموده ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات قرآنی کی تلاوت کی: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوْا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيُوةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَتِ اللَّهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ (یونس : ٦٣ - ٦٦) أفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ دَمَّرَ اللهُ عَلَيْهِمْ وَلِلْكَفِرِينَ أَمْثَالُهَا ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَانَّ الْكَفِرِينَ لَا مَوْلَى لَهُمْ (محمد (۱۲۱) پھر فرمایا: یہ چھ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں سے پہلی چار کا تعلق سورۃ یونس سے ہے اور
خطبات طاہر جلد ۲ 340 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء آخری دوسورہ محمد سے اخذ کی گئی ہیں لیکن دونوں سورتوں کی آیات ایک ہی مضمون کو بیان کر رہی ہیں اور اس کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال رہی ہیں.اللہ تعالیٰ یہ بیان فرماتا ہے کہ میرے بندے جو خوف اور غم سے آزاد کئے جاتے ہیں ان کی بے خوفی اور بے غمی کی وجہ کیا ہے؟ وہ کون سے موجبات ہیں جن کے نتیجے میں وہ بے غم ہو جاتے ہیں؟ ان کی بے خوفی پر دو قسم کی وجوہات بیان فرمائی گئیں اور دو قسم کے دلائل دیئے گئے: اول دلیل یہ کہ وہ اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ ان کا دوست ہوتا ہے اور ہر بے خوفی اور ہر بے نھی جو اس بنا پر پیدا ہوتی ہے کہ بے خوف اور بے غم انسان اللہ کا دوست ہے اور اللہ اس کا دوست ہے وہی دراصل حقیقی بے خوفی اور حقیقی بے غنی ہے.دوسرے شہادت کے طور پر خدا تعالیٰ تاریخ انسانی کو پیش فرماتا ہے کہ تاریخ انسانی اس بات پر گواہ ہے کہ ایسے لوگ جو خدا کے دوست ہو جاتے ہیں اور جن کا خدا دوست ہو جاتا ہے ان کو کبھی کوئی خوف اور کوئی حزن ستا نہیں سکا.امر واقعہ یہ ہے کہ جب ہم ڈرانے والوں اور ان لوگوں کے حالات کا مطالعہ کرتے ہیں جو بڑی جرات اور بے باکی سے ان ڈرانے والوں کی دھمکیوں کو رد کر دیتے ہیں تو ہمیں تین قسم کے گروہ نظر آتے ہیں: اول وہ جو گیدڑ بھبکیاں دینے والے ہوتے ہیں.خواہ مخواہ بغیر حقیقت کے ڈرانے والے، جن میں طاقت ہی کوئی نہیں ہوتی کہ کسی کو گزند پہنچ سکیں.ان کے مقابل پر بے خوفی دکھانے والے بھی ایسے ہی ہوتے ہیں.دل کے خواہ چھوٹے بھی ہوں، ان کو پتہ ہوتا ہے کہ منہ کی باتیں ہیں.ہمیں کوئی بھی فرق نہیں پڑتا ، خالی ڈراوے ہیں، دھمکیاں ہیں.جس شدت کے ساتھ یہ لوگ ڈراوے دے رہے ہیں اسی شدت کے ساتھ جواب میں گالیاں دو اور کہو کہ جو مرضی کرنا ہے کر لو، جو بگاڑنا ہے بگاڑ لو.ایسے ڈرانے والے بھی غیر حقیقی ہوتے ہیں اور ان سے نہ ڈرنے والے بھی غیر حقیقی.یعنی دونوں کے پس منظر میں کوئی سچائی نہیں ہوتی.ایک دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہوتا ہے جن کے خوف تو حقیقی ہوتے ہیں لیکن وہ اپنی ناسمجھی ، کم علمی اور نا عاقبت اندیشی کے نتیجے میں جرات کے مظاہرے کرتے ہیں اور نہیں جانتے کہ ان کا انجام کیا ہوگا ؟ مثلاً جیسا کہ اردو میں کہاوت مشہور ہے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے اور خطرات کا انکار کر دیتا ہے وہ یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتا کہ کوئی خطرہ در پیش ہے.پس ایسی بے خوفی
خطبات طاہر جلد ۲ 341 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء دراصل جہالت کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے اور اس کا انجام بھی ہلاکت ہے.اللہ کے مقابل پر نکلنے والوں اور اللہ کے عذاب سے اپنے آپ کو امن میں سمجھنے والوں کا حال اس سے بھی بدتر ہوتا ہے.وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ یہ محض دھمکیاں ہیں اور خدا پکڑ نہیں سکتا ، وہ جو یہ گمان کر لیتے ہیں کہ ہم عام انسانوں کی طرح امن کی زندگی گزاریں گے اور جو بے با کی بھی چاہیں کریں اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی پکڑ سے بچ جائیں گے ان کا حال ان کبوتروں سے بھی بدتر ہوتا ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر لیتے ہیں.ایک تیسری قسم کے ڈرانے والے ہیں اور ایک تیسری قسم کے نہ ڈرنے والے.وہ ڈرانے والے بھی حقیقی ہوتے ہیں اور اپنے تمام بد ارادوں کو عمل کا جامہ پہنانے کے لئے پوری طرح مستعد اور تیار ہوتے ہیں اور جہاں تک ان کی پیش جاتی ہے وہ سارے ہدارا دے پورے کر لیتے ہیں جوان کے دل میں غیظ و غضب کی صورت میں کھول رہے ہوتے ہیں.ان کے مقابل پر بعض بے خوف اور بے باک لوگ ہیں جو ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہتے ہیں کہ تم جو چاہتے ہو کر لو ، جو کر سکتے ہو کر گز رو ہم تم سے خوف نہیں کھائیں گے.ان لوگوں میں سے ایک گروہ وہ ہے جن کی دلیری ، جن کی بہادری اور جن کی جرات خالصہ اس وجہ سے ہوتی ہے کہ وہ اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ کو اپنا دوست سمجھتے ہیں اور انہی کا ذکر اس آیت میں کیا گیا ہے: أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان پر خوف کے حالات پیدا نہیں ہوتے اور حزن کے اسباب پیدا نہیں ہوتے.دراصل اس آیت کے اندر ہی یہ مضمون کھول دیا گیا ہے کہ حقیقت میں خوف کے سامان تو ہوں گے اور بظاہر ڈرنے کی وجوہات ہوں گی اور ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے جن کے نتیجے میں حزن ہونا چاہئے لیکن اس کے باوجود جو اللہ کے دوست ہوں یا جن کا اللہ دوست ہو وہ غم اور خوف کے اثر سے بالا رہتے ہیں.پس یہ بیان فرمایا گیا ہے کہ اس کا کیا فلسفہ ہے؟ سب سے پہلے تو اگر آپ خوف کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ خوف ایک مستقبل کی چیز ہے.ایسے احتمالات جو واقعات کی دنیا میں نہ اترے ہوں اور انہوں نے حقیقت کے جامے نہ اوڑھے ہوں ، وہ خطرات جو ابھی فضا میں معلق ہوں، جو سر پر تلواروں کی طرح لٹک رہے ہوں، ان کا تعلق مستقبل سے ہے.جب بھی وہ حقیقت بنتے ہیں وہ اس وجہ میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس کے
خطبات طاہر جلد ۲ 342 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء نتیجے میں حزن پیدا ہوتا ہے ، وہ اس نقصان میں تبدیل ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں حزن پیدا ہوتا ہے.پس خوف کا تعلق مستقبل سے ہے.یعنی آئندہ ایسے واقعات رونما ہونے کا خطرہ ہو جن کے نتیجے میں انسان کو نقصان پہنچے لیکن حزن کا تعلق ماضی سے ہے اس کے ماضی میں ایک ایسا خوف ہوتا ہے جو واقعۂ حقیقت اختیار کر چکا ہوتا ہے.پس وہ خوف جوا بھی حقیقت اختیار نہ کر چکا ہو وہ حزن میں تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ حقیقت نہ بن جائے.حزن کا تعلق لا زم ماضی کے واقعات سے ہے.کچھ خوف حقیقی ثابت ہوئے وہ واقعہ نقصان کا موجب بن گئے ان کے نتیجے میں جو نقصان پہنچا اس سے حزن پیدا ہوتا ہے.اگر خدا تعالیٰ کا یہ منشا ہوتا کہ خوف کے حالات ہی پیدا نہیں ہوں گے تو حزن کے ذکر کی کوئی ضرورت نہیں تھی کیونکہ ایسا خوف جو خیالی اور فرضی ہو، جس کا حقیقت سے کوئی تعلق ہی نہ ہو وہ کبھی بھی حزن پیدا نہیں کر سکتا.وہ خوف ہی رہے گا یا امن میں خود بخود تبدیل ہو جائے گا.پس جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ تو حزن نے بتا دیا کہ کچھ خوف لا ز ما حزن کی وجہ پیدا کریں گے اس کے باوجود وہ حزن محسوس نہیں کریں گے.اس کا فلسفہ سمجھنا ہو تو اس کا راز اولیاء اللہ کے الفاظ میں ہے.دوستی اور محبت اور عشق کی حقیقت کو پا کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ خدا تعالی کیا بیان فرما رہا ہے؟ دوستی کے دو پہلو ہوتے ہیں.ایک دوست کی یہ تمنا، خواہش اور بے قراری ہوتی ہے کہ میں سب کچھ اپنے دوست پر قربان کر دوں اور جب وہ قربان کرتا ہے تو غم محسوس نہیں کرتا بلکہ لذت پاتا ہے.جب وہ اپنے دوست کی خاطر واقعہ اپنی کسی پیاری چیز سے جدا ہوتا ہے تو واویلا نہیں کرتا بلکہ ایک عجیب روحانی لذت محسوس کرتا ہے کہ میں نے کسی مقصد کی خاطر یہ چیز قربان کی ہے اور وہ مقصد مجھے اس چیز کے مقابل پر زیادہ پیارا ہے.بعض دفعہ تو وہ یہ تمنا کرتا ہے کہ میں اپنی جان بھی دوست پر نچھاور کر دوں.چنانچہ قرآن کریم میں ایسے اولیاء اللہ کا ذکر بکثرت ملتا ہے جو خدا کی خاطر اپنے اموال اور اپنی جانیں قربان کرنے کے لئے نہ صرف تیار رہتے تھے بلکہ دلوں میں تمنائیں پالا کرتے تھے.فرماتا ہے: فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّنْ يَنتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا ( الاحزاب :۲۴) کہ ایک خوف کے بعد دوسرے خوف کے حالات پیدا ہوتے چلے جارہے ہیں.ہر خوف کو
خطبات طاہر جلد ۲ 343 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء جب ہم امن سے بدلتے ہیں تو کچھ لوگ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی تمنا ئیں میری راہ میں اپنی جان اور مال فدا کرنے کی پوری ہو چکی ہوتی ہیں اور کچھ کی حسرتیں باقی رہ جاتی ہیں.وہ اس بات پر خوش نہیں ہوتے کہ خوف کے حالات بدل چکے ہیں، ہماری جانیں بچ گئیں اور ہمارے اموال بچ گئے بلکہ ایسے فدائی اور ایسے عاشق خدا کی راہ میں ایسے دیوانے ہو چکے ہوتے ہیں کہ وہ دلوں میں حسرتیں پالتے رہتے ہیں کہ بہت اچھا اب نہیں تو آئندہ سہی.چنانچہ تاریخ اسلام سے ثابت ہے کہ جنگ بدر میں شامل نہ ہو سکنے والوں میں سے کچھ ایسے تھے جو دعاؤں کی درخواستیں کیا کرتے تھے.دن رات یہ ذکر کیا کرتے تھے کہ وائے حسرت ! ہم شامل نہیں ہوئے.اگلی دفعہ جب جہاد ہوگا تو پھر ہم دیکھیں گے، پھر ہم حسرتیں نکالیں گے اور پھر واقعہ ایسا ہوا کہ ان کے جسموں کے ٹکڑے اڑا دیئے گئے.خدا کی راہ میں انہوں نے ایسے ایسے زخم کھائے کہ وہ پہچانے نہیں جاتے تھے ( صحیح بخاری کتاب المغازی باب غزوة احد الاصابة في تميز الصحابه تحت ذکر انس بن نظر.جلدا : صفہ ۱۳۲).ایسے لوگوں کے متعلق یہ کہنا کہ ان کو کوئی خوف ڈرا سکتا ہے یا وہ کسی حزن کا شکار ہو سکتے ہیں ، بہت ہی بڑا پاگل پن ہے.پس خدا تعالیٰ اس حقیقت سے انکار نہیں کر رہا کہ یہ لوگ خوف کے حالات میں سے نہیں گزریں گے یا ان کے لئے حزن کے حالات پیدا نہیں ہوں گے بلکہ یہ فرماتا ہے کہ دنیا کی نظر میں جس کو خوف کہا جاتا ہے، دنیا کی نظر میں جس کو حزن سمجھا جاتا ہے ان دونوں چیزوں سے میرے یہ بندے پاک اور بالا ہیں خوف کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکتے.اٹھیں گے ضرور لیکن کو تاہ رہ جائیں گے اور ان تک ان کو دسترس نہیں ہوگی.حزن ان کے دلوں پر قبضہ نہیں جما سکے گا کیونکہ ان کے غموں میں ان کی لذتیں ہیں اور وہ غم جو لذت پیدا کرے وہ دنیا کی کسی بھی اصطلاح میں غم نہیں کہلا سکتا.غم کا لذت سے کیا تعلق؟ لیکن عاشق کے غم کا لذت سے تعلق ہوتا ہے.چنانچہ شاعری میں آپ کو ایسے غم ملتے ہیں جن کی لذتوں کا شاعر اپنی زبان سے بے انتہا کر کرتا ہے کہ کاش! ہمیں اور بھی ایسے غم ملیں.ے تو مشق ناز کرخون دو عالم میری گردن پر (دیوان غالب) تو غم پہنچاتا چلا جا، چر کے لگاتا چلا جا ہم عشاق تو ایسے ہیں کہ ہر دکھ پر ہر چھ کے پر جو تیری
خطبات طاہر جلد ۲ 344 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء طرف سے لگایا جاتا ہے لذت محسوس کرتے ہیں.پس یہ عاشق کی دنیا ہے اور خدا تعالیٰ اس عشق کی دنیا کا ذکر فرما رہا ہے جب فرماتا ہے إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ دنیا والو! تم بڑے بے وقوف ہو کہ اللہ سے محبت کرنے والوں کو ڈراتے ہو.وہ جو خدا کے عشق میں سب سودے کر چکے ہیں،سب کچھ بیچ بیٹھے ہیں ان کو ڈرا ر ہے ہو کہ تمہارے عہد و پیمان کے پورا کرنے کے ہم سامان کریں گے فَمِنْهُمْ من تم پہلے بھی دیکھ چکے ہو کہ جب خوف کے حالات پیدا ہوئے تو انہوں نے بڑی جرات اور حوصلہ کے ساتھ خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کیں اور انہی میں سے بچے ہوئے یہ منتظر بیٹھے ہیں ان پر تمہارے خوف کی آواز کیا اثر کر سکتی ہے؟ وہ خائب و خاسر ہو کر تمہاری طرف واپس لوٹ جائے گی اور میرے محبوب بندوں پر مجھ سے محبت کرنے والوں پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا.پس ولایت کا ایک یہ پہلو ہے یعنی عشق کا پہلو ہے.عاشق کی نظر سے جب ولایت کو دیکھا جاتا ہے تو اس طرح خوف اور حزن کو دور کیا جاتا ہے.ولایت کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ جب محبوب اپنے عاشق کا عاشق بنتا ہے اور اس کے لئے بے قرار اور بے چین ہوتا ہے تو وہ ہرگز یہ پسند نہیں کرتا کہ دشمن اور ظالم لوگ اس کے محبوب کو مٹا ڈالیں.اپنے پیار کے اظہار کے لئے وہ کچھ آزمائش میں تو ضرور ڈالتا ہے اور موقع دیتا ہے کہ دوسرے بھی اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں کہ میری راہ میں ، میری محبت میں فدا ہونا کس کو کہتے ہیں.مگر یہ صرف عاشقی کی رمزیں ہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں ورنہ وہ محبوب ہرگز پسند نہیں کرتا کہ میرا عاشق میری خاطر غیروں کے ہاتھوں ہلاک کیا جائے.وہ ہر غیرت دکھانے والے سے زیادہ اس کے لئے غیرت دکھاتا ہے اور اس موقع پر جب یہ آواز بلند ہوتی ہے کہ أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ تو اس میں جمال کی بجائے ایک عجیب جلال پیدا ہو جاتا ہے ایک ایسی ہیبت پیدا ہو جاتی ہے کہ کسی اور آواز میں کبھی ایسی ہیبت پیدا ہوتی نہیں دیکھی گئی.خدا اپنے محبوب بندوں کے لئے ، اپنے عاشقوں کے لئے اعلان کرتا ہے لَا خَوفُ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کہ میں ان کا ساتھی ہوں، یہ میرے دوست ہیں تم کون ہوتے ہو ان پر ہاتھ اٹھانے والے؟ تم کون ہوتے ہوان کی
خطبات طاہر جلد ۲ 345 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء ہلاکت کا دعویٰ کرنے والے؟ چنانچہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میرے دوستوں کے ساتھ تمہارا سلوک ان کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا.ان خیالات کو بھول جاؤ یہ تمہارے دلوں کے وہم ہیں، ان کو نکال دولَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْیا زیادہ سے زیادہ تمہارا اثر دنیا کی چیزوں پر ہو سکتا تھا تم یہی سوچ سکتے ہو اس سے زیادہ تمہاری پہنچ نہیں ہے.تمہاری استطاعت نہیں ہے کہ ان سے دنیا چھین لیں.آخرت پر تو تمہارا کوئی قبضہ ہی نہیں.فرماتا ہے ہم تمہیں دنیا چھینے کی بھی اجازت نہیں دیں گے لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَاہم ڈرائے جانے والے بندوں کو بشارت دیتے ہیں کہ یہ دنیا بھی تمہاری ہوگی اور آخرت بھی تمہاری ہوگی.یہاں بھی تمہارے لئے بشارتیں ہیں اور اُس دنیا میں بھی تمہارے لئے بشارتیں ہیں اور کوئی نہیں جو تمہارا بال بھی بیکا کر سکے کیونکہ تم میرے بندے ہو اور میرے پیارے ہو اور میرے اولیاء کے زمرے میں شمار ہور ہے ہو.لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمت اللہ فرماتا ہے یہ نہ سمجھنا کہ یہ واقعہ شاید ایک دفعہ ہوایا دو دفعہ ہوایا چار دفعہ ہوا اور پھر نہیں ہو سکتا.یہ خدا کا غیر مبدل قول ہے.ایک ایسی تقدیر ہے جو کبھی تبدیل ہوتی ہوئی تم نہیں دیکھو گے.جتنی دفعہ تم میرے پیاروں کو دھمکیاں دو گے اتنی بار میں آسمان سے ان کو خوشخبریاں دوں گا.تمہاری دھمکیاں ہر بار جھوٹی نکلیں گی اور میری خوشخبریاں ہر بار سچی ثابت ہوں گی.لَا تَبْدِيلَ لِكَلمت اللہ اللہ کے کلمات میں تم کوئی تبدیلی ہوتی ہوئی نہیں پاؤ گے.ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيم اس کو کہتے ہیں عظیم کامیابی.تم کن کامیابیوں کی باتیں کر رہے ہو؟ کامیابی تو وہ ہوتی ہے جو خدا کی طرف سے نصیب ہو، جو آسمان سے اترے، جو دنیا بھی سنوار جائے اور آخرت بھی سنوار جائے.وہ کون سی کامیابی ہے جو دنیا بھی بگا ڑ جاتی ہے اور آخرت بھی بگاڑ جاتی ہے.پھر خدا آنحضرت علی کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے وَلَا يَحْزُنُكَ قَوْلُهُمْ اِنَّ الْعِزَّةَ لِلهِ جَمِیعًا ظاہری نقصان یا ظاہری ذلتیں پہنچانا تو الگ بات ہے ، اے محمد ! تو ان کے دکھ دینے والے قول کا بھی غم نہ کر کیونکہ ساری عزتیں اللہ کے پاس ہیں اور ان کے مقدر میں ساری ذلتیں لکھی جائیں گے اس لئے ان کی زبانی باتوں کی بھی کوئی پرواہ نہ کر ، کوئی غم محسوس نہ کر.ہاں مجھے پکار، مجھے بلا ، میرے لئے اٹھ اور میرے حضور دعائیں کر کیونکہ
خطبات طاہر جلد ۲ 346 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِیم اللہ بہت ہی سننے والا اور بہت ہی جاننے والا ہے.اگر گریہ وزاری کے ذریعہ اس تک ایسی باتیں پہنچائی جائیں جن کا بندے کو علم ہے تو وہ اس تک پہنچ ہی جاتی ہیں کیونکہ وہ سمیع ہے.لیکن ایسے مکر اور ایسے فریب جو خفیہ سازشوں کی حیثیت رکھتے ہیں ، جن کا معصوم بندوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے اوپر کیا فریب کاریاں کی جارہی ہیں اور چھپ چھپ کر کیا سازشیں تیار کی جارہی ہیں، ان کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اس بات کا انتظار نہیں کروں گا کہ میرے بندے مجھے بتائیں کہ یہ ہو رہا ہے.میں جانتا ہوں کہ کیا ہو رہا ہے؟ پس جس کا دوست سمیع و علیم ہو اس کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے.اس کو پکارو گے تو وہ سنے گا اور جواب دے گا اور اگر لاعلمی میں رہو گے تو وہ تمہاری خاطر جان رہا ہوگا.تم سوئے ہوئے ہو گے تو وہ تمہارے لئے جاگ رہا ہوگا اور دیکھ رہا ہو گا کہ تمہارے لئے کیا کیا سازشیں تیار کی جارہی ہیں.یہ ہیں خدا کے وہ بندے جن کے متعلق فرمایا أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ عاشق کے پہلو سے دیکھیں تب بھی یہ ایک بہت ہی پیاری اور عظیم الشان آیت ہے.جن لوگوں کے مقدر میں خدا کا یہ قول لکھا گیا ہوان کو کونسا خوف ڈرا سکتا ہے اور کون سا غم ان کے دلوں پر قابض ہو سکتا ہے.ان لوگوں کو سمجھانے کے لئے اللہ تعالیٰ دوسری گواہی تاریخ کی پیش کرتا ہے یہ تو اللہ کی مومنوں سے باتیں ہیں، اس کے پیار کا اظہار ہے لیکن دنیا دار بعض دفعہ ان باتوں کو نہیں مانتے.وہ کہتے ہیں ہمیں کیا پتہ اس دفعہ کیا ہونے والا ہے اور تمہیں کیا پتہ اس دفعہ کیا ہونے والا ؟ ہم تو بڑے بڑے ارادے لے کر اٹھے ہیں اور بہت تیاریاں کی ہیں.ہمارے سامنے تمہاری کوئی حیثیت نہیں.پہلی قوموں نے فلاں غلطی کی تھی جو کامیاب نہیں ہوئیں، فلاں غلطی کی تھی اس لئے کامیاب نہیں ہوئے ہوں گے لیکن ہماری پکڑ سے تم نہیں بچ سکتے.بار بار دشمن یہی تعلی لے کر اٹھتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ خدا کے قول کا تمہیں اعتبار نہیں ہے.خدا کے فرمان کی تمہارے دل میں کوئی پرواہ نہیں ہے مگر تاریخ عالم کو کس طرح جھٹلاؤ گے ایک بھی استثناء تم تاریخ عالم سے نہیں دکھا سکتے.خدا کے نام پر جن لوگوں کو مارنے کی کوشش کی گئی وہ کبھی ہلاک نہیں ہوئے اور خدا کے نام پر جولوگ مرنے کے لئے تیار ہوئے ان کو ہمیشہ کی زندگیاں عطا کی گئیں اور موت ان کے نصیب میں نہیں لکھی گئی.یہ وہ تقدیر ہے
خطبات طاہر جلد ۲ 347 خطبه جمعه ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء جس کا ذکر خدا فرمارہا ہے کہ اَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنْظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِنْ قَبْلِهِمْ ہماری باتوں کو نہیں مانتے تو دنیا کوتو دیکھیں.ذرا اس زمین کی سیر تو کریں، معلوم تو کریں ان قوموں کے حالات جو مٹادی گئیں اور نہ زمین سلا دی گئیں ، وہ جن کے افسانے ملتے ہیں ، جن کی حقیقت کا کوئی نشان نظر نہیں آتا.فرمایا دنیا میں پھروان لوگوں کے حالات کو دیکھو جو تم سے پہلے تھے.وہ بھی تمہارے جیسی حرکتیں کیا کرتے تھے اور تمہاری طرح کے ہی دعوے کیا کرتے تھے تمہاری طرح ہی ان لوگوں کے پیچھے پڑ جاتے تھے جن کا کوئی جرم نہیں تھا سوائے اس کے کہ انہوں نے کہا اللہ ہمارا رب ہے.انہوں نے محض خدا کی خاطر دشمنیاں مول لیں اور خدا کے نام پر تم دشمنیوں کے لئے بے باک ہو گئے.ان قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کرو.دَمَّرَ اللهُ عَلَيْهِمْ خدا نے ان کو نیست و نابود کر دیا.دنیا سے ان کے نشان تک مٹادیئے سوائے ان عبرت کے نشانات کے جو آئندہ قوموں کے لئے محفوظ رکھے گئے ہیں.وَ لِلْكَفِرِینَ اَمْثَالُهَا فر مایا اے محمد! علی یہ اعلان کر دے کہ آج کے کافروں کے لئے بھی وہی باتیں ہوں گی جو پہلے کافروں کے لئے ہوا کرتی تھیں.کوئی نئے دستور جاری نہیں ہوں گے جو پہلے کافروں کا حال تھا اور جس طرح پہلے ظالموں کے ساتھ خدا کی تقدیر نے سلوک کئے آج کے کافروں اور آج کے ظالموں سے بھی خدا کی تقدیر وہی سلوک کرے گی.جتنی دفعہ وہ ان باتوں کو دہرائیں گے اتنی دفعہ ہم ان باتوں کو دہراتے چلے جائیں گے.نتیجہ کیا نکالا؟ یہی کہ یہ اولیاء اللہ ہیں.فرمایا تم اس طرح نہیں مانتے تو تاریخ عالم سے سبق ڈھونڈ واور تاریخ کی گواہی پر یقین کرو.سوائے اس نتیجے کے کہ یہ اولیاء اللہ ہیں تم کوئی اور نتیجہ نہیں نکال سکو گے.اس کے سوا ان کے بچنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی.جتنی دفعہ بھی خدا کے نام پر خدا کے نام لیواؤں پر ظلم کئے گئے بلا استثناء سارے خطہ عالم پر ایک ہی تاریخ آپ کو دہرائی جاتی نظر آئے گی اور وہ تاریخ یہ ہے کہ مظلوم نہیں مٹے اور ظالم مٹادیئے گئے ، جن کی گردنیں کاٹی جارہی تھیں ان کی گردنوں کو برکت دی گئی، جن کے اموال لوٹے جارہے تھے ان کے اموال کو برکت دی گئی ، جن کے نفوس کم کئے جارہے تھے ان کے نفوس کو برکت دی گئی، جن کے گھر جلائے جارہے تھے ان کے گھروں کو برکت دی گئی، جن کے بچے قتل کئے جارہے تھے ان کے بچوں کو برکت دی گئی غرضیکہ کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس کو اختیار کر کے دشمن نے ان کو گزند پہنچانے کی کوشش کی ہو اور اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے ان کو غیر معمولی برکت نہ عطا فرمائی ہو.
خطبات طاہر جلد ۲ 348 خطبہ جمعہ ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء یہ ہے غیر مبدل تاریخ جس کو خدا تعالیٰ قرآن کریم میں پیش فرما کر کہتا ہے کہ پھر کیا نتیجہ نکالو گے اس کا کہ یہ لوگ کیوں مٹائے نہیں گئے ؟ طاقتیں تو تمہارے پاس تھیں، اکثریت تو تمہارے پاس تھی.حکومتیں تمہارے پاس تھیں ، دنیا کے ہتھیار تمہارے پاس تھے، پھر کیا وجہ ہے کہ یہ لوگ مٹائے نہیں گئے ؟ عقل اس کے سوا کوئی نتیجہ نہیں نکالتی کہ یقیناً محمد رسول اللہ اور ان کے ساتھی اللہ والے ہیں اور اللہ ان کے ساتھ تھا.فرمایا ذلِكَ بِاَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوْا وَ اَنَّ الْكُفِرِينَ لَا مَوْلى لَهُمْ ایک نتیجہ نہیں، ہم دو نتیجے نکال رہے ہیں.تم تو ان کی ولائیت میں شک کر رہے تھے ہم نے تاریخ کے ابواب کھول کر تمہارے سامنے رکھ دیئے کہ سوائے اس کے کہ یہ اللہ کے ولی ہوں یہ بچائے نہیں جاسکتے.بظاہر حالات ان کے بچنے کی کوئی صورت ہی نہیں سوائے اس کے اللہ ان کا ولی ہو.فرمایا صرف یہی نہیں بلکہ تاریخ ایک اور نتیجہ بھی نکالتی ہے کہ اے محمد رسول اللہ کے مخالفو! تمہارا کوئی ولی نہیں ہے جن کو تم اپنا ولی سمجھ رہے ہو ان کی ولائتیں توڑ دی جائیں گی.ان کے ہاتھ شل کر دیئے جائیں گے اور خدا کے مقابل پر کوئی بھی تمہاری مدد کے لئے نہیں آسکے گا.کتنا عظیم الشان، کتنا ہیبت ناک نتیجہ ہے جو تاریخ نے بار بار دنیا کے سامنے اسباق کی صورت میں دہرایا ہے ،لیکن جاہل اور آنکھوں کے اندھے ان نتائج کو نہیں دیکھ سکے.پس جماعت احمدیہ کے لئے خوشخبری ہے.ان کے لئے بھی خوشخبری ہے جن کی امنگیں پوری کی جائیں گی اور جن کی التجاؤں کو اس رنگ میں قبول کیا جائے گا کہ اللہ ان کی پیش ہونے والی قربانیوں کو قبول فرمالے گا، ان کی پیش کی جانے والی جانوں کو قبول فرمائے گا ، ان کے پیش کئے ہوئے گھروں کو قبول فرمائے گا، ان کے پیش کئے ہوئے عمر بھر کے اثاثوں کو قبول فرمائے گا.لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَوةِ الدُّنْيَا ان کے لئے خوشخبری ہے فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَہ وہ ان لوگوں میں شامل ہو گئے جنہوں نے اپنی امنگوں کو پورا کر لیا اور ان کے لئے بھی خوشخبری ہے جن کے لئے خدا کی غیرت جوش میں آئے گی اور دنیا کو اس بات کی استطاعت نہیں ہوگی، اس بات کی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ ان کو مٹا سکے.جس پہلو میں بھی ان کو کمزور کرنے کی کوشش کی جائے گی وہ پہلے سے زیادہ بڑھ کر اور طاقتور ہو کر نکلیں گے.یعنی خدا اپنے پورے جلال کا اظہاران کے لئے کرے گا.پس ان کے لئے بھی خوشخبری ہے گھاٹے کا سودا تو نہ اس طرف ہے، نہ اس طرف.
خطبات طاہر جلد ۲ 349 خطبہ جمعہ ۲۴ / جون ۱۹۸۳ء پس ایسے مقابلے کے لئے ہم تیار ہیں.ہم ان قوموں میں سے نہیں ہیں جو بزدل ہوتی ہیں اور مقابلے سے پیچھے ہٹ جاتی ہیں.ہم ہر چیلنج کا جواب دیں گے (انشاء اللہ ) اور ہر حملہ کا سامنا کریں گے لیکن ہمارے ہتھیار اور ہیں اور حق کے مخالفوں کے ہتھیار اور ہیں.ان کا طرز کلام اور ہے اور ہمارا طرز کلام اور ہے.ان کی محن مختلف ہے اور ہماری طحن مختلف ہے.وہ عناد اور بغض کی آگ جلانے کے لئے نکلیں گے تو ہم محبت کے آنسوؤں سے اس آگ کو بجھائیں گے.وہ دنیا کے تیر چلا کر ہماری چھاتیوں کو بر مائیں گے اور ہم راتوں کو اٹھ کر گریہ وزاری کے ساتھ دعاؤں کے تیر آسمان کی طرف چلائیں گے.پس اے احمدی ! اس رمضان کو فیصلہ کن رمضان بنا دو، اس الہی جہاد کے لئے تیار ہو جاؤ مگر تمہارے لئے کوئی دنیا کا ہتھیار نہیں ہے.دنیا کے تیروں کا مقابلہ تم نے دعاؤں کے تیروں سے کرنا ہے.یہ لڑائی فیصلہ کن ہوگی لیکن گلیوں اور بازاروں میں نہیں صحنوں اور میدانوں میں نہیں بلکہ مسجدوں میں اس لڑائی کا فیصلہ ہونے والا ہے.راتوں کو اٹھ کر اپنی عبادت کے میدانوں کو گرم کرو اور اس زور سے اپنے خدا کے حضور آہ و بکا کرو کہ آسمان پر عرش کے کنگرے بھی ہلنے لگیں مَتَى نَصْرُ اللهِ کا شور بلند کر دو.خدا کے حضور گریہ وزاری کرتے ہوئے اپنے سینوں کے زخم پیش کرو، اپنے چاک گریبان اپنے رب کو دکھاؤ اور کہو کہ اے خدا! قوم کے ظلم سے تنگ آ کے مرے پیارے آج شور محشر ترے کوچہ میں مچا یا ہم نے آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد نمبر ۵ صفحه ۲۲۴) پس اس زور کا شور مچاؤ اور اس قوت کے ساتھ متى نَصْرُ اللهِ کی آواز بلند کرو کہ آسمان سے فضل اور رحمت کے دروازے کھلنے لگیں اور ہر دروازے سے یہ آواز آئے: أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيب (البقره: ۲۱۵) سنوسنو کہ اللہ کی مدد قریب ہے.اے سننے والو! سنو کہ خدا کی مدد قریب ہے.اے مجھے پکارنے والوسنو کہ خدا کی مدد قریب ہے اور وہ پہنچنے والی ہے.روزنامه الفضل ربوه ۲۹ / جون ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 351 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: اللہ کے پیاروں کی علامتیں پیدا کریں (خطبہ جمعہ فرموده یکم جولائی ۱۹۸۳ بمقام مسجد اقصی ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیہ کریمہ تلاوت فرمائی: اِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَيكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (تم اسجدة : ٣١) گزشتہ خطبہ میں میں نے جماعت کو یہ یقین دلایا تھا کہ وہ جو اللہ کے دوست ہوتے ہیں اور اللہ جن کا دوست ہوتا ہے ان کو کسی قسم کا کوئی خوف اور کوئی حزن نہیں ہوتا.اس مضمون پر غور کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے میری توجہ ایک اور نکتے کی طرف مبذول کروائی اور وہ یہ ہے کہ خدا کے بندے، اس سے پیار کرنے والے اور جن سے اللہ پیار کرتا ہے وہ بے خوف کیوں ہوتے ہیں.دنیا میں جتنے بھی خوفزدہ لوگ ہیں خواہ افراد ہوں یا قو میں ہوں ان کے خوف میں ایک نمایاں عصر جرم کا شامل ہوتا ہے جس کی وجہ سے بنی نوع انسان کی بھاری تعداد خائف رہتی ہے.چنانچہ بعض قو میں بھی اپنے جرموں کی وجہ سے خائف ہیں، افراد بھی اپنے جرموں کی وجہ سے خائف ہیں اور یہ نفسیات کا ایک گہرا نکتہ ہے جسے مختلف فلسفہ دانوں نے بھی بیان کیا اور دنیا کی
خطبات طاہر جلد ۲ 352 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء مختلف زبانوں کے ادیبوں نے بھی کبھی افسانوں میں اور کبھی ناولوں میں اور کبھی علوم انفس کے ماہرین نے اپنے مضامین میں بیان کیا کہ دنیا کی اکثریت کا خوف جرم سے تعلق رکھتا ہے چنانچہ اس ضمن میں ایک مشہور کریکٹر Markham مار خیم) ہے جو ایک افسانہ کے اندر پیش کیا گیا ہے.اس میں بھی یہی بات ظاہر کی گئی ہے کہ ایک شخص دنیا کے بیرونی خطروں سے دراصل اتنا خائف نہیں ہوتا جتنا وہ اندرونی خطروں سے خائف ہوتا ہے.بعض دفعہ ایک جرم انسان کے وجود پر قبضہ کر لیتا ہے اور اندرونی خوف اسے بھیانک خوابیں بن کر ڈراتے رہتے ہیں.چنانچہ جگہ جگہ ہر موڑ ہر سائے سے اسے ڈر لگنے لگتا ہے.اسی مضمون کو Markham (مارخیم) کے کریکٹر میں چونکہ بہت ہی عمدگی سے بیان کیا گیا ہے اس لئے دنیا میں یہ کریکٹر بہت مشہور ہو گیا.امر واقعہ بھی یہی ہے کہ انسانوں کی بھاری اکثریت اسی لئے خائف ہے کہ انہیں اندرونی خطرات لاحق ہیں.جہاں تک قوموں کا تعلق ہے آج جو دنیا میں بے چینی پائی جاتی ہے اس کے پس منظر میں بھی جرائم ہیں.Totalitarian Regimes ہوں یا اشترا کی طاقتیں.فاشسٹ Regimes ہوں یا Dictatorships جو بھی دنیا میں قائم ہیں ان کے پس منظر میں بھی خوف کارفرما ہیں.ان کے دلوں میں اپنی کچھ ایسی حرکتیں ہیں جو ہر وقت ان کے دلوں کو بے چین رکھتی ہیں اور جن کے متعلق ان کو معلوم ہے کہ وہ سزا کے لائق ہیں.وہ اس خوف کے نتیجہ میں اس بات کے سزاوار بن جاتے ہیں کہ انہیں سزادی جائے.چنانچہ پھر یہ خوف ان کو بعض اور جرموں پر آمادہ اور انگیخت کرتا ہے اور مزید جرم ان کو مزید خائف کرتے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ دنیا بعض اوقات جن لوگوں کو بڑے عظیم الشان اور صاحب جبروت لوگوں کے طور پر دیکھتی ہے اگر ان کے دلوں میں جھانک کر دیکھا جائے تو ان کی زندگی ایک لعنت اور ایک جہنم بنی ہوتی ہے.ان کے خوف بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اور کم نہیں ہوتے.افراد کا بھی یہی حال ہے اور قوموں کا بھی یہی حال ہے اور ان Regimes یعنی طاقتوں کا بھی یہی حال ہے جو جرائم کے زور پر اور ظلم وستم اور استبداد کے بل بوتے پر دوام چاہتی ہیں.غرض اللہ تعالیٰ مومن کی توجہ اس طرف مبذول کراتے ہوئے فرماتا ہے أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاء اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَاهُمْ يَحْزَنُونَ (یونس:۶۳) اگر تم دنیا میں بے خوف بندے دیکھنا چاہتے ہو تو میرے پیاروں کو دیکھو کہ ان کا سارا ماضی اور تمام حال جرم سے خالی ہے اور ان کے
خطبات طاہر جلد ۲ 353 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء مستقبل کے متعلق بھی یہ ضمانت دی جا سکتی ہے کہ وہ جرم نہیں کریں گے کیونکہ وہ لوگ فطرتا اور طبعاً پاکیزہ اور معصوم ہوتے ہیں.ظاہر ہے جن کا ماضی بے داغ ہو ، جن کا حال بے داغ ہو ، جن کے مستقبل کے متعلق عالم الغیب خدا یہ کہتا ہو کہ میں نے ان کو دوست قرار دے دیا ہے اس سے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ یہ آئندہ بھی بے داغ رہیں گے.سب سے زیادہ بے خوف انسان اگر دنیا میں کوئی ہوسکتا ہے تو وہ یہی لوگ ہیں.سب سے بڑا خوف اندرونی خوف ہوتا ہے جو بیرونی شکلیں اختیار کرتا ہے جو بڑی بھیا نک ہوتی ہیں.بعض دفعہ وہ محض کھتے رہتے ہیں لیکن بعض دفعہ یہ خطرے عمل کی دنیا میں ڈھل کر حقیقتا بڑے سنگین نتائج پیدا کر دیتے ہیں.پس یہ دونوں قسم کے خطرات جو فرضی قسم کے ہیں ان سے بھی یہ لوگ پاک رہتے ہیں اور حقیقی خطرات سے بھی پاک رہتے ہیں.تو اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم حقیقت میں مومن بننا چاہتے ہیں اور ان لوگوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں جو ربنا اللہ کہہ کر استقامت اختیار کرتے ہیں، ان کے متعلق خدا تعالیٰ نے فرمایا أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا کہ تمہیں کسی خوف کی ضرورت تمہیں کسی حزن کی ضرورت نہیں.اللہ و الہ تم کہہ بیٹھے ہو، اپنی استقامت سے اپنے دعوی کی سچائی ثابت کر بیٹھے ہو، یہ تو ایک قدرتی نظام ہے جواب جاری ہوگا تمہیں لازماً بے خوف بنادیا جائے گا.پس اگر ہم حقیقت میں اللہ کے پیارے بننا چاہتے ہیں، اگر حقیقت میں ان لوگوں میں داخل ہونا چاہتے ہیں جن پر کوئی خوف مستولی نہیں ہوتا تو اپنی سوسائٹی سے جرم کا ازالہ کریں، ظلم کو کلیۂ مٹا دیں کیونکہ جب تک ہماری سوسائٹی میں ہمارے اندر جرم کا ارتکاب موجود ہے اس وقت تک ہمارا یہ دعویٰ درست ہی نہیں ہے کہ اللہ ہمارا دوست ہے اس لئے اس دعوی کے ساتھ جرموں کی بیخ کنی ضروری ہے.یہ آیت اصلاح کا ایک عظیم الشان پروگرام ہمارے سامنے کھولتی ہے.جو شخص احمدی کہلاتا ہے اس کے گھر کے ہر فرد سے اس کا تعلق ہے.جتنے خطرات بڑھیں گے اتنا ہی زیادہ ہمیں نیک بننے کی ضرورت ہے ، اتنا ہی زیادہ ہماری سوسائٹی کو جرموں سے پاک ہونے کی ضرورت ہے، اتنی ہی زیادہ ہمارے افراد کے اندر خدا خوفی کی ضرورت ہے، یہ ہے سائنٹیفک مذہب جس کا حقیقت سے تعلق ہے محض دعویٰ کا مذہب نہیں ہے.ورنہ تو ساری دنیا یہ کہتی پھرتی ہے کہ ہم خدا والے ہیں، اللہ
خطبات طاہر جلد ۲ 354 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء ہماری حفاظت کرے گا لیکن یہ صرف پاگلوں والے قصے ہوتے ہیں.آخر وہ تمہاری کیوں حفاظت کرے گا تم کیوں کر خدا والے ہو، خدا والوں کی کچھ علامتیں ہوا کرتی ہیں اور وہی علامتیں بے خوفی کا نتیجہ پیدا کرتی ہیں.یہ کوئی فرضی قصہ نہیں ہے.خدا والوں کی علامتوں میں سے سب سے بڑی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ لوگ جرم نہیں کرتے ، نہ وہ دنیا کا جرم کرتے ہیں اور نہ خدا کا جرم کرتے ہیں.پس یہ لوگ معصوم عن الخطا بنتے چلے جاتے ہیں ان لوگوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو کوئی خوف نہیں.چنانچہ ایمان کے تقاضوں میں یہی مضمون بیان ہوا ہے کہ تمہارے بے خوف ہونے تک کچھ منازل ہیں.تم اللہ سے مدد مانگو اور ان منازل کی طرف درجہ بدرجہ حرکت کرو ورنہ تم بے خوفی کے مقام تک نہیں پہنچ سکو گے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے مومن کو یہ دعا سکھائی: رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا تُنَادِى لِلْإِيْمَانِ أَنْ أَمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَأَمَنَا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوْبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( آل عمران : ۱۹۴ - ۱۹۵) کہ وہ لوگ جو اللہ پر ایمان لے آتے ہیں اور اس کی طرف بلانے والوں پر ایمان لے آتے ہیں خدا کے حضور یہ عرض کرتے ہیں کہ ہم نے ایک منادی کی آواز کو سنا جو تیری طرف بلا رہا تھا.یہ بلاوا ہمیں اتنا پیارا لگا ( بلانے والا بھی اور جس کی طرف بلایا جا رہا تھا ) اتنا اچھا لگا کہ ہم نے بلا تردد اسے قبول کر لیا.سَمِعْنَا ہم نے سنا اور ہم ایمان لے آئے.یہ ایک ایسا طبعی اور قدرتی نتیجہ ہے جو اللہ تعالیٰ ظاہر فرماتا ہے جس کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں.پس اے خدا! اس ایمان کے نتیجہ میں جو ہم تجھ پر لائے ہیں ہماری تجھ سے کچھ التجا ہے.پہلی التجا تو یہ ہے کہ جو گناہ پہلے ہو چکے ہیں ان کے بوجھ ہم کہاں اٹھائے پھرتے رہیں گے وہ تو ہمارے کھانہ سے دور کر دے، ان کو مٹا دے اور معاف کر دے اور آئندہ کے لئے بھی ہمیں اپنے نفس پر اعتماد نہیں، ہم بے حقیقت اور عاجز بندے ہیں ہم تجھ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم میں یہ طاقت ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 355 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء ہم جرموں اور گنا ہوں سے بچ سکیں گے.پس تجھ سے یہ التجا کرتے ہیں کہ اس ایمان کے بدلہ میں دیکھیں مومن کتنی بڑی قیمت مانگ رہا ہے ) ہمارے پہلے گناہ بھی سارے کے سارے بخش دے اور آئندہ کے گناہوں سے بچنے کی بھی توفیق عطا فرما اور ہماری وہ بدیاں جو ہماری فطرت کے اندر داخل ہو چکی ہیں اور ہمارے وجود کا حصہ بن گئی ہیں جو دراصل گناہوں پر منتج ہوا کرتی ہیں ان سے ہمیں بچا.یعنی ایسی بدصفات ، بد خصلتیں اور بد عادتیں، بعض حرصیں اور تمنائیں جو انسان کے ساتھ لگی رہتی ہیں اور گناہ پر آمادہ کرتی رہتی ہیں یہ سب سیات ہیں جو ہمارے وجود میں بدیوں کی شکل میں داخل ہوئی ہوتی ہیں اور وہ ہمارے وجود کا شیطان بن گئی ہیں.جب تک تو ان کو نہیں مٹائے گا ہم آئندہ جرموں سے پاک کس طرح ہوں گے اس لئے اے اللہ ! ہم تجھ سے ہی درخواست کرتے ہیں کہ تو ان کو بھی مٹادے.پھر اللہ تعالیٰ ایک اور رنگ میں دعا کرنے کی تعلیم دیتا ہے کہ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ ہم نہیں جانتے ہماری موت کب آتی ہے.ایمان کی حالت میں کچھ جلدی مر جائیں گے ، کچھ دیر میں مریں گے اور یہ سلسلہ لمبا دکھائی دیتا ہے، ہماری کمزوریاں بہت ہیں ہمارے گناہ زیادہ ہیں ، ہم تجھ سے لبی عمر نہیں مانگتے مگر یہ ضرور ما نگتے ہیں کہ ہمیں موت نہ دینا جب تک نیک بندوں میں نہ لکھے جاویں.اگر تھوڑے دن مقرر ہیں تو اس نظام کو تیز فرمادے، اس سلوک رحمت کو بہت تیزی کے ساتھ جاری فرما یہاں تک کہ ہمارے پرانے گناہ جھڑ جائیں اور ہماری بدیاں دور ہو جائیں اور جب موت کا وقت آجائے تو اس وقت تیری نظر ہم پر اس طرح پڑ رہی ہو جس طرح نیک بندوں پر پڑتی ہے.اے خدا! تو پیار سے ہمیں دیکھ رہا ہو کہ ہاں یہ ابرار ہیں.اس انجام تک پہنچانے کے بعد پھر فرمایا کہ اب تم اپنی فتح کی دعائیں مانگو ! اب مجھے یاد کراؤ وہ وعدے جو رسولوں سے میں نے کئے تھے کہ آئندہ ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ اس میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جن کو عظیم الشان روحانی فتوحات عطا کی جائیں گی.فرمایا جب تک تم ان منازل سے نہیں گزرتے اس وقت تک اس بات کا حق نہیں رکھتے کہ مجھ سے مانگو.پہلے ابرار کی منزل تک تو پہنچو.اگر اشرار کی منزل پر رہے تو میں دنیا کی باگ ڈور کیوں تمہارے ہاتھ میں پکڑاؤں گا.میں دنیا کی اصلاح کے عظیم کام تمہارے سپر د کیسے کروں گا.
خطبات طاہر جلد ۲ 356 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء یہ اتنی عظیم الشان دعا ہے ایمان کے تقاضے کے طور پر اور اس طرح تسلسل کے ساتھ کہ گویا بہتر سے بہتر انجام کی طرف حرکت کرتی چلی جاتی ہے.قرآن کریم کی اس فصاحت و بلاغت پر انسانی عقل دنگ رہ جاتی ہے.فرمایا وَ تَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ اے خدا! ہمیں ایسا بنا دینا کہ پھر موت نہ آئے جب تک ہم تیری نظر میں نیک نہ ہو چکے ہوں.رَبَّنَا وَاتِنَا مَا وَعَدْتَنَا عَلَى رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيِّمَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيْعَادَ کہ اے اللہ ! پھر اس کے بعد کون سا عذر باقی رہ جاتا ہے کہ ہمارے حق میں وہ وعدے پورے نہ ہوں جو تو نے گزشتہ نبیوں سے گئے تھے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ زمانہ میں مسیح موعود کی جماعت کا ایک بہت عظیم الشان مقام ہے.آنحضرت ﷺ کے دین کا سارے ادیان پر غلبہ اس کے زمانہ میں ہونا ہے اور یہ کائنات کا اتنا بڑا اواقعہ ہے کہ اس کی نظیر آپ کو کہیں اور نظر نہیں آتی.حضرت محمد مصطفی علی اللہ کے ساتھ ادیان عالم پر اسلام کے غلبہ کا جو وعدہ کیا گیا ہے اس نے مسیح موعود کے زمانہ میں پورا ہونا ہے.یہ مقدر ہے اور اب تک چونکہ وہ غلبہ حاصل نہیں ہوا اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ دن ابھی نہیں آئے ، وہ آنے والے ہیں.تو وہ کون سا وعدہ تھا جو خدا تعالیٰ نبیوں سے کرتا چلا آیا تھا کہ ایک عظیم الشان فتح ہونے والی ہے.حضرت محمد مصطفی ﷺ کی فتح کے سوا اور کسی فتح کی حقیقت ہی کوئی نہیں.خدا تعالیٰ نبیوں سے جس عظیم الشان فتح کی باتیں کرتا چلا آیا ہے وہ یہی فتح ہے یعنی آنحضور ﷺ کی فتح.پس بڑے ہی خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کے ہاتھوں اسلام کو وہ فتح عطا ہونی ہے لیکن یہ اتنی مقدس فتح ہے اور اتنی عظیم الشان اور تاریخی حیثیت کی فتح ہے کہ اس فتح کی تیاری کے لئے پہلے پاک ہونا پڑے گا.جب تک ابرار میں آپ داخل نہیں ہو جاتے آپ کے مقدر میں یہ فتح نہیں لکھی جاسکتی کیونکہ سید الابرار کی فتح گندے لوگوں کے ہاتھ پر نہیں ہو سکتی.یہ آپ یقین کر لیجئے یہ ناممکن ہے کہ حضرت محمد مصطفی ملنے کی فتح ان لوگوں کے ہاتھ پر ہو جو گناہوں کے بوجھ تلے دبے پڑے ہوں.جو لوگ اس سفر میں داخل ہی نہ ہوئے ہوں کہ ان کے پہلے گناہ بخشے جا رہے ہوں، آئندہ کمزوریاں دور کی جا رہی ہوں ، نیکیاں عطا ہو رہی ہوں اور بڑی تیزی کے ساتھ تیاریاں ہو رہی ہوں
خطبات طاہر جلد ۲ 357 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے تحت کہ لوگ مریں گے نہیں جب تک نیک نہ ہو جائیں.اللہ فرماتا ہے پہلے ان لوگوں میں تم داخل ہو جاؤ پھر تم اس فتح کے لائق قرار دیئے جاؤ گے جو میرے محبوب بندہ محمد مصطفی ملے کی فتح ہے اور جس کے متعلق میں پرانے نبیوں سے وعدہ کرتا چلا آیا ہوں کہ وہ فتح ضرور عطا ہوگی.پس یہ وہ مضمون ہے اَلَا اِنَّ اَولِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ کا جس کی طرف اللہ تعالیٰ نے میری توجہ پھیری کہ زبانی دعوئی کوئی چیز نہیں ہے ، یہ کہنا کہ ہاں ہم خداوالے ہو گئے ہیں ہم پر کوئی ہاتھ تو ڈال کر دیکھے یہ محض دعویٰ ہے، خدا والے بنتے ہو تو تمہارے اندر خدا والوں کی علامتیں ظاہر ہونی چاہئیں اور یہ وہ علامتیں ہیں جن کا میں نے قرآن کریم کی رو سے ذکر کیا ہے.قرآن کریم کی اس آیت کے تابع یہ علامتیں لازماً خدا والوں میں جاری ہونی شروع ہو جاتی ہیں یہاں تک کہ وہ ابرار بن جاتے ہیں جس کا دوسرا نام اولیاء اللہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی مضمون کو بہت ہی پیارے انداز میں اپنے نہایت ہی پیارے اور محبوب کلام میں یوں بیان فرماتے ہیں: مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں“ کیسا عارفانہ کلام ہے.وہ وجود جو صاحب تجربہ ہو، جو ان چیزوں میں سے گزرا ہوصرف اسی کے منہ سے یہ کلمے جاری ہو سکتے ہیں.دنیا کے عام مولوی کو یہ علم نصیب ہی نہیں ہوسکتا.عارف باللہ کا کلام ہے.فرمایا کہ خدا ضرور مدد کرتا ہے، میں بھی دعوے کرتا ہوں کہ مجھ پر ہاتھ تو ڈال کر دیکھو، میں خدا کا شیر ہوں ، کس کو جرات ہے، کس کی مجال ہے کہ مجھ پر ہاتھ ڈال سکے ، لیکن کیوں دعویٰ کرتا ہوں اس لئے کہ اس یقین پر قائم ہوں کہ یہ محض فرضی دعوے نہیں ہیں.فرماتے ہیں: ”خدا کے مقبولوں میں قبولیت کے نمونے اور علامتیں ہوتی ہیں اور انجام کاران کی تعظیم ملوک اور ذوی الجبروت کرتے ہیں“ تتمہ حقیقۃ الوحی روحانی خزائن جلد ۲۲ صفحه ۵۸۹) کتنا عظیم الشان کلام ہے.اللہ کے پیاروں میں قبولیت کی ایسی علامتیں پائی جاتی ہیں کہ ان کی تعظیم ملوک اور ذوالجبروت کرتے ہیں اور ان پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور وہ سلامتی کے شہزادے کہلاتے ہیں.پس اے احمدی ! اگر تو سلامتی کا شہزادہ بنا چاہتا ہے ، اگر تو چاہتا ہے کہ آسمان سے ملوک
خطبات طاہر جلد ۲ 358 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء تیری تعظیم کریں اور ذوالجبروت تیری تعظیم کریں تو لازم ہے کہ قبولیت کی ان علامتوں کی طرف دوڑ اور بڑی تیزی کے ساتھ ان علامتوں کو اپنے وجود میں جاری کرلے جو اللہ کے پیاروں اور اس کے محبوبوں کی علامتیں ہوا کرتی ہیں.یہ کام ہم کر دیں تو ساری دنیا میں اسلام کی فتح کے کام اللہ کرے گا، ہماری ساری مشکلیں دور ہو جائیں گی ، سارے مصائب ٹل جائیں گے، ہر غم خوشی اور راحت میں تبدیل ہو جائے گا اور ہر خوف امن میں بدل جائے گا.پس اس رمضان کو ان علامتوں کے حصول کا رمضان بنالیں.ہمارے چھوٹے اور ہمارے بڑے، ہمارے بچے اور ہمارے بوڑھے ، ہماری عورتیں اور ہمارے مردسب کے سب خدا سے گریہ وزاری کریں کہ رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيَّا يُنَادِى لِلْإِيْمَانِ اے ہمارے رب ! ہمارا تو اتنا ہی قصور ہے کہ ہم نے ایک پکارنے والے کی پکار کو سنا جو تیری طرف بلا رہا تھا اور ہم ایمان لے آئے.خدا فرماتا ہے کہ ایمان لانے کے اس چھوٹے سے فعل کا نتیجہ اب یہ نکالو، میں عطا کرنے پر آیا ہوں اور میں عطا کرتا چلا جاؤں گا، میں یہ نہیں پوچھوں گا کہ یہ کون سی اتنی بڑی نیکی تھی جو تم نے کی کہ میں سب کچھ تمہیں دے دوں، خود دعا سکھا دی.فرمایا تم صرف اتنا کہو کہ اے خدا! ہم ایمان لے آئے ہیں بس اب تو ہمارے پرانے گناہ معاف فرما، ہماری بدیاں دور کرتا چلا جا، اس وقت ہم پر موت نہ آئے جب تک ہم نیک نہ ہو جائیں اور وہ سارے وعدے ہمارے حق میں پورے فرمادے جو گزشتہ نبیوں سے تو کرتا چلا آیا ہے.اس کے بعد میں مختصر اسال رواں کے مالی گوشوارہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.مقبولوں کی علامتوں میں سے ایک مالی قربانی بھی ہے خصوصاً اس دور میں جو مادیت کا دور ہے ، مادہ پرستی کا دور ہے جس میں انسان آسانی سے اپنی کمائی سے الگ نہیں ہو سکتا.خالصہ اللہ یعنی اللہ کی رضا کی خاطر اگر ایک دمڑی بھی پیش کی جائے تو اس کی بھی بہت بڑی قیمت ہے.میں یہ دیکھ رہا ہوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل کے ساتھ جماعت کو دن بدن قبولیت کی علامتیں عطا فرما تا چلا جا رہا ہے اور پہلے سے بڑھاتا چلا جارہا ہے.یہ علامتیں تو ہمیشہ سے جماعت میں ہیں لیکن وہ جماعت بڑی خوش نصیب ہوتی ہے جوان علامتوں میں کم ہونے کی بجائے بڑھتی چلی جائے.پس جہاں تک مالی قربانی کا تعلق ہے ساری دنیا میں بالکل صاف نظر آ رہا ہے کہ جماعت
خطبات طاہر جلد ۲ 359 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء - بہت تیزی کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے باوجود اس کے کہ دنیا میں بڑے مالی بحران آگئے ہیں، باوجوداس کے کہ روپیہ کی قیمت گرنے کی وجہ سے شدید مشکلات کا دور ہے اور بڑی اقتصادی بدحالی ہے، تنخواہ داروں کا بہت برا حال ہے، تاجروں کی تجارتیں خراب ہو رہی ہیں ، اقتصادی لحاظ سے ہر جگہ ایک بحران ہے لیکن اللہ کی عجیب شان ہے کہ جماعت احمدیہ پر ہر نیا سال پہلے سے زیادہ بڑھ کر فضل لے کر آتا ہے.گزشتہ مالی سال کے لئے جو بجٹ تیار کیا گیا تھا یعنی کل تک جو سال گزرا ہے اس کا بجٹ اس کے پچھلے سال کے مقابل پر غیر معمولی اضافہ کے ساتھ بنایا گیا تھا اس لئے ناظر صاحب بیت المال آمد بہت گھبرائے ہوئے تھے کہ پتہ نہیں یہ پورا ہوتا ہے یا نہیں اور مالی سال کے آخر پر ہم کوئی بجٹ بھی پیش کر سکیں گے یا نہیں.علاوہ ازیں جب میں نے یہ اعلان کیا کہ دوست سچائی پر قائم ہو جائیں اور اپنی آمدنیوں کو چھپائیں نہیں.اگر ان کو پورا چندہ دینے کی توفیق نہیں تو معافی کا میں آج اعلان کر دیتا ہوں بقایا جات بھی معاف ہو جائیں گے ، صرف آپ دیانتداری سے اور تقویٰ کے ساتھ سچ بولیں.اس اعلان سے تو ناظر صاحب بیت المال اور بھی زیادہ گھبرا گئے اور ایک موقع پر ان کی چٹھی آئی کہ اب آپ کیا سب کو معاف ہی کرتے چلے جائیں گے، بجٹ کیا بنے گا.میں نے ان سے کہا کہ آپ فکر نہ کریں.اللہ پر توکل رکھیں اللہ سچائی کو کبھی ضائع نہیں کرتا.اصل زندگی سچائی سے عبارت ہے،ساری طاقت سچائی میں ہے اور ساری نیکیوں کی جان سچائی میں ہے.ابرار بننا ہے تب بھی سچائی سے یہ سفر شروع کرنا پڑے گا اور مسلسل سچائی کو اپنے ساتھ رکھنا پڑے گا.ایک قدم بھی سچائی کے بغیر اٹھا کر آپ روحانی لحاظ سے زندہ نہیں رہ سکتے.بہر حال جتنے خطوط آئے جتنی چٹھیاں آئیں ہم سب کو معاف کرتے چلے گئے اور کہا کہ اگر دوستوں کو چندہ دینے کی توفیق نہیں بے شک نہ دیں لیکن سچ بولیں ، خدا نے ان کو جو کچھ عطا فرمایا ہے اس کو کم کر کے نہ دکھا ئیں نتیجہ یہ نکلا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ سال کے آمد کے بجٹ کے مقابل پر ( جو اس سے پچھلے سال سے بہت زیادہ تھا ) ۴۷ لاکھ روپے زیادہ وصول ہوئے ہیں.میری روح خدا کے حضور سجدے کر رہی ہے.لاکھوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ان ان گنت جذبات خلوص کی بنا پر جو ان لاکھوں کے پیچھے کام کر رہے ہیں.بڑی بڑی تکلیفیں اٹھا کر دوستوں نے یہ چندے دیئے ہوں گے، بڑی قربانیاں کر کے یہ چندے دیئے ، غریبوں نے بھی دیئے امیروں نے بھی دیئے اور اس عزم
خطبات طاہر جلد ۲ 360 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء کے ساتھ دیئے کہ ہمارا قدم پیچھے نہیں جائے گا، روپیہ کی قیمت کم ہو رہی ہے تو ہمارے لئے کم ہو جماعت کے لئے کیوں کم ہو ، جماعت کو ہم سے زیادہ ضرورتیں ہیں.یہ تھا جذ بہ جو چندے دینے کے پیچھے کارفرما تھا.دنیا کی قوموں میں تو روپے کی قیمت کم ہو تو کہتے ہیں ٹیکس معاف کر دو، فلاں چیز معاف کر دو، ہم سے زندہ نہیں رہا جاتا لیکن یہ وہ زندہ قوم ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہے کہ جتنی روپے کی قیمت کم ہوتی چلی گئی اتنا ہی ان کو یہ خیال آیا کہ سلسلہ کو زیادہ روپے کی ضرورت ہے اس لئے اور زیادہ قربانی کرو.یہ اضافہ پہلے سے بڑھ کر اور حیرت انگیز ہے.میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا.باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ پر کامل یقین تھا اور اس پر تو کل تھا لیکن اتنے اضافہ کی توقع نہیں تھی.پتہ نہیں کہاں سے آیا ہے کس طرح آیا ہے بارش کے قطروں کی طرح گرا ہے اور جب یہ بجٹ Close ہوا ہے (اور ابھی اس میں کچھ رقمیں داخل ہونے والی ہیں ) تو خدا کے فضل سے متوقع بجٹ سے ۴۷لاکھ روپے زیادہ وصولی ہو چکی ہے اور باقی ساری دنیا میں بھی یہی حال ہے جیسا کہ دوست الفضل میں پڑھتے رہتے ہیں.پس ہم پر شکر واجب ہے یہ مقبولوں کی علامتیں ہیں جو ہم میں ظاہر ہورہی ہیں.دعا کریں خدا تعالیٰ ان علامتوں میں مزید برکتیں عطا کرتا چلا جائے اور ان کو بڑھاتا چلا جائے.یہ علامتیں عبادتوں میں بھی اسی طرح برکت پائیں جس طرح مالی قربانیوں میں برکت پارہی ہیں.وقف کی روح میں بھی اسی طرح برکت پائیں جس طرح مالی قربانی میں برکت پارہی ہیں.ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں یہ علامتیں ظاہر ہو جائیں.ہمارے ذاتی انفرادی اخلاق میں ظاہر ہو جائیں ، ایک دوسرے سے ہمارے سلوک میں ظاہر ہو جائیں ، اپنی بیویوں سے ہمارے سلوک میں ظاہر ہوں ، بیویوں کے اپنے خاوندوں سے سلوک میں ظاہر ہوں ، بچوں سے سلوک میں ظاہر ہوں، بچوں کے اپنے ماں باپ کے سلوک میں ظاہر ہوں، گویا ہر طرف جتنی جگہ بھی آپ کی زندگی میں کوئی تعلق قائم ہوتا ہے ہر جگہ اللہ کے پیار کی علامتیں آپ کے اندر جلوہ گر ہونی چاہئیں.اس کو کہتے ہیں خدا میں نہاں ہو جانا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ جو فرمایا:.ے نہاں ہم ہو گئے یار نہاں میں ( در ثمین صفحه ۵۰)
خطبات طاہر جلد ۲ 361 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء تو یہ بھی کوئی فرضی فلسفہ کی بات نہ تھی.مراد یہ تھی کہ ہم نے گویا اور زیادہ صفات باری کو اختیار کر لیا.ہمارے اندر پہلے سے بڑھ کر مقبولوں کی علامتیں ظاہر ہو گئیں.پس اس رمضان کے مبارک مہینے میں دوست بہت دعائیں کریں اور پھر سارا سال کوشش کریں کہ مقبولوں کی علامتیں ہمارے اندر نشو و نما پاتی اور بڑھتی رہیں یہاں تک کہ جماعت پر ایک عظیم الشان روحانی بہار آجائے جس کے بعد اس کا بڑھنا مسلسل جاری رہے اور کسی کی طاقت میں نہ رہے کہ وہ اس کو روک سکے.دنیا کے لئے یہ ناممکن ہو جائے کہ وہ تمہاری راہ میں حائل ہو سکے اور وہ اسی طرح ناممکن بنے گا کہ تم خدا والے ہو جاؤ اور خدا کے پیار کی علامتیں تمہارے اندر ظاہر ہوں.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: پچھلے چند دنوں سے گرمی بہت زیادہ ہوگئی ہے.ویسے تو مومن کا کام ہے کہ اللہ کی رضا پر راضی رہے جو بھی ہے ٹھیک ہے.ہر ابتلا پر راضی ہونا ہی مومن کے لئے جنت ہے لیکن ساتھ یہ بھی حکم ہے کہ ہر ضرورت کے لئے مجھ سے دعائیں مانگو.ادنیٰ تکلیف کے لئے بھی مجھ سے دعائیں مانگو، یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رضا کا ایک حصہ ہے، یہ بھی اس کی تقدیر کا ایک حصہ ہے اس لئے ہم ہر تقدیر پر راضی ہیں اور اس محبت اور پیار کی تقدیر کا بھی مطالبہ کرتے ہیں جس کے نتیجہ میں اس نے ہمیں ہر تکلیف دور ہونے کی دعا بھی سکھا دی.ایک طرف فرمایا میری ہر رضا اور میری ہر تقدیر پر راضی ہو جاؤ اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ چھوٹی سے چھوٹی مشکل میں بھی مجھ سے دعا کرو کہ میں تمہاری مشکل دور کروں.پس ہمارے لئے جنت ہی جنت ہے.کچھ جنتیں ذرا ظاہری جسمانی مشقت سے ملتی ہیں کچھ آسانی سے مل جاتی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم مجھ سے آسانی کی جنتیں بھی مانگا کرو اس لئے ایک صاحب نے ابھی مجھے خطبہ سے پہلے کہا تھا کہ دعا کی تحریک کروں کہ اللہ تعالیٰ رحم فرمائے اور بارش بھیجے.بارش کی دعا نہیں کرنی چاہئے کیونکہ بعض دفعہ بارش اتنی شدید گرمی اور مصیبت لے کر آتی ہے کہ انسان کا پہلے سے بھی برا حال ہو جاتا ہے.ابھی تو آپ کو پت نہیں نکل رہی ، پسینے ٹھنڈ پیدا کر رہے ہیں، درختوں کے سائے ٹھنڈے ہیں، کمروں کی چھتوں کے نیچے کچھ آرام ہے اگر بھڑاس والی بارش ہو جائے کہ وہ گرمی کی جان نہ مار سکے لیکن نمی پیدا کر جائے تو یہ تو بڑی خطرناک دعا ہو گی اس لئے فضل اور رحمت کی دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جس شکل میں بھی ہمارے لئے بہتر ہے فضل اور رحمت لے
خطبات طاہر جلد ۲ 362 خطبہ جمعہ یکم جولائی ۱۹۸۳ء کر آئے ، ہمارے روزے آسان کر دے ، ہمارے دلوں میں بشاشت پیدا کرے ، ہماری تکلیفوں کا ازالہ فرمائے اور پھر ہمیں یہ ہمت عطا کرے کہ واقعہ ہم اس کی رضا پر راضی رہنے والے بن جائیں.روزنامه الفضل ربوہ 9 جولائی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 363 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء پھر فرمایا: جمعۃ الوداع اور لیلۃ القدر ( خطبه جمعه فرموده ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) حضور نے تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد درج ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں: إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِةٌ وَمَا أَدْرِيكَ مَا لَيْلَةُ الْقَدْرِةُ لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ تَنَزَّلُ الْمَلَيْكَةُ وَالرُّوحُ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْ مِنْ كُلِّ أَمْرِ سَلْمٌ هِيَ حَتَّى مَطْلَعِ الْفَجْرِ (القدر) يَايُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ شَاهِدًا وَ مُبَشِّرًا وَنَذِيرًان وَدَاعِيَّا إِلَى اللهِ بِإِذْنِهِ وَسِرَاجًا منيران (الاحزاب: ۴۶-۴۷) آخر آج وہ مبارک اور مبارک دن آ گیا جس کی مدت سے انتظار تھی.یہ وہ جمعہ ہے جسے لوگ جمعۃ الوداع کہتے ہیں اور جس کے سبھی منتظر تھے.وہ بھی جو باون ہفتے با قاعدہ جمعہ پڑھنے کے لئے آتے ہیں اور وہ بھی جو سال میں صرف ایک جمعہ پڑھتے ہیں یعنی وداع کا جمعہ.وہ لوگ بھی اس جمعہ کے منتظر رہتے ہیں جو پانچ وقت با قاعدگی کے ساتھ خدا کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور وہ بھی اس جمعہ کے منتظر رہتے ہیں جنہیں نماز پڑھنے کی توفیق نہیں ملتی.پھر وہ بھی اس جمعہ کا انتظار کرتے ہیں جن کی راتیں پہلے ہی خدا کے ذکر کے ساتھ زندہ ہو چکی ہوتی ہیں جو تہجد کے عادی ہوتے ہیں اور تمام سال اپنے رب کے حضور حاضر ہو کر اس کی رحمتیں طلب کرتے ہیں اس سے مغفرتیں مانگتے ہیں اور
خطبات طاہر جلد ۲ 364 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء سارے سال کی عبادتوں کے باوجود پھر بھی یہی سمجھتے ہیں کہ وہ تہی دامن ہیں، بے حقیقت ہیں، انہیں کوئی بھی نیکی کی توفیق نہیں ملی.وہ بھی اس جمعہ کا انتظار کرتے ہیں اور وہ بھی جنہیں قسمت اور مقدر کے ساتھ کبھی تہجد کی تو فیق ملتی ہے.پس یہ وہ مبارک دن ہے جس کے لئے بہت سی آنکھیں منتظر تھیں، جس کے لئے بہت سے دل دھڑک رہے تھے، محض اس امید پر کہ ہو سکتا ہے اس مبارک دن میں کوئی ایسی مبارک گھڑی میسر آجائے کہ ہماری تمام عمر کی کوتاہیاں بخشی جائیں، تمام غفلتوں سے در گذر فر ما یا جائے اور آئندہ کے لئے ہماری زندگی سنور جائے.اس پہلو سے وہ سب ہی جن کو پہلے عبادت کرنے کی کسی قسم کی تو فیق نہیں ملی ان کو ہر گز تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھنا چاہئے کیونکہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ ان کا یہ جمعہ رد کر دیا جائے گا.اللہ کی بخشش کی امید لے کر جو دل زندہ رہے اور خدا کی رحمت کی ایک جھلک پانے کے لئے جو آنکھ انتظار کرتی رہے اس دل کو مردود دل اور اس آنکھ کو نا مراد آنکھ نہیں قرار دیا جا سکتا.عین ممکن ہے کہ اللہ ایسے دلوں پر بھی آج رحم نازل فرمائے جو اس سے پہلے اللہ کے ذکر سے معطر نہیں تھے.عین ممکن ہے کہ اللہ ان پر بھی فضل فرمائے جن کو اس سے پہلے عبادت کا ذوق نہیں تھا اور اس جمعہ سے وہ ایک نیا وجود لے کر باہر نکلیں.پس وہ لوگ جن کو نیکی کی توفیق ملی ان کا یہ تو فرض ہے کہ اپنے بھائیوں کے لئے دعا کریں جن کو نیکی کی توفیق نہیں ملی لیکن یہ حق نہیں ہے کہ وہ ان کو نفرت اور حقارت کی آنکھ سے دیکھیں.نیکی کا مضمون ایک بہت ہی مشکل اور پیچیدہ مضمون ہے اور ہر وقت انسان ایک خطرہ کے مقام پر رہتا ہے.باوجود یکہ بلندی ہر انسان کے لئے ایک بہت ہی مطلوب چیز ہے اور اس کی تمنا ہر دل میں پائی جاتی ہے لیکن جتنا زیادہ وہ بلند ہوتا ہے اتنے ہی زیادہ اس کے لئے خطرات بھی پیدا ہوتے چلے جاتے ہیں.بعض اوقات ایک قدم کی ٹھو کر اسے گراتی ہے اور ہمیشہ کے لئے اس کی ساری عمر کی کوشش کو نہ صرف نا کام کر دیتی ہے بلکہ وہ ساری رفعتیں اس کے لئے ہلاکت کا موجب بن جاتی ہیں اور جتنی بڑی رفعت عطا ہوتی ہے اتنی ہی بڑی ہلاکت نصیب ہو جاتی ہے اس لئے نیکی میں کوئی مقام محفوظ ان معنوں میں نہیں ہے کہ آپ اللہ سے امن میں آجائیں.مقام محفوظ یہ تو ضرور ہے کہ آپ غیر اللہ سے امن میں آجاتے ہیں اور لا حوق کا وہ مقام حاصل کر لیتے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کوئی خوف نہیں رہتا.لیکن اگر کوئی شخص بدقسمتی اور کم نہی سے یہ سمجھنے لگے کہ میں خدا کی طرف
خطبات طاہر جلد ۲ 365 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء سے بھی امن میں آگیا ہوں اور میری کوئی گستاخی ایسی نہیں ہوگی جسے اللہ تعالیٰ معاف اور درگزر نہ فرمائے اور گویا میں خدا کی بخشش کا حق رکھتا ہوں، ایسا انسان مردود ہو جاتا ہے اور خواہ کتنے بڑے بلند مقام پر فائز ہوا تنا ہی اس کا تنزل زیادہ خطر ناک اور عبرتناک ہوتا ہے.پس تکبر کی آنکھ خواہ نیکی کی ہو وہ بہت ہی خطر ناک ہے اس لئے اپنے کمزور بھائیوں پر رحم کی نگاہ ڈالیں ان کے لئے بخشش کی دعا کریں اور ان ملائکہ میں شامل ہو جائیں جو خدا کے بندوں کے لئے دن رات دعائیں کرتے ہیں اور مغفرت مانگتے ہیں.پس حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اسوہ کی پیروی کریں کیونکہ آپ سے بلند تو نیکی کا مقام کسی کو حاصل نہیں ، آپ سے زیادہ رحمت اور شفقت علی الناس کسی اور نے نہیں دکھائی، کسی کمزور سے کمزور انسان سے بھی آپ نے تمرد کی راہ اختیار نہیں فرمائی ، تکبر کا طریق اختیار نہیں فرمایا بلکہ ہر ایک سے تواضع کے ساتھ ملتے تھے اور سب کے لئے رحمت اور بخشش کی دعا مانگتے تھے.ہر ایک کو محبت و پیار اور رافت و شفقت کی نگاہ سے دیکھتے تھے.اگر ایسا نہ ہوتا تو یہ ناممکن تھا کہ گنہگار انسان حضور اکرم ﷺ کی صحبت میں آکر وہ فیض پا جاتے جو انہوں نے پایا، اتنا مقدس وجود کہ گنہگاروں کو پاک کرتار ہا ہمیشہ رحم اور شفقت کی نظر سے ان کو پاک کیا غصہ اور نفرت کی نگاہ سے ان کو نہیں دیکھا.پس آج کا دن مبارک ہے ان نیکی کرنے والوں کے لئے جو آج اپنی نیکیاں اپنے بھائیوں میں جاری کرنے کی سعی کرتے رہے ہیں اور آئندہ بھی کریں گے اور خدا سے یہ دعا کریں گے کہ اے خدا! ہمیں اپنی نیکی کا کوئی زعم نہیں ہم تیرے اس پیغام کو خوب سمجھتے ہیں کہ فَلَا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمْ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى (النجم:۳۳) کہ اے لوگو! اپنے آپ کو پاک مت قرار دو، یہ لغو عادت چھوڑ دو، یہ بے کار مشغلہ ترک کر دو کہ اپنی نیکیوں کے گن گانے لگو اور یہ سمجھنے لگو کہ تم بہت پاک ہو هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى صرف خدا جانتا ہے کہ کون سچے معنوں میں پاک اور متقی ہے اس کے سوا کسی کو کوئی علم نہیں.پس اس عجز کے ساتھ جو بندے خدا کے حضور حاضر ہوں اور یہ عرض کریں کہ اے خدا! ہمیں کچھ علم نہیں کہ ہم نے کیا حاصل کیا، کیا کھویا اور کیا پایا تو جانتا ہے لیکن ہمیں بظا ہر کچھ ایسے لوگ بھی نظر آ رہے ہیں جن کو وہ توفیق نہیں ملی جو تیری رحمت نے ہمیں عطا فرمائی ، پس آج ہم تیرے حضور یہ دعا کرتے ہیں کہ انہیں بھی نیکیوں کی توفیق عطا فرما، ان کے قدم بھی ہمارے ساتھ ملا دے تا کہ احمدیت یعنی حقیقی اسلام کو
خطبات طاہر جلد ۲ 366 خطبہ جمعہ ۸؍ جولائی ۱۹۸۳ء ایک عظیم الشان نیکی کی قوت حاصل ہو.ہم میں سے کمزور بھی توانائی پا جائیں اور آگے بڑھیں.ہم میں سے ست رفتار تیز رو ہو جائیں اور اسلام کا یہ قافلہ پوری شان اور پوری قوت کے ساتھ تیرے حضور جھکتا ہوا تیری رحمت کو سجدے کرتا ہوا آگے ہی آگے بڑھتا چلا جائے.اے خدا ! اگر یہ نیکیاں تیرے حضور مقبول ہیں تو ان نیکیوں کا فیض انہیں بھی عطا کر جو ہمارے پاس بیٹھے ہیں اگر اور کچھ نہیں تو یہ بجز ہی قبول کر لے، ان گناہگاروں کے طفیل ہی ہمیں بخش دے جن کے لئے آج ہماری رحمت کی دعائیں اٹھ رہی ہیں اور ان کی خاطر ہی ہماری بخشش کا سامان فرما دے جو بظاہر ہم سے کم ہیں لیکن ہم انہیں اپنے سے کمتر نہیں سمجھ رہے.ہم نہیں جانتے کہ ان میں سے کون ہے جس سے تو زیادہ پیار کرتا ہے پس اے خدا! اس بجز کو ہی قبول فرما اور ان گناہگاروں کے طفیل ہی ہم بظاہر نیک بندوں کو بخش دے.اس عجز کے ساتھ جو لوگ آج اس جمعہ میں داخل ہوں گے اور اس عجز کے ساتھ جو اس جمعہ سے نکلیں گے میں انہیں یقین دلاتا ہوں کہ اللہ کی رحمت ان کو رد نہیں فرمائے گی ان کا فیض ان کے بھائیوں کو پہنچے گا اور ان کے بھائیوں کا فیض ان کو ملے گا اور یہ جمعہ حقیقت میں وہ منتظر جمعہ بن جائے گا جس کی برکتوں کی آپ کو انتظار تھی.کمزوروں کو بھی جنہیں عبادت کی توفیق نہیں ملی یا جن کو اس سے پہلے اس جمعہ کی عظمت کا احساس نہیں تھا میں یہ کہتا ہوں کہ یہ جمعہ تو آپ کو اللہ تعالیٰ سے متعارف کرانے آیا ہے اس لئے نہیں آیا کہ ایک دن تو آپ کا ہاتھ پکڑ لے اور پھر آپ کو چھوڑ دے.یہ تو اس لئے آیا ہے کہ آپ کو بھی بتائے کہ خدا کی محبت کی مٹھاس ہوتی کیا ہے.یہ تو اس لئے آیا ہے کہ آپ کو بھی سبق دے کہ تم اللہ کی برکتوں اور اس کی رحمتوں سے کیوں محروم ہوتے ہو.دیکھو! تمہارے ساتھ ہی تمہارے شہر میں بسنے والے کتنے اور ہیں جنہوں نے اس مہینہ کی ظاہری سختیوں کو خوشی سے قبول کیا جبکہ تم خوفزدہ تھے کہ یہ مہینہ آئے گا.وہ یہ انتظار کر رہے تھے کہ اللہ کی راہ میں سختیاں اٹھانے کی ہمیں توفیق ملے جبکہ تم روزوں سے دامن بچارہے تھے اور اس بات سے ڈرتے تھے کہ خدا کی راہ میں تمہیں تکلیف پہنچے وہ بے خوف اور بے دھڑک ایسی حالتوں میں بھی روزے پر تیار ہو جاتے تھے کہ انکو آنکھ نہ کھلنے کے باعث صبح کھانے کی توفیق نہیں ملتی تھی کچھ پینے کی توفیق نہیں ملتی تھی مگر اللہ پر توکل کرتے ہوئے انہوں نے اپنی بیماریاں چھپائیں ، انہوں نے اپنی کمزوریوں کو ڈھانپا اور جس طرح بھی ان کو توفیق علی اللہ کی راہ میں قربانیاں پیش کرنے لگے.
خطبات طاہر جلد ۲ 367 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء پس یہ جمعہ ن کو یہ بتاتا ہے کہ دیکھو یہ بھی کس شان اور کامیابی کے ساتھ اللہ کی رحمتوں کو سمیٹتے اور کماتے ہوئے اس مہینہ سے نکلے ہیں.تم اپنے رب پر خواہ مخواہ بد ظنی کرتے رہے، خواہ مخواہ ایک معمولی اور ادنی کے خوف کی وجہ سے تم محروم رہے ہو.یہ جمعہ ان کو بتاتا ہے کہ دیکھواب ایک سال کے بعد میں پھر آؤں گا لیکن ایسی حالت میں آؤں کہ تمہیں بدلی ہوئی کیفیت میں دیکھوں.ایسی حالت میں آؤں کہ تم خدا کے عبادت گزار بندے بن چکے ہو.جب میں دوبارہ تمہیں ملنے کے لئے آؤں تو ایسی حالت میں آؤں کہ تم میرے منتظر رہو اور میں تمہارا منتظر ہوں کہ کب تم مجھے ملو تو میں برکتوں سے تمہارے دامن بھر دوں.پس یہ جمعہ کمزوروں کے لئے یہ پیغام لے کر آتا ہے اور ان کو بتا تا ہے کہ اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے.ایک لمحے میں بھی ایسی کیفیتیں پیدا ہو جاتی ہیں کہ انسان کی ساری زندگی سے بڑھ کر وہ لمحہ عزیز تر ہو جاتا ہے اس لئے ان کمزوروں کو اپنے لئے بہت دعا کرنی چاہئے اور خدا کی طرف سے اس جمعہ کے پیغام کو سمجھنا چاہئے.حقیقت یہ ہے کہ بعض ایسے بھی لوگ تھے جن کو یہ پریشانی اور بے چینی تھی کہ رمضان قریب آرہا ہے ہمصیبتیں قریب آرہی ہیں، ماحول میں خشکی پیدا ہو جائے گی، ریڈیو اور ٹیلیویژن کے پروگرام خشک ہو جائیں گے ، گئیں مارنے کے اوقات نہیں رہیں گے، آزادی سے کھانے پینے کے اوقات نہیں رہیں گے، سیروں کے اوقات نہیں رہیں گے ، کس طرح سفر پر باہر جائیں گے، بھوکے اور پیاسے بسوں اور گاڑیوں میں سفر کریں گے وہ بڑے خوف کی حالت میں اس رمضان کے منتظر تھے اور خوف کی حالت میں ان کا وقت گزرا لیکن جمعۃ الوداع ان کو بتا رہا ہے کہ دیکھو میں تو آیا بھی اور چلا بھی گیا.یہ مہینہ یوں ہی خواہ مخواہ تمہارے او پر خوف کے سائے لہراتا ہوا کتنی تیزی سے نکل گیا ہے.کاش تم ڈرتے ڈرتے اللہ کی راہ میں وقت گزارتے بہ نسبت اس کے کہ دنیا کے لئے ڈرتے ہوئے وقت گزارا.کاش ! تم خدا کے خوف میں یہ وقت صرف کرتے اور خدا سے عرض کرتے کہ اے خدا! ہم تیری خاطر مشکلیں برداشت کرنے کے لئے آمادہ ہوئے ہیں، ہم کمزور ہیں ، ہمارے دلوں میں طاقت نہیں ہے، ہمیں نیکی کی لذت سے آشنائی نہیں ، ہم خود طبعی جوش کے ساتھ گناہوں کی طرف جھکتے ہیں اور نیکیوں کی طرف مائل ہونے کے لئے ہمیں مشکل پیش آتی ہے، دوسروں کو ہماری باگیں نیکی کی طرف موڑنی پڑتی ہیں.اے خدا! تو ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارے دل بدل دے، تو ہی ہمارے لئے نیکیوں کو آسان کر دے، اور نیکیوں کی لذت بخش.
خطبات طاہر جلد ۲ 368 خطبہ جمعہ ۸؍ جولائی ۱۹۸۳ء کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے اس رمضان کو اس طرح کمایا کہ راتوں کو اٹھ کر خدا کے حضور گریہ وزاری کی اور سجدہ گاہوں کو آنسووں سے تر کر دیا اور ان کے شور اور اضطراب اور آہ و بکا کی آواز میں خدا تعالیٰ کی راہ میں بلند ہوئیں اور بعض دفعہ اس شدت کے ساتھ بلند ہوئیں کہ تمام ماحول تک وہ آوازیں پہنچیں.ابھی چند دن پہلے ایک رات میری چھوٹی بچی گھبرا کر مجھ سے پوچھنے گی کہ اب یہ کیا ہوگیا ہے، اس قدر رونے کی آوازیں آرہی ہیں، یہ کیا قیامت ٹوٹی ہے.لفظ قیامت تو اس نے استعمال نہیں کیا لیکن چہرے پر ایسا خوف تھا کہ خدا جانے یہ کیا قیامت ٹوٹ پڑی ہے کہ اس طرح لگتا ہے سارار بوہ رورہا ہے.میں نے اسے بڑے پیار سے سمجھایا کہ بیٹی اللہ کی رحمت نازل ہورہی ہے، یہ اللہ کے بندے ہیں جو اپنی گریہ وزاری کے ساتھ اسکے عرش کو ہلا دیں گے.تمہیں جس قوت اور جس زور کے ساتھ یہ آواز سنائی دے رہی ہے اس سے بہت زیادہ زور کے ساتھ آسمان کے ملکوتی وجودوں کو یہ آواز سنائی دے رہی ہے، پھر اس سے بہت زیادہ عظمت اور شدت کے ساتھ اللہ کی رحمت کو یہ آواز سنائی دے رہی ہے اس لئے یہ تو روحانی انقلاب پیدا ہونے کے سامان ہیں تم گھبراؤ نہیں ، آؤ میں تمہیں باہر لے جا کر دکھا تا ہوں کہ یہ کیسی آوازیں ہیں.میرے ساتھ وہ باہر نکلی اور اس پر عجیب روحانی کیفیت طاری ہوگئی.اس نے کہا ابا یہ اللہ میاں کے سامنے رور ہے ہیں؟ میں نے کہا، ہاں سب اللہ میاں کے سامنے رور ہے ہیں.پس رمضان رونے والوں کو ایسی لذتیں بخش گیا ہے کہ باہر والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ، چنانچہ وہ جنہوں نے خشک دل خشک نگاہوں اور دنیا کے خوفوں کے ساتھ یہ وقت گزارا ہے ان کو کیا پتہ کہ رمضان کیسی کیسی برکتیں اور لذتیں لے کر آیا اور ایسی روحانی کیفیتیں پیچھے چھوڑ گیا ہے کہ وہ سارا سال انسانی وجود کو لذت سے بھرا رکھیں گی اس لئے ان کے لئے یہ وداع کا جمعہ ایک بہت ہی درد ناک جمعہ بن جاتا ہے.کئی ان میں سے سوچتے ہوں گے کہ ہم بیمار ہیں خدا جانے اگلا سال ہم پر ایسا آتا ہے کہ نہیں کہ دوبارہ ہم اللہ تعالیٰ سے یہ برکتیں حاصل کر سکیں ، دوبارہ خدا کے حضور گریہ وزاری کر سکیں.کچھ بوڑھے ہیں ان کو علم نہیں لیکن جوانوں کو بھی کب علم ہے.اللہ کی تقدیر کا تو کسی کوعلم نہیں کہ کون کس زمین پر کس وقت اٹھایا جائے ، سوائے خدا کے کوئی نہیں جانتا، اس لئے ہر وہ شخص جو نیکی کا طالب ہے جو اللہ کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ حاضر ہونے کی تمنار کھتا ہے اس کے لئے یہ جمعہ ایک دردناک وداع کا جمعہ ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 369 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء لیکن میں ان کو بھی بتاتا ہوں کہ یہ جو بچے دل اور بچے پیار کے ساتھ اللہ کی رحمتوں کے متلاشی ہوتے ہیں اور پاک لمحات کو گہرے دکھ کے ساتھ رخصت کرتے ہیں، جن کا ہجر سب سے زیادہ نیکیوں کا ہجر ہوتا ہے، جو بدیوں کے لئے ہجر محسوس نہیں کرتے ان کو اللہ تعالیٰ ایک وصل دوام عطا کیا کرتا ہے ان کو اللہ تعالیٰ ایک ایسی رحمت عطا فرماتا ہے جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہتی ہے اور ان سے جدائی نہیں اختیار کرتی.اس لئے وہ آج کے بعد جتنی راتیں بھی اٹھیں گے وہ اللہ کی رحمت کو اپنے قریب ہی پائیں گے.یہ جمعہ رحمتیں دینے آیا ہے رحمتیں لے جانے کے لئے نہیں آیا.یہ برکتیں عطا کرنے تو آیا ہے برکتیں لے جانے کے لئے نہیں آیا اس لئے بے فکر اور بے غم ہو کر اس جمعہ سے گزریں.ان کا ہر جمعہ جمعتہ الوداع کی طرح مبارک ہو جائے گا، ان کی ہر رات شب برات بن جائے گی، اگر وہ اسی طرح محبت اخلاص اور پیار کے ساتھ اپنے رب کے حضور جھکتے رہیں اور دعائیں کرتے رہیں.میں نے آج کے موضوع کے لئے لیلۃ القدر کی آیات کا انتخاب کیا تھا اور ان کا گہرا تعلق جو الله حضرت محمد مصطفی عملے کے وجود باجود سے ہے اس مضمون کو بیان کرنا تھا.تبرکا میں نے یہ آیات تلاوت تو کر دیں لیکن مجھے پہلے ہی یہ احساس تھا کہ وقت اتنا تھوڑا ہے کہ ناممکن ہے کہ ان آیات کی تفسیر کا حق ادا کیا جا سکے.یہ حق ادا کرنا تو ایک انسانی محاورہ ہے.امر واقعہ تو یہ ہے کہ وقت تھوڑا ہو یا زیادہ ہو، انسان عرفان کے کسی بھی مقام پر پہنچا ہوا ہو قرآن کریم کی کسی ایک آیت کی تفسیر کا بھی حق ادا نہیں ہو سکتا تو میں نے حق ادا کرنے کا لفظ عام انسانی محاورے میں استعمال کیا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ اس کے متعلق اتنا تو کہہ سکے کہ سننے والوں کو کچھ سمجھ آ جائے کہ یہ کیا بات ہو رہی ہے.اس کے لئے تو ایک جمعہ بھی کافی نہیں، دو تین جمعے بھی تھوڑے محسوس ہوتے ہیں لیکن ایک بہت ہی اہم اور بنیادی نکتہ میں آج آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ لیلۃ القدر میں إِنَّا أَنْزَلْنَهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْرِ میں ، کو یعنی اس ضمیر کو جو آزاد چھوڑ دیا گیا اور انا انزلنا القران فی لیلة القدر نہیں فرمایا.یہ قرآن کریم کا خاص اسلوب ہے اور جہاں حضرت محمد مصطفی علیہ اور قرآن کریم دونوں کی باتیں یکجا کرنا چاہتا ہے وہاں ہمیشہ قرآن کریم یہی اسلوب اختیار فرماتا ہے.جیسا کہ فرمایا: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِهِ الْكِتَبَ وَلَمْ يَجْعَل لَّهُ عِوَجًان (الكهف:۲)
خطبات طاہر جلد ۲ 370 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء اس میں کی ضمیر کتاب کی طرف بھی چلی جاتی ہے اور عبد کی طرف بھی چلی جاتی ہے اور یہ مراد نہیں ہے کہ یا عبد کی طرف جائے گی یا کتاب کی طرف بلکہ اس آزادی سے مراد یہ ہے کہ دونوں کی طرف جائے گی اور برابر چسپاں ہوگی.پس لیلتہ القدر میں بھی اَنْزَلْنَہ سے ایک مراد حضرت محمد مصطفی ملے ہیں، گویا وہ غموں اور دکھوں کی رات جس میں ایک ایسا وجود با برکت نازل ہوا جس نے عموں اور دکھوں کی رات کو رحمتوں اور برکتوں کی رات میں تبدیل کر دیا.ایسا حیرت انگیز انقلاب برپا کیا کہ اندھیرے روشنیوں میں بدلنے لگے، مصیبتیں اور خطرات سلامتی میں تبدیل ہونے لگے اور یہ سارے واقعات اللہ کے حکم سے ہو رہے تھے.ایک ذرہ بھی اس میں اس وجود کی اپنی ذاتی خواہش کا نہیں تھا مسلسل اللہ کی رحمت اللہ کے حکموں سے نازل ہو رہی تھی ، خدا کی سلامتی اس کی طرف سے آ رہی تھی ذریعہ بن گیا یہ سورج جو روشنی کا سورج ہے.پس لیلتہ القدر کے متعلق اگر چہ ہم نہیں جانتے کہ اس مہینہ کی لیلۃ القدر آکر گزر بھی چکی ہے یا ابھی آنے والی ہے.اور ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ کیا ہر ایک کو ایک ہی رات میں لیلۃ القدر نصیب ہوتی ہے یا بعض اوقات بعضوں کو مختلف راتوں میں لیلۃ القدر نصیب ہو جاتی ہے.یہ مضمون بڑا تحقیق طلب ہے اور جتنی تحقیق بھی کی جائے قطعی جواب پھر بھی نہیں ملتا اس لئے کوشش آخر وقت تک رہتی ہے اور اس آزادی میں بھی ایک عجیب لطف ہے.غیر معین رات کی تلاش میں جو لطف ہے وہ معین رات کی تلاش میں نہیں ہوسکتا.اپنی برکتوں کے لحاظ سے ایک رات دس راتوں میں تبدیل ہو گئی ہے.وہ جن کو تلاش ہے ان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ شاید گز رہی چکی ہو اس لئے گزرنے کے بعد کی راتیں بھی ان کی اللہ کے ذکر سے زندہ ہو جاتی ہیں اور بعض اوقات وہ بعد میں آنے والی رات بھی ان کے لئے لیلۃ القدر بن جاتی ہے اس لئے لیلۃ القدر کا مضمون تو ابھی جاری ہے.آج کے جمعہ کو عام برکتوں کے علاوہ یہ برکت بھی ملی ہوئی ہے کہ یہ دو ایسے دنوں کے درمیان ہے جن کی راتیں لوگوں کی عام توقعات اور روایات کے مطابق لیلۃ القدر ہونے کا زیادہ امکان رکھتی ہیں.یعنی پچیس اور ستائیس کی راتیں اور چھبیس عین بیچ میں واقع ہے اس لئے اس جمعہ کی برکتیں ان دونوں راتوں سے بھی شامل ہو جائیں گی جو ان کے دائیں بائیں کھڑی ہیں.تو دعاؤں کا وقت ابھی گزر کرختم نہیں ہوا.ویسے تو دعاؤں کے وقت کبھی بھی ختم نہیں ہوتے.حقیقت میں ساری
خطبات طاہر جلد ۲ 371 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء زندگی انسان دعاؤں کے طفیل ہی زندہ رہتا ہے اور ایک لمحہ کے لئے بھی اگر دعا کا رابطہ انسان سے کٹ جائے تو وہ ایسا جنین بن جاتا ہے جس کا ماں سے رابطہ کٹ گیا ہو جس کی خدا پھر پرواہ نہیں کرتا.قُلْ مَا يَعْبُوا بِكُمْ رَبِّي لَوْلَا دُعَاؤُكُمْ (الفرقان: ۷۸ ) میں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے اس لئے اس میں تو شک نہیں کہ دعا تو جاری وساری زندگی کا ایک مستقل حصہ ہے.اسے انسانی زندگی میں صرف پانی کا مقام یا خوراک کا مقام نہیں ، بلکہ ہوا کا مقام حاصل ہے جو ہر وقت انسان کی زندگی کے لئے ضروری ہے.پس روحانی زندگی میں دعا کو تو یہ مقام حاصل ہے لیکن بعض خاص دعاؤں کے وقت ہوتے ہیں جب کہ دعا ہر چیز بن جاتی ہے ، غذا بھی ہو جاتی ہے، پانی بھی ہو جاتی ہے، اوڑھنا بچھونا بھی ہو جاتی ہے، انسان کو مادی دنیا سے آزاد بھی کر دیتی ہے.حقیقت میں دعا ایسے ایسے روپ ڈھال لیتی ہے، ایسی شکلیں اختیار کر لیتی ہے کہ کبھی ظاہری رزق بن کے بھی اللہ کے بندوں پر نازل ہوتی ہے اور ایسے واقعات ہیں کہ جب دعانے روٹی کی شکل اختیار کر لی، جب دعا نے پانی کی شکل اختیار کر لی، جب دعانے پھل کی شکل اختیار کر لی.حضرت خلیفتہ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اپنے بچپن کا ایک واقعہ بیان فرمایا کرتے تھے کہ ایک دفعہ سیر کے لئے ایک باغ میں جارہے تھے تو ایک ایسے پھلدار درخت پر نظر پڑی جس کے پھل کا وقت نہیں تھا اور اس کی شاخیں سوکھی ہوئی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ ٹہل رہے تھے تو بچپن کی ضد کے طور پر آپ نے فرمایا کہ اب مجھے یہ پھل دیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شاخ پر ہاتھ مارا اور وہ تازہ پھل حضرت خلیفہ اسیح الثانی جو اس وقت بچے تھے ان کو عطا فرما دیا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کیا کرتے تھے کہ مجھے پتہ نہیں کہ وہ کیسا واقعہ ہوا تھا اور وہ پھل کس طرح آیا تھا لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ بعض دفعہ مومن بندہ کی حرکت بھی دعا بن جاتی ہے.اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرنے والوں کے بھی خاص مقام ہوتے ہیں.وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلْفَى وَحُسْنَ مَابِ (ص: ۴۱) خدا تعالیٰ بعض بندوں سے متعلق فرماتا ہے کہ ان کا ہمارے ہاں ایک خاص مقام ہے.وَحُسْنَ مَابِ انہیں قربت اور حسن کا ایک خاص مقام حاصل ہے.تو دعا کا مضمون تو بہت ہی لمبا اور وسیع ہے اور دعا کر نیوالوں کے حالات بھی مختلف ہوتے ہیں لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ دعا کرنے والا
خطبات طاہر جلد ۲ 372 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء خواہ ادنی ہو خواہ اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کو طعے ضرور ملتے ہیں.بعض دفعہ خدا تعالیٰ اپنے وجود کے حیرت انگیز کرشمے دکھاتا ہے اور اپنی رحمت کے چھوٹے چھوٹے لقمے بھی اور بڑے بڑے لقمے بھی دے دیتا ہے.خارق عادت معجزے بھی دکھاتا ہے، دستور کو تبدیل کرنے کے معجزے بھی دکھاتا ہے اور دستور کوکسی کا غلام بنا دینے کے معجزے بھی دکھاتا ہے.ساری کائنات کو کسی وجود کے لئے مسخر کرنے کے معجزے بھی دکھاتا ہے لیکن یہ نہیں کہ سکتے کہ فلاں شخص اتنا کمزور، ذلیل اور حقیر ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہوتی.عجیب شان ہے اللہ کی ، کمزور سے کمزور بندے کی بھی وہ بعض دفعہ اس شان سے دعا سنتا ہے کہ اگر اس بندے میں شرم حیا کا مادہ ہو تو ہمیشہ کے لئے خدا کے حضور بچھ جائے.ایسے بندوں کی بھی سنتا ہے جن کے متعلق جانتا ہے اور گواہی دیتا ہے کہ جب ہم ان کو غم سے نجات دیں گے تو پھر شرک کریں گے، آج خالصتاً مجھے بلا رہے ہیں اور مجھے مدد کے لئے پکار رہے ہیں، جانتا ہوں کہ جب میں ان کو نجات بخشوں گا تو یہ پھر بتوں کے سامنے جھکیں گے، تب بھی میری رحمت اتنی وسیع ہے کہ میں ان کو بخشتا ہوں اور ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں ، غم سے نجات بخشتا ہوں.تو دعا کا مضمون تو جاری و ساری ہے لیکن جیسا کہ بعض دعائیں خاص مقام رکھتی ہیں ، بعض دعا کرنے والے خاص مقام رکھتے ہیں، بعض ایام بھی خاص مقام رکھتے ہیں، بعض دن بھی اور بعض راتیں بھی اور لیلتہ القدر والی رات بھی.میں سارے مفاہیم تو بیان نہیں کر سکتا لیکن ایک عرف عام میں جو مفہوم ہے کہ واقعتا ایک رات ہو.ایسی رات بھی آتی ہے اور ایسی رات جس کو نصیب ہو جائے اس کا گھر برکتوں سے بھر جاتی ہے، اسکی زندگی ہمیشہ کے لئے سنوار جاتی ہے.اس رات کو حاصل کرنے کا ذریعہ کون سا ہے ؟ اس کی طرف میں توجہ آپ کو دلانا چاہتا ہوں وہ محمد مصطفی ﷺے ہیں.یہ وہ سورج ہے یہ وسِرَاجًا مُنِيرًا ہے جس کے ذریعہ لیلۃ القدر وجود میں آئی تھی.خواہ یہ دائمی لیلتہ القدر اسلام کی قرار دے لیں یا خاص زمانے کی لیلۃ القدر کہہ لیں ، یا زمانہ نبوی کی لیلتہ القدر شمار کریں یا انسانی زندگی کی ایک لیلۃ القدر کہہ لیں ، یا ایک رات شمار کر لیں یا ایک رات کے چند لمحے ، جو مفہوم بھی اس کا ہے یہ سب برکت محمد مصطفی ع کے وجود کے ذریعہ نازل ہوئی.اس بات میں کوئی شک نہیں اس لئے اس کی برکتیں حاصل کرنے کے لئے درود بہت کثرت سے پڑھنا پڑے گا اور محبت کے ساتھ ذاتی وابستگی کے ساتھ اس کثرت سے درود پڑھیں کہ وہ نور مصطفوی جواند ھیری راتوں کو روشن کیا کرتا ہے ، وہ جواذیت
خطبات طاہر جلد ۲ 373 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء ناک اور کربناک لمحوں کو رحمت اور سلامتی میں تبدیل کیا کرتا ہے وہ نور آپ کے وجود پر نازل ہونے لگ جائے اور اسی کا نام لیلۃ القدر ہے.اگر حضرت محمد مصطفی عملے ایک رات کسی کو نصیب ہو جائیں اور اس کے وجود میں محبت کے ذریعہ داخل ہو جائیں اور اس کے انگ انگ میں سما جائیں ، اسکی فطرت بن جائیں ، اس کی عادتیں ہو جائیں، اس کی خصلتوں پر اثر انداز ہو جائیں تو اس سے بہتر لیلۃ القدر اور کوئی لیلۃ القدر نہیں.یہ وہ لیلۃ القدر ہے کہ ہزار مہینے اس کے پاؤں چومیں اور چائیں اور اس کے سامنے گریہ وزاری کریں اور سجدے کریں تب بھی یہ رات ان سارے مہینوں پر حاوی اور بھاری اور زیادہ برکتوں والی ہوگی.پس آج یہ کوشش کریں آج بھی اور بقیہ دنوں میں بھی، آج کی رات بھی اور بقیہ راتوں میں بھی اس کثرت کے ساتھ حضرت محمد مصطفی ﷺ پر درود بھیجیں کہ وہ سراج منیر جو اس کا ئنات کی روحانی دنیا کا سراج منیر ہے وہ آپ کی کائنات وجود کا بھی سراج منیر بن جائے اور آپ کی ذات میں بھی چمکنے لگے، آپ کے دل میں بھی داخل ہو جائے اور آپ کی ساری زندگی کو منور کر دے اور اگر جماعت احمدیہ کو یہ لیلۃ القدر نصیب ہو جائے تو اس لیلۃ القدر کی برکتوں کو کوئی دنیا میں چھین نہیں سکتا.ناممکن ہے.یہ لیلۃ القدر اس مَطْلَعِ الْفَجْرِ میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے کہ اچانک ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہوتا ہے.جسے رات کہتے تھے اسے دن کہنے لگتے ہیں ، جسے اندھیرے سمجھا کرتے تھے وہ روشنی بن جاتی ہے اور مطلع الفجر ہو جاتا ہے.اس یقین کے ساتھ اورمحمد مصطفی ﷺ کی محبت اور آپ کی برکتوں کے ساتھ انسان زندہ رہتا ہے پھر کبھی اس کی زندگی میں کوئی رات نہیں آتی.اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت رسول کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی میں دنیا کو اسلام کے نور سے منور کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: دعا کا ذکر چل رہا تھا تو میں آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ آپ پر اللہ تعالیٰ کی حمد اور شکر خاص طور پر اس لئے بھی واجب ہے کہ گزشتہ جمعہ میں نے آپ کو توجہ دلائی تھی کہ اللہ تعالیٰ سے رحمت مانگیں.بارش وہ جو اس کے فضلوں اور رحمتوں کی بارش ہو جو موسموں کو اس طرح تبدیل کرتی ہے کہ ٹھنڈی اور تسکین بخش ہواؤں کی شکل اختیار کر لیتی ہے ، اپنے رب سے وہ مانگیں جو کیفیت ہی بدل دیتی ہے اور جماعت
خطبات طاہر جلد ۲ 374 خطبہ جمعہ ۱۸ جولائی ۱۹۸۳ء نے وہ دعا کی اور اللہ نے اس شان کے ساتھ قبول کی کہ سارا عرصہ جب ایسی ہوا کے جھونکے ملتے تھے تو سانس اور یہ رحمت کی ہوائیں مجسم حمد باری بن کر ایک دوسرے کے گلے ملا کرتے تھے.حیرت ہوتی تھی اللہ کی رحمت پر، اسکی بخشش پر، اسکی عطا پر کہ اپنے عاجز بندوں یعنی جماعت احمدیہ سے منسلک بندوں کی کس شان کے ساتھ دعائیں قبول کرتا ہے اور یقین دلاتا ہے.یہ دراصل ایک پیغام تھا.پیغام یہ تھا کہ اصل دعائیں جو تم نے کرنی ہیں وہ دعائیں بھی میں تمہاری اسی شان سے قبول کروں گا جیسی یہ ایک ظاہری چھوٹی سی علامت ہے جو میں پوری کر رہا ہوں اس لئے میرے لئے تو یہ بارشیں اور یہ رحمتیں اللہ تعالی کی رحمت کا ایک غیر معمولی پیغام بن کر آئی تھیں.سارا ہفتہ ایک عجیب کیفیت میں گزار کہ ادھر دعا نکلی ادھر خدا نے یہ پیغام دے دیا کہ میں تمہاری ساری دعائیں سن رہا ہوں اور علامت کے طور پر یہ ظاہری دعا بھی تمہاری قبول کر رہا ہوں تا کہ تم میں سے کسی کو مجھ پر بدظنی نہ ہو، تو اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ جو ہم نے دعائیں کیں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ بھی مقبول ہوئیں اور جو اسلام کی فتح کی اور اس کی عظمت کے لئے خدا کے حضور ہم نے گریہ وزاری کی اور آنسو بہائے وہ بھی مقبول ہوئے اور یہی وہ آنسو ہیں جو در اصل لیلتہ القدر کا ترشح ہوا کرتے ہیں.یہ جولیلۃ القدر کے ساتھ آپ نے ترشح کی باتیں سنی ہیں روحانی دنیا میں بھی ایک ترشح ہوتا ہے.یہ بندے کے آنسو ہیں جو لیلتہ القدر کا ترشح بن جایا کرتے ہیں.تو اس لئے بقیہ وقت بھی جہاں دعائیں مزید کریں وہاں خدا کا شکر بھی بہت کریں اور رورو کر یہ عرض کریں اور گریہ وزاری اور منت اور سماجت سے اللہ کی رحمت کے قدم پکڑ کر اور اس سے لپٹ کر یہ دعا کریں کہ اے خدا! ہم نہیں جانتے کہ یہ کیا تھا لیکن ہمارے دلوں کو یہ یقین ہے کہ یہ تیری رحمت کا نشان تھا اس لئے ہمیں مایوس نہ کرنا اور اس رحمت کے نشان کو ہماری پہلی دعاؤں پر بھی حاوی کر دے اور اگلی دعاؤں پر بھی حاوی فرما دے.ہم نہیں جانتے کہ ہم میں سے کس کی سنی گئی ،مگر یہ جانتے ہیں کہ تیرے عاجز بندوں کی سنی گئی ہے اس لئے تیرے ہی عاجز بندے جو باقی دعائیں کرتے ہیں ان سب کو بھی قبول فرما.اللہ تعالیٰ ہمیں مقبول دعاؤں کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوہ ۱۹ / جولائی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 375 خطبہ جمعہ ۱۵ر جولائی ۱۹۸۲ء اور پھر فرمایا: عبادت کے بغیر ہماری کوئی زندگی نہیں ( خطبه جمعه فرموده ۱۵/ جولائی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت کی : إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعًا نَ إِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُوعَالٌ وَ إِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا إِلَّا الْمُصَلِّينَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِمُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ وَالَّذِيْنَ يُصَدِّقُونَ بِيَوْمِ الدِّيْنِ وَالَّذِينَ هُمْ مِنْ عَذَابِ رَبِّهِمْ مُّشْفِقُونَ (المعارج: ۲۰-۲۹) قرآن کریم کی تذکیر کے رنگ بھی بڑے نرالے، انوکھے اور بہت پیارے ہیں.انسانی فطرت کا کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں جس کی طرف توجہ دلا کر انسان کی اصلاح ممکن ہو اور قرآن کریم نے اس کی طرف توجہ نہ دلائی ہو.چنانچہ قرآن کریم انسانی فطرت کے بہت باریک اور لطیف نکتے اٹھاتا ہے اور انکی طرف انسان کی توجہ مبذول کرواتا ہے، انسان کو اپنی حقیقت اور کم مائیگی سے آگاہ کرتا ہے، اس کی حیثیت یاد کراتا ہے اور پھر اس کے لئے مایوسی کی بجائے امید کی نئی کھڑکیاں کھول دیتا ہے یعنی انسان جب اپنی حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہو کر مٹی ہو جاتا ہے تو پھر اسے اٹھاتا ہے اور اسے یہ بتا تا ہے کہ ہم تمہیں مایوس کرنے کے لئے یا نا کام اور نامراد بنانے کے لئے یہ باتیں نہیں بتارہے
خطبات طاہر جلد ۲ 376 خطبہ جمعہ ۱۵ار جولائی ۱۹۸۲ء بلکہ تمہیں حقیقت سے آگاہ کرنے کے بعد اور سچائی پر قائم کرنے کے بعد ابدی نجات کی راہ دکھانے کے لئے یہ باتیں بتا رہے ہیں.ہم تمہیں یہ بتاتے ہیں کہ کن باتوں سے بچنا ہے اور کس طرح بچنا ہے اور ہمیشہ کی فلاح کیسے پانی ہے.یہ راز ہے جو ہم تمہیں بتارہے ہیں.یہ ہے قرآن کریم کی تذکیر کا انداز جو مختلف مواقع پر اختیار کیا گیا ہے لیکن اس کی بنیادی صفات وہی رہتی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے.سورۃ المعارج کی یہ آیات جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی دو آیات میں تو یوں معلوم ہوتا ہے جیسے دل دہلا دینے والی بات کی گئی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انسان کو اس کی حقیقت بتا کر یہ بتایا گیا ہے کہ تم تو کسی کام کی چیز نہیں ہو، تمہاری تو فطرت کے اندر بعض کجیاں موجود ہیں ، تمہاری تخلیق اور بناوٹ میں بعض کمزوریاں پائی جاتی ہیں پھر بھی تم بڑے بڑے بول بولو اور اپنی ذات پر بنا کرتے ہوئے کسی ترقی کے خواب دیکھو تو یہ محض جھوٹ ہے، فرمایا انَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوْعا انسان تو پیدا ہی ایسی حالت میں کیا گیا ہے کہ وہ بے صبرا بھی ہے گھڑ دِلا اور کم حوصلہ بھی ہے.یعنی اس کی تخلیق ہی ایسی ہے اور اس کے شھر، دلا ہونے اس کے کم حوصلہ ہونے اور اس کے بے صبرا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اِذَا مَسَّهُ الشَّرُّ جَزُ و عاجب اسے کوئی شر پہنچتا ہے ، کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو خوب شور ڈالتا ہے اور واویلا کرتا ہے اور مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے.وہ یوں محسوس کرتا ہے کہ جیسے اس اندھیرے سے کبھی نکل ہی نہیں سکوں گا اس لئے بے انتہا بے قراری کا اظہار کرتا ے.وَإِذَا مَسَّهُ الْخَيْرُ مَنُوعًا لیکن جب اسے کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو وہ کنجوس بن جاتا ہے اور دوسروں تک اپنی بھلائی کو پہنچانے کا خیال بھی دل میں نہیں لاتا اور خود غرضی دکھاتا ہے.انسانی فطرت کی ان دو صفات میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ شر کے نتیجہ میں جزُ دُعا کے بعد خیر کے نتیجہ میں منوعا کی صفت کیوں رکھی گئی یعنی یہ کیوں فرمایا گیا کہ جب اسے شر پہنچتا ہے تو بے چین اور بے قرار ہو جاتا ہے اور واویلا کرنے لگ جاتا ہے.اس کے بعد بظاہر تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ جب اس کو خیر پہنچتی ہے تو پھر بڑی تسکین اور اپنے آپ کو امن میں سمجھتا ہے اور خیال کرتا ہے کہ اب آئندہ مجھے کوئی شر پہنچے گا ہی نہیں.ایک اور موقع پر قرآن کریم نے یہ طرز بھی اختیار فرمائی ہے لیکن یہاں عملاً اس طرز کو بدل کر ایک اور رنگ میں بات کی گئی ہے.پس سوال یہ ہے کہ خیر کے ساتھ مَنُوعًا کا ذکر کیوں کیا گیا اس لئے کہ مَنُوعًا کا مطلب ہے کہ اپنی خیر دوسروں تک پہنچانے کا خیال
خطبات طاہر جلد ۲ 377 خطبہ جمعہ ۱۵ر جولائی ۱۹۸۲ء ترک کر دیتا ہے اور خسیس بن جاتا ہے.وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی بھلائی میں دوسرے شریک ہو جائیں.وجہ یہ ہے کہ اس کی پہلی حالت میں جو کیفیت بیان فرمائی گئی اس کی ذمہ داری اس دوسری آیت نے اس کی ذات پر ڈال دی.یعنی یہ کیسا انسان ہے جس کو دکھ پہنچتا ہے اور وہ دکھ کا احساس بھی کر لیتا ہے اور جانتا ہے کہ دکھ کیا ہوتا ہے.جب وہ اس دکھ سے نکلتا ہے تو اس کا نتیجہ تو یہ ہونا چاہئے کہ وہ دوسروں کے دکھ دور کرے، نتیجہ تو یہ نکلنا چاہئے کہ وہ لوگوں کے ساتھ اپنے سکھ بانٹے اور جب بھی کہیں دکھ دیکھے تو وہ بے قرار ہو جائے لیکن یہ نہیں ہوتا بلکہ باوجود اس کہ وہ دکھوں میں صاحب تجر بہ ہو چکا ہوتا ہے، باوجود اس کے کہ وہ جانتا ہے کہ مصیبت کیا ہوتی ہے پھر بھی جب وہ مصیبت سے نکلتا ہے خود غرض بن جاتا ہے اور دوسروں کی پرواہ نہیں کرتا اور قرآن کریم کے مطابق اس کی یہ کیفیت ایک فطری کیفیت ہے یعنی جس طرح ہر قسم کے جانور پیدا کئے گئے ہیں اور وہ یہی حرکتیں کرتے ہیں اس طرح انسان بھی جو مذہب سے نابلد ہو، جس کی مذہب نے تادیب نہ کی ہوا گر اس کو اس عام فطرت پر پاؤ گے تو اسی حالت میں دیکھو گے.چنانچہ دنیا کی جتنی بھی لامذہب قومیں ہیں ان کی یہی کیفیت بیان ہوئی ہے کیونکہ خدا نے ان کی تادیب نہیں کی کسی مذہب نے انکی تہذیب نہیں کی ، اس لئے ایسی تو میں جب بغیر الہی تعلیم کے عام فطری حالت میں پائی جائیں گی تو حیوانات کے زیادہ قریب ہوں گی یہ حیوانی فطرت ہے جس کا بیان کیا گیا ہے.وہ اپنے دکھ کے وقت تو خوب شور مچائیں گی اور کہیں گی کہ کون ہوتا ہے دنیا میں ہمیں مصیبت میں ڈالنے والا.چنانچہ آپ ان میں ایسی انانیت اور تکبر اور نفسانفسی دیکھیں گے کہ جب دکھ پہنچتا ہے تو بے قرار اور مایوس ہو جاتے ہیں لیکن جب بھلائی آتی ہے تو بنی نوع انسان کو بھول جاتے ہیں اور یہ خیال بھی دل میں نہیں آتا کہ دوسرے لوگ بھی ہیں جو بیچارے مصیبت میں مبتلا ہیں کیوں نہ ہم ان کی بھی مصیبتیں دور کریں.چونکہ ان آیات میں ایک ایسی فطرت کا اظہار کیا گیا ہے جو انسان کی تخلیق میں ودیعت ہے اس لئے ظاہر ہے کہ انسان کا دماغ مایوسی کی طرف منتقل ہو جاتا ہے، یہاں پہنچ کر اللہ تعالیٰ انسان کو سنبھالتا ہے،اسے اپنا ہاتھ پکڑا تا ہے، دست نصرت عطا کرتا ہے اور فرماتا ہے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں إِلَّا الْمُصَلِّينَ الَّذِينَ نماز پڑھنے والے ، عبادت کرنے والے مستقلی ہیں.ان کی فطرتوں میں تبدیلیاں پیدا کی جاتی ہیں، ان کو نئے رنگ عطا ہوتے ہیں اور وہ برائیوں میں مبتلا نہیں ہوتے.جو
خطبات طاہر جلد ۲ 378 خطبہ جمعہ ۱۵ ؍ جولائی ۱۹۸۲ء لوگ کچی نمازیں پڑھتے ہیں وہ جب دکھ محسوس کرتے ہیں تو دیکھ ان پر غالب نہیں آتا ، وہ جزع فزع نہیں کرتے ، ان میں صبر کی بے مثال صفات پائی جاتی ہیں اور جب وہ خیر پاتے ہیں تو یہ نہیں سمجھتے کہ یہ ہمارا حق تھا جو ہمیں ملا ہے.گویا وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ ہم خیر ہی کے لئے پیدا کئے گئے تھے اس وقت ان کو اپنے ان بھائیوں کا خیال آتا ہے جن کے دکھ میں سے تھوڑ اسا حصہ انہوں نے بھی پایا تھا اور اپنے ان بھائیوں کی تکلیفوں کا بھی احساس ہوتا ہے جو بہت سی بھلائیوں سے محروم ہیں اور کئی قسم کی مصیبتوں میں مبتلا ہیں.پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعلُوم ان کے اموال میں غربا کا ایک معلوم اور مقر رحق ہوتا ہے.اس آیت کی اور بھی کئی تفاسیر ہیں لیکن ایک یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اموال میں حَقٌّ مَّعْلُوم مقرر کر بیٹھتے ہیں.جب مصیبت ان پر پڑتی ہے تو اس وقت وہ یہ عزم کر چکے ہوتے ہیں کہ آئندہ ہم اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے خیر کا انتظام کریں گے اور خدا تعالیٰ جب ہمیں صبر عطا فرمائے گا تو ہم حق کے طور پر ایک حصہ مقرر کر لیں گے کہ اتنا ضرور اپنے بھائیوں کو عطا کرنا ہے.فرمایا لِلسَّابِلِ وَالْمُحْرُومِ اور وہ مصیبتوں اور دکھوں سے اتنا عظیم الشان سبق حاصل کرتے ہیں کہ وہ صرف مانگنے والے کو نہیں دیتے بلکہ محروم کو بھی دیتے ہیں.یعنی ایسے شخص کی بھی مدد کرتے ہیں جو ہے تو محروم لیکن اپنی ضرورت ظاہر نہیں کرتا.یعنی صرف دنیا کے لحاظ سے محروم نہیں بلکہ اس بات سے بھی محروم ہے کہ سوال کرے، اس میں سوال کرنے کی استطاعت نہیں ہے.خدا تعالیٰ نے اس کی فطرت میں اتنی غیرت رکھی ہے اور اتنی حیا اور شرم رکھ دی ہے کہ وہ سوال کرنے سے بھی محروم رہ جاتا ہے اس لئے جن لوگوں کو مال و دولت عطا کی ہے وہ یہ عزم کرتے ہیں کہ ہم ان لوگوں تک بھی پہنچیں گے جو اس نعمت سے محروم ہیں.یہ در اصل عبادت کا پھل ہے لیکن ساتھ ہی ایک چھوٹی سی شرط لگا دی.فرمایا یہ پھل اس عبادت کا ہے جس کو دوام حاصل ہوتا ہے.اسی لئے فرمایا الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِمُوْنَ یہ نعمت ان لوگوں کو عطا ہوتی ہے اور یہ غیر معمولی شان اور عظیم الشان صفات حسنہ ان لوگوں کے حصہ میں آتی ہیں جن کی عبادت میں دوام ہوتا ہے عارضی عبادتیں کر کے اللہ سے چھٹی نہیں کر جاتے.یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ کے دربار میں مستقلاً حاضر ہونے والے لوگ ہیں اور یہ دوام ہی دراصل اس بات کی ضمانت ہے کہ یہ دوصفات پہلی دوصفات کے برعکس ان کو عطا ہوں.یعنی جب ان کوثر پہنچے تو وہ مایوس
خطبات طاہر جلد ۲ 379 خطبہ جمعہ ۱۵ر جولائی ۱۹۸۲ء نہ ہوں اور جزع فزع نہ کریں اور صبر کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں.اور جب ان کو خیر ملے تو اپنے تک محدود نہ رکھیں بلکہ غیروں تک پہنچا ئیں.یہ دو صفات حسنہ قرآن کریم کی رو سے عبادت کرنے والوں کے حصہ میں آتی ہیں لیکن ان عبادت کرنے والوں کے حصہ میں جو اپنی عبادتوں کو دوام بخشتے ہیں.یہ ان آیات کے مضمون کا خلاصہ ہے.ابھی ہم نے ایک نہایت ہی بابرکت رمضان کی لذت اٹھانے کی سعادت پائی ہے.اس مبارک مہینے میں جو لوگ پہلے عبادت نہیں کیا کرتے تھے ان میں سے بھی بکثرت ایسے تھے جنہوں نے عبادت شروع کر دی.وہ جو پہلے تم کی زندگی بسر کر رہے تھے انہوں نے محض اللہ خود مشکلات برداشت کیں اور دیکھا کہ مشکل ہوتی کیا ہے ، مصیبت کس کو کہتے ہیں؟ لیکن یہ مصیبت طوعی تھی محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے برداشت کی گئی.چنانچہ انسانی نفس کی تربیت کا یہ سب سے بہتر موقع تھا.ایک مہینہ مسلسل ان پر یہ کیفیت طاری رہی کہ هُم عَلى صَلَاتِهِمْ دَابِمُونَ اور بڑی توجہ سے انہوں نے ان باتوں پر دوام اختیار کیا یعنی ایک مہینے کے دوران ان کو عبادت میں دوام نصیب ہوا اور ایک مہینے کی عبادت ایک اچھی خاصی موثر عبادت ہونی چاہئے.بعض عبادتیں ایسی ہیں کہ ان میں سے ایک عبادت ہی انسانی زندگی کا رنگ بدل دیتی ہے کجا یہ کہ ایک مہینہ مسلسل پانچ وقت عبادت کی جائے اور پھر رمضان کی سختی کا تجربہ بھی ہوا.رمضان سے وہی لوگ کامیابی کے ساتھ نکلے ہیں جو قرآن کریم کی ان آیات کے مطابق ان دو مقابل کی صفات کے حامل بن چکے ہیں جو جَزُ دُعا اور مَنُوعًا کے مقابل پر اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا فرمائی ہیں یا عطا فرمانے کا وعدہ کیا تھا.پس اگر انسان نے اپنے نفس میں یہ جانچنا ہو اور اس بات کا محاسبہ کرنا ہو کہ اس رمضان مبارک سے میں کیا پا کر نکلا ہوں اور کیا کھو کر نکلا ہوں تو یہ آیت ایک بہت ہی خوبصورت اور حسین پیمانہ اس کے سامنے رکھتی ہے.اگر رمضان مبارک کے بعد اس کی عبادات کو دوام حاصل ہو گیا ہے ایسا دوام کہ جو ایک مہینے کی حدیں پھلانگ کر بھی آگے جاری رہتا ہے، اگر رمضان مبارک کے بعد اس کو دکھوں کے احساس میں صبر کرنے کا سلیقہ آگیا ہے، اگر کوئی دکھ اس کو مایوس نہیں کر سکتا، اگر رمضان مبارک کے بعد وہ پہلے سے زیادہ بنی نوع انسان کا ہمدرد بن چکا ہے تو اسے مبارک ہو کہ قرآن کریم کی یہ آیات اسے ہمیشگی کی فلاح کی خوشخبری دے رہی ہیں.اگر کوئی انسان ان سے عاری
خطبات طاہر جلد ۲ 380 خطبہ جمعہ ۱۵ار جولائی ۱۹۸۲ء گزرا ہے تو وہ اپنے نفس کا محاسبہ کر کے خود ہی جائزہ لے اور آئندہ اصلاح کی کوشش کرے.میں بار بار اس لئے کہہ رہا ہوں کہ دوست خود اپنے نفس کا محاسبہ کریں.ان کو اس بات کا حق نہیں دیا گیا کہ وہ دوسروں کے متعلق یہ کہنا شروع کر دیں کہ تم اس رمضان سے گزرے ہوا اور پھر بھی ویسے کے ویسے رہے ہو.اس سے آپ کو بھی نقصان پہنچے گا اور مخاطب کو بھی نقصان پہنچے گا.آپ کے اندرانا نیت اور تکبر پیدا ہو جائے گا اور وہ یہ سمجھے گا کہ مجھے طعنے دیئے جارہے ہیں نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ پہلے سے بھی برے حال میں چلا جائے گا اس لئے یہ نصیحت کا طریق نہیں ہے.اس وقت اس منزل پر تو ہر شخص کو خود اپنے نفس میں ڈوب کر اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہئے.اب جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ یہ نمازیں کیا اثر پیدا کرتی ہے ، مومن کے اندر کیسے دو صفات پیدا ہو جاتی ہیں جو بظاہر اس کی فطرت کے خلاف ہیں لیکن یہ ارتقائی صفات ہیں جو انسانی فطرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ودیعت کی گئی ہیں.ان میں ان صفات کی جڑیں پائی جاتی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے لیکن ایک نیا اور بہتر پھل پیدا ہو جاتا ہے اور ایک نیا وجود گویا ظہور میں آجاتا ہے.یہ کیسے ہوتا ہے؟ اس کو میں بیان کرنا چاہتا تھا لیکن اگر چہ آج میں گرمی کی وجہ سے خطبہ کو بالکل مختصر کرنا چاہتا تھا پھر بھی بات لمبی ہو گئی ہے.قرآن کریم کی آیات کے مفہوم کو سمجھانے کے لئے اس لئے تفصیل سے بات کرنی پڑتی ہے کہ بہت سے دوست عربی نہیں جانتے ، وہ قرآن کریم کو پڑھ تو لیتے ہیں لیکن مفہوم نہیں سمجھتے اس لئے ایسے دوستوں کا خیال کر کے ذرا تفصیل سے بات کرنی پڑتی ہے.بہر حال عبادت کا کیا تعلق ہے ، وہ کیسے انسانی فطرت کی کمزوریوں کو دور کر کے ان کو خو بیوں میں بدل دیتی ہے یہ ہے وہ مضمون جس کے بارہ میں میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں.یہ کوئی دعوی نہیں ہے بلکہ اس کے اندر ایک گہری حقیقت اور ایک ٹھوس فلسفہ ہے.ایک ایسا شخص جو خدا کی عبادت کرتا ہے جب اس پر مصیبت نازل ہوتی ہے تو ایک رستہ اس کے لئے کھلا ہے اور وہ ہے دعا کے ذریعہ مصیبت کو دور کرنے کا رستہ.وہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں کلیۂ بے بس اور کمزور انسان ہوں ، میری کوئی پیش جاہی نہیں سکتی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ معاملہ حد سے اتنا گزر چکا ہے کہ ساری دنیا کے ڈاکٹرز اس مرض کو شفا نہیں بخش سکتے ، ساری دنیا کے مسائل حل کرنے والے میری مصیبت کا کوئی حل تجویز نہیں کر سکتے.یہ احساس رکھتے ہوئے بھی وہ یہی سمجھتا ہے کہ میرا خدا
خطبات طاہر جلد ۲ قادر 381 خطبہ جمعہ ۱۵ار جولائی ۱۹۸۲ء رمطلق ہے ، وہ دعاؤں کو سننے والا ہے ، وہ نا ممکن و ممکن میں بدل سکتا ہے تب وہ اس یقین کی بنا پر کسی حالت میں بھی مایوس نہیں ہو سکتا.یعنی جس قوم کو دعا پر کامل یقین ہو اور وہ سمجھتی ہو کہ دعا اور عبادت ایک ایسی قادر مطلق ہستی کے ساتھ میرا رابطہ قائم کر رہی ہے جو ہر چیز پر قادر ہے، جو ہر مشکل کو آسانی میں بدل سکتی ہے اور ہر دکھ کو سکھ میں تبدیل کر سکتی ہے، ایسا آدمی سوائے اس کے کہ پاگل ہو جائے وہ مایوس نہیں ہو سکتا اور یہاں پاگلوں کی بات ہی نہیں ہورہی.عام انسان جو عبادت کا حق ادا کر رہا ہو اور عبادت کے مفہوم کو سمجھتا ہو اس کے لئے کسی وقت بھی مایوسی کی کوئی وجہ نہیں.اس کا دوسرا پہلو جزع فزع سے تعلق رکھتا ہے.مومن اس لئے اس حالت میں نہیں پڑتا کہ عبادت کے ذریعہ اس کا رب کریم سے تعلق پیدا ہو جاتا ہے اور یہ تعلق اس کو اللہ کا پیار عطا کر دیتا ہے اور اللہ کی رضا پر راضی رہنا بھی سکھا دیتا ہے.گو یا عبادت ایک مصیبت زدہ مومن کے لئے دو ہری رحمت کا پیغام لاتی ہے.عبادت کے وقت جب وہ خدا سے مانگتا ہے تو اس شرط کے ساتھ نہیں مانگتا کہ اے خدا! مجھے دے نہیں تو میں تم سے روٹھ جاؤں گا.ایسی دعا تو انسان کے منہ پر مار دی جاتی ہے اور قبول نہیں ہوتی.مومن بندہ تو یہ عرض کرتا ہے کہ اے میرے اللہ ! میری مشکلوں کو دور فرما، میرے دکھوں کو آسانیوں میں بدل دے، میں تجھ سے التجا کرتا ہوں میں تیری ہی عبادت کرتا ہوں اور تجھ سے ہی مانگتا ہوں لیکن میری طرف سے کوئی دھمکی نہیں ہے ، میری طرف سے کوئی زور نہیں ہے ، تو مالک ہے اور میں تیرا بندہ اور غلام ہوں ، تو عطا کر دے گا تو میں راضی رہوں گا، تو نہ عطا کرے گا تب بھی میں راضی رہوں گا یہ ایک طبعی نتیجہ ہے جو ایک معقول اور صاحب فہم انسان کی دعا کا نکلتا ہے.وجہ یہ ہے کہ دعا کے سوا انسان کے لئے اور کوئی چارہ ہی نہیں ہے.دعا کرنے والے ایک مومن اور ایک عام انسان کی مثال دی جائے تو ایسی بنتی ہے جیسے کہتے ہیں ایک نوکر اپنے مالک سے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کرنا چاہتا تھا لیکن اس بیچارے کو حوصلہ نہیں پڑتا تھا کیونکہ مالک بڑا جابر تھا.نو کر کہتا تھا میں اپنی تنخواہ بڑھوانا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں میری کوئی پیش نہیں جاتی بہت ڈر لگتا ہے.کسی نے اس کو سمجھایا کہ اس طرح تنخواہ نہیں بڑھائی جائے گی.تم اپنی مونچھیں بڑھاؤ اور اپنے اندر ذرا رعب داب پیدا کرو اور پھر مونچھوں کو تیل لگا کر اور بل دے دے کر اونچا کرو اور پھر مالک کے پاس جا کر مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے کہنا آپ میری تنخواہ بڑھاتے ہیں کہ نہیں ، بڑھائیں ورنہ..! تو
خطبات طاہر جلد ۲ 382 خطبہ جمعہ ۱۵ار جولائی ۱۹۸۲ء اتنی سی بات سنکر ہی مالک ڈر جائے گا.اور تمہاری تنخواہ بڑھادے گا.چنانچہ اس بیچارے نے مونچھیں پالیس، تیل ویل ملا اور بل دے دے کر انہیں اونچا بھی کیا.جب وہ مالک کے سامنے پہنچا اور مونچھوں کو تاؤ دیتے ہوئے اس نے کہا حضور والا! آپ میری تنخواہ بڑھاتے ہیں کہ نہیں.بڑھائیں ورنہ..! تو مالک نے جو اس سے بھی زیادہ طاقتور تھا بڑے جلال سے کہا کیا بکواس کر رہے ہو ، بتاؤ ورنہ کیا کرو گے.اس نے کہاور نہ حضور میں مونچھ نیچی کرلوں گا اور جس طرح آپ فرمائیں گے راضی رہوں گا،اس کے سوا میری پیش ہی نہیں جاسکتی.مالک نے کہا بہت اچھا پھر تمہاری تنخواہ نہیں بڑھتی.پس اللہ سے مانگنے والے اس طرح تو مانگ نہیں سکتے اور اگر مانگیں گے تو لازما مونچھیں نیچی کرنی پڑیں گی اس لئے معقول آدمی جانتا ہے کہ جہاں انسان کی کچھ پیش ہی نہیں جاسکتی ، اپنی کچھ چل ہی نہیں سکتی وہاں سلیقے سے کیوں نہ بات کریں.مونچھ بڑھا کر بات کرنے کی کیا ضرورت ہے.پہلے ہی کیوں نہ یہ عرض کریں کہ اے اللہ ! ہم تیرے عاجز بندے ہیں ، ہماری کوئی پیش نہیں جاتی ، کوئی بس نہیں چلتا، ہم بالکل بے حیثیت اور ناکارہ لوگ ہیں ہمیں جو کچھ عطا ہوا ہے تو نے عطا کیا ہے.اب ہمیں فلاں چیز کی ضرورت ہے، یہ بھی عطا کر دے تو تیرا احسان ہے.تو ہمیں عطا نہیں کرے گا تب بھی ہم تیری ذات پر راضی رہیں گے.ہم ان لوگوں میں سے نہیں ہیں جو نہ عطا ہونے پر روٹھ جایا کرتے ہیں.روٹھنے کی جگہ بھی تو کوئی نہیں ہے.جائیں تو جائیں کہاں حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں: ے میں ترا در چھوڑ کر جاؤں کہاں چین دل آرام جاں پاؤں کہاں اے خدا! ہم تیرا در چھوڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے اور اگر چھوڑیں گے تو پہلے حال سے بھی بدتر ہو جائیں گے، جو کچھ میسر ہے یہ بھی نہیں رہے گا.اس دلی کیفیت سے جو دعا کر رہا ہو اس کے لئے جزع فزع کا کونسا موقع رہ جاتا ہے وہ تو مانگتے ہوئے خود اپنی حیثیت کو بھی پہچان رہا ہوتا ہے اور یہ عرض کر رہا ہوتا ہے کہ اے خدا ! میں نے ہر حال میں راضی برضا رہتا ہے.چنانچہ حضرت مصلح موعود نے ہی اس مضمون کو ایک اور شعر میں یوں بیان فرمایا ہے: ہو فضل تیرا یارب یا کوئی ابتلا ہو راضی ہیں ہم اسی میں جس میں تیری رضا ہو (الفرقان اپریل ۱۹۷۷ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 383 خطبہ جمعہ ۱۵ر جولائی ۱۹۸۲ء ہم تیرے عاجز بندے ہیں ہم ہمیشہ تجھ سے ہی یہ دعا کرتے رہیں گے کہ اے اللہ ! ہمارے ابتلا دور فرمادے اور ہم پر فضل نازل فرما.لیکن اے ہمارے آقا! تو گواہ ہے کہ جب کبھی تو نے فضل نازل نہ فرمایا اور یہی فیصلہ فرمایا کہ ابتلا رہے گا تب بھی ہم تیری رضا پر راضی رہے.پس یہ عبادت ہی ہے جو انسان کی فطری کمزوری کو خو بیوں میں بدل دیتی ہے اس لئے مومن کے لئے جزع فزع کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں لیکن ساتھ ایک شرط لگا دی فر مایا إِلَّا الْمُصَلِّينَ الَّذِيْنَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ دَابِمُونَ تمہاری ساری پرانی عبادتیں تو اس موقع پر کام نہیں آئیں گی.یہ تو انسان کی ایک مستقل حالت ہے.چونکہ انسان کے ساتھ مصیبتیں لگی رہتی ہیں اس لئے فرمایا تم اپنے آپ کو ایسی حالت میں نہ مبتلا کر دینا کہ تمہاری عبادتیں پیچھے رہ چکی ہیں اور مصیبتوں نے تمہیں آگے سے پکڑ لیا ہو.عبادتوں پر دوام اختیار کرنا تا کہ کسی حالت میں بھی تمہیں کوئی مصیبت اچانک نہ پکڑ سکے جب کبھی کوئی مصیبت آئے تو وہ دیکھ لے کہ ایک عبادت گزار بندے پر آئی ہوں اور عبادتیں ان مصیبتوں کو دھکے دے دے کر باہر نکال دیں اور تمہاری حفاظت کریں.چنانچہ قرآن کریم نے ایک اور موقع پر اسی مضمون کی وضاحت کے لئے وَالَّذِيْنَ هُمُ عَلى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ (المومنون: ١٠) کے الفاظ استعمال کئے ہیں.گو یا مومن کو اس میں یہ سبق دیا گیا ہے کہ اگر تم دنیا میں دوام چاہتے ہو تو عبادت کی حفاظت کرو، اگر تم اپنے امن اور سکون کے لئے دوام چاہتے ہو تو عبادت میں دوام اختیار کرو، اگر تم آسمانی حوادث سے محفوظ رہنا چاہتے ہو اور دکھوں اور مصیبتوں سے امن میں آنا چاہتے ہو تو عبادت کو اس کی شرائط کے ساتھ بجالاؤ تا کہ عبادت تمہارے لئے محافظ بن جائے.پس یہ وہ مضمون ہے جسے قرآن کریم نے بیان کیا ہے اور عبادت کا ذکر کر کے اس کا طبعی نتیجہ یہ نکالا الَّذِيْنَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ لِلسَّابِلِ وَالْمَحْرُومِ وہ آدمی جو خدا سے مانگ رہا ہوا گر وہ خود دوسروں کو نہ دیتا ہو تو مانگنے کا اہل ہی نہیں رہتا.جو خدا سے یہ عرض کرنا چاہے کہ اے خدا! تو بڑا رحیم و کریم ہے تجھے سب کچھ حاصل ہے اس میں مجھے خیرات ڈال اور خود اس کی اپنی حالت یہ ہو کہ جب دوسروں کو ضرورت ہو تو خیرات نہ دیتا ہو تو اللہ تعالیٰ تو اس کی دعائیں نہیں سن سکتا اور ایک معقول اور صاحب فہم آدمی ایسی دعا کر ہی نہیں سکتا.جب اپنا حال یہ ہو کہ وہ دوسروں کے
خطبات طاہر جلد ۲ 384 خطبہ جمعہ ۱۵ار جولائی ۱۹۸۲ء لئے کنجوس بن چکا ہو وہ اللہ سے مانگنے کا حق ہی نہیں رکھتا.پس ایسے بندے جو اُولُوا الْأَلْبَابِ ہوتے ہیں وہ دعائیں کرنے سے پہلے پوری ذہنی تیاری کر چکے ہوتے ہیں اور ساتھ ہی یہ بھی عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! جو کچھ تو ہمیں دے گا ہم اکیلے نہیں کھائیں گے بلکہ ہم آگے تیرے بندوں کو بھی پہنچائیں گے اور تیری عطا میں ہم سارے حصہ رسدی شریک ہوں گے اس لئے اے خدا! میری خاطر نہیں تو اپنے دوسرے بندوں کی خاطر ہی عطا فرما اور مجھے اس کا ذریعہ بنادے تا کہ مجھے بھی لطف آئے کہ میں آگے لوگوں میں تقسیم کر رہا ہوں.چنانچہ انبیاء کی فطرت میں یہ بات بدرجہ اولیٰ موجود ہوتی ہے.تبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو خدا تعالیٰ نے آسمان سے اتر تا ہوا ایک نان دکھایا اور فرمایا یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.( تذکرہ صفحہ ۱۴) یعنی یہ نہیں فرمایا کہ اپنے ساتھ کے درویشوں کو دو بلکہ فرمایا ہم تیری فطرت کو جانتے ہیں تو کوئی فیض اپنے لئے اکیلا رکھ ہی نہیں سکتا لازما جو نعمتیں ہم تجھے عطا کرتے ہیں ان کو تو آگے بانٹ دیتا ہے اس لئے ہم پہلے ہی ان لوگوں کو شامل کر کے کہہ رہے ہیں کہ اے میرے بندے! یہ تیرے لئے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کے لئے ہے.پس یہ سلیقہ بھی عبادتیں ہی سکھاتی ہیں کہ انسان اپنی بھلائیاں دوسروں میں تقسیم کرے اور اس تقسیم میں لذت پائے ، دکھ محسوس نہ کرے بلکہ لطف اٹھائے اس لئے میں امید رکھتا ہوں کہ یہ رمضان جس نے ۲۹ دن بعض لوگوں کو عبادتیں سکھائیں اور جو پہلے ہی عبادت گزار بندے تھے ان کی عبادتوں میں اضافہ کیا، وہ ہمارے لئے یہ دائمی سبق پیچھے چھوڑ جائے گا کہ ہم اس یقین پر قائم رہیں کہ عبادت کے بغیر ہماری کوئی زندگی نہیں ہے، عبادت کے بغیر کسی مصیبت سے محفوظ رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہے، عبادت کے بغیر ہم خدا کے وہ بندے نہیں بن سکتے جو بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور جیسا کہ ان آیات میں یہ ذکر بھی کیا گیا ہے عبادت کے بغیر ہم خدا کی طرف سے آنے والے عذابوں سے مامون و محفوظ نہیں رہ سکتے اس لئے اس سبق کو لے کر اپنی زندگی میں اپنا ئیں اور اسے اپنے اعمال میں داخل کریں اور پھر دیکھیں اللہ تعالیٰ کتنے بے انتہا فضل کرنے والا خدا ہے.روزنامه الفضل ربوه ۳۰ / جولائی ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 385 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: پاکستان کی ناگفتہ بہ حالات اور جماعت احمدیہ کی حب الوطنی ( خطبه جمعه فرموده ۲۲ / جولائی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیت تلاوت کی فرمائی: تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ (القصص:۸۴) بعض مسلسل ظاہر ہونے والی علامتوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ملک میں بعض لوگ فتنہ و فساد پھیلانے پر تلے ہوئے ہیں اور گویا ادھار کھائے بیٹھے ہیں.ادھار کھائے بیٹھے کا محاورہ بھی بڑا دلچسپ ہے، جیسے کوئی کسی سے پیسے لے چکا ہو اور یہ کہے کہ جب تک میں تمہارا مقصد پورا نہ کر دوں اور یہ فساد برپا نہ کر دوں مجھ پر یہ ادھار ہے.اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے کہ کن معنوں میں یہ محاورہ ان فساد پھیلانے والوں پر صادق آتا ہے لیکن جہاں تک علامتوں کا تعلق ہے اس میں کوئی بھی شک نہیں کہ وہ لوگ بہانے ڈھونڈ رہے ہیں کہ کسی طرح ہمارے عزیز ، پیارے اور محبوب وطن میں فساد برپا کر دیں.اس کے برعکس جماعت احمدیہ کے افراد کیا مرد اور کیا عورتیں سب نے یہ تہیہ کر رکھا ہے اور یہ عزم صمیم کر رکھا ہے کہ ہم نے یہ فساد برپا نہیں ہونے دینا.
خطبات طاہر جلد ۲ 386 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۳ء پس یہ بڑا دلچسپ مقابلہ ہے.لوگ جتنا آپ کو تنگ کریں، دکھ دیں اور کوشش کریں کہ آپ کو فساد کا بہانہ بنایا جائے اتنا ہی زیادہ صبر اور عزم کا نمونہ دکھانے کی ضرورت ہے اور بیدار مغزی اور بڑی ذہانت کے ساتھ اس بات کو سمجھتے ہوئے کہ ملکی حالات اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ اس موقع پر ، تاریخ کے اس سنگم میں جس میں اس وقت ہم کھڑے ہیں کسی قیمت پر بھی فسادنہ ہونے دیا جائے.ہمارے ملک کی یہ عجیب تاریخ ہے اور بڑی بدقسمتی ہے کہ جب بھی بیرونی خطرات نمایاں ہوتے ہیں بعض مخصوص طبقات ملک میں لازماً فساد کی کوشش کرتے ہیں.وہ مشہور ومعروف ہیں اور ان کی تاریخ انمٹ حقائق کے ساتھ لکھی گئی ہے اور سب پہچانے والے انہیں پہچانتے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ دھو کہ کھانے والے پھر بھی دھو کہ کھا جاتے ہیں.جب بھی اس ملک میں اندرونی فساد برپا ہوئے ہیں ہمیشہ کوئی بیرونی خطرہ لازماً سر پر منڈلا رہا تھا اور اندرونی فسادات نے ان خطرات کو تقویت دی اس لئے ہر محب وطن احمدی کا فرض ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی ملک میں فساد نہ ہونے دے.محب وطن سے میری مراد نہ صرف پاکستان بلکہ تمام دنیا کے احمدی ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ ہر احمدی اپنے اپنے ملک اور اپنے اپنے وطن کا محب ہے اور یہ ہماری تعلیم ہے اور یہ ہمارا ایمان ہے کہ آج دنیا کی تمام قوموں میں سب سے زیادہ سچائی اور وفا کے ساتھ اگر کوئی اپنے وطن سے محبت کرتا ہے اور وطن کی محبت جس کا جزوایمان بن گئی ہے تو وہ جماعت احمدیہ کے افراد ہیں.اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو ساری دنیا ہی اس وقت فسادات کا شکار ہے اور تمام دنیا میں بعض تحر یہی طاقتیں جو بڑے عظیم ملکوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں اور نسبتاً چھوٹے ملکوں سے بھی تعلق رکھتی ہیں وہ پوری طرح سرگرم عمل ہیں کہ کسی طرح فساد برپا ہو.پس بین الاقوامی جماعت کے افراد کا اس کے مقابل پر یہ فرض ہے کہ اپنے اپنے وطن میں ہر وہ ذریعہ استعمال کریں جس کے نتیجہ میں فساد دب جائے اور فساد کا کوئی موقع پیدا نہ ہولیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے اور اس سے انکار نہیں کہ ہماری جماعت کمزور ہے ، محدود طاقت اور محدود اثر رکھتی ہے اس لئے ضروری نہیں کہ ہماری امن کی ہر کوشش کامیاب ہو.یہ تو ہوسکتا ہے کہ احمدی صبر کا انتہا سے زیادہ نمونہ دکھا ئیں لیکن اس بات کی ضمانت پھر بھی نہیں کہ دنیا میں فساد برپا نہ ہو کیونکہ جو لوگ فساد پر تل جاتے ہیں وہ عجیب وغریب بہانے ڈھونڈتے ہیں.کوئی معقول بہا نہ نہ ملے تو نا معقول بہانہ تلاش کر لیتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 387 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۳ء آپ نے بھیڑ کے بچے اور بھیڑیے کا پانی پینے والا قصہ بھی سنا ہوا ہے اور یہ قصہ بھی سنا ہوا ہے کہ ایک دفعہ ایک مرد جو ہر وقت لڑائی پر تلا رہتا تھا اپنی بیوی کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی نقص نکال ہی لیتا تھا، کبھی روٹی جل گئی اور کبھی کچھی رہ گئی کبھی نمک زیادہ کبھی مرچ زیادہ ہوگئی اور کبھی دونوں کی کمی واقع ہوگئی کبھی پانی گرم، کبھی چائے ٹھنڈی.اس بیچاری کو تو مصیبت پڑی ہوئی تھی.ہر روز کسی نہ کسی بہانے فساد پر آمادہ رہتا اور اسے زدوکوب کیا کرتا تھا.ایک دفعہ اس کی بیوی نے خوب تیاری کی ہر چیز کی بہت ہی زیادہ احتیاط کی ، نمک مرچ زیادہ نہ کم ، پانی بھی مناسب، چائے بھی مناسب، اور ہر چیز درست کر دی، روٹی بھی بہت احتیاط سے پکائی اور اپنے خاوند کے چہرہ کے آثار دیکھنے لگی.اس نے ذہنی طور بہانہ ڈھونڈنے کی بہت کوشش کی لیکن کوئی بہانہ ہاتھ نہ آیا.اس نے فساد تو بہر حال کرنا تھا ارادہ جو تھا، ادھار کھائے بیٹھا تھا.اس نے بالآخر یہ ترکیب اختیار کی کہ بیوی سے کہا کہ او ظالم عورت تو روٹی تو ہاتھ سے پکارہی ہے تیری کہنیاں کیوں ہل رہی ہیں اور اس بات پر اسے مارنا شروع کر دیا.خیر ! بیوی مارکھا کر بیٹھ گئی.پھر جب وہ دوبارہ کھانا کھانے لگا تو بیوی نے اس کی داڑھی پکڑ لی اور کہا.” او بد بخت تو کھانا تو منہ سے کھا رہا ہے تیری داڑھی کیوں ہل رہی ہے.“ پس میں آپ کو یہ سمجھا رہا ہوں کہ کسی احمدی نے داڑھی بھی نہیں پکڑنی کسی احمدی کا ہاتھ کسی داڑھی پر نہیں اٹھے گا اور کسی کی عزت اور مال اور جان سے نہیں کھیلے گا چاہے اس کے لئے اسے انتہائی صبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے.ہاں اللہ کی تقدیر آزاد ہے وہ مالک ہے اس کا ہا تھ اگر کسی داڑھی پر پڑ جائے تو کوئی بال باقی نہیں رہنے دیتا.جس کی داڑھی بھی ذلیل کرنے کے لئے چنے یہ اس کی مرضی ہے، اس میں ہمارا کوئی دخل نہیں لیکن اس معاملہ میں بھی ہماری دعائیں ایسے لوگوں کے حق میں ہونی چاہئیں.نہ صرف صبر کرنا ہے بلکہ ان کے حق میں دعائیں کرنی ہیں کیونکہ جس پر خدا کا غضب نازل ہوا سے ملیا میٹ کر دیتا ہے تباہ کر کے رکھ دیتا ہے اور ایسی قوموں کو قصہ پارینہ بنادیا کرتا ہے.پس ہم تو رحمتہ للعالمین کے غلام ہیں اور اسی کے غلام رہیں گے کسی کی تباہی کا حال دیکھ کر وقتی جوش اور وقتی خوشی کے نعرے بھی بے وقوف لوگ لگایا کرتے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ دکھ خواہ کسی کا بھی ہو دکھ ہی ہے اور خدا کا غضب تو بہت ہی بڑا دکھ ہے.آنحضرت عے کے بچے غلام کی حیثیت سے ہمیں لازماً دعائیں کرنی چاہئیں اور یہ دعا بھی کرنی چاہئے کہ ہم کسی پر عذاب نازل ہوتا بھی نہ
خطبات طاہر جلد ۲ 388 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۳ء دیکھیں.ہماری دعاؤں کے دورخ ہونے چاہئیں، ایک اپنے لئے اور ایک اپنے غیر کے لئے.اپنے لئے یہ دعا کہ اے خدا! ہم تیری زمین میں لازماً امن قائم رکھنے کی کوشش کریں گے اور ہر ممکن صبر سے کام لیں گے مگر اے ہمارے آقا! تیرے فضل کے بغیر صبر کی تو فیق کسی کو مل ہی نہیں سکتی.انسان کی طاقت ہی نہیں کہ محض اپنے ارادے سے کچھ حاصل کر سکے.آپ میں سے بعض کو شاید یہ خیال آئے یعنی میرے سب مخاطبین میں سے خواہ وہ دنیا میں کہیں بھی ہوں کہ عام طور پر تو دنیا میں یہی تقدیر جاری ہے کہ لوگ جو ارادے کرتے ہیں جو سکیمیں بناتے ہیں وہ دعا بھی نہیں کرتے تو ان کی تدبیروں کو کچھ نہ کچھ پھل ضرور لگتے ہیں مگر جماعت احمدیہ کو کیوں ہر دفعہ تدبیر کے ساتھ دعا کی طرف خاص طور پر توجہ دلائی جاتی ہے.یہ اہم سوال ہے جس پر میں کچھ روشنی اپنے دوسرے مضمون سے ہٹ کر ضرور ڈالنا چاہتا ہوں.میں نے اس پہلو سے اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے اور میں اس قطعی نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ وہ لوگ جو خدا کے مومن بندے ہیں جو خدا کی اپنی جماعت کہلاتے ہیں ان کے ساتھ اللہ کا اور سلوک ہے اور جولوگ دنیا دار ہیں جن کا خدا تعالیٰ سے کوئی تعلق نہیں ان کے ساتھ اور سلوک ہے.جو خدا تعالیٰ سے تعلق توڑ کر دنیا کے ہو جاتے ہیں ان کے لئے عام قانون جاری ہے.ان کی کوشش میں اگر حکمت اور محنت شامل ہوتو اسے دنیا کے عام دستور کے مطابق پھل لگتے رہتے ہیں مگر جنہیں خدا تعالیٰ اپنا بنالیتا ہے ان کی توجہ بار بار اپنی طرف مبذول کرانی چاہتا ہے اور انہیں یہ بتانا چاہتا ہے کہ میں تمہارا ہوں اور میرے بغیر تم کچھ بھی نہیں ہو اس لئے اگر وہ دعا نہ کریں تو ان کی عام کوششیں بھی ناکام ہو جایا کرتی ہیں، ایسی کوششیں جو اگر دنیا دار کی ہوں تو پھل دے دیں لیکن اگر مومن خدا سے غافل ہو جائے اور اپنی طاقت پر انحصار کرنے لگے تو پھر خدا تعالیٰ اسے ان کوششوں کے پھل سے محروم کر دے گا پس اس میں آپ کے لئے ایک مستقل سبق ہے.تاریخ اسلام اور تاریخ احمدیت کے مطالعہ سے بھی یہی سبق ملتا ہے اور اگر آپ روز مرہ زندگی میں اپنے حالات کا گہری نظر سے مطالعہ کریں تو آپ ضرور اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ آپ چونکہ اللہ تعالیٰ کے بندے ہیں اور وہ آپ کا اپنے ساتھ گہرا تعلق دیکھنا چاہتا ہے اس لئے اس نے محض اپنے فضل سے تمہاری عام کوششوں کو اس گہرے رابطہ سے منسلک کر دیا ہے جو کبھی ٹوٹ نہیں سکتا، اگر آپ
خطبات طاہر جلد ۲ 389 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۳ء توڑیں گے تو کسی نہ کسی برکت سے محروم رہ جائیں گے.میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ بعض کوششیں بہت اچھی اور بڑی محنت سے کی جاتی ہیں لیکن اگر غفلت کی وجہ سے کسی وقت دعا سے توجہ ذرا ہٹ جائے یا کم ہو جائے تو الٹ نتیجے ظاہر ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور جو نہی دعا کی طرف توجہ مبذول ہوتی ہے تو وہ ساری باتیں درست ہونے لگ جاتی ہیں اس لئے جماعت احمدیہ کے لئے بہر حال یہ ضروری ہے کہ وہ دعا سے غافل نہ ہو اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ کو لازما کامیابی نصیب ہوگی کیوں کہ خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے.میں نے جو آیات تلاوت کی ہیں ان میں خدا تعالیٰ نے قطعی وعدہ فرمایا ہے کہ آخرت اور عاقبت متقین کے لئے ہے اور انہیں ہی نصیب ہوگی تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ان لوگوں کو نصیب ہوگی جو ذاتی برتری کی خاطر دنیا میں حکومتوں پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش نہیں کرتے جو اس بات سے بے نیاز ہیں کہ ان کی حیثیت کیا ہے ان کا تو کل اپنے رب پر ہوتا ہے وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ یہ ایک جاری و ساری قانون ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انجام کار بہر حال متقین کی فتح ہوتی ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے ہیں.پس اس پہلو سے ہمیں تو کسی حکومت میں بھی دلچسپی نہیں ہے ، صرف ایک دلچسپی ہے کہ ساری دنیا میں اللہ کی حکومت قائم ہو جائے.ہمارا تاج رضوان یار کا تاج ہے، ہماری بادشاہت الہی بادشاہت ہے اور اس معاملہ میں ہمارا رقیب ہی کو ئی نہیں ہم اس میدان میں تنہا ہیں.دنیا میں جتنے بھی لوگ مذہب کے نام پر کوششیں کرنے والے ہیں آپ ان کی زندگی کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں وہ دراصل محلو چاہتے ہیں، ذاتی بڑائی چاہتے ہیں، کوئی دنیاوی مقصد سامنے رکھ کر مذہب کے نام پر فساد برپا کرتے ہیں ، ان سے متعلق اللہ تعالیٰ نے اسی آیت میں تجزیہ بھی فرما دیا ہے کہ اگر عُلُو چاہو گے تو اس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کی بھلائی ظاہر نہیں ہو گی خواہ وہ دنیاوی مقصد ہو یا کوئی اور مقصد ، اس کا کوئی بھی نام رکھ لیا جائے لیکن اگر نیتوں میں یہ خواہش ہو کہ ہم دوسروں پر غلبہ پا جائیں اور ان کے امور کی باگ ڈور ہمارے ہاتھ آجائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ نیت اس بات کی ضامن ہو جائے گی کہ تم فسادی ہو کیوں کہ عُلُو کی خاطر کوشش کرنے والے بنی
خطبات طاہر جلد ۲ 390 خطبہ جمعہ ۲۲؍ جولائی ۱۹۸۳ء نوع انسان کی بھلائی نہیں کیا کرتے بلکہ ہمیشہ فساد بر پا کرتے ہیں.اس پہلو سے جماعت احمدیہ کلیہ مستثنیٰ ہے کیونکہ جماعت احمد یہ خُلُو کی کوئی خواہش ہی نہیں رکھتی ، وہ صرف اللہ کی رضا کی خواہش رکھتی ہے ، وہ خدا کی حکومت کے قیام کے لئے کوشاں ہے، وہ یہ چاہتی ہے کہ کسی طرح رضوان یار حاصل ہو جائے.پس ان باتوں پر ان صفات پر اگر آپ پورے صبر اور وفا کے ساتھ قائم رہیں گے تو اللہ تعالیٰ کی یہ خوش خبری ہے کہ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ.لازماً انجام کا ر آپ فتحیاب ہوں گے اللہ تعالیٰ ہمیں یہ فتح عطا فرمائے.آمین خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: کل مغرب کی نماز کے بعد مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب نے توجہ دلائی کہ اب پھر گرمی بہت بڑھ گئی ہے اور برداشت سے باہر ہوتی جا رہی ہے دوبارہ دعا کی طرف توجہ کرنی چاہئے اور احباب جماعت کو تلقین کرنی چاہئے.چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ انشاء اللہ تعالیٰ کل خطبہ جمعہ میں تلقین کروں گا لیکن صبح جب بادل دیکھے تو میں متردد گیا.مجھے خیال آیا کہ اب اگر تلقین کی تو بعض کمزور ایمان والوں کے لئے ٹھوکر کا موجب نہ ہو اور اپنی بے وقوفی اور نادانی سے یہ نہ سمجھنے لگیں کہ جماعت احمد یہ اسی قسم کی دعائیں کرتی ہے بادل دیکھے تو تلقین کر دی اور بعد میں کہہ دیا کہ دعا قبول ہوگئی.یہ غمور کرتے ہوئے خیال آیا کہ تلقین نہ کی جائے.پھر خدا نے توجہ اس طرف پھیری کہ یہ بات بھی کامل بجز کے خلاف ہے.ہزار ہا بادل آئے ہوئے بھی بغیر بر سے چلے جایا کرتے ہیں.خدا تعالیٰ کی رحمت کی ہزار علامتیں بھی ظاہر ہو جائیں تب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر وہ عمل میں نہیں ڈھلتی اس لئے قطع نظر اس کے کہ کوئی ٹھو کر کھاتا ہے یا نہیں تو اپنے خدا سے اپنے معاملات صاف اور سید ھے رکھو اور بجز کے مقام سے نہ ہٹو.چنانچہ میں نے ارادہ کیا کہ لازماً تحریک کروں گا.اس پر مجھے اپنا ایک پرانا واقعہ یاد آ گیا شائد پہلے بھی بتا چکا ہوں لیکن ہے دلچسپ.ایک دفعہ ہم برف دیکھنے کی نیت سے ڈلہوزی گئے ، ہم چھ سات بچے تھے.حضرت مصلح موعودؓ نے ایک مربی بطور منتظم ہمارے ساتھ بھیج دیا.جب ہم جار ہے تھے تو راستہ میں ایک پرانے پہاڑی آدمی نے جو ہمارے ساتھ ہی بس میں بیٹھا ہوا تھا دوران گفتگو کہا کہ آج کل موسم ایسا ہے کہ برف ضرور پڑتی ہے بادل آجائیں سہی ، برف ضرور پڑ جائے گی لیکن اگر
خطبات طاہر جلد ۲ 391 خطبہ جمعہ ۲۲ جولائی ۱۹۸۳ء بادل نہ ہوں تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا.اپنی نادانی میں اور میں سمجھتا ہوں کہ اس نادانی نے ایک بڑا گہرا سبق عطا کیا اس لئے بری نادانی نہیں تھی ، ہم نے یہ دعا کی کہ اے اللہ میاں بادل ! تو بھیج دے برف ہم خود ہی بنالیں گے.چنانچہ سات دن وہاں ٹھہرے رہے مسلسل بادلوں کے باعث سورج کا منہ نہیں دیکھا.اولے بر سے مگر برف کا ایک فلیک Flake تک نہیں گرا.پس اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ بادل اور یہ علامتیں کیا چیز ہیں میرے غلام در ہیں.میرے تابع فرمان ہیں میں حکم دوں گا تو کچھ کریں گے اس کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے.تو اس وقت سے ایک مستقل سبق مجھے حاصل ہوا کہ بندہ کا اصل مقام یہ ہے کہ وہ دعا کرے اور ظاہری علامتوں پر انحصار نہ کرے.پس ہمیں اب پھر دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ رحم اور فضل کی بارش برسائے اور موسم خصوصاً غربا کے لئے تبدیل کر دے.امراء کو تو پھر بھی کچھ نہ کچھ سہولتیں حاصل ہوتی ہیں.یہاں ربوہ میں جو میں نے جائزہ لیا ہے غربا کے مکانوں کی ایسی نا گفتہ بہ حالت ہے کہ بہت ہی خطرناک حالات میں وہ زندگی بسر کر رہے ہیں تو ان کا نام لے کر دعا کریں تو شاید اللہ تعالیٰ فضل فرما دے اور امیروں کو بھی ساتھ ہی فائدہ پہنچ جائے.(روزنامه الفضل ربوه یکم اگست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 393 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء روحانی طور پر آزاد قوم کہلانے کے مستحق ( خطبه جمعه فرموده ۲۹ جولائی ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوہ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد مندرجہ ذیل آیات قرآنیہ کی تلاوت فرمائی: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِى لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ أَفَمَنْ كَانَ مُؤْ مِنَّا كَمَنْ كَانَ فَاسِقًا لَا يَسْتَوْنَ أَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ فَلَهُمْ جَنَّتُ الْمَأْوَى نُزُلاً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ) (السجده ۲۰۱۷) اور پھر فرمایا: دنیا میں ہر مشین کے چلنے کے لئے ایندھن درکار ہوا کرتا ہے اور یہ دو قسم کے ایندھن ہوتے ہیں.ایک وہ جو اندرونی طور پر کام کرتے اور حرکت دیتے ہیں، دوسرے وہ جو باہر سے کھینچے یادھکیلتے ہیں.انسانی اعمال کو حرکت دینے کے لئے بھی اسی قسم کی توانائی کے دوسر چشمے ہیں.اندرونی طور پر محبت اور نفرت کی دو طاقتیں ہیں جو انسانی عمل کو حرکت دیتی ہیں اور بیرونی طور پر طمع اور خوف کی دو طاقتیں ایسی ہیں جو انسانی اعمال کو کھینچتی یا دھکیلتی ہیں.قرآن کریم نے ان دونوں کا نہایت ہی پیارے اور حکیمانہ انداز میں الگ الگ جگہ ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ مومن پر یہ قو تیں کس طرح عمل کرتی ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 394 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں ان میں پہلی آیت میں موخر الذکر دو طاقتوں یعنی خوف اور طمع کا ذکر کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن پر خوف اور طمع دنیا والوں کے خوف اور طمع کے مقابل پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے.فرمایا جہاں تک مومن کا تعلق ہے ان دونوں طاقتوں کا رخ اللہ کی جانب ہے، اسے کبھی کسی غیر کا خوف کسی حرکت پر آمادہ نہیں کرتا.اسی طرح جہاں تک طمع کا تعلق ہے وہ بھی خالصہ اللہ ہی کی طرف رخ کئے ہوئے ہوتی ہے اور کبھی کسی حالت میں بھی غیر اللہ کا لالچ اسے کسی حرکت پر آمادہ نہیں کرتا.پس جہاں تک خدا کے خوف اور خدا کے فضلوں کی طمع کا تعلق ہے وہ مومن کی زندگی پر اس شدت سے قبضہ کر لیتی ہے کہ نہ اسے دن کو چین آتا ہے اور نہ رات کو ، جب دنیا امن سے رات کو سوئی ہوئی ہوتی ہے وہ بے قرار ہو کر بستروں کو چھوڑ دیتے ہیں.يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا اپنے رب کو خوف سے بھی پکارتے ہیں اور طمع سے بھی پکارتے ہیں.وَّ مِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ اور پھر ہم جو کچھ انہیں عطا کرتے ہیں اس میں سے وہ آگے دنیا میں خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.اس کے مقابلہ پر جہاں تک دنیا کی قوت عمل کا تعلق ہے وہ ہر صورت میں غیر اللہ کے خوف سے چلتی ہے اور غیر اللہ کی طمع میں حرکت کرتی ہے.مثلاً ایک بچہ جب خوف کی حالت میں ہوتا ہے تو اس کے ذہن میں سب سے پہلے ماں کا خیال آتا ہے.وہ کسی جنگل بیابان میں ہوا سے علم بھی ہو کہ ماں اس کی آواز نہیں سن سکتی تب بھی لازماً بے اختیار اس کے منہ سے ماں کا لفظ نکلے گا.یہ اس کے دل کی سچائی ہے جو اسے ماں کو بلانے پر آمادہ کرتی ہے.ہوسکتا ہے ایک بیٹا اپنے باپ کو پکارے یاوہ قومیں جن کے ہاں پولیس کا نظام بہت اچھا ہوتا ہے وہاں جب بھی کوئی آدمی خوف میں مبتلا ہوتا ہے سب سے پہلے اس کے ذہن میں پولیس کا خیال آتا ہے.چنانچہ جگہ جگہ پولیس کے ٹیلیفون نمبرز لگے ہوتے ہیں یہاں تک کہ گھروں میں بھی آویزاں رہتے ہیں.چنانچہ جہاں خطرہ لاحق ہوا وہاں فوری طور پر اس نمبر کو ڈائل کر دیا جاتا ہے.تو گویا ہر شخص کے خوف کے لئے اس کا ایک رب ہوتا ہے اور اچانک فوری طور پر جب بھی کوئی خوف لاحق ہوتا ہے بے اختیار وہی وجوداس کے ذہن میں آجاتا ہے جو اس کے نزدیک سب سے زیادہ طاقتور ہے اور جوسب سے زیادہ اس بات کے قابل ہے کہ اسے خوف سے نجات بخشے.پرانے زمانوں میں لوگ بادشاہوں کی دُہائیاں دیا کرتے تھے اور تاریخ سے ثابت ہے کہ ایسے موقع پر جب کہ عورتوں کو علم تھا کہ ان کی آواز بادشاہ تک نہیں پہنچے
خطبات طاہر جلد ۲ 395 خطبہ جمعہ ۲۹ جولائی ۱۹۸۳ء سکتی وہ سینکڑوں میل دور قید خانوں اور ڈنجنز میں پڑی ہوتی تھیں اور اپنے بادشاہ کو آواز میں دیا کرتی تھیں.چنانچہ اسلامی تاریخ سے بھی ثابت ہے کہ کسی نے ایک عورت کی آواز سنی اور بادشاہ تک پہنچائی تو اس کی آواز کی خاطر غیرت دکھاتے ہوئے بادشاہ نے لشکر کشی کی اور اس حکومت کو مجبور کر دیا کہ اس مظلوم عورت کو آزاد کرے لیکن ایسے اتفاق ہی ہوتے ہیں.سینکڑوں میں ہزاروں میں ایک دفعہ وہ آواز اس جگہ تک پہنچ جاتی ہے جہاں تک پہنچانا مقصود ہوتی ہے جب کہ اکثر آواز میں صدا بصحر اثابت ہوتی ہیں، پکارنے والا پکارتا رہ جاتا ہے اور سننے والا کجا یہ کہ اس کی مدد کر سکے وہ اس کی تکلیف سے ہی غافل رہتا ہے ، اور اگر غفلت نہ بھی کرے تب بھی اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ وہ اس بات کا اہل ہی نہ ہو کہ وقت پر اس کی تکلیف کو دور کر سکے.چنانچہ اسی مضمون پر غالب یہ کہتا ہے : ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک (دیوان غالب) اے میرے محبوب ! مجھے معلوم ہے کہ تجھے مجھ سے اتنا پیار ہے کہ میرے درد کی پکار جب تم تک پہنچے گی تو تم بے اختیار دوڑ پڑو گے لیکن تم بھی آخر انسان ہو اور بے بس ہو.میری تکلیف تو اتنی زیادہ ہے کہ تمہیں خبر پہنچنے تک ہی میں جل کر خاک ہو چکا ہوں گا.پس دنیا والے ہمیشہ دنیا والوں ہی کو پکارتے ہیں لیکن اکثر صورتوں میں ان کی پکار ضائع ہو جاتی ہے اور بے کار چلی جاتی ہے اور جہاں تک پہنچانا مقصود ہوتی ہے وہاں تک پہنچتی ہی نہیں.اگر وہاں تک پہنچ بھی جائے تو پھر اس کے جواب میں امدادی کا رروائی میں تاخیر ہو جاتی ہے یا مدد کرنے والا اس بات کا اہل ہی نہیں ہوتا کہ وہ مدد کر سکے.ایک ہی ذات ہے اور وہ ہمارے رب کریم کی ذات ہے جسے آپ جب بھی پکاریں گے اس کو ہمیشہ موجود پائیں گے مخفی سے مخفی آواز بھی ایسی نہیں جو اس تک نہ پہنچے.دل کی گہرائیوں میں پیدا ہونے والے اور کروٹیں لینے والے خیالات بھی اس تک پہنچتے ہیں.چنانچہ جس پکار کا یہاں ذکر کیا گیا ہے وہ بھی ایک تنہائی کی اور اندھیرے کی پکار ہے تجافی جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا فر مایا یہ میرے بندے مجھے ایسی حالت میں پکارتے ہیں جب دنیا میں ان کو کوئی دیکھ نہیں رہا ہوتا کوئی ان کی آواز نہیں سن رہا ہوتا.
خطبات طاہر جلد ۲ 396 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء رات کی تاریکیوں میں یہ اپنے بستروں کو چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہم ان کی آواز کو سنتے ہیں ہم ان کی مددکو آتے ہیں.اسی طرح ان کی طمعیں بھی ان کی حرص و ہوا، ہر خواہش اور ہر تمنا خدا ہی کی طرف رخ اختیار کرتی ہے.فرمایا مومن بندے خوف میں بھی اپنے رب کو پکارتے ہیں اور طمع میں بھی اسی کو پکارتے ہیں جب کہ دنیا کی حالت اس کے بالکل برعکس ہے.مثلاً ایک بچہ امتحان میں بیٹھتا ہے.اگر دنیا داری اس پر غالب ہوگی تو وہ یہ سوچے گا کہ میں کس طرح ممتحن تک پہنچوں ، کس طرح سفارش کرواؤں، کس طرح کوشش کروں کہ میرے اچھے نمبر آجائیں لیکن سینکڑوں ہزاروں احمدی بچے ہیں جن کے دماغ میں سب سے پہلے یہ خیال آتا ہے کہ وہ دعا کے لئے خط لکھیں.چنانچہ جب یہ دعائیہ خطوط آتے ہیں تو انہیں دیکھ کر میری روح بڑی لذت محسوس کرتی ہے اس خیال سے کہ ہر لکھنے والے کے دماغ میں پہلا خیال اپنے رب کا آیا ہے اور یہ معصوم بچے اس فوج میں داخل ہو گئے ہیں جو يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا والی فوج ہے.اسی طرح تربیت پاتے ہوئے جب یہ بڑے ہوں گے تو ان پر ہمیشہ اپنے رب کا خیال غالب رہے گا اور وہی ایک خیال ہے جو ان کی روح پر قبضہ کئے رکھے گا.اسی طرح بعض لوگ ہیں جو رشوت کو خدا بنا لیتے ہیں اور ہر حرص کے وقت سوچتے ہیں کہ رشوت دے کر کام چلائے جائیں گے، بعض لوگوں نے سفارشوں کو خدا بنایا ہوا ہوتا ہے اور بعض نے دوستیوں کو خدا بنایا ہوا ہوتا ہے اور وہ ہر جائز اور نا جائز ذرائع کو اختیار کرنے سے گریز نہیں کرتے.وہ کوشش کرتے ہیں کہ ہر حالت میں کسی نہ کسی طرح ان کی حرص پوری ہونی چاہئے.اس کے برعکس ایسے بھی بندے ہیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ راتوں کو اٹھتے ہیں اور خوف اور طمع میں دعا کا رخ میری جانب پھیر دیتے ہیں.وہ کہتے ہیں اے خدا! ہمارا اور کوئی سہارا نہیں ہے نہ ہمیں کسی کی دوستی کی پرواہ ہے اور نہ اس پر اعتماد، نہ ہی ہم نا جائز طریق اختیار کر سکتے ہیں کیونکہ اس سے تو نے منع کر دیا ہے ، اس بے بسی کی حالت میں ہم تیری طرف ہی جھکتے ہیں اور تجھے ہی پکارتے ہیں کہ تو ہماری مددفرما.اس پر خدا تعالیٰ یہ نہیں فرما تا کہ پھر ہم ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہیں اور یہ کرتے ہیں اور وہ کرتے ہیں بلکہ یہ گویا ایک Understood یعنی تسلیم شدہ بات ہوتی ہے کہ ایسی دعائیں لازماً قبول ہوں گی.پھر آگے ان کے عمل کا ذکر فرما دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ
خطبات طاہر جلد ۲ 397 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء یہ تو ہوہی نہیں سکتا کہ ان کو آسمان سے رزق عطا نہ کیا جائے اور خود ان کو بھی دیکھو کہ چونکہ ان کا واسطہ ایک لا متناہی رزق کے سرچشمہ سے ہو چکا ہوتا ہے اس لئے یہ اس فیض کو آگے چلاتے ہیں اور بندگان خدا پر یا خدا کی راہوں پر خرچ کرنے سے خوف نہیں کھاتے.یہ خدا سے ایک جاری چشمہ پاتے ہیں اور اس کو آگے جاری کر دیتے ہیں.یہ لوگ بنی نوع انسان کی بہتری کے لئے بھی بے دریغ خرچ کرتے ہیں اور خدا کی راہوں پر بھی بے دریغ خرچ کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ جس وقت انہوں نے خدا کو پکارا تھا اس وقت ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا جو کچھ عطا ہوا ہے وہ خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے.انہوں نے اپنی ضرورت کسی بندہ کے سامنے پیش نہیں کی اس لئے جب سب کچھ خدا کی طرف سے عطا ہوا ہے تو وہی ضامن ہے.وہ اگر چاہے گا تو اس کو نہیں ختم ہونے دے گا اور وہ نہیں ختم ہوگا.وہ مالک ہے ، اس کے پاس لامتناہی رزق ہے، اگر وہ یہ فیصلہ کرے کہ یہ رزق ختم نہیں ہوگا تو وہ رزق ختم نہیں ہوگا.پس یہی وہ رزق ہے جو خدا کی طرف سے جب مومن بندوں کو عطا ہوتا ہے تو وہ اس میں سے خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے اموال میں سے خدا کی راہ میں جو خرچ کرتے ہیں وہی پاک کمائی ہے جس کے متعلق یقین سے کہا جاتا ہے کہ یہ خدا کا فضل ہے اللہ کی طرف سے آیا ہے.باقی ہر کمائی ایسی ہوتی ہے جس کے متعلق کوئی نہیں کہ سکتا کہ یہ خدا کا فضل ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کے غلاموں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةً أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ تَريهُمْ رُكَعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا (الفتح:٣٠) فرماتا ہےمحمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ساتھیوں اور غلاموں کا یہ حال ہے کہ ان کے لئے یہ سوال نہیں ہے کہ رات کو اٹھیں اور پھر دعائیں کریں.اے رسول! تو جب بھی ان کو دیکھے گا ہمیشہ رکوع اور سجود کی حالت میں پائے گا.بظا ہر جسمانی لحاظ سے وہ اپنے کاموں میں مصروف اور ادھر ادھر آجا رہے ہوں گے لیکن اللہ جانتا ہے کہ ان کی روحیں ہمیشہ خدا کے حضور رکوع اور سجدے کر رہی ہوتی ہیں.يَبْتَغُونَ
خطبات طاہر جلد ۲ 398 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء فَضْلًا مِّنَ اللهِ وَرِضْوَانًا وہ اللہ ہی سے اس کا فضل ما نگتے ہیں اور اس کی رضا چاہتے ہیں.پس ایسے لوگوں کے ہاتھوں سے دوسروں کے لئے جو رزق نکلتا ہے خواہ وہ بنی نوع انسان کے لئے جاری ہو یا اللہ کی راہوں میں خرچ کرنے کے لئے دیا جائے یہ وہ خالص اور پاک رزق ہے جو اللہ سے آتا ہے.اس چشمہ میں کسی گند کی ملونی نہیں ہے اور یہ وہ رزق ہے جو ختم نہیں ہوتا اور خدا کی طرف سے اس بات کی ضمانت دی گئی ہے کہ یہ کبھی ختم نہیں کیا جائے گا.اگر آپ غور کریں تو یہی وہ بندے ہیں جو خدا کے آزاد بندے ہیں کیونکہ دنیا کی طرف دیکھ کر دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلانے والوں کی تقدیر میں تو کبھی ایسا جاری رزق نہیں آتا.وہ ہزار مصیبتوں اور مشکلوں میں مبتلا رہتے ہیں.خواہ وہ افراد ہوں خواہ وہ قومیں ہوں اپنے خوفوں کے وقت دنیا کو بلانے والے کبھی بھی تسکین نہیں پاتے.اگر دنیا ان کی آواز پر لبیک بھی کہہ دے تب بھی وہ اطمینان نہیں پاسکتے اور ان کا خوف واقعہ دور نہیں ہو سکتا.دنیا والوں کے ہزار مصالح ہیں جو آڑے آ جاتے ہیں.دوست اپنے دوستوں کو چھوڑ دیتے ہیں یہاں تک کہ کبھی قومی مصالح کے نام پر اور کبھی بین الاقوامی حالات کے نام پر، بعض دفعہ معاہدے ترک کر دیئے جاتے ہیں اور وقت پر قو میں قوموں کی مدد نہیں کرتیں.اس صورت میں بھی ایک ہی ذات ہے جو انسان کی انفرادی اور اجتماعی ہر دوصورت میں لازماً کامل وفا کے ساتھ اپنے بندہ کی مدد کے لئے آتی ہے پس خوف ہو یا طمع ہو دونوں صورتوں میں ایک ہی قابل اعتماد ہستی اور دوست ہے یعنی ہمارا رب کریم جو ہر مشکل میں ہمارے کام آ سکتا ہے.اس کے باوجود جولوگ خدا کو چھوڑ کر غیروں پر تکیہ کرتے ہیں وہ انجام کا رنقصان اٹھاتے ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے جو غیروں کو پکارتے ہیں ان کا انجام اس طرح بیان فرماتا ہے: وَالَّذِيْنَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُمْ بِشَيْ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى الْمَاءِ لِيَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهِ وَمَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَللٍ (الرعد: ۱۵) کہ وہ لوگ جو خدا کے سوا غیروں کو پکارتے ہیں ان کی حالت سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہوتی اور وہ پکارے جانے والے اس کے سوا ان کو کچھ جواب نہیں دے سکتے کہ جیسے کوئی پانی کی طرف ہاتھ بڑھائے اس نیت سے کہ وہ پانی اس کے ہونٹوں تک پہنچ جائے اور اس کی پیاس کو بجھا دے وَمَا
خطبات طاہر جلد ۲ 399 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء هُوَ بِبَالِغہ لیکن ایسا نہ ہو سکے اور پیا سا اپنا ہاتھ بڑھاتا چلا جائے لیکن پانی اس کے قریب نہ پہنچے اور اس کے ہونٹوں تک پہنچ کر بھی اس کی پیاس نہ بجھا سکے.وَمَا دُعَاءُ الْكَفِرِينَ إِلَّا فِي ضَلَلٍ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کافروں کی دعا سوائے گمراہی اور بے کار جانے کے اور کوئی حیثیت نہیں رکھتی.اب اس نقشے کو آج آپ دنیا کی قوموں پر چسپاں کر کے دیکھیں کیسا حیرت انگیز طور پر یہ مضمون ان پر صادق آتا ہے.دنیا کی جتنی بھی قومیں ہیں جب لوگ ان سے مانگتے ہیں تو ساتھ Strings Attach کر دیتے ہیں اس کے ساتھ کچھ پابندیاں لگا دی جاتی ہیں.لینے والوں کی گردنیں آزاد نہیں کی جاتی ہیں بلکہ ان کی گردنیں غلام بنائی جاتی ہیں.چنانچہ دینے والے اس طرز پر مدد کرتے ہیں کہ لینے والا کبھی بھی ان کی مدد سے پھر آزاد نہ ہو سکے.اس نئے دور میں آج تک ایک بھی قوم آپ کے سامنے ایسی نہیں آئے گی جس نے دنیا کی عظیم قوموں کی طرف مدد کے لئے ہاتھ بڑھایا ہواور پھر ان کی مدد سے آزاد ہو گئی ہو.ایسی قومیں مدد لینے کے لئے جاتی ہیں لیکن دن بدن سود کے شکنجوں میں جکڑی جاتی ہیں، قرض کے شکنجوں میں جکڑی جاتی ہیں.جو کارخانے ان کی مدد سے بنائے جاتے ہیں ان کے (Spare parts) فالتو پرزے مانگتے مانگتے ہی عمریں گزر جاتی ہیں اور ایک دن بھی ان کی قسمت میں ایسا نہیں آتا کہ وہ آزاد ہوں.ہر غریب ملک اور غریب قوم کی یہی تقدیر ہے جو آج چل رہی ہے.لوگ سمجھتے ہیں کہ اب ایسا سال چڑھے گا کہ ہماری پیاس بجھے گی اور ہماری قومی ضرورت پوری ہو گی لیکن وہ سال ان سے آگے آگے بھاگتا رہتا ہے.ایک ہی ہے دینے والا جس کی عطا کے ساتھ کوئی String نہیں کوئی قید نہیں ہوتی.وہ جب کسی کو کچھ عطا فرما تا ہے تو اس بات سے مستغنی ہو جاتا ہے کہ وہ اس کا شکر بھی ادا کرتا ہے یا نہیں اور بعض دفعہ ایسی حالتوں میں بھی عطا کرتا ہے کہ وہ جانتا ہے کہ انسان ناشکری کرے گا پھر بھی وہ اسے عطا کرتا ہے یہاں تک کہ وہ ان لوگوں کو بھی عطا کرتا ہے جو اس کی ہستی کا انکار کرتے ہیں.پس خدا تعالیٰ کی ذات بڑی عجیب ذات ہے، فرماتا ہے تمہیں ان دنیا والوں کی بجائے اس ذات کی طرف جانا اور اسے ہی مدد کے لئے پکارنا چاہئے جس کی یہ صفات ہیں اور جو لا متناہی خزانوں کا مالک ہے اور لازماً پکارنے والے کی پکار کو سنتا ہے.تم اس خدا کو چھوڑ کر ، دنیا کی طرف جا کر ، دنیا کی طرف دوڑ کر خود اپنی ہلاکت کے سامان پیدا کر رہے ہو.یہ دنیا تو ایک سراب ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 400 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء پھر اللہ تعالیٰ بڑے ہی پیارے رنگ میں ان لوگوں کی جزا بیان فرماتا ہے جو اس کی خاطر راتوں کو اٹھ اٹھ دعائیں کرتے ہیں.فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاء بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ فرماتا ہے کسی آنکھ نے وہ تسکین قلب نہیں دیکھی ، آنکھوں کی اس ٹھنڈک تک کوئی تصور پہنچ نہیں سکتا جو ہم ان بندوں کو عطا کرتے ہیں کیونکہ یہ ان کی خاطر چھپا کر رکھی گئی ہیں.اب دیکھیں اس میں فصاحت و بلاغت کا کیسا کامل مضمون ہے.اللہ تعالیٰ کا کیسا پیارا انداز ہے.پہلے یہ فرمایا تھا کہ یہ میرے بندے راتوں کو اٹھ اٹھ کر دنیا سے چھپ کر اور مخفی طور پر میری راہ میں آنسو بہا رہے ہوتے ہیں جب لوگوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ کیا ہورہا ہے یہ اس وقت راتوں کو اٹھتے ہیں اور میرے حضور حاضر ہو جاتے ہیں تو ان کی جزا بھی تو ملتی جلتی ہونی چاہئے.فرمایا جس طرح ان کے آنسو دنیا سے چھپتے ہیں میں ان پر نازل ہونے والی نعمتوں کو بھی دنیا کی نظر سے چھپا دیتا ہوں اور صرف ان پر کھولتا ہوں.میرے اور میرے ان بندوں کے درمیان پیار کا ایسا رشتہ قائم ہو جاتا ہے جس سے دنیا والے کلیتہ بے خبر رہتے ہیں کہ یہ کیا واقعہ ہو گیا ہے.غریب لوگ جو خدا کے دربار میں حاضر ہوتے ہیں متمول ہو کر واپس لوٹتے ہیں.وہ خالی دامن لے کر جاتے ہیں اور دنیا اور آخرت کے خزانے سمیٹ کر واپس آجاتے ہیں اور ان کے دل میں ایسا سرور پیدا ہوتا ہے کہ دنیا والے اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے.جیسے ان کے آنسو چھپے ہوئے تھے ویسے ہی خدا تعالیٰ اپنے پیار اور محبت کے اظہار میں ان کی لذتیں بھی دنیا والوں سے چھپا دیتا ہے اور طرز بیان یہ ہے کہ دنیا کی گندی آنکھیں اس قابل نہیں ہیں کہ ان کی لذتوں پر نظر ڈال سکیں.یہ خدا کے پاک بندے ہیں ، ان کی لذتیں بھی پاک ہیں اور دنیا تو اس بات کی بھی اہل نہیں ہے کہ یہ معلوم کرے کہ ان کو کیا عطا ہوا ہے.و مِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ فرماتا ہے ان بندوں کی طرف سے خدا کی راہ میں جو خرچ کیا جاتا ہے لازماً یہی وہ رزق ہے جو پاک رزق ہے جس میں دنیا کی کوئی ملونی نہیں اور آپ غور سے دیکھیں تو اس سے زیادہ انسان کی آزادی کا تصور ممکن نہیں ہے جو ان آیات میں پیش کیا گیا ہے.فرمایا جوشخص ساری دنیا کی طمع سے آزاد ہو جائے اور صرف ایک ذات کے ساتھ اپنی طمع کو منسوب کر دے تو وہی آزاد ہے جو اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی مرضی سے تابع کر دیتا ہے اور یہی غلامی ایک ایسی غلامی ہے جو ہزار ہا غلامیوں سے نجات بخشتی ہے.ایسا شخص اس بات پر انحصار نہیں کرتا کہ تیل کی دولت پر اس کا قبضہ ہوتا ہے یا نہیں،
خطبات طاہر جلد ۲ 401 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء وہ اس بات پر بھی انحصار نہیں کرتا کہ وہ سونے چاندی اور ہیرے جواہرات کی کانیں اس کے قبضہ میں آتی ہیں یا نہیں، اس بات سے مستغنی ہوتا ہے کہ امریکہ اس کا دوست ہے یا روس اس کا دوست ہے یا چین اس کا دوست ہے یا جاپان اس کا دوست ہے ایک ہی ذات ہے جس کے سامنے اس کا سر جھکتا ہے اور وہ اپنے رب کی غلامی اختیار کرتا ہے اور یہی غلامی اس کو ہر دوسری غلامی سے آزاد کر دیتی ہے.اور یہی حال اس کے خوفوں کا ہے.ہر خوف وخطر کی حالت میں اسے اپنے خدا کی مدد کا یقین ہوتا ہے اس لئے جب کبھی اس پر خوف کی حالت طاری ہوتی ہے اسے چین کی طرف نہیں دیکھنا پڑتا، خوف کی حالت میں اسے امریکہ پر بنا نہیں کرنی پڑتی ، خوف کی حالت میں وہ انگلستان کی دوستی پر انحصار نہیں کرتا.وہ یہ نہیں دیکھتا کہ روس کب اس کی مدد کے لئے آئے گا یا چین کب اپنی فوجیں بھیجے گا.وہ جانتا ہے کہ وہ رب کریم جس نے مجھے لا خوف ( البقرة :۱۱۳) کی ضمانت دی ہے، وہ ہر آن میرے قریب ہے اور پیشتر اس کے کہ دشمن مجھے کوئی گزند پہنچا سکے آسمان سے مدد کے لئے اس کی فوجیں اتریں گی اور ممکن نہیں ہے کہ دشمن پہل کر جائے اور خدا کا فضل دیر میں نازل ہو.جس قوم کی آزادی کی ایسی عظیم الشان ضمانت دی گئی ہو اس کو کیا فکر ہے.اس کے سوا کوئی قوم آزاد ہے ہی نہیں.حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں دو ہی قو میں ہیں.جس طرح جغرافیائی تقسیم ہوتی ہے اس طرح روحانی تقسیم میں بھی دو ہی قسم کی قومیں ہیں ایک غلام تو میں ہیں اور دوسری آزاد قوم ہے.غلام قوموں میں وہ ساری قو میں شامل ہیں جو خوف اور طمع کی حالت میں غیر اللہ کی طرف دیکھا کرتی ہیں ان میں سے کوئی بھی آزاد نہیں ہے.جو قو میں بظاہر آزاد نظر آتی ہیں اگر حقیقت میں ان کا جائزہ لیا جائے تو وہ بھی آزاد نہیں.مثلاً امریکہ کو آپ آزاد سمجھتے ہیں لیکن چونکہ ان کی طمع غیر اللہ کی طرف ہے، ساری قوم کسی نہ کسی غلامی میں بندھی ہوئی ہے.ہزار قسم کی حرص و ہوا اور گناہوں میں مبتلا ہیں اور کئی قسم کی قیود میں وہ جکڑے گئے ہیں.وہ اپنی اس تکلیف کو دن بدن زیادہ سے زیادہ محسوس کرتے چلے جاتے ہیں.بظا ہر کتنی بڑی آزاد قوم ہے لیکن در حقیقت تمام کی تمام قوم کسی نہ کسی عذاب، کسی نہ کسی مصیبت اور کسی نہ کسی بندھن میں گرفتار ہے.بظاہر بے خوف اور دنیا کی سب سے طاقتور قوم ہے لیکن اس کے باوجود اس ملک میں اتنا خوف ہے کہ خوفزدہ ہو کر پاگل ہونے والوں کی تعداد دنیا کے سب ملکوں سے زیادہ ہے.نہ اندرونی خوف ان کو چھوڑ رہا ہے اور نہ بیرونی خوف سے وہ آزاد ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 402 خطبہ جمعہ ۲۹؍ جولائی ۱۹۸۳ء پس ایک ہی قوم ہے جو آزاد ہے اور اے جماعت احمد یہ اوہ تم ہو اور تم ہو اور تم ہو کیونکہ تم وہ لوگ ہو جو ہمیشہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اپنے خدا کی طرف طمع سے دیکھتے ہو اور ہمیشہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر خدا کے حضور اپنے خوف کو امن میں بدلنے کے لئے روتے اور گریہ وزاری کرتے ہو.قرآن کریم ہمیں انہی دو قوموں کے متعلق بتاتا ہے اور یہی دو قومیں ہیں جو ہمیشہ قیامت تک برسر پیکار رہیں گی.حقیقی آزاد قو میں وہی ہیں جو پرانی اصطلاح میں آزاد قو میں ہیں جو خدا کے حضور گردن جھکاتی ہیں اور ہر دوسرے سے ان کی گردن آزاد کی جاتی ہے جو خدا کی طرف طمع سے دیکھتی ہیں اور خدا کے سوا ہر دوسری حرص سے ان کا دل پاک اور آزاد کر دیا جاتا ہے اور جماعت احمدیہ میں ان کی اجتماعی شکل نظر آتی ہے اس کے سواد نیا میں ہر قوم کسی نہ کسی شکل میں دنیا کی غلام نظر آئے گی.یہ عجیب ظلم ہے اور تمسخر کی حد ہے کہ اس قوم کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ اس کو انگریزوں نے قائم کیا تھا یا فلاں نے اس کو کھڑا کیا یا فلاں کا خود کاشتہ پودا ہے.جس کا خود کاشتہ پودا ہو حرص کی حالت میں تو اس کی طرف دیکھا جاتا ہے ، خوف سے بچنے کے لئے اس کو پکارا جاتا ہے مگر کوئی آئے تو سہی کبھی ربوہ کی گلیوں میں اور راتوں کو پھر کر تو دیکھے کہ رونے والے اور گریہ وزاری کرنے والے کس کو پکار رہے ہوتے ہیں.کیا کسی احمدی کی زبان پر خدائے حی و قیوم کے سوا بھی کوئی نام جاری ہوتا ہے؟ کیا خدا کے سوا بھی کسی درگاہ پر آنسو بہانے والا ملتا ہے؟ پس آج دنیا میں ایک ہی آزاد قوم ہے اور وہ خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ جماعت احمد یہ ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو بڑے ہی پیارے رنگ میں یوں بیان فرمایا ہے : چھو کے دامن تیرا ہر دام سے ملتی ہے نجات لا جرم در پہ ترے سر کو جھکا یا ہم نے دلبرا! مجھ کو قسم ہے تیری یکتائی کی آپ کو تیری محبت میں بھلا یا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه: ۲۲۵) روزنامه الفضل ربوه ۱۱ را گست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 403 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: نیکی اور بدی کا ازلی مقابلہ اور ہماری ذمہ داریاں ( خطبه جمعه فرموده ۵ اگست ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں : وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفَي النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ الَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّكِرِينَ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ فَلَوْلَا كَانَ مِنَ الْقُرُونِ مِنْ قَبْلِكُمْ أُولُوا بَقِيَّةٍ يَنْهَوْنَ عَنِ الْفَسَادِ فِي الْأَرْضِ إِلَّا قَلِيْلًا مِمَّنْ أَنْجَيْنَا مِنْهُمْ ۚ وَاتَّبَعَ الَّذِينَ ظَلَمُوْا مَا أُتْرِفُوا فِيهِ وَكَانُوا مُجْرِمِينَ (هود: ۱۱۵ ۱۱۷) عبادت الہی کے مختلف مقاصد ہیں اور مختلف فوائد انسان کو پہنچتے ہیں.تعلق باللہ اس کا ایک پہلو اور تعلق بالعباد دوسرا پہلو ہے.نماز تعلق بالعباد میں سب سے بڑا فائدہ یہ دیتی ہے کہ معاشرہ میں خوبیاں پیدا کرتی اور برائیاں دور کرتی چلی جاتی ہے اور معاشرہ روز بروز پہلے سے بڑھ کر دلکش ،
خطبات طاہر جلد ۲ 404 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء خوبصورت اور دلربا ہوتا چلا جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ اس مقصد کے پیش نظر بھی بڑی ذمہ داری سے نماز ادا کرو اس امید پر کہ تمہاری عبادتوں کے نتیجہ میں بالآخر تمہارا معاشرہ نہایت حسین اور جنت نما بن جائے.فرماتا ہے نماز کو دن کے دونوں کناروں پر کھڑا کر و.جس طرح حفاظت کے لئے فوجیں مقرر کی جاتی ہیں اس طرح کا نقشہ کھینچا ہے کہ نمازوں سے اپنے دن گھیر لو اور راتوں کو بھی اٹھواور خدا کی عبادت کرو.کیوں؟ اس لئے کہ اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ نیکیوں میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ بدیوں کو دور کر دیتی ہیں.نماز کے نتیجہ میں تعلق باللہ اور اخروی فائدہ کے علاوہ اس دنیا میں بھی انسان کو جو نمایاں فائدہ پہنچتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں اور اس کے معاشرہ میں حسن پیدا ہونے لگ جاتا ہے اور بدیاں دور ہونی شروع ہو جاتی ہیں اور یہ ائل اور ازلی ابدی قانون قدرت ہے اس میں آپ کبھی کوئی تبدیلی نہیں دیکھیں گے کہ حسنات سے برائیاں دور ہوتی ہیں.قرآن کریم کا یہ طرز کلام دنیا کے عام تصور سے بالکل مختلف ہے یہ نتیجہ کہ حسنات برائیوں کو دور کرتی ہیں عام انسانی فہم نے جو نتیجے اخذ کئے ہیں یہ اس کے بالکل برعکس ہے.کو تاہ نظر انسان عام طور پر غلطی سے یہ سمجھتے ہیں کہ بدیاں زیادہ طاقتور اور نیکیاں کمزور ہوتی ہیں.کہتے ہیں کہ بدی اس میں راہ پاگئی اور جوں جوں بدی داخل ہونا شروع ہوئی اس نے نیکی کو دھکیل کر باہر کرنا شروع کیا.قرآن کریم حیرت انگیز عقل و دانش کی ایک ایسی کتاب ہے کہ جو انسانی فطرت کی غلطیوں کی اصلاح کے ساتھ اس کے اخذ کئے ہوئے نتیجوں کی درستی کرتی ہے اور پھر اسکی صحیح راہنمائی بھی فرماتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حسنات طاقتور ہیں اور بدیاں کمزور ہیں.وہ تو میں جن میں تم بدیاں دیکھتے ہو دراصل ان میں پہلے خوبیاں اور حسنات غائب ہونا شروع ہوئیں.چونکہ خلا نہیں ہوسکتا اس لئے حسنات کے نہ ہونے کے نتیجہ میں لازماً بدیاں اس کی جگہ پہنچ جاتی ہیں.انسانی فطرت خلا میں نہیں رہ سکتی.انسانی مزاج بغیر کسی چیز کے زندہ نہیں رہ سکتا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب نیکیاں موجود رہتی ہیں وہ حفاظت کرتی ہیں اور بدیوں کو اندر داخل نہیں ہونے دیتیں.بدیاں تو ایک منفی پہلو ہے جیسے روشنی کے مقابلے پر اندھیرا ہے.اگر روشنی نہیں ہوگی تو اندھیرے نے تو آنا ہی ہے.روحانی دنیا کی یہ سائنٹفک کتاب حیرت انگیز طور پر ایسی ایسی اصطلاحیں استعمال فرماتی ہے اور ایسے ایسے مضامین پر روشنی ڈالتی ہے کہ انسانی عقل وہاں تک پہنچ ہی نہیں سکتی.قرآنی نقطہ نگاہ کا علم ہو
خطبات طاہر جلد ۲ 405 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء جانے کے بعد جب آپ تدبر اور غور کریں تو آپ قرآنی بیانات کو حیرت انگیز طور پر سچا پائیں گے.پس یہ بنیادی بات ہے کہ نیکی ایک مثبت پہلو ہے اور بدی نیکی کے فقدان کا نام ہے.جوں جوں نیکی کم ہوگی بدی زیادہ ہونی شروع ہو جائے گی.یہ ناممکن ہے کہ نیکی موجود ہو اور پھر بدی اندر داخل ہو جائے.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اگر معاشرہ کی اصلاح چاہتے ہو تو نیکیوں میں سے سب سے اعلیٰ نیکی اختیار کرو، عبادات قائم کرو اور عبادات سے اپنے اوقات کو گھیر لو اور کوئی گنجائش بھی باقی نہ چھوڑ و جہاں عبادت کا پہرہ نہ لگا ہو.عبادتیں جو حسن عطا کریں گی وہ تمہاری برائیوں کے دور کرنے کا ذمہ دار ہو جائے گا.یہ اس کلام کا خلاصہ ہے جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کر سنایا ہے.اگر آپ مزید غور کریں تو دو قسم کے نمازی نظر آئیں گے.ایک وہ جو نماز پڑھتے ہیں لیکن ان کے معاشرہ کی بدیاں دور نہیں ہو رہی ہوتیں اور دوسرے وہ جو جتنا خدا کے قریب ہوتے ہیں اتنا ہی ان میں پاک تبدیلیاں ہونے لگتی ہیں، ان کی کایا پلٹ جاتی ہے، ان کے مزاج کی کیفیت ہی بدل جاتی ہے یہاں تک کہ ان میں قوت جذب پیدا ہو جاتی ہے.ان کے قرب سے آپ لذت محسوس کرتے ہیں، ان کی صحبت میں آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں اور ان سے کسی قسم کے شر کا کوئی خطرہ نہیں ہوتا.ہاں یہ امید رہتی ہے کہ کوئی نہ کوئی خیر کی بات ان سے پہنچے گی.یہی وہ عابد ہیں جو حقیقی اور سچی عبادت کرتے ہیں اور جس کا ثبوت وہ ظاہری علامتیں ہیں جو اس دنیا میں ہی ان میں پیدا ہو جاتی ہیں.ورنہ عبادت کے باوجود اگر برائیاں موجودر ہیں تو لا ز ما وہ عبادتیں جھوٹی ہیں اور ان میں کوئی رخنہ اور کمزوری پیدا ہوگئی ہے کیونکہ قرآن کریم واضح طور پر اعلان کر رہا ہے کہ عبادت حسنات میں سے ایک اعلیٰ درجہ کی حسنہ ہے اور عبادت کے ہوتے ہوئے لازماً تمہاری برائیاں کم ہونی شروع ہو جانی چاہئیں ، جیسے کسی برتن میں تیل ہو اور اس میں پانی ڈال دیا جائے تو وہ تیل کو دھکیلنا شروع کر دیتا ہے کیونکہ وہ زیادہ وزنی ہے اور اگر آپ برتن مکمل طور پر پانی سے بھر دیں تو پورا تیل باہر نکل جائے گا.پس نیکیوں میں ایک وزن ہے اور باقی رہنے کی صلاحیت ہے،ان کے ہوتے ہوئے برائیوں کے مقدر میں لازماً فرار ہے.چنانچہ اسی لئے قرآن کریم مختلف پہلوؤں سے اس حقیقت کو کھولنے کے لئے مختلف طریق اختیار فرماتا ہے.خدا تعالیٰ فرماتا ہے: وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا (بنی اسرائیل ۸۱)
خطبات طاہر جلد ۲ 406 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء حق اور حسنہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں.فرماتا ہے کہ دیکھو ق آیا ہے اور باطل بھاگ گیا ہے کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کبھی حق آئے اور پھر بھاگ جائے یہ ناممکن ہے کیونکہ فرمایا إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا باطل کی فطرت میں حق کے مقابل پر بھاگنا ہے، اس کی ساخت ہی ایسی ہے کہ لازماً اسے حق کے مقابل پر بھا گناہی بھا گنا ہے جس طرح روشنی کے مقابل پر اندھیرے کے لیے فرار کے سوا اور کچھ ممکن نہیں قرآن کریم حسنہ اور حق کی جو تعریف بیان فرماتا ہے وہ نہایت ہی اعلیٰ درجہ کی ایک مثبت تعریف ہے چنانچہ دوسری جگہ فرماتا ہے: فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاءَ ۚ وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ كَذَلِكَ يَضْرِبُ اللهُ الْأَمْثَالَ (الرعد : ۱۸) بدیاں اور بے معنی باتیں تو جھاگ کی طرح ہوا کرتی ہیں ان میں کوئی وزن نہیں ہوتا اور نہ ہی یہ باقی رہنے والی چیزیں ہیں.وَأَمَّا مَا يَنْفَعُ النَّاسَ وہ صفات حسنہ جو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لیے پیدا کی گئی ہیں ان میں باقی رہنے کی صلاحیت موجود ہے.فَيَمْكُثُ فِي الْأَرْضِ وہ زمین میں باقی رہ جاتی ہے.قرآن مجید کے اس مضمون پر بعض سطحی نظر رکھنے والے یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ہم نے تو دنیا میں اس سے برعکس نظارہ دیکھا ہے.دنیا میں مختلف مذاہب آئے اور چلے گئے.ہر دفعہ جب وہ غالب آنے کے بعد پیچھے ہے اور وہ زمینیں جہاں ایک دفعہ غلبہ نصیب ہوا تھا ان سے جاتی رہیں تو بدیوں نے پھر وہیں راہ پالی اور گویا بد یوں کا دوبارہ راج شروع ہوگیا لہذاہر نیکی کی لہر عارضی طور پر آتی ہے اور پھر چلی جاتی ہے اور اس دنیا میں مستقل طور پر بدیاں ہی بسیرا کرتی ہیں اور ڈیرا ڈالتی ہیں.تاریخ انسانی کے سرسری مطالعہ کی بنا پر سطحی نظر کا انسان کہتا ہے کہ پھر اس صورت میں اِنَّ الْحَسَنتِ يُذْهِبْنَ الستات کا کیا مفہوم ہوا جبکہ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے اِنَّ السَّيَاتِ يُذْهِبْنَ الْحَسَنَتِ که بالآخر بدیوں نے ہی نیکیوں کو دھکیل کر باہر کیا ہے اور نیکیوں نے بدیوں کو نہیں دھکیلا.یہ مضمون دو طرح سے غلط ثابت ہوتا ہے اگر چہ سرسری نظر اور تاریخی مطالعہ میں تو بظاہر یہی حقیقت نظر آرہی ہے مگر قرآن کریم کا دعوی لازما سچا ہے اور عقل انسانی کے عین مطابق ہے.اس صورتحال کا مزید تجزیہ کیا جائے تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ قرآن کا دعویٰ ہی سچا ہے.ہمارے
خطبات طاہر جلد ۲ 407 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء مشاہدہ نے ہی غلطی کی تھی.سب سے پہلی بات ہمیں یہ نظر آتی ہے کہ نیکی نبوت کے آنے سے داخل ہوتی ہے اور بظاہر اتنی کمزور حالت میں کہ اگر بدی میں کچھ بھی وزن ہوتا تو ناممکن تھا کہ نیکی راہ پا جاتی یعنی غلبہ برقرار رکھنے کے تمام محرکات اور سامان بدی کے پاس ہوتے ہیں اور وہ معاشرہ کے انگ انگ میں رچ بس جاتی ہے جیسا کہ قرآن کریم نے نقشہ کھینچا: صلى الله ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم :٤٢) کہ دیکھو! حضرت محمد مصطفے ملے تو ایسے وقت تشریف لائے کہ گویا نیکی کے لیے پاؤں رکھنے کی بھی جگہ نہ تھی، خشکی میں نہ تری میں.بعض دفعہ ایک گندا تنا پھیل جاتا ہے کہ در حقیقت پاؤں رکھنے کی بھی گنجائش نہیں رہتی تو قرآن کریم یہ فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ علیہ اس وقت مبعوث ہوئے جبکہ نیکی کے لیے ایک چپہ کی بھی گنجائش نہیں تھی.ان حالات میں نیکی نے پھیلنا شروع کیا اور اس کی زمینیں بڑھنے لگیں اور بدی سمٹنے لگ گئی جبکہ وہ تمام ذرائع اور محرکات جو عرف عام غلبہ کے ذرائع کہلاتے ہیں اور جن کے نتیجہ میں تسلط ہو سکتا ہے وہ سارے نہ صرف بدی کو حاصل تھے بلکہ اس نے نیکی کو مکمل طور پر باہر نکال دیا تھا ، ایسی کمزور حالت میں نیکی کا نفوذ ہوا کہ اس کے پہنچنے کی بظاہر کوئی وجہ ب تھی اور یہ غلبہ کسی فوج ، گروہ یا کسی جبر کی تعلیم سے نہیں ہوا.الله اگر آپ ان واقعات اور شواہد کو جو حضرت محمد مصطفے ﷺ کے زمانہ میں بدی کی تائید صلى الله کر رہے تھے ایک کمپیوٹر میں ڈال دیں اور دوسری طرف حضرت محمد مصطفے ﷺ کا پیغام اور طرز عمل ، اور یہ بھی ساتھ لکھ دیں کہ یہ وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ ہر دلعزیز تھا مگر اس دعوئی کے بعد کہ میں نیکی کی تعلیم دوں گا اور نیکی کے زور سے بدی ختم کر دوں گا، قوم میں سب سے زیادہ مغضوب ہوگیا ، اس کے اپنے عزیزوں نے اسے چھوڑ دیا اور رشتہ داروں نے اس سے منہ موڑ لیا ، اس کے تمام ساتھی اور مداح ، سب پیچھے ہٹ گئے اور ساری دنیا میں بدی کامل طور پر غالب آگئی، کیا نتیجہ نکلنا چاہئے ؟ ہر بار کمپیوٹر یہ جواب دے گا کہ چونکہ نیکی شکست کھا چکی ہے اس لئے نیکی کے غالب آنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوسکتا لیکن اس کے برعکس کیا واقعہ ہوتا ہے.قرآن کریم فرماتا ہے کہ : أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِي الْأَرْضَ نَنْقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا أَفَهُمُ الْغُلِبُونَ (الاعباء : ۴۵ )
خطبات طاہر جلد ۲ 408 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء یہ بیوقوف جو اپنے غلبہ پر اترا ر ہے ہیں اور بلند بانگ دعاوی کر رہے ہیں کہ ہماری طاقت کے مقابل پر اس نیکی کی کمزور حالت پنپ کس طرح سکتی ہے؟ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ لوگ کیوں نہیں دیکھتے کہ ہم ان کی زمین تنگ کرتے چلے جارہے ہیں اور محمد مصطفے ﷺ کی زمین کو بڑھاتے چلے جارہے ہیں.دن بدن ان کی زمینوں کے کنارے کٹ کٹ کر محمد رسول اللہ ﷺ کی زمین میں داخل ہورہے ہیں.اَفَهُمُ الْغَلِبُونَ وہ کیسے غالب آجائیں گے جن کی زمینیں تنگ ہو رہی ہیں.پس نیکی اس وقت داخل ہوتی ہے جبکہ سارے Odds یعنی انگریزی محاورہ کے مطابق تمام وہ محرکات جو مقابلہ میں فیصلہ کن ہوا کرتے ہیں وہ بدی کے حق میں ہوتے ہیں.قرآنی بیان کے مطابق ایک ہی چیز ہے جو نیکی کے حق میں ہوتی ہے اور وہ یہ اٹل اور ازلی ابدی قانون ہے کہ اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّيَّاتِ کہ نیکیاں ایک مثبت طاقت ہیں منفی اثرات نہیں اور جب یہ مثبت طاقتیں داخل ہونا شروع ہوتی ہیں تو منفی طاقتیں لازماً وہاں سے ہٹنے لگ جاتی ہیں.پھر جب وہ قومیں جو اپنی مثبت طاقتوں کی حفاظت نہیں کرتیں وہ پہلے نیکیوں کو چھوڑ نا شروع کرتی ہیں بعد میں بدیاں ان میں راہ پا جاتی ہیں.جب تک نیکیاں موجود ہوں بدی کی مجال نہیں کہ وہ راہ پا جائیں.ایک تو یہ نقطہ نگاہ ہے جب آپ اس کا تجزیہ کریں تو وہ فلسفیانہ خیال باطل نظر آتا ہے کہ ہمیشہ بدی غالب آئی نیکی غالب نہیں آئی.دوسرا یہ کہ جب آپ تاریخ انسانی کا مطالعہ ایک گراف کی شکل میں کریں اس صورت میں کہ ہر تہذیب کے بعد اگلی تہذیب جب آئی تو اس کا کیا مقام تھا ، اس کے بعد اگلی تہذیب آئی تو اس کا کیا مقام تھا؟ یہ دیکھ کر آپ حیران رہ جائیں گے کہ بظا ہر نیکیاں شکست کھا کر چلی گئیں ہیں لیکن اس کے باوجود ہر منزل پر کچھ باقی رہنے والی ایسی صلاحیتیں چھوڑ گئیں ہیں جنھوں نے انسان کے اخلاقی معیار کو بلند تر کیا ہے نیچے نہیں گرایا.پتھر کے زمانہ کا انسان یا وہ جس نے بعد میں اس دنیا میں رہنا سہنا سیکھا اس وقت اس کی بہیمانہ حالتیں اتنی خطر ناک تھیں کہ اس زمانہ کے مذہبی اور تہذیبی تصورات آج کل کے مقابل پر بہت زیادہ بہیمانہ ہیں.جب نبیوں نے انہیں تہذیب سکھائی تو نبیوں کے بعد رفتہ رفتہ وہ پھر بدیوں کی طرف مائل ہوئے لیکن پہلی حالت تک نہیں گرے.پھر آنے والی لہر انہیں پہلے سے بلند مقام پر چھوڑ گئی.چنانچہ آزادی اور انسانی حقوق کا جو آج تصور ہے اس کا عشر عشیر کیا اس کا ہزارواں حصہ بھی آج سے دو چار ہزار
خطبات طاہر جلد ۲ 409 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء سال پہلے موجود نہیں تھا.بدی کے باوجود انسان پر بدی ویسی قدرت اختیار نہیں کرسکی و یا قبضہ نہیں جاسکی جیسا اسے پہلے حاصل تھا کیونکہ کچھ نہ کچھ نیکیاں باقی رہ جاتی ہیں جو بدیوں کو اندر نہیں آنے دیتیں.چنانچہ ایک مرتبہ یونیورسٹی آف لندن میں ایک عیسائی نے مجھ پر اعتراض کیا کہ دیکھو! تم بڑے دعوے کرتے ہو کہ محمد رسول کریم ﷺ نے کا یا پلٹ دی اور یہ کر دیا اور وہ کر دیا جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ چند سال بعد وہ حال ہوا ہے اور تمہاری آپس میں وہ لڑائیاں ہوئی ہیں کہ ساری اخوت جاتی رہی، تہذیب و تمدن کی ساری باتیں ختم ہو گئیں اور قصہ بن گئیں جنہیں تم رسول اللہ ﷺ کے زمانہ میں اچھالتے ہو اور ہم پر اپنی برتری ثابت کرتے ہو.وہاں کے لوگ اعتراض تو کرتے ہیں لیکن سمج بحث نہیں ہوتے.اس سے میں نے کہا کہ تم نے صرف سطحی مطالعہ کیا ہے.تم مقابلہ کر رہے ہو حضرت محمد مصطفے ﷺ کے اپنے زمانہ کا آپ کے بعد زمانہ سے.میں نے کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ محمد رسول اللہ کے ہونے اور نہ ہونے میں کوئی فرق نظر نہ آئے.آپ کی اتنی عظیم الشان روحانی قوت تھی ، ایسا عظیم وجود تھا کہ گویا نیکیوں کا ایک عظیم الشان سورج طلوع ہو چکا تھا، اس وجود کے ہونے یا نہ ہونے میں کوئی فرق دکھائی نہ دے، یہ بات عقل کے خلاف ہے اور بیوقوفوں والا تصور ہے.پس آپ جو دعویٰ کر رہے ہیں اس کا حل یہ ہے کہ آپ رسول کریم ﷺ کے پہلے زمانے کا آپ کے بعد کے زمانہ سے مقابلہ کر کے دیکھیں.جس وقت حضرت محمد مصطفی علی نے عرب میں قدم رکھا تو عرب کی کیا حالت تھی ؟ اسے اٹھایا اور بڑی بلندیاں عطا کیں، جب چھوڑ کر گئے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ دوبارہ وہ اپنے مقام سے گر گئے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان کا معاشرہ اتنا نہیں گرا جتنا پہلے حالت تھی.بلکہ عرب کی پہلی حالت کے مقابل پر جب آپ دیکھتے ہیں تو وہ اوج ثریا پر قدم رکھتا ہوا دکھائی دیتا ہے.کہاں جاہل عرب اور کہاں امیہ کا دور، کہاں جاہل عرب اور کہاں عباسیوں کا دور، ہمیں وہ دور اس لئے دکھ دیتا ہے کہ ہم اسے حضرت محمد رسول کریم ﷺ کے زمانہ پر رکھ کر دیکھتے ہیں تو وہ دور داغ داغ نظر آتا ہے جس سے بڑی تکلیف پہنچتی ہے لیکن آنحضرت ﷺ نے جو کچھ عطا کیا وہ سب کچھ زائل نہیں ہوا، ہزاروں سال بھی اسے ضائع نہیں کر سکے.آج چودہ سو سال گزر چکے ہیں لیکن آج بھی مسلمانوں میں ایسی خوبیاں جاری ہیں کہ گرے پڑے بھی وہ باقی قوموں کے مقابل پر ان خوبیوں میں بہتر ہیں.آنحضرت علی عربوں میں بعض ایسی خوبیاں داخل کر گئے کہ آج وہ اسلام سے اگر چہ
خطبات طاہر جلد ۲ 410 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء بہت دور چلے گئے ہیں لیکن پھر بھی وہ خوبیاں ان کی حفاظت کر رہی ہیں اور بعض معاملات میں تو مسلمان دوسروں کے مقابل پر نمایاں نظر آتا ہے.مثال کے طور پر محمد رسول اللہ علیہ نے مسلمانوں سے ظلم کرنے کی طاقت چھین لی ہے.بعض اوقات ایک مسلمان بظا ہر ظلم کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے اسے ظلم تو نہیں کہا جا سکتا لیکن ہمیں وہ اس لئے ظلم نظر آتا ہے کہ آنحضرت علیہ نے انصاف کا معیار بہت بلند کر دیا ہے.کہاں ہندوؤں کا ظلم کہاں سکھوں کے مظالم اور کہاں ان قوموں کا حال جو ایک دوسرے پر ظلم کرتی ہیں اور کہاں وہ ظلم جسے ہم ظلم کہتے ہیں جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے بعض ماننے والے اپنے ساتھیوں پر یا جن سے وہ روٹھ چکے ہوں کرتے ہیں جو ہمیں تو ظلم نظر آتا ہے لیکن دنیا کی نظر میں اس کی کوئی حیثیت ہی نہیں.پس حضور اکرم ﷺ کا ہی احسان ہے کہ وہ حسنات جو آپ ﷺ نے پیدا کی تھیں وہ کلیہ غائب نہیں ہوئیں جتنی رہی ہیں اس حد تک ان میں بدی داخل نہیں ہو سکی اور نبوت کی ہر لہر جو دنیا میں آئی اس نے انسان کو پہلے سے بلند تر مقام پر چھوڑا ہے اور کچھ ایسی نیکیاں پیچھے چھوڑیں جن میں وزن تھا اور باقی رہنے والی تھیں اور بدیوں کو کبھی بھی ان پر یلغار کر کے پوری طرح مغلوب کرنے کی توفیق نہیں ملی.یہ ہے انسانی تہذیب کا ماحصل کہ ہر تاریخی دور اپنے سے بہتر دور چھوڑ کر گیا اور پھر ہر آئندہ آنے والا دور اپنے سے بہتر حالت چھوڑ کر گیا ہے.اس تمام تدریجی ترقی کا راز نبوت ہے.ہر دفعہ نبوت ہی کے ذریعہ انسان کی تعلیم و تربیت ہوئی ہے.پس آج بھی اِنَّ الْحَسَنَتِ يُذْهِبْنَ السَّیات کا مضمون جاری ہے، آج بھی احمدیوں کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو حسنات عطا ہوئیں اور جن کے نتیجہ میں ہماری بدیاں دور ہونی شروع ہوئیں یہ بھی نبوت ہی کی برکت ہے.ہم میں اور غیروں میں کیا فرق ہے؟ یہی تو فرق ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے فیض نبوت سے وابستہ ہو چکے ہیں جب کہ بہت سے لوگ اس کا انکار کر چکے ہیں.ہم اس دور میں داخل ہوئے ہیں جہاں حسنات بدیوں کو دور کرنا شروع کر دیتی ہیں.پس ان حسنات کے ساتھ بڑی قوت سے چھٹے رہیں اور تاریخ انسانی سے سبق حاصل کریں.جب بھی آپ میں مثبت نیکیاں کم ہونی شروع ہو جائیں گی لازماً آپ میں بدیاں داخل ہونا شروع ہو جائیں گی اور جب بدیاں داخل ہو جائیں تو محض یہ تعلیم کہ بدیاں چھوڑ دو یہ کسی کام نہیں آئے گی.کبھی کوئی کسی کے
خطبات طاہر جلد ۲ 411 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء کہنے سے بدیاں نہیں چھوڑا کرتا.ہاں اگر کوئی قوم نیکیاں اختیار کرے تو بدیاں خود بخود زائل ہونی شروع ہو جاتی ہیں.خدا تعالیٰ کے فضل سے اس وقت جماعت احمدیہ کا یہ معیار ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بہت بڑا احسان ہے کہ ایسے انسانوں کی ایک جماعت پیدا کر دی جو نیکی کی باتیں زیادہ سنتی ہے اور اس پر جلد عمل کرتی ہے اور برائیوں کے خلاف ان میں ایک طبعی اور فطری بغاوت پیدا ہو چکی ہے لہذا منافقوں اور مخالفین جماعت کو بہت کوشش اور جدوجہد سے احمدیوں میں برائیاں داخل کرنی پڑتی ہیں.دفاع کی طاقت از خود پیدا ہوگئی ہے اور یہ دفاع کی طاقت نیکیوں کا طبعی نتیجہ ہے.جب تک نیکیاں آپ میں رہیں گی دفاع کی طاقت بھی موجود رہے گی.جب نیکیاں ختم ہوں گی تو یہ دفاع کی طاقت بھی خود بخود ختم ہوتی چلی جائے گی.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ اللهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيْرُوْا مَا بِأَنْفُسِهِمْ (الرعد:۱۲) کہ یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ نہ تو بدیاں پیدا کرتا ہے اور نہ انہیں یہ اجازت دیتا ہے کہ وہ کسی قوم میں راہ پا جائیں لَا يُخَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ قوموں کو جو نعمتیں عطا ہوئی ہیں انہیں خدا تعالیٰ ہرگز تبدیل نہیں کیا کرتا یہاں تک کہ يُخَيَّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وہ خود تبدیل کر دیں اور جو انہیں حاصل ہوا ہے اسے چھوڑنا شروع کر دیں.پس یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے کہ آپ نیکی کی بات سنتے اور اس پر عمل کرنے لگ جاتے ہیں اس کی برعکس صورت جب پیدا ہوتی ہے تو قو میں ہلاک ہو جایا کرتی ہیں.جب قو میں تنزل کی حالت میں ہوتی ہیں تو صورت حال بالکل مختلف ہوتی ہے.وہ نیکی کی باتیں سنتے ہیں اور عمل نہیں کرتے ،بدی کی باتیں سنتے ہیں اور دوڑ دوڑ کر عمل کرتے ہیں.پس اپنا یہ امتیاز قائم رکھیں.گزشتہ چند خطبات میں جو تحریکات کی گئی ہیں اور عبادت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے اس سے متعلق مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے ان کا نمایاں اثر نظر آرہا ہے.لوگ بکثرت ربوہ کی مساجد میں آرہے ہیں اور بعض جگہ سے یہ اطلاع بھی ملی کہ مساجد بھر بھر کر چھلکنے لگ گئی ہیں.یہ ایک نہات ہی پیاری تصویر ہے کہ یہاں کی مسجد میں چھلک رہی ہوں.اللہ تعالیٰ اس خوبی کو جاری رکھے اور قائم و دائم رکھے کہ جماعت احمد یہ نیکی کی باتیں سنے اور اس پر عمل کرے لیکن وقتا فوقتا اپنی نیکی آزماتے
خطبات طاہر جلد ۲ 412 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء رہا کریں، کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا کریں کہ کہیں یہ سونے کی جگہ پیتل یا تانبا تو نہیں ہے.اس کی پہچان خدا تعالیٰ نے یہ بتائی ہے کہ اگر نیکی اور عبادت بچی ہے تو تمہاری دوسری برائیاں دور ہونی چاہئیں.محض نماز قائم کرنا یہ کافی نہیں جب تک اس کے ساتھ از خود تمہارے اندر دوسری برائیاں کم نہ ہونی شروع ہو جائیں.جب وہ کم ہوں گی تب خدا کہے گا کہ ہاں واقعی تم عبادت کرتے ہو ورنہ نہیں.ہمارے معاشرہ میں بعض چھوٹی چھوٹی باتیں موجود ہیں جن سے بعض احمدی بھی متاثر ہو چکے ہیں.ان میں سے دو چیزوں کی طرف میں آپ کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.عبادت میں ترقی کریں اور کوشش اور جد و جہد اور دعا کریں کہ اے اللہ تعالیٰ ! یہ برائیاں ہم سے دور فرمادے.ایک ان میں سے بیہودہ سرائی ، لغو کلام اور گالی گلوچ سے اپنی زبان گندا کرنا ہے.معاشرہ اتنا گندا ہو چکا ہے کہ بچے ماں باپ کو اور ماں باپ بچوں کو ماں بہن کی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور بات بات پر بددعائیں دیتے ہیں.اس قدر ظالمانہ معاشرہ ہے کہ زمیندار اپنے جانوروں کو جن پر اس کا گزارہ ہے موت کی دعائیں دیتا ہے اور وہ کمہار جس کا رزق گدھوں سے وابستہ ہے وہ ہر موڑ پر گدھے کو کہتا ہے کہ تو مر اور دفع ہو.جہاں ایسا گندا معاشرہ ہو چکا ہو وہاں جب تک آپ اپنے اندر بعض خوبیاں پیدا نہیں کریں گے یہ برائیاں آپ میں ضرور راہ پا جائیں گی.ذکر الہی زبان کو ناپا کی سے بچانے کے لئے متبادل خوبی ہے اس لئے ذکر سے اپنے منہ کو معطر رکھیں تو بدیاں ، گالی گلوچ بخش کلامی خود بخود دور ہونی شروع ہو جائے گی.محض آپ کسی کو کہیں کہ گالیاں نہ دو تو وہ اس بری عادت کو نہیں چھوڑے گا لہذا اسے ذکر الہی اور دور د شریف کی طرف توجہ دلائیں.اسے کہیں کہ اللہ تعالی زیادہ سے زیادہ یاد کرنے کی کوشش کیا کرو اور آنحضرت ﷺ پر درود بھیجا کرو اور سوچ سمجھ کر ایسا کیا کرو.جس شخص کو یہ عادت پڑنی شروع ہو جائے گی تو جس قدر یہ عادت راسخ ہوگی اسی قدر بخش کلامی کی عادت ختم ہوتی چلی جائے گی، کیونکہ زیادہ طاقت ور اور زیادہ مثبت قدر نے اس کی جگہ گھیر لی ہے.دوسرا امر گھروں میں بے وجہ جھگڑا کرنا ، میاں بیوی کا تیز کلام کرنا، ایک دوسرے کو طعنے دینا، خاوندوں کا یہ سمجھنا کہ ہم ایک لونڈی اٹھا لائے ہیں جو ہمارے ماں باپ کی بھی اسی طرح لونڈی ہے جس طرح ہماری ہے اور اس کی اپنی ذاتی کوئی حیثیت ہی نہیں اور نہ ہی اس کے کوئی احساسات
خطبات طاہر جلد ۲ 413 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء ہیں.اس کے ماں باپ کو گالی دے دی جائے تو یہ ہمارا حق ہے لیکن اگر وہ ہمارے ماں باپ کا احترام چھوڑ نا تو در کنار ذراسی بے اعتنائی بھی کرے تو ہمارا حق ہے کہ اسے جوتیاں ماریں، گالیاں دیں، اس کے ماں باپ کو کوسیں اور ذلیل و رسوا کر کے نکال دیں.معاشرہ کا یہ رجحان نہایت ہی ظالمانہ اور جہنم پیدا کرنے والا ہے اور یہ آپ کی تسکین کی جنتیں ختم کر دے گا.اس کے برعکس بعض عورتیں یہ بجھتی ہیں کہ ہمارا تو حق ہے کہ ہم بد کلامی کریں، شور ڈالیں، کسی کے ماں باپ کو گالیاں دیں مگر خاوند کا یہ حق نہیں کہ وہ برا منائے یا ہمارے ماں باپ کے متعلق کچھ کہے.پس اس صورت حال نے معاشرہ میں اتنے دکھ پیدا کئے ہوئے ہیں کہ جس گھر میں یہ واقعہ ہوتا ہے صرف وہیں تک محدود نہیں رہتا بلکہ رشتہ داریوں کے تعلقات کے نتیجہ میں اردگرد پھیلنا شروع ہوجاتا ہے اور ایسا معاشرہ جس کی تعریف حضرت محمد مصطفے ﷺ نے ایک مومن کے معاشرہ کے طور پر کی ہے اس میں تو یہ دکھ اس تیزی سے ہر جگہ سرایت کرتا ہے کہ ہر گھر کا دکھ دوسرے گھر کا دکھ بن جاتا الله ہے کیونکہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ مومنوں کی مثال تو ایک بدن کی سی ہے.جس طرح پاؤں کی انگلی کے کنارے پر بھی ایک کانٹا چبھے تو سارا بدن بے چین ہو جاتا ہے.(صحیح مسلم کتاب البر والصلوۃ باب تراحم المؤمنین وتعاطفهم ) اسی طرح اگر ایک احمدی گھرانے میں بھی دکھ پہنچے گا تو جس جس احمدی کو علم ہوتا چلا جائے گا وہ دکھ محسوس کرنا شروع کر دے گا.تو بجائے اس کے کہ آپ کا طرز عمل معاشرہ میں جنت پیدا کرنے والا ہو آپ جہنم کیوں پیدا کرتے ہیں؟.اس طرح آپ خود بھی دکھ اٹھاتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی دکھ کا سامان کرتے ہیں.میاں بیوی کا تعلق ایسا ہے کہ جب تک رہتے ہیں حسن اخلاق سے رہنا چاہئے.اگر حسن اخلاق سے نہیں رہ سکتے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ احسان کے ساتھ جدا ہو جاؤ لیکن جدائی میں بھی احسان کا پہلو مد نظر ر ہے اور کوئی تلخی نہ پائی جائے.یہ ہے اسلامی معاشرہ لیکن اس کے برعکس جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ماحول گندا ہو چکا ہے اور جماعت پر بھی ان باتوں کا بہت برا اثر ہے.اب سوال یہ ہے کہ اس بدی کو دور کرنے کے لئے کیا طریق اختیار کرنا چاہئے.قرآن کریم نے اس کا بہت ہی پاکیزہ حل بیان فرمایا ہے اور ایک مثبت طاقت آپ کو عطا کی ہے.قرآن کریم نے جہاں نکاح کا مضمون بیان کیا ہے وہاں فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد ۲ 414 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَلُونَ بِهِ وَالْأَرْحَامَ (النساء:۲) کہ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس کا واسطہ دے کر تم مانگتے ہو اور اپنے لئے خیر طلب کرتے ہو وَ الْأَرْحَامَ اور ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ رحموں کا حق ادا کرنا.اس میں انسان کو متوجہ کیا گیا ہے کہ اپنے ماں باپ کا حق تو تم ادا کرتے ہی ہو تنبیہ کا خاص پہلو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب دو رحموں کے رشتے آپس میں ہورہے ہوتے ہیں، جب ایک کے ماں باپ کا تعلق اپنی بیٹی یا بیٹے کے ذریعہ دوسرے کے ماں باپ سے ہو رہا ہوتا ہے اور بیچ میں ایک سنگم پیدا ہو جاتا ہے، ایک ایسا مقام آجاتا ہے جہاں میاں بیوی کے ماں باپ دونوں کے ماں باپ بن جاتے ہیں.تو فرمایا کہ اس بات کا خیال رہے کہ اب تمہارے ارحام کے تعلقات وسیع ہورہے ہیں.اگر تمہیں ہم سے تعلق اور پیار ہے، اگر تم چاہتے ہو کہ ہم تم سے رحمت کا سلوک کریں تو ان رحمی رشتوں کا خیال رکھنا اور کوشش کرنا کہ جس طرح اپنے ماں باپ سے پیار کرتے ہو اور خدمت کرتے ہو دوسرے کے ساتھ بھی کرو.یہ ایک ایسا مثبت نظریہ ہے کہ اگر دونوں میاں بیوی یہ کوشش کریں کہ اپنے ماں باپ سے بڑھ کر نہیں تو کم از کم اپنے ماں باپ کی طرح ہی ایک دوسرے کے ماں باپ کا خیال رکھیں تو اس طرح دونوں میں ایثار پیدا ہو جائے گا دونوں میں ایک دوسرے سے زیادہ محبت پیدا ہو جائے گی اور بعض اوقات جو زیادتیاں ہو جاتی ہیں وہ بالکل پلٹ جائیں گی ، جہنم کی بجائے جنت بن جائے گی لیکن اگر آپ عبادت تو کرتے رہیں مگران باتوں کا خیال نہ کریں اور معاشرہ میں گالی گلوچ ہو تو اس کے نتیجہ میں بدخلقی زیادہ ہو جائے گی لیکن اگر ذکر الہی کی عادت ہو تو آپ کو ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا لحاظ کرنے کی زیادہ تو فیق ملے گی.پس یہ دونوں خوبیاں ایسی ہیں جن سے ایک دوسرے کو تقویت ملتی ہے اس لئے آپ ذکر الہی پر بہت زور دیں، نماز، ذکر لہی اور درود شریف سے اپنی زبان اور اپنے دل کو تر رکھیں تو پھر جب کبھی آپ عادتاً مخش کلامی کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ کا نفس آپ کو جھنجھوڑے گا اور متوجہ کرے گا کہ بھئی تم کیسے انسان ہو کہ دودھ کے لئے وہی برتن اور پیشاب کے لئے بھی وہی.کھانے کے لئے بھی وہی اور گندگی کے لئے بھی وہی برتن استعمال کرتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی.ذکر الہی سے دل و جان معطر کرتے کرتے اس میں ایسا گند ڈال دیتے ہو.کیا اس منہ کو جس پر محمد رسول اللہ علیہ اور خدا تعالیٰ کا نام چل رہا ہو یہ گند زیب دیتا ہے؟ آپ کا نفس ہی آپ کو توجہ دلائے گا اور رفتہ رفتہ آپ
خطبات طاہر جلد ۲ 415 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء پاکیزگی کے ایک لامتناہی سفر کی طرف رواں دواں ہو جائیں گے اور جب آپ اللہ تعالیٰ کی خاطر ایثار کریں گے اور اس کی خاطر دوسرے کے ماں باپ کا خیال رکھیں گے تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ دوسرا فریق آپ کے والدین کا پہلے سے بڑھ کر خیال نہ کرے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم یہ بنیادی بات ہمیشہ اپنے اندر امتیازی شان کے ساتھ قائم رکھیں کہ جو نصیحت سنیں اس پر دلی شوق اور جذبہ سے عمل کرنا شروع کر دیں اور معاشرہ میں اس طرح کی ایک رو پیدا ہو جائے کہ کانوں میں چلو نیکی کریں، چلو نیکی کریں کی آواز پڑتے ہی نیکی میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی دوڑ شروع ہو جائے.اگر آپ اس روح کی حفاظت کرتے چلے جائیں تو انشاء اللہ تعالیٰ ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ اس دنیا کو جنت بنانے والے صرف اور صرف احمدی ہوں گے اور ہماری جنت کے ذریعہ ہی دنیا کی جہنمیں تبدیل ہوں گی، ہماری ہی وہ زمین ہوگی جو خدا تعالیٰ کے ارشاد کے مطابق پھیلتی چلی جائے گی.یہی وہ جنت ہے جو تمام دنیا پر غالب آنے کے لائق ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ ہی کو توفیق ملے گی کہ وہ اس جنت کو دنیا میں غالب کر دے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج ایک انتہائی دردناک واقعہ ہوا ہے جس سے دل بہت ہی مشتعل ہے.یوں معلوم ہوتا ہے کہ دل میں ایک گہرا زخم لگا ہے کیونکہ آج سلسلہ کا بہت ہی پیارا خادم اچانک ایک حادثہ میں ہم سے جدا ہو گیا.یعنی مولا نا عبدالمالک خان صاحب جو ایک تبلیغی جہاد پر روانہ ہوئے تھے شیخو پورہ کے قریب ایک حادثہ میں شدید زخمی ہوئے اور جب تک ایک ہسپتال کی بدانتظامی سے تنگ آکر دوسرے ہسپتال میں منتقل کیا گیا اس دوران آپ وفات پاگئے.اس واقعہ کی اطلاع ابھی جمعہ کے لئے آنے سے پہلے لاہور سے فون پر ملی.انا للہ وانا اليه راجعون.ہمارا دل بے حد مغموم ہے کیونکہ سلسلہ کا ایک نہایت ہی فدائی خادم جو ہندوستان کے چوٹی کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس نے اللہ تعالیٰ کی عزت کو قبول کیا اور دنیا کی عزت کو دھتکار دیا.وہ ایسے خاندان سے تعلق رکھتا تھا جس کے آباؤ اجداد کی سارے ہندوستان میں عزت کی جاتی تھی اور کی جاتی ہے لیکن ان کے والد صاحب نے ان ساری عزتوں کو تج کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا دامن پکڑا اور اللہ کی دی ہوئی عزت کو ہی عزت کی نگاہ سے دیکھا.
خطبات طاہر جلد ۲ 416 خطبه جمعه ۵ را گست ۱۹۸۳ء آپ نے ایک امیرانہ زندگی چھوڑ کر ایک فقیرانہ زندگی اختیار کی اور اپنے والد صاحب کے نقش قدم پر چل کر انہی صفات سے مزین ہوئے.ساری اولادوں میں سے آپ کو یہ امتیازی مقام حاصل ہوا کہ نہ صرف وقف کیا بلکہ وقف کے تقاضوں کو خوب نبھاہا.گرمی اور سردی میں ،صحت کی کمزوری میں ، خدمت دین کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیا.چنانچہ آپ پرسوں مجھ سے ملے اور اجازت لی کہ میں فلاں سفر پر جا رہا ہوں اسکے بعد فلاں جگہ ضرورت ہے وہاں جاؤں گا ، پھر فلاں جگہ جاؤں گا.میں نے کہا مولوی صاحب آپ کی صحت بہت کمزور ہوگئی ہے پاؤں پر زخم اور شوگر کی تکلیف ہے، عمر کا بھی یہی تقاضا ہے کہ آپ اتنا بوجھ نہ لیں.مولوی صاحب نے فرمایا کہ حضور ! بوجھ کیسا میں تو بہت خوش ہوتا ہوں اور میرا دل ان باتوں سے کھل اٹھتا ہے اس لئے مجھے اجازت دے دیں کہ میں دینی سفر پر رہا کروں.جتنا زیادہ میں سفر کرتا ہوں اتنا ہی میری طبیعت ہشاش بشاش ہوتی چلی جاتی ہے.اللہ تعالیٰ نے آپ کے اس جذبہ کو قبول فرمایا اور اسی سفر کی حالت میں آپ کو اپنے پاس بلالیا.غم کتنا بھی ہو ہم تب بھی اپنے اللہ کی رضا سے راضی ہیں.آنکھوں سے آنسو گر نا تو انسانی فطرت کا تقاضا ہے.حضرت محمد مصطف علی نے ہمیں نرم دل بنادیا اور انسانیت سکھائی لیکن جزع فزع کی ہمیں اجازت نہیں ، نہ ہی وہ ہماری سرشت میں داخل ہے ، نہ مایوسی کا ہمیں سبق دیا گیا ، نہ مایوسی سے ہم آشنا ہیں.قومیں زندہ رہتی ہیں اور افراد گزرتے چلے جاتے ہیں اور زندہ قومیں قطعاً اس بات کی پرواہ نہیں کرتیں کہ کون آیا اور کون گیا.بحیثیت قوم ان کی زندگی کا سفر ہمیشہ آگے سے آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.جماعت احمدیہ بھی ایک زندہ قوم ہے جانے والوں کے جانے سے دیکھ تو ضرور پہنچتا ہے لیکن مایوسی پیدا نہیں ہوتی.مجھے امید ہے اور میں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر جانے والے مقابل پر سینکڑوں ہزاروں اس جیسے پیدا کر دیا کرے، ایک عبد المالک کو بلائے تو جماعت کو ہزاروں لاکھوں عبدالمالک عطا کر دیا کرے کیونکہ دنیا کو مخلصانہ خدمت کرنے والوں کی بے حد ضرورت ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ہمارا دامن خدمت کرنے والوں سے کبھی تہی نہ رکھے اور دن بدن واقفین کی جماعت کی رونق میں اضافہ ہی ہوتا چلا جائے ، روز بروز خدا کے فرشتے دلوں میں تحریک کریں کہ ایک کی جگہ خالی ہوئی ہے تم دس ہیں ، سو اور ہزاروں آگے بڑھو اور لبیک کہہ کر اپنے آپ کو پیش کرو کہ ہم اس جگہ کو پر کرنے کے لئے حاضر ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۸ اگست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 417 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: ڈاکٹر مظفر احمد صاحب آف امریکہ کی شہادت ( خطبه جمعه فرموده ۱۲ اگست ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیات تلاوت فرمائیں: يَا يُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصُّبِرِينَ.وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيْلِ اللَّهِ اَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَا ۚ وَلَكِنْ لَّا تَشْعُرُونَ وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْ مِنَ الْخَوْفِ وَالْجُوعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَاتِ ، وَبَشِّرِ الصَّبِرِينَ الَّذِينَ إِذَا أَصَابَتْهُمْ مُّصِيبَةٌ قَالُوا إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ أُولَيكَ عَلَيْهِمْ صَلَوتُ مِنْ رَّبِّهِمْ وَرَحْمَةٌ وَأُولَيكَ b هُمُ الْمُهْتَدُونَ (البقره: ۱۵۴ - ۱۵۸) آج میں جماعت کو ایک گہرے غم میں لپٹی ہوئی خوشی کی خبر سنانا چاہتا ہوں.بعض سننے والے یہ تعجب کریں گے کہ کیا ایسی بھی کوئی خوشی کی خبر ہوسکتی ہے جو گہرے غم میں لپیٹ کر پیش کی جائے تو ان کو میں یہ بتا تا ہوں کہ ہاں ایک خبر ایسی ہی ہے جو بڑی خوشی کی خبر ہے لیکن ہمیشہ غم میں لپیٹ کر پیش کی جاتی ہے اور وہ شہادت کی خبر ہے.شہادت میں یہ عجیب بات نظر آتی ہے کہ وہ بڑی عظیم
خطبات طاہر جلد ۲ 418 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء بشارت اور خوشی کی خبر ہونے کے باوجود ایک گہرا غم بھی پیدا کر دیتی ہے.جس شہادت کا میں ذکر کرنے لگا ہوں وہ ایک تاریخی نوعیت کی شہادت ہے اس لئے کہ امریکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک مخلص احمدی نوجوان کو پہلی مرتبہ شہادت کا رتبہ عطا فرمایا ہے اور امریکہ کی سرزمین نے جو شہادت کا خون چکھا ہے وہ امریکہ کے لحاظ سے تاریخ احمدیت کا پہلا واقعہ ہے اور یہ شہادت ایک عظیم نوعیت کی شہادت ہے.ہمارے ایک نہایت ہی مخلص اور فدائی نوجوان ڈاکٹر مظفر احمد جو ڈیٹرائٹ میں رہتے تھے اور اپنے اخلاص اور دینی کاموں میں پیش روی کے نتیجہ میں انہیں قائد علاقہ امریکہ مقررکیا گیا تھا اور پھر وہ جماعت ہائے امریکہ کے نیشنل سیکرٹری بھی رہے اور شہادت کے وقت اسی عہدہ پر فائز تھے.ان کو دعوت الی اللہ کا بہت شوق تھا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے.یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ اللہ تعالیٰ انہیں اسلام کی تبلیغ کا موقع عطا فرمائے اور وہ اس سے مستفید نہ ہوں.چنانچہ آج سے تین روز قبل بلیک امریکنز میں سے ایک بد قسمت شخص ان کے گھر آیا اور تبلیغ کے بہانے سے ان سے کچھ دیر گفتگو کی.اس سے قبل بھی وہ اس وسیلہ سے آچکا تھا اور ان کی مہمان نوازی سے بھی فیض یاب ہو چکا تھا.چنانچہ انہوں نے یہ سمجھ کر کہ یہ واقعہ اپنی دلچسپی میں مخلص ہے ان کو پھر گفتگو کا موقع دیا.جب وہ اسے گھر کے باہر تک چھوڑنے کے لئے جارہے تھے اور چھوڑ کر پلٹے ہیں تو اس نے فائر کر کے ان کو وہیں شہید کر دیا.اسی رات دواور واقعات بھی ہوئے جس سے یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ واقعات ایک بڑی گہری سازش کے نتیجہ میں رونما ہوئے ہیں.ایک واقعہ تو یہ کہ ہمارے دوست لیق بٹ صاحب جو پہلے وہاں کی مقامی جماعت کے صدر تھے، اب بھی شاید ہوں ، ان کے گھر پر بھی حملہ کیا گیا لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ محفوظ رہے اور پھر اسی رات جماعت احمد یہ کے مشن ہاؤس کو بم سے اڑا دیا گیا.اس مشن ہاؤس کے متعلق صبح کے وقت جو پہلی خبر مجھے پہنچی اس میں تشویش کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ دولاشیں وہاں سے دستیاب ہوئیں.فوری طور پر تحقیق کی گئی تو جلد ہی یہ تسلی ہوگئی کہ کسی احمدی کی لاش نہیں اور امریکہ کی جماعت میں کسی احمدی کے لا پتہ ہونے کا علم نہیں ہو سکا.لیکن بعد میں جب پولیس نے تحقیق کی تو اس واقعہ میں ایک عظیم الشان نشان نظر آیا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک حیرت انگیز تائیدی معجزہ ظاہر ہوا.ثابت یہ ہوا کہ وہی قاتل جو مظفر احمد کو شہید کر کے وہاں سے الگ ہوا اس کا ایک ساتھی بھی تھا اور یہ دونوں لیق بٹ صاحب کے مکان پر حملہ آور
خطبات طاہر جلد ۲ 419 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء ہوئے اور وہاں سے یہ دونوں مسجد کو بم سے اڑانے کے نیت سے مسجد تک پہنچے لیکن اسی ہم سے دونوں خود بھی ہلاک ہو گئے.امریکہ میں یہ واقعہ ایک بہت ہی بڑی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ جن لوگوں کو امریکہ کے حالات کا علم ہو وہ جانتے ہیں کہ وہاں اگر اس قسم کا قاتل ہاتھ سے نکل جائے تو اس کا کچھ بھی پتہ نہیں لگتا.بعض تنظیمیں ذمہ داری قبول کر لیتی ہیں اور پھر یہ معاملہ اسی طرح الجھے کا الجھا رہ جاتا ہے اور خصوصا ایک کمزور اور نہتی اور معصوم جماعت جس کا ملک میں کوئی بڑا رسوخ نہ ہو اس کی خاطر تو کوئی بھی جد و جہد نہیں کرسکتا.پولیس کی تحقیق کے مطابق بلیک مسلم آرگنا ئزیشن اس جرم کی ذمہ دار ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کو اسلام کے نام پر بعض غیر ممالک ایسی غلط اور مکر وہ تعلیمات دیتے ہیں اور ان کے دل میں کچھ ایسا یقین جاگزیں کر دیتے ہیں کہ غیر مسلم کا قتل عام تمہیں غازی اور شہید بنادے گا اور بغیر کسی وجہ کے غیر مسلم کا قتل تمہارے لئے جنت کی ضمانت ہے.یہ لوگ اس سے پہلے بھی کئی قسم کے بھیانک جرم کر چکے ہیں اور بڑے لمبے عرصہ تک تلاش کے باوجود اور کروڑوں روپیہ خرچ کرنے کے باوجود یہ پکڑے نہیں جاسکے.چنانچہ دو تین سال پہلے کی بات ہے سان فرانسسکو میں اسی قسم کے بھیانک قتلوں کی واردات کا ایک سلسلہ شروع ہوا.عموماً نو جوان جوڑوں کو اچانک ظالمانہ طور پر قتل کر کے پھینک دیا جا تا تھا اور ان کے اس طرح قتل کے پیچھے کوئی ایسا محرک نظر نہیں آتا تھا جس کے ذریعہ پولیس قاتلوں تک پہنچ سکے.چنانچہ ایسے چوبیں قتل ہوئے سارے امریکہ میں خوف و ہراس کی ایک لہر دوڑ گئی.یہ بہت ہی بھیانک جرائم تھے ایک ہی شہر میں یکے بعد دیگرے چو ہیں قتل ہو جانا کوئی معمولی بات نہیں.امریکہ کی تمام Investigation Agencies نے بہت زور مارا لیکن یہ لوگ نہیں پکڑے گئے.بالآخر کسی اور جرم میں ایک شخص اتفاقاً پکڑا گیا.اس سے جب تفتیش آگے بڑھی تو پتہ لگا کہ یہ وہی گروہ ہے جو لوگوں کو قتل کیا کرتا تھا.ان سے کچھ ایسا لٹریچر بھی دستیاب ہوا اور کچھ انہوں نے خود بتا بھی دیا کہ ہمیں جو اسلام سکھایا گیا ہے اس میں یہی بتایا گیا ہے کہ ہر غیر مسلم کو قتل کر دو، جتنے زیادہ قتل کرو گے اتنے زیادہ ثواب کے مستحق ٹھہرو گے.پس وہاں بیچاری ایسی ہی کئی تنظیمیں ہیں جن کو اسلام کے ساتھ اس طرح متعارف کرایا جا رہا ہے.وہ معصوم لوگ ہیں ان کا اتنا قصور نہیں جتنا ان.
خطبات طاہر جلد ۲ 420 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء رہے لوگوں کا ہے جو ان کو برہ راست یہ تعلیم دیتے ہیں اور ان کے سامنے اسلام کی یہ تصویر کھینچ ر.ہیں اور یہ معصومیت کے ساتھ ان کے قابو آ جاتے ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جو پیشہ ور مجرم ہیں.ان کو پیسے دیئے جاتے ہیں کہ یہ جرم کرو.چنانچہ جب یہ معاملہ پکڑا گیا اور پکڑا بھی اس طرح گیا کہ مرنے والوں میں سے ایک کی جیب سے ایک کارڈ صحیح سلامت نکل آیا اور اس کارڈ پر پولیس نے تحقیق شروع کی.اب اس میں ایک اور معجزانہ تائید کا پہلو یہ بھی ہے کہ وہاں امریکہ میں قاتلوں کو پھانسی نہیں دی جاتی.قاتل پکڑے بھی جائیں تو ان کو موت کی سزا نہیں دی جاتی.اس وجہ سے وہ اور بھی زیادہ دلیر ہو جاتے ہیں اور جہاں آرگنائزڈ کرائم Organized Crime ہوں وہاں شہادت پر بڑا دباؤ ڈالا جاتا ہے اور پھر جیلوں کو توڑ کر بھی قاتلوں کو رہا کر والیا جاتا ہے.پس ایک احمدی معصوم کا قاتل بالکل صاف ہاتھ سے نکل کر بچ جاتا لیکن خدا کی تقدیر نے اسکو ایک قدم بھاگنے نہیں دیا اور اسی بم سے وہ دونوں ہلاک ہو گئے جس ہم سے وہ مسجد کو اڑانے کے لئے آئے تھے.پولیس نے جب مزید تحقیق کی تو بعض بڑے ہی تکلیف دہ اور قابل افسوس اور قابل شرم پہلو سامنے آئے ہیں.چنانچہ پولیس کی رپورٹ یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کو ایک بدقسمت ملک کے مولویوں نے اپنے خرچ پر بلوایا اور وہاں ان کو اس بات کی تربیت دی کہ احمدی انتہائی قابل نفرت چیز ہیں ان کا قتل سب سے عظیم انعام تمہیں عطا کرتا ہے اور پھر دنیا میں پیسوں کا لالچ دیا اور عقبی میں جنت کا.چنانچہ اس طرح تیار کر کے ان کو بھجوایا گیا.پس یہ دونوں کوئی اتفاقی جوش میں آنے والے لوگ نہیں تھے بلکہ ایک گہری سازش کے نتیجہ میں تیار کئے ہوئے دو مجاہدین تھے چونکہ عین وقت پر یہ کیس پکڑا گیا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے توقع ہے کہ مجرموں کا یہ سلسلے کا سلسلہ ننگا کر دیا جائے گا.بہر حال جو بھی واقعہ ہوا ہے اس سے اگر کچھ لوگوں کے دماغ میں یہ خیال ہے کہ احمدی ڈر جائے گا یا اس کے نتیجہ میں تبلیغ سے باز آجائے گا تو یہ ان کا بڑا ہی احمقانہ خیال ہے.احمدی تو ڈرنے کی خاطر پیدا ہی نہیں کیا گیا، احمدی کے دل اور اس کے حوصلے سے ایسے لوگ واقف ہی نہیں ہیں.احمدی تو یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام اور سپاہی ہیں لوگوں کی نگاہیں ہماری شان سے ناواقف ہیں، ان کو علم نہیں کہ ہم کون لوگ ہیں.ہم یہ جانتے ہیں کہ قدم قدم پر اللہ کی نصرت ہمارے ساتھ ہے اس لئے اس بات کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ ڈیٹرائٹ امریکہ یا دنیا
خطبات طاہر جلد ۲ 421 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء کے کسی گوشہ میں اس قسم کی ظالمانہ حرکتوں کے نتیجہ میں احمدی تبلیغ سے باز آجائے گا.وہ تو بہر حال دعوت الی اللہ دے گا اور دیتا چلا جائے گا اور ایک سے سو اور سو سے ہزار اور ہزار سے لاکھوں داعی الی اللہ پیدا ہوتے چلے جائیں گے اس لئے کسی خوف اور خطرہ کا ہرگز مقام نہیں ہے.شہادتیں تو دعوت الی اللہ کا کام کرنے والی قوموں کے مقدر میں ہوتی ہیں اور یہ شہادتیں انعام کے طور پر مقدر ہوتی ہیں سزا کے طور پر مقدر نہیں ہوا کرتیں اس لئے میں ان لوگوں کو جو اس صدمہ سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں یعنی ڈیٹرائٹ کے لوگوں کو مخاطب کر کے کہتا ہوں کہ اے ڈیٹرائٹ اور امریکہ کے دوسرے شہروں میں بسنے والے احمد یو! اور اے مشرق و مغرب میں آبا د اسلام کے جاں نارو! اس عارضی غم سے فحل نہیں ہونا کہ یہ ان گنت خوشیوں کا پیش خیمہ بننے والا ہے.اس شہید کو مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہے اور اس راستہ سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹو جس پر چلتے ہوئے وہ مرد صادق بہت آگے بڑھ گیا.تمہارے قدم نہ ڈگمگائیں تمہارے ارادے متزلزل نہ ہوں.دیکھو! تم نے خوب سوچ سمجھ کر اور کامل معرفت اور یقین کے ساتھ اپنے لئے راستی کی وہ راہ اختیار کی ہے جس پر صالحیت کی منزل کے بعد ایک شہادت کی منزل بھی آتی ہے اسے خوف و ہراس کی منزل نہ بناؤ، یہ تو ایک اعلیٰ وارفع انعام کی منزل ہے جس پر پہنچنے کے لئے لاکھوں ترستے ہوئے مر گئے اور لاکھوں ترستے رہیں گے.خالد بن ولید کا وقت یاد کرو جب بستر مرگ پر روتے روتے اس کی ہچکی بندھ گئی اور ایک عیادت کرنے والے نے تعجب سے پوچھا کہ اے اللہ کی تلوار! تو جو میدان جہاد کی ان کڑی اور مہیب منزلوں میں بھی بے خوف اور بے نیام رہا جہاں بڑے بڑے دلاوروں کے پتے پانی ہوتے تھے آج تو موت سے اتنا خوفزدہ کیوں ہے؟ تجھے یہ بزدلی زیب نہیں دیتی.خالد نے اسے جواب دیا کہ نہیں نہیں خالد بن ولید موت سے خائف نہیں ہے بلکہ اس غم سے نڈھال ہے کہ راہ خدا میں شہادت کی سعادت نہ پاسکا.( الاصابہ فی تمییز الصحابہ ذکر خالد بن ولید جلد اول صفحه ۴۱۵ نمبر ۱ ۲۲۰ - اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰ ذکر خالد بن ولید نمبر ۱۳۹۹) دیکھو یہ وہی خالد تھا جو ہر میدان جہاد میں یہ تمنا لے کر گیا کہ کاش میں بھی ان خوش نصیبوں میں داخل ہو جاؤں جو اللہ کی راہ میں شہید کئے جاتے ہیں، یہ تمنا لئے ہوئے وہ ہر خطرہ کے بھنور میں کود پڑا ، ہر اس گھمبیر مقام پر پہنچا جہاں سرتن سے جدا کئے جا رہے تھے اور گردنیں کائی جا رہی تھیں اور سینے برمائے جارہے تھے اور اعضائے بدن کے ٹکڑے کئے جارہے تھے لیکن ہرایسے
خطبات طاہر جلد ۲ 422 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء مقام سے وہ غازی بن کر لوٹا اور شہادت کا جام نہ پی سکا.پس بستر مرگ پر اس سوال کرنے والے کو خالد نے اپنے بدن کے وہ داغ دکھائے جو میدان جہاد میں کھائے جانے والے زخموں نے پیچھے چھوڑ ے تھے.اپنے بدن سے کپڑا اٹھایا اور اپنا پیٹ دکھایا اور اپنی چھاتی دکھائی اور اپنے باز و ننگے کئے اور کندھوں کے جوڑ تک اپنے داغ داغ بدن کا ماجرا اس کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور کہا کہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو اور یہ دیکھو اور اسے دیکھنے والے مجھے بتاؤ کہ کیا ایک انچ بھی ایسی جگہ تمہیں دکھائی دیتی ہے جہاں اللہ کی راہ میں خالد نے زخم نہ کھائے ہوں لیکن وائے حسرت اور وائے حسرت کہ خالد شہید نہ ہو سکا.یہ غم جو آج مجھے کھائے جا رہا ہے ان زخموں کے دکھ سے کہیں زیادہ جاں سوز ہے جو شوق شہادت میں میں نے کھائے تھے.پس اے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے دروازے سے راہ سلوک میں داخل ہونے والو! تمہاری زندگی کے سفر میں لازماً صالحیت سے بالا تر مقام بھی آئیں گے.خوب یاد رکھو! کہ یہ خوف و ہراس اور نقصان و زیاں کا راستہ نہیں بلکہ لامتناہی انعامات کا ایک پہاڑی راستہ ہے جس کے انعام کی ہر منزل پہلی سے بلند تر ہے.پس خوشی اور مسرت اور عزم اور یقین کے ساتھ آگے بڑھو.تبلیغ اسلام کی جو جوت میرے مولیٰ نے میرے دل میں جگائی ہے اور آج ہزار ہا احمدی سینوں میں یہ لو جل رہی ہے اس کو بجھنے نہیں دینا، اس کو بجھنے نہیں دینا، تمہیں خدائے واحد و یگانہ کی قسم اس کو بجھنے نہیں دینا.اس مقدس امانت کی حفاظت کرو.میں خدائے ذوالجلال والا کرام کے نام کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تم اس شمع نور کے امین بنے رہو گے تو خدا اسے کبھی بجھنے نہیں دے گا.یہ لو بلند تر ہوگی اور پھیلے گی اور سینہ بہ سینہ روشن ہوتی چلی جائے گی اور تمام روئے زمین کو گھیر لے گی اور تمام تاریکیوں کو اجالوں میں بدل دے گی.اے احمدیت کے بدخواہو! تمہارے نام بھی میرا ایک پیغام ہے.اے نگاہ بد سے اس لوکو دیکھنے والو سنو! کہ تم ہر گز سے بجھانے میں کامیاب نہیں ہو سکو گے.یہ ارفع چراغ وہ نہیں جو تمہاری سفلی پھونکوں سے بجھایا جا سکے.جبر کی کوئی طاقت اس نور کے شعلہ کو دبا نہیں سکتی.چشم بصیرت سے دیکھو کہ مظفر آج بھی زندہ ہے بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر زندگی پا گیا.پس اے مظفر ! تجھ پر سلام کہ تیرے عقب میں لاکھوں مظفر آگے بڑھ کر تیری جگہ لینے کے لئے بے قرار ہیں.اور اے مظفر کے
خطبات طاہر جلد ۲ 423 خطبه جمعه ۱۲ را گست ۱۹۸۳ء شعلہ حیات کو بجھانے والو! تم نے تو اسے ابدی زندگی کا جام پلا دیا.زندگی اس کے حصہ میں آئی اور موت تمہارے مقدر میں لکھ دی گئی.مذہبی آزادی کا قرآنی تصور تو ایک بہت پاک اور اعلیٰ اور ارفع اور وسیع تصور ہے اسے جبرو اکراہ کے مکروہ اور مجزوم تصور میں بدلنے والو اور اے مذہب کے پاک سر چشمہ سے پھوٹنے والی لا زوال محبت کو نفرت اور عناد میں تبدیل کرنے والو! اے ہر نور کو نار میں اور ہر رحمت کو زحمت میں بدلنے کے خواہاں بدقسمت لوگو! جو انسان کہلاتے ہو.یا درکھو کہ تمہاری ہر سفلی تدبیر خدائے برتر کی غالب تقدیر سے ٹکرا کر پارہ پارہ ہو جائے گی.تمہارے سب نا پاک ارادے خاک میں ملا دیئے جائیں گے اور رب اعلیٰ کے مقدر کی چٹان سے ٹکر اٹکرا کر اپنا سر ہی پھوڑو گے.تمہاری مخالفت کی ہر جھاگ اٹھاتی ہوئی لہر ساحل اسلام سے ٹکر ا کرنا کام لوٹے گی اور بکھر جائے گی اور اسے پیش قدمی کی اجازت نہیں ملے گی.اے اسلام کے مقابل پر اٹھنے والی ظاہری اور مخفی ، عیاں اور باطنی طاقتو ! سنو کہ تمہارے مقدر میں ناکامی اور پھر نا کامی اور پھر نا کامی کے سوا کچھ نہیں اور دیکھو کہ اسلام کے جاں نثار اور فدائی ہم وہ مردان حق ہیں جن کی سرشت میں ناکامی کا خمیر نہیں.اللہ تعالیٰ دکھائے گا ، وہ دن دور نہیں کہ ہر وہ لفظ جو آج میں نے آپ سے بیان کیا ہے سچا ثابت ہوگا کیونکہ یہ میرے منہ کی بات نہیں یہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کا ایسا اٹل فیصلہ ہے جو کبھی تبدیل نہیں ہوا اور کبھی تبدیل نہیں ہوگا.احمدیت نے کبھی نا کام نہیں ہونا، کسی منزل پر نا کام نہیں ہونا آگے سے آگے بڑھنا ہے.پس اے دوستو ! جو جماعت احمدیہ کی طرف منسوب ہوتے ہو تم اللہ کی راہ میں جتنی زیادہ شہادتیں پیش کرنے کی توفیق پاؤ گے اتنی ہی زیادہ کا میابیاں تمہارے مقدر میں لکھی جائیں گی.اللہ کرے کہ ایسا ہی ہوا اور جلد اسلام کی فتح کو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں.آمین.(روز نامه الفضل ربوه ۲۲ / اگست ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 425 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء دعا کرنے کا طریق اور حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا خطبه جمعه فرموده ۱۹ را گست ۱۹۸۳ بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل قرآنی آیات تلاوت کیں: كهيعص ف ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا إِذْ نَادَى رَبَّهُ نِدَاءً خَفِيَّان قَالَ رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّي وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَيْبًا وَ لَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيَّان وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَاعِى وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيَّان يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وَاجْعَلْهُ رَبِّ رَضِيَّان يُزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلِمٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا ن قَالَ رَبِّ أَتَى يَكُونُ لِي غُلَمٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّان قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ هُوَ عَلَى هَتِنُ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًان (مریم:۱۰۳)
خطبات طاہر جلد ۲ اور پھر فرمایا: 426 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء سائل اور مسئول کا آپس میں ایک تعلق ہوتا ہے اور اس تعلق کا اصول طے کرنا سائل کا کام نہیں بلکہ مسئول کا کام ہے.Beggars are never chooser مانگنے والوں کو تو کبھی بھی کوئی اختیار نہیں ہوا کرتا.نہ تو انہیں اس امر کا اختیار ہوتا ہے کہ وہ کیا مانگیں ، کیسے مانگیں اور کس ادا سے مانگیں.کیا مانگیں تو انہیں عطا ہوگا اور کیسے مانگیں تو عطا نہیں ہوگا.پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ جو وہ مانگیں انہیں لازماً دیا جائے ان امور کا فیصلہ تو مسئول کیا کرتا ہے.قرآن کریم نے جہاں یہ حکم دیا کہ اُدْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ (مؤن (1) کہ مجھ سے مانگا کرو تو میں تمہیں ضرور عطا کیا کروں گا وہاں ساتھ اصول بھی بتا دیئے اور یہ بھی فرما دیا کہ میں کس قسم کی باتیں پسند کرتا ہوں اور مجھے کون کون سی ادا ئیں اچھی لگتی ہیں اور میں نے گزشتہ مانگنے والے لوگوں کی اداؤں پر کس طرح پیار کی نظر ڈالی تھی.پس اگر تم بھی وہ راستے اختیار کرو تو تمہیں بھی عطا کیا جائے گا کیونکہ میں تو وہی خدا ہوں جس نے گزشتہ لوگوں کو بھی انعام سے نوازا.قرآن کریم کا یہ بہت عظیم الشان احسان ہے کہ اس نے ہمارے لئے سابقہ انبیاء اور بعض غیر انبیاء کی تمام وہ دعائیں محفوظ کر دیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند آئیں.ان کا ذکر قرآن کریم نے اس طرح فرمایا کہ جیسے بہت مدت سے ایک بڑی ہی پیاری چیز اپنے کسی عزیز کے لئے سنبھال رکھی ہو.جب بھی کسی دعا کرنے والے نے کسی خاص ادا سے دعا کی تو خدا تعالیٰ نے اسے مقصود کائنات حضرت محمد مصطفی ملے جن سے سب سے زیادہ پیار کا اظہار ہونا تھا کے لئے سمیٹ کر رکھ لیا جسے بعض مائیں اپنے بچوں سے پیار کرتی ہیں تو انہیں کوئی چھوٹی یا بڑی چیز ملے تو وہ اسے اپنے بچوں کے لئے سنبھال کر رکھ لیا کرتی ہیں.ہماری بڑی خالہ جان کو اپنے پوتوں یعنی سید عبداللہ شاہ صاحب کے بچوں سے بہت پیار تھا.جب یہ بچے پیدا ہوئے تو آپ بہت بڑی عمر کی تھیں.اگر چہ وہ ضرورت مند تو نہ تھیں لیکن ناممکن تھا کہ وہ کوئی اچھی چیز دیکھیں اور اسے اپنے بچوں کے لئے سمیٹ کر نہ رکھ لیں.بچوں کو حامی شامی کہتے تھے.آپ جب بھی ہمارے گھر تشریف لاتیں یا کہیں کسی دعوت پر جاتیں تو بچے انہیں چھیڑا کرتے تھے کہ خالہ جان حامی شامی کے لئے ضرور کچھ لے کر جائیں گی.پس جس طرح انسانوں کے حامی شامی ہوتے ہیں اسی طرح خدا کے حامی شامی ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ کو بھی اپنے بعض بندوں سے اتنا پیار ہوتا ہے کہ وہ ہر اچھی چیز ان کے لئے اٹھا کر رکھ
خطبات طاہر جلد ۲ 427 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء لیتا ہے.چنانچہ فِيهَا كُتُبُ قَيْمَةٌ ( الیہ : ۴) کا ایک یہ بھی مفہوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو کوئی ایسی چیز باقی نہیں رہنے دی جو پہلے گزری ہو، باقی رکھنے کے لائق ہو اور وہ محمد مصطفی ﷺ کو عطانہ فرما دی ہو.انہی میں انبیاء کی دعائیں بھی شامل ہیں.مثلاً حضرت زکریا نے ایک ایسی دعا کی جس پر اللہ تعالیٰ کو بہت ہی پیار آیا اور جب خدا تعالیٰ نے اس واقعہ کی خبر حضرت محمد مصطفی ﷺ کو دی تو اس دعا کے تمام مضبوط پوائنٹس points یعنی وہ پہلو جو اسے پسند آئے وہ بھی بیان فرمائے اور ان کی اندرونی کمزوریوں کا بھی نہایت لطیف رنگ میں ذکر فرما کر یہ مضمون ہر پہلو سے مکمل فرما دیا اور پھر آپ کے طفیل ، وسیلہ اور آپ کی برکت سے وہ دعائیں اور نعمتیں ہم تک بھی پہنچیں.ان میں سے ایک وہ دعا ہے جو حضرت زکریا نے کی اور جس کا ذکر میں نے ابھی آپ کے سامنے قرآن کریم سے تلاوت کر کے سنایا ہے.حضرت زکریا" کا مزاج اپنی لطافت کے لحاظ سے بہت ہی حیرت انگیز تھا اور انہیں مانگنے کی ادائیں بھی خوب آتی تھیں.جب آپ ان کی دعا غور سے پڑھیں تو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ لازما قبول ہوئی ہوگی ، ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی اسے رد کر دے.اگر کوئی لطیف مزاج کا مالک اور محبت کرنے والا ہو اس طرح اس سے مانگا جائے تو وہ رد نہیں کر سکتا لیکن اس کے لئے یہ ضروری ہے کہ اسی گہرائی سے مانگا جائے جس گہرائی کے ساتھ حضرت زکریا علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دعا مانگی.گہرائی کا کیسے پتہ چلے؟ آپ بھی یہ دعا مانگیں اور سمجھیں کہ ہم بھی بڑی گہرائی سے دعا کر رہے ہیں.در حقیقت دعا کرنے والے پر ایک کیفیت طاری ہوتی ہے وہ کیفیت جتنی عمیق ہوا تناہی زیادہ اچھی ادا ئیں اسے عطا ہوتی ہیں.پس حضرت ذکریا کے مزاج میں یہ باتیں پہلی ہی دفعہ آ جانا یہ بتاتا ہے کہ آپ کے جذبات میں بہت ہی گہرائی تھی ورنہ سطحی جذبات والا دعا کر رہا ہو تو اس کے تصور میں بھی یہ باتیں نہیں آسکتیں جو اس وقت حضرت زکریا کے تصور میں آئیں.آپ کہتے ہیں.رَبِّ إِنِّي وَهَنَ الْعَظْمُ مِنِّى اے اللہ میری تو ہڈیاں بھی کمزور ہوگئی ہیں یعنی ایسا بوڑھا ہو چکا ہوں کہ ہڈیوں کا گودا گھل گیا ہے اور ان میں کوئی طاقت ہی نہیں رہی.وَاشْتَعَلَ الرَّأْسُ شَیبا اور بال سفیدی سے بھڑک اٹھے ہیں، اتنا بوڑھا اور کمزور ہو گیا ہوں، یہ میری عاجزی اور بڑھاپے کی کیفیت ہے لیکن باوجود اس کے میرا حوصلہ اور تو کل یہ ہے کہ وَلَمْ أَكُنْ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِیامیں تجھ سے مراد پانے سے مایوس
خطبات طاہر جلد ۲ 428 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء نہیں ہوا اور میں اپنے آپ کو ایسا بد نصیب نہیں سمجھتا کہ تجھ سے مانگوں اور تو نہ دے.الغرض ہر ناممکن امر سے بات شروع کرتے ہیں اور پھر (مضمون بعد میں کھلے گا ) مانگ وہ رہے ہیں جو ان باتوں کے بعد بظاہر مل ہی نہیں سکتا.پھر اس مضمون کو ظاہر کر دیتے ہیں کہ میں کیا مانگنا چاہتا ہوں کہتے ہیں وَإِنِّي خِفْتُ الْمَوَالِيَ مِنْ وَرَاءِی کہ میں بڑھاپے کی عمر کو پہنچ گیا ہوں اور کمزوری بہت بڑھ گئی ہے اور مجھے ڈر یہ ہے کہ میرے بعد میرے شریک معاملات بگاڑ دیں گے اور جس نظام کے تحت میں نے اپنی قوم کی پرورش اور اس کی تربیت کی ہے اسے وہ تہس نہس کر دیں گے کیونکہ انہیں قوم سے وہ محبت ہی نہیں جو مجھے ہے اور انہیں تیرے دین کا ایسا خیال نہیں جیسا مجھے ہے.ان حالات میں مجھے بہت پریشانی ہے کہ اس پیغام کا جو میں نے اپنی قوم کو دیا تھا کیا بنے گا اور اس تربیت کا کیا ہوگا جو میں نے اپنی قوم کی کی تھی.بعد ازاں انہیں یہ خیال آتا ہے کہ صرف میری ہی کمزوری تو نہیں میرے فریق ثانی کی بھی تو کمزوری ہے.چنانچہ کہتے ہیں امْرَأَتِي عَاقِرًا کہ میں بڑھا کھوسٹ یعنی میں حد سے بڑھا ہوا بوڑھا ہوں اور میری بیوی بھی بانجھ ہے یعنی اولاد ہونے کا کوئی دور کا بھی امکان نظر نہیں آتا، پھر بھی میں عرض کرتا ہوں کہ فَهَبْ لِي مِنْ لَدُنْكَ وَلِيًّا کہ مجھے بیٹا عطا فر ما يَرِثُنِي وَيَرِثُ مِنْ آلِ يَعْقُوبَ وہ میرا بھی اور آل یعقوب کا بھی روحانی ورثہ پائے.ایسی اولا د نہ ہو جو بعض اوقات ورثہ پا کر ضائع کر دیتی ہے رَضِیا ہو.اے اللہ! اسے ایسا بنانا کہ وہ ہمیشہ تجھ سے راضی اور تو اس سے راضی رہے.خدا تعالیٰ نے جب یہ دعاسنی تو حضرت زکریا کو براہ راست خطاب فرمایا اور لفظوں کا کوئی فاصلہ درمیان میں نہیں ڈالا کہ اے محمد ! ہم نے جب یہ دعاسنی تو پھر ہمارا دل پسیجا اور ہم نے اس کی دعا قبول فرمالی بلکہ معا خدا تعالیٰ (جیسے نظام کو Take over کرلیا ) فرماتا ہے: يُزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلِم اے زکریا اس دعا کے بعد اسے رد کرنے کا کوئی سوال ہی نہیں رہتایزَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلِم ہم تجھے ایک غلام کی خوشخبری دیتے ہیں یعنی ایک ایسے بیٹے کی جو عمر پانے والا ہوگا، اسمه يَحْلِی اس کا نام بھی بیچی رکھتے ہیں ، لَم نَجْعَل لَّهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيَّا فِى تیری دعا بڑی انوکھی اور منفرد تھی ویسے ہی تیرا بیٹا بھی منفرد اور انوکھا نام پانے والا ہے، ہم نے اس
خطبات طاہر جلد ۲ سے پہلے کبھی کسی کو یہ نام نہیں دیا.429 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء اس کے بعد خدا تعالیٰ حضرت زکریا کی اندرونی کمزوری کا نہایت ہی لطیف رنگ میں ذکر فرماتا ہے کہ انسان کیسے ہی اخلاص سے دعائیں کرے پھر بھی اس میں کمزوری کا کوئی نہ کوئی پہلو باقی رہ جاتا ہے.ابھی حضرت زکریا یہ کہہ رہے تھے کہ اے خدا! میرا یقین اور تو کل دیکھ کہ ان سب باتوں کے باوجود میں مانگ رہا ہوں اور جب ہم نے عطا کر دیا تو کہنے لگے یہ کیسے ہوگا! اگر اتنا ہی یقین تھا تو پھر یہ سوال کیسے کر دیا ؟ حضرت زکریا نے فوراً کہا ربّ أَتَى يَكُونُ لِي غُلَمُ اے الله ! میرے ہاں کیسے بیٹا ہو سکتا ہے وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا میری بیوی بانجھ وَ قَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عتا اور میں بڑھاپے کی انتہا کو پہنچ چکا ہوں.یہ دونوں ایک ہی شخص کی باتیں ہیں.پہلی یہ کہ اگر چہ میرا یہ حال ہو گیا ہے لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں مایوس ہو جاؤں ، مجھے تیری ذات پر پورا تو کل، یقین اور عزم ہے کہ تو ضرور عطا فرمائے گا اور جب مرا دل گئی تو گھبرا گئے اور پھر اچانک وہ تو ہمات اور اندرونی شکوک شبہات جو انسان کو ہمیشہ مبتلا رکھتے ہیں جاگ اٹھے کہ اے خدا ! کیا واقعی اتنا بڑا کام ہو ہی جانا تھا.مانگ تو میں رہا تھا اب مل گیا ہے تو یقین نہیں آرہا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے قَالَ كَذَلِكَ قَالَ رَبُّكَ ہاں! تیرے رب نے یہی تو کہا ہے کیا تو سن نہیں رہا یہ تو اسی طرح ہوگا.ابھی تو کہہ رہا تھا کہ تیرے لئے سب کچھ آسان ہے هُوَ عَلَى عَلَى هَين ہاں واقعی مجھ پر یہ آسان ہے اور مزید ثبوت یہ ہے کہ وَقَدْ خَلَقْتُكَ مِنْ قَبْلُ وَلَمْ تَكُ شَيْئًا کہ میں نے تجھے اس حال میں پیدا کیا کہ تو کچھ تھا ہی نہیں.وہ مشکل کام تھا یا یہ ؟ گویا دلیل بھی ایسی دی جو انسانی دل اور عقل کو اس کی گہرائی تک مطمئن کرتی چلی جائے.پس یہ ایک ایسی دعا ہے جو خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں محفوظ فرمائی اور جب آنحضرت ﷺ کو اس سے مطلع فرمایا تو وہاں یہ نہیں فرمایا کہ وَاذْكُرُ رَحْمَتَ رَبِّ زَكَرِيَّا بلکہ یہ فرمایا کہ ذِكْرُ رَحْمَتِ رَبَّكَ عَبْدَهُ زَكَرِيَّا اے محمد ! پہلے وہ تیرا رب ہے جس نے حضرت ذکریا کو عطا فرمایا تھا وہ رب جو انہیں یہ سب کچھ دے سکتا ہے وہ سب سے زیادہ تجھ سے پیار کرنے والا ہے اس لئے تو یا تیری امت جب اس طرح دعائیں مانگیں گے تو کیسے ممکن ہے کہ وہ خدا تمہیں عطا نہ کرے.پس یہ آیات دعا کا عظیم الشان مضمون بیان کر رہی ہیں اور امت محمدیہ کو کتنا بڑا حوصلہ عطا
خطبات طاہر جلد ۲ 430 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء کرتی ہیں.اس قسم کی اور بھی بعض آیات میں نے منتخب کی ہیں کہ وقتاً فوقتاً آپ کے سامنے رکھتا رہوں تا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کا پیار بھرا مزاج سمجھ آئے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ سائل اور مسئول میں ایک تعلق ہوتا ہے.وہ تعلق کیسا ہونا چاہئے اسے مسئول طے کرے گا نہ کہ سائل.اگر سائل بد تمیزی سے دعا کرتا ہے تو مسئول اسے ماننے کا ہر گز پابند نہیں ہے.مسئول کا ایک اپنا مزاج ہے ، اس کی اپنی اندرونی سرشت ہے ، اسے تو وہی چابی لگے گی جو اس کے مزاج کے مطابق ہو، اسے کسی دوسرے تالے کی چابی تو نہیں لگ سکتی.پس اللہ تعالیٰ نے مختلف وقتوں کی دعائیں محفوظ کر کے مختلف حالات کے ساتھ انہیں منسلک کر دیا ہے یعنی یہ نہیں کہ ہمیشہ ایک ہی طریق رہے گا بلکہ قرآن کریم فرماتا ہے كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ ( الرحمن : ۳۰) تم نہ سمجھنا کہ اب ایک دعا کا طریق آگیا تو تمہاری سب دعائیں قبول ہو جائیں گی وہ تو شان بدلتا رہتا ہے.دیکھو! اس دنیا میں موسم اور حالات بدلتے رہتے ہیں اس کے علاوہ تمہارے مزاج اور صبح و شام کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اس لئے تمہیں اپنے رب قدیر سے متعلق پوری طرح واقفیت ہونی چاہیئے چنانچہ اس نے ہر موقعہ اور ہر حال کی دعا الگ الگ سکھائی ہوئی ہے.پس آج میں نے یہ دعا اس لئے بتائی ہے کہ میں آپ کو دعا کی ایک تحریک کرنا چاہتا ہوں اور یہ بتانا چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے بڑے پیار، محبت، یقین ، حوصلہ اور توکل کے ساتھ اس طرح دعائیں کریں کہ خدا تعالیٰ رحمت کے ساتھ آپ کی طرف مائل ہونے پر مجبور ہو جائے.خدا تعالیٰ کو مجبور تو نہیں کیا جا سکتا لیکن بعض اوقات محبت اور پیار میں ایسا کہہ دیا جاتا ہے.تو میں نہایت عجز ، محبت اور پیار سے کہتا ہوں کہ اس طرح دعائیں کریں کہ گویا اللہ تعالیٰ انہیں ماننے پر مجبور ہو جائے.مجبوری کا لفظ مختلف حالات میں مختلف معنی دیتا ہے مثلاً ایک شخص جو بے حد شفیق ہواس کے متعلق جب ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ مجبور ہو گیا تو یہ مراد نہیں ہوتی کہ آپ نے اسے مجبور کیا بلکہ اس کی اندرونی شفقت ہی اس کیفیت کی ہے کہ اس نے اسے مجبور کر دیا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: ۱۵۷) تو اس سے صاف پتہ چلا کہ رحمت کا ایک ایسا رشتہ ہے جس کے ذریعہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات تک پہنچا جا سکتا ہے.غلبہ مانگنا ہوتب بھی آپ رحمت کے ذریعہ پہنچ سکتے ہیں، علم حاصل کرنا ہو تب بھی رحمت کے ذریعہ پہنچ سکتے ہیں ،سفر میں برکت مانگنی ہو
خطبات طاہر جلد ۲ 431 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء تب بھی رحمت کے ذریعہ پہنچ سکتے ہیں، تبلیغ میں برکت مانگنی ہو تب بھی رحمت کے ذریعہ پہنچ سکتے ہیں کیونکہ اس کی رحمت ہر دوسری صفت پر وسیع اور حاوی ہے.اب میں جس دعا کی تحریک کرنے لگا ہوں وہ اس سفر کے متعلق ہے جو میں چند روز تک اختیار کرنے والا ہوں.اس سفر کے لئے خصوصیت سے دعائیں کریں آپ کو یہ معلوم کر کے خوشی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمد یہ مسلم مسجد کی بنیاد رکھی جانے والی ہے.یہ براعظم آج تک با قاعدہ احمد یہ مشن سے خالی تھا.اس سے قبل اور کوئی براعظم ایسا نہیں تھا جہاں جماعت احمدیہ کے ایک یا ایک سے زیادہ مشن قائم نہ ہو چکے ہوں ، صرف یہی باقی رہ گیا تھا انشاء اللہ تعالیٰ اس سال ہم یہ کہہ سکیں گے کہ جماعت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے دنیا کے تمام بر اعظموں میں مساجد اور مشن ہاؤس تعمیر کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے.آسٹریلیا بر اعظم بھی ہے اور ملک بھی، دونوں چیزیں یہاں اکٹھی ہوگئی ہیں لیکن میں براعظم کے نقطہ نگاہ سے بات کر رہا ہوں ورنہ ملک تو بے شمار ایسے ہیں جہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں قائم ہو چکیں ہیں اور جماعت یہاں بھی پہلے سے قائم ہے صرف مسجد اور مشن ہاؤس کی کمی تھی جو اب انشاء اللہ تعالیٰ پوری ہو جائے گی.یہ بہت ہی اہم ملک ہے کیونکہ مشرق اور مغرب کے درمیان یہ ایک قسم کا پل بنا ہوا ہے مشرق میں ہوتے ہوئے بھی یہ ایک مغربی ملک ہے.یہاں کے لوگوں کا مزاج باقی مغربی قوموں کے مقابل پر زیادہ حوصلہ افزا ہے اور مذہبی ٹالرنس Tolerance ( رواداری ) ان میں بہت زیادہ ہے.یہ ایک ایسا ملک ہے جہاں آپ کو کسی بھی نوعیت کے مذہبی فساد نظر نہیں آئیں گے کیونکہ ان سے متعلق یہ کہا گیا ہے کہ وہ ایک لمبے تجربہ کی بنا پر اختلاف رائے کا وسیع حوصلہ رکھتے ہیں.اس نقطۂ نگاہ سے جماعت احمدیہ کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت اچھا موقع ہے.اس کے علاوہ نجی آئی لینڈ جسے زمین کا کنارہ کہا جاتا ہے وہاں بھی انشاء اللہ تعالیٰ جانے کا پروگرام ہے.یہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جہاں سے ڈیٹ لائن Date line گزرتی ہے یعنی وہ فرضی جغرافیائی خط جس پر آپ کھڑے ہو کر جتنی دفعہ چاہیں ماضی یا مستقبل میں چلے جائیں.ایک قدم پر لی طرف رکھیں تو کل کی تاریخ اور ایک قدم ادھر رکھیں تو آج کی تاریخ آجائے گی.گویا یہ وہ
خطبات طاہر جلد ۲ 432 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء ملک ہے جہاں ماضی اور مستقبل کے افق مل رہے ہیں.اگر چہ خط تو سمندروں پر سے ہر جگہ گزررہا ہے لیکن ایک با قاعدہ آباد ملک نبی ہی ہے جہاں سے وہ خط گزرتا ہے، اس لئے اسے خاص اہمیت حاصل ہے اور اسی نقطۂ نگاہ سے اسے زمین کا کنارہ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ زمین تو گول ہے اس کا ویسے تو کوئی کنارا نہیں ہو سکتا.ہاں جہاں دن رات ملتے ہیں اور جہاں تاریخیں بدلتی ہیں اس پہلو سے ایک کنارہ ضرور آجاتا ہے.پس اس نقطۂ نگاہ سے اسے ہمارے علم کلام میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ الہام ہوا کہ میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا ( تذکرہ صفحہ: ۲۶۰) تو ظاہری معنوں میں بھی یہ ایک کنارہ ہے جہاں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو تبلیغ پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی اور اب میں بھی وہاں اسی نیت سے جا رہا ہوں کہ جماعت کو منظم کروں اور وہ ایک نئی روح اور نئے ولولے کے ساتھ بہت تیزی سے اس ملک میں روحانی لحاظ سے غالب آجائے.لہذا بہت کثرت سے دعاؤں کی ضرورت ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے گزشتہ سفر میں تجربہ کیا تھا ہماری ساری طاقت اور ہر کام کی بنادعا پر ہے.جتنی کثرت سے لوگ اللہ تعالیٰ سے نہایت عاجزی، گریہ وزاری، محبت اور پیار کی اداؤں سے مانگیں گے اتنا ہی وہ عطا کرتا چلا جائے گا اس کے ہاں کوئی کمی نہیں اس لئے احمدیوں کو ان دعاؤں میں لگ جانا چاہئے.ہر احمدی جو دعا کرے گا اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ ضرور فضل ظاہر فرمائے گا.جتنی زیادہ دعائیں ہوں گی اتنے ہی زیادہ وہ فضل فرمائے گا.اس کے علاوہ بھی بعض ملک ہیں جہاں اس سفر کے دوران کچھ عرصہ کے لئے قیام ہوگا.مثلاً ایک سنگا پور ہے وہاں انشاء اللہ تعالیٰ قیام کا خیال ہے اور پھر واپسی پر آخری قدم سیلون پر رکھ کر انشاء اللہ تعالیٰ کراچی واپس آنا ہے.پروگرام مختصر ہے زیادہ لمبا نہیں تقریباً سوامہینہ کا پروگرام ہوگا لیکن مصروفیات بہت زیادہ ہیں.ایسی جماعتیں مثلاً نجی اور آسٹریلیا والے روز روز یہ توقع نہیں رکھ سکتے کہ خلیفہ مسیح وہاں ان کے پاس پہنچے اس لئے انکار جحان اس موقعہ پر ویسا ہی ہوتا ہے جیسے سونے کے انڈے دینے والی بلخ کے متعلق ایک شخص کا رجحان تھا.اس نے کہا یہ تو روز ایک انڈا دیتی ہے اب اتفاق سے قابو آئی ہوئی ہے اسے ذبح کر کے سارے انڈے اکٹھے ہی کیوں نہ نکال لوں.تو ایسی جماعتیں جہاں بہت دیر سے
خطبات طاہر جلد ۲ 433 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء کوئی پہنچتا ہے طبعا اور فطرتا ان میں یہ رجحان ہوتا ہے کہ خوب کام لیا جائے.اللہ تعالیٰ فضل فرمائے کام سے تو میں بالکل نہیں ڈرتا لیکن جب غیروں میں بکثرت لیکچر ز ہوتے ہیں تو وہاں ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ میں اپنی ذات کے طور پر تو ان کے سامنے پیش نہیں ہورہا ہوتا بلکہ جماعت احمد یہ کے نمائندہ کے طور پر پیش ہو رہا ہوں گا.پس اللہ تعالیٰ سے بہت دعا کرنی چاہئے کہ وہ مجھے اس نمائندگی کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آج ہی مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ بیرونی جماعتوں کی طرف سے بعض علمی لیکچر ز رکھ دیئے گئے ہیں ان کی تیاری کا تو وقت کوئی نہیں.پرسوں یا ترسو انشاء اللہ روانگی ہے اس لئے طبعی بات ہے کہ ذہن میں کچھ فکرتو پیدا ہوتی ہے لیکن میرا گزشتہ تجربہ یہ ہے کہ اگر چہ پہلے بھی یہی حال تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے توفیق عطا فرما دی تھی اور جب وہ وقت گزر گئے تو اتنے آسان اور ہلکے پھلکے نظر آئے جیسے کوئی بوجھ ہی نہ تھا.یہ بوجھ تو آپ سب نے میرے ساتھ مل کر اٹھانا ہے میں نے اکیلے نہیں اٹھانا کیونکہ میں اپنی ذات کا نمائندہ نہیں بلکہ جماعت احمدیہ کا نمائندہ ہوں.پس بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہر پہلو سے اسے بابرکت بنائے اور اس کے ذریعہ اسلام کی عظیم الشان فتوحات کی بنیادیں رکھی جائیں.ایسے نئے دروازے کھلیں جن سے بڑی شان کے ساتھ نئی فتح کے علم بلند کرتی ہوئی جماعت احمد یہ نئے میدانوں میں نکل آئے اور نئی نئی قومیں فتح ہوں اور نئے نئے دل مسخر کئے جائیں اور اس حال میں خدا تعالیٰ اس سفر کو ختم کرنے کی توفیق عطا فرمائے کہ سفر ختم ہو رہا ہو اور اسلام کی عظیم الشان فتوحات کا آغاز ہورہا ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: جیسا کہ میں نے اہل ربوہ کو پہلے بھی نصیحت کی تھی کہ انہیں میرے سفر کے دوران نہایت ہی امن اور محبت سے رہنا چاہئے اور ویسے بھی آپ کا یہ فرض ہے کہ دن بدن اپنے جذبات پر زیادہ قابو پائیں اور آپ نفس امارہ پر سوار ہوں نہ کہ نفس امارہ آپ پر لیکن جب خلیفہ المسیح مرکز سے باہر ہو تو اسے بالخصوص یہ فکر اور پریشانی ہوتی ہے کہ پیچھے بعض نادان ایسی غلطیاں نہ کریں جن سے تکلیف کی خبر پہنچے اس لئے اگر آپ عام حالات میں غصہ اور اشتعال دباتے ہیں تو وہ بھی بڑا باعث ثواب ہے لیکن ان دنوں میں اگر آپ اپنے ذاتی جذبات کو جماعتی مفاد پر قربان کر دیں تو آپ کو خاص ثواب ہوگا.کوئی
خطبات طاہر جلد ۲ 434 خطبه جمعه ۱۹ را گست ۱۹۸۳ء زیادتی بھی کرے تو صبر اور حوصلہ سے برداشت کریں خواہ یہ زیادتی اندر سے ہو یا باہر سے، خواہ آپ پر افراد جماعت کی طرف سے ہو (نعوذ بالله من ذلک ) یا بیرونی احباب کی طرف سے، ہر صورت میں نہایت ہی اچھا نمونہ صبر اور حوصلہ کا دکھا ئیں اور خوب دعائیں کریں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ انتقام سے ٹھنڈک حاصل ہوتی ہے مگر حقیقت میں جو عفو سے ٹھنڈک اور تسکین حاصل ہوتی ہے اسے انتقام کی ٹھنڈک سے کوئی نسبت ہی نہیں.سچی دائمی اور تسکین بخش ٹھنڈک عفو سے ہی حاصل ہوتی ہے.انتقام کی ٹھنڈک جلی جلی سی ہے، اس میں کوئی لطف نہیں ہوتا جیسے آگ جلا دے تو جلنے کے بعد جو کچھ رہ جائے اسے بھی آپ ٹھنڈک کہہ سکتے ہیں لیکن کسی چیز کو جلانے سے روک دیا جائے تو اس سے جو تسکین بخش ٹھنڈ پہنچے وہی حقیقی تسکین ہے جو عفو سے حاصل ہوتی ہے اس لئے حتی المقدور عفو سے لطف اندوز ہوں اور انتقام کی جھوٹی تسکین کا تصور بھی دل سے مٹا ڈالیں.دوسرا انتظامی ڈھانچہ جو پیچھے ہو گا وہ میں بیان کر دیتا ہوں.صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب مستقل ناظر اعلیٰ ( مستقل ناظر تو کوئی بھی نہیں یعنی ان معنوں میں کہ اس کا ذاتی حق ہو لیکن جو چلے آرہے تھے ) وہ آجکل باہر ہیں ان کی عدم موجودگی میں مکرم صوفی غلام محمد صاحب ناظر اعلیٰ کے مکمل اختیارات کے ساتھ ، قائم مقام ناظر اعلیٰ ہیں.بعض اوقات قائم مقام کے اختیارات کم ہوتے ہیں لیکن ان کے بعینہ وہی اختیارات ہیں جو پورے یعنی Full Fledged ناظر اعلیٰ کے ہوا کرتے ہیں اور مرزا غلام احمد صاحب امیر مقامی ہوں گے انشاء اللہ تعالیٰ.دونوں اپنے اپنے روایتی اختیارات کے دائرہ میں رہیں گے.اگر مقامی طور پر کسی قسم کی کوئی مشکل ہو، کوئی مسئلہ ہو تو آپ مرزا غلام احمد صاحب کی طرف رجوع کریں.علاوہ ازیں مشاورتی کمیٹیاں بھی بنا دی گئی ہیں دونوں ان سے وقتاً فوقتاً استفادہ کرتے رہیں انشاء اللہ تعالیٰ.تو یہ وہ انتظامیہ تھی جس کا انتظام کیا جانا بھی ضروری تھا.مسجد مبارک میں نمازوں کے لئے مکرم صوفی غلام محمد صاحب پھر مولوی دوست محمد صاحب اور پھر حافظ مظفر احمد صاحب بالترتیب امام الصلوۃ ہوں گے.خطبہ جمعہ سے متعلق امیر مقامی کو یہ اختیار ہے کہ خواہ وہ مقررہ امام الصلوۃ میں سے یا ان کے علاوہ کسی اور کو مقرر کرے یا خود خطبہ دے.خطبہ دینا دراصل امیر کا حق ہے اس لئے وہ یہ حق خود استعمال کریں یا کسی کو تفویض کریں میدان کی صوابدید پر ہے.(روز نامه الفضل ربو ه۲۰ رستمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 435 خطبه جمعه ۲۶ را گست ۱۹۸۳ء اور پھر فرمایا: وسعتیں بڑھانے کی دعا کریں ( خطبه جمعه فرموده ۲۶ /اگست ۱۹۸۳ء بمقام مسجد احمد یہ مارٹن روڈ کراچی ) تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا وقفة رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وقفة وَارْحَمْنَا أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ وقفة (البقرة: ۲۸۷) قرآن کریم انذار اور تبشیر کے تانے بانے سے بنی ہوئی ایک عجیب و غریب صنعت ہے کہ اس کی کوئی نظیر دنیا میں نہیں ملتی.بعض اوقات یہ تانا بانا نمایاں طور پر نظر آتا رہتا ہے.اب تبشیر شروع ہوئی اور اب انذار کا دھا گا آگیا اور بعض اوقات یہ بنتی اتنی باریک ہو جاتی ہے کہ ظاہری نظر اس کا فرق نہیں کر سکتی اور بعض اوقات ایک ہی آیت میں انذار اور تبشیر دونوں اس طرح مل جاتے ہیں کہ گویا ایک دوسرے کے اندر جذب ہو جاتے ہیں اور کامل طور پر ان کا اتحاد نظر کو عجیب لگتا ہے.یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس بات کی مثال ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.
خطبات طاہر جلد ۲ 436 خطبه جمعه ۲۶ را گست ۱۹۸۳ء انسان جب ان عظیم ذمہ داریوں پر نگاہ ڈالتا ہے جو اس پر ڈالی جاتی ہیں تو خواہ وہ کسی منصب سے تعلق رکھتا ہو کسی حیثیت کا انسان ہو اگر وہ باشعور ہے اور اپنے حالات کا جائزہ لینے کی اہلیت رکھتا ہے اور بصیرت رکھتا ہے تو اس کا جواب ہمیشہ یہی ہوگا کہ میں ان ذمہ داریوں کا حق ادا کرنے کا اہل نہیں ہوں اور یہ ذمہ داریاں میری طاقت سے بڑھ کر ہیں.ایک زمیندار خواہ مزارع ہو یا مالک ہو وہ بھی نہ زمین کے تقاضے پورے کر سکتا ہے جو بحیثیت زمیندارا سے پورے کرنے چاہئیں.اور اگر وہ اہلیت رکھتا بھی ہو تو بہت سی چیزیں اس کے اختیار میں نہیں ہیں اور بے بس ہو جاتا ہے.ایک مزدور اپنی مزدوری کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا تعمیراتی کام کا ایک نگران تعمیر کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا، غرض یہ کہ اس سے بحث نہیں کہ کسی پر کتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی یا کتنی چھوٹی ، انسان ایک بے بس چیز ہے بے اختیار چیز ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہر ذمہ داری جوانسان پر ڈالی جاتی ہے وہ اسے طاقت سے بڑھ کر معلوم ہوتی ہے.دل میں خوف پیدا ہوتا ہے اور انسان سوچتا ہے کہ یہ ذمہ داری کیسے ادا کروں گا.دوسری طرف قرآن کریم کی اس آیت پر نظر پڑتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک عظیم الشان خوشخبری دی جارہی ہے لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا کہ اللہ تو کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا اور اس کی انسان کے پاتال تک نظر ہے.وہ اپنی ہر تخلیق کی کنہ تک واقف ہے، اپنی ہر تخلیق کی کمزوریوں سے بھی واقف ہے اور اس کے ان پہلوؤں سے بھی واقف ہے جو بطور خوبیاں ودیعت کی گئیں.ان دونوں پہلوؤں پر جس علیم وخبیر ہستی کی نظر ہوا گر وہ یہ کہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا اللہ کی نفس پر اس کی وسعت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا تو یہ ایک عظیم الشان خوشخبری ہے اور گویا یہ پیغام ہے کہ تمہیں بوجھ زیادہ نظر آرہے ہیں حقیقت میں زیادہ بوجھ نہیں تمہاری وسعت کے مطابق ہیں.یہاں ایک فرق کرنا ضروری ہے ورنہ احباب کے ذہن میں مضمون الجھ جائے گا.فرق یہ ہے کہ یہ نہیں فرمایا کہ انسان دوسرے انسان پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.یہ بھی نہیں فرمایا کہ انسان اپنے اوپر اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا کیونکہ یہ دونوں واقعات دنیا میں ہمیں روزانہ دکھائی دیتے ہیں.بسا اوقات انسان دوسرے انسانوں پر ان کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال دیتا ہے یہاں تک کہ وہ ان بوجھوں تلے ٹوٹ جاتے ہیں اور تب بھی کام کا حق ادا نہیں کر سکتے.بعض اوقات
خطبات طاہر جلد ۲ 437 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۳ء انسان اپنی جان پر اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈال لیتا ہے.یہاں اس عام انسانی کیفیت اور حالات کا ذکر نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے متعلق فرماتا ہے کہ میں کسی انسان پر یا کسی جان پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.وہ انسان جو دوسروں پر طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالنا نہیں چاہتے اور یہ ادعا کرتے ہیں کہ ہم طاقت کے مطابق بوجھ ڈالتے ہیں، وہ بھی دراصل اپنے ادعا میں خام ہوتے ہیں ، ان کے دعوی کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی کیونکہ جب تک کوئی یہ جائزہ لینے کا اہل نہ ہو کہ اس کی طاقت کیا ہے اس وقت تک وہ یہ دعویٰ کر ہی نہیں سکتا کہ میں طاقت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہوں یا طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.اشتراکیت کا ایک نعرہ ہے کہ ہر شخص کو اس کی ضرورت کے مطابق دو اور اس کی طاقت کے مطابق اس سے کام لو.یہ دونوں نعرے اسی پہلو سے کھو کھلے ہیں کہ ہرانسان کا مزاج ، اس کی اندرونی کیفیات، اس کا ماحول، اس کے ماں باپ کے مزاج کے اثرات، اس کی اپنی بعض کمزور یا بعض مضبوط پہلو یہ سارے مل کر اس کی ایک شخصیت کی تعمیر کرتے ہیں اور یہ جو شخصی تعمیر ہے یہ ضرورت کا فیصلہ کرتی ہے کہ اس کی ضرورت کیا ہے اور انسان کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی دوسرے انسان کی ضرورت کی تعیین کر سکے صرف خدا کے لئے ممکن ہے.اور اسی طرح جب کہتے ہیں کہ طاقت کے مطابق کام لو تو ہر ایک کی طاقت کا فیصلہ کرنا ہر ایک کے بس کی بات ہی نہیں ہے.مختلف مزاج کے لوگ ہیں ان کے مختلف حالات ہیں.بعض اندرونی کمزوریاں ہیں بعض دفعہ انسان کہتا ہے کہ مجھے بڑی سخت کمزوری ہو گئی ہے اور دوسرا آدمی کہتا ہے کہ بکواس کر رہا ہے جھوٹ بولتا ہے بہانے کر رہا ہے اس کو ہر گز کوئی کمزوری نہیں اس کے اوپر بوجھ ڈالنا چاہئے.اب ہوسکتا ہے کوئی اسے ظالم سمجھے لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اسکی وسعت میں ہی نہیں ہے کہ وہ دوسرے کو سمجھ سکے اور اس نے ایک اندازہ لگایا ہے.وہ اپنی جگہ بے اختیار ہے یہ اپنی جگہ بے اختیار ہے.انسان کے حالات اندرونی طور پر بہت مختلف ہوتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک معقول آدمی سارے علم کے باوجود بھی دوسرے آدمی کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتا.چنانچہ ایک پاگل کے متعلق ذکر آتا ہے کہ اس کو یہ وہم تھا کہ وہ شیشے کا ہو چکا ہے اور لوگوں سے کہا کرتا تھا کہ مجھے زور سے ہاتھ نہ لگانا میں ٹوٹ جاؤں گا اور بہت ہی احتیاط سے اور ملائمت کے ساتھ گدے وغیرہ رکھ کر چیزوں پر بیٹھتا تھا اور ہر طرح سے اپنا خیال رکھتا تھا کہ میں کسی دن ٹوٹ نہ جاؤں.ایک ماہر نفسیات کے پاس اسے لے جایا گیا اور ماہر نفسیات یہ سمجھتے تھے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 438 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۳ء ہمیں پتہ ہے یہ سب بکواس ہے، انسان کہاں ٹوٹ سکتا ہے.چنانچہ انہوں نے اس کا یہ علاج سوچا کہ اچانک بہت زور سے اس کو تھپڑ مارا یہ ثابت کرنے کے لئے کہ دیکھو تم نہیں ٹوٹ گئے.تمہیں اپنے آپ پر اعتماد ہونا چاہئے لیکن اس کی اندرونی کیفیت اتنی نازک ہو چکی تھی کہ اس کے منہ سے چھن چھن کی آواز نکلی اور وہ وہیں حرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے گر کر مر گیا.اس کو اتنا یقین تھا کہ میں شیشے کا ہوں کہ اس یقین کے احساس نے اس کا دل بند کر دیا.پس انسانی حالات کے مختلف تقاضے ہیں جن میں باریک فرق ہیں کہ کوئی دوسرا انسان خواہ کسی فن کا ماہر کیوں نہ ہو نہ اس کی وسعتوں کا پتہ کر سکتا ہے اور نہ اس کی ضرورتوں کا اندازہ کر سکتا ہے صرف اللہ ہی ہے جو یہ کہہ سکتا ہے کہ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا.پس اس پہلو سے اس میں ایک بڑی بھاری تبشیر ملتی ہے اور وہ ذمہ داریاں جو خدا ڈالتا ہے ان کے متعلق تو ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل ہیں.تبشیر کا یہ پہلو جب انسان کو مزید غور پر متوجہ کرتا ہے تو پھر ایک خوف کا اثر آہستہ آہستہ غالب آنے لگتا ہے.مثلاً جماعت احمد یہ ہے.جماعت احمدیہ کی ذمہ داری کیا ہے جو خدا تعالیٰ نے ڈالی ہے: تمام دنیا کو مسلمان بنانا ، تمام ادیان باطلہ پر اسلام کو غالب کرنا اور اس انسان کی تقدیر کو بدل دینا جس کے متعلق خدا فرماتا ہے وَالْعَصْرِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرِ (احصر ۳۲) زمانہ کی قسم زمانہ گواہ ہے کہ یہ انسان لازماً گھاٹا کھانے والا ہے.اپنے سود و زیاں کا تو انسان کو پورا ہوش نہیں ہوتا سارے زمانہ کے زیاں کو سود میں بدل دینا سارے نقصان کو فائدہ میں تبدیل کر دینا یہ ذمہ داری ہے جو ہم پر ڈالی گئی ہے.ایک طرف یہ آیت تبشیر بھی کر رہی ہے دوسری طرف جب انسان اپنی کمزوریوں پر نگاہ ڈالتا ہے یعنی بے بسی اور بے اختیاری کو دیکھتا ہے، کام کے بے شمار ہجوم نظر آتے ہیں اور دنیا کا واقعاتی جائزہ لیتا ہے تو انسان سمجھتا ہے میں اس کا بالکل اہل نہیں ہوں ، مجھ میں کہاں طاقت ہے کہ میں کسی ایک ملک کو بھی بدل سکوں.صرف ایک ہندوستان پر ہی اگر جماعت احمد یہ اپنی تمام توجہ مبذول کر دے تو جہاں تک دنیا کے حالات کا تعلق ہے اور جہاں تک ہمارے ذرائع کا تعلق ہے ہم ایک صوبے کے ہندوؤں کو بھی بظاہر مسلمان بنانے کی اہلیت نہیں رکھتے.پھر آپ دنیا کی وسعتوں پر نظر ڈالیں کتنے بڑے بڑے وسیع ممالک ہیں جو د ہر یہ ہو چکے ہیں وہ خدا ہی کو نہیں مانتے.ہم ان کی
خطبات طاہر جلد ۲ 439 خطبه جمعه ۲۶ را گست ۱۹۸۳ء زبانیں نہیں جانتے ، ان کے خیالات سے واقف نہیں ہیں، ان کی قومی عادات سے واقف نہیں ہیں، ان تک پہنچنے کی طاقت نہیں ہے، راہوں میں Barrier اور روکیں ہیں اور اس کے باوجود دل میں یہ یقین ہے کہ خدائی کہ رہا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا، ہم پر جو بوجھ ڈالا ہے وہ ہم اٹھانے کے اہل ہیں، لیکن کیسے ؟ اب آسٹریلیا کا سفر در پیش ہے اور اسی سلسلہ میں غور کرتے ہوئے میری توجہ مبذول ہوئی کہ آسٹریلیا ایک براعظم ہے جس کو آج تک کسی غیر مذہب نے فتح نہیں کیا.عیسائیت نے وہاں Aborigines میں کچھ نفوذ کیا لیکن جو عیسائی وہاں آباد ہوئے آج تک کسی نے ان کے قلوب کو فتح نہیں کیا اور ایک بڑی قوم ہے ایک بہت بڑا پھیلا ہوا براعظم ہے اور وہاں ہم ایک مشن کی تعمیر کرنے کے لئے جارہے ہیں اور ایسی ایک دنیا نہیں ایسی سینکڑوں دنیا ئیں ہیں جہاں ابھی تک ہم کوئی نفوذ نہیں کر سکے.نجی ہے جو بظاہر ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے لیکن اب تک کی کوششوں کے نتیجہ میں پانچ ہزار کے لگ بھگ وہاں احمدی ہیں اور اس میں لاکھوں کی آبادی ہے.وہاں Aborigines تو نہیں لیکن قدیم باشندے جو افریقن ممالک سے ہجرت کر کے آئے تھے ان کی ایک بھاری تعداد ہے، ہندو بھی وہاں بھاری تعداد میں موجود ہیں اور آسٹریلیا کو تو چھوڑیئے نجی میں بھی ان سب کو مسلمان بنا نا بہت مشکل نظر آتا ہے.پھر سیلون ہے وہاں کے حالات یہ ہیں کہ بدھسٹ اکثریت میں ہیں اور ان بدھسٹ میں آج تک ہم نفوذ نہیں کر سکے.ہماری وہاں جو تبلیغ ہوئی ہے وہ زیادہ تر ہندوستانی نسل کے باشندوں میں ہوئی ہے.وہی ہیں جن میں احمدیت نے کسی طرف سے راستہ بنایا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں سے کچھ لوگ احمدی ہوئے لیکن باقی جو بدھسٹ لوگ ہیں اور یہ دراصل بدھسٹ کا ملک ہے ان کی غالب اکثریت ہے.ان میں شاذ کے طور پر احمدی ہوئے ہیں لیکن بحیثیت قوم کے انہوں نے قبول نہیں کیا.وہ ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے اس جزیرہ پر بھی ہم اسلام کو پوری طرح غالب کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے جہاں تک اپنے ظاہری حالات کے جائزہ کا تعلق ہے.پس یہ مضمون سوچتے ہوئے میری توجہ اس طرف مبذول ہوئی کہ وسعتیں کہیں ایسی تو نہیں جن کو ہم نے ابھی کھنگال کر دیکھا نہ ہو، ایسی وسعتیں تو نہیں جن کو ہم نے ابھی تک دریافت نہ کیا ہو.خدا کی بات تو بہر حال درست ہے کہ ہمارے اندر وسعت موجود ہے لیکن اگرUntapped Resources پڑی رہیں، اگر انسان جو کچھ خدا تعالیٰ نے اسے ودیعت کیا ہے اس سے پوری طرح استفادہ نہ کرے
خطبات طاہر جلد ۲ 440 خطبه جمعه ۲۶ را گست ۱۹۸۳ء تو پھر انسان تو جھوٹا ہو گا خدا جھوٹا نہیں ہے.معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہماری کچھ وسعتیں ایسی ہیں جن کو ہم نے پوری طرح ٹولا نہیں اور ٹولنے کے بعد محسوس کر کے ان پر ذمہ داری کی کاٹھی نہیں ڈالی ، ان کی تربیت نہیں کی خدا کی راہ میں خدمت کے لئے پیش کرنے کی.جب تک ہم اپنے نفس کو ٹول کر اس کی صلاحیتوں کی تربیت نہ کریں وہ اس لائق نہیں ہے کہ اسے خدا کے حضور پیش کیا جا سکے اس لئے انفرادی طور پر بھی اور جماعتی طور پر بھی میں نے نظر ڈالی تو بے شمار وسعتیں ہیں جن سے استفادہ نہیں کیا جا رہا.ہر احمدی اگر اپنی ذات پر غور کرے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جو طاقتیں ودیعت کی ہیں ان سے وہ پورا استفادہ نہیں کر رہا اور خصوصاً دین کے معاملہ میں ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے.وہ اپنے بچوں کی تربیت نہیں کر رہا، اپنی بیوی کی تربیت کا حق ادا نہیں کر رہا وہ طاقتیں جو خدا نے اسے دی ہیں انہیں ضائع کر رہا ہے.کھیل کو د اور لہو و لعب میں اپنی جائز ضرورت سے بڑھ کر خرچ کرتا ہے.کچھ تو انسان کا تفریح کا حق ہے وہ اس کی بناوٹ میں داخل ہے لیکن کچھ اس سے زائد ہوتا ہے اور جب تو میں تفریح کے حق سے بہت زیادہ وقت خرچ کرنے لگ جائیں تو وہ اپنی قوتوں کو ضائع کر رہی ہوتی ہیں.پھر بہت سی ایسی زبانیں ہیں جو دین کی خاطر گھر بیٹھے سیکھ سکتے ہیں بہت سا علم ہے دین کا جو آپ پڑھا سکتے ہیں، اس کی طرف پوری توجہ نہیں.عبادت ہے اس کی طرف پوری توجہ نہیں ، جتنا کہ حق ہے ویسی ہونی چاہئے.غرضیکہ آپ اپنی نظر کو پھیلاتے چلے جائیں تو ہر انسان کے اندر آپ کو ایسے بے شمار گوشے نظر آئیں گے جہاں اللہ تعالیٰ نے وسعتیں تو عطا فرمائی ہیں لیکن ان وسعتوں سے ہم پورا فائدہ نہیں اٹھا ر ہے اس لئے جب جماعت کی ایک اجتماعی شکل بنتی ہے تو ایسے بکثرت احمدی جماعت میں شامل ہیں جن کی وسعتوں میں سے ایک تھوڑا سا حصہ جماعت کو ملا ہوا ہے اور پھر جماعت کی جو اجتماعی شکل بنتی ہے اس میں تمام ذمہ دار کارکنان جو جماعت میں شامل ہیں یا جن پر بوجھ ڈالے جاتے ہیں وہ آگے پھر اپنی ذمہ داریاں پوری طرح ادا نہیں کرتے اور اپنی وسعتوں سے فائدہ نہیں اٹھاتے.ایسے مربیان بھی ہیں ، بیرونی ممالک کے مبلغین بھی ہیں، دفتروں میں کام کرنے والے بھی ہیں، اگر وہ اپنے آپ کو ٹولنا شروع کریں تو محسوس کریں گے کہ ابھی وہ بہت کچھ اور بھی کر سکتے تھے لیکن نہیں کر سکے یا نہیں کیا.تذبر کی باتیں دیکھئے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو تدبر کا ایک ملکہ عطا فرمایا ہے، فکر کا ملکہ عطا فرمایا ہے اور مسائل کو جانچنا اور ان میں تدبر کرنا اور فکر کے نتیجہ میں نئی نئی راہیں تلاش کرنا یہ انسان
خطبات طاہر جلد ۲ 441 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۳ء کی فطرت میں ودیعت ہے لیکن اس پہلو سے بھی ہر وقت ایک احمدی کا جماعتی مسائل میں منہمک ہونا یہ ہمیں نظر نہیں آتا.بسا اوقات اکثر احمدی اپنے دنیاوی اور گھریلو مسائل میں تو الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن بہت کم ہیں جو دن رات اس فکر میں غلطاں ہوں کہ دین کا کیا بنے گا، ہم اپنی ذمہ داریاں کیسے ادا کریں گے ، کاموں کو آسان کرنے کے کیا ذرائع ہیں، ہم کس طرح تھوڑی کوشش کے ساتھ زیادہ حاصل کر سکتے ہیں.یہ بھی ساری Resources Untapped پڑی ہیں لیکن میں نے یہ سب کچھ سوچا اور اندازہ لگایا اس کے باوجود میرے دل کا دیانت دارانہ فیصلہ یہ تھا کہ اگر سارے احمدی اپنی ساری طاقتیں بھی جھونک دیں تب بھی یہ ذمہ داری ادا نہیں کر سکتے.ہماری بہت بڑی ذمہ داری ہے.جہاں ہمارے دائرے پھیل رہے ہیں وہاں اندرونی ذمہ داریاں بھی مزید پیدا ہوتی چلی جارہی ہیں.اگلی نسلوں کی تربیت کے مسائل ہیں، ان میں پیغام کو زندہ رکھنے کا سوال ہے.ایک نیکی پر قائم ہو کر پھر اسے چھوڑنے کا جو رجحان قوموں میں ملتا ہے ، تن آسانی کا رجحان ملتا ہے ، یہ بھی ایک بڑی خطر ناک چیز ہے.پس جہاں دائرے پھیلتے جاتے ہیں وہاں اندرونی تربیت کے معاملات بھی زیادہ سنگین نوعیت اختیار کرتے چلے جاتے ہیں.پھر تیزی کے ساتھ اگر آپ پھیلنا بھی شروع کر دیں تو ان کی تربیت کے اتنے خطرناک مسائل سامنے آئیں گے کہ اگر ہمارے اندران نئے آنے والوں کی تربیت کی پوری اہلیت نہ ہوئی تو جس تیزی کے ساتھ وہ آئیں گے اس تیزی کے ساتھ احمدیت کو بگاڑنے لگ جائیں گے، اسی تیزی کے ساتھ دین کو نقصان پہنچانے لگ جائیں گے.پس ان پہلوؤں پر غور کرنے کے بعد میں نے محسوس کیا کہ قرآن کریم سے انسان ہدایت نہیں پاسکتا جب تک تقویٰ کے ساتھ ہدایت کی تلاش نہ کرے اور تقویٰ یہ نہیں ہے کہ قرآن کریم کی کوئی بات سمجھ آئے یا نہ آئے تم کہہ دو کہ ہاں سمجھ آگئی.تقویٰ یہ ہے کہ جس بات کی سمجھ نہیں آئی اس حد تک تسلیم کرے کہ ہاں ہمیں سمجھ نہیں آئی.میرے نفس نے بڑی دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کیا ہے کہ جہاں تک احمدیت کی وسعت کا تعلق ہے ہر فرد اور جماعت کی اندرونی طاقتوں کے مجموعہ کا نام ہی جماعت کی وسعت ہے.اس وسعت پر اگر ہم نظر ڈالیں تو ہم ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے اہل نہیں ہیں جو ذمہ داریاں تمام دنیا میں اسلام کے تقاضے پورے کرنے کے لئے ہمارے کندھوں پر ڈالی گئی ہیں.اسلام کی تبلیغ کے لئے ،
خطبات طاہر جلد ۲ 442 خطبه جمعه ۲۶ را گست ۱۹۸۳ء اس کے نفاذ کے لئے اور اسے زندگی کا ایک ناقابل تقسیم جز و بنادینا یہاں تک کہ وہ نسلاً بعد نسل فطرت ثانیہ کے طور پر لوگوں کی رگوں میں جاری ہو جائے ، یہ ہے اسلام کی تبلیغ کا بنیادی تقاضا جسے ہم نے پورا کرنا ہے اور ہم اس کے اہل نہیں ہیں.پھر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ توجہ مبذول کراتا ہے اور فرماتا ہے لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا تمہارے اندازوں میں کوئی غلطی ہوگی ، ہو سکتا ہے بعض وسعتیں تم نے دیکھی نہ ہوں، پھر نظر دوڑاؤ، پھر تلاش کرو ، عین ممکن ہے کہ کچھ ایسی وسعتیں ہوں جن پر تم نے نظر نہ ڈالی ہو.اس پہلو سے جب میں نے دوبارہ غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ انسان کی وسعتیں صرف اس کی ذات تک یا اس کی جماعت تک محدود نہیں ہوا کرتیں بلکہ اس کے تعلقات اور اس کی دوستیاں بھی تو وسعتوں میں شامل ہوا کرتی ہیں.ایک چھوٹا سا ملک اگر ایک بڑے ملک کا دوست ہو تو کیسی جرات سے آنکھ اٹھا کر بڑی بڑی طاقتوں کو چینج کرتا ہے.کہتا ہے تم مجھے نہیں مٹا سکتے اس لئے کہ فلاں ملک میری پشت پناہی کر رہا ہے.غالب نے بھی تو کہا ہے کہ ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا وگر نہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے (دیوان غالب صفحه ۳۴۴) تو انسانوں کی آبروئیں اور طاقتیں ان کی دوستیوں کے ساتھ بدلتی ہیں.ان کے تعلقات کے دائرے جتنے وسیع ہوں اتنی ان کی وسعتیں پھیلتی چلی جاتی ہیں.تو لازماً اس سمت میں کوئی حل ہے جس کی طرف ہمیں توجہ کرنی چاہئے.معا دیکھا کہ اگلی آیت یہی سکھا رہی ہے.اس کے معا بعد دعا کا مضمون شروع ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأَنَا اے خدا ! ہم تو بالکل بے کار اور ناکارہ لوگ ہیں ہماری وسعتوں میں تو نے اپنا تعلق داخل کر دیا تبھی ایسے عظیم الشان کام ہمارے سپر د کر رہا ہے جو ناممکن ہیں ، انسان کی بساط میں نہیں ہے کہ ان کو پورا کر سکے.تو جب تک ہمارا دوست ہے ہماری وسعت ہے جب تو نے تعلق توڑ دیا تو ہماری کوئی بھی وسعت نہیں اور جب خدا خود ذمہ داریاں ڈالتا ہے تو اس وجود، قوم کی وسعت میں جس پر ذمہ داریاں
خطبات طاہر جلد ۲ 443 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۳ء ڈالتا ہے اپنے تعلق کو بھی شامل کر لیتا ہے.ورنہ تو ناممکن ہے کہ وہ کام کیا جاسکے.اس پہلو سے معا بعد آنے والی دعا نے سکھا دیا کہ دراصل ہماری وسعتیں ہمارے خدا میں ہیں، ہماری تمام طاقتوں کا سرچشمہ ہمارا خدا ہے اور جتنا زیادہ گہرا تعلق ہم اپنے رب سے کریں گے ہماری وسعتیں پھیلتی چلی جائیں گی اور چونکہ اس کی طاقتیں لا متناہی ہیں اس لئے بلا شبہ ہماری وسعتیں بھی لا متناہی ہیں.یہ ہم پر منحصر ہے کہ اپنے تعلق کو کس حد تک بڑھاتے چلے جاتے ہیں.اگر خدا کی ذات میں اپنے وجود کو مدغم کر دیں، اگر اپنا کچھ بھی نہ رہنے دیں، نہ اپنی تمنائیں اپنی رہیں ، نہ اپنی خواہشات نہ اپنی محبت اور نہ نفرتیں کچھ بھی اپنا نہ رہے تو پھر ہماری وسعتیں ہمارے خدا کی وسعتیں بن جائیں گی اور اس کے آگے کوئی بھی چیز انہونی نہیں اور کوئی بھی چیز مشکل نہیں ہے.وہ جو كُنْ فَيَكُونُ کا مالک خدا ہے اس کے تعلق کے بعد انسان کیسے وہم کر سکتا ہے کہ میری حیثیت چھوٹی ہے اور میری وسعتیں محدود ہیں.چنانچہ خدا تعالیٰ نے معاً بعد دعا سکھا کر اور پھر دعا میں ان تمام باریک پہلوؤں کو روشن کر دیا جو اس مضمون سے گہرا تعلق رکھتے ہیں ) حوصلہ دے دیا ہمیں سبق بھی دیا، وہ راستہ دکھا دیا جس راستے پر چل کر ہماری طاقتیں پھیلتی چلی جائیں گی اور وسیع تر ہوتی چلی جائیں گی چنانچہ فرمایا: رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِنْ نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأنَا اے خدا ! انسان طاقتیں ضائع بھی کر دیتا ہے.جو کچھ حاصل ہے اس سے بھی تو پوراستفادہ نہیں کر سکتا اور وسعتوں میں سے وہ حصہ منفی ہوتا چلا جاتا ہے اور وہ دو طریق پر ہے بعض دفعہ بھول چوک کے ذریعہ، بعض دفعہ خطاؤں کے ذریعہ تو ہماری پہلی درخواست تو یہ ہے کہ ہمیں یہ توفیق عطافرما کہ جو ہماری وسعتیں ہیں ہم ان سے تو پورا فائدہ اٹھا ئیں.خطائیں کی ہیں تو معاف فرما دے.خطاؤں کی جو سزائیں مقرر ہیں یا خطاؤں کے جو طبعی نتائج تو نے مقرر فرمائے ہوئے ہیں ان سے ہمیں نجات بخش اور ایسی توفیق عطا فرما کہ آئندہ خطائیں نہ کریں.اگر خطائیں ہو بھی جائیں تو کم سے کم ہوں اور اسی طرح ہمارے بھول چوک کے مضمون میں بھی تو داخل ہو جا اور بھولی ہوئی چیزوں کے بدنتائج سے محفوظ فرماتا چلا جا پھر فرمایا: رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا یہ کہنے کے بعد ہماری توجہ گزشتہ قوموں کی طرف مبذول کروادی.فرمایا یہ پہلی دفعہ تو واقعہ نہیں ہوا کہ خدا نے کسی قوم کے سپر د ایک ذمہ داری کی ہے اور پہلی دفعہ یہ واقعہ نہیں ہوا کہ خدا توقع رکھتا ہے کہ تم
خطبات طاہر جلد ۲ 444 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۳ء اس ذمہ داری کو ادا کرو گے.انسان کی ماضی پر نگاہ پڑتی ہے تو بہت سی قومیں نظر آتی ہیں جنہوں نے ان ذمہ داریوں کو کما حقہ ادا نہیں کیا یا ادا کرنے کے بعد بہت جلد بھلا دیا اور خدا تعالیٰ نے جو نعمتیں دی تھیں ان کو لعنتوں میں تبدیل کر دیا.چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ماضی کے انسان سے بھی سیکھو.تمہاری کچھ وسعتیں ایسی ہیں جو ماضی میں بھی پھیلی پڑی ہیں، کچھ کمزوریاں تم نے پرانی قوموں سے ورثہ میں پائی ہیں، کچھ بد عادات ایسی ہیں جو پہلے انسان میں پیدا ہوتی رہی ہیں اس طرف بھی توجہ کرو.صرف اپنی کمزوریوں سے بخشش کی یا نجات کی دعائیں نہ کرو ،سابقہ قوموں کی غلطیوں سے بھی بخشش اور نجات کی دعائیں کرو.یہ ابھی تک منفی مضمون چل رہا ہے.فرمایا کہ دیکھو! پہلے ایسی قومیں تھیں جن کے بداثرات ورثہ میں چلے جاتے ہیں ان بداثرات سے بچنے کی کوشش کرو، ان غلطیوں سے عبرت حاصل کرنے کی کوشش کرو اور یہ کام بھی دعا کے بغیر نہیں ہوسکتا.فرمایا دعا کرو رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہ اب اس مضمون میں داخل ہونے کے بعد بظاہر ایک تضاد نظر آتا ہے.ابھی تو خدا تعالیٰ فرمارہا تھا کہ: لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا خدا کسی جان پر اس کی وسعت سے زیادہ بوجھ ڈالتا ہی نہیں اور اب کہہ رہا ہے رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِہ یہ دعا کرو کہ اے خدا ! ہماری طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا.ان دو باتوں میں تو بظا ہر تضاد ہے.جو خدا تم سے یہ عہد کر چکا ہوا بھی ایک آیت پیچھے کہ میں ہرگز تم پر تمہاری طاقت سے بڑھ کر بوجھ ڈالتا ہی نہیں اس پر اعتماد کیوں نہیں کرتے ، اس بات پر یقین کیوں نہیں کرتے اور کیوں پھر یہ دعا کرتے ہو کہ اے خدا! ہم پر ہماری طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالنا.یہ جو مضمون ہے اس میں بعض لطیف حکمتیں اللہ تعالیٰ نے بیان فرما دیں.امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کی طاقتوں اور وسعتوں میں ایک فرق ہے اور جب آپ وسعت اور طاقت کو ہم معنی بنا ئیں تو وہاں یہ اعتراض اٹھتا ہے.جہاں اس فرق کو ملحوظ رکھ لیں وہاں یہ اعتراض نہیں اٹھتا.مثلاً ایک بچہ ہے اس کی وسعت میں یہ بات داخل ہے کہ جب وہ اپنی Peak ( یعنی اپنے عروج کو پہنچے گا تو ایک عظیم الشان پہلوان بنے گا اگر اس نے پہلوان بننا ہو،اگر مثلاً اس نے دنیا کا سب سے بڑا ویٹ لفٹر
خطبات طاہر جلد ۲ 445 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۳ء یعنی بوجھ اٹھانے والا بننا ہو تو اس کی وسعت میں یہ بات داخل ہے کہ وہ ایک زمانہ میں جا کر بوجھ اٹھانے کے میدان میں بہت ہی عظیم الشان پہلوان ثابت ہوگا اور ایسار ریکارڈ قائم کرے گا کہ دنیا میں پھر کوئی اسے تو ڑ نہیں سکتا لیکن اس کی طاقت میں یہ بات داخل نہیں کیونکہ بچہ ابھی اس وسعت تک پہنچا نہیں ہے ابھی اس مقام سے پیچھے ہے اس کی طاقت میں تو ابھی یہ بات داخل ہے کہ آپ ہاتھ پکڑ کر چلائیں ورنہ گر پڑے گا اپنا بوجھ بھی نہیں اٹھا سکتا.پس خدا تعالیٰ نے انسان کے ذہن کو ایک عظیم الشان مضمون میں داخل کر دیا اور فرمایا کہ دیکھو! وسعتیں تو تمہاری بہت ہیں لیکن تمہیں ان وسعتوں کا قرینہ بھی تو ہم ہی سکھائیں گے ،تمہاری طاقتوں کو رفتہ رفتہ ہم ہی بڑھائیں گے.تم یہ دعائیں کرو کہ اے خدا! تیری تقدیر ہم سے اچانک مشکل کاموں کا سامنا نہ کرا دے جو ہماری وسعت میں تو ہیں لیکن ہم نے اپنی غفلتوں کے نتیجہ میں ابھی تک حاصل نہیں کئے.یہاں یہ مضمون پھر دوشاخہ مضمون بن جاتا ہے اس لئے تحمل اور غور سے ہمیں آگے بڑھنا پڑے گا.خدا تعالیٰ وسعت اور طاقت کے مطابق بوجھ ڈالتا ہے یہ درست ہے اور خدا تعالیٰ سے ہم یہ دعا کرتے ہیں کہ ہماری طاقتوں سے بڑھ کر ہم پر بوجھ نہ ڈال لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ ہماری طاقتیں اور ہماری وسعتیں ایک منزل پر اکٹھی ہو جائیں.اگر ہم نے ذمہ داری ادا کی ہو تو ہمیں اس وقت اپنی وسعتوں کے اندر رہتے ہوئے ایک خاص طاقت لینی چاہئے.یہ بھی تو ایک واقعہ ہے جو انسانی زندگی میں گزرتا ہے.اس کو مزید سمجھانے کی خاطر میں مثال دیتا ہوں کہ ایک انسان اگر دوڑنا شروع کرے اور اپنی طاقتوں سے فائدہ اٹھانا شروع کرے تو اس کے جسم میں نشو ونما پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے اور ایک انسان اگر لیٹا ر ہے اور آرام طلب بن جائے تو بعض دفعہ وہ دو قدم بھی نہیں چل سکتا.اگر ان دونوں کو سمجھا دیا گیا ہو کہ تمہاری یہ ذمہ داریاں ہیں اور فلاں وقت ہم نے تمہیں فلاں سفر پر روانہ کرنا ہے تو وہ شخص جو لیٹا رہا اور اس نے اپنی طاقتوں کو ضائع کر دیا اس وقت وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ مجھے طاقت نہیں ہے.اس پر بات خوب کھول دی گئی تھی ، ذمہ داریاں بیان کر دی گئی تھیں اس لئے اس کی وہ طاقت ہونی چاہئے تھی اور اگر اس پر کوئی اس وقت ذمہ داری ڈالے تو نا انصافی نہیں ہوگی.پس بسا اوقات یہ ہو سکتا ہے کہ ہماری وسعتوں کے اندر ایک چیز ہو اور ایک خاص وقت کی
خطبات طاہر جلد ۲ 446 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۳ء منزل پر جا کر ہمیں جو خدا تعالیٰ نے خوب کھول کر ہماری ذمہ داریوں کو بیان فرما دیا ہے اس وقت پر جا کر ہم پر وہ بوجھ پڑنا ہولیکن اپنی غفلت اور اپنی نالائقی کے نتیجہ میں ہم نے اپنی وہ طاقت Develop ڈویلپ نہ کی ہو.ایسے موقع پر اگر خدا وہ بوجھ ڈالے تو یہ نا انصافی نہیں ہوگی.وسعت کے مطابق بھی ہوگا اور اس طاقت کے مطابق بھی ہو گا جو ہونی چاہئے تھی اس لئے خدا تعالیٰ نے اس مضمون کو ہمارے ذہنوں میں داخل فر مایا اور ہماری توجہ اس طرف مبذول فرمائی کہ تم ہر قدم پر ایک کمزور چیز ہو.نہ اپنی وسعتوں سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہو نہ اپنی طاقتوں سے پورا فائدہ اٹھا سکتے ہواس لئے پھر تمہاری وسعتوں میں دعا داخل نہیں ہو گی تو تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے، عجز داخل نہیں ہوگا تو تم کچھ بھی نہیں کر سکو گے.اس لئے یہ بھی ہم سے مانگنا اور یہ عرض کیا کرنا کہ اے خدا! ہماری طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈال یعنی جس منزل پر چاہے ہماری غفلتیں بھی حائل ہوگئی ہوں جس منزل پر جو طاقت ہے تو اتنا رحم فرمانا کہ اس سے زیادہ بوجھ نہ ڈال دینا ورنہ ہم مارے جائیں گے.ہوسکتا ہے اس سے زیادہ طاقت ہمیں حاصل کرنی چاہئے تھی لیکن ہم نہیں کر سکے.یہ اقرار کرنے کے بعد اور یہ منت کرنے کے بعد کہ اے خدا! تو عالم الغیب ہے تو جانتا ہے ہمیں کیا کرنا چاہئے تھا تمام تفاصیل پر تیری نظر ہے لیکن ساتھ ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ ہم خطا کار ہیں ہم نسیان کے بھی شکار ہیں.بار بار ہمیں نصیحت کی جاتی ہے پھر باتیں بھول جاتے ہیں، بار بار یاد کرائی جاتی ہیں پھر ذہن سے اتر جاتی ہیں ، ذمہ داریاں دکھلا دی جاتی ہیں پھر نظر سے اوجھل ہو جاتی ہیں، ہم اتنے کمز ور لوگ ہیں اس لئے ہم سے رحم کا سلوک فرما اور ہماری جو طاقت ہونی چاہئے اس پر فیصلہ نہ کرنا جو طاقت ہمیں کسی منزل پر میسر ہو اس کے مطابق ہم سے سلوک کر نالیکن پھر ان طاقتوں کو بڑھاتے چلے جانا.آگے ایک مضمون آئے گا جو بالآخر بات کھول دے گا کہ ہم نے کہاں تک پہنچنا ہے اور کیا مانگنا ہے وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا.اے خدا! دو قسم کے معاملات ہم سے فرما.پہلا یہ کہ در گز ر فرما.درگزر فرمانا اور مغفرت فرمانا ان دونوں چیزوں میں ایک نسبت ہے اور ایک کے بعد دوسرے کو رکھا گیا ہے.وَاغْفِرْ لَنَا اس چیز کو کہتے ہیں کہ ایک غفلت ہو رہی ہے اس سے روکا بھی جا سکتا ہے لیکن انسان اس کو لائسنس دے دیتا ہے ، چھٹی دے دیتا ہے، کہتا ہے کوئی بات نہیں کر لو بے شک ، کچھ نہیں ہوتا.چنانچہ ماں باپ بعض دفعہ بچوں کو بعض کھیلیں کھیلنے دیتے ہیں جن سے ویسے
خطبات طاہر جلد ۲ 447 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۳ء وہ منع کرتے رہتے ہیں لیکن اگر تھوڑی سی کھیل وہ کھیل لیں، ذرا سا مشغلہ کر لیں تو وہ اعراض کر لیتے ہیں، آنکھیں پھیر لیتے ہیں اور بعض دفعہ جب بچے بیہودہ حرکتیں کر رہے ہوں تو ماں باپ ان کی طرف دیکھتے نہیں، عمداً ان کی آنکھوں میں ایک غفلت سی آجاتی ہے کہ گویا ہم نے دیکھا ہی کچھ نہیں.اس کو کہتے ہیں وَاعْفُ عَنَّا کہ اے خدا ہم سے عفو کا سلوک فرما.چنانچہ میں نے دیکھا ہے حضرت مصلح موعودؓ کا بھی یہی طریق تھا کیونکہ انہوں نے اپنی عادتیں قرآن سے سیکھی تھی.بچے کبھی بعض دفعہ لڈو کھیلتے ہیں اور حضرت صاحب پسند نہیں کیا کرتے تھے کہ وقت ضائع کریں لیکن سمجھتے تھے کہ آخر بچے ہیں کبھی کبھی لڈو کھیلنے بھی دیتے تھے اور اس طرح کہ آئے ہیں اور اس طرف نظر ہی نہیں ڈالی اوپر نظر سے باتیں کر کے واپس چلے گئے گویا دیکھا ہی نہیں اور جب دیکھتے تھے کہ زیادتی کرنے لگ گئے ہیں تو پھر وہ نظر نیچے ڈالتے تھے اور ہمیں بتادیتے تھے کہ اب میں پکڑنے پہ آیا ہوں.پس انسان سے اگر کوئی عفو کر نے والا سلوک کر رہا ہو تو پھر غلطیوں کا امکان اس وجہ سے بھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے.بہت ہی پیارا اور عفو کر نے والا وجود ہو اس کے نتیجہ میں بھی بعض دفعہ گناہوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں.اس کے نتیجہ میں بھی تو بعض دفعہ انسان جان بوجھ کر غلطیاں کرنے لگ جاتا ہے کہ بہت ہی مہربان ہے ہمارا آقا، اس لئے اے خدا جب تو عفو کا سلوک فرمائے گا تو پھر بخشش کی تیاری بھی کر لینا، ہم سے لازماً پھر کچھ اور غلطیاں بھی ہوں گی اور و ارحمنا نے بات کھول دی کہ اے خدا! دراصل بات یہ ہے کہ ہم اپنے طور پر اپنی طاقتوں پر اپنے ذرائع سے کچھ نہیں کر سکتے ہم پر رحم فرما، ہم بے کار لوگ ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ ہم بے کا ر لوگ ہیں.رحم فرما اور جو تو نے ذمہ داریاں ڈالی ہیں ان میں ہماری وسعتوں پر نگاہ نہ کر اپنی وسعت پر نگاہ فرما.اَنتَ مولنا نے یہ بات کھول دی.آخری تان اس بات پر ٹوٹی کہ ہم نے مضمون اس طرح شروع کیا کہ خدا نے ہمیں سب کچھ عطا فرمایا ہے، وسعتیں عطا کی ہیں، ہم اپنے آپ کو ٹولیں اور دیکھیں اور اس کام میں آگے بڑھیں.چنانچہ پوری ذمہ داری کے ساتھ بڑھنے لگے.پھر محسوس ہوا کہ سب ذمہ داریاں ادا کرنے کے باوجود بھی ہم میں طاقت نہیں، کام بہت زیادہ ہے.پھر نظر نے ڈھونڈا تو پتہ چلا کہ ہماری وسعتیں تو دراصل خدا کی طرف ہیں.اس سمت میں کھلے ہوئے ہیں راستے وسعتوں کے.اس سمت میں آگے بڑھے تو ایک بہت ہی پیارا مضمون نظر آیا.ہر قدم پر مغفرت ہے، بخشش ہے ، خطاؤں کی معافی ہے اور محبت اور پیار کا سلوک
خطبات طاہر جلد ۲ 448 خطبه جمعه ۲۶ اگست ۱۹۸۳ء ہے اور بالآخر خدا کہتا ہے کہ تم تعلق مجھ سے رکھ لو، میری طرف جھکنا سیکھ لو.بس یہ میں تمہیں کہتا ہوں پھر میری وسعتیں تمہاری وسعتیں ہو جائیں گی.پھر تم اس مقام پر کھڑے ہو گے کہ کہو کہ أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کہ اے خدا! اب بات تو یہیں ختم ہوتی ہے کہ ہمارا دوست تو ہے اور جس کا تو دوست ہو اس کے مقدر میں شکست کیسی.جس کو تیری طاقتیں نصیب ہو جائیں وہ کسی اور کے در سے کیوں مدد مانگے.کیوں کسی اور طرف جھکے اور کہے کہ ہمارے فلاں معاملہ میں ہماری مدد کرو.وہ تو صرف تجھ سے مانگے گا اور اس بات پر ناز کرے گا کہ اللہ ہمارا مولا ہے لیکن اس مقام پر پہنچنے کے لئے انسان کو اپنے نفس کی تربیت کرنی پڑتی ہے اور اس مقام پر کھڑے ہونے کے لئے اپنے رب سے ایک گہری سچائی کا تعلق رکھنا پڑتا ہے.ایک گہری محبت اور عشق کا تعلق اپنے رب سے رکھنا پڑتا ہے ورنہ خالی منہ سے مولنا کہہ دینے سے بات بنتی نہیں کیونکہ ولایت کا مضمون دو طرفہ ہے.آپ جب تک خدا کا دوست نہ بننا چاہیں یا خدا کی طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھائیں خدا آپ کا مولا نہیں بن سکے گا نہ بنے گا.آنحضرت ﷺہ اس مضمون کا شاہکار ہیں.سب سے زیادہ آنحضور ﷺ نے اپنے رب سے دوستی کا حق ادا کیا اور سب سے زیادہ اللہ آپ کا دوست بنا اسی لئے سورۃ محمد میں جو آنحضرت علی کے نام پر ہے خدا تعالیٰ نے اس مضمون کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ذلِكَ بِأَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوْا وَ أَنَّ الْكُفِرِيْنَ لَا مَوْلى لَهُمُ (محمد :۱۲) کہ محمد مصطفیٰ نے تمہیں یہ مضمون سکھا دیا ہے اَنَّ اللهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا اللہ ایمان لانے والوں کا مولا بن جاتا ہے.وَأَنَّ الْكُفِرِينَ لَا مَوْلى لَهُمْ اور جو انکار کرنے والے ہیں ان کا کوئی مولا ہی نہیں.تو مولا والے ہی فتح پائیں گے ان لوگوں پر جن کا مولا کوئی نہیں ہے.اسی لئے فرمایا یہ دعا کرو کہ أَنْتَ مَوْلنَا فَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ کہ تو ہمارا مولا بن چکا ہے اور کافروں کا مولا کوئی نہیں اس لئے لازمی نتیجہ نکلنا چاہئے کہ ہمیں فتح نصیب ہو.مثلاً جنگ بدر میں آنحضرت ﷺ کو مدد کی بڑی شدید ضرورت تھی.۳۱۳ کمزور صحابہ بیجن کے پاس ہتھیار بھی پورے نہیں ان میں بیمار اور بوڑھے بھی تھے اور بچے بھی شامل تھے جو ایڑیاں اٹھا اٹھا کر جوان بن کر بیچ میں
خطبات طاہر جلد ۲ 449 خطبه جمعه ۲۶ راگست ۱۹۸۳ء داخل ہوئے تھے لیکن ایڑیاں اٹھانے سے تو قد اونچے نہیں ہو جایا کرتے اور نہ انسان جوان ہو جاتا ہے.اس کمزوری کی حالت میں عرب کا ایک مشہور پہلوان جوفنون حرب کا چوٹی کا ماہ سمجھا جاتا تھا وہ آیا اور اس نے کہا کہ میں بھی مسلمانوں کی طرف سے شامل ہو کر اہل مکہ کے خلاف لڑنا چاہتا اس کی کچھ دشمنیاں تھیں جو اتارنا چاہتا تھا.اب وہ شخص جس نے خدا کو مولا نہ بنایا ہوہ شخص جس کا کامل تو کل اپنے رب پر نہ وہ یہ جواب دے ہی نہیں سکتا جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے دیا.آپ نے صحابہ سے فرمایا اس کو واپس کر دو مجھے خدا کے معاملہ میں کسی مشرک کی ضرورت نہیں ہے.(مسلم کتاب الجھاد باب کراھیتہ الاستعانته المشرک) کتنی شدید ضرورت تھی ، عام حالات میں انسان خوش ہو جاتا ہے الحمد للہ ایک مدد گار مل گیا ہے اور نفس یہ بھی بہانہ بنالیتا ہے کہ خدا نے بھیجا ہے، عین ضرورت کے وقت چیز آئی ہے خدا نے بھیجی ہوگی لیکن وہ کامل موحد جو تو کل کے مضمون کو جانتا تھا جو جانتا تھا کہ خدا کے سوا میرا کوئی مولیٰ نہیں ہے، اس نے یہ جواب دیا کہ نہیں مجھے کسی مشرک کی ضرورت نہیں.یہ وہ مضمون ہے جس تک پہنچنے کے لئے سچائی کی ضرورت ہے تقویٰ کی ضرورت ہے سچے دل سے آپ اپنے رب کے بنیں گے تو وہ مولیٰ بنے گا.اگر منہ کی باتیں ہوں گی تو نہیں بنے گا.دوستی کے حق ادا کرنے کوئی مشکل نہیں ہیں.خدا سے پیار کا تعلق بڑھانا پڑے گا اور یہ آسان منزلیں ہیں جیسا کہ میں نے بیان کیا یہ ساری دعائیں ہمیں بتا رہی ہیں یہ نہایت ہی آرام دہ سفر ہے.عفو سے مغفرت میں آپ داخل ہوئے پھر رحم میں داخل ہو گئے اور آخر پر مولی کہہ کر سارا بوجھ ہی خدا پر ڈال دیا اس سے زیادہ بھی کوئی آسان سفر ہو سکتا ہے لیکن بد قسمت ہے انسان جو یہ سفر بھی اختیار نہیں کرتا.اس میں جذبات کا رخ خدا کی طرف موڑنا پڑتا ہے، بچے پیار کا تعلق اپنے رب سے پیدا کرنا پڑتا ہے، اس سے سچی محبت کرنی پڑتی ہے، اس کو اپنے وجود پر غالب کرنا پڑتا ہے جب تک یہ باتیں نصیب نہ ہوں اس وقت تک یہ سفر بظاہر آسان ہونے کے باوجود بھی انسان اختیار نہیں کر سکتا اس لئے اپنی ذمہ داریوں کو محوظ رکھیں.بے انتہا کام ہیں ناممکن ہے کہ جماعت اپنی ان طاقتوں سے جو بظاہر اس کی سرشت میں خدا کے علاوہ ہیں ان طاقتوں کے ذریعہ وہ دنیا میں ان ذمہ داریوں کو ادا کرسکیں.نوے سال ہو گئے ، اس ملک میں یا اس برصغیر میں جماعت کو قائم ہوئے اور اپنی طاقتیں جن میں خدا کے بہت سے فضل شامل ہیں وہ ملا کر بھی آج ہماری یہ کیفیت ہے کہ اس ملک میں ہمیں اپنے آپ کو
خطبات طاہر جلد ۲ 450 خطبه جمعه ۲۶ /اگست ۱۹۸۳ء مسلمان کہنے کا حق نہیں دیا جارہا.تو اگر بنارکھیں گے اپنی طاقتوں پر تو کچھ بھی نہیں کرسکیں گے اس لئے ہمیں اپنے رب کی طرف زیادہ متوجہ ہونا پڑے گا.زیادہ پیار اور محبت کا تعلق پیدا کرنا پڑے گا.جتنی کثرت کے ساتھ اہل اللہ پیدا ہوں گے ہم ذمہ داریاں ادا کرنے کے قابل ہوتے چلے جائیں گے.مولا کے مقابل پر اللہ نے ولی کا لفظ رکھا ہے.بندوں کے لئے اس کے مقابل پر ولی کا لفظ آتا ہے.خدا ان کا مولا ہوتا ہے جو اپنے رب کے ولی ہوتے ہیں اس لئے آپ کو ولی ہونا پڑے گا.آپ میں سے ہر ایک ایسا ہو کہ اسے یقین ہو کہ خدا میرا دوست ہے اور وہ مجھ سے پیار کرتا ہے.اگر یہ ہو جائے تو پھر آپ دیکھیں کہ سارے کام خود بخود کس تیزی سے ہونے لگیں گے ، ہماری الٹی بھی سیدھی ہو جائیں گی ، ہماری خطائیں بھی نیک نتائج پیدا کریں گی، ہمارے نسیان بھی ان لوگوں سے زیادہ عظیم الشان کام دکھائیں گے جو اپنے فرائض کو بھولتے نہیں ہیں، ہماری ہر بات سیدھی ہوتی چلی جائے گی کیونکہ ہمارا مولا اللہ ہوگا اور جن کا مولا اللہ ہو جائے ان کو لازماً کافروں پر فتح عطا ہوتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.روزنامه الفضل ربوه ۱۴ ستمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 451 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء تعمیر بیت اللہ کے مقاصد اور ہمارے فرائض ( خطبه جمعه فرموده ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد احمد یہ ناصر آبادسندھ ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات تلاوت فرمائیں: وَإِذْ قَالَ ابْرُ هِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَامِنَّا وَاخْبُنِي وَبَنِي أَنْ تَعْبُدَ الْأَصْنَامَ رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنْ وَمَنْ عَصَانِي فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ رَبَّنَا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ فَاجْعَلْ أَفْبِدَةً مِنَ النَّاسِ تَهْوِى إِلَيْهِمْ وَارْزُقُهُمُ مِّنَ الثَّمَاتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا تُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يَخْفَى عَلَى اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ (ابراہیم : ۳۶ - ۳۹)
خطبات طاہر جلد ۲ اور پھر فرمایا: 452 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء ابھی چند دن تک انشاء اللہ تعالیٰ ہم مشرق کے دورہ پر پاکستان سے روانہ ہوں گے اور اس دورہ میں براعظم آسٹریلیا میں سب سے پہلی احمد یہ مسجد کی بنیا د رکھنے کا سب سے اہم فریضہ ادا کرنا ہے.یہ مسجد کی بنیاد بھی ہوگی اور مشن ہاؤس کی بنیاد بھی ہوگی یعنی اس مسجد کے ساتھ ایک بہت ہی عمدہ مشن ہاؤس کی عمارت بھی تعمیر ہوگی جہاں مبلغ اپنے ہر قسم کے فرائض پورے کر سکے گا.اس لحاظ سے یہ جماعت احمدیہ کی تاریخ میں ایک بہت ہی اہم مسجد ہے کہ ایک نئے براعظم میں ہمیں اس کی بنیا در کھنے کی توفیق مل رہی ہے.اس سے قبل بر اعظم آسٹریلیا خالی پڑا تھا اور جماعت یہ تو کہ سکتی تھی کہ دنیا کے ہر براعظم میں ہم نے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسلام کا پیغام پہنچایا ہے لیکن براعظم آسٹریلیا میں اگر پیغام پہنچا تو اتفاقاً، انفرادی کوشش سے پہنچا جماعت کی طرف سے کوئی با قاعدہ مشن نہیں بنایا گیا اور کوئی مسجد نہیں بنائی گئی تھی.مسجد کے لئے جو زمین لی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت با موقع اور کافی بڑا رقبہ ہے.آسٹریلیا کا ایک مشہور شہر سڈنی ہے.سڈنی سے تقریباً پچاس میل کے فاصلے کے اندر یہ جگہ واقع ہے اور بڑے بڑے شہروں میں پچاس میل کا فاصلہ کوئی چیز نہیں ہوا کرتا.۲۷ ایکڑ سے کچھ زائد رقبہ ہے جس میں انشاء اللہ مسجد بھی بنائی جائے گی اور مشن ہاؤس بھی اور آئندہ جماعت کی دلچسپیوں کے لئے ہر قسم کے مواقع وہاں مہیا ہوسکیں گے.۲۷ ایکٹ میں تو ماشاء اللہ ہمارا جلسہ سالا نہ ہوسکتا ہے اس لئے ہم بڑی امید لے کر اتنا بڑا رقبہ لے رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ جلد اس کو بھر بھی دے اور چھوٹا بھی کر دے اور یوں ہماری تو قعات نا کام ہو جائیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل اس سے بہت آگے نکل جائیں، ان دعاؤں کے ساتھ انشاء اللہ اس مسجد کا سنگ بنیا درکھا جائے گا.پاکستان سے اس سفر پر روانہ ہونے سے پہلے میرا یہ آخری خطبہ ہوگا اس لئے میں نے اس مسجد کے ذکر اور مساجد کی تعمیر کے مضمون ہی کو آج کے خطبہ کا موضوع بنایا ہے.سب سے اہم مسجد جو دنیا میں تعمیر کی گئی اور جس کے مقاصد میں آنحضرت ﷺ کی بعثت شامل تھی وہ بیت الحرام ہے یعنی خدا کا وہ پہلا گھر جو مکہ میں بنایا گیا.اس گھر سے پہلے وہاں کوئی شہر آباد نہیں تھا اس لئے مکہ میں بنایا گیا“ کے الفاظ شاید اس مضمون کو پوری طرح واضح نہیں کرتے.جب بھی خدا ک یہ گھر بنایا گیا اس کی تفصیلی تاریخ ہمارے پاس محفوظ نہیں قرآن کریم سے صرف یہ پتہ چلتا ہے کہ:
خطبات طاہر جلد ۲ 453 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء اِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ ( آل عمران: ۹۷) کہ وہ پہلا گھر جو خدا کی عبادت کی خاطر تمام بنی نوع انسان کے لئے بنایا گیا.لِلنَّاسِ کے لفظ میں کوئی مذہبی تفریق نہیں رکھی گئی بلکہ خدا تعالیٰ نے ایسا فقرہ استعمال فرمایا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ گھر نہ مسلمانوں کا ہے، نہ ہندؤوں کا ہے، نہ عیسائیوں کا ، کسی مذہب کا نہیں بلکہ تمام بنی نوع انسان کے لئے خدا تعالیٰ کی عبادت کی خاطر بنایا گیا اور اس کا مقصد یہ تھا کہ آئندہ زمانہ میں اس گھر میں وہ نبی پیدا ہوگا جس کے ذریعہ سارے بنی نوع انسان دین واحد پر اکٹھے ہوں گے.امر واقعہ یہ ہے کہ دوہی دفعہ دنیا ایک ہاتھ پر اکٹھی ہو سکتی ہے.ایک آغاز پر اور ایک انجام پر.نبوت کا آغاز حضرت آدم علیہ السلام کے ذریعہ ہوا اور اس وقت کوئی تفریق نہیں تھی ، اس وقت بھی ناس ہی مخاطب تھے، کوئی مذہبی امتیاز نہیں تھا اور پہلا گھر غالبا حضرت آدم نے بنایا ہے کیونکہ حضرت آدم نے لازماً کوئی مسجد بنائی ہوگی اور اس سے پہلے نبوت کا کوئی پتہ نہیں چلتا.پس معلوم ہوتا ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے اس گھر کی بنیاد رکھی ہے اور اس وقت چونکہ مذہب کی تفریق نہیں تھی اس لئے آپ لِلنَّاسِ تھے.تمام بنی نوع انسان اور حضرت آدمؑ ایک ہی چیز کے دو نام تھے.آپ پیج تھے اس آدمیت کا جس کو خدا تعالیٰ نے اپنے مکالمہ و مخاطبہ کے لئے چنا اور دوسری مرتبہ تب بنی نوع انسان کو مخاطب کیا جا سکتا تھا جب سارے بنی نوع انسان کو ایک دین کی طرف بلانے والا رسول آجائے یعنی حضرت محمد مصطفی ﷺہے اس لئے یہ عبارت بڑی فصیح و بلیغ اور معنی خیز ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ اس میں یہ نہیں فرمایا کہ پہلا گھر جو تھا وہ ابراہیم کے لئے بنایا گیا یا داؤد کے لئے بنایا گیایا موسی کے لئے بنایا گیا یا نوح کے لئے بنایا گیا بلکہ یہ فرمایا کہ یہ ناس کے لئے بنایا گیا ہے.جب بنایا گیا تھا اس وقت بھی سارے انسان اس سے وابستہ تھے اور اس کا انجام بھی ایسا ہو گا کہ تمام بنی نوع انسان اس گھر میں ایک خدا کی عبادت کے لئے اکٹھے ہوں گے یعنی رَحْمَةً لِلْعَلَمِينَ اور كافة للناس رسول ظاہر ہو چکا ہوگا اس لئے میں نے کہا ہے کہ اس کے مقاصد میں سے سب سے بڑا مقصد حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت تھی ، گویا آپ کے پیدا ہونے پر اس گھر کے مقاصد کی تکمیل ہوئی ، وہ توحید کا علمبر دار ، وہ خدائے واحد کی پرستش کرنے والا آ گیا جس کی پرستش ہی خدا کو مقصود اور منظور تھی اور اس کی عبادت کے مقابل پر ساری کائنات کے عبادت
خطبات طاہر جلد ۲ کرنے والوں کی عبادت بیچی تھی.454 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء اس موقع پر جب کہ یہ عظیم الشان گھر آباد ہوا کیا واقعات گزرے اس کا انسانی تاریخ کوئی ذکر نہیں کرتی.صرف ایک قرآن کریم ہے جس نے یہ ذکر کیا ہے کہ پہلا گھر اللہ کی عبادت کے لئے وہی ہے جو بکہ کے پاس موجود ہے.البتہ قرآن کریم نے اس کی تعمیر نو کا کسی قدر تفصیل سے ذکر کیا ہے اور بتایا ہے کہ جب حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اس گھر کو اللہ کے منشا کے مطابق دوبارہ آباد کرنے کا فیصلہ کیا تو اس وقت کیا واقعات گزرے.وہ ایسے واقعات ہیں جن کو ہمیشہ کے لئے محفوظ کر دیا گیا ہے ان لوگوں کی خاطر جو خدا کا گھر بنانے کی نیت کرتے ہیں.حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پاک سنت پر عمل کئے بغیر اگر کوئی گھر بنایا جاتا ہے تو اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں.اگر اس میں وہ روح نہیں ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیش نظر تھی تو تب بھی اس گھر کی کوئی حیثیت نہیں ہے.لوگ خدا کی خاطر بڑے بڑے گھر بناتے ہیں اور ان پر ارب ہا ارب روپیہ خرچ کر دیتے ہیں مگر اس گھر سے ان کو کوئی بھی نسبت نہیں ہوتی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے از سر نو تعمیر کیا تھا اور وہاں کسی بادشاہت کا رو پیدا استعمال نہیں ہوا ، کوئی بڑے بڑے انجینئر نہیں آئے ، فن تعمیر کے کوئی ماہرین نہیں اکٹھے کئے جو دنیا کے عظیم الشان معمار کہلاتے ہوں ، کوئی قو میں مزدور نہیں بنائی گئیں.اللہ تعالیٰ اتنا فرماتا ہے کہ جب خانہ کعبہ کی تعمیر نو ہوئی تو باپ معمار تھا اور بیٹا مزدور اور بیٹا اتنی چھوٹی عمر کا تھا کہ بمشکل دوڑنے بھاگنے کے قابل ہوا تھا.اس وقت خدا کے نبی نے خود اپنے ہاتھوں سے اس گھر کی تعمیر کی.پھر اکٹھے کئے ، بنیاد یں کھود میں جو ریت کے تلے چھپ گئی تھیں.حضرت رسول کریم فرماتے ہیں کہ جب ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسمعیل کو لے کر آئے ہیں تو تلاش کرتے پھرتے تھے کہ وہ پہلا گھر ہے کہاں.چنانچہ ریت کے اندر سے پرانے زمانے کے منہدم گھر میں سے چھوٹی سی دیوار باہر نکلی ہوئی دکھائی دی.اس دیوار پر آپ نے اپنے بچے کو بٹھایا اور پھر تلاش شروع کی کہ کس طرح اس گھر کی دوبارہ تعمیر کرنی چاہئے ، کیا نقشہ بنے گا لیکن چونکہ حضرت اسمعیل کا اس تعمیر نو میں شامل ہونا عند اللہ ضروری تھا اس لئے اس وقت تعمیر نو نہیں ہوئی.اس وقت خدا نے ٹال دیا اس وقت کو اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حکم دیا کہ اب تم ان کو چھوڑ کر یہاں سے چلے جاؤ اور تعمیر کا جو کام اسماعیل سے لینا تھا وہ خواب میں دکھایا گیا کہ اس گھر کے پاس ان کو لے کر جارہے
خطبات طاہر جلد ۲ 455 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء ہیں ( تاریخ الامم والملوک ( تاریخ طبری) باب ذکر امر بناء البيت جلد ).اس وقت اس کو ٹال دینے میں بہت بڑی حکمت تھی بلکہ ایک سے زائد حکمتیں تھیں.ایک تو یہی کہ آپ کے جس بیٹے کی نسل سے حضرت محمد مصطفی علی نے پیدا ہونا تھا اور جس نے اس شاخ کو بنو اسحاق سے ممتاز کر دینا تھا وہ بیٹا ابھی اس قابل نہیں تھا کہ اس گھر کی تعمیر میں حصہ لے سکے.دوسرے ایسی وادی میں چھوڑ کر جارہے تھے جہاں نہ پانی کا انتظام تھا اور نہ کھانے کا اور اللہ تعالیٰ یہ خبر دے چکا تھا کہ میں نے تم سے ایک گھر بنوانا ہے اور گھر ابھی بنوایا نہیں تھا ، اس سے بڑی زندگی کی کوئی اور ضمانت نہیں ہو سکتی تھی اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو اس سے زیادہ تسلی نہیں دی جا سکتی تھی کہ جب تک تم دوبارہ نہ آؤ اور ( آپ وہاں بار بار آئے ) جب تک اسمعیل اس قابل نہ ہو کہ تمہارے ساتھ مل کر خانہ کعبہ کی تعمیر کرے اس وقت تک ان کو کوئی فکر نہیں.خدا تعالیٰ کے پیار کا کیسا عظیم الشان سلوک تھا اور حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کا تو کل بھی کتنا عظیم الشان تھا کہ اس حالت میں بیوی اور بچے کو چھوڑ کر جارہے ہیں اور پھر بیوی کی ایمانی کیفیت یہ تھی کہ آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ جب وہ ان کو چھوڑ کر جانے لگے تو اچانک رخصت ہوئے اور ایک طرف کا رخ اختیار کر لیا.بیوی اور بچہ وہیں پڑے ہوئے تھے ان کو پانی کا ایک مشکیزہ دے گئے اور کچھ کھجوریں چھوڑ گئے.حضرت ہاجرہ کو محسوس ہوا کہ یہ تو ہمیں چھوڑ کر جا رہے ہیں.انہوں نے آواز میں دیں لیکن حضرت ابراہیم نے کوئی جواب نہ دیا.پھر بے قرار ہو کر پیچھے دوڑیں لیکن آپ کی آواز شدت غم سے بھرا گئی.آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے، ڈرتے تھے کہ اگر بات کروں گا تو رو پڑوں گا.آپ اس موقع پر پورا صبر کرنا چاہتے تھے اس لئے آپ جواب نہیں دیتے تھے اور نہ مڑ کر دیکھتے تھے.آخر حضرت ہاجرہ نے صرف ایک سوال کیا.انہوں نے کہا مجھے صرف اتنا بتا دیں کہ کیا خدا کی خاطر ایسا کر رہے ہیں؟ کیا اللہ کا حکم ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر میں راضی ہو جاؤں گی پھر مجھے کوئی پرواہ نہیں.( تاریخ الام والملوک ( تاریخ طبری) باب ذکر امر بناء البیت جلدا) اس سوال میں بڑی عجیب بات تھی.اس میں عورت کی فطرت کا ایک خاص راز تھا.حضرت ہاجرہ حضرت سارہ پر سوکن بن کر آئی تھیں اور آپ کو پتہ تھا کہ حضرت سارہ ان کو پسند نہیں کرتیں اور کئی دفعہ ابراہیم علیہ السلام کو کہہ چکی ہیں کہ اس کو گھر سے نکال دو.یہ وہ بے قراری تھی جوان کے دل کو لگی ہوئی تھی کہ مجھے یہ بتادیں کہ میرے خدا کی خاطر ایسا کر رہے ہیں یا سوکن کی خاطر کر رہے
خطبات طاہر جلد ۲ 456 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء ہیں؟ اگر خدا کی خاطر ہے تو مجھے ٹھنڈ پڑ جائے گی چاہے میں یہاں پیاس کے مارے تڑپ تڑپ کر جان دے دوں اور اگر میری سوکن کی خاطر ہے تو پھر تو بے قراری کی آگ اور بھی زیادہ بڑھے گی.ایک آپ کو چھوڑنے کا دکھ ، ایک ان حالات کا دکھ اور اوپر سے یہ سوتا پا کہ ایک بیوی کی خاطر دوسری بیوی کو یہ چھوڑ کر جارہے ہیں.جب انہوں نے یہ کہا کہ کیا خدا کی خاطر چھوڑ کر جارہے ہیں تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے انگلی آسمان کی طرف اٹھائی اور سر ہلایا پھر حضرت ہاجرہ بڑے اطمینان سے آکر اسماعیل کے پاس بیٹھ گئیں.یہ ہے اس گھر کے پاس آباد کرنے کا آغاز اور اس وقت کی جو دعائیں ہیں ان میں کسی شہر کا ذکر نہیں ملتا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے رب سے عرض کرتے ہیں رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا اے خدا! اس جگہ کو بَلَدًا امنا بنا دے.معلوم ہوتا ہے اس وقت وہاں کسی کی جھونپڑی تک نہ تھی.کھلا صحرا تھا جس میں نہ کوئی درخت تھا نہ کوئی سایہ.وہی ایک Mound یعنی چھوٹا سائیلہ بن گیا تھا ایک کھنڈر کے اوپر بس یہی ایک اونچی جگہ تھی اور دعا سے پتہ چل رہا ہے کہ وہاں کچھ نہیں تھا کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائی تھی: رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنًا) البقرة: ١٢٧) دعا اے خدا! تو اس چٹیل جگہ کو ایسے شہر میں تبدیل فرما دے جو امن کی جگہ ہو.جب تعمیر نو کی ہے تو اس وقت تو شہر بن چکا تھا اس عرصہ میں.پھر جب وہ دوبارہ آئے ہیں تو وہاں جرہم قبیلے کا ایک قافلہ آباد ہو چکا تھا اور کچھ اور لوگوں نے بھی گھر بنا لئے تھے.جب آکر دیکھا تو نقشہ بدلا ہوا تھا.ایک بیوی اور بچے کی بجائے ایک پورا قبیلہ وہاں آباد ہوگیا تھا.وہاں جو دعا کی ہے وہ یہ ہے: رَبِّ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ امِنَّا (ابراهيم: ٣٦) اے خدا اس شہر کو جو یہاں آباد ہو چکا ہے امن کی جگہ بنا دے.ایک لمبے عرصہ تک رابطہ رہا اور جب حضرت اسمعیل دوڑنے پھرنے کے قابل ہوئے تو دو واقعات یہاں گزرے ہیں، ایک خدا کے پہلے گھر کی تعمیر نو جس میں دونوں باپ بیٹے نے حصہ لیا اور دوسرے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی.پس خدا کے گھر بنانے سے پہلے جو پس منظر ہے وہ سوچئے کتنا دردناک ہے اور کتنا عظیم الشان ہے، کتنے گہرے محبت اور عشق کے جذبات ہیں جو اللہ اور بندے کے درمیان چل رہے ہیں اور پھر اس گھر کی تعمیر ہورہی ہے اور بظاہر یہ گھر اتنا معمولی ہے کہ باپ بیٹے نے مل کر چند پتھر رکھے ہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 457 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء سیدھے یا ٹیڑھے جیسے بھی ان بے چاروں سے رکھے گئے.وہ جانتے ہی نہیں تھی کہ تعمیر کس طرح کیا کرتے ہیں لیکن سب سے زیادہ پیار کی نگا ہیں جس گھر پر خدا کی پڑی ہیں وہ یہی گھر ہے.سب سے زیادہ عبادت کرنے والے جس عظیم الشان وجود نے اس گھر کو آباد کرنا تھا وہ حضرت محمد مصطفی ہے کی بعثت کا مطالبہ کیا گیا تھا اور جن الفاظ میں آپ نے دعا کی انہی الفاظ میں قبولیت کی خبر دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمدمصطفی ﷺ کو مبعوث فرمایا.چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعائی تھی کہ: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أَيَتِكَ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمُ (البقرة :١٣٠) اے ہمارے رب! ابْعَثْ فِیهِمُ ان لوگوں میں جن کو میں نے یہاں آباد کیا ہے ان میں وہ نبی مبعوث فرما، وہ نبی سے مراد وہ نبی جس کی خوشخبریاں اللہ تعالیٰ پہلے نبیوں کو دیتا آرہا تھا.فرمایا اس گھر سے زیادہ اور کوئی گھر مستحق نہیں ہے جسے میں اور میرا بیٹا بنا رہے ہیں اور جو ایسی عظیم الشان قربانیوں کے ساتھ بنایا گیا ہے کہ تو یہاں وہ نبی مبعوث فرما.گویا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت رسول اکرم ﷺ کی بعثت کے لئے چار دعائیں کیں کہ اس نبی کو یہ چار صفات عطا فر ما يَتْلُوا عَلَيْهِمْ أيتك وہ بنی نوع انسان پر تیری آیتیں تلاوت کرے.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتب اور کتاب کی تعلیم دے یعنی شریعت عطا کرے وَالْحِكْمَةَ اور اس شریعت کی ساتھ حکمتیں بھی بیان فرمائے.کوئی ایسا نبی نہ ہو جو یہ کہے کہ مانو نہیں تو جاؤ جہنم میں بلکہ دلوں کو بھی قائل کرے، دماغ کو بھی قائل کرے.وَيُزَ يُهِمُ اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے سوچا جب یہ تین خبریں ہو جائیں گی تو تزکیہ نفس تو ایک لازمی حصہ ہے.جس قوم کو ایسا رسول ملے جو اللہ کی آیتیں تلاوت کرے، پھر اس کو تعلیم کتاب دے، پھر اس کی حکمتیں بتائے ، اس کا تزکیہ تو ایک طبعی بات ہے.خدا تعالیٰ نے اس دعا کو انہی الفاظ میں قبول فرمایا لیکن ایک فرق کے ساتھ اور وہ یہ کہ اس دعا کے الفاظ کی ترتیب بدل دی.اور یہ بتایا کہ بندہ کی سوچ اور ہوتی ہے اور خالق و مالک اور علیم و حکیم خدا کی سوچ اور ہوتی ہے.ایسا باریک فرق کر دیا ہے کہ اس سے دعا کی شان کو بڑھا دیا ہے.سورۃ جمعہ میں اس دعا کی قبولیت کا اعلان ملتا ہے.فرمایا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّينَ رَسُوْلًا مِّنْهُمْ (الجمع :٣) دیکھو! ابراہیم کی دعاسنی گئی.یہ وہی خدا ہے جس نے انہی لوگوں میں سے وہ رسول بر پا کر دیا جس کے
خطبات طاہر جلد ۲ 458 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء متعلق دعا کی گئی تھی.يَتْلُوا عَلَيْهِمْ آيَتِهِ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وہ ان پر اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھ کر سناتا ہے ، وَيُزَ كَيْهِمْ اور ان کا تزکیہ کرتا ہے.یہاں تزکیہ جوحضرت ابراہیم علیہ السلام نے سب سے آخر پر رکھا تھا اللہ تعالیٰ اس کو پہلے لے آیا.پہلے پاک کرتا ہے.وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ الجمعة (۳) پھر تعلیم کتاب دیتا ہے پھر ان کو حکمتیں بتاتا ہے.اگر آپ غور کریں تو اس میں اللہ تعالیٰ نے صرف ترتیب بدلنے سے حیرت انگیز اصلاح فرمائی ہے اور اسلام کی شان کی طرف بھی روشنی ڈال دی کہ کتنا عظیم الشان مذہب ہے جو اب ظاہر ہونے والا ہے.پہلے مذاہب کی انتہا ہوا کرتی تھی تزکیہ ، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مذاہب کا جو دستور دیکھا تھا جو تاریخ ان کے سامنے کھلی تھی اس سے انہوں نے یہی سمجھا کہ انبیاء ہمیشہ پہلے تعلیم دیتے ہیں، حکمتیں سکھاتے ہیں پھر اس کے نتیجہ میں تزکیہ ہوتا ہے اور تزکیہ مقصود ہے یہ آخری خبر ہے.خدا تعالیٰ نے بتایا کہ اب دنیا میں ایک اور مذہب آنے والا ہے یہ مزکیوں کو اٹھائے گا اور مزید بلند تر مقامات پر لے جائے گا.اس سکول میں داخل ہونے کے لئے ڈگری زیادہ اونچی ہونی چاہئے.جس طرح ابتدائی سکول میں پرائمری کے لئے اور قابلیت کی ضرورت ہوا کرتی ہے، ہائی سکول کے لئے اور ضرورت ہوتی ہے اور ڈگریوں کے لئے اور ضرورت ہوتی ہے.پس اس ترتیب نے مذہب اسلام کا مقام بہت بلند کر دیا.خدا نے فرمایا نہیں اب تو تزکیہ والے لوگ ہی یہاں داخل ہو سکیں گے ، وہی فائدہ اٹھائیں گے گندے اور نا پاک لوگوں کے لئے یہاں جگہ ہی کوئی نہیں.پہلے تزکیہ ہوگا پھر تم اس لائق ہو گے کہ اسلام کی باتیں سمجھو.تزکیہ کے بغیر نہ اس کی تعلیم سمجھ میں آتی ہے ، نہ اس کی حکمتیں معلوم کر سکو گے اور بعینہ یہی وہ مضمون ہے جس سے قرآن کریم کا آغاز ہورہا ہے.اس سے معلوم ہوتا ہے یہ کسی بندہ کا کلام نہیں.آیات کے درمیان اتنا گہرا اور اتنا مضبوط ربط ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے.پہلے تو رسول کا تعارف تھا اب کتاب کا تعارف سنے.فرمایاذ لك الكتب یہ وہی کتاب ہے جس طرح فرمایا یہ وہی رسول ہے جس کے لئے دعا کی گئی تھی اسی طرح فرمایا یہ وہی کتاب ہے جس نے آنا تھا.لَا رَيْبَ فِيهِ اس میں کوئی شک نہیں.هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرہ:۳۰) لیکن یہ وہ ہدایت نہیں ہے جو غیر متقی کو بھی مل سکے.تزکیہ والے لوگ اور متقی ایک ہی چیز کے دو نام ہیں فرمایا اس کتاب سے استفادہ کے لئے تقویٰ شرط ہے یعنی پہلے تزکیہ
خطبات طاہر جلد ۲ 459 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء نفس ہو پھر یہ کتاب آگے بڑھائے گی.اور جن کا دل پاک نہیں ہے، جو گندے لوگ ہیں ان کو اس کتاب سے کچھ بھی نہیں ملنا، وہ یہ سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے.ان کا مقام وہ نہیں ہے، ان کی ڈگریاں اس قابل نہیں ہیں کہ ان کو اس عظیم الشان کالج میں داخل کیا جائے جو حضرت محمد مصطفی ملالہ کا مکتب ہے.صلى الله اس کے علاوہ شان محمد مصطفی ﷺ ایک اور طرح بھی ظاہر فرمائی ہے.فرمایا یہ وہ رسول نہیں ہے جو یہ انتظار کرے گا کہ تعلیم دے اور پھر تمہارا تزکیہ کرے.اس میں عظیم الشان قوت قدسیہ ہے.ان پڑھوں میں سے آیا اور انہی میں آیا، ان پڑھوں میں پیدا ہوا اور ان میں سے ایک تھا.یہاں سے بات شروع ہوئی ہے اور فرماتا ہے يُعَلِّمُهُمُ الكتب وَالْحِكْمَةَ تعلیم بھی دے گا کتاب بھی سکھائے گا مگر یہ تو لمبا عرصہ ہے ان پڑھوں کو کہاں تک تعلیم دی جائے کہاں تک ان کے تزکیہ کا انتظار کیا جائے.فرمایا یہ اتناعظیم الشان رسول ہے اورایسی عظیم الشان قوت قدسیہ ہے اس کی کہ اس کو ملنا، اس کو دیکھنا ہی پاک ہونے کے مترادف ہے اور پہلے پاک کرے گا پھر پڑھائے گا اور تعلیم دے گا.دوسرے معنوں میں اس کتاب والے مضمون کو ایک اور رنگ میں پیش فرمایا اور بتایا کہ یہ ایسا رسول ہے جو خود ہی کپڑوں کو دھوتا بھی ہے کیونکہ اس نے رنگ ڈالنا ہے.جس طرح ایک اچھا رنگ ریز ایسے رنگ کے متعلق جو ہر کپڑا پکڑ نہیں سکتا پہلے اس کے داغ صاف کرتا ہے.اس رنگ کو قبول کرنے کے لئے پہلے اسے اچھی طرح تیار کرتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حمد مصطفیٰ علی ہے تمہیں جو رنگ دینے آئے ہیں وہ ہر کپڑے پر چڑھ نہیں سکتا لیکن اب تم مطالبہ کرو گے کہ ہم کیسے تیار ہوں تو فرمایا محمد مصطفی ﷺ سے تعلق پیدا کر لو، یہ خود تمہیں صاف کرے گا، خود تیار کرے گا، وہ دلوں کو پاکیزگی بخشے گا جس کے بعد پھر اسلام کی تعلیم سمجھ آسکتی ہے اور اس کی حکمتیں سمجھ آسکتی ہیں اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے وہ شعر کہا جسے آپ کے شدید ترین دشمن بھی سنتے تھے تو سر دھنتے تھے اور بعض نے اپنی مساجد پر اس شعر کو لکھوایا کہ اگر خواهی دلیلے عاشقش باش محمد صلى الله برہان محمد ( در تمین فارسی صفحه ۱۴۱) کہ اے محمد مصطفی ﷺ کی صداقت کی دلیل ڈھونڈنے والے کیا تم نے کبھی سورج کی دلیل بھی ڈھونڈی ہے ، سورج تو اپنی صداقت کی دلیل آپ ہوا کرتا ہے یہ تو ایسی سچائی اور پاکیزگی کا سورج چڑھ گیا ہے کہ پہلی مرتبہ دنیا میں یہ واقع ہوا ہے کہ یہ حسن کامل اپنی دلیل خود لے کر آیا ہے اس لئے تم
خطبات طاہر جلد ۲ 460 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء - اگر دلیل ڈھونڈتے ہو تو اس کے عاشق بن جاؤ اس کے سوا اور کوئی دلیل نہیں ہے.دنیا کا محبوب ظاہر ہو چکا ہے.محمد ہست برہان محمد محمد اپنی آپ دلیل ہے.سب سے زیادہ شاندار دلیل آپ کی صفات حسنہ ہیں آپ کی قوت قدسیہ ہے اور وہ سب کو پاک کرتی ہے اور پھر انہیں الہی رنگ چڑھانے کے لئے تیار کرتی ہے.چنانچہ یہ دعا تھی حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک چھوٹے سے کھنڈر کے اوپر جس کو بڑی محنت سے آپ نے تلاش کیا الہی ہدایت کے مطابق ، ورنہ وہ کھنڈر تلاش بھی نہیں ہونا تھا.آپ کوئی جغرافیہ دان نہیں تھے، کوئی کمپاس آپ کے پاس نہیں تھی ، خواب دیکھی اور بیوی بچے کو لے کر چل پڑے اور اس زمانہ میں سینکڑوں میل کا سفر اختیار کیا اور پھر ایک جگہ ساحل سمندر پر آپ نے اونٹ وغیرہ چھوڑے اور وہاں سے پھر پیدل نکلے ہیں اور واپس اس حال میں لوٹے ہیں کہ نہ بیوی ساتھ تھی نہ بچہ ساتھ تھا ایک تو کل تھا اللہ تعالیٰ پر اور یقین تھا کہ یہ وہ گھر ہے جو سب گھروں سے زیادہ شاندار بننے والا ہے.پس ظاہری تعمیر کی کوئی بھی حقیقت نہیں.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایسی ایسی حکومتیں ہیں جو خدا کے گھر بنارہی ہیں کہ ہمارے صد سالہ منصوبے پر جتنی رقم خرچ ہونی ہے اس سے کئی گنا زیادہ رقم وہ ایک مسجد کی تعمیر پر لگا دیتی ہیں یعنی ہمارا صد سالہ منصوبہ دس کروڑ کا تھا اور اس میں سے ابھی تک نصف کے قریب رقم وصول ہوئی ہے یعنی ساری جماعت کی غریبانہ کوششوں کا یہ حال ہے اور دوسری طرف یہاں اس ملک میں بھی ایسی مساجد عطیہ کے طور پر بنائی گئی ہیں جن کے اوپر ایک ارب روپے سے زیادہ لاگت اٹھ رہی ہے اور بعض کئی کئی ارب روپے کی ڈیزائن ہو رہی ہیں.پس جہاں تک ظاہری شان و شوکت کا تعلق ہے ہم تو اس میدان کے کھلاڑی ہی نہیں ہیں ، نہ اس سے ہمیں کوئی فرق پڑتا ہے.لوگ کہتے ہیں دیکھو فلاں نے کتنی شاندار مسجد بنوائی ہے، ہم کہتے ہیں ٹھیک ہے بہت شاندار بنوائی ہوگی لیکن ہمیں تو وہ شان چاہئے جس پر اللہ کے پیار کی نظر پڑے جسے خدا کے انبیاء کا دستورالعمل شاندار قرار دے اور وہ شاندار عمارت تو جیسا کہ میں نے بتایا بڑی غریبانہ حالت میں تعمیر ہوئی تھی.دوسری طرف ایک اور عمارت تھی اگر یہ اول المساجد تھی تو وہ آخر المساجد کہلائی اور وہ مسجد نبوی تھی جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ میں تعمیر فرمائی اور اس مسجد کی شان بھی سن لیجئے کہ کیا تھی.گھاس پھوس کی چھت تھی ، فرش پر کوئی ٹائل نہیں تھے کوئی پختہ اینٹیں نہیں تھیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 461 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء بارش ہوتی تو چھت ٹپکتی تھی تو کیچڑ ہو جاتا تھا اور اس کیچڑ میں سجدہ کرتے وقت لوگوں کے ماتھے اور ناک کیچڑ سے لت پت ہو جاتے تھے لیکن وہ مسجد خدائی نظر میں جوشان رکھتی تھی کسی دوسری مسجد کو اس سے کوئی نسبت ہی نہیں ہے.پس اول اور آخری دو مسجدیں ہمیں معلوم ہیں کہ جو ساری مساجد میں سب سے زیادہ شاندار ہیں اور میری دعا ہے کہ ہم ہمیشہ جب بھی مسجدیں بنائیں انہی مساجد کے نمونہ پر بنائیں، اسی طرح دعاؤں کے ساتھ اور گریہ وزاری کے ساتھ بنائیں اور بھول جائیں اس بات کو کہ ان کی ظاہری شان و شوکت دنیا کو پسند بھی آتی ہے یا نہیں.ہاں یہ دعا کریں کہ جس طرح حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام نے دعا کی کہ اے خدا! ان میں پھر عبادت کرنے والے پیدا کرنا جو عبادت کا حق ادا کرنے والے ہوں.چنانچہ بڑے درد کے ساتھ وہ خدا تعالیٰ کے حضور عرض کرتے ہیں کہ اے خدا! میں بتوں سے تو بہت بیزار ہوں ، شرک نے دنیا میں ایک آفت ڈھا رکھی ہے.واخُبُنِي وَبَنِي أن نَّعْبُدَ الْاَصْنَامَ مجھے اور میرے بیٹے کو تو شرک سے محفوظ رکھنا کسی قسم کے شرک میں ہم ملوث نہ ہوں.رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ كَثِيرًا مِّنَ النَّاسِ اے خدا ! بہت دنیا کو بتوں نے تباہ کیا ہے اور شرک نے ہلاک کر دیا ہے فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّی پس اے خدا! جو میری پیروی کرے گا وہ تو شرک سے پاک رہے گا وہ تو میرا ہے اور جو میری پیروی نہیں کرے گا اس کے سوا مسجدیں بنائے گا اور عبادت کے لئے بڑے بڑے گھر تعمیر کرے گا مجھے اس سے کوئی غرض نہیں ہے لیکن اس کے متعلق بھی میں اتنا عرض کرتا ہوں فَإِنَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ تو غفور رحیم ہے ان کے لئے بھی بخشش کے سامان پیدا کرنار بنا إِنِّي أَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِنْدَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ کے الفاظ میں یہ دعا اپنے درد کے معراج کو پہنچتی ہے.کہتے ہیں اے خدا! اس گھر کی خاطر جو میں اور میرا بیٹا یہاں تعمیر کر رہے ہیں اَسْكَنْتُ مِنْ ذُرِّيَّتِي میں نے اپنی ذریت کو یہاں آباد کیا جبکہ یہ بوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرع تھی یہاں گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں اگتا.ایسا بیابان علاقہ تھا عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ میں نے ڈھونڈا وہ گھر کون سا ہے جو تیری خاطر بنایا گیا تھا اور وہاں میں نے اس کو آباد کیا.کیوں آباد کیا رَ بَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلوةَ ال خدا اس لئے آباد کیا کہ تیری عبادت کی جائے فَاجْعَلْ أَفَبِدَةً مِّنَ النَّاسِ تَهْوِى
خطبات طاہر جلد ۲ 462 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء إلَيْهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِّنَ الثَّمَرتِ لَعَلَّهُمْ يَشْكُرُونَ پس تو اب لوگوں کے دل بھی مائل کر دینا.یہ زمین تو کچھ نہیں اگاتی لیکن ساری زمینیں تیری ہیں جو اگاتی ہیں.تو اگر چاہے تو سب کے پھل دوڑتے ہوئے اس کی طرف چلے آئیں.پس دنیا کی زمینیں جو پھل اگائیں گی میری دعا یہ ہے کہ اس زمین کی طرف ان کا رخ پھیر دینا اور یہاں رہنے والوں کو یہ شکوہ نہ رہے کہ انہیں بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرع میں آباد کیا گیا تھا اور اے خدا! إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ میں نے بہت بڑے دعوے کئے ہیں کہ یہ سب کچھ تیری خاطر کر رہا ہوں لیکن یہ بھی جانتا ہوں کہ بعض ایسی باتیں بھی ہیں جو مجھے نہیں معلوم اپنے دل کی اور تو ان کو بھی جانتا ہے اس لئے انسانی دعوے کی کوئی بھی حیثیت نہیں.آخر پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جو عاجزانہ بات کی ہے وہیں جا کر تان ٹوٹتی ہے کہ إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ تو جانتا ہے کہ ہم جسے چھپائے ہوئے ہیں اور جسے ظاہر کر رہے ہیں وَمَا يَخْفى عَلَى اللَّهِ مِنْ شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاء اور اللہ پر زمین و آسمان کی کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں.پس جماعت احمدیہ کو ان دو مساجد سے جن کا میں نے ذکر کیا ہے یعنی اول بیت اور اخر المساجد سے سبق لینا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ یہ مساجد محض عبادت کی خاطر تعمیر کی گئی تھیں.اگر ہم ساری دنیا میں مساجد آباد کرنے کا پروگرام بنالیں، اگر خدا ہمیں توفیق دے کہ براعظم آسٹریلیا کا کیا سوال ہے ہر ہر شہر اور ہر ہر بستی میں مساجد بنائیں لیکن اگر مساجد بنانے والوں کے دل تقویٰ سے خالی ہوں اور وہ خود خدا کے گھروں کو آباد کرنے کی اہلیت نہ رکھتے ہوں ، اگر ان کے اندر وہ ابراہیمی صفت نہ ہو اور آنحضرت علی کی عبادات کا رنگ نہ ہو، وہ خالص نیتیں نہ ہوں جو اللہ کے لئے خالص ہو جایا کرتی ہیں، وہ زیتیں نہ ہوں جو یخنیں لے کر متقی خدا کے گھروں تک پہنچا کرتے ہیں پھر ان گھروں کی تعمیر کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتی.یہ سارے سفر بے کار ہیں اور یہ سارے پیسے ضائع کئے جارہے ہیں ان میں کوئی حقیقت نہیں اس لئے جماعت احمد یہ ہر دفعہ جب کوئی مسجد بناتی ہے تو ایک نئے عزم کے ساتھ ہمیں عبادت پر قائم ہو جانا چاہئے.میں اس یقین کے ساتھ ملک سے باہر جاؤں کہ جماعت احمدیہ میں جو پہلے عبادت میں کمزور تھے اب وہ عبادت میں اور زیادہ مضبوط ہو گئے ہیں اور جو پہلے عبادت کرتے تھے وہ پہلے سے بھی بڑھ کر عبادت کا حق ادا کرنے لگے ہیں.مجھے وہاں یہ محسوس ہو کہ جماعت اپنی عبادت میں اس طرح ترقی کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے پیار اور
خطبات طاہر جلد ۲ 463 خطبه جمعه ۲ ستمبر ۱۹۸۳ء رحم کی نظریں ہم پر پڑ رہی ہیں.آپ کی عبادت ہی ہے جس نے اس پروگرام کو رونق بخشی ہے، آپ کی عبادت ہی ہے جو اس پروگرام میں خلوص اور سچائی بھر دے گی ورنہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے دنیا تو اس سے بہت بڑی بڑی مسجد میں بنا رہی ہے ان کے مقابل پر ہماری مسجد کی کوئی بھی حیثیت نہیں.آپ خلوص نیت کے ساتھ عبادت پر قائم ہو جائیں، عبادت کا حق ادا کرنا سیکھ لیں اپنی بیوی اور بچوں کو نمازیں پڑھائیں اور سمجھ کر نماز پڑھنے کی عادت ڈالیں.اللہ تعالیٰ کا پیار اور محبت پیدا کریں پھر دیکھیں کہ جس طرح اس پہلے گھر کی طرف لوگوں کے دل مائل ہو گئے تھے اسی طرح خدا کے اس نئے گھر کی طرف اہل آسٹریلیا کے دل مائل ہو جائیں گے.پھر دنیا کی کوئی طاقت ان کو اس گھر میں آنے سے روک نہیں سکے گی اور وہ ویرانہ یعنی آسٹریلیا جو روحانی لحاظ سے ویران پڑا ہوا ہے وہاں خدا کی عبادت کی خاطر ہم جو گھر بنانے والے ہیں اس کی مثال بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس گھر سے ملتی جلتی ہے، وہ ظاہری طور پر بھی ویران جگہ تھی اور روحانی طور پر بھی لیکن آسٹریلیا روحانی طور پر کلیہ ویران ہے اس لئے دعائیں کریں اور بہت دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری نیکی اور خلوص اور ہماری عبادت کی سچی روح کو قبول فرمائے اور کثرت کے ساتھ دلوں کو اس گھر کی طرف مائل کر دے جو ہم وہاں بنانے لگے ہیں اور یہ گھر ایک نہ رہے بلکہ اس گھر کے نتیجہ میں پھر وہاں ہزاروں لاکھوں کروڑوں گھر بنیں اور ہر گھر خدا کی عبادت سے بھرتا چلا جائے.یہی ہماری زندگی کا مقصد ہے ، یہی ہماری جنت ہے، اللہ تعالیٰ کی یہی وہ رضا ہے جو ہمیں نصیب ہو جائے تو ہم سمجھیں گے کہ ہم دنیا میں کامیاب ہو گئے اور ہماری زندگی کا مقصد پورا ہوگیا.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: آج کے اس جمعہ کے لئے چونکہ بکثرت مسافر باہر سے تشریف لائے ہوئے ہیں اور انہوں نے واپس جانا ہو گا اس لئے جمعہ کی نماز کے ساتھ ہم نماز عصر جمع کریں گے.دوست جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز کے لئے بھی صفیں بنالیں.جمعہ کی نماز کے آخری سجدہ میں خصوصیت کے ساتھ آسٹریلیا میں مسجد اور مشن ہاؤس کی تعمیر کی کامیابی کے لئے اور اسے اس تمام علاقے میں اسلام کا نور پھیلانے کا موجب بننے کے لئے دعائیں کریں.روزنامه الفضل ربوه ۸ ستمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 465 خطبہ جمعہ ۹ر ستمبر ۱۹۸۳ء وو دورہ مشرق بعید اور الہام جے تو میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو“ کی تشریح ( خطبه جمعه فرموده ۹ ستمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد احمد یہ سنگا پور ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: یہ سفر جو میں نے اختیار کیا ہے یہ کئی لحاظ سے بڑی اہمیت بھی رکھتا ہے اور جماعت کی تاریخ میں کئی لحاظ سے ایک نمایاں مقام بھی رکھتا ہے.اس کی ایک نمایاں خصوصیت تو یہ ہے کہ ایک نئے براعظم میں جماعت کی طرف سے با قاعدہ مسجد اور مشن ہاؤس کا سنگ بنیاد رکھا جانے والا ہے.اگر چہ اس براعظم میں پہلے سے رضا کارانہ طور پر تبلیغ اسلام کا کام ۱۹۱۳ء سے شروع ہے لیکن با قاعدہ مشنری کے ذریعہ اور باقاعدہ مشن کی بنیا درکھ کر پہلے کام نہیں ہوا.دوسرے یہ کہ اس دورے کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ جماعتی لحاظ سے اس سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کسی خلیفہ کو مشرق کے دورے کی توفیق نہیں ملی تھی.جہاں تک مجھے یاد ہے بحیثیت خلیفہ کسی نے مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش ) کا دورہ بھی نہیں کیا.مجھ سے پہلے جو خلیفہ تھے یعنی حضرت خلیفہ اسیح الثالث وہ خلافت سے قبل مشرقی پاکستان تشریف لے جاتے رہے اور میں بھی اس حیثیت سے مشرقی پاکستان میں گیا کہ جماعت کے وفد کے
خطبات طاہر جلد ۲ 466 خطبه جمعه ۹ ستمبر ۱۹۸۳ء ایک ممبر کے طور پر بار ہا وہاں جانے کا موقع ملا لیکن بحیثیت خلیفہ امسیح میں سجھتا ہوں کہ اس سے پہلے نہ کوئی مشرقی پاکستان اور نہ سیلون بلکہ اس رخ پر بھی کوئی دورہ کسی خلیفہ کا نہیں ہوا اس لئے مجھے خوشی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر مشرق کے لئے اسلام کی نئی ترقیات کا دروازہ کھولنے کا فیصلہ کر چکی ہے اور اس پہلو سے حضرت رسول اکرم ﷺ کی پیشگوئی ایک اور رنگ میں بھی پوری ہو رہی ہے کہ سورج مغرب سے طلوع کرے گا کیونکہ مشرق بعید کی جتنی قومیں ہیں ان پر مغرب کا سورج بذریعہ احمدیت طلوع کرنے والا ہے لیکن اس دورے میں ایک کمی محسوس ہو رہی ہے اور وہ ہمارا انڈو نیشیا نہ جاسکتا ہے کیونکہ اس سے پہلے جب بھی خلفاء کی مشرق یا مشرق بعید آنے کی باتیں ہوئیں ہمیشہ سب سے نمایاں اور سب سے اہم ملک جو سامنے آتا رہا وہ انڈو نیشیا ہی تھا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بعض احمدیوں کو ایسی رو یا دکھائی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈونیشیا نہ جا سکنا کوئی اتفاقی حادثہ نہیں بلکہ پہلے سے ہی تقدیر الہی میں مقدر تھا لیکن اس کے بدنتائج نہیں نکلیں گے بلکہ ان خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس فعل میں بھی برکت ڈالے گا اور انڈونیشیا کے لئے بھی ترقی کے بہت سے سامان پیدا فرمائے گا.جب ہم نے انڈونیشیا کے دورہ کے متعلق سوچنا شروع کیا تو آغاز میں اس معاملہ کو جماعت پر روشن نہیں کیا گیا بلکہ تحریک جدید کے وہ چند عہدیدار جن کا اس دورے کے انتظامات سے تعلق تھا صرف ان کو ہی بتایا گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے دو مختلف آدمیوں کو جن ( کو ) اس دورے کا کوئی بھی علم نہیں تھا بذریعہ خواب اس دورہ کے متعلق اطلاع دی.ان میں سے ایک دوست ہمارے خاندان سے ہی تعلق رکھتے ہیں ان کا بڑے تعجب کے اظہار مشتمل پر ایک خط مجھے ملا اور انہوں نے یہ پوچھا کہ میں نے ایک ایسی خواب دیکھی ہے جس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ کہیں آپ انڈو نیشیا جانے کا پروگرام تو نہیں بنا ر ہے.ان کی خواب یہ تھی کہ میں انڈونیشیا سے باہر لیکن قریب ہی کسی جگہ بیٹھا ہوا ہوں اور انڈو نیشیا میں تبلیغ اسلام کی سکیم بنارہا ہوں اور انہوں نے جو تبلیغی سکیم بناتے ہوئے دیکھا، مجھے تو وہ جانتے تھے باقی دوستوں کو انہوں نے نہیں پہچانا کہ وہ کون ہیں لیکن ایک ایسا کمرا ہے جس میں میرے سوا اور بھی چند لوگ بیٹھے ہوئے ہیں اور ہم بڑے انہماک کے ساتھ انڈونیشیا کو احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے لئے بڑے پیمانے پر فتح کرنے کا پروگرام بنارہے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 467 خطبه جمعه ۹ ستمبر ۱۹۸۳ء یہ خواب حیرت انگیز طور پر پوری ہوئی کیونکہ ان کے اس خط کے ملنے سے پہلے ہی ہمیں یہ اطلاع مل گئی تھی کہ ہمیں انڈونیشیا جانے کی اجازت نہیں ہوگی اور یہ فیصلہ بھی کیا جا چکا تھا کہ انشاء اللہ سنگا پور میں انڈونیشیا کے دوستوں کو بلا کر وہاں ان سے مشورہ کر کے آئندہ کے پروگرام بنائیں گے اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر میں انڈونیشیا کو بھی جہاں تک اس دورے کے فوائد کا تعلق ہے شامل فرمالیا گیا ہے.بالکل اسی مضمون کی خواب اللہ تعالیٰ نے ایک اور ایسے شخص کو دکھائی جس کا ہمارے خاندان سے تو کوئی تعلق نہیں اور ویسے بھی جماعت میں وہ کوئی معروف آدمی نہیں ہیں ، ایک گاؤں کے رہنے والے ہیں ان کا وہم بھی نہیں جا سکتا تھا انڈونیشیا کی طرف اور اس طرف کہ انڈونیشیا جانے کا پروگرام ہو اور وہاں جانے کی توفیق نہ ملے.بہر حال اس دورے کی اہمیت کے پیش نظر میں چند امور آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.یہ وہ علاقے ہیں جو بعض پہلوؤں سے بہت ہی بد قسمت ہیں کیونکہ اسلام کو اگر چہ ایک زمانہ میں یہاں نفوذ کی توفیق ملی لیکن کئی سو سال سے یہ تاریخ بن رہی ہے کہ بدھسٹ عیسائیت تو قبول کر رہے ہیں لیکن اسلام کی طرف مائل نہیں ہو رہے.اسی طرح کنفیوشس کے ماننے والے اور تاؤ ازم کے مقلدین کو بھی اگر چہ عیسائیت کی طرف توجہ ہو رہی ہے لیکن انہوں نے ابھی تک اسلام کی طرف وسیع پیمانے پر توجہ نہیں شروع کی.گزشتہ چند سالوں سے اس طرز عمل میں کچھ تبدیلی واقع ہوئی ہے لیکن وہ بھی بعض پہلوؤں کے لحاظ سے اتنی خوشکن نہیں جتنی کہ وہ اپنے اندر بعض خطر ناک پہلو رکھتی ہے اور یہ دونوں تاریخی عمل یعنی سب سے پہلے ان قوموں کا عیسائیت کی طرف مائل ہونا اور گزشتہ چند سال سے اسلام میں دلچسپی لینا بنیادی طور پر ایک ہی نفسیاتی توجہ کو ظاہر کر رہے ہیں.وہ وجہ یہ ہے کہ عیسائیت میں بھی ان کی دلچسپی در اصل مادہ پرستی میں دلچپسی کا نتیجہ تھی اور عیسائیت کو چونکہ انہوں نے ایک وسیع طاقتور قوم کے طور پر دیکھا جس سے ان کے مالی اور سیاسی مقاصد وابستہ ہو سکتے تھے اور فوائد پہنچ سکتے تھے اس لئے حقیقت میں انہوں نے کسی مذہب کو قبول نہیں کیا بلکہ ایک متمول سیاسی قوم کے اثر کو قبول کیا ہے.چنانچہ یہی دنیا داری کا رجحان اب ان کو اسلام میں دلچسپی لینے پر مجبور کر رہا ہے کیونکہ تیل کی دولت نے سب دنیا کی توجہ مشرق وسطی کی طرف کھینچی ہے اور اس سے استفادہ کرنے کے لئے بعض ایسی قومیں توجہ کر رہی ہیں جو دراصل مادیت میں دلچسپی رکھتی ہیں کیونکہ ان کے سابقہ مذاہب نے بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 468 خطبه جمعه ۹ ر ستمبر ۱۹۸۳ء انہیں خدا کا کوئی واضح تصور عطا نہیں کیا.چنانچہ چند سال قبل جاپان کی مسلم ایسوسی ایشن کے بعض عہد یداروں سے میری ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو یہ بات کھل کر میرے سامنے آئی کہ ان کو اسلام سے زیادہ ان علاقوں میں دلچسپی ہے جہاں مسلمان قابض ہیں اور تیل دریافت ہو چکا ہے چنانچہ ان لوگوں نے محض نام تبدیل کئے اور اسلام کو گہرائی سے سمجھے بغیر اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا.جس خطرہ کی میں نے نشاندہی کی تھی کہ اس میں فوائد سے زیادہ خطرہ نظر آتا ہے وہ خطرہ یہ ہے کہ چونکہ وہ اسلام کو صحیح طور پر نہیں سمجھ سکے اس لئے مسلمان کہلانے کے باوجود مذہب اسلام کو نقصان پہنچانے کا موجب بن سکتے ہیں.چنانچہ اس کے دو ثبوت مجھے ان جاپانی مسلمانوں سے گفتگو کے دوران یہ ملے کہ انہوں نے مجھے بتایا کہ اسلام میں جو شراب حرام ہے وہ جاپان کے حالات کی رو سے حرام نہیں ہے اس لئے ہماری مسلم ایسوسی ایشن نے باقاعدہ فتویٰ شائع کر دیا ہے کہ جاپان میں مسلمانوں کے لئے شراب پینا جائز ہے کیونکہ جن حالات میں منع ہے جاپانی قوم پر وہ اطلاق نہیں پاتے.اسی طرح سور کھانا بھی جاپان کے مسلمانوں کے لئے جائز ہے کیونکہ یہ بہت صاف ستھرا جانور ہے اسے اچھی طرح حفاظت سے پال کر ذبح کیا جاتا ہے.تو جا پانی حالات میں شراب بھی حلال ہوگئی اور سور کا گوشت بھی حلال ہو گیا اسی طرح دیگر اسلامی احکامات میں بھی ان لوگوں کا دخل دینا بعید از قیاس نہیں ہے بلکہ جہاں تک عبادات کا تعلق ہے عملاً وہ یہی سمجھتے ہیں کہ کبھی شوقیہ کوئی نماز پڑھ لی جائے تو یہی بہت کافی ہے اور جہاں تک روزوں کا تعلق ہے بعض ایسے مسلمانوں سے جب میں نے پتہ کیا تو انہوں نے کہا ہم ایک آدھ روزہ رکھ لیتے ہیں اس سے زیادہ روزہ اس زمانہ میں نہیں رکھا جا سکتا.تو گویا ایسا اسلام قبول کیا جا رہا ہے جو ان کے نزدیک نہ صرف مختلف قوموں کے لئے مختلف شکلیں اختیار کر جاتا ہے بلکہ مختلف زمانوں سے الگ الگ سلوک کرتا ہے.پس اگر چہ عیسائیت کو قبول کرنے اور اسلام کو قبول کرنے کی بنیادی وجہ بظاہر ایک ہی نظر آتی ہے لیکن عیسائیت کو کوئی خطرہ نہیں اور اسلام کو خطرہ ہے.عیسائیت کو اس لئے خطرہ نہیں کہ عیسائیت تو پہلے ہی جتنا بگڑ سکتی تھی بگڑ چکی ہے.اس میں اگر کوئی تبدیلی کی جائے تو ہوسکتا ہے اصلاح ہو جائے اس میں مزید بگاڑ کا کوئی امکان نظر نہیں آتا.چنانچہ گزشتہ ایک صدی نے یہی حقیقت ظاہر کی ہے کہ عیسائیت میں فی زمانہ ہونے والی تبدیلیوں نے عیسائیت کے چہرے مہرے کو پہلے سے بہتر کیا
خطبات طاہر جلد ۲ 469 خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۸۳ء ہے بگاڑا نہیں.مثلاً طلاق کا مضمون ہے، آج سے چند سو سال پہلے تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ عیسائی دنیا طلاق کی اجازت دے گی ، اسی طرح اگر عورت کی صحت اجازت نہ دے تو اسلام اس بات سے منع نہیں کرتا کہ بچے کو ضائع کر دیا جائے کیونکہ جو زندگی ماں کی ہے وہ بچے کے مقابل پر زیادہ عزیز ہے لیکن عیسائی اس کے قائل نہیں تھے.گزشتہ ایک دو سو سال کے اندر اندر یہ نمایاں تبدیلی بھی ہمیں نظر آ رہی ہے کہ اب عیسائی دنیا اس کو جائز سمجھنے لگی ہے.سوائے ایک دو ملکوں کے باقی سب عیسائی فرقے اور مختلف ملکوں کے عیسائی اس کو جائز قرار دینے لگے ہیں.پس ایک بیمار اور نیم جان اور نیم مردہ مذہب میں اگر کوئی تبدیلیاں کی جائیں تو اس کو فائدہ ہی بخشتی ہیں اس کی مزید موت کا کوئی خطرہ نہیں بنتیں لیکن ایک زندہ مذہب اس بات کا متحمل نہیں ہوتا کہ اس میں تبدیلیاں کی جائیں.پس عیسائیت کو نہ صرف کوئی خطرہ نہیں بلکہ فوائد بھی حاصل ہوئے کیونکہ ان کے مقصد دنیاوی تھے.اس وقت عیسائی دنیا جہاں جہاں بھی تبلیغ کر رہی ہے اس کے پیچھے مغرب کے سیاسی اثر کو وسیع کرنا اور بڑی طاقت اور مضبوطی کے ساتھ وہاں مغربی تہذیب کے قدم جمانا یہ دو بنیادی مقاصد کارفرما ہیں اور یہ دونوں مقاصد ان کو عیسائیت کی قربانی دیئے بغیر حاصل ہو جاتے ہیں لیکن اسلام کو تو کسی سیاسی عروج میں دلچسپی نہیں.یہ تو انسان کی روحانی زندگی میں دلچسپی رکھتا ہے اور بندہ کے خدا سے تعلق میں دلچسپی رکھتا ہے اس لئے ایسی قوموں میں اسلام کا نفوذ جو اسلام کو بگاڑنے لگ جائیں اور ان کے لئے نگرانی کا کوئی انتظام نہ ہو سکے یہ محض نقصان کا سودا ہے اس سے اسلام کو کچھ بھی فائدہ نہیں پہنچ سکتا.پس ہمیں تو اسلام سے سچی محبت اور پیار ہے ہم کہیں بھی اس صورت میں اسلام کا آنا پسند نہیں کرتے کہ اس کا ہاتھ نعوذ باللہ طاغوتی طاقتوں نے پکڑا ہو اور بعض غیر اسلامی قدریں لے کر وہ کسی ملک میں داخل ہو.پس اس پہلو سے احمدیت کی ذمہ داریاں پہلے سے بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں.نام کے اسلام سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں ہمیں تو حقیقت اسلام میں دلچسپی ہے اور نہ صرف یہ کہ نئی قوموں کو ہم نے سچا اسلام دینا ہے بلکہ ان لوگوں کو جو اسلام کا غلط تصور لے رہے ہیں یا اسلام میں بگاڑ پیدا کرنے میں کوئی باک محسوس نہیں کرتے اور کوئی ان کے ہاتھ روک نہیں رہا ان کی اصلاح کرنا بھی اب جماعت احمدیہ کی ذمہ داری ہے.یہ اتنا بڑا کام ہے کہ اس کے مقابل پر جو ہمیں ظاہری توفیق حاصل
خطبات طاہر جلد ۲ 470 خطبه جمعه ۹ ر ستمبر ۱۹۸۳ء ہے وہ کچھ بھی نہیں.اور اگر محض دنیوی نقطہ نگاہ سے دیکھیں تو ہرگز جماعت کی یہ طاقت نہیں کہ وہ اس عظیم الشان کام کو سرانجام دے سکے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایک نہایت ہی آسان طریق ناممکن کاموں کو ممکن بنانے کا مقرر فرما رکھا ہے.وہ بہت ہی آسان اور بہت ہی پیارا اور بہت ہی دلنو از طریق ہے جس میں کوئی مشکل اور مشقت نہیں بلکہ لطف ہی لطف ہے.پرسوں کراچی میں ایک غیر از جماعت دوست کے سوال کے جواب میں میں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا پنجابی الہام بیان کیا.اس الہام میں یہ بات بیان کی گئی ہے جو میں آپ کے سامنے کھول کر رکھنا چاہتا ہوں.وہ الہام شعر کے ایک مصرعہ میں ہے: عے جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو ( تذكرة صفحه : ۳۹۰) پس دنیا کو اپنا بنانے کے لئے دور ستے ہیں.ایک یہ ہے کہ براہ راست دنیا کے پیچھے پڑا جائے اور دنیا کو اپنا بنایا جائے.یہ بہت ہی مشکل اور وسیع کام ہے اور ایک چھوٹی سی جماعت کے لئے ناممکن ہے کہ ساری دنیا کے پیچھے پڑ کر اسے اپنا بنا سکے.اس کا سب سے آسان طریق یہ ہے کہ دنیا کے مالک کو اپنا بنا لیا جائے جو ایک ہی ہے اور اس سے تعلق جوڑنا ہر بندہ کے بس میں ہے.پس اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جب اتنی بڑی ذمہ داری سونپی کہ آج کے زمانہ کی دنیا کو خدا کے نام پر آنحضرت ﷺ کی غلامی میں اکٹھا کیا جائے تو بظاہر یہ کام ناممکن تھا لیکن ایک چھوٹے سے مصرعہ میں اس کا حل بھی بیان فرما دیا کہ اس طریق پر یہ کام کرو.اس کا مطلب یہ ہے کہ جہاں جہاں بھی احمدی موجود ہیں خواہ وہ احمدی انڈونیشیا کا ہو یا سنگاپور کا ، برما کا ہو ی ملائشیا کا ، جاپان کا ہو یا چین کا ، ان میں سے ہر احمدی اللہ تعالیٰ کا ہونے کی کوشش کرے کیونکہ جب تک وہ خدا کا نہیں ہوتا اس کی خاطر جہاں تک اس کی ذات کا تعلق ہے دنیا کو اسلام کی طرف لانے کی اس میں استطاعت نہیں ہوگی.یہ اتنا عظیم الشان الہام ہے اور اس کی اتنی گہرائی ہے اور ایسی عظیم الشان حکمت اور فوائد کی باتیں اس میں بیان کر دی گئی ہیں کہ انسان اس پر جتنا غور کرتا چلا جائے اتنا ہی زیادہ طبیعت لطف اٹھاتی چلی جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور روح جھکتی چلی جاتی ہے.اس میں عمل سے نہیں روکا گیا، نہ اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ سب دنیا کو اپنی طرف کھینچ کر لاؤ بلکہ دنیا کو کھینچ کر لانا
خطبات طاہر جلد ۲ 471 خطبه جمعه ۹ ستمبر ۱۹۸۳ء مقصد رکھا گیا ہے، صرف طریق کار بتایا گیا ہے کہ اگرتم دنیا کو اپنی طرف کھینچنا چاہتے ہو تو اس کے لئے پہلے خدا کی طرف جاؤ اس کے بغیر تمہیں دنیا نہیں ملے گی.یعنی اس الہام میں کسی ایسی صوفیانہ تعلیم کا ذکر نہیں ہے کہ دنیا سے قطع تعلق کر کے انسان صرف خدا کا ہو جائے اور بے عملی کی زندگی میں مبتلا ہو جائے اور سمجھے کہ اسی طرح میں نے سب کچھ حاصل کر لیا بلکہ مومن کے اس مقصد کو تسلیم کیا گیا ہے کہ وہ ایک مجاہد کی زندگی اختیار کرتا ہے اور بالآخر اس نے ساری دنیا کو اسلام کے لئے فتح کرنا ہے اور یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے.اس الہام میں صرف طریق کار بتایا گیا ہے کہ خدا کی طرف گئے بغیر ، خدا کو اپنا بنائے بغیر اگر تم دنیا کے پیچھے بھاگتے رہو گے تو کبھی بھی دنیا تمہاری نہیں ہوگی ہاں یہ خطرہ ہے کہ تم نہ صرف یہ کہ خدا کے نہ رہو بلکہ دنیا کے بن کر رہ جاؤ.پس اس الہام میں دراصل قرآن کریم کی ایک آیت کی طرف اشارہ ہے جس میں آنحضرت علی اللہ کا عظیم الشان کردار بیان فرمایا گیا اور آپ کا طریق تبلیغ واضح کیا گیا ہے.یعنی آپ جو مجاہد بنے اور تمام دنیا کو خدا کی طرف لانے کے لئے آپ نے ایک مہم شروع کی تو آپ نے پہلے کیا کیا تھا.وہ آیت یہ ہے دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ او ادنی (النجم : ۱۰۹) اور اس مضمون کو خدا تعالیٰ نے ایک اور جگہ بھی کھول کر بیان کیا ہے لیکن پہلے میں اس حصہ کے متعلق بیان کر دینا چاہتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ دنا اپنے رب کے قریب ہوئے اور قریب ہو کر وہاں ٹھہرے نہیں رہے.دو باتیں ہیں جو حضرت محمد مصطفی عملے کے کردار اور صفات حسنہ کی یہاں نمایاں طور پر بیان ہوئی ہیں.اول خدا سے پیار کا راستہ پہلے اختیار کیا ہے اور خدا کے قریب ہوئے بغیر دنیا کی طرف متوجہ نہیں ہوئے پھر جب خدا کو پالیا تو خود غرضی نہیں دکھائی، یہ نہیں سوچا کہ میرا مقصد پورا ہو گیا اب دنیا جائے جہنم میں جو بھی اس کے ساتھ ہوتا ہے ہوتا پھرے میں نے تو اپنے رب کو پا لیا بلکہ معا اپنے بھائیوں کی طرف توجہ ہوئی فتدلی پھر ان کی طرف جھکے یہ بتانے کے لئے کہ میں نے کتنی عظیم الشان دولت پائی ہے تم بھی اس میں شریک ہو جاؤ.اس مضمون کو مزید کھولتے ہوئے اللہ تعالیٰ سورۃ الضحیٰ میں بیان فرماتا ہے وَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَى وَوَجَدَكَ عَابِلًا فَاغْنُی (الحی:۹،۸) اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی عملے کو اس حال میں پایا کہ خدا کی تلاش میں سرگرداں تھے.ضاد کا مطلب
خطبات طاہر جلد ۲ 472 خطبہ جمعہ ۹ر ستمبر ۱۹۸۳ء یہ نہیں ہے کہ گمراہ خالہ کا مطلب یہ ہے کہ انسان کسی چیز کی محبت اور تلاش میں اپنے وجود کو بھی کھو ڈالے یعنی دنیا وما فیہا سے بے خبر ہو جائے اور وہ جذبہ اس پر اس قدر غالب آجائے کہ اور کسی چیز کی اسے ہوش نہ رہے.لیکن عجیب بات ہے کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تو نے ہمیں تلاش کیا، تو ہماری محبت میں سرگرداں تھا جب ہم نے تیرا مقصد تجھے عطا کر دیا ، ہم تجھے مل گئے ، تجھے اپنی طرف ہدایت دے دی تو ہم نے دیکھا کہ تو تو بڑا عیال دار ہے تو نے سوال کو پھیلا دیا ہے سارے بنی نوع انسان کے لئے اور کہا اے خدا ! میں اکیلا تو نہیں ہوں ، نہ میں اکیلے لے کر راضی ہوں گا، میں تو سب دنیا کا ہوں اور بہت بڑا عیال دار ہوں، ساری کائنات کے لئے مانگنے آیا ہوں.پھر خدا نے آپ سے عجیب سلوک فرمایا.خدا نے آپ کو کہا کہ اے محمد ! تو تو ایک بندہ ہے بندہ ہو کر تیرا دل اتنا وسیع ہے کہ اپنے سارے بھائیوں کو ،سارے زمانہ کے انسانوں کو اس نعمت میں شریک کرنا چاہتا ہے جو میں نے تجھے عطا کی تو میں خالق اور مالک ہو کر تجھ سے پیچھے کیسے رہ سکتا ہوں.فَاغْنی پھر خدا نے ایسا غنی کر دیا کہ کسی دوسری تعلیم کا محتاج نہیں رہنے دیا، کسی دوسری نعمت کا محتاج نہیں رہنے دیا، اور کہا کہ ہم تجھے کوثر عطا کرتے ہیں ایسے خزانے دیں گے جو بنی نوع انسان میں قیامت تک بانٹتے چلے جاؤ گے تب بھی ختم نہیں ہوں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الہام میں اس مضمون کی طرف اشارہ ہے کہ تم بھی دنیا کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے نکالے گئے ہو تم بھی بنی نوع انسان کو خدا کی طرف بلانے کے لئے نکالے گئے ہو ،لیکن پہلے خدا کے بنو گے تو پھر دنیا تمہاری ہوگی کیونکہ خدا کے بنے بغیر تم تہی دست کے تہی دست رہو گے.دنیا یوں ہی تو کسی کی طرف توجہ نہیں کیا کرتی.اب میں نے مثال دی تھی دنیوی قوموں نے ان لوگوں کو کچھ دیا ہے، ان کے پاس دولتیں ہیں، ان کے پاس مادی طاقتیں ہیں، اس کی خاطر دنیا ان کی طرف آئی.تو خدا تعالیٰ یہ فرماتا ہے کہ حضرت محمد مصطفی یہ جانتے تھے اس مضمون کو، آپ کو پتہ تھا کہ جب تک میرے پاس دولت نہیں ہوگی میں کیسے دنیا کو بلاؤں گا.وہ دولت اپنے رب سے حاصل کی اور جب خدا نے آپ کو اتناغنی کر دیا، اتنا غنی کر دیا کہ اپنے زمانے کے انسان ہی نہیں بلکہ سارے زمانہ کے انسانوں کو دیتے چلے جائیں اور وہ دولت ختم نہ ہوتب پھر وہ دنیا کو بلانے کے لئے نکلے.پس آپ کا مقابلہ بھی دنیا کی بہت بڑی بڑی قوموں کے ساتھ ہے اور وہ ساری قو میں کچھ نہ کچھ حرص اور کچھ نہ کچھ لالچ دے کر دنیا کو اپنی طرف بلا رہی ہیں اور وہ مادی دولتیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 473 خطبه جمعه ۹ ر ستمبر ۱۹۸۳ء ہیں جو وہ عطا کرتی ہیں.اس کے مقابل پر صرف ایک ہی چیز ہے جس میں آپ کو برتری حاصل ہوسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ حقیقتاً خدا کے ہو جائیں اور خدا سب کچھ آپ کا بنادے پھر دنیا کی کوئی قوم بھی آپ کا مقابلہ نہیں کر سکتی.اور یہ جوغنا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوتا ہے اس کا آغا ز صرف مذہبی دولت سے ہوتا ہے، خدا کو پالینا مقصود ہوتا ہے اور خدا کو پالینے والے بندے بڑی جرأت اور طاقت کے ساتھ اور بڑی قوت کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ ہم خدا کے بندے ہیں.خدا ہمارے ساتھ ہے اس لئے جس کو دین چاہئے وہ بھی ادھر آئے اور جس کو دنیا چاہئے اس کو بھی ادھر آئے بغیر چارہ نہیں کیونکہ ہم خدا کے نمائندہ بن چکے ہیں.لیکن اس اعلان کے باوجود کہ اب خدا بھی یہیں ملے گا اور خدا کی بنائی ہوئی طاقتیں بھی، غرض ہر چیز یہیں حاصل ہوگی اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس رستے میں ایک آزمائش کا نظام مقرر فرما دیا تا کہ جو خدا کے فضلوں کو لینے والے ہوں وہ تو داخل ہوسکیں اور جو محض دنیا کی لالچ میں آنا چاہیں ان کے لئے روک بن جائے.چنانچہ شرط یہ رکھی کہ پہلے اللہ کا فضل حاصل کرو دنیا بعد میں آئے گی اور اللہ کو پانے کی شرط یہ ہے کہ جو دنیا تمہیں حاصل ہے وہ بھی خدا کی خاطر لٹا دو پھر خدا ملے گا، اس کے بغیر سودا نہیں ہو سکتا.جب یہ اعلان ہورہا ہو کہ جو ہاتھ میں ہے وہ دے دو پھر ہم وعدہ کرتے ہیں کہ تمہیں بعد میں بہت کچھ دیا جائے گا تو صرف وہی آدمی داخل ہوسکتا ہے جس کو کامل یقین ہو کہ وعدہ کرنے والا بھی موجود ہے اور عطا کرنے والا بھی موجود ہے ورنہ جس کو کسی غائب پر ایمان نہ ہو یا کسی ایسی ہستی پر ایمان نہ ہو جو آنکھوں سے نظر نہیں آ رہی وہ اس کے خیالی وعدے پر اپنے ہاتھ کی دنیا کیسے چھوڑ سکتا ہے.ایسی دنیا دار قوموں کے محاورے تو ان قوموں کے محاوروں سے بالکل مختلف ہوتے ہیں جو خدا پر اور غیب کی چیزوں پر ایمان لانے والی ہوتی ہیں.یہ لوگ تو یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ.bird in hand is better than two in a bush اور خدا والے یہ اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ اِنَّ اللهَ اشْتَرى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ (التوبه (1) کہ اے دنیا والو! تم تو ایک پرندہ کا دو پرندوں کے ساتھ تبادلہ بھی قبول نہیں کر سکے اگر وہ وعدہ دور کا ہو لیکن ان لوگوں کا یہ حال ہے اور ان کا ایمان اتنا بلند ہو چکا ہے کہ یہ اپنی جان بھی پیش کر دیتے ہیں ، یہ اموال بھی پیش کر دیتے ہیں اس جنت کے لئے جو دینے والے کی طرح خود غائب ہے اور اس سے آپ اندازہ کریں کہ ایسے لوگوں میں کتنی عظیم الشان
خطبات طاہر جلد ۲ 474 خطبه جمعه ۹ ر ستمبر ۱۹۸۳ء قوت عمل پیدا ہو جاتی ہے جو خدا کی رضا کی خاطر اپنی جان اور اپنے مال اس وجہ سے پیش کر دیتے ہیں کہ مرنے کے بعد ان کو کچھ ملے گا.اس دنیا میں جو نعمتیں ان کے سامنے ہوتی ہیں اور جو فتوحات ان کے سامنے ہوتی ہیں ان کے لئے تو ان کی قوت عمل کی تو کوئی انتہا نہیں رہ سکی.نسبتا کمزور ایمان والوں میں بھی غیر معمولی عمل کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے.پس اللہ تعالیٰ نے اس وجہ سے کہ دنیا دار آگے نہ آجائیں اور واقعہ اللہ پر ایمان رکھنے والے آگے آئیں اور ایک عظیم الشان زندہ قوم پیدا ہو، یہ شرط رکھ دی کہ جو کچھ ہم تم سے لیں گے وہ تو حاضر ہوگا وہ تمہیں نظر آرہا ہو گا اور جو کچھ ہم تمہیں دیں گے وہ وعدوں پر ہوگا اور تمہیں نظر نہیں آرہا ہوگا.پس ایسے رستے پر صرف وہی لوگ چل سکتے ہیں جن کو غیب پر کامل ایمان ہو اور اول اور آخر مقصد سو فیصد خدا تعالیٰ ہی ہو اور اس کی خاطر وہ اپنے ہاتھ آئی ہوئی زندگی کو چھوڑنے کے لئے تیار ہوں.ایسے لوگوں کو جب خدا ملتا ہے تو پھر ان کو بعد کی جنت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا.خدا کے ساتھ ساتھ یہ دنیا بھی ان کومانی شروع ہو جاتی ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ ویسے آزمائش کی خاطر ہم وعدے تو یہ کرتے ہیں کہ مرنے کے بہت دیر بعد ہم ان کو دیں گے لیکن جب ان کے دل کی صفائی دیکھتے ہیں، جب ان کو ہر قربانی پر آمادہ پاتے ہیں کہ خدا کی خاطر سب کچھ لٹانے کے لئے تیار ہو گئے ہیں تو پھر اس دنیا میں بھی وہ جنت عطا کر دیتے ہیں جس کے وعدے دیئے جاتے ہیں.چنانچہ فرشتے نازل ہو کر ان کو یہ خبریں دیتے ہیں: وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ (تم السجدة : ۳۱) کہ جن جنتوں کے تم سے وعدے کئے گئے تھے کہ تمہاری موت کے بعد ملیں گی اللہ اس موت کا انتظار نہیں کرے گا.وہ اسی دنیا میں وہ جنتیں تمہیں دینے کا فیصلہ کر چکا ہے.پس اس دنیا میں جو جنت عطا ہوتی ہے وہ دراصل تسکین قلب کی صورت میں ملتی ہے.وہ ایک لذت ہے خدا کو پالینے کی اور وہی لذت دراصل جنت ہے لیکن اس کے علاوہ وہ جنت دنیا میں ان کو عطا کی جاتی ہے یہ بھی ایک تقدیر الہی ہے.چنانچہ یہ لوگ پھر آگے جا کر دو قسم کے سلوک کرتے ہیں.جہاں تک خدا کو پانے کی جنت ہے اسی پہ راضی ہو جاتے ہیں اور جو دنیا ان کو عطا ہوتی ہے اس میں پھر یہ دلچسپی نہیں لیتے.اس کے لئے پھر مزید دنیا کو عطا کرنے کے درپے ہو جاتے ہیں اور دنیا والوں کو بانٹنے لگ جاتے ہیں اور خود محض خدا
خطبات طاہر جلد ۲ 475 خطبه جمعه ۹ر ستمبر ۱۹۸۳ء کے فضلوں پر راضی ہو جاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم آغاز ہی میں اس مضمون کو اسی ترتیب سے بیان فرمارہا ہے: الَّذِينَ يُؤْمِنُوْنَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:م) کہ یہ لوگ جو ہدایت پانے والے ہیں جو خدا کو پالیتے ہیں ان کی تین منازل ہیں.پہلی شرط جیسا کہ میں نے بیان کی تھی وہ یہ ہے کہ یہ غیب پر ایمان لاتے ہیں.غیب پر ایمان لائے بغیر ان کو حاضر میں کچھ عطا نہیں ہوتا.اس کے بعد ان کو دو جنتیں ملتی ہیں ایک عبادت کی جنت اور ایک رزق کی.عبادت کی جنت میں تو یہ منہمک رہتے ہیں اور رزق سے یہ سلوک کرتے ہیں کہ وَ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو کچھ پاتے چلے جاتے ہیں وہ سب کا سب اپنے لئے ہی نہیں رکھ لیتے بلکہ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں اور یہ ایک نہ ختم ہونے والا جاری سلسلہ ہوتا ہے.نہ اللہ تعالیٰ ان کو عطا کرنے سے اپنا ہاتھ روکتا ہے نہ وہ اس خوف سے کہ یہ رزق ختم ہو جائے گا خدا کی راہ میں خرچ سے اپنا ہاتھ روکتے ہیں.پس یہ وہ نہ ختم ہونے والے خزانے ہیں جو ہدایت پر قائم ہونے والوں کو عطا ہوتے ہیں اور اس زادراہ کو لے کر وہ دنیا کو جیتنے کے لئے نکلتے ہیں.پس اگر آپ نے مشرق کو خدا کے لئے جیتنا چاہتے ہیں تو لازم ہے کہ پہلے آپ خود خدا کے بن جائیں.وہ لوگ جو خدا کے ہو جاتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ غیر معمولی طاقتیں عطا فرماتا ہے.وہ زیادہ علم نہ بھی رکھتے ہوں، زیادہ لمبے چوڑے دلائل پر قدرت نہ بھی رکھتے ہوں تب بھی ان کی چھوٹی سی بات میں اللہ تعالیٰ غیر معمولی اثر رکھ دیتا ہے پھر ان کو یہ شکوہ نہیں رہتا کہ ہم تو بہت تبلیغ کرتے ہیں ہماری بات کو کوئی سنتا نہیں.وہ تو تھوڑی بھی تبلیغ کریں تو لوگ سننے لگ جاتے ہیں ، وہ بیج اتفاقاً بھی پھینک دیں تو اس پیج کو برکت ملتی ہے اور اس سے تناور درخت پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں.یہ ہے تبلیغ کا وہ کامیاب رستہ جو اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء کو سکھایا اور جس پر چل کر انہوں نے ثابت کر دیا کہ اس رستہ کے سوا کامیابی کا اور کوئی رستہ نہیں ہے.پس مشرق بھی بآسانی جیتا جا سکتا ہے.خواہ کتنی بڑی مصیبتوں کے پہاڑ آپ کے سامنے ہوں، خواہ مقابل پر تعداد کے لحاظ سے اور قوت کے لحاظ سے کتنی ہی عظیم الشان قو میں نظر آتی ہوں گویا
خطبات طاہر جلد ۲ 476 خطبه جمعه ۹ ستمبر ۱۹۸۳ء ہمالہ کی چوٹیاں سامنے کھڑی ہیں، اگر آپ رفعتوں والے خدا سے تعلق جوڑ لیں جو ایسی رفعتیں رکھتا ہے جن کی کوئی انتہا نہیں تو ہمالہ کی چوٹیاں کیڑوں کے گھروندوں سے بھی زیادہ چھوٹی نظر آنے لگیں گی.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں بعض دفعہ ایسی ہی شوکت نظر آتی ہے جب یوں معلوم ہوتا ہے کہ خدا آپ کی رگوں میں دوڑ رہا ہے.آپ فرماتے ہیں: جو خدا کا ہے اسے للکار نا اچھا نہیں ہاتھ شیروں پر نہ ڈال اے رو بہ زار ونزار ( براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد ۲۱ صفحه ۱۳۱) اس لئے آپ خدا کے شیر بنیں اور وہ طاقت حاصل کریں جس کے بعد دنیا کی طاقتوں کو اس بات کی توفیق نہیں مل سکتی کہ وہ آپ پر ہاتھ ڈال سکیں.آپ کسی بھی ملک کے باشندے ہوں آپ دیکھیں گے کہ آپ کو غیر معمولی طاقتیں عطا کرے گا اور یہ کہ آپ کے دشمنوں کا خدا دشمن بن جاتا ہے اور آپ کے دوستوں کا دوست بن جاتا ہے.موسی" میں تو طاقت نہیں تھی کہ وہ فرعون کا سر نیچا کرے لیکن موسیٰ کے خدا میں طاقت تھی اور اس نے اس شان کے ساتھ فرعون کے تکبر کو توڑا ہے کہ آج تک تاریخ میں وہ عبرت کا نشان بنا ہوا ہے.حضرت محمد مصطفی علے میں تو یہ طاقت نہیں تھی کہ کسری کی حکومت کو پارہ پارہ کر دے.آپ کو تو کسری اس قدر کمزور دیکھ رہا تھا اور اتنا بے حقیقت سمجھ رہا تھا کہ اس نے اپنے ایک معمولی گورنر کو یہ حکم دیا کہ ایک سپاہی بھیج کر اسے پکڑ کر بلواؤ اور اس کو ہلاک کر دو.جب آنحضرت ﷺ کی خدمت میں یمن کے گورنر کا وہ اینچی جو کسری کا نمائندہ تھا حاضر ہوا تو اکیلا تھا اس کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھے اور اس میں دراصل آنحضرت ﷺ کی حد سے زیادہ (نعوذ باللہ ) تذلیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ ہمیں تو تمہارے پاس کوئی ہتھیار بند سپاہی بھیجنے کی بھی ضرورت نہیں ہے.تمہیں پیغام ملے گا اور تمہیں لازماً حاضر ہونا پڑے گا.چنانچہ اینچی نے آکر یہی پیغام دیا کہ ہمارے شہنشاہ عالم کسری نے حکم دیا ہے ہمارے گورنر کو کہ تمہیں بلوائیں اس لئے میں پیغام دینے آیا ہوں کہ آپ ان کے دربار میں حاضر ہو جائیں.آپ نے فرمایا تم اپنے شہنشاہ کے حکم کے پابند ہو میں اپنے شہنشاہ کے حکم کا پابند ہوں اور جب تک میں اللہ سے پوچھ نہ لوں اس وقت تک میں کوئی فیصلہ نہیں کروں گا.پس رات آپ نے خدا کے حضور دعا کی.ہم نہیں جانتے کہ وہ دعا کیا تھی اور کیسی گریہ وزاری تھی لیکن صبح
خطبات طاہر جلد ۲ 477 خطبه جمعه ۹ر ستمبر ۱۹۸۳ء محمد رسول ﷺ نے اس اینچی کو جو جواب دیا وہ یہ تھا کہ جاؤ اس گورنر کو بتا دو کہ آج رات میرے خدا نے تمہارے خدا کو قتل کر دیا ہے.پس وہ یہی جواب لے کر واپس پہنچا تو یمن میں کچھ عرصہ کے بعد وہاں شہنشاہ کسریٰ کی طرف سے سفیر آیا اور پرانے کسریٰ کا بیٹا اس وقت تک کسری بن چکا تھا اور اس نے یہ پیغام بھیجا کہ ہم نے اپنے باپ کے مظالم اور گندگیوں کی وجہ سے اس کو قتل کر دیا ہے اور اب ہم شہنشاہ بنائے گئے ہیں ( تاریخ طبری جلد ۲ صفحہ ۹۲۶.تاریخ انمیں جلد ۲ صفحہ ۳۶).پس جب خدا کسی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرتا ہے تو اس میں عبرت کا یہ پہلو ہوتا ہے کہ اس ہلاکت میں ایک غیر معمولی ذلت بھی پائی جاتی ہے.اس زمانے میں اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو بھی اپنی نصرت اور اپنے پیار کے غیر معمولی نشان دکھائے ہیں اس لئے آپ کے لئے اس غیب پر ایمان لا نا کوئی مشکل نہیں جو بار ہا آپ کے لئے حاضر بن چکا ہے.صرف اس بات کی ضرورت ہے کہ اپنے دل کو اپنے رب کے لئے صاف کریں، اسے اپنے دل میں حاضر ہونے کے لئے درخواست کریں، دعوت دیں جس طرح ایک بڑے آدمی کو دعوت دی جاتی ہے لیکن یہ ایک ایسی بڑی ہستی ہے کہ جو اپنی عظمت کے باوجود ادنیٰ سے ادنی دل میں اترنے کے لئے تیار بیٹھی ہے اس لئے انسان کی کوئی عاجزی اس کا کوئی انکسار اس راہ میں حائل نہیں ہوسکتا کہ میں اس عظیم الشان ذات کو اپنے پاس آنے کی کیسے دعوت دوں جو میرے مقابل پر اتنی عظمت رکھتا ہے کہ کوئی نسبت ہی قائم نہیں ہو سکتی.اس بات پر جب ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ دل کی عظمت دراصل دل کے حوصلے کی عظمت اور دل کی وسعت کی عظمت ہی ہوا کرتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کی اصل شان یہ ہے کہ وہ تمام طاقتوں کا سر چشمہ ہونے کے باوجود اتنا وسیع حوصلہ رکھتا ہے کہ فرماتا ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ (الاعراف: ۱۵۷) کہ میری رحمت ہر دوسری چیز پر حاوی ہوگئی ہے.میری عظمتوں سے بالا ہے میری رحمت اور میری شفقت.پس آپ نے اس خدا کو بلانا ہے جس کا اعلان ہے رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ وہ تو آپ سے بڑھ کر آپ کے پاس آنے کے لئے تیار بیٹھا ہے.چنانچہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے خدا کو بلانے کا جو تجربہ کیا اس کو اپنے ان پیارے الفاظ میں بیان فرماتے ہیں کہ بندہ جب خدا کی طرف ایک بالشت بڑھتا ہے تو خدا تعالیٰ کئی قدم اس کی طرف بڑھ جاتا ہے اور جب انسان قدم
خطبات طاہر جلد ۲ 478 خطبه جمعه ۱۹ ستمبر ۱۹۸۳ء قدم اس کی طرف جاتا ہے تو وہ دوڑتا ہوا اس کی طرف بڑھتا ہے.( بخاری کتاب التوحید باب قول الله و يحذركم الله نفسه) پس در اصل یہ مضمون ہی وہی رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْ والا مضمون ہے جس کی تفسیر آنحضرت ﷺ فرمارہے ہیں.پس اب اس سارے مضمون کو سمجھ لینے کے بعد کسی احمدی کے لئے کوئی عذر باقی نہیں رہتا کہ وہ تبلیغ سے باز رہے یا اپنے آپ کو کمزور سمجھے یا کم علم سمجھے.شرط اول یہ ہے کہ وہ خدا کا ہو جائے.باقی ساری شرطیں خدا دیکھے گا کہ کس طرح پوری کرنی ہیں.وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے اور ہم اپنے کام سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں اس لئے میں شدید فکر لے کر اس دورہ پر نکلا ہوں اور یہ دعا کرتے ہوئے نکلا ہوں کہ اے خدا! تو ہی اپنے فضل سے میرے الفاظ میں طاقت رکھ دے.میں نے دعا کی کہ اے خدا! تو میری آواز کو ہر احمدی کی آواز بنا دے اور اے خدا!! میرے دل کی ہر دھڑکن ہر احمدی کو عطا فرما اور ہر سینے میں اپنے دین کی خدمت کی ایک آگ لگا دے.وہ ہر طرف سے اس روشنی کی طرف بلائے جو محمد رسول ﷺ کی روشنی ہے.اور جس طرح پر وانے آگوں کو جلتا ہوا دیکھتے اور بے تحاشا اس طرف دوڑتے اور اڑتے ہوئے وہاں پہنچتے ہیں اور اس بات کی پرواہ نہیں کرتے کہ وہ جل جائیں گے اسی طرح دنیا محبت سے مجبور ہو کر بے اختیار اس روشنی کی طرف لپکے.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ عے جے تو میرا ہو ر ہیں سب جگ تیرا ہو یہ خدا کا کلام ہے اور اگر آپ اس کو آزما کر دیکھیں گے تو یقیناً ہمیشہ اس کو سچا ہوتا دیکھیں گے.(روز نامه الفضل ربوه ۲۵ رستمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 479 خطبه جمعه ۲۳/ ستمبر ۱۹۸۳ء اسلام میں توحید کا عظیم الشان تصور (خطبه جمعه فرموده ۲۳/ستمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد فضل ،سووا (Suva) نجی) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: اسلام میں اللہ تعالیٰ کی توحید کا جو تصور ہے وہ کوئی ایسا تصور نہیں جس کا آسمانوں سے تعلق ہو اور انسانی زندگی سے اس کا واسطہ نہ ہو.اسلام جس توحید کا تصور پیش کرتا ہے اور جس کا قرآن کریم میں بار بار ذکر آتا ہے وہ کوئی خیالی تو حید نہیں کہ محض خدا کو ایک مان لیا جائے بلکہ اس کے دو گہرے اثرات پھر دنیا میں ظاہر ہوتے ہیں اور ہم ان کا مشاہدہ کر سکتے ہیں.توحید کا ایک مطلب یہ ہے کہ اگر خدا ایک ہے تو اس کی ساری کائنات میں بھی وحدت ہی نظر آئے گی اور اس میں کسی دوسرے وجود کا کوئی اشارہ بھی تمہیں نظر نہیں آئے گا، کوئی ٹکراؤ نظر نہیں آئے گا ، ایک کامل نظام ہے جو ایک دوسرے سے تعاون کرتا ہوا دکھائی دے گا.چنانچہ آسمان سے بڑے بڑے وجودوں سے لے کر زمین کے چھوٹے چھوٹے ذرہ تک (جس کے دل میں پوری طرح اترنے کی بھی ابھی تک انسان کو پوری طاقت نصیب نہیں ہوئی اور اس سے بھی چھوٹے ذرے وہ دریافت کرتا چلا جا رہا ہے ) سارے نظامِ عالم میں آپ کو تو حید نظر آئے گی.ایک ایسی کامل وحدت کہ وہ مطالعہ کرنے والوں کو کو حیران کر دیتی ہے ، ان لوگوں کو جو علم رکھتے ہیں.توحید کا دوسرا تصور مسلمان کی زندگی میں ملتا ہے اور ان اعمال سے ان کا تعلق ہے جو مسلمان بجالاتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ایک موحد سوسائٹی اور ایک ایسا معاشرہ عمل میں آتا ہے جس
خطبات طاہر جلد ۲ 480 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۳ء کے اندر آپ کامل توحید کا عکس پائیں گے.اس مضمون کو جو دراصل تو حید ہی کی شاخیں ہیں قرآن کریم یوں بیان فرماتا ہے : تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ الَّذِى خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَوتِ L طِبَاقًا مَا تَرَى فِي خَلْقِ الرَّحْمَنِ مِنْ تَفُوتٍ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورٍ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبُ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَهُوَ حَسِيرُ (الملک : ۲-۵) میں نے اس وقت جو آیات تلاوت کی ہیں ان کے بہت سے معانی ہیں لیکن اس موقع پر جو معانی چسپاں ہوتے ہیں میں ان کا تفسیری ترجمہ کروں گا.فرمایا تَبَرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ مبارک ہے وہ ذات جو بڑی بابرکت ہے، جس کے ہاتھ میں ساری کائنات کی تخلیق کی چابیاں ہیں اور ملک اس کے ہاتھ میں ہیں.وہ مالک ہی نہیں بلکہ ملک بھی ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے.وہی ذات ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور ایسی حالت میں پیدا کیا کہ تم ایک جدو جہد میں مبتلا ہو چکے ہو.تم موت اور زندگی کی کشمکش میں مبتلا ہو اور آزمائش کے ایک دور سے گزر رہے ہو.یہ اس نے اس لئے کیا تا کہ پہچان لے کہ تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے لیکن یہ جو جد وجہد ہے اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ تم دو خداؤں کی پیداوار ہو بلکہ تم ایک ہی خدا کی پیدا وار ہو اور اگرتم یہ دیکھنا چا ہو کہ کائنات کا مالک صرف ایک ہے تو کائنات پر نظر ڈال کر دیکھو هَلْ تَرى مِنْ فُطُورِ سات آسمانوں کی وسعتیں لامتناہی کا ئنا تیں تمہیں دکھائی دیں گی.هَلْ تَرَى مِنْ فُطُورِ کیا ایک بھی رخنہ تمہیں کہیں نظر آئے گا ؟ ثُمَّ ارْجِعِ الْبَصَرَ كَرَّتَيْنِ يَنْقَلِبْ إِلَيْكَ الْبَصَرُ خَاسِئًا وَ هُوَ حَسِيرُ دوباره نظر دوڑا کر دیکھ لو، پھر کوشش کر لو تمہاری نظر تھکی ہوئی واپس تمہاری طرف لوٹ آئے گی لیکن کوئی رخنہ نہیں پائے گی ، کوئی تضاد اس کو نظر نہیں آئے گا.یہ وہ اعلان ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاں تک کائنات کے مطالعہ کا تعلق ہے اس میں آپ کو کہیں بھی دو ہستیوں کا ثبوت نظر نہیں آتا، کوئی اشارہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ گویا کائنات کو دو مختلف وجودوں نے پیدا کیا ہو.پھر سوال یہ ہے کہ انسان کیوں
خطبات طاہر جلد ۲ 481 خطبه جمعه ۲۳ ر ستمبر ۱۹۸۳ء ایک جدو جہد میں مبتلا ہے.ایک طرف گناہ ہے ایک طرف نیکی ہے ، ایک طرف اندھیرا ہے ایک طرف روشنی ہے.اس سوال کے حل کی تلاش میں بعض لوگوں نے ٹھوکر کھائی اور زرتشی مذہب کے بعد کے لوگوں نے یہ سمجھا کہ گویا دوخدا تھے، ایک اندھیرے کا خدا تھا اور ایک روشنی کا خدا، ایک نیکی کا خدا تھا اور ایک بدی کا خدا تھا اور ان دونوں کے درمیان ہمیشہ سے جدو جہد ہوتی چلی آئی ہے اور جاری رہے گی یہاں تک کہ ایسا وقت آئے گا کہ نیکی کا خدا ہدی کے خدا پر غالب آجائے گا اور اس کے بعد پھر دنیا امن کا منہ دیکھے گی اور ہر جگہ روشنی ہی روشنی پھیل جائے گی.قرآن کریم نے اس عقیدہ کے پہلے حصہ کو لے کر اس کے دوسرے حصہ کی نفی فرمائی ہے.فرماتا ہے اگر چہ نیکی اور بدی کا نظام تمہیں ملتا ہے، جد و جہد اور کشمکش کا نظام ملتا ہے لیکن یہ یادرکھنا کہ هُوَ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیوۃ وہ ایک ہی خدا ہے جس نے زندگی بھی پیدا کی اور موت بھی پیدا کی ہے اور اس کے لئے دو الگ الگ خدا نہیں ہیں.یہ بات کہنے کے بعد پھر فرماتا ہے کہ تم کائنات کو دیکھ لو تمہیں ایک ہی خدا کا وجود ملے گا، کہیں بھی دو خدا نظر نہیں آئیں گے.اور بہت ہی لطیف مضمون ہے.حقیقت میں اگر آپ غور کریں تو صرف زندگی ہی ہے موت کا کوئی وجود نہیں.زندگی سے پیچھے ہٹ جانے کا نام موت ہے.زندگی کی قوتوں کا آہستہ آہستہ کمزور پڑ جانا موت کی طرف لے جاتا ہے تو عملاً یہاں بھی تو حید ہی ہے اور اس مسئلہ کو قرآن کریم نے حل فرمایا ورنہ اس سے پہلے دنیا کے فلاسفر اور بڑے بڑے مذہبوں کے رہنما یہ سمجھنے لگے تھے کہ گویا الگ الگ خدا ہیں.حضرت زرتشت نے جو تعلیم دی وہ تو خدا کی طرف سے تھی.لوگوں نے ان کی اصطلاحوں کو سمجھنے میں غلطی کھائی لیکن ان کے علاوہ بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جنہوں نے قوت کے ہر سر چشمہ کو الگ الگ خدا کے طور پر سمجھ لیا.سورج سے روشنی پائی تو اس کو ایک خدا بنالیا، چاند سے مدھم مدھم روشنی دیکھی اور اس میں گرمی نہیں تھی تو اس کو ایک الگ خدا بنالیا ، بادلوں سے پانی پایا تو اس کو ایک الگ خدا بنالیا، بجلی نے ان کو ڈرایا اور دھمکایا اور بعض دفعہ جلا بھی دیا تو اس کو ایک الگ خدا بنالیا ، سانپوں کو الگ بنایا، سمندر کو الگ بنایا ، ہواؤں کو الگ بنایا.تو یہ انسانی تصورات تھے جو ہر سمت میں پھیل گئے تھے اور ہر چیز کو خدا بنانے والے تھے.قرآن کو وہ پہلی کتاب ہے جس نے ان سارے تصورات کو سمیٹ کر یکجائی شکل میں پیش کیا اور بتایا کہ ان سب کا ایک خدا ہے اور اگر تم کائنات پر غور کرو تو بظاہر الگ الگ
خطبات طاہر جلد ۲ 482 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۳ء طاقتوں کے اندر بھی تم ایک ہی ہستی کی طاقتوں کو کار فرما دیکھو گے.ایک ہی طاقت ان چیزوں کے پس پردہ تم کو عمل کرتی ہوئی نظر آئے گی اور وہی خدا ہے جس کی قدرت ان سب چیزوں کے پیچھے کارفرما ہے.اسی طرح انسانی اعمال کے پیچھے بھی ایک ہی خدا ہے.بدوں کا بھی ایک خدا ہے اور نیکوں کا بھی وہی ایک خدا ہے.رہا یہ امر کہ نیکی اور بدی کی جدو جہد کیوں پیدا کی ؟ فرمایا اس لئے پیدا کی تاکہ تمہیں نیک اعمال کے امتحان میں ڈالا جائے اور جد و جہد میں پڑھ کر تمہارے اخلاق اور تمہارے اعمال اور تمہاری سمجھ اور عقل میں ایک چمک پیدا ہونی شروع ہو جائے کیونکہ نئی چمک نئی کوشش کے ذریعہ پیدا ہوتی ہے.بڑا مرتبہ بار بار کی جدو جہد سے حاصل ہوتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جس کی طرف قرآن کریم توجہ دلانا چاہتا ہے اور فرماتا ہے کہ تم کہیں غلطی نہ کر جانا کہ تم کئی خداؤں کی پیداوار ہو.ایک ہی خدا نے تمہاری خاطر یہ کیا ہے تاکہ تمہیں پہلے سے بہتر بناتا چلے جائے.اس بات کو اگر آپ دنیا پر پر کھ کر دیکھیں تو ہر جگہ اس کی صداقت واضح اور نمایاں طور پر آپ کو نظر آ جائے گی.ایک آدمی ہے جو ست ہے اور نکما ہے گھر پر لیٹا رہتا ہے اس کا جسم اگر بڑا بھی ہو پہلے سے تو لیٹے رہنے سے اور زیادہ پھولنا شروع ہو جائے گا لیکن اس میں طاقت کم ہونا شروع ہو جائے گی.جو وزن وہ پہلے اٹھاتا تھا اس پر کچھ اور وزن بھی لد جائے گا اور اس کے عضلات کی طاقت کمزور ہونی شروع ہو جائے گی یہاں تک کہ وہ اس حال کو بھی پہنچ سکتا ہے کہ اس کے لئے سانس لینا بھی مشکل ہو جائے ، چار قدم چلے اس کو سانس چڑھ جائے.اس کے برعکس اس سے نسبتاً کمزور آدمی جو ورزش کرتا ہے وہ جد و جہد کرتا ہے، وہ مشکلات میں مبتلا ہوتا ہے، وہ اپنے نفس کو خود مصیبت میں ڈالتا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے کہ دن بدن وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہوتا چلا جاتا ہے.اس کے زائد بوجھ اترتے چلے جاتے ہیں اور جو کچھ باقی رہ جاتا ہے وہ محض طاقت ہوتی ہے.حالانکہ اگر واقعہ آپ دیکھیں تو جو آدمی لیٹا ہوا تھا اس نے بظاہر موت سے بچنے کی کوشش کی ہے اور جو آدمی جدو جہد کر رہا تھا ، کوشش کر رہا تھا، محنت کر رہا تھا ، اس نے موت کے منہ میں چھلانگ لگائی ہے.یہ ہے وہ مضمون جس کو قرآن کریم بیان فرما رہا ہے کہ موت کے منہ میں چھلانگ لگائے بغیر تمہیں زندگی مل نہیں سکتی.اگر کوئی زندگی مل سکتی ہوتی تو خدا تمہیں اس کے بغیر دیتا لیکن جس طرح خدا نے تمہیں پیدا کیا ہے تمہارے لئے جد و جہد لازمی ہے تم اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو موت سے ٹکرا کر تمہیں زندگی ملے گی.اس کا چیلنج
خطبات طاہر جلد ۲ 483 خطبه جمعه ۲۳ ستمبر ۱۹۸۳ء قبول کر کے پھر تم زندگی پاؤ گے.اب آپ دیکھئے جو آدمی ورزش کر رہا ہے اس کی ہر حرکت پر اس کی طاقت کم ہوتی ہے، اس کے اعضا کمزور پڑ رہے ہوتے ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کے اندر جو گرمی اور توانائی محفوظ کی ہوئی ہے وہ ان کو تو ڑ تو ڑ کر جلا رہا ہے اور اس کا کیا نتیجہ نکلنا چاہئے ؟ آپ کی عقل تو یہ کہے گی کہ وہ تو مصیبت میں مبتلا ہے اس کی جو پہلی طاقت تھی وہ بھی کھائی گی اس کے پاس تو کچھ بچنا نہیں چاہئے ، اس کے عضلات آہستہ آہستہ ضائع ہو جانے چاہئیں.اور دوسرے آپ ایک موٹے آدمی کو لیٹے ہوئے دیکھیں تو کہیں گے دیکھو یہ عقل والا ہے اس نے مصیبت اختیار نہیں کی موت کے منہ میں چھلانگ نہیں لگائی اپنے آپ کو بچا کر رکھ رہا ہے اور نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ یہی آیت کچی ثابت ہوتی ہے جو قرآن کی آیت ہے اور جو بتا رہی ہے کہ تمہیں موت سے زندگی ملے گی.نیک اعمال چاہتے ہو تو جد و جہد کرو اور اپنے آپ کو مشکل میں ڈالو.وہ زمیندار جو اپنے دانے سنبھال کر رکھے ہوئے ہے اور محنت کر کے اس کو زمین میں نہیں ڈال رہا اس کے دانے کتنی دیر چلیں گے؟ سال سے اوپر دو مہینے چل جائیں گے ، چار مہینے چل جائیں گے.بہت ہی فاقے کر کے گزارہ کرے تو سال او پر نکل جائے گا لیکن ایک زمیندار ہے جو جاتا ہے اور دانوں کو موت کے منہ میں پھینک دیتا ہے، خود بھی مصیبت میں پڑتا ہے زمین کھودتا ہے اور اس کے اندر ڈال دیتا ہے اور دفنا کر آجاتا ہے.چنانچہ اسی موت سے ایک نئی زندگی پھوٹتی ہے اور یا درکھیں دانوں کی یقینی موت ہے ان کی شکل بدل چکی ہوتی ہے.موت نام ہے اپنی ہیئت کو تبدیل کر دینے کا ، موت نام ہے اپنی ایک کیفیت کو ایک اور کیفیت میں بدل دینے کا اس کے سوا موت اور کوئی چیز نہیں ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر جگہ تمہیں موت ہی میں سے زندگی ملے گی.وہیں تمہارے لئے اللہ تعالیٰ نے ترقی کی راہیں کھولیں ہوئی ہیں اس لئے اس بیوقوفی میں مبتلا نہ ہونا کہ موت کا خدا کوئی اور ہے اور زندگی کا خدا کوئی اور ہے یہ صرف زندگی کا خدا ہے جو تمہارے لئے موت کا انتظام کر رہا ہے.اگر موت نہ ہوتی تو انسانی زندگی ترقی نہیں کر سکتی تھی.وہ جانور جو امیبیا (Amoebea) کی شکل میں معمولی کیڑوں کی شکل میں تمہیں نظر آتے ہیں یہ آگے بڑھ ہی نہیں سکتے تھے.موت سے انہوں نے مقابلہ کیا تو ان کو نئی نئی طاقتیں نصیب ہوئیں.اندھیروں میں ٹکریں ماریں تو ان کو روشنی
خطبات طاہر جلد ۲ 484 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۳ء نصیب ہوئی آنکھیں عطا کی گئیں.غرضیکہ سار کی زندگی کی جدوجہد پر آپ نظر ڈال کر دیکھ لیں اس کا خلاصہ قرآن کریم کی اس آیت میں بیان ہوا ہے.تَبْرَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌةٌ الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيُوةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً وہ بڑی مبارک ذات ہے اور وہ ایک ہی ہے اس کے ہاتھ میں ہر نظام کی چابیاں ہیں، ہر چیز کی باگ دوڑ اس کے قبضہ قدرت میں ہے.وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ جو چیزیں تمہیں ناممکن نظر آتی ہیں وہ ان پر بھی قادر ہے.چنانچہ اس نے یہ حیرت انگیز نظام پیدا کیا کہ موت اور زندگی کو لڑا دیا اور اس کے نتیجہ میں حسن عمل پیدا ہونا شروع ہوا.پہلے سے زیادہ بہتر چیزیں وجود میں آنی شروع ہوئیں.تو دو خدا کس طرح ہو گئے.ایک ہی خدا ہے، جس کا ایک خاص مقصد ہے اور وہ مقصد ایک سنگل مقصد ہے، اس میں توحید پائی جاتی ہے، حسن عمل ہے.تو آپ ساری کائنات میں جس طرف بھی نظر ڈالیں گے اگر آپ غور سے دیکھیں گے ، گہری نظر سے دیکھیں گے تو توحید کے سوا آپ کو کچھ نظر نہیں آئے گا.یہی تو حید ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے اور مسلمان معاشرہ میں دیکھنا چاہتا ہے، وہ ایک وجود بن جائے.محض خیال میں وہ ایک خدا کو پوجنے والا نہ رہے بلکہ واقعاتی طور پر دنیا میں بھی ایک ہی سوسائٹی ظاہر ہو جو ایک دوسرے کے ساتھ مل کر ایک وجود بن جائے.چنانچہ قرآن کریم نے اس مضمون کو مختلف شکلوں میں بیان فرمایا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوْا ( آل عمران :۱۰۴) کہ دیکھو جب تم نے ایک خدا کو پکڑا ہے تو دو چار چار رسیاں کیوں پکڑو گے.باقی رسیاں تو پھر شیطان کی رسیاں ہیں کیونکہ ایک خدا کی تو ایک ہی رہی ہے اس لئے اس رسی کو پکڑو جو تمہارے واحد خدا کی رسی ہے دوسری طرف توجہ نہ کرو.وَلَا تَفَرَّقُوا کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے سوا دوسری رسیوں کی طرف مائل نہ ہو جانا وہ تمہیں غلط طرفوں میں لے جائیں گی.توحید کے قائل ہو تو اپنے نظام میں دنیا میں تمہیں تو حید دکھانی پڑے گی.اگر ایک خدا کے پجاری ہو تو تمہاری سوسائٹی میں وحدت نظر آنی چاہئے.اگر اس کے بجائے تمہارے اندر اختلاف پائے جاتے ہیں، تم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہو، ایک دوسرے کی برائیاں چاہتے ہو ،لڑائیوں کے لئے بہت تیزی دکھاتے ہو، تکبر کرتے
خطبات طاہر جلد ۲ 485 خطبه جمعه ۲۳ ستمبر ۱۹۸۳ء ہو اپنے بھائی سے اور اس کو نیچا سمجھتے ہو تو پھر تمہیں یہ وہم ہے کہ تم تو حید کے پجاری ہو.پھر تو تم نے الگ الگ رسیاں پکڑ لیں ، پھر تم تو ایک خدا کے قائل نہیں رہے.فرماتا ہے.دیکھو ساری کائنات جس کو اختیار نہیں ہے غلط راستے پہ جانے کا ، اس میں توحید قائم ہے.تمہیں اختیار دیا تھا موت اور زندگی کے درمیان، اس لئے دیا تھا کہ تم زندگی کی طرف مائل ہو اور پہلے سے بڑھ کر زیادہ حسن اختیار کرو.اگر تم ٹھو کر کھاؤ گے ، اگر تم اس فلسفہ کو نہیں سمجھو گے تو پھر رفتہ رفتہ تم موت کا شکار ہو جاؤ گے.تمہیں موت پر غالب آنے کے لئے پیدا کیا گیا تھا موت سے مغلوب ہونے کیلئے تمہیں پیدا نہیں کیا گیا.یہ ہے قرآن کریم کا پیغام جو ہر مسلمان کو دیا گیا ہے.اور جس طرح تو حید کے مطلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شخص مشرک ہو اس کا ٹھکانہ آگ ہے جہنم ہے، بالکل اسی طرح مسلمان سوسائٹی کو جو شخص اختلاف میں مبتلا کرتا ہے اس کے لئے بھی قرآن کریم نے جہنم کا لفظ بیان فرمایا ہے اور اس کی جزاء آگ بتائی ہے.چنانچہ فرماتا ہے: كُنْتُمْ عَلَى شَفَا حُفْرَةٍ مِّنَ النَّارِ فَأَنْقَذَكُمْ مِنْهَا ( آل عمران : ۱۰۴) کہ اے مسلمانو! دیکھو حضرت محمد مصطفی صلی اللہ نے جب تک تمہیں ایک وجود نہیں بنادیا اس سے پہلے تم ایک دوسرے کے دشمن ہو کر آگ کے کنارے پر کھڑے تھے تم اس آگ میں کسی وقت بھی گر سکتے تھے.پس یہ ایک حقیقت ہے کہ دنیا میں بھی شرک کا انجام آگ ہے اور آخرت میں بھی شرک کا انجام آگ ہے.جو تو میں ایک دوسرے سے لڑ پڑتی ہیں وہ خود آگ میں داخل ہو جاتی ہیں اور اس آگ سے ان کو کوئی نہیں بچا سکتا.یہ کئی قسم کی آگ ہے.ایک تو ایسی آگ ہے جو ان کی ترقی کو ساری طاقتیں کھا جاتی ہے، ان کے دل کا چین اڑادیتی ہے.سوسائٹی میں لطف کے بجائے نفرت کا ایک ماحول پیدا ہو جاتا ہے جس میں آدمی جلتا اور کڑھتا رہتا ہے.جس سے نفرت کی جائے وہ بھی مارا جاتا ہے اور جو نفرت کرتا ہے وہ بھی مارا جاتا ہے.تو ہر وہ چیز جو آپ کی سوسائٹی کو مشرک سوسائٹی میں تبدیل کر دیتی ہے وہ گناہ ہے.وہ ایسی خطرناک چیز ہے جس سے آپ کو بچنا چاہئے اور قرآن کریم صرف بچنے کی ہدایت ہی نہیں دیتا بلکہ تفصیل سے سمجھاتا بھی ہے اور آنحضرت ﷺ اس کی ہمارے سامنے تشریح بیان فرماتے ہیں اور ایک ایک بار یک نکتہ بتاتے ہیں کہ تم اپنی سوسائٹی کو شرک سے کس
خطبات طاہر جلد ۲ 486 خطبه جمعه ۲۳ ستمبر ۱۹۸۳ء طرح بچا سکتے ہو.وحدت میں کس طرح پر و سکتے ہو.سب سے پہلے تو آنحضرت ﷺ نے اس توحید کا نقشہ قرآن سے اخذ فرما کر ان الفاظ میں بیان کیا کہ مومنوں کی جماعت کی مثال ایک بدن کی سی ہوتی ہے.ایک بدن میں اگر چہ بہت سے اعضا ہوتے ہیں.انگلیاں ہیں، پھر انگلیوں کے پورے الگ الگ ہیں ، پھر اوپر کی جلد اور ہے، نیچے کی جلد اور ہے، ہاتھ پاؤں ہیں، مختلف ہڈیاں ہیں ، جگر ہے، دل ہے، گردے ہیں اور پھر ان کے آگے بہت سے حصے غرضیکہ اگر آپ انسانی اعضا کو الگ الگ کر کے دیکھیں اور وہ ٹکڑیں جن سے یہ بنتا ہے اور اس میں مزید تحقیق کر کے اس کے ذروں کو بھی خون کے اعضا کے طور پر شامل کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ بھی الگ الگ وجود ہیں تو ایک ان گنت تعداد ہے جس کو آپ گنے پر قادر نہیں ہو سکتے اور اللہ تعالیٰ نے یہ سارا وجود ایک وجود کی شکل میں ڈھالا ہوا ہے اور ہر ایک دوسرے سے تعاون کر رہا ہے.خون کا ہر ذرہ ایک دوسرے سے تعاون کر رہا ہے.دل پھیپڑوں سے تعاون کر رہا ہے، پھیپھڑے جگر سے تعاون کر رہے ہیں.جگر گردوں سے تعاون کر رہا ہے اور دماغ کا ایک ایک حصہ ہر دوسرے حصہ کے ساتھ تعاون کر رہا ہے.جب یہ تعاون اٹھتا ہے تو اس کا نام آپ بیماری رکھ دیتے ہیں.اس کے نتیجہ میں آگ پیدا ہوتی ہے.کسی جگہ بھی آپ اس تعاون کو ہٹا کر دیکھیئے کیسے خطرناک عذاب میں آپ مبتلا ہو جائیں گے.مثلاً دل کا پھیپھڑے سے یہ تعاون ہے کہ جتنا خون پھیپھڑے میں داخل ہو رہا ہے اتنا ہی خون دل کھینچ کر اوپر پھینک دے اور اگر یہ توازن بگڑے تو انسان کو خطرناک بیماری لاحق ہو جائے گی.مثلاً پھیپھڑے میں زیادہ خون داخل ہورہا ہے اور دل تعاون چھوڑ دیتا ہے اور وہ کہتا ہے کہ نہیں میں تھوڑا خون آگے بھیجوں گا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پھیپھڑوں میں Conjestion شروع ہو جاتی ہے اس کو Progressive Heart Failure کہتے ہیں.اگر انسان کی مدد نہ کی جائے تو وہ اس قدر خوفناک عذاب میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ایسی حالت میں آدمی کو جان دیتے ہوئے دیکھنا بھی عذاب ہوتا ہے.وہ سانس لینے کی کوشش کرتا ہے لیکن پھیپھڑے خون سے بھرے ہوئے ہوتے ہیں اس کو چین نہیں آتا.آکسیجن بھی دو تو آکسیجن اس کے اندر پہنچتی نہیں کیونکہ جن خلیوں نے خون پھینکنے کے بعد ہوا لینی تھی اور آکسیجن استعمال کرنی تھی وہ بریکار ہو جاتے ہیں.انسان کا سارا نظام بگڑ جاتا ہے حالانکہ دو اعضا کا ایک دوسرے سے تعاون چھٹا ہے.گردے خون سے تعاون کرنا چھوڑ دیں اور جتنا پانی ان کو نکالنا چاہئے
خطبات طاہر جلد ۲ 487 خطبه جمعه ۲۳/ ستمبر ۱۹۸۳ء اتنا نہ نکا لیں تب بھی مصیبت اور اگر زیادہ نکالنا شروع کر دیں تب بھی مصیبت.جوز زیادہ نکالنا شروع کر دیں تو کہتے ہیں جسم Dehydrate ہو گیا.بدن کے سارے نظام پر ایک مصیبت آجاتی ہے اور اگر کم نکالیں تو خون Hydroscopic ہو جاتا ہے.پانی سے بھر جاتا ہے دل پھول جاتا ہے جسم پھول جاتا ہے سارا نظام تباہ ہو جاتا ہے.انسانی جسم کا ایک ذرہ بھی ایسا نہیں جو دوسرے سے تعاون چھوڑ دے اور بدن کے سارے نظام کو تکلیف نہ پہنچے.اس کو وحدت کہتے ہیں اور وحدت تعاون سے قائم ہوتی ہے تعاون تو ڑیں گے آپ کو آگ دکھائی دے گی.بعض مریض واقعتہ یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں آگ لگ گئی ہے ، وہ کہتے ہیں ہم پر پانی ڈالو.چنانچہ شدید سردی کے موسم میں بھی وہ لوگ جن کو کینسر ہو جاتا ہے اگر برف کے پانی بھی ان پر گرائے جائیں تب بھی وہ چین محسوس نہیں کرتے.ہوتا کیا ہے جسم کے ایک حصے نے دوسرے سے تعاون چھوڑ دیا ہوتا ہے.مثلاً ہمارے اندر جتنی غذا جاتی ہے اس کے حصے مقرر ہیں کہ کتنا حصہ دانت میں جائے گا کتنا حصہ ٹوٹے ہوئے اعضا کے درست کرنے کے لئے استعمال ہوگا.کتنا خون کی Growth کے لئے استعمال ہوگا.اگر آپس میں تعاون اٹھ جائے اور کوئی ہڈی کہے کہ ساری خوراک میں نے ہی کھا جانی ہے تو وہ ہڈی بڑھنی شروع ہو جاتی ہے.پھر ڈاکٹر جو مرضی کریں اس کو کنٹرول نہیں کر سکتے اسی کا نام ہڈی کا کینسر ہے.اگر خون کے ذرے زیادہ کھانے لگ جائیں تو اپنی طاقت سے زیادہ کھانے لگ جاتے ہیں.وہ کچا خون بنا بنا کر پھینک رہا ہوتا ہے.کہتے ہیں ہم تم سے تعاون نہیں کریں گے.ہمارا داؤ زیادہ لگ گیا ہے ہم کھاتے جائیں گے اور اس سے خون میں ایسی شدید گرمی پیدا ہو جاتی ہے کہ جو سارے جسم کو آگ لگا دیتی ہے.پس تو حید کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آسمان پر خدا کی ایک وحدت موجود ہے اور آپ نے اس کو مان لیا اور چھٹی ہوگئی.یہ بیوقوفوں والا تصور ہے.یہ کسی اور مذہب میں ہو تو ہو اسلام میں نہیں ہے.اسلام تو بڑی تفصیل سے مثالیں دے دے کر بیان کرتا ہے کہ توحید کیا چیز ہے.انسان کی ساری کائنات کی طرف توجہ دلاتا ہے انسان کی موت اور زندگی کے نظام کی طرف توجہ دلاتا ہے پھر جسم کی طرف اشارہ کر کے بتاتا ہے کہ اس قسم کی تو حید چاہئے.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مومن کی تو حید اس کو کہتے ہیں کہ ایک پاؤں کو بھی ذرا سا کانٹا چھے تو سارا جسم بے چین ہو جائے اور بدن کے کسی حصے کو راحت ملے سارا جسم راحت محسوس کرتا ہے.( صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تر ام المومنین
خطبات طاہر جلد ۲ وتعا 488 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۳ء ) جن سوسائٹیوں کو کینسر ہو جاتے ہیں ، جن سوسائٹیوں میں شرک داخل ہو جاتا ہے وہاں بالکل الٹ نظارہ آپ کو نظر آتا ہے.کسی کو سکھ پہنچے تو لوگوں کو تکلیف ہونے لگ جاتی ہے.آگ لگ رہی ہوتی ہے کہ اچھا اس کو کیوں زیادہ دولت مل گئی ہے، اس کو کیوں زیادہ چین مل گیا ہے اور اس میں کیڑے ڈالے جاتے ہیں کسی کو دکھ پہنچے تو بہت خوش ہورہے ہوتے ہیں کہ بڑا مزہ آیا.ویسے کہتے تو یہی ہیں کہ ہمیں بہت ہمدردی ہے تمہارا فلاں رشتہ دار مر گیا ہے، تمہاری موٹر کو آگ لگ گئی یا تمہارے مکان کو کسی نے تباہ کر دیا اور چسکے لے رہے ہوتے ہیں کہ ہمیں بھی اس کو سنانے کا موقع ملا ہے.یہ ہے بگڑی ہوئی سوسائٹی کی شکل جس میں وحدت نہیں ہوتی.پس آنحضرت ﷺ نے مثالیں دے دے کر اس مسئلہ کو تفصیل سے سمجھایا ہے اور ان خطرات کی طرف توجہ دلائی ہے جو وحدت کو توڑتے ہیں.ان میں ایک غیبت ہے یعنی ایک دوسرے کی چغلی کھانا.یہ عجیب خوفناک بیماری ہے.ایک مجلس لگی ہوگی عورتیں سہیلیوں کی طرح بیٹھی ہوں گی ایک دوسرے سے بڑی محبت کا اظہار کر رہی ہوں گی اور ساتھ ہی جو بہنیں وہاں موجود نہیں ہوں گی ان کے متعلق برائیاں بھی کر رہی ہوں گی اور ساری سوسائٹی یہ سمجھ رہی ہوگی کہ ہم سب تو دوست ہیں لیکن وہ بڑی گندی عورت ہے جو باہر ہے، وہ یوں کرتی ہے اور وہ یوں کرتی ہے.اور ایک عورت اٹھ کر باہر جائے تو سب آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہنسیں گی اور کہیں گی یہ بھی ایسی ہے بلکہ اس سے بھی گندی ہے اور دیکھو کیسی باتیں کر رہی تھی حالانکہ یہ خود بڑی خطرناک ہے.تیسری اٹھ کر واپس چلی جائے تو اس کے خلاف باتیں ہونے لگتی ہیں اور وہ تین جو باہر نکلیں گیں ایک دوسرے کے خلاف جاکر باتیں کریں گی کہ شکر ہے ہم وہاں سے نکل آئے وہ تو بڑی گندی سوسائٹی تھی.دوسروں کے خلاف بڑی بڑی باتیں کرنے والیں تھیں اپنا حال دیکھو، اپنی بہو کا حال دیکھو، اپنی بیٹی کا حال دیکھو.چنانچہ قرآن کریم نے اس کو بڑی اہمیت دی ہے حالانکہ بظاہر سب سے معمولی برائی نظر آتی ہے.منہ سے بات کی ہے کسی کو چیرہ نہیں ماری.لیکن قرآن کریم کے نزدیک یہ بہت خطرناک بیماری ہے.یہ تو حید کو کھا جانے والی بیماری ہے.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاؤ.(الحجرات :۱۳) اب آپ اس مثال پر غور کریں تو انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے.جتنا اس پر غور کرتے ہیں اتنی ہی زیادہ طبعیت اس پر عش عش کر اٹھتی ہے کہ خدا تعالیٰ کا
خطبات طاہر جلد ۲ 489 خطبه جمعه ۲۳/ ستمبر ۱۹۸۳ء کلام ہے اس میں اس سے بہتر مثال نہیں دی جاسکتی تھی.مردہ بھائی اپنے آپ کو Defend نہیں کر سکتا.مردہ بھائی کی مثال ویسے ہی ہے جیسے کوئی شخص آپ کے پاس سے اٹھ کر باہر چلا جائے.پھر اس کے خلاف جو مرضی باتیں کریں اس کی کیا طاقت ہے کہ وہ اپنے آپ کو Defend کرے لیکن ی اتنی ہی مکر وہ بات ہے جیسے مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے اور کسی مردار کا گوشت کھانا ویسے ہی آپ کو بہت عجیب لگتا ہے اور پھر آپ کا اپنا بھائی !!! تو فرمایا خدا کی نظر میں جو تمہارا بھائی ہے اس کی غیبت کرتے ہو تو یہ ایسے ہی ہے جیسے تم اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھاتے ہو.جہنم کیا چیز ہے؟ وہ انہی باتوں کا تصویری نمونہ ہے جو مرنے کے بعد ملے گا.وہاں جو عجیب و غریب خوفناک نقشے دکھائے گئے ہیں وہ اسی دنیا کی حرکتوں کی در اصل تصویریں ہیں.یہ تصویریں ہمیں بعض دوسرے جانوروں میں بھی نظر آتی ہیں اور مرنے کے بعد ان میں ہی سے ہم خود بھی گزر سکتے ہیں اگر ہم ان حرکتوں سے باز نہ آئے.مگر قرآن کریم نے بتا دیا ہے کہ چغل خوروں کی یہ جہنم ہوگی.مرنے کے بعد وہ ایسے عذاب میں مبتلا ہوں گے گویا اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھا رہے ہوں گے اور کھاتے چلے جائیں گے.اس وقت انہیں پتہ لگے گا کہ وہ کیا حرکتیں کرتے تھے چنانچہ اس مثال پر آپ مزید غور کر کے دیکھیں تو پھر مزید باتیں آپ کو سمجھ آئیں گی.یہ جو مردار خور جانور ہیں یہی گوشت کھاتے ہیں مثلاً چھیلیں ہیں، گدھیں ہیں اور دوسرے اس قسم کے جانور جو مردوں کا گوشت کھانے پر خاص طور پر مقرر ہیں.وہ دوسروں کا بھی گوشت کھاتے ہیں اپنوں کو بھی کھاتے ہیں.ان کے حالات پر آپ غور کریں تو وہ ساری دنیا سے کٹ کر الگ ہو چکے ہوتے ہیں.عملا ساری دنیا کی زندگی نے ان سے بائیکاٹ کیا ہوا ہے.وہ نہ باغ میں چہچہاتے ہوئے نظر آئیں گے، نہ جنگلوں کی زینت بنیں گے دوسرے جانوروں کی طرح کسی نہ کسی چوٹی کے اوپر جا کر اکیلے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں ، صرف اس وقت اکھٹے ہوتے ہیں جب مردار ہاتھ آجائے ورنہ اکھٹے ہو ہی نہیں سکتے.سارے گدھوں اور سارے مردار خور جانوروں کی نہ آواز میں کوئی رونق ہے نہ ان کی شکل میں کوئی زینت ہے نہایت منحوس قسم کی چیزیں ہیں اور تنہائی کی زندگی بسر کر رہے ہیں.پس حضرت رسول کریم ﷺ نے جب قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے غیبت سے ڈرایا ہے تو یہی بتایا ہے کہ اس طرح تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے.غیبت کرنے والے بالآخر قرآن کی اس آیت
خطبات طاہر جلد ۲ 490 خطبه جمعه ۲۳ ر ستمبر ۱۹۸۳ء کی روشنی میں تنہا ہوتے چلے جاتے ہیں اور صرف اس وقت تک اکھٹے ہوتے ہیں جب کسی کی برائی کرتے ہیں ورنہ ہر ایسی عورت جو غیبت میں مبتلا ہے وہ عملاً اپنی سوسائٹی سے کٹ کر الگ ہوتی چلی جاتی ہے اس کی نہ کوئی عزت باقی رہتی ہے اور نہ وقار باقی رہتا ہے، نہ اس کی بات میں کوئی حسن رہتا ہے کیونکہ وہ کسی کی برائی بیان کرنے کے سوا اور کچھ جانتی ہی نہیں.یہی حال ان مردوں کا ہے.عورتوں سے غیبت شروع ہوتی ہے پھر مردوں میں داخل ہونا شروع ہو جاتی ہے.وہ گھروں میں بیٹھ کر باتیں سنتے ہیں اور لذت پاتے ہیں اور پھر گھروں میں دوسرے مردوں کے خلاف آہستہ آہستہ نفرتیں پیدا ہورہی ہوتی ہیں.پس یہ ایک بہت ہی خطرناک بیماری ہے.آنحضرت ﷺ نے اس بیماری کی روک تھام کے طریق بھی بتائے ہیں.فرمایا ایک تو غیبت ہو رہی ہوتی ہے پھر اگلا قدم اٹھتا ہے جو اس سے بھی زیادہ خطر ناک بن جاتا ہے.وہ یہ ہے کہ ایک نے دوسرے کی برائی کی اور جس کی برائی ہوئی تھی اس کو جا کر بتا دیا کہ دیکھو تمہارے متعلق یہ باتیں ہورہیں تھیں.یعنی وہ جو ابھی تک فرضی قصہ تھا وہ اب حقیقت بن گیا کہ میرے خلاف کسی نے نقصان پہنچانے کے لئے بات کی ہے اور مجھے پتہ ہی نہیں ہے میں آرام سے بیٹھا ہوا ہوں لیکن دوسرے کا تیر اٹھا کر اس نے میرے سینے میں گھونپ دیا ہے.پھر غیبت کا اگلا قدم یہ ہے کہ ایک صاحب اٹھے اور اس کے خلاف بھی غیبت کرنے لگ گئے جس کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے.غیبت کے معنی ہی یہ ہیں کہ کسی کی غیر حاضری میں اس کو نقصان پہنچانا ، اس کے خلاف باتیں کرنا.دوسرے شخص کے پاس پہنچے اور کہا جناب آپ تو اس شخص کو بڑا اچھا سمجھتے ہیں وہ بڑا ذلیل آدمی ہے، آج وہ آپ کے خلاف باتیں کر رہاتھا اور یہ نہیں بتاتے کہ میں بھی ان باتوں میں شامل تھا.چنانچہ رسول کریم نے اس کا بہت پیارا نقشہ کھینچا ہے.آپ نے فرمایا اس کی ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص کسی کی طرف تیر پھینکے، تیر کمان سے چلائے وہ اسے نہ لگے.اس کے قدموں میں جا کر بیکار ہوکر گر جائے تو ایک دوسرا شخص کہے اس نے چلایا تو اس کی طرف تھا وہ وہاں سے اٹھائے اور اس کے سینے میں ماردے یہ کہتے ہوئے کہ تیر کو نشانے پر پہنچنا چاہئے.تو وہ غیبت ایسے تیر کی طرح ہوتی ہے جو لگتا نہیں کیونکہ جو چیز نشانے پر نہیں لگے گی وہ دکھ بھی نہیں پہنچائے گی اور برائی بھی پیدا نہیں کر سکے گی.غیبت کرنے والا صرف اپنے آپ کا نقصان کر رہا ہوتا ہے لیکن جو بات پہنچا دیتا ہے وہ اس کا بھی نقصان کرتا ہے جس کے خلاف غیبت کی گئی تھی اس کو تکلیف پہنچاتا ہے اور خود اس کا قاتل بن جاتا ہے.صلى الله
خطبات طاہر جلد ۲ 491 خطبه جمعه ۲۳ ستمبر ۱۹۸۳ء آنحضرت ﷺ نے قرآنی امور کی جو تفصیل بیان فرمائی ہے اسے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.اس کو کہتے ہیں رسول ایسا کامل رسول کہ پوری وضاحت کے ساتھ معاشرہ کی خرابیاں بتائیں ان کے بہتر ہونے کے طریق سمجھائے.ہر خطرے سے آگاہ کیا اس کے باوجود اگر کوئی سوسائٹی یہ سمجھے کہ یہ معمولی سی بات ہے اس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا تو یہ اس کی بڑی بے وقوفی ہوگی.دوسری کوئی بڑائی بھی آپ کے اندر نہ ہو صرف ایک غیبت آپ کی نیکیوں کو کھا جائے گی اور یہ عادت کہ ایک جگہ سے بری بات سنیں اور دوسروں تک پہنچا دیں یہ آپ کو تباہ کر دے گی.اسلام ایک ایسا سائنٹیفک سسٹم ہے کہ اس میں Valve لگائے گئے ہیں.جو لوگ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے نظام سے واقف ہیں یا سائنس کی ماڈرن ٹیکنالوجی سے واقف ہیں ان کو پتہ ہے کہ وہاں Valve سسٹم ہوتے ہیں.وہ Valves بعض چیزوں کو Cull کرتے ہیں اور بعض چیزوں کو زیادہ طاقت کے ساتھ آگے پہنچاتے ہیں اس کی طاقت کو پہلے سے بھی بڑھا دیتے ہیں.اسلام نے اسی طرح سائنسی طور پر ہماری کمزوریوں کو کاٹنے کی کوشش کی ہے اور ہماری خوبیوں کو ابھارنے کی کوشش کی ہے فرمایا اگر کوئی شخص کسی کی برائی کرتا ہے تو تم نے آگے بیان نہیں کرنی و ہیں روک دینی ہے تم اس کے رستے میں Valve بن جاؤ اور اگر کوئی اچھی بات سنتے ہو تو ضرور آگے پہنچاؤ اس کو اپنے تک روکنا نہیں کیونکہ وہ تمہارے پاس دوسرے کی امانت ہے چونکہ آنحضرت ﷺ نے یہ جو فرمایا میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں اس کے متعلق یاد رکھوفــليبــلــغ الشاهد الغائب کہ جو حاضر ہے اس کا فرض ہے کہ وہ اپنے اس بھائی تک اس بات کو پہنچائے جو مجلس میں حاضر نہیں تھا.( صحیح بخاری کتاب الحج باب لا یعصد الشجر الحرم) اگر آپ کو اسلام کی کوئی اور دلیل نہ بھی معلوم ہو، آپ کو اس نظام کی یہ سمجھ آ جائے تو دنیا کے سارے مذاہب کو چیلنج دے سکتے ہیں کہ تم اپنے مذہب سے ایسا نظام نکال کر دکھاؤ.اتنا Perfect ہے اتنا مکمل اور ایک دوسرے کے ساتھ اتنا منضبط ہے کہ ایک تو حید آسمان پر ہے، ایک کائنات میں ہے، ایک مومن کے وجود میں ہے اور پھر اس توحید کی حفاظت کا انتظام کیا گیا ہے اس لئے آپ لوگ اگر بچے احمدی بننا چاہتے ہیں تو موحد بنیں تب آپ سچے احمدی بنیں گے.میں نے یہ یہاں آکر یہ بات محسوس کی ہے کہ باوجود اس کے کہ نبی کی جماعت بہت چھوٹی ہے یہاں ایک دوسرے کے خلاف نفرتیں پائی جاتی ہیں.میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ یہ کمزوری
خطبات طاہر جلد ۲ 492 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۳ء عورتوں میں زیادہ پائی جاتی ہیں وہ اپنی بہنوں کی غیبت کرتی ہیں اور ان کی برائیاں بیان کرتی ہیں.اب ہم جو باہر سے آئے ہیں کیا ضرورت تھی ہمیں یہ بتانے کی کہ فلاں عورت میں یہ نقص ہے یا فلاں بھائی میں یہ نقص ہے پر دو پوشی کرنی چاہیئے تھی چنانچہ اس کے آگے اسلام پر دہپوشی کا مضمون شروع کر دیتا ہے.آنحضرت ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ اگر تم دوسری باتوں سے باز نہیں آتے تو کم از کم ایک بات یاد رکھو کہ تمہارے اندر بھی نقص ہیں.اگر تم اپنے بھائی کی پر دو پوشی نہیں کرو گے تو تمہارا خدا تمہاری پردہ پوشی نہیں کرے گا وہ بھی تو تمہارے عیوب ڈھانکے ہوئے ہے.(ابو داؤد کتاب الادب باب فی الغیبة ) اگر خدا بھی یہی کام شروع کرے جو گندی سوسائٹی کے لوگ کرتے ہیں کہ کسی کی برائی دیکھی اور آگے اس کا اشتہار دے دیا، کسی سے بری بات سنی تو آگے چلا دی تو اللہ تعالیٰ کی تو آپ کے سب عیبوں پر نظر ہے آپ رات کی تاریکی میں چھپ کر چھوٹے سے چھوٹا گناہ کریں، اللہ تعالیٰ اس کو بھی جانتا ہے.کسی کے متعلق دل میں میل آ جائے خدا اس کو بھی جان رہا ہوتا ہے اور اگر خدا آپ سے بھی وہی سلوک شروع کر دے تو آپ کے دل میں کسی کی برائی آئے اور خدا تعالیٰ یہ بتادے کہ دیکھو تمہارے متعلق یہ سوچتا ہے آپ کو خدا نے کتنے پردوں میں رکھا ہوا ہے.آپ کی سوچ آپ کی چیز ہے آپ جو مرضی سوچ جائیں ، یہ ہے ستاری خدا تعالیٰ کی دوسرے کو پتا نہیں لگتا.دیواریں آپ کو راستہ روک لیتی ہیں، کپڑے آپ کی برائیاں روک لیتے ہیں، آپ کے بدن کے عیب چھپالیتے ہیں.خدا اتناستار ہو اور اپنی مخلوق سے رحم کرنے والا اور ہر برائی پر پردہ ڈالنے کے اس نے انتظام کئے ہوں اور وہ کہے کہ میری مخلوق سے یہ سلوک کرو جو میں نے تم سے کیا ہے اور آپ وہ نہ کریں آپ اس کے پردے پھاڑنے پر لگ جائیں اور دوسروں کی برائیاں تلاش کرنے پر لگ جائیں اس کی برائیوں کے اشتہار دینے پر لگ جائیں تو بتائیے کہ پھر آپ کا کیا حق ہے کہ ستار خدا کی رحمت کے تابع رہیں.اللہ تعالیٰ پھر ایسی قوموں سے رحمت چھین لیا کرتا ہے.وہ خود پردے پھاڑ کر انتظام کر دیا کرتا ہے.وہ پھر ان کی برائیاں ظاہر کرنی شروع کر دیتا ہے.پس اسلامی نظام کو سمجھیں اور اس بات کو خوب سمجھ لیجیئے کہ آپ جب تک موحد نہیں بنیں گے اور اس دنیا میں بھی ایک موحد سوسائٹی کو پیدا نہیں کرتے اس وقت تک فرضی تو حید کوئی چیز نہیں.تو حید وہ ہے جو عمل کی دنیا میں نظر آرہی ہو اور خدا نے آپ کو اس کے نمونے دے دیئے ہیں.اس کے بعد بھی اگر
خطبات طاہر جلد ۲ 493 خطبه جمعه ۲۳/ ستمبر ۱۹۸۳ء آپ اپنی سوسائٹی کو موحد سوسائٹی نہیں بناتے اور ایک بدن کی طرح یکجان نہیں بن جاتے اور ہر احمدی کا دکھ سب کا دکھ نہیں بن جاتا ، ہر احمدی کی خوشی سب کی خوشی نہیں بن جاتی اس وقت تک معاشرہ مجموعی طور پر ترقی نہیں کر سکتا اس لئے کوئی ایسا فعل نہ کریں جو اس تو حید کوتوڑنے والا اور اس بیگانگت کی روح کو پارہ پارہ کرنے والا ہو.جب آپ اپنے اندر یہ خوبیاں پیدا کر لیں گے تو پھر آپ موحد بن جائیں گے.جو قوم موحد بن جاتی ہے اس کو خدا تعالیٰ کی طرف سے بے شمار برکتیں نصیب ہوتی ہیں اور دنیا میں عظیم الشان ترقی کرتی ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اس کو آگے بڑھنے سے روک نہیں سکتی.پس جتنے آپ تھوڑے ہیں، جتنے آپ کمزور ہیں، اتنے ہی زیادہ توحید کے ساتھ چمٹنے کی ضرورت ہے.آپ کی ساری طاقت کا راز یہ ہے کہ آپ ایک دوسرے کے ساتھ یکجان ہو جائیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جو توحید قائم فرمائی اس کا نقشہ قرآن کریم نے یہ بیان فرمایا مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ (الفتح ۳۰) کہ دیکھومحمد مصطفی ﷺ اور آپ کے ماننے والوں کی کیا کا یا بیٹی ہے یعنی رسول اللہ ﷺ نے اپنے عمل سے ان کو کیسا تبدیل کر دیا.أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ یہ آپس میں بے حد محبت کرنے والے ہیں اور جتنی آپس میں محبت کرتے ہیں اتنی ہی غیروں کے مقابلہ میں سختی اختیار کرتے چلے جاتے ہیں.یہ ترقی کرنے کا راز ہے اس کے اندر حکمت کا ایک گہرا اور انمول موتی پوشیدہ ہے.ہمیشہ وہ قو میں غیروں پر سخت ہوتی ہیں جو اندرونی طور پر ایک دوسرے سے محبت کیا کرتی ہیں.ان میں غیر راہ نہیں پاسکتا، ان کو کمزور نہیں کر سکتا، ان کے اندر کسی قسم کا رخنہ نہیں ڈال سکتا.جو قو میں آپس میں ایک دوسرے میں رخنہ ڈالتی پھرتی ہیں وہ غیروں کی خوراک بن جایا کرتی ہیں.غیران میں داخل ہو جاتے ہیں.پس اگر آپ اپنوں کے لئے نرم ہیں تو لازما غیروں کے لئے سخت ہو جائیں گے.اگر اپنوں کے لئے سخت ہیں تو لازماً غیروں کے لئے نرم ہو جائیں گے.وہاں آپ کی محبتیں پھیل جائیں گی اور کسی قوم کو تباہ کرنا ہو تو اس سے زیادہ خطرناک زہر اور کوئی نہیں ہے.جو اس کے اندر داخل کر دیا جائے.پس آپ یا درکھیں کہ بڑی محنت اور کوشش کے ساتھ احمدیت کی حفاظت کریں.تیرہ سوسال کے بعد اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو پھر آنحضرت ﷺ کا سچا نائب عطا فرمایا ہے اور دین کو زندہ کرنے
خطبات طاہر جلد ۲ 494 خطبه جمعه ۲۳ / ستمبر ۱۹۸۳ء کا انتظام کیا ہے.اور اب آپ سارے مل کر ان کے روحانی وارث ہیں.آپ ہی ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نمائندگی کرنی ہے، اس لئے ان چھوٹی چھوٹی برائیوں سے صرف نظر نہ کریں.یہ حقیقت میں بہت بڑی ہیں اور وحدت کی قدر کریں.ہر وہ بات کریں جس سے آپس میں محبت پیدا ہوتی ہے، ہر اس بات سے نفرت کریں جس سے آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہو اور جو پہلے ہو چکا اس کو ختم سمجھیں اور آئندہ کے لئے اگر آپ کی موجودگی میں کوئی بات ہو جس سے نفرت پیدا ہوتی ہوتو اس کو روکیں یا وہاں سے اٹھ کر چلے جائیں جو لوگ نفرت پیدا کرتے ہیں ان سے تعلق توڑ لیں.صرف وہی وجود ہیں جو تعلق توڑنے کے لائق ہیں باقی کوئی نہیں ہے.اللہ تعالیٰ آپ کو سچا احمدی بنے کی توفیق عطا فرمائے.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: یہ میرا اس سفر کا پہلا اور آخری جمعہ ہے جو نجی میں آیا ہے.اس کے بعد ہم انشاء اللہ تعالیٰ پرسوں آسٹریلیا کے سفر کے لئے روانہ ہوں گے.احباب جماعت خاص طور پر دعا کریں اور کثرت کے ساتھ دعائیں کرتے رہیں کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے بقیہ سفر کو بھی بہت بہت مبارک کرے اور جو سفر آپ کے ساتھ گزر گیا ہے اللہ کے فضل سے اس کے جو بھی نیک اثرات ظاہر ہوئے ہیں ان کو بھینگی عطا کرے، وہ جاری رہیں، میرے جانے کے ساتھ مٹ نہ جائیں اور جو نیکیاں آپ قبول نہیں کر سکے.خدا کرے بعد میں ان کا پیج پرورش پائے اور وہ پھوٹ پڑے اور کوئی ایسی بات نہ رہے جس سے آپ فائدہ نہ اٹھا سکیں.اس کے لئے بہت دعا کی ضرورت ہے.جب آپ دعا کریں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو بہت زیادہ برکتیں عطا فرمائے گا.(روز نامه الفضل ربوه ۲۵ رستمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 495 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء آسٹریلیا میں پہلی مسجد کا سنگ بنیاد (خطبه جمعه فرموده ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء بمقام سڈنی ، آسٹریلیا ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج کا دن جماعت احمدیہ کی تاریخ میں اور آسٹریلیا کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا دن ہے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی ذات پر تو کل کرتے ہوئے آج انشاء اللہ تعالیٰ یہاں پہلی احمد یہ مسجد اور احمد یہ مشن ہاؤس کی بنیا درکھیں گے.سی دن جہاں بے حد برکتوں کا حامل دن ہے اللہ تعالیٰ کے بہت سے فضل اس دن نازل ہوں گے، ان کے اثرات خدا تعالیٰ کے فضل ہی کے ساتھ بہت دیر تک ہم دیکھتے رہیں گے وہاں اس کے ساتھ ہی یہ دن بہت سی ذمہ داریوں کی طرف بھی توجہ دلاتا ہے.خصوصیت کے ساتھ وہ احمدی جو آسٹریلیا کو اپنا وطن بنا چکے ہیں ان پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہونے والی ہیں ان کو قبول کرنے کے لئے آسٹریلین احمدی دوستوں کو پوری طرح تیار ہو جانا چاہئے.آسٹریلیا ایک ایسا ملک ہے جس میں دہریت اور مادہ پرستی یورپ کے بہت سے دوسرے ملکوں سے بھی زیادہ ہے.شاید مشرق میں رہتے ہوئے یہاں کے لوگوں میں یہ احساس کمتری پیدا ہو گیا کہ جب تک ہم دنیا پرستی میں سب سے آگے نہیں نکلیں گے اس وقت تک اس غلط فہمی سے بچ نہیں سکتے کہ ہم مشرقی لوگ نہیں اس لئے ہر وہ قدر جو انسان کو خدا سے دور لے جاتی ہے، ہر وہ رجحان جس سے روحانیت کا انکار ہوتا ہے وہ اس قوم میں پایا جاتا ہے.یہاں آنے سے پہلے مجھے اس کا اتنا گہرائی
خطبات طاہر جلد ۲ 496 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کے ساتھ اندازہ نہیں تھا جتنا اب ہوا ہے.چنانچہ یہاں آ کر ان کا معاشرہ دیکھا، ان سے گفتگو کا موقع ملا تو مجھے یہ معلوم ہوا کہ دنیا کے کسی ملک میں بھی سوائے سکنڈے نیوین میں سے بعض ملکوں کے، اتنی زیادہ دہریت اور مادہ پرستی نہیں پائی جاتی.اس ملک میں جو احمدی موجود ہیں ان کی بھی کسمپرسی کی حالت ہے، مرکز سے دوری، احمد یہ مشن کا نہ ہونا اور تعداد کی کمی، یہ سارے ایسے محرکات ہیں جنہوں نے ان پر بداثر ڈالا ہے.اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے باوجود خدا تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایسے مخلصین موجود ہیں ، مرد بھی اور عورتیں بھی ، جنہوں نے یہ عزم کر رکھا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اس معاشرہ پر غالب آئیں گے اور ان کے کردار میں خدا تعالیٰ کے فضل سے زندگی کے آثار نظر آتے ہیں لیکن بالعموم یہ کہنا درست ہے کہ جماعت کو اس ملک میں جس شان کے ساتھ دیکھنے کی میں توقع رکھتا ہوں وہ پوری نہیں ہوئی.امر واقعہ یہ ہے کہ ان حالات میں دو قسم کے ہی رد عمل ہو سکتے تھے اور ہو سکتے ہیں.ایک رد عمل ہے حد سے زیادہ دہر بیت اور مادہ پرستی کے سمندر میں ڈوب کر اس سے مرعوب ہو جانے کا اور رفتہ رفتہ ان قدروں سے دور چلے جانے کا جن کو لے کر ہم اپنے ملکوں میں یہاں آئے تھے.اور دوسرار د عمل ہے اس کے مقابل پر اور زیادہ بختی اختیار کرنے کا، بے چینی محسوس کرنے کا ،فکر محسوس کرنے کا اور وہ رستے تلاش کرنے کا جن پر چل کر ہم ان کے بداثرات سے محفوظ رہ سکتے ہیں.یہ دوسرار د عمل جس قوت کے ساتھ نظر آنا چاہئے تھا اس قوت سے یہاں نظر نہیں آ رہا.امر واقعہ یہ ہے کہ قانون قدرت کو بھلا کر دنیا کی کوئی قوم بھی درحقیقت زندہ نہیں رہ سکتی، قانون قدرت کو نظر انداز کر کے دنیا کی کوئی چیز بھی غالب آنے کا دعوی ہی نہیں کر سکتی کجا یہ کہ وہ زندہ رہ سکے.انسانوں کی زندگی کو دیکھئے یا حیوانوں کی زندگی کو دیکھئے، وہ اپنے ماحول سے متاثر ہوتے ہیں اور ہمیشہ دو طرح سے متاثر ہوتے ہیں.بعض حیوانات کو مخالف حالات مٹا دیتے ہیں اور نابود کر دیتے ہیں ، بعض حیوانات میں ایک رد عمل پیدا ہوتا ہے اور وہ ان حالات پر غالب آنے کی کوشش کرتے ہیں اور قانون قدرت انہیں وہ نئے وسائل عطا کر دیتا ہے، نئے ذرائع انہیں میسر آ جاتے ہیں جن سے وہ پیش آمدہ حالات کا بہتر رنگ میں مقابلہ کر سکتے ہیں.یہی ہے خلاصہ اس سارے انسانی یا حیوانی ارتقا کا جس میں زندگی کی موت کے ساتھ ایک مسلسل جد و جہد نظر آتی ہے اور دو ہی طرح کے رد عمل ظاہر
خطبات طاہر جلد ۲ 497 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء ہوتے ہیں، تیسرا رد عمل ہمیں کوئی نظر نہیں آتا.یا تو یہ نظر آتا ہے کہ زندگی نے غیر معمولی کوشش کی اور موت پر غالب آ گئی اور یا پھر زندگی موت کا شکار ہو گئی اور یہی وہ دورد عمل ہیں جو انسانی نظریات کی جنگ میں ہمیں نظر آتے ہیں.پس جب احمدی دوست اس دور دراز بر اعظم میں آئے اور یہاں رہنے کا فیصلہ کیا تو ان کو کھل کر یہ بات نظر آنی چاہئے تھی کہ اگر انہوں نے غیر معمولی جدوجہد کے بغیر یہاں رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو پھر اس بات پر بھی ان کو تیار ہو جانا چاہئے کہ وہ اگلی نسلوں کو اپنے ہاتھ سے کھو دیں گے اور رفتہ رفتہ اسی ماحول کا شکار ہو کر انہی لوگوں میں سے ہو کر رہ جائیں گے یا اس کے برعکس انہیں عام حالات کی نسبت زیادہ ذمہ داری زیادہ کوشش اور زیادہ جدو جہد کے ساتھ زندہ رہنا ہوگا.گرمی کا موسم ہو تو انسان کا گزارہ عام کپڑوں میں ہو جاتا ہے.گرمی کے موسم میں بغیر کپڑوں کے بھی انسان اپنے جسم کی حرارت کو محفوظ رکھ سکتا ہے بلکہ وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ یہ حرارت کسی اور ذریعہ سے جسم سے نکلنی شروع ہو جائے تاکہ گرمی کا احساس کم ہو لیکن اگر آپ North Pole یا South Pole قطب شمالی یا قطب جنوبی) کے برفانی علاقوں میں چلے جائیں تو ننگے جسم کا تو سوال کیا عام سردیوں کے موسم میں بھی جو کپڑے پہنے جاتے ہیں وہ کافی نہیں ہوا کرتے.وہاں زندگی کی جدو جہد کے لئے کچھ مزید چیزوں کی تلاش کرنی پڑتی ہے.اندرونی طور پر گرمی پیدا کرنے کے لئے خاص غذاؤں کی ضرورت پڑتی ہے، بیرونی طور پر موسم سے حفاظت کے لئے غیر معمولی لباس کی ضروریات پڑتی ہے، میری مراد یہ ہے کہ موسم میں جتنی زیادہ خنکی پیدا ہو اتنی جد و جہد بھی زیادہ کرنی پڑتی ہے اگر ایسا نہیں کریں گے تو پھر زندگی کی توقع لے کر بیٹھنا محض حماقت ہے.پس جتنا زیادہ دہریانہ ماحول ہو، جتنی زیادہ دنیا پرستی ہو اتنا ہی احمدی کو کسی لباس کی تلاش کرنی چاہئے.اس لباس کے بغیر وہ اس ماحول کی موت کی سردی سے بچ نہیں سکتا.وہ کون سا لباس ہے جو اس کو بچا سکتا ہے؟ قرآن کریم نے اس لباس کا نام لیا اور فرمایا: وَلِبَاسُ التَّقْوى ذلِكَ خَيْرٌ (الاعراف: ۲۷) ایک ہی لباس ہے اور وہ تقویٰ کا لباس ہے جو مادہ پرستی کے سردخانوں میں بھی آپ کو زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے.دنیا کے پردے پر آپ کہیں بھی چلے جائیں وہ آپ کی حفاظت کرے گا اور
خطبات طاہر جلد ۲ 498 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء آپ کو دنیا کے ہر شر سے محفوظ رکھے گا اور لباس التقویٰ ہی ہے جو کبھی انسان کا لباس بنتا ہے اور کبھی اس کے لئے زاد راہ بن جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم نے اسی تقویٰ کو زاد راہ بنا کر بھی دکھایا اور فرمایا تم تقویٰ کی زاد کو پکڑو.یہی زادراہ ہے جو تمہارے کام آ سکے گا.یہ تقویٰ ہی ہے جو آپ کی حفاظت کے لئے اندرونی غذا کا کام بھی دیتا ہے اور آپ کی حفاظت کے لئے بیرونی لباس کا بھی اور جتنا زیادہ ماحول مخالف ہوا تنا ہی زیادہ تقویٰ کی تلاش ہونی چاہئے.یہ کیا چیز ہے؟ تقویٰ کس کو کہتے ہیں؟ تقویٰ کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان ہر فعل میں اور ہر سوچ میں اللہ کی طرف نگاہ ڈالنی سیکھ جائے اور یہ سوچنا شروع کرے کہ میں خدا کی خاطر زندہ ہوں.تقویٰ کا ایک معنی خوف بھی ہے تقویٰ کا معنی ڈر بھی ہے.لیکن وہ ڈرنہیں جو کسی جانور یا سانپ یا بچھو سے ہوتا ہے بلکہ تقویٰ ایسے خوف کو کہتے ہیں جو محبت کرنے والے کے پیار کو کھو دینے کا ڈر ہوتا ہے.ہمیشہ یہ خطرہ دامن گیر ہو کہ میں کوئی ایسا فعل نہ کروں ، میری سوچ کوئی ایسی راہ اختیار نہ کرے کہ جس سے میرا پیارا اور محبوب خدا مجھ سے ناراض ہو جائے اس کا نام تقویٰ ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم یہ طرز فکر اختیار کرو گے تو دنیا کے پردہ پر جہاں بھی تم جاؤ گے یہ طرز فکر تمہاری زندگی کی حفاظت کرے گی تمہارا لباس بھی بن جائے گی تمہاری خوراک بھی ہو جائے گی اور پھر تم کسی غیر اللہ کے شر سے خوف کھانے کی فکر میں مبتلا نہیں ہو سکتے کبھی غیر کے شر کے خوف میں مبتلا نہیں ہو سکتے کیونکہ خدا کا خوف ہر دوسرے خوف پر غالب آ جاتا ہے تو گویا قرآن کریم کے نزدیک اگر تم چاہتے ہو کہ بے خوف زندگی بسر کرو تو صرف ایک راہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا خوف اختیار کرو اس کی رضا سے دور جانے سے ڈرو.اس پہلو پر میں کچھ مزید مختصر سی روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.منہ سے یہ کہ دینا کہ تقویٰ خدا کی محبت کا نام ہے، تقویٰ خدا کی محبت کے کھو دینے کے ڈر کا نام ہے، انسان ہر وقت یہ خیال رکھے کہ میں اللہ کی راہ پر قائم رہوں اور خدا مجھ سے ناراض نہ ہو.یہ منہ سے کہ دینا بظاہر آسان بات ہے لیکن عملی زندگی میں ہر روز اس قسم کے امتحانات پیش آتے ہیں کہ ہر انسان اگر ہوش کے ساتھ زندہ رہے تو وہ یہ محسوس کر سکتا ہے کہ میرا عقیدہ اور ہے اور میر اعمل اور ہے، میرا دعوئی اور ہے اور وہ زندگی جو میں نے اختیار کر لی ہے وہ اور ہے.ہر روز آپ کے لئے ایسے مواقع پیش آتے ہیں ، مردوں کے لئے بھی اور عورتوں کے لئے بھی جہاں آپ خدا کی محبت کے
خطبات طاہر جلد ۲ 499 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کھو دینے کی نسبت ان لوگوں کی محبت کے کھو دینے کے خوف سے مغلوب ہو جاتے ہیں جن میں آپ رہ رہے ہوتے ہیں.ان کے تاثرات جو آپ کے متعلق ہوں گے وہ آپ کی زندگی کے نقشے بنار ہے ہوتے ہیں اور دماغ میں یہ ہوتا ہے کہ خدا کا تصور ہماری زندگی کا نقش بنا رہا ہے.آپ اپنے ماحول سے ڈرتے ہیں، اپنے ماحول کی باتوں سے خوف کھاتے ہیں، یہ ہمت نہیں پاتے کہ ماحول کے مخالف کوئی طرز زندگی اختیار کر سکیں اور سر اونچا کر کے ان لوگوں میں چل سکیں.ہمیشہ یہ خوف دامنگیر رہتا ہے ، مردوں کو بھی اور عورتوں کو بھی کہ اگر ہم نے یہ کیا تو یہ لوگ کیا کہیں گے ، ہمارے متعلق کیا سمجھیں گے.اگر ہم نے اسلامی لباس پہنا تو ان کو کیا محسوس ہوگا ، اگر یہ لوگ ننگے پھر رہے ہوں اور ہماری عورتوں نے برقعے اوڑھ لئے تو یہ ہمارے متعلق کیا سمجھیں گے کہ کون سی بلائیں آگئی ہیں.حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ پہلا خوف ہے جو تقویٰ کے مقابل پر انسانی زندگی میں راہ پاتا ہے اور مذہبی معاشروں کو تباہ کر دیا کرتا ہے.جس طرح ایک تقویٰ خدا کا خوف ہے اسی طرح ایک تقوی دنیا کا خوف بھی ہوا کرتا ہے اور ان دونوں کے درمیان وہ جنگ ہے جو ہمیشہ جاری رہتی ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی.تاہم کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو یہ فیصلہ کر لیتے ہیں کہ اللہ کی رضا کھو دینے کا خوف بہر حال ہماری زندگی پر غالب رہے گا.یہ وہ لوگ ہیں جو دنیا کے خوف سے بچائے جاتے ہیں اور کچھ وہ لوگ ہیں جن پر دنیا کی رضا کھو دینے کا خوف ہمیشہ غالب رہتا ہے وہ بظاہر نیک بھی ہوں، بظا ہر نمازیں پڑھنے والے بھی ہوں، بظاہر اعمال میں بڑے صاف دکھائی دیں اور لوگ ان پر اعتراض نہ کر سکیں لیکن عملاً وہ بازی ہار چکے ہوتے ہیں کیونکہ اصل لڑائی نظریات کی دنیا میں ہوا کرتی ہے.پس یہ دو قسم کے خوف ہیں جن کے درمیان جدو جہد ہمیشہ سے جاری ہے اور ہمیشہ جاری رہے گی.وہی آزاد مرد ہے جو دنیا کے خوف سے آزاد ہوتا ہے.جو دنیا کے خوف سے آزاد نہیں ہوتا وہ ہرگز آزاد نہیں.اس نے آج نہیں تو کل لازماً دنیا کی غلامی اختیار کرنی ہے اس لئے میں دوستوں کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے نفسوں کو دنیا کی آلائشوں سے آزاد کریں اور اپنے دلوں میں خدا کا خوف پیدا کریں اور خدا کے خوف کو اپنے اوپر غالب کر لیں.اللہ کے پیار اور محبت کو اس طرح اپنی غذا اور اوڑھنا بچھونا بنالیں کہ غیر اللہ اس میں داخل نہ ہو سکیں.اسی کا نام تقویٰ ہے، اسی کا نام توحید ہے، اسی کا نام زندگی ہے، اسی کا نام انسانی ضمیر کی آزادی ہے.گو اسلامی اصطلاحوں میں ان چیزوں کے مختلف نام ہیں
خطبات طاہر جلد ۲ لیکن حقیقت ایک ہی رہتی ہے.500 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء پس احمدیوں کے لئے بہت ہی اہم اور بنیادی حقیقت یہ ہے کہ وہ اس دنیا کے رعب سے آزاد ہو جا ئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی اولاد کے لئے جو دعائیں کیں ان میں ایک چھوٹے سے مصرعے میں بہت ہی پیاری بات فرمائی.آپ نے فرمایا: ع نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال (در شین صفحه ۴۸) کہ اے خدا ! میں یہ دعا کرتا ہوں کہ ان کے گھروں میں دجال کا رعب داخل نہ ہو کیونکہ ہمیشہ قو میں رعب سے مار کھا جایا کرتی ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی اللہ تعالیٰ نے فتح کا نسخہ عطا فر مایا اس میں یہی رعب کا لفظ استعمال فرمایا.فرمایا: نُصْرِتُ بالرعب ( تذكره صفحه ۵۶۶ - الهام ۲۱ اگست ۱۹۰۶) کہ اے مسیح! تو دنیا میں یہ اعلان کر سکتا ہے کہ مجھے بھی ایک رعب عطا کیا گیا ہے اور میں اس رعب کے ذریعہ سے دنیا پر غالب آؤں گا.پس احمدی اگر اپنے معاشرہ میں اپنا رعب نہیں رکھتے ، اگر ان کو یہ یقین نہیں ہے کہ ہم ایک زندہ معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں جو دنیا پر غالب آنے والا ہے، اگر وہ پوری طرح پر اعتماد نہیں ہیں کہ جن قدروں کو لے کر ہم چل رہے ہیں یہ اچھی اور بہتر قدریں ہیں اور دنیا کی قدروں سے بہت بالا ہیں تو اگر وہ یہ نہیں کر سکتے تو وہیں وہ بازی ہار دیتے ہیں.پھر لاشے پھرتے ہیں اور خالی جسم نظر آتے ہیں آج نہیں تو کل دن بدن ان پر موت کے آثار ظاہر ہونے شروع ہو جائیں گے اس لئے اس بات کی طرف میں بار بار توجہ دلاتا ہوں کہ آپ اپنے نفسوں کی فکر کریں، اپنی طرز فکر کی فکر کریں.یہ ایک لمحہ آپ کی زندگی کے فیصلہ کو زندوں میں بھی داخل کر سکتا ہے اور غلط فیصلہ کے نتیجہ میں مردوں میں بھی داخل کر سکتا ہے.آپ کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ہم کس کی خاطر جئیں گے.کیا ہم اس بات کی خاطر جئیں گے کہ ہمارا خدا ہم سے راضی رہے یا اس بات کی خاطر جئیں گے کہ جہاں ہم جائیں وہاں کے لوگ ہم سے راضی رہیں.اس دوسری قسم کی سوچ کے لوگ تو پھر بہروپئے بن جاتے ہیں ، جہاں گئے وہیں کے ہو کر رہ گئے ، جس قوم میں داخل ہوئے ویسے بن گئے.جب یہ لوگ واپس اپنے معاشرہ میں آتے ہیں تو رفتہ رفتہ نیک بھی نظر آنے لگ جاتے ہیں ، ان کے رنگ بدلتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کہیں کے بھی نہیں ہوتے کیونکہ ان کے اندر ایک بنیادی کمزوری ہوتی ہے.ان کے اندر کوئی
خطبات طاہر جلد ۲ 501 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کردار نہیں ہوتا.وہ ایسے ماحول میں جائیں گے جہاں قدامت پرستی ہے تو قدامت پرست بھی بن جائیں گے.کسی دوسرے ماحول میں جائیں تو ویسے بن جائیں گے اور یہ طرز زندگی جو بغیر کردار کے ہوتی ہے اور بغیر عظمت کے ہوتی ہے اسلامی اصطلاح میں منافقت کہلاتی ہے لا إلى هَؤُلَاءِ وَلَا إلى هؤلاء ( النساء: ۱۴۴) نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں اور نہ وہ ادھر کے رہتے ہیں.وَإِذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا قَالُوا أَمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِينِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَكُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُونَ (البقره: ۱۵) جب وہ ان لوگوں سے ملتے ہیں یا ان کے معاشرہ میں چلے جاتے ہیں جو ایمان لانے والے ہیں تو کہتے ہیں دیکھو! ہم تو ایمان لانے والے ہیں، وَإِذَا خَلَوْا إِلَى شَيْطِينِهِمْ جب وہ اپنے شیاطین کی طرف جاتے ہیں جو ان کے دلوں میں برے خیالات ڈالتے اور بداعمالیوں کی طرف متوجہ کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو تمہارے ساتھ ہیں، ہم تو تمہارے رنگ میں رنگے ہوئے ہیں ، تم خواہ مخواہ ہمیں قدامت پسند سمجھ رہے ہو اور پرانے زمانوں کے لوگ کہہ رہے ہو، ہم میں اور تم میں تو کوئی فرق نہیں.یہ وہ روح ہے جس کا قرآن کریم نے کھلا کھلا تجزیہ کیا ہے.کیسی عظیم کتاب ہے کہ جس کی نظر سے کوئی باریک سے باریک روحانی بیماری بھی چھپی ہوئی نہیں.اور پھر ان کا علاج بتاتی ہے اور اس کا علاج صرف اورصرف ایک ہی ہے کہ خدا سے تعلق پیدا کرو.مذہبی بیماریوں کا اس کے سوا اور کوئی علاج نہیں.یہ ہر علاج کا مرکزی نقطہ ہے.زندگی کے چشمہ سے تعلق پیدا نہیں ہوگا تو بیماریوں کا مقابلہ کیسے ہو سکے گا، توانائی کیسے آئے گی؟ اس لئے اللہ سے تعلق ہے جو دراصل آپ کا علاج ہے.اللہ تعالیٰ سے پیار اور ایسا ذاتی اور قطعی تعلق پیدا کیا جائے کہ جس کے مقابل پر دنیا بالکل حقیر اور بے معنی اور بے حقیقت نظر آنے لگے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اصحاب کے دل میں اللہ کا وہ پیار تھا اور پھر ساتھ عظمت کردار بھی تھی.وہ لباس پہنا کرتے تھے، ہر قسم کا لباس پہن لیتے تھے لیکن لباس ان کا غلام رہتا تھا ، وہ لباس کے کبھی غلام نہیں بنے.کھانے اچھے بھی کھاتے تھے، اچھی جگہوں پر بھی رہتے تھے لیکن ہمیشہ ان چیزوں سے آزا در ہے اور وہ چیزیں ان کی غلام بنی رہیں اس لئے کہ خدا کے تعلق اور محبت
خطبات طاہر جلد ۲ 502 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء نے ان کو ان چیزوں سے بے نیاز کر دیا تھا.وہ انگلستان بھی پہنچے تو وہاں بھی آزاد مردوں کی طرح پہنچے.حقیقت یہ ہے کہ نقال قو میں دراصل زندہ رہا ہی نہیں کرتیں ان کی زندگی کی حقیقت کوئی نہیں یوں ہی دکھاوا ہے اور آزاد قو میں دنیا کی چیزوں اور اس کے ماحول سے بے نیاز ہو کر زندہ رہا کرتی ہیں.پس وہ رعب جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الہام میں بیان کیا تھا وہ آپ کے اصحاب کو عطا ہوا تھا.ان سے لوگ راہیں پکڑتے تھے وہ لوگوں کی راہیں نہیں پکڑا کرتے تھے.جس پر دنیا کا رعب آجائے اس کا نقشہ الٹ جاتا ہے.چنانچہ یہ باتیں جن کے متعلق پسماندہ قو میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتیں کہ ہم یہ طرز اختیار کر سکتے ہیں لیکن جب وہ لوگ جن کا ان پر رعب ہے وہ طرزیں اختیار کرتے ہیں تو پسماندہ قومیں ان کے رنگ میں رنگین ہو جاتی ہیں مثلاً ایک زمانہ تھا جب ہمارے معاشرہ میں ٹنڈ کروانا یعنی استرے سے اچھی طرح سرمنڈوا دینا ایک بہت ہی بے ہودہ چیز سمجھا جاتا تھا اور جب قدامت پرست ماں باپ بعض دفعہ زبردستی اپنے بچوں کے سروں پر استرے پھر وادیا کرتے تھے تو بچے رویا کرتے تھے اور شرم کے مارے رومال باندھ کر پھرتے تھے اس لئے کہ ان کا دل کہتا تھا کہ ایک بے ہودہ چیز ہے لیکن جب آزاد قوموں میں سے بعض نے اپنے سرمونڈے اور ٹنڈ کروا کر باہر نکلے تو یہی لوگ جو پہلے شرمایا کرتے تھے انہوں نے ان کی پیروی کرنی شروع کر دی اور اپنے معاشرہ میں اسی طرح سرمنڈوا کر پھرنے لگے کہ اب یہ فخر کی بات ہے.ایک طرف ایک آزاد قوم ہے جس کا رعب ہے.دوسری طرف ایک غلام ذہنیت ہے جو اس رعب کے تابع ہے اور چپ کر کے اسے اختیار کرتی چلی جاتی ہے.کسی زمانہ میں کوئی آدمی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ حلیہ بنا کر بتیز (Hippies) کی طرح کوئی انسان اپنی سوسائٹی میں پھرے بلکہ جس زمانہ میں انگریز قوم ایک خاص لباس پر غیر معمولی توجہ دیا کرتی تھی.یعنی اکڑے ہوئے کالر اور خاص قسم کی ٹائیاں اور خاص قسم کے میٹس (Hats).تو یہ وہ لوگ ہیں جو اس زمانہ میں اس سے کم لباس کو جہالت سمجھتے تھے اور اپنی قوم کو حقارت سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے بھلا یہ بھی کوئی لوگ ہیں جو دنیا میں بس رہے ہیں اور شلواریں پہنی ہوئی ہیں بیوقوفوں کی طرح ، اور چونے پہنے ہوئے ہیں اور احمقانہ زندگی بسر کر رہے ہیں.پگڑی کا تو تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن جب مغربی قوموں نے یہ باتیں شروع کیں تو انہوں نے حد سے زیادہ بے ہودہ اور لغو لباس اختیار کر لیا اور یہ ان کے لئے فخر کا نشان بن گیا.انہوں نے
خطبات طاہر جلد ۲ 503 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء آزادی سے یہ کیا ہے وہ غلام نہیں تھے.ان کی آزادی نے ایک غلط راستہ اختیار کر لیا.انہوں نے آزادی کا مطلب یہ سمجھا کہ اب ہم آزاد ہیں دنیا جہان کی ہر ہیئت اختیار کرنے پر اور ہر گندگی اختیار کرنے پر اور ان کی آزادی جب اس راستے پر چلی تو غلام لوگوں نے ان کی پیروی ان راستوں پر بھی شروع کر دی.پس حقیقت یہ ہے کہ دو نظریات کی جنگ ہے اس کو سمجھنا پڑے گا.یا وہ رعب ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو عطا فرمایا اور آپ کو ایک ایسا معاشرہ بخشا جو دنیا کے رعب سے بے نیاز کر دیتا ہے اور یا وہ دنیا کا رعب ہے جو جہاں چاہے گا آپ کو لئے پھرے گا، کوئی اس میں مقام نہیں ہے، کوئی اس کی منزل نہیں ہے، کوئی رخ معین نہیں ہے، جس طرف وہ آزاد قو میں اپنے دماغ کے پھرنے کے نتیجہ میں پھر جانے کا فیصلہ کریں گی آپ لوگ ان کے پیچھے پیچھے پھریں گے اور اس وقت وہ معاشرہ ایسی گندگی میں داخل ہو چکا ہے کہ سوائے دکھوں کے اس کا اور کوئی انجام نہیں رہا.ان قوموں میں اندرونی طور پر بڑی تیزی سے یہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ ہماری کوئی زندگی نہیں.لذتوں کی تلاش ان کو ایسی بھیانک جگہوں پر لے جا چکی ہے کہ وہاں لذتوں کی بجائے گندگی ہے اور اس کے سوا اور کچھ نظر نہیں آتا.مغربی قوموں نے اس آزادی کے نتیجہ میں لذت یابی کے ایسے ایسے خوفناک طریق سیکھے ہیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں.مثلاً ایک Sadism ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک جانوروں کی طرح کسی کو مارو نہیں اور تقریباً ادھ موانہ کر دو اس وقت تک نہ جنسی لذت اس میں پیدا ہوتی ) ہے اور نہ اس میں پیدا ہو سکتی ہے.اب لذت یابی کا ایک یہ تصور ہے.کچھ دیر Sadism پر رہے اب اس نے ایک اور شکل اختیار کر لی ہے کہ جب تک چھوٹے بچوں کو ہوس کا نشانہ نہ بناؤ اس وقت تک تمہیں کوئی جنسی لذت حاصل نہیں ہوگی.چنانچہ امریکہ کے موجودہ اعداد و شمار کے مطابق وہاں کی آبادی کے ۳۰ فیصد لوگ بچوں پر ظلم کرنے کی طرف مائل ہورہے ہیں اور جو بچے ان کے مظالم کا شکار ہوتے ہیں وہ ہمیشہ کے لئے زندگی کی لذت کھو بیٹھتے ہیں چنانچہ اس کے نتیجہ میں ان کے پاگل خانے بھر رہے ہیں.اعصابی مریض دن بدن بڑھتے جا رہے ہیں، جرم بڑھتا جا رہا ہے لیکن اندھی تقلید کرنے والے اس خیال سے کہ یہ ماڈرن قو میں ہیں ان کے پیچھے پیچھے بھاگے چلے جارہے ہیں لیکن جماعت احمدیہ کے افراد
خطبات طاہر جلد ۲ 504 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کو تو سر اونچا کر کے ان کو اپنی طرف بلانا ہے کہ ادھر آؤ ہم تمہیں تہذیب سکھاتے ہیں ہم غلط راستے پر چل رہے ہو، تمہاری راہیں غلط ہیں، تم دنیا کے کیڑے بنتے چلے جارہے ہو تمہیں اس کا کچھ فائدہ حاصل نہیں ہوگا.اب ظاہر ہے اگر اس کی بجائے آپ خود ہی ان سے متاثر ہو جائیں ،ان سے شرمانے لگ جائیں اور یہ خیال اپنے اوپر غالب کر لیں کہ دنیا ہمارے متعلق کیا کہے گی تو پھر تو آپ دنیا کا کوئی کام نہیں کر سکیں گے، اس لئے میں احباب جماعت سے یہ کہتا ہوں کہ وہ اپنے اندر احساس برتری پیدا کریں اور اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں کہ اسلام کی جو آزادی ہے وہ دراصل اللہ کی غلامی میں ہے.یہ ایک ایسا لفظ ہے جو آزادی کے تصور کا خلاصہ پیش کرتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ آپ تفصیلی جائزہ لے کر دیکھ لیں اس سے بہتر تعریف اور کوئی نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم میری غلامی اختیار کرو تو تمام جھوٹے خداؤں سے تم آزاد ہو جاؤ گے.یہ غلامی تمہیں ہر دوسرے جذ بہ اور ہر دوسرے نظریہ سے آزادی عطا کرے گی جب کہ خدا کی غلامی سے نکلنا نام ہے ہر دوسری چیز کی غلامی کا.یہ ہیں وہ دو نظریات جن کی آپس میں جنگ جاری ہے.میں نے آپ کو اس کے متعلق مختصر آبتایا ہے ورنہ گھنٹوں اس کی مثالیں دی جاسکتی ہیں کہ کس طرح خدا کی اطاعت کتنی ہی قسموں کی غلامیوں سے آزاد کرتی ہے اور کس طرح اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے نکلنا انسان کو دنیا کا غلام در غلام بناتا چلا جاتا ہے.وہ رسموں کا غلام بن جاتا ہے، معاشرہ کا غلام بن جاتا ہے، پیٹ کا غلام بن جاتا ہے، نفسانیت کا غلام بن جاتا ہے.غرضیکہ غلامی کے تصور کی کوئی ایسی بھیانک چیز نہیں ہے جو اس میں نہ پائی جاتی ہو، اس لئے صرف نام رکھ لینا تو آزادی نہیں کہلاتی اس میں کوئی حقیقت ہونی چاہئے.اس وقت آپ کو دنیا میں جو آزاد قو میں نظر آ رہی ہیں وہ صرف خدا اور خدا کے تصور سے آزاد ہوئی ہیں.یہی ایک ”آزادی“ ہے جس نے ان کو دوسری چیزوں کا غلام بنا دیا ہے اور اس غلامی میں وہ دن بدن زیادہ جکڑی جارہی ہیں اس لئے ضروری ہے کہ جن لوگوں نے ان کو آزاد کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ پہلے خود اپنی آزادی کی فکر کریں.اگر خدانخواستہ وہ خود ہی اپنے ہاتھوں میں رسم و رواج کی زنجیر پہن لیں گے اور ان کے پاؤں میں دنیاوی آلائشوں کی بیٹیاں چلی جائیں گی تو ان قوموں کو کس طرح زندہ کریں گے اس لئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت میں داخل ہوں اور اس سے پیار کریں اور اس سے سچا تعلق
خطبات طاہر جلد ۲ 505 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء جوڑیں.اس کے نتیجہ میں پھر وہ چیز نصیب ہوتی ہے جس کو بعض لوگ معجزہ کہتے ہیں یعنی خدا کا تعلق انسان کی عملی زندگی میں الہی نصرت بن کر داخل ہو جاتا ہے اور وہ نصرت انسان کو خود بھی نظر آنے لگتی ہے.آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ ایک زندہ اور صاحب اقتدار ہستی میرے ساتھ ہے اور غیروں کو بھی وہ نصرت نظر آنے لگتی ہے.یہ وہ دوسرا حصہ ہے اس مضمون کا جسے روحانیت کہتے ہیں.روحانیت کے بغیر آپ مادیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے.جب تک آپ اس یقین کے ساتھ زندہ نہیں رہتے کہ خدا میرے ساتھ ہے، وہ مجھ سے پیار کرتا ہے، خدا ایک صاحب اقتدار ہستی ہے جو میرے لئے دنیا میں تبدیلیاں پیدا کر سکتی ہے اور کرتی ہے، دنیا جو چاہے کرے لیکن خدا میری حفاظت فرمائے گا، اس وقت تک دنیا میں روحانی انقلاب برپا نہیں کیا جا سکتا.یہ وہ حقیقت ہے جو انسان کے مقاصد کو واضح اور اس کی کامیابی کے سامان پیدا کیا کرتی ہے.اس کا پہلا قدم انسان کے اپنے نفس کی آزادی ہے یعنی خدا کی غلامی میں آجانا پہلا قدم ہے.تقویٰ کی حفاظت کرنا یعنی اللہ کی یاد کو اپنا اوڑھنا بچھونا اور کھانا پینا سب کچھ بنالیا جائے اور ہر چیز پر خدا تعالیٰ کو فضیلت دی جائے یہ وہ چیز میں ہیں جو بندہ خدا کے حضور پیش کرتا ہے لیکن خدا ان چیزوں کو سمیٹ کر نہیں بیٹھ جاتا.خدا اپنے ان بندوں پر اپنی قدرتیں ظاہر کرتا ہے ، ان سے محبت اور پیار کا سلوک فرماتا ہے ، ان کو تقویت دیتا ہے، ان کو حو صلے بخشتا ہے، ان کی نگاہوں کو حقیقی آزادی عطا کرتا ہے.پھر ان کے لئے کوئی جھجک نہیں رہتی وہ کوشش کر کے آزاد نہیں ہوتے بلکہ آزادی ان کی فطرت بن جاتی ہے.دنیا جن چیزوں کو بہت پسند کرتی ہے اور ان میں لذتیں ڈھونڈتی ہے ان کو ان چیزوں میں حقارت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا، گندگی کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا.ایسے انسانوں کے جو باخدا ہو جائیں نظریے بدل جاتے ہیں، معیار بدل جاتے ہیں، ان کی آنکھیں ، ان کے وقت، ہر چیز میں فرق پڑ جاتا ہے.چنانچہ ایسے لوگ جب دنیا کی پیروی کرنے والوں کود یکھتے ہیں تو کبھی ان کو وہم بھی نہیں آتا کہ پتہ نہیں ہم کیا چیز کھو بیٹھے ہیں اور کیا ان کو حاصل ہو رہا ہے.ان کے لئے تو وہی مثال ہے جس طرح مردار خور جانور کسی مردار پر بیٹھے ہوئے منہ مار رہے ہوں اور کوئی انسان پاس سے گزرے تو کیا کبھی وہ یہ سوچے گا کہ اوہ میں کس نعمت سے محروم ہوں، یہ تو اپنی مرضی کے مطابق ہر چیز کھارہا ہے اس
خطبات طاہر جلد ۲ 506 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کی موجیں ہی موجیں ہیں، ہر گندگی سے بھی لذت پا رہا ہے ، مجھ بیچارے کو دیکھو میں محروم ہوں.جب تک خاص قسم کا کھانا نہ ہو میں کھا نہیں سکتا، جب تک حفظان صحت کے اصول کا خیال نہ رکھوں اس وقت تک بچ نہیں سکتا اور اس جانور کو دیکھو کتنا خوش نصیب جانور ہے.کبھی آپ کو اس قسم کا خیال نہیں آئے گا اس لئے کہ آپ کے معیار بدل چکے ہیں.آپ کے ذہن میں اگر خدا کا تصور موجود ہے تو آپ خدا کا شکر کریں گے کہ مردار خور جانوروں کی طرح ہمیں نہیں بنایا.ان گندگیوں سے پاک کیا، ہمیں پاک غذا ئیں عطا فرمائیں ، ہمارے مذاق اونچے کئے.پس اہل اللہ بھی جب دنیا داروں کو دیکھتے ہیں تو ان کا طبعی رد عمل بھی یہی ہوتا ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ ان کو لذتیں عطا کرتا ہے ان کے ساتھ رہتا ہے ان کے لئے معجزے دکھاتا ہے.مجھے یاد آ گیا کل ہی کی بات ہے ایک دوست نے مجھے سے یہاں یہ سوال کیا تھا کہ معجزہ کیا ہوتا ہے آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی معجزہ دیکھا ہے؟ میں نے ان سے کہا تھا ایک معجزہ نہیں متعدد بلکہ بعض پہلوؤں سے ان گنت مجزے بھی کہہ سکتے ہیں جو میں نے دیکھے ہیں.جماعتی معجزے بھی ہیں، گزشتہ خلفا کے معجزے بھی ہیں، میری اپنی ذات سے اللہ تعالیٰ کے معجزانہ سلوک بھی ہیں.انہوں نے کہا مجھے بھی کچھ بتا ئیں.چنانچہ میں نے ان سے کہا بتانے کا یہاں سوال نہیں.جب بھی جماعت میں کوئی ایسا موقع آئے گا خطبات یا حسب حالات کچھ نہ کچھ انسان بیان کرتا رہتا ہے اور میں پہلے بھی بیان کرتا رہا ہوں لیکن اب یہ جو خود ذ کر چلا معجزہ کا اور خدا کی اطاعت کا تو مجھے خیال آیا کہ احباب کو ایک ایسا واقعہ بتاؤں جس سے آپ کو اندازہ ہو کہ اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کس طرح انسان کو آزادیاں بخشتا ہے.اطاعت کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ دوسری چیزوں کو انسان کا غلام بنا دیتا ہے اور خدا کا یہ سلوک نظر آتا ہے.چنانچہ یہ جو اطاعت ہے ضروری نہیں کہ براہ راست اللہ کی اطاعت ہو.یہ اطاعت بعض دفعہ خدا کے مقرر کردہ خلفا کی یا ان کے مقرر کردہ امراء کی اطاعت ہوتی ہے، بعض دفعہ ان امراء کے مقرر کردہ چھوٹے چھوٹے عہدیداروں کی اطاعت ہوتی ہے یہ بھی اللہ کی اطاعت بن جاتی ہے.اس لئے جب میں آپ سے یہ کہتا ہوں کہ اطاعت کرنا سیکھیں اور خدا کی اطاعت کرنا سیکھیں تو مراد صرف یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جو فرمایا ہے وہی اطاعت ہے.خدا تعالیٰ کے نظام کو
خطبات طاہر جلد ۲ 507 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء چلانے کے لئے جو بھی خدا کی طرف سے مقرر ہوتا ہے اس کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت بن جاتی ہے.اس کے مقرر کردہ عہدیداران کی اطاعت بھی خدا کی اطاعت بن جاتی ہے اور یہ مضمون آگے تک چلتا ہے یہاں تک کہ بعض لوگ تکبر سے یہ سمجھنے لگ جاتے ہیں کہ یہ تو چھوٹا آدمی ہے ہم اس کی بات نہیں مانیں گے ہاں خلیفہ وقت کی مان لیں گے، اس کی بیعت کی ہے.حالانکہ وہ اس روح کو سمجھتے نہیں ہیں کہ خلیفہ وقت کی پھر کیوں مانو گے وہ بھی تو ایک انسان اور حقیر انسان ہے پھر تم براہ راست خدا سے کہو کہ وہ تم سے کلام کیا کرے اور تمہیں براہ راست ہدایت دیا کرے.اگر تمہارے اندر اتنا تکبر ہے، تمہاری اتنی شان ہے تو پھر خلیفہ وقت کے نمائندہ کی بات بھی نہ مانو بلکہ اس کی بھی نہ مانو ، پھر نبی کی کیوں مانو گے وہ بھی تو ایک انسان ہے، پھر تو براہ راست اللہ سے مطالبہ ہونا چاہئے کہ اے خدا! تو خود بتا کہ کیا کرنا ہے؟ تب ہم مانیں گے ورنہ کسی انسان کی نہیں مانیں گے اور اگر یہ حرکتیں کریں گے تو اسی کا نام قرآن کریم شیطانیت اور ابلیسیت رکھتا ہے اس لئے جس اطاعت کے بدلہ پھل ملتا ہے وہ اطاعت کوئی معمولی چیز نہیں ہے اس کے اندر بڑی گہری روح ہے.اس میں تو انسان سب سے پہلے اپنے نفس سے آزاد ہوتا ہے تب جا کر اطاعت کرتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ نفس کا غلام ہو اور اللہ کا مطیع ہو.یہ دونوں چیزیں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں.چنانچہ میں آپ کو جو مثال دے رہا تھا کہ اطاعت آپ کو آزاد کر دیتی ہے دوسری چیزوں سے اور دوسری غلامیاں آپ کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت نہیں کرنے دیتیں.یہ اس کی مثال ہے سب سے پہلے نفس کو پاک کرنا پڑے گا اپنے ضمیر کو آزاد کرنا پڑے گا کہ میں صرف اور صرف خدا کے سامنے جھکتا ہوں اور خدا کی نمائندگی میں اگر مجھ سے بہت ہی ادنی آدمی بھی مجھ پر حاکم مقرر ہو تو میں اس کے سامنے بھی جھکوں گا.یہ ہے اسلامی اطاعت کی روح.اس کی اگر تربیت مل جائے تو اس اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ بعض دفعہ انسان کو بہت سے معجزات دکھاتا ہے اور یہ بتانے کے لئے اور یقین پیدا کرنے کے لئے کہ میری خاطر تم نے کیا ہے میں تمہاری خاطر دنیا کوتمہارا غلام بناؤں گا میں اس کی ایک چھوٹی سی مثال پیش کرتا ہوں.ایک دفعہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک وفد مشرقی پاکستان بھجوایا جس میں میں بھی شامل تھا.وہاں سے واپسی پر مجھے کراچی میں ربوہ سے حضور کا فون پر یہ پیغام موصول ہوا کہ پہلی فلائیٹ پر یہاں پہنچ جاؤ.رپورٹ کا انتظار تھا.ہمارے بھائی صاحبزادہ حضرت مرز امظفراحمد
خطبات طاہر جلد ۲ 508 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء صاحب بھی تھے اور ہمارے ایک اور بھائی کرنل مرزا داؤ د احمد صاحب جن کے ہاں ہم ٹھہرے ہوئے تھے انہوں نے فون پر پتہ کیا تو بتایا یہ گیا کہ اس دن کی ساری ( Flights) پروازیں Booked ہیں صبح کی Flights کا تو سوال ہی نہیں اور جب انہوں نے پوچھا کہ Chance پر کوئی جگہ مل سکتی ہے یعنی اتفاقاً کچھ لوگ رہ جاتے ہیں تو اس کا جواب انہوں نے یہ دیا کہ اتنا Rush ہے کہ Chance پر بھی سینکڑوں آدمی بیٹھے ہوئے ہیں.اس جلوس کے آخر پر اگر ہم ان کا نام لکھ لیں تو پھر بھی شائد کئی دن کے بعد باری آئے.یہ اس وقت Rush کی حالت تھی تو انہوں نے کہا پھر تو ر بوہ جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تم چند دن ٹھہر و تمہاری سیٹ بک کروا دیتے ہیں.جب باری آ گئی چلے جانا.میں نے ان سے کہا کہ آپ کی یہ سوچ ہو گی ٹھیک ہے اور اس پر میں اعتراض نہیں کر سکتا لیکن مجھے حضرت صاحب کا حکم ہے کہ تم نے کل ضرور پہنچنا ہے اس لئے میں نے تو ضرور جانا ہے.انہوں نے کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تم جاہی نہیں سکتے.میں نے کہا سوال بیشک نہ پیدا ہوتا ہو میں نے ائیر پورٹ پر جانا ہے کوشش کرنی ہے پھر اللہ کی جو مرضی ،مگر یہاں میں چین سے نہیں بیٹھ سکتا کہ خدا تعالیٰ کا خلیفہ مجھے حکم دے کہ تم پہنچو اور میں آپ کے ساتھ بیٹھا آرام سے انتظار کرتا رہوں کہ جو کوشش کرنی تھی کوئی Chance ہے وہ بھی خدا کے ہاتھ میں ہے کوشش تو کرنی چاہئے.خیر میں جب صبح روانہ ہوا تو سب نے مذاق سے ہنس کر کہا کہ ہم تمہارا ناشتہ پر انتظار کریں گے واپس آ کر ناشتہ ہمارے ساتھ کرنا.میں ائیر پورٹ پر گیا انہوں نے کہا سیٹ ملنے کا کوئی سوال ہی نہیں.میں نے کہا بہت اچھا نہیں ہے تو میں یہاں کھڑا رہتا ہوں.میں نے کہا ?Chance انہوں نے کہا Chance کا بھی کوئی سوال نہیں.میں نے کہا کوئی حرج نہیں میں انتظار کرتا ہوں دیکھتا ہوں کیا ہوتا ہے.چنانچہ میں ابھی انتظار کر رہا تھا کہ اتنے میں وہ جو رجسٹر ہوتا ہے وہ انہوں نے بند کیا اور Call دی کہ جہاز چلنے والا ہے مسافر سوار ہونے کے لئے چلے جائیں.چنانچہ رجسٹر Pack کر کے روانہ ہو گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں ایسا یقین ڈال دیا تھا کہ میں نے جانا ہی جانا ہے، میں وہیں کھڑا رہا ایک نوجوان لڑکا میرے پاس دوڑتے ہوئے آیا اور کہنے لگا آپ کو لاہور کے لئے ٹکٹ چاہئے؟ میں نے کہا ہاں مجھے چاہئے ، کہنے لگا میرے نام کا ہے آپ کو کوئی اعتراض تو نہیں میرے نام پر سفر کرنے میں.میں نے کہا نہیں مجھے کوئی اعتراض نہیں.میں نے اسی وقت اس کو پیسے دیئے باوجود
خطبات طاہر جلد ۲ 509 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء اس کے کہ اعلان ہو چکا تھا کہ جہاز پرواز کرنے والا ہے رجسٹر وغیرہ Pack کر کے جہاز کے عملہ کے لوگ روانہ ہو چکے تھے.میں نے اس کو پیسے دیئے اور ٹکٹ لے لیا کیونکہ پاکستان میں اگر کوئی آدمی ( Internal Flight) اندرون ملک پروازوں میں جہاز Miss کرے تو اسے کافی جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہ بے چارا گھبرایا ہوا تھا.خیر میں کھڑا تھا کہ اتنے میں جہاز کے عملہ کا ایک آدمی دوڑتے ہوئے آیا اور کہا ایک سواری کم ہے کوئی مسافر پیچھے تو نہیں رہ گیا.میں نے کہا میں ہوں اس نے میرا سامان پکڑا اور کہا یہ ساتھ ہی جائے گا کیونکہ اب الگ لوڈ کرنے کا وقت نہیں ہے.چنانچہ سوٹ کیس ہاتھ میں پکڑا اور ہم دوڑتے دوڑتے جہاز میں سوار ہوئے اور روانہ ہو گئے.اب یہ جو واقعہ ہے کوئی دنیا دار آدمی ہزار کوشش کرے، اس کو اتفاق ثابت کرنے کی لیکن جس پر گزرا ہو وہ اسے کیسے اتفاق سمجھ سکتا ہے اس کو سو فیصدی یقین ہے کہ ان سارے واقعات کی یہ ( Chain ) زنجیر جو ہے.یہ اطاعت کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک انعام تھا.اللہ تعالیٰ یہ بتانا چاہتا تھا کہ یہ ہوائی جہاز اور ان کے عملہ وغیرہ کی کوئی حیثیت نہیں تم اگر میرے غلام بنتے ہو تو یہ تمہارے غلام بن جائیں گے، تمہارے لئے حالات تبدیل کئے جائیں گے.بظاہر یہ ایک چھوٹی سی بات تھی لیکن جس کے ساتھ یہ بات گزرے اس کی زندگی پر یہ بہت گہرا اثر ڈالتی ہے اتنا گہرا اثر کہ ہمیشہ کے لئے دل پر اللہ کا پیار اور اس کا احسان نقش ہو جاتا ہے.پس میں آپ سے بھی یہ کہتا ہوں کہ آپ کیوں ان تجربوں میں سے نہیں گزرتے؟ جب تک آپ ان تجربوں میں سے نہیں گزرتے آپ اللہ کو نہیں پاسکتے.اگر آپ اللہ سے تعلق پیدا کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو خدا تعالیٰ سے پیار اور محبت کا اتنا گہرا اور اتنا کامل اور تنا غیر متزلزل تعلق پیدا کرنا پڑے گا.کہ دنیا کی کوئی صورت حال آپ کے ارادہ کو بدل نہ سکے.آپ عزت کے ساتھ سراٹھا کر ہر جگہ گھو میں پھریں اور محسوس کریں کہ آپ آزاد ہیں اور یہ لوگ غلام ہیں.ایک دفعہ انگلستان میں ایک بڑا دلچسپ واقعہ ہوا.وہاں ہر سال یکم جنوری کولوگوں کی جو حالت ہوتی ہے وہ آپ نے سنی ہوگی.رات بارہ بجتے ہیں اور بے حیائی کا ایک طوفان سڑکوں پر ائد آتا ہے.اس وقت ہر شخص کو آزادی ہوتی ہے وہ جس کو چاہے گلے لگائے اور پیار کرے خواہ وہ کتنا ہی گندا ہی کیوں نہ ہو اس کے منہ سے شراب کی بدبو آتی ہو یا اور کئی قسم کی غلاظتیں گی ہوں.خیر رات
خطبات طاہر جلد ۲ 510 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء کے بارہ بج رہے تھے میں یوسٹن کے ریلوے اسٹیشن پر گاڑی کے انتظار میں بیٹھا ہوا تھا.میں وہاں کسی کام کے لئے گیا ہوا تھا اس وقت فارغ ہو کر واپس گھر جا رہا تھا تو جس طرح دوسرے احمدیوں کو یہ خیال آتا ہے کہ ہم سال کا نیا دن نفل سے شروع کریں اسی طرح مجھے بھی یہ خیال آیا.چنانچہ میں نے وہاں نفل پڑھنے شروع کر دیئے.کچھ دیر کے بعد مجھے یہ احساس ہوا کہ میرے پاس ایک آدمی کھڑا رو رہا ہے اور رو بھی اس طرح رہا ہے جس طرح بچے ہچکیاں لے لے کر روتے ہیں.میں اگر چہ اس حالت میں نماز پڑھتا رہا لیکن تھوڑی سی Disturbance ہوئی کہ یہ کیا کر رہا ہے.جب میں نماز سے فارغ ہوا تو جب میں اٹھ کر کھڑا ہی ہوا تھا تو وہ دوڑ کر میرے ساتھ لپٹ گیا اور میرے ہاتھوں کو بوسہ دیا.میں نے کہا کیا بات ہے، میں تو آپ کو جانتا نہیں.اس نے کہا آپ نہیں مجھے جانتے لیکن میں آپ کو جان گیا ہوں.میں نے کہا آپ کا کیا مطلب ہے.اس نے کہا کہ سارا لندن آج نئے سال کے آغاز پر خدا کو بھلانے پر تلا ہوا ہے اور ایک آدمی مجھے ایسا نظر آ رہا ہے جو خدا کو یا در کھنے پر تلا ہوا ہے میں کیسے آپ کو نہ پہچانوں.غرض اس چیز نے اس پر اتنا گہرا اثر کیا کہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر رونے لگ گیا.پس آپ کی اصل آزادی خدا کی یاد میں ہے.دوسری ساری دنیا غلام ہے اپنے رسم و رواج کی ، شیطانیت کی ، جنسانیت کی اور اپنی ہوا و ہوس کی لیکن یہ آپ ہیں جنہوں نے خود بھی آزادی سے پھرنا ہے اور ان لوگوں کو بھی آزادی بخشنی ہے.اگر آپ ان کے معاشرہ سے متاثر ہو گئے اور ان کے غلام بن گئے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ کون نام لیوا ہو گا جو ان کو آزادی بخشے گا.آپ ہی نمائندہ ہیں اس لئے عظمت کردار پیدا کریں.اپنے اللہ سے تعلق جوڑمیں وہ آپ کے لئے پھر معجزے دکھائے گا.پھر آپ کو یہ پوچھنا نہیں پڑے گا کہ معجزہ کیا ہوتا ہے.پھر آپ لوگوں کو یہ بتا ئیں گے کہ معجزہ کیا ہوتا ہے اس لئے یہ جو مسجد کی تعمیر کے سلسلہ میں سنگ بنیا درکھنے کا دن ہے اس کو اپنے لئے فیصلہ کن دن بنائیں.یہ عہد کریں کہ اب چاہے باہر سے کوئی مبلغ آئے یا نہ آئے آپ اسلام کے لئے مبلغ بنیں گے.آپ نے ان لوگوں کی کایا پلٹنی ہے.آپ نے ان کے معاشرہ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں.آپ نے ان سے آزادرہ کر پھرنا ہے.اپنی عورتوں کو سنبھالیں ، اپنی بچیوں کو سنبھالیں ، ان کے چہرے پر ان کی نظروں میں بعض دفعہ ایسی بے اعتنائی نظر آتی ہے کہ جس
خطبات طاہر جلد ۲ 511 خطبه جمعه ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ء سے انسان ڈرتا ہے.ایک ایسا اطمینان نظر آتا ہے دنیا پر اور دین سے ایسی لا پرواہی نظر آتی ہے کہ وہ مستقبل کے معاملہ میں انسان کو خوفزدہ کر دیتی ہے.اصل اطمینان وہی ہے جو دین کی پیروی کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے.جو لوگ دنیا پر مطمئن ہونے لگ جائیں خدا اور خدا کا دین ان کے ہاتھ سے جاتا رہتا ہے.وہ پھر اپنے لئے کوئی اور خدا بنا لیتے ہیں اس لئے اپنے بچوں کی حفاظت کریں، اپنی بیویوں کی ، اپنی بیٹیوں کی اپنی بہنوں کی حفاظت کریں.اپنی ماؤں کو سمجھانا پڑے تو ان کو بھی سمجھائیں کہ تم خدا کے ہوکر رہو، اللہ سے پیار کرو اور اس بات کی حفاظت کرو کہ خدا تمہیں کبھی کسی اور کی غلامی میں نہ جانے دے.تم سب دعائیں کرو کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ ساری چیزیں دعاؤں سے ملتی ہیں.اب تمہیں بہت کثرت سے دعائیں کرنی پڑیں گی.آج میں نے بھی بہت دعا کی ہے خاص طور پر آپ سب کے لئے کہ اللہ تعالیٰ اس مسجد کو جس کا آج سنگ بنیا درکھا جانے والا ہے ایسے لوگوں سے آباد کرے جو مسجد کی آبادی کا حق رکھتے ہیں، جن کو مسجد میں آباد کرنا آتا ہے، جن پر خدا کے پیار کی نظر پڑتی ہیں اور دن بدن یہ آبادی بڑھتی رہے اور جلد وہ وقت آئے جب یہ مسجد آپ کو چھوٹی نظر آنے لگے.پھر یہ فکر پیدا ہو کہ اس مسجد کو کس طرح بڑھانا ہے.اس لئے اب اس مسجد کے سنگ بینا در کھنے کے وقت سے آپ سب کی ذمہ داری غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے.اب آپ ہی یہاں خدا کے نمائندہ ہیں.آپ ہی وہ لوگ جنہوں نے خدا کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور عبادت کو قائم رکھنا ہے.اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین روز نامه الفضل ربوه ۲۲ نومبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر ۲ 513 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء سورہ فاتحہ میں مذکور صفات الہیہ اور دورہ نجی کے واقعات ( خطبه جمعه فرموده ۱/۱۴اکتوبر ۱۹۸۳ء بمقام دارالذکر لاہور ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے سورۃ النصر کی تلاوت فرمائی: إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِرَتِكَ وَاسْتَغْفِرُهُ * إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر) اور پھر فرمایا: میں کل مشرق بعید کے دورے سے واپس کراچی پہنچا تھا.اللہ تعالیٰ کا یہ بہت ہی بڑا احسان ہے کہ اس نے اس دورے کے بہت سے حقوق اور ذمہ داریاں ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائی اور اپنے فضل سے وہ راستے آسان فرما دیئے جن راستوں پر چلنے کی میری ذات میں ہمت اور طاقت نہ تھی.اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے دلوں کو کھول دیا اور میری بات میں اثر پیدا کیا اور ایسا انتظام فرمایا کہ تربیت کا بھی موقع ملا اور تبلیغ کا بھی اور پیغامات پہنچانے کے وہ ذرائع مہیا ہوئے جو ہمیں میسر نہیں تھے.ان علاقوں میں چونکہ جماعت کا کوئی خاص اثر نہیں تھا اس لئے بظاہر کوئی وجہ سمجھ نہیں آتی تھی کہ ہماری درخواست پر ہمارے لئے وہ مہیا کئے جائیں.اسی طرح رسل و رسائل اور ریڈیائی ذرائع بھی
خطبات طاہر ۲ 514 خطه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء میسر آئے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور جماعت کے لئے لوگوں کے دلوں کو نرم کر دیا انہوں نے ہمارے ساتھ بڑا تعاون کیا اور ان کے ذریعہ جماعت احمدیہ کا پیغام لکھوکھہا انسانوں تک پہنچا.اللہ تعالیٰ کے فضل اور احسان کے ساتھ بہت مصروف وقت گزرا.یوں محسوس ہوتا ہے کہ سوا مہینے میں کئی سال کے کام ہوئے اور کئی سال کے بعد واپس لوٹ رہا ہوں.اصل بات تو یہی ہے کہ وقت گھڑی سے نہیں بلکہ واقعات سے جانچا جاتا ہے.ایک ست انسان جس کی زندگی خالی ہوتی ہے وہ اگر سو سال بھی جئے تو عملاً ایک مصروف آدمی کی چند دن کی زندگی کے برابر زندہ رہتا ہے.اور اللہ تعالیٰ اگر توفیق عطا فرمائے اور واقعات تیزی سے انسانی زندگی میں گزرنے لگیں تو بہت تھوڑے وقت میں یوں محسوس ہونے لگتا ہے کہ کئی سال گزر چکے ہیں.آج صبح کی بات ہے میں کراچی میں ایک دوست کو سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا.میں نے اس سے کہا کہ ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے کہ ایک عام آدمی کی زندگی میں ایک ہزار آدمی سے ذاتی اور تفصیلی تعارف پیدا ہو جائے اور وہ گہرے طور پر ایک دوسرے کے واقف ہو جائیں اور ایک دوسرے سے مل کر ان کے اندر جذ باقی تعلق قائم ہو جائے اور آپس میں مودت کے گہرے رشتے پیدا ہو جائیں لیکن اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں کہ اس دورے میں کئی ہزار دوستوں سے گہرا تفصیلی تعلق قائم ہوا، محبت کے رشتے قائم ہوئے ، بچوں کے ساتھ بھی ، بڑوں کے ساتھ بھی اور ہم نے ایک دوسرے کو قریب سے دیکھا اور سمجھا.پس باقی ساری باتیں اگر چھوڑ بھی دیں تب بھی صرف یہی پہلو بہت وزنی ہے اور اتنی مصروفیت رہی ملاقاتوں کے لحاظ سے ہی کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سفر پر نکلے ہوئے مدتیں گزرگئی ہیں.فلم کی طرح چہرے سامنے آتے رہے اور پھر چہروں سے آگے بات بڑھی اور روحوں سے شناسائی ہوئی ، محبت اور مودت کے تعلقات قائم ہوئے ، ان کا بھی ایمان بڑھا، ان کو دیکھ کر اور مل کر میرے ایمان میں بھی رونق آئی.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرا اور میرے ساتھیوں کا سارا وقت بہت مصروف رہا اور اس احسان کا ہم جتنا بھی شکر ادا کریں کم ہے.زبان میں طاقت نہیں کہ کما حقہ شکر ادا کر سکے مگر یہ صرف میرے لئے شکر کا مقام نہیں ہے بلکہ ساری جماعت کے لئے شکر کا مقام ہے کیونکہ میں اپنی ذاتی حیثیت میں تو یہ دورہ نہیں کر رہا تھا نہ میرے ساتھی ذاتی حیثیت میں میرے ساتھ تھے.اللہ تعالیٰ کے احسانات ساری جماعت پر ہیں.
خطبات طاہر ۲ 515 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء جیسا کہ میں نے گزشتہ سفر میں واپسی پر کہا تھا مجھے تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ احباب جماعت کی دعائیں قبول ہو کر پھل بن کر ہم پر نازل ہو رہی ہیں اور خدا کی رحمت آتی ہوئی نظر آتی تھی.یوں لگتا تھا کہ جس طرح کوئی توقع نہیں ہے اچانک غیب سے دست قدرت آتا ہے اور وہ مدد کر دیتا ہے تو لازماً اس میں ساری جماعت شامل ہے.خلیفہ اور جماعت دوالگ وجود نہیں بلکہ ایک ہی وجود کی دو حیثیتیں اور دو نام ہیں اس لئے صرف میرے لئے نہیں بلکہ ہم سب پر اللہ تعالیٰ کا شکر واجب ہے اس نے اپنے فضل سے ہم پر بہت بڑے احسانات فرمائے ہیں لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک مجلس میں یا کئی مجالس میں بھی یہ تفصیلی باتیں تو بیان نہیں ہوسکتیں اس لئے میں نے سوچا ہے کہ آج آپ کو نبی سے متعلق کچھ باتیں بتاؤں.تو ایسی باتیں جن کو سن کر آپ کے اندر ذمہ داریوں کے احساس بھی بیدار ہوں اور دین کے لئے پہلے سے بڑھ کر خدمت کا جذبہ پیدا ہو اور مستقبل میں آپ دیکھیں کہ ہمارے سامنے کیا کیا ذمہ داریاں آ رہی ہیں ان کو سنبھالنے کے لئے آئندہ تیاری کرنی پڑے گی.چنانچہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا اسی موقع سے تعلق ہے إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ لى وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًان کہہ کر اللہ تعالیٰ نے ایک خوشخبری دی ہے.فرمایا ایسا وقت آنے والا ہے کہ لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور خدا کی طرف سے فتح آئے گی اور خدا کی طرف سے نصرت ملے گی.اس مضمون میں اللہ تعالیٰ نے نہ صرف خوشخبری دی بلکہ بعض ایسی باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے کہ جن کی طرف عام طور پر انسان توجہ نہیں کیا کرتا.جب بھی کسی کو فتح ملتی ہے، جب بھی کسی کو نصرت عطا ہوتی ہے دماغ میں ایک کیڑا آ جاتا ہے کہ یہ میری کوشش سے ہوا ہے، میری چالا کیوں سے ہوا ہے، میرے علم سے ایسا ہوا ہے، میں نے کیسی اچھی تنظیم کی تھی کسی اچھی تدبیر کی تھی، کیسا اچھا لیکچر دیا تھا، کیسی اچھی کوشش کی تھی ، انسانی نفس انسان کو اس قسم کے تو ہمات میں مبتلا کرتا رہتا ہے.پس خدا تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ نصرت اور فتح تمہاری کوشش سے ہوگی.تم اپنی کوشش سے تو دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کر سکتے تم اس لائق نہیں ہو تم اس قابل نہیں ہو کہ عظیم الشان کام کر سکو اور دلوں میں ایک انقلاب بر پا کر سکو.یہ خدا کا کام ہے اس لئے اللہ کی نصرت آئے گی، اللہ کی طرف سے فتح آئے گی اور یہ خدا ہی ہے جولوگوں کو فوج در فوج اسلام میں داخل کرے گا.فرماتا ہے:
خطبات طاہر ۲ 516 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجًان فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرُهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا (النصر) جب خدا کی طرف سے فتح و نصرت عطا ہو تو اس وقت تمہیں چاہئے کہ خدا کی تسبیح کرو اور اس سے استغفار کرو.بظاہر تو اس کا فتح سے کوئی تعلق نہیں ہے.فتح کے وقت تو یہ کہا جاتا ہے کہ شادیانے بجاؤ ، اچھلو اور کو دو اور جشن مناؤ لیکن خدا تعالیٰ نے ان چیزوں میں سے کسی کا ذکر نہیں فرمایا.بلکہ فرمایا جب خدا کی طرف سے نصرت آئے اور فتح ملے.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ تو خدا تعالیٰ کی تسبیح بھی کرنا، اس کی حمد کے ترانے بھی گانا اور استغفار بھی کرنا تا کہ تمہارے نفس میں انانیت کا اگر کوئی ادنی سا بھی کیڑا پیدا ہو تو وہ کچلا جائے، تمہاری توجہ اس طرف پھر جائے کہ جس ہستی نے یہ نصرت عطا کی ہے میں اس کی حمد کے گیت گاؤں ، جس نے ہمیں یہ فتح نصیب فرمائی ہے اس کی تسبیح کروں تسبیح و تحمید اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر اس فتح کا فائدہ کوئی نہیں ہوسکتا جو فتح دین کی فتح ہوا کرتی ہے اگر آپ تسبیح اور تحمید کے بغیر دین میں کوئی فتح حاصل کریں گے تو وہ ضائع چلی جائے گی اور بجائے فائدہ کے بسا اوقات نقصان بھی پہنچ سکتا ہے.دین کا ایک غلبہ تو مقدر ہوتا ہے لیکن بعض دفعہ وہ مقدر ایسے وقتوں میں آجاتا ہے جب دین بگڑ چکا ہوتا ہے.خدا نے تو وہ وعدہ پورا کر دیا اس نے دین کو فتح عطا کر دی لیکن لوگ بگڑ چکے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے عملاً وہ فتح بیکار ہو جاتی ہے.چنانچہ ایسی کئی قومیں ہمارے سامنے ہیں جن کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ خدا نے تو ان کو فتح عطا فرما دی لیکن بد قسمتی سے وہ لوگ بگڑ چکے تھے اور فتح سے استفادہ نہ کر سکے اس لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب تمہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت ملے اور فتح عطا ہو تو فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ اپنے رب کی تسبیح کے ترانے گانا اور اس کی حمد کرنا یعنی دو طرح کی قوتیں اپنے رب سے حاصل کرنا.ایک تو یہ کہ تسبیح کے ذریعہ خدا کے حضور یہ عرض کرنا کہ ہم تو نقائص سے پاک نہیں ہیں، ہماری تو ہر چیز میں غلطیاں ہیں اس لئے اے خدا! تو غلطیوں سے پاک ہے ہم تیری طرف متوجہ ہوتے ہیں اس فتح میں ہماری غلطیوں کے نتیجہ میں جو کمزوریاں رہ جائیں ان سے ان قوموں کو محفوظ رکھنا جو اسلام میں داخل ہو رہی ہیں.یہ نہ ہو کہ ہم اپنی بدبختی سے اپنی کمزوریاں ان میں داخل کر دیں اور چونکہ یہ بھی
خطبات طاہر ۲ 517 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء کمزوریوں سے پاک نہیں ہیں اس لئے یہ نہ ہو کہ جب یہ لوگ ہمارے اندر آئیں تو اپنے بد خیالات اور بد رسوم اور کمزوریاں لے کر داخل ہو جائیں.اور امر واقعہ یہ ہے کہ جب بھی مذاہب غلبہ پاتے ہیں یہ Process اور یہ واقعہ ضرور رونما ہو جاتا ہے.چنانچہ ایک طرف تو یہ ہوتا ہے کہ داخل ہونے والے جب پہلوں کی کمزوریاں دیکھتے ہیں تو ان میں سے بعض ٹھو کر کھاتے ہیں اور واپس پھر رہے ہوتے ہیں یعنی مرتد ہورہے ہوتے ہیں.وہ لوگوں کو قریب سے دیکھتے ہیں ، ان کو نظر آتا ہے کہ ان میں تو بہت سی بیماریاں ہیں، یہ تو اتنے اچھے نہیں جتنے سمجھ کر ہم داخل ہوئے تھے تو دوسری طرف بعض لوگ جو واپس نہیں جاتے بلکہ اکثر ہیں جو واپس نہیں جاتے مگر وہ ان کمزوریوں کا شکار ہو جاتے ہیں جو پہلے موجود ہوتی ہیں.وہ کہتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا جس طرح پہلے تھے اس طرح اب بھی ہیں اور پہلے اگر کمزور تھے تو یہ لوگ بھی تو کمزور ہیں ان کمزوریوں اور بدیوں میں مبتلا ہونے میں کوئی حرج نہیں.پس وہ قوم بڑی بد قسمت ہوتی ہے جس کو خدا فتح نصیب کرے اور وہ خدا کی عطا کردہ اس فتح کے مزاج کو بگاڑ دے.دوسری طرف یہ لوگ برائیاں لے کر آتے ہیں چنانچہ دیکھ لیں اسلام کی تاریخ میں اکثر بدعات اور نقائص ملکی حالات سے تعلق رکھتے ہیں.ہندوستان کی اور قسم کی بدعات ہیں، وہاں اور قتسم کی رسوم ہیں جنہوں نے اسلام میں رواج پایا، ایران کی فتح کے وقت اور قسم کی بدیاں داخل ہوئیں.عیسائی آئے تو کچھ اور قسم کی بدیاں لے کر آئے ، یہودی داخل ہوئے تو وہ اپنے مزاج کی بدیاں لے کر آئے، مشرک کچھ اور بدیاں لے کر آگئے تو آنے والے بھی اپنی ساری بدیاں چھوڑ کر نہیں آیا کرتے.وہ کچھ بدیاں ساتھ لے کر آتے ہیں جن کی اصلاح کرنی پڑتی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے تسبیح کے ذریعہ ہمیں یہ پیغام دیا کہ نہ آنے والے پاک ہیں نہ تم پوری طرح پاک ہوا گر تم نے اپنے رب کی تسبیح نہ کی اور اس کی طرف متوجہ نہ ہوئے اور عاجزانہ یہ عرض نہ کیا کہ اے خدا! نہ صرف یہ کہ ہماری بدیاں ان تک نہ پہنچیں بلکہ انہیں بھی پاک فرما دے تاکہ ان کی بدیاں ہم میں داخل نہ ہوں.اس وقت تک یہ فتح تمہارے کسی کام نہیں آ سکتی بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس فتح کو تم بالکل اس لائق نہ رہنے دو کہ مذہبی تاریخ میں اس کی کوئی حیثیت باقی رہے.یہ ایک لمبا مضمون ہے میں اس سے اگلے قدم میں داخل ہوتا ہوں.
خطبات طاہر ۲ 518 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ نے حمد کا پیغام دیا.خدا کی حمد کے گیت گانے کا صرف یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالی گویا ہماری حمد کا پیاسا بیٹھا ہوا ہے کہ پہلے تسبیح کر دیں پھر حمد کر دیں تو اسے اس فتح کی جزامل جائے گی جو اس نے عطا کی ہے.اگر کسی کے دماغ میں یہ خیال ہے تو نہایت لغو خیال ہے.وہ تو تسبیح و تحمید سے بھی مستغنی ہے ، وہ تو ساری کائنات کا مالک ہے، انسان پیدا ہو یا نہ ہو، یہ زمین اور یہ زمانہ ہو یا نہ ہو وہ ساری کائنات پر حاوی ہے ، سارے زمانوں پر حاوی ہے.یہ جو پیغامات دیتا ہے یہ ہمارے فائدہ کے لئے دیتا ہے.فرماتا ہے جب خدا کی حمد میں داخل ہو گے تو یہ دعا کرنا جس سے تمہارے دل میں بے قرار تمنا خود بخو داٹھنے لگے گی.اللہ کی ذات پر غور کرو گے اس کی صفات پر غور کرو گے تو پھر تمہارے دل سے یہ دعا نکلنی چاہئے کہ اے خدا ! جہاں بدیوں کا بائیکاٹ ہو جائے ، نہ وہ ہم سے لیں نہ ہم ان سے لیں ، وہاں حمد دونوں طرف سے بہنے لگے.وہ اپنی خوبیاں لے کر ہمارے اندر داخل ہوں اور ہم اپنی خوبیاں ان کے اندر داخل کر رہے ہوں اور ایک عظیم الشان قوم وجود میں آ رہی ہو.تو اسلامی فتح کا یہی وہ تصور ہے جسے احمدیوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے کیونکہ مجھے ایسے آثار نظر آ رہے ہیں کہ انشاء اللہ بہت جلد فوج در فوج لوگ احمدیت میں داخل ہونے والے ہیں اور مشرق بعید میں خدا تعالیٰ نے نئی فتح کے دروازے کھول دیئے ہیں.ایسے دلوں میں انقلاب بر پا ہورہے ہیں کہ وہ سننے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.جب اسلام کا پیغام سنتے ہیں تو شکوے کرتے ہیں اور کہتے ہیں تم لوگ پہلے کہاں تھے ، ہمارے پاس کیوں نہیں آئے اس لئے میں نے سوچا کہ اس فتح نے تو آنا ہی آنا ہے.اب یہ خدا کی تقدیر ہے جو لکھی گئی کوئی نہیں جو اس تقدیر کو بدل سکے.آپ ان لوگوں کو محبت اور پیار کے ساتھ وصول کرنے کی تیاری کریں.اپنے دل صاف کریں، اپنے اخلاق اور اطوار کو درست کریں، اپنے خیالات کو پاکیزہ بنائیں ، اپنے اعتقادات کی حفاظت کریں، آپ پر بہت بڑی ذمہ داریاں پڑنے والی ہیں.آپ ان کے میزبان بننے والے ہیں اس لئے بدیوں کے خلاف اپنے دفاع کو مضبوط کریں تا کہ جب ان نئی قوموں سے آپ کا وسیع طور پر تعلق قائم ہو تو ان کی بدیوں کو رد کرنے والے ہوں اور اپنی بدیوں کو پہلے دور کر دینے والے ہوں یا استغفار کرتے ہوئے کم از کم ایسا انتظام کریں کہ وہ بدیاں ان میں داخل نہ ہوں، پھر حمد کے ترانے گائیں اپنے اندر خوبیاں پیدا کریں سلامی تعلیم پر عمل پیرا ہو کر اس دنیا میں جنت پیدا کریں.
خطبات طاہر ۲ 519 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء اکثر لوگ مجھ سے یہ پوچھتے ہیں کہ کیا وہ Utopia ( نیٹو پیا یعنی مثالی معاشرہ ) جولوگوں کے تصور میں ایک خواب ہے ایک کہانی ہے کہ دنیا میں ایک عظیم الشان سنہری زمانہ آ جائے گا جس میں ہر طرف امن ہو گا اور انسان اس جنت کو پالے گا جس کی خاطر غالباً وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انسان کو پیدا کیا گیا ہے.تو میں ان سے کہا کرتا ہوں کہ وہ جنت تو قریب آ رہی ہے ، وہ اسلام کی فتح ہی کی جنت ہے مگر اس کے لئے ہر احمدی کو زبر دست تیاری کرنی پڑے گی اسی طرح ہر احمدی کو پھر حمد کے مضمون میں بھی داخل ہونا پڑے گا اس ارادے کے ساتھ کہ خدا کی خاطر مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ان کو ادا کرنے کے لئے مجھے اپنے خیالات کو درست کرنا ہے، اپنے اخلاق کو سنوارنا ہے، اپنی عادات کو سنوارنا ہے، اپنے مزاج کو سنوارنا ہے اور یہ سب روز مرہ کی زندگی کے ساتھ تعلق رکھنے والے واقعات ہیں یہ کوئی فرضی حمد نہیں ہے کہ آپ نماز میں چند منٹ کے لئے تصوراتی حمد کر لیں اور پھر باہر آ کر بھول جائیں کہ آپ نے کیا کہا تھا.حالانکہ تسبیح وتحمید کا مضمون اور برائیوں کو دور کرنے کا مضمون تو روز مرہ کی زندگی میں داخل ہو جاتا ہے، وہ خوابوں میں بھی ساتھ رہتا ہے، اٹھنے کے وقت بھی ساتھ رہتا ہے، جس وقت آپ کھانا کھا رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے، جس وقت آپ وضو کر رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے، جس وقت آپ معاملات کر رہے ہوتے ہیں اس وقت بھی ساتھ ہوتا ہے.بیوی بچوں کے تعلقات میں بھی اور غیروں کے تعلقات میں بھی ساتھ ہوتا ہے.غرضیکہ ہر روز انسان کی زندگی میں ایسے بے حد اور بے انتہا مواقع نظر آتے ہیں جہاں وہ اپنی بعض برائیاں دور بھی کر سکتا ہے، اگر وہ بیدار مغزی کے ساتھ اپنا مطالعہ کرے اور بعض وہ خوبیاں اپنے اندر پیدا کر رہا ہوتا ہے مثلاً بول چال میں بد اخلاقی کو چھوڑ دیتا ہے، کلام میں تیزی اور مزاج میں درشتی کو نرمی میں بدل دیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ آج میں نے یہ برائی چھوڑ دی ہے، اب میں نے وہ برائی چھوڑ دی ہے.اس طرح جب وہ خدا کی حمد کے گیت گائے گا اور اس کی صفات کے مضمون میں ڈوبے گا تو الہی صفات کے رنگ پکڑنا شروع کر دے گا اور اس طرح اخلاق کو درست کرنے کا اس سے بہتر طریق اور کوئی نہیں.جب آپ کہتے ہیں الْحَمدُ لِلهِ رَبِّ الْعَلَمِینَ تو یہ حد ہی کا مضمون ہے.اللہ رب العالمین ہے.تمام جہانوں کی پرورش کرنے والا ہے.رب کا مطلب ہوتا ہے کہ جو بھی خدا کا فیض
خطبات طاہر ۲ 520 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء پائے اور جو اس سے تعلق جوڑے وہ پہلے سے بہتر ہونا شروع ہو جائے.اگر کسی انسان میں یہ مادہ پیدا ہو جائے کہ جو اس سے تعلق جوڑے وہ بہتر ہونا شروع ہو جائے تو وہ صفت ربوبیت کا مظہر سمجھا جاتا ہے.یہ صفت سب سے زیادہ حضرت محمد مصطفی علیہ میں پیدا ہوئی کیونکہ آپ اللہ تعالیٰ کی صفات کے مظہر اتم تھے.پارس پتھر کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ جو چیز اس سے لمس کرتی ہے وہ سونا بن جاتی ہے.پارس پتھر کی محمد مصطفی ﷺ کی جوتیوں کے مقابل پر کیا حیثیت ہے.آپ جس جگہ سے گزرتے تھے اس جگہ کو تبدیل کرتے چلے جاتے تھے.آپ نے ایک نہایت ہی حیرت انگیز انقلاب برپا کیا ہے.آپ نے ایک نہایت ہی اردنی اور ذلیل سوسائٹی کو پکڑا ہے اور انتہائی بلند مقامات پر پہنچا دیا ہے.اس کو کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کا مظہر اتم.اتمام ربوبیت کا مضمون بہت وسیع ہے اور بڑا پھیلا ہوا ہے اس کے اندر خدا کی کئی صفات آ جاتی ہیں جور بوبیت کے تابع جلوہ دکھاتی ہیں.قرآن کریم میں جہاں جہاں رب کا ذکر ہے وہاں کبھی کسی صفت کا اس ضمن میں ذکر ہے اور کبھی کسی صفت کا اس ضمن میں ذکر ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب آپ ربوبیت کے دروازے سے حمد میں داخل ہوں گے تو آپ کے لئے ایسی بہت سی نئی نئی گلیاں کھلیں گی ، نئے نئے راستے کھلیں گے کہ جن میں سفر کرتے ہوئے آپ پہلے سے زیادہ حسن اختیار کرتے چلے جائیں گے.پس یہ ہے حمد کا مضمون جو آپ کی روز مرہ کی زندگی میں داخل ہو جائے گا.پھر فرمایا الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ صفت رحمان کے اندر تو یہ جلوہ ہے کہ کوئی انسان مانگے یا نہ مانگے وہ فیض آپ اس کو پہنچا دیں.وہ ناشکرا بھی ہوتب بھی آپ اس کو فیض پہنچائیں ، وہ آپ کو گالیاں دینے والا بھی ہوتب بھی آپ اس کو فیض پہنچا ئیں.چنانچہ رحمانیت وہ عمومی فیض ہے جس میں سارے بنی نوع انسان شامل ہیں.اس کے بعض پہلوؤں کے متعلق میں پہلے بیان کر چکا ہوں آج میں صرف اتنا ہی اس کے متعلق کہتا ہوں کہ رحمانیت کے بعض پہلو ایسے ہیں جن میں کافر، مشرک بھی برابر کا شریک ہوتا چلا جاتا ہے اور کوئی جو مرضی کے خدا کو گالیاں دے، اس کے متعلق گندی زبان استعمال کرے، خدا کے ماننے والوں کو دکھ دے تب بھی صفت رحمانیت کے ماتحت قدرت اس پر فضل کرنے سے نہیں رکھتی.تبلیغ کا بھی رحمانیت سے ایک گونا تعلق ہے کیونکہ تبلیغ کی راہ میں خدا کے بندے آپ سے بعینہ وہ سلوک کرتے ہیں جو بعض ظالم بندے اپنے رحمان خدا سے بھی کر رہے
خطبات طاہر ۲ 521 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء ہوتے ہیں.چنانچہ آنحضرت ﷺ نے لوگوں کے ہاتھوں دکھ پر دکھ اٹھائے لیکن آپ بنی نوع انسان کو فائدہ پر فائدہ پہنچاتے چلے گئے اور اپنے عمل سے یہ ثابت کر دکھایا کہ خدا کی صفت رحمانیت سب سے زیادہ آپ کے وجود میں جلوہ گر ہوئی.پھر رحیمیت ہے.اس کا ایک تقاضا یہ ہے کہ جب آپ کسی پر رحم کریں، اس کے فائدہ کی بات سوچیں تو ایک دفعہ کر کے بھول نہ جایا کریں.جس طرح خدا تعالیٰ انسان پر بار بار فضل اور رحم لے کر آتا ہے اسی طرح آپ کے ذریعہ بھی بنی نوع انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور فضل حاصل کریں اور آپ کے اندر بھی صفت رحیمیت جلوہ گر ہو یعنی آپ کی کوشش یہ ہو کہ آپ کے ذریعہ اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان پر بار بار فضل فرمائے.چنانچہ تبلیغ کر کے جو لوگ بھول جاتے ہیں وہ رحمان بنے کی تو کچھ کوشش کرتے ہیں لیکن رحیم نہیں بن سکتے اور پھلوں کا تعلق رحیمیت سے ہے.دنیا میں جتنا بھی پھلوں کا نظام ہے اس کا تعلق رحیمیت سے ہے.رحمانیت وہ مواد عطا کرتی ہے جس کے نتیجہ میں چیزیں جب ایک دوسرے کے ساتھ عمل میں آتی ہیں تو پھل لگ سکتے ہیں اور رحیمیت ہے جو پھل عطا کرتی ہے.یہ رحیمیت کا تقاضا ہے کہ ہر محنت کا اچھا بدلہ دیتی اور ہر کوشش کے نتیجہ میں اس سے کئی گنا زیادہ عطا کرتی ہے.چنانچہ آپ دیکھ لیں.پھلوں کے مضمون میں ہر جگہ آپ کو رحیمیت کا کرشمہ نظر آئے گا.مثلاً اگر خدا تعالیٰ دنیا میں محنت کا دس گنا یا سو گنا یا سات سو گنا بدلہ نہ دے رہا ہوتا تو یہ ساری زندگی مدتوں سے پہلے فنا ہو چکی تھی.Evolution یا ارتقا جس رنگ میں بھی ہوا ہے وہ وجود میں ہی نہ آتا.یہ دراصل رحیمیت کا کرشمہ ہے کہ وہ محنت کا بدلہ دے رہی ہے اور جتنی محنت کی جاتی ہے اس سے کئی گنا زیادہ بدلہ دیتی ہے.زمیندار کو دیکھیں وہ محنت کر کے ایک بیج کا دانہ کھیت میں ڈالتا ہے اور وہ بعض صورتوں میں قرآن کریم کے مطابق کئی سو گنا بھی بڑھ سکتا ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ ہو جاتا ہے.پس پھل کے اس نظام کا رحیمیت سے تعلق ہے.خدا تعالیٰ کی قدرت صفت رحیمیت کے ما تحت بار بار وہ موسم لے کر آتی ہے اور وہ حالات پیدا کر دیتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پھل لگیں اور انسان خدا تعالیٰ کی رحیمیت کے کرشمے دیکھے.غرض تبلیغ میں بھی پھل تب لگے گا اور بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچانے کے آپ تب موجب بنیں گے جب آپ بڑے صبر کے ساتھ اور بڑی ہمت کے ساتھ اور نہایت مستقل مزاجی کے ساتھ خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کے ساتھ تعلق جوڑ لیں گے اور رحیمیت
خطبات طاہر ۲ 522 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء کے تابع بھی بہت سی صفات ہیں.چنانچہ قرآن کریم کا یہ ایک عجیب اسلوب ہے کہ خدا تعالیٰ کی بنیادی صفات جوسورۂ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں ان کو ادل بدل کر مختلف مواقع پر پیش کرتا چلا جاتا ہے جس سے انسان کے سامنے اللہ تعالیٰ کی صفات کی ایک تصویر کھلتی چلی جاتی ہے جن میں صفت رحیمیت کارفرما ہوتی ہے اور یہ حقیقت روشن ہونے لگتی ہے کہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات ان چار بنیادی صفات ہی کا پر تو ہیں جو سورۃ فاتحہ میں بیان ہوئی ہیں.ایک بھی صفت ان سے باہر نظر نہیں آئے گی.رحیمیت کا عدم کیا ہے، یہ صفت نہ ہو تو کیا پیدا ہوتا ہے.خدا کی بعض منفی صفات ( منفی تو کوئی بھی چیز نہیں ) ان معنوں میں کہ قرآن کریم میں آپ کو رحیمیت کے برعکس صفات نظر آنے لگیں گی.اسی طرح رحمانیت نہ ہو تو دنیا میں کیا تباہی مچتی ہے وہاں آپ کو خدا تعالیٰ کی بعض ایسی صفات نظر آئیں گی جو رحمانیت کے الٹ ہیں اور ایسی صفات ان قوموں کے لئے ظاہر ہوتی ہیں جو رحمانیت سے تعلق نہیں جوڑتیں.پس بظاہر تو حمد کی صفات ہوتی ہیں لیکن انہی کے اندر تسبیح والا مضمون بھی آجاتا ہے اور سورۂ فاتحہ کا نظام ایک مکمل نظام ہے اس پر غور کرتے ہوئے جب آپ حمد کے مضمون میں داخل ہوں تو تفصیل سے سوچا کریں کہ ہم نے کس خدا سے تعلق جوڑا ہے اور کیا ہم بندوں کے لئے ویسا بن رہے ہیں یا نہیں.اگر ویسا بنیں گے تو لازماً پھر آخر پر وہ نتیجہ پیدا ہو گا جس کی طرف سورہ فاتحہ ہمیں لے کر جارہی ہے.مثلاً انسان رب بن جائے یعنی اپنے رنگ میں ربوبیت کی صفات پیدا کر لے، وہ رحمان بن جائے یعنی اپنے رنگ میں اور اپنے محدود دائرہ میں وہ اپنے اندر رحمانیت کی صفات پیدا کر لے، رحیم بن جائے اور اپنے دائرہ میں اور اپنی توفیق اور استطاعت کے مطابق رحیمیت کی صفات پیدا کرلے تو لازماً پھر مُلِكِ يَوْمِ الدِّینِ تک پہنچ جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو کھولا اور فرمایا کہ سارے انبیاء میں سے صفت مالکیت کے کامل مظہر صرف حضرت محمد مصطفی ایل اے بنے ہیں.یعنی آپ صفت مالکیت کے مظہر اتم تھے.آپ نے اللہ تعالیٰ کی صفت ربوبیت کی کامل صفات اختیار فرما ئیں.صفت رحمانیت کی بھی کامل طور پر صفات اختیار فرمائیں اور پھر آپ نے حیرت انگیز طور پر رحمیت کی صفات بھی اختیار فرمائیں یہاں تک کہ نتیجہ آپ مالکیت تک پہنچ گئے یعنی اس خدا سے آپ کی محبت کا کامل تعلق پیدا ہوگیا جو مالک ہے.ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور ہر انجام اس کے ہاتھ میں ہے.خدا تعالیٰ نے آپ کو مالکیت میں شامل
خطبات طاہر ۲ 523 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء کر لیا.آپ کو وہ بادشاہت عطا کی جو خدا کی بادشاہت تھی.آپ کی زبان خدا کی زبان بن گئی ، آپ کا ارادہ خدا کا ارادہ بن گیا، آپ کا غضب خدا کا غضب ٹھہرا اور آپ کا رحم اللہ کا رحم کہلایا.یہ ہے سورۃ فاتحہ میں بیان ہونے والی مالکیت کی صفت کا مفہوم جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے کھول کر بیان فرمایا ہے.آپ نے فرمایا ہر کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان ان تین صفات کو اختیار کر کے اپنے خالق و مالک رب سے تعلق جوڑے تب خدا کی صفت مالکیت ان تین صفات کو چمکا دیتی ہے، ان کے استعمال کو ایک نئی شان بخشتی ہے.ایک انسان اگر صفت رحمانیت کا مظہر ہواور صفت مالکیت کا نہ ہو تو اس کی حد گویا ایک معین حد ہے اس سے آگے وہ نہیں بڑھ سکتا.آپ کو کسی شخص پر کتنا ہی رحم کیوں نہ آرہا ہو، آپ کا کتنا بھی دل چاہے کہ آپ اس کو سب کچھ عطا کر دیں، وہ مانگے نہ مانگے آپ اس کو عطا کر دیں لیکن آپ صفت مالکیت کے مظہر نہ بنیں تو آپ کی صفتِ رحمانیت کیا جلوہ دکھا سکتی ہے.رحیمیت کی صفت اختیار کریں، ربوبیت کی اختیار کریں جو چاہیں کریں اگر صفت مالکیت کا شرف حاصل نہ ہوتو یوں معلوم ہوتا ہے ہر صفت اپنی ذات میں سکڑ کر رہ گئی ہے اس میں کوئی بھی طاقت نہیں رہی.پس جب خدا تعالیٰ کے بندے خدا کی خاطر ربوبیت اختیار کرتے ہیں ، رحمانیت اختیار کرتے ہیں اور رحیمیت اختیار کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی کمزوریوں پر رحم فرماتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ دیکھو! میرے بندے میرے جیسا بننے کی کوشش کرتے ہیں ، میرے حسن کی صرف زبان سے تعریف نہیں کرتے بلکہ عمل کو بھی میری صفات کے رنگ میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بیچارے مجبور ہیں ان کے پاس کچھ طاقت نہیں ہے کہ وہ میرے جیسا بن سکیں.تب خدا کی صفت مالکیت جوش میں آتی ہے اور وہ ان کو درجہ بدرجہ مالکیت میں شامل کر لیتی ہے اور اس مقام پر سب سے زیادہ حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے مالکیت کی صفات پائیں.نہ صرف خود یہ صفات پائیں بلکہ اپنے غلاموں کو بھی عطا کیں چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب یہ فرمایا کہ عسى رب اشعث اغَبَرَ لو اقسم على الله لابره (مستدرک حاکم جلدیم صفری ۴ ۳۶.الجامع الصغير للسيوطي الجزء الثاني باب الراء ) تو اسی مضمون کی طرف اشارہ فرمایا تھا.تم میرے مقام کو سمجھنا چاہتے ہو تو تمہاری عقلیں ،
خطبات طاہر ۲ 524 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء تمہارا علم تمہاری فراست اور تمہارا ادراک کو تاہ ہے تم اس تک نہیں پہنچ سکتے.تم میرے غلاموں کی شان دیکھو.ان میں سے ایسے بھی ہیں جن کے بالوں میں خاک اڑ رہی ہوتی ہے جن کا حال پراگندہ ہوتا ہے لیکن جب وہ خدا پر قسم کھا لیتے ہیں کہ خدا کی قسم یہ واقعہ ہوگا تو خدا ایسا واقعہ ضرور کر دیا کرتا ہے.اس کو کہتے ہیں مالکیت میں شامل کر دینا.تو صفت مالکیت ایسی نہیں ہے جو آپ اپنی ذات سے یا اپنی کوشش سے اختیار کر سکیں.انسان کے پاس کچھ نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ربوبیت رحمانیت اور رحیمیت کی توفیق بھی اللہ تعالیٰ ہی دے سکتا ہے.صرف آپ کا ایک ارادہ ہے، نیک تمنا ہے کہ ہم ایسا بننے کی کوشش کریں.جب آپ پوری نیت کے ساتھ ، پوری وفا کے ساتھ ، پورے بجز کے ساتھ ، پورے پیار اور محبت کے ساتھ اپنے رب کے رنگ میں رنگین ہونے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر اس کی صفت مالکیت جلوہ دکھاتی ہے اور وہ انسان کو مالک بنا دیتی ہے.پس اگر احمدی نے اس سارے زمانہ کی تقدیر بدلنی ہے تو اس کا یہی ایک طریق ہے جو مجھے معلوم ہے اس کے سوا اور کوئی طریق نہیں ہے.یہی قرآن کریم کی تعلیم ہے، یہی حضرت محمد مصطفی ﷺ کی سنت ہے اور یہی اس کی تفسیر ہے جو آپ نے مختلف وقتوں میں بیان فرمائی.پس مجھے نظر آ رہا ہے کہ خدا کی قدرت مالکیت کے جلوے دکھانے کے لئے تیار ہے.آپ کو مبارک ہو کہ خدا تعالیٰ بنی نوع انسان پر اور احمدیت کی قربانیوں پر رحم فرما رہا ہے.وہ جان چکا ہے کہ احمدی پورے خلوص اور محبت اور وفا کے ساتھ اپنا سب کچھ اس کی راہ میں فنا کرنے کے لئے تیار ہورہے ہیں.چنانچہ ہم پر اس کے پیار کی نظریں پڑ رہی ہیں اور جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہ مالکیت کے جلوے تھے جور بوبیت اور رحمانیت اور رحیمیت کے ذریعہ سے ظاہر ہوئے لیکن وہ سب جلوے مالکیت کے جلوے تھے.ہماری محنت کا اس میں کوئی دخل نہیں تھا.اللہ تعالیٰ مالک ہے وہ لوگوں کے دلوں میں تبدیلیاں فرما رہا ہے.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اس وقت خطبہ میں تفصیل سے باتیں کرنے کا وقت نہیں ہے مگر میں نے اس مضمون کا آغاز کر دیا ہے.اب تو مجھی کی باتیں بیان کرنے کا وقت بھی نہیں رہا.میرا خیال تھا نجی کے ذکر سے تھوڑی سی بات آگے چلے گی تو میں آپ کو کچھ باتیں سناؤں گا.اب وقت کی رعایت سے صرف چند باتیں ہی بیان کر سکتا ہوں.
خطبات طاہر ۲ 525 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء نجی میں جماعت احمدیہ کی تعداد بہت تھوڑی ہے.غیر از جماعتوں مسلمانوں کی تعداد ہمارے مقابل پر نہ صرف بہت زیادہ ہے بلکہ وہ مؤثر بھی ہے اور اتنے مؤثر ہیں کہ نہ صرف وہ نجی کی موجودہ حکومت کے ساتھ ہیں بلکہ ہمیشہ ہی وہ حکومت کے ساتھ رہتے ہیں اور ان کا لازماً ایک وزیر ہوتا ہے.وہ فحسین قوم ہے اور اس وقت وہاں حکومت کرتی ہے ان کو اسلام کا کچھ پتہ نہیں ،تفریق کا کوئی علم نہیں اور فرقوں کی تقسیم کا کوئی پتہ نہیں وہ اپنا جو کچھ تاثر لیتے ہیں ان مسلمانوں سے لیتے ہیں.اگر کوئی مسلمان کہلا ئے گا تو وہ ان سے پوچھیں گے کس قسم کا ہے اس کو منہ لگانا چاہئے یا نہیں لگانا چاہئے.ان حالات میں نجی کے احمدی بھی پریشان تھے اور میں بھی فکر مند تھا لیکن مایوس نہیں تھا.مجھے یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ایسے انتظام کرے گا کہ وہاں تبلیغ کے راستے کھول دے گا.چنانچہ ایسا ہی ہوا.ناندی میں جہاں ہم نے پہلے دن ہوائی جہاز سے باہر قدم رکھا.وہاں کے میئر ائیر پورٹ پر تشریف لائے اور اس لحاظ سے انہوں نے بڑے خلق کا مظاہرہ کیا اور اس کے بعد دوسرے دن ان کی دعوت پر ہم Civic Center پر لیکچر کے لئے بھی گئے.اس اثنا میں اتنی تفصیل سے جماعت کی مخالفت میں تنظیم قائم کر دی گئی تھی کہ ایک ایک مسلمان کو یہ پیغام پہنچایا گیا تھا کہ تم نے احمدیوں سے کلیتہ بائیکاٹ کرنا ہے ان کے کسی جلسے میں شامل نہیں ہونا اور پھر غیر مسلم محبین کو بھی ڈرایا جا رہا تھا اور ان کو بھی روکا جار ہا تھا لیکن اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ کیا ہوا تھا اور جیسا کہ میں نے کہا ہے جب مالک فیصلہ کر لے تو جو مالک نہیں ہے اس کا بس نہیں چلتا، بے چارے کی خواہش ہی رہ جاتی ہے، ایک حسرت رہ جاتی ہے ، وہ کچھ کر نہیں سکتا.چنانچہ ہم نے دیکھا کہ ان لوگوں کے لئے بے بسی کا ایسا عالم تھا کہ باقیوں کو تو چھوڑ ووہاں کے ایک بہت بڑے لیڈر جن کا میں اس وقت مصلحنا نام نہیں بتانا چاہتا ان کی بیٹی بھی تقریر سننے کے لئے وہاں پہنچ گئی اور وہ شدید مخالف ہی نہیں تھی بلکہ اس نے پورا مطالعہ کیا ہوا تھا اس لٹریچر کا جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بالکل غلط تاثرات بلکہ نہایت ہی خوفناک تاثرات قائم کرتا ہے.اس نے اپنے والد سے کتابیں لے کر ان کا بڑا گہرا مطالعہ کیا ہوا تھا وہ بھی اس مجلس میں موجود تھیں.فجیز بھی تھے اور غیر از جماعت مسلمان بھی تھے.اگر چہ بائیکاٹ تھا لیکن بعض علما نے یہ فیصلہ کیا کہ ہم اپنے ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچیں گے اور ایسے اعتراض کریں گے کہ ان کی کوئی پیش نہیں جائے گی اور یہ بھی کہ ہم ان کو ذلیل و رسوا کر دیں گے.
خطبات طاہر ۲ 526 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء چنانچہ ایسے ہندوستانی علما جو مدینہ یونیورسٹی کے پڑھے ہوئے اور بڑے چوٹی کے علما تھے وہ اپنے شاگردوں اور ساتھیوں کو لے کر وہاں پہنچے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقریر ہوئی اور پھر جب سوال و جواب کا سلسلہ شروع ہوا تو احمدیت تو خدا کے فضل سے صداقت ہے اس کے لئے کسی خوف کا سوال ہی نہیں بھلا روشنی بھی کبھی اندھیرے سے ڈرتی ہے.میں تو ان کو صاف اور کھل کر بتا تا رہا ہوں کہ اگر ہم روشنی ہیں تو تمہیں منہ چھپانا پڑے گا.اندھیرے کے لئے روشن دانوں پر پردے ڈالے جاتے ہیں ، گرمیوں میں سورج کی تمازت سے بچنا چاہیں تو ہزار کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح روشنی اندر داخل نہ ہو پس لوگ ڈرتے ہیں سورج تو اندھیرے سے کبھی نہیں ڈرا.پس یہی کیفیت ہم نے وہاں دیکھی.میں بڑی بے تکلفی کے ساتھ مگر اس کامل یقین کے ساتھ ان کے سوالات کا جواب دیتا تھا اور سمجھتا تھا کہ دیکھتے دیکھتے حقیقت کھل جائے گی اس لئے میں ان سے کہتا تھا جس کسی نے جو بھی سوال کرنا ہے کرے بے شک تلخ سے تلخ سوال بھی کیوں نہ ہو میں اس کا جواب دوں گا.چنانچہ تھوڑے عرصہ کے اندر جو سوال ہوئے ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے سوالات کرنے والوں نے خود ہی اطمینان کا اظہار شروع کر دیا.ایک طرف سوال کرتے تھے اور دوسری طرف تھوڑی دیر کے بعد کہہ دیتے تھے کہ ہاں بالکل ٹھیک ہے ہماری تسلی ہوگئی ، سر ہلانے لگ جاتے تھے ، کہنے لگ جاتے تھے.چنانچہ وہاں ایک نحین پادری صاحب بھی آئے ہوئے تھے.ان کی کیا پوزیشن ہے مجھے یاد نہیں ان کا ایک چرچ سے تعلق ہے اور شاید وہاں کے کسی تعلیمی ادارے کے لیکچرار بھی تھے بہر حال ان کی اچھی پوزیشن تھی نجی قوم سے تعلق رکھتے تھے.انہوں نے ایک سوال کیا اس کے بعد ان کے چہرے پر بشاشت آئی پھر انہوں نے ایک اور سوال کیا اور اس کے بعد کھڑے ہوکر شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ ہاں ہماری تسلی ہو گئی.نہ صرف بعد میں احمدیوں سے ملے اور درخواست کی کہ میں تو لمبی ملاقات چاہتا ہوں.اب تو میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں نے ملنا ہے اور مزید باتیں کرنی ہیں لیکن چونکہ وقت بہت ہی تھوڑا تھا پہلے سے پروگرام طے شدہ تھے اس لئے مصروفیت کی وجہ سے میں ان کو وقت نہیں دے سکا.اب انشاء اللہ میرا ارادہ ہے کہ خط و کتابت کے ذریعہ ان سے رابطہ قائم رکھوں.پس جب یہ اثر دیکھا تو ایک مولوی صاحب جو اپنی ٹیم کے ساتھ تشریف لائے ہوئے تھے
خطبات طاہر ۲ 527 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء وہ بڑے پریشان ہوئے اور انہوں نے پھر سوال وجواب کا معاملہ اپنے ہاتھ میں سنبھال لیا.انہوں نے ایک سوال کیا میں نے جب اس کا جواب دیا تو اس سوال کے پہلے حصہ سے مکر گئے.خدا تعالیٰ نے ان کی ایسی عقل ماری کہ ان کے سوال کرنے کا پہلا حصہ خود ہی دوسرے حصہ کی نفی کر رہا تھا.جب وہ بڑے لہک لہک کر سوال کرنے لگے اور انہوں نے خوب اردو بولی تو چونکہ وہاں اکثر مجالس انگریزی میں ہوتی تھیں مگر وہ کہتے تھے مجھے انگریزی نہیں آتی.پہلے تو یہ جھوٹ بولا کہ مجھے اردو بھی نہیں آتی اور بعد میں جب مجبور ہو گئے تو اردو بولی اور اتنی فصیح و بلیغ کہ سارے حاضرین حیران رہ گئے کہ مذہبی آدمی اور اتنا جھوٹا.کسی سے کہلوایا کہ اردو کا ایک لفظ بھی مجھے نہیں آتا اور بعد میں پتہ لگا کہ وہ اچھے بھلے یوپی کی اردو بولنے والے ہیں.خیر اسی طرح ایک جھوٹ تو پکڑا گیا.جب انہوں نے سوال مکمل کیا تو میں نے مسکراتے ہوئے تسلی سے ان سے کہا کہ مولوی صاحب ! آپ کے سوال کا آخری حصہ یہ ہے اور پہلا حصہ یہ ہے.جواب تو آپ خود ہی دے چکے ہیں.اس پر وہ پہلے حصہ سے مکر گئے کہ میں نے تو یہ کہا ہی نہیں تھا.میں نے کہا بہت اچھا یہ حسن اتفاق ہے کہ کیسٹ ریکارڈنگ ہو رہی ہے اور وڈیو ریکارڈنگ بھی ہو رہی ہے.اگر آپ فرما ئیں تو آپ کو یہ حصہ سنا دیں تو اسی وقت گھبرا کر پیچھا چھڑانے لگے کہ نہیں کوئی ضرورت نہیں ، میں نے کہا ہو گا لیکن اب میں ایک اور سوال کرتا ہوں.جب دوسرا سوال شروع کیا تو میں نے قرآن کریم اور حدیث سے جواب دینا شروع کیا تو پریشان ہو گئے کہ نہیں آپ کون ہوتے ہیں قرآن کریم کی تشریح کرنے والے.میں نے کہا مولوی صاحب! عقل کی بات کریں.آپ نے خود ہی مذہب کے بارے میں سوال کیا ہے اور آپ نے خود ہی یہ کہا ہے کہ میں آپ کے سوال کا قرآن کریم کے ذریعہ جواب دے کر آپ کو مطمئن کروں.اس لئے میں تو قرآن سے جواب دوں گا.بولے نہیں قرآن تو ہمارا ہے.گویا ان کی Monoply (اجاره داری) ہے.میں نے کہا آپ نے سوال کیا ہے اور قرآن سے جواب مانگا ہے اس لئے اب آپ کو اس کا جواب سننا پڑے گا کیونکہ سائل کا پھر یہ حق نہیں ہے کہ وہ دخل اندازیاں کرے، کم از کم اسلامی شرافت تو سیکھیں یہاں آئے ہیں تو اسلامی تہذیب کے اندرر ہیں.یہاں ہندو بھی بیٹھے ہیں اور عیسائی بھی نجیز بھی ہیں اور ایشیز بھی ، آپ جو حرکتیں کر رہے ہیں ان کو دیکھ کر لوگ کیا
خطبات طاہر ۲ 528 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء سمجھیں گے، آپ ان پر کیا اثر ڈالیں گے؟ آپ کو تہذیب کے دائرہ کے اندر رہنا پڑے گا.میں نے کہا آپ باقی لوگوں کو دیکھیں وہ سوال کرتے ہیں پھر ان کو جواب سننے کا حوصلہ بھی ہوتا ہے.خیر تھوڑی دیر جب جواب سنا تو ان کو یہ خطرہ پیدا ہوا یہ بالکل بجا تھا کہ دوسرے مسلمان جو سن رہے ہیں اور جن کے وہ پیر بن کر آئے تھے وہ تو تائید میں سر ہلانے لگ گئے ہیں.تب انہوں نے سوچا کہ اب میں کیا کروں.چنانچہ آدھے سوال سے ذرا زائد جواب ہوا تھا کہ گھبرا کر اٹھے اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ مجلس چھوڑ کر بھاگ گئے لیکن اکثر وہاں بیٹھے رہے.ان کے ساتھ گنتی کے چند آدمی گئے.وہ مخالف خاتون جن کا میں نے ذکر کیا ہے وہ بھی بیٹھی رہیں.چنانچہ انہوں نے پھر دوبارہ مجھ سے وقت لیا.کہنے لگیں میں تو کچھ اور سمجھا کرتی تھی احمدیت تو بالکل اور چیز ہے مجھے تھوڑا سا وقت دیں.جب وہ ملنے کے لئے آئیں تو انہوں نے اعتراض دہرانے شروع کر دیئے جو آپ نے اکثر سنے ہوئے ہیں مثلاً محمدی بیگم کا اور اس قسم کے دوسرے اعتراضات.پس اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے راستے کھولتا رہا ہے اور جتنی مخالفت ہوئی ہے اتنا فائدہ پہنچا ہے کیونکہ اس وقت جو غیر قوموں والے تھے وہ حج بن کر بیٹھ گئے تھے.جب مقابلہ شروع ہوا تو وہ دیکھ رہے تھے کہ کون آدمی معقول باتیں کر رہا ہے اور کون کج بحثی کر رہا ہے، کون انصاف کی بات کر رہا ہے اور کون ضد کر رہا ہے اور لغو باتیں کر رہا ہے.چنانچہ سب حاضرین پر احمدیت کا ایک بہت ہی پیارا تاثر پیدا ہونا شروع ہو گیا اور جو غیر مبائعین شامل ہوئے تھے وہ اس کے نتیجہ میں بڑی تیزی کے ساتھ ہماری طرف مائل ہوئے.انہوں نے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم سے تعلق قائم کیا.اب یہ بات عام ہوگی تو یہاں کے غیر مبائعین بڑے گھبرائیں گے اور پریشان ہوں گے کہ ان کے شائد گنتی کے کچھ لوگ وہاں موجود ہیں وہ بھی ہاتھ سے جاتے نہ رہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے فضل کیا تو ان کے ہاتھ سے جاتے رہیں گے کیونکہ میں ان کی آنکھوں میں محبت اور تعلق اور سمجھ کے آثار دیکھ کر آ رہا ہوں مجھے یہ نظر آ رہا ہے کہ ان کے دل مائل ہو چکے ہیں.پس یہ ایک دن کی مجلس تھی جس میں ہم نے خدا تعالیٰ کے بڑے فضل دیکھے غیر معمولی تائید دیکھی نصرت دیکھی اور دلوں کو احمدیت کی طرف مائل ہوتے دیکھا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں اسی
خطبات طاہر ۲ 529 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء شہر میں اپنے احمدی دوستوں کے ساتھ جو مجالس ہوئیں ان کے نتیجہ میں دیکھتے دیکھتے یوں لگتا تھا کہ احمدیوں کی کایا پلٹ رہی ہے.جب ہم وہاں پہنچتے ہیں تو اور قسم کے چہرے دیکھتے تھے پھر جب ناندی سے روانہ ہور ہے تھے تو کچھ اور قسم کے چہرے ظاہر ہو چکے تھے.ان میں عزم تھا ان میں ارادے تھے نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے خود ملاقاتوں اور مجالس میں کھل کر کہا کہ ہو گیا جو ہونا تھا غفلت کی جو حالت تھی وہ گزرگئی.اب ہم وعدہ کرتے ہیں کہ آج سے ایک مبلغ کی طرح اپنی زندگیاں وقف رکھیں گے ہمارے دل میں خدمت اسلام کا ایک غیر معمولی جذبہ پیدا ہو چکا ہے ہم اسلام کی تبلیغ کرینگے اور ہر طرف خدا کا پیغام پہنچائیں گے.یہ پاک تبدیلیاں اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا تھا ، ایسی صورت میں کوئی بڑا ہی بے وقوف اور جاہل ہو گا جو یہ سمجھے کہ اس میں اس کی کوششوں کا دخل ہے.اس میں کسی انسانی کوشش کا دخل نہیں محض اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں.چنانچہ مین پر لیس کے نمائندے پہنچ گئے حالانکہ جیسا کہ میں نے بتایا ہے دوسروں کا پریس کے اوپر بھی بڑا اثر تھا.لوگ پریس کے نمائندوں کو روکتے تھے کہ ان کی باتیں نہیں سنتیں لیکن اس کے باوجود پر لیس پہنچا اور بہت اچھا Coverage یعنی اخباری خبریں دیں.صرف یہی نہیں ریڈ یونجی نے اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی قریباً ایک گھنٹے کا انٹرولیا اور پھر نشر کیا اور اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ لوگ انہیں کیا کہتے ہیں.پھر اس پر بھی تسلی نہ ہوئی تو انہوں نے کہا ہم آپ کی بیگم صاحبہ کا بھی انٹرویو لینا چاہتے ہیں.چنانچہ انہوں نے بیگم صاحبہ کا بھی انٹرویو لیا.پس یہ سامان کس نے کیا تھا؟ میں نے تو نہیں کیا تھا نہ میرے اندر طاقت تھی اور نہ ہمارے فجین احمدیوں میں تھی جو بے چارے دینی لحاظ سے بہت کمزور ہیں ، وہ چند ہزار کی تعداد میں ہیں، کوئی دنیوی طاقت انہیں حاصل نہیں ، یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اس نے طاقت عطا فرمائی.سارے نجی کو اردو میں بھی اور انگریزی میں بھی احمدیت یعنی حقیقی اسلام کا پیغام پہنچانے کی توفیق عطا فرمائی اور بھی بہت سے نشان بڑے دلچسپ واقعات ہیں جن کا ذکر انشاء اللہ بعد میں اجتماعات پر کروں گا ، پھر جلسہ سالانہ ہے اس میں بھی ذکر چلے گا، یہ لمبی باتیں ہیں میں نے جیسا کہ بیان کیا ہے یوں معلوم ہوتا تھا کہ تھوڑے سے وقت کے اندر واقعات اس طرح اکٹھے ہو گئے ہیں جس طرح کہتے ہیں کہ کھوے سے کھوا چھلتا ہے.یعنی کندھے سے کندھا ملا کر ایک جلوس جا رہا ہوتا ہے اس طرح واقعات ایک دوسرے سے مل کر چل
خطبات طاہر ۲ 530 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء رہے تھے.یوں معلوم ہوتا تھا ایک مووی پلیٹ فارم (Movie Plat Form) ہے.ایک حرکت کرنے والا پہیہ ہے جس پر ہم سوار ہو گئے ہیں.ایک طرف سے ڈوبے ہیں دوسری طرف سے کراچی پہنچ گئے ہیں اور اس سارے عرصہ میں واقعات کا ایک مسلسل جلوس تھا جو ایک دوسرے کے ساتھ جاری رہا.میں بھی اور میرے ساتھی بھی اس حال میں واپس لوٹے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے ہمارے سینے معمور ہیں اور زبانوں پر خدا تعالیٰ کی حد کا ایک نہ ختم ہونے والا سمندر جاری ہے.پس میں آپ کو بھی یہی پیغام دیتا ہوں کہ اپنے سینوں کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید سے بھر دیں.یہی تسبیح اور تحمید ہے جو اب ہمارے کام آئے گی ورنہ اس کے بغیر یہ فتح اور نصرت ہمارے ہاتھوں سے ضائع ہو سکتی ہے.اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے استغفار کا حکم دیا ہے کیونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی کما حقہ تسبیح اور تحمید نہیں کر سکتا.اگر چہ وہ اپنی طرف سے تشبیح وتحمید کا پورا پورا حق ادا کرتا ہے پھر بھی بعض غلطیاں رہ جاتی ہیں اس لئے تسبیح اور تحمید کے ساتھ ہی فرمایا تم عجز کے ساتھ استغفار بھی کیا کرو.فتح و نصرت ملنے کے بعد خدا کے حضور یہ عرض کیا کرو کہ اے اللہ ! یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہمیں یہ پتہ ہے کہ اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا تو ہم بخشے جانے کے لائق نہیں ٹھہریں گے.ہم محض تیری بخشش کے سہارے زندہ ہیں ، ہم اس امید پر زندہ ہیں کہ جب تیرے حضور حاضر ہوں گے تو اے خدا تو ہم پر رحمت اور شفقت کی نظر کرے گا اور بخشش کی نگاہ ڈالے گا ورنہ یہ فتوحات جو تو نے ہمیں عطا کی تھیں ہم ان کا حق ادا کرنے کے لائق نہیں.اس جذبے کے ساتھ دوست جب اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کریں گے اور استغفار کریں گے اور رب کریم کے ساتھ پیار اور محبت کا تعلق جوڑیں گے تو پھر دیکھیں گے کہ انشاء اللہ وہ فتح ونصرت جس کے آثار میں دیکھ کر آیا ہوں وہ کس شان کے ساتھ آتی ہے اس سے دنیا میں ایک نیا انقلاب برپا ہوگا انسان کو ایک نئی جنت عطا ہو گی لیکن وہ جنت وہی جنت ہے جس کا پہلے آپ کے دلوں میں قائم ہونا ضروری ہے.یہی وہ جنت ہے جو آپ کے دلوں سے اچھل اچھل کر باہر نکلے گی اور دنیا میں پھیلے گی اور یہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور تحمید کی جنت ہے، یہ استغفار کی جنت ہے جس سے دنیا کی کایا پلٹ جائے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر ۲ 531 خطبه جمعه ۱۴ را کتوبر ۱۹۸۳ء خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: چونکہ ابھی میں سفر کی حالت میں ہوں اور تھوڑی دیر کے بعد ربوہ کے لئے روانہ ہونا ہے اس لئے میں جمعہ کی نماز کے ساتھ عصر کی نماز جمع کر کے پڑھاؤں گا اور مسافر ہونے کی وجہ سے عصر کی نماز قصر کروں گا جو دوست مسافر ہیں وہ میرے ساتھ دوگانہ پڑھ کر سلام پھیر دیں گے.مقامی دوست بغیر سلام پھیرے اس وقت کھڑے ہونگے جب میں دونوں سلام پھیر کر فارغ ہو جاؤں گا.نماز میں بے صبری نہیں دکھانی چاہئے جب تک امام نماز کی حالت میں بیٹھا ہوا ہے مقتدی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ الگ ہو جائے.اس لئے جب دوسرا سلام پھر جائے اس وقت تسلی سے اٹھیں اور دو رکعتیں پوری کریں.اکثر دوستوں کو اس مسئلہ کا علم ہے لیکن چونکہ نئی نسلیں آگے شامل ہوتی رہتی ہیں اس لئے ان باتوں کو بار بارد ہرانا پڑتا ہے.روز نامه الفضل ربوه ۱۱ دسمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 533 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء دورہ فجی کے حالات کا تذکرہ ( خطبه جمعه فرموده ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی تلاوت فرمائی: وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوْا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ إنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (البقرہ:۱۲) اور پھر فرمایا: + قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ جو میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے مختلف رنگوں میں مومنوں کو خوشخبریاں دے رہی ہے.اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ مشرق و مغرب اللہ ہی کے لئے ہیں پس خواہ تم مشرق کی طرف منہ کر دیا مغرب کی طرف تم ہر جگہ وجہ اللہ کو حاصل کر سکتے ہو.اللہ وسعت دینے والا اور خوب جاننے والا ہے.وجہ اللہ کے معنی کئی طرح سے کئے جا سکتے ہیں.اس موقع پر میں جو معانی اخذ کر رہا ہوں ان سے مراد رضائے باری تعالیٰ ہے.پس ایک معنی اس آیت کریمہ کا یہ بنے گا کہ مشرق اور مغرب دونوں اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہیں اور اسی کی ملکیت ہیں پس وہ مومن جو رضائے باری تعالیٰ کے حصول کی خاطر نکلتے ہیں خواہ وہ مشرق کی طرف منہ کریں یا مغرب کی طرف، انہیں دونوں جگہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے مواقع میسر آئیں گے.اِنَّ اللهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ اللہ تعالیٰ ان مواقع کو وسعت دیتا چلا جائے گا اور ان لوگوں پر خدمت دین کی نئی نئی راہیں کھولتا چلا جائے
خطبات طاہر جلد ۲ 534 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء گا جو اس نیت سے سفر اختیار کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے مواقع تلاش کریں.اسی معنی کا دوسرا پہلو یہ بنے گا کہ وہ لوگ جو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر سفر اختیار کرتے ہیں خواہ وہ مشرق کی طرف منہ کریں یا مغرب کی طرف وہ دیکھیں گے کہ انہیں مشرق میں بھی اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل رہی اور مغرب میں بھی.رضائے باری تعالیٰ کوئی محدود چیز نہیں اللہ تعالیٰ اس رضا کو اپنے بندوں کے لئے وسعت دیتا چلا جاتا ہے.پس وہ اللہ کی رضا کو نئے نئے رنگ میں ظاہر ہوتا دیکھیں گے اور خدا تعالیٰ اسے وسعت دیتا چلا جائے گا.کس حد تک کس کے لئے اور کتنی وسعت دینی ہے ان امور کا فیصلہ فرمانا خدائے علیم کا کام ہے.نیت جتنی صاف اور پاک ہو گی، جذبہ جتنا گہرا اور شدید ہوگا، ارادے جتنے بلند ہوں گے، علیم خدا انہی کی نسبت سے اپنے خدمت کرنے والوں بندوں کے لئے مواقع بھی وسیع کرتا چلا جائے گا اور اپنی رضا کے اظہار میں بھی وسعت اختیار فرما تا چلا جائے گا.حالیہ سفر جو اسلام کی خدمت کی نیت سے خالصتاً لوجہ اللہ اپنے دل کو صاف اور پاک کرتے ہوئے ہم نے یعنی میں اور میرے ساتھیوں نے اختیار کیا اس میں اس آیت کے یہ دونوں مفہوم ہم پر خوب اچھی طرح روشن ہوئے.باوجود اس کے کہ آجکل کے زمانہ میں بکثرت خط و کتابت کے ذریعہ Telecommunication اور اخبارات کے ذریعہ دنیا کی خبریں ہر جگہ پہنچ رہی ہیں اور باوجود اس کے کہ ان علاقوں میں ہمارے مبلغین اور اگر وہ نہیں تو ایسے احمدی ان علاقوں میں موجود ہیں کہ جو اپنے جائزہ اور مطالعہ کے مطابق مرکز سلسلہ کو ہمیشہ مطلع رکھتے ہیں کہ وہاں کیا ہورہا ہے.خدمت دین کے کون سے مواقع میسر ہیں اس لئے بظاہر تو اس سفر کے ذریعہ کوئی نئی راہیں نظر نہیں آنی چاہئیں کیونکہ ہر جگہ احمدی آنکھ موجود ہے، ہر جگہ نظام جماعت موجود ہے اور ہر احمدی کے ذہن میں جو خدمت دین کا موقع ابھرتا ہے اس کی اطلاع مرکز کو کرتا رہتا ہے لیکن اس کے باوجود قرآن کریم نے جب یہ فرمایا کہ جب بھی تم للہ سفر اختیار کرو تو رضائے باری تعالیٰ کے نئے مواقع بھی تمہیں میسر آئیں گے اور اللہ ان مواقع میں وسعت دیتا چلا جاتا ہے تولازماً یہ حقیقت پوری ہونی تھی.چنانچہ ہم نے اس سفر میں یہی دیکھا کہ ربوہ میں رہتے ہوئے یا پاکستان میں بیٹھے ہوئے جو باتیں وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتی تھیں کہ اللہ کی خدمت کے یہ نئے راستے ہیں وہ ہم پر کھلتے چلے گئے.سنگار پور میں جہاں سے ہم نے سفر کا آغاز کیا وہاں بھی بالکل نئی نئی راہیں سامنے آئیں اور
خطبات طاہر جلد ۲ 535 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء مجی میں بھی جہاں دوسرا قدم رکھا خدا تعالیٰ کے فضل سے نئی نئی راہیں اور مواقع سامنے آئے اور اسی طرح آسٹریلیا میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت دین کے نئے نئے طریق اور نئے مقامات آنکھوں کے سامنے آئے اور اللہ تعالیٰ نے نئے اسلوب سمجھائے اسی طرح جب ہم سری لنکا پہنچے تو سری لنکا میں بھی خدا تعالیٰ نے خدمت دین کے مواقع میں حیرت انگیز طور پر وسعتیں پیدا فرما دیں.پس ہم نے اس پہلو سے بھی اس آیت کو بڑی شان کے ساتھ پورے ہوتے دیکھا اور اس پہلو سے بھی کہ ہر جگہ اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور فضل ، رحم اور پیار کے حیرت انگیز نمونے دکھاتا رہا.اللہ تعالیٰ نے ان احباب کو بھی جو وہاں موجود تھے اور ہم مسافروں کو بھی غیر معمولی رحمتوں اور فضلوں کے نشان دکھائے.پس ہم ان دو معانی میں اس آیت کی صداقت کا مشاہدہ کر کے واپس آ رہے ہیں.یہ بہت بڑی تفصیل ہے اور اس سفر کے دوران جن ممالک کا دورہ کیا گیا ان میں سے صرف ایک ملک کے حالات ہی اگر بیان کئے جائیں تو ایک لمبا مضمون بنتا ہے اس لئے میں نے ذہن میں یہ نقشہ بنایا ہے کہ آج آپ کو نبی سے متعلق کچھ باتیں بتاؤں گا اور وہ بھی چند ایک باتیں ہوں گی ساری تو بہر حال ممکن نہیں.بعض تفصیلی پروگرام بھی مختلف اوقات میں بنائے گئے ہیں.بعض امور جن کا ان سے تعلق ہے وہ ان کے سامنے کھولے جائیں گے اور اس کے بعض حصے جن کا تعلق عمومی جماعت سے ہے وہ ساری جماعت کے سامنے بیان کئے جائیں گے لیکن بہر حال ایک خطبہ میں تو نجی کے حالات اور وہاں کی مصروفیات پر روشنی ڈالنا بھی ممکن نہیں ہے.آپ اس بات سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ نجی میں مختلف ہدایات اور مشوروں اور خطابات کی جو کیسٹیں تیار ہوئی ہیں وہ ۶۶ گھنٹے کی ہیں جب کہ ساری کیسٹیں تو تیار نہیں ہوئیں بہت سی ایسی مصروفیات ہیں جو کیسٹ میں نہیں آتیں.پس اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ جہاں ۶۶ گھنٹے اہم موضوعات پر گفتگو ہوئی ہو یعنی ایسے امور پر جن میں وہاں کی جماعت کو یا ہمیں دلچسپی تھی کہ جماعت کو سمجھا ئیں وہ ایک یا آدھ گھنٹہ کے خطبہ میں کس طرح بیان ہو سکتی ہیں تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے احمدی دوستوں ، بچوں ، مردوں ، عورتوں اور بوڑھوں کو بہت اشتیاق ہے کہ میں کچھ باتیں ان کے سامنے بیان کروں اس لئے آج کے خطبہ کے لئے میں نے نجی کو موضوع بنایا ہے یعنی نجی کا بہت ہی مختصر تعارف اور بعض اہم باتیں جو ہمیں وہاں پیش آئیں اور ہمارے سامنے ابھریں وہ میں آپ کے سامنے بیان کروں گا.
خطبات طاہر جلد ۲ 536 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء فجی ایک چھوٹا سا ملک ہے جو Pacific Ocean یعنی بحرالکاہل کے درمیان واقع ہے.اس کے جزائر کی تعداد ۵۰۰ ہے لیکن آبادی اور اقتصادیات کا زیادہ تر انحصار چند جزیروں پر ہے جن میں سے دو بڑے بڑے اور بعض چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں.نجی کی آبادی پانچ لاکھ اسی ہزار ہے.آخری Census کے مطابق نجی کا کل رقبہ سات ہزار میل ہے اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ وہ ایک چھوٹی سی جگہ ہے.۵لاکھ ۸۰ ہزار کی آبادی میں سے چائینیز کی تعداد ۵ ہزار کے لگ بھگ ہے اور یورپین کی کچھ اس سے کم اس طرح متفرق اقوام کی تعداد ۱۲ ہزار کے لگ بھگ ہے.یورپین میں سے کچھ Mixed Races ( مخلوط نسلیں ) ہیں ان کی تعداد کم و بیش دس ہزار کے قریب ہے.اس کے علاوہ باقی آبادی میں معمولی اکثریت ہندوستانیوں کو حاصل ہے یعنی ہندوستانی نژاد جن میں پاکستانی علاقوں کے لوگ بھی شامل ہیں اور نصف سے کچھ کم فہین لوگ ہیں.فحسین کون ہیں ان سے متعلق مختلف مورخین نے مختلف آراء پیش کی ہیں.ان کی تاریخ یقینی تفصیل کے ساتھ محفوظ نہیں ہے بہر حال ماہرین نے مختلف پہلوؤں سے جو اندازے لگائے ہیں اس کے مطابق فجین قوم پولینیشین (Polynesian) اور ملائیشین کے امتزاج سے بنی ہے اور اس پر کچھ Negroid اثر بھی موجود ہے.دو بڑی قومیں ہیں.پیشین Polynesian قوم Pacific کے علاقوں میں آباد ہیں.پونیشین Polynesian اور ملائیشین دونوں کا دائرہ زیادہ تر انڈونیشیا سے شروع ہوتا ہے اور پھر آگے نبی تک چلا جاتا ہے.ملایا میں بھی یہی نسل آباد ہے.یہ لوگ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں اس سے متعلق ماہرین کی مختلف آراء ہیں.بعض کہتے ہیں کہ ان کا آغاز عرب سے ہوا، بعض کا خیال ہے کہ ہندوستان کے قدیم باشندے یا یوں کہنا چاہئے کہ مشرق وسطی کے قدیم باشندے جو Arian نسل سے تعلق رکھتے ہیں وہ بعد میں آ کر پہلے پہل انڈونیشیا میں آباد ہوئے، پھر وہاں سے پھیلنا شروع ہوئے لیکن جہاں تک فجی کا تعلق ہے اس میں دونوں طرف سے لوگ آئے ہیں، مشرق کی طرف سے اور مغرب سے بھی آئے ہیں اور ان کے خون کا امتزاج ہو گیا ہے.بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان کا Origin یا ان کا آغاز افریقہ سے ہوا تھا اور افریقہ میں بھی وہ خاص طور پر یوگنڈا کے بعض علاقوں کے نام بتاتے ہیں کہ وہ وہی ہم شکل نام ہیں جو یہاں پائے جاتے ہیں لیکن ان سب آراء پر غور کرنے کے بعد آج کل کے محققین جو نتیجہ
خطبات طاہر جلد ۲ 537 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۳ء نکالتے ہیں وہ یہی ہے کہ یہ قوم مختلف قوموں اور مختلف قسم کے خون کے امتزاج سے پیدا ہوئی ہے اور کسی ایک قوم کی طرف اسے منسوب نہیں کیا جاسکتا.کچھ کیریکٹر پولینیشین (Polynesian) بحر الکاہل کے جزیروں میں آباد قو میں ) ہیں، کچھ ملائیشین ہیں اور غالبا ملائیشین اثر زیادہ ہے.خیال یہ ہے کہ پہلے ملائیشین تھے بعد میں Polynesian آ گئے اور ان سے ملاوٹ ہوئی اور کچھ Negroid اثر ہے اس لئے انہیں نہ تو سفیدوں میں شمار کیا جا سکتا ہے، نہ کالوں میں ، نہ زردوں میں ، ان کے بیچ کی کوئی چیز ہے.بال گھنگھریالے، رنگ گندمی سے کچھ گہرا اور بعض جگہ کھلتا ہوا دکھائی دیتا ہے، کشادہ سینے، قد لمبے، بڑی مضبوط قوم ہے اور مزاج کی بھی اچھی ہے.اس میں وحشت زیادہ نہیں پائی جاتی اگر چہ پرانے زمانوں میں یہاں آدم خور بھی پائے جاتے تھے.تعلیم یافتہ طبقہ بہت سمجھے ہوئے مزاج کا ہے.ضد اور تعصب نہیں ہے.دلائل سن کر فوراً اور بے تکلف تسلیم کرتے ہیں.یہ قوم بالعموم پسماندہ ہے اور ان کے بہت سے حصے ابھی تک جنگلی زندگی گزار رہے ہیں.وہ مختلف قبائل میں بٹے ہوئے ہیں لیکن انگریزوں نے انہیں آزاد کرنے سے پہلے ایسی کانسٹی ٹیوشن دے دی کہ جس کے نتیجہ میں ہمیشہ اس بات کی ضمانت ہو کہ زمینوں کی اصل ملکیت بھی فجین کی رہے گی اور حاکم بھی نہین ہی رہیں گے اور کانسٹی ٹیوشن کے مطابق فحمین کے حقوق کی غیر معمولی حفاظت کی گئی ہے اس لئے یہ قوم ان لوگوں کی نظر میں جو یہاں اسلام پھیلانا چاہیں، بہت ہی اہم ہے.ہندوستانی آبادی کے لوگوں میں اکثریت ہندوؤں کی ہے جن میں ایک حصہ سکھوں کا ہے اور ہندوؤں میں سے سناتن دھرمی زیادہ ہیں اور آریہ نسبتاً کافی کم ہیں اور مسلمانوں کی تعداد کل آبادی کی آٹھ فیصد ہے.وہاں کا ماحول تبلیغی نقطہ نگاہ سے بہت بہترین ہے کیونکہ ان میں باہمی محبت اور سلوک پایا جاتا ہے اور ان میں مذہبی اشتعال انگیزیاں اور منافرتیں نہیں ملتیں اور ہندوسکھ اور مسلمان سارے بڑی محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون سے رہ رہے ہیں.اسی طرح عیسائیوں کی (یورپین میں سے نحین میں سے بھی) ایک بہت بڑی تعداد مسلمانوں اور ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ مل جل کر رہ رہی ہے.فجیئز کے قدیم مذاہب کی شکلیں کچھ افریقین مذاہب سے ملتی ہیں اور ان میں عمومی طور پر کچھ شرک پایا جاتا ہے جو مذاہب کے بگڑنے کے نتیجہ میں رفتہ رفتہ راہ پا لیا کرتا ہے.مجینز (Fijians) کا ایک مذہب بیان کرنا ممکن نہیں.وہ خدا کے قائل ہیں اور ایک تخلیقی روح
خطبات طاہر جلد ۲ 538 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۳ء کے بھی قائل ہیں.اس کے علاوہ قبائل کے اپنے اپنے اولیاء ہیں جنہیں خدا بنالیا گیا ہے اور انہیں بہت اہمیت حاصل ہے.بعض اوقات نیشنل ہیرو کو جس نے کسی زمانہ میں اپنی قوم کی بڑی خدمت کی ہو بہت اونچا مقام دے دیا جاتا ہے.جس طرح مردہ پرستی کا رجحان دنیا میں ہر جگہ پایا جاتا ہے، وہاں بھی پایا جاتا ہے.تو وہاں بھی رفتہ رفتہ ان مردوں کو خدا کا مقام دے دیا گیا ہے.کوئی مردہ جنگ کے لئے مفید ہے کوئی بارشوں کے لئے اور کوئی کھیتی باڑی میں برکت دینے کے لئے غرض کہ کئی قسم کے تو ہمات ہیں جس نے قو م کو گھیر رکھا ہے.محبین جادوگری کے بہت قائل ہیں اور آج بھی اس قوم میں پرانے زمانہ کی روایات کے مطابق جادوگر موجود ہیں جو برکت دیتے ہیں اور لوگ ان سے مشکلات حل کرواتے ہیں نیز اپنے دشمنوں کے خلاف تعویذ حاصل کرتے ہیں.غرضیکہ جہالت کی جتنی باتیں ممکن ہو سکتی ہیں وہ ساری اس قوم میں موجود ہیں.اس ملک میں مجھے احمدیوں کی تعداد آٹھ ہزار بتائی گئی لیکن میرے نزدیک اس سے کم ہے.چند ہزار کہہ سکتے ہیں لیکن جو احمدی موجود ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑھنے کی غیر معمولی طاقتیں موجود ہیں.سب سے اہم بات جو احمدیوں سے متعلق قابل ذکر ہے وہ یہ ہے کہ تربیت حاصل کرنے کا مادہ بہت پایا جاتا ہے.جب ہم وہاں پہنچے تو اس وقت ان کی کیفیت بالکل مختلف تھی اور وہاں بہت جلدی یہ محسوس ہوا کہ باوجود اس کے کہ وہاں ایک لمبے عرصہ سے مبلغین موجود رہے ہیں لیکن نظام جماعت کو سمجھانے کے سلسلہ میں بہت ہی معمولی کام ہوا ہے اور اکثر شکایتیں جو نجی کی جماعت کے بعض دوستوں سے متعلق یہاں آیا کرتی تھیں ان کی بنیادی وجہ ان کے ایمان کی کمزوری نہیں بلکہ نظام جماعت سے لاعلمی ہے اور یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ مبلغین نے یہ محنت اور کوشش ہی نہیں کی کہ انہیں نظام جماعت سے متعلق کچھ باتیں بتا ئیں.اس میں بعض صورتوں میں ان کا قصور نہیں ہے کیونکہ ان کی توجہ جاتے ہی زیادہ تر تبلیغی کاموں میں لگ جاتی ہے اور ربوہ قادیان کے تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے ان کے احساس کا معیار بڑا بلند ہو چکا ہوتا ہے.ان کے دماغ میں نظام جماعت اس طرح رچ چکا ہوتا ہے کہ اس کے خلاف معمولی سی بات سے وہ مشتعل ہو جاتے ہیں، گھبرا جاتے ہیں اور پریشان ہو جاتے ہیں لیکن ہمارے مبلغین نے یہ نہیں سوچا ( ان کی غیرت نظام جماعت لئے
خطبات طاہر جلد ۲ 539 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء تو اپنی جگہ ٹھیک ہے) کہ فجین کے متعلق یہ تو معلوم کر لیں کہ انہیں نظام جماعت کا علم بھی ہے کہ نہیں ؟ ان سے یہ توقع رکھنا کہ جس طرح قادیان کے تربیت یافتہ اور قدیمی بزرگوں کے پالے ہوئے لوگ ہیں ویسے ہی وہ بھی نمونہ دکھائیں گے، جب تک انہیں بتائیں گے نہیں کیسے دکھا ئیں گے؟ صرف میرا ہی یہ تاثرنہیں تھا بلکہ میرے ساتھیوں کا بھی یہی تاثر تھا کہ اکثر شکائتیں ان کی نا سمجھی اور لاعلمی کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہیں.چنانچہ جب ہم نے ان سے اس موضوع پر گفتگو شروع کی اور ساری شکایات سنیں حالات کا تجزیہ کیا تو انہیں اس معاملہ میں بالکل بے قصور پایا.انہوں نے اپنے اندر حیرت انگیز طور پر تبدیلی پیدا کی اور اخلاص میں اس تیزی کے ساتھ ترقی کی کہ یہ چیز الفاظ میں بیان نہیں ہوسکتی.ان کی فدائیت کا جذ بہ کسی پہلو سے بھی پاکستان کے مخلص احمدیوں سے کم نہیں ہے.ان میں خدمت کی روح نہ صرف موجود ہے بلکہ جب ہم نے اسے چھیڑا تو یوں لگتا تھا کہ جیسے وہ چھلک چھلک کر کناروں سے باہر نکل رہی ہے.وہ لوگ تبلیغ کے لئے مستعد ہیں اور خدا کی خاطر ہر چیز قربان کرنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں.شروع شروع میں اس قدر بے اعتنائی کا رنگ تھا اور ان کی آنکھوں میں نا واقفیت کی وجہ سے جو ایک اجنبیت کی پائی جاتی تھی، چند دن کے بعد ہی جب ہم واپس آئے ہیں تو ان میں گہری محبت نے جگہ لے لی اور ان کی آنکھوں ، اداؤں اور چہروں کے آثار میں نہایت گہرا خلوص نظر آنے لگا اور ان کی پیشانیوں سے پختہ ارادے ظاہر ہونے لگے اور ہم نے مشاہدہ کیا کہ ان کی نمازیں جو پہلے خشک تھیں پھر تر ہونے لگیں اور بکثرت ایسے احمدی دیکھے جو پہلے ہمارے ساتھ ایک ہلکی سی ناواقفیت سے نماز پڑھتے تھے.پھر ان کی کیفیت میں ایسی گہری تبدیلی پیدا ہو گئی کہ ان کی سجد گا ہیں آنسوؤں سے بھیگ جاتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے انہیں عشق کی حد تک بڑی گہری محبت ہے اور جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ جب ہم نے انہیں قریب سے دیکھ کر ان کی تربیت شروع کی تو چند دن کے اندر اندر ہی یوں معلوم ہوتا تھا کہ ایک نئی قوم وجود میں آگئی ہے.چنانچہ جب یہاں سے اوکاڑہ کے ناصر احمد شہید کی خبر وہاں پہنچی تو ان لوگوں کی جو کیفیت تھی وہ میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا اور ان کے امیر نے الوداع کے وقت جو آخری تقریر کی اس میں اس
خطبات طاہر جلد ۲ 540 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء بات کا بھی ذکر تھا.یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس جماعت نے جواثر قبول کیا ہے اس کا وہ اظہار کرنا چاہتے ہیں.اس کے علاوہ بھی کئی موقعوں پر انہوں نے یہ بیان کیا کہ ہم غفلت کی حالت میں رہے ہیں جس کے لئے ہم کثرت سے استغفار کر رہے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری گزشتہ غفلتیں معاف فرمائے اور ہم نے جونئی زندگی حاصل کی ہے نیا جنم لیا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں ہمیں بیش از پیش ترقیات عطا فرماتا چلا جائے.انہوں نے مجھ سے کہا کہ اب تو جو ہماری کیفیت ہے اسے ہم الفاظ میں بیان نہیں کر سکتے ہمارا ایک نیا وجود ابھر آیا ہے اور آج ہمیں معلوم ہو چکا ہے کہ احمد بیت کیا ہے اور اس علم کے بعداب ہمارے جذبات یہ ہیں کہ ہمارا بچہ بچہ ہماری عورتیں ، ہمارے بوڑھے ، ہمارے جوان شہادت کے لئے بخوشی تیار ہیں.انہوں نے کہا کہ ہم مبالغہ نہیں کر رہے، ہم یقین دلاتے ہیں کہ اسلام کی خاطر ہم سب کی جانیں حاضر ہیں.اگر وہ بکریوں کی طرح ذبح کی جائیں تب بھی ہمیں کچھ بھی پرواہ نہیں ہوگی.ہمارے اموال ہماری عزتیں حاضر ہیں اور اس یقین کے ساتھ آپ واپس لوٹیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خدمت کی جس راہ پر بھی آپ بلائیں گے ہم حاضر ہوں گے.ایسا روح پرور وہ نظارہ تھا کہ اگر چہ میرا دل پہلے بھی ان کی زبان سمجھ رہا تھا جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے لیکن جب الفاظ میں انہوں نے بیان کیا تو میری توجہ اس واقعہ کی طرف پھر گئی جو عظمت میں اس سے بہت بلند ہے لیکن دراصل اسی کے صدقے اس قسم کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں.جنگ بدر کا وہ منظر جب کہ آنحضرت ﷺ نے اپنے غلاموں سے پوچھا تھا کہ مجھے مشورہ دو، یہ ایک لمبا واقعہ ہے جو بار بار آپ سن چکے ہیں لیکن پھر بھی اس کا مزہ آتا ہی رہتا ہے.اس کا باقی متعلقہ حصہ یہ ہے کہ جب انصار نہیں بولے اور پھر حضور اکرم ﷺ نے بار بار پوچھا کہ مجھے مشورہ دوتو تب انصار کے ایک نمائندہ نے کہا یا رسول اللہ ! شاید آپ کی مراد یہ ہے کہ جب آپ ابتدا میں تشریف لائے تو اس وقت ہم نے یہ معاہدہ کیا تھا کہ مدینہ کے اندر تو ہم آپ کے ساتھ لڑیں گے لیکن مدینہ سے باہر نکل کر نہیں لڑیں گے.شاید اس معاہدہ کی حضور کی توجہ منتقل ہورہی ہے امر واقعہ یہ ہے کہ اس وقت تک ہم آپ کی ذات اور مرتبہ کو پہچانتے ہی نہ تھے، اس وقت ہم اسلام سے ناواقف تھے، اب تو
خطبات طاہر جلد ۲ 541 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء ہماری کیفیت یہ ہے کہ ہم آپ کے آگے بھی لڑیں گے، آپ کے پیچھے بھی لڑیں گے، آپ کے دائیں بھی لڑیں گے، آپ کے بائیں بھی لڑیں گے اور ممکن نہیں کہ کوئی ہاتھ کوئی وجود، کوئی جسم آپ تک پہنچ سکے جب تک وہ ہماری لاشوں کی روند تا ہوا نہ آئے.(الجامع الصحیح البخاری کتاب المغازی باب اذ تستعيثون ربکم) یہ ایک بہت ہی عظیم الشان واقعہ ہے اور ایسا پیارا جواب ہے کہ تاریخ عالم میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی.اسی نوعیت کے چھوٹے چھوٹے واقعات ان عظیم واقعات کی برکت سے پیدا ہور ہے ہیں.حضرت محمد مصطفی ﷺے اور آپ کے بچے غلام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تعارف صلى الله جب پوری شان کے ساتھ کسی قوم کے ساتھ ہو تو پھر ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں.پس وہ لوگ بھی جب یہ بیان کر رہے تھے تو وہ میری نظر میں ایسا ہی مقام رکھتے تھے کہ جن پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حیثیت اور مرتبہ پوری طرح روشن نہ تھا، احمدی ہونے کے باوجود بھی مقام مسیحیت ان پر پوری طرح روشن نہیں تھا اور وہ احمدیت کی روح کو اچھی طرح نہیں سمجھتے تھے.چنانچہ جب ان پر یہ روشن ہوا تو یہ قربانی کا جذبہ ایک طبعی امر اور قدرتی چیز تھی جس نے ظاہر ہونا ہی ہونا تھا، ایک قانون تھا جسے کوئی بدل نہیں سکتا.پس سب سے بڑا پھل جو لے کر ہم لوٹے ہیں.جس سے دل کناروں تک اللہ تعالیٰ سے راضی ہے وہ یہی ہے کہ جماعت احمدیہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک حیرت انگیز نمایاں، پاک اور عظیم الشان انقلابی تبدیلی واقع ہو رہی ہے اور وہاں کے نو جوان ، بوڑھے اور بچے خدمت دین کے جذبہ سے اس قدر سرشار ہوئے کہ انہیں دیکھنے سے ایمان تازہ ہونے لگا.چنانچہ جب ہم سفر سے روانہ ہوئے تو اس وقت جو ان کے دلوں کی کیفیت تھی حقیقت ہے کہ وہ الفاظ میں بیان نہیں ہو سکتی.اخلاص کا ایک عجیب سمندر تھا اور ان کی آنکھیں یہ پیغام دے رہی تھیں کہ ہم ہر وہ بات یاد رکھیں گے جو آپ نے ہمیں کہی.ہم اپنے تصور میں بھی یاد رکھیں گے، اپنے دل میں بھی یادرکھیں گے، اپنے عمل میں بھی یادرکھیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو ہمیشہ ہم سے اچھی خبریں آئیں گی.جب ہم آسٹریلیا پہنچے تو نبی کے ایک نوجوان جن کی معمولی اقتصادی حالت تھی اور انہیں اتنی توفیق نہیں تھی کہ وہ کرایوں میں اتنی رقمیں خرچ کریں، وہ ہمارے پیچھے پیچھے آسٹریلیا پہنچ گئے.جب پوچھا کہ آپ کس طرح آئے تو انہوں نے کہا کہ میرا دل اس قدر بے قرار ہو گیا تھا کہ برداشت نہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 542 خطبه جمعه ۲۱ /اکتوبر ۱۹۸۳ء ہورہا تھا اس لئے میں نے سوچا کہ خواہ کچھ بھی ہو آسٹریلیا پہنچ جاؤں اس طرح کچھ اور ساتھ رہنے کا موقع مل جائے گا.وہاں وہ مکمل طور پر نہ صرف ساتھ رہے بلکہ خدمت کا اس قدر شوق تھا کہ مقامی خدام سے بھی منت کر کے اور مانگ کر وقت لے لیا تھا اور پھر دوبارہ والنٹیئر ز میں شامل ہو گئے اور وہاں انہوں نے بڑی حکمت اور محبت سے دن رات جماعت کی خدمت کی.پس یہ وہ کیفیات ہیں جن کا بیان کرنا بھی ممکن نہیں اور ان کا شکر ادا کرنا بھی ناممکن ہے.میں یہ باتیں آپ کو اس لئے بتا رہا ہوں کہ آپ بھی خاص طور پر اپنے دلوں کو ٹولیں اور توجہ کریں.خدمت دین کے لئے نئی نئی تو میں آگے بڑھنے کو تیار ہورہی ہیں اور بڑا بلند اور پختہ عزم رکھتی ہیں.اب آپ کا ان سے مقابلہ ہونا ہے اس لئے باوجود اس کے کہ جماعت احمدیہ پاکستان خدا کے فضل سے بڑی مخلص ہے اور اخلاص میں مزید ترقی کر رہی ہے میرا یہ فرض ہے کہ میں آپ کو بر وقت متنبہ کر دوں کہ آپ لاعلمی میں نہ بیٹھے رہیں کہ بعض دور کی جماعتوں سے آپ کا مقابلہ ہے جن کی تربیت نہیں ہے.اچھی تربیت نہ ہونے کے باوجود اب وہ اس بات کے لئے تیار کھڑی ہیں کہ پورے زور سے آپ کے ساتھ دوڑیں اور فَاسْتَبِقُوا الْخَيْراتِ کی دوڑ میں حصہ لیں اور ساتھ ہی دعاؤں کی طرف بھی توجہ کریں کیونکہ اس عظیم الشان کام کے لئے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے سپرد فرمایا ہے دعاؤں کی بے انتہا ضرورت ہے.یہ تو طویل داستان ہے میں نے سوچا ہے کہ باقی حصہ انشاء اللہ تعالیٰ اجتماع پر بیان کروں گا.جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا نجی کی باتیں بھی ایک آدھ گھنٹہ میں بیان کرنی ناممکن ہے.آج انشاء اللہ اجتماع ہوگا.نمازیں جمع ہوں گی اور اس کے بعد ہم ساڑھے تین بجے مقام اجتماع میں اکٹھے ہوں گے.نجی کے مضمون کا بقیہ دوسرا حصہ میں وہاں بیان کروں گا.اس وقت تو میں صرف دعا کی تحریک کرنا چاہتا ہوں.دعاؤں کی شدید ضرورت ہے کیونکہ جیسا کہ ہمارے سفر کے ایک ساتھی چوہدری انور حسین صاحب نے واپس آکر تبصرہ کیا بالکل وہی کیفیت میں اپنے دل کی پاتا ہوں.انہوں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ مجھے تو یوں لگتا ہے کہ ہم ذمہ داریوں کے پہاڑ لے کر واپس لوٹے ہیں.حقیقت یہ ہے کہ ایک ایک ملک میں جو خدمت کے نئے مواقع میسر آئے ہیں وہ بہت وسیع
خطبات طاہر جلد ۲ 543 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء ہیں اور ذمہ داریاں بہت بوجھل محسوس ہوتی ہیں.اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ اس چھوٹے سے سفر ہم ذمہ داریوں کے پہاڑ سمیٹ کر واپس آئے ہیں.پہاڑ کا بوجھ اٹھانا تو ہمارے بس کا کام نہیں اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی ہے جو فضل فرمائے اور ہمیں ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے.پس خاص طور پر یہ دعائیں کریں کہ اللہ تعالی بیرونی احباب جماعت کے اخلاص کو بھی بڑھائے اور ہمیں بھی کسی صورت میں ان سے پیچھے نہ رہنے دے، ان کے اخلاص کو بھی دوام بخشے اور ہمارے اخلاص کو بھی دوام بخشے، باہر والے احمدیوں کا بھی ہر قدم ترقی کی طرف جاری رہے اور ہمارا ہر قدم بھی ہمیشہ ترقی کی طرف جاری رہے.اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور فضل کا سلوک فرماتے ہوئے ہماری کمزوریوں سے پردہ پوشی فرمائے ، ہماری غفلتوں سے درگزر فرمائے اور ہماری طاقتوں کو بڑھاتا چلا جائے اور اپنے فضلوں کو اس کے مقابل پر اتنا زیادہ بڑھا دے کہ ہماری کوشش کا نتیجہ میں کچھ بھی دخل نظر نہ آئے بلکہ یوں محسوس ہو کہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو پورا ہوتا نظر آ رہا ہے.دعا کا یہ حصہ خاص طور پر قابل توجہ ہے اس لئے میں اس مضمون کو ذرا سا کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.انسان کی کوششیں جتنی بھی بڑھ جائیں حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے سوا ان کو پھل نہیں لگ سکتے اور جہاں تک خدا تعالیٰ کے دین کی خدمت کا تعلق ہے وہاں یہ حقیقت اور بھی زیادہ قطعی طور پر ہمارے سامنے آتی ہے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا کی کوششوں میں تو کوشش اور پھل میں ایک نسبت ہوتی ہے مگر دین کی خدمت میں اگر آپ بنظر غائر دیکھیں تو حقیقتا کوئی بھی نسبت نظر نہیں آتی اس لئے کوششوں پر انحصار کا کوئی سوال ہی باقی نہیں رہتا.ہاں یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہماری استطاعت کے مطابق ہمیں کوششوں کی ضرور تو فیق عطا فرمائے تا کہ ہمارے دل بھی راضی ہوں کہ ہم نے خدا کی خاطر کچھ کیا ہے اور جتنی توفیق تھی اتنا ضرور کر دیا ہے لیکن یہ بات یا درکھیں کہ اگر خدا تعالیٰ صرف ہماری کوششوں کا ہی پھل عطا کرے گا تو ہم دنیا میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے اور خواہ ان کوششوں کو کتنی ہی وسعت مل چکی ہو کام اتنے عظیم الشان اور اتنے وسیع ہیں اور بظاہر ایسے ناممکن نظر آتے ہیں کہ آپ میں سے ہر بچہ ، ہر مرد اور ہر عورت اپنا سب کچھ خدا کی راہ میں جھونک دے تب بھی وہ انقلاب ممکن نہیں جو ہم بر پا کرنا چاہتے ہیں.اس لئے اللہ کا فضل ہی ہے جو سب کچھ
خطبات طاہر جلد ۲ کریگا.544 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء پس یہ دعا کریں کہ اے خدا! تو ہمیں تسکین قلب کی خاطر تو فیق عطا فرما کہ ہم سب کچھ تیری راہ میں ڈال دیں لیکن جو نتیجہ پیدا فرماوہ اپنے فضل کا نتیجہ پیدا فرما گویا ہماری کوششوں کی کوئی حیثیت ہی نہیں جو کچھ ملے خالصتاً تیری رحمت اور تیرے فضل کے نتیجہ میں ملے.پس یہ وہ دعا ہے جس کی طرف میں جماعت کو مختصراً توجہ دلاتا ہوں.اس دعا کے نتیجہ میں ایک تو دل فورا صاف ہوتا رہے گا اور کسی قسم کا تکبر پیدا نہیں ہوگا اور جب بھی خدا تعالیٰ فضل فرمائے گا اس وقت حمد کی طرف ہی توجہ مائل ہو گی انانیت کی طرف توجہ مائل نہیں ہوگی اس لئے اس دعا سے ہماری بڑی گہری تربیت ہوگی اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہی اصل دعا ہے جو کرنی چاہئے.میں امید کرتا ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ آپ ان دعاؤں میں درد بھی پیدا کریں گے.صرف منہ سے نکلی ہوئی دعائیں نہ ہوں بلکہ دل کی گہرائی سے نکلی ہوئی دعا ئیں ہوں پیار سے نکلی ہوئی دعائیں ہوں.امر واقعہ یہ ہے کہ دنیا بڑی تیزی سے ہلاکت کی طرف جارہی ہے اگر ہم نے اپنی دعاؤں میں جان پیدا نہ کی، اللہ تعالیٰ کی محبت کے نتیجہ میں دعائیں نہ نکلیں تو پھر اس دنیا کو ہلاکت سے بچانے والا کوئی نہیں.اس لئے خصوصیت کے ساتھ اپنے اندر یہ تبدیلیاں پیدا کر یں.دعا وہ کریں جو دل کی گہرائی سے نکلے صرف ہونٹوں سے نہ نکل رہی ہو، دعا کی ایسی کیفیت پیدا کر لیں کہ جس کے نتیجہ میں آپ کے جذبات ہی دعا بن چکے ہوں.آپ کے دل میں جو اللہ کا پیار ہو وہ ہر وقت دعا بنا رہے اور بھاپ کی طرح اڑتا رہے جس طرح سمندروں سے بخارات از خود اٹھتے رہتے ہیں ویسی کیفیتیں پیدا کر لیں کہ سوتے ہوئے بھی اور جاگتے ہوئے بھی دعا بلند ہورہی ہو اور توجہ کا مرکز ہی دعا بن جائے.اگر ہم ایسا کر سکیں اور خدا کرے کہ ہم ایسا کرسکیں تو یہ ذمہ داریوں کے جتنے بھی پہاڑ ہم اٹھا کر لائے ہیں آپ دیکھیں گے اور آپ کو ایک عجیب انقلاب نظر آئے گا اور یوں معلوم ہوگا کہ یہ پہاڑ نہیں بلکہ رائی کے دانے تھے جن کا کوئی بھی بوجھ باقی نہیں رہا اور سارے معاملات اس آسانی سے حل ہونے شروع ہو جائیں گے کہ حیرت ہوگی کہ یہ کیسے ممکن ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ہم سے اتنے عظیم الشان کام لے لئے.پس دعا ہی ہے جو یہ انقلاب برپا کرے گی.اللہ تعالیٰ ہمیں دعا کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد ۲ 545 خطبه جمعه ۲۱ اکتوبر ۱۹۸۳ء خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: ایک دعا کا اعلان کرنا ہے مکرم میاں محمد ابراہیم صاحب جمونی جو امریکہ میں بہت دیر تک خدمت دین کی توفیق پاتے رہے ان کی آنکھوں کی بینائی پر اثر پڑ گیا تھا.وہاں ان کا آپریشن ہوا جب یہاں واپس بلایا گیا تو ایک آنکھ میں کوئی نقص تھا.اس کے آپریشن کے لئے چند دن ہوئے آپ راولپنڈی گئے تھے وہاں سے رات فون پر اطلاع ملی ہے کہ آپریشن سے کچھ عرصہ پہلے ہی دل کا دورہ ہوا.چنانچہ اب ( Intensive care) کے وارڈ میں ہیں اور ابھی جمعہ پر آنے سے پہلے بہت پریشانی کا فون آیا تھا کہ ڈاکٹر پریشان ہیں اور ابھی تک حالت سنبھلی نہیں.احباب جماعت خاص طور پر میاں محمد ابراہیم صاحب کی صحت کاملہ عاجلہ کے لئے دعا کریں.روزنامه الفضل ربوه ۱۵ جنوری ۱۹۸۴ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 547 خطبه جمعه ۲۸ / اکتوبر ۱۹۸۳ء تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان ( خطبه جمعه فرموده ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورۂ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا: آج میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی دی ہوئی توفیق کے مطابق تحریک جدید کے نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ پر اس سال فضل اور احسان کی جو بارشیں برسائیں ان میں سے ایک حصہ تحریک جدید نے بھی وصول کیا اور جس طرح جماعت کے دیگر شعبوں میں ہر پہلو سے ہر ملک میں غیر معمولی ترقیات نصیب ہوئیں، تحریک جدید کو بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی کے میدان میں بہت آگے بڑھنے کی توفیق عطا ہوئی.اب تک جو اعداد و شمار موصول ہو چکے ہیں ان کو دیکھ کر دل اللہ کی حمد سے اور بھی زیادہ بھر جاتا ہے.چنانچہ جیسا کہ میں نے بار ہا بیان کیا ہے ہمارے ظرف محدود ہیں اور اللہ کی حمد بہت زیادہ اور بڑی وسیع ہے.اس کے احسانات اتنے زیادہ ہیں کہ وہ ہمارے دل میں سما نہیں سکتے اس لئے یہ ناممکن ہے کہ الفاظ میں ان کا شکریہ ادا کیا جاسکے، اعمال میں ان کا شکریہ ادا کیا جا سکے، احساسات میں اور تصورات میں ان کا شکریہ ادا کیا جا سکے.صرف ایک بے حسی کا احساس پیدا ہوتا ہے، کم مائیگی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور ہمارے شکر کا خلاصہ یہی احساس ہے اپنے عجز کا اور اپنے انکسار کا اور اپنی کم مائیگی کا کہ اے خدا! تیرے احسانات ہماری طاقت سے بڑھ کر آگے آگے دوڑ رہے ہیں اور ناممکن ہے کہ کسی پہلو
خطبات طاہر جلد ۲ 548 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء سے بھی یعنی زبان سے تصور سے عمل سے، کسی لحاظ سے بھی ہم تیرے شکر کا حق ادا کرسکیں.تحریک جدید کے گزشتہ سال کے اعلان کے وقت میں نے پاکستان کے احباب جماعت کو یہ توجہ دلائی تھی کہ چونکہ اخراجات بڑھ رہے ہیں ، روپے کی قیمت کم ہو رہی ہے اور تنخواہوں میں بھی نمایاں اضافہ کرنا پڑ رہا ہے اس لئے وہ اپنے وعدوں کو تمیں لاکھ تک پہنچا دیں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے بڑا فضل فرمایا اندرون پاکستان تحریک جدید کے وعدے خدا تعالیٰ کے فضل سے ۷ ۲۴٫۰۶٫۴۷ روپے سے بڑھ کر ۳۰,۴۷٫۴۷۲ روپے ہو گئے.اس کے مقابل پر وصولی کی کیفیت بہت خوشکن ہے.گزشتہ سال اس تاریخ تک وصولی ۶۵۰ ۱۳۹۱ روپے تھی ، اس کے مقابل پر امسال وصولی ۲۱٫۸۹٫۷۶۴ روپے ہے.بقیہ وصولی اس سال کے اس مہینے میں اور بعد کے مہینوں میں یعنی جنوری سے پہلے پہلے انشاء اللہ پوری ہو جائے گی کیونکہ گزشتہ سالوں میں یہی دستور رہا ہے کہ بعض دفعہ جماعتوں میں وصولی ہو تو جاتی ہے لیکن اطلاعات ذرا دیر سے آتی ہیں اور کچھ وصولیاں پیچھے بھی رہ جاتی ہیں.بہر حال گزشتہ سال ۱۳٫۹۱,۶۵۰ کی وصولی کے مقابل پر وصولی ۲۱٫۸۹,۷۶۴ روپے تک پہنچ گئی تو چونکہ اس سال وعدوں کے مقابل پر وصولی کی رفتار گزشتہ سال سے تدریجاً بھی زیادہ ہے اس لئے ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ میں لاکھ کا یہ بجٹ نہ صرف پورا ہو جائے گا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ جائے گا.علاوہ ازیں میں نے دفتر سوم کے متعلق یہ تحریک کی تھی کہ ہماری نئی نسلوں میں خدا کے فضل سے ایسی بہت بڑی تعداد بالغ ہو رہی ہے جو تحریک جدید کے کسی دفتر میں شامل نہیں ہو سکی.چنانچہ اس سلسلہ میں میں نے لجنہ اماء اللہ کے اوپر ذمہ داری ڈالی تھی کہ وہ دفتر سوم میں اضافہ کی خصوصیت کے ساتھ کوشش کریں.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا.گزشتہ سال تحریک جدید کے چندہ دہندگان کی تعداد ۲۷٫۲۰۹ تھی جبکہ امسال لجنہ اماءاللہ کی خصوصی کوشش کے نتیجہ میں یہ ۳۹٫۵۹۹ ہوگئی ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس سال ۱۲۳۹۰ از ائد احمد یوں کو تحریک جدید میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی.لجنہ نے بڑی ہمت کی ہے خصوصاً کراچی ، راولپنڈی، ربوہ ، فیصل آباد، لاہور ، سیالکوٹ ، خان پور اور کھاریاں کی لجنات نے بہت محنت سے کام کیا ہے.مجھے سب سے زیادہ خوشی ان چندہ دہندگان کی تعداد کے بڑھنے کی ہے کیونکہ یہ وہ لوگ تھے جو ایک نیکی سے محروم تھے ، یہ ۱۲۳۹۰ احمدی جو پہلے تحریک جدید کے چندہ میں شمولیت سے محروم تھے محض خوشخبریوں میں شامل ہوا
خطبات طاہر جلد ۲ 549 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۳ء کرتے تھے اور قربانیوں میں شامل نہیں تھے.اب اللہ تعالیٰ نے ان پر بہت بڑا احسان فرمایا ہے کہ ان کو اس عظیم قربانی میں حصہ لینے کی توفیق بخشی ہے اور جب نیکی کی ایک دفعہ توفیق مل جائے تو یہ ایک تجربہ ہے اور قانون قدرت ہے کہ پھر لا زما آگے بڑھنے کی توفیق ملتی ہے.یہ وہ خوش قسمت ہیں جن کو اس سال تحریک جدید میں شمولیت کی توفیق ملی.انشاء اللہ وہ آئندہ بھی اپنے رب کریم سے اس سے بہت بڑھ کر توفیق پاتے رہیں گے.جماعت احمدیہ کی قربانی کرنے والی فوج میں اس غیر معمولی اضافہ پر ہم اللہ تعالیٰ کے بے حد احسان مند ہیں اور جتنا بھی شکر کریں کم ہے.ایک تحریک میں نے کھاتوں سے متعلق کی تھی کہ دفتر اول کے جو بزرگ ابتدائی قربانیوں میں شامل ہوئے تھے ان کے نام ایسے نہیں کہ وہ بھلا دیئے جائیں.میں نے ایسے بزرگوں کے ورثا کو توجہ دلائی تھی کہ وہ اپنے فوت شدہ بزرگوں کے نام کو قیامت تک زندہ رکھنے کے لئے مرحومین کی طرف سے چندے ادا کرتے رہیں تا کہ دنیا ان کو ہمیشہ ہمیش کے لئے یادر کھے کہ یہ وہ پہلے پانچ ہزار تھے جنہوں نے تمام دنیا میں اسلام کی فتح کی داغ بیل ڈالی اور عمر بھر وفا کے ساتھ اور غیر معمولی تکلیفیں اٹھا کر بھی انہوں نے قربانیاں کیں.چنانچہ میرے توجہ دلانے پر اس تحریک میں حصہ تو لیا گیا ہے لیکن ابھی اس میں مزید گنجائش موجود ہے.ایسے ۲۰۰ فوت شدگان تھے جن کے چندے بند ہو چکے تھے لیکن ان کے ورثا کو اللہ تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی ، انہوں نے مرحومین کے دوبارہ کھاتے جاری کروائے اور اب ان کے کھاتے انشاء اللہ تعالیٰ جیسا کہ ان کے ورثا نے عہد کئے ہیں ہمیشہ ہمیش کے لئے جاری رکھے جائیں گے.اس میں مشکل یہ ہے کہ تحریک جدید کے بہت سے چندہ دہندگان ایسے تھے جن کے ورثا کے متعلق یہ پتہ نہیں لگ سکا کہ وہ کہاں ہیں اور اس کے لئے الفضل میں جو مختصر سی جگہ مہیا ہوتی ہے، اس میں اعلانات کے باوجود بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی نظر میں یہ بات آتی نہیں ورنہ ی ممکن نہیں ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ہمارے بزرگوں نے یہ قربانیاں دی تھیں اور اب ان کے نام کے کھاتے بند ہورہے ہیں تو وہ قدم آگے نہ بڑھا ئیں.مجھے یقین ہے کہ جس کو بھی علم ہوتا چلا جائے گا وہ انشاء اللہ تعالیٰ ضرور اس تحریک میں شامل ہوتا چلا جائے گا.تحریک جدید کو چاہئے کہ مجاہدین تحریک جدید کی پہلی فہرست ایک کتاب کی صورت میں شائع کر کے مختلف جماعتوں میں بھجوائے کیونکہ الفضل میں تو ممکن نہیں ہے کہ ان فہرستوں کو بار بار شائع کیا جا سکے.جماعتوں میں یہ فہرستیں پڑھ کر سنائی
خطبات طاہر جلد ۲ 550 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء جائیں اور پھر جماعتی سطح پر تحقیق کی جائے کہ ہر جماعت سے تعلق رکھنے والے ایسے کتنے لوگ ہیں جن کے بزرگان تحریک جدید کی صف اول میں شامل تھے لیکن ان کے کھاتے بند ہیں.یہ تو اندرون ملک کی کیفیت ہے چندوں کی ادائیگی کی اور جیسا کہ اعداد و شمار سے ظاہر ہے اللہ تعالیٰ نے ہر پہلو میں غیر معمولی ترقی عطا فرمائی ہے.جہاں تک بیرون پاکستان کی جماعتوں کا تعلق ہے میں نے یہ اندازہ لگایا تھا کہ جہاں تک حصہ آمد اور چندہ عام کا تعلق ہے باہر کی جماعتوں کا چندہ پاکستان کے چندوں کے دگنے سے زائد ہے اور جہاں تک تحریک جدید کا تعلق ہے وہ نصف سے کم تو نہیں تقریباً نصف بنتا تھا اس سے میں نے یہ اندازہ لگایا کہ باہر کی جماعتوں میں کم از کم چار گنا زیادہ گنجائش موجود ہے.اس وقت ان کا چندہ گیارہ لاکھ تھا.چنانچہ مجھے یہ اندازہ تھا کہ اگر جماعت کوشش کرے تو چار گنا بلکہ پانچ گنا بھی اضافہ ہوسکتا ہے.یعنی خدا توفیق دے تو ۴۴ لاکھ سے ۵۰لاکھ تک بلکہ اس سے بھی بڑھ سکتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں حیرت انگیز فضل فرمایا اور اس ایک سال کے اندراندر باہر کی جماعتوں کا چندہ گیارہ لاکھ سے بڑھ کر ۳۶۰۰۰۰۰ ۵ روپے ہو چکا ہے.حیرت ہوتی ہے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ از خود فرشتوں کے ذریعہ دلوں میں تحریک فرما رہا ہے.چنانچہ اتنے حیرت انگیز اضافے ہوئے ہیں اور ایسی ایسی جگہوں سے چندہ آیا ہے جہاں سے انسان سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مزید گنجائش ہوگی.باہر بعض ایسی جماعتیں ہیں جو بڑی مستعدد ہیں، اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ پہلے اپنی توفیق کے مطابق چندے دے رہی تھیں.پھر آمد نیوں کی نسبت مہنگائی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے.یعنی صرف پاکستان میں مہنگائی نہیں ہے ساری دنیا مالی لحاظ سے بحران کا شکار ہے اور دنیا کا جینا دوبھر ہورہا ہے.خصوصاً وہ لوگ جو محنت مزور دی کر کے گزارہ کرتے ہیں ان کو مکانوں کے بہت زیادہ کرائے دینا پڑتے ہیں ، پھر خوراک مہنگی ہو گئی، لباس مہنگے ہو گئے ، غرضیکہ باہر کی دنیا بڑی مشکل سے گزارے کر رہی ہے.اس کے باوجود غیر معمولی اضافے ، یہ حیرت انگیز بات ہے اور صرف وعدوں میں ہی اضافہ نہیں ہوا بلکہ اس کے ساتھ وصولی میں بھی امسال اسی شان سے غیر معمولی اضافہ ہوا ہے.چنانچہ اب تک ۴۰,۵۹,۴۸۰ روپے وصول ہو چکے ہیں جو گزشتہ سال کی وصولی کی نسبت سے بھی زیادہ ہیں اور کئی گنا اسی نسبت سے زیادہ ہیں جس سے وعدے زیادہ ہوئے ہیں.پس ہم امید رکھتے ہیں کہ انشاء اللہ تعالیٰ یہ بقیہ وصولی
خطبات طاہر جلد ۲ 551 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء بھی بہت جلد ہو جائے گی کیونکہ یہ جماعتیں ساری دنیا میں پھیلی پڑی ہیں اس لئے وہاں سے بروقت اطلاع آنا زیادہ مشکل کام ہے.وکیل المال صاحب نے مجھے بتایا ہے کہ ایسے بہت سے ملک ہیں جن کی وصولی اس میں شامل نہیں ہوسکی.بعض جماعتوں کی اطلاع جولائی کی ہے، بعض کی اس سے بھی پہلے کی ہے غرضیکہ ہرگز بعید نہیں کہ آج تک ان کی وصولی ۵۳۰۰,۰۰۰ کے لگ بھگ ہو چکی ہو اور اس کی اطلاع آتے آتے شاید ایک مہینہ اور لگ جائے.بہر حال مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ان کو وعدوں کے پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا اور یہ بعید نہیں کہ وصولی وعدوں سے بھی آگے بڑھ جائے.جہاں تک وصولی میں غیر معمولی اضافوں کا تعلق ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بعض جماعتیں مستعد ہونے کے باوجود اس معاملہ میں بہت تیزی سے آگے بڑھی ہیں.بیرون پاکستان نمایاں طور پر کام کرنے والی جماعتوں میں سے امریکہ کا اضافہ تین گنا ہے، کینیڈا کا ساڑھے پانچ گنا اور ٹرینیڈاڈ کا دس گنا، سرینام کا چھ گنا ، برطانیہ کا تین گنا، جرمنی کا دو گنا ہے.کئی نو جوان جو جرمنی میں کام کرتے ہیں ان کی تعداد میں کمی آئی ہے کیونکہ ان میں سے بہت سے دوسرے ملکوں میں ہجرت کر گئے ہیں.کچھ دوستوں کو جرمن قانون کے مطابق مزید ٹھہرنے کی اجازت نہیں ملی.یہ جماعت پہلے بھی چندوں میں بڑی مستعد جماعت تھی اس لئے ان کا دو گنا اضافہ بھی مالی قربانی کی طرف ایک بہت بڑا قدم ہے.ڈنمارک کا پانچ گنا اصافہ ہوا ہے.سویڈن کا سات گنا ناروے کا چار گنا اضافہ ہوا ہے.اور بھی زیادہ خوشی کی بات یہ ہے کہ مالی قربانی کے اس جہاد میں افریقن ممالک بھی خدا کے فضل سے پیچھے نہیں رہے.چنانچہ نایجیریا کا بارہ گنا اضافہ ہے اور غانا کا ساڑھے پانچ گنا.غانا کے اقتصادی حالات اتنے خراب ہو چکے ہیں کہ وہاں کی جماعتوں کا ساڑھے پانچ گنا اضافہ ایک غیر معمولی قربانی ہے کیونکہ وہاں تو اس قدر مہنگائی ہو چکی ہے اور اقتصادی حالت دن بدن اتنی خطر ناک ہو رہی ہے کہ لوگوں کو کھانے کے لئے روٹی نہیں ملتی.پٹرول غائب ہے موٹریں موجود ہیں لیکن چل نہیں سکتیں اس لئے اپنی اپنی جگہ پر کھڑی ہیں.ٹیوب ویل اگر ہیں تو بند پڑے ہیں ، کھانے کے لئے گندم بھی مہیا نہیں ہو رہی.جو افریقن جنگلوں میں رہتے ہیں وہ تو جڑیں کھا کر گزارہ کر لیتے ہیں لیکن وہ جڑیں بھی اب کم ہورہی ہیں کیونکہ پچھلے چھ مہینے سے بارش نہیں ہوئی اس لئے قحط سالی کا بڑا
خطبات طاہر جلد ۲ 552 خطبه جمعه ۲۸ را کتوبر ۱۹۸۳ء خطرہ ہے.افریقن قوموں کے لئے بھی جو جنگلوں میں رہتے ہیں اور وہیں سے ان کی غذا مہیا ہوتی ہے ان کے لئے بھی قحط سالی کا خطرہ ہے اور جو لوگ شہروں میں رہ رہے ہیں ان کی بھی بہت بری حالت ہے.ان حالات میں غانا کی جماعتوں کے چندے میں ساڑھے پانچ گنا اضافہ ایک غیر معمولی اور بہت بڑا قدم ہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے اور یہ دعا کرنی چاہئے کہ اس نیکی کے بدلہ میں اللہ تعالی سارے ملک پر رحم فرمائے.یہ جتنے بھی اضافے میں نے بیان کئے ہیں ضروری نہیں کہ جس نسبت سے اضافہ ہوا ہے اسی نسبت سے اخلاص میں بھی ترقی ہوئی ہو یا اخلاص کے اندر بھی وہی نسبت پائی جاتی ہو.یہ اندازہ لگانا یہ اربعے لگانا درست نہیں کیونکہ مختلف ممالک مختلف اقتصادی پلیٹ فارمز پر کھڑے ہیں، ان کی اقتصادی حالت ایک جیسی نہیں ہے.چنانچہ پہلے مختلف ممالک کی قربانی کا معیار مختلف تھا.بعض ایسے ممالک تھے جو تحریک جدید میں پہلے ہی بڑی اچھی اور نمایاں قربانی کر رہے تھے.مثلاً انگلستان کی جماعتیں ہیں ان کے چندے میں تین گنا کا اضافہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے مگر اس کے مقابل پر بعض جماعتیں چندوں میں بہت پیچھے تھیں ان کا اگر دس گنا بھی اضافہ ہو گیا ہے تو یہ مطلب نہیں ہے کہ انگلستان کے مخلصین کے مقابل پر ان کا اخلاص بھی اتنے گنا زائد ہے.یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان چندوں کے پیچھے کس جماعت کو کتنی قربانی کی توفیق ملی اور ان کے اخلاص کی قیمت خدا کی نظر میں کیا ہے.ہم تو محض خدا کے احسانات کا تصور باندھنے کی خاطر یہ تخمینے پیش کرتے ہیں اور یہ نسبتیں قائم کرتے ہیں تا کہ مختلف زاویوں سے ہم اللہ کے فضلوں کا نظارہ کریں اور دل اس کی حمد سے بھرتا چلا جائے.ورنہ اگر نسبتوں کا تصور باندھا جائے تو اس لحاظ سے تو پھر تحکیم دنیا کی سب سے بڑی مخلص جماعت بنے گی کیونکہ ان کا اضافہ ساڑھے چالیس گنا ہے.بات یہ ہے کہ پہلے وہاں مبلغ نہیں تھا، چند احمدی تھے اور وہ بھی بکھرے ہوئے تھے ، ان کی تربیت کا کوئی انتظام نہیں تھا.چندوں میں بھی وہ بہت پیچھے تھے اس لئے یہ ان کا پہلا قدم ہے اور پہلے قدم میں ان کو چھیالیس منزلیں طے کرنے کی توفیق ملی ہے.آئندہ سال جب یہ شرحیں تقریباً برابر ہو جائیں گی تو پھر بیرونی ممالک کی جماعتوں کا اصل مقابلہ شروع ہوگا.جب بیرونی جماعتیں قریباً ایک ہی سطح پر آجائیں گی تو پھر دیکھیں گے کہ کون سی جماعت آگے بڑھتی ہے.مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ ہر جگہ برابر کوشش ہوگی.
خطبات طاہر جلد ۲ 553 خطبه جمعه ۲۸ /اکتوبر ۱۹۸۳ء بیرونی ممالک کے چندہ دہندگان کی تعداد کے لحاظ سے بھی خدا تعالیٰ نے غیر معمولی فضل فرمایا ہے اور اس میں بھی تحریک جدید کی رپورٹ کے مطابق بجنات کو بہت بڑی خدمت کی توفیق ملی ہے.چنانچہ لجنات میں سے برطانیہ، کویت ، مسقط ، جاپان، کینیڈا، منفی ، سویڈن، مغربی جرمنی ، ہالینڈ سرینام ، ڈیٹن اور بالٹی مور امریکہ کی لجنات نے نمایاں کام کیا ہے.معلوم ہوتا ہے امریکہ کی اکثر لجنات کو توفیق نہیں ملی صرف ڈیٹن اور بالٹی مور کی لجنات نے غیر معمولی کام کیا ہے بہر حال ان کی کوششوں کو اللہ تعالیٰ نے قبولیت عطا فرمائی.چنانچہ بیرون پاکستان کی جماعتوں کے وعدہ کنندگان کی تعداد گزشتہ سال صرف ۲۰۲۸ تھی اس کے مقابل پر اس سال ۱۳٫۴۷۰ تک پہنچ گئی ہے یعنی وعدہ کنندگان کی تعداد میں ۴۴۲ ا ا کا اضافہ ہوا ہے.پس کوئی ایک پہلو بھی ایسا نہیں ہے جس میں ہم تشنگی محسوس کریں اور تحریک جدید کی طرف سے جتنی کوشش کی گئی ہے اس کو ان پھلوں سے کوئی نسبت نہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا ہوئے ہیں حالانکہ وہی عام کوشش ہے جو ہمیشہ ہوتی ہے وہی وکیل مال ہیں ، وہی عملہ ہے، عملے میں بھی کوئی غیر معمولی اضافہ نہیں ہوا اور اسی طرح اخلاص سے دن رات کوشش کر رہے ہیں جس طرح پہلے کیا کرتے تھے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اللہ تعالیٰ جماعت کو فضلوں کے ایک نئے دور میں داخل کر رہا ہے اور ہمارے اوپر نئی ذمہ داریاں ڈالنے والا ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب زاد راہ بڑھایا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لمبا سفر درپیش ہے.جب قوتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو مارچ آرڈر (March Order) سے پہلے ساری تیاریاں مکمل کر لی جاتی ہیں.پس درحقیقت جو اصل فضل ہیں وہ تو ابھی سامنے پڑے ہوئے ہیں.یہ تو فضلوں کے حصول کا ایک ذریعہ ہے جو مہیا کیا جارہا ہے.معلوم یہ ہوتا ہے اور جیسا کہ دوسری علامتوں سے بھی بڑا قطعی طور پر ظاہر ہورہا ہے، اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں تبلیغ اسلام کے لئے جماعت سے عظیم الشان خدمات لینے والا ہے اور ان خدمات کے لئے ہمیں زاد راہ مہیا فرما رہا ہے، جماعت کے اخلاص کو بڑھا رہا ہے،ایمان کو بڑھا رہا ہے،قربانیوں کی توفیق کو بڑھا رہا ہے ، وقف کی روح میں نئی جلا پیدا کر رہا ہے اور ہر پہلو سے ہمیں تیار کیا جا رہا ہے کہ آگے بڑھو اور ساری دنیا کو محمد مصطفی عملے کے لئے جیت لو.اس مبارک دور میں ہم داخل ہونے والے ہیں اور ہورہے ہیں.یہ کوئی ایسی دیوار تو نہیں ہوا کرتی کہ اس کو پھلانگا تو نیا دور شروع ہو گیا.
خطبات طاہر جلد ۲ 554 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء یہ تو ایک جاری سلسلہ ہے اور نئی صدی کے قرب کے ساتھ اس کا تعلق ہے اور جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الثالث نور اللہ مرقدہ بارہا فرمایا کرتے تھے کہ یہ پہلی صدی تو غلبہ اسلام کی تیاری کی صدی ہے اور اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی تو جتنا جتنا ہم اس صدی میں داخل ہونے والے ہیں اور اس کے قریب ہوتے چلے جا رہے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ تیاری میں جو کمیاں رہ گئی تھیں اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے وہ جلدی جلدی پوری کر رہا ہے تا کہ ہمیں پھر بعد میں یہ احساس نہ ہو کہ فلاں چیز بھی تیاری والی رہ گئی تھی اور فلاں بھی رہ گئی تھی اور فلاں بھی رہ گئی اور فلاں بھی رہ گئی.واپس تو ہم مر نہیں سکتے.انسان جب سفر پر روانہ ہوتا ہے تو بعض دفعہ گھر میں کچھ چیزیں رہ جاتی ہیں اور وہ اپنا رخ گھر کی طرف موڑ بھی لیتا ہے.کہتا ہے چلو واپس جا کر وہ بھی لے آؤں لیکن غلبہ اسلام کی شاہراہ پر ہمارا جو سفر جاری ہے اس میں تو ہم واپس نہیں مر سکتے اس میں تو لازماً ہر قدم آگے بڑھے گا اس لئے اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے فضل نے ہماری تیاریاں مکمل کروانی شروع کی ہوئی ہیں اور میں امید رکھتا ہوں کہ جب ہم اگلی صدی میں داخل ہوں گے تو اس قدر تیز رفتاری سے داخل ہوں گے کہ گویا پہلی رفتار سے بعد کی رفتار کو کوئی نسبت نہیں ہوگی اور یہ کوئی مبالغہ نہیں ہے.خدا تعالیٰ جس طرح غیر ممالک میں جماعت پر فضل فرمارہا ہے اور جماعت کی طرف لوگوں کی توجہ پیدا ہورہی ہے اور جس طرح باہر سے مطالبے آ رہے ہیں اور ترقی کے نئے نئے رستے کھل رہے ہیں وہ اگر یہاں بیان کئے جائیں تو اس کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں اور وہ بھی مختصر بیان کئے جاسکیں گے.مجھے سارا سال جو ڈاک موصول ہوتی ہے اس کی اوسط سات سو خطوط روزانہ ہے.ان خطوط میں سے ایک بڑی تعداد بیرونی ممالک سے آتی ہے یا مختلف ممالک کی خبروں سے متعلق دفاتر کے ذریعہ موصول ہوتی ہے.چنانچہ حالات کو پڑھ کر دل اللہ کی حمد سے بھر جاتا ہے کہ کس طرح روزانہ ترقی کے نئے نئے میدان ہمارے سامنے کھل رہے ہیں.پس اگر سال کے ۳۶۵ دنوں میں ہر روز بیسیوں ترقی کے نئے میدان سامنے آ رہے ہوں تو یہ کہنا کہ ان کو بیان کرنے کے لئے کئی گھنٹے درکار ہیں قطعاً کوئی مبالغہ نہیں.اصل واقعات کا خلاصہ تو گھنٹوں میں پیش کیا جاسکتا ہے لیکن ان پر تفصیلی روشنی نہیں ڈالی جاسکتی.بہر حال اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب تک جن جن ممالک میں جماعتیں قائم ہو چکی ہیں اور جہاں جہاں ترقی کے نئے رستے کھل رہے ہیں وہاں وہاں تحریک جدید دن رات کوشاں ہے اور پورا
خطبات طاہر جلد ۲ 555 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء زور لگا رہی ہے.تحریک کے دفاتر میں بھی وسعت پیدا ہو رہی ہے.واقفین زندگی طوعی طور پر کاموں کے لئے جو وقت دیتے میں سمجھتا ہوں اب وہ پہلے سے بڑھ کر وقت دے رہے ہیں.ان میں بیداری کی ایک عام رو پیدا ہو گئی ہے.یہ بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا ایک نشان ہے کہ کارکنوں میں ایک غیر معمولی احساس پیدا ہو چکا ہے کہ اہم کام ہمارے سپرد ہونے والے ہیں ، ہمیں بھی تیاری کرنی چاہئے.یه ساری باتیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور رحمتوں کی نشاندہی کر رہی ہیں اور جماعت کو میں اس لئے بتاتا ہوں کہ وہ ایک نئے ولولے اور نئے جوش کے ساتھ نئے سال میں داخل ہوں اور اپنی قربانیوں کے معیار کو اور بھی بڑھائیں گویا ع نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز اپنی جنس کی قیمت کو بالا کر دے کہ ابھی بھی تو ارزاں ہے ابھی تو سستا ہے.جہاں تک جماعت احمدیہ کی قدر و قیمت کا تعلق ہے یہ تو قربانیوں سے وابستہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہمارے اندرا بھی بھی قربانیوں کے بہت میدان کھلے پڑے ہیں.اگر آپ تلاش کریں تو آپ کو ایسے ہزار ہا احمدی مل جائیں گے جو ابھی لازمی چندہ جات میں بھی شامل نہیں ہوئے اور ہزارہا کو ان کے خاندانوں کی تعداد سے ضرب دے دیں تو وہ تعداد ایسی ہے جو تحریک جدید میں شامل ہوسکتی ہے لیکن ابھی شامل نہیں ہو سکی اس لئے یہ کہنا کہ ہم اپنے منتہا کو پہنچ گئے ہیں اور اتنی ہی جماعت کو توفیق ہے بالکل غلط بات ہے.ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کے فضل سے نہ صرف یہ کہ خدمت کی توفیق زیادہ ہے بلکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اس توفیق کے مقابل پر جماعت جس تیزی سے پھیل رہی ہے وہ بھی تو ایک ایسا میدان ہے جو قربانیوں میں اضافے کے مزید تقاضے کرتا رہے گا.خدا کے فضل سے ساری دنیا میں لوگ احمدیت میں داخل ہورہے ہیں اور ساری دنیا کے ممالک میں جماعت وسعت پذیر ہو رہی ہے.جماعت میں نئے آنے والوں کی تعداد ہی کو شامل کر دیا جائے تو اگلے سال نمایاں فرق ہونا چاہئے.اس لئے مجھے تو مزید ترقی کے بہت کھلے میدان نظر آ رہے ہیں اور میں امید رکھتا ہوں اور خدا کا ہمیشہ یہ سلوک رہا ہے کہ جب ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اب حد ہو گئی اس سے آگے بظاہر کوئی قدم بڑھنے کی جگہ نہیں رہی تو اللہ تعالیٰ پھر نیا میدان کھول دیتا ہے، پھر جماعت اور زیادہ آگے قدم بڑھاتی ہے اس لئے میں
خطبات طاہر جلد ۲ 556 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء امید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کو مزید توفیق عطا فرمائے گا اور ہم بفضلہ تعالیٰ تحریک جدید کی قربانیوں کے ہر میدان میں آگے بڑھیں گے.اس ضمن میں ہمیں بعض باتوں کو ملحوظ رکھنا چاہئے.دوستوں کو یاد ہوگا کہ تحریک جدید کے آغاز میں ایک ۱۹ نکاتی پروگرام بھی پیش کیا گیا تھا اور یہ پروگرام اس غرض سے تھا کہ جماعت رفتہ رفتہ زندگی کی ایسی دلچسپیوں کو کم کرتی چلی جائے جن میں ان کا روپیہ اسلام کے سوا دوسری جگہ خرچ ہوتا ہے اور وہ روپے سمیٹ کر جہاں جہاں سے بھی انسان بچا سکے ضرور بچائے اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیئے.اس سارے پروگرام کا آخری مقصد تو یہی بنتا تھا لیکن اس مقصد کے حصول کے دوران جماعت کے اندر جو حیرت انگیز تبدیلی پیدا ہوتی تھی وہ اپنی ذات میں ایک بہت بڑا پھل تھا.مثلاً سادہ زندگی کا مطالبہ ایسے زمانہ میں جب کہ دنیا مادہ پرستی میں مبتلا ہو رہی ہو اسی طرح لہو ولعب سے پر ہیز جبکہ دنیا میں ایسی چیزیں ایجاد ہو چکی ہوں کہ جنہوں نے قوموں کے کریکٹر تباہ کر دیئے ہیں اور لہو و لعب کی طرف توجہ نے خدا سے غافل کر دیا ہے.یہ دونوں چیزیں مثال کے طور پر ایسی ہیں جن کی پابندی سے آپ کے چندوں میں اضافہ ہو گا لیکن چندوں کا اضافہ اپنی جگہ ہے اور بالکل الگ مقصد ہے.یہ دونوں باتیں اپنی ذات میں ایسے عظیم الشان مقاصد ہیں کہ جس قوم کو حاصل ہو جائیں وہ آزاد قوم کہلاسکتی ہے.تحریک جدید کو چاہئے کہ وہ اس پہلو کی طرف بھی توجہ کرے.جہاں مالی قربانی میں اضافہ ہو رہا ہے وہاں وقتا فوقتا تحریک جدید کے ۱۹ نکاتی پروگرام کو مختلف رنگ میں جماعت کے سامنے پیش کرتے رہنا چاہئے تا کہ ہمارے قدم متوازن طور پر آگے بڑھیں ہمارے کردار میں بھی برکت مل رہی ہو اور ہمارے قربانیوں کے معیار میں بھی برکت مل رہی ہو.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو اور جب میں یہ کہتا ہوں کہ خدا کرے کہ ایسا ہی ہو تو اس کے ساتھ مجھے یقین ہے کہ انشاء اللہ ایسا ضرور ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح جماعت پر فضل فرما رہا ہے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہمارے دل کی نکلی ہوئی دعائیں ہوں اور وہ قبول نہ ہوں.اللہ تعالیٰ تو ہم پر اتنے احسان فرما رہا ہے کہ بعض دفعہ دعا کا خیال آتا ہے تو وہ اسے قبول فرمالیتا ہے کجا یہ کہ ساری جماعت اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ وزاری کے ساتھ اور در دوالحاح کے ساتھ دعائیں کر رہی ہو اور اللہ تعالیٰ ان کو قبول نہ فرمائے.یہ ہو ہی نہیں سکتا اس لئے ہم اس یقین کے ساتھ
خطبات طاہر جلد ۲ 557 خطبه جمعه ۲۸ اکتوبر ۱۹۸۳ء تحریک جدید کے اس نئے سال میں داخل ہو رہے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر اپنے فضلوں اور رحمتوں کو پہلے سے زیادہ اور زیادہ بڑھاتا چلا جائے گا.خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا: آج مجلس انصاراللہ مرکزیہ کا سالانہ اجتماع شروع ہو رہا ہے.تین بجے کا وقت دیا گیا ہے اس لئے نماز جمعہ کے ساتھ عصر کی نماز جمع ہوگی.مجھے اطلاع ملی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اکثر دوست کھانا کھا چکے ہیں.بعد میں آنے والے اکا دکا مہمان رہ گئے تھے وہ بھی کھانے سے جلد فارغ ہو جائیں گے.ابھی کافی وقت ہے احباب تسلی سے اجتماع میں حاضر ہوں.اجتماع کے دوران تین دن مغرب اور عشاء کی نمازیں مسجد مبارک میں بھی اور مقام اجتماع میں بھی جمع ہوا کریں گی.(روز نامه الفضل ربوه ۲۷ نومبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 559 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۳ء انتظامات جلسہ سالانہ کے لئے ہدایات خطبه جمعه فرموده ۴۰ رنومبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جلسہ سالانہ کے ایام قریب سے قریب تر آ رہے ہیں اور اس سے پہلے کی دو مصروفیات جو اپنی طرف توجہ مرکوز رکھتی ہیں یعنی اجتماع خدام الاحمدیہ ولجن اماءاللہ اور اجتماع انصار اللہ، وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بخیر وخوبی گزر چکی ہیں.اب ہمیں تمام تر توجہ جلسہ سالانہ کی طرف مبذول کرنی چاہئے اور اس کی تیاری کے وہ حصے جو کچھ وقت چاہتے ہیں اب ان کی طرف خصوصی توجہ دینے کا وقت آ گیا ہے.مہمان نوازی کی تیاری کے سلسلہ میں سب سے اہم چیز جو انتظامیہ کے لئے پریشانی کا موجب بنتی ہے وہ مکانات کا حصول ہے.جب تک انہیں وقت پر یہ معلوم نہ ہو سکے کہ کتنے دوست اپنے اپنے مکانات یا ان کا کچھ حصہ پیش کریں گے وہ صحیح طور پر یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ ہمیں زائد ضرورت کے لئے کس قدر عارضی انتظام کرنے ہیں اور وہ عارضی انتظامات بھی وقت چاہتے ہیں.مثلاً کیمپنگ گراؤنڈز بنانا اور ٹینٹوں کا انتظام کرنا اور اس کے لئے مناسب سہولتیں مہیا کرنا یہ ساری چیزیں صحیح تخمینہ کا تقاضا کرتی ہیں اس لئے وہ دوست جنہوں نے اپنے دلوں میں پہلے سے ہی فیصلہ کر لیا ہوگا کہ ہم اپنے مکان کا فلاں حصہ سلسلہ کے انتظام کے تحت مہمانوں کو دیں گے انہیں چاہئے کہ وہ اس کی اطلاع دینے میں دیر نہ کریں اور جلد از جلد کوشش کریں کہ یہ اطلاع افسر جلسہ کو پہنچ جائے اور اس کے علاوہ جو نئے مکان بن رہے ہیں انہیں بھی اس سے اچھا کوئی موقعہ میسر نہیں آ سکتا کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 560 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۸۳ء مکان کا افتتاح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان کریں.یہ بہت ہی بابرکت افتتاح ہوگا تو اس لئے انہیں بھی چاہئے کہ اگر وہ نامکمل حالت میں بھی ہیں یا اندازہ لگا کر اگر وہ سمجھیں کہ پندرہ یا بیس دسمبر تک وہ جلسہ کے انتظام کے سپرد کر سکیں گے تو اس وقت کی کیفیت ان کے اندازے کے مطابق کہ دروازے ہوں گے یا نہیں، کھڑکیاں ہوں گی یا نہیں، کتنے کمرے ہیں غسل خانوں کے انتظام کی کیا کیفیت ہے، لیٹرینز موجود ہیں یا نہیں، ان سے متعلق جملہ معلومات افسر جلسہ کو مہیا کر دیں تا کہ وہ انہیں بھی اپنے تخمینوں میں شامل کر لیں.مکانات کے علاوہ دوسری بہت اہم ضرورت خدمات کی پیشکش ہے.خدا تعالیٰ کے فضل سے اہل ربوہ ہمیشہ ہی بہت اعلیٰ نمونہ خدمات پیش کرنے میں دکھاتے ہیں.ایسے ایسے گھر بھی ہیں جن میں کام کرنے والا ایک ہی بچہ ہوتا ہے اور وہ اسے ہی پیش کر دیتے ہیں.پھر وہ کام کس طرح چلاتے ہیں اسے اللہ ہی بہتر جانتا ہے.بہر حال ربوہ کے کارکنوں کی طرف سے بہت ہی اعلیٰ روح دکھائی جاتی ہے خصوصاً چھوٹے بچے تو اس محبت اور اخلاص کے ساتھ سردی میں کام کرتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر روح وجد کرتی ہے.دنیا کی کسی قوم میں ایسے بچوں کا نمونہ نہیں ملے گا نہ امیر قوموں میں نہ غریب قوموں میں نہ مغربی میں نہ مشرقی میں کہ ایک اعلیٰ مقصد کی خاطر اور وہ مقصد بھی ایسا اعلیٰ کہ رب عظیم سے تعلق رکھنے والا مقصد ہوا سے حاصل کرنے کے لئے چھوٹے چھوٹے بچے نہایت ہی غریبانہ حالت میں جنہیں تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے بھی میسر نہ آ رہے ہوں وہ والہانہ جذبہ کے ساتھ خدمت کریں اور ایسی خدمت کریں کہ جو مزدوروں کی مزدوریوں سے بڑھ جائے.میں نے بچوں کو ایسے مشقت کے کام بھی کرتے دیکھا ہے کہ روٹیوں کی ٹوکریاں بھر بھر کے لے جانا اور پھر ساری رات تھوڑا سا وقفہ ملتا ہے پھر وہ سارا دن وہی کام کرتے ہیں کہ جو عام طور پر مزدور بھی اس قدر محنت سے نہیں کر سکتے.پس اہل ربوہ کو یہ کہنے کی ضرورت تو نہیں ہے کہ آپ خدمت کا جذ بہ پیدا کریں وہ تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلے سے موجود ہے، صرف یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ اب اس خدمت کو پیش کرنے میں دیر نہ کریں اور جو بھی بچہ یا جوان پیش ہوا سے پہلے سے ہی ان کی ذمہ داریوں سے مطلع کر دینا چاہئے.اتنے بڑے انتظامات میں بعض اوقات کمزور بھی داخل ہو جاتے ہیں.بعض بچے بری
خطبات طاہر جلد ۲ 561 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۳ء عادتیں لے کر بھی آتے ہیں.یہ تو ناممکن ہے کہ ایک سوسائٹی کلیتہ پاکیزگی کے بہترین معیار تک پہنچ جائے اس لئے ہمیں علم ہے کہ یہ واقعات ہوتے ہیں یعنی نہایت ہی اعلیٰ مخلص بچے بھی ملتے ہیں، ان میں سے بعض کمزور بھی ہوتے ہیں، بعض کو گالی دینے کی عادت ہوتی ہے، بعض دفعہ ایسے بھی واقعات ہوئے کہ ایک بچے نے دوسرے بچوں کی کوئی چیز چوری کر لی.تو یہ ایسے واقعات نہیں ہیں کہ جنہیں ہم دنیا سے چھپائیں ، یہ حقائق ہیں اور ہمیں قرآنی تعلیم کے مطابق حقائق کے ساتھ جڑ کر رہنا ہے، اسی میں ہماری زندگی ہے.قرآن کریم کی عظمت اور حوصلہ دیکھیں ، ایسی عظیم الشان کتاب ہے کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ میں جب کہ انسانیت اپنے معراج کو پہنچی ہے اور مکارم الاخلاق پر فائز انسان جو انسان کامل تھا اس نے تربیت کی ہے تو اس وقت کے مدینہ کی کمزوریوں کے حالات بھی ہمارے لئے ریکارڈ کر دیئے اور بتایا کہ منافقین کیا کر رہے ہیں ، کہاں گندگی ہو رہی ہے اور کیا کیا غلاظتیں ہورہی ہیں اور جو لوگ سورج کی روشنی سے محروم رہے تھے ان سے متعلق قرآن کریم نے یہ بتانے میں کوئی عار محسوس نہیں کی کہ انہوں نے اپنے لئے اندھیرا اختیار کیا.پس سورج کی روشنی کی موجودگی میں بھی ان لوگوں کے لئے اندھیرے قائم رہے جنہوں نے خطرات اور بند کمروں میں روشنی کو اپنے لئے پسند نہیں کیا.پس ربوہ کی سوسائٹی تو حضرت محمد مصطفی علیہ کے غلام حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوۃ والسلام کی قائم کردہ سوسائٹی ہے اس لئے آقا سے بڑھ کر روحانی انقلاب کا دعویٰ تو کیا ہی نہیں جاسکتا یہ ناممکن ہے اس لئے وہ حقائق جو قرآن نے نہیں چھپائے ان پر پردہ ڈالنے کا کوئی موقعہ نہیں یہ تو بے مقصد اور لغو بات ہوگی.پس ہم محض اچھے لوگوں کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے بلکہ جو کمزور ہیں انہیں بھی نمایاں کریں گے اور متنبہ کریں گے اور ان کی اصلاح کی کوشش کریں گے کیونکہ قول سدید کے بغیر اصلاح ناممکن ہے.میں نے جو کمزوریاں اپنے انتظامات کے دوران جو مختلف موقعوں پر مختلف رہے ہیں، دیکھیں ان میں سے بعض باتیں میں کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.ابھی سے نو جوانوں کی تربیت شروع کر دی جائے.گھروں میں بار بار یہ باتیں ہوں کہ اس جلسہ پر ان میں سے کوئی بات بھی نہیں دوہرانی چاہئے.مثلاً بعض بچے نماز میں کمزوری دکھاتے ہیں.ہماری زندگی کا تو مقصد ہی عبادت کا
خطبات طاہر جلد ۲ 562 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۳ء قیام ہے اور اگر اس میں ہم کمزوریاں دکھانے لگیں گے تو اس جلسہ کا کیا فائدہ اور پھر باہر سے آنے والے آپ سے سیکھنے کے لئے آتے ہیں.انتظامات میں مشغول بچوں کو نماز کا نہایت اعلیٰ نمونہ دکھانا چاہئے بلکہ سارے اہل ربوہ کو بہترین معیار دکھانا چاہئے اور پھر اس پر قائم رہنا چاہئے.عبادت تو کوئی دکھاوے کی چیز نہیں ہے، مراد صرف اتنی ہے کہ آنے والے نیک نمونہ پکڑیں اور اس کے بعد ہمیشہ کے لئے وہ پاک اور نیک نمونہ آپ کی زندگی کا جزو بنا رہے.پس عبادت پر بہت زور دینے کی ضرورت ہے کہ کم سے کم ہمارے کارکنوں کا معیار نہایت اعلیٰ ہو.دوسرا حصہ ہے زبان کی صفائی اس میں گالی، سخت کلامی ، غصہ میں آ کر اپنے جذبات کو کنٹرول نہ کر سکنا، یہ ساری چیزیں مہمان نوازی کے تقاضوں کے بھی خلاف ہیں اور عام اخلاقی تقاضوں کے بھی اس لئے کارکنوں کو ابھی سے اپنے ذہن میں یہ جگالی کرتے رہنا چاہئے کہ ہم میں کون کون سی کمزوری ہے جو میزبان کی شان کے خلاف ہے اور جو عام حالات میں انسان کی شان کے بھی خلاف ہے.تو ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہئے.تیسری چیز دل کی صفائی ہے.جب تک دل میں مہمان نوازی نہ ہو، جب تک دل مہمان کی محبت سے از خود نہ بھرے میزبانی کے اسلوب اور سلیقے نہیں آ سکتے.آپ کسی کو جتنا چاہیں سکھائیں اگر اس کے دل میں مہمان نوازی نہیں ہے، محبت کا جذبہ نہیں ہے تو سیکھے ہوئے کی ادائیں اور ہوں گی اور جو دل سے پھوٹتی ہیں وہ ادائیں بالکل اور ہوتی ہیں، ان میں ایک عجیب بے اختیاری پائی جاتی ہے.اگر آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی کے واقعات پڑھیں تو ہر واقعہ اور ہر لفظ پر دل گواہی دیتا ہے کہ یہ دل سے پھوٹی ہوئی مہمان نوازی ہے.اس میں تصنع یا کسی قسم کی بناوٹ کا دخل نہیں.پس ہمیں یہی نمونہ اپنانا چاہئے اور بچوں، بڑوں،عورتوں ، مردوں سب کو سمجھانا چاہئے کہ مہمان نوازی کیا ہوتی ہے.اس سلسلہ میں میں نے یہ سوچا ہے کہ مختلف تنظیموں کی طرف سے مہمان نوازی سے متعلق ایسے واقعات جو آنحضرت ﷺ کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہوں یا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ہم نے ان کو دوبارہ اجاگر ہوتے دیکھا ہو ان پر مشتمل مضامین کثرت سے پھیلائے جائیں.مساجد میں پڑھے جائیں، بچوں کو سنائے جائیں، چھوٹے چھوٹے مضامین گھروں میں تقسیم
خطبات طاہر جلد ۲ 563 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۳ء کئے جائیں اور یہ ایک سلسلہ چل پڑے کہ مہمان نوازی کیا ہوتی ہے اس میں ہمارے اعلیٰ مقاصد کیا ہیں ؟ جب تک ہم انہیں حاصل نہیں کریں گے ہم اس کا حق ادا نہیں کر سکیں گے.جہاں تک بیرون ربوہ کی خدمات کا تعلق ہے وہ بھی بہت اہم ہے کیونکہ بہت سارے کاموں کے شعبے ایسے ہیں جن میں ربوہ کے کارکنان مہیا نہیں ہو سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے کام اتنے تیزی سے پھیل رہے ہیں اور آنے والوں کی تعداد مقامی آبادی کی نسبت سے اس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہ اب یہ ممکن نہیں ہے کہ ربوہ کے کارکنان ہر قسم کی خدمات خود ہی کر سکیں اس لئے ہمیشہ سے تو نہیں لیکن اب چند سالوں سے بیرون ربوہ کارکنان بھی اپنے آپ کو خدمات کے لئے پیش کرتے ہیں انصار بھی اور خدام بھی.تو انہیں میں مطلع کر رہا ہوں کہ اب وقت بہت تھوڑا رہ گیا ہے اس لئے یہ خطبہ سنتے ہی جلد از جلد اپنے نام بھجوانا شروع کر دیں.اندازہ ہے کہ سات سو بیرونی کارکنان کی ضرورت ہوگی لیکن یہ اس صورت میں ہے کہ اگر جلسہ پر آنے والوں کی تعداد اسی نسبت سے بڑھے جس طرح ہر سال کم و بیش بڑھتی ہے اور اگر اس نسبت میں اضافہ ہو جائے اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اچانک اس تعداد کو بڑھائے تو پھر مزید کارکنوں کی ضرورت پیش آسکتی ہے اس لئے اگر سات سو کی ضرورت ہے تو ہمیں ہزار پر تسلی پانی چاہئے.لہذا انتظامیہ یہ کوشش کرے کہ ہزار بیرونی کارکنان کی فہرستیں مکمل ہو چکی ہوں اور ان کے کام بھی معین ہو چکے ہوں.ایک حصہ گھروں کو آرام دہ بنانے سے متعلق ہے.اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو ابھی سے صفائیاں شروع ہو جانی چاہئیں اور چھوٹی چھوٹی مرمتیں بھی شروع ہو جائیں.ہر انسان اپنی توفیق کے مطابق مرمتیں کرتا ہی رہتا ہے لیکن مرمت کا یہ موقع سب سے اچھا ہے کیونکہ اس میں آپ اللہ تعالی کے مہمانوں کی خاطر مرمت کریں گے اور آپ کی یہ مرمت عبادت بھی بن جائے گی.آپ کے گھر کی بھی مرمت ہو رہی ہوگی اور ساتھ ہی آپ کے دل اور روح کی بھی مرمت ہو رہی ہوگی اور اللہ تعالیٰ اس میں بھی برکت بخش رہا ہوگا.پس اس لئے اس نیت سے مرمت کریں کہ اللہ تعالیٰ کی خاطر آنے والے مہمان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان بھی کہلاتے ہیں ان کے لئے زیادہ سے زیادہ آرام مہیا ہو.اس سلسلہ میں بسا اوقات جو دقتیں پیش آتی ہیں ان میں سے ایک بستروں کی کمی ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 564 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۳ء بعض دفعہ مہمان بار بار بتانے کے باوجود سفر کی دقتوں کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے اپنے بستر لے کر نہیں آتے اور یہ ناممکن ہے کہ ایک خاص تعداد سے زیادہ آنے والوں کو بستر مہیا کئے جاسکیں.تو اس کے لئے چند سال پہلے میں نے ایک گھر میں ایک بڑی اچھی ترکیب دیکھی تھی.بستر بنانے کی وہ بڑی سادہ سی ترکیب ہے اگر اسے اختیار کیا جائے تو وقتی ضرورت پوری ہو جاتی ہے.انہوں نے پرانی کھاد کی بوریاں دھو کر اس سے غلاف بنالئے اور ان میں پر الی بھر دی اور ان کو اوپر نیچے سے ٹیک کر کے ایک طرف رکھ لیا اور جب ان کے مہمان آئے جن کے پاس بستر وغیرہ نہیں تھے تو ان کو اس کی تو شکیں دے دیں اور جو زائد تو شکیں ہوں وہ اوپر لینے کے کام آ جاتی ہیں.چنانچہ اس طرح ڈبل بستر بن گئے.میں نے جب ان سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ نہایت ہی کامیاب تجربہ ہے، گرم بھی بہت رہتا ہے اور نرم بھی ہے.اس تو شک کو دیکھ کر مہمان بہت خوش ہوئے.تو بہت سستی تو شک بن جاتی ہے روئی خریدنے کی ضرورت نہیں ہے.پرالی آپ کو مفت میں مل جائے گی اور بیویاں بچے اور بیٹیاں مل کر دو دو ٹانگے لگا کر تو شکیں بنالیں اور اس کے بعد پھر آپ کو رکھنے میں بھی آرام ہے.اسے خالی کیا اور اگر کوئی گائے بکری وغیرہ ہے تو تو شک کا اندرونی حصہ (پرالی ) اسے کھلا دیں اور باہر والا حصہ (غلاف) دھو کر تہہ کر کے رکھ لیں تو آپ کی یہ تو شکیں بہت چھوٹی سی جگہ میں آجائیں گی.پس اس طرح کی ترکیبیں سوچ کر مہمانوں کے لئے اور بھی آسائش کا انتظام کریں.غسل خانے اور لیٹرینز کی دقت کے سلسلہ میں میں نے دیکھا ہے کہ اگر کوئی میزبان یہ ارادہ کرے کہ میں نے کچھ کرنا ہے تو بہت چھوٹی چھوٹی چیزیں ایسی ہیں جن کے خریدنے کی ضرورت پیش آتی ہے.اگر انسان فیصلہ اور ارادہ کر لے تو اکثر تو آسانی سے انتظام ہو جاتا ہے.غسل خانے بنانے کا تو وقت ہی نہیں ہے، اس کے لئے خرچ کی بھی بہت ضرورت ہوتی ہے لیکن وقتی تغسل خانے آسانی سے بنائے جاسکتے ہیں.مثلاً ہم نے اپنے گھروں میں بھی دیکھا ہے شروع شروع میں ہم نے اس طرح کے غسلخانے بنائے تھے کہ باہر اینٹوں کا ایک تھڑ ا سا بنا لیا اس کے اوپر مٹی کے مٹکے رکھ دیں اور ان میں پانی بھر دیں یا اگر توفیق ہو تو گرم پانی کا بھی ساتھ ہی انتظام کر دیں.ایک چھوٹا سا ڈرم رکھ کر اس میں آگ جلا دی جائے تاکہ جس نے بھی پانی گرم کرنا ہو تھوڑا سا پانی مٹکے سے لیا اور تھوڑ اسا وہاں سے لے لیا.پھر یہ بھی کہ ہاتھ روم کی دیوار کے ساتھ چھوٹے چھوٹے شیشے لگا دیں اور اگر چاچی نہیں بنائی
خطبات طاہر جلد ۲ 565 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۳ء جاسکتی تو بیٹھے کا انتظام کر دیں کہ مہمان نیچے بیٹھ کر چھوٹی چھوٹی پیڑھیوں پر اپنا شیو بناسکیں یا جس نے ڈاڑھی بنانی ہے وہ ڈاڑھی بنائے.مگر شیشے اور پانی ہونا چاہئے کہ یہ سب سے بڑی ضرورت ہے.عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ ایک غسل خانہ کافی ہے لیکن ایک کافی نہیں ہوتا.جہاں غسل خانے کے لئے اسی آدمیوں کی لائن لگ جائے.آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس طرح کتنا وقت ضائع ہوتا ہے.اسی طرح عارضی طور پر چھوٹے چھوٹے Toilets بھی بنائے جاسکتے ہیں.جگہ جگہ بور کروا کر پردہ کا انتظام ہو جائے تو معمولی بات ہے اتنا بڑا خرچ نہیں ہے بہرحال اس سلسلہ میں جلسہ سالانہ کا انتظام بھی مدد کرتا ہے.پس گھروں میں Toilets اور لیٹرینز بڑھانے کی ضرورت ہے اور جہاں تک ممکن ہے زیادہ انتظام کیا جائے.سجاوٹ بھی زندگی کا ایک حصہ ہے.قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ اپنی زینت لے کر جایا کرو.(الاعراف :۳۲) اصل زینت تو وہ اندرونی سجاوٹ ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں لیکن ظاہری سجاوٹ اور ظاہری زینت بھی سنت ہے اور آنحضرت خود بھی صاف ستھرے اور پاکیزہ اور زینت اختیار کرنے والے تھے اور آپ کے صحابہ بھی جہاں تک توفیق تھی ایسا ہی کرتے تھے.پس گھروں کی زینت بھی مہمان نوازی کا ایک حصہ ہوتی ہے.اس میں بعض محلے اگر چاہیں تو ایک رنگ اختیار کر سکتے ہیں.رنگ اکٹھا منگوا لیا جائے جو ستار ہے گا اور پھر بعض محلے ایک خاص رنگ کا پیٹرن بنا سکتے ہیں کہ ہمارے محلہ کی سڑک کی طرف سے نظر آنے والی دیواروں کا یہ رنگ ہوگا اور دروازوں کا یہ رنگ ہو گا.اگر تخمینے تیار کئے جائیں تو بہت معمولی خرچ پر یونیفار میٹی آجائے گی اور ایک ہی رنگ میں بعض محلے اچھے بھی لگیں گے اور یہ نظارہ دیکھ کر اہل محلہ کو بڑا لطف آئے گا.یہ صرف مہمانوں کے لئے نہیں بلکہ ان کے اپنے بھی کام آنے والی چیز ہے.سجاوٹ سے طبیعت میں بشاشت پیدا ہوتی ہے.پہلے کی نسبت زندگی زیادہ آسان ہو جاتی ہے اور پھر اسی گھر میں زیادہ لطف آنے لگتا ہے جہاں زینت ہو.زینت کے لئے ضروری نہیں کہ لاکھوں یا کروڑوں روپے کا انتظار کیا جائے.غریبانہ زینت بھی ہوتی ہے اس لئے سلیقہ چاہئے.ارادہ ہو تو زینت اختیار کرنا اتنا مشکل کام نہیں.اگر صحنوں اور گلیوں کی صفائی ہوگی تو زینت بھی ہوگی ، یہ تو نہیں ہوسکتا کہ او پر سجاوٹ ہو اور نیچے گند ہو.
خطبات طاہر جلد ۲ 566 خطبه جمعه ۲ نومبر ۱۹۸۳ء میں یہ کہنا بھول گیا تھا کہ صحنوں اور گلیوں کی صفائی کا پہلے انتظام کیا جائے.ان دونوں کو میں بریکٹ کر رہا ہوں کیونکہ بعض دفعہ صحن کی صفائی کا مطلب ہوتا ہے گلیوں کا گند اور گلیوں کی صفائی کا مطلب ہے کہ گھر میں گند پڑا رہے.یہ دونوں چیزیں نہیں ہونی چاہئیں.دونوں کو بیک وقت پیش نظر رکھ کر اپنا لائحہ عمل تجویز کریں.صحنوں کا گند گلیوں کا گند نہیں بننا چاہئے اور گلیاں اس لئے نہیں صاف ہونی چاہئیں کہ آپ کے صحن گندے رہتے ہیں.دونوں چیزیں بیک وقت صاف کرنے کے لئے آپ کو صرف اپنے ذرائع پر انحصار نہیں کرنا بلکہ انتظامیہ کو لازماً اس میں آپ سے تعاون کرنا ہوگا.خدام الاحمدیہ، انصار اللہ صدران محلہ کی کمیٹیاں بنیں اور ان باتوں کا خیال کریں کہ وہ لوگ جو گند باہر پھینکیں گے انہیں کیا کرنا چاہئے اور اس گند کو وقت پر وہاں سے دور کرنے کے لئے کیا انتظام ہونا چاہئے.وہ گندی نالیاں جن میں اندھیرے میں مسافروں کے پاؤں پڑ جاتے ہیں اور ان کے کپڑے گندے ہو جاتے ہیں ان کے لئے کیا صورت بنانی چاہئے.کوئی راہ گزر بھی ایسی نہیں ہونی چاہئے جہاں مسافر کے لئے کوئی خطرہ ہو.اماطة الاذی ایمان کا ایک حصہ ہے.( صحیح بخاری کتاب الحصبة وفضلها والتحريض علیھا.باب فضل المنیحہ ) ہر تکلیف دہ چیز کو ہم نے اپنی گلیوں وغیرہ سے دور کرنا ہے.اسی طرح بازاروں میں صفائی بھی بہت ضروری ہے.بازاروں میں دوکانداروں کا یہ رجحان ہوتا ہے کہ وہ ایسے موقعوں پر جہاں بکری بڑھنے کا امکان ہو سجاوٹ کرتے ہیں لیکن بعض اوقات وہ اپنی دکانیں سجا کر اپنے گند باہر پھینک رہے ہوتے ہیں اس لئے وہاں بھی ان دونوں چیزوں کو اکٹھا رکھنا ہے.دوکان کی سجاوٹ بازار کی تکلیف میں منتقل نہ ہو جائے اور دکان کی وسعت بازار کی تنگی میں منتقل نہ ہو جائے.پس یہ دو تکلیفیں ہیں جو عموماً ایسے موقعوں پر پیش آجاتی ہیں تو اس کے لئے انتظامیہ کو مستعد ہونا چاہئے کہ تھڑے بڑھتے بڑھتے گلیوں کو نہ روک لیں اور بازاروں میں چلنا مشکل ہو جائے.لہذا جہاں تک بھی ممکن ہوسڑکوں وغیرہ کی صفائی ضرور کی جائے.ہمارا ایک شعبہ کبھی مار اور مچھر مار ہے.میں نے اس کا انچارج ڈاکٹر عمر دین صاحب کو بنایا تھا وہ خدا تعالیٰ کے فضل سے اچھا کام کرتے رہے ہیں.دوائیاں بھی مل گئی ہیں لیکن اب بھی کہیں لکھی نظر آ جاتی ہے تو جلسہ سے پہلے اس کے لئے پیشل سکیم بنانے کی ضرورت ہے.مکھی کا بالکل قلع قمع
خطبات طاہر جلد ۲ 567 خطبه جمعه ۴ ر نومبر ۱۹۸۳ء کر دینا چاہئے.مچھر کے لئے دوائیاں انہیں مل سکی ہیں یا نہیں اس کا تو علم نہیں لیکن مکھی کے لئے تو وافر مقدار میں دوائی آچکی ہے.اسے چھوٹے چھوٹے پیکٹوں میں بند کر کے گھروں میں تقسیم کریں.صدران محلہ یا خدام کی معرفت یا پھر کارکنان کے ذریعہ بازاروں میں اس کی عام Application کا انتظام کیا جائے.مساجد میں جہاں جو تیاں رکھی جاتی ہیں ان کے پاس اگر بوریاں بھگو کر رکھ دی جائیں تو مکھیاں اس کی طرف مائل ہو جاتی ہیں کیونکہ اس میں سے ایک خاص بو بھی نکلتی ہے جو کھی کو بھینچتی ہے.اسی طرح کھڑکیوں اور دہلیزوں وغیرہ پر رکھوانے کا انتظام کیا جائے.اس کے علاوہ پبلک گندگی کے جو اسٹور بنے ہوئے ہیں ان پر بھی چھڑکاؤ کا انتظام کیا جائے تو خدا تعالیٰ کے فضل.بہت تھوڑے عرصہ میں لکھی کا تقریباً قلع قمع کیا جا سکتا ہے.اس کے لئے تین حصوں میں تیاری کرنی چاہئے ایک Application ابھی ہو جائے ، پھر جلسہ کے قریب لیکن اتنا بھی قریب نہ ہو کہ کبھی کھانے میں مرنا شروع ہو کیونکہ جب وقت تھوڑا رہ جائے تو اس وقت ابھی دوائی تازہ ہوتی ہے اور اگر مکھیاں بچی ہوئی ہوں تو وہ اس پر بیٹھ کر مرتی نہیں بلکہ بعض دفعہ کمزور ہو جاتی ہیں تو پھر سالن یا دودھ میں گر کر جان دے دیتی ہیں تو اس طرح کافی گند پڑتا ہے.پس جلسہ سے پہلے ضروری ہے کہ جو مکھی مارنی ہے وہ پہلے سے مار چکے ہوں.پھر تیسرا مرحلہ جلسہ کے معابعد کیونکہ کچھ نہ کچھ بچی ہوئی مکھیاں جلسہ کی غذا پر خوب نشو و نما پاتی ہیں.لہذا اگر آپ جلسہ کے فوراًبعد انتظام کر دیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ ربوہ ایک ایسا شہر بن جائے گا جو کبھی سے پاک ہو گا اور اس لحاظ سے خدا کے فضل سے مشرق میں ایک نمونہ کا شہر ہوگا.جہاں تک انتظامیہ کے کاموں کا تعلق ہے انہیں جو کام عارضی طور پر کرنے ہیں ان میں سے ایک تو یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہو کمیٹی کے تعاون اور اجازت کے ساتھ ( جہاں اجازت اور تعاون ضروری ہو ) سڑکوں پر راہ نمائی کے لئے بورڈ آویزاں کئے جائیں اور یہ کوشش کرنی چاہئے کہ مختلف جگہوں کی اچھی طرح راہنمائی ہو جن میں آنے والے دلچسپی رکھتے ہیں اور اسی طرح سڑکوں کے چھوٹے چھوٹے نقشے بنا کر بورڈوں کے اوپر یا نیچے آویزاں کئے جاسکتے ہیں.اس کے علاوہ بعض کام مستقل نوعیت کے ہیں جیسے پبلک Toilets اور لیٹرینز وغیرہ کا انتظام ہے.ہمارے ملک میں یہ ایک بڑی کمزوری ہے.نہ صرف ہمارے بلکہ مشرق کے بہت
خطبات طاہر جلد ۲ 568 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۳ء سارے ملکوں میں کہ اس طرف توجہ نہیں کرتے یہاں تک کہ بعض بڑے بڑے شہروں میں بھی کوئی انتظام نہیں ہوا کرتا تھا.اگر کوئی بازار وغیرہ چلا جاتا تو اس بیچارے کی حالت خراب ہوتی تھی.ایک دفعہ ایک پرانے بڑھے نے بتایا کہ میں لاہور دیکھنے گیا تو قید ہو گیا.میرا جرم صرف یہ تھا کہ مجھے پیشاب آگیا اور کوئی جگہ نہیں ملتی تھی.اس زمانہ میں مال روڈ کو ٹھنڈی سڑک کہتے تھے اس پر میں ہر طرف بہت دوڑ ا مگر مجھے کوئی جگہ نہ ملی.پھر میں وہیں ایک طرف بیٹھ گیا تو پولیس نے مجھے پکڑ لیا اور تھانے پہنچا دیا کہ تم نے جگہ گندی کی ہے.تو جو لوگ صفائی چاہتے ہیں اور جگہ گندی نہیں کروانا چاہتے وہ اس کا انتظام بھی تو کیا کرتے ہیں.یہ تو نہیں کہ میلوں میل شہر ہو اس میں ایک بھی Toilets نہ ہو اور توقع آپ یہ رکھیں کہ باہر سے آنے والے باہر جا کر ہی فارغ ہوں.اہل ربوہ کو بہت زیادہ پبلک سہولتوں کی ضرورت ہے کیونکہ بڑی کثرت سے بار بار لوگ یہاں آتے ہیں اور یوں بھی ہر ہفتہ ہی آنے والے لوگوں کا ہجوم خلائق لگا ہی رہتا ہے تو جہاں پبلک Conveniences کی ضرورت ہے اس کے لئے تو ایک لمبی پلاننگ کرنی پڑے گی اور صد سالہ جو بلی کے جلسہ سالانہ کو مدنظر رکھ کر یہ منصوبہ بنانا چاہئے اور اس کے کچھ ضروری حصوں کو ہر سال مکمل کرتے رہنا چاہئے اور اس سال بھی کوشش کرنی چاہئے کہ معیاری غسل خانے ، ان کی صفائی کا انتظام اور پھر جن لوگوں کو نسل خانہ استعمال کرنے کا طریق نہ آتا ہوا انہیں سمجھانے والا کارکن بھی ڈیوٹی پر ہو.ایسے سیٹ بعض ضروری جگہوں پر بن جائیں جلسہ سالانہ کے قریب بھی اور بازاروں میں بھی بعض جگہ ایسے سیٹ بنائے جائیں.اب چونکہ وقت تھوڑا ہے اس لئے اگر مستقل نہ ہو سکے تو کچھ عارضی ہی سہی لیکن کوشش یہی کریں کہ ایک مہینہ کے اندر اندر اچھی اور مستقل قسم کی لیٹریز اور Toilets وغیرہ بن سکیں تو وہ بنائے جائیں.پس یہ تو عمومی باتیں ہیں جو میں نے کہنا تھیں.ان میں سے ایک حصہ جو بیان ہونے سے رہ گیا ہے وہ مہمان کی خوراک سے متعلق ہے.اگر چہ جلسہ کی طرف سے مہمان کی خوراک کا انتظام ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں تک بس چل رہا ہے انتظامیہ یہ کوشش کر رہی ہے کہ خوراک کے انتظام میں بہتری ہو.مشینوں میں جو روٹی پکتی ہے اس کی وجہ سے کچھ وقتیں پیدا ہو جاتی ہیں.بعض دفعہ کسی جگہ سے روٹی جل جاتی ہے یا کچی رہ جاتی ہے اسے بھی بہتر بنانے کی کوشش ہو رہی ہے
خطبات طاہر جلد ۲ 569 خطبه جمعه ۲۴ نومبر ۱۹۸۳ء اور یہ سارا کام سارے کا سارا خودکار (Completely Automatic) بنانے کی کوشش ہورہی ہے اور تجربہ بھی کیا گیا ہے.امید ہے کہ اس سال اسے بہت سارے لنگروں میں داخل کر دیا جائے گا اور آہستہ آہستہ ہم پیڑے والیوں اور روٹی والیوں کی خدمات سے مستغنی ہوتے چلے جائیں گے.روٹی کی کوالٹی میں بہت بڑی خرابی اسی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ پیڑے بنانے والی کوئی موٹا اور کوئی پتلا بنا رہی ہے جبکہ مشین میں ایک آنچ رکھی ہوئی ہے.کہیں سے زیادہ وزنی روٹی اور کہیں سے کم وزنی روٹی گزررہی ہے اس سے کہیں روٹی جل جاتی ہے اور کہیں سے کچھی رہ جاتی ہے.تو یہ ساری دقتیں آٹومیشن (Automation) کے ذریعہ دور ہو سکتی ہیں جب خود کار مشینیں کام کریں گی جو پیڑا بھی بنارہی ہوں اور روٹی کو شکل بھی دے رہی ہوں تو انشاء اللہ یہ ساری وقتیں دور ہو جائیں گی.مجھے ایک امکان نظر آ رہا ہے خطرہ کہنے لگا تھا خطرہ تو نہیں امکان ہے.وہ یہ ہے کہ اگر مہمان زیادہ آجائیں تو ہو سکتا ہے کہ موجودہ انتظام نا کافی ہو.ایسی صورت میں ہمیں گھروں میں کچھ زائد انتظامات کے ساتھ تیار رہنا چاہئے.ایسے گھر جنہیں خدا تعالیٰ نے توفیق دی ہے وہ پہلے بھی کوشش کرتے ہیں کچھ مہمانوں کا بوجھ وہ خود ہی اٹھاتے ہیں اور صرف ایک حصہ ہے جو لنگر خانہ کی طرف منتقل ہوتا ہے مگر اس کے علاوہ بھی احتیاطاً تیار رہنا چاہئے کہ اگر انہیں یہ کہا جائے کہ آپ نے اپنے مہمانوں کو تین یا چار وقت کا کھانا خود دینا ہے تو وہ اس کے لئے راشن پہلے سے تیار رکھیں اور یہ سسٹم بھی بنا کر رکھیں کہ کس طرح سے روٹی مہیا کی جائے گی.ایسی صورت میں مہمانوں کو بھی خدمت میں بے تکلفی سے اپنے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے اس میں کوئی عار کی بات نہیں ہے.پاکستان سے جو لوگ انگلستان وغیرہ جاتے ہیں تو ایسے ملکوں میں بڑی خوشی سے اپنی خدمات پیش کرتے ہیں اور آپس میں مل جل کر بھائی بہنوں کی طرح گزارہ کرتے ہیں.پس آنے والے بھی ذہنی طور پر اس کے لئے تیار ہو کر آئیں کہ اگر کسی گھر میں ان کی خدمات کی ضرورت ہو روٹی پکانے ، سالن بنانے کے سلسلہ میں یا پھر برتن دھونے کے معاملہ میں تو وہ سارے مل کر گزارہ کریں گے.جہاں تک راشن کا تعلق ہے وہ آپ چند دنوں کا زائد رکھ لیں.آپ خدا تعالیٰ کی خاطر جو راشن زائد خریدیں گے وہ آپ کے باقی راشن میں برکت دے گا اور سارے سال کے خرچ میں
خطبات طاہر جلد ۲ 570 خطبه جمعه ۴ / نومبر ۱۹۸۳ء زیادتی نہیں ہوگی بلکہ آپ دیکھیں گے کہ کمی آئے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے دینے کے ڈھنگ بڑے نرالے ہیں.برکتیں بھی حیرت انگیز طریق سے عطا فرماتا ہے اور یہ ہمارا روز مرہ کا تجربہ ہے.یہ کوئی فرضی قصہ نہیں ہے.پس اس دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمانوں کے لئے ذاتی مہمان نوازی کا خاص طور پر انتظام کریں.آخری بات جو میں کہنا چاہتا ہوں اور ہمیشہ کہتا رہوں گا وہ دعا ہے.دعا کے ذریعہ مدد مانگیں.مشکلات کے بہت سے ایسے مواقع ہوتے ہیں جن پر آپ جتنا مرضی منصوبہ بنا ئیں اور تفصیل سے سوچیں ان تک آپ کی نگاہ جاتی ہی نہیں ، وہ تو اچانک پیدا ہونے والے بعض واقعات اور حادثات ہیں جودنیا کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہیں.پس دعا ہی ہے جو آپ کے روز مرہ کے منصوبوں میں بھی برکت دیتی ہے اور ان اتفاقی حادثات کے شر سے بھی آپ کو محفوظ رکھتی ہے، آپ کے حوصلوں کو بھی وسعت دیتی ہے، آپ کی قوت عمل کو بھی وسعت دیتی ہے اور آپ کی کوششوں کو بہتر پھل لگاتی ہے اس لئے ابھی سے خاص طور پر جلسہ سالانہ کی غیر معمولی کامیابی کے لئے دعائیں شروع کر دیں.اللہ تعالیٰ ہر پہلو سے حافظ و ناصر ہو اور ہمیں نہایت ہی اعلیٰ اور پاکیزہ محبت کے اسلامی ماحول میں آنے والے مہمانوں کی بہترین خدمت کی توفیق بخشے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۶ نومبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 571 خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۸۳ء بیوت الحمد سکیم میں وسعت (خطبه جمعه فرموده ۱۱/ نومبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ : حُنَفَاءَ وَ يُقِيمُوا الصَّلوةَ وَيُؤْتُوا الزَّكُوةَ وَذَلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (الية : ٢) قرآن کریم نے مذاہب کا جو خلاصہ بیان فرمایا ہے وہ خدا تعالیٰ کی عبادت اور بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اپنی طاقتوں کو خرچ کرنا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ یہی وہ دین قیمہ ہے جو قرآن کریم میں خلاصہ محفوظ کر دیا گیا ہے.گویا دنیا کے تمام مذاہب انہی دو باتوں کی تعلیم دیتے رہے ہیں اور کسی مذہب کی سچائی کی پہچان اس سے بہتر نہیں ہوسکتی کہ اس میں یہ دونوں اجزا شامل ہوں.وہ مذہب جو خدائے واحد کی عبادت کی تعلیم نہیں دیتا اور بنی نوع انسان سے بلا امتیاز مذہب وملت ہمدردی اور پیار اور شفقت کی تعلیم نہیں دیتا وہ اس کسوٹی پر پورا نہیں اتر تا اس کے متعلق ہم کہہ سکتے ہیں کہ یا تو وہ شروع سے ہی جھوٹا تھا یا بعد میں اس میں جھوٹ شامل کر دیا گیا.پس تمام انبیاء علیہم السلام جب بھی دنیا میں آئے انہوں نے اپنے ماننے والوں کو یہی تعلیم دی کہ وہ خدائے واحد کی عبادت کریں اور بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی کریں.چنانچہ قرآن کریم ایک اور جگہ انبیاء کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
خطبات طاہر جلد ۲ 572 خطبه جمعه ۱۱/ نومبر ۱۹۸۳ء وَجَعَلْتُهُمْ أَبِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا وَأَوْحَيْنَا إِلَيْهِمُ فِعْلَ الْخَيْرَاتِ وَإِقَامَ الصَّلوةِ وَ اِيْتَاءَ الزَّكُوةِ ۚ وَ كَانُوا لَنَا عِبِدِينَ (الانبياء: ۷۴) کہ ہم نے ان سارے انبیاء کو امام بنایا تھا ایسے امام جو مہدی بھی تھے یعنی ہم سے ہدایت پا کر پھر آگے حکم جاری کرتے تھے.وہ اپنی طرف سے ہدایتیں نہیں دیتے تھے بلکہ ہماری ہدایت کے تابع مہدی ہوتے ہوئے آگے حکم جاری فرمایا کرتے تھے اور ان سب انبیاء پر ہم نے جو وحی کی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فِعْل الْخَيْراتِ اچھے کام کر و اقام الصلوۃ اور نماز کو قائم کرو ایتاء الزكوة اور بنی نوع انسان کی ہمدردی میں اللہ کی خاطر خرچ کرو و کانُوا لَنَا عَبدِينَ اور یہ سارے کے سارے ہماری عبادت کیا کرتے تھے.گزشتہ سال جب اللہ تعالیٰ نے جماعت احمدیہ کو یہ توفیق عطا فرمائی کہ پانچ سوسال کے بہت ہی دردناک تعطل کے بعد سپین میں پہلی مسجد کا افتتاح کرے تو اس کے بعد حمد اور شکر کے طور پر میں نے ”بیوت الحمد کی تحریک کی کیونکہ عبادت کا بنی نوع انسان کی ہمدردی سے گہرا تعلق ہے.چنانچہ میرے ذہن میں یہی تاثر تھا جس کی بنا پر میں نے مسجد کا شکرانہ ادا کرنے کے لئے ایک اور نیکی کی تعلیم دی تا کہ عبادت کا دوسرا پہلو یعنی خدا کی خاطر بنی نوع انسان کے ساتھ تعلق پیدا کرنا اور ان کی ہمدردی کرنا یہ بھی پورا ہو جائے اور اپنے رب کے حضور شکرانے کا ایک اظہار بھی ہو جائے.چنانچہ اب مسجد آسٹریلیا کی بنیا ڈالنے کی توفیق ملی ہے تو میں اسی تحریک کود ہرانا چاہتا ہوں.اب یہ تحریک میرے ذہن میں نسبتاً زیادہ وسعت اختیار کر چکی ہے.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہر سال مساجد کی تعمیر کی توفیق دیتا ہی چلا جارہا ہے اور عبادت کرنے والے بھی دن بدن جماعت احمدیہ میں بڑھ رہے ہیں اس لئے عبادت کے دوسرے پہلو کا حق بھی ساتھ ساتھ اسی طرح ادا ہوتے رہنا چاہئے.چنانچہ غربا کی ہمدردی میں جو مختلف تحریکات جماعت احمدیہ میں جاری ہیں اور ہمیشہ سے جاری ہیں ان میں ایک بیوت الحمد کا اضافہ ہو چکا ہے جس کے نتیجہ میں بنی نوع انسان کی ہمدردی کی یہ تعلیم مکمل ہو جاتی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت کا جو تصور عطا فرمایا تھا اس کا خلاصہ یہی تھا جسے آج کل کی زبان میں روٹی، کپڑا اور مکان کہتے ہیں اور یہ وہ تعلیم ہے جسے انسان
خطبات طاہر جلد ۲ 573 خطبه جمعه ۱۱/ نومبر ۱۹۸۳ء نے اپنی ترقی کی انتہا پر جا کر سیکھا ہے لیکن قرآن کریم ہمیں یہ بتاتا ہے کہ خدا نے آدم کو جب تہذیب سکھانی شروع کی تو اس کے آغاز میں پہلی تعلیم یہ تھی کہ جنت کا تصور یہ ہے کہ اس میں روٹی کپڑا اور مکان مہیا ہونے چاہئیں.چنانچہ جب مکانوں کی طرف بھی جماعت احمد یہ پوری طرح توجہ کرے گی تو جنت کا وہ کم از کم تصور جو بنی نوع انسان کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے اسے مکمل کر لے گی.اس میں اضافے ہوں گے اور ہوتے چلے جائیں گے کیونکہ آنحضرت ﷺ نے جوتعلیم دی ہے اس نے اس میں بہت ہی زیادہ حسن پیدا کر دیا ہے اور بہت ہی وسعت پیدا کر دی ہے لیکن جیسا کہ تمام احباب جماعت کو علم ہے کہ ہم پر دوسری ذمہ داریاں بھی کچھ کم نہیں.ان میں عبادت سے تعلق رکھنے والی بھی ہیں اور خدمت خلق کے دوسرے تقاضوں کو پورے کرنے والی بھی اتنی زیادہ ہیں کہ ہم اپنی خواہش کے مطابق فی الحال غربا کی ہمدردی میں اتنا خرچ نہیں کر سکتے جتنا کہ ہماری تمنا ہے لیکن اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہماری توفیق کو انشاء اللہ بڑھاتا چلا جائے گا اور جوں جوں توفیق بڑھے گی ہم اس میدان میں بھی آگے بڑھتے چلے جائیں گے.میرے دل کی یہ خواہش ہے کہ ساری دنیا میں ہمدردی کرنے والوں میں سب سے زیادہ ہمدردی کا عملی اظہار جماعت احمدیہ کی طرف سے ہو اور دنیا میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ موسیٰ" کی جماعت نے بنی نوع انسان کی یہ خدمت کی اور عیسی کی جماعت نے یہ خدمت کی اور محمد مصطفی ﷺ کی جماعت نعوذ باللہ پیچھے رہ گئی اس لئے جہاں تک مذاہب کے مقابلہ کا تعلق ہے فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرات کو پیش نظر رکھتے ہوئے میرے دل میں خدا تعالیٰ نے اس معاملہ میں بے انتہا جوش پیدا کیا ہے.میں یہ چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ایسے عظیم الشان کام سرانجام دے جو اپنی وسعت کے ساتھ اپنی شدت میں بھی بڑھتے رہیں یہاں تک کہ جماعت احمد یہ ساری دنیا میں بنی نوع انسان کی سب سے زیادہ ہمدردی رکھنے والی اور ہمدردی میں عملی قدم اٹھانے والی جماعت بن جائے اور آنحضرت ﷺ کے دین کو اس پہلو سے بھی ساری دنیا کے ادیان پر غلبہ نصیب ہو جائے.چنانچہ خدمت خلق کی مختلف تحریکات جو جماعت میں جاری ہیں ان میں سے جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا بیوت الحمد کی تحریک ایک ایسی تحریک ہے جوگزشتہ سال جاری کی گئی.اس کی رپورٹ کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر چہ اس تحریک پر کوئی غیر معمولی زور نہیں دیا گیا تھا کیونکہ گزشتہ مالی سال کے
خطبات طاہر جلد ۲ 574 خطبه جمعه ۱۱ نومبر ۱۹۸۳ء دوران ہم زیادہ تر لازمی چندہ جات اور وصیت کے چندوں پر زور دیتے رہے اس لئے میں نے یہ کہا تھا کہ وہی لوگ اس تحریک میں شامل ہوں جو اپنے چندے شرح کے مطابق ادا کرتے ہیں اور حسب توفیق جتنا وہ دے سکتے ہیں اس تحریک میں بھی دیں لیکن بہت زیادہ بوجھ نہ اٹھائیں.چنانچہ اس عام تحریک کے نتیجہ میں جس کی یاد دہانیاں نہیں کرائی گئیں، کوئی خطوط نہیں لکھے گئے ، الفضل میں بار بار اس کی تحریکات نہیں کی گئیں، خدا تعالیٰ کے فضل سے 14,83,833 روپے وصول ہو چکے ہیں اور اس میں سے اب تک جو خرچ ہوا ہے وہ 2,56,800 روپے ہے جس سے ایسے 42 افراد کو مدددی گئی ہے جن کے مکانات مثلاً مرمت کے محتاج تھے اور خطرہ تھا کہ اگر مرمت نہ کی گئی تو منہدم ہو جائیں گے یا بے پردگی ہوتی تھی مثلاً چار دیواری نہیں تھی کسی غریب نے دو کمرے ڈال لئے لیکن چاردیواری نہیں تھی یا بعض کے گھروں میں غسل خانے نہیں تھے، کسی کے پاس باورچی خانہ نہیں تھا، کسی کے اہل خانہ زیادہ تھے اور اس کے مقابل پر جگہ کی بہت دقت تھی ، ایک ایک کمرے میں گھر کی بیٹیاں بھی اور نو بیاہتا جوڑا بھی ہے غرض جو لوگ فوری مدد کے محتاج تھے ان کی مدد کی گئی اور خدا تعالیٰ کے فضل سے 42 خاندانوں نے اس سے استفادہ کیا ہے.لیکن جو اصل کام پیش نظر ہے وہ یہ ہے کہ وسیع پیمانے پر گھروں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کیا جائے تا کہ بعض غربا کو بنا بنایا پورا گھر مہیا کر دیا جائے.اس سلسلہ میں میں نے ساتھ ہی یہ تحریک کی تھی کہ ہماری جماعت کے آرکیٹیکٹس اور انجینئر زایسی سکیمیں بنا کر بھیجیں کہ ہمارے عام ملکی حالات کے لحاظ سے اور دونوں موسموں کے اعتبار سے موزوں مکان کیسے بنائے جا سکتے ہیں جوستے بھی ہوں اور اچھے بھی ہوں.چنانچہ کئی انجینئر ز نے خدا کے فضل سے بڑی محنت سے بعض منصوبے بنا کر بھیجے ہیں جو اس وقت زیر غور ہیں.اگر ان میں سے کوئی اچھا نقشہ مل گیا تو اس کے مطابق ہم انشاء اللہ تعمیرات کا کام بھی شروع کر دیں گے.ادھر زمین بھی زیر نظر ہے وہ بھی انشاء اللہ تعالیٰ حاصل کر لی جائے گی.ایسی (Colonies) نئی آبادیاں تعمیر کرنے کا خیال ہے جن میں گھر مکمل کرنے کے بعد بعض ایسے خاندانوں کے سپرد کر دیئے جائیں گے جو غربت کے باوجود جماعتی اخلاص اور خدمتوں میں بھی نمایاں ہوں کیونکہ جہاں تک ضرورت کا تعلق ہے وہ تو غیر محدود ہے اس لئے لازماً پہلے ہمیں کوئی طریق کار اختیار کرنے پڑے گا، بعض لوگوں کو ترجیح دینی پڑے گی کوئی ایسا راستہ ڈھونڈنا
خطبات طاہر جلد ۲ 575 خطبه جمعه ۱۱/ نومبر ۱۹۸۳ء پڑے گا جس سے زیادہ مستحق لوگ سامنے آئیں.چونکہ ربوہ میں رہنے والوں کو ہم باقی شہروں کی نسبت زیادہ نیک اور زیادہ خدا ترس دیکھنا چاہتے ہیں اس لئے تقویٰ کو بھی اس معیار میں داخل کیا گیا ہے.ویسے یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ خدمت خلق میں تقویٰ کے معیار کو پیش نظر رکھنا شرط نہیں ہے بلکہ قرآنی تعلیم تو بعض منافقین اور ظالموں پر بھی خرچ کرنے سے نہیں روکتی بلکہ بعض صحابہ نے جب قسمیں کھائیں کہ ہم فلاں گندے لوگوں پر خرچ نہیں کریں گے تو قرآن کریم کی یہ آیت نازل ہوئی: وَلَا يَأْتَلِ أُولُوا الْفَضْلِ مِنْكُمْ ( النور : ٢٣) کہ تم میں سے جو صاحب فضیلت لوگ ہیں وہ ایسی قسمیں نہ کھائیں کہ فلاں پر ہم خرچ نہیں کریں گے اور فلاں پر خرچ نہیں کریں گے اس لئے یہ مراد بہر حال نہیں ہے کہ غریب کی ہمدردی کے وقت لا ز ما نیکی کوملحوظ رکھنا چاہئے.لیکن مرکز کے تقاضوں کے پیش نظر ایک زائد شرط ہمیں عائد کرنی پڑے گی کیونکہ یہ تو مجبوری ہے ہم ہر ایک کو تو فی الحال بنا کر دے بھی نہیں سکتے یعنی جب خدا توفیق بڑھائے گا تو پھر جماعت جتنے زیادہ مکان دے سکے گی دے گی لیکن فی الحال ہمیں مجبوراً کچھ ایسی شرطیں رکھنی پڑیں گی کہ دائرہ محدود ہو جائے.اس سکیم کو میں وسعت دینا چاہتا ہوں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ جلسہ جو بلی تک ہم کم از کم ایک کروڑ روپے کی لاگت سے مکان بنا کر غربا کو مہیا کر دیں یعنی جماعت کے جو سو سال گزر رہے ہیں ان کے ہر سال پر صرف ایک لاکھ روپیہ اگر ہم ڈالیں تو ایک کروڑ بن جاتا ہے اور پھر بعد میں انشاء اللہ ایک کروڑ مکانات بھی ہوں گے لیکن فی الحال ایک کروڑ روپے کی تحریک کی جاتی ہے.میرا گزشتہ سال کا وعدہ دس ہزار روپے کا تھا جو میں نے ادا کر دیا تھا بہت ہی معمولی رقم تھی.اب میں اپنے اس وعدہ کو بڑھا کر ایک لاکھ کر رہا ہوں اور آئندہ چار سال میں انشاء اللہ یہ وعدہ پورا کر دوں گا.باقی دوست جو ایک لاکھ کے وعدے کر چکے ہیں وہ غالباً تین یا چار اور ہیں تو پانچ لاکھ کا تو اس طرح اکٹھا انتظام ہو گیا جو اس سے پہلے وعدے آچکے ہیں ان کو شامل کر لیا جائے.یعنی ان پانچ لاکھ کے علاوہ اگر ہمیں اتنی دوست ایک ایک لاکھ کا وعدہ کرنے والے مل جائیں تو انشاء اللہ تعالیٰ بڑی آسانی کے ساتھ یہ معاملہ طے ہو جائے گا لیکن کوشش یہ کرنی چاہئے کہ ادائیگی میں جلدی کی جائے کیونکہ میں اس کو صد سالہ سکیم کا حصہ بنانا چاہتا ہوں یعنی جس سال ہم صد سالہ جشن منا رہے ہوں اس
خطبات طاہر جلد ۲ 576 خطبہ جمعہ اار نومبر ۱۹۸۳ء سال ہماری خوشیوں میں بعض ایسے غریب بھی شامل ہوں جن کے پاس پہلے کوئی مکان نہیں تھا محض اللہ تعالیٰ کے فضل سے اور احمدیت کی برکت سے اس سال ہم ان کو نئے مکانوں کی چابیاں سپر د کریں اس لئے اس نئے ایک کروڑ کی ادائیگی میں ہمیں جلدی کرنی چاہئے اور اگر اس مد میں زیادہ رقم بھی جمع ہو جائے گی تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے.یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ صرف ایک کروڑ ہی ہو.دوکروڑ ، تین کروڑ یا جماعت کو جتنے کی توفیق مل سکتی ہے دے دے لیکن ایک کروڑ کم از کم حد ہے.جہاں تک اس ایک کروڑ کا تعلق ہے اگر چہ اس کی حیثیت ویسے آجکل کے لحاظ سے تو کچھ نہیں ہے لیکن ایک کروڑ مقرر کرنے میں میرے پیش نظر ایک رؤیا ہے جو صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب ناظر اعلیٰ نے گزشتہ سال اس کی تحریک کرنے کے کچھ عرصہ بعد دیکھی تھی.آپ نے دیکھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک غریبانہ مکان میں ایک چارپائی پر تشریف فرما ہیں اور لگتا ہے کہ وہ مکان ہے تو غریبانہ لیکن صاف ستھرا اور نیا بنا ہوا مکان ہے اور فرماتے ہیں ایک کروڑ ! اور اس کے بعد وہ رو یا ختم ہوگئی.چونکہ اس سے پہلے بیوت الحمد کی تحریک ہو چکی تھی اس لئے جب انہوں نے مجھے یہ خواب لکھ کر بھجوائی تو میں نے یہی تعبیر کی کہ اس کا پہلا حصہ یہ بنے گا کہ ہم ایک کروڑ روپیہ کم از کم اس تحریک پر خرچ کریں اور دوسرا یہ ہو گا کہ جماعت احمد یہ ایک کروڑ مکانات بنائے.یہ جو دوسرا حصہ ہے اس کے متعلق میں یہ امید رکھتا ہوں کہ اگلے سو سال کے جشن کے وقت انشاء اللہ پورا ہو جائے گا.پس اس خواب کی تعبیر کے ایک حصہ کا آغاز ہم کر دیتے ہیں اور اپنے رب سے توقع رکھتے ہیں کہ اس کی دوسری تعبیر بھی بعینہ پوری کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے گا.باقی جو دوست اس تحریک میں حصہ نہیں لے سکتے ان سے میں یہ کہتا ہوں کہ وہ دعائیں کریں اور ضروری نہیں ہے کہ ایک لاکھ کی توفیق ہو تبھی اس میں حصہ لیا جائے اگر زیادہ کثرت کے ساتھ دوست شامل ہونا چاہتے ہیں تو ضرور شامل ہوں کیونکہ یہ بہت ہی مبارک تحریک ہے جو لوگ بھی ان مکانوں میں رہیں گے خدمت کرنے والوں کو ہمیشہ ان کی دعائیں پہنچتی رہیں گی اس لئے اس تحریک میں کم سے کم روپیہ کے لئے میں کوئی حد مقرر نہیں کرتا.اگر کوئی دوست چار آنے دے کر بھی اس میں شامل ہونا چاہے تو سیکرٹریان مال اس کے چار آنے بھی قبول کر لیں ، اس لئے بے شک وسعت پیدا ہو جائے اگر چہ اس سے حساب میں تھوڑی سی مشکل تو پیدا ہوتی ہے لیکن کوئی حرج نہیں جو
خطبات طاہر جلد ۲ 577 خطبه جمعه ۱۱/ نومبر ۱۹۸۳ء بھی کوئی دے سکتا ہے وہ قبول کر لیا جائے تاکہ لوگ کثرت سے اس ثواب میں شامل ہو جائیں.اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے ہمیں اس بات کی توفیق عطا فرمائے کہ ہم عبادت کے تقاضے بھی پورے کر سکیں اور خدمت خلق کے تقاضے بھی پورے کر سکیں کیونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے امر واقعہ یہ ہے کہ ساری دنیا میں بنی نوع انسان کی خدمت کا فرض سب سے زیادہ مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے.دنیا کی اور کو ئی تعلیم ایسی نہیں ہے جس نے بنی نوع انسان کی خدمت پر اتنا زور دیا ہولیکن بد قسمتی سے اس وقت عالم اسلام کو بنی نوع انسان کی خدمت کرنے کی دنیا کی قوموں میں سب سے کم توفیق مل رہی ہے.عیسائیت کے نام پر جتنے شفا خانے جاری ہیں ، جتنے سکول کھولے گئے ہیں ، جتنے دیگر ہمدردی کے کام کئے گئے ہیں، سیلابوں میں اور مصائب میں چرچ کی طرف سے جو خرچ ہوتا ہے جب اس پر نظر پڑتی ہے تو دل کٹ جاتا ہے کہ جن کے سپر د اللہ تعالیٰ نے یہ کام کیا تھا ان سے وہ لوگ بازی لے گئے ہیں.جن کے سپرد کسی زمانہ میں چھوٹا سا کام ہوا تھا اور اب ان کو اس سے فارغ کیا جا چکا ہے، ان سے یہ خدمتیں لی جا چکی ہیں لیکن وہ اپنے طور پر یہ خدمتیں کرتے چلے جار ہے ہیں اور جن خدام کو اللہ تعالیٰ نے اس خدمت کے لئے چنا تھا وہ ملا زمت میں ہوتے ہوئے بھی خدا کی نوکری میں شامل رہتے ہوئے بھی اس خدمت سے بے نیاز ہو چکے ہیں.یہ ہے وہ خطرناک صورتحال جس کے لئے ہر احمدی کے دل میں یہ تڑپ پیدا ہونی چاہئے اور اسے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ہم جلد از جلد خدمت کے ہر میدان میں آنحضرت ﷺ کا جھنڈا دنیا کی ہر قوم کے سردار کے جھنڈے سے اونچا بلند کریں.یہی ہماری دعا ہے اور یہی ہماری تمنا ہے.خدا تعالیٰ ہمیں یہ تمنا پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربو ۳۰۰ / نومبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 579 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء قرآن کریم کا اسلوب ہدایت (خطبه جمعه فرموده ۱۸ نومبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُمْ مَنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ (المائدة: ١٠٦) اور پھر فرمایا: قرآن کریم ہدایت کی ایک ایسی کتاب ہے کہ جو ہر اس انسان کو جو اس سے ہدایت چاہتا ہے پہلے قدم سے لے کر اس کے منتہا تک ہدایت کے تمام اسلوب سکھاتی چلی جاتی ہے اور ہر قدم پر ساتھ دیتی ہے.یہ ایک ایسی راہنما کتاب ہے جو منازل کے تمام خطرات سے واقف ہے اور ہر قدم پر جس قسم کے ابتلا مسافر کو یا سالک کو پیش آ سکتے ہیں ان سے بکلی باخبر ہے اور ہر اس مسافر کو جو راہ ہدایت کا مسافر ہے اور قرآن کریم سے راہنمائی چاہتا ہے ہر خطرہ سے وقت پر آگاہ کرتی چلی جاتی ہے اور اس سے بچنے کے طریق سکھلاتی چلی جاتی ہے، نئے حو صلے عطا کرتی چلی جاتی ہے.غرضیکہ ایک لمحہ کے لئے بھی راہ سلوک پر چلنے والے کا ساتھ نہیں چھوڑتی.جب ہم اس پہلو سے قرآن کریم پر غور کرتے ہیں تو حسبنا کتاب اللہ کا معنی خوب سمجھ آجاتا ہے.حقیقت یہ ہے کہ یہ کتاب ان کے لئے جو اس سے راہنمائی حاصل کرتے ہیں پورے
خطبات طاہر جلد ۲ 580 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء خلوص، تقویٰ اور اس عزم کے ساتھ کہ ہم اس کی بتائی ہوئی راہوں پر لازماً چلیں گے ایسے مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّین لوگوں کے لئے یہ ہر لحاظ سے کافی ہے اور اس کے بعد کسی اور چیز کی حاجت نہیں رہتی.جہاں تک ہدایت پر چلنے والوں کا تعلق ہے سب سے پہلا اور اہم سوال جوان کے سامنے اٹھتا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری ہدایت کے بارے میں فیصلہ کرنے کا کس کو اختیار ہوگا؟ ہم کیسے ہدایت یافتہ شمار ہوں گے اور کیسے گمراہ لکھے جائیں گے؟ کوئی اس کے لئے معین اسلوب تو ہونا چاہئے.من يهده الله فلا مضل له و من يضلله فلا هادى له.دیکھو ہدایت کا فیصلہ کرنا خدا نے صرف اپنے ہاتھ میں رکھا ہے اور تم اس بارے میں بے نیاز ہو جاؤ کہ دنیا تمہیں کیا کہتی ہے.کسی انسان کو اللہ تعالیٰ نے نہ یہ استطاعت دی نہ یہ طاقت عطا فرمائی اور نہ ہی اس کا یہ منصب مقرر فرمایا ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ہے.جسے اللہ ہدایت یافتہ قرار دے گا وہی ہدایت یافتہ ٹھہرے گا، وہی ہدایت یافتہ قرار پائے گا اور جسے اللہ گمراہ کہے گا دنیا کی ساری طاقتیں بھی اس کے ہدایت یافتہ ہونے کا فتویٰ دیں تب بھی اس کا کوئی فائدہ نہیں.کیسی عظیم کتاب ہے جو پہلے قدم پر ہی ہر غیر اللہ سے آزاد کر دیتی ہے اور فرماتی ہے کہ تم اپنے خدا کی طرف نگاہیں رکھنا ، خدا کی طرف اپنے خیالات اور جذبات کا رخ موڑے رکھنا اور یاد رکھنا کہ اگر خدا نے تمہیں گمراہ قرار دے دیا تو پھر اگر تمہیں دنیا کی طاقتیں ہدایت یافتہ کہیں گی بھی تو تمہارے کسی کام کی نہیں اور اگر خدا کے نزدیک تم ہدایت یافتہ رہو گے تو پھر تمہیں کوئی خوف نہیں ، کوئی خطرہ نہیں ہم لازم ہدایت یافتہ ہو.قرآن کریم کی اس تعلیم میں جو مزید خوبیاں ہیں اگر آپ غور کریں تو وہ اور بھی کھلتی چلی جاتی ہیں.اگر خدا تعالیٰ انسانوں کو یہ اختیار دیتا کہ کسی کو ہدایت یافتہ قراردیں یا کسی کو گمراہ لکھ دیں اور پھر اس کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ بھی پابند ہو جاتا کہ اس کے مطابق ہی فیصلہ کرے تو دنیا میں تو انسان کا یہ حال ہے کہ اسے خود اپنی بھی خبر نہیں ، اپنے نفس سے بھی واقف نہیں ہے، وہ غیروں کے حالات کیسے جان سکتا ہے ، وہ دوسروں کے دلوں میں کب جھانک کر دیکھنے کی طاقت رکھتا ہے کہ وہ یہ فیصلہ دے سکے کہ فلاں گمراہ ہے اور پھر ہدایت اور گمراہی سے متعلق فیصلہ دینے سے پہلے جن تفاصیل کی ضرورت ہے وہ اتنی زیادہ ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا انسان اور بڑے سے بڑا محقق بھی ان تمام تفاصیل پر نظر
خطبات طاہر جلد ۲ 581 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء کر کے صحیح فیصلہ نہیں دے سکتا.کس معاشرہ میں کوئی پیدا ہوا، کن حالات میں وہ پروان چڑھا ، اس کے پس نظر میں کیا بدیاں اور نیکیاں تھیں اور ان سارے حالات میں اس کو ہدایت کا پیغام کیسے پہنچا، وہ مؤثر طریق پہ پہنچایا غلط طریق پہ پہنچا، اس کے طبعی نتائج کیا مترتب ہونے چاہئیں تھے.یہ چند سوالات ہیں جن کی آگے بے شمار شاخیں ہیں اور ایسا ممکن ہے کہ ایک شخص بظاہر ہدایت پر نہ ہولیکن خدا کے نزدیک وہ گمراہ نہ لکھا جائے کیونکہ جس چیز کو وہ دیانتداری سے ہدایت سمجھتا ہے اس پر دیانتداری سے عمل پیرا ہو.چنانچہ قرآن کریم کی بہت سی آیات اس پہلو پر بھی روشنی ڈال رہی ہیں اور نہ سمجھنے والے ان سے دھو کہ کھا جاتے ہیں اور بعض دفعہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ دیکھو قرآن کریم نے یہود اور نصاری کو یہ کہا کہ تم اپنی کتابوں پر عمل کرو، تو جب عمل کے متعلق تلقین فرمائی تو پھر لا زماوہ کتا ہیں سچی تھیں پھر کسی اور عمل کی کیا ضرورت ہے حالانکہ یہ ضرورت ہے اور مراد یہ تھی کہ تمہاری دیانتداری اور تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کوتم ہدایت سمجھتے ہو اس پر ضرور عمل کرو اور اگر تم خدا تعالیٰ کے نزدیک متقی شمار ہو گے اور خدا تعالیٰ یہ یقین کرے گا اور یہ علم رکھتا ہوگا کہ تم ہدایت پانے کے اہل نہیں تھے یا وہ وسائل تمہیں میسر اور مہیا نہیں تھے جن کے نتیجہ میں ایک انسان ہدایت پاسکتا ہے لیکن جہاں تک تمہارا بس تھا، جہاں تک تمہارے اندر صلاحیتیں ودیعت فرما رکھی تھیں تم نے پوری سچائی اور دیانتداری سے جسے سچ سمجھا اس پر عمل کیا.تو اس صورت میں اللہ تعالیٰ تم سے شفقت اور عفو کا سلوک فرمائے گا.یہ ہے قرآن کریم کی اس آیت کا مفہوم ! پس ہدایت بھی مختلف قسم کی ہیں اور ہر انسان کے ہدایت پانے کے وسائل بھی مختلف قسم کے ہیں اور ہر دوسرے انسان سے اس کا پس منظر مختلف ہے، قوموں کے پس منظر مختلف ہیں.بعض ایسی قومیں ہیں جو ہزاروں سال سے موجود ہیں لیکن ان میں اب تک دین کا پیغام ہی نہیں پہنچا اور در حقیقت انہیں مہذب دنیا میں شمار ہونے والے کسی بھی مذہب کی طرف سے پیغام نہیں پہنچایا گیا.ایسی قوموں سے متعلق اگر انسان فیصلہ کرتا تو وہ بے چاری تو گمراہ شمار کر کے تباہ و برباد کر دی جاتیں اور ہر مذہب والا یہی فیصلہ کرتا کہ یہ گمراہ ہیں.بعض قوموں کے متعلق بعض مذاہب یہ فیصلہ دیتے ہیں کہ یہ گمراہ ہیں لیکن بعض بد قسمت قو میں ایسی ہیں جن سے متعلق ہر مذہب کی انگلی اٹھتی ہے کہ یہ یقینا گمراہ ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 582 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء پس اول تو قرآن کریم نے انسان کو اس بات سے آزاد کر دیا کہ وہ تردد کرے اور اس مصیبت میں مبتلا ہو کر وہ فیصلے دیتا پھرے کہ کون گمراہ ہے اور کون نہیں ، اس آیت کا یہ بھی بڑا احسان ہے، اس کی طرف بھی تو نظر چاہئے کہ کتنی بڑی مصیبت سے ہمیں چھٹکارا دلایا ہے.جو کام ہمارے بس کے نہیں تھے ان کاموں میں سے ہمیں نجات بخشی اور فرمایا کہ اللہ کا کام ہے اللہ فیصلہ فرمائے گا کہ کون ہدایت یافتہ ہے اور کون گمراہ ہے، ہاں جہاں تک تمہارا تعلق ہے تم اگر ہدایت یافتہ ہو تو اخلاص اور دیانتداری کے ساتھ کوشش کرو کہ تمہاری ہدایت پھیلے اور تم جنہیں گمراہ سمجھتے ہو ان تک دیانتداری سے ہدایت کا پیغام پہنچاؤ لیکن داروغگی کا تمہیں اختیار نہیں دیا جائے گا کہ تم عدالت کی کرسیوں پر بیٹھ کر یہ فیصلے دو اور پھر ان فیصلوں کے مطابق ان سے سلوک شروع کر دو.یہ ہے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مقصد جسے بھولنے کے نتیجہ میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں یعنی جب خدا کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہی کام ہے کہ وہ ہدایت دے یا ہدایت یافتہ قرار دے، دونوں معانی ہیں اس آیت کے، اللہ ہی کا کام ہے کہ وہ کسی کو اس کے اعمال کی وجہ سے گمراہ کر دے یا گمراہ قرار دے.اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے نتائج کی ذمہ داری بھی اللہ تعالیٰ پر ہے.یہ بھی اسی آیت کا ایک مفہوم ہے اور جب خدا کسی کو ہدایت یافتہ قرار دے گا تو پھر ان بندوں کو غیروں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت نہیں ہے.انہیں کوئی ضرورت نہیں ہے کہ لوگوں کے پاس جا کر اپنا اجر مانگیں کہ دیکھو ہم ہدایت یافتہ ہیں ہم سے یہ سلوک کرو.نہ انہیں علم نہ ان کا کام.ہدایت یافتہ قرار دینا یا سمجھنا جس کا کام ہے اور جسے علم ہے وہی اجر بھی عطا فرماتا ہے اور جسے وہ گمراہ ٹھہرا دے اس کی پکڑ سے پھر کوئی دوسری قوم اسے بچا بھی نہیں سکتی.چنانچہ ہدایت یافتہ قرار دینا یا گمراہ ٹھہرانا اس طبعی نتیجہ کو بھی چاہتے ہیں کہ کسی کو ہدایت یافتہ قرار دینے کے جو لوازمات ہیں وہ بھی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں اور وہی جانتا ہے کہ کس ہدایت یافتہ کو کیا جزا دینی ہے اور اسی طرح وہی بہتر جانتا ہے کہ جس کو اس نے گمراہ قرار دیا اس کی گمراہی کا درجہ کیا تھا.اب یہ بھی ایک ایسا پہلو ہے جو بہت بار یک در باریک فرق رکھتا چلا جاتا ہے.اگر کوئی واقعتہ گمراہ ہو بھی اور کسی اور کوعلم ہو کہ ہاں یہ گمراہ ہے اور اس کا علم سچا ہو تب بھی گمراہی کے بہت سے درجے ہیں.کوئی ادنیٰ درجہ کا گمراہ ہے کوئی اس سے بڑا اور کوئی اس سے بڑا اور یہ ایسا سلسلہ شیڈوں (Shades) کا ، اتنے فرق ہیں کہ انسان ان پر عبور حاصل کر ہی نہیں سکتا.انسان کو تو اتنی
خطبات طاہر جلد ۲ 583 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء بھی طاقت نہیں کہ خوشبوؤں کے درمیان جو فرق ہیں انہی پر ہی عبور حاصل کر سکے، انسان کو تو اتنی بھی طاقت نہیں کہ بد بوؤں کے درمیان جو فرق ہیں ان پر عبور حاصل کر سکے، رنگوں میں بھی بہت فرق ہیں اور اتنے Hues and Shades ہیں اور پھر ان میں باریک در بار یک سایہ بہ سایہ فرق پڑتے چلے جاتے ہیں کہ انسان کو ابھی تک یہ طاقت بھی نہیں کہ ان کے الگ الگ نام ہی رکھ سکے اور پوری طرح بتا سکے کہ کسی دوسرے رنگ کی آمیزش سے یہ شیڈ بنتا ہے اور اس سے اگلا اور پھر اس سے اگلا شیڈ کس طرح بنے گا.ابھی انسان اس علم میں جستجو کر رہا ہے اور عبور تو کسی حالت میں بھی کسی علم پر بھی نہیں ہوسکتا.تو کیا ہدایت اور گمراہی ہی کوئی ایسی چیزیں ہیں کہ سب ایک ہی معیار کی ہوں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.خدا تعالیٰ کی اس کائنات میں اتنا تنوع ہے اور اس طرح کائنات کا ہر شعبہ پھیلتا چلا جاتا ہے اور اندرونی طور پر منقسم ہوتا چلا جاتا ہے کہ اس کی کوئی حدوبست ہی نہیں.چنانچہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ انسان بیچارے کو کیا علم ہے ، جب تک خدا نہ چاہے اور جتنا خدا چاہے اس سے زیادہ علم انسان حاصل ہی نہیں کر سکتا.وَلَا يُحِيطُونَ بِشَئُ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ (البقرہ : ۲۵۶) که انسان ایسا کم عقل اور کم علم ہے کہ لَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلْمِةٍ إِلَّا بِمَا شَاءَ ایک ذرہ علم کا بھی ایسا نہیں جس پر وہ احاطہ کر سکے.ہاں اتنا سا علم اسے ضرور مل جاتا ہے جتنا خدا چاہے کہ ہاں میں دینا میں چاہتا ہوں.وہ اپنے زور بازؤں سے خدا تعالیٰ سے علم حاصل کر ہی نہیں سکتا.تو جب انسان کی ناطاقتی اور بے بضاعتی کی یہ کیفیتیں ہوں اور پھر خدا تعالیٰ نے اس پر یہ فضل بھی فرما دیا ہو اور اسے ان جھنجھنوں سے آزاد بھی کر دیا ہو کہ تمہارا کام ہی نہیں ، تم چپ کر کے بیٹھو یہ ہمارا کام ہے، ہم فیصلے کریں گے، تو پھر انسان کو خواہ مخواہ کیا مصیبت پڑی ہے کہ ان چیزوں میں دخل دے اور اگر کوئی دخل دیتا ہے تو قرآن کریم مومن کو اور ہدایت یافتہ کو اس کے خوف سے بھی آزاد کرتا ہے اور کامل طور پر اطمینان دلاتا ہے کہ اگر کوئی غلطی سے تمہیں گمراہ سمجھ رہا ہے اور غلطی سے اپنے آپ کو دارونہ سمجھ رہا ہے اور غلطی سے یہ سمجھ رہا ہے کہ جسے میں گمراہ سمجھوں اسے گمراہی کی سزا بھی دے سکتا ہوں تو اس سے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ (المائده: ۱۰۲) کہ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو ہم تمہیں اصل خطرات سے متنبہ کرتے ہیں ، اصل
خطبات طاہر جلد ۲ 584 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء خطرے تمہیں اپنے نفس کی طرف سے لاحق ہیں اور ہم تمہیں ہر غیر کے خطرہ سے آزاد کر دیتے ہیں.اگر تمہارے نفوس پاک ہیں، اگر تمہارا اندرونہ پاک اور مطہر اور صاف ہے اور اس لائق ہے کہ خدا اس میں نازل ہو، اگر تمہارے اعمال صاف اور سیدھے ہیں اور ان میں چالاکیاں اور گندگیاں شامل نہیں ہیں تو پھر خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ کام تم کر لو اور جہاں تک غیروں کا تعلق ہے انہیں ہم سنبھالیں گے.لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمُ اگر تم واقعتہ اخلاص اور دیانتداری سے ہدایت پر قائم رہو گے تو لَا يَضُرُّكُمْ تمہیں ہرگز نقصان نہیں پہنچا سکے گا.مَّنْ ضَلَّ جو خود گمراہ ہے وہ لاکھ تمہیں گمراہ سمجھے، گمراہ کہتا رہے، خدا نے اسے اختیار ہی نہیں دیا کہ وہ من حیث القوم تمہیں نقصان پہنچا سکے.یہاں گم کا خطاب فرما کر یعنی کم کہ کر جو خطاب فرمایا اس میں قومی مصالح کا ذکر فرمایا ورنہ انفرادی طور پر تو جب سے دنیا میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مصلحین آئے اور نبوت جاری ہوئی ہم ہمیشہ یہی دیکھتے ہیں کہ بعض لوگوں کی جانیں لی گئیں ، دکھ دیئے گئے اور بعضوں کے گھر جلائے گئے.تو اس آیت کا ایسا تر جمہ تو ہم نہیں کر سکتے جو سنت اللہ کے خلاف ہو اور قرآن کریم ساری تاریخ اس طرح بیان فرمارہا ہو کہ اس ترجمہ کے وہ مخالف پڑی رہے.یہ تو نہیں ہوسکتا اس لئے قرآن کریم کی روشنی میں ہی قرآن کریم کی آیات کا ترجمہ ہوگا.مراد یہ ہے کہ تم بحیثیت قوم مخاطب ہو تمہیں جب بحیثیت قوم گمراہ قرار دیا جائے گا اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی جائے گی تو اللہ تمہارے لئے کافی ہے، ہم تمہیں یہ خوشخبری دیتے ہیں اور ہرگز تمہیں قومی طور پر کسی سے دبنے کی اور اس خطرہ کی ضرورت نہیں کہ وہ ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں.تو یہ ترجمہ جو ہم کرتے ہیں اس کے حق میں قرآن کریم کی ساری تاریخ کھڑی نظر آتی ہے.قرآن کریم کی ہر انگلی جو اٹھ رہی ہے وہ اسی ترجمہ کی طرف اٹھ رہی ہے.آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی علیہ تک ہزارہا مرتبہ گمراہ قرار دینے والوں نے یہ آزما کر دیکھ لیا کہ وہ جنہیں گمراہ سمجھتے تھے حالانکہ وہ خدا کے نزدیک ہدایت یافتہ تھے انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو ہر دفعہ ناکام رہے اور من حیث الجماعت ان کا کچھ بھی بگاڑ نہیں سکے اور جب وہ باز نہیں آئے تو اپنا نقصان اٹھایا اور خدا کی نظر میں وہ مغضوب ٹھہرے اور جنہیں اپنے خیال میں وہ مغضوب بنا رہے تھے اللہ تعالیٰ نے انہیں ان کے شر اور فتنوں سے بچا کر ہمیشہ ترقی عطا فرمائی.
خطبات طاہر جلد ۲ 585 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء اس بات کا فیصلہ کہ کیا واقعتہ یہ ہورہا ہے؟ خدا ہی کرتا ہے لیکن انسان کو اس بات کا پابند ضرور کرتا ہے کہ جب اس قسم کے جھگڑے چل پڑیں کہ کون ہدایت یافتہ ہے؟ کون گمراہ ہے؟ اور ان جھگڑوں کا بظاہر کوئی حل نظر نہ آرہا ہو تو فرمایا تم سب لوگ اپنے اندرونہ کی طرف متوجہ ہو جاؤ تم اپنے قریب ترین ہو جو دشمن تمہیں گمراہ سمجھ رہا ہے وہ سطحی نظر سے دیکھ رہا ہے وہ تو اس بات کا مجاز ہی نہیں کہ تمہیں کچھ کہہ سکے لیکن تم اس بات کے مجاز ہو کیونکہ تم اپنے اندرونہ کو جانتے ہو اس لئے اس سے خوف نہ کرو اپنے نفس سے خوف کھاؤ.یہ خیال کرو کہ اگر تمہارے نفس نے تمہیں ملزم کر دیا تو پھر تم نہیں بچ سکو گے اور اگر نفس نے ملزم نہ کیا تو پھر تمہیں کوئی نقصان نہ پہنچا سکے گا.کتنا عظیم الشان اصول ہے جس نے سارے جھگڑوں کو ختم کر دیا.ایک اور علامت یہ بیان فرمائی کہ جو ہدایت یافتہ ہو وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا.یہ ظاہری علامت ہے ورنہ اندرونی علامت ہی صرف بیان فرمائی جاتی تو ہر شخص یہ کہنے لگ جاتا کہ ہم نے اپنے نفس میں ڈوب کر دیکھ لیا اور ہمیں سب کچھ صاف نظر آیا ہے ، ہم بالکل ٹھیک ہیں اس لئے ہم ہدایت یافتہ ہیں اور ہمارا دشمن اور مد مقابل گمراہ ہے، تو ایک اور جھگڑا شروع ہو جاتا.قرآن کریم ایک کامل کتاب ہونے کے لحاظ سے ہر مضمون کے ہر پہلو کو بیان فرماتا ہے اور ہر خطرہ کو پیش نظر رکھ کر اس کا حل پیش کرتا ہے.فرمایا جہاں تک تمہاری ذاتوں کا تعلق ہے تم اپنے گواہ خود بن جاؤ اور جہاں تک غیروں کی نظر میں فیصلے کا تعلق ہے تو بہت کھلی کھلی بات ہے ہم گمراہوں کی یہ نشانی بتاتے ہیں کہ وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور ہدایت یافتہ کی نشانی یہ ہے کہ وہ دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے.پس آفاقی نظر سے دیکھنے والوں کے لئے یہ ایک علامت مقررفرما دی.کیسی حیرت انگیز کتاب ہے! جوں جوں آپ اس پر غور کریں اس کے عاشق ہوتے چلے جاتے ہیں.کسی مضمون کا کوئی باریک سے باریک پہلو ایسا نہیں ہے جو یہ آپ پر کھولتی نہ ہو.پھر فرمایا کہ یہ جھگڑے تو چند روزہ ہیں.ہوسکتا ہے کہ تم میں سے بعض ان فیصلوں کو نہ دیکھ سکیں جو خدائی تقدیر ظاہر کرے گی.کسی کی عمر کی مدت کم ہے کسی کی زیادہ ہے اور جہاں تک قومی زندگیوں کا تعلق ہے وہ تو بعض دفعہ کئی نسلوں پر پھیلنے کے بعد پھر وہ یہ دیکھتی ہیں کہ کیا فیصلہ ہوا ہے، ہمارے حق میں ہوا ہے یا ہمارے خلاف.یعنی قومی
خطبات طاہر جلد ۲ 586 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں ، اختلافات شروع ہو جاتے ہیں اور ایک نسل کو بھی یہ توفیق نہیں ملتی کہ وہ دیکھ سکے کہ خدا کا فیصلہ ہمارے حق میں تھا یا ہمارے خلاف تھا.دوسری نسل کو بھی یہ توفیق نہیں ملتی ، تیسری کو بھی نہیں ملتی جو اہل ہدایت ہیں وہ جان رہے ہوتے ہیں لیکن جو ہدایت پر نہیں ہیں انہیں کچھ پتہ نہیں لگ رہا ہوتا ، انہیں تو جب تک خدا تعالیٰ کی جبروت کا ظاہری طور پر اظہار نہ ہو، جب تک خدا کے اقتدار اور اس کے عزیز ہونے کا اظہار نہ ہو، اس وقت تک وہ سمجھ نہیں سکتے کہ کیا فیصلہ ہوا.چنانچہ حضرت مسیح علیہ السلام کے زمانہ میں دنیا دار قوموں کو دیکھنے کے لئے کہ خدا کی تقدیر کس کے حق میں ظاہر ہوئی ہے اور کس کے خلاف ظاہر ہوئی ہے، تین سوسال تک انتظار کرنا پڑا تو ایک مومن کو جو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا ہے، مومن کو تو خطرہ ان معنوں میں لاحق نہیں ہوتا جس طرح کافر کے لئے یہ مشکل ہے ، وہ بے چارا ظاہری علامتوں کا انتظار ہی کرتا رہتا ہے اور فیصلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتا لیکن مومن کے لئے ایک اور طرح سے یہ ابتلا بنتا ہے.اس کے دل میں یہ تمنا بے قرار ہوتی ہے کہ کاش میں بھی اپنی زندگی میں دیکھ لوں کہ خدا کی تقدیر ہمارے حق میں ظاہر ہوئی تھی اور ان کے حق میں نہیں اور دعائیں کرتا ہے اور گریہ وزاری کرتا ہے کہ اے خدا ! مجھے بھی اپنی آنکھوں سے اپنے دین کا غلبہ دکھا دے تو فرماتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر ایک دیکھ سکے.کئی نسلیں بے چاری ان دعاؤں کے ساتھ گزر جاتی ہیں مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تسلی دیتا ہے کہ تمہیں فکر کی کوئی بات نہیں إِلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جميعا تم سارے کے سارے اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانے والے ہو.اس دنیا میں تم چاہتے تھے کہ اپنے غیروں پر ایک فتح مندی کا احساس تمہارے اندر پیدا ہو اور تم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں کہ سکو کہ ہم بچے تھے اور تم جھوٹے تھے.یہی چاہتے ہونا! تو فرماتا ہے گھبرانے کی ضرورت نہیں.ایک ایسا دن آنے والا ہے کہ جب تم بھی اور تمہارے مخالفین بھی ہدایت یافتہ اور ہدایت یافتوں کو گمراہ کرنے والے اور گمراہ قرار دینے والے بھی سارے خدا کے حضور اکٹھے ہوں گے، پہلے بھی اکٹھے ہوں گے اور بعد میں آنے والے بھی اکٹھے ہوں گے، مشرقی بھی اکٹھے ہوں گے اور مغربی بھی اکٹھے ہوں گے، شمال کی قومیں بھی حاضر ہوں گی اور جنوب کی قومیں بھی حاضر ہوں گی اتنے بڑے میدان میں تمہاری فتح کا اعلان کیا جانے والا ہے.پھر تم کیوں ڈرتے ہو؟ پھر تمہیں کس بات کا خوف کہ تمہاری زندگی کے دن تھوڑے ہیں؟ اِلَی اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيْعًا فَيُنَبِّئُكُمْ
خطبات طاہر جلد ۲ 587 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ ) کہ اللہ تمہیں خبر دے گا وہ تمہیں سب کو بتائے گا کہ تمہارے اعمال خدا تعالیٰ کے نزدیک کیا درجہ رکھتے تھے.پس مومن کے لئے تو قرآن بہت کافی کتاب ہے، آغاز سے لے کر انجام تک کے سارے حالات جو بیان کرنے کے لائق ہیں وہ بیان کر دیتا ہے.اس ایک ہی آیت میں مبتدی کے پہلے قدم سے جو اس کے لئے اس کے ذہن میں سوالات اٹھ رہے تھے ان کا حل کرنا شروع کیا اور آیت میں ہی انجام تک کی باتیں بتادیں.اتنی دور کی باتیں بتا دیں جن کا زندگی سے تعلق ہی کوئی نہیں وہ مرنے کے بعد کی باتیں ہیں ، آغاز سے انجام تک کی بات کرنے والی یہ چھوٹی سی آیت ہدایت کے ہر مضمون پر حاوی نظر آ رہی ہے، سارے مسائل حل کر رہی ہے اور ابھی اس کے بہت سے حسین پہلو مخفی ہیں جن تک ہر انسان کی ہر وقت نظر نہیں پہنچ سکتی.یہ آیت حسب حالات ان پہلوؤں کو خود ہی ظاہر فرماتی چلی جائے گی.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں انہیں بار بار بڑے زور اور قوت کے ساتھ کہتا ہوں کہ عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ جب بھی آپ یہ آواز بلند ہوتی دیکھیں ، وہ مشرق سے بلند ہو یا مغرب سے ، شمال سے ہو یا جنوب سے کہ تم گمراہ ہو تو پہلا فرض جو تم پر عائد کیا گیا ہے اور پہلا تقاضا جو قرآن مجید تم سے کرتا ہے وہ یہ ہے عَلَيْكُمْ اَنْفُسَكُمْ فورا اپنے نفس کے محاسبے کی طرف متوجہ ہو جاؤ کیونکہ جب دھمکیاں دی جاتی ہیں تو بعض دفعہ کچھ نقصان بھی پہنچتے ہیں، تم اپنے نفوس کا محاسبہ کرو، اگر تم متقی ہو، اگر تمہارا دین اللہ کے لئے خالص ہے تو پھر خدا فرما تا ہے کہ ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ تمہیں کوئی خطرہ نہیں.ہمیشہ جب خطرات کے بادل گرجتے ہیں تو انسان گردو پیش کا محاسبہ کیا کرتا ہے.ظاہری طور پر بھی جب بادل گرجتے ہیں کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ لوگ بعض دفعہ کوٹھوں کی چھتوں پر چڑھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کہیں سوراخ تو نہیں رہ گیا ، یہ نہ ہو کہ بارش ہو جائے اور اس وقت ہم پکڑے جائیں پھر باہر جانے کا بھی وقت نہ رہے.تو ہر معقول آدمی گر جتے ہوئے بادلوں سے وقت پر فائدہ اٹھاتا ہے اور اپنے حالات کا جائزہ لیتا ہے جو خطرے کے رستے ہیں ان کو بند کرتا ہے اور ہر قسم کی ضروریات اور زادراہ کو اکٹھا کر لیتا ہے.آپ نے کبھی کیٹریوں کو نہیں دیکھا کہ خدا نے انہیں بھی یہ توفیق عطا فرمائی ہے کہ جب موسم بدل رہے ہوتے ہیں، جب بادل گرج رہے ہوتے ہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 588 خطبه جمعه ۱۸/ نومبر ۱۹۸۳ء اس وقت ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کیڑریوں کو خدا تعالیٰ نے یہ بھی توفیق بخشی ہے کہ ابھی وہ گرج بھی نہیں رہے ہوتے تو ان کو پتہ لگ جاتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے اور وہ اپنے سوراخوں سے اپنی بلوں سے ضرورت کی چیزوں کو اونچی جگہوں کی طرف منتقل کرنا شروع کر دیتی ہیں.آپ نے کئی دفعہ دیکھا ہوگا کہ بعض دفعہ یوں لگتا ہے کہ اچانک کیٹریوں کو یہ جنون اٹھ گیا ہے کہ وہ اپنے انڈے اٹھا اٹھا کر بلوں سے لے کر دیواروں پر چڑھ رہی ہوتی ہیں اس لئے کہ خدا تعالیٰ نے ان میں یہ ملکہ رکھا ہے کہ وہ آنے والے خطرات کو بھانپ لیتی ہیں اور اس کے مطابق پھر وہ کارروائی شروع کر دیتی ہیں.تو گر جتے ہوئے بادلوں کے وقت انسان بھی حسب توفیق کوشش کرتا ہے.پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ تم نے کیا کرنا ہے، تم نے اپنے دل کے صحنوں کو صاف کرنا ہے، تم نے اپنے تقویٰ کا خیال کرنا ہے، تم نے یہ دیکھنا ہے کہ کیا واقعی تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تم نے یہ دیکھنا ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا بھی کر رہے ہو کہ نہیں.اگر حسب توفیق تم مخلص ہو، اگر حسب توفیق تم خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھانے کی کوشش کرتے ہو، اگر تمہارا رخ اپنے مولیٰ ہی کی طرف ہے تو پھر اللہ تمہیں بتاتا ہے اور اللہ تمہیں تسلی دیتا ہے کہ ہرگز تمہارا غیر تمہیں گمراہ قرار دینے والا کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا تم خدا کی حفاظت میں ہو تم اللہ کی رحمت کے سائے تلے ہو، تم اللہ کے فضلوں کے وارث بنائے جانے والے ہواس لئے یہ بارش یہ بادل جو گرج رہے ہیں یہ تمہارے لئے بجلیاں لے کر نہیں آئیں گے بلکہ تمہارے پر رحمتوں کی بارش کر کے واپس جائیں گے.(روز نامه الفضل ربوه ۴ / دسمبر ۱۹۸۳ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 589 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء خشیت الہی ( خطبه جمعه فرموده ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسالَتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وَلَا يَخْشَوْنَ أَحَدًا إِلَّا اللهَ وَكَفَى بِاللهِ حَسِيبًا (الاحزاب : ۱۶) اور پھر فرمایا: قرآن کریم میں خشیت کے مضمون کو بڑی کثرت سے بیان فرمایا گیا ہے اور اس کے منفی پہلو پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے اور اس کے مثبت پہلوؤں پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے.چنانچہ ان تمام آیات پر ایک نظر ڈال کر غور کیا جائے اور اس کا خلاصہ نکالا جائے جن میں خشیت کا ذکر آتا ہے تو وہ یہی بنتا ہے کہ خشیت دو قسم کی ہوتی ہے ایک انسانوں کی خشیت اور دوسری اللہ کی.اس لحاظ سے تمام بنی نوع انسان دو گروہوں میں بٹ جاتے ہیں.ایک وہ جو اللہ سے ڈرتے ہیں اور دوسرے وہ جو انسانوں سے ڈرتے ہیں.اور پھر اللہ سے نہ ڈرنے والوں کی آگے ایک اور قسم بیان فرمائی گئی کہ وہ انسانوں سے ڈریں یا کسی اور چیز سے ، وہ غیر اللہ سے ڈرتے ہیں یعنی اس مضمون کو اور زیادہ وسعت دے دی گئی کہ خدا کے سوا ڈر نے والے کچھ انسانوں سے ڈرنے والے ہیں کچھ بعض غیر انسانی قدروں سے ڈرنے والے ہیں.مثلاً کوئی جن سے ڈر رہا ہے ، کوئی بھوت سے ڈر رہا ہے، کوئی جھوٹے خداؤں سے ڈر رہا ہے.تو فرمایا غیر اللہ سے ڈرنے والے ایک وسیع گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد ۲ 590 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء فرماتا ہے کہ صرف وہی لوگ ہدایت پانے والے ہیں، وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو خدا سے ڈرتے ہیں اور غیر اللہ سے نہیں ڈرتے.دوسرے ، قرآن کریم نے ہدایت کو اللہ کے خوف کے ساتھ پابند فرما دیا اور فرمایا تم نصیحت کے ذریعہ غیر اللہ سے ڈرنے والوں کو اپنی طرف مائل کرو گے تو جب تک غیر اللہ کا خوف ان کے دلوں پر غالب ہے وہ بھی ہدایت نہیں پاسکتے.اس لئے تبلیغ کا ایک نہایت ہی عمدہ نکتہ بیان فرما دیا اور تبلیغ کی راہ کو آسان کرنے کا ایک طریق سکھا دیا.فرمایا صرف وہی آدمی نصیحت پکڑتا ہے جو خدا سے ڈرتا ہے اور اس کے سوا دوسرا نصیحت نہیں پکڑتا.اس مضمون کو قرآن کریم نے بار ہا مختلف طریق پر بیان فرمایا.چنانچہ سورہ اعلیٰ میں ہے : سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشُى (آیت (1) اور سور و طہ میں ہے : سَيَذَّكَّرُ مَنْ يَخْشُى (آیت:۴) کہ اے محمد! (ع) تو نصیحت تو کرتا ہے اور کرتا رہے گا لیکن تیری نصیحت سے فائدہ وہی اٹھائے گا جو خوف خدا رکھتا ہے.فرماتا ہے إِلَّا تَذْكِرَةً لِمَنْ يُخشى (طه:۴) قرآن کریم صرف اسی کے لئے کارآمد نصیحت ہے جو خدا کا خوف رکھتا ہے.پس اس مضمون کو قرآن کریم نے مختلف جگہوں پر مختلف رنگ میں بیان فرمایا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ خدا کا خوف رکھنے والے جب اپنے دائرہ کو وسعت دیتے ہیں اور بے خوف لوگوں یا خدا کے غیر کا خوف رکھنے والوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں تو اس وقت خدا تعالیٰ یہ نکتہ سمجھا رہا ہوتا ہے کہ پہلے خدا کا خوف ان کے دل میں پیدا کرو پھر وہ ہدایت پائیں گے، پھر وہ تمہاری نصیحت سنیں گے.جب تک ان کے دلوں پر لوگوں کا خوف غالب ہے وہ ہدایت کو نہیں پا سکتے.چنانچہ دنیا کا جائزہ لے کر دیکھیں ہدایت سے پیچھے رہنے کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کا خوف ہے.بعض دفعہ قوموں کی قو میں دلوں میں کسی صداقت کی قائل ہو چکی ہوتی ہیں اور تسلیم کر لیتی ہیں کہ سچائی ان کے ساتھ ہے لیکن چونکہ غیر اللہ کا خوف غالب ہوتا ہے اس لئے وہ ہدایت کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتیں ، ہدایت کو اختیار کرنے پر جرات نہیں پاتیں.ان معنوں میں خوف ایک Magnet کا کام دیتا ہے، ایک مقناطیسی قوت رکھتا ہے.یہاں جو خوف کا مضمون ہے وہ دھکیلنے کے معنوں میں نہیں ہے بلکہ کشش کے معنوں میں ہے.مقناطیس کی دو قو تیں ہوتی ہیں ایک Repulsion یعنی دھکا دینے کی قوت اور دوسری قوت جاذبہ ہے
خطبات طاہر جلد ۲ 591 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء جو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے خوف بھی بعض دفعہ قوت جاذ بہ کا کام دیتا ہے اور بعض دفعہ قوت دفع کا کام کرتا ہے، دھکیلنے کا کام کرتا ہے اور خدا کا خوف بڑی قوت کے ساتھ اپنی طرف کھینچتا ہے جبکہ غیر اللہ کا خوف خدا سے دور دھکیل دیتا ہے اور غیر اللہ کی جانب کھینچتا ہے.پس جب تک ان مقناطیسی قوتوں کی Polarization یعنی تقطیب کو درست نہ کیا جائے یا یوں کہئے کہ جب تک ان کا رخ صحیح نہ کیا جائے اس وقت تک انسان کامیاب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ سب سے بڑی قوت جس کا مقابلہ کرنے کی دوسری قو تیں راہ نہیں پاتیں ان کا اس کے سامنے کوئی بس نہیں چلتا وہ یہی مقناطیسی قوت ہے اور عالم روحانیت میں بھی اسی قسم کا ایک سائنسی نظام کارفرما ہے.خصوصاً قرآن کریم کے مطالعہ سے تو ہمیں ایک بڑا گہرا سائنسی نظام ملتا ہے جس کی عالم ظاہری سے تشبیہ دی گئی ہے اور قرآن کا عالم باطنی بھی اس کے مطابق بہت سے گہرے سائنسی مضامین اپنے اندر رکھتا ہے اس میں بھی اسی قسم کے قوانین کارفرما ہیں.غرض جو مرض ہو اس کی درستی ضروری ہے اور ہدایت سے محروم رہنے میں مرض یہی ہے کہ انسان کے دل پر غیر اللہ کا خوف غالب رہتا ہے اس لئے براہ راست مرض کو پکڑنا چاہئے.کوئی مبلغ کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک پہلے مرض کو دور کر کے دل کو صاف اور پاک نہ کیا جائے.مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو جھنجھوڑا جائے ، ان سے کھل کر بات کی جائے اور یہ ایسی بات ہے جس کے نتیجہ میں کوئی منافرت نہیں پیدا ہوتی، کوئی اشتعال انگیزی نہیں پیدا ہوئی کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا کہ اچھا تم خدا کا خوف دلاتے ہو میں تمہیں جو تیاں ماروں گا یا میں ڈنڈے سے تمہیں ٹھیک کر دوں گا اور جب تک خدا کا خوف پیدا نہ ہو آپ کی اگلی بات قبول نہیں ہو سکتی اور جب خدا کا خوف پیدا ہو جائے تو یہ آپ کے لئے امن کا ایک سایہ پیدا کر دیتا ہے آپ کے لئے قلعہ کی دیواریں بن جاتا ہے پھر اس قلعہ پر حملہ نہیں ہوسکتا.اب دیکھیں کتنا عظیم الشان کلام ہے جو معاملات کی تہ تک اترتا ہے اور پھر ہر معاملہ میں انسان کی راہنمائی فرماتا ہے.اس کے باوجود جب غیر قوموں کو رسالات یعنی پیغامات پہنچائے جاتے ہیں تو کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو خوف خدا پر آمادہ نہیں ہوتے.ڈرانے کے باوجود وہ اللہ کا خوف نہیں کرتے اور غیر اللہ کے خوف سے مغلوب ہو چکے ہوتے ہیں ان سے بھی واسطہ پڑتا ہے.اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما تا کہ جب تک کوئی اپنے دل میں خوف پیدا نہیں کر لیتا اس وقت تک پیغام نہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 592 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء دینا بلکہ یہ توجہ دلاتا ہے کہ پہلے خدا کا خوف پیدا کرو تا کہ تمہیں کامیابی نصیب ہو.چونکہ اس کا کوئی ظاہری پیمانہ نہیں جس سے یہ معلوم ہو جائے کہ فلاں کے دل میں واقعتہ خدا کا خوف داخل ہو چکا ہے اور فلاں کے دل میں نہیں ہوا اس لئے یہ کھلا احتمال ہے کہ جب خدا کا خوف دلانے کے بغیر بات شروع کی جائے تو چونکہ خدا کا خوف نہیں اور بنی نوع انسان کا خوف ہے اس لئے حق کی مخالفت شروع ہو جائے.چنانچہ آنحضرت ﷺ کو تبلیغ کا یہ راز سکھایا گیا اور آپ سے بہتر اس کو کوئی نہیں سمجھتا تھا اور آپ نے سب سے پہلے خوف خدا کی بات کی ہے، اللہ کی طرف متوجہ کیا ہے، غیر اللہ کا خوف دور کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد رب کریم کے پیغامات کو پہنچانا شروع کیا.اور چونکہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے ایک بڑا طبقہ خوف خدا سے محروم رہ جاتا ہے پھر ان سے خدا کا خوف دلانے والوں کے خوف شروع ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ حملہ کرتے ہیں ، وہ برا مناتے ہیں ، وہ کہتے ہیں تم اشتعال انگیزی کر رہے ہو، تم ہمارے باپ دادا کے دین کو غلط بتارہے ہو اور کہتے ہو کہ یہ درست رستہ ہے اور بات بات پر زو در نج ہو جاتے ہیں انہیں نیکی کی طرف بھی بلایا جائے تو غصہ کرنے لگ جاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم جب یہ فرماتا ہے کہ خدا کا خوف کرو اور غیر اللہ کا خوف نہ کھاؤ تو اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ آپ کو خطرات سے بے خبر رکھ کر یہ تعلیم دی جارہی ہے.کیسی کچی اور صاف گو کتاب ہے.خدا بلاتا ہے اور اسی طرف بلاتا ہے کہ غیر اللہ کا خوف نہ کھاؤ اور صرف خدا سے ڈرولیکن ساتھ یہ بھی بتاتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تمہارے لئے خطرات ضرور پیدا ہوں گے.چنانچہ اسی آیت میں جس کی میں نے خطبہ کے شروع میں تلاوت کی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رِسَلَتِ اللهِ وَيَخْشَوْنَهُ وہ لوگ جو اللہ کے پیغام لوگوں تک پہنچاتے ہیں اور پیغام پہنچانے کی وجہ بھی خدا ہی کا خوف ہوتا ہے.وہ خدا اسے اپنے لئے بھی ڈرتے ہیں لیکن ان کے خوف میں خود غرضی نہیں پائی جاتی وہ غیروں کے لئے بھی خدا کا خوف کھانے لگ جاتے ہیں.چنانچہ قرآن کریم میں دوسری جگہ ایسے فرشتہ صفت انسانوں کا ذکر ہے جو غیروں کے لئے استغفار کرتے رہتے ہیں اور عالم ملائکہ میں ایسے فرشتے ہیں جو اس بات پر وقف ہیں کہ وہ ان لوگوں کے لئے بھی استغفار کریں جو امن کے دائرے میں داخل نہیں ہوئے.فرماتا ہے وَيَخْشَونَ وہ خدا کا خوف کھاتے ہیں اسی لئے تو خدا کا پیغام
خطبات طاہر جلد ۲ 593 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء پہنچاتے ہیں اور یہ خوف اتنی وسعت اختیار کر چکا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے اپنے لئے بھی ڈر رہے ہیں اور غیروں کے لئے بھی ڈر رہے ہیں اس کے نتیجہ میں ان کو غیر اللہ کی طرف سے خوف پیدا ہو جاتے ہیں.یہ عجیب بات ہے کہ جو امن کا پیغام دے رہے ہوں ان کو جواب میں خوف کا پیغام ملتا ہے، جو صلح کی ضمانت دے رہے ہوں ان کو جنگ کا پیغام ملتا ہے.وہ کہتے ہیں اچھا! تم صلح کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہو! اب تمہارا علاج یہی ہے کہ تم سے جنگ ہو جائے.تم چاہتے ہو کہ ہم امن میں آجائیں، اس کا علاج سوائے اس کے کچھ نہیں کہ تمہارے گھروں کے امن بر باد کر دیئے جائیں.اس مضمون میں داخل ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا يَخْشَوْنَ اَحَدًا إِلَّا اللَّهَ کہ اللہ کے خوف کی وجہ سے جب تبلیغ کرتے ہیں تو جن کو وہ تبلیغ کر رہے ہوتے ہیں وہ اس دھو کے میں نہ رہیں کہ یہ چونکہ ڈرپوک لوگ ہیں بزدل ہیں اس لئے خدا سے ڈرتے ہیں اور جو بزدل ہوتا ہے اس کو ڈرایا جاسکتا ہے.بزدل ایک سے ڈرتا ہے تو دوسرے سے بھی ڈرتا ہے.فرمایا یہ ان کی صفت حسنہ ہے یہ کمزوری نہیں ہے کہ وہ خدا سے ڈرتے ہیں.یہ ان کی بہادری کا ثبوت ہے کہ وہ غیر اللہ سے نہیں ڈرتے.ان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ غیر اللہ ان پر کیا قیامت تو ڑ دے گا.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ لوگوں سے نہیں ڈرتے بلکہ فرمایا اَحَدًا إِلَّا الله اس سے مضمون میں اور زیادہ وسعت پیدا کر دی.ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ تم سے نہیں ڈرتے.وہ کائنات کی کسی چیز سے بھی نہیں ڈرتے یعنی ہر اس خوف سے امن میں ہیں جو خدا کے علاوہ فرضی خوف یا غیر اللہ کی طرف سے حقیقی خوف دنیا پر چھا جایا کرتے ہیں.پھر فرماتا ہے وَكَفَی بِاللهِ حَسِینبا ان لوگوں کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ ان کے لئے کافی ہے.وہ حساب کرنے والا بھی ہے ان کا خیال رکھنے والا بھی ہے اور نیک نتائج پیدا کرنے والا بھی ہے.غرضیکہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے ان کے لئے کافی ثابت ہوگا.چنانچہ اسی مضمون کو ایک اور رنگ میں بھی بیان فرمایا گیا اور خشیت الہی کو نیکی کی تعریف میں شامل کیا گیا اور خدا سے ڈرنے اور نہ ڈرنے والوں کے درمیان ایک حد فاصل قائم فرما دی فرماتا ہے: اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسْجِدَ اللهِ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَأَقَامَ الصَّلوةَ وَأَتَى الزَّكَوةَ وَلَمْ يَخْشَ إِلَّا الله فَعَسَى أُولَيْكَ أَنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ ) (التوبه: ۱۸)
خطبات طاہر جلد ۲ 594 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء کہ ویسے تو سارے لوگ مسجد میں بناتے ہیں اور بظاہر آباد بھی کر دیتے ہیں لیکن محض وہی لوگ عند اللہ مسجد میں بنانے اور آباد کرنے والے ہیں.مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ جو اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور یوم آخرت پر ایمان لاتے ہیں وَ أَقَامَ الصلوۃ اور نماز کو قائم کرتے ہیں وَآتَى الزَّکوۃ اور زکوۃ ادا کرتے ہیں.اور یہ ساری وہ چیزیں ہیں جو ظاہری اعمال سے تعلق رکھتی ہیں لیکن یہ سارے اعمال قبول صرف اسی صورت میں ہوں گے، اللہ کے نزدیک درجہ تب پائیں گے جب لَمْ يَخْشَ إِلَّا اللہ پر بھی عمل ہو رہا ہوگا.وہ شخص جو یہ سارے اعمال بجالا رہا ہے، بظاہر مساجد کو بھی آباد کر رہا ہے، نمازوں کی بھی تلقین کر رہا ہے اور زکوۃ بھی وصول کر رہا ہے یا لوگوں کو دینے کی تلقین کرتا چلا جا رہا ہے، نمازیں پڑھتا ہے اور پڑھنے کی تعلیم دیتا ہے، یہ ساری چیزیں بظاہر بہت بڑی نیکیاں ہیں لیکن اگر اس صفت سے عاری ہے یعنی خدا کے سوا کسی اور سے نہ ڈرنے کی صفت اپنے اندر نہیں رکھتا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ سارے اعمال باطل ہو جاتے ہیں فَعَسى أُولَيكَ أنْ يَكُونُوا مِنَ الْمُهْتَدِينَ صرف وہی لوگ ہیں جو خدا کے نزدیک اس بات کا امکان رکھتے ہیں کہ وہ ہدایت پا جائیں گے اور کامیاب ہو جائیں گے، وہ وہی ہیں جوان ساری باتوں کے ساتھ ساتھ اللہ کا خوف رکھتے ہیں اور غیر اللہ سے نہیں ڈرتے.اگر اس مضمون پر زیادہ تفصیل کے ساتھ غور کیا جائے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ دنیا کی اکثر خرابیاں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ تمام خرابیاں خواہ وہ کسی جگہ کسی شکل میں سر نکال رہی ہوں کیوں پیدا ہو رہی ہیں تو اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اللہ کا خوف نہیں کھاتے اور غیر اللہ سے ڈرتے ہیں.دنیا میں اس وقت جتنے غلط سیاسی فیصلے ہو رہے ہیں اور جتنی بڑی تباہیاں آ رہی ہیں ان سب کا تجزیہ کر کے دیکھیں تو یہیں آکرتان ٹوٹے گی.چنانچہ بعض ملک اس لئے کہ اپنے ملک کے لوگوں کے خیالات سے ڈر رہے ہیں یہ فیصلے کر لیتے ہیں کہ فلاں ملک پر حملہ کر دیں تا کہ لوگوں کی توجہ بٹ جائے.اس سے جتنا فساد پھیلے گا ، جتنا خون ہوگا ، جتنے مظالم ہوں گے اور جتنا انسان دکھ اٹھائے گا اس کا ان کو خیال نہیں ہوتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ خدا کا خوف نہیں ہوتا اور لوگوں سے ڈرتے ہیں اور لوگوں کے خوف بعض دفعہ آنکھیں کھول کر دیکھنے کے باوجود قومی راہنماؤں کو غلط فیصلے کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں اور جتنا یہ خوف بڑھتا چلا جاتا ہے راہنماؤں کی اتنی ہی بے اختیاری بڑھتی چلی جاتی ہے.چنانچہ دنیا میں
خطبات طاہر جلد ۲ 595 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء بعض ایسی (Democracies) جمہور تیں ہیں جو عظیم الشان طاقتیں ہیں.اتنی عظیم الشان طاقتیں ہیں کہ وہ دنیا کی چوٹی کی طاقتوں میں شمار ہوتی ہیں لیکن جب لوگوں کا خوف ان کے سر پر سوار ہوتا ہے تو ان کے راہنما نہایت بے طاقت اور بے حیثیت ہو کر رہ جاتے ہیں.وہ شکوے بھی کرتے ہیں، وہ دیکھتے ہیں کہ ہمیں غلط فیصلے کرنے پر مجبور کر دیا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کچھ نہیں کر سکتے.چنانچہ امریکہ کے سابق صدرجمی کارٹر نے اپنے ہم عصر را ہنماؤں کے متعلق ایک بڑی دلچسپ کتاب لکھی ہے اس میں وہ امریکہ کے لیڈروں کی بے اختیاری کا ذکر کرتے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ اس خوف کی وجہ سے کہ امریکی عوام الناس کی رائے عامہ کس طرف جارہی ہے، اگر ہم نے اس کے خلاف کوئی فیصلہ کیا تو ہمارا کیا حشر ہوگا ، امریکہ کے بہت سے پریذیڈنٹ یہ سمجھتے ہوئے بھی کہ ان کا یہ فیصلہ امریکی مفاد کے خلاف ہے وہ پھر بھی فیصلہ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں.(Keeping Faith-Memories of a President) اس کے مقابل پر کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کو نہ خدا کا خوف ہے اور نہ بندوں کا ، وہ اس لحاظ سے بہتر ہیں کہ جو بھی فیصلے کرتے ہیں وہ عوام الناس سے ڈر کر نہیں کرتے ، وہ اپنے ملک کے مفاد میں جو بہتر سمجھتے ہیں اس کا فیصلہ کر جاتے ہیں.چنانچہ کا رٹر کے نزدیک اشترا کی دنیا اسی قسم میں داخل ہے.وہ کہتے ہیں اشتراکی ممالک میں کامل ڈکٹیٹر شپ ہونے کی وجہ سے رائے عامہ کی کوئی پرواہ نہیں کی جاتی کیونکہ وہاں رائے عامہ کوکوئی طاقت حاصل نہیں ہے جب چاہیں کچل دیں، جس طرف چاہیں رائے عامہ کا رخ موڑ دیں.رائے عامہ کچھ اور کہے اور یہ کہیں کہ یہ کرنا ہے تو ان کی بات مانی جانی ہے، رائے عامہ کی نہیں سنی جاتی.اس صورت میں وہ اپنے ملک کے مفاد میں بہر حال فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں.ان میں ایک طاقت ہے جو مغربی جمہوریتوں کو حاصل نہیں ہے چنانچہ اس طرح ایک ایسی قسم بھی سامنے آئی جو غیر اللہ کا خوف نہیں کھاتی لیکن اللہ کا خوف بھی نہیں رکھتی ، تاہم ان لوگوں کے بارے میں بھی اگر آپ مزید تجربہ کر کے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ چونکہ اللہ کا خوف نہیں کھاتے اس لئے مثبت امور میں بھی وہ غلط فیصلہ کر جاتے ہیں اور غیروں پر ظلم کرنے سے بھی نہیں چوکتے.ان کے منفی پہلو یہ بن جاتے ہیں کہ لوگوں کا خوف رکھنے والے تو بہت سے مظالم سے بچ جاتے ہیں اور جولوگوں کا خوف نہیں کھاتے ان کے لئے کوئی راہنما چیز نہیں رہتی.اسی لئے اپنے فیصلوں میں بعض اوقات انتہائی ظالمانہ فیصلے کرتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ اپنی قوم کے خلاف بھی ظالمانہ فیصلے کرتے ہیں.چنانچہ
خطبات طاہر جلد ۲ 596 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء لینن نے نہتے مزدوروں پر گولیاں چلائیں جن کے نام پر طاقت حاصل کی تھی اور روٹی کے نام پر طاقت حاصل کر کے انقلاب برپا کیا تھا.وہی نہتے مزدور خاموشی سے احتجاج کرنے کے لئے جب گلیوں میں نکلے اور روٹی کا مطالبہ کیا تو ان پر ظالمانہ طور پر گولیاں برسائی گئیں.اسی طرح سٹالن نے اپنے زمانہ میں لکھوکھہا لوگ قتل کروا دیئے اس لئے کہ بے خوفی کے نتیجہ میں بے راہ روی بھی پیدا ہوگئی تھی جبکہ صحیح راستے پر چلنے کے لئے اللہ کا خوف درکار ہے.انسانوں سے بے خوفی میں کچھ فوائد بھی ہوں گے اور کچھ نقصان بھی ہیں لیکن اگر غور سے دیکھیں تو نقصان بالعموم زیادہ ہو جاتے ہیں اس لئے یہ لوگ بھی مومنوں کے مقابلہ پر کوئی حیثیت نہیں رکھتے.اس کا مزید تجزیہ کر کے دیکھیں.ملک کے اندرونی فیصلے ہوں یا بیرونی فیصلے ہوں جہاں جہاں بھی انسان کا خوف سامنے آئے گا وہاں راہنما غلط فیصلے کرنے پر مجبور ہوتے چلے جاتے ہیں.یہ صرف مومنوں کی شان ہے کہ وہ اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے.چنانچہ اس کا تجزیہ کرنے کے بعد قرآن کریم پھر مومنوں کو خوب اچھی طرح متنبہ کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب ہم کہتے ہیں کہ تم ہمارے خوف کے سوا کسی اور کا خوف نہیں رکھتے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تمہارے لئے خوف کے سامان اکٹھے نہیں کئے گئے.وہ تو بہت اکٹھے کئے جائیں گے ، آ گئیں بھڑکائی جائیں گی ، دھمکیاں دی جائیں گی اور بڑے گہرے منصوبے بنائے جائیں گے کہ جس طرح بھی ہو سکے تمہیں صفحہ ہستی سے نیست و نابود کر دیا جائے.ہم تمہیں ایسی باتوں پر بھی اطلاع دیتے ہیں جن کا تمہیں علم نہیں ہے ایسے خوفوں سے بھی تمہیں متنبہ کرتے ہیں جن پر تمہاری نظر نہیں ہے.چنانچہ اس مضمون کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَدُّوا مَا عَنِتُّمْ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ (آل عمران : ۱۶) کہ دیکھو! وہ تمہارا بھلا نہیں چاہتے، یہ ہم تمہیں بتا دیتے ہیں، یہ خیال کر لینا کہ ان کے دل میں تمہارے لئے کوئی خیر سگالی کا جذبہ پایا جاتا ہے، ہرگز نہیں.جو آدمی صرف اللہ کا خوف رکھنے والا ہے وہی اپنے سوا دوسروں کا بھلا چاہتا ہے.جو خدا کا خوف نہیں رکھتا اور بندوں کا خوف رکھتا ہے وہ
خطبات طاہر جلد ۲ 597 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء کسی کا بھلا بھلا چاہنے کی صفت سے عاری ہوتا ہے.قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أفْوَاهِهِم تمہیں تو صرف ان باتوں کا علم ہے جنہیں وہ اپنی زبان سے کہہ چکے ہیں یا جن کا اقرار کر چکے ہیں کہ ہاں ہم تمہیں یہ سمجھتے ہیں، وہاں تک تو تمہاری نظر ہے لیکن فرماتا ہے وَمَا تُخْفِی صُدُورُهُمْ تمہیں علم نہیں لیکن ہمیں علم ہے کہ جو باتیں وہ زبان پر نہیں لاتے اور ان کے دلوں میں کھول رہی ہیں وہ ان سے بہت زیادہ نقصان دہ ہیں جنہیں وہ زبان پر لاتے ہیں.اللہ تعالیٰ کا یہ کلام کیسا عظیم الشان کلام ہے دھوکے میں رکھ کر کسی جرات مندانہ قدم کی طرف نہیں بلاتا.خطرات کی طرف کھول کھول کر آگاہ کرتا ہے اور پھر کہتا ہے اب اگر تم میں ہمت ہے کہ صرف خدا کا خوف رکھو اور غیر اللہ کا نہ رکھو تو آؤ اس راستہ پر چلے آؤ اس سے کم درجہ کے لوگ عنداللہ مطلوب نہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہیں علم ہی نہیں ہے کہ کتنے خوف ناک ارادے ہیں.ہمیں علم ہے لیکن پھر اس وضاحت کے بعد فرماتا ہے.قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ ہم نے تمہارے لئے نشانیاں خوب کھول کر بیان کر دی ہیں اب تمہارا فرض ہے کہ عقل کرو لیکن ساتھ ہی ایک خوشخبری بھی دیتا ہے.فرماتا ہے: إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا وَاكِيْدُ كَيْدًا فَمَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا ( الطارق :۱۲-۱۸) جب تم نے میرا خوف اختیار کر لیا اور میں تمہیں بتا چکا ہوں کہ تمیں یہ بھی پتہ نہیں کہ کس طرف سے حملہ ہوگا اور کس شکل میں ہوگا کیونکہ مخالفین کے سارے ارادے تم سے مخفی ہیں لیکن مجھ سے مخفی نہیں ہیں اور چونکہ تم نے میرا خوف کیا ہے اس لئے میں تمہارا ضامن ہو چکا ہوں اب میں تمہاری خاطر تدبیریں کروں گا چونکہ تمہیں تدبیروں کا اختیار ہی کوئی نہیں.جب پتہ ہی نہیں کہ دشمن کی تدبیر کیا ہے تو تم مقابل پر کیا تدبیر کر سکتے ہو.فرمایا اِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا ہم تمہیں بتاتے ہیں کہ وہ تمہارے خلاف خوب تدبیریں کر رہے ہیں لیکن میں بھی تو غافل نہیں بیٹھا ہو اور اکیڈ گیدا میں بھی ایک تدبیر کر رہا ہوں.فَمَهْلِ الْكَفِرِيْنَ اَمْهِلُهُمْ رُوَيْدًا ان کو اس حال میں رہنے دو پھر دیکھنا خدا کی تدبیر غالب آتی ہے یا ان کی تدبیر غالب آتی ہے.جب یہ فرمایا کہ وَدُّوا مَا عَنِتُمُ وہ تمہارا برا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ بھی تسلی دے دی کہ تم نے ان کے خلاف تدبیر نہیں کرنی نہ تم کر سکتے
خطبات طاہر جلد ۲ 598 خطبه جمعه ۲۵ / نومبر ۱۹۸۳ء ہو.اس کے بعد ایک عجیب نصیحت فرمائی ہے یا مومن سے ایک خاص توقع رکھی ہے فرماتا ہے : هَانْتُمْ أُولَاء تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ (آل عمران :۱۲۰) کہ ان دشمنیوں کے باوجود ہم یہ ساری باتیں تمہیں کھول کر بتا رہے ہیں.جس طرح ہم ان کے دلوں کا حال جانتے ہیں اسی طرح تمہارے دلوں کا حال بھی جانتے ہیں.تم تو عجیب مخلوق ہو.حضرت محمد مصطفی ﷺ نے عام انسانوں کی ایک الگ تخلیق کر دی ہے، تم خلق آخر بن چکے ہو.تمہاری یہ کیفیت ہے کہ ہم گواہی دے رہے ہیں کہ یہ جانتے ہوئے کہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے پھر بھی تم ان سے محبت کر رہے ہو.بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذالک گویا خدا تعالیٰ نے منع کیا ہے کہ ان سے محبت نہیں کرنی چاہئے تم تو ان سے محبت کرتے ہو حالانکہ وہ تم سے محبت نہیں کرتے ، یہ مضمون ہر گز نہیں کیونکہ ساتھ ہی یہ فرمایا ہے.وَتُؤْمِنُوْنَ بِالکتب گلّہ تمہاری یہ کیفت اس وجہ سے نہیں کہ خدا تعالیٰ کے بعض احکام پر تمہاری نظر ہے اور بعض پر نہیں ہے یہ کیفیت پیدا ہی ان دلوں میں ہوتی ہے جو کلیتہ کتاب پر ایمان لاتے ہیں اور کسی آیت کی ایک زیر زبر میں بھی فرق نہیں کرتے.ساری کتاب سارے احکام الہی سارے اوامر اور تمام نواہی پر نظر رکھنے کے بعد پھر ان کا دل جو شکل اختیار کرتا ہے وہ یہ ہے کہ تُحِبُّونَهُمْ وَلَا يُحِبُّونَكُمْ تمہاری عجیب حالت ہے تم ان سے محبت کرتے ہو اور وہ تم سے محبت نہیں کرتے.یہاں پہنچ کر ایک اور بات بھی بڑی کھل کر روشن ہو جاتی ہے کہ ایمان کے دعوے تو سب کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم مومن ہیں اور دوسرا نہیں لیکن اللہ نے اس کی علامتیں اتنی مشکل رکھ دیں کہ ہر وہ دعویدار جو اپنے دعوئی میں سچا نہیں ہے وہ ان کو اختیار کر ہی نہیں سکتا.چنانچہ ایک سچے مومن کی یہ علامت بتائی کہ وہ غیر سے نفرت نہیں کرتا باوجود اس کے کہ دشمن شدید گالیاں دیتا ہے اور مخالفت میں اپنے بد ارادوں کو کھلم کھلا ظاہر کرنے لگ جاتا ہے اور جو ان کے دلوں میں ہدارا دے ہوتے ہیں وہ ان سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں یہ ساری باتیں بیان کرنے کے معا بعد فرماتا ہے اے محمد ( ﷺ ) یہ ساری باتیں سن چکے ہو اب میں بتاتا ہوں کہ تمہارے اور تمہارے ماننے والوں کی کیا کیفیت ہے.فرماتا ہے تمہارے دلوں کی کیفیت یہ ہے کہ دشمن کی ساری باتوں کے باوجود تم ان سے
خطبات طاہر جلد ۲ 599 خطبه جمعه ۲۵ نومبر ۱۹۸۳ء محبت کرتے ہو اور محبت کرتے رہو گے اور تم اس بات سے بے نیاز ہو جاؤ گے کہ وہ تم سے محبت کرتے ہیں یا نہیں.یہ ہے ایمان والوں کی نشانی ، اور جو لوگ ایمان نہیں لاتے ان کی نشانی یہ رکھ دی کہ وہ اپنے سے غیر کے لئے نفرت رکھتے ہیں ، ان کے خلاف تدبیر میں سوچتے رہتے ہیں، ان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں اور کسی کو نقصان پہنچانے میں لطف اٹھاتے ہیں.حق اور باطل میں تمیز کرنے والی اس سے بڑی کھلی اور سورج کی طرح روشن دلیل اور کیا ہوسکتی ہے.پس خوشخبری ہو اس جماعت کو جس کے حق میں قرآن یہ دلائل پیش کر رہا ہے وہ جماعت غیروں کی زبانوں کے چر کے سے بے نیاز ہو جاتی ہے.اس کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ دنیا کی کوئی طاقت اس کو کیا بجھتی ہے.وہ علامتیں جو قرآن نے ظاہر کر دی ہیں وہ ان کے اعمال میں بول رہی ہوتی ہیں اور تصدیق کر رہی ہوتی ہیں کہ صرف یہی مومن ہیں اور صرف یہی مومن ہیں.روزنامه الفضل ربوه ۲۲ جنوری ۱۹۸۴ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 601 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء حق امانت کی ادائیگی ( خطبه جمعه فرموده ۲/ دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے درج ذیل قرآنی آیت تلاوت فرمائی: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا (الاحزاب : ١٢) اور پھر فرمایا: مذہب کے دو ہی بنیادی مقاصد ہیں ایک اللہ تعالیٰ سے اور دوسرے بنی نوع انسان سے خدا کی رضا کے مطابق تعلق.اس دوسرے حصہ کو حقوق العباد کہتے ہیں.تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کا ادا کرنا یہ دو ہی تمام مذاہب کے مقاصد ہیں اور ہونے چاہئیں.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کا آپس میں کیا رابطہ ہے اور یہ کیا نسبت رکھتے ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کسی طرف سے بھی بات شروع کریں یہ ایک دوسرے پر جا کر منتج ہو جاتے ہیں اور ان کے درمیان کوئی ایسی لکیر نہیں کھینچی جاسکتی کہ ایک کو دوسرے سے کلیتہ جدا کر دیا جائے.حقوق العباد کے پہلو سے دیکھیں تو کوئی انسان با خدا بن ہی نہیں سکتا جب تک پہلے حقوق العباد ادا نہ کرے گویا حقوق العباد وہ پہلی منزل ہے جس سے انسان با خدا ہو جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت ﷺ پر جب پہلی وحی نازل ہوئی اور آپ نے حضرت خدیجہ سے خوف کا
خطبات طاہر جلد ۲ 602 خطبہ جمعہ ۲/ دسمبر ۱۹۸۳ء اظہار کیا تو حضرت خدیجہ نے اس بات پر کہ آپ کا تعلق لازماً خدا تعالیٰ سے ہے کسی اور سے نہیں سب سے قوی دلیل یہ دی کہ آپ سب سے زیادہ حقوق العباد ادا کرنے والے ہیں اور حقوق العباد میں آگے بڑھ کر حقوق ادا کرنے والے یعنی آپ کا مقام عدل سے بہت آگے ہے.آپ حقوق العباد اس طرح ادا کرتے ہیں کہ محسن بھی ہیں اور ایتاء ذی القربی کا مقام بھی آپ کو حاصل ہے.( صحیح بخاری کتاب بدء الوحی با بد الوحی ) حضرت خدیجہ کے یہ الفاظ تو نہیں تھے مگر جو کچھ فرمایا اس کا خلاصہ یہی بنتا ہے.گویا اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو انسان مخلوق کے حقوق ادا کرتا ہو اس کا تعلق لازماً خدا تعالیٰ سے ہوتا ہے شیطان سے اس کا تعلق قائم نہیں ہوسکتا اور وہ یہ حق رکھتا ہے کہ خدا تعالیٰ اس سے تعلق رکھے.اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ آپ حقوق اللہ کی بات پہلے کریں تب بھی حقوق العباد پر جا کر بات منتج ہو جائے گی.چنانچہ قرآن کریم نے آنحضور ﷺ سے متعلق جو فرمایا فَتَد کی (النجم : 9) تو اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وہ اپنے رب کے قریب ہوا اور قریب ہو کر اپنے رب کو محض اپنے لئے نہیں رکھ لیا اور بنی نوع انسان سے مستغنی نہیں ہوا.رب کے قرب کا ایک طبعی تقاضا تھا کہ وہ بنی نوع پر رحمت کے ساتھ جھک جائے اور جو کچھ اس نے پایا وہ انہیں بھی عطا کرے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تدلی کا نقشہ اس طرح کھینچا ہے کہ جیسے درخت با شمر ہوکر جھک جاتا ہے اور اس کا پھل ان لوگوں کے لئے جو پھل کے محتاج ہوں قریب آ جاتا ہے.پس آنحضرت ﷺ کا سفر خدا کی طرف شروع ہوا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے منعکس ہو کر پھر بندوں سے آملا.امر واقعہ یہ ہے کہ ایک وحدت پائی جاتی ہے.مذہب میں یہ ایک تو حید کا منظر ہے کہ حقوق اللہ اور حقوق العباد بالآخر ایک ہو جاتے ہیں.یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص حقوق العباد صحیح معنوں میں ادا کرے اور اللہ تعالیٰ کے پیار کی نظر اس پر نہ پڑے.ایسے بندوں کو خدا چن لیتا ہے جو واقعتہ اس کے بندوں کا حق ادا کرتے ہیں اور یہ ناممکن ہے کہ کوئی اللہ تعالیٰ کا ہو جائے اور بنی نوع انسان کے حقوق ادا نہ کرے.لہذا ایسی مذہبی جماعتیں جن میں حقوق العباد کی کمی نظر آئے ، وہ ان اخلاق سے عاری ہوں جو انسان کو انسان کے لئے نرم کر دیتے ہیں اور اس کے حقوق ادا کرنے کے علاوہ احسان کا تقاضا کرتے ہیں.ایسا انسان اگر یہ کہے یا یہ سمجھے کہ میں بہت ہی عبادت کرنے والا ہوں ، بہت ہی
خطبات طاہر جلد ۲ 603 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء روزے رکھنے والا ہوں تو یہ اس کی غلط فہمی ہے.آنحضرت ﷺ نے ایسے غلطی خوردہ کی غلطی کو ہمیشہ کے لئے یہ فرما کر دور کر دیا کہ مومن وہ نہیں ہے جو صرف عبادت کرے اور روزے رکھے بلکہ مومن وہ ہے جس کے شر سے انسان، ان کا خون اور ان کے اموال بھی محفوظ ہوں.( صحیح بخاری کتاب الایمان باب المسلم من سلم المسلمون..تو حقیقت یہ ہے کہ حقوق العباد کے سوا حقوق اللہ ادا ہو نہیں سکتے اور حقوق اللہ ادا کرنے والے انسان کبھی بھی حقوق العباد سے غافل نہیں ہو سکتے.پس اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو وقتاً فوقتاً تذکیر کی ضرورت ہے، یاد کروانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا کیا مقام ہے، ہم کس بلند مقام پر فائز کئے گئے ہیں اور کیا ہم اس کے تقاضوں کو ہر پہلو سے پورا کر رہے ہیں یا نہیں.اس سلسلہ میں میں نے یہ سوچا ہے کہ ایک ایک خلق سے متعلق مختلف اوقات میں جب بھی خدا تعالیٰ توفیق عطا فرمائے خطبات میں جماعت کو نصیحت کروں.اس سلسلہ میں سب سے پہلا خلق جس کی طرف میری توجہ مبذول ہوئی وہ امانت ہے.امانت دراصل وہ خلق ہے جو زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے ، مذہب کا آغاز ہی امانت سے ہوتا ہے، مذہب کا دوسرا نام امانت ہے.چنانچہ جو آیت میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا کہ ہم نے امانت یعنی شریعت کو آسمانی وجود جو نظر آ رہے تھے ( یہاں امانت سے مراد کامل شریعت ہے یعنی دین کامل ) وہ جو مذہبی دنیا سے تعلق رکھتے تھے ان کے سامنے بھی پیش کیا ، زمین کے سامنے بھی پیش کیا ، آسمان کے سامنے بھی پیش کیا، پہاڑوں کے سامنے بھی پیش کیا فَأَبَيْنَ اَنْ يَحْمِلْنَهَا وہ اس کامل امانت کا حق ادا کرنے سے ڈر گئے وَ حَمَلَهَا الْإِنْسَانُ چنانچہ انسان کامل آگے آیا یعنی محمد مصطفی میل ہے اور اس نے اس امانت کا بوجھ اٹھایا إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا یہ اپنے نفس پر بہت ظلم کرنے والا اور اس بات سے بے پرواہ ہے کہ اس امانت کے بوجھ کے نتیجہ میں اس پر کتنے مظالم ہونے والے ہیں کیسے کیسے دکھوں کا اسے سامنا ہوگا.چنانچہ آغا زوجی پر ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ کو یہ کہا گیا کہ آپ کی قوم
خطبات طاہر جلد ۲ 604 خطبه جمعه ۲/ دسمبر ۱۹۸۳ء آپ کو اپنے وطن سے نکال دے گی تو بڑی معصومیت سے پوچھا کہ مجھے؟ مجھے کیوں نکال دے گی؟ یعنی مطلب یہ تھا کہ میں تو قوم کے اخلاق کا علمبردار ہوں میں تو ان میں سے زیادہ عادل ،سب سے زیادہ محسن، سب سے زیادہ امین ہوں تو مجھے کس وجہ سے نکال دے گی.( صحیح بخاری کتاب بدء الوحی باب بدء الوحی) تو جھولا سے مراد یہ تھی کہ اس امانت کے بوجھ کے جو تقاضے ہیں اور غیروں کی طرف سے جو بکثرت ظلم ہونے والے ہیں ان سے غافل تھا.ظَلُومًا اپنے نفس کے لئے ہے یعنی یہ غیروں پر ظلم کرنے والا نہیں اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ہے اور اپنے آپ پر بہت ہی زیادہ بنتی کرتا ہے.طاقت سے بڑھ کر حد سے زیادہ بوجھ اٹھانے کی تمنا رکھتا ہے.اس کا ظلم غیروں پر نہیں بلکہ یہ وجود وہ ہے جس پر غیر ظلم کریں گے اور اس کے باوجود اس سے غافل ہے.پس ایک معنی تو یہ ہوئے اور ایک اور معنی ہے کہ علم کے باوجود اس بات سے بے پرواہ ہے کیونکہ جھولا عرب اس بہادر کے لئے استعمال کیا کرتے تھے جو موت کے خطرات سے خوب واقف ہو اور اس کے باوجود اس میں چھلانگ لگا دے اور اس بات سے مستغنی ہو کہ اس پر کیا گزرے گی تو آنحضرت ﷺ سے متعلق یہ دونوں معنے صادق آتے ہیں.آنحضرت ﷺ کی آغاز نبوت میں یہ کیفیت تھی کہ آپ یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ کوئی شخص نیکی کے بدلہ میں بدی کر سکتا ہے لیکن جب معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ہونا ہے اور جتنا کہا گیا تھا اس سے بہت بڑھ کر آپ پر مظالم ہوئے تو اس وقت جھولا کا یہ معنی تھا کہ آپ ان خطرات کو خوب جان گئے تھے تب بھی ایک انچ پیچھے نہیں ہے.بڑی جرأت اور مردانگی سے ان سارے مظالم کو برداشت کیا جو غیر نے آپ پر کئے اور اس کے باوجود امانت میں کوئی فرق نہ آیا.یہ امانت کیا ہے؟ جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا کہ اس کا ایک معنی جو عرف عام میں بھی مشہور ہیں اور مختلف مفسرین نے بھی لکھے ہیں وہ ہے ” شریعت اور شریعت اسی کو عطا ہوتی ہے جو امین ہو.امانت کے بنیادی معنی اطمینان اور بے خوفی کے ہیں.وہ شخص جو ایسی حالت کو پہنچ جائے کہ اس سے دنیا بے خوف ہو جائے اسے امین کہتے ہیں اور جو ایسے اخلاق کو پا جائے کہ اس کے نتیجہ میں اسے کوئی خوف نہ رہے وہ بھی امانت دار ہوتا ہے، یعنی خوف کی حالت سے بے خوفی کی حالت تک پہنچ جانا یہ بھی امین کے معنوں میں داخل ہے اور دوسروں کو بے خوف کر دینا یہ بھی اس کے معنوں میں شامل ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 605 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء یعنی اگر انسان امانت کا حق ادا کرتا ہے تو اسے کوئی خطرہ اور خوف نہیں ہے اور جو امانت کا حق ادا کرنے والا ہو اس سے غیر کوکوئی خوف نہیں ہوتا.امین کا لفظ انسانوں کے لئے تو آتا ہے اللہ کے لئے نہیں آتا اس لئے کہ اللہ تعالیٰ مالک ہے اور امانت میں عدم ملکیت کے معنی پائے جاتے ہیں.امانت ایسی چیز کو کہتے ہیں جس کی ملکیت کسی غیر کی ہو اس نے صرف اس کا حق ادا کرنا ہے وہ غیر کے تابع مرضی ہو جائے اور اس کی امانت میں خود دخل اندازی کوئی نہ کرے.اللہ تعالیٰ چونکہ مالک ہے اس لئے سارے قرآن کریم میں اللہ کے لئے کہیں بھی امین کا لفظ نہیں آیا.ہاں مومن کا لفظ آتا ہے جو خدا کی نسبت بہت ہی وسیع معنی رکھتا ہے.بہر حال جہاں تک آنحضور ﷺ کا تعلق ہے جب ہم امانت کے پہلو پر غور کرتے ہیں تو ایک معنی یہ بنیں گے کہ وہ شریعت کا امین بنایا گیا، الہام الہی کا امین بنایا گیا اور وہ ایسا کامل امین تھا کہ اس نے ایک ذرہ بھی ، سرمو بھی اس امانت میں فرق نہیں کیا.ہر قسم کی بیرونی مخالفتوں اور ہر قسم کی اندرونی خواہشات کے باوجود اس نے امانت میں کوئی فرق نہیں آنے دیا.اندرونی خواہشات کے لحاظ سے وہ ظلوم تھا، اپنے نفس کی ہر تمنا کو خدا تعالیٰ کی خاطر کچلنے والا تھا.بیرونی خطرات کے لحاظ سے وہ جھول تھا دنیا کی کوئی طاقت اسے ڈرا کر یا خوف دلا کر امانت کے حق سے باز نہیں رکھ سکتی تھی.ایک اور معنی جو حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے اور اس سے پہلے کسی مفسر کی نگاہ اس پر نہیں پڑی وہ یہ ہیں کہ امانت سے مراد وہ تمام طاقتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں، ذہنی طاقتیں ، جسمانی طاقتیں قلبی طاقتیں ، روحانی طاقتیں جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ نے انسان کو ودیعت فرمایا ہے وہ خود اس کا مالک نہیں بلکہ وہ سب کچھ اسے خدا تعالیٰ کی طرف سے بطور امانت دیا گیا اور امین وہ ہوگا جو ہر اس چیز کو جو کسی نے اس کے سپرد کی ہے اس کے تابع مرضی استعمال کرے اور خرچ کرے.جہاں جہاں اسے دخل دینے کی اجازت دی گئی ہے وہاں وہاں دخل دے، جہاں دخل کی اجازت نہیں وہ نہ دے، غرضیکہ ایک ذرہ بھی اس مالک کی مرضی کے خلاف تصرف نہ کرے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان معنوں میں کامل امین جو دنیا میں ظاہر ہوا وہ حضرت محمد مصطفی ملتے تھے.آپ نے اپنی ان تمام طاقتوں کو جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو ودیعت فرمائی تھیں بلا استثناء خدا کی تابع مرضی کر دیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی گواہی خود دوسرے لفظوں میں دی کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 606 قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء (الانعام: ۱۶۳) اے محمد ! تو نے امانت کا ایسا حق ادا کر دیا ہے کہ تیری عبادت ، تیری ساری قربانیاں ، تیرا تو مرنا جینا بھی کلینتہ اپنے رب کے لئے ہو گیا ہے اس میں غیر اللہ کا کوئی دخل باقی نہیں رہا.( آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد نمبر ۵ ص۱۶۱-۱۶۲) تو ہمارا آقا اتنا بڑا امین ہے.ہمارا آقا اتنا بڑا سردار ہے جس کی متابعت کا ہم دم بھرتے ہیں.اگر ہم باوجود کوشش کے اس اعلیٰ مقام امانت پر فائز نہیں ہو سکتے تو یہ تو کوئی بات نہیں جس پر خدا پکڑے کیونکہ ہر انسان کی صلاحیتیں مختلف ہیں، جو صلاحیتیں اور قابلیتیں اس نے ودیعت کی ہیں وہ الگ الگ ہیں.کوئی انسان کمزور پیدا ہوتا ہے تو کوئی طاقتور، کوئی بیمار اور کوئی صحت مند کسی کی بعض قابلیتیں نمایاں ہوتی ہیں، کسی کی بعض اور قا بلیتیں نمایاں ہوتی ہے اس لئے یہ تو درست ہے کہ انتہائی کوشش کے بعد بھی کوئی شخص دنیا میں محمد ملے نہیں بن سکتا لیکن یہ بھی درست نہیں کہ حضور اکرم ﷺ کی طرف حرکت نہیں کر سکتا.آپ ایک مستقل حرکت حضرت محمد مصطفی ع کی طرف کر سکتے ہیں اور بحیثیت امین ہمارا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ ہم حضور اکرم کے وجود سے قریب تر ہوں.بعض لوگ کہتے ہیں کہ دعا کرو کہ مرنے کے بعد ہم حضور رسول اکرم ﷺ کے قدموں میں جگہ پائیں.بڑی اچھی خواہش ہے لیکن بسا اوقات انہیں یہ خیال نہیں آتا کہ جنہوں نے اس دنیا میں محمد رسول اللہ ﷺ کے قدموں میں جگہ نہیں پائی وہ وہاں کیسے پا جائیں گے.یہ دنیا دارالعمل ہے اگر آپ نے حضرت رسول کریم ﷺ کے قریب ہونا ہے تو اب وقت ہے قریب ہو جائیے مرنے کے بعد قربت کا وقت ختم ہو جاتا ہے.پھر آپ اسی مقام سے اٹھائے جائیں گے اور وہیں کھڑے کئے جائیں گے جو قربت کا مقام آپ نے دنیا میں حاصل کر لیا تھا.امانت کے لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں تو اس پہلو سے بہت ہی تکلیف دہ مناظر نظر آتے ہیں.جو شخص بندوں کا امین نہ ہو وہ خدا کا امین کیسے ہو سکتا ہے.امانت میں بہت سی خرابیاں پیدا ہوگئی ہیں اور جماعت کو لازماً ان ساری کمزوریوں کو دور کرنا ہو گا.امانت کے وسیع تر مضمون میں داخل ہونا تو بہت بڑی بات ہے.میں اس وقت اتر کر معمولی عرف عام کے مضمون میں پہنچ گیا ہوں.میں آپ کو بتارہا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی امانتوں میں بھی خیانت کی جارہی ہے.
خطبات طاہر جلد ۲ 607 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء امانت سے مراد نہ صرف روپے پیسے جو دیئے جاتے ہیں وہ ہیں بلکہ ہر انسان کی عزت بھی دوسرے کے پاس امانت ہے، ہر انسان کے حقوق دوسرے کے پاس امانت ہیں اور اس پہلو سے اللہ تعالیٰ نے انسان کو رائی بنا دیا ہے.اگر آپ ان معنوں میں لفظ ”امانت پر غور کریں کہ حقوق العباد میں امانت کیا شکلیں اختیار کرتی ہے تو تمام حقوق انسانی سے امانت کا تعلق قائم ہو جاتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: وَالَّذِينَ هُمْ لِاَ مُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ ) (المومنون: ٩) وہ اپنی امانات اور عہدوں پر راضی ہو جاتے ہیں.راعی کے کیا معنی ہیں ؟ اس کی تفصیل آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں: كُلُّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ ( بخاری کتاب النکاح باب المرأة راعية في بيت زوجها ) کہ تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور ہر ایک اپنی رعیت کے بارے میں پوچھا جائے گا.یعنی امانت کی جو تفصیل پہلے بیان کی گئی ہے وہ اس حدیث سے بالکل مطابقت رکھتی ہے.امانت اس چیز کو کہتے ہیں کہ جو اپنی نہ ہو کسی غیر کی ہو اور رعیت اسے کہتے ہیں کہ امانت کے حقوق اس طرح ادا کئے جائیں کہ جو مالک ہے اسے اعتراض نہ ہو سکے اس کی عین مرضی کے مطابق امانت خرچ کی جائے.تو فرمایا کہ تم مالک نہیں ہو اس دنیا میں تم امین ہو اور ایسے امین ہو کہ جسے پوچھنے والا زندہ موجود ہے اور جس کا پوچھنے والا صاحب اقتدار ہے ورنہ دنیا میں انسان بعض دفعہ کسی اور کا امین ہو جاتا ہے.فرض تو اس کا ہے کہ امانت کا حق ادا کرے لیکن امانت دینے والا مر جاتا ہے یا اس سے کمزور ہوتا ہے اس کا کچھ بس نہیں ہوتا اگر کوئی خیانت بھی کرے تو وہ زبردستی اپنے حقوق نہیں لے سکتا.اس فرق کو ظاہر کرنے کے لئے کہ ہم کس کے امین ہیں، آنحضرت ﷺ نے اس کی یہ تفصیل فرمائی کہ دھون میں جو خدا تعالیٰ نے اس طرف متوجہ فرمایا ہے کہ تم اپنی امانتوں کے راعی ہو اور ایسے رائی ہو جو مسئول ہو.تم سے لازماً یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ امانتیں کس طرح ادا کیں؟ جب ہم امانت کے مضمون کو عام لین دین کے معاملات میں دیکھیں تو یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ اس چھوٹے سے مفہوم میں بھی ابھی بہت اصلاح کی گنجائش موجود ہے.قضا میں جتنے جھگڑے آتے ہیں وہ
خطبات طاہر جلد ۲ 608 خطبه جمعه ۲/ دسمبر ۱۹۸۳ء سارے امانت میں کمی سے تعلق رکھنے والے جھگڑے ہیں.کسی نے کسی سے شراکت کی اور شراکت کے دوران امانت کا حق ادا نہ کیا، کسی نے کسی کے سپرد کوئی جائیدا دیا کوئی کام کیا تو اس نے وہاں امانت کا حق ادا نہ کیا ، کسی نے بیوی کی امانت کا حق ادا نہ کیا تو کسی بیوی نے خاوند کی امانت کا حق ادانہ کیا،غرضیکہ سارے قضا کا خلاصہ یہ ہے کہ جتنے جھگڑے وہاں پہنچتے ہیں ان میں سے ایک نہ ایک فریق لازماً امانت کے معیار سے گرا ہوا ہے یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں فریق گرے ہوئے ہوں.مقدموں میں یہ ضروری نہیں ہوا کرتا کہ سارا قصور ایک ہی فریق کا ہو لیکن جب کوئی مقدمہ قضا میں پہنچتا ہے تو یہ قطعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے کہ امانت کا معیار گرا ہوا ہے اور جتنے زیادہ مقد مے قضا میں پہنچیں گے اتنی ہی زیادہ الارم کی گھنٹیاں بجیں گی اور اتنا ہی زیادہ خوف پیدا ہوگا.پس وہ جماعت جسے تمام دنیا کے لئے امین بنایا گیا ہے اگر وہ اپنے لئے ہی امین نہ ہو تو وہ کس طرح اس حق کو ادا کرے گی.آپ امین ہیں ،صرف اموال میں نہیں ، صرف دنیاوی حقوق میں نہیں بلکہ آپ شریعت کے بھی امین ہیں ، آپ ساری دنیا کے حقوق کے امین ہیں.جماعت احمدیہ پر آنحضرت علم کی نمائندگی کا حق ادا کرنے کی اتنی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ اس کے خوف سے تو انسان کو لرزتے رہنا چاہئے.ہرگز بے فکری اور بے خوفی کا مقام نہیں ہے.حقیقت یہ ہے کہ امانت کے معاملہ میں جتنا زیادہ خوف رکھیں گے، جتنا زیادہ خدا سے ڈریں گے اتنا ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بے خوفی عطا ہوگی.اللہ تعالیٰ کا نام اگر چہ امین نہیں مگر مومن ہے.مومن کے کیا معنی؟ مومن کے معنی یہ ہیں کہ جس سے کسی دوسرے انسان کو کوئی خوف لاحق نہ ہو.ایک پہلو سے اللہ مومن ہے اور ایک پہلو سے انسان مومن ہے اور ان دونوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے.انسان مومن تب بنتا ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کو اس بارے میں مطمئن کر دے کہ خدا تعالیٰ کو اس سے بغاوت کا احتمال نہ رہے، عصیان اور نافرمانی کا احتمال نہ رہے.یعنی بحیثیت انسان مومن وہ کہلائے گا جس کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اور جس سے خدا تعالیٰ کو یہ امن حاصل ہو جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات میں کوئی رخنہ پیدا نہیں کرے گا.اللہ تعالیٰ کی امانت نہیں کھائے گا بلکہ اس کی امانت کو جس طرح اس نے پسند فرمایا ہے اسی طرح ادا کرے گا.کوئی مومن ہو ہی نہیں سکتا جب تک
خطبات طاہر جلد ۲ 609 خطبه جمعه ۲/ دسمبر ۱۹۸۳ء امین نہ ہو.پس ان معنوں میں انسان مومن ہے اور انسان جتنا مومن ہوتا ہے اتنا ہی اس کے لئے اللہ مومن ہوتا چلا جاتا ہے.جس حد تک وہ اللہ تعالیٰ کا خوف کھا کر اس کو مطمئن کرتا ہے اسی حد تک اللہ تعالیٰ اس کے خوف دور کرتا چلا جاتا ہے اور ان چیزوں میں وہ ضامن ہو جاتا ہے.چنانچہ آنحضرت نے مختلف رنگ میں اس مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ جو مومن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ضامن ہو جاتا ہے، اس کا کفیل ہو جاتا ہے، اس کی ذمہ داریاں قبول فرمالیتا ہے.پس اللہ مومن ہے ان معنوں میں کہ جس حد تک انسان خدا پر ایمان لائے یا خدا کو اپنی ذات سے ان سارے معاملات میں امن دے تو اللہ تعالیٰ اس کا کفیل ہو جائے گا اور اس کا نگران ہو جائے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا اور اسے بے خوف کر دے گا اور جس حد تک وہ خدا کو امن نہیں دیتا اسی حد تک وہ امن کے مقام سے نکل کر خوف کے مقام میں داخل ہو جاتا ہے.جتنے قدم وہ خدا کی رضا سے باہر رکھے گا اتنے ہی قدم وہ خطرات سے باہر رکھ رہا ہو گا.پس امانت ایک بہت ہی اہم خلق ہے اور امانت یعنی خدا کی امانت ادا نہیں ہو سکتی جب تک انسان انسان کے لئے امین نہ ہو، پہلے انسان بنا پڑے گا پھر انسان کامل کی باری آتی ہے اور پھر اللہ سے تعلق پیدا ہوتا ہے چنانچہ قرآن کریم میں جو فرمایا ہے: فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيْهِ مِنْ رُّوحِي فَقَعُوا لَهُ سَجِدِينَ (ص: ۷۳) اس میں وہی مضمون ہے کہ پہلے تم ٹھیک ٹھاک تو ہو پھر نفخ روح کا سوال ہوگا جب میں تمہیں ٹھیک کر لوں گا ، جب تمہارے اخلاق درست کرلوں گا تب یہ سوال پیدا ہوگا کہ میں تم پر الہام کروں ،ہم پر وحی کروں اور تمہارا مجھ سے تعلق پیدا ہو.اگر تمہارے اخلاق بگڑے ہوئے ہوں ،تم انسان ہی نہ کہلا سکتے ہو اور یہ خواہش اور تمنا رکھو کہ اللہ تعالیٰ الہام کرے اور وحی فرمائے ، سچی خوا ہیں دکھائے اور خدا تعالیٰ نصرت فرمائے تو یہ ساری خیالی باتیں ہیں.پس حقیقت یہ ہے کہ حق امانت بہت ہی اہم خلق ہے.حق امانت کی کتنی اہم ذمہ داری ہے اور امین ہونا کتنا بڑ اخلق ہے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم ہوتا ہے اور جتنا کوئی خائن ہوتا چلا جائے اتنا ہی اللہ تعالیٰ سے اس کا تعلق ٹوٹتا چلا جاتا ہے.چنانچہ اللہ تعالیٰ انبیاء کومنع فرما دیتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد ۲ 610 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء مجھ سے خائن کے بارہ میں کوئی سفارش کریں.قرآن کریم انبیاء کو کھلم کھلا تا کید فرماتا ہے کہ خائنوں کے بارے میں کوئی جھگڑا کوئی بحث نہیں کرنی.گو یا خیانت شفاعت سے محرومی ہے اس لئے جو ہماری کمزوریاں ہیں خواہ غفلت کی وجہ سے خطاؤں کی وجہ سے یا عمداً گناہ ہو ایک جو تمنا ہوتی ہے کہ قیامت کے دن حضور اکرم ہے شفاعت فرمائیں گے تو قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے کہ ان لوگوں کی شفاعت سے خدا روک دے گا جو خائن ہوں.پس جو شخص دنیا میں لین دین کے معاملات میں امانت کا حق ادا نہیں کر سکتا اس کا یہ تصور ہی غلط ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی امانتوں کے حق ادا کر رہا ہے ، وہ عبادت کر رہا ہے وہ روزے رکھ رہا ہے.یہ ساری بعد کی باتیں ہیں جب تک وہ اندرونی طور پر ٹھیک ٹھاک نہیں ہو جاتا، جب تک اس کا نفس برابر نہیں ہو جاتا اس وقت تک خدا تعالیٰ سے تعلق کا سوال ہی کوئی نہیں.سب سے زیادہ جھگڑے لین دین کے ہیں یعنی پیسے کے معاملے میں انسان اتنا کمزور ہے اتنا حریص اور تو کل سے عاری ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ میں جب تک خدا تعالیٰ کے قانون توڑ کر پیسے نہ لے لوں اس وقت تک میرا گزارہ مشکل ہے، اس وقت تک میرا کوئی کفیل نہیں ہو سکتا.چھوٹی چھوٹی باتوں میں انسان کو بھول کر بے انتہا ناشکری کرتا ہوا انسان خیانت کر جاتا ہے.میرے سامنے ایسے معاملات آتے رہتے ہیں کہ ایک شخص نے کسی پر احسان کیا اسے ایسے وقت میں اپنا مکان دیا جب اسے سر چھپانے کی جگہ نہیں تھی اور بعض صورتوں میں کرایہ بھی وصول نہیں کیا اور جب اس نے آ کر کہا کہ اب مجھے ضرورت ہے مکان دے دو تو کہا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ، ہم کہاں جائیں، ہم اپنا سر کہاں چھپائیں.اب یہ جو امانت میں خیانت ہے اس میں ایک اور بھی عصر داخل ہو جاتا ہے یعنی بے شرمی ، بے حیائی اور ناشکرے پن کا.تو انسان تو ناشکرا اور بے حیا ہو کر بھی خیانت پر آمادہ ہو جاتا ہے.جب آپ کسی سے قرض لیتے ہیں تو یہ صرف امانت نہیں بلکہ اس میں احسان بھی شامل ہوتا ہے.امانت اور قرض میں ایک فرق ہے.ویسے تو قرآن کریم نے قرض کو بھی امانت کے تابع بیان فرمایا ہے لیکن عام امانت اور قرض میں ایک فرق یہ ہے کہ آپ امانت استعمال نہیں کر سکتے جب تک کہ امانت رکھنے والا استعمال کی اجازت نہ دے اور جب وہ اجازت دے دے تو اسی کا نام قرض ہو جا تا ہے.ایک اور فرق یہ ہے کہ امانت مانگ کر نہیں لی جاتی اور قرض آپ مانگ کر لے سکتے ہیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 611 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء امانت ضائع ہو جائے تو آپ اس کی ادائیگی کے ذمہ دار نہیں ہیں.قرض ضائع ہو تو چونکہ آپ نے اس سے استفادہ کیا تھا اور آپ نے مانگ کر لیا تھا اس لئے آپ کو لازماً ادا کرنا پڑے گا.یہ سوال نہیں کہ جی نقصان ہو گیا میں نہیں دے سکتا.پس یہ جو دو تین فرق ہیں اسے ملحوظ رکھیں.صلى الله چنانچہ آنحضرت ﷺ نے جب عہدے مانگنے سے متعلق منع فرمایا کہ کسی عہدہ کی خواہش نہیں کرنی تو اس لئے کہ وہ قرض نہیں امانت ہے.جتنی ذمہ داریاں ہیں وہ ساری امانتیں ہیں.چنانچہ جب بعض لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ علیہ سے یہ خواہش کی کہ ہمیں فلاں جگہ کی ولایت دے دیں یا فلاں جگہ کی امارت دے دیں تو آپ نے فرمایا کہ بالکل نہیں ، یہ وہ امانت ہے جو مانگی نہیں جائے گی.یہ میرا کام ہے اور میرے سپرد ہے کہ میں جسے تم میں سے بہترین سمجھوں اس کے سپر د کروں.تمہارا یہ کام ہی نہیں کہ امانت مانگو.فرمایا کہ جو شخص امانت نہیں مانگتا بلکہ اس کے سپرد کی جاتی ہے تو پھر خدا تعالیٰ اس کا مؤکل ہو جاتا ہے ، اس کے لئے آسانی پیدا فرما دیتا ہے اور جو شخص خواہش کر کے لیتا ہے تو وہ امانت اس کے لئے بوجھ بنادی جاتی ہے، وہ اس بوجھ کو اٹھا نہیں سکتا.( الجامع الصحیح البخاری کتاب الأيمان والنذ رباب قول اللہ لا یا اخذكم الله بالغوفی ایمانکم) پس امانت اور قرض کے فرق کوملحوظ رکھیں.امانت میں آپ کو کسی شخص نے از خود دیا ہے.دنیا کے لین دین میں جب ہم قرض سے فرق کرنے کے لئے امانت کی بات کرتے ہیں تو مطلب یہ بنے گا کہ آپ نے کوئی خواہش نہیں کی بلکہ ایک شخص کو ضرورت تھی اس نے آپ کے پاس اپنا روپیہ رکھوا دیا.ایسی صورت میں آپ کا کچھ احسان اس پر ہو جاتا ہے کیونکہ آپ نے ذمہ داری قبول کر لی.اس کا ثواب اللہ تعالیٰ آپ کو عطا فرمائے گا لیکن جب آپ قرض لیتے ہیں تو آپ امین بھی ہیں اور زیر احسان بھی آ جاتے ہیں.پس جو قرض میں لیت و لعل کرتا ہے کہ میں نہیں دے سکتا ضائع ہو گیا، فلاں بات ہوگئی ، وہ تو احسان کش بھی ہے.بہت سے جھگڑے اور ایسی شکائتیں ملتی رہتی ہیں کہ فلاں شخص نے قرض لیا تھا اور اسے ادا نہیں کیا.یا بعض اوقات نہایت تکلیف دہ صورت میں ادا کرتے ہیں کہ آج روپے کی قیمت اور ہے قرض ادا کرتے ہیں سال لگا دیئے جبکہ اصل سے اس کی کوئی نسبت ہی نہیں رہتی.جب واپس ہورہا ہوتا ہے تو عملاً اس کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہوتی.پس قرض کو وقت پر وعدہ کے مطابق ادا کرنا یہ امانت سے بھی زیادہ ضروری ہے کیونکہ اس
خطبات طاہر جلد ۲ 612 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء میں انسان احسان کے نیچے آیا ہوا ہوتا ہے وہ دو ستم کا مجرم بن جاتا ہے.احسان کش بھی محسن کش بھی اور خائن بھی بن جاتا ہے.اس پہلو سے جماعت کو بہت اونچے معیار کی ضرورت ہے.میں تو بعض دفعہ شرم سے کٹ جاتا ہوں جب بعض غیر احمدی یہ لکھتے ہیں کہ فلاں احمدی نے ہم سے یہ قرض لیا تھا، جب اسے ضرورت تھی اسے ہم نے ادا کیا، اب ہمیں ضرورت ہے تو وہ واپس نہیں کر رہا.بعض لوگ جھوٹی شکائتیں بھی کر دیتے ہیں لیکن بعض شکایتوں کی میں نے تحقیق کروائی اور ثابت ہوا کہ بات بالکل درست ہے تو یہ بہت ہی بڑا جرم ہے بلکہ ایک تیسرا جرم شامل ہو گیا یعنی جب آپ نے غیروں سے بد معاملگی کی تو آپ لوگ تبلیغ اور جماعت کی نیک نامی میں روک بن گئے.پس امانت کے معیار کو بلند کیجئے اور یہ دیکھئے کہ غلام کس کے ہیں ، آپ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے غلام ہیں جو سب امینوں سے بڑھ کر امین تھے، جنہوں نے امانت کے مقام کو انتہا تک پہنچا دیا.ان کی غلامی کے دعوے دار ہو کر یہ باتیں زیب نہیں دیتیں کہ چھوٹی چھوٹی امانتوں میں بھی آپ خیانت کر جائیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک واقعہ آپ کو سناتا ہوں ایسے بہت سے واقعات ہیں لیکن ایک واقعہ سناتا ہوں اس سے آپ اندازہ کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے کیوں چنا تھا؟ اس لئے کہ آپ حضرت محمد مصطفی علی کے پیچھے قدم بقدم چلنے والے تھے.آپ نے ہر خلق حضرت محمد مصطفی ملے سے سیکھا تھا اور پھر اس کے تمام بار یک تقاضوں کو پورا کیا.ایک دفعہ آپ سیر کے لئے تشریف لے جا رہے تھے میاں محمد عبد اللہ سنوری صاحب ساتھ تھے.بیروں کا موسم تھا ایک بیری سے سرخ رنگ کا ایک بیر سڑک پر گرا ہوا تھا میاں عبداللہ صاحب نے اٹھالیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ یہ کس کی بیری ہے؟ انہوں نے کہا پتہ نہیں کس کی ہے.پھر فرمایا آپ نے اس سے پوچھا کہ میں تمہارا یہ بیر لے سکتا ہوں؟ انہوں نے کہا.یہ سڑک پر پڑا ہوا تھا.آپ نے فرمایا کہ پھر وہیں رکھ دو.(سیرۃ المہدی جلد اول روایت نمبر ۱۱۱) تو جس کا امام اتنا عظیم الشان ہو کہ دنیا کے سب سے بڑے امین کا غلام کامل ہو جائے اور ہر بات میں، ہر قدم پر انتہائی باریکی سے غلامی کا حق ادا کر رہا ہو اس کی طرف منسوب ہونے کے بعد آپ اندازہ کریں کہ آپ سے دنیا کی طرف سے امانت کے کتنے بلند تقاضے ہوں گے.اگر آپ نے اس امانت
خطبات طاہر جلد ۲ 613 خطبه جمعه ۲ / دسمبر ۱۹۸۳ء کا حق ادا نہ کیا تو دنیا سے یہ خلق ختم ہو جائے گا.آپ ہی اس کے علمبر دار ہیں.اس لئے ہر احمدی کو مرد، عورت اور بچے کو امانت کے نہایت اعلیٰ مقام پر قدم رکھنا چاہئے.اگر آپ امین ہو جائیں گے تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ خدا آپ کے لئے مومن ہو جائے گا.آپ اس مومن کی شان دیکھیں گے وہ ہر خطرہ سے آپ کو بچائے گا، آپ اس کی حفاظت میں آ جائیں گے، وہ ہر اس شان کے ساتھ آپ پر ظاہر ہوگا جس طرح اس سے پہلے وہ امینوں پر ظاہر ہوتا رہا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں امانت کے حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۹ جنوری ۱۹۸۴ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 615 خطبه جمعه ۹/ دسمبر ۱۹۸۳ء آنحضرت کی صفت امین ( خطبه جمعه فرموده ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشهد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی: إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُوْلِ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ لِكَرِيمِن مَكِينٍ مُطَاعٍ ثُمَّ اَمِيْن ( النور :۲۰ اور پھر فرمایا: گزشتہ خطبہ جمعہ میں میں نے امانت سے متعلق کچھ بیان کیا تھا لیکن یہ مضمون اتنا وسیع ہے کہ تمام شریعت پر حاوی ہے.یہ ایسی بنیادی صفت ہے جس سے حقیقت میں شریعت کا مضمون پھوٹتا ہے اور دونوں پہلوؤں سے اس کا تعلق ہے یعنی حقوق اللہ سے بھی اور حقوق العباد سے بھی.یہ مضمون چونکہ بہت وسیع تھا اس لئے مجھے خیال آیا کہ ایک خطبے کی بجائے دو خطبوں میں کچھ اس کے متعلق بیان کرنے کی کوشش کروں گا.اس دوران الفضل میں بعض بڑے اچھے مضامین شائع ہوئے جنہوں نے میرے کام کو آسان کر دیا اور اس مضمون کو سمیٹ دیا.بہت سی احادیث ہیں جن کا اس مضمون کے ساتھ تعلق تھا وہ الفضل میں شائع ہو چکی ہیں.جماعت نے ان سے یقیناً استفادہ کیا ہوگا.میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ آنحضور ﷺ امانت میں بلند ترین مقام پر فائز تھے.اگر چہ ہر نبی کو امین ہونا لازم ہے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا تعالیٰ کسی کو رسول بنائے اور امین نہ
خطبات طاہر جلد ۲ 616 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء بنائے بلکہ امین ہونا نبوت کے لئے شرط اول ہے.جب تک کوئی امین نہ ہو اللہ تعالیٰ نبوت اور رسالت کی امانت اس کے سپرد نہیں فرما تا لیکن قرآن کریم کے مطالعہ سے آنحضرت ﷺ کی خصوصی شان دو پہلوؤں سے نمایاں طور پر نظر آتی ہے.اول یہ کہ قرآن کریم میں جہاں جہاں بھی انبیاء کے امین ہونے کا ذکر ہے وہاں یا تو انبیاء نے خود اپنی قوم کو مخاطب کر کے فرمایا ہے کہ دیکھو! ہم امین ہیں اور جب دنیا کے معاملات میں امین ہیں اور تم جانتے ہو کہ ہم امین ہیں تو خدا کے معاملہ میں ہم کیسے امانت میں خیانت کر سکتے تھے.دوم یہ کہ قوم نے ان کو امین کہا اور دوسروں نے ان کے حق میں گواہی دی کہ یہ امین ہیں لیکن آنحضرت علی کے سوا کسی اور رسول کے متعلق خدا تعالیٰ کی یہ گواہی نہیں ملتی کہ یہ امین ہے.یہ صرف اور صرف حضرت اقدس محمد رسول اللہ ﷺ کو اعزازی مقام حاصل ہے کہ آپ کی امانت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے خود گواہی دی کہ یہ امین ہے چنانچہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے.ان میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : إِنَّهُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ذِي قُوَّةٍ عِنْدَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينِ مُطَاع ثُمَّ أَمِينٍ کہ دیکھو! یہ قول جو قرآن کریم کی صورت میں تم سن رہے ہو یہ ایک ایسے رسول کا قول ہے جو صاحب قوت ہے اس کو غیر معمولی قولی بخشے گئے ہیں.عِنْدَ ذِی الْعَرْشِ مَكِينِ اس کا مقام آسمان پر خدائے ذوالعرش کے نزدیک بہت بلند ہے.آسمان کا لفظ عرش کا صحیح تر جمہ تو نہیں ہے یوں کہنا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے قریب تر اس کا مقام ہے، گویا بلند ترین مقام پر فائز ہے.قطَاعِ ثُمَّ آمِین اس کی شان یہ ہے کہ یہ کامل طور پر مطاع بنایا گیا.تو آمین ہر پہلو سے، ہر لحاظ سے تمام دنیا کو اس کا مطیع بنادیا گیا ہے اس مقام پر فائز ہونے کے باوجود، اس عظیم الشان قوت کے مقام کو حاصل کرنے کے باوجود پھر بھی یہ امین ہے یعنی عِندَ ذِی الْعَرْشِ مَکین ہونے کے لحاظ سے اللہ کی امانت کا حق بھی پوری طرح ادا کر رہا ہے اور لوگوں کا مطاع بننے کے باوجود عرش کے رب کی طرف سے اس کو کلی اختیارات سونپے گئے ، اس کا ہو کر تم میں نازل ہوا ہے.خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک رنگ میں اس کو مالکیت کے حقوق عطا کئے گئے اس کے باوجود تم سب کی امانتوں کا بڑی تفصیل سے خیال رکھنے والا ہے یعنی اس میں حقوق اللہ اور حقوق
خطبات طاہر جلد ۲ 617 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء العباد کی ادائیگی میں درجہ کمال کو پہنچے کا نقشہ کھینچا گیا ہے.ضمناً اس سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح انگریزی کا محاورہ ہے Absolute power corrupts absolutely یعنی جب اقتدار کامل ہو جائے ، کسی کے ہاتھ میں مکمل اختیار آ جائے تو اتنا ہی کامل طور پر وہ بددیانت اور بداخلاق ہو جاتا ہے.کیونکہ کلی اختیارات ایسی ڈکٹیٹر شپ کو پیدا کرتا ہے جس کے نتیجہ میں انسان اپنے آپ کو انسانی حقوق اور ان کے خیالات سے، انسانی احساسات اور ان کی ضروریات سے مبرا سمجھنے لگ جاتا ہے اور اسی شدت کے ساتھ جس شدت کے ساتھ اسے طاقت ملتی ہے وہ بداخلاق اور بددیانت ہو جاتا ہے لیکن قرآن نے اس کے بالکل بر عکس مضمون بیان فرمایا ہے.جس میں دنیا کے اقتدار اور دنیا کی حکومتوں سے مختلف تصور پیش فرمایا ہے اور صرف تصور ہی نہیں بلکہ ایک کامل نمونہ کی شکل میں اس کو حقیقت بنا کر دکھا دیا.فرمایا عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكَيْنِ صاحب عرش کا نمائندہ ہے،اس کے حضور حاضر ہے.اس سے بڑا اقتدار دنیا میں کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا کہ وہ تمام کائنات کے مالک خدا کی نظر میں اتنا قریب ہو جائے ، اتنا پیارا ہو جائے کہ گویا ہر وقت اس کی آنکھ کے سامنے اور اس کے قرب میں رہتا ہے قطاع اور اس کی طرف سے مُطَاع بنا دیا گیا ہے، تمام عالم کو اس کا مطیع کر دیا گیا.ثُمَّ امین اس کو تمام عالم کا مطاع اور امیر مقر فرما دیا گیا ہے پھر بھی دیکھو کیسا امین ہے.کتنی بار یکی اور لطافت کے ساتھ تمہارے حقوق ادا کر رہا ہے.امانت کا حق اپنے رب کی طرف سے بھی ادا کر رہا ہے اور بنی نوع انسان کی طرف سے بھی ادا کر رہا ہے.قرآن کریم نے آنحضرت ﷺ کو بطور امین جو دوسرا امتیاز بخشا ہے وہ یہ ہے کہ اگر چہ روح القدس ہر نبی پر ظاہر ہوتا رہا اور وہ امین بھی ہے جیسا کہ میں نے بیان کیا تمام انبیاء امین ہیں روح القدس بھی امین ہے اس کا نام روح الامین رکھا گیا ، لیکن کسی اور نبی کی وحی کے ساتھ روح القدس کے علاوہ روح الامین کا لفظ استعمال نہیں ہوا.یعنی روح القدس کا نازل ہونا تو ملتا ہے لیکن روح الامین کا کہیں ذکر نہیں ملتا اور جب کسی شخص کی خاص صفت کو نمایاں طور پر بیان کیا جاتا ہے تو مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ بدرجہ خاص پوری ہو گئی.چنانچہ جب آپ خدا سے دعا کرتے ہیں اور رحم کی التجا کرتے ہیں تو اس وقت یہ تو نہیں کہتے کہ اے قہار خدا ہم پر رحم فرما.اس وقت رحمان اور رحیم ہی یاد آتا
خطبات طاہر جلد ۲ 618 خطبه جمعه ۹/ دسمبر ۱۹۸۳ء ہے لیکن جب دشمن کے ظلم سے تنگ آ کر اپنے رب کو یاد کرتے ہیں تو اس وقت رحمان اور رحیم کی بجائے قہار کا لفظ آپ کے ذہن میں جلدی آتا ہے کیونکہ یہ ایک طبعی بات ہے.پس روح الامین کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دوسروں کے لئے امین نہیں تھا.وہ تو ایک صفت لازمہ ہے اور مراد یہ ہے کہ حضرت محمد مصطفی عملے پر جب نازل ہوا تو درجہ خاص کی صفت امانت نے اپنے جلوے دکھائے.حضرت خلیفہ المسیح الثانی اپنی تفسیر کبیر میں اس آیت پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس خصوصی ذکر سے مراد یہ تھی کہ جیسی حفاظت اس کلام کو ملے گی ویسی کبھی کسی اور کلام کو نہیں دی گئی یعنی نزول کے وقت کی حفاظت تو سب کو حاصل ہوتی ہے لیکن ان معنوں میں حفاظت کہ لفظی حفاظت بھی اس کو عطا ہو اور اس کے معانی کی حفاظت کا بھی مستقلاً انتظام کیا جائے روح الامین کے نازل ہونے سے متعلق یہ پیشگوئی تھی.چنانچہ آنحضور ﷺ کا مقام بلحاظ امانت جتنا بلند ہوتا چلا جاتا ہے اسی قدر آپ کے غلاموں کی ذمہ داریاں بھی ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں.مطاع ثم آمین کا ایک بہت ہی پیارا اظہار اس وقت ہوا جب فتح مکہ کے وقت خانہ کعبہ کی چابیاں آنحضرت ﷺ کے سپرد کی گئیں چنانچہ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی: اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْأَمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ( النساء:۵۹) کہ اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم اپنی امانتوں کو ادا کرو اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو.حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے دن آنحضرت ے خانہ کعبہ سے باہر تشریف لاتے وقت اس آیت کی تلاوت فرمارہے تھے.اس سے پہلے کبھی آنحضور ﷺ کے منہ سے اس کی تلاوت نہیں سنی گئی یعنی اسی وقت نازل ہوئی.مفسرین اس کی شان نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ سے اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یہ سوال کیا کہ یا رسول اللہ ! اب آپ ہمارے پانی پلانے کے اعزاز کے ساتھ اس اعزاز کو بھی ملا دیں.یعنی ہم خانہ کعبہ کے دربان بھی شمار ہوں اس سے پہلے پانی پلانے کا اعزاز الگ خاندان کو حاصل تھا اور خانہ کعبہ کی دربانی کا اعزاز الگ خاندان کو لیکن حضرت محمد مصطفی ﷺ نے ان کی اس درخواست کی طرف توجہ نہ فرمائی اور پوچھا کہ عثمان بن ابی طلحہ کہاں ہے؟ جب ان کو آنحضور کی خدمت اقدس
خطبات طاہر جلد ۲ 619 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء میں پیش کیا گیا تو آپ نے خانہ کعبہ کی چابیاں ان کے سپر دفرما ئیں کیونکہ وہ اس خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس کے سپرد پہلے خانہ کعبہ کی دربانی کا فریضہ تھا.چنانچہ مفسرین لکھتے ہیں کہ گویا یہ آیت حضرت عثمان بن ابی طلحہ کے حق میں نازل ہوئی تھی اور اس آیت کی رو سے آنحضرت ﷺ نے ان کو چابیاں پکڑا دی تھیں.( تفسیر ابن جریر طبری زیر آیت ان اللہ یا مرکم ان کو دوا الا مانات الی اھلھا ) حالانکہ اس آیت کا اصل منشا کچھ اور ہے.وہ ان کے ذہن میں نہیں آیا.اصل واقعہ یہ ہے کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد اعلی یہ تھا کہ اس میں حضرت محمد مصطفی عملے اللہ کی عبادت کریں کیونکہ خدا کی خاطر بنائے گئے گھروں میں سے سب سے اعلیٰ اور سب سے افضل خانہ کعبہ تھا اور اس کی شان مکینوں سے تھی نہ کہ عمارت سے ، عمارت کی ظاہری شان تو کوئی حقیقت نہیں رکھتی.یہ وہی خانہ کعبہ تھا جس میں سینکڑوں بت اکٹھے ہو گئے تھے اور جس میں ایسے گندے اور عشقیہ اشعار پر مشتمل قصیدے لٹکائے ہوئے تھے جن کو کوئی انسان کسی شریف مجلس میں پڑھ کر سنا بھی نہیں سکتا.پس اس عمارت کی شان تو اس کے مکینوں سے تھی.اسے تو خدا کے انبیا ء نے شان بخشی جو خدا کی خاطر اس گھر میں آیا کرتے تھے اور اس کی عبادت کیا کرتے تھے.یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جنہوں نے پہلے اس عمارت کو شان بخشی ، پھر حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے جنہوں نے اس کوشان بخشی لیکن ابھی تک اس کا مقصد اعلی پورا نہیں ہوسکا تھا اور جس مقصد کی خاطر یہ عمارت تعمیر ہوئی وہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی بعثت کے ساتھ پورا ہونا تھا تب خانہ کعبہ کی چابیاں حضور کے سپرد کی جانی تھیں.پس اللہ تعالیٰ یہ خوشخبری دے رہا تھا کہ آج وہ دن ہے جب کہ خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد پورا ہورہا ہے، دیکھو! یہ گھر اس کے سپرد کیا گیا ہے جس کی خاطر بنایا گیا تھا.اس سے آنحضرت ﷺ کی ایک عجیب شان ظاہر ہوتی ہے اور قطاع ثم آمین کی تفسیر اس طرح ہمیں معلوم ہوئی کہ جب کامل طور پر آپ کو مطاع بنادیا گیا اور جب بیت اللہ آپ کے سپر د کر دیا گیا تو پھر بھی آپ نے امانت کی ایسی باریک راہوں کو اختیار فرمایا کہ بطور انعام اور بطور عطا خانہ کعبہ کی چابیاں اس شخص کے سپرد کر دیں جس کے خاندان میں پہلے بھی چابیاں ہوتی تھیں اور یہ بطور حق نہیں تھا بلکہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کی شان امانت کی انتہا ہے کہ جب خدا نے خانہ کعبہ آپ کے سپرد کر دیا تو پھر آپ نے
خطبات طاہر جلد ۲ 620 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء از خود اس کو کسی کے سپرد کرنا تھا اس کے لئے آپ نے اس شخص کو چنا جس کے خاندان کو چابیاں رکھنے کا اعزاز حاصل تھا.(تفسیر ابن جریر طبری جلد ۵ صفحه ۴۵ زیر آیت ان الله يامركم أن تؤدوا الامانة) پس اس آیت کی شان نزول تو حضرت محمد مصطفی ﷺ سے تعلق رکھتی ہے نہ کہ عثمان بن ابی طلحہ سے.آنحضرت مہ خود بھی امانت کے انتہائی اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور اپنے غلاموں کی بھی اسی رنگ میں تربیت فرمائی یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی امانت کے حق اور اس کی باریک راہوں کو سمجھنے لگ گئے.چنانچہ حضرت انس بن مالک کی روایت ہے کہ میں ایک مرتبہ کھیل رہا تھا آنحضرت نے مجھے کسی کام کے لئے بھجوا دیا ، میں جب ذرا تاخیر سے گھر آیا تو میری ماں نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بات ہے آج تم گھر تاخیر سے آئے ہو تو میں نے کہا کہ حضور اکرم ﷺ نے مجھے کسی کے پاس پیغام دے کر بھجوایا تھا اس لئے مجھے دیر ہو گئی تو اماں نے پوچھا کیا بات تھی آپ نے کہا میں تمہیں کیوں بتاؤں یہ تو میرے آقا محمد مصطفی ﷺ کی امانت ہے.مجھے تو حضور نے اجازت نہیں دی کہ میں تجھے بتاؤں.ماں نے کہا ہاں بیٹے کسی کو بھی نہ بتانا اسی طرح امانت کے حق ادا ہوتے ہیں.( صحیح مسلم کتاب الفصائل.باب فضائل انس بن مالک) پس کتنی بار یک تعلیم تھی اور کتنا گہرا اثر چھوڑا ہے اپنے غلاموں پر کہ بچے بھی امانت کے راز سمجھ گئے اور امانت ایسے عظیم الشان مقام پر پہنچی کہ اس سے پہلے تاریخ میں دنیا نے کبھی ایسے امین نہیں دیکھے تھے اور یہ اثر بڑی دیر تک امت مسلمہ میں جاری رہا.گین ایک مشہور مورخ ہے.وہ ایک مسلمان بادشاہ کی امانت کے اس معیار کا ذکر کرتے ہوئے حیرت کے ساتھ اپنا سر جھکا لیتا ہے جو حضرت محمد مصطفی ﷺ نے امت میں پیدا کیا تھا.وہ اس بات کا واضح طور پر ذکر کرتا ہے اور لکھتا ہے کہ یہ جو میں واقعہ بیان کر رہا ہوں اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ محمد (ﷺ) نے امانت پر اتنا زور دیا ہے اور امت کو امانت کی ایسی باریک راہوں پر چلایا ہے کہ یہ اسی کا فیض تھا کہ سینکڑوں سال بعد یہ واقعہ رونما ہوا.الپ ارسلان کا بیٹا ملک شاہ جب بادشاہ بنا تو چونکہ اس کے والد ایسے وقت میں گزر گئے جبکہ اس کی عمر ابھی چھوٹی تھی تو شریکوں نے اور رشتہ داروں نے اپنی اپنی جگہ حکومتوں کے اعلان کرنے شروع کر دیئے جس سے ملک میں ایک عام بغاوت کی فضا پیدا ہو گئی.اس وقت ان کا ایک مشہور وزیر طوسی چونکہ شیعہ تھا اس نے ان کو کہا کہ کیوں نہ ہم امام موسیٰ رضا کی قبر پر چلیں اور وہاں دعا کریں اس دعا کا خاص اثر ہو گا.ملک شاہ نے یہ بات مان لی.وہ دونوں
خطبات طاہر جلد ۲ 621 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء حضرت امام موسیٰ رضا کی قبر پر گئے اور دعا کی.دعا کے بعد ملک شاہ نے اپنے وزیر سے پوچھا کہ بتاؤ تم نے کیا دعا کی تھی؟ وزیر نے جواب دیا کہ میں نے یہ دعا کی تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو فتح نصیب فرمائے.پھر وزیر کے پوچھنے کے بغیر انہوں نے کہا کہ جانتے ہو میں نے کیا دعا کی تھی؟ میں نے یہ دعا کی تھی کہ اے خدا! اگر میرے چچا زاد بھائی مجھ سے زیادہ اس امانت کے اہل ہیں کہ تیری مخلوق پر اور مسلمانوں پر حکومت کریں تو اے خدا! آج کے دن تو میری جان اور میرا تاج و تخت مجھ سے واپس لے لے میں اس کا اہل نہیں ہوں.یہ واقعہ بیان کر کے گبن لکھتا ہے کہ ساری انسانی تاریخ میں امانت کا اس سے زیادہ روشن واقعہ کوئی پیش نہیں کر سکتا لیکن ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتا ہے کہ جانتے ہو کیوں ایسا ہوا؟ اس لئے کہ محمد مصطفی ﷺ وہ تو صرف محمد لکھتا ہے) نے اپنی امت کو امانت کے یہ طور اطوار اور یہ ادا ئیں سکھادی تھیں اس وجہ سے ملک شاہ نے یہ دعا کی تھی.آنحضرت ﷺ کے بعد جب آہستہ آہستہ امانت ضائع ہوگئی اور حضور اکرم کی پیشگوئیوں کے مطابق ضائع ہوئی کیونکہ آپ نے فرمایا تھا کہ آئندہ جب ساعت آئے گی تو ساعت سے پہلے جو نشانیاں ہیں ان میں ایک اہم نشانی یہ ہوگی کہ امانتیں ضائع کر دی جائیں گی.لوگ بددیانت اور خائن ہو جائیں گے جیسا کہ اس زمانہ میں ہر کسی کو یہ نظر آ رہا ہے.ساعت کے لفظ میں خوشخبری تھی.مطلب یہ نہیں تھا کہ فور أساعت آجائیگی اور پھر معاملہ ختم ہو جائے گا بلکہ اس ساعت کو مسیح کی آمد ثانی کے ساتھ وابستہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ روحانی قیامت آنی تھی اور یہ دراصل مسیح کے آنے کی نشانی تھی کہ جب بد دیانتی عام ہو جائے گی خیانت شروع ہو جائے گی اور امانت اٹھ جائے گی اس وقت اللہ تعالیٰ اس مسیح کو بھیجے گا جس کے ساتھ ایک ساعت کو آ جائے گی.ایک روحانی انقلاب برپا ہو جائے گا.مٹتا ہوا اسلام دوبارہ اجاگر ہو جائے گا.پھر یہ دلوں میں داخل ہوگا ، پھر یہ اعمال میں جاری ہوگا اور دنیا کے اندر پاک تبدیلیاں پیدا کرے گا چنانچہ آنحضور کو خدا تعالیٰ نے امین بنایا اور روح الامین کو آپ پر نازل فرمایا.اس کا ایک یہ بھی تقاضا تھا کہ آپ کی امانت کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا.دوبارہ ایسا نظام جاری کیا جائے گا کہ یہ ٹتی ہوئی امانتیں پھر دوبارہ واپس آجائیں چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی الہاما امین فرمایا گیا.
خطبات طاہر جلد ۲ 622 خطبه جمعه ۹/ دسمبر ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہا ما فرمایا: سلام علیک یا ابراهیم انک اليوم لدينا مکین امین ( تذکره صفحه ۸۲ الہامات ۱۸۸۳) کہ اے ابراہیم نو ! اے اس نئے دور کے ابراہیم ! تجھ پر سلامتی ہو انک اليــوم لـديـنـا مکین امین اس زمانہ میں میرے حضور تو ہی مکین اور امین ہے.پس ہم تو تجدید عہد کر کے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایمان لا کر دو ہری ذمہ داریوں کے نیچے آ گئے.ہمارا تو بہت زیادہ فرض ہے کہ ہم اس امانت کے حق کو ادا کریں اور اسے مٹنے نہ دیں.لوگ غلط فہمی سے یہ سمجھتے ہیں کہ امانت بڑی بڑی چیزوں میں تو ٹھیک ہے چھوٹی چھوٹی چیزوں میں کیا فرق پڑتا ہے حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں جو سبق سکھایا ہے وہ یہ ہے کہ امانت شروع ہی چھوٹی باتوں سے ہوتی ہے.جو شخص چھوٹی باتوں میں امانت کا حق ادا نہیں کرتا وہ بڑی باتوں میں اس کا حق ادا کر ہی نہیں سکتا.میں نے پہلے آپ کو ایک واقعہ سنایا تھا اب ایک اور واقعہ سناتا ہوں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس ایک دفعہ کسی نے کچھ مسواکیں پیش کیں.آپ بہت خوش ہوئے ، کیکر کی تازہ مسواکیں تھیں، آپ نے ان کو بہت پسند فرمایا لیکن معاً پوچھا یہ کہاں سے لائے ہو.تو مسواکیں پیش کرنے والے خادم نے عرض کیا.حضور ! میں نے یہ فلاں کھیت میں کیکر سے کاٹی ہیں.آپ نے فرمایا وہ تو ہمارا کھیت نہیں ہے تم نے اس کے مالک سے پوچھا نہیں اس لئے یہ مسواکیں لے جاؤ، یہ میرے لئے جائز نہیں.(سیرۃ المہدی جلد چہارم ( غیر مطبوعہ ) روایت نمبر ۶ ۱۲۲) یہ بظاہر بڑی معمولی بات ہے کیونکہ آج کل مسواکیں تو در کنار لوگوں کے پورے کیکر ہی کاٹ لئے جاتے ہیں.آندھیوں سے جب درخت ٹوٹتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں سب کا حق ہو گیا ہے خاص طور پر بنگلہ دیش میں، جب وہ مشرقی پاکستان تھا.ہمیں اس کا تجربہ ہوا وہاں ایک بہت خطرناک طوفان آیا تھا.غالبا یہ ۱۹۶۲ء کی بات ہے.اس طوفان کی وجہ سے بے شمار درخت ٹوٹے تھے.میں ان دنوں وہاں گیا ہوا تھا.طوفان کے ختم ہونے کے وقت یا جب وہ نرم پڑا ہم نے باہر نکل کر دیکھا، موٹر پر جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا سڑک پر قدم قدم پر درخت گرے پڑے تھے لیکن مشکل یہ
خطبات طاہر جلد ۲ 623 خطبه جمعه ۹/ دسمبر ۱۹۸۳ء تھی کہ مسجد میں ہمارا پہنچنا ضروری تھا وہاں پہلے سے Appointment تھی.بھائی ظفر جن کے ہاں میں ٹھہرا ہوا تھا ان سے میں نے کہا اب کس طرح جائیں گے.انہوں نے کہا فکر نہ کرو تھوڑی دیر کے بعد سب سڑکیں صاف ہو جائیں گی.ان کو اس جگہ کا تجربہ تھا.چنانچہ بمشکل کوئی نصف گھنٹہ گزرا ہوگا کہ انہوں نے کہا باہر نکلو تو سہی.ہم موٹر پر روانہ ہوئے تو مسجد تک پہنچتے پہنچتے سڑک پر ایک بھی درخت نظر نہ آیا.جس طرح کیڑیاں مٹھائی پر نکلتی ہیں اس طرح لوگ آنا فانا نکلے اور سارے درخت غائب کر گئے.پس امانت ضائع ہونے کا جو نقشہ محمد ﷺ نے کھینچا تھا وہ بھی نظر آیا کہ درخت غائب ہو رہے ہیں اور جب وہ امین آیا جس کے سپر دوبارہ امانتیں سپر د کی جانی تھیں تو مسواکیں غائب ہونا بند ہوگئیں.کتنا فرق ہے، یہ تھا وہ وجود جسے دوبارہ امانتوں کو زندہ کرنے کا کام سپر د کیا گیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بہت چھوٹی باتوں میں احتیاط کی تعلیم دیا کرتے تھے اور بہت چھوٹی باتوں میں احتیاط فرمایا کرتے تھے.چنانچہ ایک دفعہ آپ آرام فرما رہے تھے اور سید فضل شاہ صاحب آپ کے پاؤں دبا رہے تھے تو دباتے دباتے آپ کے کوٹ کی جیب پر ہاتھ پڑا تو اندر سے ٹھیکریوں کی آواز آئی.انہوں نے سمجھا کہ کوئی بچہ جیب میں ڈال گیا ہے، آپ کو پتہ نہیں لگا.انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر ٹھیکریاں نکالیں اور باہر پھینکنے لگے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھ کھل گئی.آپ نے فرمایا یہ کیا کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا میں نے یہ ٹھیکریاں نکالی ہیں تا کہ باہر پھینک دوں.آپ نے فرمایا بالکل نہیں واپس جیب میں ڈال دیں.یہ میرے محمود کی امانت ہے وہ میرے پاس امانت رکھوا گیا تھا، واپس آئے گا پوچھے گا اور جب ٹھیکریاں نہیں پائے گا تو کہے گا یہ کیسی امانت کا حق ادا کرتے ہیں.یعنی میرے بیٹے پر کیا اثر پڑے گا کہ ساری دنیا کو امانت کی تعلیم دے رہے ہیں اور بچے کی ٹھیکریاں بھی نہیں بچا سکے.( اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ۹) پس یہ وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جو حقیقت میں انسان کو امانت کے راز بتاتی ہیں.یہ ٹھیکریاں لعل و جواہر سے بڑھ جاتی ہیں جب امین کی جیب میں جاتی ہیں ، اگلی نسلوں کی امانت کی حفاظت کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو امانت کا حق ادا کر دیا.کیا ہم اس حق کو ادا
خطبات طاہر جلد ۲ 624 خطبه جمعه ۹ / دسمبر ۱۹۸۳ء کر رہے ہیں جو ہم پر عائد ہوتا ہے.کیا ہم میں بھی کوئی ملک شاہ موجود ہے جو سینکڑوں سال گزرنے کے بعد بھی اس باریکی سے امانت پر نگاہ کرے.اگر ایسے لوگ کم ہیں تو خوب یاد رکھیں کہ آج کے زمانہ میں جو امانت کا حال ہے، آج زمانہ کو ایک ملک شاہ کی ضرورت نہیں ہے، آج تو جماعت کو لاکھوں ملک شاہ پیدا کرنے پڑیں گے تب یہ جہاد اسلام کے حق میں کامیاب جہاد کے طور پر آگے بڑھایا جائے گا.اسلامی خلق نے اس میدان میں بہت شکست کھائی ہے.اتنے دکھ کے مناظر ہیں کہ مشرق اور مغرب میں سب سے زیادہ خیانت مسلمان ممالک میں نظر آ رہی ہے.اتنے دکھ کا مقام ہے کہ وہ جو ساری دنیا کے امین بنائے گئے تھے آج ساری دنیا ان پر ہنستی ہے اور کہتی ہے یہ دیکھو خائن لوگ.پس اس کھوئی ہوئی بازی کو ہم نے جیتنا ہے اور اس پانسے کو پھر پلٹنا ہے.یہ کام ہمارے سپرد کیا گیا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں تو فیق عطا فرمائے کہ ہم امانت کے باریک تقاضوں کو پورا کریں، خدا کی محبت کی نگا ہیں ہم پر پڑیں اور اللہ تعالیٰ آسمان سے یہ کہے کہ اے اس امین کے غلامو ! تم نے اس حق کو خوب ادا کر دیا، خوب ادا کر دیا اور خوب ادا کر دیا، اب میرے حضور تم حاضر ہو گئے تو میں تمہیں پیار اور محبت سے نوازوں گا.خدا کرے کہ ایسا ہی ہو.آمین روزنامه الفضل ربوه ۵ فروری ۱۹۸۴ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 625 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء بد رسومات کے خلاف جہاد خطبه جمعه فرموده ۱۶ دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیت قرآنی تلاوت فرمائی: الَّذِيْنَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرَيةِ وَالْإِنْجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهُهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَتِ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبيثَ وَيَضَعُ عَنْهُمُ اصْرَهُمْ وَالْأَغْلَلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِى أُنْزِلَ مَعَةَ أُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الاعراف: ۱۵۸) اور پھر فرمایا : اس آیت کریمہ میں جس کی میں نے تلاوت کی ہے آنحضور ﷺ کے ان عظیم احسانات کا ذکر فرمایا گیا ہے جو آپ نے تمام دنیا پر اور ہر زمانے کے انسان پر قیامت تک کے لئے فرمائے.گوہر نبی اپنی قوم کے لئے محسن کے طور پر ہوتا ہے لیکن وہ محدود زمانہ پاتا ہے اور محمد ودلوگوں پر احسان کرتا ہے مگر یہ ایک ہی نبی ہے جس کا احسان جغرافیائی وسعتوں میں بھی پھیل گیا اور لامحدود ہو گیا اور سارے عالم کو اس نے اپنی لپیٹ میں لے لیا اور زمانی وسعتوں پر بھی حاوی ہو گیا.مستقبل پر تو ہے ہی بعض پہلوؤں سے آنحضرت ﷺ کا احسان ماضی پر بھی ممتد ہو گیا کیونکہ آپ وجہ تخلیق
خطبات طاہر جلد ۲ 626 خطبه جمعه ۱۶ر دسمبر ۱۹۸۳ء صلى الله صلى الله کائنات تھے اس لئے جو مقصود ہے اس کا اول و آخر تمام حالتوں پر ایک احسان ہوتا ہے.آپ کے کچھ احسانات تو ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ بنی نوع انسان تک از خود پہنچ رہے ہیں اور کچھ احسانات ایسے ہیں جن میں بنی نوع انسان پر کچھ ذمہ داریاں عائد کی گئی ہیں کہ اگر وہ آگے بڑھیں گے، ہاتھ بڑھائیں گے تو اس پھل کو پائیں گے جو ان کے لئے حضرت محمد مصطفی امیلی نے کامل اور نہایت شیریں اور مکمل حالت میں پیدا فرمایا ہے اور اگر وہ ہاتھ نہیں بڑھائیں گے تو اپنا نقصان کریں گے.یہ احسانات جن کا ان آیات میں ذکر ہے جن کی میں نے تلاوت کی ہے یہ دوسری قسم سے تعلق رکھتے ہیں.حضور اکرم ﷺ نے کچھ ذمہ داریاں ادا فرمائیں ان میں جو آپ کے ساتھ تعاون کرے گا، جو آپ کی مدد کرے گا ان سے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے أُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ کہ صرف انہی لوگوں تک حضرت محمد مصطفی امی ﷺ کا فیض پہنچے گا اور وہی فلاح پائیں گے اور جو اعراض کریں گے اور ان سے فائدہ نہیں اٹھائیں گے وہ ان ذمہ داریوں میں اسی حد تک ناکام و نامراد رہیں گے جو حضرت محمد مصطفی ملے کے ذریعہ ہم تک پہنچیں.ان میں سے کچھ تو واضح طور پر حلال اور حرام سے تعلق رکھتی ہیں.حلال بھی بین اور نمایاں ہے اور حرام بھی بین اور نمایاں ہے اور حضور اکرم علی نے اللہ کے حکم کے ساتھ ہر وہ چیز جو بنی نوع انسان کے لئے فائدہ مند تھی وہ حلال کر دی اور ہر وہ چیز جو اپنے اندر گندگی کا پہلو رکھتی تھی اسے حرام فرما دیا.حلال کے ساتھ طیب کی شرط بتاتی ہے کہ آپ کی شریعت کا قدم پہلی شریعتوں سے آگے ہے، ان سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی شریعت نے حلال کے ساتھ طیب کی شرط نہیں لگائی تھی.آپ بے شک مختلف شرائع کا مطالعہ کریں ،مختلف الہی کتب کو غور سے پڑھیں قرآن کریم کے سوا کوئی ایسی کتاب نہیں جو حلال اور حرام کو اس طرح کھول کر اور بعض صفات کے ساتھ باندھ کر بیان کرتی ہے اور طیب کو حلال کے ساتھ اکٹھا کر دینا یہ بتا تا ہے کہ امت محمدیہ کو صرف حلال چیزوں کی تعلیم نہیں دی گئی بلکہ حلال میں سے بھی طیب چیزوں کی تعلیم دی گئی ہے کہ انہیں اختیار کرو.اسی طرح صرف وہی باتیں حرام کی گئی ہیں جن میں خبث کا پہلو ہے.ان دو باتوں سے ایک طبعی اور عقلی نتیجہ نکلتا ہے کہ کوئی شخص حضور اکرم ﷺ پر ایمان لائے یا نہ لائے اگر کوئی شخص اچھی چیزوں کو حلال کر رہا ہو اور بری چیزوں کو حرام کر رہا ہو تو جو اس کی بات نہیں
خطبات طاہر جلد ۲ 627 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء مانے گا وہ لازماً اپنا نقصان اٹھائے گا جس کا مطلب یہ ہے ( شریعت محمدیہ کے عالمی ہونے کا ایک یہ بھی پہلو ہے ) کہ خواہ کتنا ہی بڑا معاند ہو، مخالف ہو ، آپ کو مفتری گردانے (نعوذ باللہ من ذالک) لیکن تعلیم ایسی ہے جو اپنی قوت اور زور سے منوا سکتی ہے.جولوگ اس تعلیم سے منحرف ہوں گے، جو حضرت محمد مصطفی ﷺ کے ارشادات کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ کے بیان فرمودہ حرام پر منہ ماریں گے وہ اپنا نقصان خود کریں گے کیونکہ خبیث چیز لازماً نقصان کرتی ہے.مثلاً کوئی زہر کھائے اور فخر سے کہے کہ فلاں شخص نے کہا تھا کہ زہر نہ کھاؤ مگر میں اسے نہیں مانتا اس لئے میں کھاؤں گا تو اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلے گا کہ زہرا سے نقصان پہنچائے گا.پس اگر کسی سے فائدہ کی بات کہی جائے مگر وہ فخر سے یہ کہے کہ میں نہیں مانوں گا تم کیا لگتے ہو یہ باتیں مجھ سے کہنے والے؟ تو لا زم وہ اپنا نقصان کرے گا.پس اس آیت میں شریعت کی حکمتیں بھی بیان فرما دی گئی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ﷺ کا زبان سے انکار بھی کرو تب بھی تمہیں اختیار نہیں کہ اس کے حکم سے باہر جاؤ، جب باہر جاؤ گے سزا پاؤ گے، جب ایسے افعال کرو گے جس کی اجازت حضور اکرم ﷺ نے نہ دی ہو تو تمہیں نقصان پہنچے گا.اس آیت کریمہ کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ حرام اور حلال بیان فرمانے کے بعد و يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمُ ایک تیسری چیز بیان فرمائی کہ وہ ان کے بوجھ اتارتا ہے اور ان کی گردنوں سے ایسے طوق دور کرتا ہے جنہوں نے انہیں باندھ رکھا تھا.اس سے مراد حلال اور حرام کے مابین وہ عادتیں ہیں جو قوموں پر بوجھ بن جایا کرتی ہیں اور ان کی ترقی کی رفتار کمزور کر دیا کرتی ہیں اور بعض دفعہ اتنے بڑے بوجھ بن جایا کرتی ہیں کہ ان کی آزادیاں ختم ہو جاتی ہیں.وہ رسم و رواج کے غلام بن کر رہ جایا کرتے ہیں اس لئے یہ بد رسوم کے خلاف جہاد کا اعلان ہے.یہاں یہ اعلان ہو رہا ہے کہ محمد مصطفی ﷺہ صرف حلال اور طیب کی اجازت نہیں دے رہے، وہ صرف خبیث اور حرام سے منع نہیں فرما رہے بلکہ ان دونوں کے درمیان کچھ ایسی باتیں بھی تم پاؤ گے کہ فی ذاتہ نہ ان کا خبث نظر آئے گا نہ کوئی خاص طیب بات ان میں دیکھو گے.یہ درمیان کی سرزمین ایسی ہے کہ اس میں بھی تمہارے لئے بعض باتیں مصیبت کا موجب بن سکتی ہیں.حضرت محمد مصطفیٰ تمہیں ایسے رسم و رواج سے بھی روکیں گے اور روک رہے ہیں اور دیگر ایسی عادات سے بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 628 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء روکیں گے اور روک رہے ہیں کہ جو تمہاری گردنوں کا طوق ثابت ہوسکتی ہیں.ان آیات کی روشنی میں میں جماعت کو یہ توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ ہم پر لازم ہے کہ وقتاً فوقتاً رسم و رواج کے خلاف آواز بلند کرتے رہیں.” رسم و رواج“ کا مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا اس آیت کی روشنی میں کچھ ابہام اپنے اندر رکھتا ہے.بعض چیزیں جائز ہوتی ہیں لیکن بعض حالتوں میں جا کر وہ ناجائز بن جاتی ہیں یعنی جب وہ قوم پر بوجھ بن جائیں.اس آیت میں رسم و رواج کی فلاسفی بیان فرما دی گئی ہے اور بہت سے ایسے مسائل حل کر دیئے گئے ہیں جو کم نظر اور کم فہم انسان کو ویسے بھی سمجھ نہیں آتے.مثلاً جماعت میں ایک وقت میں یہ کھلی اجازت تھی کہ بیاہ شادی کے موقع پر جب بچی کو رخصت کیا جاتا ہے تو مہمانوں کی چائے سے تواضع کی جائے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی جب حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کا نکاح ہوا تو اس موقع پر کھجوریں بھی تقسیم کیں اور چائے سے بھی مہمانوں کی تواضع فرمائی.تو یہ بات ایک وقت تک جماعت میں رائج رہی.پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مصلح موعودؓ نے حکما منع فرما دیا کہ تم نے آئندہ سے بچیوں کو رخصت کرتے وقت کوئی تواضع نہیں کرنی.کم فہم لوگ چونکہ اسلام کے حلال اور حرام کو تو شاید سمجھتے ہوں لیکن ان درمیانی چیزوں کو نہیں سمجھتے ، ان بوجھوں کو نہیں سمجھتے جنہیں دور کرنے کے لئے حضرت محمد مصطفی علیہ تشریف لائے تھے.وہ حیران ہوتے ہیں کہ ایک ہی چیز ہے، ایک ہی جماعت ہے، ایک ہی خلیفہ ہے، اس کی زندگی کے، اس کی خلافت کے ایک دور میں کوئی چیز حلال ہے اور دوسرے دور میں حرام ہو جاتی ہے یہ کیسی عجیب بات ہے.تو اصل بات یہ ہے کہ اگر کوئی چیز حلال بھی ہواور طیب بھی ہو مگر جب وہ قوم پر بوجھ بنے لگتی ہے تو بوجھ بنے کی وجہ سے اسے اتارا جاتا ہے.یہ تو ضروری نہیں کہ کوئی زائد بوجھ انسان پر ہو، اگر آپ نے اپنا سامان اٹھایا ہوا ہو تو کون کہہ سکتا ہے کہ آپ نے کوئی ناجائز چیز اٹھائی ہوئی ہے لیکن اگر منزل سے پیچھے رہ رہے ہوں یا یہ خطرہ ہو کہ آپ منزل تک نہیں پہنچ سکیں گے تو آپ اپنی جائز ضرورت کی چیزوں کو بھی اتار کر پھینکنے لگ جاتے ہیں حتی کہ بعض صورتوں میں جب وہ چیزیں بوجھ بن جائیں تو انسانی قربانی بھی دینی پڑتی ہے.بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ جب طوفان آئے تو قرعے ڈالے جاتے ہیں کہ کشتی سے کس کو باہر پھینکا جائے تا کہ باقی لوگ بیچ سکیں.
خطبات طاہر جلد ۲ 629 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء چنانچہ حضرت یونس سے متعلق یہی واقعہ بیان ہوا ہے کہ بھری ہوئی کشتی میں سوار تھے کشتی کو خطرہ درپیش ہوا تو انہوں نے قرعہ ڈالا کہ اس بوجھ کو ہلکا کرنے کے لئے کیا تدبیر کی جائے ، کسے باہر نکالا جائے تو الہی مشیت کے مطابق حضرت یونس کا قرعہ نکل آیا.(الصافات :۱۴۴) تو اب دیکھئے یہاں حلال اور حرام کی بحث نہیں ہے.بحث یہ ہے کہ آنحضور ﷺ کی غلامی میں جس شخص کا بھی فرض ہوگا کہ وہ قوم کو بوجھوں سے نجات دے انہیں غیر معمولی مصیبتوں سے بچائے اور یہ دیکھے کہ ان کا کوئی فعل اور کوئی عادت ترقی کی راہ میں حائل تو نہیں ہورہی اسے اس کا حق ہی نہیں بلکہ اس کا فرض ہے کہ انہیں ان باتوں سے روکے.پس حضرت مصلح موعودؓ نے جب یہ فعل کیا تو پہلے اجازت دینا بھی جائز تھا پھر روکنا بھی جائز تھا.آنحضرت ﷺ کی کامل غلامی میں آپ کے کاموں کو سمجھ کر آپ کے احکامات کی حکمتوں کو خوب جان کر آپ نے یہ فعل کیا.اب بھی بعض لوگ مجھ سے یہ سوال کرتے ہیں کہ اس کے متعلق کیا حکم ہے کیونکہ مختلف جگہوں پر یہ سوال ہوئے اس لئے مجھے یہ خیال آیا کہ آج آپ کے سامنے اس معاملہ میں بھی تھوڑی سی وضاحت کروں.اس میں کوئی شک نہیں کہ شادی اور بیاہ ، موت اور غم میں ایک فرق ہے.یہ تو ہو ہی نہیں سکتا کہ شادی بیاہ کے موقع پر بھی آپ اسی طرح اسی طرز سے اپنے غم کو منائیں جس طرح بیاہ شادی کے وقت خوشی کو مناتے ہیں.خوشی انسان کو طبعا دعوتوں پر بھی آمادہ کرتی ہے، خوشی طبعی طور پر مٹھائی تقسیم کرنے کے ساتھ ایک تعلق رکھتی ہے، دل چاہتا ہے کہ ہم اپنی خوشی میں دوسروں کو بھی شریک کریں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مسئلہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ خوشی کے طبعی اظہار سے ممانعت نہیں لیکن جب یہ رسمیں بن جائیں ، قوم پر بوجھ بن جائیں تو پھر انہیں منع کیا جائے گا.آپ نے فرمایا کہ نیتوں پر دارو مدار ہوتا ہے.بعض دفعہ بے تکلفی سے بعض باتیں خود بخود درونما ہورہی ہوتی ہیں اور پھر آہستہ آہستہ رسم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں اور انہیں ان کے کرنے پر غیر اللہ کا خوف مجبور کر دیتا ہے.چنانچہ اس مقام پر نہ صرف وہ منع ہو جاتی ہیں بلکہ شرک میں داخل ہونے لگتی ہیں.یہ اس وقت کے امام کا فرض ہے کہ وہ قوم کولا زما ان چیزوں سے روک دے.چنانچہ بیاہ شادی کے موقعہ پر جو خاطر مدارات سے روکا گیا اس کی حکمت بیان کرتے
خطبات طاہر جلد ۲ 630 خطبه جمعه ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء ہوئے حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ بعض لوگ غریب ہیں جن میں طاقت نہیں ہے.بعض لوگ امیر ہیں جن میں طاقت ہے اگر وہ طاقت کے اندرر ہیں اور اسراف نہ کریں تو خاطر مدارات کرنا ناجائز نہیں ہے لیکن اگر امیروں کی اس عادت کی بنا پر ایک ایسی رسم چل پڑے کہ غریب اپنے آپ کو مجبور سمجھے کہ لازماً میں نے خاطر مدارات کرنی ہے ورنہ میری ناک کٹ جائے گی اور اپنے آپ کو پابند سمجھنے لگے تو اس کا وہ فعل ایک طبعی حالت کے نتیجہ میں نہیں ہے بلکہ طبعی حالت کے خلاف ہے.ان امور کا فیصلہ کرنے کے لئے آنحضرت ﷺ کی صفت جو ہمیشہ ہمارے لئے راہنما بنی رہے گی اور جس سے متعلق قرآن کریم نے کہا کہ لوگوں کو اچھی طرح بتا دو کہ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ (ص: ۸۷) کہ اگر تم مجھے سمجھنا چاہتے ہو تو یہ دیکھ لو کہ میں متکلف نہیں ہوں.مجھ سے طبعی حالتیں ظاہر ہوتی ہیں اور کسی غیر کی طاقت، جبر ، دباؤ یا غیر اللہ کے کسی خوف سے میری ان طبعی حالتوں میں تم کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے.پس اگر جماعت میں یہ بات اسی طرح جاری رہتی کہ جو غریب ہے وہ اپنی توفیق کے مطابق کچھ خرچ کرتا یا نہ کرتا اس کی عزت نفس پر فرق نہ پڑتا ، غیر اللہ کا خوف اسے اپنی طاقت سے بڑھ کر خرچ کرنے پر مجبور نہ کرتا تو غالبا اس حکم کی ضرورت نہ رہتی.یہ بھی ممکن تھا کہ اگر امرا اسراف کرنے لگ جاتے ، نام و نمود اور نمائش کی خاطر خرچ کرنے لگ جاتے تو اس وجہ سے انہیں بھی روکا جاتا.چنانچہ مصلح موعودؓ نے فرمایا کہ ان غریبوں کی وجہ سے جو مجبور ہوکر ایک غلط کام میں مبتلا ہورہے ہیں اور غلط بوجھ اٹھانے لگ گئے ہیں میں نے ساری جماعت کو حکم دیا ہے کہ جن کو طاقت بھی ہے وہ بھی اپنے کمزور بھائیوں کی خاطر رک جائیں اور ان کی عزت نفس کا خیال کریں تو ان کا رکنا ان کے لئے ثواب کا موجب ہوگا کیونکہ ان کے اس فعل سے غریبوں کو حوصلہ ہوگا وہ سمجھیں گے کہ یہ کوئی ضروری بات تو تھی نہیں امیر بھی نہیں کر رہے ہم بھی نہیں کر رہے.تو اس سے بہت سے ایسے مصارف ہیں جن سے انہیں نجات ملے گی وہ اپنی بچی کو جو کچھ دنیا چاہتے ہیں انہیں توفیق ملے گی کہ بجائے لوگوں کو چائے پلانے کے ایک دو جوڑے کپڑوں کے بچی کو دے دیں.یہ طریق بنیادی طور پر اسی طرح جاری ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ رفتہ رفتہ اس میں کچھ نرمی پیدا ہوئی ہے اور خلفاء نے مختلف اوقات میں کچھ نرمی کی ہے مثلاً پانی پیش کر دینا، پان پیش کر دینا یا صرف مٹھائی (خشک مٹھائی کے طور
خطبات طاہر جلد ۲ 631 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء پر ) پیش کر دینا.لوگوں کو با قاعدہ کھانے کی میز پر نہیں بٹھاتے بلکہ وہیں بیٹھے بیٹھے دعا کے ساتھ کچھ چیزیں پیش کر دی جاتی ہیں اس حد تک تو اس میں سردست کوئی حرج نہیں لیکن عموماً جب اجازتیں دی جاتی ہیں یا بعض باتوں سے صرف نظر کیا جاتا ہے تو یہ خطرہ ہوتا ہے کہ پھر لوگ آگے قدم بڑھاتے ہیں اور سرک سرک کر پھر اس مقام تک پہنچنے لگ جاتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں پھر باقیوں کو بھی اس سہولت سے محروم کرنا پڑتا ہے.میں جماعت کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ایسی بات نہ کریں اور خواہ مخواہ معاملات کو اس حد تک آگے نہ بڑھائیں کہ یوں محسوس ہو کہ وہ رسم بن چکی ہے اور جماعت پر بوجھ بن گیا ہے اور پھر وہی مصیبت غریبوں پر آپڑی ہے جس سے انہیں بچایا گیا تھا.تو معروف کی حد تک محض خوشی کے اظہار کے لئے اس قسم کی کچھ خاطر مدارات ہو جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے.چند دن ہوئے ایک شادی کے موقع پر ایک صاحب تشریف لائے اور کہا کہ کوکا کولا کی تو اجازت ہے جبکہ اس سے چائے کی پیالی ستی پڑتی ہے اس لئے چائے کی اجازت نہ ہونے کی مجھے سمجھ نہیں آ رہی ، جب سردیاں آگئی ہیں تو چائے کی اجازت ملنی چاہئے.میں نے کہا کہ اگر چائے کی اجازت ملے گی تو پھر اس کے لوازمات کی بات شروع ہو جائے گی.اہتمام کیا جائے گا.پھر میزیں لگائی جائیں گی پھر کرسیاں اور ان کے لئے سائبان.یہ سارے اخراجات جو چائے کے ساتھ لازم ہیں یہ کوکا کولا کے ساتھ تولازم نہیں اور پھر مٹھائی بھی ساتھ آ جائے گی کہ جب مٹھائی کی بغیر چائے کے اجازت تھی تو چائے کے ساتھ اجازت کیوں نہیں.پس یہ چیزیں ایسی ہیں جو رفتہ رفتہ جڑ پکڑتی چلی جاتی ہیں اور ان کا حال اس اونٹ والا ہو جاتا ہے جس نے اپنے مالک کو خیمہ سے نکال دیا تھا.سردیوں کا زمانہ تھا بڑی سردی پڑتی ہے.صحرا میں جتنی گرمی پڑتی ہے اتنی ہی سردی بھی پڑا کرتی ہے، تو کہانی کے مطابق بے چارہ اونٹ (اس وقت تک تو وہ بے چارہ تھا پھر مالک بے چارہ ہو گیا ) اونٹ نے بڑے ادب سے مالک سے درخواست کی کہ میں تو خیمے سے باہر سردی سے مرا جا رہا ہوں اور تم اندر گرمی میں آرام کر رہے ہو اجازت ہو تو میں تھوڑا سا سر اندر داخل کر دوں.مالک نے کہا اتنی تو جگہ ہے سر داخل کر لو.پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے کہا کہ سردی کچھ بڑھ گئی ہے تو اگر گردن بھی ساتھ آ جائے تو کیا حرج ہے مالک نے کہا ٹھیک ہے گردن کی بھی اجازت ہے.پھر اس نے کہا کہ دیکھو میری چار ٹانگیں ان میں سے اگلی
خطبات طاہر جلد ۲ 632 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء دو کو اندر داخل کرنا چاہتا ہوں کیونکہ ساری ٹانگیں تو ٹھنڈی نہیں ہونی چاہئیں.تو اس نے کہا چلوٹھیک ہے اور پھر خود سکڑ کر ایک طرف ہو گیا.کچھ دیر کے بعد اونٹ نے کہا کہ اب مجھ میں صبر کی طاقت باقی نہیں رہی اب بقیہ رات تم باہر نکلو اور میں اندر آؤں گا.تو بعینہ اسی طرح رسم و رواج داخل ہوتے ہیں.پھر کسی ایک مقام پر اگر چھوٹے سے حصے کو آپ کہیں کہ یہ نا جائز ہو گیا ہے تو یہ درست نہیں ہوتا.قوم کی حالت پر تو عمومی نگاہ رکھنی پڑتی ہے ورنہ کسی ایک مقام پر وہ تنکا آ ہی جاتا ہے کہ پھر جس کے بوجھ سے کمر ٹوٹنے لگتی ہے اس لئے اس چھوٹی چھوٹی چیزوں پر نگاہ رکھ کر رو کنا پڑتا ہے.پس یہ اصول پیش نظر رہنا چاہئے کہ ان چیزوں میں جو حلال اور حرام کی بینات میں داخل نہیں ہیں.ان کی آگے پھر قسمیں ہیں.ان میں کچھ ایسی ہیں جو بعض حالات میں جائز اور بعض حالات میں ناجائز ہو جاتی ہیں اس وقت میں اس قسم سے متعلق بات کر رہا ہوں.ایسی باتوں سے پر ہیز کریں جو بعض حالات میں جائزہ بھی ہوتی ہیں لیکن اگر ان میں آپ زیادتی کر جائیں تو نا جائز ہو جاتی ہیں اور اگر مزید زیادتی کریں تو وہی چیزیں شیطنت کہلاتی ہیں چنانچہ قرآن کریم نے وَلَا تُبَذِّرْ تَبْذِيرًا (بنی اسرائیل : ۲۷) کہہ کر تبذیر کرنے والوں ، حد سے زیادہ فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی ،شیطان کا ساتھی قرار دیا.اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ احکامات میں اتنی واضح تقسیمیں نہیں ہیں کہ ایک چیز اچانک حرام اور اچانک حلال ہو جاتی ہے.بعض ایسی بھی جگہیں ہیں جہاں حلال چیز حرام اور حرام چیز حلال ہو جاتی ہے.مثلاً مرتے ہوئے کے لئے سو رکھانا ، یہ اس کے برعکس مثال ہے.تو بار یک نظر سے ان ساری چیزوں کا مطالعہ کرتے رہنا چاہئے.پس جہاں تک جماعت کا تعلق ہے کوشش یہ کریں کہ اسراف سے کام نہ لیا کریں ، جائز چیزوں میں بھی حد کے اندرر ہیں.قرآن کریم طیب کھانے کی اجازت دینے کے بعد ساتھ ہی اسراف سے بھی منع فرماتا ہے.فرماتا ہے بے شک کھاؤ ،حلال اور طیب ہو، لیکن اسراف نہ کرو.(الاعراف:۳۲) تو بہت سی رسمیں ہیں.بہت سے ایسے افعال ہیں جو اسراف کے نتیجہ میں منع کرنے پڑتے ہیں.کچھ ایسے افعال ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ وہ اغلال“ ہیں، گردنوں کے طوق ہیں.وہ ایسی رسمیں ہیں جو خصوصیت کے ساتھ لغو میں داخل ہوتی ہیں.کسی حالت میں بھی پسندیدہ نہیں ہیں عام زندگی کی حالت میں بھی ان سے بچنا چاہئے مثلاً شادی کے وقت ڈھول ڈھمکے، لنچنوں
خطبات طاہر جلد ۲ 633 خطبه جمعه ۱۶ر دسمبر ۱۹۸۳ء کو نچانا، ڈھوم مراثیوں کو بلوانا، آتش بازیاں چھوڑنا ، ایسی نمائش کرنا کہ جس کے نتیجہ میں قوم پر بہت بوجھ پڑتے ہیں ان چیزوں کی نہ کوئی سند ہے نہ حضور اکرم ﷺ کے زمانہ میں مروج تھیں اور نہ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کی اجازت فرمائی بلکہ کھلم کھلا منع فرمایا.لہذا ان چیزوں سے بھی پر ہیز لازمی ہے ورنہ یہ گردنوں کا طوق بن جائیں گی.مراد یہ ہے کہ یہ رسمیں رفتہ رفتہ قوم پر قابض ہو جاتی ہیں اور ان کی آزادیاں مسخ کر دیتی ہیں ، وہ رسموں کی غلام ہو جاتی ہیں اور ان سے باہر نہیں آ سکتیں.اسی طرح موت کے ساتھ کچھ رسمیں بندھی ہوئی ہیں ایسی لغور سمیں ہیں جو نیکی کے نام پر کی جارہی ہیں مثلاً ختم قرآن اس کی کوئی سند حضور اکرم ﷺ یا صحابہ کرام سے نہیں ملتی.کوئی ایک واقعہ بھی آپ نہیں دیکھیں گے کہ کسی مردہ پر قرآن پڑھ پڑھ کر پھونکا جا رہا ہو اور بخشا جا رہا ہو.اب اس میں بڑی نفاستیں پیدا ہوگئی ہیں نئی نئی باریکیاں آگئی ہیں.چنانچہ بعض ختم کھجور کی گٹھلی کے ختم کہلاتے ہیں یعنی کھجوروں کی گٹھلیاں تقسیم کر دی جاتی ہیں اور ہر گٹھلی پر کوئی سورت مثلاً سورۂ قُلْ هُوَ اللهُ اَحَدُّ یا سورہ فلق وغیرہ مقرر کر دی جاتی ہے کہ یہ پڑھ پڑھ کر پھونکو اور پھر جو مہمان زیادہ گٹھلیاں ہاتھوں میں سے گزار دے وہ گویا اس مرنے والے کا سب سے زیادہ ہمدرد ہے.آج کل ایک ختم بادام بھی نکلا ہے گٹھلیوں سے آگے بڑھ کر اب بادام پر قرآن پڑھ پڑھ کر ان کو ایک طرف رکھتے چلے جاتے ہیں ، جتنے زیادہ بادام تمہارے ہاتھوں سے نکلیں گے مردہ اتنے ہی زیادہ اعزاز پا جائے گا اور خدا کے حضور اس کے اتنے ہی گناہ بخشے جائیں گے.ایسی لغو باتیں ہیں جن کا شریعت سے کوئی بھی تعلق نہیں یہ ساری وہ رسمیں ہیں جنہیں ہم نے مٹانا ہے.جن کے خلاف ہم نے جہاد کرنا ہے، جن سے ہم نے دوسرے مسلمان بھائیوں کو بھی آزاد کروانا ہے.میرا یہ مقصد نہیں ہے کہ جماعت نہ کرے.مجھے علم ہے کہ جماعت تو اس قسم کی رسمیں اختیار نہیں کرتی لیکن آپ کا فرض ہے کہ غیروں کی بھی اصلاح کریں.یاد رکھیں قرآن کریم بار بارایسی مثالیں دیتا ہے کہ انبیاء اپنے منکرین کی بھی اصلاح کر رہے ہوتے ہیں جو ان کے دعوے پر ایمان بھی نہیں لا رہے ہوتے انہیں بھی نیک نصیحت کر رہے ہوتے ہیں اس لئے اس بات سے قطع نظر کہ جماعت کو دنیا کیا سمجھ رہی ہے آپ کو مسلمان بھی کہتی ہے کہ نہیں جماعت کو معروف باتوں میں غیروں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہئے.معروف کا حکم دینا چاہئے اور بدیوں سے روکنا چاہئے کیونکہ کل کو
خطبات طاہر جلد ۲ 634 خطبہ جمعہ ۱۶؍ دسمبر ۱۹۸۳ء انہوں نے آپ کا جزو بننا ہے.جس چیز نے آپ کے بدن کا جزو بننا ہے اس کی پہلے بھی تو کوئی اصلاح ہوا کرتی ہے.آپ اسے جتنی خام حالت میں قبول کریں گے اتنا ہی زیادہ آپ کو نقصان پہنچے گا.آپ نے دیکھا نہیں کہ کھانا کھانے سے پہلے کس طرح اس کی صفائی اور چھٹائی کی جاتی ہے،اس سے گندگی کو دور کیا جاتا ہے اور جس حد تک آپ اسے پاک اور صاف بنا سکیں اس حد تک آپ کے اندرونی نظام کے لئے مفید ہے اس لئے تبلیغ کرنے والی قوموں کو یہ گر ہمیشہ یادرکھنا چاہئے.قرآن کریم کے اس تاریخی بیان میں گہرا فلسفہ ہے کہ انبیاء لوگوں کے ایمان لانے سے پہلے ان کو نصیحت کیا کرتے تھے اس لئے کہ کل کو جنہوں نے لازماً جزو بدن بن جانا ہے آج ان کی اصلاح کرو ورنہ وہ اپنی بدر سمیں تمہارے اندر لے آئیں گے.اگر ان کے ساتھ کنکر بھی آئیں گے، اگر ان کے ساتھ ملاوٹیں بھی آئیں گی تو کل تمہارا گردوں کا نظام فیل ہو سکتا ہے، کل تمہارا انتریوں کا نظام خراش کی وجہ سے ایک مستقل بیماری بن سکتا ہے اور بجائے اس کے کہ تمہاری لذت کا انتظام کرے وہ تمہارے لئے دکھ اور تکلیف کا موجب بن سکتا ہے.تبھی تو فوج در فوج داخل ہونے کے وقت استغفار کی تعلیم دی گئی ہے کہ اس وقت خدا کا خوف کرنا چاہئے اور بخشش مانگنی چاہئے.پس ہم پر ہر پہلو سے لازم ہے.اس پہلو سے بھی کہ حضرت محمد مصطفی اے کے امر بالمعروف کا کسی مومن اور غیر مومن سے تعلق نہیں تھا اور اس سے پہلے انبیاء کا بھی کسی مومن اور غیر مومن سے تعلق نہیں تھا وہ سب کے لئے امر بالمعروف کرتے تھے سب کو ہی منکر سے روکتے تھے اور اس پہلو سے بھی کہ اپنا فائدہ ہے بالآخر انہوں نے طوعاً و کرہا آنا ہی آنا ہے.کچھ دیرلڑیں گے ماریں گے آخر انہوں نے آپ کی گودی میں پڑنا ہے اس لئے ابھی سے ان سے پیار اور محبت کر کے ان کی اصلاح کریں تا کہ آپ کے لئے بعد کے کام ہلکے ہو جائیں.ایک اور یہ پہلو ہے کہ بعض رسمیں اپنے لئے بوجھ بنتی ہیں، بعض دوسروں کے لئے بھی بوجھ بن جاتی ہیں اور اس کے نتیجہ میں نہایت ہی خطرناک معاشرتی بیماریاں پیدا ہو جاتی ہیں.مثلاً بچی کو طاقت سے بڑھ کر تکلف کے ساتھ جہیز دینا اس غرض سے دنیا کیا کہے گی کہ بچی کو کچھ نہیں دیا اس کی کوئی شرعی سند نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو فرماتے ہیں کہ نکاح میں جو لازم ہے وہ صرف اتنا ہے کہ کھڑے ہو کر ایجاب و قبول ہو اور رخصتا نہ ہو جائے صرف اتنا سا فرض ہے چنانچہ
خطبات طاہر جلد ۲ 635 خطبه جمعه ۱۶ رد سمبر ۱۹۸۳ء آپ فرماتے ہیں کہ اب بتاؤ اس کے لئے کون سے سودی روپے لینے کی ضرورت ہے اور کیوں بوجھوں کے نیچے دبنے کی ضرورت ہے.( بدر جلدے نمبر ۵ مورخہ ۵ فروری ۱۹۰۸) پس جہاں تک نکاح اور بیاہ کی اصل ہے وہ انسان کی ایک شرعی اور تمدنی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لئے سب سے آسان راستہ اسلام نے تجویز کیا ہے لیکن اس بات سے منع بھی نہیں فرمایا کہ بچی کو رخصت کے وقت کچھ دے دیا جائے ہاں اگر اس میں تکلف آ جائے تو چونکہ یہ سنت محمد مصطفی علیہ کے خلاف ہوگا جو کہہ رہی ہے وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ تو اس تکلف کی حد تک اس کے نقصان شروع ہو جائیں گے اور ہوتے ہیں.نقصان کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ پھر یہ لوگ دکھاوے کی خاطر اپنی طاقت سے بڑھ کر بوجھ اٹھاتے ہیں.قرضوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور ان کی عزت نفس بھی تباہ ہو جاتی ہے اور انہیں لوگوں کے سامنے یہ کہہ کر ہاتھ پھیلانے پڑتے ہیں کہ ہمارے پاس بچی کو دینے کے لئے کچھ نہیں ہے ، ہمیں کچھ دو.دوسری طرف یہ بوجھ دوسروں پر بھی منتقل ہونے لگتا ہے اور اس کے نتیجہ میں اس پہلی برائی کو مزید طاقت مل جاتی ہے یعنی پھر بعض لوگ اس حد تک آگے بڑھتے ہیں کہ وہ دوسروں سے مطالبہ کرنے لگتے ہیں کہ تم جہیز دوور نہ ہم تمہاری بچی نہیں لیں گے.یہ وہ حد ہے جو کسی قیمت پر بھی جماعت کو قبول نہیں ہو سکتی.یعنی اگر تم خود بوجھ تلے دب رہے ہو، تکلف کر رہے ہو یہ بھی بہت بری بات ہے لیکن اسلام کی منشا کے خلاف اسلام کے احکام کے خلاف کسی بچی والے کو مجبور کرنا کہ وہ اپنی بیٹی کو موٹروں ، قالینوں یا صوفہ سیٹوں کے ساتھ رخصت کرے، یہ ایسی نا جائز حرکت ہے کہ اسے کسی طرح بھی جماعتی نظام برداشت نہیں کر سکتا.پس اس عادت کو آپ خصوصیت کے ساتھ دور کریں اس کے نتیجہ میں ہماری سوسائٹی میں بہت سے دکھ پھیل چکے ہیں.میرے علم میں ہے، مجھے بار ہا بڑے دکھ کی ایسی چٹھیاں ملتی ہیں اور پھر جھگڑوں کے وقت فریقین کے مطالبوں کے ساتھ بھی مجھے علم ہو جاتا ہے کہ کیا کیا بے ہودہ حرکتیں پہلے ہو چکی ہیں.نکاح کے آغاز اور رخصتانہ سے پہلے جو بد نیتیں آپ کے اعمال میں داخل ہو چکی ہوتی ہیں وہ بالآ خر کسی نہ کسی وقت دکھ کا موجب بنتی ہیں.آخر پر جب اموال کی علیحدگی کے وقت تقسیمیں ہو رہی ہوتی ہیں تو پھر یہ سارے جھگڑے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں کہ فلاں نے تو یہ دیا تھا اور فلاں نے وہ دیا تھا اور فلاں سے یہ لیا گیا تھا اور پھر واپس نہیں کیا گیا.نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس سے پھر اگلا محلہ بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 636 خطبہ جمعہ ۱۶ رد سمبر ۱۹۸۳ء تباہ ہونے لگتا ہے.ایسے لوگ دوسروں سے قرض لیتے ہیں اور پھر واپس نہیں کر سکتے.ایسی مثالیں بھی سامنے آتی ہیں کہ لوگوں سے دکھاوے کی خاطر زیور مانگ کر لئے اور جب وہ اپنی بیٹی سے واپس لے جانے لگے تو دوسروں نے دخل دیا.انہوں نے کہا اب کہاں لے جارہے ہو اب تو یہ ہمارے قابو آ گیا ہے یہ تو یکطرفہ رستہ ہے واپسی کا کوئی سوال نہیں ہے اور پھر اس پر بڑے بڑے سخت جھگڑے چلے ہیں کہ انہوں نے اپنی بچی کو فلاں زیور دیئے تھے اور اب یہ واپس لے جانے لگے تھے ہم نے پکڑ لیا ہم نہیں جانے دیں گے، ان کا کیا حق ہے حالانکہ بعد میں پتہ چلا کہ وہ محض دکھاوے اور نام و نمود کی خاطر مانگے ہوئے زیور تھے.پس یہ ساری وہ رسمیں ہیں جن کے خلاف ہمیں جہاد کرنا ہے اور جماعت کو ان بوجھوں سے آزاد کرنا ہے ورنہ بہت سے جھگڑے بھی چل پڑیں گے.رسمیں اپنی ذات میں بھی بے ہودہ چیزیں ہیں اور آپ کو ان سے آزاد کرانا آپ کی اپنی بھلائی میں ہے لیکن اس کے نتیجہ میں پھر اور جو بداثرات پیدا ہوتے ہیں اس سے سوسائٹی پھٹ جاتی ہے.اختلافات بڑھ جاتے ہیں ،نفرتیں پیدا ہوتی ہیں، دنیا داری بڑھ جاتی ہے، روحانیت کو بڑا شدید نقصان پہنچتا ہے.ایک دوسرے کے بعد پے در پے رونما ہونے والے نتائج ہیں جو اپنے بداثرات میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں اس لئے رسموں کو معمولی نہ سمجھیں اگر آپ ان سے صرف نظر کریں گے تو یہ بڑھ کر آخر کار آپ پر قابو پا جائیں گی.پھر یہ پیر تسمہ پا بن جائیں گی کہ جو آپ کی گردن میں ٹانگیں پھنسا لے گا اور پھر اس گردن کو نہیں چھوڑے گا اسی لئے خدا تعالیٰ نے قرآن کریم میں رسم کی بھیانک شکل کا نام طوق رکھا ہے فرمایا.وَالْأَغْلُلَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمُ بڑی بڑی مصیبتوں میں پھنسے ہوئے لوگ تھے جن پر میرا محمد مصطفی ہے ظاہر ہوا.کس شان کا نبی ہے انہیں حلال باتیں بھی کھول کھول کر بتا رہا ہے اور حلال میں سے بھی طیبات ان پر حلال کر رہا ہے اور حرام باتیں بھی خوب کھول کھول بتا رہا ہے اور بیچ کی باریک راہوں سے بھی غافل نہیں ہے.انہیں خوب اچھی طرح بتاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان کیا کیا چیزیں ہیں اور ان میں کیا کیا احتیاطیں اختیار کرنی چاہئیں اور پھر ان قوموں کو آزادی دلا رہا ہے جو صدیوں سے رسم و رواج کے طوق تلے کلیتہ بے کار اور غلام بن چکی تھیں.ایسی حالت میں پھر ان کا اپنا کچھ بھی باقی نہیں رہا.یہ جو اپنا کچھ بھی باقی نہ رہا، یہ ترجمہ میں کر رہا ہوں گردن کے طوق کا.بات
خطبات طاہر جلد ۲ 637 خطبہ جمعہ ۱۶/ دسمبر ۱۹۸۳ء یہ ہے کہ گردن کا طوق انسان کے لئے سب سے زیادہ ذلیل کن غلامی ہے.وہ طوق ایسی جگہ کا ہے جہاں سے آپ اس کو آزاد کروا ہی نہیں سکتے.ٹانگوں کی بیڑیوں سے تو ٹانگیں کاٹ کر بھی نجات ہو سکتی ہے، پاؤں کی بیٹیوں سے نجات ہو سکتی ہے چنانچہ ایسے واقعات ملتے ہیں کہ بعض قیدیوں نے کسی بڑی مصیبت سے بچنے کی خاطر ان کلائیوں کو کاٹ دیا جن پر ہتھکڑیاں تھیں تو ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں.بعض جانور ہیں جن کی ٹانگیں پھنستی ہیں ان سے متعلق محققین کہتے ہیں کہ وہ خود اپنے دانتوں سے چپا کر اپنی ٹانگ کو کاٹ کر الگ کر دیتے ہیں اور آزاد ہو جاتے ہیں لیکن گردن میں جو طوق پڑ جاتے ہیں ان سے آزادی کی پھر کوئی صورت نہیں ہوسکتی.پس حضرت محمد مصطفی عملہ اتنے عظیم محسن ہیں ایسے عظیم نجات دہندہ ہیں کہ وہ گردن کے طوقوں سے بھی قوموں کو آزاد کرنے والے ہیں اس لئے پیشتر اس کے کہ وہ طوق بن جائیں آپ اپنی فکر کریں اور یہ بھی آپ کا فرض ہے کہ جن لوگوں کے طوق بن چکے ہیں ان کو آزاد کروائیں.اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے.ہمارے معاشرے کو ایسا خوبصورت اور حسین بنا دے کہ ہم میں سے ہر ایک کہہ سکے کہ جس طرح میرے آقا نے کہا تھا وَ مَا اَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ میں بھی اسی آقا کی بدولت اس کے قدموں کے پیچھے چل کر آج یہ کہ سکتا ہوں وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ مِیری زندگی صاف اور کچی اور واضح ہے.اگر میں غریب ہوں تو میری غربت تمہارے سامنے ہے.اگر میں امیر ہوں تو میری امارت تمہارے سامنے ہے میں متکلفین میں سے نہیں ہوں جو تکلیف کر کے ناجائز مصیبتوں میں مبتلا ہو جایا کرتے ہیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۱۲ فروری ۱۹۸۴ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 639 خطبه جمعه ۲۳/ دسمبر ۱۹۸۳ء جلسه سالانہ میں مہمان نوازی کے فرائض (خطبه جمعه فرموده ۲۳ دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصیٰ ربوه) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور نے فرمایا: جلسہ سالانہ کی آمد آمد ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے مہمان پہنچنے شروع ہو گئے ہیں.غیر ملکی مہمانوں کی بھی ایک بڑی تعداد پہنچ چکی ہے اور پاکستان کے مہمانوں میں سے بھی بہت سے جو ملازم نہیں یا کسی وجہ سے وقت سے پہلے رخصت لے کر پہنچ سکتے تھے وہ بھی تشریف لے آئے ہیں.اس موقع پر بعض ذمہ داریوں کی طرف میں احباب کو توجہ دلانا چاہتا ہوں.ہر سال جلسہ سے پہلے اس خطبہ میں عموماً اسی مضمون پر خطاب کیا جاتا ہے.سب سے پہلی بات تو بازار کے حق ادا کرنے سے متعلق ہے.آنحضور ﷺ نے جہاں ہر زندہ چیز کے حقوق بیان فرمائے وہاں بعض جگہوں کے حقوق بھی مقرر فرمائے.عملا تو ان کا تعلق زندہ چیزوں سے ہی ہے لیکن نام بظاہر ایسی چیزوں کا استعمال ہوا ہے جن میں جان نہیں مثلاً بازاروں اور سڑکوں کے حقوق.اور اسی تعلق میں پھر وہ لوگ جو وہاں چلتے پھرتے ہیں ان کی ذمہ داریاں بیان فرمائی گئی ہیں.چنانچہ بازاروں کے حقوق میں سے ایک تو یہ حق ہے کہ جو لوگ بھی بازاروں کو استعمال کریں تو وہ اس رنگ میں استعمال نہ کریں کہ وہ دوسروں کے لئے تکلیف کا موجب ہو خصوصاً ان دنوں میں جبکہ عام بازاروں کے ڈیزائن سے بہت بڑھ کر تعداد آ جاتی ہے یعنی عام.
خطبات طاہر جلد ۲ 640 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء طور پر جو شہروں کے بازار ڈیزائن کئے جاتے ہیں وہ ایک خاص تعداد کوملحوظ رکھتے ہوئے ڈیزائن کئے جاتے ہیں لیکن جب جلسے ہوں ، میلے ہوں اور اس قسم کے غیر معمولی واقعات ہوں اور تعداد بہت بڑھ جاتی ہے تو اس موقع پر جو عام حقوق ہیں وہ بھی چھوڑنے پڑتے ہیں اس لئے خصوصیت کے ساتھ اس بات کا خیال رکھیں کہ بازاروں میں ٹولیاں بنا کر کھڑے نہ ہوں اور جہاں تک ممکن ہو کم سے کم وقت بازاروں میں ٹھہریں، اپنی ضرورت کا کام کریں اور فارغ ہو کر بازاروں سے نکل جانے کی کوشش کریں.بازاروں میں عموماً Bottle Necks یعنی تماش بینی وغیرہ کی وجہ سے آمد ورفت اور حمل و نقل میں دقتیں پیدا ہو جاتی ہیں.اس کے نتیجہ میں گزرنے والوں کے لئے تکلیف کا موجب بن جاتی ہیں.دوسرے ہمارے یہاں ایک لمبے عرصہ سے تربیت دی جا رہی ہے کہ عورتیں الگ رستوں پر چلیں اور مرد الگ رستوں پر.اس کے لئے منتظمین نے باقاعدہ ہدایات جاری کر دی ہوں گی اور موقع پر خدمت خلق کے کارکنان بھی بات واضح کر دیں گے.اگر چہ دیکھ کر خود بخود بھی پتہ لگ جائے گا لیکن اصل بات یہ ہے کہ از خود اندازہ لگا کر عادت ڈالنی چاہئے کہ جو کام جس طریقے اور سلیقے سے ہورہا ہو آپ بھی اس کا جزو بن جائیں اور کسی کو آپ کو کہنے کی ضرورت نہ پڑے.یہ چیز غیر ملکوں میں تو اتنی عادت راسخہ بن چکی ہے کہ مثلاً سلیقہ کے ساتھ چلنا ایک عام خلق میں داخل ہے.جو بڑی بڑی سڑکیں ہیں جہاں تیز ٹر یفک ہوتی ہے وہاں لوگ پیدل نہیں چلتے وہاں از خود ایک طرف چلتے ہیں اور اس کے علاوہ جہاں سے سڑک عبور کرنی ہوتی ہے تو اس کے لئے بعض خاص سلیقے اور اطوار مقرر ہوتے ہیں.ربوہ میں چونکہ اسلامی معاشرہ کا قیام عمل میں لایا جارہا ہے اس لئے یہاں ایک چیز زائد ہے کہ نہ صرف یہ کہ عام سڑکوں کے حقوق ادا کرنے ہیں بلکہ اسلامی معاشرہ کے مطابق عورتوں کے لئے الگ رستے مقرر کرنے ہیں اور مردوں کے لئے الگ اور چلتے وقت کسی عورت کے لئے اس احتیاط کی ضرورت ہی پیش نہ آئے کہ وہ اوپر کا بدن بچا کر گزرے تا کہ غیر مردوں سے ٹکرائے نہیں اور عموماً اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہاں ایسا انتظام چلتا ہے.بازاروں کے حقوق سے تعلق رکھنے والا دوسرا پہلو اِمَاطَةُ الَّا ذَى عَنِ الطَّرِيقِ ہے.آنحضرت ﷺ نے اس کو ایمان کا حصہ قرار دیا ہے اور فرمایا ہے کہ راستوں سے تکلیف دہ چیزوں کو دور کیا جائے.( الجامع اصحيح البخاري كتاب الحصبة وفضلها والتحريض عليها باب فضل المنیحہ ) تکلیف دہ چیزوں میں وہ گندگی بھی شامل ہے جو سڑکوں پر پھینک دی جاتی ہے یہاں تک کہ کاغذ کے ٹکڑے بھی نظر کو تکلیف دیتے ہیں.کوئی چیز
خطبات طاہر جلد ۲ 641 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء کھا کر اس کا بچا ہوا حصہ سڑک پر پھینک دینا یہ بھی تکلیف کا موجب بنتا ہے.پس ایسی کوئی بھی چیز جو نظر کو تکلیف دے یا جسم کو تکلیف دے وہ اول تو سڑکوں پر پھینکنی نہیں چاہئے اور اگر نظر آئے تو اس کو دور کر دینا چاہئے.ہاتھ سے اٹھا کر ایک طرف کر دیں یا وہاں سے ہٹا دیں یا پاؤں کی ٹھوکر سے ہی ایک طرف کر دیں.بازاروں کے حقوق سے تعلق رکھنے والا تیسرا پہلو یہ ہے کہ وہاں اونچی آواز میں ایسا کلام نہ کیا جائے جور بوہ کے معاشرہ کے خلاف ہو اور کسی رنگ میں بھی کسی کی سمع خراشی کا موجب بنے.آواز میں دھیمی رکھنی چاہئیں اور خصوصاً ایسا کلام نہیں کرنا چاہئے جس سے کسی طرح کی سمع خراشی ہو یا اسلامی تہذیب کے خلاف ہو.آج مشرقی ملکوں کے بہت سے بازاروں میں فحش کلامی کی آواز میں سنائی دیتی ہیں.خصوصیت کے ساتھ ہندوستان اور پاکستان میں یہ مرض بہت گہرا ہے.بہت سے مشرقی ممالک ہیں جو اس سے پاک ہیں لیکن پتہ نہیں کیا بدقسمتی ہے کہ روز مرہ کی گفتگو میں گالی دینا یہ ہندوستان اور پاکستان کی تہذیب کا ایک حصہ بنا ہوا ہے اور گلیوں میں لوگ ایک دوسرے کے ماں باپ کو نہایت ہی گندی گالیاں دیتے ہیں بلکہ ہل چلانے والے بیل کے ماں باپ کو بھی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور گدھے چرانے والے گدھے کے ماں باپ کو گالیاں دے رہے ہوتے ہیں اور بچے اپنے ماں باپ کو ماں باپ کی گالیاں دے رہے ہوتے ہیں.یہ ایک ایسی گندی تہذیب ہے جس کا مذہب کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے.اور پھر مذہب بھی اسلام ، اس کی طرف منسوب ہونے والوں پر تو یہ ایک نہایت ہی گندہ داغ ہے اس لئے ربوہ کو اس داغ سے پاک رکھیں اور ہرگز اس قسم کا کوئی کلام نہ کریں جو فحشا میں داخل ہوتا ہو اور اگر کوئی بے احتیاطی کرتا ہے تو اسے پیار اور محبت سے سمجھائیں.عموماً ایسی باتیں ہونی چاہئیں جن میں ذکر الہی ہو ، آنحضرت ﷺ کا پاک ذکر ہو، حمد باری ہو، درود ہو، ایسی باتیں ہوں جن کی خوشبو سے بازار مہکنے لگیں.ذکر الہی کی خوشبو بازاروں میں ہر سو پھیل جائے.پس گفتگو کو عموماً پاک اور صاف رکھیں.اگر کوئی ایسے موقعوں پر باہر سے آنے والا بد کلامی کرتا ہے خصوصار بوہ میں کئی لوگ عمداً شرارت کی نیت سے آ جاتے ہیں اور کھلم کھلا بد کلامی کرتے ہیں ان کا جواب تو وہی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دے چکے ہیں کہ گالیاں سن کر دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے آئینہ کمالات اسلام روحانی خزائن جلد ۵ صفحه ۲۲۵)
خطبات طاہر جلد ۲ 642 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء اس لئے دوست بھی ان کی گالیوں کے مقابل پر دعائیں دینی شروع کریں کہ اللہ آپ کو ہدایت دے، اللہ آپ پر رحم کرے، اگر آپ عمداً ایسا کر رہے ہیں تو اللہ تعالی آپ کی اصلاح فرمائے اگر غلطی سے کر رہے ہیں تو ہدایت دے.علی ہذا القیاس کئی قسم کی دعائیں موقع کے لحاظ سے دل سے اٹھتی ہیں وہ آپ ان کو دیں لیکن گالی کا جواب گالی سے ہرگز نہیں دینا.کچھ بازاروں کے حقوق گاہکوں سے تعلق رکھتے ہیں اور کچھ دکانداروں سے تعلق رکھتے ہیں.جو گاہک باہر سے آتے ہیں ان کا فرض یہ ہے کہ دکانوں پر بھی جم گھٹا نہ کریں اور وہاں بھی چونکہ مستورات اور مردا کٹھے ہوتے ہیں اس لئے حتی المقدور کوشش کریں کہ مستورات کو پہلے موقع ملے اور اگر ایسی بات ہو کہ ان کو پہلے موقع دینے سے خود اپنے آپ کو موقع ملے ہی نہ یعنی اتنارش ہو تو پھر دکانوں میں دو حصے مقرر ہو جانے چاہئیں.ایک طرف مرد کھڑے ہوں اور ایک طرف عورتیں اور دکانداروں کو اس کا انتظام کرنا چاہئے کہ الگ الگ دونوں قسم کے گاہکوں کو بیک وقت خدمات مہیا کی جائیں.باہر سے آنے والے دوست خود بھی ان باتوں کا لحاظ رکھیں اور دکاندار سے ایسی بات نہ کریں جس کے نتیجہ میں چڑ پیدا ہو اور خواہ مخواہ تو تو میں میں کی نوبت آ جائے.اگر سودا پسند آتا ہے تو لیں اور اگر نہیں پسند آ تا تو نہ لیں اور چھوڑ دیں.بعض دفعہ گاہک بھی ایسی تلخ کلامی سے پیش آتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں دکاندار بھی مجبور ہو جاتا ہے اس لئے دکان پر کم وقت ٹھہریں.ضرورت کی چیزیں دیکھیں اگر پسند نہ ہو تو چھوڑ کر چلے جائیں لیکن وہاں بحث نہ کیا کریں اور اگر کوئی شکایت کی بات ہے تو اس کو ضرور انتظامیہ تک پہنچانا چاہئے.بعض دفعہ قیمتوں میں ایک جگہ کے دوسری جگہوں سے اتنے فرق ہوتے ہیں کہ وہ مناسب نہیں لگتے.ایک شہر میں مثلاً ایک دکاندار اگر ایک روپیہ منافع لے رہا ہے تو دوسرادکاندار اگر اسی چیز کے پانچ روپے منافع لے رہا ہے تو عام اقتصادی حالات میں جو کم منافع لینے والا ہے اس کو جز امل جاتی ہے اور جو زیادہ لینے والا ہے اس کو سزامل جاتی ہے کیونکہ اس میں اقتصادی قانون کام کرتے ہیں لیکن جب ربوہ میں یہ واقعات رونما ہوں تو ان کے نتیجہ میں باہر والے یہ تاثر لیتے ہیں کہ یہاں بڑا ہی بے ہنگم انتظام ہے اور جو چاہے اور جتنا چاہے داؤ لگانے کی کوشش کرتا ہے.اس طرح لوگ اہل ربوہ کی دیانت پر حملے کرتے ہیں ، طعن دیتے ہیں ، بعض لوگ واقعہ ان باتوں سے ٹھوکر کھا جاتے ہیں اس لئے جہاں تک گاہکوں کا تعلق ہے ان کا فرض ہے کہ جب وہ اس قسم کی باتیں دیکھیں تو وہ بر وقت منتظم بازار یا افسر صاحب جلسہ سالانہ کو جہاں بھی وہ مناسب سمجھیں کہ بات پہنچا دینی چاہئے ، وہاں
خطبات طاہر جلد ۲ 643 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء بات پہنچا دیں.اسی طرح اگر دکاندار بداخلاقی کریں تو ان کی بھی رپورٹ کیا کریں.عموماً جلسہ سالانہ کے گزرنے کے بعد رپورٹیں آتی ہیں اس وقت تو معاملہ عمل ختم ہو چکا ہوتا ہے، آئندہ سال کے لئے نصیحت کی جاتی ہے لیکن وہ نصیحت وقت سے پہلے ہوتی ہے یہاں تک کہ آئندہ سال تک دکاندار بھی اس کو بھول جاتے ہیں.کچھ تو وہ وقت کے بعد بن جاتی ہے اور کچھ وقت سے بہت پہلے بن جاتی ہے اس لئے دوست ان باتوں کی فوری طور پر اطلاع دیا کریں انشاء اللہ فوری طور پر سمجھانے کی کوشش کی جائے گی.دکانداروں کو سال میں یہ موقع ملتا ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ سارے سال کی کمائی جلسہ سالانہ کے دوران کر لی جائے اور بعض دکاندار اس میں اخلاقی ضوابط کو لوظ نہیں رکھتے.یعنی اخلاقی ضوابط سے مراد یہ ہے کہ باہر سے آنے والے بعض مہمان محض اخلاص کی وجہ سے ربوہ میں آ کر سودے خریدتے ہیں اور بہت سے ایسے مہمان بھی ہیں جو یہ یقین رکھتے ہیں کہ یہاں کا دکاندار نا جائز منافع خوری کر ہی نہیں سکتا اس لئے ان کا جو بھول پن ہے وہ اس لئے نہیں کہ وہ بے وقوف لوگ ہیں ان کو خریداری کی چالاکیاں نہیں آتیں بلکہ ان کا بھول پن خالصتہ للہ ہے ان کے ایمان کے نتیجہ میں ہے.ایسے لوگوں سے ان کے اعتبار سے ناجائز فائدہ اٹھانا ایک بہت بڑا گناہ ہے اور بعض دکاندار اس گناہ میں ملوث ہو جاتے ہیں.چنانچہ کئی دفعہ باہر کے مہمانوں نے اطلاع دی کہ انہوں نے خالصتہ اعتماد کرتے ہوئے ایک چیز اس نیت سے یہاں سے خریدی کہ ربوہ کے دکانداروں کو فائدہ پہنچے کیونکہ یہ چندے بھی دیتے ہیں سارا سال مرکز میں بیٹھے رہتے ہیں اس لئے ان کو فائدہ ہونا چاہئے لیکن دکانداروں نے ایسی خوفناک منافع بازی کی کہ اس کا کوئی بھی جواز عقلاً نظر نہیں آتا یعنی بعض صورتوں میں ربوہ ہی کی ایک دکان پر جو چیز سوروپے میں خریدی گئی وہ دوسری دکان پر پچاس روپے میں مل گئی اب اس کے لئے کون سا اقتصادی جواز ہے؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، دو چار روپے اوپر نیچے ہو جائے تو سمجھ آنے والی بات ہے لیکن اتنا بڑا فرق تو ہو ہی نہیں سکتا سوائے اس کے بد دیانتی کی گئی ہو اس لئے دکانداروں کی ذمہ داری ہے کہ آنے والوں کے اخلاص سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں بلکہ قربانی سے کام لیں.اس موقع پر اگر وہ حسن خلق سے کام لیں گے اور منافع بڑھانے کی بجائے اللہ کی رضا کی خاطر کچھ کم کریں گے تو اس کے بہت سے نیک اثرات پیدا ہوں گے.باہر سے تشریف لانے والے مہمان جب اس حسن خلق کو دیکھیں گے تو واپس جا کر ساری دنیا میں ربوہ کی نیک نامی کی بات کریں گے اور جو دکان کے تجربے ہیں وہ بھی بیان کریں گے.اگر ان سے حسن خلق کا معاملہ کیا گیا تو ساری دنیا میں ربوہ کے
خطبات طاہر جلد ۲ 644 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء خلق کی باتیں ہوں گی.پس یہ ثواب کا ایک موقع ہے جو جلسہ سالا نہ دکانداروں کے لئے فراہم کرتا ہے.اس کو ثواب کمانے کی بجائے عذاب سہیڑ نے میں تبدیل کر دینا بہت بڑی غلطی ہے اس لئے دکاندار خاص طور پر ان باتوں کا خیال رکھیں.رزق اللہ کے ہاتھ میں ہے اور اللہ کی رضا کی خاطر آپ نے خود اپنے رزق میں کچھ کمی کی تو اللہ یہ کی نہیں رہنے دے گا.وہ زیادہ با برکت رزق آپ کو عطا فرمائے گا، زیادہ وافر رزق عطا فرمائے گا، آپ کے روپے میں برکت ہوگی، آپ کی خوشیوں میں اضافہ ہوگا، آپ کے ایمان اور خلوص میں برکت پڑے گی اس لئے دکانداروں کو چاہئے کہ وہ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر یں.بعض دکاندار جن کا تعلق دوائیں بیچنے سے ہے ان پر عام دکانداروں سے بھی زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ بیماری کا کوئی وقت مقرر نہیں.بعض لوگوں کو آدھی رات کے وقت تکلیف ہو جاتی ہے اور اکثر دکانیں ادویہ بیچنے والوں کی اس وقت بند ہو جاتی ہیں اور ایک دو کھلی رہتی ہیں.یہ شکایت ملی ہے پچھلے سال بھی اور اس دفعہ دوران سال بھی کہ بعض ایسے دکاندار جورات کو دکان کھولتے ہیں وہ لوگوں کی تکلیف سے ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں.یعنی نام تو یہ ہے کہ خدمت ہو رہی ہے لیکن خدمت کے بہانے دراصل قصابی ہو رہی ہوتی ہے، لوگوں کی کھالیں اتار رہے ہوتے ہیں اور وہ عام دوا جو پچاس روپے میں ملتی ہے وہ رات کے وقت سو روپے میں دے رہے ہوتے ہیں اور پھر ساتھ بداخلاقی سے بھی پیش آتے ہیں.چنانچہ اس سلسلہ میں ایک دو واقعات بڑے ہی تکلیف دہ سامنے آئے.باہر کے مریض تھے انہوں نے رات کو جا کر کہا د وادو.دکاندار نے قیمت بتائی ، گاہک کو علم تھا کہ اتنی بڑی قیمت کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا یہ تو بڑی سستی دوا ہے.مگر دکاندار نے کہا کہ اس وقت اسی قیمت پر ملے گی لینی ہے تو لو ورنہ جاؤ.انہوں نے کہا مریض ہمارا مر رہا ہے کچھ خدا کا خوف کرو.انہوں نے کہا کہ پھر جہاں سے سستی ملتی ہے وہاں سے لے لو.غرض بڑی بداخلاقی سے وہ صاحب پیش آئے.میں نے امور عامہ سے کہا ہے کہ وہ اس معاملہ میں غور کریں.اگر ربوہ میں ایسے دکاندار رہے تو بہت ہی بدنامی کا موجب ہوگا بلکہ ساری جماعت کے لئے تکلیف کا موجب ہوگا.ایسے لوگوں کی دکانیں بند ہو جانی چاہئیں.ربوہ میں اس قسم کی دکانداری کی بالکل گنجائش نہیں ہے.پس اخلاق حسنہ کا معیار بلند کریں اور خصوصاً وہ لوگ جن کا تعلق زندگی بچانے سے ہے، بیماریوں کو شفا دینے سے ہے، وہ اپنی اندرونی شفا کا تو پہلے انتظام کریں ، روحانی طور پر اس قابل تو نہیں کہ لوگوں کو شفا دینے سے ان کا تعلق قائم ہو سکے اس لئے ڈاکٹر ز بھی اور طبیب بھی
خطبات طاہر جلد ۲ 645 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء اور دوائیں بیچنے والے بھی اس موقع پر قربانی کے معیار کو خصوصیت کے ساتھ بلند کر ہیں.بازاروں اور سڑکوں کا کچھ تعلق گھر والوں سے بھی ہے.گھر والے بعض دفعہ اپنے گھر کی گندگی سمیٹ کر باہر پھینک دیتے ہیں جولوگوں کے لئے تکلیف کا موجب بنتی ہے.اس کے لئے ہم انشاء اللہ کوئی مستقل انتظام تو کریں گے اس سلسلہ میں ایک باقاعدہ مجلس بھی قائم کر دی گئی ہے جو ا نتظام کر رہی ہے اور ربوہ میں صفائی کا بہترین طریق پر منتقلاً انتظام کرنے کا ایک منصوبہ تیار کر رہی ہے.دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جو سہولتیں شہروں کو میسر ہوتی ہیں انشاء اللہ ربوہ کوکم از کم ویسی سہولتیں مہیا کی جائیں گی.اگر چہ وہ مہنگے ذرائع تو ہمیں میسر نہیں جو بعض ترقی یافتہ قوموں کو میسر ہیں لیکن ہر چیز کی ایک غریبانہ شکل بھی ہوتی ہے.اصل تو یہ ہے کہ ضرورت پوری ہو.اگر وہ بڑے لڑکوں کی صورت میں پوری نہیں ہوسکتی تو ریڑھوں اور گڑوں کی صورت میں پوری ہو سکتی ہے.میرا مقصد یہ ہے کہ جو ضرورت کی چیزیں ہیں صفائی وغیرہ کے سلسلہ میں شہر کو اچھے طریق پر چلانے کے سلسلہ میں اس کے لئے ایک کمیٹی مقرر ہوگئی ہے جو کام شروع کر چکی ہے لیکن ایسے کاموں میں کچھ وقت لگتا ہے.انشاء اللہ اگلے سال اس کے بہتر نتائج سامنے آچکے ہوں گے.سر دست تو ربوہ کے مکانوں کے مالک اس طرف توجہ دیں کہ ان دنوں میں خصوصیت کے ساتھ گھر کا گند باہر نہ پھینکا جائے.گھر کے کونے میں چند اینٹیں لگا کر ایک جگہ بنالیں یا کوئی گڑھا کھود لیں وہاں وہ گند پھینکیں اور جلسہ کے بعد جو انتظام ہوگا کمیٹی کی طرف سے یا جماعت کی طرف سے گند سمیٹنے کا اس کے ذریعے وہ گند دور کر دیا جائے گا.اسی طرح ایک یہ تکلیف دہ امر بھی سامنے آتا ہے کہ بعض گھروں سے گانے اور فضول میوزک کی آوازیں بلند ہورہی ہوتی ہیں.عام حالات میں قادیان میں بھی ہمیشہ سے یہ رواج رہا ہے کہ اگر کسی نے گانا سننا ہی ہے، اول تو یہ چیزیں لغویات میں سے ہیں لیکن میوزک اس مقام پر ہے جس کے متعلق واضح حرمت کا فیصلہ نہیں کیا جاتا اور نہ کیا جاسکتا ہے اس لئے لغویات کے تابع اس کے متعلق ہمیشہ جماعت میں مہم جاری رہی ہے کبھی تھوڑی سی غفلت ہو جاتی ہے کبھی پھر توجہ ہو جاتی ہے.تو جب ذراسی بھی غفلت ہو نظارت اصلاح وارشاد کی طرف سے یا مقامی انجمن کی طرف سے تو یہ آوازیں گھروں سے باہر نکلنا شروع ہو جاتی ہیں.جلسے کے ایام میں دوست خصوصیت سے اس طرف توجہ کریں کہ کوئی آواز باہر گانے کی اور بے ہودہ لغو پروگراموں کی نہیں آنی چاہئے اور اندرون خانہ اس بات کی طرف توجہ کریں کہ آپ کے باہر سے مہمان
خطبات طاہر جلد ۲ 646 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء آ رہے ہیں اگر سارا سال آپ نے اس معاملہ میں غفلت کی ہے اور بچوں کی تربیت کی طرف توجہ نہیں بھی کی تو کم سے کم اب تو ضرور کریں اور ان ایام میں گھروں میں بھی یہ آواز سنائی نہیں دینی چاہئے.چند ایام کی نیکی بعض دفعہ باقی ایام پر بھی اچھا اثر ڈالتی ہے اور آپ کو آئندہ بھی اس طرف توجہ ہوگی.حکمت اور محبت اور پیار کے ساتھ بچوں کا طبعی میلان نیکی کی طرف کر دیں.آج کل کیسٹ پروگرام بہت چل رہے ہیں، حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور حضرت خلیفہ امسیح الثانی کی نظمیں بڑی اچھی آوازوں میں مہیا ہیں، تلاوت کی بہت اچھی کیسٹیں ملتی ہیں.غرض مقصد یہ ہے کہ تربیت کے ذریعہ تدریجاً مزاج میں اصلاح کریں.میلان تبدیل کریں اور گھروں سے اچھی پاکیزہ آواز میں بلند ہوں اور وہ آوازیں پھر بازاروں میں جا کر بھی خوش کن اثرات پیدا کریں.پس اول تو گھروں سے کوئی بھی لغویات کی آواز نہیں آنی چاہئے.اس کے برعکس یہ کوشش کریں کہ اچھی نظموں کی اور اچھے کلام کی آوازیں سڑکوں تک پہنچیں.یہ راہ گیر کاحق ہے کہ جب وہ سڑک پر چل رہا ہو تو اس کو تلاوت کی پیاری پیاری آواز آ رہی ہو ، اچھی اچھی نظموں کی آواز آ رہی ہو.یہ بھی آپ اس کو ایک طرح کی خوشی پہنچارہے ہوں گے.اس طرف بھی توجہ ہونی چاہئے.دوسرے ربوہ کے گھر والوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ان دنوں میں کسی قسم کا کوئی جھگڑا نہ ہو.بعض گھروں سے جھگڑوں کی آوازیں بھی باہر آتی ہیں.اس سلسلہ میں خاص طور پر توجہ کریں.اول تو یہاں سال کے کسی حصہ میں بھی کوئی جھگڑا نہیں ہونا چاہئے جو بہر حال ایک تکلیف دہ شکل ہے لیکن ان ایام میں تو بدرجہ اولی صلح اور امن اور محبت اور پیار کا ماحول پیدا کریں.جو مہمان آپ کے گھروں میں آئیں گے ان کے لئے تو آپ نے تیاری کی ہوگی، سارا سال آپ ان کی راہ دیکھتے ہیں، جہاں تک بس چلتا ہے آپ ان کی خدمت کرتے ہیں.اس سلسلہ میں تو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے لیکن ایک بات جس کے متعلق گزشتہ سال بھی توجہ دلائی تھی اور اب پھر توجہ دلاتا ہوں کہ مہمانوں کے حقوق میں یہ بات بھی داخل ہے کہ ان کو نیکی کی تعلیم دی جائے اور ان کو عبادت کی طرف متوجہ کیا جائے.بہت سے گھروں میں جلسہ کے دنوں میں یہ خیال نہیں رہتا کہ نمازوں کے اوقات ہیں اور لوگ گھروں میں بیٹھے ہوئے ہیں.ان کا اس وقت گھروں میں بیٹھنے کا مطلب ہی کوئی نہیں.پہلے تو یہ ہوا کرتا تھا کہ نمازوں کے اوقات مساجد میں الگ الگ ہوا کرتے تھے اور پوری طرح پتہ نہیں چلتا تھا.پچھلے سال سے نظارت اصلاح وارشاد کو میں نے تاکید کی تھی کہ جلسے کے ایام میں سارے
خطبات طاہر جلد ۲ 647 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء ربوہ کی مساجد میں نمازوں کے اوقات یکساں ہوا کریں گے تا کہ اس بارہ میں کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے.امید ہے نظارت اصلاح وارشاد نے اس دفعہ بھی یہ قدم اٹھا لیا ہو گا.غرض سارے ربوہ میں پانچ نمازوں کے ایک ہی اوقات ہوں گے اور ان اوقات کا مہمانوں کو بھی علم ہونا چاہئے.اس وقت آپ کی مہمان نوازی یہ نہیں ہے کہ آپ مہمانوں کی خاطر کر رہے ہوں اور مجلسیں لگ رہی ہوں.اس وقت مہمان نوازی یہ ہے کہ بھائی اس وقت خدا کے گھر جا کر اس کے حضور عبادات بجالانے کا حق ہمارے گھر سے افضل ہے، آپ اللہ کے گھر کو ویران چھوڑ کر ہمارے گھر کو رونق نہ بخشیں اس لئے خدا کے گھر جائیں اور عبادت کرنے کے بعد پھر واپس آئیں شوق سے.دوسرے مہمانوں کی روحانی مہمان نوازی کا ایک طریق یہ بھی ہے کہ گھر میں سیرت کے مضامین پر باتیں کیا کریں ، ایمان افروز باتیں بیان کیا کریں.آنحضرت ﷺ کی سیرت کے واقعات،صحابہ کی سیرت کے واقعات ، اسی طرح اس دور میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو سیرت کو دوبارہ زندہ کیا ہے وہ واقعات اور آپ کے اصحاب کے واقعات پر مشتمل ایسے ایک سے ایک بڑھ کر ایمان افروز واقعات ہیں جن سے مجلسوں کی رونق دوبالا ہو جاتی ہے.اس دفعہ ایک اور عمومی نصیحت بھی کرنا چاہتا ہوں جس کا تعلق ایک کھیل سے ہے اور وہ کرکٹ کا کھیل ہے.اتفاق ایسا ہو رہا ہے کہ ۲۶ تاریخ کو جبکہ جلسہ شروع ہورہا ہے اسی تاریخ کو آسٹریلیا میں پاکستان کا چوتھا کرکٹ ٹیسٹ میچ کھیلا جا رہا ہے.یہ کھیل ہو تو رہا ہے آسٹریلیا میں جو یہاں سے ہزار ہا میل دور ہے یعنی وقت کے لحاظ سے بھی پانچ گھنٹے کا فرق ہے لیکن چونکہ کمنٹری ریلے ہو گی اس لئے بہت سے نوجوان کرکٹ کا اتنا شوق رکھتے ہیں کہ وہ باقی چیزیں بھول کر بھی کمنٹری سنے لگ جاتے ہیں اور بعض دفعہ فرائض کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں.مجھے یہ خطرہ ہے کہ اگر گھروں میں اس وقت کمنٹری چل پڑی جبکہ جلسہ سالانہ پر لوگوں نے جانا ہوتا ہے تو یہ بہت ہی خطرناک غفلت ہو گی.یہ وہ مواقع ہیں جہاں لغو حرام میں داخل ہو جاتے ہیں.لغویات کا فلسفہ یہ ہے کہ ایسی چیز جو مختلف وقتوں میں مختلف روپ بدلتی جاتی ہے.جب آپ کے پاس وقت ہو اور حالات ایسے ہوں کہ کوئی بہتر کام کرنے کو نہ مل رہا ہو تو اس وقت لغو سب سے معمولی حیثیت اختیار کر جاتا ہے.اس کو آپ منع تو کر سکتے ہیں لیکن اس پر زیادہ سختی نہیں کر سکتے لیکن جوں جوں لغو آپ کی زندگی پر حاوی ہوتا چلا جاتا ہے آپ کے اوقات میں
خطبات طاہر جلد ۲ 648 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء دخل اندازی شروع کر دیتا ہے اسی نسبت سے اس کی شکلیں بدلتی رہتی ہیں.کبھی یہ واجب سے ٹکرا کر مقابل کا گناہ بن جاتا ہے، کبھی یہ فرض میں حائل ہو کر اس کے مقابل کا گناہ بن جاتا ہے، کبھی اللہ کا شریک بن جاتا ہے.مثلاً ٹی وی کا پروگرام دیکھا جا رہا ہے اور مؤذن مسجد کی طرف بلا رہا ہے آپ وہاں نہیں جار ہے اور اس پروگرام کو دیکھ رہے ہیں تو وہ لغو جو عام حالات میں اور حیثیت رکھتا ہے شرعی طور پر اس موقع پر آکر واضح طور پر شرک بن جاتا ہے.تو لغو کے مضمون کو آپ معمولی نہ سمجھیں.لغویات کے اندر بہروپیہ پن پایا جاتا ہے.مختلف حالات میں مختلف لغویات مختلف شکلیں اختیار کرتی رہتی ہیں.پس کرکٹ کی کمنٹری کو ویسے تو اس کو لغو نہیں کہہ سکتے ایک صحت مند دلچسپی ہے.اس کا شوق پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے لیکن جب یہ فرائض پر اثر انداز ہو، جب نیکی کے کاموں پر اثر ڈالے تو پھر نہ صرف لغو بلکہ حرام میں داخل ہو جاتی ہے.پس جلسہ سالانہ کے ایام میں جلسہ کی تقریر میں نہ سننا اور کرکٹ کی کمنٹری سننا یہ ایک نہایت معیوب اور بھیانک شکل بنے گی اس لئے اہل ربوہ اس بات کا خیال رکھیں اور ان دنوں میں جب جلسہ کا پروگرام قریب آ رہا ہو تو نہ بازار میں اور نہ گھروں میں کمنٹری سنیں بلکہ ٹی وی اور ریڈیو سیٹ بند کر دیئے جائیں.اگر احمدی نوجوان اپنی اس دلچپسی کے باوجود اللہ تعالیٰ اور اس کے نیک کاموں کی خاطر یہ قربانی کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ ان کا یہ فعل پسند آ جائے اور کمزور ٹیم کے حق میں یہ بھی ایک گونہ دعا بن جائے.تو اگر ان کو اپنی کرکٹ کی ٹیم سے سچی محبت ہے تو یہ بھی ایک ذریعہ ہے ان کو دعا دینے کا کہ اللہ کی خاطر اس سے احتراز کریں اور نیک کاموں کو ٹیم کی کارکردگی پر قربان نہ کریں بلکہ اس کمنٹری کو نیک کاموں پر قربان کریں.اللہ تعالیٰ آپ کو اس کی توفیق عطا فرمائے.اس سارے عرصہ میں دعاؤں سے اپنے لب معطر رکھیں ، اپنے دلوں کو دعاؤں کے ساتھ گداز رکھیں ، دن رات ہر احمدی کے دل سے ہر وقت دعائیں اٹھتی رہنی چاہئیں، ربوہ ان دنوں دعا کا ایک سمندر بن جائے اور جتنے مہمان ہیں یا میزبان ہیں وہ سب کے سب دن رات خدا تعالیٰ کو یاد کر رہے ہوں جیسا کہ فرمایا قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمْ ( آل عمران : ۱۹۲) یہ بڑی عجیب اور پیاری آیت ہے.اس میں عبادت کے مضمون کو دن رات پر پھیلا کر اسے زندگی کا ایک حصہ بنا دیا گیا ہے.ذکر الہی صرف چند اوقات کے لئے نہیں رکھا بلکہ دن اور رات پر اس کو پھیلا دیا، اٹھنے اور بیٹھنے صلى الله اور لیٹنے پر پھیلا دیا، سونے اور جاگنے پر پھیلا دیا.جس وقت یہ آیت آنحضور ﷺ پر نازل ہوئی تو اتنا
خطبات طاہر جلد ۲ 649 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء اثر تھا آپ کی طبیعت پر اس آیت کا کہ ساری رات عبادت کرتے رہے اور اپنے رب کے حضور گریہ وزاری کرتے رہے اور صبح کی نماز کے وقت جب حضرت بلال رضی اللہ عنہ اطلاع کرنے کے لئے آئے تو باہر نکلتے وقت بھی رقت سے آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے.حضرت بلال نے پوچھا یا رسول اللہ ! یہ کیا وجہ ہے، آپ کیوں رور ہے ہیں؟ آپ نے فرمایا.بلال تمہیں یہ پتہ نہیں کہ آج مجھ پر کون سی آیت نازل ہوئی ہے اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی: اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايْتَ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْاَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلاً سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( آل عمران: ۱۹۱ ۱۹۲) پس ذکر الہی کا یہ وہ مضمون ہے جو اپنے اندر ایک خاص شان رکھتا ہے اور دلوں کو گداز کرنے والا ہے اس لئے جلسہ سالانہ کے ایام میں خصوصیت کے ساتھ اٹھتے بیٹھے چلتے پھرتے لیٹتے اور سوتے وقت اس طرح دعائیں کریں اور اس طرح ذکر الہی کریں کہ نیند میں بھی وہ ذکر داخل ہو چکا ہو.آپ کو خوا میں بھی اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے پیار کی آئیں.ربوہ کی یہ وہ رونق ہے جو مقصود بالذات ہے.یا درکھیں ! تمام مذاہب کا آخری پھل اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا ذکر ہے.پس اس پہلو سے ربوہ کو ایسی رونق بخشیں کہ اللہ تعالیٰ کی محبت اور پیار کی نظریں اس جلسہ پر پڑیں اور وہ خود اپنے فضل سے ہماری حفاظت کرے اور ہمیں ہر دشمن کے شر سے محفوظ رکھے اور بے شمار برکتیں عطا فرمائے آنے والوں کو بھی اور ان لوگوں کو بھی جو مہمانوں کے لئے اس وقت چشم براہ ہیں اور اپنی پوری توفیق اور طاقت کے مطابق انشاء اللہ ان کی خدمت سرانجام دیں گے.خطبہ ثانیہ کے دوران حضور نے فرمایا: آج جمعہ کی نماز کے بعد ایک نہایت ہی مخلص اور پیارے نو جوان کی نماز جنازہ بھی ہوگی.طیب عارف جو ڈاکٹر تھے اور بالکل نوجوان ، مکرم محترم مولانا محمد یار صاحب عارف کے چھوٹے صاحبزادہ تھے.راولپنڈی سے غالباً جلسے کی نیت سے ہی اپنے خاندان کے ساتھ روانہ ہوئے ہوں
خطبات طاہر جلد ۲ 650 خطبه جمعه ۲۳ / دسمبر ۱۹۸۳ء گے رستے میں ایک بچی اچانک سڑک پر آئی اس کو بچاتے ہوئے موٹر کا حادثہ ہوا اور اس میں یہ جاں بحق ہو گئے اِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ.ایک تو آنے کی نیت بڑی پاک اور صاف تھی دوسرے جس حالت میں جان دی وہ بھی بڑی پاک تھی.یعنی ایک دوسری جان کو بچانے کی خاطر جان دی گئی ہے.یہ بھی ایک قسم کی شہادت کا رنگ ہے.یہ نوجوان تعلیم کے زمانہ سے مجھ سے متعارف تھا اور احمد یہ سٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے Patron کی حیثیت میں ، میں احمدی طلبا سے تعلق رکھتا ہوں اس لئے میں ان کو اس وقت سے جانتا ہوں.میں نے ان کو بہت ہی مخلص پایا.دینی کاموں سے بہت ہی محبت رکھتے تھے اور اچھے نو جوان جو صف اول میں کام کرنے والے ہوتے ہیں ان میں میں نے ان کو دیکھا ہے.ڈاکٹر بننے کے بعد بھی مجھے خط لکھتے رہے اور بڑے اخلاص کے ساتھ اپنی خدمات کو جماعت کے لئے پیش کرتے اور سلسلہ سے بہت محبت رکھتے تھے.بہر حال اللہ تعالیٰ اپنی مشیت کو بہتر سمجھتا ہے وَعَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئًا وَ هُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ (البقرہ:۲۲) یہ ایسا مضمون ہے جس کو بھلانا نہیں چاہئے.چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے روحانی کشفی سفر کا جو واقعہ قرآن کریم میں بیان ہوا ہے اس میں بھی ایسی مثالیں دی گئی ہیں کہ بعض دفعہ موت ایک رحمت بن جاتی ہے.کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ آئندہ کیا حالات رونما ہونے والے ہیں، کس قسم کی تکلیفوں کا انسان کو سامنا کرنا پڑے گا اور کس قسم کے ابتلاؤں سے گزرنا پڑے گا.کون ان پر پورا اتر سکتا ہے اور کون نہیں پورا اتر سکتا.پس ہمیں تو نہ ماضی کا علم ہے اور نہ مستقبل کا البتہ یہ علم ضرور ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم پر ہمیں راضی رہنا چاہئے اور خدا کی تقدیر خیر پر کامل یقین رکھنا چاہئے اور اس کی تقدیر شر سے بچنے کی دعا کرتے رہنا چاہئے.اللہ تعالیٰ اس نوجوان کو غریق رحمت فرمائے.اس کے والدین اور بھائی بہنوں کے لئے ان کی وفات کا گہرا صدمہ ہے.اللہ تعالیٰ ان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۲۱ فروری ۱۹۸۴ء)
خطبات طاہر جلد ۲ 651 خطبه جمعه ۳۰/دسمبر ۱۹۸۳ء اللہ تعالیٰ کا عظیم کا رخانہ قدرت (خطبه جمعه فرموده ۳۰ دسمبر ۱۹۸۳ء بمقام مسجد اقصی ربوه) تشہد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور نے درج ذیل آیات قرآنی تلاوت فرمائیں: اِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُو بِهِمْ وَ يَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ ج وَالْأَرْضِ ۚ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا سُبْحَنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ (آل عمران: ۱۹۱ ۱۹۲) پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کے اتنے احسانات اور اتنے فضل اور اتنے کرم ہیں کہ ان کا شمار ممکن نہیں.اس کے احسانات کے شکر کی جتنی بھی کوشش کی جائے توفیق نہیں ملتی.اس جلسہ پر ہم نے اللہ تعالیٰ کے بے انتہا فضلوں کو نازل ہوتے دیکھا.باوجود اس کے کہ توقع سے بھی بڑھ کر حاضری تھی ، حالانکہ توقعات بھی کافی بلند تھیں پھر بھی سارے انتظامات خدا تعالیٰ کے فضل سے اتنی عمدگی سے ، اس خوش اسلوبی سے انجام پذیر ہوئے کہ یوں محسوس ہوتا تھا کہ بہتا ہوا پانی ہے، نہ اس پر کسی کو زور لگانا پڑ رہا ہے، نہ اس کا رخ معین کرنا پڑ رہا ہے، ایک خود روسی چیز تھی جو خود بخو دگزرتی چلی جارہی تھی.گزشتہ سال جلسہ سالانہ کی حاضری کی جو تعداد پنڈالوں میں گنتی کے ذریعہ معلوم ہوئی تھی
خطبات طاہر جلد ۲ 652 خطبه جمعه ۳۰/دسمبر ۱۹۸۳ء اس سے پتہ چلتا تھا کہ مستورات میں Sixty Nine Thousand Some Thing یعنی 49 ہزار کچھ تعداد تھی اور مردوں میں ۸۵ ہزار کچھ تعداد تھی.یہ وہ تعداد ہے جو جلسہ گاہ میں موجود ہوتی ہے اور کارکنان جن کے سپر د چھوٹے چھوٹے قطعات کئے گئے ہیں وہ با قاعدہ شمار کرتے ہیں.اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ہے جو پارکوں میں ہوتی ہے ،لنگر خانوں میں کام کر رہی ہوتی ہے یا سڑکوں پر اردگر دکھڑی ہوتی ہے وہ اس شمار میں نہیں ہے.اس سال خدا تعالیٰ کے فضل سے عورتوں کی تعداد ۸۵ ہزار اور مردوں کی ایک لاکھ ۲۸ ہزار تک پہنچ گئی.تو ہمیں جو توقع تھی کہ انشاء اللہ اتنے مہمان زائد آ ئیں گے اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا لیکن جہاں تک میں نے جائزہ لیا اور مختلف مہمانوں سے پوچھا اور مختلف ایسے کارکنان سے دریافت کیا جنہیں میں سمجھتا تھا کہ وہ مجھے اپنے طور پر صحیح رپورٹ کریں گے.گزشتہ سال کی نسبت ہر پہلو سے انتظام بہتر ہی رہا ہے اور دراصل انتظام کی خوبی ہی اس کی خاموشی ہے.جتنا اعلیٰ انتظام ہو اتنے ہی اس کے کارندے پس منظر میں چلے جاتے ہیں اور ان سے متعلق پتہ نہیں چلتا کہ کون ہے، کیا کر رہے ہیں ان پر کوئی بوجھ بھی پڑ رہا ہے کہ نہیں.صرف کام ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے.چنانچہ جب میں نے یہ مسئلہ سوچا تو میری توجہ اللہ تعالیٰ کی اس کا ئنات ، اس عظیم کا رخانہ قدرت کی طرف منتقل ہو گئی اور میں نے سوچا کہ یہ اتنا خاموش ہے کہ اس کے کارندے نظر سے اس طرح غائب ہو چکے ہیں کہ بہت سے بد قسمت انسان اس بات کا انکار ہی کر بیٹھے ہیں کہ اس کا کوئی چلانے والا ہے.دنیا کے چھوٹے چھوٹے کارخانے جب خود بخود چل رہے ہوتے ہیں تو انہیں دیکھ کر تو وہ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے پیچھے کوئی ہاتھ کارفرما نہیں ہے جو اس کو منظم کر رہا ہے، کوئی منتظم نہیں ہے جو اس کو چلا رہا ہے لیکن اس عظیم کا رخانہ قدرت کی طرف نظر ڈالتے ہیں ہر روز اس سے استفادہ کرتے ہیں ، اس میں دن رات سانس لیتے ہیں اور اپنے سارے فوائد حاصل کرتے ہیں لیکن اس طرف ان کا ذہن جاتا ہی نہیں کہ اس کارخانے کو چلانے کے لئے بھی کوئی انتظام ہونا چاہئے.جتنا انتظام نظر نہ آئے اتنا ہی بڑی خوبی اس کے پیچھے مخفی ہوا کرتی ہے.ان دونوں کے درمیان ایک یہ تناسب ہے کہ جتنا نمایاں کام کرنے والا نظر آ رہا ہو اتنا ہی کام کمزور ہوتا ہے اور جس حد تک وہ غائب ہونا شروع ہو جاتے ہیں اتنا ہی اعلیٰ انتظام ہوتا ہے اور کار خانہ قدرت سے تو چلانے والے ایسے
خطبات طاہر جلد ۲ 653 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۳ء غائب ہو چکے ہیں کہ دنیا کی باریک نظر رکھنے والوں کو بھی نظر نہیں آرہے.چنانچہ میں نے غور کیا تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ اس ساری کائنات میں ان گنت وجود ہیں جن کے رزق کا روزانہ انتظام ہو رہا ہے.ہر ثانیہ انتظام ہو رہا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے: وَمَا مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ إِلَّا عَلَى اللهِ رِزْقُهَا وَيَعْلَمُ مُسْتَقَرَّهَا وَمُسْتَوْدَعَهَا كُلَّ فِي كِتَبٍ مُّبِينِ (هود : 2 ) کہ اس زمین و آسمان میں کوئی ایک بھی جاندار ایسا نہیں جس کے رزق کا اللہ تعالیٰ نے انتظام نہ فرما دیا ہو اور پھر رزق کا ہی نہیں اس کی رہائش کا بھی انتظام فرما رکھا ہے اور خدا جانتا ہے کہ کس نے عارضی ٹھکانہ کہاں کرنا ہے اور مستقل ٹھکانہ کہاں کرنا ہے.چنانچہ یہ جو کائنات میں پھیلے ہوئے ، جو میں اور سمندر میں اور ہواؤں میں پھیلے ہوئے جو جانور ہیں ان کی قسمیں ہی شمار میں نہیں آ سکتیں.سمندر کے اندر جوزندگی نظر آتی ہے وہ اتنی حیرت انگیز ہے اور اس کی اتنی مختلف شکلیں ہیں اور اس طرح ان کو خدا تعالیٰ نے اپنی ضرورت کے مطابق آراستہ کر رکھا ہے اور ایسا حسین تو ازن قائم کر رکھا ہے کہ ایک پرسکون سمندر کی سطح کے نیچے ایک پوری کائنات بس رہی ہے اور ایسے سمندروں میں بھی جہاں پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ یہاں کچھ بھی نہیں ہو سکتا نیچے خاص قسم کی ریت نے تہیں جما رکھی تھیں اور وہاں بظاہر زندگی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے تھے.اب انہوں نے غوطہ خوری کے ذریعہ ایسے سامان پیدا کر لئے ہیں کہ بعض دفعہ وہ بہت لمبے عرصہ تک صبح سے شام ، شام سے صبح تک روشنی کے آلات اور پھر بہت سے کیمرے وغیرہ لے کر وہاں پہنچتے ہیں تو انہوں نے ان سمندروں کے کناروں پر جو عرب کے ریگستان کے ساحل کے ساتھ ساتھ ہیں، یہ دیکھ کر بے انتہا حیرت کا اظہار کیا ہے کہ مثلاً ہم وہاں زمین کے نیچے سمندر کی تہ میں پہنچے توریت کے سوا کچھ نظر نہیں آتا.کامل خاموشی تھی ، پھر ہم نے جب آہستہ سے غور سے دیکھنا شروع کیا تو بہت سے جانور بھیس بدل کر خاموش بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کا شکار پاس سے گزرا تو وہ اس کو کھا جائیں اور انہوں نے عجیب عجیب قسم کے Camouflage کئے ہوئے تھے.بعض کی ریت میں سے صرف آنکھیں چمک رہی تھیں ، بعض کے باز و باہر نکلے ہوئے تھے، بعض پودوں کی طرح زمین میں گڑ کے کھڑے تھے اور ان کو ہم پودے سمجھ رہے تھے ، وہ جاندار تھے اور انتظار کر رہے تھے کہ کب اللہ ان کا
خطبات طاہر جلد ۲ 654 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۳ء رزق بھیجے.پھر جب وقت بدلا ، سورج ڈوبا رات آئی تو اچانک وہاں بے انتہا اور جاندار بھی پیدا ہو گئے اور ریت میں جہاں بظاہر کچھ بھی کھانے کے لئے نہیں تھا ان سب کی خوراک کا انتظام موجو دتھا اور انہیں زمین میں نہایت خاموشی کے ساتھ ایک پوری کائنات بسی ہوئی دکھائی دی.ابھی بھی وہ اس پر تحقیق کر رہے ہیں اور جو تصویر میں شائع ہوئی ہیں انہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ کی اس صفت اور اس کی مصوری پر حیرت ہوتی ہے.اسی طرح ریگستان سے متعلق جہاں درجہ حرارت 140 تک پہنچ جاتا ہے جسے لق و دق صحرا کہتے ہیں، خیال تھا کہ وہاں کوئی چیز ہو ہی نہیں سکتی اب سائنسدانوں نے تحقیق شروع کی تو اس پر بھی بڑے دلچسپ مضامین شائع ہونے شروع ہوئے ہیں.وہ کہتے ہیں کہ ادھر سورج ڈوبا اور ریت ذرا ٹھنڈی ہونا شروع ہوئی تو ہر طرف سے زندگی پھوٹی شروع ہوگئی.کچھ جانور ایسے ہیں جو نسبتا کم درجہ حرارت پر زندہ رہتے ہیں ، وہ زمین میں گہرے گئے ہوئے تھے جہاں تک سورج کی گرمی اثر نہیں کرتی تھی.انہوں نے سوراخ بنا کر وہاں اپنی جائے رہائش رکھی ہے اور کچھ جاندار جو ذرا زیادہ گرمی بھی برداشت کر لیتے ہیں وہ ان سے کچھ قریب تھے اور کچھ اور زیادہ قریب تھے اور کچھ اور زیادہ قریب تھے.سانڈھے اور اس قسم کے جانور جو بہت زیادہ گرمی برداشت کر سکتے ہیں سب سے پہلے یہ نظر آنے شروع ہوئے اور اچانک ہم نے دیکھا کہ پھر زمین سے اور چیزیں نکلنی شروع ہوئیں، پھر اور چیزیں نکلنی شروع ہوئیں اور سارا ویرانہ آباد ہو گیا.اور کسی نے شبنم چاٹی ،کسی نے کہیں سے کچھ اور کھایا.آسمان سے اترنے والے خوراک کے اور انتظامات جو اللہ تعالیٰ نے کر رکھے تھے، ان سے استفادہ کیا اور یوں معلوم ہوتا تھا کہ جنگل میں منگل ہو گیا ہے.حشرات الارض کی بے انتہا قسمیں ہیں جو شمار میں نہیں آ سکتیں اور جو عام بڑے جانور چلنے پھرنے والے ہیں ان کی بھی اتنی قسمیں ہیں، اور ہر قسم پھر آگے اس طرح تقسیم ہو چکی ہے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ ہر ایک کی خوراک کا مناسب انتظام ہوتا ہے اور Waste Products کا کوئی نقصان کہیں نظر نہیں آ رہا.یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ایک حیرت انگیز کمال.آپ دنیا میں ایک چھوٹا سا بھی کارخانہ بنائیں تو Waste Products ایک مصیبت بن جاتی ہے وہ فضلہ جو ہر پیدائش کا لازمہ ہے.جب کوئی چیز پیدا کرتے ہیں تو کچھ فضلہ ہو گا جو نقصان دہ ہوتا ہے اس کو کہاں
خطبات طاہر جلد ۲ 655 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۳ء پھینکیں، کس طرح اسے ختم کریں؟ آج کے انسان کے لئے جو بڑ اخلاق بنا پھرتا ہے یہ ایک بڑی مصیبت بنی ہوئی ہے.آئے دن ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں کہ ایٹم کا فضلہ کہاں پھینکیں روزمرہ کارخانوں کے فضلے کا کیا کریں اور بعض علاقوں میں تو اس فضلے کے نتیجہ میں عام زندگی ہلاک ہونا شروع ہوگئی ہے.چنانچہ امریکہ اور کینیڈا کے بعض علاقوں میں فضا میں سلفر اتنی زیادہ بڑھ گئی کہ اس سے سلفیورک ایسڈ بن کر جھیلوں کے پانی کو اس نے تیزابی کر دیا اور آہستہ آہستہ اس کی تیزابیت اتنی بڑھ گئی کہ وہاں جانور مرنے شروع ہو گئے اور پھر وہی پانی جب انسان بھی پیتے ہیں تو وہ ایک زہر کا چکر چل پڑتا ہے جو ساری زندگی میں گھوم رہا ہے.تو معمولی اور چھوٹے سے کارخانے ہیں وہ اس کارخانہ قدرت کے مقابل پر کوئی حیثیت ہی نہیں رکھتے جو خدا تعالیٰ نے ساری کائنات میں چلا رکھا ہے، اور ان کے Waste Producte کا مسئلہ ہی حل نہیں ہورہا کہ کیا کریں.اور اس طرف نظر نہیں کرتے کہ خدا تعالیٰ نے جو کارخانہ بنایا ہے اس کا اصول یہ ہے کہ ایک کی Waste Product دوسرے کی غذا بن گئی ہے اور ایک ذرہ بھی ضائع نہیں ہو رہا، ہر چیز گھوم کر پھر واپس اس کائنات میں چلی جاتی ہے اور وہی تو ازن برقرار رہتا ہے.آپ آکسیجن کھاتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالتے ہیں جو پودوں کی غذا بن جاتی ہے.جتنے جاندار سانس لیتے وقت کاربن ڈائی آکسائیڈ نکالتے ہیں وہی پودے کھا رہے ہوتے ہیں اور پودے ہیں کہ تازہ آکسیجن بنا بنا کر واپس پھینک رہے ہیں.بے شمار جاندار ایسے ہیں جو دوسرے جانداروں کے فضلے پر پل رہے ہیں اور فضلہ اگر نہ ہوتو زمیندار خوب جانتا ہے کہ اس کی فصل پر بھی کتنا برا اثر پڑتا ہے.اتنا حسین تو ازن ہے کہ ہر جاندار کا فضلہ کسی اور جاندار کے کام آ رہا ہے اور پھر صفائی کا انتظام بھی ساتھ ساتھ اسی طرح ہوتا چلا جا رہا ہے.چنانچہ افریقہ کے جنگلوں میں بعض جگہوں پر جہاں ہاتھی رہتے ہیں ان سے متعلق سائنسدانوں نے تحقیق کی ہے کہ اگر خدا تعالیٰ نے ان کا فضلہ صاف کرنے کا انتظام نہ کیا ہوتا تو وہاں فضلے کے پہاڑ بن جاتے اور پھر کوئی چیز وہاں بس نہیں سکتی تھی.مگر چھوٹے چھوٹے کیڑے ہیں جو رات کے وقت نکلتے ہیں اور اس فضلے کے گولے بنا بنا کر اور اسے الگ الگ جا کر سوراخوں میں نیچے
خطبات طاہر جلد ۲ 656 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۳ء داخل کر کے اپنی خوراک کی حفاظت کا انتظام بھی کر رہے ہوتے ہیں اور وہ رات ہی رات میں سارا جنگل صاف کر دیتے ہیں.وہ فضلہ ان کی خوراک ہے اور جو ان کا فضلہ ہے اس کا انتظار بعض اور جاندار کر رہے ہوتے ہیں کہ اب یہ کھا پی کر فارغ ہوں تو جو ان کا فضلہ ہوگا پھر ہم اس کو کھا کر اس پر پلیں گے.یہ اتنا کامل چکر ہے کہ اس کے بیچ میں کوئی ایک ذرہ بھی نہیں جو ضائع ہو رہا ہو.ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا کہ یہ کائنات کس طرح چل رہی ہے.پانی کا انتظام دیکھیں.سمندر ہے، کس طرح خاموشی کے ساتھ پانی اٹھ رہے ہیں اور پہاڑوں پر جا کر خاموشی کے ساتھ واپس آرہے ہیں.اگر یہ پانی اس طرح جاری نہ ہوں تو اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ اگر تمہارا پانی نیچے اتر جائے تو تمہارے پاس کوئی طاقت نہیں ہے کہ اس کو کھینچ کر واپس لاسکو.(الملک:۳۱) نمکین سمندروں میں سے صاف پانی اٹھانا اور اس کو پھر اس طرح چلانا کہ بغیر آواز ، بغیر شور ، بغیر کسی فساد کے وہ پانی از خود جہاں پہنچتا ہے وہاں پہنچ رہا ہے اور کچھ بہ رہا ہے، کچھ جھیلوں کی صورت میں ہے، کچھ زمین میں جذب ہوکر انسان کے کام آتا ہے اور ساتھ ہی سارے کا سارا صاف اور شفاف بھی ہو چکا ہوتا ہے.اس کے برعکس ایک انسان جو صنعت کاری کے اتنے بڑے دعوے کرتا ہے صرف مڈل ایسٹ کے پانی کا مسئلہ ہی حل نہیں کر سکا.ایسی ایسی سکیمیں بنائی ہیں کہ ساؤتھ پول ( قطب جنوبی ) سے برف کے تو دے کاٹ کر انہیں جہاز گھسیٹ کر لے آئیں اور وہاں جا کر جتنی برف بچ جائے اس سے وہ پانی لیں.لیکن اللہ تعالیٰ کا انتظام دیکھیں کسی خاموشی سے فضا میں خود بخود بخارات اٹھ رہے ہیں کوئی پتہ ہی نہیں لگ رہا کہ کیا ہورہا ہے اور جوانر جی آ رہی ہے وہ سب جگہ موجود ہے لیکن کسی کو آگ نہیں لگا رہی ورنہ کارخانوں کے لئے جو انرجی استعمال کرنی پڑتی ہے اس کی تو بعض دفعہ اتنی خطر ناک شکلیں بن جاتی ہیں کہ نہ صرف اسے سنبھالنا مشکل بلکہ اس کے قریب کام کرنا بھی مشکل ہو جاتا ہے اور اٹامک انرجی تو بہت ہی زیادہ خطرات اپنے اندر رکھتی ہے.اب آرام سے پیاری پیاری دھوپ اتر رہی ہے اور پورے کارخانے کی طاقت جتنی چاہئے اتنی دے رہی ہے اس سے کچھ حصہ زائد نہیں کر رہی.اس میں اتنے باریک حساب ہیں اور اتنے حیرت انگیز اعداد و شمار الجھے ہوئے ہیں کہ دنیا کا بڑے سے بڑا کمپیوٹر بھی اسے حل نہیں کر سکتا.اس توازن کو اس بار یکی کے ساتھ رکھنا کوئی معمولی بات نہیں کہ خود بخود ہو چکا ہو.پھر آپ دیکھیں کہ بعض دفعہ آپ غور بھی نہیں کرتے کہ کسی جگہ
657 خطبه جمعه ۳۰/دسمبر ۱۹۸۳ء خطبات طاہر جلد ۲ ایک درخت کے سایہ میں اوپر کڑوی اور بدمزہ نیم بولیاں لگی ہوئی ہیں اور اس کے نیچے ایک بیل میں شیر میں خربوزے یا تربوز لگے ہوئے ہیں، ساتھ ہی آلو بن رہے ہیں، کہیں ٹماٹر بن رہے ہیں.کہیں آم کا درخت ہے مٹی وہی ہے، پانی بھی وہی ہے دھوپ بھی وہی ہے جو وہ کھارہے ہیں ،مگر رنگ اور روپ کس طرح بدلتے ہیں کہیں کانٹے نکل رہے ہیں، کہیں نہایت خوبصورت گلاب کے پھول، کہیں سفید چنیلی ہے اور کئی قسم کی خوشبو میں اٹھ رہی ہیں اور وہیں ایسے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں کہ ایک جانور گند یہ منہ مار رہا ہے ، ایک مکھی شہد چوس رہی ہے، ایک بھنورا ہے جو پھولوں پر بیٹھا ہے، ایک کیڑا ہے جو گندگی ڈھونڈتا رہتا ہے اور صرف اس پر ہی اترتا ہے، اور اگر پھول پر بٹھا دو تو بے چارہ بھوکا مر جائے اور شائد اس کی ناک میں تکلیف ہو جائے کہ کتنی بد بودار چیز پر میں بیٹھا ہوں اور پھر وہیں Worms ہیں زمین کے اندر جا کر وہ گندگی کھاتے اور Waste Products کو استعمال کرتے ہیں اور اس کو پھر انہی پودوں کے لئے جو خوشبو پیدا کر رہے ہیں غذا بنا رہے ہوتے ہیں اور کسی کو کچھ مجھ نہیں آ رہی کہ کیا ہو رہا ہے اس کے پیچھے کیا کیا چیزیں ہیں.یہ آخر کیوں نہیں ہورہا اور یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کیوں نہیں دیکھتا.اس مسئلہ کو قرآن کریم بیان فرماتا ہے: لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ (الانعام : ۱۰۴) کہ اے بیوقوفو! تمہاری آنکھوں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ کسی چیز کی کنہ کو معلوم کر سکو.تم تو اندھے ہوا گر اللہ کا نور نہ اترے.وہی ہے جو بصیرت عطا فرماتا ہے وہ بصیرت عطا نہ فرمائے تو تمہاری نظریں ٹھہر جاتی ہیں آگے پر دے پڑے ہوئے ہیں.فرمایا: چنانچہ اسی مضمون کو ایک خاص ترتیب سے بڑی لطافت سے قرآن کریم نے کھولا جب إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ یہ وَالنَّهَارِ لَايَتٍ لِأُولِي الْأَلْبَابِ که زمین و آسمان کی تخلیق ، دن اور رات کے بدلتے رہنے میں اولی الالباب اہل عقل کے لئے بہت سے نشانات ہیں لیکن اہل عقل کی تعریف یہ فرمائی الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَ عَلَى جُنُوبِهِمُ اہل عقل و دانش وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کو یاد کرتے ہیں دن کو
خطبات طاہر جلد ۲ 658 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۳ء بھی اور رات کو بھی.کھڑے ہوئے بھی اور بیٹھے ہوئے بھی اور جب وہ رات کو کروٹیں بدل رہے ہوتے ہیں تب بھی اللہ کی محبت ان پر غلبہ پالیتی ہے اور وہ ان کے سارے وجود پر حاوی ہو چکی ہوتی ہے.الَّذِيْنَ يَذْكُرُونَ اللَّهَ قِيمًا وَقُعُودًا وَعَلَى جُنُوبِهِمْ یہ وہ لوگ ہیں کہ خَلْقِ السَّمَوتِ وَ الْاَرْضِ پر غور کرتے ہیں تو پھر انہیں نظر آتا ہے کہ اس کے پیچھے کیا ہے.یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اولی الالباب وہ ہیں جو زمین و آسمان کی تخلیق پر غور کرتے ہیں اور اس غور کے نتیجہ میں اللہ کو یاد کرتے ہیں.آپ کو ایسا کوئی آدمی دنیا میں نظر نہیں آئے گا.اللہ کو یاد کرنے والے جب غور کرتے ہیں تو پھر ان کے دل اس کے پیار اور اس کی خوشبو سے مہک اٹھتے ہیں.پھر انہیں ہر بات میں خدا کا ہاتھ نظر آنا شروع ہو جاتا ہے اور جو اپنی طاقت سے دنیا کی تلاش کرتے ہیں تو ان کے لئے ہر چیز جو وہ معلوم کرتے ہیں ایک پردہ ہوتی ہے اور پردے سے پیچھے پردہ اٹھاتے چلے جاتے ہیں اور آگے پر دے ہی رہتے ہیں.ان غور کرنے والوں سے تو بہتر غالب کا غور تھا جو یہ کہتا ہے: محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا یاں ورنہ جو حجاب ہے پردہ ہے ساز کا (دیوان غالب) کہ اے اللہ کا ئنات کے رازوں کا صرف تو ہی محرم نہیں ہے.ہم نے تو دیکھا ہے کہ تو نے جو پر دے ڈالے ہوئے ہیں وہ تو ساز کے پردے ہیں اور ہر پردہ سے تیرے نغمے اٹھتے ہیں یعنی جب مومن غور کرے تو اسے ہر پردہ سے اللہ تعالیٰ کی حمد کے ترانے اٹھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں، وہ ساز کا پردہ بن جاتا ہے اور جب دنیا والا غور کرتا ہے تو اس کا غور اور اس کی نظر ان پردوں سے ٹکرا کر واپس آتی رہتی ہے اور اس کو کچھ اور نظر نہیں آتا.آج سائنس نے اتنی ترقی کر لی ہے اور یہ انہیں کی محنتوں کا پھل ہے جنہیں ہم قرآن کریم کی روشنی میں دیکھتے ہیں تو روح وجد میں آجاتی ہے لیکن وہ اسی طرح اندھے کے اندھے ہیں اس لئے کہ قرآن کریم فرماتا ہے: لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الانعام: ۱۰۴)
خطبات طاہر جلد ۲ 659 خطبه جمعه ۳۰ / دسمبر ۱۹۸۳ء اگر اس نے نور نبوت نہ بھیجا ہوتا اور وہ خود آسمان سے کسی پاک قلب پر نازل نہ ہوا ہوتا اور اس سے روشنی نہ پھیلتی تو آنکھوں میں طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنے خدا کو پا جاتے.اتنا کامل انتظام ہے کہ وہ اس سے بالکل ہٹ کر پیچھے جا چکا ہے اور اس خاموشی کے ساتھ اس کا انتظام چل رہا ہے وہ ایسا لطیف اور خبیر ہے کہ نہ تو کہیں چلانے والے کی آواز تمہیں پہنچ رہی ہے، نہ اسے چلاتے ہوئے دیکھ رہے ہو اور نہ اس کے کارندے نظر آ رہے ہیں.بے انتہا فرشتے کام کر رہے ہیں لیکن وہ بھی مخفی در مخفی ہو چکے ہیں.پس یہ حضرت محمد مصطفی عملے کا احسان تھا کہ وہ نور جو آسمان سے آپ پر نازل ہوا، اس نے ہمیں بصیرت عطا کی ، اس نے اس کائنات کے پیچھے رونما ہونے والے واقعات تک ہماری نظر پہنچائی.کتنا عظیم الشان احسان ہے حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کا اور اس دور میں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس ایمان کو زندہ کیا.اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ ایمان ثریا پر جا چکا تھا.ہمارا آقا آسمان پر ثریا پر جا کر واپس لے کر آیا ہے.تب ہمارے دلوں میں ایمان زندہ ہوا ہے.پس اللہ تعالیٰ بے انتہار رحمتیں نازل فرمائے اس آقا معلم پر بھی اور اس متعلم پر بھی.حضرت محمد مصطفی علیہ پر بھی اور آپ کے غلام کامل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بھی کہ ہم نے ان سے نور بصیرت پایا تو ہم نے اپنے رب کو دیکھا.اس سے بڑا اور کوئی احسان نہیں ہوسکتا.خدا تعالیٰ ہمیں اس احسان کے بدلہ میں ان پر ہمیشہ درود اور رحمتیں بھیجنے کی توفیق عطا فرما تار ہے.آمین.خطبہ ثانیہ کے دوران فرمایا: انتظام سے میری توجہ دوسری طرف منتقل ہوگئی.ایک چیز سے دوسری کی طرف ذہن حرکت کرتا رہا اور یہ کہنا بھول گیا کہ ان کارکنان کے لئے دعائیں کریں.اللہ تعالیٰ نے ہمارے سلسلہ کے خدام کو ، بچوں کو بھی عورتوں کو بھی ، بڑوں اور چھوٹوں کو ایک ایسی پاک روح عطا فرمائی ہے کہ خدا کی خاطر اس طرح کام کرتے ہیں جس طرح کیڑیاں کام کر رہی ہوتی ہیں بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ جس طرح شہد کی مکھیاں کام کر رہی ہوتی ہیں ہم تک انتظام کا شہد پہنچتا ہے.وہ محنت جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے نظر سے اوجھل ہو جاتی ہے اور یہ پتہ نہیں چلتا کہ کس طرح ایک ایک روٹی کے لئے قربانی کے کتنے لمحات خرچ ہوتے ہیں.چھوٹے چھوٹے بچے چھوٹی چھوٹی بچیاں روٹیوں کی ٹوکریاں اٹھائے ہوئے
خطبات طاہر جلد ۲ 660 خطبه جمعه ۳۰/دسمبر ۱۹۸۳ء سالن کے پیالے لئے ہوئے سب پھر رہے ہوتے ہیں اور پھر بھی بعض دفعہ مہمان کو پوری طرح تسکین نہیں پہنچا سکتے.اس پر پھر وہ شرمندہ بھی ہوتے ہیں.مجھ سے میری ایک بچی نے کہا کہ ابا مجھے پتہ نہیں لگا، میں نے تو بہت کوشش کی کہ ٹھیک طرح کھانا پہنچاؤں لیکن آج صبح ایک عورت نے کہا ” بی بی سواد نہیں آیا تو میں کس طرح سواد پہنچاؤں مجھے پتہ نہیں لگ رہا.تو یہی حال سب بچوں کا ہے.ان کی تو پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طرح ہمارے مہمانوں کو سواد، پہنچ جائے لیکن بعض دفعہ نہیں بھی آتا.پس ان سب کے لئے دعائیں کریں.ان کارکنوں کی روح کو اللہ تعالیٰ ہمیشہ زندہ رکھے، اپنے فضلوں کا وارث بنائے اس کے نتیجہ میں ان پر پیار کے ساتھ ظاہر ہواور یہ محسوس کریں کہ ہمارا اجر دینے والا ہمارا خدا ہے.اور ہمیں دنیا میں کسی سے قطعا نہ امید رکھنی چاہئے نہ اس کے کوئی معنے ہیں.ہمیشہ خالصتہ للہ ہمارے کارکنان کام کرتے ہیں.خدمت خلق والے بھی ہیں لنگروں میں کام کرنے والے، دیگر انتظاموں میں ملاقات کے انتظام کرنے والے ، باہر سے آنے والے ، ربوہ میں رہنے والے، ایک عجیب چیز ہے ایسی چیز دنیا میں کسی اور نے نہیں دیکھی ہوگی.دنیا میں ایسی کوئی جماعت نہیں یہ میں آپ کو یقین دلا دیتا ہوں.بعض غیر بھی محسوس کرتے ہیں.باہر سے ایک مہمان آئے ہوئے تھے، ان کا تاثر یہ تھا.انہوں نے اپنے ایک دوست سے کہا کہ ایسی چیز دنیا میں ہے ہی کہیں نہیں.یہ لوگ جو میں نے دیکھے ہیں یہ قوم ہی الگ ہے ان کی کہیں بھی کوئی نظیر نہیں ہے اور واقعتہ بھی یہی ہے.یہ بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے نور نبوت کا احسان ہے جب تک نور نازل نہ ہود نیا زندہ نہیں ہوا کرتی.یہ وہ زندگی کے آثار ہیں جن کو ہم دیکھ رہے ہیں.اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطا فرمائے.آمین روزنامه الفضل ربوه ۴ / مارچ ۱۹۸۴ء)
اشاریہ مرتبہ: محمد محمود طاہر
42.44----- فہرست اشاریہ 1---- ----5 | ص - 45 47…………… b 18 21 -E 22----- 47 49---- i25.25 52---- 54.....25 | ف -----25 | ق.--2 56 29-- چ.59 29--- 2 60 -J31.31 61 32- 70---- خ..., ----37 | ن 73.74-- 37 37- 75---- ----40 | ی.40----
28 29 1 اشاریہ 230 صوبہ سرحد کے احمدی دوست کی افغانستان کے آرکیٹیکٹ سے ملاقات افغانستان کی روح آزادی کے مینار بنانے والے آرکیٹیکٹ سے حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کابل کا ذکر آریائی نسل 232 آسٹریلیا آ آدم علیہ السلام 166.205.230.232.242.301.453.572 573.572.573.584 آدم سے آنحضور کا عرصہ ۴۷۳۹ سال آدم کا زمانہ آدمیت کا بیج نبوت کا آغاز ہوا پہلا گھر آپ نے بنایا حضرت آدم کی جنت کا تصور آزادر آزادی آزادی کی تعریف اسلام کی آزادی اللہ کی غلامی ہے آزاد قوموں کی حقیقت 453 453 453 573 536 431.439.452.462-463-465-494.495.496 سفر آسٹریلیا کے لئے دعا کی تحریک آسٹریلیا میں مذہبی رواداری آسٹریلوی قدیم باشندے 535.542.572.647 504 یہاں دہریت اور مادہ پرستی زیادہ ہے 504 جماعتی تبلیغ کا با قاعدہ آغاز ۱۹۱۳ء 504 براعظم آسٹریلیا کی پہلی مسجد اور مشن کی بنیاد امریکہ بظاہر آزاد قوم لیکن ہزار قیود میں جکڑی ہوئی ہے 401 مسجد و مشن کی کامیاب تعمیر کیلئے دعا کی تحریک انسانی ضمیر کی آزادی آزادی مذہب کا قرآنی اعلان 499 ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ ء تاریخ احمدیت آسٹریلیا کا اہم دن 111.112.125 احمدیوں کی ذمہ داریاں ہر شخص کو اپنے رب کی طرف بلانے کی آزادی دی گئی 112 آسٹریلیا میں احمدیوں کی کسمپری کے دور عمل انبیاء ہمیشہ آزادی ضمیر کی کے قائل رہے بعض علماء یکطرفہ آزادی ضمیر کے قائل ہیں جماعت احمد یہ دنیا کی واحد آزاد قوم احمدیوں کی آزادی اللہ کی یاد میں ہے آرکیٹیکٹ آرکیٹیکٹس وانجینئر زکوستے اور موزوں مکان بنانے کی دعوت 251 مسجد کی بنیاد پر بیوت الحمد سکیم کی یاد دہانی 251 402 510 574 پاکستان اور آسٹریلیا کے ٹیسٹ میچ کی کمنٹری کسیجن جاندار آکسیجن لیتے ہیں آگ 431 431 439 495 465 452.431 463 495 495 496 572 647 486.487 655 80.81.300.301.485
2 شرک کا انجام آگ ہے حضرت ابراہیم کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ 485 وَلِكُلِّ وَجْهَةٌ هُوَ مُوَلّيها....(۱۳۹) 300 217 يَأَيُّهَا الَّذِينَ مَنُوا اسْتَعِيْنُوا بِالصَّبر.....(۱۵۴- ۱۵۸) 417 آگ کے گلزار ہونے کی سب سے بڑی گواہ جماعت احمدية 301 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ (۱۸۴ - ۱۸۷) آگ حضرت مسیح موعود اور آپ کے غلاموں کی غلام بن کر رہے گی آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے“ انڈونیشیا میں آگ ٹھنڈی ہونے کا واقعہ آنسو مومن کے آنسو باران رحمت بنا کرتے ہیں آئن سٹائن اس کا قول کہ چوتھی عالمی جنگ ڈنڈوں اور پتھروں سےلڑی جائینگی آیات قرآنی ( سورتوں کی ترتیب کے لحاظ سے ) الفاتحة 301 80 80 315.316.331 وَإِذَا قِيلَ لَهُ اتَّقِ الله....(۲۰۷) عَسَى أَنْ تَكْرَهُوا شَيْئاً....(۲۱۷) وَلَا يُحِيطُونَ بِشَيْ مِنْ عِلمه (۲۵۶) فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى....(۲۵۷) فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ...(۲۵۹) 122 وَاللهُ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ...(۲۶۲) 138 25 651 583 151 307 174 يَمْحَقُ اللَّهُ الرِّبوا وَيُرْبِي الصَّدَقَتِ.....(۲۷۷-۲۸۰)169 لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا...(۲۸۷) آل عمران إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ....(۹۷) 435 453 وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا....(۱۰۴) 484،485 وَدُّوا مَا عَنِتُمُ...(۱۱۹) الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العَالَمِين....(۴۲) 519520522 هانْتُمْ أُوْلَاءِ تُحِبُّونَهُمْ (۱۲۰) إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (۵) اهدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيم (٢) البقره 57'67 168 67 596 598 إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ....(۱۹۱ ۱۹۲)649،651 رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذَا بَاطِلًا....(۱۹۲) )......رَبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا.....(۱۹۴-۱۹۵) الم و ذلكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ.....(۲-۵) 187 458 | رَابِطُوا....(۲۰۱) يُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَ مِمَّا رَزَقُتُهُمُ.....(٢) النساء 261 354 3 أُولَئِكَ عَلَى هُدًى مِنْ رَبِّهِمْ.....(۲) وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمُ.....(١٠) وَاذَا لَقُوا الَّذِينَ آمَنُوا (۱۵) صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَرْجِعُونَ (١٩) بَلَى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً....(۸۲) وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ...(١١٦) رَبِّ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا أَمِنًا (۱۳۷) رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُول (۱۳۰) 275-226 626 183 501 196 32 533 456 457 وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي تَسَاءَ لُوُن بِه.....(۲) لا إلى هؤلاء وَلَا إِلَى هؤلاء...(۴۴) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ كُمْ أَنْ تُؤَدُّوا...(۵۹) المائده قُلْ لَا يَسْتَوى الخَبيثُ وَالطَّيِّبُ...(١١) يَأَيُّهَا الَّذِينَ مَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ...(١٠٦) الانعام 413 501 618 26 579 صِبْغَةَ اللهِ وَ مَنْ اَحْسَنُ مِنَ اللهِ صِبْغَةً....(۱۳۹) 19 وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لَابِيهِ (۷۵ تا ۸۴ 306 305....305،306
3 وَلَقَدْ جَتُمُونَا فرادى......(۹۵) 24 یوسف لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَ هُوَ يُدْرِكَ الأبْصَار...(۱۰) 658 لا تقريبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ....(۹۳) تَشْرِيْبَ قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي (۱۶۳) الاعراف 606 497 وَلِبَاسُ التَّقْوَى ذَلِكَ خَيْرٌ (۲۷) لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَى قَوْمه (۶۰ ۶۳ ۶۴ 241 رَحْمَتِي وَسِعَتْ كُلَّ شَيْءٍ....(۱۵۷) 477،430 الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِي....(۱۵۸) قَالُوا بَل.....(۱۷۳) الانفال 625 145 يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَجِيبُو اللَّهِ وَلِلرَّسُول (۲۵) 30 التوبه إِنَّمَا يَعُمَرُ مَسَاجِدَ اللَّهِ (۱۸) إنَّ اللهَ اشْتَرَى مِنَ الْمُؤْمِنِينَ....(1) یونس 594 473' 52 الَّا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللَّهِ لَا خَوف.....( ۶۳ ۶۶ ) 71،164،339،352 وَاتُلُ عَلَيْهِمْ نَبَا نُوحٍ...(۷۳۷۲) هود وَمَا مِن دَآبَّةٍ فِي الْأَرْضِ...(2) فَقَالَ الْمَلَا الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ قَوْمِه....(۲۸) 254 653 245 الرعد إِنَّ اللهَ لَا يُغِيِّرُ مَا بِقَوْمٍ (١١) وَالَّذِينَ يَدْعُونَ مِنْ دُونِ (۱۵) فَأَمَّا الزَّبَدُ فَيَذْهَبُ جُفَاء.....(۱) ابراہیم......الَمْ يَأْتِكُمْ نَبَوا الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمُ (٢٠١٠ وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلُ....(۳۹.۳۶) النحل 7 398 411 405 282'281 451 اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ....١٢٩.١٢) 144،107 بنی اسرائیل وَلَا تُبَدِّرُ تَبْذِيرًا...(۲۷) وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ البَاطِل....(۸۱) الكهف الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَنْزَلَ عَلَى عَبْدِ.....(۲) كَبُرَتْ كَلِمَةً تَخْرُجُ مِنْ أَفْوَاهِهِمُ (٢) قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ.(١١١) مریم (Y).632 405 370 58 147 يقَوْم اَرَءَ يُتُمُ إِن كُنتُ عَلَى بَيِّنَةٍ...(۲۹) 46 كهيعص ذِكُرُ رَحْمَتِ رَبِّكَ....۲ تا ۱۵) وَأُوحِيَ إِلى نُوح (۳۸۳۷) 269 | فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِيًّا...(۱۸) وَقَالَ ارْكَبُوا فِيْهَا بِسْمِ اللَّهِ.....( ۴۲ ۴۷ ) 276 275 | إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَبِي.....(۴۲) قِيلَ يَا رُضُ ابْلَعِي مَاءَكِ.....(۴۵) وَإِنَّ وَعْدَكَ الْحَقُّ...(٤٦) إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَعَلِيمٌ أَوَّاهُ مُّنِيبٌ (1) يُجَادِلُنَا فِي قَوْمٍ لُوطٍ (۷۵) يَابرَاهِيمُ أَعْرِضْ عَنْ هَذَا...(۷۷) وَأَقِمِ الصَّلوةَ طَرَفِيَ النَّهَارِ....(۱۱۵-۱۱۷) 277 78 الاتَذْكِرَةً لِمَنْ يَخْشَى...(۳) 275 274 274 403 425 77 306 590 الانبياء أَفَلا يَرَوْنَ أَنَّا نَاتِي الْأَرْضَ...(۴۵) وَلَقَدْ أَتَيْنَا إِبْرَاهِيمَ رُشْدَهُ....(۵۲ تا ۷۱ 294 293 407
311 371 609 630 4 307 | إِنِّي سَقِيمٌ.....(٩٠) م وَإِنَّ لَهُ عِنْدَنَا لَزُلفى.....(٤١) فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ (۷۳) وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ...(۷۸) الزمر 572 607 383 نُكِسُوا عَلَى رَءُ وُسِهِمُ...(٢٦) وَجَعَلْنَا هُمْ أَئِمَّةً يُهْدُونَ بِأَمْرِنَا (۷۴) المؤمنون وَالَّذِينَ هُمْ لَا مَانَاتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَاعُونَ.....(1) وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُون....(١٠) النور وَلَا يَأكل أولُوا الفَضْلِ مِنكُمُ...(٢٣) الفرقان 575 قُلْ يَعِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا....( ۵۴ )34 مومن وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُون.....(۶۴) 328،206 | ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ...(۱) قُلْ مَا يَعْبَؤُا بِكُمُ رَبِّي (۷۸) الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ......(۴) القصص تِلكَ الدَّارُ الآخِرَةُ نَجْعَلُهَا.....(۸۴) الروم فَلا يَرُبُوا عِندَ اللهِ....(٤٠) 371 212 385 حم السجده 426 إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا....(۳۳/۳۱) 63 79.151.351.474 وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِمَّنْ دَعَا.....(۳۴)85،51،6 وَلَا تَسْتَوِي الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ....(۳۶،۳۵) الشورى 87.148 87 36.16.13 311 23 23 339 448 ظَهَرَ الفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْر...(٤٢) السجده تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ...(۲۰۱۷) الاحزاب 172 406.235 393 لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أَسْوَةٌ حَسَنَةٌ (۲۲) 19 فَمَنْ عَفَا وَأَصْلَحَ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ (۳۱) الدخان ذُقْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْكَرِيم (۵۰) الجاثیہ وَقَالُوا مَاهِيَ إِلَّا حَيَاتُنَا الدُّنْيا....(۲۵) محمد أَفَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ.....(۱۲۱۱) ذَلِكَ بِأَنَّ اللَّهِ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا...(۱۲) الفتح أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّار....(۳۰) النجم 493.397.208 342 589 363 601 فَمِنْهُمُ مَنْ قَضَى نَحْبَه.(٢٣) الَّذِينَ يُبَلِّغُونَ رسالتِ اللهِ (٢٠) يَأْيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا اَرْسَلْنَكَ...(۴۶ ،۴۷) إِنَّا عَرَضْنَا الْآمَانَةَ...(۷۳) الصافات
615 597 5 دَنَا فَتَدَلَّى فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْن....(۱۰۹) 471،602 - إِنَّهُ لَقَولُ رَسُولٍ كَرِيمٍ...(۱۹-۲۹).......إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ...(۳۳) فَلا تُرَكُوا أَنْفُسَكُمُ (۳۳) 21 365 الطارق إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيْدًا (۱۲-۱۸)......الرحمن كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ...(۲۳) الحشر وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ نَسُوا الله...(۲۰) وَتِلْكَ الْأَمْثَالُ نَضْرِبُهَا....(۲۲) الجمعه هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ (٢٣) المنافقون إِذَا جَاءَ كَ المُنَافِقُونَ.....(۲) الملک تَبَارَكَ الَّذِي بيده المُلك...(۵۲) المعارج إِنَّ الْإِنْسَانَ خُلِقَ هَلُوعًا....( ۲۰ تا ۲۹) نوح 430 198 109 234.457 الاعلیٰ سَيَذْكُرُ مَنْ يُخْشَى (1) الغاشیہ إِنَّمَا أَنْتَ مُذَكِّر...(۲۲-۲۵) الضحى وَوَجَدَكَ ضَالَّا فَهَدَىٰ (۸-۹) القدر 298 إِنَّا أَنزَلْتُهُ فِي لَيْلَةِ الْقَدْر.....(۲۲) 480 375 قَالَ رَبِّ إِنِّي دَعَوْتُ قَوْمِي....۲ تا ۲۳) 258،257 المدثر فَرَّتْ مِنْ قَسْوَرَة.....(۵۲) القيامه بَلِ الْإِنْسَانُ عَلَى نَفْسِهِ بَصِيرَةٌ...(۱۵،۱۶) الدھر لَا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاءً وَلَا شُكُورًا (١٠) المرسلت وَإِذَا الرُّسُلُ القَتْ....(۱۳) التكوير 113 21 178 البينة فِيهَا كُتُبٌ قِيِّمَةٌ (٢) وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا الله (1) العصر 590 206.205 471 363 426 571 وَالْعَصْرِهِ إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ....(۴۲) 235، 205 الماعون فَوَيْلٌ لِلْمُصَلِّينَ الَّذِين هُمُ (۸۵) النصر إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ (۲۲) ابتلاء 1 237.438 190 513 302 ربنا اللہ کہنے والوں پر اندرونی اور بیرونی ابتلاء 66،64 ابرار
6 ابرار کے ساتھ موت آنے کی دعا اسلام کی فتح کیلئے ابرار ہونا پڑے گا ابرار کا دوسرا نام اولیاء اللہ ہے ابراہیم علیہ السلام 355 اللہ تعالیٰ نے فخر سے بیان کیا کہ ہم نے ابراہیم کو رشد 356 عطا کی تھی 299 357 بتوں کے بارہ میں آپ کا قول جھوٹ سے پردہ اٹھا رہا ہے 290 ، 297 296 297 299.302.306 307 308 309 ابو الیسر 294،295 ،274،275 ،268 267 266 265 164 ایک دبلے پتلے کمز ور صحابی نے عباس کو قیدی بنایا آنحضور نے فرمایا ایک مَلَكٌ كَرِيمٌ نے تیری مدد کی حضرت امام ابوحنیفہ آپ بہترین تاجر تھے 310 311 312.454.455.457.460.462.619 265 آپ نرم دل اور رحم کرنے والے تھے قوم لوط کی ہلاکت پر اللہ تعالی سے بحث بائبل میں اللہ سے بحث کا تفصیلی ذکر نمایاں خوبی آپ کی سچائی دوسری خوبی توحید سے عشق تیسری خوبی محبت میں کمال بعض مفسرین نے آپ کے نقص بیان کئے ہیں آپ تو حید کے علمبردار تھے 265 ابوسفیان 266 ابوسفیان کی بیوی ہند کی معافی 306 ہندا ابوسفیان کی چوری کر لیتی تھی 306، 309 غلاموں کو عزت ملنے پر ذلت محسوس کی 307 | حضرت عمرؓ کے پاس جا کر ذلت کا حل پوچھا 307 309 رض حضرت ابو ہریرہ آپ کے بارہ میں بنائی جانے والی کہانی 310 اجل مسمى 76 167 77 177 10 11 14 14 331 285 غلط الزامات کی تردید آپ نے خانہ کعبہ کوشان بخشی آپ نے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا آپ کا عظیم الشان تو کل آپ نے بیوی بچوں کو غیر آباد دجگہ پر چھوڑا خواب دیکھ کر سفر حجاز شروع کیا خانہ کعبہ کے کھنڈر تلاش کر کے تعمیر شروع کی ابراہیمی صفت آنحضرت کی بعثت کیلئے چار دعائیں 308.310 619 454 455 455 460 460 احد جنگ احد میں سرخ پگڑیوں والے فرشتے 76 جنگ احد میں عکرمہ نے مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا 102 احرار حضرت مصلح موعود مشکل میں قادیان کے احراریوں کی بھی مدد کرتے تھے 462،164 سید احمد بریلوئی 93 220 21 2 21 احساس کمتری نصیحت قبول نہ کرنے والوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے احساس کمتری کا شکار شخص اپنے دفاع کیلئے عذر اور جھوٹ بولتا ہے 457 457 274.275.294.296.299 294 سورۃ جمعہ حضرت ابراہیم کی قبولیت دعا کا اعلان اپنی قوم سے مجادلہ گہری حکمت و فراست کے مالک 295 بتوں کے خلاف تدبیر
7 ہم روایتی کھیلوں کے بارے احساس کمتری کا شکار ہیں 218 احسان احسانات کی دو قسمیں آنحضرت کے احسان لامحدود ہیں آنحضرت عظیم محسن کہ قوموں کی گردنوں کو طوقوں سے آزاد کر دیا احسن قول احسن قول کی قسمیں قرآن احسن قول کو پیش کرتا ہے بہترین دلیل پیش کرنا احسن قول ہے 625 استقام استقامت کے معنی ربنا اللہ کے مدعی اور استقامت 66 65 626 | استقامت دکھانے والوں پر فرشتوں کا نزول 75، 67،70 استقامت دکھانے والوں کو جنت کی بشارت 637 صحابہ کرام نے استقامت کے عظیم نمونے دکھائے جماعت احمدیہ استقامت کی روشن تاریخ بنا رہی ہے احمدیوں کو استقامت دکھانے والا داعی الی اللہ بننا ہے 90 90 91 8888 حضرت سید عبد اللطیف شہید کابل کی استقامت حضرت صاحبزادہ نعمت اللہ شہید کابل کی استقامت 70 67 68 74 68 69 سب سے زیادہ آنحضرت کا پیغام احسن قول تھا 98 تمام دنیا کی جماعتیں استقامت کے واقعات احسن قول کے باوجود آپ کی سب سے زیادہ مخالفت ہوئی 98 مرکز بھجوائیں مناظرہ میں احسن قول، تقویٰ اور سچائی دلیل میں احسن قول که احمدی داعیان ایک ایک دلیل پر عبور حاصل کریں اخلاق اخلاق کو درست کرنے کا طریق حقوق العباد ادانہ کرنے والی مذہبی جماعتیں اخلاق سے عاری ہوتی ہیں ارارات کوہ ارارات پر کشتی نوح کی تلاش 92 اسماعیل علیہ السلام 84 198.199.454.455.456.619 92 | آپ نے خانہ کعبہ کوشان بخشی آپ اپنے گھر والوں کو نماز کی تعلیم دیتے 519 سید اسماعیل شہید 603 تیرا کی کے کھیل میں سکھ کو شکست دی استنباط 619 198 220 حضرت مسیح موعود کے استنباط سے اختلاف کا کسی کو حق نہیں 234 271 میرے استنباط سے کوئی اختلاف کرے تو اس کا حق ہے 234 اسراف ارتقاء ارتقاء صفت رحیمیت کا کرشمہ انسانی ارتقاء کا خلاصہ 521 496 قرآن کریم نے اسراف سے منع کیا ہے جماعت احمد یہ اسراف سے کام نہ لے دشمن کی بات اس کے منہ سے بیان کرنے کا طرز استدلال 311 اسقاط حمل اسلام استرا استرے سے ٹنڈ کروانا بے ہودہ چیز سمجھا جاتا تھا 502 ایک مکمل اور منضبط مذہب اسلام کا بلند مقام استغفار 530 632 632 469 492 458
# 44 44 203 204 8 صرف تزکیہ والے لوگ ہی اسلام میں داخل ہونگے اسلام سائنٹیفک مذہب ہے اسلام نے سائنسی طور پر برائیاں کاٹنے اور خوبیاں مغربی سوسائٹی میں اسلام کا غلط تصور 491، 353 ظالم مردوں نے اسلام کو ظالم مذہب کے طور پر پیش کیا آنحضرت کے مطابق اسلام کے پہلے تین سو سال ابھارنے کی کوشش کی 491 | روشن ہیں تعلیمات حضرت مسیح موعود کا سورۃ العصر سے استنباط کہ توحید کا تصور 487، 479 اسلام کا ہزار سال تاریکی اور گھاٹے والا ہے اسلام میں پردہ پوشی کا مضمون 492 ہزار سال کے بعد روشنی کی پوچودہویں صدی کے اسلام کے دعوی کی دوشرائط دعوت الی اللہ اور عمل صالح 57 سر پر پھوٹے گی اسلامی اطاعت کی روح اسلام کے نام پر غیر مسلموں کو قتل کرنے کی غیر اسلامی تعلیمات اقتصادی نظام اسلام کا مالی نظام اسلام کسی فرضی مالی نظام کو تسلیم نہیں کرتا زکوۃ یعنی انفاق فی سبیل اللہ کی تعلی.قرضہ حسنہ کی تعلیم اسلام کا مالی نظام دنیا میں پنپ سکتا ہے اسلامی مالی نظام کے نکات انفاق سے اموال میں برکت سودی نظام جنگ کے مترادف اسلام کے مالی نظام کے لئے دیانتداری کی شرط 507 نشاة ثانيه اسلام کی ازسر نوعظمت کیلئے احمدیت کا پیغام 419 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا فرمان کہ اگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہوگی 170 جماعت احمدیہ کو حقیقت اسلام سے دلچسپی اور اسلام 171 سے سچا پیار ہے 204 44 554 469 171 ہم نے اسلامی معاشرے کے عملی نمونے پیش کرتے ہیں 46 171 اسلام کی فتح کے لئے ابرار ہونا پڑے گا 172 اسلامی تصورات کی عملی جھلک کا کسی قدرنمونہ ربوہ میں 173 دنیا کو اسلام کی طرف بلائیں 173 اسلام لازماً غالب آئے گا 173 اسلام کا غلبہ جماعت احمدیہ کی ذمہ داری 177 غلبہ اسلام کے لئے ہر احمدی کو مبلغ بننا ہوگا متفرق اسلام کے اقتصادی نظام کی خصوصیات 186 ، 179 178 356 47 139 139 438 58 جماعت احمد یہ دنیا میں اسلام کا مالی نظام جاری کرے 180 اسلامی تاریخ کا واقعہ کہ عورت کی پکار پر بادشاہ کی لشکر کشی 395 180 مجی میں اسلام احمدی سودی روپے سے نفرت کریں سودی کاروبار اسلام کے اقتصادی نظام سے مذاق ہے 183 اشتراکیت انحطاط روحانی کا دور تجارت کی غرض سے پیسہ لگانا جائز ہے اسلام میں بدعات کا آغاز غلط عقائد سے اسلام کو خطرہ جاپانی مسلمانوں کے غلط عقائد 185 عیسائیت نے اشتراکیت کو جنم دیا 517 اشتراکیت کے کھوکھلے نعرے 468 | اشتراکیت میں رائے عامہ کی حیثیت 468 اصلاح 537 58.250.437.595 58 437 595
655.552 28 28 28 68.69 69 359 186t170 215 621 9 اصلاح معاشرہ کیلئے ایمان لانے کا انتظار نہ کریں 97 افریقہ کے جنگلوں کے ہاتھی قول سدید کے بغیر اصلاح ممکن نہیں اطاعت اطاعت کا مضمون اور اس کے مفید نتائج اسلامی اطاعت کی روح حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا حضرت 561 افغانستان انگریز افغان جنگ ۱۸۵۵ء میں انگریزوں کو شکست 506 صوبہ سرحد کے احمدی کی افغانستان کے آرکیٹیکیٹ سے ملاقات 507 افغانستان کی روح آزادی کا علامتی مینار حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید کی افغانستان میں شہادت کابل میں صاحبزادہ نعمت اللہ صاحب کی شہادت اقتصادیات اقتصادی بدحالی کے باوجود مالی قربانی میں جماعت کا قدم آگے ہے اسلام کا اقتصادی نظام اقلیت تاریخ مذاہب بتاتی ہے اقلیتیں ہمیشہ جیتا کرتی ہیں الپ ارسلان مسلم حکمران 508 117 229 233 233 233 182 اللہ تعالیٰ رہستی باری تعالیٰ 182 179 اللہ تعالیٰ کا اسلامی تصور قرآن کریم نے ایک خدا کا تصور پیش کیا اللہ کا لفظ تمام مذاہب میں قدر مشرک رب کا تصور جدا جدا ہوتا ہے 482 108 108 108 108 110.149.399 150 176 146 289 آنحضور کا وہ رب ہے جس تک خود آنحضور پہنچے آنحضور اور موسیٰ کے رب کے تصور میں فرق لامتنا ہی خزانوں کا مالک ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے خلیفہ اسیح الثالث کی اطاعت کا بے مثل واقعہ اطفال الاحمدیہ اعداد سورۃ العصر میں لفی خسر کے اعدادہ ۹۸ بنتے ہیں علم اعداد کا مضمون احتیاط کا متقاضی ہے حضرت مسیح موعود کے علم اعداد کی تشریح کی بنیاد کشف الہی تھا.حضرت مصلح موعودؓ نے مقطعات کے اعداد کا استنباط آنحضرت کی تفسیر کی روشنی میں فرمایا افتاء ( نیز دیکھئے فتاوی) مجلس افتاء اور قائم شدہ کمیٹیاں سودی روپیہ کے بارہ حضرت مسیح موعود کا فتویٰ افراط زر سودی سرمایہ بڑھنے سے افراط زر بڑھتا ہے افریقہ 92.219.223.537.551.552.655 ایک افریقن مبلغ کا عیسائیت کے بارہ تجربہ افریقہ اور انڈونیشیا میں کبڈی رائج ہوسکتی ہے 92 219 افریقہ کے احمدی ڈاکٹروں کے کام میں برکت 223 اللہ تعالٰی بے انتہا فضلوں والا ہے افریقہ کے احمدی ہسپتالوں کی نیک شہرت افریقن ممالک کی قربانی 223 اللہ ایک نعمت ہے 551 ہستی باری تعالیٰ کے بارہ میں حضرت مصلح موعود افریقن قوم جنگلوں میں رہنے والی لوگوں کی خوراک 552 کا استدلال
10 ایک صاحب اقتدار ہستی 505 ربوبیت کے اندر کئی صفات آجاتی ہیں آنحضرت کو اپنے رب کی طرف بلانے کا ارشاد ہوا 108 | اللہ رب العالمین ہے ہر انسان کا رب مختلف ہوتا ہے رنگ کہنے میں حکمت 110 اللہ پرکسی کی ملکیت نہیں وہ سب کا رب ہے اللہ کار صفت رحمن 110 اللہ بندے کی طاقت کے مطابق اس پر ظاہر ہوتا ہے 110 قبولیت دعا اللہ کی رحمت کا نشان ہدایت یافتہ یا گمراہ ٹھہرانا اللہ کا کام ہدایت یافتہ کہنے کا حق صرف اللہ کو ہے اللہ انسان کے جسم اور روح کے درمیان حائل ہے اللہ نے بندے کو مایوسی سے منع کیا اللہ نے ہر بیماری کی خبر دی اور بیماریوں کے گھیرے توڑنے کی ترکیب بتائی کیا اللہ تعالیٰ سختیوں سے خوش ہوتا ہے 580 اللہ کی رحمت بہت وسیع ہے 125 اللہ کی صفت رحمت کا تمام صفات سے رشتہ 31 اللہ کی صفت رحمت ہر صفت پر حاوی ہے 34 33 اللہ کی رحمت ہر دوسری صفت پر غالب ہے 34 317 صفت رحمت ہر چیز پر حاوی ہے صفت رحیمیت 520 109.111 146 520.618 374 367 430 431 139 477 34.175.184.276-461-521-522-618 دہریہ سے بات خدا کی ہستی سے شروع کرنی پڑتی ہے 144 ارتقاء رحیمیت کا کرشمہ ہے جھوٹوں کو تباہ کرنا اللہ کا کام ہے حقیقی خدا کی طرف بلانے سے مصنوعی خدا کے پجاری مخالف ہو جاتے ہیں ربنا اللہ کا دعویٰ اور معنی اللہ کی طرف بلانے والے کی آواز سب سے مستحسن اور قابل تعریف ہے اللہ کی طرف بلانے والے کی تین شرائط 251 148 64 51 52 اللہ نے فخر سے بیان کیا ہم نے ابراہیم کو رشد عطا کی تھی 299 اللہ نے نوح کوشتی بنانے کا حکم دیا اللہ نے حضرت مسیح موعود کوکشتی بنانے کا حکم دیا صفات الهیه صفت اللہ اختیار کرنے میں تمام نصیحتوں کا نچوڑ صبغتہ اللہ کے بغیر نجات ممکن نہیں صبغۃ اللہ آنحضرت سے حاصل ہوتا ہے آنحضرت صفات الہیہ کے مظہر اتم سورۃ فاتحہ میں مذکور صفات الہیہ صفت ربوبیت 270 272 رحیمیت کے تابع بہت سی صفات ہیں تبلیغ کے پھلوں کا تعلق صفت رحیمیت سے ہے صفت مالکیت 521 522 521 387.472.480.518.522.523.524.605 حضرت مسیح موعود کا بیان کردہ صفت مالکیت کا مفہوم 523 اللہ تعالی احمدیت کیلئے مالکیت کے جلوے دکھانے کیلئے تیار ہے جبروت واقتدار صفت جلال صفت حاکم، اللہ تعالیٰ فیصلہ کرنے والا ہے حیی و قیوم احمدی کی زبان پر صرف خدائے حی و قیوم کا نام 37 جاری ہوتا ہے صفت خالق 37 524 585 348 291 291 402 22.145.436.472.481 520 | اللہ نے آغاز میں تخلیق کی خلعت بخشی 522 اللہ جنین کی ہر تبدیلی سے واقف ہے 109،111،520 ،64 | اپنی تخلیق کی کھنہ سے واقف 22 22 22 436
خالق کو اپنی مخلوق سے طبعی محبت ہے صفت خبیر صفت روف عالم الغيب صفت علیم صفت غالب صفت غفور اللہ وسیع مغفرت کرنے والا ہے صفت سمیع و علیم پکارنے والے کی پکار کو سننے والا دعاؤں کو سننے والا 11 145 436.659 184 264.446 436.534.533 خدا تعالی ایک طاقتور دوست ربنا اللہ کے معنی تعلق باللہ اور نصرت الہی ربنا اللہ کا دعویٰ کرنے والے ربنا اللہ اور استقامت 481 ربنا اللہ کہنے والوں پر اندرونی اور بیرونی ابتلا اللہ تعالی آنحضرت پیر ارفع و اعلیٰ جلوہ گر ہوا آنحضرت اپنے رب سے اور آپ کا رب آپ 22.34.276.461 22 346 399 381 395 492 380.381.484 430 618 443 ایسی ذات کہ جب بھی پکاریں موجود پائیں گے صفت ستار صفت قادر صفت قدر صفت قہار کن فیکون کا مالک سے پیار کرتا تھا آنحضرت کا شمار صبر اللہ کی خاطر تھا نور نبوت سے آنکھ خدا کو دیکھتی ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑیں اللہ تعالیٰ سے تعلق کے بعد معجزہ پیدا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو پانے کی شرط خدا تعالیٰ کو پانے والوں کی تین منازل خداوالوں کی علامتیں مذاہب کا آخری پھل اللہ کی محبت اور اس کا ذکر 659 بر احمدی اللہ کا ہونے کی کوشش کرے اللہ کی خاطر راتیں جاگنے والوں کو آنکھوں کی ٹھنڈک عطا ہوگی 167 64 64 65 64.65 111 154 129 659 303 510 473 475 354 650 470 صفت لطیف صفت مصور معطی بغیر قید اور پابندی کے عطا کرنے والا صفت مولی 654 399 448 اللہ کی غلامی ہزار غلامیوں سے نجات بخشتی ہے عشق الہی کی آگ رمضان میں خوب بھڑکتی ہے خدا کو پالینے کا سب سے اعلیٰ قرآنی مقصد رمضان اللہ نے مولیٰ کے مقابل پر بندوں کیلئے ولی کا لفظ رکھا ہے 450 صفت مومن واحد واسع وسعتوں اور طاقتوں کا سر چشمہ اللہ نے انسان کو وسعتیں عطا کیں اللہ نے انسان کو تدبر کا ملکہ عطا کیا صفت ولی 608.609 480 440.443.533.534 443 440 441 348 سے وابستہ ہے ذکر الہی کا مضمون جلسہ سالانہ پر ربوہ کو ذکر الہی سے رونق بخشیں 400 401 338 326 649 650 ذکر الہی زبان کی ناپاکی سے بچانے کی متبادل خوبی ہے 412 ذکر الہی اور درود شریف کی طرف توجہ احساس نعمت پر حمد الہی اور مورد تسبیح و تحمید کے بغیر فتح ممکن نہیں 412 221 516.519
12 اپنے سینوں کو تسبیح وتحمید سے بھر دیں خشیت الہی کا مضمون خدا تعالی سے ڈرنا بہادری ہے خوف خدا نہ ہونے سے تباہی آتی ہے 530 امانت 589 امانت کے بنیادی معافی 593 مذہب کا دوسرا نام امانت 594 زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی خلق 590 نصیحت اللہ سے ڈرنے والے حاصل کرتے ہیں قرآن کریم نے ہدایت کو خوف خدا کے ساتھ پابند کیا ہے 590 اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں داعی الی اللہ ، اللہ کا یقین پیدا کرے اللہ کے بندوں کو اللہ کی نصرت ملتی ہے خداوالوں کی تعظیم ملائکہ ذوالجبروت کرتے ہیں اہل اللہ کو اللہ کی نصرت کبھی تنہا نہیں چھوڑتی تو کل کامل ہو گا تو نصرت الہی ہمیشہ ساتھ دے گی خدا تعالی کی نصرت کے واقعات اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا مشاہدہ زورسے متی نصر اللہ کی آواز بلند کرو کہ الا ان نصر اللہ قریب کی آواز آئے 215 106 505 قرآن میں مذکور امانت سے مراد کامل شریعت امانت کا مضمون تمام شریعت پر حاوی امانت کا حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں سے تعلق حضرت مسیح موعود کے بیان فرمودہ امانت کے معنی آنحضرت کامل امین 357 امین اللہ کا صفاتی نام نہیں ہے 166 166 515 605.607 603 603 603 615 615 605 606-612-616.617 608 609 608 611 امین بنے بغیر کوئی مومن نہیں بن سکتا جماعت احمد یہ ساری دنیا کے حقوق کی امین امانت اور قرض میں فرق 528 | لین دین میں حق امانت کی ادائیگی عہدے بھی امانت ہیں 349 مومنوں کو حالت خوف میں اللہ کی مدد کا یقین ہوتا ہے 401 امانت کے اعلیٰ معیار بنا ئیں ہر نبی امین ہوتا ہے اللہ کے فضل سے آج جماعت پر سورج غروب نہیں ہوتا 84 آنحضور کی شان امانت 610 611 612.613 605.616 618 620 621 620 620 621 621 621 622 624 آپ نے خانہ کعبہ کی چابیاں اس خاندان کو دیں جس کے پاس پہلے تھیں آنحضور نے امانت کے طور اطوار سکھائے آنحضرت کی تربیت سے چھوٹے بچے بھی امانت کے حق کو سمجھ گئے حضرت انس بن مالک کی امانت داری کا واقعہ 473 40 610 109 109 غنی اللہ کی طرف سے عطا ہوتا ہے اللہ کی رضا کی خاطر اعمال کرنے کی دعا کرنی چاہئے خائن کا اللہ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے غیر مذاہب میں اللہ تصور موسیٰ کا رب بنی اسرائیل کے خدا کے طور پر ظاہر ہوا ہندو دھرم کا خدا کرشن کو مظہر بنا کر ظاہر ہوا کنفیوشس کا خدا چین کے لوگوں کیلئے تھا 109 مسلمان بادشاہ کی امانت کا غیر معمولی واقعہ ایران میں زرتشت کا خدا ظاہر ہوا مشرقی مذاہب میں خدا کا تصور نیکی اور بدی کے خدا کا تصور قوت کے ہر سر چشمہ کو خدا بنانے کا تصور 110 آنحضور کی پیشگوئی کہ آئندہ زمانہ میں امانت 467 ضائع ہو جائے گی 481 مسیح موعود کی آمد کی نشانی کہ بددیانتی عام ہوگی 481 | حضرت مسیح موعود کو الہاما امین کہا گیا حضرت مسیح موعود نے امانت کا حق ادا کر دیا
13 حضرت مسیح موعود کی امانت کا ایمان افروز واقعہ 612،622 | امریکی پولیس کی تحقیق قضا کے جھگڑوں کی وجہ امانتوں میں کمی ہے 607 لیق احمد بٹ صاحب آف امریکہ خائن کا اللہ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے خیانت شفاعت سے محرومی ہے 418 418 610 بلیک مسلم آرگنائزیشن احمد یہ مشن امریکہ شہید کرنے کی ذمہ دار 419 610 امریکہ میں خوف و ہراس کی لہر امانت کے موضوع پر الفضل میں مضامین کی اشاعت 615 | امریکہ کی تحقیقی ایجنسیاں ایمان افروز واقعات امانت ہیں انہیں محفوظ کرنے امریکہ میں قاتل کو پھانسی نہیں دی جاتی 419 419 420 کی ضرورت 83 ۳۰ فیصد لوگ بچوں کو جنسی مظالم کا نشانہ بنارہے ہیں 503 امتحان سابق امریکی صدر جمی کارٹر احمدی بچے کامیابی کے دعائیہ خط لکھتے ہیں امریکی لیڈروں کی بے اختیاری دنیا دار امتحان میں کامیابی کی سفارش ڈھونڈتے ہیں امداد امداد لینے والی اقوام پابندیوں کی زد میں آتی ہیں 396 396 امریکہ کینیڈا کی فضا میں سلفر بڑھ گئی ہے 595 595 655 امن 399 ہم زمین میں امن قائم کرینگے اموی دور 388 409 امداد سے بننے والے کارخانوں کے فالتو پرزے نہیں ملتے 399 امیر امیر مقامی کا تقرر امریکہ خطبہ جمعہ امیر کا حق ہے 434 434 86 195 سفر کے دوران حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب 540 23 23 135.136.146.155.175.222.401.402.418 419.420-503-551.553.595.655 135 135 امریکہ کے صدر امریکہ کے صدر سے ایک سائنسدان کی ملاقات 136 امریکن بلاک روس امریکہ پر حملہ کر دے تو وہ تباہ ہو جائے امریکہ میں سونے کی تلاش میں لڑائیاں ہوتی تھیں حضرت مولوی محمد دین صاحب امریکہ دعوت الی اللہ کیلئے بھجوائے گئے امریکہ میں 120 من فی ایکٹر مکئی کی پیداوار امریکہ اور یورپ کی قو میں صنعت میں آگے ہیں امیر مقامی بعض امراء نماز کے وقت میٹنگ کرتے ہیں امیر جماعت نبی 136 الوداعی تقریر 146 انانیت انانیت کا داغ دھو کر انسان اللہ کا رنگ پکڑنے کا 155 اہل ہوسکتا ہے انبیاء علیہم السلام 175 222 قرآن کریم نے مختلف انبیاء کو مختلف صفات حسنہ سے امریکہ بظاہر آزاد قوم لیکن ہزاروں قیود میں جکڑی ہوئی ہے 401 متصف کیا امریکہ میں خوف بہت زیادہ ہے 402 انبیاء کو امام اور مہدی بنایا گیا ڈاکٹر مظفر احمد صاحب آف امریکہ کی شہادت 418 انبیاء کی تعلیم کا خلاصہ 306 572 572
79 80 466 466 466 219 14 ہرنبی امین ہوتا ہے ہر نبی اپنی قوم کا حسن ہوتا ہے خیرات کرنا انبیاء کی فطرت میں بدرجہ اولی ہوتا ہے 616 مولوی رحمت علی صاحب مبلغ انڈونیشیا کی قربانی 625 مولوی رحمت علی صاحب کی دعا سے انڈونیشیا میں آگ 384 بجھنے کا واقعہ.جماعت کا بنیادی عقیدہ کہ نبی معصوم ہوتا ہے 312،314، 297 حضور کے انڈونیشیا نہ جا سکنے کی حکمت اللہ تعالیٰ نے انبیاء کو خائن کی سفارش منع کر دیا انبیاء کو سکھایا جانے والا طریق تبلیغ 610 انڈونیشیا نہ جاسکنے کے بارے میں احمدیوں کے رویا 475 انڈونیشیا میں احمدیت کی فتح کے پروگرام انبیا ء اپنے منکرین کی بھی اصلاح کرتے ہیں 634 | انڈونیشیا میں کبڈی رائج ہوسکتی ہے انبیا ءسب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں 634 انبیاء نے نیکی پھیلانے کیلئے قوم کے ایمان لانے انذار کا انتظار نہیں کیا انبیاء کی نصیحتوں میں فطری دلائل پر زور دیا گیا ہے اکثر اقوام تعجب کی بنا پر انبیاء کا انکار کرتی ہیں 96 242 243 قرآن کریم میں انذار و تبشیر انجينرز 435 احمدی انجینئر زر بوہ میں سستے اور سادہ گھر تجویز کریں 162 انبیاء تکلیف اٹھا کر بھی قوم کیلئے دعا کرتے ہیں 265 کراچی کے احمدی انجینئر نے مشرقی پاکستان قرآن کریم میں موجود انبیاء کے واقعات قصے کہانیاں نہیں ہیں میں ستے مکان بنانے کا منصوبہ شروع کیا 267 ستے مکان بنانے کی تکنیک پر انجینئر زمقرر کئے انبیاء، ہمیشہ دوطرفہ آزادی کے قائل رہے 251 جاچکے ہیں انبیاء کھلی فضا کا تصور پیش کرتے ہیں انبیاء کے مخالف دلائل سے عاجز آ کر جنگ پر آمادہ ہوتے ہیں انبیاء کو بے وطن کرنے کی دھمکی انبیاء کے مخالفین نے متکبرانہ طرز عمل اختیار کیا انبیاء کی آمد کے وقت لوگ انتہائی گناہگار ہو چکے ہوتے ہیں قرآن میں انبیاء کے غلبہ کی دو اقسام قرآن کا احسان کہ سابقہ انبیاء کی دعا ئیں محفوظ کر دیں 252 احمدی انجینئر ز تجرباتی طور پر ربوہ میں چھوٹے اور سستے 290 284 گھر بنا کر دکھائیں 300 آرکیٹیکٹس و انجینئر ز کوستے موزوں مکان و بنانے کی دعوت حضرت انس بن مالک امانت داری کا ایمان افروز واقعہ 285 139 426 205 انصار الله اجتماع انصار اللہ مرکزیہ کا آغاز ربوہ کے انصار و خدام 161 162 163 574 620 557.559 563 تاریخ انبیاء پر نظر ڈالنے سے سبق ملتے ہیں آنحضرت کے ساتھ سارے انبیاء کی کہانی دہرائی جانی تھی جماعت احمدیہ کا مقابلہ سب انبیاء کی اقوام سے ہے انڈونیشیا 267 جلسہ سالانہ ربوہ پر صفائی کیلئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ 302 اور صدر ان محلہ کی کمیٹیاں بنیں انصار مد بینہ 566 540 جنگ بدر میں انصار مدینہ کا آ نحضرت سے عہد ووفا 79.80.219.466.467.470
500 198 200 357 353 342 631 632 278 278 655 656 134 135 102 102 414 110 15 انفاق فی سبیل اللہ انفاق سے اموال میں برکت انفاق کرنے والے متقی اور منصف ہونگے جو سب کچھ اللہ کی راہ میں دیتے ہیں اللہ ان کو مالدار بنا دیتا ہے اولاد ( نیز دیکھئے والدین) 174 حضرت مسیح موعود کی اولاد کیلئے دعا کہ ان 179 پر رعب دجال نہ آوے باپ اپنی اولاد کی تربیت کا ذمہ دار ہے 248 خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو غافل والدین کے بچوں اپنی صلاحیتوں کو خرچ کرنا بھی انفاق فی سبیل اللہ ہے 226 کی تربیت پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے پاک کمائی وہ ہے جس سے انفاق فی سبیل اللہ ہو 397 | اولیاء اللہ انفاق میں جماعت کی غیر معمولی بیداری 188 فرشتوں کے ذریعہ دلوں میں مالی تحریک افریقن ممالک کی قربانی ابرار کا دوسرا نام اولیاء اللہ ہے 550 اللہ کے دوست بننے کیلئے جرم کی بیخ کنی ضروری ہے 551 اولیاء اللہ خدا کی خاطر سب کچھ قربان کر دیتے ہیں انکساری اونٹ نصیحت قبول کرنے کیلئے عجز وانکساری پیدا کرنی ہے 23 اونٹ کا خیمہ میں داخل ہو کر مالک کو باہر نکالنا 24 اونٹ کے خیمہ میں داخل ہونے کی طرح علم سے ہمیشہ انکسار پھوٹتا ہے مونچھیں بڑھا کر بات کرنے کی بجائے عاجزی اختیار کریں 382 | رسوم و رواج داخل ہوتے ہیں انگریز انگریز قوم کالباس اہل بیت 502 اہل بیت کی تعریف اللہ تعالیٰ نے نوع کو کہا تیرا بیٹا تیرا اہل بیت نہیں انگریز آرکیٹیکٹ پر حضرت صاحبزادہ سید عبداللطیف شہید کی شہادت کا گہرا اثر انگلستان / برطانیہ 29 ایٹم بم ایٹم کے فضلہ پھینکنے کا مسئلہ 69.135.136.273.401.509.551.552.553,569 اخبار ڈیلی میل انگلستان کا نمائندہ حضرت صاحبزادہ عبد اللطیف کے واقعہ شہادت کا گواہ انگلستان کے وزیر اعظم 69 135.136 اٹامک انرجی کے خطرات جاپانی شہروں پر ایٹم بموں کے حملے ایٹم بموں کے بداثرات ایثار ( نیز دیکھئے قربانی) تین زخمی صحابہ کے ایثار کا نمونہ انگلستان کا ایک عظیم بحری جہاز جو پہلے سفر میں ہی ڈوب گیا 273 عکرمہ نے ایثار کا شاندار نمونہ دکھایا میاں بیوی میں ایثار و محبت ایران 509 453 540 ایران میں زرتشت کا خدا ظاہر ہوا انگلستان میں نیوائیر منانے کا منظر چوہدری انور حسین آف شیخوپورہ اوکاڑہ ناصر احمد شہید کا تذکرہ
16 جنگ بدر میں کفار مکہ کے ایلچی نے کہا میں نے ۳۱۳ موتیں دیکھی ہیں ایمان انبیاء نے اصلاح اور نیکی پھیلانے کیلئے قوم کے ایمان کا انتظار نہیں کیا داعی الی اللہ قو میں ایمان لانے کا انتظار نہیں کرتیں ایمان بالغیب آنحضور سے سیکھو احمدیت / جماعت احمدیہ قیام کے مقاصد اور مقام اسلام کی از سر نو عظمت کیلئے احمدیت کا قیام ساری دنیا میں اللہ کی حکومت کا قیام ہماری دلچسپی ہے جماعت احمدیہ علو کی خواہش مند نہیں ہمارا مقصد حیات آنحضرت کی پیروی اور آپ کے انقلاب برپا کرنا ہے اللہ کی ہدایت کے مطابق بنائی گئی کشتی 165 96 97 جماعت پر انگریز کا خود کاشتہ پودا ہونے کا الزام پاکستان میں جماعت اور خلیفہ کے خلاف قتل و غارت کی تعلیم فنجی میں جماعت احمدیہ کی مخالفت منی میں حضرت مسیح موعود کے متعلق منفی لٹریچر 420 335 525 525 اللہ احمدیت کیلئے مالکیت کے جلوے دکھانے کیلئے تیار ہے 524 سب قوموں کا خدا جماعت کے ساتھ ہے جماعت احمدیہ کی قبولیت دعا 303 374 188 آگ کے گلزار ہونے کی سب سے بڑی گواہ جماعت ہے 301 ظاہری و باطنی آگ حضرت مسیح موعود اور آپ کے 44 389 غلاموں کی غلام بن کر رہے گی امریکہ میں احمد یہ مشن ہاؤس کو شہید کرنے والے خود ہلاک ہو گئے 301 418 390 احمدیت کی کامیابی خدا تعالیٰ کی تقدیر کا اٹل فیصلہ ہے 423 آج اللہ کے فضل سے جماعت پر سورج غروب نہیں ہوتا 84 140 احمدیت کے غلبہ کی تقدیر اٹل ہے 272 جماعت احمدیہ کا شاندار مستقبل کشتی نوح حضرت مسیح موعود کی تعلیم جس نے جماعت احمدیہ تمام دنیا کی جماعتیں استقامت اور نزول ملائکہ کی صورت میں تجسم کیا 272 141 کے واقعات اکٹھے کر کے مرکز بھجوائیں جماعت میں پاک تبدیلی احمدیت کی بیداری سے دنیا ہلاکت سے بچے گی آئندہ مورخ لکھے گا کہ دنیا کی نجات احمدیت کے ذریعہ ہوئی 141 جماعت احمد یہ کولیلۃ القدر آنحضرت کی صورت اس دنیا کو جنت بنانے والے صرف احمدی ہونگے 415 | میں مل جائے جماعت احمدیہ کا مقابلہ سب انبیاء کی اقوام سے ہے 302 جماعت احمد یہ نور نبوت کا احسان ہے 526،528 جماعت احمدیہ میں حیرت انگیز روحانی تبدیلیاں 349 احمدی زبان پر صرف خدائے حی و قیوم کا 402 | نام جاری ہوتا ہے احمدیت صداقت ہے جماعت احمد یہ بزدل نہیں جماعت احمد یہ دنیا کی واحد آزاد قوم احمدیوں اور غیر احمدیوں میں فرق 410 احمدیوں میں نیکی کی وجہ سے دفاع کی طاقت ہے مخالفت اور نصرت الہی ایک زندہ قوم جماعت پر ہونے والے اعتراضات 416 احمدیوں کی حسنات نبوت کی برکت ہے 167 303 84 373 660 541 402 410 411 514 جماعت احمدیہ کا آپس میں رشتہ مودت و محبت 528 جماعت احمدیہ استقامت کی روشن تاریخ بنارہی ہے 68،70
17 ہم اللہ اور اس کے رسول کی خاطر قربانی دینگے 336 مسجدوں کی آبادی کا خیال رکھیں جماعت مالی اور نفوس کی قربانی میں پیش پیش ہے 53 اسلام کا غلبہ اور جماعت کی ذمہ داری جماعت مالی قربانی میں آگے بڑھ رہی ہے 360 359 | جماعت کو اسلام سے سچا پیار اور حقیقت اسلام آمد نیوں کو چھپائے بغیر قربانی پیش کریں 359 سے دلچسپی ہے انفاق فی سبیل اللہ میں غیر معمولی بیداری بعض احمد یوں نے رویا دیکھ کر انفاق کی طرف توجہ کی جماعت احمد یہ پاکستان مخلص جماعت نجی کے ایک احمدی کا اخلاص نجی جماعت میں پاک تبدیلی اور عزم نو احمدی مستورات پردہ کی تحریک پر مستورات کا مثبت رد عمل آج احمدی عورت تاریخ احمدیت میں سنہری باب کا اضافہ کر رہی ہیں 188 احمدی رحمتہ للعالمین کے غلام رہیں گے 188 جماعت پر اسوہ رسول اپنانے کی ذمہ داری 542 جماعت احمدیہ کی کشتی کے خدو خال کی حفاظت 542 کی ذمہ داری 529 احمدیت کی حفاظت محبت سے کریں 39 خدا تعالی کے شیر بنیں احمدیوں کا اولین فریضہ دعوت الی اللہ ہے ہر احمدی بلا استثنا مبلغ بنے 511 438 469 387 17.37 279-273 493 476 130 130.140.141 40 بیمار دعاؤں کے ذریعہ تبلیغی جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں 140 احمدیوں کو مبلغ بننے کی ہدایت احمدی عورت دوسری عورتوں کی نسبت زیادہ خوش اور مطمئن ہے 47 نصائح اور ذمہ داریاں احمدی کے لئے تبلیغ نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں 510 478 ہر احمدی اللہ کا ہونے کا کوشش کرے احمدیوں کی آزادی اللہ کی یاد میں ہے نظام جماعت عبادت کا غلام ہوگا ہر جماعت کی عاملہ اور تنظیم قیام نماز کی ذمہ دار ہے سارا انتظام نماز کی طرف توجہ دلائے جماعت پر بے نمازی کارکن رکھنے کا جبر نہیں احمدی گھر نمازوں کی فیکٹریاں بن جائیں عبادت کے معاملہ میں بڑ کا درخت بننا چاہئے جماعت کے لوگ دعا سے غافل نہ ہوں اے احمدی! اس رمضان کو فیصلہ کن بنادو اس زور سے آہ و بکا کریں کہ عرش کے کنگرے بھی ملنے لگیں ہر احمدی روزے رکھے 470 510 192 194 192 193 200 200 389 349 349 327 بنی نوع کو ہدایت کی طرف جماعت احمد یہ بلائے 139، 138 دنیا کو بچانے کیلئے ساری جماعت داعی الی اللہ بن جائے 61،105 احمدیت کا پیغام پہنچانا فرض لیکن کسی کے پیچھے پڑنے کا حق نہیں احمدی معاشرے میں رعب رکھیں 206 500 دنیا کو بچانا احمد بیت کی ذمہ داری 137.138 جماعت نے دنیا کو تہذیب سکھانی ہے 504 دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کا عہد میں ہر احمدی داخل ہے 163 جو اللہ پر توکل نہیں کرتے ان کا جماعت احمدیہ میں کوئی کام نہیں جماعت کو نفوس کی قربانی کی زیادہ ضرورت ہے احباب جماعت قربانی کرنے والوں کیلئے دعائیں کرتے ہیں 186 164 54 احمدی خدمت کے ہر میدان میں آنحضرت کا جھنڈا 334 سب سے اونچا کریں رمضان احمدیوں کیلئے بہت ہی مبارک مہینہ تعمیر مساجد کے مقاصد اور جماعت احمدیہ 462 جماعت احمد یہ کوسب دنیا کیلئے امین بنایا گیا 577 608
18 جماعت اسراف سے کام نہ لے رسوم ورواج کے خلاف آواز بلند کرے احمدی اپنی عورتوں اور بچیوں کو سنبھالیں امانت کے معیار کو بلند کریں 613،624، 612 آسٹریلیا احمد یہ مشن تاریخ احمدیت کی اہم مسجد احمدیوں کے لئے سلامتی کے شہزادے بنے کی شرط د ہریانہ ماحول میں احمدیوں کے فرائض ہزار ہا احمدی ابھی لازمی چندہ میں شامل نہیں 497 555 632 628.636 510 452 358 مشرق بعید میں اسلام احمدیت کی ترقیات کے نئے دروازے حضور کے دورہ پنجی کے حالات و واقعات 466 515 535.538.539.540.542.543 جماعت احمد یہ فی کا تذکرہ نجی جماعت کے علم کلام میں اہمیت رکھنے والا ملک جماعت احمد یہ دعا گو اور صبر کرنے والوں کی جماعت ہے 211 جماعت میں صبر کرنے والے موجود ہیں صبر کے نتیجہ میں انقلاب احمدیت برپا ہو گا 236 239 جماعت کو صبر اور حق پر قائم رہنے کی نصیحت بھی میں احمدیوں کی تعداد جنھی پریس میں جماعتی کو ریج انڈونیشیا میں احمدیت کی فتح کے پروگرام 268 386 روس میں جماعت موجود ہے، ایک رسالہ کا اقرار دنیا میں ہر جگہ احمدی پائے جانے کا مطلب جماعت احمدیہ کے افرادسب سے زیادہ محب وطن ہیں 386 جماعت احمدیہ کا فرض کہ ہر ملک میں فساد کو دبائے کسی احمدی کا ہاتھ کسی داڑھی پر نہیں اٹھے گا 387 جماعت چین میں بھی ہے احباب پوری سخاوت کے ساتھ اپنے گر اور ہنر جماعت مشرقی یورپ میں بھی ہے 225 جماعت احمد بیلجیئم کا تذکرہ جماعت کو پیش کریں احمدی سائنسدان پوری دنیا میں نام پیدا کریں 222 ، 211، 25 سپین میں پانچ سو سال بعد بننے والی پہلی مسجد احمدی صنعت کار، تاجر، سائنسدان احمدی ایجادات اپنی نوع میں بہترین ہوں جماعتی تنظیموں کا کام کہ وہ تبدیلی پیدا کرنے والوں کیلئے نیکی کی راہیں آسان کریں جماعتی عہدے انفرادی تربیت کا ذریعہ جماعتی کارکنان کی ذمہ داریاں احمدیت کی ذمہ داری احمدیوں کی ذمہ داریاں جماعت احمد یہ فی کو نصائح تاریخ احمدیت 221 222 41 42 440 469 40 آنحضرت کے بیان فرمودہ مومنوں کی جماعت کا تصور 3 441 بادشاہ 493 اسلامی تاریخ کا واقعہ کہ عورت کی پکار پر بادشاہ کی لشکرکشی 395 حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں سالانہ بیعتوں کی تعداد 56 حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا دورہ مشرق بعید ۳۰ ستمبر ۱۹۸۳ ء احمد یہ مشن و مسجد آسٹریلیا کی بنیاد تاریخ احمدیت کا خاص دن 513 495 بادشاہ کی تلوار جو اشارے پر غلط بیانی کرنے والے کو ہلاک کرتی تھی پرانے زمانہ میں لوگ بادشاہوں کی دہائیاں دیا کرتے تھے 137 394 لاہور میں مستورات کے ساتھ ایک محفل سوال و جواب آج احمدی عورت تاریخ احمدیت میں سنہری باب کا اضافہ کر رہی ہے 492 432 436 529 466 55 55 55 55 552 572 44
19 بارش مولانا رحمت علی صاحب کی دعا سے انڈونیشیا میں بارش کے ذریعہ آگ بھیجنے کا واقعہ بھڑاس پیدا کرنے والی بارش نہ مانگیں رحم اور فضل کی بارش کیلئے دعا کی تحریک بازار کے حقوق بازار میں ٹولیاں بنا کر کھڑے نہ ہوں اونچی آواز میں کلام نہ کریں بازار میں پاک اذکار کئے جائیں گا ہک دوکان پر جم گھٹا نہ کریں گا ہک بحث مباحثہ اور تلخ کلامی نہ کریں دکاندار جائز منافع لیں 80 361 391 640 641 حضرت مصلح موعود کا بچوں سے عفو کا سلوک 447 جلسہ سالانہ کی ڈیوٹیوں میں بچوں کا والہانہ جذبہ خدمت 560 بدر 76.165.343.449 76 165 165 343 449 449 449 جنگ بدر میں فرشتوں کا نزول جنگ بدر میں ایچچی نے ۳۱۳ موتیں دیکھیں جنگ بدر میں مسلمانوں کی بے سروسامانی اور عزم جنگ بدر میں شامل نہ ہونے والوں کی حسرت جنگ بدر میں صحابہ کا شوق جہاد کافر پہلوان جنگ میں شمولیت کا خواہاں بدھ مت 641 | جنگ بدر۳۱۳ کمز ورصحابه 642 642 642 گا ہک دکان پر مستورات کو پہلے موقع دیں 642 سری لنکا میں بدھسٹ کی اکثریت گا ہک منافع خوری کی شکایت انتظامیہ کو کرے 643 مشرق میں بدھسٹ عیسائیت قبول کر رہے ہیں بداخلاق دوکانداروں کی دکانیں بند ہونی چاہئیں بالٹی مور، امریکہ کا شہر حضرت ابراہیم کی بتوں کے خلاف تدبیر بٹالہ 645 553 بدی بدی نیکی کے فقدان کا نام ہے بدیاں اور بے معنی چیز جھاگ ہوتی ہیں 439 467 404 406 408 404 450 295.297.299 بدی غالب آنے کا فلسفیانہ خیال 295 حسنات سے بدیاں دور ہوتی ہیں بر صغیر برف بٹالہ میں حضرت مصلح موعود کی دعا سے احمدی ٹیم کی فتح 224 بجٹ سال ۸۳-۱۹۸۲ء کا مالی گوشواره 358 برف دیکھنے کیلئے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا ڈلہوزی جانا گزشتہ سال کے بجٹ سے ۴۷ لاکھ زائد وصولی 359 بادلوں کے باوجود برفباری نہ ہوئی 90 391 برفانی علاقوں میں سردی کی حفاظت سے بچاؤ کے طریق 497 470 200 برما بڑ کا درخت بڑ کی شاخیں سے جڑوں کا پیدا ہونا 445 449 بچہ میں پہلوان اور ویٹ لفٹر بننے کی وسعت جنگ بدر میں بچے ایڑیاں اٹھا اٹھا کر خود کو جوان ثابت کر رہے تھے
382 382 13.246.649 13 ہو فضل تر ایا رب یا کوئی ابتلا ہو 20 20 200 جماعت احمد یہ بڑ کے درخت کی مانند بن جائے بستر بنانے کی سادہ ترکیب ، بستر ستا تو شک پرالی بھر ے میں تر اور دچھوڑ کر جاؤں کہاں کر بنایا جا سکتا ہے 564 حضرت بلال رضی اللہ عنہ بسوس، جنگ بنوتغلب اور بنو بکر کے درمیان لڑی جانے والی جنگ حضرت بلال پر مظالم کرنے والوں کو آنحضور حضرت مرزا بشیر احمد نے معاف کر دیا آپ کے نکاح پر مہمانوں کی تواضع 628 | بم حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ، الصلح الموعود ہزار ہا ملک بم دنیا میں بن چکے ہیں خلیفة المسیح الثانی 136 پورا انگلستان تین چار بموں سے تباہ ہو سکتا ہے 137 136 احمد یہ مشن ڈیٹرائیٹ امریکہ کو بم سے اڑایا گیا 233،234،288،289،325 ، 224 ، 220 ، 141، 93 | ہیروشیما اور ناگاساکی پر گرنے والے بموں 371،382،390،447618،623،628،629 کے ریڈیائی اثرات 648، 630 | ایٹم بموں کے بداثرات بچپن میں آپ نے حضور کی جیب میں ٹھیکریاں رکھ دیں 523 نائٹروجن اور ہائیڈ روجن بم کی غیر معمولی طاقت بچپن کا واقعہ کہ حضور علیہ السلام کی دعا سے بے موسمی پھل عطا ہوا آپ کی قبولیت دعا کا ایک واقعہ مخالف احراریوں کی مدد بھی کرتے تھے قیام مری کے دوران مولوی ظفر علی خان کا علاج کروایا 371 224 بنگلہ دیش رمشرقی پاکستان 418 134.135 135 135 465.623 حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا ۱۹۶۲ء دورہ مشرقی پاکستان 623 93 بنگلہ دیش میں طوفان کے بعد لوگوں کا سڑکوں سے 93 آپ نے بچوں کے ساتھ ایک مربی بطور منتظم ڈلہوزی بھیجا 390 بچوں سے عفو کا سلوک آپ نے بچیوں کے رخصتانہ پر تواضع منع کر دی ہستی باری تعالی کے بارہ میں آپ کا استدلال آپ کی مجلس عرفان قادیان میں دہریہ کی آمد مقطعات قرآنی کی لطیف تفسیر آپ کے تفسیری نکات 447 628 درخت اٹھانا بنو اسحاق بنوبکر 630، 629 | بنو تغلب 289 288 233 بھیڑا بھیڑیا پیر 623 455 9 9 387 618، 233 حضرت مسیح موعود نے سڑک پر گرا بیراٹھا کر کھانے سے منع کرفرمایا 612 56 119 بیعت حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں سالانہ بیعتوں کی تعداد خواب کے ذریعہ ایک غیر احمدی مولوی کی بیعت 646 141 آپ کی نظموں کی کیسٹس آپ کے اشعار غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
21 552 بینک بینک میں رکھا روپیہ بڑھتا نہیں بیماری ہر بیماری کی دوا ہے جسم کے اعضا کا تعاون اٹھنے اور توازن بگڑنے کا نام بیماری ہے دل اور گردے صحیح کام نہ کریں تو بیماریاں ہوں گی پارس پتھر 180 پاکستان 286 486 487 520 39.134.210.386.450.451.452.509.534 539.550.569.639.641.647 پردہ کی تحریک پر پاکستان کی مستورات کا مثبت ردعمل حضور کو پاکستان سے قابل فکر خطوط کی آمد ہمارا عزیز ، پیارا اور محبوب وطن پاکستان کی عجیب تاریخ 39 210 386 386 بیمار دعاؤں کے ذریعہ تبلیغی جہاد میں شامل ہو سکتے ہیں 140 یہاں بیرونی خطرات کے وقت اندرونی فسادات ہوتے ہیں 386 یہاں ہمیں مسلمان کہنے کا حق نہیں دیا جاتا 450 534.509 بيوت الحمد سکیم مسجد سپین کے شکرانے کے طور پر بیوت احمد سکیم کا اجراء 572,573 ہوائی سفر نہ کرنے کی صورت میں جرمانہ مسجد آسٹریلیا کی بنیاد پر بیوت الحمد سکیم کی یاد دہانی 573 | پاکستان کے مخلص احمدی بیوت الحمد صد سالہ جوبلی منصوبہ کا حصہ 576، 575 پاکستان اور آسٹریلیا کے درمیان کرکٹ میچ کی کمنٹری 647 575 پشاور، پاکستان کا ایک شہر بیوت الحمد کیلئے ایک کروڑ روپے کی تحریک صد سالہ جو بلی سے پہلے بیوت الحمد سکیم کے ایک پاگل پاگل پن کروڑ کے مکانات 757 پاگل پن کی تعریف 539 220 198 199 437 630 122 138 138 408 520 بیوت الحمد اور ایک ایک لاکھ روپے کا 575 خدا سے غافل ہونے کی سزا کہ اللہ نے پاگل کر دیا ایک پاگل کا قصہ جو اپنے آپ کو شیشے کا سمجھتا تھا وعدہ کرنے والوں کی ضرورت بیوت الحمد، حضور کی طرف سے ایک لاکھ کا ذاتی وعدہ 575 بیوت الحمد کی مبارک تحریک میں کثرت سے لوگوں کو شامل کریں اور سیکر ٹریان چار آنے بھی قبول کریں 576 رخصتانہ پر پانی، پان یا مٹھائی پیش کرنا سیکرٹریان بیوت الحمد کے بارہ حضرت صاحبزادہ مرز منصور احمد صاحب کی ایک رویا اور اس کی تعبیر پان 576 فصل کی آبیاری کے دویانی دو اس سکیم کے مکان مخلص مستحقین کے سپر د ہونگے 575 | پتھر بیوت الحمد سکیم سے 42 غرباء گھرانوں کی امداد 574 پتھر اور غاروں میں بسنے والے لوگ چوتھی عالمی جنگ پتھروں سے لڑی جائے گی پتھر کے زمانہ کا انسان 161 ربوہ کی خالی جگہیں بیوت الحمد کے کام آسکتی ہیں بیوگان بیوگان کی اور یتامی کی سر پرستی کا انتظام جماعتیں کریں 49 پارس پتھر
22 پٹرول طوفان نوح کا علاقہ بلند پہاڑوں والا تھا غانا میں موٹرمیں موجود اور پٹرول غائب ہے 551 پہلوان 276 پرالی ستا تو شک پرالی بھر کر بنایا جاسکتا ہے پرده پردہ کی تحریک پر مستورات کا مثبت رد عمل پردہ کی تحریک کا غیر از جماعت سوسائٹی پر اثر پردہ پوشی اللہ عیوب کو ڈھانکنے والا اسلام میں پردہ پوشی کی اہمیت پریس رذرائع ابلاغ بھی پریس میں جماعتی کو رپیج اخبار ڈیلی میل انگلستان کا نمائندہ پشاور پگڑی جنگ بدر میں سیاہ پگڑیوں والے فرشتے جنگ احد میں سرخ پگڑیوں والے فرشتے پلاٹس 564 39 24 40 492 492 529 بچے میں پہلوان بننے کی وسعت عرب کا مشہور کا فر پہلوان کو جنگ بدر میں مسلمانوں کی طرف سے لڑنے کی اجازت نہ ملی پھل ایک ہی زمین میں شیریں اور بدمزہ پھل کا اگنا تاریخ 445 449 657 تاریخ انسانی میں خانہ کعبہ کی تعمیر کے واقعات محفوظ نہیں 454 قرآن کریم نے تاریخ انبیاء محفوظ کی تاریخ عالم کی گواہی کہ خدا کے نام پر مرنے 69 والے ہلاک نہیں ہوئے 220 تاریخ اقوام کا مطالعہ کریں 242 346 347 76،502 تاریخ مذاہب بتاتی ہے کہ اقلیتیں ہمیشہ جیتا کرتی ہیں 215 76 اسلامی تاریخ کا واقعہ عورت کی پکار پر بادشاہ کی لشکر کشی 395 ربوہ کے خالی پلاٹوں پر چھ ماہ کے اندر تعمیر شروع کر دیں 161 جماعت ربوہ کے خالی پلاٹوں کو واپس لینے کا حق استعمال کر سکتی ہے ربوہ کے خالی پلاٹوں پر اب مالکان کا حق ملکیت نہیں رہا ربوہ کے خالی پلاٹ بیوت الحمد کے کام آ سکتے ہیں پولیس 76 پاکستان کی عجیب تاریخ ہے تاریخ احمدیت (نیز دیکھئے احمدیت ) تاریخ احمد بیت میں محفوظ ہونے والے واقعات 30 ستمبر 1983 ء تاریخ آسٹریلیا میں اہم دن تجارت 160 160 161 حضرت امام ابوحنیفہ بہترین تاجر تھے شریعت میں تجارتی غرض سے روپیہ لگانا جائز ہے 13 فیصد سود لینے والا 50 فیصد تک تجارت میں کماسکتا ہے 386 2 495 177 185 179 احمد یہ مشن ہاؤس امریکہ کی شہادت پر پولیس کی تحقیق 418 احمدی تا جر احباب کو تجارت کے راستوں کے بارہ تجاویز اور مشورے دیں پہاڑ اللہ کی تجلی پہاڑوں پر نازل نہیں ہوتی 109 سود کا نام تجارت رکھنے سے مال پاک نہیں ہوگا 185 183
95 95 95 210 95 96 96 42 539 = 91 23 23 سودی کاروبار کلیۂ ختم ہو جانا چاہئے 183 تربیت صبر آزما کام ہے احمدی تاجر دیانتداری کے معیار بڑھائیں 222 تربیت میں لذتوں کے معیار بدلنے لمبا کام ہے 225 تربیت کیلئے اچھی تلاوت اور احادیث سنائی جائیں تاجر اور صنعت کار اپنے گر چھپاتے ہیں تحریک جدید نئے سال کا اعلان اور افضال الہی کا تذکرہ مالی قربانی میں ترقی چندہ دہندگان کی تعداد میں اضافہ دفتر سوم اور لجنہ اماءاللہ کی ذمہ داری 547 547 548 548 549 تربیت کرنے میں صبر نہ دکھانے کے نقصانات تربیت میں بری چیزوں سے ہٹانے کیلئے متبادل بھی پیش کریں تربیت اور رجحان بدلنے کیلئے تعمیری پروگرام بنائیں انبیاء علہیم السلام نے قوموں کی تربیت اور اصلاح کیلئے ان کے ایمان لانے کا انتظار نہیں کیا 584 دفتر اول کے مجاہدین کے ورثا کو توجہ جماعتی عہدے تربیت کا ذریعہ پانچ ہزاری مجاہدین کے نام کو زندہ رکھنے کی تحریک 549،550 مربیان نبی کی طرف سے تربیت میں کمزوری بیرون پاکستان چندہ میں اضافہ وکیل المال صاحب تحریک جدید تحریک جدید میں کام کرنے والا عملہ بیرون ممالک جماعتی ترقی کیلئے کوششیں 550 551.553 466.553 555 تربیتی کلاسز میں طلبہ کو چوٹی کی دلیل تفصیل سے سکھائی جائے ترجمه قرآن کا ترجمہ قرآن کی روشنی میں ہوگا مطالبات تحریک جدید کو جماعتوں میں پیش کیا جائے 556 احمدی صنعت کاروں، تاجروں اور سائنسدانوں کے استفادہ تسبیح وتحمید 516.519.530 516 530 تسبیح و تحمید کے بغیر فتح ممکن نہیں اپنے سینوں کو تسیح وتحمید سے بھر دیں 221 22 کیلئے تحریک جدید اور صدرانجمن میں سیل کا قیام تخلیق آدم تخلیق انسان کا خاکہ پیدائش سے بہت پہلے بنا دیا گیا تربیت / تربیت اولاد حضرت مسیح موعود نے تربیت میں دعا پر زور دیا اصل میں تربیت کا گہوارہ گھر ہے باپ اپنی اولاد کی تربیت کا ذمہ دار ہے مرد پر تربیت اولاد کی ذمہ داری ہے لیکن عورت بھی ذمہ دار ہے مرد کو تربیت اولا د کا پابند بنانے کی حکمت 211 197 حضرت خلیفہ امسح الثالث کو تعلیم سے بہت پیار تھا 271 تعمیری پروگرام 96 198 تربیت اور رجحان بدلنے کیلئے تعمیری پروگرام بنا ئیں تعمیری پروگرام کے بغیر دنیا آپ کی بات نہیں مانے گی 96 199 تفسیر ( نیز دیکھئے آیات قرآنی) 199 مردوں کو عورتوں کی تربیت کا ذمہ دار قرآن نے ٹھہرایا 199 خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو غافل والدین کے بچوں کی تربیت پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے 200 حروف مقطعات پر آنحضرت ﷺ کی تفسیر البقرہ آیت ۲۰۷ میں خودی کے بگڑے تصور کا بیان سوره انفال آیت ۲۵ میں آنحضرت کی نصائح کے مقصود کو بیان کیا گیا 233 26 30
24 سورہ توبہ کی آیت ااا کے کئی بطن ہیں آنحضرت نے مسومین کی تشریح فرمائی سورۃ العصر کی تفسیر اور مضامین حضرت مسیح موعود نے اللہ سے کشفا علم پا کر سورۃ العصر کی تفسیر فرمائی سورۃ العصر سے حضرت مسیح موعود کا استنباط حق کے ساتھ بلانا اور حق کی طرف بلانا کے معنی حق کے ساتھ نصیحت کا مطلب 53 خدمت خلق میں تقویٰ کے معیار کو شرط رکھنا لازمی نہیں 575 76 229 230 204 205 206 تکبر جہالت کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے استکبار نصیحت قبول کرنے میں حائل ہوتا ہے اللہ کو غریب متکبر بہت برا لگتا ہے (حدیث) نیکی کا تکبر بھی ہوتا ہے نصیحت میں طعن و تشنیع کرنے والا متکبر ہو گا ہدایت کے مضمون پر حاوی آیت قرآنی 587 متکبر شخص خدا بنا چاہتا ہے دین قیمہ سے مراد 571 تکبر کی آگ دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے حسنہ اور سینہ کے موازنہ میں لا کے تکرار کی حکمت 88 | انبیاء کے مخالفین نے متکبرانہ طرز عمل اپنایا له له له 25 25 212 213 212 213 213 284 630 95 137 382 656 656 35 479.487 493 تكلف آنحضرت کی صفت کہ آپ متکلف نہ تھے تلاوت قرآن مجید تربیت کیلئے اچھی تلاوت اور احادیث سنائی جائیں تلوار 604 320 651 مفسرین نے امانت سے مراد شریعت لی ہے يطيقونه کی تغییر از حضرت شاہ ولی اللہ محدث تقدیر خدا کی تقدیر کامل یقین اور تقدیر شر سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے الہی جماعتوں کی مخالفت اور ان کی ترقی کی اہل تقدیر 164 نصرت الہی کی اہل تقدیر احمدیت کے غلبہ کی تقدم رائل ہے حضرت خلیفہ امسیح الرابع نے خدا کی تقدیر کا گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے تقطیب یاPolarization تقوی تقویٰ کیا چیز ہے بہترین زادراه تقوی لباس تقوی زندگی کی ضمانت قرآنی ہدایت تقویٰ سے ملتی ہے ہدایت کا وعدہ تقویٰ رکھنے والوں کے ساتھ ہے تقویٰ کا خلاصہ نماز میں بیان کیا گیا ہے 166 بادشاہ کے اشارے پر غلط بیانی کرنے والے کو 167 بلاک کرنے والی تلوار تنخواه 388 تنخواہ بڑھانے کیلئے مونچھیں بڑی کرنے کا واقعہ 591 توانائی 498 498 497 441 120 191 انرجی کی حفاظت کا قدرتی نظام اٹامک انرجی کے خطرات توبه تو بہ کرنے والے شخص کی موت اور معافی توحید اسلام میں توحید کا تصور آنحضرت کی قائم فرمودہ توحید کا نقشہ
25 سارے نظام عالم میں توحید نظر آئے گی حضرت ابراہیم تو حید کے علمبردار تھے موحد بن کر موحد سوسائٹی بنائیں 479 جلسہ کے ایام میں میچ کیلئے ٹی وی ریڈیو سیٹ بند رکھیں 647 310 493 ث تو کل علی اللہ ثریا، ایک ستارہ 227 تو کل علی اللہ کا مضمون خدا کے نام پر کھڑے ہونے والوں کو صبر اور تو کل کرنا ہوتا ہے جو لوگ اللہ پر توکل نہیں کرتے ان کا جماعت احمد یہ میں کوئی کام نہیں تو کل کامل ہوگا تو نصرت الہی ہمیشہ ساتھ رہے گی تو کل کے مقام سے نہ نہیں اور ثابت قدم رہیں اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے آگے بڑھیں حضرت ابراہیم کا عظیم الشان تو کل تیل 289 اگر ایمان ثریا پر بھی چلا جائے تو مسیح موعود واپس لائے گا 227 ثمامہ بن اثال 291 قبیلہ بنو حنیفہ کے فرد اور قبولیت اسلام سے قبل دشمن 164 166 167 215 455 مشرق وسطی کے تیل کی دولت میں مشرق بعید کی توجہ 467 تہذیب ہر تہذیب کے بعد اگلی تہذیب کا مقام 408 103 103 قبول اسلام کا واقعہ ج جاپان جاپانی قوم صنعت میں معروف ہے جاپان مسلم ایسوسی ایشن جاپانی مسلمانوں کا شراب، سور حلال قرار دینے کا فتویٰ 468 222.401.468.470.553 جاپانی مسلمانوں میں عبادات کی کیفیت حادو جماعت احمدیہ نے دنیا کو تہذیب سکھانی ہے 504 | مجین ، جادوگری کے قائل 222 468 468 538 ٹرینیڈاڈ ٹنڈ کروانا ہمارے معاشرے میں ٹنڈ کروانا بے ہودہ چیز سمجھا جاتا ہے 551 جانور/ جاندار جانوروں کی خوراک کا قدرتی نظام ریگستان کے جانور اور ان پر سائنسدانوں کی تحقیق سمندری جانوروں کا ذکر 654 654 653.654 653 جانوروں میں بھیس بدلنا یعنی Camouflage کرنا 502 بعض جانور پھنسی ٹانگوں کو اپنے دانت سے کاٹ مغربی معاشرے سے متاثر ہو کر اب سرمنڈوانا فخر کی دیتے ہیں بات سمجھتے ہیں ٹیلی ویژن ریڈیو ٹیلی ویژن میں Valves ٹی وی کا پروگرام اور مؤذن مسجد کی طرف بلائے 502 مشرقی ممالک میں جانور کو گالی دینے کا رواج 491 647 جاندار آکسیجن لیتے ہیں جبر جھوٹوں نے جبر سے کام لیا 637 641 655 247
26 جبر سے گردنیں کائی جاسکتی ہیں قائل نہیں کیا جاسکتا 251 دوسرے سے مختلف ہے آنحضرت پر جبر کا الزام لگانے والے ظالم ہیں 282 | جلسہ سالانہ انتظامیہ 271 جبرائیل علیہ السلام آنحضرت کو رمضان میں قرآن دہراتے جبرائیل کا آنحضرت کو جہنمی شخص کے بارے بتانا متمثل ہو کر صحابہ کی تعلیم کیلئے سوال کرنا جرم 33.77.325 325 33 77 559.560.643 افسر جلسه سالانه حضرت مرز اطار احمد صاحب، نائب افسر جلسه نگران تربیتی امور جلسہ سالانہ کی انتظامیہ کے کام منتظم بازار اللہ کے دوست بنے کیلئے جرم کی بیخ کنی ضروری ہے 353 ایک ہزار کارکنان کی بیرون ربوہ سے ضرورت جرم کی وجہ سے خوف پیدا ہونا دنیا میں بے چینی کے پس منظر میں جرائم ہیں جرمنی 352 کارکنان جلسہ کو اخلاق عالیہ اختیار کرنے کی ہدایت 2 567 643 563 562 352 شدید سرد موسم میں بچوں اور اہالیان ربوہ کا جذ به خدمت 560 جلسہ سالانہ کی مہمان نوازی کی تیاری اور کارکنان جرمن قانون جرهم قبیله آغاز مکہ میں آباد ہوا جذب کی قوت 551.553 551 456 کا جذبہ خدمت کارکنان جلسہ خالصتہ اللہ کام کرتے ہیں کارکنان جلسہ کیلئے دعا کی تحریک مہمان نوازی کے انتظامات ۱/۲۷ یکڑ رقبہ میں جلسہ سالانہ ہو سکتا ہے عارضی غسلخانے بنانے کی ترکیب اور لیٹرینیں نصیحت کرنے والے میں غیر معمولی جذب ہو 213 بڑھانے کی ضرورت 560 660 659 452 564.565 قوت جاذ بہ ہمدردی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے 213 بستروں کی کمی دور کرنے کیلئے بستر بنانے کی سادہ ترکیب 564 جزیره نجی کے ۵۰۰ جزائر بحرالکاہل کے جزائر میں پوپینیون آباد ہیں انسانی جسم کے اعضا کا ایک دوسرے سے تعاون جسم کے توازن بگڑنے کا نام بیماری ہے مومن کی مثال ایک جسم کی سی ہے جغرافیہ مہمانوں کی خوراک کا انتظام 536 لنگر خانوں میں روٹی پکانے کی خود کار مشین 536537 مہمانوں کیلئے گھروں میں زائد راشن تیار رکھیں 486 486 486-488 کشتی نوح، قرآن اور بائبل کا بیان کردہ جغرافیہ ایک 568 569 569 569 157 مهمان نوازی ، راشن میں برکت کا ذریعہ جلسہ سالانہ میں مہمانوں کی تعداد بڑھ رہی ہے صد سالہ جوبلی کے جلسہ پر غیر معمولی حاضری کی توقع ہے 157 بیمار لوگ بھی جلسہ جو بلی پر ربوہ آنے کی تمنا کرینگے قیام گاہیں 158 انفرادی قیام گاہوں میں ٹھہرنے کے رجحان میں اضافہ 158
27 قادیان میں لوگ جماعتی قیام گاہوں میں رہنا پسند کرتے 158 جلسہ پر پاکیزہ آواز میں سنائی دیں لوگ حضرت مسیح موعود کے مہمانوں کیلئے اپنے کمرے پیش کرتے ہیں ربوہ کے بہت سے لوگوں نے مہمانوں کیلئے اچھے غسل خانے بنوائے ہیں 159 646 قادیان میں جلسہ پر صحابہ دینی باتیں بیان کرتے تھے 158 قادیان میں جلسہ میں لوگوں کی راتیں ذکر الہی سے رچ بس جاتیں 158 159 مہمانوں کو نیکی کی تعلیم اور عبادات کی طرف متوجہ کیا جائے 647 اہالیان ربوہ جلسہ کے مہمانوں کیلئے مکانوں کو وسعت دیں 159 جلسہ کے موقع پر کرکٹ کمنٹری نہ سننے لگ جائیں اہالیان ربوہ خالی پلاٹوں پر مکان تعمیر کریں 160 ، 159 جلسہ سالانہ کی کامیابی کیلئے دعائیں کریں تزئین وصفائی گھروں کی زینت مہمان نوازی کا حصہ ہے جلسہ سالانہ 1983ء 565 جلسہ سالانہ ۱۹۸۳ء پر افضال الہی کا نزول 647 570 651 یونیفارمٹی کیلئے بعض لوگ مل کر ایک رنگ کروا سکتے ہیں 565 جلسہ سالانہ ۱۹۸۳ ء کی مردوں کی حاضری ایک لاکھ صحنوں ، گلیوں اور بازاروں کی صفائی کا انتظام صفائی کیلئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور صدران محلہ 565 ۲۸ ہزار اور عورتوں کی حاضری ۸۵ ہزار جلسه سالانہ ۱۹۸۳ء کے حسن انتظامات 566 جلسہ سالانہ ۱۹۸۲ء کی حاضری کی کمیٹیاں بنیں جلسہ سے پہلے اور بعد میں مکھی مچھر مارنے کا انتظام 576 566 احمدی خواتین نے مردوں سے زیادہ قربانی دی گھروں کی صفائی اور سہولیات کی فراہمی ربوہ کے گھروں میں صفائی کا خاص خیال اہالیان ربوہ کو زریں نصائح بازار جلسہ سالانہ اور بازار و راستوں کے حقوق جلسہ پر دوا بیچنے والے دکانداروں کی ذمہ داریاں ربوہ کے دکاندار دعاؤں کے مستحق تربیتی امور 563 شدید سردی میں زنانہ جلسہ گاہ میں زیادہ حاضری تھی 645 561 640.642 جماعت احمدیہ (دیکھئے زیر لفظ احمدیت) جمعه / جمعۃ الوداع خطبہ جمعہ امیر کا حق ہے 652 652 652 1 2 434 644 جمعۃ الوداع کا مبارک دن اور اس کا انتظار کرنے والے 363 2 جمعۃ الوداع میں بجز سے داخل ہو کر نکلیں 366 جمعۃ الوداع اللہ تعالی سے متعارف کروانے کیلئے آیا ہے 366 جلسه پر ربوہ دعا کا ایک سمندر بن جائے اوقات ایک ہوں جلسہ پر ربوہ کوذکر الہی سے رونق بخشیں جلسہ سالانہ پر پورے ربوہ میں نمازوں کے مہمانوں سے سیرت کے مضامین پر باتیں کریں مبارک ہوگا 647 جمہوریت گھروں سے گانے اور بے ہودہ پروگرامز کی تکلیف دہ جمی کارٹر ، سابق امریکی صدر 649 650 جمعۃ الوداع رحمتیں دینے والا جمعہ متلاشیان حق کیلئے ہر جمعہ جمعتہ الوداع کی طرح 369 369 647 دنیا کی عظیم جمہوری طاقتیں 595 آواز میں باہر نہ آئیں 646 جمی کارٹر کی کتاب میں امریکی لیڈروں کی بے بسی کا ذکر 595 گھروں میں امن کا ماحول ہو اور لڑائی جھگڑا نہ ہو 647
28 جنت آمادہ ہوتے ہیں روٹی کپڑا اور مکان ، آدم کی جنت کا تصور 573 جنگل اللہ نے ماں کے قدموں تلے جنت رکھی اس دنیا کو جنت بنانے والے صرف احمدی ہونگے جنسی مظالم جنسی لذت کے جدید تصورات Sadism وغیرہ جنسی مظالم کے نتائج امریکہ میں بچوں پر جنسی مظالم جنگ دنیا کا جنگوں میں مبتلا ہونے کا وقت تیسری عالمی جنگ کی سب سے بڑی وجہ سودی مالی نظام ہے 44 | جنگل کی صفائی کا قدرتی نظام 415 503 503 503 181 180 عکرمہ نے جنگ احد میں مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا 102 آنحضور کی جنگوں میں بہت کم جنگی نقصان ہوا جنگ بدر میں کفارا سیچی نے ۳۱۳ موتیں دیکھیں 140 165 جنین اللہ تعالیٰ جنین کی ہر تبدیلی سے واقف ہے جوبلی صد سالہ جوبلی منصوبہ کی رقم صد سالہ جو ہلی جلسہ کے انتظامات صد سالہ جو بلی جلسہ پر غیر معمولی حاضری کی توقع بیمارلوگوں کی بھی جلسہ جو بلی پر ربوہ پہنچنے کی تمنا ہم نے جو بلی جلسہ کی کیا تیاری کی ہے 300 656 22 22 460 568 491 158 158 جلسہ جو بلی کے لئے جلدر بوہ میں تعمیرات کی طرف توجہ 161 جنگ بدر میں بے سرو سامانی کے باوجود مسلمانوں کا عزم 165 جہاز جنگ بدر اور احد میں فرشتوں کا نزول جنگ بدر میں انصار مدینہ کا آنحضرت سے عہد وفا 76 540 بیوت الحمد سکیم صد سالہ جوبلی منصوبہ کا حصہ جہاد فی سبیل اللہ حضرت خلیفہ رائج کو اطاعت کے انعام میں جہاز کی سیٹ مل گئی انگلستان کا ایک عظیم جہاز جو پہلے سفر میں ڈوب گیا جھوٹ حضرت عمر کے زمانہ میں شام کی طرف ہونے والی جنگ 15 جنگ عظیم دوم کے جہاز زمانہ جنگ بسوس، بنو تغلب اور بنو بکر کے درمیان جنگ جنگ عظیم دوم کے جہاز تیسری عالمی جنگ کی تباہ کاریوں کا تصور آئن سٹائن کا کہنا کہ چوتھی عالمی جنگ ڈنڈوں اور جنگ ڈنڈوں اور پتھروں سے لڑی جائے گی 9 273 138 احساس کمتری کا شکار اپنے دفاع کیلئے عذر اور دور حاضر میں لڑائی کی وجوہات انتہا کو پہنچ گئی ہیں روس امریکہ پر حملہ کر دے تو وہ تباہ ہو جائے انگریز افغان جنگ ۱۸۵۵ء میں انگریزوں کو شکست مصر اسرائیل جنگ ۱۹۶۷ء انبیاء کے مخالف دلائل سے عاجز آ کر جنگ پر 138 133 136 28 91 جھوٹ بولتا ہے جھوٹے جبر سے کام لیتے ہیں جھوٹے بھی ایک قسم کی باتیں کہتے ہیں جھوٹوں کو تباہ کرنا اللہ کا کام ہے بتوں کے بارہ حضرت ابراہیم نے جھوٹ نہیں بولا بلکہ جھوٹ سے پردہ اٹھا دیا ہے 575 154 509 273 273 21 247 250 251 297.299
29 29 جہیز بچی کو جہیز دینا منع نہیں 635 جہیز کا نا جائز مطالبہ نظام جماعت برداشت نہیں کر سکتا 635 شادی پر دکھاوے کے نقصانات طاقت سے بڑھ کر جہیز دینے کی بیماری جھیل سفلر سلفیورک ایسڈ بن کر جھیلوں کے پانی کو تیزابی کر رہا ہے جہنم آنحضور کو کشفا جہنم دکھائی گئی چ چاند عید کا چاند دوسروں کو دکھانے میں مزا آتا ہے چابی آنحضرت نے فتح مکہ پر خانہ کعبہ کی چابیاں عثمان بن ابی طلحہ کو دے دیں چین جماعت احمد یہ چین میں بھی ہے 386 ہر احمد کی اپنے اپنے ملک اور وطن کا محب ہے جماعت احمدیہ کے تمام افراد سب سے زیادہ محب وطن ہیں 386 حجت 636 حضرت ابراہیم کی خوبی کہ وہ حجت میں کمال رکھتے تھے 307 635 655 33 33 149 619 109.140.401.470 حدیث کتاب میں موجود احادیث إِذَا دَخَلَ شَهُرُ رَمَضَانَ أَنَا عِندَ ظَنِّ عَبْدِي بِي رُبَّ اشْعَثَ أَغْبَرَ....لَوْ أَقْسَمَ عسى رُبَّ أَشْعَثَ.فَلْيُبَلِّغُ الشَاهِدُ الغَائِبَ عَلَّكُمْ رَاعٍ وَكُلُّكُمْ مَسْئُولٌ..كَلِمَةُ الحِكْمَةِ صَآلَةُ الْمومِن لَقَدْ أَعَانَكَ عَلَيْهِ مَلَكٌ كَرِيمٌ لِكُلِّ دَاءِ دَوَاءٌ لَو كَانَ الْإِيْمَانُ عِندَ القُرَيا.مَرْحَبَابِ الرَاكِبِ الْمُهَاجِرِين احادیث بالمعنی ( بلی ظاتر تیب صفحات ) آنحضرت کے ارشاد بیٹھ جاؤ پر اطاعت کا منظر اللہ کو غریب متکبر بہت برا لگتا ہے 55 فاحشہ کا کتے کو پانی پلانا اور اس کی بخشش کنفیوشس کا خدا صرف چین کے لوگوں کے لئے تھا 109 چین کی طاقت 140 معافی کا واقعہ تو بہ کے ارادہ سے چلنے والے شخص کی موت اور ایس مشت خاک را گر نه خشم چه کنم 332 110 80 523 491 607 3 77 286 227 12 حارث بن ہشام، ابو جہل کے سگے بھائی 15 خشیت الہی کرنے والے کی اپنے بچوں کو نصیحت کہ مر جاؤں تو حضرت عمر کی خدمت میں حاضر ہونا 15 میری خاک اڑا دینا پورے خاندان سمیت شام کی لڑائی میں شہادت 15 ماں کے پاؤں تلے جنت حب الوطنی پاکستان ہمارا عزیز ، پیارا اور محبوب وطن 386 آپ نے سود خوروں کو فرمایا کیا تمہارے روپے بچے دیتے ہیں 4 25 35 35 36 36 44'47 170
93 86 405 601 189 189 187 601 602 602 603 43 45 47 617 104 104 107 626 30 30 نابینا صحابی کو نماز سے مستثنیٰ قرار نہ دینے کا فیصلہ 196 حضرت ڈاکٹر حشمت الله باپ اپنی اولا د کا ذمہ دار ہے اسلام کے پہلے تین سو سال روشن ہیں آنے والا امام ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا ہو گا روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں 198 حضرت مصلح موعودؓ نے مولانا ظفر علی خان 203 کے علاج کیلئے انہیں بھجوایا حق 227 326 حق اور حسنہ کی اعلیٰ درجہ کی قرآنی تعریف روزہ دار سے کوئی جھگڑا کرے تو دو دفعہ کےانی صائم 328 مومن کی مثال ایک جسم کی سی ہے 413،486،488 | حقوق العباد سورج مغرب سے طلوع ہوگا بندہ ایک بالشت بڑھتا ہے تو خدا کئی قدم بڑھتا ہے 466 مذاہب کے دو مقاصد حقوق اللہ اور حقوق العباد 477 حقوق العباد مذہب سے ہی نکلے ہیں غیبت کرنے والے کی مثال کہ تیر چلائے اور نہ لگے 490 عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذ بہ پردہ پوشی نہ کرو گے تو اللہ بھی عیوب ظاہر کر دے گا 492 پیدا نہیں ہوتا آپ نے عہدے مانگنے سے منع فرمایا حضرت عمر کی روایت کہ آنحضور فتح مکہ کے وقت 611 مؤمن حقوق العباد آنحضرت سے سیکھتا ہے حقوق اللہ اور حقوق العباد کا آپس کا رابطہ سورۃ النساء کی آیت ۵۹ کی تلاوت کر رہے تھے 618 حقوق العباد کی ادائیگی کے بغیر با خدا نہیں بن سکتے آپ نے خانہ کعبہ کی چابیاں عثمان بن ابی طلحہ کو دیں 619 آنحضرت کے حقوق العباد کی ادائیگی پر حضرت خدیجہ آئندہ زمانہ میں امانت ضائع ہو جائے گی تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے اٹھانا ایمان کا حصہ ہے 621 کی گواہی 640 حقوق العباد ادا نہ کرنے والی مذہبی جماعتیں اخلاق سے عاری ہوتی ہیں مرد عورت کے حقوق برابر ہیں عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں مردوں کا قصور 626 628 حرام حرمت حلال و حرام واضح ہیں حلال وحرام کے درمیانی چیزیں انسانی حقوق کی ادائیگی کے بغیر جنت ممکن نہیں میوزک کے متعلق واضح حرمت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا 646 حکومت کامل حکومت کے نمونہ کا قرآنی تصور حکمت آنحضرت کے ہر فیصلہ کے پیچھے حکمت کار فرما تھی حسن عمل میں حکمت ضروری ہے سورۃ النحل کے آخر پر حکمت عملی پر روشنی حلال 254 7 654 حسد ما مور من اللہ کی آمد پر حسد کی آگ کا بھر کنا حسن حسن یوسف کو آنحضرت سے کوئی نسبت نہیں حشرات الارض حشرات الارض کی بے شمار اقسام خوبصورت پھول اور گند کے کیٹروں کا ایک ساتھ نظام 657 خطرات کو کیڑیاں بھی بھانپ لیتی ہیں 587.588 حلال وحرام واضح ہیں
31 حلال کے ساتھ شریعت نے طیب کی شرط لگائی 626 خدمت خلق حلال وحرام کے درمیانی چیزیں مرتے ہوئے کیلئے سو رکھانا جائز ہے 628 | خدمت خلق لمبی عمر کا راز ہے 632 جاپانی مسلمانوں کا شراب کو حلال قرار دینے کا فتوی 468 حلیلہ، بنو تغلب کے سردار کلیب کی بیوی حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ آنحضرت کو حضرت حمزہ کی شہادت کا دکھ تھا خ 9 11 286 خدمت خلق میں تقویٰ کے معیار کو شرط رکھنا لازمی نہیں 575 خرچ نہ کرنے کی قسم سے قرآن کریم نے روک دیا خدمت خلق کی تمام قسمیں روزوں میں آجاتی ہیں احمدی خدمت کے ہر میدان میں آنحضرت کا جھنڈا سب سے اونچا کریں 10 | بیوت الحمد خدمت خلق کی تحریک حضرت خدیجہ ام المومنین 575 325 577 573 آنحضرت کی سیرت کے بارہ میں آپ کی گواہی 602 ہند نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چہایا حضرت خالد بن ولید آپ کی شہادت کی خواہش آپ کی بہادری خانپور رض حضرت خباب آنحضور کی آپ کو صبر کی تلقین خبيث خبیث چیز کثرت کے باوجود خبیث رہتی ہے خدام الاحمدیہ بعض دفعہ نماز با جماعت کے وقت خدام الاحمدیہ کی مجلس عاملہ کا اجلاس ہور ہا ہوتا ہے خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو غافل والدین کے بچوں پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے اجتماع خدام الاحمدیہ 421 422 549 246.328 238 27 27 خشیت الہی قرآن کریم میں خشیت کا مضمون خشیت کی دو قسمیں خدا تعالیٰ سے ڈرنا بہادری ہے خشیت الہی رکھنے والے ہی مساجد میں آتے ہیں خوف خدا نہ ہونے اور غیر اللہ سے ڈرنے سے دنیا میں تباہیاں آرہی ہیں نصیحت اللہ سے ڈرنے والے حاصل کرتے ہیں خطر خطوط 195 احمدی بچے کامیابی کے لئے دعائیہ خط لکھتے ہیں 200 559 حضور کی روزانہ کی ڈاک سات سوخطوط حضرت خلیفہ اسیح الرابع کو دن میں بارہ بارہ سو تک خطوط آتے ہیں حضرت مرزا طاہر احمد صاحب قائد مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ 45 | اعتراضات پر مبنی خطوط کی آمد ربوہ کے انصار و خدام صدران محلہ اور خدام کے ذریعہ کبھی و مچھر کے خاتمے کا انتظام 563 567 589 589 593 594 599 590 396 554 210 210 پاکستان سے سب سے زیادہ قابل فکر خطوط حضور کو آتے ہیں 210 حضور کو ایک دوست کا خط جس میں خطبہ کی درستکیاں تھیں 229 صاحبزادہ نعمت اللہ شہید کابل کا خط جو انہوں نے جلسہ سالانہ پر صفائی کے لئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ احمدی دوست کو لکھا اور صدران محلہ کی کمیٹیاں 566 69
32 خوف کا تعلق مستقبل سے ہے خوف اور حزن کی تشریح مومن کو خوف اور طمع نہیں ہوتا 342 342 394 مومنوں کو حالت خوف میں اللہ کی مدد کا یقین ہوتا ہے 401 343 346 352 402 610 610 610 610 384 384 384 213 387 387 453 508 500 434 خطبہ جمعہ امیر کا حق ہے خلا انسانی فطرت خلا میں نہیں رہ سکتی خلافت / قدرت ثانیہ خلیفہ کی نصیحت میں غیر معمولی اثر خلیفہ اور جماعت ایک وجود کے دونام 404 اللہ کے بندوں کو خوف اور حزن نہیں ہوتا جس کا دوست سمیع و علیم ہو اس کو کیا خطرہ ہوسکتا ہے 23 جرم کی وجہ سے خوف پیدا ہونا 515 امریکہ میں خوف بہت زیادہ ہے خیانت خائن کا اللہ سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اللہ نے انبیاء کو خائن کی سفارش سے منع کر دیا خیانت شفاعت سے محرومی ہے 134 135 خلیه ریڈیائی لہریں انسانی خلیوں کو تباہ کرتی ہیں اللہ تعالیٰ نے انسانی خلیے کے اندر ارب ہاارب معلومات چھپائی ہیں خودی خیانت سے بے حیائی اور نا شکر اپن پیدا ہوتا ہے خودی کے بگڑے تصور کا بیان 26 | خیرات خوشبو خیرات نہ کرنے والوں کی دعائیں قبول نہیں ہوتیں خوشبوؤں کے فرق خیرات کرنا انبیاء کی فطرت میں بدرجہ اولی ہوتا ہے 582 حضرت مسیح موعود میں خیرات کرنے کی صفت خوشی خوشی انسان کو طبعا دعوتوں پر آمادہ کرتی ہے خوشی میں مٹھائی کی تقسیم , 629 629 داڑھی خوشی قوم پر بوجھ بن جائے تو منع کیا جاتا ہے 629 بعض دفعہ داڑھی رکھنے والے کو بغیر داڑھی والے 629 پر غصہ آتا ہے خوشی کے مسئلہ پر حضرت مسیح موعود کا ارشاد کسی کی بد حالی پر خوشی کے نعرے بے وقوف لگاتے ہیں 388 کسی احمدی کا ہاتھ کسی داڑھی پر نہیں اٹھے گا خوف خشیت خوف کی دو قسمیں خوف اور طمع کی طاقت بچہ خوف میں ماں کو پکارتا ہے خطرہ کے وقت پولیس کے ٹیلی فون نمبرز پرانے زمانے میں لوگ بادشاہوں کو دہائیاں دیتے اللہ کا ہاتھ کسی داڑھی پر پڑ جائے تو کوئی بال 499 باقی نہیں رہتا 394 حضرت داؤد علیہ السلام 394 صاحبزادہ کرنل مرزا داؤ داحمد 394 دجال 394 رعب دجال نہ آنے کی دعا
درخت طوفان کے بعد بنگلہ دیش میں سڑکوں سے درخت 33 جماعت احمدیہ کی قبولیت دعا آداب دعا دعا میں درد اور اس کے ذریعہ انقلاب 374 اٹھا کر لے جانا درود شریف ذکر الہی اور درود شریف کی طرف توجہ لیلۃ القدر کی برکتیں حاصل کرنے کیلئے بکثرت درود پڑھیں احساس نعمت بر حمد الہی اور درود ذکر الہی اور درودشریف سے بخش کلامی ختم ہوگی دعا حقیقت اور اہمیت دعا کا عظیم الشان مضمون 623 412 373 221 414 429.543 صبر سے دعا کی عظیم الشان قوت پیدا ہوتی ہے صبر ہمیشہ دعا میں تبدیل ہوتا ہے وہ دعائیں قبول ہوتی ہیں جن کے پیچھے گہرا جذ بہ خلوص اور تقوی ہو انبیاء تکلیف اٹھا کر بھی قوم کیلئے دعا کرتے ہیں حضرت نوح کی بددعا کا فلسفہ حضرت نوح کی بددعا منشا الہی کے مطابق تھی 544 100 99 263 265 264-274 269 قرآن کا احسان کہ سابقہ انبیاء کی دعائیں محفوظ کر دیں 426 آنحضرت کی بعثت کیلئے حضرت ابراہیم کی چار دعائیں 457 ہر نبی اپنی قوم کے لئے دعا کرنا چاہتا ہے اللہ نے ہر موقع اور حال کی الگ دعا سکھلائی 430 حضرت لوط قوم کی بخشش کی دعا کرتے رہے مومن دعا نہ کرے تو اس کی کوشش کو پھل نہیں لگتا 388 | حضرت زکریا کی دعا اور مانگنے کے انداز دعا اور تدبیر کا تعلق دعا سے منصوبوں میں برکت آنحضور نے دعاؤں سے تبدیلی پیدا کی عرب کے بیابیان میں جو ماجراگز راوہ فانی فی اللہ کی دعا ئیں تھیں دعا اور جماعت احمدیہ حضرت مسیح موعود کی تعلیم کا خلاصہ دعا ہے حضرت مسیح موعود نے تربیت میں دعا پر زور دیا حضرت مسیح موعود کی اولاد کیلئے ایک دعا ہمارے ہتھیار دعائیں ہیں جماعت کے لوگ دعا سے غافل نہ ہوں 211 گالی کے جواب میں دعا دینے کا طریق 100 388 قبولیت دعا اللہ کی رحمت کا نشان 570 جس کو دعایر کامل یقین ہو وہ مایوس نہیں ہو سکتا ہماری دعاؤں کے دورخ ، اپنے لئے اور غیر کیلئے احمدی بچے کامیابی کیلئے دعائیہ خط لکھتے ہیں دعا اور دعوت الی اللہ مجاہد کا سب سے بڑا ہتھیار دعائیں تبلیغ میں اصل ہتھیار دعا دعا کے ذریعہ ہر احمدی مبلغ بننے گا 142 211 500 59.166.432 389 جماعت احمد یہ دعاؤں کے تیر آسمان کی طرف چلائے گی 349 اس زور سے آہ و بکا کریں کہ عرش کے کنگرے بھی ملنے لگیں 270 267 427 374 381 642 388 396 57 59 141 داعی الی اللہ بنے کیلئے ہر احمدی سنجیدگی سے دعا کرے 142 خاص دعائیں اللہ کی خاطر اعمال کرنے کیلئے دعا 349 ابرار کے ساتھ موت آنے کی عظیم الشان دعا ہماری لڑائی کا فیصلہ مسجدوں میں ہونے والا ہے 349 حضرت خلیفۃ ایسیح الرابع کی احمدیوں کیلئے ایک دعا 40 356 478
34 === شہادت پانے کی تمنا کیلئے دعا کروانا تقدیر شر سے بچنے کی دعا کرنی چاہئے 72 آنحضرت کے ان پڑھ داعی الی اللہ ہونے کی حکمت 154 651 | خدا کو پانے کے بعد اس کی طرف بلاؤ جلسہ سالانہ پر ربوہ دعا کا ایک سمندر بن جائے 649 قرآن کریم داعی الی اللہ کو اس کے مستقبل کے جلسہ سالانہ کی کامیابی کیلئے دعا کریں رمضان میں دعاؤں کی تحریک سفر آسٹریلیا کیلئے دعا کی تحریک حضور کے کامیاب سفر کیلئے دعا کی تحریک 570 حالات سے باخبر رکھتا ہے 361 اللہ کی طرف بلانے کے نتیجہ میں مخالفتیں ہوتی ہیں 431 دعوت الی اللہ اور جماعت احمد یہ 86 احمد یوں کا اولین فریضہ دعوت الی اللہ ہے آسٹریلیا کے مشن کی تعمیر کی کامیابی کیلئے دعا کی تحریک 463 احباب جماعت قربانی کرنے والوں کیلئے دعائیں کرتے ہیں 150 88 148 130.139 ہر احمدی مبلغ بنے 510 ، 58،105،106،130،140،421 احمدی کیلئے تبلیغ نہ کرنے کا کوئی عذر نہیں 186 بہترین تبلیغی ہتھیاروں سے مسلح ہو کر رب کی کمزور بھائیوں کیلئے بخشش کی دعا کریں 365 | طرف بلائیں اے اللہ ہمارے روزے آسان کر دے گرمی کی شدت میں کمی کیلئے دعا رحم اور و فضل کی بارش کیلئے دعا میاں محمد ابراہیم جمونی صاحب سابق مبلغ امریکہ کی صحت کیلئے دعا کی تحریک کرکٹ ٹیم سے محبت کا ایک دعائیہ انداز دعوت الی اللہ اہمیت و فرضیت 361 تمام دنیا کے انسانوں کو اللہ کی طرف بلائیں 361 احمدی کے مال کمانے کا مقصد بھی دعوت الی اللہ ہو 478 130 130.138 61 391 ہر احمدی نفس کی قربانی داعی الی اللہ کے رنگ میں پیش کرے 61 دنیا کی نجات کیلئے داعی الی اللہ بنو 545 دعوت الی اللہ کی لو کو بجھنے نہیں دینا 649 حضرت مسیح موعود کے زمانہ میں جتنے مبلغ تھے سب سے مستحسن آواز اللہ کی طرف بلانے والے کی ہے 51 ہر مسلمان کیلئے نفس کی قربانی اور دعوت الی اللہ لازمی ہے 53 تبلیغ کا حکم آنحضرت کو دے کر تمام مسلمانوں کو مخاطب کیا ہے 110.126 108 آنحضرت کو اپنے رب کی طرف بلانے کا ارشاد ہوا اسلام کے دعوی کی دو شرائط دعوت الی اللہ اور عمل صالح 57 اللہ کی طرف بلانے کے حکم میں گہری حکمت داعی الی اللہ قو میں اصلاح کیلئے ایمان لانے کا انتظار نہیں کرتیں دعوت الی اللہ سے دنیا میں انقلاب بر پا ہو گا 143 97 61 147 آج اس کا سوواں حصہ بھی نہیں حضور کے زمانہ میں ہر احمدی مبلغ تھا حضور کیلئے بہترین نذرانہ دعوت الی اللہ دعوت الی اللہ کے نتیجہ میں جلسہ سالانہ پر نئے احمدیوں کی تعداد بڑھے گی شہادت دعوت الی اللہ کا انعام ہے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب تبلیغ سے لمبا عرصہ منسلک رہے 138 422 54 ی ماما کی 55 62 157 421 59 صحابہ مسیح موعود اندر کی سچائی کی وجہ سے کامیاب مبلغ تھے 92 عیسائیت کے خلاف جہاد میں ہر احمدی شامل ہو تبلیغ کے نتیجہ میں علم خود بخود آ جاتا ہے 59 59 قادیان کے ایک فقیرانہ انداز میں تبلیغ کرنے والے صاحب 116 116 قریشی حمد حنیف صاحب سائیکل سیاح کا طریق تبلیخ آنحضرت نے اللہ کی طرف لوگوں کو کھلی دعوت دی
35 ماڈل ٹاؤن لاہور کے ایک تبلیغ کرنے والے کا ذکر ایک ان پڑھ معلم وقف جدید کا کامیاب طریق تبلیغ قرض ادانہ کرنے والے تبلیغ اور جماعت کی نیک نامی دعوت الی اللہ اور دعا میں روک بنتے ہیں تبلیغ میں اصل چیز دعا ہے دعا کے ذریعہ ہر احمدی مبلغ بنے بیمار دعاؤں کے ذریعہ تبلیغ کرسکتا ہے 117 حضرت نوح کی تبلیغ کی مثالیں 118 حضرت موسی کی تبلیغ کی مثالیں حضرت نوح کا انداز تبلیغ 258 258 260 612 حضرت نوع کی تبلیغی کوششوں میں مبلغ قوموں کیلئے سبق 259 قرآن کے طریقہ تبلیغ کے نتائج حضرت مسیح موعود کے وقت میں بھی نکلے 104 57.59 141 140 دشمن دوستوں میں بدل رہے ہوں تو تبلیغ صحیح ہو رہی ہے داعی بننے کیلئے ہر احمدی سنجیدگی سے دعا کرے 142 داعی الی اللہ کس جماعت سے پیدا ہوتے ہیں ساری جماعت داعی الی اللہ بننے کیلئے دعا ئیں شروع کر دے داعیان کیلئے حضور کی دعائیں حضور کو خط میں داعی الی اللہ بننے کا لکھیں 142 ربنا اللہ کا دعویٰ اور داعی الی اللہ تبلیغ کرنے والی جماعت کیلئے ایک گر 62 سورۃ النحل کی آخری آیات میں تبلیغ کا گر 62 حکمت کے تقاضے 97 64 64 634 107 پاکباز اور پاک نفس احمدی داعیان بنے کیلئے دعا کریں 156 بالحکمۃ کے لفظ میں تبلیغ کے بنیادی اصول کی طرف توجہ 112 طریق تبلیغ آنحضرت کا طریق نصیحت و دعوۃ الی اللہ آنحضرت دعوت الی اللہ میں ہمارے لئے نمونہ ہیں آپ دعوت الی اللہ کے ہر مضمون کے لحاظ سے ذو حظ عظیم تھے آپ نے اور صحابہ نے تبلیغ میں صبر کا نمونہ دکھایا داعی الی اللہ بننے کیلئے اپنے رب کو پا نا لا زم ہے داعی الی اللہ کے لئے ظاہری علوم سے آراستہ ہونا ضروری نہیں حکمت سے بلانے کی ایک مثال 206 حکمت کے تقاضوں کیلئے تاریخ پر نظر ڈالی جائے 101 101 اپنے مزاج اور استعداد کے مطابق تبلیغ کریں وقت کی حکمت بھی ملحوظ رکھیں مناسب زمین کا انتخاب کیا جائے 102 سعید فطرت لوگوں کو چنیں 152 اپنی فصل کی نگہداشت بھی کرنی ہے پھل کیلئے کھیتی کی آبیاری ضروری ہے 154 حکمت کا دوسرا تقاضا، موقع محل کا خیال داعی الی اللہ کتاب کی بجائے رب کی طرف توجہ دے 155 انسانی مزاج سمجھ کر بات کی جائے اللہ کی طرف بلانے والے داعی الی اللہ کو قوت قدسیہ عطا کی جاتی ہے مبلغ کو صبر محمد کی تلقین کی گئی بات پیش کرنے کا طریق اچھا ہو 155 مبلغ اپنے مزاج اور رجحان کا جائزہ لیں 113 114 117 118 120 121 121 122 114 115 114 116 117 206 122 تبلیغ کا صبر سے گہرا تعلق خداوالوں کی تبلیغ میں اثر انبیاء کوسکھایا جانے والا طریق تبلیغ 129 اپنے مزاج اور استعداد کے مطابق تبلیغ کریں 100 احمدیت کا پیغام پہنچانا فرض ہے لیکن کسی کے 475 | پیچھے پڑنے کا حق نہیں 475 | حکمت کے بعد موعظہ حسنہ کا حکم
91 92 230 606 594 400 434 342 411 36 موعظہ حسنہ کا مطلب 122 دلیل سکھائی جائے ایسی بات جو دل سے نکلے اور دل میں ڈوب جائے 123 ایک افریقن مبلغ کی عیسائی منا دوں کو بھگانے کامیابی کیلئے عمل صالح کی شرط پر عمل ضروری ہے داعیان اعمال کو حسین بنائیں تبلیغ میں بدی کا مقابلہ حسن سے کرنا ہے احمدیوں کو استقامت دکھانے والا داعی الی اللہ بنتا ہے داعی الی اللہ فرشتوں کی طرح مختلف طاقتوں کے ہوتے ہیں داعی الی اللہ یقین پیدا کرے تو پھل لگے گا داعیان اختلافی مسائل پر ایک ایک دلیل پر عبور حاصل کریں داعی الی اللہ کی تین شرائط دفاع احمدیوں میں نیکی کی وجہ سے دفاع کی طاقت ہے 153 93 124 74 106 106 92 52 411 والی دلیل دنیا آدم سے آنحضرت تک عرصہ، ۴۷۳۹ سال دنیا دارالعمل ہے دنیا کی خرابیوں کی وجہ دنیا ایک سراب ہے مولا نا دوست محمد شاہد ،مورخ احمدیت دوستی دھات پیتل تا نیا ، سونا دہریہ ادہریت دکان دکاندار دکانوں پر جم گھٹا نہ کریں دکانوں پر مستورات کو پہلے موقع دیں گا ہک دوکاندار سے بحث یا تلخ کلامی نہ کریں دکاندار جائز منافع لیں 642 642 58.130.143 144.148.249.288.336 دنیا مذہبی لحاظ سے اللہ کے ماننے والوں 642 اور دہریوں میں تقسیم 439.495.496 143 642 دہریہ سے بات خدا کی ہستی سے شروع کرنی پڑتی ہے 144 ربوہ کے دکانداروں کے فرائض 645، 642،643،644 دہریت کے فروغ کی ذمہ دار عیسائیت ہے جلسہ سالانہ ربوہ کے دکانداروں کیلئے ثواب کا موقع ربوہ کے دکاندار دعاؤں کے مستحق ہیں دل دل صحیح کام نہ کرے تو بیماریاں پیدا ہونگیں ہارٹ فیل ہونے کی وجہ دلیل بہترین دلیل پیش کرنا احسن قول ہے تربیتی کلاسز میں قرآنی تعلیم کے مطابق چوٹی کی 644 دہریت کا اعلان کرنے والے آج موجود ہیں 2 دہریہ قوموں نے دہریت کے لئے قربانیاں دیں وہر یہ تو میں بات نہ ماننے والے کے خلاف ہتھیار 486 486 استعمال کرتی ہیں 58 303 336 249 حضرت خلیفہ المسیح الثانی کی مجلس عرفان میں دہریہ کی آمد 288 آسٹریلیا میں مادہ پرستی اور دہریت زیادہ ہے سکنڈے نیویا میں دہریت اور مادہ پرستی 91 دہریانہ ماحول میں احمدیوں کے فرائض دہلی 495 496 497 220
37 دیانت داری دیانتداری کے بغیر ترقی ممکن نہیں احمدی ماہرین دیانت کے معیار بلند کریں اسلام کے مالی نظام پنپنے کیلئے دیانتداری کا پنپنا ضروری ہے دیانتدار کے پاس رو پیدلگائیں اسلام دیانتداری کو پہلے پیدا کرتا ہے دیانت داری روپے کے ارتکاز کا ذریعہ بنے گی ڈاکٹر 222 222.223 ذکر الہی ز ذکر الہی اور درود شریف کی طرف توجہ 177 ذکر الہی اور درود شریف سے مخش کلامی ختم ہوگی 178 179 177 ذکر الہی ربوہ کی وہ رونق جو مقصود بالذات ہے راستے کے حقوق ٹولیاں بنا کر کھڑے نہ ہوں اور کم وقت ٹھہریں عورتوں اور مردوں کے الگ الگ رہتے افریقہ کے احمدی ڈاکٹروں کے کام میں برکت 223 راستے میں تکلیف دہ چیزوں میں گندگی شامل ہے احمدی ڈاکٹر اللہ کی رضا کی خاطر باہر گئے ڈکٹیٹرشپ 224 بازار میں اونچی آواز میں کلام نہ کیا جائے بازاروں میں پاک اذکار کئے جائیں کلی اختیارات ڈکٹیٹرشپ کو پیدا کرتے ہیں ڈلہوزی 617 60.224.390.391 ڈلہوزی کے پادری نے احمدی بچوں سے بات کرنے سے انکار کر دیا حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا ڈلہوزی برف دیکھنے کے لئے جاتا ڈلہوزی ، بادلوں کے باوجود برفباری نہ ہوئی 60 390 391 حضرت مصلح موعودؓ کا بچوں کے ساتھ ایک مربی ڈلہوزی بھیجنا 390 دوکانوں پر جم گھٹا نہ کریں راعی کے معنی راولپنڈی رائے عامہ اشترا کی ممالک میں رائے عامہ 412 414 650 640 640 641 641 641 642 607 650.548.545 595 ڈکٹیٹر شپ میں رائے عامہ کی کوئی پرواہ میں نہیں ہوتی 595 ربوه 2.45.47 158 159 160 161 162.183.270 ڈنمارک ڈیٹرائیٹ ،امریکی شہر 551 418 271.368.391.402-411-431-433.507.508 531.534.539.548.560.562.563.567.568 575.640.641.642.643.644.645.646.647 ڈیٹ لائن ڈیٹ لائن منجی سے گزرتی ہے ڈیٹین ، امریکی شہر 553 431 حضرت مرزا طاہر احمد، قائد مجلس خدام الاحمد یہ ربوہ اسلامی تصورات کی عملی تصویریر بوہ میں موجودہ ہے 649.650.660 45 47
644 645 644 645 645 645 645.660 650 38 بیمار لوگوں کی بھی جلسہ جو بلی پر ربوہ پہنچے کی تمنا 158 دوا بیچنے والوں کی ذمہ داریاں ربوہ کے لوگوں نے مہمانوں کیلئے اچھے غسل خانے بنوائے ہیں 159 بد اخلاق دکانداروں کی دکانیں بند ہو جانی چاہئیں 159 دکانداروں کے حسن اخلاق سے پوری دنیا میں اہالیان ربوہ مہمانوں کیلئے مکانوں کو وسعت دیں ربوہ کے خالی پلاٹوں پر مکان تعمیر کئے جائیں ربوہ کی خالی جگہیں بیوت الحمد کے کام آ سکتی ہیں 160 ربوہ کی نیک نامی ہوگی ربوہ کے خالی پلاٹوں پر اب مالکان کا حق ملکیت نہیں رہا 160 ربوہ میں صفائی کے مستقل انتظام کا منصوبہ جلسہ جو بلی کے لئے ربوہ میں تعمیرات کی طرف توجہ 160 گھروں والے صفائی کا خیال رکھیں 161 کوڑا پھینکنے کی جگہیں بنائیں احمدی انجینئر زربوہ میں سادہ اور رستے گھر تجویز کریں 162 لوکل انجمن احمد یہ ربوہ بعض لوگ سرمایہ کے نام پر دھوکہ دہی کرتے ہیں 183 ذکر الہی ربوہ کی مقصود بالذات رونق تعلیم الاسلام کالج ربوہ کی تعمیر تعلیم الاسلام کا لج ربوہ کے ساتھ حضرت خلیفہ اسیح الثالث کا لگاؤ ربوہ میں رمضان کی راتوں کا منظر غرباء کے مکانوں کی نا گفتہ بہ حالت ربوہ کی گلیاں اہل ربوہ عبادت کے اعلیٰ معیار دکھائیں 270 امن کا ماحول بدرجہ اولی پیدا کریں 271 پورے ربوہ میں نمازوں کے اوقات ایک ہوں جلسه سالانہ پر ربوہ دعا کا سمندر بن جائے 368 جلسہ سالانہ ربوہ کو ذکر الہی سے رونق بخشیں 391 مولانا رحمت علی مبلغ انڈونیشیا آپ کے بیوی بچوں کی قربانی فرشتوں کا نزول اور آگ بجھنا 402 562 411 433 431 560 انڈونیشیا کی تاریخ کا درخشندہ واقعہ رحمی رشتے رحمی رشتوں کا خیال 563 | رزق مساجد میں لوگوں کی بکثرت آمد اہل ربوہ کو صبر اور امن کی نصیحت حضور کے سفر کے دوران ربوہ کا انتظامی ڈھانچہ جلسہ سالانہ پر اہل ربوہ کی خدمت کا اعلیٰ نمونہ ربوہ کے انصار و خدام مکھی سے پاک شہر بنائیں اہل ربوہ کو پبلک سہولتوں کی ضرورت ریوہ میں رہنے والے مخلص اور خداترس ہوں 567 خالص اور پاک رزق اللہ کی طرف سے آتا ہے 568 رسومات 647 647 649 650 79 178500 414 398 575 قرآن کریم نے رسم کی بھیانک شکل کا نام طوق رکھا ہے 636 جلسہ کے دوران مردوں عورتوں کے علیحدہ راستے ہوں 640 ربوہ کو نخش کلامی کے داغ سے پاک کریں ربوہ کے دکاندار دعاؤں کے مستحق ربوہ کے دکاندار جائز منافع لیں بعض مہمان محض اللہ ربوہ سے خریداری کرتے ہیں ربوہ کے دکانداروں کے لئے ثواب کا موقع 641 2 642.643 آنحضرت رسومات سے آزاد کرنے آئے بد رسومات کے خلاف جہاد رسم ورواج کی فلاسفی 628 627 628 رسمیں قوموں پر قابض ہو کر آزادیاں مسخ کر دیتی ہیں 633 643 اونٹ کے خیمہ میں داخل ہونے کی طرح رسم و رواج 644 داخل ہوتے ہیں 398
39 غلبہ مذاہب کے وقت بد رسومات کا آنا اسلام میں بدعات کا آغاز موت کے ساتھ بندھی ہوئی لغور سمیں موت پر ختم قرآن کی کوئی سند نہیں کھجور کی گٹھلی اور بادام پرختم قرآن رشوت بعض لوگ رشوت کو خدا بنا لیتے ہیں رعب 517 رمضان سے وابستہ ہے 517 قرآن کریم رمضان میں اتارنے کی حقیقت 326 325 633 جبرئیل آنحضرت کو رمضان میں قرآن دہرایا کرتے 325 633 رمضان میں عشق الہی اور اللہ کی محبت کی تپیش پائی جاتی ہے 338 633 396 روزے کا پھل خود اللہ تعالیٰ رمضان میں انسانی طاقتوں پر فرشتوں کے پہرے روزوں کے فوائد اور برکات رمضان عبادت میں دوام حاصل کرنے کا ذریعہ حضرت مسیح موعود کو رعب عطا کیا گیا 500 رمضان رونے والوں کو لذت بخشتا ہے رمضان کو اللہ والوں کی علامتوں کے حصول کا آپ نے رعب دجال نہ آنے کی دعادی 500 | رمضان بنالیں 324 334 327.334 379 368 358 احمدی معاشرے میں رعب رکھیں صحابہ مسیح موعودؓ کو رعب عطا ہوا تھا رنگ رنگوں کے فرق سرخ رنگ میں غم کا پیغام روزه / رمضان صیام روزہ تمام عبادتوں کی جامع عبادت عبادت کی تمام قسمیں روزوں میں آجاتی ہیں خدمت خلق کی تمام متمیں روزے میں آجاتی ہیں تمام عبادتوں کا خلاصہ اور ارتقا رمضان ہر مذہب میں روزے فرض کئے گئے پہلے لوگوں پر روزے فرض کئے گئے کے دو مفہوم تمام مذاہب میں روزوں کے تصور کا قرآنی دعویٰ بائبل میں روزوں کا ذکر ملتا ہے روزے کامل شکل میں مسلمانوں میں فرض ہوئے اسلامی روزے کا مقصد قرآن کریم کی ساری تعلیمات کا خلاصہ رمضان شریف میں ہے قرآن کریم کا سب سے اعلیٰ مقصد خدا کو پا لینا، 500 جس میں رمضان داخل ہو گا اس کے لئے باعث برکت 332 502،505 | رمضان میں داخل ہونے والی حدیث کا مفہوم 583 76 332 ہر صاحب استطاعت احمدی کو روزے رکھنے چاہئیں 327 رمضان کے بعد شوال کے چھ روز کے رکھیں تو پھر وصیت کا حق 1/10 بن جاتا ہے فدیہ اپنی طاقت کے مطابق دینا فدیہ ، غریبوں کو اپنے سکھ میں شریک کرنا 324،333 فدیے کا طوعی نظام 325 325 يطيقونه سے مراد رمضان میں ربوہ کی راتوں کا منظر 326 رمضان کی راتوں میں ربوہ رورہا ہے؟ 316 دائی مریض جو روزہ نہیں رکھ سکتے وہ غریبوں کو 316 کھانا کھلائیں 317 روزوں کے ختم ہونے کا غم 317 317 317.322 325 اللہ ہمارے روزے آسان کر دے اے احمدی ! اس رمضان کو فیصلہ کن رمضان بنادو روح اللہ انسان کے جسم اور روح کے درمیان حائل ہے روح الامین روح الامین ہونے کا مطلب 318 322 322 323 319.320 368 368 321 368 361 349 31 618
440 174 174 175 175 436 110.481 110 481 427 428 429 230 232.233 565 565 455 78 40 آنحضرت پر روح الامین اترا روحانیت روحانیت کے بغیر مادیت کا مقابلہ ممکن نہیں روس رویا 617 زبانیں گھر بیٹھ کر سیکھ سکتے ہیں زراعت 505 انسان زراعت میں تیزی سے ترقی کر رہا ہے 401.136.91 ایک دانہ سات سو گنا پھل لاسکتا ہے ایک دانہ سات سو گنا بڑھنے کی قرآنی پیشگوئی حضرت ابراہیم نے خواب دیکھ کر سفر حجاز شروع کیا 460 حضور کے انڈو نیشیا نہ جاسکنے کے بارہ احمدیوں کے رویا 466 انڈونیشیا دورے کیلئے ایک دیہاتی احمدی کی خواب بیوت الحمد سکیم کے بارہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی رویا اور اس کی تعبیر ریڈیو ریڈیو اور ٹیلی ویژن کی لہروں کو صرف بصیرت کی آنکھ سے دیکھ سکتے ہیں ریڈیو ٹیلی ویژن میں Valves سسٹم جلسہ کے ایام میں کمنٹری کیلئے ریڈیوٹی وی سیٹ 467 576 امریکہ میں 120 من فی ایکٹر مکئی کی پیداوار زمیندار کے تقاضے حضرت زرتشت علیہ السلام ایران میں زرتشت کا خدا ظاہر ہوا زرتشتی مذہب حضرت زکریا علیہ السلام حضرت زکریا کی دعا 134 وارث مانگنے کی دعا 491 بیوی بانجھ تھی زمانه بند رکھیں ریڈیائی لہریں ہیروشیمادونا گا سا کی پر گرنے والے بموں کے ریڈیائی بداثرات 647 134.135 حضرت آدم سے آنحضرت کا عرصہ ۴۷۳۹ سال حضرت مسیح موعود کی بعثت کا زمانہ ۱۲۸ھ زینت زینت زندگی کا ایک حصہ ہے ریڈیائی لہریں انسان کے مرکزی خلیوں کو تباہ کرتی ہیں 135 گھروں کی زینت مہمان نوازی کا حصہ ہے ریگستان ریگستان کے جانور سانڈھا، ایک ریگستانی جانور ریگستانی حیات پر سائنسدانوں کی تحقیق ز 654 654 654 س حضرت سارہ حضرت ابراہیم کی دوسری بیوی رض حضرت سارية مسلمان فوج کے سپہ سالار جنہیں حضرت عمرؓ نے خطبہ کے دوران مخاطب کیا 412 زبان نرم اور پاک زبان کے استعمال کی تلقین
16 227 227 596 561 359 359 225 226 400 28 76 له له من 76 551.553 396 410 41 سال نو لندن میں نیوائیر منانے کا منظر نئے سال کے آغاز پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کالندن میں نوافل ادا کرنا تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان سان فرانسسکو.امریکی شہر سائنس اسلام سائنٹیفک مذہب ہے اسلام ایک سائنٹفک سٹم ہے اسلام نے سائنسی طور پر برائیاں کاٹنے اور خوبیاں ابھارنے کی کوشش کی قرآن کریم گہرے سائنسی مضامین رکھتا ہے عالم روحانیت میں سائنسی نظام سائیکل سوار 510 قریشی محمد حنیف صاحب سائیکل سوار کا انداز تبلیغ 510 547 419 353 491 491 591 591 ستاره شریاستاره آنے والا امام ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا ہوگا سٹالن سچائی رقول سدید قول سدید کے بغیر اصلاح ممکن نہیں اللہ سچائی کو ضائع نہیں کرتا اصل زندگی سچائی سے عبادت ہے سخاوت روحانی دنیا کی سائنٹیفک کتاب 404 سخاوت کے ساتھ اپنے ہنر پیش کریں ماڈرن سائنس و ٹیکنالوجی میں Valve سسٹم 491 ہر اچھی چیز میں سخاوت کا حکم ہے سائنسدان احمدی سائنسدان فعال ہوں صرف نظریاتی نہ ہوں احمدیوں کو سائنس میں آگے نکلنا ہے سراب 221 دنیا ایک سراب ہے سرحد، پاکستان کاصوبه 221 احمدی سائنس دان پوری دنیا میں نام پیدا کریں 225 ،222 ایک سائنسدان کا انگریزی محاورہ Safe Side کا استعمال ایک سائنسدان کی امریکہ اور انگلستان کے راہنماؤں 136 136.137 صوبہ سرحد کے ایک احمدی سے افغانستان کے آرکیٹیکٹ کی ملاقات سرخ سرخ پگڑیوں والے فرشتے سرخ رنگ میں غم کا پیغام سے ہتھیاروں کے بارہ گفتگو سائنسدانوں کا کیمرے کی مدد سے سمندر میں زندگی کے آثار دریافت کرنا سائل رمسئول سائل اور مسئول کا تعلق کراچی کے ایک غیر از جماعت دوست کے سوال کا جواب 653 سر بینام سفارش 425،430 دنیا دار بچے امتحان میں پاس ہونے کیلئے سفارش ڈھونڈتے ہیں 470 سکھوں کے مظالم
42 سگریٹ نوشی سودی کاروبار اسلام کے اقتصادی نظام سے مذاق ہے 183 سگریٹ اور تمباکو نوشی کرنے والوں کے بارہ میں لوگوں قرضہ لینے والا سود کے شکنجہ میں جکڑ ا جاتا ہے کا سخت رویہ سلامتی جاہلوں سے السلام علیکم کہ کر علیحدگی اختیار کرنا مومن کی شان ہے مومن کی طرف سے شر کا جواب سلامتی کی صورت میں سلامتی کے شہزادے بننے کی شرط سلفر امریکہ اور کینیڈا کی فضا میں سلفر کا بڑھنا سلفر سلفیورک ایسڈ بن کر جھلیوں کے پانی کو تیزابی کر رہا ہے سمندر سمندر میں زندگی کے آثار سمندری جانوروں کا ذکر سمندر کے پانی کا انتظام 211 206 206 سورج سورج اپنی صداقت کی آپ دلیل ہوتا ہے سورج اندھیرے سے نہیں ڈرا 399 459 526 آنحضور کی پیشگوئی کہ سورج مغرب سے طلوع ہوگا 466 سونا امریکہ میں سونے کی کانوں کی تلاش میں لڑائیاں 358 ہوتی رہیں سور 655 | مرتے ہوئے کیلئے سور کھانا جائز ہے 655 653 654 656 سویڈن سہیل بن عمرو 146 632 551.553 14 صلح حدیبیہ کے وقت کفار کی طرف سے معاہدہ لکھنا ابوسفیان سے کہا کہ غلاموں نے قبول کیا مگر ہم نے منہ موڑا 14 پورے خاندان کے ساتھ آپ کا شام میں جہاد کرنا اور شہادت پانا 15 سیلون رسری لنکا 432.439.466.535 بدھسٹ ملک 439 ش شادی بیاه نکاح انسان کی شرعی اور تمدنی ضرورت ہے بچی کے رخصتانہ پر چائے سے تواضع 635 628 حضرت مسیح موعود کا حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نکاح پر مہمانوں کی تواضع کرنا شادی بیاہ پر خاطر مدارات سے روکنے میں حکمت رخصتانہ کے موقع پر تواضع کی اجازت میں نرمی 629 630 631 432.467.470.535 179.180 179 179 180 182 181 182 183 184 號 سو در سودی نظام تیسری عالمی جنگ کی بڑی وجہ سودی نظام سودی نظام کلیتہ خود غرضی پر مبنی ہے سودی سرمایہ بڑھنے سے افراط زر پیدا ہوتا ہے سودی نظام کے نقصانات سودی روپیہ کے بارہ حضرت مسیح موعود کا فتویٰ احمدی سودی روپے سے نفرت کریں سود کا نام منافع رکھنا دھوکہ ہے سود کا نام تجارت رکھنے سے مال پاک نہیں ہوگا منافع کے نام پر سودی روپیہ لینا حرام ہے
43 شادی کے موقع پر کولڈ ڈرنکس کی اجازت میں حکمت 631 شادی پر لغورسومات بچی کو طاقت سے بڑھ کر جہیز دینے کی بیماری جہیز کا نا جائز مطالبہ جماعتی نظام برداشت نہیں کر سکتا شادی بیاہ پر دکھاوے کے نقصانات شب برات قرآن کریم نے شر کے ساتھ جزوعا اور خیر کے ساتھ منوعاً كا ذكر كيا شرک شرک کا انجام آگ ہے شریعت فلست ابالی حین اقتل مسلما 633 تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر 635 قوم کے ظلم سے تنگ آ کے میرے پیارے آج 635 نہاں ہم ہو گئے یا ر نہاں میں 636 میں تیرا در چھوڑ کر جاؤں کہاں ہ فضل تیرا یا رب یا کوئی ابتلا ہو 369 376 485 چھو کے دامن تیرا ہر دام سے ملتی ہے نجات ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا اگر خواہی دلیلے عاشقش باش جوخدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں نرخ بالا کن که ارزانی ہنوز گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں محرم نہیں ہے تو نوا ہائے راز کا قرآن میں مذکور امانت سے مراد کامل شریعت 603 شعیب علیہ السلام آنحضور شریعت کے امین شریعت محمدیہ کے عالمی ہونے کا ایک پہلو اشعار بلحاظ ترتیب صفحات لا يكشف الغماء لا ابن غترة اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو امروز قوم من نشناسد مقام من نہ دے نامہ کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے کیوں، کیا ہوا، یہ آہ شرر بارکس لئے غیر ممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم سر سے لے کر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں چوں کفر از کعبه برخیز دکجا ماند مسلمانی عدو جب بڑھ گیا شور و فغاں میں 605 627 74 94 123 101 128 141 151 153 183 337 شفا احمد یہ ہسپتالوں میں شفا ہے شفاعت آنحضور کا شفاعت فرمانا خیانت شفاعت سے محرومی ہے شہادت صالحیت کے بعد شہادت کی منزل شہادت دعوت الی اللہ کا انعام ہے 338 343 349 361 382 383 402 442 459 476 555 642 658 96 224 610 610 421 421 آنحضرت سے بعض اولیا اللہ نے شہادت کی دعائیں کروائیں 72 شہادت غم میں لپٹی ہوئی خوشی کی خبر زندہ قومیں خدا کی راہ میں شہید ہونے والوں کو مرنے نہیں دیتیں جماعتی شہادتیں کامیابی کا مقدر ہیں حضرت خالد بن ولید کی شہادت کی خواہش 418 84 423 421
44 حضرت سید عبداللطیف کا بل کی شہادت 68، 29 آنحضرت اور صحابہ نے تبلیغ میں صبر کا نمونہ دکھایا حضرت صاحبزادہ نعمت اللہ کابل کی شہادت حضرت صاحبزادہ نعمت اللہ کا بل نے شہادت سے پہلے دو نفل پڑھے 68 تبلیغ کا صبر سے گہرا تعلق ہے خدا کے نام پر کھڑے ہونے والوں کو صبر اور توکل 70 کرنا ہوتا ہے ڈاکٹر مظفر احمد صاحب آف امریکہ کی شہادت کا تذکرہ 418 صبر کو ہمیشہ میٹھے پھل لگتے ہیں آپ کی شہادت پر حضور کا احمدیوں کو پیغام مکرم ناصر احمد صاحب شہید اوکاڑہ کا ذکر 421 بیٹے کی ہلاکت پر حضرت نوح کا صبر 540 دینی مقابلوں میں صبر کرنا زیادہ بہتر ہے حق چھوڑ کر صبر سے کام لینا زیادہ بہتر ڈاکٹر طیب عارف کی موت ایک شہادت کا رنگ ہے 650 شہد شہد کی مکھی شیث علیہ السلام شیخوپورہ ص صالح علیہ السلام میر صبر کے معانی سوتیلی ماں کا صبر غصہ کی مثال سگی ماں کا صبر غم والے صبر کی مثال صبر کی دو قسمیں قول اور عمل کا صبر 102 100 291 105 277 125 126 جماعت اپنے مقاصد کو صبر کے بغیر انجام نہیں دے سکتی 236 659، 657 جماعت احمدیہ میں صبر کی مثال 242 415 96 96 صبر سے کام لینے کا عزم اور دعا نصیحت اور صبر کا مضمون 236 388 207.209 210 211 تربیت کرنے میں صبر نہ دکھانے کے نقصانات نصیحت،صبر آزما رسته صبر کی قوت کہ وہ مخالفتوں کو کھا جاتا ہے صبر کے نتیجہ میں انقلاب احمدیت برپا ہوگا جماعت کو صبر اور حق پر قائم رہنے کی نصیحت اہل ربوہ کو صبر کی نصیحت نماز میں بے صبری نہ دکھائیں 204، 128 امام کی متابعت میں صبر کا نمونہ دکھائیں 128 صبغة الله 128 99 صبغت اللہ میں تمام نصیحتوں کا نچوڑ اللہ کا رنگ اختیار کرنے کی قرآنی تعلیم صبر کرنے والوں کی دعائیں پھل لاتی ہیں 100 99 | انانیت کا داغ دھو کر ہی اللہ کا رنگ انسان پکڑ سکتا ہے 127 آنحضرت کیلئے صبر کا حکم آپ کو صبر کا حکم نہیں بلکہ آپ کی فطرت کا فیصلہ ہے 127 صحابی اصحابه 210 98 99 239 268 433 131 131 19 20 23 222 آنحضور صبر کا اعلیٰ ظرف رکھتے تھے آپ کا صبر اللہ کی خاطر تھا آنحضور کے مکی دور کے صبر کی مثال آنحضور نے حضرت خباب کو صبر کی تلقین 128 129 238 238 صحابہ کی تعلیم کیلئے حضرت جبرئیل متمثل ہوئے صحابہ کی مدد کیلئے جنگ بدر واحد میں فرشتوں کا نزول آنحضرت اور صحابہ نے تبلیغ میں صبر کا نمونہ دکھایا صحابہ رسول کے ایشیار اور صبر کے نمونے آنحضرت کے حکم پر صحابہ کی اطاعت کا واقعہ 77 76 102 102 4
ابوالیسر کمزور صحابی تھے لیکن تو انا عباس کو قیدی بنایا صحابہ منکسر المزاج تھے صحابہ مسیح موعود لا لا 76 77 45 صنعت کار صنعت کے نسخے اور گر بتا ئیں b 226 صحابہ مسیح موعود اندر کی سچائی کی وجہ سے کامیاب مبلغ تھے 92 طارق بن زیاد صحابہ حضرت مسیح موعود کے اوصاف اور عظمت کردار قادیان میں جلسہ پر صحابہ دینی باتیں بیان کرتے صدرانجمن احمد یہ 501 158 کشتیاں جلا دیں 166 حضرت مرزا طاہراحمد خليفة اصبح الرابع رحمہ اللہ حالات و واقعات احمدی صنعت کاروں ، تاجروں اور سائنسدانوں کے استفادہ کیلئے سیل کا قیام صدر جماعت 221 آپ کا برف دیکھنے کیلئے ڈلہوزی جانا بادلوں کے باوجود برفباری نہیں ہوئی بطور قائد مجلس خدام الاحمد بدر بوہ 390 391 جلسہ سالانہ ربوہ پر صفائی کیلئے خدام الاحمدیہ، انصار اللہ آپ لمبا عرصہ تبلیغ سے منسلک رہے اور صدران محلہ کی کمیٹیاں بنیں صدران محلہ اور خدام کے ذریعہ کبھی مچھر کے خاتمے کا انتظام صراط مستقیم صراط مستقیم کی دعا 45 59 566 آپ کے بچپن میں عیسائی پادری مقابل پر آنے سے کترا یا 60 لندن میں نیوائیر ز ڈے پر نوافل ادا کرنا 567 جلسہ سالانہ کے موقع پر نائب افسر جلسہ 67 66 999 احمد یہ سٹو ڈنٹس ایسوسی ایشن کے پیٹرن 510 2 650 حضرت خلیفہ اسیح الثالث کی اطاعت کا بے مثل واقعہ 508 استقامت دکھانے والوں کی راہ صفائی ربوہ میں صفائی کے مستقل انتظام کا منصوبہ آپ کی روزانہ کی ڈاک سات سو خطوط ملنا آپ کو دن میں بارہ بارہ سو خطوط آتے ہیں اعتراضات پر مبنی خطوط کا موصول ہونا 645 سب سے قابل فکر خطوط پاکستان سے آتے ہیں میں نے خدا کی تقدیر کا بڑی گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے 554 210 210 210 506 388 227 اللہ تعالیٰ نے میری توجہ ایک نکتہ کی طرف مبذول کروائی 351 جلسہ سالانہ پر ربوہ میں گھروں میں صفائی کا اہتمام 645، 567 آپ سے خدا کا معجزانہ سلوک صلاحیت صلاحیت خرچ کرنے سے ختم نہیں ہوتی صلاحیتوں کو خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ ہے 226 آپ کو ایک دوست کا خط جس میں خطبہ کی درستکیاں تھیں 229 جاپانی قوم صنعت میں معروف ہے امریکی اور یورپی اقوام صنعت میں آگے ہیں احمدی صنعت کاروں کیلئے سیل کا قیام احمدی صنعت کار دیانت کے معیار بڑھائیں 222 222 221 223 میں کام سے نہیں ڈرتا 433 اللہ نے میرے دل میں دعوت الی اللہ کی جوت جگائی ہے 422 آنحضرت پر ایک عیسائی معترض کو جواب دینا بیوت الحمد سکیم میں ایک لاکھ روپیہ ذاتی وعدہ چھوٹی بیٹی کا پوچھنا کہ رمضان کی راتوں میں 409 575
62 422 329 349 221 46 ربوہ رو رہا ہے ایک مہمان عورت کا آپ کی بیٹی کو کہنا کہ کھانے کا سواد نہیں آیا بڑی خالہ جان کا تذکرہ 368 داعیان الی اللہ کیلئے میرے دل سے پھوٹ پھوٹ کر دعائیں نکلیں گی 660 دعوت الی اللہ کی لو کو بجھنے نہیں دینا 426 اے احمد یو! ایسی آوازیں دل سے نکالو جو عالم بالا آپ کے خالہ زاد بھائی سید عبداللہ شاہ صاحب کا ذکر 426 میں سنی جائیں اسفار اے احمدی! اس رمضان کو فیصلہ کن رمضان بنادو آپ کا دورہ مشرقی پاکستان ۱۹۶۲ء 623 مجلس شوری کو حضور کے ارشادات سفر لا ہور اور مجالس سوال وجواب سفر آسٹریلیا اور دعا کی تحریک سفر کیلئے روانگی کا ذکر آپ کا تاریخی سفر مشرق دورہ مشرق بعید کا تذکرہ اور مصروفیات فنجی میں آپ کا لیکچر نجی میں آپ کی محفل سوال وجواب نجی میں ایک مولوی اور پادری سے ملاقات ریڈ یونجی میں آپ کا انٹرویو ریڈ یونجی میں حضور کی بیگم صاحبہ کا انٹرویو 431 46 احمدی تاجر اور صنعت کار دیانت کے معیار کو بڑھائیں 223 احمد کی صنعت کاروں، تاجروں اور سائنسدانوں سے 86 استفادہ کیلئے تحریک جدید اور صدرانجمن میں سیل کا قیام 211 اور 465 234 492.493 میرے استنباط سے جو اختلاف کرے وہ اس کا حق ہے 534 جماعت نبی کو نصائح ڈاکٹر مظفر شہید امریکہ کی شہادت پر احمدیوں کو پیغام 421 احمدیت کے مخالفوں کو پیغام لوگ جلد فوج در فوج احمدیت میں داخل ہونگے اپنے سینوں کو تسبیح اور تحمید سے بھر دیں 525 526 526 529 529 آپ کے انڈو نیشیانہ جا سکنے کے بارہ میں احمدیوں کے رویا 466 آپ کا دورہ سپین کا ذکر کرنا آپ نے ناصر آبا دسندھ میں پوری نماز پڑھی کیونکہ وہاں آپ کا گھر تھا ارشادات خواہشات خلافت کے بعد جماعتی انجمنوں کو ہدایات کہ اولین فرض نماز ہے نظام جماعت عبادت کا غلام ہوگا کارکنان سلسلہ کو نمازی بنے کیلئے چھ ماہ کی مہلت مجالس عاملہ اور انجمنیں قیام نماز کی ذمہ دار ہیں 155 131 192 192 193 194 میری خواہش ہے کہ جماعت دنیا میں لوگوں کی 422 518 580 573 سب سے زیادہ ہمدرد بن جائے میری خواہش ہے کہ مسلمان ہر کھیل میں آگے بڑھیں 219 طب رطبیب آپ کی احمدیوں کیلئے ایک دعا اطباء اپنے نسخے چھپاتے ہیں طبیب طبابت کے ذریعہ فائدہ پہنچائے 478 225 226 ربوہ میں دوا بیچنے والے دکانداروں کی ذمہ داریاں 644,645 ربوہ میں دو بیجینے والے دکانداروں کی بعض شکایات 624 طور سینا 62 حضرت موسی پر ہونے والی تجلی مجھے دعائیہ خطوط میں لکھیں کہ میں داعی الی اللہ بن گیا ہوں 62 طوسی ملک شاہ کا شیعہ وزیر 108 621 میرے لئے بہترین نذرانہ دعوت الی اللہ ہے
69 426 415.416 390 11 47 طوق گردن کے طوقوں سے آزادی ممکن نہیں آنحضور گردن کے طوقوں سے قوموں کو آزاد کروانے والے ہیں قرآن کریم نے رسم کی بھیانک شکل کو طوق کا نام دیا انگریز انجینئر کی کتاب میں واقعہ شہادت کا تذکرہ 637 سید عبداللہ شاہ صاحب حضرت مولانا عبد المالک خان 637 ذکر وفات و شمائل کا بیان 636 خواجہ عبد المومن 276 عتبه عثمان بن ابی طلحہ طوفان نوح طيب طیب ،طیب ہی رہتا ہے طیب ایک بھی ہو تو غالب آئے گا حلال کے ساتھ طیب کی شرط شریعت محمدی نے لگائی ڈاکٹر طیب عارف ظ صاحبزادہ مرز اظفر احمد مولوی ظفر علی خان حضرت مصلح موعود کا ان کے علاج کیلئے ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب کو بھجوانا عبادت، (دیکھئے نماز ) حضرت عباس رضی اللہ عنہ ع جنگ بدر میں آپ کو ابو الیسٹر نے قیدی بنایا عباسی دور ماسٹر عبدالحکیم ابرو آف لاڑکانہ آپ کے واقعہ شہادت کا بیان حضرت سید عبداللطیف شہید کابل شہادت کے واقعات 27 آنحضرت نے خانہ کعبہ کی چابیاں عطا کیں 619،620 29 626 650 عرب 100 148 449.653 عرب کے بیابان میں گزرنے والا عجیب ماجرا 100 دعوت الی اللہ سے سارا عرب آنحضرت کا دشمن ہو گیا 148 623 93.94 76 409 عرب پہلوان کا جنگ بدر میں شامل ہونے کا ارادہ عرب کے ریگستان کے ساتھ ساحل عرب قوم عرب با غیرت قوم تھی عفو و درگزر میں عرب قوم کا طریق عربوں کی لڑائیاں سوسو سال تک چلتی تھیں عربوں کی جنگ بسوس کی تفصیلات عربی زبان عربی نہ جاننے والے قرآنی مفہوم نہیں سمجھتے عربی زبان میں باب افعال کی خوبیاں عزت نفس کسی احمدی کا ہاتھ کسی داڑھی پر نہیں اٹھے گا عکرم 236 عکرمہ بن ابی جہل کی معافی کا واقعہ آنحضرت نے عکرمہ کو چادر عطا کی اور دعا کی 69 68 عکرمہ کو ابن ابی جہل نہ کہو 449 653 14 ∞ ∞ 0 8 8 9 580 321 387 د ته ته 11 12 12
48 ایثار کا شاندار نمونه حضرت علی رضی اللہ عنہ آنحضرت حضرت علی کے گھر گئے اور نماز کیلئے اٹھایا 102 200 سواتین لاکھ عیسائی مبلغین اور جماعت کے تین سو 57 عیسائی پادریوں کی تنخواہ پر سالانہ ارب ہا ارب روپے کا خرچ 56 مشرق بعید میں عیسائیت کی تبلیغ اور بدھسٹ کا قبول عیسائیت آپ نے آنحضرت سے خانہ کعبہ کی دربانی کا اعزاز مانگا 619 حضرت عمر رضی اللہ عنہ حج کیلئے مکہ تشریف لے گئے غلاموں کو رؤسا سے آگے بلانے کا واقعہ آپ کا خطبہ کے دوران یا سارية الجبل فرمانا آپ سے مروی ایک روایت ڈاکٹر عمر دین سدھو ربوہ میں مکھی مچھر کی دوائی کے منتظم حضرت عیسی علیہ السلام 14 14.15 78 618 عیسائیت کے سینکڑوں فرقے ہیں عیسائیت کے بگاڑ سے دنیا میں گند پھیل چکا ہے دہریت کے فروغ کی ذمہ دار عیسائیت ہے عیسائی دنیا کو مسلمان بنانا معمولی بات نہیں عیسائیت نے اشتراکیت اور بے حیائی کو جنم دیا اب عیسائیت میں مزید بگاڑ کا امکان نہیں ہے حضرت مسیح موعود کا سر صلیب 566 عیسائی احمدیوں سے بھاگتے ہیں 60.108.121.573.586 احمدی عقیدہ ہے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں آپ کا قول کہ سوروں کے سامنے موتی کس طرح ڈال سکتا ہوں 60 121 ڈلہوزی کے پادری نے احمدی بچوں سے بات کرنے سے منع کر دیا حضور کے علم کلام نے احمدیوں کو عیسائیت سے ٹھکر لینے کا اہل بنا دیا عیسائیت کے خلاف ایک افریقن مبلغ کی دلیل یونیورسٹی آف لندن کے ایک عیسائی کے اعتراض کا جواب ایک عیسائی پادری کی بجی میں حضور سے ملاقات عیسائیت انصاری 56.57.58.59.60.61.92.125.130.144.317 409.467.468.469.526.577.581 قرآن نے یہود ونصاری کو اپنی تعلیم پر عمل کی تلقین کیوں کی بائیس فیصد عیسائی خدا تعالیٰ کی ہستی کے قائل ہیں امریکی رسالہ ٹائم کے اعداد و شمار بائیل میں روزوں کا ذکر طلاق اور اسقاط حمل کے بارہ تصور 581 59 317 469 تبلیغ کے پیچھے مغربی سیاسی اثر اور تہذیب کار فرما ہیں 469 آفات آسمانی پر چرچ کی طرف سے خرچ عیسائیت کے خلاف جہاد ہر احمدی کی ذمہ داری عشق عاشق کے غم کالذت سے تعلق ہوتا ہے محبوب عاشق کیلئے غیرت رکھتا ہے عفو و درگزر عفو سے دائمی ٹھنڈک اور تسکین ملتی ہے حضرت مصلح موعودؓ کا بچوں سے عضو کا سلوک درگزر اور مغفرت کی دعا عیسائی مبلغین کی تعداد دو لاکھ چھہتر ہزار 5% مارمن چرچ کے پچاس ہزار سالا نہ واقفین 577 56 56 عقوبت عقوبت سے بچنے کے دو قسم کے امکانات 467 144 58 58 58 58 468 60 88 60 60 61 92 409 526 59 343 344 434 447 446 31
40 49 مل علم وہ ہے جو خد اعطا کرتا ہے علم سے ہمیشہ انکسار پھوٹتا ہے انسان کا مبلغ علم علماء ایک فنجبین مولوی کولا جواب کرنا ہندوستانی علماء علو جماعت احمد یہ علو کی خواہش نہیں رکھتی علو چاہنے سے بنی نوع کی بھلائی ظاہر نہیں ہوگی عمل صالح عمل صالح کیا ہے؟ اسلام کے دعوی کی دو شرائط دعوت الی اللہ اور 154 دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد میں ہر احمدی داخل ہے 163 24 583 527 526 390 389 عبده عہدے امانت ہیں عید آنحضور نے عہدے مانگنے سے منع فرمایا عید کا چاند دوسروں کو دکھانے میں مزا آتا ہے غریب رغر با غریبوں کی خاطر امیروں کا تواضع سے رکنا باعث ثواب ہوگا ہمارے معاشرے میں غریب کے دکھ 611 611 149 630 48 391 عمل صالح اعمال صالحہ میں دوام پیدا کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے آنحضور حسن عمل کے قائل تھے حسن عمل میں حکمت بھی ضروری ہے عورت مرد عورت کے حقوق برابر ہیں 53 57 85 103 104 ربوہ کے غربا غ غالب، مرزا اسد اللہ خان غالب کے اشعار رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم نہ دے نامہ کو اتنا طول غالب مختصر لکھ دے ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن 43 ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا بعض ظالم مرد عورتوں کے حقوق ادا نہیں کرتے 43 محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا 33 101 395 442 658 عورت مرد کی جوتی کے سوال کا جواب عورتوں کے حقوق کی ادائیگی میں مردوں کا قصور عورت پر مرد کو قوام بنایا گیا عورتوں کی محفل میں غیبت کی عادت غیبت عورتوں سے مردوں میں داخل ہوتی ہے 44 45 199 488.492 490 غانا غانا کی اقتصادی بدحالی غلام رغلامی غلامی کا تصور اللہ کی غلامی ہزار غلامیوں سے نجات بخشتی ہے 551 504 401 غیبت کرنے والی عورت عملاً سوسائٹی سے تنہا ہے 490 آنحضرت پر اہل مکہ کا اعتراض کہ تو غلاموں کا مولیٰ ہے 246 مسلمان عورت کی پکار پر بادشاہ کی لشکر کشی 395 حضرت عمرؓ نے غلاموں کو عزت دی 14
50 50 غلاموں نے اسلام پہلے قبول کیا آگ حضرت مسیح موعود اور آپ کے غلاموں کی غلام بن کر رہے گی حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ السلام بعثت، دعوی، قیام جماعت بعثت کا مقصد آپ کی بعثت کا زمانہ مسیح موعود کی آمد کی نشانی کہ بد دیانتی عام ہو جائینگی 14 قائم کیا اس دور میں آپ سے ہمیں نور بصیرت ملا 312.314 659 301 آپ کی امانت کا واقعہ گرا ہوا بیر اٹھا کھانے سے منع کر دیا 612 آپ کی امانت کا واقعہ، بغیر اجازت حاصل کی گئیں مسواکیں واپس کر دیں امانت کا غیر معمولی واقعہ یہ ٹھیکریاں میرے محمود کی امانت ہیں“ 470 آپ نے امانت کا حق ادا کر دیا 233 232 آپ میں خیرات کی صفت 621 آپ کی مہمان نوازی کے واقعات مسیح موعود کے ذریعہ روحانی انقلاب برپا ہوگا 621 آپ نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے نکاح پر اللہ نے کا سر الصلیب بنا کر بھیجا حضرت مسیح موعود کے علم کلام نے احمدیوں کو 60 مہمانوں کی تواضع کی آپ کو رعب عطا کیا گیا عیسائیت سے ٹکر لینے کا اہل بنا دیا 622 623 624 384 562 628 500 61 آپ کو گالیاں دینے والی ایک خاتون کا احمدیت قبول کرنا 104 آپ کے دور میں سالانہ بیعتوں کی تعداد 56 55 آپ کا فہم قرآن 286 622 622 آپ کے دور میں بعض اوقات ڈا کیئے کو بیعتوں کے آپ کو الہاما امین کہا گیا تھیلے دینے کیلئے بار بار آنا پڑتا تھا 56 ابراہیم آپ کا صفاتی نام عیسائی گفتگو سے بھاگتے ہیں یہ صداقت مسیح موعود آپ کے اصحابہ اور جماعت کی دلیل ہے سیرت طیبہ آپ نے تربیت میں دعا پر زور دیا اولا د کیلئے رعب دجال نہ آنے کی دعا 60 60 آپ کے اصحاب میں عظمت کر دار تھیں آپ کے صحابہ کے اوصاف 211 آپ کے صحابہ انگلستان تک پہنچے 501 501.502 502 500 آپ کے صحابہ اندر کی سچائی کی وجہ سے کامیاب مبلغ تھے 92 آپ کی دعا سے حضرت مصلح موعود کو بے موسمی پھل عطا ہوا 371 آپ کے زمانہ میں جتنے مبلغ تھے آج اس کا آنحضرت کے غلام کامل اور متعلم آپ نے ہر خلق آنحضرت سے سیکھا تھا آپ نے آنحضرت کا بلند مقام ہم پر واضح کیا 659 سوواں حصہ بھی نہیں 612 آپ کے دور میں ہر احمدی مبلغ تھا 314 آپ کی زندہ جماعت کی مالی قربانی آپ نے آنحضرت کی محبت میں ہمیں مغلوب کر دیا 314 مسیح موعود کی جماعت کا عظیم مقام آپ کا فرمانا کہ عرب کے بیابان کا ماجرا فانی فی اللہ کی دعا ئیں تھیں آپ کا احسان کہ آپ نے عصمت انبیاء کو دوبارہ کامل غلبہ اسلام حضرت مسیح موعود کے دور میں ہوگا 100 آپ کی جماعت نیکی کی باتیں سنتی اور عمل کرتی ہے آپ کی جماعت کا عظیم الشان مقام 54 55 360 356 356 411 356
51 ربوہ کی سوسائٹی آنحضرت کے غلام حضرت مسیح موعود کی قائم کردہ ہے آپ کے زمانہ میں ہندوستان میں جماعت کا رابطہ زیادہ تر دشمنان اسلام سے تھا قوم کے ظلم سے تنگ آ کے میرے پیارے آج 561 چھو کے دامن تر اہر دام سے ملتی ہے نجات اگر خواهی دلیلی عاشقش باش 55 جو خدا کا ہے اسے للکارنا اچھا نہیں حضرت مسیح موعود کے مہمان 628، 560،563،570، 159 | نہ آوے ان کے گھر تک رعب دجال تعلیمات آپ کی تعلیمات کا خلاصہ دعا ہے کشتی نوح آپ کی تعلیم جس نے جماعت احمدیہ کی صورت میں مجسم کیا آپ کی کشتی لازما غالب آئے گی آپ کی تحریر ہمارا بہشت ہمارا خدا ہے آپ کی تحریر سچائی سے معمور آپ کی تفسیر 142 آپ کا بیان کردہ صفت مالکیت کا مفہوم يطيقونه کی تغییر 272 دنا فتدلی کی تفسیر 274 آپ کا سورۃ العصر سے استنباط کہ اسلام کے ہزار سال 150 تاریکی اور گھاٹے والے ہے 150 آپ نے اللہ سے کشفی علم پا کر سورۃ العصر کی تفسیر فرمائی آپ کی تعلیمات پر عمل کے بغیر ہم غیر محفوظ ہیں 279 278 اگر نماز توجہ کے ساتھ کھڑی نہ کی جائے تو گر پڑے گی 349 402 459 476 500 523 320 602 204 229.230.232 233 189 آپ کے علم اعداد کی تشریح کی بنیاد کشف الہی تھا 182 آپ کے استنباط سے کسی کو اختلاف کا حق نہیں سودی روپیہ کے بارہ میں آپ کا فتویٰ نکاح کیلئے صرف ایجاب و قبول لازم ہے 635 آپ کے بیان فرمودہ امانت کے معنی 234 605.600 476 357 155 471 338 525 90 95 459 434 الہامات متفرق اللہ نے الہاماً بتایا کہ ایک کشتی تیار کر 272 آپ کے کلام میں شوکت جرى الله في حلل الانبياء 302 آپ کا عارفانہ کلام یہ نان تیرے اور تیرے ساتھ کے درویشوں کیلئے ہیں 384 آپ نے ۱۹۰۷ء میں وقف کی تحریک فرمائی میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا 432 آپ کے الہام کی تشریح جے تو میر اہور ہیں سب جگ تیرا ہو 470،478 | آپ کے کلام کو سمجھیں 500 آپ کے متعلق منفی لٹریچر نُصْرِتُ بالرُّعْبِ سلام علیک یا ابراهیم انک اليوم لدينا مكين امين 622 حضور کا شعر گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں“ یہ احسن قول کا بہترین نمونہ ہے اشعار گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں ان لوگوں کو امروز قوم من نشناسد مقام من سر سے لے کر پاؤں تک وہ یار مجھ میں ہے نہاں عدو جب بڑھ گیا شور و فغان میں 90.642 123 153 آپ کی نظمیں اچھی آواز میں ریکار ڈ کر کے سنائیں آپ کے شعر.اگر خواہی دلیلے عاشقش باش کو بعض نے اپنی مساجد پر لکھوایا 361، 337 صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب
52 62 حضرت مولا نا غلام رسول را جیکی 119 نجی آئی لینڈ حضرت صوفی غلام محمد صاحب انجینئر سید غلام مرتضی شاہ صاحب آپ نے مشرقی پاکستان میں سستے مکان بنانے کا منصوبہ شروع کیا غیبت غیبت کے معنی غیبت نیکیوں کو کھا جاتی ہے - قرآن کریم کے نزدیک غیبت خطرناک بیماری 434 162 488.490 491 488 489 488.492 431 432 439.492 493 494.515 525 524.525.526.527.528.529.535.536 637.538.539.540.542 543 ملک کا تعارف نجی کے ۵۰۰ جزائر مجین قوم کون ہے ڈیٹ لائن منجی سے گزرتی ہے نجی زمین کا کنارہ فجی میں احمدیوں کی تعداد جماعت فجی کو نصائح محبین قوم جماعت کی مخالفت 536 536 536 431 432 439 492.535 525.536 525 غیبت کرنا مردہ بھائی کا گوشت کھانا ہے عورتوں کی محفل میں غیبت کی عادت آنحضرت نے غیبت سے ڈرایا غیبت کرنے والی عورت سوسائٹی میں تنہا ہے 490 حضور کے لیکچر میں فجینز سامعین 490 غیبت عورتوں سے مردوں میں داخل ہوتی ہے 490 نجی میں محفل سوال و جواب چغل خوروں کی جہنم ف ایک پادری کی حضور سے ملاقات 489 ایک مولوی کا حضور سے سوالات کرنا نجی کے غیر مبایعین پر جماعت کا اچھا اثر دورہ نجی کی 66 گھنٹے کی کیسٹس تیار ہوئیں ناندی ، نجی کا ایک شہر 525 526 526 526 528 535 525.529 529 529 529 529 529 537 538 538 538 539 فتح مکہ کے دن خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد پورا ہو گیا 619 نھی پریس میں جماعتی کو ریج فتح مکہ کے وقت آنحضرت کی شان امانت غیروں پر فتح مندی کا احساس فتوی ( نیز دیکھئے افتاء) سودی روپیہ کے بارہ حضرت مسیح موعود کا فتویٰ جاپانی مسلمانوں کا شراب اور سور کے حلال ہونے کا فتویٰ ماسٹر عبد الحکیم ابر و صاحب شہید کے قتل کے فتوے دیئے گئے 619 586 182 فنجی پر یس کے نمائندگان ریڈ یونجی میں حضور کا انٹرویو یڈیوٹی پر نور کی بیگم صاحبہ کا انٹر ویو جماعت نبی کا عزم نو نجی میں اسلام مجین ، جادوگری کے قائل 468 نجی میں احمدیوں کی تعداد فجین مذہب 236 نبی احمدیوں میں جذ بہ فراست
53 نجی کے ایک احمدی کا اخلاص 542 مولانا رحمت علی مبلغ انڈونیشیا کیلئے نزول ملائکہ کا واقعہ 79 چوہدری انور حسین صاحب کا دورہ بھی پر تبصرہ 543 جماعت احمدیہ میں فرشتوں کے نزول کے واقعات 79،81،84 ایک احمدی خاتون کی حفاظت اور فرشتوں کا نزول 81 317.476 317 فدیہ فدیہ کا مقصد اور تشریح فرشتے 323، 319 | فرعون بے انتہا فر شتے کام کر رہے ہیں 659 دسویں محرم کو فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات ملی فساد فتنه عالم ملائکہ کے بعض فرشتے ذوی الجبروت ملائکہ آنحضرت پر اترنے والا روح القدس روح الامین بھی ہے خدا کے فرشتوں کی طرح داعی الی اللہ مختلف طاقتوں کے ہوتے ہیں فرشتوں کا دلوں پر سکینت بن کر اترنا جنگ بدر میں مدد کیلئے فرشتوں کا نزول سیاہ پگڑیوں والے فرشتے جنگ احد میں سرخ پگڑیوں والے فرشتے 593 پاکستان میں بعض لوگ فتنہ و فساد پر تلے ہیں 357 پوری دنیا فسادات کا شکار جماعت احمد یہ ہر ملک میں فساد کو دبائے 617 فصاحت و بلاغت آنحضور انتہائی فصیح و بلیغ انسان تھے 106 قرآن کی فصاحت و بلاغت 385 386 386 332 356.400 75 حضرت ابراہیم کا مجادلہ فصاحت و بلاغت کا کمال ہے 299 76 76 سید فضل شاہ صاحب، صحابی حضرت مسیح موعود حضور کے پاؤں دباتے 76 حضور کی جیب سے ٹھیکریاں پھینکنے لگے تو استقامت دکھانے والوں پر فرشتوں کا نزول 75، 67،70 حضور نے منع کر دیا 623 623 655 654.655 655 655 271 404 376 فضلہ فضلہ پیدائش کا لازمہ ہے فضلہ یعنی Waste Products کا حیرت انگیز قدرتی نظام ایٹم کا فضلہ کہاں پھینکیں ایک جاندار کا فضلہ دوسرے کی غذ ابنتا ہے فطرت انسانی فطرت کہ جس سے پیار ہو اس پر نظر رہتی ہے انسانی فطرت خلا میں نہیں رہ سکتی انسانی فطرت کہ شر پر واویلا کرتا اور بھلائی ملنے پر خود غرض و کنجوس ہو جاتا ہے 75.77 75 77 77 85 266 334 550 77 فرشتوں کا متمثل ہونا فرشتوں کا خوابوں میں ظاہر ہونا حضرت مریم کے لئے فرشتے نے انسان کا جسم دھارا حضرت جبرئیل مستمثل ہو کر صحابہ کو تعلیم دیتے اعمال صالحہ میں دوام پیدا کرنے والوں پر فرشتوں کا نزول ہوتا ہے حضرت لوط کا قوم کی ہلاکت کی خبر لانے والے فرشتوں سے جھگڑنا رمضان میں انسانی طاقتوں پر فرشتوں کے پہرے فرشتوں کے ذریعہ دلوں میں مالی تحریک ابو الیسر کو آنحضرت نے فرمایا ایک ملك كريم فرشتے نے تیری مدد کی
قرآن کریم انسانی فطرت کے باریک نکتوں سے انسان کو توجہ دلاتا ہے حسین مناظر فطرت میں دوسروں کو شریک کرنا فطرت کا تقاضا ہے فقہی مسائل نماز جمع کا مسئلہ 375 149 463.531.557 اہم دینی اجتماعات پر نمازیں جمع کرنے کی اجازت بارش کی وجہ سے نماز جمع کرانا نماز قصر و جمع کا مسئلہ نماز میں بے صبری نہ کریں امام مکمل سلام پھیرے تو مقتدی آزاد ہوتا ہے مسافر کا کسی جگہ گھر ہو تو وہ مسافر نہیں ہوتا 201 227 531 37.131.531 131 حضرت خلیفة امسیح الرابع نے ناصر آبادسندھ میں اپنا گھر ہونے کی وجہ سے پوری نماز پڑھی 131 مسافر امام کی صورت میں مقامی لوگ پوری نماز ادا کریں 37 54 قائد مجلس حضرت مرزا طاہر احمد قائد مجلس خدام الاحمد بدر بوہ قدرت کا نظام قدرت کا حیرت انگیز کمال جنگل کی صفائی کا قدرتی نظام فضلہ کے استعمال کا حیرت انگیز قدرتی نظام ایک ہی زمین میں شیریں اور بدمزہ پھل کا اگنا قدرت کے باریک حسابوں کو کمپیوٹر حل نہیں کر سکتا انرجی کی حفاظت کا قدرتی نظام 45 651 656 654 657 656 656 خوبصورت پھول اور گند کے کیٹروں کا ایک ساتھ نظام 657 قرآن کریم (نیز دیکھئے تفسیر آیات) اہمیت اور عظمت قرآن شریف کے نزول کی حقیقت عظیم الشان کلام ہدایت دینے والی راہنما کتاب ، نماز سفر دورکعات، مقامی لوگ بعد میں نماز پوری کریں 106 عظیم کتاب جو غیر اللہ سے آزاد کرتی ہے فیصل آباد 548 قرآنی ہدایت تقویٰ سے ملتی ہے قرآن سے استفادہ کیلئے تزکیہ نفس اور تقویٰ قادیان پہلی شرط ہے قرآن کریم سب کتابوں سے بڑھ کر سچائی 325 597 579 580 441 458 116،224،225،288،539،646 ، 93 اور حکمت پر مبنی ہے حضرت مصلح موعودؓ قادیان کے احراریوں کی بھی مدد کرتے 93 عظیم کتاب ہر بیماری کا علاج بتاتی ہے قادیان کے ایک فقیرانہ انداز میں تبلیغ کرنے والے 314 501 116 ایسی کتاب جو سارے انسانی نظام پر قابض ہو جاتی ہے 95 قادیان میں ایک دہریہ کی آمد قانون 289 قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت 112.356.400 ایسی کتاب کہ غور کرنے سے عاشق ہو جائیں گے 585 404 قانون اپنے ہاتھ میں نہیں لینا 249، 238 حیرت انگیز عقل و دانش کی کتاب جرمن قانون 551 مومن کیلئے کافی کتاب قانون قدرت کو بھلا کر کوئی قوم زندہ نہیں رہ سکتی 496 | روحانی دنیا کی سائنٹیفک کتاب 586 404
55 قرآنی مضامین قرآن کریم کے بہت سے بطون ہیں 325 قرآن کریم داعی الی اللہ کو اس کے مستقبل کے حالات سے باخبر رکھتا ہے عربی نہ جاننے والے قرآنی مفہوم نہیں سمجھتے 380 قرآن کریم کے بیان کردہ طریقہ تبلیغ کے نتائج قرآن کا ترجمہ قرآن کی روشنی میں ہوگا قرآن کریم کا گہر افلسفہ قرآن کریم نے خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا ذکر کیا تمام مذاہب میں روزوں کے تصور کا قرآنی دعوئی قرآن کریم کا احسان کہ سابقہ انبیاء کی دعائیں محفوظ کردیں قرآن کریم نے تاریخ انبیاء محفوظ کی قرآن کریم نے مختلف انبیاء کو مختلف صفات حسنہ سے متصف کیا قرآن کریم کا سلوب کہ وہ تمام صفات انبیاء کو آنحضرت میں اکٹھا کر کے دکھاتا ہے قرآن اپنے اندر گہرے سائنسی مضامین رکھتا ہے 584 634 454 317 426 حضرت مسیح موعود کے دور میں بھی نکلے قرآن میں قول کا حسن عمل سے وابستہ ہے قرآن کا احسان کہ اس نے حسن یوسف کو بیان کیا حسین معاشرہ کیلئے قرآنی تعلیم بہتر چیز کو بہتر چیز سے بدلو برائی کو حسن سے تبدیل کرو 242 قرآن کا طریق نصیحت سب سے بہتر ہے صبر کی تعلیم 888 88 104 6 8 16 94 95 256.291 282 206 قرآن کریم نے خرچ نہ کرنے کی قسم کھانے سے منع کیا 575 زندگی کے ہر شعبہ میں آگے بڑھنے کی تعلیم 306 قرآن کریم کے نزدیک غیبت خطر ناک بیماری 591 قرآن نے رسم کی بھیانک شکل کو طوق کا نام دیا 218 488 636 کشتی نوح کے بارہ میں بیان کردہ جغرافیہ قرآن اور بائبل کا قرآن کریم کی تذکیر کے رنگ نرالے اور پیارے ہیں 375 271 قرآن کریم میں موجود انبیاء کے واقعات قصے مختلف ہے قرآن کریم میں انذار و تبشیر قرآن پاک نے اثر کرنے والا مجادلہ سکھایا پیشگوئیاں آخرین میں آنحضرت کی قرآنی پیشگوئی 435 کہانیاں نہیں 282 مذہبی آزادی کا قرآنی تصور 234 ایک دانہ سے سات سودانے پیدا کرنے کی قرآنی پیشگوئی 175 قرآن کریم کی عظیم خوشخبری قرآنی تعلیمات قرآن نے ایک خدا کا تصور پیش کیا قرآن کریم اور نماز کے مضمون کے انداز 436 482 198 ساری قرآنی تعلیمات کا خلاصہ رمضان شریف میں ہے 325 کامل حکومت کے نمونہ کا قرآنی تصور قرآن نے کہیں بھی ملیا میٹ کرنے یعنی (Annihilism) کا فلسفہ پیش نہیں کیا نیک اور بد برابر نہ ہو سکنے کا قرآنی فلسفہ قرآن کریم کا قومی مصالح کا ذکر کرنا اللہ کا رنگ اختیار کرنے کی حیرت انگیز تعلیم اعتراضات قرآن پر ہونے والے اعتراض کا جواب قرآن نے یہود و نصاری کو اپنی تعلیم پر عمل کی اللہ کی طرف سے بلانے کے قرآنی حکم میں گہری حکمت 143 قرآن کریم احسن قول اور احسن عمل کو مقابلہ کیلئے پیش کرتا ہے 90 تلقین کیوں کی؟ حضرت مسیح موعود نے انبیاء اور قرآن پر ہونے 267 423 617 94 27 584 20 406 581
56 والے اعتراضات کو یک قلم چک کر دیا قربانی 312 نیگر وقوم آریائی قوم ہم اللہ اور اس کے رسول کی خاطر قربانی دیں گے پولینیشن بحرالکاہل کے جزیروں میں آباد ایک کروڑ احمدی خدا کے نام پر مرنے کیلئے تیار ہے 336 336 قوموں کی تاریخ کا مطالعہ کریں ہلاک شدہ قوموں کے نشان عبرت کیلئے محفوظ ہیں جماعت مال اور نفوس کی قربانی میں پیش پیش ہے 53،54 ہر مسلمان کیلئے نفس کی قربانی اور دعوت الی اللہ لازمی ہے 53 قیدی 536 536 536 347 347 مولانا رحمت علی مبلغ انڈونیشیا اور ان کے بیوی بچوں کی قربانی 79 بعض قیدیوں نے ہتھکڑی سے نجات کیلئے کلائی کاٹ ڈالی 637 احباب جماعت قربانی کرنے والوں کے لئے 76 دعائیں کرتے ہیں قرض امانت اور قرض میں فرق ابوالیسر کا حضرت عباس کو بدر میں قیدی بنانا 186 ک 611 | کابل قرض کو وعدہ کے مطابق ادا کرنا ضروری ہے 612 کابل میں صاحبزادہ سید عبداللطیف صاحب کی شہادت 69 قرضہ لینے والا سود کے شکنجہ میں جکڑا جاتا ہے قصیده 399 خانہ کعبہ میں سینکڑوں بت اور عشقیہ قصیدے لٹکے تھے 619 قضا قضا کے جھگڑوں کی وجہ امانتوں میں کمی قطب جنوبی و شمالی قوت قدسیه آنحضرت عظیم الشان قوت قدسیہ کے حامل 607 497.656 459 کابل میں صاحبزادہ نعمت اللہ صاحب کی شہادت کاربن ڈائی آکسائیڈ کارخانه کارخانوں کا فضلہ ایک مصیبت امداد سے بننے والے کارخانوں کے فالتو پر زرے نہیں ملتے کارکنان سلسلہ احمدیہ مرکز کے کارکنان دوسروں کیلئے نمونہ بنیں 69 655 655 399 193 اللہ کی طرف جانے والے داعی الی اللہ کو قوت قدسیہ مرکز میں کارکنان سلسلہ نماز کی ادائیگی میں پیچھے نہ رہیں 193 عطا کی جاتی ہے 155 قوم را قوام بے نمازی کارکن نکلیں گے تو کام بہتر ہوگا بے نمازی کارکنان کو احسان کے ساتھ فارغ کر دیں 194 197 روحانی تقسیم کے لحاظ سے دنیا کی دو قو میں قوموں کی ترقی کا راز حقیقی آزاد قو میں 401 افسران بے نمازی کارکنان کو پیار سے سمجھا ئیں اور 197 بعض کارکنان کی اولادیں نماز سے غافل ہورہی ہیں 197 جنگوں میں رہنے والی افریقن قوم کی خوراک 552 نظام جماعت کارکنان کی بے نمازی اولا د کو سنبھالنے 493 ضائع نہ ہونے دیں فجین قوم 536 میں مددکرے.197
کائنات کائنات کا عظیم کارخانہ قدرت سمندر کی خاموش کائنات 57 652 654 حقیقۃ الوحی 4.492 الخصائص الكبرى در مشین اردو در مشین فارسی الدر المخور 10 دیوان الحماسه 220-233-256.325.618 230 80.523 تفسیر ابن جر مرطبری تفسیر کبیر از حضرت مصلح موعود تفسیر حضرت مسیح موعود الجامع الصغير للسيوطي 595 جمی کارٹر کی کتاب (Keeping Faith) 357 77 337.361.500 459 76.310 73 310.619 316 94 دیوان غالب ناشر خزینہ علم و ادب اردو بازارلاہور 2001ء سيرة المهدى السيرة الحلبيه الطبقات الكبرى الفوز الكبير کشتی نوح 33.395.442.658 612-622 11 166 320 150 کتابیات آئینہ کمالات اسلام ابن ماجه ، سنن 90.349.606 37 ابوداؤد سنن اربعین اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ الاصابه في تمييز الصحابه اصحاب احمد 60 15.102-103 11.12.343 623 الاغانی انسائیکلوپیڈیا برٹینیکا بال جبریل بائبل 121.145.266.271.317.329.330 البخاری، الجامع الصحیح 35.37.103.110.199.227-238-326.328 566،602،603،604،607،611،641، 343،478،491 | لیکچر لدھیانہ 55 البدایہ والنہایہ 412 لیکچر سیالکوٹ براہین احمدیہ حصہ پنجم 154،476 | مستدرک حاکم 203 523.80 بركات الدعا تاریخ الخمیس 100 77.79 المسلم ، الجامع الصحیح 36.195.286.413.449.488.523.620 تاریخ طبری 12.79.455.477 نسائی سنن تبلیغی پاکٹ بک 154 332 145 وید تذکرہ مجموعہ الہامات حضرت مسیح موعود ایڈیشن 2004 ء اخبارات ورسائل 80.303.384.432-470-500-622 اخبار البدر قادیان 226-286-320.635 نرمندی، جامع 3.5 ٹائم Time ، امریکی رسالہ 58
33 230.233 651 9 9 397 398 58 آنحضور کو کشفا جہنم دکھائی گئی حضرت مسیح موعود نے اللہ سے کشفا علم پا کر سورۃ العصر کی تفسیر فرمائی 38.189.338.432.522 382 اخبار الحکم قادیان الفرقان ربوہ روزنامه الفضل ربوه 69.141.186.360.549.550.574 لوگ الفضل میں جماعتی یا انفرادی قربانی کے واقعات پڑھنے پر دعائیں کرتے ہیں الفضل میں امانت کے بارہ اچھے مضامین کی اشاعت اور جماعت کا استفادہ اخبار ڈیلی میل ، انگلستان 186 615 69 کلیب حضرت موسی کا روحانی کشف بنو تغلب کا سردار کلیب کی بیوی حلیلہ سمائی 432،470،507،513،514،530،548 | پاک کمائی وہ ہے جس سے انفاق فی سبیل اللہ ہو خالص اور پاک رزق اللہ کی طرف سے آتا ہے کراچی کرشن ہند و دھرم کا خدا کرشن کو مظہر بنا کر ظاہر ہوا 109 خانہ کعبہ 9.238.453.454.460-618-619 460 453 454 454 460 618 619 9 656 136 137 109 اول المساجد خانہ کعبہ کی شان خانہ کعبہ کا مقصد آنحضرت کی بعثت تھی کرکٹ (دیکھئے کھیل کھلاڑی) کسری کسری کی ہلاکت کا واقعہ کسوٹی کشتی 476 حضرت ابرا ہیم نے خانہ کعبہ کو دوبارہ تعمیر کیا 411 قرآن کریم میں خانہ کعبہ کی تعمیر نو کا تذکرہ خانہ کعبہ کے کھنڈر کی تلاش کر کے تعمیر 272 فتح مکہ پر خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد پورا ہوا جماعت احمد یہ اللہ کی ہدایات کے مطابق بنائی گئی کشتی ہے 272 فتح مکہ پرخانہ کعبہ کی چابیاں کشتی نوح سے مراد آپ کی تعلیم حضرت مسیح موعود کی کشتی غالب آئے گی کشتی نوح دنیا کی بے مثل اور ممتاز کشتی حضرت نوح نے کشتی کی کاریگری اللہ سے سیکھی کوہ ارارات پر کشتی نوح کی تلاش 274 خانہ کعبہ میں ظلم کی داستانوں کے قصائد لٹکتے تھے 270.271 271 کمپیوٹر قدرت کے باریک حسابوں کا حل نہیں کر سکتا 271 جدید کمپیوٹرائزڈ میزائل سسٹم اللہ تعالیٰ احمدی مہم جو کو قرآنی نقشہ کے مطابق کشتی نوح کمپیوٹر میزائل سسٹم کو آڈر دیتا ہے تلاش کرنے کی توفیق دے 272 کنفیوشس کنفیوشس کا خدا صرف چین کے لوگوں کیلئے تھا 629 166 حضرت یونس اور کشتی میں طافون پر قرعہ ڈالنا طارق بن زیاد نے کشتیاں جلادیں
218 219 219 447 219 219 220 224 59 59 گلی ڈنڈا کا کھیل میروڈ بہ روایتی کھیل ہیں بال امریکہ کا کھیل لڈو ایک کھیل میروڈ بہ بعض پہلوؤں سے ہیں بال سے ملتی ہے افریقہ اور انڈو نیشیا میں کبڈی رائج ہوسکتی ہے تیراکی کے کھیل میں مسلمان بزرگ کا سکھ کو شکست دینا بٹالہ میں احمدی ٹیم کی عیسائی ٹیم سے جیت کہانی اونٹ کا خیمہ میں داخل ہو کر مالک کو باہر نکالنے کی کہانی 631 کیکر 622 622 653 487 220 227.472 631 631 631 553 549 کوثر آنحضرت کو کوثر عطا ہوئی کولڈ ڈرنکس رخصتانہ پر پانی ، پان یا مٹھائی پیش کرنا رخصتانہ پر چائے کی بجائے کولڈ ڈرنکس کی اجازت میں حکمت کوکا کولا کویت کھاریاں کھیل کھلاڑی مجلس صحت کا قیام و مقصد اچھے کھلاڑی کی اطلاع مجلس صحت کو دی جائے مجلس صحت کا کبڈی ٹورنا منٹ کھیلوں کو مجلس صحت کے سپر د کیا گیا ہے مسلمان ہر کھیل میں آگے بڑھیں ہر کھیل کی کوئی احمدی ٹیم دنیا میں پیدا ہو صف اول کی احمدی ٹیم کے قیام کا احساس بہت بڑی نعمت ہے احمدی ٹیم خواہ میڈل نہ بھی لے پھر بھی آگے نکل جائیں گے 217 218 220 217 218 219 220 221 مغربی قوموں کی کھیلیں پسماندہ علاقوں میں رائج ہوگئیں 218 حضرت مسیح موعود کو کیکر کی مسواکیں پیش ہونا اور آپ کا واپس کر دینا آجکل لوگ پورا کیکر کاٹ کر لے جاتے ہیں کیمرہ کی مدد سے سمندر سے زندگی کے آثار دریافت ہوئے 221 کینسر کیمبل پور (اٹک) 551.553.655 642 412 641 412.641 کرکٹ کے کھیل کا باہر بیٹھ کر نظارہ کی مثال پاکستان Vs آسٹریلیا کرکٹ ٹیسٹ میچ کی کمنٹری کرکٹ کمنٹری ایک صحت مند دلچپسی کرکٹ کمنٹری کیلئے جلسہ کے ایام میں ٹی وی اور ریڈیوسیٹ بند رکھیں کرکٹ ٹیم سے محبت کا ایک دعائیہ انداز کبڈی کا کھیل 5 647 647 گالی گلوچ گالی کے جواب میں دعا دینے کا طریق 647 گندی زبان اور گالی گلوچ کا استعمال 649 مشرقی ممالک میں گالی کا رواج 218 جانور کو گالی دینے کا رواج
42 43 548 548.553 559 43 95 78 60 60 ذکر الہی سے زبان کی ناپا کی دور ہوگی کین مشہور مورخ گیڈر 412 لجنہ کے کام بہت بڑھ گئے ہیں 621، 620 لجنہ زیادہ کارکنات کے سپر د کام کرے لجنہ تحریک جدید کے دفتر سوم کی ذمہ دار 152 تحریک جدید میں لجنہ کی خصوصی کارکردگی اجتماع لجنہ اماءاللہ لذت دنیاوی لذتیں چھوڑنے والوں کیلئے بہتر لذتوں کے سامان پیدا کریں لذتوں کے معیار بدلنا ایک دو دن کا کام نہیں 647 647 647 646 510 236 لاڑکانہ ماسٹر عبد الحکیم ابر و صاحب آف لاڑکانہ کی شہادت لاہور 32.44.46.104.117.415.509.549.568 لاہور کے ایک مجذوب کا واقعہ 32 لاہور میں مستورات کے ساتھ ایک مجلس سوال و جواب 44 حضرت عمرؓ کی آوازيا سارية الجبل کو تمام لشکر کا سنتا حضرت خلیفہ اسیح الرابع کا سفر لاہور لاہور کی ایک خاتون کا قبول احمدیت کا واقعہ ماڈل ٹاؤن لاہور کے ایک داعی الی اللہ اطفال الاحمدیہ لاہور کے ایک جلسہ کا واقعہ 46 | لغویات لغویات کا فلسفہ 104 117 | لغویات کے حرام میں داخل ہونے کے مواقع 117 لغویات میں بہروپیہ بین پایا جاتا ہے کراچی ائیر پورٹ سے لاہور کیلئے حضور کی روانگی 509 میوزک اور گانا لغویات کی ذیل میں آتا ہے مال روڈ لاہور 568 نئے سال کے آغاز پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب 568 | لندن لاہور دیکھنے والا پیشاب کرنے پر قید ہو گیا لباس لباس تقوی زندگی کی ضمانت ہے کا نوافل پڑھنے کا واقعہ 497 لنگر خانہ (دیکھئے جلسہ سالانہ ) حضرت لوط علیہ السلام 499 499 برقعے اوڑھ لینے کا خوف اسلامی لباس پہنے کا خوف انگریز قوم کا لباس اکثرے کالر ، ٹائیاں اور میٹس کا تذکرہ 502 لجنہ اماءاللہ لجنہ کی طرف سے احمدی ماوس کو تاکید ہو کہ وہ بچوں کو 96.265 266 267 268.274 قوم کی اصلاح کیلئے ایمان کا انتظار نہیں کیا 96 حضرت ابراہیم نے قوم لوط کی ہلاکت پر اللہ سے بحث کی 265 قوم لوط نے حضرت لوظ سے دنگا فساد کیا 267 267 266 418.419 قوم کی بخشش کیلئے دعا کرتے رہے قوم کی ہلاکت کی خبر لانے والے فرشتوں کا بر امنایا لئیق احمد صاحب بٹ آف امریکہ 200 41 42 نمازی بنائیں نیکی کی طرف بڑھنے والی خواتین کو مزید قربانی کی راہیں دکھائیں لجنہ بچیوں کے سپر ددینی کام کرے
لیٹرین بیت الخلاء 61 مایوسی جلسہ سالانہ کے موقع پر لیٹرینیں بڑھانے کی ضرورت 565 اللہ نے مایوسی سے منع فرمایا مشرقی ممالک میں پبلک ٹائلٹس کی کمی لیکچر لیکچرلدھیانہ کا ذکر 568 مبلغ ( نیز دیکھئے دعوت الی اللہ ) مبلغ بننے کیلئے جامعہ پاس ہونا ضروری نہیں 55 مبلغین کی کمی کا علاج، ہر احمدی مبلغ بنے حضرت خلیفتہ امسیح الرابع کا نجی میں لیکچر 525 غلبہ اسلام کیلئے ہر احمدی کو مبلغ بننا ہوگا لیلة القدر مٹھائی لیلۃ القدر کا آنحضرت سے تعلق لیلۃ القدر میں نزول سے مراد آ نحضرت کا وجود لیلۃ القدر کی غیر معین رات لیلۃ القدر نصیب ہونے کا مضمون تحقیق طلب ہے 369 خوشی میں مٹھائی کی تقسیم اور دوسروں کو شریک کرنا 370 رخصتانہ پر پانی پان یا مٹھائی پیش کرنا 370 370 372 مجادله حضرت ابراہیم کا مجادلہ لیلۃ القدر کے مختلف مفاہیم لیلتہ القدر کی برکتیں حاصل کرنے کیلئے بکثرت درود پڑھیں 373 قرآن کریم پاک اثر کرنے والا مجادلہ سکھاتا ہے جماعت کو آنحضرت کی صورت میں لیلۃ القدر مل جائے 374 آنحضرت کیا صور لینن مار خیم مشہور افسانوی کردار مارخیم Markham مارمن چرچ مالی نظام 596 352 56 مجاہد مجاہد کا سب سے بڑا ہتھیار دعائیں 33.34 57 57 58 629 631 296-299 274-294 282 57 مجذوب لاہور کے مجذوب کا واقعہ کہ میں نے اللہ کو کہہ دیا کہ تیری دنیا پسند نہیں مجلس سوال و جواب حضور کی لاہور میں مجالس سوال و جواب 32 46 لاہور میں مستورات کے ساتھ ایک مجلس سوال و جواب 44 اسلام کا مالی نظام 170 تا 186 نجی میں محفل سوال و جواب سال ۸۳ ۱۹۸۲ ء کے مالی گوشوارہ کا ذکر 358 مجلس صحت مرکز یہ ماں ماں کے قدموں تلے جنت مجلس صحت مرکزیہ کے قیام کا اعلان 44 مجلس صحت مرکزیہ کے قیام کا مقصد 526.527 217 218 بے نمازی ماؤں کی اولاد بے نمازی ہوتی ہے 199 اچھے احمدی کھلاڑی کی اطلاع مجلس صحت کو دی جائے 220 احمدی ماؤں کو بچوں کو نمازی بنا ئیں 200 مجلس صحت کا کبڈی ٹورنامنٹ 217
317 98 99 230 232 453 407 409 234 234 234 369 370 372 373 491 460 619 520 520 521 62 20 شعبہ انسداد کھی دو مچھر برائے ربوہ 566 دسویں محرم کو فرعون سے بنی اسرائیل کو نجات ملی محاسبه محاورے آٹے کے ساتھ گھن پسنا ادھار کھائے بیٹھنا بال بریکا کرنا بلی کو دیکھ کر کبوتر کا آنکھیں بند کرنا بلی بھی گھر میں شیر ہوتی ہے بھینس کے آگے بین بجانا بے زاری کا محاورہ پنچوں کا کہنا سر آنکھوں پر لیکن نالہ وہیں رہے گا پنجابی محاورہ جے چڑھ گئے ہیں، دائی سے عیوب نہیں چھپ سکتے دل بلیوں اچھلنا فارسی محاورہ - پدرم سلطان بود سقیم کا لفظ مختلف معانی میں محاورہ استعمال ہوتا ہے سینہ بسینہ راز نسلوں میں چلنا کھوے سے کھوا چھلنا انگریزی محاورے 587 105 مخالفت آنحضرت کی مخالفت سب سے زیادہ ہوئی صبر مخالفتوں کو کھا جاتا ہے 385،387 حضرت محمد مصطفی ، احمد مجتبی علی محمد 345 340 106 121 311 3 152 21 279 152 311 225 529 بعثت آدم سے آنحضور کا عرصہ ۴۷۳۹ سال آنحضور کی بعثت خانہ کعبہ کا مقصد آنحضرت کی بعثت تھی آپ کی بعثت کے وقت نیکی معدوم تھی آپ کی بعثت کے وقت عرب کی حالت عصر کے لفظ میں آنحضرت کی بعثت اولی اور بعثت ثانیہ دونوں مراد ہیں قرآن میں آپ کی دو بعثتوں کا ذکر آخرین میں آپ کی بعثت کی پیشگوئی لیلۃ القدر کا آنحضرت سے گہرا تعلق لیلۃ القدر سے مراد آپ کا وجود آپ وہ سورج ہیں جن کے ذریعہ لیلۃ القدر وجود میں آئی نور مصطفوی کا نزول ہی لیلۃ القدر ہے صفات / مقام A bird in hand is better than two in a bush.473 یعنی ہاتھ میں موجود ایک پرندہ جھاڑی میں موجود دو پرندوں سے بہتر ہے.Absolute power corrupts absolutely یعنی کامل اقتدار مطلقا بد دیانت کر دیتا ہے Beggers are never chooser (یعنی مانگنے والے کو کبھی اختیار نہیں ہوتا ) یعنی تماشایینی Bottle Neck I am Sick of you' Safe Side کا انگریزی محاورہ 311 136 کامل رسول.ہر امر کی وضاحت فرمائی محمد اپنی دلیل آپ ہیں خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد کہ آنحضرت اس میں عبادت کریں صفات الہیہ کے مظہر اتم صفت ربوبیت کے مظہر صفت رحمانیت کے مظہر
108 610 373 332 365 602 373 221 325 317 357 7.365 606 493 214 199 200 602 602 602 98 63 صفت مالکیت کے مظہر کامل کامل موحد اور متوکل توحید کے علمبردار صاحب قوت نبی کامل طور پر مطاع اللہ کے نزدیک بلند مقام مالکیت کے حقوق عطا کئے گئے اللہ اور مخلوق کی طرف جھکاؤ وسیع دل کے مالک صفت غنی تمام جہانوں کے لئے رحمت 522 آنحضور اور موسیٰ کے رب کے تصور میں فرق 449 آپ کا شفاعت فرمانا 453 آنحضرت سراج منیر ہیں 616 انتہائی فصیح و بلیغ انسان تھے 616،620 | آنحضرت سے بلند مقام کسی کا نہیں 616 آپ کا مقام دنا فتدلی 617 | آنحضرت پر بکثرت درود بھیجیں 471 احساس نعمت پر حمد الہی اور آنحضرت پر درود بھیجنا 372 جبرائیل آنحضرت کو رمضان میں قرآن دہرایا 472 267 کرتے تھے آپ کو روزوں کی کامل تعلیم دی گئی آپ رحمۃ اللعالمین اور خدا رب العالمین ہے 111،113 آپ کی فتح کا وعدہ پرانے نبیوں نے کیا اللہ تعالی آنحضرت پر کیفیت وکیمیت دونوں لحاظ سے ارفع و اعلیٰ جلوہ گر ہوا آنحضرت کے عالمی رسول ہونے کا ثبوت 111 267 اسوہ رسول و سیرت طیبہ آنحضرت کی سیرت طیبہ آپ کے ساتھ سارے انبیاء کی کہانی دہرائی جانی تھی 267 آپ نے اپنی مرضی خدا کے تابع کرلی آپ نے ہمیں نور بصیرت عطا کیا آپ اصدق الصادقین تھے آپ کی صفت : نصیحت کرنے والا 659 238.239 آپ کا قائم فرمودہ تو حید کا نقشہ امہات المومنین کی گواہی کہ آپ راتوں کو 205 چھپ کر باہر جاتے اور گریہ کرتے آنحضرت اپنی بیویوں کو نماز کیلئے اٹھاتے آپ حضرت علی کے گھر گئے اور نماز کیلئے اٹھایا 206 205 604 حقوق العباد پر حضرت خدیجہ کی گواہی 605 آپ مقام عدل میں بہت آگے تھے آپ کا محسن اور ایتائے ذی القربی کا مقام 606.612 عذاب نہ دینے والا ، رحمۃ اللعالمین آپ داروغہ نہیں ہیں انسان کامل نے امانت کے بوجھ کو اٹھا لیا شریعت کے امین کامل امین آپ پر اترنے والا روح القدس روح الامین بھی ہے 622 ،617 سب سے زیادہ احسن قول آپ کا تھا آپ سب سے زیادہ پاک نبی تھے ظلوماً جهولاً كى صفت آنحضرت کو کوثر عطا ہوئی ہر حسن کا منبع اور سر چشمہ آنحضور کو اپنے رب کی طرف بلانے کا ارشاد ہوا آنحضور اپنے رب تک خود پہنچے 314 آپ دعوت الی اللہ کے ہر مضمون کے لحاظ سے دو حظ عظیم 101 604 227.472 آپ دعوت الی اللہ میں ہمارے لئے نمونہ ہیں مومن ایمانیات اور حقوق اللہ وحقوق العباد 15،16 آنحضرت سے سیکھتا ہے 108 ایمان بالغیب آنحضرت سے سیکھو 108 آپ ان پڑھ تھے 101 187 188 154
99 64 آنحضرت کا طریق تبلیغ آپ نے تبلیغ میں صبر کا نمونہ دکھایا آپ محسن عمل کے قائل تھے آپ کے ہر فیصلہ کے پیچھے حکمت کار فرما تھی تبلیغ کا کام صرف آپ کے تک محدود نہیں ماننے والوں پر بھی فرض ہے آنحضرت نے اللہ کی طرف لوگوں کو کھلی دعوت دی دعوت الی اللہ سے سارا عرب آپ کا دشمن ہو گیا آپ اپنے رب سے اور آپ کا رب آپ سے پیار کرتا تھا سورۃ آل عمران کی آیت ۱۹۲.۱۹۱ کے نزول کے وقت آپ کی کیفیت 102 مظالم کا مقابلہ جرات سے کیا 102 حضرت خباب کو آنحضور کی صبر کی نصیحت 103 آپ کو بنی نوع سے جذباتی حد تک پیار 104 604 238 35 37 اور ہمدردی کے انداز صبغۃ اللہ آنحضور سے حاصل ہوسکتا ہے 126، 110 اللہ نے خوشخبری دی کہ اگر تیری قوم صبر اور حق پر قائم رہی تو سارے جہاں کی رحمتیں نازل کروں گا 148 طریق نصیحت و دعوت الی اللہ کامیاب ناصح اور مذکر کو آنحضرت کی پیروی کرنا ہوگی 214 147 154 نصیحت کیلئے ہمیں آپ کے نقش قدم پر چلنا ہے 649 آپ کی نصیحت میں گہر اسوز اور اثر تھا آپ لوگوں کے غم میں گھلتے رہے آپ کا امتیاز کہ اللہ نے خود امین کا لقب دیا 616،620 | آپ دنیا کے سب سے بڑے مذکر تھے فتح مکہ پر حضرت علی کی بجائے عثمان بن ابی طلحہ کو خانہ کعبہ کی چابیاں دے دیں اپنے غلاموں کو آپ نے امانت کی اعلی تربیت دی آپ کی تربیت سے چھوٹے بچے بھی امانت کا حق سمجھنے لگے آپ تکلف کرنے والے نہ تھے عظیم محسن اور نجات دہندہ کہ گردنوں کے طوقوں سے قوموں کو آزاد کروانے والے ہیں آپ کی ساری زندگی فاستبقوالخیرات کا عظیم الشان نمونہ تھی آنحضور کا اسوہ ہی زندگی کا راستہ ہے آنحضور کا مکی دور صبر کی نمایاں مثال آنحضرت کا صبر اللہ کی خاطر تھا آنحضرت دشمنوں کے لئے غم محسوس کرتے غصہ نہیں آپ قبر کا اعلیٰ ظرف رکھتے تھے مبلغ کو صبر محمد کی تلقین کی گئی آنحضرت کی نصیحت کا مقصد ہمیں زندگی بخشنا ہے 619 آنحضرت کے فرمان سے اجتناب موت ہے آنحضرت کی چھوٹی نصیحت میں بھی ترقی کے راز 620، 621 آنحضرت کی حسین سیرت دور سے نظر آتی ہے عفو درگزر، جانی دشمنوں اور قاتلوں کو معاف کر دیا 620 فتح مکہ پر ظالموں اور قاتلوں کو معافی 630 فتح مکہ پر معافی کا پر شوکت مظاہرہ ہند کو معاف کرنے کا اعلان 637 آنحضرت کو حضرت حمزہ کی شہادت کا دکھ تھا حضرت بلال پر مظالم کرنے والوں کو معاف کر دیا 219 | عکرمہ کی بخشش کیلئے آپ نے دعا کی 268 206 214 212 214 214 30 30 4 5 10 10 10 10 11 13 13 6 7 7 14 625.626 490 238 آنحضرت کی سیرت کا بیان اور سنناذ مہ داری کا متقاضی 238 آنحضرت کے چھوٹے عمل میں بھی تعلیمات کا سمندر 127.129 حسن یوسف کو آنحضرت سے کوئی نسبت نہیں 129 اصلاح کے حیرت انگیز نمونے 127 129 آنحضرت کے لامحدود احسانات آنحضرت نے غیبت سے ڈرایا
221 139 336 336 573 606 227 466 476 65 59 آپ نے راستوں کے حقوق بھی بتائے آپ رسومات سے آزاد کروانے آئے 639 | آگے نکل جائیں گے 628 ہمارے امام حضرت مصطفے ہیں آپ کے بیان فرمودہ معاشرہ کی تعریف 413 ہم اللہ اور اس کے رسول کی خاطر قربانی دیں گے آنحضرت کا قائم فرمودہ مومنوں کی جماعت کا تصور آپ کے انکار کرنے کے نقصان قوت قدسیه عظیم الشان قوت قدسیہ کے حامل ہمارا خمیر آنحضرت کے عشق سے گوندھا گیا ہے 627 آنحضرت کی امت دنیا میں آنحضرت کے قریب ہو جائیں پیشگوئیاں 458 621.623 409 246 282 33 33 233 آپ نے دعاؤں سے تبدیلی پیدا کی آپ نے گہری رات کو دن میں بدل دیا آپ کی بخشش کا پھل کہ سرداروں نے اپنی جانیں دے دیں آنحضرت معربوں میں نمایاں خوبیاں پیدا کر گئے آپ نے انصاف کا معیار بلند کیا 211 آنے والا امام ستاروں پر کمندیں ڈالنے والا ہوگا 235 سورج مغرب سے طلوع ہوگا کسری کی ہلاکت کا واقعہ 15 آئندہ زمانہ میں امانت ضائع ہو جائینگی 409 متفرق 410 آپ پر ایک عیسائی کے اعتراض کا جواب آپ کی پیدا کردہ حسنات کلیۂ غائب نہیں ہوئیں 410 آنحضرت پر اہل مکہ کا اعتراض کہ آنحضرت کے غلبہ دین کا ایک پہلو آنحضور کی فتح کامل غلبہ مسیح موعود کے زمانہ میں ہوگا آنحضرت کے غلبہ میں بہت کم جانی نقصان ہوا آنحضور کی جنگوں میں جانی نقصان کا تجزیہ صحابه رامت 356 آنحضور کو کشفا جہنم دکھائی گئی 573 تو غلاموں کا مولیٰ ہے 356 آنحضرت پر جبر کا الزام لگانے والے ظالم ہیں جبریل کا آنحضور کو جہنمی شخص کے بارے بتانا 140 حروف مقطعات پر آنحضرت کی تفسیر آنحضور کے وقت بعض اولیاء اللہ نے 139 محمد رسول اللہ اور آپ کے ساتھی اللہ والے ہیں 348 شہادت کی دعائیں کروائیں 72 آنحضرت کے غلاموں کا قرآن میں تذکرہ 397 آنحضور نے ابوالیسٹر کو فرمایا کہ ایک فرشتے نے تیری مدد کی 77 محمد رسول اللہ اور آپ کے ماننے والوں کی خوبیاں 493 میاں محمد ابراہیم جمونی، سابق مبلغ امریکہ جنگ بدر کے وقت صحابہ سے مشورہ انصار مدینہ کا آپ سے عہد اور وفا آنحضرت کے مکتب میں داخل ہونے کیلئے اعلیٰ ڈگری کی ضرورت نہیں 540 541 حضرت مولوی محمد دین رفیق مسیح موعود آپ کا ذکر خیر 458 قریشی محمد حنیف سائیکل سوار احمدی رحمتہ اللعالمین کے غلام ہیں اور رہیں گے 387،612 ان کا انداز تبلیغ 545 155.156 116 حضرت میاں محمد عبد اللہ سنوری ، رفیق حضرت مسیح موعود حضرت محمد مصطفی کے غلام احمد کی دنیا میں
99 66 حضور کے ساتھ سیر میں شریک حضور نے بیر اٹھا کر کھانے سے منع کر دیا مولانا محمد یار عارف مخلوق مخلوق کو خالق سے ایک طبعی تعلق ہے مل بینہ مدینہ یونیورسٹی انصار مدینہ کا آنحضرت سے عہد وفا مربی ( نیز دیکھئے مبلغ ) 612 آزادی مذہب کا قرآنی اعلان 423، 125 ، 111،112 612 قرآن میں مذہب کا خلاصہ 650 45 187.571 حقوق العباد ادا نہ کرنے والی مذہبی جماعتیں اخلاق سے عاری ہوتی ہیں مشرقی مذاہب میں خدا کا تصور ہر مذہب میں روزے فرض کئے گئے تمام مذاہب میں روزوں کے تصور کا قرآنی دعوی 603 467 316 317 526،541،561 | تاریخ مذاہب بتاتی ہے کہ اقلیتیں ہمیشہ جیتا کرتی ہیں 215 حضرت مصلح موعود نے ایک مربی بطور منتظم بچوں کے ساتھ ڈلہوزی بھیجا مربیان نجی کی طرف سے تربیت میں کمزوری مردہ مردار مردہ بھائی کے گوشت کھانے کی مثال مردار کا گوشت مرده پرستی مری مری میں حضرت مصلح موعودؓ کا مولوی ظفر علی خان کا علاج کروانا مذہب مذہبی لحاظ سے دنیا دو حصوں میں تقسیم 526 541 غلبہ مذاہب کے وقت بد رسومات کا آنا فجئن کا مذہب مستشرقین قرآن کریم اور انبیاء پر اعتراضات 390 جنہوں نے مسلمان مفسرین کی غلط تفسیروں کی 539 وجہ سے اعتراضات کئے مسجد / مساجد 389 اول المساجد اور آخر المساجد کی شان 289 بیت الحرام سب سے اہم مسجد جو تمام بنی نوع کیلئے 538 93 بنائی گئی خدا کا خوف رکھنے والے ہی مساجد آبا د کرتے ہیں مسجدوں کی آبادی کا خیال رکھیں سپین میں پانچ سوسال بعد بننے والی مسجد 517 538 312 312 460 452.453 594 511 572 مسجد سپین کے شکرانے کے طور پر بیوت الحمد سکیم کا اجرا 572 مسجد آسٹریلیا کی بنیاد پر بیوت الحمد سکیم کی یاددہانی احمدیہ مسجد آسٹریلیا کی بنیاد مسجد شہید کرنے والے خود ہلاک ہو گئے اللہ، ہر مذہب کے درمیان قدر مشترک 143 144 دنیا کے مذاہب اور ان کے فرقوں کی فہرست طویل ہے 144 ربوہ کی مساجد میں لوگوں کو بکثرت آمد اللہ تمام مذاہب کا مشترک لفظ 572 431 418 411 ایک اللہ کا تصور مشرک مذاہب میں بھی ہے حقوق العباد مذہب سے نکلے ہیں مذہب کا مقصد اللہ کی عبادت ہے 108 108 189 189 حضرت مسیح موعود کے شعر اگر خواہی دلیلے عاشقش باش کو بعض لوگوں نے اپنی مساجد پر لکھوایا 459 مسجد مبارک ربوه 434.557
67 مسجد مبارک قادیان مشرق کو جیتنے کیلئے خود خدا کے بن جائیں حضرت مصلح موعوددؓ کی مجلس عرفان بمقام مسجد مبارک 288 حضور کا دورہ مشرق مسجد نبوی آخر المساجد مسجد نبوی کی شان مسجد نبوی کی ابتدائی حالت خلیفہ اسیح کا پہلا سفر مشرق مشرق میں دین کی ترقی کے نئے دروازے 461 103،460 مشرق میں بدھسٹ عیسائیت قبول کر رہے ہیں ہماری مساجد آخر المساجد کے نمونہ پر تعمیر ہوں 460 461 461 مسجد نبوی میں دشمن اسلام باندھے گئے اور ان کی معافی 103 مسلمان ( نیز دیکھئے اسلام ) دورہ مشرق بعید کا تذکرہ مشرقی ممالک میں گالی کا رواج مشرق وسطی مشرق وسطی کے پانی کا مسئلہ مسلمان کو موت پر غالب آنے کیلئے پیدا کیا گیا 485 مشرق وسطی کے تیل کی طرف نظریں بلیک مسلم آرگنا ئز بیشن امریکہ احمد یہ مشن ہاؤس شہید کرنے کی ذمہ وار 419 475 451.465 465 466 467 513 641 467.536.656 656 467 مصر اسرائیل نے مصر کے ہتھیاروں کو ان کے خلاف استعمال کیا 91 508 418 418 418 421 434 413 16 506 510 506 مسواک حضرت مسیح موعود نے بغیر اجازت حاصل کی ہوئی کیکر کی مسواکیں واپس کردیں 622 حضرت صاحبزادہ مرزا مظفر احمد ڈاکٹر مظفر احمد شہید ا مریکہ واقعہ شہادت مسیح موعود ( دیکھئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام) جماعتی خدمات اور دعوت الی اللہ کا شوق مشاورت مجلس شوری میں حضور کے ارشادات تاریخ احمدیت امریکہ کا پہلا واقعہ 221 شہادت پر حضور کا احمدیوں کو پیغام مشاورت کے موقع پر پاکستان بھر سے نمائندگان کی آمد 194 حافظ مظفر احمد صاحب مشاورت کی وجہ سے نماز جمع کرنا شوری کے ممبران بر وقت نشستوں پر پہنچیں جملہ احباب جماعت دعاؤں سے شوری میں شامل ہو سکتے ہیں 201 201 معاشرہ آنحضرت کی بیان فرمودہ معاشرہ کی تعریف 201 حسین معاشرہ کی قرآن کریم اور سنت نبوی میں تعلیم معجزه معجزہ کیا ہوتا ہے اللہ سے تعلق کے بعد معجزہ پیدا ہوتا ہے خلفاء جماعت کے معجزے حضرت خلیفة المسح الرابع کی ذات سے خدا کا معجزانہ سلوک 506 553 130 467 467 مسقط مشرق، مشرق بعید مشرقی بلاک مشرق میں عیسائیت کی تبلیغ مشرقی مذاہب میں خدا کا تصور
619 238 14 14 68 80 معروف آنحضور کا مکی دور صبر کی مثال انبیاء سب کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہیں 634 غیروں کو بھی معروف کا حکم دینا ہے 534 رؤ سا مکہ نے غلاموں کو عزت ملنے پر ذلت محسوس کی حضرت عمر حج کیلئے مکہ تشریف لے گئے مغربی معاشرہ مغربی سوسائٹی میں اسلام کا غلط تصور مغفرت الہی مغفرت الہی انسان کو پوری طرح ڈھانپ سکتی ہے مفسر 130 44 اہل مکہ کا آنحضور پر غلاموں کے مولا ہونے کا اعتراض 245 رؤسائے مکہ کفار مکه 246 284 34 کافر پہلوان بدر میں شامل ہوکر اہل مکہ سے دشمنی اتارنا چاہتا تھا 449 فتح مکہ پر خانہ کعبہ کی چابیاں آنحضرت کے سپرد ہوئیں 618 فتح مکہ پر خانہ کعبہ کی تعمیر کا مقصد پورا ہوا بعض مفسرین نے حضرت ابراہیم کے نقص بیان کئے 307 مستشرقین نے مسلمان مفسرین کی غلط تفسیروں کی وجہ سے اعتراضات کئے مقطعات حضرت مصلح موعودؓ نے مقطعات کے اعداد کا استنباط آنحضرت کی تفسیر کی روشنی میں فرمایا مقناطیس مقناطیسی قوت مقناطیس کی دو قو تیں جاؤ بہ اور دفعہ مکان کبھی 312 شعبہ انسداد کھی و مچھر 233 شعبہ کے نگران ڈاکٹر عمر دین سدھوصاحب صدران محلہ اور خدام کے ذریعہ کبھی مچھر کے خاتمے کا انتظام کریں ربوہ ابھی سے پاک شہر ہو مکی 590 591 امریکہ میں ۲۰ امن فی ایکڑ مکئی کی پیداوار ملائیشیا 83 ملک شاہ ابن الپ ارسلان 619 566 566 566.567 567 175 470.536 621.624 621 92 182 184 179 خاکستر مکان کے بدلے اللہ نے خوبصورت مکان دے دیا ربوہ کے غربا کے مکانوں کی نا گفتہ بہ حالت 391 امام موسیٰ رضا کی قبر پر دعا ربوہ کے پلاٹوں پر مکان نہیں بنا سکتے تو جگہ چھوڑ دیں 160 مناظرہ خالی پلاٹوں پر مکان تعمیر ہونے سے جلسہ پر تین گنا ر ہائش 160 مناظرہ سے گفتگو کا مقصد تقویٰ اور سچائی ہو پر اہل ربوہ مکانوں کو وسعت دیں مشرقی پاکستان میں احمدی انجینئر کاستے مکان بنانے کا منصوبہ 159 منافع 161 سود کا نام منافع رکھنا دھوکہ ہے منافع کے نام پر سودی روپیہ لینا حرام ہے احمدی انجینئر ز ربوہ کیلئے سستے اور سادہ مکان تجویز کریں 162 13 فیصد سود لینے والا 50 فیصد تک تجارت میں مکه کما سکتا ہے 14.238.245.246.284.449.452.454.618
69 69 منافقت اسلامی اصطلاح میں منافقت مہمات 501 کئی مہمات نے کشتی نوح کو تلاش کرنے کی کوشش کی 271 حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب اللہ احمدی مہم کوکشتی نوح کی تلاش کی توفیق دے حضور کے سفر کے دوران امیر مقامی ناظر اعلی بيوت الحمد کے بارہ میں آپ کی رؤیا موت موت کے مختلف دائرے آنحضرت کے فرمان سے اجتناب موت کے مترادف موت سے ٹکرا کر زندگی ملتی ہے موت کے بغیر انسانی زندگی ترقی نہیں کر سکتی بعض دفعہ موت ایک رحمت بن جاتی ہے مورخ آئندہ مورخ لکھے گا کہ دنیا کی نجات احمدیت کے ذریعہ ہوئی مومن گین مشہور مورخ موعظہ حسنہ (دیکھئے زیر لفظ دعوت الی اللہ ) سچے مومن کی ایک علامت مومن کے آنسو باران رحمت بنا کرتے ہیں موسیٰ علیہ السلام 86 مہمان نوازی 434 | حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی 272 562.628 576 مہمان نوازی کے واقعات پر مشتمل مضامین کی اشاعت 562 30 32 20 جلسہ سالانہ پر مہمان نوازی کے بارہ ہدایات 562،561 مہمان نوازی کیلئے گھروں میں زائد راشن کا انتظام گھروں کی زینت مہمان نوازی کا حصہ ہے 483 میاں بیوی کے حقوق 484 اسلامی معاشرہ میں میاں بیوی کے تعلق میاں بیوی کا بے وجہ جھگڑا کرنا 651 141 620.621 599 122 میاں بیوی میں ایثار اور محبت پیدا ہونا خانگی معاملات کے جائزہ کیلئے کمیشن کی رپورٹ میزائل سسٹم جدید کمپیوٹرائز ڈمیزائل سسٹم مینار افغانستان کی روح آزادی کا علامتی مینار جو مقام شہادت حضرت سید عبد اللطیف صاحب تعمیر ہوا میوزک میوزک اور گانا لغویات کی ذیل میں آتا ہے 569 565 413 412 414 45 136 29 646 میوزک کے متعلق واضح حرمت کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا 646 646 95 551 گھروں سے گانے ، بے ہودہ پروگرام کی تکلیف دہ آوازیں باہر نہ آئیں میوزک سے ہٹانے کیلئے اچھی آواز میں نظمیں تیار کر کے سنائیں ن ناروے 108.109.303.317.453.476.573.651 108 108 109 651 621 موسی کلیم اللہ آنحضور اور موسی کے رب کے تصور میں فرق موسی پر بجلی ہوئی تو بے ہوش ہو گئے آپ کا روحانی کشف امام موسی رضا ملک شاہ ابن الپ ارسلان کا ان کی قبر پر دعا کرنا
232 62 62 217 219 70 0 ناصر آبادسندھ 131 نذرانہ حضرت مرزا ناصر احمد خلیفہ المسح الثالث نذرانہ کا فلسفہ 271.465.507.554 حضور کیلئے بہترین نذرانہ دعوت الی اللہ آپ کو تعلیم الاسلام کالج سے بہت پیار تھا 271 نصب العین کالج کی تعمیر پر بہت محنت کی آپ نے مشرقی پاکستان ایک وفد بھجوایا 271 مسلمانوں کا نصب العین اچھی بات اور خوبی میں 507 آگے بڑھنا آپ کا فرمانا کہ انگلی صدی غلبہ اسلام کی صدی ہے 554 آنحضرت کی ساری زندگی فاستبقوا الخیرات کا ناصر احمد شہید اوکاڑہ 540 عظیم الشان نمونہ تھی نصیحت انصائح ناظر ر نظارت نظارت امور عامه نظارت اصلاح وارشاد 645 645 359 134 قرآن کریم کی تذکیر کے نرالے اور پیارے رنگ قرآن کریم کا حیرت انگیز طر ز نصیحت قرآن کریم صبر کی نصیحت کرتا ہے بجٹ کے بارہ ناظر صاحب بیت المال کی گھبراہٹ ناگاسا کی ، جاپان کا شہر ایٹم بم گرائے جانے کے ریڈیائی اثرات ناندی، فنجی کا شہر نائٹروجن نائٹروجن بم کی غیر معمولی طاقت نائیجیریا نبوت رسالت انسانی تدریجی ترقی کا راز نبوت ہے نور نبوت سے آنکھ خدا کو دیکھتی ہے 375 256.291 282 آنحضرت کا طریق نصیحت اور دعوت الی اللہ 212 ،206 نصیحت کیلئے اسوہ رسول کی پیروی 135 آنحضرت کی نصائح کے مقصود کا بیان 529، 525 آنحضرت کی نصیحت کا مقصد ہمیں زندگی بخشنا آنحضرت کی نصیحت کو تخفیف سے نہ دیکھیں 135 551 410 659 نصیحت قبول نہ کرنے والوں میں احساس کمتری پیدا ہوتا ہے اللہ سے ڈرنے والے نصیحت حاصل کرتے ہیں 214 30 333 30 39 21 590 قرآن کریم نے ہدایت کو خوف خدا کے ساتھ پابند کیا ہے 590 حضرت نوح کی نصائح اپنے اندر گہرے سبق رکھتی ہیں 253 حضرت نوح پہلے نبی جن کی نصائح کو قرآن نے محفوظ کیا 242 نیکی نبوت کے آنے سے داخل ہوتی ہے 406 انبیاء کی نصیحتوں میں فطری دلائل پر زور دیا گیا ہے نور نبوت سے دنیا زندہ ہوتی ہے جماعت احمد یہ نور نبوت کا احسان ہے نبوت کے ہمیشہ بند ہونے کا تصور سب سے پہلے قوم نوح نے پیش کیا امین ہونا نبوت کی شرط اول ہے 660 410.660 245 242 نوح سے آنحضرت تک بچوں نے نصیحت سے کام لیا 247 حضرت نوح نے دعائیہ رنگ میں نصیحت کی خلیفہ کی نصیحت میں غیر معمولی اثر نصیحت اور صبر کا مضمون 263 2 98.207.211.239 616 نصیحت کی بات دیکھیں یہ نہ دیکھیں کون کہ رہا ہے بات 4
71 نصیحت میں کچھ نوافل ہیں اور کچھ فرائض 4 شہادت سے پہلے صاحبزادہ نعمت اللہ شہید کابل نصیحت کی قبولیت کیلئے عجز وانکساری پیدا کرنی ہے 23 نے دو نفل پڑھے اموال اور دولتیں بھی نصیحت قبول کرنے سے نئے سال کے آغاز پرلندن میں حضور کا نفل پڑھنا بے نیاز کرتی ہیں 24 نماز ر صلوة رعبادات استکبار اور جھوٹی عزت نصیحت میں حائل جماعت کو صبر اور حق پر قائم رہنے کی نصیحت 25 268 اہمیت و فوائد مذہب کا مقصد اللہ کی عبادت 70 510 نصیحت کرنے والے میں غیر معمولی جذب ہونا چاہئے 213 نماز کی طرف توجہ دلانا ہمارا اولین فریضہ نصیحت میں طعن وتشنیع کرنے والا متکبر ہوگا نصیحت نہ ماننے پر کسی پر غصہ نہیں کرنا صاحبزادہ نعمت اللہ شہید کابل شہادت اور استقامت کا واقعہ احمدی دوست کو لکھا جانے والا خط اخبار ڈیلی میل انگلستان میں واقعہ شہادت کا ذکر نظم 212 اگر نماز توجہ کے ساتھ کھڑی نہ کی جائے تو گر جائیگی 249 اعمال کا خلاصہ نماز ہے نماز کے بغیر اللہ اور مخلوق کا تعلق نہیں قائم ہوتا 189 189 189 191 191 199 70 69 آنحضرت اپنی بیویوں کو نماز کیلئے اٹھاتے 69 آنحضرت حضرت علی کے ہاں گئے اور نماز کیلئے اٹھایا 200 69 آنحضرت نے نابینا صحابی کونماز با جماعت سے رخصت نه دی حضرت مسیح موعود کی نظمیں اچھی آواز میں تیار کر کے سنائیں 95 نفرت مومن غیر سے نفرت نہیں کرتا نفرت پیدا کرنے والوں سے تعلق توڑلیں نفس رنفوس مال کے ساتھ نفوس بھی پیش کرنے ضروری ہیں جماعت نفوس کی قربانی میں پیش پیش ہے 599 499 54 53 قرآن کریم اور نماز کے مضمون کے انداز حضرت اسماعیل اپنے گھر والوں کو نماز کی تعلیم دیتے عبادت میں دوام کی نصیحت عبادت کی حفاظت کی نصیحت عیادت کے بغیر ہماری کوئی زندگی نہیں نماز معاشرے میں خوبیاں پیدا کرتی ہے عبادت کے ذریعہ مومن کو اللہ کا پیار حاصل ہوتا ہے عبادت کرنے والوں کی دوصفات حسنہ جماعت کو نفوس کی قربانی کی زیادہ ضرورت ہے 54 کچی نمازیں پڑھنے والوں پر دکھ غالب نہیں آتا انسان کو اصل خطرہ اپنے نفس سے ہے محاسبہ نفس کی طرف توجہ کی تلقین نفسیات ایک ماہر نفسیات کا علاج کرنا 583 587 بچے نمازی اموال میں غربا کا حق رکھتے ہیں عبادت کا ہمدردی سے گہراتعلق ہے انسانی حقوق کی ادائیگی کے بغیر نمازیں جنت میں 438 نہیں لے جائیں گی نفسیات کا گہرا نکتہ کہ جرم کی وجہ سے خوف پیدا ہوتا ہے 352 عبادت کے بغیر حقوق العباد کی ادائیگی کا جذبہ پیدا نفل نہیں ہوتا 196 198 198 383 383 384 403 381 379 378 378 572 47 189
72 عبادت کا حق ادا کرنا سیکھیں اور بیوی بچوں کو نماز پڑھائیں دو قسم کے نمازی نماز اور نظام جماعت نظام جماعت قیام نماز کو اولیت دے نظام جماعت عبادت کا غلام ہوگا اپنی سچائی کے دلائل اور نصائح 244 463 آپ کے زمانہ کا انسان اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھتا تھا 245 404 | حضرت نوح کا اپنی قوم کو جواب 189 192 حضرت نوح سے آنحضور تک بچوں نے نصیحت سے اور جھوٹوں نے جبر سے کام لیا آپ کی نصائح اپنے اندر گہرے سبق رکھتی ہیں حضرت نوح کا دعویٰ سارا انتظام جماعت وقتا فوقت نماز کی طرف توجہ دلائے 192 آپ کی تبلیغ کی مثالیں مرکز میں کارکنان سلسلہ نماز کی ادائیگی میں پیچھے نہ رہیں 193 جماعت پر بے نمازی کارکن رکھنے کا جبر نہیں 193 بے نمازی کارکنان کو احسان کے ساتھ فارغ کر دیں 197 ہر جماعت کی مجلس عاملہ اور تنظیم قیام نماز کی ذمہ دار ہے 194 احمدی گھر نمازوں کی فیکٹریاں بن جائیں اگر احمدیوں کی اکثریت نمازی ہو جائے تو ساری دنیا ہمارا مقابلہ نہیں کرسکتی لجنہ کی طرف سے احمدی ماؤس کو تاکید ہو کہ وہ بچوں کو نمازی بنائیں نور آنحضرت کا احسان کہ ہمیں نوربصیرت عطا کیا 199 199 200 آپ کی تبلیغ میں حکمت کے پہلو آپ نے لوگوں کو آفاق کی طرف متوجہ کیا آپ نے دعائیہ رنگ میں نصیحت کی آپ کی بددعا کا فلسفہ اللہ نے حکم دیا کہ میری نظروں کے سامنے کشتی بنا کشتی کی کاریگری اللہ تعالیٰ سے سیکھی نوح نے صبر سے بیٹے کی ہلاکت برداشت کی قوم کیلئے دعا کرنے میں منع کرنے کی حکمت طوفان نوح نبوت کے ہمیشہ ہند ہونے کا تصور سب سے 659 پہلے قوم نوح نے پیش کیا حضرت مسیح موعود سے اس دور میں ہمیں نور بصیرت ملا 659 نیکی ( نیز دیکھئے عمل صالح) 245 247 253 255 258 260 261 263 264-269 270 271 277 275 276-277 245 نور نبوت سے آنکھ خدا کو دیکھتی ہے نور نبوت سے دنیا زندہ ہوتی ہے جماعت احمد یہ نور نبوت کا احسان ہے نوح علیہ السلام 659 نیکی نبوت کے آنے سے داخل ہوتی ہے 660 آنحضرت کی بعثت کے وقت نیکی معدوم تھی 406 407 660 آنحضرت کی پیدا کردہ حسنات کلیۂ غائب نہیں ہوتیں 410 139.242 243 244 245 246 247 248 249.250.253.254.258.260.261.263 264 267 268 269 270 271.290.300 302.453 حسنات سے بدیاں دور ہوتی ہیں اٹل اور ازلی ابدی قانون کہ نیکیاں مثبت طاقت ہیں نیکی منزل کا نام نہیں بلکہ ایک سفر کا نام ہے نیکی کی بات کسی دلیل کو نہیں چاہتی نیکی اور بدی میں مقابلہ ہر وقت جاری ہے 404 408 41 96 89 پہلے نبی جن کی نصیحتیں قرآن نے محفوظ کیں آپ کی نصائح فطری نوع کی ہیں 242 242 نیکی کا بھی تکبر ہوتا ہے 212 213
623 صاف ہونے کا منظر الله 73 دارہ ، ایک شہر دارہ کے علماء نے ماسٹر عبد الحکیم ابر وصاحب کے قتل کے فتوے دیئے واقعات حضرت خلیفہ اسیح الثانی کی مجلس عرفان میں دہریہ کی آمد کا واقعہ 288 236 مولانا رحمت علی مبلغ انڈونیشیا کی دعا سے آگ ٹھنڈی ہوگئی 80 واقعہ شہادت سید عبدالطلیف شہید کابل کا ذکر شہادت صاحبزادہ نعمت اللہ شہید کابل آنحضرت کا نابینا صحابی کو نماز سے مستثنیٰ قرار نہ دینا 196 حضرت مسیح موعود کی امانت کا ایمان افروز واقعہ 612 شیر آیا شیر آیا والا واقعہ حضرت مسیح موعود کی امانت کا واقعہ بغیر اجازت حاصل کی گئیں حضرت عمر کا سرداران کے مقابل پر غلاموں کو 622 آگے بلانے کا واقعہ مسواکیں واپس کر دیں حضرت مسیح موعودؓ کی امانت کا واقعہ ٹھیکریاں جیب میں فتح مکہ کے موقع پر معافی کے واقعات نیز ہند اور واپس کروا دیں کہ یہ میرے محمود کی امانت ہیں بٹالہ میں احمد می ٹیم کی جیت کا واقعہ تاریخ احمدیت میں محفوظ ہونے والے واقعات 623 224 2 عکرمہ کی بیعت کسری کی ہلاکت کا واقعہ لاہور کے جلسہ میں تقریر کے دوران نروس ہونے کا واقعہ جماعت احمدیہ میں فرشتوں کے نزول کے واقعات 81 لاہور کی ایک مخالف خاتون کے قبول احمدیت حضرت خلیفہ مسیح الرابع کا حضرت خلیفہ امسیح الثالث کی لاہور کے ایک مجذوب کا واقعہ 29.68 69 151 14 10.11 476 117 104 32 568 387 276 510 45 414 199 200 200 اطاعت کا بے مثل واقعہ آنحضرت کے ارشاد بیٹھ جاؤ پر ایک صحابی کی 508 لاہور دیکھنے والا پیشاب کرنے پر قید ہو گیا بیوی کے ساتھ ہر وقت لڑائی پر تلے رہنے والے اطاعت کا واقعہ 4 395 مرد کا واقعہ طوفان نوح کا واقعہ مسلمان عورت کی پکار پر بادشاہ کی لشکر کشی بھیڑ کے بچے اور بھیڑیئے کے پانی پینے کا قصہ 387 نئے سال کے آغاز پر حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کا خواب کے ذریعہ ایک غیر احمدی مولوی کی بیعت 119 لندن میں نوافل پڑھنے کا واقعہ ڈلہوزی کے چرچ کے پادری کا احمدی بچوں سے بات کرنے سے منع کرنے کا واقعہ ایک پاگل کا واقعہ جو اپنے آپ کو شیشے کا سمجھتا تھا غلط بیانی کرنے والے کو بادشاہ کے اشارہ پر ہلاک کرنے والی تلوار تنخواہ بڑھانے کیلئے مونچھیں بڑی کرنے کا واقعہ ثمامہ بن اثال کے قبول اسلام کا واقعہ جنگ بسوس کے واقعات طوفان کے بعد بنگلہ دیش میں سڑکوں سے درخت دریا میں ڈوبنے والے شخص کی یتیم بیٹی کے ساتھ 60 اس کے خاوند کا ظالمانہ سلوک کا واقعہ 437 137 382 103 9 والدین ایک دوسرے کے ماں باپ کا خیال رکھنا اولاد کی عبادت کا خیال رکھیں خدام الاحمدیہ اور انصار اللہ کو غافل والدین کے بچوں پر بہت محنت کرنی پڑتی ہے مرد اپنی بیویوں کو نماز کا پابند کر یں
74 باپ اپنی اولا دکا ذمہ دار ہے مرد پر تربیت اولاد کی ذمہ داری ہے لیکن عورت بھی ذمہ دار ہے 198 سب کو ولی بننا ہوگا 199 مردوں کو عورتوں کی تربیت کا ذمہ دار قرآن نے ٹھہرایا 199 بے نمازی ماؤں کی اولاد بے نمازی ہوتی ہے وائٹ ہاؤس ورزش ورزش سے طاقت بڑھتی ہے ورزش سے کمزور آدمی طاقتور ہو جاتا ہے وسعت وسعتوں کا سر چشمہ خدا تعالیٰ ہے بچے میں پہلوان اور ویٹ لفٹر بننے کی وسعت وصیت وقف واقف زندگی (نیز دیکھئے مبلغ) حضرت مسیح موعود نے ۱۹۰۷ ء میں وقف کی پہلی دفعه تحریک فرمائی حضرت مسیح موعود کی تحریک وقف پر لبیک کہنے والے حضرت مولوی محمد دین صاحب واقفین زندگی کا اخلاص وقف جدید 199 136 59 482.483 443 445 318 115 155 555 مولی کے مقابل پر بندوں کیلئے ولی کا لفظ حضرت ولی اللہ شاہ محدث دہلوی ویٹ لفٹر بچے میں ویٹ لفٹر بننے کی وسعت حضرت ہاجرہ علیھا السلام ہالینڈ ہائیڈ روجن ہائیڈ روجن بم کی غیر معمولی طاقت ہاتھی افریقہ کے جنگلوں کے ہاتھی ہاتھی کا فضلہ صاف کرنے کا قدرتی نظام شد ہتھیار 450 450 230.320 445 454.455.456 ہمارے ہتھیار دعائیں ہیں صبر اور نصیحت کے دو ہتھیار ہمیں دیئے گئے ہیں ایک ان پڑھ معلم وقف جدید کا کامیاب طریق تبلیغ 118 | جنگ کو روکنے والے مہلک ہتھیار 225 سے ہتھیاروں پر گفتگو وکیل رو کلا ایک سائنسدان کی انگلستان اور امریکہ کے راہنماؤں احمدی وکلاء وکیل وکالت کے ذریعہ فائدہ پہنچائے 226 ہتھیار کے استعمال کا طریق آنا چاہئے مصر اسرائیل جنگ میں رشیا نے مصر کو ہتھیار دیئے ولی رولایت ولایت کا مضمون دوطرفہ ہے دہر یہ قو میں بات نہ ماننے والے کے خلاف ہتھیار آنحضور نے اپنے رب سے دوستی کا حق ادا کیا ولایت کے مختلف پہلو 448 448 344 استعمال کرتی ہیں ہدایت 553 135 655 655 502 166 239 134 135 91 91 249
قرآنی ہدایت تقویٰ سے ملتی ہے 75 441 ہندوستان، پاکستان اور مشرقی ممالک میں گالی دینے کا رواج 641 ہدایت کا وعدہ تقویٰ رکھنے والوں کے ساتھ ہے ہدایت یافتہ کہنے کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے ہدایت یافتہ اور گمراہ ٹھہرانا اللہ کا کام ہدایت یا فتہ کی علامت ہدایت کے مضمون پر حاوی آیت قرآنی ہسپتال احمد یہ ہسپتالوں میں شفا ہے افریقہ میں احمد یہ ہسپتالوں کی نیک شہرت ہمالہ ہمالہ کی چوٹیاں ہمدردی خلق عبادت کا ہمدردی سے گہرا تعلق ہے آنحضور کی بنی نوع سے ہمدردی کے انداز قوت جاذ بہ ہمدردی کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے بيوت الحمد سکیم غرباء کی ہمدردی کی تحریک جماعت احمد یہ سب سے زیادہ ہمدرد ہو کر وسیع کام سرانجام دے ہند بنت عتبہ ابوسفیان کی بیوی ہند کی معافی ہند کی بیعت کا واقعہ ہند نے حضرت حمزہ کا کلیجہ چبالیا ہند کو آنحضرت نے فرمایا تم عقبہ کی بیٹی ہو ہندا بو سفیان کی چوری کر لیتی تھی ہندوستان 120 125 ہندومت 580 ہندوؤں کا ظلم 585 587 224 223 سناتن دھرم ہندو آریہ ہند و ہنر 125 130.410.438.439.537 410 احباب پوری سخاوت کے ساتھ اپنے گراور ہنر جماعت کو پیش کریں گے ہیروشیما 476 475 جاپان کا شہر جس پر ایٹم بم گرایا گیا ایٹمی بموں کے ریڈیائی اثرات 572 35 213 یتیم ریتامی ی 572 بیوگان اور بیتامی کی سر پرستی کا فوری انتظام جماعتیں کریں یتیم لڑکی کے ساتھ ظالمانہ سلوک کا واقعہ 573 10 11 11 11 11 109.134.219.220.439.517.526.641 حضرت یحییٰ علیہ السلام حضرت یسعیاہ علیہ السلام یورپ جماعت احمد یہ مشرقی یورپ میں بھی ہے اہل یورپ کی دانش و حکمت یورپ کی قو میں صنعت میں آگے ہیں یوسٹن لندن کا ریلوے اسٹیشن 537 537 225 134 135 49 45 428 329 55.140.222 55 140 222 ہندوستان کے بزرگ سید اسماعیل صاحب شہید نے حضرت یوسف علیہ السلام ایک سکھ کو تیرا کی میں شکست دی ہندوستانی علماء 220 | حضرت یوسف کا اپنے بھائیوں کو معاف کرنا 526 حسن یوسف کو آنحضرت سے کوئی نسبت نہیں 510 7.8.313 7 7
526 409 125.581 76 یونیورسٹی مدینہ یونیورسٹی یونیورسٹی آف لندن کے ایک عیسائی کا اعتراض اور اس کو جواب یہود قرآن نے یہود ونصاری کو اپنی تعلیم پرعمل کی تلقین کیوں کی؟ 581 8 313 313 537 629 قرآن کا احسان کہ اس نے حسن یوسف کو بیان کیا عصمت کے شہزادے آپ کی مثال احسن القصص یوگنڈا یونس علیہ السلام کشتی میں طوفان کے وقت قرعہ ڈالا گیا