Language: UR
خطبات طاہر خطبات جمعہ 1998 سیدناحضرت مرزا برای خلیفة ابن الرابع طاہراحة رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى جلد 17 طاہر فاؤنڈیشن
نام کتاب بیان فرموده خطبات طاہر جلد نمبر 17 حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ اصیح الرابع رحمہ اللہ خليفة المسح الرابع رحم الن اشاعت ناشر مطبع
1 بسم الله الرحمن الرحیم پیش لفظ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ادارہ طاہر فاؤنڈیشن احباب جماعت کی خدمت میں خطبات طاہر کی 17 ویں جلد پیش کرنے کی سعادت پارہا ہے.الحمد للہ علی ذلک.خطبات طاہر کی یہ جلد سید نا حضرت خلیفہ امسیح الرابع کے 1998ء کے باون (52) معرکۃ الآراء اور پر معارف خطبات جمعہ پر مشتمل ہے.یہ سال ایک تاریخی اہمیت کا حامل سال ہے.اس سال حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے ارشادات و ملفوظات کی روشنی میں عملی اصلاح ، حصول تقویٰ ، حصول معرفت، محاسبه نفس، تربیت اولاد، انفاق فی سبیل اللہ تبتل الی اللہ کا ایک سلسلہ جاری فرمایا.اس کے متعلق آپ فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک جماعت کی تربیت کے لئے آج کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کو پڑھ کر سنانے سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہے.اتنا گہرا اثر رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ، اس طرح دل کی گہرائی سے نکل کے دل کی گہرائی تک ڈوبتے ہیں اور ایک ایسے صاحب تجربہ کا کلام ہے جس کی بات میں ادنی بھی جھوٹ یا ریا کی ملونی نہیں ہے.ہر بات جو کہتا ہے وہ کچھی کہتا ہے اس سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی اور کیا بات ہو سکتی ہے.پس اب میں اسی طریق کو اپناتے ہوئے جو گزشتہ چند مہینوں سے میں نے اپنایا ہوا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں اور جہاں تشریح کی ضرورت ہوئی وہاں تشریح کروں گا.“ حضور انور نے احمدیوں کو متحد ہو کر دعاؤں کی تلقین فرماتے ہوئے 12 دسمبر 1997ء کے خطبہ میں پاکستانی قوم کو تنبیہ فرمائی تھی.امسال بھی حضور انور نے برصغیر پاک وہند میں ایٹمی دھماکوں کے حوالہ سے باہمی پیچیدہ سیاسی صورتحال پر 29 مئی 1998ء کے خطبہ جمعہ میں تبصرہ فرمایا اور ایٹمی تابکاری کے حوالہ سے ہو میو پھینک دوائیں تجویز فرمائیں.حضور نے جماعت احمدیہ کو دعاؤں کی نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ: خطبہ جمعہ 13 فروری 1998ء)
2 جماعت احمدیہ کو ایک عالمی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ عدل، احسان اور ایتاء ذِي الْقُرْبی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر ان تین صفات حسنہ پر عمل شروع کر دیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دعا سے کام لیں.امر واقعہ یہ ہے کہ دعا کے بغیر اور مقبول دعاؤں کے بغیر آج نہ ہندوستان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ پاکستان کے حل ہو سکتے ہیں.“ (خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء) 28 مئی 1998ء کو پاکستان ایک نئی ایٹمی قوت بن کر دنیا کے نقشہ پر ظاہر ہوا.12 جون 1998ء کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے اس حوالہ سے جماعت احمدیہ کے کردار اور مساعی کا تفصیلی ذکر فرمایا.حضور انور نے قیام پاکستان، کشمیر موومنٹ ، مسئلہ فلسطین اور پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے میں کلیدی کردار ادا کرنے پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان صاحب اور مکرم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی خدمات کو سراہا.پاکستان کی نیوکلیئر افزائش کے تعلق میں ایک عالمی حیثیت قائم ہوگئی ہے اس میں اوّل کردار ایوب خان اور دوم کردار جو سائنسی کردار ہے یہ ڈاکٹر عبدالسلام نے ادا کیا.ڈاکٹر سلام صاحب نے یورینیم کی افزائش کے سلسلہ میں ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر کی دریافت کے بعد اس کو کس طرح ایٹمی توانائی کے قابل بنایا جاسکتا ہے اس کے متعلق سب سے اہم مشورے دئے اور شیخ لطیف صاحب جواحمدی سائنسدان ہیں یہ وہ سائنسدان ہیں جن کو اس کام پر مامور رکھا ہے.بڑی خاموشی کے ساتھ ، بغیر کسی انانیت کے جذبہ کے تحت کریڈٹ لینے کی کوشش کے، انتہائی خاموشی اور اخفا کے ساتھ یہ کام کرتے رہے ہیں اور اس کی تفصیل میں یہاں بیان نہیں کر سکتا لیکن میرے پاس وہ سارے کوائف موجود ہیں.اگر میں بیان کروں تو دنیا حیران رہ جائے گی کہ احمدی سائنسدانوں نے کتنی خاموشی کے ساتھ وہ خدمات سرانجام دی ہیں جن کے بغیر پاکستان میں نیوکلیئر افزائش کا کوئی سلسلہ ہی نہیں چل سکتا تھا.“ خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء) حضور انور نے خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء میں مختلف ادارہ جات ، ذیلی تنظیموں، امرائے ممالک اور مبلغین کرام کو سرخ کتاب (Red Book) رکھنے اور اس کو با قاعدہ مرتب کرنے کے لئے از سر نو تحریک فرمائی.
3 ”جماعت احمدیہ کے نظام کو مکمل کرنے کے لئے اور آئندہ حسین سے حسین تر بنانے کے لئے اس سرخ کتاب کو رواج دینا اور اس تفصیل سے رواج دینا جس تفصیل سے میں نے بیان کیا ہے انتہائی ضروری ہے.اس تعلق میں انفرادی طور پر بھی لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اپنے اپنے گھروں میں اگر ایک چھوٹی سی کتاب رکھ لیں اس میں عموماً آئے دن خرابیاں ہوتی رہتی ہیں.مثلاً بچوں کو چوٹ لگ جاتی ہے اور بعض دفعہ چھوٹی سی غلطی سے بہت سخت چوٹ لگ جاتی ہے تو ان کا فرض ہے یعنی میں سمجھتا ہوں کہ ان پر جماعتی طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس طرح جماعت کی خرابیوں پر ہم نظر رکھتے ہیں کہ دوبارہ نہ آئیں وہ بھی ان خرابیوں پر نظر رکھیں تا کہ بے وجہ دوبارہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں.“ (خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء) حضور انور نے امسال (1998ء) میں دیگر عمومی مضامین وقف جدید، نماز وروزہ کی اہمیت، جمعۃ الوداع، لیلۃ القدر، قرب الہی ، صحبت صالحین ، وقف کی اہمیت ،جلسہ سالانہ کے مہمانوں اور میز بانوں کو نصائح ، قول سدید، چندوں کی اہمیت، امانتوں کی حفاظت، قناعت شکر گزاری تبتل الی اللہ، ایثار، تربیت اولا د حیا، اور تحریک جدید جیسے عناوین پر معرکۃ الآراء خطبات ارشاد فرمائے.خطبات طاہر جلد 17 کی تدوین کے لئے حضور کے خطبات مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل اور مرکزی ویب سائٹ پر موجود ویڈیو خطبات سے استفادہ کیا گیا ہے.تدوین کے دوران خطبات جمعہ میں ضروری اور اہم حوالہ جات دے دئے گئے ہیں.اللہ تعالیٰ مربیان ادارہ طاہر فاؤنڈیشن اور اُن سب احباب کو جزائے خیر عطا فرمائے جنہوں نے کسی بھی رنگ میں جلد ہذا کی تیاری میں معاونت فرمائی.فجزاهم الله احسن الجزاء خاکسار مظفر احمد ظفر چیئر مین طاہر فاؤنڈیشن
سیدنا حضرت مالا بهار در این رابع رَحِمَهُ الله تعالى
صفحہ نمبر 1 19 31 37 55 73 1 نمبر شمار خطبه جمعه فرموده 2 2 جنوری 1998 فہرست خطبات (1998) عنوان وقف جدید کو آئندہ نسلوں کو سنبھالنے کے لئے استعمال کریں 9 جنوری 1998 جھوٹ کے خلاف جنگ ایک عظیم جہاد ہے، مباہلہ کا بیان اور رمضان کے فضائل 3 16 جنوری 1998 روزہ میں نمازیں سنور جائیں تو روزہ نماز کا اور نمازیں روزہ کا معراج بن جاتی ہے 23 جنوری 1998 جمعۃ الوداع اور جمعتہ الاستقبال میں فرق ، آخری عشرہ کی عبادات اور لیلتہ القدر 30 جنوری 1998 جب تمہیں خدا کے ذکر کی خاطر بلایا جائے تو سب چیزیں چھوڑ کر لبیک کہا کرو 4 5 6 | 6 فروری 1998 شیطان کے دھوکے سے بچنے کے طریق، ہر بات کہنے سے پہلے نتیجہ کا سوچ لو 7 | 13 فروری 1998 حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں جتھا بازی کرنے والوں کو نصائح 75 93 8 20 فروری 1998 معرفت اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کے حوالے سے حضرت مسیح موعود کے ارشادات | 111 9 10 11 12 13 27 فروری 1998 | جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تصور کے مطابق ڈھلنے کی تلقین 6 مارچ 1998 13 مارچ 1998 معرفت کی باتیں نفسانی جوشوں کے تابع ممکن نہیں معرفت کے حصول کے لئے نفس کو صاف کرو 20 مارچ 1998 نیکی میں ترقی کے حصول کے لئے خدا کی طرف قدم بڑھاتے رہنا چاہئے 27 مارچ 1998 مشورہ کی طاقت کو بڑھا ئیں، نمائندگان مجلس شوری ضروری ہے کہ وہ نمونہ بہنیں 129 147 165 183 201 219 14 | 3 اپریل 1998 دلوں میں انکسار، صفائی اور اخلاص پیدا کرو، حضرت مسیح موعود کے ارشادات 15 10 اپریل 1998 دلوں کے مخفی خیالات، عادات اور جذبات کا محاسبہ کرو، حضرت اقدس کے ارشادات 16 | 17 اپریل 1998 | امام کی اطاعت ، اتباع ، اخلاص اور وفا کا مادہ پر ہی جماعت تیار ہوسکتی ہے 17 24 اپریل 1998 لغو نداق کی مجالس کو بھی پسند نہ کریں، خدا تعالیٰ کی خاطر بعض لوگوں سے تعلق کائیں 271 | 237 253
2 نمبر شمار خطبه جمعه فرموده 18 عنوان صفحہ نمبر 1 مئی 1998 نیک کی صحبت اپنے اندر ایک غلبہ رکھتی ہے، ذکر الہی کی مجالس کی طرف رجوع کریں 289 199801 ☐ 19 20 21 22 22 8 مئی 1998 صادق کے لئے خدا تقدیر کو حرکت دیتا ہے اور وہ انسانی تدبیروں پر غالب آجایا کرتی ہے 307 15 مئی 1998 اللہ تعالیٰ اپنے تازہ نشان دکھاتارہتا ہے اس کے باوجود قدم ڈگمگائیں تو بڑی محرومی ہوگی 325 22 مئی 1998 جو لوگ خدا کی خاطر تنگی میں خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کبھی ان کا ہاتھ تنگ نہیں رہنے دیتا 343 29 مئی 1998 برصغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے واقعات کا حل صرف مقبول دعاؤں میں پوشیدہ ہے 361 5 جون 1998 حضرت اقدس مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کی تشریح | 377 12 جون 1998 پاکستان کی تاریخ ہو یا ایٹمی توانائی کی تاریخ اس میں اولین کردار جماعت احمدیہ نے ادا کیا 395 19 جون 1998 حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم میں موجود احکامات ونواہی کی تفصیل 411 26 جون 1998 خدا تعالیٰ کی راہ میں تقویٰ شعار خرچ کرنے والے چاہئیں 23 24 25 26 26 429 447 465 27 3 جولائی 1998 اپنے بچوں سے عزت سے پیش آؤ اور اچھی تربیت کرو 28 | 10 جولائی 1998 خدا تعالیٰ بندے کے حسن ظن کے مطابق سلوک کرتا ہے 29 17 جولائی 1998 ریا کاری اور بخل سے بچیں خدا کی راہ میں خرچ کریں، صحابہ حضرت مسیح موعود کی مثالیں 483 30 24 جولائی 1998 میز بانی اور مہمانی ابراہیمی سنت ہے، جلسہ کے میز بانوں اور مہمانوں کو اہم نصائح 501 31 31 جولائی 1998 سختی سے پیش آنا یا سختی کی تعلیم دینا اسلام کے منافی ہے 32 32 35 521 7 اگست 1998 | انتظامی امور میں اصلاح و بہتری کی غرض سے سرخ کتاب رکھنے کی بابت تاکیدی ہدایت 537 33 14 اگست 1998 سیدھی بات سے اصلاح اعمال کا بہت گہرا تعلق ہے، قول سدید نہیں ہوگا تو اصلاح نہیں ہوگی 555 34 21 اگست 1998 ایثار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کو غیر قوموں کے دلوں میں گھر کرنے کی توفیق بخشے گا 573 28 اگست 1998 جو امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں 593 4 ستمبر 1998 امانت کا مضمون اہم ہے سچے مومن ہمہ وقت اپنی امانتوں اور عہدوں پر نگاہ رکھتے ہیں 609 11 ستمبر 1998 جو اللہ اور رسول کی امانت کا حق ادا نہیں کرتے وہ آپس میں بھی امانت کا حق ادا نہیں کر سکتے 627 18 ستمبر 1998 مومن امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کے ساتھ تقویٰ سے اس کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں 545 36 37 38
نمبر شمار خطبه جمعه فرموده 3 عنوان صفحہ نمبر 39 25 ستمبر 1998 وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یا الہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں 663 40 40 41 695 2 اکتوبر 1998 خدا کی راہ میں قربانیوں کے بغیر یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا، حضور اور صحابہ کی قربانیوں کا تذکرہ 679 9اکتوبر 1998 مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کے لئے پہلی حرکت ہے 42 16 اکتوبر 1998 خدا کے حضور عرق ندامت کا گرایا ہوا ایک قطرہ رحمتوں کی بارشوں میں بدل جاتا ہے 711 43 23 اکتوبر 1998 محض خشوع نیک بندوں کی علامت نہیں، قرآن کریم اور حدیث سے حیا کے مضمون کی تفصیل 727 44 30 اکتوبر 1998 حیائیکیوں کی جان اور بد اخلاقیوں کی دشمن ہے، مسجد مبارک (ہالینڈ) اور مسجد فرانس کا ذکر 745 6 نومبر 1998 ہر بھائی کو چندے سے باخبر کرو اور انہیں شامل کر وہ تحریک جدید کے 65 ویں سال کا اعلان 763 قربت الہی آنحضرت صلی سیا ستم کی پیروی سے وابستہ ہے 45 46 | 13 نومبر 1998 47 | 20 نومبر 1998 حضرت اقدس مسیح موعو علیہ السلام کے اقتباسات کی روشنی میں مبتل الی اللہ کا بیان 48 49 50 60 27 نومبر 1998 تبتل الی اللہ سے مراد کارخانہ قدرت سے مستغنی ہونا نہیں ہے 781 801 819 4 دسمبر 1998 عبادت کی جان تقویٰ میں ہے ، قناعت کے مضمون کو سمجھتے ہوئے شکر ادا کرنے کی کوشش کریں 837 11 دسمبر 1998 شکر کے متعلق احادیث اور ہندوستان کے نواحمدیوں کا طرز عمل 51 | 18 دسمبر 1998 اصل شکر تقویٰ ہے، ہمیشہ تقویٰ کی راہیں اختیار کریں 855 873 52 25 دسمبر 1998 قرآن و حدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت اور اس کے مسائل کا بیان | 891
خطبات طاہر جلد 17 1 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء وقف جدید کو آئندہ نسلوں کو سنبھالنے کیلئے استعمال کریں وقف جدید کے تینتالیسویں (43) سال کا اعلان (خطبہ جمعہ فرموده 2 جنوری 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: له مُلْكُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ يُولِجُ الَّيْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارِ فِي الَّيْلِ وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ أَمِنُوا b b بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ أَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِينَ فِيْهِ ۖ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ أَجْرُ كَبِيرُه پھر فرمایا: (الحديد: 6 تا 8) آج خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وقف جدید کے سالِ نو کا آغاز ہوگا اور پرانی روایات کے مطابق جنوری کے پہلے جمعہ میں ہمیشہ تو نہیں مگر اکثر وقف جدید کا اعلان کیا جاتا ہے.اس اعلان سے پہلے میں ایک دوامور ویسے ضمناً عرض کر رہا ہوں کہ یہاں جمعہ پر آتے ہوئے رستہ میں صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا، صَلِّ عَلَى مُحمد کا ورد MTA پر ہو رہا تھا اور اس پر میرا دل حمد سے بھر گیا کہ ظالموں نے کوشش کی تھی کہ جماعت احمدیہ لہ جماعت احمدیہ کو صل علی کے ورد سے ربوہ میں محروم کر دیں، چھوٹے چھوٹے بچوں کو قید کیا اور پکڑا گیا کہ تم صلِ علی کا درد نہ کرو ، آج ساری دُنیا صَلِّ عَلی کے ورد سے گونج رہی ہے اور کسی کی مجال نہیں کہ اس کے رستہ میں حائل ہو سکے.پس یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے جسے ہمیں
خطبات طاہر جلد 17 2 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء خصوصیت سے یا درکھنا چاہئے کہ ان کی سب روکیں خدا نے خاک کی طرح اڑا دی ہیں.آسمان سے جو فضل نازل ہو رہے ہیں ان کی راہ میں ان کی طرف سے کوئی چھتریاں، کوئی روکیں حائل نہیں ہوسکتیں.وہ فضل نازل ہوتے چلے جائیں گے اور یہ حسرتوں سے دیکھتے چلے جائیں گے.اگر یہ حقیقت بھی ان کو سمجھ نہیں آ رہی تو پھر کیا حقیقت سمجھ آئے گی.اپنی آنکھوں کے سامنے آسمان سے فضلوں کی بارش ہوتی دیکھ رہے ہیں اور شور مچارہے ہیں کہ ہم مباہلہ جیت گئے.خاک جیتے ہو تم.وہ قصے میں بعد میں بتاؤں گا کہ کیا جیتے ہیں اور کیسے جیتے ہیں مگر یہاں ضمناً صرف آپ کو یاد دلاتا ہوں کہ اس وعدہ میں بھی خدا تعالیٰ کا بہت شکر ادا کریں، اس کا حق ادا نہیں ہوسکتا.دوسری چیز جو ضمناً کہنی چاہتا ہوں وہ حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی وفات سے متعلق ملنے والے تعزیت کے پیغام، خطوط اور لوگوں کا یہاں تشریف لانا ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ جتنے بھی خطوط آتے ہیں مجھے لازماً پڑھنے پڑتے ہیں اور روزان کا اتنا بڑا پلندا بن جاتا ہے کہ اب رمضان کی مصروفیت کی وجہ سے میرے لئے ممکن نہیں رہا کہ سرسری نظر سے بھی ان کو پڑھوں اور جانتا ہوں جنہوں نے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ان سب کے متعلق جانتا ہوں جو ان میں سے بہت آگے ہیں ان کو بھی اور جوذ را پیچھے ہیں ان کو بھی.حقیقت یہ ہے کہ اس خطبہ کے بعد جو میں نے حضرت صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کے روحانی مدارج کے متعلق دیا تھا اکثر یہی اظہار ہورہا ہے کہ ہمیں پہلی دفعہ پتا چلا ہے کہ آپ کیا چیز تھے.مگر پہلی دفعہ چلا یا بعد میں پتا چلا یہ بحث الگ ہے.ساری دُنیا کی جماعت ان کے لئے دعا گو ہے اور ان کے اقرباء کے لئے دعا گو ہے اور اس حقیقت سے میں باخبر ہوں.پس جواب کا تو ویسے ہی سوال نہیں کہ میں سب کو جواب لکھ کے دوں.ان سب کا میں شکر یہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے آج تک کثرت سے خطوط لکھے اور بعض یہاں بھی تشریف لائے مگر اب میں ان سے عاجزانہ درخواست کر رہا ہوں کہ یہ سمجھ لیں کہ مجھے علم ہے اور میری دعاؤں میں وہ سب بزرگ شامل ہیں.بڑے ہوں یا چھوٹے ، مرد ہوں یا عورتیں ، چھوٹے چھوٹے بچوں نے بھی تعزیت کا اظہار کیا ہے اللہ تعالی ساری جماعت کو بہترین جزا عطا فرمائے.ہاں اگر کوئی خاص نکتہ کسی نے لکھنا ہو مثلاً بعض خطوں میں صاحبزادہ صاحب مرحوم کے متعلق بڑے اچھے نکات بیان کئے جاتے ہیں جن کی طرف پہلے میری توجہ یا نہیں گئی ہوتی یا ضرورت ہوتی ہے کہ اس توجہ کو بیدار کیا جائے.
خطبات طاہر جلد 17 3 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء تو ایسے نکات جو لکھنا چاہیں وہ بے شک لکھیں ان کو روک نہیں ہے اور سختی کے ساتھ مناہی بھی نہیں ہے مگر صورت حال میں نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے اس کے بعد امید ہے کہ جہاں تک ممکن ہوگا آپ اپنے جذبات کو قابو میں لا کر اس موضوع پہ میری دلداری نہیں کریں گے، کریں گے تو دعاؤں میں کریں گے اس سے زیادہ نہیں.رمضان اور سالِ نو کی مبارکبادوں کا بھی یہی حال ہے.فیکسز اور پیغامات بھیجنے والوں کی تعداد اتنی بڑھ چکی ہے کہ ہر ایک کو جواب دینا ہر گز ممکن نہیں رہا.اس لئے یہ بھی آپ یقین کریں کہ ان سب کے لئے میرے دل میں جذبات امتنان ہیں ان کا میں شکریہ ادا کرتا ہوں لیکن اب اس سلسلہ کو بھی بند ہونا چاہئے کیونکہ یہ ایک رسم تو ہے اور رسم ہی تو ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.سال نو کی مبارکبادوں میں ہم جہاں تک ہو سکتا ہے تکلفات سے اجتناب کرتے ہیں لیکن مبارکباد کی بات تو منہ سے نکل ہی جاتی ہے.یہ گناہ نہیں لیکن ہے پھر بھی تکلف ہی.اس لئے سال نو کے آغاز پر میرے لئے بھی دعا ئیں کریں، اپنے لئے بھی دعا ئیں کریں، جماعت کے لئے بھی دعائیں کریں، یہ سال نو کا بہترین آغاز ہوگا.اب میں ان آیات سے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں جو وقف جدید کا خطبہ دینے سے پہلے میں نے تلاوت کی ہیں.لَهُ مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الْأُمُورُ یہ ایک اعلان عام ہے کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے.کوئی اس بادشاہی میں اس کا شریک نہیں.اس حقیقت کا دل میں گڑ جانا یہی توحید ہے.وَ إِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمور نہ صرف یہ کہ بادشاہی ہے بلکہ تمام امور ، تمام اہم باتیں اسی طرف لوٹائی جائیں گی.پس اس سے مفر نہیں.خدا تعالیٰ کی بادشاہی کوئی دُنیا کی بادشاہی نہیں جس سے آپ بھاگ کر کہیں منہ چھپا سکیں.دُنیا میں بھی کوئی مفر نہیں، آسمانوں میں بھی کوئی مفر نہیں اور اگر ہوتا بھی تو آخر اسی کی طرف لوٹنا ہے.پس دُنیا میں اللہ تعالیٰ کی تقدیر ظاہر ہونے میں بعض دفعہ دیر بھی ہو جاتی ہے لیکن آنحضرت صلی یہ تم کو اللہ تعالی نے مخاطب کر کے یقین دلایا تھا کہ دیکھ تیرے مخالفین کی پکڑ اگر یہاں نہ بھی ہوگی تو تو جانتا ہے کہ آخر ضرور ہوگی.آنحضرت صلی لا الہ تم کو مخاطب کرتے ہوئے یہ فرمانا دراصل ایک گہری حکمت ہم سب کے لئے رکھتا ہے.آنحضور صلی اسلم کی اس پر پوری تسلی ہو گئی تھی.ایک ذرہ بھی قلق باقی نہیں رہا کیونکہ آپ صلی لیستم
خطبات طاہر جلد 17 4 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء آخرت پر یقین رکھتے تھے.آپ ملی ایام کے لئے کوئی پکڑ یہاں ہو یا وہاں ہو محض ایک رسمی فاصلہ تھا ور نہ امر واقعہ یہی ہے کہ آپ مالی پی ایم کے نزدیک تو اس دُنیا اور اُس دُنیا میں فرق ہی کوئی نہیں تھا اور جب یقین ہو تو پھر دشمنوں کی تعلی ان کی ہنسیاں سب بے کار، بے معنی ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وَإِلَى اللهِ تُرْجَعُ الأمور آخر سب باتوں نے اس کی طرف لوٹنا ہے اس میں گھبراہٹ کی کیا ضرورت ہے.یہ کامل تو کل ہے جو میں جماعت سے چاہتا ہوں اور ہر ممکن کوشش کرتا ہوں کہ میری جان اسی توکل پہ جائے ایک ذرہ بھی خدا سے کسی قسم کا کوئی شکوہ دل میں نہیں پیدا ہونا چاہئے.بیماریاں ہوں مصیبتیں ہوں ، دشمن کی تعلیاں ہوں یا دشمن سے قطع نظر زندگی کے مسائل ہوں اگر یہ دین آپ کا دین ہے جو اس آیت میں بیان ہوا ہے تو پھر آپ ہمیشہ تسکین کے سانس لیں گے اور مرتے وقت بھی آپ کو ایک ایسی قلبمی تسکین حاصل ہو گی جو کسی اور کو نصیب نہیں ہو سکتی.اسی ضمن میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ وَيُولِجُ النَّهَارِ فِي الَّيْلِ تم دیکھتے نہیں کہ وہ رات کو دن میں داخل کرتا ہے اور دن کو رات میں داخل کرتا ہے.اس میں دن کو رات میں داخل کرنا ایک خاص معنی رکھتا ہے.يُولِجُ اليْلَ فِي النَّهَارِ یہ ایک ایسے دن کی طرف اشارہ ہے جو مومنوں کا دن کبھی آکے واپس نہیں جایا کرتا.عام طور پر اچھی بات قرآن کریم میں پہلے بیان کی جاتی ہے اور کچھ برائی کی خبر بعد میں بیان کی جاتی ہے لیکن جہاں اس ترتیب کو بدل دیا جائے وہاں لازماً گہری حکمت ہوا کرتی ہے اور یہاں یہ حکمت پیش نظر ہے کہ مومنوں کی رات میں مومنوں کا دن داخل ہو جائے گا اور جب ہوگا تو پھر دوبارہ وہ رات میں تبدیل نہیں کیا جائے گا.وہ ہمیشگی کا دن ہے جو ان پر طلوع ہوگا اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس مضمون کو بھی اچھی طرح سمجھ لیں گے اور اس کے بعد پھر ساری باتیں اللہ پر ہیں.تمام تر توکل اللہ پر ہے.کچھ بھی جھگڑا باقی نہیں رہتا، کوئی مخمصہ باقی نہیں رہتا.یہ ایک تقدیر الہی ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی آپ نہیں دیکھیں گے.تاخیر ہو جایا کرتی ہے، دیر تو ہوتی ہے مگر اندھیر نہیں.خدا کا دن لازماً بڑے مضبوط قدموں سے آگے بڑھا کرتا ہے اور جب ایک دفعہ دن پھیلنا شروع ہو جائے تو اس کی روشنی کی راہ میں کوئی دُنیا کا اندھیرا حائل نہیں ہوا کرتا.وَهُوَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُور اور وہ دلوں کے حال کو جانتا ہے.جو لوگ بھی اللہ تعالیٰ پر اس قسم کا توکل نہ رکھیں جس کی تفصیل ان آیات نے بیان فرمائی ہے تو وہ جان لیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کے حال
خطبات طاہر جلد 17 5 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء کو جانتا ہے اور وہ لوگ جن کے دل میں یہی باتیں ہیں ان کو بھی اس کا ڈھنڈورا پیٹنے کی ضرورت نہیں.اللہ دلوں کے حال کو جانتا ہے.وہ ہر تو گل کرنے والے سے وہی سلوک فرمائے گا جو ہمیشہ فرما یا کرتا ہے.امِنُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ أَنْفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُمْ مُّسْتَخْلَفِينَ فِیهِ اللہ پر ایمان لاؤ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور خرچ کرو.مِمَّا جَعَلَكُم جو اس نے تمہارے لئے بنایا.جن جائیدادوں کا یعنی جو بھی مال و متاع دُنیا کے ہیں یا جو بھی طاقتیں عطا ہوئی ہیں ان کا تمہیں مالک بنادیا ہے.استخلاف کا مضمون پہلی قوموں کے ورثہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے.وہ چیزیں جو پہلی قوموں کو عطا کی گئی تھیں وہ اب لازماً تمہیں عطا کی جائیں گی اور اس بات پر متنبہ ہو جاؤ کہ خدا تعالیٰ تم سے توقع نہیں رکھتا کہ ان طاقتوں کو ، ان عظمتوں کو جو دُنیا میں تمہیں عطا کی جائیں گی ان کو اپنے ہاتھ سے ضائع کر دو اور اس دن کو پھر اندھیروں میں تبدیل کر دو.اگر یہ ہوا تو تم ذمہ دار ہو.فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَأَنْفَقُوا لَهُمْ اجر کبیر.پس یاد رکھو کہ وہ لوگ تم میں سے جو ایمان لاتے ہیں اور خرچ کرتے ہیں.یہاں خرچ سے مراد صرف دنیاوی خرچ نہیں بلکہ روحانی طور پر اپنی تمام طاقتیں ، تمام دل و جان اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے لئے آخر کبیر ایک بہت بڑا اجر مقدر ہے.اب رمضان کا مہینہ ہے اور یہ مضمون جو دراصل تو وقف جدید کے لئے شروع کیا گیا تھا میں اس کو رمضان کے ساتھ ملانا چاہتا ہوں تاکہ رمضان کی برکتوں میں وقف جدید اور وقف جدید کی برکتوں میں رمضان کی برکتیں شامل ہو جائیں.حضرت اقدس محمد مصطفی سالی ایم کے متعلق بخاری کتاب الزكاة یہ بیان کرتی ہے اور یہ قول ابو ہریرہؓ سے مروی ہے آنحضرت صلی یا یہ تم نے فرمایا: ہر صبح دو فرشتے اترتے ہیں.ان میں سے ایک کہتا ہے، اے اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.دوسرا کہتا ہے اے اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر 66 (صحیح البخاری، کتاب الزكاة، باب قول الله تعالى فأما من أعطى...حدیث نمبر :1442) اس میں سے جو پہلا حصہ ہے وہ تو ظاہر وباہر ہے، اللہ تعالیٰ کی راہ میں جو خرچ کرنے والے ہیں خصوصیت سے رمضان المبارک میں، ان کے لئے فرشتے دعائیں کرتے ہیں اور ان کے نقش قدم پر چلنے والوں کے لئے بھی دعائیں کرتے ہیں.پس آپ اپنی نیکیوں میں اپنے بچوں کو بھی شریک کریں،
خطبات طاہر جلد 17 6 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء اپنے گردو پیش، اپنے ماحول کو بھی شریک کریں تا کہ یہ نیکیوں کا مضمون پھولنے اور پھلنے لگے اور تمام دنیا پہ محیط ہو جائے.یہ ایک ایسا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چلائی جانے والی ہواؤں کے رخ پر ہوگا.فرشتے دعائیں کریں گے اور آپ آگے قدم بڑھائیں گے.تو بہت تیزی کے ساتھ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں کے اموال میں برکت دے گا اور اس برکت کے نمونے ہم دیکھ رہے ہیں.تمام دنیا میں ایسے خرچ کرنے والوں کو خدا تعالیٰ مزید عطا فرمارہا ہے اور ان جیسے اور پیدا کر رہا ہے جن کے نتیجہ میں احمدیت کے بڑھتے ہوئے بوجھ بآسانی اٹھائے جارہے ہیں.میں نے پہلے بھی بار ہا ذکر کیا ہے کہ آج تک ایک بھی ضرورت ایسی میرے سامنے نہیں آئی جو ضرورت حقہ ہو، اچانک سامنے پیدا ہو جائے اور اس کی تائید میں الہی ہوا نہ چلی ہو.ہمیشہ بغیر تحریک کے، کثرت کے ساتھ عین ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ ضرورت پوری کرنے کے سامان پیدا کر دیتا ہے اور مبارک ظفر صاحب جن کے سپر د شریف اشرف صاحب کے علاوہ آج کل مالیات کا نظام ہے وہ جب کسی خاص بڑھتی ہوئی ضرورت کے متعلق بات کرنے آتے ہیں تو ان کی مسکراہٹ بتا رہی ہوتی ہے کہ پھر وہی واقعہ ہو گیا ہے.ان سے برداشت نہیں ہوتی بے اختیار ہنس پڑتے ہیں کہ وہی بات ہوئی میں ضرورت کا پوچھنے کے لئے آیا تھا اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ پورا ہونے کے سامان بھی ساتھ پہنچ گئے ہیں.یہ ایسا مسلسل خدا تعالیٰ کا سلوک ہے کہ آج تک کبھی ذرہ بھی اس میں کو تاہی نہیں ہوئی.پس آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں، نہ صرف یہ کہ آپ محفوظ ہاتھوں میں ہیں بلکہ آپ کے دل کی سچائی پر یہ باتیں گواہ ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ سچے لوگوں سے ہے.جو خدا کی خاطر ، نہ کہ دُنیا کو دکھانے کے لئے ، اس کی راہ میں اپنی طاقتیں اور اپنے اموال خرچ کرتے ہیں ان کے ساتھ یہ وعدہ ہے اور ہمارے ساتھ یہ وعدہ پورا ہورہا ہے.تو سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان خرچ کرنے والوں کے دلوں پر نظر رکھی اور ان کی نیکیوں اور ان کے خلوص کو قبول فرمالیا ہے اور یہ قبولیت کے نشان ہیں جو ہم دیکھ رہے ہیں.اللہ کرے کہ ہمیشہ اسی طرح یہ قبولیت کے نشان ہمارے حق میں ظاہر ہوتے رہیں.جہاں تک روک رکھنے والے کنجوس کی ہلاکت کی دعا ہے اس سلسلہ میں میں بعض وضاحتیں پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ دنیا میں لوگوں نے کئی دفعہ دیکھا ہے کہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلاک نہیں کیا جاتا، کیوں ہلاک نہیں کیا جاتا یہ مضمون میں پہلے بیان کر چکا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 7 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء اگر اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں یعنی ایمان لانے والوں کی کسی خوبی پر نظر رکھتے ہوئے یا اپنی عنایت کی وجہ سے ان کو بچانا چاہے اور وہ اموال کے معاملہ میں کنجوسی کرتے ہیں تو ایسے لوگوں کے اموال برباد ہونے شروع ہو جاتے ہیں تا کہ ٹھوکر کھا کر ان کو نصیحت آئے اور بسا اوقات ایسے لوگوں نے بالآخر مجھے خط لکھا کہ ہم یہ کیا کرتے تھے لیکن اب ہمیں نصیحت آگئی ہے اور جب سے ہم نے خدا کی راہ میں کنجوسی چھوڑی ہے ہمارے اموال میں دوبارہ برکت پڑنی شروع ہو گئی ہے لیکن وہ لوگ جن کو خدا تعالیٰ ضائع سمجھتا ہے، بیکار، خشک لکڑیاں جانتا ہے ان کو ضرور کاٹ کے الگ پھینک دیا کرتا ہے اور پھر ان کے اموال ترقی کرتے ہیں اور کرتے چلے جاتے ہیں لیکن جماعت کو ان کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی.وہ اپنے اموال سمیت جہاں چاہیں چلے جائیں جماعت کے خزانہ میں ایک آنے کی بھی کمی نہیں کر سکتے اور ان کی جگہ اللہ اور بھیج دیتا ہے.پس یہ وہ سلوک ہے جو ہم سے جاری ہے اور یہ حدیث در اصل اسی مضمون کو بیان کر رہی ہے.دو حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا یہ تم نے فرمایا: دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے.( وہ کون ہیں جن پر رشک کرنے کی اجازت ہے ) ایک وہ آدمی جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس نے اسے راہ حق میں خرچ کر دیا.“ ایسے شخص پر بے شک رشک کرو.اگر چہ ایسے اشخاص اپنے اس خرچ کو چھپاتے ہیں ، چھپانے کی کوشش کرتے ہیں مگر یہ ظاہر ہو بھی جاتا ہے اور اللہ کی تقدیرا سے ظاہر کر دیا کرتی ہے بعض دفعہ اس لئے تا کہ دوسروں کو نصیحت ہو.پس جب ان کو دیکھو تو ان پر رشک کرو.دوسرا ایسا شخص جسے اللہ تعالیٰ نے سمجھ ، دانائی اور علم و حکمت دی ہو جس کی مدد سے وہ وو لوگوں کے فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو سکھاتا ہو.“ (صحیح البخاری، کتاب الزكاة، باب انفاق المال في حقه حدیث نمبر : 1409) تو دانائی اور علم و حکمت کو بنی نوع انسان کے حق میں استعمال کرنا چاہیئے اور یہ بھی ایک ایسا خرچ ہے جس کے نتیجہ میں دانائی اور علم و حکمت میں ترقی ہوتی ہے.یہ خدا کے عطا کردہ مال کی طرح جو ہمیشہ بڑھتا ہے یہ بھی بڑھتی رہتی ہے اور جتنا بھی آپ بنی نوع انسان کی خاطر کچھ خرچ کریں یا جو کچھ آپ
خطبات طاہر جلد 17 8 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء نے پایا ہے اس میں شریک کرنے کی کوشش کریں تو اللہ تعالیٰ اس میں کمی نہیں آنے دے گا.میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا بعض عطائی نسخے والے سینہ بسینہ لوگوں کی بھلائی کے راز لئے پھرتے ہیں اور چھپا کے رکھتے ہیں.یہ صرف مشرق کا حصہ نہیں مغرب میں بھی بہت بڑی بڑی کمپنیاں اسی جرم میں مبتلا ہوتی ہیں کہ وہ راز کی باتیں جس کے نتیجہ میں اُن کا کوئی مال دُنیا میں شہرت پالیتا ہے اسے اتنی مضبوطی سے قفل بند رکھتے ہیں کہ کسی اور میں طاقت ہی نہیں ہوتی کہ اس کو پیش کر سکے حالانکہ اگر وہ ایسا نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو اور بھی رزق عطا کر دینا تھا لیکن اس طرف ان کی نظر نہیں جاتی.ہمارے ملک میں بھی ایسے لوگ ہیں کوئی نسخہ ہی ہاتھ آ گیا تو سنبھال سنبھال کے رکھتے ہیں.مجھے ملنے والے دلچسپ خطوں میں سے بعض ایسے خط بھی ہوتے ہیں کہ یہ نسخہ اب ہم آپ کو بتا رہے ہیں اسے احتیاط سے استعمال کریں لیکن دُنیا کو کانوں کان خبر نہ ہو کہ اتنا عظیم الشان نسخہ میرے ہاتھ آگیا ہے.میں ان کے نسخے رڈ کر دیا کرتا ہوں.میں کہتا ہوں اللہ نے مجھے تم سے بہت بہتر نسخے عطا فرمائے ہیں جنہیں میں کھل کر دُنیا کے سامنے پیش کر رہا ہوں، ذرہ بھر بھی کنجوسی نہیں ہے اور اس کے نتیجہ میں میر اعلم کم نہیں ہورہا، بڑھ رہا ہے اور ایسے خدا کے بندے جو اپنے علوم کے نتیجہ میں بعض راز پا جاتے ہیں وہ مجھے کھل کے لکھتے ہیں اور کہتے ہیں بے شک اس کا اشتہار عام دیں یہ بنی نوع انسان کی ملکیت ہے.مجھے ایسے احمدی چاہئیں اور انہی کا ذکر ملتا ہے اس حدیث نبوی سی ایم میں کہ اپنی حکمت کو بے باک لوگوں کے لئے استعمال کر وہ بھی کم نہیں ہوگی.ص مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُطْعِفَهُ لَةَ اضْعَافًا كَثِيرَةً وَ اللهُ يَقْبِضُ وَ يَبْقُطُ وَالَيْهِ تُرْجَعُونَ.(البقرة: 246) یہ الحکم سے میں نے کچھ اقتباسات ایک دو لئے ہیں تا کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے مضمون کو آپ حضرت اقدس مسیح موعود کے الفاظ میں سن لیں.(رمضان کے روزے کے باعث منہ خشک ہونے کی وجہ سے بعض الفاظ کی صیح طور پر ادائیگی میں دقت پیش آرہی تھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حضور نے فرمایا : ) منہ خشک ہونے کی وجہ سے یہ بولنے میں جو بعض دفعہ دقت ہوتی ہے یہ تو پہلے ہی ہمیشہ میں نے بتایا ہے ہوا کرتی تھی اور اپنے باپ اور بڑے بھائی سے میں نے یہی ورثہ پایا ہے لیکن اس کا نقصان کوئی نہیں ہے.پہلے تو قہوہ یا گرم پانی کے ذریعہ ہونٹوں کو تر کر دیا جاتا تھا.اب روزہ کی وجہ سے ممکن نہیں ہے اس لئے میں کوشش کر رہا ہوں آپ دعا کریں کہ
خطبات طاہر جلد 17 9 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء کچھ ایسی دوائیں ، جیسے حکمت کی باتیں میں کر رہا تھا ، خدا تعالیٰ مجھے عطا فرمادے جن کے بعد آپ کو درس میں یا جمعہ پر خشک ہونٹوں کی تر باتیں سننے سے کوئی تکلیف نہ پہنچے.ہونٹ خشک ہو جاتے ہیں مگر باتیں تر ہیں ان میں کہیں ذرہ بھی خشکی کے کوئی آثار آپ نہیں دیکھیں گے.پس دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ جس طرح بھی ہو اپنے فضل اور رحم کے ساتھ اس رمضان کو بہتر سے بہتر حالت میں آگے بڑھا تا رہے اور مجھے اس کے تقاضے پورے کرنے کی توفیق بخشے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے تو اس سے یہ مراد نہیں ہوتی ہے کہ معاذ اللہ، اللہ تعالیٰ کو حاجت ہے اور وہ محتاج ہے.ایسا وہم کرنا بھی کفر ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جزا کے ساتھ واپس کروں گا.یہ ایک طریق ہے اللہ تعالیٰ جس سے فضل کرنا چاہتا ہے.“ الحکم جلد 6 نمبر 17 صفحہ: 7 مؤرخہ 10 مئی 1902ء) اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ طریق اختیار فرمایا ہے یعنی تمہیں آزماتا ہے، ایسی آزمائش میں ڈالتا ہے جو تمہارے لئے بہت بابرکت ہے تم اپنے پیسوں کو جو دُنیا میں پھینکتے پھرتے ہو کبھی وہ فائدے کے ساتھ واپس لوٹ آتے ہیں.کبھی، بلکہ اکثر جو سود خور ہیں ان کے تو ضرور نقصان میں جاتے ہیں لیکن عام تاجروں کے روپے فائدے کے ساتھ واپس آتے اور بڑھتے ہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اللہ نے تمہیں ایک ایسی تجارت عطا فرما دی ہے کہ تم اس کو قرضہ دو اور قرضہ حسنہ ہوا کرتا ہے کوئی سود کی شرط نہیں ہوا کرتی.جب دو تو اس نیت سے دو کہ اللہ ! ہماری خوشی ہے تو پورا فرما.ہم چاہتے ہیں کہ جو رزق تو نے عطا فرمایا ہے کچھ تیرے قدموں میں ڈال دیں اور اس سے ہمیں بے انتہا طمانیت نصیب ہوگی اگر تو قبول فرما لے.یہ جذبہ ہے جس کے ساتھ قرضہ حسنہ دیا جاتا ہے لیکن جس کو آپ دیتے ہیں اس جذبہ کے خلوص کے مطابق وہ جوابی کارروائی کرتا ہے.جتنا سچا یہ جذ بہ ہو اس کی قبولیت اس مال کو بڑھا کر واپس کرنے کے نتیجہ میں ظاہر ہوتی ہے.پس جن لوگوں کا تھوڑا دیا بھی بہت برکتیں حاصل کر لیتا ہے.یہ ان کے خلوص کی طرف اشارہ ہے.جن لوگوں کا زیادہ دیا بھی اتنی برکتیں حاصل نہیں کرتا یہ ان کے خلوص کی کمی کی طرف اشارہ ہے.اللہ تعالیٰ بہر حال ان دونوں پر نظر رکھتا ہے اور جتنا چاہے بڑھا دیتا ہے.بڑھانے کی مثالیں موجود ہیں کہ اس طرح بڑھاتا ہے،
خطبات طاہر جلد 17 10 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء اس طرح بڑھاتا ہے، اس طرح بڑھاتا ہے لیکن آخر پر یہی فرماتا ہے کہ جس کے لئے چاہے اس سے بھی زیادہ ، اور زیادہ کی تعیین نہیں ، یعنی اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ آپ شمار نہیں کر سکتے لیکن جتنا زیادہ ہوتا ہے اللہ کی راہ میں پیش کرنے کی خواہش بھی اسی طرح بڑھتی چلی جاتی ہے.وہ زیادہ جس کے بعد خدا کی خاطر خرچ کرنے کی خواہش مٹ جائے وہ زیادہ ایک بڑی آزمائش ہے.دعا کریں اللہ تعالیٰ کبھی آپ کو اور مجھے ایسی بڑی آزمائش میں نہ ڈالے.اب ایک اور حوالہ ہے الحکم جلد 5 نمبر 21 صفحہ 3 مؤرخہ 10 جون 1901ء سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ایک نادان کہتا ہے کہ مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا (البقرة: 246) کون شخص ہے جو اللہ کو قرض دے ) اس کا مفہوم یہ ہے کہ گویا معاذ اللہ خدا بھوکا ہے.“ بعض لوگ یہ نتیجہ نکالتے ہیں یعنی دشمن اسلام اکثر اور بعض مسلمان نادان بھی یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ دیکھو کیسا اعلان ہے مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا.اللہ کوئی بھوکا ہے جسے قرض کی ضرورت ہے.آپ فرماتے ہیں: احمق نہیں سمجھتا کہ اس سے بھوکا ہونا کہاں سے نکلتا ہے؟ یہاں قرض کا مفہوم اصل تو یہ ہے کہ ایسی چیزیں جس کے واپس کرنے کا وعدہ ہوتا ہے اُس کے ساتھ افلاس اپنی طرف سے لگالیتا ہے.یہاں قرض سے مراد یہ ہے کہ کون ہے جو خدا تعالیٰ کو اعمال صالحہ دے.اللہ تعالیٰ ان کی جزا اُسے کئی گنا کر کے دیتا ہے.“ اب افلاس کارڈ کرنے کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت نکتہ کی بات فرمائی ہے.فرمایا قرضہ حسنہ کو مال سے محدود کیوں کرتے ہو.قرضہ حسنہ کا اکثر حصہ تو تمہارے اپنے اعمال سے تعلق رکھتا ہے.تم نیک اعمال اختیار کرو تو اللہ کا پیٹ بھر جائے گا، کون سی بھوک مرے گی اس کی لیکن وہ اس کی جزا تمہیں ایسی دے گا کہ تمہاری بھوکیں مٹ جائیں گی.پس یہ نکتہ بہت ہی عمدہ اور بہت ہی عظیم نکتہ ہے کہ قرضہ حسنہ کو دنیاوی رزق تک محدود نہ کرو.قرضہ حسنہ کا زیادہ تعلق تمہارے اعمال کی اصلاح سے ہے.اللہ کے حضور جب تم نمازیں اخلاص سے پڑھتے ہو، اللہ کے حضور جب تم روزے اخلاص سے رکھتے ہو، اللہ کے حضور جب دوسری نیکیاں تم اخلاص سے بجالاتے ہو تو یہ قرضہ حسنہ ہے کیا اس سے خدا کا نَعُوذُ بِاللہ من ذالک پیٹ بھرے گا.تمہارے اعمال کی وہ پھر جزا
خطبات طاہر جلد 17 11 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء دے گا اور پیٹ بھرے گا تو تمہارا پیٹ بھرے گا.پس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس نکتہ کو جو بیان فرمایا ہے اس میں اعمال صالحہ کے ساتھ چندے بھی شامل ہیں وہ بھی تمہیں لوٹائے جائیں گے اور ان کی قبولیت کا فائدہ تمہیں من حیث الجماعت پہنچے گا اور ان چندوں سے جماعت کے نفوس اور اموال میں بہت برکت پڑے گی اور جو تمہاری تمنائیں ہیں کہ تم دنیا میں آخری فتح حاصل کرو یہ سارے نظام اس فتح کو قریب تر کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں.پس قرضہ حسنہ کا مضمون بہت وسیع 66 ہو جاتا ہے اور اس پہلو سے جماعت احمدیہ کو اس پر غور کرنا چاہئے.آگے فرماتے ہیں: یہ خدا کی شان کے لائق ہے جو سلسلہ عبودیت کا ربوبیت کے ساتھ ہے اس پر غور کرنے سے اس کا یہ مفہوم صاف سمجھ میں آتا ہے کیونکہ خدا تعالیٰ پڑوں کسی نیکی ، دعا اور التجاء اور بڑوں تفرقہ کا فرو مومن کے ہر ایک کی پرورش فرما رہا ہے اور اپنی ربوبیت اور رحمانیت کے فیض سے سب کو فیض پہنچارہا ہے.“ پس خدا پر یہ الزام حد سے بڑھی ہوئی جہالت ہے.وہ رب جو بغیر دُنیا کی التجاؤں کے، بغیر اس کے مانگنے کے، بغیر اس کی ذات پر یقین کے جو کچھ کھا رہی ہے وہ دُنیا اس کے ہاتھوں سے کھا رہی ہے.تم اتنے بے وقوف لوگ ہو کہ چھوٹی سی ضرورت کے بعد سمجھتے ہو کہ تم نے بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہے.اس خدا کو تمہاری حاجت کیا ہوسکتی ہے جو ساری کائنات کا رب ہے.ادنیٰ سے ادنیٰ جانوروں کو رزق عطا فرما رہا ہے، ان انسانوں کو رزق عطا فرمارہا ہے جو اس کے دین کے مخالف ہیں، ان انسانوں کو رزق عطا فرما رہا ہے جنہوں نے خدا کے بیٹے بنارکھے ہیں، ان کو رزق عطا فرما رہا ہے جو اس کی ہستی کا انکار کر رہے ہیں.یہ عالمی رحمت اور ربوبیت کا نزول تمہیں اس آیت کے سمجھنے میں مد ہونا چاہئے نہ کہ اس کے برعکس ترجمہ کرو.اس لئے قرضہ حسنہ کا ہر وہ معنی جو خدا کی اس عالمی ربوبیت کے خلاف کیا جاتا ہے وہ مردود معنی ہے اس میں کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.پھر فرماتے ہیں کہ : مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا.اس کی تفسیر اس آیت میں موجود ہے مَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ - (الزلزال : 8) الحکم جلد 5 نمبر 21 صفحہ: 3 مؤرخہ 10 جون 1901ء)
خطبات طاہر جلد 17 12 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء یعنی ایک ذرہ برابر بھی تم کوئی کام کرو جو اچھا ہو اللہ کی اس پر نظر ہوتی ہے اور وہ اسے ضرور بڑھاتا ہے.بہت سے پس ایسے خدا پر اس آیت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں اعتراض جڑ نا اپنی ہلاکت کے سوا اور کچھ نہیں.اب جو تھوڑ اسا وقت رہ گیا ہے اس میں میں وقف جدید کے نئے سال کا اعلان کرتا ہوں اور چند کوائف آپ کے سامنے رکھتا ہوں.الحمد لله وقف جدید کا بیالیسواں (42) سال خدا تعالیٰ کے سے فضلوں کو سمیٹ کر 31 دسمبر 1997ء کو اختتام پذیر ہو گیا ہے اور اب ہم وقف جدید کے تینتالیسویں (43) سال میں داخل ہو رہے ہیں.پہلے بہت سے کوائف بیان کئے جاتے تھے اعداد و شمار کی صورت میں جن کو اکثر لوگ سمجھتے نہیں تھے اور جو سامنے بیٹھے ہیں ان کی آنکھوں سے یہ میں سمجھ لیتا تھا کہ کچھ نیند کی طرف مائل ہو رہے ہیں کیونکہ اعدادوشمار کو جذب کرنا اور سمجھنا یہ اچھے تعلیم یافتہ آدمیوں میں سے بھی سب کو نصیب نہیں ہوا کرتا.یہ ایک خاص ملکہ ہے جس کے نتیجہ میں آپ اعداد و شمار کو فوراً اخذ کر کے سمجھ لیتے ہیں اور اس لئے اب میں نے ایسے اعداد و شمار کا ذکر کرنا چھوڑ دیا ہے جن کو سمجھانے میں مجھے وقت ہو، جن کو سمجھنے میں آپ کو وقت ہو.آخری فائدہ کچھ بھی نہیں ہوگا.اب وہ باتیں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کا تعلق آخری فائدہ سے ہے.سب سے پہلے تو نظام میں ایک تبدیلی کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں.جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب کروڑ سے زیادہ احمدی نئے شامل ہو چکے ہیں اور ان کے متعلق ہماری طرف سے جو تربیت کے نظام جاری ہورہے ہیں ابھی تک پوری طرح ان کی کفالت نہیں کر رہے.اگر ہم نے وقف جدید میں بھی ان کی طرف پوری توجہ کی ہوتی تو ان کے ایمان اور اخلاص کو بڑھانے کا ایک بہت بڑا ذریعہ تھا.اس لئے اب ہر جماعت میں نئے آنے والوں کے لئے وقف جدید کا ایک الگ سیکرٹری مقرر ہو.وہ خالصہ ان پر کام کرے خواہ ایک آنہ بھی ہو وہ بھی قبول کیا جائے لیکن کثرت کے ساتھ وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد میں نئے آنے والوں میں سے اضافہ ہو.اس کے نتیجہ میں ہماری یہ جو فہرست ہے لاکھوں کی بجائے اگلے چند سال میں کروڑ تک پہنچ جائے گی اور وقف جدید کا یہ فیض بہت بڑا فیض ہوگا جو فیض عام ہوگا اور آئندہ رہتے زمانوں تک کے لئے وقف جدید کا یہ احسان بنی نوع انسان کو پہنچتارہے گا.پس آج سے اپنی جماعت میں ایک پورے سیکرٹری وقف جدید برائے نو مبائعین مقرر کریں اور دوسرے سیکرٹری وقف جدید جو ہیں ان کا تعلق پہلوں کی تعداد بڑھانا ، ان کے بچوں کی فکر کرنا، بڑھتی ہوئی آمد نیوں
خطبات طاہر جلد 17 13 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء کے مطابق وقف جدید کے چندے کو بڑھانا یہ کام ہوگا اور یہ کام الگ چلے تو امید ہے اگلے سال انشاء اللہ اس کے بڑے دلچسپ نتائج آپ کے سامنے آئیں گے.رپورٹوں کے مطابق جو اس وقت وقف جدید کی صورت ہے 1997ء کے اختتام تک خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے 10لاکھ 82 ہزار 398 پاؤنڈ وصولی ہوئی ہے.روپے میں میں نے اس لئے بات نہیں کی کہ روپے میں یہ تعداد بہت بڑھ جائے گی لیکن یہ وہ کرنسی ہے جو سال ہا سال سے مستحکم ہے اور کوئی یہ اعتراض نہیں کر سکتا کہ پاکستانی روپے کی قیمت گرگئی ہے آپ یونہی اضافہ کی باتیں کر رہے ہیں.کئی ایسے اعداد و شمار پر نظر رکھنے والے بھی ہیں جن کی نظر ہمیشہ اعتراض کی خاطر ہوتی ہے اور ہر خوشی کی بات سن کر اسے بدی کی طرف مائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں.اس لئے 10 لاکھ 82 ہزار پاؤنڈ کی باتیں کر رہا ہوں اور اگر چہ دُنیا کی سب کرنسیوں کے مطابق اس میں بھی کچھ کمی کے پہلو آئے ہیں لیکن نسبتاً بہت کم.اب میں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ 1982ء میں جب اللہ تعالیٰ نے مجھے منصب خلافت پر نافذ فرمایا اس وقت دنیا کے سارے چندوں کو ملا کر ، پاکستان اور دُنیا بھر کی جماعتوں کے پورے چندوں کو ملا کر ، اگر یہ انہیں روپے میں لکھا ہوا ہے تو وہ نہیں مجھے چاہئے.انہوں نے اس وقت کے چندے کا حساب رکھ کر اسے روپے میں ہی بیان کیا ہے، یہ مجموعی قربانی کا کل 5 کروڑ 45لاکھ بنتا تھا.جب وقف جدید بیرون کا اجراء ہوا اس وقت پہلے سال وقف جدید بیرون کی کل وصولی 11 لاکھ 46 ہزار روپے تھی.اب باوجود میرے زور دینے کے کہ پاؤنڈ میں ہونی چاہئے یہ مبارک ظفر صاحب کو شوق ہے زیادہ دکھانے کا اس لئے وہ ضرور روپے میں باتیں کر دیتے ہیں.جب داؤ لگے روپے میں تبدیل کر دیتے ہیں.بہر حال اب ہمیں یہی رپورٹ سنی ہوگی جو میرے سامنے ہے.وہ یہ موازنہ دکھانا چاہتے ہیں کہ 1985ء میں وقف جدید بیرون کا جب اجرا ہوا تو اس وقت پہلے سال وقف جدید بیرون کی کل وصولی 11 لاکھ 46 ہزار روپے تھی.آج خدا تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید بیرون کا چندہ 5 کروڑ 83 لاکھ روپے ہو چکا ہے یعنی 11 لاکھ کو آپ جو بھی سمجھیں اور 5 کروڑ میں سے جتنی چاہیں کم کر دیں.پھر بھی اتنا نمایاں اضافہ ہے کہ روپے کی گرتی ہوئی قیمت کو پیش نظر رکھ کے بھی اس کی کوئی تو جیہہ، دُنیا میں کوئی مثال نہیں پیش کر سکتا کہ اضافہ نہیں ہوا کیونکہ روپے کی قیمت گر گئی.جتنی چاہو گرالومگر 11 لاکھ کے مقابل پر 5 کروڑ 83 لاکھ کی تعداد کو تم کسی طرح نظر انداز نہیں کر سکتے.
خطبات طاہر جلد 17 14 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء جو مجموعی وصولی کے لحاظ سے جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کی پہلی دس جماعتیں ہیں ان میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ امریکہ امسال بھی اوّل رہا اور امریکہ کے بعد پاکستان نمبر دو ہے اور یہ پاکستان کو بڑا اعزاز ہے.انتہائی مخالفانہ حالات کے باوجود اس چندہ میں انہوں نے ایک ذرہ بھی کمی نہیں کی.جرمنی کی تیسری پوزیشن جو پہلے نمبر ایک اور پھر دو اور پھر اب تین ہوا ہے اسی طرح مستحکم ہے اور ان کی مجبوری ہے.اب آپ لوگ زبر دستی وقف جدید کا چندہ بڑھانے کی خاطر اپنے باقی چندوں کو کم نہ کریں وہ نظام بگڑ جائے گا.اللہ نے آپ کو تیسری پوزیشن عطا فرمائی ہے بہت بڑی چیز ہے.اس دوڑ میں تیسرا گھوڑا ہونا بھی بڑی بات ہے کیونکہ عام طور پر اوّل ، دوم، سوم کا اعلان کیا جاتا ہے.چوتھے نمبر پر برطانیہ ہے پانچویں پر کینیڈا، چھٹے پرانڈیا.انڈیا کی یہ خاص خوبی ہے کہ وقف جدید کے چندہ میں وہ پہلے سے بہت بڑھتے ہیں اور اب بڑے بڑے ملکوں کا مقابلہ کرنے لگ گئے ہیں.سوئٹزرلینڈ ساتویں نمبر پر ہے.یہ اب ہندوستان کے بعد چلا گیا ہے.انڈونیشیا آٹھویں نمبر پر ہے.ناروے نویں نمبر پر اور ماریشس دسویں نمبر پر ہے.فی کس قربانی کے لحاظ سے جماعت ہائے احمد یہ عالمگیر کی پہلی پانچ جماعتیں یعنی ہر چندہ دہندہ جس نے حصہ لیا ہے اس کی انفرادی قربانی کو اگر شامل کیا جائے تو دُنیا میں کون سی جماعتیں ہیں جن میں ہر چندہ دہندہ اتنا چندہ ادا کر رہا ہے کہ باقی دنیا کی جماعتوں سے آگے بڑھ جائے.اس پہلو سے بھی اللہ کے فضل سے امریکہ سب سے اوپر ہے.فی چندہ دہندہ سب چھوٹے بڑوں کو ملانے کے باوجود، باوجود اس کے کہ انہوں نے چندہ دہندگان کی تعداد میں بہت اضافہ کیا ہے اور اس اضافہ کے پیش نظر ان کو یہ خطرہ تھا کہ مجموعی تعداد گر نہ جائے مگر امریکہ کے ہر چندہ دہندہ کو 105 پاؤنڈ فی کس دینے کی توفیق ملی ہے.نمبر دوسوئٹزر لینڈ ہے ان کو 63 پاؤنڈ فی کس دینے کی توفیق ملی ہے.گویا امریکہ اللہ کے فضل سے اب اتنا نمایاں آگے بڑھ گیا ہے کہ اب اس کے لئے دعائیں کریں لیکن آپ میں طاقت نہیں کہ اس کا مقابلہ کر سکیں کیونکہ امریکہ کا نظام ماشاء اللہ دن بدن مستحکم ہوتا چلا جارہا ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک ایسا امیر عطا فرمایا ہے جو مالیات کا بہت بڑا ماہر ہے لیکن مالیات سے بڑھ کر انہوں نے اپنی سوچیں اپنے بزرگ باپ سے ورثہ میں پائی ہیں.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب
خطبات طاہر جلد 17 15 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء کے بیٹے صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اور وہ ہر بات بڑے گہرے منصوبہ سے کیا کرتے تھے کسی جگہ منصو بہ بندی کی تعلیم نہیں پائی تھی.اللہ تعالیٰ نے ان کی سرشت میں منصوبہ بندی ڈالی ہوئی تھی.بہت گہری نظر تھی، بہت گہرے منصوبہ سے کام کیا کرتے تھے.یہ خوبی امریکہ کے موجودہ امیر نے بھی اپنے بزرگ باپ سے ورثہ میں پائی ہے اور اسے آگے بڑھایا ہے، پیچھے نہیں ہٹنے دیا اور یہ آگے بڑھنا کوئی پرانے بزرگوں کی گستاخی نہیں.ان کی اپنی دعائیں یہی ہوتی تھیں کہ ہماری اولاد ہماری نیکیوں میں ہم سے آگے بڑھ جائے تو ان کی تمنا پوری ہوئی اس پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں.سوئٹزر لینڈ کے بعد جاپان 30 پاؤنڈ جاپان پر جو مالی مشکلات کا دور آیا ہے اس کے پیش نظر ان کا 30 پاؤنڈ فی چندہ دہندہ ہی بہت بڑی بات ہے کیونکہ بہت سے لوگ نکالے گئے ہیں، بہت سی تجارتوں کو نقصان پہنچا ہے.نمبر چار بیلجیئم ہے جس کو فی چندہ دہندہ 11 پاؤنڈ 64 پینس دینے کی توفیق ملی ہے.بیلجیئم کے لحاظ سے واقعی یہ بڑی بات ہے.بیلجیئم کے احمدی بہت سے بے روزگار ہیں اور وظیفوں پر پل رہے ہیں ان کا اس قربانی میں اتنا نمایاں حصہ لینا اور ہمیشہ بڑے استقلال سے پانچ میں سے ایک پوزیشن حاصل کرنا بہت قابل تحسین ہے اللہ ان کو بہترین جزا دے.جماعت جرمنی کو انہوں نے چند پینیز (Pennies) کے لحاظ سے پیچھے چھوڑا ہے یعنی جماعت جرمنی فی چندہ دہندہ بھی ابھی پانچ میں شامل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت جرمنی کا بڑا اعزاز ہے.جماعت جرمنی کے فی چندہ دہندہ کی قربانی 11 پاؤنڈ 50 پینس ہے اور بیلجیئم کی فی چندہ دہندہ کی قربانی 11 پاؤنڈ 64 پینس ہے صرف 14 پینس کا فرق ہے.اتنی میری طرف سے جرمنی کو اجازت ہے کہ چاہیں تو اس 14 پینس کو مٹا کر آگے بڑھ جائیں اور بیلجیئم کو پیچھے چھوڑ جائیں.موازنہ چندہ دہندگان: 1996ء میں چندہ دہندگان کی کل تعداد 1 لاکھ 67 ہزار 493 تھی.1997ء میں یہ تعداد بڑھ کر 2 لاکھ 22 ہزار 628 ہو گئی گویا اس تعداد میں 32 فیصد اضافہ ہوا ہے.پس میں نے جیسا کہ پہلے زور دیا تھا ہمیں قربانی کرنے والوں کی تعداد بڑھانا ہے کیونکہ جو بھی ایک دفعہ قربانی کرنے والوں کی تعداد میں شامل ہو جائے اللہ تعالیٰ کا قانون قرضہ حسنہ کو بڑھانے والا اس پر لاگو ہو جاتا ہے.اس کی نیکیاں بڑھتی ہیں ، اموال میں برکت پڑتی ہے.ایسا بچہ بڑا ہوتا ہے تو جو بھی کمائی کرتا ہے اس میں اللہ کا حصہ ڈالتا ہے.پس وقف جدید کو آئندہ نسلوں کو.
خطبات طاہر جلد 17 16 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء سنبھالنے کے لئے استعمال کریں اور کثرت سے وقف جدید میں شامل ہونے والوں کی تعداد بڑھائیں خواہ تھوڑی قربانی کریں لیکن ان کو شامل ضرور کریں.الحمد للہ جماعت اس طرف توجہ کر رہی ہے اور اب 2 لاکھ 22 ہزار 628 تک تعداد جا پہنچی ہے.اب میں آخر پر پاکستان میں نمایاں وصولی کرنے والی جماعتوں کا ذکر کرتا ہوں.پاکستان میں نمایاں وصولی کرنے والی جماعتوں میں پہلے نمبر پر کراچی ہے.کراچی کے ساتھ گزشتہ سال شاید کچھ زیادتی ہوئی تھی ان کے اعداد و شمار یا ٹھیک پڑھے نہیں گئے یا وہ وقت پر بھجوا نہیں سکے.ان کو پہلی حیثیت سے گرا کر غالباً دوسری میں کر دیا گیا لیکن بعد میں جو انہوں نے مجھے اعداد و شمار بھجوائے کراچی کا پہلا مرتبہ، پہلا مقام اسی طرح قائم تھا.پس اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے کراچی جماعت سارے پاکستان کی جماعتوں سے آگے بڑھ گئی ہے.دوسرے نمبر پر ربوہ ہے اور ربوہ کی قربانیوں میں دراصل ساری دُنیا کے احمدی مہاجرین کی قربانیاں شامل ہیں اور اکثر ان کا چندہ باہر سے آنے والے روپے کی وجہ سے ہے اس لئے اس میں ساری دُنیا حصہ دار بن جاتی ہے مگر وہ ربوہ پہنچ کر پھر ادا ہوتا ہے اس لئے ربوہ کو بہر حال ایک مقام حاصل ہے.تیسرے نمبر پر لاہور ہے.یہ پہلی تین جماعتوں کا ذکر ہے.اب پہلے دس اضلاع کا نام بھی سن لیں تا کہ آپ کی دعاؤں میں وہ شامل رہیں پھر میں اس خطبہ کو دعا کے ساتھ ختم کروں گا.اسلام آباد یہ سارے اضلاع میں نمبر ایک پر ہے.راولپنڈی تمام پاکستان کے اضلاع میں نمبر دو ہے.یہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ باقی جو بہت سے اہم تربیتی اور دوسرے کام ہیں ان میں ان دونوں ضلعوں کو اتنی توفیق نہیں ملی ، وقف جدید میں کیوں ، کیسے مل گئی لیکن اللہ کا فضل ہے جس کو بھی نصیب ہو جائے.اللہ تعالیٰ یہ مبارک کرے اور اس کے نتیجہ میں دوسرے ترقی کے میدانوں میں بھی ان کو آگے قدم بڑھانے کی توفیق عطا ہو.آمین.اب سیالکوٹ ضلع بھی عام طور پر پیچھے رہنے والے ضلعوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ بڑے بڑے عظیم جھنڈے جو سیالکوٹ کی جماعت نے مسیح موعود کے زمانے میں اٹھائے ہوئے تھے ایک ایک کر کے اپنے گھروں میں رکھ دئے گئے اور آخر یہ ضلع عملاً دشمنوں کے ہاتھوں میں چلا گیا.بڑی بڑی احمدیت کی مخالفت کی روئیں اس ضلع سے اٹھی ہیں جن کا پہلے زمانوں میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا.تو اب میں اس ضلع کے پیچھے تو
خطبات طاہر جلد 17 17 خطبہ جمعہ 2 جنوری 1998ء پڑا ہوا ہوں دیکھیں کب یہ بیدار ہو کر ہر نیکی کے میدان میں آگے بڑھنے کی کوشش کریں گے لیکن اتنا ضرور تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ وقف جدید میں اس ضلع کو تیسری پوزیشن حاصل ہو گئی ہے.فیصل آباد چوتھے نمبر پر ہے.پانچویں پر گوجرانوالہ ہے اور شیخو پورہ کی باری چھٹے نمبر پر آتی ہے.شیخو پورہ غالباً چوہدری انور حسین صاحب کو یاد کر رہا ہے.ان کے بیٹے سن رہے ہوں گے تو یا درکھیں کہ اپنے بزرگ باپ کے مقام کو یا درکھیں اور جن جن نیکی کے میدانوں میں انہوں نے قدم آگے بڑھایا تھا آپ بھی آگے بڑھانے کی کوشش کریں.عمرکوٹ ساتویں نمبر پر ہے.یہ چھوٹا سا سندھ کا ضلع ہے لیکن حیرت ہے کہ کیسے ساتویں نمبر پر آ گیا مگر آ گیا ہے.گجرات آٹھویں نمبر پر ہے اور گجرات کا آٹھویں نمبر پر ہونا بھی غالباً اس وجہ سے ہے کہ وہ سب دُنیا میں پھیلا ہوا ہے اور وہ اپنے پیچھے رہنے والوں کا خیال رکھتے ہیں.سارے گجراتی دُنیا بھر سے اپنے خاندانوں کی مالی مدد کرتے ہیں اور اللہ کے فضل سے ان کو پھر یہ خدمت دین کے سلسلہ میں استعمال کرنے کی توفیق ملتی ہے.کوئٹہ نویں نمبر پر ہے اور سرگودھا دسویں نمبر اور اس کے ساتھ ہی جمعہ کا وقت ختم ہوتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 19 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء جھوٹ کے خلاف جنگ ایک عظیم جہاد ہے مباہلہ کا بیان اور رمضان کے فضائل (خطبه جمعه فرموده 9 جنوری 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: b وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پھر فرمایا: (البقرة:187) رمضان المبارک کے تعلق میں جو اس آیت کی میں تفسیر بیان کر رہا تھا اور احادیث نبوی صلی ا یہ تم کی روشنی میں رمضان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلا رہا تھا.یہ وہی آیت ہے جس کی اب پھر میں نے تلاوت کی ہے اور اس آیت وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبُ کا تعلق ہمارے مباہلہ کے سال کے ساتھ بھی ہے اور آئندہ بھی یہ آیت جماعت احمدیہ کے حق میں ایک عظیم ستون کا کام دے گی جس کے سہارے جماعت احمد یہ ہر آفت سے بچے گی.انشاء اللہ تعالیٰ.کیونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے قریب ہونے کا وعدہ ہے اور اپنے بندوں سے یہ توقع ہے فَلْيَسْتَجِيبُوائی کہ وہ میری باتوں کا بھی جواب ہاں میں دیں اور جو میں ان سے توقع رکھتا ہوں اس کو پورا کریں یہ دو مشروط وعدے ہیں.پس اگر جماعت احمد یہ ہمیشہ اس بنیادی آیت کو اپنا اصول بنائے رکھے تو ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد ہم سے کبھی کسی پہلو سے بھی گریزاں ہو جائے وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گی.انشاء اللہ.
خطبات طاہر جلد 17 20 20 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء اور اب خصوصیت سے اس رمضان میں اس کی ضرورت ہے.جو جمعہ آج طلوع ہوا ہے یہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ تمام دنیا کے مولویوں کو جو شرارت میں پیش پیش تھے اور ہیں ان کو میں نے 10 جنوری 1997ء یعنی پچھلے سال رمضان المبارک کے آغاز میں یہ چیلنج دیا تھا آج بھی 10 رمضان المبارک ہے تو Friday the 10th بھی دونوں طرح سے پورا اتر رہا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے اپنی طرف سے وہ ایسے انتظام فرماتا ہے کہ بعض خوشخبریوں کو اس طرح ترتیب دے دیتا ہے کہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہے.پس 10 جنوری کو جمعہ کے دن جو میں نے پینج دیا تھا آج 10 رمضان المبارک میں وہ سال پورا ہورہا ہے.اس سال میں کس حد تک ہمیں کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں یہ ایک کھلی کھلی حقیقت ہے، کھلی کھلی کتاب ہے جسے دشمن بھی پڑھ سکتا ہے، پڑھ رہا ہے اور بے چین ہے اور خطرناک جوابی حملوں کی کارروائیاں شروع ہو چکی ہیں اور ان کی تفصیل میں سر دست تو میں نہیں جاؤں گا لیکن میں اشارہ آپ کو بتا دوں گا.سب سے پہلے میں اپنی عبارت آپ کے سامنے رکھتا ہوں تا کہ یہ علماء جو اس مباہلہ کو غلط معنی دیتے ہیں اور انفرادی مباہلوں کی طرف اور ڈوبد و مباہلوں کی طرف کھینچ کے لے جانے کی کوشش کرتے ہیں یہ مباہلہ ہرگز اس قسم کے مباہلوں سے تعلق نہیں رکھتا.ایک یک طرفہ دعا تھی جس میں ان کو بھی دعوت دی گئی تھی کہ شامل ہو جاؤ اور پھر دیکھو کہ تمہاری دعائم پر الٹتی ہے یا نہیں ، ہماری دعا ہم پر الٹتی ہے یا نہیں اور تم سے خدا کا کیا سلوک ہو رہا ہے اس عرصہ میں اور ہم سے کیا سلوک ہو رہا ہے.یہ کھلی کھلی بات تھی.یہ سال گزر گیا اور یہ بات واضح ہو چکی.اب گزرے ہوئے سال کے واقعات کو وہ تبدیل نہیں کر سکتے.اس کی تفصیل انشاء اللہ وقت ملا، موقع ملا تو جلسہ سالانہ کے خطاب میں میں انشاء اللہ آپ کے سامنے پیش کروں گا.الفاظ سن لیجئے تا کہ آپ کو یاد دہانی ہو جائے.تم نے معاملات کو آخری حد تک پہنچا دیا ہے اور اس پہلو سے اللہ تمہیں مہلت بھی دے رہا ہے اور دے چکا ہے مگر تمہارے پکڑنے کے دن آئیں گے اور لازماً آئیں گے.یہ وہ تقدیر ہے جسے تم ٹال نہیں سکتے.“ اب پاکستانی اخبارات اور دنیا بھر کے اخبارات کی رُو سے جب میں اعداد و شمار آپ کو سناؤں گا تو آپ خود فیصلہ کر سکتے ہیں کہ وہ دن آگئے ہیں کہ نہیں آئے.بالکل کھلی کھلی حقیقت ہے.
خطبات طاہر جلد 17 21 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء مگر تمہارے پکڑنے کے دن آئیں گے اور لازماً آئیں گے یہ وہ تقدیر ہے جسے تم ٹال نہیں سکتے.میں آج اس جمعہ میں اعلان کرتا ہوں کہ لازماً تم پر ذلتوں کی مار پڑنے والی ہے.“ (خطبات طاہر جلد 16 ، صفحہ :24، خطبہ جمعہ 10 جنوری 1997ء) ان کے اپنے اقرار سے میں جلسہ سالانہ پر انشاء اللہ آپ کو دکھاؤں گا کہ یہ سال سو فیصد اس مباہلہ کے حق میں جو جماعت احمدیہ نے پیش کیا تھا گواہی دے چکا ہے اور ان گواہیوں کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا تو ایک دوسرے کے متعلق کہہ رہے ہیں کہ تم یہ ذلتوں کی مار پڑی ہوئی ہے اور یہی مار ہے جو انشاء اللہ اگلے سال بھی جاری رہے گی.اس تقدیر کو بدل کے دکھاؤ تب میں اس بات کو قابل قبول سمجھوں گا کہ تم سے مزید گفتگو کی جائے یا نہ کی جائے.پہلے یہ مباہلہ کا سال تو نپٹا لو.میں جو اعلان کر رہا ہوں کہ تم پر لازماً کھلی کھلی خدا کی مار پڑنے والی ہے اس کو بدل کے دکھا دو جب بدل دو گے تو پھر آ کے بات کرنا کہ آئیے اب مناظرہ بھی کر لیجئے.اب مناظرے کے رستے بند ہیں اور یہ الہی فیصلہ ہے جو جاری ہونے والا ہے اور ہو کے رہے گا.یہ ہے اعلان مباہلہ کا.جہاں تک جماعت کا تعلق ہے میں نے جماعت کو یہ نصیحت کی تھی : پس اس جمعہ پر میں ایک فیصلہ کن رمضان کی توقع رکھتے ہوئے.( یہ گزشتہ سال کا رمضان تھا جس کو میں کہہ رہا ہوں کہ فیصلہ کن رمضان ہے ) جماعت احمدیہ کو تاکید کرتا ہوں کہ اس رمضان کو خاص طور پر ان دعاؤں کے لئے وقف کر دیں کہ اے اللہ ! اب ان کے اور ہمارے درمیان فیصلہ فرما کہ تو احکم الحاکمین ہے، تجھ سے بہتر کوئی فیصلہ فرمانے والا نہیں.(خطبات طاہر جلد 16 ، صفحہ: 27، خطبہ جمعہ 10 جنوری 1997ء) مجھے یقین ہے کہ جماعت نے اس نصیحت کو پلو سے باندھ لیا اور دعائیں کیں.اگر یہ دعائیں نہ کی ہوتیں تو یہ نتیجہ ظاہر نہ ہوتا جو آپ کے سامنے ہے، سب دُنیا کے سامنے ہے.پھر جن لوگوں کے متعلق دعا ہے عامتہ الناس کے مٹائے جانے کی کوئی دعا نہیں بلکہ ہمیشہ میں اس سے گریز کرتا ہوں کہ نَعُوذُ
خطبات طاہر جلد 17 22 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء باللہ من ذالك پاکستان کے عوام کے خلاف کوئی بددعا دوں لیکن جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے ایک الہام سے ظاہر ہے کہ جولوگوں کے اوّل صف کے لوگ ہیں، ان کے لیڈر ہیں ان میں سے شریروں کو مٹا دے تو یہ دعا ہمیشہ مولوی جان بوجھ کر توڑتے مروڑ تے اور عوام الناس کو کہتے ہیں تمہارے خلاف بددعا دی ہے.یہ بالکل جھوٹ ہے.نہ میں آپ سے توقع رکھتا ہوں نہ میں نے کبھی کی.ہماری تو ہرممکن کوشش یہ ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے ملانوں کی ذلت کی مار سے بچائے جائیں جو آخران پر پڑنی ہے کیونکہ جس قسم کے راہنما ہوں آخر ان کی قوم علماء کی بدحرکتوں کے نتائج سے بچ نہیں سکتی.یہ وہ سلسلہ ہے جس کے متعلق میں نے یہ بیان کیا تھا: ”اے خدا ! اب ان سب فرائین کی صف لپیٹ دے جو مسلسل تکبر میں اور جھوٹ میں پہلے سے بڑھ بڑھ کر چھلانگیں لگا رہے ہیں اور ظلم اور بے حیائی سے باز نہیں آرہے.پس ہمارے لئے یہ سال یا اس سے اگلا سال ملا کر ان سب کو ایسا فیصلہ کن کر دے.( یعنی ان دونوں سالوں کو ) کہ یہ صدی خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دشمن کی پوری نا کامی اور نامرادی کی صدی بن کر ڈوبے اور نئی صدی احمدیت کی نئی شان کا سورج لے کر ابھرے.یہ وہ دعائیں ہیں جو اس رمضان میں میں چاہتا ہوں کہ آپ بطور خاص کریں.“ (خطبات طاہر جلد 16 صفحہ : 28، 29، خطبہ جمعہ 10 جنوری 1997ء) یہ جو حصہ ہے، اگلا سال، ان شیاطین کو مٹادے جو فراعین ہیں اور تکبر میں مبتلا ہیں.پاکستان کی ساری تاریخ آغاز سے لے کر اب تک کی اس بات پر گواہ ہے اور اب پاکستان کے اخباروں میں یہ اعدادو شمار بڑی نمایاں سرخیوں کے ساتھ شائع ہورہے ہیں کہ اس سال جس کثرت سے ملاں ہلاک ہوا ہے اور غیر طبعی موت مرا ہے اور بعض ملاؤں کی لاشیں کتوں کی طرح بازاروں میں گھسیٹی گئی ہیں یہ ایک دوسرے پر ہی مار پڑ رہی ہے.یہ جو وبال ہے یہ سال بتا رہا ہے کہ ہماری دعائیں قبول ہوئیں.یہ کہتے ہیں تمہاری دعا ئیں نہیں یہ ویسے ہی ہو گیا ہے.یہ ویسے کیسے ہو گیا ، ساری عمر کبھی نہیں ہوا اللہ تعالیٰ کو بیٹھے بیٹھے یہ کیا خیال آگیا کہ جو احمدیت کے اشد ترین دشمن ہیں ان کو ایک دوسرے کے ہاتھوں مروا یا جائے اور سو فی صد ثابت ہو کہ اس میں جماعت احمدیہ کا کوئی ہاتھ نہیں.کہتے تو ہیں کہ جماعت احمدیہ کا ہاتھ ہے مگر جب پوچھا جائے کہ دکھاؤ وہ ہاتھ کہاں ہے تو کچھ سمجھ نہیں آتی.یہ جانتے
خطبات طاہر جلد 17 23 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء ہیں جھوٹ بولتے ہیں.یہ بھی جھوٹ بول رہے ہیں کہ جماعت احمدیہ کا ہاتھ ہے.ان کو پتا ہے کہ ان کا ایک دوسرے کا ہاتھ ہے اور اگلا سال ابھی باقی ہے جس میں یہ بہت سی توقعات لگائے بیٹھے ہیں یعنی 1998 ءکا سال.یہ سال جس میں سے ہم اب گزر رہے ہیں.اس سال کے متعلق میں صرف اتنا عرض کر دینا چاہتا ہوں کہ یہ سال تو گزر چکا ہے اس میں جو کچھ انہوں نے کرنا تھا کر دیکھا.حکومتیں بھی ان کو ، بڑی جابر حکومتیں جو تمام امور کی لگا میں ہاتھوں میں تھامے ہوئے تھیں وہ بھی ملیں لیکن جو مرضی کر لیں اب اس گزرے ہوئے سال کو یہ تبدیل نہیں کر سکتے.ان کے جو منصوبے تھے وہ جاری ہیں پہلے سے بہت زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہیں.اس لئے اللہ تعالیٰ نے میرے منہ سے اس وقت 1998 ء کا سال بھی نکال دیا.تو یہ سال تو ہار گئے بہر حال، اگلا بھی بہر حال ہارنا ہے لیکن ان کی کوششیں 1998 ء میں پورے عروج پر ہوں گی اور اس کے متعلق ہماری نظر ہے کہاں کیسی کا رروائیاں ہو رہی ہیں.صدر Jammeh گیمبیا کے جو صدر ہیں ان کے ساتھ جو سلوک کیا گیا تھا، ان کو ریڈ کارپٹ Treatment اور ان کو ایک ہیرو کے طور پر پیش کرنا) اور ان کو سعودی عرب کے میڈل دینا یہ ساری باتیں اب صدر سینی گال جو خود فرانسیسی بولنے والے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اپنے طور پر، ذاتی طور پر کوئی تعصب نہیں رکھنے والے ہیں، ان کو بعینہ یہی Treatment دی گئی ، یہی ان کے ساتھ سلوک کیا گیا اور اس میں پیش پیش صدر Jammeh صاحب تھے.جس طرح وہاں ان کو گولڈ میڈل ملا کہ اسلام کی بڑی خدمت کی گئی ہے اور نمایاں طور پر دکھایا گیا کہ اس طرح سعودی عرب ان کا احترام کرتا ہے، یہ عظیم الشان فاتح جرنیل ہیں یہ Jammeh صاحب دوڑے پھرتے رہے اور جو کچھ ان کے ساتھ ہو چکی تھی وہی اب ان کے ساتھ کروا رہے ہیں اور اس کی باگ ڈور ساری پاکستان میں ہے اور وہ بیچارے سمجھ رہے ہیں کہ ہمیں کچھ دکھائی نہیں دے رہا.ساری ہماری نظر ہے.اس کی دو وجوہات ہیں.اول تو یہ کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انہی لوگوں میں سے کچھ نیک نفس جماعت کے حمایتی اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اپنی حکومت کو بتائے بغیر وہ جماعت کو اطلاع کرتے ہیں حالانکہ جماعت سے اُن کا کوئی تعلق بھی نہیں.اس لئے یہ خیال کہ ہماری جاسوسی کا کوئی اثر ہے ہر گز غلط اور جھوٹا خیال ہے.ایک ذرہ بھی ہمیں جاسوسی کی ضرورت نہیں کیونکہ اللہ ہمارا نگران ہے اور وہی معاملات پر نظر رکھتا ہے اور ہمیں
خطبات طاہر جلد 17 24 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء مطلع فرماتا ہے.دوسرا ان کے اپنے مُلا نے منہ پھٹ ہیں.وہ برداشت کر ہی نہیں سکتے انہوں نے ضرور پھکڑ تو لنے ہیں.اس لئے دو ذریعے ہیں جن سے ہمیں خبریں ملتی ہیں.پہلا ذریعہ ان کے اپنے مقرر کردہ، قابل اعتماد حکومت کے کارندے ہیں جن میں ایک بھی احمدی نہیں ان سے بیٹھ کر جو باتیں کرتے ہیں ان کا دل بولتا ہے کہ جھوٹ اور بکواس ہے اور وہ اپنے ذرائع سے جس طرح بھی ہو سکے ہمیں خبریں پہنچا دیتے ہیں.اب بتائیں اس میں احمدیوں کی سازش کہاں سے آگئی.اگر سازش ہے تو تم نے اے احمدیت کی مخالفت کرنے والے گروہوں کے سر برا ہوا! تم نے خود مقرر کئے ہیں یہ آدمی اور تم گھبرا گھبرا کر چاروں طرف دیکھتے ہو کہ یہ ہیں کون ، کہاں سے بولے ہیں لیکن تمہارے مقرر کردہ ہیں ہم نہیں بتا ئیں گے کون ہیں.تم ڈھونڈ لوان کو اور زیادہ بے چینی ہوگی.شیشے کے گھر میں بیٹھے ہوئے سب کچھ دکھائی دے رہا ہے.اور مُلاں کو تو نہیں ہم کہہ سکتے کہ ہمارے ایجنٹ ہیں.کام وہی کرتے ہیں جو ایجنٹ کیا کرتے ہیں لیکن ہیں وہ ملاں اور مخالف ملاں اور پھکڑ باز.ملاں تو برداشت کر ہی نہیں سکتا اس کے ہاتھ میں کسی قسم کا کوئی راز آجائے تو دنیا کو یہ بتانے کے لئے کہ میں نے کروایا ہے، میں احمدیت کی مخالفت میں یہ کام کر رہا ہوں اس نے ضرور پھکر تو لنے ہیں.آپ مُلاں کی زبان نکلوادیں گے تو اشاروں سے بتائے گا کہ میں نے یہ کام کروایا ہے.اس لئے دو ہمارے ذرائع ہیں جو اللہ کے فضل سے ہمیشہ ہماری مدد کرتے ہیں یعنی اللہ کی تقدیر کے تابع اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے.پس جو کچھ ڈا کار Dakar میں ہو رہا ہے کس طرح پاکستان کا ایمبیسیڈ راس میں ملوث ہے، کس طرح پاکستان میں ان باتوں کی طنابیں ہیں، کیا مشورے دئے جاتے ہیں، کس طرح صدر Jammeh کو بتایا جاتا ہے کہ اب تم اور تمہارے نمائندے بھاگے بھاگے ڈا کار جاؤ اور ڈاکار کو احمدیت کی مخالفت کا اڈا بنا لو.یہ وہ بات ہے جو وہ عملاً اس حیثیت سے کر چکے ہیں کہ وہاں اب جو رابطہ عالم اسلامی کا اڈا ہے وہ ڈا کار میں قائم کر دیا گیا ہے.کیا نتیجے پیدا ہونگے اس کے؟ اس سے پہلے رابطہ عالم اسلامی کی جو کارروائیاں تھیں ان کو اللہ تعالیٰ نے نکبت کی ماردی ہے، ذلت کی مار دی ہے، آج بھی یہی تقدیر جاری ہوگی اور انشاء اللہ تعالیٰ اس سال یعنی 1998ء کے سال میں جیسا کہ گزشتہ مباہلہ کی دعا میں اللہ نے میرے منہ سے نکلوا دیا تھا کہ 1997ء کا سال کافی نہیں 1998ء کے لئے بھی
خطبات طاہر جلد 17 25 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء دعائیں کرو.اس لئے میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ 1998ء کے سال کے لئے بھی اسی طرح دعائیں کرتی رہے گی اور پہلے سے زیادہ بڑھ کے شدت سے دعا ئیں کرے گی ، یہی دعائیں ہیں جو ہمارا سہارا ہیں اس کے علاوہ ہمارا کوئی سہارا نہیں.اِنَّهُمُ يكيدون كيدال و اكيد كيدا فَسَهْلِ الْكَفِرِينَ أَمْهِلُهُمْ رُوَيْدان ( الطارق : 16 تا 18) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے إِنَّهُمْ يَكِيدُونَ كَيد ا یہ بڑی تدبیریں کر رہے ہیں.تم یہ نہ خیال کرو کہ تدبیروں کے بغیر بیٹھے ہوئے ہیں، بڑے پلان بنا رہے ہیں.واكيد كيدا لیکن میں بھی باخبر ہوں، میں بھی جوابی پلان تیار کر رہا ہوں.اس میں جو میرے لئے راہنما اصول تھا وہ یہ تھا کہ میں بھی جوابی کارروائی کے لئے ہرممکن صلاحیت کو استعمال کروں کیونکہ اس دُنیا میں میں اس وقت خدا تعالیٰ کا نمائندہ بن کر اسلام کی خدمت پر مامور ہوں اور اس پہلو سے جماعت کے خلاف جتنی بھی مکاریاں ہو رہی ہیں ان کا اس دُنیا میں جواب دینا میرا فرض ہے کیونکہ و اكید كیدا جو خدا کی طرف منسوب ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی ”کید“ بندوں کے ذریعہ جاری کی جاتی ہے.واكيد كيدا کا یہ مطلب نہیں کہ میں آسمان سے کوئی تدبیریں کر رہا ہوں اور وہیں رہیں گی.وہ تدبیریں آسمان سے نیچے اترتی ہیں اور اللہ جس کو پسند فرماتا ہے اس کو عقل اور شعور بخشتا ہے، اس کو صلاحیتیں دیتا ہے کہ وہ ان تدبیروں کا بھر پور تو ڑ کرے.پس آپ کو اس معاملہ میں کسی فکر کی ضرورت نہیں یہ تو ڑ کرنا میرا فرض ہے.آپ کے لئے میری نمائندگی کا حق تب ہی ادا ہو گا اگر میں یہ تو ڑ ہر ممکن کروں، ہر پہلو سے، ہر ذریعہ کو استعمال کروں لیکن یہ یقین رکھتے ہوئے کہ یہ دنیاوی کا رروائیاں نہیں بلکہ واكيد كیدا کا جواب ہے جو آسمان پر اللہ تدبیر فرمارہا ہے وہ نیچے اتار رہا ہے اور اپنے ان بندوں کو جن کو استعمال کرنا چاہتا ہے وہ تدبیریں سمجھاتا ہے، سمجھاتا ہے.اس لئے بڑی حاضر دماغی کے ساتھ ، ہر پہلو کی بار یکی پر نظر رکھتے ہوئے جتنی بھی تدبیریں ممکن ہوسکتی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ہم کر رہے ہیں لیکن ان تدبیروں کا فیصلہ آپ کی دعائیں کریں گی، اس رمضان کی دعائیں جو باقی ہے اور سارے سال کی دعائیں.اس لئے 1997ء کی طرح 1998ء کا سال بھی ہمارا ہے، ہمارا رہے گا اور کوئی دُنیا کی طاقت اس سال کو ہم سے چھین نہیں سکتی.اس یقین کے ساتھ اب آگے بڑھیں اور اس یقین کے ساتھ دعائیں کریں.انشاء اللہ تعالیٰ اس کا نتیجہ آپ دیکھیں گے کہ یہی
خطبات طاہر جلد 17 26 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء ہوگا جو میں کہ رہا ہوں.اب میں واپس آتا ہوں.یہ جو رابطہ عالم اسلامی ، ڈاکار، یہ سب کچھ جو مجھے کوائف دئے گئے ہیں لیکن ان کو یہاں پڑھنے کی ضرورت نہیں یہ سب اب بے معنی ہو گئے ہیں جو خلاصہ تھا بات کا وہ میں نے بیان کر دیا ہے.اب اس آیت کریمہ کی روشنی میں احادیث نو یہ ملی ہیں یہ تم آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.بخارى كتاب الصَّوْمِ بَاب مَنْ لَمْ يَدَعُ قَوْلَ النُّورِ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے بخاری شریف میں ہے کہ آنحضرت سینی تم نے فرمایا: جو شخص جھوٹ بولنے اور جھوٹ پر عمل کرنے سے اجتناب نہیں کرتا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا، پیاسا رہنے کی کوئی ضرورت نہیں یعنی اس کا روزہ رکھنا بے کار ہے.“ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب من لم يدع قول الزور ، حدیث نمبر : 1903) یہ وہ حدیث ہے جو غالباً ہر رمضان میں میں بیان کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک یہ مرکزی حیثیت رکھتی ہے.رمضان کو سنوارنے کے لحاظ سے بھی اور آپ کی زندگی، آپ کی عقبی کو سنوارنے کے لحاظ سے بھی.جھوٹ جو قول الزور کہلاتا ہے یہ انتہائی ذلیل چیز ہے جو دنیا میں بھی انسان کو ضرور نامرادی کا مزہ چکھاتی ہے اور آخرت میں بھی وہ ہر نیکی سے محروم ہو جاتا ہے.پس صداقت کو اپنا ئیں اور جھوٹ کو ہر پہلو سے رڈ کر دیں.اپنے روزمرہ کے معاملات میں، اپنے بچوں سے باتوں میں ، اپنی بیوی سے باتوں میں، بیوی کا اپنے ماں باپ سے سلوک، خاوند کے ماں باپ سے سلوک اور اندرونی باتوں میں پردے ڈالنے کی کوشش کرنا یہ سارے وہ امور ہیں جو کسی نہ کسی رنگ میں جھوٹ کی ملونی رکھتے ہیں اور شاید ہی کوئی گھر ہو ، بعض ایسے ہیں جو میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے وہ تقاضے پورے کرتے ہیں ،مگر شاید ہی ایسے گھر ہوں یعنی کم ہونگے جن کے متعلق میں سو فیصدی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کے معاملات میں جھوٹ کی کوئی بھی ملونی نہیں.نیکیاں بہت ہیں، بدیوں سے اجتناب کرتے ہیں، لیکن جب اپنے نفس کو ضرورت پیش آئے تو چھوٹا ہو یا بڑا ہو جھوٹ سے ان کا پر ہیز نہیں رہ سکتا اور یہ جو چیز ہے یہ ان کے تقویٰ کو ننگا کر دیتی ہے.جب بھی جھوٹ اپنی مجبوری کے پیش نظر بولا جائے وہ جھوٹ اصل جھوٹ ہے جو شرک کی طرف مائل کرتا ہے.جو بےضرورت جھوٹ ہیں روز مرہ کے جیسا کہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تمہاری لغو قسموں کی طرف
خطبات طاہر جلد 17 27 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء اللہ توجہ نہیں دے گا.بعض دفعہ چھوٹے چھوٹے جھوٹ بے اختیار منہ سے نکل ہی جاتے ہیں کچھ زیب داستان کے لئے، کچھ کسی اور مقصد کے لئے لیکن ان میں اپنے نفس کو یا اپنے ساتھیوں کو بچانا مقصود نہیں ہوتا.جہاں تک ممکن ہو اس جھوٹ سے بھی اعراض لا زم ہے لیکن عموماً سوسائٹی میں انسان لاشعوری طور پر ایسے جھوٹوں میں ملوث ہو ہی جاتا ہے اس حد تک یہ شرک نہیں ہیں، اس حد تک گناہ کبیرہ ہونے کے باوجود گناہ صغیرہ کا رنگ رکھتے ہیں یعنی جھوٹ تو کبیرہ گناہ ہے لیکن بالا رادہ نہیں بولا جارہا ،کسی کو دھوکا دینے کی خاطر نہیں بولا جا رہا، اپنے جھوٹے مقاصد حاصل کرنے کی خاطر نہیں بولا جارہا اس پہلو سے ایسا جھوٹ عملاً صغیرہ رہتا ہے اور جھوٹی قسموں والی بات کے تابع اللہ تعالیٰ ان سے درگزر فرما دیتا ہے لیکن جب اس جھوٹ کو عام سوسائٹی میں شہرت حاصل ہو جائے یعنی سوسائٹی میں عام طور پر اس قسم کے جھوٹ کا غلبہ ہو جائے تو میرا تجربہ ہے کہ ایسی سوسائٹیاں لازماً پھر بڑے جھوٹ میں ملوث ہونے لگتی ہیں.ان کا امتحان اس وقت آتا ہے جب ان کی اپنی ضرورت ان کو مجبور کرتی ہے کہ کوئی جھوٹ بولیں.اگر انہوں نے اپنی ضرورت کی خاطر کوئی جھوٹ بولا تو پہلے سارے لغو جھوٹ اُن کے گناہ کبائر بن جائیں گے.یہ امتحان ہے، یہ Test Case ہے.ایسا شخص اگر اس وقت رک جائے جب اس کے مفادات اس سے تقاضا کریں کہ تم ضرور جھوٹ بولو اور کوڑی کی بھی پروانہ کرے کہ اس کی ذات کے ساتھ کیا ہوتا ہے ایسی صورت میں اس کے وہ سارے جھوٹ لغویات میں سے ہوں گے جن سے مؤاخذہ نہیں کیا جائے گالیکن جہاں امتحان در پیش ہوا، جہاں اس نے ٹھو کر کھائی اور اپنے مقاصد یا اپنے رشتے داروں کے مقاصد کی خاطر جھوٹ کا سہارا لے لیا تو وہیں اور اس کی ساری لغویات کبائر میں شمار ہو جائیں گی.یہ ایک اہم نکتہ ہے جسے آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں کیوں کہ لغویات اسی وقت تک لغویات ہیں جب تک وہ شرک پہ منتج نہیں ہوتیں.جو نہی ایسا شخص واضح طور پر شرک میں ملوث ہو گیا وہ پھر لغویات نہیں کہلائیں گی.وہ اسکی روز مرہ کی حرکتیں اس کا ایک شرک میں ملوث ہونا ثابت کریں گی.پس میں آپ سے امید رکھتا ہوں کہ اس حدیث نبوی صلی یہ تم پر جتنا بھی گہرا غور کریں گے آپ مزید عارفانہ نکات حاصل کرتے رہیں گے کیونکہ جھوٹ کے خلاف جنگ ایک بہت عظیم جہاد ہے.جماعت احمدیہ کا جہاد کا دعویٰ اس وقت تک سچا ثابت نہیں ہو سکتا جب تک عالمی طور پر جماعت احمد یہ
خطبات طاہر جلد 17 28 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء جھوٹ کےخلاف جہاد کا علم بلند نہ کرے.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ بھی صرف بھوکا پیاسا رہنے کو روزہ قرار نہیں دیں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جھوٹ سے اجتناب کی باریک راہیں اختیار کریں گے اور اپنے نفس کو کھنگالتے رہیں گے.جہاں آپ کو جھوٹ نظر آئے گا وہ آپ کا دشمن، کینہ توز آپ کے دل میں کمین گاہ بنا کے کہیں بیٹھا ہوا ہے جب اس کو موقع ملے گا وہ آپ پر حملہ کر دے گا اس حملہ سے وہ باز نہیں آئے گا.پس یہ ایک شرک کا بت ہے جو ہر دل میں پنہاں ہے.کہیں اونچا سطح کے قریب، کہیں نیچا، گہرا اور تہ میں.اس بت کو توڑنا ہے.اگر آپ اس بت کو توڑ دیں گے تو ابراہیم کی طرح بت شکن کہلائیں گے.اگر اس بت کو نہیں توڑیں گے تو سارے بت اٹھ کھڑے ہوں گے اور آپ کا دل صنم خانہ بن جائے گا.ایسا دل اللہ کے قیام کے لئے مسجد نہیں بنا کرتا.پس امید ہے کہ آپ اس مضمون کو خوب اچھی طرح سمجھ کر اپنی زندگی میں جاری فرمائیں گے.صحیح مسلم کی ایک حدیث ہے حضرت جابر سے روایت ہے کہ: ایک شخص نے آنحضرت صلی ا تم سے پوچھا کہ اگر میں فرض نماز میں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں اور حلال کو حلال اور حرام کو حرام گردانوں اور اس سے زائد کوئی عمل نہ کروں تو کیا میں جنت میں داخل ہو سکوں گا.آنحضرت صلی تم نے فرمایا: ہاں.اس شخص نے کہا خدا کی قسم میں ان کاموں سے کچھ زائد نہیں کروں گا.“ (صحیح مسلم ، کتاب الایمان، باب بيان الايمان الذي يدخل به الجنة ،حدیث نمبر : 110) اب یہ جو مضمون ہے یہ بظاہر ایک ایسا مضمون ہے کہ انسان اپنی نیکیوں میں اپنے آپ کو محدود کر رہا ہے کہ میں اس سے آگے نہیں بڑھوں گا، ہر گز کوئی نفلی کام نہیں ادا کروں گا پھر بھی جنت میں جاؤں گا کہ نہیں.یہ کم سے کم شرائط ہیں جو ایک مومن کے لئے جنت میں داخل ہونے کے لئے ضروری ہیں.اس سے جہاں نیچے گر اوہ اگلا جہنم کا زینہ ہے جس میں ایک قدم نیچے اتر آئے گا لیکن ان بنیادی شرائط کو اگر وہ پورا کرتا ہے تو وہ جنتی ہے لیکن یہ شرائط کوئی معمولی نہیں ہیں اور نوافل ان کی حفاظت کرتے ہیں.اگر وہ شخص بغیر نوافل کے ان کی حفاظت کر سکتا تھا تو آنحضرت صلی ایتم نے اس شرط کے ساتھ اسے ہاں کہا ہے، کر سکتے ہو تو کر ولیکن یہ پکی بات ہے اگر اپنے عہد پر قائم رہے تو تم جنت میں جاؤ گے.
خطبات طاہر جلد 17 29 29 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء اب دیکھیں ” فرض نمازیں ادا کروں اب فرض نمازوں کا ادا کرنا ایک بہت بڑا دعویٰ ہے.ان نمازوں کا جو کھڑی ہوتی ہیں جن کو کھڑا رکھا جاتا ہے، جن کی حفاظت کی جاتی ہے تو بظاہر اس نے چھوٹی بات کی لیکن بہت بڑی بات کر گیا.پھر رمضان کے روزے رکھوں گا ، یعنی روزے رکھنے سے مرادان شرائط کے ساتھ جیسا کہ رمضان کے روزوں کا حق ہے.” حلال کو حلال اور حرام کو حرام گردانوں گا.“ اب دیکھیں کتنی بڑی آزمائشوں سے بچنے کا اس نے وعدہ کیا ہے.” حرام کو حرام‘ حالانکہ انسانی زندگی میں بکثرت ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ اس کا مال عملاً حرام کی ملونی رکھتا ہے اور یہ وعدہ کر رہا ہے کہ میں حرام کو حرام جانوں گا ہر گز اس میں غیر حلال کی ملونی داخل نہیں ہونے دوں گا.یہ تو بہت ہی بار یک نیکی کا دعوی ہے، بڑی احتیاط کا دعوی ہے تمام امور پر نظر رکھنے کا، اپنی کمائی پر ہر طرف سے نظر رکھنے کا دعویٰ ہے.آپ میں کتنے ہیں جو اس دعویٰ کو پورا کرتے ہیں یا اس پر پورا اترتے ہیں؟” اس سے زائد کوئی عمل نہ کروں گا.کتنے ہیں جو اس سے زائد عمل کرتے ہیں؟ آپ میں سے جو روزہ دار ہیں مجھے نہ بتا ئیں اپنے گھر جا کے سوچیں کیا حرام کو حرام سمجھنے کے ہر پہلو پر ان کی نظر ہے؟ پھر بھی جنت کے ہم اُمیدوار بنے بیٹھے ہیں اور اللہ کا فضل یقینا اگر شامل حال ہو تو ہمیں جنت میں داخل فرمائے گالیکن ان کمزوریوں کے باوجود جو حلال کو حلال نہ سمجھنے کی کمزوریاں ہیں اور حرام کو حرام نہ سمجھنے کی کمزوریاں ہیں.اس لئے یا درکھیں کہ یہ حدیث بہت بڑا تقاضا کر رہی ہے، دینی عمل کو آسان نہیں بنا رہی.لوگ سمجھتے ہیں چھٹی ہو گئی بنیادی باتیں سب پوری کر دیں.بنیادی باتیں پوری کریں گے تب پتا چلے گا کہ چھٹی کوئی نہیں ہوئی تھی اور سفر کا آغاز ہوا ہے.پس رسول اللہ لیا تم نے چونکہ فرمایا کہ ”ہاں“ اس لئے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو یہ توفیق عطا فرمائی ہوگی.اب یہ سمجھ نہیں آئی کہ اس میں اس شخص کا نام کیوں نہیں دیا گیا، اس میں حکمت ضرور ہوگی.حضرت جابر سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی الی تم سے پوچھا، یہ پتا کرنا چاہئے کہ کیا اس کا نام بھی کہیں مذکور ہے کہ نہیں.یا یہ بھی ایک طریق تھا.مجھے اس لئے دلچسپی ہے کہ بعض دفعہ حضرت جبرائیل انسانی شکل میں متمثل ہوا کرتے تھے اور دین کے تمام پہلو مسلمانوں کو سکھانے کے لئے رسول اللہ صلی لہ یہی تم سے سوال کیا کرتے تھے ، ادنی پہلو بھی اور سب سے بالا پہلو بھی مختلف سوالوں سے ظاہر ہو جایا کرتا تھا تو مجھے یہ شک پڑ رہا ہے کہ یہ کہیں جبرائیل تو نہیں تھے جنہوں نے انسانی روپ
خطبات طاہر جلد 17 30 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء دھار کر رسول اللہ لا یتیم سے سوال کیا کیونکہ اگر مدینہ کی سوسائٹی میں کوئی معروف شخص ایسا ہوتا تو عجب نہیں تھا کہ حضرت جابر اس کا نام لے دیتے.اس لئے اگر کسی حدیث میں نام ہے تو الگ بات ہے مگر مجھے یہ خیال گزر رہا ہے کہ یہ حضرت جبرائیل کا دین سکھانے کا طریق تھا.جامع الترمذی کتاب الصوم رمضان میں شیاطین کا جکڑا جانا اور ابواب جنت کا کھلنا.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةً قَالَ: قَالَ رَسُولُ الله..الخ، اس کا میں ترجمہ آپ کو سنا دیتا ہوں.یہ وہ حدیث ہے جو ہر رمضان کے دوران جمعوں میں جب میں رمضان کے تقاضوں اور باریک راہوں کا ذکر کرتا ہوں، یہ حدیث بھی ہمیشہ سنایا کرتا ہوں.اب بھی میں اس کو پھر سناؤں گا.یہ مطلب نہیں ہے کہ ہر دفعہ جب تکرار ہوتی ہے تو وہ واقعی تکرار ہی ہوا کرتی ہے.ہر دفعہ جو تکرار ہوتی ہے اس میں اللہ تعالیٰ کوئی نئے مضمون بھی سمجھا دیتا ہے جو پہلے نہیں بیان کئے گئے اور ایسی تکرار جو بنیادی نیک باتوں کی تکرار ہو اس سے اللہ تعالیٰ نے منع نہیں فرمایا بلکہ اس کی ہدایت فرمائی ہے.فذكر ان نَّفَعَتِ الذِكرى (الاعلی: 10) تجھ پر فرض ہے کہ مرکزی نصیحت کی باتیں بار بار دہرا تارہ اور کثرت سے بیان کرتا کہ خوب اچھی طرح دلوں میں جاگزیں ہو جا ئیں.پس اس پہلو سے بعض لوگ جو ہر دفعہ یہ سنتے ہوں گے.ان کو خیال کرنا چاہئے کہ وہ سال کی بات بھول بھلا گئے اب ذکیر کا تقاضا ہے کہ پھر ان کو یہ باتیں یاد کرائی جائیں.یہ حدیث ہے جامع ترمذی کی.فرمایا: ” جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور آگ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور اس کا ایک بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا.“ اب اس حدیث کو اگر آپ صحیح نہ سمجھیں تو یہ ایک غلط بات ہے اور رسول اللہ اللہ ہی ہم غلط بات بیان کر ہی نہیں سکتے.آپ اپنے گردو پیش لندن کی گلیوں کو ہی دیکھ لیں اور سارے یورپ، امریکہ ان کو تو در کنار کر دیں، پاکستان اور بنگلہ دیش میں اور دیگر مسلمان ممالک میں جو رمضان کے دوران ظلم ہوتے ہیں اور بے حیائیاں ہوتی ہیں ان سے آج کا اخبار اٹھا کے دیکھ لیں بھرا پڑا ہے قتل وغارت، زنابالجبر ، اغوا، گینگ ریپ اور معصوموں کا قتل.کوئی ایک بات بتا ئیں جو رمضان سے پہلے تو کھلی چھٹی تھی لیکن اب مسلمان اس سے رُک گئے ہوں.پس یہ فرمان پھر کیا معنی رکھتا ہے کہ جب ماہ رمضان
خطبات طاہر جلد 17 31 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء وو کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور آگ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور اس کا ایک بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا.اس حدیث کا واضح اور قطعی مطلب یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کے نیک بندے جن کو رمضان کے علاوہ عام دنوں میں شیطان بہکاتے رہتے ہیں اور کسی حد تک کبھی کبھی کامیاب بھی ہو جاتے ہیں اور وہ بڑے لوگ جن جن کو کہا گیا ہے وہ اپنے اثر کے تابع ان کو راہ راست سے بہکا دیتے ہیں.یہ خدا کے بندے اگر واقعہ اللہ کے بندے ہیں تو پھر رمضان کی پہلی رات ان کے اندر ایک عظیم تبدیلی رونما ہوتی ہے، ہر شیطان کے خلاف کمر بستہ ہو جاتے ہیں، ہر بے ہودہ خیال کے خلاف اپنی تمام صلاحیتیں استعمال کرتے ہیں اور کسی شیطان، سرکش، گمراہ کرنے والے یا دنیاوی لحاظ سے بڑے انسان کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ ان کی زندگی پر رمضان کے دوران اثر انداز ہو.پس رمضان میں ایک اللہ کے بندہ کی جو حالت ہے کس طرح وہ خدا کی طرف اپنے آپ کو Withdraw کر دیتا ہے یعنی اللہ کی طرف اپنے آپ کو پیچھے دھکیلتے دھکیلتے اس کی گود میں جابیٹھتا ہے یہ وہ بندے ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ: ایک دروازہ بھی جہنم کا ان پر کھلا نہیں رہتا، کلیۂ ہر دروازہ بند ہوجاتا ہے.اور منادی اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب آگے بڑھ اور اے شر کے خواہاں رک جا اور جو 66 آگ سے آزاد کئے جاتے ہیں وہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں اور ایسا ہر رات ہوتا ہے.“ (جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی فضل شهر رمضان، حدیث نمبر :682) اب ہرحدیث اپنے حل کے لئے ایک چابی اپنے اندر رکھتی ہے.یہ جو فقرہ اب میں نے پڑھا ہے اسی میں اس کی چابی ہے.عباداللہ ، عباد الرحمن یہ ان لوگوں کی بات ہورہی ہے.چنانچہ فرما یا جو آزاد کئے جاتے ہیں وہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں اور ایسا ہر رات ہوتا ہے.اب اس میں ایک عظیم الشان خوشخبری ہمارے لئے یہ ہے کہ اگر رمضان کی پہلی رات میں ہم سے ایسا نہیں ہوا تو شر سے، غیر اللہ سے آزادی دلانے کا اعلان ہر رمضان کی رات کو کیا جاتا ہے.ہر رمضان کی رات کو اللہ کے فرشتے اترتے ہیں اور یہ اعلان عام کرتے ہیں کہ اے وہ لوگو جو بھی اللہ کے بندے بننا چاہتے ہو، اب بھی شیطان کے شر سے اور اس کی زنجیروں سے آزاد ہونا چاہتے ہو تو آ جاؤ.اگر آج تم اللہ کے بندے بننے
خطبات طاہر جلد 17 32 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء کا فیصلہ کرو گے تو آج کی رات تمہاری آزادی کی رات ہوگی.یہ حدیث ہے جو رمضان کے دوران اور رمضان کی راتوں میں غور کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے.پس ہر شخص کو ، ہر رات کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا کہ یہ رات اس کے لئے آزادی کا پیغام لائی ہے کہ نہیں اور اس کی آزادی کا پیغام اس کے شیطانوں کے جکڑے جانے کا پیغام ہی ہے یعنی مومن کی آزادی اور شیطانوں کا جکڑا جانا یہ بیک وقت ایک ہی معنی رکھتے ہیں اور بیک وقت اطلاق پاتے ہیں.اب یہ حدیث بھی ایسی ہی حدیث ہے جس کا ہر سال رمضان المبارک کے خطبوں میں ذکر تو ہوتا ہے لیکن تمام باتیں آنحضرت سلیم کی باتیں ہیں اور ہر بات ایک نیا مزہ رکھتی ہے، نئی شان رکھتی ہے اور رمضان کی برکات کو سمجھنے میں اور جن چیزوں سے پر ہیز لازم ہے ان کو سمجھنے میں بہت مددگار ثابت ہوتی ہے، ان حدیثوں میں سے ایک یہ بھی ہے.حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی السلام نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے اور میں خود اس کی جزا ہوں گا.( یعنی اس کی اس نیکی کے بدلہ میں اسے اپنا دیدار نصیب کروں گا ) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ ڈھال ہے پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بیہودہ باتیں کرے، نہ شور و شر کرے.اگر اس سے کوئی گالی گلوچ کرے یا لڑے جھگڑے تو وہ جواب میں کہے کہ میں تو روزہ دار ہوں قسم ہے اس ذات کی.(اللہ کی شان ہے محمد رسول اللہ لیا ایم کی قسم دیکھیں کیسی شان دار قسم ہے ) جس کے قبضہ قدرت میں محمد صلی یم کی جان ہے.(اس سے بڑی قسم مومن بندے اپنے حق میں سوچ بھی نہیں سکتے ) قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد لی لی ایم کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک کستوری سے زیادہ پاکیزہ ہے اور خوشگوار ہے.( کیونکہ اس نے اپنا یہ حال خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے ) روزہ دار کے لئے دو خوشیاں مقدر ہیں ایک خوشی اسے اس وقت ہوتی ہے جب وہ روزہ افطار کرتا ہے اور دوسری اس وقت ہوگی جب روزہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوگی.“ 66 (سنن النسائی، کتاب الصيام ذكر الاختلاف على أبي صالح....حدیث نمبر : 2218)
خطبات طاہر جلد 17 33 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء یعنی روزہ کی جو لذت افطاری کے وقت آتی ہے اس کو روزہ دار ہی جانتا ہے کہ کس قدر مزہ کی بات ہے، کیسا دل کشادہ ہو جاتا ہے، فرحت محسوس کرتا ہے پانی کا ایک ایک قطرہ پیارا لگتا ہے لیکن اس کی روح کی لذت تو وہ ہے جب خدا تعالیٰ کی ملاقات نصیب ہوگی اور اس کی روح کی ساری پیاسیں بجھائی جائیں گی.یہ حدیث بہت گہرے معانی پر مشتمل ہے اور روزمرہ کے دستور کو دہرایا گیا ہے کہ روزہ کے دوران تمہیں ابتلا پیش آئیں گے.کوئی جھگڑے گا، کوئی زیادتی کرے گا، کوئی سختی سے پیش آئے گا تو تمہیں اس کے سوا کوئی جواب نہیں دینا کہ میں روزہ دار ہوں.اس کے بعد روزہ دار کے منہ کی بو کا ذکر ہو گیا.یہ کیوں ہوا؟ اس کا کیا تعلق ہے؟ تعلق یہ ہے کہ جو شدید جھگڑے کے وقت بھی منہ نہیں کھولتا اور غلط باتوں سے پر ہیز کرتا ہے، کھانے سے بھی اور پینے سے بھی پر ہیز کرتا ہے، اس کا منہ اللہ کی خاطر بند ہے اور جب منہ دیر تک بند ر ہے تو اس میں بدبو پیدا ہو جاتی ہے.تو ایک طرف یہ فرمایا کہ اس کو کہہ دو کہ میں اللہ کی خاطر خاموش رہوں گا اور اس خاموشی کے نتیجہ میں تمہارے منہ میں جو بد بو سارا دن منہ بند رکھنے سے اور نہ کھانے سے پیدا ہوتی ہے اللہ فرماتا ہے وہ مجھے بہت پیاری لگتی ہے.پس یہ سارے معاملات ایک دوسرے سے منسلک ہیں، ان میں ربط ہے.آنحضرت صلی لا یہ ستم کا کلام باہمی ربط سے پہچانا جاتا ہے اور یہ ربط اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل ظاہر ہے یعنی آپ غور کریں گے تو ظاہر ہوگا کیوں میں جزا بنتا ہوں؟ یہ بحث ہو رہی ہے.فرمایا اس نے اپنا یہ حال خدا تعالیٰ کی خاطر کیا ہے.اب مومن تو اپنے منہ کی بو کے متعلق بڑا سخت حسّاس ہوتا ہے.آنحضرت صلا می ایستم کے منہ سے ہمیشہ خوشبو اٹھتی تھی جو پاکیزہ لعاب کے نتیجہ میں ایک پاکیزہ خوشبو ہے جس کو خوشبو کی لہریں آپ نہ بھی قرار دیں تو تازہ منہ رکھنے والے کی جو سانس ہے وہ اپنے اندر ایک ایسی مہک رکھتی ہے کہ اسے ایک خوشبو نہ بھی کہیں تو وہی دل پذیر ہے.تو آنحضرت صل للہ الہام کا منہ ہمیشہ اللہ کی خاطر اس طرح صاف رہتا تھا اور بار بار آپ سلیم صاف کرتے تھے کہ اس سے آپ مسی یتیم کے پاکیزہ لعاب دہن کے سوا اور کوئی بو نہیں آیا کرتی تھی.پس فرمایا کہ جس نے اپنا یہ حال خدا کی خاطر بنالیا ہو.‘ اس سے مجھے لگتا ہے بلکہ یقین ہے کہ رسول اللہ صلی ا تم اپنی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ میں کتنا پاکیزہ ہوں، میرے منہ میں بھی شاید اس روزہ رکھنے کے نتیجہ میں وہ ہلکی سی بوداخل ہو چکی ہو جس سے میں کتنا پر ہیز کرتا ہوں کتنا دور بھاگتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 34 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء اس لئے میں بے قابو ہورہا ہوں جذبات سے کہ یہ فقرہ : " جس نے خدا تعالیٰ کی خاطر اپنا یہ حال بنارکھا ہے.“ یہ فقرہ حضرت محمد رسول اللہ صلی یتیم کی یاد کو دل میں تازہ کرتا ہے اور کھول کے اس روزہ دار کو سامنے لے آتا ہے جس کے مقدر میں دو خوشیاں ہیں.لازماً ایسا روزہ دار جب خدا کے رزق پر روزہ کھولتا ہے اور پانی پیتا ہے تو اس کے دل کی کیفیت، اس کے جسم کی کیفیت ایسی ہوتی ہے کہ دُنیادار اس کا اندازہ بھی نہیں کر سکتا اور پھر ہر روز اللہ سے وہ ملاقات کرتا ہے اور روزہ کی جزا ساری اس کو عطا ہوتی ہے ساری فرحتیں عطا کی جاتی ہیں، ساری پاکیز گیاں عطا کی جاتی ہیں.یہ وہ مضمون ہے جو اس حدیث نے ہمارے سامنے کھول کے رکھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ کم لوگوں کو خیال آتا ہے کہ یہ اوّل طور پر آنحضرت صل للہ الیہ تم کا خود اپنے متعلق بیان ہے.اب صحیح البخاري كِتَابُ الصَّوْمِ بَاب : الرِّيَّانُ لِلصَّائِمِینَ سے حدیث لی گئی.حضرت سہل رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اینم نے فرمایا: جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت کے دن روزہ دار اس سے داخل ہوں گے اور ان کے سوا کوئی اس میں داخل نہیں ہوگا.پوچھا جائے گا کہ روزہ دار کہاں ہیں تو وہ کھڑے ہو جائیں گے ان کے سوا کوئی اس میں سے داخل نہیں ہوگا اور جب وہ داخل ہو جائیں گے تو وہ بند کر دیا جائے گا اور پھر کوئی اس سے جنت میں داخل نہ ہو گا.“ ہے.(صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب الريان للصائمين، حدیث نمبر : 1896) لیکن دوسری احادیث سے ثابت ہے کہ جنت کے سات دروازے ہیں ساتوں سب خدا کے ان بندوں کے لئے کھلے ہیں جو ان دروازوں سے جنت میں داخل ہونے کا حق رکھتے ہیں اور اس موضوع کی اور بھی احادیث ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ جنت میں داخل ہونے کے بہت سے رستے ہیں جن کے ذریعہ سے مومن ضرور ان رستوں سے داخل ہو گا اس لئے ان احادیث کو ظاہر پر محمول نہ کریں.یہ نہ سمجھیں کہ ایک گیٹ سے داخل ہو کر پھر دوسرے گیٹ سے نکل آتا ہے.پھر دوسرے گیٹ سے داخل ہوتا ہے پھر نکل آتا ہے.پھر تیسرے گیٹ سے داخل ہوتا ہے.یہ ظاہر پرستوں کی لغویات ہیں.آنحضرت سلی یا ریتم جس کا ذکر فرما رہے ہیں ان کو آپ اس طرح سمجھ لیں کہ سارے دروازے ایک گیٹ کی شکل میں رونما ہو جاتے ہیں.ہر نیکی کا دروازہ جس میں سے مومن کو داخل ہونا چاہئے وہ جس
خطبات طاہر جلد 17 35 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء دروازہ سے داخل ہو اس کے اوپر گویا سب نیکیوں کے لیبل لگے ہوں گے اور جو سچا روزہ دار ہے خدا کے نزدیک اس کا گیٹ بھی وہیں سجایا جائے گا.اگر ظاہری طور پر گیٹ کا تصور ضرور باندھنا ہے تو اس طرح باندھیں لیکن یہ ظاہری تصور نہیں ہے.روحانی طور پر انسان اپنی ہر نیکی کی جزا کوگو یا دروازوں کی طرح متمثل ہوتے دیکھے گا لیکن ظاہری گیٹ نہیں ہوں گے اس کی روح محسوس کرے گی کہ میری ہر نیکی کی جزا مجھے دی جارہی ہے اور میں اسی جنت میں داخل ہورہا ہوں جہاں ایک نیکی بھی نظر انداز نہیں کی گئی.اس کے سوا اس حدیث کا کوئی دوسرا مطلب کرنا اس حدیث کے مضمون سے روگردانی ہے.اب بعض لوگوں کے لئے تو شاید روزہ کا ایک فائدہ ایسا دکھائی دے کہ اس پر وہ ضرور لپکیں کیونکہ انسانی فطرت ہے ، انسان کوشش کرتا ہے کہ میرے مال میں برکت پڑے اور اس برکت کی خاطر دیکھیں وہ کتنی بے برکتیاں حاصل کر لیتا ہے یعنی برکت ڈھونڈ نے نکل گھر سے اور سارا دن بے برکتیاں سمیٹ کر اپنی ایک پنجابی میں جس کو پنڈ" کہتے ہیں ” گٹھڑی“ مگر جیسا پنڈ کا لفظ ہے نا ویسا گٹھڑی میں نہیں مزہ ، وہ پہنڈا ٹھائے ہوئے بے برکتیوں کی گھر میں داخل ہوتا ہے.نکلتا ہے برکت کے لئے لیکن آنحضرت صلی سیستم فرماتے ہیں کہ روزہ میں ایک یہ بھی فائدہ ہے کہ تمہارے اموال میں برکت دے گا.یہ کیسے ہوگا ، اللہ بہتر جانتا ہے مگر رسول اللہ صلی ایم کے الفاظ میں آپ کے سامنے پڑھ کے سنا دیتا ہوں.سهل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلیہ السلام نے فرمایا: نماز ، روزہ اور ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے.“ (سنن أبی داؤد، کتاب الجهاد، باب فی تضعيف الذکر فی سبیل الله عز وجل، حدیث نمبر : 2498) اب یہ سات سو گنا کا محاورہ یہ چلتا ہے اور اس کی بنیاد قرآن کریم میں بھی ہے اور ویسے ہی سات سو گنا کا لفظ کثرت اموال کی طرف اشارہ کرتا ہے.یہاں جو طریقہ کار ہے وہ غور سے سننے والا ہے.کس کے مال میں روزہ برکت ڈالے گا، کس مال میں روزہ برکت ڈالے گا، فرمایا نماز ، روزہ اور ذکر اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کئے گئے مال کو بڑھاتا ہے یعنی یہ نہیں کہ آپ نے دُنیا میں کوئی تجارت کرنی ہے تو اس میں برکت پڑ رہی ہے.خدا کی راہ میں جو مال خرچ کریں گے اس مال میں برکت پڑے گی
خطبات طاہر جلد 17 36 خطبہ جمعہ 9 جنوری 1998ء اور اس طرح روزہ دار کے اموال بڑھیں گے اور یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہ وعدہ اخروی وعدہ نہیں یا محض اخروی وعدہ نہیں.اس دُنیا میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جولوگ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کے اموال میں مرنے کے بعد نہیں بلکہ اس دُنیا میں بھی لازماً برکت پڑتی ہے لیکن یہ تجارت اور تجارت ہے، یہ قرضہ حسنہ سے تعلق رکھنے والی تجارت ہے جس کا مضمون میں نے پہلے بیان کیا ہے.پس آپ صلی للہ ایسی تم خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں بہت زیادہ تیز ہواؤں سے بھی بڑھ کر تیز ہو جایا کرتے تھے.یوں بیان کیا گیا ہے کہ عام ہوا میں جب چلتی ہیں نرم رووہ جھکڑ میں تبدیل ہو جا ئیں تو بڑے زور سے تیزی کے ساتھ نیکیوں میں تیزی یوں محسوس ہو جیسے آپ آج کل ہواؤں میں دیکھ رہے ہیں عام ہوا چل رہی ہے بڑی اچھی اچھی ، تیز چل رہی ہے.بعض دفعہ اتنے زور سے چلتی ہے کہ آپ کو دھکا پڑتا ہے پیچھے سے.تو یہ وہ دھکے والی ہوائیں ہیں جو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا اسلوب سکھاتی ہیں کہ رمضان میں اس طرح خرچ کرو جیسے تمہارے اندر وہ جھکڑ چل پڑیں اور تم خدا کی خاطر خرچ کرتے ہوئے گویا دھکے کھاتے کھاتے آگے بڑھ رہے ہو.یہ وہ مضمون ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلیم فرماتے ہیں کہ ایسا کرو گے تو یاد رکھو تمہارے اموال میں بہت برکت پڑے گی.اب اس کے ساتھ وقت ختم ہورہا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 37 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء اگر روزہ میں نمازیں سنور جائیں تو روزہ نماز کا معراج اور نمازیں روزہ کا معراج بن جاتی ہیں (خطبه جمعه فرموده 16 جنوری 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) b تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ (البقرة: 187) پھر فرمایا: اس آیت کریمہ سے متعلق خطبات کا سلسلہ جاری ہے اور ترجمہ اس کا پھر میں دہراتا ہوں کہ جب تجھ سے ( یعنی اے محمد رسول اللہ صلی تم میرے بندے سوال کریں میرے بارے میں.فَإِنِّي قَریب میں قریب ہوں.اُجِيْبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ میں پکارنے والے کی پکار کوسنتا ہوں جب وہ مجھے بلائے.فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ پس چاہئے کہ وہ میری باتوں کی استجابت میں جلدی کریں کیونکہ میں قریب ہوں اس لئے یہ معنی اس میں شامل ہیں کہ وہ بھی میری استجابت میں یعنی میری باتوں کا ہاں میں جواب دینے میں اور ان پر عملدرآمد میں جلدی کریں.وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ اور مجھ پر ایمان لائیں تا کہ وہ ہدایت پا جائیں.یہ جو دن ہیں رمضان کے ، آج کل کے دن یہ اب تیزی سے گزر رہے ہیں اور رمضان اپنے اواخر کی طرف الٹ پڑا ہے.اس پہلو سے اس جلدی کا مضمون اور بھی زیادہ واضح ہو جانا چاہئے کہ یہ دن اب تھوڑے ہیں
خطبات طاہر جلد 17 38 88 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء جن دنوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے وعدہ ہے کہ اگر تم جلدی میری باتوں کو قبول کرو گے تو میں قریب کھڑا ہوں تمہیں فوری جواب ملے گا.تو اس فوری جواب کا وقت جیسا کہ رمضان گزرنے کا تعلق ہے کم ہوتا جارہا ہے لیکن ویسے یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ آیت ہمیشگی کا مضمون رکھتی ہے.رمضان کے لئے ایسی خاص نہیں کہ اس کے بعد اس میں اس کا مضمون اطلاق نہ پائے لیکن جو رمضان میں قرب کا مضمون ملتا ہے ویسا اور کسی مہینہ میں دکھائی نہیں دیتا.اسی لئے حضرت محمد مصطفی صلی لے لی ہم نے رمضان میں بہت زور دیا ہے کہ رمضان کا حق ادا کرو کیونکہ آپ صلی سیستم فرماتے ہیں کہ ایسا مہینہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا.جو بھی اس مہینہ میں کرگزرنا ہے نیکیوں کے لحاظ سے وہ کر گزرو.جو کچھ تمہارے لئے ممکن ہے اختیار کرو.یہ تھوڑے سے تو دن ہیں.آیا ما مَعْدُودَتِ (البقرة: 185) رمضان بھی آیا ما مَعْدُودَت ہی ہیں، چند دن کی بات ہے، ان دنوں میں جو کچھ محنت ممکن ہے وہ کر لو لیکن اس محنت کا تعلق دل کے خلوص سے ہے.اگر خلوص دل نہ ہو تو پھر یہ محنت بے کار ہے.یہ مضمون ہے جس کو میں احادیث نبوی صلی الا یہ تم کے حوالہ سے آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں.ایک حدیث یا غالباً بہت سی ایسی احادیث ہوں گی جن کو دہرایا جائے گا لیکن کوشش کر کے ایسی حدیثیں بھی ہم تلاش کر رہے ہیں جو پہلے دہرائی نہ گئی ہوں لیکن جود ہرائی جاتی ہیں جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا تھا بار بار کی نصیحت کا تقاضا ہے کہ وہ دہرائی جائیں اور ہر رمضان میں ایک نسل گزر جاتی ہے، ایک نئی نسل آجاتی ہے اس لئے ان کا بھی حق ہے کہ ان کے سامنے بھی وہ باتیں بار بار پیش کی جائیں.روزہ آگ دور کرتا ہے.ایک یہ حدیث ہے جو سنن الدارمی کتاب الجھاد سے لی گئی ہے.حضرت ابوسعید الخدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی لے ہی ہم نے فرمایا کہ: "جو بندہ اللہ تعالیٰ کے رستہ میں اس کا فضل چاہتے ہوئے روزے رکھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرہ اور آگ کے مابین ستر خریف کا فاصلہ کر دیتا ہے.“ (سنن الدارمی، کتاب الجهاد، باب من صام يوما فی سبیل الله عزّ وجل، حدیث نمبر : 2399) فضل چاہتے ہوئے روزے رکھتا ہے.ابتغاء وجه اللہ کا یہ ترجمہ ہے.فضل چاہتے ہوئے.وجه الله کا اصل معنی تو ہے خدا کا چہرہ ، خدا کی توجہ، جو اپنی طرف خدا کی توجہ کرنے کی خاطر کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف پھر جائے ، تمام تر توجہ اس کی طرف مبذول ہو جائے جو اس نیت کے ساتھ روزے رکھتا ہے تو
خطبات طاہر جلد 17 39 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء الله تعالى ، بَاعَدَ اللهُ بَيْن وَجْهِهِ وَ بَيْنَ النَّارِ سَبْعِينَ خَرِيفًا : اس کے اور آگ کے درمیان ستر خریف کا فاصلہ کر دیتا ہے.اب اللہ کا چہرہ ایک ایسی چیز ہے جسے یادرکھنا چاہئے تھا.ترجمہ میں فضل ترجمہ ہوا ہے حالانکہ چہرہ کے مقابل پر چہرہ رکھا گیا ہے.فرمایا تم اللہ کا چہرہ چاہو گے تو اللہ کے چہرہ والے کو پھر آگ چھو نہیں سکتی ، اس کے چہرہ کو آگ چھو نہیں سکتی.یہ ناممکن ہے.جسے اللہ کا چہرہ نصیب ہو جائے اس کے چہرہ کو آگ کیسے چھو سکتی ہے.یہ مضمون تھا جس کو ترجمہ میں ذرا دھیما کر دیا گیا.فضل اس کا ترجمہ جائز ہے مگر یہاں جس خوبصورتی کے ساتھ حدیث نے ایک وجہ کو دوسرے وَجْهِ کے ساتھ ملایا ہے اسے اسی طرح رہنے دینا چاہئے تھا.وَجْہ کو وجہ ہی رہنے دینا چاہئے تھا.اب ستر خریف کا فاصلہ یہ کیا چیز ہے؟ خریف سرما اور گرما کے درمیان کے زمانہ کو کہتے ہیں یعنی سردیوں اور گرمیوں کے درمیان ایک زمانہ آتا ہے جو ان دونوں کو ملنے سے روکتا ہے، بیچ میں حائل ہو تو سردیاں گرمیوں سے نہیں مل سکتیں.تو ناممکن ہے کہ دونوں ایک ہی جیسے موسم گزرجائیں یعنی سردیاں بھی اور گرمیاں بھی.بیچ میں ایک موسم حائل ہو جاتا ہے لیکن لفظ ستر کو خصوصیت سے پیش نظر رکھنا ضروری ہے.فرمایا ستر خریفوں کا فاصلہ، اب ستر خریفوں کا فاصلہ ویسے تو تصور میں نہیں آسکتا کہ ایک خریف نہیں، دو نہیں ، تین نہیں ،ہستر خریف ہیں لیکن معاملہ اس سے زیادہ آگے ہے کیونکہ ستر کا لفظ عربی میں زمانہ کے بے شمار ہونے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے.ستر کا لفظ قرآن کریم سے اور احادیث سے ثابت ہے یہ محض عد دستر پر اطلاق نہیں پاتا بلکہ ایک لامتناہی زمانہ کی طرف اشارہ کرتا ہے.پس لفظ ستر کو خصوصیت کے ساتھ ان معنوں میں آپ پیش نظر رکھیں کہ مراد یہ ہے کہ ناممکن ہے.کوئی صورت ایسی نہیں کہ یہ چہرہ آگ دیکھ سکے.یہ دعا کرنی چاہئے کہ اللہ ہم سب کو اللہ کا یہ چہرہ دکھا دے.جس چہرہ کو خدا اپنا وہ چہرہ دکھا دے جو اس نے محمد رسول اللہ صلی لہ یہ تم کو دکھایا تھا اس چہرہ پر آگ حرام ہو جاتی ہے.ناممکن ہے کہ اسے آگ چھوئے.آنحضرت صلی الی یتم فرماتے ہیں: روزہ گناہوں کو یکسر مٹادیتا ہے.“ نضر بن شیبان" کہتے ہیں کہ میں نے ابوسلمہ بن عبد الرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی لا یہ نام سے براہ راست سنی ہو.نذر بن شیبان کہتے ہیں میں نے ابو سلمہ بن
خطبات طاہر جلد 17 40 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء عبدالرحمن سے کہا تھا.( یہ کیا خیال آیا ان کو معلوم ہوتا ہے کوئی یہ روایت عام ہوئی ہوگی اور اس کا چر چا انہوں نے سنا ہوگا اور وہ چاہتے ہوں گے کہ میں ان کی زبان سے خودسن لوں ) ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے کہا ہاں مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی سلیم نے فرمایا کہ اللہ تبارک تعالیٰ نے رمضان کے روزہ رکھنے تم پر فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کر دیا پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے روزہ رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل آتا ہے جیسے اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہو.“ (سنن النسائی، کتاب الصیام ذكر اختلاف يحي بن أبي كثير والنضر بن شیبان فيه، حدیث نمبر : 2212) یہ وہی حدیث ہے جو گزشتہ سال بھی میں نے بیان کرتے ہوئے یہ عرض کیا تھا کہ ثواب کی نیت سے روزے رکھے کا ترجمہ درست نہیں ہے.یہ رواجی ترجمہ ہے اور ثواب کی نیت سے ہی روزے رکھے جاتے ہیں کبھی میں نے کسی کو گناہ کی نیت سے روزہ رکھتے ہوئے نہیں دیکھا.پس ثواب کی نیت سے روزہ رکھنا احتساب کا غلط ترجمہ کیا گیا ہے.جو روزہ اس لئے رکھے کہ اپنے نفس کا احتساب کرے اور بار یک نظر سے اپنے اعمال کا جائزہ لے کہ ان میں کہیں کسی قسم کی غیر اللہ کی ملونی تو داخل نہیں ہو رہی.یہ ترجمہ اگر کیا جائے تو پھر باقی مضمون بالکل ٹھیک بنتا ہے.ایسا شخص جب رمضان سے گزرے گا تو گویا اسے نئی زندگی ملی ہے.جیسے ماں نے اسے جنم دیا ہے.پس اس پہلو سے یاد رکھیں جو الفاظ ہیں وہ یہ ہیں: "مَن صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَاناً واحتساباً “ یہ لفظ احتساب ہے جس کا ترجمہ ہمارے تراجم میں غلط رنگ میں راہ پا گیا ہے اور اس کو احتساب سمجھنا ضروری ہے ورنہ اس کے بعد كَيَومٍ وَلَدَتْهُ أُمہ کے الفاظ نہیں آ سکتے.احتساب ہی ہے جو انسان کو ایسا پاک صاف کر سکتا ہے کہ گویا اس کی ماں نے اسے نیا جنم دیا ہے.اب یہ جو خیال تھا کہ رمضان میں ہر ایک کے اوپر زنجیریں کس دی جاتی ہیں اور شیطان کو راہ نہیں ملتی کہ مومنوں میں دخل اندازی کر سکے میں نے بتایا تھا کہ یہ مضمون ہر گز نہیں ہے.اللہ کے بندے زنجیروں میں گئے جاتے ہیں یعنی وساوس کے معاملہ میں، شیطانی خیالات کے معاملہ میں وہ خدا کے قیدی ہو جاتے ہیں اور وساوس ان کو چھو نہیں سکتے.یہی مضمون اس حدیث سے ثابت ہے کہ منافقین
خطبات طاہر جلد 17 41 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء کا رمضان وہ زنجیریں لے کر نہیں آتا، منافقین اسی طرح کھلے ہوتے ہیں اور جو چاہیں شرارتیں کرتے پھریں بلکہ رمضان میں ان کی شرارتیں پہلے سے بڑھ جایا کرتی ہیں.یہ مضمون ہے جو اس حدیث میں یوں بیان ہوا ہے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی لا یہ تم نے فرمایا: تمہارا یہ مہینہ تمہارے لئے سایہ فگن ہو.“ یعنی تمہارا یہ مہینہ تم پر سایہ ڈال دے.یہ سایہ فگن ہونے کے بعد ابو ہریرہ رسول اللہ لی ایم کی طرف یہ بات منسوب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی علیم کا حلفی ارشاد ہے کہ مومنوں کے لئے اس سے بہتر مہینہ کوئی نہیں گزرا.(اس لئے میں نے شروع میں تمہید میں کہا تھا رسول اللہ صلی سیستم فرماتے ہیں کہ ) اس سے بہتر مہینہ مومن کے لئے متصور ہو ہی نہیں سکتا اور منافق کے لئے اس سے برا مہینہ اور کوئی نہیں گزرا.“ پس اگر شیطان سب کے لئے قید ہو تو منافق کے لئے بھی قید ہونا چاہئے.صاف ظاہر ہے کہ رمضان میں اس کا شیطان اور بھی پر پرزے نکالتا ہے اور پہلے سے زیادہ بڑھ کر شرارتیں کرتا ہے.اس مہینہ میں داخل کرنے سے قبل ہی اللہ عز وجلت مومن کے اجر اور نوافل لکھ دیتا ہے.“ داخل ہونے سے قبل ہی لکھ دیتا ہے مراد یہ ہے کہ اس کا مقدر ہی نیکی ہے اس کے سوا کچھ ہو نہیں سکتا.جو سچے دل سے ایمان لاتے ہوئے اس مہینہ میں داخل ہوگا گویا اس کا اجر پہلے سے لکھا گیا ہے اس کو اپنے اجر کے بارے میں شک کی ضرورت نہیں جبکہ منافق کے گناہوں کا بوجھ اور بدبختی لکھ دیتا ہے یعنی منافق پر بھی یہ بات لکھی جاتی ہے کہ اس مہینہ سے گزر کے تم پہلے سے زیادہ بد بخت ہو جاؤ گے کیونکہ نیکی کا موقع پاؤ گے اور ہاتھ سے کھو دو گے.پس تمہاری بدبختی پہلے سے زیادہ بڑھ جائے گی.فرمایا: اس طرح کہ مومن مالی قربانیوں کے لئے اپنی طاقت تیار کرتا ہے اور منافق غافل لوگوں کے اتباع اور ان کے عیوب کی پیروی میں قوت بڑھاتا ہے.“ (شعب الأيمان، باب فی الصیام / فضائل شهر رمضان، حدیث نمبر : 3607)
خطبات طاہر جلد 17 42 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء اب یہ بات بہت دلچسپ ہے کہ ، غافل لوگوں کے اتباع اور ان کے عیوب کی پیروی میں قوت بڑھاتا ہے.رمضان کے مہینہ میں واقعۂ بعض منافقین اس کھوج میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی شخص روزہ تو رکھتا ہے مگر فلاں عیب رکھتا ہے کوئی شخص بظا ہر عبادت کر رہا ہے مگر فلاں عیب بھی رکھتا ہے اور عجیب بات ہے کہ اس مہینہ میں اس مضمون کے خطوط بھی مجھے ملتے ہیں.بلا استثناء ہمیشہ اس مہینہ میں ضرور ایسے خطوط ملتے ہیں جو رسول اللہ صلی ا یہ تم کی اس حدیث پر گواہ ہو جاتے ہیں.بالکل سچ فرمایا.ایسے بد نصیب لوگ ہیں کہ اپنے حال کی فکر نہیں مگر مومنوں کی نیکیوں پر حسد کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان میں عیوب ڈھونڈیں، ان میں ناسور ڈالنے کی کوشش کریں اور رمضان کے مہینہ میں اس میں تیزی آجاتی ہے.اب مالی قربانیوں کے متعلق جہاں تک جماعت کو علم ہے خصوصیت کے ساتھ رمضان میں مالی قربانی کا حکم ہے اور مومنین ضرور کرتے ہیں اور انہی مالی قربانیوں کے متعلق کیڑے ڈالنے کے خطوط ملتے ہیں.دیکھ لیا جی ہم نے فلاں شخص کو بڑا مالی قربانی کرتا پھرتا ہے لیکن یہ کمزوری پائی جاتی ہے ، وہ کمزوری پائی جاتی ہے.پس فرمایا یہ حالت مومنوں کے لئے غنیمت ہے اور فاجر کے لئے اس کا فجور بڑھانے میں مددگار ہے.پس اتنا ہی کہنا کافی ہے مزید تفصیلات میں میں نہیں جانا چاہتا.استغفار سے کام لیں اور اس مہینہ میں لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کی کوشش بالکل بند کر دیں.اگر کوئی عیب تلاش کرتا ہے اور اس کا تذکرہ کرتا ہے اس کو کہہ دینا چاہئے کہ تم شیطان کے غلبہ کے نیچے ہو، تم عباداللہ میں لکھے جانے کے لائق نہیں اس لئے مجھے الگ چھوڑ دو.اس مہینہ میں خصوصیت کے ساتھ ایسے لوگوں سے پر ہیز کریں.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض تحریرات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن میں سے ایک یہ ہے کہ : رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں.“ یہ آپ کی تحریر ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ رمضان یعنی دو گرمیاں.رمضان، رمض یعنی گرمی کو کہتے ہیں یہ نام اسی لئے رکھا گیا کہ رمضان گرمی کے مہینہ میں شروع ہوا تھا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ غلط بات ہے.دو گرمیاں ایک اور مضمون اپنے اندر رکھتا ہے اور اس کا گرمی کے مہینہ میں شروع ہونے سے کوئی تعلق نہیں.اس پر جب میں
خطبات طاہر جلد 17 43 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء نے تحقیق کی کہ رمضان کب شروع ہوا تھا تو سر دیاں بنتی تھیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بات کا مجھے یقین تھا کہ اسی طرح ثابت ہوگی.رمضان کا آغاز سردیوں میں ہوا ہے گرمیوں میں ہوا ہی نہیں.پس آپ فرماتے ہیں: (اس لئے ) روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا.“ یعنی جسمانی طور پر انسان بھوک پیاس کی شدت برداشت کرتا ہے اور جدوجہد بہت کرتا ہے رمضان میں یہ اس کے لئے ایک حرارت ہے اور روحانی طور پر اس کی روح میں غیر معمولی طور پر گرمی پائی جاتی ہے اور بڑے جوش کے ساتھ اپنے رب کی طرف لپکتی ہے پس یہ دو گرمیاں ہیں جو مل کر رمضان ہوا.اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا اس لئے رمضان کہلا یا میرے نزدیک یہ میچ نہیں ہے کیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہوسکتی.روحانی رمض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے.رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں.“ الحکم جلد 5 نمبر 27 صفحہ :2 مؤرخہ 24 جولائی 1901ء) اب اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر گرم ہو جاتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ سخت دلوں کو پگھلانے کے لئے رمضان کو ایک خاص مزاج عطا ہوا ہے اور امر واقعہ یہی ہے کہ بہت سے سخت دل جو عام دنوں میں نرم نہیں ہوتے اور خدا تعالیٰ کے لئے اپنے آپ کو پگھلتا ہوا محسوس نہیں کرتے رمضان میں بعض ایسی راتیں آتی ہیں کہ بے اختیار ان کے دل خدا کے حضور سجدوں میں پگھل کر بہنے لگتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ فقرہ : رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں.یہ بے تعلق نہیں بلکہ حقیقتاً ہم نے اس کو ایسا ہی دیکھا ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے نسبتاً لمبے اقتباسات میں سے میں کچھ پڑھ کے سناتا ہوں.تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے.روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں.اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف 66 نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.“
خطبات طاہر جلد 17 44 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ (البقرة:186) یہ مضمون وہی ہے.رمضان کو جو دیکھے وہ اس میں روزہ رکھے.شھد کا مطلب ہے اپنی آنکھوں سے دیکھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ تشریح فرمائی ہے جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے.پس تم میں سے وہی ہے جو رمضان کو دیکھتا ہے، جو رمضان کو دیکھتا ان معنوں میں ہے کہ اس میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے گواہی دے سکے، اپنے دل سے گواہی دے سکے یہ تو میرا ایسا ملک ہے جس میں میں جاچکا ہوں اور اس کے حالات کو جانتا ہوں.وو روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسار ہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے.انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قو تیں بڑھتی ہیں.“ پس رمضان کے مہینہ میں کھانے میں زیادتی رمضان کا حق ادا نہیں کرتی بلکہ رفتہ رفتہ کھانے میں کمی رمضان کا حق ادا کرتی ہے.عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ لوگ شروع میں تو بھوک نہیں لگتی ، اس وقت میں اس لئے نسبتا کم کھاتے ہیں اور جوں جوں رمضان آگے بڑھتا جاتا ہے وہ زیادہ کھانے لگتے ہیں یہاں تک کہ آخری دنوں میں تو رمضان ان کو پتلا کرنے کی بجائے موٹا کر جاتا ہے.یہ جسم کی فربہی در اصل نفس کی فریبی بھی ہوسکتی ہے.اس لئے عام طور پر بھولے پن میں ، لاعلمی میں لوگ ایسا کرتے ہیں مگر ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں تزکیہ نفس ہوتا ہے جو کم کھانے سے زیادہ ہوتا ہے، پس جتنا آپ کم کھانے کی طرف متوجہ ہوں گے اتنا ہی رمضان آپ کے لئے فائدہ بخش ہو گا اور کشفی قو تیں بڑھتی ہیں یعنی خدا تعالیٰ کو انسان مختلف صورتوں اور صفات میں دکھائی دینے لگتا ہے.یہ کشفی قوتوں کا لفظ بہت با معنی تو ہے ہی مگر بہت اہمیت رکھتا ہے.بعض لوگوں کو ویسے ہی دماغ کی خرابی سے یہ محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ کشف دیکھ رہے ہیں یا نیند کے غلبہ کی وجہ سے ان کو کچھ سمجھ نہیں آتی اور اپنے خیالات کو ہی کشف بنا لیتے ہیں.رمضان میں کشوف کا جو کم کھانے سے تعلق ہے یہ بالکل اور چیز ہے.اس کا نفسانی خواہشات اور اپنے دل کے خیالات سے کوئی بھی تعلق نہیں اور مضمون بتاتا ہے کہ وہ کشف حقیقی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا یا دل کا وہم تھا.دل کے تو ہمات میں ربط کوئی نہیں ہوتا، دل کے تو ہمات میں ایسی سچائی اور پاکیزگی نہیں ہوتی جو انسان کو
خطبات طاہر جلد 17 45 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء گناہوں سے دور پھینک دے.پس کشف کا احساس کافی نہیں، کشف کا مضمون ضروری ہے کہ کشف میں وہ مضمون ہو جو تقویٰ کا مضمون ہے.اگر تقویٰ کا مضمون ہے تو انسان کو یہ کہنے کی ضرورت بھی نہیں کہ میں نے کشف دیکھا ہے.اگر تقویٰ کا مضمون ہوگا تو کشف دیکھنے والا اپنے کشف کو چھپالے گا اور اس کے تذکرے نہیں کرے گا.پس رمضان میں یہ ساری شرطیں اکٹھی پائی جاتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض الفاظ کو غلط معنی پہنا کر آپ میں سے کئی گمراہ بھی ہو سکتے ہیں.یہ خیال کر کے کہ ہم بڑے صاحب کشف بن گئے رمضان میں، لوگوں سے تذکرے شروع کر دیں کہ یوں مجھے ہلکا سا جھونکا آیا میں نے کشف میں یہ دیکھ لیا یہ ساری باتیں بتانے کا جتنا شوق ہوگا اتنا ہی آپ کا کشف جھوٹا ہو گا لیکن بچے کشوف میں بعض دفعہ دوستوں اور عزیزوں کے متعلق خبر دی جاتی ہے اور وہ خبریں ایسی ہوتی ہیں جو سچی نکلتی ہیں.پس ان خبروں کا تذکرہ کرنا تقویٰ کے خلاف نہیں اور ان کشوف کو جھوٹا قرار نہیں دیتا." ( پس ) خدا تعالیٰ کا منشا اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ.ہمیشہ روزہ دار کو یہ مد نظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا ر ہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتل اور انقطاع حاصل ہو.پس روزہ سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کر جو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کے لئے تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جولوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور برے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد اور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے.“ ( الحکم جلد 11 نمبر 2 صفحہ: 9 مؤرخہ 17 جنوری 1907ء) پھر روزہ اور نماز کی عبادتوں میں ایک فرق بیان فرمایا ہے.روزہ اور نماز ہر دو عبادتیں ہیں.روزے کا زور جسم پر ہے اور نماز کا زور روح پر ہے.نماز سے ایک سوز و گداز پیدا ہوتی ہے اس واسطے وہ افضل ہے.روزے سے کشوف پیدا ہوتے ہیں مگر یہ کیفیت بعض دفعہ جو گیوں میں بھی پیدا ہوسکتی ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 46 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء یہ وہی بات ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں.کشوف تو ہوتے ہیں مگر کشوف میں ایک نفس کا دھوکا بھی شامل ہو جاتا ہے.جوگی بھی جو ریاضتیں کرتے ہیں وہ کشوف دیکھتے ہیں لیکن ان کشوف کا بنی نوع انسان کی بھلائی اور نیکی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.وہ عجیب وغریب کشوف ہیں جن کے تفصیلی تذکرے کی یہاں ضرورت نہیں مگر جو گیوں نے کبھی دنیا میں پاکیزگی نہیں پھیلائی.کبھی دُنیا میں کسی مذہب کے جو گیوں نے بنی نوع انسان کی روحانی حالت تبدیل نہیں کی.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام متوجہ فرمارہے ہیں کہ روزے کے کشوف میں بعض دفعہ جو گیوں والی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی ہے.لیکن روحانی گدازش جو دعاؤں سے پیدا ہوتی ہے اس میں کوئی شامل نہیں.“ (البدر جلد 1 نمبر 10 صفحہ:2 مؤرخہ 8 جون 1905ء) اب یہ دیکھیں کہ نماز کوروزہ سے افضل قرار دیا ہے اور ہم کہتے ہیں کہ روزہ سب سے افضل ہے.روزہ کی جزا اللہ ہے.اس میں غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں.روزہ بمقابل نماز نہیں ہے بلکہ روزہ کا مقصد نماز ہے اور نمازوں کی حالت کو درست کرنا ہے.پس اگر روزہ میں نمازیں نہ سنور میں تو روزہ بے کار ہے.اگر روزہ میں نمازیں سنور جائیں تو روزہ نماز کا معراج اور نماز میں روزے کا معراج بن جاتی ہیں.پس اس میں تفریق نہ کریں ورنہ مضمون بالکل بگڑ جائے گا.حقیقت میں روزہ کے دوران جتنی نمازیں سنوریں گی اتنا ہی روزہ کا آپ پھل پائیں گے اور اس حد تک سنور جانی چاہئیں کہ گویا آپ کو خدا نظر آ گیا اور گویا اللہ آپ کو دیکھنے لگا.یہ صورتیں ہیں جو درحقیقت روزہ کی افضلیت میں پیش نظر رہنی چاہئیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : خدا تعالیٰ نے دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقرر فرمائے ہیں.نماز ، روزہ ، زکوۃ 66 صدقات، حج ، اسلامی دشمن کا ذب اور دفع خواہ سیفی ہو خواہ قلمی.“ یہ پانچ مجاہدات ہیں جو مسلمان پر فرض ہیں.پہلی نماز ، پھر ز کوۃ صدقات اس کے ذیل میں آتے ہیں چوتھا حج اور پانچواں جہاد خواہ وہ سیفی ہو خواہ وہ قلمی ہو.فرمایا: یہ پانچ مجاہدے قرآن شریف سے ثابت ہیں.مسلمانوں کو چاہئے کہ ان میں کوشش کریں اور ان کی پابندی کریں.یہ روزے تو سال میں ایک ماہ کے ہیں.بعض اہل اللہ تو نوافل کے طور پر اکثر روزے رکھتے رہتے ہیں اور ان میں مجاہدہ کرتے ہیں.ہاں دائمی
خطبات طاہر جلد 17 47 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء روزے رکھنا منع ہیں یعنی ایسا نہیں چاہئے کہ آدمی ہمیشہ روزے ہی رکھتا ر ہے بلکہ ایسا کرنا چاہئے کہ نفلی روزے کبھی رکھے اور کبھی چھوڑ دے.“ ( بدر جلد 6 نمبر 43 صفحہ: 3 مؤرخہ 24اکتوبر 1907ء) اب رمضان کے آنے پر کتنے دل خوش ہوتے ہیں اور کتنے دل غمگین ہوتے ہیں یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں ہر انسان جو اپنا جائزہ لے گا اس کو محسوس ہو گا کہ رمضان کے آنے پر ویسی خوشی نہیں ہوتی شروع میں جیسی کہ رمضان کے آنے کا حق ہے بلکہ لوگ گھبراتے ہیں اور ڈرتے ہیں.پس اس عبارت کو سننے کے بعد یہ خیال نہ کریں کہ وہ منافقین ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ بوجھ اٹھانے سے پہلے دل میں خوف ضرور پیدا ہوتا ہے اور انسان رمضان میں داخل ہونے سے پہلے ڈرتا ہے کہ میں اس کے تقاضے پورے کر سکوں گا یا نہیں کر سکوں گا پھر اللہ تعالیٰ اس کے تقاضے آسان فرما دیتا ہے.اس لئے جب میں یہ عبارت پڑھوں گا تو بعض لوگ ڈر کے یہ نہ سمجھیں کہ ان کی حالت منافقانہ ہے.نَعُوذُ بِاللہ من ذالك کیونکہ عام دستور ہے کہ ہمیشہ رمضان کی ذمہ داریوں کا خوف ، رمضان کی آمد کے وقت شروع ہو جاتا ہے اور انسان شروع میں کچھ گھبراتا ہے کہ دیکھوں مجھ پر کیا گزرے گی لیکن اللہ تعالیٰ بچے بندوں کے لئے رمضان کو آسان فرما دیتا ہے اور پھر بشاشت کے ساتھ انسان رمضان میں سے گزرجاتا ہے.اس تمہید کے بعد میں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس پڑھتا ہوں.و شخص جس کا دل اس بات سے خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور اس کا منتظر میں تھا کہ آوے اور روزہ رکھوں اور پھر وہ بوجہ بیماری کے نہیں رکھ سکا تو وہ آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے.“ جو شخص اس بات پر خوش ہے کہ رمضان آ گیا اور میں اس کا منتظر تھا اگر بیماری اس کے راستہ میں حائل ہو جائے وہ روزہ نہ رکھ سکے تو آسمان پر روزے سے محروم نہیں ہے لیکن : اس دُنیا میں بہت لوگ بہانہ جو ہیں اور وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم جیسے اہلِ دُنیا کو دھوکا دے لیتے ہیں ویسے ہی خدا کو فریب دیتے ہیں.بہانہ جو اپنے وجود سے آپ مسئلہ تراش کرتے ہیں اور تکلفات شامل کر کے ان مسائل کو صحیح گردانتے ہیں.“
خطبات طاہر جلد 17 48 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء اب جو حقیقی بہانہ جو ہیں جن کا دل سچ سچ رمضان کی آمد سے خوش نہیں ہوتا ان میں اور سچے مومنوں میں جو دل سے رمضان کو برا نہیں جانتے اس کے فیوض سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں یہ نمایاں فرق ہے کہ سچے لوگ جب رمضان میں داخل ہوتے ہیں تو ان کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ جس طرح بھی بن پڑے وہ روزہ رکھیں اور بیماریوں کے بہانے ان کی راہ میں حائل نہ ہوں اور جو بہا نہ جولوگ ہیں جو رمضان کی آمد سے خوش نہیں ہوتے ان کے نفس کے بہانے تیزی دکھانے لگتے ہیں.کوئی کہتا ہے کہ مجھے جب میں روزہ رکھوں تو چھینکیں شروع ہو جاتی ہیں.کوئی سمجھتا ہے کہ اس کے پیٹ میں خرابی ہو جاتی ہے ، کسی کو سر درد ہو جاتی ہے، کسی کو اور بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں غرض یہ کہ وہ روزمرہ کی بیماریاں جو اس کو لاحق ہوتی ہی رہتی ہیں وہ رمضان کے سر جڑتا ہے اور کہتا ہے کہ اب تو میں خدا کا حکم مانوں گا.اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو روزہ نہیں رکھ سکتا بیماریوں کی وجہ سے وہ نہ رکھے تو کون ہے مجھے حکم دینے والا میں تو خدا کاحکم مانوں گا لیکن جب ان کا باقی سال آپ دیکھیں گے تو اس میں بھی نہیں رکھتے.ایسے لوگ زندگی بھر محروم رہتے ہیں ورنہ کم سے کم باقی وقت تو رکھیں.جو واقعہ سچے عذر کی وجہ سے رکتے ہیں، اللہ کی خاطر رکھتے ہیں وہ باقی سال میں ضرور رکھتے ہیں اور یہ لوگ اپنی عمر گنوا دیتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان تحریرات کو غور سے پڑھیں تو ہمارے لئے بہت سے بار یک مسائل کو آپ کھولتے چلے جاتے ہیں.(لیکن) جو صدق اور اخلاص سے رکھتا ہے.(اس کا کیا حال ہے؟) خدا جانتا ہے کہ اس کے دل میں درد ہے اور خدا اُسے ثواب سے زیادہ بھی دیتا ہے کیونکہ دردِ دل ایک قابل قدر شے ہے.پس روزہ سے محرومی کے نتیجہ میں اگر درد دل ہو تو ایک بہت ہی اعلیٰ نشان ہے اس بات کا کہ واقعہ تمہاری روزوں سے محرومی تمہیں ثواب سے محروم نہیں رکھے گی بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ایسے درد دل والے کو عام روزہ رکھنے والے کے ثواب سے بھی زیادہ ثواب ملتا ہے.اب ایسے بہت سے وجود ہمارے علم میں ہیں یعنی اپنے گردو پیش پر نظر ڈالیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ روزہ نہ رکھنے کی بے قراری ان کو بے چین کرتی ہے اور وہ دعائیں کرتے ہیں، دعا ئیں کرواتے ہیں.اس سلسلہ میں کئی ایسے احباب و خواتین ہیں جن کو میں جانتا ہوں کہ روزہ نہ رکھنے کے نتیجہ میں کس قدر ان کے دل میں کرب پایا جاتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 49 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء ( جبکہ ) حیلہ جو انسان تاویلوں پر تکیہ کرتے ہیں لیکن خدا کے نزدیک یہ تکیہ کوئی شے نہیں.( اب اپنا حال بیان فرماتے ہیں) جب میں نے چھ ماہ روزے رکھے تھے تو ایک دفعہ ایک طائفہ انبیاء کا مجھے ملا ( کشف میں ) اور انہوں نے کہا کہ تو نے کیوں اپنے نفس کو اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے.اس سے باہر نکل.“ 66 اب اللہ نے نظر فرمائی اور ایک طائفہ انبیاء کا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ملتا ہے اور لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نفسك (الشعراء: 4 ) کا مضمون بیان فرما رہا ہے.یہ مضمون ہے جو عین قرآن کے مطابق ہے کہ تو نے اپنے نفس کو کیوں اس قدر مشقت میں ڈالا ہوا ہے اس سے باہر نکل.اسی طرح جب انسان اپنے آپ کو خدا کے واسطے مشقت میں ڈالتا ہے تو خود ماں باپ 66 کی طرح رحم کر کے اسے کہتا ہے کہ تو کیوں مشقت میں پڑا ہوا ہے.“ پس یہی نہیں کہ آپ اپنے نفس پر رحم کریں جو لوگ آپ اپنے نفس پر رحم نہیں کرتے ان پر اللہ رحم کرتا ہے اور لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ کی تکرار ہر جگہ انہیں معنوں میں پائی جاتی ہے.پس اپنی حالت پر خود رحم نہ کریں یہ بڑی بے رحمی ہوگی.اگر آپ اپنی حالت پر رحم کریں گے تو اس سے بڑی بے رحمی آپ اپنے آپ سے نہیں کر سکتے.کوشش کریں کہ جس حد تک ہو آسانی اور سہولت کے ساتھ خدا تعالیٰ کے احکام پر عمل کریں مگر اپنے پر رحم کھانے کی وجہ سے نیکیوں سے محروم نہ ہوں.ایسی صورت میں اللہ آپ پر رحم فرمائے گا اور بہت بڑا اجر عطا کرے گا.اب یہ دیکھیں اس کا دُنیاوی طور پر نقصان اور کیا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: یہ لوگ ہیں کہ تکلف سے اپنے آپ کو مشقت سے محروم رکھتے ہیں اس لئے خدا ان کو دوسری مشقتوں میں ڈالتا ہے.“ اور یہ بھی بہت ہی دائی حقیقت ہے.ایسے لوگ جو مومنوں میں سے کہلاتے ہوں اور ایمان کے لحاظ سے مومن ہی کہلائیں گے مگر بے وقوفی میں ان کو یہ علم نہیں کہ کون ساسچا سودا ہے کون سا جھوٹا سودا ہے.وہ اپنے نفس پر رحم کر کے مشقتوں سے بچتے ہیں لیکن دوسری مشقتوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے لئے کم سے کم اتنی خوشخبری ضرور ہے کہ وہ مشقتوں میں مبتلا کئے جاتے ہیں.یہ ایک قسم کا کفارہ ہو جاتا ہے لیکن اگر اللہ چاہے تو.ایسے بھی ہو سکتے ہیں جن کا کوئی کفارہ نہ ہوصرف ایک سزا ہو
خطبات طاہر جلد 17 50 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء تم میری مشقت سے بھاگتے تھے اب اپنا حال دیکھو کہ کیسی کیسی مشقتوں میں ڈالے جارہے ہو.یہ دستور اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ سے ہمیشہ سے واضح ہے اور ہمیشہ سے صاف دکھائی دیتا ہے اور بہت سے لوگ ان مشقتوں کو دیکھنے کے بعد پھر گھبرا کر واپس لوٹتے ہیں.پس مشقتوں میں ڈالنا بے سبب بھی نہیں، محض سزا نہیں بلکہ تو بہ کے لئے توجہ کو مبذول کرانے والی بات ہے.بکثرت میں ایسے دوستوں کو جانتا ہوں جنہوں نے چندوں میں سہولت حاصل کرنے کے لئے نفس کے بہانے بنائے، قربانیوں میں سہولت حاصل کرنے کے لئے نفس کے بہانے بنائے اور بہت سے امور میں نفس کے بہانے بنائے یہاں تک کہ ان کی زندگیاں مشقتوں سے لد گئیں.اتنی مشقتیں آپڑیں کہ انہوں نے گھیراؤ کر لیا اور ان کی کمریں دوہری ہو گئیں پھر ایک دن ان کی آنکھ کھلی اور یہی مشقتیں ان کے لئے رحمت کا موجب بن گئیں.انہوں نے اچانک سوچا کہ ہم کیا کر رہے ہیں.یہ زندگی تو بالکل بے کار ہوتی چلی جارہی ہے.مصیبتوں سے ہم بچ نہیں رہے بلکہ مصیبتیں سپیرا رہے ہیں اور جب انہوں نے وعدہ کیا کہ آئندہ سے ہم اپنے نفس کے لئے کوئی بہانہ نہیں بنائیں گے ان کی زندگی کی کایا پلٹ گئی اور کثرت سے ایسے ہیں جنہوں نے پھر مجھے لکھا کہ ان حالات میں ہم نے مشقت ٹالنے کی کوشش کی تھی لیکن مشقت کو ٹال نہیں سکے.اب جب خدا کی خاطر مشقت قبول کرنے کے لئے آگے بڑھے ہیں تو مشقت آگے آگے بھاگ رہی ہے.وہ چیز جس کو ہم مشقت سمجھتے تھے وہ مشقت تھی ہی نہیں.اللہ تعالیٰ ان راہوں کو خود آسان فرما دیتا ہے اور کتنے بدنصیب ہیں جو اس بات کو جانتے نہیں، اس سے سبق حاصل نہیں کرتے.خدا کی خاطر مشقتوں سے بھاگیں گے تو مشقتیں آپ کے پیچھے پڑ جائیں گی.پس آج کے رمضان میں یہ عہد کریں کہ ایسا نہیں کریں گے.خدا کی خاطر مشقتوں کو Chase کریں گے یعنی خدا نے واقعہ جو مشقتیں مقرر فرمائی ہیں ان کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ دیکھیں گے کہ وہ مشقت تھی ہی نہیں.اللہ تعالیٰ نے آپ کی آسانی کے لئے ، آپ کی بھلائی کے لئے ایک مشکل راہ تجویز فرمائی جس کو وہ خود آسان کرتا ہے اور کوئی راہ مشکل نہیں رہتی.پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: جو خود مشقت میں پڑتے ہیں ان کو وہ آپ نکالتا ہے.( یہی بات ہے جو میں آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں ) انسان کو واجب ہے کہ اپنے نفس پر آپ شفقت نہ کرے بلکہ
خطبات طاہر جلد 17 51 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء ایسا بنے کہ خدا اُس کے نفس پر شفقت کرے کیونکہ انسان کی شفقت اس کے نفس پر اس کے واسطے جہنم ہے...(بڑا ظلم کرتا ہے جو اپنے دل پر رحم کرتا ہے، اپنے آپ پر رحم کرتا ہے وہ تو مصیبتیں سہیڑ لیتا ہے، وہ جہنم اپنے اوپر وارد کر لیتا ہے )...اور جو خود 66 آگ سے بچنا چاہتے ہیں وہ آگ میں ڈالے جاتے ہیں.‘“ یعنی اللہ کی خاطر جو نفس کا سوز اور گداز ہے جو اس سے بچنا چاہتے ہیں وہ ایک دوسری جہنم میں ڈالے جاتے ہیں.فرماتے ہیں: وو یہ سلم ہے اور یہ اسلام ہے کہ جو کچھ خدا کی راہ میں پیش آوے اس سے انکار نہ کرے.اگر آنحضرت صل للہ یہ تم اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (المائده: 68) کی آیت نہ نازل ہوتی.حفاظت الہی کا یہی ستر ہے.“ ( البدر جلد 1 نمبر 7 صفحہ : 53،52 مؤرخہ 12 دسمبر 1902ء) یہاں عصمت سے مراد عصمت انبیاء علیھم السلام) نہیں ہے بلکہ جسمانی لحاظ سے غیر کے شر سے بچنا ایک عصمت ہے.فرمایا اگر رسول اللہ صلی ال ایام کو ہر وقت اپنی عصمت کی فکر ہوتی کہ میں غیر کے وار سے کیسے بچایا جاؤں تو یہ آیت نازل نہ ہوتی.وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ.یہ مسیح موعود علیہ السلام کا کلام آنحضرت سلیم کی سیرت کے جگر گاتے ہوئے حصہ پر عظیم روشنی ڈال رہا ہے.کبھی کسی عارف باللہ نے یہ بات نہ لکھی ہوگی.مجھے یقین ہے آپ تلاش کر کے دیکھ لیں ، جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے لکھی جو رسول اللہ لی لی ایم کے سچے عاشق تھے.یہ آیت نازل نہ ہوتی يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ صاف پتا چلا ہے کہ خدا نے ضرورت محسوس فرمائی ہے کہ یہ نبی تو اپنی کچھ فکر نہیں کرتا ، ہر خطرہ میں کود پڑتا ہے.تمام مشکل مقامات میں آگے بڑھ جاتا ہے.اب ساری زندگی رسول اللہ صلی ا یہ تم کو آپ دیکھ لیں کیسے کیسے مواقع پر آپ صل للہ السلام نے دشمنوں میں جا کر للکارا ہے کہ میں محمد ہوں آؤ اگر کسی کو قتل کرنا ہے تو مجھے قتل کر وہ کسی نے وار کرنا ہے تو مجھ پر وار کرے.یہ ساری زندگی کا خلاصہ آپ نے ان لفظوں میں نکالا ہے کہ آپ صلی ہی تم نے اپنی عصمت کی کبھی فکر نہیں کی اور جب رسول اللہ لی لی ایم کو اس طرح خطرناک مقامات پر دلیر پایا اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر آپ صلی یہ تم نے اس کو للکارا ہے تو اللہ نے فرمایا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ - اے محم ملی بیستم تیرا خدا تیری حفاظت کرے گا.66 فرماتے ہیں : ” حفاظت الہی کا یہی ستر ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 52 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء پس جو احمدی اس وقت مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں اور ہر وقت اپنی حفاظت کی صرف فکر کر رہے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ ستر وہ نہیں ہے.حفاظت کا سر یہ نہیں ہے کہ اپنی حفاظت کی صرف فکر کریں.اپنی حفاظت کے لئے مناسب تدابیر اختیار کرنا یہ عام لوگوں کے لئے جائز ہے اور بعض دفعہ ضروری بھی ہو جاتا ہے کیونکہ اس میں قومی فوائد ہوتے ہیں لیکن جب مصائب آپڑیں اس وقت اپنی فکر نہ کرنا یہ سنت نبوی صلی ا یتیم ہے.یہ دو الگ الگ باتیں ہیں جن کو آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے ورنہ مضمون بگڑ جائے گا.رسول اللہ صلی ایتم نے بھی بھی خطرات کی تلاش نہیں کی تاکہ ان میں چھلانگ لگا ئیں.جب خطرات درپیش ہوئے تو پھر ان میں چھلانگ لگانے سے رکے نہیں.یہ دو بالکل الگ الگ باتیں ہیں.آنحضرت سلی یا تم نے کبھی بھی اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالا، ہلاکت کی تلاش نہیں کی.ایسے مواقع سے بچے ہیں جن سے بے وجہ خطرہ درپیش ہو لیکن جب خدا کی خاطر خطرہ آن پڑا جس سے مفر کا سوال نہیں رہا اس خطرے کو مفت کے ذریعہ نہیں ٹالا بلکہ دوڑ کر اس خطرہ میں داخل ہو گئے جو خدا کی خاطر آپ پر آپڑا ہے.پس یہ مضمون ہے جو خصوصیت کے ساتھ آج کل پاکستان کی احمدی جماعتوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے.بے وجہ خطرات کو پیدا نہ کریں کیونکہ یہ حماقت ہے.یہ اللہ کے فرمان کے خلاف بات ہے.ہر احتیاط کے باوجود جب خطرہ پڑ جائے تو کوڑی کی بھی پرواہ نہ کریں اور پھر ایسے خطرات سے جنہوں نے خدا کی خاطر پڑنا ہے ان سے نہ بھا گئیں.اگر ان سے بھاگیں گے تو یہ آپ کی حفاظت کی ضمانت نہیں ہوگی.اگر کہیں گے کہ ہاں اس خطرہ کو اب ہم قبول کرتے ہیں جو کچھ بھی ہو، ہو جائے اس وقت اللہ تعالیٰ فرمائے گا وَ اللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ کیونکہ جو بات خدا تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفی سال ایام کے حق میں فرمائی ہے وہی آپ مسلی ستم کے متبعین اور عاجز بندوں کے حق میں بھی کام کرتی ہے.یہ سنت نبوی صلی یتیم ہے جو ہمیں ہر حال میں بچائے گی، ہر حال میں ہماری حفاظت فرمائے گی اور ہم پر سایہ فگن رہے گی.پس سنت نبوی صلی یا پیہم کے تابع چلیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے زندگی کے سب مراحل آسان ہو جا ئیں گے.فرمایا: " (حضرت) ابراہیم علیہ السلام کے قصہ پر غور کرو کہ جو آگ میں گرنا چاہتے ہیں تو ان کو خدا آگ سے بچاتا ہے.“ ( البدر جلد 1 نمبر 7 صفحہ : 53 مؤرخہ 12 دسمبر 1902ء)
خطبات طاہر جلد 17 53 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء قصہ پر غور کرو اس قصہ میں یہ بات ثابت ہے کہ ابراہیم خود نہیں کہہ رہے تھے کہ میرے لئے آگئیں جلاؤ.جب آگ جلائی گئی تو اس سے بھاگنے کی بجائے اس میں گرنے کی طرف توجہ کی جو خدا کی خاطر تھی.پس قصہ پر غور کرو نہ کہ نا مجھی سے اس قصہ کو اپنے اوپر چسپاں کرو.یہ حصہ پڑھنے سے رہ گیا تھا اس لئے میں دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوا ہوں، آخری حصہ میں پڑھ چکا ہوں.یہ البدر میں عبارت چھپی ہے اور اس کے نیچے نوٹ ہے کہ اوپر کی تقریر فارسی زبان میں تھی اور بدر کے ایڈیٹر نے یہ نوٹ لکھا ہے کہ میں نے افادہ عام کی خاطر اردو میں ترجمہ کر کے لکھی ہے.پس یہ یادرکھیں کہ اصل عبارت فارسی میں تھی جس کا اُردو تر جمہ کیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آخر پر جس دعا کی طرف توجہ دلاتے ہیں اب اتنا سا وقت رہ گیا ہے کہ میں یہ دعا پڑھ کر اس خطبہ کو ختم کروں گا.آپ فرماتے ہیں: ” پس میرے نزدیک خوب ہے کہ (انسان ) دعا کرے کہ الہی یہ تیرا ایک مبارک مہینہ ہے اور میں اس سے محروم رہا جاتا ہوں اور کیا معلوم کہ آئندہ سال زندہ رہوں یا نہ ، یا ان فوت شدہ روزوں کو ادا کر سکوں یا نہ اور اس سے توفیق طلب کرے.تو مجھے یقین ہے کہ ایسے دل کو خدا طاقت بخش دے گا.“ اس لئے روزے میں حائل ہونے والی بیماریوں کا علاج بھی یہ دعا ہے جو اس مہینہ میں کثرت سے کرنی چاہئے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر خدا چاہتا تو دوسری اُمتوں کی طرح اس اُمت میں کوئی قید نہ رکھتا مگر اس نے قید میں بھلائی کے واسطے رکھی ہیں.میرے نزدیک اصل یہی ہے کہ جب انسان صدق اور کمال اخلاص سے باری تعالیٰ میں عرض کرتا ہے کہ اس مہینہ میں مجھے محروم نہ رکھ تو خدا اسے محروم نہیں رکھتا اور ایسی حالت میں اگر انسان ماہ رمضان میں بیمار ہو جائے تو یہ بیماری اس کے حق میں رحمت ہوتی ہے کیونکہ ہر ایک عمل کا مدار نیت پر ہے.مومن کو چاہئے کہ وہ اپنے وجود سے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کی راہ میں دلاور (بہادر ) ثابت کر دے.جو شخص روزہ سے محروم رہتا ہے مگر اس کے دل میں یہ نیت درد دل سے تھی کہ کاش میں تندرست ہوتا اور روزہ رکھتا اور اس کا دل اس بات کے لئے گریاں ہے تو فرشتے
خطبات طاہر جلد 17 54 خطبہ جمعہ 16 جنوری 1998ء اس کے لئے روزے رکھیں گے بشرطیکہ وہ بہانہ بجو نہ ہو تو خدا تعالیٰ اسے ہرگز ثواب سے محروم نہ رکھے گا.“ ( البدر جلد 1 نمبر 7 صفحہ:52 مؤرخہ 12 دسمبر 1902ء) باقی انشاء اللہ اب اگلا جو جمعہ آنے والا ہے یہ جمعتہ الوداع کہلاتا ہے اور یہ رمضان کا آخری جمعہ ہوگا اس جمعہ میں لوگ بہت کثرت سے آئیں گے اور مسجدیں بھر کے نمازی اچھل کر باہر جا پڑیں گے اور اتنے نمازی آپ مسجدوں میں دیکھیں گے کہ سارا سال جن کو مسجدوں میں ہونا چاہئے تھا وہ صرف اسی دن دکھائی دیں گے اور پھر الوداع کہہ کر چھٹی کر جائیں گے.یہ مضمون میں ہر دفعہ آپ کو سمجھا تا ہوں ، آپ لوگ تیاری کریں اور اپنے گردو پیش یہ بات عام کریں کہ جولوگ رمضان کی وجہ سے نمازوں کی توفیق پارہے ہیں اور اس دن، جمعتہ الوداع کے دن حاضر ہوں گے وہ ابھی سے تیاری کریں کہ الوداع کہنے کے لئے حاضر نہیں ہوں گے بلکہ آئندہ رمضان کے استقبال کے لئے حاضر ہوں گے.یہ لفظ جمعۃ الوداع ایک غلط معنی آپ کے سامنے رکھ رہا ہے اصل میں اسے جمعتہ الاستقبال کہنا چاہئے اور میں آپ کو ابھی سے متوجہ کر رہا ہوں کہ اپنے دوستوں، عزیزوں کو جب لے کے آئیں گے، اپنے بچوں کو بھی لائیں گے اس وقت ان کو سمجھائیں کہ یہ جمعتہ الوداع کا جمعہ نہیں استقبال کا جمعہ ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 55 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء جمعۃ الوداع اور جمعہ الاستقبال میں فرق آخری عشرہ کی اہم عبادات اور لیلتہ القدر کا ذکر (خطبہ جمعہ مورخہ 23 جنوری 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) b تشہد و تعوذ اور سورۂ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی: وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّى فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ.پھر فرمایا: (البقرة:187) یہ وہ آیت کریمہ ہے جس کو عنوان بنا کر گزشتہ تین خطبات بھی دیئے گئے اور آج کا خطبہ بھی اسی کے مضمون سے تعلق رکھتا ہے.آج جمعتہ الوداع ہے اور میں اس جمعہ کو جمعہ الاستقبال بنانا چاہتا ہوں.یہ فرق ہے دو اصطلاحوں کا جو میں کھول دینا چاہتا ہوں.بکثرت ایسے لوگ ہیں جن کو اس جمعہ کا انتظار رہتا ہے جمعۃ الوداع کے طور پر اور ایک میں ہوں جو کہ سارا سال اس کو جمعہ الاستقبال بنانے کی خاطر انتظار کرتا ہوں.یہ کیا مسئلہ ہے یہ میں کھول کر بات بیان کر دیتا ہوں کہ وہ لوگ جو جمعۃ الوداع سمجھتے ہوئے یعنی اپنے جمعہ کو چھٹی دے دی جائے ہمیشہ کے لئے نیکیوں کو چھٹی دیدی جائے ، روزوں کو چھٹی دے دی جائے، ذکر الہی کو چھٹی دے دی جائے اور اسے وداع کر دیا جائے ، اس نیت سے جولوگ اس جمعہ میں شامل ہوتے ہیں وہ بکثرت ایسے ہیں، اگر بکثرت نہیں تو ایک بڑی تعداد ایسی ہے جن کو عام طور پر نہ نمازوں کی توفیق ملتی ہے نہ جمعوں کی توفیق ملتی ہے، نہ ذکر الہی کی توفیق ملتی ہے،
خطبات طاہر جلد 17 56 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء نہ نیک باتیں سننے کا موقع میسر آتا ہے، نہ نیک صحبتوں میں بیٹھنا پسند کرتے ہیں.ان کے اپنے ہی ہمجولی ہیں، انہی میں پھرتے ہیں، ان میں وہ ایک آزادی محسوس کرتے ہیں اور ان کے اوپر ان لوگوں میں بیٹھنے سے کسی قسم کا دباؤ نہیں پڑتا جو نیکی کی طرف بلانے والے ہوں.پس وہ ان کی طرف بہتے ہیں اور بہتے چلے جاتے ہیں اور یہ ایک جمعہ ہے جس میں ان کی فطرت نے ان کو مجبور کر دیا ہے کہ وہ یہاں نیکی کی خاطر آئیں اور نیک لوگوں میں بیٹھیں.پس ان کا ایک ہی سہارا ہے کہ یہ جمعہ آخر گز رہی جائے گا نا ، وداع کا جمعہ ہے جسے ہم نے رخصت کرنا ہے.جس طرح بچے ٹاٹا کہتے ہیں تو یہ لوگ ٹاٹا“ کرنے آئے ہیں اور ان کو پکڑنے کا میں انتظار کر رہا تھا اس لئے میرے لئے استقبال ہے.میں ان لوگوں کا استقبال کرتا ہوں اور اس پہلو سے یہ جمعہ میرے لئے جمعہ استقبالیہ ہے.میں ان کا استقبال کرتا ہوں، سارا سال اس انتظار میں رہتا ہوں کہ یہ آئیں اور کچھ تو نیکی کی باتیں ان کے کانوں میں پڑیں، کچھ تو آنکھیں کھلیں.یہ تضاد ہے ان دو باتوں میں کہ ایک پہلو سے یہ وداع ہے اور ایک پہلو سے استقبال ہے لیکن حقیقت میں تضاد کوئی نہیں ، زاویہ نگاہ کا فرق ہے.بہت سے احمدی ایسے نظر آتے ہیں جن کا پہلے نظام جماعت کو علم ہی کوئی نہیں ہوتا کہ وہ احمدی تھے بھی ، بہت سے ایسے احمدی دکھائی دیتے ہیں جن کا علم تو ہے لیکن وہ مساجد میں نہیں آتے ، وہ نظام جماعت سے تعلق نہیں رکھتے.ان کی ٹولیاں الگ ہیں، ان کے خاندان کے حالات مختلف ہیں.بہت سے ایسے ہیں جو سارا سال اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں وقت گزارتے ہیں.اپنے اہل وعیال سے سلوک میں بھی وہ مسلسل نافرمانی کرتے ہیں.ایسی (عورتیں) ہیں جو اپنی بہوؤں سے ایسا سلوک کرتی ہیں جن کو رسول خداصلی اہم اور خدا پسند نہیں فرماتا.ایسی ہیں جو اپنے دامادوں سے ایسا سلوک کرتی ہیں.اسی تعلق میں مرد بھی ایسے ہیں جو بالکل بر عکس زندگی گزار رہے ہیں، اس زندگی کے برعکس جو حضرت اقدس محمد مصطفی سالی می ایستم کی زندگی تھی.آیا ما مَعْدُودَاتٍ (البقرة: 185) یہ چند گنتی کے دن تھے رمضان کے جو گزررہے ہیں اور ان کے گزرنے میں اب بہت تیزی آگئی ہے.دوسری طرف کو رمضان الٹ پڑا ہے اور آخری عشرہ کا بھی ایک بڑا حصہ ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے، بڑا حصہ یعنی نصف سے کچھ کم ایک اہم حصہ ہمارے ہاتھوں سے نکل چکا ہے.اس میں اکیسویں، بائیسویں اور تئیسویں تاریخیں شامل ہیں اور
خطبات طاہر جلد 17 57 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء آج رمضان کی چوبیسویں ہے اور پیچھے کتنے دن باقی ہیں، چھ دن.کُلھن.تو چھ دن کے اندر آپ نے جو کمائیاں کرنی ہیں کر لیں اور اس جمعہ کو ان معنوں میں وداع نہ کہیں کہ رمضان کا باقی حصہ بھی سارے رمضان کو وداع کہہ دے.کم سے کم یہ چھ دن اگر آپ آنحضرت ملالہ یتیم کی پیروی میں رمضان گزاریں تو اگر حقیقت میں آنحضرت سلی اینم کی پیروی کریں خواہ چھ دن کی پیروی کی توفیق ملے آپ کی ساری زندگی اس سے سنور سکتی ہے.رسول اللہ صلی علی ایم کے پیچھے چھ دن چلنا ایک بہت بڑی بات ہے.چھ دن چلنے سے ہزاروں سال دوسرے بزرگوں کے پیچھے چلنے کی نسبت زیادہ فائدہ پہنچتا ہے کیونکہ آنحضرت صلی این تمام بزرگی کا خلاصہ ہیں، تمام انبیاء کا معراج ہیں.اس لئے آپ کے پیچھے چلنے کی توفیق ملے اور اس زمانہ میں یہ توفیق ملے اور آپ سائی یتیم کی غلامی میں ظاہر ہونے والے امام کے پیچھے چلنے کے نتیجہ میں یہ شرف حاصل ہو تو اس سے زیادہ آپ کو کیا چاہئے.پس لیلۃ القدر یعنی ایک لیلۃ القدر کی تلاش نہ کریں، یہ زمانہ لیلۃ القدر ہے.یہ سارا زمانہ جس کی آنحضرت سلیم نے پیش گوئی فرمائی تھی کہ اسلام پر ایسی صبح طلوع ہونے والی ہے جو پھر کبھی لمبے عرصہ تک اندھیروں میں تبدیل نہیں ہوگی یعنی بہت لمبا عرصہ گزرے گا کہ وہ نیکیاں جاری وساری ہوں گی ان میں کوئی بھی کسی قسم کا خلل ڈالنے والا انسان پیدا نہیں ہوگا اگر ڈالے گا تو اس کی کوششیں ناکام رہیں گی.یہ تفاصیل ہیں جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں کن شرطوں کے ساتھ پوری ہوتی ہیں مگر یہ زمانہ جو ہمارا زمانہ ہے یہ لیلتہ القدر کا زمانہ ہے.پس آخری عشرہ میں لیلتہ القدر کی تلاش کریں لیکن ان معنوں میں لیلتہ القدر کی تلاش کریں کہ وہ آپ کی زندگی سنوار دے اور آپ اسلام کی اس لیلتہ القدر میں شامل ہو جائیں جو لیلتہ القدر ایک صبح کی خوشخبری لائی ہے اور یہ صبح اب کبھی ختم نہیں ہوگی یا نہیں ہونی چاہئے.اس بات کا انحصار کہ کبھی ختم نہیں ہوگی ہر احمدی کی ذات پر ہے.اگر اس کے ہاں کوئی صبح طلوع ہو جائے ، اگر اس کے دل پر نور کا سورج نکل آئے یعنی آنحضرت مصلی یہ تم اس دل میں بسیرا کر لیں تو پھر جس کثرت سے ایسے احمدی ہوں گے اسی شدت سے ہم یقین کریں گے کہ ہماری صبح دائگی صبح ہے.پس آج دُنیا بھر کے احمدیوں کو خصوصیت کے ساتھ میں مخاطب ہوں یعنی ان احمدیوں کو جنہوں نے سارا سال ضائع کر دیا، جنہوں نے رمضان کا بیشتر حصہ ضائع کر دیا اب آخری عشرہ کے یہ چند دن باقی ہیں ان میں کمر ہمت کس لیں اور رمضان کے فیوض سے وہ فائدہ اٹھالیں جو ان کی
خطبات طاہر جلد 17 58 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء زندگیاں سنوار دے.یہ پیغام ہے جو آج کا میرا پیغام ہے.اس پیغام کو پیش نظر رکھتے ہوئے اب حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ار ستم کی پیاری باتیں سنیں.کس طرح آپ صلی ا یہ تم یہ عشرہ گزارا کرتے تھے، کس طرح رمضان میں آپ ملالہ یتیم کی نیکیاں غیر معمولی تحریک پاتی تھیں اور بڑی شدت کے ساتھ ان نیکیوں میں روانی آجایا کرتی تھی حالانکہ روایت کرنے والے بتاتے ہیں کہ ساری زندگی نیکی میں گزرتی تھی ، ان نیکیوں میں شدت آجاتی تھی.یہ ایک عجیب مضمون ہے کیسے آتی ہوگی.یہ دل کی کیفیات ہیں ان کے متعلق کوئی شخص نہیں ہے جو رسول اللہ صل للہ السلام کے دل میں جھانک کر دیکھ سکے.ہم ظاہری روایات پر بناء کرتے ہیں مگر گہرائیوں میں اترنے کی طاقت نہیں پاتے.پس جو بھی میں بیان کروں گا یہ الفاظ کا محتاج ہے اس لئے کچھ نہ کچھ پیغام آپ کو ضرور پہنچے گا مگر میرے اس بیان کے بہترین ہونے کے باوجود، اگر بہترین ہو، حضرت اقدس محمد مصطفی صلی یا پی ایم کے مقام کی شناسائی کا حق ادا نہیں ہوسکتا.بہت غور کر کے میں نے دیکھا ہے، جب بھی میں نے سمجھا کہ میں اس مقام کے قریب تک پہنچا ہوں تو وہ مقام اس طرح دُور ہٹتا ہوا دکھائی دیا ہے جیسے ستارے دُور ہٹ جاتے ہیں.آپ جتنا چاہیں ان کو Chase کریں ان کی دوری کی رفتار ان معنوں میں کہ ان کا مرتبہ بلند تر ہوا کرتا ہے، جتنا آپ سمجھتے تھے اس سے زیادہ بلند تر ہوتا ہے، جتنی بلندی تک آپ پہنچیں قرب بھی نصیب ہوتا ہے مگر احساس، اس سے بعد بھی بڑھ جاتا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی یہ تم انسانوں میں سے اللہ کی ان دو صفات کے مظہر ہیں ایسے مظہر کہ کبھی کوئی انسان ان صفات کا ایسا مظہر نہیں بنا.اِنِّي قَرِيب میں قریب ہوں اور بعید بھی ہوں، اتنا بعید کہ مجھ سے زیادہ دور اور کوئی نہیں.خدا تعالیٰ سب دور کی چیزوں سے زیادہ دور ہے اور سب قریب کی چیزوں سے زیادہ قریب ہے.اس مضمون پر میں غالباً پہلے خطبات دے چکا ہوں مگر یاد رکھیں کہ یہ دونوں چیزیں بیک وقت ممکن ہیں اور دونوں ایک وقت میں اکٹھی ہو جاتی ہیں جتنا آپ کو اللہ تعالیٰ سے قرب کا احساس ہوگا اور حقیقی احساس ہوگا اسی قدر خدا تعالیٰ کی بلندی اور ڈوری آپ پر واضح اور روشن اور ظاہر ہو جائے گی.آپ سمجھتے ہیں عام سی چیز ہے، روزمرہ کی باتیں ہیں، ہم اللہ کو جانتے ہیں، واقف ہیں کہ اللہ کیا ہوتا ہے لیکن جب واقف بنتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ وہ تو بہت ہی بلند چیز ہے، ہمارے تصور سے بھی بالا ہے اور یہ احساس کہ وہ بالا اور دور تر ہے یہ قریب سے پیدا ہوتا ہے قرب کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتا.
خطبات طاہر جلد 17 59 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء پس آنحضرت سلیم کے مقام پر جتنی بھی باتیں ہوں گی اس میں یہ پہلو پیش نظر رکھیں کہ آپ قریب بھی ہیں اور بعید بھی ہیں لیکن قریب ہونے پر آپ کو معلوم ہوگا کہ کتنے بلند ہیں.جب تک آپ میانمار پہ تم سے دور ہیں آپ کو آپ سال الیتیم کی بلندی کا پتا نہیں چلے گا.آپ کو کوئی بھی قرب نصیب نہیں ہوگا.اب میں ان روایات سے بات شروع کرتا ہوں جو آخری عشرہ سے متعلق ہم نے اکٹھی کی ہیں.ایک ہے: قَالَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مَالًا يَجْتَهِدُ فِي غَيْرِه (صحیح مسلم، کتاب الاعتكاف، باب الاجتهاد فى العشر الاواخر من شهر رمضان، حدیث نمبر : 1175) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ آخری عشرہ میں آنحضرت صلی سیتم عبادات میں اتنی کوشش فرماتے تھے جو اس کے علاوہ دیکھنے میں نہیں آئی.تو رمضان میں وہ کوشش کیا ہوتی ہوگی جو عام طور پر حضرت عائشہ صدیقہ کے دیکھنے میں بھی نہیں آئی اور آپ سائی یتیم کی روایات جو رمضان کے علاوہ ہیں وہ ایسی روایات ہیں کہ ان کو دیکھ کر دل لرز اٹھتا ہے کہ ایک انسان اتنی عبادت بھی کر سکتا ہے.ساری ساری رات بسا اوقات خدا کے حضور بلکتے ہوئے ایک سجدہ میں گزار دیتے تھے.جس طرح کپڑا انسان اتار کر پھینک دیتا ہے اسی طرح آپ صلی ایام کا وجود گرے ہوئے کپڑے کی طرح پڑا ہوتا تھا اور حضرت عائشہ صدیقہ سمجھا کرتی تھیں کہ کسی اور بیوی کے پاس نہ چلے گئے ہوں ، تلاش میں گھبرا کر باہر نکلتی ہیں اور رسول اللہ علیہ کی یمن کو ایک ویرانے میں پڑا ہوا دیکھتی ہیں اور جوش گریاں سے جیسے ہانڈی اہل رہی ہو ایسی آواز آرہی ہوتی تھی.وہ عائشہ جب گھر کو لوٹتی ہوگی تو کیا حال ہوتا ہوگا.کیا سمجھا تھا اپنے آقا اور محبوب کو اور کیا پایا.یہ عام دنوں کی بات ہے، یہ رمضان کی بات نہیں ہے.عام دنوں میں یہ پایا ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے.آپ گواہی دیتی ہیں کہ محمد رسول اللہ سلیم پر آخری عشرہ میں ایسے وقت آتے تھے کہ ہم نے پہلے کبھی دوسرے دنوں میں نہیں دیکھے.ان کیفیات کو بیان کرنا انسان کی طاقت میں نہیں ہے.نہ میری طاقت میں ہے نہ کسی اور انسان کی طاقت میں ہے لیکن آپ نے خود ان کیفیات سے کہیں کہیں پردہ اٹھایا ہے اور بتایا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 17 60 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء میں کس دُنیا میں پہنچا ہوا تھا، میں کس دُنیا میں بسر کرتا رہا ہوں وہ احادیث بھی ابھی میں آپ کے سامنے کھول کر بیان کرتا ہوں.ایک روایت وہ ہے جس کے متعلق ہماری کتب میں اور بالعموم روایتاً جو معنی بیان کئے جاتے ہیں وہ میرے نزدیک درست نہیں ہیں وہ واقعہ اپنی ذات میں تو درست ہے کہ ایسا ہوا کرتا تھا کہ رسول اللہ صلی ایتم رمضان میں پہلے سے زیادہ صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے.اس میں کوئی شک نہیں مگر جو روایت میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اس کے ترجمہ کو محدود کر دیا گیا ہے اور وہ ترجمہ اس سے بلند اور وسیع تر ہے جو عام طور پر آپ کے سامنے رکھا جاتا ہے.وہ روایت یہ ہے: عَنْ عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُتْبَةَ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ : كَانَ النَّبِيُّ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي رَمَضَانَ حِيْنَ يَلْقَاهُ جِبْرِيلُ، وَكَانَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلاَمُ يَلْقَاهُ كُلَّ لَيْلَةٍ فِي رَمَضَانَ حَتَّى يَنْسَلِخَ يَعْرِضُ عَلَيْهِ النَّبِيُّ ﷺ القُرْآنَ فَإِذَا لَقِيَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ كَانَ أَجْوَدَ بِالخَيْرِ مِنَ الرِّيحِ الْمُرْسَلة “ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب أجود ما كان النبي يكون في رمضان ،حدیث نمبر : 1902) یہ جو آخری حصہ ہے اس میں وہ معنی پوشیدہ ہیں جو میں بیان کرنا چاہتا ہوں اور جو عموماً تر جموں میں دکھائی نہیں دے سکتے.اس حدیث سے اجود کا معنی یہ لیا گیا ہے کہ وہ بہت زیادہ سخی غریبوں پر خرچ کرنے میں اور خیر کا معنی یہ لیا گیا ہے دُنیا کا مال اور کہا جاتا ہے کہ رسول اللہ صلی ایتم رمضان کے دنوں میں اتنا زیادہ خرچ کیا کرتے تھے جیسے تیز ہوا میں اور بھی تیزی آجائے اور وہ ہوا جھکڑ میں تبدیل ہو جائے.یہ معنی دل پسند معنی ہیں، اچھے معنی ہیں مگر اس روایت میں اس موقع پر یہ معنی مناسب نہیں بلکہ اس کے کچھ اور معنی بنتے ہیں.جبرائیل ہر رات کو اترا کرتے تھے رسول اللہ اللہ تم کو تنہا پاتے تھے اس وقت اس روایت کا یہ معنی لینا کہ جبرائیل ایسی حالت میں ملتے تھے کہ آپ سخاوت میں اور لوگوں میں خرچ کرنے میں بہت تیزی دکھایا کرتے تھے وہ وقت ہی ایسا نہیں ہے جس میں باہر نکل کر غریبوں کو ڈھونڈا جائے اور ان پر کثرت سے خرچ کیا جائے.راتیں تو آنحضرت ملائیشیا کی ستم اور خدا کے درمیان کی راتیں تھیں.ان راتوں میں یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جبرائیل جب قرآن کریم لے
خطبات طاہر جلد 17 61 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء کر آئیں تو آپ مایا یہ تم کو اس حال میں پائیں، یہ ناممکن ہے لیکن اجود کا وہ معنی جو اعلیٰ درجہ کی لغات امام راغب وغیرہ سے ثابت ہے اور خیر کا وہ معنی جو اعلیٰ درجہ کی لغات سے ثابت ہے وہ کچھ اور مفہوم بھی اپنے اندر رکھتا ہے.اجود اس شخص کو کہیں گے جو نیکیوں میں سب سے آگے بڑھ جائے اور خیر حسنہ کو کہتے ہیں صرف مال کو نہیں کہتے.ہر بھلی بات جس کی مومن توقع رکھتا ہے اور خدا سے دعا کرتا ہے کہ یہ بھلائی مجھے نصیب ہوا سے خیر کہا جاتا ہے.پس ان معنوں میں جب اس حدیث کو آپ دوبارہ پڑھیں تو بالکل ایک اور مضمون ، ایک نیا جہان آپ کی آنکھوں کے سامنے ابھرے گا.آنحضرت صلی الہی تم کو جب بھی جبرائیل نے دیکھا ہے رات کو آپ صلی می ایستمان نیکیوں میں غیر معمولی آگے بڑھنے والے تھے تمام کائنات کے وجودوں سے آگے بڑھنے والے تھے جن نیکیوں میں دوسرے لوگ ان میدانوں میں سفر کا تصور بھی نہیں کر سکتے.رات کو اپنے خدا کی یاد میں غرق ہونے میں سب سے زیادہ تھے.رات کے وقت اجود تھے ان معنوں میں کہ ذکر الہی میں اپنے آپ کو گم کر دیا اور خیر کے جتنے بھی اعلیٰ پہلو ہیں مال کے علاوہ، ان سارے پہلوؤں میں محمد رسول اللہ صلی ایام میں ایسی تیزی آئی ہوئی تھی جیسے جھکڑ چل رہا ہو.یہ حقیقی معنی ہیں اور لغت سے میں نے اچھی طرح دیکھ لئے ہیں.یہ موقع نہیں کہ لغت کی تفصیل میں جایا جائے لیکن آپ یقین کریں کہ ہر پہلو سے چھان بین کے بعد میں آپ کو مطلع کر رہا ہوں کہ ان معنوں میں جبرائیل نے حضرت محمد مصطفی صلی یہ یمن کو جب بھی دیکھا اس حال میں دیکھا ہے.ہر نیکی میں اتنی تیزی آئی ہوئی ہوتی تھی کہ جیسے جھکڑ چل رہا ہو اور یہ تیزی ذکر الہی کی تیزی تھی خدا کی ذات میں ڈوب جانے کی تیزی تھی.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ا یتیم کی پیروی کر کے دیکھ لیں تو پھر اندازہ ہوگا کہ کتنی مشکل مگر کتنی لازمی پیروی ہے.مشکل تو ہے کیونکہ یہ سفر بہت طویل ہے.ایک عام انسان کے لئے اس سفر کی آخری منازل کے لئے تصور بھی ممکن نہیں ہے لیکن یہ چند دن تو ہیں.ان دنوں میں اللہ خود قریب آجاتا ہے.یہ وہ دن ہیں جن میں رسول اللہ صلی السلام کی پیروی آسان کر دی جاتی ہے.پس ان دنوں سے فائدہ اٹھا ئیں اور ان دنوں کا حقیقی معنوں میں استقبال کریں.ان کو وداع کرنے کے لئے نہ رمضان کا وقت گزاریں بلکہ ان کے استقبال کے لئے اپنے باز و دراز کر دیں، اپنے سینہ کے
خطبات طاہر جلد 17 62 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء در وا کر دیں اور پوری کوشش کریں کہ رمضان کی برکتیں ہر طرف سے آپ کو گھیر لیں اور آپ کے اندر اس طرح داخل ہو جائیں جیسے سورج طلوع ہو جاتا ہے.اب بخاری شریف کی ایک حدیث میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو حضرت ابن عمرؓ سے مروی ہے.آنحضرت صلی ایام کے بعض صحابہ کولیلۃ القدر رویا میں دکھائی گئی فی السبع الاواخر، آخری سات دنوں میں.( یعنی اس سال جو خاص لیلتہ القدر کا طلوع انفرادی طور پر لوگوں پہ ہوا کرتا ہے وہ آخری سات دن سے تعلق رکھتا تھا ) اور رسول اللہ صلی الہ الہی تم نے اس کی تائید فرمائی کہ اگر یہ رویا ہیں اور تم سب لوگ ان باتوں میں اکٹھے ہو گئے ہو تو پھر تم آخری سات دنوں میں اس کی تلاش کرو.“ (صحيح البخاری، کتاب فضل ليلة القدر ، باب التماس ليلة القدر في السبع الأواخر، حدیث نمبر : 2015) اب آپ کے لئے آخری چھ دن باقی ہیں اور اس حدیث کی روشنی میں یہ واقعہ بار بار بھی ہوسکتا ہے یعنی اس لئے کہ صاف پتا چلا کہ لیلتہ القدر جگہ بدلتی رہتی ہے.کبھی اکیس کو آگئی کبھی تنیس کو.عام طور پر اکیس تئیس ، پچھیں ، ستائیں اور انتیس ان راتوں میں آیا کرتی ہے.تو ابھی ہمارے پاس کچھ دن باقی ہیں جن میں بعید نہیں کہ اس سال، ان اواخر میں ہی لیلتہ القدر ظاہر ہو.پس جن لوگوں نے اس سے پہلے کا رمضان ضائع کر دیا ان کے لئے خوش خبری ہے.آنحضرت صلی ہی تم نے فرمایا میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب رمضان کے آخری ہفتہ پر متفق ہیں اس لئے جو شخص لیلتہ القدر کی تلاش کرنا چاہتا ہے وہ رمضان کے آخری ہفتہ میں کرے.عام دستور رسول اللہ صل الم کا یہ تھا کہ اپنے جاگنے کے ساتھ یعنی آپ صلی ا یہ تم کا جاگنا تو ایک اور معنی بھی رکھتا تھا یعنی وہ شعور خدا تعالیٰ کی صفات کا جو نیا سے نیا رسول اللہ صلی شمالی تم کو نصیب ہوا کرتا تھا ان معنوں میں آنحضرت صلی ہی تم ہر دفعہ اور بیدار ہوا کرتے تھے اور ہر شب بیداری کے نتیجے میں آپ صلی شما یہ تم کا شعور ان معنوں میں بیدار ہوتا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا وہ تصور آپ سی یہ تم پر نازل ہوتا تھا جو پہلے تصور سے بالا تر تھا.ان معنوں میں آپ صلی لا الہ تم ہمیشہ ترقی کرتے رہے، ہمیشہ بلند پروازی کرتے رہے.ایک دن بھی ایسا نہیں آیا جس میں کوئی بلند پروازی ایک جگہ ٹھہر جائے کہ جو کچھ میں نے پانا تھا پالیا کیونکہ خدا کی ذات نہیں ٹھہرتی ، خدا کی ذات لامتناہی ہے.پس جب میں بیداری کی بات کرتا ہوں تو عام انسان کی بیداری کی بات نہیں کرتا.
خطبات طاہر جلد 17 63 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء غور کیا کریں کس کی بات کر رہا ہوں.حضرت محمد رسول اللہ صلی یکی یمن کی ہر شب بیداری آپ کو صفات الہیہ کے شعور میں اور بھی زیادہ بیدار کر دیتی تھی.پس حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ: ” جب رسول اللہ صلی یتیم آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ہمت کس لیتے اپنی راتوں کو زندہ کرتے اور گھر والوں کو جگاتے.“ (صحيح البخاري، كتاب فضل ليلة القدر ، باب العمل في العشر الأواخر من رمضان، حدیث نمبر :2024) اب دیکھیں وہی الفاظ ہیں جو بیداری کے لئے میں نے کہے.حضرت عائشہ فرماتی ہیں راتوں کو زندہ کرتے.پہلے آپ صلی للہ اسلام کی راتیں مردہ ہوا کرتی تھیں؟ کوئی ایک رات آپ مالی پریتم کی زندگی میں ایسی نہیں تھی جس کو آپ مُردہ رات کہہ سکیں لیکن رمضان کے اواخر میں، ہر رمضان میں ان زندہ راتوں کو اور بھی زندہ کرتے تھے اور گھر والوں کو جگاتے“.اب گھر والوں کو جگانا ایک جسمانی فعل بھی تو ہے اور یہ کیا کرتے تھے.یہ ہم سب پر فرض ہے کہ ان دنوں میں خاص طور پر اپنے اہل وعیال، اپنے بچوں، بیوی وغیرہ کو تعلیم دیں کہ رمضان کے حق ادا کرنے کے لئے جا گا کر ولیکن آنحضرت سلا می ایستم جب گھر والوں کو بیدار کرتے تھے تو میں سمجھتا ہوں رمضان کے معارف کے سلسلہ میں ضرور ان کو نئے معارف عطا فر ماتے ہوں گے.اب اس پہلو سے جس طرح رسول اللہ صلی شما یہ تم راتوں کو زندہ کیا کرتے تھے ، اپنے اہل وعیال کی زندگی میں بھی وہ نئی زندگی بھر دیا کرتے تھے.ایک حدیث مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی للہ سلم نے فرمایا: د عمل کے لحاظ سے ان دس دنوں یعنی آخری عشرہ سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے نزدیک عظمت والے اور محبوب اور کوئی دن نہیں ہیں.“ عمل کے لحاظ سے جو ان دنوں میں برکت ہے ایسے اور کسی عشرہ اور کسی اور دن میں برکت نہیں ہے.پس مبارک ہو کہ ابھی کچھ دن باقی ہیں اور یہ برکتیں کلیہ ہمیں وداع کہہ کر چلی نہیں گئیں.آپ ان کا استقبال کریں تو آپ کے گھر اتر کر ٹھہر بھی سکتی ہیں اور یہی حقیقی نیکی کا مفہوم ہے.نیکی وہ جو آ کر ٹھہر جائے اور پھر رخصت نہ ہو.ان ایام میں خصوصیت سے رسول اللہ صلی یہ تم نے جس ذکر الہی کی تاکید
خطبات طاہر جلد 17 64 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء فرمائی ہے وہ ایک ہے تہلیل - تہلیل سے مراد ہے لا إلهَ إِلَّا اللهُ دوسرے تکبیر الله أكبر، اللهُ أَكْبَرُ، تیسرے تحمید، الْحَمدُ للهِ الْحَمدُ لله (مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمر اللہ عنہ ، حدیث نمبر : 5446) تو یہ تین سادہ سے ذکر ہیں جو بآسانی ہر شخص کو توفیق ہے کہ ان پر زور ڈالے.توفیق اس لئے کہ ان اذکار کا سب کو علم ہے.بہت گیا گزرا مسلمان بھی ہو تو وہ یہ تین باتیں ضرور جانتا ہے.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، الله اكبر اور الحمد للہ.ہر گلی میں آپ کو جگہ جگہ الحمد لله، الحمد للہ کی آواز میں سنائی دیتی ہیں.پس یہ وہ تین اذکار ہیں جن کو یاد کرانے کی ضرورت نہیں.یہ سب کو یاد ہیں لیکن یاد نہیں بھی یعنی ان کے معنوں میں ڈوب کر یہ ذکر نہیں کئے جاتے.جب حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی لہ الی یتم فرماتے ہیں کہ ان ایام میں بکثرت یہ ذکر کیا کرو تو مراد ہے کہ کثرت کی وجہ سے شاید دل میں بات اُتر بھی جائے.جب آپ لا إلهَ إِلَّا اللہ کا ورد کرتے ہیں تو ہر دوسرے خدا کی نفی کر رہے ہوتے ہیں.اگر زبان سے ذکر ہے مگر دل میں ذکر نہیں ہے اگر دماغ اس ذکر کی پیروی نہیں کر رہا اور آپ کو بتانہیں رہا کہ جب خدا کے سوا آپ کسی اور معبود کو تسلیم نہیں کرتے تو یہ دُنیا کے معبودوں کے کیا جھگڑے بنارکھے ہیں.کیوں بڑے لوگوں کی پیروی کرتے ہو، کیوں رزق کے ان ذرائع کی پیروی کرتے ہو جن کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے.رزق پیدا کرنے والا تو وہی ہے لیکن رزق کے قوانین بتانے والا بھی تو وہی ہے کہ کس رزق کو حاصل کرو، کس کو نہ کرو.پس لا إلهَ إِلَّا اللہ کا وردان دنوں میں جب ان معنوں میں ہو تو اللہ تعالیٰ ایک نئی شان سے آپ کے دل پر طلوع ہو گا اور توحید کے ایسے ایسے مضامین آپ پر روشن ہوں گے جن کی طرف پہلے کبھی خواب و خیال میں بھی توجہ نہیں گئی.پس عام طور پر لوگ ان حدیثوں کو سن کر یہ ورد شروع کر دیتے ہیں.لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللہ.ضربیں لگاتے ہیں اپنی طرف سے کہ ہر چوٹ پر ایک نئی معرفت نصیب ہو رہی ہے لیکن ایسے بھی ہیں جو ساری عمر ضر میں لگاتے رہے مگر ان کے دل میں کسی روشنی نے کوئی جگہ نہ پائی.پس اپنی راتوں کو اس طرح زندہ کرو جیسے رسول اللہ صلی ہی تم راتوں کو زندہ کیا کرتے تھے اور باقیوں کی راتیں بھی زندہ کیا کرتے تھے.تو جب یہ میں نے ذکر کیا ہے کہ آپ باقی راتوں کو بھی زندہ کیا کرتے تھے تو یہ مراد ہے کہ جو سادہ سے تین ذکر ہیں ان پر بھی اگر آپ غور کریں اور ذکر کرتے وقت اپنے دل میں
خطبات طاہر جلد 17 65 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء اتارنے کی کوشش کریں اور یہ غور کریں کہ لا الہ کن معنوں میں ہے تو اتنا عظیم الشان جہان توحید کا آپ پر ظاہر ہوگا کہ آپ نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگاکہ تو حید کا یہ معنی بھی ہے، یہ معنی بھی ہے، یہ معنی بھی ہے.اس میں کسی بیرونی بنانے والے کی ضرورت نہیں ہے.ہر شخص اپنی توحید کو خود جانچ سکتا ہے اور ہر شخص کی تو حید جانچنے کا مقام الگ الگ ہے کیونکہ توحید میں کوتاہی ہر شخص کی ایک ہی جیسے مضمون میں نہیں ہوا کرتی الگ الگ مضامین میں ہوتی ہے.کسی کی تو حید پر ایک شخص کے لحاظ سے ایک نقصان کا خطرہ ہوتا ہے.اس کی تو حید کو ایک خطرہ ہے اس کے بعض گناہوں سے یعنی وہ تو حید اس کے دل میں چچ نہیں سکتی ، نافذ نہیں ہو سکتی جب تک وہ خصوصی گناہ جو توحید سے متصادم ہیں وہ دور نہ ہوں.اب اس کے متعلق عمومی طور پر بیان کیا ہی نہیں جاسکتا.یہ ناممکن ہے کہ مجھے علم ہو کہ ہر دل میں توحید کے خلاف کون سابت بیٹھا ہوا ہے جس کو توڑنا ضروری ہے.آنحضرت صلہ یہ یمن کی اس نصیحت کو اپنا لیں تو ہر دل کا فیصلہ اپنا ہو گا اور ہر انسان کو بت دکھائی دینے لگیں گے اور جتنی دفعہ آپ لا إلهَ إِلَّا اللہ کہیں گے ایک نیابت آپ کے سامنے ظاہر ہو گا جس کا توڑنا آپ پر فرض ہے.پس اس سے بہتر اور کوئی ورد نہیں ہو سکتا کہ لا إلهَ إِلَّا اللہ کا وردان معنوں میں کیا جائے.دوسرا تکبیر ہے جب اللہ کے سوا کوئی نہ رہا ایک وہی تو ہے تو پھر اس کی عظمتوں اور بڑائیوں میں ڈوب کر دیکھیں کہ آپ نے جو پایا ہے وہ بہت زیادہ پایا ہے اس کی نسبت جو آپ نے کھویا ہے.جو کھویا ہے چند چھوٹے بت تھے جو دنیا کی حرصیں تھیں ایک مادہ پرستی کا عالم تھا جس میں آپ زندگی بسر کر رہے تھے.اس کو چھوڑا ہے تو کچھ ملا بھی تو ہے.جب لا إلهَ إِلَّا اللہ کہتے ہیں تو دماغ میں آتا ہے کہ ہم نے چھوڑا نہیں اللہ کو پایا ہے.پھر اللہ ہے کیا.جب اللہ پر غور کریں گے تو اللہ اکبر دل سے بلند ہوگا.اتنا عظیم الشان وجود ہم نے پالیا اس سے بڑا وجود ہو ہی نہیں سکتا.ہر اچھی بات میں سب سے بڑھ کر ، ہر عظمت میں سب سے بڑھ کر ہے، ہر طاقت میں سب سے بڑھ کر ہے.غرض یہ که لا اله الا اللہ کا سفر آپ کو ایک ورد میں منتقل کر دے گا جو اللہ اکبر کا ورد ہے.الْحَمدُ للهِ پھر ان معنوں میں پڑھنی ضروری ہے کہ اسی کا احسان ہے، اسی کی حمد کے ہم گیت گاتے ہیں کہ اس نے ہمیں یہ توفیق بخشی اور آکبر میں جب آپ نے سفر کیا اس کی بڑائی میں، تو یہ محسوس کیا کہ اس کی بڑائی میں حمد کے سوا تھا ہی کچھ نہیں.لا الہ نے سُبحان کا معنی پہلے ہی پیدا کر دیا تھا.
خطبات طاہر جلد 17 66 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء ہر برائی سے پاک ہے کیونکہ وہی ایک ہے جو ہے اور باقی سب نہیں ہیں.جو وجود نہیں ہیں وہ برائیاں ہیں، وہ سائے ہیں، وہ اندھیرے ہیں، جو ہے وہ اللہ ہے اور وہ اکبر ہے.اس اکبر کی ذات پر جب آپ نے غور کرنا شروع کیا تو یہ بات آپ پر بخوبی روشن ہو جائے گی کہ یہاں اب حمد نہیں.پھر الحمد للہ ان معنوں میں بھی آپ کے دل سے اٹھے گا کہ اللہ کا کتنا بڑا احسان ہے میں نے کیا پایا.جو کھونے والی چیزیں تھیں شکر الحمد للہ میں نے ان کو کھو دیا ان کو دل سے نکال کر باہر پھینک دیا اور جو پانے والی ذات تھی اس کو پایا ہے اس پر جتنا بھی میں شکر ادا کروں اتنا کم ہے.الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَلَمِينَ بہت ہی قابل حمد ہے وہ ذات جو تمام جہانوں کا رب ہے پس رسول اللہ صل للہ یہ تم نے وہ ذکر ہمیں سکھا دیا ہے جو بظاہر ہمیں معلوم تھا لیکن فی الحقیقت ہم اس سے ناواقف تھے.اب مسند احمد بن حنبل کی ایک حدیث جو حضرت ابن عمر ہی سے مروی ہے وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں کہ رمضان میں جو اعتکاف ہوا کرتا تھا آنحضرت صلی للہ یہ تم کیسے اعتکاف بیٹھتے تھے وہ کون سی دُنیا تھی جس میں ڈوبا کرتے تھے.رمضان میں جب تیزی آتی تھی ، اجود ہو جاتے تھے وہ کیا قصہ تھا.یہاں ایک جھلکی ہمیں نظر آتی ہے اس بنا پر کہ بعض لوگ اعتکاف میں ذرا اونچی تلاوت کرتے تھے اُن کا اونچی تلاوت کرنا ہم پر ہمیشہ کے لئے احسان ہو گیا کیونکہ اس ضمن میں رسول اللہ صلی السلام کے دل کا حال ، اس کی ایک جھلک دکھائی دی.یہ وہ باتیں تھیں جو رسول اللہ لیا کہ یتم شاید از خود اپنے متعلق نہ بیان کرتے مگر ان لوگوں نے مسجد میں جو تھوڑا سا ایک قسم کا ہلکا ساشور یعنی وہ بھی شور ایسا جو تلاوت کا شور ہے وہ بلند کیا تو رسول اللہ صلی ای ایم کے اس تخلیہ میں مخل ہو گئے جو آپ کا اور اللہ کا تخلیہ تھا.اس لئے مجھے یہ حدیث بہت پیاری لگتی ہے کیونکہ ان لوگوں کی تلاوت کے متعلق رسول اللہ صلی الی یمن نے ان کو نصیحت فرمائی اور اب بھی ہماری مسجدوں میں شاید اس کی ضرورت پیش آئے مگر اصل بات جو ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی یکم کی خلوت کا ایک منظر، ایک جھلکی ہم نے اس حدیث میں دیکھ لی.رسول اللہ صلی لایی تم نے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا.آپ کے لئے کھجور کی خشک شاخوں کا حجرہ بنادیا گیا.یہ بھی یادرکھیں کہ رمضان کے دنوں میں مسجد کی Capacity کو آپ لوگ جب جانچتے ہیں اور مجھے لکھتے ہیں کہ اس میں اتنے آدمیوں کی Capacity ہے تو اتنوں کو اعتکاف میں بیٹھنے دیا جائے یہ Capacity کا معیار درست نہیں ہے کیونکہ رسول اللہ صل للہ ایم کا حجرہ ایسا تھا کہ وہاں با قاعدہ ایک خیمہ سا بنایا گیا یعنی ایک جھونپڑی سی بنائی گئی اور اردگرد کافی دور تک دوسرے لوگ
خطبات طاہر جلد 17 67 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء نہیں تھے.ان کی عام عبادتیں رسول اللہ لا یا یہ تم کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی تھیں اور رسول اللہ ایشیا کی ستم کے تخلیہ کی حالت ان پر ظاہر نہیں ہوتی تھی.تو وہ مسجد نبوی چونکہ بہت بڑی تھی اس لئے اصل اعتکاف کا حق بڑی مسجد میں ادا ہوتا ہے.ایسی مسجد میں جہاں چند عبادت کرنے والے ایک دوسرے سے الگ الگ ہوں ، ایک دوسرے کے معاملات میں مخل نہ ہوں اور اصل عبادت کا تو وہی مزہ ہے جو ایسے اعتکاف میں کی جائے مگر ہمارے ہاں بھرنے پر زور ہے.اس لئے اس دفعہ خواتین میں خصوصیت سے جن خواتین کے متعلق کسی حکمت کی وجہ سے ہم نے سمجھا کہ ان کو یہاں نہیں بیٹھنا چاہئے ،مسجد میں گنجائش ہونے کے باوجود اُن کو جگہ نہیں دی گئی.یہ عین سنت نبوی سلی لا یتیم کے مطابق ہے کہ یہ نہیں تھا کہ اگر صحابہ چاہتے تو ساری مسجد معتکفین سے بھر سکتے تھے مگر ایسا نہیں کیا گیا اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ وہ اجازت کا کیا نظام جاری تھا مگر کچھ نہ کچھ ضرور نظام جاری ہو گا جس کے تابع بعض لوگوں کو تو فیق ملتی تھی اور بعضوں کو نہیں ملتی تھی.کھجوروں کا ایک حجرہ سا بنایا گیا، ایک جھونپڑی بنائی گئی.ایک رات ایسی آئی آپ صلی اللہ کریم نے باہر جھانکتے ہوئے فرمایا نمازی اپنے رب سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے اس لئے ضروری ہے قرآت بالجہر اس طرح نہ کیا کرو کہ گویا دوسرے بھی سن سکیں.(مسند احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عمر الله ، حدیث نمبر : 5349) رض تو یہ فرض ہے ہر حجرے والے کا جو اعتکاف بیٹھتا ہے کہ اس کے اندر کی آواز میں باہر نہ جائیں یہاں تک کہ تلاوت بھی باہر نہ جائے.حالانکہ تلاوت تو کسی عبادت کرنے والے کی راہ میں حائل نہیں ہونی چاہئے کیونکہ عبادت اور تلاوت در حقیقت ایک ہی چیز کے دو نام ہیں مگر رسول اللہ صلی ا ہم نے فرما یا ایسی آواز میں تلاوت کی آواز بھی باہر نہ جائے کہ دوسرے معتکفین کی راہ میں حائل ہو کیوں ایسا فرمایا.ایک راوی بیاضی ہیں جن سے مسند احمد بن حنبل میں یہ روایت مروی ہے اور بیاضی بیاضہ بن عامر کی طرف نسبت تھی ، ان کا اصل نام عبد اللہ بن جابر تھا رضی اللہ تعالیٰ عنہ.ان کی روایت ہے کہ اپنے حجرہ سے باہر دوسروں کی طرف نکل کے آئے یعنی چل کر باہر گئے ہیں.صاف پتا چلتا ہے کہ فاصلہ ہے بیچ میں جو نماز ادا کر رہے تھے ان کی قرآت کی آوازیں بلند تھیں.آنحضرت مصلی سیستم نے فرمایا کہ نمازی تو اپنے رب ذوالجلال سے راز و نیاز میں مگن ہوتا ہے.(مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة حديث البیاضی ،حدیث نمبر : 19022)
خطبات طاہر جلد 17 68 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء اب یہ راز و نیاز کی راتیں تھیں جو رسول اللہ صلی لا یہ نیم گزارا کرتے تھے اور اس راز و نیاز کا لطف کیا تھا یہ بھی اگلی حدیثوں سے ظاہر ہوتا ہے.وہ حدیثیں غلطی سے یہاں ساتھ نہیں رہیں لیکن زبانی میرے ذہن میں جو مضمون ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت مصلی یا ایلیمن جو اپنے رب سے راز و نیاز کیا کرتے تھے تو دُنیا کےسارے دوسرے پر دے اٹھ جایا کرتے تھے اور آپ صل للہ یہ تم ایسے غرق ہوتے تھے ذکر الہی میں اور اس سے ایسی لذت پاتے تھے کہ اس لذت کا بیان ممکن نہیں ہے.وہ حدیثیں اس وقت یہاں نہیں ہیں جو میرے ذہن میں ہیں جن کی وجہ سے میں بتا رہا تھا کہ یہ جو فرمایا کہ ایک شخص راز و نیاز میں مصروف ہے اس کے راز و نیاز میں حائل نہ ہو وہ راز و نیاز ایسا تھا کہ اس کے لطف کا کوئی بیان ممکن نہیں ہے.آنحضرت مسی یا تم کو اللہ کے ذکر میں اتنا زیادہ مزہ آتا تھا کہ اس مزہ کی کیفیت دوسرے الفاظ میں بیان ہو نہیں سکتی.عام انسان جب ذکر الہی میں لذت پاتا ہے تو بعض دفعہ خود اپنی کیفیت کو دوسرے کے سامنے بیان نہیں کر سکتا.آنحضرت صلی للہ یہ تم کو اللہ سے عشق اور محبت میں جو خلا میسر آیا کرتا تھا وہ کیفیت جیسا کہ میں نے پہلے عرض کر دیا تھا ناممکن ہے کہ میں بیان کرسکوں، کوئی انسان اسے بیان نہیں کرسکتا.ان کیفیات پر رسول اللہ صل للہ یہ تم کی بعض اور حدیثیں روشنی ڈالتی ہیں مگر اتنا بہر حال یقینی ہے کہ رمضان کی راتوں کے اواخر اور آخری عشرہ میں معتکفین کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوسرے ساتھیوں کا خیال رکھیں کیونکہ وہ جس بات میں مخل ہوں گے وہ اللہ اور بندہ کے راز و نیاز کی باتیں ہیں اور ایسی راز و نیاز کی باتیں ہیں جن کو وہ خود نہیں کھولنا چاہتا.اب ظاہر بات ہے کہ یہ واقعہ نہ ہوتا تو رسول اللہ صلی ا یہ تم یہ نہ کہتے کہ میں تو اللہ سے راز و نیاز میں مصروف ہوں.وہ راز و نیاز کی کیفیت ایسی ہے جو بیان سے باہر ہے.جن حدیثوں سے ان پر روشنی پڑتی ہے یوں معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ لیا کہ یتم ایک اور لافانی لذت میں ڈوب جاتے تھے، ایسا اس لذت میں غرق ہو جاتے تھے کہ اس سے باہر آنے کو دل نہیں چاہتا تھا.یہی دل چاہتا تھا کہ ہمیشہ کے لئے اس لذت میں ڈوب جاؤں.فی الرفيق الاعلی کے متعلق جو آپ نے روایت سنی ہے کہ آخری وقت میں في الرفيق الأعلی کہا کرتے تھے.(صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی ﷺ و وفاته،حدیث نمبر : 4436) یہ مراد نہیں ہے کہ آخرت میں وہ رفیق نصیب ہونا تھا.وہ رفیق جو ہمیشہ ان راتوں میں محمد رسول اللہ صلی ہی تم پر ظاہر ہوا
خطبات طاہر جلد 17 69 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء کرتا تھا، جو آپ کا ساتھی بن جایا کرتا تھا ، آپ کے دل میں اتر جایا کرتا تھا، اس میں مزید غرق ہونے کو دل چاہتا تھا.فِي الرَّفِيقِ الأَعْلَى ہے، اِلَى الرَّفِيقِ الأَعْلَی نہیں.میں تو اپنے رفیق میں ڈوب جانا چاہتا ہوں.یہ وہ کیفیات ہیں جن کو پڑھ کر کم سے کم ایک انسان کے دل میں یہ خیال تو پیدا ہو سکتا ہے کہ میں اس رمضان کے آخری عشرہ میں ویسا ہونے کی کوشش شروع کر دوں.اس کوشش میں آپ کا کوئی زیاں نہیں ہے.اس کوشش میں ایک ایسی لذت ہے جو اگر آپ کو نصیب ہوگئی تو یہ لذت آپ کو سنبھال لے گی اور سارا سال اس سے باہر نکلنے کا وہم و گمان بھی دل میں نہیں آئے گا.آج جو ساری احمدیت کی دُنیا میرا پیغام سن رہی ہے اس کثرت سے دُنیا میں کبھی کسی پیغام کو لوگوں نے اس طرح اکٹھے نہیں سنا.آج ایک عجیب دن طلوع ہوا ہے.ساری کائنات میں ایسا دن تصور میں نہیں آسکتا کہ جب اس کثرت سے حضرت محمد رسول اللہ صلی ایم کے پیغامات کو ساری دُنیا ہمہ تن گوش ہو کے سن رہی ہے اور ہر چھوٹا بڑا، ہر طاقتور، ہر کمز ور اس نظارہ میں شامل ہے.لاکھوں ہیں جن تک یہ آواز پہنچ رہی ہے اور اس احترام سے سن رہے ہیں کہ آج کے رمضان کے احترام کی خاطر وہ اس آواز کو بھی احترام سے سنے پر مجبور ہو چکے ہیں.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ آواز دُنیا کو جگادے گی کیونکہ یہ آواز بظاہر میرے منہ سے نکل رہی ہے مگر فی الحقیقت حضرت اقدس محمد مصطفی سای سایتم کی آواز ہے جو آپ صلی ا ستم ہی کی احادیث کے حوالہ سے میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.اس لئے اس آواز کو عظمت دیں کیونکہ محمد رسول اللہ سی ایم کی آواز تھی جسے میں نے آگے چلایا ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس کے بعد آپ لوگ فکر کریں گے.اس رمضان نے تو گزرنا ہے مگر ایک بات یاد رکھیں کہ آپ کی اور میری ہم سب کی زندگیوں نے بھی گزر جانا ہے.سب سے بڑی غفلت موت کے دن کو بھلانے سے ہے.رمضان کو تو آپ وداع کہہ دیں گے مگر یاد رکھیں آپ کی جانیں ، آپ کی روحیں بھی ایک دن آپ کو وداع کہیں گی.اس وقت ایسے حال میں وداع نہ کہیں کہ حسرت سے آپ ان روحوں کو واپس پکڑنے کی کوشش کریں کہ چلو واپس چلتے ہیں اس دُنیا میں دوبارہ گزارتے ہیں ، نیک کاموں میں صرف کرتے ہیں.ایسی حالت میں وہ آخری دن آئیں کہ فی الرّفِيقِ الأَعْلَی کی آوازیں بلند ہورہی ہوں.یہ پیغام ہے جو آنحضرت سلی لا الہلم کا پیغام ہے جو میں آپ تک پہنچارہا ہوں.اکثر لوگ بھول جاتے ہیں مرنے کو حالانکہ سب سے زیادہ یقینی چیز مرنا ہے.جتنے ہم ہیں سب کے سب نے
خطبات طاہر جلد 17 70 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء ضرور مرنا ہے.ایک وقت ایسا آئے گا، بستر پر پڑے ہوں گے یا قتل ہوں گے یا اور ڈو میں گے، جو بھی صورت ہو گی خدا کے نزدیک لازماً ہم نے مرنا ہے.اس لئے زندگی کے چند دن عیش، چند دن کی طغیانیاں، چند دن کی خدا تعالیٰ کی نافرمانیاں یہ کب تک چلیں گی.جب مریں گے تو ضرور حسرت سے مریں گے اور دوبارہ یہ زندگی چاہیں گے.مگر یہ زندگی دوبارہ نہیں ملے گی.یہی زندگی ہے جس کو اگر آپ لیلتہ القدر سے روشن کر لیں تو یہ زندگی پھر اس دُنیا میں ہی نہیں اُس دُنیا میں بھی ساتھ دے گی.اس دُنیا میں جس رفیق کو آپ پائیں گے وہ آپ کو چھوڑے گا نہیں، مرتے وقت اُس کے اور قریب ہوں گے اس سے دور نہیں ہٹیں گے.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ رمضان المبارک کے اس پیغام کو آپ بشدت بڑے غور کے ساتھ اپنی زندگیوں میں جاری کرنے کی کوشش کریں گے.اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض حوالہ جات میں نے رکھے ہوئے تھے ان سب کو پورا کر نا تو مکن نہیں ہے کیونکہ وقت میں دیکھ رہا ہوں صرف تین چار منٹ رہ گئے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک عظیم الشان نکتہ بیان فرمایا ہے جو میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ جب ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوالہ سے نیکیوں کی تعلیم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ کوشش کرو، یہ جدو جہد کرو اس ذکر میں چھ مہینے کے مسلسل روزے بھی آجاتے ہیں اور دل ڈرتا ہے کہ ہم تو اتنی توفیق بھی نہیں پاتے کہ رمضان کے تئیں روزے بھی صحیح رکھ سکیں اور رمضان گزرتا ہے تو تھوڑا سا ایک سکون محسوس کرتے ہیں کہ زندگی اب عام حالتوں کی طرف لوٹے گی.تو ان کی بیعت کی ہے، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ، ان کا یہ حال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کبھی سوچا اور آپ کو جماعت کی اس حالت پر رحم آگیا اور خود ایک نرمی کی نصیحت فرمائی ہے اور حکمت بیان کی ہے کہ میں کیوں اپنے او پر اتنی سختی روا رکھتا ہوں یہ بھی منشاء الہی کے مطابق تھا اور منشاء الہی ہر شخص کی استطاعت کے مطابق ہوا کرتا ہے.اسی لئے میں گزشتہ خطبوں میں آپ کو بار بار کہتا رہا ہوں گھبرانا نہیں گھبرانا نہیں.آپ میں استطاعت اتنی نہیں ہے زبر دستی بوجھ نہ ڈال لینا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس تحریر سے بعینہ یہ بات ثابت ہے.فرماتے ہیں: حضرت والد صاحب کے زمانہ میں ہی جب کہ ان کا زمانہ وفات بہت نزدیک تھا ایک مرتبہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک بزرگ معمر پاک صورت مجھ کو خواب میں دکھائی دیا اور اس
خطبات طاہر جلد 17 71 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء نے یہ ذکر کر کے کہ کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے.اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ میں اس سنت اہل بیت رسالت کو بجالاؤں.سو میں نے کچھ مدت تک التزام صوم کو مناسب سمجھا...اور اس قسم کے روزہ کے عجائبات میں سے جو میرے تجربہ میں آئے وہ لطیف مکاشفات ہیں جو اس زمانہ میں میرے پر کھلے.“ نبیوں سے ملاقاتیں ہوئیں، اعلیٰ درجہ کے اولیاء سے گفت و شنید ہوئی.یہ میں اپنے الفاظ میں مختصر عبارت بیان کر رہا ہوں.انوار روحانی کے ستون تھے جو دل سے اٹھتے تھے اور آسمان سے اتر رہے تھے.یہ سارا تجربہ بیان کرنے کے بعد حضور فرماتے ہیں میرے خیال میں ہے کہ وہ خدا کی محبت سے ترکیب پانے والے ستون تھے.ایسے ستون تھے جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی محبت نے میرے دل کی محبت کو یوں قبول فرمایا اور کچھ ستون نیچے سے اٹھ رہے تھے کچھ اوپر سے اتر رہے تھے اور ان کے ملنے سے جو لذت نصیب ہوتی تھی وہ بیان سے باہر ہے.ناممکن ہے کہ اس لذت کو میں بیان کرسکوں.اب جو میرا موقف تھا رسول اللہ صلی یا یتیم کے دل کی کیفیات کا ، اس سے اندازہ کر لیں.آنحضرت صلی ا یتیم کے دل کی لذتوں کا کیا حال ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہتے ہیں کہ مجھے ایک بزرگ نے کہا کہ خاندان نبوی کی یہ خصوصیت تھی کہ روزے رکھا کرتے تھے پس تم بھی اپنی توفیق کے مطابق روزے رکھو اور اس روزے کا اجر وہ ستون ہیں جو عشق الہی کی محبت کے ستون نیچے سے اٹھتے ہیں اوپر تک جاتے ہیں اوپر سے نیچے اتر رہے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ اس لطف کے بیان کی مجھ میں ہرگز طاقت نہیں ہے.یہ وہ راز و نیاز تھا جو اس سے بڑھ کر حضرت محمد مصطفی سالی سیستم کا خدا اور بندے کے درمیان ایک راز و نیاز چلا کرتا تھا.فرماتے ہیں: یہ روحانی امور ہیں کہ دنیا ان کو نہیں پہچان سکتی کیونکہ وہ دُنیا کی آنکھوں سے بہت دور ہیں لیکن دُنیا میں ایسے بھی ہیں جن کو ان امور سے خبر ملتی ہے.( یعنی حسب توفیق تھوڑی تھوڑی خبر عام لوگوں کو بھی مل سکتی ہے )..لیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے.“
خطبات طاہر جلد 17 72 خطبہ جمعہ 23 جنوری 1998ء یہ وہ مضمون ہے جس کا میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور اب میں کھول رہا ہوں بات کو.میں آپ سے کہتا تھا کہ اپنے نفس پر اتنی سختی نہ ڈالیں جو آپ کی طاقت سے بڑھ کر ہو وہ آپ کی طاقتوں کو توڑ دے گی اور اس روحانی سفر کے لائق نہیں رہیں گے.یہ اب مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ملے ہیں: ولیکن میں ہر ایک کو یہ صلاح نہیں دیتا کہ ایسا کرے اور نہ میں نے اپنی مرضی ایسا کیا.“ از خود اپنے لئے کوئی سختی تجویز کرنے کی آپ کو صلاحیت ہی نہیں ہے.اللہ بہتر جانتا ہے آپ کی صلاحیتیں کیا ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں میں نے ہرگز از خود اپنے لئے اپنی مرضی سے یہ مشقتیں برداشت نہیں کیں.یادر ہے کہ میں نے کشف صریح کے ذریعہ سے خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر جسمانی سختی کشی ( سختی کو کھینچنا یعنی سختی اٹھانا ) کا حصہ آٹھ یا نو ماہ تک لیا اور بھوک اور پیاس کا مزہ چکھا اور پھر اس طریق کو علی الدوام بجالانا چھوڑ دیا اور کبھی کبھی اس کو اختیار بھی کیا.( کتاب البریۃ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ: 197 تا200 حاشیہ) توعلى الدوام جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اتنی غیر معمولی سختی برداشت کی ہے یہ حکم الہی کے تابع تھی جو آپ کی استطاعت کو جانتا تھا اور اس استطاعت کے نتیجہ میں آپ نے وہ روحانی سرور حاصل کئے ہیں جو خدا کی ذات میں مگن ہونے اور ڈوبنے کے نتیجہ میں حاصل ہوا کرتے ہیں، جن کو جو لذتوں سے استفادہ کر رہا ہے وہ بھی بیان نہیں کر سکتا.پس رسول اللہ صلی السلام کا یہ کہنا کہ میرے اور خدا کے راز و نیاز میں حائل نہ ہوں.تلاوت جو اتنی پیاری تھی تلاوت بھی اونچی آواز میں نہ کیا کرو میں کسی اور عالم میں پہنچا ہوا ہوتا ہوں اس عالم میں مخل نہ ہوں.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفی سلین نیم کے عالم کی کوئی روحانی سیر بھی کبھی کبھی کر لیا کریں.دیکھ لیا کر یں کس عالم میں تھے، جھانک لیا کریں ان مواقع پر جن میں آپ سی ایم خود اپنے دل میں جھانکنے کی اجازت دیتے ہیں.اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 73 خطبہ جمعہ 30 جنوری 1998ء جب بھی تمہیں خدا کے ذکر کی خاطر بلایا جائے تو سب چیزیں چھوڑ دیا کرو اور اس آواز پر لبیک کہا کرو (خطبہ جمعہ فرمودہ 30 جنوری 1998ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ.برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت فرمائی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ فَإِذَا قُضِيَتِ الصلوةُ فَانْتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِنْ فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللهَ كَثِيرًا لعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ پھر فرمایا: ( الجمعة : 11،10) یہ دو آیات کریمہ جو سورۃ جمعہ سے لی گئی ہیں آج کے میرے خطبہ کا موضوع یہی آیات ہیں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے.اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو.اِذا نُودِيَ لِلصَّلوةِ مِنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوا إلى ذكر الله جب جمعہ کے دن تمہیں نماز کے لئے بلایا جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف تیزی سے لیکو.وَذَرُوا الْبَيْعَ اور ہر قسم کی تجارت کو ، لین دین کو ترک کر دیا کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے اگر تم جانتے ہو.یہاں جمعہ کا ہر مفہوم مراد ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا زمانہ بھی جمعہ کا زمانہ ہے، پہلوں کے دوسروں سے ملنے کا زمانہ ہے، وقف زندگی کی تحریک بھی اسی میں داخل ہے.جب بھی تمہیں خدا کے ذکر کی خاطر بلایا جائے تو سب چیزیں چھوڑ دیا کرو اور اس آواز پر لبیک.
خطبات طاہر جلد 17 74 خطبہ جمعہ 30 جنوری 1998ء کہا کرو اور ظاہری معنوں میں بھی یہی حکم ہے جیسا کہ بعد میں فرمایا فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلوةُ فَانْتَشِرُوا في الْأَرْضِ جب نماز پڑھی جا چکی تو پھر تمہیں اجازت ہے کہ تم زمین میں پھیل جایا کرو اور اللہ تعالیٰ کا فضل ڈھونڈو اور بکثرت اس کا ذکر کیا کرو.پس آج کی نصیحت یہی ہے اور میں اُمید کرتا ہوں کہ آپ لوگ اب جب پھیلیں گے اور عید کی دوسری خوشیاں منائیں گے تو واذكروا اللهَ كَثیرا کو ضرور یادرکھیں.ذکر الہی کا وقت ختم نہیں ہوا بلکہ جمعہ کے ساتھ جاری ذکر ہے جو جمعہ کے وقت بند نہیں ہوا کرتا.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور جہاں بھی جس حال میں بھی ہم ہوں ذکر الہی کو بلند کرنے والے ہوں.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 75 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء شیطان کے دھوکے سے بچنے کے طریق ہر ایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا (خطبه جمعه فرموده 6 فروری 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: قَالَ انْظُرُ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ.قَالَ إِنَّكَ مِنَ الْمُنْظَرِينَ قَالَ فَبِمَا اغْوَيْتَنِي لَا قُعُدَنَ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَا تِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَ عَنْ شَبَابِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ اكْثَرَهُمْ شَكِرِينَ قَالَ اخْرُجْ مِنْهَا مَنْءُ وَمَا قَدْ حُورًا لَمَنْ تَبِعَكَ مِنْهُم لَامُلَيَّنَ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ أَجْمَعِينَ وَ يَادَمُ اسْكُنُ أَنْتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَ لَا تَقْرَبَا هُذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّلِمِينَ فَوَسْوَسَ لَهُمَا الشَّيْطنُ لِيُبْدِيَ لَهُمَا مَاوِرِيَ عَنْهُمَا مِنْ سواتِهِمَا وَقَالَ مَا نَهُكُمَا رَبَّكُمَا عَنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ إِلَّا أَنْ تَكُونَا مَلَكَيْنِ اَوْ تَكُونَا مِنَ الْخَلِدِينَ وَ قَاسَهُما إِنِّي لَكُما لَمِنَ النَّصِحِينَ لا فَدَلْهُمَا بِغُرُورٍ فَلَمَّا ذَاقَا الشَّجَرَةَ بَدَتْ لَهُمَا سَواتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفْنِ عَلَيْهِمَا مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ وَ نَادِيهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمُ انْهَمَا عَنْ تِلْكُمَا الشَّجَرَةِ وَأَقُلُ تَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكَما عَدُوٌّ مُّبِينٌ.ج
خطبات طاہر جلد 17 76 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء سكتة قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَ إِنْ لَمْ تَغْفِرُ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الخسِرِينَ پھر فرمایا: (الاعراف: 15 تا 24) یہ سورۃ الاعراف کی آیات پندرہ تا چوبیں ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.اس مضمون پر میں پہلے بھی روشنی ڈال چکا ہوں جو ان آیات کریمہ میں بیان ہوا ہے.آج ایک خاص ارادہ کے ساتھ دوبارہ ان کی تلاوت کی ہے اور ان میں سے بعض باتیں ہیں جو میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں ورنہ تمام آیات جن کی تلاوت کی گئی ہے اگر ان کی تفصیل شروع ہو گئی تو یہ مضمون بیچ میں رہ جائے گا اور اگلے خطبہ میں بھی اس کا ختم ہونا مشکل ہے.شیطان کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ جو پہلا مکالمہ ہوا ہے اور شیطان نے کیوں خدا تعالیٰ کو چیلنج دیا کہ میں اب تیرے بندوں سے کچھ کرنے والا ہوں یہ سارا تذکرہ ان آیات کریمہ میں کیا گیا ہے.جب شیطان کو خدا نے دھتکار دیا تو اس نے کہا : انظري إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ کہ مجھے اس دن تک مہلت دے جس دن یہ لوگ اٹھائے جائیں گے یعنی آخری دن تک اس دُنیا میں جو انسان بسر کرے گا اس وقت تک اس نے اپنے لئے مہلت مانگی.قَالَ فَبِمَا اغْوَيْتَنِي لَا قُعُدَنَ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ اور یہ کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ قرار دیا ہے اس لئے میں صراط مستقیم پر تیرے بندوں کے لئے بیٹھوں گا اور دیکھوں گا کہ تیرے بندے کس قسم کے ہیں.اگر میں گمراہ ہوں تو جن کو تو اپنا بندہ کہتا ہے ان کو میں بہکا کے بتاؤں گا کہ دیکھ تیری پیداوار، تیرے بندے مجھ سے اعلیٰ نہیں ہیں اور چونکہ اپنے بندہ کو خدا تعالیٰ نے سجدہ کرنے کا حکم دیا تھا یہ شیطان کا اس کے مقابل پر ایک استدلال تھا کہ مجھے تو تو نے گمراہ قرار دے دیا پر جس کے لئے مجھے سجدہ کا کہہ رہا ہے اس کا جو میں حال کروں گا پھر پوچھوں گا کہ گمراہ کون ہوتا ہے اور دعویٰ یہ ہے کہ مجھے صراط مستقیم پر بیٹھنے دے اور یہ اہم نکتہ ہے جس کی طرف میں آپ کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (الفاتحة: 6) کہہ کر ہم اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآنہیں ہو جاتے ، وہاں سے ہمارا امتحان شروع ہوتا ہے اور شیطان بیٹھا ہی صراط مستقیم پر ہے.اگر کوئی انسان ٹیڑھی راہوں پر چل رہا ہو تو وہ تو پہلے ہی ٹیڑھا چل رہا ہے، شیطان کو ضرورت کیا ہے کہ ٹیڑھی راہوں سے بہکائے.پس صراط مستقیم پر چلنے کے جو تقاضے ہیں ان کو ہمیں پیش نظر رکھنا ہے اگر
خطبات طاہر جلد 17 77 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء نہیں رکھیں گے تو جس راہ سے انعام ملتے ہیں اسی راہ پہ مغضوب ہو کر مارے جائیں گے یا اس راہ سے بہکائے جائیں گے اور اس راہ سے ہٹ جائیں گے اور شیطان صراط مستقیم پر ہر بھیس میں آتا ہے ہر پہلو سے حملہ آور ہوتا ہے.چنانچہ قرآن کریم فرماتا ہے ثُمَّ لَاتِيَنَّهُم مِّنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ پھر میں ان کے پاس ضرور آؤں گا ان کے سامنے سے وَمِن خَلْفِهِمْ اور ان کے پیچھے سے بھی وَعَنْ ایما نھم اور ان کی دائیں طرف سے بھی وَعَنْ شَبَابِلِهِمْ اور ان کے بائیں طرف سے بھی ولا تَجِدُ اكْثَرَهُمْ شُکرین اور تو دیکھے گا کہ اکثر تیرے بندے شکر گزار نہیں ہیں.اب کوئی طرف نہیں ، چھوڑی شیطان نے ، سامنے سے بھی آئے گا، پیچھے سے بھی آئے گا، دائیں سے بھی اور بائیں سے بھی.دائیں اور بائیں میں ایک مفہوم مذہب یا دُنیا بھی ہو سکتے ہیں.دائیں طرف سے وہ مذہب کے رستہ سے بھی حملہ آور ہوگا اور دنیا کی حرص دلا کر اس طرف سے بھی حملہ آور ہوگا.تو یہ وہ صراط مستقیم کا رستہ ہے جسے ہم نے اختیار کیا ہے اور جو بلاؤں سے بھرا پڑا ہے اور جب تک کامیابی سے اس راہ سے گزر نہ جائیں.الى يَوْمِ يُبْعَثُونَ جب تک انسان کی بعثت اخروی ہو جائے اس وقت تک ہم خطرہ سے پاک نہیں ہیں.یہ تنبیہہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور ہمیں بتایا گیا ہے کہ یہ پہلی کہانی ہے مذہب کی اور یہی تمہاری کہانی ہے اسی سے تم آزمائے جاؤ گے.اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : لَامُلَكَنَ جَهَنَّمَ مِنْكُمْ اَجْمَعِيْنَ اور جس نے بھی تیری پیروی کی ان سب کو میں جہنم سے بھر دوں گا.پھر آگے سلسلہ شروع ہو جاتا ہے آدم کا، پھر کیسے شیطان نے ان کو دھوکہ دینے کی کوشش کی اور ایک حد تک دھوکا دے دیا.پھر آخر پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَنَادَيهُمَا رَبُّهُمَا أَلَمُ انْهَكَمَا عَنْ تِلكُمَا الشَّجَرَةِ وَاَقُلْ تَكُمَا إِنَّ الشَّيْطَنَ لَكُما عَدُوٌّ مُّبِينٌ کہ تم دونوں کو میں نے یہ متنبہ نہیں کر دیا تھا کہ یہ شیطان جس نے تمہیں بہکایا ہے یہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے یہ تنبیہہ اس رستہ پر چلنے سے پہلے کی گئی تھی اور سب سے پہلی تنبیہ جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کے لئے نازل ہوئی ہے یہی تنبیہ تھی کہ اب تمہیں ہم سیدھے رستہ پر چلائیں گے لیکن اس رستہ کے خطرات سے پہلے متنبہ کر رہے ہیں اور ہم تمہیں کھلم کھلا بتا رہے ہیں کہ یہ شیطان تمہارا دشمن ہے، کھلا کھلا دشمن ہے اس سے دھوکا نہ کھا جانا.یہ ہی مضمون ہے جو بنی نوع انسان کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس نئے دور میں بیان فرمایا یعنی وہ دور حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یا سیستم کے وقت سے شروع ہوتا ہے.یہ سورۃ فاطر کی آیات چھ تا آٹھ ہیں :
خطبات طاہر جلد 17 78 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء يَايُّهَا النَّاسُ إِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّكُمُ الْحَيَوةُ الدُّنْيَا وَ لَا يَغُرَّنَّكُم بِاللهِ الْغُرُورُ اے بنی نوع انسان! اللہ کا وعدہ سچا ہے اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں.فَلَا تَغرنکم تمہیں ہرگز دھوکا نہ دے.الحيوةُ الدُّنْيَا دُنیا کی زندگی.دُنیا کی زندگی تمہیں کیسے دھوکا دے گی؟ وَلَا يَغْرَتكُم بِاللهِ الْغَرُورُ اور بہت بڑا فریبی الْغَرُور تمہیں دھوکا میں نہ ڈال دے.اِنَّ الشَّیطن لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوا شیطان تمہارا دشمن ہے اسے بحیثیت دشمن کے پکڑو، دوست نہ بنا بیٹھنا.إِنَّمَا يَدْعُوا حِزبہ وہ تو اپنے پیچھے چلنے والوں کو پکارتا ہے یعنی جو اس کا گروہ ہیں.لِيَكُونُوا مِنْ اصحب السَّعِيرِ تاکہ وہ جہنم کا ایندھن بن جائیں.اب یہ کھلی کھلی وارنگ، یہ تنیہ ، اتنی وضاحت کے ساتھ اور اس تسلسل اور ربط کے ساتھ دُنیا کی کسی اور کتاب میں آپ کو نہیں ملے گی.پہلے بتا دیا ہے دھوکا دینے والا ہے، دھوکا دینے والا بھی ایسا کہ اس سے بڑھ کر کوئی دھوکا دینے والا نہیں ہے اور دھوکا دینے والا تمہارا دشمن ہے اس سے تم خیر کی کیا توقع رکھتے ہو اور اس کی چال یہ ہے کہ دُنیا کی زندگی تمہیں اچھی دکھائی دے گی اور اس چال میں جب تم پھنس گئے تو جس کو اچھا سمجھتے تھے وہی برا ہوتا چلا جائے گا یہاں تک کہ تم انتہائی مکروہ انجام کو پہنچو گے.جن خوبصورت چیزوں کی تم نے پیروی کرنے کی کوشش کی ، جن سے دل لبھانے کی کوشش کی وہ لازما تمہیں چھوڑ دیں گی، لازماً ان کے تتبع سے تمہیں کچھ بھی ہاتھ نہیں آئے گا سوائے دھو کے اور فریب کے ، سوائے اس کے کہ تم حسرت کے ساتھ جان دو اور دوبارہ واپس اس دُنیا میں لوٹنے کی کوشش کرو کہ کاش ہم اس رستہ پر صیح طریق پر اپنی حفاظت کرتے ہوئے چلتے اور شیطان کے دھوکے میں نہ آتے.یہ حق ہے.جب اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے یہ میرا وعدہ حق ہے، یہ حق ہے ایسا ہی ہوگا جو چاہو کرتے پھر تم اس انجام سے بچ نہیں سکتے کہ شیطان جس کو تم نے دوست بنالیا جس کی باتیں مان لیں وہ دھو کے باز ہے اور دھو کے باز ایسا جو تمہارا دشمن، تمہارے حق میں دھوکا نہیں کرے گا ہمیشہ تمہارے خلاف دھوکا کرے گا.یہ زندگی کا خلاصہ ہے اور اس خلاصہ کو ہم ہمیشہ بھول جاتے ہیں.یہ ہمارا پہلا سبق ہے جو جب سے زندگی بنی اور مکمل ہوئی اور جب سے مذہب کا آغاز ہوا اس وقت سے یہی وہ رستہ ہے جو ہمیشہ سے چل رہا ہے.ہمارے آباؤ اجداد ، ان کے آباؤ اجداد ، ان کے آباؤ اجداد سب اسی رستہ پر چلے ہیں اور الا ماشاء اللہ سب نے دھوکا کھایا ہے.ایک بات میں پہلے
خطبات طاہر جلد 17 79 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء بھی سمجھا چکا ہوں.شیطان کا یہ کہنا کہ تیرے بندے ضرور ناشکرے ہوں گے یہ جھوٹ نکلا کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے!.میرے بندے تو کسی حال میں ناشکرے نہیں ہوں گے تو جو چاہتا ہے کر.اپنے گھوڑے دوڑا دے ان کے او پر لیکن اس وہم میں مبتلا نہ ہو کہ جو میرے بندے ہیں وہ کسی طرح تمہارے قریب میں آئیں گے.وہ قیامت تک تم سے محفوظ رکھے جائیں گے اور میرے بندوں کے طور پر جانیں دیں گے، تمہارے بندے کے طور پر نہیں.پس شیطان کی باتوں میں ایک فریب ہے.اس دعوی میں بھی ایک فریب ہے کہ تیرے بندے ناشکرے ہوں گے.خدا کے بندے تو ایسے شکر گزار ہوتے ہیں کہ کسی ابتلا میں بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے وہ باز نہیں آتے.اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس کی مثالیں بہت سی دی ہیں ایک حضرت ایوب کی مثال ہے.اتنی سخت آزمائشوں میں مبتلا کئے گئے کہ لوگ، ان کے عزیز واقارب، کہا جاتا ہے کہ گندگی کے ڈھیر پر ایسے ناسوروں کے ساتھ جسم کو چھیدا ہوا چھوڑ گئے جن میں کیڑے چل رہے تھے لیکن ایوب نے ناشکری نہیں کی.اسی حالت میں مسلسل خدا کا شکر ادا کرتارہا.آخر میں تیرا بندہ ہوں، شیطان نے مجھ پر آزمائش ڈالی ہے جو چاہے کر لے میں تیرا بندہ رہوں گا، تیرا ہی رہوں گا.اس کی ایسی جزا خدا نے دی کہ وہ سب کچھ جو چھوڑ کر چلے گئے تھے وہ واپس لوٹے ،صحت بحال ہوئی.وہ مملکت عطا ہوئی اور ہمیشہ ہمیش کے لئے قرآن میں آپ کا ذکر محفوظ کر دیا گیا.تو ایک ایوب ہی اپنی تفصیلات کے ساتھ ، جو اس کی زندگی میں تفصیلات اس کے صبر کی ہمیں دکھائی دیتی ہیں ان پر ہی غور کر لیں تو شیطان کا یہ وعدہ جھوٹا نکلتا ہے.مگر خدا کا بندہ بننا پڑے گا اور یہ ہو نہیں سکتا کہ خدا کا بندہ بنے اور شیطان کو سجدے کرے.یہاں یہ مضمون الٹ جاتا ہے.شیطان نے خدا کے بندے کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا تھا اور وہ لوگ جو بنی نوع انسان کہلاتے ہیں وہ شیطان کو سجدے کرنے لگ گئے اور اسی میں شیطان کا تکبر ہے لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندے نہیں یہ تو تیرے بندے ہیں جس کو سجدہ کرتے ہیں اُس کے بندے ہیں.پس یہ مضمون ایسا ہے جس کو خوب کھول کر اپنے ذہنوں میں حاضر کر لیں کیونکہ اسی میں ہماری آزمائش ہے اور اس آزمائش پر پورا اُترنے کا راز بھی ہمیں سکھا دیا گیا ہے.وہ راز یہ ہے کہ اللہ کی طرف جھکیں اور خدا سے مدد چاہیں.چنانچہ وہی آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی ان میں آدم اور حوا کی ایک یہ التجا ہے ربنا ظلمنا
خطبات طاہر جلد 17 80 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء انْفُسَنَا جب بھی شیطان نے کوئی دکھ پہنچایا، یا ان کے تعلق میں شیطان نے جو دھوکا دے دیا تو یہ عرض کرتے ہیں خدا سے اور یہ دعا خدا کی سکھائی ہوئی ہے اپنے طور پر ان کو نہیں آئی رَبَّنَا ظَلَمْنَا انْفُسَنَا اے ہمارے رب ! ہم نے اپنے آپ پر ظلم کیا.پس پہلے دن جو شیطان سے بچنے کا راز تھا یا اگر نہ بچ سکے اور شیطان سے کوئی زخم لگ گئے تو ان کو مرہم لگانے کا جو طریقہ خدا نے سکھایا ہے وہ یہ دعا ہے : رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے.وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وترحمنا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہماری حالت پر رحم نہیں فرمائے گا.لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ تو ہم ضرور گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جا ئیں گے.پس یہی دعا آج بھی ہمارے لئے شیطان سے بچنے یا شیطان کے زخموں سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے ان کی شفا کی غرض سے ہمارے کام آسکتی ہے.اس پر غور کریں اور اس پر غور کرنے سے پہلے یہ تو بہ ضروری ہے کہ اے خدا ہم نے پہچان لیا ہے کون ہمارا دشمن ہے اس دشمن سے اب ہم تیری پناہ میں آتے ہیں.جو گزر گیا سو گزر گیا.جو زخم اس نے لگا دئے سولگ گئے لیکن اب ہماری دعا ہے، یہ التجا ہے کہ پہلوں کو تو بھول جا آئندہ کے لئے ہمیں توفیق بخش کہ ہم دوبارہ پھر اس شیطان کے قبضہ میں نہ آئیں.یہ ارادہ جو بہت قوت چاہتا ہے، جو قوت ارادی کا تقاضا کرتا ہے.اگر قوت ارادی نہ ہو اور انسان بار بار ٹھو کر کھائے تو پھر بعید نہیں کہ ایسی حالت میں وہ جان دے جس حالت میں شیطان کا اس پر قبضہ ہو.یہ وہ امور ہیں جن سے متعلق میں جماعت کو بار بار تنبیہ کر رہا ہوں اور جانتا ہوں کہ اللہ کی مدد کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم شیطان کے حملوں سے بچ سکیں.وہ ہمارے سامنے سے بھی آئے گا، پیچھے سے بھی آئے گا، مذہب پر بھی حملہ آور ہوگا، دنیا پر بھی حملہ آور ہو گا ہر پہلو سے ہم آزمائے جائیں گے اور اس سے زیادہ مکروہ چیز نہیں ہوسکتی کہ خدا نے پیدا کیا ہو اور بندے شیطان کے ہوجائیں.اس شیطان کے بندے ہوں جس نے خدا کے بندہ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا.اس شیطان کو سجدہ کریں جو خدا کا منکر ہو چکا ہو یا منکر نہیں تو خدا کا باغی ہو گیا ہو.نہایت مکروہ چیز ہے اگر آپ اس کو سمجھ لیں اور یہ سادہ سا سبق انسان سمجھ نہیں رہا یہ مشکل ہے.جب بھی آپ یہ باتیں سن کر واپس گھروں کو لوٹیں گے تو وہی زندگی پھر دوبارہ شروع ہو جائے گی.قدم قدم پر شیطان ضر ور حملہ آور ہوگا ، قدم قدم پر آپ کے لئے ٹھوکروں کے سامان ہوں گے اور قدم قدم پر انسان اس
خطبات طاہر جلد 17 81 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء شعور کے بغیر کہ وہ کیا کر رہا ہے خدا کی بجائے شیطان کو سجدے کرے گا.یہ ساری زندگی کی ناکامی کا راز ہے.اپنے نفسوں کا مطالعہ خود کر کے دیکھیں اپنے حالات پر خود غور کریں.اپنے بیوی بچوں سے سلوک، اپنے بڑوں سے، اپنے چھوٹوں سے، اپنے ہمسایوں سے، اقتصادی معاملات میں جن سے آپ معاملہ کرتے ہیں ان سب سے جو سلوک کرتے ہیں ان کا ایک ایک کا میں ذکر پہلے کر چکا ہوں کہ کس تفصیل سے آپ کو غور کرنے کی عادت ڈالنی چاہئے.ان باتوں کو اس تفصیل سے میں نہیں دو ہزار ہا لیکن ان باتوں کا بار بار ذکر کرنا میرے لئے از بس ضروری ہے.یہ ہو نہیں سکتا کہ اس ذکر کو میں کبھی چھوڑ دوں کیونکہ جب بھی میں نے یہ ذکر چھوڑا میں اپنے فرض منصبی کو ادا نہ کرنے والا ہوں گا.یہ زندگی کا ساتھ ہے کیونکہ إلی يَوْمِ يُبْعَثُونَ کو یہی کہانی دو ہرائی جانے والی ہے.آخر آدم سے لے کر قیامت تک جو کہانی دوہرائی جارہی ہے اس کا ذکر ایک دو دفعہ کے بعد کیسے چھوڑا جا سکتا ہے.ضرورت نہ ہوتی تو اس تفصیل سے قرآن کریم بیان نہ کرتا.پس آپ یا درکھیں کہ ہر دفعہ جب میں نے اپنے خطبات میں ایسی باتیں کہیں تو اپنے نفس پر غور کر کے دیکھیں ایک دو تین دن تک، چند دن تک آپ کے دل پر اثر رہا اور آپ نے سوچا کہ ہاں یہ غلطی ہو گئی تھی اور اس کے بعد جو چیزیں بری ہیں ان میں ہی آپ ان چیزوں کا حسن دیکھنے لگ گئے.انانیت نے اکثر انسانوں پر قبضہ کر لیا.جب میں آپ کہتا ہوں تو مراد یہ ہے کہ عام طور پر یہی ہوتا ہے اور یہی جماعت کے افراد سے بھی ہوتا چلا آیا ہے کچھ کم کچھ زیادہ ، کچھ اور زیادہ خدا کی راہ سے ہٹ کر غیر اللہ کی راہ اختیار کر لیتے ہیں.اب یہ زندگی جو صراط مستقیم کی زندگی ہے ایک تو ابتلاؤں کی زندگی ہے دوسرے ے مشکل بہت ہے کیونکہ قرآن کریم فرما رہا ہے شیطان جب تمہیں بہکاتا ہے تو حسین نظارے دکھا کے بہکاتا ہے.اب حسین نظارے دیکھنا اور ان کی طرف متوجہ نہ ہونا بڑا مشکل کام ہے.ہر آزمائش کے وقت آپ کو ایک بہت خوبصورت چیز دکھائی جاتی ہے اور انسانی نفس لا زم ہے کہ دھوکا کھا جائے کیونکہ نفس انسانی میں حسین چیزوں کی پیروی رکھ دی گئی ہے.ایک ہی صورت ہے جو انبیاء نے اختیار کی کہ ان چیزوں کا حسن دیکھنے کی بجائے ان کی بدی ان کو دکھائی جانے لگی ہے.جیسے کہانیوں میں شیطان ایک بوڑھی عورت دکھائی جاتی ہے کہ جادو کی وجہ سے وہ خوبصورت دکھائی جارہی تھی لیکن جس کو خدا تعالیٰ نے بچانا ہے اس کو جیسے کہانیوں میں بیان کیا گیا ہے، وہ خدا تعالیٰ کی.
خطبات طاہر جلد 17 82 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء طرف تو اشارہ نہیں مگر اس مضمون کو اس طرح لیتا ہوں کہ جس کو بھی اللہ نے بچانا چاہا اس کو اس بڑھیا کی اصل صورت دکھائی گئی اور اتنی مکروہ صورت اور اتنی لمبی عمر کی بڑھیا ہے کہ کوئی اس سے عشق لڑائے ! سوائے پاگل کے بچے کے ہو ہی نہیں سکتا اور سارے پاگل اور پاگل کے بچے بن جاتے ہیں جب شیطان ان کو دھوکا دے کر اس بڑھیا کو خوبصورت کر کے دکھاتا ہے.اس بڑھیا کی طرف میرا خیال اس لئے نہیں کہ میرے نزدیک وہ کہانیاں آپ کی راہنمائی کر رہی ہیں ، اس لئے کہ قرآن کریم ایسی ہی بات کر رہا ہے.یعنی آنحضرت صلی یتیم کے معراج کی بات کر رہا ہے اور اس کی تفصیل میں جا کر دیکھیں تو دنیا رسول اللہ صلی له ای تم کو بالکل صاف اور بڑھیا کی شکل میں دکھائی جا رہی تھی.قدیم سے چلی ہوئی انتہائی منحوس پنجر تھا ایک اور وہ رسول اللہ الیہ السلام کی آزمائش کے لئے نکلی تھی.آپ صلی ا یہ تم دیکھ رہے تھے.کون ہے جو ایک منحوس چیز کو دیکھ کر، اس کو پہچان کر ، جان کے کہ یہ ہمیشہ سے اسی طرح چلی آئی ہے اور سوائے کراہت کے اس سے اور کچھ نہیں ہوسکتا وہ آزمائش کے لئے نکلی ہے تو لازم بات ہے کہ محمد رسول اللہ لی یہ کہ ہم اس کے جال میں پھنس نہیں سکتے تھے.ناممکن تھا کہ آپ صلی می ایستم ذرا بھی دھوکا کھائیں.غرور کے دھوکا کا علاج یہ ہے کہ اس دھوکا کو پہچان لیں تو رفتہ رفتہ اس کا حسن زائل ہونا شروع ہو جائے گا اور اندر سے ایک بھیانک چیز ، قابل نفرت چیز ، خوفزدہ کرنے والی چیز نمایاں ہونے لگ جائے گی.اگر دیکھتے دیکھتے کسی خوبصورت وجود کا فیچر ، اس کے جو اعضا اس کے خدوخال ہیں وہ بگڑنے لگیں اور بکھرنے لگیں اور اس خوبصورت وجود سے ایک نہایت بھیانک وجود پیدا ہونا شروع ہو جائے تو آپ کا کیا رد عمل ہوگا.اگر پہلے آپ اس کو گلے سے لگائے ہوئے ہوں گے تو اچانک دھگا دے کر اس کو پرے پھینکیں گے.اوخبیث چیز تو میرے ساتھ چمٹی ہوئی تھی.اناللہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُون.آپ تو جوتیوں کی ٹھوکر مار کے اس کو دفع کریں گے اور دل متلانے لگے گا.جو آپ نے بظاہر مزے لوٹے تھے وہ سارے مزے آپ کے دل میں متلی پیدا کر دیں گے اور بعض لوگوں کو اگر ایسا نظارہ دکھایا جائے تو خواب میں بھی قے آنے لگتی ہے.آپ کو واقعی اپنی زندگی میں ان چیزوں سے قے آئے گی جن چیزوں کی اصلیت آپ کو دکھائی جائے گی اور یہ جو سلسلہ ہے اصلیت دکھانے کا یہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں ہے.اس لئے اس میں شک نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو یہ فرمایا ہے کہ شیطان
خطبات طاہر جلد 17 83 خطبہ جمعہ 6 فروری 1998ء کا دھوکا حق ہے اس میں ایک ذرہ بھی شک کی گنجائش نہیں.اللہ حق بات کہہ رہا ہے کہ شیطان کی ساری زندگی، اس کی ساری کوششیں جو قیامت تک کے لئے اس کو مہلت ملی ہے دھوکا دینے کے سوا اور کسی چیز میں صرف نہیں ہوگی.پس اے میرے بندو! دھوکا نہ کھانا.اس سے بڑی تنبیہہ اور ایسی سخت تنبیہہ اور ایسی بار بار تنبیہہ کسی اور کتاب میں نکال کے دکھا ئیں.کسی اور رسول کی زندگی میں آپ یہ تنبیہات اور تنبیہات بھی ایسی جود نیا کی زندگی کو انتہائی مکروہ کر کے دکھانے والی ہیں یہ نکال کے دکھا ئیں.آپ کو کہیں نہیں ملیں گی اور اس کے باوجود وہ امت جو آنحضرت صلی اینم کی طرف منسوب ہو رہی ہے اسی طرح شیطان کے دھوکا میں مبتلا ہے اور پہلی امتوں سے بڑھ کر خدا کی عقوبت کے نیچے آئے گی کیونکہ ان کومحمد رسول اللہ صلی یا سیستم نصیب نہیں ہوئے تھے ، ان کو قرآن نصیب نہیں ہوا تھا.جب اُمت کو محمد رسول اللہ صلی شما یہ تم نصیب ہو گئے ، جس کو قرآن نصیب ہوا اور جس کے لئے اس کی ساری زندگی کے دھو کے کھول کر دکھا دئے گئے اگر وہ پھر بار بار کی ٹھوکر میں مبتلا ہوتی ہے تو اس سے زیادہ بدنصیب کوئی اُمت نہیں ہوسکتی اور ان ٹھوکروں میں مبتلا کرنے والوں کے لئے آنحضرت صلی السلام نے بعینہ یہی الفاظ استعمال فرمائے ہیں، میں تمہیں انسانوں میں سے کہہ رہا ہوں کہ یہ سب سے بدنصیب ہو جائیں گے.آنحضرت صلی الہ السلام فرماتے ہیں: شَرٌّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ“ (شعب الأيمان للبيهقى، باب فى نشر العلم ، حدیث نمبر : 1763) انسان تو انسان ، یہ جانوروں سے بندروں سے ہمکر وہ چیزوں سے، سب سے زیادہ بدتر ہوں گے.وہ ان تنبیہات کے باوجود خود بھی راہ حق سے بھٹک جائیں گے اور لوگوں کو بھی شیطان کے چیلے بن کر راہ حق سے بھٹکانے والے بن جائیں گے.تو حِزبہ میں جس جزب کی طرف اشارہ آیا ہے وہ یہ لوگ ہیں شیطان اور اس کے ساتھی جو غرور یعنی دھوکا دینے میں الغرور ثابت ہوتے ہیں یعنی بہت بڑے دھو کے باز.وہ شیطان اکیلا نہیں بلکہ اس کا حزب بھی ہے اور اس حزب کے متعلق آنحضرت سلیا کی تم فرما رہے ہیں کہ وہ دین کا لبادہ اوڑھ کر تم پر حملہ آور ہوں گے.بڑے بڑے چغے پہنے ہوئے اور دیں گے دھوکا اور فریب.ان کی بات میں جھوٹ ہوتا ہے.جو سچ بولنا نہیں جانتا، جس کو دن رات جھوٹ کی عادت ہے وہ حق کا بندہ کیسے ہو سکتا ہے.اس لئے لفظ حق کو اچھی طرح پکڑ کے بیٹھ جائیں.
خطبات طاہر جلد 17 84 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء اللہ حق ہے اور اللہ کا بیان فرمودہ سارا تذکرہ حق ہے.ماضی کا تذکرہ بھی حق ہے اور مستقبل کا تذکرہ بھی حق ہے اور جو لوگ اس حق کو چھوڑ دیتے ہیں ان کا دعویٰ کہ وہ مذہبی راہنما ہیں یا اپنی قوم کی ہدایت کے لئے آئے ہیں سراسر ، سر سے پاؤں تک جھوٹ ہے اور اس میں وہ پہچانے جاسکتے ہیں.اس لئے شیطان جو دھوکہ دیتا ہے یہ نہیں کہ پہچانا نہیں جا سکتا اگر انسان انصاف پر قائم ہوجائے اور حق کو پکڑ لے تو اس کو روز مرہ کی زندگی میں اپنے علماء میں سے سخت دھو کے باز اور حق کو چھپانے والے دکھائی دینے لگ جائیں گے.جب بھی ان کے مقصد، ان کے مطلب کے خلاف بات ہو وہ اس خلاف بات کی مخالفت کرتے ہیں قطع نظر اس کے کہ وہ بات حق ہو اور جب بھی ان کے مقصد کے حق میں کوئی بات کرے جس کو وہ اپنے مقصد کے حق میں سمجھتے ہوں اس پر راضی ہو جاتے ہیں خواہ کتنی بڑی جھوٹی اور شیطانی بات ہو اس کو سینہ سے لگالیتے ہیں.یہ ان کی کھلی کھلی پہچان ہے.میں صرف پاکستان کا تذکرہ نہیں کر رہا، بنگلہ دیش میں بھی ، ہندوستان میں بھی ، دوسرے سب ملکوں میں سارے مذہبی راہنما سوائے احمدیت کے اس شکل میں آپ کے سامنے کھل کر ظاہر ہو جاتے ہیں کہ اپنے مقاصد ، اپنی خواہشات، اپنی نفسانیت کی پیروی کریں گے.جہاں اس کے مخالف کوئی بات ہوئی اس کو چھوڑ دیں گے اور بنی نوع انسان کی بھلائی ان کے پیش نظر ہے ہی نہیں اپنی بڑائی ان کے پیش نظر ہے اور وہی بڑائی ہے جو ان کی راہنمائی کرتی ہے.وہی بڑائی ہے جس کو شیطان کی انا کہا جاتا ہے.وہی بڑائی ہے جس سے انسان کی بے راہ روی کا آغاز ہوا ہے.پس ان ساری باتوں کو کھول کھول کر آپ کے سامنے بیان کرنا میرا فرض تھا، فرض ہے اور فرض رہے گا اور وقتاً فوقتاً میں اس مضمون کو پھر اٹھاتا رہوں گا.ایک اور قرآن کریم کی تنبیہہ سورۃ بنی اسرائیل آیت 54 میں یوں ہے: وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ میرے بندوں سے کہہ دے کہ اچھی بات کیا کریں اور صرف اچھی بات نہیں جو سب سے اچھی بات ہو.اپنا شیوہ بنالیں کہ ایسی بات کریں کہ اس سے اچھی بات ہو نہ سکتی ہو یعنی بہترین بات کیا کریں.اِنَّ الشَّيْطَنَ يَنْزَعُ بَيْنَهُم کیونکہ شیطان تو اس انتظار میں بیٹھا ہے کہ ان کے درمیان تفریق پیدا کر دے اور ہر تفریق بری بات سے پیدا ہوتی ہے.اچھی بات سے کبھی بھی تفریق نہیں ہوتی.ساری جماعتوں میں جہاں بھی جھگڑے چلے ہیں ان پر میں غور کر کے، اپنی نظر میں رکھ کر آپ کو بتا رہا ہوں کہ سارے جھگڑے بری باتوں سے ہوتے ہیں.اچھی بات کہنے
خطبات طاہر جلد 17 85 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء پر کبھی کوئی جھگڑا نہیں ہوا.اِنَّ الشَّيْطَنَ كَانَ لِلْإِنْسَانِ عَدُوا مبینا میرے بندوں کو بتادے یعنی یاد کرا دے کہ شیطان تو میرے بندوں کا کھلا کھلا دشمن ہے.اتنی تنبیہات کے باوجود پھر اس کی باتوں میں آجائیں گے.یہ بات کی جو بات چلی تھی کہ بہت اچھی بات کیا کریں.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں جہاں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے.فرماتے ہیں: ہر ایک بات کہنے سے پہلے سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.“ یہ ایک عمدہ طریق ہے جس پر عمل کرنے سے آپ کو کچھ غور کا موقع مل جائے گا.انسان جب بھی اپنے مطلب کے خلاف کوئی واقعہ دیکھتا ہے یا اپنی خواہش کے خلاف کسی اپنے عزیز کو چلتے ہوئے دیکھتا ہے بسا اوقات وہ عزیز اس کی خواہش کے خلاف چل رہا ہوتا ہے مگر راہ حق کے خلاف نہیں چل رہا ہوتا.یہ بار یک باتیں ہیں جو آپ اپنی زندگی پر غور کریں تو آپ کو دکھائی دینے لگ جائیں گی.اگر اپنی انا کی خاطر بات کرتا ہے تو اپنے بیٹے سے کرے یا بیٹی سے، بیوی سے کرے یا بیوی اپنے خاوند سے کرے ہمیشہ یہ بات غلط ہوگی اچھی نہیں ہوگی.چنانچہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ایک حل یہ بیان فرمایا ہے کہ عادت ڈالو کہ بات کرنے سے پہلے ذرا ٹھہر جایا کرو.روز مرہ کی عام گفتگو مراد نہیں ہے.ورنہ ہر کلمہ پر ٹھہر نا پڑے گا.عام گفتگو، دیکھ بھال، آج آپ نے کیا کیا، آج میں نے کیا کیا ، اس قسم کی چیزیں تو گھروں میں چلتی رہتی ہیں مراد ہے کہ جب کوئی ایسی بات کہنے لگو جس میں تمہارے نفس نے جوش پیدا کر دیا ہے اس وقت ذرا ٹھہر جایا کرو.66 سوچ لو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا.اللہ تعالیٰ کی اجازت اس کے کہنے میں کہاں تک ہے.“ یعنی ایسے معاملات کو اللہ کی طرف لوٹا ؤ اور اپنے ذہن میں سوچو کہ میں یہ جو بات کہنے لگا ہوں یہ اللہ کو پسند آئے گی ، اس بات کے اندر کوئی فریب تو نہیں آگیا اور اگر ہلکا سا بھی فریب ہو تو وہ حق کے خلاف ہوگی اور غرور یعنی سب سے بڑے دھو کے باز کو پسند آئے گی.تو باتوں کو سوچ کے ان کو پہچاننا، یہ ایک ایسا آسان طریق حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بیان فرما دیا ہے یعنی جو آسان بھی ہے مشکل بھی.مشکل اس لئے کہ اس پر عمل کرنا اور ایسی بات سے رک جانا یہ اسی کے لئے مقدر ہوسکتا ہے جو صاحب توفیق ہو، جس کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے اس لئے ہر موقع پر میں دعا کی طرف متوجہ کرتا ہوں
خطبات طاہر جلد 17 86 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء مگر ایسا بندہ جو واقعی برائی سے بچنا چاہے اور وہ دن رات دعائیں کرتا رہتا ہو، ہر وقت ذکر الہی میں مصروف رہے یا دوسری باتوں میں بھی مصروف ہو تو اس کا دل ہمیشہ یہ چاہے کہ اے اللہ میری نصرت فرما، اے اللہ میری مدد فرما، اے اللہ مجھے سچی بات کہنے کی توفیق بخش ،اے اللہ تعالیٰ مجھے بری باتوں سے بچا.اس قسم کی دعائیں کرتارہتا ہے وہ جب بھی ٹھہر کر سوچے گا اس کو حق صاف دکھائی دے دے گا.یہ بات میں اس غرض سے کرنے لگا تھا ، اس بات میں دکھاوا تھا، اس بات میں فریب تھا، اس بات میں یہ برائی تھی یا وہ برائی تھی یہ ساری چیزیں آپ کو کچھ ٹھہرنے کے بعد رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگیں گی جیسے اندھیرے کمرے کی چیزیں ایک دم صاف دکھائی نہیں دیا کرتیں.آپ اندر جا کر بیٹھیں تو تھوڑی دیر کے بعد سب کچھ دکھائی دینے لگ جاتا ہے.اسی لئے شیطان سے بچنے کا یہ طریق ہے.وہ آپ کو ظلمات میں گھسیٹتا ہے ، اندھیروں میں گھسیٹتا ہے اور جلدی فیصلہ چاہتا ہے.اگر آپ ان اندھیروں میں جلدی میں کوئی فیصلہ کریں گے تو ہر گز بعید نہیں کہ آپ بار بار ٹھوکریں کھائیں گے اور اپنے نقصان کا موجب بنیں گے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس نفسیاتی نکتہ کو پیش نظر رکھتے ہوئے فرما رہے ہیں کہ جب بھی کوئی ایسا معاملہ ہو کہ تمہارے دل میں ایک جوش ہو کسی بات کے کرنے کا تو اچانک دل اس بات کی طرف متوجہ ہو کہ میں کچھ بات کہہ کے یا اپنا بدلہ لوں یا کچھ بھی نیت ہو اس وقت تمہیں وہ بات اچھی لگے گی لیکن ذرا ٹھہر جاؤ گے تو اس اندھیرے میں سے تمہیں شیطان کی ساری حرکتیں دکھائی دینے لگ جائیں گی اور اسی بات پر استغفار شروع کر دو گے.پس اللہ کے حوالہ کیا کرو بات کو اور انتظار کیا کرو کہ اللہ تعالیٰ تمہیں روشنی عطا فرما دے اور تم اندھیروں کی ٹھوکروں سے بچ سکو.یہ خلاصہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نصیحت کا.اس کی تفصیل میں بیان فرماتے ہیں: جب تک یہ نہ سوچ لومت بولو.ایسے بولنے سے جو شرارت کا باعث اور فساد کا موجب ہو ، نہ بولنا بہتر ہے.یہ جو شرارت یا فساد کا موجب ہوؤ فرمایا ہے.صاف پتا چلا کہ عام بول چال کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام بات ہی نہیں کر رہے.ان حالتوں کی بات کر رہے ہیں جن میں انسان نفس کا مغلوب ہوتا ہے اور ویسی باتیں اس وقت اگر کی جائیں جو دل میں خود بخو داٹھتی ہیں تو وہ لازماً فساد کا موجب ہوں گی
خطبات طاہر جلد 17 87 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء اس سے نہ بولنا بہتر ہے لیکن کہاں بولنا ہے کہاں نہیں بولنا اس مضمون کو بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بڑی وضاحت سے سمجھا رہے ہیں ورنہ محض بولنے سے پر ہیز سے آپ کا مقصد حل نہیں ہوگا یعنی وہ مقصد حل نہیں ہوگا جو خدا تعالیٰ نے آپ پر عائد فرمایا ہے.اس کے متعلق نیکی کی تعلیم دینا اور بدی سے روکنا یہ حکم ہے جو قرآن کریم نے بار بار دیا ہے اور یہی وہ حکم ہے جس کی تفصیل حضرت رسول اللہ صلی و ایم نے بار بار بیان فرمائی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ بات کھول رہے ہیں کہ کسی بات سے رکنا کہ فساد نہ ہو ہرگز یہ مراد نہیں کہ اچھی بات جو تم سمجھتے ہو کہ ہونی چاہئے اس لئے اس سے رک جاؤ کہ فساد نہ ہو یا بری بات جس سے روکنا تم ضروری سمجھتے ہو اس سے نہ روکو تو یہ بھی اللہ کے منشا کے خلاف ہے اور جو مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے وہ اس بات کو خوب واضح کرتی ہے.اندھیرے کمرے میں ایک شخص بیٹھا ہو اس کو سب کچھ دکھائی دے رہا ہو.جب تک دکھائی نہ دے اس نے کوئی حرکت نہیں کی تاکہ ٹھوکر نہ کھا جائے جب نظر آنے لگ گیا تو اس کو صاف پتا چل گیا کہ یہاں میز پڑی ہے، یہاں فلاں چیز پڑی ہے، یہاں یہ نقصان ہو سکتا ہے، یہاں چھری پڑی ہے، یہ کیل پڑا ہے اس پر پاؤں آسکتا ہے وغیرہ وغیرہ بعض دفعہ شیشہ کے ٹکڑے بکھرے ہوئے ہوتے ہیں تو اگر اس نے دیکھ لیا اور پھر بیچ کے نکل گیا.اتنے میں اس کا کوئی بچہ ایک دم داخل ہوتا ہے تو کیا وہ رک جائے گا اس بات سے کہ اس کو بتائے کہ یہ کام نہیں کرنا.ہرگز نہیں رکے گا.اس وجہ سے کہ وہ کہے گا کہ کیا مجھے روک رہے ہیں کیوں خواہ مخواہ مجھے پر بار بار پابندیاں لگاتے ہیں یہ کرو، یہ نہ کرو، ہر گز نہیں رکے گا.وہ اس کو کہے گا دیکھو بیٹا ٹھہرو، ٹھہرو ٹھہرو.ذرا سوچ کر قدم اٹھاؤ اس کمرے میں یہ بھی خطرہ ہے، یہ بھی خطرہ ہے، وہ بھی خطرہ ہے اور اگر تم ذرا ٹھہر جاؤ گے تو تمہیں یہ خطرات دکھائی دینے لگ جائیں گے مگر جب تک دکھائی نہیں دیتے میرا فرض ہے کہ میں تمہیں اپنی آنکھوں سے دکھاؤں.یہ نہی عن المنکر ہے یعنی نا پسندیدہ چیزوں سے روک دینا.اس پر اگر کوئی غصہ کرے تو اس کے باوجو در وکنا ہے صرف یہ تاکید ہے کہ حسن کلام سے کام لو.جیسا کہ قول کے متعلق فرمایا اسی کی تشریح میں کر رہا ہوں کہ جب بات کرنا احسن طریق پر کیا کرنا مگر بعض دفعہ بات کرنا ضروری ہوگا.اگر تم دلکش انداز میں وہ بات کہو اور بھونڈے طریقہ سے نہ کہو تو پھر تم اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہو.
خطبات طاہر جلد 17 88 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء پس آپ نے دوسروں کو رستہ دکھانا ضرور ہے اس سے رکنا آپ کے اختیار ہی میں نہیں ہے.بری باتوں سے روکنا بھی لازم ہے اچھی باتوں کی طرف بلانا بھی لازم ہے اس سے انحراف ہوسکتا ہی نہیں.اگر آپ رسول اللہ صلی السلام کے غلام ہیں کیونکہ آپ صلی یا یہ تم کو خدا کا یہی حکم تھا کہ تم نے ضرور کہنا ہے خواہ کوئی قبول کرے یا نہ کرے خواہ غصہ کرے یا نہ کرے مگر بات کا انداز ایسا ہو کہ اس سے اچھا انداز ممکن ہی نہ ہو.یہ طریق کار حضرت اقدس محمد رسول اللہ صل للہ یہ تم نے ہمیں سکھایا اور یہ جوتحریر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پڑھ رہا ہوں اس میں آگے چل کر یہی مضمون آنے والا ہے.دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کتنی باریکی سے ان راہوں کے خموں کو جانتے تھے، جانتے تھے کہ کہاں ٹھوکر کھائی جاسکتی ہے ان کے خطرات سے آگاہ تھے اور اپنی روشنی ہمیشہ آنحضرت صلی نیستم سے لیا کرتے تھے.اپنے لئے کوئی نئی روشنی کبھی نہیں آپ نے بنائی.ہمیشہ رسول اللہ سی ایم کے اسوہ حسنہ پر چلے اور آپ مسلہ یہی تم ہی سے سیکھا کیا بتانا ہے کیا نہیں بتانا، کہاں بولنا ہے کہاں نہیں بولنا اور جب بولنا ہے تو بولنے کا طریق کیا ہونا چاہئے.دو لیکن یہ بھی مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رکے.“ مومن کی شان سے بعید ہے یہ بات سن کر یہ نہ سمجھیں کہ ہر بات حق سمجھ کر اس طرح بھونڈے انداز میں کریں کہ وہ فساد کا موجب بن جائے.حق بیان کرنے کا بھی ایک طریقہ ہوا کرتا ہے حق تو بیان کرنا ہے مگر ایسے رنگ میں بیان کرنا ہے کہ وہ احسن ہو.اس ذکر میں فرماتے ہیں: ” مومن کی شان سے بعید ہے کہ امر حق کے اظہار میں رکے اس وقت کسی ملامت کرنے والے کی ملامت اور خوف زبان کو نہ روکے.“ کوئی بیوقوف اس کا غلط معنی بھی لے سکتا تھا اس لئے رسول اللہ صلی یتیم کی مثال دے کر آپ نے اس کو اتنا کھول دیا کہ اس کے غلط معنی لینے کا کوئی امکان ہی کوئی احتمال ہی باقی نہیں رہا.”دیکھو ہمارے نبی کریم صلی کیا یہی تم نے جب اپنی نبوت کا اعلان کیا تو اپنے پرائے سب کے سب دشمن ہو گئے مگر آپ نے ایک دم بھر کے لئے کبھی کسی کی پروا نہیں کی.“ اپنے پرائے سارے دشمن ہو گئے مگر ایک دم بھر کے لئے کسی کی پرواہ نہیں کی.ایک واقعہ آپ رسول اللہ صلی ایتم کی زندگی سے ایسا نہیں نکال سکتے کہ آپ صلی ا یتیم کی بات کرنے کی طرز نعوذ باللہ
خطبات طاہر جلد 17 89 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء من ذالك ٹیڑھی تھی یا غصہ دلانے والی تھی اس لئے جو اپنے پرائے تھے وہ دشمن ہو گئے.حق سے باز نہیں آئے.حق بات کہنے سے باز نہیں آئے لیکن جب بھی حق بات کہی تو انتہائی خوبصورت تھی ، احسن قول تھی.چنانچہ تبلیغ میں خدا تعالیٰ نے فرمایا ایسی بات کرو.بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (الانعام: 153) کہ تمہاری وجہ سے کوئی ٹھو کر نہ کھائے بات کا حسن کھول کر بیان کر و.پس حضرت اقدس محمد مصطفی سالی کا یہ تم کی تبلیغ میں ساری زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ آپ بیان نہیں کر سکتے جس میں آپ سی ایم کے طرز بیان کی وجہ سے تلخی ہوئی ہو.حق بات ہمیشہ کہی مگر بہت ہی پیارے اور نرم انداز میں.آپ نے ایک دم بھر کے لئے کبھی کسی کی پرواہ نہیں کی یہاں تک کہ جب ابوطالب آپ کے چانے لوگوں کی شکایتوں سے تنگ آکر کہا.اس وقت بھی آپ نے صاف طور پر کہہ دیا کہ میں اس کے اظہار سے نہیں رک سکتا.آپ کا اختیار ہے، میراساتھ دیں 66 یا نہ دیں." الحکم جلد 5 نمبر 11 ، صفحہ: 4 مؤرخہ 25 مارچ 1901ء) اس سارے دور میں جب تک ابو طالب نے یہ بات نہیں کی صاف ظاہر ہورہا ہے کہ رسول اللہ صلی می ایستم توحید کا اظہار اس طرح فرماتے تھے کہ ابو طالب کے لئے بھی کوئی گنجائش نہیں تھی، جائز وجہ نہیں تھی کہ آپ صلی ا یہ تم کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں.جب آخر اس نے محسوس کیا کہ قوم میری مخالف ہو رہی ہے اور مجھے ضرور محمد الیا کہ تم کو اس طریق سے باز رکھنا ہے تو اس وقت آپ صلی لا پیام فرماتے ہیں کہ یہ خیال دل سے نکال دو کہ تمہاری وجہ سے میں حق پر قائم ہوں، تمہاری وجہ سے مجھے میرے دشمنوں سے حفاظت حاصل ہے.میں تو یہ بات ضرور کہوں گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ اس بات کے اظہار سے رک جاؤں اس لئے اپنی امان اگر اٹھانی ہے تو اٹھا لو پھر دیکھو کہ خدا تم سے کیا سلوک کرتا ہے.یہ عزم لے کر ہم نے تبلیغ کی راہ میں سفر کرنا ہے.ہر ایسے ملک میں سفر کرنا ہے جہاں ہماری تبلیغ لوگوں کو تکلیف دیتی ہے، دکھ پہنچاتی ہے لیکن اس شرط کے ساتھ سفر کرنا ہے کہ ہمارے بیان کے انداز کی غلطی سے کوئی دکھ نہ پہنچے.ہر بات اس رنگ میں کرنے کی کوشش کریں کہ وہ جہاں تک ممکن ہو صاف اور پاک اور پیاری دکھائی دینے والی بات ہو پھر اگر دشمن اس پہ ناراض ہوتا ہے تو پھر بالکل پرواہ نہ کریں.
خطبات طاہر جلد 17 90 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء اپنے اہل و عیال کو نصیحت کرتے وقت بھی اسی سنت نبوی صلی لالی تم کو پکڑ کر بیٹھیں اور آنحضرت صلی شیا کی ستم نے اپنے اہل و عیال کو نصیحت کرتے وقت کبھی بھی اس رنگ میں نصیحت نہیں کی کہ وہ بدک جائیں اور دور بھاگ جائیں اور جب انہوں نے بات نہ مانی یعنی اس وقت ایسا مشکل کا وقت محسوس کیا کہ تھکے ہوئے تھے جیسا کہ رسول اللہ سی لیا کہ تم چاہتے تھے کہ آپ اٹھیں اور نماز کے لئے تیار ہوں ، اٹھا نہیں جارہا تھا اس وقت بھی رسول اللہ صلی یا کہ تم نے ان کے اوپر کوئی سختی نہیں کی صرف دکھ کا اظہار کیا ہے اس سے زیادہ نہیں.ساری زندگی نیکیوں کی نصیحت اسی طرح کی کہ جس نے نہیں مانا اس پر جس طرح کہ ملاں کہتے ہیں کہ تلوار اٹھاؤ اور یہ ہے اصل میں کلمہ حق کہنا، گردنیں اڑا دو ان کی جو تمہاری بات نہ مانیں، ہرگز رسول اللہ سی ایم نے یہ طریق اختیار نہیں کیا.غم بہت محسوس کیا ہے اور یہی وہ طریق ہے جس کی طرف میں آپ کو بلا رہا ہوں.جب دشمن آپ کی بات نہیں مانے گا تو آپ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے نہ ماننے کا غم محسوس کریں اور وہ غم صبر اور دعاؤں میں تبدیل ہو جائے.اگر اس طرح ان ہتھیاروں سے لیس ہو کر آپ سفر کرتے ہیں تو یہ ہتھیار گردنیں کاٹنے والے نہیں بلکہ دل جیتنے والے ہتھیار ہیں اور یہ وہی ہتھیار ہیں جو گھر میں استعمال ہوں گے تو باہر استعمال کرنے کی عادت پڑے گی.اگر گھر میں ہی آپ کو ان کے استعمال کا سلیقہ نہیں آتا تو دروازہ کھول کر جب گلیوں میں نکلیں گے تو اس وہم میں مبتلا نہ ہوں کہ دوستوں سے آپ اس طرح حسن سلوک کریں گے جو گھر میں نہیں کر سکے.کوئی اور بات ہوگی جو آپ کی بات کو نرم کرنے والی ہوگی.کوئی دکھاوا ہوگا، خوف ہوگا دُنیا کا کہ کہیں مار ہی نہیں بیٹھے اس صورت میں ہو سکتا ہے آپ باہر نرم باتیں کرتے ہوں اور گھر میں نہ کرتے ہوں مگر یہ تضاد بتا رہا ہے کہ ایسا شخص جھوٹا ہے.اگر جھوٹا نہ ہو تو اس کا طریق وہی ہونا چاہئے جو حضرت محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم کا طریق تھا جو گھر میں طریق تھا وہی باہر تھا.جوانداز بیان گھر کا تھا وہی انداز بیان باہر کا تھا.جس طرح اپنے بچوں سے گفتگو فرماتے تھے اسی طرح دشمنوں سے بھی گفتگو فرما یا کرتے تھے اور پرواہ نہ کرنے والوں سے آپ دکھ محسوس کرتے تھے اور ان کے لئے دعائیں کیا کرتے تھے.اس طریق میں کوئی بھی خامی نہیں ہے.ایک ادنی سا بھی تضاد نہیں ہے ان باتوں میں اگر آپ حضرت اقدس محمد مصطفی سی ایم کی نصیحت کو سمجھ لیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آغاز ہی میں یہ خطرہ محسوس کر کے کہ بولنے اور نہ بولنے کی
خطبات طاہر جلد 17 91 خطبہ جمعہ 6 فروری1998ء نصیحت کو آپ غلط نہ سمجھ بیٹھیں آپ نے سارے معاملہ کی انتہائی تفصیل آپ کے سامنے رکھ دی ہے.ایک بھی ٹھوکر کی گنجائش باقی نہیں چھوڑی.پس اللہ کا بہت بڑا احسان ہے کہ آنحضرت صلی الیتیم کی دعاؤں سے ہمیں وہ امام نصیب ہو گیا جو بعینہ آنحضرت صلی یتیم کے نقش قدم پر چل رہا ہے اور خطرات کی اس دُنیا میں ہمیں ہر ٹھوکر سے بچانے کے لئے بے انتہا کوشش کر رہا ہے.تمام تحریر میں آپ کی اسی لئے وقف ہیں جو بھی کلام فرمایا اسی لئے وقف تھا.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ ان باتوں کو صرف وقتی طور پر نہیں سمجھیں گے بلکہ دل سے باندھ لیں گے.دل میں ایسی جگہ دیں گے کہ پھر وہ دل سے نکل نہ سکیں اور اس کے لئے مجھے بار بار کہنا پڑے گا.تنگ نہ آجائیں کہ میں وہی بات پھر کہہ دیتا ہوں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ بھاری اکثریت ہماری ان باتوں کو سننے کی محتاج ہے اور محتاج رہے گی.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 93 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں جتھا بازی کرنے والوں کو تنبیہہ اور نصائح (خطبه جمعه فرموده 13 فروری 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ لَا يَضُرُّكُم مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُم إلَى اللهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ (المائدة: 106) ط پھر فرمایا: اس آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے مومنو! تم اپنی جانوں کی حفاظت کرو.یہاں زورا اپنی پر ہے.جب تم ہدایت پا جاؤ تو کسی کی گمراہی تم کو نقصان نہیں پہنچائے گی.تم سب نے اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے.پس جو کچھ تم کرتے ہو وہ اس سے تمہیں آگاہ فرمائے گا.اس آیت کریمہ میں بظاہر یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک دوسرے کی گمراہی کی فکر نہیں کرنی.ہرگز یہ مراد نہیں ہے.قرآن کریم نے ایک ہی مضمون کے ہر پہلو کو بہت بار یکی اور لطافت سے کھول کھول کر بیان فرمایا ہے.بعض دفعہ یہ ہوتا ہے کہ کوئی شخص گمراہ ہو جائے ، ایسے بھی ہیں جو سزا یافتہ ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو عہدیدار ہیں لیکن ان میں کچھ نقائص بھی پائے جاتے ہیں.ایسے لوگوں کے متعلق جماعتوں میں اکثر یہ سوال اٹھتا رہتا ہے اور گھومتا پھرتا ہے کہ فلاں شخص جو ہے وہ اس عہدہ پر قائم ہے اور یہ نقائص رکھتا ہے، فلاں شخص کو بے وجہ سزا دے دی گئی اور وہ باہر نکل گیا حالانکہ وہ ایک مفید
خطبات طاہر جلد 17 94 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء وجود تھا.اس قسم کے بہت سے وسوسے بعض جماعتوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور اکثر جماعتوں کی اصلاح خدا تعالیٰ کے فضل سے ہو چکی ہے لیکن وقتا فوقتا یہ فتنے پھر بھی سراٹھاتے ہی رہتے ہیں.یہاں اس آیت کریمہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ تمہیں اپنی پڑنی چاہئے ،تمہیں پرائی سے کیا غرض ہے.جہاں تک نقصان پہنچنے کا تعلق ہے وہ لوگ جو پیچھے ہٹ جاتے ہیں، جن کو نکال دیا جاتا ہے، جو عہدوں کے باوجود اپنے کردار کی حفاظت نہیں کرتے وہ تمہارا نقصان نہیں کر سکتے پھر تمہیں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے.اپنی فکر کرو اور اپنی فکر پہ اتنا زور ہے کہ فرمایا عَلَيْكُمُ انْفُسَكُم یا درکھو تم سے تمہارے متعلق پوچھا جائے گا تم سے ان لوگوں کے متعلق نہیں پوچھا جائے گا.اپنی فکر میں پڑو یہ نہ ہو کہ تمہارے جتھے سارے کے سارے خدا کے نزدیک رڈ کر دیئے جائیں ، جن جتھوں کا غرور لئے پھرتے ہو جس غرور میں ہمیشہ مخر جین کی تائید اور عامتہ الناس پہ یہ اثر کہ ہم اکٹھے ہیں، ہم دیکھو کتنے بڑے لوگ ہیں یہ بات پائی جاتی ہے.اس خطبہ میں میرے ذہن میں خاص طور پر ایک ملک ہے جو سکینڈے نیویا (Scandinavia) سے تعلق رکھتا ہے.اس سے پہلے میں بہت کوشش کر چکا ہوں کہ ان کے جتھے ٹوٹیں اور ان کو عقل آئے کہ ان میں سے ہر ایک نے خود مرنا ہے اور اللہ کے حضور حاضر ہونا ہے اور یہ جتھے اگر مخر جین کی تائید میں بنے ہوئے ہیں تو ایک کوڑی کا بھی فائدہ ان کو حاصل نہیں ہوگا.جواب دہی ان کی ہوگی.اگر یہاں نہیں تو مرنے کے وقت اور مرنے کے بعد ہوگی.آج میں ان کا پول نہیں کھولنا چاہتا عمومی مضمون بیان کروں گا.میرا ارادہ یہ ہے کہ ہر ایک کو میں لکھ دوں کیونکہ اب ان کے حالات برداشت سے باہر ہو چکے ہیں.مستقل ، پرانی گانٹھیں ہیں جو ٹوٹنے میں نہیں آر ہیں اور غرور جتھے کا ہے اور وہ بدقسمت ملک جن میں جماعت سے عدم تعلق والے جتنے زیادہ ہیں اور فتنہ و فساد والے جتھے زیادہ ہیں اور نیک لوگ نسبتا کم ہیں ان بے چاروں کو مصیبت پڑی ہوئی ہے.وہ سمجھتے ہیں پتا نہیں کیا ہو گیا ہے.پہلے تو میں ان سے عرض کرتا ہوں کہ دیکھو تمہیں ان کا جتھا کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا.اگر ہزار میں سے تم دس بھی ہوئے تو اللہ تعالیٰ تمہاری قدر فرمائے گا تو تم اتنے پریشان کیوں ہوتے ہو.جتے بنتے ہیں بننے دو خدا توڑے گا، ان کے غرور اور تکبر کو وہ ضرور خاک میں ملائے گا اور یہ اپنے سوا اور کسی کا نقصان کر نہیں سکتے.یہ خوشخبری جب اللہ نے تمہیں دے دی ہے کہ تمہارا نقصان نہیں کر سکتے
خطبات طاہر جلد 17 95 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء اور جواب دہ ضرور ہوں گے تو پھر تمہیں کیا مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ خواہ مخواہ ہول میں مبتلا ہو کہ دیکھو ہمارا کیا بنا، ہم کتنے تھوڑے رہ گئے.اس بات کو بالکل ذہن سے نکال دیا جائے.اگر دس بھی ٹھیک ہیں تو وہ اللہ اور جماعت کی نظر میں وہی دس مقبول ہیں اور باقی سارے رڈ شدہ ہیں ان کی کوئی بھی حیثیت نہیں ہے.ان کو علم ہی نہیں کہ دُنیا میں کتنے بڑے بڑے انقلاب آ رہے ہیں.سینکڑوں جماعتیں ، ہزاروں جماعتیں ہر سال ایسی بنتی ہیں جو کلیۂ فدا ہیں وہ بڑی بڑی جماعتیں جن میں جتے تھے اب وہ مٹ مٹ کے گھل گھل کے ان کا کچھ بھی وجود نہیں رہا اور اب وہ سمجھ چکے ہیں کہ وہ بیکار ہیں.جرمنی کا یہی حال تھا بڑی جتھا بندیاں تھیں شروع میں.جب میں نے جرمنی کے معاملات میں دلچسپی لی خصوصیت کے ساتھ اور اللہ نے فضل فرمایا اور جرمنی کی جماعت کو از سر نو بیدار کرنا شروع کیا ہے تو اس وقت جتھے ہوتے تھے اور ہر جتھے کو یہ غرور تھا کہ ہم جتھے والے ہیں ہم پر کون ہاتھ ڈال سکتا ہے.میں نے ان پر ہاتھ ڈالا ، ان کو دکھایا کہ خلیفہ وقت کو اگر اللہ یہ سمجھائے کہ ہاتھ ڈالو تو وہ ڈالے گا اور تمہاری کوئی بھی حیثیت نہیں ہے، تمہارے تکبر خاک میں مل جائیں گے.یہی ہوا.سب جھتے تحلیل ہو گئے.اگر کہیں ہیں تو چھپے چھپے، دلوں میں گانٹھیں ہیں مگر بالعموم خدا تعالیٰ کے فضل سے ان ملکوں سے سب گندگی کا صفایا ہو گیا ہے.تو اگر کوئی ملک سمجھتا ہے کہ وہ بہت بڑا ہے اور متقی ہے تو میں آج اس کو متنبہ کر رہا ہوں.قرآن کریم کی یہ آیت مجھے تقویت دے رہی ہے اور ان سب خدا کے پاک بندوں کو تقویت دے رہی ہے جو تعداد میں تھوڑے ہوں گے مگر جن کو جتھوں نے دبا ڈالا ہے.ہرگز دبنے کی کوئی ضرورت نہیں.اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں اور میرا ارادہ یہ ہے کہ ان کو پہلے خطوط کے ذریعہ ایک دفعہ متنبہ کردوں، سمجھا دوں کہ آپ کی باتیں میری نظر میں ہیں.میں دورے بھی کر چکا ہوں، سمجھتا ہوں کون لوگ کتنے بڑے جتھے رکھتے ہیں، ان کو کس بات کا غرور ہے لیکن میں آج کے خطبہ میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ اگر وہ باز نہ آئے تو آپ ان کا ذکر نہیں سنیں گے وہ مٹ گئے اور ختم ہو گئے اور جماعت انہیں چند سے دوبارہ ترقی کرے گی جو چند خدا کے بندے جماعت میں موجود ہیں اور پاکباز ہیں اور نظام جماعت کا احترام کرنے والے ہیں.اب اپنے دلوں کو ٹول کر جنہوں نے دیکھنا ہے وہ دیکھ لیں لیکن میں بھی تحریری طور پر واضح تنبیہ کرنے والا ہوں اور اس کے بعد وہ اس قابل ہی نہیں کہ ان کا خطبوں
خطبات طاہر جلد 17 96 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء میں ذکر کیا جائے.اللہ ان سے خود نپٹے گا اور آپ دیکھیں گے کہ انشاء اللہ جو بظاہر تعداد میں کم ہیں ان کے نکل جانے کے بعد ان میں بہت برکت پیدا ہوگی.یہ آیت کریمہ اس غرض سے میں نے تلاوت کی ہے اور اسی تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض نصیحتیں بھی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا لیکن اس کے علاوہ بھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بہت سے اقتباسات ایسے ہیں جو ہر جمعہ پہ میں ساتھ لاتا ہوں لیکن پوری طرح وقت نہیں ملتا کہ ان کو پڑھ کے سنایا جائے.سارے اقتباسات بہت اہم ہیں ان میں سے یہ مضمون بھی ملے گا جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے لیکن اور بھی بہت اہم مضامین ہیں اور میرے نزدیک جماعت کی تربیت کے لئے آج کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کو پڑھ کر سنانے سے بہتر اور کوئی طریق نہیں ہے.اتنا گہرا اثر رکھتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ، اس طرح دل کی گہرائی سے نکل کے دل کی گہرائی تک ڈوبتے ہیں اور ایک ایسے صاحب تجربہ کا کلام ہے جس کی بات میں ادنی بھی جھوٹ یا ریا کی ملونی نہیں ہے.ہر بات جو کہتا ہے وہ سچی کہتا ہے اس سے زیادہ دل پر اثر کرنے والی اور کیا بات ہوسکتی ہے.پس اب میں اسی طریق کو اپناتے ہوئے جو گزشتہ چند مہینوں سے میں نے اپنا یا ہوا ہے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے پڑھ کر سناتا ہوں اور جہاں تشریح کی ضرورت ہوئی وہاں تشریح کروں گا.اے عقلمند وا یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ.“.کیسا سادہ اور کیسا پاک فقرہ ہے.کیسی حقیقت ہے جس میں ادنی سا بھی جھول نہیں اور بیان کرنے کا انداز ایسا قوی ہے.”اے عقلمند وا یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ اور خطاب عقلمندوں سے ہے.شاید کسی کو خیال گزرے کہ عقلمند و کیوں فرمایا؟ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اُولُوا الالباب سے جو خطاب فرمایا ہے یہ وہی اُولُوا الا لباب ہیں.عقلمند ہی ہیں جو نصیحت سے فائدہ اٹھاتے ہیں.عقلمند ہی ہیں جو دُنیا میں ہونے والی تبدیلیوں سے ہمیشہ اللہ کو یاد کر کے ایمان میں ترقی کیا کرتے ہیں.تو اس لئے فرمایا کہ:
خطبات طاہر جلد 17 97 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء اے عقلمندو! ( یا اے اُولُوا الالباب ) یہ دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں تم سنبھل جاؤ.تم ہر ایک بے اعتدالی کو چھوڑ دو.ہر ایک نشہ کی چیز کو ترک کرو.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو اور آگے بڑھاتے ہوئے یہ فرماتے ہیں کہ عادت جس چیز کی پڑ جائے وہ عادت اپنا غلام بنا لیتی ہے اور نشہ کی یہ تعریف فرمائی ہے کہ ہر وہ چیز جو تمہیں عادی بنا دے تم اس کے غلام ہو جاتے ہو اور یہ بات بھول جاتے ہو کہ جو چیز بھی تمہیں عادی بنادے اس میں نقصان ہوا کرتا ہے.یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو چائے اور کافی پر بھی اطلاق پاتی ہے.وہ لوگ جو چائے کے عادی ہوں، میں بھی بظاہر عادی ہوں مگر میں نے چھوڑ کر بھی دیکھی ہے اور بالا رادہ چھوڑی ہے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اس امتحان میں کامیاب رہا ہوں.کافی کی مجھے عادت ہوا کرتی تھی اب بڑی مدت سے بہت کم کبھی شاذ کے طور پر پیتا ہوں اور وہ بھی عادت کی وجہ سے نہیں کیونکہ شاذ کا مطلب ہی یہ ہے کہ عادت نہیں رہی.پس میں اپنے او پر تجربہ کر کے یہ باتیں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں کہ نشہ کی اس تعریف کو آپ پیش نظر رکھیں تو بہت سی بلاؤں سے اور بہت سی بیماریوں سے بچ جائیں گے.بہت بیماریاں عادات سے تعلق رکھتی ہیں جب کسی چیز کی عادت پڑ جائے اور وہ نہ ملے تو شدید بے چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنے آج جرائم ہو رہے ہیں ان میں عادت کو بہت بڑا دخل ہے.دُنیا کی اکثر قوموں میں جو جرائم پائے جاتے ہیں وہ عادات کی بنا پہ پائے جاتے ہیں.ڈرگ ایڈکشن (Drug Addiction) عادت ہی تو ہے، شراب ایک عادت ہی تو ہے.غرض یہ کہ ہر وہ بیماری جو آج دنیا میں پائی جاتی ہے اگر آپ غور کر کے دیکھیں تو اس میں عادت کا دخل ہے اور یہ عادت جو ہے یہ بے راہ روی سے بھی تعلق رکھتی ہے، جنسی تعلقات سے بھی اس کا واسطہ ہے.پس جب میں ہر بیماری کی بات کر رہا ہوں تو سوچ سمجھ کر بات کر رہا ہوں اس کو حالات پر اطلاق کر کے آپ کو بتا رہا ہوں کہ عادات کا آج کے زمانہ کی بیماریوں سے گہرا تعلق ہے.پھر فرماتے ہیں: ہر ایک سال ہزار ہا تمہارے جیسے نشہ کے عادی اس دنیا سے کوچ کرتے جاتے ہیں اور آخرت کا عذاب الگ ہے.“ نشہ کے عادی کو اس دنیا میں بھی ضرور سز املتی ہے خواہ وہ محسوس کرے یا نہ کرے کہ اس کا نشہ سے تعلق ہے.سزا کو تو محسوس کرتا ہے مگر یہ علم نہیں کہ میرے نشہ نے ہی میرے لئے مصیبت ڈالی ہوئی ہے.فرماتے ہیں اس کو جو سز املتی ہے وہ تو ملے گی ہی لیکن آخرت کا عذاب الگ ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 وو 98 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء پرہیز گار انسان بن جاؤ تا تمہاری عمریں زیادہ ہوں اور تم خدا سے برکت پاؤ.حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کر نالعنتی زندگی ہے.“ وو یہ ایک بہت ہی اہم، ایک بڑا ابتلا ہے آج کی دنیا میں ، جو دُنیا میں ہر شخص کو در پیش ہے.حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے.آج ساری دُنیا میں جو بحران پیدا ہورہے ہیں وہ جتنی قوموں میں بھی ہورہے ہیں ان میں حد سے زیادہ عیاشی کی زندگی بسر کرنے والے اس کے ذمہ دار ہیں.غریب ممالک کے بحران دیکھیں ان کا اقتصادی ڈھانچہ اگر اس بات پر مبنی ہوتا کہ کم سے کم زندگی کی سادہ ضروریات تمام انسانوں کو مہیا کی جائیں تو یہ اشتراکیت نہیں ہے، یہ قرآن کریم کا پہلا سبق ہے.اشتراکیت کے تو تصور میں بھی نہیں آسکتا کہ قرآن کریم کا پہلا سبق اشتراکی نظام کے انتہائی تصور سے بھی بڑھ کر ہے لیکن اس میں برائی نہیں، اس میں کوئی چھینا جھپٹی نہیں، کوئی زبردستی نہیں.ہر سوسائٹی کا یہ فرض قائم کر دیا گیا ہے آدم کی جنت کے ذکر میں، کہ ہر ایک کو روٹی ملے گی ، ہر ایک کو پانی ملے گا، ہر ایک کو بچھونا میسر آئے گا، ہر ایک کے سر پر چھت ہوگی.یہ چیز جو پہلا سبق تھا یہ انسانیت نے بھلا دیا ہے، حد کون سی ہے؟ وہ یہی حد ہے.ورنہ ہر شخص کہہ سکتا ہے میں عیاشی کرتا ہوں مگر تھوڑی کرتا ہوں کسی ملک کو حد سے زیادہ عیاشی میں مبتلا ہونے کی اجازت ہی نہیں ہے جب تک ان کے غریبوں کی پرسان حالی نہ ہو، ان کی ادنی لازمی ضرورتیں پوری نہ ہوں.اس وقت تک جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں خدا نے دیا ہے ہم عیش و عشرت میں زندگی بسر کریں اسی کا نام حد سے زیادہ ہے کیونکہ بعض کے حقوق بعض دوسروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں.جن کا حق تھا زندہ رہنے کا جو خدا نے قائم کیا ہے اس حق پر قدغن لگائی جا رہی ہے اور تمام غریب ممالک میں یہی حال ہے اور تمام امیر ممالک میں یہی حال ہے.کوئی ملک بھی اس بدنصیبی سے خالی نہیں ہے.فرماتے ہیں یہ عنتی زندگی ہے.حد سے زیادہ بد خلق اور بے مہر ہونا لعنتی زندگی ہے.“ عیاشی کے ساتھ حد سے زیادہ بد خلقی اور بے مہری کا تعلق ہے.بے مہری کا مطلب ہے کہ آپس میں بنی نوع انسان سے تمہیں محبت ہی نہیں رہی کہ ان کا دکھ تمہارا دکھ بن جائے بے حس ہو چکے ہو اور جب ایک سوسائٹی الگ ہو جائے اور الگ زندگی بسر کرے تو متکبر ہو جایا کرتی ہے.حد سے زیادہ بدخلق سے مراد یہی بد خلق لوگ ہیں جن کے خلق آزمائے نہیں جاتے اور وہ اپنے دائرہ میں رہ کر کسی سے
خطبات طاہر جلد 17 99 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء جو چاہیں سلوک کریں وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں پہچانا نہیں جارہا اور جو ہم کرتے ہیں کسی کی مجال نہیں کہ اس پر انگلی رکھ سکے.وو وو 66 حد سے زیادہ خدا یا اُس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہونا لعنتی زندگی ہے.“ یہی تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام خود فرما رہے ہیں جو میں پہلی عبارت کی تفسیر کر چکا ہوں.حد سے زیادہ خدا یا اُس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہونا لعنتی زندگی ہے.“ یہاں خدا کی ہمدردی مراد نہیں ہے خدا سے لا پروا ہونا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہونا فقرہ اکٹھا ہے اور کوئی غلطی سے یہ نتیجہ نکال سکتا ہے کہ حد سے زیادہ خدا یا اس کے بندوں کی ہمدردی سے.اگر اس فقرہ کو ہمدردی سے اس طرح ملایا جائے کہ خدا تو پھر ، خدا کو بھی ساتھ جوڑا جائے تو پھر اس کے ایک اور معنی بنتے ہیں.خدا یہاں فاعلی حالت میں ہوگا اور بندے مفعولی حالت میں.حد سے زیادہ خدا کی ہمدردی سے بے نیاز ہونا یعنی ایسی حرکتیں کرنا کہ خدا تمہارا ہمدرد نہ رہے اور حد سے زیادہ بندوں کی ہمدردی کرنے سے بے نیاز ہونا.یہ بھی فرمایا ایک لعنتی زندگی ہے.” ہر ایک امیر خدا کے حقوق اور انسانوں کے حقوق سے ایسا ہی پوچھا جائے گا جیسا کہ 66 ایک فقیر بلکہ اس سے زیادہ.“ یہ جو پوچھا جانے کا تصور ہے یہ ہمارے کردار کو صحیح روش پر ڈالنے اور صحیح روش پر قائم رکھنے میں ایک غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے.ہماری زندگی کو صحیح روش پر ڈالنے میں ایک غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے کیونکہ جو پوچھا نہیں جائے گا جس کو یہ احساس ہو کہ میں پوچھا نہیں جاؤں گا وہ جو چاہے کرتا پھرے اور یہ آج کی سب سے بڑی بلا ہے.جیسا کہ میں نے ذکر کیا تھا جماعت میں کچھ لوگ ایسے ہیں وہ سمجھتے ہیں ہم اگر اپنے جتھے بنا کر بظاہر اپنی شان اور شوکت ظاہر کریں گے اور غلبہ کریں گے اور کہیں گے کہ تم ہمارا کیا بگاڑ سکتے ہو یہ ان کی حماقت ہے.کوئی نہیں ہے جو پوچھا نہ جائے گا.اپنے ہر عمل کے بارے میں وہ پوچھے جائیں گے.فرمایا اور اس سے زیادہ پوچھا جائے گا جیسا ایک فقیر پوچھا جائے گا کیونکہ فقیر تو صرف غریب کو ہی نہیں کہتے ایک مسکین انسان جس کا کوئی اثر ورسوخ نہ ہو اس سے بھی ضرور باز پرس ہوگی لیکن جن کا سوسائٹی پر اثر و رسوخ تھا جو صاحب حکمت بھی سمجھے جاتے تھے اور صاحب طاقت بھی تھے ان سے تو ضرور سختی سے باز پرس ہوگی اور وہ ضرور پوچھے جائیں گے.
خطبات طاہر جلد 17 100 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء پس کیا بد قسمت وہ شخص ہے جو اس مختصر زندگی پر بھروسہ کر کے بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے.“ اب یہ جو پہلی با تیں گزری ہیں ان کا انجام کار یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے.جو باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بیان فرمائیں کہ ان سے بچو، ان کا خطرہ ہے، یہ عنتی زندگی ہے جو ان باتوں میں ملوث رہتے ہیں اور پروا نہیں کرتے ان کا انجام لا زماً یہ ہوتا ہے کہ د بکلی خدا سے منہ پھیر لیتا ہے اور ( پھر ) خدا کے حرام کو ایسی بیبا کی سے استعمال کرتا ہے کہ گویا وہ حرام اس کے لئے حلال ہے.“ یہ حلال و حرام کے جو چکر ہیں، بددیانتیاں رزق میں ، لوگوں سے دھوکا بازیاں یہ سارے اوپر کے مضمون سے تعلق رکھ رہی ہیں جو اس کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.” (پھر) غصہ کی حالت میں دیوانوں کی طرح کسی کو گالی کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے.“ یہ خدا سے منہ پھیرنے کے نتیجہ ہیں کیونکہ جو شخص خدا کا تصور دل پر ایک بادشاہ کے تصور کی طرح رکھتا ہے ایک کامل مقتدر بادشاہ کے تصور کی طرح رکھتا ہے اس کے لئے ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی لمحہ اپنے غصہ سے اس قدر مغلوب ہو جائے کہ خدا کی پروا نہ کرے.اپنے کسی جذبہ سے مغلوب ہو جائے کہ دیکھے ہی نہ کہ اس کو بھی کوئی دیکھ رہا ہے.یوانوں کی طرح کسی کو گالی کسی کو زخمی اور کسی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو جاتا ہے اور شہوات کے جوش میں بے حیائی کے طریقوں کو انتہا تک پہنچا دیتا ہے.سو وہ سچی خوشحالی کو نہیں پائے گا یہاں تک کہ مرے گا.“ اس دُنیا میں سچی خوشحالی اس کو نصیب نہیں ہو سکتی.ایسے لوگ جن کا نقشہ ہے بظاہر عیش وعشرت کی زندگی بسر کرتے ہیں.بظاہر حرام کھاتے اور بے پروا ہو جاتے ہیں مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرما رہے ہیں اس کو سچی خوشحالی بہر حال نصیب نہیں ہوگی.یہاں تک کہ مرے گا.،، ”اے عزیز و تم تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزرچکی.“
خطبات طاہر جلد 17 101 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء کیسا پاک کلام ہے.چھوٹا سا فقرہ ان سب باتوں کے آخر پر رکھ دیا.جو دل کی گہرائی تک اتر جاتا ہے اور عزیز و کہہ کر مخاطب فرمایا کہ مجھے تم سے پیار ہے تم مجھے اچھے لگتے ہو میں نہیں چاہتا تمہیں کوئی گزند پہنچے.پس اے عزیزو! تم تھوڑے دنوں کے لئے دُنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت گزر چکے ہیں.اکثر لوگوں کے دن بہت گزر چکے ہیں کیونکہ اس میں ایک یہ بھی حکمت ہے کہ ان کو پتا ہی نہیں کہ آج نہیں تو کل شاید موت آجائے تو جس کی موت بھی کل پرسوں مقدر ہے اس کے تو اکثر دن گزر ہی چکے ہیں اور چونکہ پتا نہیں کہ کب آتی ہے اس لئے ہو سکتا ہے کہ ان کے اکثر دن واقعۂ گزر چکے ہوں اور ان کو احساس بھی نہ ہو.تھوڑے دنوں کے لئے دنیا میں آئے ہو اور وہ بھی بہت کچھ گزرچکی سوا اپنے مولیٰ کو 66 ناراض مت کرو.“ جس کے پاس جانا ہے اس کو ناراض کرو گے تو کیا پاؤ گے.چند دن کی زندگی، چند دن کے ابتلا ، چند دن کے مصائب اگر جھیل لو اور بالکل اس بات سے بے نیاز ہو جاؤ کہ یہ آزمائش تمہیں تکلیف دیتی ہے اس لئے کہ تھوڑی ہی تو ہے چند دنوں میں گزر جائے گی تو پھر اللہ ناراض نہیں ہوگا لیکن اگر تمہیں یہ خیال نہ ہو تو پھر خدا تعالیٰ ناراض ہو جائے گا اور ناراضگی کی حالت میں تم جان دو گے.ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو اگر (وہ) تم سے ناراض ہو تو وہ تمہیں تباہ کرسکتی ہے.“ یہ بالکل درست ہے.اللہ جن بندوں کو بچانا چاہے ان کو تباہ نہیں کر سکتی مگر روزمرہ کے وہ بندے جو کیڑوں مکوڑوں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں جو پہلے ہی اپنی حکومتوں کو اپنا خالق اور معبود بنائے بیٹھے ہیں ان کو جب چاہیں فوری طور پر گورنمنٹیں ہلاک کر سکتی ہیں اور سب ملکوں کا یہی حال ہے ہر ملک میں حکومتیں یہ زیادتی کرتی ہیں جب وہ سمجھیں کہ فلاں شخص یا فلاں خاندان یا فلاں جتھا اب اس قابل نہیں رہا کہ ہم ان کو اپنے ساتھ چلائیں تو اس طرح چھوڑ دیتی ہیں جیسے پتھر کو چھوڑا جائے اور وہ بلندیوں سے زمین پر گرتا ہے.پھر اس کو پاؤں تلے روندتی ہیں اور بڑے خاندان ہیں، بڑے بڑے عظیم جتھے تھے جن کا کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا گیا کیونکہ حکومتوں نے ان کو تباہ کرنے کا فیصلہ کیا.روس میں بھی یہی ہوتا رہا، امریکہ میں بھی یہی ہوتا ہے ہر جگہ یہی ایک کہانی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرماتے ہیں: ”ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو.اب یہ زبر دست
خطبات طاہر جلد 17 102 خطبہ جمعہ 13 فروری 1998ء کا محاورہ بیچ میں داخل کرنا یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حیرت انگیز عقل اور فہم کی طرف اشارہ کرنے والا فقرہ ہے.ایک عام آدمی کہ سکتا ہے حکومت تمہیں جب چاہے برباد کر سکتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبردست ہو.“ یعنی انسانی گورنمنٹ اگر تمہارے جتھے بہت بڑے ہوں تو تم سے ڈرتی بھی ہے اور اس وقت تو چاہے بھی تو تمہیں تباہ نہیں کرتی ، نہ کرسکتی ہے.اس لئے دونوں باتیں ہیں ان کے معبود بڑے بڑے جتھے بن جاتے ہیں اور وہ تمہارا معبود بن جاتی ہیں.تو فرمایا کہ ایک انسانی گورنمنٹ جو تم سے زبر دست ہو اگر وہ ناراض ہو تو وہ تباہ کر سکتی ہے اور اللہ کیا تم سے زبردست نہیں ہے؟ اس لئے اللہ کی ناراضگی کو ایک عام حکومت کی ناراضگی کے برابر نہ کرو.بعض صورتوں میں عام حکومت تم سے ناراض بھی ہو تو تمہیں برباد نہیں کر سکتی مگر اللہ ناراض ہو تو آنا فانا تم تباہ و برباد ہو جاؤ گے.دو پس تم سوچ لو کہ خدا تعالیٰ کی ناراضگی سے کیونکر تم بچ سکتے ہوا گر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا “ یہی بات پہلے میں نے استثنا کے طور پر کہی تھی.یہ نہ سمجھنا کہ ہر ایک کو تباہ کرسکتی ہے.اکثر خدا کی نظر میں متقی ٹھہر نے والے کمزور ہوا کرتے ہیں لیکن خدا اجازت نہیں دیتا کہ جابر سے جابر حکومت بھی ان کو تباہ کر سکے.معمولی گزند پہنچاتے ہیں، نقصان ، دلی تکلیف لیکن تباہ نہیں کر سکتے لیکن شرط یہ ہے کہ اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ وہ خود تمہاری حفاظت کرے گا پھر حکومتوں کی ناراضگی کی کیا پروا ہے.اور دشمن جو تمہاری جان کے در پے ہے تم پر قابونہیں پائے گا ورنہ تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں.( یعنی تقوی اگر نہ ہو تو پھر تمہاری جان کا کوئی حافظ نہیں.تقویٰ کے لفظ میں حفاظت شامل ہے بچنا اور بچایا جانا ) اور تم دشمنوں سے ڈر کر یا اور آفات میں مبتلا ہو کر بیقراری سے زندگی بسر کرو گے.اور تمہاری عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے.“ تقومی نہ ہو اور دوسرے سہارے موجود ہوں تو ان کا حقیقتا تمہاری زندگی پر کوئی مستقل، فرحت بخش اثر نہیں پڑسکتا.ایسے لوگ جو دُنیا کے سہارے جیتے ہیں دُنیا میں بدل جاتی ہیں، ایسے لوگ جو بڑے
خطبات طاہر جلد 17 103 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء لوگوں کے سہارے جیتے ہیں وہ بڑے لوگ بڑے لوگ نہیں رہتے.غرض یہ کہ سارے مضامین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام میں مضمر ہیں کہ تم جب دُنیا والوں کو اپنا خدا بنا کر ان کو راضی کرنے کی کوشش کرو گے تو وہ تمہاری ساری زندگی کام نہیں آسکیں گے.” اور عمر کے آخری دن بڑے غم اور غصہ کے ساتھ گزریں گے.یہ بات بھی ان سب ملکوں میں جو اکثر تیسری دُنیا کے ملک ہیں مشاہدہ کی جاسکتی ہے اور بڑے ملکوں میں بھی مشاہدہ کی جاسکتی ہیں کہ حکومتوں سے ٹوٹے ہوئے ، گرے ہوئے لوگ جو کسی زمانہ میں زبردست ہوا کرتے تھے جن کے رعب سے خلقت کا نپتی تھی وہ بڑے غم وغصہ میں آخری دن بسر کرتے ہیں.ان کا کوئی بھی اختیار باقی نہیں رہتا.بے چین اور بے قرار پھرتے ہیں.اگر کوئی ان کے سینہ میں جھانک سکتا تو جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے غم اور غصہ کے سوا وہاں کچھ نہ پاتے.اور جہاں تک متقیوں کا تعلق ہے فرمایا: خدا اُن لوگوں کی پناہ ہو جاتا ہے جو اُس کے ساتھ ہو جاتے ہیں سوخدا کی طرف آجاؤ.“ اب اس سے زیادہ بڑی پناہ اور کیا ہوسکتی ہے اور اس سے زیادہ پاکیزہ اور پیارا بلا وا اور کیا ہوسکتا ہے.یہ ساری باتیں کھول دیں اور آخر پر فرمایا : خدا کی طرف آجاؤ.اور ہر ایک مخالفت اس کی چھوڑ دو.“ یعنی وہ سارے امور جو بیان ہوئے ہیں وہ دراصل اللہ کی مخالفت ہیں اور اگر وہ تم کر کرو گے تو گویا خدا کے مخالف ٹھہرو گے.سوخدا کی طرف آجاؤ اور ہر ایک مخالفت اُس کی چھوڑ دو اور اُس کے فرائض میں سستی نہ کرو اور اُس کے بندوں پر زبان سے یا ہاتھ سے ظلم مت کرو اور آسمانی قہر اور غضب سے ڈرتے رہو کہ یہی راہ نجات کی ہے.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه : 70 تا 72) اب بعض دوسرے اقتباسات ہیں جو میں اسی تسلسل میں بیان کرتا ہوں اور جب تک یہ اقتباس ختم ہوتے ہیں اتنی دیر میں ہم انشاء اللہ اور اقتباس اکٹھے کر لیں گے.اگر ساری عمر بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پر ہی خطبے دئے جائیں تو جماعت کے لئے اس سے زیادہ خوشخبری کوئی نہیں ہو سکتی.ایک ایسے پیارے انداز کی نصیحت ہے کہ دوسرے منہ کی باتوں کے
خطبات طاہر جلد 17 104 خطبہ جمعہ 13 فروری 1998ء مقابل پر ایسا ہے کہ دوسرے منہ کی باتیں زمین سے تعلق رکھتی ہیں اور یہ آسمان سے تعلق رکھتی ہیں لیکن آسمان سے تعلق کے باوجود آسمان سے اس طرح اترتی ہیں جیسے رحمت باراں اتر رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدا نما ہوتے ہیں.“ پیغمبر الوہیت کے مظہر ، اللہ تعالیٰ کے مظہر، اس کی خدائی کے مظہر اور خدا نما ہوتے ہیں اور خدا دکھانے والے ہوتے ہیں.پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے جو پیغمبروں کا مظہر بنے.“ اب اس سے زیادہ کھلا، واضح معیار اور کیا آپ کے لئے مقرر کیا جاسکتا ہے.پیغمبر کو تو سب جانتے ہیں بعض لوگ خود نہ جانتے ہوں تو مولویوں کی مبالغہ آمیز تقاریر سے پیغمبروں کے متعلق عجیب عجیب تصور باندھ لیتے ہیں مگر یہ جوڑ بھول جاتے ہیں کہ اگر پیغمبر خدا نما ہیں تو تم پیغمبر نما ہو.وہ سب کچھ کر کے دکھانا ہوگا ایسے حال میں زندگی بسر کرنی ہوگی کہ لوگوں کو پیغمبر یاد آئیں.یہ ایک فقرہ ہے اس میں ساری زندگی کی کہانی آگئی ہے.پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدا نما ہوتے ہیں پھر سچا مسلمان اور معتقد وہ ہوتا ہے جو پیغمبروں کا مظہر ہے“.اور یہ ایک فرضی پیغام نہیں اس کو حقیقت پر چسپاں کر کے دکھاتے ہیں.صحابہ کرام (رضوان الله علیهم ) نے اس راز کو خوب سمجھ لیا تھا اور وہ رسول کریم صلی للہ الی یلم کی اطاعت میں ایسے گم ہوئے اور کھوئے گئے کہ اُن کے وجود میں اور کچھ باقی رہا ہی نہیں تھا جو کوئی اُن کو دیکھتا تھا اُن کو محویت کے عالم میں پاتا تھا.“ آنحضرت صلی السلام کے کبار صحابہ کی اس سے بڑھ کر تعریف نہیں ہو سکتی.جو کوئی اُن کو دیکھتا تھا محویت کے عالم میں پاتا تھا.دونوں جہان سے وہ گزر چکے تھے پیغمبر صل للہ ہی ان کی ذات میں ڈوب چکے تھے.پس یا درکھو کہ اس زمانہ میں بھی جب تک وہ محویت اور وہ اطاعت میں گمشدگی پیدانہ ہوگی جو صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم) میں پیدا ہوئی تھی ، مریدوں ، معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہوگا.یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لو.“ جو صحابہ کرام میں آنحضرت صلی للہ ایلم کے لئے اپنی ذات کی محویت تھی کہ اپنی ذات سے بھی کھوئے گئے تھے اور دُنیا سے بھی کھوئے گئے تھے، صرف سامنے ایک نمونہ تھا جو پیغمبر صلی یہ اہم کا نمونہ تھا.فرمایا
خطبات طاہر جلد 17 105 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء اس دور میں بھی جبکہ تمہارے لئے اللہ نے ایک امام مقررفرما دیا ہے یعنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام.اگر وہی محویت اور وہی اطاعت میں گمشدگی پیدا نہ ہوئی تو پھر تم سچے مریدوں میں داخل نہیں ہو سکتے.اطاعت میں گمشدگی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا محاورہ ہے، بہت ہی پیارا.سچی اطاعت میں انسان گم ضرور ہوتا ہے اس ذات میں گم ہو جاتا ہے جس کی اطاعت کی جاتی ہے اس کے مقابل پر کچھ بھی باقی نہیں رہتا، اپنے نفس کو مٹادیتا ہے.جیسا کہ دو مصوروں کا امتحان لیا گیا تھا اس میں جو مضمون ہے وہ اسی محویت اور گمشدگی سے تعلق رکھتا ہے.دومصور اس بات کے دعویدار تھے کہ ہم سے بہتر مصور اور نہیں ملے گا.ایک بادشاہ نے ان کو امتحان کے لئے بلایا اور کہا کہ ابھی دیکھ لیتے ہیں.مطلب یہ ہے کہ آؤ تم دونوں کا امتحان کرتے ہیں.ایک بڑے ہال میں ایک پردہ بیچ میں کھینچ دیا گیا اور ایک طرف ایک مصور کو بٹھا دیا دوسری طرف دوسرے مصور کو معین وقت دے دیا گیا تین چار جتنے بھی مہینے آپس میں طے ہوئے اور ان کو ان کی ضروریات مہیا کی جاتی رہیں.مگر اندر جانے کی کسی کو اجازت نہیں تھی.دروازہ کھٹکھٹا کر ان کو بتا دیا جا تا تھا بتا ئمیں کیا چیز چاہئے وہ مہیا کر دی جاتی تھی.آخر جب امتحان کا وقت پورا ہوا تو اتنی خوبصورت منظر کشی تھی کہ آنکھیں اس سے الگ نہیں ہوتی تھیں.اتنی تفصیل سے حسین نظارے دکھائے گئے تھے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے قدرت سامنے آکھڑی ہو.ہر شخص عش عش کر اٹھا.واہ واہ.مصوری اس کو کہتے ہیں.دوسرے مصور سے پوچھا گیا کہ آؤ ہم اب تمہارے کمرے میں داخل ہوتے ہیں.اس نے کہا نہیں میری ایک شرط ہے کہ حجاب جو بیچ میں ہے اس کو اٹھا لیا جائے.چنانچہ جب حجاب اٹھایا گیا تو بعینہ وہی تصویر جو اس دیوار پر تھی وہ اُس دیوار پر دکھائی دینے لگی کیونکہ اس مصور نے سوائے دیوار کو منتقل کرنے کے اور کوئی کام نہیں کیا تھا.اتنا چھکا یا، اتنا چمکایا کہ درمیان سے شیشہ اٹھ گیا یعنی شیشہ کی بھی کوئی نہ کوئی جھلک دکھائی دیتی ہے مگر اس دیوار کے پردے کی کوئی جھلک دکھائی نہیں دیتی تھی.کچھ دیر کے لئے تو وہ مبہوت ہو گئے کہ یہ کیا بات ہوئی ہے اور پھر بے اختیار دل سے واہ واہ اٹھی.اس کہانی میں جس پر دے کا ذکر ہے وہ پردہ اٹھانا ہوگا اس کے بغیر وہ محویت نہیں ہو سکتی جس کا میں نے ذکر کیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ اطاعت میں گمشدگی.وہ دیوار جس کا عکس بننا چاہتی تھی اس میں گم ہو گئی اور بیچ کا
خطبات طاہر جلد 17 106 خطبہ جمعہ 13 فروری 1998ء پردہ حائل جو تھا وہ اٹھ گیا.ہر انسان اور اس کے راہنما کے درمیان اگر پردہ ہے تو وہ راہنما سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا.اگر پردہ اٹھ جائے تو ہر خرابی سے پردہ اٹھ جائے گا اور بعینہ انسان اس کی پیروی میں اپنی زندگی کو فنا کر دے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے تعلق کو جو آنحضرت صلی یا یہ تم سے تھا بالکل اسی طرح بیان فرمایا ہے.آپ اس مصور کی طرح تھے جس نے پردہ اٹھا دیا لیکن اس وقت اٹھایا یا اس طرح اٹھایا کہ اپنا نفس اتنا صیقل ہو چکا تھا کہ اس پہ جو آقا تھا اس کی تصویر دکھائی دے رہی تھی اور اپنی تصویر کا کوئی نشان تک نہیں ملتا تھا.یہ بظاہر برابری، برابری نہیں کیونکہ عکس، عکس ہی رہے گا اور جس کا عکس ڈالا جا رہا ہے وہ حقیقت میں حاوی وجود یا اعلیٰ درجہ کا وجود بنا رہے گا لیکن جو عکس مکمل کر دے اس کے بھی کیا کہنے.اس شان کی ربوبیت اس کے اندر پیدا ہوتی ہے یعنی اپنے آپ میں سو جانا، اپنے آپ سے کھوئے جانا کہ آقا کے سوا کوئی دکھائی نہیں دیتا.پس بعض لوگ گھٹیا سا شعر پڑھتے ہیں : جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی ( موجی رام موجی) یہ جھوٹا اور بے معنی شعر ہے مگر جس کے دل میں محمد مصطفی صلی شاہی یتیم کے سوا کوئی ہو ہی نہ اس پر تو بعینہ صادق آتا ہے کہ اپنے نفس میں جب بھی دیکھا محمد رسول اللہصلی ای نمک و جلوہ گر دیکھا.اب حضرت مسیح موعود علیہ السلام آپ سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ تم مجھے سامنے رکھو اور اپنے پردے اٹھا دو.دیکھو کتنا مشکل مگر کتنا حقیقت پسند پیغام ہے ایسا پیغام جس سے اعلی پیغام آپ کو دیا نہیں جاسکتا.مریدوں ، معتقدوں میں داخل ہونے کا دعویٰ تب ہی سچا اور بجا ہوگا.یہ بات اچھی طرح پر اپنے ذہن نشین کر لو کہ جب تک یہ نہ ہو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں اس وقت تک شیطانی حکومت ( کا) عمل ودخل موجود ہے.“ اب سوال یہ ہے کہ ابھی تو رسول اللہ صلی ال ایتم کی باتیں ہو رہی تھیں اور اپنی باتیں رسول اللہ اللہ ایم کی نسبت سے ہو رہی تھیں اچانک خدا تعالیٰ کی طرف مضمون کیوں پھیر دیا.یہ اس لئے ہے کہ دراصل محمد رسول الله صل اللہ تم اس لئے عظمت رکھتے ہیں کہ خدا نما تھے، اس لئے عظمت رکھتے ہیں کہ خدا آپ صلی للما یہ تم کے دل میں اتر آیا تھا ورنہ حضرت محمد رسول اللہ صلی یا تم ایک عام عرب بھی تو سمجھے جا سکتے تھے دنیا کو کیا پر وا ہوئی تھی.وہ صحابہ جو دشمن تھے کیوں مطیع ہوئے اس لئے کہ آپ مالی یہ تم کی ذات
خطبات طاہر جلد 17 107 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء میں خدا دکھائی دینے لگا تھا.جب تک ان کی آنکھیں اندھی یا بیمار تھیں ان کو دکھائی نہیں دیتا تھا مگر جب دکھائی دینے لگا تو ان کے لئے عشق کے سوا چارہ ہی کوئی نہیں تھا، اپنے نفس کو بھلا دینے کے سوا ان کے لئے کوئی اور رستہ نہیں تھا، تو تان اس بات پر توڑی ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے آپ کو اتنا بڑا دکھا رہے ہیں کہ میرے جیسے بنو گے تو بچو گے.یہ فرما رہے ہیں کہ محمد رسول اللہ صل للہ ایم جیسے بنو گے تو بچو گے ، میں بھی تو اسی طرح بچا ہوں.محمد رسول اللہ صلی ایم کی پیروی کی ہے تو تمہارا امام بنایا گیا.پس اس بات کو ذہن نشین کر لو کہ اللہ تعالیٰ تم میں سکونت کرے اور خدا تعالیٰ کے آثار تم میں ظاہر ہوں.جب تک یہ نہ ہو اس وقت تک شیطانی حکومت کا عمل دخل موجود ہے.یہ وہ حکومت کا نقشہ ہے جس کو الہی حکومت کہا جاتا ہے.یہ حکومت آجائے تو شیطان کی مجال نہیں کہ اس حکومت میں دخل اندازی کر سکے.اب شیطان کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شیطان جھوٹ ، ظلم، جذبات، خون، طول امل، ریا اور تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے.“ جھوٹ دوسروں میں دیکھو کتنا برا لگتا ہے اپنے نفس کو تھوڑی دیر کے لئے بھلا دو اور غیر کی نظر سے دوسرے کے جھوٹ کو دیکھو کہ کتنا کر وہ لگتا ہے اور یہی جھوٹ ہے جس پر تم منہ مارتے ہو.اس کو پل پل کھاتے ہو اور بھول جاتے ہو کہ یہی وہ جھوٹ ہے جس سے تمہیں شدید نفرت ہے.اپنی ذات میں نفرت دکھائی نہیں دیتی.یہ شیطان کا دھوکا ہے.شیطان جھوٹ ،ظلم، جذبات، خون ( یعنی ایک دوسرے کا خون کرنا) ، طول آمل (اُمید کو کھینچتے چلے جانا یعنی ایسی چیزوں کی خواہش کرتے چلے جانا جو اپنی طاقت اور بساط سے بھی بہت زیادہ ہوں، بہت بڑھ کر ہوں لیکن کبھی ختم ہونے میں نہ آئیں) ریا (دکھاوا ) اور تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے.“ یہ دعوت کرتا ہے سے کیا مراد ہے؟ بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے یہ دعوت شیطان کے چیلوں سے تعلق رکھتی ہے.جتنے بھی شیطانی وجود ہیں وہ بھی ایک دعوت کیا کرتے ہیں اور جتنے بھی الہی وجود ہیں وہ بھی ایک دعوت کیا کرتے ہیں.پس آنحضرت صلی یہ ستم کا وجود خدا نما ہونے کی وجہ سے ان کو تو بلاتا ہی تھا جو پہچان رہے تھے کہ اس کی ذات میں خدا جھلک رہا ہے لیکن دعوت شرط تھی اس طرف لوگوں کو بلاتے بھی تھے.اس لئے یہ خیال کر لینا کہ شیطان بلاتا نہیں یہ ایک وہم ہے.خوش فہمی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 108 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء شیطان ضرور بلاتا ہے اور جو لوگ آپ کو ان سب چیزوں کی طرف بلانے والے، ساتھی ، دوست جتنے بھی آپ کے قریبی ہوں یہ سارے شیطان کے چیلے ہیں.پس ضرور ہے کہ یا ان سے منہ موڑا جائے یا ان کی اصلاح کی کوشش کی جائے.اب ” تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے.اب یہ لفظ دعوت کرتا ہے اگر ایک انسان اسی پر غور کرے تو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کا صرف اس فقرہ سے قائل ہو سکتا ہے.یہ عارفانہ کلام ہے ،ایک سچے کا کلام ہے، جس کو ان سب راہوں کا تجربہ ہے محض ایک مولوی کی نصیحت نہیں.اس کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں ، اس کو پتا ہی نہیں کہ سچوں کے دل پہ کیا گزرتی ہے ان کو کیسا عرفان نصیب ہوتا ہے اور ہر بات کا ہر حصہ سچا ہوتا ہے ورنہ ایک اردو دان یہ کہے گا او ہو یہ فقرہ میں زائد لکھا گیا ہے.ریا اور تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے.اس بے وقوف کو کیا پتا کہ اردو کیا ہوتی ہے.اُردو کسی نے سیکھنی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے سیکھے.ہر زبان سچائی سے بنتی ہے، ہر زبان میں سچائی کی طاقت چمکتی ہے اور اردو میں بھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک مقام اور مرتبہ ہے اس کو کبھی کوئی اور نہیں پہنچ سکتا.نہ پہلے خلفاء پہنچ سکے.میرا تو سوال ہی نہیں نہ آئندہ کبھی کوئی خلفاء پہنچ سکیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بات ہی اور ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں آپ کے مقام کی طرف راہنمائی کرتی ہیں.ریا اور تکبر کی طرف بلاتا ہے اور دعوت کرتا ہے.اس کے بالمقابل اخلاق فاضلہ، صبر، محویت ، فنافی اللہ ، اخلاص، ایمان فلاح یہ اللہ تعالیٰ کی دعوتیں ہیں.( یعنی ان چیزوں کی طرف بلانا ضروری ہے اور اللہ ہمیشہ انہی چیزوں کی طرف دعوت دیا کرتا ہے.) 66 انسان ان دونوں تجاذب میں پڑا ہوا ہے.تجاذب کہتے ہیں ایسی چیز جس میں کھینچنے کی طاقت ہو اور تجاذب کا زائد معنی یہ ہے کہ دو طرف کھینچنے کی طاقت ہو.ایک طرف ایک طرف سے کھینچا جا رہا ہو ، دوسری طرف سے دوسرا گروہ دوسری طرف کھینچ رہا ہو جیسے رسہ کشی میں ہوا کرتا ہے یہ ایک تجاذب ہے.فرماتے ہیں: انسان ان دونوں تجاذب میں پڑا ہوا ہے پھر جس کی فطرت نیک ہے اور سعادت کا مادہ اس میں رکھا ہوا ہے وہ شیطان کی ہزاروں دعوتوں اور جذبات کے ہوتے ہوئے بھی اس فطرت رشید، سعادت اور سلامت روی کے مادہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی ہی طرف دوڑتا ہے اور خدا ہی میں اپنی راحت تسلی اور اطمینان کو پاتا ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 109 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء اب یہ جو تجربہ ہے یہ ہر انسان کو کبھی کبھی ضرور ہو جاتا ہے.بسا اوقات وہ جب کسی بری بات سے بھاگتا ہے تو اس کا دل گواہ ہو گا کہ اس کے نتیجہ میں ضرورتسکی اور راحت اور اطمینان پائے گا اور جو کلیۂ خدا کی طرف دوڑ رہا ہو اس کے ہر فیصلہ میں راحت اور اطمینان ہوگا.مگر ہر چیز کے لئے نشان ضرور ہوتے ہیں.جب تک اُس میں وہ نشان نہ پائے جاویں ، وہ معتبر نہیں ہوسکتی.( اب وہم و گمان کی بات نہیں ہے کہ آپ سمجھیں کہ ہاں ہم نے یہی کام کرنا ہوتا ہے.فرمایا کچھ نشان ضروری ہیں.) دیکھو دواؤں کی طبیب شناخت کر لیتا ہے.بنفشہ، خیارشنبر تربد میں.“ یہ وہ دوائیں ہیں جو پرانے رسمی طب میں استعمال ہوا کرتی تھیں ابھی بھی مختلف شکلوں میں آج کے اطبا بھی استعمال کرتے ہیں.فرماتے ہیں: اگر وہ صفات نہ پائے جائیں جو ایک بڑے تجربہ کے بعد اُن میں متحقق ہوئے ہیں تو طبیب اُن کو ر ڈی کی طرح پھینک دیتا ہے.“ دواؤں کی پہچان ان ناموں سے نہیں جن ناموں سے وہ بکا کرتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ وہ دوائیں جب طبیب خریدتا ہے تو پھر تجربہ کر کے دیکھتا ہے کہ ان کا فائدہ بھی ہوا ہے کہ نہیں.اگر وہ فائدہ اس میں نہ ہو تو وہ مصنوعی دوائیں ہیں بے کار دوائیں ہیں اور آج کل Third World میں دواؤں کے نام پر پتا نہیں کیا کیا بک رہا ہے اور اس لائق ہوتی ہیں اکثر دوائیں کہ وہ رڈی کی طرح ردی کی ٹوکری میں پھینک دی جائیں.اسی طرح پر ایمان کے نشانات ہیں.“ فرما یا ایمان بھی بعض نشانات رکھتا ہے اگر وہ نشانات تم میں نہ ہوں تو محض وہم ہے کہ تم میں ایمان ہے اس لئے اپنے ایمان کو اس طرح پر کھو جیسے طبیب دواؤں کو پرکھتا ہے اور وہ ایمان ایسے ہیں.فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بارا اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے.“ (الحکم جلد 5 نمبر 1 صفحہ:4،3 مؤرخہ 10 جنوری 1901ء) وہ ایسے نشان تو نہیں جو مخفی ہوں یا چھپے ہوئے تم سے، تمہارے دماغ میں آئیں ہی نہ.خدا کا کلام پڑھو تو ایمان کی ہر علامت کا اس میں بیان ہے.اس سے اپنے آپ کو پرکھو کیونکہ وہ دوا جو تجویز ہوئی ہے
خطبات طاہر جلد 17 110 خطبہ جمعہ 13 فروری1998ء وہ جھوٹی نہیں ہو سکتی ، تمہارا نفس جھوٹا ہو سکتا ہے.ایک موقع پر شہد کے استعمال کی بات تھی.ایک مریض کو پیٹ میں تکلیف تھی آنحضرت ملا لی تم نے شہد تجویز کیا اور وہ آیا کہ میں تو ابھی تک ویسا ہی ہوں.آپ مسلی ہم نے فرمایا اور شہد پیو.پھر آیا آپ صلی الہ وسلم نے فرمایا اور شہد پیو اور فرمایا کہ دیکھو تمہارا پیٹ جھوٹا ہو سکتا ہے مگر اللہ کا کلام جھوٹا نہیں ہوسکتا.شہد میں ضرور شفاء ہے اور اسی طرح شہد بار بار پینے سے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالکل شفایاب ہو گیا.(صحیح بخاری، کتاب الطب، باب الدواء بالعسل ،حدیث نمبر : 5684) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو ذکر فرمایا ہے وہ ان ایمان کی نشانیوں کا ذکر ہے جو لا ریب کتاب میں ہیں.جھوٹ اس کتاب میں داخل ہی نہیں ہوسکتا.وہ ساری نشانیاں سچی ہیں.ان نشانیوں کو اپنے اندر تلاش کرو.اگر ساری نشانیاں آپ میں مل گئیں تو آپ گو یا رسول اللہ صلی ا یہ تم کا عکس بن جائیں گے کیونکہ آپ سی ایم کی ذات کی تعریف میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا تھا: "كَانَ خُلُقُهُ القُرآن.(مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، حديث نمبر: 24601) آپ صلی ا ستم کا خلق تو قرآن تھا.تو کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چھوٹی چھوٹی ، سادہ ساده، پیاری پیاری نصیحتوں سے کتنے عظیم مضمون کی طرف آپ کو لے جاتے ہیں.ایسا مضمون جو ساری زندگی پہ حاوی ہو جاتا ہے اور انسان کو پتا بھی نہیں لگتا کہ کس طرف بلایا جارہا ہوں ورنہ شاید ڈر جاتا پہلے ہی رک جاتا، تھوڑا تھوڑا کر کے آگے قدم بڑھایا جا رہا ہے.پاس پہنچتا ہے انسان کہتا ہے اوہو میں تو ہر طرف سے گھیرے میں آگیا، اب تو مجال نہیں کہ ان باتوں کو نظر انداز کر سکوں.پس یہاں سے انشاء اللہ اگلے خطبہ کا مضمون شروع ہوگا سوائے اس کے کہ کچھ اور باتیں ایسی ہو جائیں جن کا بیچ میں ذکر کرنا ضروری ہوا کرتا ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی چھوٹی چھوٹی پیاری نصیحتوں کے نتیجہ میں جماعت بڑی بنتی چلی جائے گی.انشاء اللہ.
خطبات طاہر جلد 17 111 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء معرفت اور پاک تبدیلی پیدا کرنے کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات ونصائح ( خطبه جمعه فرموده 20 فروری 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَ إِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ دووو الغُرورِ پھر فرمایا: (آل عمران: 186) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الموتِ ہر جان نے موت کا مزہ ضرور چکھنا ہے.ہر جان کے لئے مقدر ہے کہ وہ موت کا مزہ چکھے.وَ إِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ اور تم اپنے بھر پورا جر قیامت کے دن دئے جاؤ گے.یہاں یہ مطلب نہیں ہے کہ اس دُنیا میں اجر نہیں دئے جاؤ گے.تُوَفُّون کا مطلب ہے بھر پور، ہر پہلو سے زیادہ سے زیادہ اجر قیامت کے دن دئے جاؤ گے.فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ پس جو بھی آگ سے دور رکھا جائے گا.وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ اور جنت میں داخل کیا جائے گا.فَقَد فَازَ پس یقیناً وہ کامیاب ہوگا.وَ مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ اور دُنیا کی زندگی تو ایک دھو کے کا فائدہ اٹھانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد 17 112 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء یہ آیت کریمہ زندگی اور موت کا فلسفہ بیان فرما رہی ہے.كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ میں ہر شخص جس کی جان ہے، ہر وجود جس کی جان ہے اس میں جانور بھی شامل ہیں اور انسان بھی شامل ہیں، جو بھی نفس رکھتا ہے اس نے بہر حال مرنا ہے اور جو جزا دئے جانے والے لوگ ہیں ان کو قیامت کے دن جزا دی جائے گی یعنی بھر پور جزا دی جائے گی.اس تعلق میں جو میں اقتباسات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پڑھ رہا ہوں اور پچھلے خطبہ میں بھی ایک اقتباس جاری تھا جب وقت ختم ہو گیا اب میں دوبارہ پڑھ رہا ہوں ، وہ یہ ہے.”دیکھو دواؤں کی طبیب شناخت کر لیتا ہے.بنفشہ، خیارشنبر تر بدمیں اگر وہ صفات نہ پائے جائیں جو ایک بڑے تجربہ کے بعد ان میں متحقق ہوئے ہیں تو طبیب ان کو ردی کی طرح پھینک دیتا ہے اسی طرح پر ایمان کے نشانات ہیں.اللہ تعالیٰ نے ان کو بار بار اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے.“ تو جس طرح ایک طبیب اس دُنیا کی زندگی میں ان دواؤں کو جن کا بار ہا تجربہ ہو چکا ہے جب اپنے اثر سے خالی دیکھتا ہے تو وہ رڈی کی طرح اٹھا کے پھینک دیتا ہے تو ایمان کے بھی ایسے ہی نشانات ہیں جو دلوں میں ظاہر ہونے چاہئیں یعنی انسان کے اعمال میں ظاہر ہونے چاہئیں.اگر ایمان کا گھونٹ پیا ہو اور وہ اثر نہ دکھائے تو کیا خدا کو طبیب جتنا بھی علم نہیں ہوگا کہ وہ پہچان لے کہ یہ ایمان گندہ اور ناقص تھا.اس میں ایمان کی صفات ہی نہیں ہیں.پس دوا ئیں اپنی صفات سے پہچانی جاتی ہیں ناموں سے نہیں پہچانی جاتیں اور ایمان بھی اپنی صفات سے پہچانا جاتا ہے نام سے نہیں پہچانا جاتا.یہ مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بیان فرما رہے ہیں اور وہ حصہ عبارت کا جو پڑھنے سے رہ گیا تھا وہ آج میں پڑھ کے سناتا ہوں.یہ سچی بات ہے کہ جب ایمان انسان کے اندر داخل ہو جاتا ہے تو اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی عظمت یعنی جلال ، تقدس، کبریائی ، قدرت اور سب سے بڑھ کر لا الہ الا اللہ کا حقیقی مفہوم داخل ہو جاتا ہے.“ الحکم جلد 5 نمبر 1 صفحہ :4 مؤرخہ 10 جنوری 1901ء)
خطبات طاہر جلد 17 113 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء اب یہ سادہ سی عام بات دکھائی دیتی ہے جو ہر کسی کو معلوم ہونی چاہئے مگر ایمان سچا ہو تو اس کے ساتھ اللہ کی کبریائی داخل نہ ہو، یہ بالکل غلط اور بے معنی تصور ہے.اس ایک جملہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام، ہر قسم کے گناہوں پر جرات کا فلسفہ بیان فرما دیا ہے اور ان کا علاج صرف ایک ہے، ایمان.اسی مضمون کو بعض اور تحریروں کی صورت میں میں نے آپ کے سامنے پیش کیا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم دیکھ لو کہ اس سوراخ میں سانپ ہے، جانتے ہو کہ زہریلا ہے اور پل سے منہ نکال کر پھر تھوڑ اسا پیچھے ہٹ جاتا ہے ناممکن ہے کہ تم اس میں انگلی ڈالو خواہ وہ سانپ بظاہر کیسا ہی خوبصورت کیوں نہ دکھائی دے.کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه : 66) تو ایمان کی حقیقت انسان کے عمل سے ظاہر ہوتی ہے.اگر جانتا ہے کہ میرا عمل اللہ کو ناراض کرنے والا ہے اور اس کی پکڑ سے پھر مجھے کوئی بچا نہیں سکتا تو ناممکن ہے کہ وہ گناہ پر جرات کرے.پس ایمان کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں لازم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عظمت یعنی جلال ، تقدس، کبریائی ، قدرت اور سب سے بڑھ کر لا الہ الا اللہ کا حقیقی مفہوم انسان کے جسم میں داخل ہو جائے یعنی اس میں خدا کے سوا باقی کوئی نہ رہے.سارے اسلام کا خلاصہ یہ ہے، سارے ایمان کا خلاصہ یہ ہے.تمام زندگی کے اونچ نیچ کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اس کا خلاصہ اسی عبارت میں بیان فرما دیا گیا ہے.کبھی انسان خدا کے قریب تر ہوتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں اونچا ہو گیا ہوں کبھی وہ خدا سے دُور ہٹتا ہے تو سمجھتا ہے کہ میں نیچا ہو گیا ہوں.یہ زیرو بم زندگی میں پیدا ہوتے رہتے ہیں اگر آپ اپنے نفس پر غور کر کے دیکھیں تو ہمیشہ ان کا تعلق ایمان کی وضاحت یا اس کے ابہام کے ساتھ ہوگا.جہاں ایمان، جیسا کہ کبھی کبھی تجربہ میں آیا ہے، ایک دم کھل کے اپنی جلوہ نمائی کرے وہ وقت ہے جب انسان حقیقت میں سب سے اونچا ہوتا ہے اور بدی سے دور تر ہوتا ہے اور جب انسان کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے، ایمان رکھتے ہوئے بھی اس کے تقاضوں سے غافل ہو جاتا ہے تو وہ ایک اندھیرے کے سائے میں چلا جاتا ہے اور وہاں سے گناہ کئی بھیس بدل کر اس پر حملہ آور ہوتے ہیں.پس اس پہلو سے حضرت اقدس علیہ السلام کی مزید نصائح میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ ہی کے الفاظ میں ان نصائح کا لطف آتا ہے ورنہ اپنی زبان میں ترجمہ محض اس لئے کرتا ہوں کہ بہت سے ہمارے کم تعلیم یافتہ آن پڑھ لوگ بھی ہیں ان کو اگر سمجھایا نہ جائے تو وہ عبارتیں ان کو سمجھ نہیں آسکتیں.فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 114 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء 66 ” یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اُس کے اندر سکونت اختیار کرتا ہے.“ ایمان وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی سکونت پر منتج ہوتا ہے.آپ کو دُنیا میں جس چیز پر ایمان ہے اس کا تصور آپ کے اندر سکونت پذیر ہے اور وہ تصور آپ سے الگ کبھی نہیں ہوتا.جس چیز پر ایمان ہی نہیں ہے اس کا تصور آپ کے اندر سکونت پذیر نہیں ہو سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ایمان کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو دور کا واہمہ ہو.اللہ پر سچا ایمان ہو تو اللہ آپ کی ذات میں سکونت پذیر ہوجاتا ہے.فرمایا اور شیطانی زندگی پر ایک موت وارد ہو جاتی ہے اور گناہ کی فطرت مرجاتی ہے.یہ ہے ایمان کی نشانی.پس اگر تر بد کی نشانی ہے یا بنفشہ کی نشانی ہے یا اور چیزوں کی نشانی ہے تو ایمان کی بھی تو ایک نشانی ہونی چاہئے اور ایمان کی یہ اصل نشانی ہے.اور گناہ کی فطرت مرجاتی ہے.اس وقت ایک نئی زندگی شروع ہوتی ہے اور وہ روحانی زندگی ہوتی ہے یا یہ کہو کہ آسمانی پیدائش کا پہلا دن وہ ہوتا ہے(جب انسان دُنیا میں از سر نو پیدا ہوتا ہے) جب شیطانی زندگی پر موت وارد ہوتی ہے اور روحانی زندگی کا تولد ہوتا ہے جیسے بچہ کا تولد ہوتا ہے.“ الحکم جلد 5 نمبر 1 صفحہ :4 مؤرخہ 10 جنوری 1901ء) بچہ کا تولد بھی انسانی زندگی میں ایک ایسا فعل ہے جو دوہرایا جاتا ہے.انسان کی روح سے ایک بچہ پیدا ہوتا ہے اور وہ ایمان کی برکت سے پیدا ہوتا ہے اگر ایمان نہ ہو تو انسانی زندگی میں وہ نیا بچہ پیدا نہ ہوگا.اب حضرت اقدس علیہ السلام کی اس عبارت کی تشریح کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی طرف میں واپس لوٹتا ہوں جس کی میں نے تلاوت کی تھی.كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ المَوتِ ہر شخص نے ضرور موت کا مزہ چکھنا ہے.یہاں ظاہری موت کی بات نہیں ہو رہی بلکہ ایک اور قسم کی موت کی بات ہو رہی ہے.ہر شخص یا شیطان کے ہاتھوں ہلاک ہوگا یا اللہ کی خاطر خود اپنے آپ کو قربان کر دے گا.یہ دو ہی امکانی موتیں ہیں جو روحانی زندگی میں رونما ہوا کرتی ہیں.پس كُل نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اس دُنیا میں یا تو ضرور گا ی کو ہلاک ہو جائے گا اور شیطان کے ہاتھوں مارا جائے گا یا اللہ کی خاطر جیسے ابراہیم نے اپنے بچہ کو پیش کر دیا تھا اور اس سے پہلے اپنے نفس پر چھری پھیری تھی اسی طرح وہ ابراہیم کی طرح اپنے نفس پر
خطبات طاہر جلد 17 115 خطبہ جمعہ 20 فروری 1998ء ایک موت وارد کر لے گا.یہ مقدر ہے اس عمل سے کوئی شخص متقی نہیں ہے.وَ إِنَّمَا تُوَفُونَ أجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيِّمَةِ اس میں یہ خوشخبری ہے کہ قیامت کے دن تمہیں بھر پور اجر دیا جائے گا لیکن اس دنیا میں نئی زندگی کی صورت میں اجر دیا جا چکا ہوتا ہے.اگر وہ نہ ہو تو قیامت کے دن بھر پورا جر کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.پس اس نئی پیدائش کے بعد اگر وہ شیطانی پیدائش ہے یعنی شیطانی موت کے نتیجہ میں ایک بظاہر زندگی ملتی ہے تو اس کا بھی بھر پور اجر قیامت کے دن دیا جائے گا اور اگر روحانی موت تھی خدا کی خاطر اور روحانی زندگی تھی جو اس موت کے بعد لازماً عطا ہوئی تھی تو اس کا بھی بھر پورا جر قیامت کے دن دیا جائے گا.اور پہچان یہ ہوگی فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فقد فاز اس وقت جو آگ سے دور کیا جائے گا آگ سے بہت دور رکھا جائے گا اور جنت میں داخل کیا جائے گا وہی ہے جو کامیاب ہوگا اور فقد فاز کا مطلب ہے یقیناً کامیاب ہوگا اس کی کامیابی میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے.یہ فرمانے کے بعد یہ تنبیہہ ہے وَ مَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ دھوکے کی زندگی ، دھوکے کی منفعتیں ہیں جن میں تم مبتلا ہو جاتے ہو اور اس دُنیا میں اس دھو کے کے فوائد کے سوا ، جو فوائد دکھائی دیتے ہیں مگر دھو کے ہوتے ہیں، ان کے سوا اس زندگی کی کوئی بھی حقیقت نہیں ہے.پس اس آیت کی تشریح تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے تھے اور اس آیت کے ساتھ اس مضمون کا ایک گہرا، نہ ٹوٹنے والا تعلق ہے.اب یہ ساری باتیں تو بہت پیاری باتیں ہیں، بہت دل چاہتا ہے انسان کا کہ میں ان لوگوں میں شمار ہو جاؤں جنہیں اس دُنیا میں ہی نئی زندگی مل جائے اور قیامت کے دن آگ سے دور کیا جاؤں لیکن آگ سے دور کیا جانا بھی ایک ایمان کو چاہتا ہے.جس کو آگ پر ایمان نہیں وہ آگ سے دور نہیں کیا جائے گا.جس کو یقین نہیں ہے کہ جس آگ کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے وہ ضرور بھڑکائی جائے گی اور جس کو آگ کی گرمی اور تمازت کا تجربہ نہیں اور تجربہ ہے تو غافل آنکھوں سے وہ اس آگ کو دیکھتا ہے اور غافل دل سے اس کو محسوس کرتا ہے، ایسا شخص قیامت کے دن آگ کو دیکھے گا اور وہ جس طرح أُدْخِلَ الْجَنَّةَ ہے، اُدْخِلَ النَّارِ وہ آگ میں ڈالا جائے گا.اس لئے یہ ایمان بھی تو ضروری ہے کہ جیسے جنت حق ہے ویسے جہنم بھی ایک حق ہے اور جس کو یہ یقین ہو جائے کہ قرآن کریم کی یہ باتیں سچی ہیں وہ لازماً آگ سے دور ہٹنا شروع ہو جائے گا اور اس کی باقی زندگی آگ سے دوری کا ایک سفر ہوگی.
خطبات طاہر جلد 17 116 خطبہ جمعہ 20 فروری 1998ء ہر عمل جو اس سے ظاہر ہوتا ہے اس پر غور کر کے دیکھے گا کہ یہ عمل کہیں آگ کے قریب تو نہیں کر رہا اور اگر وہ سوچے اور بیدار رہے اور جان لے کہ واقعہ یہ عمل آگ کے قریب کر رہا ہے تو دُنیا کی آگ کے قریب ہونے کے اپنے تجربہ کو ذہن نشین کر کے دیکھ سکتا ہے کہ آگ ہے کس غضب کا نام کس بلا کو آگ کہتے ہیں اور وہ آگ جو قیامت کے دن بھڑکائی جائے گی وہ اس سے بہت زیادہ شدید ہے جو اس دُنیا کی آگ ہے اور اس آگ کا تجربہ ہم رکھتے ہیں اگر چہ غفلت کی حالت میں وہ تجربہ کرتے ہیں.ان امور کو یا درکھنے کا طریقہ کیا ہے ان امور سے جو بیان ہوئے ہیں فائدہ اٹھانے کا طریقہ کیا ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک خدا کے خوف کے سوا اور کچھ نہیں ہے.جو انسان خدا کو غالب اور قادر سمجھے وہ اس سے ڈرتے ڈرتے زندگی بسر کرے گا.فرمایا: اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یادرکھو 66 کہ سب اللہ کے بندے ہیں.“ دیکھیں یہ باتیں کتنی سادہ، کتنی پیاری کتنی روزمرہ کے تجربہ کی باتیں ہیں اور ایسی حقیقتیں ہیں جن کے دل میں جگہ پکڑنے کے لئے دلائل کی ضرورت نہیں ہے.”خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں.تمہاری بیویاں، تمہارے بھائی ،تمہاری بہنیں، تمہاری بیٹیاں یا بیویوں کے خاوند اور سب رشتہ دار اور وہ جو رشتہ دار نہیں بھی ہیں تمام انسان سب کے سب اللہ کے بندے ہیں.یہ احساس ہے جو دل میں جاگزیں ہونا ضروری ہے اور اس احساس کو اللہ کے خوف میں تبدیل کر دو.خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو.“ اللہ کی عظمت کے نتیجہ میں دیکھو کہ ان سب پر تمہاری کیا فضیلت ہے.جو کچھ تھوڑی سی برتری کسی کو کسی اور پہ نصیب ہوئی ہے وہ سوائے اللہ کے فضل کے اور اس کی عظمت کے ممکن ہی نہیں تھا کہ اس کو نصیب ہوتی.تو انسان اپنی خوبیوں سے ایک طرح سے تہی دست ہو جاتا ہے، انسان اپنی مملکتوں سے ایک طرح سے تہی دست ہو جاتا ہے اس کی بڑائیاں ، دُنیا میں اچھے گھر میں پیدا ہونا یا اس کا کسی غریب کے گھر میں پیدا ہو جانا یہ چیزیں اس کے دل میں بنی نوع انسان میں تفریق نہیں کرتیں کیونکہ توحید تفریق ہونے نہیں دیتی اور خدا کی عظمت کا یہ معنی ہے کہ جب اس کی عظمت دل پر راج دھانی شروع کر دے تو ہر دوسرا انسان اسی راج دھانی کے اندر ایک وجود دکھائی دیتا ہے اور اس پر کسی برتری کے
خطبات طاہر جلد 17 117 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء احساس کا سوال پیدا نہیں ہوتا.برتری اللہ تعالیٰ عطا فرماتا ہے اور انسان اسے خدا تعالیٰ کی رضا کے دائرہ میں استعمال فرمائے تو اس کا کوئی گناہ نہیں لیکن یہ برتری تکبر یا نخوت کا رنگ اختیار کرلے تو جس حد تک وہ تکبر اور نخوت کا رنگ اختیار کرتی ہے اسی حد تک خدا کی عظمت اس سے اٹھ جاتی ہے اس حد تک اس کے دل پر وہ سایہ نہیں کرتی.66 یا در کھوسب اللہ کے بندے ہیں کسی پر ظلم نہ کرو.“ اب ظلم کرنے کا خیال یا واہمہ انسان کے دل میں اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب عظمت نہ ہو یعنی اللہ کی عظمت نہ ہو.اللہ سر پر کھڑا ہو اور اس کی عظمت جلوہ گر ہو تو ہو کیسے سکتا ہے کہ اس کے کسی بندہ پر کوئی انسان ظلم کا سوچے بھی.نه تیزی کرو، نہ کسی کو حقارت سے دیکھو.“ اب ظلم کے بعد جو تیزی ہے یہ بہت اہم لفظ ہے جو یا درکھنے کے لائق ہے.ظلم اور تیزی ایک دوسرے سے اٹوٹ تعلق رکھتے ہیں.ظلم کا خیال اگر آ جائے اور انسان اس کو مٹادے تو وہ ظلم نہیں لیکن ظلم کے ساتھ جب طبیعت کی تیزی داخل ہو جائے.ادھر غصہ آیا اور ادھر غصہ کا کوئی بدنتیجہ کسی دوسرے انسان پر ظاہر کر دیا جائے یہ تیزی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام الفاظ کے اختیار میں بہت بار یک نظر رکھتے ہیں اور بڑے علم کے ساتھ الفاظ کو ایک دوسرے کے بعد سجاتے ہیں.کسی پر ظلم نہ کرو، نہ تیزی کرو.اب کسی عام آدمی کے دماغ میں یہ خیال آہی نہیں سکتا.یہ صاحب عرفان وجود کا کلام ہے اور اب آپ تیزی کو ظلموں کے ساتھ ملا کر دیکھیں تو آپ کو تمام دنیا میں فسادات کا فلسفہ سمجھ آجائے گا.ہر فساد، ہر ظلم تیزی کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے.اگر انسان رک جائے اور فوری اثر نہ دکھائے اور اپنی تیزی کو کند کر دے یعنی اپنے علم کے ساتھ یا خدا خوفی کے ساتھ تو دنیا فساد سے خالی ہو جائے گی.ساری دنیا میں تیزیاں ہیں جود کھائی جارہی ہیں.نہ کسی کو حقارت سے دیکھو.اگر اللہ کے بندے ہیں اور تم نے پہچان لئے ہیں کہ اللہ کے بندے ہیں تو جو بھی دین ہے وہ اللہ کی دین ہے.اگر اس نے چھوٹا پیدا کیا تو تمہارا کوئی حق نہیں کہ ایسے بندے کو حقارت سے دیکھو.ایسے بندے کو رحم سے دیکھنا چاہئے اور خدا کا خوف کرتے ہوئے کوشش کرنی چاہئے کہ جو ظاہری بڑائی تمہیں ملی ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ تم اس حقیر بظاہر حقیر بندے کی طرف منتقل کردو.
خطبات طاہر جلد 17 118 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء ” جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے، تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.“ یہ ایک ایسا تجربہ ہے جو ہم نے بارہا دیکھا ہے.اچھے بھلے لوگوں میں، نیک جماعت کے اندراگر کوئی گندی مچھلی مل جائے تو جیسے کہ وہ سارے تالاب کو گندہ کر دیتی ہے ان لوگوں میں آہستہ آہستہ گندگی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے.جب تک وہ اس کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے ہیں اس کو اپنی مجالس میں شریک کرتے ہیں اس وقت تک وہ لازماً گندے ہوتے چلے جاتے ہیں.اس کا گہرا فلسفہ یہ ہے کہ ایسا شخص جوگند بکتا ہے یا گندی زندگی گزار رہا ہے کوئی شخص جو اللہ کی عظمت اپنے دل میں رکھتا ہو اس کے قریب ہی نہیں جائے گا، کبھی اس کو اپنی مجالس میں نہیں بیٹھنے دے گا، کبھی اپنی مجالس میں اس کی دعوت نہیں کرے گا ، کبھی دعوتوں میں شریک ہوگا تو اس کے قریب نہیں پھٹکے گا.کوشش کرے گا کہ اچھے لوگوں کے ساتھ ایک طرف ہو جائے اور اس کے باوجود اس میں تکبر نہیں ہوتا، اس میں احتیاط ہوتی ہے.اب کوئی شخص کہے کہ سانپ کو بل میں گھتے ہوئے دیکھا اور دور بھاگ گئے.بڑے متکبر ہو جو اس طرح سانپ بے چارہ سے سلوک کر رہے ہو.احمق ہے جو اس ہلاکت سے بچنے کو تکبر سمجھتا ہے.ہلاکت سے بچنے کے انتظام کرنے کو تکبر نہیں کہا جاتا.یہ وہ احتیاطیں ہیں جو لازم ہیں.یہ وہ احتیاطیں ہیں جن کا قرآن کریم میں واضح ذکر موجود ہے کہ جب کوئی مجلس بیہودہ سرائی کر رہی ہو اور خدا اور خدا والوں کے متعلق تحقیر کے کلمات استعمال کر رہی ہو، اگر تم سچے ایمان والے ہو تو لازم ہے کہ فوراً اُٹھ کر اس مجلس سے الگ ہو جاؤ، اس کو تکبر نہیں کہا جاتا لیکن اگر وہ لوگ صاف ستھری باتیں کریں تو مستقلاً ان سے الگ نہیں ہونا.جب وہ اچھی باتیں کر رہے ہوں تو ان کی باتوں کو دیکھو پھر بے شک ان سے تعلق رکھو لیکن اگر دوبارہ پھر وہ ایسا عمل کریں تو پھر اپنے آپ کو ہلاکت سے بچانے کے لئے تمہارا فرض ہے کہ ان سے قطع تعلقی کرلو.یہ قرآنی مضمون ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں بیان فرمارہے ہیں.کسی کو حقارت سے مت دیکھو اس کے باوجود جو گندے لوگ ہیں ان سے کنارہ کشی کرو کیونکہ وہ تمہیں بھی اور تمہاری سوسائٹی کو گندہ کر دیں گے.بہت سے ایسے خاندانوں کی مثالیں ساری دُنیا میں ملتی ہیں کہ ایک لڑکے یا لڑکی نے نظام جماعت کی بے حرمتی کی ہے اور گندی مجلس والے لوگ ہیں اور مائیں یا باپ ان کو بلا کر پیار سے اپنے گھر میں جگہ دیتے ہیں.وہ اپنی باقی اولاد پر سخت ظلم کرنے
خطبات طاہر جلد 17 119 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء والے ہیں.ان سے علیحدگی کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آپ کو ان سے محبت کا رشتہ نہیں رہا.علیحدگی کی وجہ یہ ہے کہ جو اولا دگھر میں موجود ہے یا آپ خود میاں بیوی بھی اپنے نفس کا حق تو ادا کریں.یہ نہیں ہوسکتا کہ کسی ایسے شخص سے محبت کا تعلق اس طرح رکھا جائے کہ اس کا زہر آپ کے اندر داخل ہو جائے.بعض لوگ کتوں سے بھی پیار کرتے ہیں مگر بیچ کر رہتے ہیں کہ ان کا زہر آپ کے اوپر نہ اگلا جائے، ان کے دانت آپ کو زخمی نہ کر دیں.پس یہاں یہ معاملہ ہے جو احتیاط کا معاملہ ہے اور لوگ سمجھتے نہیں.نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ ایسے لوگوں کے اثر سے سارا خاندان گندہ ہوجاتا ہے اور رفتہ رفتہ وہ جماعت سے کٹ کے الگ ہو جاتا ہے.کاٹا نہ بھی جائے تو خود کٹ جاتا ہے.ایسی بہت سی مثالیں ہمارے سامنے ہیں یہاں بھی ہیں ، امریکہ میں بھی ہیں ، پاکستان میں جگہ جگہ ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور رفتہ رفتہ میں نے ہمیشہ ان خاندانوں کو زندگی کے سرچشمہ سے کٹ کرموت کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا ہے جو شیطانی موت ہے اور اس کے بعد پھر کوئی روحانی زندگی نہیں.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان اقتباسات کو گہری نظر سے دیکھیں گے اور غور سے سنیں گے اور دل نشین کریں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بہتر نصیحت کرنے والا رسول اللہ صلی ا ستم کے بعد کبھی پیدا نہیں ہوا.ایک ذرہ بھی اس میں شک نہیں ہے.چند کلمات ایسے ہیں جیسے کیمیا گر ہو کوئی ، وہ مٹی سے سونا بنادے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلمات کو غور سے دیکھیں اور ان کلمات میں سب سے بڑی اہمیت تحریروں کو نہیں جتنی زبانی کلام کو ہے جو نصیحت کے طور پر آپ نے مجلس میں کیا یا باہر کیا.ان کو ملفوظات کے نام سے شائع کیا گیا ہے.اگر کسی نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سچی ، گہری شخصیت کو پہچانا ہو تو مناظرہ والی تحریروں سے الگ ملفوظات کو دیکھیں تو ملفوظات کی ایک ہی جلد ساری زندگی کو پاک صاف کرنے کے لئے کافی ہے بلکہ ملفوظات میں سے بعض سطریں ایسی ہیں جو ساری زندگی پر حاوی ہوسکتی ہیں.ایک انسان اس کو غور سے پڑھے اور ان کا گہری نظر سے اور محبت سے مطالعہ کرے.اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے، تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے.اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹولو کہ یہ حرارت کسی چشمہ سے نکلی ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 120 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء بہت پیاری نصیحت ، بہت ہی گہری، ہر انسان جانتا ہے کہ کس کس معاملہ میں اس میں گرمی پائی جاتی ہے اور وہ گرمی اللہ تعالیٰ کے معاملات سے تعلق رکھتی ہے.بعض لوگوں کی جو گرمی ہے اگر وہ غور کریں تو ان کو بتا دے گی کہ یہ دُنیا داری تھی خدا کی محبت نہیں تھی.پس دُنیا داری کی گرمی بعض دفعہ اپنی اولاد کی نصیحت کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے، اولاد پر سختی کی صورت میں بھی ظاہر ہوتی ہے مگر اس وقت جب وہ دُنیا سے دور ہٹ رہے ہوں یا دُنیا کی کمائی سے پیچھے ہٹ رہے ہوں.جن لوگوں کے دل میں اس وقت سختی پیدا ہوتی ہے وہ گرمی ہے لیکن وہ اگر غور کر کے دیکھیں تو ان کو معلوم ہوگا کہ ان کی گرمی محض اللہ سے دوری کی وجہ سے تھی اور دُنیا سے پیچھے ہٹنے کی وجہ سے تھی.پس فرما یا ٹھہرو اور غور کرو، اپنے دل کو ٹولو کہ یہ حرارت کسی چشمہ سے نکلی ہے.اگر اللہ تعالیٰ کی محبت کے چشمہ سے نکلی ہے تو پھر یہ گرمی اور نمونے کی گرمی ہوگی اور یہ گرمی آگ سے بچانے والی گرمی ہے اور وہ دوسری گرمی آگ میں ڈالنے والی گرمی ہے.پس اس ایک فقرہ پر ہی آپ غور کریں اور دل کو ہر ایسے موقع پر ٹولیں.جب آپ کے اندر گرمی پیدا ہوتی ہے تو بسا اوقات آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کو اپنے نفس کے کچلے جانے سے غصہ آیا ہے یعنی وضاحت کو چھوڑ کر دوسرے معاملات کی بات اب میں کر رہا ہوں.کسی بات میں گرمی پیدا ہوتی ہے اس گرمی کا تعلق لازماً اپنے نفس کے کچلے جانے سے ہوتا ہے جو خدا کی نظر میں مغضوب گرمی ہے جو خدا کو غضب دلانے والی گرمی ہے اس کا اللہ کی خاطر، اللہ کی رضا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا.پس اپنے دل کو ٹولو میں جو نصیحت ہے وہ ایسی عظیم نصیحت ہے کہ آپ اگر ٹولیں نہ تو آپ کو پتا بھی نہیں لگ سکتا کہ دل کو ٹولنا ہوتا کیا ہے.جہاں گرمی پیدا ہو وہاں ٹٹولیں اور بعض دفعہ راکھ کے نیچے چنگارے اور کو کلے دکھائی دیتے ہیں یعنی بظاہر ایک راکھ نے ان کو چھپایا ہوا ہے مگر آپ جب ٹٹولیں گے تو پتا چلے گا کہ اندر در اصل شیطانی گرمی تھی جو ایک موقع پر سراٹھا کر باہر نکلی ہے.چنانچہ فرمایا: یہ مقام بہت نازک ہے.“ (البدر جلد 11 نمبر 8، 9صفحہ:3 مؤرخہ 30 نومبر 1911ء) یہ نازک لفظ پر جو بات ختم کی ہے یہ اپنی ذات میں ایک الگ اہمیت رکھتی ہے.اگر تم سمجھتے ہو کہ نہ بھی ٹولوں تو کیا فرق پڑتا ہے، زندگی گزر رہی ہے.فرمایا ” یہ مقام نازک ہے.اگر تم نے غفلت کی تو یہ غفلت تمہیں آگ کا ایندھن بنا سکتی ہے اور ہر وہ بات جو نازک ہو اس تعلق میں جس میں بیان کیا جارہا
خطبات طاہر جلد 17 121 خطبہ جمعہ 20 فروری 1998ء ہے وہاں نازک سے مراد یہ ہے Critical جیسے انگریزی میں کہتے ہیں یعنی پاؤں رپٹا تو بعید نہیں کہ آپ جہنم میں جا پڑیں.اس لئے اس نصیحت کو پہلے سے باندھ لو اور ہر ایسے موقع پر جبکہ تمہاری روح تمہیں تیزی دکھاتی محسوس ہو غور کرو کہ یہ تیزی کہاں سے آئی ہے، عقل اس کے بغیر نصیب ہوہی نہیں سکتی.لوگوں کا خیال ہے کہ اس صفت کے بغیر حقیقت میں انسان عقل حاصل کر سکتا ہے.ساری دنیا خدا سے دوری کے نتیجہ میں بے عقل ہے اور بظاہر بڑے بڑے عاقل موجود ہیں، بڑی بڑی عقل والی قومیں موجود ہیں لیکن جو فیصلہ کے مواقع ہیں ان میں ہمیشہ وہ فیصلہ بظاہر اپنے حق میں کر رہے ہوتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کی ناراضگی مول لے کر جہنم کی راہ اختیار کر رہے ہوتے ہیں.اس لئے مغربی قوموں کی ظاہری بڑائی سے ہرگز متاثر نہ ہوں.ان کی اچھی چیزیں ضرور سیکھیں لیکن آج ساری دُنیا کی قیادت بدنصیبی سے ایسے لوگوں کے ہاتھ میں ہے جن کو اپنے دل کی حرارت ٹٹول کر دیکھنے کا موقع ہی نصیب نہیں ہوتا، جن کا ہرا ہم فیصلہ خدا کے تعلق سے عاری ہوا کرتا ہے.ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں آتا کہ یہ فیصلہ آیا خدا کی رضا کو حاصل کرنے والا ہے یا خدا کے غضب کو حاصل کرنے والا ہے.یہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں : یا درکھو کہ عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے.“ کتنے ہیں جو اس مضمون کو جانتے ہیں.وہ سمجھتے ہیں عقل دماغ کی تیزی سے پیدا ہوتی ہے، شوخی سے پیدا ہوتی ہے، لمبے علم اور لمبے تجربہ سے پیدا ہوتی ہے، یہ سب جھوٹ ہے.بڑے بڑے صاحب علم، بڑے بڑے صاحب دماغ، بڑے بڑے تعلیم یافتہ جب بھی فیصلہ کرتے ہیں وہ خدا کی رضا سے الگ ہو کر اسے بے ضرورت سمجھ کر فیصلہ کرتے ہیں.پس ان کی عقل کا روح کی صفائی سے کوئی تعلق نہیں اس لئے وہ عقل سے عاری ہیں.فرمایا: یا درکھو کہ عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے.جس قدر انسان روح کی صفائی کرتا ہے اُسی قدر عقل میں تیزی پیدا ہوتی ہے اور فرشتہ سامنے کھڑا ہوکر اس کی مددکرتا ہے.“ یہ بھی ایک بہت عظیم الشان مضمون ہے.انسان جو روح کی صفائی کے نتیجہ میں عقل حاصل کرتا ہے اس عقل کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ خدا کی خاطر اس فیصلہ کو رڈ کر دے جو بظاہر دُنیا میں اس کے حق میں ہونا چاہئے اور اس فیصلہ کو خدا کی خاطر قبول کرلے جو ظاہر و باہر طور پر اس کے فوری مفاد کے خلاف ہو.
خطبات طاہر جلد 17 122 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء اگر ایسا کرے اور واقعہ خدا کی خاطر کرے تو محض یہ عقل نہیں ہے بلکہ عقل آخری نتیجہ کے لحاظ سے عقل ہے.عقل کا نتیجہ یہ نکلنا چاہئے کہ آپ کو خدا تعالیٰ ٹھوکر سے بچائے اور آپ کے مفاد کے لئے غیب سے انتظام کرے.جس کو یہ عقل حاصل ہو جائے کہ ہر فعل میں اور ہر فیصلہ میں فائدہ ہی فائدہ ہے اور کسی فیصلہ میں کوئی نقصان نہیں ہے یہ وہ شخص ہے جس کو یہ یاد دہانی بھی کرائی جاتی ہے کہ قیامت کے دن تمہاری ہر قربانی پر نظر رکھی جائے گی.یہ عارضی دنیا گزرگئی تو تمہارا کوئی بھی نیک اقدام ضائع نہیں کیا جائے گا لیکن اس کے علاوہ ایک اور خدا کا سلوک ہوتا ہے جو غیر معمولی طور پر ، خدا کو حاضر ناظر جان کر اپنی زندگی کے اہم فیصلے کرتے ہیں ان کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” اور فرشتہ سامنے کھڑا ہو کر اُس کی مدد کرتا ہے.یہ جو فرشتے ہیں، جو سامنے کھڑا ہوکر ان کی مدد کرتے ہیں یہ بھی صاحب تجربہ کو پتا ہے کہ ایک معاملہ میں جب کوئی سہارا نہیں رہتا اچانک ایک آدمی نمودار ہو جاتا ہے.ہوتا تو انسان ہے مگر وہ سامنے کھڑا ہو کر مدد کر رہا ہے اور آپ کو پتا نہیں کہ کیوں کر رہا ہے.کیا وجہ ہوگئی اور یہ واقعات بکثرت احمد یوں کے تجربہ میں ہیں، یہ کوئی فرضی بات نہیں ہے.اگر آپ سمجھتے ہوں کہ فرشتہ واقعہ متمثل ہو کر سامنے اترتا ہے تو یہ حقیقت آپ کے لئے ایک خواب بنی رہے گی اور آپ کہیں گے ہم بھلا کہاں ایسی طاقت رکھتے ہیں.ہم میں کہاں ایسی ولایت اور بڑائی آگئی کہ خدا کی خاطر کوئی فرشتہ اترے اور سامنے کھڑے ہو کر مدد کرے لیکن میری ساری زندگی کا تجربہ ہے اور ہزاروں احمدی ہیں جنہوں نے اپنے تجربوں سے مجھے مطلع کیا ہے کہ ایسے وقت میں جبکہ ایک بات بالکل ناممکن دکھائی دیتی تھی ایک آدمی ظاہر ہوا ہے اور وہ مدد کر رہا ہے اور کچھ پتا نہیں کہ کیوں مدد کر رہا ہے.وہ غیب سے آتا ہے اور ایسے آدمیوں کا نام اللہ تعالیٰ نے وہ فرشتہ رکھا ہے جس کو مدد کے لئے فرمان ملتا ہے یعنی اس کو پتا بھی نہیں کہ یہ فرمان ہورہا ہے لیکن مدد کے لئے اس کو استعمال کیا جاتا ہے اور ہر ایسا شخص جو ناممکن حالت میں کسی کو اپنی مدد کرتے ہوئے دیکھے تو اس کو یقین کر لینا چاہئے کہ فرشتوں کی مدد اس طرح آیا کرتی ہے.66 دد مگر فاسقانہ زندگی والے کے دماغ میں روشنی نہیں آسکتی.“ جو شخص بھی گندی زندگی بسر کرتا ہے خدا سے دوری کی زندگی بسر کرتا ہے اس کے دماغ کو آپ روشن نہیں دیکھیں گے.
خطبات طاہر جلد 17 123 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء تقوی اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.(چند الفاظ ہیں کتنے وزنی ہیں کس طرح دل پر حاوی ہو جاتے ہیں.تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.صادق کے ساتھ رہو کہ تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے.“ الحکم جلد 7 نمبر 12 صفحہ: 3 مؤرخہ 31 مارچ 1903ء) یہ دوسرا پہلو جو ہے یہ بھی بہت ہی کارآمد اور روز مرہ کی زندگی پر اثر انداز ہونے والا پہلو ہے.صحبت صالحین کا فلسفہ آپ نے بیان فرمایا: ” تقویٰ اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.‘اگر خدا تمہارے ساتھ ہو گا تو تمہیں بھی اپنی عادت میں ایسی تبدیلی پیدا کرنی ہوگی کہ تم صادق کے ساتھ رہو اور ” خدا تمہارے ساتھ ہو.‘ کی پہچان بیان فرما دی.کوئی انسان کہہ سکتا ہے اللہ ہمارے ساتھ ہے.کبھی مشکل میں عام آدمیوں کی بھی مدد ہو جایا کرتی ہے اور اللہ تعالی مدد فرما دیتا ہے، مشرکین کی بھی مدد فرما دیتا ہے.اس سے کسی کو یہ دھوکا نہ ہو کہ خدا ہمارے ساتھ ہے.جب خدا ساتھ ہوتو ہر معاملہ میں ، زندگی کے ہر موڑ پر خدا ساتھ ہوتا ہے اور اس کی ظاہری پہچان دیکھیں کتنی پیاری بیان فرمائی.” صادق کے ساتھ رہو.اگر تمہارے ساتھ خدا ہے تمہیں وہم ہے ایک ، یا خیال ہے یا یقین ہے تو پھر تم بھی تو خدا کے ساتھ رہو اور جو خدا کے ساتھ رہنے والے لوگ ہیں ان کے اندر صدق کی نشانیاں پائی جاتی ہیں، طبعاً تم ان کے ساتھ رہو گے.تو ایک نصیحت اور اس نصیحت کا جواب اور اس نصیحت کو پہچاننے کی علامتیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام ساتھ ساتھ بیان فرمارہے ہیں.ایک ہی عبارت ہے جو ساری زندگی پہ حاوی ہو سکتی ہے اور اگر آپ تیزی سے پڑھ جائیں تو آپ کو پتا بھی نہیں لگے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا فرما گئے ہیں.اگر یقین ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کوئی کلمہ بھی قرآن اور حدیث اور اپنے روحانی تجربہ سے الگ نہیں ہے اور ہر فقرہ پہلے فقرہ سے ایک تعلق رکھتا ہے.اگر یہ یقین نہ ہو تو آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں کی کوئی سمجھ نہیں آئے گی.پس اب یہ دیکھیں ” تقوی اختیار کرو کہ خدا تمہارے ساتھ ہو.“ اتنا اعلیٰ تقویٰ کا پھل ہے جو بیان فرمایا گیا، ہمارے سامنے رکھا گیا، ساتھ ہی ” صادق کے ساتھ رہو.اگر چاہتے ہو خدا تمہارے ساتھ ہو تو جو خدا کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ رہو اور خدا جن کے ساتھ ہے ان کے ساتھ رہو کہ تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے.جب خدا کے سچے لوگوں کے سلوک کو قریب سے دیکھو گے تو وہ وقت ہے جب تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے گی.
خطبات طاہر جلد 17 124 خطبہ جمعہ 20 فروری 1998ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام ہمیشہ جماعت کو نصیحت فرماتے رہے.وہ لوگ جو دور سے بیعت کا خط لکھ دیا کرتے تھے اور بظاہر مومنین میں داخل ہو جاتے تھے آپ فرماتے ہیں کہ تمہارا فرض ہے کہ یہاں آؤ اور میرے پاس کچھ عرصہ ٹھہر و.اتنا اصرار تھا اس بات پر کہ اس زمانہ کے حالات کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا بوجھ کیسے اٹھاتے تھے.دور دراز سے یا قریب سے جس نے بھی بیعت کا لکھا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ محسوس کیا کہ اس کی تربیت کی ضرورت ہے تو آپ نے محض نصیحت کو کافی نہیں جانا بلکہ فرمایا آؤ اور میرے پاس رہو اور اس پاس رہنے کے نتیجہ میں آپ کو کامل یقین تھا اور اس کا عبارتوں میں کھلم کھلا اظہار کیا کہ ہو نہیں سکتا کہ تم میرے ساتھ رہو اور خدا کا میرے ساتھ ہونا تمہیں دکھائی نہ دے.تم لازما اللہ تعالیٰ کو میرے ساتھ دیکھ لو گے.الحکم جلد 5 نمبر 31 صفحہ:3 مؤرخہ 24اگست 1901ء) یہ وہ مرکزی نصیحت ہے جو دراصل صحبت صالحین سے تعلق رکھتی ہے.مگر جب انبیاء کی صحبت نصیب ہو جائے تو بڑی شان سے اس حقیقت کو آپ جلوہ گر دیکھیں گے کہ اگر آپ واقعۂ خدا کے ساتھ ہونے کی وجہ سے یا خدا کے قریب ہونے کی خاطر ، خدا کے کسی پاک بندے کے قریب ہوئے تو اللہ آپ کو وہاں دکھائی دے گا.صبح شام ہر فعل میں خدا اُن کے ساتھ دکھائی دے گا.چنانچہ بہت سے صحابہ نے اپنے تجربہ کو بڑی تفصیل سے لکھا ہے کس طرح ہم پہلے دور سے ایمان لانے والے تھے جب قریب آئے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ رہے تو اس ساتھ نے زندگی کی کیسی کا یا پلٹ دی.بیان کرتے ہیں کہ کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا تھا جب ہم خدا کے فضلوں کی بارش حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نہیں دیکھتے تھے.تو فرمایا: وو صادق کے ساتھ رہو کہ تقویٰ کی حقیقت تم پر کھلے اور تمہیں توفیق ملے.“ اس کے ساتھ ہی تقویٰ کی توفیق بھی ملتی ہے.جو اچھے لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں ان کی نیکی کی توفیق بڑھ جایا کرتی ہے اور جن کو انبیاء کی صحبت نصیب ہو جائے ان کی نیکی کی توفیق تو اس طرح چھلانگیں لگاتی ہوئی آگے بڑھتی ہے کہ صحابہ میں، جنہوں نے بھی صحابہ کو دیکھا ہے، ان کو وہ رنگ دکھائی دے جائیں گے.صحابہ اور غیر صحابہ میں بہت فرق ہے اور جنہوں نے صحابہ کے رنگ اختیار کر لئے روحانی صحبت کے لحاظ سے ان میں اور عام انسانوں میں بہت بڑا فرق ہے.پس فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 125 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء یہ حقیقت تمہیں معلوم ہونی چاہئے ) یہی ہمارا منشاء ہے اور اسی کو ہم دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.الحکم جلد 7 نمبر 12 صفحہ : 3 مؤرخہ 31 مارچ 1903ء) پس اس پاک تبدیلی کے ساتھ پاک لوگوں کے گروہ بنا ئیں اور نیک لوگ مل کر بیٹھیں ، نیک لوگ مل کر ایک دوسرے میں خدا کے آثار تلاش کریں لیکن ان دعا گو پارٹیوں کی طرح نہ ہو جائیں جور بوہ میں بھی ایک زمانہ میں ہوا کرتی تھیں اور کئی اور جگہ بھی ملتی تھیں.کچھ لوگ بظا ہر صوفیت کا لبادہ اوڑھ کر وہ چند لوگوں کو بزرگ قرار دیتے تھے ، وہ ان کو بزرگ قرار دیتے ہیں، ان کا ایک جتھا سا بن جاتا ہے اور وہ اکٹھے پھرتے ہیں ، سیروں پہ بھی نکلتے ہیں اور شام کو بھی اکٹھے ہوتے ہیں، گھروں میں بھی اکٹھے ہوتے ہیں، مل کر دعائیں کرتے ہیں کہ دیکھ لو یہ نیکی ہے، یہ نیکی نہیں ہے.یہ نیکی کی حقیقت سے نا آشنائی ہے.نیکی سیکھنی ہے تو رسول اللہ لی ایم کے طریق سے سیکھیں اور آپ کی سنت کو اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی ذات میں جو دکھایا ہے اس کو قریب سے دیکھیں.اگر وہ زمانہ یعنی آنحضرت صلی اینم کا زمانہ دور سے دکھائی دیتا ہے تو اس قریب کے زمانہ میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو دیکھنے سے وہ بالکل قریب آجائے گا اور اس طرح آخرین کو اولین سے ملایا جائے گا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ طریق نہیں تھا کہ چند آدمیوں کی ٹولی بنائی ہوئی ہے.بدوں کو بلایا کرتے تھے کہ آپ کی صحبت میں بیٹھیں اور آپ کی صحبت سے رنگ پکڑیں اور بہت سے خام تھے جو اس آواز پر لبیک کہتے ہوئے آگئے اور جب قریب پہنچے تو پھر خام نہ رہے، ان کے اندر حیرت انگیز پاکیزہ تبدیلیاں پیدا ہو ئیں.آج بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ صحبت زندہ ہے خدا کے بعض نیک بندوں میں، جنہوں نے اپنے آپ کو دین کے کاموں میں جھونک دیا ہے اور کوئی دکھاوا نہیں کوئی اپنی بڑائی کا احساس نہیں ہے.عام سادہ لوح بندے ہیں جن کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ کوئی ان کو نیک سمجھتا ہے کہ نہیں.ان کو ایک دھن لگ گئی ہے کہ وہ خود نیک کام کریں اور دین کی خدمت جیسے بھی ہو سکے وہ بجالائیں.یہ وہ لوگ ہیں جو آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعاؤں کا پھل ہیں.پس ان لوگوں سے تعلق بڑھاؤ اور اس طرح تعلق نہ بڑھاؤ کہ پارٹی بن کے الگ ہو جاؤ بلکہ اس طرح تعلق بڑھاؤ کہ اس تعلق کا دائرہ کمزوروں پر بھی پھیلے اور وہ بھی آپ
خطبات طاہر جلد 17 126 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء کی صحبت کے رنگ سے رنگین ہونے لگیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” یہی ہمارا منشاء ہے اور اسی کو ہم دنیا میں قائم کرنا چاہتے ہیں.‘ ایک دوسری تحریر جس کا عنوان ہے ”اپنے اندر پاک تبدیلی پیدا کریں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہماری جماعت کے لئے سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں، کیونکہ اُن کو تو تازہ معرفت ملتی ہے.“ اب یہ وہ نکتہ ہے جس کو آپ کو سمجھنا چاہئے.آپ کو ہمیشہ تازہ معرفت ملتی ہے.کونسی دُنیا میں ایسی جماعت ہے جس کو ہمیشہ تازہ معرفت ملتی ہو.آپ کے سامنے ہمارے رسائل بھی، ہماری MTA بھی ، ہمارے دوسرے ذرائع اور مقررین اور واعظین سارے آپ کو تازہ معرفت عطا کرتے ہیں اور جب بھی آپ استفادہ کی خاطر نیک دلی سے ان کے پاس بیٹھیں گے یا ان سے فائدہ اٹھانے کی خاطر آپ اپنے دل کے دروازے کھولیں گے تو یاد رکھیں آپ وہ جماعت ہیں جن کو روزانہ تازہ معرفت ملتی ہے اور تازہ معرفت میں ایک اور بڑا دلچسپ مضمون ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پاک بندوں کو یعنی اس جماعت کو نئے نئے نکات ہمیشہ سمجھاتا رہتا ہے.پس تازہ معرفت کے دونوں پہلو ہیں.ایک وہ معرفت جو دیکھنے والے اور سننے والے کے لئے تازہ ہی ہوتی ہے چنانچہ بسا اوقات لوگ لکھتے ہیں کہ ان نکات کو سنا ہوا تھا لیکن پوری سمجھ نہیں آئی تھی حالانکہ ہمیشہ سے اسی طرح موجود تھا قرآن میں لیکن اب یوں لگا ہے جیسے تازہ معرفت ملی ہے.پس بعض دفعہ تو تازہ معرفت ایک چیز کی تازہ پہچان سے تعلق رکھتی ہے اور بعض دفعہ نشان کے طور پر آسمان سے اترتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس دوسری معرفت کا ذکر بھی تازہ معرفت کے الفاظ میں فرمایا ہے.اگر ایک شخص اللہ سے تعلق رکھتا ہے تو لازم ہے کہ اس کے اوپر تازہ معرفت اترے اور لازم ہے کہ اگر وہ خود تازہ معرفت اترتی ہوئی محسوس نہیں کرتا تو خدا کے ایسے بندوں کے قریب ہو جن پر وہ تازہ معرفت اترتی دیکھے گا، جان لے گا کہ یہ عرفان اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کئے بغیر ممکن ہی نہیں ہے کہ کسی کے دل پر نازل ہو.پس فرماتے ہیں: وو ” سب سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر پاک تبدیلی کریں، کیونکہ اُن کو تازہ معرفت ملتی ہے اور اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے.“ ساتھ ہی تازہ معرفت کے ساتھ اس عمل کی طرف بھی اشارہ فرما دیا جو معرفت کی پہچان کے لئے ضروری ہے.ایک آدمی کہہ سکتا ہے مجھ پر بڑی تازہ معرفتیں اتر رہی ہیں اور کئی ایسے لوگ بیچارے
خطبات طاہر جلد 17 127 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء پھر آخر پاگل ہی ہو جایا کرتے ہیں.جن پہ تازہ معرفت اترتی ہے ان کے اندر پاک تبدیلیاں بھی تو ہوتی ہیں.ان کی بدیاں جھڑتی ہیں ، ان کے اندر تازہ معرفت کے نتیجہ میں نئے نئے اعلیٰ اخلاق پیدا ہوتے ہیں.پہلے وہ غفلت کی حالت میں بعض برائیوں کو پہچان نہیں سکتے جب تازہ معرفت اترتی ہے تو ان کی آنکھیں ان برائیوں کو دیکھنے لگ جاتی ہیں اور یہ سفر ایسا ہے جو جاری سفر ہے.میں اس سے منتقلی نہیں ہوں.آپ میں سے کوئی بھی اس سے مستی نہیں ہے.ہمیشہ انبیاء بھی جب تازہ معرفت اترتی دیکھتے ہیں تو اپنے دل میں نیکی کا ایک نیا رنگ اُبھرتا ہوا دیکھتے ہیں.پس یہ دائی سفر ہے ادنی آدمیوں میں تازہ معرفت ان کی برائیوں پر روشنی ڈالتی ہے اور انسان ان برائیوں کو پہچاننے لگتا ہے جو پہلے سے دل میں موجود تھیں اور خیال بھی نہیں ہوتا کہ دل میں موجود ہیں یا ہماری عادتوں میں موجود ہیں یا ہمارے کہنے میں موجود ہیں لیکن موجود ہوتی ہیں اور انبیاء کی تازہ معرفت ان کی خوبیوں میں ترقی کرنے کا موجب بن جاتی ہے.پس تازہ معرفت تو ہمیشہ پھل دکھائے گی اور ہمیشہ ایسا اثر انسان پر چھوڑے گی جس کے نتیجہ میں وہ کچھ نہ کچھ تبدیل شدہ وجود دکھائی دے.پس وہ سارے لوگ جو دعویٰ کرتے ہیں اور مجھے بھی بعض دفعہ لکھتے رہتے ہیں کہ ہم تو بڑے صاحب عرفان ہیں ہم پر تازہ معرفت اترتی ہے یا لفظ یہ استعمال نہ بھی کریں تو مضمون یہی ہوتا ہے.ان کو میں بسا اوقات یہ لکھتا ہوں، سمجھاتا ہوں کہ بھئی اس تازہ معرفت نے تمہارے اندر کیا تبدیلی پیدا کی؟ کیا پہلے سے بہتر انسان بن گئے ہو.اگر اس کی پروا ہی کوئی نہیں اور سمجھتے ہو کہ تم انعامات کے وارث بنائے جارہے ہو تو حد سے زیادہ جہالت ہے.یہ خدا سے دوری کا نام ہے، معرفت اس کو نہیں کہا کرتے.پس تازہ معرفت کی پہچان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی وہ یہ ہے: اگر معرفت کا دعویٰ کر کے کوئی اس پر نہ چلے تو یہ نری لاف گزاف ہی ہے.پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سستی غافل نہ کر دے.(اب یہ بھی عجیب کلام ہے کہ اس کا تعلق کیا ہوا.پس ہماری جماعت کو دوسروں کی سستی غافل نہ کر دے اور اس کو کاہلی کی جرات نہ دلا دے.“ الحکم جلد 2 نمبر 3 صفحہ:1 مؤرخہ 13 مارچ 1898ء) اب جن لوگوں کو نیک سمجھ کر آپ ان کے قریب ہوتے ہیں اگر ان کے اندرستی پائی جاتی ہے تو وہ سستی کہیں آپ کو بھی غافل نہ کر دے.آپ سمجھ رہے ہیں کہ وہ ولی اللہ اور بزرگ ہیں اور ان کا قرب
خطبات طاہر جلد 17 128 خطبہ جمعہ 20 فروری1998ء آپ کے اندر پاک تبدیلی نہیں کرتا، یہ مراد ہے کہ اس صورت میں ان کی سستی آپ کو غافل کر دے گی اور امر واقعہ یہ ہے کہ ہم نے بہت سے ایسے بزرگی کے بہت دیکھے ہیں جن کو بہت لوگ چاہتے اور ان کی عظمت کرتے ہیں مگر اپنی کسی نفسانی خواہش، اپنی کسی ذاتی ضرورت کو پورا کرنے کی خاطر اور مثالیں یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی دعا سے ہمارا یہ کام ہو گیا، ان کی دعا سے ہمارا یہ کام ہو گیا.ایسا کام ہونا جو آپ کو اللہ سے غافل رکھے اور اپنی حالت میں پاک تبدیلی کی طرف توجہ نہ دلائے یہ وہ کاہلی اور ستی ہے کہ بظاہر ایک نیک آدمی کو آپ دیکھ رہے ہیں لیکن آپ کے اندر وہ پاک تبدیلی نہیں پیدا کرتا.اس کے لئے یہی کافی ہے کہ آپ اس کا عزت اور احترام سے ذکر کرتے ہیں اور یہی کافی ہے کہ آپ یہ مشہور کریں کہ اس کی دعا سے یہ کچھ ہو گیا.اب میرے تعلق میں بھی جب آپ یہ مشہور کرتے ہیں کہ اس کی دعا سئے تو مجھے بڑا ڈر لگتا ہے.میں تو ہمیشہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ میری دعا سے اگر کچھ ہوا ہے اور آپ خدا کے قریب نہیں آئے جس نے آپ کو عطا کیا ہے تو آپ کی جہالت ہے اور آپ کی یہ تعریف میرے لئے مذمت ہے اور مجھے خوف دلانے والی ہے، خوشی دلانے والی نہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ان تحریروں کو غور سے دیکھیں ” اور اس کو کاہلی کی جرات نہ دلا دے.“ جب لوگ ایسے لوگوں پر اپنا بوجھ ڈالتے ہیں کہ وہ دعا کر دیں گے ہم ٹھیک ہو جائیں گے ان کو لازماً کاہلی کی جرات ہوتی ہے.وہ کہتے ہیں ہمارے لئے دعا کرنے والا موجود ہے ہمیں اپنے اعمال کو نیک بنانے کی ضرورت کیا ہے.وہ کھلے لفظوں میں کہیں نہ کہیں لیکن ان کی زندگی آپ کو دکھا دے گی وہ تذکرے تو کریں گے کہ فلاں کی دعا سے یہ ہو گیا، فلاں کی دعا سے یہ ہو گیا.ہمیں کینیڈا بیٹھے یہ معاملہ حل ہو گیا ، فلاں انٹرویو میں کامیاب ہو گئے لیکن اپنے نفس پر غور کریں کیا اللہ کے انٹرویو میں بھی وہ کامیاب ہوئے ہیں کہ نہیں ؟ کیا ان کے اندر اللہ کے ان احسانات نے پاک تبدیلی پیدا کی ہے کہ نہیں ؟ اگر نہیں کی تو یہ محض لاف و گزاف ہے.پس اللہ تعالیٰ جماعت احمدیہ کولاف و گزاف کی زندگی سے نجات بخشے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نیکیوں کی گہرائی میں اتر کر تعریف فرماتے ہیں اس تعریف کو سمجھ کر اپنے اندر پاک تبدیلی کی تو فیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 129 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تصور کے مطابق ڈھلنے کی تلقین ( خطبه جمعه فرموده 27 فروری 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مشكوران كُلًّا تُبِدُّ هَؤُلَاءِ وَ هُؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاء رَبَّكَ مَحْظُورًا أنْظُرُ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ وَ لَلْآخِرَةُ أَكْبَرُ دَرَجتِ واكْبَرُ تَفْضِيلا پھر فرمایا: (بنی اسرائیل : 20 تا 22 یہ وہ آیات ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے اور جن کا میرے آج کے خطبہ کے مضمون سے تعلق ہے.مگر اس سے پہلے کہ میں ان آیات کی کچھ تفسیر بیان کروں مناسب ہوگا کہ میں ان کا لفظی ترجمه یا تقریباً لفظی ترجمہ آپ کے سامنے پیش کردوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَ مَنْ اَرَادَ الْأَخِرَةَ جو بھی آخرت کا ارادہ کرے اس میں جو سے مراد شخص واحد بھی ہو سکتا ہے اور عموماً لوگ.جیسے مَنْ کے اندر جمع بھی داخل ہوتی ہے تو جو لوگ بھی یا جو بھی آخرت کا ارادہ کرے.وَسَعَى لَهَا سَعِيهَا اور آخرت کے لئے اپنی کوششوں کو وقف کر دے جو کچھ بھی اس کو تو فیق ہے اس کے مطابق وہ آخرت کو حاصل کرنے کی کوشش کرے.وَهُوَ هُو من لیکن شرط یہ ہے کہ مومن ہو.فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ
خطبات طاہر جلد 17 130 خطبہ جمعہ 27 فروری 1998ء مشكورا پس ایسے لوگ ہیں جن کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.مشکور سے مراد یہاں یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ لفظوں میں ان کا شکریہ ادا کر رہا ہے، مشکور سے مراد وہ نعمتیں ہیں ، وہ کوششیں ہیں جو قدر کی نگاہ سے دیکھی جائیں گی.میں سمجھتا ہوں کہ خطبہ کے آغاز ہی میں ان کے کچھ تفسیری پہلو بھی بیان کر دوں تو پھر تسلسل ٹوٹے گا نہیں اس لئے بجائے محض ترجمہ آپ کے سامنے رکھنے کے میں اب اس کو ذرا تفصیل سے بیان کر رہا ہوں.كُلا تمدُّ هَؤُلَاءِ وَهُؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبَّكَ ہم ان میں سے ہر ایک کی مدد کرتے ہیں ان لوگوں کی بھی اور اُن لوگوں کی بھی.مِنْ عَطَاء رَبَّكَ تیرے رب کی عطا کے نتیجہ میں.یہ تیرے رب کی ایک خاص عطا ہے جس کی وجہ سے ہم ، جو لوگ کوشش کرتے ہیں ، ان کی مدد کرتے ہیں.وَمَا كَانَ عَطَاء رَبِّكَ مَحْظُورًا اور تیرے رب کی عطا ایسی ہے جسے روکا نہیں جاسکتا.جب وہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ میں کسی پر اپنی رحمت فرماؤں گا ، کوئی عطا کروں گا تو کوئی اس کے رستہ میں حائل نہیں ہو سکتا.دیکھ لیں کس طرح ہم نے ان میں سے بعض کو بعض دوسروں پر فضیلت دی.انظر كيف فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ اور آخرت أَكْبَرُ دَرَجَتِ درجات کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے.وَ اكْبَرُ تَفْضِيلا اور فضیلت کے لحاظ سے بھی بہت بڑی ہے.ان آیات میں آغاز میں جو سعی کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ ایک ہی گروہ معلوم ہوتا ہے لیکن آخر پر جو سعی کے ذکر کے تعلق میں مزید باتیں بیان فرمائیں ان میں دو گروہ دکھائی دینے لگے ہیں.وَمَنْ اَرَادَ الْأَخِرَةَ وَ سَعَى لَهَا سَعْيَهَا جو کوئی بھی آخرت کا ارادہ کرے یا جو لوگ بھی آخرت کا ارادہ کریں اور اس میں وہ اپنی کوششوں کو محو کر دیں ایسی صورت میں ایسے لوگ جو مومن ہوں یا وہ من کا لفظ مومن سے تعلق رکھتا ہے اگر من جمع میں ہے تو مومن کا ترجمہ بھی واحد میں کیا جائے گا لیکن آخر پر جو نتیجہ نکالا جا رہا ہے وہ جمع میں ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ من کے اندر یہ مفہوم ہے ہر وہ شخص جو ایسا کرے اور ہر وہ شخص چونکہ سوسائٹی میں کثرت کے ساتھ پایا جاتا ہے تو اس کی کثرت کو مد نظر رکھتے ہوئے آخر پر فرمایا فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مشكورا بظاہر پہلے واحد کا ذکر چل رہا تھا مگر اس آیت کے آخری حصہ نے ثابت کر دیا کہ واحد مراد نہیں ہے.ایسے تمام لوگ مراد ہیں اور سوسائٹی کے وہ حصے جو اس پر عمل پیرا ہوں ان سب کے لئے خوشخبری ہے کہ ان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا.اب یہ ایک ہی گروہ ہے جس کا تسلسل
خطبات طاہر جلد 17 131 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء سے ذکر چل رہا ہے لیکن اگلی آیت میں فرمایا: حلا تمد هؤُلَاءِ وَهُؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ ہم ان میں سے ہر ایک کو مدد دیتے ہیں ان کو بھی اور اُن کو بھی.یہ اِن اور اُن کون لوگ ہیں؟ اس کی تفصیل انگلی آیت میں نظر آتی ہے جس میں فرمایا گیا کہ دیکھ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض دوسروں پر فضیلت دی ہے.پس جو بھی آخرت کی کوشش کرنے والے ہیں ان میں ایک گروہ نسبتا کم فیض یافتہ دکھائی دیتا ہے یعنی خدا تعالیٰ جن کو رزق عطا فرماتا ہے ان میں سے ان کو روحانی، ذہنی اور جسمانی اور مالی رزق نسبتاً کم عطا ہوتا ہے اور کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جن کو ایک دوسرے پر فضیلتیں عطا کی جاتی ہیں.تو فر ما یا یہ دونوں گروہ ایسے ہیں جن کی ہم مدد کرتے ہیں یا ان دونوں گروہوں کی ہم مدد کریں گے اگر یہ خدا کی راہ میں جدو جہد کریں اور آخرت کو اپنا لیں اور اسی کی کوشش کریں تو اس راہ کی مشکلات اللہ کی مدد سے دور کی جاسکتی ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل نہ ہو یہ مشکلات دور نہیں ہوسکتیں.چنانچہ انظُرُ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ میں ایک اشارہ یہ بھی ہے کہ دنیا کے دو گروہ ہوتے ہیں ایک وہ جن کو خدا فضیلت دیتا ہے اور دوسرے جن پر ان کو فضیلت دیتا ہے اور یہ دوسرے گروہ اور پہلے گروہ دُنیا میں جب ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں بدیاں بھی پیدا ہوتی ہیں اور ان بدیوں کے شر سے بچنے کے لئے بھی دعا ہی ہے جو مددگار ہے اس کے سوا انسان کو ان سے بچنے کی ذاتی اہلیت نہیں ہے.یہ زیادہ تفصیلی مضامین ہیں.ان کی بحث کو چھوڑتا ہوں اور یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اس دور میں جماعت کی تربیت میں میں نے ان آیات کو بہت ہی اہم اور راہنما پایا ہے اور آگے جب میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کے اقتباسات آپ کے سامنے پڑھوں گا تو اُن کا اِن کے ساتھ گہرا تعلق دکھائی دینے لگے گا.اس تمہید کے بعد میں اب جماعت سویڈن کا ذکر کرنا چاہتا ہوں.پہلے ہلکے اشاروں کنایوں میں میں نے ان کی باتیں کیں پھر پچھلے خطبہ میں کھل کر ان کی باتیں کیں اور چونکہ میری نیت خالصہ آخرت کی نیت تھی اور اللہ جانتا ہے کہ اس سلسلہ میں جس قدر بھی دعا میں ممکن تھیں میں ساتھ کرتا رہا اس لئے میں گواہ ہوں اس بات کا فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مَشْكُورًا کہ ایسے لوگ جو آخرت کی نیت رکھ کر کوشش کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ضرور ان کی مدد فرماتا ہے اور ان کی کوششیں رائیگاں نہیں جاتیں.آج میں اس کی گواہی کے طور پر یہ اعلان آپ کے سامنے کر رہا ہوں کہ سویڈن کے اکثر وہ خاندان
خطبات طاہر جلد 17 132 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء جو میرے اس وقت مخاطب تھے اگر چہ ان کے نام نہیں لئے تھے وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے واپس جماعت کی طرف لوٹ آئے ہیں اور جو ان کے کوٹنے کا انداز ہے ، جو خطوط مجھے موصول ہوئے ہیں میرا دل یقین سے بھر گیا ہے کہ یہ تو بہ ان کی سچی تو بہ ہے اور آئندہ انشاء اللہ ان کی طرف سے مجھے دکھ نہیں دیا جائے گا.اس وقت مجھے ان کے خطوط پڑھتے ہوئے جو خوشی محسوس ہورہی تھی اس خوشی نے ساری تلخیوں کو بھلا دیا اور آنحضرت سلام کی وہ حدیث قدسی یاد آ گئی جس میں اللہ تعالیٰ کے تو بہ کرنے والے بندوں کے ساتھ رد عمل کا ذکر ہے.آنحضرت صلی ایام فرماتے ہیں کہ بعض دفعہ ایک انسان صحرا میں ستانے کے لئے ایک درخت کے سائے تلے لیٹ جاتا ہے اور بظاہر اپنے اونٹ کو محفوظ طریق پر جیسا کہ گھٹنے باندھے جاتے تھے تمام احتیاطوں کے ساتھ الگ بٹھا دیتا ہے.اس پر اس کا پانی، اس کا زاد راہ سب کچھ ہوتا ہے لیکن جب شام کے وقت یا دو پہر گزرنے کے بعد اس کی آنکھ کھلتی ہے تو دیکھتا ہے کہ اونٹ غائب ہے.اونٹ بھی غائب ہے ، زادراہ بھی غائب ہے.جو کچھ اس کا اثاثہ تھا ، جو کچھ زندگی کو قائم رکھنے کے لئے ضرورتیں تھیں جو صحرا میں سب سے زیادہ پانی کی ضرورت ہوا کرتی ہے وہ سب کچھ غائب ہو گیا.ایسا شخص اگر دور افق پر نگاہ دوڑائے اور ہر طرف دیکھے کہ کہیں بھی اس اونٹنی کی واپسی کے آثار دکھائی دیں.(صحیح مسلم ، كتاب التوبة باب فى الحض على التوبة والفرح بها ، حدیث نمبر :6955) اس موقع پر حضور انور کی آواز جذبات سے گلو گیر ہوگئی چنانچہ آپ نے فرمایا : ) جو میرا دل جذبات سے اُبل رہا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے تصور سے کہ اللہ اس طرح اپنے بندوں کو دیکھتا ہے.اب اگر وہ لوگ جو تو بہ کے محتاج ہیں ان کو یہ معلوم ہو کہ اللہ ان کا اس طرح انتظار کر رہا ہے تو بھاری تعداد تو بہ کرنے والوں کی ہے جو لیکے گی اس طرف تو اس سے زیادہ خوبصورت مثال تو بہ کرنے والے اور توبہ قبول کرنے والے کے رشتہ کی اور آپ کو کہیں نہیں ملے گی.وہ بندہ محتاج اور مجبور جس سے کچھ کھویا جاتا ہے جتنا اس کے کھوئے جانے کی تکلیف اس کو ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کے کھوئے جانے کی تکلیف ہوتی ہے.ان معنوں میں کہ ان کے زیاں کا افسوس ہوتا ہے.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ کا کوئی دل ہے یا اس میں زیاں کے افسوس کی وہی کیفیت ہے جو ہماری ہے مگر حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اتنا ہی تم نے تمثیلات کے ساتھ انہیں اس طرح بیان کیا کہ ہم میں سے ہر ایک کے
خطبات طاہر جلد 17 133 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء دل پر جو گزرتی ہے وہ ہم جانتے ہیں اور یہ پہچان لیں کہ اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ قدر شناس ہے جتنا ہم قدر شناس ہیں.اللہ تعالیٰ اس سے زیادہ کھوئے ہوئے بندوں کی تکلیف محسوس کرتا ہے جس طرح ہم ایک لق و دق صحرا میں ایک گھی ہوئی اونٹنی کی تکلیف محسوس کرتے ہیں جس کے اوپر ہمارا سرمایہ حیات لدا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ کا تو کوئی سرمایہ حیات نہیں جو اس کے کھوئے ہوئے بندوں پر منحصر ہو.اللہ توخنی ذات ہے.سارا عالم بھی اس کو جھٹلا دے، اس کا انکار کر دے اس کو ایک ذرہ کی بھی پرواہ نہیں ہوگی.اس کے باوجود یہ محبت ، یہ اصل پیغام ہے.وہ بندہ تو مجبور ہے اس اونٹنی کے انتظار کے لئے جس پر اس کا سارا سرمایہ حیات ہے.وہ ذات تو مجبور نہیں ہے جس پر ساری کائنات کا انحصار ہے اس کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کہ اس کو چھوڑ کر کہاں چلے جائیں.کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہونی چاہئے.پس اس استغنا کے باوجود وہ ہیجان جو اس بندے کے دل میں پیدا ہوا ہے اس بہیجان کا تعلق خدا سے ہو، جیسا کہ آنحضرت صلی شما کہ تم نے بیان فرمایا ہے، خالصہ یہ بات ظاہر کرتا ہے کہ اللہ کو اپنی مخلوق سے محبت ہے ورنہ محبت کے بغیر اس مسئلہ کی سمجھ آ نہیں سکتی.اونٹ والے کا انتظار تو اپنی مجبوری ، اپنی بقا کی خاطر ہے.اللہ تعالیٰ کی بقا کا گمشدہ بندوں سے کیا تعلق ہے لیکن ان کی بقا اس کو پیاری ہے جیسے کوئی اپنے محبوب کو گمشدہ پائے اور باوجود اس کے کہ وہ محبوب کی زندگی اس پر انحصار رکھتی ہو وہ اس کے لئے بے چینی محسوس کرے گا.پس یہ جو بنیادی ، مرکزی، گہرا پیغام ہے یہ ہے جو بے انتہا عزت اور تو قیر کے لائق ہے.ہر انسان کو یہ سوچنا چاہئے کہ میرا خدا جو خالق ہے، جو رب ہے، جو مستغنی ہے وہ میرے ضائع ہونے پر بھی ایسا ہی دکھ محسوس کرے گا گویا اس کا انحصار مجھ پر تھا لیکن اگر ایسا شخص واپس نہ آئے تو قرآن کریم کی آیات سے اور رسول اللہ صلی شما پیلم کی تشریحات سے پتا چلتا ہے کہ پھر خدا مستغنی ہے پھر اس کی اس کو کچھ بھی پرواہ نہیں رہے گی، اللہ ک کوئی گزند نہیں پہنچے گا.پس اس پہلو سے جب میں جماعتوں کو نصیحتیں کرتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ ہمارے کھوئے ہوئے دوست واپس آجائیں تو اس میں جماعت کا کوئی نقصان پیش نظر نہیں ہوا کرتا کبھی بھی نہیں ہوا.علم ہے کہ اگر ایسے لوگ نصیحت کو نہیں مانیں گے اور واپس نہیں آئیں گے تو صرف اپنا نقصان کریں گے جماعت کا ہرگز کچھ بگاڑ نہیں سکتے.اس قطعی علم کے ساتھ مجھے کوشش کرنا ہے اور میں کوشش کرتا ہوں اور آپ سب کو اس کوشش میں اپنا مددگار بننے کی بار بار درخواستیں کرتا ہوں.تو یا درکھ لیں
خطبات طاہر جلد 17 134 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء اس بات کو ، اس نکتہ کو جو اس تفصیلی حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے.اس کے فلسفہ کو سمجھ لیں.اگر اس کے فلسفہ کو سمجھ لیں گے تو پھر آپ میں سے صرف وہی میرا مددگار ہوگا جس کو بنی نوع انسان سے محبت ہے.جس کو بنی نوع انسان سے محبت نہیں اور تعلق نہیں ان پر میری باتوں کا کوڑی بھر بھی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ اس مضمون کا تعلق محبت سے ہے جیسے خالق کو تخلیق سے محبت ہے اسی طرح خدا کے بندوں کے ساتھ آپ کی محبت ان کی کمزوریوں میں آپ کو بے چین کر دیتی ہے اور وہ بے چینی ہے جس کے لئے تلاش میں نظریں اٹھتی ہیں اور اُفق کو کھنگالا جاتا ہے نظروں سے کہ شاید کسی کونے سے ہماری کھوئی ہوئی چیزیں واپس آجائیں.پس تمام جماعت کی تربیت کا یہ بنیادی راز ہے.اگر آپ کسی شخص کو کھویا ہوا دیکھیں اور دل میں نفرت پیدا ہو یا غصہ پیدا ہو یا تحقیر کے خیالات آئیں کہ یہ تو کچھ بھی نہیں گھٹیا سا انسان تھا، ایک گھٹیاسی لڑکی تھی ، گھٹیاسی عورت، گھٹیا سامرد، یہ جاتے ہیں تو جائیں دفع ہوں.اگر یہ خیال آئے تو آپ خود متکبر ہیں پھر آپ کو لوٹنے کی فکر کرنی چاہئے.آپ کو خود اپنے خدا کی طرف پہلے لوٹنا ہوگا ورنہ ان کھوئے ہوئے لوگوں کی آپ تلاش کر ہی نہیں سکتے اور تربیت کے کام میں میری راہ میں سب سے بڑی مشکل یہی ہے کہ بڑے بڑے نیک اور مخلص کارکن اور کارکنات بھی تربیت کرتے وقت اپنے آپ کو اس شخص سے اعلیٰ سمجھتے ہیں جس کی تربیت کرنی ہے اور یہ نہیں جانتے کہ ان کی تربیت پر وہ مجبور ہیں اپنی محبت اور پیار کے نتیجہ میں اور محبت اور پیار جتنا زیادہ ہوں گے اتنا اعلیٰ اور ادنیٰ کا فرق مٹ جائے گا.یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ملفوظات میں اور کھول کر بیان فرمایا ہے.پس جو واقعہ سویڈن میں گزرا اس کا بھی خالصہ اس سے تعلق تھا.ہر گز جماعت کو ان لوگوں کی ضرورت نہیں تھی کہ ان کے بغیر جماعت چل نہیں سکتی لیکن جماعت کی ان سے محبت اور نظام جماعت کی ان سے محبت کو ضرورت تھی اور اس کے لئے ہم کوشاں رہے.سالہا سال میں نے کوششیں کیں کہ ان لوگوں کو اپنا اندرونہ دیکھنے کی توفیق نصیب ہو اور وہ سمجھ لیں کہ نظام جماعت ایک تقدس رکھتا ہے.اس کے تقدس میں خلل ڈالنے والا ہر شخص جو بے ہودہ گوئی کرتا ہے، بدتمیزی اختیار کرتا ہے اس سے قطعاً ان کو تعلق تو ڑ لینا چاہئے اور یہ ان کے دل کا طبعی جذ بہ ہو گا.پس یہ جو مضمون ہے کہ ایک شخص اس نظام کو احترام کی نظر سے نہیں دیکھتا، اس کی تخفیف کرتا ہے جو اللہ کی نمائندگی کرتا ہے وہاں اونٹنی کی
خطبات طاہر جلد 17 135 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء طرح اس کے ضائع ہونے کا غم آپ کو نہیں لگنا چاہئے.وہاں وہ آیات آپ کی راہنما ہونی چاہئیں جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر کسی کو میری محبتوں کے باوجود پرواہ نہیں تو مجھے بھی اس کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں پھر جہاں جاتا ہے بھٹکتا پھرے ہمیں اس کی کوئی ضرورت نہیں.پس جو پاک تبدیلیاں وہاں واقع ہوئی ہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے وہ میرے لئے بے انتہا خوشی کا موجب ہیں لیکن اس کے ساتھ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن کے جرائم نظام جماعت اور اس کی تذلیل کے تعلق میں بے حد گھناؤنے ہیں اور ہر گز ہم پسند نہیں کریں گے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت میں ، آپ کی جماعت کی مساجد میں آنا جانا رکھیں اور ماحول کو گندہ کریں.پس آج کے دن ایک عام معافی کا اعلان بھی ہو گا لیکن آج کے دن وہ سارے لوگ جن کی پہلے سے نظام کو اطلاع کر دی گئی ہے مسجد میں آنے سے منع ہوں گے.وہ اور ان کے ساتھی جو ان کے ساتھ بیٹھتے رہے، اُٹھتے رہے، جنہوں نے مکروہ باتیں اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھیں، ان پر اثر رکھتے تھے اور ہرگز پرواہ نہیں کی کہ ان کو روکیں ، وہ سارے آج کے معافی کے اعلان عام سے مستثنی ہیں اور ان کو ہرگز اجازت نہیں کہ وہ ہماری مسجدوں کو گندہ کریں.آئندہ کیا ہوگا یہ اللہ تعالیٰ فیصلہ فرمائے گا لیکن آج کا یہی اہم اعلان ہے جس کو جماعت سویڈن جو یہ خطبہ سن رہی ہو ا چھی طرح ذہن نشین کر لے.اس موقع پر میں سمجھتا ہوں کہ چونکہ نیا نظام از سر نو شروع کیا جا رہا ہے اور نئے عہد یداروں کی ضرورت ہوگی اس لئے میں نے سوچا ہے کہ میرے نمائندہ کی موجودگی میں آج یا کل مناسب وقت میں نئے انتخابات کروالئے جائیں.یہ انتخابات عنقریب ہونے والے ہیں مگر اس دوبارہ روحانی ولادت کے نتیجہ میں ضروری ہے کہ ابھی سے یہ انتخاب ہو جائیں اور اس کو ٹالا نہ جائے.ان انتخابات کے متعلق میں یہ اعلان کر رہا ہوں اور جماعت سویڈن غور سے سن لے کہ قاعدہ یہ ہے کہ مجلس شوری کے نمائندے بڑی جماعتوں میں جہاں امارت ہو ، وہ مجلس شوری کے نمائندے جو ہر جماعت سے منتخب ہوتے ہیں وہی ان کا انتخاب کرتے ہیں اگر چہ ہنگامی موقعوں پر استثنائی طور پر مجھے اختیار ہے که وقتی طور پر ان قواعد وضوابط کو ٹال دوں اور جو تربیت کی روح ہے اس کو پیش نظر رکھ کر استثنائی فیصلہ کروں مگر میں کلیۃ اس طریق کار کو نظر انداز نہیں کرنا چاہتا.یہ ایک بہت اچھا طریقہ ہے کہ جماعت کے نمائندے ہی آئندہ امارت اور مجلس عاملہ کا انتخاب کرتے ہیں لیکن ان کو جتنا وقت چاہئے اس
خطبات طاہر جلد 17 136 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء وقت کے حصہ کو میں الگ کر دیتا ہوں.اس لئے آج ہی آپ میں سے جن جماعتوں تک میری آواز پہنچ رہی ہے، یہ انتظار نہ کریں کہ میں دن چاہئیں یا ایک مہینہ کا نوٹس چاہئے ، آج ہی اپنے میں سے متقی لوگوں کو چن کر گوٹن برگ (Gothenburg) کی طرف روانہ کر دیں.اگر آج نہ کر سکیں تو کل تک وہاں پہنچ جائیں تا کہ سارے سویڈن کی نمائندگی میں ان کی آئندہ مرکزی مجلس عاملہ کا انتخاب ہو.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس بات کو نظر انداز نہیں کریں گے اور وہاں یہ سارے نمائندے انشاء اللہ تعالیٰ اکٹھے ہو چکے ہوں گے.جو نئی روح قائم ہونی ضروری ہے اس میں محبت کے رشتہ بڑھانے کی ضرورت ہے.پہلی سب کدورتوں کو کلیہ کا لعدم کر دیں جیسا کہ وہ تھیں ہی نہیں اور پیار اور محبت کے رشتوں پر اس نئے نظام کو مضبوط ڈوروں میں باندھیں اور جب بھی کسی بھائی کے خلاف کوئی دل میں کدورت پیدا ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان اقتباسات کو یاد کر لیا کریں جواب میں آپ کے سامنے پڑھ کر سنانے لگا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا اقتباس جاری تھا جب ( گزشتہ خطبہ ختم ہوا.وہ حصہ جو رہتا ہے میں وہاں سے پڑھ کے سناتا ہوں.آپ فرماتے ہیں: ”انسان بہت آرزوئیں اور تمنائیں رکھتا ہے مگر غیب کی قضاء وقدر کی کس کو خبر ہے.زندگی آرزوؤں کے موافق نہیں چلتی.یہ ایک بہت ہی اہم پیغام یا نصیحت ہے جماعت کے لئے کہ آپ کی آرزوؤں کو اختیار ہی نہیں ہے کہ آپ زندگی ڈھال سکیں.ہزار ہا آرزو میں دل میں پیدا ہوتی ہیں ، ہزار ہا تمنا ئیں انسان کرتا ہے لیکن اس کی زندگی اس کے مطابق نہیں ڈھلتی.ساری دُنیا کا معاشرہ بے چین ہے.اگر آرزوؤں کو طاقت ہوتی کہ زندگی کو اپنے مطابق ڈھال لیں تو دنیا میں ایک فرد واحد بھی بے چین دکھائی نہ دیتا جبکہ دُنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کے سربراہ بھی اور امیر ترین آدمی بھی دل کے اندر ایک بے چینی محسوس کرتے ہیں.اس کا اظہار کریں نہ کریں لیکن جب بھی اظہار کے مواقع آتے ہیں ان سے یہی سنا جاتا ہے کہ وہ بے چین ہیں.اس وقت دُنیا کی سب سے بڑی مملکت یعنی طاقتور مملکت امریکہ سنی جاتی ہے لیکن صدر کلنٹن کا حال دیکھ لیں اس کو کیا کیا بے چینیاں لاحق ہوئی ہوئی ہیں اور عراق کے معاملہ میں جو صدر کلنٹن کا ردعمل تھا ہر گز بعید نہیں کہ ذاتی بے چینیوں کا رخ موڑنے کی خاطر اس نے یہ
خطبات طاہر جلد 17 137 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء سارے اقدامات کئے ہوں بلکہ میرا پہلا رد عمل عراق کے متعلق صدر کلنٹن کے بیانات سے یہی تھا کہ ان کے اوپر جو گندے حملے کئے گئے ہیں جن کی تحقیق اگر ہوا انصاف کے ساتھ ، تو بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صدر کلنٹن صدر رہنے کے اہل نہیں رہیں گے.بعض امریکن چوٹی کے وکلا کا بھی یہی خیال ہے کہ صدر کلنٹن کے متعلق اگر وہ الزامات ثابت ہو جا ئیں جن کے متعلق بھاری امکان ہے کہ ثابت ہو جائیں تو ان کو جیل میں بھی ڈالا جا سکتا ہے.اب دُنیا کے ایک بلند ترین ، مادی لحاظ سے بلند ترین طاقتور ملک کے صدر کا یہ حال ہو کہ اس کے اوپر ایک تلوار لٹکی ہو جس کو معلوم ہو کہ اگر سنجیدگی کے ساتھ قانونی کارروائیاں کی جائیں تو بعید نہیں کہ میں صدارتی محل کی بجائے کسی جیل کی کوٹھڑی میں چلا جاؤں اس کا دل بے چین ہی تو ہوگا ، اس کی آرزوئیں اس کی کوئی بھی مدد نہیں کر سکتیں.پس وہ رد عمل جو میرے دل میں پیدا ہوا کہ قوم کی توجہ ہٹانے کے لئے اور از سر نو قوم کا ہیرو بننے کے لئے اور یہ فائدہ حاصل کرنے کے لئے کہ قوم مجرم سمجھے بھی تو اس موقع پر اپنے قومی ہیرو کو معلق خطرات سے الگ کر دے اس لئے یہ عراق والی کارروائی شروع ہوئی ہے اور یہ جو میرا تاثر ہے اس کی تائید میں بہت سے امریکن دانشور بھی ہیں اور وہ کہتے ہیں کہ اس وقت صدر کلنٹن کا بچنا عراق والے اقدامات کی وجہ سے ہے اور بھاری اکثریت جو اس صدر کی تائید کر رہے ہیں ان سے جب یہ پوچھا جائے کہ آپ ان کو اس معاملہ میں مجرم سمجھتے ہیں کہ نہیں؟ کہتے ہیں سمجھتے ہیں لیکن ہمیں پرواہ کوئی نہیں.صدر کی افادیت دوسری جگہ اتنی بڑی ہے کہ ہمیں اس چیز کی پرواہ نہیں کہ ان اخلاقی معاملات میں یہ مؤاخذہ کے لائق ہو.اب اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ سارے امریکہ کی اخلاقی حالت ہی گر چکی ہے اور اس گری ہوئی اخلاقی حالت کے بعد اخلاقی کمزوریاں وہ رد عمل پیدا نہیں کرتیں جو آج سے پچاس سال پہلے یا سو سال پہلے رد عمل پیدا کیا کرتی تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آرزوؤں اور تمناؤں سے تمہاری زندگیاں ڈھالی نہیں جاتیں.اگر آرزوؤں اور تمناؤں سے زندگیاں ڈھالی جاتیں تو دنیا میں کوئی بھی بے چین دکھائی نہ دیتا اور اب اگر تلاش کرو تو چین رکھنے والا آدمی مشکل ہی سے ملے گاٹٹولنے کی بات ہے.اگر کریدو اور ٹولو تو معلوم ہوگا کہ ہر شخص مصیبتوں میں مبتلا ہے اور جو دعاؤں کی ڈاک اکٹھی ہوتی ہے اس کو کوئی ایک نظر سے دیکھ لے تو اس کو اندازہ ہو جائے گا.میں ایک دفعہ ڈاک دیکھ رہا تھا تو میری بچی
خطبات طاہر جلد 17 138 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء دفتر میں آگئی ، ایک بات کرنی تھی.اس نے کہا ابا یہ ڈاک آپ دیکھتے ہیں روزانہ، میں تو ساری عمران خطوں کا جواب نہیں دے سکتی.اگر ساری عمر میں لکھوں تو میں ان خطوں کا جواب نہیں دے سکوں گی.وہ ایک الگ مسئلہ ہے مگر میں بتانا چاہتا ہوں کہ ساری ڈاک بے چینیوں سے بھری پڑی ہوتی ہے کسی کو کوئی بے چینی لگی ہوئی ہے، کسی کو کوئی بے چینی لگی ہوئی ہے اور تمام بے چینیاں آرزوؤں کی ناکامی پر گواہ ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ : ”انسان بہت آرزوئیں اور تمنائیں رکھتا ہے مگر غیب کی قضاء وقدر کی کس کو خبر ہے.(غیب سے اللہ کی تقدیر ظاہر ہو اس کو کون جانتا ہے ) زندگی آرزوؤں کے موافق نہیں چلتی تمناؤں کا سلسلہ اور ہے قضاء وقدر کا سلسلہ اور ہے.“ کتنی سادہ سی ، دل میں اتر جانے والی حقیقت کا بیان ہے مگر یہ سادہ سی دل میں اتر جانے والی حقیقت ہمیشہ فراموش کر دی جاتی ہے یہ مصیبت ہے جو تربیت کی راہ میں حائل ہے.پس ایسے لوگ جو بڑے غور سے میرے خطبات کو سنتے ہیں کہ جھوٹ کے قریب نہیں جانا، یہ کرنا ہے وہ کرنا ہے اور واقعۂ دلی ایمان سے سر ہلاتے ہیں کہ ہاں ہم نہیں کریں گے اور واپس جاتے ہیں تو ان کو پتا بھی نہیں لگتا کہ یہ جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ عادت اتنی گہری ہے جھوٹ کی کہ کسی نہ کسی موقع پر کسی نہ کسی بہانے جھوٹ ضرور سراٹھالیتا ہے تو ایک جھوٹ ہی کے خلاف جہاد جو ہے بڑی محنت کو چاہتا ہے اور یہ وہ جہاد ہے جو ہر شخص کو اپنے دل میں کرنا چاہئے.اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی تحریر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں: اور وہی سچا سلسلہ ہے.(جو قضاء و قدر کا سلسلہ ہے ) خدا کے پاس انسان کے سوانح یچے ہیں.“ الحکم جلد 2 نمبر 3 صفحہ:1 مؤرخہ 13 مارچ 1898ء) عظیم الشان ایک عرفان کا سمندر اس فقرہ میں ڈوبا ہوا ہے.فرماتے ہیں خدا کے پاس انسان کے سوانح بچے ہیں.ایک سوانح وہ ہیں جو ہم دنیا میں لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں.فلاں کی زندگی کے حالات ، فلاں کی زندگی کے حالات اور ان میں بہت ہی احترام کے ساتھ ، محبت کے ساتھ ، مبالغہ کے ساتھ اور بعض چیزوں کی پردہ پوشی کرتے ہوئے ایک مرحوم کا ذکر خیر ملتا ہے لیکن بلا شبہ اس کی زندگی کا
خطبات طاہر جلد 17 139 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء وہ پہلو نہیں اچھالا جاتا جو دراصل حقیقی اندرونی پہلو ہے اور نہ اس کو اچھالنے کی کسی کو اجازت ہے.نہ کسی کو اس اندرونی پہلو تک رسائی ہے.پس اذْكُرُوا فَحَاسِنَ مَوتَاكُمْ “ (سنن الترمذي، أبواب الجنائز، باب آخر (فی الامربن کر محاسن الموتى..، حدیث نمبر : 1019) کی نصیحت میں جہاں خیر کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے یعنی نیکی کے ساتھ موتی کا ذکر کیا کرو وہ ہم اسی پر عمل کریں گے.گو ہم اسی پر عمل کریں گے اور بدیاں نہیں اچھالیں گے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات اپنی جگہ اسی طرح قائم ہے کہ خدا کے پاس انسان کے سوانح بچے ہیں.“ بہت ہی پیارا فقرہ ہے، بہت ہی دل ہلا دینے والا فقرہ ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد جتنی مرضی لوگ ہماری تعریفیں کریں اور ہمیں اٹھا کر کہیں سے کہیں پہنچا دیں مگر ہماری زندگی کے وہ راز جو بھیا نک راز ہیں جن تک صرف ہماری یا ہمارے بعض عزیز ترین قریبیوں کی رسائی ہے اس پر بھی تو کوئی سوانح لکھے اگر لکھنے کی اجازت ہو تو پھر ایک اور انسان کی تصویر ابھرے گی جو نہایت بھیانک ہوگی.ایسی تصویر ہوگی کہ ظاہری سوانح کے مقابل پر دل بے اختیار پکاریں گے کہ یہ سوانح بچے ہیں اور وہ سوانح جھوٹے تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان سوانح کی اشاعت کی تحریک نہیں فرمار ہے، فرمارہے ہیں ان سوانح پر تم آگاہ ہو جو خدا کے ہاں بچے ہیں.ہر انسان کو خبر ہے ان سوانح کی.ہر انسان اگر چاہے تو اپنے دل میں ڈوب کر ان سوانح کی تفاصیل سے از سر نو آگاہ ہوسکتا ہے.از سرنو اس لئے کہ اکثر وہ جب دل میں ڈوبتا ہے تو اپنی نیکیوں کی باتیں ہی سوچتا ہے ، اپنی بڑائی کے تذکرے ہی سوچتا ہے، یہی سوچتا ہے کہ مجھے دوسرے پر کیا فضیلت حاصل ہے.پس قرآن میں جن آیات میں فضیلت کا ذکر ملا تھا وہی فضیلت ہے جو دھو کے کا موجب بھی بن جاتی ہے.اللہ نے تو فضیلت عطا فرمائی مگر جس کو عطا فرمائی وہ اپنی فضیلت کے تذکروں میں ہی ڈوبا رہتا ہے اور اپنے دعووں کی تلاش نہیں کرتا.جو سوانح خدا کے ہاں بچے ہیں وہ سوانح ایسے ہیں کہ اس کی ان تک رسائی ہوسکتی ہے کیونکہ اسی نے تو بنائے ہیں، ان سوانح کا خاکہ اسی کے اعمال ہی نے تو کھینچا ہے.پس اس پر غور کے بغیر کوئی سچی توبہ نصیب نہیں ہوسکتی اور کوئی سچی فضیلت حاصل نہیں ہوسکتی.اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہئے.“
خطبات طاہر جلد 17 140 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء اب دیکھ لیں کیسی پیاری بات ہے.یہ بتانے کے باوجود کہ خدا کے سوانح بچے ہیں ان پر عمل کرو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جانتے ہیں کہ اس کے باوجود دل سوئے رہیں گے.اس کے تذکرے کرتے چلے جائیں ، بار بار کریں، عمر بھر کریں مگر جن دلوں کی آنکھ نہیں کھلنی نہیں کھلے گی ، وہ خواب غفلت میں سوئے پڑے رہیں گے اور یہ باتیں ان کے سر کے اوپر سے گزر جائیں گی اور سمجھیں گے کہ دوسروں کے متعلق ہو رہی ہیں ہمارے متعلق نہیں ہور ہیں اور اس میں ساری جماعت جو میرے مخاطب ہے، الا ما شاء اللہ ، سب کا یہی حال ہے.خود میرا بھی یہی حال تھا اب کم ہو چکا ہے اور دن بدن کم ہو رہا ہے مگر بسا اوقات میں اپنے آپ کو ایسی حالت میں پکڑ لیتا ہوں جہاں میں جانتا ہوں کہ میری سوچ درست نہیں تھی یعنی میرے قلبی رد عمل کی اصلاح کی ضرورت تھی.میں سمجھتا ہوں کہ یہی اچھا طریق ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے توجہ پھیر دی اور پکڑ لیا کہ اچھا طریق نہیں ہے.تو یہ سلسلہ اصلاح زندگی بھر کا سلسلہ ہے.اس لئے جیسے میں آپ کے سامنے اقرار کر رہا ہوں آپ لوگوں کے سامنے نہ کریں اپنے سامنے تو کریں، اپنے خدا کے سامنے تو کریں اور ان بچے سوانح سے ایک اور حکایت اپنے دل کی ، اپنی زندگی کی لکھیں جن بچے سوانح کو جانتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان سے صرف نظر فرما تارہا ہے.جب چاہتا ہلاک کر سکتا تھا لیکن اس کی رحمت اور اس کے علم نے ہلاکت کا فیصلہ کرنے کی بجائے مہلت دینے کا فیصلہ کیا.پس اس مہلت سے فائدہ اٹھا ئیں اور جان لیں کہ یہ مہلت ہمیشہ کی مہلت نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایسا واقعہ ہوسکتا ہے کہ قضاء وقدر کا سلسلہ ایسے وقت نازل ہو جائے کہ ابھی آپ کی تمنا ئیں باقی تھیں.ایسے وقت میں آپ کی زندگی کا سلسلہ منقطع ہو جائے جس کے بعد پھر کسی اصلاح کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.فرمایا: توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اُٹھا دے اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کرے.“ الحکم جلد 2 نمبر 3 صفحہ: 1 مؤرخہ 13 مارچ 1898ء) یہ پچھلی ساری بیماریوں کا علاج ہے.توحید کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو درمیان سے اٹھا دے.اکثر لوگ توحید سے تعلق اس لئے رکھتے ہیں کہ ان کے نفس کی اغراض توحید سے تعلق رکھے بغیر پوری ہو نہیں سکتیں اور اسی حد تک ان کا تعلق رہتا ہے کہ ان کے لئے
خطبات طاہر جلد 17 141 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء ملک عدم کی طرف لوٹنے کا وقت آجاتا ہے یا ملک عدم تو یونہی محاورہ ہے آخرت کی زندگی کی طرف لوٹنے کا وقت آجاتا ہے لیکن خدا کے بچے اور پاک لوگ خصوصاً انبیاء توحید کی اس قسم سے تعلق رکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی محبت میں اپنے نفس کے اغراض کو بھی درمیان سے اٹھا دیتے ہیں اور اپنے وجود کو اس کی عظمت میں محو کر دیتے ہیں.یہ جو تعلق ہے یہ ہر قسم کی اصلاح کی قدرت رکھتا ہے.جو توحید کے لئے اپنے نفس کی اغراض کو اُٹھا دے اس کا مطلب یہ ہے کہ جو توحید سے متصادم اغراض ہیں ان کی کوئی بھی حیثیت نہ دیکھے.وہ ساری زندگی توحید کے مطابق ہو جائے گی.اس سے بہتر علاج ان بیماریوں کا نہیں ہے جو اس سے پہلے بیان کی جاتی رہی ہیں.توحید کی خاطر اپنے نفس کی اغراض کو بیچ سے اٹھا دے.اللہ تعالیٰ سے توحید کا تعلق مانگے اور اپنی نفسانی اغراض کی طلب نہ کرے.توحید باری تعالیٰ اس کی اغراض پر نگاہ رکھے گی اور جو غرض وہ پوری فرمائے گا وہی حقیقت میں ہمارے فائدے کی غرض ہوگی.جیسا کہ حضرت موسیٰ کی دعا میں نے بارہا آپ کو یاد دلائی ہے رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرُ.(القصص: 25) یہ نہیں کہا کہ میری یہ غرض ہے اور میری یہ غرض ہے ، میری وہ غرض ہے.اغراض تو اس دعا میں مضمر ہیں لیکن فرمایا جو تو پسند فرمائے وہ غرضیں پوری کر دے تو اس دعا کے نتیجہ میں دیکھیں آپ کو سب کچھ حاصل ہو گیا.دُنیا بھی حاصل ہوئی اور آخرت بھی حاصل ہوگئی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس فقرہ میں یہی بات بیان فرما رہے ہیں کہ اپنے نفس کی اغراض اللہ کے تعلق میں اپنی نظر سے اٹھا دو.ان کو اُٹھا کر ایک طرف کر دو پیچھے صرف توحید کی محبت باقی رہ جائے گی اور جب توحید کی محبت میں آپ اپنی اغراض کو ایک طرف پھینکیں گے تو اللہ آپ کی اغراض کا نگران ہو جائے گا.اللہ لازماً آپ کی مدد فرمائے گا.كُلا من هؤلاء وهؤلاء مضمون بھی ہے.ان خدا تعالیٰ کی طرف سے فضل پانے والوں کے ساتھ ، ہر گروہ کے ساتھ اللہ کا ایک مدد دینے کا تعلق ہے اور مدد اس کو دے گا جو خدا کی مدد کے سوا کسی اور مدد کا سہارا نہیں ڈھونڈیں گے.یہ بھی توحید کی ایک قسم ہے.پس بہت سے دعائیں کرنے والے اپنی دعاؤں کے ماحصل سے غافل ہوتے ہیں یعنی جوان کی دعاؤں کو پھل لگنا چاہئے وہ نہیں لگتا اور ان کو نہیں پتا چلتا کہ کیوں نہیں لگ رہا.حلا تست هؤلاء وهؤلاء میں وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا کہ وہ آخرت کی سعی کرتے ہیں یعنی دُنیا طلبی کا ان
خطبات طاہر جلد 17 142 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء کے دلوں میں کوئی اشارہ تک نہیں ہوتا ان میں سے ان کی ہر قسم کی اللہ تعالیٰ حفاظت فرماتا ہے اور ان کو مدد دیتا ہے جو مدد کے دوسرے راستے کاٹ ڈالتے ہیں.تو ان آیات میں جو گہرا فلسفہ ہے کہ آپ کی دعائیں کیسے مقبول ہونگی وہ کھول کر بیان فرمایا گیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تمام باتیں قرآن کریم کی آیات کی تفسیر ہی ہیں ان سے ہٹ کر نہیں.پس وہ آیات جو ہم روز پڑھتے چلے جاتے ہیں اور پڑھتے چلے جاتے ہیں مگر ان کے مرکزی نکتہ کو نظر انداز کرتے چلے جاتے ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بار بار اس طرف نظر کو پھیرتے ہیں اور توجہ دلاتے رہتے ہیں جیسا کہ فرمایا ” اس لئے دل کو جگا جگا کر غور کرنا چاہئے.یہ امور ایسے نہیں ہیں جن کو سادہ آدمی نہ سمجھ سکیں، جن کو سمجھنے کے لئے کسی صاحب عرفان بڑے عالم کی ضرورت ہو.یہ سارے وہ امور ہیں جن کا تعلیم یافتہ ، غیر تعلیم یافتہ ، ہوشیار اور سادہ سب سے برابر کا تعلق ہے اور سب ان کو برابر سمجھ سکتے ہیں.اگر یہ نہ ہوتا تو اسلام کی یہ تعلیم صرف چیدہ چیدہ انسانوں کے لئے ہوتی اور عوام الناس جو خدا ہی کے بندے ہیں ان پر یہ تعلیم چسپاں نہ ہو سکتی.مگر میرا یہ مذہب ، میرا کامل یقین ہے کہ یہ تعلیمات اپنے اندر جتنی بھی گہرائیاں رکھیں ان میں ڈوبنے کے امکانات تو بہت موجود ہیں مگر اپنی سطح پر بھی وہ پیغام دے رہی ہیں جو ہماری نجات کے لئے ضروری ہے اور ہماری نجات کے لئے کافی ہے.پس جو باتیں میں آپ سے بیان کرتا ہوں ہرگز ایسی نہیں کہ ان کو سمجھنے کے لئے عالم ہونا ضروری ہو.سادہ انسانی تجربوں میں میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور انہی سادہ انسانی تجربوں کے حوالہ سے آنحضرت صلی اسلام اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مومنوں کو نصیحت فرمائی ہے.اب جہاں تک پرواہ نہ کرنے کا تعلق ہے وہ مضمون بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں.پہلے میں نے اس مضمون سے بات شروع کی تھی جہاں بے انتہا پر واہ ہے اور اب بے پرواہی کی باتیں بھی سن لیں.اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا، مگر صالح بندوں کی.“ ان دو فقروں میں ایک ایسا آپ کو تضاد دکھائی دے گا جو اونٹ والے واقعہ سے متصادم دکھائی دیتا ہے.اللہ تعالیٰ پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی.وہ بندہ، وہ گناہ گار جس کا ذکر اس صحرائی اونٹ کے واقعہ میں بیان ہوا ہے اس پر آپ غور کر کے دیکھیں کہ خدا کی خوشی اس وقت ہوتی ہے جب وہ خدا کا بندہ
خطبات طاہر جلد 17 143 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء لوٹتا ہے جیسے گمشدہ اونٹ کے لوٹنے پر اس کے مالک کو خوشی ہوتی ہے.جو غائب ہو جائے اس کے نتیجہ میں اس کو کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی.تو یہاں پر واہ کا مضمون اس طبعی محبت و اطمینان سے تعلق رکھتا ہے جس کی گویا خدا راہ دیکھ رہا ہے.پس یہ مطلب نہیں ہے کہ صرف صالح بندوں کی پرواہ کرتا ہے اور گناہ گاروں کی نہیں پرواہ کرتا.وہ گناہ گاروں کی پرواہ ان معنوں میں کرتا ہے کہ کسی وقت تو وہ پلیٹیں اور کسی وقت تو صالح بندے بننے کی کوشش کریں.یہ بات ہے جو اس ظاہری تضاد کو دور کرتی ہے.فرمایا اگر تم اس کے صالح بندے بننا چاہتے ہو ایسے بندے جن کی وہ بے حد پرواہ کرے گا تو پھر آپس میں ایک دوسرے کی پرواہ شروع کر دو.اگر تم آپس میں ایک دوسرے کی پرواہ نہیں کرو گے تو اللہ بھی تمہاری پر واہ چھوڑ دے گا.آپس میں اخوت اور محبت پیدا کرو اور درندگی اور اختلاف کو چھوڑ دو.ہر ایک قسم کے ہنرل اور تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ.“ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپس میں ایک دوسرے کو بہلانے کے لئے ہلکی پھلکی گفتگو نہ کرو، لطائف بیان نہ کرو، یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اپنی تحریرات اور اپنے سوانح سے مختلف ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام بھی بسا اوقات مجالس میں ، بعض دفعہ مناظروں میں بھی لطائف بیان فرما یا کرتے تھے اور آپ کی عبارت میں بھی ایک ایسی لطافت تھی جو دل کو ہلکا پھلکا کرتی ہے.تو تمسخر اور ہنرل اور چیزیں ہیں.تمسخر اور ہنرل میں ہمیشہ کسی دوسرے کی تخفیف مراد ہوتی ہے.کسی شخص کو اپنے سے ادنی جاننے کے نتیجہ میں کسی شخص کو گھٹیا سمجھنے کے نتیجہ میں اگر آپ کوئی مذاق کریں تو یہ ہنرل اور تمسخر کی ذیل میں آئے گا.اس قسم کے ہنرل اور تمسخر تکبر سے پیدا ہوتے ہیں اور تکبر بدترین گناہ ہے.پس جب بھی آپ سوسائٹی کے حالات پر غور کریں آپ کو وہاں مختلف قسم کے لطیفہ گو دکھائی دیں گے.بعض ایسے لطیفہ گو ہیں جو بات کی لطافت کی لذت میں دوسروں کو شریک کرتے ہیں پھر ساری مجلس ہنسی سے زعفران بن جاتی ہے.تو کسی شخص واحد کے ذلیل ہونے کا تصور نہیں ہوتا.سوسائٹی میں کسی ایک پر حملہ مقصود نہیں ہوتا ایسے لطائف کو ہنزل نہیں کہا جاتا لیکن کچھ لطیفہ گو ایسے ہوں گے جو آپ اب غور کریں تو شناخت کرلیں گے وہ ہمیشہ ایسی بات کرتے ہیں جس سے آپ میں سے کسی بھائی کی تذلیل مراد ہوتی ہے اور وہ بڑا ہنستے ہیں کہ وہ اس قسم کا آدمی ہے،
خطبات طاہر جلد 17 144 خطبہ جمعہ 27 فروری1998ء اس قسم کا آدمی ہے اور اس کے متعلق جھوٹی باتیں بھی بیان کرتے ہیں اور جھوٹی مثالیں بھی بیان کرتے ہیں اور اس معاملہ میں بڑے شہرت یافتہ ہوتے ہیں کہ بڑا مزاحیہ آدمی ہے اس نے فلاں کے گنج کا ایسا مذاق اڑایا، فلاں کی غربت کا ایسا مذاق اڑایا، فلاں کی لاعلمی کا ایسا مذاق اڑایا.یہ لوگ ہیں جو ہنرل اور تمسخر کی حد میں آتے ہیں اور بعض لوگوں کی ساری زندگی ہنرل اور تمسخر کے گھیرے کے اندر صرف ہوتی ہے.اگر وہ میری بات سن رہے ہیں تو جب بھی وہ لطیفہ گوئی کریں اس پر غور کر کے دیکھیں کہ لطیفہ کا آغاز دل کے اندر کس حصہ میں اپنی جڑیں رکھتا ہے.اگر وہ ان کی کسی قسم کی بڑائی اور برتری اور اپنے بھائی کی تذلیل کے اس دائرے میں پیوند ہے ، اس دائرے میں دبا ہوا ہے جو دل میں موجود ہوتے ہیں، مختلف دل کے دائرے ہیں کچھ یہاں، کچھ وہاں، کہیں تکبر ہے کہیں نیکی کے آثار بھی ہیں تو اس لئے میں آپ کو تفصیل سے سمجھا رہا ہوں کہ اگر تمسخر کے وقت آپ غور کر کے دیکھیں تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ اس تمسخر کی جڑیں آپ کے دل میں کہاں واقع ہیں.وہاں اگر نیکی اور بھلائی ہو، اگر محض لطافت ہو ، اپنے ماحول کو خوشگوار بنانا مقصود ہو اور کسی اور کی برائی مقصود نہ ہوتو یہ ہرگز ہنرل اور تمسخر نہیں جس کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت کو اجازت نہیں دیتے.فرماتے ہیں تمسخر کی اب تعریف دیکھ لیں.تمسخر میں جھوٹ کا عنصر شامل ہوتا ہے.لازم ہے کہ کچھ نہ کچھ جھوٹ تمسخر میں ضرور شامل ہو اس لئے انبیاء کے ساتھ غیر سوسائٹی کا جو سلوک ہے اس کو قرآن کریم نے تمسخر کے رنگ میں بیان فرمایا ہے.فرماتے ہیں، اب تمسخر سے مطلقاً کنارہ کش ہو جاؤ کیونکہ تمسخر جس کو معمولی سمجھا گیا اگر اس میں جھوٹ کا عنصر شامل ہے تو یہ پودا اکھیڑا جائے گا اور شجرہ خبیثہ کی طرح ادھر ادھر تمام دنیا میں یہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتا رہے گا اور اس کی زندگی کا پانی سوکھ جائے گا.ہواؤں کے ذریعہ اس طرف سے ادھر لے جائے جانے والے پودے میں رفتہ رفتہ کوئی جان بھی باقی نہیں رہے گی اور یہ وہ باتیں ہیں جو آپ میں سے ہر ایک کو سمجھنی ہیں، لازماً سمجھنی ہیں اور لازماً سمجھ سکتے ہیں.موٹی معمولی عقل کا انسان بھی ان باتوں کو سمجھ سکتا ہے کہ جب بھی اس کی طبیعت مذاق کی طرف مائل ہو اپنے دل کو ٹولے اور دیکھے کہ یہ مذاق دل کے کس حصہ میں پیوستہ ہے.وہ دل کا Soil یعنی وہ سرزمین دل کی جہاں یہ پیوستہ ہے وہ اگر پاک اور صاف ہے اور اس میں گندے پورے کے اُگنے کی گنجائش نہیں ہے تو پھر آپ فائز ہیں.آپ وہ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 17 145 خطبہ جمعہ 27 فروری 1998ء فَوْزًا عَظِيمًا (النساء :74) کی خوشخبری دیتا ہے ورنہ ضرور آپ نے اکھڑنا ہے اور اکھڑ کے بالآخرموت کی طرف آپ کا سفر شروع ہو جائے گا.فرمایا: 66 دو تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر کے کہیں کا کہیں پہنچا دیتا ہے.“ میں نے بہت گہری نظر سے ایسے لوگوں کا مطالعہ کیا ہے.سو فیصد درست بات ہے کہ اس قسم کے تمسخر میں مبتلا لوگ پھر اپنی نیکی کی حالت پہ کبھی بھی قائم نہیں رہتے.پہلی جگہ سے اکھڑتے ہوئے دوسری جگہ چلتے چلے جاتے ہیں جہاں موت ان کا انتظار کرتی ہے.اس کا علاج کیا ہے؟ آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ عزت سے پیش آؤ.“ ( الحکم جلد 2 نمبر 12، 13 صفحہ:10 مؤرخہ 20و27 مئی 1898ء) اب یہ جو روز مرہ کی عزت ہے یہ دل کی صفائی کے ساتھ ہونی چاہئے.بعض دفعہ تمسخر کرنے والے بھی ایک عزت کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھو ہم عزت سے پیش آرہے ہیں کسی آدمی کو چھوٹا دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں آؤ بادشا ہو بیٹھو ایتھے.بادشا ہو کہہ کر بظاہر عزت کرتے ہیں اور حقیقت میں سخت تذلیل کرتے ہیں.کسی غریب آدمی کو ( کہتے ہیں) سیٹھ صاحب تشریف لائیے اور وہ کہتے ہیں ہم نے تو سیٹھ ہی کہا ہے نالیکن مراد یہ ہے کہ یہ شخص اتنا غریب اور بے کار ہے کہ سیٹھ کا بالکل Opposite ہے.پس بظاہر اس کی عزت ہوئی ہے سیٹھ کہ کر مگر اس سے زیادہ تکلیف دہ پنجر اس کے دل میں نہیں گھونپا جاسکتا.اس کو غریب کہہ دیتے تو اس کو اتنی تکلیف نہ ہوتی.اگر غریب کو سیٹھ کہا جائے تو اس کو اپنی غربت یاد آ جاتی ہے اور برے رنگ میں یاد آتی ہے، تکلیف پہنچاتی ہے.پس چونکہ اب وقت ہو چکا ہے میں اس مضمون کو یہاں ختم کرتا ہوں.یہ مضمون انشاء اللہ جاری رہیں گے اور میری کوشش ہوگی کہ جماعت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے تصور کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے.پس آج کی یہ بڑی خوشخبری ہے کہ جماعت سویڈن نے ایک کوشش کی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس تصور کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال لے.تو یہ دعا ہے کہ اب ہمیشہ اس بات پر مضبوطی سے قائم ہو جائیں اور موت تک کبھی ان نیکیوں کو ہاتھ سے نہ جانے دیں جو نیکیاں اختیار کرنے کا آج وہ عزم کر چکے ہیں اور اس مجلس میں جو وہاں قائم کی جائے گی میری نمائندگی کے زیر صدارت اس میں دوبارہ اس عہد کو دہرایا جائے گا.السلام علیکم ورحمتہ اللہ.
خطبات طاہر جلد 17 147 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء معرفت کی باتیں نفسانی جوشوں کے تابع ممکن نہیں حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں جماعت کو نصائح (خطبه جمعه فرموده 6 مارچ 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: هذا بَصَابِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ يُوقِنُونَ.أَمْ حَسِبَ الَّذِينَ اجْتَرَحُوا السَّيَاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ سَوَاءَ محيَاهُم وَ مَمَاتُهُمْ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ وَ خَلَقَ اللَّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لا يُظْلَمُونَ ) پھر فرمایا: ط (الجاثية: 21 تا 23) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جو اقتباس میں نے شروع کیا تھا اس کا ایک حصہ باقی تھا اور کچھ اور اقتباسات ہیں جو اس کے بعد میں آپ کو سناؤں گا.ان مضامین سے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں میں آپ کے سامنے بیان کر رہا ہوں ان آیات کا ایک بہت گہرا تعلق ہے.پہلے اس پہلی آیت میں تو یہ بیان ہوا ہے کہ هُذَا بَصَابِرُ لِلنَّاسِ وَهُدًى ورَحْمَةٌ که یه قرآن اور یہ قرآن کی باتیں بصابِرُ لِلنا میں لوگوں کے لئے بصیر تیں ہیں یعنی ان باتوں کو اگر وہ تقویٰ سے دیکھیں تو جس پہلو سے بھی دیکھیں گے ان کونئی روشنی نصیب ہوگی.وَ ھدی
خطبات طاہر جلد 17 148 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء ورحمة اور ہدایت کا سامان ہے اور رحمت ہے لیکن اس قوم کے لئے جو یوقِنُونَ وہ یقین رکھتے ہیں ان باتوں پر اور قرآن کریم کو اس کامل یقین کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ ان کے اندروہ سب باتیں موجود ہیں جن کا ذکر کیا گیا ہے.اَمْ حَسِبَ الَّذِيْنَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ کیا وہ لوگ جنہوں نے بُرے عمل کئے ، طرح طرح کی برائیوں میں مبتلا ہوئے یہ گمان کر لیا کہ آنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذِينَ آمَنُوا کہ ہم انہیں ان لوگوں جیسا کر دیں گے یا ان سے ان لوگوں جیسا سلوک کریں گے جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ، اس طرح ان سے سلوک کریں گے گویا کہ سَوَاء مَحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْ کہ برائیاں کرنے والوں کی زندگی اور موت اور ان کی یہ زندگی اور موت ایک ہی جیسی ہو جائے گی.یہ نہیں ہوسکتا، ناممکن ہے.جو ایمان لانے والے ہیں ان کے ساتھ خدا اس دُنیا میں ایک ایسا امتیازی سلوک کرے گا اور ہمیشہ جاری رکھے گا کہ وہ جو برائیوں میں مبتلا رہتے ہیں ان سے اس زندگی میں ہی خدا تعالیٰ کا سلوک ایک امتیاز کر کے دکھا دے گا اور بتا دے گا کہ یہ میرے بندے ہیں اور یہ وہ دوسرے بندے ہیں.سَاءَ مَا يَحْكُمُون کتنے برے فیصلے ہیں جو وہ کر بیٹھے ہیں یا کرتے ہیں کہ ان کے حق میں ہی وہ فیصلے الٹتے ہیں اور ان کو ہر کامیابی سے محروم کر دیتے ہیں.سَاءَ مَا يَحْكُمُون میں اور بھی بہت سے مضامین ہیں اُن کے حکم کے نتیجہ میں ، ان کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں جو فسادات برپا ہوتے ہیں، جو مذہب کی دُنیا میں اور مادی دنیا میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں جو محض ان کے اس حکم کی وجہ سے ہے جو بیان کیا گیا ہے ان سب تفاصیل کو میں یہاں بیان کرنے کا ارادہ نہیں رکھتا لیکن اشارہ کر دیا ہے کہ سَاءَ مَا يَحْكُمُونَ میں اوّل تو اُن کا فیصلہ اُن کے اپنے خلاف پڑے گا اس بات کا اشارہ ہے اور دوسرا اُن کے اس فیصلہ کے نتیجہ میں ساری دُنیا میں جو فساد برپا ہوتے ہیں ان کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے.وَخَلَقَ اللَّهُ السَّمَوتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ حالانکہ صورت حال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمین کو حق کے ساتھ پیدا کیا ہے اور حق کے ساتھ فساد پل نہیں سکتا، اس کے ساتھ رہ نہیں سکتا.ان دونوں کا کوئی ساتھ کوئی جوڑ نہیں ہے تو کیسے ممکن ہے کہ خدا نے زمین و آسمان کو تو حق کے ساتھ پیدا کیا ہو اور اس میں تم کوئی رخنہ کوئی فساد نہ دیکھوگر مذہب کی دُنیا میں خدا تعالیٰ نیکوں کو بدوں کے ساتھ اس طرح ملا جلا دے کہ گویا وہ دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں.حق کے ساتھ باطل نہیں رہ سکتا، باطل کے ساتھ حق نہیں رہ سکتا.یہ اعلان ہے جو ان آیات کا ایک طبعی
خطبات طاہر جلد 17 149 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء تقاضا تھا جو اس سے پہلے گزری ہیں.وَلِتُجرى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ اس کا طبعی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر جان کو اس کے اس عمل کا بدلہ دیا جائے جو اس نے خود کما یا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے کیونکہ ظلم بھی حق کے ساتھ اکٹھا چل نہیں سکتا.تو عدل در اصل حق ہی کا بچہ ہے.پس قرآن کریم نے ان آیات میں بہت گہرے اور وسیع مضامین بیان فرمائے ہیں جن کی تفسیر کا اس وقت موقع نہیں مگر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان امور پر جو روشنی ڈالی ہے وہ جماعت کی تربیت کے لئے انتہائی ضروری ہے.پس میں اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام پڑھنا شروع کرتا ہوں.ہر ایک اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دیوے.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو اور اس کی اطاعت میں واپس آجاؤ.اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہورہا ہے اور اُس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر کے اُس کے حضور میں آتے ہیں.“ الحکم جلد 2 نمبر 12، 13، صفحہ: 10 مؤرخہ 20و27 مئی 1898ء) پس یہ وہ لوگ جو برائیوں میں مبتلا ہیں اور وہ لوگ جو کلیہ ان سے کنارہ کشی کرتے ہیں یہ وہی لوگ ہیں کنارہ کشی کرنے والے لوگ، جن کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اگر تم یہ بننا چاہتے ہو تو پہلی صفت تو یہ ہے کہ اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دو.اللہ تعالیٰ سے ایک سچی صلح پیدا کر لو.یہ اللہ تعالیٰ سے صلح کا تقاضا ہے کہ اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دو.ویسے بظاہر تو ان دونوں کا جوڑ نظر نہیں آتا کہ اگر تم یہ گروہ بنا چاہتے ہو تو اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دو مگر اگر اللہ یہ چاہتا ہو کہ تم ساری دُنیا کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دو تو جب تک بھائی سے اس سفر کا آغاز نہیں ہوگا یہ سفر جاری ہو ہی نہیں سکتا.پس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام بہت ہی گہرا ہے اور اس کے عرفان کو سمجھنے کے لئے یہ مقامات ہیں جہاں دو فقرے بظاہر بے جوڑ دکھائی دیتے ہیں اور لوگ اسی طرح بغیر ان کو حل کئے آگے گزر جاتے ہیں حالانکہ وہ مقامات ہیں جہاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عرفان کو گہرائی میں اتر کر سمجھا جا سکتا ہے.پس یہ مراد ہے کہ تم تو دنیا میں اللہ کی خاطر اس لئے نکالے گئے ہو کہ سب دُنیا کے آرام کی خاطر اپنے آرام کو خطرہ میں
خطبات طاہر جلد 17 150 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء ڈال دو یا دُنیا کے آرام کو ترجیح دو اور اپنے آرام کو ترک کر دو.اب دیکھ لیں بعینہ یہی زندگی حضرت اقدس محمد مصطفی صل الا السلام کی زندگی تھی.ان دو فقروں کو حضرت رسول اللہ صلی نیلم کی زندگی پر اطلاق کر کے دیکھیں تو ایک ادنی ذرہ کا بھی فرق آپ کو دکھائی نہیں دے گا.جتنے بھی مراتب بندے کو خدا کی طرف سے نصیب ہوتے ہیں اس میں یہ مرکزی نقطہ ہے کہ جب بندہ اپنے آرام کو حج کر اپنے بھائیوں اور دوسروں کے آرام کا خیال رکھنا شروع کر دے تو خدا اُس کو ضرور اپنی طرف کھینچتا ہے اور اس کے لئے ضروری نہیں کہ یہ سفر نبوت کے بعد شروع ہو.تمام انبیاء کا سفر یہی سفر ہے اور سب سے زیادہ واضح اور قطعی طور پر رسول اللہ صلی شما پیتم کی پہلی زندگی اس کو ثابت کر رہی ہے کہ آپ صلی یا یہ تم اپنے بھائیوں کے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دیا کرتے تھے اور ابھی نبوت آپ سی یا یہ تم پر نازل نہیں ہوئی تھی اور اللہ نے آپ صلی اسلم کو اپنی طرف کھینچ لیا کیونکہ یہ صفت ایسی ہے جو خدا کو بہت پیاری ہے اور آگے دُنیا کی اصلاح کا سفر اس صفت کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.جو اس صفت سے محروم ہے وہ نبوت اور نبوت کی غلامی کی صفات سے محروم ہے.پس ضروری ہے کہ آپ ان باتوں کو سمجھیں اور وہ لوگ جو اجترحوا الستات جنہوں نے برائیاں گھڑ رکھی ہیں ان سے الگ وہ بن جائیں جن کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ ایمان رکھنے والے لوگ ہیں اور عملوا الصلحت نیک اعمال کرنے والے ہیں ان دونوں کے ساتھ ایک معاملہ نہیں ہوگا ، نہ ایک معاملہ ان کے ساتھ ہونا ممکن ہے.اب دوسرا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا غضب زمین پر نازل ہو رہا ہے اور اس سے بچنے والے وہی ہیں جو کامل طور پر اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر کے اُس کے حضور میں آتے ہیں.یہ جو دوسرا پہلو تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ بدوں کی زندگی اور ان کی موت نیکوں کی زندگی اور موت جیسی ہو جائے.یہ وہ پہلو ہے جس کی تشریح ہے کہ اگر تم خدا کی پناہ میں آنا چاہتے ہو تو اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو جاؤ.اگر ایسا کروگے تو تم وہ لوگ ہو جاؤ گے جن کے اندر خدا تعالیٰ ایسی صفات بھر دے گا کہ دُنیا والوں کے ساتھ تمہارا فرق نمایاں دکھائی دے گا، کسی تفصیلی بحث کی ضرورت نہیں پڑے گی ، وہ فرق ہر دیکھنے والی آنکھ کو نمایاں طور پر دکھائی دینے لگے گا اور ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا؟، کیسے فرق دکھائی دے گا؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 151 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء اور اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا.“ اب ہر روز شیطان سے جو جنگ شروع کر رکھی ہے ہم لوگوں نے ، شیطان سے جنگ ایک ایسے وقت تک جاری رہتی ہے جس وقت تک انسان خدا کی پناہ میں نہیں آجاتا.جب آجاتا ہے تو شیطان اس کے قریب بھی نہیں پھٹکتا کیونکہ اللہ کی پناہوں میں شیطان کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہے.وہ بھی تو وہاں ہی آجاتا ہے جہاں اُس کو تھوڑی سی بھی گنجائش مل جاتی ہے.“ البدر جلد 2 نمبر 45،44 صفحہ : 3 مؤرخہ 24 نومبر و 1 دسمبر 1904ء) پاؤں رکھنے کی جگہ ملے تو تب شیطان وہاں جاتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو یہ فرمایا سارے گناہوں سے تو بہ کرو مطلب یہ ہے کہ شیطان کے لئے قدم رکھنے کی گنجائش نہ چھوڑو کیونکہ جب وہ ایک دفعہ قدم رکھ لے تو اس کا منحوس قدم اپنے اثرات دکھانے لگتا ہے اور وہ اور جگہ بنالیتا ہے.جس اونٹ اور بدوی کا قصہ میں نے آپ لوگوں کے سامنے پہلے بھی بیان کیا ہے اصل میں وہی صورت حال ہے جو یہاں پیدا ہوتی ہے.کہتے ہیں ایک بدوی اپنا خیمہ لگا کے بیٹھا ہوا تھا اور شدید ٹھنڈی رات تھی تو اس کے اونٹ نے اندر سر کیا اور اس نے کہا مجھے سر اندر کر لینے دو کیونکہ بہت سردی ہے، باقی تم لیٹے رہو آرام سے.تو جب سر گرم ہو گیا تو اسے پتالگا کہ اس سردی میں گرمی کا کیا مزا ہے تو اس نے تھوڑ اسا اور گردن گھسیڑ دی.اس نے کہا گردن بھی تو سر کے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے یا سرگردن کے ساتھ لگا ہوا ہے اس غریب پر میں کیوں ظلم کروں اس لئے ذرا ایک طرف ہٹ جاؤ.پھر باقی جسم سخت سردی محسوس کر رہا تھا جبکہ جسم کا ایک حصہ گرمی محسوس کر رہا تھا.تھوڑا سا اور آگے گیا.اس نے کہا میری ٹانگوں کا کیا قصور ہے اگلے حصہ کو کم سے کم تھوڑا سا آرام آنے دو.وہ بے چارہ ایک کونے سے لگ گیا اور کچھ دیر کے بعد کہا باہر جانا کیونکہ میرے پچھلے حصہ کا بھی حق ہے.تو اس طرح بدیاں رفتہ رفتہ اپنی جگہ بنایا کرتی ہیں اور ایک دفعہ انسان بدی کو موقع دیدے کہ وہ اندر آ جائے تو پھر بدی نہیں چھوڑے گی اور یہی شیطان کا حیلہ ہے.اب جتنے انسان بھی ، جب بھی بدی میں مبتلا ہوتے ہیں وہ اپنی نفسیاتی کیفیت پر غور کر کے دیکھ لیں ہمیشہ شروع میں خیال آتا ہے اتنا سا کرنے میں کیا حرج ہے.معمولی سا.اور وہ معمولی سا جب ایک دفعہ کر بیٹھے تو اس سے اگلا قدم اٹھانا اس کا ایک لازمہ بن جاتا ہے.دُنیا بھر میں جتنی ڈرگ ایڈکشن (Drug Addiction) ہے وہ اسی اصول پر
خطبات طاہر جلد 17 152 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء جاری ہے.سکولوں اور کالجوں کے بچوں کو وہ خبیث لوگ جو خراب کرتے ہیں وہ کہتے ہیں ایک چھوٹا سا مزا چکھ لو، ذرا سا، اس میں کیا حرج ہے اور جب وہ چکھتے ہیں تو پھر اگلے کی خواہش وہ پہلا مزہ پیدا کر دیتا ہے اور اس کی طلب شروع ہو جاتی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کوئی بات بھی بے وجہ بیان نہیں کرتے.اپنے سارے گناہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور میں آتے ہیں.“ ( الحکم جلد 2 نمبر 12، 13 صفحہ:10 مؤرخہ 20و27 مئی 1898ء) یہ سارے گناہوں سے تو بہ کر کے آجانا کیوں ضروری ہے؟ اسی قسم کا نقشہ کھینچ کے ایک اور جگہ فرماتے ہیں: اس ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا وہ بھی تو وہاں ہی آجاتا ہے جہاں اس کو تھوڑی سی بھی گنجائش مل جاتی ہے.جہاں اس کو تھوڑی سی گنجائش ہوتی ہے وہاں وہ قدم رکھتا ہے.اب یہ نیا فقرہ ہے : ” جب خدا کو مقدم رکھا جائے تو برکات کا نزول ہوتا ہے...“ اللہ تعالیٰ اپنی طرف سے غیر معمولی برکات نازل فرماتا ہے.یہ سب باتیں جو بیچ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزید لکھی ہوئی ہیں جو نقطے ڈال کے لمبی عبارت کو چھوٹا کرنے کی کوشش کی گئی ہے یہ ساری نیکیاں حاصل ہوتی ہیں....یہ باتیں اور کامل ایمان حاصل ہوتا ہے تو بہ استغفار سے اس کی کثرت کرو اور رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَ إِنْ لَّمْ تَغْفِرُ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَسِرِينَ - (الاعراف: 24) پڑھا کرو اور اس کی کثرت کرو.“ ( البدر جلد 2 نمبر 44، 45 صفحہ: 3 مؤرخہ 24 نومبر و 1 دسمبر 1904ء) اب یہ ایک بہت ہی اہم نکتہ ہے جس کا آغاز آدم سے ہوا ہے اور جیسا کہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک عبارت پڑھ کے سناؤں گا.یہ دعا ہر گناہ گار اور گناہوں سے گھرے ہوئے اور ملوث انسانوں کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ یہ جو فرمایا کہ سب قسم کے گناہوں سے تو بہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو جاؤ یہ اس دعا کے بغیر ممکن نہیں اور شیطان سے جو جنگ شروع ہے اس کا علاج یہی دعا ہے اور یہ وہ دعا ہے جو اس جنگ کے آغاز پر اللہ تعالیٰ نے آدم کو خود سکھائی.تو نہ صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام رستوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں بلکہ وہ
خطبات طاہر جلد 17 153 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء سارے رموز بتاتے ہیں جن رموز کی وجہ سے ان رستوں پر چلنا ممکن ہوسکتا ہے، ایک ذرہ بھی ہماری ضرورت کا آپ نے باقی نہیں چھوڑا.اس کو امام وقت کہتے ہیں.یہ وہ امام ہے جسے خدا خود بناتا ہے اور خود قدم قدم پر اس کی راہنمائی فرماتا ہے.چنانچہ اس دعا کی طرف اشارہ کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تم یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے.“ وہ جو اقتباس میں نے چن کر رکھا ہوا تھا وہ کہیں اور جگہ رہ گیا ہے غلطی سے مگر مضمون وہ ہے جو میں بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شیطان کی جنگ کا آغاز آدم سے شروع کیا ہے جیسا کہ واقعہ اسی وقت ہوا اور فرمایا کہ آدم کو اس دعا کے ذریعہ فتح نصیب ہوئی ہے اور یہ دعا وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود آدم کو سکھائی.پس آج بھی ہر انسان کو شیطان سے جنگ کے وقت اس آیت کی پناہ میں آنا ہوگا اور جب تک وہ اس آیت کو نہ پڑھے اور دل کی گہرائیوں سے نہ پڑھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسے وہ مدد نصیب نہیں ہو سکتی جس کے بعد اسے بالآخر شیطان پر فتح نصیب ہوگی.یہ بیچ کا ایک اقتباس تھا یہ رہ گیا ہے اور اب میں نے زبانی آپ کو بتادیا.اب آپ کے سامنے میں دوسرا اقتباس رکھتا ہوں.فرمایا ” تم یاد رکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا.اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں ساعی ہو جاؤ گے.یہ دین کی حمایت میں ساعی ہو جانا، اس سے پہلے کوشش سے پہلے کلیۂ پاک ہونے کا تقاضا نہیں کرتا بلکہ کلیۂ پاک ہونے کا ایک ذریعہ ہے.اس لئے ہر وہ شخص جو آج اللہ تعالیٰ کے دین کی حمایت میں اپنے دل میں جوش پاتا ہے اور قطع نظر اس کے کہ وہ خود کیسا ہے کیسے کیسے گناہوں میں ملوث ہے، کیا کیا کمزوریاں اس کو ہیں وہ اگر اس محبت پر غلبہ نہیں پاسکتا، بہانہ نہیں ڈھونڈتا کہ میں کہاں اور خدا کے دین کی خدمت کہاں، جو کچھ اس کا ہے وہ اس کے حضور حاضر کر دیتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 154 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ( حکیم نظامی گنجوی) یہ کہہ کر کہ اے میرے آقا میرا جوسرمایہ تھا تیرے سپر د ہے ” تو دانی حساب کم و بیش را “.اب کم و بیش یعنی کمی اور زیادتی کا حساب تو جانے میں نے جو کرنا تھا وہ کر دیا.فرمایا ایسے لوگوں کی اللہ ضرور حمایت کرتا ہے.تم یا درکھو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے فرمان میں تم اپنے تئیں لگاؤ گے اور اس کے دین کی حمایت میں سائی ہو جاؤ گے.“ یہ وہ مضمون ہے جو میں نے ابھی آپ کے سامنے بیان کیا ہے.” تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا.“ جو تمہاری راہ میں اللہ کے قریب جانے کی راہ میں حائل رکاوٹیں ہیں اور وہ دراصل خود اپنے نفس کی پیدا کردہ ہوتی ہیں.فرمایا اللہ تعالیٰ تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا اور تم کامیاب ہو جاؤ گے.یہ کیوں ہے؟ اس لئے کہ تم خدا کا پودا بن جاتے ہو، جب بھی تم یہ عہد کر کے خدا کے لئے اپنی خدمات کو پیش کرتے ہو تو پھر تم شجرہ طیبہ بن جاتے ہو یعنی شجرہ طیبہ بننے کے اہل ہو جاتے ہو.اردگرد جو تمہارے کانٹے لگے ہوئے ہیں وہ تمہیں خراب کر رہے ہیں، تمہاری صحت پر بداثر ڈال رہے ہیں یعنی روحانی طور پر جس ترقی کے تم اہل خدا کے نزدیک ہو جاتے ہو اس ترقی کی راہ میں یہ روکیں ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ تم سے وہی سلوک کرتا ہے کہ ان روکوں کو دور فرما نا شروع کر دیتا ہے." کیا تم نے نہیں دیکھا کہ کسان عمدہ پودوں کی خاطر کھیت میں سے ناکارہ چیزوں کو اکھاڑ کر پھینک دیتا ہے.“ کیسا ایک طبعی سلسلہ ہے جس کی طرف اشارہ فرمایا گیا کہ تم اب وہ پودا بن گئے ہو جس کی خدا حفاظت فرمائے گا اور تمہاری خاطر بڑے پودوں کو اکھاڑ کر پھینک دے گا یعنی تمہارے اندر جو بڑے درخت لگے ہوئے ہیں جھاڑ پھونس جو تمہاری نیکیوں کو چاٹ رہے ہیں ان کا خون پی رہے ہیں سیہ اب مالک کا فرض ہے کہ وہ چن چن کر باغ سے ان چیزوں کو نکال باہر کرے.اور اپنے کھیت کو خوش نما درختوں اور بار آور پودوں سے آراستہ کرتا (ہے).“ تو انسانی نفس میں بہت ہی خوبصورت اور دلکش درخت اگنے لگیں گے یعنی نیکیوں کے درخت جو دیکھنے میں خوش نما دکھائی دیں گے اور اپنی صفات کے لحاظ سے وہ نہایت ہی اعلیٰ اور پیارے ہوں گے.بارآور میں پھل دار ہونے کی طرف اشارہ فرمایا کہ وہ ایسے پودے ہیں جو پھل بھی دیتے ہیں.اور ان کی حفاظت کرتا (ہے) اور ہر ایک ضرر اور نقصان سے ان کو بچاتا ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 155 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء اب دیکھیں چھوٹی سی بات سے معاملہ شروع کیا اور کہاں تک پہنچا دیا اور سفر آسان دکھایا.اب جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں سفر شروع کرو کوئی اس میں مشکل ہے؟ جو کچھ ہے حاضر کر دو.محبت سے پیش کرو، عاجزی کے ساتھ پیش کرو اور یہ عرض کرو کہ خدا یا ہمارے پاس اس سے زیادہ کچھ نہیں مگر تیرے دین کی محبت ضرور ہے اس محبت کی خاطر مجبور ہیں کہ جو کچھ بھی ہے تیرے حضور پیش کر دیں.پھر فرمایا کہ دیکھو اس کے ساتھ خدا کیا سلوک فرمائے گا.د مگر وہ درخت اور پودے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پرواہ نہیں کرتا.“ پس پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے شروع ہو جائیں جبکہ پھل اللہ ہی لاتا ہے تو ان دو باتوں کا تضاد کیا معنی رکھتا ہے.ابھی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ فرما چکے ہیں کہ پھل اللہ کی طرف سے ہی عطا ہوتا ہے لیکن ساتھ ہی فرمایا کہ پورے جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں اُن کی مالک پرواہ نہیں کرتا.پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں میں ان کا ارادہ شامل ہے.وہ اپنے آپ کو خدا کے حضور اصلاح کے لئے پیش نہ کریں، جس حالت میں ہیں اسی میں رہیں اور اپنی خدمات دین کے لئے حاضر نہ کریں وہ پودے ہیں جو خدا تعالیٰ کے نزدیک پھل نہ لانے اور گلنے سڑنے کا گویا ارادہ کر چکے ہیں.ان کا فیصلہ یہی ہے کہ ہم نے خوشحال پودوں کی طرح نہیں بننا، ہم اپنے آپ کو اسی طرح رکھیں گے اور وہ مالک کے نہیں رہتے بلکہ غیر کے ہو جاتے ہیں، وہ کسان کے نہیں رہتے بلکہ اسی لائق ہوتے ہیں کہ انہیں کاٹ کر الگ پھینک دیا جائے.چنانچہ یہ مراد ہے کہ جو پھل نہ لاویں اور گلنے اور خشک ہونے لگ جاویں ان کی مالک پرواہ نہیں کرتا ورنہ وہی بدیاں موجود ہوں اور وہ مالک کی پرواہ کریں تو مالک ضرور ان کی پرواہ کرتا ہے.وہ بدیاں موجود ہوں اور مالک کی پرواہ نہ کریں تو اللہ بھی ان کی پرواہ نہیں کرے گا.اُن کی مالک پرواہ نہیں کرتا کہ کوئی مویشی آکر ان کو کھا جاوے یا کوئی لکڑ ہارا ان کو کاٹ کر تنور میں پھینک دیوے.سو ایسا ہی تم بھی یا درکھو.اگر تم اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے، تو کسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.“ اللہ تعالیٰ کے حضور میں صادق ٹھہرو گے.“ اس کے لئے صدق کی وہی ابتدائی شرط ہے جو میں بیان
خطبات طاہر جلد 17 156 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء کر چکا ہوں.آخری شرط نہیں کہ جب تک تم صدیق نہیں بنو گے اس وقت تک خدا تمہاری پر واہ نہیں کرے گا ، اللہ کے نزدیک تمہارا مواد سچا ہو، تمہارے دل کی گہرائی میں سچائی موجود ہو اگر یہ ہو گا توکسی کی مخالفت تمہیں تکلیف نہ دے گی.پر اگر تم اپنی حالتوں کو درست نہ کرو اور اللہ تعالیٰ سے فرمانبرداری کا ایک سچا عہد نہ باندھو، تو پھر اللہ تعالیٰ کو کسی کی پرواہ نہیں.ہزاروں بھیڑیں اور بکریاں ( ہر ) روز ذبح ہوتی ہیں پر اُن پر کوئی رحم نہیں کرتا اور اگر ایک آدمی مارا جاوے تو اتنی باز پرس ہوتی ہے.“ اب ساری دُنیا میں یہی ہو رہا ہے لیکن بدنصیبی سے اب بھیٹروں اور بکریوں کے ذبح ہونے کا مضمون بہت آگے بڑھ چکا ہے.آج کا زمانہ ایسا ہے کہ انسان بھیڑوں بکریوں کی طرح ذبح ہو رہا ہے اور کسی کو کوئی پرواہ نہیں.تو یہ حالت جو سیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے یہ اس وقت کی حالت ہے جب انسانوں میں کچھ نیکی موجود تھی، کچھ بھلائی تھی لیکن اب تو معاملہ حد سے آگے گزر چکا ہے.پانی سر سے اوپر نکل گیا ہے.یہ یادرکھیں کہ اگر ہم ابتداء میں اپنی نیکیوں کی حفاظت کی طرف توجہ نہیں کریں گے اور بدیوں کی پرواہ نہیں کریں گے تو اس طرح یہ بدیوں کا سیلاب آگے بڑھتا ہوا ہماری حد سے آگے نکل جائے گا اس کو سمجھانا اس لئے ضروری ہے کہ دُنیا کی اصلاح ہمارے سپر دفرمائی گئی ہے.اب جو ہم دُنیا کی حالت دیکھ رہے ہیں وہ بہت زیادہ خطرناک ہے اس وقت سے جس وقت حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے یہ تحریر لکھی.اب بعض دفعہ یہ تو ہوتا ہے کہ ایک بھیڑ کے ذبح ہونے پر لوگوں کو فکر ہوتی ہے کہ اچھی بھیڑ تھی اس کو کیوں ذبح کر دیا گیا لیکن انسانوں کے ذبح ہونے پر کوئی فکر نہیں.ساری دُنیا میں لاکھوں کروڑوں انسان ہیں جو ناحق مارے جارہے ہیں اور انسان کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے تو وہ خدا اُن کی پرواہ کیسے کرے گا جو خدا کے بندوں کی پرواہ نہیں کرتے.پس خدا کے ان سب بندوں کی جو ساری دُنیا میں پھیلے پڑے ہیں، پرواہ کرنے کا مضمون آپ کو سمجھ آنا چاہئے.اگر آپ آرام سے زندگی بسر کر رہے ہیں اور اپنے گردو پیش نظر نہیں ڈال رہے، آپ نہیں پہچان رہے کہ ان خدا کے بندوں پر کیا کیا ظلم ہورہے ہیں تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو خوشخبریاں عطا فرمائی ہیں وہ آپ کو نصیب نہیں ہوں گی اور لازم ہے کہ ہم ضرور سمجھیں اس مضمون کو ، کیونکہ ہمارے سوا اور کوئی نہیں ہے جس نے اس دُنیا کی تقدیر بدلنی ہے اگر ہم نہیں سمجھیں
خطبات طاہر جلد 17 157 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء گے تو پھر کون سمجھے گا.پس آپ لوگ اس Urgency کا احساس کر کے جو میں نے کھول کر آپ کے سامنے بیان کر دی ہے خدا تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوں اور یہ عرض کریں کہ اے خدا ! یہ معاملہ تو ہماری حد سے بہت آگے نکل چکا ہے.اوّل ہم کمزور اور اس لائق نہیں کہ دُنیا کی اصلاح کر سکیں تیرے گزشتہ انبیاء اور پیارے بندوں میں تو نے ایسی خوبیاں رکھ دی تھیں کہ وہ دُنیا کا احساس بھی رکھتے تھے اور کمزوریوں کو دور کرنے کی صلاحیتیں بھی رکھتے تھے.ہمارا حال تو یہ ہے کہ خود اپنی کمزوریاں دور کرنے کی صلاحیتیں نہیں ہیں.ہمیشہ کوشش کرتے ہیں، ہمیشہ سوچتے ہیں اور پھر روز اول ، پھر وہیں کے وہیں پاتے ہیں.نہ دل بدلتا ہے نہ ماحول بدلتا ہے نہ اپنے خاندان والوں سے سلوک بدلتا ہے، نہ غیروں سے اپنا سلوک بدلتا ہے کس مصیبت میں مبتلا ہو گئے ہیں اور اوپر سے وہ جن کی اصلاح ضروری تھی جن کی اصلاح ہم نے کرنی تھی وہ بد سے بدتر ہوتے چلے جارہے ہیں.پس ہمارے مسائل بڑھ رہے ہیں، یہ احساس پیدا کر نالا زم ہے.فرمایا.سوا گر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لا پروا بناؤ گے.“ جیسے درندوں کو کوئی رحم نہیں ان کی بلا سے ارد گرد دوسرے جانوروں پر ظلم ہورہے ہیں یا اُن کی نسلیں مٹائی جارہی ہیں ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا.فرمایا اگر تم درندوں کی مانند بے کار اور لا پرواہ ہو جاؤ گے.تو اس لفظ درندوں کا استعمال مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے، یہ میں نے نہیں کہا.پس یہ بات جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے کہ یہ بہت ہی خطرناک غلطی ہے کہ ہمیں گردو پیش کا احساس نہ ہو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ درندوں کی صفت ہے.اگر تم اپنے آپ کو درندوں کی مانند بیکار اور لا پرواہ بناؤ گے، تو تمہارا بھی ایسا ہی حال ہو گا.چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ.“ اور عزیزوں میں شامل ہونے کا جو رستہ پہلے بیان فرمایا جا چکا ہے وہ رستہ اختیار کرنا اور وہ سفر شروع 66 کرنا ضروری ہے.تا کہ کسی و با کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے.“ اب و باکے ساتھ یا آفات کے ساتھ وباؤں کا بھی ذکر ہے.اب کسی و با یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے.یہ ایک ایسا مضمون ہے جس کو جماعت کے مخلصین بندوں کے حالات پر غور کرنے
خطبات طاہر جلد 17 158 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء سے سمجھ آجاتی ہے.میں نے دیکھا ہے خدا کے ایسے بندے جو دن رات خدمت میں مصروف ہیں ان کو وہ آفات نہیں چھوتیں جو ان کے ساتھ رہنے والوں کو چھوتی ہیں.بہت سے، کثرت سے ایسے گواہ جماعت میں موجود ہیں کہ انہوں نے پرواہ نہیں کی کہ کیا گزرے گی، اُن پر کیا گزرے گی، اُن کے بچوں پر کیا گزرے گی، دینی ضروریات کو انہوں نے اہمیت دی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کو بھی سنبھالا ، اُن کے بچوں کو بھی سنبھالا.ایسے واقعات بھی آپ کی نظر میں ہوں گے کہ گویا وہ نہیں سنبھالے گئے اور ان پر آفات نے حملہ کر دیا مگر دلوں کا حال صرف اللہ جانتا ہے.کیوں آفات نے حملہ کیا اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے مگر یہ بات سچی ہے کہ وہ لوگ جو خدا کی خاطر اپنی دُنیا کو ترک کر دیتے ہیں اور اُس کی دُنیا کو اپنا لیتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن کی دُنیا کی حفاظت فرماتا ہے اور جو قانون قدرت ہے کچھ نہ کچھ گزند دنیا کی آفات کا پہنچتا ہے وہ تو صحت مند پودوں کو بھی پہنچا ہی کرتا ہے.بعض دفعہ آندھیاں چلتی ہیں کئی قسم کے سیلاب آتے ہیں اور دُنیا میں صحت مند پودے بھی اس سے متاثر ہو جاتے ہیں کسان اُن کو نہیں بچا سکتا مگر اللہ تعالیٰ اُن کو جس حد تک چاہے بچاسکتا ہے اور بچاتا ہے مگر کچھ نہ کچھ گزند چکھنے کے طور پر اُن کو ضرور ملتا ہے اور یہ مضمون ایسا ہے جس کا قرآن کریم نے تفصیل ذکر فرمایا ہے.پس میں یہ نہیں کہتا کہ آپ اگر دین کی خدمت میں مصروف ہو جائیں گے تو آپ کو دُنیا کی بیماریاں نہیں چھوئیں گی.اگر اس خیال سے آپ مصروف ہوں گے کہ دُنیا کی بیماریاں نہ چھوئیں تو وہ ضرور چھوئیں گی.یہ نکتہ ہے جو آپ کے سمجھنے کے لائق ہے.اگر ان حالات پر غور کر کے آپ یہ سودا کر کے آگے بڑھیں کہ میں نے اپنے بدن کی ، اپنے بچوں کے بدن کی حفاظت کرنی ہے اس لئے میرے لئے ایک ہی طریقہ ہے کہ میں دین کی خدمت میں مصروف ہو جاؤں تو یہ ارادہ آپ کے کام نہیں آئے گا.اگر دین کی خدمت میں مصروف ہوتے ہیں جبکہ جانتے ہیں کہ بیوی بچوں کا کوئی محافظ نہیں رہا اس وقت اللہ ان کی حفاظت فرمائے گا.پس یہ وہ سارے حالات ہیں جو پیچ در پیچ ہیں جن پر بندے کی نگاہ نہیں ہوتی اور دلوں کی کیفیات کو دوسرا انسان نہیں پڑھ سکتا مگر اللہ پڑھتا ہے.پس حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ کلام بالکل سچا ہے اور اس کو اپنے اوپر سچا ثابت کرنے کے لئے اُن مراحل سے گزرنا ہوگا جن مراحل کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام تفصیل سے ذکر فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 وو 159 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے.( دیکھیں کتنا عظیم کلام ہے.وبا کو جرات نہ ہو سکے.) کیونکہ کوئی بات اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر زمین پر ہو نہیں سکتی.“ اس خدا کی حفاظت میں آنے کا ایک طبعی نتیجہ ہے جو تمہارے دل میں پیدا ہونا چاہئے اور تمہاری بود و باش میں دکھائی دینا چاہئے.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان میں سے اٹھا دو.“ اب یہ جو مسئلہ ہے یہ بھی بہت گھمبیر مسئلہ ہے.ہر ایک آپس کے جھگڑے اور جوش اور عداوت کو درمیان سے اٹھا دو.اکثر وہ لوگ جو آپس کے جھگڑوں میں مبتلا رہتے ہیں اور جوش اور عداوت کو درمیان سے اٹھانے کی طاقت نہیں رکھتے یا کوشش نہیں کرتے وہ خدا کے عزیزوں میں داخل نہیں کئے جاتے.اب وہ وقت ہے کہ تم ادنی باتوں سے اعراض کر کے اہم اور عظیم الشان کاموں میں مصروف ہو جاؤ.“ الحکم جلد 2 نمبر 12، 13 صفحہ:10 مؤرخہ 20 و27 مئی 1898ء) پس بار بار میں آپ کو سمجھاتا ہوں اور سمجھاتا رہوں گا کہ ان باتوں کا اختیار کرنا انتہائی ضروری ہے اور اس کے بغیر ہم خدا کے امن کے سائے تلے نہیں آسکتے لیکن امن کے سائے تلے آنا مقصد نہیں ہے.وہ ہوتا ہے.بظاہر کوئی امن کا سایہ دکھائی نہ دے.مرد وہ ہے جو اس وقت اپنے آپ کو آگے بڑھ کر جھونک دے اور ہر کہ بادا باد جو کچھ بھی اس پہ گزرے اس کی پرواہ نہ کرے کیونکہ دین کی محبت اور دین کی لگن اور دین کی خدمت کی خواہش اس کے دل میں ایسے زور سے اٹھے کہ اس سے وہ بے اختیار ہو جائے.یہ خواہش اگر آپ کے دل میں پیدا ہو چکی ہے تو آپ وہی ہیں جن کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ کلام فرما رہے ہیں.اگر ابھی تک یہ خواہش اس زور سے نہیں اٹھی جیسے ایک شعلہ ہو جو رفتہ رفتہ آگ لگا دے اس وقت تک یہ تمام باتیں ایسی ہیں جن کو آپ سن کے سمجھ تو سکتے ہیں مگر فائدہ نہیں اٹھا سکتے.اس لئے وقت ہے کہ ہر شخص اپنے نفس پر اس طرح غور کرے، تفصیل سے اپنا جائزہ لے اس کے نفس کا کوئی پہلواندھیرے میں چھپا نہ رہے.پھر فرماتے ہیں :
خطبات طاہر جلد 17 160 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء یا د رکھو کہ ہر ایک جو نفسانی جوشوں کا تابع ہے.ممکن نہیں کہ اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو حکمت اور معرفت کی باتیں فرمائیں ساتھ یہ خوش خبری بھی دی کہ میرے غلاموں میں سے بہت ایسے ہوں گے جن کو حکمت اور معرفت کی باتیں ایسی سمجھائی جائیں گی کہ وہ بڑے بڑے دُنیا کے عالموں کے منہ بند کر دیں گے.کئی لوگ مجھے خط لکھتے ہیں کہ ہمارے لئے یہ دعا کریں.میں کیسے دعا کروں جبکہ وہ رستہ جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اس کو وہ اختیار نہیں کر رہے.وہ رُخ رکھتے ہیں مشرق کا اور مجھ سے دعا چاہتے ہیں کہ میں اُن کے لئے یہ دعا کروں کہ وہ مغرب کے ممالک میں پہنچا دیں ان کو ، جس طرف کا رخ ہوگا اسی طرف جائیں گے.پس رُخ کا تعین ضروری ہے.فرمایا: ”جو نفسانی جوشوں کے تابع ہے ممکن نہیں کہ اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے.“ بڑی حکمت، ایسی حکمت جو بڑے بڑے عالموں اور حکیموں پر غالب آ جائے وہ تو دور کا معاملہ ہے نفسانی جوشوں میں مبتلا رہتے ہوئے یہ خواہش کہ ہم بہت عظیم الشان انسان بن جائیں یہ ہوہی نہیں سکتا.اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو یہ علم نہیں کہ عظیم الشان انسان بننے کی خواہش ہی ان کا اندرونہ نگا کر رہی ہے.ڈاکٹر سلام نے اس خواہش کے ساتھ سفر نہیں شروع کیا تھا کہ میں عظیم الشان انسان بن جاؤں بلکہ جب عظیم الشان انسان بنے تو ہمیشہ انکساری کی طرف مائل رہے اور ہمیشہ یہ خیال رہا کہ میں اپنی ذات میں کچھ بھی نہیں.ان کی کہانی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بزرگ، خدا رسیدہ والد کی دعائیں دیکھی تھیں اور انہی دعاؤں کے سہارے ہر قدم آگے بڑھایا ہے اور کہیں بھی اپنے نفس کی بڑائی کو اپنی عظمتوں یا ان عرفان کی باتوں کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا.یہ ایک چھوٹی سی مثال ہے لیکن وہ لوگ جو یہ لکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں سلام بنادے ان کو کبھی خیال نہیں آیا کہ یہ خواہش ہی ان کی نفسانیت کی طرف اشارہ کر رہی ہے.اس سے کیا غرض کہ کیا ہو جا ئیں ، دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا ہمیں اپنا بنا دے اور جب ہم خدا کے بنیں گے تو پھر إنِّي لِمَا انْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِير (القصص: 25) کا مضمون شروع ہو جاتا ہے پھر اس پر چھوڑ دو.تمہاری کون کون سی صلاحیتوں کو مزید اجاگر کرنا ضروری ہے اور تمہاری صلاحیتوں کی حدود تک ان کا پہنچانا ضروری ہے یہ فیصلہ اللہ کرے گا اور جن پودوں کی وہ حفاظت فرماتا ہے، یہ وجہ ہے کہ ان کی
خطبات طاہر جلد 17 161 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء حفاظت فرماتا ہے کہ اس کے بغیر وہ پودے اپنی تمام تر صلاحیتوں تک نہیں پہنچ سکتے، یہ اللہ کا ہاتھ ہے جوان کو غیر سے بچاتا ہے اور ایسا پاکیزہ ماحول پیدا فرماتا ہے کہ وہ پودے اپنی نشو نما کی انتہا تک پہنچ سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں اس کے لبوں سے حکمت اور معرفت کی بات نکل سکے.“ یہ ہو ہی نہیں سکتا، ممکن ہی نہیں ہے.وو 66 بلکہ ہر ایک قول اس کا فساد کے کیڑوں کا ایک انڈہ ہوتا ہے.“ جس کا نفس اس پر غالب ہو اس کے انڈوں سے کیڑے نکلتے ہیں اور وہ فساد کے کیڑے ہوتے ہیں.پس جو اپنے نفس کے جوشوں سے مغلوب ہو جائے اس کے گھر میں دیکھیں فساد ہی ہوگا، اس کے ماحول میں فساد ہوگا، اس کے تعلقات میں فساد ہوگا.پس انڈوں سے ایک چوزہ نہیں نکلتا فرما یا کیڑوں سے بھرے ہوئے انڈے ہوتے ہیں.جب وہ پھوٹتے ہیں تو کیڑے ہر طرف پھیل جاتے ہیں.پس اگر تم روح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو.( عرفان وہی ہے جو روح القدس سے حاصل ہو.) پس اگر تم روح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو.“ اب یہ وہ منازل ہیں جو مسیح موعود علیہ السلام کھول کھول کر بار بار ہمارے سامنے بیان کر رہے ہیں لیکن پہلی منزل ہی طے نہیں ہوتی.ان لوگوں سے طے نہیں ہوتی جن کو پرواہ ہی نہیں کہ ہم ہیں کیا.اپنا عرفان جس کو حاصل نہیں ہوگا وہ عالمانہ اور گہری باتوں کا عرفان کیسے حاصل کرے گا اور جتنے دُنیا میں جھگڑے ہیں یہ اسی غفلت کی حالت کی وجہ سے ہیں کہ انسان اپنے عرفان سے عاری ہے اور بظاہر عرفان کی باتیں چاہتا ہے اور بڑی بڑی ڈینگیں مار کے عرفان کی باتیں وہ ظاہر کرتا بھی ہے لیکن سب کھو کھلی.ان سے جو انڈے نکلتے ہیں ان میں کیڑے پیدا ہوتے ہیں جو آگے فساد پھیلا دیتے ہیں.پس اگر تم روح القدس کی تعلیم سے بولنا چاہتے ہو تو تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو تب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے.“ یہ بات اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے حوالہ سے نہیں لکھی مگر جس طرح کے روحانی عرفان کے بھید آپ کے لبوں سے جاری ہو رہے ہیں اس سے پتا چلتا ہے کہ گندے انڈے پیدا ہی نہیں ہوئے.ہمارے لئے تو حکم ہے کہ نکال باہر کرو مگر کچھ ایسے دل ہوتے ہیں جن میں اللہ
خطبات طاہر جلد 17 162 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء کے فضل کے ساتھ وہ گندے انڈے پیدا ہی نہیں ہوتے جو کیٹروں سے بھر جایا کرتے ہیں.ان کی زبان سے جو کلام نازل ہوتا ہے اس کو شیطان نے چھوا تک نہیں ہوتا.ان کی جو اُمنگیں ہوتیں ہیں ان کو شیطان نے نہیں چھوا ہوتا.پس اس اعلیٰ مرتبہ اور مقام کو سمجھو اور اس کی طرف سفر شروع کرو اور دن بدن تمہاری زندگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب تر ہوتی چلی جانی چاہئے اور جب آپ اپنی منزل سے، اپنے مقام سے ہمیں دیکھتے ہیں یا دُنیا کو دیکھتے ہیں تو جو باتیں بیان فرماتے ہیں وہ ہمیں بہت مشکل دکھائی دیتی ہیں.کئی دفعہ لوگوں نے مجھ سے ذکر کیا کہ ہم سے تو ہماری تعلیم کا ایک صفحہ نہیں پڑھا جاتا.تھوڑا سا پڑھتے ہیں تو لگتا ہے کہ ہم مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت ہی میں سے نہیں ہیں.ان کو میں ہمیشہ سمجھاتا ہوں کہ آپ کا وہ مقام نہیں ہے جو مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کا مقام ہے اور اپنے مقام میں رہتے ہوئے ان باتوں کی طرف سفر شروع کریں اور جب آپ سفر شروع کریں گے تو جماعت میں داخل ہو جائیں گے.جیسے گندہ انسان بھی جب ارادہ کر لیتا ہے کہ میں نے خدا کی طرف جانا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے پیاروں اور عزیزوں میں داخل کر لیتا ہے.پس اس فقرہ سے نہ ڈریں کہ وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے، وہ میری جماعت میں سے نہیں ہے.بلکہ اس فقرہ سے ان معنوں میں ڈریں کہ اس جماعت میں داخل ہونے کی تمنا پیدا کریں اور جب تمنا پیدا کریں گے تو آپ کا سفر شروع ہو جائے گا، جب تمنا پیدا کریں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کی جماعت میں اور آپ کے عزیزوں میں داخل ہو جائیں گے.فرمایا: تمام نفسانی جوش اور نفسانی غضب اپنے اندر سے باہر نکال دو تب پاک معرفت کے بھید تمہارے ہونٹوں پر جاری ہوں گے.اور آسمان پر تم دنیا کے لئے ایک مفید چیز سمجھے ،، جاؤ گے اور تمہاری عمریں بڑھائی جائیں گی.“ اب یہ جو ذکر ہے کہ آفات نہیں چھوتیں یا بیماریاں نہیں چھوتیں، یہ امر واقعہ ہے کہ وہ نیک بندے جو خدا کی خدمت میں مصروف ہوں اُن کی اور اُن کے اہل و عیال کی عمریں بڑھائی جاتی ہیں تا کہ خدا کے دین کو ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے.تمسخر سے بات نہ کرو.اور ٹھٹھے سے کام نہ لو.اور چاہئے کہ سفلہ پن اور او باش پن کا تمہارے کلام پر کچھ رنگ نہ ہو.“ نیم دعوت ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ :365)
خطبات طاہر جلد 17 163 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء اب کل رات ہی میں اپنی بچیوں کو سمجھا رہا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو فرماتے ہیں تمسخر سے بات نہ کرو اور ٹھٹھے سے کام نہ لوتو یہ وہ مزاح نہیں ہے جس کو لطیف مزاح کہتے ہیں.ٹھٹھا اور تمسخر ایک ذلیل چیز ہے جو دلوں کو دکھانے والی اور گندگیوں کو اچھالنے والی ہے اس سے ورے ورے جو مزاح کا لطیف ذوق ہے میں نے بعض عبارتوں سے ان کو دکھایا، ثابت کیا کہ اتنا لطیف ذوق جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مزاح کا تھا اس کے پاسنگ کو بھی بعض بظاہر مذاقیہ لوگ پہنچ نہیں سکتے.ان کے مذاق میں گندگی اور سفلہ پن ہوتا ہے اور طبیعت منغض ہو جاتی ہے ان کے مذاق سے لیکن مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مزاح اور آپ کا ذوق اتنا لطیف ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اور اس مزاح کو آپ نے مد مقابل دشمن پر بھی استعمال فرمایا اور اس کا نیچا دکھانا مقصد نہیں تھا، اسلام کا اونچا دکھانا مقصد تھا.پس بعض دفعہ مزاح میں کسی کو نیچا بھی دکھایا جاتا ہے مگر ہر گز مراد یہ نہیں ہوتی کہ اس کو نیچا دکھایا جائے ، مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ اسلام کی برتری مانتا نہیں تو تب اس کو دکھایا جائے کہ اسلام ہی برتر ہے اور تم اس لائق نہیں ہو کہ اسلام کو نیچا دکھا سکو.پس مرلی دھر کے ساتھ مناظرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہی حربہ استعمال کیا اور ایک کہاوت کے طور پر آخری بات یہ فرمائی کہ آپ سے مناظرہ سے پہلے آپ کے متعلق بہت خیال تھا کہ آپ حکمت کی باتیں گویا سمجھیں گے اور جو کچھ میں عرض کر رہا ہوں اسلام کی خوبیاں آپ کے دماغ میں گھس جائیں گی لیکن نہیں ہو سکا.اتنا وقت ضائع ہوا لیکن آپ کی سمجھ میں کچھ نہ آیا.فرمایا آپ کی مثال تو اس انسان کی سی ہے جس کو اپنے گاؤں میں بہت شہرت حاصل تھی کہ بڑا حکیم اور قابل انسان ہے، دور دور سے لوگ اس کی زیارت کو آتے تھے اور اس کی خدمت میں تحفے پیش کرتے تھے اور وہ خاموشی میں ڈوبا ہوا تھا.اس نے یہ جانا یعنی اس کے دل نے یہ فیصلہ کیا کہ میں خاموش ہی رہوں تو بہتر ہے کیونکہ جب میں نے لب کھولے کوئی بے وقوفی کی بات نکل جائے گی تو وہ خاموشی کے عالم میں بہت بڑا بزرگ بن گیا.دُور دُور سے لوگ اس کی زیارت کو آنے لگے اور تحائف سے اس کے گھر بھر گئے.آخر ایک دن اس سے صبر نہ ہوا.اس نے کہا اے میرے پیار و عزیز و! جو دور دور سے آتے ہو، مجھے اتنی عزت دے رہے ہو، میرا بھی تو فرض ہے کہ میں کچھ بولوں اور کچھ نصیحت کروں.سب ہمہ تن گوش ہو گئے اور جب اس نے نصیحت کے لئے لب کھولے تو پیشتر اس کے کہ وہ نصیحتیں ختم ہوتیں
خطبات طاہر جلد 17 164 خطبہ جمعہ 6 مارچ1998ء سارے اس کو چھوڑ کر بھاگ گئے.ایک بھی نہیں رہا جو اس کے اردگرد اس کی غلامی کا دم بھرتا اور وہ پہلے کی طرح اکیلا رہ گیا بلکہ پہلے سے ذلیل حالت میں رہ گیا.تو فرمایا کہ اگر مجھے پتا ہوتا کہ تم لب کھولو گے تو اسلام کے خلاف ایسی باتیں کرو گے تو میں تم سے کبھی مناظرہ نہ کرتا.سرمه چشم آریہ، روحانی خزائن جلد 2 صفحہ:171) اب اصل روح اسلام ہے.اس شخص کو ذلیل کرنا مقصود نہیں مگر چونکہ وہ مسلسل اسلام کے خلاف بکواس کئے چلا جارہا تھا اس لئے دنیا کو دکھانے کے لئے کہ اس کی بکواس میں ذرہ بھی اہمیت نہیں ایک دیوانہ ہے اس لائق ہی نہیں ہے کہ اس کی باتوں کو غور سے سنا جائے آپ نے انتہائی لطیف مزاح کے ذریعہ اسلام کی فتح ثابت فرما دی.اب کوئی کہ سکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ٹھٹھے تمسخر میں مبتلا ہوئے نہایت بے وقوف ہوگا جو یہ سمجھے.تمام ایسے مواقع جہاں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مزاح سے کام لیا ہے ان کا جائزہ لیں تو آپ کی عقل اور آپ کا دل روشن ہو جائیں گے.مزاح ایک بہت ہی اعلیٰ صفت ہے اور جس لطافت سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مزاح کو استعمال فرمایا ہے دُنیا کے بڑے بڑے لطیفہ گو بھی آپ کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچتے.پس ٹھٹھے اور تمسخر سے بات نہ کرو کا یہ مطلب ہے.اب چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے اب یہ نوٹس سنبھال لیں یہاں سے آگے پھر آئندہ بیان کریں گے.انشاء اللہ.
خطبات طاہر جلد 17 165 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء معرفت کے حصول کے لئے نفس کو صاف کرو حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں جماعت کو نصائح ( خطبه جمعه فرموده 13 مارچ 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَمَنْ اَرَادَ الْأَخِرَةَ وَسَعَى لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُولَبِكَ كَانَ سَعْيُهُمْ مشْكُورًان كُلَّا تُمِدُّ هُؤُلَاءِ وَ هُؤُلَاءِ مِنْ عَطَاءِ رَبِّكَ وَمَا كَانَ عَطَاءُ رَبِّكَ محظورا پھر فرمایا: بنی اسرائیل: 21،20) یہ آیات ہیں جن کی میں نے گزشتہ خطبہ میں اور اس سے پہلے بھی تلاوت کی تھی اور ان ہی کے تعلق میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے بعض اقتباسات پیش کر رہا تھا جبکہ وقت ختم ہو گیا.اب وہیں سے میں اس مضمون کو اٹھا رہا ہوں اور دوبارہ ان آیات کی کسی تفسیر یا تشریح کی ضرورت نہیں ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ر متقی وہ ہے جو خدا کے نشان سے متقی ثابت ہو.ہر ایک کہہ سکتا ہے کہ میں خدا سے پیار کرتا ہوں مگر خدا سے پیار وہ کرتا ہے جس کا پیار آسمانی گواہی سے ثابت ہو.اور ہر ایک کہتا ہے کہ میرا مذہب سچا ہے.مگر سچا مذہب اُس شخص کا ہے جس کو اسی دنیا میں نور ملتا ہے.اور ہر ایک کہتا ہے کہ مجھے نجات ملے گی مگر اس قول میں سچاوہ شخص ہے جو
خطبات طاہر جلد 17 166 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء اسی دنیا میں نجات کے انوار دیکھتا ہے.سوتم کوشش کرو کہ خدا کے پیارے ہو جاؤ.تائم ہر ایک آفت سے بچائے جاؤ.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ:82 ) جہاں تک مجھے یاد ہے اس مضمون کو بھی میں پہلے بیان کر چکا ہوں مگر پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے جو نشان ڈالا ہوا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عبارت غالباً نہیں پڑھی گئی مگر یہ مضمون بیان ہو چکا ہے اس لئے اس مضمون کو اس عبارت کے ساتھ دوبارہ پڑھنے کی بجائے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام کے بعض اور اقتباسات آج آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں: سواے دوستو اس اصول کو محکم پکڑو.ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ.نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیال پیدا ہوتے ہیں.“ یہ ایک ایسی قطعی حقیقت ہے جس کو انسان ہر روز اپنی زندگی میں اپنے نفس میں ڈوب کر معلوم کر سکتا ہے لیکن اتنی ظاہر و باہر حقیقت بھی ان کو معلوم نہیں ہے کہ جب بھی انسان اپنے طیش یا جذبات کا غلام بنتا ہے تو عقل گدلی ہو جاتی ہے اور حقیقی عقل اس وقت نصیب ہوتی ہے جب انسان اپنے جذبات اور محصوں سے نجات پاکر ان سے بالا ہو جاتا ہے.غصوں اور جذبات سے نجات کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ غصہ آئے ہی نہیں یا جذبات پیدا ہی نہ ہوں.اگر غصے اور جذبات کو انسانی معاملات میں سے نکال دیا جائے تو انسانی معاملات چلتے چلتے ٹھہر جائیں گے کیونکہ جذبات میں تمام محبتیں شامل ہیں اور غصے میں بہت سی چیزوں کے دفاع شامل ہیں.اگر غصہ دل میں پیدا نہ ہو تو انسان کے دل میں دفاع کا خیال ہی نہیں اٹھتا.اس لئے یہ مطلب نہ سمجھیں کہ غصے اور جذبات کو اس طرح دل سے نکال پھینکیں کہ مٹی کا مادھو بن جائیں.نہ غصہ آئے ، نہ جذبات اٹھیں، نہ زندگی کا کاروبار چلے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کو اگر غور سے سمجھیں تو پھر آپ صحیح نتیجہ نکال سکیں گے.جب بھی غصہ اور جذبات کے آپ تابع ہوتے ہیں اور اس وقت ایک فیصلہ کر لیتے ہیں جو ان جذبات کے تابع ہوتا ہے اس کے نتیجہ میں ، فوری فیصلہ کے نتیجہ میں ہمیشہ بے عقلی پیدا ہوتی ہے اور معاملات گدلا جاتے ہیں.پس اصل تعلیم یہ ہے کہ جب بھی غصہ پیدا ہو یا جذبات اٹھیں تو فوری قدم سے باز رہیں.یہی نصیحت ہے حضرت اقدس محمد صلی یتیم کی جس میں فرمایا گیا ہے کہ جب
خطبات طاہر جلد 17 167 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء بھی غصہ آئے تو پانی پی لو.اب پانی پینے کے درمیان اور غصہ کے درمیان وقفہ پڑ جائے گا اگر پھر بھی زائل نہ ہو تو لیٹ جاؤ.تو وہ حدیث تفصیلی الفاظ میں تو اس وقت مجھے یاد نہیں لیکن مضمون یہی ہے جو میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے.اس حدیث کی حکمت یہ ہے کہ جذبات یا غصوں کے نتیجہ میں فوری عمل نہ کیا کرو، ٹھہر جایا کرو، دل پر غور کیا کرو.یہ ہے وقفہ جوفر است پیدا کرتا ہے اس وقفہ کے بغیر فراست پیدا ہو ہی نہیں سکتی.پس اپنے روز مرہ کے دستور کو اس زریں نصیحت کے تابع کر لو کہ جب بھی کسی بات کی خواہش دل میں پیدا ہو، نظر اگر بکھر جائے اور اس کے نتیجہ میں جذبات پیدا ہوں، کوئی بھی کیفیت ہو اور کسی وجہ سے کسی سے تکلیف پہنچے اور غصہ پیدا ہو تو ان کے صحیح رد عمل کی تلاش کرو.جو پہلا پیغام ہے وہ غلط ہوگا.اس پیغام پر کان نہ دھر و.اتنا وقفہ لو جتنا رسول اللہ صلی للہ کی تم نے بیان فرمایا ہے یا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی عبارت سے ظاہر ہے.پھر جب غور کرو گے تو عقل میں ایک نئی چمک پیدا ہو جائے گی اور معرفت نصیب ہوگی.یہ مضمون ہے جس کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ اس اصول کو محکم پکڑو.ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ.نرمی سے عقل بڑھتی ہے.یہ نرمی سے پیش آنا اس غور و خوض کے بعد کی نرمی ہے جس کی طرف میں اشارہ کر رہا ہوں ورنہ جہاں عقل کا تقاضا یہ تھا کہ کسی قوم سے سختی سے پیش آیا جائے وہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سختی سے بھی پیش آئے.تو اگر آپ اس عبارت کو نہیں سمجھیں گے تو آپ جہاں سختی کی ضرورت ہے وہاں سختی سے باز آجائیں گے حالانکہ مقتضائے حال کو پورا کرنا ہی فصاحت و بلاغت ہے یعنی جو بھی صورت حال کا تقاضا ہو اس کا صحیح جواب یہ آپ کو فصیح و بلیغ بنائے گا، اس سے آپ کی عقل روشن ہوگی ، اس سے آپ کو معرفت نصیب ہوگی.تو ہر ایک قوم کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ کا یہ مطلب نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں آریہ قوم کے بعض گندے حملوں کے جواب میں سختی برتی ہے وہاں گویا آپ اپنی نصیحت ہی کو بھول رہے ہیں.نرمی سے پیش آنے کے درمیان وہ حدیث والا وقفہ شامل ہے تدبر اور غور وفکر والا وقفہ شامل ہے.اس کے بعد ا کثر آپ کے دل کا فتویٰ یہ ہوگا کہ ان قوموں سے نرمی برتنی چاہئے پھر جو نرمی برتیں گے وہ عقل اور معرفت کی نرمی ہوگی.نرمی سے عقل بڑھتی ہے اور بردباری سے گہرے خیالات پیدا ہوتے ہیں.جب یہ سوچنے کا موقع ملتا ہے تو انسان گہرے معاملات میں اترتا ہے، اس کی تہہ تک پہنچتا ہے، پہچانتا ہے کہ عرفان کیا ہے اور سطحی باتیں کیا ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 168 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء اور جو شخص یہ طریق اختیار نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے.“ اب کشتی نوح میں جس طرح کی عبارت ہے ہم میں سے نہیں ہے یہ کتاب البریہ جلد 13 صفحہ 17 سے بھی جو عبارت لی گئی ہے اس میں بھی یہی الفاظ ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہے.مطلب یہ ہے کہ میں جس طرح کی جماعت چاہتا ہوں وہ اس قسم کی جماعت میں شامل نہیں ہے.اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کر سکے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت کے رو سے چارہ جوئی کرے.“ اب جہاں تک انصاف کا تقاضا ہے وہ ساتھ بیان فرما دیا.اگر کوئی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کر سکے.ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو نہیں کر سکتے تو لا زما نہیں کہ وہ غلط ہوں گے مگر وہ نسبتاً ایک ادنیٰ درجہ کے ممبران جماعت احمد یہ بنیں گے جبکہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کو زیادہ اعلیٰ درجہ پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں.”ہم میں سے نہیں“ کہتے ہی ساتھ ان کی براءت بھی فرما دی.اگر کوئی ہماری جماعت میں سے مخالفوں کی گالیوں اور سخت گوئی پر صبر نہ کر سکے تو اس کا اختیار ہے کہ عدالت کی رو سے چارہ جوئی کرے.“ اس سے مراد بالکل واضح ہوگئی ہے کہ یہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور رسول اللہ صلی یتیم کے خلاف بدگوئی مراد نہیں ہے کیونکہ اس میں عدالتی چارہ جوئی کیسے کر سکتے ہیں.بالکل ظاہر ہے کہ اس کے نفس پر حملہ کیا گیا ہے اور نفس پر جو حملہ ہے اُس میں عام اور بالا تعلیم یہی ہے کہ وہ بدلہ نہ اُتارے.اگر وہ اپنے نفس پر حملہ کو برداشت کر جائے اور نہ اُتارے تو اس کی عقل لا ز ما تیز ہوگی.اور اس کو وہ معرفت نصیب ہوگی جس کی مسیح موعود علیہ السلام بات فرمارہے ہیں.تو عدالتی چارہ جوئی نے اس بات کو خوب کھول دیا کہ جس لازمی صبر کی تعلیم دی جارہی وہ نفس کے خلاف صبر ہے لیکن وہ مقامات جہاں مسیح موعود علیہ السلام نے سختی فرمائی ہے وہ اپنے نفس کے خلاف نہیں تھے.سارے وہ مقامات ہیں جو رسول اللہ ملا لی تم پر حملہ کے خلاف تھے اور اُن میں کسی عدالتی چارہ جوئی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.فرمایا: اختیار ہے کہ عدالت کے رو سے چارہ جوئی کرے.مگر یہ مناسب نہیں ہے کہ سختی کے مقابل پر سختی کر کے کسی مُفسدہ کو پیدا کریں.“
خطبات طاہر جلد 17 169 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء بہت سی عدالتی کاروائیاں جو میرے علم میں آئی ہیں ، جماعت کے اندر بھی جاری ہوتی رہتی ہیں، وہ اسی مضمون کو نہ سمجھنے یا سمجھنے کے باوجود اس پر عمل نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہیں.فرمایا: یہ تو وہ وصیت ہے جو ہم نے اپنی جماعت کو کر دی اور ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اُس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے.“ (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ: 17) ایک طرف اس کا بنیادی حق بھی رکھ دیا اس کو بھی کھول دیا لیکن اگر ان باتوں کو سننے کے باوجود وہ اپنے حق استعمال کرنے پر زور دیتا ہے تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مقصد ہے کہ اپنی وہ جماعت جو آپ کے تصور کی جماعت ہے، جو اعلیٰ درجہ کے مخلصین کی جماعت ہے، جو حقیقت میں آپ کے فرمانبردار ہیں اگر اس گروہ میں داخل ہونا چاہتا ہے تو پھر اس گروہ میں داخل نہیں ہو سکے گا، حق استعمال کرتا ہے تو کرے.”ہم ایسے شخص سے بیزار ہیں اور اس کو اپنی جماعت سے خارج کرتے ہیں جو اس پر عمل نہ کرے.“ اب خارج کرنے کا مضمون بھی غور طلب ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے افراد کو رسمی طور پر جماعت سے خارج نہیں کیا اس لئے آج کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ فلاں شخص یہ کرتا ہے اور فلاں شخص یہ کرتا ہے اور آپ نے اس کے جماعت سے خارج ہونے کا اعلان نہیں کیا.کب ان لوگوں کے جماعت سے خارج ہونے کا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اعلان فرمایا تھا.پس یہ خارج ہونا معنوی ہے.یہ خارج کرنے کی کوئی رسمی کارروائی نہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایسے افراد کے خلاف کوئی رسمی کاروائی نہیں کی جبکہ کثرت سے آپ کے بیانات اور ملفوظات اور تحریرات میں جماعت میں ایسے لوگوں کے رہنے کا ذکر ملتا ہے جو اس قسم کی بیہودہ حرکتیں کرتے ہیں اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دل آزاری کا موجب بنتے ہیں ان کو جماعت سے باہر کرنے کی کارروائی نہیں ہوئی.پھر یہاں باہر کا کیا مطلب ہے.وہی جو میں بیان کر رہا ہوں کہ عملاً خدا کے نزدیک وہ لوگ مسیح موعود کی پاک جماعت سے باہر شمار ہوں گے اور یہ بہت بڑا ایک خطرہ ہے جو اگر انسان سمجھ جائے تو لازماً اس خطرہ سے بچنے کی کوشش کرے گا اور لازم ہے کہ ایسا شخص اپنی اس زندگی میں اور اُس زندگی میں دونوں میں فلاح پا جائے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس الحکم جلد 12 نمبر 32 مؤرخہ 10 مئی 1908 صفحہ نمبر 3 پر درج ہے.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 170 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء 66 فلاح وہ شخص پاوے گا جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی اور تقوی طہارت پیدا کر لے.“ پس وہ لوگ تھے جن کا ذکر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے تھے کہ ہماری جماعت میں سے نہیں اور جن جماعت کے لوگوں کو آپ مفلحین کے گروہ میں شمار ہوتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ان کی یہ تفصیل ہے.”جو اپنے نفس میں پوری پاکیزگی اور تقویٰ طہارت پیدا کر لے اور گناہ اور معاصی کے ارتکاب کا کبھی بھی اس میں دورہ نہ ہو.اور ترک شر اور کسب خیر ( یعنی شر والی باتوں کو ترک کرنا، اس کو چھوڑ دینا اور کسب خیر ، محنت کر کے اچھی باتوں کو کمانا) کے دونوں مراتب پورے طور سے یہ شخص طے کر لے تب جا کر کہیں اسے فلاح نصیب ہوتی ہے.(جو معاملہ شروع میں آسان دکھائی دے رہا تھا غور کرو تو کتنا مشکل دکھائی دینے لگ گیا ہے.) ایمان کوئی آسان سی بات نہیں جب تک انسان مر ہی نہ جاوے جب تک کہاں ہو سکتا ہے کہ سچا ایمان حاصل ہو.“ الحکم جلد 12 نمبر :32 صفحہ: 3 مؤرخہ 10 مئی 1908ء) اب یہ مرجانا پچھلی ساری عبارات سے ظاہر ہے کہ انسان اگر موت ہی عائد کر لے اپنے پر ، غصہ کو کنٹرول کرے، جذبات پر قابو پالے، ہر ترک شرکرے، ہر کسب خیر کرے تو دُنیا سے وہ مر گیا.ایک نیا وجود ظاہر ہوا ہے جو اس دُنیا میں رہتے ہوئے کسی اور دُنیا میں زندہ ہے.یہ باتیں ہیں جن کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ انسان مر ہی نہ جاوے تب تک کہاں ہو سکتا ہے کہ سچا ایمان حاصل ہو.“ بدر جلد 7 نمبر 19، 20 مؤرخہ 24 مئی 1908ء صفحہ 5 تا 6 سے ایک اور عبارت بھی لی گئی ہے.جب انسان محض اللہ تعالیٰ کے لئے اپنے جذبات کو روک لیتا ہے تو اس کا نتیجہ دین و دنیا میں کامیابی اور عزت ہے.فلاح دو قسم کی ہے تزکیہ نفس حسب ہدایت نبی کریم صلی ا یہ تم کرنے سے آخرت میں بھی نجات ملتی ہے اور دنیا میں بھی آرام ہوتا ہے.“ یہ تو ایک ایسی قطعی حقیقت ہے کہ ہر انسان روز مرہ کی زندگی میں اس کو پرکھ سکتا ہے.جب بھی کسی انسان کو دکھ پہنچنا ہو، خطرات درپیش ہوں تو سوائے رسول اللہ صلی الیتیم کی پناہ کے جو الہی پناہ ہے
خطبات طاہر جلد 17 171 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء اور کوئی پناہ اس کو نصیب نہیں ہو سکتی.جو معاملات وہ طے کرتا ہے غور کرے اور ٹھہرے اور سوچے کہ حضرت رسول اللہ سا نا ہی ہم ایسے موقعوں پر کیا تعلیم دیتے ہیں.وہ تعلیم اس کی حفاظت کرے گی اور اگر کوئی دکھ پہنچ بھی جائے تو اس دکھ کے بداثر سے نجات کے لئے بھی وہی تعلیم ہے جو اثر انداز ہوگی.مجھے کل ایک فون ملا کہ میرا بھائی، پیارا بھائی فوت ہو گیا.فلاں دو چھوٹے چھوٹے بچے پیچھے چھوڑ دئے.فلاں عزیز فوت ہو گیا، فلاں عزیز فوت ہو گیا اب میں کیا کروں.ان سے میں نے یہی عرض کیا کہ رسول اللہ صلی اتم کی ہدایات کی پناہ میں آجائیں کیونکہ اس صدمہ کو کم کرنے کے لئے جب تک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صل للہ اسلام کا تصور نہ باندھا جائے یہ صدمہ کم نہیں ہوسکتا بلکہ بلائے جان بن جائے گا اور بجائے اس کے کہ ان لوگوں کو آپ واپس بلا سکیں آپ کو وہاں جانا ہوگا جہاں یہ لوگ پہنچ کر خوش ہیں لیکن آپ خوش نہیں ہوں گے کیونکہ جو آپ نے رویہ اختیار کیا ہے یہ رسول اللہ لیا ایم کی ہدایات کے بالکل برعکس ہے.آپ سی ایم کو کتنے بے شمار صدمے پہنچے ہیں، ہر صدمہ کے موقع پر آپ صلی ہی ہم اللہ کی پناہ میں آئے ہیں اور یہ پناہ اس یقین سے ملتی ہے کہ یہ دُنیا عارضی ہے اور اُس دُنیا میں ہم نے جانا ہی ہے.اس لئے ہر صدمہ کے موقع پر سچا صبر اُس دُنیا میں جانے کا سفر آسان کر دیتا ہے اور انسان یہاں رہتے ہوئے بھی ایک قسم کا بے تعلق ہو جاتا ہے.یعنی بے تعلق ان معنوں میں نہیں کہ دنیا کو بالکل تج کر دے اور چھوڑ دے بلکہ بے تعلق ان معنوں میں ہو جاتا ہے کہ انسان کو اپنے ساتھ ، اپنے اندر بستا ہوا دیکھتا تو ہے لیکن اس کے تصورات، اس کے خیالات ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں اور بنی نوع انسان سے حسن سلوک جاری رکھتا ہے، اس طرح نہیں کرتا کہ الگ ہی ہو جائے.پس دُنیا میں بھی کامیابی ہے اور آخرت میں بھی کامیابی ہے.فلاح دو قسم کی ہے تزکیہ نفس حسب ہدایت نبی کریم صلی یتم کرنے سے آخرت میں بھی نجات ملتی ہے اور دنیا میں بھی آرام ہوتا ہے.( پھر فرمایا : ) گناہ خود ایک دکھ ہے.وہ بیمار ہیں جو گناہ میں لذت پاتے ہیں.بدی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں نکلتا.بعض شرابیوں کو میں نے دیکھا ہے کہ انہیں نزول الماء ہو گیا، مفلوج ہو گئے، رعشہ ہو گیا، سکتہ سے مر گئے.خدا تعالیٰ جو ایسی بدیوں سے روکتا ہے تو لوگوں کے بھلے کے لئے.جیسے ڈاکٹر اگر ( کسی مریض کو ) کسی بیمار کو پر ہیز بتا تا ہے تو اس میں بیمار کا فائدہ ہے نہ کہ ڈاکٹر کا.“
خطبات طاہر جلد 17 172 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء پس یہ ساری نصیحتیں جو آپ کو کی جاتی ہیں یا آنحضور صلی ایتم کی نصائح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ میں آپ سنتے ہیں تو اس میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام یا حضرت اقدس محمد رسول الل سی ایم کا کوئی بھی ذاتی فائدہ نہیں ہے.آپ کا فائدہ ہے اگر اس نسخہ پر عمل کریں تو آپ کو فائدہ پہنچے گا لیکن عام تیمار دار اور ان روحانی تیمارداروں کے درمیان ایک فرق بھی ہے.یہ تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دُنیا کے تیماردار کا حوالہ دیا ہے کہ اگر ایسا شخص طبیب کی بات نہیں مانتا تو طبیب کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا مگر خدا کے بندے، حقیقی بندے جو نبوت کے مقام پر فائز ہوتے ہیں ان کو ذاتی نقصان کا احساس ضرور ہوتا ہے ، طبیب کو ہو یا نہ ہو کیونکہ جب بھی وہ کسی خدا کے بندے کو ضائع ہوتے دیکھتے ہیں تو تکلیف پہنچتی ہے اس لئے یہ نقصان تو ضرور ان کو پہنچتا ہے جو عام دُنیا کے طبیب کو اکثر نہیں پہنچتا.پس فلاح جسمانی وروحانی پانی ہے.( آسمان سے اترنے والا ایک پانی ہے جس کو میں فلاح جسمانی قرار دیتا ہوں.یعنی مسیح موعود علیہ السلام قرار دیتے ہیں ) تو ( تم ) ان تمام آفات و منہیات سے پر ہیز کرو.نفس کو بے قید نہ کرو کہ تم پر عذاب نہ آ جائے.“ نفس کی بے قیدی کے نتیجہ میں طرح طرح کی تکلیفیں پہنچ سکتی ہیں جن کا ذکر پہلے گزرا ہے.ہر قسم کی ایسی عادات جو مضر صحت ہیں اگر ان کو کھلی ڈھیل دی جائے تو عجب نہیں کہ ان بدنتائج کو پیدا کریں.اللہ تعالیٰ نے کمال رحمت سے سب دکھوں سے بچنے کی راہ بتادی.اب کوئی اگر ان دکھوں سے ، ان گناہوں سے نہ بچے تو اسلام پر اعتراض نہیں ہوسکتا.“ وو (البدر جلد 7 نمبر 20،19 صفحہ: 6،5 مؤرخہ 24 مئی 1908ء) پھر البدر جلد 3 نمبر 27 ، مؤرخہ 16 جولائی 1904 ء صفحہ 4 میں آپ نے یہ نصیحت فرمائی: یہ انسان کی خوش قسمتی ہے کہ قبل از نزول بلا وہ تبدیلی کر لے لیکن اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس کی نظر اسباب اور مکر و حیلہ پر ہے تو سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے.“ اب یہ باتیں اچھی طرح پیش نظر رکھیں کہ بعض دفعہ ایک انسان کی غلطی اس کے گھر کو بھی برباد کر دیا کرتی ہے.فرمایا خوش قسمتی ہے کہ نزول بلا سے پہلے وہ تبدیلی کر لے.اگر کوئی تبدیلی نہیں کرتا اور اس
خطبات طاہر جلد 17 173 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء کی نظر اسباب اور مکر وحیلہ پر ہے یعنی اپنے نفس کی خرابیوں سے تو بہ نہیں کرتا اور دبے ہوئے نفس کی مکروہات کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے.اس کا اپنا نفس ہے جس نے اس کے گردو پیش خطرات پیدا کر دیئے ہیں.اگر کوئی ایسا شخص ہو جو سمجھتا ہو کہ میری چالاکیوں سے یہ خطرات میرے نفس کے اندر دب جائیں گے اور بیرونی اثر ظاہر نہیں کریں گے یہ مکر و حیلہ سے بچنے کی کوشش ہے.مکر و حیلہ سے اس طرح بچنے کی کوشش سے ان کو کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ ان مضرات سے نقصان ضرور پہنچے گا اور چونکہ وہ اپنی آنکھیں بند کئے بیٹھا ہے اس لئے اس کے گھر میں جو بھی بستے ہیں اس کے نقصان سے وہ بھی حصہ پائیں گے.تو بعض لوگوں کو اپنی فکر نہیں اپنے بیوی بچوں کی فکر ہوتی ہے.ان کا حوالہ دیتے ہوئے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے: سوائے اس کے کہ وہ اپنے ساتھ گھر بھر کو تباہ کر دے اور کیا انجام بھوگ سکتا ہے کیونکہ مرد گھر کا کشتی بان ہوتا ہے اگر وہ ڈوبے گا تو کشتی بھی ساتھ ہی ڈوبے گی اسی لئے کہا الرِّجَالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاء (النساء: 35) ( که مرد عورتوں کے اوپر قوام ہوتے ہیں ان کو سیدھا رکھنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں.ایسی صلاحیتیں عطا کئے گئے ہیں کہ وہ عورتوں کو اگر وہ واقعہ الہی تعلیم پر چلیں سیدھا رکھ سکتے ہیں اور سیدھے رستے پر چلا سکتے ہیں.) اُسی کی رستگاری کے ساتھ اُس کے اہل وعیال کی رستگاری ہے.(اگر اللہ تعالیٰ آزادی کے، بھلائی کے سامان پیدا نہ کرے تو اس کے اہل و عیال کی بھلائی کے سامان بھی پیدا نہیں ہوسکتے.) وَلَا يَخافُ عُقْبَهَا (الشمس: 16 سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کو اُن کے پس ماندوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے (اور ) اُس وقت اُس کی بے نیازی کا م کرتی ہے.“ (البدر جلد 3 نمبر 27 صفحہ: 4 مؤرخہ 16 جولائی 1904ء) وَلَا يَخَافُ عُقبها میں یہ فرمایا کہ خدا تعالیٰ کو گویا ان کی ہلاکت کی کوئی بھی پرواہ نہیں.یہاں بھی جو اس آیت کا سیاق و سباق جانتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وَلَا يَخَافُ عُقُبُهَا ان نفوس کے متعلق فرمایا گیا ہے جو اپنے نفس کو نیچے اتارتے ہیں اور دبا کر ان کی بدی سے بچنے کی کوشش اس طرح کرتے ہیں کہ وہ بالکل اندر دب جائے اور اس کا کوئی شہر بھی باہر نہ نکلے حالانکہ نفس کو جتنا چاہیں دبا ئیں اس کی خیر بھی باہر نکلتی ہے، اس کا شر بھی باہر نکلتا ہے.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے
خطبات طاہر جلد 17 174 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء وَلَا يَخَافُ عُقبها کی آیت کی طرف اشارہ فرما دیا.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ اپنی شرارتوں، اپنے کینوں ، اپنی گندگیوں کو اندر دبا کر ان کے شر کے پھیلنے سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں.ایسا کبھی نہیں ہو گا وہ شر ضرور پھیلے گا اور ان کے لئے نقصان کا موجب بنے گا.الحکم جلد 6 نمبر 39 صفحہ 10 مؤرخہ 31اکتوبر 1902ء میں درج ہے: ”خدا تعالیٰ نے ایک خاص قانون اپنے برگزیدوں اور راستبازوں کے لئے رکھا ہوا ہے.وہ ایسا ٹیکہ ہے کہ اس میں نہ نشتر کی ضرورت ہے نہ اس میں تپ آتا ہے.جب کوئی اس کی شرائط کو پورا کرنے والا ہو تو وہ خدا کے سایہ میں آجاتا ہے.تم اسے اختیار کرو تا تم ضائع نہ ہو.ہر شخص جو اس کو سمجھے وہ دوسرے کو سمجھا دے.“ 66 اب بلاؤں اور وباؤں سے بچنے کے لئے دُنیا میں ٹیکوں کا رواج ہے اور ٹیکے خود بھی اپنی ذات میں نقصان پہنچانے والے ہوتے ہیں.نشتر لگتا ہے، سوئی چبھتی ہے اور انسان تکلیف محسوس کرتا ہے پھر اس کے بعد تپ آجایا کرتا ہے.اکثر ٹائیفائیڈ کے ٹیکے لگانے والے بڑی مصیبت سے گزرتے ہیں.بعض دفعہ چیچک کا ٹیکہ بگڑے تو اس سے بھی بہت تکلیف پہنچتی ہے.تو فرمایا میں ایک ایسے ٹیکہ کی بات کر رہا ہوں جو کوئی بھی تکلیف تمہیں نہیں پہنچائے گا.نہ نشتر لگے گا، نہ تپ آئے گا.تم اسے اختیار کرو تا تم ضائع نہ ہو.ہر شخص جو اس کو سمجھے وہ دوسروں کو سمجھا وے اور حاضر غائب کو پہنچاوے تاکہ کوئی دھوکہ نہ کھاوے.“ یہ وہ نصیحت ہے جس کو اب ہمیں عام کرنے کی ضرورت ہے.جو حاضر ہیں، جو سن رہے ہیں وہ غائبوں تک ان باتوں کو کرنا شروع کر دیں.محض اپنے دل کی حدود تک نہ رکھیں بلکہ زبان سے نکالیں اور اردگرد ماحول کو یہ نصیحت کریں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی ہے: یا درکھو محض اسم نویسی سے کوئی جماعت میں داخل نہیں جب تک وہ حقیقت کو اپنے اندر پیدا نہ کرے.آپس میں محبت کرو.اتلاف حقوق نہ کرو.اور خدا کی راہ میں دیوانہ کی طرح ہو جاؤ.تا کہ خدا تم پر فضل کرے.اُس سے کچھ باہر نہیں (ہے).الحکم جلد 6 نمبر 39 صفحہ : 10 مؤرخہ 31اکتوبر 1902ء) وہ جو ٹیکہ وہ یہ ٹیکہ ہے جس کی بات اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں.فرماتے ہیں
خطبات طاہر جلد 17 175 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء تمہارا نام میری جماعت میں لکھا جائے تو یہ اسم نویسی ہے جیسے بیعت کے فارموں پہ نام لکھے جاتے ہیں ، جماعت کی فہرستوں میں اسماء لکھے جاتے ہیں.فرمایا یہ تو اسم نویسی ہے اس سے کوئی جماعت میں داخل نہیں.یہ خیال کر لینا کہ تجنید کی فہرستوں میں ہمارا نام ہے اور یہ سمجھ لینا کہ چونکہ تجنید میں نام ہے اس لئے ہم جماعت میں داخل ہیں.فرمایا یہ غلط بات ہے اس کو نام لکھنا کہتے ہیں.پس اس سے زیادہ اس کی کوئی حقیقت نہیں.ہاں جب تک وہ حقیقت کو اپنے اندر پیدا نہ کرے.اسم نویسی کے بعد جو احمد یہ جماعت کی حقیقت ہے جسے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھول کھول کر بیان فرماتے ہیں اس حقیقت کو اپنے اندر جب تک پیدا نہ کرے اس اسم نویسی کا کوئی فائدہ نہیں.یہ حقیقت کیا ہے آپس میں محبت کرو.اتلاف حقوق نہ کرو.؟ آپس میں محبت کرو اور اتلاف حقوق نہ کروایک ہی چیز کے دو پہلو ہیں.جس سے آپ کو پیار ہو اس کا حق تلف تو نہیں کرتے.کبھی ماؤں کو دیکھا ہے کہ بچوں کے حقوق تلف کر رہی ہوں.جاہل ہی ہوں گی وہ مائیں جو بچے کے منہ سے لقمہ چھین کر خود کھا جائیں.جو بچے کا حق ہے وہ بچے کو دیتی ہیں بلکہ اپنے منہ کا لقمہ چھوڑ کر بچے کے منہ میں ڈال دیتی ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں محبت کرو، اتلاف حقوق نہ کرو.محبت کی پہچان یہ ہوگی کہ تم کسی کے حقوق تلف نہ کرو اور حقوق نہیں تلف کرو گے تو اپنے حقوق دوسروں کو دینے کے لئے امکان پیدا ہو جائے گا.حقوق نہ تلف کرنا محبت کا پہلا تقاضا ہے لیکن اپنے حقوق تلف کرنا محبت کا دوسرا تقاضا ہے.پس ان دونوں پہلوؤں سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس ہدایت کو سمجھیں.دوسروں سے محبت کریں یعنی ان کے حقوق تلف نہ کریں اور ان کی خاطر اپنے حقوق تلف کریں.یہ تو ایک دیوانگی کی بات ہے.انسان کسی کے حقوق تلف نہ کرے وہ تو ٹھیک ہو گیا مگر اپنے حقوق کیوں تلف کرے.فرمایا: ” خدا کی راہ میں دیوانہ کی طرح ہو جاؤ.یہ تب ہی ممکن ہے کہ اگر آپ اللہ کی محبت کی وجہ سے دیوانہ سے بن جائیں اور یہ بظاہر دیوانگی کی باتیں ہیں.ماں کا بچہ سے ایک رشتہ ہے جس کے تقاضے وہ نظر انداز نہیں کر سکتی مگر آپ کا تو بنی نوع انسان سے اس قسم کا خونی رشتہ نہیں ہے اور اگر آپ عقل کریں تو وہ تقاضے نظر انداز کر سکتے ہیں.پس جب تک دیوانوں کی طرح خدا کی راہ میں نہ ہو جاؤ یہ ماں والے رشتے تمام بنی نوع انسان سے قائم کئے ہی نہیں جاسکتے.دیوانہ کی طرح
خطبات طاہر جلد 17 176 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء ہو جاؤ تا کہ خدا تم پر فضل کرے، اس سے کچھ باہر نہیں (ہے).اب یہ ہماری تربیت کے لئے ایک بڑا عظیم الشان لائحہ عمل ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرما دیا اور اس کی باریک راہوں سے ہمیں آگاہی فرمائی.فرمایا: میں تمہیں بار بار نصیحت یہی کرتا ہوں کہ تم ایسے پاک صاف ہو جاؤ جیسے صحابہ نے اپنی تبدیلی کی.انہوں نے دنیا کو بالکل چھوڑ دیا گویا ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے.اسی طرح تم اپنی تبدیلی کرو.“ الحکم جلد 6 نمبر 39 صفحہ: 9 مؤرخہ 31اکتوبر 1902ء) اب یہ نہیں فرمایا کہ دنیا کو چھوڑ دیا اور ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے کیونکہ صحابہ میں بڑے بڑے خوش پوش صحابہ کا ذکر ملتا ہے جو اللہ اور حضرت محمد رسول اللہ صل للہ یہ تم کو بہت پیارے تھے.خود حضرت اقدس محمد رسول الله صلی ایام کی خوش پوشی کا ذکر ملتا ہے.بعض دفعہ باہر سے کوئی بہت اعلیٰ درجہ کا خوب صورت دلکش تحفہ آیا تو آپ نے وہ پہن لیا یہ بھی شکر کا ایک اظہار ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمت کے پہلے قطرہ کو جیسے انسان زبان پر لیتا ہے وہی محبت ہے جس کا یہاں ذکر چل رہا ہے.تو فرمایا: ” جیسے صحابہ نے اپنی تبدیلی کی.انہوں نے دُنیا کو بالکل چھوڑ دیا گویا ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے، ” گویا ٹاٹ کے کپڑے پہنے کا مطلب ہے کہ اگر خدا طلبی سے غربت اختیار کرنی پڑے اور دُنیا ہاتھ سے جاتی رہے، دنیا کے مال و دولت نہ رہیں اور واقعہ ٹاٹ پہننا پڑے تب بھی اس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی.ٹاٹ پہننے کے لئے اپنے آپ کو ذہنی طور پر اور قلبی طور پر تیار رکھنا یہ مضمون ہے جو یہاں بیان ہو رہا ہے.اگر آپ تیار رکھیں گے تو گویا ٹاٹ کے کپڑے پہن لئے.خدا کے نزدیک وہ قربانی جو آپ سے لی نہیں گئی لیکن ذہنی طور پر آپ تیار ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایسی ہی ہے جیسے ہوگئی اور اکثر اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے یہی سلوک ہوتا ہے.مطالبہ کرتا ہے یہ کرو، وہ کرو، جو بہت سخت بھی ہوتے ہیں ، نرم بھی ہوتے ہیں لیکن جو قلبی طور پر تیار ہو جائے کہ میں ان مطالبوں کو بالآخر پورا کروں گا اللہ کے ہاں وہ ایسا ہی لکھا جاتا ہے جیسے اس نے وہ مطالبات پورے کر دیئے.پس ٹاٹ کے کپڑوں کے تعلق میں آپ کو اپنے سوٹ اور گاؤن بدلنے کی ضرورت نہیں ہے.یہ نہیں کہ سب اتار کے پھینک دیں اور واقعہ ٹاٹ کی سلائیاں شروع کر دیں.ہاں یہ ارادہ رکھیں اور اس میں پختہ ہوں، اس میں نیت بالکل
خطبات طاہر جلد 17 177 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء پاک اور صاف ہو کہ خدا کی قسم اگر اس کی خاطر ہمیں ان تمام خوبصورت لباسوں کو آگ میں جھونکنا پڑے تو ہم جھونک دیں گے.تن ڈھانکنا ہے تو ٹاٹ سے ڈھانک لیں گے کیونکہ تن تو بہر حال ڈھانکنا ہے لیکن اللہ کی رضا کو نظر انداز نہیں کریں گے.اس چھوٹے سے خوبصورت فقرہ میں یہ سارا مضمون بیان فرما دیا گیا.اب کس خدا کی خاطر قربانیاں ہیں جس کے متعلق ہم جانتے ہیں کہ ہمارے حواس خمسہ اس تک پہنچ نہیں سکتے.وہ غیب میں ہے اور غیب کے لئے حاضر کی قربانی ایک بہت بڑا مشکل مضمون ہے.انسان حاضر پر غیب کو قربان کرتا ہے مگر غیب پر حاضر کو قربان نہیں کیا کرتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خدا تعالیٰ کے غیب ہوتے ہوئے حاضر مضمون کو بیان فرما رہے ہیں کس کی خاطر تم یہ کام کرو گے.وو وہ خدا جو آنکھوں سے پوشیدہ (ہے) مگر سب چیزوں سے زیادہ چمک رہا ہے جس کے جلال سے فرشتے بھی ڈرتے ہیں.وہ شوخی اور چالا کی کو پسند نہیں کرتا اور ڈرنے والوں پر رحم کرتا ہے.سو اس سے ڈرو اور ہر ایک بات سمجھ کر کہو.تم اس کی جماعت ہو جن کو اس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے.“ تم اس کی جماعت ہو جن کو اس نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے.“ یہاں غالباً جن کو کا لفظ جماعت پر اطلاق پا رہا ہے کیونکہ اُس کا لفظ واحد میں ہے.اُس سے مراد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں تم اس کی جماعت ہو جن کو یعنی اس جماعت کو اُس نے یعنی اللہ تعالیٰ نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے.سو جو شخص بدی نہیں چھوڑتا اور اس کے لب جھوٹ سے اور اس کا دل نا پاک خیالات سے پر ہیز نہیں کرتا وہ اس جماعت سے کاٹا جائے گا.“ کاٹا جانے کے متعلق ایک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا فقرہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں ” میری جماعت میں سے نہیں ہے لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اس فقرہ کے دائرہ میں آتے ہیں، اس اظہار کے دائرہ میں آتے ہیں جو فوری طور پر تو کالے ہوئے دکھائی نہیں دیتے اور کوئی جماعت کی کارروائی ان کے خلاف نہیں ہوتی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا انذار ضرور ان کے حق میں پورا اترتا ہے.وہ رفتہ رفتہ دور ہٹتے ہٹتے واقعۂ جماعت سے کاٹے جاتے ہیں یا خود اپنے آپ کو
خطبات طاہر جلد 17 178 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء جماعت سے کاٹ لیتے ہیں.یہ سلسلہ روز جاری ہونے والا سلسلہ ہے.ہر روز ایسے انسانوں کی خبر ملتی رہتی ہے جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پہلے تقاضوں کو نظر انداز کر دیا تو آخری باتیں ضرور پوری ہوئیں جن سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کو ڈرایا تھا.”اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو.“ دل ہی ہیں جو ہر صفائی، ہر برائی کی پہلی آماجگاہ ہیں.یہاں اگر جھاڑو پھیرا جائے گندگیوں سے تو پھر پاک دل اس سے نکلے گا جس میں خوبیاں آکر اپنی جگہ بنالیں گی.پس یہ بات میں بار بار کہتا ہوں اور کہتا چلا جاتا ہوں اور یہ بات ہر ایک کی سمجھ میں آجانی چاہئے مگر لفظوں میں سمجھ میں آجاتی ہے عمل کچھ نہیں ہوتا یا ہوتا ہے تو بہت تھوڑا ہوتا ہے.اس لئے مجھے یہ باتیں دوہرانے دیں.جتنا دو ہراؤں گا کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی کو تو خیال آ جائے گا کہ میں سنتا تو ہوں مگر ان باتوں پر عمل نہیں کرتا اس لئے اس دوہرانے سے فائدہ ہے.فَذَكَرُ إِنْ نَفَعَتِ الذكرى (الاعلی: 10) کا یہی مضمون ہے.فرمایا: اے خدا کے بندو! دلوں کو صاف کرو اور اپنے اندرونوں کو دھوڈالو.“ جیسے بعض دفعہ بعض عورتوں کو جنون ہوتا ہے وہ ہر وقت گھر کے اندر وغیرہ دھوتی رہتی ہیں اور اپنا اندر نہیں دھوتیں.فرمایا: اپنے اند رونوں کو دھوڈالو.تم نفاق اور دورنگی سے ہر ایک کو راضی کر سکتے ہو.“ دکھاوے کی زندگی ، باہر کی صفائی، اندرونے کو بھول جانا، اس سے ہوسکتا ہے تم ہر ایک کو راضی کر لو اور وہ تمہیں اور تمہارے گھر کو بہت شفاف اور چمکتا ہوا دیکھے.سب کو کر سکو گے،مگر خدا کو نہیں.خدا کو اس خصلت سے غضب میں لاؤ گے.“ اب دنیا راضی ہو رہی ہے اور بہت خوش ہو رہی ہے بہت اچھا آدمی ہے، بہت اچھی عورت ہے.اتنا صاف ستھرا آدمی اتنی صاف ستھری عورت ، گھر پاک وصاف اور یہی بات جو دُنیا میں تمہاری مدح کا موجب بن رہی ہے خدا کے غضب کو بھڑ کانے کا موجب بنتی ہے.” خدا کو اس خصلت سے غضب میں لاؤ گے.اپنی جانوں پر رحم کرو اور اپنی ذریت کو ہلاکت سے بچاؤ کبھی ممکن ہی نہیں کہ خدا تم سے راضی ہو حالانکہ تمہارے دل میں اس سے زیادہ کوئی اور عزیز بھی ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 179 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء وہی ٹاٹ کے کپڑوں والی بات کہ دل میں اگر کوئی عزیز ہے تو جب ابتلا میں پڑو گے تو وہ عزیز خدا پر غالب آجائے گا.اگر دل میں کوئی اور عزیز ہے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کوئی اور پیارا ہے.بے شمار پیارے ہوں گے، بے شمار دل میں عزیز ہوں گے مگر خدا کے مقابل پر اگر کوئی دل میں عزیز ہے تب تم خدا کی نظر میں پیارے نہیں ہو سکتے.اس کی راہ میں فدا ہو جاؤ اور اس کے لئے محو ہو جاؤ اور ہمہ تن اس کے ہو جاؤ“ را از حقیقت ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ : 156 157) اس کی راہ میں فدا ہو جاؤ اور اس کے لئے محو ہو جاؤ اور ہمہ تن اس کے ہو جاؤ.“ یہ سارے عشق کے منازل ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کھول رہے ہیں.اب ایک لمبی تحریر ہے جو اس لحاظ سے بہت دلچسپ ہے کہ چلتے چلتے آسٹریلیا کے ایک سیاح سے باتیں کرتے ہوئے اس کو نصیحتیں فرمائی جارہی ہیں.صبح سیر کے وقت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب روانہ ہوئے تو آسٹریلیا سے آیا ہوا ایک سیاح تھا وہ بھی ساتھ چل پڑا یا اسے دعوت دے دی گئی ہوگی اور اس دوران سیر اُس سے جو گفتگو ہوئی یہ دوسرے ساتھیوں نے ، سننے والوں نے بعد میں فوراً قلمبند کر لی.پس یہ گفتگو ان الفاظ میں ہے.دیکھو اگر کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے کھڑا ہو.( یہ آسٹریلین سیاح سے فرما رہے ہیں ) دیکھو اگر کوئی شخص کسی حاکم کے سامنے کھڑا ہو اور اس کا کچھ اسباب متفرق طور پر پڑا ہوا ہوتو یہ کبھی جرات نہیں کرے گا کہ اس اسباب کا کوئی حصہ چرالے خواہ چوری کے کیسے ہی قومی محرک ہوں.“ مالک سامنے کھڑا ہو تو اس کا اسباب بکھرا پڑا ہو یہ عموماً سیاح کے اوپر اطلاق ہونے والی بات ہے کیونکہ کسی کے گھر میں تو سامان بکھرا ہوتا یا وہ سفر پر روانہ ہونے والا ہے یا سفر سے آیا ہے تو اس سیاح کو مخاطب کر کے یہ فقرہ دیکھیں کتنا اس کی صورت حال پر اطلاق پانے والا ہے جس کو وہ اپنے تجربہ سے خود سمجھ سکتا ہے.اس کا کچھ اسباب متفرق طور پر پڑا ہوا ہو تو یہ شخص ) کبھی جرأت نہیں کرے گا کہ اس اسباب کا کوئی حصہ چرالے خواہ چوری کے کیسے ہی قومی محرک ہوں اور وہ کیسا ہی اس
خطبات طاہر جلد 17 180 خطبہ جمعہ 13 مارچ1998ء بد عادت کا مبتلا ہو.( یہ ہو نہیں سکتا اس کی نظر میں ہو اور اس کو چرالے ) مگر اس وقت اس کی ساری قوتوں اور طاقتوں پر ایک موت وارد ہو جائے گی.“ مرنا جس کا ذکر پہلے گزر چکا ہے اس کی تشریح ہے کہ مرنے سے یہ مراد نہیں ہے بالکل مرمٹو.مرنے سے یہ مراد ہے کہ حاکم وقت یعنی اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہوتے ہوئے تم ایسی جرات نہ کرو کہ گویا اس کا سامان چرا رہے ہو اور خدا کی مرضی کے خلاف عمل کی جسارت میں تمہارے اوپر ایک موت طاری ہوگئی.جیسے وہ بدکار، چور اچکا مُردے کی طرح کھڑا رہے گا.مجال ہے اس کی ، جو ہاتھ بڑھا کر مالک کی نظر میں رہتے ہوئے اسکا کوئی سامان چرائے.”موت وارد ہو جائے گی اور اسے ہرگز ( یہ ) جرأت نہ ہو سکے گی اور اس طرح پر وہ اس چوری سے ضرور بچ جائے گا.اسی طرح پر ہر قسم کے خطا کاروں اور شریروں کا حال ہے کہ جب انہیں ایسی قوت کا پورا علم ہو جاتا ہے جو اُن کی اس شرارت پر سزا دینے کے لئے قادر ہے تو وہ جذبات ان کے دب جاتے ہیں.یہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے.“ اگر کوئی معصوم بچی اکیلی جا رہی ہو، اندھیرا ہو، کوئی دیکھ نہ رہا ہو، ایک بد بخت اس پر ہاتھ اٹھانے کی جسارت کر سکتا ہے لیکن اگر ایک قوی ہیکل، مضبوط مرد اس کے ساتھ چل رہا ہو جس کے مقابل پر اس کی کوئی حیثیت نہ ہو تو اتنی شرافت سے وہ نظریں نیچی کر کے گزرے گا کہ قوی ہیکل انسان کو وہم بھی نہیں ہو گا کہ اس کا کوئی بد ارادہ ہے.نہایت مسکین بن جائے گا چال میں نرمی آ جائے گی.ذرا بچ کے، پہلو بچا کے جائے گا.وہ لطیفہ میں نے اُردو کلاس میں تو بتایا تھا لیکن یہاں پتا نہیں سنایا ہے کہ نہیں.ایک شخص نے اپنے اوپر کی منزل سے کچھ کیچڑ نیچے پھینک دیا.ایک گزرتے ہوئے آدمی کے اوپر جا پڑا.اس نے بڑے غصہ سے للکار کر کہا بد بخت دیکھتا نہیں کون نیچے جا رہا ہے.تیری یہ مجال کہ مجھ پر کیچڑ پھینکا ہے.آؤنہ ذرا باہر میں تیرا حال کروں.اوپر سے جو آدمی آیا وہ بڑا قوی ہیکل، مضبوط پہلوان، اس کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے.اس کو دیکھتے ہی کہا فرمائیے آپ نے پھینکا تھا نا.یہ عاجز بندہ حاضر ہے کچھ اور بھی پھینکیں ، اور بھی لطف اٹھا ئیں.اب یہ جو رویہ ہے یہ قوی ہیکل کو دیکھنے کے بعد پیدا ہوا ہے.تو اگر کوئی انسان کسی طاقتور وجود کی موجودگی کا احساس کرے تو اس کے گناہ کی شوخی اسی طرح مٹ جائے گی جیسے اس کیچڑ میں بھرے ہوئے انسان کی مٹ گئی تھی لیکن اللہ تعالیٰ تو کیچڑ
خطبات طاہر جلد 17 181 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء نہیں پھینکتا.اللہ تعالیٰ تو فضل پھینکتا ہے.محمد رسول اللہ صلی ال ای یتیم کے نصائح تو پھولوں کی طرح اترتے ہیں اس کے باوجود آپ کا یہ حال ہو کہ ان پر سیخ پا ہوں اور اپنے وجود کو بدلنے کے لئے کوئی کوشش نہ کریں.یہ حد سے زیادہ زیادتی اور ظلم ہوگا.یہ پھول ہیں جن کو آپ نے چننا ہے.وہ کانٹے ہیں جن سے بچانے کے لئے نصائح کی جاتی ہیں.اس لئے اپنی بھلائی کا رستہ اختیار کریں خود آپ کا بھلا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہی سچا طریق گناہ سے بچنے کا ہے کہ انسان خدا تعالیٰ پر کامل یقین پیدا کرے اور اس کے سزاو جزا دینے کی قوت پر معرفت حاصل کرے.یہ نمونہ گناہ سے بچنے کے طریق کے متعلق خدا نے ہماری فطرت میں رکھا ہوا ہے.اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اس اصول کو آپ کے سامنے پیش کردوں.کیا عجب آپ کو فائدہ پہنچے.( یعنی آسٹریلوی سیاح سے فرمارہے ہیں ) اور چونکہ آپ سفر کرتے رہتے ہیں اور مختلف آدمیوں سے ملنے کا آپ کو اتفاق ہوتا ہے.آپ اُن سے اسے ذکر بھی کر سکتے ہیں.“ فرمایا جس طرح پہلے نصیحت کی تھی کہ جو بھی اس نصیحت کو سنے آگے پہنچائے.تو مسافر کے اسباب کے پھیلنے کی طرح اس کے سامنے ایک بات رکھی اور اس سے ایک مضمون نصیحت کا نکالا اور پھر فرمایا کہ آپ چونکہ مسافر ہیں اور اکثر پھرتے رہتے ہیں اس لئے میں نے سوچا کہ آپ کے سامنے بات پیش کروں تا کہ آپ آئندہ دنیا میں جہاں بھی سفر کریں اس نصیحت کو آگے چلاتے رہیں.یہ میری طرف سے آپ کو ایک تحفہ ہے اور میں ایسے تحفے دے سکتا ہوں.( جانے والے کو اچھی نصیحت سے بہتر کوئی تحفہ نہیں دیا جا سکتا جو اس کا زادراہ بن جائے.فرمایا :) یہ میری طرف سے آپ کو ایک تحفہ ہے اور میں ایسے تحفے دے سکتا ہوں.ہر شخص جو دنیا میں آتا ہے اس کا فرض ہونا چاہئے کہ دھو کے اور خطرہ سے بچے.پس گناہ کے نیچے ایک خطرناک اور تمام خطروں اور دھوکوں سے بڑھ کر ایک دھوکا ہے.“ یہ وہ مخفی دل کی حالت ہے جو چھپی ہوئی ہے اور اکثر گناہ گار کی اپنی نظر سے چھپی ہوئی ہوتی ہے.کوئی گناہ ظاہر ہو ہی نہیں سکتا جب کہ دل کے اندر چھپا ہوا گناہ موجود نہ ہولیکن وہ دھوکا ہے، دھوکا ان معنوں میں کہ دکھائی نہیں دے گا انسان معین طور پر اس کی شناخت نہیں کر سکتا.
خطبات طاہر جلد 17 182 خطبہ جمعہ 13 مارچ 1998ء میں آگاہ کرتا ہوں کہ اس سے بچنا چاہئے اور یہ بھی بتاتا ہوں کہ کیونکر بچنا چاہئے.“ الحکم جلد 5 نمبر 46 صفحہ :3 مؤرخہ 17 دسمبر 1901ء) ( حضور نے پرائیویٹ سیکرٹری صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا :) اب چونکہ وقت ہو گیا ہے اس لئے ” کیونکر بچنا چاہئے “ پر ایک چھوٹا سا نشان ڈال لیں.ٹھیک ہے؟.ابھی نشان ڈال لیں تا کہ آئندہ پھر دھوکہ نہ ہو اور جو اقتباسات پڑھے جاچکے ہیں ان کی تھیلی ہی الگ کر لیں.ٹھیک ہے.جزاکم اللہ.
خطبات طاہر جلد 17 183 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء نیکی میں ترقی کے حصول کے لئے ہمیشہ خدا تعالیٰ کی طرف قدم بڑھاتے رہنا چاہئے (خطبه جمعه فرموده 20 مارچ 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَيُلْقِيهِ أَ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَبَةَ بِيَمِينِهِ فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًان (الانشقاق:7 تا9) پھر فرمایا: جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ الانشقاق کی سات سے نو آیات ہیں اور ان کا ترجمہ یہ ہے کہ اے انسان تو اپنے رب کی طرف بہت مشقت کے ساتھ اور زور لگا کر جانے والا ہے اور پھر اس سے ملنے والا ہے.فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبه ببینه پس وہ شخص جسے اس کی کتاب دائیں ہاتھ سے دی جائے گی.فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيرًا تو اس سے بہت آسان حساب لیا جائے گا.ان آیات میں خوش خبریاں بھی ہیں اور تنبیہات بھی ہیں اور خوشخبری تو سب سے بڑی یہی ہے کہ آخر اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے لیکن کس رستہ سے ملنا ہے مشکل رستہ سے یا آسان رستہ سے اور وہ لوگ جو خدا کی راہ میں محنت کرتے ہیں یا کرنے والے ہیں ان دونوں کے لئے دونوں راہیں کھلی ہیں مشکل رستہ سے بھی جاسکتے ہیں اور آسان رستہ سے بھی جاسکتے ہیں.یہ مشکل رستہ کون سا ہے اور آسان کون سا ہے اس کی کچھ تشریح میں یہاں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 184 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء ہرانسان جو خدا کی خاطر محنت کر رہا ہے اسے بالآخر اس سے ملنا تو ہے مگر اگر اس کی محنت کامیاب نہ ہو یعنی رستہ کی مشکلات اس پر حاوی رہیں اور ملنے کی راہ میں شیطانی روکیں بہت بڑی ہوں جن کو پوری طرح عبور نہ کر سکے ، تو ملے گا تو یہ بھی، مگر حِسَاباً يسيرا کے ساتھ نہیں ملے گا اس رستہ کی بہت سی غلطیاں ایسی ہوں گی جن کو اللہ تعالیٰ معافی کے لائق نہیں سمجھے گا.اس لئے معافی کے لائق جو غلطیاں ہیں ان کے لئے حِسَابًا يسيرا کا لفظ استعمال ہوا ہے جو غلطیاں خدا کے علم میں معافی کے لائق نہیں ان کے لئے یہ خوش خبری نہیں ہے کہ فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبه ببینه حساب تو دونوں کا ہوگا لیکن ایک مشکل حساب ہے اور ایسا حساب ہے جیسا کہ احادیث نبوی صلی اینم سے پتا چلتا ہے کہ بار یک نظر سے ان کے کھاتوں کا مطالعہ کیا جائے گا اور ہر غلطی کو نکال کے نمایاں کر دیا جائے گا.اس قسم کے حساب کا تجربہ انسان کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہوتا ہی رہتا ہے.بعض لوگ ایسے جوں کے سامنے پیش ہوتے ہیں جو فیصلے کئے بیٹھے ہوتے ہیں کہ اس کو پکڑنا ہے اس کے سارے کھاتے منگوا لیتے ہیں اگر چہ اپنی طرف سے سب اچھی طرح کھنگال کر دیکھتے ہیں اور جہاں کوئی غلط بات نکلے اس کو نمایاں کر دیتے ہیں اور اس میں ان کا ضد اور تعصب شامل ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ جب حساب کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ اس میں کسی ضد کا تعصب کا سوال نہیں.خدا کے علم میں ہر چھوٹی سے چھوٹی غلطی بھی ہے اور سب بڑی سے بڑی غلطیاں بھی ہیں.ان غلطیوں پر نظر رکھتے ہوئے وہ قیامت کے دن حساب کتاب سے پہلے یہ فیصلہ کر چکے گا کہ فلاں شخص کا اعمال نامہ اتنا گندہ ہے اور اتنی بالا رادہ غلطیاں شامل ہیں کہ اسے معاف نہیں کرنا اور چونکہ معاف نہیں کرنا اس لئے سب عالم کے سامنے یوم محشر میں ہر ایک کے سامنے اس کا کھاتہ خود بولے گا اور ایسا بولے گا کہ ہر شخص مطمئن ہو جائے گا کہ اس سے کوئی نا انصافی نہیں کی گئی.جو کچھ کہا گیا ہے بعینہ اسی کا اُس کا اعمال نامہ نقاضا کر رہا تھا.پس ایک یہ ہے گنگا جس رستہ سے انسان گزرتا ہے یا گزرے گا لازماً پہنچنا تو ہے وہاں اور کن مشکلات کے ساتھ پہنچنا ہے یا کس آسانی کے ساتھ ، یہ اس نے فیصلہ کرنا ہے.اس ضمن میں قرآن کریم کی بعض اور آیات بھی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جواسی مضمون پر روشنی ڈال رہی ہیں.سورۃ النبا میں لا يَسعُونَ فِيهَا لَغُوا وَلَا كِتابًا.اہل جنت کے متعلق خوشخبری ہے کہ وہاں نہ وہ کوئی لغو بات سنیں گے نہ كِذَّابًا جَزَاء مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاء
خطبات طاہر جلد 17 185 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء حِسَابًا ل رَبِّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ.یہ جزا ہے تیرے رب کی طرف سے عطا کے طور پر.عطا میں حساب تو نہیں ہوا کرتا مگر یہاں حساب کا لفظ آیا ہے.فرمایا ہے: عَطَاء حِسَابَات رَبِّ السَّمَوتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا الرَّحْمَنِ لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خطابان - (النبا: 36 تا 38) یہ ایسا حساب ہے جو آسمانوں اور زمین کے رب کی طرف سے ہے اور جو کچھ ان میں ہے یہ حساب رحمن خدا دے گا.لفظ رحمانیت نے بتا دیا کہ بہت آسان حساب ہونے والا ہے اور آسان حساب سے مراد یہ ہے کہ آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے وہ عطا ہوگی ان بندوں کی.یعنی جو عمل ہے اس سے عطا کی کوئی نسبت ہی نہیں.مگر اللہ جب حساب فرماتا ہے تو اس قسم کا حساب فرماتا ہے.اسی کا نام حِسَابًا يسيرًا ہے.لَا يَمْلِكُونَ مِنْهُ خطابا.وہ خدا تعالیٰ سے خطاب کا حق نہیں رکھیں گے.کوئی ذاتی ملکیت نہیں ہوگی اللہ جسے خطاب کی اجازت دے گا اسی کو خطاب کی اجازت ملے گی.دوسری جگہ فرما یا اِن اِلَيْنَا اِيَا بَهُمْ - جیسا کہ جمعہ کے دوران تلاوت والی سورۃ الغاشیۃ میں بیان ہے إِنَّ إِلَيْنَا اِيَا بَهُمْ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم - (الغاشية: 27،26) کہ ہمارے ہاتھ میں ان کی باگیں ہیں انہوں نے بہر حال ہماری طرف لوٹ کے آنا ہے.ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُم پھر ہم پر فرض ہے کہ ہم ان کا حساب کریں اور اس حساب میں سارے نیک و بد شامل ہیں، کوئی بھی ایسا نہیں جو حساب سے خالی ہو جائے گا.جن کے متعلق بے حساب بخشش کا مضمون احادیث میں بیان ہوا ہے.اس بے حساب بخشش کا مطلب یہ ہے کہ اُن کے حساب پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے گی اور آگے گزار دیا جائے گا.بعض دفعہ جیسے آپ ایک ملک سے دوسرے ملک میں داخل ہوتے ہیں تو پاسپورٹ نظر آ رہے ہوتے ہیں کن کے پاسپورٹ ہیں.تو بعضوں کو بس ایک نظر ڈال کے آفیسر کہتا ہے چلونکلو.تو وہ بھی حساب ہی تو ہے.بغیر حساب کے کوئی نہیں جاسکتا.مگر ان معنوں میں بغیر حساب کے جائے گا کہ اس کی چھان بین نہیں ہوگی.اس کو ایک سرسری نظر کافی ہوگی یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ یہ جنت کا حق دار ہے.وَ أَمَّا مَنْ أُوتِي كِتبهُ بِشِمَالِه - اب يمينه كا ذکر تو گزر چکا ہے کہ جس کی کتاب اس کے داہنے ہاتھ سے اس کو دی جائے گی لیکن اب شمالہ کا ذکر آئے گا وہ جس کی کتاب اس کے بائیں ہاتھ سے دی جائے گی.داہنے ہاتھ سے مراد نیکی کا ہاتھ ہے، سچائی کا ہاتھ ہے تو مراد یہ ہے کہ جس کو اس طرح
خطبات طاہر جلد 17 186 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء کتاب دی جائے گی کہ دیتے ہوئے اس کو معلوم ہو جائے گا کہ میرا حساب آسان ہونا ہے کیونکہ دین کے رستہ سے اس کو کتاب مل رہی ہے.شمال سے مراد بایاں ہاتھ یا بدیوں کا رستہ ہے.تو وہ لوگ جن کو کتا ہیں دی جائیں گی وہ ایک ہی سمت سے اس طرح نہیں دی جائیں گی کہ معاملہ سب پر خلط ملط رہے بلکہ سارا محشر دیکھے گا کہ جن لوگوں کو عزت عطا ہونے والی ہے ان کو ان کے داہنے ہاتھ میں کتا بیں تھمائی جائیں گی اور جن کے لئے ذلت مقدر ہے ان کو ان کے بائیں ہاتھ میں کتا میں تھمائی جائیں گی.وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِشِمَالِهِ پس یقیناً وہ شخص جس کو بائیں ہاتھ سے کتاب دی جائے گی یا بائیں ہاتھ میں کتاب تھائی جائے گی.يَقُولُ لَيْتَنِي لَمْ أَوْتَ كِتَبِيَه - یعنی وہ منظر خود بتادے گا کہ میں مارا گیا، اس شخص کو بتا دے گا کہ وہ مارا گیا اور بے اختیار کہے گا.يُلَيتَنِي لَم أَوْتَ كتبية.کاش ایسا ہوتا کہ مجھے میری کتاب نہ دی جاتی.وَ لَمْ ادْرِ مَا حِسَابِيَہ اور میں کبھی نہ جان سکتا کہ میرا حساب کیا ہے.لِليْتَهَا كَانَتِ الْقَاضِيَة - (الحاقة:26 تا 28 ) وائے افسوس کہ یہ تو ایک فیصلہ کن چیز ہے، فیصلہ کن کتاب ہے.آنحضرت صل للہ یہی تم نے اسی مضمون کو بیان فرمایا ہے اور اس کی ضرورت اس لئے پیش آئی کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی شمالی تم خود بھی یہ دعا کیا کرتے تھے کہ میرا حساب آسان کر دے اور حضرت عائشہ اس پر متعجب تھیں کہ آنحضرت ملا کہ ہم اپنے حساب کی باتیں کیوں کرتے ہیں اور اپنے آسان حساب کی کیوں باتیں کرتے ہیں.آپ تو بے حساب بخشے جانے والے انسان ہیں.صحیح بخاری کتاب تفسیر القرآن سورۃ اذالسماء انشقت باب فسوف يحاسب حساباً يسيراً.اس میں دو روایتیں ہیں جو میں نے چنی ہیں.دونوں میں یہی مضمون ہے لیکن وہ مضمون ایک دوسرے کو کھول رہا ہے.حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی ا یہ تم نے فرمایا: جس سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہو گیا.وہ کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی ھا یہ تم میں آپ پر قربان.کیا اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا : فَامَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِيَبِيْنِهِ لا فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يَسِيران " یہ کیا بات ہے میں قربان آپ سائی یتیم کے ، آپ کی بات سچ ہے آپ صلی ال پیام فرمارہے ہیں جس سے حساب لیا گیا وہ تباہ ہو گیا لیکن ساتھ ہی قرآن کریم میں یہ بھی تو فرمایا گیا ہے : فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتبه
خطبات طاہر جلد 17 187 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء بِيَمِينِهِ لا فَسَوْفَ يُحَاسَبُ حِسَابًا يسيران.پس جسے اس کی کتاب دائیں ہاتھ سے تھمائی گئی اس سے بہت آسان حساب لیا جائے گا.آپ صلی اللہ یہ تم نے فرمایا: یہاں حساب سے مراد اعمال سے آگاہ کرنا ہے لیکن جس کے محاسبہ میں سختی کی گئی وہ ہلاک ہو گیا.“ (صحیح البخاری، کتاب تفسیر القرآن باب فسوف يحاسب..،حدیث نمبر :4939) حساب سب کا ہوگا لیکن ایک حساب وہ ہے جہاں صرف اعمال سے آگاہ کرنا مقصود ہے وہ حِسَابًا يسيرا ہے لیکن میں جو کہتا ہوں کہ ہلاک ہو گیا مراد یہ ہے کہ جس کے محاسبے میں سختی کی گئی وہ ہلاک ہو جائے گا.دوسری حدیث جو مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ : ایک دفعہ آنحضرت مصلی تم کو دوران نماز یہ دعا کرتے ہوئے سنا.اللّهُم حَاسِبُنِی حِسَابًا يَسِيرًا، اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يَسِيرًا - محمد رسول الله صلا تم یہ دعا مانگ رہے ہیں اور بار بار عرض کر رہے تھے نماز میں.اللَّهُمَّ حَاسِبْنِي حِسَابًا يُسِيرًا.اے میرے اللہ مجھ سے آسان حساب کرنا.(حضرت عائشہ فرماتی ہیں: ) جب آپ مسالا ای تم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کی اے اللہ کے نبی صلی شما یہ ستم حسابا يسيرا سے کیا مراد ہے؟ فرمایا جس کا اعمال نامہ سرسری نظر سے دیکھا گیا.“ جیسا کہ میں نے آپ سے عرض کی تھی کہ یہاں بھی جب بارڈر کر اس کئے جاتے ہیں تو بعض پاسپورٹ صرف سرسری نظر سے دیکھے جاتے ہیں.یہ دعا کر رہے تھے کہ میرا حساب نامہ بھی سرسری نظر سے دیکھا جائے.سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی یہ تم کیوں بے قرار ہیں جبکہ لازماً آپ صلی ہی تم کو علم تھا کہ اگر کوئی بے حساب بخشا جا سکتا ہے تو آپ صلی شما پس تم ہیں.اگر کسی کا اعمال نامہ سرسری نظر سے دیکھے جانے کے لائق ہے تو حضرت محمد رسول اللہ سالی یا پیام کا اعمال نامہ اس لائق تھا لیکن یہ دعا کیوں کرتے ہیں کہ میرے حساب میں آسانی کرنا.اس کی وجہ وہ انکسار ہے جو آنحضرت صلیہ ستم کا طرہ امتیاز تھا اور اس انکسار میں ایک گہری حقیقت تھی.آپ ملی شنا کہ تم جانتے تھے کہ آپ مالی شمارہ یتیم بھی فضل الہی کے سوا بخشے نہیں جاسکتے اور اپنے اعمال پر ذرہ بھی فخر کی نگاہ نہیں تھی کیونکہ جانتے تھے کہ یہ
خطبات طاہر جلد 17 188 خطبہ جمعہ 20 مارچ1998ء توفیق بھی تو اللہ ہی نے دی ہے ورنہ مجھے کیسے توفیق مل سکتی تھی کہ میں ایسے اعمال بجالا ؤں.تو انکساری اور شکر کے مزاج نے یہ دعا آپ صلی ا یتیم سے کروائی ہے.اے میرے رب میرا حساب آسان کرنا کیونکہ جو بھی مجھے عطا ہوا ہے تو نے عطا کیا ہے، تیری عطا ہے.مگر میں تیرے شکر کا تقاضا ادا کرتا ہوں اور عجز کا تقاضا ادا کرتا ہوں اور عرض کر رہا ہوں کہ وہاں بھی احسان کا سلوک ہو جیسے یہاں احسان کا سلوک ہوا ہے.پس شک کی وجہ سے نہیں بلکہ تضرعات کا حصہ ہے کہ عجز بھی اختیار کیا جائے اور شکر بھی ادا کیا جائے.پھر فرماتے ہیں: مگر اے عائشہ جس سے پوچھ گچھ کی گئی تو وہ ہلاک ہو گیا.ہر وہ مصیبت جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مومن کی کوئی غلطی معاف کر دیتا ہے حتی کہ اگر اسے کوئی کانٹا بھی چبھے تو اس کی وجہ سے اس کا کوئی گناہ معاف کر دیا جاتا ہے.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة ، حدیث نمبر : 24215 ) تو حِسَابًا يَسِيرًا کا ایک اور معنی معاف کرنا بھی فرما دیا کہ جس طرف عام انسان کی نظر پہنچ نہیں سکتی تھی.فرمایا مومن کا حساب تو اس دُنیا میں جاری ہو چکا ہوتا ہے اور مومن کے حساب میں ایک کانٹا بھی داخل کیا جاتا ہے.جو کانٹے کی تکلیف پہنچتی ہے گویا اس کو اپنے غلط اعمال کی جزا یہیں ملتی ہے اور قیامت تک پہنچنے سے پہلے اسی دُنیا میں اس کا حساب چکا کر یہ فیصلہ کر دیا جاتا ہے کہ یہ اب آسان حساب کا مستحق ہو گیا ہے کیونکہ دنیا میں ہر تکلیف، ہر بیماری، ہر مشکل ، ہر غم اس کے اعمال نامہ میں ایک جزا کے طور پر لکھا جائے گا.اب اس مضمون کو اگر آپ سمجھ لیں تو جو میں بار بار نصیحتیں کرتا آیا ہوں اور بعض لوگ نہیں سنتے کہ دنیا میں جو غم پہنچتے ہیں، جو مشکلات ہوتی ہیں وہ اگر آپ مومن ہیں تو آپ کے کھاتے میں جزا کے طور پر لکھے جائیں گے اور قیامت کے حساب کی سختیوں سے آپ بچادئے جائیں گے.یہ احسان ہے اور لوگوں کی اس احسان پہ نظر نہیں ہوتی.کوئی پیارا ہاتھ سے نکل جائے ، کوئی دکھ پہنچے، کوئی تکلیف، کچھ مال ضائع ہو تو ایسا واویلا کرنے لگتے ہیں کہ گویاوہ انہی کا تھا ، انہی کا حق ہے، لازم ہے خدا پر کہ ان سے اس دُنیا میں ہر معاملہ میں نرمی برتے اور کبھی سختی سے کام نہ لے.اس خیال کے ساتھ ان کا قیامت کا اعمال نامہ گندہ ہو جائے گا اور حساب یسیر کی فہرست سے نکل کے وہ حساب عسیر کی
خطبات طاہر جلد 17 189 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء فہرست میں داخل کر دیئے جائیں گے.اس لئے یہ سارا معاملہ کھول کر بیان کرنا ضروری تھا اور آنحضرت میایم کیو ایم کے اس معرفت کے نکتہ نے مجھے یہ بات سمجھائی جو میں آگے آپ کو سمجھا رہا ہوں کہ مومن کی یہاں کی تکلیفیں اس کے وہاں کے حساب یسیر کے لئے ضروری ہیں اور جتنی زیادہ آزمائش خدا کی راہ میں آتی ہے اتنا ہی زیادہ حساب یسیر وہاں مقدر ہو جاتا ہے.اس مضمون کو سمجھیں تو تمام انبیاء میں سب سے زیادہ تکلیفیں آنحضرت صلی السلام کو پہنچیں.ذاتی بھی ، منصب کی تکلیفیں ، دشمن کی ہر وقت کی بکواس، دل کا آزار اور جسمانی تکلیفیں.کوئی دُنیا میں ایسا نبی دکھا ئیں جس کو محمد رسول اللہ صلی شمالی تم سے بڑھ کر تکلیفیں پہنچی ہوں.اس کے بعد حساب یسیر کے سوا باقی کیا رہ جاتا ہے.کوئی دُنیا میں کہہ نہیں سکتا کہ مجھے تو تکلیف کے بدلے حساب دیا جائے محمد رسول اللہ صلی کیا یہ تم کو کون سی تکلیف پہنچی تھی.تو تکلیف اس لئے نہیں پہنچی کہ آپ صلی یا ایسی یمن کے گناہ بخشے جائیں، تکلیف اس لئے پہنچی کہ ساری دنیا کو نمونہ دکھا دیں.اس کو کہتے ہیں خدا کے رستہ میں كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فیلقیہ ہر روک سے بے نیاز ہو کے میں گزرتا چلا گیا ہوں ، ہر رستہ کے زخم مجھے پھول لگے ، ہر آزمائش میں میں کامیاب ہو کر سرفراز نکلا ہوں اگر تم چاہتے ہو کہ تم بھی اسی طرح اللہ سے ملاقات کرنے والے ہو تو میرا رستہ پکڑو.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اسی مضمون کو مزید واضح کرنے والے ہیں یا مضمون تو حضرت محمد رسول اللہ لیا ہی ہم نے واضح فرما دیا لیکن ان کی باریک راہوں کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دوبارہ دوہرایا ہے تا کہ ہمارے لئے بھی حساب یسیر کے سامان پیدا ہوسکیں.گزشتہ خطبہ میں میں نے مسٹر ڈکسن جو آسٹریلیا کا سیاح تھا اس کا ذکر کیا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک دفعہ صبح سیر پہ گئے تو اس کو کچھ نصیحتیں کیں جتنی نصیحتیں میں نے بیان کی تھیں جو آپ نے اس کو کیں ، ان کا اس مضمون سے تعلق تھا.لمبی سیر تھی اور لمبی باتیں تھیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈکسن سے کیں اور ان سب باتوں کا اس مضمون سے تعلق نہیں ہے جو میں اب بیان کر رہا ہوں.اس لئے ان کو میں چھوڑ رہا ہوں.اُس حصہ کو نکال کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس کا اس مضمون سے براہ راست تعلق ہے.جوانسان حساب یسیر کے لئے تیار کیا جاتا ہے اسے اس دُنیا میں پاک زندگی ملتی ہے اور اس پاک زندگی کے
خطبات طاہر جلد 17 190 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء سوا وہ کسی بھلائی کی توقع نہیں رکھ سکتا.پس گناہوں سے بچ کر چلنا یہ گادح إلى رَبِّكَ كَدْحًا والی بات ہے کیونکہ جب بھی انسان رب کی طرف چلتے ہوئے گناہ سے بچتا ہے تو کچھ مشقت اختیار کرتا ہے.گناہوں سے بچنا آسان نہیں ہے.ہر گناہ سے بچنے کے لئے کوئی مشقت پیش آتی ہے نیکوں کو کم اور بدوں کو زیادہ اور انبیاء کے لئے وہ مشقت رحمت اور لذت بن جایا کرتی ہے لیکن ہم عام آدمیوں کی باتیں کر رہے ہیں.اس وقت جو ہم موجود ہیں یا وہ جو خطبہ کو سن رہے ہیں ، جو آگے سنیں گے ان سب کو میں سمجھا رہا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون کو کھول کر ایک ایسا خوبصورت جزا کا نقشہ کھینچا ہے جس سے طبیعتوں میں خود بخود اس طرف لپکنے کے لئے خواہش پیدا ہو جائے گی.وہ پاک زندگی جو گناہ سے بچ کر ملتی ہے وہ ایک لعل تاباں ہے.“ لعل تاباں اس لعل کو کہتے ہیں جو چمک رہا ہے.ہر عمل اپنے اندر ایک چمک رکھتا ہے مگر اُردو کے محاورہ میں لعل تاباں اس کو کہتے ہیں جو غیر معمولی چمک رکھتا ہو، جس میں کلیۂ صفائی پائی جائے.66 ایک لعل تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں.“ اب کسی کے پاس نہیں تو پھر اس کا مطلب ہے ہر شخص اس سے محروم ہے.مراد یہ ہے کہ جس زمانہ میں یہ مامور من اللہ خطاب فرمارہا تھا اس زمانہ میں یہ عمل آپ کے سوا کسی کو نصیب نہیں تھا.وہ ایک لعلِ تاباں ہے جو کسی کے پاس نہیں ہے ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعلِ تاباں مجھے دیا ہے.(اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ کتنے محتاط ہیں.یہ نہیں فرمایا میرے پاس ہے، اس میں ایک تکبر کا رنگ پایا جاتا تھا.) ہاں خدا تعالیٰ نے وہ لعل تاباں مجھے دیا ہے اور مجھے اس نے مامور کیا ہے کہ میں دنیا کو اس لعلِ تاباں کے حصول کی راہ بتادوں.“ دیا تو ہے مگر اس لئے نہیں کہ صرف میرے پاس ہی رہے گا.اس غرض سے دیا اور مجھے مامور فرمایا گیا ہے کہ میں ساری دُنیا کو اس لعل کو حاصل کرنے کی راہ بتادوں.گویا آج کی ساری جماعت بھی اور دوسرے انسان بھی جو جماعت میں ابھی داخل نہیں وہ اس نصیحت پر غور کریں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو عل تاباں عطا ہوا ہے وہ ان کو بھی حاصل ہوسکتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 191 خطبہ جمعہ 20 مارچ1998ء اس راہ پر چل کر میں دعویٰ سے کہتا ہوں کہ ہر ایک شخص یقینا یقینا اس کو حاصل کر لے گا.“ ب مشکل راہ تو ہے مگر یقین بھی دیکھیں کیسا ہے اِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ كَدْحًا فَيُلْقِيهِ ان آیات میں جو یقین ہے وہ اس تحریر میں بھی موجود ہے کہ وہ لعل مشکل تو ہے مگر اگر اس راہ پر چلو گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ کو حاصل کر لو گے اس میں کوئی شک نہیں.” اور وہ ذریعہ اور وہ راہ جس سے یہ ملتا ہے ایک ہی ہے.جس کو خدا کی سچی معرفت کہتے ہیں.درحقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے.“ سچی معرفت کو مشکل امر بیان فرما رہے ہیں.کہتے ہیں آسان راہ اور یقینی راہ تو ہے مگر ایک مشکل امر پر موقوف ہے.اس مشکل کو اگر تم گوارا کر لو تو ہر دوسری مشکل آسان ہو جائے گی.اگر اس سے ڈر گئے تو پھر تمہیں کچھ بھی نصیب نہیں ہوگا.در حقیقت یہ مسئلہ بڑا مشکل اور نازک مسئلہ ہے کیونکہ ایک مشکل امر پر موقوف ہے.فلاسفر جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہے (کہ) آسمان اور زمین کو دیکھ کر اور دوسرے مصنوعات کی ترتیب ابلغ و محکم پر نظر کر کے صرف اتنا بتا تا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے.“ مگر ایسے فلسفی بھی دُنیا میں کم ہیں جو سب باتوں پر غور کر کے یہ فیصلہ کر سکیں کہ کوئی صانع ہونا چاہئے.میں نے Aristotle (ارسطو) کی مثال دی تھی وہ جیسا کہ بیان کیا جاتا ہے وہ بظاہر خدا کی ہستی کا قائل نہیں تھا جیسا اس کے تاریخ دان بیان کرتے ہیں لیکن اس حقیقت کو نہیں سمجھتے کہ وہ فلسفی ان فلاسفرز میں تھا جن کی تعریف مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں.اس نے جب کائنات پر غور کیا تو اس لازمی نتیجہ تک پہنچا کہ اس کائنات کی ایک وجہ اول ہونی چاہئے جو کائنات کے مادہ سے تعمیر نہ ہو بلکہ اس سے وہ مادہ تعمیر ہو جو تخلیق کے نتیجہ میں پیدا ہوگا اور اس وجہ اول کے بغیر اس کا ئنات کا وجود ممکن ہی نہیں ہے.ارسطو کو اس لئے رہتی دنیا تک خدا تعالیٰ نے ایک عظمت عطا فرمائی کہ وہ سچا فلسفی تھا اور بات کی تہہ تک پہنچ کر جو نتیجہ اخذ کرتا تھا آج تک کوئی اس نتیجہ کو جھٹلا نہیں سکا.اب یہ مسئلہ جب میں نے اس کی کتابوں میں دیکھا تو اس کے لئے میرے دل میں بڑی گہری عزت پیدا ہوئی کہ واقعہ ایسے فلسفی ہیں جو بچے ہوں تو اللہ تعالیٰ خود ان کی راہنمائی فرماتا ہے.پس ” ترتیب ابلغ ومحکم پر
خطبات طاہر جلد 17 192 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء نظر کر کے.‘ ابلغ و محکم انتہائی بلیغ ، اعلیٰ مضامین سے بھری ہوئی اور محکم جس کو ہلایا نہ جا سکے ،ٹلایا نہ جاسکے.اتنابتا تا ہے کہ کوئی صانع ہونا چاہئے.اب یہ بھی تعریف Aristotle پر پوری اترتی ہے کیونکہ اس نے صرف اتنا کہا کہ ” ہونا چاہئے لیکن اس سے ذاتی تعلق قائم نہ کیا جوسقراط نے قائم کیا تھا، جو اس کا بھی جد امجد تھا، اس کو علم سکھانے والا سقراط ہی تھا.تو یہ عجیب بات ہے کہ انسان بعض دفعہ کسی کی پیروی کرتا ہے مگر سو فیصدی پوری پیروی نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو معرفت کی باتیں بیان فرمائی ہیں ان کو سمجھنا کافی نہیں کیونکہ ارسطو نے بھی سقراط کی باتوں کو سمجھا تھا اور اسی کے نتیجہ میں اس کی منطق جب آگے بڑھی اس نے ”ہونا چاہئے تک کا مضمون حاصل کر لیا لیکن اس کو ایک زندہ وجود سمجھ کے اس سے ایک ذاتی تعلق قائم کرنے کی کسی کوشش کا کوئی ذکر ارسطو کی زندگی میں نہیں ملتا.اگر وہ صاف تھا ، اگر وہ بدیوں سے پاک تھا تو محض اس کردار کی وجہ سے جو سچائی کے نتیجہ میں ضرور پیدا ہوتا ہے خواہ انسان کسی اعلیٰ ہستی کا قائل ہو یا نہ ہو.سچائی ایک ایسی بنیادی حقیقت ہے، ایسی ہمیشگی کی ایک صفت ہے جو جس شخص میں پائی جائے گی اس میں شرافت پیدا کر دے گی.یہ شرافت اسے خدا سے ملائے گی یا نہ ملائے گی یہ الگ مسئلہ ہے.پس ارسطو میں بھی یہ سچائی کی شرافت تھی جس کی وجہ سے اس کی ساری زندگی بہت شریفانہ اور ایک نمونہ کی زندگی تھی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس سے آگے پہنچانا چاہتے ہیں.فرماتے ہیں: مگر میں اس سے بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں.( جہاں فلسفی کے قدم نہیں پڑتے وہ ایک مقام پر پہنچ کر ٹھہر جاتا ہے میں جو مامور من اللہ ہوں ایک بلند تر مقام پر لے جاتا ہوں.اور اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے.“ الحکم جلد 5 نمبر 46 صفحہ : 4،3 مؤرخہ 17 دسمبر 1901ء) یعنی فیلقیہ کا وعدہ اس دُنیا میں پورا ہو گیا.اگر چہ اس آیت کا حوالہ نہیں دیا مگر مضمون بعینہ وہی ہے.ملاقات کے بعد ذاتی تجربہ نصیب ہوتا ہے اور اگر اس دُنیا میں ملاقات نہیں ہوئی تھی تو کیسے فرما سکتے ہیں کہ میں ذاتی تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں.پس ایک ملاقات تو وہ ہے جو قیامت کے دن ہونی ہی ہونی ہے اس ملاقات کی بنیادیں اس زندگی میں قائم کی جاتی ہیں، کھڑی کی جاتی ہیں اور مرنے سے پہلے
خطبات طاہر جلد 17 193 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء انسان جان لیتا ہے کہ میں اپنے رب سے مل چکا ہوں.یہ یقین کی زندگی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مامور من اللہ کی اطاعت سے، آپ کی پیروی سے نصیب ہوگی اور اس میں جدو جہد بہت ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے بعض لوگوں کے لئے ساری عمر کی ان تھک محنت ہے یا بعض لوگوں کے لئے ساری عمر کی تھکا دینے والی محنت ہے.دونوں میں سے ایک تو لازم ہے وہ تو بہر حال اختیار کرنی ہوگی.اب ان باتوں کے بعد اپنی جماعت سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو تو قعات رکھتے ہیں وہ میں آپ کے سامنے پڑھ کے سنادیتا ہوں.فرماتے ہیں کہ میں جس رستہ کی طرف بلا رہا ہوں اگر تم میری جماعت کہلاتے ہو تو اپنے وجود سے اس بات کو ثابت کرو کہ تم میری جماعت ہو لیکن جس رستہ کی طرف میں بلا رہا ہوں اگر تم اس پر نہ چلنے والے ہو تو وہ لعل تاباں جو مجھے نصیب ہوا ہے دُنیا تو اس کو نہیں دیکھ سکتی تمہیں دیکھ سکتی ہے اور اگر تم وہ لعل تاباں نہیں ہو بلکہ گندے کوئلہ کی طرح ہو تو کیسے دُنیا کہہ سکتی ہے کہ میں امام وقت ہوں اور میرے پیچھے چلنے والوں نے لعل تاباں حاصل کر لیا یا لعلِ تاباں بن گئے.فرماتے ہیں: ” جماعت کے افراد کی کمزوری یا برے نمونہ کا اثر ہم پر پڑتا ہے.“ یہ خیال مت کرو کہ تم آزاد ہو جس طرح کی چاہو زندگی بسر کرو اور ہم پر اس کا اثر نہیں پڑے گا.اس پر اثر پڑنے کی وجہ سے نظامِ جماعت سے خارج کرنے کی مجبوری پیش آتی ہے.بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ یونہی سختی کی جارہی ہے.ہرگز یو نبی سختی نہیں کی جارہی ہختی کی مجھے تکلیف پہنچتی ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مجھے سب سے زیادہ عزیز ہیں اس لئے جب میں یہ دیکھتا ہوں کہ کسی کے بدنمونہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر غلط عکس ڈالا ہے اور ان کو دیکھ دیکھ کر لوگ غلط نتیجے نکالیں گے جب تک اصلاح کا امکان موجود ہے ان کی اصلاح کی جاتی ہے جب کٹ جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ اصلاح کے لئے تیار نہیں تو لازماً ان کو جماعت سے اس لئے الگ کرنا پڑتا ہے کہ ان کی وجہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر کوئی غلط عکس نہ پڑے.یہی بات ہے جو مسیح موعود علیہ السلام یہاں کھول رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 194 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء جماعت کے افراد کی کمزوری یا برے نمونہ کا اثر ہم پر پڑتا ہے اور لوگوں کو خواہ مخواہ اعتراض کرنے کا موقع مل جاتا ہے.پس اس واسطے ہماری طرف سے تو یہی نصیحت ہے کہ اپنے آپ کو عمدہ اور نیک نمونہ بنانے کی کوشش میں لگے رہو.“ اب یہ جو کوشش میں لگے رہنا ہے یہ میں بیان کر چکا ہوں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ سب کو خارج کیوں نہیں کر دیتے.اس لئے کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ کوشش میں لگے رہو.“ جن لوگوں کے متعلق یہ یقین ہے، ایسے آثار نظر آتے ہیں کہ وہ نیکی کی کوشش کر رہے ہیں اور اصلاح کی طرف مائل ہیں ہرگز مجھے اجازت نہیں ہے کہ ان کو جماعت سے باہر قرار دوں کیونکہ مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ مجھ پر حاکم ہیں.کوشش میں لگے رہو.جب تک فرشتوں کی سی زندگی نہ بن جاوے تب تک کیسے کہا جاسکتا ہے کہ کوئی پاک ہو گیا.“ اب یہ جو کوشش ہے اس کا انجام فرشتوں کی سی زندگی ہے اور اس زندگی کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو آیت پیش فرما رہے ہیں وہ ہے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ (التحریم: 7) کہ فرشتوں کی حالت سے مراد یہ ہے کہ جو کچھ انہیں حکم دیا جاتا ہے وہی کرتے ہیں.کیوں اور کیا اور کیسے کے سوال نہیں اٹھا کرتے.فرمایا يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ جب میری جماعت اس حال کو پہنچ جائے گی کہ جو کچھ کہا جائے گا وہ اس کو کریں گے تب میں یہ کہہ سکوں گا کہ یہ جماعت فرشتوں کے مقام کو حاصل کر چکی ہے.فنا فی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہئے.“ اب فنافی اللہ کا ایک اور مضمون تو يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ہے.دوسرا مضمون ہے جو مشکل راہ سے تعلق رکھتا ہے.فرشتے تو بنائے ہی ایسے گئے ہیں.يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.ان کی مجال نہیں ہے ادھر اُدھر ہٹ سکیں، اس راہ سے ہٹ سکیں، ان کی صفات میں بالا رادہ رستہ سے ہٹنا داخل ہی نہیں فرمایا گیا لیکن انسان جوفنافی اللہ ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے اس رستہ سے گزرنا ہوگا جسے إِنَّكَ كَادِحٌ إِلى رَبِّكَ گنگا فرمایا گیا اس کے لئے ہر قدم پر دو امکانات یا احتمالات پیدا ہوتے ہیں.نیکی کرے یا بدی کرے، نیکی کرے یا بدی کرے ان ٹھوکروں نے رستہ کو بہت مشکل بنا دیا ہے.فرماتے ہیں: ”فنافی اللہ ہو جانا اور اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہئے.“
خطبات طاہر جلد 17 195 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء اور اس پابندی میں ہر شخص جو اس مقام کو پہنچتا ہے یا پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے اس کی ذمہ داری اس وقت تک ادا نہیں ہوتی جب تک اپنے گھر اور گردو پیش کو بھی اپنے جیسا نہ بنانا چاہے.احکام کا پابند ہونا چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں، خویش واقارب اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کی یہ باتیں بے اختیار آپ کی محبت کے آنسو آنکھوں سے جاری کر دیتی ہیں.کتنا پاکیزہ، کتنا مکمل کلام ہے ، ابلغ کلام ہے.فرمایا اگر تم نے یہ لعل تاباں حاصل کر لیا ہے اس رستہ پر چل پڑے ہو جو میں کہتا ہوں تو پھر صرف تمہارا کیلے چلنا کافی نہیں.”اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہئے کہ اپنے واسطے بھی اور اپنی اولاد، بیوی بچوں ، خویش واقارب.ان سب کے لئے بھی یہی نمونہ بنو.یہی ان کو نصیحت کرو اور ان سب کے لئے رحمت بن جاؤ اور آخر پر فرمایا اور ہمارے واسطے بھی باعث رحمت بن جاؤ.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو ہمارے لئے باعث رحمت ہیں کیسا انکساری کا کلام فرماتے ہیں کہ اگر تم اس بات کا احساس رکھتے ہو کہ مجھے خدا نے مامور کر کے تمہیں کن کن مشکلات سے بچایا، کن گندی راہوں سے نکالا، کس پاک رستہ پر چلا دیا تو شکر کا حق اس طرح بھی ادا کردو کہ میرے واسطے باعث رحمت بنو.تمہاری وجہ سے لوگ میرے اعلیٰ اخلاق کو پالیں ، ان کو دیکھ لیں، تمہاری وجہ سے لوگ جان لیں کہ مجھے تو خدا تعالیٰ نے وہ لعلِ تاباں تھا دیا ہے پس جب تم وسیلہ بنو گے لوگوں کے مجھ تک پہنچنے کا تو گویا تم میرے واسطے بھی باعث رحمت ہو جاؤ گے.بہت ہی پیارا کلام، بہت ہی عاشقانہ کلام ہے اور جماعت سے جیسی محبت ہے اور جو تقاضے ہیں ان کو یہ کلام خوب کھول کر بیان فرما رہا ہے.فرماتے ہیں: مخالفوں کے واسطے اعتراض کا موقع ہرگز ہر گز نہ دینا چاہئے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُمُ 66 ظَالِم لِنَفْسِهِ وَمِنْهُمْ مُّقْتَصِدُ ۚ وَمِنْهُمْ سَابِقُ بِالْخَيْراتِ - (فاطر: 33) مراد یہ ہے فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ ان میں سے ایسا انسان بھی ہے جو اپنے نفس کی خاطر اس پر ظلم کرتا ہے.گادح إلى رَبَّكَ كَدْحًا بعینہ یہی مضمون ہے.انسان اپنے نفس کی خاطر اس پر ظلم کرتا ہے جیسے ماں بچے کی خاطر بظاہر بچے پر ظلم کرتی ہے.ایک استاد طالب علم کی خاطر بظاہر اس پر ظلم کرتا
خطبات طاہر جلد 17 و 196 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء سخت کام لیتا ہے، اتنا گھر کا کام دے دیتا ہے کہ بے چارے کے لئے گھر میں بھی آرام میسر نہیں آتا.یہ مضمون ہے ظالِم لِنَفْسہ، ہر انسان اپنے نفس سے بھی اس کی خاطر ایسا سلوک کرتا ہے جو مشکل ہو مگر ہواس کی خاطر.وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ اور ان میں مقتصد بھی ہیں جو نسبتا تو ازن اختیار کرنے والے یعنی کچھ ظلم بھی کرتے ہیں کچھ نہیں بھی کرتے خدا جتنی توفیق دیتا ہے ہلکے قدموں کے ساتھ اس راہ پر چلتے ہیں.وَ مِنْهُم سَابِقٌ بِالْخَيْراتِ اور ان میں سے ایسے بھی ہیں جو خیرات میں سب کو پیچھے چھوڑ جاتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں پہلی دونوں صفات ادنی ہیں.ظالِم لِنَفْسِہ اور مقتصد کی صفات نسبتا ادنی ہیں.سابق بِالْخَيْراتِ بنا چاہئے ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.“ فرما یا ظالم لنفسہ اور مقتصد اپنی ذات میں اچھی صفات ہیں مگر ان کے ساتھ سابق بِالْخَيْراتِ کو مجڑ جانا چاہئے.یہ ایک بالکل نیا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان آیات کے تسلسل اور رابطے میں بیان فرماتے ہیں.عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ سابق بِالْخَيْراتِ ان سے الگ بالکل الگ انسان ہے.یہ لوگ اپنی اپنی جگہ اچھے ہیں اور وہ اپنی جگہ اچھا ہے.یہ پہلی دفعہ میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تحریر میں پڑھا اور اس کی حقیقت سمجھا کہ ظَالِم لِنَفْسِ اور مُقْتَصِدٌ بھی تب خدا تعالیٰ کی نظر میں مقبول ٹھہرے گا اگر وہ سابق بِالْخَيْراتِ بھی ہو.اور سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ ان دونوں خوبیوں سے کاٹ کر کوئی الگ مضمون نہیں ہو سکتا.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر کو اب میری وضاحت کے بعد غور سے سنیں تو آپ کو بات سمجھ آ جائے گی.پہلی دونوں صفات ادنیٰ ہیں.سابق بِالْخَيْراتِ بنا چاہئے.ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا ہے.“ پس اگر اپنے نفس پر ظلم کرنے والا ایک دو دفعہ کی آزمائش میں پڑ کر وہیں ٹھہر جائے تو وہ ، وہ شخص نہیں ہے جو کامیابی کو پالے گا.اگر درمیانی راہ اختیار کرنے والا کچھ عرصہ اعتدال اختیار کر کے پھر تھک جائے تو وہ ہر گز نیکی کو پانے والا نہیں ہے.فرمایا اس کے لئے لازم ہے کہ وہ جاری رہے.ایک ہی مقام پر ٹھہر جانا کوئی اچھی صفت نہیں ہے.دیکھو ٹھہرا ہوا پانی آخر گندہ ہو جاتا 66 ہے، کیچڑ کی صحبت کی وجہ سے بد بودار اور بدمزہ ہو جاتا ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 197 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء جب پانی ٹھہر جاتا ہے، پانی خود تو اچھی چیز ہے جیسا کہ یہ دونوں صفات بیان کر رہی ہیں لیکن کیچڑ کی آمیزش کی وجہ سے کیونکہ وہ ٹھہر گیا اس لئے کیچڑ پیدا ہوا.(وه ) بد بودار اور بدمزا ہو جاتا ہے.چلتا پانی ہمیشہ عمدہ ، ستھرا اور مزے دار ہوتا ہے اگر چہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہومگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کر سکتا.“ یہ معرفت کا نکتہ سب کو سمجھنا ضروری ہے.ہم جو خدا کے عام بندے ہیں جن کو بہت اعلیٰ بلند مقامات نصیب نہیں ہوئے وہ اپنے نفس کے اندر تہ میں کیچڑ دیکھ کر گھبرائیں نہیں.کیچڑ سے پاک ہونا بہت بعد کی بات ہے لیکن اگر وہ چلتے پانی بنے رہیں گے تو ان کے نفس کا کیچڑ ان کے اعمال کو گندہ نہیں کر سکے گا اور ان سے بد بو نہیں آئے گی.ان سے خوشبو اٹھے گی اور ایسا صحت والا پانی بنیں گے جس کو لوگ پئیں گے اور سیراب ہونگے اور اس سے لطف اندوز ہوں گے.پس کتنی بار یک مثالیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام دے دے کر ہمیں متوجہ فرما رہے ہیں کہ گناہ اور نیکی کی حقیقت کیا ہے اور خدا کے ہاں کیا بات مقبول ہے.” چلتا پانی ہمیشہ عمدہ ، ستھرا اور مزے دار ہوتا ہے اگر چہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہو.اب اس میں بھی فرمایا ہے.صاف پتا چلتا ہے کہ بعضوں میں نہیں ہوتا اور کتنے باریک، لطیف اشارہ سے بتا دیا ہے کہ خدا کے ایسے بھی پاک بندے ہیں جن میں کیچڑ نہیں ہوتا مگر بعضوں میں کیچڑ بھی ہوتا ہے.پس میں کئی دفعہ جماعت کو توجہ دلا چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ہر لفظ پر ٹھہر کر غور ضروری ہے ورنہ اس کی گنہ کو آپ پاہی نہیں سکتے.ایک ایک لفظ موتی کی طرح وہیں جڑا ہوا ہے جہاں اسے جڑا ہونا چاہئے.اگر چہ اس میں بھی نیچے کیچڑ ہومگر کیچڑ اس پر کچھ اثر نہیں کر سکتا.یہی حال انسان کا ہے کہ ایک ہی مقام پر ٹھہر نہیں جانا چاہئے (کہ) یہ حالت خطرناک ہے.ہر وقت قدم آگے ہی 66 رکھنا چاہئے.نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدا ( تعالی ) انسان کی مدد نہیں کرتا.“ اب ” نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدا انسان کی مدد نہیں کرتا.“ إِنَّ اللَّهَ لَا يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُخَيَّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمُ (الرعد: 12) کا مضمون دوسرے لفظوں میں بیان فرما دیا ہے.ایک تو یہ بات ہے کہ اللہ توفیق نہ دے تو نیکی کی طرف قدم آگے نہیں بڑھ سکتا لیکن دوسری طرف انسان کوشش نہ کرے اور یہ سمجھے کہ اللہ مجھے نیک کر دے گا یہ درست نہیں ہے.کوشش کی طرف متوجہ ہونا ضروری ہے
خطبات طاہر جلد 17 198 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء اور یہ کوشش ہے جس کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں ، ہر وقت قدم آگے ہی رکھنا چاہئے نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدا ( تعالیٰ) انسان کی مدد نہیں کرتا.“ یہ ایک امر واقعہ ہے کہ جو شخص نیکی کی جانب چاہے تھوڑی رفتار سے چل رہا ہو اس کو ضر ور غیب سے مددملتی ہے.کوئی چیز ٹھہری ہوئی نہیں جب وہ ٹھہر جائے گا تو Stagnant ہونے لگے گا.اس کے اندر کیچڑ پیدا ہونا شروع ہو جائے گا اور پھر وہ کیچڑ کی جانب رخ اختیار کر لے گا اور گندے سے گندہ تر ہوتا چلا جائے گا.یہ ایسا قانون قدرت ہے جس میں کوئی استثنا نہیں ہے.اب جتنے گندے کیچڑ ہیں ان پہ نگاہ کر کے دیکھیں وہ جتنی دیر ٹھہرے رہتے ہیں اور بد بودار، اور بدبودار ہوتے چلے جاتے ہیں اور جراثیم کی آماجگاہ بن جاتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں : ور نہ خدا تعالیٰ ) انسان کی مدد نہیں کرتا اور اس طرح سے انسان بے نور ہو جاتا ہے جس کا نتیجہ آخر کار بعض اوقات ارتداد ہو جاتا ہے اس طرح سے انسان دل کا اندھا ہو جاتا ہے.“ (الحکم جلد 12 نمبر 16 صفحہ: 6 مؤرخہ 2 مارچ 1908ء) تو یہ ٹھہرنے کے نتائج ہیں.بعض دفعہ ارتداد اختیار کر جاتا ہے.بعض دفعہ نہیں بھی کرتا مگر دل کا اندھا ہوتا ہے، اہل بصیرت میں شمار نہیں ہو سکتا.اس لئے ضروری نہیں کہ ارتداد والا ہی جماعت سے نکلتا ہے بعض لوگ جماعت میں ٹھہرے ہوئے جماعت سے نکل جاتے ہیں.تبلیغ رسالت جلد دہم صفحہ 72 تا 75 پر یہ عبارت درج ہے اس میں سے یہ عبارت لی گئی ہے.جواب میں پڑھ کر سنانے لگا ہوں.نیکی کرو اور خدا کے رحم کے اُمیدوار ہو جاؤ.“ اب اس ایک فقرہ میں بہت سے ایسے لوگوں کی حالت کھول دی گئی ہے جو نیکی نہیں کرتے اور رحم کے امیدوار ہوتے ہیں اور بدنصیبی سے دُنیا کی اکثریت ایسی ہے.مسلمان ممالک بھی بھرے پڑے ہیں ایسے مولویوں سے جو یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ نیکی نہ کرو اور رحم کے طالب ہو، اللہ تعالیٰ رحم کرنے والا ہے ، بڑا غفور و رحیم ہے ، محمد رسول اللہ صلی ا یتیم شفاعت فرما دیں گے.یہ بالکل جھوٹ ہے، ہرگز ایسا نہیں ہوگا.قرآن کریم کی آیات پر نظر فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو نتیجہ
خطبات طاہر جلد 17 199 خطبہ جمعہ 20 مارچ 1998ء نکالا ہے اس کے سوا اور کوئی حقیقت نہیں ہے.نیکی کرو اور خدا کے رحم کے اُمیدوار ہو جاؤ.‘ نیکی کرو تو خود بخود کیوں نہیں آپ نجات پاسکتے یہ بھی تو سوال ہے.نیکی کرو اور خدا کے رحم کے امیدوار ہو جاؤ.“ اس کا مطلب ہے کہ نیکی کا پھل اللہ کے رحم کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتا.ایک شخص یا ایک کسان کی مثال لیں جو زمین میں اچھے پودے لگاتا ہے ، اچھے درخت لگا تا ہے اگر وہ خدا کے رحم کا اُمیدوار نہیں ہوتا اور اپنی محنت پر انحصار کرتا ہے تو بسا اوقات وہ پودے اور اس کی فصلیں پھل سے پہلے ہی برباد ہو جاتی ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ پھل لگتا ہے تو کڑوا پھل لگتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوسکتا ہے.بادام دیکھیں کتنی اچھی ایک نعمت ہے اور میٹھے بادام کثرت سے لوگ اپنے دماغ کی طاقت کو بڑھانے کے لئے استعمال کرتے ہیں اور بھی بہت سے فوائد ہیں مگر اگر بادام کڑوا ہو جائے تو اس میں ایک ایسا زہر ہے جس سے زیادہ تیز زہر دنیا میں موجود ہی نہیں، بہت ہی زہریلا بن جاتا ہے لیکن وہ اتنی معمولی مقدار میں اس کا زہر ہوتا ہے کہ اگر چہ اس کا کھانا ایک انسان کے لئے ایک عذاب ہے مگر پھر بھی وہ قاتل نہیں ہوتا ، بہت تھوڑا ہوتا ہے.تو حقیقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا: ” اور خدا کے رحم کے اُمیدوار ہو جاؤ.اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمہاری نیکی پھل نہیں لاتی اور اللہ کا رحم اس میں شامل حال نہیں ہوتا تب تک تم کسی اچھے آخری نتیجہ کے اُمیدوار نہیں ہو سکتے.خدا تعالیٰ کی طرف پوری قوت کے ساتھ حرکت کرو اور اگر یہ نہیں تو بیمار کی طرح افتان و خیزاں اس کی رضا کے دروازہ تک اپنے تئیں پہنچاؤ.“ ( مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحه : 629) بہت ہی دردناک نقشہ کھینچا ہے ان لوگوں کا جو نیکی کر نہیں سکتے مگر بے انتہا خواہش رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچنے کی طاقت نہیں مگر ان الفاظ میں جو نقشہ کھینچا گیا ہے یہ ان کے لئے ایک مشعل راہ بن جاتا ہے لیکن اس سے آگے انشاء اللہ اگلی دفعہ مضمون کو چلائیں گے.
خطبات طاہر جلد 17 201 خطبہ جمعہ 27 مارچ 1998ء آپ لوگ اپنے مشورہ کی طاقت کو بڑھائیں نمائندگان مجلس شوری کے لئے ضروری ہے کہ وہ نمونہ بنیں (خطبه جمعه فرمودہ 27 مارچ 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورہ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَا نُفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرُ لَهُمُ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ ۚ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران :160) پھر فرمایا: b آج اس آیت کی تلاوت اس لئے کی جا رہی ہے کہ آج ربوہ میں جماعت ہائے احمدیہ پاکستان کی مجلس شوری منعقد ہو رہی ہے اور ان کی یہ خواہش تھی کہ حسب سابق میں براہ راست ان کی مجلس شوری سے خطاب کروں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے مجلس شوری بغیر کسی روک کے، یعنی روک تو تھی مگر بغیر کسی انقطاع کے ، میری غیر حاضری میں اسی طرح جاری رہی ہے.اگر چہ دقتیں تھیں اور ہیں اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ کب تک رہیں مگر مجلس شوریٰ ہر سال ضرور منائی گئی ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کے تقاضے اس کی روح کے ساتھ پورے کئے گئے ہیں.اگر چہ بعینہ وہی شکل نہیں ہے جو میرے وہاں ہوتے ہوئے ہوا کرتی تھی مگر تبد یلی حالات کے ساتھ کچھ شکل کی تبدیلی بھی ضروری تھی جو اختیار کی گئی.
خطبات طاہر جلد 17 202 خطبہ جمعہ 27 مارچ 1998ء یہ آیت کریمہ جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ بارہا تلاوت کر چکا ہوں.نہ صرف پاکستان کی مجلس شوری کے موقع پر بلکہ دیگر ممالک کی مجالس شوری کے موقع پر بھی انہی آیات کی اکثر تلاوت ہوتی رہتی ہے لیکن ہر دفعہ غور پر کچھ نہ کچھ ایسا مضمون سجھائی دیتا ہے جس کی طرف پہلے خیال نہیں گیا تھا لیکن مجھے چونکہ پوری طرح یاد نہیں کہ پہلے کیا کچھ کہہ چکا ہوں اس امید پر کہ اللہ تعالیٰ کچھ اور نکتے بھی سمجھائے گا جو اس آیت سے تعلق رکھتے ہیں، میں مختصر تبصرہ کرتا ہوں.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِنَ اللهِ لِنْتَ لَهُم آنحضرت صلی اسلم کو مخاطب کر کے فرمایا گیا ہے کہ چونکہ تو رحمت ہے فَبِمَا رَحْمَةٍ کا مطلب ہے اللہ کی رحمت کی وجہ سے مگر اصل میں رحمت کا اشارہ آپ صلی یا یہ تم کے رحمتہ للعالمین ہونے کی طرف ہے.فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللهِ لِنْتَ لَهُم جو بھی آنحضرت صلی شما سیستم کے گردو پیش میں تھے پھر جنہوں نے بعد میں آنا تھا میرے نزدیک لِنتَ لَهُمُ کا فعل ان سب پر واقع ہو رہا ہے کیونکہ آپ مینی سیستم رحمت صرف عربوں کے لئے تو نہیں تھے ، آپ صلی سیستم رحمت صرف ان کے لئے تو نہیں تھے جو غیر عرب تو تھے مگر آپ سلام کی صحبت سے فیض یاب ہوئے.رحمت کا لفظ واضح طور پر یاد دلا رہا ہے کہ آنحضرت ملا یہ تم کواللہ تعالیٰ نے رحمۃ للعالمین قرار دیا تھا.تو جس نے سارے جہان کو ایک رسی میں باندھنا ہو، جس نے گل جہان کو جو اس وقت موجود تھا یا جس نے بعد میں دریافت ہونا تھا حضرت اقدس محمد مصطفی صل اللہ ا یہ تم کے اس جھنڈے تلے اکٹھا کرنا تھا جو خدا نے آپ میلی لی ایم کے ہاتھ میں تھمایا تھا اس کے لئے لِنتَ لَهُمُ کی صفت انتہائی ضروری تھی کیونکہ اگر اکٹھا کرنے والے کو ان سے جن کو وہ اکٹھا کرنا چاہتا ہے بے حد پیار اور محبت نہ ہو تو وہ اکٹھا نہیں کرسکتا.پس آپ مالی اسلام کا اکٹھا کرنے کا فعل چونکہ اس زمانہ تک محدود نہیں تھا اس لئے لنت سے متعلق ہمیں لا ز ما یہ نتیجہ نکالنا پڑے گا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ا یہ تم ہر زمانہ کے انسان سے محبت رکھتے تھے اور ہر زمانہ کے انسان کے لئے یہی آپ کی محبت ہے جو ان کو ایک لڑی میں پرو دے گی.یہ کیسے ہوسکتا ہے؟ عقلی طور پر سوچنے کی بات ہے کہ آنحضرت صلی لای پیم کو گزرے ہوئے آج سے پہلے چودہ سو سال سے زائد برس گزر چکے ہیں اور آپ صلی اینم کی آج کل ہم سے ، اور تمام بنی نوع انسان سے محبت ، ہمیں کیسے ایک لڑی میں پروسکتی ہے.اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دراصل آنحضرت سلیم کی دعا ئیں تھیں جنہوں نے آئندہ کام آنا تھا کیونکہ اور کوئی براہ راست ذریعہ نہیں ہے کہ آپ مسلی یا سیستم
خطبات طاہر جلد 17 203 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء ہمیں اکٹھا کر سکتے.پس حضور اکرم سایتم کے سپر دوہ کام کیا گیا جو آپ ملی تم اپنی شخصی صلاحیتوں پر انحصار کرتے ہوئے ادا نہیں کر سکتے تھے لیکن وہ صلاحیتیں جب اللہ تعالیٰ سے تعلق جوڑ لیں تو پھر سب کچھ ادا کر سکتے تھے، ہر فریضہ ادا کر سکتے تھے.پس اس آیت کریمہ کالا زما یہ مطلب نکلتا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سلی یا ایم کی صلاحیتیں جب خدا کی طاقتوں سے بجھ گئیں اس وقت آپ سی ایم کے دل کی تمام دعا ئیں آئندہ کے لئے مقبول ہوئیں اور وہ عظیم الشان فریضہ جو سب دُنیا کو باندھ دینے کا تھا وہ ان دعاؤں سے ، ان محبت بھری دعاؤں کے نتیجہ میں بالآخر پورا ہوا اور پورا ہوگا.پس ہم سب کے لئے اس میں کتنا گہر اسبق ہے.ہم نے بھی اپنے اپنے دائرہ میں لوگوں کے دل باندھنے ہیں اور یہ دائرے پھیلتے پھیلتے اب ایک سو ساٹھ ممالک سے بھی اوپر جاچکے ہیں.یہاں بیٹھے ان سب کو ایک لڑی میں پرونا میرے جیسے عاجز انسان کے لئے تو یقیناً ناممکن ہے مگر حضرت اقدس محمد مصطفی سلی یا یہ تم کی پیروی کرتے ہوئے اور دو باتوں پر انحصار کرتے ہوئے ایک یہ کہ آنحضرت صلیہ کی یلم کی دعائیں ہماری ممد ہیں اور ان دعاؤں کی ہواؤں کے رخ پر اگر ہم چلیں گے تو ضرور کامیاب ہونگے.دوسرے ذاتی طور پر ہم میں سے ہر ایک جو کسی ایک دائرہ کا نگران ہے، اسے اکٹھا کرنا چاہتا ہے اس پر فرض ہے کہ وہ اس کے لئے دعائیں کرے اور محبت کے ساتھ دعا ئیں کرے کیونکہ رسول اللہ صلی ا یہ تم کی دعا ئیں محبت سے عاری نہیں تھیں.لنت کے لفظ میں یہ محبت کا مضمون داخل ہے اور رحمت کے لفظ نے اسے اور بھی اُجا گر کر دیا.پس مجلس شوری پاکستان کو خصوصاً موجودہ حالات میں اس نکتہ کو یاد رکھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ مخالف ہوا ئیں بھی چل رہی ہیں، ایسی مخالف ہوائیں چل رہی ہیں جو اس مضمون کے بالکل برعکس نتیجہ پیدا کرنا چاہتی ہیں.جہاں جہاں بھی جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ کے فضل سے نمایاں کامیابیاں نصیب ہوئی ہیں اور پاکستان کے باشندوں نے آنکھیں کھول کر شرح صدر کے ساتھ احمدیت کو قبول کیا ہے کہ انہیں کامل یقین ہے کہ یہ احمدیت وہی مذہب ہے جو آنحضرت صلی اسلام کے ہاتھ سے جاری ہوا اور سر مو بھی اس میں فرق نہیں.جب تک یہ یقین نہ ہوتا ناممکن تھا کہ پاکستان میں احمدیت پھیلتی کیونکہ احمدیت کے پھیلنے کے نتیجہ میں بہت سی مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، قدم قدم پر قربانیاں ہیں.واقعہ گھر جلائے جاتے ہیں ، فرضی طور پر نہیں واقعۂ
خطبات طاہر جلد 17 204 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء گھر جلائے جاتے ہیں اور محض اس لئے کہ ان لوگوں نے اللہ اور محمد مصطفی صل للہ یہ تم کا پیغام قبول کر لیا ہے.اس بنا پر نہیں جلائے جاتے جس بنا پر روز سینکڑوں، ہزاروں بلکہ اب تو شاید لاکھوں گھر پاکستان میں جل رہے ہونگے.اب تو ان کا شمار ہی کوئی نہیں رہا مگر ان میں ایک بھی گھر اس بنا پر نہیں جلایا گیا کہ اس کے باشندوں نے آنحضرت صلیہ ستم اور اللہ تعالیٰ کی محبت میں اپنا سر جھکا دیا تھا اور وہی کچھ کرنے لگے تھے جو ان کی سنت کی تعلیم تھی.اس بنا پر گھر نہیں جلائے جا رہے.اس بنا پر اگر گھر جلائے جار ہے ہیں تو صرف احمدیوں کے جلائے جا رہے ہیں اور کوئی بھی وجہ نہیں سوائے اس کے کہ انہوں نے اللہ اور رسول کے پیغام کو قبول کر لیا اور اس امام کو تسلیم کر لیا ہے جو آنحضرت صلی ا یہ تم کی پیشگوئیوں کے مطابق ظاہر ہوا تھا.یہ ہے سارا جھگڑا اور اتنے مشکل حالات میں آپ کو سب نو مبائعین کو بھی اکٹھے باندھے رکھنا ہے اور احمدیوں کو بھی اکٹھے باندھے رکھنا ہے.ایک ایسا دور آیا تھا جب احمد یوں میں انتشار شروع ہو چکا تھا یعنی میری عدم موجودگی میں ایک ایسا وقت آیا تھا اور یہ انتشار بالا رادہ ملا کی طرف سے اس طرح پھیلایا جارہا تھا کہ جماعت احمدیہ کی اصل تعلیم ان تک پہنچانے کے سارے رستے بند کر چکے تھے اور جماعت احمدیہ کے خلاف ہر بات ان تک پہنچانے میں وہ آزاد تھے اور اس سلسلہ میں ان کا ریڈیو اور ان کی ٹیلی ویژن بھی محمد ومددگار تھی.یہ وہ دور تھا جو میرے لئے سب دوروں سے زیادہ سخت تھا کیونکہ کوئی رستہ نہیں نکل رہا تھا کہ کس طرح یہ احمدیوں کو ہم سمجھا ئیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کی تعلیم کے خلاف یہ بالکل جھوٹا پروپیگنڈا ہے، اس میں ایک ذرہ بھی سچائی نہیں جو اس وقت کثرت سے خصوصاً دیہاتی جماعتوں میں کیا جارہا تھا اور اس کے جواب میں ہم کچھ بھی نہیں کر سکتے تھے.کبھی کوئی مربی پہنچے بھی تو دیر کے بعد ایک مربی کا پہنچنا جبکہ اس کے جانے سے پہلے ہی بہت سے دل میلے ہو چکے ہوتے تھے ان لوگوں کو مربی کی بات سننے سے بھی محروم کر دیتا تھا.یہ ایک بہت ہی بھیانک دور آیا ہے ہماری تاریخ میں جس کا علاج ہمارے بس میں نہیں تھا.یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل واحسان ہے کہ MTA کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے اس کا جواب دیا اور گھر گھر ہماری آواز پہنچنے لگی اور دشمنوں تک بھی یہ آواز پہنچنے لگی اور شدید مخالفین تک بھی یہ آواز پہنچنے لگی اور اندر اندر ایک انقلاب کے رونما ہونے کی داغ بیل ڈال دی گئی.یہ بھی اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم کی
خطبات طاہر جلد 17 205 خطبہ جمعہ 27 مارچ 1998ء دعاؤں سے یہ بات رونما ہوئی ہے جیسا کہ میں نے دعوی کیا تھا کہ آپ صلی اینم کی دعائیں ہمارے ساتھ ہیں.اب ثبوت پیش کر رہا ہوں کہ دیکھ لو یہ ہمارے ساتھ ہیں ورنہ دُنیا میں اور کوئی جماعت نہیں خواہ کسی مذہب سے بھی تعلق رکھتی ہو جس کو خدا تعالیٰ نے یہ توفیق عطا فرمائی ہو کہ چوبیس گھنٹے اس کی آواز تمام دنیا کی غلط فہمیاں دور کرنے اور اسلام کی سچائی کو ثابت کرنے میں ہر کونے تک پہنچے، دنیا کا کوئی بھی گوشہ ایسا نہ ہو جو اس آواز سے محروم رہ جائے.پس یہ آپ کو سمجھانے کی خاطر MTA کی تفصیل بیان کی ہے مگر آپ لوگوں کے لئے اس میں جہاں ایک خوشی اور شکر کا مقام ہے وہاں کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں جو آپ پر عائد ہوتی ہیں..MTA کو عام کرنے کے لئے جماعت احمدیہ نے بہت کوشش کی کہ جس حد تک ممکن تھا انٹیناز مہیا کئے جائیں اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اب تک کی رپورٹ کے مطابق بھاری تعداد میں جماعتوں کو وہ انٹیناز مہیا ہیں جو MTA کا پیغام سن سکتے ہیں اور دیکھ سکتے ہیں یعنی وہ آواز جو خلیفہ کی آواز براہ راست ان کو باندھنے کے لئے مُمد ہو سکتی تھی وہ پہلے شاذ کے طور پر احمدی کانوں تک پہنچا کرتی تھی اور اب وہ روز بلا ناغہ ہرلحہ ان تک پہنچ رہی ہے.یہ اتنا عظیم الشان احسان ہے کہ اس کا جتنا بھی شکر ادا کریں عمر بھر شکر ادا کرتے رہیں تو وہ پورا نہیں ہوسکتا لیکن اس کے ساتھ ہی مشکلات جو پیدا ہو رہی ہیں ان پر بھی غور کرنا ہو گا.جن جگہوں میں یہ آواز پہنچ رہی ہے ان میں حکمت اور دانائی کے ساتھ اس معاملہ کو پھیلانا چاہئے.بعض لوگ کم منہمی کے نتیجہ میں یا تبلیغ کے جوش میں زیادتی کی وجہ سے بغیر جائزہ لئے کہ کوئی شخص شریف ہے یا شریر ہے، بچا ہے یا جھوٹا ہے،سیدھا صاف ہے یا منافقت رکھتا ہے وہ اپنے شوق میں ان کو MTA پر دعوت دینے لگ جاتے ہیں اور بہت دفعہ یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ شخص ارادۂ کھوج لگانے کی خاطر آتا ہے اور جا کر تھانوں میں رپورٹ کر دیتا ہے کہ یہ MTA کے ذریعہ احمدیت کی تبلیغ کر رہے ہیں ان کو پکڑو اور بعض دفعہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ MTA کے ذریعہ نخش باتیں پھیلا رہے ہیں اور اس صورت میں بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگ گھیراؤ کر کے آجاتے ہیں، اس جگہ پتھر اؤ ہوتا ہے جہاں MTA دکھائی جا رہی ہے اور یہ ہدایت کا رستہ حکومت کی طرف سے جبراً بند کر دیا جاتا ہے.یہ کم جگہوں پر ہوتا ہے لیکن جب ہوتا ہے تو تکلیف کا موجب بنتا ہے.اس صورت حال کو Avoid کیا جا سکتا تھا یعنی اس صورت حال سے انصراف کر کے اپنے مقصد کو
خطبات طاہر جلد 17 206 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء پایا جا سکتا تھا.تو ایک تو آپ لوگ جو میری آواز سن رہے ہیں وہ یہ بات دوسروں تک بھی پہنچائیں اور اپنی حکمت عملی کو پہلے سے زیادہ مضبوط کریں لیکن اب میں آپ کو یہ نہیں کہتا کہ آپ جب واپس جائیں تو اپنے اپنے گاؤں میں یہ بات پھیلائیں کیونکہ آپ کی واپسی سے پہلے اس لمحہ ان سب گاؤں تک یہ آواز براہ راست پہنچ گئی ہے جو آپ نے مجھ سے سن کر آگے پہنچانی تھی.آپ کا چونکہ انتظام سے تعلق ہے اس لئے انتظامی پہلو کے لحاظ سے آپ مستعد ہو جائیں لیکن جہاں تک احمدی عوام الناس کا تعلق ہے وہ براہ راست آواز سن رہے ہیں اور خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ اس پر عمل کر رہے ہیں اور کریں گے.دوسری بات جو اس تعلیم میں دی گئی ہے وہ یہ ہے کہ نرمی کا جو پہلو رسول اللہ لی ایم کے تعلق میں بیان ہوا ہے اس کا ایک لازمی نتیجہ یہ ہے کہ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ کہ جن کے لئے تیرا دل نرم ہو گیا جن کی محبت میں تو مبتلا ہو گیا ابھی ان کی تربیت نہیں ہوئی ان سے غلطیاں ہوں گی اور جب غلطیاں ہوں گی تو اس وقت ان سے نرمی کا سلوک کرنا.اگر سختی سے پکڑ کی گئی تو اس کے نتیجہ میں یہ لوگ تجھ سے دور ہٹنے لگ جائیں گے.یہ جو نرمی کا سلوک ہے اور قریب کرنا ہے اس مضمون پر میں پہلے تفصیل سے روشنی ڈال چکا ہوں کہ ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آنحضور صلی یتم خدا کی تعلیم کو نافذ کرنے کی خاطر ان لوگوں سے ناراض نہیں ہوتے تھے جو اس راہ میں روک بنا کرتے تھے یا منہ سے تو اقرار کرتے تھے کہ آنحضرت صلی لا یتیم کے غلام ہیں اور عملاً بعض دفعہ ایسی کو تا ہیاں ہو جاتی تھیں کہ وہ غلامی کے تقاضے پورے نہیں کرتے تھے.تاریخ اسلام بھری پڑی ہے ایسے واقعات سے یا اگر بھری پڑی نہیں تو یہ کہنا چاہئے کہ تاریخ اسلام سے قطعیت سے ایسے واقعات ثابت ہیں کہ آنحضرت صلی بھی انفرادی طور پر لوگوں سے ناراض ہوئے ،صحابہ سے ناراض ہوئے کبھی اجتماعی طور پر بڑے گروہوں سے ناراض ہوئے اور آپ صلی یم کی ناراضگی میں ایک عزم پایا جا تا تھا جو دل کی نرمی کے برعکس کام کرتی تھی یعنی آپ سنایی ایم کی ناراضگی چونکہ اللہ کے لئے تھی، آپ مالی یا یہ تم کو ناراضگی بنانے کی خاطر خالصہ اللہ کی مرضی پر انحصار کرنا پڑتا تھا اور یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ آپ صلی یا تم ناراض ہوں لیکن دل میں ان کے لئے درد محسوس نہ کریں.ناراض ہوتے تھے تو دل میں درد محسوس کرتے تھے ، دل میں درد محسوس کرتے تھے تو ان کے لئے دعائیں اٹھتی تھیں.یہ مضمون
خطبات طاہر جلد 17 207 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء ہے جس کا فَاعْفُ عَنْهُمْ سے تعلق ہے.وَاسْتَغْفِرْ لَهُمُ اب عفو کافی نہیں ہے جب تک ان کے لئے بار بار استغفار نہ کیا جائے.اب یہ عجیب مضمون ہے کہ بظاہر تو یوں لگتا ہے جیسے کرے کوئی اور بھرے کوئی یعنی گناہ کسی اور نے سرزد کیا اور معافیاں حضرت رسول اللہ صلی ہلت مانگیں لیکن اس کے سوا آپ مسی تھا یہ کام کی رحمت کا کوئی تصور ہی نہیں.سب دُنیا کے گناہوں کے لئے آپ مالی مالی تم نے استغفار کیا ہے.پس عیسائیوں کے لئے اس میں ایک سبق ہے.کوئی اور کفارہ گناہوں کا استغفار کے سوا ممکن نہیں ہے کیونکہ استغفار سے گناہ جھڑتے ہیں اور گناہوں کا بوجھ اٹھانے سے گناہ جھڑتے نہیں بلکہ ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے.اگر ایک شخص کو کہا جائے کہ کرو گناہ تمہارا بوجھ میں اٹھالوں گا تو اس سے اس کے گناہ جھڑ کیسے جائیں گے.اس کی تو حوصلہ افزائی ہوگی مزید گناہ کرنے کے لئے لیکن استغفار کے نتیجہ میں اگر وہ مقبول ہو جائے تو گناہوں کا رجحان ختم ہو جاتا ہے.وہ مٹی کے نیچے دفنا دئے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایسا شخص پھر اس قابل ہوتا ہے کہ وہ دل کی صفائی اور نیت کی نیکی کے ساتھ قابل اعتماد ہو جائے جب یہ ہو تو پھر ان سے مشورہ کرنا ہے.بے ایمانوں، بددیانت لوگوں اور گندے لوگوں سے مشورہ کا قرآن کریم میں کہیں بھی حکم نہیں ہے.اس مضمون کو آپ سمجھیں کہ آپ کو مجلس شوری پر بلایا گیا ہے تو قرآن کریم کی اس تعلیم کی روشنی میں بلایا گیا ہے.وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شَاوِرُهُمْ فِي الْآمر پہلے اُن کی صفائی کرو، اُن کو پاک کرو، اُن کو اس لائق بناؤ کہ وہ مشورہ دے سکیں اور جب وہ ایسے ہو جا ئیں تو اُن کو مشورہ کے لئے بلاؤ.جب مشورہ کے لئے بلایا جائے تو تعلقات اور بھی بڑھ جاتے ہیں.لِنتَ لَهُمُ کا مضمون پیچھے نہیں رہ جاتا بلکہ آگے بڑھتا ہے کیونکہ جب بھی آپ کو کوئی شخص مشورہ کے لئے بلائے تو آپ اپنے دل میں اس بات پر غور کر سکتے ہیں کہ اس وقت آپ اپنی اہمیت کیا سمجھ رہے ہیں.جب کوئی مشورہ کے لئے بلاتا ہے تو آپ اپنے دل میں ایک قسم کا اعزاز پاتے ہیں کہ میرا اعزاز کیا گیا ہے اور جس کا اعزاز ہو، اگر وہ اس طرح پاک وصاف ہو چکا ہو جیسے رسول اللہ صلی ا یہی تم نے اُن کو بنادیا تھا تو وہ پہلے سے بڑھ کر آپ کی محبت میں مبتلا ہو جاتے تھے.پس یہ مشورہ کا نظام ہے جو ہم نے ساری دُنیا میں قائم کرنا ہے اور یہی مشورے کا نظام ہے جواس وقت مجلس شوریٰ میں نمونے کے طور پر قائم ہونا چاہئے یہ نمونہ لے کے لوگ پھیلیں کیونکہ عامتہ الناس بعض دفعہ یہ باتیں سنتے تو ہیں مگر نمونہ نہیں بن سکتے.شوریٰ کے نمائندگان کے لئے ضروری ہے کہ ان
خطبات طاہر جلد 17 208 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء باتوں کو سمجھ کر ان میں نمونہ بنیں کیونکہ انہوں نے واپس جا کر مشورے کرنے ہیں.یہ ایک اور پہلو ہے جس کی طرف میں خصوصیت سے متوجہ کرتا ہوں کہ مشورے صرف ایک سطح پر نہیں یعنی مرکز کی سطح پر نہیں بلکہ ہر سطح پر جہاں احمدیوں کو مشوروں کے لائق بنانے کی بھر پور کوشش کی جارہی ہے وہاں سے نمائندوں کے چلنے سے پہلے بھی مشورے ہوئے تھے اور ہر ایسی جگہ جہاں سے نمائندے آئے ہیں وہاں ان نمائندوں کی واپسی پر بھی چھوٹی چھوٹی مجالس شوریٰ منعقد ہوں گی کیونکہ میری آواز تو اب دنیا میں سب لوگ سن رہے ہیں جو ڈش انٹینا کے ذریعے مجھ سے تعلق قائم کر چکے ہیں مگر مشاورت میں جو باتیں ہوئی ہیں وہ تو نہیں سن رہے اب.اس لئے میں اب جس بات کی طرف توجہ دلا رہا ہوں وہ یہ نہیں کہ میری بات کو دوبارہ پہنچا ئیں.میں اس طرف توجہ دلا رہا ہوں کہ میری بات کو سمجھ کر اپنے وجود کا حصہ بنائیں اور مجلس شوری میں اس کی روشنی میں یعنی میری نصیحتوں کی روشنی میں جو بھی کارروائی ہوئی ہے اسے اپنے دل کے کوزوں میں سمیٹیں اور محفوظ کریں اور واپس جا کر اپنے اپنے گاؤں یا شہروں میں اسی طرح کی مجلس شوری بنا ئیں جیسی کہ آپ کے چلنے سے پہلے وہاں بنائی گئی تھی اور کوشش کریں کہ ہر جماعت کا فرداس واپسی کی مجلس شوریٰ میں شامل ہو.وہاں آپ ان کو سمجھا ئیں کہ بہت سی باتیں تھیں جو مختلف جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئیں لیکن حکمت سے خالی تھیں اور اُن پر اُن حالات میں عمل درآمد ہو ہی نہیں سکتا تھا، ان مشوروں پر عمل درآمد کا جواز کوئی نہیں تھا کیونکہ وہ بہت سے ایسے مشورے ہیں جو میں دیکھ چکا ہوں، جن کے تعلق میں میں خود تفصیل سے ہدایتیں دے چکا تھا.تو اب بار بار وہی مشورے اٹھا کر مجلس شوری میں بھیجے جائیں یہ تو کوئی معقولیت نہیں ہے، یہ تو صرف گویا نمبر بنائے جارہے ہیں کہ ہمیں بھی ایک اچھی بات آتی ہے وہ بھی آپ کریں.تو جا کر سمجھا ئیں ان لوگوں کو کہ جو اچھی بات آپ کو آتی ہے وہ تو سالہا سال سے خلیفہ اسیح کی طرف سے ہمیں کہی جارہی ہے.مشورہ یہ نہیں ہونا چاہئے تھا کہ یہ بھی اچھی باتیں ہیں ان پر غور کریں، ان پر عمل کرنا ہے کہ نہیں.مشورہ یہ ہونا چاہئے تھا کہ عمل نہیں ہورہا کس طرح عمل کرنا ہے یا اب پوری طرح عمل نہیں ہورہا اس پر پوری طرح کیسے عمل کیا جاسکتا ہے یہ پہلو ہے جس پر آپ کو زور کرنے کی ضرورت ہے.فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ اب یہ عزم کا پہلو رسول اللہ صلی یا تم سے جیسے تعلق رکھتا تھا وہ آپ سے بھی تعلق رکھتا ہے جب ایک فیصلہ کن نتیجہ تک پہنچیں اور جماعتی طور پر مرکز کی منظوری کے بعد یہ
خطبات طاہر جلد 17 209 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء طے ہو جائے کہ ہم نے یہ کرنا ہے پھر عزم کے ساتھ کرنا ہے.عزم کا مطلب ہے ایسار یزولیوشن، ایسا قوی ارادہ کہ جس کو ٹالا نہ جا سکے.اٹھنا، بیٹھنا اور برخواست ہونا ہماری مجلس شوریٰ کا کام نہیں.ایسی مجالس شوری دیکھنی ہیں تو باہر دُنیا میں نکل کے دیکھ لیں.ہماری مجالس شوری کا کام یہ ہے کہ رسول اللہ صلی ایام کی پیروی میں آپ سالی ایم کے جیسا پختہ عزم اختیار کرنے کی کوشش کریں.وہ عزم ایسا تھا کہ ناممکن تھا کہ وہ ٹل جائے اور وجہ اس کی بیان ہوگئی.فَتَوَكَّلْ عَلَى اللهِ جس عزم میں کسی عظیم اور طاقتور ہستی پہ تو کل ہو جو اس کی پشت پناہی کر رہی ہو تو وہ عزم متزلزل ہو ہی نہیں سکتا.بڑے بڑے عزم کرنے والے ہم نے دیکھے ہیں سیاست کی دُنیا میں ان کی بے شمار مثالیں ہیں کہ فیصلے کئے کہ یہ ضرور ہوگا ، یہ کر کے رہیں گے، ہو نہیں سکتا کہ نہ ہو اور دوسرے دن سیاست کی کایا پلٹ گئی اور ان کا کوئی مددگار اور کوئی معین نہیں رہا.ان عزائم سے ان کو لازماً پیچھے ہٹنا پڑا یا خود اپنے ہاتھوں ان عزائم کو توڑنا پڑا.آنحضرت صلی یا پریتم کی زندگی میں ایک بھی ایسا واقعہ نہیں کہ آپ صلی ہی ہم نے عزم کر لیا ہو اور پھر اس عزم کو ٹال دیا ہو.وجہ یہ ہے جو یہاں اس آیت کریمہ میں بیان ہوئی ہے فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَل عَلَی اللہ.آپ ملا ل ستم کا عزم کسی انا کے نتیجہ میں نہیں تھا.آپ مالی پریتم کا عزم یہ ظاہر نہیں کرتا تھا کہ محمد رسول اللہ صلی الیتیم بے حد مضبوط ارادہ کے ہیں.آپ صلی یہ یمن کا عزم یہ ظاہر کرتا تھا کہ محمد رسول اللہ لی مالی تیم ک اللہ پر ایمان کامل ہے اور جو بھی عزم کرتے ہیں وہ اس کی رضا کی خاطر کرتے ہیں اور جس کی رضا کی خاطر کرتے ہیں وہ بڑا طاقتور ہے، بہت قادر ہے، ہر چیز پر قادر ہے اس لئے اس یقین کے بعد آپ کے پیچھے ہٹنے یا عزم کے متزلزل ہونے کا سوال ہی باقی نہیں رہتا.یہ عزم ہم نے بھی کرنے ہیں تو کل علی اللہ کی شرط کے ساتھ ، اور ہمارے عزائم میں جتنا تقویٰ ہوگا اتنا ہی تو کل علی اللہ کا عنصر بڑھے گا.اگر عزائم تقویٰ سے خالی ہوں تو تو کل علی اللہ کا کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا.پس جو فیصلہ کرنا ہے وہ تقویٰ کی روح کے ساتھ کرنا ہے.جو مشورہ دینا ہے وہ تقویٰ کی روح کے ساتھ دینا ہے.پھر جب اُس کو اپنا لیں گے تو تو کل کا مضمون شروع ہوگا اور پھر آپ کے پیچھے ہٹنے کا کوئی سوال نہیں.پس اب ایک آپ عزم کر چکے ہیں کہ آپ نے پاکستان میں احمدیت کا قدم لازماً آگے بڑھانا ہے.بڑے سخت مخالفانہ قوانین ہیں، بڑے مظالم ہیں جو آپ کی راہ روکے کھڑے ہیں اور آپ کے گھروں میں داخل ہو کر آپ پر تعدی کرتے ہیں یہ وہ بات ہے جس کا عزم
خطبات طاہر جلد 17 210 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء سے تعلق ہے جو کچھ کوئی کر گزرسکتا ہے اُس کو کہیں تم کر گزرو ہم ہرگز تمہیں جائز موقع نہیں دیں گے جیسا ہ رسول اللہ سلیم کا دستور تھا، جائز موقع مخالفت کا نہیں دیں گے لیکن جانتے ہیں کہ تم نے ناجائز مخالفت سے باز نہیں آنا.پس تمہاری ناجائز مخالفت ہمارے جائز عمل کی راہ نہیں روک سکتی ، ہمارے جائز عزم کی راہ نہیں روک سکتی ، ہمارے تو کل کو متزلزل نہیں کر سکتی.یہ چیز ہے جو میں بارہا سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں ، پیغامات میں بھی اور تقریروں میں بھی مگر یہ ایک بار یک رستہ ہے اس کے تقاضے بہت سے لوگ پورے نہیں کر سکتے.ان دو باتوں کے درمیان توازن رکھنا عقل اور فراست کو چاہتا ہے اور اس عقل اور فراست کو چاہتا ہے جو ایمان کے نتیجہ میں اور تقویٰ کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.پس تقویٰ پر نظر رکھنا، آخر اسی پر تان ٹوٹے گی.ساری پاکستان کی جماعتیں تقویٰ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات کے معیار پر پوری اترنی چاہئیں اور اس پہلو سے مجلس شوری کے نمائندگان جب واپس جائیں گے تو آنکھیں کھول کر دیکھیں کیونکہ اکثر آنکھیں میں نے دیکھا ہے کہ کھلتی نہیں ہیں اور غافل رہتی ہیں.کثرت کے ساتھ ایسی جماعتیں ہیں جن میں صاحب تقویٰ اکثریت میں نہیں ہیں.صاحب تقویٰ کی کمی ہے اور تقویٰ کے نام پر مشورے دینے والے بے شمار مل جائیں گے یہ مصیبت ہے جو ہمارے سامنے شیر کی طرح منہ کھولے کھڑی ہے اس کے خلاف جہاد ضروری ہے اور یہ جہاد آنکھیں کھولے بغیر ممکن ہی نہیں ہے.جیسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : میں کس دف سے منادی کروں.(نزول مسیح، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ : 474) میرا بھی وہی حال ہے.آنحضرت سلی لی لی اور مسیح موعود کی غلامی اور پیروی میں جو باتیں میں کہتا ہوں، کہتے ہوئے بعض دفعہ اپنے سامنے چہرے دیکھ رہا ہوتا ہوں اور علم ہوتا ہے کہ ان کو پوری بات نہیں سمجھ آرہی.سر کے اوپر سے نصیحت گزرگئی ہے دل کو اس طرح انہوں نے جھنجھوڑ نہیں کہ دل کی آنکھیں کھل جائیں اور جب تک یہ آنکھ نہیں کھلے گی آپ کو وہ ترقیات نصیب نہیں ہوسکتیں جن کے متعلق قرآن کریم نے ہم سے وعدہ کیا ہے.پس جماعتوں کو جھنجھوڑتے رہیں، بار بار جھنجھوڑیں صبح جھنجھوڑیں، شام کو، رات کو جھنجھوڑتے چلے جائیں یہاں تک کہ اُن کی آنکھیں کھلیں.ان کو کہو تم اپنی روز مرہ کی زندگی میں منتقی نہیں ہو، اپنے معاملات میں متقی نہیں ہو.جو جھگڑے چل رہے ہیں، جودُ نیا داریاں
خطبات طاہر جلد 17 211 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء ہو رہی ہیں، دین سے بے خبر ہو کر جو پیروی ہو رہی ہے دُنیا کمانے کی ، جو چھوٹے چھوٹے وراثت کے جھگڑے چل رہے ہیں یہ بھلا متقیوں میں بھی ہو سکتے ہیں، ناممکن ہے.جس قسم کے جھگڑے وہاں چلتے ہیں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں اور ہر شعبہ میں سے تقومی کونکال کر باہر پھینک دیا جاتا ہے.یہ احساس جو شعوری طور پر دل کو جھنجھوڑنے والا ہونا چاہئے.میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر یہ احساس ایک دفعہ پیدا ہو جائے تو خدا کے خوف سے جان نکلنے لگتی ہے.انسان اپنی زندگی پر نظر ثانی کرتا ہے، اپنے روزمرہ پر نظر ثانی کرتا ہے ، جانتا ہے کہ اس کے دعاوی کے عین مطابق اس کے نی اعمال نہیں ہیں.کوشش تو کرتا ہے کہ اعمال دعاوی کے مطابق ہو جائیں مگر اگر وہ سچا ہے اور متقی ہے تو پہچان لے گا کہ ابھی اعمال اور دعاوی میں بہت فرق ہے.یہ بات ایسی ہے جس کو پورے طور پر ، باشعور طور پر سمجھنے کے بعد پھر آپ کا قدم بغیر روک ٹوک کے آگے بڑھے گا.پاکستان سے بہت سی خبریں مل رہی ہیں، بہت زیادہ زیادتی کی جارہی ہے محض اس وجہ سے کہ احمدیت پھیل رہی ہے اور مولوی کی جان نکلی ہوئی ہے اس خوف سے کہ یہ تو پھیل جائیں گے ، یہ تو ہمارے ہاتھ سے نکل جائیں گے.اس کو یہ غم ہے اور مجھے یہ فکر کہ جو پھیل رہے ہیں وہ سچے بھی ہیں کہ نہیں ، وہ واقعہ اس لائق ہیں کہ احمدیت کی آغوش میں آجا ئیں اور اگر نہیں ہیں تو ان کو سنبھالنے کے لئے ہماری جماعت کیا کوشش کر رہی ہے.مولوی کو اور فکر لاحق ہے، مجھے اور فکر لاحق ہیں.مولوی کو عددی فکر ہے اس کی بلا سے وہ شخص جو اس کے نزدیک مرتد ہوتا ہے نیک ہو یا بد ہو.ایک جگہ بھی سارے پاکستان میں یہ واقعہ نہیں ہوا کہ کوئی شخص مولوی کے بہکاوے میں آکر مرتد ہو گیا ہوا اور مولوی نے اس کو نیک بنانے کی کوشش شروع کر دی ہو.وہ بیچارا آپ نیک نہیں ہے اس نے دوسرے کو کیا نیک بنانا ہے.ان کو چھوڑ دیتے ہیں شیطان کے حوالہ کر کے اور یہ قطعی ثبوت ہے کہ یہ ارتداد ہے یہ قبول اسلام نہیں ہے.ارتداد کے نتیجہ میں دل کی خباثتیں بڑھتی ہیں قبول اسلام کے نتیجہ میں دل گناہ کے داغوں سے دھوئے جاتے ہیں.اب یہ ایک اتنا نمایاں امتیاز ہے کہ سارے پاکستان میں سو فیصد وضاحت کے ساتھ یہ امتیاز اپنا جلوہ دکھا رہا ہے.ایک مثال اس کے برعکس آپ نہیں دیکھیں گے.جب بھی کسی احمدی کو توڑا ہے انہوں نے ، وہ نیک نہیں ہوا، وہ بد سے بدتر ہوا اور ہر معاملہ میں پوری بے حیائی اختیار کر لی ، دیانت بھی گئی ، امانت بھی گئی ، تقوی ، نیکی ، ایک دوسرے سے سلوک یہ سب
خطبات طاہر جلد 17 212 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء چیزیں ختم ہو گئیں اور اس کو اتنا مزہ آیا اس چھٹی میں کہ چلو جی سارا بار اُتار کے پھینک دیا، مصیبت پڑی ہوئی تھی جماعت احمدیہ میں.یہ کرو یہ نہ کرو، یہ تعلیم جو تھی اس نے رستے روکے ہوئے تھے تو یہ جَنَّة لِلْكَافِر ہے جو وہاں مولوی بنا بنا کر احمدیوں کے سامنے پیش کر رہے ہیں اور آپ دوبارہ غور کر کے سارے معاملات کو دیکھیں آپ کو یہی تصویر نظر آئے گی.کئی لوگ ایسے تھے جن کو میں جانتا تھا اچھے بھلے، کچھ نہ کچھ شریف ضرور تھے، جب سے احمدیت سے چھٹی کی ہے ان کے چہروں سے کراہت آنے لگ گئی ہے.ان کے گناہ ان کے چہروں کو کالا کر رہے ہیں.پس یہ تفریق اپنے پیش نظر رکھیں اور جن لوگوں کو بھی آپ احمدی بناتے ہیں ان کی احمدیت کی فکر کریں.ان کا گھیرا ڈالیں، ان کو طرح طرح سے بار بار احمدی بنا کر احمدی کر دکھا ئیں.گزشتہ ادوار میں یعنی چند سال پہلے تک بعض ایسی بیعتیں ہوئیں جن میں بیعت کنندہ نے تقویٰ سے پورا کام نہیں لیا.اب جب میری یہ نصیحت ان تک پہنچی کہ جو نئے احمدی ہو چکے ہیں مجھے بتاؤ کہ آیا وہ چندوں کے نظام میں بھی شامل ہیں، آیا وہ جرات سے اس نئے Census میں اپنا نام احمدی لکھوائیں گے کہ نہیں تو اس نصیحت کو بھی غلط سمجھا گیا.دوڑ شروع ہو گئی کہ زیادہ نو احمدیوں کے Census میں احمدی فارم بھرنے کے نتیجہ میں ہماری کارگزاری کے خانے بھر جائیں گے اور یہ سمجھا جائے گا کہ واہ واہ اس شخص نے اور اس جماعت نے تو کمال کر دیا ہے، اتنے آدمیوں کو Census میں احمدی ثابت کر دیا ہے.بعض جگہ اس کے نتیجہ میں فساد ہوئے ،معصوم احمدی رد عمل کے طور پر بہت تکلیفوں میں مبتلا کئے گئے.بعض جگہ کثرت سے ان کے گھریا ان کی دکانیں جلا دی گئیں.مجھے یہ یقین تھا کہ یہاں غلطی لازماً ہماری اپنی ہوگی.چنانچہ میں نے بار بار جستجو کی، مجھے ان باتوں کا جواب دو کہ وہ صاحب جن کے خانے میں احمدی لکھا گیا تھا، دوسال یا تین سال پہلے احمدی ہوئے تھے کیا اس عرصہ میں انہوں نے ایک آنے کا بھی چندہ دیا، کیا اس عرصہ میں انہوں نے کسی احمد یہ مسجد میں نماز ادا کی؟ پہلے تو اس جواب سے احتراز کیا جا رہا تھا مگر میں بھی ، عزم کی بات ہو رہی ہے اس معاملہ میں عزم رکھتا ہوں، جب تک تہہ تک نہ پہنچوں چھوڑتا ہی نہیں بات کو.اتنے خطوط لکھوائے کہ آخر ان کو جواب دینا پڑا، اور جواب یہ تھا کہ یہ صاحب اور ان کا خاندان جب سے احمدی ہوئے ہیں ایک آنہ بھی جماعت میں چندہ نہیں دیا ، کسی مسجد کا منہ نہیں دیکھا بلکہ احمدی چھوڑ کے غیر احمدی مسجد کا
خطبات طاہر جلد 17 213 خطبہ جمعہ 27 مارچ 1998ء منہ بھی نہیں دیکھا.کبھی جمعہ پہ اتفاقاً چلے گئے تو چلے گئے اور جانا اتفاقاً ہی ہومگر یہ ثابت کرتا ہے کہ احمدیت کا پیغام ہی ان کو نہیں پہنچا ہوا.تو اگر آپ بھرتی کی خاطر لوگوں کو پیغام دے رہے ہیں تو یہ وہ پہلی اینٹ ہے جو کج رکھی گئی اور اس پر ا گر فلک تک بھی تعمیر کریں گے تو وہ ساری عمارت ٹیڑھی چلے گی.اس لئے اپنے دل کا تقویٰ جانچنے کی ضرورت ہے.کوئی شخص بھی اس لئے تبلیغ نہ کرے کہ مجھے دکھا سکے.اگر چہ بعض تبلیغ کرنے والے اس نیت سے مجھے بتاتے ہیں کہ میری دعائیں ان کے شامل حال ہو جائیں گی مگر ان کے دل کا حال اللہ جانتا ہے.اگر اللہ کے نزدیک وہ اس لئے مجھے بتا رہے ہیں کہ کارکردگی کے نمبر لکھے جائیں اور وہ زیادہ متقی شمار ہوں تو وہ ہرگز خدا کے رجسٹر میں متقی کے طور پر نہیں لکھے جائیں گے.اُن کی کوششوں کے نتیجہ میں جو احمدی بنائے گئے تھے وہ آخر آپ سے بے وفائی کریں گے اور جب خصوصیت سے مُلاں اس بات کی تلاش میں ہے کہ کہیں Census میں احمدیوں کی تعداد نہ بڑھ جائے اور اس کے پیچھے مرکز کا ایک وزیر بیٹھا ہوا ہے جو مسلسل ان کی راہنمائی کر رہا ہے اور حکم دے رہا ہے ڈپٹی کمشنروں اور کمشنروں کو کہ جب بھی کوئی ایسا واقعہ مولوی ان کی نظر میں لائیں لازماً ان لوگوں کو قید کرو اور ان پر طرح طرح کے مظالم کرو اور کوشش کرو کہ یہ اپنے عہد سے پھر جائیں.جب یہ کوشش ہو رہی ہو ساتھ ساتھ اور اس کے قطعی شواہد مجھ تک پہنچ رہے ہوں کہ جو اپنی دانست میں راجہ بنا ہوا ہے وہ عام انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں ، دھوکا دے رہا ہے دنیا کو اور مولویوں کے ساتھ مشورے کرتا ہے اور حکومت کے بڑے کارندوں کو حکم دیتا ہے اور اس حکم سے مجبور ہوکر جب ہمارے احمدی حضرات ان تک پہنچ کر صورت حال واضح کرتے ہیں تو اس وقت ہمیں پتا چلتا ہے کہ کیا ہو رہا ہے.وہ کہتے ہیں دیکھو تمہیں پتا نہیں ہم بے بس ہیں، ہم احکامات کی تعمیل میں بے بس ہیں جو اوپر سے آتے ہیں.اگر چہ انہوں نے بتایا نہیں کہ کس سے آتے ہیں لیکن ہماری دوسری معلومات اور جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا مولوی بڑ بولا بہت ہے، وہ اپنا فخر بنانے کی خاطر مجالس میں باتیں کرتا ہے کہ راجہ ظفر الحق نے ہمیں آرڈر دیا ہوا ہے.وہ کہتا ہے ہم تمہارے ساتھ ہیں، حکومت تمہارے ساتھ ہے تو اس طرح وہ مولوی کا بڑ بولا پن ہمارا مددگار ہو جاتا ہے اور افسر یا اعلیٰ افسر یہ تسلیم کرتا ہے کہ وہ اوپر کے احکامات سے مجبور ہے لیکن اکثر وہ بڑبولا نہیں ہوتا ہے چارہ، اپنی معذوری کا اظہار کرتا ہے.مولوی ہماری مدد کے لئے آگے آتا ہے کہ پوچھنا ہے تو ہم سے پوچھئے
خطبات طاہر جلد 17 214 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء ہم بتائیں گے کہ یہ کون افسر ہے اور کیا حرکتیں ہو رہی ہیں تو اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں.ان واقعات کا مجھے ایک بہت بڑا فائدہ پہنچا ہے کہ مجھے نواحمد یوں پر پہلے سے زیادہ توجہ دینے کا موقع مل رہا ہے اور بہت سے ایسے لوگ ننگے ہو رہے ہیں جنہوں نے نمبر بنائے تھے تبلیغ نہیں کی تھی.تو میں جواب ہدایتیں جاری کر رہا ہوں ان کی رو سے آئندہ تمام تبلیغی پروگراموں میں لازم ہوگا کہ جو احمدی کامیاب تبلیغ کا دعویٰ کرتا ہے اس کا حال پہلے دیکھو، اس کا اپنا دل کیسا ہے، اس کا اپنا عمل کیسا ہے.کیا وہ خود چندوں میں اور باجماعت نماز میں شمولیت میں تیز ہے.کئی دفعہ جواب ملے گا کہ نہیں وہ صرف تبلیغ کرتا ہے لیکن دوسروں کو ، اپنے نفس کو تبلیغ نہیں کرتا.تو یہ سارے مسائل ہیں جو حقیقت تقویٰ سے بے خبری کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور یہ جو آیات میں نے آپ کے سامنے رکھی ہیں ان پر گہرے غور کے فقدان سے یہ مسائل پیدا ہوتے ہیں.پس تمام پاکستان میں جب میں احتیاط کی نصیحت کرتا ہوں تو یہ نہ سمجھیں کہ رک جائیں اس کام سے.جہاں کھلے بندوں بعض لوگ اقرار کرتے ہیں کہ ہم احمدی ہیں اور احمدی ہونے کے بعد چاہے تھوڑا سا ہی کچھ نہ کچھ اپنی جیب سے چندہ دینا شروع کر دیتے ہیں ، یا وہ سارے لوگ جو پہلے نماز نہیں پڑھتے تھے احمدی اثر کے نتیجہ میں کچھ نماز کی طرف توجہ دے دیتے ہیں، یہ ہمارے ہیں.اگر چہ کامل نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ ان کا کمال کی طرف قدم اٹھ رہا ہے.آج نہیں تو کل ایک مقام ضرور آئے گا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ حقیقہ متوکلین میں شمار ہوں گے جو اپنی کوششوں پر نہیں بلکہ اللہ کی رحمت پر توکل رکھتے ہیں.پس یہ باتیں جب میں سمجھاتا ہوں تو مشکل یہی ہے کہ بعض لوگ پوری طرح کام سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ او ہو بڑی غلطی ہو گئی ہمیں Census کی خاطر کسی سے دستخط کروانے نہیں چاہئیں.ہرگز یہ مراد نہیں ہے.اگر پہلی رپورٹ ٹھیک ہے کہ یہ احمدی ہیں تو پھر آپ کا پیچھے ہٹنا غلط.یہ دو باتیں ایسی ہیں جن کو آپ علیحدہ کر ہی نہیں سکتے.اگر آپ کی رپورٹیں سچی تھیں جن پر میں اعتماد کر بیٹھا ہوں تو انکا لازمی تقاضا یہ ہے کہ آپ کو Census کے وقت بھی ان نو مبائعین کو احمدی ظاہر کرنا ہوگا.اگر نہیں کر سکتے تو جان لیں کہ آپ کی رپورٹیں غلط تھیں.اس لئے آپ کو اس مصیبت میں میں نے ڈال دیا ہے پھر دونوں میں سے ایک طرف آپ کو قدم رکھنا ہوگا.اگر دونوں طرف قدم رکھتے ہیں تو وہ سچائی کے ساتھ رکھے جائیں گے.جہاں احمدی سچے تھے وہاں ان کا
خطبات طاہر جلد 17 215 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء Census میں احمدیوں کے ساتھ نام لکھوانا بھی سچا ہو گا.پس اس پہلو پر غور کرتے ہوئے جن لوگوں کے نام ابھی نہیں لکھے گئے کیونکہ سارے پاکستان میں Census کے خلاف فساد برپا ہوا ہوا ہے صرف احمدیوں کا شامل ہونا یا نہ ہونا ان کو دکھائی دیتا ہے لیکن یہ پتا نہیں کہ ساری زمین ہی اُکھڑ گئی ہے جس پر Census کی بنیا د رکھی جارہی تھی.مولوی ہمارے خلاف باتیں کرتے اور خود Census کے خلاف اعتراض کرتے ہیں.ان کو پتا ہے کہ ان کا ڈھونگ جو انہوں نے اپنے متبعین کا بنارکھا تھا وہ کھل جائے گا.بہر حال ہمیں موجودہ تجارب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے احتیاط کرنی چاہئے.میں نے بہت سی احادیث جمع کر رکھی تھیں جو اس سلسلہ میں بیان کرنی تھیں مگر یہ جو پہلا حصہ ہے اس آیت کے تعلق میں اس سے پوری فرصت ہی نہیں ملی لیکن اب تبر کا دو تین منٹ میں بعض احادیث نبویہ جن کا مجلس شوری یا نظام مشاورت سے تعلق ہے وہ آپ کے سامنے پڑھ کرسنا تا ہوں.حضرت ابو ہریرہ سے جامع الترمذی میں یہ روایت ہے کہ میں نے آنحضرت صلی لا یہ تم سے زیادہ اپنے اصحاب سے کسی کو مشورہ کرنے والا نہیں پایا.جس کا براہ راست خدا را ہنما تھا اس کا یہ حال تھا کہ وہ و جو دسیا کہ تم اللہ کے اس حکم کے تابع اس کثرت سے مشورے کیا کرتا تھا کہ ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی لا الہ تم سے زیادہ مشورہ کرنے والا کسی کو نہیں پایا.(جامع الترمذی، ابواب الجهاد، باب ماجاء في المشورة، حدیث نمبر : 1714) تو آپ لوگ بھی اپنے مشورے کی طاقت کو بڑھائیں.بعض دفعہ بیاہ شادی کے موقع پر مشورے کئے جاتے ہیں لیکن اکثر اس نیت سے کہ جو دل میں ہے وہ مشورہ نہ دیا گیا تو ہم مشورہ ہی نہیں مانیں گے.اب مجھے تو آئے دن اس سے واسطہ پڑتا رہتا ہے.کہتے ہیں کیا خیال ہے یہ بہت اچھا رشتہ ہے.میں کہتا ہوں میرے نزدیک تو نہایت بے ہودہ رشتہ ہے کیونکہ یہ نہ نماز پڑھتا ہے، نہ چندے دیتا ہے، نہ کسی مسجد سے اس کا تعلق ہے.اگر آپ نے دین کو ہی چھوڑ دیا تو آپ کو کیسے خوشی نصیب ہوگی.وہ کہتے ہیں شکریہ مشورہ مل گیا لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہے اچھا رشتہ.تو اب بتا ئیں اس مشورہ کا اور اس کثرت مشورہ کا کیا فائدہ.یہ مشورے اس ارادے سے کئے جاتے ہیں کہ اگر ہماری مرضی کا جواب ملا تو ہم مانیں گے، نہ ملا تو ہم اس مشورہ کو ر ڈ کر دیں گے.اور آنحضرت صلی للہ اسلام پر کثرت مشورہ کے دونوں پہلو اطلاق پاتے تھے.آپ صلی للہ یہی تم لوگوں سے کثرت سے مشورہ کیا کرتے تھے اور لوگ
خطبات طاہر جلد 17 216 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء آپ صلی شمالی تم سے کثرت سے مشورہ کیا کرتے تھے اور دوسرے پہلو میں یہ بات خاص طور پر پیش نظر رہے کہ جو مشورہ کرتے تھے ان کے متعلق اللہ کا حکم تھا کہ جب رسول صلی الہ یہ فیصلہ دے دے تو پھر تم مجاز نہیں ہو کہ اس کے خلاف ہٹ سکو.اب آنحضرت سی ای ایم کے مشورہ کے دو پہلو ہیں ، ایک مشورہ دے رہے ہیں، ایک لے رہے ہیں.جب مشورہ دے رہے ہیں تو مشورہ لینے والا مجاز ہی نہیں ہے کہ اس سے پیچھے ہٹے اور جب مشورہ لے رہے ہیں تو آپ صلی ای تیم مجاز ہیں کیونکہ آپ صلی الہ تم سے بہتر اللہ کی رضا کو اور کوئی نہیں جانتا تھا.دونوں جگہ یہی اصول کارفرما ہے.جب آپ صلی یا تم مشورہ دیتے تھے تو اس لئے اس سے ہٹنے کا احتمال ہو نہیں سکتا تھا کہ آپ صلی ایام کا مشورہ رضائے باری تعالیٰ پر مبنی ہوتا تھا.جب آپ صلی یا ایتم مشورہ لیتے تھے تو اس لئے آپ ملائیشیا کی تم کو اس کو قبول نہ کرنے کا اختیار تھا کہ جب وہ رضائے باری تعالیٰ کے کسی پہلو سے بھی خلاف ہوا آپ صلی للہ ایلیم سے بہتر کوئی اس کو پہچان نہیں سکتا تھا.پس یہ نظام شوری جو آنحضرت صلی لی ایم کے گرد گھومتا ہے اس کے سارے پہلو ؤں کو بیان کرنا تو اس وقت مشکل ہے، ناممکن ہے.یہ دیکھ لیں اتنا بڑا تھا.رسول اللہ صلی الیتیم کے مختلف احکامات جو مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈال رہے ہیں ان کو اکٹھا کیا گیا ہے.تو ابھی بہت سی شورا میں باقی ہیں جن میں میں نے خطاب کرنا ہے کبھی یہاں سے کبھی دوسرے ملکوں میں جا کر تو پرائیویٹ سیکرٹری صاحب اب یہ سنبھال لیں اور آئندہ اس کو الگ رکھیں، لکھ دیں کہ یہ حدیث ہو چکی ہے یا نہیں ہوئی.تو انشاء اللہ باقی باتیں پھر ہوں گی اور اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائے کہ ہم حضرت اقدس محمد مصطفی سال ایک یتیم کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آج مولوی کی ہر کوشش کو ناکام و نامراد بنادیں.وہ احمدیت کا رستہ نہ روک سکے اور احمدیت بڑھتی رہے اور پھولتی رہے اور پھلتی رہے لیکن تقویٰ کی راہیں اختیار کر کے ، تقویٰ سے ہٹی ہوئی راہوں پر نہیں.( حضور نے خطبہ ثانیہ کے بعد فرمایا :) یہ جو سردیوں کے اوقات ہیں ان کے لحاظ سے اس دور کا یہ آخری جمعہ ہے.ہفتہ اور اتوار کی رات کے درمیان گھڑیاں بدل جائیں گی اور اس وقت جمعہ کے اوقات بھی بدلیں گے عصر کے اوقات بھی بدلیس گے اور نمازیں جمع کرنے کا کوئی جواز نہیں رہے گا.اس لئے جن لوگوں نے دیکھا ہے ہمیں نمازیں جمع
خطبات طاہر جلد 17 217 خطبہ جمعہ 27 مارچ1998ء کرتے ہوئے ان کو احساس کرنا چاہئے کہ یہ محض وقت کی مجبوری تھی جس کا صرف جمعہ سے تعلق تھا.روز مرہ ظہر کی نماز کو عصر سے نہیں جمع کیا جاتا لیکن بعض ناواقف لوگ، بعض بچے ، بعض جن کو مزہ بہت آتا ہے جمع میں ، وہ کہیں غلط استنباط نہ کر بیٹھیں اس لئے آج کے بعد جتنے بھی جمعے ہوں گے Summer Time میں ، یعنی گرمیوں کے وقت میں ، وہ انشاء اللہ اپنے وقت پر پڑھے جائیں گے اور عصر کی نماز اپنے وقت پر پڑھی جائے گی.اس بات سے متنبہ رہیں.
خطبات طاہر جلد 17 219 خطبہ جمعہ 3 اپریل 1998ء اپنے دلوں میں انکسار، صفائی اور اخلاص پیدا کرو حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں نصائح (خطبہ جمعہ فرمودہ 13 اپریل 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرُّ دَعَا رَبَّهُ مُنِيبًا إِلَيْهِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسِيَ مَا كَانَ يَدُعُوا إِلَيْهِ مِنْ قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا لِّيُضِلَّ عَنْ سَبِيلِهِ قُلْ تَمَتَعْ بِكُفْرِكَ قَلِيلاً إِنَّكَ مِنْ أَصْحَب النَّارِ أَمَّنْ هُوَ قَانِتَ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَقَابِمَا يَحْذَرُ الْأَخِرَةَ وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبِّهِ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ إِنَّمَا يَتَذَكَّرُ أُولُوا الالباب پھر فرمایا: (الزمر: 10،9) جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کا ترجمہ یہ ہے: وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرُّ دَعَا رَبَّهُ انسان کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ اپنے رب کو پکارتا ہے.مُنيبا الیه اس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوتے ہوئے.ثُمَّ اِذَا خَوَلَهُ نِعْمَةٌ مِنْهُ پھر جب اللہ تعالیٰ اسے اپنی طرف سے کوئی نعمت عطا فرماتا ہے.نسى مَا كَانَ يَدْعُوا الَیهِ وہ بھول جاتا ہے کہ اپنے رب کو کس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اس نے پکارا تھا.مِنْ قَبل اس سے پہلے.وَجَعَلَ لِلَّهِ أَنْدَادًا اور اللہ کے شریک ٹھہرانے
خطبات طاہر جلد 17 220 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء لگتا ہے.لِيُضِلَّ عَنْ سَبِیلِهِ تا کہ اس کے رستہ سے لوگوں کو ہٹا دے جس نے اس کا دکھ دور کیا تھا یعنی یہاں بے حیائی کی ایک انتہائی قسم بیان ہوئی ہے.جب مصیبت پڑتی ہے تو اس مصیبت کے وقت وہ صرف خدا ہی کو پکارتا ہے اور خالصہ اس کو کہتے ہوئے کہ میں تیرے حضور جھک گیا ہوں اب مجھے بچالے.جب وہ مصیبت دور فرما دیتا ہے تو پھر اس کے خلاف اس کے علاوہ شریک بنالیتا ہے اس نیت کے ساتھ تاکہ لوگوں کو اس کے رستہ سے گمراہ کر دے.پس جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا یہ بے حیائی کی سب سے خطرناک قسم ہے.ضرورت پوری کی اور پھر اس کے خلاف ہو گئے اور باقیوں کو بھی خلاف کرنا شروع کر دیا یا خلاف کرنے کی کوشش شروع کر دی.قُلْ تَمَتَّعُ بِكُفْرِكَ قليلا آنحضرت سلیم کو مخاطب فرمایا گیا، کہہ دے کہ کچھ دیر اپنی دُنیا کے فوائد کے مزے اڑالو، تھوڑے سے فوائد کے مزے اڑالو.إِنَّكَ مِنْ اَصْحَب النَّارِ اس بات سے کوئی بھی مفر نہیں کہ تم لازماً جہنم کا ایندھن بننے والے ہو، بلکہ ہو، کیونکہ جو تمہاری کیفیت ہے وہ ایک آگ کا پتا دے رہی ہے جو تمہارے دل میں بھڑک رہی ہے.کوئی شخص بھی اللہ تعالیٰ سے ایسی بے حیائی کا سلوک نہیں کر سکتا جب تک اس کے دل میں کوئی خدا کے خلاف یا خدا والوں کے خلاف کینہ کی آگ نہ بھڑک رہی ہو.پس وہ آگ بتا رہی ہے کہ وہ ہے ہی جہنمی.اس کی ساری حرکتیں ، ساری کوششیں اللہ سے بندوں کو دور کرنے کی یہ اس کے جہنم کی نشان دہی کر رہی ہیں.آمَنْ هُوَ قَانِتُ أَنَاءَ الَّيْلِ سَاجِدًا وَ قَابِما کیا ایسا شخص اس کے برابر ہوسکتا ہے.آمنْ هُوَ قانت اناء اليلِ جو فرمانبرداری کے ساتھ رات کی گھڑیوں میں.سَاجِدًا وَ قابِما وہ وقت گزارتا ہے رات کی گھڑیاں سجدہ کرتے ہوئے اور قیام کی صورت میں.يَحْذَرُ الْآخِرَةَ وه آخرت سے ڈرتا ہے.وَ يَرْجُوا رَحْمَةَ رَبَّہ اور اپنے رب کی رحمت سے امید لگائے بیٹھا ہے.قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ پوچھ ان سے کہ کیا یہ صاحب علم لوگ اور بے علم لوگ جو خدا کی ناشکری میں ایسے بے حیا ہو جاتے ہیں کہ بنی نوع انسان کو اس سے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں، کیا یہ برابر ہو سکتے ہیں.؟ إِنَّمَا يَتَذَكَرُ أُولُوا الْأَلْبَابِ باتیں خوب کھول دی گئی ہیں ، اب صرف اہل عقل چاہئیں جو اس سے فائدہ اٹھائیں ان کے سوا کوئی ان باتوں سے نصیحت حاصل نہیں کر سکتا.1991
خطبات طاہر جلد 17 221 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء پھر ایک دوسری آیت میں سورۃ ص میں اسی مضمون کو آگے بڑھایا گیا ہے یا دوسرے پہلو سے بیان فرمایا گیا ہے.وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاءِ وَالْأَرْضَ وَمَا بَيْنَهُمَا بَاطِلا ہم نے ہر گز آسمان اور زمین کو اور جو ان دونوں کے درمیان میں ہے بے مقصد اور باطل پیدا نہیں کیا.ذلِكَ ظَنُّ الَّذِينَ كَفَرُوا وہ لوگ جو خدا کے منکر ہیں یہ ان کو وہم ہے ، گمان ہے ان کا کہ یہ باطل پیدا کیا گیا ہے.فَوَيْلٌ لِلَّذِينَ كَفَرُوا مِنَ النَّارِ.پس ہلاکت ہو ان لوگوں کے لئے جنہوں نے کفر کیا آگ کے عذاب کی ہلاکت.اب صاف ظاہر ہے کہ اگر باطل نہیں پیدا کیا تو لازماًیہ آگ میں پڑنے والے ہیں.اس کے سوا اُن کا کوئی مقصد ہی نہیں کیونکہ جو خدا پر الزام لگاتے ہیں کہ باطل پیدا کیا ہے تو باطل کو تو اگر کوئی بنانے والا ہے تو آگ میں جھونکے گا، باطل سے تو کوئی مقصد نہیں حاصل کیا جاسکتا.تو اپنے دعوی ہی سے جہنمی ثابت ہو جاتے ہیں.خالق کا انکار، اس پر یہ الزام کہ سب کچھ باطل، بے ہودہ یونہی بنادیا یا یہ خیال کہ خدا نے پیدا ہی نہیں کیا تب بھی باطل ہے.دونوں صورتوں میں یہ اپنے لئے آگ کو واجب کر لیتے ہیں.ام نَجْعَلُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصّلِحَتِ كَالْمُفْسِدِينَ فِی الْأَرْضِ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک عمل بجالائے ان سے زمین میں فساد کرنے والوں جیسا سلوک کریں گے؟.یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ اللہ اپنے ان بندوں سے جو زمین میں امن پھیلانا چاہتے ہوں، بنی نوع انسان کے دل باندھنا چاہتے ہوں، خدا اور بندہ کے درمیان ایک موڈت کا رشتہ پیدا کرنا چاہتے ہوں ،ان سے وہی سلوک کرے جو فسادیوں سے کیا جائے گا.آم نَجْعَلُ الْمُتَّقِينَ كَالْفُجَارِ - (ص: 29,28 ) اتنی بڑی بات ہے جو ناممکن ہے ، ہو ہی نہیں سکتی کہ اللہ تعالیٰ فجار، فاسق و فاجر، بدی پھیلانے والے، جھوٹ بولنے والے، ساری دُنیا میں دہریت کا پرچار کرنے والے ان لوگوں سے وہی سلوک کرے جو اپنے متقی بندوں سے کر رہا ہو یا متقیوں سے وہ سلوک کرے جوان فجار سے کر رہا ہو.اس لئے لازماً انہوں نے برباد ہونا ہے اس میں ایک ادنی ذرہ بھی شک نہیں.ساری کائنات گواہ ہے کہ ان کے رستے بربادیوں کے رستے ہیں یہ اس سے ٹل ہی نہیں سکتے.جتنا مرضی چاہیں جماعت کو دھوکا دینے کی کوشش کریں لیکن اس آخری حقیقت سے وہ منہ نہیں موڑ سکتے کہ دُنیا میں بھی جہنمی رہیں گے اور آخرت میں بھی ایک بڑی جہنم ان کا انتظار کر رہی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 222 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان تمام امور کی طرف توجہ فرماتے ہوئے ایسی پاک نصیحت فرماتے ہیں، ایسے سادہ دل میں اتر جانے والے لفظوں میں نصیحت فرماتے ہیں کہ اس سے بہتر نصیحت کی ہی نہیں جاسکتی سوچی بھی نہیں جاسکتی.آپ کا ہر لفظ زندہ ہے سچائی سے بھرا ہوا ہے لیکن بد بخت جو ارادہ کئے بیٹھے ہیں کہ ہم نے سچائی کا انکار کرنا ہی ہے اور اسے نامراد کر کے دکھانا ہے ان کے کانوں پر ان باتوں کا کوئی بھی اثر نہیں پڑے گا.ایسے لوگ ہو سکتا ہے اس وقت یہاں یا باہر بیٹھے سن رہے ہوں ان کو میں بتا رہا ہوں کہ جو مرضی کر لو تم لازماً نامراد ہو گے.تم کسی قیمت پہ کامیاب نہیں ہو سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: سچائی اختیار کرو.سچائی اختیار کرو کہ وہ دیکھ رہا ہے کہ تمہارے دل کیسے ہیں.کیا انسان اس کو بھی دھوکہ دے سکتا ہے.( جو ہر وقت دلوں کو دیکھ رہا ہو ) کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں.“ ہو ہی نہیں سکتا، اللہ کے سامنے مکاریاں کرو.ادھر ادھر دنیا کو دھوکا دینے کی کوشش کرو اور سمجھو کہ خدا والوں کو بھی دھوکا دے دو گے.یہ محض تمہارے دل کا دھوکا ہے جو تمہیں برباد کر نے والا ہے.دل کا مرض ہے جو بڑھتا جائے گا اور آگ سے اور آگ پیدا ہوتی چلی جائے گی.اللہ اپنے بندوں کو کبھی خالی نہیں چھوڑتا.فرمایا: کیا اس کے آگے بھی مکاریاں پیش جاتی ہیں.نہایت بد بخت آدمی اپنے فاسقانہ افعال اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں (ہے).“ اکثر خدا کے منکر اسی طرح خدا کے منکر بنتے ہیں کہ پہلے ان بد بختوں کے اندر فاسدانہ خیالات پیدا ہوتے ہیں اور وہ فاسدانہ خیال چونکہ ایک دوسرے رخ پر جاری ہوتے ہیں ، اللہ کی طرف نہیں ہوتے.خدا کی طرف فسادیوں کی پیٹھ ہوتی ہے اس لئے لازماً انہوں نے اس طرف پہنچنا ہے جہاں کا رخ اختیار کئے ہوئے ہیں اور وہ دہریت ہے ان لوگوں نے لازماًد ہر یہ بنا ہوتا ہے.فرماتے ہیں: ” فاسقانہ افعال اس حد تک پہنچاتا ہے کہ گویا خدا نہیں ( ہے ) تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.“ یہ ہم نے ہمیشہ سے ہوتا ہوا دیکھا ہے اب بھی دیکھیں گے سب، ساری دنیا دیکھے گی، ساری جماعت دیکھے گی کہ ان بد بختوں کا اس کے سوا اور کوئی انجام نہیں ہے.
خطبات طاہر جلد 17 223 خطبہ جمعہ 3 اپریل 1998ء تب وہ بہت جلد ہلاک کیا جاتا ہے اور خدائے تعالیٰ کو اس کی کچھ پرواہ نہیں ہوتی.عزیز و! اس دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان ہے.“ یعنی اپنی طرف سے بڑی بڑی دلیلیں دینا اور سمجھنا کہ بہت ہم عالم و فاضل اور عاقل بنے ہوئے ہیں.فرماتے ہیں یہ تو ایک شیطان ہے: اور اس دنیا کا خالی فلسفہ ایک ابلیس ہے.جو ایمانی نور کو نہایت درجہ گھٹا دیتا ہے اور بیباکیاں پیدا کرتا ہے اور قریب قریب دہریت کے پہنچاتا ہے.سو تم اس سے اپنے نہیں بچاؤ اور ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو.“ یہ ہے سچائی کا راز جس کا دل غریب اور مسکین نہیں ہے وہ کبھی بھی سچائی کونہیں پا سکتا.دل کی غربت ور مسکینی ہی ہے جس پہ اللہ کے فضل کی نظر پڑتی ہے اور اس مسکین دل انسان کو ہر ہلاکت سے بچالیتا ہے کیونکہ مسکینی میں یہ پیغام ہے کہ اے میرے رب میں کچھ بھی نہیں ہوں، میرے اندر کوئی ذاتی کمال نہیں، کوئی ذاتی صفات نہیں جو کچھ عطا فرمایا ہے تو نے عطا فرمایا ہے پس تو مجھ پر رحم فرما اور میری اور حفاظت فرما اور مجھے شیطان لعین سے نجات بخش.یہ دعا اللہ کے حضور مقبول ہوتی ہے.ایسا دل پیدا کرو جو غریب اور مسکین ہو اور بغیر چون چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ.ب مسکین اور غریب نے کیا مین میکھ نکالنی ہے بیچارے نے ، دنیا میں یہی نظر آتا ہے جب کوئی حکم جاری کیا جاتا ہے تو مسکین غریب بیچارے چل پڑتے ہیں اس کی پیروی کے لئے اور فاسق وفاجر اور ابا والے کہتے ہیں تم ہمیں کس طرف بلا رہے ہو ہم ہر گز ادھر نہیں جائیں گے.چنانچہ مسکین اور غریب دل کی یہ تعریف ہے جیسے ہمارے سادہ، پنجاب میں دیہاتی لوگ ہوا کرتے ہیں بوڑھے، ساده دل، پاک بدن، پاک صاف، جب بھی کوئی حکم ہوتا ہے وہ آگے چل پڑتے ہیں کبھی بھی ان کے دل میں خیال نہیں آیا کہ کیوں ہوا ہے، کیسے ہوا ہے، کیا ہوا ہے.فرمایا: د مسکین ہو اور بغیر چون چرا کے حکموں کو ماننے والے ہو جاؤ جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کو مانتا ہے.“ بچہ والدہ کی باتوں کو کیوں مانتا ہے کبھی غور کر کے دیکھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس کلام کا
خطبات طاہر جلد 17 224 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء فلسفہ سمجھ آ جائے گا.فرمایا ہم یونہی چون و چرا کے بغیر تعمیل کا حکم نہیں دے رہے جیسے بچہ اپنی ماں کو جانتا ہے کہ اسے وہ کبھی غلط حکم نہیں دے سکتی اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلام، مسیح موعود علیہ السلام کو جانتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اتنا ہمدرد، اتنا بنی نوع انسان کی خیر خواہی چاہنے والا ، ہو کیسے سکتا ہے کہ غلط حکم دے دے.پس ساتھ ہی مثال دے دی جو دلیل بن گئی.اب وہ لوگ جو حضرت مسیح موعود کے کلام کو سرسری نظر سے دیکھتے ہیں یا ہیں ہی بد بخت ، جین کے کانوں سے آگے بات نہیں اترتی ان کو اس بات کی سمجھ نہیں آسکتی.کہتے ہیں ہم کیوں حکم مانیں ، یہ حکم ہے، یہ زیادتی ہے، جاہل لوگ ہیں ، بے وقوف ہیں وہ لوگ جو حکم مانتے ہیں.اُن بدبختوں کو یہ نہیں پتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام دلیل دے رہے ہیں.فرماتے ہیں جیسا کہ بچہ اپنی والدہ کی باتوں کو مانتا ہے.“ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شخصیت کو سمجھیں.آپ کی شخصیت فساد برپا کرنے والی شخصیت ہی نہیں ہے.ساری زندگی بنی نوع انسان کے غم میں اور ہدایت اور پاکیزگی کے غم میں آپ نے گویا ہلاک کی ہے.ایسی گریہ وزاری کی ہے خدا کے حضور، ایسار وئے ہیں جیسے اپنے نفس کو ہلاک کر رہے ہوں.ایسے شخص پر یہ بدگمانی کہ کوئی حکم دے گا اور اپنی انا کی خاطر دے گا ہماری بھلائی کی خاطر نہیں دے گا یہ گمان کرنے والا اول درجہ کا جاہل ہے.وہ ماننے والوں پر ہنستا ہے اور ماننے والوں کو خدا بتا رہا ہے کہ ان پر ہنسو یا ان پر روڈ کیونکہ ان کو کوئی عقل نہیں ہے کہ کس پر کیا الزام لگا رہے ہیں.قرآن کی تعلیمیں تقویٰ کے اعلیٰ درجہ تک پہنچانا چاہتی ہیں ان کی طرف کان دھرو اور اُن کے موافق اپنے تئیں بناؤ.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم ، روحانی خزائن جلد 3، صفحہ: 549) قرآن کی تعلیموں کی طرف مزید اشارہ کرتے ہوئے فرما دیا کہ میں تو قرآن کی تعلیمیں دیتا ہوں کونسی میں نے قرآن سے الگ بات کہی ہے.اگر مجھے نہیں مانتے اگر قرآن کو مانتے ہو تو دیکھ لو کہ قرآن کی تعلیمات تو تمام تر ، سارے احکام تمہاری بھلائی کے لئے ہیں اور یہاں وہ لوگ جو د ہر یہ ہیں جو قرآن کو نہیں مانتے ان کے لئے بھی ایک دلیل ہے.قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم بھی نہیں نکال سکتے جو بنی نوع انسان کے فائدہ میں نہ ہو.اگر قرآن کی تعلیمات پر عمل ہو جائے تو یہ دنیا جنت بن جاتی ہے، ایک ادنی سا فساد بھی اس میں باقی نہیں رہتا.پھر فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 وو 225 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء حقیقی نور کیا ہے؟ وہ جو تسلی بخش نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اترتا اور دلوں کو سکینت اور اطمینان بخشتا ہے.“ کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ: 65) ایک طرف آگ ہے جو بھڑکاتی چلی جاتی ہے، بھڑکتی چلی جاتی ہے اور ساتھ آگ والوں کو بھی خاکستر کرتی چلی جاتی ہے.دوسری طرف نار کے مقابل پر نور ہے.تو جہاں آپ نے آگ بیان فرما یا وہاں نور کا بیان بھی آپ ہی کے الفاظ میں سن لیجئے.حقیقی نور کیا ہے؟ وہ جو تسلی بخش نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اترتا اور دلوں کو سکینت اور اطمینان بخشتا ہے.دلوں کو سکینت اور اطمینان تو بعض دفعہ جھوٹے تو ہمات کے نتیجہ میں بھی وقتی طور پر ہو سکتا ہے اگر چہ بہت زیادہ اندرونے پر غور کرنے والوں کو پتا لگ سکتا ہے کہ یہ سکینت محض جعلی ہے، اس میں کوئی بھی سکینت والی بات نہیں لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو فرمارہے ہیں، آسمان سے اتر تا اور سکینت اور اطمینان بخشتا ہے، وہ کس طرح ہوتا ہے؟ نشانوں کے رنگ میں اترتا ہے.اب نشان وہ ہیں جو اپنی سچائی کی خود علامت ہوتے ہیں ، اب سورج سے نو را ترتا ہے تو وہ تمام صفات نور میں جو زندگی بخش ہیں وہ ساری کی ساری کلیۃ سورج میں پائی جاتی ہیں.اگر ذرا کسی میں عقل ہو تو وہ اس حیواناتی دور پر نظر ڈال کر دیکھے کہ جب سے زندگی کا آغاز ہوا ہے زندگی کی تمام تر ضرورتیں سورج کے نور سے لی گئی ہیں.اس نور کو نکال لوتو مکمل اندھیرا چھا جائے گا زندگی کا پہلا قدم ہی نہیں اُٹھ سکتا.پس یہ نشانوں کے رنگ میں آسمان سے اتر ناجو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے اس کی ظاہری مثال سورج کا نور ہے.اب جاہل جس کو علم ہی کچھ نہیں اس کو سمجھ ہی نہیں آسکتی کہ یہ ایک قانون قدرت کے مطابق ہو رہا ہے.اتفاقا نہیں ہو رہا.مگر جو نشان خدا کے پیارے بندوں پر ظاہر ہوتے ہیں وہ تو تازہ بہ تازہ ٹو بہ کو دکھائی دیتے ہیں.اب اہل علم ہونا اور ماضی میں ڈوب کر Biotic Units کا روشنی سے زندگی پانا یہ ایک بہت گہر ا مضمون ہے جو ہر کس و ناکس نہیں سمجھ سکتا.مگر یہ مضمون تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ آسمان سے جن لوگوں پر نو را ترتا ہے وہ اپنے ساتھ نشان رکھتا ہے.اور وہ نشان ایسے نہیں ہیں جو صرف دل میں محسوس ہوں.وہ دیکھنے والا بھی دیکھتا ہے اور دیکھ سکتا ہے اور خدا کے بندوں کی باتوں کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا کیونکہ وہ باتیں ضرور پوری ہوتی ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 226 اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے خطبہ جمعہ 3 اپریل 1998ء تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ: 595) اس حقیقت کو کوئی بدل کے دکھائے تو پھر اس کی باتوں پر غور ہوسکتا ہے کہ کیا کہنا چاہتا ہے.یہ وہ تازہ بہ تازہ ، نو بہ نو نور ہے جو آسمان سے نازل ہوتا ہے اور جس بندے پر نازل ہوتا ہے اس کو یقین سے بھر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے ایک دفعہ ایک مجلس میں ایک آنے والے نے سوال شروع کئے جو اپنے آپ کو بڑا فلسفی سمجھتا تھا.اس نے کہا آپ نے سلوک کی جتنی منازل طے کی ہیں آخر ایک مقام پہ سمجھتے ہیں کہ میں پہنچ گیا ہوں تو ذرا بتا ئیں تو سہی کہ ان ساری منازل کے دوران آپ نے کیا کیا دیکھا، کیا کیا رنگ پائے ؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مسکرا کر فرمایا کہ اگر کلکتہ سے کوئی مسافر گاڑی پر بیٹھ کر پشاور پہنچے اور پشاور اتر جائے اس سے اگر کوئی پوچھے کہ سارے رستہ میں آپ نے ہر لمحہ بدلتے ہوئے مناظر کیا کیا دیکھے تو بتا سکے گا آپ کو؟ وہ مناظر اس وقت محسوس ہورہے ہوتے ہیں لیکن بیان نہیں کیا جاسکتا.تو فرمایا تم کیسی بظاہر عالمانہ باتیں کر رہے ہو اس بات میں کچھ بھی حقیقت نہیں ہے میں پہنچ گیا ہوں.تو اس پر اس نے اپنی طرف سے پکڑا کہ پہنچ گئے ہیں تو بتائیں کیا دیکھا.آپ نے فرمایا میرا دل اس قدر یقین سے بھر گیا ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت اس یقین کو کمزور نہیں کر سکتی.اس کو آزما کے دیکھ لو.جب میں خدا کی طرف سے بات کہتا ہوں تو ناممکن ہے کہ وہ ٹل جائے.پس خدا کی طرف بلانے میں میرا دل کامل یقین سے بھر گیا ہے.(الحکم جلد 37 نمبر 18، 19 صفحہ:10 ،مؤرخہ 28،21مئی 1934ء) سیہ وہ بات ہے جس کا میں نے ذکر کیا تھا.اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کو دُنیا کا کوئی انسان ٹال نہیں سکتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اس نور کی ہر ایک نجات کے خواہش مند کو ضرورت ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 227 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء ہر شخص جو نجات چاہتا ہے اس کو اس نور کی ضرورت ہے.اب اس میں قرآن کریم کے تمام احکامات کی طرف اشارہ ہو گیا ہے.جس حکم کو آپ توڑیں گے کسی نہ کسی دکھ کو دعوت دیں گے.جس حکم کے دائرہ سے نکلیں گے ایک شجرہ خبیثہ کی طرف بڑھیں گے جس کا پھل کڑوا اور گمراہ کرنے والا ہے.پس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: (اس کی ہر ایک کو ضرورت ہے ) کیونکہ جس کو شبہات سے نجات نہیں اس کو عذاب 66 سے بھی نجات نہیں.“ بہت گہری اور عارفانہ اور دائی حقیقت بیان فرما دی : ” جس کو شبہات سے نجات نہیں اس کو عذاب سے بھی نجات نہیں.“ شبہ کے نتیجہ میں عذاب پیدا ہوتے ہیں یعنی خدا کی ہستی کے متعلق شبہ کرنے کے نتیجہ میں.” جو شخص اس دنیا میں خدا کے دیکھنے سے بے نصیب ہے وہ قیامت میں بھی تاریکی میں گرے گا.خدا کا قول ہے.مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أَعْلَى فَهُوَ فِي الْآخِرَةِ أَعْلَى (بنی اسرائیل: 73) 66 پس یہاں جو خدا کو نہیں دیکھ سکے اُن کی عمریں گل گئیں، ضائع ہو گئیں ، بڑھے ہو گئے لیکن خدا دکھائی نہ دیا ان کے لئے یہ ایک اندار ہے کہ جیسے تم یہاں اندھے تھے ویسے ہی وہاں اندھے اٹھائے جاؤ گے اور کوئی بھی حقیقت، جو خدا شناسی کی حقیقت ہے نہ تم نے یہاں پائی نہ وہاں پا سکو گے.پھر فرمایا: اور خدا نے اپنی کتاب میں بہت جگہ اشارہ فرمایا ہے کہ میں اپنے ڈھونڈ نے والوں کے دل نشانوں سے منور کروں گا یہاں تک کہ وہ خدا کو دیکھیں گے اور میں اپنی عظمت انہیں دکھلا دوں گا.“ یہ ہے اصل خدا کو پانے کی نشانی، اگر سچی جستجو ہو گی تو اللہ تعالیٰ ضرور مل جاتا ہے مگر ملتا اس طرح ہے کہ وہ دلوں کو منور کرتا ہے اس کا نو را ترتا ہے وہی آسمانی نور جس کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ دلوں پر اترتا ہے اور وہ ڈھونڈنے والوں کے دلوں کو منور کر دیتا ہے.جب وہ نو را ترتا ہے تو اس نور کو دیکھتے ہیں یعنی خدا کو دیکھتے ہیں کیونکہ ہر چیزا اپنی صفات سے دکھائی دیا کرتی ہے.اگر صفات نکال دیں تو کچھ بھی باقی نہیں رہتا، وجود مٹ جاتا ہے.پس اس حقیقت پر غور کریں کہ پھول بھی دکھائی اس لئے دیتا ہے کہ
خطبات طاہر جلد 17 228 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء اس کے اندر صفت ہے کہ وہ روشنی کو منعکس کرے.جس رنگ میں منعکس کرنے کی صفت ہے وہ رنگ دکھائی دیتا ہے اس کے اندر ایک صفت ہے کہ اپنی بوکو باہر نکالے.اس کے اندر Curves ہیں خاص قسم کے، اس کی پتی کے کھلنے کے انداز ہیں.یہ ساری صفات ہیں ان صفات کو نکال دیں تو پھول کہاں رہے گا، کچھ بھی نہیں رہے گا.پس اس طرح خدا کو نہ دیکھنے والے دل کے اندھے ہیں یعنی صفات الہی کا جن کو نور میسر نہ ہو ان کو اللہ نظر آ ہی نہیں سکتا.پس اللہ ا گر رفتہ رفتہ بھی اپنا نورا تارے تو دیکھنے والا رفتہ رفتہ اس کو دیکھتا چلا جاتا ہے.کبھی ایک پہلو سے کبھی دوسرے پہلو سے.فرمایا : ” خدا کو دیکھیں گے اور میں اپنی عظمت انہیں دکھلا دوں گا.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ عظیم سے عظیم تر ہونا شروع ہو جائیں گے.خدا کے بندے اور وہ جو شیطان کے بندے ہیں، جیسا کہ پہلے ذکر گزر چکا ہے، ان کے اندر کوئی مشابہت نہیں.ان سے ایک جیسا سلوک نہیں ہوسکتا.پس اللہ کو دیکھنے والے پھر دُنیا کو بھی دکھائی دیں گے اور اپنی عظمت سے پہچانے جائیں گے.ان کے کردار میں ، ان کی گفتگو میں ، ان کی چال میں، ان کے پیغامات میں، ان کے بنی نوع انسان سے سلوک میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اس عظمت سے پہچانے جاتے ہیں کیونکہ خدا کی عظمت ان کے اندر جلوہ گر ہوتی ہے.جہاں بھی ان کے اندر کمزوری دکھائی دے گی اور ہزار ہا ایسے سالکین ہیں جن کے سفر ابھی بہت سے باقی ہیں.میں خود بھی اپنے آپ کو اچھی طرح جانتا ہوں.بے انتہا قدم آگے بڑھنے والے باقی ہیں اور جب بھی کوئی کمزوری صادر ہوتی ہے تو میں پہچان لیتا ہوں کہ اس جگہ کوئی نور کی کمی واقع ہوئی ہے یا میں نے کوئی پردہ حائل کر دیا تھا.پھر اللہ تعالیٰ وہ پردہ اٹھا دیتا ہے اور میں دیکھنے لگ جاتا ہوں اور ایک اور نورا ترتا ہے.پس اپنے نفس کی سچی شناخت سے نور اترا کرتا ہے یہ ایک ایسار از ہے جس کو اکثر لوگ سمجھتے نہیں.کیونکہ یہ راز ہے بھی نہیں ، کھلی ہوئی حقیقت ہے اور راز بھی ہے کیونکہ دیکھنے کی آنکھ نہ ہو تو اس کھلی حقیقت کو وہ دیکھ ہی نہیں سکتے.ہر احمدی کے لئے ضروری ہے کہ وہ پہلے سچائی کے نور سے اپنے نفس کو دیکھے اور جب دیکھے گا تو ایک روشنی پیدا ہوگی اور اللہ تعالیٰ وہاں وہ نورا تارے گا جس کی روشنی سے اس کی بدیاں اردگرد سے ظاہر ہونی شروع ہو جائیں گی اور بھا گئی شروع ہو جائیں گی.تو لا متناہی سلسلہ ہے اس اقرار میں کہ ہمارے اندرا بھی بدیاں موجود ہیں ایک ذرہ بھی انسان کو باک نہیں ہونا چاہئے کیونکہ جہاں اس نے اس اقرار میں ایک باک محسوس کیا ،
خطبات طاہر جلد 17 229 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء ایک تر ڈر محسوس کیا وہیں سے اس کے سفر کا رخ بدلنا شروع ہو جائے گا.فرماتے ہیں ' عظمت انہیں دکھلا دوں گا.اس کی نشانی کیا ہے کہ اللہ نے عظمت عطا فرمائی ہے.اب غور کر کے دیکھیں آپ کو اس کا جواب سمجھ نہیں آئے گا.ایک تو وہ نشانی جو میں نے دی ہے باہر سے لوگ دیکھتے ہیں اور قطعی علامت کیا ہے خدا کی عطا کردہ عظمت کی.6 ”یہاں تک کہ سب عظمتیں ان کی نگاہ میں بیچ ہو جا ئیں گی.“ سبحان اللہ ! کتنا عظیم کلام ہے.ان بد بخت اندھوں کے اوپر انسان رحم کرے یا ان کی حالت پر روئے.اسی ایک فقرہ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل کی حالت کو بے نقاب کر دیا ہے.یہاں تک کہ سب عظمتیں ان کی نگاہ میں بیچ ہو جائیں گی.یہ اتنا بڑا امتیاز ہے خدا کے بندوں اور غیروں کا کہ وہ عظمتوں کے پیچھے دوڑتے ہیں حرص اور لالچ کے ساتھ اور جتنی عظمتیں حاصل کرتے ہیں اور زیادہ عظمتوں کی طلب پیدا ہو جاتی ہے.یہ نار جہنم ہے.هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (ق: 31) کی آواز ان کے دلوں سے اٹھتی ہے لیکن جو خدا سے عظمت پاتے ہیں ان کے دل میں عظمتیں کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتیں عظمتیں دینے والا حیثیت رکھتا ہے اور عظمتیں دینے والے سے چمٹ جانے کو دل چاہتا ہے اور ایک ہی عظیم رہ جاتا ہے جو اللہ ہے اور باقی کوئی عظیم نہیں رہتا.یہ ایک ایسی نشانی ہے جو سچائی اور مکروفریب کی عظمتوں کے درمیان زمین و آسمان کا فرق کر دیتی ہے، کسی پہلو سے ایک دوسرے کے برابر نہیں ہوسکتیں.66 یہی باتیں ہیں جو میں نے براہ راست خدا کے مکالمات سے بھی سنیں.“ اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان عظیم الشان معارف کو اپنی طرف منسوب نہیں کر رہے.فرمارہے ہیں یہی باتیں ہیں جو میں نے اللہ تعالیٰ سے سنی ہیں.اس میں بھی ایک عجز ہے.بظاہر بڑائی ہے کہ میں اللہ سے سنتا ہوں مگر حقیقت میں عجز ہے کہ یہ باتیں سن کر اچانک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عرفان کی عظمت دل میں پیدا ہوتی ہے اس کو یک قلم ایک طرف ہٹا دیا ہے.فرمایا: یہی باتیں ہیں جو میں نے براہ راست خدا کے مکالمات سے بھی سنیں.پس میری روح بول اٹھی کہ خدا تک پہنچنے کی یہی راہ ہے اور گناہ پر غالب آنے کا یہی طریق ہے.حقیقت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت پر قدم ماریں.
خطبات طاہر جلد 17 230 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء اب یہ بھی کتنی عجیب بات ہے.حقیقت تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم حقیقت پر قدم مار ہیں.“ اگر حقیقت پر قدم ہے تو حقیقت تک پہنچ گئے لیکن یہ خیال بھی جاہلا نہ ہے.ایک بہت بڑا عارف باللہ ہے جو یہ کلام کر رہا ہے.ساری سائنس کی کہانی اس ایک فقرہ میں بیان ہوگئی.جب سائنس دانوں نے حقیقت پر قدم مارے ہیں، جو حقیقت ان کے سامنے تھی ، تو اس حقیقت نے اگلی حقیقتیں دکھائی ہیں.جب اگلی حقیقوں پر قدم رکھا ہے تو پھر ان سے اگلی حقیقتیں دکھائی ہیں.اب یہ باتیں ایک بڑے سے بڑے عالم کو بھی سمجھ نہیں آسکتیں جب تک اللہ تعالیٰ نہ سمجھائے اور یہ جو تحریر میں آپ کے سامنے پڑھ کے سنا رہا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی باقی تحریروں کی طرح اس میں بھی اللہ اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے ایسے ثبوت ہیں جو کسی طرح ٹالے نہیں جاسکتے اور جب ان پر غور کریں تو اگلا قدم لا زما دکھائی دینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان ساری حقیقتوں کو قرآن کے حوالہ سے بیان کرتے ہیں اور قرآن حضرت محمد رسول اللہ لی لی ایم کے دل پہ نازل ہوا.تو بظاہر یوں دکھائی دیتا ہے کہ اللہ اور جس سے وہ بول رہا ہے اس کے درمیان کچھ بھی نہیں ہے لیکن ان حقیقتوں میں آنکھ کھولیں جو بیان ہو رہی ہیں تو پتا چلے گا کہ آپ خود اقرار کرتے ہیں جو اپنا ایسا اقرار ہے کہ جس کے نیچے ہونے میں ایک ذرہ بھی فرق نہیں.ابھی پہلے گزرا ہے میں قرآنی صداقتیں بیان کرتا ہوں، قرآنی تعلیمات تمہارے سامنے رکھتا ہوں.اب قرآنی تعلیمات رکھتے ہیں تو اپنے دل سے تو کچھ بھی نہ ہوا.قرآنی تعلیمات کس پر نازل ہوئی تھیں.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی للہ یہ تم پر.فرضی تجویزیں اور خیالی منصوبے ہمیں کام نہیں دے سکتے.“ خیالی منصوبے سارے باطل جایا کرتے ہیں.خاص طور پر جماعت احمدیہ کے تعلق میں اس کو کل عالم میں پھیلانا اور اس کی بار یک بار یک ضرورتوں پر دھیان دینا، اس کو سچائی کے رستوں پر ڈالنا، ان بدیوں کو دور کرنے کی کوشش کرنا جو وہ ساتھ لے کے آئے ہیں اور رفتہ رفتہ ان کو صراط مستقیم یعنی خدا تعالی کی سڑک پر ڈال دینا یہ اتنے بڑے کام ہیں کہ اگر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سہارا نہ ہو تو انسان ان کے بوجھ سے پارہ پارہ ہو جائے.یہ محض اللہ تعالیٰ ہے جو طاقت بخشتا ہے اور اپنے رستے بھی دکھاتا ہے.فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 231 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء فرضی تجویزیں اور خیالی منصوبے ہمیں کام نہیں دے سکتے.ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا.(اب دیکھ لیں باقی کیا رہ گیا.) ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا، ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پرزور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن بھیجا.سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے.ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے (پڑ ہے)، سو ہم بصیرت کی راہ سے اُس دین اور اُس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں.ہم نے اس نور حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلمانی پردے اٹھ جاتے ہیں اور غیر اللہ سے در حقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے.یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی سے ( نکل آتا ہے).“ 66 (کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ: 65) اب نفسانی جذبات اور ظلمات کو سانپ سے تشبیہ دی ہے اور سانپ جب کینچلی سے باہر نکلتا ہے تو ایک نئی زندگی پاتا ہے لیکن پھر ایک اور کینچلی چڑھ جاتی ہے کیونکہ جس نفسانی سانپ سے نکلنے کی آپ تعلیم دے رہے ہیں اس کے اوپر پھر کینچلی نہیں چڑھا کرتی وہ نکلتا ہے تو ہمیشہ کے لئے نکل جاتا ہے اور اس میں سانپ والی صفات مرجاتی ہیں.پس مثالوں کا یہ مطلب نہیں کہ سو فیصدی ہر چیز پوری آئے ، غور کرنا چاہئے کہ کن معنوں میں ہے.سانپوں کے گرد ایک کینچلی ہوتی ہے اس کینچلی نے ان کے زہروں کو، ان سب کو پرورش دی ہے ان کو باہر سے بچایا ہوا ہے.کینچلی سے نکلتا ہے تو پھر دوبارہ تازہ ہوا میں باہر نکلتا ہے.اگر سانپ اپنی عادات میں مجبور نہ ہو تو ایک دفعہ نکلنے کے بعد دوبارہ اس کینچلی میں نہیں جائے گا لیکن اس کے نفس کی بدعات، گندگیاں پھر ایک کینچلی بناتی ہیں.تو مومن کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی کینچلی سے ایسا باہر آئے کہ پھر دوبارہ اس کا رُخ نہ کرے تب اللہ تعالیٰ ایک نئی زندگی عطا کرتا ہے اور اسے ہر میل سے پاک فرماتا ہے.ایک اور بات جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کئی رنگ میں بار بار فرماتے ہیں وہ میں اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 232 خطبہ جمعہ 3 اپریل 1998ء ” ہم کیوں کر خدائے تعالیٰ کو راضی کریں اور کیونکر وہ ہمارے ساتھ ہو.اس کا اُس نے مجھے بار بار یہی جواب دیا (ہے) کہ تقویٰ سے.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ :547) تقویٰ پہ اتنا زور ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کہ ہر تان تقویٰ پر ٹوٹتی ہے.آغاز تقویٰ سے، بیچ کا سفر تقویٰ سے، انجام تقویٰ سے ہر اک نیکی کی جڑ اتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے الحکم جلد 5 نمبر 32 صفحہ: 13 مؤرخہ 31 اگست 1901ء) پس آپ فرماتے ہیں کیوں کر خدا تعالیٰ کو راضی کریں اور کیوں کر وہ ہمارے ساتھ ہواس کا اس نے مجھے بارہا یہی جواب دیا ہے کہ تقویٰ سے.اب جتنے شیطان لوگ ہیں وہ اپنے دل کو ٹول کے دیکھ لیں تقویٰ کا نام و نشان دکھائی نہیں دے گا.تقویٰ والا تویچ بولتا ہے، تقویٰ والا تو پہلے بات کو تولتا ہے پھر بیان کرتا ہے، تقویٰ والے کے دل میں کسی کو نقصان پہنچانا، فساد پھیلا نا یہ ایسے تصورات ہیں جو اس کے دل میں جھانکتے بھی نہیں کیونکہ تقویٰ کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے.جود یکھ رہا ہو مالک کے سامنے کھڑا ہو اس کے دل میں کیسے فساد پیدا ہو سکتا ہے.”سواے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.( کتنا پیار سے مخاطب فرمایا ہے.) اے میرے پیارے بھائیو! کوشش کرو تا متقی بن جاؤ.بغیر عمل کے سب باتیں بیچ ہیں اور بغیر اخلاص کے کوئی عمل مقبول نہیں ( ہے.) سو تقویٰ یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ.اور پرہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.“ اب سب نقصانوں سے بیچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھانا یہ ہے تقوی یعنی کسی بری چیز سے بچنا بھو کر سے بچنا.دن کے وقت جب آپ چلتے ہیں تو سب ٹھوکریں دکھائی دے رہی ہوتی ہیں یہاں ٹھوکر ہے، وہاں ٹھو کر ہے اور آپ ان سے بیچ کے چلتے ہیں.پس اگر ٹھوکریں دکھائی نہیں دیں گی تو کیسے ان سے بچ سکیں گے.تقویٰ یہ ہے کہ اپنے خطرے کے مقامات سے آگاہی نصیب ہو.ہر چیز سے جو انسان
خطبات طاہر جلد 17 233 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء کے لئے خطرہ ہے اس کو جان لے کہ یہاں میرے لئے ٹھوکر کا سامان ہے اس سے بیچ کر نکلے.فرمایا: سو تقوی یہی ہے کہ ان تمام نقصانوں سے بچ کر خدا تعالیٰ کی طرف قدم اٹھاؤ.اب یہ کون سی مشکل بات ہے دیکھنے میں کتنا مشکل سفر تھا مگر انسان جو خدا کی طرف جانے کے سفر پر اپنے دل پر غور کرے تو اسے نظر آرہا ہوتا ہے کہ کہاں سے بچنا چاہئے تھا اور نہیں بچا.باہر سے بتانے کی بھی ضرورت نہیں ، ہر شخص اپنے دل کا حال جانتا ہے.ہر فیصلہ کے وقت جانتا ہے کہ یہاں میرے لئے بچنا ضروری تھا میں نہیں بچ سکا.اور پر ہیز گاری کی باریک راہوں کی رعایت رکھو.( لیکن یہ کیسے ممکن ہے) سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو.“ اگر اپنے دل میں انکساری ہی نہیں ہے تو ممکن نہیں ہے کیونکہ انکساری کے نتیجہ میں وہ نور نازل ہوتا ہے جس سے آپ رستہ دیکھ سکتے ہیں.پس باریک راہوں سے بچنا اور انکساری کے بغیر چلنا یہ ناممکن ہے.تکبر اور انا یہ دو چیزیں ہیں جو اندھیرے پیدا کرتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ ایک متکبر کے لئے اس کے رستہ دکھائے پھر وہ اپنے دل کی آگ سے آگے بڑھتا ہے اور اس کا تکبر اس کو ہمیشہ ایک ٹھوکر کے بعد دوسری ٹھوکر میں مبتلا کر دیتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہر مقام پر انکساری کو اول رکھا ہے.تمام تحریرات کا مطالعہ کر کے دیکھیں ان میں کبھی آپ کو تضاد دکھائی نہیں دے گا کیونکہ آپ نے انکساری سے سفر کیا تھا.آپ سے بہتر کوئی اس راز کو نہیں سمجھ سکتا تھا کہ انکساری کے بغیر سفر کا پہلا قدم ہی نہیں اٹھ سکتا.آپ کی انکساری کی مثالیں جو تحریرات میں اور نظموں اور نثر میں ملتی ہیں بے شمار ہیں اور جاہل دشمن نے جہاں سب سے زیادہ نو ر تھا وہیں اس پر حملہ کیا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انکساری پر مذاق اڑایا ہے کہ جس کا اپنا اقرار ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں اس کے پیچھے چل رہے ہو.جو مانتا ہے کہ میری کوئی حیثیت ہی نہیں، میں تو ایک کیڑے کی طرح ہوں وہ اس اقرار کے بعد دُنیا کی راہنمائی کیسے کر سکتا ہے.یہ ملاں اور ملانوں بدبختوں کی عقل ہے حالانکہ اس کے بغیر ہدایت کا سفر شروع ہی نہیں ہوسکتا.اس لئے وہ ہدایت سے عاری ہیں.وہ دُنیا کو ہدایت دے ہی نہیں سکتے کیونکہ تمام ملانوں میں تکبر اور نفس کی بڑائی پائی جاتی ہے اور تمام دہریوں میں تکبر اور نفس کی بڑائی پائی جاتی ہے.جس شخص کو پہچاننا ہو کہ یہ شیطان ہے اس کے اندرانا کو ڈھونڈو.قرآن کریم نے دو باتیں بیان
خطبات طاہر جلد 17 234 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء 66 فرمائی ہیں کہ کیا تو نے تکبر کی راہ اختیار کی اے شیطان ! یا اپنے آپ کو بڑا سمجھا، اونچا سمجھا.یہ دو باتیں ہیں جو شیطان کا تعارف کروانے کے لئے بنیادی باتیں ہیں.جو شخص بھی اپنے آپ کو متکبر بنائے اور سمجھے کہ میں نے ہر چیز اپنی کوشش سے پالی ہے اور میں بہت بڑا ہو گیا ہوں وہاں سے شیطانیت کا پہلا قدم اٹھتا ہے اور آخری قدم بھی پھر یہی ہے اور دوسر ا علا کا دعوی کرے میں بہت بلند ہوں، مجھے کیا ضرورت ہے خدا یا خدا والوں کی میں تو اپنی ذات میں ہی بہت بلند ہوں.ایسے شخص کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس تحریر سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ کوئی بھی سفر ہدایت کی طرف نہیں کرسکتا، نہ ہدایت دے سکتا ہے.چنانچہ جتنے مولوی آپ کو دکھائی دیں گے ملانے ملنے جنہوں نے فساد بر پا کر رکھا ہے ان کے اندر لاز ما یہ دو باتیں پائی جائیں گی.تکبر اور اپنے آپ کو اونچا سمجھنا اور ہر چیز اس کے مقابل پر حقیر دکھائی دے گی.فرمایا: ”سب سے اول اپنے دلوں میں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو.“ اب صرف تکبر سے پاک کرنا نہیں ہے بلکہ دلوں میں صفائی پیدا کرو.بظاہر تکبر اور غلا کے دور ہونے سے ایک صفائی ہو جاتی ہے مگر اور بھی بہت سے محرکات ہیں جن کے نتیجہ میں گند پھیلا ہوا دکھائی دے گا.پہلے بڑی چیز کو نکالو جوگند کا منبع ہے اس کو تو دور کرو جیسے گھروں میں صفائیاں ہوتی ہیں پہلے بڑی بڑی خرابیوں کو دور کیا جاتا ہے، اس قابل بنادیا جاتا ہے کہ اب اس میں کچھ اور کام ہو سکتا ہے پھر بار یک صفائی ہوتی ہے اور جنہوں نے نئے گھر بنائے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس میں کتنی محنت لگتی ہے.پہلی صفائی بہت بڑی بڑی صفائی ہونے والی دکھائی دیتی ہے، سمجھتے ہیں کہ اب کام ختم ہو گیا اور جب کام ختم ہوا تو کام شروع ہوتا ہے.مجھے بھی ایک دعوت دینے والے نے جنہوں نے نیا گھر بنایا تھا دعوت دی اور کہا کہ بس آپ دیکھ لیں اب یہ موٹی موٹی باتیں ہیں یہ ٹھیک ہوجائیں گی تو پھر ہم آپ کو بلائیں گے.موٹی باتیں ٹھیک ٹھاک ہوئے ہوئے چھ مہینے سے زیادہ گزر گئے.میں نے کہا بلاتے کیوں نہیں اب.انہوں نے کہا جو بار یک صفائی ہے اس میں بڑا وقت لگ رہا ہے، ایک چیز صاف کرتے ہیں دوسری نظر آ جاتی ہے اور باہر سے اوروں کو بھی ہم بلاتے ہیں ساتھ مدد کرنے کے لئے لیکن صفائی نہیں ہو چکتی.یہ بالکل سچی بات ہے یہی نفس کا حال ہے، یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو.صفائی کے
خطبات طاہر جلد 17 235 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء بعد پھر جو قدم بھی اٹھاؤ گے، جس کو بھی بلاؤ گے پیار سے بلاؤ، محبت سے، خلوص کے ساتھ بلا ؤ دکھانے کی خاطر نہیں.پس جب اپنے گھروں میں دعوت دو ان چیزوں پر عمل درآمد کے بعد، یہاں دل کے گھروں کی بات ہو رہی ہے فرمایا پھر اخلاص دیکھنا تمہارے اخلاص کے نتیجہ میں کوئی آئے گا.اخلاص میں کمی ہوگی تو کوئی نہیں آئے گا.اب ہم نے دیکھا ہے کہ بندوں کو ، انسانوں کو اخلاص کا پورا علم نہیں ہوتا اس لئے ایسے گھروں میں وہ چلے جاتے ہیں لیکن اللہ کوعلم ہے.اللہ جانتا ہے کہ اپنی دانست میں ساری صفائیاں کر کے گویا مجھے بلایا جا رہا ہے اس وجہ سے کہ دُنیا کو میراتعلق دکھا ئیں.اب یہ بھی دھوکا ایک باقی رہتا تھا.فرما یا کبھی نہیں ہو سکتا.اللہ نے جھانک کے بھی نہیں دیکھنا اگر تمہارے اخلاص میں کمی آگئی.چنانچہ قرآن کریم نے مُخلِصاً لَهُ الدِّينَ (الزمر: 3) کے مضمون کو بار بار کھولا ہے اور بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے.جب تک دین کو اللہ کے لئے خالص نہیں کرو گے وہ نہیں آئے گا جب خالص کر لو گے تو وہ گھر تمہارا گھر کہاں رہا وہ تو اللہ کا گھر بن گیا اور اپنے گھر میں خدا نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات ہاتھ پکڑ کر چھوٹی چھوٹی باتوں سے سفر شروع کراتی ہیں اور آگے بڑھتے بڑھتے وہاں پہنچ جاتی ہیں جہاں انسان تصور بھی نہیں کر سکتا تھا.آسان رستے ، حقیقت پر مبنی رستے عقل کو روشن کرنے والے رستے ، ہلکے قدموں کے ساتھ بڑی بڑی بلندیاں طے کرنے کے راز.یہ باتیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات سے عیاں ہیں.اخلاص پیدا کرو“ کے بعد پھر دوبارہ زور دیا ہے.سچ مچ دلوں کے حلیم اور سلیم اور غریب بن جاؤ ( یہ فرضی باتیں نہ سمجھو سچ سچ تمہیں بننا پڑے گا) کہ ہر یک خیر اور شر کا پیج پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ: 547) اگر ان باتوں پر عمل نہیں کرو گے تو ایسے بیچ دبے ہوئے کہیں پڑے ہوں گے وہ پھوٹ سکتے ہیں.تو ایسی صفائی کرو کہ ایسے بیج جن سے غلط کونپلیں پھوٹ سکتی ہیں ان کا صفایا کر دو تو دوسری صفائی ظاہری صفائی نہیں بلکہ اندرونی صفائی ہے.اب یہ بھی دیکھا گیا ہے ایسی حقیقت ہے جودنیا میں بھی دکھائی دیتی ہے.ایک عمارت جماعت نے خریدی تھی گلاسگو میں.میں بھی موقع پر گیا تھا، جب ساری صفائی ہو گئی اور لگا کہ اب چمک اٹھی ہے
خطبات طاہر جلد 17 236 خطبہ جمعہ 3اپریل 1998ء تو پھر اندر سے وہ Dry-Rot کی کھائی ہوئی چیزیں دکھائی دینے لگ گئیں.اوپر کی صفائی میں ان تمام شرائط کو پورا کر دیا گیا تھا جو عمارت کے نقائص تھے ان کو دور کر دیا گیا جو بار یک صفائی کے تقاضے تھے ان کو پورا کر دیا گیا.جب مین سب کچھ مکمل ہو گیا تو میں نے جا کے دیکھا اوّل تو تھوڑا سا میرا رستہ ایک جگہ سے روک رہے تھے دوسری چیزیں دکھا رہے تھے لیکن آخر دکھانا تھا.میں نے جو اوپر جا کر دیکھا میں نے کہا ہیں! انا للہ یہ کیا چیز ہے؟ کہ یہ کچھ خرابی تختہ ہل رہا ہے اور یہ ہے، وہ ہے حالانکہ وہ خرابی ایسی تھی جو ساری عمارت کو کھانے والی تھی اور جب تحقیق ہوئی تو پتا چلا اندر کی صفائی نہیں ہوئی جو اندر گہری صفائی ہوتی ہے وہ زہر یلے بیج ابھی پڑے ہوئے تھے.جب کمپنی والوں کو بلا کر دکھایا تو انہوں نے کہا یہ Dry-Rot تو لوہے کو بھی کھا جائے گی ، کچھ باقی نہیں چھوڑے گی اس عمارت کا.جب تک تلاش کر کر کے اس کے ہر ذرہ کی بیخ کنی نہ کی جائے جس کے لئے اب دُنیا میں ایسی دوائیں ایجاد ہو چکی ہیں جن سے Dry-Rot کو مارا جاسکتا ہے، پہلے نہیں تھیں.چنانچہ بہت بھاری قیمت پر ان دواؤں کا استعمال کیا گیا.ہمارے خدام نے بڑی وہاں اخلاص سے خدمت کی ہے اللہ انہیں جزا دے.بڑی دور دور سے گئے ہیں وہاں.لندن سے بھی وہاں گئے ، ہارٹلے پول وغیرہ سے بھی گئے.بریڈ فورڈ سے بھی گئے اور ان سب نے مل کر ان تھوڑے خدام کی مدد کی جو گلاسگو کے رہنے والے تھے اور وہ چیز جس کے لئے وہ 1/5 لاکھ پاؤنڈ طلب کر رہے تھے وہ 20 ہزار پاؤنڈ میں سیاری پوری کر دی.یہ اخلاص والے بندے ہیں ، اپنی تکلیف نہیں دیکھتے، اپنا دکھ نہیں دیکھتے، حکم کی تعمیل کرتے ہیں، سمجھتے ہیں کہ جس نے حکم دیا ہے ہمارا خیر خواہ ہے اور پھر اس کے ایسے پاک نتائج ظاہر ہوتے ہیں.اب چونکہ وقت ہو گیا ہے باقی نشان ڈال لیں جہاں تک ہے.یہ پہلا بنڈل ہی ختم نہیں ہونا کیونکہ اس میں اور اور باتیں آتی جاتی ہیں.چلتا جائے جتنادیر مرضی.
خطبات طاہر جلد 17 237 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء دلوں کے مخفی خیالات، عادات اور جذبات کا محاسبہ کرو حضرت مسیح موعود کے ارشادات کی روشنی میں نصائح (خطبہ جمعہ فرمودہ 10 اپریل 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: لِلهِ مَا فِي السّمواتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُمْ بِهِ اللهُ فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير پھر فرمایا: (البقرة: 285) یہ ان آیات میں سے ایک ہے جس کی اکثر تلاوت کی جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ بڑی تعداد میں احمدیوں کو یہ آیات یاد ہوں گی.اس کے مضمون پر میں بعض دوسرے پہلوؤں سے روشنی پہلے بھی ڈال چکا ہوں لیکن آج خصوصیت سے ایک ایسے مضمون پر روشنی ڈالوں گا جس کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پیش کئے جائیں گے.اس میں تین چار ایسی بنیادی چیزیں ہیں جن کو مدنظر رکھنا ضروری ہے جن کی طرف عموماً لوگوں کا دھیان نہیں جاتا.لِلَّهِ مَا فِي السَّبُوْتِ وَ مَا فِي الْأَرْضِ مِیں اللہ تعالیٰ کی گلی ملکیت کا ذکر ہے.مَنْ ہی نہیں فرمایا بلکہ ما فرمایا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ بھی ہے اور اس میں باشعور چیز میں بھی داخل ہو جاتی ہیں، جو کچھ بھی موجود ہے زمین و آسمان میں وہ سب اللہ کی ملکیت ہے.ملکیت کے پہلو سے اس کا سزا دینا
خطبات طاہر جلد 17 238 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء یا بخش دینا، اس پر کوئی سوال نہیں اُٹھ سکتا لیکن اللہ تعالیٰ خود کوئی کام حکمت سے خالی نہیں فرماتا اس لئے وہ اپنی ملکیت کا استعمال بھی اس رنگ میں فرماتا ہے کہ انسانی نقطۂ نظر سے دیکھا جائے تو عین برمحل استعمال ہوگا اور اس میں انصاف کے تمام تقاضے پورے کئے جائیں گے حالانکہ مالک ہونے کے لحاظ سے وہ جو چاہے کرے کوئی نہیں پوچھ سکتا کہ تم ایسا کیوں کرتے ہو یا تو ایسا کیوں کرتا ہے.پہلی بات یہ ہے جو قابل توجہ ہے.دوسری بات ہے وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُمْ اَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبُكُم بِهِ الله سب کچھ اس کا ہے اور ہر چیز اس کے ہونے کی وجہ سے ہر چیز پر اس کی نظر بھی ہے اور چونکہ ہر چیز پر اس کی نظر ہے اس لئے تمہارے لئے بیکار ہے خواہ کسی بات کو ظاہر کر دیا چھپاؤ.خدا تعالیٰ کے ہاں کوئی بات جو چھپی ہوئی ہے وہ چھپی ہوئی نہیں رہے گی وہ بھی اس پر ظاہر ہوگی اور جو تم ظاہر کرتے ہو، ہوسکتا ہے تم غلط ظاہر کر رہے ہو.وَ اِنْ تُبْدُوا مَا فِي أَنْفُسِكُم جب اپنے نفس کی باتیں ظاہر کرتے ہو تو ضروری تو نہیں کہ سچی باتیں کرتے ہو.تو اس پہلو سے دونوں امور پر اللہ تعالیٰ کی نظر ہے اس لئے ظاہر کرنا، جھوٹا ہو یا بناوٹ کا ہو، چھپانے کی کوشش کرنا جو اپنے جرائم یا نیتوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہو یہ سب بیکار ہے.يُحَاسِبُكُم بِهِ الله جو حقیقت حال ہے جس پر خدا کی نظر ہے اس پہلو سے وہ تمہارا حساب کرے گا اور محاسبہ کرے گا کیونکہ اس سے پہلے ملکیت ہونا ثابت ہے تو ملکیت کے ساتھ جزا سزا کا مضمون بھی داخل ہوا کرتا ہے.چنانچہ فرما یا تم یاد رکھنا تم چھپاؤ یا ظاہر کرو، جو کچھ بھی کرو گے اس کا محاسبہ ہوتا ہے.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ.اس محاسبہ میں جسے چاہے گا بخشے گا اور جسے چاہے گا اسے اس کی سزا دے گا.وَ اللهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ یہ جو وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ہے یہ آیت کے آغاز کی طرف دوبارہ اشارہ فرما رہا ہے.جب سب کچھ اس کا ہے تو ہر چیز پر قادر بھی ہے لیکن فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ میں ایک اور بھی مضمون بیان ہو گیا ہے، جب محاسبہ کرے گا تو پھر لاز ما بخشش یا پکڑ کا تعلق محاسبہ سے ہوگا.محاسبہ کے دوران اگر اللہ تعالیٰ یہ معلوم فرمائے گا کہ ایک شخص نے اس محاسبہ سے پہلے خود اپنا محاسبہ کر لیا تھا تو اس محاسبہ کا بنیادی اثر یہ قائم ہوگا کہ اس محاسبہ کے درمیان اگر وہ سچا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے ان لوگوں میں داخل فرمالے گا جن کے ساتھ وہ بخشش کا سلوک فرمائے گا اور اگر اپنے محاسبہ میں لوگ جھوٹے ہیں جیسا کہ بسا اوقات لوگ
خطبات طاہر جلد 17 239 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء اپنے محاسبہ میں جھوٹ سے کام لیتے ہیں حالانکہ کوئی اور نہیں دیکھ رہا ہوتا مگر جب اپنا محاسبہ کرتے ہیں تو بڑی رعایت کرتے ہیں اپنے نفس کی اور کچھ ظاہر کرتے ہیں کچھ چھپاتے ہیں، جس پر اللہ کی نظر ہے.تو محاسبہ سے تعلق میں یہ بات قابل غور ہے کہ فیغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ کا تعلق محاسبہ کی حالت سے ہے.اگر خدا صحیح محاسبہ فرماتا ہے تو محاسبہ کرنے والوں میں سے کچھ ایسے لوگوں کو پائے گا جو اپنے نفس کا خود حساب کر رہے ہیں.اگر وہ خود حساب کر رہے ہیں اللہ کی خاطر تو پھر اللہ تعالیٰ اُن سے نرمی کا سلوک فرمائے گا.اگر خود حساب نہیں کر رہے یا کر رہے ہیں تو جھوٹا حساب کر رہے ہیں تو ان پر اللہ تعالیٰ سختی فرمائے گا اور یہ مضمون جو ہے: حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا " --- (جامع الترمذي، أبواب صفة القيامة...باب حديث الكيس من دان...، حدیث نمبر : 2459) والا مضمون ہے.صوفیاء یہ بیان کرتے ہیں حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا، اپنا حساب کر لو پیشتر اس کے کہ تمہارا حساب کیا جائے.یہ اس آیت کا منطوق ہے یعنی بنیادی مقاصد جو اس آیت کے بغور تلاوت سے ہمیں حاصل ہوتے ہیں وہ یہ مقاصد ہیں.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جن کا اسی مضمون سے گہرا تعلق ہے.فرماتے ہیں: اگر تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی.“ یہ سچا محاسبہ ہے.اگر دل اور زبان میں تضاد نہ ہو تو دل شر سے خالی ہے تو زبان بھی شہر سے خالی ہونی چاہئے.کتنا آسان محاسبہ کا طریق بیان فرما دیا آپ نے.اپنی زبان پر قابو رکھو، اس پر نگاہ رکھوا گر زبان ہر وقت اول فول بکتی رہتی ہے، جو دل میں آئے اسے نکال دیتی ہے تو پھر تمہارا یہ کہنا کہ میں اپنے نفس کا محاسبہ کر رہا ہوں بالکل جھوٹ ہے.اگر نفس کا محاسبہ کرو گے تو زبان پر ہمیشہ پاک کلمات آئیں گے، مغلوب الغضب نہیں ہو گے.ہر وقت زبان کو آزاد چھوڑ دو اور یہ کہو کہ میں محاسبہ کر رہا ہوں یہ نہیں ہوسکتا.تو اللہ تعالیٰ جس سے نرمی کا سلوک فرمائے گا اس کی زبان کو دیکھے گا اور زبان گواہ بن جائے گی اسی لئے آنحضرت ملالہ کی تم نے انسان کے نفس پر گواہ کے طور پر زبان باہر نکال کے دکھائی کہ یہ ٹکڑا زبان کا جو ہے یہ فیصلہ کرے گا حالانکہ زبان سے انسان جھوٹ بھی بولتا ہے لیکن جب جھوٹ
خطبات طاہر جلد 17 240 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء بولتا ہے تو اللہ کو پتا ہے کہ دل میں بھی جھوٹ ہے، یہ مراد ہے.یہ مراد نہیں کہ زبان سے جو کچھ بھی کہے آپ اس کو مان جائیں.محاسبہ کرنے والا انسان نہیں، اللہ ہے.پس زبان سے اگر وہ جھوٹ بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ کے علم میں تو سب کچھ ہے مگر اس بات کو اللہ تعالی گویا نوٹ کر لیتا ہے کہ زبان جھوٹی ہے تو دل بھی جھوٹا ہے.پس یہ معنی ہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کہ: تیرا دل شر سے خالی ہے تو تیری زبان بھی شر سے خالی ہوگی اور ایسا ہی تیری آنکھ اور 66 تیرے سارے اعضاء “ جب دل شر سے خالی ہو تو آنکھ بھی شہر سے خالی ہوگی اور سارے اعضاء شر سے خالی ہو جائیں گے کیونکہ دل میں نیتیں پلتی ہیں.اگر بھلائی کی نیتیں ہیں تو سارا وجود بھلا ہو جائے گا.اگر شر کی نیتیں ہیں تو سارا وجودشر سے بھر جائے گا.تو بظاہر ایک اجنبی سی بات تھی کہ ہم کیسے معلوم کریں گے مشکل مسئلہ نظر آتا تھا کہ ہم کیسے معلوم کریں گے کہ ہم نے اپنے نفس کا صحیح محاسبہ کیا ہے.اس مضمون کو اتنا سادہ، اتنا آسان بیان کر دیا ہے کہ کوئی تھوڑی سے تھوڑی عقل والا بھی اس مضمون کی تہہ تک پہنچے بغیر رہ نہیں سکتا.کھلا کھلا واضح مضمون ہے.نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے.اب اس مضمون کو سمجھ کر جو پہلے گزرا ہے اس پر غور کریں.نور یا اندھیرا پہلے دل میں ہی پیدا ہوتا ہے اور پھر رفتہ رفتہ تمام بدن پر محیط ہو جاتا ہے.“ پس یہ نہ سمجھو کہ آغاز چھوٹا سا ہے.اگر آغاز نور کا آغاز ہے تو وہ بھی پھیلے گا اور اگر آغاز اندھیرے کا آغاز ہے تو وہ بھی پھیلے گا.وو سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے.“ یہ ہے محاسبہ ، ہر وقت نظر کہ کوئی کیڑا تو نہیں لگ رہا.ایک پہلو پڑے پڑے کہیں میرا دل گلنے سڑنے تو نہیں لگ گیا یعنی میں اس سے غافل رہا، میں سمجھا کہ اب بالکل ٹھیک ہے اسے اپنے حال پر چھوڑ دیا اور رفتہ رفتہ دیکھا تو ایک بیماری لگ گئی تھی ، پھپھوندی لگ گئی تھی تو مثال بھی بہت پیاری دی ہے.”سو اپنے دلوں کو ہر دم ٹٹولتے رہو اور جیسے پان کھانے والا اپنے پانوں کو پھیرتا رہتا ہے اور رڈی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 241 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء یہ یادرکھو کہ اگر نیتوں میں فساد شروع ہو جائے تو یہ جیسے پان کو کوئی بیماری لگے اگر کاٹ کے پھینکا نہ جائے تو وہ فساد ضرور آگے بڑھے گا.چنانچہ پنواڑیے جو پان کا کاروبار کرتے ہیں وہ بھی اور عورتیں بھی جن کو عادت ہوتی ہے وہ ہر وقت اپنے پان کو دیکھتی رہتی ہیں، کسی کنارے سے کوئی چیز پھپھوندی لگی ہو تو قیچی سے کاٹ کے الگ پھینک دیتی ہیں اور اگر نہ پھینکیں گی تو سارا پان گندہ ہو جائے گا.تو ایسی اعلیٰ مثال دی ہے کہ اس پر غور کرنا بھی ہر کس و ناکس کے لئے آسان ہے.اور ر ڈی ٹکڑے کو کاٹتا ہے اور باہر پھینکتا ہے.اب نیتوں میں جو فتور آتے ہیں ان پر اگر نظر ہو تو اس فتور کو وہیں سے قینچی کے ساتھ کاٹ دینا چاہئے.اپنے دل میں نہیں پالنا اس کو باہر پھینک دو.اسی طرح تم بھی اپنے دلوں کے مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ :548،547) اب اس میں کئی باتیں بیان فرمائی ہیں وہ ایک ایک بات کھول کر آپ کے سامنے رکھنے والی ہے.تم بھی اپنے دلوں کے منفی خیالات.دل کے خیالات تو مخفی ہی ہوتے ہیں پھر مخفی خیالات سے کیا مراد ہے؟ مراد ہے تمہاری نظر سے مخفی.اتنی ہوشیاری کی ضرورت ہے کہ غور سے دیکھو گے تو پھر سمجھ آئے گی اور نہ تمہاری اپنی نظر سے مخفی خیالات پلتے رہیں گے اور تمہیں خبر تک نہیں ہوگی.پس فرمایا کہ دو مخفی خیالات اور مخفی عادات.انسان کے اندر بہت سی ایسی بد عادات راہ پا جاتی ہیں کہ اسے پتا بھی نہیں لگتا.وہ عادی ہو جاتا ہے اور اتنا عادی بن جاتا ہے کہ وہ ہر روز وہی کام کر رہا ہے اور اسے خیال تک نہیں آتا کہ میں یہ کام کر رہا ہوں بلکہ اگر اس کو پکڑا جائے تو بڑے غصہ سے رد عمل دکھائے گا کہ تو بہ تو بہ میں تو کبھی قریب نہیں آیا ایسی بات کے حالانکہ ہر وقت وہی کام کرتا ہے.قادیان میں ایک بزرگ ہوا کرتے تھے ان کو بھی اسی قسم کی عادت پڑ گئی تھی.ان کا اب نام لینے کی ضرورت نہیں مگر ان کا لطیفہ اکثر بیان ہوتا ہے کہ حضرت خلیفہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے پوچھا کہ تمہاری یہ عادت ہے اس کو دور کرنے کی کوشش کرو تو انہوں نے تو بہ توبہ کی، استغفر اللہ میں تو قریب نہیں پھٹکا کبھی اس کے اور لوگ بھی پھر دیکھا دیکھی اُن سے پوچھا کرتے تھے تو بڑے بڑے پھکر تو لتے تھے اور کہہ یہ رہے ہوتے تھے کہ میں بالکل گالی نہیں دیتا، بالکل گندی زبان استعمال نہیں کرتا اور جب ان سے پوچھا جاتا تھا کہ آپ کرتے ہیں تو کہتے تھے لعنت پڑے اس پر،
خطبات طاہر جلد 17 242 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء میں نے ایسا خبیث، گندہ آدمی دیکھا ہی نہیں اور جو جو کہتے تھے وہ میں بیان نہیں کرسکتا.کہتے ہیں، میں تو ایسی باتوں کے قریب بھی نہیں پھٹکا..(خطبات محمود جلد 18 صفحہ: 329 ، خطبہ جمعہ مؤرخہ 30 جولائی 1937ء) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جھنجھوڑ جھنجھوڑ کے ساری جماعت کو جگا رہے ہیں.تم بیدار نہیں ہو گے تو تمہاری عادات ساری زندگی تمہارے ساتھ لگی رہیں گی اور یہ مخفی عادات“ لوگوں سے نہیں اپنے آپ سے مخفی ہیں.پس یہ ہے ایک حکیم حاذق جو روحانیات کا معالج ہے کس طرح کلام کرتا ہے.مخفی خیالات اور مخفی عادات اور مخفی جذبات.جذبات بھی مخفی ہوتے ہیں جو باہر کی نظر سے تو مخفی ہوں گے ہی لیکن بسا اوقات اپنے جذبات اپنی نظر سے بھی مخفی ہو جاتے ہیں.کئی قسم کے جذبے اٹھتے ہیں چیزوں کو دیکھ کر.حرص پیدا ہوتی ہے، حسد پیدا ہوتا ہے، ناجائز اپنانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے اور انسان کو پتا نہیں چلتا کہ میرے دل میں مخفی جذبات ایسے ہیں جو میری نظر سے مخفی ہیں.ان کا نوٹس نہیں لیتا اور یہ ساری باتیں جس کو انگریزی میں کہتے ہیں نوٹس لینا ، نوٹس لینے کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خوب کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں.اور مخفی ملکات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو.“ اب لفظ ”ملکات میں تمام انسانی صلاحیتیں آجاتی ہیں جس کو Potentials کہتے ہیں فرمایا تمہارے ملکات یعنی تمہاری جتنی بھی طاقتیں کسی نہ کسی رنگ میں تمہیں عطا ہوئی ہیں ان تمام طاقتوں پر نظر رکھو ہر ایک کے متعلق خطرہ ہے کہ جس حالت پر تم نظر نہیں کرو گے اسے پھپھوندی لگ جائے اور انسان کی بے شمار اندرونی حالتیں ہیں جو ایک لفظ ملکات میں کلیہ بیان ہو گئیں.تمام انسانی صفات ، خواہشات، تمام تمنا میں کسی نہ کسی دل کے جذ بہ سے تعلق رکھتی ہیں.چنانچہ فرمایا ان سب پر نظر رکھنی ہوگی جہاں بھی تمہارے ملکات میں کسی جگہ کسی خرابی کے آثار پائے جائیں گے تمہیں اس کو کاٹ کر الگ پھینکنا ہوگا.اور جس خیال یا عادت یا ملکہ کورڈی پاؤ.(پھر وہ آپ دیکھ رہے ہیں تو صاف نظر آجائے گا کہ کیا چیز رڈی ہے اور کون سی اچھی ہے ) اس کو کاٹ کر باہر پھینکو ایسا نہ ہو کہ وہ تمہارے سارے دل کو نا پاک کر دیوے اور پھر تم کاٹے جاؤ.“ عجیب فصاحت و بلاغت کا کمال ہے.ایسا عظیم کلام کہیں دیکھنے میں نہیں ملتا.فرمایا کاٹو ، کاٹو ، کاٹو اگر نہیں کاٹو گے تو یہ چیزیں پھیل جائیں گی یہاں تک کہ تم اس طرح کاٹے جاؤ گے جس طرح پتہ کاٹ
خطبات طاہر جلد 17 243 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء کے الگ پھینک دیا جائے.اب وہ ملکات کون سے ہیں اور کتنے پھیلے ہوئے ہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں جب میں بیان کروں گا تو بعض وقت ڈر کے مارے جان نکلے گی، اتنا مشکل کام.ابھی تک تو آسان تھا لیکن سلوک کی راہیں چلنے کے بعد مشکل ہوتی جاتی ہیں اور ایک فقرہ میں جس مضمون کو آپ نے سمویا ہے اس کی تشریح یوں فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ کی عظمت اپنے دلوں میں بٹھاؤ اور اس کے جلال کو اپنی آنکھوں کے سامنے رکھو.اور یا درکھو کہ قرآن کریم میں پانسو کے قریب حکم ہیں اور اس نے تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت اور ہر ایک عمر اور ہر ایک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک اور مرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری (تیار) کی ہے سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ : 548) پانچ سو ڈش لگائے گئے ہیں اور جو پانچ سو ڈش ہیں ان میں سے ہر ایک کا ہمارے کسی ملکہ سے کسی اندرونی جذبہ سے کسی اندرونی صفت سے تعلق ہے اور ایسی پانچ سوانسان کی حالتیں ہیں جن کی تفصیل بیان کئے بغیر ایک فقرہ استعمال فرمایا جس میں دراصل یہ ساری تفصیل بیان ہوگئی ہے.اب میں دوبارہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.” تمہارے ہر یک عضو اور ہر یک قوت.اور ہر عضو میں ہاتھ پاؤں وغیرہ ہر قسم کے اعضاء انگلیاں تک ، ناخن تک، زبان ، آنکھ، کان ، ناک ہر چیز اعضاء میں داخل ہے اور اعضاء کے سب حصے بھی اعضاء میں داخل ہیں.تو فرمایا یہ جو دعوت ہے پانچ سو حکموں کی یہ تمام اعضاء کے لئے دعوت تیار ہوئی ہے.اور ہر قوت جو انسان کے اندر پائی جاتی ہے اور قوتیں انسان کی الگ الگ ہیں.کوئی کمزور ہے کوئی طاقتور ہے کسی کو بعض قوتیں ملتی ہیں بعض نہیں مالتیں.مثلاً جو اندھے ہیں ان کو بینائی کی قوت نہیں ملتی تو فرمایا جو قوت بھی تمہارے اندر پائی جاتی ہے.اور ہر یک وضع اور ہر یک حالت.اب وضع قطع انسان کی مختلف ہوتی ہے.ہر شخص کی اپنی ایک وضع قطع ہے تو ہر مختلف انسان کی جو مختلف وضع ہے اس کو بھی نظر میں رکھنا.اور ہر ایک حالت.‘ انسان کی حالتیں تبدیل ہوتی رہتی ہیں تو جب تک ہمہ وقت نظر نہ ہو ہر حالت پر نظر ہو ہی نہیں سکتی اور ہر ایک عمر.اب چھوٹوں کے حالات اور ہیں بڑوں کے اور ہیں ، بچوں کے اور ، اور بوڑھوں کے اور.
خطبات طاہر جلد 17 244 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء تو ہر عمر میں انسان کے محاسبے کے تقاضے بدلتے جاتے ہیں اور اس کے نفس کی کیفیتیں بدلتی رہتی ہیں.تولحہ لحہ اگر عمر کا حساب لگاؤ تو لازم ہے کہ ہر عمر کے لئے احکام الگ الگ ہونے چاہئیں اور یہی قرآن کریم میں ملتا ہے.بچے کی پیدائش کے وقت ماں باپ کو کیا کرنا چاہئے ، بچے کی پیدائش سے پہلے ماں باپ کو کیا کرنا چاہئے.جب وہ ان کے ہاں پلتا ہے تو کیا تقاضے ہیں جو انہوں نے پورے کرنے ہیں.پھر جب وہ بڑا ہو جاتا ہے تو خود اس کے اپنے تقاضوں پر نگاہ رکھنی چاہئے کہ میرے لئے خدا تعالیٰ نے کیا سامان کیا ہے.میں نوجوان ہوں ، ایسی عمر میں داخل ہوا ہوں جس میں کھیلنا، کودنا یہ ساری چیزیں میرے جذبات سے تعلق رکھتی ہیں کس حد تک مجھے اپنے آپ کو خدا کی مرضی کے مطابق ڈھالنا چاہئے.اگر احکام نہیں ہوں گے تو ڈھالے گا کیسے.چنانچہ آپ دیکھ لیں قرآنی شریعت میں بچپن سے لے کر لڑکپن کے زمانہ کے احکامات بھی ہیں اور جب شعور میں انسان داخل ہورہا ہوتا ہے اس کے متعلق بھی احکامات ہیں.آپ کو قرآن کریم پڑھتے ہوئے وہ دکھائی دیں یا نہ دیں اگر آپ غور سے پڑھیں گے تو آپ کو لازماً دکھائی دیں گے.ہر عمر کے متعلق قرآن کریم کے احکامات ہیں پھر وہ پوری جوانی تک پہنچتا ہے اس کے متعلق تمام احکامات موجود ہیں.تو نظر کے تقاضے اگر چہ پہلے بیان ہوچکے ہیں مگر عمر کے تعلق میں نظر کے تقاضے بدلتے رہتے ہیں.بچے کی نظر کے نقاضے اور ہیں جو ان کی نظر کے تقاضے اور ہیں ، بڑھے کی نظر کے تقاضے اور ہیں.تو جو پانچ سو احکامات ہیں انہوں نے گھیرا ڈالا ہوا ہے.پھر اور ہر ایک مرتبہ فہم اب ہر شخص کا دماغ الگ الگ ہے اور وہ اپنے دماغ کی حالت کے مطابق محاسبے کے لائق ٹھہرایا جائے گا.چنانچہ جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کے آگے یہی مضمون بیان ہوا ہے ، کسی نفس پر اس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالا جائے گا.لا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 287) تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس چیز کو بھی نہیں چھوڑا.ہر ایک مرتبہ فہم “ ایک بیچارہ پاگل سا آدمی ہے مگر کچھ نہ کچھ نہم رکھتا ہے.جتنا فہم رکھے گا اس کا محاسبہ اسی کے مطابق ہوگا اس کے فہم سے بڑھ کر نہیں ہوگا اور اس کے فہم کے مطابق بھی قرآن کے احکامات ہیں.جتنی اس کو ہوش ہے اس حد تک وہ جوابدہ ہے اس سے زیادہ نہیں.اور (ہر ) مرتبہ فطرت.“ اب فطرت تو ایک ہی ہے تمام بنی نوع انسان کی ایک ہی فطرت ہے
خطبات طاہر جلد 17 245 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء مگر چونکہ فطرت کے تقاضے تبدیل کر دئے جاتے ہیں ماں باپ کی طرف سے، معاشرہ کی طرف سے 66 66 فَأَبَواهُ يُبَوِدَانِه “ (صحیح بخاری، کتاب الجنائز، باب ما قيل فى اولاد المشركين ،حدیث نمبر :1385) کا مضمون ہے، اس لئے کوئی کہہ سکتا ہے فطرت تو ایک ہی ہے.مگر فطرت کو بیرونی اثرات تبدیل کرتے رہتے ہیں اس لئے ہم بعض لوگوں کے متعلق کہتے ہیں بڑا بدفطرت ہے حالانکہ بدفطرت تو کوئی بھی نہیں سب اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی فطرت ہے جو اللہ تعالیٰ کی صفات کے اوپر بنائی گئی ہے مگر اگر اس فطرت کو بد بنا دیا جائے تو اس کی عادات یوں لگتا ہے جیسے اس کی فطرت کی آواز ہے.جب کہتے ہیں بڑا بدذات ہے تو اس سے عام ذات مراد نہیں ہوتی یہی فطرت کے تقاضے مراد ہیں کہ اس نے فطرت کو اتنا گندہ کر لیا ہے کہ کمینی ذات بن گئی ہے اس کی.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس طرف بھی نظر رکھ رہے ہیں اور فرما رہے ہیں ہر مرتبہ فطرت.“ اور (ہر ) مرتبہ سلوک سلوک اس رستہ کو کہتے ہیں جو خدا کی راہ میں اختیار کیا جاتا ہے اور ہر ایک سلوک اگر چہ خدا ہی کی طرف لے کے جاتا ہے مگر چلنے والے کا فرق ہے.چلنے والے کے قدم خدا کی راہ میں بعینہ یکساں نہیں اٹھتے اس کے بھی مرتبے الگ الگ ہیں.اب دیکھیں صراط مستقیم میں سب سے آگے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ہے کہ تم چل رہے ہیں.آپ صلی لا نہ ہم کے پیچھے اتنا لمبا جلوس ہے کہ ارب با ارب انسان پیچھے چل رہے ہیں اور ہر چلنے والا اگر چہ پیروی رسول اللہ صلینی پیہم کی کر رہا ہے مگر اس کا مرتبہ سلوک الگ ہے اور اس کے درمیان لامتناہی مراتب پھیلے ہوئے ہیں.فرمایا سلوک سے یہ نہ سمجھو کہ تم رسول اللہ صلی ایلم کی پیروی کر رہے ہو اگر غور کرو گے تو اس پیروی میں بے انتہا گنجائش ملے گی اور جتنی زیادہ گنجائش پاؤ گے اتنا ہی تمہارا مرتبہ اور تمہارا درجہ بلند تر ہوتا چلا جائے گا.اور پھر ”مرتبہ انفراد اور اجتماع یعنی انفرادی طور پر کچھ تقاضے ہیں، کچھ قومی طور پر تقاضے ہیں.اب جماعت احمد یہ اس کو اچھی طرح سمجھتی ہے کہ ساری دُنیا میں جماعت ایک مٹھی کی طرح اکٹھی ہو چکی ہے لیکن اس اجتماعیت کے کچھ تقاضے ہیں جو ہمیں پورے کرنے ہیں اور کچھ فردا فردا ہر ایک کے اپنے تقاضے ہیں.تو خلاصہ آخر پہ یہی نکلا کہ مرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے.اب جس کو ہم پابندی سمجھ رہے تھے کہ یہ نہ کرو، یہ کرو.وہ دراصل ان تمام حالتوں
خطبات طاہر جلد 17 246 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء کے لئے ایک روحانی دعوت ہے جس کو کھائے بغیر یہ حالتیں ترقی نہیں کر سکتیں بلکہ زندہ نہیں رہ سکتیں، نور کی بجائے اندھیرے میں داخل ہو جائیں گے.پس احکام الہی کی تفصیل سن کر یا اس کی تعداد کا ذکر سن کر جو دل میں ہول اٹھتا ہے کہ ہم کیسے کریں گے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو اس میں لذت پارہے ہیں.کہتے ہیں بڑاز بردست دستر خوان بچھایا گیا ہے اور جس پلیٹ سے کھائیں گے ہمارے اعضاء ہماری صلاحیتوں کے کسی نہ کسی حصہ کو وہ کھانا فائدہ پہنچائے گا.اس لحاظ سے فرماتے ہیں: دعوت تمہاری کی ہے.سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.“ اب کھانے کی خواہش تو ہر ایک دل میں ہوتی ہے مگر اعمال کو شریعت کے مطابق بجالانے سے ڈر لگتا ہے لیکن جیسے ہر کھانا کوئی نہ کوئی تاثیر کسی نہ کسی حصہ جسم پر رکھتا ہے.بعض کھانوں کی تاثیر آنکھ پر پڑتی ہے، بعض کی ناک پر، بعض کی اور صلاحیتوں پر.اس لئے کسی ایک کھانے سے ساری انسانی ضرورتیں پوری نہیں ہو سکتیں.اس لئے اگر یہ خیال کر لو کہ ہم نماز پڑھ رہے ہیں بہت کافی ہے لیکن نماز کے اندر بھی تو بے شمار مضامین ہیں، یا ہم سچ بولتے ہیں تو بہت کافی ہے.اتنی تفصیل سے یہ کھانے تیار کئے گئے ہیں اور اتنی حکمت سے کہ ہر ایک کی ایک تاثیر ہے اور ہر تا شیرکسی نہ کسی حصہ بدن یا حصہ روح پر پڑ رہی ہے.فرماتے ہیں: سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہو گا.“ يُحَاسِبُكُم بِهِ اللہ کا یہ مضمون ہے کہ وہ مالک تھا جس نے ساری صلاحیتیں عطا کیں اس نے ہر ایک کا حساب لینا ہے.فرمایا: ”عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا.اب مواخذہ کے لائق تو ہوگا مگر مواخذہ کیا جائے گا کہ نہیں کیا جائے گا.اس کا جواب اللہ بیان فرما چکا ہے.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ.پس اگر کوئی انسان بے باکی اور جرات سے کسی حکم کو ٹالتا ہے تو بعید نہیں کہ اللہ اس کا مواخذہ فرمائے اور اگر کمزوری کی وجہ سے کسی حکم کو ٹالتا ہے تو اس کا نقصان تو اس حصّہ بدن کو ضرور پہنچے گا یا اس حصہ روح کو ضرور پہنچے گا جس کی تقویت کے لئے غذا مقرر کی گئی تھی یہ ایک طبعی نتیجہ ہے جو لا ز ما خود بخود نکلے گا.اس لئے یہ خیال دل میں نہ لاؤ کہ مغفرت کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ہمیں
خطبات طاہر جلد 17 247 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء ضرورت نہیں.مغفرت کا اور مطلب ہے اور ضرورت کا اور مطلب ہے.اب ایک شخص کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہوتا ہے جس کی بہت سی وجوہات ہیں.اس کو چھوڑ دیں، اس کے نتیجہ میں وہ عام کھانا کھا رہا ہے مگر اس کی ایک ٹانگ سوکھ گئی ہے جس کا مطلب ہے ٹانگ کے لئے جو غذا مقرر تھی وہ اسے نہیں پہنچ رہی.تو جس کی ٹانگ بیچارہ کی سوکھ جائے اب اس کو سوٹیاں تو نہیں مارتے اگر اس کا قصور نہ ہو مگر یہ نہیں کہہ سکتے اس کا نقصان کوئی نہیں.جو غذ انہیں پہنچے گی اس کا نقصان ضرور ہوگا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں فرما رہے ہیں لائق مواخذہ ہوتا ہے.مواخذہ کس نتیجہ پر پہنچے گا یہ اللہ جانتا ہے لیکن اس کے مواخذہ کا یہ مطلب نہیں کہ اگر بخش دیا جائے تو ٹانگ کی کمزوری دور ہو جائے گی.اگر بخش دیا جائے تو مطلب یہ ہے کہ وہ نہیں دوڑ سکا لنگڑا بے چارہ، اس لئے دوڑ میں شامل ہوا مگر تھوڑا چلا.تو اللہ تعالیٰ اس سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا اور اس کا امتحان تھوڑے عرصہ میں مکمل ہو جائے گا جیسے بچوں کی ریس Race ہوا کرتی ہے بڑوں کے ساتھ تو بچوں کے لئے پہلے منزل لگا دیا کرتے ہیں بڑوں کے لئے آگے لگا دیتے ہیں.Handicap جو ہیں ان کے نشان الگ الگ لگتے ہیں.تو یہ مضمون ہے کہ خدا تعالیٰ نے Handicap کا بھی خیال رکھا ہوا ہے مگر ان Handicap کا جو ذمہ دار نہیں ہیں جنہوں نے بالا رادہ شرارت کی راہ سے نعمتوں کا انکار نہیں کیا.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ ان سے مغفرت کا سلوک فرمائے گا.وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ اور جنہوں نے جان بوجھ کر نعمت کا انکار کیا اور اس کے نتیجہ میں ان کے اعضاء سوکھے ہیں تو اس کی ساری ذمہ داری ان پر پڑے گی اور پھر وہ عذاب میں مبتلا کئے جائیں گے.اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ کہ شریر ہلاک ہو گا.“ مسکینی کے ساتھ قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ اس کا مطلب یہ ہے کہ سارے قرآن کا بار تمہاری گردن پر آنا چاہئے جیسے بیلوں پر جو ا ڈالا جاتا ہے تو جس چیز کو وہ کھینچتے ہیں تمام تر بوجھ انہی پر پڑتا ہے تو مسکینی کے ساتھ جیسے بیل اپنی گردن آگے رکھ دیتا ہے اور اس پر جو ا ڈال دیا جاتا ہے.پھر بیل بیل کی الگ الگ حالت ہوتی ہے کچھ بیچارے کمزور ہوتے ہیں وہ تھوڑا تھوڑا چلتے ہیں لیکن سارا بوجھ ضرور اٹھاتے ہیں یہ نہیں ہو سکتا کہ کوئی بوجھ کوئی اور اٹھا لے.اپنی گاڑی خود ہی کھینچنی پڑتی
خطبات طاہر جلد 17 248 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء ہے، کچھ بیل جو قوی ہیں بڑی قوت کے ساتھ تیز دوڑتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ آدھا جو اُٹھاؤ.آدھے جو ا کا کوئی تصور ہی نہیں ہے.پس اپنی گردنیں مسکینی کے ساتھ آگے کر دو اور سارا بار شریعت اٹھانے کے لئے اپنے آپ کو پیش کر دو پھر جو کمزوریاں ہیں ان پر اللہ نظر فرمائے گا اور جس کمزوری سے صرف نظر فرمانا چاہے یا بخشش فرمانا چاہے وہ مَنْ يشا جس کی کمزوری چاہے دور فرمائے گا یا اس سے رحمت کا سلوک فرمائے گا.دین العجائز اختیار کرو.دین العجائز کیا ہوتا ہے؟ عجائز بڑی بوڑھیوں کو کہتے ہیں ایسی بڑی بوڑھیاں جو ہمارے معاشرہ میں اس طرح ملتی ہیں کہ وہ سادہ دل ہوتی ہیں اور ان کے اندر کوئی شر نہیں ہوتا جو کام کہا جائے وہ سو بشیر اللہ کہہ کے اس پہ چل پڑتی ہیں.ایسی بڑی بوڑھیوں کا زمانہ میرا خیال ہے بہت پہلے گزر چکا ہے اب کم کم دکھائی دیتی ہیں.آج کل تو جتنی بوڑھیاں ہیں اتنی شریر اور وہ فساد کا سوچتی رہتی ہیں، مگر پھر بھی ملتی ہیں غریبوں میں ملتی ہیں ، سادہ لوح لوگوں میں ملتی ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام آپ کو ان کی مثال دکھا رہے ہیں کہ اپنے نفس کے لئے بڑی بوڑھیوں کو جن کو عجائز کہا جاتا ہے ان کا دین اختیار کرو.ان کا دین سیدھا سادا یہی ہے کوئی بات کہیں ان سے بی بی مائی ! یہ کام کرواچھی چیز ہے، بہت اچھا جی میں اب یہی کروں گی.سیدھا اعتبار کرتی ہیں.اب لوگوں کا اعتبار جو کرتی ہیں وہ دھوکے میں بھی آسکتی ہیں لوگ دھو کے باز ہیں مگر اللہ تو دھو کے باز نہیں.جب اللہ کہے کہ یہ کام کرو تو عجائز سے ان کا یہ سلیقہ سیکھو کہ وہ اپنا سر تسلیم خم کر دیتی ہیں بڑی سادگی کے ساتھ ، بڑی پاکیزگی کے ساتھ.ان کے ساتھ تو شرارت ہوسکتی ہے مگر تمہارے ساتھ شرارت نہیں ہو سکتی کیونکہ حکم دینے والا اللہ ہے جو رب العالمین ہے، جو تمام ہدایت کا منبع ہے.پس اس پہلو سے فرمایا کہ دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ مسکینی کی حالت میں ” کہ شریر ہلاک ہوگا.اب لمبے فقرہ کو چھوٹا کر دیا ہے.یاد رکھنا مسکینی میں بھی کوئی شرارت نہ ہو ، شریر ہلاک ہوگا.تمہاری مسکینیاں لوگوں کے سامنے تو ہوسکتی ہیں یعنی جھوٹی مسکینیاں لیکن اللہ کے سامنے نہیں ہو سکتیں اس لئے تمہاری مسکینی میں بھی اگر خدا شر کا پہلو دیکھے گا تو تم ہلاک ہو جاؤ گے.
خطبات طاہر جلد 17 249 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا.“ اصل چیز سرکشی ہے.دعا کے ذریعہ مدد مانگنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی سرکشی سے نجات بخشے.جب انسان سر خدا کے سامنے اٹھاتا ہے یا کسی نیک کام کے مقابل پر کوئی باغیانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو اسے سرکشی کہتے ہیں اور یہ روز مرہ کی باتیں ہیں اس کو زیادہ تفصیل میں بیان کرنے کی ضرورت نہیں ، آپ سب جانتے ہیں کہ جب تک مرضی کے مطابق باتیں ہوتی رہیں، انسان مسکینی کی حالت میں دکھائی دیتا ہے جہاں مرضی کے خلاف حکم ہوا وہیں سر اٹھا.ہم نہیں جانتے ایسے نظام کو، ہم نہیں جانتے کس کا حکم ہے.کون ہم پر حکومت کر سکتا ہے.ہم کریں گے اپنے اوپر حکومت حالانکہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ قرآن کریم کے پانچ سو احکامات میں سے ہی ایک حکم تھا.اب اس میں کہنے والے کی ملکیت نہیں بلکہ جس نے یعنی خدا تعالیٰ نے اسے فرمایا یا خدا تعالیٰ کے حکم کی خاطر وہ آگے اس نے دوسرے کو بظاہر حکم دیا ہے یا منت سماجت کی ہے یا پھر درخواست کی ہے جو کچھ بھی کہہ لیں اس کا انکار کرنے والا اس شخص کا انکار نہیں کرتا بلکہ اس اللہ کا انکار کرتا ہے جو مالک ہے اور دیکھنا صرف یہ چاہئے کہ یہ حکم اپنی ذات میں ان پانچ سو میں داخل ہے کہ نہیں ہے.بڑی آسان پہچان ہے، ہر فطرت جانتی ہے، ہر انسان کی فطرت جانتی ہے کہ یہ احکامات پانچ سو احکامات میں داخل ہیں کہ نہیں کیونکہ خدا کی طرف سے جو بھی حکم آئے گا وہ اچھا ہوگا اپنے فائدہ میں ہوگا.تو عجیب احمق لوگ ہیں کہ اپنے فائدہ کی بات جب مرضی کے خلاف پاتے ہیں اور شر میں فائدہ دیکھتے ہیں، خیر میں نہیں تو سر اُٹھا لیتے ہیں.یہ ان کے لئے حکم ہے کہ یا درکھو شریر ہلاک کیا جائے گا.اپنے شہر پر نظر رکھنا، اگر شر ہے تو لازماً تمہیں جہنم کے گڑھے میں دھکیل دے گا.فرمایا: دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو.“ 6 یہی بات ہے جو میں ابھی بیان کر چکا ہوں کہ دُنیا کی خوشحالی جس حکم سے تعلق رکھتی ہو اگر صرف اسی کو مانو گے اور بسا اوقات لوگ ایسا ہی حکم مانتے ہیں جو ان کی دنیا کی خوشحالی کے لئے مفید ہو، دوسرے حکموں کو رڈ کر دیتے ہیں.تو فرمایا ”دنیا کی خوشحالی کی شرطوں سے خدا تعالیٰ کی عبادت مت کرو.“ اب ایک نمازی بظا ہر نمازیں پڑھ رہا ہے جیسا کہ میں نے کہا تھا نماز کے اندر ساری نیکیاں آجاتی ہیں مگر اگر عبادت کا منشا یہ ہو کہ ہم ہی حاصل کرتے رہیں اللہ سے اور دُنیا کی خوشحالیاں نصیب ہوں تو
خطبات طاہر جلد 17 250 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء ساری عبادت ہی ضائع جائے گی اس کا کوڑی کا بھی فائدہ نہیں پہنچے گا.ایسے خیال کے لئے گڑھا در پیش ہے.“ 66 یعنی اس نے غرق ہونا ہی ہونا ہے جو یہ خیال لے کے آگے بڑھتا ہے کہ میں وہی مانوں گا جس کو میں اپنے فائدہ میں سمجھوں گا اور وہ دنیا کی خوشحالی ہوگی تو فرمایا ایسے شخص کو چھوڑا نہیں جائے گا چلتے چلتے ایک دم دھڑام سے ایک گڑھے میں جا پڑے گا اور وہی ابتلا کا گڑھا ہوا کرتا ہے.کسی کے لئے آج در پیش ہوا کسی کے لئے کل ہو گا.غرض یہ کہ تمام نظام جماعت پر نظر ڈال کر آپ دیکھ لیں ایسے شخص کسی نہ کسی جگہ گڑھے میں غرق ہو جاتے ہیں پھر وہ کائے جاتے ہیں اور وہی گڑھا جہنم کا گڑھا بنتا ہے.بلکہ تم اس لیئے اس کی پرستش کرو کہ پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.“ جو خالق ہے اس نے تمہیں بنایا اس طرز پر ہے کہ پرستش اس بنانے والے کا حق بن جاتا ہے.ہر چیز جو انسان بناتا ہے اس پر وہ حق رکھتا ہے.ایک کمپیوٹر بنانے والا کمپیوٹر پر ایک حق رکھتا ہے اور اگر وہ ٹھیک بنائے تو لازماً حکم مانے گا اس کا.ایک ہوائی جہاز بنانے والا ، ایک بہت عظیم الشان پل بنانے والا ، ایک مینار بنانے والا جب بھی بناتا ہے تو اس عمارت یا اس مشین یا اس جہاز وغیرہ کی ایک ایک گل اس کے تابع فرمان ہوتی ہے.جہاں اطاعت سے منہ موڑے گی وہاں اپنی ہلاکت کے سامان کرے گی.بعض دفعہ بہت بڑے بڑے خطرناک حادثے ہوتے ہیں اور خوب چھان بین کے بعد پتا چلتا ہے کہ ایک چھوٹا سا پرزہ اپنی جگہ سے ہل گیا تھا.تو دیکھیں پانچ سو احکامات کی اہمیت کتنی ہے.اور یہ بھی فرما یا کہ ہر خالق اپنے مخلوق پر حق رکھتا ہے اور اس حق کی خاطر اس کی پرستش کرو کیونکہ اگر حق سے روگردانی ہوئی تو ہوسکتا ہے چھوٹی سے چھوٹی روگردانی کے نتیجہ میں بھی تم ایک ہولناک حادثے کا شکار ہو جاؤ اور اس مضمون پر باریک نظر نہ رکھنے کے نتیجہ میں بہت بڑے بڑے لوگوں کو دیکھا گیا ہے جن کی ساری عمر بظاہر نیکی کی کمائی میں خرچ ہو گئی آخر بد انجام کو پہنچے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے تو راہ کی ہر چیز دکھا دی.ایک ایک قدم، ایک ایک ٹھوکر کی نشاندہی فرما دی ہے.ہر چیز پر اتنی روشنی ڈالی ہے کہ اس کے بعد اگر ہم اس سے فائدہ نہ اٹھا ئیں تو بڑی بدقسمتی ہوگی.پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے.چاہئے (کہ) پرستش ہی تمہاری زندگی ہو جاوے اور تمہاری نیکیوں کی فقط یہی غرض ہو کہ وہ محبوب حقیقی اور محسن حقیقی راضی ہو جاوے کیونکہ
خطبات طاہر جلد 17 251 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء جو اس سے کمتر خیال ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ : 548) پس اس مضمون کو فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ پر جا کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے ختم فرما دیا.مَن يَشَاءُ میں راضی ہونا ہے باقی بحثوں کو چھوڑ دو.پیشاء کا مطلب ہے جسے چاہے، جس کے لئے راضی ہو جائے.فرمایا تم رضا پر نظر رکھو، یہ دیکھو کہ اللہ کے پیار اور رضا کی نظر تم پر پڑتی ہے.اگر وہ تم سے خوش ہے اور تم ہمیشہ اس کو خوش رکھنے کی کوشش کر رہے ہو تو پھر تمہیں کوئی خطرہ نہیں.ایک انسان بھی جس سے خوش ہو اس کی بہت سی کمزوریوں سے صرف نظر کرتا ہے اور بالآخر نتیجہ اس کے حق میں ہی نکالتا ہے.مائیں اپنے بچوں سے خوش ہوں تو یہی کام کرتی ہیں حالانکہ دوسروں کو اُن میں لاکھ عیوب دکھائی دیں.اصل چیز خوشی ہے.اللہ خوش تو فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ کا مضمون، اللہ ناراض تو يُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ کا مضمون تو بہت مشکل رستہ دکھا کر ، پانچ سواحکام کی باتیں فرما کر اور پیچ در پیچ راہوں سے گزار کر آخر پر پھر مضمون کو کتنا آسان کر دیا.فرمایا سیدھی بات تو یہی ہے کہ سب کچھ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر ہو.تم یہ دیکھو کہ تمہارے اعمال سے اللہ ناراض نہ ہو اور اس بات کا خیال ہمیشہ، ہر لمحہ دل میں جاگزیں رہے کہ خدا کے پیار کی نظریں تم پر پڑتی ہوں.اگر اللہ راضی تو سب کچھ راضی ، سب جگ راضی، ساری زندگی اپنے اعلیٰ مقصد کو پہنچ گئی.اگر اللہ ناراض کر لیا تو پھر فرمایا اس سے کم تر خیال ہی وہ ٹھوکر کی جگہ ہے یعنی جن ٹھوکروں کا ذکر فرمایا گیا ہے وہ کم تر خیال ہے یعنی اللہ کو راضی کرنے سے کم تر خیال کہ پوری طرح راضی نہ بھی ہوتو کوئی فرق نہیں پڑتا.یہ کم تر خیال جو ہے وہ ٹھوکر کی جگہ ہے اس سے تمہیں ضرور ٹھوکر ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگے فرماتے ہیں یہ سب چیزیں کیسے حاصل ہوں گی ان چیزوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی دعائیں ہمارے شامل حال ہیں اور یادرکھیں ہم دعاؤں کی ہواؤں کے رخ پر چل رہے ہیں اس لئے اگر پھر بھی ہم نے ٹھوکر کھائی تو وہ حالات جو ہمارے لئے سازگار کئے گئے ہیں ان کے مخالف چل کر ٹھو کر کھا ئیں گے.فرماتے ہیں: میں تو ہمیشہ دعا کرتا ہوں مگر تم لوگوں کو بھی چاہئے کہ ہمیشہ دعا میں لگے رہو.“ کیونکہ سب فیصلے آسمان سے ہوتے ہیں.رضا بھی آسمان ہی سے اترتی ہے.اگر ہم دعاؤں سے کام
خطبات طاہر جلد 17 252 خطبہ جمعہ 10 اپریل 1998ء نہیں لیں گے اور اس کی طرف توجہ نہیں کریں گے تو پھر کچھ بھی حاصل نہیں ہوسکتا.نمازیں پڑھو اور تو بہ کرتے رہو.جب یہ حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گا.“ اب یا درکھو کہ ہماری حفاظت کا سامان، ہمارے گھر کی حفاظت کا سامان اس بات سے وابستہ نہیں کہ ہم میں سے ہر ایک اس معیار کو پہنچ جائے کہ اللہ تعالیٰ اسے بچالے.ایک خاندان میں بے شمار لوگ ہوتے ہیں کمزور بھی اور طاقتور بھی مگر اللہ تعالیٰ کے احسان کا سلوک کتنا عظیم ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر سارے گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کے باعث سے دوسروں کی بھی حفاظت کرے گا.“ الحکم جلد 7 نمبر 6 صفحہ:5 مؤرخہ 14 فروری 1903ء) پس آپ کے گھر کی حفاظت کا سامان کتنا آسان ہو گیا ہے.پہلے یہ خیال ہوسکتا تھا کہ ہم میں سے ہر ایک اگر پوری طرح حفاظت کا حق دار نہ بنے گا تو مشکل اور تکلیف کے وقت برباد ہو سکتے ہیں مگر اللہ تعالیٰ نظر رکھتا ہے اور اس نظر میں ایک بات شامل ہے جو یا در کھنے کے لائق ہے کہ اگر اپنے گھر کی حفاظت چاہتے ہیں اور پھر کمزوریاں ہیں تو پھر آپ کی وجہ سے وہ گھر بچایا جاسکتا ہے اور اگر کمزوریوں میں بے اختیار یاں ہیں اور بغاوت نہیں ہے تو پھر بچایا جائے گا.یہ ساری باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام میں مضمر ہیں مگر قرآن کریم کے وسیع مطالعہ سے نظر آنے لگ جاتی ہیں کہ یہ باتیں شامل حال ہیں.اب وہ عذاب جس نے نوح کی قوم کو برباد کیا تھا حضرت نوح کا بیٹا بھی اس میں ہلاک ہوا ہے تو کوئی کہہ سکتا ہے کہ حضرت نوح کی نیکیوں نے بیٹے کو کیوں نہ بچا لیا جن کو بچایا ان سب میں کمزوریاں تھیں اور جس کو نہیں بچایا اس میں باغیانہ حالت تھی اور باغیانہ حالت کے متعلق پہلے ذکر گزر چکا ہے کہ اس کو خدا قبول نہیں کرتا.پس تمام گھر والے جن کی آپ تربیت اس رنگ میں کر رہے ہوں کہ باوجود کمزوریوں کے ان میں باغیانہ حالت نہ ہو تمام ایسے گھر والے آپ کی وجہ سے بچائے جائیں گے.اب چونکہ وقت ہو گیا ہے اور آگے میں نے سفر بھی کرنا ہے باقی باتیں پھر انشاء اللہ.
خطبات طاہر جلد 17 253 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی جب تک اس میں اپنے امام کی اطاعت ، اتباع، اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو (خطبہ جمعہ فرموده 17 اپریل 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: وَذَ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَب لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّى ياتي اللهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ پھر فرمایا: (البقرة:110) یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا تعلق آج کے موضوع کے آخری حصہ سے ہے.سو پہلے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی وہی عبارات مکمل کروں گا جو میں نے گزشتہ خطبہ میں شروع کی تھیں اور اس کے بعد وہ مضمون خود بخود ان آیات کے مضمون میں داخل ہو جائے گا.پس ایک تسلسل ہے جو وقت آنے پر آپ کو سمجھ آ جائے گا لیکن سر دست میں ان آیات کا ترجمہ اور ان کی مختصر تشریح آپ کے سامنے رکھتا ہوں.وَذَ كَثِيرٌ مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ لَوْ يَرُدُّونَكُمْ مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كَفَّارًا كثرت کے ساتھ اہل کتاب یہ تمنا کرتے ہیں ان کا دل چاہتا ہے کہ کاش تم ایمان کے بعد پھر کفر میں لوٹ جاؤ.حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ یہ تمنا محض حسد کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے.حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ
خطبات طاہر جلد 17 254 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء جوان کے اندر سے ہی پھوٹتا ہے.مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ بعد اس کے کہ حق ان پر ظاہر ہو چکا ہوتا ہے، پوری طرح کھل چکا ہوتا ہے.فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا پس عفو سے کام لو اور درگزر سے کام لو.حَتَّى يَأْتِيَ اللهُ بِآمرہ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنے فیصلے سمیت آجائے یعنی اپنا فیصلہ صادر فرمادے.إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِیر یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے.یہاں وَد كَثِيرٌ مِّنْ اَهْلِ الکتب کی جو تمنا کا ذکر فرمایا گیا ہے یہ آج کل بھی جماعت احمدیہ کے حالات پر اسی طرح چسپاں ہوتی ہے.اہل کتاب کے نمائندہ آج کل کے مسلمان ہیں جو اپنے آپ کو کتاب یعنی قرآن کریم کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بڑے فخر سے دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم کتاب والے ہیں اور تم کتاب سے باہر ہو.لَو يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا وہ چاہتے ہیں کہ تم ایمان لانے کے بعد کفار ہو جاؤ ، دوبارہ انکار کر دو.اس بات میں یہ جو ایک لفظ کفارا کا استعمال فرمایا گیا اس میں ان کی جھوٹی منطق کا پول کھول دیا گیا ہے.ذرا بھی عقل کے ساتھ اس آیت کا مطالعہ کریں تو صاف پتا چل جائے گا کہ ان کی یہ خواہش نہیں ہے کہ تم وہ ایمان لے آؤ جو قرآن پر حقیقی ایمان ہے، ان کی خواہش ہے تم کچھ بھی ہو جاؤ مگر کفار ہو جاؤ.ہندو بن جاؤ سکھ ہو جاؤ، عیسائی ہو، دہر یہ ہوان کو کوڑی کا بھی فرق نہیں پڑتا.اگر نہ ہو تو احمدی نہ ہو.پس اس سے پتا چلا کہ انہیں تو دین سے محبت ہی کوئی نہیں.نہ کتاب سے محبت ہے ، نہ خدا سے محبت ہے.ان کا جو جذ بہ ہے ، جو تمنا ہے وہ کفر سے پھوٹ رہی ہے اور کفر ہی ان کا حصہ ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جو یہ فرما یا مِنْ بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كفارا، اس نظارا کے لفظ میں ان کی حقیقت حال کو سمجھنے کے لئے ساری چابی رکھ دی گئی ہے.حَسَدًا مِنْ عِنْدِ أَنْفُھم میں جو ان کی تمنا ہے حسد کی وجہ سے پھوٹ رہی ہے.تم بڑھتے ہو تو آگ لگتی ہے.اگر بڑھنا بند کر دو تو ان کی آگ بھی بجھ جائے گی.کس بات پر حسد ہے اس بات پر کہ وقت کے امام کو تم نے تسلیم کر لیا ہے.جو خدا نے بھیجا تھا اس کو مان لیا ہے اور وہ بڑھ رہا ہے وہ پھیل رہا ہے، ہر کوشش کر بیٹھے ہیں کہ کسی طرح اس کے ارد گرد پھیلنے اور بڑھنے کو روک سکیں مگر اس کی نشو ونما کو روک نہیں سکے.جب بھی کوئی ایسا شریک ہو یعنی جسے لوگوں نے اپنا شریک بنا رکھا ہو اور وہ بڑھے اور نشو و نما پائے اس کے نتیجہ میں لازماً حسد پیدا ہوتا ہے اور حَسَدًا مِّنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ ان کی اپنی جانوں میں سے پیدا ہو رہا ہے ورنہ جو کچھ پھیل رہا ہے وہ تو نیکی پھیل رہی ہے خدا کا دین پھیل رہا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 255 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء احمدیت اس کے سوا اور کیا پیغام دیتی ہے جو قرآن کریم نے دیا ہے، اس کے سوا اور کیا پیغام دیتی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی سلی یا یہ تم نے دیا ہے.ایک بات بھی نہیں دکھا سکتے کہ جس میں ہماری کوشش اہل دنیا کو قرآن کریم کی تعلیم پہنچانے کے سوا کچھ اور بھی ہو.حضرت اقدس محمد مصطفی سال نمی ایستم کا پیغام پہنچانے کے سوا کچھ اور بھی ہو.جب سراسر پیغام نیکی اور قرآن پر مبنی ہے تو پھر ظاہر بات ہے کہ ان کا حسد بے وجہ ہے.مِنْ عِنْدِ اَنْفُسِهِمُ اپنے اندر ہی سے ایک غضب اٹھ رہا ہے جو ان کو کھائے چلا جا رہا ہے اور اس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے.مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ انہوں نے پہچان لیا ہے کہ یہ حق پر ہیں.اگر حق پر پہچاننا ثابت نہ ہوتا تو ہمارا دین بدلنے کی کوشش نہ کرتے.یہ عجیب تماشہ ہے، عجیب مخمصہ میں یہ لوگ پھنسے بیٹھے ہیں کہ ہمارا دین بدلانے کی کوشش کر رہے ہیں، اسے قرآن کے دین سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، محمد رسول اللہ صلی السلام کے دین سے الگ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں.کہتے ہیں تم یہ تعلیم نہ دو جو قرآن نے دی ہے، یہ تعلیم نہ دو جو محمد رسول اللہ صلی ایلیم نے دی ہے پھر ہم راضی ہو جائیں گے.اب اس کو اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے.مِنْ عِنْدِ اَنْفُھم یہ جاہل لوگ تبین کے بعد باوجود اس کے کہ جان چکے ہیں کہ یہ احمدی لوگ قرآن اور حدیث سے چھٹے ہوئے ہیں وہی تعلیم دے رہے ہیں، اس کے بعد ان کے پھیلنے پر حسد صرف مِنْ عِنْدِ اَنْفُهم ہے ورنہ قرآن کے پھیلنے پر ان کو حسد کا کیا حق ہے، حدیث کے پھیلنے سے ان کو حسد کا کیا حق ہے.فرمایا ان لوگوں کی تو جاہلوں والی حالت ہے.فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا ان سے ایسا درگزر کرو، ایسا منہ پھیرو کہ جیسے یہ بستے ہی نہیں.ان کی تو حیثیت ہی کوئی نہیں اس معاملہ کے بعد اللہ ہے جو ان سے نپٹے گا اور وہی نپٹ سکتا ہے.حتٰى يَأْتِي اللهُ بِاَمرِہ یہاں تک کہ اللہ اپنا امر لے کر آجائے.اپنا آخری فیصلہ سنانے کے لئے ظاہر ہو جائے اور پھر ان کی کچھ بھی پیش خدا کی تقدیر کے سامنے نہیں چل سکے گی.إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرُ اللہ ہر چیز پر قادر ہے جب چاہے گا جس طرح چاہے گا وہ اپنی تقدیر کو جاری کر کے دکھائے گا.یہ جتنا جلتے ہیں جلتے رہیں ان کی کچھ پیش نہیں جائے گی.یہ مضمون ہے اس آیت کریمہ کا، جیسا کہ میں نے بیان کیا تھا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ان تحریرات کے بعد جو میں آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں ، آخر پر آئے گا اور وہیں اس کا موقع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 256 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء کوئی بلا اور دُکھ اللہ تعالیٰ کے ارادہ کے سوا نہیں آتا اور وہ اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کی جاوے.“ پہلے بھی بارہا یہی بات بیان کر چکا ہوں کہ اللہ کے ارادہ کے بغیر جب دُکھ نہیں آتا تو اگر آپ حق پر قائم ہیں اور کوئی دکھ آتا ہے تو اللہ اس کا ذمہ دار ہے.وہ اس کے بدلہ آپ کو دین و دنیا میں بہت کچھ دے گا اس لئے رضا کے سوا اور کوئی دین نہیں ہے اور اگر وہ دُکھ ہماری غلطیوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے آتا ہے تو پھر بھی اللہ ہی کے حکم سے صادر ہوتا ہے اس وقت استغفار کرنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ کرنی چاہئے کہ ہم سے بیوقوفیاں ہوئیں ، ہم سے غلطیاں سرزد ہوئیں اور ہم نے ان کا نتیجہ دیکھ لیا ہے اب تو اس کو ٹال دے اور ہم پر فضل فرما.اور ایک دُکھ وہ ہے جو نا فرمانی اور مخالفت کی وجہ سے آتا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مخالفین کے تعلق میں کر رہے ہیں.جو مخالفوں پر بلا پڑے گی وہ مخالفت کی وجہ سے آتی ہے اور مسلمانوں اور مومنوں کا اس سے کوئی تعلق نہیں.پہلے گروہ کا ذکر ختم ہوا اب نیا گروہ شروع ہوا ہے.وہ اس وقت آتا ہے جب اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کی جاوے.اب ایسے بھی لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور مخالفت کرتے ہیں جن کا اس آیت کریمہ میں ذکر موجود ہے جو میں پہلے بیان کر چکا ہوں.”ایسے وقت پر عام ایمان کام نہیں آتا بلکہ خاص ایمان کام آتا ہے.“ جب ان مخالفت کرنے والے شریروں کے نتیجہ میں کوئی دُکھ پڑتا ہے تو وہ مخالفت کے نتیجہ میں ہوتا ہے لیکن مومنوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے.یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے قرآن کریم کے حوالہ سے بارہا بیان فرمایا ہے کہ پھر یہ ضروری نہیں کہ مخالفت کا وبال صرف مخالفوں پر پڑے.مخالفت کا وبال بعض دفعہ اتنا سخت اور اتنا عام ہوتا ہے کہ وہ مومنوں پر بھی پڑ جاتا ہے سوائے اس کے کہ کوئی خاص ایمان رکھتا ہو.وہ خاص ایمان جو ہے وہ ایک ایسی ایمان کی قسم ہے جو کسی شخص کو اللہ کی پناہ میں مکمل طور پر گھیر لیتا ہے.پس ان کا ایمان ہے جو انہیں اللہ کی پناہ میں گھیرتا ہے اور وبائیں کیسی بھی عام کیوں نہ ہوں، و بال کس قسم کا بھی ہو یہ خدا کے مومن بندے ہر حال میں بچائے جاتے ہیں.تو یہ خارق عادت ایمان ہے جس کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے لفظ خارق عادت کے تحت اور جگہ بیان فرمایا ہے اور اس کا گر بھی سمجھا دیا ہے.خارق عادت کا مطلب ہے
خطبات طاہر جلد 17 257 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء عام عادت سے ہٹا ہوا ، عام عادت کو توڑتا ہوا.اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے عام حالت کو توڑتا ہوا تعلق رکھتا ہے جب وہ اللہ سے عام حالات کو توڑتے ہوئے تعلق رکھتے ہیں.پس یہ دو طرفہ معاملہ ہے خدا کے وہ نیک بندے جو اپنی عادات کو خدا کے لئے ایسا بدلتے ہیں کہ عام لوگ نہیں بدلا کرتے ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا بھی یہی فیصلہ ہے کہ لازماً ان سے خارق عادت تعلق رکھے گا.آگ میں پڑیں گے بھی تو آگ سے بچائے جائیں گے.یہ لوگ ہیں جن پر آگ ٹھنڈی کی جاتی ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نافرمانی اور مخالفت کے نتیجہ میں بھڑ کنے والی آگ کا ذکر فرماتے ہوئے فرماتے ہیں: جو لوگ عام ایمان رکھتے ہیں (وہ اُن بلاؤں سے حصہ لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اُن کی پرواہ نہیں کرتا.مگر جو خاص ایمان رکھتے ہیں) اللہ تعالیٰ اُن کی طرف رجوع کرتا ہے اور آپ اُن کی حفاظت فرماتا ہے.مَن كَانَ لِله كَانَ اللهُ له.( جو اللہ کا ہو جائے اللہ اس کا ہو جاتا ہے ) بہت سے لوگ ہیں جو زبان سے لا الہ الا اللہ کا اقرار کرتے ہیں اور اپنے اسلام اور ایمان کا دعوی کرتے ہیں مگر وہ اللہ تعالیٰ کے لئے دُکھ نہیں اٹھاتے.“ اب یہ دکھ اٹھانے کا معاملہ عام لوگوں کے ایمان کو دوسرے لوگوں کے ایمان سے مختلف کر دیتا ہے.پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے اس میں خدا کی خاطر دُکھ اٹھانے والوں کا معاملہ ایسا ہے جو خدا کے نزد یک خارق عادت ہی شمار ہوگا کیونکہ وہ جانتے بوجھتے اللہ کی خاطر بندوں کا دُکھ قبول کر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتے ہیں اور وہ حرکت نہیں کرتے جو خدا کی ناراضگی کا موجب بنے مگر کچھ اور لوگ بھی ہیں جو اسلام اور ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں.کوئی دُکھ یا تکلیف یا مقدمہ آجاوے تو فوراً خدا کو چھوڑنے کو تیار ہو جاتے ہیں.“ پس ہمیشہ جب آپ مرتدین کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو یہ وہی لوگ ہوں گے جب مصیبت پڑتی ہے تو خدا کو چھوڑ کر غیر اللہ سے ڈرتے ہیں، انسانوں سے ڈرتے ہیں اور ارتداد اختیار کر جاتے ہیں اور وہ خواہ بظاہر یہی کہیں کہ دل میں ایمان ہے اوپر سے ہم مرتدوں میں ہیں اللہ تعالیٰ ان کی کوئی پرواہ نہیں کرتا.جو پہلے لفظ پر واہ تھا اس سے غلط نہی ہوتی تھی کہ عام مومنوں کی پرواہ نہیں کرتا مگر عام مومن جب آزمائے جائیں اور آزمائش میں پورا نہ اتریں اور غیر اللہ کے ہو جائیں اور نظر آجائے کہ ان کا اللہ سے نہیں بلکہ بندوں سے تعلق ہے ایسے لوگوں کی اللہ پرواہ نہیں کرتا.
خطبات طاہر جلد 17 258 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء مگر جو خاص ایمان رکھتا ہو اور ہر حال میں خدا کے ساتھ ہو اور دُکھ اٹھانے کو تیار ہو جاوے 66 تو خدا تعالیٰ اُس سے دُکھ اُٹھا لیتا ہے.“ وہ خدا کی خاطر دُ کھ اٹھائے اللہ اس سے دُکھ اٹھا لیتا ہے.کتنا پیارا کلام ہے، کتنا فصیح وبلیغ کلمہ ہے کہ جو خدا کی خاطر دُ کھ اٹھالیتا ہے اللہ اس کا دُکھ اٹھا لیتا ہے.اور دو مصیبتیں اس پر جمع نہیں کرتا.دُکھ کا اصل علاج دُکھ ہی ہے اور مومن پر دو بلائیں جمع نہیں کی جاتیں.“ پس جو اللہ کی خاطر دُکھ اٹھاتا ہے اللہ اُس کے دُکھ اٹھاتا ہے اور خدا کے غضب کی بلاء اس کے ساتھ شامل نہیں ہوتی.یہ دو بلائیں بیک وقت اس کو سزا نہیں دیتیں کہ بندوں کی سزا بھی پہنچ رہی ہو اور اللہ کی سزا بھی پہنچ رہی ہو.پس اللہ اس کا دُکھ اٹھا لیتا ہے یہ معنی رکھتا ہے کہ اپنی طرف سے اس کو محفوظ قرار دیتا ہے اور اسے کبھی پھر خدا کی طرف سے کوئی ناراضگی کا دُکھ نہیں پہنچتا.ایک وہ دُکھ ہے جو انسان خدا کے لئے اپنے نفس پر قبول کرتا ہے اور ایک بلائے نا گہانی.( بھی ہوتی ہے ) اس بلا سے ( بھی ) خدا ( اُس کو ) بچا لیتا ہے.“ اچانک آسمان سے نازل ہونے والے مصائب یا دنیا سے رونما ہونے والے مصائب ایسے ہیں جن سے خدا تعالیٰ اس کو بچاتا ہے.پس یہ دن ایسے ہیں کہ بہت تو بہ کرو.“ الحکم جلد 7 نمبر 6 صفحہ: 5 مؤرخہ 14 فروری 1903ء) یہ مضمون بہت باریک اور لطیف ہے مگر ایک ایک لفظ اس کا حالات پر صادق آتا ہے.بعض لوگ شاید غلط فہمی سے یہ سمجھیں کہ بلائے ناگہانی تو مومنوں پر بھی پڑ جاتی ہے.بلائے ناگہانی کی قسمیں الگ الگ ہیں.ایک بلائے ناگہانی ہے جس کو حادثاتی بلا کہتے ہیں.ایک بلائے ناگہانی ہے جو خدا کی ناراضگی کے ساتھ مل کر پڑتی ہے.تو جو حادثاتی بلائے ناگہانی ہے اس میں تو خدا کے بڑے بڑے نیک بندے بھی مارے جاتے ہیں ہرگز اس کا ذکر نہیں ہو رہا.خدا سے تعلق یا عدم تعلق کی بات ہورہی ہے.پس بلائے ناگہانی سے مراد وہ بلائے ناگہانی ہے جو کسی شخص کو مثلاً خدا کے غضب کے نتیجہ میں گھیر لے یا وہ بلائے ناگہانی جس کے نتیجہ میں دنیا سمجھے کہ اللہ نے اس بندے کو چھوڑ دیا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 259 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء وہ اگر دنیا وی بلائے ناگہانی بھی ہوگی تو اس تعلق سے خدا اُس کو بچاتا ہے.پس بسا اوقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ یہی معاملہ ہوا کہ بلائے ناگہانی خدا کی طرف سے معین طور پر نازل نہیں ہوئی تھی ایک عام بلائے ناگہانی تھی مگر اگر پڑ جاتی تو دنیا یہی نتیجہ نکالتی کہ دیکھو یہ خدا سے دور تھا اس لئے اللہ نے اُس کو پکڑ لیا.ان واقعات کی بے شمار مثالیں ہیں اگر آپ غور کریں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو لطیف خطابات ہیں یا تحریرات ہیں ان پر گہرا غور کئے بغیر ان کی سمجھ نہیں آسکتی اس لئے مجبوری ہے کہ میں آپ کو ایک ایک لفظ بتا کر ، دکھا کر سمجھا نا چاہ رہا ہوں کیونکہ میرے پاس اس کے سوا کوئی فریضہ نہیں کہ وقت کے امام کی زبان کو آپ پر آسان کر دوں اور جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں وہ آپ پر خوب اچھی طرح کھول دوں.یہ سب باتیں بیان کرنے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک پیش گوئی فرماتے ہیں اور اس پیش گوئی کے ذکر میں وہ حسد کا معاملہ آئے گا جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا.فرماتے ہیں: میں بڑے دعوے اور استقلال سے کہتا ہوں کہ میں سچ پر ہوں اور خدائے تعالیٰ کے فضل سے اس میدان میں میری ہی فتح ہے.اور جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں.“ ”جہاں تک میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تمام دنیا ( کو ) اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں.“ دور بین نظر سے یہ مراد ہے کہ مستقبل میں یہ ہو کے رہنا ہے اور جن لوگوں کے پاس دور بین نہ ہو ان کو نزدیک کی چیزیں تو دکھائی دیتی ہیں دور کی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ میں ساری دنیا کو اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں تو دشمن کا حق تھا کہ وہ کہتا کہ یونہی تعلی ہے کہاں دیکھتے ہیں ہم.ساری دنیا مخالف ہوئی ،شور پڑا، گالیاں دی جارہی ہیں اور ابھی یہ دعوئی ہے کہ سب دنیا کو میں سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں لیکن کتنا پیارا کلام ہے اتنی بار یک نظر سے جو خورد بینی نظر ہے دور بین اٹھا دی ہے اور فرمایا میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں اور جب میں دور بین نظر سے کام لیتا ہوں تو تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں یہ ہو کر رہنا ہے کوئی دنیا کا انسان یا قوم اس تقدیر کو بدل نہیں سکتی.کیوں ایسا ہوگا:
خطبات طاہر جلد 17 260 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء کیونکہ میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے.( تعلی نہیں ہے میں اس لئے دعوی کر رہا ہوں کہ ) میری زبان کی تائید میں ایک اور زبان بول رہی ہے اور میرے ہاتھ کی تقویت کے لئے ایک اور ہاتھ چل رہا ہے ( جو اللہ کا ہاتھ ہے ) جس کو دنیا نہیں دیکھتی مگر میں دیکھ رہا ہوں.“ خدا کی تائید کا ہاتھ اتنا واضح ، اس قدر ظاہر ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے سامنے دکھائی دے رہا ہے مگر دنیا اسے نہیں دیکھتی.پس ایک دور بین نظر تھی جس نے دور کی باتیں بتا دیں.یہ ایک خورد بینی نظر ہے جس میں وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جسے دنیا نہیں دیکھ سکتی کیونکہ ان کو روحانی خورد بین عطا نہیں ہوئی.” میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے.جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی 66 بخشتی ہے.“ یہ کلام اتنا سچا ، حیرت انگیز طور پر آپ کی تحریرات اور خطابات پر صادق آنے والا ہے کہ اگر کوئی شریف النفس تعصبات سے پاک ہو کر اس کا مطالعہ کرے تو ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تکذیب کر سکے.”میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے.لفظوں اور حرفوں کو زندگی اللہ کے کلام کے سوا ملتی ہی نہیں ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام نثر میں ہو یا نظم میں ہو جب پڑھتے ہیں تو اس میں ایک ایسی زندگی کی لہر پاتے ہیں جو کبھی مر نہیں سکتی.ہمیشہ ہمیش کے لئے ، ایک سوسال تو ہو گئے ہیں ہمیں دیکھتے ہوئے ہر دفعہ جب پڑھتے ہیں تو اس زندگی کو از سر نو اٹھتا ہوا دیکھتے ہیں، ابھرتا ہوا د یکھتے ہیں.فرمایا: اور آسمان پر ایک جوش اور اُبال پیدا ہوا ہے جس نے ایک پتلی کی طرح اس مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے.“ اس سب کے نتیجہ میں کوئی تکبر نہیں.فرمایا آسمان پر جوش ہوا جس نے ایک پتیلی کی طرح اس مشت خاک کو کھڑا کر دیا ہے.اب دیکھیں اس میں خدا کا بولنا کیسا ثابت ہے.یہ فقرے ایک غیر روحانی انسان کی زبان سے جاری ہو ہی نہیں سکتے.
خطبات طاہر جلد 17 261 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء ہر یک وہ شخص جس پر توبہ کا دروازہ بند نہیں (ہے) عنقریب دیکھ لے گا کہ میں اپنی طرف سے نہیں ہوں.کیا وہ آنکھیں بینا ہیں جو صادق کو شناخت نہیں کر سکتیں.کیا وہ بھی زندہ ہے جس کو اس آسمانی صدا کا احساس نہیں (ہے).“ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ : 403) اب ان دعاوی کے بعد اللہ تعالیٰ کا شکر ادا فرماتے ہیں کہ میری اس آواز کے ساتھ اور آوازیں بھی اٹھ رہی ہیں جو میری تائید میں اس طرح کلام کر رہی ہیں.ایسے ہاتھ ہیں جو خدا کے ہاتھ کے ساتھ اٹھ رہے ہیں.ایسے قدم ہیں جو خدا تعالیٰ کی ان ہواؤں کی رفتار کے ساتھ جو جماعت کی تائید میں چلائی گئی ہیں وہ تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں.تو دعوی اگر تعلی ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اکیلے رہ جاتے.اتنی مخالفتوں کے بعد، اتنے شور وشر کے بعد، اتناغل مچایا گیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آواز دبا دینے کی کوشش کی گئی مگر یہ آواز دب نہ سکی.پس مخالفتوں کے باوجود آواز کا نہ دبناء کاموں کا جاری ہونا، سلسلہ کا ترقی پاتے چلے جانا یہ بتا رہا ہے کہ یہ جو پیش گوئیاں ہیں یہ یقیناً سچی ہیں کیونکہ اُن پیشگوئیوں کی جانب جماعت روانہ ہوچکی ہے.فرماتے ہیں: میں خدا تعالیٰ کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت عطا کی ہے.(اب دیکھیں کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جماعت آپ کی سچائی کی گواہ بن چکی ہے ) میں دیکھتا ہوں کہ جس کام اور مقصد کے لئے میں ان کو بلاتا ہوں نہایت تیزی اور جوش کے ساتھ ایک دوسرے سے پہلے اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں.“ اب یہ الہی کلام ہے کیونکہ سو سال سے زائد ہوئے اس بات کو کہے ہوئے آج بھی جماعت کا وہی حال ہے.حیرت ہوتی ہے، ایک ادنی غلام جو مسیح موعود علیہ السلام کا ایک ادنی ترین غلام ہے اس کی آواز میں جو برکت رکھی گئی ہے وہ مسیح موعود کی آواز کی برکت ہے کوئی اور آواز نہیں ہے اور وہی خدا کا کلام ہے جو آپ کے ذریعہ بول رہا تھا چنانچہ آج آپ سب دنیا میں یہی کچھ ہوتا دیکھ رہے ہیں پھر شک کی کونسی گنجائش باقی رہ جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 262 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء اپنی ہمت اور توفیق کے موافق آگے بڑھتے ہیں اور میں دیکھتا ہوں کہ ان میں ایک صدق اور اخلاص پایا جاتا ہے.میری طرف سے کسی امر کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ تعمیل 66 کے لئے تیار “ اس بات نے آگ لگائی ہوئی ہے.کئی طرف سے کوششیں ہو رہی ہیں جماعت کو کم کرنے ، گھٹانے کی.یہ آگ لگی ہوئی ہے کہ جماعت اتنی وفادار، اتنی عاشق کہ جو کچھ ہم کر دیکھیں اس کو خاک برابر نہیں سمجھتے ، آگ میں ڈال دیتے ہیں جو کچھ ہم بکواس کرتے ہیں یا کوشش کرتے ہیں مخالفت کی اور یہ جماعت اپنے اخلاص میں ترقی کرتی چلی جارہی ہے وفا کا دامن نہیں چھوڑتی.اس لئے نہیں چھوڑتی کہ اللہ کا حکم ہے ، اس لئے نہیں چھوڑتی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام کے ساتھ خدا کا کلام ہے جو جاری ہوتا ہے اس کو بدل کیسے سکتے ہیں جو مرضی کر لیں کبھی تبدیل نہیں کر سکتے.اب آئندہ آنے والے واقعات کو اس طرح منسلک فرما دیا ہے.حقیقت میں کوئی قوم اور جماعت تیار نہیں ہو سکتی.جب تک کہ اُس میں اپنے امام کی اطاعت اور اتباع کے لئے اس قسم کا جوش اور اخلاص اور وفا کا مادہ نہ ہو.“ الحکم جلد 9 نمبر 9 صفحہ: 5 مؤرخہ 17 مارچ 1905ء) پس یہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی آج آپ کے ذریعہ پوری ہو رہی ہے.آپ فرماتے ہیں جب بھی امام کے ساتھ یہ تعلق ہو گا لازماً جماعت ترقی کرے گی اور پھیلے گی اور کوئی دنیا کی طاقت اسے روک نہیں سکتی.یہ ہے وہ مضمون جس نے حسد کی راہیں کھولی ہیں جس کے نتیجہ میں بہت سخت ایک بلا حسد کی پڑ گئی ہے لوگوں پر اور وہ کوشش کر رہے ہیں کہ کسی طرح ان کو ختم کر دو.چنانچہ قرآن کریم سورۃ البقرۃ میں اسی مضمون کو یوں بیان فرماتا ہے: مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَب وَلَا الْمُشْرِكِينَ أَنْ يُنَزِّلَ عَلَيْكُم مِّنْ خَيْرٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ۖ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ ۖ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ـ (البقرة: 106) اہل کتاب میں سے اور مشرکوں میں سے جن لوگوں نے ہمارے رسولوں کا انکار کیا وہ پسند نہیں کرتے کہ تم پر تمہارے رب کی طرف سے کسی قسم کی خیر و برکت اتاری جائے اور بھول جاتے ہیں کہ اللہ جسے چاہتا ہے اپنی رحمت کے لئے خاص کر لیتا ہے اور اللہ بڑا فضل کرنے والا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 263 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء آج کل ساری دنیا میں جو جماعت کے خلاف مہم چلی ہوئی ہے پاکستان کے علاوہ دوسرے ممالک بھی ہیں ان میں بھی یہی شور پڑا ہوا ہے خالصہ حسد کی وجہ سے ہے اور اُن کے حسد کی وجہ سے ہم نے بڑھنا بند نہیں کرنا.یہ تو مقدر کی بات ہے.ناممکن ہے کہ کوئی حسد کرے اور ہم اس کی خاطر رک جائیں کہ بیچارا کیوں آگ میں جلتا ہے، آگ میں جلتا ہے مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ ، یہ لوگ اپنے اندر کی آگ میں خود جل رہے ہیں.ہم ان کو کیسے روک سکتے ہیں لیکن ہم نے بڑھنا بند نہیں کرنا، پھیلنا بند نہیں کرنا.ہماری ترقیات جتنا چاہیں ان کو دُکھ دیں یہ ان کے مقدر میں ہے ہمارا تو کوئی قصور ہی نہیں، ترقی کرنا کون سا قصور ہے یہ بھی ترقی کر دیکھیں.اگر ان سے ترقی ہوسکتی ہے تو کر دیکھیں.یہ مہ ہیں.یہ مقابلہ ہے ہمارے ساتھ.یہ بھی آگے بڑھیں اور ہم بھی آگے بڑھیں اور یہ ہمیں پیچھے چھوڑ جائیں لیکن یہ ہو نہیں سکتا.وَاللهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ.اس مضمون نے ان کی ناکامی پر مہر لگا دی ہے تم دوڑ کر دیکھو کوشش کر دیکھو تمہیں کبھی ترقی نصیب نہیں ہو سکتی کیونکہ وَاللَّهُ يَخْتَصُّ بِرَحْمَتِهِ مَنْ يَشَاءُ کہ اللہ اپنی رحمت کے لئے جسے چاہتا ہے خاص کر لیتا ہے اور جس کو خاص نہ کرے اس کے نصیبے میں کچھ بھی نہیں لکھا جاتا سوائے نامرادی کے.پس یہ چیلنج ہے آؤ اور مقابلہ کر کے دیکھ لو جتنی چاہے دوڑیں لگاؤ تم ہمیشہ ناکام و نامرادر ہو گے.جماعت احمدیہ کی ترقی کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں خاص کر لیا ہے اور جس کو خدا رحمت کے لئے خاص کر لے کوئی دنیا کی طاقت اس کی راہ میں روڑے نہیں اٹکا سکتی.وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ اور جو خاص کیا ہے وہ عام رحمت کے لئے نہیں، فضل عظیم کے لئے خاص کیا ہے.ذُو الْفَضْلِ الْعَظیمِ کا مضمون سورۃ جمعہ کی ان آیات کی یاد دلاتا ہے جس میں آنحضرت ملی پی ایم کی بعثت ثانیہ کے ساتھ یہ ذکر فرمایا گیا تھا کہ جس کو چاہے وہ چنے گا.وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيْمِ اور اللہ بہت بڑے فضل والا ہے.تو یہ تو چودہ سو سال پہلے قرآن نے تقدیر ظاہر کر دی تھی آج کی بنائی ہوئی باتیں تو نہیں ہیں.قرآن نے فیصلہ کر دیا تھا کہ جب خدا چاہے گا جس کو چاہے گا چنے گا اور کوئی اس میں روک نہیں بن سکتا ، خدا کی اس جاری تقدیر کی راہ میں روک نہیں بن سکتا.اور دنیا دیکھے گی وَاللهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظيمِ اللہ بہت بڑے فضل والا ہے.یہ فضل ہیں جو آپ پر نازل ہونے والے ہیں، یہ فضل ہیں جو آپ پر نازل ہو رہے ہیں.ان فضلوں کو روکنے کے لئے حسد کی آگ بھڑک رہی ہے اس لئے لوگوں کے حسد کی آگ کی وجہ سے آپ کے قدم کیسے رک سکتے ہیں.یہ ناممکن ہے.
خطبات طاہر جلد 17 264 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء اس کے بعد قرآن کریم کی بعض اور آیات ہیں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اس مضمون کو کھول رہی ہیں.قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَ مَا انْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَ أَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَسِقُونَ (المائدة: 60 ) ان اہل کتاب کو جو آج کے اہل کتاب ہیں ان کو مخاطب کر کے یہی آیت اسی طرح تحدی کے ساتھ اپنے مقصد کو پیش کر رہی ہے جس طرح آج سے چودہ سو سال پہلے اسی آیت نے اسی مقصد کو اسی تحدی کے ساتھ پیش کیا تھا کوئی بھی آپ فرق نہیں دیکھیں گے.قُلْ ياهل الكتب هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللهِ.تم ہم سے اس بات کا انتقام لے رہے ہو کہ ہم ایمان لے آئے ہیں.اگر تم ایمان نہیں لائے تو تمہاری بد قسمتی ہے اور اگر بری چیز پر ایمان نہیں لائے تو خوش ہو جاؤ جلتے کیوں ہو.کتنی عجیب منطق ہے جو اس میں بیان ہے.غور کریں تو ہر دعوی کے ساتھ اس کی دلیل موجود ہے.هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِاللهِ تم انتقام کا نشانہ بنا رہے ہو صرف اس وجہ سے کہ ہم اللہ پر ایمان لے آئے ہیں.اگر تمہارے نزدیک یہ ایمان غلط ہے تو ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دو.اگر تمہارے نزدیک تمہارا ایمان اللہ پر درست ہے تو موجیں کرو، اس کے فضلوں کے نمونے دیکھو، وہ تمہیں نصیب نہیں ہوتے.اس لئے انتقام ہم سے اس بات کالے رہے ہو کہ ایمان لائے ہیں تو ٹھیک خدا پر ایمان لائے ہیں جو ہمیں نصیب نہیں ہے اس بات کا انتقام لے رہے ہو.وَ مَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ اور یا درکھو کہ جو کچھ ہم پرا تارا گیا ہے اس سے پہلے بھی یہی کچھ اتارا گیا تھا اس لئے فرق کے نتیجہ میں تم غصہ میں نہیں آئے ہو.اگر طیش اور انتقام کا جذ بہ ہے تو اس وجہ سے نہیں کہ وہی چیز جو پہلے بھی اتاری گئی تھی وہی ہم پر اتاری گئی.اگر اس پر غصہ ہے تو پہلی تعلیم پر بھی غصہ کرو، وہ کیوں اتاری گئی تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے الہامات اور تعلیمات پر میں بارہا چیلنج دے چکا ہوں کہ ایک بھی تعلیم دکھا ئیں جو رسول اللہ مایا یہ تم پر اتری ہوئی تعلیم کے برعکس ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہیں فرمایا ہو کہ جھوٹ بولو اس میں تمہیں بڑا ثواب ہوگا.بد نظری کرو، بدکاری کرو، بے عملی کرو فسق و فجور میں مبتلا ہو جاؤ ، چوری چکاری کرو کیا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تعلیم میں کہیں بھی دشمن یہ باتیں دکھا سکتا ہے؟ اور یہ کیا وہ باتیں نہیں جو رسول اللہ سی ایم نے فرمائی تھیں.پس اگر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر
خطبات طاہر جلد 17 265 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء ان باتوں کی وجہ سے غصہ آتا ہے تو سوچو کس پر غصہ آرہا ہے جو پہلے یہ باتیں کیا کرتا تھا جس کی باتیں ہی آگے دوہرائی جارہی ہیں.تم مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو حضرت محمد رسول اللہ صلی ای تم سے جدا کر ہی نہیں سکتے.جتنا انتقام کی کوشش کرو گے اتنا ہی رسول اللہ لی لا یتیم کی تعلیمات سے انتقام لینے کی کوشش کرو گے.اتنا واضح کھلا ہوا مضمون ہے یہ جاہل سمجھتے نہیں، دیکھتے نہیں، سنتے ہیں تو ان سنا کر دیتے ہیں.وَمَا اُنْزِلَ مِنْ قَبْلُ وَ اَنْ اَكْثَرَكُمْ فَسِقُونَن اس نے ان کی ساری قلعی کھول دی.فرمایا تم جو انکار کرنے والے ہو ، جو ہم سے غصہ کر رہے ہو کہ پہلی باتیں کیوں مان رہے ہیں تمہیں اپنی یہ شکل نظر نہیں آرہی کہ تم فاسق لوگ ہو.حضرت محمد رسول اللہ صلی ا یتیم کی جو تعلیمات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی جماعت میں جاری کرنا چاہتے ہیں وہ تمہاری سوسائٹی سے اس طرح اٹھ گئی ہیں جس طرح پرندہ گھونسلے کو چھوڑ دیتا ہے.سارا ملک فسق و فجور میں مبتلا ہے.جتنے بڑے علماء، اتنے بڑے فاسق فاجر ، جھوٹ بولنے والے، گند اچھالنے والے، بغیر جھوٹ کے ان کا گزارہ نہیں ہے.بچہ کا ماں کے دودھ کے بغیر تو گزارہ ہو جاتا ہے کیونکہ وہ مصنوعی دودھ پی لیتا ہے مگر یہ بد بخت، بدنصیب لوگ ایسے ہیں کہ ان کا جھوٹ کے بغیر گزارہ ہی نہیں ہے.سارے پاکستان کے علماء کے بیانات دیکھ لیں جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں ہے.کبھی کچھ کہتے ہیں ،کبھی کچھ کہتے ہیں کبھی کسی کی طرف دوڑے پھرتے ہیں نواز شریف کو چھوڑا بے نظیر کی طرف دوڑ پڑے، بے نظیر سے دوڑے تو نواز شریف کے قدموں میں گر گئے.ان کو دنیا کا سہارا اور جھوٹ کا سہارا ہے.یہ صورت حال خدا تعالیٰ نے کس طرح کھول دی.اَنَّ اَكْثَرَكُمْ فَسِقُونَ تم دیکھتے نہیں انتقام لے رہے ہو ایسی جماعت سے جو محمد رسول اللی ایم کی باتوں پر عمل کر رہی ہے اور کوشش کر رہے ہو اُن کو ان باتوں سے ہٹانے کی اور اس بات کا ثبوت کہ تم محمد رسول اللہ صلی ہیم کی طرف منسوب ہو ہی نہیں سکتے یہ ہے کہ تمہارا عمل گندہ ہے، تم فاسق لوگ ہو.کیا رسول اللہ صلی یہ تم کی طرف منسوب ہونے والوں کی یہ تعریف قرآن کریم نے فرمائی ہے؟ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةَ (الفتح: 30) یہ تو پڑھ کے دیکھو.آنحضرت صلیم کے ساتھ کون مرد ہیں جن کو خدا نے تعریف کے ساتھ یاد کیا ہے تمہاری شکلوں پر یہ آیت پوری اترتی ہے؟ إِنَّا لِلهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ خود کبھی دل میں ڈوب کر غور کر کے دیکھو کہ رسول اللہ صلی ایلم کے زمانہ میں تمہاری صورتیں ہوتیں تو کیا ہوتیں ،
خطبات طاہر جلد 17 266 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء یہ نحوستیں ہیں جو مسلمانوں کو کبھی نصیب نہیں ہو ئیں ، جو آنحضرت سلیم کے زمانہ میں مسلمانوں کی صورتوں سے عنقا تھیں.نام ونشان نہیں تھا ان صورتوں کا ، اس کردار کا جو تم لوگ کر رہے ہو جس کی وجہ سے چہروں پر سیاہی ملی جارہی ہو.قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٌ مِنْ ذَلِكَ مَثْوبَةٌ عِنْدَ اللهِ ان سے کہہ دو کہ کیا تمہیں میں اس سے بھی زیادہ ایک ناپسندیدہ بات نہ بتاؤں جو اللہ کے نزدیک بہت ہی بری ہے.مَنْ لَعَنَهُ اللهُ وَ غَضِبَ عَلَيْهِ وَ جَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِيرَ وَعَبَدَ الطَّاغُوتَ أُولَبِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَ أَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِیلِ.(المائدة: 61) تم کس بات کا انتظار کر رہے ہو.ان حرکتوں کے ساتھ رسول اللہ صلی ای یام کی طرف منسوب ہونے کا دعوی کرتے ہوئے غیر انسانی حرکتیں ، جانوروں سے گری ہوئی حرکتیں ، بندروں سے بھی گندی حرکتیں ، سوروں سے بھی گندی حرکتیں.یہ اللہ فرما رہا ہے اس پر جتنا مرضی غصہ کرنا ہے کر لو.اس کا انتقام تو تم ہم سے ہی لو گے کہ ہم سؤر ، بندر کیسے بنادئے گئے مگر اللہ اس انتقام سے بچائے گالیکن یہ الفاظ اللہ تعالیٰ کے ہیں ، قرآن کریم فرما رہا ہے کہ ہم تمہیں موجودہ فسق و فجور کی حالت سے بدتر حالت کی نشان دہی نہ کریں جس کی طرف تم بڑھ رہے ہو.لازم ہے کہ تمہاری یہ صورتیں بالآخر ظاہر ہو جائیں بلکہ یقینا ہے کہ ظاہر ہو چکی ہیں.مَنْ لَّعَنَهُ اللهُ وہ فاسق فاجر جو رسول اللہ الیہ ایم کی طرف منسوب ہوتے ہیں اور آپ صلی السلام کے دین کو بگاڑتے ہیں ان پر اللہ کی لعنت.اب بے شک لعنت کا مضمون دیکھ لوکس پر پڑ رہی ہے.تم پر یا ہم پر تم ایک دوملکوں میں سمٹے ہوئے اپنی برتری کے فخر کر رہے ہو اور سجھتے ہو کہ تم بڑے زور والے ہولیکن کس چیز کا زور ہے.سوائے جھوٹ ، فساد، فسق و فجور کے کوئی زور ہے ہی نہیں تمہارا.اور احمدیت دنیا کے ایک سو ساٹھ سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی ہے اور سب جگہ وہی تعلیم ہے جو حضرت محمد رسول اللہ سیمیا کی تم کی تعلیم ہے.تو یہ لعنت ہے خدا کی کہ خدا تعالیٰ کے پاک رسول حضرت محمد رسول اللہ سی ایم کی تعلیم ایک سو ساٹھ سے زائد ملکوں میں پھیل رہی ہو اور جو بھی اس کو اختیار کرے وہ نیک ہو رہا ہو ، وہ اپنی بدیاں چھوڑ رہا ہو اور نیکیاں اختیار کر رہا ہو.تمہارے نزدیک یہ لعنت ہے؟ اگر یہ ہے تو ہمارے نزدیک وہی لعنت ہے جس کا اللہ ذکر فرما رہا ہے.سارے ملک میں فساد برپا ہو ، قیامت آئی ہو، نہ بچوں کی عزت محفوظ ، نہ عورتوں کی عزت محفوظ ، ڈا کے عام ہوں، پولیس ڈاکوں میں مددگار ہو اور کسی جگہ کہیں امن کا نام ونشان نہ ہو ، یہ لعنت نہیں ہے؟ اگر یہ فضل اللہ ہے تو تمہیں یہ فضل مبارک ہو.
خطبات طاہر جلد 17 267 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء ہمیں تمہارے فضلوں سے ذرہ بھی کوئی حسد نہیں ہے.تمہارے فضلوں پر ہمیں یہ تکلیف ہوتی ہے کہ اللہ تم پر رحم فرمائے.یہ تکلیف ہوتی ہے اور یہ دعادل سے اٹھتی ہے.مضمون تو اتنا کھلا ہے کہ جیسے دن چڑھ جائے.احمدیت کی تائید میں اور کون سا سورج چڑھتا ہوا تم دیکھنا چاہتے ہو بالکل صاف کھلی کھلی باتیں ہیں لیکن عقل ہو تو یہ باتیں سمجھ میں آئیں.مگر جن پر لعنت پڑ جائے ان کے متعلق اللہ فرماتا ہے لَعَنَهُ اللهُ وَغَضِبَ عَلَيْهِ وَجَعَلَ مِنْهُمُ الْقِرَدَةَ وَالْخَنَازِیر اور انہی میں سے کچھ بدترین ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے بندر اور سور بنا دیا ہے.وَعَبَدَ الطاغوت اور طاغوت کی عبادت کر رہے ہیں یعنی جہاں بھی خدا کی بغاوت ہوگی اس کے پیچھے چلیں گے.جہاں خدا کی بغاوت نہیں ہوگی اس کو چھوڑ دیں گے.یہ عبدَ الطَّاغُوتَ کا مطلب ہے.اولبِكَ شَرٌّ مَّكَانًا وَ أَضَلُّ عَنْ سَوَاءِ السَّبِيلِ یہ وہ لوگ ہیں جن کا مکان سب سے شریر مکان ہے اس سے بدتر مکان ہو نہیں سکتا.وَأَضَلُّ عَنْ سواء السبيلِ اور برے راستوں میں سے سب سے گمراہ رستہ یہ ہے یعنی ایک تو سَوَاءِ السَّبِيلِ ویسے ہی برا رستہ ہی ہوتا ہے مگر جو یہ حرکتیں کرے جن پر خدا کی لعنت پڑے جن کا سارا ملک تباہ و برباد ہو رہا ہو اور یہ اس کے لیڈر بنے بیٹھے ہوں جہاں فساد کا دور دورہ ہو جس میں سے امن کا نشان اڑ جائے.یہ کہتے ہیں اللہ کا فضل ہم پر ہو رہا ہے اور احمدیوں پر لعنت پڑ رہی ہے.پتا نہیں کونسی ڈکشنری ہے ان کے پاس جس میں فضل کی یہ تعریف اور لعنت کی وہ تعریف ہے.اللہ فرماتا ہے انہی لوگوں میں سے ایسے ہیں جن سے بدتر مکان ہو ہی نہیں سکتا.وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا أَمَنَا وَقَدْ دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِهِ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ.(المائدة:62) یہ جو مضمون ہے آپ لوگ حیران ہوں گے کہ ان پر کیسے صادق آتا ہے لیکن واقعہ آتا ہے.ہر جگہ پاکستان میں مخبری کی خاطر اور جماعت کے لوگوں کو پکڑوانے کی خاطر لوگ آئے دن آکر کہتے ہیں ہم ایمان لے آئے اور ایمان کے بعد جب ان کو تعلیم دی جاتی ہے ان کو کتا بیں دی جاتی ہیں تو وہ دوڑتے دوڑتے پولیس چوکیوں میں جاتے ہیں دیکھو جی لٹریچر تقسیم کر رہے ہیں تو یہی حرکتیں ان کی اس زمانہ میں بھی تھیں.دُکھ دینے کی خاطر کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے.وقد دَخَلُوا بِالْكُفْرِ وَهُمْ قَدْ خَرَجُوا بِه حالا نکہ وہ جب کہتے ہیں ایمان لے آئے تو کفر میں اور بھی زیادہ داخل ہو جاتے ہیں اور جب بھی ان کی ناپاک جانیں نکلیں گی.خرجوا بہ اسی کفر کی حالت میں جان
خطبات طاہر جلد 17 268 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء دیں گے، اسی کفر کے ساتھ ان کے دم کھینچے جائیں گے.وَاللهُ أَعْلَمُ بِمَا كَانُوا يَكْتُمُونَ اور اللہ تعالیٰ خوب اچھی طرح جانتا ہے بِمَا كَانُوا يَكْتُمُون ان باتوں کو جو یہ چھپاتے تھے یا چھپایا کرتے تھے.اب میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایتم کی دو احادیث حسد کے متعلق پیش کر کے اس مضمون کو ختم کروں گا.یہ سارا مضمون حسد کا ہے.مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ آگ لگی بیٹھی ہے، مصیبت پڑی ہوئی ہے اس کا مطلب ہے کہ اگر کوئی نیکی تھوڑی بہت تھی بھی تو اس حسد کی آگ میں جل جائے گی، نیکی کا نام ونشان مٹ جائے گا." عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ 66 فَإِنَّ الْحَسَدَ يَأْكُلُ الْحَسَنَاتِ كَمَا تَأْكُلُ النَّارُ الْحَطَبَ - أَوْقَالَ: الْعُشْب “ (سنن ابی داؤد، کتاب الادب، باب فی الحسد ،حدیث نمبر : 4903 ) حطب يا عشب فرمایا آپ صلی اینم نے.ابن ماجہ نے بھی اسی حدیث کولیا ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا یہ تم نے فرمایا حسد سے بچو کیونکہ حسد نیکیوں کو اسی طرح بھسم کر دیتا ہے جس طرح آگ ایندھن کو اور خشک گھاس کو بھسم کر دیتی ہے.تو وہ جو نقشہ ہے دلوں کا اس کی تفصیل حضور اکرم سی ایم نے بیان فرمائی ہے کہ کیوں یہ لوگ رفتہ رفتہ ہر قسم کی نیکی سے محروم ہوتے چلے جاتے ہیں.حسد ایک ایسی بد بخت آگ ہے کہ اگر دل میں کوئی نیکی تھی بھی تو خشک گھاس کی طرح جل جائے گی یا خشک لکڑی اور ایندھن کی طرح جس کو آگ کی خاطر بنایا جاتا ہے اس ایندھن کی طرح ان کی نیکیاں جل جائیں گی.حضرت رسول اللہ سلیم کا حسد کے متعلق فرمان تھا کہ حسد کے نتیجے میں سب کچھ ضائع ہو جاتا ہے.اس پہلو سے میں جماعت کو متنبہ کرتا ہوں کہ دینی حسد تو آپ کے حصہ میں بہر حال نہیں ہے.ان نحوستوں سے حسد کی وجہ کون سی ہے آپ کے پاس لیکن آپس کے حسد سے بچیں.مجھے یہ فکر ہے کہ جماعت میں بہت سے لوگ ہیں جو ایک دوسرے کی نیکیوں پر حسد کرتے ہیں ، ایک دوسرے کی ایسی خوبیوں پر حسد کرتے ہیں جوان میں نہیں ہیں.ایسے اموال پر حسد کرتے ہیں جو اللہ نے اُن کو عطا فرمائے ہیں، ان کو نہیں عطا کئے اور ایسے عہدوں پر حسد کرتے ہیں جو جماعت کی طرف سے اُن کو عطا ہوئے اور ان کو نصیب نہیں ہیں.یہ روز مرہ کا قصہ ہے جو میرے سامنے آتا رہتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 269 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء پس مجھے ہرگز جماعت کے متعلق یہ فکر نہیں اور وہ ہو بھی نہیں سکتی کہ آپ مسیح موعود کے منکروں سے حسد کریں یعنی حد سے زیادہ پاگل بھی اگر کوئی جماعت میں ہو، اللہ کے فضل سے ایسے پاگل اتنے نہیں ہیں ، مگر کوئی حد سے زیادہ پاگل بھی ہو تو وہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منکرین سے حسد نہیں کرسکتا.شکر کرے گا خدا کا کہ میں ان بدبختوں میں نہیں ہوں مگر آپس میں حسد کرتے ہیں اور جو آپس میں حسد کرتے ہیں ان کے لئے خطرہ ہے کہ دین سے گزرجائیں اور ان لوگوں میں شامل ہو جائیں جن پر باقی جماعت کبھی حسد نہیں کرے گی.یہ رفتہ رفتہ سرکنے کا جو رستہ ہے اس کا مجھے خطرہ ہے اور اسی کے لئے میں آپ کو متنبہ کر رہا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی ہی تم نے فرمایا ہے حسد نیکیوں کو بھسم کر دیتا ہے.پس جولوگ کسی احمدی کے مال پر حسد کریں، اس کی بعض خوبیوں پر حسد کریں ، اس کے بعض عہدوں پر حسد کریں یہ دیکھا گیا ہے کہ لازماً اس حسد کے نتیجے میں ان کی نیکی مٹی جاتی ہے اور وہ جلن میں آکر جھوٹ بولنا شروع کر دیتے ہیں فرضی باتیں اس کی طرف منسوب کرنے لگ جاتے ہیں.یہاں تک کہ اس کی نیکیوں کو بھی ٹیڑھی نظر سے دیکھ کر نئے غلط نتیجہ نکالتے ہیں پس اس سے کلیہ تو بہ کر لیں.کیا تکلیف ہے اگر کسی کوکوئی بات اچھی مل جائے تو بشیر اللہ.بھائی چارے کا تو یہ مطلب نہیں ہے کہ حسد کرو.بھائی چارے کا یہ مطلب ہے کہ کسی کے اندر اچھی چیز دیکھو تو خوش ہو جاؤ.کسی کو کچھ مل جائے تو سُبحان الله الحمد للہ کہو اس طرح اخوت ایک مٹھی کی طرح آپ کو اکٹھا کر لے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ایسا ہی ایک حسد ہے کہ انسان کسی کی حالت یا مال و دولت کو دیکھ کر کڑھتا اور جلتا ہے اور چاہتا ہے کہ اس کے پاس نہ رہے.اس سے بجز اس کے کہ وہ اپنی اخلاقی قوتوں کا خون کرتا ہے کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتا.“ ( الحکم جلد 8 نمبر 11 صفحہ: 5 مؤرخہ 31 مارچ 1904ء) پس اسی پر میں آج کے خطبہ کو ختم کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ ہم جماعت مومنین کا وہ نمونہ دکھا ئیں جو ساری دنیا میں اللہ کی وحدت کا نشان ہو.توحید باری تعالیٰ کے علم بردار اگر کوئی ہوں تو ہم ہوں اور ساری دنیا میں باہمی اخوت کے نتیجہ میں دشمنوں کو بھائی بھائی بنارہے ہوں، بھائیوں کو دشمن نہ بنارہے ہوں.پس یہ جو حالت ہے یہ ساری دنیا میں جماعت احمدیہ میں بعض لوگوں
خطبات طاہر جلد 17 270 خطبہ جمعہ 17 اپریل 1998ء کی ضرور حالت ہے ان میں حسد کا مادہ ہے اور بہت ہی خطرناک چیز ہے.یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک اور اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کوڑھ ہے.کوڑھی جس طرح چاہتا ہے کہ سب کو ہی کوڑھ لگ جائے.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ روحانی حالتوں میں اگر کوئی شخص کسی سے کسی کی نیکی پر خوش ہونے کی بجائے اپنے اندر تکلیف محسوس کرتا ہے تو یہ چھپے ہوئے کوڑھ کی علامت ہے.فرمایا میں ظاہر کر رہا ہوں تم سمجھو یانہ سمجھو.اگر تم دیکھنا چاہتے ہو کہ تم روحانی کوڑھی ہو کہ نہیں تو جب بھی کسی احمدی کو خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ کوئی اچھی چیز نصیب ہو تو اپنے دل کو ٹولا کرو، دیکھا کر واس پر کیا اثر ظاہر ہوا ہے.اگر غصہ ہے، اگر نفرت ہے یا ملال ہے یا کچھ بھی نہیں ہے تب بھی تمہاری بلا سے اس کو جو کچھ پل جائے یہ سب کوڑھ کے آغاز کی علامتیں ہیں.پس کون پسند کرے گا کہ وہ کوڑھی کی طرح ہو جائے.کوڑھی کی آخری صورت یہ ہوتی ہے وہ کہتا ہے مجھے نہ چھونا، مجھے نہ چھونا.تو خدا کے مومن بندوں کے دل سے پھر یہ آواز اٹھتی ہے کہ اس ظالم ، اس بد بخت کو نہ چھوؤ ، اس کو اپنے حال پر رہنے دو.پس یہ میری دعا ہے اور اسی پر میں آج کے اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کے روحانی کوڑھ سے بچائے اور حسد کی بجائے رشک پیدا فرمائے.رشک میں نیکیوں میں آگے بڑھنے کی دوڑ ہوا کرتی ہے.اس دوڑ کی ہم سب دنیا کو دعوت دیتے ہیں مگر یہ دوڑ اللہ کے فضلوں کے سوا کسی کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کر سکتی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلد 17 271 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء مومنوں کو چاہئے کہ لغو مذاق کی مجالس کو بھی پسند نہ کریں خدا کی خاطر بعض لوگوں سے تعلق کائیں (خطبہ جمعہ فرمودہ 24 اپریل 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : وقد نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَبِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ أَيْتِ اللَّهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْذَا بهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيث غَيْرة * إِنَّكُمْ إِذَا مِثْلُهُمْ - إِنَّ اللهَ جَامِعُ الْمُنْفِقِينَ وَالْكَفِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًات پھر فرمایا: (النساء:141) اسی مضمون کی دوسری آیت بھی ہے جو سورۃ الانعام سے لی گئی ہے وہ بھی میں اسی تعلق میں پڑھ کے سناتا ہوں.وَإِذَا رَأَيْتَ الَّذِينَ يَخُوضُونَ فِي ابْتِنَا فَاعْرِضْ عَنْهُمْ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ وَ إِمَّا يُنْسِيَنَّكَ الشَّيْطَنُ فَلَا تَقْعُدُ بَعْدَ الذِّكْرَى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ وَمَا عَلَى الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِّنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ان آیات کا جو سادہ ترجمہ ہے اُس ترجمہ سے مجھے اختلاف ہے جس کا پہلے بھی ذکر کر چکا ہوں اور اس اختلاف کی بناء کیا ہے؟ لغت عربی کے لحاظ سے جو قرآن کریم کے علماء نے بیان کی ہے اور (الانعام:70،69)
خطبات طاہر جلد 17 272 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء بہت سی احادیث نبوی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات جو میں آپ کو پڑھ کر سناؤں گا ان سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ عام مروجہ ترجمہ درست نہیں ہے.مروجہ ترجمہ یہ ہے: (اس کا وہ حصہ جو میرے نزدیک درست نہیں ہے میں آپ کو بعد میں سمجھاؤں گا.).وَقَد نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الكِتب أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ أَيْتِ اللهِ ، الکتاب یعنی قرآن کریم میں بہت تاکید کے ساتھ یہ بات بیان ہوئی ہے.وقد نَزِّلَ بہت تاکید کے ساتھ یہ بات بیان ہو چکی ہے.ان إِذَا سَمِعْتُمْ أَيْتِ اللهِ يُكْفَرُ بِهَا کہ جب تم اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار سنو یعنی بعض گروہ ایسے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرتے ہیں.وَيُسْتَهزأ بها اور ان آیات سے تمسخر کرتے ہیں، ان سے تمسخر کیا جاتا ہے بعض لوگوں کی طرف سے.فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُم تو ہرگز ان کے ساتھ نہیں بیٹھنا.اب اگلا حصہ ہے جو اختلافی معنی رکھ رہا ہے.حتٰی يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِ یہاں تک کہ وہ کسی اور بات میں محو ہو جائیں.اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ایسے لوگ ہیں جن کا کوئی گروہ ہے اس میں صاف واضح ہے کہ ایک گروہ ہے جو انتہائی بد بخت ہے اور اللہ تعالیٰ کی آیات جس میں خدا تعالیٰ کے برگزیدہ رسول اور برگزیدہ بندے بھی شامل ہیں اُن پر مذاق اڑانا انہوں نے پیشہ بنا رکھا ہے.ایسے لوگ جو ہیں کیا کوئی پسند کرے گا کہ بار بار جا کے دیکھے.اُس مجلس میں جانے کی ضرورت کیا ہے جہاں سے ایک دفعہ اپنا دل اور سب کچھ اٹھا لیا.کیا کوئی انسان تصور کر سکتا ہے کہ ان بدبختوں کی مجلس میں بار بار جا کے دیکھے کہ اب کچھ اور بات تو نہیں کر رہے؟ اگر اور بات کر رہے ہیں تو وہاں بیٹھ جائیں.یہ جو منظر ہے یہ اس آیت کے عام سادہ ترجمہ سے ابھرتا ہے کیونکہ حَتَّى يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِةٍ میں حتٰی کا معنی یہ لیا گیا ہے کہ یہاں تک کہ وہ دوسری بات شروع کر دیں تو جب بیٹھ کے آدمی اٹھ ہی جائے گا تو اس کو کیا پتا چلے گا.میں جو مضمون بیان کرنا چاہتا ہوں وہاں حتی کا معنی Even کے معنوں میں ہے خواہ ایسے بد بخت لوگ دوسری باتیں بھی کریں تب بھی ہرگز ان کی مجلس میں نہیں جانا.اگر ایسا کرو گے تو تم ان جیسے ہو جاؤ گے.اس معنی کو عموماً اس لئے اختیار نہیں کیا جاتا کہ یہ معنی شاذ کے طور پر حٹی میں استعمال ہوتا ہے اور اہل لغت جیسے حضرت امام راغب ہیں، انہوں نے بڑی وضاحت سے اس کا محاورہ اہل عرب کے بیان کے مطابق بیان فرمایا ہے.وہ لکھتے ہیں حتی کی مثال :
خطبات طاہر جلد 17 273 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء ،، أَكَلْتُ السَّمْكَةَ حَتَّى رَأْسَهَا.“ (المفردات فی غریب القرآن، کتاب الحاء زیر لفظ حتى ) میں نے مچھلی کھالی یہاں تک کہ سر بھی کھالیا "Even her Head " یہ معنی ہیں.یہاں تک کہ مچھلی پوری کھائی ، یہاں تک کہ سر بھی نہیں چھوڑا.پس اگر یہ لوگ دوسری بات میں بھی مبتلا ہو جا ئیں، گفتگو میں مصروف ہو جا ئیں تب بھی ان کے قریب نہیں جانا کیونکہ یہ بدبختوں کا گروہ ہے.کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ ایسے گروہ میں جا کے بیٹھے اور موقعوں کی تلاش میں رہے کہ کب یہ کوئی اور بات کریں اور مجھے وہاں بیٹھنا نصیب ہو جائے.ناممکن ہے کہ کوئی شخص جو دین کی غیرت رکھتا ہو اس گروہ کی طرف جانے کا تصور بھی کرے.إنَّكُمْ إِذَا مِثْلُهُمْ یہ ہے آخر پر انذار کہ ان کی مجلس میں خواہ تم عام حالات میں جاؤ خواہ تم دوسری باتوں میں جاؤ جب بھی جاؤ گے اگر یہاں جا کے بیٹھنا تم نے شیوہ بنایا تو اُن جیسے ہو جاؤ گے، پھر تم میں اور اُن میں کوئی فرق نہیں رہے گا.اور یہاں بہت دلچسپ اس آیت کا اختتام ہے کہ وہ لوگ جو منافقت کرتے ہیں اور بظاہر یہ کہتے ہیں کہ جب ہم گئے تھے تو ایسی باتیں نہیں کر رہے تھے وہ بھی اور کافر جو کھلی کھلی بے حیائی کی باتیں کرتے ہیں.فرمایا: إِنَّ اللَّهَ جَامِعُ الْمُنْفِقِينَ وَالْكَفِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا ایسے لوگ جو کھلم کھلا خدا کے دین کا تمسخر اڑاتے ہیں وہ کا فر ہیں اور ایسے لوگ جو ان کے ساتھ میل جول رکھتے ہیں اور اپنے آپ کو بظاہر دین داروں میں شمار کرتے ہیں، دین والے لوگوں میں شمار کرتے ہیں فرمایا سارے اکٹھے جہنم میں پھینک دئے جائیں گے.دوسری آیت میں بھی یہی مضمون ہے جو میں نے بیان کیا ہے.وَ إِذَا رَأَيْتَ الَّذِيْنَ يَخُوضُونَ في ايتِنَا فَاعْرِضْ عَنْهُمُ اور جب تو دیکھتا ہے ایسے لوگوں کو جو ہماری آیات کے متعلق بے ہودہ کلام کرتے ہیں تو فَاعْرِضْ عَنْهُمْ صاف مطلب ہے کہ ان کے پاس جا کے بیٹھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.فَأَعْرِضْ عَنْهُمْ ان سے منہ پھیر لے، ان سے پیٹھ پھیر لے، ان کی مجلس میں جا بھی نہ.حتٰی يَخُوضُوا فِي حَدِیثٍ غَیرِہ یہاں تک کہ وہ کوئی کلام بھی کریں تب بھی ان کی مجلس میں نہیں جانا.وراٹھا يُنْسِيَتَكَ الشَّيْطن اگر بھول کے ایک دفعہ ایسا واقعہ ہو چکا ہو، شیطان نے تمہیں ان کی مجلس میں پہنچایا ہو وہاں ایسی بے ہودہ باتیں ہو رہی ہوں تو وہ ایک ہی دفعہ ہوگا اس کے بعد پھر اس کا اعادہ نہ ہو.
خطبات طاہر جلد 17 274 خطبہ جمعہ 24 اپریل 1998ء فَلَا تَقْعُدُ بَعدَ الذِكرى مَعَ الْقَوْمِ الظَّلِمِينَ.یہ ذکری جو آچکی ہے، یہ نصیحت اس کے بعد پھر کبھی آئندہ ان لوگوں کے پاس نہیں جانا.اگر ایک دفعہ بھی حادثہ ، لاعلمی میں تم چلے گئے اور وہاں یہ بیہودہ باتیں ہو رہی تھیں، تو اٹھ کھڑے ہو اور یہ پہلا واقعہ شیطان کے بھلانے کے نتیجہ میں ہوا ہے.تمہارے علم کا نہ ہونا گو یا شیطان کی طرف منسوب ہوا ہے لیکن جب یہ کھلی کھلی نصیحت آجائے پھر کیا سوال پیدا ہوتا ہے.ہرگز ان کے قریب نہیں آنا خواہ وہ کوئی دوسری باتیں ہی کر رہے ہوں.وَمَا عَلَی الَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّنْ شَيْءٍ وَلَكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ ، ان کا حساب اللہ پر ہے.متقیوں کو اُن پر چھوڑ دینا چاہئے اور اپنے حساب کی فکر کرنی چاہئے.پھر فرمایا: وَلكِنْ ذِكْرَى لَعَلَّهُمُ يَتَّقُونَ یہ نصیحت ہے، بہت بڑی نصیحت ہے تا کہ لوگ تقویٰ اختیار کریں ورنہ آہستہ آہستہ اچھے لوگ بھی جب بے غیرتی کا نمونہ دکھا ئیں تو رفتہ رفتہ گندے لوگ بن جایا کرتے ہیں کبھی بھی ایک مقام پر پھر نہیں ٹھہرتے.ایک دو دفعہ باتیں سنیں، مذاق سنے، برداشت کر لیا کبھی ہنسی بھی آگئی اور پھر چسکا پڑ گیا.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ یہ لوگ پھر ان میں شامل نہ ہو جائیں.اب پہلا مسئلہ تو یہی ہے غیرت اور حمیت کا فقدان ہے.تو جو شخص گوارا کرتا ہے ایسے لوگوں کو کہ جو بے حیائی کی باتوں کا اڈہ بنائے ہوئے ہیں اُن میں جانے میں اس کی کوئی حمیت، کوئی غیرت مانع نہیں ہوتی تو لازماً فطرتاً یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ اُن کے دل میں کوئی چور ہے ، کوئی بے حیائی کا مرکز ہے، کوئی بے غیرتی کا مرکز ہے ورنہ ناممکن ہے کہ وہاں جا کے چسکے لیں جہاں پھبتیاں اُڑائی جارہی ہوں خدا اور خدا کے پیاروں پر، وہاں جا کے بیٹھنے کا سوال کیسے اٹھ سکتا ہے سوائے اس کے کہ اپنے نفس میں ، اپنے دل میں بے حیائی اور بے غیرتی کا کوئی مرکز موجود ہے.اسے تم بظاہر چھپارہے ہو لیکن جاتے ہو تو اسی مقصد کے لئے جاتے ہو کہ ایسی باتیں سنو لیکن ایسے لوگوں کے لئے ایک کسوٹی ہے وہ اسے استعمال کر لیں تو ان کو بے غیرتی اور بے حیائی کا صاف علم ہو جائے گا.اگر کسی شخص کے ماں باپ کے خلاف کوئی بے حیائی اور بدکلامی کی باتیں کرتا ہے اور منہ پھٹ ہے، بکواس کرتا ہے اس کی ماں یا اس کے باپ پر، کیا وہ سوچ سکتا ہے کہ وہ بار بار وہاں جائے اور دیکھے کہ اب کوئی اور باتیں تو نہیں کر رہا.میرے ماں باپ کے خلاف تو بکواس کرتا ہی ہے مگر شاید اب نہ کر رہا ہو.انسانی فطرت کے خلاف ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا.تو یہ سارے منافقین اس حوالے سے اپنے آپ کو پہچان سکتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 275 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء اپنے ماں باپ کے لئے تو یہ غیرت اور محمد رسول اللہ صل للہ ایک یتیم اور آپ صلی ایلام کے دین کے لئے وہ غیرت؟ یہ منافقت ہے اس لئے کسی شخص سے یہ بات ڈھکی چھپی رہ نہیں سکتی.ضرور وہ اپنے نفس کو پہچان سکتا ہے اگر اسی صورت کو اپنے ماں باپ کے معاملہ پر چسپاں کر کے دیکھے.جہاں تک میں سمجھتا ہوں یہ تو بہت دور کی بات ہے مومنوں کو تو چاہئے کہ لغو مذاق کی مجلس کو بھی پسند نہ کریں خواہ وہ خدا اور رسول کے خلاف نہ بھی ہو.اللہ کے سادہ پاک بندوں کے متعلق ہو ان کے اندر کوئی کمزوریاں ہوں اور کوئی شخص اپنی بڑائی کی خاطر ان کی کمزوریاں دکھا دکھا کر اس پر لطیفہ گھڑ رہا ہو.ایسے لوگ ہوتے ہیں.بظاہر دین کے خلاف نہیں کہتے مگر میرے دل میں تو ان کے خلاف ایسی ہی منافرت پیدا ہوتی ہے کہ سوائے اس کے کہ مجبوراً اُن کو سلام علیک کہنا پڑے وہ ہماری مجلس میں آجاتے ہیں تو اُن کو نکالا نہیں جا سکتا مگر میں کبھی ان لوگوں کی مجلس میں جا کے نہ بیٹھوں.پس جاکے بیٹھنے والا مقصد جہاں تک ہے وہ تو ان کی مجلس کو بھی میں پسند نہیں کرتا.کئی دفعہ میں نے اپنے بچوں کو نصیحت کی ہے کہ ایسے آنے والے اگر تمہارے گھر جا کے ایسا اڈہ لگائیں تو تمہاری غیرت کا تقاضا ہے یا شرافت کا ،حیاء کا تقاضا ہے کہ کہہ دو کہ ہمارے گھر ایسی باتیں نہ کریں.اگر چہ ہم آپ کے ہاں نہیں گئے اس حد تک تو ہم نے اپنی ذمہ داری ادا کی مگر آپ یہاں ایسی باتیں نہ کریں ہمیں پسند نہیں ہیں.پھر ملنا جلنا بے شک رکھیں.یہ وہ لوگ ہیں جن سے ملنا جلنا ممکن ہے مگر بعض شرائط کے ساتھ.حَتَّى يَخُوضُوا في حَدِیثِ غَيْرِہ میں یہ مضمون پھر ہو گا کہ سوائے اس کے کہ اور باتیں شروع کر دیں.اب میں اس تعلق میں آنحضرت مصلی ما یہ تم کے بعض ارشادات آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو خود اپنا مضمون کھول رہے ہیں، بالکل ظاہر و باہر ہیں.مشکوۃ المصابیح میں کتاب الآداب میں ایک حدیث درج ہے جوابی موسی سے ہے.ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یا یہی تم نے فرمایا: ” نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری رکھنے والے اور دھونکنی چلانے والے کی ہے.کستوری رکھنے والا یا تو تجھے کچھ دے گا یا تو اس سے کچھ خریدے گا.“ (مشكاة المصابیح، کتاب الآداب،باب الحب فی اللہ ومن اللہ ،حدیث نمبر :5010) اب یا تو تجھے کچھ دے گا یا اس سے تو خریدے گا.یہ ایسی مزہ دار بات ہے کہ اُس زمانہ کی تجارت میں بھی یہ اطلاق پاتی تھی اور آج کل بھی پاتی ہے.بہت سی خوشبوؤں کی دکانیں ہیں جہاں ہم جاتے ہیں
خطبات طاہر جلد 17 276 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء تو کوئی کھڑا ہوا وہاں تھوڑی سی خوشبو آپ کے اوپر پھیلا دیتا ہے.وہ خوشبو جو آپ کے اوپر ڈالتا ہے یہ بتانے کی خاطر کہ ہمارے پاس ایسی اچھی خوشبوئیں ہیں.پسند ہو تو یہ لے لو.تو یہ عجیب بات ہے یہ انسانی فطرت ہے جو نہیں بدلتی.خوشبو والا پھیلاتا ہے بد بو والا نہیں پھیلا تا.بد بو والا تو اس کو چھپاتا ہے.اگر وہ نیک فطرت ہے وہ پسند نہیں کرتا کہ اس سے بدبو آ رہی ہو تو کوئی اس کے قریب آ جائے.پس آنحضرت صلی یا تم نے کیسی پیاری بات کہی ہے جو ہمیشہ سے انسانی فطرت سے تعلق رکھنے والی ہے.کستوری رکھنے والا یا تو تجھے کچھ دے گا یا تو اس سے کچھ خریدے گا.کوئی بہت ہی کنجوس ہو تو کچھ بھی نہیں دیتا مگر اس سے لوگ خریدتے تو ہیں نا.یا پھر کم از کم تجھے عمدہ خوشبو تو آئے گی ہی.یہ تو ہوگا کہ تمہیں کچھ دیر کے لئے خوشبو کا مزہ آ جائے اور ہوسکتا ہے کپڑوں میں بھی رچ بس جائے لیکن دھونکنی چلانے والا یا تیرے کپڑے جلائے گا جو آگ کو تیز کر رہا ہو دھونکنی چلا کے، یا وہ تیرے کپڑوں کو جلائے گا یا پھر تو اس سے بد بو ہی پائے گا کیونکہ دھواں پھیل رہا ہے ، منہ گندہ ہو رہا ہے، جسم کالا ہو رہا ہے اور اس کی بدبو بھی اٹھتی ہے بڑی سخت.تو فرمایا ایسے لوگوں سے پر ہیز کر.جو اس قسم کی باتیں کرتے ہیں وہ گندے لوگ ہیں ان کے پاس جا کر مجھے کبھی کوئی فائدہ نصیب نہیں ہوسکتا لیکن جو نیک لوگ ہیں ان کے پاس جاؤ تو تمہیں ضرور فائدہ پہنچے گا.اس حدیث کی روشنی میں اس آیت کا وہ ترجمہ جو معروف ہے وہ کیا ہی نہیں جا سکتا.قطعیت کے ساتھ آنحضرت صلی السلام فرمارہے ہیں کہ برے لوگوں کی صحبت کا تصور بھی نہ کرو، جاؤ ہی نہ وہاں تمہیں ضرور نقصان پہنچے گا.ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں یہ ترمذی باب الزھد سے لی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی ہی تم نے فرمایا: آدمی اپنے دوست کے زیر اثر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک خیال رکھے کہ کیسے دوست بنا رہا ہے.“ (جامع الترمذي، أبواب الزهد، باب الرجل على دين خليله..حدیث نمبر : 2378) کتنی سادہ سی بات اور کتنی اہم ہے ایک انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے.اگر اس کا بے ہودہ لوگوں کی مجلس میں آنا جانا ہے تو خواہ لاکھ بہانہ بنائے کہ میرے ہوتے ہوئے اس نے ایسی بات نہیں کی کیونکہ یہ نفس کا بہانہ ہے ایسے شخص کی مجلس کسی کو پسند ہی نہیں آنی چاہئے اگر وہ جاتا ہے تو عذر تراشی ہے
خطبات طاہر جلد 17 277 خطبہ جمعہ 24 اپریل 1998ء اس کی.رسول اللہ لی ایم کی بات سچی ہے کہ تم جب دوست بناؤ تو غور کر کے دیکھو اچھا دوست بناؤ جس کے متعلق کبھی بھی بدی کی کوئی شکایت نہ ہو.اچھے لوگ عرف عام میں پہچانے جاتے ہیں.جواچھا انسان ہوا اچھے لوگوں کی مجلس پسند کرتا ہے، جو برا اور یاوہ گو ہووہ برے اور یاوہ گولوگوں کی مجلس کو پسند کرتا ہے.تو اس طرح اپنی مجالس کا انتخاب کریں.اگر آپ پاک لوگوں کی مجلس میں بیٹھیں گے اچھے لوگوں کی باتیں پسند آئیں گی تو آپ کے لئے خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ اس صورت میں آپ کو اپنا قرب عطا کرے گا اور آپ کی جو سلوک کی راہیں ہیں وہ آسان فرما دے گا اور اگر اس کے برعکس نمونہ دکھانا ہے تو پھر جو لوگ دکھا چکے ہیں ان کو تو ہم نے مزیدخوستوں کا شکار ہی ہوتے دیکھا ہے.شروع میں ان کی منافقت نے پردے ڈالے رکھے آخر ان کے چہرے بے نقاب ہو گئے اور اللہ تعالیٰ پھر کبھی بھی ان کو چھوڑتا نہیں.اس لئے ایک نصیحت ہے جن لوگوں پر بھی اطلاق پاتی ہے ان کو سوچنا اور سمجھنا چاہئے.آنحضرت صلی السلام کے متعلق بے ہودہ سرائی اور بکواس کرنے والوں کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا رد عمل کیا تھا.یہ آپ کے الفاظ میں آپ کو سنا تا ہوں.فرماتے ہیں.یہ عربی سے ترجمہ ہے.عیسائی مشنریوں نے ہمارے رسول اللہ سی لا السلام کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں اور اپنے اس دجل کے ذریعہ ایک خلق کثیر کو گمراہ کر کے رکھ دیا ہے.میرے دل کو کسی چیز نے کبھی اتنا دُکھ نہیں پہنچا یا جتنا کہ ان لوگوں کے اس ہنسی ٹھٹھانے پہنچایا ہے جو وہ ہمارے رسول پاک ملی یتیم کی شان میں کرتے رہتے ہیں.ان کے دل آزار طعن و تشنیع نے ( یعنی دل کو دکھانے والے طعن و تشنیع نے ) جو وہ حضرت خیر البشر صلی سیستم کی ذات والا صفات کے خلاف کرتے ہیں میرے دل کو سخت زخمی کر رکھا ہے.خدا کی قسم اگر میری ساری اولاد اور اولاد کی اولاد اور میرے سارے دوست اور میرے سارے معاون و مددگار میری آنکھوں کے سامنے قتل کر دئے جائیں اور خود میرے اپنے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دئے جائیں اور میری آنکھ کی پتلی نکال پھینکی جائے اور میں اپنی تمام مرادوں سے محروم کر دیا جاؤں اور اپنی تمام خوشیوں اور تمام آسائشوں کو کھو بیٹھوں تو ان ساری
خطبات طاہر جلد 17 278 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء باتوں کے مقابل پر بھی میرے لئے یہ صدمہ زیادہ بھاری ہے کہ رسول اکرم صلی یہ تم پر ایسے نا پاک حملے کئے جائیں.“ ( آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 ، صفحہ: 15/ سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمد ایم.اے صفحہ: 36،35) یہ بظاہر ایک مبالغہ لگ رہا ہے لیکن اگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے یہ دو باتیں پیش ہوتیں کہ یا یہ سب کچھ ہو جائے گا یا تم یہ پسند کرو گے کہ رسول اللہ صلی السلام کے متعلق ایسی بکو اس کی جائے.اس تقابل کی صورت میں لازماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی رد عمل ہونا تھا.اس لئے کوئی احمق اس کو مبالغہ نہ سمجھے.اگر کسی کو کہا جائے یہ سب کچھ کر دیا جائے گا اب رسول اللہ صلی شما یہ تم کے خلاف گستاخی کو قبول کرو وہ کہے گا ہر گز نہیں کروں گا.جتنے شہداء ہیں ان کی شہادت کے پیچھے یہی جذبہ کارفرما ہوتا ہے.آنحضرت صلیہ السلام کے زمانہ میں ایک صحابی جو قید کیا گیا اس کی گردن اڑانے سے پہلے اس سے یہی سوال کیا گیا کہ کیا تم پسند کرو گے کہ تمہاری گردن چھوڑ دی جائے اور تمہاری جگہ محمد رسول اللہ الا این کوکوئی گزند پہنچے.اس نے کہا خدا کی قسم میں تو یہ بھی پسند نہیں کروں گا کہ میری گردن چھوڑ دی جائے اور محمد رسول اللہ صلی یہ تم کو مدینہ کی گلیوں میں کوئی کانٹا بھی چبھ جائے.(السيرة الحلبية، الجزء الثالث، باب سراياه و بعوثه صفحه : 239) کتنا عظیم الشان عشق ہے، کیسی دل کی صفائی اور پاکیزگی ہے.یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں.اگر وہ صحابی حضور اکرم صلی ای ایم سے یہ عشق رکھتا تھا تو مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام جو عشق کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے ان کا تصور کریں کہ ان کے دل کا کیا حال ہوگا.پس ہر گز اس تحریر میں ایک ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھ کے سنائی ہے.یہ مقام عشق اپنی جگہ، یہ غیرت اپنی جگہ لیکن اس کے باوجود جب اپنی ذات کے خلاف لوگ باتیں کرتے تھے ان کو برداشت کرتے تھے ان میں بڑا حلم دکھاتے تھے.کئی لوگ وہاں آ کر سامنے کھلم کھلا گالیاں دیتے تھے مگر اپنے صحابہ کو روک دیا کرتے تھے کچھ نہیں کہنا.اور جہاں بھی جوابی کارروائی کی ہے وہاں آپ حیران ہونگے یہ دیکھ کر کہ اللہ اور رسول سی ایم کے خلاف جب بھی کسی لکھنے والے نے بدتمیزی کی ہے تو اس کے جواب میں آپ کی سختی ہے.اس کے سوا کہیں کوئی سختی نظر نہیں آتی.ایک واقعہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ
خطبات طاہر جلد 17 279 خطبہ جمعہ 24 اپریل 1998ء الصلوۃ والسلام کی سیرت ہے، سیرت طیبہ کے نام سے، اس میں ایک اسی قسم کا واقعہ لکھتے ہیں جو بڑا دلچسپ ہے.فرماتے ہیں: ” قادیان میں ایک صاحب محمد عبد اللہ ہوتے تھے جنہیں لوگ پروفیسر کہہ کر پکارتے تھے وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے لیکن بہت مخلص تھے اور چھوٹی عمر کے بچوں کو مختلف قسم کے نظاروں کی تصویریں دکھا کر پیٹ پالا کرتے تھے.(سلائیڈز ہوتی ہیں ناں جس طرح دکھانے والی وہ جگہ جگہ اڈہ بنایا یہی ان کا گزارہ تھا) مگر جوش اور غصہ میں بعض اوقات توازن کھو بیٹھتے تھے.( ان کی طبیعت ایسی تھی اتنا جوش آتا تھا، اتنا غصہ آتا تھا اپنی مرضی کے خلاف بات کا کہ پھر برداشت نا ممکن ہو جاتی تھی ) ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مجلس میں کسی نے بیان کیا کہ فلاں مخالف نے حضور کے متعلق فلاں جگہ بڑی سخت زبانی سے کام لیا ہے.“ اس کی تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں.نہ حضرت میاں بشیر احمد صاحب نے اس کو یہاں بیان فرمایا ہے مگر دوسری جگہ جو تفاصیل ملتی ہیں ان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق بہت ہی گندی باتیں کی گئی ہیں اور وہاں بھی جو صحابہ تھے وہ برداشت نہیں کر سکے اور جواب میں بعض دفعہ گندی بات استعمال کی اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو نا پسند فرمایا کہ ہر گز تمہارے لئے زیبا نہیں تھا کہ تم اس کلام کو اپنے منہ سے نکالتے تو یہی صاحب ہیں عبداللہ صاحب ،جن کا ذکر میں اب کر رہا ہوں کہ ایک دفعہ کسی نے بیان کیا کہ بڑی سخت زبانی کی ہے اور گالیاں دی ہیں.پروفیسر صاحب کو اتنا غصہ آیا کہ کھڑے ہو کر کہا اگر میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا.تم جو باتیں بیان کر رہے ہو تمہیں شرم نہیں آئی تم نے کچھ نہیں کیا اس کا.میں ہوتا تو اس کا سر پھوڑ دیتا.( اس پر ) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بے ساختہ فرمایا نہیں نہیں ایسا نہیں چاہئے ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے.“ تو دیکھئے کتنی گندی باتیں جن کو قلم برداشت نہیں کر سکتا کہ لکھے اور زبان پسند نہیں کرتی کہ ان کا کوئی حرف نوک زبان پر آنے دے.فرمایا ہماری تعلیم صبر اور نرمی کی ہے ایسا نہیں کرنا چاہئے.اب پروفیسر صاحب مخلص بھی تھے اور آپے سے باہر ہونے کے بھی عادی تھے اس موقع پر ان کو بڑا جوش آیا.
خطبات طاہر جلد 17 280 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء غصہ میں آپے سے باہر ہورہے تھے ( اور ) جوش کے ساتھ بولے واہ صاحب واہ ! یہ کیا بات ہے.( حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے جوش میں کہہ رہے ہیں واہ صاحب واہ.یہ کیا بات ہے.) آپ کے پیر کو کوئی شخص برا بھلا کہے تو آپ فوراً مباہلہ کے ذریعہ اسے جہنم تک پہنچانے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں مگر ہمیں یہ فرماتے ہیں کہ کوئی شخص آپ کو ہمارے سامنے گالی دے تو ہم صبر کریں.“ (سیرت طیبه از حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم.اے صفحہ :24) کیا بات ہے.کیسی عمدہ مثال ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے لئے ہرگز پسند نہیں فرماتے تھے مگر آپ کے غلاموں نے آپ کو دیکھا ہوا تھا اپنے آقا صلی و ایام کے بارے میں آپ کا کیا سلوک تھا.پس وہ تو آپ کو اپنا آقا ہی سمجھتے تھے اور جانتے تھے اور ایمان رکھتے تھے اس لئے ہرگز پسند نہیں کرتے تھے کہ آپ کے خلاف کوئی کسی قسم کی بیہودہ سرائی کی جائے لیکن اس کے باوجود صبر کی تعلیم اپنی جگہ ہے.یہ ایک ایسے شخص کی مثال ہے جس کو حلم کا خلق نصیب نہیں تھا اتنا.میں جو یہ باتیں بیان کر رہا ہوں تو جماعت کو یہ سمجھانے کے لئے کہ ہمارا واسطہ دنیا میں ہر قسم کے گندے لوگوں سے پڑتا ہے.پاکستان سے آئے دن ایسی خبریں ملتی رہتی ہیں کہ کسی جگہ کسی نے بہت بدکلامی سے کام لیا، اتنی بد کلامی کی کہ دل برداشت نہیں کر سکتا.اگر کوئی یہ مثالیں دے دے اور کہے کہ ہم نے بھی تو اس موقع پر اسی طرح کیا تھا کہ آپے سے باہر ہو گئے تو یہ درست نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کبھی بھی رسول اللہ لیا ایم کے دشمنوں پر ہاتھ نہیں اٹھایا.کبھی بد کلامی کرنے والوں کے خلاف جو جوابی کارروائی کی ہے وہ اسی حد تک رکھی ہے جس حد تک اس کی بد کلامی کا تقاضا تھا اور حتی المقدور بد کلامی سے پر ہیز کیا ہے مگر کہیں کہیں جوش میں ایسے کلے نکل گئے ہیں جسے آج تک ملاں لوگ اچھالے پھرتے ہیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تو وہ چند کلمات اس وقت کہے جبکہ ایک شخص نے بے انتہا بد تمیزی، بے حیائی اور گندا اچھالنے سے کام لیا ہے کہ آپ کو اگر اس کی مثالیں دی جائیں تو غم سے آپ کا دل پھٹ جائے گا.یہ ساری باتیں آپ سنتے تھے مگر ایک واقعہ آپ نہیں بتا سکتے کہ آپ نے ان کے جواب میں کسی کو پتھر مارا ہو، کسی کے اوپر کوئی حملہ کر دیا ہو.اور یہ بابا فلاسفر جو تھے یہ عبداللہ صاحب، آپ ان کے مرید نہیں ہیں، مسیح موعود علیہ السلام
خطبات طاہر جلد 17 281 خطبہ جمعہ 24 اپریل 1998ء کے مرید ہیں.ان کا ایک رنگ تھا اپنی غیرت کے اظہار کا وہ کر دکھایا انہوں نے مگر جماعت کو سبق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عمل سے لینا چاہئے.عمل یہ ہے کہ ایسے لوگوں کی مجلس میں کبھی بھی نہیں آپ بیٹھے کبھی ایسے لوگوں کی صحبت کو اختیار نہیں فرمایا اور یہی قرآنی تعلیم ہے.پس قرآنی تعلیم جو آپ کے سامنے رکھی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ جب ایسے لوگ بے ہودہ سرائی کریں تو پتھر اٹھاؤ اور ان کے سر پھاڑ دو.فرمایا کہ اٹھ جایا کرو پھر دوبارہ ان کے پاس جانے کا تصور بھی نہ کرو.پس آپ کو یہ تعلیم ہے کہ ایسے لوگوں سے قطع تعلقی مستقل رکھیں اور کبھی سوچیں بھی نہ کہ آپ ان بد بختوں کی صحبت میں بیٹھ سکتے ہیں لیکن عملاً جبر سے کام نہیں لینا عملاً کوئی ایسی حرکت سرزدنہ ہو جو قرآن کریم کی اس آیت، اسوہ حضرت رسول اللہ سلیم اور اسوہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مخالف ہو.اب مجھے جو فکر رہتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت ہی بدگوئی کی جاتی ہے.آئے دن مجھے خطوں میں بعض اشارے ملتے ہیں کہ اس قسم کی بکواس کر رہے ہیں لوگ.اب مصیبت یہ ہے کہ ان کے پاس تو جاتا کوئی نہیں لیکن وہ گھروں پر ، دیواروں پر گندگی لکھتے رہتے ہیں اور یہ مولویوں کا شیوہ ہے یہ ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے.آپ اندازہ کریں کہ کہاں تک یہ لوگ پہنچے ہیں.پرتگال میں جگہ جگہ ان خبیث مولویوں کے ٹائلٹس کے اوپر اشتہار لگے ہوئے ہیں کہ نعوذ باللہ من ذلك حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا انجام یہاں ہوا تھا.اب اس کے تفصیلی جواب کا تو یہ موقع نہیں مگر میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ہمارا جن بدبختوں سے رابطہ ہے یہ تو دوسرے تمام بدبختوں اور دہریوں سے آگے بڑھ چکے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں ایک شخص لیکھرام تھا جس کا آگے ذکر آئے گا اس نے اور اس کے ساتھی آریوں نے رسول اللہ صلی ا یتیم کے خلاف بہت بکواس کی ہے.مگر اس حد تک نہیں گئے جس حد تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دشمن گئے اور ابھی تک اس پر قائم ہیں اور یہی سلسلہ ان کا جاری ہے.پاکستان میں احمدی گھروں کی دیوار میں گندگی سے کالی کی گئی ہیں اور ان کے صبر کی آزمائش ہے تو ان لوگوں کو میں سمجھا رہا ہوں کہ آپ لوگ اگر چہ درست ہے کہ وہاں تک نہیں پہنچتے وہ آپ تک پہنچتے ہیں، کوئی چارہ نہیں، کوئی مفر نہیں ہے مگر اس قسم کی بے حیائیاں اور زیادتیاں خواہ وہ لوگ آپ تک آ کے کریں تب بھی آپ کو برداشت کرنی ہوں گی اور یہ برداشت جو ہے یہ مذہبی غیرت کے خلاف نہیں ہے.یہ برداشت
خطبات طاہر جلد 17 282 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء مذہبی غیرت کے عین مطابق ہے.آنحضرت صلی شما یہ تم اور دیگر انبیاء پر اسی قسم کی بہتان تراشیاں کی گئیں اور ان کے گھروں تک پہنچ کے کی گئیں یعنی ایسے دشمن تھے جو رسول اللہ صلی شما یتیم کے گھر جا کر سخت بے ہودہ باتیں کرتے تھے تو اس لئے آپ رسول اللہ صلی یا یہ ہم سے افضل نہیں ہیں.آپ رسول الله صل لہ الی یوم کے ادنی ترین غلام ہیں.آپ کے گھروں تک پہنچ کر اگر کوئی ایسی بے حیائی کی باتیں کرتا ہے تو لازماً آپ کو برداشت کرنی ہوں گی اور اللہ سے گریہ وزاری کریں.إِنَّمَا اشْكُوا بقى وَحُزْقَ إِلَى الله - (یوسف: 87) وہ مثال پکڑیں کہ میں تو اپنا غم ، اپنا دُ کھ صرف اللہ کے حضور پیش کرتا ہوں اور اس بات میں آپ کی فلاح ہے کیونکہ قرآن کریم اس بات کا ضامن ہے کہ اس قسم کی ایذاء رسانی میں سے ہر دُکھ کے جواب میں اللہ تعالیٰ آپ کے درجے بڑھائے گا.پس میں آپ کو ایسے صبر کی تلقین نہیں کر رہا جس کے نتیجہ میں کچھ نہ ہو، صرف دُکھ ہی دُکھ ہو بلکہ ایسے صبر کو جو خدا قبول فرمالے بہت میٹھے پھل لگتے ہیں.اس صبر کو کوئی میٹھا پھل نہیں لگتا جو مجبوری اور بے اختیاری کا نام ہے لیکن جہاں آپ سر پھوڑ سکتے ہوں اور نہ پھوڑیں وہ صبر ہے جو اللہ ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ ضرور اس کی بہترین جزا دیتا ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خدا کی خاطر صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ جزا نہ دے.پس پاکستان ہو یا دوسرے ایسے ممالک ان سب میں احمدیوں کو اس بات میں احتیاط کرنی چاہئے کیونکہ اگر انہوں نے ایک جگہ اپنا رد عمل دکھایا تو اس کا مولوی انتظار کر رہا ہے.وہ چاہتے ہیں کہ کہیں احمدی مجبور ہو کے، بے اختیار ہو کے کسی کا سر پھوڑے تو ہم سارے پاکستان میں یا دوسرے ممالک میں ان کے سر پھوڑتے پھریں کہ انہوں نے ہمارا ایک سر پھوڑا تھا اس لئے ہم ان کے ہزارسر پھوڑیں گے اور اس بات کو کوئی حکومت نہیں دیکھے گی کہ بے حیائی کس نے کی تھی ، بدتمیزی کس نے کی تھی.کون ہے جس نے مجبور کر دیا تھا آپ کو.نہ عدالت دیکھے گی نہ حکومت کا کوئی کارندہ دیکھے گا.ایک دفعہ آپ کریں تو جوابی کارروائیاں ضرور ہونگی.تو آپ دیکھیں حکمت اور عقل کا تقاضا کیا ہے.کیا ایک شخص کا سر پھوڑنے کی خاطر آپ تمام احمد یوں پر ظلم ہوتا دیکھیں گے؟ تو کیا اس ظلم میں آپ شریک نہیں ہو جائیں گے؟ آپ کی وجہ سے اگر کسی معصوم کو دُکھ دیا گیا، کسی کا گھر جلایا گیا تو آپ کا ضمیر آپ کو کیا کہے گا.اس لئے یہ تو برداشت ایسی ہے جو کرنی ہی کرنی ہے.اس کے سوا چارہ کوئی نہیں اور یقین رکھنا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس برداشت کے نتیجہ میں ہمارے درجات بلند فرمائے گا اور یہ صبر
خطبات طاہر جلد 17 283 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء رائیگاں نہیں جائے گا.صبر تو ان کا بھی رائیگاں نہیں جاتا جو خدا کی خاطر ویسے صبر کرتے ہیں.دنیا کی خاطر بعض لوگ اپنی قوموں کی خاطر صبر کرتے ہیں اور تاریخ عالم گواہ ہے کہ ان کا صبر بھی ضائع نہیں جایا کرتا.صبر کے اندر ایک صفت ہے جو جیتنے والی صفت ہے، غالب آنے والی صفت ہے.پس صبر کو کسی پہلو سے آپ دیکھیں تمام کا تمام خیر ہے.وہ زمانہ جس کے متعلق خدا تعالیٰ نے قسم کھائی ہے زمانہ ہی کی قسم کھائی ہے کہ گھاٹا کھانے والا ہے.علاج صبر.پس ساری دنیا میں سارا انسان گھاٹے کھا رہا ہے لیکن صبر والے گھاٹا نہیں کھائیں گے.صبر ہو اور حق کے ساتھ ہو تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ یہ صبر رائیگاں جائے گا اور اللہ کے نزدیک اس کی قیمت نہیں پڑے گی.پس آپ اپنے صبر کی قیمت وصول کریں اور وہی صبر ہے جو ایسے ممالک میں انقلاب بر پا کرنے کا کام دے گا.اب آپ ان سے لڑلیں کسی کا سر پھوڑ دیں، ہرگز کوئی روحانی انقلاب نہیں آئے گا لیکن آپ صبر کریں تو خدا اس بات کا گواہ ہے کہ اس کے نتیجہ میں روحانی انقلاب ضرور بر پا ہوگا.اب یہ آیات بڑی کثرت سے میرے سامنے ہیں قرآن کریم بھرا پڑا ہے ان آیات سے جن میں صبر کا پھل، جو یہ کیا جائے ، ہمیشہ کامیابی اور کامرانی ہوا کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیا ہے ساری دنیا کی کایا پلٹ سکتی ہے اگر خدا کے کچھ صبر کرنے والے بندے حق پر قائم ہوں اور صبر کریں اور صبر کی تلقین کریں لیکن اس بات کو چھوڑ کر یعنی غصہ سے جواب اس طرح دینا که خود انسان اپنے اوپر اختیار چھوڑ دے یا پتھر مارے کسی پر کسی کو ڈکھ پہنچائے ، چڑھ دوڑے کہ اچھا یہ وہ شخص ہے جو بد تمیزی کیا کرتا تھا میں اس کو مار کے چھوڑوں گا.یہ باتیں درست نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غیرت کا یہ واقعہ پنڈت لیکھرام کے متعلق میں آپ کو سنا تا ہوں اس سے آپ کو مسیح موعود علیہ الصلواۃ و السلام کا اپنا مسلک خوب اچھی طرح معلوم ہو جائے گا.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فیروز پور سے قادیان آرہے تھے ان ایام میں حضرت میر ناصر نواب صاحب مرحوم فیروز پور میں مقیم تھے اور اس تقریب پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وہاں گئے ہوئے تھے.حضرت میر ناصر نواب صاحب کی بیٹی تھیں حضرت ام المومنین اور یہ جو حقوق ہیں آپس کے خاندانی تعلقات کے ، ان کی خاطر ان کے فیروز پور تعینات ہونے اور ایک اچھا گھر ملنے پر مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کے ہاں گئے ہوئے تھے.عرفانی صاحب کی یہ
خطبات طاہر جلد 17 284 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء.روایت ہے، خاکسار عرفانی جوان ایام میں محکمہ نہر میں امیدوار ضلعداری تھا اور رکھا نوالہ میں حافظ محمد یوسف صاحب ضلعدار کے ساتھ رہ کر کام سیکھتا تھا.خاکسار عرفانی کو بھی فیروز پور جانے کی سعادت نصیب ہوئی.جب آپ وہاں سے واپس آئے تو میں رائے ونڈ تک ساتھ گیا.وہاں آپ نے از راہ کرم فرمایا کہ تم ملازم تو ہو ہی نہیں چلو لا ہور تک چلو تم نے کون سا جلدی لوٹنا ہے کسی کام کے لئے.عصر کی نماز کا وقت تھا آپ نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوئے اس وقت وہاں چبوترہ ہوا کرتا تھا مگر آج کل وہاں ایک پلیٹ فارم ہے.میں پلیٹ فارم کی طرف گیا تو پنڈت لیکھرام جس کو آریہ مسافر کہا کرتے تھے یہ آریہ لوگ.پنڈت لیکھرام آریہ مسافر جوان ایام میں پنڈت دیا نند صاحب کی لائف لکھنے کے کام میں مصروف تھا.ان کی حیات کے متعلق بائیو گرافی لکھ رہا تھا.جالندھر جانے کو تھا کیونکہ وہ غالباً وہاں ہی کام کرتا تھا.مجھ سے اس نے پوچھا کہ کہاں سے آئے ہو.میں نے حضرت اقدس کی تشریف آوری کا ذکر سنایا تو خدا جانے اس کے دل میں کیا آئی کہ بھاگا ہوا وہاں آیا.حضرت اقدس وضو کر رہے تھے.میں اس نظارہ کو اب بھی گویا دیکھ رہا ہوں اس نے ہاتھ جوڑ کر آریوں کی طرح حضرت اقدس کو سلام کہا مگر حضرت نے یونہی آنکھ اٹھا کر سرسری طور پر دیکھا اور وضو کرنے میں مصروف رہے.اس نے سمجھا شاید سنا نہیں اس لئے اس نے پھر کہا.حضرت بدستور اپنے استغراق میں رہے.وہ کچھ دیر ٹھہر کر چلا گیا.کسی نے کہا کہ لیکھر ام سلام کرتا تھا.لوگ اتنے مرعوب ہو جاتے ہیں ایسی ہستیوں سے ویسے بھی وہ دوڑا ہوا آیا تھا اور لوگوں کو خیال ہوا کہ یہ اخلاق کے خلاف ہے گویا کہ اس کی بات کا جواب نہ دینا.تو کسی نے کہا کہ لیکھر ام سلام کرتا تھا.فرمایا اس نے آنحضرت صلی اینم کی بڑی توہین کی ہے میرے ایمان کے خلاف ہے کہ میں اس کا سلام لوں.آنحضرت صلی ا یتیم کی پاک ذات پر تو حملہ کرتا ہے اور مجھے کو سلام کرنے آیا ہے.(سیرت المہدی جلد اول از حضرت مرزا بشیر احمد ایم.اے، صفحہ:254، روایت نمبر :281) اب آپ اپنے گردو پیش نظر ڈال کر دیکھ لیں بعض ایسے بے غیرت لوگ ہیں کہ ان کو کوئی بے حیا، رسول الله مال تم پر حملہ کرنے والا ، دین پر حملہ کرنے والا، خلفاء کی گستاخیاں کرنے والا ، دین اسلام اور تمام مذاہب کے خلاف بد گو شخص، عزت سے کوئی چوہدری صاحب یا سلام کہہ دے کسی معزز نام سے خطاب کر لے وہ سمجھتے ہیں کہ ہماری اخلاقی ذمہ داری ہے کہ اس کے سامنے جھک جائیں.
خطبات طاہر جلد 17 285 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اسوہ ہے تو اپنا فیصلہ خود کر لیں کہ کس شمار میں آئیں گے.مجھ کو سلام کرنے آیا ہے.لعنت ہے ایسے سلام پر جو خدا اور اس کے رسول صلی یتیم اور دین کے بزرگوں کے خلاف بکواس کرنے والے کا سلام ہو.اس سلام کو تو لعنت کے ساتھ لوٹانا چاہئے.ہرگز اس سلام پر خوش ہونا اور اپنے آپ پر فخر کرنا کہ فلاں صاحب نے ہمیں عزت سے یاد کیا ہے ایک حماقت کی حد ہے، دھو کہ بازی ہے، جھوٹ ہے اور اپنے نفس کی انا میں پڑ کر آپ اپنا دین کھو دیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مجرم وہ ہے جو اپنی زندگی میں خدا تعالیٰ سے اپنا تعلق کاٹ لیوے.اس کو تو حکم تھا کہ وہ خدا تعالیٰ کے لئے ہو جاتا اور صادقوں کے ساتھ ہو جاتا مگر وہ ہوا و ہوس کا بندہ بن کر رہا اور شریروں اور دشمنان خدا اور رسول سے موافقت کرتا رہا.“ پس جو شخص بھی شریروں کی مجلس کو قبول کرتا ہے اور اچھوں سے الگ رہتا ہے اس کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ ارشاد ہے کہ زندگی میں چاہئے تھا کہ وہ تعلق کاٹ لے.مرنے کے بعد پھر وقت گزر جائے گا پھر ان کا تعلق خدا سے جو اس دنیا میں کاٹا گیا ہمیشہ کے لئے کاٹا گیا اور آخرت میں پھر یہ تعلق جڑ نہیں سکتا.فرماتے ہیں: ”جو خدا ( تعالیٰ) کے لئے ہوتا ہے خدا ( تعالیٰ ) اُس کا ہو جاتا ہے خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا.یہ ممکن ہے کہ زمیندار اپنا کھیت ضائع کرلے.نوکر موقوف ہو کر نقصان پہنچاوے، امتحان دینے والا کامیاب نہ ہومگر خدا کی طرف سعی کرنے والا کبھی بھی ناکام نہیں رہتا.اُس کا سچا وعدہ ہے کہ وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنا - (العنكبوت: 70) کہ وہ لوگ جو ہمارے رستوں پر چلتے ہیں یا وہی لوگ ہیں جو خدا کی خاطر غیروں سے تعلق کاٹ لیتے ہیں تو ان کا سفر خدا کی طرف ضرور شروع ہو جاتا ہے.یہی میں نے شروع میں آپ کو بتایا تھا کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا کی طرف آپ کا سفر آسان ہو تو خدا کی خاطر بعض لوگوں سے تعلق کا ئیں اور جب خدا کی خاطر بعض لوگوں سے تعلق کاٹیں گے تو اللہ آپ سے بہت زیادہ تعلق رکھے گا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کسی کی خاطر کسی کو چھوڑا جائے اور وہ بھی منہ نہ لگائے.اب دنیا کے روز مرہ کے دستور میں
خطبات طاہر جلد 17 286 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء آپ جانتے ہیں یہ ایک ایسی فطری حقیقت ہے جس کو تبدیل کیا ہی نہیں جا سکتا کوئی شخص بھی آپ کی خاطر کسی سے مخالفت لیتا ہے آپ لازماً اس کو گلے لگا ئیں گے اور پیار کریں گے تو اللہ کے متعلق سوچیں کہ اللہ جو سب سے زیادہ ان معنوں میں شکر ادا کرنے والا ہے اس نے اپنے شکر کے بھی رنگ رکھے ہیں.کوئی اللہ تعالیٰ کو شکر میں بھی شکست نہیں دے سکتا.جب وہ شکر یہ ادا کرتا ہے تو کمال کر دیتا ہے.فرمایا: وَ الَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا الله تعالیٰ کی راہوں کی تلاش میں جو جو یا ہوا وہ آخر منزل مقصود پر پہنچا.دنیوی امتحانوں کے لئے تیاریاں کرنے والے (اور ) راتوں کو دن بنادینے والے طالب علموں کی محنت اور حالت کو ہم دیکھ کر رحم کھا سکتے ہیں.“ کئی لوگ ہیں بے چارے ساری ساری رات جاگتے ہیں اور کچھ بھی نہیں بنتا.ہر دفعہ امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں.ایسے لوگ کثرت سے میرے پاس آتے ہیں یا خط لکھتے ہیں ان بے چاروں کو سمجھ نہیں آتی کہ ہوا کیا ہے، کریں کیا.امتحان میں جاتے ہی دماغ ماؤف ہو جاتا ہے، اچھا بھلا پڑھا لکھا بھی بھول جاتا ہے.ان کی حالت دیکھ کر ہم ) رحم کھا سکتے ہیں، تو کیا اللہ تعالیٰ جس کا رحم اور فضل بے حد اور بے انت ہے اپنی طرف آنے والے کو ضائع کر دے گا.؟“ ہم تو ایک امتحان کے طالب علم پر بھی رحم کرتے ہیں جس کی محنت ضائع جارہی ہے مگر جو خدا کی طرف زور مار رہا ہو اس کا یہ امتحان ہے، اس کا یہ نصاب ہے.تو ہم لوگ تو کسی غیر طالب علم پر رحم کریں اور وہ اس پر رحم نہ کرے جو خدا تعالیٰ کی طرف جدو جہد کر رہا ہو ، کوشش کر رہا ہو.ہر گز نہیں ، ہر گز نہیں.اللہ تعالیٰ کسی کی محنت کو ضائع نہیں کرتا.إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ - (التوبة: 120) (اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کیا کرتا.) اور پھر فرماتا ہے : فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَةُ - (الزلزال : 8) کہ جو شخص ایک ذرہ برابر بھی نیکی کرے اس کو اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے یعنی اس کو ان معنوں میں دیکھتا ہے کہ لازماً اس کو بے اجر نہیں رہنے دیتا.ایک ذرہ نیکی کا بھی بعض دفعہ پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے.محاورہ میں تو ہے کہ رائی کا پہاڑ بنادیا انسان یہی کام کیا کرتا ہے مبالغہ آمیزی میں.ایک ہی ذات ہے
خطبات طاہر جلد 17 287 خطبہ جمعہ 24اپریل 1998ء وہ اللہ کی ذات ہے جو رائی کے بھی پہاڑ بنا دیا کرتا ہے.چنانچہ ایسے کثرت سے واقعات ملتے ہیں کہ ایک انسان نے عمر بھر بدیوں میں ضائع کر دی اور ایک دن ایک چھوٹی سی نیکی کرنے کی ایسی توفیق ملی جو صرف اللہ کے لئے تھی اور اس کے بعد پھر نیکیوں کے پہاڑ اس کے حق میں جمع کر دئے گئے.پس واقعہ رائی کا پہاڑ بنتا ہے لیکن ان معنوں میں بنتا ہے.بندوں کے جھوٹ اور مبالغہ آمیزی سے پہاڑ بنے بھی تو بے معنی اور بے حقیقت ہوا کرتا ہے.ہم دیکھتے ہیں کہ ہر سال ہزارہا طالب علم سالہا سال کی محنتوں اور مشقتوں پر پانی پھرتا ہوا دیکھ کر روتے رہ جاتے ہیں.( یہ بالکل درست ہے.ہزارہا طالب علم ہیں اب تو لاکھوں لاکھ ہوں گے ) اور خود کشیاں کر لیتے ہیں.“ میرے علم میں بھی ہیں ایسے لوگ ، ایسے طالب علم جنہوں نے محض اس لئے خودکشی کی کہ کامیاب نہیں ہو سکے.اور جاپان میں تو یہ عام سلسلہ ہے ناکامی ہوئی اور ساتھ ہی خود کشی ہو گئی.مگر اللہ تعالیٰ کا فضل عظیم ایسا ہے کہ وہ ذرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا.پھر کس قدر افسوس کا مقام ہے کہ انسان دنیا میں ظنی اور وہمی باتوں کی طرف تو اس قدر گرویدہ ہو کر محنت کرتا ہے کہ آرام اپنے اوپر گویا حرام کر لیتا ہے اور صرف خشک اُمید پر کہ شاید کامیاب ہو جاویں ہزار ہا رنج اور دکھ اٹھاتا ہے.تاجر نفع کی امید پر لاکھوں روپے لگا دیتا ہے مگر یقین اسے بھی نہیں ہوتا کہ ضرور نفع ہی ہوگا.مگر خدا تعالیٰ کی طرف جانے والے کی جس کے وعدے یقینی اور حتمی ہیں کہ جس کی طرف قدم اٹھانے والے کی ذرا بھی محنت رائیگاں نہیں جاتی.میں اس قدر دوڑ دھوپ اور سرگرمی نہیں پاتا ہوں.یہ لوگ کیوں نہیں سمجھتے.؟ وہ کیوں نہیں ڈرتے کہ آخر ایک دن مرنا ہے.“ یہ جوموت کا تصور ہے اس کا یقینی ہونا یہ سب سے زیادہ آپ کو برائیوں سے دور کرنے اور نیکیوں کی طرف قدم بڑھانے میں مددگار ہو سکتا ہے.آپ نے سینکڑوں مرتے ہوئے دیکھے ہوں گے یا اگر کسی کا دائرہ محدود ہے پندرہ میں تیں ایسے لوگ تو اس نے ضرور دیکھے ہوں گے کہ ان کے اندر گھروں میں پھرا کرتے تھے ، اچھی اچھی باتیں کیا کرتے تھے ، ان کے بزرگ بھی تھے یا ان کے گھروں میں آنے جانے والے لوگ تھے اب وہ کہاں گئے ہیں.جب سے میں یہاں آیا ہوں جماعت
خطبات طاہر جلد 17 288 خطبہ جمعہ 24 اپریل 1998ء انگلستان میں اگرچہ بہت برکت پڑی ہے کثرت سے لوگ باہر سے آئے ہیں مگر بہت پیارے پیارے چہرے ہیں ، بہت نیک لوگ ، مسجدوں میں آنے جانے والے، جماعتی کاموں میں آگے آگے وہ سب غائب ہو گئے.پس موت ایک اتنی یقینی حقیقت ہے کہ زندگی اتنی یقینی نہیں کیونکہ بچہ پیدا ہوتے ہی مرجاتا ہے یعنی زندگی ابھی وجود میں نہیں آئی کہ وہ مرگیا لیکن موت پر زندگی کو ان معنوں میں فتح نہیں کہ موت اٹل ہے اور زندگی اہل نہیں ہے.زندگی کی لاکھوں قسمیں ہیں جو پنپنے سے پہلے ضائع ہو جاتی ہیں اور موت ان پر غالب آجاتی ہے.پس یہ موت کا جو پہلو ہے اس کو اگر آپ پیش نظر رکھیں تو اس وقت کا تصور کریں جب بالآخر خدا کو جان دینی ہے، جب دنیا چھوڑ کر جانا ہوگا تو پھر کس حسرت سے آپ دیکھیں گے اپنی طرف حسرت کے ساتھ دیکھنے والوں کو.وہ روئیں گے آپ کی مدح کے گیت بعد میں گاتے رہیں گے مگر آپ اس وقت جانتے ہوں گے کہ آپ کی خاطر یہ کچھ بھی نہیں کر سکتے.ان کی تعریفیں بے کار جائیں گی ، ان کا ذکر خیر ، ان کی محافل ، ان کی مجالس ، ان کے چالیسویں سب بے معنی ہیں.جس نے جانا تھا وہ مرتے وقت جانتا ہے کہ میں ایک ایسے قادر مطلق خدا کی طرف جارہا ہوں جس کو اس بات کی ادنی بھی پروا نہیں ہوگی کہ میرے پیچھے لوگوں نے کیا واویلے کئے اور کیسے کیسے نوحے پڑھے.یہی دنیا کے چکر ہیں صرف ، فلاں پیر مر گیا اس کے قل ہورہے ہیں اس پہ لوگ اکٹھے ہور ہے ہیں اس کی تعریف کے گن گائے جا رہے ہیں اور ان کو پتا ہی نہیں کہ جس جگہ وہ حاضر ہوا ہے وہاں ان چیزوں کی کوڑی کی بھی قدر نہیں.آخر ایک دن مرنا ہے.کیا وہ ان ناکامیوں کو دیکھ کر بھی اس تجارت کی فکر میں نہیں لگ سکتے جہاں خسارہ کا نام و نشان ہی نہیں اور نفع یقینی ہے.زمیندار کس قدر محنت سے کا شتکاری کرتا ہے مگر کون کہہ سکتا ہے کہ نتیجہ ضرور راحت ہی ہو گا.“ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء،صفحہ:162،161) پس اس اقتباس کے ساتھ میں آج کا یہ خطبہ ختم کرتا ہوں.اس میں بہت سے پیغام ہیں جماعت کے نام اور ان کو مزید تفصیل سے کھولنے کی ضرورت کوئی نہیں جو کچھ میں نے کہنا تھا کہہ دیا اب اپنا حساب آپ خود رکھیں کیونکہ ہر ایک نے خودمرنا اور خدا کے حضور حاضر ہونا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 289 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء نیک کی صحبت اپنے اندر ایک غلبہ رکھتی ہے ذکر الہی کی مجالس کی طرف بھی رجوع کیا کریں (خطبہ جمعہ فرموده 1 مئی 1998ء بمقام بیت السلام برسلز بیلجیم) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ پھر فرمایا: اس کا ترجمہ یہ ہے کہ : (التوبة:119) ”اے مومنو! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور صادقوں کی جماعت کے ساتھ شامل ہو جاؤ.“ اس آیت کے مضمون کو چھیڑنے سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج چار بجے جماعت احمد یہ جرمنی کی 17ویں مجلس شوریٰ ہمبرگ میں منعقد ہو رہی ہے جو انشاء اللہ تین دن جاری رہے گی اور ان کی یہ خواہش تھی کہ میں ان کی مجلس شوری کو بھی اسی بیلجیئم کے اجلاس میں شامل سمجھ کر ان سے بھی مخاطب ہوں.اسی طرح جماعت احمد یہ سویڈن کی مجلس شوریٰ بھی آج ہی منعقد ہو رہی ہے اور ان کی خواہش تھی کہ اگر ہمیں مخاطب نہ کر سکیں تو کم از کم ہمارا نام ضرور لے دیں تاکہ ساری دنیا میں ہمارے لئے دعا ہو جائے اور انشاء اللہ مجلس شوری آپ کی پہلی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے ہی بہترین روایات کے مطابق منائی جائے گی.جماعت احمدیہ میں مجلس شوری کا نظام اب بڑھتا اور پھیلتا چلا جارہا ہے اور میری کوشش یہی ہے کہ اس شوری کے نظام کو پرانی مرکزی روایات کے مطابق کروں اور یہ نہ ہو کہ
خطبات طاہر جلد 17 290 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء ہر جگہ الگ الگ شوری نئی نئی روایات کے ساتھ منعقد ہو رہی ہو.آج ہی مثلاً جرمنی سے یہ اطلاع ملی ہے کہ انہوں نے غالباً بہت لمبا ایجنڈا بنایا ہوا تھا اس لئے بجائے اس کے کہ سب کمیٹیاں بنائی جاتیں ان کا خیال تھا کہ سارا ہاؤس یعنی پورے کے پورے حاضرین بیک وقت سارے مشوروں پر غور کریں.اب یہ ایک Innovation ہے، ایک بدعت ہے جس کا آغاز جرمنی جیسے اچھی کارکردگی والے ملک سے ہونے لگا تھا.تو الحمد للہ کہ میں نے اس سے پہلے ان کی شوری کے ایجنڈا اور ان کے پروگرام کے متعلق معلومات حاصل کر لیں اور ان کو فوری ہدایت دی کہ ہرگز ایسا نہیں ہوگا.آپ کی مجلس شوری دنیا میں منعقد ہونے والی تمام مجالس شوری کے مطابق ہی ہوگی.الحمد للہ کہ انہوں نے فوری طور پر اس بات کی درستی کر لی ہے.ان کی شوریٰ میں جو ایجنڈا پیش ہے وہ بہت ہی غیر معمولی طور پر ایسے پروگراموں پر مشتمل ہے جو بہت زیادہ روپیہ بھی چاہتے ہیں کیونکہ جہاں تک میں نے غور کیا ہے وہ ایجنڈا ایسا ہے کہ جب تک غیر معمولی طور پر روپیہ خرچ نہ کیا جائے اس پر عمل درآمد ہو ہی نہیں سکتا اور جماعت جرمنی کا یہ حال ہے کہ پچھلے ایک دو سال سے ان کے چندوں میں کمی آرہی ہے یعنی جو باقاعدہ چندے ہیں ان میں کمی واقع ہو رہی ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہاں ایسے تاجر اور دوسرے اچھا کام کرنے والے امیر لوگ ہیں جو اگر اپنے بجٹ کو صحیح طور پر ادا کریں، وصیت ہی کا حصہ اگر پورا ادا کیا جائے تو جماعت جرمنی کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہو سکتی ہے.(اس موقع پر لاؤڈ سپیکر میں آواز کی خرابی ظاہر ہونے پر حضور نے فرمایا: ”یہ آپ کا لاؤڈ سپیکر کچھ خراب ہے.ذرا بھی میں اِدھر اُدھر منہ کروں تو پھر یہ آواز نہیں اٹھاتا اور یہی بیماری ہمیشہ سے لاؤڈ سپیکر کے نظام میں چلی آتی ہے.بار بار میں سمجھا تا ہوں، بار بار اسی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے.یا تو سیدھا اکڑ کر بیٹھ جاؤں اور دائیں بائیں بالکل نہ دیکھوں ورنہ آواز میں فرق پڑ جائے گا.اب مجھے مجبوراً یہی کرنا پڑے گا کہ سیدھا مخاطب ہو کر آپ سے بات کروں اس لئے جو احباب دائیں یا بائیں توقع رکھتے ہیں کہ میں ان کی طرف بھی دیکھوں ان سے میری معذرت ہے اس میں میرا قصور نہیں یہ آپ کے انتظام کا قصور ہے.‘“ پھر اصل موضوع کی طرف لوٹتے ہوئے حضور نے فرمایا: بہر حال جماعت جرمنی کے متعلق بات ہو رہی تھی کہ میں تفصیل سے تو نہیں کہہ سکتا کہ کس حد تک ان کے اندر مالی استطاعت موجود ہے مگر میرا یہ تاثر ضرور ہے کہ جن دوستوں پر
خطبات طاہر جلد 17 291 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء میں نظر ڈالتا ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت غیر معمولی طور پر رزق عطا فر مایا ہے.اگر یہ سارے لوگ اپنے حصہ وصیت کو صحیح ادا کریں تو یہ ہو نہیں سکتا کہ جماعت احمد یہ جرمنی کو کچھ مالی مشکلات در پیش ہوں لیکن انہوں نے بہت ہی اُمیدوں کے ساتھ بہت اونچا پروگرام بنایا ہے اور آمدن اتنی دکھائی نہیں دے رہی تو اس حصہ کو خاص طور پر زیر غور لا ئیں.آپ کی آج کی مجلس شوری میں مالی امور پر خصوصی بحث ہونی چاہئے اور اس کے متعلق مجھے تسلی بخش رپورٹ ملنی چاہئے کہ آپ نے جتنے پروگرام بنائے ہیں اپنی مالی استطاعت کے مطابق بنائے ہیں ورنہ ان پروگراموں کو کچھ کم کرنا پڑے گا.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہی طریق تھا کہ وہ ہمیشہ کسی تجویز کو بھی اس وقت تک زیر غور نہیں لاتے تھے جب تک اس کے متعلق مالی ضروریات کا پہلے سے انتظام نہ کیا جا چکا ہو اور یہ ہستی نہ ہو کہ ان نئی تجاویز کے اوپر جتنا خرچ بھی آنا ہے وہ سارے کا سارا مہیا کرنے کے لئے مجلس شوریٰ نے الگ انتظام کر رکھا ہے، ایسی صورت میں تجاویز پیش ہوا کرتی تھیں.اب میرے پاس اتنا وقت تو نہیں رہا کہ ان تجاویز میں سے بعض کو میں رڈ کر دیتا ، بعض کو نسبتا کم کرتا مگر اب مجلس شوریٰ اور امیر صاحب کا فرض ہے کہ وہ اس پہلو سے پہلے مالیات پر غور کریں پھر مالیات کے مطابق جتنی توفیق ہے اتنے پر پھیلائیں اور اسی نسبت کے ساتھ اپنے آئندہ سال کے پروگرام کو مرتب فرما ئیں.جہاں تک سویڈن کا تعلق ہے دعائیہ پیغام تو ہے لیکن اس کے علاوہ یہ بھی میں گزارش کروں گا کہ جماعت سویڈن نے خدا تعالیٰ کے فضل سے بہت سے پرانے دلڈ ر دور فرما دئے ہیں اور نئے ہلکے قدموں کے ساتھ جماعت تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ ان کی مجلس شوری میں بھی یہی پاکیزہ ماحول جاری رہے گا اور جماعت سویڈن آئندہ پہلے سے زیادہ تیز قدموں کے ساتھ ترقی کرے گی.اب میں آپ کے سامنے وہ مضمون رکھتا ہوں جو اس آیت کریمہ میں مذکور ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ.اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو.وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِين اور سچوں کے ساتھ شامل ہو جاؤ.یہ آیت کریمہ میں نے اس لئے منتخب کی تھی کہ اس سے پہلے خطبہ میں میں نے جماعت کو نصیحت کی تھی کہ بدوں سے پر ہیز کرو اور جتنا دور
خطبات طاہر جلد 17 292 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء بھاگ سکتے ہو بدوں سے دور بھا گو.اور نیکوں کی مجلس میں بیٹھو کیونکہ بدوں سے خالی بھا گنا کافی نہیں.سوال یہ ہے کہ کس طرف بھا گو.؟ اگر بدوں سے بھا گو گے تو اس سے بہتر مجلس پیش نظر ہونی چاہئے اور یہی وہ مضمون ہے جسے حضرت اقدس محمد مصطفی صل للہ ہی تم نے خوب کھول کھول کر بیان فرمایا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی اسی مضمون پر بہت روشنی ڈالی ہے.پہلی روایت جو اس وقت میرے سامنے ہے یہ جامع الترمذی سے لی گئی ہے اور حضرت ابو ہریرہ روایت کرتے ہیں: عَنِ الأَغَرِ أَبِي مُسْلِمٍ أَنَّهُ شَهِدَ عَلَى أَبِي هُرَيْرَةً وَأَبِي سَعِيدٍ الخُدْرِي که اغز ابو مسلم ابوہریرہ اور سعید الخدری کے پاس گئے اور ان سے سوال کیا جس کے جواب میں ابو ہریرہ یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ایتم نے فرمایا کہ جو قوم اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتی ہے اسے فرشتے اپنے جلو میں لئے رہتے ہیں ان کو رحمت الہی ڈھانچے رکھتی ہے اور ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر اپنے مقربین میں بھی کرتا ہے.“ (جامع الترمذي، أبواب الدعوات، باب ماجاء فى القوم يجلسون فيذكرون الله - ،حدیث نمبر : 3378) یہ جو آخری فقرہ ہے جو بہت ہی اہمیت کا حامل ہے.آنحضور صلی ایم نے فرمایا کہ جو قوم اللہ کے ذکر میں مشغول رہتی ہے اس پر خدا کے فرشتے نازل ہوتے ہیں.اب ذکر الہی تو ایک دن رات کا مومن کا مشغلہ ہے لیکن مجلس کے طور پر اگر ذکر الہی ہو رہا ہو تو ایک خاص موقع بن جاتا ہے اور اس وقت آنحضرت صلی ہلم کے ارشاد کے مطابق فرشتوں کا نزول ہوتا ہے.یہ مضمون حضور اکرم صلی یہ تم نے اور بھی بہت سی جگہ بیان فرمایا ہے.میں اس طرف خصوصیت سے توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو فرشتوں کے نزول کے عادی ہوں، جن کی مجالس پاک ذکر سے بھری ہوئی ہوں ، وہ ایک لمحہ کے لئے برداشت کیسے کر سکتے ہیں کہ ان مجالس کی طرف بھی رجوع کریں جہاں ذکر الہی کی بجائے دین پر گندا چھالا جاتا ہو.اس لئے دونوں باتیں اکٹھی چل ہی نہیں سکتیں.جو لوگ ذکر الہی کی مجالس کے عادی ہوں ان کا وہم و گمان بھی اس طرف نہیں جا سکتا کہ بدوں کی مجلس میں بھی جھانک کے دیکھیں کہ وہ کہیں بری باتیں تو نہیں کر رہے یا کوئی اچھی بات کر رہے ہیں.اس لئے جو غلط فہمیاں میں نے پچھلے خطبہ میں دور کی تھیں ان کو پھر میں دوبارہ آپ کے سامنے کھول کر رکھ رہا ہوں کہ اس غلط فہمی میں ہرگز مبتلا نہ ہوں کہ نیک لوگ
خطبات طاہر جلد 17 293 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء بدوں کی صحبت کا تصور بھی کر سکتے ہوں.ایک اور روایت ہے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے.انہوں نے کہا: يَا رَسُولَ اللهِ : أَنى جُلَسَائِنَا خَيْرُ ؟ کہ انہوں نے آنحضرت صلی اللہ یہی تم سے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول صلی ال ایم اکس کے پاس بیٹھنا بہتر ہے؟ اس کے جواب میں آپ مسی کہ تم نے فرمایا ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے کی وجہ سے تمہیں خدا یاد آوے.“ (شعب الايمان، باب فى مباعدة الكفار والمفسدين، فصل في مجانبة الفسقة حديث نمبر : 9446) اب جن لوگوں کی یہ عادت ہو کہ ایسے لوگوں کی مجلس میں بیٹھیں جن کو دیکھ کر خدا یاد آرہا ہو وہ اس مجلس میں جھانک کر بھی کیسے دیکھ سکتے ہیں جن کو دیکھ کر شیطان یاد آئے.اس لئے دو متضاد باتیں ہیں.انتہائی احمقانہ خیال ہے کہ کبھی کبھی دوسروں کی مجلس میں بھی چلے جاؤ جہاں شیطان کا ذکر خیر چل رہا ہو.اس لئے خوب اچھی طرح آنحضور صلی ا یتیم کے ان الفاظ کو نہیں.آپ صلی للہ یہ تم نے فرما یا ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے کی وجہ سے تمہیں خدا یاد آوے، جس کی باتوں سے تمہارے علم میں اضافہ ہو یعنی یاوہ گوئی نہ کر رہا ہو بلکہ جب کوئی بات کرے تو تمہارے علم میں، خواہ کیسا ہی علم ہو، اس میں اضافہ ہو اور جس کے عمل کو دیکھ کر تمہیں آخرت کا خیال آئے.جس کے نیک عمل کے نتیجے میں تمہیں یہ خیال آئے کہ یہ تو آخرت کی تیاری کر رہا ہے میں نے کیا تیاری کی ہے.؟ اس پہلو سے وہ بھی آخرت کی تیاری کی طرف متوجہ ہو.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت ہے.یہ روایت بخاری کتاب الایمان سے لی گئی ہے.آپ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی ہی تم نے فرمایا: دو تین باتیں ہیں جن میں وہ ہوں وہ ایمان کی حلاوت اور مٹھاس کو محسوس کرے گا.اوّل یہ کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول باقی تمام چیزوں سے اسے زیادہ محبوب ہو.دوسرے یہ کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر کسی سے محبت کرے.“ اب محبتیں تو انسان کرتا ہی ہے.بغیر محبت کے تو انسانی زندگی ، زندگی ہی نہیں رہتی.کسی نہ کسی چیز سے وہ ضرور محبت کرتا ہے.مگر حضور اکرم سنی ہی تم نے یہ فرمایا ہے کہ اگر کسی انسان سے محبت کرنی ہو تو اللہ
خطبات طاہر جلد 17 294 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء کی خاطر کرے.اب ظاہر بات ہے کہ ایسی صورت میں بیوی کا انتخاب اور خاوند کا انتخاب بھی اللہ کی خاطر ہی ہوگا اور اگر آپ غور کر کے دیکھیں تو ہمارے معاشرے کی بہت سی بدیاں صرف اس نصیحت پر عمل کرنے سے دور ہو سکتی ہیں اور ایک پاکیزہ معاشرہ وجود میں آسکتا ہے.اکثر لوگ شادی کر تے وقت یہ نہیں دیکھتے.خوبصورتی دیکھنا، اچھا خاندان دیکھنا اپنی جگہ مگر یہ نہیں دیکھتے کہ پہلی شرط اس میں پوری ہے کہ نہیں کہ وہ لڑکی اللہ والی ہے کہ نہیں یا وہ مرد اللہ والا ہے کہ نہیں.اگر یہ شرط پوری ہو جائے تو اس کے پیچھے پیچھے دوسری بعض اچھی باتیں بھی مل جائیں تو بہت بہتر ہے، اُن کا انکار نہیں ہے مگر جب اس شرط کو آپ اوّلیت دیں گے تو اس کی محبت میں ہمیشہ اللہ کی محبت کا خیال غالب رہے گا اور اس وجہ سے معاشرہ انتہائی طور پر پاکیزہ اور دلکش ہو جائے گا.دوسرے یہ کہ صرف اللہ کی خاطر کسی سے محبت کرے اور تیسرے یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفر سے نکل آنے کے بعد پھر کفر میں لوٹ جانے کو اتنا نا پسند کرے جتنا کہ وہ آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے.“ (صحيح البخاری، کتاب الایمان، باب حلاوة الايمان ، حدیث نمبر : 16) یہ جو بڑے بڑے ابتلاء جماعت پر آرہے ہیں ان کو یہ آخری بات خاص طور پر پیش نظر رکھنی چاہئے اور ان ملکوں میں بھی جو آزاد ملک کہلاتے ہیں یہی کچھ ہو رہا ہے.کثرت کے ساتھ ایسی خبریں ملتی ہیں کہ یہاں یا ہالینڈ میں یا جرمنی میں ایسے لوگ جو اپنے ماحول میں معزز سمجھے جاتے تھے جب انہوں نے احمدیت کو قبول کیا تو ان کو زبردستی پکڑ کے مولویوں کے پاس لے کر گئے اور بعض دفعہ شدید بدنی تکلیف پہنچائی گئی.اتنی کہ بعض دفعہ جینے مرنے کا سوال پیدا ہو جا تا تھا.تو یہ جو رویہ ہے یہ ہر جگہ ہے صرف پاکستان میں نہیں.پاکستان میں تو حد سے زیادہ ہے مگر باقی ملکوں میں بھی موجود ہے.اس وقت آنحضرت ملایا کہ تم کا یہ ارشاد پیش نظر رکھیں کہ وہ اپنے پہلے حال کی طرف واپس لوٹنے کی بجائے یہ زیادہ پسند کرے کہ اسے وہاں آگ میں جھونک دیا جائے ورنہ اس کے نتیجہ میں وہ آگ ہوگی جو ہمیشگی کی آگ ہے.تو آگ میں ڈالے جانے کو زیادہ پسند کرے یا جتنا آگ میں ڈالے جانے کو نا پسند کرتا ہے اس سے زیادہ اس بات کو نا پسند کرے کہ وہ اپنے پہلے غلط خیالات کی طرف لوٹ جائے.
خطبات طاہر جلد 17 295 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء آنحضرت سائی کہ تم نے خدا تعالیٰ کی محبت کے ذکر میں حضرت داؤد علیہ السلام کی ایک دعا کو حرز جان بنایا ہوا تھا.آنحضرت صلہ تم کو یہ دعا بہت ہی پیاری تھی اور انہی الفاظ میں یہ دعا کیا کرتے تھے.عَنْ أَبِي اللَّرُ دَاء یعنی ابو درداء سے روایت ہے: قَالَ رَسُولُ اللهِ : كَانَ مِنْ دُعَاءِ دَاوُدَ علیہ السلام کہ داؤد علیہ السلام کی دعاؤں میں سے یہ دعا تھی.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ وَحُبّ مَن يُحِبُّكَ کہ اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس شخص کی محبت مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے.وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اور ایسے عمل کی محبت چاہتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.کیسا پیارا مضمون ہے اور بہت جانچ تول کے بیان فرمایا گیا ہے.ایسے عمل کی محبت چاہتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے.وہ تجھ سے مانگتا ہوں.اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبّك اے میرے اللہ ! اپنی محبت کو بنا دے.أَحَب إلى میرے لئے سب سے زیادہ پیاری.من نفیسی اپنے نفس سے بھی زیادہ پیاری.وَأَهْلِي اور اپنے اہل سے بھی زیادہ پیاری.وَمِنَ الْمَاءِ البَارِدِ اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ پیاری.“ (جامع الترمذی، کتاب الدعوات، حدیث نمبر : 3490) یہ جو آنحضرت صلی ہی تم نے ہمیں دعا سکھائی ہے میں تعجب کیا کرتا تھا کہ اس میں آپ صلی ا یستم نے حضرت داؤد کی طرف واحد کا صیغہ استعمال فرمایا اور جمع کا نہیں.واحد کے صیغہ میں صرف اپنے لئے دعا بنتی ہے اور جمع کی صورت میں سب کے لئے دعا بن جاتی ہے.اتنی پیاری دعا سب کے لئے کیوں نہ مانگی.دراصل حضرت اقدس محمد رسول اللہ علیہ السلام کے وجود میں جب وہ اٹی کہتے ہیں تو وہ سارے جو آپ مال لا الہ سلم کے پیروکار ہیں ، جو حقیقت میں آنحضرت صلیہا السلام سے گہرا تعلق رکھتے ہیں وہ بھی شامل ہو جاتے ہیں اور اسی لئے اللہ تعالیٰ نے بعض دفعہ آپ مسایل اینم کو اکیلے کو مخاطب فرما یا اور سارے مسلمان آپ سی ایم کے پیروکار اس خطاب میں شامل ہو گئے.تو اس مضمون کو سمجھنا چاہئے کہ آنحضرت مسل لیا کہ تم جب اپنے لئے دعا مانگتے ہیں یا حضرت داؤد نے جب اپنے لئے دعامانگی تو بحیثیت نبی اللہ ہونے کے ان کے متبعین اور ان سے سچی محبت کرنے والے اس دعا میں شامل ہوتے تھے.
خطبات طاہر جلد 17 296 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء پس احترام کے طور پر میں بھی جب دعا مانگتا ہوں اسی ائی کے ساتھ مانگتا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی شما کی یتم نے الفاظ نہیں بدلے اس لئے میں نہیں سمجھتا کہ دوسرے الفاظ کے ساتھ یہ دعا مانگی جائے.آپ بھی یہی کریں مگر ساتھ خدا تعالیٰ سے التجا کیا کریں کہ جس طرح خدا تعالیٰ نے انبیاء کی جماعتوں کو بھی شامل کر دیا تھا اسی طرح ہمارے اہل خانہ ، ہمارے دوست، ہمارے قریبی جن سے ہم پیار کرتے ہیں ، جو ہم سے پیار کرتے ہیں ان سب کو اس دعا میں شامل فرمالے کیونکہ یہ دعا بہت ہی اہمیت کی حامل ہے.اگر یہ مقبول ہو گئی تو سب کچھ مقبول ہو گیا.جسے اللہ کی محبت نصیب ہو جائے اسے اور کچھ بھی نہیں چاہئے کیونکہ اللہ کی محبت کے اندر ساری محبتیں ، تمام دنیا کے وہ مسائل جن مسائل سے انسان کو واسطہ پڑتا ہے وہ اس میں شامل ہو جاتے ہیں ، اُن سارے مسائل کا حل اللہ کی محبت ہے.پس اس میں ایک ادنیٰ بھی مبالغہ نہیں کہ اللہ کی محبت کے نتیجے میں آپ کی زندگی کے سارے مقاصد پورے ہو جائیں گے اور یہ ہے تو سب کچھ رہ گیا.اس لئے آنحضرت سال یتیم کے الفاظ میں اگر چہ اپنے آپ کو محض پیش کریں کہ مجھے محبت عطا فرما لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے سب قریبیوں اور عزیزوں کو جن سے آپ کو پیار ہے یا جو آپ سے پیار کرتے ہیں ان کو بھی شامل کر لیں.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات اسی مضمون کے تعلق میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرمایا: یاد رکھو میں جو اصلاح خلق کے لئے آیا ہوں جو میرے پاس آتا ہے وہ اپنی استعداد کے موافق ایک فضل کا وارث بنتا ہے لیکن میں صاف طور پر کہتا ہوں کہ وہ جوسرسری طور پر بیعت کر کے چلا جاتا ہے اور پھر اس کا پتا بھی نہیں ملتا کہ کہاں ہے اور کیا کرتا ہے؟ اس کے لئے کچھ نہیں ہے.وہ جیسا تہی دست آیا تھا تہی دست جاتا ہے.“ پس آج کل جو ہمارا تبلیغ کا غیر معمولی دور چل رہا ہے جن ممالک میں بھی خصوصیت سے تبلیغ ہورہی ہے ان میں خدا تعالیٰ کے فضل سے مغرب میں جرمنی سر فہرست ہے اور ان کے ایجنڈے میں بھی تبلیغ کے موضوع پر بہت زور دیا گیا ہے، ان کو میں یاد دلاتا ہوں کہ تبلیغ کے ذریعہ محض تعداد بڑھانا مقصود نہیں ہے کیونکہ محض تعداد کی کوئی بھی حیثیت نہیں.تبلیغ کے ذریعہ ایسے لوگ چاہئیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قریب ہوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا قرب ان کو ان
خطبات طاہر جلد 17 297 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء جماعت کے ممبران کے ذریعہ نصیب ہو سکتا ہے جو تبلیغ میں ایک ذریعہ بنے ہوئے ہیں، براہ راست غائب کا تصور مشکل ہے.غائب کا قرب خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو کسی ذریعہ کو چاہتا ہے اسی لئے اللہ کا قرب حضرت اقدس محمد مصطفی مستی نہ ہی ہم کے قرب کو چاہتا ہے اس لئے کہ آنحضرت سیل پہ ہم کو دیکھا تو خدا کو دیکھا کیونکہ رسول اللہ علیہ السلام کی صفات میں خدا جلوہ گر ہے.پس یہ بہت ہی اہمیت کا مضمون ہے.جس کو آپ قریب سے دیکھیں وہ آپ کے دل پر قابض ہو جاتا ہے.اللہ کو آپ براہ راست قریب سے دیکھ نہیں سکتے.اس لئے ضروری تھا کہ اس کا کوئی وسیلہ ہو جسے قریب سے دیکھیں تو اس کی محبت آپ پر غلبہ کرے مگر وہ محبت ایسی ہو کہ اس کے غلبہ کے ساتھ اللہ کی محبت از خود غلبہ کر جائے.یہ وہ مضمون ہے جو آج بھی اسی طرح اہمیت رکھتا ہے اور آپ سب میں اگر مسیح نمائی کی صفات موجود نہ ہوں یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دکھانے کی صفات موجود نہ ہوں تو آنے والے جیسے سوکھے آئے تھے ویسے سوکھے چلے جائیں گے اور ان کا کوئی بھی مستقل گہرا تعلق جماعت احمدیہ سے قائم نہیں ہوسکتا.جیسا کہ فرمایا ” جیسا تہی دست آیا تھا تہی دست جاتا ہے.“ وو یہ فضل اور برکت صحبت میں رہنے سے ملتی ہے.رسول اللہ صلی یتیم کے پاس صحابہ بیٹھے آخر نتیجہ یہ ہوا رسول اللہ صلی لا الہ سلم نے فرمایا کہ اللهُ اللهُ فِي اَصْحَابِی اللہ ہی اللہ ہے میرے صحابہ کے اندر کتنا عظیم الشان تعریف کا فقرہ ہے جو صحابہ کے حق میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی شمالی تم نے بیان فرمایا : الله الله فی اصحابی.میرے صحابہ میں اللہ ہے، اللہ ہے جس نے اللہ کو ڈھونڈنا ہے تو میرے صحابہ کو دیکھے.فرماتے ہیں: گویا صحابہ خدا کا روپ ہو گئے.“ اور جو بات میں نے بیان کی تھی اس میں صرف حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ہی تم ہی روپ نہیں تھے بلکہ جن جن پر حضرت رسول اللہ صلی شما اینم کی محبت غالب آئی وہ بھی خدا ہی کا روپ ہو گئے.یہ درجہ ممکن نہ تھا کہ اُن کو ملتا اگر دور ہی بیٹھے رہتے.“ یعنی یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ صحابہ جن کی تعریف میں فرما یا گیا اللہ اللہ وہ رسول اللہ صلی ایلیم سے دور بیٹھے رہتے اور ان کو یہ درجہل جاتا.یہ بہت ضروری مسئلہ ہے خدا (تعالی) کا قرب بندگانِ خدا کا مقرب ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 298 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء یہ وہ فقرہ ہے جس کو بہت احتیاط سے جانچنے اور پر کھنے کی ضرورت ہے.اس کی حقیقت کو سمجھنے میں اگر ادنی سا بھی فرق کیا گیا تو ایسا شخص شرک میں مبتلا ہو سکتا ہے.جتنی صوفیاء کی تحریکات چلی ہیں وہ بالآخر اسی شرک میں مبتلا ہو گئیں کہ وہ بزرگ جن کو دیکھ کر خدا یاد آیا کرتا تھا کسی زمانہ میں اس بزرگ کو دیکھ کر وہ بزرگ ہی یاد آنے لگ گیا اور خدا کا تصور غائب ہو گیا.ایسے لوگ خدا رسیدہ نہ بن سکے بلکہ بزرگوں کا خیال کر کے اسی تصور میں مگن رہے اور اللہ کا یاد آنا بھلا بیٹھے.پس آنحضرت صلی ا تم جن بندگان خدا کے اندر خدا دکھا رہے ہیں وہ وہ تھے جن کو دیکھ کر وہ بندے یاد نہیں رہتے تھے ، خدا ہی یاد آتا تھا.جتنے صحابہ تھے ان کو دیکھ کر یہ نہیں تھا کہ کسی کو فلاں صحابی سے عشق ہو گیا، کسی کو فلاں صحابی سے عشق ہو گیا.سارے صحابہ میں ، جیسے أَصْحَابِي كَالنُّجُومِ فرمایا ہے، سارے صحابہ میں وہ خدا کی روشنی تھی اور ہر ایک کو دیکھ کر خدا یاد آتا تھا اور سب کو دیکھ کر بھی خدا یاد آتا تھا.تو ایسا خدا نمانہ نہیں کہ آپ اپنی ذات کو اُچھال دیں اور آنے والے آپ کو دیکھ کر آپ کے مداح تو ہو جائیں مگر مسیح موعود کو آپ میں نہ دیکھ سکیں اور خدا کو آپ کی ذات میں نہ دیکھ سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور خدا تعالیٰ کا ارشاد كُونُوا مَعَ الصّدِقِيْنَ اس پر شاہد ہے.( کہ تم سچوں کے ساتھ ہو جاؤ.یہی جو میں نے آیت پڑھی ہے اسی آیت کے حوالے سے فرما رہے ہیں.) خدا تعالیٰ کا ارشاد كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ اس پر شاہد ہے.یہ ایک ستر ہے جس کو تھوڑے ہیں جو سمجھتے ہیں.“ اب دیکھنے میں تو ظاہری بات ہے سیچوں کے ساتھ ہو جاؤ اس میں ستر کیا ہے.فرمایا اس میں ایک راز ہے تھوڑے ہیں جو اسے سمجھتے ہیں اور یہی میں آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ سچوں کے ساتھ ہوں تو اس شرط کے ساتھ ہوں کہ آپ کو سچوں کو دیکھ کر خدا یاد آئے اور آپ کو دیکھ کر دوسروں کو خدا یاد آئے.اس طرح كُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ ہو سکتے ہیں ورنہ كُونُوا مَعَ الصّدِقِيْنَ نہیں رہیں گے، باہر بیٹھے ان کی تعریفیں کر رہے ہوں گے.بہت ہی اہم نکتہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اور اسی لئے فرمایا اس میں ایک راز ہے اس راز کو نہیں سمجھو گے تو کچھ بھی فائدہ نہیں ہوگا.اکثر لوگ جو سچوں سے محبت کا دعویٰ رکھتے ہیں وہ باہر بیٹھے ان کی تعریفیں کر رہے ہوتے ہیں ان
خطبات طاہر جلد 17 299 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء کے اندر شامل نہیں ہوتے کہ خود وہ بھی قابل تعریف ٹھہریں اور جب اندر ہونگے اور قابل تعریف ٹھہریں گے تو سچوں کے ساتھ ہونے کے نتیجے میں وہ بھی خدا نما بن جائیں گے.ان کی طرف انگلی نہیں اٹھے گی وہ انگلی خدا کی طرف اٹھ رہی ہوگی.فرمایا: مامور من اللہ ایک ہی وقت میں ساری باتیں کبھی بیان نہیں کرسکتا.“ ایک اور بہت اہم نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ کا بیان فرمایا ہے جس کے متعلق پہلے مجھے تو خیال نہیں آیا تھا لیکن شاید کسی اور کو خیال آیا ہو، بہت عمدہ نکتہ ہے.جہاں تک میں نے تفاسیر دیکھی ہیں اس نکتہ کو پہلے کسی نے بیان نہیں کیا.فرماتے ہیں : ” مامور من اللہ ایک ہی وقت میں ساری باتیں کبھی بیان نہیں کر سکتا.“ مامور من اللہ کے بھی اپنے مزاج ہوتے ہیں یا اپنی اس کی کیفیات ہوتی ہیں اور وہ کیفیات ہمیشہ ایک جیسی نہیں رہتیں.کبھی ایک کیفیت ہے کبھی دوسری کیفیت ہے.کبھی جذب کا ایک خاص عالم ہے کبھی علم اور فلسفہ کی باتیں بیان کرتا ہے.تو فرمایا كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ کا مطلب ہے ایسے بزرگ سے چمٹے رہو جو خدا سے چمٹا ہو کیونکہ وہ کچھ نہ کچھ باتیں کبھی نہ کبھی نئی ضرور بیان کرے گا اور تم ان باتوں سے محروم رہ جاؤ گے.یہ جومضمون ہے یہی مضمون حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اوپر صادق آ رہا ہے.اپنی ساری زندگی جو بقیہ تھوڑی سی زندگی تھی یعنی اسلام قبول کرنے کے بعد جو ان کی باقی ساری زندگی تھی وہ مسجد سے چھٹے رہے.صرف یہ حرص تھی کہ آنحضرت سلیم کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ایسی نہ ہو جو میں خود نہ سن سکوں.اپنی ساری عمر کی ساری دوری کی تلافیاں فرما دیں اور چند سالوں میں آنحضرت صلی ایام سے وہ فیض پاگئے جو بعض دوسرے بڑے بڑے صحابہ کو بھی نصیب نہیں ہوا.کبھی کسی صحابی سے اتنی روایات بیان نہیں کی گئیں جتنی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان کی گئی ہیں حالانکہ ان کا وقت آنحضرت صل للہ یہ تم کی صحبت میں تھوڑا تھا.آخری عمر میں ایمان لائے تھے اور چند سال سے زیادہ آپ کو توفیق نہیں ملی مگر ہر وقت تیار رہتے تھے کہ رسول اللہ سلام کے منہ سے جو موتی جھڑیں اسے اپنے دامن میں چچن لیں.پس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں مامور من اللہ ہمیشہ ایک جیسی باتیں نہیں کرتا.کبھی کوئی نکتہ بیان کر رہا ہے کبھی کوئی نکتہ بیان کر رہا ہے.وہ لوگ جو دور رہنے کے عادی ہوں اکثر نکات سے محروم رہ جائیں گے.دوسری بات آپ یہ فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 وو 300 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء وہ اپنے دوستوں کے امراض کی تشخیص کر کے حسب موقع ان کی اصلاح بذریعہ وعظ و نصیحت کرتا رہتا ہے.“ اب جو لوگ بھی ایسے مامورین کے قریب آتے ہیں وہ اُن کے حالات دیکھ کر اُن کی بیماریوں کی تشخیص بھی کرتا ہے اور ہر موقع پر ایک ہی طرح کے بیمار نہیں آتے.کبھی کوئی بیمار آیا، کبھی کوئی بیمار آیا ان کی تشخیص کرتا ہے اور ان کا علاج تجویز کرتا ہے.تو آپ دیکھ لیں احادیث کو سمجھنے کی کتنی زبر دست کنجی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے ہاتھوں میں تھما دی ہے.حضرت اقدس رسول اللہ صل شما ایام سے جب کوئی شخص سوال کیا کرتا کہ بتا ئیں میں کیا کروں.کسی کو کوئی نصیحت فرماتے تھے، کسی کو کوئی نصیحت فرماتے تھے حالانکہ بعض دفعہ سوال ایک ہی جیسا ہوتا تھا.عرض کرنے والا عرض کیا کرتا تھا کہ سب سے اچھا عمل کون سا ہے.کسی مجلس میں آپ ملائیشیا کی تم یہ جواب دیتے تھے کہ سب سے اچھا عمل ماں کی خدمت کرنا ہے.کسی مجلس میں ماں کی خدمت کی بجائے جہاد کا ذکر فرما دیتے تھے.تو وہ لوگ جنہوں نے پہلے آنحضرت مصلی یا کہ تم کی احادیث پر غور کیا ہے ان میں سے کوئی بھی اس نکتہ کو نہیں پہنچا، ایک بھی نہیں جس نے یہ بات ہمیں سمجھائی ہو جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھائی ہے کہ وہ حسب موقع دیکھ دیکھ کر باتیں فرماتے تھے.اس لئے بظاہر سوال ایک جیسا بھی ہو جواب الگ الگ ہوتے تھے کیونکہ سوال کرنے والا الگ تھا اس کی بیماری کی تشخیص کئے بغیر صحیح جواب دیا ہی نہیں جا سکتا تھا.پس یہ تشخیص والا پہلو ہے جو اس سے پہلے آپ کو کہیں دکھائی نہیں دے گا.آنحضور سلایا کہ تم ہر شخص کی تشخیص فرماتے تھے.اور یہ وہ نکتہ ہے جو قرآن کریم سے سو فیصد درست ثابت ہوتا ہے.آپ صلی لا رہی تم پیشانیوں کے آثار پڑھ لیتے تھے.سوال کرنے والے سے بعض دفعہ اس کے سوال سے پہلے ہی پوچھا کرتے تھے تم یہ سوال کرنے آئے ہو اور پھر اس کا جواب دیتے تھے.پس مامور من اللہ کے پاس ہر حال میں بیٹھنا بہت ضروری ہے تا کہ ان سب قسم کے حالات میں مامور من اللہ جو باتیں کرے وہ آپ کے علم اور عمل اور تقویٰ میں اضافہ کرنے والی بن سکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں: اب جیسے آج میں ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا.ممکن ہے کہ بعض آدمی ایسے ہوں جو آج ہی کی تقریر سن کر چلے جاویں اور بعض باتیں اُس میں ان کے مذاق اور مرضی کے خلاف ہوں تو وہ محروم گئے.“
خطبات طاہر جلد 17 301 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء اب یہ ایک اور نکتہ ہے جو بہت ہی اہم ہے.میں نے بھی اکثر اپنے تجربہ میں دیکھا ہے کہ بعض دفعہ نئے آنے والے ہوتے ہیں اس مجلس میں جو میں بات کر رہا ہوتا ہوں وہ ان میں سے بعض کے مزاج کے خلاف ہوتی ہے اگر وہ چھوڑ کر چلے جائیں تو ہمیشہ گمراہ ہی رہتے ہیں.جب وہ بار بار آئیں تو اللہ ان کو وہ نکتہ سمجھا دیتا ہے اور یہ بات میں ان آنے والوں کے اعتراف کے مطابق بیان کر رہا ہوں.ان آنے والوں نے بارہا مجھ سے اعتراف کیا ہے کہ جب ہم پہلی دفعہ مجلس میں آئے تھے تو فلاں چیز دل کو نہیں لگی لیکن ہم پھر بھی آئے ، پھر بھی آئے اور یہاں تک کہ آپ نے ایک ایسا پہلو بیان کیا جس کی طرف ہمارا خیال بھی نہیں گیا تھا اور وہ پہلی بات دل میں اس طرح جا بنا گئی کہ پھر کبھی وہ دل کو چھوڑ کر کہیں نہ جائے.یہ وہ مضمون ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنی تحریرات میں باریکی کے ساتھ کھول رہے ہیں: جیسے آج میں ساری باتیں بیان نہیں کر سکتا.ممکن ہے کہ بعض آدمی ایسے ہوں جو آج ہی کی تقریر سن کر چلے جاویں اور بعض باتیں اس میں ان کے مذاق اور مرضی کے خلاف ہوں تو وہ محروم گئے لیکن جو متواتر یہاں رہتا ہے وہ ساتھ ساتھ ایک تبدیلی کرتا جاتا ہے اور آخر اپنے مقصد کو پالیتا ہے.“ (احکام جلد 6 نمبر 26 صفحہ:11 مؤرخہ 24 جولائی 1902ء) انسان کو انوار و برکات سے حصہ نہیں مل سکتا جب تک وہ اسی طرح عمل نہ کرے جس طرح خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ كُونُوا مَعَ الصّدِقِینَ.(سچوں کے ساتھ ہو جاؤ.“ اب اس آیت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار بار دہرایا ہے لیکن میں تو جب بھی اس کی تشریح پڑھتا ہوں اس میں نئے نکات دیکھتا ہوں.بظاہر ایک ہی جیسی بات ہو رہی ہے مگر کوئی نہ کوئی زاویہ ایسا ہے جس کی رو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس آیت کے اندر مخفی بعض دوسرے مضامین بھی بیان فرما جاتے ہیں.فرماتے ہیں: بات یہی ہے کہ خمیر سے خمیر لگتا ہے.“ اب یہ نئی بات ہے.سچوں کے ساتھ اس لئے ہو کہ تم خمیر کو دیکھو جب تک خمیر نہ ڈالا جائے دوسرے آئے کو خمیر لگتا ہی نہیں.تم اس لئے سچوں کے ساتھ ہو کہ تمہیں ان کا خمیر لگ جائے اور جب خمیر لگ گیا تو خمیر
خطبات طاہر جلد 17 302 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء غالب آجاتا ہے.اور بڑی سے بڑی چیز کو بھی آخر مغلوب کر لیتا ہے.خمیر لگنے کا مضمون بہت گہرا مضمون ہے.میں نے پہلے ایک دفعہ یا کئی دفعہ شاید بیان کیا ہے کہ اگر ایک سمندر بھی ہو اور اس میں تھوڑا سا خمیر ڈال دیں یعنی دودھ کا ایک سمندر بھی ہو تو وہ اس خمیر سے پھٹ سکتا ہے.اگر آٹے کا سمندر ہو تو ایک کونے میں تھوڑا سا خمیر ڈال لیں وقت لگے گا لیکن ہو نہیں سکتا کہ وہ سارا سمندرخمیر نہ ہو جائے.پس یہ مضمون ہے کہ نیک کی صحبت اپنے اندر ایک غلبہ رکھتی ہے، ایک طاقت رکھتی ہے.نیکی میں جو غلبہ کی طاقت ہے اگر تم نیک نیتی سے اس نیک کے پاس بیٹھو گے تو خواہ تمہارا باقی سارا وجود نیکی سے بے تعلق ہی کیوں نہ ہو یقین رکھو کہ اگر پیار اور محبت کے نتیجہ میں کسی نیک کے پاس بیٹھے رہو گے تو اس کا خمیر تمہارے سارے وجود پر غالب آجائے گا.اب اس ایک ستر میں ہمارے بے انتہا مسائل بیان ہو گئے ہیں.بارہا میں نے جماعت کو توجہ دلائی ہے کہ اپنے وجود کے اندر ہر پہلو پر نظر ڈالو، ہر پہلو سے نیک ہونا ضروری ہے ورنہ کلیۂ خدا کے حضور قبول نہیں کئے جاسکتے.اس کے اور بھی بہت سے رستے تھے جو مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے حوالے سے میں نے بیان کئے مگر ایک یہ رستہ مجھے بہت ہی پیارا لگا ہے اتنا آسان کہ اس میں کوئی بھی زور نہیں لگتا کوئی مصیبت پیش نہیں آتی محنت کے ساتھ قدم نہیں اٹھانے پڑتے خمیر از خود لگتا چلا جاتا ہے اور اگر آپ کسی نیک کی صحبت اس کی نیکی کی وجہ سے اختیار کریں گے تو آپ حیران ہوں گے کہ آپ کے اندر تبدیلی ہو رہی ہے، ہوتی چلی جارہی ہے.پتا بھی نہیں لگ رہا کہ کیسے ہوئی مگر بغیر مشقت ، بغیر محنت کے اگر کوئی انسان نیک ہونا چاہتا ہے تو اس نکتہ کو پکڑ لے.فرماتے ہیں: خمیر سے خمیر لگتا ہے اور یہی قاعدہ ابتدا سے چلا آتا ہے.پیغمبر خدا صلی ایم آئے تو آپ صلی للہ الیتیم کے ساتھ انوار و برکات تھے جن میں سے صحابہ نے بھی حصہ لیا.پھر اسی طرح خمیر کی لاگ کی طرح آہستہ آہستہ ایک لاکھ تک ان کی نوبت پہنچی.“ (البدر جلد 1 نمبر 4 صفحہ : 31 مؤرخہ 21 نومبر 1902ء) سارے عرب کی جو کایا پلٹی ہے وہ خمیر در خمیر سے کایا پلٹی ہے ورنہ اکیلے آنحضور صلی ایام کس طرح عرب پر اپنے پاک وجود کو نافذ فرما سکتے تھے.؟ یہی ایک طریقہ ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ازل سے اسی طرح چلا آ رہا ہے کہ خمیر کی لاگ کی طرح آہستہ آہستہ آنحضور صلی ا یتیم کے صحابہ کی تعداد ایک لاکھ تک جا پہنچی.پھر فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 303 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء شریعت کی کتابیں حقائق اور معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں لیکن حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے.“ صادق کی صحبت میں اخلاص اور صدق ضروری ہے.كُونُوا مَعَ الصّدِقِيْنَ میں صدق کے بغیر كُونُوا مَعَ الصدِقِينَ کا مضمون چلتا ہی نہیں ہے.جس نے بھی صادقین کے پاس بیٹھنا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ صدق کے ساتھ ،سچائی کے ساتھ بیٹھے اور اخلاص کے ساتھ اس کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے.فرماتے ہیں: ” جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق کے ساتھ اختیار نہ کی جاوے.اور امر واقعہ یہ ہے کہ صادقوں کی صحبت مشروط ہے اس بات سے کہ صحبت اختیار کرنے والا صادق ہو ورنہ وہ کوئی فائدہ نہیں دے گی.آنحضرت مصلی یتیم کی ظاہری صحبت میں تو ابو جہل بھی بیٹھ جایا کرتا تھا اور مکہ کے بہت سے ایسے بدباطن شخص جو بدی کی حالت میں پہلے سے زیادہ گمراہ ہو کر مر گئے وہ بھی آنحضور صلی شما ای یام کی صحبت میں آجایا کرتے تھے.آپ صلی للہ الیتیم کی مجالس میں خبیث ترین منافقین بھی ہوا کرتے تھے.ان کو تو کوئی فائدہ نہیں ہوا.پس حضور اکرم صلی لی ایم کی صحبت سے صرف انہوں نے فائدہ اٹھایا جن کے اپنے اندر صدق کا بیج تھا.پس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام كُونُوا مَعَ الصدقین کی یہ تشریح آپ کے سامنے پیش فرما رہے ہیں جب تک صادق کی صحبت اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے اس وقت تک حقائق و معارف کی جو کتابوں میں ہیں اطلاع نہیں ہوتی.اب ایک قرآن کریم کو سمجھنے کا بھی رستہ بیان فرما دیا.اس لئے محض صحبت کی باتیں نہیں ہور ہیں ، صحبت کے مختلف فوائد کا ذکر فرما رہے ہیں اور جب بھی اس آیت کی تشریح فرماتے ہیں ایک نیا نکتہ بیان فرماتے ہیں.یہ بات دنیا کے کسی اور مفسر کو نصیب نہیں ہوئی.آنحضرت سلیم کے زمانہ سے آج تک کے زمانہ پر نظر ڈال کر دیکھیں یہ باتیں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوئیں.فرماتے ہیں: شریعت کی کتابیں حقائق و معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں.لیکن لوگ انہی کتابوں کو پڑھتے ہیں اور گمراہ ہو جاتے ہیں، انہی کتابوں کے حوالے سے لوگوں کو گمراہ کر دیتے ہیں.) حقائق اور معارف پر کبھی پوری اطلاع نہیں مل سکتی جب تک صادق کی صحبت
خطبات طاہر جلد 17 304 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء اخلاص اور صدق سے اختیار نہ کی جاوے.اسی لئے قرآن شریف فرماتا ہے یا تھا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّدِقِيْنَ.( اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقوی اختیار کرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ.) اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور انتقا کے مدارج کامل طور پر کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ایک ارشاد بہت باریک نظر سے پڑھنے کے لائق ہے اور لوگ سرسری نظر سے پڑھ کر گزر جاتے ہیں ان کو پتا نہیں کہ کتنے معارف اس میں چھپے ہوئے ہیں.ایمان کے ساتھ مومن کے اندر ایک ارتقا ہورہا ہوتا ہے.اگر وہ سچا ہے اور سچوں کی صحبت اختیار کرتا ہے تو لازم ہے کہ اس کے اندر ارتقا ہو.ہر روز حالت بدلے اور وہ کبھی بھی پہلا وجود نہ رہے.مسلسل آگے بڑھتا ہوا، قرب الہی کی نعمت سے فیض یاب ہوتا ہوا آگے سے آگے بڑھتار ہے اس کو ارتقا کہتے ہیں.فرمایا: ایمان اور اتقا کے مدارج کامل طور پر (سچوں کی محبت کے بغیر ) کبھی حاصل نہیں ہو سکتے جب تک صادق کی معیت اور صحبت نہ ہو کیونکہ اُس کی صحبت میں رہ کر وہ اس کے انفاس طیبہ ، عقد ہمت اور توجہ سے فائدہ اٹھاتا ہے.“ الحکم جلد 6 نمبر 12 صفحہ: 7 مؤرخہ 31 مارچ 1902ء) یہ جو مضمون ہے اس میں مجھے ایک اور مضمون بھی نظر آ رہا ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سلیم ایم کے متعلق یہ کیوں فرمایا گیا کہ ہر حال میں ، ہر لمحہ آپ صلی شما کی ستم کی حالت پہلے سے بہتر ہو رہی ہے کونوا مع الصدِقِينَ کا مضمون آپ صلی اللہ ہی تم پر صادق آ رہا تھا کیونکہ آپ صلی یہ تم کا تعلق خدا سے تھا اور مسلسل اللہ سے تعلق کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی وہ صفات جن کا کوئی انت نہیں ، جن کی کوئی انتہا نہیں وہ صفات آ ملی یہ ہم کو اپنی طرف بلا رہی تھیں جو ہمیشہ آپ صلی اینم کو ایک لا متناہی سفر میں مبتلا کر رہی تھیں اور جو خدا تعالیٰ کی طرف سفر اختیار کرتا ہے وہ ہمیشہ ہر حال میں پہلے سے بہتر ہو رہا ہوتا ہے.پس کتنا عظیم مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان چھوٹے چھوٹے اشاروں میں بیان فرما دیتے ہیں کہ صادقوں کی معیت میں تم اگر صدق کے ساتھ بیٹھو گے تو لازم ہے کہ صادق
خطبات طاہر جلد 17 305 خطبہ جمعہ 1 مئی 1998ء کی طرح بننے کی کوشش کرو گے.پس اس کے صدق کے ساتھ تمہارے اندر ارتقا کی کیفیت پیدا ہو جائے گی.جب تک تم اس صادق کی تمام حسین صفات کو اپنا نہیں لیتے اس وقت تک تم آگے بڑھتے چلے جاؤ گے اور ایک صادق اگر خود لامتناہی صفات نہیں رکھتا تو صادق بنتا ہی جب ہے جب اس کا تعلق آنحضرت صلی ال ایام سے ہو.وہ ایک منزل ہوتا ہے، راستہ کی منزل ، جس پر قدم رکھ کر وہاں قدم رک نہیں جایا کرتے.وہ آگے آپ کو حضور اکرم صلی ا یہ تم کی صحبت کی طرف لے جاتا ہے اور وہ صحبت ایسی ہے جو خدا کی صحبت ہے.پس اسلام کے اندر لا متناہی ترقیات کے راستے کھول دئے گئے ہیں اور اس آیت كُونُوا مَعَ الصّدِقِینَ کی ہر تشریح میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک نئے رستہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے اور وہ ہر رستہ آسان بھی ہے اور کامل بھی ہے.پس آپ سب کو مجالس شوری کے ممبران ہیں یا ویسے ہی ان سب کو جو شوری کی وساطت سے میرے مخاطب ہیں یعنی تمام دنیا کے احمدی، ان سب کو میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ كُونُوا مَعَ الصدِقِينَ کا سبق پلے باندھ لیں.جو باقی باتیں رہ گئی ہیں وہ انشاء اللہ آئندہ جمعہ میں بیان کر دوں گا مگر جو بیان کی ہیں یہ بھی بہت ہیں.اتنی ہیں کہ اگر آپ ان پر عمل کریں تو ساری زندگی سنور سکتی ہے.نومبائعین کو بھی پیار اور حکمت کے ساتھ یہی باتیں سمجھا ئیں.پھر انشاء اللہ آپ کو قرآن کی سچی معرفت نصیب ہونا شروع ہوگی کیونکہ قرآن کی معرفت حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایام کے کردار کے حوالے کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی.پھر آپ کو یہ عادت پڑ جائے گی کہ قرآن کریم کی جو بھی تشریح کرنے لگیں اپنے نفس اور اپنی خواہش کے مطابق نہ کریں جیسا کہ آج کل کے بدنصیب علماء کرتے ہیں.ہر تشریح کو رسول اللہ صلی لی ایم کے کردار پر پرکھیں.آپ صلی ایام کا کردار غلط تشریحات کو جھٹک دے گا، اپنے جسم سے مس تک نہیں ہونے دے گا اور جو سچی تشریحات ہیں وہ بعینہ آنحضرت صلی یا یہ ستم کے کردار کے مطابق ہوں گی.پس آج جبکہ علوم کا زمانہ ہے اور ہم سب نے دنیا میں کثرت سے قرآنی علوم پھیلانے ہیں اس کا بھی یہی رستہ ہے کہ کُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 307 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء صادق کے لئے خدا تقدیر کو حرکت دیتا ہے اور وہ انسانی تدبیروں پر غالب آجایا کرتی ہے (خطبہ جمعہ فرموده 8 مئی 1998ء بمقام بیت الفضل ،لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ (التوبة: 119) پھر فرمایا: یہ وہ آیت ہے جو گزشتہ خطبہ میں میں نے تلاوت کی تھی اور اسی آیت کی تشریح میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ حوالے ابھی باقی تھے جو پڑھ کر سنائے نہ جا سکے تو میں نے گزشتہ خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ یہی مضمون آئندہ خطبہ میں بھی جاری رہے گا اور جب تک ان تمام اقتباسات کا مضمون جماعت کو سمجھا نہ دیا جائے ہم دوسرے مضمون میں داخل نہیں ہوں گے.تو آج پھر یہیں سے میں بات شروع کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جب انسان ایک راستباز اور صادق کے پاس بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے لیکن جوراستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے.“ یہاں بیٹھتا ہے فرمایا ہے جس کا مطلب ہے کہ براہِ راست بعض نیکیوں کا اثر دوسرے انسان پر پڑتا ہے اور اس میں کسی گفتگو اور بولنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی.اگر چہ گفتگو بھی ہوتی ہے اور نیکی
خطبات طاہر جلد 17 308 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء اور تقویٰ کا مضمون انسان راستبازوں سے ان کی گفتگو کے ذریعہ بھی سیکھتا ہے لیکن یہاں پہلی بات جو قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ بیٹھتا ہے تو صدق اس میں کام کرتا ہے.یہ امر واقعہ ہے اس کو ہم نے بہت تجربہ کر کے دیکھا ہے کہ جب کسی نیک انسان کے پاس بیٹھو تو اس کے نیک خیالات دل پر اثر کر رہے ہوتے ہیں.بچپن میں اکثر صحابہ کی صحبت میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے اور کئی ایسے صحابہ تھے جو خاموش رہا کرتے تھے اور ان کے پاس بیٹھنے سے دل میں نیکی ترقی کرتی تھی اور خدا تعالیٰ کی طرف دل کا رجحان بڑھتا تھا.تو یہ خاموشی بھی بولتی ہے لیکن اس کے علاوہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ مضمون بھی بیان فرماتے ہیں کہ جب پھر صدق والا باتیں کرتا ہے تو انسان ان سے بھی بہت فائدہ اٹھاتا ہے.پس جوراستبازوں کی صحبت کو چھوڑ کر بدوں اور شریروں کی صحبت کو اختیار کرتا ہے تو ان میں بدی اثر کرتی جاتی ہے.یہ بھی میں بارہا بیان کر چکا ہوں.حضرت خلیفتہ اسی الاول کے حوالے سے بھی کہ آپ نے ایک شخص کو جس کے دل میں دہر یا نہ خیالات پیدا ہو رہے تھے نماز میں جگہ بدلنے اور بعض دوستوں سے پر ہیز کی نصیحت فرمائی اور انہوں نے بعد میں عرض کیا کہ بالکل دل ٹھیک ہو گیا ہے.تو ایک بد خیال کا آدمی ضرور بداثر کرتا ہے.فرماتے ہیں: اسی لئے احادیث اور قرآن شریف میں صحبت بد سے پر ہیز کرنے کی تاکید اور تحدید پائی جاتی ہے.“ صحبت بد سے جتنا دور بھا گواتنا بہتر ہے.تحدید کا مطلب ہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایک انذار ہے، ڈراوا ہے اگر تم بروں کی صحبت میں بیٹھنے سے باز نہ آئے تو لازماً تمہارا بدانجام ہوگا.اور لکھا ہے کہ جہاں اللہ اور اس کے رسول صلی ا یہ تم کی اہانت ہوتی ہو اُس مجلس سے.فی الفور اٹھ جاؤ ورنہ جو اہانت سن کر نہیں اٹھتا اس کا شمار بھی ان میں ہی ہوگا.“ اس مضمون کو میں پہلے بھی کھول چکا ہوں کہ جہاں اہانت ہوتی ہو وہاں سے فی الفور اٹھ جاؤ مگر یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ اہانت والی مجلس میں دوبارہ جانے کا بھی خیال ہو.یہ مضمون آگے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پھر بھی کھول رہے ہیں ، پہلے بھی میں نے بیان کیا تھا اب بھی یہ بیان کر رہا ہوں کہ یہ ہمارے لئے بہت ہی ضروری مضمون ہے.اسے شدت کے ساتھ اور پورے خلوص کے ساتھ اپنی زندگی میں رائج کرنا چاہیئے اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو اصلاح کی بہت توفیق ملے گی.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 309 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء صادقوں اور راستبازوں کے پاس رہنے والا بھی ان میں ہی شریک ہوتا ہے اس لئے کس قدر ضرورت ہے اس امر کی کہ انسان کكُونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ کے پاک ارشاد پر عمل کرے.حدیث شریف میں آیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو دنیا میں بھیجتا ہے.“ فرشتوں کو دنیا میں بھیجتا ہے.یہ بھیجنا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کی تفصیل میں یہاں جانے کی ضرورت نہیں کیونکہ کوئی ایسے روحانی وجود نہیں ہیں جو جسمانی بھی ہوں اور ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرتے ہوں.یہ بہت ہی لطیف مضامین ہیں جن کو سمجھنا عام انسان کے بس کی بات نہیں لیکن آنحضور صلی ا ہم نے ہمیں سمجھانے کی خاطر ایسی زبان استعمال فرمائی ہے جسے ہم سمجھ سکتے ہیں.جیسے کوئی اوپر سے اتر کے نیچے آیا ہے کسی مجلس میں آ کے بیٹھ گیا ہے.فرشتے اس قسم کی حرکت تو نہیں کرتے اور یہ مضمون حضور اکرم سال پیہم نے دوسری جگہ کھولا ہوا ہے اور قرآن کریم نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے لیکن ان لفظوں کو جیسا کہ میں بیان کر رہا ہوں حضور اکرم صل للہ ایم کے الفاظ سمجھتے ہوئے کہ حضور اکرم صلی لہ الی یوم کے الفاظ ہیں ان کے نتیجے میں جو دل پر اثر ہوتا ہے اسے سمجھیں.ظاہری منظر کی تفصیل میں اور وہموں میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے.اب سنیں : وہ پاک لوگوں کی مجلس میں آتے ہیں اور جب واپس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اُن سے پوچھتا ہے.اب واپس جاتے ہیں“ کی تشریح اس لئے ضروری تھی کہ خدا تو وہاں بھی ہے جہاں پاک لوگ ہیں.خدا تعالیٰ کو تو اُن سب باتوں کا علم ہے جو وہاں ہورہی ہیں تو واپس کہاں جاتے ہیں.یہ صرف ایک نظارہ ہے جسے انسان بہتر سمجھ سکتا ہے.اس لئے ان کا صعود بھی وہیں ہوتا ہے جہاں وہ مجلس ہو اور روحانی صعود ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کی ذات کی طرف حرکت کرتا ہے جو دو ہیں موجود ہوتا ہے.بہر حال اب اس تشریح کے بعد اس کو سنیں بہت ہی دلچسپ اور بہت ہی دل پہ گہرا اثر کرنے والی نصیحت ہے.فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے کہ تم نے کیا دیکھا.وہ کہتے ہیں کہ ہم نے ایک مجلس دیکھی ہے جس میں تیرا ذکر کر رہے تھے مگر ایک شخص ان میں سے نہیں تھا.( یعنی ایک شخص ایسا تھا جو ذکر کرنے والوں میں سے نہیں تھا.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہیں وہ بھی اُن میں 66 ہی سے ہے کیونکہ اِنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ “
خطبات طاہر جلد 17 310 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء کہ یہ ایسی قوم ہیں کہ ان کا ساتھی محروم اور بد بخت نہیں رہ سکتا.کتنی عظیم الشان خوشخبری ہے.ایک انسان اگر براہِ راست صحبت سے استفادے کا فیصلہ نہ بھی کرے، یہ نیت لے کر نہ بھی بیٹھے ویسے ہی چلتا ہوا تھک کر کسی ایسی صحبت میں بیٹھ جائے اس کو بھی فائدہ پہنچتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ”اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صادقوں کی صحبت سے کس قدر فائدے ہیں.سخت بدنصیب ہے وہ شخص جو صحبت سے دور ہے.غرض نفس مطمئنہ کی تاخیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں.“ نفس مطمئنہ وہ نفس ہے جو اللہ تعالیٰ سے کامل طور پر راضی ہو چکا ہو اور یہ جو ہے اللہ کے ذکر سے اطمینان پانا اس کی ایک یہ صورت ہے کہ ان لوگوں کے پاس بیٹھو جو مجسم ذکر ہو چکے ہوں اور نفس مطمئنہ رکھتے ہوں.ان کے دل میں کسی اور طرف رخ کرنے کی کوئی خلش نہیں ہوتی ، صرف اللہ ان کے لئے کافی ہو جاتا ہے اور خدا ہی کی ذات میں رہتے ہیں.فرمایا: ”نفس مطمعنہ کی تاثیروں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اطمینان یافتہ لوگوں کی صحبت میں اطمینان پاتے ہیں.وہاں جا کے ان کو سکون ملتا ہے آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں اور دل اطمینان پا جاتا ہے.یہ بھی ایک تجربہ ہے جو میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ میں سے بہتوں کو ہوا ہوگا کہ اطمینان یافتہ آدمی کے پاس پہنچ کر دل پہ گہر اسکون طاری ہو جاتا ہے.اتارہ والے میں نفس اتارہ کی تاثیریں ہوتی ہیں.“ جس کا دل ہر وقت اس کو بدیوں کی تحریک کر رہا ہو اس کے پاس بیٹھو گے تو تمہارے دل میں بھی بدیوں کی تحریکیں شروع ہو جائیں گی.اور لو امہ والے میں تو امہ کی تاثیریں ہوتی ہیں.“ جس شخص کے پاس بیٹھو اگر اس کا نفس بار بار اس کو اپنی کمزوریوں اور بدیوں پر ملامت کرتا ہے تو جو پاس بیٹھتا ہے وہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے دل میں بھی اپنی کمزوریوں اور بدیوں پر ملامت کا وو رجحان پیدا ہو جاتا ہے.اور جو شخص نفس مطمنہ والے کی صحبت میں بیٹھتا ہے اس پر بھی اطمینان اور سکینت کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور اندر ہی اندر اسے تسلی ملنےلگتی ہے.“ الحکم جلد 8 نمبر 2 صفحہ:1 مؤرخہ 17 جنوری 1904ء)
خطبات طاہر جلد 17 311 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء اس سے پہلے اگر چہ نفس مطمئنہ کا ذکر گزر چکا ہے مگر اب چونکہ تدریج میں ذکر فرمارہے ہیں اس لئے آخر پر پھر نفس مطمنہ کا ذکر ضروری تھا.پھر فرماتے ہیں: ”صادقوں کی صحبت میں رہنا ضروری ہے بہت سے لوگ ہیں جو دور بیٹھے رہتے ہیں اور کہہ دیتے ہیں کہ کبھی آئیں گے ، اس وقت فرصت نہیں ہے.بھلا تیرہ سوسال کے موعود سلسلہ کو جو لوگ پالیں اور اُس کی نصرت میں شامل نہ ہوں اور خدا اور رسول صلی یتیم کے موعود کے پاس نہ بیٹھیں وہ فلاح پاسکتے ہیں؟ ہر گز نہیں.“ یعنی دُور کی بیعت ان معنوں میں کہ بیعت کی اور دُور ہی بیٹھے رہے اس کے نتیجہ میں فلاح نصیب نہیں ہو سکتی.اب جو زمانہ آ گیا ہے اس میں تو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کروڑ سے بہت آگے بڑھ چکی ہے اور ایسے دن آنے والے ہیں جبکہ ہر سال اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں انسان جماعت میں داخل ہونگے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ وہ سارے یہاں آجائیں.اس چھوٹی سی مسجد میں یا کسی بڑی مسجد میں بھی میں بیٹھا ہوں ناممکن ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو شخص نمائندگی کر رہا ہو، جب بھی کر رہا ہو ساری دنیا کے کروڑ ہا لوگ ان کے پاس پہنچ جائیں اور اگر نہ پہنچیں تو ان پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فتویٰ صادر ہو جائے کہ ہر گز فلاح نہیں پاسکتے.اس دور میں اللہ تعالیٰ نے MTA ہمیں عطا فرما دی ہے اور دور بیٹھنے والوں کو بالکل یہی احساس ہوتا ہے کہ گویا وہ اسی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں.چاہے دُنیا کے کسی کونے میں بس رہے ہوں ان کے دل پر اتنا گہرا اثر پڑتا ہے مجلس کا کہ ان کو خیال بھی نہیں گزر رہا ہوتا کہ وہ کہیں اور بیٹھے ہوئے ہیں.بالکل ہمارے اندر، بیچ میں اسی احساس کے ساتھ بیٹھے ہوتے ہیں جس طرح آپ یہاں ایک احساس کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں.بہت سے خطوط مجھے ملتے ہیں وہ کہتے ہیں ہم ایسی صورت میں اپنے آپ سے بالکل کھوئے جاتے ہیں یہاں تک کہ چھوٹے بچے ہیں وہ تو اٹھ اٹھ کر ٹی وی کی سکرین کو انگلیاں لگاتے ہیں.ایک بچی نے لکھا کہ مجھے امی نے ساری بات سمجھائی کہ أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عَبْدَہ کا کیا مطلب ہے اور یہ انگوٹھی کیوں پہنتے ہیں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی انگوٹھی جو آپ پہنتے ہیں اس کا قصہ بھی سنایا تو کہتی ہیں مجھے بے اختیار جب آپ کا ہاتھ انگوٹھی والا نظر آیا تو دوڑ کے گئی اور سکرین پر منہ لگا دیا کہ اس انگوٹھی کو چوموں.اب یہ بناوٹی باتیں نہیں ہیں.یہ محبت کے بے انتہا اور غیر اختیاری مظاہر ہیں جو
خطبات طاہر جلد 17 312 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء جماعت احمدیہ کو اللہ تعالیٰ دکھا رہا ہے.پس یہ خیال دل میں پیدا ہونا کہ دُور بیٹھے اب کیا کریں گے.اگر دور بیٹھے لوگ ٹیلی ویژن پر کم سے کم خطبہ سنے کا اہتمام کریں تو حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کی یہ مراد پوری ہو جاتی ہے کہ وہ آئیں اور صحبت سے فیض یافتہ ہوں.فرمایا: وو ” ہم خدا خواہی وہم دنیائے دوں این خیال است و محال است و جنوں“ الصلوة کہ خدا بھی چاہو اور دنیا بھی چاہو یہ محض خیال ہے.محال ہے ، ناممکن ہے اور جنون ہے.پس یہ دو چیزیں اکٹھی نہیں چل سکتیں.اگر خدا چاہتے ہو تو خدا چاہنے کے لئے جو نقاضے ہیں وہ تقاضے پورے کر واگر دنیا چاہتے ہو تو دنیا کی طرف منہ کر لومگر یہ بین بین کا رستہ اختیار نہیں کیا جاسکتا.دنیا چاہتے ہوئے خدا چاہتے ہو تو پھر لازماً رفتہ رفتہ دنیا سے دور ہٹنا اور خدا کی طرف آگے بڑھنا لازم ہوگا.فرماتے ہیں: دین تو چاہتا ہے کہ مصاحبت ہو پھر مصاحبت سے گریز ہو تو دین داری کے حصول کی اُمید کیوں رکھتا ہے؟ ہم نے بارہا اپنے دوستوں کو نصیحت کی ہے اور پھر کہتے ہیں کہ وہ بار بار یہاں آکر ر ہیں اور فائدہ اٹھا ئیں مگر بہت کم توجہ کی جاتی ہے.لوگ ہاتھ میں ہاتھ دے کر دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں مگر اس کی پروا کچھ نہیں کرتے.“ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ جو مضمون بیان فرما ر ہے ہیں یہ اُس زمانہ کی باتیں ہیں جبکہ احمدیت کا آغاز تھا اور لوگوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اہمیت کا پورا احساس نہیں تھا.دور بیٹھے کبھی طاعون کے اثر سے کبھی کوئی اور نشان دیکھ کر بیعت تو کر لی مگر دل میں وہ غیر معمولی پاک تبدیلی پیدا نہ ہو سکی جس کے نتیجہ میں بے اختیار وہ کشاں کشاں قادیان کی طرف چلے آئیں.ایسے لوگوں کی بے اعتنائی کے اوپر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو افسوس فرمایا ہے آج آپ لوگ اس بے وقوفی میں مبتلا نہ ہوں کہ آج کے لوگ نئے آنے والے پہلوں سے بہت بہتر ہیں اور یہ ہمارے زمانہ کی پہلے زمانوں پر ایک فضیلت ہے.اگر بہتر ہیں تو وہ درد جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دل میں اُس وقت پیدا ہوا ہے جب تقریر فرمارہے تھے ، وہ درد ہے جو خدا نے قبول فرمایا ہے.پس سو فیصدی ہم آپ ہی کی جوتیوں کے غلام ہیں اور آج جو حیرت انگیز معجزے دیکھ رہے ہیں یہ ان
خطبات طاہر جلد 17 313 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء ا دعاؤں کا نتیجہ ہے.اس بات کو اگر کوئی شخص بھلا دے تو انتہائی بے وقوف ہوگا اور وہ بالکل غلط اور باطل خیالات میں مبتلا ہو کر اپنا دین کھوسکتا ہے.فرماتے ہیں: وو وہ لوگ جو یہاں آکر میرے پاس کثرت سے نہیں رہتے اور ان باتوں سے جو خدا تعالیٰ ہر روز اپنے سلسلہ کی تائید میں ظاہر کرتا ہے نہیں سنتے اور دیکھتے.وہ اپنی جگہ پر کیسے ہی نیک اور متقی اور پرہیز گار ہوں.(یعنی ایسے بھی لوگ ہونگے جو متقی اور پرہیز گار ہیں مگر دور بیٹھے ہیں اور اپنے ہی تقویٰ میں گم ہیں.مگر میں یہی کہوں گا کہ جیسا چاہئے انہوں نے قدر نہیں کی.میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے.پس تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے.(عملی تحمیل علمی تکمیل کے بغیر ناممکن ہے.یہ مضمون ہے جو ذرا ٹھہر کر سمجھانے والا ہے.فرمایا : ) پس تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے تکمیل علمی مشکل ہے.بارہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے.( یہ مراد ہے ) اس کی وجہ کیا ہے؟ یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور ان باتوں کو نہیں سنتے جو خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کر رہا ہے.پس اگر تم واقعی اس سلسلہ کو شناخت کرتے ہو اور خدا پر ایمان لاتے ہو اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا سچا وعدہ کرتے ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ اس پر عمل کیا ہوتا ہے.کیا کونُوا مَعَ الصُّدِقِيْنَ کا حکم منسوخ ہو چکا ہے؟ اگر تم واقعی ایمان لاتے ہو اور سچی خوش قسمتی یہی ہے تو اللہ تعالیٰ کو مقدم کر لو.اگر ان باتوں کو ر ڈی اور فضول سمجھو گے تو یا درکھو خدا تعالیٰ سے ہنسی کرنے والے ٹھہرو گے.“ الحکم جلد 5 نمبر 31 صفحہ: 3 ، مؤرخہ 24 اگست 1901ء) اب میں دوبارہ اس حصہ کو لیتا ہوں جس کے متعلق میں نے کہا تھا ٹھہرا کر سمجھانے والی بات ہے.آنحضرت صل اللہ الہ سلم کا مقام اور مرتبہ یہ تھا کہ بغیر علم عطا کئے بھی تزکیہ نفس فرماتے تھے اور وہی تزکیہ نفس کا مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی جاری ہوا.پس آپ کی تحریر کا پہلا حصہ اُس سے متعلق ہے جہاں پاس بیٹھنے والے پر اثر پڑ رہا ہے، بغیر گفتگو کے اثر پڑ رہا ہے اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھولے نہیں ہیں.یہ بظاہر خیال پیدا ہو کہ علمی تکمیل ہی کو
خطبات طاہر جلد 17 314 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء آپ اہمیت دے رہے ہیں.سب سے پہلی بات آپ نے یہ بیان فرمائی ہے کہ نیک کی صحبت اختیار کرو تو بغیر گفتگو کے بھی تمہارے دل میں نیکی سرایت کر جائے گی اور یہ رسول اللہ لایا کہ تم کا فیض ہے جو آج تک جاری ہے.پہلے رسولوں میں یہ بات سنی نہیں تھی تھی تو کم کم ہوگی مگر خصوصیت سے اس کا ذکر نہیں ملتا.آنحضرت سالی ایم کو اللہ تعالیٰ نے جو خصوصیت اور امتیاز بخشا ہے اگر یہ آپ صلی نا ہی تم تک ہی ٹھہر جاتا تو تمام آنے والے زمانوں کو آپ سلایا کہ ہم کا فیض کیسے پہنچ سکتا تھا.اس لئے یہ فیض صرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ذریعہ ہی نہیں پہنچا بلکہ کثرت کے ساتھ جو آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ دل کی نیکی دل پر اثر کر جاتی ہے یہ وہی فیض ہے اور عام ہو چکا ہے.اس بات کو اب تفصیل سے بیان کرنے کے بعد پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام علم کی ضرورت بھی بیان فرماتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم میں فرمایا گیا: وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَبَ وَالْحِكْمَةَ وَ إِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلِلٍ مين (الجمعة : 3) کہ محمد رسول اللہ صلی ایتم تزکیہ نفس کے بعد تعلیم کتاب اور کتاب کی حکمتیں بھی بیان فرماتے ہیں.اب یہ مضمون جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے شروع فرمایا ہے کہتے ہیں تکمیل علمی کے بعد تکمیل عملی کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک علوم میں انسان ترقی نہ کرے اس کا نفس ان اعمال پر تیار نہیں ہوتا جو اعمال علوم کے نتیجے میں خود بخود ظاہر ہونے چاہئیں.فرمایا تم نیک عمل کیسے بنو گے اگر وہ علوم حاصل نہیں کئے جن کے نتیجے میں کوئی عمل بھی عطا ہوا کرتا ہے.اگر علم سچا ہوا ور واقعۂ انسان کو نصیب ہو جائے تو اس علم کے بعد ایک معمل لازم ہو جایا کرتا ہے.یہ حکمت کی بات ہے جو سمجھانے والی ہے.آپ کو کسی چیز کے متعلق علم ہے کہ یہ میری صحت کے لئے اچھی ہے تو آپ اسے پرے نہیں پھینکیں گے.آپ کا عمل آپ کے علم کی سچائی کو اس طرح ظاہر کرے گا کہ آپ اسے حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.تمام انسانی جدو جہد علم کے نتیجے میں ہوتی ہے.جب یہ علم ہو کہ ایک چیز ہمارے لئے بری ہے تو لاز ما از خود انسان اس سے پیچھے ہٹنے لگ جاتا ہے.پس عمل کی تکمیل ، علم کی تکمیل کے ساتھ وابستہ ہے اور ہر علم ترقی کرتا ہے اور جوں جوں علم ترقی کرتا ہے ساتھ ساتھ عمل بھی ترقی کرتا ہے.یہ حکمت کی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یوں فرما رہے ہیں ” پس تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے.‘، ناممکن ہے.ہے.
خطبات طاہر جلد 17 315 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء اور جب تک یہاں آکر نہیں رہتے تعمیل علمی مشکل ہے.اب یہاں آ کر نہیں رہتے کا جواب تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں MTA کے ذریعہ دے دیا ہے.فرماتے ہیں: ”بار ہا خطوط آتے ہیں کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے.یہ اب بھی ہوتا ہے اور ہر ایسے سائل کو میں جواب دیتا ہوں کہ آپ اگر MTA پر ایسے پروگراموں کا مطالعہ کرتے جن میں علمی سوالات کے جواب دئے گئے ہیں تو اتنی کثرت کے ساتھ مختلف سوالات کے ہر پہلو پر مختلف وقتوں میں بحث کی گئی ہے کہ اس کثرت کو دیکھ کر ڈر آتا ہے کہ اس سارے کو لوگ کیسے سن سکیں گے لیکن جب بھی سنیں گے ، جتنا بھی سنیں گے وہ یہ دیکھ کر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ حیران ہونگے کہ کسی دشمن کا کوئی بھی اعتراض باقی نہیں رہا جس کے ہر پہلو سے متعلق کوئی بات نہ ہو چکی ہو.تو پھر خطوں کے ذریعہ مجھے پوچھتے ہیں کہ ہمیں لکھ کر بتاؤ.میں کہتا ہوں کہ میرے لئے یہ تو بالکل ممکن نہیں ہے کہ میں آپ کے خط کے جواب میں دس ہزار صفحات کی ایک کتاب بھیج دوں اور نئی لکھواؤں.وہ باتیں جو اکٹھی کی گئی ہیں اگر واقعہ ان کو تفصیل سے ساری مجالس کو ، ان میں درس قرآن بھی شامل ہے اس میں بھی بہت سے نکات بیان ہوتے ہیں ، اس میں ہر قسم کے پروگرام شامل ہیں یہاں تک کہ بچوں کے پروگرام بھی شامل ہیں، ان کو اگر اکٹھا کر کے لکھو تو واقعی کم از کم دس ہزار صفحات کی کتاب بنے گی.تو کیسے ممکن ہے.عجیب سوال کرتے ہیں.لاعلمی ہے تو اتنی لاعلمی ہے کہ پتا ہی نہیں کہ ان سب باتوں کا جواب آچکا ہے.کوئی پاکستان سے لکھ رہا ہے بچہ، سیالکوٹ کے کسی گاؤں سے کہ مجھے ان سوالات کے جوابات اپنے ہاتھ سے لکھ کر بھیجیں اور وہ سوالات ایسے ہیں جن میں واقعۂ کم سے کم ایک ہزار صفحات کا خط مجھے لکھنا پڑے گا یا لکھوانا پڑے گا.تو یہ بچگانہ باتیں چھوڑ دیں.عقل سے کام لیں.سارا مواد موجود ہے اور جس کو یہ بھی علم نہیں اس کی تکمیل عملی کیسے ہوگی؟ اس لئے جماعتوں میں اس علم کو شہرہ دینا ضروری ہے.کثرت کے ساتھ اس علم کا انتشار کریں اور سب کو بتائیں کہ ہر قسم کے اعتراضات کے جواب ہیں.صرف ان کو اپنی جماعت کے متعلقہ شعبہ کو یہ لکھنا ہے کہ ہمارے یہ سوالات ہیں ان کے جواب کہاں کہاں ملیں گے تو خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ شعبہ ان کو بتا سکتا ہے.اور یہ خیال نہ کریں کہ ایک مضمون کی ایک کیسٹ میں وہ ساری باتیں آجائیں گی.اس لئے کم سے کم ہیں ،تیں، چالیس، پچاس کیسٹس ایسی ہوں گی جن میں تفصیل موجود ہے اور ہر کیسٹ میں کچھ نہ کچھ نئی باتیں ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 316 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء پس اس کے لئے اپنی توفیق کے مطابق وقت زیادہ ہو تو زیادہ، کم ہو تو کم توجہ کریں اور آپ کو میں یقین دلاتا ہوں کہ ہر قسم کے اعتراضات کے جواب دینے کی آپ کو مہارت نصیب ہو جائے گی.بارہا خطوط آتے ہیں.یہ مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہیں : ” کہ فلاں شخص نے اعتراض کیا اور ہم جواب نہ دے سکے اس کی وجہ کیا ہے.یہی کہ وہ لوگ یہاں نہیں آتے اور ان باتوں کو نہیں سنتے جو خدا تعالیٰ اپنے سلسلہ کی تائید میں علمی طور پر ظاہر کر رہا ہے.پس اگر تم واقعی اس سلسلہ کو شناخت کرتے ہو اور خدا پر ایمان لاتے ہو اور دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا سچا وعدہ کرتے ہو تو میں پوچھتا ہوں کہ اس پر عمل کیا ہوتا ہے.کیا كُونُوا مَعَ الصُّدِقِينَ کا حکم منسوخ ہو چکا ہے.؟“ اسی مضمون کو آگے بڑھاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ صدق صرف سچ بولنے کا نام نہیں.اسلامی اصطلاح میں جس کو صادق کہا جاتا ہے وہ سچ بولنے سے بہت زیادہ آگے اور وسیع اصطلاح ہے.صادق سے صرف یہی مراد نہیں کہ انسان زبان سے جھوٹ نہ بولے.یہ بات تو بہت سے ہندوؤں اور دہریوں میں بھی ہو سکتی ہے.“ یہ امر واقعہ ہے کہ ہم کئی دفعہ ایسے ہندوؤں سے ملتے ہیں.میں خود بھی مل چکا ہوں.اور دہر یہ مغربی لوگوں سے مل چکا ہوں جن میں یہ خوبی پائی جاتی ہے کہ وہ زبان سے جھوٹ نہیں بولتے.صادق سے مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات و سکنات وقول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں.“ یعنی سچائی کی باتیں جب وہ کرتا ہے، کچی باتیں کرتا ہے مگر جب وہ سچی باتیں کرتا ہے تو وہ ساری سچی باتیں اس کے عمل میں نہیں ڈھلتیں.یہ فرق ہے مومن صادق اور غیر مومن صادق کا.جو غیر مومن سچ بولنے والا ہے وہ ہزار سچ بولے لیکن دل میں خود بخود جانتا ہے کہ میرے لئے اس پر عمل مشکل ہے اور میں نہیں کر سکتا.چنانچہ میری ایسی مجالس میں واضح طور پر اقرار کرتے ہیں کہ بالکل ٹھیک کہا ہے یہی اسلام کی تعلیم ہونی چاہئے مگر ان کے چہروں سے دکھائی دیتا ہے کہ وہ عمل نہیں کر سکیں گے، تو یہ صدق ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جماعت میں دیکھنا چاہتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 317 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء وو مراد وہ شخص ہے جس کی ہر بات صداقت اور راستی ہونے کے علاوہ اس کے ہر حرکات وسکنات وقول سب صدق سے بھرے ہوئے ہوں.گویا یہ کہو کہ اس کا وجود ہی صدق ہو گیا ہو.(یہ مکمل سچائی بن چکا ہے.) اور اس کے اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں.“ الحکم جلد 5 نمبر 44 صفحہ:11، مؤرخہ 30 نومبر 1901ء) یہ دوسرا پہلو میں نے پہلے بھی کھول کر بیان کر دیا تھا اس لئے مزید تفصیل میں میں نہیں جاتا.یہ سمجھاتا ہوں کہ یہ صدق کوئی چھپی رہنے والی بات نہیں ہے جس کو یہ صدق نصیب ہو، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ اس کی تائید میں نشانات نہ ظاہر فرمائے اور اللہ تعالیٰ جو نشانات ظاہر فرماتا ہے وہ دنیا دیکھتی ہے اور دیکھ سکتی ہے اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اس کو خدا تعالیٰ آئندہ کی خوشخبریاں دیتا ہے، دشمنوں کے ارادوں سے متنبہ فرماتا ہے.یہی نہیں سینکڑوں ہزاروں اور طریق ہیں جن سے اللہ تعالیٰ اپنے صادق بندے سے ایسا تعلق رکھتا ہے جو تعلق بولتا ہے، دل سے اُچھلتا ہے اور اس کے ماحول میں پھیل جاتا ہے اور لوگ اس خدا کے تعلق کی وجہ سے جانچ سکتے ہیں کہ یہ صادق ہے.اس صدق پر بہت سے تائیدی نشان اور آسمانی خوارق گواہ ہوں.“ خوارق سے مراد یہ ہے کہ عام نشانات نہیں بلکہ ایسے نشانات جو روز مرہ کے قانون سے ہٹ کر دکھائی دیتے ہیں، اتنے غیر معمولی ہوتے ہیں کہ کوئی آدمی جو تعصب سے پاک ہو وہ ان کا انکار کر ہی نہیں سکتا.ایسے خوارق کثرت سے آنحضرت صلی یہ تم کو عطا ہوئے اور ایسے خوارق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی عطا ہوئے.مثلاً پاگل کتے کے کاٹے ہوئے کا جو عبدالکریم پر اثر تھا اور ڈاکٹروں نے کہہ دیا تھا کہ اس کا کوئی علاج ہو ہی نہیں سکتا.جب وہ پاگل پن عود کر آیا ، دوبارہ حملہ کیا تو چوٹی کے ڈاکٹروں نے جو اس فن کے ماہر تھے یہ تار بھیجا کہ کچھ نہیں کیا جاسکتا.Nothing can be done for Abdul Karim" مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دعا کی اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے بتا دیا کہ عبد الکریم ٹھیک ہو جائے گا.آج تک اس عبد الکریم کی نسل حیدر آباد دکن میں موجود ہے اور بہت کثرت سے پھیل چکی ہے.ان میں سے ہر ایک زندہ گواہ بن گیا ہے.اس کو کہتے ہیں خوارق کا ظہور." تتمہ حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ:481،480)
خطبات طاہر جلد 17 318 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خوارق کو صرف اپنے لئے خاص نہیں فرمار ہے.یہ ہے جو خوشخبری ہے.فرمایا تم صادق بنو اور دیکھو کہ تمہاری تائید میں بھی خدا تعالیٰ خوارق دکھائے گا اور ان خوارق کے نمونے میں بھی احمدیوں میں دیکھتا رہتا ہوں.واقعہ بہت سے احمدی ایسے ہیں جن کی تائید میں اللہ تعالیٰ خارق عادت معجزے دکھاتا چلا جارہا ہے اور یہ دنیا میں پھیلے پڑے ہیں.پس اس وجہ سے وہ صادق بنے کی کوشش کریں جن کے لئے خدا تقدیر کو حرکت دیتا ہے اور وہ انسانی تدبیروں پر غالب آجایا کرتی ہے.اگر ایسے صادق بن جائیں گے تو پھر دیکھیں تو سہی کہ دنیا میں احمدیت کس شان کے ساتھ پھیلتی اور کیسے کیسے دنیا کی اصلاح کرتی ہے.کتنے عظیم الشان فوائد احمدیت سے وابستہ ہو جاتے ہیں.فرمایا: چونکہ صحبت کا اثر ضرور ہوتا ہے اس لئے جو شخص ایسے آدمی کے پاس جو حرکات وسکنات، افعال و اقوال میں خدائی نمونہ اپنے اندر رکھتا ہے صحت نیت اور پاک ارادہ اور مستقیم جستجو سے ایک مدت تک رہے گا تو یقین کامل ہے کہ وہ اگر دہر یہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ صادق کا وجود خدا نما وجود ہوتا ہے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے بھی بہت سے دہریوں کو شفا بخشی مگر ان کو جو پاس آئے اور کچھ دیر ٹھہرے اور خدا نمائی کے نشان دیکھے لیکن جو آئے اور گزر گئے ان کی اصلاح تو نہیں ہو سکتی تھی، نہ ہی ان کے لئے یہ موقع تھا کہ وہ ٹھہر کر تازہ بتازہ ، ٹو بہ کو نشانات کا خود مشاہدہ کر سکیں.فرمایا پاک ارادہ ، نیت صاف ہونی ضروری ہے.اور مستقیم جستجوی مستقیم جستجو ایک بہت ہی پیارا محاورہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایجاد فرمایا ہے.فرمایا جستجوسرسری بھی تو ہو جاتی ہے.دیکھا، کوئی چیز نہیں ملی ، چلے گئے کہ کوئی بھی نہیں ہے لیکن ایک چیز کا کھوج لگانے کے لئے جس طرح پولیس بعض دفعہ قتل کے نشانات ڈھونڈتی ہے اس کو کہتے ہیں مستقیم جستجو.وہ چھوڑتے نہیں اس بات کو.خالی میدان دکھائی دے رہا ہے وہاں کوئی بھی نشان نہیں ، گھاس کی پتی پتی کو بڑی استقامت کے ساتھ الٹ کے دیکھ رہے ہوتے ہیں.بعض دفعہ ہزار ہا آدمی پولیس کے ساتھ اس مستقیم جستجو میں شامل ہو جاتے ہیں اور بالآخر وہ پھل لاتی ہے.ایک مچھلی پکڑنے والا بعض دفعہ سارا دن وہاں بیٹھا رہتا ہے اس کو جستجو ہے کہ مچھلی ہاتھ آئے اور بعض دفعہ ایک دن، دو دن، تین دن کے بعد بہت بڑی مچھلی
خطبات طاہر جلد 17 319 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء پکڑ لیتا ہے اور وہ ساری زندگی فخر سے دکھاتا پھرتا ہے کہ یہ اتنی بڑی مچھلی میں نے پکڑی تھی.وہ مچھلی تو نہیں دکھا سکتا مگر اس کا ڈھانچہ بنا کر دیواروں پہ سجا لیتا ہے.پس اس کو مستقیم جستجو کہتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں کہ پاک ارادہ ہو پھر جستجو بھی مستقیم ہو.میں جو کہتا ہوں کہ خدا مجھے نشان دکھاتا ہے تو ایک مچھلی پکڑنے والے، ایک نشان تلاش کرنے والی پولیس سے زیادہ خدا کی قیمت اس کے دل میں ہونی چاہئے.اتنے بڑے وجود کی باتیں میں کر رہا ہوں اور آیا اور چلا گیا یہ تو بڑی بے وقوفی ہے.تو بیٹھا رہے، دیکھتا رہے ، غور کرے کہ کون سا نشان ظاہر ہو رہا ہے.جب وہ غور کی آنکھ کے ساتھ دیکھے گا تو اس کو کثرت سے نشان دکھائی دینے لگیں گے.” تو یقین کامل ہے کہ وہ دہر یہ بھی ہو تو آخر خدا تعالیٰ کے وجود پر ایمان لے آئے گا کیونکہ صادق کا وجود خدا نما وجود ہوتا ہے.“ وہ اس وجود میں اللہ کودیکھ لیتا ہے.66 انسان اصل میں انسان ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ “ انس کہتے ہیں پیارکو، مجھے اس سے اُنس ہے.تو فرمایا لفظ انسان در اصل انسان تھا جو کثرت استعمال سے انسان میں بدل گیا.یہ عربی کا قاعدہ ہے کہ کثرت استعمال کے ساتھ جو مشکل حرکات ہیں وہ آسان حرکات میں بدلتی رہتی ہیں.سب سے آسان حرکت زیر کی حرکت ہے.اُنس میں جو پیش کی حرکت ہے یہ سب سے سے مشکل ہے، اس کے بعد زبر کی حرکت، اس سے کم مشکل پھر زیر کی حرکت سب سے آسان.تو یہ لفظ دراصل انس تھا جو انسان میں تبدیل ہو گیا لیکن معنی وہی رکھتا ہے دو محبتوں کا مجموعہ.ایک اُنس وہ خدا سے کرتا ہے دوسرا اُنس انسان سے.چونکہ انسان کو تو اپنے قریب پا تا اور دیکھتا ہے اور اپنی ہی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے.“ فطرت میں تو اللہ کا انس بھی ہے اور بندوں کا اُنس بھی ہے لیکن اللہ ہر شخص کو قریب دکھائی نہیں دے سکتا مگر فر ما یا انسان جو اپنی جنس کا ہے اس کو انسان فوراً دیکھتا ہے اور اپنے ہم جنس ہونے کی وجہ سے اس سے متاثر ہوتا ہے.پس جو بھی چیز قریب ہے.وہ ضرور اپنا اثر دکھاتی ہے اور جو دُور ہے وہ رفتہ رفتہ اپنا اثر کھو دیتی ہے یا اثر ہے تو واضح طور پر محسوس نہیں ہوتا.پنجابی میں لوگ کہتے ہیں نہایت بے ہودہ مثال ہے کہ ”خدا نیڑے کہ کھٹن.تم جو خدا سے ڈرتے پھرتے ہو دیکھو نز دیک کیا ہے.مکا نزدیک ہے یا اللہ نزدیک ہے.تو بڑی جاہلانہ بات ہے مگر اس بات میں بھی صداقت ضرور ہے
خطبات طاہر جلد 17 320 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء کیونکہ آج پاکستان میں اکثر لوگ جو ہمیں دکھائی دے رہے ہیں یا دوسرے ممالک میں وہ گھٹن سے ڈرتے ہیں ، اللہ سے نہیں ڈرتے.خواہ اللہ پر یقین بھی رکھتے ہوں.یہ مسئلہ ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں: ” اپنی ہی نوع کی وجہ سے اس سے جھٹ پٹ متاثر ہو جاتا ہے اس لئے کامل انسان کی صحبت اور صادق کی معیت اسے وہ نور عطا کرتی ہے جس سے خدا کو دیکھ لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے.“ اب صادق کی معیت میں اگر وہ سچی معیت ہے تو جس وجود کو دیکھ رہا ہے وہ خدا نما ہوتا ہے وہاں نظر ٹھہر نہیں جاتی.یہ باتیں میں پہلے بھی کھول چکا ہوں کہ ایسے لوگ جو پیر پرستی کا رجحان رکھتے ہیں وہ صادق کی صحبت اختیار کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے.ان کو صرف پیر ہی دکھائی دیتا ہے اور اگر وہ سچا تھا بھی تو خدا کی طرف اس کی انگلیاں نہیں اٹھ رہی ہوتیں.اگر اٹھتی ہیں تو یہ بیوقوف اپنی پیر پرستی کے رجحان کی وجہ سے ان کو دیکھ نہیں سکتا.تو وہاں جا کے نظر ٹھہر گئی جو مقصود نہیں ہے اس سے نظر اوپر اٹھنی چاہئے تھی تو دونوں کی سچی تعریف فرما دی.صادق بھی وہ جس کی معیت سے اسے وہ نور عطا ہو جو خدا دکھا دے اور طلبگار بھی مستقیم جستجو کے ساتھ طلب کرنے والا خدا کو اس وجود میں دیکھے، نہ کہ صرف اس وجود پر نظر ٹھہر جائے.فرمایا: اور گناہوں سے بچ جاتا ہے.“ الحکم جلد 5 نمبر 44 صفحہ:11، مؤرخہ 30 نومبر 1901ء) اب گناہوں سے بچنے کا طریق کیا ہے.جب آپ دیکھ رہے ہیں ایک دیکھنے والے کو جو آپ کے حال سے باخبر ہے تو لازم ہے کہ آپ گناہوں سے بچیں.پھر فرمایا: یا درکھنا چاہئے کہ بیعت اس غرض سے ہے کہ تا وہ تقویٰ کہ جو اؤل حالت میں تکلف اور تصنع سے اختیار کی جاتی ہے دوسرارنگ پکڑے اور برکت تو جہ صادقین و جذ بہ کاملین طبیعت میں داخل ہو جائے اور اس کا جز بن جائے.“ یہ عبارت مشکل عبارت ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بعض دفعہ ایسی اصطلاحیں استعمال فرمانے پر مجبور ہوتے ہیں جو تھوڑے لفظوں میں زیادہ بات لوگوں تک پہنچا سکیں.تو یہ عربی
خطبات طاہر جلد 17 321 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء کے مشکل لفظ ہیں اور ایسے مشکل لفظ ہیں جو بسا اوقات علماء کے لئے بھی سمجھنا مشکل ہوتے ہیں اس لئے میں عرض کر دیتا ہوں کیا مطلب ہے.وہ تقویٰ کہ جو اول حالت میں تکلف اور تصنع سے اختیار کی جاتی ہے.پہلے تو یہ سوچنے والی بات ہے کہ تقویٰ کو مذکر بھی بیان فرما یا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اور مؤنث بھی.تقویٰ جو حقیقی تقویٰ اور آخری تقویٰ ہے وہ مذکر ہی کہلاتا ہے یعنی جو تقویٰ کی حالت ہے اصل تقویٰ نہیں اسے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام مؤنث میں استعمال فرما رہے ہیں کیونکہ آغاز میں جو ترقی کے لئے تقویٰ ضروری ہوا کرتا ہے جیسا هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (البقرة:3) فرمایا گیا یہ تقویٰ وہ تقویٰ نہیں ہے جو اس کوشش اور جدوجہد کے بعد نصیب ہوگا جو ابتدائی تقویٰ انسان کو عطا ہوتا ہے یعنی جد و جہد اور کوشش ایک تقویٰ کی ابتدائی حالت کا نام ہے.پس اس حالت کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ یہ ایک حالت ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کو تانیث میں بیان فرماتے ہیں.چنانچہ بچے تقویٰ میں تصنع ہو ہی نہیں سکتا.بچے تقویٰ میں تکلف کیسا.تو تکلف اور تصنع کے الفاظ صاف بتا رہے ہیں کہ قرآنی اصطلاح تقویٰ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ قرآنی اصطلاح اس تقوی کی بات ہو رہی ہے جو ایک حالت کا نام ہے جو تکلف اور تصنع سے اختیار کرنی پڑتی ہے تا کہ بالآخر اس کوشش کے نتیجے میں آخری تقویٰ نصیب ہو جائے.فرمایا اول حالت میں تصنع سے اختیار کی جاتی ہے دوسرا رنگ پکڑے.یہ دوسرا رنگ ہے جس میں اصل راز چھپا ہوا ہے.یہ تکلف والا تقویٰ جب تک دوسرا رنگ نہ پکڑے یعنی وہ تقویٰ کا رنگ جس کو قرآن کریم کی اصطلاح میں ایک مذکر کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور اُردو میں بھی ہم ہمیشہ مذکر ہی استعمال کرتے ہیں، جب تک یہ ابتدائی حالت اُس حالت میں تبدیل نہیں ہو جاتی جو تقویٰ کا دوسرا رنگ ہے اس وقت تک یہ جد و جہد جاری رہنی چاہئے.اور برکت تو جہ صادقین و جذ بہ کاملین طبیعت میں داخل ہو جائے.“ یہ جو دوسرا رنگ ہے اس کو طبیعت میں داخل کرنے کے لئے صادقین کی توجہ ضروری ہوا کرتی ہے.”جذ بہ کاملین اور جو کامل لوگ ہیں ان کا جذبہ ہے جس کے نتیجے میں یہ دوسرارنگ دل پر نقش ہو جاتا ہے اور دل پر قبضہ جمالیتا ہے.یہ صادقوں کی برکت اور کاملین کے جذبہ کی وجہ سے ہے.اب یہاں جذ بہ کیسا؟ کاملین جب ایسے شخص کو جد و جہد میں مبتلا دیکھتے ہیں تو اُن کے دل میں ایک غیر معمولی محبت کا جذبہ اُن کے لئے
خطبات طاہر جلد 17 322 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء اٹھتا ہے اُن کے فکر میں مبتلا ہوتے ہیں اور اُن کے لئے دعائیں کرتے ہیں.یہی جذبہ حضرت اقدس محمد مصطفی سلام کی زندگی میں ہمیں صحابہ میں کار فرما دکھائی دیتا ہے اور بکثرت احادیث میں گواہیاں موجود ہیں کہ رسول اللہ سی کی ہم کسی کی ابتدائی حالت دیکھ کر اس پر رحم فرمایا کرتے تھے اور دعا کیا کرتے تھے، تمنا کرتے تھے کہ یہ ادنیٰ سے اعلیٰ حالتوں کی طرف منتقل ہو.یہ وہ جذ بہ کاملین ہے جو طبیعت میں داخل ہو جائے.جب تک داخل نہ ہو جائے ، اس کا جز نہ بن جائے اس وقت تک ایسے سالک کو امن سے نہیں بیٹھنا چاہیئے.اس کے بعد پھر کیا ہوگا.اور وہ مشکوتی نور دل میں پیدا ہو جاوے.“ وہ مشکوۃ جس کا قرآن کریم میں ذکر ہے مَثَلُ نُورِہ.( النور : 36) اسی مشکوۃ کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ حضرت محمد مصطفی سالی یہ تم کو یادرکھو وہ نور ہیں جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ یہ ایک مشکوۃ کی طرح ہے جس میں اللہ کا نور چمک رہا ہے.فرماتے ہیں کہ : ”جو عبودیت اور ربوبیت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے.“ اب دیکھیں زبان مشکل لیکن مضمون کتنا حقیقی اور یقینی اور واضح ، اپنی ذات میں واضح ہونا چاہئے مگر سمجھانے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کو چھوٹے لفظوں میں بیان کرنے کی خاطر یہ اصطلاحیں بیان فرمانی پڑتی ہیں.یہ مشکوتی نور کیسے دل میں پیدا ہوتا ہے.”جو عبودیت اور ربوبیت کے باہم تعلق شدید سے پیدا ہوتا ہے.عبد کو اپنے رب سے اگر بہت گہرا تعلق ہو جیسا کہ رسول اللہ سینما کی یتم عبد کامل اور اللہ الرب.تو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ کا نور عبد کے دل میں منتقل نہ ہو جائے.تو نوروں کے حصول کے رستے دکھا دئے ہیں ورنہ دور کی باتیں تھیں.اب دیکھو کتنا ان باتوں سے انسان حقائق کے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے.جس کو متصوّفین دوسرے لفظوں میں روح قدس بھی کہتے ہیں.“ یہ جو کیفیت ہے کہ دل میں نور جاری ہو جائے اور عبد اور رب کا تعلق ہو جائے اس کیفیت کو جو تصوف والے لوگ ہیں وہ روح قدس بھی کہتے ہیں.اب یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے الروح القدس کی بات نہیں فرمائی ہے جو فرشتہ کا نام ہے.فرمایا اس حالت کو تصوف والےلوگ روح قدس بیان کرتے ہیں کہ روح سچی ہوگئی اس شخص کی اپنی روح سچی ہو جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 323 خطبہ جمعہ 8 مئی 1998ء جس کے پیدا ہونے کے بعد خدا تعالیٰ کی نافرمانی ایسی بالطبع بری معلوم ہوتی ہے کہ جیسی وہ خود خدا تعالیٰ کی نظر میں بری و مکروہ ہے.“ روح قدس کی تعریف یہ ہے کہ مزاج اتنا اللہ سے مل گیا کہ جس چیز کو اللہ برا دیکھتا ہے اس کو یہ بھی برا دیکھتا ہے اور طبیعت میں کتنی آسانی سے گناہ سے نفرت پیدا ہو جاتی ہے.جب تک گناہ مکروہ دکھائی نہ دے اور برانظر نہ آئے اس وقت تک اس سے بچنے کی کوشش بڑا مشکل کام ہے.وہ لازماً اپنی طرف کھینچے گا.فرما یا اس روح کامل کے حصول کی کوشش کرو جو عبد سے اپنے رب کی سچی محبت کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے.یہ ہو تو اگلا کام خدا کا کام ہے پھر تمہیں کسی کوشش سے اس مقام کو حاصل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی، جو محبت کے نتیجے میں خود بخود حاصل ہو جائے گا اور ایک نور آسمان سے تمہارے دل پر اترے گا اور تمہاری فطرت کو پاک کر دے گا.اور فطرت کی پاکیزگی کا مطلب ہے اللہ قدوس ہے تو تم بھی قدوس ہو ایک جیسے ہو جاؤا اپنی چاہتوں میں ، اپنی نفرتوں میں ایک جیسے ہو جاؤ.وہ خود خدا تعالیٰ کی نظر میں بری و مکروہ ہے اور نہ صرف خلق اللہ سے انقطاع میسر آتا ہے - بلکه بجز خالق و مالک حقیقی ہر یک موجود کو کالعدم سمجھ کر فنا نظری کا درجہ حاصل ہوتا ہے.“ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ:559،558 حاشیہ) یعنی جب یہ حالت پیدا ہو تو اللہ تعالیٰ کے سوا جو خالق و مالک حقیقی ہے دوسرے تمام وجود گویا نظر سے غائب ہو جاتے ہیں انکی حقیقت ہی کوئی نہیں رہتی ، عدم میں ڈوب جاتے ہیں یعنی دنیا موجود تو رہتی ہے لیکن ان کی اہمیت ایک ذرہ بھی نہیں رہتی کہ وہ خدا کے مقابل پر اس کو اہمیت دیں.وہ پھرتے ہیں سرسری نظر سے دنیا کو دیکھ رہے ہیں.اس کے حسن کا بھی ملاحظہ کرتے ہیں مگر وہ حسن ان کو اپنی جانب نہیں کھینچ سکتا کہ خدا سے ہٹ کر مل جائیں.ابھی مضمون باقی ہے اور وقت ختم ہو گیا ہے انشاءاللہ اس مضمون سے آئندہ شروع کریں گے اور پھر اگلی آیات.
خطبات طاہر جلد 17 325 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء اللہ تعالیٰ اپنے تازہ نشان دکھاتا رہتا ہے اس کے باوجود آپ کے قدم ڈگمگائیں تو بہت بڑی محرومی ہوگی (خطبہ جمعہ فرمودہ 15 مئی 1998ء بمقام باد کروئس ناخ ، جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللَّهِ ۖ وَاللَّهُ رَءُوفٌ بِالْعِبَادِ يَاَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةً وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطَنِ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ فَإِنْ زَلَلْتُمْ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَتْكُمُ البَيِّنتُ فَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ.پھر فرمایا: (البقرة:208تا210) یہ آیات جن کی آج میں نے اس جمعہ میں تلاوت کی ہے جمعہ کے پیش نظر بھی اور مجلس انصار اللہ کے اجتماع کے پیش نظر بھی ان آیات کا انتخاب کیا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاتِ اللهِ جو اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں اللہ کی رضا کی نگاہوں کی خاطر.وَ اللهُ رَسُوفُ بِالْعِبَادِ اور اللہ اپنے بندوں پر بڑی شفقت فرمانے والا ہے.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا في السّلْمِ كَافَةُ اے لوگو جو ایمان لائے ہوفر ما نبرداری کے دائرہ میں تمام تر داخل ہو جاؤ.وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشَّيْطن اور شیطان کے نقوش قدم کی پیروی نہ کرو.إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ یقینا وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.فَإِن زَلَلْتُم اس کے باوجود اگر تمہارے قدم
خطبات طاہر جلد 17 326 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء ڈگمگا جائیں اور تم پھسل جاؤ بعد اس کے کہ کھلے کھلے نشانات تم تک آچکے ہوں.فَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَکیم تو خوب جان لو کہ اللہ بہت غالب اور بزرگی والا اور بہت حکمت والا ہے.ان آیات میں جو طرز بیان ہے وہ ظاہر کرتی ہے کہ خدا کی مرضی کو چاہنے والے لمحہ لمحہ اس کا انتظار کرتے ہیں.مرضات کا لفظ جمع ہے اسے محض رضا کہنا کافی نہیں.اگر چہ رضا بھی جمع کے مضمون یا معنوں میں بعض دفعہ استعمال کی جاتی ہے مگر میرے نزدیک مرْضاتِ کا استعمال واضح طور پر یہ بتارہا ہے کہ لمحہ لمحہ اس کی رضا کی نظروں کی خاطر اپنی جان تک بیچ ڈالتے ہیں.یہ بہت ہی عظیم کلام ہے جو خاص طور پر انصار اللہ کے لئے ایک بہت بڑی نصیحت ہے.انصار اللہ وہ خدا کے بندے ہیں جو عمر کے ایسے گروہ میں داخل ہو چکے ہیں جہاں سے پھر خدا ہی کے حضور پیشی ہے اس کے بعد اور کوئی مقام نہیں.پس کتنے سانس باقی ہیں کہ انہیں غیر اللہ کی خاطر لو گے.جتنے بھی سانس نصیب ہیں وہ سارے کے سارے اللہ کی رضا کی خاطر اس طرح پیش کر دینے چاہئیں کہ گویا اپنی جان بیچ ڈالی.یہی وہ وقت ہے جب آپ توجہ کے ساتھ اپنی زندگی کے لمحے لمحے پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ کیا واقعہ آپ کی زندگی کا ہرلمحہ اللہ کی رحمت کا اور اس کی رضا کا انتظار کر رہا ہے کہ نہیں.يُشْرِى نَفْسَهُ کے بعد باقی اپنا تو کچھ بچتا نہیں جو کچھ ہے وہ گویا بیچ ڈالا اور سودا یہ ہے کہ جب بھی خدا کی نظر پڑے محبت کی نظر پڑے.اس کی خاطر جب اپنی جان پیچ ہی ڈالی تو رہا کیا باقی ، اختیار تو کوئی نہیں اور اگر یہ نہیں تو پھر آپ نے اپنی زندگی کا مقصد پورا نہ کیا.پس اگر چہ اس آیت کا اطلاق تمام مومنوں پر جو شعور رکھتے ہیں کسی بھی عمر کے ہوں ان پر ہوتا ہے لیکن جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے انصار اللہ پر اس کا اطلاق بہت زیادہ شدت کے ساتھ ہوتا ہے.حضرت رسول اللہ صلی الہ وسلم کے زمانہ میں بہت سے صحابہ تھے جو یہی کیا کرتے تھے کہ لمحہ لمحہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی السلام کا انتظار رہتا تھا کہ اب کوئی ایسی بات کہیں جو ہمارے لئے از دیا دایمان کا موجب بنے یا اس آیت کے اطلاق کے طور پر میں یہ کہوں گا کہ شاید ہماری کسی ادا پر محمد رسول اللہ صلی الہ سلم کے پیار کی نگاہیں ہم پر پڑیں اور جیسا کہ میں نے احادیث کا مطالعہ کیا ہے بکثرت ایسے صحابہ تھے جو خصوصیت کے ساتھ رسول اللہ صلی یتیم کی محبت کی نظر کی تلاش میں آپ صلی ا یہ تم کے سامنے بیٹھا کرتے تھے شاید کوئی ایسی ادا ہو جس پر محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم پیار سے
خطبات طاہر جلد 17 327 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء دیکھ لیں.تو وہ لوگ جو خدا کی خاطر ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں یا خدا کے پیار کی نظروں کے لئے ہمیشہ اس انتظار میں رہتے ہیں ان پر پھر اللہ تعالیٰ پیار کی نظریں ڈالا بھی کرتا ہے.یہ خوشخبری ہے جو اس کلام میں مضمر ہے.آنحضرت سی پیہم بھی جانتے تھے کہ کون کون آپ مسایل اینم کی پیار کی نظروں کا خواہاں ہے اللہ تو بہت زیادہ جانتا ہے.پس اگر اپنی باقی زندگی ایسے حال میں صرف کریں کہ آپ کو یہ امید رہے، یہ انتظار رہے کہ کبھی تو کوئی ایسی بات ہم سے ظہور ہو کہ خدا کے پیار کی ہم پر نظر پڑے.تو یاد رکھیں کہ یہ بعید نہیں ہے.جس کی اپنے رب سے یہ توقع ہے اللہ ان توقعات کو پورا کرنا جانتا ہے.توفیق بھی وہی دیا کرتا ہے.پس اس پہلو سے حقیقت میں سلم یعنی مقام امن ، وہ فرمانبرداری کا دائرہ جس کو سلم کہا گیا ہے جس کو دوسرے معنوں میں مقامِ امن ، مقام محبت سرائے ما بیان کرتا ہوں.يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا ادْخُلُوا فِي السّلْمِ كَافَةُ : پس اے لوگو جو ایمان لائے ہو اس مسلم یعنی خدا کی محبت کے امن کے دائرہ میں تمام تر داخل ہو جاؤ.کاف کے دو معنی ہیں.ایک یہ کہ ہر داخل ہونے والا یہ دیکھے کہ اس کا کوئی دامن کا حصہ باہر تو نہیں رہاوہ پورے کا پورا خدا کی محبت کے امن کے دائرہ میں داخل ہو چکا ہے کہ نہیں کیونکہ ایک ذرہ بھی اس کا اس دائرہ سے باہر رہا تو وہ خطرہ میں ہے.دوسرے گاف سے مراد یہ ہے کہ تمام مومن چھوٹے ہوں یا بڑے ہوں وہ سارے کے سارے داخل ہوں تا کہ مومنوں کی ایک جماعت خدا تعالیٰ کی محبت کی طالب بن کر اپنی زندگی بسر کرے اور اس کا نتیجہ یہ نکلے گا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوتِ الشیطن ایسے لوگ جو اس محفوظ دائرہ میں آجائیں گے ان کے لئے ممکن ہی نہیں رہتا کہ وہ شیطان کے قدموں کی پیروی کریں.پس اگر چہ یہ ایک زائد بات معلوم ہوتی ہے اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو مگر یہ حقیقت میں اس کا نتیجہ ہے کہ ایسا کرو گے تو تمہیں یہ توفیق نصیب ہوگی کہ جو خدا کے محبت کے دائرہ میں بیٹھا ہے اس کے لئے ممکن ہی کیسے ہے کہ وہ باہر نکل کر شیطان کے قدموں کی پیروی کرے.یہ دو متضاد باتیں ہیں بیک وقت ہو ہی نہیں سکتیں.اور شیطان کے متعلق فرمایا انَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ تُمبِین جہاں بھی تم نے اسے موقع دیا کہ تمہیں پھسلائے جان لو کہ وہ ضرور تمہیں ہلاکت میں مبتلا کرے گا کیونکہ وہ تمہارا کھلا کھلا دشمن ہے.تو اس واضح تنبیہ کے بعد کسی مومن کے لئے یہ امکان ہی باقی نہیں رہتا کہ وہ خدا کی محبت کے دائرہ سے باہر کوئی سانس
خطبات طاہر جلد 17 328 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء لے کیونکہ وہ جانتا ہے جب شیطان کو موقع ملا وہ اسے اچک لے گا.اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے مرغی کے پروں کے نیچے اس کے چوزے آجایا کرتے ہیں.وہ تو نکل کے باہر بھی جاتے ہیں اور ادھر اُدھر پھرتے ہیں لیکن اللہ کی پناہ میں جو ایک دفعہ آ جائے ، اس کی رحمت کے پروں کے نیچے آجائے وہ نکلنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا لیکن مرغی کے چوزوں کو بعض انسانوں سے زیادہ سمجھ ہے.جب خطرہ در پیش ہو، کسی چیل کا سایہ دیکھیں جو سر پر منڈلا رہی ہو تو وہ دوڑ کر اپنی ماں کے پروں کے نیچے آجاتے ہیں اور وہیں اپنا امن دیکھتے ہیں اور یہ حقیقت ہے کہ چیل باوجود اس کے کہ بہت خونخوار ہے اور چوزے پر ذرا بھی رحم نہیں کرتی اور جانتی ہے کہ مرغی کی اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں مگر پھر بھی اسے یہ جرات نہیں ہوتی کہ اس کے پروں کے اندر سے اس کا بچہ نوچ لے.اللہ تعالیٰ نے انسان کو یہ فطرت بخشی ہے کہ وقت پر جب اسے اپنے عزیزوں کے نقصان کا اپنے پیاروں کے نقصان کا خطرہ ہو تو انسان بھر جاتا ہے اور سب سے زیادہ ماں بھرتی ہے اور مختلف Naturalist جن کو کہتے ہیں یعنی جانوروں کی زندگی کا مطالعہ کرنے والے، بتاتے ہیں کہ بظاہر کمزور نظر آنے والی مائیں بھی ایسے موقعوں پر ایسا بھرتی ہیں مثلاً شیرنی کہ اس کے مقابل پر بہت بڑے بڑے شیر بھی ڈر کے بھاگ جایا کرتے ہیں.تو سوچیں کہ ایک مرغی کے بچے کو اگر یہ امن نصیب ہو تو وہ جو اللہ کے پیارے ہیں ان کو کیسا امن نصیب نہیں ہو گا مگر وہ چوزہ جو باہر رہ جائے ، جو سمجھے کہ کوئی ایسی بات نہیں ، وہ ضرور آ چکا جاتا ہے.چیل اس پر جھپٹتی ہے اور اس کو اڑا لے جاتی ہے.تو آپ لوگ مرغی کے چوزوں سے تو زیادہ عقل دکھا ئیں.اوّل تو خدا کی پناہ میں آکر شیطان کے ہر خطرہ سے آپ بچ سکتے ہیں اور بچیں گے اور لازما بچیں گے لیکن اگر یہ بے پرواہی ہوئی ، اس دائرہ سے باہر نکل کر اپنی قسمت آزمائیں گے تو جان لیں کہ یقینا آپ کی قسمت ہلاک شدہ لوگوں کی قسمت ہے.جو نہی آپ نے یہ آزمائش کی اُسی آزمائش میں آپ مارے جائیں گے.پس قرآن کریم نے إِنَّهُ لَكُم عدو مبین کہہ کے بتا دیا کہ وہ تو تاک میں بیٹھا ہے.شیطان کو تو ذرا بھی تم نے موقع دیا تو وہ تمہیں اچک کے لے جائے گا.پس اس پہلو سے اپنی ساری زندگی کی ، اپنے لمحہ لحہ کی حفاظت ضروری ہو جاتی ہے.فَاِن زَلَلْتُم اگر تم ڈگمگائے بعد اس کے کہ کھلے کھلے نشان تمہارے پاس آچکے ہیں فَاعْلَمُوا أَنَّ اللهَ عَزِيزٌ حَكِيم تو جان لو کہ اللہ تعالیٰ بہت غالب حکمت والا اور بزرگی والا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 329 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء احمدیوں کے لئے اس میں خصوصیت سے یہ سبق ہے کہ ان کے پاس اس کثرت سے اس دور میں نشان آئے ہیں کہ ان کے ڈگمگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہا.آئے دن اللہ تعالیٰ اپنے تازہ نشان آپ کو دکھاتا ہے اور اس کے باوجود اگر خدانخواستہ آپ کے قدم ڈگمگا ئیں تو بہت بڑی محرومی ہوگی.ان آیات کی تشریح کے طور پر میں حضرت اقدس محمد مصطفی سایتا پریتم کی ایک حدیث اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.سنن الترمذی سے یہ حدیث لی گئی ہے.انس بن مالک سے روایت ہے کہ : عہد نبوی میں دو بھائی تھے ان میں سے ایک آنحضرت ملائیشیا کی ستم کے حضور حاضر رہتا تھا.“ میں نے خصوصیت سے اس لئے یہ حدیث چنی ہے کہ بعض لوگوں کے ذہن میں صرف حضرت ابو ہریرہ کا نام آتا ہے کہ گویا وہی رہتے تھے مسجد میں.ابوہریرہ تو دن رات وہیں رہتے تھے باہر نکلتے ہی نہیں تھے مگر بکثرت ایسے صحابہ تھے جو جتنا بھی ان کو وقت میسر ہو وہ آنحضرت سالی ایم کی خدمت میں رہا کرتے تھے اور ابوہریرہ کے علاوہ بھی بعض ان میں سے ایسے تھے جنہوں نے اپنا روزمرہ کا کام چھوڑ دیا تھا یعنی بظاہر نگھے تھے کچھ کمانے والے نہیں تھے.حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ: آنحضرت صلی ایتم کی خدمت میں ایک بھائی حاضر رہتا تھا اور دوسرا کام میں مصروف رہتا تھا.کام کرنے والے نے آنحضرت صلی ا یہ تم سے اپنے بھائی کی شکایت کی.“ کہ مجھ اکیلے پر ہی بوجھ ڈالا ہوا ہے.ہر وقت یہ آپ مسی یا پی ایم کے پاس بیٹھا رہتا ہے اور میں اکیلا گھر چلانے کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے ہوں.آنحضور صل وسلم نے فرمایا : لَعَلَّكَ تُرزَقُ بِهِ: کیا خبر عین ممکن ہے کہ تجھے جو رزق عطا کیا جارہا ہے اس کے سبب سے ہو.“ (جامع الترمذي، أبواب الزهد، باب في التوكل على اللہ...،حدیث نمبر : 2345) بہت عظیم الشان ایک ستر وابستہ ہے اس حدیث میں، ایک ستر چھپا ہوا ہے اور وہ سب خدمت دین کرنے والوں کے لئے اور ان کے خاندانوں کے لئے ہے اور اسی طرح ان واقفین زندگی کے لئے ہے جنہوں نے کلیہ اپنے آپ کو خدا کے حضور پیش کر دیا ہے.بہت سے ان کے خاندان والے،
خطبات طاہر جلد 17 330 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء رشتہ دار یہ سمجھتے ہوں گے کہ ہم ان پر احسان کر رہے ہیں ، ہم نے ان کے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں، ان کے بیوی بچوں کا خیال رکھتے ہیں اور اسی طرح آج جماعت جرمنی میں بکثرت ایسے بڑے اور بچے اور جوان اور عورتیں ہیں جن کو اپنے گھروں کی ہوش نہیں اور جو کلیۂ دین کی خدمت میں مصروف رہتے ہیں واقعہ ان میں سے بعض کے بھائی یا اقرباء سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی خدمت کر رہے ہیں گویا کہ ہم نے ان کے بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی لا یتیم کے اس فرمان کو پہلے باندھ لو کہ تمہیں کیا پتا کہ تمہارے رزق میں ان کی وجہ سے برکت ہے.اگر یہ دین کی خدمت چھوڑ دیں تو پھر دیکھنا کہ تمہارا کیا حال باقی رہ جاتا ہے.اور رسول اللہ لی ایم کا یہ فرمان جیسا اس وقت سچا تھا ویسا ہی آج بھی سچا ہے.بعینہ اپنی پوری شان کے ساتھ آج کے زمانہ کے خدمت کرنے والوں پر بھی اور ان کے رشتہ داروں پر بھی اطلاق پاتا ہے.پس تیری نَفْسَهُ میں یہ سارے لوگ داخل ہیں جنہوں نے اپنی جانیں بیچ ڈالیں.اللہ تعالیٰ ان کو بہترین جزادے اور ان کے اعزاء اور اقرباء کے دماغ میں و ہم تک بھی نہ گزرے کہ ان کی وجہ سے ان کے خاندانوں کو کوئی نقصان پہنچ رہا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی آیت کی مختلف تشریحات پیش فرماتے ہیں ، مختلف تحریروں میں آپ نے مختلف پہلوؤں پر زور دیا ہے.مثلاً فرمایا: یعنی انسانوں میں سے وہ اعلیٰ درجہ کے انسان ہیں جو خدا کی رضا میں کھوئے جاتے ہیں.اپنی جان بیچ دی تو باقی کیا رہا ان کے پاس.وہ دنیا سے غائب ہو جاتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی ذات اور اس کی یاد میں کھوئے جاتے ہیں.وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں.“ یہ مول لیتے ہیں بہت پیارا اظہار ہے یعنی فرمایا کہ جیسے سودا کرنے والے کو جو وہ خرچ کرتا ہے اس کے نتیجے میں وہ سودا دیا جاتا ہے جس کی خاطر وہ خرچ کرتا ہے.تو مول لیتے ہیں سے مراد یہ ہے کہ اللہ کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اپنی رضا سے ان کو تمتع فرمائے کیونکہ گویا انہوں نے اس کی رضا خرید لی.اب اللہ سے تو کوئی ویسے سودا نہیں کر سکتا ، اس کی رضا خریدی نہیں جاسکتی مگر جب وہ خود کہے کہ کون ہے جو میری رضا خرید نے والا ہے اور کچھ لوگ اس کے جواب میں آگے بڑھیں اور کہیں ہم ہیں تیری رضا خریدنا چاہتے ہیں تو پھر کیسے ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے اس ادعا سے پیچھے ہٹ جائے وہ لازماً اپنی رضا ان کو عطا فرماتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 وو 331 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء وہ اپنی جان بیچتے ہیں اور خدا کی مرضی کو مول لیتے ہیں یہی وہ لوگ ہیں جن پر خدا کی رحمت ہے ایسا ہی وہ شخص جو روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.(اب مول لینا جو ہے یہ فدا ہونے سے ورے ورے نہیں ہوسکتا.فرمایا: ) جو شخص روحانی حالت کے مرتبہ تک پہنچ گیا ہے ) خدا کی راہ میں فدا ہو جاتا ہے.خدا تعالیٰ اس آیت میں فرماتا ہے کہ تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے اور جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے.“ جانفشانی عمر بھر کرنی پڑتی ہے.جان جو بیچی جاتی ہے کوئی ایک لمحہ کا سودا نہیں ساری زندگی کا سودا ہے.مرتے دم تک، آخری سانس تک جو جان بیچی ہے اب بیچنے والے کی نہیں رہی.پس یہ کوئی ایسا سودا نہیں جو اچانک کسی بکری کو کسی کے پاس بیچ دیا تھوڑا سا صدمہ اگر ہوا بھی تو اس کے بعد چھٹی کر لی.یہ تو ایک ایسی جان کا سودا ہے جولمحہ لمحہ جینے والی جان ہے اور لمحہ لمحہ مرنے والی جان ہے.ہزار موتیں اسے خدا کی خاطر قبول کرنی ہوں گی اور ہزار زندگیاں ہر موت کے بدلے اسے ملیں گی.پس یہ ہے مَنْ يَشْرِى نَفْسَهُ کہ جو اپنے نفس کو اللہ کی خاطر بیچ دیتا ہے.فرمایا: ”جانفشانی کے ساتھ اپنی اس حالت کا ثبوت دیتا ہے.یہ نہیں کہ ایک دفعہ بیچ دیا اور بات ختم ہوگئی.بہت سے واقفین زندگی ہم نے دیکھے ہیں جنہوں نے کسی خاص لمحہ عشق میں اپنی جان کو خدا کے سپر د کر دیا اور اس کے بعد چھٹی کر لی.پھر ساری عمر ایسی حرکتیں کرتے رہے جو جان بیچنے والے نہیں کیا کرتے.اللہ تعالیٰ ایسوں کو پکڑتا ہے اور لازماً ان کا بد انجام ہوتا ہے.کبھی بھی وہ اس حالت میں نہیں مرتے کہ گویا جان بیچنے والے تھے.تو جان کا سودا تو پہلے کا ہے اور اس سودے کے حق میں ثبوت بعد میں مہیا ہوتے ہیں.ساری زندگی مہیا ہوتے رہتے ہیں.اس حالت کا ثبوت دیتا ہے کہ وہ خدا کا ہے اور اپنے تمام وجود کو ایک ایسی چیز سمجھتا ہے 66 جو طاعت خالق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے.“ اب ایک اور پہلو بھی خدا کی خاطر جان بیچنے کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمارے سامنے کھول دیا.فرمایا کہ وہ خدا کی خاطر جان بیچتا ہے تو خدا کی مخلوق کی خاطر بھی بیچتا ہے.خدا کی
خطبات طاہر جلد 17 332 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء خاطر اس کا جان بیچنا تو شاید بعض نگاہوں کو دکھائی نہ دے مگر اس کی مخلوق کی خاطر جو جان بیچتا ہے وہ تو سب کو دکھائی دیتا ہے، ساری مخلوق اس پر گواہ ہو جاتی ہے اور اس بات پر بھی گواہ ہو جاتی ہے کہ وہ ان سے فائدے کی خاطر کچھ نہیں کرتا کیونکہ وہ فائدہ اٹھاتا نہیں.وہ جب شکر یہ ادا کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہمارا شکریہ ادا نہ کرو.ہم تو رضائے باری تعالیٰ کی خاطر یہ کام کر رہے ہیں.تم شکر یہ ادا کرتے ہو تو ہمیں کوفت ہوتی ہے.ہم نے تو اپنا سودا اللہ سے کیا ہے.تو یہ دعویٰ محض دعویٰ نہیں رہتا لمحہ لمحہ اس دعوی کا ثبوت ان کی زندگی مہیا کرتی ہے.وہ جب بنی نوع انسان کی خدمت کرتے ہیں تمام بنی نوع انسان گواہ ہو جاتے ہیں کہ یہ اپنی خاطر خدمت نہیں کر رہے تھے ہم سے کچھ لینے کی خاطر خدمت نہیں کر رہے تھے بلکہ اللہ سے کچھ لینے کی خاطر خدمت کر رہے تھے تو محض دعوئی ، دعوی نہیں رہتا بلکہ ایک قطعی ثبوت اس کی تائید میں اٹھ کھڑا ہوتا ہے جس کو رد نہیں کیا جاسکتا.اور پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں.ایسے ذوق و شوق و حضور دل سے بجالاتا ہے کہ گو یاوہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے.“ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کو آپ غور سے پڑھا کریں تو پھر آپ کو ان ارشادات کی لطیف باتیں سمجھ آسکتی ہیں.اپنے تمام وجود کو سر سے پاؤں تک، تمام وجود کو، جو جان بیچتا ہے وہ اس میں سے کچھ بھی نہیں رکھتا جو طاعت خلق اور خدمت خلق اور خدمت مخلوق کے لئے بنائی گئی ہے.پھر حقیقی نیکیاں جو ہر ایک قوت سے متعلق ہیں یعنی انسان کو اللہ تعالیٰ نے جتنی بھی صلاحیتیں بخشی ہیں ان تمام صلاحیتوں سے کام لیتے ہوئے وہ اللہ کے دین اور اس کی مخلوق کی خدمت کرتا ہے اور ہر ایک کی صلاحیتیں الگ الگ ہیں مگر جس چھا بڑے میں جو کچھ ہو گا وہی تو بیچے گا.پس ایک غریب انسان بھی اسی طرح اپنا سب کچھ بیچنے والا بن جاتا ہے جس طرح ایک امیر انسان اپنا سب کچھ بیچنے والا بن جاتا ہے.توفیق تو اس کی اپنی بنائی ہوئی نہیں، تو فیق تو اللہ تعالیٰ سے حاصل ہوتی ہے.پس مِمَّا رَزَقْتُهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) کا یہ معنی ہے کہ جو کچھ وہ بیچتا ہے وہ وہی کچھ ہے جو ہم نے اس کو دیا تھا اس میں سے پھر کچھ اپنے لئے نہیں رکھتا تمام تر پیش کر دیتا ہے.پس اگر کسی کی قسمت میں، کسی کے مقدر میں ایک کھوٹی کوڑی بھی ہو یعنی کچھ بھی نہ ہو تو اپنا خالی دامن لے کر اس میں خدا کی محبت اور تمناؤں سے جھولی بھر کر بظاہر خالی دامن میں اپنی محبت اور نیک تمناؤں کی جھولی اٹھائے
خطبات طاہر جلد 17 333 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء ہوئے خدا کی خدمت میں حاضر ہو جاتا ہے وہ بھی وہی ہے جس نے سب کچھ بیچ دیا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ” ایسے ذوق و شوق وحضور دل سے بجالاتا ہے.میں نے جو یہ کہا تھا تمنا ئیں اور محبتیں لے کے حاضر ہوتا ہے یہ اس کا ترجمہ ہے،حضور دل سے بجالاتا ہے اس کا دل تمام تر یہ چاہتا ہے کہ جس حد تک خدمت ممکن ہے میں کروں.” گویا وہ اپنی فرمانبرداری کے آئینہ میں اپنے محبوب حقیقی کو دیکھ رہا ہے.اس کی فرمانبرداری کا ایک شیشہ اس کے سامنے ہے اور اس میں اسے اپنی ذات دکھائی نہیں دیتی وہ محبوب دکھائی دیتا ہے جس کی خاطر اس نے اپنی ساری زندگی کو ایک نئی صورت میں ڈھال دیا.اور ارادہ اس کا خدا تعالیٰ کے ارادہ سے ہم رنگ ہو جاتا ہے.(جو اللہ کا ارادہ وہی اس کا ارادہ ، جو مالک کا ارادہ وہی غلام کا ارادہ ) اور تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے.“ اب یہ لفظ ٹھہر جاتی ہے قابل غور ہے.فرمایا کہ اس کو اللہ تعالیٰ کی رضا میں ایسی لذت نہیں ملتی کہ جو آئے اور چلی جائے وہ لذت اس کے دل میں پناہ گزین ہو جاتی ہے.وہ لذت ایسی ٹھہرتی ہے کہ پھر جانے کا نام نہیں لیتی.پس وہ سب لوگ مستقلی ہیں جو بھی اللہ کی رضا میں محبت پاتے ہیں ،مزہ دیکھتے ہیں اور کبھی نہیں دیکھتے.بہت سے ایسے انسان ہیں، کثرت سے ایسے انسان ہیں جو اللہ کی رضا سے کبھی نہ کبھی تو ضرور لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن اپنی جان نہیں بیچی ہوتی اس لئے وہ محبت آکر ٹھہر نہیں جاتی ، آئی اور چلی گئی اور دوسری لذتیں پھر اس کی جگہ اپنا ٹھکانہ دل میں بنالیتی ہیں اور اس طرح وہ خدا کے بندے جو جان بیچنے والے ہیں دوسرے بندوں سے ممتاز ہوکر الگ ہو جاتے ہیں.یہ ایک بہت گہری حقیقت ہے جس کی طرف میں آپ کو خصوصیت سے متوجہ کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ حقیقت بیان کر کے ہماری آنکھوں سے پردے اٹھا دئے ہیں.ہم میں سے بکثرت ایسے ہیں جنہوں نے کبھی نہ کبھی اللہ کی رضا کے نتیجہ میں دل کو لذت سے معمور ہوتے ہوئے دیکھا ہے.بعض ایسے ہیں جن کے بدن پہ جھر جھری طاری ہو جاتی ہے جب وہ خدا کے کسی خاص انعام پر غور کرتے ہیں یا کسی خاص مصیبت سے اللہ تعالیٰ ان کو نجات بخشتا ہے تو واقعہ ان کے دل میں اللہ کا پیار ایک لذت بن کے اترتا ہے لیکن ٹھہرتا نہیں.آیا اور چلا گیا اور پھر دنیا کی لذتیں
خطبات طاہر جلد 17 334 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء دل میں قرار پکڑ لیتی ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ایک لفظ قابل توجہ ہے.تمام لذت اس کی فرمانبرداری میں ٹھہر جاتی ہے.اب کوئی دنیا کا چوٹی کا ادیب بھی ایسی تحریر نہیں لکھ سکتا کہ ہر ہر لفظ با معنی ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی فصاحت و بلاغت سچائی پر مبنی ہے ایک لفظ بھی بے حقیقت نہیں، کوئی لفظ نہیں جو سچائی سے نور یافتہ نہ ہو اور یہی سچائی ہے جو آپ کی تحریروں کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر رہی ہے.اور تمام اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذ ذ اور احظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگتے ہیں.“ جب دل میں خدا کی محبت کا لطف ٹھہر جاتا ہے تو اس لطف کو بڑھانے کی خاطر ، اس کو ہمیشہ اپنا را ہنما بنانے کی خاطر ویسے ہی لطف کے لئے وہ کوشش کرتے ہیں اور انسان جو لذت کے لئے کوشش کرتا ہے وہ مشقت نہیں ہوا کرتی.ہماری جتنی عبادتیں، جتنی خدمتیں مشقت کا رنگ رکھتی ہیں وہ لذت سے محروم ہیں.کوئی چیز جس میں لذت ساتھ ساتھ حاصل ہو رہی ہو اسے مشقت نہیں کہا جاتا.دنیا کے ادنی دکاندار بھی دیکھیں کتنی محنت کر رہے ہیں ، اپنے تھوڑے سے پیسے کمانے کی خاطر لیکن چونکہ ان پیسوں میں مزہ آرہا ہے اس لئے دیکھنے والا سمجھتا ہے کہ بڑی مشقت ہے.ان کی بلا سے ان کو ذرہ بھی اس میں مشقت محسوس نہیں ہوتی.کوئی شخص جو صبح اٹھتا ہے ، دکان کھولتا ہے، کوئی بنیا دیکھیں ، سوچیں ذرا وہ رات کے بارہ بجے تک حساب فہمی کرتا رہتا ہے اگر اس کو آپ جا کے ہمدردی کریں، کہیں میاں بس کرو، تھک گئے ہو گے، دو پہر ہو گئی ہے اب آرام کرو تو کیسی کڑی نظروں سے تمہیں دیکھے گا کہ جاؤ جاؤ اپنی راہ لو مجھ کو میرے حال پہ رہنے دو مجھے مزہ آ رہا ہے اس چیز میں اور مزے کے بغیر وہ کام کر ہی نہیں سکتا.تو فرمایا: ” اعمال صالحہ نہ مشقت کی راہ سے بلکہ تلذ ذاور احظاظ کی کشش سے صادر ہونے لگتے ہیں.تمام اعمال صالحہ میں ان کو اللہ کی رضا کا مزہ دکھائی دے رہا ہوتا ہے، مزہ محسوس ہورہا ہوتا ہے اور وہ اس وجہ سے خود بخو دصادر ہونے لگتے ہیں.( یہی ) وہ نقد بہشت ہے.“ یہ نقد بہشت “ یہ اب قابل غور بات ہے.سود انقد انقدی ہے.یہ نہ سمجھو کہ اس دنیا میں تو نہیں ملی اور انگلی دنیا میں مل جائے گی.اللہ ادھار نہیں رکھتا وہ بہشت جو خدا کی محبت کی اعلیٰ لذات کی بہشت ہے وہ تو نقد انقدی تمہیں اس دنیا میں ملتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 335 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء ( یہی ) وہ نقد بہشت ہے جو روحانی انسان کو ملتا ہے اور وہ بہشت جو آئندہ ملے گا وہ در حقیقت اسی کی اطلال و آثار ہے.“ اس دنیا میں جس نے بہشت دیکھ لی اس کا ظل ہے ایک جو اخروی زندگی میں ملے گا.آثار ہیں اس کے یعنی اس کے گویا سائے ہیں جیسے نقش قدم انسان چھوڑتا ہے تو قدم تو نہیں ہوتا مگر گزرے ہوئے قدم کے لئے اس کا نقش قدم راہنمائی کر رہا ہوتا ہے.تو اگلی دنیا میں جو بہشت ہوگا وہ یہ بہشت تو نہیں ہوگا جو یہاں حاصل ہے کیونکہ اس سے بہت زیادہ بلند ہے مگر جسے اسی دنیا میں یہ اللہ کی محبت کی لذت کا بہشت نصیب ہو جائے اور یہ نقد انقد سودا ہے جو اسے مل جائے وہ ہے جو کامل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہے کہ اب جب بھی میں مرا مجھے اسی بہشت کے سائے کے طور پر بہت اعلیٰ چیز یں نصیب ہونگی جن کا میں تصور بھی نہیں کر سکتا.اب دنیا میں جتنے بھی مذہب کی معرفت بیان کرنے والے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی شما یہ تم کے بعد گزرے ہیں ان میں سے کسی کی ایسی تحریر نکال کے دکھاؤ.یہ بد بخت ملاں ایک ایسے عارف باللہ کے پیچھے پڑ کے کیوں اپنی آخرت خراب کرتے ہیں، اس کے متعلق بد کلامی کرتے ہیں جو ہمیں اللہ کی محبت کی راہیں کھول کھول کر دکھا رہا ہے.فرمایا: جس کو دوسرے عالم میں قدرت خداوندی جسمانی طور پر متمثل کر کے دکھلائے گی.“ (اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ : 385/رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ : 132،131) اظلال و آثار جو ہیں وہ جسمانی طور پر متمثل نہیں ہوا کرتے.کسی چیز کا سایہ ہے تو سایہ ہی ہو گا اصل تو نہیں ہوسکتا.فرمایا یہ وہ سائے نہیں.خدا تعالیٰ کی قدرت کاملہ اُس دنیا میں اس دنیا کی جنت کو متمثل کر کے دکھائے گی وہ واقعہ نظر آنے والی محسوس ہونے والی ، سونگھنے والی خوشبوؤں سے معطر، مزوں سے بھری ہوئی جنت حقیقت کا روپ اوڑھ لے گی اور وہ حقیقت جو ہے اس کی تفصیل بیان نہیں کی جاسکتی کیونکہ قرآن کریم فرماتا ہے کہ کوئی آنکھ ایسی نہیں جس نے وہ جنت دیکھی ہو، کوئی کان ایسا نہیں جس نے اس جنت کا بیان سنا ہو.پس حقیقت میں وہ جو کچھ بھی ہے یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے مگر اس دنیا کی جو خدا کی محبت کی لذتیں ہیں وہ اتنی زیادہ ہیں کہ ان کی خاطر انسان تمام دنیا کو ایک طرف پھینک دیتا ہے اور ان کو قبول کرتا ہے ان لذتوں کی شدت کا یہ اثر ہے کہ ہر دوسری لذت بیچ ہو جاتی ہے
خطبات طاہر جلد 17 336 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء تو اس سے لاکھوں کروڑوں گنا بڑھ کر جو لذت آئندہ مقدر ہے اس کا تصور باندھا جائے.وہ اگر اور کچھ نہیں تو ان لذتوں کی خاطر ہی اپنی دنیا کو بدلو مگر اگر اس دنیا میں جنت نصیب نہ ہوئی تو ان لذتوں کی خاطر جو کچھ بھی کرو گے وہ سب بے کار جائے گا.یہ پیغام ہے جس کو آپ کو اچھی طرح ذہن نشین کر لینا چاہئے.عموماً بعض لوگ سختی کر کے بھی ، محنت کر کے بھی بظاہر اگلی دنیا کمانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں.بعض ایسے مشقت کرنے والے ہیں جن کی کھڑے کھڑے ٹانگیں سوکھ جایا کرتی ہیں جو ہاتھ اونچا کرتے ہیں تو ہاتھ شل ہو جاتے ہیں مگر حاصل کچھ نہیں ہوتا کیونکہ مرنے کے بعد کی جو زندگی ہے وہ ان کو ملے گی جن کو ان چیزوں میں گہری لذت ملتی ہے جو ایک لذت کے خیال سے مصیبت اٹھاتے ہیں ان کو نہیں مل سکتی.اس اقتباس کے بعد جو یہ رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ 131 ،132 سے اقتباس لیا گیا تھا اب اسی رپورٹ سے میں ایک اور اقتباس آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں: یعنی خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے اور اس کے عوض میں خدا تعالیٰ کی مرضی خرید لیتا ہے.وہی لوگ ہیں جو خدا تعالیٰ کی رحمت خاص کے مورد ہیں.غرض وہ استقامت جس سے خدا ملتا ہے اس کی یہی روح ہے جو بیان کی گئی.جس کو سمجھنا ہو سمجھ لے اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 421 رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب صفحہ : 188) اب استقامت کے متعلق ، وہ کیا چیز ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اب وقت چونکہ تھوڑا رہ رہا ہے اس لئے مجھے نسبتاً جلدی گزرنا ہوگا.اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں.یہ تحریر ہے الحکم نمبر 29 جلد 4 صفحہ: 3، مؤرخہ 16 اگست 1900 ء کی.اللہ تعالیٰ کے بندے جو دین کو دنیا پر مقدم کر لیتے ہیں ان کے ساتھ وہ رافت و محبت کرتا ہے.چنانچہ خود فرماتا ہے وَاللهُ رَسُوفُ بِالْعِبَادِ ( کہ اللہ اپنے بندوں پر یا خالص بندوں پر بہت مہربان ہے.یہ وہی لوگ ہیں جو اپنی زندگی کو جو اللہ تعالیٰ نے ان کو دی ہے اللہ تعالیٰ کی ہی راہ میں وقف کر دیتے ہیں اور اپنی جان کو خدا کی راہ میں قربان کرنا، اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں.“
خطبات طاہر جلد 17 337 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء پس وہ ساری دنیا کی جماعتیں جو قربانی کے اس عظیم دور میں داخل ہو چکی ہیں اور ان جماعتوں میں اللہ تعالیٰ نے جماعت جرمنی کو بھی ایک مقام عطا فرمایا ہے ان کے لئے اس تحریر میں یہ سبق ہے کہ جتنی بھی قربانی دیں اس قربانی کو اللہ تعالیٰ کی رافت کا حصہ سمجھیں.محض اللہ کا احسان سمجھیں کہ خدا اُن کو یہ توفیق دے رہا ہے اور بھولے سے بھی دل میں یہ خیال نہ گزرے کہ شاید ہم کچھ کر رہے ہیں خدا کی خاطر، خدا کی خاطر ہو یا خدا کے لئے بنی نوع انسان کی خاطر ہو ، دونوں صورتوں میں خدمت اپنی ذات میں اعزاز ہے اور اسی کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نقد سودا بیان فرمارہے ہیں.ہر خدمت اپنی ذات میں اپنی جزا ہے اور جزا پر انسان کسی پر احسان نہیں رکھا کرتا جس کو جزامل رہی ہو ساتھ ساتھ وہ کیسے کسی گردن پر احسان رکھ سکتا ہے.”اپنے مال کو اس کی راہ میں صرف کرنا اس کا فضل اور اپنی سعادت سمجھتے ہیں مگر جولوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں ، وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں.“ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں.دنیا کمانے سے تو احتر از ممکن ہی نہیں ہے اگر اور کچھ نہیں تو خدا کی راہ میں یا بنی نوع انسان کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے ہی انسان دنیا کمائے گا اور جس کی نیت یہ ہو کہ مجھے اتنا ملے کہ میں زیادہ سے زیادہ اللہ اور اس کے دین کی اور اس کے بندوں کی خدمت کر سکوں وہ اس دنیا کی کمائی کو بالذات نہیں سمجھتے یعنی یہ کمائی ہے.ہے تو ہے، نہیں تو نہ سہی اللہ کی مرضی.اگر اللہ کی مرضی پر نگاہیں ہیں تو خدا تعالیٰ اگر چاہے تو ان کو سب کچھ چھین کر اس ابتلا میں بھی آزما سکتا ہے کہ جب ان سے سب کچھ چھین لیا جائے تو دیکھیں ان کے چہرہ پر یا ان کے دل پر ملال تو نہیں آجاتا.جو اللہ کی خاطر جو کچھ ان کے پاس ہے فدا کرتے رہتے ہیں وہ زیادہ فدا تو نہیں کر سکیں گے مگر جو کچھ تھوڑا بہت ان کے پاس بچ جائے گا وہی پیش کرتے رہیں گے.اس کے برعکس بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ جب کشائش سے آزماتا ہے تو اس وقت وہ کچھ نہ کچھ خدا کی راہ میں خرچ کرتے رہتے ہیں اور جب ان پر مالی تنگی کے دن آتے ہیں تو اجازتیں لیتے ہیں کہ اب ہمیں توفیق نہیں رہی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو مضمون پیش فرمارہے ہیں اس کے مطابق دنیا بالذات نہیں ہوتی.اصل میں اللہ کی رضا حاصل کرنا اور اس کی خاطر
خطبات طاہر جلد 17 338 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء اس کا دیا ہوا خرچ کرنا ہے.پس اگر اس نے کم کر دیا تو کم میں سے دو.اگر زیادہ دیا ہے تو زیادہ میں سے دو.یہ وہ لوگ ہیں جن کا دین دنیا پر مقدم رہتا ہے.فرمایا ایسے لوگ دین کو ایک خوابیدہ نظر سے دیکھتے ہیں.یہ خوابیدہ نظریں بھی ہر انسان پہچان سکتا ہے.کم سے کم اپنی خوابیدہ نظر کو پہچاننے کی انسان میں صلاحیت ضرور موجود ہے.دینی امور جتنے بھی اس کے گردو پیش واقع ہورہے ہیں وہ ان کو ایک اتفاقاً حادثاتی طور پر ساتھ ساتھ چلنے والے امور سمجھتا ہے، براہ راست اس کا دل ان امور میں نہیں ہوتا.احمدیت ترقی کر رہی ہے ، لوگ نیک بنتے چلے جارہے ہیں، سب میں قربانی کی روح بیدار ہو رہی ہے اسے یہ محسوس نہیں ہوتا کہ یہ سارے میرے لئے خدا تعالیٰ کی نعمتیں ہیں.ہر بات جو میں ایسی سنتا ہوں جو دین کی ترقی کی ہے وہ میرے دل میں بے انتہا لذت پیدا کرتی ہے.سُبحان الله بسم اللہ کہتے ہیں کہ اچھا یہ ہورہا ہے مگر براہ راست دل پر وہ لذت کی کیفیت طاری نہیں ہوتی جیسی اپنی تجارت کے چمکنے کے نتیجے میں ان کے دل پر ایک لذت کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے اگر کوئی ان کو خبر سنائے کہ جو روپیہ تم نے فلاں جگہ لگایا تھا وہ ایسا ہوا کہ تجارت میں کہ وہ بہت بڑھ چکا ہے.دنیا میں ایسے حادثات ہوتے ہیں جن کے نتیجہ میں بعضوں کی معمولی تجارتیں بھی ایک دم چمک اٹھتی ہیں.اگر وہ ایسا دیکھیں تو دیکھیں ان کا دل اس بات کو کبھی بھی خوابیدہ نظر سے نہیں دیکھے گا، بے انتہا خوشیوں سے بھر جائے گا، لذتیں دل میں سمائی ہی نہیں جائیں گی.اتنا گہرا اثر پڑے گا اس خبر کا کہ اگر اس کو احمدیت کی کامیابیوں کی خبر کے ساتھ موازنہ کر کے دیکھیں تو وہ کچھ بھی باقی نہیں رہے گی.پس یہ بہت لطیف باتیں ہیں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام چند لفظوں میں بیان کرتے ہیں.اب جب میں نے سمجھا دیا تو پھر دوبارہ نہیں اس تحریر کو تو معلوم ہوگا کہ خوابیدہ نظر کیا معنی رکھتی ہے.مگر جو لوگ دنیا کی املاک و جائیداد کو اپنا مقصود بالذات بنا لیتے ہیں وہ ایک خوابیدہ نظر سے دین کو دیکھتے ہیں.مگر حقیقی مومن اور صادق مسلمان کا یہ کام نہیں ہے.سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے.جب تک زندگی باقی ہے ان سب چیزوں کو وقف کر دے) تا کہ وہ حیات طیبہ کا وارث ہو.“ الحکم جلد 4 نمبر 29 صفحہ: 3 ، مؤرخہ 16 اگست 1900ء)
خطبات طاہر جلد 17 339 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء جن لوگوں کے حق میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ان کو حیات طیبہ عطا ہوئی ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ موت تک خدا کی راہ میں وقف رہتا ہے.یہ یادداشتیں، براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 416 سے لی گئی ہیں.پھر فرمایا: ”اے ایمان والو خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو اور شیطانی راہوں کو اختیار مت کرو.“ جیسا کہ کلام الہی سے میں نے یہ ثابت کر کے دکھایا تھا کہ اور کا لفظ بظاہر ایک زائد بات کا تقاضا کر رہا ہے مگر حقیقت میں پہلی بات ہی کی تشریح ہے.بعینہ اسی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ عبارت ہے کہ ”اے ایمان والو خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو.گردن دو طرح سے ڈالی جاتی ہے.ایک بیل جس کے اوپر، جس کی گردن میں خدمت کا جو ا ڈالا جاتا ہے وہ بیل جس کو عادت پڑ چکی ہوتی ہے جب جو ا اٹھا کر زمیندار اس کی طرف چلتا ہے گردن پر ڈالنے کے لئے تو میں نے خود دیکھا ہے ایسے بیلوں کو وہ سر نیچے کر دیتے ہیں اور وہ بیل زمیندار کو بہت پیارے ہوتے ہیں اور کچھ بیل ایسے ہیں جو سینگ مارتے ہیں اور بڑی مشکل سے ان کو قابو کرنا پڑتا ہے رسی کے پھندے ان کے سینگوں پر ڈالنے پڑتے ہیں اور ایک آدمی ایک طرف سے گھسیٹ رہا ہے دوسرے نے جا کر جو ا ڈال دیا.تو یہ سلوک تو نہ کرو اپنے اللہ سے.اس کے بیل ہو اس کے لئے اپنی جان بیچ ڈالی اور گردن جوا کے لئے خم نہ کی تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈال دو.ایک یہ معنی ہیں.دوسرا ذبح ہونے کے لئے گردن ڈال دو جیسے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے اپنی گردن ڈالی تھی.تو یہ دونوں طریق ایسے ہیں جن میں آپ اپنی جان کے ذریعہ اس بات کا اقرار کر رہے ہوں گے کہ میں نے یہ جان بیچی ہوئی ہے میری نہیں رہی.اس کے بعد اور شیطانی راہوں کو اختیار مت کرو کا یہ مطلب ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ ایسا گردن ڈالنے والا احتمالاً بھی شیطان کی راہ اختیار کر سکتا ہے.مراد یہ ہے کہ وہ الگ بات ہے ، یہ اور بات ہے.شیطانی را ہیں اختیار کرنے والے اور لوگ ہیں اور یہ بالکل اور لوگ ہیں.اگر شیطان سے بچنا ہے تو گردن ڈالنا ضروری ہے.لازم ہے کہ خدا کے سامنے اپنی گردن ڈال دو.” کہ شیطان تمہارا دشمن ہے.“ وہی آیت کریمہ ہے جو میں نے پہلے پڑھی تھی اسی کا تشریحی ترجمہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 340 اس جگہ شیطان سے مراد وہی لوگ ہیں جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں.“ خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء ( براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ : 416) اب یہ خیال نہ گزرے کہ کوئی خیالی شیطان ہے جس سے ہر آدمی سمجھتا ہے میں بچا ہوا ہوں.اس کے گردو پیش، اس کے ماحول میں ، اس کو برے کاموں کی طرف بلانے والے وہ شیطان ہیں.پس جس نے اپنی گردن خدا کی راہ میں دے رکھی ہو وہ ان کی باتیں کب سنے گا وہ ان کو مردود کر کے اپنی طرف سے ہٹادے گا ایسے لوگوں کی دوستی کا وہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ سب کچھ تو خدا کے حضور انہوں نے پیش کر رکھا ہو اور اس میں سے حصہ مانگ رہے ہوں.ایسے ہی لوگوں کے لئے اَعُوذُ بِالله مِن الشَّيْطنِ الرَّحِيم کا کلام ہمیں سکھایا گیا کہ تلاوت سے پہلے ضرور پڑھ لیا کرو کیونکہ جب تلاوت کرتے ہو تو گویا خدا کے ہو جاتے ہو اور شیطان کوشش کرے گا کہ تمہارا کوئی حصہ بھی خدا کے فضل سے باہر رہ جائے اور یہ اسے اچک لے.پس وہ لوگ زندہ آپ کے ارد گرد پھرتے ہیں، آپ ان کو جانتے ہیں، دیکھتے ہیں، ان سے مراسم رکھتے ہیں جو خدا کی مرضی کے خلاف بھی آپ کو تعلیمیں دیتے ہیں، کہتے ہیں یہ جھوٹ بولو تو یہ فائدہ ہو جائے گا یہاں پیسہ لگاؤ خواہ پیسہ لگا نا حرام ہو اس سے فائدہ پہنچے گا اس طرح رزق کماؤ.یہ حقائق ہیں روز مرہ گزرنے والے حقائق ہیں، کوئی فرضی باتیں نہیں ہیں.آپ ان کو دیکھتے ہیں اور پہچانتے نہیں.پس جس نے خدا کی راہ میں اپنی گردن ڈالی ہو وہ ضرور پہچانے گا.اس آئینہ میں اپنے آپ کو دیکھیں اور خود اپنا اپنا جائزہ لیں.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: جو شخص اپنے وجود کو خدا کے آگے رکھ دے (نہ اس کی گردن اپنی رہی نہ اس کے پاؤں کے ناخن اپنے رہے کچھ بھی باقی نہ رہا) اور اپنی زندگی اس کی راہوں میں وقف کرے اور نیکی کرنے میں سرگرم ہو.سو وہ سر چشمہ قرب الہی سے اپنا اجر پائے گا.“ ایسے شخص کو قرب الہی کے سرچشمہ سے پلایا جائے گا جس کو ہم کوثر کہتے ہیں یہ وہی کوثر ہے اللہ کے قرب کا سر چشمہ، جس کو یہ سر چشمہ نصیب ہو جائے اسے ایک آب حیات اور آب بقامل گئی.ایسے شخص پر کبھی موت وارد نہیں ہوا کرتی.اور ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم (ہے).“
خطبات طاہر جلد 17 341 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء جن پر سے موت اٹھالی گئی ہو، جن کو ہمیشہ کی بقاء کا وعدہ دے دیا گیا ہو یعنی خدا کی طرف سے ان لوگوں پر نہ کچھ خوف ہے نہ کچھ غم.یعنی جو شخص اپنے تمام قومی کو خدا کی راہ میں لگا دے اور خالص خدا کے لئے اس کا قول اور فعل اور حرکت اور سکون اور تمام زندگی ہو جائے.اور حقیقی نیکی (کے ) بجالانے میں سرگرم رہے.سو اس کو خدا اپنے پاس سے اجر دے گا اور خوف اور حزن سے نجات بخشے گا.یادر ہے کہ یہی اسلام کا لفظ کہ اس جگہ بیان ہوا ہے دوسرے لفظوں میں قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے.“ میں نے عرض کیا تھا کہ پہلے جو لفظ استقامت گزرا ہے اس کی تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ ہی میں آپ کے سامنے پیش کروں گا.پس اس اقتباس کے بعد میں اس خطبہ جمعہ کوختم کروں گا.فرمایا: دوسرے لفظوں میں قرآن شریف میں اس کا نام استقامت رکھا ہے جیسا کہ وہ یہ دعا 66 سکھلاتا ہے.اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.“ یعنی ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر اور ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا.ان لوگوں کی راہ استقامت کی راہ تھی جو انبیاء تھے اور ان لوگوں کی راہ استقامت کی راہ تھی جو صدیق تھے جو کامل وفا کے ساتھ اپنے انبیاء کے پیچھے چلتے رہے اور ان لوگوں کی راہ استقامت کی راہ تھی جنہوں نے اس راہ میں ہی جان دے دی اور اس راہ سے ہٹے نہیں اور وہ صالحین ہی بھی اس استقامت کی راہ پر تھے جو اس قافلے کے پیچھے پیچھے آرہے تھے مگر تھے اسی قافلہ کا حصّہ.وہ آگے تو نہ بڑھ سکے مگر پہلوں کی قدموں کی خاک چومتے ہوئے اُسی راہ پر انہوں نے اپنی زندگی ختم کی.فرمایا یہ ہے استقامت کی راہ.دعا کا ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں یہ ہے: ہمیں استقامت کی راہ پر قائم کر ، ان لوگوں کی راہ جنہوں نے تجھ سے انعام پایا اور جن پر آسمانی دروازے کھلے.واضح رہے کہ ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے.“ اب یہ بہت گہرا کلام ہے جسے لازماً سمجھائے بغیر آپ کو سمجھ نہیں آئے گی.ہر ایک چیز کی وضع استقامت اس کی علت غائی پر نظر کر کے سمجھی جاتی ہے.استقامت کے لئے پہلے یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس چیز کا
خطبات طاہر جلد 17 342 خطبہ جمعہ 15 مئی 1998ء مقصد کیا تھا ، اس کے بنانے کا مقصد کیا تھا، اس کی استقامت اس مقصد کے مطابق ڈھالی جائے گی یعنی اس کی استقامت کی صلاحیتیں جو اس کا مقصد تھا اس کے مطابق بنائی جانی ضروری ہیں.انسان کے وجود کی علت غائی یہ ہے کہ نوع انسان خدا کے لئے پیدا کی گئی ہے.پس انسانی وضع استقامت یہ ہے کہ جیسا کہ وہ اطاعت ابدی کے لئے پیدا کیا گیا ہے ایسا ہی درحقیقت خدا کے لئے ہو جائے.“ پیدا کرنے کی غرض یہ تھی کہ ہمیشہ خدا کی عبادت کرے، ہمیشہ اس کی پیروی کرے.اگر اس غرض کے مطابق وہ ہو جاتا ہے تو یہ اس کی استقامت ہے.محض راہ کی تکلیفوں کو برداشت کرنا استقامت کا نام نہیں ہے.یہ تشریح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہمیں بتلا رہی ہے کہ اگر ہم عبادت کی خاطر پیدا کئے گئے تھے تو ہماری استقامت کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا سارا وجو د عبادت کی خاطر خاص ہو جائے اور کلیۃ اللہ کا ہو جائے.اور جب وہ اپنے تمام قولی سے خدا کے لئے ہو جائے گا تو بلاشبہ اس پر انعام نازل ہوگا جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں.“ سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب ، روحانی خزائن جلد 12 صفحہ :345،344) صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمُ میں اَنْعَمتَ عَلَيْهِمُ کا ترجمہ ہے : ” تو یقیناً اس پر انعام نازل ہوگا.“ اب انعام کا عام معنی یہ لیا جاتا ہے کہ اس کو کئی قسم کی نعمتیں ملیں گی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ معنی نہیں فرما ر ہے ” جس کو دوسرے لفظوں میں پاک زندگی کہہ سکتے ہیں، یعنی انعام سے مراد ہی پاک زندگی ہے.جب خدا کی طرف سے پاک زندگی مل گئی تو یقین کرو کہ یہ انعام ہے اور اگر پاک زندگی نہیں ملی اور دنیا کی نعمتیں ملی ہیں تو محض اس دھو کے میں مبتلا نہ رہنا کہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے جس نے ثابت کر دیا کہ آپ صراط مستقیم پر قائم تھے.پس پاک زندگی اصل مقصود ہے، اصل مطلوب ہے اگر پاک زندگی ہم سب کو نصیب ہو جائے تو یہی زندگی کا وہ مقصد ہے جو ہم نے پالیا پھر ہم یہ کہتے ہوئے جان جان آفریں کے سپرد کر سکتے ہیں کہ فُرتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ خدا کی قسم ، میں رب کعبہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ میں کامیاب ہو گیا.اللہ ہمیں یہ کامیابی عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 343 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء جولوگ خدا کی خاطر تنگی میں خرچ کرتے ہیں اللہ تعالی کبھی ان کا ہاتھ تنگ نہیں رہنے دیتا (خطبہ جمعہ فرمودہ 22 مئی 1998ء بمقام با دکر وٹس ناخ.جرمنی ) ج تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: هانتُم هُؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ وَمَنْ يبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ وَ اللهُ الْغَنِيُّ وَ انْتُمُ الْفُقَرَاءُ ۚ وَإِن تَتَوَلَّوا يَسْتَبْدِلُ قَوْمًا غَيْرَ كُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ پھر فرمایا: (محمد:39) آج اس خطبہ سے مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے انیسویں سالانہ اجتماع کا آغاز ہورہا ہے مگر خطبہ میں جو مضمون میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں اس کا صرف خدام سے تعلق نہیں، نہ ہی محض جماعت جرمنی سے ہے بلکہ اس خطبہ کے مضمون کا تعلق تمام دنیا کی جماعتوں کے ساتھ ہے.اس لئے جہاں مالی تحریک کے متعلق میں زور دوں وہاں غلط فہمی سے یہ نہ سمجھیں کہ جماعت جرمنی مخاطب ہے، جماعت جرمنی کے بعض افراد بھی مخاطب ہو سکتے ہیں مگر جماعت جرمنی کی اکثریت سے مجھے مالی قربانی کے متعلق کوئی شکوہ نہیں.وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ وہ بھی مخاطب ہیں ان کو بہر حال اپنے نفوس میں غور کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ کس حد تک وہ اسلام کی مالی قربانی کی تحریک کے مطابق پورے اترتے ہیں.پس معین طور پر نہ میں خدام کی بات کر رہا ہوں ، نہ انصار کی، نہ لجنات کی، سب ہی
خطبات طاہر جلد 17 344 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء مخاطب ہو سکتے ہیں اور کون ہوسکتا ہے یہ فیصلہ سننے والے نے خود کرنا ہے.اس تمہید کے بعد اب میں اس آیت سے متعلق تشریحی ترجمہ پیش کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَانْتُمْ هُؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِی سَبِیلِ اللهِ سنو تم ہی وہ لوگ ہو جن کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے بلایا جا رہا ہے.یہ ایک بہت بڑا اعزاز کا فقرہ ہے.اگر آپ غور کریں تو دل اللہ کی حمد میں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اس حال میں ڈوب جائیں گے کہ ہمیں مخاطب کر کے خدا فرما رہا ہے کہ تمہیں چن لیا گیا ہے اور یہ صورت حال آج سوائے جماعت احمدیہ کے تمام عالم اسلام میں کسی پر صادق نہیں آتی.کھانتُم هُؤُلَاءِ تُدْعَوْنَ لِتُنْفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ دَهَا وَ توسہی اور جماعت ، مذہبی یا غیر مذہبی، جو اس طرح اللہ کی راہ میں براہ راست دین یا غریبوں پر خرچ کرنے کے لئے دعوت دے رہی ہو اور جس کو اللہ دعوت دے رہا ہو کہ اٹھو اور نیک کاموں میں خرچ کرو، آج میں تم سے مخاطب ہوں.اس پہلو سے امر واقعہ یہ ہے کہ آپ کے سوا خدا تعالیٰ آج کے زمانہ میں کسی سے اس طرح مخاطب نہیں جس طرح اس آیت کریمہ میں اس نے خطاب فرمایا ہے.فَانْتُمْ هُؤُلاء - هؤلاء کے لفظ نے ایک مزید زور پیدا کر دیا سنو! سنو! تم ہی تو وہ ہو جن کو اس بات کی طرف بلایا جارہا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو اور اس کے بعد ایک اظہار ہے شکوہ کا سا.فَمِنْكُمْ مَنْ يَبْخَلُ اس کے باوجود تم ہی میں سے وہ بھی ہیں جو بخل سے کام لیتے ہیں.تو یہ دوسرا حصہ ہے جو خدا کا بندے پر شکوہ ہے.اس کے متعلق میں نے عرض کیا تھا کہ آپ میں سے کسی کے متعلق معین شکوہ میرے ذہن میں نہیں ہے.مجھے تو جہاں تک جماعت جرمنی دکھائی دیتی ہے مالی قربانیوں میں بہت آگے بڑھی ہوئی ہے اور مسلسل ہر آواز پر لبیک کہتی ہے اس میں بجنات بھی شامل ہیں، انصار اللہ، بچے ، سارے کے سارے، خدام تو ہیں ہی، سب میرے نزدیک اس پہلو سے اللہ کے فضل کے ساتھ بہت اچھے ہیں لیکن ہو سکتا ہے بعض سننے والے سمجھ جائیں کہ یہ شکوہ ان سے بھی ہے پس ان کو اس امر کی طرف خصوصیت سے توجہ کرنی چاہئے.فرمایا: فَمِنكُم منْ يَبْخَلُ وَ مَنْ يَبْخَلُ فَإِنَّمَا يَبْخَلُ عَنْ نَفْسِهِ لیکن یادرکھو کہ اگر بخل سے کام لو گے تو اپنے نفس کے خلاف بخل سے کام لے رہے ہو گے.تمہیں اس بخل کا کوئی بھی فائدہ نہیں پہنچے گا بلکہ الٹا نقصان ہے اور آنے والا وقت ثابت کر دے گا کہ خدا کی راہ میں ہاتھ روک کر
خطبات طاہر جلد 17 345 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء خرچ کرنے کے نتیجے میں تمہیں روحانی نقصان تو جو پہنچنا تھا پہنچا، مالی نقصان بھی بہت پہنچا ہے اور یہ وہ بات ہے جس کو ساری جماعت کی تاریخ دو ہراتی چلی آرہی ہے.میں نے بار ہا ایسی مثالیں آپ کے سامنے رکھی ہیں جن میں مجھے ایسے دوستوں سے واسطہ پڑا جنہوں نے اقرار کیا کہ ایک وقت وہ تھا کہ وہ اپنی مالی تنگی کی وجہ سے خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے ہاتھ روک رہے تھے.میرا ایک خطبہ انہوں نے سنا جس میں یہی مضمون بیان ہو رہا تھا جو میں نے اب بیان کیا ہے.اُس دن انہوں نے عہد کر لیا کہ مالی تنگی یا مالی فراخی یہ دونوں باتیں ہمارے لئے اب بے محل ہو گئی ہیں، خدا کی راہ میں ضرور خرچ کرنا ہے.ایک شخص نے مجھے کہا کہ میں نے سوچا ہے کہ قرض لے کر بھی کرنا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ میں اپنے بچوں پر قرض لے کر خرچ کرتا ہوں جب کار خراب ہوتی ہے تو قرض لے کر ٹھیک کراتا ہوں.قرضوں کے بوجھ تلے اپنی ذات کی وجہ سے دب گیا ہوں.تو انہوں نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے سوچا کہ کیوں نہ اللہ کی وجہ سے قرض لوں ان قرضوں میں کچھ اضافہ ہوگا ایک اضافہ تو سچا اضافہ ہوگا، ایک اضافہ تو نیک اضافہ ہوگا.یہ عہد کر کے انہوں نے اپنی زندگی کا رخ بدل دیا، ایسا رخ پلٹا کہ ان کے سارے قرضے اتر گئے.تمام مالی تنگی ، مالی فراخی میں بدل گئی اور پھر بڑھ چڑھ کر انہوں نے اپنی خواہش کے مطابق خدا کی راہ میں خرچ کرنا شروع کر دیا.وہ صاحب فوت ہو چکے ہیں.اس موقع پر میں ان کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن میں یہ بتا تا ہوں کہ لفظ لفظا انہوں نے یہی کچھ لکھا جو میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ہے لیکن یہ تو آغاز تھا.جب میری خلافت کا آغاز ہوا ہے انہی دنوں میں میں نے کچھ ایسے خطبے دئے تھے جن کے نتیجے میں یہ واقعہ پیش آیا اس کے بعد تو مسلسل یہی بات ساری دنیا میں اسی طرح رونما ہورہی ہے.پس یہ حکمت کی بات ہے اپنے پلے باندھ لیں.وہ لوگ جو خدا کی خاطر تنگی میں خرچ کرتے ہیں اللہ کبھی ان کا ہاتھ تنگ نہیں رہنے دیتا.جو فراخی میں خرچ کرتے ہیں ان سے بھی اللہ کا حسنِ سلوک ہے ان پر بھی رحم فرماتا ہے لیکن ان کو بہت پسند کرتا ہے جوگی کے باوجود خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور اس کے جواب میں اللہ کوتو کوئی تنگی نہیں اس لئے وہ بے انتہا عطا فرماتا ہے اتنا کہ شمار میں بھی نہیں آسکتا لیکن اس تعلق میں میں ایک نصیحت، جو آپ میں سے میرے اس وقت مخاطب ہیں ، آپ خود جانتے ہیں کون ہیں، ان کو کرنی چاہتا ہوں کہ نیت یہ نہ کریں کہ تنگی میں خدا کی خاطر خرچ کریں گے تو تنگی دور ہوگی.جب یہ نیت کریں گے تو یہ نیت
خطبات طاہر جلد 17 346 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء آپ کی نیکی کو ذرا سا میلا کر دے گی.اس کے نتیجے میں اللہ اپنا وعدہ تو بہر حال پورا کرے گا ضرور دے گا اور زیادہ دے گا لیکن ممکن ہے خدا کی رضا جوئی سے آپ محروم رہ جائیں ، خدا کی رضا حاصل کرنے سے آپ نسبتا محروم رہ جائیں.اس لئے میرا مشورہ یہی ہے کہ نیتوں کو بالکل پاک اور صاف کریں اور کوشش کریں کہ اس حالت میں تنگی میں خرچ کریں کہ اگر خدا اس کے مقابل پر دنیا کی آسائش نہ بھی عطا فرمائے تو روح سجدہ ریز رہنی چاہئے.روح اللہ سے راضی رہنی چاہئے.اگر یہ کریں گے تو لازماً اللہ تعالیٰ دنیا میں بھی آپ کے حالات بدلے گا اور آخرت میں بھی آپ کو وہ جزا دے گا جس کا آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.پھر فرما یا اللهُ الْغَنِيُّ وَ انْتُمُ الْفُقَرَآءُ یہ جو بل کی بات ہو رہی ہے اس پہ ہو سکتا ہے کسی احمق کو یہ خیال گزرے کہ اللہ ہم سے مانگ رہا ہے اور بعض احمق اور منافق یہ کہتے بھی ہیں کہ اللہ اگر غنی ہے، اللہ نے سب کچھ دیا ہے تو ہم سے کیوں مانگتا ہے، اس کا مطلب ہے کہ ہم امیر ہیں اور اللہ فقیر ہے.اس جاہلانہ خیال کو رد کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَاللهُ الْغَنِيُّ وَ انْتُمُ الْفُقَرَاء یا د رکھو اللہ غنی ہے اور تم فقیر ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی بندوں کو ملا ہے اللہ ہی نے تو دیا ہے وہ اپنے گھر سے تو نہیں لے کے آئے.پس جو کچھ دیا ہے اس کو اللہ کے حضور پیش کرنے میں اگر یہ دعوی کریں کہ خدا فقیر ہے جو ہم سے مانگ رہا ہے تو اس سے بڑی جہالت اور کیا ہوسکتی ہے.جس میں سے وہ مانگ رہا ہے وہ اسی کا دیا ہوا ہے اس لئے یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بندے امیر ہوں اور خدا فقیر ہو.مانگے یا نہ مانگے فقیر بندے ہی رہیں گے.اللہ جس نے عطا کیا ہے وہ کبھی فقیر نہیں ہوسکتا، وہ بہر حال غنی رہے گا اور غنی کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ بے نیاز ، وہ تمہاری باتوں سے بے نیاز ہے تم چاہو تو اس کو فقیر کہتے رہو لیکن یا درکھو کہ اس کہنے سے خدا کی شان میں کوئی فرق نہیں پڑے گا.اس کی شان کریمی تمہاری پہنچ سے بہت بالا ہے.وَ اِنْ تَتَوَلَّوا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمْثَالَكُمْ فرمایا اگر تم لوگ پھر جاؤ یعنی اللہ تعالیٰ کی ان باتوں کی طرف توجہ نہ کرو اور اعراض کرو تو یا درکھو يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَ كُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا أَمثالكم تمہارے بدلے ایک اور قوم لے آئے گا وہ پھر تمہارے جیسے نہیں ہوں گے.اس میں جماعتِ احمدیہ کو ، چونکہ میرے نزدیک جماعت احمدیہ ہی خصوصیت سے گے.اس مخاطب ہے، ایک بہت گہرا یقین کا پیغام ہے.فرمایا اگر تم میں سے بعض لوگ ایسے ہوں جو یہی سمجھتے لا
خطبات طاہر جلد 17 347 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء رہیں کہ ہمیں کیا ضرورت ہے خدا کو کچھ دینے کی ، وہ غنی سب کچھ دے سکتا ہے وہ واقعۂ کر کے بھی دکھائے گا پھر.جماعت کی ضرورتیں لازماً پوری ہونگی.یا ان لوگوں میں پاک تبدیلیوں کے نتیجے میں جو جماعت کے ساتھ وابستہ ہیں یا ان کو چھوڑ کر اللہ ایک نئی قوم لے آئے گا اور وہ مالک ہے اور خالق ہے وہی لوگوں کے حالات بدل سکتا ہے.پس وہ لوگ جو ہم سے اس وقت باہر ہیں بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو لے آئے اور ہم ان سے پیچھے رہ جائیں.یہ وہ وارننگ ہے جس کو جماعت احمد یہ جرمنی کو بھی اپنے اوپر اطلاق کر کے دیکھنا چاہئے.وارنگ سے مطلب ہے انتباہ ، آپ کے اندر ایسی قو میں پیدا ہو رہی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی میں بہت آگے بڑھ رہی ہیں.بعض ایسے نئے آنے والے ہیں اگر چہ بہت زیادہ نہیں مگر بعض ایسے ہیں جن کی مالی قربانی پر مجھے رشک آتا ہے.نہایت تنگی ترشی میں زندگی بسر کرنے کے باوجود بعض ایسے ہیں جو پھر بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کو اپنا اعزاز سمجھتے ہیں.وہ یہ نہیں سمجھتے کہ ہم نے کوئی احسان کیا ہے اور ایسے ہیں جن کے حالات پہلے اچھے نہیں تھے مگر یہ کرنے کے بعد ان کے حالات بہتر ہوئے اور بہتر ہوتے ہوئے حالات کے ساتھ ساتھ ان کی قربانی کا معیار بھی بڑھتا گیا.پس یا درکھیں اگر خدانخواستہ، اگر خدانخواستہ جماعت جرمنی کے ان احمدیوں کو جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنائے جائیں اور ان کے حالات اچھے کر دئے جائیں یہ گمان گزرے کہ یہ جماعت ہم پر چل رہی ہے ، ہمارے چندوں کی محتاج ہے تو اللہ ان کو دور کر دے گا.ہو سکتا ہے ان کا انجام احمدیت پر نہ ہو اور ان کی جگہ دوسرے ایسے ضرور لے آئے گا جو ان پر ثابت کر دیں کہ جماعت کو تمہاری کوئی ضرورت نہیں.اللہ ہی ہے جو ضرورتیں پوری کرنے والا ہے اور جیسے چاہے اسی طرح وہ ان ضرورتوں کو پوری کر سکتا ہے.یہ تشریح تو ہے مگر مختصر تشریح ہے اس آیت کی جو آپ کے سامنے میں نے تلاوت کی.اب میں ایک حدیث نبوی صلی ہی تم آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں بلکہ اس کے بعد ایک اور حدیث نبوی صلی یہ نام آپ کے سامنے رکھوں گا جس میں اسی مضمون کو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صل للہ یہ تم نے اپنے ایک الگ رنگ میں بیان فرمایا ہے.حضرت خریم بن فاتک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اشیا کی تم نے فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 348 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء ”جو شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں کچھ خرچ کرتا ہے اسے اس کے بدلہ میں سات سو گنا زیادہ ثواب دیا جاتا ہے.“ (جامع الترمذي، أبواب فضائل الجهاد عن رسول الله ﷺ باب ما جاء في فضل النفقة..حديث نمبر : 1625) یہاں لفظ ثواب نہیں تھا یعنی عربی لفظوں میں لفظ ثواب نہیں ہے مگر ترجمہ کرنے والے بعض دفعہ اپنی طرف سے وضاحت کی خاطر بعض لفظ زائد کر دیا کرتے ہیں.صرف اتنا فرمایا ہے کہ سات سو گنا زیادہ دیا جائے گا.امر واقعہ یہ ہے کہ اس سات سو گنا کا تعلق اسی دنیا سے ہے.آخرت میں تو شمار ہی کوئی نہیں.اس لئے ثواب جب کہہ دیا تو معاملہ غلط کر دیا ترجمہ کرنے والے نے.مضمون کو خود نہیں سمجھا اور خواہ مخواہ اللہ کی رحمت کو محدود کرنے کی کوشش کی ہے.ثواب تو لا محدود ہوگا جیسا کہ قرآن کریم کی دوسری آیات سے ثابت ہے اور سات سو گنا سے مراد اس دنیا میں کم از کم سات سو گنا ہے کیونکہ دوسری جگہ قرآن کریم میں ایک مثال بیان ہوئی ہے ایسی کھیتی کی جس پر ہر دانہ جو بویا جائے سات سو گنا دانوں میں بدل جاتا ہے اور میں نے پہلے حساب لگا کر ایک دفعہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ واقعۂ جب کھیتیاں بوٹا مارتی ہیں، پنجابی محاورہ ہے مگر بہت اچھا کہ بوٹا مارتی ہیں، تو ہر دانہ سات سات بالیوں میں تقسیم ہو سکتا ہے اور ان میں سے ہر ایک سوسودانوں والے خوشے نکالتی ہیں تو حسابی رو سے ہم نے تجربہ کر کے دیکھا ہے.ایک محدود پیمانے پر میں نے اپنی زمین پر بھی تجربہ کیا تھا واقعہ ایک ایک دانہ جو لگایا گیا وہ سات سودانوں میں تبدیل ہوا.اگر چہ وسیع پیمانے پر ایسا کرنا زمیندار کے لئے مشکل ہے کیونکہ بہت سی کاشت کی خرابیاں حائل ہو جاتی ہیں مگر سات سو والا تجربہ میں خود کر چکا ہوں واقعۂ ایسا ہو سکتا ہے مگر یہ خیال کہ صرف سات سو گنا ہو گا یہ بھی غلط ہے کیونکہ اس وعدہ کے معا بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے پس جس کے لئے وہ چاہے اور بھی بڑھا دیتا ہے.چنانچہ دنیا میں جو ترقی یافتہ قومیں ہیں ان کی کھیتیوں کا حال اس سات سو گناوالی مثال سے آگے ہے.بہت سے ایسے بیج ہیں مثلاً مکئی کے بیچ جو اس سے بھی زیادہ پھل لے آتے ہیں اور طے شدہ حقیقت ہے کہ يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ (البقرة: 262) کا مضمون ان پر پورا اترتا ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے سات سو گنا کا وعدہ تو ہے مگر یا درکھو اس پر بھی میں اگر چاہوں تو جس کے لئے چاہوں اس سے بڑھا سکتا ہوں.پس یہ دونوں باتیں اس دنیا میں انسانی زندگی پر صادق آنے والی باتیں ہیں.جہاں تک آخرت کا تعلق ہے میں نے بیان کیا ہے اس کا تو
خطبات طاہر جلد 17 349 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء حساب ہی کوئی نہیں، کوئی شمار ہی نہیں.آنحضرت صلی اب تم بکثرت اس مضمون پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہیں کہ آخرت میں جو کچھ عطا ہو گا جیسا کہ قرآن نے بھی بارہا بیان فرمایا ہے اس کا تصور بھی انسان نہیں کر سکتا.دنیا کی عطا کو اس کے مقابل پر کوئی بھی نسبت نہیں ہوگی.اب میں ایک نسبتاً لمبی حدیث حضرت رسول اللہ صلی ایمن کی آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں جو حضرت عمر بن خطاب سے مروی ہے.یہ حدیث اور اس سے ملتی جلتی بہت سی حدیثیں ہیں.میں نے آج اس حدیث کو لے لیا ہے لیکن اس کے علاوہ بہت سی ملتی جلتی حدیثیں تھیں جو چھوڑ کر الگ کر دیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اسلم کا بیان کہ اللہ کس طرح اپنے بندے کو عطا کرتا ہے اتنا دردناک ہے کہ میرے لئے جذباتی لحاظ سے ممکن ہی نہیں تھا کہ میں اسے آپ کے سامنے پڑھ کر سنا سکوں.جب اللہ کا ذکر ہو اور محمد رسول اللہ صلی ایتم کر رہے ہوں کیسے برداشت کر سکتا ہوں کہ ہچکیوں کے بغیر میں آپ کے سامنے وہ بیان کر سکوں.پس میں نے ایک ایسے کام پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا جو میرے لئے ناممکن تھا لیکن یہ حدیث میں سمجھتا ہوں میرے لئے پڑھنی نسبتا آسان تھی اس لئے یہ میں نے آپ کے لئے چن لی ہے.حضرت زیڈ اپنے والد اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ اسلم نے حضرت عمر بن خطاب کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ: و آنحضرت میلیشیا کی تم نے ہمیں ایک جنگی ضرورت کے لئے خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی تحریک فرمائی.حضرت عمر یہ عرض کرتے ہیں کہ ان دنوں میرے پاس کافی مال ہوا کرتا تھا.میں نے دل میں کہا اگر میں ابوبکر سے زیادہ ثواب کما سکتا ہوں تو آج موقع ہے.میں آدھا مال لے کر حضور علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا.حضور صلی ا لی ہم نے مجھ سے دریافت فرمایا: عمر کتنا مال لائے ہو اور کس قدر بال بچوں کے لئے چھوڑ آئے ہو.میں نے عرض کی حضور آدھا مال لایا ہوں اور آدھا چھوڑ آیا ہوں.اب ابوبکر جو کچھ ان کے پاس تھا وہ سب لے کر آگئے.حضور علیہ السلام نے ابوبکر سے دریافت فرمایا ابوبکر کتنا مال لائے ہو اور کس قدر گھر والوں کے لئے چھوڑ آئے ہو.ابوبکر نے عرض کیا حضور جو کچھ میرے پاس تھا وہ سب لے آیا ہوں.جو کچھ پاس تھا وہ سب لے آیا ہوں اور بال بچوں کے لئے اللہ اور اس کا رسول صلی ا ہی تم چھوڑ آیا ہوں.حضرت عمرؓ کہنے لگے یہ
خطبات طاہر جلد 17 350 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء سن کر میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں ابوبکر سے کبھی آگے نہیں بڑھ سکتا.اس سے زیادہ اور ہو کیا سکتا ہے.“ (سنن ابی داؤد، کتاب الزكاة، باب فى الرخصة في ذالك ، حديث نمبر : 1678) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اسی واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا معاملہ اکثر سنا ہو گا.ایک دفعہ جب راہ خدا میں مال دینے کا حکم ہو، اتو گھر کا کل اثاثہ لے آئے.جب رسول کریم صلی پیہم نے دریافت کیا کہ گھر میں کیا چھوڑ آئے ہو تو فرمایا کہ خدا اور (اس کے ) رسول صلی ا یہ تم کو گھر چھوڑ آیا ہوں.“ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء صفحہ: 55) کتنا پیارا جواب ہے خدا اور رسول صلی ا یہ تم کو گھر میں چھوڑ آیا ہوں.رسول صلی ای ایم کے سامنے حاضر تھے، سامنے آنحضرت صلی للہ یہی تم کھڑے تھے اور کہہ رہے تھے گھر میں اللہ اور آپ سی یہ تم کو چھوڑ آیا ہوں.بہت ہی پر لطف جواب ہے، ایسا کہ روح وجد میں آجاتی ہے.بخاری کتاب الزکوۃ میں یہ بھی درج ہے که اگرچه صحابه کرام سخت تنگ دست تھے تاہم ان کو تھوڑا بہت جو کچھ ملتا تھا اس کو صدقہ خیرات کر دیتے تھے.حضرت ابی مسعود الانصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام بازاروں میں جاتے اور حمالی کرتے.محنت مزدوری میں جو کچھ ملتا اس کو صدقہ کر دیتے.(صحیح البخاری، کتاب الزكاة، باب اتقوا النار ولو بشق تمرۃ....،حدیث نمبر : 1416) یہ وہ سنت ہے جس کو ایک دفعہ میں نے جماعت میں دوبارہ زندہ کرنے کی کوشش کی تھی اور غالباً یہیں آپ لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر چہ آپ کا وقت ہمہ تن خدمت دین میں مصروف رہتا ہے مگر اس مبارک سنت کو زندہ کرنے کی خاطر اگر تھوڑا سا وقت کچھ پھول ہی لے کر بازار میں بیچ آیا کریں اس نیت سے کہ جو کمائی ہے وہ کلیہ اللہ کے حضور پیش کروں گا یا اور کچھ اپنے کاروبار کے علاوہ تھوڑا سا حصہ محض اس وجہ سے کاروبار میں لگا ئیں کہ جو کچھ آمد ہوگی وہ اللہ کے حضور پیش کریں گے.اس تحریک کے نتیجہ میں مجھے بہت سی عورتوں نے یہ لکھا کہ ہم اب اس غرض سے سلائی کرتی ہیں.اور جہاں تک میرا علم ہے انہوں نے مستقل اس کو عادت بنالیا ہے کہ سلائی کا کام
خطبات طاہر جلد 17 351 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء جہاں بچوں کے لئے کرتی ہیں کچھ تھوڑی سی سلائی وہ اللہ کی رضا کے حصول کی خاطر اس لئے کرتی ہیں کہ جو بھی آمد ہوگی وہ دین کی راہ میں پیش کر دیں گے.رسول اللہ صلی شما یہ ستم کی ترغیب و تحریص.صحابہ کرام اور بھی زیادہ صدقہ و خیرات کی طرف مائل ہو گئے.سنن ابو داؤد میں ذکر ہے کہ: ایک بار آپ صلی ا یہ تم نے خطبہ عید میں صدقہ کی ترغیب دی.عورتوں کا مجمع تھا حضرت بلال دامن پھیلائے ہوئے تھے اور عورتیں اپنے کان کی بالیاں اور ہاتھ کی انگوٹھیاں پھینکتی جاتی تھیں.“ (سنن ابی داؤد، کتاب الصلاة، باب الخطبة يوم العيد ، حدیث نمبر : 1143) اس موقع پر حضور کی آواز جذبات سے گلو گیر ہوگئی.چنانچہ فرمایا : اب جو میں جذباتی ہوا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں احمدی عورتوں کو بکثرت جانتا ہوں جو مسلسل یہ سنت زندہ کرتی چلی جارہی ہیں.اس لئے قرآن کریم کا پہلا خطاب کہ هانتُم هؤلاء کتنا سچا ہے جو آج جماعت احمدیہ کے سوا کسی پر اطلاق پاہی نہیں سکتا.وہی سنت نبوی صلی ای ام اس زمانہ کی چودہ سوسال پہلے کی ، آج اگر کوئی جماعت زندہ کر رہی ہے تو وہ احمد یہ جماعت زندہ کر رہی ہے.یہ احمدی خواتین ہی ہیں جو مسلسل اس قربانی میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایک ایسا نمونہ پیدا کر رہی ہیں کہ صحابہ کے زمانہ کی یاد اس طرح تازہ ہوتی ہے جیسے ایک تازہ پھول کو آپ سونگھ رہے ہیں وہ اپنا رنگ دکھا رہا ہو اور اپنی خوشبو دے رہا ہو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ہر ایک پہلو سے خدا کی اطاعت کرو.اور ہر ایک شخص جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے.“ اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے کا مطلب یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو غلط نہی ہوتی ہے کہ ہم بیعت کنندہ ہیں، ہم بیعت میں داخل ہیں.فرمایا اپنی بیعت کو اس طرح پر کھو، آگے جو ذ کر چلتا ہے وہاں بیعت پر لکھنے کا مضمون ہے.وو ” جو اپنے تئیں بیعت شدوں میں داخل سمجھتا ہے.اس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے.“
خطبات طاہر جلد 17 352 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء اب یادرکھیں کہ یہ تحریک جو مالی تحریک کر رہا ہوں.ہر گز یہ وجہ نہیں کہ جماعت کو کوئی مالی تنگی ہے.ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا، ایک رات بھی مجھے پر ایسی نہیں آئی جس میں یہ فکر ہو کہ خدا کے دین کی یہ ضرورت ہے اسے کہاں سے پورا کروں گا.بلاشبہ، ہمیشہ اللہ تعالیٰ خود دلوں میں تحریک کرتا ہے اور وہ ضرورت کو پورا کر دیتے ہیں.اس لئے نعوذ باللہ من ذالك ناشکری کے طور پر میں یہ تحریک نہیں کر رہا.میں اس لئے کر رہا ہوں کہ جو بھی اس تحریک کے نتیجہ میں مالی قربانی کریں گے ان کا بھلا ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کی تمام بہبود اس بات سے وابستہ ہو جائے گی کہ وہ خدا کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں.دین بھی سنور جائے گا اور دنیا بھی سنور جائے گی.پس مجھے تو آپ کی فکر ہے یعنی آپ میں سے ان کی جو اپنے حال کو بہتر جانتے ہیں کہ جس حد تک خدا نے توفیق دی تھی اس حد تک خرچ نہیں کر رہے.اُن کی فکر ہے، جماعت کی ضرورتوں کی فکر نہیں ہے یعنی فکر تو ہے مگر یقین ہے کہ اللہ ضرور پوری کرتا ہے.پس آپ اپنا حال درست کریں.آپ اگر اچھے ہو جائیں گے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت پہلے سے بھی بڑھ کر ترقی کرنے لگے گی.پس اس پس منظر میں اس تحریک کو سنیں.اُس کے لئے اب وقت ہے کہ اپنے مال سے بھی اس سلسلہ کی خدمت کرے.جوشخص ایک پیسہ کی حیثیت رکھتا ہے.وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے.“ اب یہ تحریک کا آغاز تھا.اُس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں ایک پیسہ دیوے.ہوسکتا ہے اُس زمانہ کا جو پیسہ ہے وہ آج کے زمانہ میں سوروپے کے برابر ہو.اب موازنہ کرنا تو مشکل ہے مگر اتنا پتا ہے کہ پیسے میں بہت کچھ آجایا کرتا تھا اور اب کئی مارکس (Marks) میں بھی کچھ نہیں آسکتا جو اس زمانہ میں ایک پیسہ میں آجایا کرتا تھا.تو ی نسبتیں معین کرنا تو میرا کام نہیں اور یہ ہے بھی بہت مشکل.صرف اتنا یا درکھیں کہ ایک پیسہ جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں تو اس پیسہ کی بھی بہت قیمت ہے لیکن پھر بھی پیسہ پیسہ ہی تھا اور ایک پیسہ خرچ کرنا تمام مخاطب جماعت میں سے ہر شخص کے لئے ممکن تھا.وو وہ سلسلہ کے مصارف کے لئے ماہ بماہ ایک پیسہ دیوے.اور جو شخص ایک روپیہ ماہوار دے سکتا ہے وہ ایک روپیہ ماہوار ادا کرے.“
خطبات طاہر جلد 17 353 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء اب اس زمانہ کا روپیہ بہت بڑی چیز تھی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان لفظوں میں یہ نہ سمجھیں کہ بہت تھوڑ اسا مطالبہ کر رہے ہیں.فرماتے ہیں جو تو فیق رکھتا ہے وہ ایک روپیہ بھی ماہوار دے دے.فرمایا: دو کیونکہ علاوہ ہنگر خانہ کے اخراجات کے دینی کا رروائیاں بھی بہت سے مصارف چاہتی ہیں.66 یعنی لنگر خانہ بھی اُس وقت ایک نمایاں بڑا خرچ ہوا کرتا تھا، اب بھی ہے.آپ کا لنگر خانہ بہت خرچ چاہتا ہے مگر خدا تعالیٰ کے فضل سے سہولتیں اتنی ہو چکی ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے لنگر خانہ کی برکت سے اب یہ لنگر بیسیوں ملکوں میں بڑی شان سے جاری ہو گئے ہیں.اور اس سے بہت زیادہ خدمت کرنے کی توفیق پارہے ہیں جو اس زمانہ میں بظاہر نظر آتی تھی.فرمایا: صد با مہمان آتے ہیں مگر ابھی تک بوجہ عدم گنجائش مہمانوں کے لئے آرام دہ مکان میسر نہیں جیسا کہ چاہئے.چار پائیوں کا انتظام نہیں.“ اب اُس زمانہ میں زمین پر بستر بچھانے کا انتظام تو تھا مگر چار پائیوں کا انتظام نہ ہونے کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو فکر تھی.اب آپ لوگ جب لندن جلسہ پر جاتے ہیں تو آج بھی ہم آپ کو چار پائیاں مہیا نہیں کر سکتے.کرتے ہیں تو کم لوگوں کے لئے بعض فیمیلیز کے لئے لیکن اکثر لوگ زمین پر سوتے ہیں.تو یہ نہ سمجھیں کہ ہم اُس زمانہ کی مہمان نوازیوں سے بہت آگے بڑھ گئے ہیں.اگر غور کر کے دیکھیں تو اُس زمانہ کی مہمان نوازیاں بعض پہلوؤں سے آج کی ہماری مہمان نوازی سے بھی آگے تھیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو یہ فکر رہتی تھی کہ ان سب کے لئے میں چار پائیاں مہیا کروں.توسیع مسجد کی ضرورتیں بھی پیش ہیں.تالیف اور اشاعت کا سلسلہ بمقابل مخالفوں کے نہایت کمزور ہے.( یعنی بمقابل مخالفوں سے مراد عام مسلمان نہیں بلکہ عیسائی ہیں جیسا کہ فرمایا : ) عیسائیوں کی طرف سے جہاں پچاس ہزار رسالے اور مذہبی پرچے نکلتے ہیں ہماری طرف سے بالالتزام ایک ہزار بھی ماہ بماہ نکل نہیں سکتا.“ ان چیزوں میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب پہلے سے بہت بہتری ہو چکی ہے.فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 354 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء ” یہی امور ہیں جن کے لئے ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہئے تا خدا تعالیٰ بھی انہیں مدد دے.اگر بے ناغہ ماہ بماہ ان کی مدد پہنچتی رہے گو تھوڑی مدد ہو تو وہ اس مدد سے بہتر ہے جو مدت تک فراموشی اختیار کر کے پھر کسی وقت اپنے ہی خیال سے کی جاتی ہے.“ یہ وہ پہلو ہے جو آپ کو پیش نظر رکھنا چاہئے.بعض دفعہ بعض لوگ مہینوں خاموش رہتے ہیں بعض سالوں خاموش رہتے ہیں اور پھر اچانک ایک رقم پیش کر دیتے ہیں.اب میرا یہ دستور ہے کہ اس رقم کو میں واپس کر دیا کرتا ہوں چاہے وہ لاکھوں میں ہو کیونکہ اصل روح جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے پیش فرمائی ہے وہ باقاعدگی سے ماہ بماہ کچھ دینا ہے.اچانک چار پانچ سال سونے کے بعد کچھ دے دینا اس کی میری نظر میں کوڑی کی بھی اہمیت نہیں اور یہ جتلانے کے لئے کہ تم یہ نہ سمجھو کہ تم اللہ کے دین کی کوئی بڑی خدمت کر رہے ہو میں رو پیدان کو واپس کر دیا کرتا ہوں.فرماتے ہیں: ہر ایک شخص کا صدق اس کی خدمت سے پہچانا جاتا ہے.عزیز و! یہ دین کے لئے اور دین کی اغراض کے لئے خدمت کا وقت ہے.اس وقت کو غنیمت سمجھو کہ پھر کبھی ہاتھ نہیں آئے گا.چاہئے کہ زکوۃ دینے والا اسی جگہ اپنی زکوۃ بھیجے.اور ہر ایک شخص فضولیوں سے اپنے تئیں بچاوے اور اس راہ میں وہ روپیہ لگاوے اور بہر حال صدق دکھاوے تا فضل اور روح القدس کا انعام پاوے کیونکہ یہ انعام اُن لوگوں کے لئے تیار ہے جو اس 66 سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه : 83) اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذی مقدرت لوگوں کو بطور خاص مخاطب ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی توفیق بخشی ہوئی ہے.سواے اسلام کے ذی مقدرت لوگو! دیکھو! میں یہ پیغام آپ لوگوں تک پہنچا دیتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اس اصلاحی کارخانہ کی جو خدا تعالیٰ کی طرف سے نکلا ہے اپنے سارے دل اور ساری توجہ اور سارے اخلاص سے مدد کرنی چاہئے اور اس کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہئے.“
خطبات طاہر جلد 17 355 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء اب دیکھا حضرت اقدس علیہ السلام کی تحریر کے اندر کتنے لطیف پہلو شامل ہوتے ہیں جوسرسری سے دکھائی نہیں دے رہے ہوتے.فرمایا ان کے سارے پہلوؤں کو بنظر عزت دیکھ کر.“ جب آپ کسی مقصد کو عزت کی نظر سے دیکھیں تو اس پر جو خرچ کریں اس میں اپنی عزت پاتے ہیں.پس فرمایا کہ تمہاری عزت ہو گی اگر تم ان مقاصد کو بنظر عزت دیکھو گے.بہت جلد حق خدمت ادا کرنا چاہئے.جو شخص اپنی حیثیت کے موافق کچھ ماہواری دینا چاہتا ہے وہ اس کو حق واجب اور دین لازم کی طرح سمجھ کر خود بخود ماہوار اپنی فکر سے ادا کرے.“ حق واجب تو صاف لفظ ہے سب کو سمجھ آ گیا ہو گا.”دین لازم سے مراد یہ ہے کہ وہ اپنے اوپر قرضہ سمجھے.ایسا قرضہ جس کو بہر حال چکانا ہے.اس کے نزدیک ہر قرضہ سے بڑھ کر یہ قرضہ ہو جسے اس کو چکانا ہی چکانا ہے.اور اس فریضہ کو خالصہ اللہ نذر مقرر کر کے اس کے ادا میں مختلف یا سہل انگاری کو روانہ رکھے.“ فرمایا یہ فریضہ جس کو فریضہ فرمایا گیا ہے خالصہ اللہ نذر مقرر کرے.یہ نذر جو ہے کسی بندے کی نذر نہیں اور جماعت بھی غائب ہو گئی بیچ میں سے فرمایا اللہ کی نذر کرے.جو اس نیت سے خرچ کرتے ہیں کہ گویا براہ راست وہ اللہ کے حضور ایک نذرانہ پیش کر رہے ہیں ان کو آئندہ بہت خرچ کی توفیق ملتی ہے.ان کی خدمتیں ان پر آسان ہو جاتی ہیں کیونکہ اللہ کی محبت کے نتیجہ میں اگر کچھ نذر کریں گے تو محبت اس راہ کی مشکلوں کو دور فرمادے گی.پھر فرمایا: اور جو شخص یکمشت امداد کے طور پر دینا چاہتا ہے وہ اسی طرح ادا کرے لیکن یادر ہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے وہ یہی انتظام ہے کہ بچے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہر الیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں.“
خطبات طاہر جلد 17 356 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء اس تحریر کو اکثر لوگ نہیں سمجھ سکیں گے.اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر تم چاہتے ہو کہ یہ سلسلہ جو دین کا سلسلہ ہے، انقطاع کے بغیر ہمیشہ جاری رہے، کبھی بھی اس کے کام رک نہ سکیں اور لازماً ہمیشہ یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ماہانہ با قاعدہ چندہ ادا کیا جائے اور اگر کسی اتفاقی مانع کے نتیجہ میں کوئی ایسی مصیبت ، وبال، کوئی ایسی چھٹی پڑ جاتی ہے جس کے نتیجہ میں کچھ نہیں کر سکتے تو فرما یا وقتی طور پر اس کے نتیجہ میں تم رک سکتے ہو کہ اتفاق ہو گیا آپ دینا چاہتے ہیں مگر دے نہیں سکتے.ہاں جس کو اللہ جلشانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ہمت اور اندازہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے.“ پس یہ وہ تحریک تھی جس کی وجہ سے میں نے یہ سمجھا کہ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یکمشت امداد کو اس لازمی دائگی چندے کے بعد بیان فرمارہے ہیں.یہ وجہ تھی جو میں نے لازمی چندہ نہ دینے والوں سے یکمشت امداد لینی بند کر دی.جو ایسا کرتے ہیں وہ اس کے علاوہ یکمشت دیں تو بہت اچھی بات ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وہ فقرے سنیں جو اس آیت کریمہ کی یاد دلاتے ہیں هانتُم هؤلاء - خدا جس طرح آپ سے مخاطب ہے فَانْتُمْ هُؤُلاءِ اسی رنگ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ سے مخاطب ہوتے ہوئے فرماتے ہیں: اور تم اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو!“ سبحان اللہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آپ میں سے ہر ایک قربانی کرنے والے کو یہ مرتبہ عطا کر رہے ہیں.فرماتے ہیں : ” میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے وو سلسلہ بیعت میں داخل ہو.“ یہ سلسلہ بیعت میں داخل ہونا بھی اللہ کی رحمت کی نشاندہی کرتا ہے.یہ نہ سمجھو کہ میرےسلسلہ بیعت میں داخل ہو کے گویا تم نے مجھ پر احسان کر دیا.وہ شاخیں جو شجر کے ساتھ رہتی ہیں شجر کا ان پر احسان ہوتا ہے.ان شاخوں کا شجر پر احسان نہیں ہوا کرتا.شجر کے ساتھ وابستہ ہیں تو سرسبز رہیں گی، جو نہی الگ ہو ئیں وہ خشک پتوں اور خشک ٹہنیوں میں تبدیل ہو جائیں گی.پس فرمایا :
خطبات طاہر جلد 17 357 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء ” میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ بیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.“ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی روح کتنی خوش ہوگی آج ہزاروں لاکھوں ایسے جماعت میں شامل لوگوں کو دیکھ کر جو بعینہ اس بیان کے مطابق دین کی راہ میں قربانیاں پیش کر رہے ہیں.66 اپنی زندگی، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہو.“ اب یہ فقرہ سننے کے لائق ہے.اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.“ یہ وجہ ہے جو میں اپنی تحریکات میں اس زمانہ میں جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ توقع آپ کی ذات سے بڑی شان سے پوری ہورہی ہے، یہی وجہ ہے کہ میں معین طور پر آپ سے بعض تحریکات کے متعلق نہیں کہا کرتا کہ اتنا پیش کرو.تحریک کا اندازہ تو میں کئی دفعہ پیش کر دیتا ہوں مگر بعض تحریکات کے متعلق آپ کو علم نہیں ہے کہ میں وہ تحریکات بھی آپ کے سامنے پیش نہیں کرتا تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس فرمان کے اوپر پورا اتروں اور بہت سی ایسی تحریکات ہیں جو پیش نہیں کی گئیں مگر خدا نے ان کی ضرورت سے بڑھ کر عطا کر دیا اور حیرت ہوتی ہے یہ سوچ کر کہ دل میں خیال آیا یہ خدمت دین ضروری ہے اور اسی دن یا اس کے بعد دوسرے دن دور و نزدیک سے خطوط آنے شروع ہوئے کہ ہماری خواہش ہے کہ اس قسم کی خدمت پر آپ جس طرح چاہیں خرچ کریں.پس ایسی بھی بہت سی تحریکات ہیں جو کسی حساب کتاب میں درج نہیں ہیں مگر خدا کے حساب میں درج ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.“
خطبات طاہر جلد 17 358 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس کتاب سے اقتباس لیا گیا ہے جس کا نام فتح اسلام ہے اور اس کے روحانی خزائن کی جلد 3 صفحہ 33 اور 34 سے یہ عبارت لی گئی ہے.جہاں تک میں فتح اسلام کے پیغامات کو سمجھ سکا ہوں میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ اس کے ہر پہلو پر اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ عمل کر کے دکھاؤں اور جماعت کو بھی اس پر عمل کرنے کی طرف بلاتا ہوں اور جو تحریر میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے اس کے متعلق میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس کے ہر پہلو پر توجہ کی میں نے اپنی پوری دیانتداری سے کوشش کی ہے اور میں اس بات کا گواہ ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جو توقعات اپنی جماعت سے یعنی اپنی جماعت کے اعلیٰ ممبروں سے تھیں ، میں اس بات کا گواہ ہوں کہ خدا تعالیٰ نے بعینہ مجھے یہ توفیق بخشی ہے کہ میں وہی تو قعات آپ سب سے رکھ سکوں.اور جب میں اس بات پر غور کرتا ہوں تو میری روح سجدہ ریز ہو جاتی ہے کہ سو سال پہلے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی توقعات آج کتنی شان سے پوری ہو رہی ہیں.پس اس میں میں اپنے وجود کی ایک ادنی بھی بڑائی نہیں سمجھتا.نہ آپ کی قربانی کو وہ مقام دیتا ہوں جس کے نتیجہ میں گویا جماعت پر کوئی احسان ہو.مجھ پر بھی اللہ کا احسان ہے آپ پر بھی اسی اللہ کا احسان ہے.میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جوتیوں کے صدقے یہ خدمات سرانجام دے رہا ہوں آپ بھی انہیں جو تیوں کے صدقے یہ خدمات سرانجام دے رہے ہیں.پس یقین کریں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام جن کو اس زمانہ کا مامور بنایا گیا تھا ان کی جوتیاں اٹھانا ہمارا فخر ہے.آپ کے پاؤں کی خاک ہمارا فخر ہے، ہماری آنکھوں کا سرمہ ہے بعینہ یہ وہی مضمون ہے جو صحابہؓ کے رسول اللہ صلی شمالی یتیم کے ساتھ تعلق سے ثابت ہے.اسی طرح رسول اللہ صلیال الیتیم کے پیچھے پیچھے پھرا کرتے تھے.آپ صلی الیتیم کی قدموں کی خاک کو اپنے منہ پر ملتے تھے.آپ صلی یا یہ ستم کی کشف برداری کو اپنا اعزاز سمجھا کرتے تھے.یہاں تک آتا ہے کہ رسول اللہ صلی یا ہی ہم جب گلی کیا کرتے تھے تو بڑھ بڑھ کر صحابہ اپنے ہاتھوں میں لیتے تھے.(صحیح البخارى، كتاب الشروط ، باب الشروط فى الجهاد..حدیث نمبر : 2731) یہ وہ مقام اور مرتبہ تھا جسے اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی لا یتیم کے غلام کامل کی صورت میں دوبارہ ہم پر ظاہر فرما دیا.پس یہ کہنا تو آسان ہے یعنی یہ کہنا تو بظاہر آسان ہے کہ صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا الحکم جلد 5 نمبر 45 صفحہ : 4 مؤرخہ 10 دسمبر 1901ء)
خطبات طاہر جلد 17 359 خطبہ جمعہ 22 مئی 1998ء مگر فی الحقیقت یہ کہنا بہت مشکل ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب تک ان تمام باتوں پر گواہ نہ ہو جاتے اس وقت تک یہ دعوی کر ہی نہیں سکتے تھے.پس آج آپ ہیں اور میں خدا کی قسم کھاتا ہوں کہ آپ ہیں جو صحابہ سے مل چکے ہیں.یہ اعزاز کسے نصیب تھا، کسے نصیب ہوسکتا تھا.چودہ سو سال کی محرومیوں کے بعد ہمیں خدا نے صحابہ کرام سے ملا دیا.اتنا بڑا اعزاز کہ قرآن نے اس کا ذکر فرمایا.فرمایا کہ ایسے آنے والے لوگ ہیں جو ابھی تک صحابہ سے نہیں مل سکے مگر ملیں گے اور ضرور ملیں گے.پس اے جماعت احمدیہ ! تمہیں مبارک ہو اور بے انتہا مبارک ہو کہ تمہارا ذکر قرآن میں موجود ہے.تمہارا ذکر محمد رسول اللہ صلی یا سیم کی زبان پر جاری ہو چکا ہے.تم وہ ہو جن کو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بے انتہا قربانیاں اور دعائیں کر کے صحابہ سے ملا دیا ہے.پس اس کا شکر جتنا بھی ادا کرو کم ہے اور ایک ہی صورت شکر کی ہے کہ ہم اس پیغام کو ہمیشہ آگے سے آگے بڑھاتے چلے جائیں.مشعل بردار بن جائیں اس پیغام کے.دنیا کے اندھیروں کو ان مشعلوں کے نور کے ساتھ جگمگا دیں.جہاں بھی ہم جائیں اللہ کا وہ نور جو ہماری پیشانیوں کو عطا ہو ہمارے آگے آگے بھاگے اور خدا تعالیٰ کے فضل سے جہاں بھی ہم جائیں ہر تاریکی کوروشنی میں بدل دیں.یہی میری دعا اور یہی میری توقع ہے جو آپ سے بھی ہے اے مخاطبین جو جرمنی جماعت سے تعلق رکھتے ہو اور آپ کی وساطت سے ان سب سے بھی ہے جو دنیا میں اس وقت میرا یہ خطبہ سن رہے ہیں یا کل یا پرسوں سنیں گے.یادرکھو ہمیں خدا نے ایک اعزاز بخشا ہے.ایک ایسا اعزاز بخشا ہے جو درمیان کے تیرہ سوسال میں گزرنے والوں کو نہیں بخشا گیا.اتنا بڑا اعزاز ہے اس کے شکر میں ساری زندگی خرچ کر دو تو وہ کم ہو گا اس شکر کا حق ادا نہیں کر سکو گے.پس ایک آگ لگا لو اپنے دل میں ، ایک کو لگا لو کہ تم زندگی کے آخری سانس تک خدا تعالیٰ کی راہ میں خدمت دین میں جو کچھ ہے وہ خرچ کرتے رہو گے اور اس کے نتیجہ میں یہ نہیں سمجھو گے کہ دین پر تم نے کوئی احسان کیا.اس کے نتیجہ میں یہی اقرار کرو گے کہ اللہ کا ہم پر احسان ہے.اللہ کرے کہ یہ احسان آپ پر ہمیشہ آگے سے آگے بڑھتار ہے.خدا کرے کہ ہم ان نیکیوں کو اس صدی میں ہی نہیں بلکہ اگلی صدی میں بھی ان کی پوری حفاظت کرتے ہوئے دھکیلتے چلے جائیں.خدا کرے کہ دنیا کی کایا پلٹنے والے ہم ثابت ہوں اور دنیا ہماری کا یا نہ پلٹ سکے.ان دعائیہ کلمات کے بعد اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 361 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء برصغیر پاک و ہند میں رونما ہونے والے واقعات کا حل صرف مقبول دعاؤں میں پوشیدہ ہے (خطبہ جمعہ فرمودہ 29 مئی 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: اِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الآمنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَ إِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ إِنَّ اللهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا پھر فرمایا: (النساء:59) یہ آیت جس کی میں نے تلاوت کی ہے یہ سورۃ النساء کی انسٹھویں آیت ہے اور بظاہر شاید یہ دکھائی نہ دے کہ اس کا گہرا تعلق پاکستان اور ہندوستان میں رونما ہونے والے واقعات سے ہے مگر جیسا کہ میں اس خطبہ کے دوسرے حصہ میں وضاحت کروں گا اس کا بہت گہرا اطلاق برصغیر میں رونما ہونے والے واقعات سے ہے اور ان مسائل کا حل بھی اسی میں شامل ہے جو آج ہمیں در پیش ہیں لیکن اس سے پہلے میں عمومی تبصرہ کرنا چاہتا ہوں تا کہ اس آیت کا پس منظر جو اس وقت دکھائی دے رہا ہے وہ روشن ہو جائے.ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایک پہلا راؤنڈ ہوا تھا جس کے متعلق خیال تھا کہ ہندوستان وہ راؤنڈ جیت گیا ہے اور پاکستان کو وہاں کے ایک وزیر نے کھلم کھلا چیلنج کیا کہ اب نکالوا اپنا ایٹم بم اگر
خطبات طاہر جلد 17 362 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء تمہارے پاس بھی ہے.حقیقت میں یہ بات ایسے نہیں جیسے دکھائی دے رہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان دونوں کے ایٹم بمز کے متعلق یا ان کے بم بنانے کی صلاحیت کے متعلق اور بموں کا جتنا ذخیرہ وہ اکٹھے کر چکے ہیں ان کے متعلق تمام تجسس عالمی طاقتوں کو شروع سے علم ہے.جو وہ جھوٹ بول رہے ہیں اور دھوکا دے رہے ہیں یہ سراسر برصغیر میں ایک فساد پھیلانے کی ایک مذموم کوشش ہے، جو ایک جال بنا گیا ہے وہ انہوں نے ڈال دیا ہے اور اس جال کے ڈالنے میں ہندوستان بھی آلۂ کار بنا ہوا ہے اور ہندوستان کو علم نہیں کہ یہ دھوکا دینے والے لوگ ہیں.جو دجل کا پہلو ہے اس کو آنحضرت صلی ا یہ تم نے چودہ سو برس پہلے بیان فرما دیا تھا.ہندوستانی تو ، یعنی اکثران کے، رسول اللہ صلی ایتم کی اس پیش گوئی کو قبول نہیں کرتے لیکن یہ امر واقعہ ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یہ تم نے جس قوم کی بعض صفات کو پیش نظر رکھ کر یا جن قوموں کی بعض صفات کو پیش نظر رکھ کر لفظ دجال کا اطلاق فرمایا تھا وہ آج عالمی طاقتوں پر بعینم پورا اُتر رہا ہے.دجل اور فریب کی حکومت ہے جس کے نتیجے میں یہ جال بنتے ہیں اور پھر ڈالتے ہیں اور اس میں وہ مچھلیاں قابو آتی ہیں جو مجھتی ہیں کہ ہم ان کے جال میں قابو آنے والے نہیں، ہمیشہ قابو آ جاتی ہیں.اب بظاہر یہ صرف پاکستان کے خلاف سازش ہے مگر حقیقت میں جیسا کہ حالات سے ظاہر ہوگا اور میں اس کا تجزیہ تفصیل سے پیش کروں گا یہ ہندوستان کے خلاف بھی سازش ہے.یہ پاکستان اور ہندوستان کے عوام کے خلاف سازش ہے اور ان دونوں ملکوں کو ہمیشہ کے لئے ناکارہ کرنے کی ایک سازش ہے جس کے متعلق آئندہ حالات اپنے پر پرزے کھولیں گے تو آپ سب کو دکھائی دینے لگ جائیں گے.یہ پس منظر ہے جس کے تعلق میں میں اب موجودہ حالات پر تبصرہ کرتا ہوں.یہ جو کہا گیا کہ پہلا راؤنڈ ہندوستان جیت گیا، میں نے بھی ایک موقع پر یہی کہا تھا کہ دیکھنے میں لگتا ہے کہ پہلا راؤنڈ ہندوستان جیت گیا ہے مگر اس کے ساتھ ہی ایک دھمکی بھی ہے اور چیلنج بھی کہ تم بھی ایٹم بم چلا کے دکھاؤ.یہ وہ چیز تھی جو میں نے جرمنی کے ایک سوال جواب کے موقع پر کھولی تھی کہ اس میں بہت خطرناک چال پوشیدہ ہے.یہ بات تو سب پر عیاں ہونی چاہئے کہ آغاز ہی سے ان عالمی منجس طاقتوں کی پاکستان اور ہندوستان کے ایٹمی ذخائر پر گہری نظر ہے.کوئی انتہائی بے وقوف ہوگا جو اس کا انکار کرے.اس لئے ہندوستان کو بھی علم تھا کہ پاکستان کے پاس یہ ایٹمی ذخائر موجود ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 363 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء یہ ہوہی نہیں سکتا کہ انہوں نے اس فخر سے اعلان کیا ہو کہ ہے نہیں دکھاؤ لیکن ظاہر یہی کیا کہ کر کے تو دکھاؤ.اس وقت تک پاکستان کی حکومت نے بھی یہ اعلان نہیں کیا تھا کہ ہمارے پاس ذخائر موجود ہیں اس لئے وہ یہ اعلان کرتے رہے کہ ہمارے پاس Know How یعنی اس کا علم موجود ہے اور جب چاہیں ہم ایک منٹ کے اندر اندر ایٹم بم بنا سکتے ہیں.گوہر ایوب صاحب نے کہا اتنا آسان ہے جیسے تالے میں چابی گھما دی جائے.یہ نہایت احمقانہ بات ہے.تالے میں چابی گھمانے کا اور عمل ہے اور ایٹم بم بنانے کا فیصلہ کرنے کے بعد وقت کا انتظار یہ ایک بالکل اور بات ہے.دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی فیصلہ کرنے کے بعد فوری طور پر ایٹم بم نہیں بنا سکتی، لمبے وقت چاہئیں.چنانچہ یہ وہ حصہ تھا جس کو عملاً انہوں نے اس اعلان کے ساتھ ظاہر کر دیا کہ چابی فیصلہ کی چاہئے.عملاً ہمارے پاس موجود ہے اور چونکہ اس وقت حالات کا اقرار پاکستان کی طرف سے نہیں تھا اس لئے بظاہر یہ کہا جاسکتا تھا کہ ہو سکتا ہے انہوں نے چین سے ایٹم بم حاصل کر لیا ہو لیکن یہ بات درست نہیں.آغاز ہی سے سب کو علم تھا کہ پاکستان کے پاس کتنے ایٹم بم بن چکے ہیں، کتنے موجود ہیں خزانے میں اور اسی طرح ہندوستان کا بھی علم تھا.جو ڈرامہ کھیلا گیا ہے اب میں اس کے متعلق بتاتا ہوں کہ ڈرامہ ہے کیا.جب ہندوستان نے یہ چال چلی اور ایٹمی دھما کہ کیا تو اس کے خلاف پابندیاں عائد کی گئیں اور بڑی حکومتیں چاہتی تھیں کہ پاکستان کے خلاف بھی ضرور پابندیاں عائد کریں.اس لئے انڈیا کی حکومت یا اس کے سر برا ہوں نے یہ اعلان کیا کہ دھماکہ کر کے دکھاؤ.اچھا بھلا علم تھا کہ موجود ہے سب کچھ ، وہ چاہتے تھے کہ یہ دھما کہ کریں تو ان کے اوپر بھی بعینہ اسی طرح کی پابندیاں عائد کی جائیں اور اس طرح ملک کے عوام غربت کی چکی میں پیسے جائیں.اُن کا ایک مخفی سہارا موجود تھا اگر چہ وہ بھی ایک دھوکا ہے.جب بھی عالمی طاقتیں کسی ملک کی مالی امداد بند کرنے کا فیصلہ کرتی ہیں، اگر وہ جاری رکھنا چاہیں تو ہمیشہ اسرائیل کو استعمال کرتی ہیں.اسرائیل کی معرفت و مخفی مالی امداد جاری رہتی ہے لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا یہ بھی ہندوستان کے ساتھ دھوکا ہے.اسرائیل کے ذریعے ملنے والی امداد جنگ کو پھیلانے میں اور اس کے خطرناک اثرات کو ظاہر کرنے کے لحاظ سے یہ امداد مد ہوسکتی ہے یعنی ایک دھوکا ہو سکتا ہے کہ اس امداد سے ہمیں گویا کہ جنگی کارخانے کو چلانے کے لئے مالی سہولتیں مہیا ہو گئیں لیکن ناممکن ہے کہ
خطبات طاہر جلد 17 364 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء اسرائیل ہو یا امریکہ ہو ہندوستان کے بھوکے عوام کا پیٹ بھر سکے، یہ دھوکا ہے.جنگ شروع کروادیں گے اور جیسا کہ قرآن کریم نے شیطان کا حال لکھا ہے کہ تیلی لگا کر پیچھے ہٹ جائے گا اور اس کے بداثرات پھر ہندوستان کو خود برداشت کرنے پڑیں گے.یہ حماقت ہے جو وہاں کی لیڈرشپ سے سرزد ہوئی ہے اور ایٹمی دھما کہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ پاکستان کوٹریپ (Trap) کیا جائے.پاکستان نے جو جوابی ایٹمی دھما کہ کیا ہے اس کا پاکستان کو پوری طرح حق تھا اس میں ہرگز کوئی شک نہیں لیکن اہل عقل کا کام تھا کہ اس حق کو اپنے مفاد کے طور پر استعمال کریں، مخالف استعمال نہ کریں.عملاً اس وقت پاکستان کا جو Census ہے اس میں ستر فیصد لوگوں نے ایٹمی دھماکے کے حق میں اور تیس فیصد نے اس کے خلاف ووٹ دیا ہے.یہ بات درست نہیں کہ جو تیس فیصد ہیں وہ ملک کے دشمن ہیں.ان میں بھاری تعداد ایسے دانشوروں کی ہے جن کے سامنے کئی اندیشے ہیں.ہوسکتا ہے وہ جانتے ہوں کہ یہ سب کچھ ڈرامہ رچایا گیا ہے تا کہ پاکستان کو گھسیٹ لیں مگر اس جوابی کارروائی سے کم سے کم ایک فائدہ جو فوری طور پر پہنچتا ہوا دکھائی دیتا ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستان کو اب ظاہری طور پر جرات نہیں ہو سکتی کہ پاکستان کو اپنے نیوکلیئر بمز کا نشانہ بنائے.یہ جو فتح ہے اس کی خوشیاں جتنی چاہیں پاکستان والے منائیں اس کا ہر پاکستانی کو حق ہے کہ وہ یہ دوسرا راؤنڈ جیتنے کی اس لحاظ سے خوشی منائے لیکن جن لوگوں نے اس کے متعلق غور کر کے یہ اعلان کیا کہ مناسب نہیں تھا، ان کے ذہن میں ایک تو یہ بات ہو سکتی ہے کہ مالی پابندیاں عائد کرنے کا بہانہ بنایا گیا تھا پاکستان اس ٹریپ میں پڑ گیا.ہندوستان کو اس کے بغیر بھی جرات نہیں ہو سکتی تھی کہ پاکستان کو اپنے ایٹمی ہتھیاروں کا نشانہ بنائے.یہ ہو ہی نہیں سکتا تھا.اس لئے عملاً جوٹریپ بنایا گیا ہے، یعنی اہل دانش پاکستان کے جو بات کرتے ہیں یہ بات کرتے ہیں کہ جو ٹریپ بنایا گیا ہے اس ٹریپ کے اندر پاکستان جا پڑا اور اس کے بہت سے نقصانات جو ہیں وہ اب آہستہ آہستہ ظاہر ہوں گے.دونوں طرف کے عوام گلیوں میں نکلے ہیں بیچارے، دونوں طرف کے عوام کو پتا ہی کوئی نہیں کہ آگے آئندہ اُن سے کیا ہونے والا ہے.ہمیشہ ایسی صورت حال میں عوام مارے جاتے ہیں اور غریب عوام قربانی میں سب سے آگے اور مار پڑنے کے لحاظ سے بھی سب سے آگے، ان بے چاروں کا پہلے والا حال بھی نہیں رہے گا.وقتی طور پر جشن منانا اور بات ہے مگر بھوکے پیٹ گزارہ کرنا بالکل اور بات ہے.
خطبات طاہر جلد 17 365 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء یہ جو جنون کا دور ہے دونوں ملکوں میں یہ تو ختم ہو جائے گا باقی بھوک رہ جائے گی.پھر بھوک بھی فساد پیدا کرے گی اور ملک کا رہا سہا نظام بھی وہ بھو کے اپنی بغاوت کے ذریعہ تباہ کر دیں گے.یہ وہ باتیں ہیں جو گہری نظر سے دیکھنے والی تھیں اور میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کے اہل دانش ان باتوں کو پیش نظر رکھ کر یہ بات کر رہے ہیں.دوسری بات ایٹمی تابکاری ہے.ان دھماکوں کو محض اس کھیل کا آخری باب تصور کرنا بالکل غلط ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ تابکاری کے اثرات اب لمبے عرصے تک ظاہر ہوتے چلے جائیں گے اور ہندوستان میں جو دھماکے ہوئے تھے اس کی تابکاری کے اثرات بھی پاکستان میں محسوس ہونے لگے ہیں.وہاں کے جو روزمرہ کے ٹمپریچر ز ہیں ، درجہ حرارت ، وہ بڑھ گئے ہیں.اس لئے جو دھماکے ہمارے اپنے ملک کے اندر ہوئے ہیں ان کی تابکاری سے بے خوف ہونے کی کوئی بھی وجہ نہیں ہے.بہت ہی خوفناک چیز ہے.وہ دُھواں ہے جس کے متعلق قرآن کریم نے متنبہ فرمایا تھا کہ ایک ایسا عالمی دُھواں ہے جس کے سائے کے نیچے کوئی امن نہیں ، وہ ہلاک کرنے والا دھواں ہے اور زندگی کی ہر شکل کو ہلاک کر دے گا.پس یہ دھواں اپنے ملک میں پیدا کر رہے ہیں اور جشن منا رہے ہیں.ایسی پیچیدگیاں ہیں اس صورتِ حال کی کہ جن سے نپٹنا بہت مشکل کام اور بہت دوررس نگاہ کی ضرورت رکھتا ہے اور اہل دانش کو حکومت کے ہوں یا حکومت سے باہر ان سب کو سر جوڑ کر ان مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے کوئی حل تجویز کرنا چاہئے.اب جو ہو چکا وہ تو ہو چکا آئندہ کیسے ان سے نجات ملے گی یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے جو اس وقت در پیش ہے.تابکاری کے متعلق تو میں جماعت احمدیہ کو خصوصیت سے اور ان کی وساطت سے سارے پاکستان اور پھر ہندوستان کی جماعت احمدیہ اور سارے ہندوستان کو یہ مشورہ دیتا ہوں کہ ہومیو پیتھک دوا ایک ایسی موجود ہے جس کو ہم نے بارہا تجربہ کر کے دیکھا ہے، تابکاری کے اثرات ہو بھی چکے ہوں تو ان کو مٹانے میں غیر معمولی مدد کرتی ہے.ایک دوا کا نام ہے ریڈیم برومائیڈ (Radium Bromide) اور ایک کا نام ہے کا رسی نوسن (Carcinosin).میں نے ان دونوں دواؤں کو کامیابی کے ساتھ استعمال کیا ہے.ایسے مریضوں کے اوپر استعمال کی ہیں جن کو تابکاری کا ہسپتالوں میں نشانہ بنایا گیا تھا اور خطرہ تھا کہ پھر وہ ہاتھ سے نکل جائیں گے لیکن جب ان دواؤں کو ان پر
خطبات طاہر جلد 17 366 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء استعمال کیا گیا تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بالکل ٹھیک ہنستے کھیلتے وہ اپنے ہسپتالوں سے باہر نکل آئے یا باہر نکلنے کے اُمیدوار ہیں.تو جو میں بات کہہ رہا ہوں یہ ایک فرضی تعلی کی بات نہیں، در حقیقت آزمودہ بات ہے اور ہر جگہ احمدیوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے لئے بھی ان دواؤں کو ابھی استعمال کرنا شروع کر دیں اور غیروں کے لئے بھی اپنی رحمت کا دروازہ کھولیں اور ان کو بھی آمادہ کریں ورنہ ایک دفعہ وسیع پیمانے پہ یہ شروع ہوگئی تو ہر گھر تک پہنچنا مشکل ہو جائے گا.اس لئے جیسے بھی ہو سکے اعلان کر کے، اشتہار دے دے کے اہل پاکستان اور اہل ہندوستان سے کہیں کہ اب آپ تابکاری کے خلاف ایک ٹھوس قلعہ بند ہونے کی تیاری کرو اور یہ قلعہ بندی جو میں عرض کر رہا ہوں یہ حقیقت ہے.یہ ایک افسانہ یا کہانی نہیں ہے لیکن ناممکن ہے کہ وسیع پیمانے پہ ہر شخص اس نصیحت کوسن بھی سکے،اس پر عمل کر سکے، وہ دوائیں اس کے لئے حاصل ہوں.اس لئے میرے کہنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا لیکن یہ تو ضرور ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک احمدی مخلص اور سچے ثابت ہوں گے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا احسان ہو اور ان کی دعائیں مقبول ہوں تو ان کے ملکوں کے باقی باشندوں پر بھی اللہ تعالیٰ جیسے چاہے احسان کی نظر فر مائے لیکن یہ پیغام پہنچانا میر افرض ہے.اب میں جو اس جال کی اصل حقیقت ہے اس کے متعلق روشنی ڈالنا چاہتا ہوں.اسرائیل ان باتوں کے پیچھے ہے.جو معلومات مجھے ہندوستان سے ملتی رہی ہیں ان کے مطابق اسرائیل کے گوریلے کشمیر میں بھی اور ہندوستانی فوج میں بھی جگہ جگہ پھیلے ہوئے ہیں اور اسرائیل میں ہندوستانی فوجیوں کو گوریلائٹر یننگ دینے کے مراکز بنائے گئے ہیں اور اس کے نتیجے میں کشمیر پر بے انتہا مظالم کا ایک دور آنے والا ہے کیونکہ اسرائیل کی ٹریننگ میں خود ان کی کتابوں کی رو سے جن کا میں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے، محض میرے دعوی کے طور پر نہیں ان کی کتابوں کی رو سے یہ بات داخل ہے، کہ ہم اپنے گوریلوں کو یہ لازمی تربیت دیتے ہیں کہ رحم کا نام بھی ان کو نہ پتا ہو.ایسا تشدد کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں کہ جس کے نتیجے میں تمام انسانی جذباتی قدریں پامال ہوں لیکن ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہ ہو.یہ وہ ٹریننگ ہے جو ہندوستان کو دی جا چکی ہے.اور جو پہلا خطرہ ان حالات کے بعد مجھے دکھائی دے رہا ہے وہ یہ ہے کہ دونوں طرف کی ایٹمی توانائی کے نتیجہ میں ایک دوسرے کو باندھ دیا گیا ہے کہ ایک دوسرے پر ایٹمی حملہ نہ کریں اور کشمیر میں ہندوستان جو بھی کرے وہ اس میں آزاد
خطبات طاہر جلد 17 367 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء ہو جائے.اور جو مجھے دکھائی دے رہا ہے وہ آئندہ کشمیر پر بے انتہا مظالم کا دور آنے والا ہے.جتنے بھی وہاں مزاحمت کے اڈے موجود ہیں پاکستان کہتا ہے کہ پاکستان سے ان کا کوئی تعلق نہیں.اب جب تعلق نہیں ہے تو پھر احتجاج بھی نہیں کر سکتے ، یہ ظاہر بات ہے.اس لئے جو پاکستان کہتا ہے اس کے خلاف مجھے کہنے کا حق نہیں ہے کیونکہ بہر حال میرا ملک ہے میں اپنے ملک کے صاحب اقتدار لوگوں کے کھلے دعوئی کا انکار نہیں کر سکتا، اس کی عملی ظاہری تردید نہیں کر سکتا.پس فرض کریں کہ پاکستان سے ان کا کوئی تعلق نہیں جب کوئی تعلق نہیں تو ہندوستان یہ موقف لے گا کہ ہم اپنے ملک کے باشندوں پر جو چاہیں کریں تم کون ہوتے ہو.؟ اس کا جواب پاکستان صرف یہ دے سکتا ہے کہ ہیں تو تمہارے ملک کے باشندے مگر عملاً ان کو تمہارے ملک کا باشندہ ہم تسلیم نہیں کرتے اس لئے احتجاج کر سکتے ہیں.مگر جب تک باؤنڈریز موجود ہیں ان کے احتجاج کی کوئی بھی قیمت نہیں.ہندوستان نے لازماً پورے انتظام کر لئے ہیں کہ ان اڈوں کو جو پاکستان کے نہ سہی مگر ہندوستان کے مفاد کے خلاف ہیں، خواہ وہ مفاد ناجائز ہو ، ہندوستان کے مفاد کے خلاف اہل کشمیر میں جہاں جہاں بھی مزاحمت کے اڈے ہیں ان کو کلیۂ بے رحمی کے ساتھ کچل دیں.اس کا مطلب یہ ہے کہ وہاں بے انتہا ظلم ہونے والا ہے.اور یہ جو ایٹم بمز یا نیوکلیئر بمز کی Threat اس کا خطرہ ہے وہ دونوں طرف سے Lock ہو کر ڈیٹرنٹ (Deterrent) بن گیا ہے.نہ پاکستان ہندوستان کے خلاف بم استعمال کر سکتا ہے، نہ ہندوستان پاکستان کے خلاف بم استعمال کر سکتا ہے.یہ جو چھتری بن گئی ہے اس چھتری کے نیچے وہ کشمیر میں ہر اس جدو جہد کا صفایا کر دیں گے جو ان کے مفاد کے خلاف ہے.پاکستان احتجاج ہی کرسکتا ہے.کن کے پاس؟ ان حکومتوں کے پاس جو اس سازش میں شریک ہیں.کیا یونائٹڈ نیشنز میں احتجاج کرے گا جو خوب جانتے ہیں کہ کیا ہو رہا ہے اور کوئی قدم نہیں اٹھا ر ہے.پس یہ احتجاج بالکل بے معنی ثابت ہوگا اور عملاً ہندوستان کو روک نہیں سکے گا.اس کی صرف ایک صورت ہے کہ ہندوستان پھر آزاد کشمیر پر حملہ کرنے کی جرات کرے جو ان کے ارادوں میں داخل ہے.اگر ایسا ہوا تو پھر پاکستانی فوج کو پوری طرح جوابی کارروائی کا حق ہوگا اور اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس کا کیا نتیجہ نکلے گا مگر اس لڑائی نے دونوں ملکوں کی اقتصادیات کو بالکل تباہ کر دینا ہے.اقتصادیات کا ایک بڑا حصہ تو پہلے
خطبات طاہر جلد 17 368 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء ہی نیوکلیئر ہتھیاروں کی تیاری میں خرچ ہو گیا اور اب جبکہ تمام عالم کی طرف سے مالی پابندیاں عائد ہو چکی ہیں اب مزید جنگ کا نہ ہندوستان متحمل ہوسکتا ہے نہ پاکستان متحمل ہوسکتا ہے.یہ وہ خطرات ہیں جو میرے سامنے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر جشن منایا جا رہا ہے تو ایک دوسرے کے ساتھ جو پرانی روایتی دشمنیاں اور مخالفتیں ہیں ان کے نتیجے میں ایک جشن منایا جا رہا ہے.لیکن گلیوں میں بھنگڑے ڈالنا کوئی حقیقت میں معنی خیز رد عمل نہیں ہے.ہندوستان بھنگڑے ڈالے تو ڈالےلیکن پاکستان کے لئے قرآن را ہنما تھا، رسول اللہ اللہ کریم کا اسوہ حسنہ راہنما تھا، ان کو میں سمجھتا ہوں مختلف رد عمل دکھانا چاہئے تھا لیکن سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہوتی ہے کہ جو بھنگڑے ڈال رہے ہیں ان پر ہی مصیبت ٹوٹنی ہے.یہ جو بڑے لوگ ہیں یہ اپنے پیسے پہلے ہی بیرونی دنیا میں منتقل کروا بیٹھے ہیں.جو پاکستان کے ہمدرد ہیں بیرونی دنیا کے ہوں یا اندرونی انہوں نے پہلے اپنے پیسے یا پاکستان میں رکھے ہوئے تھے یا پاکستان کی اپیل پر کہ ہم تمہیں واپس کرنے کی اجازت دیں گے بہت سا روپیہ باہر سے اندر بھجوا دیا اور وہ بھی ٹریپ ہو گئے اب وہ باہر نہیں بھجوا سکتے.جنہوں نے پہلے سے پیسہ باہر بھجوایا ہوا ہے وہ اندر منگوا نہیں رہے اگر وہی منگوا لیتے تو بہت بڑا مالی فائدہ ملک کو پہنچ سکتا تھا مگر اپوزیشن ہو یا حکومت ہو ان کے تعلق والے جتنے ہیں جن کا کچھ اختیار ہے ان کے متعلق جو عالمی افواہیں پہنچتی ہیں وہ یہ ہیں کہ ان کے سب کے روپے امریکہ میں یا انگلستان میں یا سوئٹزرلینڈ میں یا دوسرے ایسے ممالک میں محفوظ پڑے ہوئے ہیں.یہ ان کا وہم ہے کہ محفوظ پڑے ہوئے ہیں وقت بتائے گا کہ جس کو یہ محفوظ سمجھتے ہیں وہ ایسا ہی ہے جیسا دودھ کو بلے کی حفاظت میں چھوڑ دیا جائے.اگر وہ دودھ محفوظ ہے تو پھر آپ کا روپیہ محفوظ ہے.اب کم سے کم یہ وقت تھا قومی غیرت دکھانے کا اب اس وقت آپ واپس منگوا سکتے تھے.اگر واپس منگوا سکتے اور واپس منگوا لیتے تو اچانک ملک میں ایسی روپے کی بہتات ہوتی جس سے ساری دنیا سے مال خریدا جاسکتا ہے.اگر ایسے روپے کی بہتات ہو جس سے ملک کے اندر مہنگائی بڑھ جائے وہ بالکل اور بات ہے.مگر بین الاقوامی کرنسی یعنی پاؤنڈ یا ڈالرز وغیرہ ان کو منگوا لینے سے دنیا میں بے شمار ایسے ملک ہیں جو کسی پابندی کی پرواہ نہیں کریں گے اور ان کو ان پیسوں کے بدلے نقد اشیاء مہیا کر سکتے ہیں جس کی ملک کو ضرورت ہے.یہ دولت یا اس دولت کی فراوانی کبھی بھی افراط زر کا موجب نہیں بنا کرتی.افراط زر کا موجب ہمیشہ وہ دولت بنتی ہے
خطبات طاہر جلد 17 369 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء جو نوٹوں کے ذریعہ چھاپی جائے اور اس کے پیچھے اس کو مستحکم کرنے کے لئے کوئی ٹھوس ذرائع موجود نہ ہوں، بیرونی چیز کوئی خریدی نہ جاسکتی ہو.تو اگر کوئی حل تھا تو وہ یہ تھا اور ہمیشہ کے لئے یہ لوگ اپنی قوم کے حقیقی محسن شمار کئے جاتے اور اس کے نتیجے میں ملک کو بہت بڑے انحطاط اور بحران سے چھٹکارامل سکتا تھا لیکن اب میں نہیں جانتا کہ یہ مشورہ فائدہ مند بھی ہوگا کہ نہیں ، ہوسکتا ہے دیر ہو چکی ہو اور یہ لوگ پہلے ہی اس روپے پر بیٹھ چکے ہوں جس طرح سانپ خزانے پر بیٹھتا ہے اور ان کو اس کو استعمال کرنے کی اجازت نہ رہی ہو.یہ ہے اب صورت حال جس کے کچھ اور پہلو ہیں.یہ میں عرض کر چکا ہوں کہ پاکستان کے علاوہ ہندوستان سے بھی دھوکا ہوا ہے جس کو ابھی علم نہیں کہ کیا دھوکا ہو چکا ہے اور کیا خطرات درپیش ہیں.میں اب آپ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو ایک اور خطرہ بھی لاحق ہے اور وہ خطرہ ہے جس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ اسرائیل نے بار ہا کھلم کھلا اعلان کیا ہے کہ اگر پاکستان نے ایٹمی بم بنالئے یا ایٹمی توانائی کے بم بنالئے تو ہم پاکستان کے ان اڈوں کو برباد کر دیں گے.اس اسرائیلی دھمکی کو کھلم کھلا ٹیلی ویژن ، اخبارات کے ذریعہ پیش کیا جا چکا ہے اور بار ہا پیش کیا جا چکا ہے.اس لئے ہندوستان کے خلاف تو ڈیٹرنٹ (Deterrent) بنالیا آپ نے لیکن اسرائیل جہاں سے اصل خطرہ ہے اس کے خلاف کیا ڈیٹرنٹ ہے.جب تک فوری طور پر ایسی میزائل نہ بنائی جاسکیں کہ جواسرائیل کو نشانہ بنائیں اور پاکستان میں بیٹھے ہوئے اسرائیل کو نشانہ بنا ئیں اس وقت تک یہ خوفناک کھیل ختم نہیں ہوسکتی.ہرگز میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اسرائیل کو نشانہ بنایا جائے.میں یہ کہہ رہا ہوں کہ اگر اسرائیل کو اور امریکہ کو یہ یقین ہو جائے کہ پاکستان اپنے ایٹمی توانائی کے ذخائر کے برباد ہونے سے پہلے یا برباد کرنے سے پہلے یا اس کے رد عمل کے نتیجے میں کچھ ایسی جگہ یہ ذخائر منتقل کر سکتا ہے کہ وہ پھر اسرائیل پر بعینہ یہی ہتھیار استعمال کریں، اگر یہ بات یقینی طور پر پاکستان کو حاصل ہو جائے تو ناممکن ہے کہ یہ عالمی جال ان کو کسی پھندے میں پھنسا سکے اور اس طرف توجہ نہیں ہے اور اس کے لئے ابھی وقت چاہئے اور محنت چاہئے.امر واقعہ یہ ہے کہ پاکستان کے لئے وہ میزائل بنانا جو پاکستان بیٹھے اسرائیل مار کر سکیں اور نشانے پر مار کر سکیں ابھی ایک کاردارد معلوم ہوتا ہے.اگر ایسی میزائل چائنا(China) سے حاصل کی جاسکتی ہیں تو ہرگز اس میں بھی دیر نہیں کرنی چاہئے.عالمی طاقتوں کو یقین دلانا ضروری ہے کہ اگر
خطبات طاہر جلد 17 370 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء اسرائیل کو اجازت دی گئی کہ وہ ظالمانہ کارروائی کرے تو ہم ضرور جوابی کارروائی کریں گے اور جوابی کارروائی کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں.اگر یہ بات ہو جائے تو یہ آخری دور جو ہے یہ پاکستان کے لئے بہت ہی عمدہ اور فیصلہ کن دور ثابت ہو گا جس کے بعد پھر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اندرونی کوششیں یا بیرونی کوششوں کے نتیجے میں بہت حد تک پاکستان خود کفیل ہوسکتا ہے لیکن جو خطرہ ہے وہ یہ کہ عوام الناس پر جو بادل منڈلا رہے ہیں ان بادلوں کو دور کر نے کا کوئی علاج نہیں ہے.اب میں اس آیت کریمہ کی طرف آتا ہوں جس کی میں نے تلاوت کی تھی.میں نے عرض کیا تھا کہ بظاہر لوگوں کو علم نہیں ہوگا کہ اس آیت کا اطلاق ہو رہا ہے اور اس آیت میں ہر بات کا حل موجود ہے.پہلی بات یہ ہے إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا.ڈیما کریسی کو ہدایت ہے کہ جب تم اپنے حکام چنا کرو تو جو امانت دار ہوں ، جو تمہاری امانت کو ادا کرنے کا حق رکھتے ہوں ان کو چنا کرو لیکن یہ ڈیما کریسی کا تصور نہ ہندوستان میں ہے نہ پاکستان میں ہے.آج جو حکام دونوں طرف کے، فیصلے کرنے کے مجاز ہیں وہ ان صفات سے عاری ہیں.نہ وہ عدل کی صفت رکھتے ہیں نہ امانت کی صفت رکھتے ہیں اور جتنی خرابیاں آج درپیش ہیں وہ انہی دو صفات کے فقدان کا نتیجہ ہیں.اب دیکھیں اگر عدل ، جیسا کہ قرآن کریم عدل کو ایک ایسی قدر کے طور پر پیش کرتا ہے جو عالمی ہے جو کسی ملک میں محدود نہیں، اگر ایسے عدل کو کشمیر میں جاری کر کے دیکھیں تو مسئلہ ہی ختم ہو جاتا ہے.کشمیری کے ساتھ عدل ہونا چاہئے تھا اس کے جو حقوق ہیں وہ ادا ہونے چاہئے تھے.ہندوستان کے ہاتھ سے جاتا یا نہ جاتا اس کی بحث بالکل الگ ہے.کشمیری کا اپنا ایک حق ہے اور وہ عدل اگر ہندوستان کے حکمران مہیا کرتے تو کوئی مسئلہ پیدا نہ ہوتا.یہ سارے مسائل کشمیر پر ہندوستان کے تسلط کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں اور بجائے اس کے کہ اب بھی عدل کی طرف متوجہ ہو تا عدل کے فقدان کا علاج عدل کے مزید فقدان کے ذریعہ کئے جانے کی کوشش کی جارہی ہے یعنی پہلے کون سا عدل تھا وہاں ، اب ظلم اور سفا کی کو جس کی مثال دنیا میں کم ملتی ہے اس کو استعمال کیا جائے گا عدل کے نہ ہونے کے توڑ کے طور پر اور یہ بات ختم ہونے والی نہیں.یہ اتنی زہریلی بات ہے جب یہ عمل میں آئے گی تو پھر یہ اپنا اصل چہرہ ظاہر کرے گی کہ نفرت اور ظلم کے نتیجہ میں کبھی بھی انصاف دب نہیں سکا.ساری دنیا میں تمام انسانی تاریخ گواہ ہے کہ عدل کے فقدان کا علاج عدل قائم کرنا ہے نہ کہ ظلم اور
خطبات طاہر جلد 17 371 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء سفا کی کا بڑھانا.تو پہلی بات جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس آیت سے یہ معلوم ہوتی ہے کہ عدل اور امانت کے پیش نظر نہ ہندوستان میں حکومتیں قائم کی جارہی ہیں ، نہ پاکستان میں قائم کی جارہی ہیں اور عدل کا فقدان اس طرح بھی ظاہر ہوتا ہے کہ خود اپنے عوام سے یہ عدل نہیں کرتے.کشمیر کو چھوڑو بفرض محال تھوڑی دیر کے لئے ، کیا ہندوستان کے حکمران اپنے غریب اور بھو کے عوام سے عدل کر رہے ہیں؟ کیا ان کا مالی اور اقتصادی نظام دولت کو چند ہاتھوں میں سمیٹنے کا موجب نہیں بنا ہوا؟ کیا عوام الناس اس ظالمانہ مشین میں روز بروز پیسے نہیں جا رہے؟ ان کی روٹی کی کس کو فکر ہے، ان کے پانی کی کسی کو فکر ہے؟ تو جو قوم اپنے حکمران وہ چنے جو عدل سے اور امانت سے عاری ہیں پھر وہ ان سے وہی سلوک کرتے ہیں.پس ایک پہلو سے ذمہ داری پھر بیچارے عوام کالا نعام پر آ جاتی ہے.یہ لوگ عقل سے عملاً اتنے عاری ہوتے ہیں جیسے مویشی عاری ہوں اور چنتے ہیں اپنے راہنما اور راہنما وہ چنتے ہیں جولا زماً ان کو جہنم کی طرف لے کے جاتے ہیں یعنی دنیا وی جہنم میں جھونک دیتے ہیں.ان کو حقیقت میں کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کہ کتنے لاکھوں کروڑوں بھو کے گلیوں میں مررہے ہیں، کن کن مصائب کا شکار ہیں، کیا کیا بیماریاں ان میں پھیل رہی ہیں، کس طرح وہ اپنی عورتوں ، اپنی بچیوں کی عصمتیں بیچتے پھرتے ہیں تا کہ روٹی کے دو لقمے مہیا ہوں.یہ آیت ان ساری باتوں کی نشان دہی کر رہی ہے اور یہ آیت اگر چہ مسلمانوں کو مخاطب ہے مگر تمام دنیا کی ہر قوم کو مخاطب ہے.یہ آیت کریمہ مجھے یہ اختیار دیتی ہے کہ خواہ میں پاکستان کا ہوں یا ہندوستان کا ہوں یا کسی بھی ملک کا باشندہ ہوں اس زبان میں کلام کروں جو عالمی زبان ہے اور یہ زبان صرف قرآن کی زبان ہے.خود انصاف پر قائم رہتے ہوئے ہر ایک کو میں وہ بات کہ سکتا ہوں جو بات انصاف کے منافی نہیں بلکہ انصاف پر قائم کرنے کے لئے ضروری ہے.پس یہ ہے در حقیقت آخری صورت جس کو سمجھنے کی ضرورت ہی نہیں بلکہ اس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے.میں جانتا ہوں کہ میری آواز کمزور ہے لیکن اس کمزور آواز کو سننے والے اگر کچھ عقل رکھتے ہوں تو اس کو غلط کہنے کی استطاعت نہیں رکھتے.حقائق بول رہے ہیں کہ تم لوگوں کو بغیر انصاف کے چنا گیا اور تم نے خود اپنی قوم سے انصاف نہیں کیا اور اب ان کو گلیوں میں نچا رہے ہو اس خوشی میں کہ کل تم پر ساری مصیبت ٹوٹے گی اور تمہارے حکمران اپنے اپنے علاقوں میں قلعہ بند
خطبات طاہر جلد 17 372 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء ہو جائیں گے اور ان کو کچھ پرواہ نہیں ہوگی کہ کتنے غریب بھو کے گلیوں میں مرتے ہیں اور کتنے بچے اور بچیاں تباہ حال ہورہے ہیں.اس بات کی کوئی بھی ہمدردی ان حکمرانوں کو نہیں ہے.نہ سرحد کے اُس پار، نہ سرحد کے اس پار.اس لئے میں دونوں کو متوجہ کر سکتا ہوں ایک ہی زبان میں اور دونوں کے احمدیوں کو یہی تعلیم دے سکتا ہوں جو عالمی تعلیم ہے اور یہ تعلیم دینے کے نتیجے میں کوئی مجھ پر یہ قدغن نہیں لگا سکتا کہ یہ تمہاری وطن کی محبت کے خلاف ہے.وطن کی محبت کا تقاضا ہے جو میں پورا کر رہا ہوں اور یہ قرآن کی شان ہے کہ یہ تقاضا میں تمام دنیا میں بعینہ اس طرح پورا کر سکتا ہوں اور کوئی مجھے پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ اس نے جنبہ داری سے یا جانب داری سے کام لیا ہے.پس یہ حسن ہے قرآن کریم کا جس کی کوئی مثال دنیا میں کسی کتاب میں دکھائی نہیں دیتی.اس پر آپ دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم چن لئے جاؤ خواہ کسی طرح بھی چن لئے جاؤ تو جب حکومت کرو تو کچھ عدل سے تو کام لو، اس وقت ہی کچھ عدل کر لیا کرو.اگر جیتنے میں تم نے اپنی خواہش کے احترام میں عوام سے زبر دستی ووٹ لے لئے ہیں جن کو عقل ہی نہیں کہ کس کو ووٹ دینا ہے تو اب جبکہ تم حاکم بن گئے ہو تو ان عوام سے کچھ حسن سلوک کرو.یہ حسن سلوک صرف عدل تک محدود نہیں رہتا بلکہ قرآن کریم کی ایک اور آیت اس حسن سلوک کو آگے بڑھا دیتی ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا إنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَائِي ذِي الْقُرْبى (النحل: 91) کہ عدل تو پہلا مقام ہے محض عدل کے ذریعہ تمہارے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ بعض دفعہ عدل کے ذریعہ جو کچھ اقتصادی نظام جاری ہے اس کو عدل کے ذریعہ چسپاں کریں تب بھی مسائل کا حل نہیں ہوتا.اس کے لئے امیروں اور بڑے لوگوں کو لازماً قربانی کرنی پڑے گی.اس لئے قرآن کریم کی حکمت بالغہ ہمیں بتاتی ہے إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَ اِبْتَانِى ذِى القربی.احسان کرنا نہیں سیکھو گے تو تمہارے مسائل حل نہیں ہوں گے.اگر احسان کا سلوک ہوتا پاکستان یا ہندوستان میں تو عوام الناس خودا پنی حکومتوں پر جانیں چھڑ کہتے.اب ان سے زبر دستی حماقت کے ساتھ جانوں کی قربانی کی جارہی ہے.جانیں تو بے چارے اب بھی چھڑکیں گے لیکن کہاں جان چھڑ کنی چاہئے اس کا کوئی علم نہیں.اگر قر آنی تعلیم پر عمل ہو تو یہ عوام واقعہ اپنے راہنماؤں کی جوتیاں اٹھاتے پھریں گے، ان کے او پر آنچ آئے گی تو اپنی جان پیش کر دیں گے کیونکہ عوام الناس میں یہ ایک گہری خوبی ہے جو ساری
خطبات طاہر جلد 17 373 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء دنیا کے عوام الناس میں ہے کہ ان سے اگر احسان کا سلوک کریں تو وہ اس پر عام لوگوں کی نسبت زیادہ ممنون ہو جاتے ہیں.دانشور یا امیر لوگوں پر احسان کرو تو وہ بھول بھی جایا کرتے ہیں مگر عوام کو موہ لینے کا اس سے بہتر کوئی طریق نہیں.یہ طریق تاریخ مذہب سے قطعی طور پر یقینی ثابت ہوتا ہے.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی شمالی یتیم کے زمانہ میں اس کا ایک اطلاق عام ہوا ہے.آپ صل اللہ ا یہ تم نے عدل سے کام لیا اور عدل سکھایا.آپ صلی الہ ہی تم نے اِیتَائی ذی القربی سے کام لیا اور ایتَائِی ذِی القربی کے طریق سکھائے اور دیکھو کہ جو دشمن تھے وہ فی الحقیقت جان نثار کرنے والے بن گئے بلکہ ان کی جانیں قبول نہ ہوتی تھیں تو روتے ہوئے واپس جایا کرتے تھے کہ ہم سوائے جان کے کیا پیش کر سکتے تھے مگر وہ بھی قبول نہیں ہوئی.یہ عظیم عالمی انقلاب جو ہر ملک میں برپا ہو سکتا ہے اس کے لئے کسی مذہب کی ضرورت نہیں.ان تین بنیادی اصولوں کو پکڑ لینے کی ضرورت ہے.ان اصولوں کے پیش نظر تمام دنیا کے ہر ملک میں ایک عظیم الشان انقلاب برپا ہو سکتا ہے جس سے یہ دنیا فی الحقیقت جنت بن سکتی ہے مگر اس کا فقدان تمام بڑی عالمی طاقتوں میں بھی ہے اور اس کا فقدان ان غریب ملکوں میں بھی ہے جو بڑی طاقتوں کے ظلم کی چکی میں پیسے جاتے ہیں.اس پہلو سے میں جماعت احمدیہ کو ایک عالمی نصیحت کرتا ہوں کہ وہ عدل، احسان اور ایس آئی ذی القربی کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے پہلے سے بڑھ کر ان تین صفات حسنہ پر عمل شروع کر دیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ دعا سے کام لیں.امر واقعہ یہ ہے کہ دعا کے بغیر اور مقبول دعاؤں کے بغیر آج نہ ہندوستان کے مسائل حل ہو سکتے ہیں نہ پاکستان کے حل ہو سکتے ہیں.جب ایتائی ذی القربی پر غور کریں تو ایک ایسی ماں سامنے آئے گی نا جس کا بچہ بیمار ہے اور حالات بتارہے ہیں کہ وہ ٹھیک ہونے والا نہیں.کیا کر سکتی ہے سوائے دعا کے اور اس وقت کی دعا جو دل کی گہرائی سے اٹھتی ہے، جو زخمی دل کی دعا ہے وہ اللہ تعالیٰ عام حالات کی دعا سے زیادہ سنتا ہے.پس ہر احمدی دل کو این آئی ذی القربی کے تحت ایک ماں کا دل ہو جانا چاہئے.وہ دنیا کے غموں کو محسوس کرے اور واقعۂ دل میں تکلیف محسوس کرے.راتوں کو اٹھے اور بلبلائے.دن کو سوچتے وقت ہر وقت اس کو یہ خیال زخمی کر رہا ہو کہ بہت سے میرے بھائی بند ہیں جو گہری تکلیف میں مبتلا ہیں جو دور کی تکلیفیں ہیں وہ ان کو قریب دکھائی دیں تب دل سے وہ دعا نکلے گی جو مقبول ہوا کرتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 374 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء دور کی تکلیف آپ اخباروں میں پڑھ لیتے ہیں لاکھوں بھوک سے مر گئے لیکن اگر کسی ایک کو بھی بھوک سے مرتا ہوا دیکھیں اور خود دیکھیں قریب سے، پھر پتا چلے گا کہ بھوک سے مرنا کیا ہوتا ہے.اگر اپنے کسی بچہ کو بھوک سے مرتا ہوا دیکھیں تو پتا چلے گا.خبروں کی بات نہ کریں.سب کو علم ہے کہ لاکھوں کروڑوں بھوک سے مر رہے ہیں لیکن ایتائی ذی القربی کا مطلب ہے ان لوگوں کو اس نظر سے دیکھیں جیسے آپ کا بچہ بھوک سے مر رہا ہو ، آنکھوں کے سامنے بھوک سے مر رہا ہو اس وقت جو دل پر گزرے گی وہ دل پر گزرے گی تو دعا مقبول ہوگی.ماؤں کی دعا تو اس لئے بھی بعض دفعہ مقبول نہیں ہوسکتی کہ ساری زندگی ان کی خدا سے دور کٹی ہے صرف بچہ بچانے کے لئے رورہی ہوں لیکن جو بچہ آپ کا نہیں ہے اور اللہ کی خاطر اس سے بچوں والی ہمدردی ہے یہ ناممکن ہے کہ یہ دعا قبول نہ ہو.ایسی ہی دعا ئیں تھیں آنحضرت سل ستم کی جنہوں نے ایک عظیم انقلاب بر پا کر دیا اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی وجہ سے ہمیشہ آپ صلی الیت کی دعاؤں ہی کو انقلاب کا باعث قرار دیتے ہیں جبکہ دوسرے دنیا دار صوفیاء ہوں یا مذہبی لیڈر ہوں ان کا وہم تک اس طرف نہیں جاتا کہ حضرت رسول اللہ صلی الی یوم کی دعاؤں نے انقلاب برپا کیا تھا اور وہ یہ دعا ئیں تھیں جن کا میں ذکر کر رہا ہوں.پس اپنے دلوں کو ٹو لیں.خبریں پڑھتے ہیں Excite ہونے کے لئے تو آپ اس صورت میں مومن دل نہیں رکھتے.آج کل بڑا ہنگامہ چل رہا ہے خبروں کا.CNN کیا کہہ رہی ہے اور اخبار میں کیا چھپ رہا ہے اور نواز شریف نے کیا بیان دیا ہے اور واجپائی نے کیا بیان دیا ہے اور بہت لوگ ایکسائیٹ ہیں.گھروں میں چرچے ہورہے ہیں آپس میں باتیں چل رہی ہیں آج یہ خبر آ گئی، اب یہ خبر آگئی.خبر آ رہی ہے بربادی کی اور تمہیں ہوش ہی کوئی نہیں.تم باتوں کے چسکے لے رہے ہو کہ یہ خبر آگئی اور وہ خبر آ گئی.یہ مومن دل کا تقاضا نہیں ہے.یہ وہ دل نہیں ہیں جو میں احمدیوں کے سینوں میں دھڑکتا ہوا دیکھنا چاہتا ہوں.اس لئے میری آپ سے التجا ہے، بار بار آپ کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں کہ اپنے سینوں میں وہ دل دھڑکا ہمیں جو لوگوں کے غم سے دھڑکتے ہوں، لوگوں کے خوف سے دھڑکتے ہوں.وہ اللہ کی خاطر ایسا کریں.یہ وہ دل ہیں جن کی دھڑکنیں خدا کی تقدیر کی دھڑکنیں بن جائیں گی.لازماً دنیا میں انقلاب بر پا ہوں گے.اس کو کوئی معمولی اور چھوٹی بات نہ سمجھیں، اس پر عمل کریں.اور علاوہ ازیں
خطبات طاہر جلد 17 375 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء اب ان مصیبت کے دنوں میں جو بھائی بندوں پر ٹوٹنے والی ہے اپنے آپ کو پہلے سے زیادہ تیار کریں کہ اپنی سہولتیں ان میں تقسیم کریں اور ان کے دکھ بانٹیں.یہ دوسرا عملی اقدام ہے جس کے نتیجے میں میں یقین کر سکوں گا کہ واقعہ آپ وہ بندے ہیں جن کے سپر داللہ نے اس کائنات کی اس وقت میں بڑی ذمہ داری ڈالی تھی.بظاہر تو آپ کی ذمہ داری اس دنیا سے تعلق رکھتی ہے مگر اس کا ئنات کی جان یہ دنیا ہے جو محمد رسول اللہ صلی لہ الیتیم کی دنیا ہے.اس پہلو سے میں کہتا ہوں کہ ساری کائنات کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے آپ کے سپرد کی تھی اسے ادا کر نا محض باتوں سے نہیں ہوگا، محض ہیجان سے نہیں ہو گا جو آج باہر گلیوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے اور آپ کی باتوں میں بھی دکھائی دے رہا ہے.بہت سے گھر ہیں میں جانتا ہوں ان کا دن رات کا اب یہ پیشہ بن گیا ہے کہ ہر وقت CNN کو لگائے رکھیں اور دیکھیں کہ اب وہ کیا کہ رہی ہے حالانکہ CNN کی اکثر خبریں بھی پرو پیگنڈا کی خاطر بنائی جاتی ہیں اور پہلے بھی CNN نے دنیا کی بہت سی مخلوق کو گمراہ کیا ہے.جو بغداد میں گزری ہے، جو عراق پر بنی ، جو بوسنیا وغیرہ میں ہوتا رہا ان سب جگہوں پر CNN اس دھوکہ بازی کی وجہ سے ساری دنیا کی رائے عامہ کو غلط رستہ پر چلاتی رہی ہے اور آخر پر پھر CNN یہ اقرار کرتی ہے کہ ہاں یہ بات نظر سے رہ گئی تھی اور یہی باتیں کرنے والے CNN کے شیدائی کہتے ہیں اب تازہ خبر آئی ہے CNN سے کہ وہ پہلی باتیں جھوٹی تھیں حالانکہ اتنی عقل نہیں کرتے کہ جب باتیں ہو رہی تھیں آپ کو پتا ہونا چاہئے تھا جھوٹ بول رہے ہیں کیونکہ پیشہ ہی ان کا یہ ہے ہمیشہ سے.یہ ایک جال پھیلا یا گیا ہے دنیا میں دھو کے بازی کا اورلوگ ہیں کہ اس کو لگائی پھرتے ہیں اس لئے کہ ساتھ کچھ گندی فلمیں بھی دے دیتے ہیں یہ.ساتھ کچھ ایسی کھیلوں کی خبریں بھی دے دیتے ہیں جن میں دلچسپی ہوتی ہے ان میں ناچ گانا ، اچھل کو داور جسم کی عریانی یہ نمایاں ہوتے ہیں.تو خبریں صرف نہیں ہیں جو آپ کی دلچسپی کا موجب بنتی ہیں خبریں پیش کرنے کا انداز بھی آپ کی دلچسپی کا موجب بنتا ہے اور نہ صبح اٹھ کر اخبار میں وہ ساری خبریں پڑھ سکتے ہیں جو CNN نے آپ کو دی ہیں.اس کے دینے کے انداز کے آپ شیدائی ہیں اور وہ انداز دجل کا انداز ہے اور جھوٹ کا انداز ہے اور آپ کے خاندان کو نا پاک کرنے کی ایک کوشش ہے.اس لئے عقل اور حکمت سے کام لیں.خبروں میں دلچسپی رکھیں خبروں کے جھوٹے انداز میں دلچسپی نہ رکھیں.
خطبات طاہر جلد 17 376 خطبہ جمعہ 29 مئی 1998ء خبریں دینے والوں کو پہچان لیں کہ یہ دجال کا ایک بازو ہے اور اس بازو سے دجال رائے عامہ کو ہموار کرنے کا بہت بڑا کام لے رہا ہے.پس میں چاہتا ہوں کہ جماعت احمد یہ تو وہ ہو جس کو دجال کا دھواں تک بھی نہ پہنچے اور اس دنیا میں اگر آپ نہیں تو پھر کوئی بھی نہیں جو دجال کے اثر سے پاک ہے.سارے کے سارے دجال کے دائرے کے نیچے ہیں.پس میں اُمید رکھتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ تو فیق عطا فر مائے گا.اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے، ترڈد کی ضرورت ہے ، دلوں کوٹٹولنے کی ضرورت ہے.اور دعائیں جہاں دوسروں کے لئے مانگیں وہاں اپنے دل کے لئے بھی مانگیں.بھکاری بن جائیں خدا کے حضور کہ اے خدا! ہم وہ دل چاہتے ہیں جو تجھے پسند ہو مگر بہت مشکل کام ہے.تو یہ دل ہمیں عطا فرمائے تو دل عطا ہوں گے.تو اگر یہ دل ہمیں عطا نہ فرمائے تو ہم دنیا کے دلوں کو کیسے بدلیں گے.پس اس عاجزانہ اقرار کے ساتھ آگے بڑھیں.اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے کہ دنیا کے ہر ملک کی خدمت کر سکیں.ہر ملک کا احمدی اپنے ملک کا وفادار ہو اور ہر ملک کے احمدی کی وفاداری کسی دوسرے ملک کے خلاف نہ ہو.خدا کے ساتھ وفاداری ہو اور اپنے ملک کے باشندوں کے حق میں وہ وفاداری کام کر رہی ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 377 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ کی تشریح (خطبہ جمعہ فرموده 5 جون 1998ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ و الْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَيْكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادُ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُم وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ پھر فرمایا: (التحريم:7) یہ سورۃ تحریم کی ساتویں آیت ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا جو تر جمہ تفسیر صغیر میں درج ہے وہ یہ ہے کہ : ”اے مومنو! اپنے اہل کو بھی اور اپنی جانوں کو بھی دوزخ سے بچاؤ جس کا ایندھن خاص لوگ ( یعنی کا فر ) ہوں گے اور اسی طرح پتھر ( جن سے بت بنے ) اس (دوزخ) پر ایسے ملائکہ مقرر ہیں جو کسی کی منت سماجت سننے والے نہیں بلکہ اپنے فرض کے ادا کرنے میں بڑے سخت ہیں اور اللہ نے ان کو جو حکم دیا ہے اس کی وہ نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ کہا جاتا ہے وہی کرتے ہیں.“ 66 ( سورة التحريم ، آیت نمبر : 7 ترجمه از تفسیر صغیر بیان فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد )
خطبات طاہر جلد 17 378 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء یہ ترجمہ جو تفسیر صغیر سے پیش کیا گیا ہے یہ تفسیری ترجمہ ہے.جہاں تک اس مضمون سے تعلق ہے جو آج میں نے آپ کے سامنے بیان کرنا ہے اس میں اس کے بعض پہلو ، بعض ایسے الفاظ سے تعلق رکھتے ہیں جو اس آیت میں وضاحت کے ساتھ درج ہیں.وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ یہ ہے بنیادی نکتہ میرے آج کے خطاب کا.غلاظ شداد کی بحث تو الگ ہے میں اس وقت اس کی تفصیل میں نہیں جاؤں گا کہ غلاظ شد اڈ کن معنوں میں ہیں.میں صرف یہ عرض کروں گا کہ وَيَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ یہ فرشتوں کی ایک صفت ہے اور آج کا میرا مضمون اسی صفت مَا يُؤْمَرُونَ سے تعلق رکھتا ہے.اسلام میں دو طرح کی اصطلاحیں رائج ہیں.ایک مامور کی اور ایک اولوالامر یا ذ والامر کی.مامور ہمیشہ فرشتوں سے مشابہت رکھتے ہوئے وہی کچھ کرتا ہے جس کا اس کو حکم دیا گیا ہے،اُس سے ہٹ کر اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کر سکتا مگر بعض لوگ صرف مامور ہوتے ہیں اور بعض مامور بھی اور اولوالا مر بھی یعنی مامور ہونے کے لحاظ سے جو کچھ کہا جائے وہی کر سکتے ہیں اس سے زائد یا کم نہیں کرتے اور اولوالامر ہونے کے لحاظ سے وہ حکم بھی دیتے ہیں اور حکم کا دائرہ مامور کے دائرے کے اندر ہوا کرتا ہے لیکن انہیں حکم دینے کا اختیار ہے ہر موقع پر وہ اپنی سوچ کے مطابق حکم دے سکتے ہیں.اسی طرح دنیا دار اولوالامر کا حال ہے ان کو بھی ایک دائرے میں محدود ہو کر اپنے حکم کو جاری کرنا چاہئے جو قوانین کا دائرہ ہے ، جو ان لوگوں کی توقعات کا دائرہ ہے جنہوں نے ان کو ووٹ دئے اور اس نسبت سے وہ مامور ہوئے لیکن اپنی ماموریت کی حیثیت کو بھول جاتے ہیں اور اولوالا مر بنتے ہیں اور ان لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق حکم دیتے ہیں.یہ دنیا داروں کا حال ہے مگر جہاں تک ان کے اولوالامر ہونے کا تعلق ہے اس سے انکار نہیں اور جب تک وہ اولوالا مر رہتے ہیں ان کی اطاعت کرنی ضروری سمجھی جاتی ہے.یہ ساری بحثیں نظام جماعت سے تعلق رکھنے والی بخشیں ہیں.آج میں اس نیت سے ان بحثوں کو چھیڑ رہا ہوں کہ بعض دفعہ ضرورت پڑتی ہے کہ سلسلہ کے کارکنوں کو ان کی حیثیت ، ان کے دائرہ کار کے متعلق اچھی طرح وضاحت سے سمجھایا جائے.میں نے محسوس کیا ہے کہ بعض لوگ مثلاً معتمد جن کا فریضہ ایک جماعت میں معتمد کا ہے وہ لوگ بعض دفعہ ذوالا مر بھی بننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ
خطبات طاہر جلد 17 379 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء زوالا مرا میر ہے اور معتمد ذ والا مر نہیں ہے.امیر مامور بھی ہے یعنی ایک لحاظ سے معتمد بھی ہے لیکن امر دینے کا اختیار بھی رکھتا ہے.اسی طرح سلسلہ کے تمام عہدے جو کسی بھی تنظیم سے تعلق رکھتے ہوں جماعتی تنظیم سے یا ذیلی تنظیموں سے ان سب میں یہ دو سلسلے ساتھ ساتھ جاری ہیں.ہر چھوٹے سے چھوٹے دائرے میں مثلاً خدام الاحمدیہ کا چھوٹا دائرہ ہے اس کے اندر جو بہت چھوٹے دائرے مقامی جماعتوں سے یا خدام کی مجالس سے تعلق رکھتے ہیں ان میں سے بھی ایک معتمد ہوا کرتا ہے اور ایک زعیم بھی ہوتا ہے.معتمد کو اپنی طرف سے کوئی حکم جاری کرنے کا کسی دائرے میں بھی اختیار نہیں.وہ صرف کان ہوتا ہے جو اپنے ذوالا مر کی طرف لگے رہتے ہیں ، جو کچھ اس کو کہا جائے بعینہ وہی کام کرتا ہے.اگر وہ اپنی طرف سے کوئی حکم جاری کرے گا تو وہ معتمد ہی نہیں رہے گا.وہ فرشتوں کے قریب ترین ہے تو اپنی اس حیثیت سے کیوں خوش نہیں ہوتا کہ میں فرشتہ ہوں.خدا کے فرشتے بھی تو مامور ہوا کرتے ہیں ذوالا مرنہیں ہوا کرتے.سارے قرآن میں کہیں بھی فرشتوں کو ذ والا مر نہیں فرمایا گیا، مامور ہیں اور اپنے دائرہ کار میں بعینہ وہی فرائض سرانجام دیتے ہیں جن کا حکم دیا گیا ہے.ان احکامات میں سے جب وہ کوئی حکم لوگوں تک پہنچاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ اللہ کے اذن سے ہم یہ حکم پہنچا رہے ہیں اور اس میں کوئی استثنا نہیں.ہمیشہ فرشتے جو بات پہنچاتے ہیں وہ اپنی طرف سے نہیں بلکہ اس وضاحت کے ساتھ پہنچاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس بات پر مامور فرمایا ہے کہ ہم آپ تک یہ پیغام پہنچادیں.بعینہ یہی کام معتمد کا ہے.جب بھی وہ کسی مجلس کو یا کسی فرد واحد کو یہ حکم دیتا ہے کہ تم نے یہ کام کرنا ہے اگر وہ یہ حوالہ نہیں دیتا کہ میرے افسر بالا کی طرف سے میں اس بات پر مامور ہوں کہ تم تک یہ حکم پہنچاؤں تو اس کے حکم کی کوڑی کی بھی حیثیت نہیں.جماعتیں یا مجالس اس کو کلیۂ نظر انداز کر سکتی ہیں کیونکہ وہ معتمد تو ہے لیکن ذ والا مر نہیں.اگر کسی ذوالا مر کا پیغام اس نے پہنچانا ہے تو اس کو لازم ہے کہ وضاحت کرے کہ یہ حکم میرا نہیں ، میں اپنی طرف سے نہیں کہہ رہا بلکہ جس کے تابع ہوں اس نے یہ حکم مجھے آپ تک پہنچانے کے لئے مامور کیا ہے.اگر اس نظام کو جو ساری کائنات کا نظام ہے اور اسی طرح پر جاری وساری ہے، جماعت احمد یہ اچھی طرح ذہن نشین کر لے تو کسی معتمد کے لئے اس میں سبکی کا بھی کوئی سوال نہیں کہ میری سبکی ہوگئی ، میں تو حکم دے ہی نہیں سکتا.سارے فرشتوں کی سبکی ہوگی تو اس کی سبکی ہوگی.
خطبات طاہر جلد 17 380 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء جتنے خدا کے فرشتے ہیں وہ معتمد ہی ہیں.پس اپنی ذات میں مگن ہو اور شکر کرو اور خدا کا جس حد تک احسان کا تصور باندھو اتنا ہی تمہارے لئے بہتر ہے.اللہ کا احسان ہے کہ اس نے تمہیں اس قابل سمجھا، تمہیں ایک ایسا مقام عطا فرما یا جس میں کامل یقین ہے کہ تم اس مقام سے سر عمو بھی فرق نہیں کرتے.اتنا بڑا اعزاز اور اس کو انسان سمجھے کہ میری سبکی ہو گئی ہے یہ تو بہت ہی بے وقوفی ہوگی.ایسا شخص جو اس کو سیکی سمجھتا ہے وہ اس لائق ہی نہیں ہے کہ اسے معتمد بنایا جائے.اب میں قرآن کریم کی اس آیت کی روشنی میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ان اقتباسات سے معاملہ بالکل کھل جاتا ہے اور وہی مضمون حیرت انگیز طور پر ساری کائنات میں جاری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے جب میں نے اس آیت کے اس پہلو سے متعلق راہنمائی چاہی ، یعنی ان معنوں میں کہ آپ کی متعلقہ تحریرات کا مطالعہ کیا ، مجھے یقین تھا کہ انتہائی تفصیل کے ساتھ اور باریکی کے ساتھ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر روشنی ڈالی ہوگی ، میں دیکھ کر دنگ رہ گیا کہ تمام نظام جسم کو بھی آپ زیر بحث لائے ہیں، دنیاوی طاقتوں اور سیاسی طاقتوں کے جو اولوالامر ہیں ان کو بھی زیر بحث لائے ہیں، دینی ذوالا مر کو بھی زیر بحث لائے ہیں، فرشتوں کو بھی اور انسانوں کو بھی اور ان کے متوازی کردار تمام زیر بحث لاکر ایک پہلو بھی اس مضمون کا آپ نے باقی نہیں چھوڑا.تحریریں تو دو تین چنی ہیں میں نے ، اور بھی بہت سی تھیں جن کے متعلق زیادہ تفصیل سے مجھے بات کرنی پڑنی تھی کیونکہ سننے والے سمجھتے ہیں کہ یہاں تکرار ہے حالانکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں تکرار نہیں، اصرار ہوا کرتا ہے اور ہر مضمون کو جب ایک جگہ سے اٹھا کر دوسری جگہ بیان فرماتے ہیں تو کوئی نہ کوئی ضرور نیا پہلو ہوتا ہے جس پر غور کر کے سمجھ آتی ہے اور اسے سمجھانے کے لئے بھی وقت چاہئے.پس آج کا خطبہ میں نے چھوٹا کرنے کی کوشش کی ہے ہوسکتا ہے زیادہ ہی چھوٹا ہو گیا ہو مگر کوشش یہی ہے کہ تھوڑے وقت میں زیادہ باتیں آپ کو سمجھالوں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے سمجھاؤں.الحکم جلد 5 اور نمبر 17،30 اگست 1901ء میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی یہ تحریر شائع ہوئی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 381 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے اور حقیقت میں ان کی شان ملائکہ ہی کی سی تھی.انسانی قومی بھی ایک طرح پر ملائکہ ہی کا درجہ رکھتے ہیں کیونکہ جیسے ملائکہ کی یہ شان ہے کہ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.( وہی کرتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے.) اسی طرح پر انسانی قومی کا خاصہ ہے کہ جو حکم ان کو دیا جائے اُس کی تعمیل کرتے ہیں.ایسا ہی تمام قومی اور جوارح حکم انسانی کے نیچے ہیں.“ الحکم جلد 5 نمبر 30 صفحہ:2 مؤرخہ 17 اگست 1901) اب یہ تحریر بہت ہی لطیف مضمون کو بیان کر رہی ہے.دس ہزار صحابہ کا ملائکہ ہونا ان معنوں میں کہ رسول الله لا یتیم کے ہر حکم کی پوری طرح تعمیل کرتے تھے اس سے مضمون شروع کر کے تو جسمانی قوی کی بات شروع کر دی.یہ وہ بحث ہے جس کو بہت بڑے بڑے سائنس دانوں نے جن کا دماغ اور جسم کے باہمی رابطہ سے تعلق ہے جو اس مضمون پر غور کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا ہے اور آج ہی میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا اس میں یہی مضمون تھا، یعنی کوشش تھی اس شخص کی کہ اس کو سمجھ سکے اگر چہ سمجھ نہیں سکا، کیونکہ یہ مضمون ایسا ہے جو قرآن کریم جانے والا ہی سمجھ سکتا ہے.بہر حال ماحصل ساری تحقیق کا یہ ہے کہ دماغ کے اندر کوئی آمر حکم دینے والا موجود ہے اور تمام نظام جسمانی سو فیصد اس حکم کی تعمیل پر مجبور ہے.بیماری اس کو کہتے ہیں کہ حکم ہو اور عمل نہ ہو جہاں یہ واقعہ ہوا وہاں بیماری شروع ہوگئی.سارا نظام جسمانی بے کار ہو کر رہ جاتا ہے اگر وہ آمر جو دماغ میں خدا نے بٹھایا ہوا ہے اس کے ماتحت اس کی باتوں پر عمل نہ کریں اور اس کی باتوں کا سارے نظام جسمانی تک پہنچانے کا نظام اتنا باریک ہے اور اتنا تفصیلی ہے کہ اگر کہا جائے کہ ارب ہا ارب واسطے بیچ میں موجود ہیں اور ان میں سے ہر واسطہ کی تفصیل موجود ہے تو یہ مبالغہ نہیں ہے، یہ کم ہوگا.جتنا بھی مطالعہ آپ کر کے دیکھ لیں ، میں نے بہت مطالعہ کر کے تفصیل سے اس مضمون کو سمجھنے کی کوشش کی ہے یعنی سائنس دان کی زبان سے، بالآخر اسی نتیجے پر پہنچا کہ سائنسدان تفصیل تو بیان کر دیتے ہیں مگر وجو ہات کہ کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ کیوں ایک بار بط نظام ہے جو کائنات کے نظام کی طرح باربط ہے؟ کیوں ایسا ہوا ہے؟ یہ بیان نہیں کر سکتے.یہ جانتے ہیں کہ اگر دماغ کے اندر جو اولوالامر بیٹھا ہوا ہے وہ سارا جسم جو مامور ہے اس کو فرشتوں کی طرح اس کی تعمیل کرنی چاہئے اگر وہ تعمیل سے کسی ایک جگہ بھی ، ایک معمولی سے حصہ میں
خطبات طاہر جلد 17 382 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء بھی محروم رہ جائے گا تو سارا نظام تباہ ہوسکتا ہے.اب بعض لوگ ایسے فالج کا شکار ہو جاتے ہیں که صرف دماغ کام کر رہا ہے اور سارا دھڑ گلی مفلوج ہے تو کیا چیز ہے وہ.صرف اس رابطہ کی کمی ہے جو خدا تعالیٰ نے قائم فرما یا لیکن مامور کو آمر حکم دے رہا ہے اور اس کو آواز ہی نہیں پہنچ رہی یا اس کی پرواہ نہیں کر رہا جس کے نتیجے میں گلیۂ تمام نظام مفلوج ہو کے رہ جاتا ہے.ایک چھوٹے سے رابطہ کی کہیں کمی واقع ہوئی ہے.یہی حال جماعت کا ہے.اگر معتمد جس کو حکم دیا جاتا ہے آگے اس حکم کو جماعت کو نہ پہنچائے تو ساری جماعت مفلوج ہو جائے گی اور یہ خرابیاں میں نے بہت جگہ دیکھی ہیں.کئی دفعہ سمجھانا پڑتا ہے کہ آپ سے جو کچھ کہا گیا ہے، امراء ہوں یا جو بھی ہوں وہ میرے لحاظ سے تو معتمد ہیں ، ان کو میں بارہا سمجھا تا ہوں کہ خدا کے واسطے جو کچھ کہا گیا ہے اس کو ضرور ان تک پہنچائیں جن کی خاطر کہا گیا ہے لیکن غفلت ہو جاتی ہے اور تفصیل سے ان سب تک یہ بات نہیں پہنچائی جاتی جن تک یہ بات پہنچائی جانی ضروری ہے اور نتیجتاً ایک فالج کا سا منظر دکھائی دیتا ہے جو نظام جسم یا نظام جسمانی کی مجھ سے مشابہت رکھتا ہے.پس دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر کتنی باریک اور کتنی لطیف ہے.اگر اس کی تفاصیل میں میں ، جاؤں تو ایک گھنٹہ کا خطبہ بھی بہت چھوٹا ہو جائے گا، کئی گھنٹوں کے خطبے بھی چھوٹے ہوں گے.جس حد تک میں نے اس مضمون کو سائنسی نقطہ نگاہ سے سمجھا ہے مجھے لمبا عرصہ درکار ہے کہ میں اس کی تمام تفاصیل جس حد تک مجھے علم ہے، ہر تفصیل کا تو مجھے علم ہی نہیں ہے ، جو تھوڑا سا مجھے علم ہے اس کو اگر باریکی سے سمجھانے کی کوشش کروں اور خاص طور پر یہ ذہن میں رہے کہ بہت سے ہمارے سنے والے ان پڑھ بھی ہیں بہت محدود علم رکھنے والے بھی ہیں تو اتنی زیادہ مجھے محنت بھی درکار ہو گی ان کو سمجھانے کے لئے ، اتنا زیادہ وقت بھی چاہئے ہو گا.تو یہی وجہ ہے کہ میں نے کہا تھا کہ میں نے کوشش کی تھی کہ وقت تھوڑالوں میں تھوڑے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صرف چند تحریرات پڑھ کر سناؤں کیونکہ ہر تحریر کا مضمون کھولا جائے تو بہت لمبا وقت درکار ہے.66 بہر حال اب دیکھیں اس عبارت کی شان.دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے.“ رسول اللہ سلیم کے زمانہ میں جو دس ہزار قدوسی آپ کو عطا کئے گئے تھے ان کو پرانی کتابوں میں قدوسی بھی لکھا ہے یعنی وہ خدا کی طرف سے پاک شدہ تھے اور ملائکہ بھی لکھا ہوا ہے.یہی حالت
خطبات طاہر جلد 17 383 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء ملائکہ کی آپ میں میں دیکھنی چاہتا ہوں.اس کے سوا تو جماعت بن ہی نہیں سکتی اور اس کی تفصیل کو سمجھائے بغیر اتنی بات تو میں آپ کو سمجھا سکتا ہوں کہ نظام انسانی میں سے کچھ بھی اگر حصہ مفلوج ہو جائے تو ساری عمر کے روگ لگ جاتے ہیں.اتنی بات تو ہر ان پڑھ بھی سمجھ سکتا ہے.وہ نہیں جانتا کہ اس کو کیا ہوا ہے، کہاں کوئی گل ٹیڑھی ہوئی ہے مگر یہ جانتا ہے کہ ایک ہی بیماری نے سارے جسم کو مفلوج کر کے رکھ دیا ہے، کہیں کا نہیں چھوڑا اس کو.تو اگر ایک بھی بیماری جماعت میں کہیں لگ جائے تو اندازہ کریں کہ پھر باقی جماعت کا کیا حال ہوگا.ہر بیماری سے پر ہیز ضروری ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جہاں یہ زور دیا ہے کہ خدا تعالیٰ کے اتنے احکام ہیں ان میں سے ہر حکم پر عمل ضروری ہے کسی کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ، یہ مراد ہے اس سے.ہر گز یہ مراد نہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ساری جماعت اتنے اعلیٰ درجہ تک پہنچ چکی ہے کہ ہر حکم پر پوری طرح ایمان بھی رکھتی ہے اور عمل بھی کرتی ہے.مگر اگر عمل نہیں کرتی لیکن خدا کا خوف رکھتی ہے ، اگر ڈرتی ہے کہ میرے عمل میں کمی کے نتیجے میں مجھے نقصان نہ پہنچ جائے تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کے عمل کی کمزوری سے جماعت کو نقصان سے محفوظ رکھتا ہے.یہ وہی خوف ہے جس کو تقویٰ کہتے ہیں.پس اس بیماری کا علاج بھی تقویٰ ہے.کمزوریاں تو بے شمار ہیں جن میں ہم مبتلا ہیں اس کے باوجود نظام جماعت کی حفاظت کی خاطر لازم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے ڈرتا رہے اور اللہ کے حضور یہ عرض کرتا رہے کہ ان کمزوریوں کا بداثر جو دوسروں پر پڑسکتا ہے اور قانون قدرت کے طور پر پڑنا چاہئے مجھے اس سے محفوظ رکھ اور میں دشمن کے لئے ابتلا کا موجب نہ بنوں.حضرت مسیح نے اسی مضمون کو اس طرح بیان فرمایا ہے کہ اگر کسی شخص کی وجہ سے کوئی ٹھوکر کھا جائے تو بہتر تھا کہ وہ شخص پیدا ہی نہ ہوتا کیونکہ اس نے بڑا جرم کمایا ہے.پس کمزوری کے باوجود اعمال کی اس حد تک حفاظت کرنا کہ وہ دوسرے جسم کے حصہ پر یعنی جماعت پر اثر انداز نہ ہوں یہ انتہائی ضروری ہے اور یہ جب ہی ہوگا جب آپ اولوالامر کے احکامات کو نظر انداز کریں گے اور تخفیف کی نظر سے دیکھیں گے.اس کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اولوالامر کے متعلق دیگر تحریرات میں سے بعض حصے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں ، یعنی اس وقت مسلسل تحریر نہیں پیش کر سکتا کیونکہ مضمون بہت لمبا ہو جائے گا مگر بعض حصے میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 384 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء ” اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے.“ یہ فرق بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے.روحانی طور پر امام الزمان اولوالامر ہے لیکن مادی لحاظ سے اور جسمانی لحاظ سے بادشاہ بھی اولوالامر ہے.’ اور جسمانی طور پر جو شخص ہمارے مقاصد کا مخالف نہ ہو اور اس سے مذہبی فائدہ ہمیں حاصل ہو سکے وہ ہم میں سے ہے.“ ( ضرورة الامام، روحانی خزائن جلد 13 صفحه : 493) تو یہ خیال کہ اولوالامر صرف روحانی نظام کا بادشاہ ہے یعنی ہمارے نقطہ نگاہ سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلیالم اور جسمانی لحاظ سے اس کے سوا کوئی ہم پر اولوالا مر نہیں ہے یہ خیال غلط ہے.آنحضرت صلیت ہی کے فہم قرآن کے نتیجے میں جس سے بہتر فہم قرآن ممکن ہی نہیں ہر بادشاہ، ہر سیاسی قوم کا راہنما جو حکم ہو جائے ، جس کو وہ مقام حاصل ہو جائے کہ ساری قوم کو اس کی بات ماننا ضروری ہو وہ اولوالا مر ہے اور اس کی اطاعت فرض ہے خواہ وہ دماغی لحاظ سے کیسا ہی ہو، خواہ وہ عقلی لحاظ سے ایک پاگل دکھائی دے، خواہ وہ روحانی لحاظ سے انتہائی ظالم اور حد سے گزرنے والا ہو.ان تمام امور کا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یا پریتم نے ایک ایک کر کے تذکرہ فرمایا ہے تا کہ کسی کو بہانہ ہاتھ نہ آئے کہ ایسا اولوالامر ہو تو ہم کیسے اطاعت کریں گے.فرمایا ہر صورت میں اطاعت کرنی ہے.صرف ایک صورت ہے کہ اس کی اطاعت سے آپ باہر نکل جائیں کہ اگر روحانی بادشاہ کا حکم اس سے متضاد ہو اور بیک وقت روحانی بادشاہ کے احکام کے دائرے میں رہتے ہوئے اس پر عمل ممکن نہ ہو تو پھر حضرت رسول اللہ صل للہ ایلم کے نزدیک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو آپ صلی یا یہ تم کو سمجھا اُس کی رُو سے وقتی طور پر ایسی صورتوں میں اس اولوالامر کی طرف رجوع کرو جو روحانی اولوالامر ہے کیونکہ اصل وہی ہے اور دنیاوی اولوالامر کو چھوڑ دو.یہ مضمون میں نے پہلے بھی بارہا سمجھایا ہے اور اب پھر نظام جماعت کے حوالے سے دوبارہ ضرورت ہے یعنی دنیا میں احمدیوں کو جو حکومتوں کے سامنے مسائل پیش ہوتے ہیں وہ ایک الگ مسئلہ ہے.میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہر جماعت کے دائرے میں کوئی شخص بھی یہ سوال اٹھا سکتا ہے کہ یہ میرا اولوالامر تھوڑے دائرے میں ہے خلیفہ وقت میرا اولوالا مر زیادہ وسیع دائرے میں ہے اُس کے
خطبات طاہر جلد 17 385 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء حکم کو یہ شخص ٹال رہا ہے اس لئے میں اس کی بات نہیں مانتا.اگر یہ سلسلہ شروع ہو جائے تو فساد کا ایک ایسا دروازہ کھل جائے گا جو کبھی بھی بند نہیں ہو سکتا.یہاں جا کر لوگوں کا دماغ کنفیوز ہوجاتا ہے.وہ باریک فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے.یہی وجہ ہے کہ یہ مضمون اگرچہ میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں مگر پھر مجھے نظام جماعت کی خاطر اسے بیان کرنا ضروری ہے.اگر کوئی شخص صہ امر ہونے کی وجہ سے کسی کو کہتا ہے کہ نماز چھوڑ دو تو وہاں اس کو ذرہ بھی تر ڈر کی گنجائش نہیں.وہ کہے جاؤ اپنے گھر بیٹھو تم اولوالا مر ہو اس دائرے کے اندر جو قرآن کے دائرے کے اندر ہے اور رسول اللہ صلی می ایستم صاحب کے فرمودات کے دائرے کے اندر ہے اور اس دائرے میں فرائض میں فرائض کا ترک ناممکن ہے لیکن فرائض سے کم کے جو ترک ہیں وہ ممکن بھی ہو سکتے ہیں.یہ فرق نہ سمجھنے کی وجہ سے سارا فساد بر پا ہوتا ہے.فرائض کا ترک بالکل واضح ہے وہ محکمات میں سے ہے کوئی دنیا میں اختیار نہیں رکھتا کہ ان محکمات کو تبدیل کر سکے.حضرت اقدس محمد مصطفی ملی لی ایم کے لئے تو کوئی وہم و گمان بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ آپ صلی یا پیام محکمات کو نظر انداز کریں گے مگر دنیا والے جو محکمات کو نظر انداز کرتے بھی ہوں وہ اس کا حکم نہیں دے سکتے.یہ بھی عجیب بات ہے کہ بعض لوگ خود محکمات کو نظر انداز کر رہے ہوتے ہیں.یہ گناہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک ان کا شخصی گناہ ہے لیکن اگر وہ دوسروں کو کہہ دیں کہ یہ چھوڑ دو تو یہ بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے.یہ خدا تعالیٰ کے اوپر حاکم بننے والی بات ہے.ایک حکم کی آپ تعمیل نہ کر سکیں اور عجز ہو اور شرم ہو اور حیا ہو یہ گناہ ایک انفرادی گناہ ہے لیکن اگر اس قدر جسارت کریں کہ دوسرے کو وہ حکم دیں جو حکم دینا آپ کے اختیار میں نہیں ہے تو یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اولوالامر کی بحث اٹھائی ہے اس کے بہت سے پہلو چھوڑتے ہوئے اب میں اس بحث کو لیتا ہوں جو جماعتی نظام سے گہرا تعلق رکھنے والی ہے.اطاعت ایک ایسی چیز ہے کہ اگر سچے دل سے اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.“ اب اولوالامر کے مقابل پر اطاعت کا مضمون ہے فرمایا اگر سچے دل سے اطاعت اختیار کی جائے تو دل میں ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.اب یہ مضمون اطاعت کرنے والے کے
خطبات طاہر جلد 17 386 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء سوا کوئی سمجھ نہیں سکتا.ان شرائط کے ساتھ جو میں نے بیان کی ہیں اگر کوئی کسی اولوالامر کی اطاعت کرتا ہے خواہ وہ چھوٹا سا انسان ہی ہو اس کے دل میں ایک عظمت پیدا ہو جاتی ہے، ایک کشادگی پیدا ہوتی ہے.وہ جانتا ہے کہ دنیا کے لحاظ سے میں بڑا ہوں لیکن اس کی اطاعت اس لئے کر رہا ہوں کہ اللہ نے فرمایا ہے.اس کی اطاعت اس لئے کر رہا ہوں کہ جس نے مجھ تک پیغام پہنچایا اس نے اللہ کا پیغام پہنچایا.اُس وقت اس کا جھکنا اس کی عظمت کی دلیل ہوگی اور اس کو محسوس ہوگا کہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس ابتلا میں کامیاب ہو گیا ہوں.اس وجہ سے وہ نور اور روح کو ایک لذت آتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے.مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے.“ لوگ مجاہدے کرتے ہیں بعض عمریں گنوا دیتے ہیں مجاہدوں میں، فرمایا مجاہدات کی اتنی ضرورت نہیں ہے اطاعت کی ضرورت ہے.اطاعت سے انقلاب عظیم بر پا ہو سکتے ہیں.مجاہدات سے ایک شخص کو خیال ہوسکتا ہے کہ میں جسم کمارہا ہوں یا میری روح کو پرورش مل رہی ہے لیکن اس سے ساری دنیا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.فرمایا: مجاہدات کی اس قدر ضرورت نہیں ہے جس قدر اطاعت کی ضرورت ہے مگر ہاں یہ شرط ہے کہ سچی اطاعت ہو اور یہی ایک مشکل امر ہے.(اطاعت کی ضرورت ہے مگر سچی اطاعت کا ہونا ایک مشکل امر ہے.) اطاعت میں اپنے ہوائے نفس کو ذبح کر دینا ضروری ہوتا ہے.( دل کی تمناؤں کو اور دل کی خواہش کو ذبح کرنا پڑتا ہے جو ایک بہت مشکل امر ہے.) بدون اس کے اطاعت ہو نہیں سکتی اور ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.“ اور بڑی بڑی توحید کے دعوی کرنے والوں کے سینوں کے اندر بت رکھے ہوئے ہیں اور وہ بت کیا ہے؟ ہوائے نفس.دل کی خواہش کو اللہ کے احکام پر جان بوجھ کر ترجیح دینا یہ تو سراسر واضح شرک ہے اور اطاعت نہ کرنے پر شرم محسوس کرنا اور حیا محسوس کرنا اور استغفار میں مبتلا ہونا اور رونا اور گریہ وزاری اختیار کرنا یہ واضح شرک نہیں ہے.یہ فس انسانی کی کمزوریاں ہیں جو اگر نظر انداز کردی جائیں تو رفتہ رفتہ شرک میں تبدیل ہو سکتی ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ بات بڑے غور سے سنیں.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 وو 387 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء ہوائے نفس ہی ایک ایسی چیز ہے جو بڑے بڑے موحدوں کے قلب میں بھی بت بن سکتی ہے.(دیکھنے میں بڑے توحید پرست ہوں گے مگر ان کے دلوں میں بت آباد ہیں.) صحابہ رضوان اللہ یھم اجمعین پر کیسا فضل تھا اور وہ کس قدر رسول اللہ صلی ایم کی اطاعت میں فنا شدہ قوم تھی.( فنا شدہ کا مطلب ہے دل سے ہوائے نفس کو مٹا دیا تھا.) یہ سچی بات ہے کہ کوئی قوم، قوم نہیں کہلا سکتی اور ان میں ملیت اور یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک کہ وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے.“ اس لئے معتمد ہو یا معتمد کو حکم دینے والا ہو دونوں صورتوں میں فرمانبرداری دونوں پر لازم ہے.ایک پر اس پہلو سے لازم ہے کہ جس بات پر وہ مامور ہے اسی کا حکم دے اس سے زائد نہ دے اور وقت پر جو فیصلہ کرنا ہو ا پنی سوچ کے مطابق کرے مگر کوشش یہی ہو کہ جو عمومی ہدایتیں ہیں ان کے تابع رہنا ہے.معتمد کو یہ اختیار نہیں کہ وقت پر کوئی حکم بھی دے سکے.اُس نے صرف اسی کی اطاعت کرنی ہے جو اس کو کہہ دیا گیا اس کے دائرے میں محدود ہو چکا ہے اس سے آگے نہیں بڑھ سکتا، اس سے کم نہیں کرسکتا.جیسا کہ فرشتوں کے متعلق اللہ فرماتا ہے نہ وہ زیادہ کر سکتے ہیں نہ وہ کم کر سکتے ہیں بعینہ وہی کرنا ہو گا جو ان کو کہا گیا ہے.کمی اور زیادتی کے مواقع دوسرے اولوالامر کے لئے ضرور پیدا ہوتے رہتے ہیں کیونکہ صورتِ حال بدلنے کے نتیجے میں موقع پر ایک صاحب امر کی ضرورت پڑتی ہے.وہ موقع پر جو فیصلہ کرے گا اس کا وہ ذمہ دار ہوگا.صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس بات کی بہت احتیاط کرتے تھے اور کبھی موقع کا فیصلہ کرنا پڑے اور یاد نہ ہو کہ رسول اللہ صلیے تم اس بارے میں کیا چاہتے ہیں اور کیا فرما چکے ہیں تو پھر اپنی فطرت کے اندر جو اطاعت نے ایک یگانگت گھول دی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے تھے.وہ یگانگت رسول اللہ صلی سیستم کی ذات کے ساتھ تھی جو اطاعت کے نتیجے میں ان کی فطرت میں گھولی گئی تھی.جب اس کے حوالے سے فیصلہ کرتے تھے ضرور صحیح نکلتا تھا اور رسول اللہ صلی ہلم کے سامنے حاضر ہو کر جب پیش کرتے تھے تو بعض صحابہ کہتے ہیں ساری عمر اتنی خوشی نہیں ہوتی تھی جتنی اس وقت ہوئی جب رسول اللہ صلی ا یہی تم نے فرمایا ہاں یہی میرا فیصلہ تھا، میں ہوتا تو یہی کرتا.اندازہ کریں اس یگانگت سے کیسا سرور حاصل ہوتا ہوگا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”ایک نور اور روح میں ایک لذت اور روشنی آتی ہے.اطاعت سے نور اور
خطبات طاہر جلد 17 388 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء روشنی کا یہ مطلب ہے.پھر فرماتے ہیں: ”وہ فنا شدہ قوم تھی.یعنی اپنے دل کی تمام نفسانی خواہشات کو مٹا بیٹھے تھے.فرماتے ہیں کوئی قوم بھی ہو اس میں یگانگت کی روح نہیں پھونکی جاتی جب تک وہ فرمانبرداری کے اصول کو اختیار نہ کرے یعنی اس وقت تک وہ قوم نہیں کہلاسکتی.پھر اگلا فقرہ ہے: اگر اختلاف رائے اور پھوٹ رہے تو پھر سمجھ لو کہ یہ ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.“ اللہ جماعت کو ادبار اور تنزل کے نشانات سے گلیۂ پاک رکھے لیکن یا درکھیں جب آپس کے اختلاف رائے کے نتیجہ میں پھوٹ پیدا ہو جائے اور کچھ ٹولیاں کچھ کرنا چاہیں ، کچھ ٹولیاں کچھ کرنا چاہیں تو یہ پھر تنزل کا آغاز ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے.آسفل سفلين (التين: 6) اس کی حد ہے.سب سے زیادہ ذلیل مخلوق خدا کے نزدیک جو بھی ہے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگ جو اطاعت سے محروم ہوتے ہیں وہ اسفل سفلین ہو جاتے ہیں.گرتے گرتے آخری مقام تک جہاں تک انسان گرسکتا ہے گرتے چلے جاتے ہیں.یہی حال ان لوگوں کا ہے جنہوں نے رسول اللہ سی ایم کی اطاعت کا دم تو بھر الیکن اپنی آراء کو فوقیت دے کر اپنے اندر بتوں پر بت بناتے چلے گئے یہاں تک کہ ان کا دل اس خانہ کعبہ کی طرح ہو گیا جو تو حید کا علمبردار تھا لیکن بتوں سے بھرا پڑا تھا.ایسے ہی یہ موحد ہیں جن کے متعلق مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ بڑے سے بڑے موحد اور سینے بتوں سے بھرے ہوئے ہیں.پس ان بار یک باتوں پر نظر رکھیں اور ہر گز کسی بت کو توفیق نہ دیں کہ وہ آپ کے دل میں جگہ بنالے اور نشانی یہ ہے کہ اگر پھوٹ ہے، جماعت میں افتراق ہے تو قطعی علامت ہے لا ز مابت موجود ہیں.وہاں بت شکنی کی ضرورت ہے اور بعض بڑی بڑی اچھی جماعتوں میں بعض لوگ ایسے بتوں کی پوجا کرتے اور ان کے پیغامات کو جماعت میں پھیلا کر افتراق پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں.ابھی کل ہی مجھے ایک فیصلہ کرنا پڑا ایک جماعت کے متعلق جہاں بھری جماعت میں صرف چار ایسے افراد تھے جنہوں نے افتراق شروع کیا ہوا تھا اور سمجھتے تھے کہ ہم نیکی کی تعلیم دے رہے ہیں، ہم زیادہ بہتر سمجھتے ہیں لیکن جس طرح بھی وہ تعلیم دے رہے تھے جو بھی کر رہے تھے وہ جانتے ہیں کہ اس کے نتیجہ میں دل پھٹے ہیں، اس کے نتیجہ میں گروہ بندی ہوئی ہے اور یہ پہچان بت پرستی کی پہچان ہے.اگر گروہ بندی ہوئی ہے تو وہ لوگ لازماً ذمہ دار ہیں.بظاہر وہ توحید کی تعلیم دے رہے ہیں لیکن دراصل شرک پھیلا رہے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 389 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء ادبار اور تنزل کے نشانات ہیں.مسلمانوں کے ضعف اور تنزل کے منجملہ دیگر اسباب کے باہم اختلاف اور اندرونی تنازعات بھی ہیں.“ اور بھی وجوہات ہیں تنزل کی.اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت ساری وجوہات پیدا ہوئیں جس کے نتیجہ میں انہوں نے تنزل اختیار کیا مگر ایک وجہ جو بہت کڑی وجہ ہے وہ باہمی اختلاف تھے.پس اگر اختلاف رائے کو چھوڑ دیں اور ایک کی اطاعت کریں جس کی اطاعت کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے پھر جس کام کو چاہتے ہیں وہ ہو جاتا ہے.اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اس میں یہی تو سر ہے.اللہ تعالیٰ تو حید کو پسند فرماتا ہے اور یہ وحدت قائم نہیں ہو سکتی جب تک اطاعت نہ کی جائے.“ جماعت کے سر پر خدا کا ہاتھ تب ہو گا جب وہ جماعت ہوگی اور جماعت ہو نہیں سکتی جب تک ایک شخص کی اطاعت نہ کی جائے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مامور ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے.پیغمبر خداصلی ایم کے زمانہ میں صحابہ بڑے بڑے اہل الرائے تھے.“ اب دیکھیں ان کی رائے کی کتنی طاقت تھی اور اس کو کس طرح مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بڑے قوی دلائل سے ثابت کیا ہے.یہ تو نہیں تھا کہ جو عرب رسول اللہ صلی ا یتیم کے سامنے سرتسلیم خم کر بیٹھے تھے اس وجہ سے تھے کہ نعوذ باللہ من ذلک بے وقوف تھے یا ان کی اپنی رائے کوئی نہیں تھی.اس مضمون کو چھیڑتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: بڑے اہل الرائے تھے خدا نے ان کی بناوٹ ایسی ہی رکھی تھی وہ اصول سیاست سے بھی خوب واقف تھے کیونکہ آخر جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دیگر صحابہ کرام خلیفہ ہوئے اور ان میں سلطنت آئی تو انہوں نے جس خوبی اور انتظام کے ساتھ سلطنت کے بارگراں کو سنبھالا ہے اس سے بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ ان میں اہل الرائے ہونے کی کیسی قابلیت تھی.“ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رسول اللہ صلی علیم کے سامنے لگتا ہے کوئی رائے ہی نہیں اگر کوئی رائے دیتے بھی تھے تو بعض دفعہ رسول اللہ صلی لے یتیم کی رائے اس کے اوپر غالب آکر یہ پھر ایک دم اپنی رائے کو مٹادیا کرتے تھے مگر اطاعت کی روح تھی.جب صائب الرائے بنے ، جب خدا تعالیٰ نے حکومت
خطبات طاہر جلد 17 390 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء نصیب کی تو حضرت عمر کے متعلق آج کے مفکرین بھی لکھتے ہیں کہ ایک بھی سیاسی غلطی نہیں کی آپ نے ، ساری زندگی حکومت کی ہے.سیاسی پہلو سے اگر ہم دیکھیں ، مذہبی نقطہ نگاہ کو چھوڑ دیں جو اختلاف کا نقطہ نگاہ ہے، تو بعض چوٹی کے مبصرین نے یہ لکھا ہے کہ عمر ایک ایسا خلیفہ ہے جس کے متعلق ہم پوری چھان بین کر لیں تو یہ بات قطعی ہے کہ سیاست میں کبھی انہوں نے غلطی نہیں کی.ایسے عظیم سیاست دان تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دیکھیں انہی خلفاء کے حوالے سے جو عام آدمیوں کی طرح چلتے پھرتے تھے فرما رہے ہیں یہ خیال مت کرو کہ وہ صائب الرائے نہیں تھے.تم بھی صائب الرائے بنتے پھرتے ہو جو بعض دفعہ نظام کے خلاف سراٹھاتے ہو تمہیں کیا پتا کہ تم سے بڑے بڑے صائب الرائے تھے جو اولوالامر کے سامنے جھک گئے.جہاں خدا نے اجازت دی وہاں پھر صائب الرائے ہونا جو ان کی صلاحیت تھی یہ بہت چکی ہے لیکن اس سے پہلے نہیں.رسول کریم صل الا السلام کے حضور ( تو ) ان کا یہ حال تھا کہ جہاں آپ نے کچھ فرمایا اپنی تمام راؤں اور دانشوں کو اس کے سامنے حقیر سمجھا.اور جو کچھ پیغمبر خدا صلی نا ہی تم نے فرمایا اسی کو واجب العمل قرار دیا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا.“ اطاعت میں گمشدگی.اب دیکھیں کتنا پیارا محاورہ ہے.اطاعت میں گلیڈ گم ہو چکے تھے اور اتنا گم ہو چکے تھے کہ رسول اللہ سی ایم کے ہر فعل سے برکت حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے.وہ سمجھتے تھے کہ یہ بھی اطاعت ہے.یہ مضمون حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھولا ہے کہ جو بعض عجیب و غریب حرکتیں ہمیں اس وقت دکھائی دیتی ہیں اس کی وجہ اطاعت تھی.اتنے کامل مطیع ہو چکے تھے کہ جانتے تھے کہ رسول اللہ صلی ا یتیم کا کوئی فعل ، کوئی حرکت بھی ایسی نہیں کہ اگر اس کو اپنانے کی کوشش کی جائے تو وہ بے فائدہ ہوگا.ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے پہلے کسی نے بھی ان مضامین کو نہیں باندھا ہوا تھا.بڑے بڑے مقررین بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی لہ الیتیم سے ایسا عشق تھا لیکن وہ کیا عشق تھا اس کی کنہہ کیا تھی یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں :
خطبات طاہر جلد 17 391 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء آپ مسی تعالی ہم کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈ تے تھے اور آپ سی تی ای یتیم کے لب مبارک کو متبرک سمجھتے تھے اور اگر ان میں یہ اطاعت، یہ تسلیم کا مادہ نہ ہوتا بلکہ ہر ایک اپنی ہی رائے کو مقدم سمجھتا اور پھوٹ پڑ جاتی تو وہ اس قدر مراتب عالیہ کو نہ پاتے.میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے.“ اب یہ دلیل کیسے بنی جب تک مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں سمجھیں گے نہیں آپ کو سمجھ نہیں آئے گی.فرماتے ہیں: ”میرے نزدیک شیعہ سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے یہی ایک دلیل کافی ہے کہ صحابہ کرام میں باہم پھوٹ ہاں با ہم کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی کیونکہ ان کی ترقیاں اور کامیابیاں اس امر پر دلالت کر رہی ہیں.“ وہ جو شیعہ کہ رہے ہیں کہ کوئی پھوٹ تھی یعنی حضرت علی کے اختلافات تھے.فرمایا اگر پھوٹ ہوتی تو یہ ترقیات ہو ہی نہیں سکتی تھیں.جو عظیم ترقیات خصوصاً خلفائے راشدین کے زمانے میں نصیب ہوئی ہیں یہ ظاہر کرتی ہیں کہ ان کا پھوٹ کا دعویٰ جھوٹا ہے.پھوٹ ہو اور ترقیات ! یہ ہوہی نہیں سکتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیسی پختہ اور عمدہ دلیل لائے ہیں کہ میرے نزدیک تو یہی ایک دلیل کافی ہے مگر ان کے لئے کافی ہے جو عقل رکھتے ہیں جو غور کرنے کی عادت رکھتے ہیں.عامۃ الناس کے لئے تو پکی سے پکی، بڑی سے بڑی دلیل بھی پیش کریں تو سمجھ کچھ نہیں آتی.عامۃ الناس کیا ان عامۃ الناس کے علماء تو ان سے بھی زیادہ ناسمجھ ہیں.دلیل کی بات ماننا تو ان کے نفس کی انا کے خلاف ہے.جنہوں نے بے شمار انانیت کے بت سینوں میں سجائے ہوئے ہوں یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ وہ کسی دوسرے کے منہ سے دلیل کی بات سن کر اپنا سر تسلیم خم کریں.” ناسمجھ مخالفوں نے کہا ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا یا گیا مگر میں کہتا ہوں یہ صحیح نہیں ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہوکر بہہ نکلی تھیں.“ اب عام دلیل جو ہے وہ دلیل جو ہم سنتے آئے ہیں وہ نہیں دی جارہی ،ایک بالکل الگ دلیل ہے.اصل بات یہ ہے کہ دل کی نالیاں اطاعت کے پانی سے لبریز ہو کر بہن نکلی تھیں ، یعنی رسول اللہ صلی شاری ستم
خطبات طاہر جلد 17 392 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء کی اطاعت سے جب دل کی نالیاں لبریز ہوگئیں اور بہر نکلیں تو اس سیلاب کو دنیا میں روک ہی کوئی نہیں سکتا تھا یہ مفہوم ہے.یہ احمقانہ خیال ہے کہ پھر اس سیلاب کو کسی تلوار کی ضرورت ہے.یہ اس اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے دوسرے دلوں کو تسخیر کر لیا.“ جب ایسی نالیاں بہ نکلیں، ایسا Flood آ جائے جس کے نتیجہ میں دل تسخیر ہور ہے ہوں تو تلوار کی کیا ضرورت ہے، تلوار کا موقع کیا ہے.میرا تو یہ مذہب ہے.( یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں :) میرا تو یہ مذہب ہے کہ وہ تلوار جوان کو اٹھانی پڑی وہ صرف اپنی حفاظت کے لئے تھی.ورنہ اگر وہ تلوار نہ بھی اٹھاتے تو یقینا وہ زبان ہی سے دنیا کو فتح کر لیتے سخن کز دل بروں آید نشیند لا جرم بر دل.( یعنی وہ کلام جو دل سے نکل رہا ہو وہ بلا شبہ دل میں جا کر بیٹھ جایا کرتا ہے، دل سے نکلی بات دل پر اثر کرتی ہے.فرماتے ہیں : ) انہوں نے ایک صداقت اور حق کو قبول کیا تھا اور پھر سچے دل سے قبول کیا تھا.اس میں کوئی تکلف اور نمائش نہ تھی.ان کا صدق ہی ان کی کامیابیوں کا ذریعہ ٹھہرا.یہ سچی بات ہے کہ صادق اپنے صدق کی تلوار ہی سے کام لیتا ہے.(اس کو سچائی کی تلوار کے سوا کسی تلوار کی ضرورت نہیں ہے.) آپ ( پیغمبر خداصلی له سیمی کی شکل و صورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا.“ اب جس کو ہم نور سمجھ رہے ہیں وہ دکھائی تو نور کی طرح دیتا ہے لیکن ہے کیا چیز.وہ توکل علی اللہ کا نور ہے.جو شخص بات کرتے وقت جانتا ہو کہ خدا میرے ساتھ ہے اس کو جیسا کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی یا یہ تم کونور عطا ہوا تھا،حصہ رسدی تو کل کا نور ملتا ہے.پس محمد رسول اللہ صلی ہلم کے نور کو جسمانی ظاہر کرنے والے لوگوں کو کیا پتا کہ نور چیز کیا ہوتی ہے.جسمانی نور تو دنیا میں بظاہر بڑے بڑے خوب صورت چہرے والوں کے چہروں پر دکھائی دینا چاہئے مگر اس نور میں کوئی حقیقت نہیں.ایک بہت بڑا فرق ہے جسمانی حسن کے نور میں اور اس نور میں جو اللہ عطا فرماتا ہے اور یہ فرق دیکھنا ہو تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھوں سے رسول اللہ ان کا تینم کا چہرہ دیکھیں.آپ کی شکل وصورت جس پر خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا.“ اب کوئی ادنی سی عقل رکھنے والا انسان بھی اس عبارت
خطبات طاہر جلد 17 393 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء کو پڑھ کر ایسے شخص کو جھوٹا نہیں کہ سکتا.بہت ہی جاہل اور کمینہ دشمن ہوگا، کوئی دہر یہ خدا کے غضب کا مارا ہوا جس کو ان باتوں میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت دکھائی نہ دے.کون کہہ سکتا ہے یہ الفاظ ، جس کا دل گہرائی کے ساتھ اس مضمون میں ڈوبا نہ ہوا ہو.”خدا پر بھروسہ کرنے کا نور چڑھا ہوا تھا اور جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی.یہ کیفیت یعنی اطاعت کی بات ہو رہی ہے اس لئے اس کو نر کی بجائے مادہ لفظوں میں بیان فرمایا گیا ہے.جو جلالی اور جمالی رنگوں کو لئے ہوئے تھی.اس میں ہی ایک کشش اور قوت تھی کہ وہ بے اختیار دلوں کو کھینچ لیتے تھے.اور پھر آپ کی جماعت نے اطاعت الرسول کا وہ نمونہ دکھایا اور اس کی استقامت ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی کہ جو ان کو دیکھتا تھا وہ بے اختیار ہو کر ان کی طرف چلا آتا تھا.“ آج ہمیں جماعت میں اس کشش کی ضرورت ہے.آپ کے پیغام تو کتابوں کے ذریعہ بھی پہنچ جاتے ہیں لیکن جو پیغام آپ کا وجود پہنچائے اس سے بڑھ کر طاقتور کوئی پیغام نہیں ہوسکتا کیونکہ صحابہ کرام کی طرح یہ کشش آپ کے اندر ہوگی کہ جو کوئی دیکھے گا وہ بے اختیار چلا آئے گا.ایسی فوق الکرامت ثابت ہوئی یعنی عام کرامتیں جو ہیں وہ بالکل معمولی باتیں ہیں فقیروں ، پیروں کی تعلیاں ہوا کرتی ہیں مگران کرامتوں سے بھی بڑھ کر کرامت یہ ہے کہ جو کوئی اسے دیکھے وہ بے اختیار چلا آئے.غرض صحابہ کی سی حالت اور وحدت کی ضرورت اب بھی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس جماعت کو جو مسیح موعود کے ہاتھ سے تیار ہو رہی ہے اسی جماعت کے ساتھ شامل کیا ہے جو رسول اللہ صلی ال ہی تم نے تیار کی تھی اور چونکہ جماعت کی ترقی ایسے ہی لوگوں کے نمونوں سے ہوتی ہے اس لئے تم جو مسیح موعود کی جماعت کہلا کر صحابہ کی جماعت سے ملنے کی آرزور کھتے ہو اپنے اندر صحابہ کا رنگ پیدا کرو.اطاعت ہو تو ویسی ہو، با ہم محبت اور اخوت ہو تو ویسی ہو.غرض ہر رنگ میں ، ہر صورت میں تم وہی شکل اختیار کرو جو صحابہ کی تھی.“ الحکم جلد 5 نمبر 5 صفحہ:1 ،2 مؤرخہ 10 فروری 1901ء)
خطبات طاہر جلد 17 394 خطبہ جمعہ 5 جون 1998ء ایک دومنٹ میں اس عبارت کے ایک دو فقرے میں آپ کے سامنے رکھ دیتا ہوں جو آئینہ کمالات اسلام صفحہ 86 حاشیہ سے لی گئی ہے."جو شخص معرفت کا کچھ حصہ رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ ہر یک ذرہ خدا تعالیٰ کے ارادہ کے موافق کام کر رہا ہے اور ایک قطرہ پانی کا جو ہمارے اندر جاتا ہے وہ بھی بغیر اذنِ الہی کے کوئی تاثیر موافق یا مخالف ہمارے بدن پر ڈال نہیں سکتا.“ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحه : 86 حاشیہ) یہ گہرے طبابت کے راز ہیں اور تمام دنیا کے علم شفا سے تعلق رکھنے والے لوگ خواہ وہ کسی نظام شفا سے تعلق رکھتے ہوں اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتے.پانی کا ایک قطرہ بھی جب تک وہ نہیں جانتے کہ اذنِ الہی ہے مگر یہ جانتے ہیں کہ جب تک جسم کی وہ خاص کیفیت نہ ہو جو اسے جذب کر کے اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے ایک پانی کے ضرورت مند کو آپ ڈھیروں پانی بھی پلا دیں ایک قطرہ بھی اس کے کام نہیں آئے گا اب اذنِ الہی کو تو نہیں جانتے مگر یہ معمہ ضرور دیکھا ہوا ہے کہ بعض دفعہ جسم اس ایک قطرہ کو بھی قبول نہیں کرتا جو اس کے جسم میں سے گزر رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں یہ اذن الہی کا نتیجہ ہے.ہم جب کہتے ہیں کہ ایک پتہ بھی نہیں ہلتا اس کے اذن کے بغیر یا ایک قطرہ بھی اس کے اذن کے بغیر فائدہ نہیں پہنچا سکتا تو واقعہ اللہ کا گلیۂ اختیار ہے.اس کے تابع ہو گے تو تم بھی وہ قطرے بنو گے جو تمام دنیا کے صحت مند نظام میں جذب ہو سکتے ہوں.اگر خدا تم میں جذب ہونے کی صلاحیت رکھے گا تو پھر تم جذب ہو سکو گے پھر دنیا کا کوئی جسم تمہارا دفاع کر ہی نہیں سکے گا.یہ وہ مرکزی نکتہ ہے جو اس عبارت سے میں نے لیا ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان سب باتوں کو سن کر ان کی باریکیوں کو سمجھے گی اور دنیا میں عظیم انقلاب کے قابل ہو جائے گی جس کو بر پا کرنے کے لئے اللہ نے اس جماعت کی بنا ڈالی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 395 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء پاکستان کی تاریخ ہو یا ایٹمی توانائی کی تاریخ اس میں اولین کردار جماعت احمدیہ نے ادا کیا (خطبہ جمعہ فرموده 12 جون 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: گزشتہ دنوں پاکستان کو جو ایٹمی دھما کا کرنے کی توفیق ملی اس کے متعلق اخبارات میں بکثرت متضاد خبریں آتی رہی ہیں اور مختلف سائنس دانوں کے گروہ اپنے سرسہرا باندھنے کی کوشش کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ جگ ہنسائی بھی ہوئی ہے اور ہورہی ہے لیکن ایٹمی توانائی کی تاریخ کا آغاز بالکل بھلا دیا گیا ہے بلکہ اس کے برعکس جماعت احمدیہ پر ملاں اور ان کے چیلے چانٹے یہ الزام لگارہے ہیں کہ جب ایٹمی دھما کا ہوا تو ایک دھما کاربوہ میں بھی ہوا اور وہ سخت مایوسی اور غم وغصہ کا دھما کا تھا.اتنی تکلیف پہنچی اہل ربوہ کو کہ یہ کیا حرکت ہو گئی کہ پاکستان نے ایٹمی توانائی میں اتنی ترقی کر لی ہے.یہ ساری باتیں مولوی کی سرشت میں داخل ہیں وہ ہمیشہ حقائق کو چھپا کر پلید باتیں کرتا ہے جن کا حقائق سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا اور مولویوں کے رعب کے نتیجے میں وہ لوگ جن کو تاریخ یاد رہنی چاہئے تھی وہ بھی یا اس تاریخ سے نا واقف ہو گئے ہیں، ان کا دماغ مولوی کے شور نے بالکل صاف کر دیا ہے یا موجود تو ہے دماغ میں لیکن ڈر کے مارے بات نہیں کرتے.اس سے پہلے کہ میں ایٹمی توانائی کی تاریخ جو حقیقی تاریخ ہے اس پر کچھ روشنی ڈالوں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستان ہو یا دنیا میں کہیں بھی مسلمان ملت کے مفاد کی بات ہو ہمیشہ بلا استثنا
خطبات طاہر جلد 17 396 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء جماعت احمدیہ نے سب سے اول اور مؤثر قدم اٹھایا ہے اور جہاں بھی ملت کے مفادات کو نقصان پہنچا ہے وہاں جماعتی مشوروں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں نقصان پہنچا ہے.قیام پاکستان کی تاریخ آپ کے سامنے ہے.بہت سے حوالے میں دے چکا ہوں اور اب میں سمجھتا ہوں کہ اس ایک گھنٹے کے اندر اُن کو دہرانے کی ضرورت نہیں ہے.وہ میرے خطبات چھپ چکے ہیں ، وہ مضامین شائع ہو چکے ہیں جن میں بکثرت ایسے حوالے ہیں کہ پاکستان کی تعمیر میں ہی سب سے اہم کردار جماعت احمدیہ نے ادا کیا ہے.اگر جماعت احمدیہ کے کردار کو نکال لیا جائے تو یہ ملاں لوگ جو آج حکومت پر قابض ہوئے ہوئے ہیں انہوں نے تو پاکستان کو مٹانے کی ہر ممکن تدبیر کر دی تھی.اب یہ تاریخ کا ایک مکروہ پہلو ہے کہ وہی لوگ جو پاکستان کو مٹانے میں پیش پیش تھے انہی میں سے ایک شخص جو عطاء اللہ شاہ بخاری کا مرید کہلاتا ہے، اول درجہ کا مرید ، وہ اس وقت ملک کا صدر بنا ہوا ہے.تو جب قوم تاریخ کو ملیا میٹ کرنے پر تل جائے تو یہی نتیجہ نکلا کرتا ہے.حد سے زیادہ مکروہ باتیں پاکستان میں ہو رہی ہیں جن کا تعلق پاکستان سے زیادہ پلیدستان سے ہے.جس کے متعلق عطاء اللہ شاہ بخاری ہی کا یہ قول تھا کہ پاکستان تو نہیں بن سکے گا پلیدستان بن جائے گا.رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب 1953 المعروف منیر انکوائری رپورٹ - صفحہ :398) اب وہ پلیدستان بنانے میں اس وقت سب سے بڑا کردار صدر صاحب ادا کر رہے ہیں.تو بہت وفادار شاگرد ہیں جنہوں نے پاکستان کو پلیدستان بنانے کا جو ارادہ تھا اسے پایہ تکمیل تک پہنچا دیا ہے لیکن وہ اکیلے نہیں ہیں ساری قوم کا مزاج بگڑا ہوا ہے.اس قدر غلط کردار پاکستان کا ہے کہ آپ تو الگ رہے دنیا کے باقی دانشور بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کہ اسلامی ملک میں اس قسم کی بے حیائیاں ہو رہی ہیں.ہر بے حیائی منظور ہے مولوی کو اور ہر بے حیائی کی سر پرستی کرتا ہے.جھوٹ اس کی سرشت میں داخل ہے.یہ سارا اسلام ہے صرف جماعت احمدیہ کا نام لینا ایک جرم عظیم ہے، یہ نام نہ لیا جائے تو سب کچھ اسلام اور جائز ہے.اس مضمون کے تعلق میں میں بہت باتیں پہلے کھول چکا ہوں.میں اشارہ صرف یہ باتیں عرض کر رہا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ ہو یا کوئی بھی مسلمانوں کے مفاد کی بات ہو اس میں ہمیشہ اولین کردار جماعت احمدیہ نے ادا کیا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 397 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء کشمیر موومنٹ : 1930 ء،34،33،32،31 ء تک، حضرت مصلح موعودؓ نے کشمیر موومنٹ کا آغاز کیا اور اس کے متعلق بکثرت مضامین شائع کئے.تمام ہندوستان کے مسلمانوں کی رائے عامہ کو جگایا اور انہیں سمجھایا کہ تم کشمیر کے معاملات اور کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کے معاملات سے بالکل غافل پڑے ہو، اٹھو اور کسی جدوجہد کا آغاز کرو.جب یہ آغاز ہوا تو علامہ اقبال ہی نے سب سے پہلا نام مرزا بشیر الدین محمود احمد کا پیش کیا.اب یہ بھی تاریخ کے وہ پہلو ہیں جن کے متعلق مستند حوالوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے کہ جماعت احمدیہ سے بڑھ کر کشمیر کی آزادی کی مہم چلانے والی اور کوئی جماعت نہیں تھی.جہاں تک فلسطین کا تعلق ہے فلسطین کے متعلق سب سے پہلا تنی ہی مضمون جو شائع کیا ہے وہ حضرت خلیفہ اسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شائع فرمایا ہے.آپ ہی نے فلسطینیوں کو متنبہ کیا کہ اپنی زمینیں یہودیوں کے ہاتھوں بیچنے سے باز آ جاؤ.اگر تم نے یہ زمینیں بیچیں تو اب تو ان کو وہاں کھڑے ہونے کی جگہ نہیں ہے، ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے.تمہاری زمینیں خرید کر یہ اپنے کھڑے ہونے کی جگہ بنائیں گے اور پھر اسے پھیلا دیں گے اور رفتہ رفتہ ان کا دائرہ اثر تمہارے سارے مسلمان ممالک جو عرب میں موجود ہیں ان سب پر محیط ہو جائے گا اور یہ بہت ہی خطرناک حرکت ہے جو تم کر رہے ہو اس سے تو بہ کرو.تاریخ احمدیت جلد 13 صفحہ : 122) اس موقع پر اس مضمون کی تائید میں عراق اور فلسطین اور دوسرے اخبارات میں سے بہت سے دانشور ایسے تھے جن کے ایڈیٹر، جنہوں نے کھل کر تائیدی مضامین لکھے، انہوں نے کہا اگر کوئی صحیح مشورہ دے رہا ہے تو اس وقت جماعت احمدیہ کا سر براہ مرزا بشیر الدین محمود احمد ہی ہے جو صحیح مشورہ دے رہا ہے.آپ نے ان کے جذبات کو ابھارنے کے لئے بڑی پر زور تحریریں لکھیں لیکن افسوس ہے کہ ان لوگوں نے ان پر کان نہ دھرے.ایک تحریر کا نمونہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آپ نے لکھا: سوال فلسطین کا نہیں، سوال مدینہ کا ہے، سوال یروشلم کا نہیں ، سوال خود مکہ مکرمہ کا ہے.سوال زید اور بکر کا نہیں ، سوال محمد رسول اللہ لا یتیم کی عزت کا ہے.دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکٹھا ہو گیا ہے کیا مسلمان باوجود ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکٹھا نہیں ہوگا.“ وو (الكفر ملة واحدة ، انوار العلوم جلد 19 ،صفحہ:572)
خطبات طاہر جلد 17 398 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء الكفر ملۃ واحدۃ کا رسالہ جو شائع ہوا ہے اس کا حوالہ الفضل 1948ء سے ہے.یہ الکفر ملة واحدة کا جو مضمون ہے یہ تو سارے عرب میں اور اس سے باہر بھی بہت شہرت پکڑ گیا تھا تو یہ الفاظ تھے جن سے آپ نے مسلمانوں کی غیرت اور عزت اور رول اللہ ایم ایم کی محبت کو انگیخت کیا.پاکستان کے قیام کے دوران جو خدمات چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب نے ادا کی ہیں وہ ایک الگ تفصیلی باب ہے جس کے متعلق چوہدری محمد علی صاحب سابق وزیر اعظم پاکستان اپنی مشہور کتاب ”پاکستان“ کے صفحہ 360 پر تفصیل سے ذکر کرتے ہیں.چوہدری محمد علی صاحب احمدی تو نہیں تھے.بنگالی شریف النفس انسان تھے اور پاکستان کے وزیر اعظم رہے ہیں انہوں نے کھلے لفظوں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو خراج تحسین پیش کیا کہ پاکستان کے قیام کے بعد کشمیر کی حمایت میں اس سے زبردست تقریریں آپ کو کہیں اور نہیں ملیں گی جیسے ظفر اللہ خان نے کیں اور جو کوششیں کیں ان کا ذکر طویل ہے.( ظهور پاکستان از چودھری محمد علی ،مترجم بشیر احمد راشد، صفحه : 360 مطبع کارواں پریس.لاہور، اگست 1985ء.The Emergence of Pakistan by Ch.Muhammad Ali Pg:301-302,Columbia University Press New York and London 1967) جہاں تک مسئلہ فلسطین کا تعلق ہے حضرت مصلح موعودؓ نے اس کا آغاز کیا اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے یونائیٹڈ نیشنز یعنی اقوام متحدہ میں مسئلہ فلسطین کی ایسی پیروی کی کہ اس کی کوئی نظیر آپ کو کہیں تاریخ میں نہیں ملے گی، حیرت انگیز فصاحت و بلاغت سے پانچ پانچ گھنٹے آپ نے تقریریں کیں.اور ایک ایسا موقع تھا جب کہ امریکہ اور اسرائیل کی یعنی جو بننے والا تھا ابھی ، اسرائیلیوں کی سازش سے تمام انتظامات مکمل ہو چکے تھے کہ یونائیٹڈ نیشنز میں جب یہ مسئلہ پیش ہوگا تو بھاری اکثریت اسرائیل کے قیام کے حق میں ووٹ دے گی اس وقت ظفر اللہ خان اٹھے ہیں تقریر کے لئے اور فی البدیہہ ایسی تقریر کی ہے کہ مسلمان جتنے بھی نمائندے تھے وہ جوش سے بار بارا ٹھتے تھے اور بعض روتے ہوئے آپ کے ہاتھوں کو چومتے تھے کہ ظفر اللہ خان تم نے اسلام اور فلسطین کی حمایت کا حق ادا کر دیا.اس کے اوپر جو بعد میں تبصرے چھپے ہیں وہ بہت زیادہ ہیں ان کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا.میں صرف اتنا بتا دیتا ہوں کہ امریکہ اور صیہون کی پوری کوششوں کے باوجود اس وقت کے نمائندگان جو یونائیٹڈ نیشنز میں موجود تھے ان کی اکثریت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے دلائل سے متاثر ہو گئی.اگر اس وقت ووٹ لے لیا جاتا تو اسرائیل کے قیام کا ریزولیوشن پاس ہونا ناممکن تھا.اس وقت جیسے دجل کی عادت ہے فوری طور پر امریکہ نے دخل دے کر یہ سوال اٹھایا
خطبات طاہر جلد 17 399 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء کہ یہ مسئلہ بہت اہم ہے ابھی ووٹ نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ ان کو پتا تھا کہ اگر اسی وقت ووٹ ہو جاتے تو یہودی حکومت کے قیام کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا.یہ وقت مانگا اور تمام دنیا کی حکومتوں پر دباؤ ڈالا کہ تم اپنے فلاں نمائندہ کو جو اس وقت یہود کی حکومت کے خلاف ہو چکا ہے حکماً، جبراً مجبور کرو کہ اپنا ووٹ فلسطین میں یہود کی حکومت کے قیام کے حق میں دے اس کے خلاف نہ دے.جب ساری گفتی کر لی اور یقین ہو گیا کہ اب ہر صورت میں یہودی حکومت کے قیام کے حق میں فیصلہ ہو گا تب کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے یونائیٹڈ نیشنز میں جس کو ڈویژن کال کہتے ہیں یعنی ووٹ طلب کئے کہ بتاؤ کون کس کے حق میں ہے.اس وقت حال یہ تھا کہ بعض نمائندگان روتے ہوئے ظفر اللہ خان سے کہہ رہے تھے کہ ہمارا کوئی قصور نہیں ہے.ہم ابھی بھی اس بات پر سو فیصد مطمئن ہیں کہ فلسطین پر یہودی حکومت کا قیام جائز نہیں لیکن اپنی حکومتوں کے ہاتھوں مجبور ہیں اور بالآخر معمولی اکثریت سے یہ فیصلہ ہو گیا جو اس سے پہلے بھاری اکثریت سے اس فیصلہ کو ر ڈ ہو جانا چاہئے تھا یعنی اگر اس وقت جس وقت ظفر اللہ خان نے تقریر ختم کی تھی اس وقت اگر ووٹ ہوتے تو یونائیٹڈ نیشنز کی بھاری اکثریت اس فیصلہ کو رڈ کر دیتی.اس کے بعد کیا ہوا، کس طرح عرب نمائندوں نے ظفر اللہ خان کی محبت کے گیت گائے ہیں، کس طرح بعد میں عرب رسالوں نے خواہ وہ کسی عرب ملک سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کے اخبارات نے ظفر اللہ خان کی مدح سرائی کی ہے اس میں یہاں تک لکھا گیا کہ رسول اللہ صلی ا یہی تم سے آج کے زمانہ تک یعنی جب سے رسول اللہ صلی ا یہ ستم کا وصال ہوا اور پہلا دور ختم ہوا ، اس کے بعد آج تک جتنا بھی زمانہ گزرا ہے اس میں ظفر اللہ خان سے بڑھ کر اسلام کا حمایتی ہم نے نہیں دیکھا.یہ ساری باتیں فراموش کر دی گئیں ، عمداً ان کو مٹایا جارہا ہے.اس تاریخ کو جو یونائیٹڈ نیشنزر کے مسودات کا حصہ بنی ہوئی ہے اس کو پاکستان نظر انداز کر دیتا ہے.اب یہ کیا انصاف ہے یہ کیسی تاریخ ہے؟ آئندہ آنے والی تاریخ ان تاریخ دانوں کو جو آج کل پاکستان پر مسلط ہیں ان کو لازماً جھوٹا اور بدکردار ثابت کرے گی.آئندہ آنے والی نسلیں ان کی تیار کردہ تاریخ پر لعنتیں ڈالیں گی اس میں کوئی بھی شک نہیں.سردست ان کا پلہ بھاری ہے یہ جس چیز کا جو چاہیں نام رکھ لیں.اپنے صحراء کو
خطبات طاہر جلد 17 400 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء بے شک جنت نشان بتاتے رہیں لیکن اس جنت میں جو حرکتیں ہو رہی ہیں وہ اس جنت میں نہیں ہوسکتیں جس کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے، کوئی دور کی بھی نسبت نہیں.اب میں اس مختصر ذکر کے بعد اٹامک انرجی اور اس کا پس منظر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ جو سہرا بھٹو صاحب کے سر پر باندھا جا رہا ہے، یہ سراسر جھوٹ ہے.اس کا سہرا اگر کسی پاکستانی سیاستدان کے سر بندھنا چاہئے تو وہ ایوب خان ہیں.جنرل ایوب خان سے ہی اٹامک انرجی کے انسٹی ٹیوشن کا آغاز ہوا ہے اور عجیب بات ہے کہ گوہر ایوب صاحب خود اپنے باپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ڈرتے ہیں کیونکہ 1965ء کی جنگ میں جو حالات رونما ہوئے اس کے نتیجے میں جنرل ایوب خان نے یہ پہلا فیصلہ کیا تھا کہ ہمیں لازماً ایٹمی توانائی کی طرف توجہ کرنی ہوگی ورنہ ہم ہندوستان جیسے مد مقابل کے سامنے مات کھا جائیں گے اور پھر کوئی بعید نہیں کہ ہندوستان ہمارے ملک پر قابض ہو جائے.اس لئے ایک ہی علاج ہے کہ ایٹمی توانائی کو فروغ دیا جائے.ایوب خان کی نظر انتخاب جس سائنس دان پر پڑی جس پر آپ کو کامل اعتماد تھا وہ ڈاکٹر عبدالسلام تھے.ڈاکٹر عبدالسلام نے ابتدائی اور بنیادی خدمات سرانجام دینے میں ایسا کردار ادا کیا کہ اگر کوئی مؤرخ شریف النفس ہو تو اس کردار کو بھلا نہیں سکتا اور اس معاملہ میں ایسی سیکریسی (Secrecy) سے کام لیا ہے جس کے متعلق یہ کہتے ہیں کہ احمدیوں کو ہم ہٹا رہے ہیں ہر جگہ سے کیونکہ یہ اپنے راز کی باتیں دوسروں کو بتا دیتے ہیں لیکن ڈاکٹر عبدالسلام صاحب نے ان امور میں اس قدر اخفاء سے کام لیا ہے کہ بہت بعد تک جب یہ سارے واقعات گزرے مجھے ملتے رہے تو ایٹمی توانائی میں اپنا جو کردار تھا اس کا ذکر بھی نہیں کیا انہوں نے.سرسری ساذ کر کرتے رہے ہیں اور تاثر یہ دیا کہ گویا ایٹمی توانائی کا جو کام ہوا ہے یہ بعد میں ہوا ہے.جھوٹ تو نہیں بول سکتے تھے مگر تا ثریہ دیا.میں نہیں جانتا کن الفاظ سے مجھ پر یہ تاثر قائم ہوا مگر اپنے نفس کو بڑھانے کی ان کو عادت ہی نہیں تھی اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک انتہائی منکسر المزاج انسان تھے، کچے پاکستان کے ہمدرد اور ایوب خان نے جو اعتماد آپ پر کیا اس کو سچا ثابت کر دکھایا.یہ جتنے اٹامک ، نیوکلیر کمیشن بنے ہیں مختلف قسم کے اٹامک یعنی یورینیم وغیرہ کی افزائش کے انتظامات ہوئے ہیں، ان سب میں ڈاکٹر
خطبات طاہر جلد 17 401 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء عبد السلام کے مشورہ کے مطابق وہ سائنسدان ملوث ہوئے ہیں جن میں سے ایک بڑی تعداد احمدی سائنسدانوں کی تھی اور اگر وہ احمدی سائنسدان اس پر کام نہ کرتے تو آج کسی ایٹم بم کا سوال ہی نہ پیدا ہوتا پاکستان کے لئے اور یہ الزام کہ وہ اپنی خبریں احمدیوں کو دیتے ہیں اس قدر جھوٹا اور لغو ہے کہ اب جبکہ یہ واقعہ ہو گیا تو امریکہ سے شیخ لطیف صاحب نے جو اس وقت چوٹی کا کردار ادا کرنے والے تھے انہوں نے پہلی بار مجھے لکھا ہے کہ یہ سارے جھوٹ بول رہے ہیں، بات کچھ اور ہی ہے.ایوب خان کے زمانہ میں آغاز ہوا اور میں ان سائنس دانوں میں سے ہوں جنہوں نے اولین کلیدی کردار ادا کیا ہے یورینیم کی افزائش کے تعلق میں اور مدتوں اس پر کام کیا، مختلف ممالک کے دورے کئے ہیں اور افزائش کے سلسلہ میں، اگر یہ سارا کام جو مخفی طریق پہ ہوتا رہا ہے اگر یہ نہ کیا جاتا تو آج پاکستان ایٹم بم بنانے کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا تھا.تو اول طور پر یا درکھیں کہ اس کا سہرانہ بھٹو کے سر ہے نہ ضیاء الحق کے سر ہے، نہ نواز شریف کے سر ہے.یہ سارے بعد میں شہرت لوٹنے والے لوگ ہیں.سہرا اگر کسی پاکستانی سیاستدان کے سر ہے تو وہ جنرل ایوب خان تھے.بہت گہرے انسان جن کی نظر ملک وقوم کے مفادات پر تھی اور دیکھنے میں ایک سادہ سے جرنیل تھے.مگر ان کی بہت باریک اور گہری نظر اسلامی مفادات اور ملکی مفادات پر پڑا کرتی تھی اور اسی کا یہ نتیجہ ہے کہ یہ انا مک انرجی کمیشن قائم ہوا.اس میں ایک بہت بڑی خوبی یہ تھی کہ خاموشی سے کام کرتے تھے اور اپنا دکھاوا منظور ہی نہیں تھا.اس وجہ سے بھی اس زمانہ کی تاریخ کو اب بھلا دیا گیا ہے ورنہ اگر اس وقت وہ کھل کر یہ باتیں کرتے تو ان کو ذاتی شہرت تو مل سکتی تھی مگر سب دنیا کی نظریں پاکستان کے اٹامک پروگرام پر ہوتیں اور اس وقت دخل اندازی کر کے وہ اس کی بنیاد ہی قائم نہ رہنے دیتے.پس اپنی انا کی ذرہ بھر بھی پرواہ نہیں کی انہوں نے اور اعتماد کیا تو احمد یوں پر کیا اور ڈاکٹر عبدالسلام نے جن لوگوں کے نام پیش کئے ان سب کو قبول کیا.وہی نام ہیں جن میں سب سے بڑا نام اس وقت منیر احمد صاحب کا ہے.منیر احمد صاحب نے جو بڑے جرات والے با اخلاق انسان ہیں اٹامک انرجی کمیشن میں بہت بڑا کام سرانجام دیا ہے.اس کو منظم کرنے میں بعد ازاں ان کا بہت بڑا ہاتھ ہے اور یہ تسلیم کرتے ہیں کھل کر کہ ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کے لائے ہوئے تھے اور
خطبات طاہر جلد 17 402 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء انہی کے اعتماد کی وجہ سے ان کو یہ توفیق ملی ہے.اب منیر احمد خان صاحب زندہ موجود ہیں ، آپس میں یہ لوگ جتنا بھی فخر بانٹنا چاہیں ایک دوسرے سے چھین چھین کے بے شک بانٹیں، ان سے اگر کوئی پوچھے کہ بتاؤ کہ اٹامک انرجی کمیشن کے آغاز میں سب سے اہم کردارکس نے ادا کیا تو وہ بلاشبہ کہیں گے کہ ڈاکٹر عبدالسلام نے.انہوں نے ڈاکٹر عبدالسلام پر ان کی وفات کے بعد جو مضمون لکھا، جو ٹریسٹ میں پڑھا گیا اس میں بہت کھل کر ڈاکٹر عبد السلام کی عظمت کے گیت گائے ہیں اور ان سب باتوں کا اگر آج کسی غیر احمدی سائنسدان کو قطعی یقینی علم ہے تو وہ یہ منیر احمد خان صاحب ہیں.مجھے یقین ہے کہ پرائیویٹ مجالس میں جب ان سے پوچھا جائے گا تو یہ ضرور بتائیں گے لیکن اس آغاز کی تاریخ کا انہوں نے کیوں ذکر نہیں کیا میرے نزدیک پاکستانی حکومت اور پاکستانی میڈیا اور پاکستانی اخبارات اس کے متحمل ہی نہیں ہو سکتے تھے اس لئے بعید نہیں کہ انہوں نے بیانات میں یہ سچی باتیں کہی ہوں لیکن ان کو بالکل کلیۂ نظر انداز کر دیا گیا ہو اور ملیا میٹ کر دیا گیا ہو.تو اس وقت جو پاکستان کی نیوکلیئر افزائش کے تعلق میں ایک عالمی حیثیت قائم ہو گئی ہے اس میں اول کردار ایوب خان اور دوم کردار جو سائنسی کردار ہے یہ ڈاکٹر عبد السلام نے ادا کیا.ڈاکٹر سلام صاحب نے یورینیم کی افزائش کے سلسلہ میں ڈیرہ غازی خان میں یورینیم کے ذخائر کی دریافت کے بعد اس کو کس طرح ایٹمی توانائی کے قابل بنایا جا سکتا ہے اس کے متعلق سب سے اہم مشورے دئے اور شیخ لطیف صاحب جو احمدی سائنسدان ہیں یہ وہ سائنسدان ہیں جن کو اس کام پر مامور رکھا ہے.بڑی خاموشی کے ساتھ ، بغیر کسی انانیت کے جذبہ کے تحت کریڈٹ لینے کی کوشش کے، انتہائی خاموشی اور اخفا کے ساتھ یہ کام کرتے رہے ہیں اور اس کی تفصیل میں یہاں بیان نہیں کر سکتا لیکن میرے پاس وہ سارے کوائف موجود ہیں.اگر میں بیان کروں تو دنیا حیران رہ جائے گی کہ احمدی سائنسدانوں نے کتنی خاموشی کے ساتھ وہ خدمات سرانجام دی ہیں جن کے بغیر پاکستان میں نیوکلیئر افزائش کا کوئی سلسلہ ہی نہیں چل سکتا تھا.کسی غیر معروف جگہ میں بیٹھ کر یہ لیبارٹریاں بناتے رہے ہیں.وہ آج کی جو جدید لیبارٹری بنی ہے وہ اسی لیبارٹری کے خدو خال پہ بنی ہے جو انہوں نے تجویز کی تھی اور بنا کے دکھائی تھی تو بلیو پرنٹ بھی ان کا ہی تیار کردہ تھا اور بلیو پرنٹ کو ڈھال کر عملی شکل دینے میں بھی انہوں نے ہی سب سے بڑا کردار ادا کیا اور بعد میں جب زیادہ وسعت کی ضرورت پڑی تو بعینہ انہی کی سکیم کو آگے بڑھا کر وسعت دی گئی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 403 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء اب یہ امریکہ میں ہیں شیخ لطیف احمد صاحب جن کا اس سارے واقعہ کے بعد مجھ سے رابطہ ہوا ہے.اس سے آپ اندازہ کریں کہ ان کو کچھ بھی پرواہ نہیں تھی اپنی انا کے اظہار کی.جب تک یہ دھما کے نہیں ہوئے اس وقت تک انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ مجھے بھی بتائیں کہ اس سے پہلے کیا کرتے رہے ہیں.انہوں نے کچھ اور سائنسدانوں کے نام بھی بھیجے ہیں.ڈاکٹر منیر احمد خان صاحب کی سربراہی میں جو ٹیم بنائی گئی تھی اس میں جو احمدی سائنسدان کلیدی اسامیوں پر فائز تھے ان میں ایک شیخ لطیف احمد صاحب یہی امریکہ والے، دوسرے مرزا منور احمد صاحب کینیڈا والے.اس کے علاوہ بھی بہت سے نام ہیں مثلاً محمود احمد شاد صاحب ٹورانٹو کینیڈا میں ہیں.نیوکلیئر فیوژن کی مینجمنٹ میں انہوں نے بہت بڑی خدمات سرانجام دی ہیں.شیخ لطیف صاحب کا جو کردار رہا ہے 1961ء سے 1989 ء تک، مینوفیکچر آف نیوکلیئر ریسرچ Equipment یہ انہی کا کارنامہ ہے.1972ء میں مینوفیکچر آف یورینئم ایکسٹریکشن پائلٹ پلانٹ انہوں نے تجویز کیا.انہوں نے اپنے سامنے بنوا کر دکھا دیا کہ یہ تجویز محض ایک خیالی تجویز نہیں ، عملاً یہ ہوسکتا ہے.1974ء تا 1979ء پراسیسنگ آف یور مینٹم مینوفیکچرنگ نیوکلیئر فیوژن یہ بھی ان کا کارنامہ ہے.اب یہ اس کو جو مرضی اپنے سر تھوپنے کی کوشش کرے یہ وہ حقائق ہیں جو پاکستان کی تاریخ میں مندرج ہیں اور ان حقائق کو یہ مٹا سکتے ہی نہیں.اس لئے قدیر خان صاحب کی باتیں ہوں یاکسی اور سائنسدان کی باتیں ہوں حقیقت میں یہ احمدی سائنٹسٹ ہیں جنہوں نے بہت گہری علمی خدمات سرانجام دی ہیں اور آج کا ایٹم بم ان کا مرہون منت ہے.یہ جو کہا جا رہا ہے کہ عبدالقدیر نے فیوژن میں کام کیا باقی سب کام دوسروں نے کئے ، یہ سب غلط ہے.عبدالقدیر صاحب کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں تھی، کوئی شمار ہی نہیں تھا پرو پیگنڈا کے سپیشلسٹ ہیں وہ اور بہت پرو پیگنڈا کیا ہے انہوں نے.اس کے متعلق اخبارات میں یہ خبریں شائع ہو چکی ہیں کہ کس طرح بعض صحافیوں کو انہوں نے خریدا اور اپنی جیب سے پیسے خرچ کر کے ان کو اپنی تائید میں لکھنے پر آمادہ کیا.اب یہ ساری باتیں پاکستان کے اخبارات میں چھپی ہوئی موجود ہیں ان کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا کیونکہ مجھے پسند نہیں کہ عبدالقدیر خان صاحب کے کئے کرائے پر پانی پھیرنے کی کوشش کروں.ان بے چاروں نے جو کچھ کریڈٹ لے لیا ہے اللہ ان کو مبارک کرے مگر تاریخ بدلنے کا ان کو کوئی حق نہیں تھا.جو تاریخ کہہ رہی ہے وہ یہ باتیں ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 404 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء شیخ لطیف صاحب کے علاوہ مرزا منور احمد صاحب ٹورانٹو کا میں نے بتایا ہے اسی طرح ڈاکٹر محمد افضل صاحب 1964ء سے 1969ء تک سنٹر فار نیوکلیئر سٹڈیز میں لیکچرار رہے ہیں یعنی پروفیسر تھے اور اٹامک انرجی کے سائنس دانوں کو نیوکلیئر سائنس کی ٹیکنالوجی پڑھانے میں انہوں نے سب سے نمایاں کام سرانجام دیا ہے.جو ٹیم بنی ہے، بہت سارے کثرت سے لوگ Involve ہوتے ہیں ایسے کاموں میں ، اس ٹیم کو بنانے میں بھی احمدی پروفیسر ز کا دخل ہے.تو تعجب کی بات ہے کہ ان سب باتوں کو آج کا پاکستان کلینہ بھلا رہا ہے اور ایک نئی تاریخ کو جنم دینے کی کوشش کر رہا ہے جو سراسر جھوٹی ہے.اس مختصر ذکر کے بعد چونکہ میں نے حوالے نہیں پڑھے جو مختلف مضامین کے میرے پاس موجود ہیں اس لئے میرے اندازے سے جلدی وقت ختم ہو گیا ہے ورنہ میرا خیال تھا کہ اگر یہ حوالے پڑھوں تو پھر پور ا وقت ہو جائے گا.پھر ڈر کے مارے نہیں پڑھے کہ زیادہ ہی وقت نہ لگ جائے اب مختصر تبصرہ کر کے اس خطبہ کو ختم کر دیتا ہوں.آج کا دور یعنی وہ دور جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے شروع ہوتا ہے اس دور میں ایک بھی ایسی بات نہیں جو مسلمانوں کے مفادات سے تعلق رکھتی ہو اور اس کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یا آپ کے غلاموں نے نہ کیا ہو.مسلم لیگ کی بنیاد بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈالی.مسلم لیگ کا تذکرہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے.اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو لازماً الہاما اس طرف توجہ پیدا ہوئی کہ ہندوستان کے جتنے مسلمان ہیں ان کو اکٹھا ہو کر ایک لیگ کی بنیاد ڈالنی چاہئے اور آج کی مسلم لیگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا نام مٹانے کی کوشش کر رہی ہے.یہ عجیب کردار ہے جس کو ہرگز اللہ قبول نہیں فرما تا اور اس کا بد اثر کچھ دیکھ رہے ہیں ، کچھ اور بھی دیکھیں گے.پاکستان کی تاریخ میں جماعت احمدیہ نے جو کردار ادا کیا اس سلسلہ میں تمام مستند کتابیں جو پہلے زمانہ کی چھپی ہوئی ہیں، رئیس احمد جعفری کی کتاب ہو یا کوئی اور ان میں واضح طور پر لکھا ہوا ہے کہ تمام ہندوستان کی مذہبی جماعتوں میں اگر کوئی جماعت تھی جس نے پاکستان کی تعمیر میں کام کیا ہے تو یہ جماعت احمد یہ تھی.اور اب ان کے سکول کی لغو اور لچر کتابوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ مولویوں نے پاکستان کو تعمیر کیا اور جماعت احمدیہ اس کی مخالف رہی ہے.تو ہر چیز میں انہوں نے واضح جھوٹ اور ناشکری سے کام لیا ہے اس کے نتیجے
خطبات طاہر جلد 17 405 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء میں یہ ہو نہیں سکتا کہ اللہ تعالیٰ ان کی ان زیادتیوں کو نظر انداز فرما دے.ہمیشہ خدا کا یہی دستور رہا ہے کہ جماعت کو توفیق بخشتا ہے.جب یہ لوگ نظر انداز کرتے ہیں تو ان کو سزا ملتی ہے.کشمیر میں جب بالآخر علامہ اقبال نے حضرت مصلح موعود کی کوششوں کو نظر انداز کیا تو اس کے بعد پھر کشمیریوں پر مظالم کا ایک ایسا دور شروع ہوتا ہے جس کو قیامِ پاکستان ہی نے آکر ختم کیا یا ایک حد تک ختم کیا اور قیام پاکستان کے بعد دوبارہ پھر اگر کشمیریوں کی حمایت کے آغاز کا موقع ملا تو حضرت مصلح موعودؓ کو ملا ہے.کس طرح ان باتوں سے آنکھیں بند کرتے ہیں تعجب ہے.یقین نہیں آتا کہ کوئی شخص اس طرح حقائق کو دیکھ کر ان سے آنکھیں بند کر کے بالکل ایک مختلف بات من گھڑت بات اس کی جگہ بنالیتا ہے.کشمیر کی تاریخ کے متعلق اب میرے پاس حوالے تو نہیں ہیں جو مجھے زبانی یاد ہے وہ یہ ہے کہ پارٹیشن کے فوراً بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رتن باغ سے اس تحریک کا آغاز کیا ہے.احمدی آفیسر ز آپ کو ملنے آتے رہے اور بہت سے غیر احمدی افسران آپ کو ملنے کے لئے آتے رہے کیونکہ ان کو اعتماد تھا کہ اگر یہ تحریک کوئی شروع کر سکتا ہے تو صرف آپ کر سکتے ہیں.صوبہ سرحد میں رائے عامہ کو درست کرنے کے لئے آپ نے احمدی با اثر پٹھانوں کو مقرر کیا اور انہوں نے تمام صوبہ سرحد کا دورہ کر کے رائے عامہ کو کشمیر کے حق میں اُبھارا اور جو جتھے جانے شروع ہوئے ہیں کشمیر کی تائید میں یعنی پٹھانوں کے جتھے وہ جماعت احمدیہ نے بھیجے تھے.اب یہ جو چاہیں اس کا نام رکھ دیں.یہ حقائق ہیں جو تاریخ کے حقائق ہیں ان کو کوئی شریف النفس انسان ملیا میٹ نہیں کر سکتا.چاہے بھی تو نہیں کر سکتا.بد باطن بھی ملیا میٹ نہیں کر سکتا کیونکہ یہ تاریخ کا حصہ ہیں.یہ جیسے پتھر پر تحریریں لکیر بن جاتی ہیں جو مٹائی نہیں جاسکتیں وہ لکیر ہے یہ تاریخ پر ، جس کو اب یہ لوگ مٹا نہیں سکتے مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے آپ کو صبر سے کام لینا ہوگا.وقت بدل جایا کرتے ہیں.پہلی قوموں نے بھی بہت صبر سے کام لیا ہے اور بالآخر حقیقی تاریخ کے نقوش ان مٹائی ہوئی تحریروں میں سے ابھر نے شروع ہوئے اور نئے نقشوں نے جگہ لی ہے.پس جماعت احمدیہ کو میری یہ نصیحت ہے کہ آپ صبر سے کام لیں.جہاں تک ممکن ہے ان باتوں کو اخباروں میں شائع کرنا شروع کریں کیونکہ اس قوم کی یادداشت بہت ہی چھوٹی ہے.اگر کوشش کریں گے تو کوئی بعید نہیں کہ اگر احمدیوں کے وفود ملیں پاکستان کے بعض کرتا دھرتا ایڈیٹرز
خطبات طاہر جلد 17 406 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء ہوں یا اخباروں کے مالک ہوں ان سے ملیں تو ہرگز بعید نہیں کہ وہ سچی بات کر سکتے ہوں یا کریں.مثلاً نوائے وقت ہے اس کے حمید نظامی صاحب کے بیٹے اس وقت نوائے وقت پر قابض ہیں.اس وقت کے نوائے وقت کا کردار اتنا مکروہ ہے کہ انسان تعجب کرتا ہے کہ حمید نظامی کا بیٹا اس حد تک گر چکا ہوگا کہ اپنے باپ کے مسلک سے بالکل مختلف مسلک اختیار کرلے گا، حالانکہ نوائے وقت حمید نظامی کا بنایا ہوا اخبار ہے، حمید نظامی کی صحافت کی عظمت ہے جس نے نوائے وقت کو ایک اہمیت بخشی ہے.نوائے وقت 24 اگست 1948ء کا آپ دیکھیں.1948ء میں 24 اگست کو حمید نظامی نے کیا لکھا.وہ لکھتے ہیں: ”ہندوستان نے کشمیر کا قضیہ یو این او میں پیش کر دیا.چوہدری صاحب پھر نیو یارک پہنچ گئے.4 فروری 1948ء کو آپ نے یو این او میں دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں کے سامنے اپنے ملک وملت کی وکالت کرتے ہوئے مسلسل ساڑھے پانچ گھنٹے تقریر کی.ظفر اللہ خان کی تقریر ٹھوس دلائل اور حقائق سے لبریز تھی.کشمیر کمیشن کا تقر رظفر اللہ کا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے مسلمان کبھی نہ بھول سکیں گے.“ کوئی کہ سکتا ہے کہ انہوں نے مبالغہ آمیزی سے کام لیا ہے.مسلمانوں نے تو بھلا دیا ہے مگر مسلمانوں نے کب بھلایا ہے.جو بھلانے والے ہیں ان کا نام مسلمان ہے ان کا کردار مسلمان نہیں ہے.اگر حقیقت میں ان کا کردار بھی مسلمان ہوتا ، ان میں اسلامی جذ بہ تشکر کا ایک معمولی سا جذ بہ بھی ہوتا تو ناممکن تھا کہ یہ ان واقعات کو بھلا سکتے.اُس زمانہ کے اخبارات میں کچھ شرافت موجود تھی، کچھ باتیں وہ جرات سے کہہ دیا کرتے تھے.جو شرافت اب ان اخبارات میں جو آج کل چل رہے ہیں نام کو بھی نہیں رہی.یہی وجہ ہے کہ میں نے عرض کیا ہے کہ جماعت کو جد و جہد کر کے اُن لوگوں کو جو اخبارات کے مالک ہیں یا ایڈیٹر ہیں بار بار ضرور ملنا چاہئے کیونکہ میرا تجربہ ہے کہ بعض دفعہ دیکھنے میں لگتا ہے کہ بہت مخالف اور متعصب ہے، جب ملا جائے اور بات سمجھائی جائے تو اندر کا انسان جاگ اٹھتا ہے.اس لئے نوائے وقت ہو یا دوسرے اخبارات ہوں ان کے سر براہوں سے جن کے ہاتھ میں ان کی کلیدیں ہیں اور ان کے مدیروں سے ضرور ملنا چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے کہ ان کے اندر کاضمیر جاگ اٹھے.
خطبات طاہر جلد 17 407 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء اب یہ Stated Weekly of Pakistan کا ایک حوالہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.13 مارچ 1950ء کی اشاعت میں لکھتا ہے: ”ہمارے وزیر خارجہ نے وہ ناموری حاصل کی ہے جو بلاشبہ کسی دوسرے ملک کو نصیب نہیں ہے یعنی وزارت خارجہ کا جو حق ظفر اللہ خان نے ادا کیا ہے وہ دنیا بھر کے کسی وزیر خارجہ کو نصیب نہیں ہوا.چھوٹے سے ملک کا نمائندہ ہو کر شہرت کے آسمان پر ایسا ابھرے اور ایسا چمکے ہیں کہ دنیا بھر کے وزرائے خارجہ کو بالکل ماند کر کے دکھا دیا.اڑھائی سال کے عرصہ میں بیرونی دنیا میں انہوں نے پاکستان کی ساکھ کو قائم کرنے اور اس کی عزت و وقار کو چار چاند لگانے کا جو کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کی مثال نہیں مل سکتی.سلامتی کونسل میں جس طریق پر انہوں نے مسئلہ کشمیر کا معاملہ پیش کیا ہے اس سے اس فریب کا جو پاکستان کو دیا جا رہا ہے پردہ چاک ہو گیا ہے.Lake State میں کمال بے جگری سے انہوں نے کشمیر کی جنگ لڑی ہے اور دنیا کے سامنے یہ ثابت کر کے کہ بین الاقوامی قوانین کی روشنی میں کسی بھی زاویہ نگاہ سے کیوں نہ دیکھا جائے جارحانہ اقدام کا ارتکاب کرنے میں پہل دوسرے فریق نے کی ہے.وہ اس جنگ میں فتح یاب رہے ہیں.قائد اعظم مرحوم کی طرح وہ جھکنا نہیں جانتے تھے.وہ اس فتح کے قائل ہی نہیں تھے جو گر کر نصیب ہو.“ یہ ہے احمدیوں کے کردار کو خراج تحسین.جب ان پر اعتماد کیا گیا اور پاکستان کی وکالت ان کے سپرد کی گئی تو اس طرح وفا کے ساتھ ، اس طرح سچائی کے ساتھ انہوں نے اس کا حق ادا کیا ہے.اب یہ مشہور کر رہے ہیں کہ احمدیوں کو اس لئے کلیدی عہدہ نہیں دیا جاتا کہ ملک کے بھی غدار ہیں اور اسلام کے بھی غدار ہیں.بے حیائی کی کوئی حد تو ہونی چاہئے مگر ہمارے بدنصیب وطن میں اس کی کوئی حد معلوم نہیں ہوتی.مش ( میاں محمد شفیع.مرتب ) جو نوائے وقت کے مقالہ نگار تھے ان کی ایک تحریر پڑھ کے میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.وہ لکھتے ہیں :
خطبات طاہر جلد 17 408 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء وہ اُردو اور انگریزی کے ایک بے پناہ ، زبردست اور ٹھنڈے دل و دماغ کے اعلیٰ پایہ کے مقرر تھے.انہوں نے قائد اعظم کے حکم کے تحت پارٹیشن کمیٹی ( یعنی باؤنڈری کمیشن) میں مسلم لیگ کی جس طرح ترجمانی کی اس کا مکمل ریکارڈ موجود ہے.( مگر ذ کر بھی نہیں کرتے اس ریکارڈ کا کیونکہ اس کے برعکس نتیجہ نکالنے کے عادی بن چکے ہیں یہ لوگ.) اسی طرح قیام پاکستان کے بعد انہوں نے جس انداز سے کشمیر کے مسئلہ کو سیکیورٹی کونسل کے سامنے پیش کیا یہ اس کا ثمر تھا کہ سیکیورٹی کونسل نے متفقہ طور پر کشمیر کے مستقبل کو عوام کے استصواب رائے سے مشروط کر دیا.( یہ جو واقعہ گزرا ہے یہ ظفر اللہ خان کی کوششوں سے ہوا ہے ) چوہدری محمد ظفر اللہ خان نے عربوں کے کیس کی اقوام متحدہ میں جس خلوص اور دیانت داری ، بلند حوصلگی سے نمائندگی کی اس کا اعتراف تمام عالم اسلام کو ہے.“ اگر پاکستان کو نہیں تو یہ عالم اسلام نہیں ہے.مش جو احمدی نہیں تھے بلکہ ایک دور میں احمدیت کی بڑی سخت مخالفت کیا کرتے تھے ان کا یہ اقرار ہے.کہتے ہیں عالم اسلام کو تو اعتراف ہے جن کو نہیں ان کا نام جو مرضی بھی ہو عالم اسلام نہیں ہے.میں نے جو کچھ دیانتداری سے سمجھا اسے لکھ دیا.“ (نوائے وقت میگزین مؤرخہ 21 ستمبر 1990ء صفحہ:8) یدمش کا دیانتداری کا اقرار ہے.اب میں اس خطبہ کو ختم کرتے ہوئے جماعت احمدیہ کوصرف یہ نصیحت کرتا ہوں کہ بے دلی اور کمزوری نہ دکھا ئیں.اپنی نیکیوں پر استقامت اختیار کریں.قوموں کی تاریخ بدل جایا کرتی ہے.بالآخر صبر کو فتح نصیب ہوا کرتی ہے.آپ دعائیں کرتے رہیں اور صبر سے کام لیں.اس وقت جو حالات ہیں ان میں پاکستان کے سر پر بہت بڑے خطرات منڈلا رہے ہیں اتنے خطرناک حالات ہیں کہ ان کا اگر صحیح علم آپ کو ہو تو دل دہل جائے.کوئی شعبہ ایسا باقی نہیں رہا جو بدامنی کا شکار نہ ہو چکا ہو.اقتصادی حالات بد سے بدتر ہوتے چلے جا رہے ہیں.یہ بات تو غلط ہے کہ امریکہ یا دوسرے امیر ملکوں کے بائیکاٹ کے نتیجہ میں پاکستان کو کوئی بڑا اقتصادی نقصان پہنچ سکتا ہے.اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی قو میں بڑی خود غرض ہیں.جہاں ان کا اپنا مفاد ہو، جہاں یہ خطرہ
خطبات طاہر جلد 17 409 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء لاحق ہو کہ اگر انہوں نے تجارتی تعلقات کاٹ دئے تو اس ملک کی منڈی کسی اور ملک کے ہاتھ میں چلی جائے گی.وہاں ان کو کوڑی کی بھی پرواہ نہیں کہ ہماری عمومی پالیسی کے برعکس تجارتوں کو بحال رکھنے سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے.پس اس بارے میں وزیر اعظم پاکستان مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے بالکل صحیح تشخیص کی ہے بار بار قوم کو یقین دلایا ہے کہ ان کی اقتصادی پابندیاں بالکل بے معنی اور لغو باتیں ہیں، خصوصیت سے اس وقت جبکہ ہندوستان اور پاکستان کے مفادات دونوں ہی امریکہ کے مقابل پر اکٹھے ہو چکے ہیں تو اتنی بڑی اقتصادی منڈی جو سارے ہندوستان پر پھیلی ہو اور پاکستان پر پھیلی ہو اس کو نظر انداز کرنے کا دنیا کی کسی بڑی سے بڑی طاقت کو بھی اختیار نہیں.یورپین ہوں یا امریکن یا کینیڈین یا جاپانی، ان سب نے اپنی منڈیوں کی ساکھ لازماً قائم رکھنی ہے.صرف ایک چیز سے احتیاط کی ضرورت ہے جس سے ہماری اقتصادیات کو نقصان پہنچ سکتا ہے اور اس نقصان پہنچانے میں یہ لوگ ماہر ہیں.وہ یہ ہے کہ پاکستان کو اپنی جتنی بھی ضرورتیں ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے ان کو جو ظاہری پابندیاں ہیں وہ کوئی کام نہیں دے سکتیں لیکن کچھ مخفی ایسے ارادے ہیں جو پاکستان کو مشکل میں ڈالنے کے لئے ان کے کام آ سکتے ہیں.ظاہر تجارت ہر اس جگہ جاری رہے گی جس تجارت کا مفاد ان کو پہنچتا ہے.مخفی تجارت جس میں ہتھیار شامل ہیں، جس میں سائنسی آلات شامل ہیں،جس میں کمپیوٹر شامل ہیں ان کو یہ روک سکتے ہیں لیکن ان کو روکنا بھی دراصل ان کے اختیار میں نہیں کیونکہ پاکستان بعض دوسرے ممالک سے یہی آلات خرید سکتا ہے اور اس طرح ان کی تجارت متاثر ہو سکتی ہے.اس کے متعلق یہ ہوشیاری کرتے ہیں کہ وہی آلات دوسری طرف سے مہیا کرتے ہیں.اعلان کر رہے ہوتے ہیں کہ آئندہ سے ہندوستان یا پاکستان کو ہرگز یہ آلات مہیا نہیں کئے جائیں گے جن کا بڑے کمپیوٹر سے تعلق ہے یا نیوکلیئر ٹیکنالوجی سے تعلق ہے یہ ہم ان کو نہیں دیں گے اور پھر دوسرے ہاتھ سے مخفی ہاتھ سے ان کو مہیا کرنے کا انتظام کرتے ہیں اور پیسے زیادہ وصول کرتے ہیں.پس Crises جو بھی ہو وہ اپنی Advantage کے لئے اس کو بدل دیتے ہیں اس سے اپنے مقاصد پہلے سے بڑھ کر حاصل کرتے ہیں.تو اعلان عام یہ ہوگا کہ ہم ان چیزوں کو بالکل پاکستان اور ہندوستان کے لئے بند کر رہے ہیں اور اندرونی ہاتھ کے ساتھ یہ ساری چیزیں کسی رستے سے مہیا
خطبات طاہر جلد 17 410 خطبہ جمعہ 12 جون 1998ء کریں گے اور قیمت بڑھ جائے گی.اس لئے جو بڑھی ہوئی قیمت ادا کرنی ہے اس نے پاکستان کی اقتصادیات پر اثر انداز ہونا ہے.اس لئے میرا اُن کو یہ مشورہ ہے کہ باقی جتنے مرضی اختلافات ہوں امریکہ اور مغربی طاقتوں اور اسی طرح بڑی طاقتوں جاپان وغیرہ کے مقابل پر جو ہندوستان اور پاکستان کے مشترکہ مصالح ہیں ان کے متعلق ان کو مل کر غور کرنا چاہئے.لڑنا ہے تو بے شک لڑیں لیکن ان کے لئے لازم ہے کہ مشترکہ مصالح کے تعلق میں مل کر غور کریں اور اگر ہندوستان کے دانشور اور پاکستان کے دانشور اس معاملے میں اکٹھے ہو جائیں کہ یہ ہمارے مشترکہ مفادات ہیں جو ا کیلے اکیلے حل ہو ہی نہیں سکتے ، دونوں ایک ایسی پالیسی اختیار کریں کہ مغربی طاقتوں کی پالیسی کو ناکام اور نا مراد بنا دیں.یہ فیصلہ کر کے جو مشورے کریں گے ان کا معنی ہوگا ، وہ معنی خیز مشورے ہوں گے اور ان کا بہترین نتیجہ نکل سکتا ہے.پس یہ نہیں مانیں گے اس بات کو تو اپنا نقصان اٹھائیں گے مگر لازماً ان کو یہ بات ماننی چاہئے.اختلاف اپنی جگہ پر ، مشترکہ مصالح اپنی جگہ پر ہیں ان کو کیوں نقصان پہنچانے دیتے ہیں.پھر بے شک لڑتے رہیں جو مرضی کریں.میں نہیں چاہتا کہ آپس میں ان کی لڑائیاں ہوں مگر میرا مطلب یہ ہے کہ اگر مجبور ہیں لڑنے پر تو پھر لڑتے بھی پھریں بے شک لیکن مشترکہ مفادات کی حفاظت کے بعد ایسا کام کریں، اس کے بغیر نہیں.اللہ تعالیٰ ان کو یہ توفیق عطا فرمائے.دونوں کو میرا ایک ہی مشورہ ہے ہندوستان کی فلاح و بہبود کے لئے یا پاکستان کی فلاح و بہبود کے لئے یہ مشورہ دونوں صورتوں میں بہت ضروری ہے.
خطبات طاہر جلد 17 411 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں قرآن کریم میں موجود احکامات و نواہی کی تفصیل (خطبہ جمعہ فرمودہ 19 جون 1998 ء بمقام بیت الرحمن واشنگٹن امریکہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی : اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَائِي ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ (النحل: 91) پھر فرمایا: ج آج اس آیت کا انتخاب میں نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض استنباط کی وجہ سے کیا ہے جن کی بنیادزیادہ تر اسی آیت پر ہے.کچھ عرصہ سے لوگ یہ سوال بھیج رہے ہیں یعنی مسلسل نہیں مگر کبھی کبھی بھیج دیتے ہیں کہ قرآن کریم کے احکامات اور نواہی ہیں کتنے ؟ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوالے سے یہ بھی لکھتے ہیں کہ بعض جگہ دو تین کا ہی ذکر ہے بعض جگہ پانچ سو کا ذکر ہے بعض جگہ سات سو کا ذکر ہے بعض جگہ ہزار ہا کا ذکر ہے تو کل احکامات ہیں کتنے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف مواقع پر ان کی مختلف تعداد کیوں بیان فرمائی ہے؟ پس اس پہلو سے میں نے تمام اقتباسات کو اکٹھے کر کے آغاز سے جس میں ایک دو احکامات کا ذکر ہے، پھر آگے اس کو بڑھا کر ان احکامات کی بات کی ہے جو پانچ سو یا سات سو تک جا پہنچتے ہیں پھر آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا وہ اقتباس رکھا ہے جس میں آپ فرماتے ہیں کہ ہزار ہا ہیں
خطبات طاہر جلد 17 412 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء اور ہزار ہا سے مراد محض ہزار ہا نہیں بلکہ ہزار ہا ایک محاورہ ہے جس کا مطلب ہے کہ اتنے ہیں کہ ان کا شمار ہی ممکن نہیں.کس کس پہلو سے، کیا کیا تعداد معین ہوتی ہے یہ ایک بہت اہم علمی مسئلہ ہے اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کو نہ صرف علمی فائدہ ہوگا بلکہ روحانی فوائد بھی بہت پہنچیں گے.چنانچہ سب سے پہلا اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550 سے ہے.عنوان ہے قرآن کے دو بڑے حکم ہیں.اب کہاں چارسو، پانچ سو، سات سو، ہزار ہا اور بات شروع ہوئی ہے دو بڑے حکم ہیں اور جب آپ مفہوم کو سمجھیں گے تو دل گواہی دے گا کہ ہاں دراصل تو قرآن انہی دوا حکام کے گرد گھوم رہا ہے.فرمایا: باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو.( یہ ایک حکم ہے جس کے تابع پھر اور بہت سی باتیں آگئیں ) باہم بخل اور کینہ اور حسد اور بغض اور بے مہری چھوڑ دو اور ایک ہو جاؤ.قرآن شریف کے بڑے حکم دو ہی ہیں.ایک توحید ومحبت و اطاعت باری عزاسمہ.دوسری ہمدردی اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع کی.“ یہ مرکزی نقطہ ہے تمام قرآنی تعلیمات کا کہ اللہ کی توحید اور اس کی محبت اور اس کی اطاعت میں اپنے آپ سے کھوئے جاؤ اور کلیہ اپنی گردن خدا کی محبت اور عشق اور اطاعت کے حضور خم کر دو اور اگر ایسا کرو گے تو دوسرا حکم طبعاً اسی سے نکلتا ہے جو خدا کا ہو جائے یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ وہ خدا کے بندوں کا نہ ہو.پس دراصل تو ایک ہی حکم ہے جس کے تابع پھر یہ دوسرا حکم از خود ایک فطری تقاضہ کے طور پر پھوٹتا ہے اپنے بھائیوں اور اپنے بنی نوع انسان کی ہمدردی کرو.اس کے بعد فرمایا: اور ان حکموں کو اس نے تین درجہ پر منقسم کیا ہے جیسا کہ استعداد میں بھی تین ہی قسم کی ہیں اور وہ آیت کریمہ یہ ہے اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَايْتَاتِي ذِي الْقُرْبَى “ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 550) یہ وہی آیت ہے جس کی میں نے ابھی آپ کے سامنے تلاوت کی تھی.اب اس اجمال کی تفصیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں سنئے.آپ فرماتے ہیں: اب میں پہلے کلام کی طرف رجوع کرتا ہوں.میں ابھی ذکر کر چکا ہوں کہ انسانی حالتوں کے سرچشمے تین ہیں یعنی نفس امارہ نفس تو امہ ( اور ) نفسِ مطمئنہ.اور طریق
خطبات طاہر جلد 17 413 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء اصلاح کے بھی تین ہیں.اول یہ کہ بے تمیز وحشیوں کو اس ادنی خُلق پر قائم کیا جائے کہ وہ کھانے پینے اور شادی وغیرہ تمدنی امور میں انسانیت کے طریقے پر چلیں.نہ ننگے پھریں اور نہ کتوں کی طرح مردار خوار ہوں اور نہ کوئی اور بے تمیزی ظاہر کریں.یہ طبعی حالتوں کی اصلاحوں میں سے ادنی درجہ کی اصلاح ہے.یہ اس قسم کی اصلاح ہے کہ اگر مثلاً پورٹ بلیر کے جنگلی آدمیوں میں سے کسی آدمی کو انسانیت کے لوازم سکھلا نا ہو.“ پورٹ بلیر کسی زمانہ میں آدم خوروں کے لئے مشہور ہوا کرتی تھی تو اس لئے وہ پورٹ بلیئر کا حوالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیا ہے.فرمایا: " مثلاً پورٹ بلیئر کے جنگلی آدمیوں میں سے کسی آدمی کو انسانیت کے لوازم سکھلانا ہو تو پہلے ادنی ادنی اخلاق انسانیت اور طریق ادب کی ان کو تعلیم دی جائے.دوسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جب کوئی ظاہری آداب انسانیت کے حاصل کر لیوے تو اس کو بڑے بڑے اخلاق انسانیت کے سکھلائے جائیں اور انسانی قویٰ میں جو کچھ (بھی) بھرا پڑا ہے.ان سب کو محل اور موقع پر استعمال کرنے کی تعلیم دی جائے.“ اب اس عبارت سے تین طریقے اصلاح کے بیان فرمائے ہیں لیکن معمولی تدبر کرنے والا انسان بھی غور کر سکتا ہے کہ ہر طریقہ کے تابع بے شمار اور طریقے ہیں.ایک بڑا حکم ہے اس بڑے حکم کے آگے شاخیں ہیں اور پھر شاخیں در شاخیں چلتی چلی جاتی ہیں.اب ایک وحشی کو مثلاً پورٹ بلیر کے وحشی کو جب آداب سکھانے ہوں گے تو اس میں ان لوگوں کی گندی عادات جو مدتوں سے چلی آرہی ہیں ان کا مطالعہ ضروری ہوگا.ان عادات کی اصلاح کے لئے جو موقع اور محل کے مطابق اصلاح ضروری ہے اس پر غور اور فکر کی ضرورت ہوگی.ان کو سکھانا ہوگا.تو بات تو ایک ہی حکم سے چلتی ہے اللہ کی اطاعت لیکن آگے پھر پھیلتی چلی جاتی ہے اور اسی طرح تعلیمات ایک سے پھر متعد د تعلیمات میں منتقل ہو جاتی ہیں گویا توحید کے تابع پھر خدا تعالیٰ کا بندوں سے جو سلوک ہے وہ بندوں کی نسبت سے پھیلتا چلا جاتا ہے." تیسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جو لوگ اخلاق فاضلہ سے متصف ہو گئے ہیں ایسے خشک زاہدوں کو شربت محبت اور وصل کا مزا چکھایا جائے.“
خطبات طاہر جلد 17 414 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء تیسرا طریق اصلاح کا یہ ہے کہ جو لوگ اخلاق فاضلہ سے متصف ہو گئے ہیں.اول تو اخلاق فاضلہ سے متصف کرنے کے لئے جیسے کہ میں نے بیان کیا ہے بہت لمبی محنت کی ضرورت ہے لیکن ایک دفعہ کوئی اخلاق فاضلہ سے متصف ہو جائے یعنی اس کا وصف بن جائے تو وہاں بات کو چھوڑنا فی الحقیقت سفر کا کچھ حصہ طے کرنے والی بات ہے بالآخر یہ سفر اللہ تعالیٰ کی محبت پر منتج ہونا چاہئے اور اس کے سوا اس سفر کا کوئی مقصد نہیں ہے.فرمایا جب وہ متصف ہو جائے پھر زاہدوں کو شربت محبت اور وصل کا مزا چکھایا جائے.ان کو بتایا جائے کہ اللہ کی محبت اور اس کے وصل کا شربت پینے میں کتنا مزا ہے.یہ تین اصلاحیں ہیں جو قرآن شریف نے بیان فرمائی ہیں.اور ہمارے سید ومولی نبی صلی اللہ یہ تم ایسے وقت میں مبعوث ہوئے تھے جبکہ دنیا ہر ایک پہلو سے خراب اور تباہ ہو چکی تھی.جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الروم : 42) یعنی جنگل بھی بگڑ گئے اور دریا بھی بگڑ گئے.یہ اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ جو اہل کتاب کہلاتے ہیں وہ بھی بگڑ گئے اور جو دوسرے لوگ ہیں جن کو الہام کا پانی نہیں ملا وہ بھی بگڑ گئے.پس قرآن شریف کا کام دراصل مردوں کو زندہ کرنا تھا جیسا کہ وہ فرماتا ہے اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (الحديد : 18) جان لو کہ اللہ ہی ہے جو زمین کو اس کے مردہ ہو جانے کے بعد پھر زندہ کرتا ہے.اب یہاں ایک آیت بے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ لیکن رسول اللہ لی ما یلم کے ظاہر ہونے سے پہلے ساری دنیا کی جتنی خرابیاں ہیں ان کا مضمون اسی میں آگیا ایک بھی خرابی ایسی نہیں جو انسان کو لاحق ہو سکتی تھی ، ایک بھی فسق و فجور کی راہ نہیں جسے انسان اختیار کر سکتا تھا اور آنحضرت صلی ایتم نے اُن میں سے ہر ایک کی راہ نہ روک لی ہو.تو دیکھے ایک وحدت کے نیچے پھر کس طرح کثرت ملتی ہے.کام تو آپ صلی ای سیم کا صرف ایک بیان فرمایا کہ فساد سے خشکی بھی بھر گئی اور سمندر بھی بھر گیا اور آپ صلی ایلیم نے ان فسادات کو دور کر دیا.مگر وہ فسادات تھے کتنے ؟ اس کا اگر کچھ اندازہ آپ نے کرنا ہوتو اس زمانہ میں دنیا کا بالکل وہی نقشہ ہو چکا ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ باقی دنیا کو چھوڑ دیں اپنے امریکہ کی خبر کریں.خود امریکہ میں اتنی بے حیائی ہے، اتنی بے راہ روی ہے کہ ایک زمانہ تو یہ تھا کہ امریکہ سے
خطبات طاہر جلد 17 415 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء لگتا تھا بے حیائیاں دس اور کو جاتی ہیں لیکن اب دوسرے ملکوں نے بھی اتنا مقابلہ کیا ہے بے حیائیوں میں کہ اب کچھ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ بے حیائی یہاں زیادہ ہے یا باہر زیادہ ہے.ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِ وَالْبَحْرِ کا یہ مطلب ہے یعنی اب یہ فرق نہیں رہا کہ کہاں سے برائی پھوٹی تھی.مذہب کہاں تھا اور لامذہبیت کہاں تھی.جب سب برائیاں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر برابر ہو جائیں تو اس وقت یہ محاورہ صادق آتا ہے ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي البَر وَ الْبَحْرِ خشکی اور تری دونوں فساد سے بھر گئے.تو باہر کے ملکوں میں آپ میں سے ہر ایک کو جانے کا موقع ملے یا نہ ملے مجھے سفر کا موقع ملتا رہتا ہے.افریقہ بھی جاتا ہوں، امریکہ بھی اور یورپ کے ممالک ہیں یا مشرق بعید کے ممالک ان کا بھی سفر کرتا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زمانہ جس کا نقشہ قرآن کریم نے کھینچا تھا وہ آج بعینہ اس دنیا پر پورا اتر رہا ہے.اب کوئی ان کو شمار کر کے دیکھے کہ برائیاں ہیں کتنی تو احکام کا اندازہ ہو جائے گا کتنے ہونے چاہئیں.ہزارہا، لاکھوں برائیاں ہیں اور ان لاکھوں برائیوں کے مقابل پر ایک حکم ہے نہی، یہ برائی نہیں کرنی ، یہ برائی بھی نہیں کرنی اور یہ بھی.اِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَابْتَاي ذِي الْقُرْبى کے بعد وَ يَنْهى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغِی اس آیت کریمہ نے یہ جو تین بچنے کی باتیں بیان فرمائی ہیں یہ سارے اُن کے تابع ہیں اور اب کوئی حساب کرتا ہے تو کرتا پھرے.ناممکن ہے کہ ان برائیوں کو گن سکے جن برائیوں کا ایک آیت کے تین حصوں میں ذکر فرما دیا گیا.پس اسی سے اندازہ ہو جائے گا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں ایک حکم، دو حکموں، تین حکموں کی باتیں کرتے ہیں تو آپ کے ذہن میں ایک پورا جہان ہے حکموں کا.منا ہی کا بھی اور احکامات کا بھی.اور اس پہلو سے آپ کو میں بعض اور مثالیں دوں گا اس سے اندازہ ہوگا کہ حکموں کا تو کوئی شمار ہی نہیں رہتا.اس لئے وہ علماء جنہوں نے پانچ سوگنے یا سات سو گنے وہ کوتاہ نظر تھے، وہاں ٹھہر گئے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پانچ سو بھی گنے اور سات سو بھی گئے اور پھر آپ کی نظر ہر طرف پھیل گئی اور آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ پانچ سو، سات سو کی کیا بحث ہے یہ تو بے شمار چیزیں ہیں جن کا قرآن کریم میں ذکر مل رہا ہے، جن سے بچنا ضروری ہے یا جن پر عمل کرنا ضروری ہے.اب آنحضرت سلیم کی سرزمین عرب کا حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام یوں بیان فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 416 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء اس زمانہ میں عرب کا حال نہایت درجہ کی وحشیانہ حالت تک پہنچا ہوا تھا.اور کوئی نظام انسانیت کا ان میں باقی نہیں رہا تھا اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے.“ اور یہ وہ امر ہے جس کا آج بھی اطلاق ہو رہا ہے.بہت سے گناہ ایسے ہیں جن پر فخر کیا جارہا ہے اور ٹیلی ویژن پر وہ فخر کے طور پر دکھائے جاتے ہیں کہ ہم ان گناہوں میں اتنا تر قی کر چکے ہیں.اور تمام معاصی ان کی نظر میں فخر کی جگہ تھے.ایک ایک شخص صد ہا بیویاں کر لیتا تھا.“ اب آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس کا اطلاق نہیں ہورہا حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ جتنی جنسی بیماریوں کی تحقیق کرنے والے ماہرین ہیں وہ یہ بتاتے ہیں کہ امر واقعہ ہے عورتیں بھی صدہا مرد کرتی ہیں اور مرد بھی صد با عورتیں کرتے ہیں صرف قانون کی نظر میں شادی شدہ نہیں ہوتے.تو عربوں کو تو اس بات کا کوئی جھگڑا نہیں تھا.ان کے ہاں شادی ہونا یا نہ ہونا برابر بات تھی لیکن جہاں ایک شادی کی اجازت ہے اور ایک شادی پر فخر ہے وہاں غیر قانونی شادیاں آپ سینکڑوں بھی کر لیں تو کوئی اعتراض کی بات نہیں، قانونی شادی نہیں ہونی چاہئے بس.صرف یہ اختلاف ہے.تو جب آپ سنتے ہیں ایک شخص صدہا بیویاں کر لیتا تھا تو یہ واقعہ آج بھی اس بات پر عمل ہو رہا ہے.فرماتے ہیں: حرام کا کھانا ان کے نزدیک ایک شکار تھا.“ اب حرام خوری تو اتنی عام ہو چکی ہے دنیا میں جیسے شکار کر لیا ویسے حرام خوری کر لی کوئی بھی فرق اور کوئی تمیز باقی نہیں رہی.اب یہ ایک فقرہ ایسا ہے جو اچانک دلوں میں ایک ہلچل پیدا کر دے گا مگر امر واقعہ یہ ہے کہ آج کل دنیا میں بعینہ یہ بات ہم ہوتی دیکھ رہے ہیں یہاں تک کہ اسلامی ممالک کہلانے والوں میں بھی یہ بدی مل رہی ہے اور ہمیشہ تو نہیں پکڑی جاسکتی مگر پکڑے جانے کے مواقع بھی اتنے ہیں کہ اخبارات ان کے ذکر سے منہ کالا کر لیتے ہیں.فرماتے ہیں: ماؤں کے ساتھ نکاح کرنا حلال سمجھتے تھے.“ اب نکاح کرنا تو حلال سمجھتے تھے مگر یہاں جو خبریں پاکستان کے اخباروں میں آتی رہتی ہیں ان سے پتا لگتا ہے کہ نکاح کرنا تو حرام ہی رہے گا مگر نکاح کے لوازمات سارے کر لیتے ہیں اور بہت ہی خوفناک حالتیں ہیں جن کے تفصیلی ذکر کی گنجائش نہیں ہے.یعنی میری طبیعت پر ان کے ذکر سے ایسی کراہت آتی ہے کہ میں مجبور ہوں کہ اشارہ ہی آپ کے سامنے رکھ دوں کہ یہ بدیاں بھی عام ہو چکی ہیں.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 417 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء اللہ تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ حُرمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ - (النساء : 24) تمہاری مائیں تم پر حرام کی گئی ہیں.اب اس فقرہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اُس زمانے کی ہر بدی کھول کر رکھ دی ہے.کیا ضرورت تھی، کیوں خدا نے فرما یا حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ ؟ اگر ماؤں کو حلال نہیں سمجھا جاتا تھا تو اس حکم امتناعی کی ضرورت ہی کیا تھی.آدم خور بھی تھے.دُنیا کا کوئی بھی گناہ نہیں جو نہیں کرتے تھے.اکثر معاد کے منکر تھے.“ یعنی یہ کوئی تصور نہیں تھا کہ ہم جی اٹھیں گے اور ہم سے پوچھا جائے گا، ہم سے جواب طلبی کی جائے گی اور یہ حقیقت ہے کہ آج کی دنیا میں اکثر گناہوں کا انتشار اسی بنیادی وجہ سے ہے.بھاری اکثریت لوگوں کی وہ ہے جو سمجھتے ہیں ہم مر کے مٹی ہو جائیں گے اور پھر ہم سے کوئی نہیں پوچھے گا.کچھ عرصہ پہلے ایک مجلس سوال و جواب میں بعض بڑے دانشور اور اُن میں بعض عیسائیت کے مناد بھی تھے وہ آئے ہوئے تھے ، شروع میں تو انہوں نے اس بات سے تعجب کیا کہ وہ معاد کے قائل نہیں.اگر یقین ہو کہ میں عدالت کے سامنے پیش کیا جاؤں گا تو عدالت کے خوف سے ہی بہت سے گناہ جھڑ جاتے ہیں لیکن گناہوں کی کثرت بتا رہی ہے کہ خدا کی عدالت کے سامنے پیش ہونے کا کوئی تصور موجود نہیں.لوگ عملاً یہی سمجھتے ہیں کہ مرے اور مٹی ہو گئے اور پھر کون جئے گا اس جواب طلبی کے لئے کہ تم کیا کیا کرتے تھے.قرآن کریم نے اسی لئے اس مسئلہ کو بار بار اٹھایا ہے اور اس کا ایک طبعی نتیجہ یہ ہے.بہت سے ان میں سے خدا کے وجود کے بھی قائل نہ تھے.“ یہ دو باتیں ایسی ہیں اچھی طرح ان کو پلے باندھ لیں کہ کوئی قوم بھی خدا کی ہستی کی قائل نہیں رہ سکتی اگر وہ مرنے کے بعد جی اٹھنے اور سوال و جواب کی قائل نہ رہے.ان دونوں عقائد کا چولی دامن کا ساتھ ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ قوم یہ سمجھے کہ ہم مر کے مٹی ہو جائیں گے اور پھر خدا کی ہستی کے قائل ہوں.خدا ایک بے معنی اور بے حقیقت چیز ہو جاتا ہے اور اگر یقین ہو کہ ہم دوبارہ بھی اٹھائے جائیں گے اور جواب طلبی ہوگی تو لازماً ایک خدا کو تسلیم کرنا پڑتا ہے جو مالک ہے، جو خالق ہے، جو حساب کرنے والا ہے اور اس کے سامنے ہم سب حساب دار ہوں گے.فرماتے ہیں: ایسی قوموں کی اصلاح کے لئے ہمارے سید و مولی نبی صلی ہی تم شہر مکہ میں ظہور فرما ہوئے.پس وہ تین قسم کی اصلاحیں جن کا ابھی ہم ذکر کر چکے ہیں ان کا درحقیقت یہی
خطبات طاہر جلد 17 418 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء زمانہ تھا.پس اسی وجہ سے قرآن شریف دنیا کی تمام ہدایتوں کی نسبت اکمل اور اتم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے کیونکہ دنیا کی اور کتابوں کو ان تین قسم کی اصلاحوں کا موقعہ نہیں ملا.“ اب یہ دیکھنے میں تو ایک دعوی ہے مگر اگر مذاہب کی تفصیل پر اور ان کے موجودہ حال پر نظر ڈالیں تو اس میں ایک ادنیٰ بھی شک نہیں رہ جاتا کہ پہلے مذاہب کو ان تینوں اصلاحوں کو بیک وقت کرنے کا موقع نہیں ملا.یہ وہ مضمون تھا جو اسلام کے وقت کے لئے اُٹھا رکھا گیا تھا اس کے لئے جس نبی کی ضرورت تھی وہ ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ملا ہی تمہیں کسی اور نبی کو یہ توفیق مل نہیں سکتی تھی کہ یہ تینوں امور ہاتھ میں لے اور ان میں سے ہر امر کی ہر تفصیل میں جا کر برائیوں کی بیخ کنی کرے اور ان کے بدلے میں بھلائیوں کو ان کی جگہ جاگزیں کرے.قرآن شریف کا یہ مقصد تھا کہ حیوانوں سے انسان بناوے اور انسان سے بااخلاق انسان بنادے اور با اخلاق انسان سے با خدا انسان بناوے.اسی واسطے ان تین امور پر قرآن شریف مشتمل ہے.( یہی تین امور قرآن کریم کا خلاصہ ہیں.فرماتے ہیں:) قرآنی تعلیم کا اصل منشاء اصلاحات ثلاثہ ہیں.اور طبعی حالتیں تعدیل سے اخلاق بن جاتی ہیں.“ اب یہ جو نکتہ ہے یہ اسلامی اصول کی فلاسفی میں تفصیل سے بیان ہوا ہے اور اگر چہ اسلامی اصول کی فلاسفی کا سال ہم بڑے شدومد سے منا چکے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ سب نے اسلامی اصول کی فلاسفی کا گہرے دل سے مطالعہ کیا ہو گا مگر اس کے باوجود جب بھی میں اپنی سوال وجواب کی مجالس میں خصوصاً بعض احمدیوں سے پوچھتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ اسلامی اصول کی فلاسفی کی تہہ تک نہیں پہنچ سکے.یہ کتاب ہی بہت گہری ہے اور اس پر ٹھہر ٹھہر کر غور کی ضرورت ہے ورنہ اسلامی اصول کی فلاسفی جن معارف اور حقائق کو لپیٹے ہوئے ہے ان کی کنہ تک پہنچنا ہر کس و ناکس کا کام نہیں.فرماتے ہیں : ود قبل اس کے (کہ) جو ہم اصلاحات ثلاثہ کا مفصل بیان کریں یہ ذکر کرنا بھی ضروری سمجھتے ہیں کہ قرآن شریف میں کوئی ایسی تعلیم نہیں جو ز بر دستی ماننی پڑے.“ اب یہ بھی ایک ایسا عجیب دعوی ہے جس کو لوگ سرسری نظر سے پڑھیں گے تو ان کو تعجب لگے گا.احکامات تو جتنے ہیں وہ فرائض ہیں.”زبر دستی ماننی پڑے“ سے کیا مراد ہے؟ یہ امر واقعہ ہے کہ
خطبات طاہر جلد 17 419 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء قرآن کریم کی جس تعلیم کو بھی آپ چاہیں اس کو رڈ کر سکتے ہیں اس پر عمل نہیں کر سکتے.عمل نہ کرنا چاہیں نہ کریں لیکن لازماً اس کا نقصان پہنچے گا.یہ ہو نہیں سکتا کہ قرآن کریم کی کوئی چھوٹی سی تعلیم بھی آپ نظر انداز کر دیں اور کہیں مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے اور اس کے بغیر پھر آپ کو کوئی گہرا نقصان نہ پہنچ جائے.تو یہ مطلب ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک بھی تعلیم ایسی نہیں جو ز بر دستی ماننی پڑے.ایسی بات ہے جیسے آپ کو کوئی کہے کہ یہ دودھ نہ پیویہ زہریلا ہے.اب اس میں زبردستی تو کوئی نہیں ہوگی.اگر وہ کہے اچھا پینا ہے تو پیو تمہاری مرضی ہے.اب آپ انکار کر دیں کہ میں بالکل نہیں مانوں گا میں ضرور پیوں گا اور جب پیئیں گے تو اس وقت سمجھ آئے گی کہ حکم نہ ماننے کے نتیجے میں کیسا نقصان پہنچا ہے.پس حضرت اقدس محمد مصطفی ملی لیا کہ تم نے جو تعلیمات ہمارے سامنے رکھی ہیں ان میں ایک بھی ایسی نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جاسکے.وہ تعلیمات ساری انسانی زندگی کا خلاصہ ہیں.چھوٹے سے چھوٹے حکم پر بھی اگر عمل نہیں کریں گے تو اس کا نقصان اٹھا ئیں گے.اب یہ بات احمدیوں کے لئے سمجھنی اس لئے ضروری ہے کہ حضرت مسیح موعود کی تحریرات کو اگر پوری طرح نہیں سمجھیں گے تو ان کو سمجھ نہیں آئے گی کہ اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں زور کیوں دے رہے ہیں.آگے جو میں عبارتیں پڑھ کے سناؤں گا اس میں مثلاً یہ ذکر ملتا ہے کہ کوئی ادنی سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لیتا ہے.تو اب سوچیں آپ میں کتنے ہیں یا میں اپنی ذات کو سوچوں کہ بارہا کتنی دفعہ معمولی معمولی بعض حکموں کو معمولی سمجھ کر کہ دیکھنے میں معمولی تھے ان کو نظر انداز کیا ہے.نجات کا دروازہ بند کرنے کا کیا مطلب ہے.مطلب یہ ہے ان احکامات سے تعلق رکھنے والی جو نجات ایک طبیعت کا حصہ ہے اس نجات سے آپ ضرور محروم رہ جائیں گے.اگر کسی شخص پر آپ نے سختی کی ہے اور وہ سختی جائز نہیں تھی تو جوز بر دستی کرنے والا ہے وہ کر بھی سکتا ہے مگر اس سختی کا نقصان ضرور اس کی ذات کو پہنچے گا ، اس کے ضمیر کو پہنچے گا، اس کی شخصیت پہ ایک قسم کا زنگ آجائے گا جب تک وہ اس کی اصلاح نہ کر لے.تو یہ مراد نہیں ہے کہ اس شخص کی ہلاکت ناگزیر ہے.مراد یہ ہے کہ تم واپس ان احکامات کی طرف لوٹو جن کو تم نے نظر انداز کر دیا تھا اور اس پر غور کرو اور دیکھو کہ ان پر عمل نہ کرنے سے تمہیں کیا نقصان پہنچا ہے.وہ لوگ جو یہ منکسرانہ مزاج نہیں رکھتے وہ سمجھتے ہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اُن کے متعلق لازماً حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان
خطبات طاہر جلد 17 420 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء صادق آتا ہے کہ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی نجات کے دروازے بند کر لئے ہیں.پس کمزوروں کے لئے اس میں خوشخبری ہے اور طاقتوروں کے لئے بھی خوشخبری ہے.ہر حکم کے اندر کچھ حکمتیں ہیں ان حکمتوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور تکبر کی راہ سے کسی حکم کو نظر انداز نہ کرو.اگر کرو گے تو لازماً اس کا شدید نقصان پہنچے گا اور یہ نقصان بڑھتے بڑھتے جہنم کے کنارے تک پہنچادیتا ہے.فرماتے ہیں: باقی تمام احکام ان اصلاحوں کے لئے بطور وسائل کے ہیں اور جس طرح بعض وقت ڈاکٹر کو بھی صحت کے پیدا کرنے کے لئے کبھی چیر نے کبھی مرہم لگانے کی ضرورت پڑتی ہے.ایسا ہی قرآنی تعلیم نے بھی انسانی ہمدردی کے لئے ان لوازم کو اپنے اپنے محل پر استعمال کیا ہے اور اس کے تمام معارف یعنی گیان کی باتیں اور وصایا اور وسائل کا اصل مطلب یہ ہے کہ انسان کو ان کی طبعی حالتوں سے جو وحشیانہ رنگ اپنے اندر رکھتی ہیں اخلاقی حالتوں تک پہنچائے اور پھر اخلاقی حالتوں سے روحانیت کے نا پیدا کنار دریا تک پہنچائے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه : 327 تا330) اب یہ ساری عبارت ہی غور طلب ہے، ٹھہر ٹھہر کر فکر کے ساتھ پڑھنے والی ہے لیکن خلاصہ میں نے پہلے آپ کے سامنے عرض کر دیا ہے کہ کوئی ایک تعلیم بھی بیکار اور بے ضرورت نہیں ہے.اور ہر تعلیم اگلی تعلیم کے لئے تیار کرتی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ اچانک آپ کو آخری صورت میں قرآن کریم کی اعلی تعلیم پر عمل کرنا نصیب ہو جائے یہ ہو ہی نہیں سکتا.مگر آپ کا سفر شروع ہو جائے تو ہر تعلیم جس پر آپ انکسار کے ساتھ عمل کریں گے وہ اگلی تعلیم کے لئے تیار کر دے گی.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کی مثال ایک پھوڑے سے دی ہے جس کی اصلاح ڈاکٹر کو کرنی ہے.اب ہر بیماری کا علاج بغیر تکلیف کے ممکن نہیں ہے.پھوڑے کی مثال دے کر بیان فرما دیا کہ ڈاکٹر کو اس پہ چیر ڈالنا پڑتا ہے تا کہ اس کا گند، اس کا مواد پھوٹ کر باہر آ جائے.اب یہ تکلیف دہ امر ہے اس لئے جب اپنے متعلق تم کوئی اسلام کی اصلاحی کارروائی استعمال کرو تو یا درکھنا کہ لازم نہیں کہ تمہیں ضرور اس کا مزا آئے.ابتداء میں تکلیف ہوگی اور تکلیف سے ڈر کر تم پیچھے بھی ہٹ سکتے ہوا گر پیچھے ہٹو گے تو وہی مواد ، زہریلا مواد جو تمہارے اندر ہے وہ تمہارے لئے ہلاکت کا موجب بن جائے گا.اگر احکامات کی گہری حکمتوں پر نظر رکھو گے تو جان لو کہ ہر تکلیف اٹھا نا تمہاری صحت کے
خطبات طاہر جلد 17 421 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء لئے ضروری ہے.جب تکلیف اٹھاؤ گے تو اس کے نتیجے میں پھر صحت بھی نصیب ہوگی اور اس طرح ایک ادنیٰ حالت سے دوسری نسبتاً اعلیٰ حالت کی طرف تم حرکت کرتے چلے جاؤ گے.آگے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان احکامات کو کس رنگ میں دیکھا ہے اس رنگ میں دیکھنے کے لئے ابھی ہمیں اور بہت سی ترقی کی ضرورت ہے ورنہ یہ عبارت پڑھ کر آپ تعجب کریں گے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان کو کس رنگ میں دیکھ رہے ہیں.فرماتے ہیں: وو ہر ایک عمر اور ہر یک مرتبہ فہم اور مرتبہ فطرت اور مرتبہ سلوک اور مرتبہ انفراد اور اجتماع کے لحاظ سے ایک نورانی دعوت تمہاری کی ہے.“ قرآن کریم نے اپنے احکامات اور مناہی میں تمہاری ایک روحانی دعوت کی ہے.اب جس کو دعوت میں اچھے اچھے کھانے ، مزے مزے کے کھانے ملیں وہ کیوں ان پر ہاتھ نہیں ڈالے گا، کیوں ان سے پیٹ بھرنے کی کوشش نہیں کرے گا.مگر نظر تو آئے کہ یہ دعوت ہے.اگر دعوت کی بجائے وہ محض دستر خوان چنا ہو اور کھانے والا بیمار ہو تو ہر لقمہ جو اٹھائے گا وہ اس کے لئے مصیبت بن جائے گا.بیماری کے دنوں میں یہی ہوتا ہے.پچھلے دنوں مجھے تکلیف ہوئی تھی اور کھانے کا مزہ ہی اٹھ گیا.وہ نعمتیں جن کو لوگوں کے سامنے دستر خوان پر بچھا ہوا بچوں کے سامنے دیکھتا تھا اور میں حیرت سے دیکھتا تھا کتنے مزے سے کھا رہے ہیں مگر حکم اٹھ گیا تھا.جب اللہ تعالیٰ نے وہ صحت نہ دی جس صحت سے سب کھانوں کے مزے متعلق ہیں تو کھانے بالکل بر کار اور بے معنی دکھائی دے رہے تھے.تو یہ فرق ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دعوت دیکھنے میں اور آپ کے دعوت دیکھنے میں.حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ روحانی دعوت دیکھتے ہیں تو بہت مزے کرتے ہیں کہ سُبحان اللہ کیسے کیسے مزے مزے کے کھانے خدا نے ہمارے لئے تیار کئے ہیں اور ایک بیمار آدمی بیٹھا حیرت سے دیکھ رہا ہے کہ کیسے کھا رہے ہیں.مجھے تو ہر کھانے کے لئے ایک مصیبت کرنی پڑ رہی ہے ،لقمہ گلے سے اتر تا نہیں اور کس مزے مزے سے کھا رہے ہیں.تو یہ سارے حالات ایسے ہیں جن کو تفصیلی نظر سے دیکھیں تو بات سمجھ آتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک بھی عبارت ایسی نہیں جو گہری حکمتوں سے عاری ہو ایک نا فہم آدمی کو شروع میں سمجھ نہیں آئے گی.جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام
خطبات طاہر جلد 17 422 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء فرمارہے ہیں بڑی روحانی نعمتیں ہیں جو ہمارے سامنے سجائی گئی ہیں اور اکثر آدمی دیکھ کے حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیا نعمتیں کھا رہے ہیں.ہر چیز سے تو بچنے کا حکم ہے، ہر مزے کی بات تو حرام کر دی گئی ہے تو یہ کیسی دعوت ہوئی جس میں ہر مزے مزے کی بات حرام ہوگئی اور ہر بیہودہ چیز جس کو ہم بیہودہ سمجھ رہے ہیں اس کے متعلق ہے کہ بے شک کھاؤ.یہ فہم کا قصور ہے، یہ انسانی فطرت کے رجحانات کا قصور ہے.جب بیمار ہوں گے تو یہی کچھ ہوگا.اگر بیمار نہیں ہوں گے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ سنئے.فرماتے ہیں: سو تم اس دعوت کو شکر کے ساتھ قبول کرو اور جس قدر کھانے تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں وہ سارے کھاؤ“ اب بتائیں کون انسان ہے جو بیمار حالت میں ان کھانوں کو کھا سکتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کتنی آسانی سے فرمارہے ہیں کچھ بھی بات نہیں تمہارے لئے تیار کئے گئے ہیں.سارے کھاؤ اور سب سے فائدہ حاصل کرو.جو شخص ان سب حکموں میں سے ایک کو وو بھی ٹالتا ہے میں سچ سچ کہتا ہوں کہ وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا.“ اگر تم عمداً کسی حکم سے احتراز کرو گے اور منہ بناؤ گے اور اس کھانے کو اپنے نفس کے لئے، اپنی اصلاح کے لئے قبول نہیں کرو گے تو فرماتے ہیں، ” وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا.اب یہ بھی نہیں فرمایا کہ عدالت کے دن ضرور اس کا مواخذہ ہوگا.یہ دو باتیں الگ الگ ہیں.ان کا فرق ہے.یہ کہنا ایک بات ہے کہ قیامت کے دن لازماً اس کا مواخذہ ہوگا اور یہ کہنا الگ بات ہے کہ وہ مواخذہ کے لائق ہو گا.آگے اللہ کی مرضی ہے.فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَنْ يَشَاءُ - (البقرة: 285) لازم نہیں ہے کہ ہر قابل مواخذہ کو ضرور پکڑے مگر اپنی دانست میں تم خطرے کے نیچے آگئے.اگر آپ بے دھڑک سڑک پار کرتے ہیں اور کوئی موٹر پاس آ کے رک جائے آپ کو نہ کچلے تو اس میں آپ کی کوئی خوبی نہیں.مواخذہ کے لائق آپ ٹھہر گئے تھے.اگر وہ موٹر آپ کو پھل بھی دیتی ہے تو اس کا کوئی قصور نہیں تھا.پس مواخذہ کے لائق ٹھہرنا اور بات ہے اور مواخذہ ہونا اور بات ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارات بہت ہی باریک اور لطیف عبارات ہیں ان پہ کوئی منطقی اعتراض عائد نہیں ہوتا.
خطبات طاہر جلد 17 وو 423 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء وہ عدالت کے دن مواخذہ کے لائق ہوگا.اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جو اپنی گردنوں پر اٹھاؤ.“ دین العجائز کس کو کہتے ہیں.بڑی بوڑھیاں جب ان کو کوئی نیکی کی بات کہی جائے تو بے چون و چرا وہ باتیں کر لیتی ہیں.کبھی وہ جھگڑا نہیں کرتیں کہ اس میں کیا حکمت تھی، کیوں ہم پر یہ بات فرض کی گئی ہے.سیدھی سادی پرانے زمانہ کی مائیں آپ نے گھروں میں دیکھی ہوں گی جو اکثر دیہاتی زندگی میں اب ایک قصہ پارینہ بن گئی ہیں.آج کل تو بعض بوڑھیاں بھی بڑی چالاک ہوگئی ہیں اور وہ بہانے ڈھونڈتی ہیں اسلام سے بچنے کے لیکن پرانے زمانے میں ہم نے وہ عورتیں دیکھی ہوئی ہیں، سیدھی سادی سفید کپڑے پہنے ہوئے ، سر کو چٹی سے ڈھانپا ہوا ، ان کو جو کہا بی بی آپ یہ کھالیں.اچھا یہی کھا لیتے ہیں.یہ کام کریں ، اچھا یہی کام کر لیتے ہیں.ان کو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی احکامات نازل فرماتا ہے وہ ان کی بھلائی کے لئے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو اور مسکینی سے قرآن کریم کا جوا اپنی گردنوں پر اٹھاؤ ، مسکینی کی حالت ہوگی تو پھر قرآن شریف کا اٹھانا آسان ہو جائے گا.اگر مسکینی کی حالت نہ ہوگی تو یہ جوا جو ہے یہ بہت مشکل پیدا کر دے گا.کہ شریر ہلاک ہوگا اور سرکش جہنم میں گرایا جائے گا.پر جو غریبی سے گردن جھکاتا ہے وہ موت سے بچ جائے گا.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد نمبر 3 صفحہ : 548) اب حکموں کی تعداد ایک سے دو ، دو سے تین ، تین سے آگے بڑھتی جارہی ہے، پانچ سو تک پہنچی.اب فرماتے ہیں: سو تم ہوشیار رہو.اور خدا کی تعلیم اور قرآن کی ہدایت کے برخلاف ایک قدم بھی نہ اٹھاؤ.میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ جو شخص قرآن کے سات سو حکم میں سے ایک چھوٹے سے حکم کو بھی ٹالتا ہے وہ نجات کا دروازہ اپنے ہاتھ سے اپنے پر بند کرتا ہے.حقیقی اور کامل نجات کی راہیں قرآن نے کھولیں اور باقی سب اس کے ظل تھے.سوتم قرآن کو تدبر سے پڑھو اور اس سے بہت ہی پیار کرو.ایسا پیار کہ تم نے کسی سے نہ کیا ہو کیونکہ
خطبات طاہر جلد 17 424 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء جیسا کہ خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا الخَيْرُ كُلُّهُ فِي الْقُرْآنِ کہ تمام قسم کی بھلائیاں قرآن کریم میں ہیں.یہی بات سچ ہے.افسوس ان لوگوں پر جو کسی اور چیز کو اس پر مقدم رکھتے ہیں.تمہاری تمام فلاح اور نجات کا سرچشمہ قرآن ( مجید ) میں ہے.کوئی بھی تمہاری ایسی دینی ضرورت نہیں جو قرآن میں نہیں پائی جاتی.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ : 29،28) اب یہ جو پہلو ہے قرآن کریم سے محبت کا اس کے متعلق آج کل میں بہت زور دے رہا ہوں کہ خصوصاً بچوں کو قرآن کریم پڑھنا لکھنا سکھایا جائے اور اس کے معانی بھی ساتھ ساتھ سکھائے جائیں.اکثر لوگ جو ناظرہ پڑھا دیتے ہیں وہ کافی نہیں ہے.اگر ناظرہ قرآن کے ساتھ ساتھ آپ اس کے معانی بھی کچھ سکھاتے چلے جائیں تو قرآن کریم سے محبت ہونا ایک لازمی بات ہے.اب مجھے علم نہیں کہ آپ میں سے کتنے ہیں جو میری قرآن کریم کی کلاس کو غور سے سنتے ہیں یا سن سکتے ہیں یا ان تک پہنچتی بھی ہے کہ نہیں مگر اس کلاس میں جو آنے والے ہیں ان میں کم علم عورتیں بھی ہیں ، بڑے بڑے صاحب علم مرد بھی ہیں لیکن جب قرآن کریم کو سمجھا کر پڑھایا جائے تو اس سے محبت ہونا ایک لازمی بات ہے، آدمی رک ہی نہیں سکتا محبت کئے بغیر.قرآن کریم پڑھانا اور خشکی یہ دو چیزیں اکٹھی ہوہی نہیں سکتیں.چنانچہ میں اپنی کلاس کو سمجھاتا ہوں اور بسا اوقات دیکھتا ہوں کہ جب میں قرآن کریم سے فطرت کے راز ان کو سمجھاتا ہوں ، قرآن کریم نے کن کن رازوں سے پردہ اٹھایا ہے ، کیا کیا معرفت کی باتیں کی ہیں، میری نظر اٹھتی ہے تو میں اُن کو بھی روتے ہوئے دیکھتا ہوں اور میری اپنی آنکھیں بھی آنسو بہا رہی ہوتی ہیں.اب خشک تعلیم سے تو آنسو نہیں جاری ہوا کرتے.لازماً اللہ تعالیٰ کی محبت کے چشمے بہہ رہے ہیں قرآن کریم میں اور وہی چشمے ہیں جو سننے والوں کی آنکھوں سے اور سنانے والے کی آنکھوں سے جاری ہو جاتے ہیں.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام جب قرآن کریم کے متعلق اس کو نعمت بیان فرماتے ہیں تو ہر گز ایک ذرہ بھی مبالغہ اس میں نہیں ہے.ایسی ایسی معرفت کی باتیں قرآن کریم میں بیان ہیں کہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم پڑھیں اور اس سے محبت نہ ہو جائے اور اگر قرآن سے محبت ہو جائے تو زندگی کے سارے مسائل حل ہو جائیں گے جن لوگوں کو محبت ہوتی ہے ان کی ساری برائیاں دور ہو جاتی ہیں، ان کو ایک نئی زندگی نصیب ہوتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 425 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء اور بکثرت لوگ مجھے لکھتے ہیں کہ اگر چہ ہماری اپنی تعلیم زیادہ نہیں تھی مگر قرآن کریم کی کلاس میں بیٹھنے کا موقع ملا اور ہم نے ایک نئی زندگی پالی ہے.اب یہی کتاب ایک عام کتاب نہیں ہے جو اسے پڑھتے وقت مشکل ہو ، جا گنا مشکل رہے اس کو تو پڑھنے کے ساتھ ساتھ ہی تمام خوابیدہ جذبات اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور قرآن کی تائید میں اور اس کی حکمتوں کی تائید میں فطرت کا لفظ لفظ بولتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کی جو قرآن کی تعریفیں ہیں اگر آپ ان کو سمجھیں بھی نہیں تو حیرت سے دیکھیں گے اور آپ کی بوریت میں ذرا بھی فرق نہیں آئے گا.آپ کہیں گے یہ کوئی عارف باللہ آدمی ہے اس کو مزا آرہا ہوگا مگر قرآن کریم کا مزا اٹھانے کے لئے جو بڑے بڑے مرتبہ اور مقام کی ضرورت ہے وہ ہمیں نصیب ہی نہیں حالانکہ کسی بڑے مرتبہ اور مقام کی ضرورت نہیں، دین العجائز کی ضرورت ہے.عجز اور انکساری کے ساتھ قرآن کریم کے سامنے سرتسلیم خم کرنے کی ضرورت ہے، اپنا سر جھکا دیں اور غور سے پڑھیں اور آیات کے تسلسل پر غور کریں تو حیران رہ جائیں گے کہ قرآن کریم کی آیات ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہیں کہ پہلے انسان کے وہم میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ کس طرح تعلیم مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور ایک بات اگلی بات سے منسلک ہوتی چلی جارہی ہے یہ ڈوریاں ہیں جو آپس میں بیٹی جارہی ہیں.اور اس کا ایک علاج میں آپ کے سامنے یہ رکھ رہا ہوں کہ اگر آپ کو MTA کے ذریعہ سناممکن نہیں تو غالباً یہاں امریکہ میں ان قرآن کریم کی کلاسز کی ویڈیوریکارڈنگ ہو چکی ہوگی.اگر ہو چکی ہے تو لازماً گھروں کو مہیا کرنی چاہئے.یہ بھی کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں کہ کسی ایک وقت میں ان ویڈیوز کو چلا دیا جائے مگر ہر ایک کے اوقات الگ الگ ہیں اور ضروری نہیں کہ ہر روز اس وقت وہ گھر ہی ہو سارا خاندان بھی کہیں سفر پر جاسکتا ہے.اس لئے لازم ہے کہ ان کا ریکارڈ اپنے گھروں میں رکھیں اور ترتیب کے ساتھ آپ سب لوگ مل جل کر بیٹھیں اور سننا شروع کریں.اگر دس سبق بھی آپ اس طرح پڑھ لیں گے تو پھر آپ کے لئے ان سبقوں سے الگ رہنا ممکن ہی نہیں رہے گا.طلب کریں گے کہ کب ہم اگلا سبق شروع کریں مگر پڑھیں اکٹھے اور بچوں کو ساتھ شامل کر کے پڑھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو قرآن کریم کے متعلق نورانی دعوت فرمایا اور مزے مزے کے کھانے بتائے وہ آج بھی مل سکتے ہیں،صرف پڑھنے کا طریقہ ہے اور اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں جو قرآن کریم کی محبت ڈالی ہے اس دور میں میں سمجھتا ہوں
خطبات طاہر جلد 17 426 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ہدایات پر عمل کروانے میں یہ محبت ضروری تھی اور جب اس کلاس میں آپ قرآن کریم کو پڑھیں گے تو پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اصل مقام ظاہر ہوگا.کتنے عظیم الشان معلم تھے.آپ فرماتے ہیں آج کل دنیا کا تو یہ حال ہے کہ: قرآن شریف میں کئی ہزار حکم ہیں.( اب دیکھیں سات سو اور پانچ سو کی بات ختم ہوگئی.فرماتے ہیں : ) کئی ہزار حکم ہیں ان کی پابندی نہیں کی جاتی.ادنی ادنی سی باتوں میں خلاف ورزی کر لی جاتی ہے.یہاں تک دیکھا جاتا ہے کہ بعض جھوٹ تو دکاندار بولتے ہیں اور بعض مصالحہ دار جھوٹ بولتے ہیں.بعض جھوٹ تو دکاندار بولتے ہیں لیکن مصالحہ لگانا بھی ایک خاص کام ہے اور بعض دکاندار پھر مصالحے لگا لگا کے جھوٹ بولتے ہیں حالانکہ خدا تعالیٰ نے اس کو رجس کے ساتھ رکھا ہے.اب کوئی گندی چیز ہو، ناپاک چیز ہو اس کو جتنے مرضی مصالحے لگا لیں وہ کھا تو نہیں سکتے آپ.اگر پتا ہو کہ گند ہے تو گندہی رہے گا.مصالحے لگانے سے وہ گند صاف نہیں ہو جائے گا.یہ پرانے زمانے کے ہمارے حکیموں کا طریقہ تھا کہ کوئی دوائی جو انتہائی بد مزا ہو اس کے ساتھ گلقند ملا دیا کرتے تھے، میٹھا ڈال دیتے تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ اب کوئی مزے لے لے کے کھائے گا، وہ اپنی جہالت کو دوسروں کی طرف منسوب کرتے ہیں.حالانکہ سیدھی بات یہ ہے کہ اگر وہ دوا تلخ ہے تو ایک دفعہ کھاؤ، پانی پیو، قصہ صاف کرو.وہ میٹھا ملا کے اس کو آدھے گھنٹے میں ختم کرنا یہ کون سی عقل کی بات ہے.حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایک لطیفہ سنایا کرتے تھے اور وہ اس موقع پر ہمیشہ مجھے یاد آجاتا ہے.میں کئی دفعہ سنا چکا ہوں لیکن پرانے بزرگوں کی پیاری پیاری باتیں یا درکھنا اچھی بات ہے.بار بار جب دہرائی جائیں تو ان کے لئے دعا کی بھی تحریک ہوتی ہے.حضرت میاں بشیر احمد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک میرے ساتھی تھے وہ کھانا الگ سا چھپا کے کھایا کرتے تھے حالانکہ بہت بااخلاق آدمی تھے.تو میں نے کہا دیکھوں تو سہی کیا بات ہے تو میں اچانک گیا تو ان کی چپڑی ہوئی روٹی تھی.میں اٹھا کے ایک لقمہ کھانے لگا تو کہا آہاں ہاں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.میں نے آپ کو یہ روٹی کھانے نہیں دینی.حضرت مرزا بشیر احمد صاحب اتنے ہی زیادہ شرمندہ ہوتے جائیں اور اتنا ہی اصرار بڑھتا جائے کہ ایک لقمہ تو میں کھالوں.وہ کہیں سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور سارا کھانا ایک طرف کر دیا.آخر ان کو خیال
خطبات طاہر جلد 17 427 خطبہ جمعہ 19 جون 1998ء آیا کہ اتنا نیک، اتنا بزرگ، اتناسخی انسان کوئی بات ہے جو مجھے یہ کھانا نہیں کھانے دے رہا.پوچھا کہ بتائیں کیا بات تھی.تو انہوں نے کہا کہ مجھے ڈاکٹر نے Cod-Liver Oil ( مچھلی کا تیل) کھانے کا حکم دیا اور اتنا بد بودار ہے کہ میں وہ کھا ہی نہیں سکتا.تو میں نے یہ ترکیب سوچی کہ گھی کی بجائے روٹیاں اس سے چپڑلوں اور روٹیاں چپڑ چپڑ کے ان کو گلے سے اتاروں.تو یہ بھی ہوتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ یہ جھوٹ والے گندے لوگ گند کو نئے نئے طریقوں کے ساتھ کھاتے ہیں مگر گند تو گند ہی رہے گا وہ تو نہیں کبھی ہٹے گا.کہتے ہیں : جنسی کے طور پر لوگ جھوٹ بولتے ہیں.انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے.“ (الحکم، جلد 7 نمبر 8 صفحہ:5 مؤرخہ 28 فروری 1903ء) اب اس کا آغاز ہزار ہا حکموں کی بات سے ہوا تھا.اب جھوٹ کے تمام شعبوں سے اگر آپ پر ہیز کریں تو بتا ئیں کتنے شعبے بن جائیں گے.روز مرہ کی انسانی زندگی میں بے شمار مواقع آتے ہیں جب انسان صاف گوئی اور سچائی سے کام نہیں لیتا بلکہ جھوٹ کی پناہیں ڈھونڈتا ہے اور اس میں سے ہر دفعہ، ہر موقع پر جھوٹ اپنی ذات میں ایک الگ گناہ بن جاتا ہے.جن حالات میں وہ بولا گیا، کن کے سامنے بولا گیا ، کیا کیا مقصد تھا وغیرہ وغیرہ.تو ایک جھوٹ کے شعبے بھی اتنے ہیں جو شمار نہیں ہو سکتے اور اس کے علاوہ جب آپ قانون قدرت پر غور کریں اور زمین و آسمان میں جو قرآن کریم نے گہری حکمتوں کے راز بیان فرمائے ہیں تو ساری کائنات کا مطالعہ آپ پر اتنا ہی زیادہ شکر کو لازم کرے گا.بے انتہا چیزیں ملیں گی کہ جب ان پر غور کریں گے تو دل شکر سے بلیوں اچھلے گا.تو اسی لئے احکامات کو گنا چھوڑ دیں.ان کی گنائی ممکن ہی نہیں.جتنے اللہ کے احسان اتنے ہی زیادہ خدا تعالیٰ کے ہاں اوامر اور نواہی ملتے ہیں اور قرآن کریم میں یہ جو آتا ہے کہ اگر سمندر سیاہی ہو جاتے اور میرے کلمے لکھتے تو وہ سیاہی خشک ہو جاتی خواہ سات سمندر اور آ جاتے مگر کلمات کو لکھ نہیں سکتے تھے.پس یہ احکام ہیں، کلمات الہی جن کی کوئی حد نہیں.دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ان کلمات کو سمجھنے اور ان کو پڑھ کر اس کے ساتھ جو شکر وابستہ ہیں وہ شکر ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 429 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء خدا کی راہ میں تقویٰ شعار خرچ کرنے والے چاہئیں محبت کے نتیجہ میں خرچ کرنے سے خرچ کا سلیقہ آئے گا (خطبہ جمعہ فرمودہ 26 جون 1998ء بمقام بیت الرحمن واشنگٹن.امریکہ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: المن ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ ) الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلوةَ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ ) پھر فرمایا: (البقرة:2تا4) سورة البقرة کی یہ پہلی آیات ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.اسی تعلق میں بعد میں آنے والی بعض آیات کی بھی تلاوت کروں گا تا کہ ان دو مضامین کو جو بظاہرا الگ الگ ہیں اکٹھا باندھ دوں.سورة البقرة کی آیت نمبر 10 اور 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ۚ وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ لا ط في قُلُوبِهِمْ مَّرَضٌ فَزَادَهُمُ اللَّهُ مَرَضًا وَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا (البقرة: 10تا11) يَكْذِبُونَ الم - انا اللهُ أَعْلَمُ میں اللہ ہوں سب سے زیادہ جاننے والا - ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ یہ وہ کتاب ہے جس کے بارے میں قطعاً کوئی شک نہیں، نہ کسی شک کی گنجائش ہے.یہاں ذلك الكتب سے قرآن کی عظمت کی طرف بھی اشارہ ہے اور ان پیشگوئیوں کی طرف بھی جن میں
خطبات طاہر جلد 17 430 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء قرآن کریم کے ظہور کا ذکر فرمایا گیا تھا.تو ذلك ایک بعید کا صیغہ ہے جو عظمت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے اور بہت پہلے کی کہی گئی باتوں سے متعلق بھی لفظ ذلك ہی استعمال ہوگا.تو مراد یہ ہے کہ میں اللہ سب سے زیادہ جاننے والا ہوں اور یہ کتاب جس کی عظمت کو انسان چھو نہیں سکتا وہ بھی بہت اونچی کتاب ہے اور الکتب ہے، کامل ہے.لاریب فیہ اس میں کسی شک کی گنجائش نہیں.یہی وہ قرآن ہے جس کی تلاوت کی جارہی ہے اور ساتھ ہی یہ فرمایا گیا کہ یہی وہ قرآن ہے جس کی باتیں گزشتہ انبیاء نے بھی کی تھیں اور اپنی اپنی قوموں سے وعدہ کرتے آئے تھے کہ ایک کامل کتاب اتاری جائے گی.پس یہی وہ کتاب ہے جو اتاری گئی ہے اور فرمایا اس کی خاص صفت یہ ہے لَا رَيْبَ فِیهِ ایک ذرہ بھی اس میں شک نہیں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں مگر هُدًى لِلْمُتَّقین ہدایت صرف متقیوں کو دے گی.غیر متقی اس کتاب کے متعلق لاکھ شک میں مبتلا رہیں یا شک پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہیں تقویٰ شرط ہے ہدایت کے لئے جو یہ کتاب لے کے آئی ہے.اگر تقویٰ سے عاری دل ہیں اگر دل بنیادی سچائی کے تصور سے ہی خالی ہیں تو ان کے لئے یہ کتاب کسی ہدایت کا موجب نہیں ہوگی.پھر فرما یا الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وہ کون لوگ ہیں جو تقویٰ سے بھرے ہوئے دل رکھتے ہیں.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں.اب اللہ کی ذات ایک حیثیت سے غیب ہے.روز مرہ کی زندگی میں اکثر انسانوں کی زندگی سے اللہ تعالیٰ غیب میں رہتا ہے لیکن يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غیب ان کے لئے حاضر ہو جاتا ہے.وہ ایک ایسے غیب پر ایمان لاتے ہیں جو ہمیشہ ان کے ساتھ رہنے والا غیب ہے.نہ دکھائی دینے کے باوجود وہ ہمیشہ کا ساتھی ہے اور جب ایسے خدا کے اوپر ایمان لائیں جس کے ہمیشہ حاضر ہونے کا یقین دل میں ہو تو اس کے نتیجہ میں دو باتیں خود بخود پیدا ہوں گی.يُقِيمُونَ الصَّلوة وہ نماز قائم کرتے ہیں.نماز کو اس لئے قائم نہیں کرتے کہ ایک فرضی خدا کے تصور میں نمازیں پڑھتے ہیں کیونکہ وہ غیب جس پر ایمان ہے وہ حاضر ہو جاتا ہے اور نمازوں میں ان کے سامنے رہتا ہے.یہی تشریح حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ا ہم نے مختلف اصطلاحوں کے ضمن میں بیان فرمائی کہ: ” مومن کی نماز تو ایسی ہے جیسے خدا اُسے دیکھ رہا ہو یا وہ خدا کو دیکھ رہا ہو.“ (صحيح البخاری کتاب الایمان باب سؤال جبرائيل النبي ﷺ ، حدیث نمبر : 50)
خطبات طاہر جلد 17 431 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء اور دوسری بنیادی صفت یہ ہے کہ مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو کچھ ہم نے ان کو عطا کیا ہے اس میں سے وہ ضرور خرچ کرتے ہیں یعنی اللہ کی راہ میں.اب لفظ غیب ہے جس کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں دنیا میں کئی قسم کی خرابیاں دکھائی دیتی ہیں.بعض لوگوں کے لئے غیب سے مراد یہ ہے کہ اللہ ان کی زندگی میں کبھی بھی حاضر نہیں ہوتا ہے وہ غائب ہی رہتا ہے.نماز کے وقت بھی غائب ہوتا ہے اور خرچ کے وقت بھی غائب ہوتا ہے.وہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ ہمیں خدا نے عطا فرمایا ہے اس کا خدا کو بھی علم نہیں.ہم جانتے ہیں جو ہمیں ملا ہوا ہے اور کوئی نگران نہیں.ہم جو چاہیں خرچ کریں، جتنا چاہیں سمجھیں کہ خدا نے دیا ہے وہ چونکہ غیب ہے اس کو کیا پتا.یعنی دینے والا تو غائب ہے اور لینے والا حاضر ہے.اس غیب کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں تمام دنیا میں ان لوگوں کے چندوں میں کمزوری آجاتی ہے جو غیب کا یہ مطلب لیتے ہیں.مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کا بالکل الگ مفہوم ہے جس کو لے کر وہ آگے بڑھتے ہیں.ان کے تمام چندے مبنی ہیں اس بات پر کہ جو کچھ ہمیں ملا ہے ہم ہی جانتے ہیں کسی کو علم نہیں.اللہ بھی غائب ، لوگ بھی غائب اور ہم جتنا چاہیں خرچ کریں ہم یہی کہہ سکتے ہیں ، یہی دکھا سکتے ہیں کہ دیکھو ہم دین کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں لیکن اس شرط کو پورا نہیں کرتے اور اسی شرط کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے اللہ تعالیٰ ان کی ایک اور صفت بعد میں بیان فرماتا ہے یعنی سورۃ البقرۃ کی وہ دس اور گیارہ آیات جن کی میں نے آپ کے سامنے تلاوت کی تھی.يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا اپنے چندوں کے معاملات میں وہ اللہ کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور اللہ والوں کو بھی دھوکا دیتے ہیں یعنی سمجھتے ہیں کہ دھوکا دے دیا ہے.اب نظام جماعت سے جولوگ اپنی آمد چھپاتے ہیں نظام جماعت کا اکثر یہی سلوک ہے کہ ان کے معاملات میں اندر اتر کر ان کا جائزہ نہیں لیتا تو وہ ان سے غیب بھی رہتے ہیں اور کہتے ہیں بس اتنا ہی ہمیں خدا نے دیا تھا اتنا ہی ہم اسی حساب سے خدا کو واپس کر رہے ہیں اور اللہ کو بھی دھوکا دیتے ہیں اور ان مومنوں کو بھی جو خدا کے نظام کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں.پس يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا میں آمَنُوا سے مراد نظام جماعت کا وہ حصہ ہے جو جماعت احمدیہ کے انفاق فی سبیل اللہ پر نگران ہے لیکن دھوکا دینے کی کوشش تو کرتے ہیں.وَمَا يَخْدَعُونَ إِلَّا أَنْفُسَهُمْ وَمَا يَشْعُرُونَ وہ ہر گز دھوکا نہیں دے سکتے ، نہ دیتے ہیں مگر اپنے نفوس کو.مرنے کے وقت ان کو سمجھ آئے گی کہ ہم کس کو دھوکا دیتے رہے ہیں اور کیا دھوکا
خطبات طاہر جلد 17 432 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء دیتے رہے ہیں جب خرچ کا وقت گزر چکا ہوگا.ایسے لوگوں کے متعلق ایک اور پیشگوئی ہے وہ یہ ہے كه في قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللهُ مَرَضًا یہ لوگ جو خدا کی راہ میں خساست سے کام لیتے ہیں ان کی حالت ہمیشہ بد سے بدتر ہوتی چلی جاتی ہے.کن معنوں میں وہ بد سے بدتر ہوتی ہے اس کی بہت بڑی تفصیل ہے جس کے متعلق بعض دوسرے مواقع پر میں نے بیان بھی کیا تھا کہ سب سے پہلے تو ان کے دل کا امن اٹھ جاتا ہے.نہ ان کی اولادیں ان کی رہتی ہیں، نہ اموال کے وہ فوائد ان کو پہنچتے ہیں جو دل کو تسکین بخشنے والے فوائد ہیں.ایک بھر کی سی لگی رہتی ہے کہ اور کمائیں، اور کمائیں اور اکٹھا کر لیں لیکن وہ اکٹھا کرنا جہنم کی آواز کی طرح ہے جو یہ کہتی ہے هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (ق: 31) جب بھی جہنم سے پوچھا جائے گا، یعنی اللہ تعالیٰ ایک تمثیلی زبان میں ہمیں بتارہا ہے کہ اور چاہئے کچھ ایندھن؟ وہ کہے گی هَلْ مِن مزید اور بھی ہے تو وہ بھی ڈال دو.تو یہ مال کی محبت میں دیوانے لوگ ہمیشہ ھل مِن مزید کی آواز اٹھاتے ہیں.کہیں سے کچھ مل جائے ،کہیں سے بچت ہو جائے حکومت کا پیسہ مارا جائے یا عوام کا یا جماعت کا جس طرح بھی بس چلے وہ دن بدن مال کی محبت میں بڑھتے چلے جاتے ہیں.وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْذِبُونَ ان کے لئے ایک درد ناک عذاب مقدر ہے اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے ہیں اپنے آپ سے بھی اور اپنے نفس سے بھی ، اپنی اولادوں سے، سب سے وہ جھوٹے ہیں.یہ وہ آیات ہیں جنہیں آج کا میں نے موضوع اس لئے بنایا ہے کہ آج کل جماعت کا ایک مالی سال ختم ہو رہا ہے اور بعض جماعتوں کی طرف سے مجھ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ دعا کریں کہ اللہ میں اپنے سارے وعدے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے.اسی تعلق میں میں نے یونائٹڈ سٹیٹس میں جو متمول احمدی ہونے چاہئیں ان کا جائزہ بھی لیا ہے اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ان میں بھاری تعداد وہ ہے جن پر ان آیات کا اطلاق ہو رہا ہے اور وہ نہیں جانتے.ان کو احساس ہی نہیں کہ ہم کس کشتی میں بیٹھے ہوئے ہیں.یہ وہ کشتی ہے جس کا غرق ہونا مقدر ہو چکا ہے اور میرا فرض ہے کہ اب میں ان کو متنبہ کر دوں اس کے بعد وہ جانیں اور اللہ ان سے نپٹے گا لیکن میں نے ساتھ ہی یہ فیصلہ بھی کر لیا ہے اور اس کے متعلق بعد میں کچھ اور عرض کروں گا کہ وہ سب لوگ جن کے متعلق مجھے علم ہے کہ ان کے اموال اس سے بہت زیادہ ہیں جتنا وہ چندوں میں ظاہر کرتے ہیں، ایسا علم ہے کہ میں قطعیت
خطبات طاہر جلد 17 433 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء کے ساتھ اس بات پر قسم اٹھا سکتا ہوں کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں، ان کو خدا نے اس سے بہت زیادہ دیا ہے کیونکہ جس قسم کے ان کے پیشے ہیں اُس میں لازم ہے کہ اس سے دس گنا یا زیادہ آمد ہو جتنی وہ ظاہر کرتے ہیں.اس بات کو میں نے پر کھا بعض ایسے مخلصین کی آمد اور چندوں کے حساب سے جن کے متعلق میں حلفیہ شہادت دے سکتا ہوں کہ انہوں نے کبھی جماعت کے معاملہ میں کوئی بددیانتی نہیں کی.چندہ دیا ہے تو کوشش کی ہے کہ چھپا کے دیں لیکن جو ظاہر دیا ہے وہ بھی اتنا زیادہ ہے کہ انہی کے ہم پیشہ لوگوں کی دس دس سال کی چندوں کی ادائیگی سے ان کے ایک سال کی ادائیگی بہت بڑھ کر ہے اور ان سے جب میں نے حساب پوچھا تو پتا چلا کہ اللہ تعالیٰ نے یہاں کے بعض پیشہ والوں کو اتنی آمد عطا فرمائی ہے کہ جس طرح وہ خدا کے فضل سے اللہ کی راہ میں جھوٹ نہیں بولتے اگر سب لوگ ایسا ہی کریں تو جماعت امریکہ کی تمام ضرورتیں صرف چندہ عام سے پوری ہوسکتی ہیں، نہ صرف آج کی بلکہ آئندہ سالوں کی بھی تمام جماعتی تعمیرات کے اخراجات چندہ عام سے پورے ہو سکتے ہیں بلکہ تبلیغ کے لئے بھی اتنا روپیہ بچ جائے گا کہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ آپ کو اتنا روپیہ مہیا کر سکتا ہے کہ کثرت سے اور شوق کے ساتھ اس راہ میں جتنا چاہیں خرچ کریں کبھی کمی محسوس نہیں ہوگی.اس ضمن میں کچھ اور باتیں اس مضمون کی میں خطبہ کے آخر پر بیان کروں گا.اب میں آپ کے سامنے چند احادیث رکھتا ہوں جن کا اس مضمون سے گہرا تعلق ہے.سب سے پہلی بات یہ ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے بندوں کی نگرانی کرتا ہے جو اپنے آپ کو خدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اور یہ خیال کہ وہ خدا کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں یہ بالکل غلط اور بیہودہ خیال ہے جس کو رسول اللہ صلی ای ام رد فرما رہے ہیں.اس حدیث کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ یہ سمجھیں.یہ مراد نہیں ہے کہ دنیا میں جتنے لوگ اموال کماتے ہیں ان سب پر اس حدیث کا اطلاق ہو رہا ہے.اس حدیث کا اطلاق خدا کی راہ میں خرچ کرنے والوں پر ہوتا ہے جن سے توقع کی جاتی ہے کہ جو کچھ اللہ انہیں عطا فرماتا ہے اس میں سے وہ دیں گے.چنانچہ انکی نگرانی صبح وشام ہو رہی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جو بخاری کتاب الزکوۃ سے لی گئی ہے کہ آنحضرت صلی الہ الہی تم نے فرمایا: ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں.ان میں سے ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے.“
خطبات طاہر جلد 17 434 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء اب یہ تو مراد نہیں ہے کہ ہر خرچ کرنے والے کے لئے فرشتے دعائیں کرتے ہیں.مراد وہی لوگ ہیں جن کا میں ذکر کر چکا ہوں کہ جن کو خدا کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے اور دل کھول کر خرچ کرتے ہیں.ایک کہتا ہے اے اللہ خرچ کرنے والے سخی کو اور دے اور اس کے نقش قدم پر چلنے والے اور پیدا کر.ظاہر ہے کہ یہاں تک صرف نیک لوگ مراد ہیں اور یہ بھی ظاہر ہے کہ ایسے نیک لوگوں کی مثال پر آہستہ آہستہ خدمت کرنے والے پیدا ہوتے رہتے ہیں اور جو پیدا ہوتے ہیں ان کے متعلق الہی تقدیر ہے اور اس کے فرشتے مامور ہیں کہ ان کے لئے دعائیں کریں اور ان جیسے خدمت گار اور پیدا کرنے کے سامان پیدا کریں اور یہ بات میرے وسیع تجربہ میں ہے.ہمیشہ خدمت دین کی خاطر دل کھولنے والوں کے ساتھ ویسے ہی لوگ اور پیدا ہوتے رہتے ہیں جو نہ صرف اموال خرچ کرنے میں تردد نہیں کرتے بلکہ وقت خرچ کرنے میں تردد نہیں کرتے.انہی کی طرح نیک بنتے چلے جاتے ہیں اور یہ وہ سلسلہ کی اہم ضرورت ہے جسے ہمیں پورا کرنا چاہئے.اس وقت کثرت کے ساتھ خدا کی راہ میں تقویٰ شعار خرچ کرنے والے چاہئیں جن کو اللہ کی تقدیر برکت دے، جن کے اپنے اموال میں بھی برکت پڑے لیکن ان کے ساتھیوں میں بھی برکت پڑے اور ان کے نیک اعمال میں برکت پڑے.اس طرح جماعت کو ہر قسم کے خدمت گار مہیا ہونے شروع ہو جائیں اور ایسا ہو رہا ہے.میں چاہتا ہوں کہ اور بھی ہو اور امریکہ کی جماعتیں بھی اس سے فائدہ اٹھا ئیں.دوسرا کہتا ہے اے اللہ روک رکھنے والے کنجوس کو ہلا کت دے.اس کا مال و متاع بربادکر“ (صحيح البخاری، کتاب الزكاة، باب قول الله تعالى فاما من أعطى والقى ، حدیث نمبر :1442) اب یہ دعا تو عام دنیا دار روک رکھنے والے کے حق میں کبھی بھی نہیں ہوتی.بالکل ظاہر ہے کہ جو خدا کے بندے بنے ہوئے ہیں جن کا فرض تھا کہ خدا کی راہ میں کھل کر خرچ کریں وہ اگر خسیس ہوں اور خرچ کرنے کی توفیق نہ ہو تو یاد رکھیں فرشتوں کی بددعا ان پر پڑتی ہے اور فرشتہ عرض کرتا ہے اس کو ہلاکت دے اور اس کے مال و متاع کو برباد کر.اب ایسے مال و متاع برباد ہوتے ہوئے بھی ہم نے کئی طرح دیکھے ہیں.میرے علم میں ایسے لوگ ہیں جن کی تفصیل میں جانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، ان کا نام بتانے کا کوئی سوال نہیں پیدا ہوتا لیکن ایک کیٹیگری (Category) ہے، ایک کلاس ہے،
خطبات طاہر جلد 17 435 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء ایک قسم کے لوگ ہیں جنہیں لوگ اپنے گردو پیش میں دیکھ سکتے ہیں.ایسے لوگ ہیں جنہوں نے بہت کمائیاں کر کے بہت جوڑا اور پھر خیال آیا کہ اس کو تجارت میں لگالیں اور اکثر صورتوں میں ساری تجارتیں برباد ہو ئیں جو کچھ جمع شدہ پونچی تھی وہ ہاتھ سے جاتی رہی اور کچھ بھی ہاتھ نہ آیا.سوفرشتوں کی یہ دعا بے معنی نہیں ہے.وہ کہتے ہیں اس کو ہلاکت دے اور اس کا مال و متاع بر باد کر.تو اس روک رکھنے کا کیا فائدہ جو کسی کام بھی نہ آئے.اس ضمن میں ایک اور حدیث بخاری کتاب الزکوۃ سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : ایک آدمی آنحضرت صلی یتیم کے پاس آیا اور کہا کہ اے اللہ کے رسول صلی ایتم ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ آپ صلی شما ای ایم نے فرمایا سب سے بڑا صدقہ یہ ہے کہ تو اس حالت میں صدقہ کرے کہ تو تندرست ہو اور مال کی ضرورت اور حرص رکھتا ہو اور غربت سے ڈرتا ہواور خوشحالی چاہتا ہو.(اس تنگی ترشی کی حالت میں اگر تو خدا کی راہ میں کچھ خرچ کرے گا تو یہ سب سے اچھا خرچ کرنا ہے.فرمایا : ) صدقہ اور خیرات میں دیر نہ کر کہیں ایسا نہ ہو کہ جب جان حلق تک پہنچ جائے تو تو کہے کہ فلاں کو اتنا دے دو اور فلاں کو اتنا دے دو حالانکہ وہ مال اب تیرا نہیں رہا وہ تو تیرے ہاتھ سے نکل چکا ہے.“ (صحیح البخاری کتاب الزكاة، باب فضل صدقة الشحيح الصحيح ،حدیث نمبر :1419) تو یہ لوگ اس تنبیہ کو خوب پیش نظر رکھیں.جتنا مرضی جوڑیں، جو چاہیں کریں ایک وقت آ جانا ہے کہ جان حلق کو پہنچے گی.پھر جان حلق کو پہنچے گی تو پھر یہ وصیتیں کہ فلاں کو اتنا دے دینا، فلاں رشتہ دار کواتنا دینا، فلاں بیٹے کو اتنا دینا ، بیٹی کو اتنا دینا، کسی کام نہیں آئیں گی.اس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول ملائی کہ تم فرماتے ہیں کہ وہ اس وقت تمہارا رہا ہی نہیں.جب جان حلق کو پہنچ جائے تو تم مالک ہی نہیں رہتے ، تو یونہی بانٹتے پھرتے ہو، کیا مقصد ہے اس کا ؟ کوئی بھی فائدہ نہیں ہوگا.نہ تمہیں ہوگا نہ ان کو جن کو تم گو یا خدا کا مال بے دھڑک تقسیم کر رہے ہو جو تمہارا رہا ہی نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے بعض صحابہ کی مثال پیش فرماتے ہیں جن کا مسلک بالکل مختلف تھا.اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں مالی تنگی کے واقعات بھی ملتے ہیں مگر اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت ویسے ہی بہت غریب تھی اور اس غربت کی وجہ سے معمولی پیسہ پیسہ ادا کرنا بھی مشکل
خطبات طاہر جلد 17 436 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء ہو جایا کرتا تھا.اب تو حالات بدل چکے ہیں لیکن ایک ایسے طریق پر بدلے ہیں جس سے دل کو دکھ پہنچتا ہے.ظاہری طور پر جماعت کے بہت سے لوگ امیر ہورہے ہیں اور دل کے غریب ہورہے ہیں.آنحضرت صلی ہی تم نے ایک موقع پر فرمایا کہ: خبر دار فقر دل کا فقر ہوا کرتا ہے.“ (الجزء الرابع من المستدرك على صحيحين في الحديث، کتاب الرقاق، صفحہ 327) غربت وہ ہے جو دل پر ٹوٹی ہے.ورنہ اگر انسان کے پاس خالی مال ہو اور وہ بظا ہر سخی ہو تو اس کا کچھ بھی فائدہ نہیں کیونکہ دل کا غریب ہونا اس کے خرچ کی راہ میں حائل ہوا کرتا ہے وہ للہ نہیں رہتا.دکھاوے کے لئے تو کر سکتا ہے مگر اللہ کی خاطر نہیں کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سب سے زیادہ پیار سے حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ، جو بعد میں خلیفہ اسیح الاوّل ہوئے، ان کا ذکر فرمایا ہے.اتنی محبت، اتنے پیار سے کہ رشک آتا ہے اس کو سن کر.جس پر خدا کا مسیح رشک کر رہا ہو اس پہ ہم کیوں رشک نہ کریں.بہت لمبی عبارتیں ہیں ان میں سے میں نے صرف ایک چھوٹی سی عبارت چنی ہے تاکہ نمونہ آپ کو بتا سکوں کہ انفاق فی سبیل اللہ کہتے کس کو ہیں.فرماتے ہیں: اگر میں اجازت دیتا یعنی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر ہے.”اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کر کے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے.“ نی خلیفہ آس الاوان و اگر میں جازت دیتا.صاف ظاہر ہے کہ حضرت خلیفتہ اسی الا ان کی راہ میں آپ کا اجازت نہ دینا روک بنا ہوا تھا.اور ایک اور سلیقہ ہمیں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل کے ادب کا یہ سمجھ آیا کہ جانتے تھے کہ خدا کی راہ میں سب کچھ خرچ کر دینا ایک دل کی تمنا ہے مگر امام کی اجازت کے بغیر نہیں کرنا.بہت بڑا مرتبہ ہے.خواہش کے باوجود خرچ نہیں کر رہے یعنی وہ سب کچھ جو خرچ کیا ہے وہ بھی بہت ہے لیکن جو نہیں کیا اور اس کی تمنا موجود ہے اس کی راہ میں صرف اجازت روک ہے.پس امام کا ادب اور اس کی اجازت آپ کے نزدیک ایک بہت اہم مقام رکھتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ان کے بعض خطوط کی چند سطر میں بطور نمونہ ناظرین کو دکھلاتا ہوں.“
خطبات طاہر جلد 17 437 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء اب یہ خطوط بہت لمبے ہیں اور بڑے پر لطف بھی ہیں مگر دل گداز بھی ہیں.میں نے تو جب بھی ان کو پڑھ کر سنانے کی کوشش کی ہے برداشت نہیں کر سکا.ہمیشہ جذبات سے اتنا مغلوب ہو جا تا رہا ہوں کہ گلے سے ٹھیک طرح آواز نہیں نکلتی تھی لیکن ایک چھوٹا سا اقتباس نمونہ میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.تحریر کا نمونہ آپ پیش کرتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں حضرت خلیفہ اسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ لکھ رہے ہیں، یعنی حضرت حکیم نورالدین : میں آپ کی راہ میں قربان ہوں.میرا جو کچھ ہے میرا نہیں آپ کا ہے.حضرت پیرو مرشد میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں.“ اب کمال راستی کہنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ آپ تو صدیق تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جانتے تھے کہ راستی کے سوا اس کا کوئی کلام نہیں ہے مگر پھر بھی اپنے جوش میں عرض کرتے ہیں : میں کمال راستی سے عرض کرتا ہوں کہ میرا سارا مال و دولت اگر دینی اشاعت میں خرچ ہو جائے تو میں مراد کو پہنچ گیا.“ فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ: 36،35) اگر خرچ ہو جائے میں لفظ ”اگر وہ لفظ ہے جس کے متعلق میں پہلے بات کر چکا ہوں.روک تھی تو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف سے روک تھی.آپ سب مال نہیں لینا چاہتے تھے اور یہ ایک ایسا اسلوب ہے ادب کا جسے جماعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.پیش کرتے ہیں بعض لوگ اور بھی ایسے ہیں اب بھی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ سب کچھ لے لیں لیکن میرا دل اجازت نہیں دیتا اور اس اجازت نہ دینے کا مجاز مجھے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بنایا ہے.آپ بھی بعض موقعوں پر اجازت نہیں دیتے تھے.اس لئے نہیں کہ نعوذ باللہ آپ کو خدمت کرنے والے کے اخلاص پر شک تھا ، اس لئے کہ آپ جانتے تھے کہ سب کچھ لینا بعض خرابیاں بھی پیدا کر سکتا ہے.ایک ان میں سے مثلاً یہ ہے کہ بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کی محرومی تنگی ہو جائے گی.کچھ ایسے ہوں گے جو سب کچھ دے رہے ہوں گے اور کچھ ایسے ہوں گے جو بہت کچھ اپنے لئے روک رکھ رہے ہوں گے.تو ان کے مقابل پر آ کر وہ اپنی کم مائیگی کے احساس کا شکار ہو جائیں گے لیکن یہ ایک میرا خیال ہے بہت سے اور بھی مصالح ہیں جن کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کا سب مال قبول کرنے سے احتراز فرماتے تھے.
خطبات طاہر جلد 17 438 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء اب اسی تعلق میں حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہر کی ایک روایت بیان کرتا ہوں جو انہوں نے منشی ظفر احمد صاحب ، اپنے والد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنی اور انہی کے الفاظ میں اسے بیان کرنے کی کوشش کی ہے یعنی حضرت خلیفہ اسیح الاوّل، حضرت حکیم نورالدین کے علاوہ اور بھی بہت سے بزرگ تھے جن کی یہی تمنا تھی.حضرت شیخ محمد احمد صاحب روایت کرتے ہیں اپنے باپ کی زبان میں.ایک دفعہ حضور لدھیانہ میں تھے میں حاضر خدمت ہوا، یعنی حضرت منشی ظفر احمد صاحب، میں حاضر خدمت ہوا.حضور نے فرمایا کہ آپ کی جماعت ساٹھ روپے ایک اشتہار کے لئے جس کی اشاعت ضروری تھی برادشت کرے گی؟ اب اندازہ کریں وہ زمانہ کیسا تھا ایک اشتہار کی اشاعت کے لئے آپ کو اپیل کرنی پڑی.ساٹھ روپے کی ضرورت تھی اور جانتے تھے کس سے اپیل کرنی ہے.حضرت منشی ظفر احمد صاحب عرض کرتے ہیں میں نے اثبات میں جواب دیا اور کپورتھلہ واپس آکرا اپنی اہلیہ کی سونے کی تلڑی فروخت کر دی.اس زمانہ میں ساٹھ روپے میں سونے کی تلڑی فروخت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کافی وزنی ہوگی اور بہت قیمتی ہوگی اور احباب جماعت میں سے کسی سے ذکر ہی نہیں کیا.آگے ان کے الفاظ ہیں بڑے مزے کی باتیں کیا کرتے تھے اور ساٹھ روپے لے کر میں اُڑ گیا.تو دوڑتے ہوئے چلا گیا یعنی ہلکے قدموں کے ساتھ ناچتا گا تا مسیح موعود کی خدمت میں حاضر ہو گیا.لدھیانہ جا کر پیش خدمت کئے.چند روز بعد منشی اروڑا صاحب بھی لدھیانہ آگئے.اب منشی اروڑا صاحب بھی غیر معمولی فدائیت کا جذبہ رکھنے والے انسان تھے.بے حد موقع کی تلاش میں رہنے والے کہ کب جماعت کی خدمت کی توفیق ملے اور یہ خرچ کرسکیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس خیال سے کہ میں نے کہا تھا جماعت کپورتھلہ یہ رقم دے دے، اس خیال سے آپ نے سمجھا کہ کپورتھلہ نے ہی دئے ہوں گے.یہ بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے منشی اروڑے خان صاحب سے کر دی، کہ شکریہ آپ کی جماعت بڑے موقع پر کام آئی.ساٹھ روپے کی ضرورت تھی اور فوراً پہنچ گئے.منشی اروڑے خان کو اتنا غصہ آیا کہ منشی ظفر احمد صاحب روایت کرتے ہیں کہ پھر ساری عمر اس شخص نے مجھے معاف نہیں کیا کہ تم ہوتے کون تھے کہ ساری جماعت کی طرف سے آپ ہی خدمت کر دو.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ دیکھ لیا کہ غلطی سے بات ہو گئی ہے ان کے سامنے.اب ان کو ٹھنڈا کروں.آپ نے فرما یا منشی صاحب خدمت کرنے
خطبات طاہر جلد 17 439 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء کے بہت سے مواقع آئیں گے آپ گھبرائیں نہیں.اس کے باوجود کہتے ہیں منشی صاحب مجھ سے ناراض رہے اور خدمت کے آپ کو بہت مواقع ملے ہیں اس میں کوئی شک نہیں.( سیرت المہدی جلد نمبر 1 حصہ سوم، روایت نمبر 776، صفحہ :719) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات چندوں سے متعلق میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتا تو اسے خارج کرنا چاہئے وہ منافق ہے.“ معاہدہ سے مراد یہ ہے کہ جب کسی شخص کو جماعت کا ممبر بنے کی توفیق ملے اور اس کے نتیجہ میں اس کو پتا ہو کہ خدا مجھے کیا دیتا ہے، مجھے کیا اس کے حضور پیش کرنا چاہئے تو یہ ایک قسم کا انسان اور خدا کے درمیان معاہدہ ہوا کرتا ہے اور اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتا تو وہ منافق ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام یہاں تک لکھتے ہیں: اگر کوئی معاہدہ نہیں کرتا تو اسے خارج کرنا چاہئے وہ منافق ہے اور اس کا دل سیاہ ہے.ہم یہ ہرگز نہیں کہتے کہ ماہواری روپے ہی ضرور دو.ہم تو یہ کہتے ہیں کہ معاہدہ کر کے دو جس میں کبھی فرق نہ آوے.(اور اس معاہدہ کی مثال بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:) صحابہ کرام کو پہلے یہی سکھایا گیا تھا.( یعنی معاہدہ کس چیز کو کہہ رہے ہیں، فرماتے ہیں: ) صحابہ کرام کو پہلے یہی سکھایا گیا تھا لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِنَا تُحِبُّونَ (آل عمران: 93) (البدر جلد 2 نمبر 26 صفحہ : 202 مؤرخہ 17 جولائی 1903ء) کہ تمہیں نیکی کا کچھ پتا ہی نہیں چل سکتا، نیکی کہتے کس کو ہیں.حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ یہاں تک کہ تم اُس مال میں سے خرچ کرو جس کی محبت میں مبتلا ہو.سو سارے لوگ جن کی ایک بھاری تعداد امریکہ میں موجود ہے وہ نیکی کا تصور بھی نہیں کر سکتے کیونکہ جس مال کی محبت میں مبتلا ہیں وہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے سے ان کو روکتا ہے.لَنْ تَنَالُوا البر اس کا مطلب ہے کبھی بھی تم نیکی کونہیں پاسکو گے، یہ وہم وگمان ہے تمہارا تم نیکی حاصل کر لو گے، جس مال سے محبت ہو وہ خرچ نہیں کر سکتے تو نیکی کا کیا تصور.اس تعلق میں یا درکھنا چاہئے کہ یہ آیت بتارہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے محبت کے نتیجے
خطبات طاہر جلد 17 440 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء میں خرچ ہونا چاہئے اور کنجوسیوں کا علاج ہی محبت الہی ہے.جس شخص سے محبت ہو اس کی خاطر تو بعض عام آدمی بھی سب کچھ لٹا دیا کرتے ہیں.کوئی رڈ کر دیں تو نا پسند کرتے ہیں، دکھ اٹھاتے ہیں اور بعض اس کی مثالیں میں نے آپ کو جماعت میں بھی دے دی ہیں.محبت کے نتیجے میں خرچ کرنا سیکھیں گے تو خرچ کرنے کا سلیقہ آئے گا.اگر محبت نہیں ہے تو خرچ بھی کچھ نہیں.پس جتنے بھی لوگ کنجوس ہیں ان کی کنجوسی کا ایک ہی علاج ہے اللہ کی محبت میں گرفتار ہونے کی کوشش کریں.اپنے عزیزوں کو جو دیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اس کی بجائے اس کو کیوں نہیں دیتے جس نے خود ان کو دیا ہوا ہے.وہ بڑے پیار اور محبت اور اُمیدوں سے ان سے تقاضا کرتا ہے وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ جو ہم نے ان کو دیا ہے اسی میں سے کچھ واپس کر دو.اور سب کچھ نہیں مانگ رہا لیکن محبت جتنی بڑھے گی وَمِنَا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کا جو معیار ہے وہ اونچا ہوتا چلا جائے گا.میں نے بارہا جماعت کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ خرچ کے لئے محبت کا ہونا ضروری ہے.اپنی اولاد پر صرف اس لئے خرچ کرتے ہیں کہ آپ کو اس سے محبت ہے.اگر کسی سے محبت ہو اور وہ رڈ کرے تو آپ کو تکلیف پہنچتی ہے.تو اللہ کے حضور خرچ کے لئے اللہ کی محبت پیدا ہونا ضروری ہے اور یہ محبت بغیر دعا کے حاصل نہیں ہو سکتی.آنحضرت صلی ا سلام حضرت داؤد کی ایک دعا بڑی محبت سے پڑھا کرتے تھے حالانکہ آپ صلی ا یہ مہم کے دل کی کیفیت حضرت داؤد کے دل کی کیفیت سے بہت اونچی تھی مگر جب ایک ہی وجود کے دو عاشق ہوں جن کے اندر رقابت نہ ہو بلکہ رشک کا جذبہ ہو تو ایسی صورت میں ضروری ہے کہ اس شخص کی محبت میں گرفتار دوسرے کو دیکھ کر اس سے بھی محبت ہو جائے.آنحضرت صلی ا یہ تم حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ دعا پڑھتے تھے: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ ، وَحُبَّ مَن يُحِبُّكَ، وَالعَمَلَ الَّذِي يُبَلِّغُنِي حُبَّكَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ حُبَّكَ أَحَبَّ إِلَى مِنْ نَفْسِي وَأَهْلِي وَمِنَ الْمَاءِ البَارِدِ (جامع الترمذی، کتاب الدعوات باب دعاء داؤد اللهم أنى أسئلك -- ، حدیث نمبر : 3490) اے اللہ مجھے اپنی محبت عطا فرما.میں تجھ سے یہ مانگتا ہوں حضرت داؤد کے الفاظ میں ، ہر اس وجود کی محبت عطا فرما جو مجھے تیری طرف لے جائے جس کی محبت تیری محبت میں آگے بڑھا دے اور میں تجھ سے محبت مانگتا ہوں اس بات کی یعنی اپنے نفس، اپنے اہل، اپنے عزیزوں سے بڑھ کر جو چیز مجھے
خطبات طاہر جلد 17 441 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء محبوب ہے وہ تو ہے اور تو میرا اتنا محبوب ہو جا کہ ٹھنڈے پانی کی محبت سے بھی زیادہ یہ محبت ہو جائے.اب ٹھنڈے پانی کی محبت تو ان لوگوں کو علم ہے جو پیا سے ہوں.ورنہ کسی کو کیا پتا کہ ٹھنڈا پانی کیا چیز ہے.یہاں آپ کے بچے کوکا کولا پیتے پھرتے ہیں.اور اپنی صحت برباد کر دیتے ہیں لیکن اگر ان کو حقیقی پیاس ہو واقعۂ دل ترس رہا ہو پیاس سے تو کوک کو اُٹھا کر ایک طرف پھینک دیں گے.اُس وقت ٹھنڈے پانی سے بہتر اور کوئی چیز نہیں.تو یہ جذبہ ہے اس دعا کا کہ اے اللہ مجھے محبت عطا فرما ایسی محبت کہ کوئی چیز اتنی مجھے سیراب نہ کر سکے جو تیری محبت کرے.یہ رسول اللہ صلی یتیم کی عاجزانہ دعا تھی جسے باقاعدگی سے آپ ملائیشیا یہ تم مانگتے تھے اور میں جماعت کو بھی یہ سکھاتا ہوں کہ تم اپنے لئے یہ دعا کرو کیونکہ بغیر اللہ کی مدد کے تمہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا.جب اللہ کی محبت عطا ہوگئی تو پھر سب مسائل حل ہو گئے.پھر خدا کی راہ میں جو کچھ بھی خرچ کرنے کا تقاضا ہوگا کریں گے اور سمجھیں گے کہ کم ہوا ہے، جتناحق تھاوہ ادا نہیں ہو سکا.حضرت مصلح موعودؓ کو یہ شعر بہت پسند تھا: جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا (مرزا اسد اللہ خاں غالب) یہی مضمون ہے جو بیان کرتے تھے.غالب کے سارے شعروں میں سب سے زیادہ عزیز آپ کو یہ شعر تھا کہ: جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا بہر حال حضرت مصلح موعود عرض کیا کرتے تھے خدا کے حضور کہ ہم نے جو کچھ پیش کیا ہے یہ گھر سے تو نہیں لائے سب کچھ تیری عطا تھی.جان دے سکتے ہیں مگر لائے کہاں سے تھے وہ بھی تو تو نے عطا کی تھی.حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا.کسی صورت ہم تیری عبادت کا حق ، تیری غلامی کا حق ، تیری بندگی کا حق ادا نہیں کر سکتے.یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے اگر یہ بات سمجھیں اور دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تو فیق عطا فرمائے تو پھر خدا تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے آپ کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا سلیقہ آجائے گا دور نہ عمر گزار دیں گے اور وہ وقت آ جائے گا جب جان حلقوم کو پہنچے گی اور آپ کا مال آپ کا مال نہیں رہے گا.پھر خدا کے فرشتے جو سلوک کریں وہی سلوک آئندہ بھی آپ سے وہاں جا کے بھی ہوگا.
خطبات طاہر جلد 17 442 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء ساری عمر کی کمائیاں ، ساری عمر کی محنتیں ، ساری عمر کی اللہ کی عطائیں ناشکری میں اس طرح ضائع کر دیں کہ یہ زندگی بھی ہاتھ سے چلی جائے اور اگلی دنیا بھی ہاتھ سے جائے ، یہ کون سی عقل کی بات ہے.پس آپ کو سمجھانے کی ضرورت تو ہے اور میں سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں مگر عقل ان کو ہی آئے گی جن کو خدا عقل دینا چاہے.میرے لئے ناممکن ہے کہ گھوٹ کر آپ کو عقل پلاسکوں کیونکہ رسول اللہ لا یتیم کے لئے بھی یہ ناممکن تھا.آپ مالی لا الہ تم کو اللہ نے یہ حکم دیا کہ تیرے سپر دکھول کھول کر پہنچانے کے سوا کچھ نہیں ہے.تو پہنچا تارہ.جو بھی اللہ کا حکم ہے اسے آگے لوگوں کو سمجھانے کی کوشش کر.اگر وہ نہیں سمجھتے تو تیرا قصور نہیں تو نے اپنی طرف سے ہر کوشش کر لی اس کے بعد پھر ان کا معاملہ خدا پر چھوڑ دے.پس میرا ہر گز یہ دعویٰ نہیں نعوذ باللہ من ذلك کہ رسول اللہ لی لی تم کو جو مقام خدا نے عطا نہیں فرمایا وہ مجھے عطا فرمایا ، ہرگز میرے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں آسکتی مگر بلاغ کا جو مضمون میں سمجھتا ہوں رسول اللہ لی یا ایلیم سے ، یہ ہے کہ اتنا سمجھانا کہ اس کے بعد سمجھانے کی کوئی حد باقی نہ رہے.آنحضور صلی ایم کے آخری خطبہ میں یہی پیغام مرکزی حیثیت رکھتا تھا.حضرت محمد رسول اللہ صلی لال ہو تم جب اس دنیا سے رخصت ہوئے ، رخصت ہونے کا وقت تھا ایک ، آپ صلی اینم نے لازماً رخصت ہونا تھا لیکن یہ سوچیں کہ آپ صلی اپی تم کو خیال کیا تھا اس وقت.کون سا خیال آپ مالی ایام کے دل پر قبضہ جمائے ہوئے تھا؟ وہ یہ تھا کہ میں نے پیغام پہنچادیا جیسا کہ خدا نے مجھے کہا تھا کیا میں نے واقعی پہنچا دیا ہے.تو اپنے وصال سے پہلے تمام حاضرین سے گواہی لی ہے تم گواہی دو کہ جو کچھ خدا نے مجھے تمہیں پہنچانے کے لئے امانت سپرد کی تھی میں نے تم تک پہنچادی.تمام مجمع اس سے بڑا مجمع کبھی پہلے نہیں اکٹھا ہوا.تمام مجمع نے بلند آواز سے گواہی دی کہ اے اللہ کے رسول صل للہ یہ تم تو نے پیغام پہنچا دیا.(صحیح البخاری کتاب الحج، باب الخطبة أيام منی...حدیث نمبر : 1739) یہ آپ صلی للہ الی یوم کا جذبہ تھا پیغام پہنچانے کا.اس لئے محض اس طرح پیغام پہنچانا کہ میں نے پہنچادیا یہ کافی نہیں ہے.پہنچاتے چلے جانا یہاں تک کہ زندگی کا آخری خیال یہ ہو کہ میں نے پہنچا دیا ہے کہ نہیں پہنچادیا یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی الم کا اسوہ حسنہ تھا.اس لئے میں بھی صرف انہی معنوں میں آپ تک بار بار پیغام پہنچاتا ہوں کیونکہ رسول اللہ صلی یتم کی غلامی کے بعد اس کے سوا میرا کوئی اور فرض ہی نہیں رہتا کہ
خطبات طاہر جلد 17 443 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء جس طرح آپ سیتی تم نے ابلاغ کی کوشش کی میں بھی ہر ممکن کوشش کروں کہ آپ کے دلوں میں سچائی کو جاگزیں کر سکوں لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ہوتا وہی ہے جو خدا کو منظور ہو اگر وہ نہ چاہے تو پھر کسی کو توفیق نہیں مل سکتی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: کوئی کسی ادنی درجہ کے نواب کی خیانت کر کے اس کے سامنے نہیں ہوسکتا تو پھر 66 احکم الحاکمین کی خیانت کر کے کس طرح اسے اپنا چہرہ دکھلا سکتا ہے.“ ( البدر جلد 2 نمبر 26 صفحہ : 202، مؤرخہ 17 جولائی 1903ء) کاش کوئی اس بات کو سمجھ جائے کہ جیسا بھی چہرہ ہے خدا کو دکھلا نا ہوگا اور عمر بھر اس کی خیانت کرتے گزرگئی تو کون سا منہ لے کے خدا کے حضور حاضر ہوں گے.چھوٹے سے ایک فقرے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سارے مضمون کی جان ڈال دی ہے.کتنا دل کو ہلا دینے والا فقرہ اور ضمیر کو جگا دینے والا فقرہ ہے.ادنی درجہ کے نواب کی خیانت کر کے اس کے سامنے نہیں ہوسکتا.یہ بالکل ٹھیک ہے ) تو احکم الحاکمین کی خیانت کر کے کس طرح اسے اپنا چہرہ دکھلا سکتا ہے.“ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ) کی راہ میں خرچ کرو.یہ خدا (تعالی) کے حکم سے ہے کیونکہ اسلام اس وقت تنزل کی حالت میں ہے.بیرونی اور اندرونی کمزوریوں کو دیکھ کر طبیعت بے قرار ہو جاتی ہے.اور اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے.“ (الحکم جلد 10 نمبر 47 صفحہ:3 مؤرخہ 31جولائی1906ء) یہ صورت حال ہے اس وقت جس کی وجہ سے مجھے امریکہ کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی ضرورت پیش آئی ہے.میں نے اب یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ جن لوگوں کے متعلق مجھے قطعی علم ہے کہ وہ اس قسم کی بددیانتیوں کا شکار ہیں اور دھوکا دے رہے ہیں ان کے ساتھ وہی سلوک کروں گا جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ ایسے لوگوں کو الگ کر دیا جائے.ان کے کسی چندے کی ہمیں کوئی ضرورت نہیں.وہ مساجد کے نام پر دے رہے ہوں یا چندہ عام کے نام پر دے رہے ہوں یا وصیت کے نام پر دے
خطبات طاہر جلد 17 444 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء رہے ہوں اور ان کے نفس گواہ ہیں ان کے خلاف اور ان کے نفس کی گواہی ان کے خلاف لکھی جا چکی ہے.مرنے کے بعد ان کی جلدمیں گواہ ہوں گی اور آنحضرت سلیم نے جو تفصیل سے نقشہ کھینچا ہے کہ کس طرح وہ گواہی دیں گے قرآن کریم کی آیات کی روشنی میں اس کو آپ پڑھ لیں تو یہ ایسی قطعی وہ بات ہے جس میں ایک ذرہ بھر بھی شک نہیں لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ضرورت ہے کہ کچھ نظام جماعت کو حرکت میں لانے کا نظام قائم کیا جائے.اب تک میرا جائزہ یہ ہے کہ آپ کی جماعت کے جو محصلین ہیں، اور چندہ اکٹھا کرنے والے ہیں ان کا ایک سرسری رجحان ہے جو شخص جو لکھوا دے وہ کہتے ہیں پورا ادا کر رہا ہے.ایسی بعض فہرستیں میرے سامنے آئیں جن میں یہ درج تھا کہ یہ صاحب بھی بالکل پورا ادا کر رہے ہیں، وہ صاحب بھی پورا ادا کر رہے ہیں اور جب میں نے کہا مجھے بتاؤ تو سہی کہ کتنا ادا کر رہے ہیں اُس وقت بات کھلی کہ جن کو مقامی جماعت سمجھ رہی تھی کہ پورا ادا کر رہے ہیں وہ، سوال ہی نہیں پورے کا، بعض صورتوں میں سوواں (100) حصہ بھی نہیں تھا.جب اس سلسلہ میں چھان بین شروع کی تو بہت سے آدمی میرے سامنے ایسے آئے ہیں جن کے متعلق اور باتوں کے علاوہ میں نے ایک قطعی فیصلہ کر لیا ہے جو پہلے بھی میں ہمیشہ کیا کرتا تھا مگر جماعت مجھے اگر ایسے لوگوں سے غافل رکھے تو پھر میر اقصور نہیں ہے.میں ہمیشہ اصرار کرتارہا ہوں کہ میں کبھی کسی سے کوئی ذاتی ہدیہ نہیں لوں گا جب تک وہ جماعت کا حق پورا ادا نہیں کرتا اور جماعت کی غلط اطلاعوں کی وجہ سے بعض ایسے لوگوں کا ذاتی ہدیہ لینے پر میں بڑی دیر سے مجبور چلا آرہا تھا، مجھے علم بھی نہیں تھا.چنانچہ میں نے چھان بین کی تو پتا چلا کہ ہرگز ان کے کسی ہدیہ کی مجھے ضرورت نہ تھی ، نہ ہے بلکہ میرے دل میں سخت کراہت پیدا ہو رہی ہے کہ کیوں لاعلمی میں وہ ہد یہ لیتا رہا ہوں.جب تک جماعت سے ایسے لوگوں کے معاملات ٹھیک نہیں ہوں گے ان کا کوئی ہدیہ میرے لئے کوئی محبت پیدا نہیں کر سکتا سوائے بوجھ کے،سوائے تکلیف کے میرے دل میں ان کا ہدیہ کوئی نتیجہ پیدا نہیں کر سکتا.تو جماعت سے ٹھیک ہو جاؤ ورنہ اب میں امیر صاحب کو یہ ہدایت دینے والا ہوں کہ ایسے لوگوں کی پوری چھان بین کریں اور محض سیکرٹری مال کی اس بات پر نہ جائیں کہ یہ سب کچھ دے رہے ہیں دیانتداری سے ایسے احمدی پروفیشنل مقرر کریں جن کے چندے کے متعلق ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ وہ پورا ہے اس کے حساب سے جائزہ لیں اور ان کے دس دس بارہ بارہ سال کے چندے اگر ان کو واپس کرنے پڑیں تو کر دئے جائیں.جو میری گارنٹی ہے وہ یہ ہے
خطبات طاہر جلد 17 445 خطبہ جمعہ 26 جون 1998ء کہ اس کے نتیجے میں جماعت احمدیہ امریکہ کو اگر کوئی خدشہ ہو مالی نقصان پہنچنے کا تو اس کا میں ضامن ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل سے کثرت سے باہر سے ایسے احمدی خدمت کرنے والے موجود ہیں جو میرے پاس ایسی رقمیں جمع کروا دیتے ہیں جو بڑی بھاری رقمیں ہوتی ہیں اس اجازت کے ساتھ کہ میں جہاں چاہوں خرچ کروں.تو میں نے سیکرٹری مال جو ہمارے ساتھ سفر کر رہے ہیں ان کو ہدایت کر دی ہے کہ امیر صاحب کو یہ اطمینان دلا دیں کہ یہ سارے پیسے واپس کرنے شروع کریں اور جماعت امریکہ کو ایک کوڑی کا بھی نقصان نہیں ہوگا.باہر کی دنیا جماعت امریکہ کی مدد کرے گی اور اللہ کے فضل کے ساتھ آپ بے دھڑک خدا کی راہ میں یہ قربانی دیں کہ ان کے چندے ان کو واپس کر دیں ہمیں قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے.یہ ایک نحوست کا داغ ہے جو جماعت امریکہ پر لگا ہوا ہے آئندہ اب یہ داغ نہیں لگے گا.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ امیر صاحب امریکہ اس یقین دہانی کے بعد جو میں نے ابھی کرائی ہے ذرہ بھی تردد نہیں کریں گے کہ ان لوگوں کی تفصیلی چھان بین کریں.ویسے تو مجھے یقین ہے کہ اگر میں یہ یقین دہانی نہ بھی کرواتا تو انہوں نے وہی کرنا تھا جو میں کہہ رہا ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ابھی اس نظام کو نافذ ہونے میں کچھ وقت لگے گا اس لئے جب تک یہ پوری طرح نافذ نہیں ہو جاتا کم سے کم جماعت امریکہ کے لئے ایک متبادل ذریعہ ضرور ہونا چاہئے.یہ بھی میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اگر جماعت امریکہ کے متمول لوگ اس توفیق کے مطابق خرچ کریں جو خدا تعالیٰ نے ان کو دی ہے تو آپ کو مساجد کے نام پر بھی کوئی رو پیدا کٹھا کرنے کی ضرورت نہیں جتنی چاہیں مساجد بنا ئیں ان سب کی ضرورت عام چندوں سے پوری ہوسکتی ہے.اس کے باوجود اتنی بڑی رقم بچ سکتی ہے کہ تبلیغ کے رستے میں جو مالی ضرورتیں مشکل پیدا کر رہی ہیں وہ ساری حل ہو جائیں گی.اتنا روپیہ آپ کو تبلیغ کے لئے مل سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنی ساری پرانی حسرتیں پوری کریں اور وہ انقلاب بر پا کرنا شروع کر دیں جس کی ہمیں شدید ضرورت ہے.میں امید کرتا ہوں کہ جماعت امریکہ کے وہ لوگ جو صاحب دل ہیں ، جن کا ضمیر ابھی زندہ ہے، وہ کم سے کم اس سے استفادہ کر کے اپنی زندگی کا ایک نیا سفر شروع کریں گے.
خطبات طاہر جلد 17 447 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء اپنے بچوں سے عزت سے پیش آؤ اور اچھی تربیت کرو اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ دین کی خادم ہو (خطبہ جمعہ فرمودہ 3 جولائی 1998ء بمقام سان ہوزے.USA) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهُوَ وَزِينَةً وَتَفَاخُوا بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرُ في الْأَمْوَالِ وَ الْاَولادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرابهُ مُصْفَرًا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللهِ وَرِضْوَانَ وَمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ (الحديد 21) پھر فرمایا: و اس کا ترجمہ جو تفسیر صغیر میں کیا گیا ہے پہلے میں وہ آپ کو پڑھ کے سناتا ہوں.”اے لوگو! جان لو کہ دنیا کی زندگی محض ایک کھیل ہے اور دل بہلاوا ہے اور زینت حاصل کرنے اور آپس میں فخر کرنے اور ایک دوسرے پر مال اور اولاد میں بڑائی جتانے کا ذریعہ ہے.اس کی حالت بادل سے پیدا ہونے والی کھیتی کی سی ہے جس کا اگنا زمیندار کو بہت پسند آتا ہے اور وہ خوب لہلہاتی ہے مگر آخر تو اس کو زرد حالت میں دیکھتا ہے پھر (اس کے بعد ) وہ گلا ہوا چورا ہو جاتی ہے اور آخرت میں (ایسے دنیا داروں کے لئے ) سخت عذاب مقرر ہے اور بعض کے لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور
خطبات طاہر جلد 17 448 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء رضاء الہی مقرر ہے اور ور لی زندگی صرف ایک دھو کے کا فائدہ ہے.“ (سورة الحديد، آیت نمبر : 21 ترجمه از تفسیر صغیر بیان فرمودہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب) اس آیت اور اس کے علاوہ کچھ آیات کے مضمون کی طرف میں ابھی کچھ ٹھہر کے لوٹوں گا.سب سے پہلے میں بعض متفرق باتیں کرنی چاہتا ہوں جو عموماً سفر کے آخری جمعہ میں کی جاتی ہیں.عمومی تاثرات جو جماعت امریکہ کے سفر کے دوران میرے دل پہ پیدا ہوئے اور بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جن کے تفصیلی ذکر کی گنجائش تو نہیں مگر اشارہ میں انہیں سمیٹنے کی کوشش کروں گا.سب سے پہلے تو یہ کہ جماعت احمدیہ امریکہ کے اس سفر میں مجھے ہر قسم کے تجربے ہوئے ہیں، تلخ بھی اور پسندیدہ بھی.جہاں تک تلخ تجارب کا تعلق ہے اپنے گزشتہ خطبہ میں جو واشنگٹن میں میں نے دیا تھا ان کا ذکر کر چکا ہوں اور ایک تنبیہ کرنی تھی آگے استفادہ کرنا یانہ کرنا یہ شخص کا اپنا کام ہے.میرا فرض تو اتناہی ہے جیسا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سلیم کی ذمہ داری تھی کہ بلاغ کرو، پہنچا د اور اتنا پہنچاؤ کہ سننے والے کے لئے گنجائش نہ رہے کہ وہ پھر تاویلیں کر سکے.اصل معنی بلاغ کا یہ ہے.تو جہاں تک میرا بس چلا میں نے اس رنگ میں بات پہنچانے کی کوشش کی کہ سننے والوں کیلئے تاویلوں کی گنجائش نہ رہے مگر تاویلیں کرنے والوں کا اپنا ایک رنگ ہوا کرتا ہے اور جن کی تاویل کی عادت ہے ان کے متعلق قرآن کریم بیان کرتا ہے کہ انہوں نے تاویلیں کرنی ہی ہیں لیکن اصل حقیقت کو اگر غور کریں تو سمجھ سکتے ہیں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا وَ لُو القَى مَعَاذِيرَة- (القیمۃ:16) انسانی فطرت عجیب ہے خواہ بڑے بڑے عذر گھڑے اور تراشے اور پیش کرے مگر دل کا حال خود انسان جانتا ہے اور اگر کبھی وہ ٹھنڈے دل سے غور کرے تو اس کو حقیقت حال کی سمجھ آسکتی ہے.تو جہاں تک میرا تعلق ہے میں نے اپنی طرف سے یہی کوشش کی کہ جو عذر گھڑنے والے ہیں ان کو بھی ایک دفعہ بھنبھوڑ کے جگا دوں کہ کبھی اپنے دل کی کیفیت پر اس طرح تو غور کرو جیسے قرآن کریم نے فرمایا ہے اور اس غور کے نتیجہ میں تم ضرور جاگ جاؤ گے اور سمجھ لو گے کہ اصل حقیقت کیا ہے.اب میں آپ کے سامنے عمومی تاثر بیان کرتا ہوں.جماعت امریکہ کا جوخوش کن پہلو میرے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں بھاری تعداد عوام الناس کی ایسی ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے چندے میں اپنا معاملہ صاف رکھے ہوئے ہیں.چھوٹے تنخواہ دار ، چھوٹی تجارت کرنے والے وہ لوگ
خطبات طاہر جلد 17 449 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء جو غربت اور امارت کے بارڈر پر رہتے ہیں اکثر امریکہ کی جماعت کی جو مالی کامیابیاں ہیں ان کا انحصاران لوگوں پر ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ بڑی بھاری تعدا دایسی ہے جو اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے والی ہے اور یہ تاثر بھی نہ ہو کہ بعض پروفیشنل اور بعض بڑے تاجر کلیۂ اپنی ذمہ داریوں سے بے پرواہ ہیں.میں نام بنام جانتا ہوں ان لوگوں کو جن کے چندے سالہا سال سے بالکل صاف اور ستھرے ہیں.وہ چندوں کی صورت میں لاکھوں با قاعدہ ہر سال ادا کرتے ہیں اور پسند نہیں کرتے کہ ان کے نام اچھالے جائیں.علاوہ ازیں ان کو طوعی چندوں میں بھی خدمت کا بہت موقع ملتا ہے.اس لئے اگر باہر کی دنیا نے میرے پچھلے خطبہ سے یہ اندازہ لگایا ہو کہ نعوذ باللہ امریکہ ان لوگوں سے عاری ہے جن کو خدا نے کھلا دل عطا کیا اور پھر وہ خدا کی خاطر کھلا خرچ کریں، ہرگز ایسی بات نہیں مگر بدقسمتی سے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے جن کو توفیق بڑی ملی لیکن دل چھوٹے تھے اور وہ تو فیق کے مطابق اپنے دینے والے کی خدمت میں کچھ پیش نہ کر سکے.تو یہ خلاصہ ہے جو میں آپ سے زیادہ باہر کی دنیا کو سنا رہا ہوں کیونکہ امریکہ کے متعلق گزشتہ کئی سالوں میں مختلف خطبات میں میں یہ بار بار اعلان کرتا رہا ہوں کہ بہت سے چندوں میں امریکہ کی جماعت دنیا کے اکثر حصہ کو پیچھے چھوڑ چکی ہے.اس تاثر کے بعد جو میرا گزشتہ خطبہ سنیں گے تو مجھے خطرہ ہے کہ بالکل غلط تاثر لے لیں گے.جو میرا تاثر ہے وہ غلط نہیں ہے مگر جو عمومی صورت حال ہے امریکہ کی قربانیوں کی وہ اپنی جگہ قابل تعریف ہے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے بڑی بھاری تعدا دان میں ان لوگوں کی ہے جو درمیانہ حال پر ہیں اور خرچ کرتے ہیں تو اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں.تکلیف سے مراد یہ ہے کہ اس کی تنگی محسوس کرتے ہیں مگر اس کے باوجود خوش ہوتے ہیں کیونکہ اللہ کی راہ میں خرچ کر رہے ہیں.دوسرا پہلونئی نسلوں سے تعلق رکھنے والا ہے.اس کی بات میں اس آیت کی تشریح کے بعد کروں گا کیونکہ میرے نزدیک اس آیت کریمہ کی طرح جس کی میں نے تلاوت کی ہے اس کا براہ راست تعلق امریکہ کے معاشرہ سے ہے اور دنیا میں کسی اور جگہ یہ آیت اتنا اطلاق نہیں پاتی جتنا امریکہ کے معاشرہ پر اطلاق پاتی ہے.فرمایا: اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَ لَهُو جان لو سمجھ لو اس بات کو کہ دُنیا کی زندگی تو محض کھیل تماشہ ہے، دل بہلا وا ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے.جتنا کھیل تماشہ امریکہ کا معاشرہ پیش کرتا ہے اس سے زیادہ آپ کو دنیا میں کہیں دکھائی نہیں دے گا.ان کی
خطبات طاہر جلد 17 450 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء ٹیلی ویژن جھوٹی ، ان کے ذرائع ابلاغ جھوٹے.کسی زمانہ میں تو یہ کارٹون وغیرہ جو پیش کیا کرتے تھے وہ اصلیت پر مبنی ہوا کرتے تھے اور اصلی کردار والے مزاحیہ لوگ اس میں پیش ہوا کرتے تھے.اب تو ساری باتیں فرضی گھڑی ہوتی ہیں.کمپیوٹر کے ذریعہ جو چاہیں بنائیں اور اس کا ہماری اگلی نسلوں پر بہت بُرا اثر پڑ رہا ہے.اگلی نسلیں جو عادی ہو چکتی ہیں کمپیوٹر کی کھیلیں دیکھنے کی ان کے دماغ میں کسی اور چیز کی اہمیت ہی باقی نہیں رہتی.اگر ایسے بچوں کے ماں باپ ان کو MTA پر ساتھ بٹھا بھی لیں گے تو وہ او پری اوپری چیزیں دکھائی دیں گی ان کو.دل اسی میں انکا رہتا ہے کہ وہ جو فرضی کھیلیں ہیں آسمانی مخلوق جن کا کوئی ذکر ہی کوئی وجود ہی نہیں ، اچانک کمپیوٹر کے ذریعہ اٹھ کھڑے ہونے والے جنات ان سب باتوں میں ان کا دل اٹکارہتا ہے اور وہ عمر جو Impressionable عمر ہے جس میں گہرے تاثرات قائم ہوتے ہیں اس عمر میں ان کے گہرے تاثرات ایک فرضی کہانی کے سوا اور کوئی نہیں رہتے.ساری دُنیا ایک کھیل تماشہ ہے.یہ اطلاق کہ سب دنیا کھیل تماشہ ہے، یہ پیغام ہے جو امریکہ کے ذرائع ابلاغ آپ سب کو، آپ کے سب بچوں کو دے رہے ہیں اور اپنا کیا حال ہو گیا ہے اس کے نتیجے میں، سب اکھڑے ہوئے ہیں.ملاقات کے دوران یہ بھی مجھے تجربہ ہوا کہ بہت سے امریکن احمدی مجھے ملنے کے لئے آئے اور جب ان سے گفتگو کی تو بظا ہر خوشکن لیکن ہر ایک کا دل دکھی تھا.ان کی کوئی عائلی زندگی نہیں تھی تھی تو ٹوٹ چکی تھی.اعتبار اُٹھ چکے ہیں.نہ خاوند کو بیوی پر اعتبار، نہ بیوی کو خاوند پر اعتبار اور ایک فرضی تصور، اطمینان کے تصور میں وہ دوڑے چلے جارہے ہیں.کچھ پتا نہیں کہ کیا انجام ہوگا.بہت بڑی بڑی عمر کے آدمی بھی دیکھے جو شادی سے محروم تھے کیونکہ ان کی ابتدائی زندگی احمدیت کے قبول کرنے سے پہلے عیش و عشرت کی تلاش میں دوڑنے میں خرچ ہوگئی اور اب اس عمر کو آپہنچے ہیں کہ کوئی ان سے شادی کرنے کو تیار نہیں ہے.تو بہت سی ایسی مصیبتیں ہیں جو امریکن زندگی کی پیداوار ہیں اور اس پہلو سے اس آیت کا اطلاق ان پر ہوتا ہے.جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے یہ جو زینت ہے یہ آخر تفاخر میں تبدیل ہو جاتی ہے.یہ لہو ولعب جو ہے یہ زینت میں اور زینت تفاخر میں بدل جاتی ہے.آخری ماحصل یہ رہ گیا کہ میرے پاس اچھی کوٹھیاں ہیں ، اچھے محلات ہیں، اچھی دُنیا کی زینت کے سامان ہیں.یہاں تک تو کچھ قابل قبول تھا مگر جب یہ تفاخر بن جائے، ایک دوسرے پر فخر کا ذریعہ بن جائے تو وہاں سے پھر خرابی بہت گہری ہو جاتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 451 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء وو وَتَكَاثُر فِي الأمْوَالِ : اور دوڑ ، مال بڑھانے کی دوڑ ہو جائے.ہر شخص کی کوشش ہو کہ میر امال بڑھے اور دوسرے سے زیادہ ہوتا کہ مال کی برتری کا مزا لوٹوں.وَالْاَولاد : اور اولاد کے بڑھنے کا بھی ان معنوں میں کہ اولاد کی طاقت بڑھے، ان معنوں میں اولاد کے بڑھنے کا بھی ایک Craze جس کو کہتے ہیں، جنون ہو جاتا ہے کہ مال بھی بڑھیں، اولا د بھی بڑھے اور ہم دُنیا کی نظر میں اونچے اٹھ جائیں اور اپنی سوسائٹی کے مقابل پر ان کو ہم نیچا دیکھیں.یہ اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ دنیا کی زندگی ہے مگر یاد رکھو كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكَفَارَ نَبَاتُه ایک بارش کی طرح ہے جس سے روئیدگی نکلتی ہے، سبزہ نکلتا ہے جب وہ زمین پر پڑتی ہے اور جو ناشکرے لوگ ہیں یا انکار کرنے والے.یہاں الكفار کا لفظ وسیع معنوں میں ہے.وہ لوگ جو اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کا انکار کرنے والے ہیں وہ اس روئیدگی کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے ہیں.کہتے ہیں دیکھو ہماری دنیا کی محنت کیسا کیسا پھل لائی ہے.پھر وہ زرد رو ہو جاتی ہے ، اس کی رونق جاتی رہتی ہے فتراه مصفرا وہ خشک ہو کر زردورُو ہو جاتی ہے اور تو اس لہلہاتی کھیتی کو مُصْفَراد یکھتا ہے ثُمَّ يَكُونُ حُطاما پھر وہ کٹے ہوئے گھاس پھوس کی طرح ہو جاتی ہے.وَ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ : اس دُنیا میں بھی ایک عذاب ہے ان لوگوں کے لئے کہ اپنی سرسبز اور شاداب ہوتی کھیتی کو وہ لہلہاتی ہوئی دیکھنے کے بعد، بھیج کے لفظ میں لہلہانے کا مضمون ہے خوب موجیں مارتی ہے، ہواؤں کے ساتھ ہلتی ہے، جب وہ زرد حالت میں دیکھتا ہے تو اس وقت اسے صدمہ پہنچتا ہے ساری دُنیا کی محنت اکارت گئی اور پھر جب وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، چورا چورا ہو جاتی ہے تو پہلا عذاب تو یہ ہے جو وہ دُنیا میں اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے پھر فرما یا آخرت میں بھی ایسے لوگوں کے لئے بڑا عذاب مقدر ہے اور بعض کے لئے اللہ کی طرف سے مغفرت اور رضا ہے یعنی یہ صورت حال سب پر برابر چسپاں نہیں ہوتی.بعض خدا کے بندے مستفی ہیں.وہ ایسے معاشرہ میں رہتے ہیں اس کے بداثرات سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرتے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، ان کو بھی دنیا کی زندگی کے انعامات ملتے ہیں لیکن اپنی آنکھوں کے سامنے اسے لہلہانے کے بعد زردر و ہوتا نہیں دیکھتے.فرمایا ایسے لوگوں میں سے کچھ وہ لوگ ہیں کہ جن کے لئے مغفرت بھی ہے اور رضوان بھی ہے.اللہ ان سے بخشش کا سلوک فرمائے گا اور ان سے راضی ہو جائے گا لیکن بعض ایسے بھی ہیں وَ مَا
خطبات طاہر جلد 17 452 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء الحيوةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ کہ جن کی یہ دنیا کی زندگی سوائے دھو کے کے کچھ بھی ان کے لئے نہیں رہے گی.دھوکا بھی وہ جو عارضی ہے.اسی مضمون کو اللہ تعالیٰ آگے ایک تنبیہ کی صورت میں ان لوگوں کے لئے پیش کرتا ہے.فرمایا: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اپنے نفسوں کو اور اپنے اہل وعیال کو آگ سے بچاؤ.وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہوں گے اور پتھر ہوں گے.انسان سے مراد تو سب سمجھتے ہیں.جہنم کے اندر پتھر ڈالنے سے پتھر کو تو کوئی سزا نہیں ملتی ، پتھر سے مراد وہ سخت دل لوگ ہیں جن پر کوئی نصیحت اثر نہیں کیا کرتی.وہ پتھر جو خدا کے تصور کے ساتھ پارہ پارہ نہیں ہوتے جبکہ بعض پتھر ایسے بھی ہیں جن کو قرآن کریم نے اس رنگ میں پیش کیا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں تو پتھر ٹکڑے ٹکڑے ہو کے، ریزہ ریزہ ہو کے گر جاتے ہیں مگر یہ پتھر وہ ہیں جن پر اللہ کی آیات پڑھی جائیں تو ان پر کوئی اثر نہیں پڑتا.ان کے لئے فرما یا عَلَيْهَا مَلَئِكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَا يَعْصُونَ اللَّهَ مَا أَمَرَهُمْ ایسی جہنم پر ایسے خدا کے فرشتے مقرر ہوں گے جو بہت شدید ہوں گے یعنی ان کی پکڑ سے کوئی باہر نہیں نکل سکتا.غلاظ شداد لا يَعْصُونَ اللہ کہ وہ غلاظ بھی ہیں اور یشداڈ بھی ہیں.غلیظ اس چیز کو کہتے ہیں جو آپس میں اتنی سختی سے جڑی ہوئی ہو کہ اس کو پار کرنے کی کوئی صورت ہی نہ ہو.تو ان کی پکڑ بہت سخت ہوگی اور کسی کو بچنے کی راہ نہیں ہوگی اور شداد ہوں گے اس لئے کہ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا أَمَرَهُم وہ شدید ہوں گے اپنے دل کی سختی کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کو بنایا ایسا گیا ہے کہ اللہ نے جوان کو حکم دیا وہ انہوں نے ضرور پورا کرنا ہے اس کو پورا کئے بغیر ان میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ اس سے ہٹ سکیں کسی اور طرف رخ کر سکیں.جیسا کہ فرمایا وَ يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ وہ وہی کرتے ہیں جس کا حکم دیا جاتا ہے.يَايُّهَا الَّذِيْنَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا اليَوم - اے وہ لوگو جنہوں نے کفر کیا.آج کے دن کوئی عذر پیش نہ کرو کیونکہ عذر کا وقت گزر چکا ہے.إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ.(التحریم: 7، 8 ) یقینا تمہیں اسی چیز کی جزا دی جا رہی ہے جو تم کیا کرتے تھے.اس کے بعد ایک اور سورۃ المنافقون کی یہ آیت آپ کے لئے قابل توجہ ہے.یايُّهَا الَّذِينَ امَنُوا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ وَ لَا اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ ۚ وَ مَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ
خطبات طاہر جلد 17 453 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء الخسِرُونَ (المنافقون:10) اے مومنو! تمہیں تمہارے مال اور تمہاری اولادیں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کر دیں.اکثر خدا کے ذکر سے غافل ہونے والے لوگ وہ ہیں جن کو اپنی اولاد کی اور مال کی محبت خدا سے غافل کر دیا کرتی ہے اور جن کا نقشہ میں پہلے کھینچ چکا ہوں بعینہ وہی ہیں.مال کی محبت اور اولاد کی محبت ایسا چڑھ جاتی ہے دماغ پر کہ کسی اور چیز کی ہوش نہیں رہنے دیتی.ایسے لوگ خدا کا ذکر کر ہی نہیں سکتے.ایسے لوگ فرضی طور پر سرسری طور پر خدا کا ذکر کریں بھی تو وہ ذکر دل میں ڈوبتا نہیں ہے اور دلوں کی کیفیت کو تبدیل نہیں کرتا.وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ فَأُولَبِكَ هُمُ الْخَسِرُونَ جو بھی ایسا کرے گا وہی لوگ ہیں جو بہت گھاٹا کھانے والے ہوں گے.تو قرآن نے تو کوئی گنجائش نہیں چھوڑی بچ نکلنے کی کہ انسان عذروں کی تلاش کر کے کہیں نہ کہیں اپنا منہ چھپا سکے.قرآن کریم نے انسانی فطرت کے ہر پہلو کو اجاگر کر دیا ہے ،مضمون کے ہر حصہ کو کھول کر بیان کر دیا ہے جیسا کہ فرمایا : وَ لَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَ إِيَّاكُمْ إِنَّ قَتْلَهُم كَانَ خِطاً كبيرا.(بنی اسرائیل : 32) اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو.اب یہ بہت غور طلب آیت ہے اس پہلو سے کہ عرب اپنی اولا د کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہیں کیا کرتے تھے.اس زمانہ میں یہ دستور نہیں تھا.اگر قتل کرتے تھے تو لڑکیوں کو قتل کیا کرتے تھے اور وہ بے عزتی کے ڈر سے قتل کیا کرتے تھے مگر سارے عرب میں کہیں آپ کو یہ رواج نہیں دکھائی دے گا کہ مفلسی کے ڈر سے اپنی اولا د کو قتل کرتے ہوں.یہ دراصل آئندہ زمانے کی ایک پیشگوئی ہے جسے ہم پورا ہوتے دیکھ رہے ہیں.بہت سے ایسے خاندان میں نے دیکھے ہیں جو باوجود اس کے کہ اپنی اولاد کی عظمت چاہتے ہیں، اس کی بڑائی چاہتے ہیں مگر زیادہ بچے نہیں چاہتے تا کہ جائیدادزیادہ لوگوں میں تقسیم نہ ہو اور تھوڑے رہیں اور پھر صاحب دولت ہوں.یہ وہ فطرت انسانی ہے جس کی طرف اشارہ اس آیت میں ہے.لا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ اولاد بننے کے بعد ان کو قتل نہیں کیا جاتا ، احتیاطیں برتی جاتی ہیں جیسے آج کل فیملی پلاننگ ہے اور فیملی پلاننگ میں خَشْيَةَ امْلاق ایک ضروری پہلو ہے.تمام دنیا میں یہ تو میں غریبوں کو یہ نصیحت کرتی ہیں کہ اولاد کم پیدا کرو تا کہ تمہاری غربت دور ہو اور یہ جھوٹ ہے کیونکہ غریبوں کی اولا دزیادہ ہو تو غربت دور ہوا کرتی ہے.کہیں دنیا میں غریبوں کی اولاد ان پر بوجھ نہیں بنا کرتی وہ تو اپنے ماں باپ کا سہارا بنتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 454 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء تو فرمایا لا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ویسے ہی بے وقوفی ہے غربت کے ڈر سے اولا دیں قتل کرو گے تو اور بھی غریب ہو جاؤ گے اور جیسا کہ میں مثال دینے لگا تھا چین کی مثال ہے.غربت کے ڈر سے قانون بنائے، اولا دیں قتل کرتے لیکن اس کا کوئی بھی فائدہ چینی اقتصادیات کو نہیں پہنچا.یہ ایک تفصیلی مضمون ہے میں نے بہت گہرا جائزہ لیا ہے املاق کی وجہ سے اولا دیں کم کرنے کا کوئی بھی فائدہ ان کو نہیں پہنچا بلکہ غریب لوگوں نے قوانین کو بالائے طاق رکھتے ہوئے زیادہ بچے اس غرض سے پیدا کئے.چنانچہ بعض چینی خاندانوں میں سات سات، آٹھ آٹھ ، دس دس بچے ہیں کہ وہ جانتے تھے کہ اس سے ہماری غربت دور ہوگی اور بچپن سے ہی ان کو کاموں پر لگا یا اس کے نتیجے میں خاندان کی مجموعی طاقت، دولت میں اضافہ ہو گیا لیکن اللہ فرماتا ہے نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُم رزق تو ہم دیتے ہیں ان کو بھی اور تمہیں بھی اس لئے کسی گمان میں بیٹھے ہو کہ رزق تمہاری چالاکیوں کی کمائی ہے.اللہ ہی ہے جب وہ فیصلہ فرماتا ہے کسی کو رزق دینے کا تو رزق دیتا ہے اور جب نہیں فیصلہ فرماتا تو رزق نہیں دیتا.اِنَّ قَتْلَهُم كَانَ خِطأً كَبِيرًا.خدا کے نزدیک ایسے بچوں کا قتل بہت بڑا گناہ ہے لیکن اس قتل سے مراد کچھ اور بھی ہے.ایسے بچوں کا روحانی قتل بھی اسی آیت میں مراد ہے.چنانچہ احادیث نبوی میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اس سے سمجھ آئے گی کہ اصل قتل ، اولا د کا روحانی قتل ہوا کرتا ہے اور یقتل ہے جو یہاں عام جاری ہے.بڑی کثرت سے میں دیکھ رہا ہوں کہ لوگ اپنی اولادوں کو قتل کر رہے ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے.حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، الادب المفرد بخاری میں، آپ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ا سلم نے فرمایا: ابرار کو اللہ تعالیٰ نے ابرار اس لئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنے والدین اور بچوں کے ساتھ حسن سلوک کیا جس طرح تم پر تمہارے والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا بھی حق ہے.الادب المفرد لامام بخاری، باب بڑ الأب لولده ، حدیث نمبر : 94) اس حق کو نہ بھولیں آپ.آپ کے بچوں کا آپ پر گہر احق ہے اور اس حق کو کیسے ادا کرنا ہے اس کا ذکر آگے میں بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کے حوالے سے آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت انس بن مالک سے مروی ہے، یہ ابن ماجہ ابواب الأدب سے حدیث لی گئی ہے.وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت سالی یہ تم نے فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 455 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء 66 اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو.“ (سنن ابن ماجه، ابواب الأدب، باب بر الوالد و الاحسان الى البنات....حدیث نمبر : 3671) بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آنا بھی ایک لازمی امر ہے محض حکماً ان سے وہ کام کروانا جو آپ کے نزدیک ان کی دُنیا کے لئے بہتر ہیں یہ درست نہیں ہے.بہت سے ایسے ماں باپ ہیں جو بچوں کے لئے سب کچھ کرتے ہیں لیکن ڈانٹتے اس وقت ہیں جب وہ دُنیا سے روگردانی کر رہے ہوں.جب دین سے روگردانی کریں تو ہلکے منہ سے ان کو روکتے ہیں.آنحضرت سلی ایام فرماتے ہیں کہ بچوں کے ساتھ عزت سے پیش آؤ یعنی ان کی اصلاح کرنی ہو تو نرمی اور پیار سے گفتگو کرو اور اچھی تربیت کرو اس سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے.ایک اور حدیث ہے حضرت ایوب بن موسیٰ کی.ترمذی ابواب البر سے لی گئی ہے.حضرت ایوب اپنے والد اور پھر اپنے دادا کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لا الہ تم نے فرمایا : اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہے.“ (جامع الترمذی ابواب البر والصلة، باب ما جاء في أدب الولد ،حدیث نمبر : 1952) اچھی تربیت کرے گا تو یہ سب سے اعلیٰ تحفہ ہے جو دے سکتا ہے.نہ کہ اموال جمع کر کے ان کو یقین دلانا کہ میرے مرنے کے بعد تمہیں بہت دولت مل جائے گی.اس کو تحفوں میں شمار ہی نہیں فرما یارسول اللہ ملا سی پی یم نے فرمایا بہترین تحفہ ہے جو باپ اپنی اولا د کو دے سکتا ہے کہ اس کی اچھی تربیت کرے.اب ملفوظات میں سے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں.فرمایا: اُن کی پرورش ( یعنی بچوں کی پرورش ) محض رحم کے لحاظ سے کرے نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے “ رحم کے حوالے سے کرے، اس سے کیا مراد ہے؟ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّينِي صَغِيرًا.(بنی اسرائیل: 25) اے میرے اللہ ! میرے ماں باپ پر رحم فرما جس طرح انہوں نے میری تربیت کی تھی بچپن میں.تو یہ رحم تربیت کا مرکزی حصہ ہونا چاہئے.اگر کوئی شخص اپنے بچوں پر رحم کرے گا تو لازمی اس رحم کے نتیجہ میں اسے اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ کردار سکھائے گا.
خطبات طاہر جلد 17 456 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء - آنحضرت سلایا کہ تم نے دنیا کی کمائی اور ورثہ کو شمار ہی نہیں فرمایا.فرمایا اس طرح رحم کرو جیسے تم خدا کے حضور یہ کہہ سکو کہ اے اللہ ! میرے ماں باپ پر بھی رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم فرما یا تھا.اگر انہوں نے دین سے ہٹایا ہوتا تو یہ دعا ہو ہی نہیں سکتی تھی کہ میرے ماں باپ پر اس طرح رحم فرما جس طرح انہوں نے بچپن میں مجھ پر رحم فرمایا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے.اولاد سے عزت کا سلوک اور نرمی کا سلوک کرو اور رحم کا سلوک کرو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ رحم کی توقع رکھتا ہے.نہ کہ جانشین بنانے کے واسطے.‘ اپنا جانشین بنانے کے لئے جو تم ان سے حسن سلوک کرتے ہو بظاہر وہ ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے.فرمایا: بلکہ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا (الفرقان : 75) کا لحاظ ہو.“ پیش نظر یہ بات ہو کہ میں متقیوں کا امام ہوں.اب ظاہر بات ہے کہ بچوں کو بچپن ہی سے تقویٰ کی تعلیم دی جائے گی تو یہ امید کی جاسکتی ہے کہ آپ متقیوں کے امام بنیں گے.اگر بچپن سے ہی ان کی ایسی باتوں سے روگردانی کی جاتی ہے جو نظر آ رہی ہیں کہ ان کو دین سے دور لے جا رہی ہیں تو پھر وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اِمَامًا کی دعا بالکل جھوٹی اور بے معنی ہو جاتی ہے.ملاقاتوں کے دوران مجھے اس کا بھی بہت تلخ تجربہ ہوا.بعض بچے، بعض بچیاں ایسے نظر آئے جن کی آنکھوں میں ذرہ بھی دین کی پرواہ نہیں تھی.ان کی آنکھیں بول رہی تھیں بعض ایسی بچیاں بھی دیکھیں جنہوں نے دوپٹوں سے اپنے سر ڈھانکے ہوئے تھے لیکن ان کا سر ڈھانکنا بتا رہا تھا کہ آج پہلی دفعہ سر ڈھانکا گیا ہے یعنی روز جب وہ خدا کے حضور چلتے پھرتے تھے تو اس وقت سر ڈھانکنے کا کوئی خیال نہیں آیا ، جب وہ میرے سامنے پیش ہوئے ہیں تو سر ڈھانک کے آئے.ایسی صورت میں میری تکلیف میں دگنا اضافہ ہو گیا ہے کیونکہ مجھے لگا کہ نعوذ باللہ من ذلک یہ میرا شرک کر رہے ہیں.جس خدا سے ڈرنا چاہئے اس سے ڈرتے نہیں اور میں ایک عاجز حقیر بندہ جس کی کوئی بھی حیثیت نہیں اس کے سامنے بن سنور کر آتے ہیں اور دکھانا چاہتے ہیں کہ ہم نیک ہیں.نیک ہیں تو جس کو دکھانا ہے اس کو دکھا ئیں.وہ خدا ہے جو ہر حال میں آپ پر نظر رکھتا ہے.اگر اس کو نہیں دکھانا تو یہ کسی نیکی ہے؟ اس نیکی میں آپ شرک کی تلخی گھول رہے ہیں.جس کو آپ نیکی سمجھ رہے ہیں، ہے تو بدی لیکن اس میں شرک کی تلخی بھی گھل جاتی ہے.چنانچہ جب میں نے چھان بین کی تو ان ماں باپ نے اقرار کیا کہ یہ تو بچپن سے ہمارے
خطبات طاہر جلد 17 457 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء قابو ہی میں نہیں ہے.میں نے کہا یہ بالکل جھوٹ بول رہے ہیں آپ.بچپن سے آپ اپنے قابو میں نہیں ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اولاد سے سچا پیار ہو اور انسان انہیں کھینچ کے سینے سے لگائے اور پھر بجائے دنیا داری کے ان کی نیکی کا لحاظ ر کھے اور وہ اچانک بے راہ رو ہو جائے.یہ نہیں ہوا کرتا.اولاد آنکھوں کے سامنے بگڑ ا کرتی ہے.جن لوگوں کو احساس نہ ہو وہ آنکھیں بند رکھتے ہیں اس لئے کہ ان کی دنیا داری سے خوش ہورہے ہوتے ہیں اور دین کی کوئی حقیقی پرواہ نہیں ہوتی.مجھے دعا کے لئے کہہ رہے تھے کہ دعا کرو.میں نے کہا انا للہ وانا الیهِ رَاجِعُونَ.آپ کے زندگی بھر کے عمل کے خلاف میری دعا کیا کرے گی.مجھے ان سے ہمدردی تو ہے ، تکلیف تو ہے مگر آپ کا عمل میری دعا کو جھٹلا رہا ہے.میں دعا کروں گا اللہ تعالیٰ ان کو ٹھیک کر دے آپ کا عمل پکار پکار کے کہہ رہا ہے کہ اے خدا بالکل نہیں ٹھیک کرنا.ہمیں ایسی ہی تربیت چاہئے تھی جو ہم نے کر دی ہے.تو ایسے معاملات اور بھی ہیں جو وقتاً فوقتاً میرے سامنے آتے رہتے ہیں مگر آئندہ سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جن کے متعلق جماعت کو علم ہو وہ ان کی ملاقات ہی کروانی چھوڑ دیں.یہ نفس کا دھوکا ہے جو وہ دیتے ہیں اور مجھے اس سے اور بھی تکلیف پہنچتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: "وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ اما ما کا لحاظ ہو.یہ لحاظ رکھو کہ جن کو پیچھے چھوڑ کے جار ہے ہو وہ متقی ہوں اور خدا کے حضور تم متقیوں کے امام لکھے جاؤ.فرماتے ہیں: اولا د دین کی خادم ہو.( یہ لحاظ ہو ) لیکن کتنے ہیں جو اولاد کے واسطے یہ دعا کرتے ہیں کہ اولا د دین کی پہلوان ہو.بہت ہی تھوڑے ہوں گے جو ایسا کرتے ہوں.اکثر تو ایسے ہیں کہ وہ بالکل بے خبر ہیں کہ وہ کیوں اولاد کے لئے یہ کوششیں کرتے ہیں اور اکثر ہیں جو محض جانشین بنانے کے واسطے ( ایسا کرتے ہیں ) اور کوئی غرض ہوتی ہی نہیں.صرف یہ خواہش ہوتی ہے کہ کوئی شریک یا غیر ان کی جائیداد کا مالک نہ بن جاوے مگر یا درکھو کہ اس طرح پر دین بالکل برباد ہو جاتا ہے.غرض اولاد کے واسطے صرف یہ خواہش ہو کہ وہ دین کی خادم ہو.“ الحکم جلد 8 نمبر 8 صفحہ: 6،مؤرخہ 10 مارچ 1904ء)
خطبات طاہر جلد 17 پھر فرماتے ہیں: 458 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دنیا کے لئے کرتے ہیں.“ یہ کوئی نئی بیماری نہیں ہے یہ فطرت کی بیماری ہے جو بڑی دیر سے چلی آرہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں بھی جو بڑے بڑے خدمت کرنے والے اور جان فدا کرنے والے اور دین کی راہوں میں دوڑ دوڑ کر چلنے والے صحابہ موجود تھے ان میں بھی ایسے لوگ تھے.میں دیکھتا ہوں کہ لوگ جو کچھ کرتے ہیں وہ محض دُنیا کے لئے کرتے ہیں ، محبت دُنیا ان سے کراتی ہے.خدا کے واسطے نہیں کرتے اگر اولاد کی خواہش کرے تو اس نیت سے کرے وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (الفرقان: 75) پر نظر کر کے ( یہ دعا ) کرے کہ کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمتہ الاسلام کا ذریعہ ہو.“ اب آپ فرماتے ہیں ایک بچہ کوئی پیدا ہو جائے جو آگے دین کا نام بلند کرنے والا ہو ، دین کا کلمہ بلند کرنے والا ہو.اس خواہش کے ساتھ وہ اولاد کی جو خدمت کریں وہ سچی خدمت ہے باقی سب جھوٹ ہے.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا حال دیکھ لیں.کتنی دعائیں کی ہیں مصلح موعود کی پیدائش سے پہلے، ہر بچے کے لئے دعائیں کی ہیں، اتنی کوشش کی بچپن سے ہی ، دین کے سوا اُن کی کوئی نظر برداشت نہیں کی.بہت تفصیلی واقعات ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ دین کے معاملہ میں اپنے بچوں سے آپ نے کوئی نرمی نہیں کی یعنی نرمی کے باوجود آپ کی طرز میں ایک تلخی آجایا کرتی تھی جب دیکھتے تھے کہ دین کے معاملہ میں کوئی ہلکی بات کر رہا ہے اور وہ تلخی بظاہر جسمانی سختی نہ ہونے کے باوجود جسمانی سختی سے بہت زیادہ کام کرتی تھی.اب یہ سب کچھ اپنی جگہ، بے انتہا دعا ئیں ، اولاد کے پیدا ہونے سے پہلے دعائیں، ان کے پیدا ہونے کے بعد مسلسل ان پر نظر اور یہ عرض کہ : یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ سبھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا ( مجموعه آمین صفحه : 9) کتنی عاجزانہ دعا ہے.ان سب کوششوں کے باوجود انحصار نہیں ہے.جانتے ہیں کہ میں ایک عاجز بندہ ہوں جب تک اللہ قبول نہیں کرے گا مجھے یہ نصیب نہیں ہوگا کہ جاتی دفعہ میں پیارا ور محبت کی نظر ڈالوں.میں دیکھوں کہ میری اولا د وہ بن گئی ہے جو عمر بھر میں بنانا چاہتا تھا.آپ کیوں اس مثال کو نہیں پکڑتے.دیکھتے نہیں کس کو اپنا امام مانا ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنا
خطبات طاہر جلد 17 459 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء امام مانا ہے جن کا اولاد کے متعلق یہ نظریہ تھا.گریہ وزاری کرتے ہیں کاش میں ان پر محبت کی نظر ڈال سکوں جب میں واپس ہو رہا ہوں.اور خدا گواہ ہے کہ جب وہ واپس ہوئے ہیں تو انتہائی نیک اولاد پیچھے چھوڑ کر گئے تھے ، ہر پہلو سے خدمت دین کرنے والی.بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اسی رنگ میں اونچے ہوئے ہیں اسی رنگ میں لہلہاتے رہے ہیں.وہ لہلہاتے تو تھے پر ان میں زردی کبھی نہیں آئی.وہ چورا نہیں بنے کہ پھر مٹی میں مل جائیں.ان میں سے ہر ایک کے متعلق ہم گواہ ہیں کہ جب تک وہ زندہ رہا اپنی طرف سے انتہائی کوشش کرتارہا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ دین کا علم بردار بنے ، دین کی خدمت کرنے والا بنے.کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃ الاسلام کا ذریعہ ہو.جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولا د دے دے.“ اب ایک اور بات بڑی عظیم فرمائی گئی ہے.بہت سے لوگوں نے اولاد کے لئے دعاؤں کی درخواست کی لیکن ان کی درخواست میں غالباً کوئی ملونی نفس کی ہوتی ہوگی کہ وہ اپنی اولا دکو اس لئے دیکھنا چاہتے ہیں کہ وہ ان کے دل کی تسکین کا موجب بنے.خواہ نیک ہو یا بد ہومگر دل کی تسکین کا موجب بنے مگر حضرت ذکریا کی دعا اور تھی.حضرت زکریا کے بال سفید ہو چکے تھے قرآن کریم کی رو سے شعلہ کی طرح سر بھڑک اٹھا تھا اتنی سفیدی آچکی تھی اور وہ عرض کرتے ہیں کہ میری ہڈیوں میں جان تک باقی نہیں رہی.ہڈیاں گل گئی ہیں لیکن یہ عرض کرتے ہیں کہ اے خدا میں تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوسکتا.فرمایا ایسی دعا کرو تو پھر زکریا کی طرح تمہیں بھی اولا دنصیب ہوگی پھر تمہیں بیٹی ملے گا.اگر ایسی دعا ئیں نہیں کرتے یہ دل کی گہری تمنا نہیں ہے تو پھر دنیا میں ایسی اولا د چھوڑ جاؤ گے جس کا کوئی بھی فائدہ نہیں.تم چلے جاؤ گے اور اس کے بعد ان پر کیا بنے گی یا مرنے کے بعد تم پر کیا بنے گی اس کی تمہیں کوئی ہوش نہیں ہے.ایک چھوٹے سے فقرہ میں دیکھیں کیسی پیاری بات فرما دی.فرمایا: کوئی ایسا بچہ پیدا ہو جائے جو اعلاء کلمۃ الاسلام کا ذریعہ ہو.جب ایسی پاک خواہش ہو تو اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولا ددے دے.مگر میں دیکھتا ہوں کہ لوگوں کی نظر اس سے آگے نہیں جاتی کہ ہمارا باغ ہے اور ملک ہے وہ اس کا وارث ہو.اور کوئی شریک اس کو نہ لے جائے.مگر وہ اتنا نہیں سوچتے کہ کم بخت جب تو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن ، اپنے بیگانے سب برابر ہیں.“ 66
خطبات طاہر جلد 17 460 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء یہ حقیقت ہے جب انسان مر ہی گیا تو اس کو اس دُنیا سے کیا ہے، پیچھے کیا چھوڑا ، کیا نہیں چھوڑا اس کی کوئی بھی حیثیت نہیں کوئی اس کا اختیار نہیں ہے اس پر تو لفظ کم بخت سے طبیعت کو جھنجھوڑا گیا ہے.اتنا نہیں سوچتے کہ کم بخت جب تو مر گیا تو تیرے لئے دوست دشمن ، اپنے بیگانے سب برابر ہیں.میں نے بہت سے لوگ ایسے دیکھے اور کہتے سنے ہیں کہ دعا کرو کہ اولاد ہو جائے جو اس جائیداد کی وارث ہو.ایسا نہ ہو کہ مرنے کے بعد کوئی شریک لے جاوے.اولا د ہو جائے خواہ وہ بدمعاش ہی ہو.یہ معرفت اسلام کی رہ گئی ہے.“ الحکم جلد 8 نمبر 8 صفحہ: 9، مؤرخہ 10 مارچ 1904ء) اس لئے اپنی اولاد کی طرف خاص طور پر توجہ کریں.قُل تعالوا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلَّا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا وَ بِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ مِنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُم (الانعام : 152) یہ آیت تو وہی ہے جس کی میں تلاوت پہلے کر چکا ہوں لیکن اب میں آپ کو یہ بات آخر پر سمجھانا چاہتا ہوں کہ میں نے جہاں تک جائزہ لیا ہے امریکہ کی جماعت کو اپنی اولاد کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ بہت سے چہرے تو میں نے دیکھ لئے ہیں اور ان کی آنکھوں نے جو پیغام دیا وہ سن لیا اور سمجھ لیا مگر ہر دفعہ لمبی ملاقاتیں ممکن ہی نہیں ہوا کرتیں اور جماعت کا ایک بھاری حصہ ایسا رہ جاتا ہے جس کے ساتھ میں ملاقات نہیں کر سکتا.تو میں تو حض نمونہ کے طور پر آپ کو بعض چہرے دکھا سکتا ہوں اس سے زیادہ مجھے کوئی توفیق نہیں ہے.اس ضمن میں ایک اور بات میں امریکہ کی جماعت سے کہنا چاہتا تھا وہ لمبی ملاقاتوں کی معذرت ہے.اگر چہ میری خواہش یہ ہوتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ احمدی دوستوں سے اور ان کے بچوں سے ملوں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ بعض دفعہ ان کی چند لمحوں کی ملاقات بھی ان کی اولاد کے لئے ساری زندگی کا سرمایہ بن جایا کرتی ہے.اسی ملاقات میں بعض لوگوں نے بہت پرانی اپنی بچپن کی تصویریں میرے ساتھ دکھا ئیں اور کہا کہ ہمارے بچے جو گودیوں میں ہیں یہ ان کا سرمایہ حیات ہے.یہ ساتھ لئے پھرتے ہیں اپنی البموں میں سجاتے ہیں اور کہتے ہیں اس طرح ہمیں گودی میں اٹھایا ہوا تھا حالانکہ اس وقت میں خلیفہ اسیح بھی نہیں تھا لیکن ان بچوں نے ان لمحات کی قدر کی اور میرے دینی تعلق کو پیش نظر رکھ کر ان تصویروں کو سنبھال کر رکھا اور جب میں دیکھتا ہوں تو بعض دفعہ پہچانا
خطبات طاہر جلد 17 461 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء نہیں جاتا کہ یہ کیا ہو رہا ہے مگر میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ چند لمحوں کی ملاقات بھی بعض دفعہ ایک سرمایہ حیات بن جایا کرتی ہے مگر وہ لوگ جو ملاقات کی خاطر بعض دفعہ گھنٹوں بیٹھتے ہیں ان کو میں سمجھانا چاہتا ہوں کہ ان کی تکلیف سے زیادہ میرا دل تکلیف محسوس کرتا ہے.مجھے بہت شرم آتی ہے اس بات سے کہ گھنٹوں انتظار کے بعد بے چارے آئے اور کھڑے کھڑے السلام علیکم، چاکلیٹ بچوں کے لئے لے لو، تصویر کھنچواؤ اور رخصت ہو جاؤ.اب اس کا مطلب یہ تو نہیں ہے کہ میرا دل سخت ہے.میں ان کی تکلیف کو محسوس کرتا ہوں.گھنٹوں جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں ان کی تکلیف لمحہ لمحہ میرے دل پہ گزر رہی ہوتی ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں، ذرہ بھی اس میں جھوٹ نہیں ہے مگر میں مجبور ہوں کہ جتنے بھی مل سکتے ہیں ان سے مل کر ان چند لمحوں میں کوئی ایسی بات کروں کہ ان کی زندگی کا سرمایہ بن سکے اور مجھے پتا ہے کہ آئندہ جب میں گزر جاؤں گا تو یہی سرمایہ حیات ہے جو آپ کے بچوں کے کام آئے گا ، عمر بھر کا سرمایہ بن جائے گا.اگلی نسلوں کے لئے ، ان کی صدیاں جو آنے والی ہیں ان سب کا یہ سرمایہ حیات بن جائے گا.اس لئے میں ملاقات سے جتنا مرضی وقت گزرے اس سے تنگ نہیں آتا اور مجھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ الہام یاد آ جاتا ہے کہ: لا تَسْلَمُ مِنَ النَّاسِ " (کتاب البریۃ، روحانی خزائن جلد 13 صفحه : 309) لوگوں سے تنگ نہ آ.اب یہ الہام اگر چہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہوا مگر یہ اس زمانہ کا نقشہ کھینچنے والا الہام ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تو کبھی بھی لوگوں سے تنگ نہیں آئے.آپ کی تحریر پڑھ کے دیکھیں آپ ساری دُنیا کو دعوت دے رہے ہیں آؤ.غیروں کو بھی دعوت دے رہے ہیں کہ آؤ اور میرے پاس ٹھہرو اور فرماتے ہیں کہ کئی کئی دن ٹھہرو.بعض دفعہ جب جانے کا نام لیتے تھے تو آپ کو تکلیف ہوتی تھی کہ نہیں آؤ میرے پاس گھر میں ہی ٹھہرو.گھر مہمان خانہ بنا ہوا تھا.تولا تسلم من النَّاس کا کیا مطلب ہوا کہ لوگوں سے تنگ نہ آ.یہ پیش گوئی تھی کہ ایسا زمانہ آنے والا ہے جب دل کی خواہش کے باوجود تیرے غلاموں کے لئے ممکن نہیں ہوگا کہ ہر ایک سے مل سکیں.وہ دل سے تنگ نہیں ہوں گے مگر دیکھنے میں یہ نظارہ دکھائی دے گا کہ اتنی مخلوق ملنے والی تو دل میں تنگی ہو سکتی ہے.فرما یالا تسقم من الناس.مسیح موعود علیہ السلام کو جو پیغام ہے
خطبات طاہر جلد 17 462 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء وہی پیغام آج میرے لئے بھی ہے اور کل کے آنے والے خلفاء کے لئے بھی ہوگا کہ لوگ بڑھیں گے جوق در جوق شوق سے آئیں گے.آگے بعض ایسے زمانے بھی آنے والے ہیں وہ ایک نظر خلیفہ کو دیکھنے کے لئے ترسیں گے اور دیکھیں گے تو ان کا دل ٹھنڈا ہوگا حالانکہ بعض دفعہ گھنٹوں انہوں نے انتظار کیا ہو گا کہ وہ آئے اور ایک جھلک ہم دیکھ لیں.دُنیا میں بھی ایسا ہوتا ہے اور یہ انسانی فطرت ہے جس شخص کی دل میں کسی پہلو سے عظمت ہو اس کے لئے انسان ایسے ہی کیا کرتا ہے.تصویروں میں آپ دیکھتے ہوں گے شاید ٹیلی ویژن کی خبروں میں بھی دیکھتے ہوں گے کہ بعض دفعہ کسی صدر یا کوئین (Queen) وغیرہ کے گزرنے کے لئے سارا سارا دن لوگ دورویہ سڑکوں پر کھڑے رہتے ہیں اور صرف ایک نظر ، اس سے زیادہ کچھ نہیں اور اگر جوا باوہ شخص نظر ڈال لے تو پھر ساری عمران کا سرمایہ بن جاتا ہے حالانکہ ان دُنیا کی نظروں کی کوئی بھی حیثیت نہیں.خدا کے نزدیک تو نظریں کام نہیں آیا کرتیں.نظر وہی ہے جو اللہ کی نظر کے تابع ہو.پس ایسا زمانہ آئے گا اور ضرور آئے گا کہ اگر کسی شخص نے دیکھا کہ ایک نظر بھی مجھ پر کسی نے ڈال لی ہے تو وہی اس کا سرمایہ حیات ہو جائے گا.تو آپ آئندہ دنیا کے لئے ، آئندہ صدیوں کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا سرمایہ ہیں اس لئے کیسے ممکن ہے کہ میں آپ کی قدر نہ کروں.میں جو باتیں تلخی سے سمجھانے کے لئے کرتا ہوں بعض دفعہ وہ تھی دکھ کی علامت ہے، غصہ کی علامت نہیں کبھی بھی میں تحقیر کی نظر سے نہیں دیکھتا جماعت کے لوگوں کو.ان کو بھی جو چندہ نہیں دے سکتے جن کے دل، جن کی مٹھیاں بند ہیں ان پر بھی میں رحم کی نظر ڈالتا ہوں.میں جانتا ہوں کہ یہ گھاٹا کھارہے ہیں.قرآن کریم نے صاف بیان کر دیا کہ فَأُولبِكَ هُمُ الخسِرُونَ.یہی ہیں جو گھاٹا کھانے والے ہیں.تو ان سب کو میں سمجھانے کی کوشش تو کرتا ہوں مگر یا درکھیں کبھی بھی میری نظر میں یہ حقیر دکھائی نہیں دیتے بلکہ مظلوم دکھائی دیتے ہیں.اپنے ہی ہاتھوں کے ظلم کا شکار ہیں.پس جو کچھ اس سفر کے دوران گزرا ہے یہ اس کی تشریح کر رہا ہوں اس کی روشنی میں آپ میرے عمل کو جانچیں اور اس کی روشنی میں ہی اپنے عمل کو بھی جانچیں اور اپنی اولاد کی فکر کریں.بہت سے بچے ضائع ہورہے ہیں ، غیر معاشرہ ان پر قبضہ کر رہا ہے.کبھی کسی دنیا میں غیر معاشرے کو اتنی طاقت گھروں میں داخل ہونے کی نہیں ہوئی جتنی آج ہو چکی ہے.جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا یہاں
خطبات طاہر جلد 17 463 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء کا میڈیا، یہاں کی ٹیلی ویژن کی تصویریں اور پھر اردگرد کا ماحول ، ناچتے پھرتے بچے دکھائی دیتے ہیں ان باتوں کو روکنے کے لئے جو دنیا کی کوششیں ہیں وہ بھی کریں.بعض دفعہ بچوں کو یہ دیکھ کر بہت مزا آتا ہے کہ بچے تالاب میں پھر رہے ہیں، ننگے دوڑ رہے ہیں ، پھر رہے ہیں.ان کی تسکین جو ہے نہانے کی اور تیرنے کی وہ تو پوری ہونی چاہئے کسی طریقے سے لیکن اس طرح نہیں جس طرح یہ لوگ کرتے ہیں.تو بچپن سے ان کے لئے جن لوگوں نے تالاب بنالئے ، جن کو تو فیق ملی ان پر میرا کوئی اعتراض نہیں.جن کو خدا نے توفیق دی ہے وہ بے شک بنا ئیں مگر اتنا دکھاوا نہ کریں کہ وہ تالاب لوگوں کی نظر کے لئے ہوں نہ کہ بچوں کے نہانے کے لئے.مجھے یاد ہے امریکہ آنے سے بہت پہلے بھی مجھے یہ خیال رہتا تھا کہ میری بچیاں بڑی ہوں گی تو یہ محسوس نہ کریں کہ ہمیں تیرنا نہیں آیا ، نہ ہمیں نہانے کا آزادانہ مزا آیا.اس لئے یہاں کے معاشرہ کا تو مجھے خواب و خیال بھی نہیں تھا مگر اپنے فارم پر میں نے ایک تالاب بنارکھا تھا چھوٹا سا جس میں میرے بچے مجھ سے سیکھتے تھے.ان کے ساتھ ہی خاندان کے اور بچے اور بچیاں آکر پاکیزہ ماحول میں تیرنا بھی سیکھتے تھے اور اپنے مزے پورے کرتے تھے.جب یہ بچیاں ، ان میں سے دو بڑی بچیاں میں ساتھ لے کر امریکہ آیا تو یہاں کے تالا بوں نے ان پر ذرہ بھی اثر نہیں کیا کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ ہمارا حق ہمیں دیا گیا ہے اور ان پر رحم کرتی تھیں جو اپنا جسم بیچنے کے لئے نہاتے ہیں.کراہت سے ان پر نظر پڑتی تھی اور اپنے متعلق پورا اطمینان تھا کہ ہمارا جو حق ہے ہمیں عطا کیا گیا ہے.تو یہ میں باتیں اس وقت کی کر رہا ہوں جب میں ابھی امریکہ نہیں آیا تھا.تو یہاں کے لوگ اگر اس نیت سے تالاب بنانے کی توفیق رکھتے ہوں کہ گھر میں پاکیزہ ماحول میں ان کی تربیت ہو سکے تو ہر گز کوئی برائی کی بات نہیں ہے.اس کو تکاثر اور تفاخر نہیں کہتے مگر تالاب کے بہانے اگر اتنے بڑے بڑے ہال بنائے جائیں ، اتنی بڑی بڑی چکوڑیاں ہوں کہ دیکھتے ہی طبیعت میں کراہت پیدا ہو یہ تو کوئی مومنانہ طریق نہیں ہے.اس سے تو اگر بچے یہاں نہا ئیں گے بھی تو بیرونی معاشرے کی اور بھی زیادہ قدر کریں گے.وہ سمجھیں گے کہ ہمارے ماں باپ نے انہی کو اپنی بڑائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے.تو یہ ساری باتیں ایسی ہیں جو میرے اس سفر کے دوران تجر بہ میں شامل ہیں ان کی تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا.جن کو توفیق ہے ضرور تالاب بنا ئیں مگر بچوں کے ساتھ مل کر ان کو تیر نا بھی سکھائیں ، ان کو ساتھ ساتھ بتائیں کہ باہر کی دنیا کی طرف نظر
خطبات طاہر جلد 17 464 خطبہ جمعہ 3 جولائی 1998ء نہ کرو، وہ گندے لوگ ہیں.اپنی حفاظت کرو ، اپنے دین کی حفاظت کرو تو یہی تالاب ان کے لئے رحمت کا موجب بن جائیں گے.پس میں وقت کے لحاظ سے، چونکہ وقت پورا ہو چکا ہے، مزید کچھ کہنے کی بجائے اب آپ سب سے اجازت چاہتا ہوں.ابھی ایک دو دن تک مجھے انشاء اللہ امریکہ سے واپس انگلستان کے لئے روانہ ہونا ہے.عرض ہے کہ آپ دعا میں یادرکھیں.جن مقاصد کے لئے میں آیا تھا اللہ تعالیٰ ان مقاصد کو پورا فرمائے اور میرے جانے کے بعد بھی میری باتیں باقی رہ جائیں جو دل پر گرفت کرنے والی ہوں.پھر میں ہوں یا نہ ہوں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا.اللہ آپ کے ساتھ ہو ، ہمیشہ آپ کا نگہبان ہو.اس کے بعد اب میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 465 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء خدا تعالیٰ بندے کے حسن ظن کے مطابق سلوک کرتا ہے ہمیشہ خدا تعالیٰ کا فضل بچاتا ہے نہ کہ انسان کے اعمال (خطبہ جمعہ فرمودہ 10 جولائی 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَ أَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ عَلَيْهَا مَلَيْكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادُ لَا يَعْصُونَ اللهَ مَا اَمَرَهُم b يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ.يَايُّهَا الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَعْتَذِرُوا الْيَوْمَ ، إِنَّمَا تُجْزَوْنَ مَا كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ پھر فرمایا: (التحريم: 8،7) یہ وہ آیات کریمہ ہیں جن کی تلاوت میں نے امریکہ کے آخری خطبہ میں بھی کی تھی اور ان آیات کے مضمون کے پیش نظر تمام ایسے متمول احمدیوں کو خصوصیت سے نصیحت کی تھی جو اپنے اموال سے اللہ کی نسبت زیادہ محبت کرتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں ان کے ہاتھوں سے ان کی اولادیں بھی نکلی چلی جارہی ہیں اور جو مال وہ جمع کرتے ہیں وہ ان کے کسی کام نہیں آئے گا.یہ ایک عمومی نصیحت تھی لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہاں کی جماعت کے اکثر لوگ اس میں ان معنوں میں مبتلا ہیں کہ جماعت کے چندوں پر کوئی بداثر پڑتا ہے کیونکہ یہ لوگ جو محروم ہیں ان کی ادائیگیاں ان لوگوں کے مقابل پر جو اللہ کی راہ میں ویسا ہی مال خرچ کرتے ہیں جیسا کہ خدا اُن کو عطا فرماتا ہے وہ اتنی
خطبات طاہر جلد 17 466 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء زیادہ ہیں کہ اگر ان کی ساری قربانیوں کو ایک طرف پھینک دیا جائے تو ایک فی صد بھی امریکہ کی جماعت کی آمد میں فرق نہیں پڑتا تھا بلکہ یہ بھی مبالغہ ہوگا ایک فیصد کہنا بھی.اس لئے ہرگز کوئی مالی ضرورت کا احساس نہیں تھا جس کے پیش نظر میں نے یہ خطبہ دیا.یہ احساس تھا کہ وہ لوگ جو بد نصیب ہیں وہ بچائے جاسکتے ہیں تو ان کو بچا لیا جائے.اس ضمن میں ایک اور بات جو خاص طور پر قابل توجہ ہے جو امریکہ میں بیان نہیں کی مگر اب میں اس خطبہ میں اسے بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا میں یہ بھی ہدایت ہے کہ اپنی نئی نسلوں کو بچالو اور شروع ہی سے ان کی فکر کرو اور جو ان میں سے کمانے والے ہیں ان پر لازم کر دو کہ وہ ضرور پہلے چندہ ادا کریں باقی باتیں بعد میں دیکھیں.اگر یہ کر لیں تو بہت بڑی احمدی نسلیں ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ کے لئے اس شر سے بچائی جاسکتی ہیں.امریکہ کے دورہ کے وقت بھی اور یہاں بھی ملاقات کے دوران میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے احمدی بچے اور بچیاں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے اچھے عہدوں پر نئے نئے فائز ہوئے ہیں یا فائز ہونے کی توقع رکھتے ہیں ان کے والدین کو ان کی فکر نہیں کہ اس وقت یہ اصل وقت ہے کہ ان کو سمجھایا جائے کہ تمہارا مال تم پر حرام ہے جب تک پہلے خدا کا حصہ نہ نکالو اور اس وقت ان کے لئے آسان ہے کیونکہ نو جوان نسلیں بوڑھی نسلوں کے مقابل پر نسبتا اپنے مزاج میں نرمی رکھتی ہیں یعنی ان کے اندر لوچ پائی جاتی ہے اور وہ مال کی محبت میں ابھی ایسا مبتلا نہیں ہوتیں.وہ لوگ جنہوں نے عمریں گزار دیں مال کی محبت میں ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جن کی اصلاح کا وقت گزر چکا ہے وہ اللہ کے حوالے، جو چاہے ان سے سلوک فرمائے لیکن نئی نسلوں کو سنبھالنا تو نسبتاً بہت آسان ہے اور بعض ان میں سے جو مجھے ملے جن کو میں نے خود یہ نصیحت کی ، فوری طور پر انہوں نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا کہ لازماً ہم ایسا ہی کریں گے.ایسی مائیں بھی مجھے ملیں جن کو میں نے توجہ دلائی تو انہوں نے کہا کہ ہمارے دل میں یہی تمنا اٹھ رہی ہے اور اب ہم اپنے بچے کو لازماً اس بات کا پابند کریں گی کہ اگر تم میرے بچے ہو، جیسا ماؤں کا محاورہ ہے میرا دودھ بخشوانا چاہتے ہو تو سب سے پہلے اللہ کا حصہ نکالو اور باقی چیزیں پھر جس طرح چاہو اللہ تعالیٰ توفیق دے تم اس کے مطابق خرچ کرو اور بعض ماؤں نے کہا کہ ہم نے اپنے بچوں کو یہ کہنا ہے کہ جو کچھ تم کماؤ گے اگر اس میں سے خدا کا حصہ نہ نکالا تو میرا حصہ بھی نہ نکالنا،
خطبات طاہر جلد 17 467 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء مجھ پر حرام ہے.جو تم کما کر خدا کے حصہ میں سے بچاتے ہو وہ مجھ پر خرچ کرو یہ نہیں ہوسکتا، یہ ناممکن ہے.تو بہت سی خوش کن باتیں ایسی دیکھنے میں آئیں جن سے میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری نئی ابھرتی ہوئی نسل کو سنبھالا جاسکتا ہے اور اگر یہ نسل سنبھل جائے تو مستقبل کی ہمیں کوئی فکر باقی نہیں رہے گی.قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارا ایک ان کے حق میں بہتا ہوا موجیں مارتا ہوا چشمہ ثابت ہوگا جس کا پانی انگلی صدیوں میں بڑے جوش و خروش کے ساتھ منتقل ہوتا چلا جائے گا اور بڑھتا چلا جائے گا.تو اس سے بہتر تحفہ ہم اگلی صدیوں کے لئے کیا پیش کر سکتے ہیں کہ ایسی نسلیں آگے بھیجیں جو خدا کا حق نکالنے میں سب سے پہلے ہوں ، سب سے بالا ہوں اور پھر اللہ ان کو توفیق بخشے اور جو لازماً بخشا کرتا ہے، کہ وہ تمام دوسرے چندوں میں بھی بہت زیادہ آگے سے بڑھ کر ہوں.جس کا اپنا یہ حال ہو یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی اسی بات کی تربیت نہ دیں.تو اس پہلو سے میں کہہ رہا ہوں کہ ایک موجیں مارتا ہوا دریا پھوٹ پڑے گا.قوآ اَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارا یہ کہتا ہوا.اور اگلی صدیوں کو سیراب کرے گا.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ جو لوگ میں امریکہ میں پیچھے چھوڑ آیا ہوں اور وہ سب اب جو میرے مخاطب ہیں تمام دنیا کے احمدی نوجوان وہ اس جھنڈے کو اپنے ہاتھ میں مضبوطی سے تھام لیں گے اور ان کو یہ سوچنا چاہئے کہ اس نیکی کا بہت لمبا اثر ہے.ایک نہ ختم ہونے والا فائدہ پہنچنے والا ہے اور آئندہ وقتوں میں جماعت کو اس کی بڑی شدید ضرورت پیش آنے والی ہے.آپ دیکھیں گے کہ اگلے دس پندرہ سال کے اندر حالات ایسے پیدا ہو جائیں گے کہ ان نو جوانوں کی قربانیاں ساری جماعتی ضرورتوں کو سنبھال لیں گی.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ نصیحت آپ کے لئے کافی ہوگی.ایک بات میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ جو تنبیہ میں نے کی تھی اس کا جماعت کے بہت سے مخلصین پر بہت اچھا اثر پڑا ہے.کئی ایسے مخلص جن کو خدا نے بہت اموال سے نوازا تھا اور اس معاملہ میں غفلت کر رہے تھے اس خطبہ کے اثر سے انہوں نے مجھے یقین دلایا اور ایسے عزم صمیم کے ساتھ یقین دلا یا کہ مجھے ایک ذرہ بھی شک نہیں کہ جو بات انہوں نے کہی اس پر پورا اتریں گے.انہوں نے کہا کہ جو کوتاہیاں ہم سے ماضی میں ہوگئیں ہم ان کو دفن کرتے ہیں اور آئندہ اپنا معاملہ اللہ سے صاف رکھیں گے ان میں سے ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت کمانے والے تاجر ہیں اور تاجر کے
خطبات طاہر جلد 17 468 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء لئے یہ مشکل ہے کہ اپنا حساب الگ رکھے کیونکہ نفس ان تاجروں کو دھوکا دیتا ہے اور وہ صرف وہ خرچ اپنا سمجھتے ہیں جو تجارت میں سے نکال لیتے ہیں مگر جن صاحب کی میں بات کر رہا ہوں وہ اس پہلو سے مجھے یقین نہیں دلا رہے تھے ، انہوں نے یہ یقین دلایا ہے کہ تجارت میں جتنا بھی فائدہ ہوگا اس فائدے میں سے سب سے پہلے اللہ کا حق نکالوں گا اور اس کے بعد جو بچتا ہے تو پھر خدا مجھے تو فیق دے تو جس طرح چاہوں خرچ کروں.تو یہ فرق ہے.بہت نمایاں پیش نظر رکھنے والا فرق ہے کہ اللہ کا حق اس منافع میں سے نکالنا چاہئے جو تجارتی منافع ہو.جو بقیہ ہے اس کو پھر تجارت میں خرچ کریں اور پھر دیکھیں کہ اللہ اس میں پہلے سے بہت زیادہ برکت ڈالے گا.یہ جو بدظنی ہے اللہ تعالیٰ پر یہ بڑا نقصان پہنچاتی ہے.لوگ ڈرتے ہیں کہ تجارت میں سے اگر ہم نے وہ خرچ جو ہم نکالتے ہیں اسی کو منافع نہ سمجھا تو ہماری تجارتیں ڈوب جائیں گی اور بچے منافع میں سے روپیہ نکالنے میں سمجھتے ہیں بڑا نقصان پہنچے گا حالانکہ نہ نکالنے کا نقصان ہے.اللہ تعالیٰ اتنا زیادہ عطا کرتا ہے کہ انسان اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا.اس لئے اس کی تفصیل میں جانے کی یہاں ضرورت نہیں.میں صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس نئے زاویہ سے بھی اپنی تجارتوں کا جائزہ لیں اور دوسرے کمائیاں کرنے والوں پر بھی یہ بات صادق آنی چاہئے.ایسے لوگ جو اس تنبیہ پر واپس لوٹے ہیں ان سے میری محبت ایک بے اختیار چیز ہے.ناممکن ہے کہ میرا دل ان کی محبت میں نہ اچھلے جب کہ اللہ ان لوگوں کی محبت میں ایسی مثالیں دیتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.آنحضرت صلی ا لی ایم کی ایک حدیث ابوہریرہ سے مسلم کتاب التوبۃ میں مروی ہے.اس مضمون کی اور بھی حدیثیں ہیں مگر میں نے یہ اس وقت پچنی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی السلام نے بتایا کہ : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں اپنے بندے سے اس حسن ظن کے مطابق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے.“ تو پہلا جو میں نے ذکر کیا ہے ایسے لوگوں کا جو خدا پر بدظن ہیں اس کے مقابل پر رسول اللہ صلی الی یم فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں ان سے وہ سلوک کرتا ہوں جو مجھ سے ظن رکھتے ہیں اگر وہ بدظن ہیں تو ان سے بدسلوک ہونا چاہئے اور یہی مضمون ہے جو میں آپ پر کھول رہا ہوں.اگر خدا پر
خطبات طاہر جلد 17 469 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء حسن ظن رکھتے ہیں تو حسن ظن رکھ کر دیکھیں تو سہی کہ اللہ تعالیٰ اس حسن ظن کے نتیجہ میں ان سے کیا حسن سلوک فرماتا ہے.میں اپنے بندے سے اس کے حسن ظن کے مطابق سلوک کرتا ہوں جو وہ میرے متعلق رکھتا ہے.جہاں بھی وہ میرا ذکر کرتا ہے میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں.” خدا کی قسم یہ رسول اللہ صلی یا پریتم کا فقرہ ہے.” خدا کی قسم اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اتنا خوش وہ شخص بھی نہیں ہوتا جسے جنگل بیابان میں اپنی گمشدہ اونٹنی مل جائے.“ یہ ہے اللہ کی توقع آپ سے.اندازہ کریں کہ اللہ تعالیٰ اس طرح خوش ہوتا ہے جیسے وہ محتاج انسان جس کی اونٹنی اس سے کھو گئی ہو جنگل بیابان ہو اور کوئی سہارا نہ ہو اور وہ اسے مل جائے.اللہ کو کوئی احتیاج نہیں اس کے باوجود اپنے بندوں کی توبہ سے اور ان کے واپس آنے پر اتنا راضی ہوتا ہے.فرمایا: جو شخص مجھ سے بالشت بھر قریب ہوتا ہے میں اس سے گز بھر قریب ہوتا ہوں.اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب ہوتا ہے تو میں دو ہاتھ قریب ہوتا ہوں اور جب وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر جاتا ہوں.“ (صحیح مسلم، کتاب التوبة باب فى الحض على التوبة والفرح بھا....حدیث نمبر :6952) کیا جماعت احمد یہ اپنے رب پر یہ حسن ظن نہ رکھے کہ خدا اس کی طرف دوڑتا ہوا چلا آئے اور آئندہ صدیاں یہی نظارہ دیکھنا چاہتی ہیں کہ جب خدا جماعت کی طرف دوڑتا ہوا چلا آ رہا ہو، جب اللہ دوڑ کر آئے گا تو دنیا کی کیا مجال ہے کہ جماعت احمدیہ کو نظر انداز کر دے.جس طرف خدا دوڑتا ہوا جائے گا ساری کائنات اسی طرف دوڑے گی تمام دنیا کے دل اس طرف مائل کئے جائیں گے.ایک آندھی چل پڑے گی جماعت احمدیہ کے حق میں اور اس کی تائید میں کیونکہ آسمان سے اللہ کی توجہ اس طرف ہوگی.تو یہ ساری باتیں بظاہر چھوٹی چھوٹی پیسے کی باتیں تھیں جن سے بات شروع ہوئی تھی مگر اب آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ ہر گز محض پیسے کی بات نہیں اگلے زمانوں کی ضرورتیں ہیں جنہیں ہم نے بہر حال پورا کرنا ہے اور یہ چھوٹے چھوٹے مسائل ان ضرورتوں کاحل ہیں یعنی مسائل تو ہیں مگر ان پر اگر توجہ سے غور کر کے ان کا حل تجویز کرنے کی کوشش کی جائے تو وہ آئندہ زمانہ کی ضرورتوں کا حل بن جائیں گے.
خطبات طاہر جلد 17 470 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت مصلایی تم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : 66 گناہ سے سچی توبہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا.“ پھر فرما یا جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے.اب یہاں دوڑ کر چلنا، چل کر آنا اور اس کو واپس پا کر خوش ہونا یہ اس مضمون کو ظاہر کر رہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو اس سے محبت ہوگئی ہے.جو اس کی خاطر کچھ قربانی کرتا ہے اللہ اس قربانی سے بہت بڑھ کر اس سے پیار کرنے لگتا ہے.فرمایا: ” جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتا ہے تو گناہ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور گناہ کے بدنتائج سے اللہ تعالیٰ اسے محفوظ رکھتا ہے.پھر حضور صل للہ یہ تم نے یہ آیت پڑھی اللہ تعالیٰ تو بہ کرنے والوں اور پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت کرتا ہے.عرض کیا گیا یا رسول اللہ سی سیتم ! تو بہ کی علامت کیا ہے؟ آپ صلی للہ یہ تم نے فرمایا ندامت اور پشیمانی علامت تو بہ ہے.“ ( الدر المنثور از جلال الدين السيوطي، تفسير سورة البقرة زير آيت ويسئلونك عن المحيض --) اب ندامت اور پشیمانی تو اتنا مشکل کام ہے ہی نہیں کہ کسی بندے کے اختیار سے بڑھ کر ہو.ہاں یہ خطرہ ضرور ہوتا ہے کہ بعض دفعہ ندامت اور پشیمانی سے وقتی طور پر انسان ایک گناہ سے رکتا ہے مگر پھر بعض دوسری انسانی کمزوریوں کی وجہ سے وہ پھر اس میں مبتلا ہو جاتا ہے یہ خطرہ ہے ورنہ ندامت اور پشیمانی کو اختیار کرنا تو کوئی مشکل کام نہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: غرض قانون دو ہیں.ایک وہ قانون جو فرشتوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ وہ محض اطاعت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں اور ان کی اطاعت محض فطرت روشن کا ایک خاصہ ہے.“ یعنی اُن کی فطرت کو نور تو بخشا گیا ہے مگر وہ نور ایک ہی سمت میں رواں ہونے والا نور ہے جس کو بدلنے کا ان کو اختیار نہیں ہے.وو وہ گناہ نہیں کر سکتے مگر نیکی میں ترقی بھی نہیں کر سکتے.“
خطبات طاہر جلد 17 471 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء فرشتوں کے متعلق آپ کو سارے قرآن کریم میں یا احادیث میں کہیں یہ معلوم نہیں ہوگا، یہ ذکر نہیں ملے گا کہ فرشتے نیکیوں میں ترقی کر رہے ہیں.وہ جس نور سے بندھے ہوئے مامور ہیں وہی نور ہے جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کیا.اس میں ایک ذرہ بھی وہ اضافہ نہیں کر سکتے.”دوسرا قانون وہ ہے جو انسانوں کے متعلق ہے یعنی یہ کہ انسانوں کی فطرت میں یہ رکھا گیا ہے کہ وہ گناہ کر سکتے ہیں مگر نیکی میں ترقی بھی کر سکتے ہیں.یہ دونوں فطرتی قانون غیر متبدل ہیں اور جیسا کہ فرشتہ انسان نہیں بن سکتا ایسا ہی انسان بھی فرشتہ نہیں ہوسکتا.یہ دونوں قانون بدل نہیں سکتے ، از لی اور اٹل ہیں اس لئے آسمان کا قانون زمین پر نہیں آسکتا اور نہ زمین کا قانون فرشتوں کے متعلق ہو سکتا ہے.انسانی خطا کاریاں اگر تو بہ کے ساتھ ختم ہوں، تو وہ انسان کو فرشتوں سے بہت اچھا بنا سکتی ہیں کیونکہ فرشتوں میں ترقی کا مادہ نہیں.انسان کے گناہ تو بہ سے بخشے جاتے ہیں اور حکمت الہی نے بعض افراد میں سلسلہ خطا کاریوں کا باقی رکھا ہے.“ یہ وہی مضمون ہے جس کے متعلق میں نے پہلے تنبیہ کی تھی کہ خوف یہ ہے کہ تو بہ تو کر لواور پھر اسی گناہ میں یا اس سے ملتے جلتے یا کسی اور گناہ میں مبتلا ہو جاؤ.فرمایا : ” اور حکمت الہی نے بعض افراد میں اور اس میں بعض افراد خاص طور پر پیش نظر رہنے چاہئیں.بعض افراد تو ایسے ہوتے ہیں کہ عزم صمیم کے ساتھ جب ایک دفعہ تو بہ کر لیں تو پھر پہلے گناہوں کی طرف منہ کبھی نہیں کرتے مگر بکثرت میں جانتا ہوں ایسے انسان موجود ہیں جو تو بہ تو سچی کرتے ہیں ندامت و پشیمانی میں تو کوئی شک نہیں مگر بعض عناصر کی وجہ سے جو بعض دفعہ وراثتاً ان کو ملتے ہیں، بعض دفعہ بیماریوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں، بعض دفعہ بعض گناہوں کا عادی ہو جانے کے بعد ان عادتوں کو چھوڑ نا ان کے لئے ممکن نہیں رہتا.ان سب کا ذکر ہے جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں.حکمت الہی نے بعض افراد میں سلسلہ خطا کاریوں کا باقی رکھا ہے تاوہ گناہ کر کے اپنی کمزوری پر اطلاع پاویں.“ جب گناہ سرزد ہو ندامت اور پشیمانی دوبارہ آجائے ایسا گناہ جس میں ندامت اور پشیمانی نہ ہو وہ گناہ تو انسان کو ہلاک کر دیتا ہے اس کا ذکر نہیں چل رہا.فرمایا کہ جب گناہ میں دوبارہ مبتلا ہوتے ہیں
خطبات طاہر جلد 17 472 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء اسی وقت اپنی کمزوری پر اطلاع پا جاتے ہیں کہ ہم کیسے عاجز اور کمزور بندے ہیں اور جب تک ان کمزوریوں کو دور نہیں کریں گے جن کی بنا پر یہ گناہ سرزد ہوتا ہے اس وقت تک ہم حقیقت میں اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی توقع رکھ سکتے ہیں مگر یقین نہیں کر سکتے کہ ہمیں بخشا جائے گا.یہ احساس پیدا ہوتا ہے.یہی قانون ہے جو انسان کے لئے مقرر کیا گیا ہے اور اسی کو انسانوں کی فطرت چاہتی ہے.سہو ونسیان انسانی فطرت کا خاصہ ہے، فرشتہ کا خاصہ نہیں.پھر وہ قانون جوفرشتوں کے متعلق ہے انسانوں میں کیونکر نافذ ہو سکے.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحه : 36) پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” یادر ہے کہ انسان کی فطرت میں اور بہت سی خوبیوں کے ساتھ یہ عیب بھی ہے کہ اس سے بوجہ اپنی کمزوری کے گناہ اور قصور صادر ہو جاتا ہے اور وہ قادر مطلق جس نے انسانی فطرت کو بنایا ہے اس نے اس غرض سے گناہ کا مادہ اس میں نہیں رکھا کہ تا ہمیشہ کے عذاب میں اس کو ڈال دے بلکہ اس لئے رکھا ہے کہ جو گناہ بخشنے کا خلق اس میں موجود ہے اس کے ظاہر کرنے کے لئے ایک موقع نکالا جائے.“ اب جو گناہ بخشنے کا خلق اللہ تعالیٰ میں موجود ہے اس کے ظاہر کرنے کا ایک موقع نکالا جائے.یہ مضمون ایسا الجھا ہوا ہے کہ اس کے اوپر آریوں کے ساتھ اور دیگر مذاہب کے سر کردہ سر براہوں کے خلاف جنہوں نے اسلام پر حملے کئے تھے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت کچھ لکھا اور ایک با قاعدہ جہاد ان کے خلاف شروع کیا اور ساری عمر جاری رکھا اور یہ مسئلہ ایسا ہے جس کو یہاں کھولنے کی ضرورت ہے.اللہ کا اگر گناہ بخشنے کا خلق نہ ہوتا تو پھر آریوں کی یہ بات درست تھی کہ اللہ بخش ہی نہیں سکتا اور عیسائیوں کا یہ خیال بھی درست ثابت ہوتا کہ اللہ بخش نہیں سکتا.اس کے مقابل پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآنی تعلیمات کی روشنی میں یہ اصرار فرماتے رہے کہ اللہ بخشنے پر قادر ہی نہیں بلکہ بخشنا اس کا خلق ہے اور یادر ہے کہ یہ خلق اگر خدا کا نہ ہوتا تو بندوں میں خدا کی صفات کیسے ودیعت ہوتیں.اگر بندہ بخش سکتا ہے تو اس کے بخشنے کی صفت آئی کہاں سے ہے؟ اور یہ ظاہر بات ہے کہ بندہ بخش سکتا ہے.ساری دنیا میں ایک عام تجربہ ہے کہ انسان جس کو بخشنا چاہے بخش
خطبات طاہر جلد 17 473 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء سکتا ہے بلکہ بعض دفعہ ضرورت سے زیادہ نرمی بھی دکھا دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے اندر ضرورت سے زیادہ کوئی صفت بھی موجود نہیں اور انسان اپنی کمزوری کی وجہ سے بخشنے میں ضرورت سے آگے بڑھ جاتا ہے.تو یہ بخش اس کو ملی کہاں سے ہے؟ اس کی فطرت میں کیسے ودیعت ہوئی ؟ اگر خالق کی فطرت میں نہیں تھی تو بندے کو بخشنے کی استطاعت ہونی ہی نہیں چاہئے تھی.یہ مضبوط دلیل تھی جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسلام کی مدافعانہ تلوار کے طور پر نیام سے ننگا کیا اور تمام عمر اسلام کے دشمنوں کو اسی تلوار سے کاٹا ہے.بخشش لازماً خدا کی صفت ہے ورنہ بندے کو عطا نہیں ہوسکتی تھی.”جو گناہ بخشنے کا خلق اس میں موجود ہے خلق یہ ہے.”اس کے ظاہر کرنے کے لئے ایک موقع نکالا جائے.اب سوال یہ ہے کہ اسے ظاہر کرنے کے لئے موقع کیوں نکالا جائے.اس لئے بندوں کو گنہگار کیا جائے تا کہ یہ خلق ظاہر ہو؟ یہ بھی ایک الگ مسئلہ ہے.دراصل جو خلق ہے یہ ایک طبعی صفت ہوا کرتی ہے جو از خود پھوٹتی ہے.جیسے پھول کا رنگ دکھائی دیتا ہے.اس کی خوشبو پھوٹتی ہے.اللہ تعالیٰ کی صفات کا پھوٹنا ایک طبعی امر تھا لیکن یہ جو فرمایا کہ اس کے ظاہر کرنے کا ایک موقع نکالا جائے یہ اس لئے کہ بندہ جو گناہ کر سکتا ہے اللہ نہیں کر سکتا، اس کے گناہ کو بخشنے کی خاطر خدا کا یہ خلق بطور خاص ظاہر ہو اور موقع یہ ہو کہ جب انسان گناہ میں مبتلا ہو کر دیکھے کہ میرے خدا نے مجھے بخشا ہے تو اس کے اندر جو بخشش کا جذبہ ہے وہ اور زیادہ چمکے.یہ مقصد ہے جس کی بنا پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ فرمایا: دو گناہ بے شک ایک زہر ہے مگر تو بہ اور استغفار کی آگ اس کو تریاق بنا دیتی ہے.“ اب جتنے زہر ہیں انہی سے تریاق بنتے ہیں.ان کو جب طبیب آگ میں جلاتا ہے تو اس کا زہریلا مادہ مرجاتا ہے اور اس کے اندر سے ایک نئی صفت ظاہر ہوتی ہے جو اسی زہر کا تریاق بن جاتی ہے.پس یہی گناہ تو بہ اور پشیمانی کے بعد ترقیات کا موجب ہو جاتا ہے.(اب جس کے اندر یہ گناہ تریاق بن چکا ہو اسی تریاق سے وہ دوسروں کو بھی فائدہ پہنچا سکتا ہے ) تو بہ اور پشیمانی کے بعد ترقیات کا موجب ہو جاتا ہے اور اس جڑ کو انسان کے اندر سے کھو دیتا ہے کہ وہ کچھ چیز ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 474 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء کھو دیتا ہے“ کا لفظ کچھ غور طلب ہے مگر مراد اس سے یہی ہے کہ اس جڑ کا کوئی نام ونشان بھی نہیں رہنے دیتا.کھو دیتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ اس کا کچھ بھی باقی نہیں رکھتا.وہ کون سی جڑ ہے عجب اور تکبر کی جڑ جیسا کہ فرمایا: کہ وہ کچھ چیز ہے اور عجب اور تکبر اور خود نمائی کی عادتوں کا استیصال کرتا ہے.“ چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد 23 صفحه : 415) تو یہ حکمت ہے خدا تعالیٰ کی بخشش کی اور گناہوں کے بار بار پیدا ہونے اور بار باران کو جڑوں سے اکھیڑ نے کی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: تم خدا سے صلح کر لو.وہ نہایت درجہ کریم ہے ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے.“ بہت ہی عظیم خوشخبری ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہم عاجز بندوں کو دے رہے ہیں.جو قرآن اور احادیث میں جو معرفتیں بیان ہوئی ہیں ان کا خلاصہ ہے.ایک دم کے گداز کرنے والی تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے.“ گداز کرنے والی تو بہ کیا چیز ہے؟ گداز کرنے والی تو بہ سے مراد ہے جو پگھلا دے.دل میں ایسی ندامت کی آگ بھڑک اٹھے کہ اس کے اثر سے سب گناہ پگھل جائیں اور ان کی کوئی بھی حیثیت باقی نہ رہے.یہ ایسے موقعے آسکتے ہیں انسانی زندگی پر.صرف ہمیں دعا یہ کرنی چاہئے کہ ہمارے مرنے سے پہلے پہلے یہ موقع نصیب ہو جائے.ستر برس کے گناہ بخشنے میں یہی مضمون بیان فرمایا گیا ہے کہ ساری عمر بھی اگر تم گناہ کرتے رہو اور سچی توبہ نصیب نہ ہو تو موت سے پہلے ممکن ہے اور موت سے پہلے ممکن تب ہی ہو سکتا ہے اگر اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائے.مارنا اُسی نے ہے.وہ مارے نہیں جب تک کہ انسان کو سچی توبہ کی توفیق عطانہ فرما دے.یہ وہ خوشخبری بھی ہے اور تنبیہ بھی ہے جس کو ہمیں ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.ایسا اگر ہو جائے ، وہ لمحہ مرنے سے پہلے نصیب ہو جائے کہ ستر برس کے گناہوں کو جو پگھلا کر خاک بنادے، خاکستر کر دے تو اس سے بہتر اور کون سی خوش نصیبی ہے جو انسان کو عطا ہو سکے.اور یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.( یہ خیال جھوٹا، بے کار، بے معنی ہے کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی ) یا درکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے.“
خطبات طاہر جلد 17 475 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء اگر تو بہ منظور نہیں ہوتی تو گویا یہ مطلب بنا کہ انسانی اعمال ہی بے داغ ہیں اور اپنے اعمال کے زور سے وہ بچ سکتا ہے.دیکھیں چھوٹی سی بات میں کتنی گہری حکمت کی بات مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں.وو یہ مت کہو کہ تو بہ منظور نہیں ہوتی.یاد رکھو کہ تم اپنے اعمال سے کبھی بچ نہیں سکتے.ہمیشہ فضل بچاتا ہے ، نہ اعمال.“ ہمیشہ فضل بچاتا ہے، نہ اعمال یہ اس سارے مضمون کی جان ہے اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جس کو حضرت اقدس محمد مصطفی صلی لا رہی تم ہمیشہ بیان فرماتے رہے اپنے متعلق بھی یہی فرمایا کہ مجھے بھی فضل ہی بچائے گا اعمال نہیں بچاسکتے.”اے خدائے تریم و رحیم ! ہم سب پر فضل کر کہ ہم تیرے بندے اور تیرے آستانہ پر 66 گرے ہیں.آمین.“ لیکچر لاہور ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ :174) اب جو تھوڑا سا وقت باقی ہے اس میں میں ایک ایسی بات کہنی چاہتا ہوں جو بظاہر تأسف پیدا کرنے والی بات ہے مگر میں جماعت کو تنبیہ کرتا ہوں کہ جب تک اس مضمون کو میں آخر تک کھول کر وضاحت سے بیان نہ کر دوں وہ کوئی جلدی میں ایسا نتیجہ نہ نکالیں کہ جس سے وہ سمجھیں کہ اوہو یہ تو بہت فکر والی اور تأسف والی بات ہے جو آج ہمارے سامنے بیان کی جارہی ہے.امر واقعہ یہ ہے کہ ہرگز اس میں تأسف کی کوئی بات نہیں ہے.آخر تک جب میں پہنچوں گا تو آپ حیران ہوں گے کہ یہ خوشخبری ہے اور بہت بڑی خوشخبری ہے لیکن اس خوشخبری کو بیان کرنے کا موقع کیوں پیش آیا؟ یہ ساری وضاحت میں آپ کے سامنے رکھوں گا اور اللہ تعالیٰ کی یہ مجھ پر امانت ہے جو مجھے بہر حال ادا کرنی ہے اور جماعت کی بھی امانت ہے جو مجھے بہر حال ادا کرنی ہے.اللہ تعالیٰ کی امانت خصوصیت سے اس لئے کہ جماعت پر جب میں بات واضح کروں گا تو یہ بات کھل جائے گی کہ ان کے دل میں یہ بدظنی پیدا ہو سکتی تھی کہ اللہ تعالیٰ نے میری انتہائی دردانگیز اور عاجزانہ دعاؤں کو بالکل نہیں سنا اور اس کے برعکس نتیجہ پیدا کر دیا.جب میں بات کھولوں گا اس سے پہلے اپنے اظہار ہمدردی کو سنبھال کر رکھیں.جب بات کھل جائے گی تو آپ حیران ہوں گے کہ بالکل بر عکس معاملہ ہے اور مجھے بہر حال یہ مضمون جو میرے لئے بیان کرنا جذباتی لحاظ سے مشکل ہے، بیان کرنا ہے کیونکہ یہ میری ذمہ داری ہے.
خطبات طاہر جلد 17 476 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء عزیزہ طوبی جو میری چھوٹی بچی ہے اس کی شادی طلاق پر منتج ہوئی ہے اور یہ طلاق آخری صورتوں میں مکمل ہو چکی ہے.اب اس بات پر اظہار ہمدردی ہو سکتا ہے مگر انتظار فرما ئیں تو آپ مبارکباد دیں گے نہ کہ ہمدردی کا اظہار کریں گے.اس کی ایک وجہ یہ بھی بنی ہے آج کے خطبہ میں بیان کرنے کی کیونکہ چہ میگوئیاں ہور رہی ہیں اور یہ بات اگر چہ میری طرف سے اعلان نہیں ہوا مگر پھیلتی چلی گئی ہے کہ اس بچی کو طلاق ہو گئی ہے اس کے نتیجہ میں وہ دبے لفظوں میں ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں جو مجھے تکلیف دیتا ہے اور اس لئے تکلیف دیتا ہے کہ غلط ہمدردی ہے اور خطرہ یہ ہے کہ جلسہ پر آنے والے بہت سے لوگ مرد، خصوصاً عورتیں میری اس بچی پر رحم کی نظر ڈالیں گی جن کی اس کو کوئی ضرورت نہیں ہے.ان کی رحم کی نظریں بجائے فائدہ پہنچانے کے اس کو تکلیف دیں گی اس لئے اپنے اس رحم کو سنبھال کر رکھیں اللہ کا رحم بہت کافی ہے جو ہو چکا ہے اور اس پر ہم خدا تعالیٰ کے فضل سے پوری طرح راضی ہیں.اب اس وضاحت کے بعد میں آپ کے سامنے یہ بات کھولتا ہوں کہ اس سے پہلے میری جتنی بچیوں کی بھی شادیاں ہوئی ہیں آپ اس وقت ویڈیوز اگر دیکھیں جو میرے پاس موجود ہیں تو آپ حیران ہوں گے کہ میں نے بہت ہنستے کھیلتے ہوئے خوشی سے ان کو رخصت کیا تھا، غم کا کوئی اثر نہیں تھا.مائیں روتی ہیں بچی کی جدائی پر مگر یہ موقع خوشی کا موقع ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے آئندہ زندگی کی خوشیوں کے بہت اچھے سامان پیدا کر دیئے اس لئے رونے کی کوئی وجہ نہیں تھی.اس شادی کی جو تصویریں دنیا میں پھیلی ہیں اُس میں جماعت نے اس وقت بھی محسوس کیا اور بعد میں بھی مجھے لکھتے رہے لیکن ان کے لئے یہ بات معمہ بنی رہی کہ کیوں ایسا ہوا کہ میں نے اس موقع پر بہت ہی دردناک صورت اختیار کئے رکھی، اتنی کہ اپنے غم کو برداشت کرنا اور سنبھالنا بعض دفعہ میرے قابو میں نہیں رہتا تھا اس لئے میں کوشش کر رہا تھا کہ زیادہ بات بھی نہ کروں تا کہ دل کا غم پھوٹ نہ پڑے.اس کو رخصت کرنے میں غم کیا تھا؟ غم اس بات کا تھا کہ شروع سے جب یہ رشتہ تجویز ہوا تھا ایک لمحہ کے لئے بھی مجھے اس رشتہ کی کامیابی پر یقین نہیں تھا بلکہ برعکس یقین تھا کہ ناممکن ہے کہ یہ رشتہ کامیاب ہو.وہ وجوہات جن کی وجہ سے مجھے یقین تھا ان میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کچھ ایسی رویا تھیں ، بعض کشوف بھی تھے جن سے مجھے یقین ہو چکا تھا کہ یہ رشتہ مناسب ہے ہی نہیں.پھر یہ رشتہ کیوں کیا گیا
خطبات طاہر جلد 17 477 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء یہ سوال پیدا ہوتا ہے.یہ اس لئے کیا گیا کہ اس بچی پر تمام دنیا سے جس خاندان میں یہ رشتہ ہوا ہے ان لوگوں نے براہ راست اثرات ڈالے اور اتنا زیادہ اس کو یقین دلایا کہ تمہارے لئے یہی ایک موقع ہے جو اس رشتہ کے نتیجہ میں تم خاندان میں آسکتی ہو ورنہ تمہیں خاندان کا کوئی رشتہ نصیب نہیں ہوسکتا.اب اس بچی کے دل میں یہ طبعی خواہش تھی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے خاندان میں ہی میں بیاہی جاؤں اور یہ جود باؤ تھے اس کی وجہ سے ایک لمبا عرصہ سخت کرب میں مبتلا رہی.آدھی آدھی رات کو مجھے اٹھ کے جگاتی تھی کہ میں کیا کروں مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی.خواب میں بھی اللہ تعالیٰ نے تنبیہ کی تھی لیکن اس کے باوجود بجھتی تھی کہ جو کچھ میرے سامنے بیان کیا جارہا ہے گویا میرا مستقبل اب یہی ہے ، میں کسی اور جگہ جا نہیں سکتی اور اتنازیادہ یقین دلایا گیا تھا کہ ہم سب اس بات کے ضامن ہیں کہ تم خوش رہوگی ، اپنا گھر بنا کے رکھو گی ، گھر میں راج کرو گی کہ ان باتوں نے اس کو بہت زیادہ اس رشتے کی طرف مائل کر دیا اور میرے لئے ایک روک تھی باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر قطعیت کے ساتھ یہ بات گاڑ دی گئی تھی پہلے دن سے ہی کہ یہ رشتہ ہر گز اس بچی کے لئے مناسب نہیں ہے پھر بھی میں کیوں آخر مانا.یہ ایک غلطی تھی اور اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا اور یہی غلطی تھی جس کے نتیجہ میں پھر وہ دعا ئیں قبول نہیں ہوئیں جن کو بظاہر قبول ہونا چاہئے تھا.جب اللہ تعالیٰ خود خبر دے چکا ہو کہ یہ مناسب نہیں ہے ہرگز نہ کرو اور طبعی طور پر دل میں بھی مسلسل تر ڈرہو اُس کے بعد میرا اس کو اُس گھر میں رخصت کرنا ایک بنیادی غلطی تھی جس کی طبعی سزا خدا تعالیٰ کی طرف سے ملنی تھی اور وہ جو دعائیں قبول نہیں ہوئیں ان کی بنیادی یہ وجہ ہے کہ اللہ کی تقدیر میں مناسب ہی نہیں تھا تو غیر مناسب دعائیں کیسے قبول کرتا.اب یہ مسئلہ بھی آپ لوگ خوب اچھی طرح سمجھ لیں کہ بعض دفعہ دعا ئیں اس لئے قبول نہیں ہوتیں کہ اللہ کے نزدیک ان کا قبول ہونا مناسب نہیں ہوتا خواہ کتنے درد اور گریہ وزاری سے آپ دعائیں کریں وہ کوڑی کا بھی اثر نہیں دکھائیں گی.اگر اللہ آپ کا ہمدرد ہے تو فیصلہ وہی فرمائے گا جو آپ کے لئے بہتر ہے.تو یہ سارا جھگڑا تھا جس کا کھولنا جماعت پر ضروری تھا اور نہ اس وقت کی آپ ویڈیو دیکھیں جو کئیوں کے پاس محفوظ ہوگی تو ایک عجیب سا نظارہ دکھائی دے رہا ہے.ساری دنیا مجھے اس وقت لکھ رہی تھی کہ یہ شادی Unique ہے یعنی جب سے دنیا بنی ہے جب تک دنیا ر ہے گی ایسی شادی دوبارہ
خطبات طاہر جلد 17 478 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء نہیں ہوسکتی اور اس بات میں Unique کہنے میں ان کی وجہ یہ تھی کہ جس درد کے ساتھ ، دعاؤں کے ساتھ اور نغمات کے ساتھ میں نے اس کو رخصت کیا اس نے ایک عجیب سماں بنا دیا تھا.ایسا سماں بنادیا تھا جس سے جماعت بے انتہا متاثر تھی لیکن حقیقت حال نہیں جانتی تھی.وہ سمجھ رہے تھے میں اس لئے رورہا ہوں ، اس لئے میرا دل قابو سے نکلا جا رہا ہے کہ میری بچی رخصت ہو رہی ہے اور دوسرے ملک میں جارہی ہے.ایک ذرہ بھی اس کا سچا نہیں ہے.جہاں مرضی جاتی اگر خدا کی طرف سے مجھے یقین ہوتا کہ یہ رشتہ اچھا ہے تو ناممکن تھا کہ میں اس کرب و بلا کا اظہار کرتا جو مجھ سے ہوا.پس ان نغمات نے جو تاثر پیدا کیا اس کی وجہ سے سب دنیا سے خط آ رہے تھے اور جب یہ بھنک سی پھیلی ہے پھر اس کا ذکر بند ہو گیا مگر وہ ویڈیوز لوگوں کے پاس محفوظ ہیں.بڑا عجیب نظارہ ہے، بچیاں خوشی سے گیت گا رہی ہیں اور ان گیتوں سے خوش ہونے کی بجائے میں اور زیادہ رنجیدہ ہوتا چلا جارہا ہوں اور پھر خصوصیت سے جو میرا دعائیہ کلام تھا اس نے لوگوں پر بہت اثر کیا.اس دعائیہ کلام میں میں نے دعا دی کہ تم اس گھر میں راج کرتی تھی اس گھر میں بھی راج کرو، ان کی بھی رانی بنی رہو جیسے اس گھر کی رانی تھی.میں نے اس میں کہا ، اے آصفہ کی جان خدا حافظ و ناصر.تو اس کی میں نے مرحوم ماں کا حوالہ دے کر سوچا کہ شاید اس طرح اللہ تعالیٰ رحم فرما دے لیکن یہ کوئی حوالے کام نہیں آئے ، نہ آنے چاہئے تھے کیونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے خدا کے نزدیک یہ غلط بات ہو رہی تھی اس لئے جو مرضی میں حوالے دیتا، جتنی دردناک نظمیں لکھتا ان کا کوڑی کا بھی اثر نہیں پڑنا تھا.تو وہ نظم اپنی جگہ آپ بے شک سنیں لیکن اس نتیجہ کو یا درکھیں کہ اس نظم میں جن امیدوں کا اظہار کیا گیا تھا وہ کسی بات پر مبنی نہیں تھیں.اگر وہ اللہ کی طرف سے خوشخبریوں پر مبنی ہوتیں تو لازماً پوری ہونی تھیں.وہ خوشخبریوں پر مبنی نہیں تھیں اس لئے نہیں پورا ہونا تھا.اس لئے پہلے دن سے لے کر آخر تک، حیرت انگیز بات ہے رخصت کے وقت تک میں اس خاندان کی منتیں کرتا رہا کہ خدا کے لئے اس بچی کو نہ مانگو کیونکہ میرے دل میں اللہ نے یقین ڈال دیا ہے کہ یہ رشتہ کامیاب نہیں ہوسکتا.فائلیں بھری پڑی ہیں میرے پاس.سب سے پہلے جب ( رشتہ ) تجویز ہوا تو میں نے منت کی کہ خدا کے لئے اس بچی کو نہ لے کے جاؤ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ یہ کامیاب نہیں ہوسکتا.ناممکن ہے کہ یہ کامیاب ہو تو کیوں اس بیچاری کو خراب کرتے ہو.وہ یہی اصرار کرتے رہے بلکہ مجھ پر جو دباؤ ڈالا جا رہا تھا وہ
خطبات طاہر جلد 17 479 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء خط و کتابت کے ذریعہ صرف پاکستان سے نہیں بلکہ دنیا بھر میں ان کے جتنے رشتہ دار ہیں وہ سارے مسلسل مجھے آخر وقت تک یقین دلانے کی کوشش کرتے رہے.کیوں کر رہے تھے؟ ظاہر بات ہے کہ ان کو پتا تھا کہ میں ہرگز اس کا قائل نہیں ہوں اور ادھر بچی پر یہ اثر ڈالا جارہا تھا.یہ وجوہات تھیں کہ جس کی وجہ سے مجھے دعاؤں کے ساتھ اس کو رخصت کرنے کی توفیق بھی ملی لیکن یہ بھی معلوم ہو گیا کہ جب اللہ تعالیٰ تقدیر ظاہر فرما چکا ہو تو ہر گز اس کے خلاف کوئی اقدام نہیں کرنا چاہئے.اگر کرو گے تو اس کی سزا پاؤ گے.اس پس منظر میں اس بچی کا خیر و عافیت سے واپس گھر آ جانا یہ خوش خبری ہے یا بد خبر ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کا ایسا انتظام کرنا کہ اس کو کسی ایسے بندھن میں نہیں باندھ دیا مثلاً بچہ بھی ہو سکتا تھا جس کے نتیجے میں اس کی باقی زندگی بے کار گزرتی.تو یہ محض اللہ تعالیٰ کا احسان ہے.وہ دعا ئیں جو تھیں ان کو اس رنگ میں اللہ نے قبول فرمالیا کہ اس کے بداثرات سے بچی کو بھی محفوظ رکھا اور مجھے بھی محفوظ رکھا حالانکہ یہ میری غلطی تھی.تو اب آپ لوگ بے شک پرانی کیسٹ دیکھ لیں تب آپ کو سمجھ آئے گی کہ وہ ہو کیا رہا تھا.ان دعاؤں میں عاجزی تو تھی مگر جان نہیں تھی.ہو کیسے سکتی تھی ؟ میں نے بہت اونچی اونچی توقعات کے اظہار کئے.میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سارے ان توقعات کو پورا کرنے میں عمدا نا کام رہے.نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے مگر مجھے اتنا پتا ہے کہ اس ماں نے جس نے یہ رشتہ مانگا تھا، اس خالہ نے جس نے لمبے لمبے خط لکھے اور یقین دلایا کہ آپ بالکل بے فکر ہو جائیں یہ اپنا گھر ہو گا اس کا ، اس پر راج کرے گی.ان باتوں کا یقین کر لینا میری کمزوری تھی ، یقین دلانے والوں کی نیت پہ میں حملہ نہیں کرتا.اس لئے جماعت کو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ ان سے بے شک عام تعلقات میں اسی طرح سلوک کریں جیسے پہلے ہوا کرتے تھے کیونکہ اگر یہ جرم قرار دیا جائے جس کے نتیجہ میں ان کو سزاملنی چاہئے اور جماعت کو ان سے رخ پھیرنا چاہئے تو اس کا مطلب ہے کہ نیتوں پر حملہ ہے.اس لئے نیتوں پر میں کوئی حملہ نہیں کر رہا.اللہ بہتر جانتا ہے.نیتوں کا حال اسی پر روشن ہے اور وہ اگر چاہے تو بد نیتوں کے باوجود معاف فرما سکتا ہے.اس لئے میری التجا تو یہی ہے اور یہی جماعت سے بھی میری درخواست ہے کہ ان لوگوں کے لئے بھی مغفرت ہی کی دعا کریں.ابھی جو مضمون گزرا ہے وہ مغفرت ہی کا تو مضمون تھا.تو اگر وہ مضمون ہم سمجھ نہ سکیں اور اپنے معاملات میں اس کا اطلاق نہ کریں تو پھر
خطبات طاہر جلد 17 480 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء اللہ تعالیٰ سے بہتر مغفرت کی توقع بھی نہیں رکھ سکتے.اس لئے جہاں تک ہو سکے اپنے جذبات پر قابو رکھیں اور مغفرت کا سلوک کریں.اور آنے والے جتنے بھی جلسہ پر ہیں اب وہ اس کے بعد ، اس نصیحت کو خاص طور پر پیش نظر رکھیں کہ ہر گزایسی چہ میگوئیاں نہ کریں جن کے نتیجے میں جگہ جگہ جواب دینے پڑ رہے ہوں.میں ابھی سے بات کھول رہا ہوں اور عورتوں کی جو عادت ہے اس سے میں ڈر رہا ہوں.عورتوں میں یہ بری عادت ہے کہ ہائے بے چاری وہ دیکھو طوبی بیٹھی ہوئی ہے، ہائے اس بیچاری کی شادی کامیاب نہیں ہوئی.نہیں ہوئی تو بیچاری کیا ؟ اللہ کا فضل ہے جو نہیں ہوئی کیونکہ ہوسکتی نہیں تھی اور تمہارے رحم کی نہ صرف یہ کہ ضرورت نہیں بلکہ اس سے بچی کو تکلیف پہنچے گی.جب بھی کسی نظر کو دیکھے گی کہ وہ یوں دیکھ رہی ہے او ہو یہ تو وہی ہے تو اتنا اس کا دل گھبرائے گا.تو اگر آپ واقعہ مجھ سے محبت رکھتے ہیں اور اس بچی سے پیار رکھتے ہیں تو اس بات کو ایسے دل سے نکال دیں جیسے کوئی واقعہ ہی نہیں گزرا.اس کو آزادی سے جلسہ منانے دیں، کھیلنے کودنے دیں، جہاں چاہے جائے ، جہاں چاہے پھرے جماعتی نظام کے تابع اور اس کو اس طرح نظر انداز کر دیں جیسے کوئی واقعہ ہے ہی نہیں.بالکل تعجب کی کوئی نگاہ بھی اس پر نہ ڈالیں اس سے بڑا احسان آپ لوگ نہیں کر سکتے.تو یہ وجہ بھی تھی کہ میں نے سوچا تھا کہ جلسہ سے پہلے یہ جماعت پر خوب وضاحت کردوں کیونکہ اب وہ دن آ رہے ہیں جن میں لوگوں نے جگہ جگہ سے آنا ہے، طرح طرح کی عورتیں آئیں گی جو اپنی عادات سے مجبور ہیں.تو ان کو میں کہہ رہا ہوں اس عادت کا قلع قمع کریں.یہ ویسے بھی اچھی عادت نہیں ہے.ہمارے ملک کی عورتوں میں گندی عادت ہے کہ کسی کو کوئی بیماری لاحق ہو تو اس کو بھی اتنا بڑھا چڑھا کر دیکھتی اور بیان کرتی ہیں کہ وہ اگر بیمار نہیں بھی تھا تو ان کی بار بار کی تجویز سے کہ یہ بیماری ہو گئی ہوگی ،بعض دفعہ بیماری بن بھی جاتی ہے کیونکہ ہپنا ٹک (Hypnotic) اثر ہوتا ہے جس کو ہپنا ٹزم کہا جاتا ہے.تو عورتوں میں یہ بیماری عام ہے.یہ صرف اس شادی کی بات نہیں ہے ، ہر معاملے میں بے وجہ دخل دیتی ہیں اور سقراط حکیم بن جاتی ہیں.مشورے بھی بے شمار جو غلط اور بیماری کا سمجھنا بھی غلط اور غلط سمجھنے کی وجہ سے جب وہ بار بار اسی کا ذکر کرتی ہیں تو ایسے لوگ جو فطرتی طور پر نسبتا کمزور ہوں ان پر ان کا اثر پڑ جاتا ہے.چنانچہ میرے تجربہ میں ہے اور ہومیو پیتھک کتابوں میں بھی ہمارے بکثرت یہ بات لکھی ہوئی ہے
خطبات طاہر جلد 17 481 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء کہ Suggestion کو اگر Repeat کیا جائے ، بار بار ایک بات کو اصرار کے ساتھ کہا جائے تو انسانی فطرت اس سے متاثر ہو کر اپنے دفاع کی طاقت کھو دیتی ہے اور واقعہ بہت گہری بیماریاں اس کے نتیجے میں پیدا ہو جاتی ہیں.تو یہ جو میں اس وقت جماعت کو سمجھا رہا ہوں عورتوں کو خصوصیت کے ساتھ ، اس معاملہ کا صرف اس بچی سے تعلق نہیں ایک ایسی عادت سے تعلق ہے جس کا دُنیا کو بہت نقصان پہنچ چکا ہے اور آئندہ بھی اگر عورتوں نے اپنی اصلاح نہ کی تو یہ نقصان پہنچے گا.تو اسی بہانے خدا تعالیٰ نے مجھے اس نصیحت کی بھی توفیق عطا فرما دی ہے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ احمدی خواتین جس جگہ کی بھی ہیں وہ اپنے دل کو اور اپنی نظروں کو سنبھال کر رکھیں گی.بے ضرورت لوگوں کے معاملہ میں دخل اندازی نہیں کریں گی.خواہ کتنا ہی دل میں جوش اٹھے وہ اپنے جوش کو دبا کے رکھیں گی.اپنی فکر کریں،اپنے بچوں کی فکر کریں، اپنے میاں کی فکر کریں، اپنے عزیزوں کی فکر کریں وہ آپ کا حق ہے اور وہ بھی ضرورت سے زیادہ نہ کریں کیونکہ وہاں بھی اگر آپ نے ضرورت سے زیادہ فکر کیا تو اس کا نقصان پہنچے گا.بعض ماؤں نے اپنے بچوں کو اس وجہ سے نقصان پہنچایا ہے کہ ان کی ہمدردی کی وجہ سے ان کی بیماریوں کو بہت بڑھا چڑھا کر سمجھا اور اس بچہ پر گویا یہ ظاہر کیا کہ تم اتنے بیمار ہو.جب مجھے علم ہوا اور میں نے سختی سے اس بات سے روکا تو آپ حیران ہوں گے کہ وہ بچے بالکل ٹھیک ٹھاک ہو گئے، بداثر سے باہر نکل آئے.تو جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں ذاتی تجربہ کی بنا پر یقین کی وجہ سے عرض کر رہا ہوں اور اس کے بعد میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں یہ امید رکھتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو میری نصائح پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا اور اب آپ کو یہ بات سمجھ آجائے گی کہ کیوں ایک ذاتی مسئلہ کو میں نے ایک خطبہ کا موضوع بنالیا.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے مزید فرمایا: مجھے بھی آپ اپنی ہمدردیوں سے محفوظ رکھیں.نہ مجھے کسی خط کی ضرورت ہے اس موضوع پر ، نہ ملاقات کے دوران اس طرح دیکھیں یا ایسے لفظوں میں ذکر کریں گویا آپ کو بہت صدمہ پہنچا ہے اور بہت میری ہمدردی کر رہے ہیں.یہ ہمدردیاں میرے لئے اذیت کا موجب ہوں گی فائدہ کا نہیں اور لغو ہوں گی کیونکہ اس کی وجہ سے میرے دل میں آپ کی محبت نہیں پیدا ہوگی بلکہ میں حیرت سے دیکھوں گا کہ آپ کو اتنی بھی عقل سمجھ نہیں ہے کہ ان باتوں کو ختم کر دینا چاہئے.اس لئے اگر ملاقات
خطبات طاہر جلد 17 482 خطبہ جمعہ 10 جولائی 1998ء کے دوران بھی کسی شخص نے اس بات کو چھیڑنے کی کوشش کی ، بعض لوگوں کو شوق ہوتا ہے یہ دکھانے کا کہ ہم آپ کے زیادہ ہمدرد ہیں، تو اسی وقت میں ملاقات ختم کر دوں گا.اگلی بات کہنے کی بھی اجازت نہیں دوں گا.اس لئے اس آخری تنبیہ کو جو بہت ضروری تھی جو میں خطبہ میں بھول گیا تھا اب میں آپ کے سامنے کر رہا ہوں اور امید ہے کہ اس کے بعد اس قصہ کو آپ کلیۂ ختم اور کالعدم سمجھیں گے.جزاکم اللہ.السلام علیکم.
خطبات طاہر جلد 17 483 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء ریا کاری اور بخل سے بچیں خدا کی راہ میں خرچ کریں صحابہ حضرت مسیح موعود کی انفاق فی سبیل اللہ کی مثالیں (خطبہ جمعہ فرمودہ 17 جولائی 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی.الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَيَكْتُمُونَ مَا انْتَهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَ اَعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينَانَ وَالَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ يَكُنِ الشَّيْطَنُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَدِيْنًا وَ مَا ذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللهُ وَكَانَ اللهُ بِهِمْ عَلِيمًا (النساء: 38 تا40) * پھر فرمایا: ان آیات کی تلاوت کا مقصد یہ ہے کہ اس سے پہلے جو میں نے مالی قربانی کے تعلق میں خطبات دئے تھے ان میں جن گروہوں کا ذکر تھا اس آیت میں ان کے علاوہ ایک گروہ کا ذکر ہے لہذا اس آیت سے مضمون مکمل ہو جاتا ہے.خدا کی راہ میں مالی قربانی سے ڈرنے والوں کی جتنی قسمیں پہلی آیات میں بیان ہوئی تھیں یہ قسمیں ان کے علاوہ ہیں اور میرے نزدیک خدا کی راہ میں مالی قربانی کرنے والوں کا مضمون ان ساری آیات کے دائرے کے اندر رہتا ہے.پس میں نے سوچا کہ اب ان دو آیات کے اندر جو مضامین بیان ہوئے ہیں وہ بھی احباب کے سامنے کھول کر بیان کر دوں.
خطبات طاہر جلد 17 484 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ ایک قسم یہ ہے کہ وہ لوگ بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کی تعلیم دیتے ہیں.وَ يَكْتُمُونَ مَا الهُمُ اللهُ مِنْ فَضْلِہ اور چھپاتے ہیں اس کو جو اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا وَ اعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا اور ہم نے کافروں کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے.اب یہ لوگ بظاہر مومن ہیں ورنہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نہ اس کی تعلیم دیتے کہ کچھ کم خرچ کیا کرو مگر اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ کافروں کا سا ہے.فی الحقیقت خدا کی نظر میں یہ کافر ہیں اور ایسے کا فر ہیں جن کے لئے رسوا کن عذاب مقدر کیا گیا ہے.یہ کون لوگ ہیں، کیوں ایسا کرتے ہیں؟ امر واقعہ یہ ہے کہ وہ شخص جو خسیس ہو ، دل کا کنجوس ہو، اس میں بعض دفعہ اپنے نفس پر تنگی کا رجحان بھی غالب ہوتا ہے یعنی خسیس ہر قسم کے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو دکھاوے کے لئے بہت خرچ کرتے ہیں ان کا بعد میں ذکر آئے گا.کچھ ایسے بھی ہیں جو بڑے بڑے محلات میں رہتے ہیں اور اس بات سے نہیں ڈرتے کہ لوگ سمجھیں گے کہ وہ امیر ہیں مگر کچھ خسیس ایسے ہیں جو اپنے حالات پر اپنی طرف سے تنگی وارد کرتے ہیں.وہ اتنے کنجوس ہوتے ہیں کہ اپنے اوپر بھی خرچ نہیں کر سکتے اور جب دیکھتے ہیں کہ اور بھی لوگ ہیں جو اپنے اوپر خرچ کرتے ہیں اور ان کی بظاہر مالی حالت ان جیسی ہی ہوتی ہے تو ڈرتے ہیں کہ ان کی یہ کمزوری تنگی نہ ہو جائے اس لئے وہ چاہتے ہیں کہ ایسے لوگ بھی ان جیسا ہی رویہ اختیار کریں.پس یہ وہ لوگ ہیں جو بخل کرتے بھی ہیں اور بخل کی تعلیم بھی دیتے ہیں.لوگوں کو مخاطب کر کے کہتے ہیں کہ دیکھو تم کیا اپنے آپ پر ظلم کر رہے ہو.تم کھلے ہاتھوں سے خرچ کرتے ہو، تمہارا روپیہ کم ہو جائے گا اور سب لوگوں کو پتا چل جائے گا کہ تمہارے پاس پیسہ ہے پھر بھکاری اور فقیر لوگ تمہاری طرف دوڑے چلے آئیں گے تو عقل سے کام لو اور اپنے گھر یلو حالات میں تنگی اختیار کرو.اس غرض سے یہ ان کو حکم دیتے ہیں وَ يَكْتُمُونَ مَا الهُمُ اللهُ مِن فَضْلِہ اور اس مال کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں جو اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا ہے.اگر یہ بخل نہ کریں تو یہ مال سب کو نظر آنے لگ جائے گا تو رہتے غریبوں کی طرح ہیں اور اپنے اموال کو بہت چھپا کے رکھتے ہیں حالانکہ اللہ نے اپنے فضل سے ان کو عطا فرمایا تھا.جو اللہ نے اپنے فضل سے عطا فرمایا ہو اس سے یہ ناشکری کا سلوک
خطبات طاہر جلد 17 485 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء بہت ہی ناپسندیدہ ہے بلکہ اس قدر نا پسندیدہ ہے کہ فرمایا وَ اعْتَدْنَا لِلْكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا ہم نے کافروں کے لئے بہت رسوا کن عذاب تیار کر لیا ہے.ان کے برعکس ایک شکل ایسی بھی ہے جو ہوتے تو بخیل ہیں مگر ریا کاری کی خاطر خرچ کرنے میں بہت بڑھ بڑھ کر ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے ہیں.اور یہ مرض جو ہے کہ بیاہ شادیوں کے موقع پر ہمارے پنجاب میں خاص طور پر دکھائی دیتا ہے.وہ پیسہ ڈالتے ہیں بلا کر ، آوازیں دے کر کہ فلاں صاحب نے اتنا پیسہ ادا کر دیا ہے اس پر ایک بولی بولنے والا کہتا ہے فلاں صاحب نے اتنا پیسہ ادا کر دیا ہے.یہ ذلیل حرکت ہے.اگر تم نے کسی بچی کی خدمت کرنی ہے، کسی بھائی کو کچھ روپیہ دینا ہے تو مخفی ہاتھ سے دینے کی کوشش کرو، کیوں اس کو دنیا میں ذلیل کرتے ہو لیکن یہ رواج چلا آ رہا ہے اور زمیندار اس پر فخر کرتے ہیں اور پھر لکھنے والے پورا حساب کتاب لکھ کے رکھتے ہیں کہ فلاں نے فلاں وقت فلاں بچی کو یہ دیا تھا اور یہ سنا کر دیا تھا.اگلی دفعہ جب یہ موقع آئے اور سنا کر دینے کا وقت آئے تو ہماری بولی اس سے بڑھ کر ہو، اس سے کم نہ ہو.غرض یہ کہ یہ سلسلے ریا کاری کے دنیا میں بھی چلتے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کی خاطر خرچ کرنے کا موقع آئے تو باجود اس کے کہ بخیل ہوتے ہیں وہ دکھاوے کی خاطر خرچ کرتے ہیں، بہت بڑھا چڑھا کر بولی بھی دیتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو بولی تو دے دیتے ہیں لیکن پھر اسے پورا نہیں کرتے.پس ریا کاری کے دو حصے ہیں.ایک وہ جو وعدوں کے وقت ریا کاری سے کام لیتے ہیں اور جب بھی کسی مجلس میں تحریک کی جائے وہ کہہ دیں گے میری طرف سے اتنی بڑی رقم لکھ لو.ایسے افراد کا میں نے ایک دفع تفصیلی جائزہ لیا کیونکہ مجھے شک تھا کہ ریا کار پھر جب ادائیگی کا وقت آتا ہے تو چونکہ مخفی ہاتھ سے ادا ئیگی ہوتی ہے وہ ادائیگی سے محروم رہ جاتا ہے.اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اکثر لوگ جن میں میں نے ریاکاری کی علامتیں پائی تھیں وہ ادائیگی کے وقت بالکل غائب تھے.بہت بڑی بڑی رقمیں انہوں نے خدا کی راہ میں لکھوائی ہوئی تھیں اور جب ادا ئیگی کا وقت آیا تو صفر تھی.چنانچہ میں نے ان کے متعلق ہدایت جاری کر دی کہ ان سے کبھی بھی کوئی چندہ وصول نہ کیا جائے کیونکہ جو بظاہر خدا کی خاطر دیتے ہیں ان کی بولی ریا کاری ہے اور وعدہ لکھواتے وقت جانتے ہیں کہ ان کو ہرگز توفیق نہیں ملے گی کہ یہ رقم ادا کر سکیں تو یہ دھو کے باز ہیں ان سے ہر گز آئندہ کوئی چندہ
خطبات طاہر جلد 17 486 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء بھی وصول نہ کیا جائے.اس فیصلہ کے بعد جب ان لوگوں کے چندہ پر میں نے نظر دوڑائی تو پتا لگا کہ وصول نہ کیا جائے کے حکم کی ضرورت ہی نہیں تھی ، چندہ دیتے ہی نہیں یہ خانہ ہی صفر ہے ان کا.تو عجیب و غریب لوگ ہیں دنیا میں جن کو قرآن کریم کی آیات نے گھیرے میں لے رکھا ہے.کوئی پہلو ایسا نہیں ہے جو چندوں کے تعلق میں ہمیں دکھائی دیتا ہو یا نہ دکھائی دیتا ہو مگر قرآنی آیات نے اس مضمون کو اپنے اندر شامل نہ فرما لیا ہو.پس ریا کا ر بھی ہیں وَالَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ رِئَاءَ النَّاسِ وہ لوگ جو اپنے اموال لوگوں کو دکھانے کی خاطر خرچ کرتے ہیں.وَلا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وہ اللہ پر یا یوم آخرت پر ایمان نہیں لاتے.ان کے متعلق بھی بہت سخت نتیجہ نکالا گیا ہے.جس طرح پہلے فرمایا تھا وَ اعْتَدْنَا لِلكَفِرِينَ عَذَابًا مُّهِيناً ان کے متعلق فرما يا وَ مَنْ يَكُنِ الشَّيْطَنُ لَهُ قَرِينًا فَسَاءَ قَدِینا.جن کا شیطان ساتھی بن جائے اس سے برا ساتھی کوئی نہیں ہوسکتا.تو جن کا اٹھتے بیٹھتے شیطان ساتھی ہو ان کے اعمال کا کیا حال ہوگا.کھو کھلے اور بے معنی ، ان کی کوئی بھی حقیقت خدا کی نظر میں نہیں ہے.یہ دو باتیں بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَمَا ذَا عَلَيْهِمْ لَوْ آمَنُوا بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَانْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ اللهُ وَكَانَ اللهُ بِهِمْ عَلِيمًا.انہیں کیا ہو گیا ہے، ان پر کیا بپتا پڑی ہے ، وَ مَاذَا عَلَيْهِمْ کہ وہ اللہ پر ایمان نہیں لاتے.لَوْ آمَنُوا بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ اگر وہ اللہ پر ایمان لے آتے اور آخرت پر ایمان لے آتے تو ان کو کیا نقصان پہنچنا تھا اور اسی طرح وَأَنْفَقُوا مِمَّا رَزَقَهُمُ الله.اگر وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے اس میں سے جو اللہ نے ان کو خود عطا فرمایا ہے.وہ چاہے ریاء کریں چاہیں چھپائیں وَ كَانَ اللهُ بِهِمْ عَلِيمًا.یہ ان کو یا درکھنا چاہئے کہ اللہ ان سے خوب واقف ہے، ان کی ہر چیز کا علم رکھتا ہے.پس ان آیات کریمہ کے ساتھ یہ مضمون جو انفاق فی سبیل اللہ کا میں بیان کرتا چلا آیا ہوں میرے نزدیک مکمل ہو جاتا ہے.اس سلسلہ میں چند احادیث نبویہ اور چند اقتباسات حضرت اقدس مسیح موعو علیہ الصلوۃ والسلام آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں.مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 159 میں درج ہے عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی می ایستم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: الشح (یعنی) بخل سے بچو.یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسانید عبدالله بن عمر بن العاص ، مسند نمبر : 6487)
خطبات طاہر جلد 17 487 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء تو بخل سے بچنا جماعت احمدیہ کے لئے انتہائی ضروری ہے کیونکہ ہم نے دنیا میں زندہ رہنا ہے، خدا کے پیغام کو اگلی نسلوں میں جاری کرنا ہے اور صرف اس بیماری یعنی بخل کا شکار ہو گئے تو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اسلم کا یہ فرمان ہم پر ضرور صادق آئے گا کہ پہلی قوموں کی طرح ہم ہلاک ہو جائیں گے.پس رسول اللہ لی لی ایم نے یہ تفسیر یہاں بیان نہیں فرمائی مگر دوسری بہت سی احادیث میں، بخل کیوں قو میں ہلاک ہوا کرتی ہیں، یہ تفصیل بھی بیان فرمائی ہے.مگر میں نے یہ مختصر حدیث جو جامع مانع ہے یہ آج کے خطبہ کے لئے چینی ہے.ایک اور حدیث جو مسند احمد سے ہی لی گئی ہے حضرت ابو ہریرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی لا یہی ہم نے فرمایا: ر بخیل اور سخی کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جنہوں نے سینے تک لوہے کی قمیص پہنی ہے.66 یہ بہت ہی لطیف مثال ہے اور اس کو پڑھ کر آدمی حیران رہ جاتا ہے.آنحضرت سیتا پریتم کی حکمت اور فراست پر ، آپ صلی یا یہ تم پر بڑھ بڑھ کر درود بھیجنے کو دل چاہتا ہے.کتنی عظیم الشان مثالیں دے کر دونوں کا مقابلہ فرمایا گیا ہے.بظاہر ایک ہی کی سی مثال ہے شروع ایک بات سے ہوتی ہے وہ یہ کہ بخیل اور سخی کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے جنہوں نے سینے تک لوہے کی قمیص پہنی ہوئی ہو.بعض دفعہ زرہیں پہنی جاتی ہیں ان سے سینہ جکڑا جاتا ہے اور اس مضمون میں یہی بیان ہے کہ ایسی لوہے کی قمیصیں پہنی ہوئی ہیں جن میں سینے جکڑے جاتے ہیں سخی نے بھی پہنی ہوئی ہے، بخیل نے بھی پہنی ہوئی ہے مگر آگے جا کے ایک فرق پڑ جاتا ہے.د سخی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو اس کی آہنی قمیص کا حلقہ کھل جاتا ہے.“ جب سخی خرچ کرتا ہے تو حلقہ تھوڑا سا ڈھیلا ہو جاتا ہے اور یہ اتنی گہری نفسیاتی حکمت ہے کہ اس پہ جتنا غور کریں اتنا ہی دل رسول اللہ صلی شمالی ستم کی تعریف میں ، ثناء میں ڈوب جاتا ہے.ہر دفعہ جب ایک سا ایسے خرچ کی توفیق پاتا ہے جس سے پہلے اس کو کچھ تنگی محسوس ہورہی ہو تو لاز ما اس کے بعد اسی مضمون میں مزید خرچ کرنے کی طاقت پیدا ہو جاتی ہے.دنیا میں بھی یہی حال ہم دیکھتے ہیں اور دین میں بھی بالکل یہی حال ہے.پس رسول اللہ صلی شما یہی تم فرماتے ہیں بظاہر دونوں نے قمیصیں پہنی ہوئی ہیں
خطبات طاہر جلد 17 488 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء جنہوں نے سینوں کو جکڑ رکھا ہے مگر ہر شخص جو کچھ خرچ کرتا ہے اس کے حلقے ڈھیلے ہو جاتے ہیں اور اس طرح آہستہ آہستہ وہ قمیص کھل جاتی ہے کوئی بھی پھر تنگی نہیں رہتی.دنیا کی قربانیاں ہوں یا دین کی قربانیاں ہوں دونوں میں وہ خرچ کرتا ہے اور اس خرچ سے لذت پاتا ہے، شرح صدر نصیب ہو جاتا ہے اور آخر کار وہ اس کی جکڑ سے آزاد ہو جاتا ہے.دو لیکن بخیل کو وہ قمیص جکڑتی چلی جاتی ہے اور اس طرح اس کی گرفت بڑھتی جاتی ہے.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الحصاحبة مسند أبي هريرة، مند نمبر : 7483) تمام بخیلوں کا یہی حال ہے.جتنا بخل میں آگے بڑھتے ہیں اتنا بخل ان کے سینوں کوتنگ کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس حال میں مرتے ہیں کہ جو کچھ بخل کر کر کے اکٹھا کیا سارا دنیا میں پیچھے کے لئے چھوڑ جاتے ہیں اور حساب لینے والے فرشتوں کے سوا اور کچھ نہیں پاتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: (خدا) ایسے لوگوں کو نہیں چاہتا جو بخیل ہیں اور لوگوں کو بخل کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے مال کو چھپاتے ہیں.( يَكْتُبُونَ والی بات وہی ہے جو مسیح موعود علیہ السلام یہاں بیان فرمارہے ہیں ) یعنی محتاجوں کو کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ ( بھی ) نہیں ہے.“ اسلامی اصول کی فلاسفی ، روحانی خزائن جلد 10 صفحه : 358) پھر ریا کاروں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: خوش قسمت وہ ہے انسان جو ریا سے بچے.اور جو کام کرے وہ خدا (تعالی) کے لئے کرے.ریا کاروں کی حالت عجیب ہوتی ہے خدا ( تعالی ) کے لئے جب خرچ کرنا ہو تو وہ کفایت شعاری سے کام لیتا ہے لیکن جب ریا کا موقع ہوتو پھر ایک کی بجائے سو دیتا ہے اور دوسرے طور پر اسی مقصد کے لئے دو کا دینا کافی سمجھتا ہے.( یعنی جہاں ریانہ ہو وہاں سو کی بجائے ، جہاں سو دینے کا وقت ہوگا، وہ صرف دو دے گا) اس لئے اس مرض سے بچنے کی دعا کرتے رہو.“ (الحکم جلد 10 نمبر 27 صفحہ:3 مؤرخہ 31 جولائی 1906ء)
خطبات طاہر جلد 17 489 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء اپنے ایک صحابی کا ذکر خیر فرماتے ہیں اور آپ ہی کے الفاظ میں میں یہ بیان کرتا ہوں : حبی فی اللہ سید عبدالہادی صاحب اور سیر.یہ سید صاحب انکسارا اور ایمان اور حسن ظن اور ایثار اور سخاوت کی صفت میں حصہ وافر رکھتے ہیں.وفادار اور متانت شعار ہیں.ابتلاء کے وقت استقامت کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتے.وعدہ اور عہد میں پختہ ہیں.حیا کی قابل تعریف صفت اُن پر غالب ہے.“ پس وہ لوگ جو ریا سے کام نہیں لیتے ان میں حیا ضرور ہوتی ہے اور یہ اللہ کا احسان ہے اگر کسی شخص میں حیا پائی جائے تو وہ اپنی نیکی سے حیا کرتا ہے اور جس میں حیاء نہ ہو وہ بدی سے بھی حیا نہیں کرتا یا بدی کو چھپانے میں بعض دفعہ حیا سے کام لیتا ہے تو صفت ایک ہی ہے لیکن دو طرح سے اپنا رنگ دکھاتی ہے.فرمایا: ” حیا کی قابل تعریف صفت ان پر غالب ہے.‘ قابل تعریف پر جوزور ہے وہ اس وجہ سے ہے کہ حیا کی بعض دفعہ قابل مذمت صفت بھی ہوا کرتی ہے.اس عاجز کے سلسلۂ بیعت میں داخل ہونے سے پہلے بھی وہی ادب ملحوظ رکھتے تھے جو اب ہے.اللہ جل شانہ کا ان پر یہ خاص احسان ہے کہ وہ نیک کاموں کے کرنے کے لئے منجانب اللہ توفیق پاتے ہیں.ان کی طبیعت فقر کے مناسب حال ہے.انہوں نے اس سلسلہ کے لئے دوروپے ماہواری چندہ مقرر کیا ہے.“ اب دورو پے اُس زمانہ میں بہت بڑی رقم ہوا کرتی تھی لیکن وہ دورو پے جو ماہواری چندہ مقرر کیا تھاوہ تو حساب میں آجاتا ہے لوگ دیکھتے بھی تھے حیا کی صفت ان کی کیا تھی یہ اس کے آگے بیان ہے.مگر اس چندہ پر کچھ موقوف نہیں وہ بڑی سرگرمی سے خدمت کرتے رہتے ہیں اور ان کی مالی خدمات کی اس جگہ تصریح مناسب نہیں.“ کیونکہ وہ مالی خدمات جو دو روپے ظاہر کے علاوہ چھپ کر کرتے ہیں وجہ یہ ہے کہ وہ چھپانا چاہتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے غلاموں کے دل کے حال پر بڑی باریک نظر رکھا کرتے تھے.فرمایا: اس جگہ تصریح مناسب نہیں کیونکہ میں خیال کرتا ہوں کہ ان کی مالی خدمات کے اظہار سے ان کو رنج ہو گا.(ایسے بھی ہیں جن کو دکھ ہوتا ہے اس بات سے کہ ان کی مالی خدمات
خطبات طاہر جلد 17 490 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء کا شہرہ کیا جائے ) وجہ یہ (ہے) کہ وہ اس سے بہت پر ہیز کرتے ہیں کہ ان کے اعمال میں کوئی شعبہ ریا کا دخل کرے اور ان کو یہ وہم ہے کہ اجر کسی عمل کا اس کے اظہار سے ضائع ہو جاتا ہے.“ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ : 533) یعنی یہ بات ان کی فی الحقیقت درست نہیں کیونکہ بعض اوقات اظہار کرنے سے قومی فائدہ پیش نظر ہوتا ہے اور اظہار کے نتیجے میں ایک دوسرے سے بڑھ کر خدمت کرنے کی توفیق ملتی ہے.سچے دل والوں کو ہی ، ریا کاروں کی بات نہیں ہو رہی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس پر بھی نظر ہے.آپ نہیں چاہتے کہ جماعت اس سے غلط نتیجہ نکالے.ان کی خاطر تو آپ نے سب کچھ چھپا دیا لیکن بعض اوقات خدا کی راہ میں خرچ کرنے کا اظہار کرنا پڑتا ہے اور اس اظہار کے نتیجے میں ساری جماعت میں استباق فی الخیرات کی روح ترقی کرتی ہے.اس لئے فرمایا: ”ان کو یہ وہم ہے کہ اجر کسی عمل کا اس کے اظہار سے ضائع ہو جاتا ہے.ایسے لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں داخل تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ تجارت کا سلیقہ سکھا رکھا تھا اور ایسے لوگ کثرت سے تھے.حضرت عبدالرحمن صاحب مہر سنگھ کا ذکر بارہا پہلے کر چکا ہوں ، ان کا حال یہ تھا کہ جب کوئی تنگی ہو تو وہ خدا کی راہ میں خدمت کے لئے نکل جایا کرتے تھے.کمانے کی خاطر نہیں بلکہ اپنے اس وقت کو جس کو وہ روپیہ کمانے پر خرچ کر سکتے تھے روپے کو بھول کر تبلیغ کے لئے نکل جایا کرتے تھے.یہ ان کا اپنا ایک رنگ تھا اور ہمیشہ ایسا ہوا.ایک دفعہ بھی اس معاملہ میں مایوسی نہیں ہوئی کہ وہ جب تبلیغ سے واپس آرہے تھے یا اس دوران خدا تعالیٰ نے ان کو کوئی رقم مہیا فرما دی جو رقم اس چیز کے لئے بہت کافی ہوا کرتی تھی جو ان کو ضرورت پڑتی تھی.اور یہ واقعہ ان کا بڑا دلچسپ ہے کہ پھر بڑے فخر سے آکے گھر کی کنڈی کھٹکھٹایا کرتے تھے اور آواز دیا کرتے تھے اپنی بیگم کو کہ فلاں کی اماں دروازہ کھولو.اب جو کنڈی کھٹکھٹائے گا اس کو کچھ کہنے کی ضرورت بھی کیا ہے لیکن وہ انگریزی میں کہا کرتے تھے کیونکہ انگریزی کا ان کو بہت شوق تھا اور یہ ثابت کیا کرتے تھے سکول کے بچوں پر کہ میری بیوی کو انگریزی آتی ہے.وہ پوچھتے تھے کیسے آتی ہے بتا ئیں.کہتے جب میں گھر جاتا ہوں تو کنڈی کھٹکھٹا
خطبات طاہر جلد 17 491 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء کے کہتا ہوں فلاں کی اماں دروازہ کھولو.اسی وقت وہ دروازہ کھولتی ہے اور یہ بات میں انگریزی میں کہہ رہا ہوتا ہوں.تو بڑے بڑے دلچسپ انسان تھے جو اپنے اپنے رنگ میں ایک مثال تھے اور انہی مثالوں کی یہ خیر ہے کہ ان کی اولا د بھی اسی طرح نیکیوں میں حصہ پارہی ہے.نیکیوں کے متعلق یا درکھیں کہ یہ ضائع نہیں ہوا کرتیں ، ان معنوں میں بھی ضائع نہیں ہوا کرتیں کہ گویا ایک ہی نسل تک محدود رہ جائیں.نیکیاں نسلاً بعد نسل چلتی ہیں اور اللہ تعالیٰ نے یہ جو وعدہ فرمایا ہے کہ میں بڑھا تا ہوں اس سے ہرگز یہ مراد ہیں کہ اس شخص کے اموال کو برکت دیتا ہوں یا اس کی نیکیوں کو بڑھاتا ہوں.مراد یہ ہے کہ اتنا بڑھاتا ہوں کہ نسلاً بعد نسل چلتی چلی جاتی ہیں.پس ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کی صورت میں ایسی مثالیں بکثرت دیکھی ہیں اتنی کہ ان کا بیان ممکن نہیں.اپنے اپنے رنگ میں فقیر راہ مولا تھے اور ان کے انفاق کا بھی اپنا اپنا رنگ تھا لیکن ان میں سے کسی ایک میں بھی ریا کاری نہیں تھی بلکہ حتی المقدور کوشش کرتے تھے کہ اپنی نیکیوں کو چھپالیں.پس یہ ایک ایسا گر ہے جس کو جماعت کو سیکھنا چاہئے اور پلے باندھنا چاہئے کیونکہ ریا کاری سے بچیں گے اور بخل سے بچیں گے تو نہ صرف اللہ تعالیٰ آپ کو اپنی زندگی میں کامیاب فرمائے گا بلکہ آپ اپنی نسلوں کی زندگی میں بھی مسلسل ان نیکیوں کو جاری دیکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کا ایک ایسا سلوک دیکھیں گے جو کوثر کی طرح کبھی بھی ختم نہیں ہوتا.اس قسم کے بزرگوں میں سے ایک حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی کے صاحبزادہ حضرت صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب بھی تھے.حضرت صوفی احمد جان صاحب لدھیانوی وہ بزرگ ہیں جنہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو آپ کے دعوی سے پہلے ہی پہچان لیا تھا.انہوں نے آپ کو مخاطب کر کے کہا تھا: تم مسیحا بنو خدا کے لئے “ انعامات خدا وند کریم از حضرت پیر افتخار احمد صفحه : 7) کاش تم مسیحا بن جاؤ کیونکہ تم میں میں مسیحائی کی علامات دیکھ رہا ہوں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی وہ مسیحائی کی علامات جو آپ اپنے نفس سے بھی چھپاتے تھے خدا نے اپنے ایک بزرگ بندے پر ان صفات کو روشن کر دیا اور اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آگے
خطبات طاہر جلد 17 492 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء جا کر بیان فرمائیں گے کہ تم خدا کی خاطر چھپنے کی کوشش بھی کرو تو امر واقعہ یہ ہے کہ اگر تم سنجیدگی اور اخلاص سے چھپنے کی کوشش کرو گے تو اللہ تعالیٰ تمہیں چھنے نہیں دے گا.تمہاری نیکیوں کو اس طرح ظاہر فرمائے گا کہ لوگ ان کی مثال پکڑیں.پس نیکیوں کی خاطر اللہ تعالی گویا تمہاری نیکیوں سے پردہ اٹھا دے گا.تو خدا کے پردے اٹھانے کے رنگ بھی عجیب ہیں کبھی وہ نیکیوں سے پردے اٹھاتا ہے کبھی لوگوں کی بدیوں سے بھی پردے اٹھاتا ہے.یہی دعا کرنی چاہئے کہ اگر ہماری نیکیاں اس لائق ہیں کہ ان سے پردہ اٹھا نا خدا کے نزدیک بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے ہو تو تب اللہ ان سے پردہ اٹھائے مگر اس رنگ میں نہ اٹھائے کہ ہمیں کوئی نقصان پہنچے.اگر اس اخلاص کے ساتھ آپ اپنی نیکیوں کو چھپانے کی کوشش کریں گے تو ہمیشہ اللہ تعالیٰ اس رنگ میں پردہ اٹھائے گا کہ آپ کے اخلاص کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن بنی نوع انسان کو اور آپ کی آئندہ نسلوں کو فائدہ پہنچے گا.پس یہ ان حضرت صوفی احمد جان صاحب کے صاحبزادہ ہیں صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب.بڑے لمبے قد کے تھے اور ان سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہت سی روایات ہیں اور ان کا اپنا ایک رنگ عجیب تھا.صاحبزادہ پیر افتخار احمد صاحب اپنے والد سے متعلق تحریر فرماتے ہیں: ”ہمارے گھر میں خرچ نہ تھا.میرے والد صاحب نے میری والدہ سے پوچھا آتا ہے؟ کہا نہیں.دال ہے؟ جواب نفی میں ملا.ایندھن ہے؟ وہی جواب تھا.جیب میں ہاتھ ڈالا دوروپے تھے.فرمانے لگے اس میں تو اتنی چیز میں پوری نہیں ہوسکتیں میں ان روپوں سے تجارت کرتا ہوں.وہ دورو پے کسی غریب کو دے کر نماز پڑھنے مسجد چلے گئے.( یہ ان کی تجارت تھی ) راستے میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دئے.“ وہ وہ دنیا ستر آخرت کا ایک یہ بھی مطلب ہے.مگر یہاں دو کے بدلے دس ملے ہیں اس کا اُس سے تعلق نہیں.دو کے بدلے دس اس لئے ملے کہ ان کو جو ضرورت تھی بعینہ دس روپے میں پوری ہوتی تھی.اللہ تعالیٰ نے یہ حساب ان سے رکھا.راستہ میں اللہ تعالیٰ نے دس روپے بھیج دئے.واپس آکر فرمایا میں تجارت کر آیا ہوں اب سب چیزیں منگوالو.اللہ کی راہ میں دینے سے مال گھٹتا نہیں بلکہ بڑھتا ہے.“ انعامات خداوند کریم از حضرت پیر افتخار احمد ، صفحہ : 221 222)
خطبات طاہر جلد 17 493 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء یہ جو روایت ہے اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی اس وقت کی ضرورتیں دس روپے میں مکمل طور پر پوری ہو جاتی تھیں اور چونکہ اس نیت سے انہوں نے خدا کی راہ میں خرچ کیا تھا کہ میری ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں پس اللہ نے وہ نیت اس دنیا میں پوری فرما دی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور بزرگ صحابی کا ذکر فرماتے ہیں.فرمایا: حبى فى اللہ میاں عبدالحق خلف عبدالسمیع.یہ ایک اول درجہ کا مخلص اور سچا ہمدرد اور محض اللہ محبت رکھنے والا دوست اور غریب مزاج ہے.دین کو ابتداء سے غریبوں سے مناسبت ہے کیونکہ غریب لوگ تکبر نہیں کرتے اور پوری تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں.“ (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ: 537) یہ میں نے ذکر اس لئے چنا ہے کہ لوگوں پر یہ بات روشن ہو جائے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام صرف کھل کر مالی قربانی کرنے والوں پر ہی تحسین کی نظر نہیں ڈالتے تھے بلکہ وہ بھی آپ کو بہت پیارے تھے جن کو مالی قربانی کی اپنی غربت کی وجہ سے توفیق نہیں ملتی تھی مگر جن کے حالات سے آپ واقف تھے.جانتے تھے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے زیادہ ان کو کوئی اور چیز عزیز نہیں ہے.پس نہ خرچ کرنے والے بھی اسی مد میں لکھے گئے جس میں خرچ کرنے والے لکھے گئے یعنی توفیق نہ پاتے ہوئے بھی خرچ کرنے کی تمنا بہت تھی.یہ مضمون وہ ہے جس کے متعلق آنحضرت می ایستم نے ایک دفعہ صحابہ کو نصیحت فرمائی تھی کہ اتنی دفعہ نماز کے بعد تکبیر تسبیح کیا کرو تو تمہیں خرچ کی توفیق نہیں اور دل چاہتا ہے، اللہ تعالیٰ تمہاری یہ توفیق کہ خدا کا ذکر کرتے ہو اس رنگ میں قبول فرمال گا گویا تم نے خرچ کر دیا اور تمہیں اپنے خرچ کرنے والے بھائیوں سے کم عطا نہیں کرے گا.آنحضرت مصلی کا یہ ستم نے جب یہ فرمایا تو ان غریبوں کے دل راضی ہو گئے.پس جیسے آقا کی باریک نظر تھی ویسے ہی آپ ملا تھا کہ تم کے غلام کی بھی باریک نظر تھی.جیسے آقا اپنے غریب صحابہ پر نظر رکھتا تھا ، جانتا تھا کہ ان کا دل چاہتا ہے مال خرچ کرنے کو مگر نہیں کر سکتے ان کے دل کی تسکین کے سامان کیا کرتا تھا.اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی یہ توفیق ملی کہ اپنے غریب صحابہ کے دل پر نظر رکھ کر ان کے دل کی تسکین کے سامان کیا کرتے تھے.وہ واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے اس کے متعلق روایت ہے
خطبات طاہر جلد 17 494 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء کہ کچھ عرصہ کے بعد یہ بات عام ہوگئی.لوگوں نے ایک دوسرے سے باتیں کیں اور یہ بات امیروں کو بھی پتا چل گئی کہ اس طرح تو بہت جزا ملتی ہے انہوں نے بھی اپنے غریب بھائیوں کے ساتھ بیٹھ کر تسبیح و تحمید شروع کر دی.اس پر غریب بھائیوں کو ایک قسم کا رشک آیا.انہوں نے کہا اوہو یہ تو ہمارے ساتھ شامل ہو گئے خرچ کی جزا بھی پائیں گے اور بے خرچ کی جزا بھی پائیں گے.آنحضرت صلی الا یہ تم سے شکایت کی اس رنگ میں کہ ان کو روکیں وہ بھی ہمارے ساتھ شامل ہو کر ہمارے حصہ میں سے حصہ بٹا رہے ہیں.آنحضرت صلی ہی ہم نے فرما یا نہیں ان کو نہیں میں روکوں گا جن کو خدا دوہرے اجر کی توفیق عطا فرماتا ہے میں کیسے روک دوں.(صحیح مسلم ، کتاب المساجد ومواضع الصلواة، باب استحباب الذكر بعد الصلوة -- حدیث نمبر : 1347) تو جماعت کے امراء کو چاہئے کہ اس بات پر بھی نظر رکھیں، کوشش کریں کہ خدا کی راہ میں خرچ کرنے میں پہلے سے بڑھتے رہیں اور غریبوں کی ان نیکیوں میں سے بھی حصہ پائیں جو مال نہ دینے کی وجہ سے یا نہ دینے کی محرومی کے احساس سے عملاً ذکر الہی یا دوسری نیکیوں میں زیادہ حصہ لیتے ہیں.اس سے ان کو دوہرا اجر نصیب ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس عادت سے ان کی اولادوں کے مقدر چمک اٹھیں گے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام عبدالحق خلف عبدالسمیع صاحب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: میں سچ سچ کہتا ہوں کہ دولت مندوں میں ایسے لوگ بہت کم ہیں کہ اس سعادت کا عشر بھی حاصل کر سکیں جس کو غریب لوگ کامل طور پر حاصل کر لیتے ہیں.“ یہ امر واقعہ ہے کہ دولتمندوں میں یہ لوگ بہت کم ہوتے ہیں مگر اگر ہوں تو ان کا نصیبہ دنیا میں بھی جاگ اٹھتا ہے اور آخرت میں بھی.فطوبى للغرباً ( بڑی خوشی کی بات ہے.خوشخبری ہے غرباء کے لئے ) میاں عبدالحق باوجود اپنے افلاس اور کمی مقدرت کے ایک عاشق صادق کی طرح محض اللہ خدمت کرتا رہتا ہے اور اس کی یہ خدمات اس آیت کا مصداق اس کو ٹھہرا رہی ہیں.يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ - (الحشر :10) (ازالہ اوہام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ :537)
خطبات طاہر جلد 17 495 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء یہاں ایک اور معنی اس آیت کا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے جس پر عام طور پر مفسرین کی نظر نہیں جاتی.يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ کا یہ مطلب لیا جاتا ہے جو اپنی جگہ درست ہے کہ وہ مال سے خدا کی راہ میں اس وقت بھی خرچ کرتے ہیں جبکہ ان کو مالی تنگی کا سامنا ہو.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے علاوہ ایک اور مضمون اس آیت میں پڑھا ہے.يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِم خواہ ان کو مالی تنگی خدمت سے باز رکھتی ہو.یعنی مالی خدمت سے باز رکھتی ہو وہ نفس کی قربانی سے باز نہیں آتے.يُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ اپنے نفس کو اس راہ میں خرچ کر دیتے ہیں.بہت ہی پیاری تفسیر ہے جس کو دیکھ کر انسان عش عش کر اٹھتا ہے.اب یہ تفسیر کیا نعوذ باللہ من ذلک گندوں کو بھی عطا ہو سکتی ہے.جن کے دل اللہ پاک کرے ان کے سوا کسی کو یہ تفسیر عطا ہو ہی نہیں سکتی اور دشمن ، بد زبان، احمق اگر صرف اس ایک تفسیر پر غور کر لے جیسے میں نے پہلے بھی کئی دفعہ بیان کیا ہے ہر تفسیر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک ایسا رنگ ہے جو عارف باللہ کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہو سکتا.تو دشمن اگر اس چیز کو دیکھ لے تو ہرگز کبھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خلاف بد کلامی کی جسارت نہیں کر سکتا.ایمان لانا یا نہ لانا یہ الگ مسئلہ ہے مگر ایسے پاکباز پر بدزبانی کی جسارت نہیں کی جاسکتی جو اللہ کے عشق میں گم ہو اور اسی کی ہدایت سے عارفانہ نکات اس کو ملتے ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : یہ ظاہر ہے کہ تم دو چیز سے محبت نہیں کر سکتے اور تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی (کرو).( بیک وقت ایک سینے میں یہ دو محبتیں جمع نہیں ہوسکتیں ) پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے اور اگر کوئی تم میں سے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو میں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی.“ یہاں نیت کی اصلاح بہت ضروری ہے.یہ نہیں فرمایا کہ اپنا مال بڑھانے کی خاطر خدا سے محبت کرے بلکہ یہ فرمایا ہے کہ خالص اللہ کی محبت کی وجہ سے مال خرچ کر دے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ مشاہدہ ہے کہ اگر چہ ان کی نیت یہ نہیں بھی ہوتی تب بھی خدا ان کے مال میں دوسروں کی نسبت زیادہ برکت ڈال دیتا ہے.کیوں؟ فرمایا: وو
خطبات طاہر جلد 17 496 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے.پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گالیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا.یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اور رنگ سے کوئی خدمت بجالا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے اور میں سچ سچ کہتا ہوں کہ اگر تم سب کے سب مجھے چھوڑ دو اور خدمت اور امداد سے پہلو تہی کرو تو وہ ایک قوم پیدا کر دے گا کہ اس کی خدمت بجالائے گی.تم یقیناً سمجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.“ یہ ہے خلاصہ مضمون.جس شخص کو بھی مالی خدمت یا نفس کی خدمت یا جسمانی خدمت یاد مافی خدمت کی توفیق ملتی ہے وہ یادر کھے کہ یہ اللہ کے احسان سے ہے اور احسان کے نتیجہ میں شکر گزار ہونا چاہئے نہ کہ احسان جتانے لگے.تو مومن کے دل میں دین کی خدمت کے بعد کسی احسان جتانے کا گمان تک نہیں گزرتا.اگر حقیقی عارف ہے تو ضرور سمجھتا ہے کہ ہمیں توفیق مل گئی بہتوں کو نہیں ملی.کتنا بڑا اللہ کا احسان ہے کہ اس نے ہمیں چن لیا ہے اس خدمت کے لئے.اس لئے فرمایا کہ یہ نہ سمجھو کہ تم میرے لئے ضروری ہو.فرمایا میں تمہارے لئے ضروری ہوں.میری دین کی خاطر خدمت کرتے ہو تو اللہ کی پیار کی نظریں حاصل کرتے ہو.اس لئے تم میرے لئے ضروری نہیں، میں تمہارے لئے ضروری ہوں.اور اس کا ثبوت ایک یہ ہے کہ اگر تم سارے مجھے چھوڑ کر چلے جاؤ تو خدا مجھے نہیں چھوڑے گا اور میری ساری ضرورتیں پوری کرے گا اور ایسی قوم لے آئے گا جو قوم مالی خدمات اور جسمانی اور دینی اور قلمی اور روحانی خدمات میں تم سے پیچھے نہیں رہے گی.تم یقیناً مجھو کہ یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے.پس ایسا نہ ہو کہ تم دل میں تکبر کرو اور یا یہ خیال کرو کہ ہم خدمت مالی یا کسی قسم کی خدمت کرتے ہیں.میں بار بار تمہیں کہتا ہوں کہ خدا تمہاری خدمتوں کا ذرا محتاج نہیں،
خطبات طاہر جلد 17 497 ہاں تم پر یہ اس کا فضل ہے کہ تم کو خدمت کا موقع دیتا ہے.“ خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء ( مجموعہ اشتہارات جلد سوم ،صفحہ:498،497) انفاق فی سبیل اللہ کی اہمیت کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: میں پھر اصل بات کی طرف رجوع کر کے کہتا ہوں کہ دولت مند اور متمول لوگ دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں.( یعنی پہلی باتوں سے یہ شبہ نہ گزرے کہ دولت مند دھتکارے ہوئے لوگ ہیں ان کو توفیق مل ہی نہیں سکتی ہے )...مِمَّا رَزَقْنُهُم يُنْفِقُونَ (البقرة: 4) متقیوں کی صفت کا ایک جزو قرار دیا ہے.یہاں مال کی کوئی خصوصیت نہیں ہے.جو کچھ اللہ تعالیٰ نے کسی کو دیا ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرے.مقصود اس سے یہ ہے کہ انسان اپنے بنی نوع کا ہمدرد اور معاون ہے.اللہ تعالیٰ کی شریعت کا انحصار دو ہی باتوں پر ہے تعظیم لامر اللہ اور شفقت علی خلق اللہ.پس مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ میں شفقت علی خلق اللہ کی تعلیم ہے.“ 66 الحکم جلد 4 نمبر 30 صفحہ : 3 مؤرخہ 24 اگست 1900ء) جہاں خدا کی راہ میں مالی قربانیاں کرتے ہیں اس کے سوا اس بات کو بھی نہ بھلا ئیں کیونکہ یہ بھی متا رَزَقْنهُمْ يُنْفِقُونَ کے اندر شامل بات ہے کہ جب خدا کی خاطر خرچ کرتے ہیں تو اس کے بندوں کے لئے بھی نرم گوشہ اختیار کریں اور اس طرح قوم کو وحدانیت کا سبق دیں.ہر وہ شخص جو واقعہ تقویٰ کی خاطر اپنی زندگی بسر کرتا ہے وہ اپنے بھائی سے خواہ وہ غریب بھی ہو ، محروم بھی ہو ، کئی قسم کی کمزوریوں میں مبتلا ہو اس سے نفرت نہیں کرتا بلکہ اس کے لئے دل میں ہمدردی کے سوا اور کوئی جذبات نہیں پاتا.اگر کچھ نہیں کر سکتے تو دل کی گہرائی سے کلمہ خیر کہو.بعض لوگ یہ کلمہ خیر کہتے تو ہیں مگر اس کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے.امیر آدمی جو اپنے مال کو چھپائے ہوئے ہوتے ہیں وہ کہتے ہیں جاؤ اللہ تمہارا بھلا کرے.مطلب ہے ہمارا پیچھا چھوڑو.اللہ بھلا کرے کی دعا محض منہ سے نکلی ہوئی دعا ہوتی ہے لیکن کچھ لوگ دکھ محسوس کرتے ہیں کہ ہم کچھ دے نہیں سکے.وہ جب کہتے ہیں کہ اللہ تمہارا بھلا کرے تو یہ دعا عرش کے کنگرے ہلا دیا کرتی ہے اور اس کے نتیجے میں بعض غریبوں کی تقدیر
خطبات طاہر جلد 17 498 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء بدل جاتی ہے.پس یہ ہیں انفاق فی سبیل اللہ والے لوگ جس کے متعلق یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے فرمایا ” شفقت علی خلق اللہ کی تعلیم اس آیت میں شامل ہے، مِمَّا رَزَقْنُهُمْ يُنْفِقُونَ.یہ ایک بہت ہی لطیف اقتباس ہے جس میں سے ایک حصہ شروع کا میں ضرور آپ کو سنانا چاہتا ہوں.فرمایا: اس کے بعد متقی کی شان میں مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ آیا ہے.یہاں متقی کے لئے منا کا لفظ استعمال کیا، کیونکہ اس وقت وہ ایک اعمی کی حالت میں ہے.“ منا میں جو توفیق اللہ نے اسے بخش دی ہے یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بہت ہی لطیف تفسیر ہے.فرمایا صرف وہی توفیق شامل نہیں بلکہ آئندہ جو توفیق خدا عطا فرمائے گا وہ بھی اس میں داخل ہے.تو فرمایا اس کی حالت تو ایک اندھے کی سی ہے جسے پتا نہیں کہ میرے لئے آگے کیا بھلائی اور خیر مقد ررکھی گئی ہے.حق یہ ہے کہ اگر وہ آنکھ رکھتا تو دیکھ لیتا.ایک اور بھی اندھے کی حالت کا بیان ہے) آنکھ رکھتا تو دیکھ لیتا کہ اس کا کچھ بھی نہیں.“ یہ دونوں باتیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تحریر میں بیان فرمائی ہیں.ایک آئندہ جو خدا کے فضل اس پر ہونے والے ہیں ان سے وہ بالکل اندھا ہے، اس کو پتا ہی نہیں کہ کیا ملنے والا ہے.دوسرا یہ کہ آنکھ ہوتی تو دیکھ لیتا کہ یہ سب اللہ ہی کی عطا ہے اس کا تو کچھ بھی نہیں.یہ ایک حجاب تھا جو اتقاء میں لازمی ہے.( یہ اندھا پن کوئی برائی نہیں ہے.فرمایا:) ایک حجاب تھا جو اتقاء میں لازمی ہے.اس حالت اتقاء کے تقاضے نے متقی سے خدا کے دئے میں سے کچھ دلوایا.“ پھر فرماتے ہیں: (رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء مرتبہ یعقوب علی عرفانی صاحب، صفحہ: 46) یادر ہے کہ اصل مدعا جس پر اس سلسلہ کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے.“ یہ پہلے بھی میں اقتباس آپ کے سامنے کئی دفعہ رکھ چکا ہوں.اس سلسلے کے بلا انقطاع چلنے کی امید ہے.“ یہ سلسلہ بغیر کسی روک ٹوک کے ہمیشہ جاری رہے اور نیکیوں میں ترقی کرتا چلا جائے یہ مراد ہے بلا انقطاع.
خطبات طاہر جلد 17 وو 499 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء وہ یہی انتظام ہے کہ بچے خیر خواہ دین کے اپنی بضاعت اور اپنی بساط کے لحاظ سے ایسی سہل رقمیں ماہواری کے طور پر ادا کرنا اپنے نفس پر ایک حتمی وعدہ ٹھہرا لیں جن کو بشرط نہ پیش آنے کسی اتفاقی مانع کے بآسانی ادا کر سکیں ہاں جس کو اللہ جل شانہ توفیق اور انشراح صدر بخشے وہ علاوہ اس ماہواری چندہ کے اپنی وسعت ہمت اور انداز ہ مقدرت کے موافق یکمشت کے طور پر بھی مدد کر سکتا ہے.“ (فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحات:33 تا34) اب اس سلسلہ میں میں ایک آخری اقتباس ایک دوست کا پڑھ کر سناتا ہوں جو کراچی سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کا نام ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے.انہوں نے جب میرے خطبات سنے جو مال سے تعلق میں میں نے امریکہ میں دئے تھے تو ان کو اس بات کا گہرا رنج پہنچا کہ بعض لوگوں کی کمزوری کی وجہ سے مجھے تکلیف پہنچی ہے.میں نے یہ بھی ذکر کیا تھا کہ بعض ایسے لوگ ہیں جن کے متعلق میں حالات دیکھ کے یہ فیصلہ کر سکتا ہوں کہ ان کا سارا مال ان کو واپس لوٹا دیا جائے کیونکہ جس رنگ میں انہوں نے خرچ کیا ہے مجھے اس سے کراہت آتی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ اس مال کو خدا تعالیٰ کے پاک مال میں شامل کروں.یہ ذکر جو گزرا تھا اس کے بعد جب میں نے تحقیق کی تو پتا چلا کہ ایسے لوگ اتنے تھوڑے ہیں ، دکھاوے والے لوگ ہی تھے، کہ ان کے مال کو کلیۂ کالعدم سمجھ لیں تب بھی جماعت امریکہ کے اموال پر ایک کوڑی کا بھی فرق نہیں پڑتا.بلکہ ان خطبات کے بعد جو اطلاعیں آرہی ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی تیزی کے ساتھ جماعت مالی قربانی میں آگے بڑھ رہی ہے.مگر یہ لفظ ان کو یادر ہے کہ میں چاہتا ہوں کہ ان کے مال ان کو واپس کر دوں.ان کے خیال میں اتنے زیادہ مال تھے کہ ان کے لئے مجھے بیرونی مدد کی ضرورت پڑنی تھی.وہ لکھتے ہیں : میں اپنے آپ کو تمام چندہ واپس کرنے کے لئے پیش کرتا ہوں.اگر یہ رقم ایک کروڑ تک ہے تو میں خدا تعالیٰ کے فضل وکرم سے یہ رقم اپنے پیارے حضور کی خدمت میں پیش کرسکتا ہوں.خدا تعالیٰ کی اس جماعت میں خدا کے شیروں اور محمد صلی کیا یہ تم کے فدائیوں کی کوئی کمی نہیں ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 500 خطبہ جمعہ 17 جولائی 1998ء اللہ تعالیٰ ان کے اس اخلاص کو قبول فرمائے.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس کی جماعت کو ضرورت نہیں ہے اور ضرورت کا کچھ سوال بھی پیدا نہیں ہوتا.پیسوں کی خاطر یہ خطبے نہیں دئے تھے ، لوگوں کی خاطر دئے تھے کہ لوگ اپنی اصلاح کریں اور اللہ کی نظر میں مقبول ٹھہریں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور انور نے فرمایا: پچھلے خطبات میں لوگوں نے میری آواز میں کچھ دیکھا ہوگا جیسے ہلکی ہلکی کھانسی بعض دفعہ اٹھتی ہے.کھانسی نہیں وہ گلا صاف کرنے کے لئے بعض دفعہ ایک ضرورت محسوس ہوتی ہے اس کے لئے میں نے بعض مناسب دوائیں استعمال کیں مگر فائدہ نہیں ہو رہا تھا.تو اب ایک بات پکڑی گئی ہے جو میں آپ کے سامنے عرض کر رہا ہوں کیونکہ بہت سے لوگ آرہے ہیں اور ان کی خواہش ہوگی کہ وہ کچھ نہ کچھ تحفہ مٹھائی کی صورت میں یا کسی اور شکل میں دیں مگر ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ تم ضرور کھاؤ اور وہ اکثر بناسپتی گھی کی تیار کی ہوئی چیزیں ہوتی ہیں جن کے خلاف مجھے سخت الرجی ہے.تو کل ہی ایک صاحب تشریف لائے تھے کہ میں نے اپنے ہاتھ سے جلیبیاں تیار کی ہیں.ہاتھ سے تو کی ہیں مگر کی تھیں بناسپتی میں.اصرار تھا کہ ضرور چکھو.وہ چکھتے ہی ایک دم جو پہلی دواؤں کا اثر تھا سارا جاتا رہا.تو اس لئے میں یہ بات بیان کر رہا ہوں کہ جلسہ پر آنے والے ضرور کوشش کریں گے کہ ان کا دیا ہوا میٹھا میں ضرور چکھوں یا نمک بھی، جو بھی ہو.وہ یا درکھیں کہ مجھے بناسپتی گھی سے سخت الرجی ہوتی ہے اور دواؤں کا جو فائدہ پہنچا ہوتا ہے اس کا کیا دھر ا سب ضائع ہو جاتا ہے.تو مہربانی فرما کر اس لحاظ سے جلسہ کے مہمانوں پر رحم کریں کہ مجھے تقریریں کھلی آواز سے کرنے کی توفیق مل جائے اور اپنے گھروں میں بھی جائزہ لیں.جن لوگوں کو بناسپتی سے الرجی ہوتی ہے بعض دفعہ ان کو پتا بھی نہیں چلتا اور ہر وقت خود بھی اور بچوں کو بھی کسی نہ کسی گلے یا چھاتی کی بیماری میں مبتلا دیکھتے ہیں تو یہ نسخہ بھی آزما کے دیکھ لیں.میں اُمید رکھتا ہوں کہ ان کو فائدہ پہنچے گا.
خطبات طاہر جلد 17 501 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء میز بانی اور مہمانی ابراہیمی سنت ہے جلسہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو اہم نصائح (خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ 24 جولائی 1998ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: هَلْ النكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ الْمُكَرَمِينَ إِذْ دَخَلُوا عَلَيْهِ فَقَالُوا سلمًا قَالَ سَلَمُ : قَوْمُ مُنْكَرُونَ فَرَاغَ إِلَى أَهْلِهِ فَجَاءَ بِعِجَلٍ (التريت : 2725) سمين پھر فرمایا: ان آیات کو میں نے آج کے خطبہ کا عنوان اس لئے بنایا ہے کہ میز بانی اور مہمانی کے موقع پر ابراہیمی سنت کا تذکرہ کروں اور جماعت سے توقع کروں کہ اسی سنت کو زندہ کریں.جو مہمان حضرت ابراہیم کے گھر میں داخل ہوئے وہ دراصل فرشتے تھے لیکن انسانی روپ میں، اس لئے حضرت ابراہیم نے ان کو پہچانا نہیں.قرآن کریم فرماتا ہے کہ مکرمین مہمان تھے، بہت معزز مہمان تھے باوجود اس کے کہ حضرت ابراہیم نے ان کو پہچانا نہیں مگر اتنا کہا کہ ہیں اجنبی اور اس پہلو سے اجنبی ہوتے ہوئے بھی ان کی مہمانی کا پورا حق ادا کیا.پس اس دفعہ جلسہ پر بہت سے جانے پہچانے بھی آئیں گے اور بہت سے اجنبی بھی ہوں گے.جو اجنبی ہوں اُن کا بھی ایک حق ہے اور جو کوئی کسی کے گھر آتا ہے اور گھروں کے علاوہ جو جماعت کا مہمان بن کر جلسہ پر آتا ہے اس کے حضور کچھ پیش کرنا
خطبات طاہر جلد 17 502 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء بغیر یہ پوچھے کہ آپ کھا چکے ہیں یا نہیں کھا چکے، یہ سنت ابرا ہیمی ہے.بعض دفعہ لوگ پوچھ کر مہمان کے لئے مشکل پیدا کر دیتے ہیں.بعض دفعہ تو مہمان کو جھوٹ بولنا پڑتا ہے.وہ سمجھتا ہے کہ پوچھنے سے لگتا ہے اس کو تکلیف ہوگی تو کہتا ہے نہیں ہم کھا چکے ہیں اور مجھے توقع نہیں کہ جماعت کسی پہلو سے بھی، کسی وقت بھی جھوٹ سے کام لے اور اگر وہ جھوٹ بولیں تو ان کو بتانا پڑتا ہے جو ان کے لئے شرمندگی یا الجھن کا موجب بنتا ہے کہ ہمارے یہ کہنے سے کہ ہم کچھ کھا کے نہیں آئے میزبان کو تکلیف ہوگی.تو دیکھیں حضرت ابراہیمؑ نے پوچھا نہیں ، کھا چکے ہو نہیں کھا چکے؟ فوراً اندر گئے اور ایک بھنا ہوا بچھڑا لے آئے.جب انہوں نے اس بچھڑے کو ہاتھ نہ لگایا تو اس کے نتیجے میں بعض آیات سے پتا چلتا ہے کہ حضرت ابراہیم خوفزدہ ہو گئے کیونکہ مہمان اگر کھانے سے ہاتھ کھینچ لے تو یہ بھی ایک دستور ہے کہ بعض دفعہ اس لئے ہاتھ کھینچا جاتا ہے کہ آنے والے کا ارادہ شر پہنچانے کا ہوتا ہے.اس آیت میں اس کی تفصیل تو بیان نہیں ہوئی لیکن قوم منگرون میں شاید یہ اشارہ ہو.بہر حال اب جو مہمان ہمارے آنے والے ہیں یہ بہت معزز مہمان ہیں کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مہمان ہیں اور جیسا کہ میں آگے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعض روایات پیش کروں گا آپ سے وہ توقع کی جاتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہمانوں کے متعلق رویہ اختیار فرمایا کرتے تھے لیکن سب سے پہلے میں مہمان نوازی کے تعلق میں کچھ احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مسند احمد کی روایت ہے جو حضرت شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیان ہوئی ہے.آپ نے کہا کہ حضور صلی ا یہ تم نے فرمایا کہ: ” جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے.“ اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے.یہ بہت گہرا مضمون ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی بھی ایک مہمان نوازی ہونی ہے.جو اللہ نے کرنی ہے.تو جو اللہ کے بندوں سے اعلیٰ مہمان نوازی کا برتاؤ کرے وہ یہ توقع رکھ سکتا ہے کہ میرا اللہ بھی میری اعلیٰ مہمانی
خطبات طاہر جلد 17 503 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء فرمائے گا.تو بظاہر ان دو باتوں کا تعلق نہیں کہ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے ضرور مہمان نوازی کرے مگر یہ بات اس میں مضمر ہے.اس لئے فرمایا: ”ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے اور ایک دن رات سے تین دن رات تک اسے مہمان رکھے.“ یہ تو مہمان کا حق ہے کیونکہ مسافر تین دن کا مسافر ہوتا ہے اتنا تو لازماً ہر مہمان کو حق دینا چاہئے کہ تین دن تک وہ آپ کے پاس رہے اور اس کی مہمانی کا حق ادا ہو.فرمایا: اگر اس سے زائد عرصہ مہمان اس کے پاس ٹھہرتا ہے اور اس کی مہمان نوازی کرتا ہے تو یہ اس کی طرف سے صدقہ اور نیکی کی بات ہوگی.“ اس لئے تین دن کے بعد مہمان کو نکالنا نہیں ہے بلکہ یہ ارشاد ہے کہ وہ تو فرض ہے وہ نیکی میں اس طرح شمار نہیں ہوسکتا.یہ تو تم پر لازم ہے لیکن اس کے علاوہ اگر تم چاہتے ہو کہ نوافل سے کام لو، نیکی سے کام لو تو پھر مہمان کو اس سے زیادہ ٹھہرنے کی ترغیب دو یعنی اپنے رویہ سے اس سے ایسا سلوک کرو کہ وہ زیادہ عرصہ کے لئے ٹھہر جائے لیکن مہمان کا بھی تو کچھ فرض ہے.فرمایا: اور مہمان کے لئے مناسب نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ بلا اجازت ٹھہرے.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة.حديث أبي شريح الخزاعي ، مسند نمبر :16374) تو دونوں کے فرائض اور دونوں سے جو تقاضے ہیں دونوں کو بیان فرمایا اور میزبان کو تکلیف میں ڈالے سے مراد یہ ہے کہ اگر میزبان نیکی کی خاطر کہے بھی کہ آپ ضرور ٹھہریں تو مہمان کو اتنا خیال کرنا چاہئے کہ بعض میز بان تکلف سے بھی کہا کرتے ہیں اس لئے اپنی طرف سے وہ اس بات کو خوب کھول دے کہ میں ٹھہر چکا ہوں جتنا ٹھہر نا تھا اب مجھے اجازت دیں لیکن جو مہمان پاکستان سے تشریف لائے ہیں ان کا عرصہ تین دن کا نہیں.جماعت UK نے یعنی United Kingdom کی جماعت نے ان کے لئے پندرہ دن کی مہمانی کی ذمہ داری قبول کی ہے اس لئے وہ سارے مہمان جو باہر سے آئے ہیں پندرہ دن کے لئے جماعت United Kingdom کے مہمان ہوں گے خواہ یہ مہمانی ان کی ذاتی ہو یعنی جماعت کی طرف سے مہمان کا انتظام نہ ہو تو یہی سمجھیں کہ وہ جماعت ہی کی طرف سے مہمانی ہے کیونکہ ہر شخص جو جماعت کا حصہ ہے اس پہ بہت سی ذمہ داریاں ہیں.وہ جماعت کی
خطبات طاہر جلد 17 504 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء نمائندگی ہی میں ان کی میزبانی کا حق ادا کرتا ہے.پس اس پہلو سے چودہ دن تک ان کے ہاں ٹھہرنا بھی اگر وہ چاہیں، پسند کریں کہ ذاتی طور پر ہمارے ہاں ٹھہر و تو درست ہے.اگر نہیں تو تین دن کے بعد جماعتی انتظام کی طرف منتقل ہو جائیں.اس سلسلہ میں یہ یا درکھنا چاہئے کہ جماعتی انتظام کے تحت مختلف آنے والے مہمانوں کے مزاج اور ان کے حالات کے مطابق مختلف انتظامات کئے گئے ہیں مگر بنیادی طور پر ا کرام کا حق ہر ایک کا ہے.ہر شخص کا اکرام ہونا چاہئے.ایک اور حدیث مسلم کتاب البر سے لی گئی ہے.حضرت ابوذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ سلیم نے فرمایا: معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو.اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے.“ (صحیح مسلم ، کتاب البر والصلة باب استحباب طلاقة الوجه عند اللقاء،حدیث نمبر :6690) تو یہ بھی مہمان نوازی کی قسمیں ہیں خواہ آپ کا براہ راست مہمان ہو یا نہ ہو اس سے خندہ پیشانی سے پیش آئیں اور سارے جلسے پر یہ ماحول ہو کہ ہر شخص مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے ہر ایک کا استقبال کر رہا ہو حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے یہ ابن ماجہ سے لی گئی ہے کہ آنحضرت صلی الہ سلم نے فرمایا: ” جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار یا معزز آدمی آئے تو اس کی حیثیت کے مطابق اس کی عزت و تکریم کرو.“ (سنن ابن ماجه، کتاب الأدب، باب اذا أتاكم كريم قوم فأكرموه ،حدیث نمبر :3712) یہ میں نے اس لئے بیان کرنا ضروری سمجھا ہے کہ ہمارے بہت سے ایسے مہمان ہیں جو جماعت سے تعلق نہیں رکھتے اور مختلف دنیا کے گوشے گوشے سے آئے ہوئے ہیں.ان کا جو الگ انتظام ہوتا ہے اور غیر معمولی توجہ دی جاتی ہے کوئی یہ خیال نہ کرے کہ بعض مہمانوں کو تو عام مہمانوں میں شامل کیا گیا ہے بعض سے خاص سلوک ہو رہا ہے.یہ خاص سلوک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی لے یتیم کی ہدایت کے مطابق ہوتا ہے اور یہ حدیث اس پر گواہ ہے.جب کسی قوم کا سردار یا معزز شخص آئے تو اس سے اس کی شان کے مطابق سلوک کرو کیونکہ در اصل وہ اپنی پوری قوم کا نمائندہ ہوتا ہے.اب اس نے واپس جا کر اس قوم کو بتانا ہے کہ مجھ سے کیا سلوک کیا گیا.
خطبات طاہر جلد 17 505 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء ایک اور حدیث عبداللہ بن طحنفہ کی طرف سے روایت ہے مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.عبداللہ بن طحفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ” جب آنحضرت صلی ایم کے پاس کثرت سے مہمان آنے لگے تو آپ سلیم فرمایا کرتے تھے کہ ہر کوئی اپنا مہمان لیتا جائے.“ یہ وہ حدیث نہیں ہے جو میں پہلے بھی کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں اس سے ملتی جلتی یہ حدیث ہے کیونکہ یہ آئے دن واقعہ پیش آیا کرتا تھا یہ روز کا دستور تھا ، ہر وقت آنے والے مہمان آیا کرتے تھے اور آنحضرت ملا لیتے ہیں فرمایا کرتے تھے کہ جس کے پاس توفیق ہے وہ اپنا اپنا مہمان لیتا جائے.ย عبد اللہ بن طخفة بیان کرتے ہیں کہ : 66 میں ان میں تھا جو آنحضرت سلینا یہ ہیم کے ساتھ گئے تھے.جب آپ سال سلیم گھر پہنچے.“ یہ گئے سے مراد ہے کہ ایک موقع پر مہمانوں کی کثرت کی وجہ سے مہمان لے جانے والے کم رہ گئے تو آنحضرت صلی یا تم اپنے گھر کی طرف روانہ ہوئے اور عبداللہ بن طحفہ کہتے ہیں میں بھی آپ سی یہ ستم کے ساتھ تھا.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کیا گھر میں کھانے کو کچھ ہے.انہوں نے کہا جی ہاں - حويسة ( کوئی عرب کھانا ہے ) جو میں نے آپ صلی یہ نام کے افطار کے لئے تیار کیا ہے.( یعنی آنحضور صلی ا کہ تم روزے سے تھے ) راوی کہتا ہے حضرت رسول اللہ صلی ا تم نے جب فرمایا تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا وہ کھانا ایک برتن میں ڈال کر لائیں اس میں سے رسول اللہ صلی یا تم نے تھوڑ اسا لیا اور تناول فرمایا.“ یعنی افطار میں دیر نہیں کی.آپ صلی ہی تم مہمان سے پہلے کھانا نہیں کھایا کرتے تھے مگر افطار کا اپنا تقاضا ہے اس لئے آپ صلی شا ہی تم نے کچھ تھوڑ اسا اس میں سے لیا اور تناول فرمایا.پھر فرمایا: بسم اللہ کر کے کھائیں.(بشیر اللہ کر کے کھا ئیں کا حکم دوسروں کو دیا ہے.آپ نے تو بسم اللہ کر کے ہی کھایا تھا چنانچہ ہم نے اس کھانے میں سے اس طرح کھایا کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.بعد ازاں آنحضرت صلی ہیم نے فرمایا: اے عائشہ! کیا تمہارے پاس پینے کو کچھ ہے.انہوں نے کہا جی حریرہ ہے.( جو پہلا حلوہ ہوتا ہے
خطبات طاہر جلد 17 506 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء اور بہت لذیذ ہوتا ہے ) جو میں نے آپ صلی السلام کے لئے تیار کیا ہے.فرمایا لے آؤ.حضرت عائشہ وہ لائیں تو آنحضرت صلی ا یہ تم نے پکڑا اور برتن کو اپنے منہ کی طرف بلند کیا.تھوڑا سا نوش کر کے فرما یا بشیر اللہ کر کے پینا شروع کریں.“ دو باتیں پیش نظر رہنی چاہئیں ایک تو افطار کی وجہ سے تاخیر مناسب نہیں تھی دوسرے دونوں مرتبہ افطار ہو چکا تو پھر بھی حدیدہ لبینة پیتے وقت بھی پہلے اپنے منہ سے لگایا.یہ لازماً اس غرض سے تھا کہ اس تھوڑے کھانے اور تھوڑے پینے میں برکت پڑ جائے اور ایسا ہی ہوا.پھر ہم اس طرح پی رہے تھے کہ ہم اسے دیکھ نہیں رہے تھے.مطلب یہ ہے کہ ان کو خیال تھا کہ تھوڑا سا ہوگا جو ہے وہ پی لیں مگر وہ نہ دیکھنے کے باعث نہ وہ ختم ہو رہا تھا نہ ان کو اس سے اپنے ساتھی کے لئے ہاتھ روکنے پڑے تو چلتا رہا اور ختم نہیں ہوا جب تک سب سیر نہ ہو گئے.اس کے بعد آنحضور سال کا ریتم خود گھر کی طرف چل پڑے اور پھر گھر سے مسجد کو چلے آئے کیونکہ ہم مسجد میں لیٹے ہوئے تھے.مسجد میں کہتے ہیں میں تو اوندھے منہ لیٹ کر الٹا پڑ کے سو گیا.صبح آنحضور صلی للہ یہ تم جب تشریف لائے اور لوگوں کو الصلوة، الصلوة 66 کہہ کر نماز کے لئے بیدار کرنے لگے.“ یہ بھی ایک سنت ہے کہ مہمانوں کو نماز کے لئے بیدار کرنا چاہئے.آنحضرت مسیلی یہ تم کا یہ معمول تھا کہ جب آپ مالی ای نام آتے تو لوگوں کو نماز کے لئے اٹھاتے یعنی یہ اس لئے فرما ر ہے تھے کہ آپ صلی یا کہ تم کا دستور تھا کوئی اچانک، اتفاقاً ہونے والا واقعہ نہیں تھا.” جب میرے پاس سے گزرے تو میں اس وقت اوندھے منہ لیٹا ہوا تھا.آپ مال اللہ الی یم نے دریافت فرمایا تم کون ہو؟ میں نے عرض کی میں عبد اللہ بن طحفۃ ہوں.آپ صلی للہ یہ تم فرمانے لگے سونے کا یہ انداز ایسا ہے جسے اللہ عز وجل نا پسند فرماتا ہے.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة حديث طخفة الغفاري، مسند نمبر : 23616) پس سونے کے متعلق بھی یادرکھیں کہ الٹے پڑ کے سونا مناسب نہیں ہے.حضور اکرم صلی سیستم دائیں کروٹ لیٹا کرتے تھے، پیٹھ کے بل لیٹنا بھی جائز ہے.بعض صورتوں میں بائیں طرف کروٹ لینا بھی بعض بیماریوں کی وجہ سے جو دائیں طرف لیٹنے سے بڑھتی ہیں ضروری ہو جاتا ہے.تو یہ کوئی شرعی
خطبات طاہر جلد 17 507 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء مسئلہ نہیں ہے کہ ضرور دائیں طرف لیٹا جائے مگر اوندھے لیٹنے کو حضور اکرم صلی تم اس لئے ناپسند فرماتے تھے کہ اللہ نا پسند فرماتا ہے اور یہ ایک عجیب طبی حقیقت ہے کہ اکثر وہ بچے جن کو مائیں الٹا ڈال دیتی ہیں اکثر تو نہیں مگر ان میں سے بہت سے بچے جن کو مائیں الٹا ڈالتی ہیں ان کا سانس بند ہو جاتا ہے اور وہ سوتے ہی میں فوت ہو جاتے ہیں.پس طبی لحاظ سے بھی یہ ایک مضر بات ہے اوندھے منہ نہیں سونا چاہئے.ایک روایت حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے لی گئی ہے یعنی ابن عمر بھی صحابی تھے اور حضرت عمر بھی صحابی تھے اس لئے عنہما کہنا چاہئے.حضرت ابن عمر نے اپنے باپ عمر سے بیان کیا ہے رضی اللہ عنہما.اللہ ان دونوں سے راضی ہو.وہ کہتے ہیں کہ : آنحضرت مصلال الہی ہی سفر کے ارادہ سے جب اونٹ پر بیٹھ جاتے تھے تو تین بار تکبیر کہتے اور پھر یہ دعا مانگتے ، پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا.“ اب آپ میں سے میرا نہیں خیال کہ کوئی آنے والا بھی اونٹ پر بیٹھا ہو سوائے اس کے کہ ڈیرہ غازی خان کے کچھ لوگ اونٹ پر بیٹھ کر گاڑی تک پہنچے ہوں یہ الگ مسئلہ ہے لیکن مراد سواری ہے.آج کی جو سواری ہے وہ اونٹ کا قائم مقام ہے اِذَا الْعِشَارُ عُقِلتُ (التكوير : 5) جب بہتر سواریاں ایجاد ہو جائیں گی اور اونٹنیوں کو بریکار چھوڑ دیا جائے گا.یہ آیت بتا رہی ہے کہ اونٹ سے مراد یہاں صرف سواری ہے.د تین بار تکبیر فرماتے پھر دعا مانگتے پاک ہے وہ ذات جس نے اسے ہمارے تابع فرمان کیا.سُبُحْنَ الَّذِى سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (الزخرف: 14) حالانکہ ہم میں اسے قابورکھنے کی طاقت نہیں تھی ہم اپنے رب کی طرف ہی جانے والے ہیں.اے ہمارے خدا! ہم تجھ سے اپنے اس سفر میں بھلائی اور تقویٰ چاہتے ہیں.تو ہمیں ایسے نیک عمل کرنے کی توفیق دے جو تجھے پسند ہوں.اے ہمارے خدا! تو ہی ہمارا یہ سفر آسان کر دے اور اس کی ڈوری کو لپیٹ دے.“ دوری کو لپیٹ کا مطلب یہ ہے کہ جیسا کہ آپ لوگ بڑی بڑی دور سے ہوائی جہازوں پر بھی آئے ہیں، رستے میں کوئی تکلیف نہ ہو کہ سفر لمبا محسوس ہو.آتی دفعہ تو آپ کو یہ دعا یاد نہیں تھی لیکن جاتی دفعہ تو یاد ہوگی.اس لئے جاتی دفعہ کی تکلیفوں سے بچنے کے لئے بھی یہ دعا کریں.
خطبات طاہر جلد 17 508 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء ”اے ہمارے خدا! تو اس سفر میں ہمارے ساتھ ہو اور پیچھے گھر میں خبر گیر ہو.اے ہمارے خدا! میں تیری پناہ مانگتا ہوں سفر کی سختیوں سے، ناپسندیدہ اور بے چین کرنے والے مناظر سے، مال اور اہل وعیال میں بُرے نتیجے سے اور غیر پسندیدہ تبدیلی سے.“ کوئی پہلو بھی ایسا نہیں جس کو حضور اکرم صلی ایتم نے نظر انداز فرما دیا ہو.سفر کے دوران جو کچھ پیش آسکتا ہے ان سب کے لئے آپ صلی اشیا کی تم نے دعا کی ہے کہ اچھی باتیں تو پیش آئیں سفر سے وابستہ کوئی بری باتیں پیش نہ آئیں اور پیچھے رہ جانے والوں کے لئے بھی دعا کی ہے جن کی طرف لوٹ کر جارہے ہیں ان کے لئے بھی دعا کی ہے.غیر پسندیدہ تبدیلی.“ اس دعا میں صرف گھر والے ہی پیش نظر نہ رکھیں بلکہ ملک والے بھی پیش نظر رکھیں.آج تک تو ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہر تبدیلی نا پسند یدہ ہی ہو رہی ہے.پس شاید آپ جو یلہ سفر کر کے یہاں آئے ہیں آپ کی دعاؤں کی برکت سے واپسی پہ آپ کچھ اچھی تبدیلیاں بھی دیکھ لیں.تو محض گھر والوں کے لئے اچھی تبدیلیوں کی نہیں بلکہ اپنے اہل وطن کے لئے بھی اچھی تبدیلیوں کی دعا کرتے ہوئے جائیں.پھر جب آپ سفر سے واپس آتے تو یہی دعا مانگتے اور اس میں یہ زیادتی فرماتے.“ یعنی سفر سے واپسی والوں کے لئے یہ زیادتی ہے اس دعا میں آتی دفعہ بھی پچھلوں کے لئے یہ دعامانگا کرتے تھے کہ جب ہم واپس جائیں تو یہ کچھ ہو.واپسی پر بھی بعینہ وہی دعا مانگتے تھے مگر اس میں ایک چیز کا اضافہ فرما دیتے تھے.”ہم واپس آئے ہیں تو بہ کرتے ہوئے عبادت گزار اور اپنے رب کی تعریف میں رطب اللسان بن کر 66 (صحیح مسلم ، کتاب الحج، باب استحباب الذكر اذا ركب دابته ، حدیث نمبر : 3275) تو یہاں جلسہ پر جو آپ سیکھیں گے اس کے نتیجے میں آپ کو زیب دے گا کہ یہ بھی اس سفر کی دعا میں شامل کر لیں کہ اے ہمارے رب ہم تو بہ کرتے ہوئے تیری طرف لوٹ رہے ہیں، عبادت گزار بنتے ہوئے اور اپنے رب کی تعریف میں رطب اللسان ہوتے ہوئے.عبادت کے مضمون پر میں بہت سے خطبات دے چکا ہوں مگر جلسہ کے دوران عبادت کی طرف متوجہ کرنے کے لئے یہ حدیث میرے کام آئی ہے.جب واپسی پہ عبادت گزار کا ذکر فرمایا گیا ہے تو معلوم ہوا کہ سفر کے دوران جو
خطبات طاہر جلد 17 509 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء پہلے پوری طرح عبادت گزار نہیں تھے وہ پہلے سے بڑھ کر عبادت گزار ہو گئے.تو یہاں اگر آپ عبادت کے ڈھنگ سیکھیں گے تو واپسی پہ یہ دعامانگ سکیں گے.حضرت خولہ بنت حکیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی ایام کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جو شخص کسی مکان میں رہائش اختیار کرتے یا کسی جگہ پڑاؤ ڈالتے وقت یہ دعا مانگے، میں اللہ تعالیٰ کے مکمل کلمات کی پناہ میں آتا ہوں اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پناہ مانگتا ہوں تو اس شخص کو وہاں رہائش ترک کرنے یا اس جگہ سے کوچ کرنے تک کوئی چیز نقصان نہیں پہنچائے گی.“ (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب فى التعوذ من سوء القضاء...،حدیث نمبر : 6878) اب یہ خیال کریں گے کہ منہ سے یہ دعا کرنے کے نتیجے میں پیچھے ہر گز کسی قسم کا کوئی نقصان نہیں ہوگا تو اس کا مطلب ہے آپ نے اس کے مرکزی پیغام کو سمجھا نہیں ، میں اللہ تعالیٰ کے کلمات کی پناہ میں آتا ہوں مکمل طور پر اور اس شر سے جو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے پناہ چاہتاہوں.تو جو شر سے پناہ مانگ رہا ہے وہ شر سے پناہ دینے والا بھی ہوگا.اگر شر سے پناہ دینے والا نہ ہو تو اس کے حق میں یہ وعدہ پورا نہیں ہوسکتا کہ شروع سفر سے واپسی تک اس کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا لیکن اگر اس طرح لازماً اللہ کی پناہ مانگے کہ خود بھی لوگوں کو شر سے پناہ دینے والا ہو اور اس سے کوئی شر کسی کو نہ پہنچے تو مجھے کامل یقین ہے کہ اس کو کوئی چیز بھی گزند نہیں پہنچائے گی.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی سے تعلق رکھنے والی روایات میں سے جو بکثرت ہیں صرف چند چن کے آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں جو میرا خیال ہے شاید پہلے بیان نہ ہوئی ہوں اور اگر بیان ہو بھی گئی ہوں تو آج کل کے موقع پر ان کا دوہرانا مناسب ہے.سید حبیب اللہ صاحب کو مخاطب کر کے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: " آج میری طبیعت علیل تھی اور میں باہر آنے کے قابل نہ تھا مگر آپ کی اطلاع ہونے پر میں نے سوچا کہ مہمان کا حق ہوتا ہے جو تکلیف اٹھا کر آیا ہے اس واسطے میں اُس حق کو ادا کرنے کے لئے باہر آ گیا ہوں.“ ( البدر جلد 6 نمبر 13 صفحہ:8 مؤرخہ 28 مارچ1907ء)
خطبات طاہر جلد 17 510 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء مجھے اس روایت کے بیان کرنے سے بعض باتیں مقصود ہیں.اوّل یہ کہ قطع نظر اس کے کہ میں علیل ہوں یا نہ ہوں میں ہمیشہ یہ پوری کوشش کرتا ہوں کہ آنے والے مہمانوں کی خاطر ان کے لئے ملاقات کا وقت نکالوں لیکن اللہ کا فضل ہے کہ میں علیل نہیں ہوں لیکن اس کے باوجو دلوگ سمجھتے ہیں کہ میری ہمدردی زیادہ لیں گے اس بات پر کہ اگر وہ غور سے مجھے دیکھیں کہ کوئی علالت کی علامت ان کو دکھائی دے جائے اور اس پر وہ کہیں کہ اوہو آپ تو علیل ہیں.یہ طریق نا مناسب ہے.حضر نہ اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام علیل تھے بھی ، ہوتے بھی تھے تو کوئی نہیں کہا کرتا تھا کہ آپ علیل لگ رہے ہیں.تو اخلاق حسنہ کا یہ تقاضا ہے تب ہی میں بار بار جماعت کو سمجھاتا ہوں کہ بعض لوگ تو اس طرح گہری اترنے والی نگاہوں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ ان نگاہوں سے بھی گھبراہٹ ہوتی ہے.وہ چاہتے ہیں کوئی علامت مل جائے جس پہ وہ اپنی ہمدردی کا اظہار کرسکیں اور اگر وہ علامت نہ ملے تو پھر صحت کے متعلق لازماً ذکر شروع کر دیتے ہیں.بھئی اپنی ملاقات کرو، اپنے کام سے کام رکھو، اپنی صحت کے متعلق دعامانگنے کی درخواست بے شک کرو مگر میرے معاملہ میں مہربانی فرما کر دخل نہ دیا کرو کیونکہ اس سے مجھے الجھن پیدا ہوتی ہے.میں جب حاضر ہوں، ہر حال میں حاضر ہوں ، بیمار ہوں تب بھی حاضر ہوں تو پھر آپ کا کیا حرج ہے.میری بیماری کو مجھ پر اور میرے خدا پر چھوڑ دیں اگر کوئی ہولیکن میں آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ مجھے کوئی بیماری نہیں ہے، میں بالکل ٹھیک ہوں اور پہلے سے بہت بہتر ہوں.خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ آج کل جو میں اپنے اوپر محنت کر رہا ہوں وہ خاص قسم کی غذا کھاتا ہوں ، خاص غذاؤں سے پر ہیز کرتا ہوں اور اس کے علاوہ سیر میں بہت با قاعدگی کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ میری سیر کے دوران جو پہلے ایک گھنٹے کی ہوا کرتی تھی میں نے محسوس کیا ہے کہ از خود مجھ میں طاقت آگئی ہے اور میں وہی گھنٹے کی سیر پینتالیس منٹ میں کر لیتا ہوں.بعض دفعہ اس سے بھی کم اور بعض دفعہ میرے ساتھیوں کو دوڑنا پڑتا ہے.تو یہ وہ اس زمانے کی باتیں ہیں جب میں نیا نیا یہاں آیا تھا اور دن بدن اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس میں بہتری ہورہی ہے تو جب خدا نے اتنا احسان فرمایا ہے تو کیا ضرورت ہے آپ کو دخل اندازیوں کی.میں خدا کے فضل سے بالکل ٹھیک ہوں.اب بعض دفعہ مجھے کھانسی بھی ہو جاتی ہے تھوڑی سی ، آپ کو یاد ہونا چاہئے کہ حضرت مصلح موعود کو
خطبات طاہر جلد 17 511 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء مسلسل کھانسی ہوتی تھی.حضرت مصلح موعودؓ کو جب کھانسی ہوتی تھی تو یہ بھی یادرکھیں کہ آپ نے کبھی بھی اس وقت کے بہترین ایلو پیتھک علاج سے اجتناب نہیں فرمایا اس کے باوجو دساری عمر کھانسی لگی رہی اور بولنے والوں کو طبعاً کھانسی ہو بھی جاتی ہے.تو یہ اللہ کا بہت احسان ہے کہ میں چونکہ اپنا علاج ساتھ ساتھ خود کرتا رہتا ہوں اس لئے بہت حد تک کھانسی سے بچ گیا ہوں.اس زمانہ میں کب لوگ حضرت مصلح موعودؓ کو کہہ کے تنگ کیا کرتے تھے کہ او ہو اب آپ کو کھانسی ہوئی ، اب آپ کو کھانسی ہوئی ، اب آپ کو کھانسی ہوئی.وہ قہوہ پیتے جاتے تھے اور کھانسی ہوتی جاتی تھی.تو آپ کی یہ باتیں آپ کے دخل دینے والی ہیں ہی نہیں ، ان کو بالکل چھوڑ دیں.جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے مجھے خدا کے فضل سے اگر کھانسی اٹھی بھی تو ہر گز کوئی تکلیف محسوس نہیں کرتا.نہ چھاتی میں، نہ گلے میں، ادنیٰ سا بھی درد کا احساس نہیں ہوتا.کثرت سے بولنے کے نتیجے میں بعض دفعہ ہلکی سی ایک خراش سی پیدا ہوتی ہے جس کے نتیجے میں کھانسی اٹھتی رہتی ہے.اگر ایسا ہو جو میری صورت میں اب بہت کم ہوتا ہے تو ہونے دیں، ہرگز کوئی فکر کی بات نہیں ہے.اب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک روایت آپ کے سامنے رکھتا ہوں جس میں ہمارے لئے جلسہ کے دنوں میں بہت سے سبق ہیں.فرمایا: اگر کوئی مہمان آوے اور سب و شتم تک بھی اس کی نوبت پہنچے، تو تم کو چاہئے کہ چپ کر رہو.جس حال میں کہ وہ ہمارے حالات سے واقف نہیں ہے نہ ہمارے مریدوں میں وہ داخل ہے تو کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب چاہیں جو ایک مرید کو کرنا چاہئے.“ اب اس میں دو باتیں ہیں.ایک یہ کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مریدوں سے ہرگز توقع نہیں رکھتے تھے کہ وہ سب وشتم سے کام لیں.پس اگر کوئی سب و شتم یعنی گالی گلوچ سے کام لے رہا ہے تو آپ کو توقع رکھنی چاہئے کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مرید نہیں ہے اور جو مرید ہے اسے سوچنا چاہئے کہ اس سے مسیح موعود کو کیا تو قع تھی.جو سنے والا ہے وہ یہی سمجھے کہ یہ مرید نہیں ہے اور صبر سے کام لے اور جو مرید ہے وہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے کیا کر رہا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس سے کیا تو قع تھی.فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 512 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء ( جو ایک ) یہ بھی ان کا احسان ہے کہ نرمی سے بات کرتے ہیں ( یعنی باہر سے آنے والے مہمان اکثر خوش خُلق ہی ہوتے ہیں ) خدا کرے کہ ہماری جماعت پر وہ دن آوے کہ جو لوگ محض نا واقف ہیں اگر وہ آویں تو بھائیوں کی طرح سلوک کریں.“ ( البدر جلد 2 نمبر 7 صفحہ:51،مؤرخہ 6 مارچ 1903ء) بعض دفعہ جلسہ کے دنوں میں موسم بھی خراب ہو جاتا ہے.اس خراب موسم میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیا توقع رکھتے ہیں.فرمایا: " آج کل موسم بھی خراب ہے اور جس قدر لوگ آئے ہوئے ہیں یہ سب مہمان ہیں اور مہمان کا اکرام کرنا چاہئے.( اس میں احمدی اور غیر احمدی مہمان کا فرق نہیں کیا گیا.مسلم غیر مسلم کا فرق نہیں کیا گیا) اس لئے کھانے وغیرہ کا انتظام عمدہ ہو اگر کوئی دودھ مانگے ( تو ) دودھ دو، چائے مانگے ( تو ) چائے دو.کوئی بیمار ہو تو اس کے موافق الگ کھانا اسے پکا دو.“ (البدر جلد 2 نمبر 33 صفحہ : 358 ، مؤرخہ 4 ستمبر 1903ء) اب مجھے یہ تو علم نہیں کہ دودھ کا کوئی انتظام جماعت کی طرف سے ہوتا ہے یا نہیں مگر مسلسل چائے کا لنگر تو جاری رہتا ہے اور اس کے علاوہ پر ہیزی کھانا یا ایسا کھانا جو پر ہیزی تو نہیں مگر بیمار بھی کھا سکتے ہیں ایسے کھانے کا انتظام ہوتا ہے.ایک موقع پر آپ نے میاں نجم الدین جو مہتم لنگر خانہ تھے ان کو بلا کر فرمایا: دیکھو بہت سے مہمان آئے ہوئے ہیں ان میں سے بعض کو تم شناخت کرتے ہو اور بعض کو نہیں اس لئے مناسب یہ ہے کہ سب کو واجب الاکرام جان کر تواضع کرو.(خواہ پہچانو یا نہ پہچانو ، ہوسکتا ہے کہ کسی قوم کا کوئی معزز شخص بھی ہو.ہر ایک سے ایسا سلوک کرو گویا ہر ایک شخص صاحب اکرام ہے ) سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.( یہاں جماعت U.K کے لئے کچھ آسانی ہے دودھ کا ذکر نہیں ) سردی کا موسم ہے چائے پلاؤ اور تکلیف کسی کو نہ ہو.تم پر میرا حسن ظن ہے کہ مہمانوں کو آرام دیتے ہو.ان 66 سب کی خوب خدمت کرو.اگر کسی گھر یا مکان میں سردی ہو تو کٹڑی یا کوئلہ کا انتظام کر دو.“ ( البدر جلد 3 نمبر 2 صفحہ : 13 ، مؤرخہ 8 جنوری 1904ء)
خطبات طاہر جلد 17 513 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء بعض علاقوں کے مہمانوں کو سردی نہ بھی ہو تو سر دی بہت لگتی ہے اور پاکستان کی شدید گرمی سے آنے والوں میں سے بھی کئی ایسے ہیں جو مجھے ملنے آتے ہیں تو کہتے ہیں یہاں سردی ہے حالانکہ سردی وردی کچھ نہیں لیکن آب و ہوا کی تبدیلی سے یہ ہو جاتا ہے.انڈونیشیا کے مہمان جب بھی آتے ہیں وہ خواہ گرمی ہو، وہ سردی سے کانپ رہے ہوتے ہیں.اس لئے ان کی بیرکس میں میں نے کہا ہوا ہے کہ ہمیشہ ہیٹرز وغیرہ کا انتظام کرو کیونکہ یہ ان کی آب و ہوا کے نتیجہ میں ان کا حق تم پر ہے.مولوی حسن علی صاحب مرحوم نے اپنے واقعہ کا خود اپنے قلم سے ذکر کیا جو ان کی کتاب تائید حق میں چھپا ہے.آپ فرماتے ہیں: مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا.“ یہ حضرت مولوی حسن علی صاحب کے احمدیت قبول کرنے سے پہلے کے سفر کا حال ہے جو انہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد بعینہ اسی طرح لکھا جو اس سفر میں آپ نے محسوس کیا اور دیکھا.کہتے ہیں: ”مرزا صاحب کی مہمان نوازی کو دیکھ کر مجھ کو بہت تعجب سا گزرا.ایک چھوٹی سی بات لکھتا ہوں جس سے سامعین ان کی مہمان نوازی کا اندازہ کر سکتے ہیں.مجھ کو پان کھانے کی بُری عادت تھی.جس زمانہ میں یہ لکھا گیا غالباً اس وقت پان چھوڑ بیٹھے ہوں گے.کہتے ہیں: مجھ کو پان کھانے کی بری عادت تھی.امرتسر میں تو مجھے پان ملالیکن بٹالہ میں مجھ کو پان کہیں نہ ملا.ناچارالا چی وغیرہ کھا کرصبر کیا.میرے امرتسر کے دوست نے کمال کیا کہ حضرت مرزا صاحب سے نہ معلوم کس وقت میری اس بری عادت کا تذکرہ کر دیا.جناب مرزا صاحب نے گورداسپور ایک آدمی کو روانہ کیا.دوسرے دن گیارہ بجے دن کے جب کھانا کھا چکا تو پان موجود پایا.سولہ کوس سے پان میرے لئے منگوایا گیا تھا! “ (رساله تائید حق از مولوی حسن علی صاحب صفحه :50) ی تھی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی مہمان نوازی.یہ اس مہمان نوازی کا عالم تھا جس میں کوئی ریا کا شائبہ تک نہیں.مہمان سمجھتا تھا کہ پان یہاں مہیا نہیں ہوسکتا.بٹالہ میں نہیں تو قادیان میں کہاں سے ہو گا لیکن حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سولہ میل دور گورداسپور آدمی بھیجا اور ان کو ان کی عادت کے مطابق پان پیش فرما دیا.
خطبات طاہر جلد 17 514 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء اب میں حسب سابق جلسہ پر آنے والوں اور ان کے مہمان نوازوں کو عمومی نصائح کرتا ہوں جو ہر اس خطبہ میں کیا کرتا ہوں جو جلسہ سے پہلے کا خطبہ ہوتا ہے.قرض لینا.بعض لوگوں کو قرض لینے کی عادت ہوتی ہے اور جن کو عادت ہوتی ہے ان کو واپسی کی عادت نہیں ہوتی.اس لئے اگر کوئی بد قسمتی سے ایسے لوگ آگئے ہوں تو ان کو خیال کرنا چاہئے کہ یہ اللہ کے میز بانوں کا اللہ کے مہمانوں پر حق ہے کہ ان کو نا جائز تکلیف نہ دی جائے.یہاں جتنے لوگ آپ کی میزبانی کریں گے ان سے قرض نہ مانگا کریں اور ان کو چھوڑ کر آپس میں بھی ایک دوسرے سے نہ مانگا کریں کیونکہ جن کو یہ عادت ہے میں جانتا ہوں کہ ان کو نہ دینے کی عادت بھی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود واقعی ضرورت پڑسکتی ہے.میں نے اس سے پہلے اس بات کا انتظام کیا تھا کہ جن کو واقعی ضرورت ہو وہ نظام جماعت سے رابطہ کریں.امیر صاحب سے بات کریں یا مجھے لکھیں.بتائیں کہ کیا ضرورت پیش آگئی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیشہ سچی ضرورت کو ضرور پورا کیا گیا ہے.تو کیوں اپنے آپ کو ابتلا میں ڈالتے ہیں یا دوسروں کو ابتلا میں ڈالتے ہیں.لین دین کے معاملہ میں صاف ہو جا ئیں.جو گھر کے عزیز رشتہ دار ہوں ان پر تین دن یا پندرہ دن کی کوئی پابندی نہیں ہے.وہ رشتہ دار رشتہ داروں کے پاس آتے رہتے ہیں ان کا آپس کا ایک سلوک ہے جو روایتا چلتا ہے.بعض رشتہ دار، بعض رشتہ داروں کو اپنے گھر مہینوں رکھنا چاہتے ہیں اور ان کے جانے سے ان کو تکلیف ہوتی ہے اور یہ ایسی باتیں ہیں جن کو الگ الگ لکھا نہیں جا سکتا، الگ الگ بیان نہیں کیا جا سکتا مگر آپس کے تعلقات ہیں جو خود بخو د اس بات کو واضح کرتے ہیں.تو ایسے آنے والے رشتہ دار اپنے آپ کو مستقی سمجھیں، تین دن اور پندرہ دن سے.جن کے عزیز اور اقرباء ان کو ہمیشہ اپنے گھر ٹھہراتے اور اصرار کرتے ہیں کہ وہ ٹھہرے رہیں لیکن ان میں سے کچھ مستی بھی ہیں اس بنا پر کہ وہ رشتہ دار ہیں از خود ان کو پندرہ دن سے زیادہ یا تین دن سے زیادہ ٹھہرنے کا حق نہیں پہنچتا.اس لئے اگر دونوں طرف سے لین دین کا معاملہ ہوتو یہ ایک معروف بات ہے.مگر یہ سمجھ کر کہ کوئی رشتہ دار ہے آپ اس کے گھر ٹھہر جائیں اور میرے اس خطبہ کا حوالہ دے کر کہیں اب ہمیں چھٹی ہے جتنی دیر مرضی ٹھہریں تو وہ غلط اور جھوٹا حوالہ ہوگا.یہ آپس کے تعلقات کا معاملہ ہے جس کو انگریزی میں Reciprocal کہتے ہیں، Reciprocal ہوتا ہے یعنی دونوں طرف سے ایک ہی قسم کا معاملہ ہوتو وہی مناسب ہے.
خطبات طاہر جلد 17 515 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء أَفَشُوا السّلام کا ارشاد ہے یعنی آنحضرت سلی یا کہ تم نے فرمایا : سلام نشر کرو.(سنن ابن ماجه، كتاب الأطعمة، باب اطعام الطعام، حدیث نمبر : 3251) اور یہ عادت آپ ڈالیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی روایت میں نے بیان کی ہے اس میں بھی سلام سے بات شروع ہوئی ہے.پس سلام کہنے سے دو باتیں پیش نظر رہیں گی.ایک تو یہ کہ آپ ہر آنے والے کی عزت کر رہے ہوں گے.دوسرا یہ کہ سلام کہہ کر آپ اس کو مطمئن کر رہے ہوں گے کہ آپ کی طرف سے اسے کوئی خطرہ نہیں ہے.آپ کی طرف سے وہ یقیناً امن کی حالت میں رہے گا.پس ان دونوں باتوں کوملحوظ رکھتے ہوئے سلام پھیلانے کی عادت ڈالیں.خواتین کو میں ہمیشہ نصیحت کرتا ہوں کہ پردے کا لحاظ رکھیں لیکن مشکل یہ ہے کہ بعض مہمان خواتین بھی آتی ہیں اس لئے اگر کوئی ایسی مہمان خاتون ہو جس نے سنگھار پٹار بھی کیا ہو اور پردے کا بھی لحاظ نہ ہو یہ خیال کرنا چاہئے کہ وہ غالباً احمدی نہیں ہے لیکن بعض دوسرے دوست جو مثلاً عرب ممالک سے تشریف لاتے ہیں وہ ہر خاتون سے اسی طرح کے پردے کی توقع رکھتے ہیں جو ہم جماعت میں رائج کر رہے ہیں اور بعض لوگوں نے جا کر پھر مجھے اعتراض کے خط بھی لکھے کہ ہم تو بڑی توقع لے کر آئے تھے کہ آپ پر دے کا بہترین نمونہ دکھا رہے ہونگے مگر ہم نے ایسی عورتیں دیکھیں جو پوری طرح سنگھار پٹار کر کے، کٹے ہوئے بال ، سر پر چھنی نہیں اسی طرح پھر رہی تھیں.تو اول تو یہ خیال کریں کہ اعتراض میں جلدی نہیں کرنی چاہئے.مومن، مومن پرحسن ظن کرتا ہے اس لئے حسن ظن سے کیوں کام نہیں لیتے اور جو منتظمین ہیں ان کے لئے بھی مناسب نہیں ہے کہ ایسی عورتوں کو سخت لفظوں میں یا دوٹوک لفظوں میں کہیں کہ تم پردہ کر کے پھرو.بعض دفعہ وہ عورتیں جن کو عادت ہوتی ہے وہ اس بات کو برا مناتی ہیں.بعض دفعہ بعض احمدی خواتین ہیں جو نئی احمدی ہوئی ہیں ان کو بعض احمدیت کے رواجوں کا پتا نہیں.کچھ ایسے لوگ ہیں جو بیماری کی وجہ سے مجبور ہیں.سر کو پوری طرح ڈھانپ نہیں سکتے.تو احمدی خواتین کے لئے تو لازم ہے کہ اگر انہوں نے کسی مجبوری سے پردہ نہیں کرنا تو سرکو ڈھانپیں.یہاں ہماری اُردو کلاس کی بچیوں کو اور چلڈرن کلاس کی بچیوں کو میں نے نصیحت کی تھی.آپ دیکھیں گے تو حیران رہ جائیں گے کہ کتنی تبدیلی پیدا ہوئی ہے.یہاں کی پلی بڑھی بچیاں چھوٹی چھوٹی عمر کی اس احتیاط سے اپنے سر کو ڈھا نپتی ہیں کہ دل عش عش کر اٹھتا ہے تو اسی
خطبات طاہر جلد 17 516 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء پاک نمونہ کو آپ لوگ بھی پکڑیں.جو باہر سے آنے والی پاکستان سے آنے والی بچیاں یا دوسرے ممالک سے آنے والی بچیاں ہیں ان میں بعض اوقات میں نے ناحق آزادی کا رجحان دیکھا ہے.ان کو پتا نہیں کہ انگلستان کی بچیاں اللہ کے فضل سے بہت بلند ہو چکی ہیں اور جو باہر سے آنے والی ہیں وہ لاہور کا معاشرہ ، کراچی کا معاشرہ، پنڈی کا معاشرہ ، وہ لئے ہوئے آئی ہیں اور وہاں آج کل بے پردگی عام ہو رہی ہے اس لئے یہ نہ سمجھیں کہ آپ اپنی عادات ان کو سکھانے آئی ہیں.آپ نے ان سے عادات سیکھنی ہیں.تو اگر آپ احمدی ہیں اور مہمان کے طور پر آئی ہیں تو جلسہ کے دنوں میں آپ پر فرض ہے اور آپ کے ماں باپ پر فرض ہے کہ آپ کو سلیقے کے ساتھ چلنا پھرنا سکھائیں.اگر پردے کی عمر نہیں بھی لیکن اتنی عمر ہو گئی ہے جو بیچ بیچ کی عمر ہوتی ہے جہاں پردہ پورا کرو نہ کرو درمیان میں اختیار ہوتا ہے اس عمر کی بچیوں کو خصوصیت کے ساتھ اپنے سرکو اور اپنی چھاتی کو ڈھانپ کر رکھنا چاہئے اور ڈھانپتے وقت بالوں کی نمائش نہیں ہونی چاہئے.بعض سر پر دوپٹہ اور پیچھے سے کٹے ہوئے بال نمایاں لہراتی پھرتی ہیں.بعض عورتیں ایسا بھی کرتی ہیں.مجھے ملاقات کے دوران ان سے واسطہ پڑتا ہے.مجھے تکلیف تو ہوتی ہے مگر اس وقت جیسا کہ اکرام کا حق ہے میں مجبوراً ان کو دو ٹوک نہیں کہتا لیکن بعض دفعہ بعد میں ان کے ماں باپ کو سمجھا دیتا ہوں.تو اس موقع پر ہر قسم کی آنے والیاں ہوں گی ان کا لحاظ کریں اور لجنہ کی جو سلیقے والی بچیاں ہیں جن کو بات کرنے کا اچھا سلیقہ آتا ہے ان کی ڈیوٹی ہونی چاہئے کہ ایسی عورتوں اور لڑکیوں کو علیحدگی میں نرم الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کریں.فذكر إِنْ نَفَعَتِ الذِكرى ( الاعلى : 10) نصیحت ضرور فائدہ پہنچاتی ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس جلسہ میں اس پہلو سے بھی ان کو سدھارنے کا انتظام ہوگا.بہر حال جن کو نقاب میں کوئی دقت ہے بعض دفعہ طبی لحاظ سے وقت ہوتی ہے ان کا پھر یہ حق نہیں کہ سرخی پاؤڈر لگا کر اپنے آپ کو پوری طرح سجا کر باہر پھریں.رستوں کا حق.آنحضرت صلی للہ کی تم نے اس کو بھی ایمان کا ادنی شعبہ قرار دیا ہے کہ رستوں کا حق ادا کرو اور رستوں کے حق میں جو باتیں بیان فرمائی ہیں وہ خلاصہ میں ہر جمعہ پر جو ان دنوں میں آیا کرتا ہے پہلے بھی بیان کرتارہا ہوں اب پھر بیان کر رہا ہوں.ایک تو یہ کہ جو بازار یاد کا نہیں وغیرہ ہیں ان کے ارد گرد جم گھٹ لگا کر کھڑا نہ ہوا کریں.جو چیز خریدی، لیں اور الگ کھلی جگہ جا کر اس کو کھائیں پئیں.
خطبات طاہر جلد 17 517 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء بعض لوگ کبابی کی دکان پر کھڑے ہیں تو ہر کباب کے اترنے کا انتظار ہو رہا ہے اور پیچھے لائنیں لگی ہوئی ہیں وہ جگہ ہی نہیں چھوڑتے.اپنی چیز مرضی کی لیں اور الگ ہو جائیں اور اگر اتنا الگ الگ گرم کباب کھانے کا شوق ہے تو گھر میں بنائیں ، بازار کا حق بہر حال ادا کریں.اور دوسرا جم گھٹا لگا کر دکانوں پر کھڑا ہونا ہی معیوب نہیں بلکہ گروہ در گروہ ٹولیوں کی صورت میں قہقہے لگاتے شور مچاتے ہوئے پھرنا بھی ناواجب بلکہ بعض دفعہ گناہ بن جاتا ہے اور یہ بھی رستوں کے حق کے خلاف ہے.رستوں سے مراد یہ نہیں کہ سڑکیں ہی ہوں پبلک جگہیں جو عامۃ الناس کے چلنے پھرنے کی جگہیں ہیں وہ بھی رستوں میں شمار ہوں گی.ایسے لوگ ہم نے دیکھے ہیں جو ٹولیاں بنا کر پھرتے ہیں اور آپس میں مذاق اڑا رہے ہیں اور قہقہے مارتے جا رہے ہیں.ان کو یہ احساس نہیں ہوتا کہ جو دوسرے دیکھنے والے ہیں ان پر برا اثر پڑتا ہے بلکہ بعض اوقات ایک راہ گیر اور خاص طور پر اگر کوئی باہر کا ہو وہ یہ سمجھتا ہے کہ مجھ پر مذاق اڑایا گیا ہے.عین اس وقت قہقہ لگاتے ہیں جب وہ پاس سے گزرا ہے اور اس سے اس کی سخت دل شکنی ہوتی ہے.بعض دفعہ اس کے نتیجے میں لڑائی بھی شروع ہو جاتی ہے.تو اس بات کا بھی خاص طور پر خیال رکھیں کہ اگر ٹولیوں میں پھرنا ہے تو خاموشی سے پھریں ، آہستہ باتیں کرتے ہوئے پھریں، ہر گزا اپنی آوازوں کو بلند نہ کریں اور ہر گز کسی کی دل شکنی کا موجب نہ بنیں خواه ارادہ یا غیر ارادی طور پر ہو.تکلیف دہ چیزوں کا رستہ سے اٹھانا.یہ بھی ایمان کے شعبوں میں سے ایک ادنی شعبہ ہے اگر کوئی ایسی چیز نظر آئے مثلاً کیل کانٹ وغیرہ یا کیلے کا چھلکا تو یہ انتظار نہ کریں کہ جن لوگوں کی ڈیوٹی ہے اس کام پر وہی اس کو دور کریں گے.ایسی چیز کو تو فوراً دور کرنا چاہئے اور اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ خود یہ چیزیں نہ پھیلائیں.اگر تکلیف دہ چیز میں اٹھانے کا حکم ہے تو پھیلا نا تو اور بھی بری بات ہے.یہ اچھی بات ہے تو پھیلا نا گناہ بن جائے گا کیونکہ اس کا دور کرنا فرض ہے.اس لئے میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنی جیبوں میں ایک چھوٹا سا پلاسٹک کا تھیلا (Bag) رکھ لیا کریں.اس سے جیب پھولتی بھی نہیں معمولی سا ہوتا ہے کہیں آپ نے کوئی چیز پھینکنی ہو، کچھ کھارہے ہوں اس کاWaste کیلے کا چھلکا مثلاً یہ اگر آپ نے کہیں ڈالنا ہو تو اپنی جیب سے تھیلا نکالا اس میں ڈال دیا اور وہی تھیلا آپ کے کام آئے گا.جب آپ کوئی خطرناک چیز رستہ میں دیکھیں گے تو اس کو اٹھا کر ہاتھوں میں لڑکائے ہوئے نہیں پھریں
خطبات طاہر جلد 17 518 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء گے بلکہ اسی تھیلے میں ڈال لیا کریں تو بہر حال اس کا جیب میں ڈالنا ضروری تو نہیں ہے اس کو پھر ہاتھ میں پکڑے رکھیں.جب کوئی ڈسٹ بن (Dust Bin) آئے تو اس کو اس میں پھینک دیا کریں.اب کچھ امور آخر پر حفاظتی نقطہ نگاہ سے میں آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں.جماعت احمدیہ کا جو حفاظت کا نظام ہے یہ کل عالم میں یکتا ہے اور اس میں ادنی سا بھی مبالغہ نہیں.دُنیا میں کہیں کسی اجتماع پر یا کسی دُنیا کے بڑے سربراہ کے لئے حفاظت کا ایسا موثر انتظام نہیں ہوتا جتنا جماعت احمدیہ میں روایتیا رائج ہو چکا ہے.اس کے کچھ پہلو ہیں جو میں آپ کے سامنے کھول کر بیان کرنا چاہتا ہوں.ایک تو یہ کہ ہر احمدی نگران ہوتا ہے اور خاص طور پر وہ احمدی جو بڑے اخلاص سے خلیفہ وقت سے ملنے آئے ہیں وہ ان کے خطوں سے پہلے بھی لگ رہا ہے، یہاں آنے کے بعد بھی کہ ان کو فکر رہتی ہے کہ اتنے بڑے اجتماع میں حفاظت کا پورا انتظام ہے کہ نہیں.تو ان کو میں یہ نصیحت کر رہا ہوں ، باقیوں کو بھی کہ سب سے بڑی حفاظت کا انتظام تو آپ خود ہیں.آنکھیں کھول کر پھر میں اور جس شخص سے بھی آپ کو احساس ہو کہ خطرہ ہو سکتا ہے اس کے متعلق چند باتیں پلے باندھ لیں.بعض دفعہ بڑے مخلص احمدی ہوتے ہیں مگر ان کی شکل صورت ایسی ہوتی ہے کہ بعض دوسروں کو ان سے کچھ ڈر بھی لگتا ہے.وہ اپنے اپنے حلیے ہیں، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا مگر ایسا ہی ایک واقعہ ایک جلسہ پر ہوا تھا.ایک شخص انتہائی مخلص مگر حلیہ کے لحاظ سے بڑا مشٹنڈا اور اتفاق سے داڑھی مونچھ منڈھا ہوا.اس کی اتنی سخت نگرانی ہو رہی تھی کہ جیسے سارا خطرہ اسی سے درپیش ہے.جب مجھے بتایا گیا اور میں نے دیکھا تو میں نے کہا ا ا للہ یہ تو میں جانتا ہوں بہت مخلص فدائی احمدی ہے.اس کو اپنے کام میں لائیں ، حفاظت کے کام میں تو ایک ان کو میری نصیحت ہے آنے والوں کو بھی اور رہنے والوں کو بھی جو بھی جلسہ میں ہوں کہ اپنے دائیں بائیں کی حفاظت کریں.دُنیا میں کہیں بھی یہ نظام رائج نہیں.جب بھی کوئی شخص حملہ کرنا چاہتا ہے تو باوجود ہر قسم کے آلات کے جو اس کی جیبوں ،اس کے جسم پر چھپے ہوئے ہتھیاروں کی خبر دیتے ہیں اس کے باوجود وہ لے جاتا ہے.بے شمار طریقے دُنیا نے ایجاد کئے ہوئے ہیں تو ایسا شخص جو کسی ہتھیار کو استعمال کرنا چاہے اس کو لازماً کوئی تیزی سے حرکت کرنی پڑتی ہے.وہ جیب کی طرف یا کہیں ہاتھ ڈالتا ہے اگر دائیں بائیں بیٹھے ہوئے ہوشیار ہوں تو ناممکن ہو جائے گا اس کے لئے کہ ایسی حرکت کر سکے.پس اصل نگران تو اللہ ہی ہے مگر اللہ نے
خطبات طاہر جلد 17 519 خطبہ جمعہ 24 جولائی 1998ء جو طریقے سمجھائے ہیں ان طریقوں پر عمل کرنا تو ضروری ہے.تو اپنے دائیں بائیں سے بیدار مغز رہیں اور جو اچھے لوگ بھی ہیں بعض دفعہ ان میں بھی جن کو آپ اچھا سمجھ رہے ہیں بعض بد چھپے ہوئے ہوتے ہیں.اس لئے نگرانی کا یہ نظام سب پر حاوی کر دیں.ہر شخص اپنے دائیں بائیں کا نگران ہو.اگر آپ یہ صورت اختیار کریں تو چلتے پھرتے آتے جاتے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ حفاظت کا انتظام ایسا اعلیٰ ہوگا کہ دنیا میں کبھی کسی سربراہ کے لئے ایسا انتظام نہ ہوا، نہ ہو سکتا ہے.جب دورویہ کھڑے ہوں تو اس وقت بھی اس کا خیال رکھیں اور ہم اس کو ر بوہ میں استعمال کر چکے ہیں ، آزما چکے ہیں اس عادت کو.دو مرتبہ ایسا ہوا کہ لازماً کوئی شخص مجھ پر بندوق سے حملہ کرنے کے لئے ، بندوق داغنے کے لئے اپنی چادر میں یا کمبل میں چھپائے کھڑا تھا اور چونکہ میں نے اس وقت منتظمین کو یہ ہدایت کی ہوئی تھی کہ جہاں کوئی شخص آپ کو ایسا نظر آئے ضروری نہیں کہ آپ اس کو حکم دیں چادر ا تارو.پاس کھڑے ہو جائیں اگر اس کی نیت ہوئی وہ ہاتھ ہلائے گا اسی وقت پکڑ لیں اور دو آدمی پکڑے گئے.اور پھر انہوں نے تسلیم بھی کر لیا.تو یہ نظام حفاظت ایسا ہے جس کا کوئی جواب دُنیا میں نہیں، اس کی کوئی مماثلت کہیں اور دکھائی نہیں دے گی.جو فوجی یا پولیس والے مقرر ہوا کرتے ہیں کتنے ہونگے اس کے باوجود Crowd پیچھے ہوتا ہے، ان کے درمیان ہوتا ہے اور ہر وقت وہ شخص آزاد ہے کچھ نہ کچھ کرنے پر.اس لئے جماعت احمدیہ کا جو نظام حفاظت ہے ، اس کے متعلق اب چونکہ خطبہ کا وقت ختم ہو گیا ہے میں یہ بتا دینا چاہتا ہوں آخر پر، کہ اول حفاظت اللہ کی ہے.اس کی حفاظت کا سایہ ہو توکسی کو کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی.اس لئے دعائیں کرتے رہیں اور جو اعلیٰ تو قعات نظام جماعت سے وابستہ ہو چکی ہیں ان کا خیال کریں.اللہ تعالیٰ ہمارے جلسہ کو امن وامان کے ساتھ نہایت عمدگی کے ساتھ خیر وعافیت سے گزارے اور ہر پہلو سے یہ خوش کن ہو اور خوشیوں کی خبریں لے کر آپ لوگ واپس لوٹیں اور اس وطن کے لئے دعائیں کرتے ہوئے واپس جائیں کہ اگر پہلے نہیں تو آپ کے جانے کے بعد کوئی نہ کوئی تبدیلی ان میں واقع ہو.آمین
خطبات طاہر جلد 17 521 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء سختی سے پیش آنا یا سختی کی تعلیم دینا اسلام کے منافی ہے اشاعت دین حضور سلیم اینم کی نصائح پر کار بند رہنے پر مبنی ہے (خطبہ جمعہ فرمودہ 31 جولائی 1998ء بمقام اسلام آباد ٹلفورڈ.برطانیہ ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی: وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّلِحْتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَأْتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ اَحْسَنَ الَّذِي كَانُوا يَعْمَلُونَ پھر فرمایا: (العنكبوت:8) اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے اُن مومن بندوں سے جو ایمان لائے ، نیک عمل بجالائے یہ وعدہ فرمایا ہے کہ نُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيَاتِهِمْ ہم ضرور ان سے ان کی برائیاں دُور کر دیں گے وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ الَّذِى كَانُوا يَعْمَلُونَ اور اس سے بڑھ کر جزا یہ کہ انہیں اُن کے بہترین اعمال کا بدلہ دیں گے.یعنی جو کم تر اعمال ہیں ان کو نظر انداز فرماتے ہوئے ان کو جو بھی بہترین اعمال بجالانے کی توفیق ملے گی.ہم ان کو ان بہترین اعمال کا بدلہ دیں گے.یہ عنوان ہے آج کے خطبہ کا اور اسی آیت کے تتبع میں جو میں نے آپ کے سامنے پڑھی ہے میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے ذریعہ آپ کے سامنے کچھ نصائح کرنا چاہتا ہوں.بخاری، كِتَابُ الجِهَادِ وَالسَّيَرِ، بَابُ مَا يُكْرَهُ مِنَ التنازع وَالاخْتِلافِ في الحرب میں یہ روایت ہے :
خطبات طاہر جلد 17 وو 522 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء " عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِهِ، أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَعَثَ مُعَاذَا وَأَبَا مُوسَى إِلَى اليَمَنِ قَالَ: يَشِرًا وَلَا تُعَشِرًا، وَبَيَّرَا وَلَا تُنَفْرًا، وَتَطَاوَعَا وَلا تَخْتَلِفًا (صحيح البخاری، کتاب الجهاد والسير ، باب ما يكره من التنازع والاختلاف في الحرب ،حدیث نمبر : 3038) یہ حدیث میں نے عربی میں بھی پڑھ دی ہے مگر آگے آئندہ وقت بچانے کے لئے میں صرف ترجمہ ہی پیش کرتا رہوں گا ورنہ شاید یہ مضمون ایک گھنٹے میں سمیٹا نہ جا سکے.سعید بن ابی بردہ کے دادا سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی لالی تم نے معاذ اور ابو موسیٰ کو یمن روانہ کیا اور یمن بھیجتے ہوئے یہ نصیحت فرمائی کہ لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا، ان پر سختی نہ کرنا ، انہیں خوش رکھنا اور نفرت نہ پھیلانا اور آپس میں اتفاق رکھنا، اختلاف میں نہ پڑنا.دوسری حدیث بخاری کتاب العلم سے لی گئی ہے.اس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی الم یہ تم نے فرمایا کہ: آسانی پیدا کرو سختی نہ کرو اور خوشی کی بات سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ.“ (صحيح البخاری کتاب العلم ، باب ما كان النبي يتخولهم بالموعظة..، حدیث نمبر : 69) اس موقع پر جبکہ دنیا بھر سے احمدی اور بہت سے زائرین تشریف لائے ہوئے ہیں حضرت اقدس رسول اللہ صلی اینم کی یہ نصیحت میں آپ کے سامنے دوہرا رہا ہوں.دراصل احمدیت کی اشاعت کا مقصد یہ ہے جو ان دو احادیث میں بیان فرما دیا گیا ہے.سختی سے پیش آنا یا سختی کی تعلیم دینا یہ اسلام کے منافی ہے.اور اسلام کا لفظ اس تعلیم کے منافی ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ مذہب کا نام تو اسلام ہو یعنی سلامتی کا پیغام دے رہا ہو اور سختی کی تعلیم ہو اور نفرت کی تعلیم ہو.پس یہ بات اچھی طرح پہلے باندھ لیں کہ ہمارا اشاعت دین کا کام اس امر پر مبنی ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایتم کی ان نصائح پر پوری طرح احتیاط کے ساتھ کار بند رہیں.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بخاری کتاب اللباس میں یہ روایت مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ ہی ہم نے فرمایا: ”اے لوگو! اپنی طاقت کے مطابق اعمال بجالاؤ کیونکہ تم تھک جاتے ہو اللہ نہیں تھکتا اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال وہ ہیں جو اگر چہ تھوڑے ہوں لیکن ان میں دوام ہو.“ (صحیح البخاری، کتاب اللباس، باب الجلوس على الحصير ونحوه،حدیث نمبر : 5861)
خطبات طاہر جلد 17 523 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء چونکہ جماعت احمد یہ عالمگیر کو بکثرت ایسی نصائح کی جارہی ہیں ، بکثرت ان کو ہدایت دی جارہی ہے کہ سب دنیا کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھا لیں اور جس حد تک توفیق ملے بنی نوع انسان کی خدمت سرانجام دیں اس لئے اس خدمت کو انجام دینے کا طریق بیان کرنا بھی ضروری ہے اور ایسی خدمت سرانجام دیں جس میں وہ نہ تھکیں نہ ماندہ ہوں اور کسی وقت اکتا کر اسے چھوڑ نہ بیٹھیں.یہ خدمت کی تعریف ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اینم نے فرمائی.چنانچہ فرمایا اے لوگو! اپنی طاقت کے مطابق اعمال بجالاؤ اور یاد رکھیں کہ آپ کی طاقت نیک اعمال بجالانے سے بڑھتی رہے گی.اس لئے بہت گہری نصیحت ہے، بہت بڑے بڑے کام آپ سے متوقع ہیں لیکن بیک وقت اچانک آپ ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے.اس لئے گھبرا کر ، اپنی طاقت سے بڑھ کر کام سرانجام دینے کی کوشش نہ کریں ، اگر ایسا کریں گے تو آپ تھک جائیں گے اور بالآخر اس کام کو بالا رادہ یا مجبوراً ترک کرنا پڑتا ہے.اس لئے حضور اکرم سنی یا یہ تم کی اس نصیحت کو خوب اچھی طرح یادرکھیں.تم تھک جاتے ہو، اللہ نہیں تھکتا.اللہ کے کام تو اس دنیا میں جاری رہنے والے کام ہیں اور بہت وسیع ہیں.سب دنیا کو اللہ کی راہ کی طرف بلانا اور اس راہ پر چلنے میں ان کی مدد کرنا ، ان کی تعلیم و تربیت کر کے بے خدا انسانوں کو باخدا انسان بنادینا یہ ایسا کام نہیں ہے جسے کوئی قوم بھی مکمل طور پر سر انجام دے سکے.پس اگر زبردستی اپنے آپ کو مشقت میں ڈالو گے تا کہ اللہ کا کام پوری طرح سر انجام دے لو تو یہ کام ختم ہونے والا نہیں ہے.اللہ تو نہیں تھکے گا اگر اس سے مقابلہ کرنا ہے تو دوڑ کر دیکھ لو تم تھک جاؤ گے اور اللہ نہیں تھکے گا.اس لئے فرمایا اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال وہ ہیں جو اگر چہ تھوڑے ہوں مگران میں دوام ہو، ہمیشہ کے لئے کئے جائیں.حضرت ابی وائل سے ایک حدیث مروی ہے اور یہ بخاری کتاب العِلْمِ سے لی گئی ہے.ابو وائل نے روایت بیان کی عبد اللہ بن مسعودؓ کے متعلق.وہ کہتے ہیں کہ : عبداللہ بن مسعودؓ ہر جمعرات کولوگوں کو وعظ کیا کرتے تھے.ایک شخص نے ان سے کہا اے ابوعبدالرحمن میری خواہش ہے کہ آپ روزانہ ہمیں وعظ کیا کریں.حضرت عبداللہ فرمانے لگے کہ میرے لئے یہ کوئی مشکل امر نہیں مگر مجھے پسند نہیں کہ تمہیں تھکا دوں.میں موقع اور وقت کی مناسبت سے تمہیں وعظ کرتا ہوں جیسے آنحضرت سینی پیتم موقع اور
خطبات طاہر جلد 17 524 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء وقت کی رعایت سے ہمیں نصیحت فرمایا کرتے تھے.آپ صلی یا کہ تم ہمارے اکتا جانے کا خیال فرماتے ہوئے ایسا کیا کرتے تھے.“ (صحیح البخاری، کتاب العلم ، باب من جعل لأهل العلم أيا ما معلومةً ، حديث نمبر : 70) حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی شاہ سلم کا یہ طریق تھا کہ نگاہ رکھتے تھے کہ کوئی کمزور تھک نہ جائے اور کسی بیمار پر ضرورت سے بڑھ کر بوجھ نہ ڈالا جائے.نماز میں بھی اس بات کی پابندی اختیار فرمایا کرتے تھے یعنی جب خدا کے حضور حاضر ہوتے اور تمام تر توجہات کو اللہ کے حضور پیش کر دیتے تو اس وقت بھی ایک بچہ کے رونے کی آواز آپ سال ایام کو اپنی طرف متوجہ کر دیا کرتی تھی.چنانچہ ابو قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی ا یہ تم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی یا یہ تم نے فرمایا، بخاری کتاب الأذان سے حدیث لی گئی ہے: میں نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہوں اور میرا ارادہ یہی ہوتا ہے کہ اس میں تلاوت لمبی کروں پھر کسی بچہ کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اس کی ماں کو تکلیف میں ڈالنا مجھ پہ گراں گزرتا ہے سو میں نماز مختصر کر دیتا ہوں.“ (صحيح البخارى، كتاب الأذان، باب من أخف الصلاة عند بكاء الصبى ،حدیث نمبر :707) اب ایک لمبی روایت ہے میرے خیال میں جس طرح وقت گزر رہا ہے غالباً میں عربی عبارت پڑھنے کے باوجود بھی وقت کے اندر انشاء اللہ اس خطبہ کو ختم کر سکوں گا.حَدَّثَنَا جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ: أَنَّ مُعَاذَ بْن جَبَلٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ كَانَ يُصَلِّي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ يَأْتِي قَوْمَهُ فَيُصَلِّي بِهِمُ الصَّلَاةَ، فَقَرَأَ بِهِمُ البَقَرَةً قَالَ: فَتَجَوَّزَ رَجُلٌ فَصَلَّى صَلاَةً خَفِيفَةً، فَبَلَغَ ذَلِكَ مُعَاذَا، فَقَالَ: إِنَّهُ مُنَافِقٌ فَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ فَأَتَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا قَوْمُ تَعْمَلُ بِأَيْدِينَا، وَنَسْقِي بِنَوَاضِحِنَا، وَإِنَّ مُعَاذَا صَلَّى بِنَا البَارِحَةَ، فَقَرَأَ البَقَرَةً فَتَجَوَّزْتُ، فَزَعَمَ أَنِّي مُنَافِقٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَا مُعَاذُ أَفَتَانُ أَنْتَ ثَلَاثًا - اقْرَأْ وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا وَسَبْحِ اسْمَ رَبِّكَ الأَعْلَى وَأَحْوَهَا (صحيح البخارى كتاب الأدب، باب من لم ير أكفار من قال ذلك متأولا - ، حدیث نمبر : 6106)
خطبات طاہر جلد 17 525 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء اس حدیث کا اب عام فہم ترجمہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں بتایا کہ معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرض نماز آنحضرت صلی للہ السلام کے پیچھے پڑھتے تھے اور پھر اپنی قوم میں جا کر امامت کراتے تھے.ایک تو یہ بات پیش نظر رکھیں کہ غالباً صبح کی نماز ان نمازوں میں پیش نظر نہیں ہے کیونکہ صبح کی نماز کے لئے یہ ناممکن تھا کہ آپ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی الہ سلم کے پیچھے نماز پڑھتے اور پھر واپس جا کر اپنی قوم میں امامت کرواتے اور پھر لمبی سورتیں بھی پڑھتے اس لئے اس نماز کو مستی سمجھیں غالباً مغرب اور عشاء کی نمازیں مراد ہیں کیونکہ ان میں اونچی آواز سے تلاوت کی جاتی ہے.ایک دفعہ انہوں نے نماز میں سورۃ البقرۃ شروع کر دی.بہت لمبی سورۃ ہے، تقریباً تمام قرآن کی تعلیمات اس سورۃ میں بیان ہوئی ہیں.راوی کہتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنی نماز مختصر کر لی یعنی ان سے الگ ہوا، نماز مختصر پڑھی اور چلا گیا.اس بات کا علم جب معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہوا تو انہوں نے فرمایا یہ شخص منافق ہے.جب یہ بات اس تک پہنچی وہ یہ کن کر آنحضرت صلی ا سلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ صلی لی لی ہم ہم لوگ سارا دن محنت کرتے ہیں اور اونٹوں پر پانی بھر کر لاتے ہیں.معاذ نے گزشتہ رات ہمیں نماز عشاء پڑھائی جس میں انہوں نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی.نماز عشاء کا نام لینے سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ مغرب کی نماز میں بھی لمبی تلاوت نہیں ہو سکتی تو وہ ایک ہی نماز تھی جس میں رات بارہ بجائے جاسکتے تھے اور وہ عشاء کی نماز تھی.جس میں انہوں نے سورۃ البقرۃ کی تلاوت کی.میں نے الگ ہو کر مختصر نماز پڑھ لی.معاذ نے مجھے منافق قرار دیا.معلوم ہوتا ہے معاذ ” وہاں موجود تھے اس کی وجہ یہ ہے کہ معاذ عشاء کی نماز میں بلکہ ہر نماز میں موجود ہوتے تھے تو یہ شکایت ان کی موجودگی میں کی گئی.یہ سن کر آنحضرت صلیا کہ ہم نے معاذ سے تین بار فرمایا کہ کیا تو فتنہ پیدا کرتا ہے، کیا تو فتنہ پیدا کرنے والا ہے، کیا تو فتنہ پیدا کرنے والا ہے.پھر فرمایا نماز میں وَ الشَّمسِ وَضُحَهَا (الشمس : 2) اور سبح اسم رَبَّكَ الْأَعْلَى ( الاعلى :2) یا ایسی ہی کوئی اور سورتیں پڑھا کرو.آنحضرت صلی ایام کا دستور عموماً خطابات میں بھی یہی تھا کہ اختصار سے کام لیا کرتے تھے مگر بعض دفعہ اس کے برعکس بھی دستور ثابت ہے.اس کی وضاحت اس لئے ضروری ہے کہ آپ لوگ مجھے دیکھتے ہیں کہ بعض دفعہ میں سات سات آٹھ آٹھ گھنٹے لوگوں کے ساتھ لگا تا ہوں، ان کو نصیحت
خطبات طاہر جلد 17 526 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء کرتا ہوں ، نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ ملاقاتوں کو چھوڑ کر بھی مجھے با قاعدہ MTA پر لمبے لمبے خطابات کرنے پڑتے ہیں، لمبی لمبی مجالس میں شامل ہونا پڑتا ہے اور پھر آج کل کی تقاریر یہ بھی بہت وقت لیتی ہیں اور لیں گی تو نعوذ باللہ کوئی یہ خیال نہ کرے کہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی ملی لی ایم کی سنت سے احتراز کر رہا ہوں یہ ناممکن ہے.موقع اور محل کے مطابق خود آنحضرت سالی تم بھی یہی طریق اختیار فرمایا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بارے میں لکھتے ہیں : بعض وقت اس قدر لمبی تقریر فرماتے کہ صبح سے لے کر شام تک ختم نہ ہوتی.درمیان میں نمازیں آجاتیں تو آپ مسلہ یہ تم ان کو ادا کر کے پھر تقریر شروع کر دیتے.“ (البدر جلد 3 نمبر 2 صفحہ:12 مؤرخہ 8 جنوری 1904ء ) اگر صبح کی نماز بھی جیسا کہ اصل جو بڑی روایت ہے اس میں یہ ذکر موجود ہے، شامل ہے، تو یہ تب ہی ممکن تھا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی شما اینم روزے سے ہوں اس لئے آپ صلی یتیم مغرب کے وقت اس خطاب کو ختم فرما دیا کرتے تھے ورنہ خود بھی سارا دن فاقہ سے رہنا اور باقی سب کو بھی اسی طرح رکھنا غالباً یہ بعید از قیاس ہے.بہر حال حضور اکرم ﷺ کا یہی طریق تھا.مسند احمد بن حنبل جلد 5 مطبوعہ بیروت میں یہ روایت تفصیل سے درج ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اشارہ فرمایا ہے.ابوزید انصاری سے روایت ہے: حضرت رسول کریم مالی اسلام نے ہمیں صبح کی نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف لا کر ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا.پھر آ مل لیا کہ تم منبر سے نیچے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی.“ میں سمجھتا ہوں کہ یہ واقعہ رمضان میں ہوا ہوگا کیونکہ میں اسے ممکن نہیں سمجھتا کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سی ای تیم خود تو روزے میں ہونے کی وجہ سے کھانے کی ضرورت محسوس نہ فرما ئیں لیکن اپنے صحابہ کو تکلیف میں ڈالیں کیونکہ پچھلی جتنی احادیث گزری ہیں وہ آسانی پیدا کرنے کی ہدایت پر مشتمل احادیث ہیں اور خود حضرت اقدس محمد مصطفی ملی یہ نام کے فرمودات ہیں اس لئے میں ہرگز یقین نہیں کرتا کہ یہ واقعہ عام دنوں کا واقعہ ہے جب صرف رسول اللہ صلی یتیم روزے سے ہوں.لازماً کوئی ایسا دن ہے جس میں صحابہ بھی روزے سے تھے اور ان کو لمبی نصیحت کرنے سے ان پر کوئی مشقت عائد نہیں کی جاتی تھی.بہر حال یہ تشریحات ہیں.اصل روایت یہ ہے کہ:
خطبات طاہر جلد 17 وو 527 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء و صبح کی نماز پڑھائی پھر منبر پر تشریف لا کر ہمیں خطاب فرما یا یہاں تک کہ ظہر کا وقت ہو گیا پھر آپ صلی لا یہی تم منبر سے نیچے اترے اور ظہر کی نماز پڑھائی پھر آپ صلی ایتم منبر پر رونق افروز ہوئے اور پھر ہم سے خطاب فرمایا.یہاں تک کہ عصر کا وقت ہو گیا پھر آپ سلایا کہ تم نیچے اترے اور عصر کی نماز پڑھائی بعد ازاں پھر منبر پر تشریف لا کر ہمیں خطاب فرمایا یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، حديث أبي زيد عمر و بن أخطب، مسند نمبر : 22888) اب دیکھ لیں اس میں عشاء کی نماز کا ذکر نہیں.اس لئے جو میں نے استنباط کیا ہے وہ یقینا درست ہے.روزے کی حالت میں مغرب تک خطاب ہو سکتا تھا مغرب کے بعد نہیں.تو ایسا ہی اس روایت میں درج ہے.حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ...كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَأَصْبَحْتُ يَوْمًا قَرِيبًا مِنْهُ وَنَحْنُ نَسِيرُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلْنِي الجَنَّةَ وَيُبَاعِدُنِي عَنِ النَّارِ، قَالَ: لَقَدْ سَأَلْتَنِي عَنْ عَظِيمٍ، وَإِنَّهُ لَيَسِيرٌ عَلَى مَنْ يَشرَهُ اللهُ عَلَيْهِ تَعْبُدُ اللهَ وَلاَ تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِي الزَّكَاةَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، وَتَحُجُّ البَيْتَ ثُمَّ قَالَ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَبْوَابِ الخَيْرِ: الصَّوْمُ جُنَّةٌ، وَالصَّدَقَةُ تُطْفِئُ الخَطِيئَةَ كَمَا يُطْفِئُ الْمَاءُ النَّارَ، وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مِنْ جَوْفِ اللَّيْلِ قَالَ: ثُمَّ تَلَا تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ، حَتَّى بَلَغَ يَعْمَلُونَ ثُمَّ قَالَ: أَلا أُخْبِرُكَ بِرَأْسِ الأَمْرِ كُلِهِ وَعَمُودِهِ، وَذِرْوَةِ سَنَامِهِ؟ قُلْتُ: بَلَى يَارَسُولَ اللهِ، قَالَ: رَأْسُ الأَمْرِ الإِسْلامُ، وَعَمُودُهُ الصَّلَاةُ وَذِرْوَةُ سَنَامِهِ الجِهَادُ ثُمَّ قَالَ: أَلاَ أُخْبِرُكَ بِمَلاكِ ذلِكَ كُلِّهِ قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللهِ قَالَ: فَأَخَذَ بِلِسَانِهِ قَالَ: كُفَّ عَلَيْكَ هَذَا فَقُلْتُ: يَانَبِيِّ اللَّهِ، وَإِنَّا لَمُوا خَذُونَ بِمَا نَتَكَلَّمُ بهِ؟ فَقَالَ : ثَكِلَتْكَ أُمُكَ يَا مُعَاذُ وَهَلْ يَكُبُّ النَّاسَ فِي النَّارِ عَلَى وُجُوهِهِمْ أَوْ عَلَى مَنَاخِرِهِمْ إِلأَحَصَائِدُ أَلْسِنَتِهِمْ.(سنن الترمذی کتاب الایمان، باب ماجاء في حرمة الصلاة ، حدیث نمبر : 2616)
خطبات طاہر جلد 17 528 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء ترجمہ اس کا یہ ہے کہ حضرت معاذ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلیہ السلام سے عرض کی کہ مجھے کوئی ایسا کام بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور دوزخ سے دور رکھے.آپ مسی کی ہم نے فرمایا تم نے ایک بہت بڑی مشکل بات پوچھی ہے لیکن اگر اللہ تعالیٰ توفیق دے تو یہ آسان بھی ہے یعنی ہر اس شخص کے لئے جس کے لئے اللہ تعالیٰ آسان فرما دے.تو اللہ تعالیٰ کی عبادت کر اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرا.نماز با قاعدگی سے پڑھ، زکوۃ ادا کر.زکوۃ تو ہر ایک پر فرض نہیں ہوا کرتی لیکن نماز میں با قاعدگی اختیار کرنا ہر ایک پر فرض ہے.رمضان کے روزے رکھ.اگر تو بیت اللہ تک جانے کی توفیق پائے اور رستہ صاف ہو ، بیت اللہ تک جانے کا رستہ خطرات سے پاک ہو تو حج کر.پھر آپ ملی یہ تم نے فرمایا کیا میں بھلائی اور نیکی کے دروازوں کے متعلق تجھے نہ بتاؤں.سنو روزہ گناہوں سے بچنے کی ڈھال ہے، صدقہ گناہ کی آگ کو اس طرح بجھا دیتا ہے جس طرح پانی آگ کو بجھا دیتا ہے.رات کے درمیانی حصہ میں نماز پڑھنا اجر عظیم کا موجب ہے.پھر آپ صلی یا یہ تم نے یہ آیت پڑھی تتجافى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا اس آیت کو آخر تک پڑھا.پھر فرمایا کیا میں تم کو سارے دین کی جڑ بلکہ اس کا ستون اور اس کی چوٹی نہ بتاؤں.میں نے عرض کیا جی ہاں یارسول اللہ صلی لی ایم ضرور بتائیے.آپ صلیم نے فرمایا دین کی جڑ اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے، اس کی چوٹی جہاد ہے.پھر آپ سی ای ایم نے فرمایا کیا میں تجھے اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں کیونکہ باتیں بہت سی ہوگئی تھیں یہ خطرہ ہوسکتا تھا کہ وہ بھول جائیں سب باتوں کو.تو بالآخر جسے ہم کہتے ہیں.خلاصہ کلام.آپ مال لا کی تم نے فرمایا کیا میں تمہیں اس سارے دین کا خلاصہ نہ بتاؤں؟.میں نے عرض کیا جی ہاں یا رسول اللہ صلی الی اہم ضرور بتائیے.آپ صلی اللہ الیہ تم نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا اسے روک رکھو.میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلیہ کی تم ! کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس کا بھی ہم سے مواخذہ ہوگا.آپ سال کا یہی تم نے فرمایا تیری ماں تجھ کو کم کر دے.یہ ایک پیار کا کلمہ ہے ، کوئی غصہ کا اور بددعا کا کلمہ نہیں.عرب اسی طرح کہا کرتے تھے لیکن یہ محاورہ بولتے افسوس کے موقع پر تھے.تیری ماں تجھے گم کر دے میں دونوں باتیں شامل ہیں.ایک تو یہ کہ موقع افسوس کا ہے جب ماں کسی بچے کو گم کر دے اور کہنے کا طریق نرم اور محبت کا ہوا کرتا تھا.مطلب تھا یہ بددعا نہیں ہے تم نے بات ایسی کہی ہے جو اسی طرح بری خبر ہے جیسے ماں کسی بچے کو گم کر دے.
خطبات طاہر جلد 17 529 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء فرما یا لوگ اپنی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیوں یعنی اپنے برے بول اور بے موقع باتوں کی وجہ سے ہی جہنم میں اوندھے منہ گرتے ہیں.اب یہ ایک بہت ہی بڑی تنبیہ ہے اور لغو باتیں کرنے والوں کو اپنی زبان پر نگران ہونا پڑے گا.بسا اوقات مذاق مذاق ہی میں کوئی ایسی بات منہ سے نکل جاتی ہے جو گستاخی ہوتی ہے.بعض دفعہ ایک چھوٹا سا کلمہ ، حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایتم کی ایک اور حدیث کے مطابق ، ایک ایسے شخص کو جو جنت کے قریب پہنچ چکا ہو اس سے اتنا دور کر دیتا ہے کہ وہ جہنم میں جا گرتا ہے یعنی زبان پر مکمل اختیار تو سب کو ممکن نہیں مگر اگر اللہ چاہے اور یہ توجہ ہو اور انسان نگران رہے کہ میں کیا کہ رہا ہوں اور پہلے تو لے پھر منہ سے بولے تب انشاء اللہ تعالیٰ آپ کو یہ توفیق مل سکے گی لیکن اس میں دقت یہ ہے کہ بعض قو میں اپنی عادات کے مطابق بہت تیز بولتی ہیں خاص طور پر اہل یو پی اور اہل یو پی کی عورتیں تو فرفر باتیں کرتی ہیں کیا ان کی زبان کے کہنے میں بھی وہ پکڑے جائیں گے.اس سلسلہ میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ایام کا ایک خوشخبری کا فرمان یہ ہے جو قرآن کریم کی آیت کریمہ کے تابع ہے کہ اللہ تم سے تمہاری لغو قسموں کے متعلق کچھ نہ پوچھے گا.زبان کو جہاں تک ممکن ہوتا بو میں رکھو لیکن جہاں فرفر بولنے کی عادتیں ہیں وہاں تو غلطی سے کلمہ اِدھر اُدھر ہو بھی جائے تو استغفار سے کام لولیکن بعد میں ضرور سو چوتا کہ پیشتر اس کے کہ اللہ کی پکڑ آ جائے تمہیں احساس ہو جائے کہ مجھ سے غلطی ہو چکی ہے اور پھر استغفار کر کے آئندہ غلطی کا اعادہ نہ کرنے کا عہد کرو.یہی ہے جو میں اس پیغام سے سمجھا ہوں اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ میں نے درست سمجھا ہوگا.حَدَّثَنِي شَهْرُ بْنُ حَوْشَبٍ، قَالَ: قُلْتُ لَأُمِّ سَلَمَةَ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ مَا كَانَ أَكْثَرُ دُعَاءِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ عِنْدَكَ قَالَتْ: كَانَ أَكْثَرُ دُعَائِهِ: يَا مُقَلّب القُلُوبِ ثَيْتُ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ قَالَتْ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ مَا لأَكْثَرِ دُعَائِكَ يَا مُقَلِّبَ الْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ؟ قَالَ: يَا أُمَّ سَلَمَةَ إِنَّهُ لَيْسَ آدمى إِلا وَقَلْبُهُ بَيْنَ أُصْبُعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ اللهِ فَمَنْ شَاءَ أَقَامَ، وَمَنْ شَاءَ أَزَاغَ “ (سنن الترمذي، أبواب الدعوات، باب دعاء : يا مقلب القلوب...حدیث نمبر : 3522)
خطبات طاہر جلد 17 530 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء حضرت شہر بن حوشب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے پوچھا کہ اے ام المومنین ، آنحضرت صلیا کی تم جب آپ کے ہاں ہوتے تھے تو زیادہ تر کونسی دعا کیا کرتے تھے.اس پر ام سلمہ نے بتایا کہ حضور علیہ السلام یہ دعا پڑھتے تھے یا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَيْتُ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ اے دلوں کو پھیر نے والے میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ.ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے حضور صلی الیتیم سے اس دعا پر مداومت کی وجہ پوچھی تو آپ سی ایم نے فرمایا، اے ام سلمہ انسان کا دل خدا تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے.جس شخص کو ثابت قدم رکھنا چاہے اس کو ثابت قدم رکھے اور جس کو ثابت قدم نہ رکھنا چاہے اس کے دل کو ٹیڑھا کر دے.اب یہ دعا بھی ہمارے لئے اس دور میں بہت ہی اہمیت رکھتی ہے اس میں بہت سی باتیں قابل توجہ ہیں.اول یہ کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سالی یا یہ ہم کو ثبات قدم نصیب تھا.ایسا ثبات قدم نصیب تھا جس پر عرش کے خدا نے بارہا گواہی دی تھی پھر یہ دعا کیوں کرتے ہیں.دو وجوہات مجھے سمجھ آتی ہیں.اوّل یہ کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ا یتیم کا طبعی انکسار تھا جس کی وجہ سے آپ صلیہ ہم کو ثبات قدم نصیب ہوا.ایک لمحہ بھی آپ صلی ا یتیم کے دل میں یہ وہم نہیں گزرتا تھا کہ میرا ثبات قدم میری کسی خوبی کی وجہ سے ہے بلکہ ہر لمحہ جانتے تھے کہ اللہ نے تو فیق عطا فرمائی ہے تو مجھے ثبات قدم عطا ہوا ہے.دوسرا یہ کہ امت کے لئے نصیحت تھی کہ میں جسے خدا تعالیٰ نے ثابت قدم قراردیا اور بار ہادیا میں بھی تو اللہ کی رحمت اور اس کے منشاء کا محتاج ہوں.وہ جس شخص سے چاہے اپنی رضا پھیر لے اور اس کا چاہنا ہمیشہ کسی دلیل کے نتیجے میں ہوا کرتا ہے اور بسا اوقات انسان کو معلوم بھی نہیں ہوتا کہ کیا وجہ تھی.تو اس لئے نامعلوم کیفیات کا خوف کر کے جانتے ہوئے کہ میں اپنے دل پر بظاہر نگران ہوں مگر نہیں جانتا کہ دل میں کیا کیا مخفی کیفیات ہیں جن پر میری نظر نہیں، میرے مولیٰ کی نظر ہے اس بنا پر یہ دعا امت کے لئے ضروری قرار دے دی گئی کہ اللہ سے دعا مانگو کہ وہ دلوں کو سیدھا ہی رکھے اور یہ فیصلہ نہ کرے کہ یہ دل ٹیڑھا ہونے کو ہے.یہ سارا حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی الی یوم کا طریق عمل انکسار ہی کی بنا پر تھا اور اس بنا پر تھا کہ اللہ کے فضل کے بغیر کچھ بھی ممکن نہیں اور اللہ کے فضل آپ پر اتنے بے شمار تھے کہ خدا کا شکر ادا کرنا بھی آ مل ہی تم یہی سمجھتے تھے کہ اللہ کے فضل کے بغیر ممکن نہیں.رات بھر شکریہ ادا کرتے تھے لیکن پھر بھی ساری زندگی یہی تھی.اس یقین کی بنا پر کہ جب تک اللہ تعالیٰ شکر کو قبول نہ فرمائے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا کہ کیا انجام ہوگا.
خطبات طاہر جلد 17 531 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا : أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَقُومُ مِنَ اللَّيْلِ حَتَّى تَتَفَطَرَ قَدَمَاهُ فَقَالَتْ عَائِشَةُ : لِمَ تَصْنَعُ هَذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ قَالَ: أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا " (صحيح البخاری، کتاب التفسير باب قوله : ليغفر لك الله ما تقدم من ذنبك -- حدیث نمبر :4837) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرت سلی لیتم بعض دفعہ راتوں کو اتنا لمبا عرصہ تک کھڑے رہتے تھے کہ تتفطر قدماه : آپ صلی الیہ امام کے پاؤں پھٹ جایا کرتے تھے خون کے دباؤ کی وجہ سے.میں نے عرض کی کہ لِمَ تَصْنَعُ هَذَا : آپ مصلی تم کیوں ایسا کرتے ہیں اے اللہ کے رسول جبکہ وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَرَ : آپ سلام کے متعلق تو خدا تعالیٰ نے یہ وعدہ فرما دیا ہے کہ سابقہ تمام غفلتیں بھی معاف ہوئیں اور آئندہ بھی اگر کوئی غفلت ہوئی تو معاف ہوگی.اتنے یقینی مغفرت کے وعدے کے بعد پھر آپ صل للہ یہ تم کیوں کرتے ہیں؟ قَالَ أَفَلا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا : کیا میں پسند نہ کروں کہ اتنے بڑے فضل کے نتیجے میں ایک شکر گزار بندہ بنوں.عجیب حال ہے اور ہم میں سے اکثر وہ ہیں جو دن رات اللہ کے فضلوں کی بارش کو دیکھتے ہیں اور شاذ کے طور پر شکر کی توفیق ملتی ہے.منہ سے الحمد اللہ بھی کہتے ہیں اللہ کا شکر ہے، بھی بار بار کہہ دیتے ہیں مگر کہاں یہ شکر، کہاں شکر کے نتیجے میں راتوں کو جگا دینا.ایسا شکر ادا کرنا کہ آسمان کے کنگرے بھی ہل جائیں اور وہ شکر پھر اللہ کی نعمتوں کو آپ پر آسمان سے نازل فرما رہا ہو.یہ وہ شکر ہے جس کا نمونہ پکڑیں اور ایسے شکر کے بغیر حقیقت میں ہم دنیا میں کسی کامیابی کی امید نہیں رکھ سکتے لیکن یاد رکھیں جتنا شکر کریں گے اتنا ہی زیادہ اللہ کی رحمتیں نازل ہونگی ، جتنا حمتیں نازل ہونگی دعا کرتے رہیں کہ اتنا ہی زیادہ شکر کی توفیق ملتی رہے.مسلم کتاب التوبة سے یہ روایت ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ، مَا طَمِعَ بِجَنَّتِهِ أَحَدٌ، وَلَوْ يَعْلَمُ الْكَافِرُ مَا عِنْدَ اللَّهِ مِنَ الرَّحْمَةِ، مَا قَنَطُ مِنْ جَنَّتِهِ أَحَدٌ (صحیح مسلم، کتاب التوبة باب فى سعة رحمة الله و انها سبقت غضبه، حدیث نمبر : 6979)
خطبات طاہر جلد 17 532 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی یا تم نے فرمایا اگر مومن کو اللہ تعالیٰ کی سزا اور گرفت کا اندازہ ہو کہ جب وہ سزا دینے پر آئے اور گرفت کا فیصلہ فرمائے تو اتنی سخت اور شدید ہوگی وہ گرفت، اگر مومن کو علم ہو جائے کہ خدا اگر ناراض ہو تو اتنی بڑی گرفت ہوتی ہے تو وہ جنت کی اُمید ہی نہ رکھے.کیوں جنت کی اُمید نہ رکھے اس لئے کہ مومن کو یہ احساس رہنا چاہئے کہ عملاً وہ اتنا گناہ گار، وہ بلا ارادہ بھی گناہ گار ہے اور خطا تو اس کے ساتھ لگی ہوئی ہے اور اللہ اس کی ہر کمزوری کو پکڑے تو سزا واجب ہو جائے گی اور اگر سز اواجب ہو جائے اور اس کو پتا ہو کہ خدا کی گرفت کتنی سخت ہے تو وہ جنت کی اُمید ہی کھو بیٹھے، اس کے دل میں یقین ہو جائے کہ مجھے کبھی جنت نصیب نہیں ہو سکتی.اگر کافر کو اللہ تعالیٰ کے خزائن رحمت کا اندازہ ہو تو وہ اس کی جنت سے نا اُمید نہ ہو اور یقین کرے کہ اتنی بڑی رحمت سے بھلا کون بد قسمت محروم رہ سکتا ہے.یہ بظاہر دو متضاد باتیں ہیں.ایک طرف چھوٹی سی غلطی پر یہ خوف که خدا بہت سخت گرفت فرمائے گا ، ایک طرف ساری عمر کے گناہوں کے باوجود جو پہاڑوں کے برابر ہوں یہ امید کہ اللہ تعالیٰ ان سب گناہوں کو بخش سکتا ہے.یہ دو باتیں بظاہر متضاد ہیں مگر متضاد نہیں ہیں.امر واقعہ یہ ہے کہ یہی تو پل صراط ہے جس سے ڈرنے کی ہمیں تلقین کی جاتی ہے.اس احتیاط سے اس صراط کو طے کرنا ہے کہ خدا کے غضب کی طرف نہ گر پڑیں اور اس اُمید پر اس صراط کو طے کرنا کہ جب بھی قدم اٹھا ئیں خدا کی رحمت کی جانب گریں.یہ وہ رستہ ہے جس کی طرف یہ حدیث بلا رہی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک تحریر آخر پر میں نے رکھی تھی مگر اس سے پہلے میں آپ کو یہ نصیحت کرنا چاہتا ہوں کہ ان ساری باتوں کو حرز جان بنانے کا ارادہ ہی نہ کریں، ان کو حرز جان بنالیں.اب اس جلسہ پر آپ کی طرف سے جو بھی رویہ ہو وہ انہی ہدایات کی روشنی میں ہو کیونکہ آنحضرت صلی ای ایم کے ارشادات کو سن کر پھر ان پر عمل کرنے میں تاخیر کا فیصلہ جائز نہیں.اس کی وجہ یہ ہے کہ زندگی کا اعتبار نہیں.کون جانتا ہے کہ کب اسے ملک الموت بلا لے گا.ایک لمحہ کا بھی اعتبار نہیں.اچھے بھلے ایسے صحت مند جن کے متعلق لوگ رشک کی نگاہیں ڈالا کرتے تھے اچانک اس دُنیا سے رخصت ہو گئے.کئی دفعہ مجھے ایسے خطوط ملتے ہیں.ابھی کل ہی کی ڈاک میں یہ خط تھا کہ ہمارے باپ بالکل ٹھیک ٹھاک کوئی بھی نقص نہیں ، ساری عمر کوئی بیمار نہیں اچانک فوت ہو گئے.
خطبات طاہر جلد 17 533 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء تو جب ملک الموت وار کرتا ہے تو اچانک کرتا ہے اور اس بات کا محتاج نہیں کہ کوئی بیمار ہو اور کوئی صحت مند ہو.اس لئے کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ ہم کتنا عرصہ یا کتنے لمحے زندہ رہیں گے اس لئے نیک باتیں سننے کے بعد ان کے عمل میں تاخیر کا فیصلہ بہت مہلک ثابت ہوسکتا ہے.اللہ کی مرضی ہے کہ وہ مہلت کو بڑھا دے لیکن یہ بھی تو اسی کی مرضی ہے کہ مہلت کو کم کر دے.اس لئے میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ ان نصائح کو پوری طرح مضبوطی سے پکڑ کر بیٹھ جائیں گے اور اس مضمون میں میں آئندہ آج کے افتتاحی خطاب میں زیادہ تفصیل سے روشنی ڈالوں گا کہ آپ کو کیا کرنا چاہئے.اس عرصہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اقتباس پر اپنے اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.فرماتے ہیں: اسی طرح تمہاری روحانی حالت معمولی سی تو بہ یا کبھی کبھی ٹوٹی پھوٹی نماز یا روزہ سے سنور نہیں سکتی.روحانی حالت کے سنوارنے اور اس باغ کے پھل کھانے کے لئے بھی تم کو چاہئے کہ اس باغ کو وقت پر خدا کی جناب میں نمازیں ادا کر کے اپنی آنکھوں کا پانی پہنچاؤ “ کتی فصیح و بلیغ کتنی دلکش عبارت ہے.روحانی حالت سنوار تے ہو تو اس کا نتیجہ ایسے باغات کی صورت میں تمہیں ملنا چاہئے جو اس دُنیا میں بھی پھل دیں اور اس دُنیا میں بھی پھل دیں اور باغات کو تو سینچا جاتا ہے.پس اس باغ کا پھل کھانے کی اگر تم تمنار کھتے ہوتو : اس باغ کو وقت پر خدا کی جناب میں نماز میں ادا کر کے اپنی آنکھوں کا پانی پہنچاؤ اور اعمال صالحہ کے پانی کی نہر سے اس باغ کو سیراب کرو.“ اعمال صالحہ کو بھی پانی سے تشبیہ دی ہے کیونکہ اعمال صالحہ ہی ہیں جو اس باغ کو اس دُنیا میں یا آخری دوسری دُنیا میں جنتوں کی صورت میں اس کی سیرابی کا موجب بنیں گے.اعمال صالحہ نہ ہوں تو کوئی نیک نیت کوئی نیک ارادہ کام نہیں آسکتا.ارادہ کے سچا ہونے کی دلیل یہ ہے کہ اگر وہ سچا ہو تو اس کے مطابق عمل کرنے کی بھی توفیق ملتی ہے اگر سچا نہ ہو تو محض دل کی خواہشات ہیں اس سے زیادہ اس کی کوئی بھی اہمیت نہیں.چنانچہ فرمایا: اعمال صالحہ کے پانی کی نہر سے اس باغ کو سیراب کرو تا وہ ہرا بھرا ہو اور پھلے پھولے اور اس قابل ہو سکے کہ تم اس سے پھل کھاؤ.“
خطبات طاہر جلد 17 534 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء یہی توقع جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنی جماعت سے رکھی اس کے سوا میں اور کیا توقع کر سکتا ہوں.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ محض اس باغ کی باتیں نہیں کریں گے.جب تک اس باغ سے پھل کھانا نہ شروع کر دیں آپ اطمینان سے نہیں بیٹھیں گے اور یہ پھل ایسے ہیں جو جب آپ کھا ئیں گے تو آپ کو یقین ہو جائے گا کہ یہ آسمان سے اترنے والے پھل ہیں.زندگی سر سے پاؤں تک اور پاؤں سے سر تک شاداب ہو جائے گی.خدا تعالیٰ کی رحمت اور پیار کا سلوک کوئی ایسا سلوک تو نہیں جو انسان کو غیر معمولی طور پر اس کا احساس نہ دلائے.ایک باپ یا ایک ماں یا کوئی اور عزیز جب شفقت سے پیش آتا ہے تو آپ جانتے ہیں کہ آپ کے دل پر کیا گزرتی ہے، کیسے آپ فرحت محسوس کرتے ہیں مگر اللہ کی شفقت کے تو رنگ ہی اور ہیں سوائے ان کے جن کو اس باغ سے پھل کھانے کی توفیق نصیب ہوئی ہو کوئی دوسرا اس کیفیت کا اندازہ ہی نہیں کرسکتا.فرمایا: یا درکھو ایمان بغیر اعمال صالحہ کے اُدھورا ایمان ہے.کیا وجہ ہے کہ اگر ایمان کامل ہو تو اعمال صالحہ سرزد نہ ہوں؟ اپنے ایمان اور اعتقاد کو کامل کرو ورنہ کسی کام کا نہ ہوگا.لوگ اپنے ایمان کو پورا ایمان تو بناتے نہیں پھر شکایت کرتے ہیں کہ ہمیں وہ انعامات نہیں ملتے جن کا وعدہ تھا.“ اگر باغ کو سینچو گے ہی نہیں تو پھل کیسے لائے گا ، وہ خشک لکڑیوں میں تبدیل ہو جائے گا جو آگ میں جھونکنے کے لائق ہوگا.”بے شک خدا نے وعدہ فرمایا ہوا ہے مَنْ يَتَّقِ اللهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا وَيَرْزُقُهُ مِنْ حَيْثُ لا يَحْتَسِبُ (الطلاق: 4،3 ) یعنی جو خدا کا متقی اور اس کی نظر میں متقی بنتا ہے اس کو خدا تعالیٰ ہر ایک قسم کی تنگی سے نکالتا اور ایسی طرز سے رزق دیتا ہے کہ اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاں سے اور کیوں کر آتا ہے.خدا (تعالی) کا یہ وعدہ برحق ہے اور ہمارا ایمان ہے کہ خدا ( تعالیٰ ) اپنے وعدوں کو پورا کرنے والا ہے ) اور بڑا رحیم وکریم ہے، جو اللہ تعالیٰ کا بنتا ہے وہ اسے ہر ذلت سے نجات دیتا ہے اور خود اس کا حافظ و ناصر بن جاتا ہے.مگر وہ جو ایک طرف دعوئی اتفا کرتے ہیں اور دوسری طرف شا کی ہوتے ہیں کہ ہمیں وہ برکات نہیں ملے.ان دونوں میں سے ہم کس کو سچا کہیں اور کس کو جھوٹا ؟
خطبات طاہر جلد 17 535 خطبہ جمعہ 31 جولائی 1998ء خدا تعالیٰ پر ہم کبھی الزام نہیں لگا سکتے.اِنَّ اللهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ - (آل عمران: 10) خدا تعالیٰ اپنے وعدوں کے خلاف نہیں کرتا.ہم اس مدعی کو جھوٹا کہیں گے.اصل یہ ہے کہ ان کا تقویٰ یا ان کی اصلاح اس حد تک نہیں ہوتی کہ خدا (تعالی) کی نظر میں قابل وقعت ہو، یا وہ خدا کے متقی نہیں ہوتے ،لوگوں کے متقی اور ریا کار انسان ہوتے ہیں.“ یہ سب سے بڑا خطرہ ہے جو ہر وقت انسان کے سر پر ایک تلوار کی طرح لٹکا ہوا ہے.تقویٰ تو اللہ کا کرتے ہیں یعنی بظاہر لیکن ڈرتے لوگوں سے ہیں.عبادت تو بظاہر خدا کی بجالاتے ہیں مگر دکھاتے لوگوں کو ہیں.سو اُن پر بجائے رحمت اور برکت کے لعنت کی مار ہوتی ہے جس سے سرگرداں اور مشکلات دنیا میں مبتلا رہتے ہیں.خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا اور وہ اپنے وعدوں کا پکا اور سچا اور پورا ہے.“ اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک چھوٹی سی عبارت پڑھ کر میں اس خطاب کو ختم کرتا ہوں.فرماتے ہیں : حضرت داؤد زبور میں فرماتے ہیں کہ میں بچہ تھا، جوان ہوا، جوانی سے اب بڑھاپا آیا مگر میں نے کبھی کسی منتقی اور خدا ترس کو بھیک مانگتے نہ دیکھا.اور نہ اس کی اولا دکو در بدر دھکے کھاتے اور ٹکڑے مانگتے دیکھا.“ الحکم جلد 7 نمبر 12 صفحہ: 5 مؤرخہ 31 مارچ 1903ء) پس اگر آپ یہی چاہتے ہیں کہ آپ سے ایسا ہی سلوک ہو تو ان کے اعمال کا خیال کریں جن سے خدا ایسا ہی سلوک فرما یا کرتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 537 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء انتظامی امور میں اصلاح و بہتری کی غرض سے ایک سرخ کتاب رکھنے کی بابت تفصیلی تاکیدی ہدایت ( خطبه جمعه فرموده 07 اگست 1998ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : ا تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ ۖ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الخشعِينَ پھر فرمایا: (البقرة:46،45) جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان سے متعلق انشاء اللہ خطبہ کے آخر پر بات کروں گا کیونکہ اس سے پہلے بعض دیگر انتظامی امور ہیں جن کا ذکر ضروری ہے.یہ عجیب توارد ہے کہ جو باتیں میں نے آپ کے سامنے پیش کرنے کے لئے رکھی تھیں انہی کے تعلق میں آج MTA میں ایک اچانک خرابی پیدا ہوئی اور اس خرابی کے نتیجے میں یہ خطبہ دس منٹ دیر سے شروع ہو رہا ہے اور یہی وہ بات تھی جو مجھے یاد دلوائی تھی اور اسی سے متعلق باقی سب باتیں ہوں گی.بات یہ ہے کہ جلسہ کی ایک بڑی کامیابی تو سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی، اپنے دل سے محسوس کی اور بے انتہا اللہ کے فضل وارد ہوئے ہیں جن کا شمار ممکن نہیں.ایک اور بڑی کامیابی ہے جو کسی کو دکھائی نہیں دی اور وہ کامیابی ہے بہت سی ایسی بھولی ہوئی باتیں جن کا نظام سلسلہ میں ہمیشہ
خطبات طاہر جلد 17 538 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء سے بہت اہتمام رہا ہے وہ اس جلسہ پر یاد آئیں اور ان کا تعلق قرآن کریم کی اس آیت سے ہے مَالِ هَذَا الكِتب لا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلَّا أَحْصُهَا.(الکھف: 50) یہ عجیب کتاب ہے جو نہ کسی چھوٹی چیز کو چھوڑتی ہے نہ کسی بڑی چیز کو چھوڑتی ہے مگر تمام تر باتیں اس میں درج ہیں.یہ بنیادی تعلیم ہے قرآن کریم کی جو دُنیا بھر کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اور اسقام کی روک تھام کے لئے ، جو سقم ایک دفعہ پیدا ہو جائے اس کی روک تھام کے لئے، انتہائی ضروری ہے اور قادیان سے اسی قسم کی ایک روایت جلسہ سے تعلق میں چلی آرہی تھی جسے ایک دفعہ میں نے یہاں نافذ بھی کیا تھا مگر پھر بھلا دی گئی.وہ روایت یہ ہے کہ ایک سرخ کتاب رکھی جاتی ہے اور جلسہ کے بعد تمام افسران اکٹھے بیٹھتے ہیں اور اس جلسہ میں جو جو خرابیاں پیدا ہوئیں ان کو سرخ کتاب میں درج کیا جاتا ہے اور وہ سرخ کتاب آئندہ جلسوں کے لئے راہنما بنتی چلی جاتی ہے اور تمام شامل لوگ جو اس جلسہ میں شامل تھے صرف ان کے ہی کام نہیں آتی بلکہ آئندہ آنے والے منتظمین کے بھی کام آتی ہے اور وہ پھر اس کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں اور پہلی باتوں کو خوب اچھی طرح ذہن نشین کر لیتے ہیں کہ ان خرابیوں کا اعادہ نہیں کرنا اور آئندہ کے لئے ذہن تیار ہو جاتے ہیں.یہ سلسلہ قادیان سے جاری ہے ، ربوہ میں بھی جاری رہا اور انگلستان آنے کے بعد میں نے اس بارے میں ہدایت کی تھی اور کچھ عرصہ یہ کتاب یہاں چلی ہے لیکن جو بھولی ہوئی باتیں اس جلسہ میں یاد آئی ہیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ اس کے بعد اس کتاب کو متروک کر دیا گیا.اب جب کہ جلسے کی انتظامی خرابیوں پر نظر پڑی تو ان کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ ساری کھوئی ہوئی روایات دوبارہ زندہ کرنے کی توفیق مل گئی اور یہ انتظامی کمزوریاں باہر والوں کو تو یعنی احمدیوں کو تو اتنی محسوس نہیں ہوں گی مگر بعض معززین جو آئے تھے انہوں نے اس طرف توجہ دلائی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس نے یہ سلسلہ شروع کر دیا کہ ہم نے تمام امور کی چھان بین کی ، ہر بات کو پیش نظر رکھا.اسلام آباد کے قیام کے دوران بھی جو منتظمین تھے امیر صاحب کے ساتھ ، افسر جلسہ وغیرہ سارے ان سب کا با قاعدہ اجلاس رکھا گیا اور ایک اجلاس کافی نہیں ہوا، پھر رکھا گیا، پھر رکھا گیا اور پھر بھی معلوم ہوا کہ بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو رہ جاتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مثال کے پیچھے تو چلا جا سکتا ہے، اس کی تکمیل کرنا انسان کے بس میں نہیں.جس کتاب کا اللہ تعالیٰ ذکر فرماتا ہے یہ فرماتا ہے کہ نہ کوئی چھوٹی چیز چھوڑتی ہے نہ بڑی چھوڑتی ہے مگر ہم
خطبات طاہر جلد 17 539 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء نے اپنے تجربہ میں دیکھا ہے کہ اس کے نتیجے میں اس آیت کو راہنما بناتے ہوئے کوشش تو کرتے ہیں کہ نہ کوئی چھوٹی چیز چھوڑی جائے نہ بڑی چھوڑی جائے لیکن ہر دفعہ یاد آتا ہے کہ کچھ چھوڑی گئی تھی اور اس طرح یہ سلسلہ انتظام کی تکمیل کا ان لوگوں کے لئے جو اس آیت کو راہنما بنا ئیں ہمیشہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.کوئی دن ایسا نہیں ان پر چڑھتا جو پہلے سے بہتر نہ ہو کیونکہ یہ آیت بہت عظیم راہنما آیت ہے اس کا دُنیا کے ہر نظام سے تعلق ہے.پس جہاں تک جماعت احمدیہ کا تعلق ہے میں نے یہی سوچا تھا کہ اس موضوع پر خطاب کروں گا اور ٹیلی ویژن میں جو بار بار خرابیاں پیدا ہوتی رہیں ان کا ذکر کروں گا اور عین آج کے جمعہ سے پہلے یہی واقعہ ہو گیا.ہمارے ٹیلی ویژن کا نظام اس لحاظ سے انتہائی ناقص ہے کہ جو بھی خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں ان کو ٹھیک کیا اور بھول گئے.یہ نہیں پتا لگتا کہ وہ خرابی کیوں پیدا ہوئی تھی اور جب اس کی تحقیق ہو جاتی ہے تو اس کو کسی سرخ کتاب میں درج نہیں کیا جاتا.اگر یہ ہوتا تو ناممکن تھا کہ ایک قسم کی خرابی دوبارہ پھر پیدا ہوتی.چنانچہ MTA کے منتظمین کے لئے سب سے پہلے تاکید ہے کہ وہ اپنی ایک سرخ کتاب بنا ئیں.ہر ہفتہ اجلاس ہوا کرے اور اس اجلاس میں اس ہفتہ میں اگر کوئی خرابی پیدا ہوئی تو اس کو سرخ کتاب میں درج کیا جائے.اس کا ازالہ کرنے کے لئے جو انتظام کیا گیا تھا اس کو درج کیا جائے لیکن یہ تو آئندہ کے لئے ہے پیچھے ان کا بہت سا کام پڑا ہوا ہے جسے انہوں نے مکمل کرنا ہے.اس کے لئے ہو سکتا ہے کہ ایک مہینہ، دو مہینے کے اجلا سات بھی مشکل سے کافی ہونگے.جب سے MTA کا آغاز ہوا ہے اپنی یادداشت کے نتیجے میں اور کچھ اور اندراجات کے نتیجے میں کمپنیوں سے جو رابطے ہوئے ان کو دیکھ کر تفصیلی جائزہ لینا ہے کہ جب سے MTA کا وجود آیا ہے کیا کیا خرابیاں ہوتی رہی ہیں اور اکثر خرابیاں ایسی ہیں جو دوبارہ بھی ہوئی ہیں اس لئے کہ ان کو اذہان میں پورا Register نہیں کیا گیا اور کیا جا بھی نہیں سکتا.ذہن بھول جاتے ہیں باتوں کو ، کتاب میں ان کا اندراج ہونا ضروری تھا.ہر آنے والی انتظامیہ کے لئے ضروری تھا کہ ان کا مطالعہ کر کے اس سلسلہ میں جو بھی اصلاحی تدابیر اختیار کی گئی تھیں ان کو مدنظر ر کھے اور یہ دیکھے کہ وہ جو اصلاحی اقدامات تھے ان کے ہوتے ہوئے دوبارہ کیوں واقعہ ہوا.اس پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے.تو اُمید رکھتا ہوں کہ ایک سرخ کتاب MTA اپنے لئے تیار کرے گی.
خطبات طاہر جلد 17 540 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء دوسری سرخ کتاب دُنیا میں جہاں جہاں احمدی جلسے ہوتے ہیں ہر ایک کے لئے رکھنی ضروری ہے اور مرکز کی طرف سے اس بات کی نگرانی کی جائے گی کہ کتاب رکھی جارہی ہے اور اس میں گزشتہ یادداشتوں کے مطابق اندراجات ہورہے ہیں.اس ضمن میں افریقہ میں بڑھتی ہوئی تبلیغ اور اس کی ذمہ داریاں اور تعلیمی جو مدارس قائم کئے گئے ہیں اور چندے کا نظام قائم کیا جا رہا ہے ان تمام امور سے متعلق اندراجات ہو کر وہ نئے احمدی جن کی ہم تربیت کر رہے ہیں ان کے سپرد یہ کتاب ہونی چاہئے اور ان کو سمجھایا جائے کہ اس کتاب کی حفاظت کرنا تمہارا ذمہ ہے اور اسے رواج دینا اردگرد کے علاقہ میں ، یہ بھی تمہاری ذمہ داری ہے.اس کے نتیجے میں بہت ہی احساس ذمہ داری پیدا ہوگا اور نئی جماعتوں کی تربیت کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت کے ساتھ ہماری بہت سی مشکلات دور ہوجائیں گی.اسی تعلق میں میں تمام ذیلی مجالس کو نصیحت کرتا ہوں کہ وہ بھی جائزہ لیں کہ ان کی کیا خرابیاں تھیں.جب یہ سلسلہ شروع ہوا تو بعض حیرت انگیز باتیں سامنے آئیں جن کی طرف پہلے کوئی دھیان جاہی نہیں سکتا تھا.ہمارے جلسے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو عمومی نصائح کی جاتی ہیں ان کے نتیجے میں جو احساس حفاظت ہے یعنی حفاظت کرنے کا احساس وہ عموماً جماعت میں بیدار ہوا ہے لیکن اس کے باوجود انتظامی خلا اتنے تھے کہ ان خلاؤں کے رستے کوئی چورا چکا، کوئی فتنہ پرداز آسانی سے داخل ہو سکتا تھا اور ہم نے اپنی طرف سے سارے رستے بند کر لئے تھے اور کچھ رستے کھلے تھے ان رستوں سے اگر کوئی داخل نہیں ہوا تو یہ اللہ ک حفاظت تھی اس میں ہمارے انتظام کا کوئی بھی کمال نہیں ور نہ ہر چورا چکا ، ظالم ، فسادی ان رستوں سے داخل ہوسکتا تھا.اور اس جلسے کا بہت بڑا انعام یہ ہے کہ جب ہم نے نظر ثانی کی حالات پر تو سارے سوراخ کھلے کھلے دکھائی دینے لگے.ان میں جیسا کہ قرآن کریم نے فرمایا نہ کوئی چھوٹی چیز باقی رہی نہ کوئی بڑی چیز باقی رہی.بہت چھوٹی سی چیز کی مثال میں آپ کو دیتا ہوں کہ اکثر ہمارے ہاں جرمنی سے آنے والے بھی اور انگلستان سے آنے والے بھی یہ حرکت کیا کرتے تھے کہ اپنا کار کا گند ، اپنے بچوں کا گند باہر نکال کر پھینک دیتے تھے.یہ ایسی بیہودہ حرکت تھی جس کے علاج کے طور پر ان کو سمجھایا گیا ، با قاعدہ اعلان ہوئے کہ تمہیں پلاسٹک کا تھیلا ہم مفت دے دیں گے لیکن خدا کے واسطے یہ حرکت نہ کرو اس کا بہت برا اثر پڑتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 541 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء ایک چھوٹی سی چیز معمولی سی احتیاط سے اس کا ازالہ ہو سکتا ہے لیکن اگر نہ ہو تو جیسا کہ اس جلسہ پر ہوا ایک ہیلی کا پیٹر ان کا ضرور آخر پر چکر لگاتا ہے اور تصویر لیتا ہے ہر چیز کی اور پھر جس شعبہ کو بھی اس نے رپورٹ کرنی ہو اس کو رپورٹ کرتا ہے اور اگر جماعت کے انتظام میں کوئی خرابی دیکھے یا اس قسم کا گند دیکھے تو لازماً اس کا بداثر آئندہ انتظامیہ سے ہمارے تعلقات پر پڑے گا.وہ کہیں گے تم لوگ ہمیشہ گند کرتے ہو اور ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں.وہ ہیلی کا پٹڑ کی کھینچی ہوئی تصویریں ہمیں دکھا سکتے ہیں.تو بظا ہر چھوٹی بات ہے لیکن نتیجے کے لحاظ سے کبیرہ بن جاتی ہے.چنانچہ اللہ نے بہت فضل فرمایا کہ ان خرابیوں کے دوران میری توجہ اس طرف بھی مبذول ہوئی اور میں نے رفیق حیات صاحب کو اس بات پر مقرر کیا کہ وہ فوری طور پر تمام گند دور کرنے کا انتظام کروائیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مستعد ہیں کہ انہوں نے چند گھنٹوں کے اندر اندر مکمل طور پر وہ گند دور کروا دیا.ایک ذرہ بھی اس کا وہاں باقی دکھائی نہیں دیتا تھا اور جب ہیلی کا پٹڑ آیا ہے تو اس وقت تک سب صاف ہو چکا تھا.تو یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں.چھوٹی چھوٹی تو جہات دوسرے امور کی طرف ذہن کو منتقل کرتی ہیں اور ان کے نتیجے میں خدا کے فضل کی اور راہیں کھلتی ہیں.تو جماعت جرمنی کو وہاں بھی یا درکھنا چاہئے کہ ان کو بھی اپنی ایک سرخ کتاب بنانی ہے اس کتاب میں تمام قسم کی خرابیاں ، کھانے پینے کی ہر قسم کی خرابیوں کا ذکر ہو اور اس میں جو بہتری کے اقدامات کئے گئے ہیں وہ درج ہوں.یہاں مہمانوں کے تعلق میں بہت سی ایسی خرابیاں سامنے آئیں جن کی طرف جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے پہلے توجہ نہیں تھی.توجہ ہوئی تھی اور بھلا دی گئی تھی.اب اگر کوئی کتاب ہوتی تو بھلا دینے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا.مثلاً آپ کے علم میں میں لا رہا ہوں کہ بیرونی معززین کے لئے کھانے کا انتظام کبھی پہلے افسر جلسہ کے سپردنہیں ہوا کرتا تھا کیونکہ وہ عمومی ذمہ داری کو ادا کرنے کے دوران اس کی طرف الگ تو جہ دے ہی نہیں سکتے.ہمارا طریق یہ تھا جو باقاعدہ یہاں نافذ ہو چکا تھا لیکن سرخ کتاب کے نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز ہو گیا.وہ طریق یہ تھا کہ ایک خاص افسر برائے مہمان نوازی وی آئی پی (VIP) مقررہوا کرتا تھا جو ان کی رہائش کی جگہ میں ہر قسم کے کھانے تیار کرنے کا انتظام کرتا تھا.پہلے ان لوگوں کو ان کے ملکوں میں چٹھیاں لکھی جاتی تھیں کہ آپ ہمارے معزز مہمان ہیں.ہمیں رسول اللہ صلی ا یتم کی یہ نصیحت ہے کہ ہر مہمان سے اس کی ضرورتوں کے مطابق سلوک کرو
خطبات طاہر جلد 17 542 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہی طریق تھا.پس ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ اگر کوئی کھانے آپ کے لئے نا پسندیدہ ہیں مثلاً مرچوں کا استعمال ہے یا اور بہت سی باتیں ہیں یا کچھ ایسے کھانے ہیں جو آپ کے ہاں مرغوب ہیں اور شوق سے کھائے جاتے ہیں تو ان کے متعلق ہمیں پہلے اطلاع کر دیں.اس کے نتیجے میں یہاں اللہ تعالیٰ کے فضل سے چونکہ مختلف قوموں کے لوگ احمد یوں میں مل جاتے ہیں اس لئے ان کا انتظام یہ شعبہ کر لیتا تھا اور اگر کسی جگہ نہ ملیں تو ان سے درخواست کی جاتی تھی کہ اگر ممکن ہو آپ کے ساتھ کوئی خاتون تشریف لا رہی ہوں اور ان کے لئے ممکن ہو کہ اپنا کھانا خود تیار کر لیں تو ان کو ہر قسم کی سہولت مہیا ہو جائے گی.اگر وہ نہ کرسکیں تو ہدایات ہمیں بھجوا دیں ہمارے آدمی ہر ممکن کوشش کریں گے کہ آپ کی ہدایات کے مطابق آپ کے لئے کھانا تیار کریں.اب جب یہ انتظام جاری تھا، جب تک رہا اتنا اچھا تاثر لے کے مہمان لوٹتے تھے کہ کبھی نہیں بھول سکتے تھے.دُنیا کے پردے میں امیر سے امیر ممالکو بھی یہ توفیق نہیں مل سکتی کہ اس طرح باریکی میں ان کی ضروریات اور ان کی ترجیحات کا خیال رکھا جائے.تو یہ بھولے بھی اس لئے کہ سرخ کتاب نہیں رکھی گئی اور سرخ کتاب اب یاد آئی ہے تو اس میں یہ ساری چیزیں درج کروا دی گئی ہیں تا کہ آئندہ مہمان نوازی کا انتظام بدلنے کے نتیجہ میں خرابیاں کبھی دوبارہ اس انتظام میں راہ نہ پاسکیں.ہر نیا مہمان نواز جو اس شعبہ کا انچارج ہو گا اس کو پہلے یہ کتاب پڑھنی ہوگی اور پڑھنے کے بعد دستخط کرنے ہوں گے کہ میں یہ ساری باتیں پڑھ چکا ہوں اور آئندہ اگر کوئی باتیں ایسی ہو ئیں تو میرا فرض ہے کہ اس کتاب میں درج کروں اور جو پڑھ چکا ہوں اس کے لئے میں جوابدہ ہوں.اور پھر اپنے شعبہ میں اپنے ماتحتوں کو بھی وہ سب پڑھانی ہیں بعض دفعہ ایک منتظم یہ خیال کر لیتا ہے کہ باتیں میرے علم میں آگئی ہیں اس لئے کافی ہیں، میں موقع پر موجود ہوں ، میں فیصلہ کروں گا.ان کی عدم موجودگی کی صورت میں بعض اوقات ان کے نائبین غلط فیصلے کر لیتے ہیں.جب یہ نظام جاری ہوا تھا اس وقت بھی مجھے اچھی طرح یاد ہے ایسے واقعات ہوئے اور میں نے توجہ دلائی تھی کہ ہر منتظم کا فرض ہے کہ اپنے ماتحتوں کو سب کو بتائے گویا یہ سرخ کتاب ہر ایک کے لئے پڑھنی ضروری ہے.جو اللہ تعالیٰ کی سرخ کتاب ہے اس پر بھی سارے فرشتے آگاہ ہیں اور ان کو پتا ہے کہ ہماری کیا ذمہ داریاں ہیں جو ہم نے ادا کرنی ہیں جن کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا.
خطبات طاہر جلد 17 543 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء پس جماعت احمدیہ کے نظام کو مکمل کرنے کے لئے اور آئندہ حسین سے حسین تر بنانے کے لئے اس سرخ کتاب کو رواج دینا اور اس تفصیل سے رواج دینا جس تفصیل سے میں نے بیان کیا ہے انتہائی ضروری ہے.اس تعلق میں انفرادی طور پر بھی لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں اپنے اپنے گھروں میں اگر ایک چھوٹی سی کتاب رکھ لیں اس میں عموماً آئے دن خرابیاں ہوتی رہتی ہیں.مثلاً بچوں کو چوٹ لگ جاتی ہے اور بعض دفعہ چھوٹی سی غلطی سے بہت سخت چوٹ لگ جاتی ہے تو ان کا فرض ہے یعنی میں سمجھتا ہوں کہ ان پر جماعتی طور پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جس طرح جماعت کی خرابیوں پر ہم نظر رکھتے ہیں کہ دوبارہ نہ آئیں وہ بھی ان خرابیوں پر نظر رکھیں تا کہ بے وجہ دوبارہ تکلیف میں مبتلا نہ ہوں.بعض لوگوں کے اکلوتے بچے ان کی ایسی غلطی کے نتیجے میں مر گئے جس کو رفع کیا جا سکتا تھا ازالہ تو بعد میں ہونا تھا اگر وہ محنت کرتے تو کوئی ضرورت نہیں تھی کہ وہ واقعہ ہو جاتا.اب اکلوتا بیٹا اگر مر جائے اور اپنی غلطی سے ہو تو ساری عمر انسان دکھ محسوس کرتا ہے یہ زندگی بھر کا روگ ہے جو اس کو لگ جاتا ہے، کبھی پیچھاہی نہیں چھوڑتا.اور گھر کی سرخ کتاب میں اگر یہ درج ہو کہ یہاں جتنے بھی ہمارے بچوں کے حادثات ہوئے ہیں اس وجہ سے ہوئے ہیں بعض دفعہ سیڑھیوں کی کوئی خرابی ہوتی ہے اور حادثہ ہو گیا اور اس کو بھول گئے.جب تک سیڑھیوں کی اس خرابی کا ازالہ نہ کیا جائے اس وقت تک آئندہ حادثات کی روک تھام ہو ہی نہیں سکتی.چنانچہ اس ضمن میں میں نے اپنے ہالینڈ کے گھر میں بھی توجہ دی اور مجھے معلوم ہو گیا کہ اس خرابی کی وجہ سے بچہ گر کر نقصان اٹھا سکتا ہے.اللہ کے فضل سے کوئی بچہ گرا نہیں مگر مجھے دکھائی دے رہا تھا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے لازماً بچہ گر سکتا ہے اور بعض دفعہ اتنی خطرناک اس کو چوٹ آسکتی ہے کہ وہ ساری عمر کے لئے معذور ہو جائے چنانچہ سیڑھیوں کی درستی کرائی گئی.وہ کار پٹ جو اس پہ بچھا یا گیا تھاوہ ڈھیلا ڈھیلا اس کوٹھیک کروایا گیا اور یہی صورت حال بیجیم میں بھی دوہرائی گئی.وہاں بھی جن سیڑھیوں سے میں اوپر جاتا اور نیچے آتا تھا میں تو احتیاط کر لیتا تھا مگر بچوں کے متعلق یہ خطرہ تھا کہ وہ قالین کے پھسلنے سے ٹھوکر کھا کر گر جائیں گے اور اس صورت میں وہ سیڑھیاں اس طرح کی تھیں کہ بہت گہرا نقصان پہنچ سکتا تھا.تو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی کہ ان چیزوں کی پیش بندی ہوگئی مگر بنیادی بات یہی ہے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے نتیجے میں یہ توفیق مل گئی.جتنی باتیں میں کر رہا ہوں یہ قرآنی تعلیم کی روشنی میں ہیں اور قرآنی تعلیم کو اگر آپ
خطبات طاہر جلد 17 544 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء مطمح نظر بنالیں، اپنا راہنما بنا لیں تو زندگی کی بہت بڑی سے بڑی مشکلات آسان ہوسکتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم خطرات سے بچ سکتے ہیں.اسی تعلق میں ایک واقعہ جو بہت دردناک واقعہ اس جلسہ پر ہوا ہے وہ بھی اسی وجہ سے ہوا ہے کہ ہم نے پہلی ایک غلطی کو نظر انداز کر دیا ہے.گزشتہ ایک جلسہ میں مبشر باجوہ صاحب یہاں سے روانہ ہوئے اور بہت تھکے ہوئے تھے اور اس کے باوجود یہ خیال تھا کہ ہم پہنچ جائیں گے.ان کا بیٹا ان کے ساتھ مدد کر رہا تھا لیکن دونوں بہت تھکے ہوئے تھے.اچانک بیٹے کو نیند آئی اور نہایت خوفناک حادثہ ہوا.وہ تو وہیں شہید ہو گئے تھے مگر ان کا بیٹا بھی لمبے عرصہ تک گومگو کی حالت میں رہا ہے.اللہ تعالیٰ نے فضل فرما یا آخر بچ گیا.بعینہ اس سے ملتا جلتا واقعہ اس دفعہ ہو گیا ہے اور میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا کہ انا اللہ ہم بار بار ہدایتیں دیں، کیوں بھلا دیتے ہیں لوگ؟ اس پر خیال آیا کہ ہماری سرخ کتاب مکمل نہیں ہے، نہ جرمنی میں مکمل ہے نہ یہاں مکمل ہے، آئندہ ہماری سرخ کتاب میں جو یہاں مکمل ہو اس میں یہ بات درج ہو کہ ہر گاڑی جو بیرون ملک سفر کرنے والی ہو اس کے اوپر ایک چھپی ہوئی چٹ آویزاں ہو جائے.اس میں لکھا جائے کہ آپ پر لازم ہے کہ اگر نیند آئی ہو تو ٹھہر جائیں، تھکے ہوئے ہیں تو کہیں ٹھہر جائیں اور آرام کر لیں.اگر کام پر دیر سے پہنچتے ہیں تو یہ ایک معمولی دنیاوی نقصان ہے جو آپ کو پہنچ سکتا ہے.جا کر معافی مانگ لیں تو اکثر آپ کو معاف بھی کر دیں گے لیکن اس کی کوئی معافی نہیں جو یہ جرم آپ کریں گے کیونکہ ساری جماعت کو تکلیف ہوگی.آپ کی غلطی سے آپ کا نقصان نہیں بلکہ ساری دُنیا کی جماعتوں کو تکلیف ہوتی ہے، ہم تو ایک جان ہو چکے ہیں ، اخوۃ بن گئے ہیں یہ خیال کہ جرمنی میں حادثہ ہورہا ہے اور باقی جگہ اس کی تکلیف نہ ہو، بالکل غلط خیال ہے.جو تکلیف میں محسوس کرتا ہوں اس کو ایک طرف رکھیں، سب دنیا کے احمدی وہ تکلیف محسوس کرتے ہیں.پس کیوں ہم بار بار قرآنی تعلیمات کے بعض حصوں کو نظر انداز کر کے تکلیفات میں مبتلا ہوں.تو اس سرخ کتاب میں جو ہماری یہاں تیار ہو رہی ہے اس میں یہ بات درج کی جائے کہ آئندہ کوئی ایسی کار جو اندرون ملک جارہی ہو باہر کے لئے ، یا بیرون ملک جارہی ہوا ایسی نہیں ہوگی جس کے اوپر یہ تنبیہ درج نہ ہو.اس کے شیشوں کے ساتھ لگا دی جائے گی.اس میں ان پر لازم کیا جائے گا کہ بے شک آپ کو دنیاوی نقصان ہوا اگر تھکے ہوئے ہیں تو آپ نے ہر گز سفر نہیں کرنا اور اگر کہیں آرام
خطبات طاہر جلد 17 545 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء کے لئے ،سونے کے لئے جگہ میسر آ جائے جو عموماً پٹرول پمپوں پھیل جاتی ہے وہاں تسلی سے سوئیں، آرام سے جب آنکھ کھلے اس وقت پھر دوبارہ سفر کا آغاز کریں.تو مَالِ هَذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ صَغِيرَةً وَلَا كَبِيرَةً إِلا احطها عجیب کتاب ہے اللہ کی ، نہ کوئی چھوٹی چیز چھوڑتی ہے نہ کوئی بڑی چیز چھوڑتی ہے مگر اس کو گھیرے میں لیا ہوا ہے، ہر ایک کو شمار کرتی ہے.تو ہمیں اب اس ضمن میں بہت سفر کرنا ہے ، بہت آگے بڑھنا ہے.اگر ہم اس تعلیم پر عمل کریں تو دنیا کے پردے پر ایک اور پہلو سے اپنا بے مثال ہونا ثابت کر سکتے ہیں کہ اس پہلو سے دُنیا میں بڑی سے بڑی قومیں بھی تنظیم کی یہ اعلیٰ شان پیش نہیں کر سکتیں جو قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے اور اس پر عمل کرنے کے نتیجے میں ہمیں پیش کرنے کی توفیق ملی ہے.اس کتاب کے متعلق جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا میں آنے والے تمام مبلغین کو جو سر براہ ہیں یہ ہدایت کرتا ہوں کہ وہ اپنے ملک میں ہونے والے واقعات پر بھی ایک کتاب بنا ئیں.ان واقعات میں جو دنیاوی مسائل ہیں جن کے نتیجہ میں حادثات پیش آئے ان کو بھی پیش نظر رکھیں.مثلاً سیرالیون کے متعلق مجھے خیال آیا کہ اس کی سرخ کتاب میں یہ باتیں بھی درج ہونی چاہئیں کہ جہاں جہاں فسادات ہوئے ہیں وہاں کن احمدیوں کو نقصان پہنچا ہے.کیا پیش بندی ان کو کرنی چاہئے تھی جو نہیں کی اور اس کے نتیجے میں جو ان کو نقصان ہوا وہ ہمارا سب کا نقصان ہوا.بہت سے ایسے احمدی تھے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جو بچائے جا سکتے تھے اور ان کا بچنا جماعت کے لئے بڑی تقویت کا موجب ہوتا.بعض ایسے ایسے مخلصین وہاں شہید ہو گئے اور جماعت کے ہاتھ سے جاتے رہے کہ جو اپنی مثال آپ تھے.انہوں نے بہادری کی ایک غلط تعریف کر لی.وہ سمجھتے تھے کہ ہمارا جماعت سے وفا کا تقاضا ہے اور ہماری بہادری کا تقاضا ہے کہ جو کچھ ماحول میں ہوتا ہے ہوتا چلا جائے ہم نے اس مرکز کو نہیں چھوڑ نا جس پر ہمیں متعین کیا گیا ہے اور اپنی طرف سے وہ مثلاً ہسپتال ہیں ، مساجد ہیں، اس قسم کی دوسری عمارات ہیں ان کی حفاظت کر رہے ہیں.جو حصہ حکمت کی کمزوری کا تھا وہ یہ تھا کہ وفاتو کی مگر اس وفا نے فائدہ کوئی نہ دیا، الٹا نقصان پہنچایا کیونکہ وہ اکیلی جان حملہ کے وقت ان چیزوں کی حفاظت کر کیسے سکتی تھی.جب بھی ایسی جگہوں میں حملے ہوئے ہیں آگ لگانے والوں اور لوٹ مار کرنے والوں نے کسی آدمی کی موجودگی کا ادنی بھی لحاظ نہیں کیا.ہاں اس آدمی کو جہاں تک ممکن
خطبات طاہر جلد 17 546 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء تھا یا شہید کر دیا گیا یا زندہ آگ لگانے کی کوشش کی گئی.بہت بڑی بڑی تکلیفیں سیرالیون کے احمدیوں نے دیکھی ہیں جو ایسے حادثات سے تعلق رکھتی ہیں جو مکی تغیرات کے نتیجے میں پیدا ہوئے اور اس کی کوئی سرخ کتاب نہیں رکھی گئی.اس لئے میں سیرالیون کے مبلغ کو خاص طور پر جو امیر ہے اس کو دوسرے امور میں کتاب رکھنے کے علاوہ اس طرف بھی توجہ دلاتا ہوں.تمام جائزہ مکمل کریں.ایک بھی حادثہ ایسا نہ ہو جسے نظر انداز کیا جائے.وہ کیوں ہوا تھا ، کیا حکمت کی باتیں نظر انداز کی گئیں، بچنے کا وقت کونسا تھا، اس وقت اس کو استعمال کیوں نہ کیا گیا.اب یہ جوصورت حال ہے جیسا کہ میں عرض کر رہا ہوں اللہ تعالیٰ مجھے توفیق عطا فرماتا ہے اس الہی تعلیم کی پیروی میں بہت سے نقصانات سے جماعت کو بچانے میں مجھے اللہ تعالیٰ کی مدد سے توفیق مل جاتی ہے.اب گنی بساؤ ( Guinea-Bissau) میں حالات خراب ہوئے.گنی کوناکری (Conakry) جو اس سے ملتا ہے وہاں نسبتاً حالات بہتر تھے.ہمارے مبلغین نے ہمیں یہ لکھنا شروع کیا کہ ہم جس علاقے سے نکل گئے ہیں وہاں فساد کو پیچھے چھوڑ گئے ہیں اور اس علاقے میں امن ہے.پھر اور آگے بڑھے کہ اب بھی فساد پیچھے رہ گیا اس علاقے میں امن ہے.پھر گنی کو نا کری کے بارڈر پر پہنچے اور کہا اب ہم یہاں ٹھہر سکتے ہیں.جب یہ باتیں وکیل التبشیر نے میرے سامنے رکھیں میں نے کہا انتہائی خطرناک غلطی کر رہے ہیں.جب فساد پھیلتے ہیں تو ضروری نہیں کہ جس طرف سے آ رہے ہیں آپ کو دکھائی بھی دے رہے ہوں.وہ گھیرا ڈال لیا کرتے ہیں اور اس گھیرے کو توڑنا پھر آپ کے بس میں نہیں رہے گا.اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا ہم گنی کوناکری میں جا کر جو الگ ملک کا بارڈر ہے وہاں انتظار کرتے ہیں.میں نے کہا ہر گز یہ نہیں ہونا کیونکہ اگر گنی کو ناکری جاکے انتظار کرو گے تو وہ بھی محفوظ نہیں ہے کیونکہ جو شرارت کی خبریں مجھے مل رہی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں بھی حملہ ہوگا.اس لئے سینیگال میں چلے جاؤ.ایک ہی محفوظ جگہ ہے.اللہ تعالیٰ کے فضل سے جب وہ سینیگال چلے گئے تو پیچھے شرارت نے سر اٹھا لیا تب ان کو سمجھ آئی کہ خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ کا ایک نگران ہے اس کو اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرماتا ہے کہ وہ بار یک باتوں پر بھی نظر رکھے اور باریک باتوں پر نظر رکھنے کے نتیجے میں کبیرہ سے نجات مل جاتی ہے، بہت بڑے بڑے خطرات سے اللہ تعالیٰ ہمیں بچالیتا ہے.تو یہ پہلو بھی جیسا کہ سیرالیون کے حوالہ سے میں نے شروع کیا تھا
خطبات طاہر جلد 17 547 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء ہر احمدی ملک کو پیش نظر رکھنا ہے.ہر جگہ مختلف خرابیاں ہوتی رہتی ہیں ان کی پیش بندی کے لئے تمام اقدامات کرنے ضروری ہیں اور انقلابات کے نتیجے میں جو امکانات پیدا ہوتے ہیں اور جو خطرات پیدا ہوتے ہیں ان کی پہلے سے تسلی کے ساتھ ٹھنڈے دل اور دماغ کے ساتھ ان پر غور کر کے ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہے.اب اس وقت ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کے فضل سے مختلف علاقوں کے سر براہ آئے ہوئے ہیں.ان میں ایک نائیجیریا کے بھی ہیں ان سے جب میں نے پوچھا تو انہوں نے کہا اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو نئے حالات ہیں وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہیں اور جماعت کے لئے خدمت کرنے کا اور موقع ہے لیکن مجھے ان کے اس جواب پر انشراح نہیں ہے کیونکہ نائیجیر یا میں ایک لمبی کشمکش چل رہی ہے ، بعض انتہا پسند مسلمانوں کے درمیان اور بعض عیسائیوں کے درمیان اور بعض معتدل مسلمانوں کے درمیان ، اور اس کشمکش کے نتیجے میں جب فسادات پھوٹتے ہیں تو اچانک پھوٹتے ہیں اور ان کی پیش بندی کے لئے لازم ہے کہ ان سارے امور پر تجزیہ کر کے ان لوگوں سے رابطہ پیدا کیا جائے جو علاقے کے سر براہ ہیں اور ان کو بھی سمجھایا جائے اور پھر وقت آنے پر جماعت کو کیا قدم اٹھانے چاہئیں پہلے سے یہ بات طے کر کے ان تک پہنچا دی جائے ورنہ وہ قدم اٹھانے کے وقت آپ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے.آپ نے بے شک بہت اچھا منصوبہ بنایا ہو جب ضرورت پڑے گی تو آپ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے اور ان کو کیا پتا چلے گا کہ ہمارے لئے کیا منصوبہ ہے، ہمیں کیا ہدایت ہے.تو بہت سے امور ہیں جن میں تفصیلی ہدایات کا طے ہونا ہی ضروری نہیں بلکہ وقت پر ان لوگوں تک پہنچا دینا ضروری ہے تا کہ جب بھی خدانخواستہ ایسے حالات بر پا ہوں تو فوری طور پر ان پر عمل درآمد کریں.جونائیجیریا کے بدلے ہوئے حالات ہیں ان میں کچھ خرابیاں ابھی ہیں جن کی طرف جماعت کو پوری توجہ کرنی چاہئے.ابیولا صاحب جن کے انتخاب کے نتیجہ میں سارا جھگڑا چلا تھا، ابیولا صاحب سے میرے اور جماعت کے بہت گہرے ذاتی تعلقات تھے.وہ جب یہاں تشریف لا یا کرتے تھے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ وہ ہمارے پاس نہ پہنچے ہوں.اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے معاملات میں جو پیچیدہ تھے مجھ سے مشورہ نہ کیا ہو.اس کے بعد دُنیا میں جہاں جاتے تھے وہاں سے ٹیلی فون پر رابطہ کرتے تھے کیونکہ ارب پتی آدمی تھے، ٹیلی فون کا بل تو ان کے لئے ایک کاغذ
خطبات طاہر جلد 17 548 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء کے گچھے سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتا جس کو آگ میں پھینک دیا جائے یعنی ان کے ذہن میں وہ تصور ہی نہیں جو عام لوگوں کے ذہن میں ٹیلی فون کالوں کا تصور ہے.تو اس لحاظ سے وہ دُنیا کے ہر مقام سے، جہاں بھی جاتے تھے لازمہ بنا رکھا تھا کہ مجھ سے ٹیلی فون پر بات کریں گے اور پوچھا کرتے تھے کہ یہاں میں اس غرض سے آیا ہوا ہوں، یہ میرا دُنیا کا تجارت کا معاملہ ہے، یہ ایسا معاملہ ہے جس کا ہماری سیاست سے تعلق ہے، آپ بتائیں مجھے کیا کرنا چاہئے یعنی مجھ سے مشورہ لینے میں بے انتہا عاجز تھے لیکن ان کے رشتے داروں اور ان کے باقی لوگوں کو تو یہ باتیں معلوم نہیں.جس پارٹی کے وہ سربراہ تھے وہ دراصل Islamic Fundamentalism کی پارٹی ہے جو اسلامی بنیاد پرستوں کی سر براہی میں قائم ہوئی ہے اور اسی کے نتیجہ میں اس کو کافی نفوذ ہوا ہے اور ان کے بنیادی ارادوں میں یہ بات داخل تھی کہ اگر ہم آگئے تو عیسائیوں کا بھی قلع قمع کریں گے جن کو سیاست میں نفوذ ہے اور معتدل مسلمانوں کو بھی ٹھیک کرلیں گے.اب الحاجی ابیولا کی یادیں تو وہاں کوئی کام نہیں کر سکتیں ، وہ کسی تحریر میں نہیں آئیں، کوئی ایسی کتاب نہیں ہے جس میں یہ درج ہوں سوائے اس وقت میرے دماغ کی کتاب ہے جس میں یہ باتیں درج ہیں.تو ہمارے امیر صاحب نائجیر یا ان باتوں کو بھی اپنی سرخ کتاب میں درج کریں اور یہ لکھ لیں کہ ایک بہت بڑا نائیجیرین قوم کا ہمدرد اور راہنما رخصت ہو گیا جو جماعت احمدیہ سے جو استفادہ کیا کرتا تھا وہ بھی اس کے دماغ کے ساتھ ہی رخصت ہو گیا.وہ اگر رہتا تو مجھے یقین ہے کہ اسی طرح ہمارے مشورہ کے مطابق رفتہ رفتہ ان انتہا پسندوں کا رخ دوسری طرف پھیر دیتا لیکن اس بے چارے کی زندگی نے وفا نہیں کی.اب جماعت نائیجیریا کو چاہئے کہ یہ باتیں درج کرے اور ان کے پیچھے جو باقی راہنما ر ہتے ہیں ان سے پوچھ لیں اور ان سے رابطے کی وسیع مہم چلائیں اور یہ منصوبہ بنائیں کہ نائیجیر یا اکٹھا رہے.مجھے نائیجیریا کے متعلق یہ سخت فکر لاحق ہے کہ چونکہ نائیجیریا سے بعض مغربی قو میں سخت دشمنی کر رہی ہیں کیونکہ نائیجیریا نے اس وقت اپنا سر بلند کیا اور اپنی انفرادیت کو قائم رکھنے کی کوشش کی جب کہ باقی افریقن ممالک کو یہ مغربی قوموں کے سر براہ جو کچھ کہا کرتے تھے ان کو آنکھیں بند کر کے مان لیا کرتے تھے.اتفاقی حادثہ ہوا ہے مگر ہوا اچھا کہ اس وقت کے جو فوجی سربراہ تھے ان کو اپنی طاقت کا اتنا شدت سے احساس ہوا کہ اپنے ملک میں میں جو چاہوں کروں اور اپنے تیل کی دولت کا
خطبات طاہر جلد 17 549 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء بھی فخر تھا کہ اس دولت کو ہم استعمال کر سکتے ہیں.انہوں نے مغربی راہنماؤں کی بات ماننے سے انکار کر دیا.انہوں نے کہا ہمارے اندرونی معاملات میں تم نے ہر گز دخل نہیں دینا ، اپنے معاملات ہم خود طے کریں گے اور ہمارے پاس کافی وسائل موجود ہیں کہ ان معاملات کو طے کریں اور اس کارڈ عمل کیا ہوا.تمام دنیا میں جن پر ان ملکوں کا اثر تھا ان کے تجارتی روابط نائیجیریا سے کاٹے گئے.اب اچانک نائیجیریا نے محسوس کیا کہ ایک رسی میں اس طرح حلقہ تنگ کیا جارہا ہے اور ان کے تیل کی فروخت پر پابندیاں لگا دیں.ظاہری پابندیاں نہیں مگر ہدایات یہی دے دی گئیں کہ یہ ملک ذراسر اٹھا رہا ہے اور اس کو وہم ہے کہ یہ آزاد ہے تو یہ وہم دور ہو جانا چاہئے.چنانچہ وہ پابندیاں بھی لگی شروع ہوئیں اور نسبتاً زیادہ سخت ہوتی رہیں یہاں تک کہ نائیجیریا نے محسوس کیا کہ اس کی چٹکی ایسی ہے جو دل کو کاٹ لے.کچھ دیر تک تو انہوں نے برداشت کیا مگر بالآخر مغربی طاقتوں کے دباؤ ہی کے نتیجے میں ان کو حاجی ابیولا کو آزاد کرنا پڑا اور مغربی طاقتوں کا خیال تھا کہ حاجی ابیولا کے ذریعہ دوباره نائیجیر یا پر اپنی حکومت قائم کرلیں گے.حاجی ابیولا کو ایسا دل کا دورہ پڑا جس کے متعلق آج تک ماہرین جو ہیں وہ دو گروہوں میں بٹے ہوئے ہیں.پہلے فوجی سربراہ کے عین ایک مہینہ بعد، بعینہ ایک مہینہ بعد ویسا ہی دل کا دورہ پڑا جیسے اس کو پڑا تھا اور اس کی چھان بین کس نے کی؟ مغربی طاقتوں کے نمائندوں نے ، یونائٹڈ نیشنز کے نمائندوں نے اور انہوں نے حالات کا جائزہ لے کر اعلان کر دیا کہ کوئی بھی اس میں خرابی نہیں تھی.اب پنجابی میں کہتے ہیں دودھ دارا کھا بلا.بلے کو اگر مقرر کر دیا جائے کہ دودھ کی حفاظت کرے تو وہ آپ ہی پی جائے گا.تقریباً اسی قسم کا واقعہ وہاں گزرا ہے تو اللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ اتفاق تھا، حسن اتفاق تھا یا کچھ اور بات تھی مگر ان کی بیٹی سے ہمارا رابطہ ہوا اور ان کی بیٹی یہاں آکر مجھ سے ملتی بھی رہی ہیں.بہت سمجھدار سلجھی ہوئی خاتون ہیں اور بعید نہیں کہ انہی کو آئندہ راہنما بنا لیا جائے.انہوں نے مجھ سے تفصیل سے یہ باتیں کیں کہ ہمارے خلاف سازشوں کا ایک تانا بانا بنایا جارہا ہے.اب جبکہ وہ نائیجیریا پہنچیں تو میرے نمائندوں نے ان سے ملاقات کی اور انہوں نے ہمارے نمائندوں کو بتایا کہ ان کو اس فیصلہ پر ادنی بھی اطمینان نہیں جو یہ دے چکے ہیں لیکن وہ کہتی ہیں کہ میں کروں کیا ، میرے اختیار میں اور کچھ بھی نہیں.ساری ٹیمیں یونائٹڈ نیشنز کی نگرانی میں کام کر رہی ہیں
خطبات طاہر جلد 17 550 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء وہ بتا رہی ہیں کہ کیا واقعہ ہوا اور میری آواز کو کون سنے گا لیکن میں نے بتایا کہ میری آواز کو حاجی ابیولا کے مداح سن رہے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ کچھ ایسی خرابی ہوئی ہے جس پر ہم ہاتھ نہیں ڈال سکتے.چنانچہ ان کی بات سچی نکلی اور وہاں فسادات شروع ہو گئے.بڑے زور کے ساتھ گلیوں میں لوگ نکلے ہیں جنہوں نے اس چھان بین سے کلیہ عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے مگر یہ جوگیوں کی Violence ہے یہ بھی نائیجیریا کے مفاد کے خلاف ہے.اس لئے بعض مسائل کا حل جو ہے وہ بعض نئے مسائل پیدا کرتا ہے.نائیجیریا کے تعلق میں اگر چہ ہم با قاعدہ رابطہ رکھے ہوئے ہیں.پوری کوشش یہی ہوگی اللہ کے فضل کے ساتھ کہ مسائل حل ہو جائیں اور نائیجیر یا ملک ایک ہو جائے مگر جو حالات نظر آ رہے ہیں اس سے لگتا ہے کہ یہ ہماری خواہش ابھی تک قابل عمل نہیں ہوئی کیونکہ حاجی ابیولا کے مداح جب حاجی ابیولا کی ان بتائی ہوئی باتوں پر عمل کریں گے جس میں مسلمانوں کے عروج کی باتیں تھیں تو لازماً عیسائی علاقوں کے خلاف ان کی منافرت بیدار ہوگی اور عیسائی علاقوں کو بیرونی دنیا کی فوجی حمایت حاصل ہے اور عیسائی علاقوں کو بیرونی دنیا کی سیاسی حمایت حاصل ہے.پس حالات سدھرنے میں ، اگر خدا کرے سدھر جائیں، ابھی بہت وقت درکار ہے اور بہت محنت درکار ہے.ہمارے نائیجیریا کے امیر صاحب یہ سن رہے ہیں یعنی اگر چہ ان کے کان میں میں ٹوٹی نہیں دیکھ رہا لیکن وہ میرے سر ہلانے کے ساتھ سر ہلا رہے ہیں میں ان سے درخواست کرتا ہوں کہ اس خطبہ کا ترجمہ بڑی توجہ سے سنیں.انگریزی زبان میں اس کے بعد دوبارہ صحیح ترجمہ ہونا چاہئے.ایک تو Running Translation ہے جیسے کنٹری ہوتی ہے لیکن یہ خطبہ ایسا ہے کہ جس کو تسلی.ترجمہ کر کے متعلقہ لوگوں تک پہنچا ئیں.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ وہ خطبہ کو غور سے سنیں گے اور اس کے نتیجے میں اپنے سیاسی اور جماعتی روابط کو از سر نو زندہ کریں گے.جماعتی روابط میں ایک بات ان کو بھی اور دوسرے ملکوں کو بھی جہاں فسادات وغیرہ ہوتے رہتے ہیں بتانی بڑی ضروری ہے اور یہ ان کی سرخ کتاب میں درج ہونی چاہئے کہ جتنے مرضی فسادات ہوں ان کی موجودگی میں ہم نے لازماً آگے بڑھنا ہے اور نئے علاقے فتح کرنے ہیں تبلیغ کا کام فسادات کی وجہ سے رُکے گا نہیں.فسادات کی روک تھام کے لئے ہم جو کوشش کریں گے اس سے ہمیں سہولت تو ہوگی لیکن لازم تو نہیں ہے کہ ہم کامیاب ہوں، یعنی روک تھام میں کامیاب ہو جائیں مگر اس کے نتیجے میں یعنی فسادات اگر ہوں تو تبلیغ
خطبات طاہر جلد 17 551 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء کا کام کسی قیمت پہ بھی نہیں رکنا چاہئے اور اس کے لئے فسادات کے احتمال کو پیش نظر رکھ کے نائجیر یا کی جماعت کو تبلیغ کا تفصیلی منصوبہ بنانا چاہئے.اب جبکہ ہم ہزاروں سے لاکھوں اور لاکھوں سے کروڑوں میں داخل ہورہے ہیں تو یا درکھیں کہ پچاس لاکھ پر ہمارا قدم رکھنا نہیں ہے.میں اُمید رکھتا ہوں اور پوری طرح ابھی سے میں اس بارہ میں منصوبے بنا کر جماعت کے سر براہوں سے جو مختلف ملکوں سے آئے ہیں گفتگو کر چکا ہوں.ہرگز بعید نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اگلی دفعہ ایک کروڑ ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور جب ہم ایک کروڑ ہو جائیں گے، جیسا کہ مجھے بھاری اُمید ہے ہم کوشش ضرور کریں گے انشاء اللہ ، تو اس صورت میں اگلے سال کے دو کروڑ نہ بھولیں.اس طرح اگر یہ سلسلہ بڑھے تو چند سالوں میں تمام دنیا آنحضرت سی ایم کے قدموں کے نیچے ہوگی.اور یہ منصوبہ وہ ہے کہ محض خوش فہمی پر مبنی نہیں ہے.یہ قرآنی تعلیمات پر مبنی ہے اور ان تعلیمات پر عملدرآمد کے نتیجے میں جب ہم حکمت سے منصوبہ بناتے ہیں اور صبر سے اس کی پیروی کرتے ہیں اور دعا سے اللہ تعالیٰ سے مدد چاہتے ہیں تو یہ منصوبہ پھر اللہ تعالیٰ کے ہاتھوں میں آجاتا ہے اور اب تک کا میرا یہی تجربہ ہے اس نے کبھی بھی ہمیں مایوس نہیں کیا.تو اگر چہ آئندہ آنے والی اُمید میں دنیا کی نظر میں شیخ چلی کی خوا ہیں ہوں گی مگر میری نظر میں تو نہیں.میں آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ شیخ چلی کی خوا ہیں اس کے معدے کی خرابی سے ہوا کرتی تھیں.میری جو خوا ہیں ہیں وہ قرآن پر مبنی ہیں ، اللہ کے ارشادات پر مبنی ہیں.ان دونوں خوابوں کے درمیان شَتّانِ بَيْنَهُمَا ، مشرق و مغرب بلکہ اس سے بھی زیادہ بعد ہے.پس پہلے تو ایمان اور یقین دلوں میں پیدا کریں.اگر آپ کو یقین ہی نہیں ہوگا کہ یہ باتیں ممکن ہیں تو یقین سے جو تو کل پیدا ہوتا ہے وہ بھی نہیں ہوگا.کامل یقین اور اس کے نتیجے میں تو کل.توکل کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ ذمہ داری خود قبول فرمالیتا ہے کہ میرے عاجز بے کس بندوں نے مجھ پر توکل کیا ہے تو میں ان کی تو قعات پوری نہیں کروں گا !!؟ پس یہ ہے منصوبہ جو آئندہ سال کے لئے میں نے ذہن نشین کر کے جو ہمارے متعلقہ عہد یداران تھے ان پر مجالس کے دوران کھول دیا ہے لیکن یہ باتیں ہوسکتا ہے وہ بھول جائیں.اس لئے یہ خطبہ میں دے رہا ہوں تاکہ ساری جماعت کو پتا چل جائے کہ میں نے کیا باتیں کی تھیں اور وہ ان لوگوں کو بھولنے نہ دیں.پس اللہ تعالیٰ کے فضل سے میں ، جیسا کہ مجھے امید ہے، انشاء اللہ تعالیٰ اس کی
خطبات طاہر جلد 17 552 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء پیروی کروں گا لیکن جماعت کے اوپر ذمہ داری لگاتا ہوں کہ انہوں نے ان باتوں کو اپنے افسروں کو بھولنے نہیں دینا اور انہی باتوں کا تعلق پاکستان اور بنگلہ دیش سے بھی ہے.پاکستان میں حالات سنگین ہورہے ہیں اور یہ خطرہ درپیش ہے کہ تیزی سے اور زیادہ سنگین ہو جائیں لیکن ایک بات میں آپ کو یاد دلا دیتا ہوں کہ حالات سنگین ہو بھی جائیں تو نتیجاً انشاء اللہ وہ جماعت کے حق میں ہوں گے.جو بھی نتیجہ اللہ کے علم میں ہے وہ نکلے گا مگر اس بارے میں مجھے ادنی بھی شک نہیں کہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات کا آخری نتیجہ جماعت احمدیہ کے حق میں ہوگا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس کا آخری نتیجہ ملاں کے خلاف ہوگا اور میں بھاری اُمید رکھتا ہوں کہ مُلاں اپنی فتح کے تصور کے ساتھ اگلی صدی کا منہ نہیں دیکھے گا.پس آپ سے اس دعا کی بھی درخواست ہے کہ پاکستان میں جو حالات تبدیل ہورہے ہیں جس طرح میں نے نائیجیریا کی بحث کی، سیرالیون کی بحث کی اب آخر پر میرا فرض ہے کہ پاکستان کے متعلق بھی چند امور آپ کے سامنے رکھ دوں.بنگلہ دیش میں بھی اسی قسم کے حالات رونما ہورہے ہیں مگر بہت کم.پاکستان میں بہت زیادہ سنگین اور خطرناک ہیں اور نظر آ رہا ہے، اللہ تعالیٰ کی انگلی اشارے کر رہی ہے کہ خدا تعالیٰ زبر دستی قوم کا رخ درستی کی طرف پھیر دے گا.اگر یہ توقع پوری ہوگئی اور قوم نے جنگ سے پہلے پہلے اپنی اصلاح کرلی اور ان باتوں کی اصلاح کر لی جن کے نتیجے میں ملائیت کا فتنہ عروج پارہا ہے، ان چیزوں کا قلع قمع کر دیا جن کے نتیجے میں مظلوموں پر ظلم کئے جار ہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ ہماری دعاؤں کو سنتے ہوئے اللہ تعالیٰ اس ملک کو ہر بحران سے نکال دے گا.ناممکن ہے پھر کہ ہندوستان یا کوئی دنیا کی طاقت اس ملک کو غرقاب کر سکے.پھر اس ملک نے بچنا ہی بچنا ہے اور خدا تعالیٰ کے دین کو بڑی تیزی سے دنیا میں پھیلانے کے لئے بچنا ہے.تو آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اس دعا کو پیش نظر رکھیں اور جو پاکستان جانے والے لوگ ہیں ان میں سے بہت سے جاچکے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو آج کے خطبہ کی خاطر ٹھہرے ہوئے تھے اور اسی وجہ سے آج دو پہر کو ہم نے جمعہ کے ساتھ عصر کو جمع کرنا ہے.اگر چہ یہ دستور رہا ہے کہ جتنی جلدی بھی ہو ظہر وعصر کی نمازوں کو جمع کرنا بند کر دیا جائے عام نمازیں جمع نہیں ہور ہیں لیکن جمعہ کی وجہ سے مجھے امیر صاحب نے بتایا کہ بہت زیادہ دوست ٹھہرے ہوئے ہیں اس
خطبات طاہر جلد 17 553 خطبہ جمعہ 7 اگست 1998ء توقع پر کہ وہ خطبہ سنیں گے تو پھر جائیں گے.اس لئے آج انشاء اللہ نماز میں جمع ہی ہوں گی لیکن ایک دو دن مغرب اور عشاء کی نمازیں بھی جمع ہوں گی کیونکہ رات کے وقت، وقت تھوڑا ہوتا ہے اور اس وقت سفر کرنے والوں کے لئے وقت ہو جاتی ہے.پس اس اعلان کے ساتھ اب میں اس خطبہ کو ختم کرتا ہوں.میں اُمید رکھتا ہوں کہ ہمارے پاکستان جانے والے دوست اور پاکستان میں یہ خطبہ سننے والے دوست اس خطبہ کی روشنی میں عوام الناس کے علاوہ اپنے راہنماؤں کی تربیت کی بھی کوشش کریں گے.ان کو بتائیں گے کہ اگر تم بلاؤں سے بچنا چاہتے ہو تو ایک ہی راہ ہے، سیدھے رستے پر آجاؤ اور وہ جو سیدھی راہ ہے وہ تمہارے دل میں نقش ہے.کوئی انسان ایسا نہیں جو اپنی فطرت کی آواز سے راہنمائی حاصل نہ کرے.جب بھی غلط راہنمائی ہوتی ہے تو غلط تقاضوں اور خود غرضی کے نتیجے میں غلط راہنمائی ہوتی ہے.ہر شخص اپنے نفس میں آزادانہ ڈوب کر دیکھے، جو جواب فطرت کا ملے گا ہمیشہ صحیح ہو گا.پس ہمارے سر براہوں کی یعنی پاکستان کے سر براہوں کی اور عوام الناس کی فطرت کو جھنجھوڑیں.ان کو توجہ دلائیں کہ ہم پر کوئی احسان نہیں کر رہے تم نہ کر سکتے ہو.یہ ہمارا احسان ہے جو تمہاری فطرت کو جھنجھوڑ رہے ہیں اگر یہ جاگ گئی تو قوم جاگی رہے گی.اگر یہ سو گئی تو قوم ہمیشہ کی نیند سو سکتی ہے.اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں بچائے.اس خطاب کے ساتھ جس میں ان آیات کے ذکر کا موقع ہی نہیں ملا انشاء اللہ اگلے خطبہ میں یہ مضمون شروع کروں گا یعنی وہ آیات جن کی میں نے تلاوت کی تھی اس مضمون کو آئندہ خطبہ میں آگے بڑھاؤں گا اور اب میں اجازت چاہتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 555 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء سیدھی بات سے اصلاح اعمال کا بہت گہرا تعلق ہے قول سدید نہیں ہوگا تو اصلاح نہیں ہوگی (خطبه جمعه فرموده 14 اگست 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کیں : ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدَ اليُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عظيمان پھر فرمایا: (الاحزاب:72،71) آج کے خطبہ کے لئے میں نے قرآن کریم کی دو دو آیات مختلف سورتوں سے اخذ کی ہیں اور انہی کو اس خطبہ کا عنوان بنایا ہے.یہ پہلی دو آیات جن کی میں نے تلاوت کی ہے سورۃ الاحزاب کی آیت اکہتر دیں اور بہتر ویں ہیں.دوسری دو آیات میں نے سورۃ البقرۃ سے چنی ہیں پینتالیس اور چھیالیس جو اس طرح ہیں.آتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ کیا تم لوگوں کو تو نیکی کی تعلیم دیتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو.وَ اَنْتُم تَتْلُونَ الكتب حالا نکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو.اَفَلَا تَعْقِلُونَ کیا تم عقل نہیں کرتے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبُرِ وَالصَّلوۃ اور صبر اور صلوة کے ذریعہ اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کرو.وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ (البقرة: 46،45) اور یہ بہت بڑی بات ہے مگر ان لوگوں کے لئے جو خاک بہ سر ہوں، جو مزاجاً مٹی سے ملے رہیں.یہ دو آیات ہیں جن کو میں ایک دوسرے کے بعد خطبہ کا موضوع بناؤں گا.
خطبات طاہر جلد 17 556 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء پہلی آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ آیات اکثر نکاح کے موقعوں پر تلاوت کی جاتی ہیں، اے لوگو جو ایمان لائے ہو اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سیدھی بات کہو.سیدھی بات کے متعلق میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں کہ سیدھی بات سچی بات سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی بات ہے.سچی بات کہنے کے نتیجے میں بھی بعض دفعہ غلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں.سیدھی بات کرنے کا عادی پوری کوشش کرتا ہے کہ بات اس طرح کرے کہ سچی بھی ہو اور اس سے کوئی غلط فہمی بھی پیدا نہ ہو.جو اس کے دل کا منشاء ہے وہ پوری طرح کھل کر ظاہر ہو جائے.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ کیونکہ سیدھی بات سے اصلاح اعمال کا بہت گہرا تعلق ہے.ایک بات تم کرو دوسری بات اللہ نے اپنے ذمہ لے لی ہے.يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ اگر سیدھی بات کو شیوہ بناؤ گے تو وہ ضرور تمہارے اعمال کی اصلاح فرما دے گا.وَيَغْفِرُ لَكُمْ ذُنُوبکم اور تمہارے گناہ جو اس سے پہلے سرزد ہو گئے ان کو معاف فرما دے گا.وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُوله اور جو بھی اللہ اور اس کے رسول صلی سیستم کی اطاعت کرے پس اس نے بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی یعنی یہ سلسلہ آگے بڑھتا رہے گا ، اطاعت رسول سی ایم کی توفیق ملتی چلی جائے گی اور جوں جوں تم اطاعت کرو گے ساتھ ساتھ تم نیکی میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے یہاں تک کہ اس کا کوئی منتہی نہیں سوائے اس کے کہ جب تمہیں موت آئے گی تو تم ایک کامیابی کی حالت میں مر رہے ہو گے، بہت بڑی کامیابی تمہیں نصیب ہوگی.ان آیات سے متعلق پہلے میں آنحضرت صلی یا سیستم کی ایک حدیث پیش کرتا ہوں جو میرے نزدیک ان آیات سے گہرا تعلق رکھتی ہے.مسند احمد بن حنبل سے یہ حدیث لی گئی ہے عبد اللہ بن عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ: ”جب میں ابھی بچہ ہی تھا تو رسول اللہ مل ہی تم ہمارے گھر پر تشریف لائے.میں کھیلنے کودنے کے لئے گھر سے باہر جانے لگا.میری والدہ نے کہا اے عبداللہ ! جلد گھر چلے 66 آنا میں تجھے کچھ دوں گی.“ اس لالچ میں کہ مجھے کچھ ملے گا ان کا خیال تھا کہ یہ کھیل کود میں دل لگانے کی بجائے دماغ گھر کی طرف رکھے گا اور جتنی جلدی اس کو توفیق ملے گی واپس آ جائے گا.
خطبات طاہر جلد 17 557 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء آنحضرت صلی لا یہی تم نے فرمایا: تم نے اسے کیا دینے کا ارادہ کیا ہے؟ میں نے جواب دیا کھجوریں دینا چاہتی ہوں.آپ مالی یہ تم نے فرمایا: اگر تو نے ایسا نہ کیا تو یہ تیرا جھوٹ شمار ہوگا.“ (مسند احمد بن حنبل، حدیث عبداللہ بن عامر ، مسند نمبر :15702) پس قول سدید کا تجربہ گھروں سے شروع ہونا چاہئے.تمام وہ اولادیں جو رفتہ رفتہ بگڑ کر دور چلی جاتی ہیں بچپن میں ان سے قول سدید سے کام نہیں لیا جاتا.بارہا میں نے ماؤں کو توجہ دلائی ہے اور اب پھر میں دوبارہ متوجہ کرتا ہوں باپ بھی مخاطب ہیں مگر بالعموم ما ئیں جن کا روزمرہ بچوں سے واسطہ ہوتا ہے اکثر وہ بچوں کو گلے سے اتارنے کے لئے کوئی جھوٹا وعدہ کر دیتی ہیں اور جب وہ پورا نہیں کرتیں تو یہ قول سدید کے خلاف ہے اور قول سدید کے نہ ہونے کے نتیجہ میں اصلاح ہو ہی نہیں سکتی.جب اللہ تعالیٰ نے اصلاح کا وعدہ قول سدید سے وابستہ فرما دیا ہے تو ظاہر ہے کہ قول سدید نہیں ہوگا تو اصلاح نہیں ہوگی.یہ دو باتیں قول سدید اور اصلاح لازم ملزوم ہیں.اگر ایک نہیں ہوتی تو دوسری بھی نہیں ہوگی اور یہ نکتہ اکثر لوگ اپنے بچوں کی تربیت میں بھلا دیتے ہیں.بچوں سے جو بات کہو صاف اور سیدھی کہو اس کے نتیجہ میں وہ ہمیشہ اوّل تو تمہاری زیادہ تو قیر کریں گے کیونکہ جوشخص اپنے وعدہ کا پکا ہو اور صاف کھری بات کہنے والا ہو ہمیشہ اس کے لئے دلوں میں عزت پیدا ہوتی ہے.یہ بھی ایک ایسا طبعی نتیجہ ہے جسے نظر انداز کیا ہی نہیں جاسکتا.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم سب سے زیادہ کھری بات کرنے والے تھے.اگر کھری بات کے نتیجہ میں لوگ دور بھاگ رہے ہوتے تو آنحضرت سالی ایم کے ارد گرد تو کوئی بھی نہ رہتا.اصل میں آپ صلی اسلم کالوگوں کے اوپر رحمت اور شفقت کا سلوک ایک الگ مسئلہ ہے اس نے بھی لوگوں کو کھینچ رکھا مگر یہ بات لوگ نظر انداز نہ کریں کہ کھری بات کہنے سے بھی عزت بڑھتی ہے اور جو ہمیشہ کھری بات کہنے والا ہو آہستہ آہستہ اس کی نصیحت سے منافرت نہیں پیدا ہوتی بلکہ دن بدن اس کی عزت اور احترام کا جذبہ دل میں بڑھتا چلا جاتا ہے.پس آنحضرت صلی یکم کھری باتیں کہنے میں ظاہر ہے دنیا میں تمام پہلوں اور اگلوں سے سبقت لے گئے اور سب سے زیادہ آپ مسی مایہ نہ کی توقیر کی گئی.بہت گہری تو قیر ہے جو صحابہ کے دل میں بھی تھی بلکہ دشمن بھی آپ صلی ایتم کی کھری بات کی قدر کرتا تھا.
خطبات طاہر جلد 17 558 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء جو ابو جہل والا واقعہ آپ کے سامنے ہے اس میں بھی آپ صلی ای ایم نے جا کر جب کہ وہ شدید مخالف تھا کھری بات کہی اور اس کے دل میں اس کھری بات کا رعب پڑ گیا.جب بھی کوئی غیر آپ صلی للہ یہ تم کی بات سنتا تھا جانتا تھا کہ سچی بات ہے اور اس کے نتیجے میں منافرت کی بجائے عزت بڑھا کرتی تھی.پس اپنے گھروں میں یہ تجربہ تو کر کے دیکھو.اپنے بچوں سے کھری بات کہو اور دیکھو کہ ان کے دلوں میں دن بدن عمر کے ساتھ ساتھ تمہاری عزت بڑھے گی اور اگر یہ نہیں کرو گے تو پھر اولا دہاتھ سے جاتی رہے گی.آج تک میں نے نہیں دیکھا کہ کوئی اپنے بچوں سے دھوکے کی باتیں کرتا ہو اور بچے پھر ان کی کوئی عزت کرتے رہیں یا آزاد ہونے کے بعد دین سے اور دُنیا سے ہر لحاظ سے ان کے اثر سے باہر نہ نکل گئے ہوں.جب ان کو توفیق ملتی ہے وہ بڑے ہو کر اپنے ماں باپ کے دائرہ اثر سے باہر نکل جاتے ہیں.آنحضرت مصلی یہ تم نے اس موضوع پر تین باتیں ایسی بیان کیں جو منافق کی نشانی ہیں.ان میں سے ایک وہی ہے جس کا ذکر کر رہا ہوں.فرمایا: " منافق وہ ہے جو جب کوئی وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے.“ (صحیح البخارى، كتاب الشهادات باب من أمر بأنجاز الوعد،حدیث نمبر :2682) پس سب سے پہلے تو بچوں سے وعدہ کرو تو اس میں وعدہ خلافی نہ کرو.جو بچوں سے وعدہ خلافی کرے گا وہ باہر بھی وعدہ خلافی کرے گا.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بچے جو اپنے سب سے پیارے ہوں اور عزیز ہوں ان سے تو آدمی وعدہ خلافی کرتا رہے اور باہر کے وعدے پورے کرے یہ ناممکن ہے، فطرت انسانی کے خلاف ہے.تو آنحضور سی ایم نے منافق کی یہ علامتیں بیان فرمائی ہیں اور میں نہیں سمجھتا کہ کوئی ہوش مند شخص جانتے بوجھتے ہوئے منافقت کی راہ اپنے لئے پسند کرے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس موضوع پر جو کچھ فرمایا ہے میرا خیال ہے میں اس حصہ کو پیچھے چھوڑ آیا ہوں لیکن اپنی یادداشت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا عمل اس بارے میں بیان کر دیتا ہوں.بہت سے واقعات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ایسے گزرے ہیں کہ ایک شخص جو بیرونی نظر سے ان کو دیکھے وہ سمجھے گا کہ یہ اللہ کا کیسا نبی ہے جو اتنی چھوٹی چھوٹی باتوں میں مبتلا رہا ہے.ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جیب میں روڑے بھرے ہوئے تھے.اب ملاں اور بد بخت لوگ ہنسیں گے اور قہقہے لگا ئیں گے کہ یہ نبی
خطبات طاہر جلد 17 559 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء بنا ہوا ہے جیب میں روڑے ہیں.وہ اس لئے تھے کہ اپنے ایک بچے سے جو روڑوں سے کھیلتا اور شور مچارہا تھا آپ نے کہا کہ یہ روڑے مجھے دے دو اور باہر جا کر کھیلو.جب واپس آؤ گے میں تمہیں دے دوں گا.وہ روڑے جیب میں ڈال لئے تا کہ ان میں سے کوئی بھی ضائع نہ ہو.جب وہ بچہ واپس آیا تو وہ روڑے اس کے سپرد کر دیئے.(سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی صفحہ :41،40) اب دیکھنے میں ایک بہت چھوٹی بات ہے مگر چھوٹی باتوں ہی سے عظیم باتیں پیدا ہوا کرتی ہیں.اگر کسی کو اتنا خیال ہے اپنے بچے سے سچا وعدہ کرنے کا کہ اس کے روڑے سنبھالتا پھرتا ہے تو اندازہ کریں کہ باہر کی دنیا میں اس کا کیا حال ہو گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سچائی کی بے شمار دلیلیں ہیں مگر یہ ایک دلیل بھی ہوشمند کے لئے کافی ہونی چاہئے.جو وعدوں کا اتنا سچا ہو وہ خدا تعالیٰ کی پیشگوئیاں بیان کرنے اور دُنیا سے وعدے کرنے میں کتنا سچا نہیں ہوگا.پس اسی کو اپنا وطیرہ بنائیں اور اپنے بچوں کو خواہ مخواہ جھوٹے لارے نہ دیا کریں.اپنے گھر میں میں نے بچپن سے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس بات کی تاکید رکھی.ماؤں کی عادت ہوتی ہے میری بیگم مرحومہ بھی ، بے خیالی میں لوگ سمجھتے نہیں کہ جھوٹ ہے، بے خیالی میں بچوں سے وعدے کر دیا کرتی تھیں کہ تمہیں میں یہ دے دوں گی، فلاں چیز دے دوں گی اور جب مجھے پتا چلتا میں وہ ضرور حاصل کر لیا کرتا تھا.یہ بھی ایک سمجھانے کا طریقہ تھا بجائے اس کے کہ ان کو کہوں کہ آپ نے جھوٹ بولا ہے، سختی کرتا، ان کو سمجھانے کا یہ طریق تھا کہ وہ چیز حاصل کر کے مہیا کر دیتا تھا تا کہ جب بچے واپس آئیں تو ان کے لئے موجود ہو.تو تربیت کے مختلف رنگ ڈھنگ ہوتے ہیں.سچی بات کرنے میں ضروری نہیں کہ وہ کڑوی بات بھی ہو ، سچی بات کہنے کے انداز الگ الگ ہیں.جب سچی بات کرنی ہی پڑے تو خواہ کسی کو کڑوی لگے وہ ضرور کرنی ہے.لیکن اگر آپ یہ پسند کرتے ہوں کہ اس بات کا کوئی ایسا تکلیف دہ اثر نہ پڑے تو یہ ممکن ہے.میں نے اپنی زندگی میں بارہا اس کو آزمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کبھی ساری عمر اپنے بچوں سے کوئی وعدہ نہیں کیا جس کو میں پورا نہ کر سکتا ہوں.اس کے نتیجہ میں میں خوش ہوں.میرے بعد اللہ اسی حال پر ان کو قائم رکھے، یہ میری دعا ہے.آپ بھی اپنے بچوں کے لئے یہی دعا کیا کریں اور جب یہ دعا کریں گے تو اس عمل کے بعد ہونی چاہئے جو اس دعا کے مطابق ہو ورنہ
خطبات طاہر جلد 17 560 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء وہی منافقت والی بات آجائے گی.آپ کے لئے بھی بچوں کی خاطر دل میں ایسا درد ہونا چاہئے جو اللہ کے فضل کے ساتھ ہمیشہ میں نے محسوس کیا اور میں جانتا ہوں کہ اللہ اس درد کو کبھی ضائع نہیں کرتا، توقع سے بڑھ کر پھل لگاتا ہے.تو اپنے گھروں میں تجربہ تو کر کے دیکھیں کتنا آسان تجربہ ہے.بچوں سے پیار ہوا کرتا ہے ان کے حق میں یہ باتیں کرنی ہیں اس میں کونسی مشکل ہے لیکن جو مشکل ہے وہ یہ کہ سر سے ٹالنے کی کوشش نہ کریں بچوں کو ، جب بھی ٹالیں گے ہمیشہ کے لئے وہ ٹل جائیں گے پھر آپ کو ان کی نیکی دیکھنا نصیب نہیں ہوگی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے واقعات میں سے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے بہت بڑے واقعات ہیں اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹی نے وہ واقعات بڑے بیان کئے ہوئے ہیں اور بھی بہت سے صحابہؓ نے واقعات بیان کئے ہوئے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ چھوٹا سا کوئی وعدہ کیا ہے اور پھر وہ بھولے نہیں.ایک دفعہ ایک صحابی جو غالباً حضرت مولوی عبدالکریم صاحب ہی تھے سوئے ہوئے تھے اور ان کی آنکھ کھلی تو دیکھا چارپائی کے نیچے فرش پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام لیٹے ہوئے ہیں.وہ گھبرا کر اٹھے! کہ ہیں آپ یہاں لیٹے ہوئے ہیں.آپ نے فرمایا: نہیں ، گھبراؤ نہیں ، میں تمہاری حفاظت کر رہا ہوں ، اپنے بچوں کے شور سے.بچوں کو میں نے باہر بھگا دیا تھا اور کہا تھا خبردار جو ادھر آئے میں یہاں ہوں گا.اس یقین پر کہ میں یہاں ہوں گا ، وہ آپ کو تنگ نہیں کر رہے.آپ نے کہا اگر میری یہ بات غلط ہوتی، کوئی جھانک کے دیکھ لیتا کہ میں یہاں نہیں ہوں تو اس پر کیا بداثر پڑتا.ایک تو آپ کی نیند خراب ہوتی ، دوسرا اس کی تربیت بگڑ جاتی.سیرت حضرت مسیح موعود از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹی ،صفحہ:41) اتنا باریک خیال تھا سچی ، صاف اور کھری بات کرنے کا کہ آپ گردو پیش نظر ڈال کر دیکھ لیں.آپ کو کوئی دوسرا انسان اس باریکی کے ساتھ اپنی باتوں کی حفاظت کرنے والا نہیں ملے گا.یہ وہ شخص ہے جس کو لوگ جھوٹا بھی کہتے ہیں ، ان کی اپنی بدنصیبی ہے.وہ جب مریں گے تو اللہ ان سے جو سلوک چاہے فرمائے لیکن ایک باشعور انسان جو گہرائی کی نظر سے کسی کے بیچ کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے اسے بڑی باتوں کی بجائے روز مرہ کی چھوٹی باتوں میں اس کا مطالعہ کرنا چاہئے.بڑی باتوں میں جھوٹ بولا جاتا ہے بڑے بڑے دعاوی میں بڑے جھوٹ بولے جاتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میں ان
خطبات طاہر جلد 17 561 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء جھوٹوں کے ساتھ دُنیا میں عزت اور توقیر پا جاؤں گا لیکن چھوٹے معاملات میں گھر میں ہر روز کی چھوٹی چھوٹی زندگی کی باتوں میں جھوٹ نہ بولنا بہت بڑی آزمائش ہے، بہت کڑی آزمائش ہے.اس آزمائش پہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے بڑھ کر کبھی آپ کوئی آدمی نہیں دیکھیں گے جو اس طرح پورا اُتر ا ہو.اور آپ کو اپنے گھروں میں یہ دستور بنانا چاہئے اندر کی آزمائش کو سنبھال لیں، باہر اللہ تعالیٰ آپ کے وجود کو صاف ستھرا اور پاکیزہ وجود کے طور پر دُنیا کے سامنے ظاہر فرمائے گا پھر آپ کے بڑے دعاوی بھی قبول کئے جائیں گے لیکن فطرت میں دورنگی نہیں ہونی چاہئے.یہ دورنگی ہے جو انسان کو برباد کر دیتی ہے.اب اس ضمن میں خواہ یہ بعض نوٹس جو میرے رہ گئے ان کے نتیجہ میں خطبہ چھوٹا بھی ہو تو حرج نہیں کیونکہ ان آیات میں آئندہ آتا مُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ سے متعلق جو میں باتیں کہنا چاہتا ہوں اس میں یہ کافی اہم اور وسیع ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ کی آیت کی تشریح میں فرماتے ہیں: حقیقت میں اس امر کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ انسان کا قول اور فعل باہم ایک مطابقت رکھتے ہوں.اگر ان میں مطابقت نہیں تو کچھ بھی نہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اَ تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ یعنی تم لوگوں کو تو نیکی کا امر کرتے ہومگر اپنے آپ کو اس امریکی کا مخاطب نہیں بناتے بلکہ بھول جاتے ہو.“ احکم جلد 9 نمبر 16 صفحہ:2 مورخہ 10 مئی 1905ء) یہاں یہ بات قابل ذکر ہے اور میں اسی سے بات شروع کرتا ہوں کہ حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو تفسیر صغیر میں ترجمہ پیش فرمایا ہے اس میں اس پہلے حصہ کو یہود کے متعلق اور سابقہ قوموں کے متعلق بیان فرمایا ہے.آتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ سے وہ تو رات اور پہلی کتب مقدسہ مراد لی ہیں.اس کی وجہ یہ حسن ظنی ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آنحضرت سلنا یہ تم کی امت کو مخاطب کر کے اللہ تعالیٰ فرمائے کہ کیا تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور اپنے نفس کو بھول جاتے ہو حالانکہ تم کتاب کی تلاوت کرتے ہو.امر واقعہ یہ ہے کہ یہود ایسا کیا کرتے تھے.اس لئے بھی حضرت مصلح موعود کا خیال ادھر گیا لیکن اگلی آیت صاف بتا رہی ہے کہ اُمت مسلمہ ہی
خطبات طاہر جلد 17 562 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء مراد ہے کیونکہ پہلوں کو حکم دیتے ہوئے اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما سکتا تھا وَ اسْتَعِينُوا بالصبر والصلوة - اگر پہلی آیت میں پہلی قوموں کا ذکر ہوتا تو ان کو ان کی خرابی کی طرف متوجہ کر کے معا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اسے گزری ہوئی قو مو! وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ.تو میرے نزدیک لازماً یہاں حضرت محمد مصطفی سال یا الیتیم کے غلام مراد ہیں.آتا مُرُونَ النَّاسَ بِالْبِر میں یہ مراد نہیں ہے کہ تم ایسا کرتے ہو.مراد یہ ہے کہ تمہارے سپرد یہ کام کیا گیا ہے.تم تو امتوں کی اصلاح کے لئے، ان کو برائیوں سے روکنے کے لئے نکالے گئے ہو کیا ایسا کرو گے؟ یعنی “ کا جو سوال ہے یہ ان معنوں میں آتا ہے کہ کیا تم یہ کرو گے کہ لوگوں کو تو نیکی کی نصیحت کر رہے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاؤ ؟ ہرگز ایسا نہیں کرنا.وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الكتب تم الكتب یعنی قرآن کریم کا مطالعہ کرنے والی قوم ہو.تم سے ہر گز یہ توقع نہیں.اَفَلَا تَعْقِلُونَ پس کیا تم عقل نہیں کرو گے؟ یا کیا تم عقل نہیں کرتے ؟ تو یہ سوال ہے ایک احتمال کے بیان کے طور پر جسے رڈ کرنا مقصود ہے اور اگلی آیت بعینہ اس کے مطابق ہے.یہ جو کام تمہارے سپر د کیا گیا ہے بنی نوع انسان کی اصلاح ، ان کو نیکی کا حکم دینا اور اپنے آپ کو نیکیوں پر قائم رکھنا یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے سوا ممکن نہیں.اس کے لئے لازم ہے کہ وَاسْتَعِينُوا بالصبر والصلوۃ تو اللہ سے صبر اور صلوۃ کے ذریعہ سے مدد مانگو.الصلوة کا معنی دعا بھی ہے اور الصلوۃ کا معنی روز مرہ کی نماز جو ہم پڑھتے ہیں وہ بھی ہے.تو دونوں معنے اس میں آجائیں گے.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ لازم ہے کہ نماز کی باقاعدگی اختیار کرو اور نمازوں میں بھی اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کرتے رہو کہ تم کبھی دوغلے نہ بنو، خدا کی نظر میں تم منافق نہ ٹھہرو اور صبر کے ساتھ اور عام چلتے پھرتے دعاؤں کے ساتھ خدا سے مدد مانگتے رہو.وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إلا عَلَى الْخشِعِينَ اگر یہ بات بہت بھاری ہے لوگوں پر ، صبر کی تلقین میں اللہ سے مدد مانگنا یہ بھی بھاری ہے.اب جس چیز کے لئے مددمانگ رہے ہیں وہ چیز ہی بھاری ہو جائے تو کیسے توفیق ملے گی.تو دراصل جو مدد مانگی جارہی ہے اس میں یہ توفیق بھی شامل ہے کہ ہمیں یہ مدد مانگنے کی بھی توفیق عطا فر مالیکن ایک شرط رکھ دی ہے وہ لازم ہے.بہت بوجھل ہوگا یہ حکم مگر ان لوگوں کے لئے جو خاک بہ سر ہوں، ان کا نفس مارا ہوا ہو، وہ زمین پر بچھے رہنے والے ہوں، ان کے لئے معاملہ بوجھل نہیں ہو گا.اس لئے بوجھل نہیں ہوگا کہ جو زمین پر بیٹھا ہے اس نے تو بھیک مانگنی ہی ہے اور کیا کرے گا.اب اکثر فقیر جو ہیں ان کو آپ
خطبات طاہر جلد 17 563 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء دیکھیں گے زمین پر بیٹھے ہوتے ہیں کیونکہ زمین پر بیٹھنا ایک عاجزی کی علامت بھی ہے اور احتیاج کو ثابت کرتی ہے.جو زمین پر بیٹھا ہو گا اس نے ہاتھ پھیلانے ہی ہیں تو جس کو خدا تعالیٰ یہ توفیق دے کہ وہ خاک بہ سر ہو جائے اس کے لئے مشکل نہیں ہے.وہ اللہ سے مدد مانگے اور خواہ کتنے مشکل کام پر اللہ کی مدد طلب کر رہا ہو اللہ تعالیٰ اس کی اس عاجزی کو دیکھتے ہوئے اس پر ان راہوں کو آسان فرمادے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”حقیقت میں اس امر کی بہت بڑی ضرورت ہے کہ انسان کا قول اور فعل باہم ایک مطابقت رکھتے ہوں.اگر ان میں مطابقت نہیں تو کچھ بھی نہیں.اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے اَتَا مُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ یعنی تم لوگوں کو تو نیکی کا امر کرتے ہو مگر اپنے آپ کو اس امر نیکی کا مخاطب نہیں بناتے بلکہ بھول جاتے ہو.‘‘اس ضمن میں جو ایک ترجمہ بعینہ عربی لغت کے مطابق ہے مگر عموماً یہاں بیان نہیں کیا جاتا وہ میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ میں اپنی جانیں تو مراد ہیں ہی مگر انفسکم سے مراد وَنَ اپنے اہل وعیال بھی ہیں اور بعینہ عربی لغت کے مطابق یہ ترجمہ جائز بلکہ اہمیت رکھتا ہے.تو مراد یہ ہے کہ تم دنیا کی اصلاح کے لئے نکلو گے، اپنی اصلاح نہ کرو، اپنے بچوں کی بھی نہ کرو جو گھر میں تمہارے سامنے تمہاری اصلاح کے لئے مہیا ہیں تو کس منہ سے دُنیا کے سامنے نکلو گے.یہ خیال ایک جھوٹا اور باطل خیال ہے کہ اس کے باوجود دُنیا تمہاری بات سن لے گی اور اس پر اثر پڑے گا.تو یہ انفُسَكُم والا دوسرا معنی ہے کہ اپنے اہل وعیال، اپنے بچوں کو بھول جاتے ہو.یہ وہ معنی ہے جو مسلسل بیان کر رہا ہوں اور آپ کو خصوصیت سے اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں.ایک اور معنی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ بیان فرمایا ہے: ” خدا تعالیٰ فرماتا ہے آتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمُ اس کا یہی مطلب ہے کہ اپنے نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا رہے.“ اب یہ ایسا لطیف معنی ہے جس کا میرے علم کے مطابق کسی دوسرے مفسر کو کبھی خیال نہیں آیا.نیکی کا حکم دینا تو صاف نظر آ رہا ہے مگر اس کا یہ نتیجہ نکالنا کہ دوسروں کے عیوب ڈھونڈ تار ہے.یہ بہت گہرا نفسیاتی نکتہ ہے جسے جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے گہرائی میں ڈوب کر سمجھا ہے آپ کو بھی سمجھنا چاہئے.
خطبات طاہر جلد 17 وو 564 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء دوسرے کے عیوب کو نہ دیکھتا ر ہے بلکہ چاہئے کہ اپنے عیوب کو دیکھے کیونکہ خود تو وہ پابند ان امور کا نہیں ہوتا اس لئے آخر کا رلِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ (الصف: 3) کا مصداق ہو جاتا ہے.“ (البدر جلد 3 نمبر 1 صفحہ:7 مؤرخہ 8 مارچ1904ء) اگر اپنے عیوب نہیں دیکھے گا تو اپنے نفس کو نیکی کا حکم کیسے دے گا یہ ہے بنیادی بات.اپنے عیوب کی تلاش اس آیت کا ایک لازمی حصہ بنتا ہے.کوئی شخص اپنے نفس کو نیکی کی تعلیم نہیں دے سکتا جب تک اس کو معلوم نہ ہو کہ کن کن بدیوں کا شکار ہے.بدیوں کا علم ہی نہیں تو نیکی کی تعلیم کیسے ہوسکتی ہے.نیکی کا تو مطلب ہے بدیوں کو دور کرنا.بدیاں دور ہوں گی تو نیکیوں کا سلسلہ شروع ہوگا.ساتھ ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ جو اپنی بدیوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے وہ دوسروں کی بدیوں کی تلاش سے باز آ جاتا ہے.یہ بہت ہی عظیم نفسیاتی نکتہ ہے جس کو بعض پہلے لوگوں نے اپنے طور پر ، قرآن کریم کی آیت کی تشریح کے طور پر نہیں ، اپنے طور پر پایا اور اس سے استفادہ کیا.میں اس ضمن میں بہادر شاہ ظفر کا ایک شعر پہلے بھی پڑھ کر سنا تا رہا ہوں.وہ کہتا ہے: بی تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر ، رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا کیسی گہری فطرت کی بات وہ کر گیا ہے.اپنی برائیوں پر جب نظر پڑی تو اپنا وجود گندہ دکھائی دینے لگا اور اس کے بعد غیروں کے عیوب تلاش کرنے کا حوصلہ ہی باقی نہیں رہتا.یہ وہ نکتہ ہے جسے اس آیت سے جوڑ کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کھول کر بیان فرمایا ہے کیونکہ خود تو وہ پابند ان امور کا نہیں ہوتا اس لئے آخر کار لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ کا مصداق ہو جاتا ہے.پھر اس پر اس سے زیادہ سخت فتویٰ قرآن کریم کا جاری ہو جاتا ہے کہ تم کیوں ایسی باتیں کہتے ہو جو کرتے نہیں.اخلاص اور محبت سے کسی کو نصیحت کرنی بہت مشکل ہے لیکن بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بغض اور کبر ملا ہوا ہوتا ہے.“ اخلاص اور محبت سے نصیحت کرنی مشکل ہے.اخلاص اور محبت سے نصیحت تب ہی ہوسکتی ہے اگر دل کا پوشیدہ کبراٹھا کے باہر پھینک دیا جائے اور وہ جو ایک پوشیدہ کبر ہے وہ اپنی برائیوں کی تلاش کئے بغیر
خطبات طاہر جلد 17 565 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء نظر بھی نہیں آتا.یہ سلسلہ ہے جو اسی طرح سلسلہ وار آگے بڑھتا ہے.تو اپنے نفس کے عیوب پر نظر رکھنا، ہمیشہ اس کی تلاش رکھنا، اس کے نتیجہ میں پھر نصیحت میں بغض کا کوئی پہلو باقی نہیں رہے گا اور جب بغض کا پہلو نہیں رہے گا تو پھر سوائے ہمدردی کے کوئی وجہ نہیں ہوگی کہ تم نصیحت کرو گے اور یہی ہے جو اللہ تعالیٰ اُمت مسلمہ سے چاہتا ہے.آنحضرت صلی ا ہی ہم نے سوائے ہمدردی بنی نوع انسان کے کسی اور وجہ سے نصیحت نہیں کی اور مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پوشیدہ بغض اور کبر کا جو ذکر فرمایا یہ روز مرہ کے تجربہ میں دکھائی دیتا ہے.بچوں سے بھی وہ لوگ جو سختی سے بات کرتے ہیں اور سختی سے روکتے ہیں اگر وہ دل کو ٹٹول کر دیکھیں تو اس میں بھی ایک کبر ہوتا ہے.اپنے بچے کو سامنے حقیر اور بے طاقت دیکھ رہے ہوتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہمیں غلبہ ان پر ملا ہوا ہے اور اس کبر کی وجہ سے ان کی نصیحت کے انداز ہی میں ایسی کڑوی بات داخل ہو جاتی ہے جس سے نصیحت بے کار جاتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نصائح کو باریکی سے پڑھیں اور باریکی سے ان پر عمل کرنا سیکھیں.اس کا لازمی نتیجہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نکالا ہے: اگر خالص محبت سے وہ نصیحت کرتے ہوتے تو خدا ان کو اس آیت کے نیچے نہ لاتا.بڑا سعید وہ ہے جو اول اپنے عیوب کو دیکھے.ان کا پتا اس وقت لگتا ہے جب ہمیشہ امتحان لیتا ر ہے.66 ( البدر جلد 3 نمبر 1 صفحہ: 7 مؤرخہ 8 مارچ 1904ء) اب یہ جو ہمیشگی کا امتحان ہے اس سے پتا چلا کہ کتنا مشکل موضوع ہے.ہمیشہ امتحان لیتا ر ہے.صبح شام جو بات انسان کہے یا سوچے اس کو پر کھے بھی اور یہ وہ مشکلات ہیں جن کے لئے وَاسْتَعِينُوا بالصبر والصلوۃ کا حکم ہے.اگر صبر کے ساتھ اور عبادت کے ساتھ اور دن رات کی دعاؤں کے ساتھ خدا تعالیٰ سے مدد نہیں مانگو گے تو بہت مشکل کام ہے جس کی طرف تمہیں بلایا جا رہا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یا درکھو اصلاح کے لئے صبر شرط ہے.پھر دوسری بات یہ ہے کہ تزکیہ اخلاق اور نفس کا نہیں ہوسکتا جب تک کہ کسی مزگی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے.“
خطبات طاہر جلد 17 566 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء اب جتنے مشکل مقامات کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بلاتے ہیں ہمیشہ بلا استثناء ان کا آسان حل بھی تجویز فرما دیتے ہیں اور اس آسان حل سے وابستہ جو مشکلات ہیں ان کا بھی آسان حل تجویز فرماتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ آغاز جو بڑا مشکل آغاز تھا اس آغاز کا انجام آسان بنا دیتے ہیں تا کہ جماعت کے ہر چھوٹے بڑے کو اس پر عمل کرنا آسان ہو جائے.اب یہ بات بھی غور سے سن لیں کہ اس کو کیسے آسان بنایا.فرمایا ترکیہ اخلاق اور نفس کا مشکل کام ہے.ہر روز امتحان لو، کیسے امتحان لو کہ ہر وقت ان باتوں کی طرف خیال رہے گا اس کے لئے ضروری ہے کہ کسی مرگی نفس انسان کی صحبت میں آؤ.خدا تعالیٰ نے اس غرض سے مزگی بنایا ہوا ہے کسی کو اور قرآن کریم نے وہ مزگی آنحضرت صلہ تم کو پیش فرمایا ہے.آنحضرت ملا کہ تم اس وقت ہم میں موجود نہیں لیکن مزگی پھر کیسے ہوئے ، کیسے ہم آنحضور صلی ا یتیم کی صحبت اختیار کر سکتے ہیں؟ اگر صحبت اختیار کریں گے تو از خود تزکیہ ہونا شروع ہو جائے گا.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک معنی یہ پیش فرمایا ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے رسول اللہ صلی شما ایلم کی صحبت سے ، آپ مالی شام کی نصائح سے، آپ صلی ا یتیم کے نیک عمل کو دیکھ کر اپنا تزکیہ ایک حد تک کر لیا ہے اگر توفیق ملے تو ان لوگوں کے ساتھ رہو.جنہوں نے رسول اللہ سلینی ای ایم کے فیض سے اپنا تزکیہ کیا ہے وہ تزکیہ یافتہ لوگ آپ کا تزکیہ کرسکیں گے اور جو جو باتیں مشکل دکھائی دیتی ہیں آسان ہوتی چلی جائیں گی لیکن جن معنوں میں میں اس وقت بات رکھ رہا ہوں وہ براہ راست رسول اللہ صلی ایم کی صحبت کا مسئلہ ہے.میرے نزدیک یہ ممکن ہے اور ان سارے مسائل کا جن کا ذکر گزرا ہے بہترین علاج یہ ہے.سوتے جاگتے آنحضرت صلی شام کے ذکر سے آپ صلی یا یہ ستم کی صحبت اختیار کریں.جب آپ رسول اللہ صلی شمالی نام پر درود بھیجتے ہیں، آپ صلی سیاہی یتیم کے احسانات کا تصور باندھتے ہیں تو وہ ایک صحبت ہے اور جب بھی آپ سوئیں اس کے نتیجہ میں بد خیالات از خود بھاگیں گے.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا - (بنی اسرائیل : 82) اس کو بھگانے کے لئے آپ کو محنت نہیں کرنی پڑے گی.یہ ہو نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی شما اینم کے تصور کی صحبت ہوا اور بد خیالات وہاں راہ پا جائیں.ممکن ہی نہیں ہے کہ بیک وقت یہ دونوں باتیں اکٹھی چل سکیں.پس کتنا آسان مسئلہ ہے رسول اللہ صلی لا یتیم کی صحبت اختیار کرنا اور یہ صحبت احسانوں کو یاد کر کے ہو سکتی ہے ورنہ یہ بھی مشکل ہے.آنحضرت صلی الہ تم نے جو ہم پر احسانات فرمائے ہیں ان کا تو
خطبات طاہر جلد 17 567 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء شمار ممکن ہی نہیں ہے.روزمرہ کی زندگی میں چھوٹی سے چھوٹی نصیحت آپ صلی یا الہی تم نے پیچھے چھوڑ دی جس سے انسانی زندگی کی کایا پلٹ جاتی ہے.کئی لوگ دانتوں کی بیماریوں میں مبتلا رہتے ہیں.آج کل کے جدید ترین ڈاکٹر بھی ان کا کوئی مؤثر علاج نہیں کر سکتے.جو گل گئے دانت گل گئے لیکن حضرت رسول اللہ لی لی ہم کی یہ عادت تھی اور اسی کی نصیحت فرماتے تھے کہ ہر نماز سے پہلے اچھی طرح مسواک کرو.اگر پانچ وقت کسی کو دانت صاف کرنے کی عادت ہو اور بچوں کو بھی جو آپ ضرور سکھاتے ہیں کہ یہ عادت ڈال دیں تو کیسے ممکن ہے کہ عمر کے کسی حصہ میں بھی ان کے دانت خراب ہو جائیں.امر واقعہ یہ ہے کہ کوتاہیوں کے نتیجہ میں انسان کی عادت نہ رہی ہو تو پھر جو وہ دانتوں پر برا اثر پڑ جاتا ہے یہ الگ مسئلہ ہے.بعض بیماریاں ایسی ہوتی ہیں جن کا مسواک کی عادت سے تعلق نہیں وہ اندرونی بیماریاں ہیں.حضرت اقدس محمدرسول اللہ لا یہ تم بیماریوں کا ذکر نہیں فرمار ہے.آپ صلی ا یستم فرمارہے ہیں جو دانت تمہیں خدا نے دیئے ہیں جس حالت میں دیئے ہیں ان کی حفاظت تم پر فرض ہے.اگر اچھے دانتوں والا پانچ وقت کی اس عادت کو اپنا لے تو کبھی اس کے دانت خراب نہیں ہوں گے.چنانچہ میری ملاقاتوں پہ جو لوگ آتے ہیں ان میں بعض دفعہ نیا دولہا، دلہن ، بہت خوبصورت دانت، ہنستے ہیں تو موتیوں کی طرح دانت دکھائی دیتے ہیں ان کو میں ضرور نصیحت کیا کرتا ہوں.میں نے کہا اللہ تعالیٰ نے ایک نعمت عطا فرمائی ہے اور ایک اور نعمت بھی دی ہے دُنیا اس سے اعراض کرتی ہے لیکن آپ نے اعراض نہیں کرنا ، وہ محمد رسول اللہ لیا لیتی ہیں.آپ اس نعمت کے سہارے اس ظاہری نعمت کی حفاظت کر سکتے ہیں.آپ سی ایل ایلن نے فرمایا ہے کہ پانچ وقت مسواک کیا کرو آج کل مسواک نہیں تو ٹوتھ پیسٹیں ہر قسم کی موجود ہیں.اگر پانچ وقت کرو تو ساری زندگی دانت صاف رہیں گے اور لوگوں کا یہ خیال ہے کہ عمر کے ساتھ دانت ضرور جھڑتے ہیں یہ غلط ہے.عمر کے ساتھ جو اچھے دانت جن کی حفاظت کی جائے وہ مضبوط بھی رہتے ہیں کیونکہ دانتوں کی مضبوطی کا تعلق مسوڑھوں کی مضبوطی سے ہے اور جب آپ ان کی پانچ وقت صفائی کریں تو وہ جراثیم مسوڑھوں کو نرم ہونے ہی نہیں دیتے وہ ہمیشہ ٹھیک رہتے ہیں.پس یہ وہ صحبت ہے جس کا میں ذکر کر رہا ہوں.ایک معمولی، چھوٹی سی مثال میں نے آپ کے سامنے رکھی ہے.اس صحبت کے لئے آپ مالی شما ایام کے نعمت ہونے کا تصور اُن روز مرہ کی نصیحتوں
خطبات طاہر جلد 17 568 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء میں سے اخذ کریں جو حضور اکرم سمایا تم نے ہمیں فرمائیں.جسم کو پاک صاف رکھنا، ہر قسم کی بدیوں سے دور بھاگنا، جسم کی صفائی، ان میں سے ہر نصیحت ایک بہت بڑی نعمت ہے اور وہ سارے بدن کی صحت کے لئے انتہائی ضروری بن جاتی ہے.یہاں تک نصیحت کہ کھانے سے کب ہا تھ کھینچنا ہے اور کن چیزوں میں تکلف نہیں کرنا، جو کھانا ہے وہ پاک ہو ، حلال ہی نہ ہو پاک بھی ہو.جب بھی اس میں یہ شبہ ہو کہ وہ حلال تو ہے مگر پاک نہیں رہا اس کو اٹھا کے پھینک دو یا دوبارہ اتنا گرم کر لو کہ یقین ہو جائے کہ وہ ناپاکی اس میں سے مرگئی ہے.یہ صرف چند چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں ان کا حد و شمار ہی نہیں ہے.میں نے تو ہمیشہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی السلام کے احسانات کا تصور باندھا اور غور کیا تو حیران رہ گیا کہ کلیہ ساری زندگی کے لئے ہم غلامان مصطفی آپ سایہ ایک یتیم کے احسانات کے تلے اتنا دب چکے ہیں کہ کبھی سر اٹھانے کی جرات بھی نہیں کر سکتے.جو صحابہ آپ صلی نما کی ستم کے سامنے آوازیں نیچی رکھتے تھے، جو ادب سے دیکھتے تھے ان کے متعلق یا درکھیں کہ صرف آوازیں ہی دھیمی نہیں رکھتے تھے نظریں بھی نیچی رکھا کرتے تھے.اب میں خطبہ دیتا ہوں تو میں دیکھتا ہوں کہ اکثر لوگ محبت کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دیکھ رہے ہوتے ہیں.رسول اللہ صلی ا یہ تم کے وقت یہ طریق نہیں تھا.ان کو اس سے بہت زیادہ محبت تھی جو آپ کو مجھ سے ہے مگرا اپنی آواز میں بھی دھیمی رکھتے تھے اور اپنی نظروں کو بھی نیچا رکھتے تھے یہاں تک بعض صحابہ سے جب رسول اللہ صلی السلام کے وصال کے بعد پوچھا گیا کہ آپ مینی یا ستم کی شکل کیسی تھی تو دھاڑیں مار مار کے رونے لگے، زار و قطار رونے لگے، اتنا حسین چہرہ تھا کہ میں چاہتا بھی تو نظر پڑ ہی نہیں سکتی تھی اور پھر محبت اور عشق کے تقاضے کے نتیجے میں مجھے جرات بھی نہیں ہوتی تھی کہ میں گھور کے دیکھوں ، غور سے دیکھوں.اب میں یاد کرتا ہوں اور جب مجھ سے کوئی پوچھتا ہے تو میں بتا نہیں سکتا کہ رسول اللہ صلی یا پیہم کے چہرے کی تفصیل کیا تھی.پس یہ سارے وہ آداب ہیں جو آنحضرت مسئلہ یہ تم سے ہم نے سیکھے ہیں.اب ان پر غور کریں تو ہمیشہ ہمیش کے لئے آپ ان آداب کے احسان کے طور پر رسول اللہ صل للہ یہ تم کی تو قیر کرتے چلے جائیں گے اور آپ صلی للہ اسلام کی عظمت کا تصور آپ کے دل میں بڑھتا چلا جائے گا، اپنے آپ کو ہمیشہ زیر بار سمجھیں گے اور یہ وہ صحبت ہے جس صحبت کا قرآن کریم نے ذکر فرمایا ہے کہ یہ
خطبات طاہر جلد 17 569 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء مزگی تمہارے لئے پیدا کیا گیا ہے اس مزگی نفس کی صحبت میں رہو.اگر یہ صحبت مل جائے تو وہ جو مسائل پہلے بیان کئے گئے ہیں یہ کرو، وہ کرو وہ تو بالکل آسان اور ہر قسم کی مشکل سے آزاد ہو جائیں گے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” جب تک کسی مزگی نفس انسان کی صحبت میں نہ رہے.( یہ کام جن کی طرف میں بلا رہا ہوں یہ ممکن نہیں ہیں ) اول دروازہ جو کھلتا ہے وہ گندگی دور ہونے سے کھلتا ہے.(اب گندگی دور کیسے ہوتی ہے یہ بھی بڑا دلچسپ مضمون ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے آگے بڑھایا ہے ) جن پلید چیزوں کو مناسبت ہوتی ہے وہ اندر رہتی ہیں.( یعنی انسان کا دل گندگی سے اس لئے بھرا رہتا ہے کہ ان سے اس کو ایک مناسبت ہوتی ہے) لیکن جب کوئی تریاقی صحبت مل جاتی ہے تو اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دور ہونی شروع ہوتی ہے.“ کیونکہ پاک صحبت جب دل میں گھر کرتی ہے تو پلیدی خود بخود دوڑتی ہے.یعنی یہ مراد نہیں کہ وہ آکے جھاڑو دیتا ہے آپ کے دل کو ، آپ کے لئے گندا کام بھی گویاوہ کرتا ہے.یہ ایک بہت بار یک نکتہ ہے اگر دل میں کسی عظیم شخص کی محبت پیدا ہو جائے اور وہ دل میں گھر کر جائے تو اس کے نتیجہ میں پلیدی اس سے بھاگتی ہے، اس کو بھگانے کی ضرورت نہیں ہے.چنانچہ قرآن کریم نے جب یہ فرمایا وَ قُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا تو یہی نکتہ ہے جو اس میں بیان فرمایا گیا.حق آگیا یعنی ایک عظیم معنی اس کا یہ ہے کہ محمد رسول اللہ لینا ہی ہم آگئے.وَ زَهَقَ الْبَاطِلُ حق کے آتے ہی باطل نے دوڑ نا شروع کیا.اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا کیونکہ اس بد بخت کے مقدر میں دوڑنے کے سوا ہے ہی کچھ نہیں.وہ اس مقام پر ٹھہر نہیں سکتا.جس مقام پر محمدرسول اللہ یا نیا ہی نہ جاگزیں ہو چکے تھے.پس یہ وہ صحبت صالح ہے جس کا مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ذکر فرمارہے ہیں.فرماتے ہیں: اندرونی پلیدی رفتہ رفتہ دور ہونی شروع ہوتی ہے کیونکہ پاکیزہ روح کے ساتھ جس کو قرآن کریم اور اسلام کی اصطلاح میں روح القدس کہتے ہیں.“ روح القدس ایک فرشتہ کا نام بھی بیان کیا جاتا ہے مگر وہ روح القدس جس کی بات مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرمارہے ہیں یہ آنحضرت سانی شاہی ستم کا پاک تصور ہے.جس کو قرآن کریم اور اسلام کی اصطلاح میں روح القدس کہتے ہیں اس کے ساتھ تعلق نہیں ہو سکتا جب تک کہ مناسبت نہ ہو.ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ تعلق کب تک پیدا ہو جاتا
خطبات طاہر جلد 17 570 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء ہے.( لیکن آخری بات وہی مٹی میں مل جانے والی بات فرما ر ہے ہیں ) خاک شو پیش از آنکه خاک شوی ،، مٹی میں مل جاؤ پیشتر اس کے کہ وہ وقت آ جائے کہ تم مٹی میں ملا دئے جاؤ، کہ مجبوراً مٹی میں مل جاؤ اس کا لفظی ترجمہ یہی بنے گا کہ مٹی میں خودل جاؤ پیشتر اس کے کہ تم مجبور امٹی میں مل جاؤ.مٹی میں تو ملنا ہی ہے اس سے پہلے پہلے کیوں نہیں مٹی میں ملتے.اپنے آپ کو اس راہ میں خاک کر دے اور پورے صبر اور استقلال کے ساتھ اس راہ میں چلے.آخر اللہ تعالیٰ اس کی سچی محنت کو ضائع نہیں کرے گا اور اس کو وہ نور اور روشنی عطا کرے گا، جس کا وہ جو یا ہوتا ہے.میں تو حیران ہو جا تا ہوں اور کچھ سمجھ (میں) نہیں آتا کہ انسان کیوں دلیری کرتا ہے جب کہ وہ جانتا ہے کہ خدا ہے.“ ( الحکم جلد 5 نمبر 11 صفحہ:10 مؤرخہ 25 مارچ 1901ء) پس ان سب امور کا ایک لازمی گہرا تعلق ہستی باری تعالیٰ پر ایمان کی حقیقت کے ساتھ ہے جس گہرائی کے ساتھ یہ حقیقت آپ کے دل میں جلوہ گر ہوگی اسی گہرائی کے ساتھ آنحضرت صلی یہ اہم اور روح القدس بھی آپ کو عطا ہونی شروع ہو جائے گی.کشتی نوح میں آپ فرماتے ہیں : نماز اور صبر کے ساتھ خدا سے مدد چاہو.نماز کیا چیز ہے.وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے.سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں.“ کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ: 69،68) انسان کو جو حکم اللہ تعالیٰ نے شریعت کے رنگ میں دئے ہیں جیسے آقِیمُوا الصَّلوةَ (البقرة: 44)، نماز کو قائم رکھو.یا فرمایا ، وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبُرِ وَالصَّلوة ان پر جب وہ ایک عرصہ تک قائم رہتا ہے تو یہ احکام بھی شرعی رنگ سے نکل کر گونی رنگ اختیار کر لیتے ہیں اور پھر وہ ان احکام کی خلاف ورزی کر ہی نہیں سکتا.“ الحکم جلد 7 نمبر 25 صفحہ:15 مؤرخہ 10جولائی 1903ء)
خطبات طاہر جلد 17 571 خطبہ جمعہ 14 اگست 1998ء گونی کا ایک مطلب ہے کا ئنات، وسیع تر دنیا اور ایک گونی کا مطلب ہے فطرت اور جبلت.تو فرمایا کہ جب ایک عرصہ تک تم یہ کام کرتے رہو گے تو وہ تمہاری جبلت بن جائے گا.تمہارے اختیار ہی میں نہیں رہے گا کہ اس سے باہر نکل سکو.پس جبلت بنانے کے لئے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے ایمان کی گہری حقیقت نصیب ہونی ضروری ہے اور خدا تعالیٰ کی ہستی پر کامل ایمان کے نتیجے میں آپ کے دل پر وہ نو را ترے گا جسے قرآن کریم نے محمد رسول اللہ صلی ا یہ ہم بیان فرمایا ہے.اور اس نور کے ساتھ تمام اندھیروں کا دور ہونا، بھاگ جانا ایک طبعی اور لازمی حقیقت ہے اس کے ساتھ اگر آپ رہے، اس حالت میں آپ رہے تو یہ آپ کی جبلت بن جائے گی.آپ کی فطرت ثانیہ بن جائے گی بلکہ فطرت اولی ہو جائے گی.دوسری ہر فطرت آپ کو ثانیہ دکھائی دے گی.خدا کرے کہ ہمیں اس کی توفیق ملے کیونکہ اس کے بغیر جو عظیم تقاضے ان سے وابستہ ہیں ان کا پورا ہونا ممکن نہیں ہوسکتا.
خطبات طاہر جلد 17 573 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء ایثار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کو غیر قوموں کے دلوں میں گھر کرنے کی توفیق بخشے گا ( خطبه جمعه فرموده 21 اگست 1998ء بمقام مئی مارکیٹ من ہائم.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا بَيْنَ يَدَيِ اللهِ وَرَسُولِهِ وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ پھر فرمایا: (الحجرات:3،2) یہ وہ مضمون ہے جس میں حضرت اقدس محمد مصطفی صلی للہ ایم کا خصوصیت سے ایک ایسے رسول کے طور پر ذکر کیا گیا ہے جس کا احترام دُنیا کے ہر انسان سے زیادہ ہونا چاہئے اور اسی تعلق میں مختصراً ذکر میں نے اپنے ایک گزشتہ خطبہ میں لندن میں کیا تھا لیکن وہ مضمون کچھ ادھورا رہا اور کچھ غلط فہمیاں بھی اس کے نتیجے میں پیدا ہوئیں جن کو پیش نظر رکھتے ہوئے میں نے انگلستان میں تو بار بار یہ اعلان کروائے کہ جو میرا مطلب آپ سمجھے ہیں وہ درست نہیں ، اصل مطلب اور ہے اور وہ جو مطلب ہے اس کا اطلاق صرف رسول اللہ صلی ا تم پر نہیں بلکہ آپ صلی السلام کی سنت کے پیش نظر ہر دوسرے ایسے انسان سے بھی تعلق رکھتا ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی مسی یا یہ تم کی چاہے دور کی نیابت ہو، مگر نیابت
خطبات طاہر جلد 17 574 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء میں امام بنایا گیا ہو اور اسی طرح اس مضمون کا تعلق میں سمجھتا ہوں درجہ بدرجہ ان تمام ائمہ سے بھی ہے جو مساجد میں آنحضرت صلی شما یہ تم کی سنت کی پیروی کرتے ہوئے امامت کرتے ہیں اور گھر کے بڑوں سے بھی تعلق ہے.تو یہ مضمون سلسلہ وار آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.اگر چہ یہ سارے التزامات آنحضور صلی یہ ہیم کے بعد دوسروں کے لئے بعینہ اس طرح نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ حضور اکرم سلیم کو جو امتیاز بخشا گیا ہے وہ اپنی جگہ ایک ایسا امتیاز ہے جس میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا مگر کچھ نہ کچھ درجہ بدرجہ اس سے دوسرے بھی حصہ پاتے ہیں اور ہمارے زمانہ میں سب سے زیادہ حصہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پایا کیونکہ اس دور میں آپ ہی نے آنحضور صلی اینم کی نیابت کا حق ادا کیا.یہ اس مضمون کی اہمیت ہے جس کے پیش نظر میں اب مزید تفصیل بیان کرتا ہوں.میں نے گزشتہ خطبہ میں یہ عرض کیا تھا کہ بعض لوگ ٹکٹکی لگا کے مجھے دیکھتے ہیں یعنی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، جو میرے لئے الجھن کا موجب بنتا ہے.پس دیکھیں اور دیکھنا بات کرتے وقت ضروری ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ آنکھوں میں ٹکٹکی لگا کر اس طرح دیکھا جائے گویا انسان اندر تک اتر رہا ہے.یہ صرف چند لوگوں کو عادت ہوتی ہے اور انہی کے پیش نظر میں نے اُس خطبہ میں یہ ذکر کیا تھا مگر بعد میں جب میں نے دیکھا تو عجیب حال پایا.تمام وہ مخلصین جو ہمیشہ سے اعتدال اختیار کیا کرتے ہیں ان سب بے چاروں کی آنکھیں، میں نے اس طرح جھکی ہوئی دیکھیں کہ سر بھی جھک گیا اور آتے جاتے وہ دیکھ کر مجھے گھبراہٹ ہوتی تھی کہ ہو کیا رہا ہے.ہر ایک نے بڑے ادب سے پوری طرح سر جھکا کر زمین پر نظریں گاڑی ہوئی تھیں.نہ مجھے آتے دیکھتے تھے نہ جاتے دیکھتے تھے اور نتیجہ یہ نکلا کہ میں حیران رہ گیا یہ کیا ہو رہا ہے.بعد میں مجھے سمجھ آئی کہ دراصل اُس خطبہ کا غلط تاثر قائم کیا گیا ہے اور میں نے مناسب سمجھا اور اُن سے وعدہ بھی کیا کہ جرمنی کی جماعت میں جا کر اس مضمون کے دوسرے پہلو بھی بیان کروں گا اور حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی الیتیم کے زمانہ میں جو معاشرہ قائم تھا اور اس میں ہر قسم کی طبیعت کے لوگ تھے ان کا بھی ذکر کروں گا اور اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں آکر جو معاشرہ قائم ہوا اور مختلف مزاج کے لوگ تھے ان کا بھی ذکر کروں گا اور یہ بھی سمجھاؤں گا کہ ان آیات سے جو پڑھی گئی ہیں یا ان روایات سے جو بیان کی جائیں گی ہرگز یہ مراد نہیں کہ انسان اپنے بنیادی مزاج کو تکلف سے بدلے.اپنے مزاج
خطبات طاہر جلد 17 575 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء کی حدود کے اندر رہتے ہوئے بھی ایک انسان آنحضور علیہ اپی لیم اور آپ سی ایم کے صحابہ کی سنت کی پیروی کر سکتا ہے اور اسی طرح اپنے مزاج کی حدود کے اندر رہتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے عشق کا حق بھی ادا کر سکتا ہے اور مختلف مزاج کے لوگوں کی حدود مختلف ہیں، ہر مزاج کا آدمی اپنی حدود کے اندر رہے اور ان حدود کے اندر اسے توفیق ملے گی کہ وہ اپنے عشق کا اظہار اس نسبت سے کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس کو صلاحیتیں بخشی ہیں.سب سے پہلے میں نے جو ٹکٹکی والی حدیث ہے وہ سامنے رکھی ہے ، جو حضور اکرم صلیا کی تم نا پسند فرماتے تھے.الادب المفرد للبخاری میں مجاہد بیان کرتے ہیں کہ : آنحضرت صلی ا تم اس امر کو نا پسند فرماتے تھے کہ کوئی اپنے بھائی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہے.“ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے یہ کٹکی باندھنے کا مضمون صرف رسول اللہ صلی یا یہ تم سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ بعض لوگوں کو عادت ہوتی ہے وہ دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے رہتے ہیں اور یہ گھورنے کی عادت نہایت معیوب ہے.آنحضور صلی ا یہ تم اس عادت سے سخت کراہت فرماتے تھے.چنانچہ حضور صلی لا الہ سلم فرماتے ہیں: دو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہے اور جب وہ اس کے پاس سے جائے تو اس کی نظریں اس کا پیچھا کرتی رہیں.“ الأدب المفرد للبخارى باب لا يحد الرجل ألى اخيه النظر أذا ولى ، حدیث نمبر : 771) یہ وہ مضمون ہے جو میرے اس خطبہ پر حاوی رہے گا اور جو وقت بچے گا اس میں میں انشاء اللہ بعض دوسرے امور یعنی ایثار سے تعلق رکھنے والے امور بیان کروں گا.حضرت ابن شماسه المهری بیان کرتے ہیں کہ : ہم حضرت عمرو بن العاص کی خدمت میں حاضر ہوئے جبکہ وہ نزع کی حالت میں تھے.“ یہ میں نے روایت کئی دفعہ بیان کی ہے مگر ہے بہت ہی پیاری روایت ، ان معنوں میں کہ ایک صحابی کی مختلف حالتوں کا ذکر ہے اور ایک صحابی کے عشق کے انداز کا ذکر ہے جو باقی صحابہ سے مختلف تھا لیکن اس اختلاف کے باوجود ان کا ایک اپنا رنگ تھا جسے انہوں نے آخر تک پکڑے رکھا گو بعد میں پچھتائے کہ میں نے کیوں آنحضور سیلی سیلم کی زندگی میں آپ صلی ما پس تم کو نظر بھر کے نہیں دیکھا.
خطبات طاہر جلد 17 576 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء چنانچہ حضرت عمرو بن العاص کی خدمت میں یہ ابن شماسہ حاضر ہوئے جب کہ وہ نزع کی حالت میں تھے.آپ کافی دیر تک روتے رہے اور منہ دیوار کی طرف پھیر لیا.آپ کے صاحبزادہ نے کہا اے میرے پیارے باپ کیا! آنحضرت سلیم نے آپ کو فلاں فلاں بشارتیں نہیں دیں.راوی کہتے ہیں اس پر حضرت عمرو بن العاص نے منہ ہماری طرف کیا اور کہنے لگے سب سے بہتر جس چیز کی ہم تیاری کر سکتے ہیں وہ تو یہ شہادت دینا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد لیا تم اللہ کے رسول ہیں.اس کے بعد فرمایا مجھ پر تین حالتیں آئیں.ایک وہ حالت جب میں سب سے زیادہ آنحضرت سی شاہی تم سے بغض رکھتا تھا اور یہ بھی پسند نہیں کرتا تھا کہ آنحضرت صلی کیا یہ ستم کے 66 چہرے پر نظر ڈالوں.“ یعنی بغض کی اتنی انتہا تھی کہ شدت نفرت سے اس چہرہ کو دیکھنا گوارانہیں کرتے تھے.صرف خواہش تھی کہ بس چلے تو میں اس کو قتل کر دوں.کہتے ہیں : اگر اس حالت میں میں مرجاتا تو یقینا جہنمیوں میں سے ہوتا.پھر جب اللہ تعالیٰ نے اسلام کو میرے دل میں ڈال دیا تو میں آنحضرتملالی کی ستم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ ہاتھ بڑھائیے میں آپ صلی ا یتیم کی بیعت کرنا چاہتا ہوں.حضور اکرم صل للہ الیہ تم نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے مضبوطی سے آپ صلی ان کا ہاتھ تھام لیا.آنحضرت علی ہستم فرمانے لگے عمرو! کیا بات ہے.کیوں اتنا مضبوطی سے ہاتھ پکڑ رکھا ہے؟ میں نے عرض کیا میں آپ صلی للہ یہ تم سے ایک وعدہ لینا چاہتا ہوں.فرمایا کیا وعدہ لینا چاہتے ہو.میں نے عرض کیا یہ کہ میرے گناہ بخش دئے جائیں.حضور صلی للہ یہ تم نے فرمایا کیا تجھے معلوم نہیں کہ اسلام لانے کے بعد اس سے پہلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں.اسی طرح ہجرت اور حج کے بعد بھی ان سے پہلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں.اس وقت میری نظر میں آنحضور صلی تم سے زیادہ محبوب اور زیادہ معزز کوئی اور شخص نہ تھا لیکن آپ مسی ایتم کی عظمت اور رعب کی وجہ سے آنکھ بھر کر آپ مسی یا نیلم کو دیکھ نہ سکتا تھا.اگر مجھ سے حضور انور کے حلیہ مبارک کے بارے میں پوچھا جائے تو میں بیان نہیں
خطبات طاہر جلد 17 577 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء کر سکتا کیونکہ میں نظر بھر کر آپ سی ایم کو بھی نہیں دیکھ سکا.اگر میں اسی حالت میں فوت ہو جاتا (یعنی رسول اللہ صلی شیتم کی زندگی میں جب کہ میرے عشق کا یہ عالم تھا) تو مجھے اُمید تھی کہ میں جنتیوں میں سے ہوتا.“ (صحيح مسلم، کتاب الأيمان، باب كون الاسلام يهدم ما قبله وكذا الهجرة والحج،حدیث نمبر :321) اب یہ وجہ ہے.جب نزع کی حالت میں آپ نے منہ پھیرا اور روتے رہے آپ کو اپنے انجام کی یہ فکر تھی کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اسلام سے عداوت اور بغض کی حالت سے تو نکال لیا اور مجھ سے وعدہ بھی ہوا کہ جو اس حالت سے نکل جائے اس سے بخشش کا سلوک ہو گا لیکن جو بعد میں زندہ رہا ہوں اس دور میں مجھ سے خدا جانے کیا کیا غلطیاں سرزد ہوتی رہی ہیں.اگر میں اُس زمانہ میں مرجاتا تو اچھا تھا.یہی صدمہ تھا جو آپ کو نڈھال کئے جار ہا تھا اور نزع کی حالت کے یہی خیالات تھے جو آپ کو تنگ کر رہے تھے.ایک اور روایت سنن ابی داؤد سے لی گئی ہے.اسامہ بن شریک بیان کرتے ہیں کہ : میں آنحضرت صلی ای یتیم کی خدمت میں حاضر ہوا.“ اب یہ ایک نظارہ ہے جو اسامہ نے دیکھا کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم کی اس وقت کیا حالت ہوا کرتی تھی جب حضور اکرم صلی یتیم آپ میں تشریف فرما ہوتے تھے.صحابہ یوں ساکت بیٹھے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے ہوں.“ یعنی جیسے سر پر پرندہ ہو اور بولنے سے اڑنے کا خطرہ ہوتا ہے انسان حرکت بھی نہیں کرتا، اسی طرح صحابہ ساکت و صامت بیٹھے تھے.چنانچہ میں نے سلام عرض کیا پھر بیٹھ گیا.ادھر ادھر سے بدوی لوگ مجلس میں آنے لگے.انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی له ایام کیا ہم دوائیوں کا استعمال کیا کریں؟ اس پر فرمایا دوائیاں ضرور استعمال کیا کرو کیونکہ اللہ عز وجل نے کوئی بیماری نہیں بنائی مگر اس کا علاج بھی پیدا فرمایا ہے سوائے ایک بیماری کے جو بڑھاپا ہے، وہ مقدر ہے.“ (سنن أبی داؤد، کتاب الطب، باب الرجل يتداوی ،حدیث نمبر :3855)
خطبات طاہر جلد 17 578 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء ہر شخص کو آخر بڑھا پا پہنچنا ہے اور اسی حالت میں جو اس سے مختلف امکانی سلوک ہو سکتے ہیں ان کا قرآن کریم میں تفصیل سے ذکر ہے مگر بڑھاپے سے کوئی انسان بچ نہیں سکتا.اگر جوانی کی عمر سے گزرے گا تو بڑھاپے کی عمر ضرور دیکھے گا.فرمایا اس کا کوئی علاج نہیں باقی سب چیزوں کا علاج ہے.اس بناء پر بعض صحابہ نے یہ بھی خواہش کی کہ ہم تو خاموش بیٹھے رہیں مگر ہماری موجودگی میں کوئی بدوی آجائے اور وہ سوال کرے اور اس رنگ میں ہماری تربیت ہو جائے.آنحضور صلی للہ یہ تم کا چہرہ دیکھ کر جو صحابہ پہچانتے تھے کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں ہو سکتا ان میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی تو تھے.پس یہ خیال کرنا کہ چہرہ دیکھنا گویا ممنوع تھا یہ درست نہیں ہے.چہرہ دیکھنے کا بھی انداز ہوا کرتا ہے.حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق سوچا بھی نہیں جا سکتا کہ آپ آنحضور سلا می ایستم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ہلکٹکی لگا کر، گھورتے ہوئے دیکھیں.یہ ناممکن ہے اور یہ بھی ناممکن ہے کہ آپ کی نظریں آپ صلی شا ہی یتیم کے چہرے پر نہ پڑیں.اس لئے ان دونوں باتوں کے درمیان اعتدال کی ضرورت ہے اور سب لوگ اپنی عادتوں میں یہ اعتدال پیدا کریں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی روایات چونکہ ہمارے قریب کی روایات ہیں اور تحریروں میں بھی محفوظ ہیں اس لئے آنحضور صلی شما ایتم کے زمانہ میں جو آداب ہوا کرتے تھے اور جس طرح مختلف صحابہ اپنے اپنے رنگ میں آنحضور صلی یا پی ایم کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے ان میں یہ بھی ایک رنگ تھا کہ بعض صحابہؓ سوال کیا کرتے تھے ، ضروری نہیں کہ بدوی ہو.چنانچہ کثرت سے روایات ملتی ہیں کہ آنحضور صلی یا یہ ہم سے بعض مقامی صحابہ بھی سوال کرنے کی عادت رکھتے تھے اور اس بات کو آنحضور ملا لیا تم نے کبھی نا پسند نہیں فرمایا بلکہ بعض موقعوں پر آپ سلایا کہ تم نے پوچھا اور بار بار پوچھا کہ خاموش بیٹھے ہو مجھ سے کوئی سوال کرو.پس یہ تصور قائم کرنا درست نہیں کہ صرف بدویوں پر لوگ بیٹھے رہتے تھے کہ وہ آئیں تو سوال کریں.سوال کرنے کی عادت تھی بعض لوگوں کو اور رسول اللہ صلی ہم نے ان کو بند نہیں کیا.صرف اتنا فرمایا کرتے تھے کہ ضرورت سے زیادہ سوال نہ کیا کرو کیونکہ ہوسکتا ہے بعض سوالوں کے جواب میں تم پر تنگی عائد ہو جائے.اب یہی رنگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں ملتا ہے.ہر ایک اپنے مزاج کے مطابق اپنی محبت کا اظہار کرتا ہے.دوصحابہ نمونے کے طور پر میں نے چنے ہیں.ایک حضرت حکیم نورالدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ.
خطبات طاہر جلد 17 579 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء آپ اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب دونوں کے مسیح موعود سے عشق میں کوئی بھی شک نہیں، رنگ اپنا اپنا تھا، مزاج الگ الگ تھے.چنانچہ حضرت مولوی محمد اسماعیل صاحب ہلال پوری بیان کرتے ہیں کہ: وو ” حضرت مولوی صاحب ( یعنی حکیم مولوی نورالدین ) اور حضرت مولوی عبد الکریم صاحب اپنے اپنے رنگ میں اخلاص اور محبت کے پتلے تھے لیکن دونوں کی طبائع میں نمایاں فرق تھا.حضرت مولوی حکیم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مسجد میں تشریف لایا کرتے تھے تو حضور کی مجلس میں سب سے آخر خاموشی کے ساتھ بیٹھ جایا کرتے تھے.“ ( حیات نو راز عبدالقادر سابق سوداگرمل، باب چہارم صفحه : 263) یعنی بعض دفعہ وہاں جگہ ملتی جہاں جو تیاں پڑی ہوتی تھیں اور ایک صوبہ سرحد کے صحابی کو اس بناء پر خلافت سے وابستگی کی توفیق ملی کہ وہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نے حضرت نورالدین رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ وہ خلیفہ بن رہے ہیں تو بے اختیار میرے منہ سے نکلا کہ اس شخص نے تو جو تیوں سے خلافت پالی.(انوار العلوم جلد 25 صفحہ: 506، 507 / خطاب حضرت خلیفہ اسیح الثانی فرمودہ 27 اکتوبر 1956ء) پس ایک رنگ یہ بھی تھا انکساری کا کہ جوتیوں میں بیٹھے رہتے اور اسی انکساری کو خدا نے قبول فرمایا اور انہی جو تیوں سے آپ کو خلافت مل گئی اور خلافت بھی وہ جوصد یقیت کا مقام رکھتی تھی.د لیکن حضرت مولانا عبد الکریم صاحب ہمیشہ حضرت اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے اور سوالات کرنے سے کبھی ہچکچاتے نہیں تھے.“ ย اب یہ دونوں صحابہ ہیں جن کے عشق کی گواہی خود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دی ہے.اس لئے اس سے انکار ممکن ہی نہیں.بلکہ ( مولوی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ یہ خدا تعالیٰ کے مامور دُنیا میں روز روز نہیں آتے ، صدیوں بعد خوش قسمت لوگوں کو ان کی زیارت نصیب ہوتی ہے اس لئے جو سوالات ذہن میں آئیں وہ پیش کر کے دُنیا کی روحانی تشنگی کو بجھانے کا سامان پیدا کر لینا چاہئے.“ حیات نور از عبد القادر سابق سود اگرمل، باب چہارم صفحه : 263)
خطبات طاہر جلد 17 580 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء اب دیکھیں محبت کے تقاضے بدلے بھی نہیں مگر دونوں جگہ تکلف نہیں تھا.یہ بنیادی بات ہے جسے آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.اگر تکلف سے ادب کریں گے تو وہ ادب نہیں ہوگا ، وہ محض تکلف اور بناوٹ ہوگی.اگر واقعہ اس مزاج کے مطابق جو اللہ نے آپ کو بخشا ہے اسی مزاج کی حدود میں رہتے ہوئے آپ محبت کریں گے تو یہ تکلف اور بناوٹ نہیں بلکہ طبعاً ایک محبت ہوگی.اور اس کا ہر رنگ اچھا ہوگا اگر سنت صحابہ کو آپ پیش نظر رکھیں.ایک ذکر حضرت مرزا ایوب بیگ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بھی ملتا ہے.دو مجلس میں حضور کے بہت زیادہ قریب بیٹھتے اور ٹکٹکی لگا کر چہرہ مبارک کو دیکھتے اور پاؤں یا باز و یا کمر وغیرہ دباتے اور درود استغفار پڑھتے رہتے.“ اب بعض لوگ اس روایت کا غلط مطلب سمجھتے ہیں.یہاں ہرگز یہ نہیں کہا گیا کہ آپ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ٹکٹکی لگا کر دیکھتے تھے.چہرے کو دیکھتے تھے اور چہرہ کو دیکھنا ایک الگ مضمون ہے.اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ نظروں میں نظریں گاڑ کر دیکھتے تھے.حضور کوئی تقریر تقویٰ ، طہارت کے متعلق فرماتے تو آپ کا پیراہن آنسوؤں سے تر ہو جاتا تھا.اصحاب احمد جلد اول از ملک صلاح الدین ایم.اے صفحہ: 97) پس دیکھنے کے متعلق یہ بات پیش نظر رکھیں کہ غالب کا ایک شعر جو مجھے بہت پسند ہے اور وہ اس مضمون کو بہت عمدگی سے بیان کر رہا ہے وہ یہ ہے : نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی (میرزا اسد اللہ خان غالب) پس صحابہ کی نگاہیں حضرت اقدس محمد رسول اللہ الی یہ تم پر مستی سے بکھر جایا کرتی تھیں اور اس سے آنحضور صلی یا تم نے کبھی منع نہیں فرمایا اور یہی حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا تھا.چنانچہ مرزا ایوب بیگ صاحب یا دوسرے جن صحابہ کے ذکر میں آپ یہ بات پائیں گے وہ دیکھتے تو تھے مگر ایسے کہ دیکھتے بھی نہ ہوں یعنی نگا ہیں ہر طرف پھیل جاتی تھیں، بکھر جاتی تھیں اور کبھی ان صحابہ نے جرات نہیں کی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی آنکھوں میں آنکھیں
خطبات طاہر جلد 17 581 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء گاڑ کر دیکھیں.ہاں یہ انداز تھا کہ دیکھ رہے ہیں ، نظر ملتے ہی دوسری طرف رخ کر لیا یا آنکھ پھیر لی تا کہ گستاخی نہ بنے.پس بسا اوقات بات کرنے والا آنکھوں میں بھی دیکھتا ہے مگر دیکھنے کے انداز مختلف ہوتے ہیں.اگر دیکھ رہا ہو اور بات کرنے والے کی نظر پڑ جائے تو اس وقت جھجھک سے آنکھ ذرا سی ادھر اُدھر ہو جانی چاہئے اور بعض لوگوں کا دیکھنے کا انداز یہ ہوتا ہے کہ وہ دونوں آنکھوں کے درمیان ماتھے کے اوپر نظر رکھتے ہیں.ہمارے ایک مرحوم ماموں سید محمود اللہ شاہ صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ، ان کا یہی انداز ہوا کرتا تھا.حضرت مصلح موعودؓ سے کبھی ملنے آتے تو ہمیشہ اسی طرح دیکھتے تھے اور آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کا کوئی سوال نہیں تھا اور دل کی پیاس بھی بجھ جاتی تھی کہ پورا چہرہ غور سے دیکھوں.چنانچہ ایک دو دفعہ میں نے محسوس کیا کہ مجھے بھی اس طرح دیکھ رہے ہیں.میں نے پوچھا کہ یہ کیا بات ہے آپ کی نگاہیں میرے اوپر ہوتی ہیں مگر ملتی نہیں تو تب مجھے انہوں نے یہ راز سمجھایا کہ میں نے یہ ایک اپنے لئے ترکیب بنائی ہوئی ہے کہ ماتھے کے اوپر دو آنکھوں کے درمیان اس جگہ دیکھتا ہوں تو دیکھنے والے کو یہ محسوس نہیں ہوتا کہ مجھے دیکھ نہیں رہا اور میری نظریں بھی ادب کی وجہ سے آنکھوں میں آنکھیں نہیں ڈالتیں.تو یہ بھی ایک انداز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک صحابی جو عمر میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے وصال کے وقت چھوٹے تھے مگر پھر بھی اتنے چھوٹے نہیں تھے کیونکہ میری والدہ سے عمر میں بڑے تھے اور میری والدہ کی بھی حضرت مسیح موعود علیہ ال والسلام کے زمانہ میں آپ کے ایک بچے سے شادی ہوئی.پس اس وجہ سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی صحابہ ہی کا رنگ ہے جو حضرت سیدمحموداللہ شاہ صاحب رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا.حضرت خلیفہ امسیح الاول کی مجلس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کیا انداز تھا یہ بھی الصلوة ایک دلچسپ واقعہ ہے جو میں نے آپ کے لئے چنا ہے.حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے.وہ فرماتے ہیں کہ: ” خلافت اولی کے زمانہ میں میں نے دیکھا کہ جو ادب اور احترام اور جو اطاعت اور فرمانبرداری آپ ( یعنی حضرت مصلح موعود ) حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالٰی عنہ کی کرتے تھے اس کا نمونہ کسی اور شخص میں نہیں پایا.“
خطبات طاہر جلد 17 582 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میں آپ کو بتا دوں کہ ان کو بھی کن انکھیوں سے دیکھنے کی عادت تھی.بسا اوقات نظریں جھکی ہوتی تھیں مگر گر دو پیش میں جو ہورہا ہے اس سے باخبر رہتے تھے اور کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ ماحول میں جو باتیں ہو رہی ہوں ان سے بے خبر زمین پر نظریں گاڑ رکھی ہوں.دیکھتے تھے ہلکی نظر سے پھر نظریں جھکا لیا کرتے تھے.میں نے بھی مولوی صاحب کے ساتھ کھڑے ہو کر بہت نمازیں پڑھی ہیں.کئی دفعہ احمد یہ ہوٹل کی مسجد میں آپ نے نماز پڑھنی شروع کی کیونکہ قرآن کریم کے انگریزی ترجمہ کے سلسلہ میں آپ کو لاہور چند مہینے ٹھہر نا پڑا تھا تو روزانہ صبح ہمارے ہوٹل کی مسجد میں نماز پڑھا کرتے تھے اور مجھے یہ توفیق مل گئی کہ میں آپ کے ساتھ کھڑا ہوتا تھا.اس وقت میں نے آپ کو دیکھا کہ نماز کے بعد جب مجلس لگا کے بیٹھتے تھے تو تمام گر دو پیش کی خبر ہوتی تھی مگر عادتا آپ کی فطرت میں یہ بات تھی کہ اکثر آنکھیں جھکائے رکھتے تھے.تو آپ کی گواہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے متعلق میری اس گواہی کی تائید کرتی ہے کہ حضرت مولوی شیر علی صاحب کی نظر سے کوئی اہم بات نہیں رہتی تھی اور کسی اور نے حضرت خلیفہ اسیح الاول کی مجلس میں اس گہری نظر سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نہیں دیکھا جس طرح حضرت مولوی شیر علی صاحب نے دیکھا اور یہ آپ کی ایک یکتا روایت ہے.چنانچہ اس کی تائید میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اپنی تحریر بھی ہے.آپ کی روایت جاری ہے.وہ فرماتے ہیں : آپ کے ادب کا یہ حال تھا کہ جب آپ حضرت خلیفہ امسیح الاول" کی خدمت میں جاتے تو آپ دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے اور جتنا وقت آپ کی خدمت میں حاضر رہتے اسی طرح دوزانو ہی بیٹھے رہتے.میں نے یہ بات کسی اور صاحب میں نہیں دیکھی.“ تاریخ احمدیت جلد چہارم صفحه : 636) حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان بعینہ اس کی تائید کر رہا ہے.منصب خلافت میں یہ عبارت درج ہے: پہلے تو میں ان سے بے تکلف تھا ( یعنی حضرت خلیفہ المسیح الاول رضی اللہ تعالی عنہ سے بے تکلف تھا) اور دو دو گھنٹہ تک مباحثہ کرتا رہتا تھا لیکن جب وہ خلیفہ ہو گئے تو کبھی میں اُن کے سامنے چوکڑی مار کر بھی نہیں بیٹھا کرتا تھا.“
خطبات طاہر جلد 17 583 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء چوکڑی مار کر بیٹھنا یعنی ویسے ممنوع تو نہیں ہے.یہاں میرے سامنے کئی دوست ہیں جو چوکڑی مار کر بیٹھے ہوئے ہیں لیکن وہ ایک بڑی مجلس میں بیٹھے ہوئے ہیں اور ان کے لئے ممکن نہیں کہ اپنی چوکڑی کی عادت کو جو آرام کی عادت ہے بدل سکیں اس لئے وہ بھی کسی غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوں.حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعلی عنہ ایک ایسی مجلس کی بات کرتے ہیں جو چند آدمیوں کی مجلس ہوا کرتی تھی اور بعینہ حضرت خلیفتہ امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے آپ کو بیٹھنا ہوتا تھا.وہ حالت ایسی تھی جس میں چوکڑی مار کر بیٹھنا یقینا بے ادبی اور گستاخی ہوتی.جاننے والے جانتے ہیں (یہ لکھتے ہیں مصلح موعودؓ کہ ) خواہ مجھے تکلیف بھی ہوتی مگر یہ جرات نہ کرتا اور نہ اونچی آواز سے کلام کرتا.“ منصب خلافت از حضرت مرزا بشیر الدین محمود صاحب صفحہ : 33) تو اس میں ، حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس بات میں بہت بڑی نصیحت ہے ساری جماعت کے لئے اور اس سے حضرت مولوی شیر علی صاحب کے اوپر بھی ایک بہت اچھی روشنی پڑتی ہے.آپ فرماتے ہیں : ” جاننے والے جانتے ہیں.ان جاننے والوں میں میں نے ایک حضرت مولوی شیر علی صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت دیکھی ہے اور روایتیں ہونگی تو میرے علم میں نہیں.اب اس مضمون سے ہٹ کر ایک اور مضمون بیان کرتا ہوں جو آپ کے جلسہ کی مناسبت سے بیان کیا جانا ضروری ہے اور وہ ایثار کا مضمون ہے.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَالَّذِينَ تَبَوَّةُ الدَّارَ وَ الْإِيْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأُولَبِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ (الحشر :10) ایثار کا مضمون تو بہت وسیع ہے اور کئی قسم کی قربانیوں پر یہ مضمون پھیلا ہوا ہے لیکن آج اس خطاب میں میں ایثار کا صرف وہ حصہ بیان کروں گا جو جماعت احمد یہ جرمنی کے اس جلسہ سالانہ سے تعلق رکھتا ہے.سب سے پہلے تو میں اس بات پر آپ کو خوشخبری دیتا ہوں اور مبارک باد دیتا ہوں کہ میں نے جماعت جرمنی میں اس پہلو سے بہت ایثار پایا ہے، اتنا کہ کسی اور جماعت میں ایثار ہو تو وہ لازماً خدا تعالیٰ کا شکر گزار ہو کہ اس نے ایثار کا حق ادا کرنے کی توفیق بخشی.ایثار کے جتنے پہلو ہیں ان
خطبات طاہر جلد 17 584 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء میں سے ایک دو پہلو جو جلسے سے تعلق رکھتے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.سب سے پہلے یہ کہ اپنے وقت کو قربان کرنا ایثار ہے، اپنے مال کو قربان کرنا ایثار ہے ، اپنی سہولتوں کو دوسرے کی خاطر قربان کر دینا یہ بھی ایثار ہے اور اس جرمنی کے جلسہ میں ہمیں ایثار کے یہ تینوں پہلو ہر طرف دکھائی دے رہے ہیں.باہر سے آنے والے مہمانوں کا جس اہتمام کے ساتھ جماعت جرمنی کو خیال رکھنے کی توفیق ملتی ہے کم ہی آپ کو یہ نظارے دوسری جماعتوں میں دکھائی دیں گے ضرور ایسی جماعتیں ہیں جن میں ایثار کے یہی جذبے کام کرتے ہیں، بعض پہلوؤں سے شاید زیادہ بھی ہوں لیکن یہ بات جرمنی میں جس کثرت سے پھیلی ہوئی ہے اس کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے.ایک تنہا آپ دُنیا میں وہ جماعت ہیں جہاں بیس ہزار سے زائد، کم سے کم میرا اندازہ ہے، ہمیں ہزار سے زائد افراد مر دعورتیں اور بچے جرمنی کے جلسہ کے دنوں میں مسلسل ایثار سے کام لے رہے ہوتے ہیں.بعض ماؤں کو اپنے بچوں کی ہوش نہیں رہتی اور بچے بھی اس وجہ سے صبر کرتے ہیں کہ جلسہ کے دن ہیں اور انہیں یہ تکلیف ساتھ اٹھانی چاہئے تو اگر بچوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو تیس ہزار بھی کم ہوگا اور میں سمجھتا ہوں کہ آپ میں سے خدا تعالیٰ تیس ہزار افرادکو مختلف پہلوؤں سے ایثار کی توفیق بخشتا ہے.ایثار کے تعلق میں چند باتیں میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ ایثار ایک طبعی حالت کا نام ہے اور وقتی ضرورت کا نام نہیں ہے.سچا ایثار جو قائم رہتا ہے ، باقی رہتا ہے اور ہمیشہ آپ کو خدا کے قریب کر سکتا ہے اور کرتا رہتا ہے وہ طبیعت اور مزاج میں مٹی ہونا ہے.اگر مزاج مٹی ہو چکا ہو ، اگر طبیعت میں تکبر کا کوئی شائبہ تک باقی نہ رہے تو ایسے انسان کا ایثار ایک دائی ایثار ہو جاتا ہے لیکن اس کے اظہار پھر اس کی دوسری زندگی میں بھی دکھائی دیتے ہیں.صرف جلسہ کہ موقعوں پر مہمانوں کے تعلق میں نہیں بلکہ روز مرہ کے ہر انسانی سلوک میں یہ ایثار کا اظہار ہوتا ہے.آج کل میں جانتا ہوں بعض لوگوں نے اپنے گھر کلیہ خالی کر دئے ہیں تا کہ وہ مہمان جو پسند نہیں کرتے کہ ان کے ساتھ ان کے گھروں میں دوسرے لوگ بھی ٹھہرے ہوں ان کو پوری طرح بے تکلفی میسر ہو اور آرام سے وہ جتنے دن چاہیں ، جس طرح چاہیں ان کے گھر کی چیزیں استعمال کریں.ایسے گھر کثرت سے میرے علم میں ہیں لیکن جو ایثار میں بتا رہا ہوں ، جس کی میں بات کر رہا ہوں وہ مزاج کا وہ انکسار ہے جو باقی رہنا چاہیئے اور ساری زندگی اس کو آپ کا ساتھ دینا چاہئے.اس ایثار کے نتیجہ میں جب بھی کوئی
خطبات طاہر جلد 17 585 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء مہمان آئے خواہ وہ جلسہ کا موقع ہو یا کوئی اور موقع ہو اس کے ساتھ میز بانی کے ادب اختیار کرنا، محبت و بشاشت سے اس کے ساتھ پیش آنا اور مہمان نوازی کے لئے جو رسول اللہ صلی ا یہی ہم نے مدت مقرر فرمائی ہے اس مدت کے اندر اس کی مہمان نوازی کے سارے تقاضے پورے کرنا یہ طبعی خوشی سے ہونا چاہئے ، یہ تکلف سے نہیں ہونا چاہئے.اور اگر یہ طبعی جوش ہو تو پھر آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ کی بھی وہ ساری باتیں یاد آ جائیں گی کہ آپ کس طرح مہمان نوازی کیا کرتے تھے.دیکھنے والے کے لئے تکلیف ہوتی تھی لیکن آپ کو اس تکلیف میں ایک ایسا لذت کا احساس ملتا تھا جس میں آپ کی نظر خدا کی رضا پر پڑتی رہتی تھی اور عادتا جھکتے تھے ، عادتا مہمان نوازی کرتے تھے اور اس کے لطف اٹھاتے تھے.بعض صحابہؓ کی روایت ہے کہ ہم نے دیکھا تو بہت تکلیف کی حالت میں سردی میں سکڑے ہوئے ایک کوٹ اور پر لیا ہوا اور کوئی بستر نہیں، کوئی آرام کا سامان نہیں.اور جب انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام سے پوچھا تو مسکرا کر فرمایا کہ کوئی تکلیف نہیں مجھے بڑا آرام مل رہا ہے کیونکہ سب کچھ مہمانوں کے آرام کے لئے باہر بھیج چکے تھے.اس بات میں آرام مل رہا تھا کہ مہمانوں کو آرام ہے تو اگر تکلیف ہو تو یہ کیفیت پیدا ہو ہی نہیں سکتی.اگر انکساری گہری اور سچی نہ ہو تو ناممکن ہے کہ اس قسم کی تکلیف میں انسان مزہ اٹھا سکے.تو اپنی عادت میں یہ انکساری داخل کریں جو زندگی بھر آپ کا ساتھ دے گی اور اس دُنیا ہی میں نہیں بلکہ اُس دُنیا میں بھی کام آئے گی کیونکہ یہی انکساری ہے جو درحقیقت انسان کو قرب الہی بخشتی ہے اور یہی انکساری ہے جس کے نتیجہ میں دُنیا کا سب سے بڑا انسان حضرت اقدس محمد مصطفی سال مالی تیم پیدا ہوئے یعنی پیدا ہوئے سے مراد ہے آپ ملی ایام کو وجود کی خلعت بخشی گئی یعنی جو وجود محمد رسول اللہ صلی ایم کے بیچ سے اٹھا ہے وہ وجود پیدا ہوا.میری مراد پیدا ہونے سے بچے کی پیدائش نہیں بلکہ ہر انسان میں سے ایک تخلیق نو ہوا کرتی ہے.اس تخلیق نو کی میں بات کرتا ہوں کہ آنحضور صلی ہم اپنی اسی انکساری کے نتیجہ میں پیدا ہوئے اور ایک بشر سے محمد رسول اللہ صلی یتیم بن گئے.پس آپ کی بھی اپنی اپنی صلاحیتوں کے دائرے ہیں.ان دائروں سے باہر تو آپ جانہیں سکتے مگر اگر انکساری کا حق ادا کریں اور آج کل انکساری سیکھنے کا بہت اچھا موقع ہے کیونکہ آج کل کے حالات میں تو میں جانتا ہوں کہ آپ کی انکساری آپ کو ضرور مزہ دیتی ہے اور لطف اٹھا رہے ہیں مگر یہ
خطبات طاہر جلد 17 586 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء بھی ہو سکتا ہے کہ یہ ایک ہوا چلی ہوئی ہے جیسے بہار کے موسم میں کانٹے دار جھاڑیاں بھی پھول پھل لے آتی ہیں تو اس عام مہمان نوازی کے موسم میں بعید نہیں کہ وہ لوگ جو طبیعت کے نسبتا کرخت بھی ہیں وہ بھی میزبانی کے مزے لوٹ رہے ہوں اور مہمانی کا حق ادا کرنے کے مزے لوٹ رہے ہوں.تو جب کثرت سے ایسی باتیں دکھائی دیتی ہیں تو تجزیہ کرنا پڑتا ہے اور سب سے اچھا تجزیہ ہر انسان اپنا خود کر سکتا ہے کیا یہی رنگ آپ کا بعد میں بھی جاری رہتا ہے کہ نہیں.اگر ایثار طبیعت میں ہے تو اپنے گھر والوں سے بھی تو ایثار ہونا چاہئے ، اپنی بیوی سے ایثار کا سلوک ہونا چاہئے ، اپنے بچوں سے ایثار کا سلوک ہونا چاہئے اور جب اس پہلو سے آپ ایثار کے مضمون کا مطالعہ کریں گے تو یہ بہت پھیلا ہوا مضمون دکھائی دے گا.اللہ تعالیٰ فرماتا ہے يُحِبُّونَ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِمْ وَلَا يَجِدُونَ فِي صُدُورِهِمْ حَاجَةً جوبھی ان کی طرف ہجرت کرتے ہیں، یہ انصار کا ذکر چل رہا ہے اُن سے اُن کے دلوں میں کوئی تنگی نہیں ہوتی اور ان سے ان کی کوئی حاجت بھی وابستہ نہیں ہوتی اور جو کچھ ان کو ملتا ہے اس پر وہ حسد تو بہر حال محسوس نہیں کرتے مگر ان معنوں میں رشک بھی نہیں کرتے کہ ان کو بھی وہ ضرور مل جائے.اپنے بھائیوں کو جو خدا کی راہ میں ہجرت کر کے آئے ان کو اتنا پیار سے دیکھتے ہیں، اس قدر انکسار سے ان کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں کہ ان کو جو کچھ بھی ملے اس پر یہ بھی خوش ہوتے ہیں گویا اپنے کومل گیا.اور ان کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے اپنی ضرورتوں کو قربان کرتے رہتے ہیں.یہ ایثار کی سچی تعریف ہے جو قرآن کریم نے بیان فرمائی ہے.وَلَو كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ خواہ تنگی ہی کیوں نہ ہو.پس تنگی کے حالات میں آپ کی مہمان نوازی آزمائی جاتی ہے اور جب تنگی پڑتی ہے اور تنگی صرف اپنے کو ہی نہیں بلکہ بیوی اور بچوں کو بھی تنگ کرتی ہے اس وقت کی جو مہمان نوازی ہے وہ گہرے انکسار سے عطا ہوسکتی ہے ورنہ نہیں ہو سکتی.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند اقتباسات میں نے چنے ہیں جو آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور کوشش کرتا ہوں کہ ان کی تشریح کرسکوں جو آپ کو اچھی طرح سمجھ آئے.اس مضمون کو جس گہرائی سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے سمجھا ہے اسے دیکھ کر انسان کا دل عش عش کر اٹھتا ہے.فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 587 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء ”انسان چونکہ ناقص اور ثواب حاصل کرنے کے لئے اعمال صالحہ کا محتاج ہے اس لئے کبھی وہ تواضع اور تذلل کے طور پر اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے اپنے آرام پر دوسرے کا آرام مقدم کر لیتا ہے اور آپ ایک حظ سے بے نصیب رہ کر دوسرے کو وہ حظ پہنچاتا ہے.66 یعنی ایثار کی سچی تعریف یہ ہے کہ خدا کی رضا کی خاطر ، اپنے خدا کو خوش کرنے کے لئے ، اپنے آرام پر دوسرے کا آرام مقدم کر لیتا ہے.یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے اور آپ ایک حظ سے بے نصیب رہ کر ، ایک لطف سے بے نصیب رہ کر دوسرے کو وہ لطف پہنچاتا ہے.اب جو لطف ہے اس میں دونوں پہلو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائے ہیں.ایک لطف اس نے دوسرے کے لئے مہیا کیا مگر وہ ایسا لطف نہیں ہے جو مہیا کرے اور اپنے لطف میں کمی نہ آئے.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام جب ایثار کی بات کرتے ہیں تو بے حد بار یک نظر سے گفتگو فرماتے ہیں.اگر بار یک نظر سے آپ کی باتوں کا مطالعہ نہ کیا جائے تو آپ کو صحیح پیغام مل ہی نہیں سکتا.ایثار کا مطلب ہے کچھ چھوڑنا اور اسے دوسرے کی طرف منتقل کرنا.یہ فقرہ کہ : ” ایک حظ سے بے نصیب رہ کر دوسرے کو وہ حظ پہنچاتا ہے.یہ ایثار کی تعریف میں لازم ہے.جو حظ آپ غیر کو پہنچا رہے ہیں اس سے خود بے نصیب ہورہے ہیں.مثلاً ایک دوست مہمان آتے ہیں آپ سے ملنے کے لئے تشریف لاتے ہیں، آپ اپنے بیوی بچوں کو چھوڑ کر جتنی دیر ان کے پاس بیٹھے رہتے ہیں ایک حفظ سے محروم ہو رہے ہیں اور اس کے پاس بیٹھنے کے نتیجہ میں اپنا حظ جو بیوی بچوں میں آپ کو حاصل ہونا تھا وہ اس کو پہنچار ہے ہیں کہ اسے آپ کو ملنے کی خواہش ہے تو یہ حقیقی ایثار ہے.آپ ایک حفظ سے بے نصیب رہ کر دوسرے کو وہ حق پہنچاتا ہے تا اس طرح پر اپنے خدا کو راضی کرے اور اس کی اس صفت کا نام عربی میں ایثار ہے.(پھر فرمایا:) ظاہر ہے کہ یہ صفت گو عاجز انسان کی صفات محمودہ میں سے ہے لیکن خدا کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی.“ اب یہ پہلو بھی بہت اہم ہے کہ اگر چہ ایثار انسان کو زیب دیتا ہے بلکہ اتنا زیب دیتا ہے کہ ایثار کے بغیر انسان کوئی روحانی ترقی کر ہی نہیں سکتا ، خدا سے مل ہی نہیں سکتا اگر ایثار نہ ہولیکن یہ صفت محمودہ
خطبات طاہر جلد 17 588 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء تو ہے، بہت پیاری اور قابل تعریف صفت ہے مگر خدا میں نہیں ہے کیونکہ خدا کو اپنا کوئی حظ چھوڑنا نہیں پڑتا.اس لئے جب بھی وہ بندے پر جھکتا ہے احسان سے جھکتا ہے، ایثار سے نہیں جھکتا.اب یہ پہلو بھی بہت ہی لطیف پہلو ہے جو بعض ایسی صفات میں خدا کو بندے سے ممتاز کر کے دکھاتا ہے جو یا محض بندے میں ہوں گی یا محض خدا میں ہوں گی.اپنی اپنی جگہ دونوں قابل تعریف ہیں مگر ایک دوسرے کی طرف منتقل نہیں ہو سکتیں.ان کے درمیان ایک دائمی حد فاصل ہے.اسے وہ صفات پار نہیں کر سکتیں.لیکن خدا کی طرف منسوب نہیں ہوسکتی کیونکہ نہ تو وہ تواضع اور تذلل کے راہ سے کسی ترقی کا محتاج ہے.“ اب انسان تو تواضع کرتا ہے اس لئے کہ اس کے نتیجہ میں اسے ترقی ملتی ہے.وہ ترقی کیا ہے اللہ تعالیٰ کے قریب تر ہونا مگر اللہ کیوں تواضع کرے وہ تو کسی ترقی کا محتاج نہیں ہے.وہ تو ترقیوں کا منبع ہے.اسے کون سی اور ترقی کرنی ہے جس کی وجہ سے اس کو تو اضع کرنا پڑے.اور نہ اس کی جناب میں یہ تجویز کر سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو کسی قسم کا آرام پہنچانے کے لئے اس بات کا محتاج ہے کہ اپنے تئیں مصیبت میں ڈالے.“ اب دیکھ لیں بندہ جب بھی کسی کو آرام پہنچانے کے لئے جب کوئی ایثار کرتا ہے تولا زما اپنے آپ کو کچھ مصیبت میں ڈالتا ہے اور یہی چیز ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام توجہ دلا ر ہے ہیں کہ اللہ کسی کو آرام پہنچانے کی خاطر اپنے آپ کو مصیبت میں نہیں ڈالتا کیونکہ یہ اس کی شان کبریائی کے خلاف ہے.چنانچہ آپ فرماتے ہیں کہ : یہ بات قدرت تامہ اور نشانِ الوہیت اور جلال ازلی ابدی کے منافی ہے.اور اگر وہ اس قسم کی ذلت اور مصیبت اور محرومی اپنے لئے روار کھ سکتا ہے تو پھر یہ بھی ممکن ہوگا کہ وہ.اپنی خدائی کسی دوسرے کو بطور ایثا ر دے.“ اب دیکھیں استدلال کا کیسا پیارا رنگ ہے کہ ایثار میں تو آپ اپنی ایک چیز دوسرے کو دے دیتے ہیں آرام دیں یا دولت دیں اور منفعت بخش چیزیں عطا کریں.اپنی ایک چیز اپنے سے الگ کر کے دوسرے کو دیتے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے اس قسم کا
خطبات طاہر جلد 17 589 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء ایثار ہو ہی نہیں سکتا یعنی اس کی طرف منسوب کرنا بھی اس کی شدید گستاخی ہوگی کیونکہ پھر اس ایثار کے ساتھ وہ خدا خدارہ ہی نہیں سکتا.اس ایثار کا نتیجہ تو یہ ہے کہ : یہ بھی ممکن ہوگا کہ وہ اپنی خدائی کسی دوسرے کو بطورا یا ر دے کر آپ معطل اور بے کار بیٹھ جائے یا اپنی صفات کا ملہ دوسرے کو عطا کر کے آپ ان صفات سے ہمیشہ کے لئے محروم رہے.پس ایثار میں چیزوں کا دوسری طرف انتقال اس رنگ میں کرنا کہ آپ ان سے محروم رہ جائے یہ بنیادی بات ہے اور یہ بنیادی حقیقت ہے جس کو سمجھے بغیر آپ کو ایثار کے حقیقی معنی آہی نہیں سکتے.فرماتے ہیں: سوایسا خیال خدا تعالیٰ کی جناب میں بڑی گستاخی ہے اور میں قبول نہیں کر سکتا کہ کوئی خدا ترس ، منصف مزاج یہ ناقص حالتیں خدائے ذوالجلال کے لئے پسند کرے گا.ہاں بلا شبہ یہ صفت ایثار جس میں ناداری اور لاچاری اور ضعف اور محرومی شرط ہے ایک عاجز انسان کی نیک صفت ہے کہ باوجود یکہ دوسرے کو آرام پہنچا کر اپنے آرام کا سامان اس کے پاس باقی نہیں رہتا پھر بھی وہ اپنے پر سختی کر کے دوسرے کو آرام پہنچا دیتا ہے...“ وو یہ ذرا لمبی عبارت تھی وقت کی مناسبت سے میں اس کو مختصر کر رہا ہوں....یہ بھی یادر ہے کہ انسان کی صفت ایثار اس شرط سے قابل تحسین ہے کہ اس میں کوئی بے غیرتی اور دیوثی اور اتلاف حقوق نہ ہو.“ کتاب البریہ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ: 9997) یہ ایک بہت ہی اہم بنیادی بات ہے جس کو روز مرہ کی زندگی میں سمجھنا چاہئے.بے غیرتی اور دیوٹی کا نام ایثار نہیں ہے.شمالی چین میں بعض ایسے علاقے ہیں جہاں ایثار کا مطلب یہ سمجھا جاتا ہے کہ انسان جو گھر میں آئے وہ گھر کا مالک اس طرح بنا دیا جائے کہ گھر کی بیوی بچوں وغیرہ پر بھی اس کو تصرف حاصل ہو.یہ وہ اشارہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے فرمایا ہے کہ اس کا نام ایثار نہیں ہے، دیوئی ہے.پس چونکہ وہ جاہل لوگ خدا سے بے بہرہ ہیں اس لئے انہوں نے ایثار کا ایک ایسا رنگ اختیار کر لیا جس کا حقیقی ایثار سے یا حیاداری سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.اس بات کو پیش نظر
خطبات طاہر جلد 17 590 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء.رکھتے ہوئے اپنے گھروں میں مہمانی کیا کریں کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ گھر کا مہمان آ گیا ہے بیوی بچوں سے پردہ ہی اتار دیا جائے وہ بے تکلفی سے جہاں چاہے پھرے.وہ کہتے ہیں کہ ہمارا گھر آپ کا گھر ہے اب آپ ہمارے گھر میں اس طرح رہیں جیسے اپنے گھر میں رہتے ہیں.اس کی وہ مثال جو میں نے بیان کی تھی وہ درست مثال ہے.بعض لوگ جو چاہتے ہیں کہ اپنا گھر سمجھ کر کوئی رہے وہ گھر ہی خالی کر دیتے ہیں.وہ یہ نہیں کیا کرتے کہ اپنے نفوس کے ساتھ آنے والے نفوس کو اس طرح ملا جلا دیں کہ ان کی حرمت کا احساس باقی رہے نہ اپنی حرمت کا احساس باقی رہے.اس قسم کے ایثار کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیوثی قرار دیا ہے کیونکہ بات کھولنے کا وقت نہیں نہ یہ مناسب ہوگا کہ اتنی بڑی مجلس میں جہاں خواتین بھی سن رہی ہوں یہ باتیں کھول کھول کر بیان کی جائیں مگر اس کے نتیجہ میں اس کو جس کو آپ ایثار سمجھ رہے ہونگے اس کے نتیجہ میں اپنی جان ، اپنی عزت اور خدا کی رضا کو تلف کر رہے ہونگے.تو ایثار تو بندے میں تب زیب دیتا ہے کہ وہ خدا کے قریب کر رہا ہو.اگر خدا سے دور کر رہا ہو تو اسے کون احمق ایثار قرار دے گا.پس اپنے معاشرے کی حفاظت کریں اور جرمنی کے ماحول میں یہ حفاظت آپ سے ہمہ گیر تقاضے کرتی ہے، ہمہ وقت تقاضے کرتی ہے.اور اسی نصیحت کے ساتھ اب میں چند منٹ تک اس خطبہ کو ختم کروں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ جو لمبی عبارت ہے اس میں سے یہ آخری حصہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرماتے ہیں کہ ایثار سے مراد محض نفس کو تکلیف میں ڈالنا ہرگز نہیں ہے.تکلیف میں اس صورت میں ڈالنا کہ اس سے بہتر فوائد حاصل ہوں اور ادنیٰ چیز قربان کر کے اعلیٰ چیز حاصل کر رہے ہوں.آپ فرماتے ہیں کہ اگر صرف تکلیف میں ڈالنا، ایک خیال کے پیچھے تکلیف میں ڈالنا حقیقی ایثار ہوتا تو پھر ایسے ہندو بھی ملتے ہیں جو بتوں کے سامنے کھڑے کھڑے اپنے باز و یا ٹانگیں سکھا لیتے ہیں یا بتوں کی خاطر اپنے بچوں کو قربان کر دیتے ہیں، زندہ بچوں کو گنگا میں بہا دیتے ہیں مگر یہ حق تلفی ہے.یہ ایثار نہیں ہے کیونکہ ایثار کے نتیجہ میں آپ کو زیادہ سے زیادہ یہ حق ملتا ہے کہ آپ تکلیف اٹھا ئیں کسی کو خوش کرنے کے لئے کسی دوسرے نفس پر آپ کو ہر گز اختیار نہیں ہے کہ اس کو ز بر دستی تکلیف پہنچائیں تاکہ کوئی اور آپ سے خوش ہو جائے.یہ فرق ہے جو ہندو فلسفہ میں اور مسلمان فلسفہ میں ہے.ورنہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم سب قربانی جب کرتے ہیں تو بچے بھی تکلیف
خطبات طاہر جلد 17 591 خطبہ جمعہ 21 اگست 1998ء اٹھاتے ہیں مگر یہ مراد نہیں کہ بچے کو مجبور کر کے اس گھاٹ میں غرق کر دیا جائے جہاں وہ اپنے ہوش اور حواس کے ساتھ کبھی بھی غرق ہونا پسند نہ کرے.پس ایثار لازم ہے اور اس کے بغیر آپ کو مزید ترقیات نصیب نہیں ہوسکتیں مگر ایثار کو اپنی زندگی کا ایک لازمی حصہ بنالیں گویا وہ آپ کی سرشت ہو جائے اور اس سرشت کے ساتھ آپ کو تمام جرمن قوم سے تعلق رکھنا چاہئے اور تمام ان قوموں سے تعلق رکھنا چاہئے جو اس ملک میں آکر آباد ہوئی ہیں.یہ ایثار ہی ہے جو آپ کے رستے صاف کرے گا.ایثار کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ کو غیر قوموں کے دلوں میں گھر کرنے کی توفیق بخشے گا، ان کو اپنانے کی توفیق بخشے گا.وہ جو بے گھر ہیں ان کو گھر مہیا کرنے کی توفیق بخشے گا مگر اپنی عزت اور احترام کی قربانی کے بغیر.پس میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کی جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے جو ایثار کے بہت نمونے دکھا رہی ہے ایسے نمونے کہ ان کے متعلق سوچ کر بعض دفعہ میرے دل سے آنسوؤں میں بھیگی ہوئی دعا ئیں اٹھتی ہیں.میں جب تصور کرتا ہوں تو عش عش کر اٹھتا ہوں.سبحان اللہ، اللہ نے کیسے کیسے پیارے وجود قائم کئے ہیں اور واقعہ ان کے ایثار کے تصور سے میری آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کیونکہ یہ غبار دل سے اٹھ رہے ہوتے ہیں.اور کبھی ایک دن بھی ، ایک رات بھی ایسی نہیں گزری جب میں نے آپ کو ، خصوصاً جرمنی کی جماعت کو ان کے ایثار کی وجہ سے اپنی دعا میں یاد نہ رکھا ہو.ایک رات بھی ایسی نہیں گزرتی.مختلف حالتیں ہیں.کبھی سکون کے ساتھ وہ باتیں اللہ کے حضور عرض کرتا ہوں کہ ان بندوں کا خیال رکھ وہ تیری خاطر یہ قربانی کر رہے ہیں پھر ان سے بیقرار ہو کر اپنا چین کھو دیتا ہوں مگر آپ کو یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ اس ایثار کو چمٹے رہیں ، اس کو اپنی فطرت ثانیہ بنالیں اور اسی ایثار کے ساتھ سب قوموں کے ساتھ سلوک کریں کیونکہ میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ ایثار انشاء اللہ جرمنی کے اندر رہنے والے جرمنوں اور غیر قوموں کے دل بدل دیں گے اور احمدیت کے لئے ان کے دلوں کی راہیں صاف ہو جائیں گی.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.
خطبات طاہر جلد 17 593 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں (خطبہ جمعہ فرمودہ 28 اگست 1998ء بمقام بیت الرشید ، ہمبرگ.جرمنی ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: إنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنتِ إِلَى أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بصيران پھر فرمایا: ط (النساء:59) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ یقینا اللہ تعالیٰ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانت ان کے اہلوں کو دیا کرو یا جو امانات کے اہل ہیں ان کو امانتیں واپس کر دیا کرو.وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَنْ تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ اور جب بھی تم لوگوں کے درمیان فیصلے کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو.إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ یقیناً اللہ تعالیٰ تمہیں بہت ہی اچھی نصیحت کرتا ہے.یقینا اللہ تعالیٰ بہت سنے والا اور بہت جاننے والا ہے.امانت کا مضمون وہ مضمون ہے جس کی خاطر زمین و آسمان کو پیدا کیا گیا یعنی امانت خدا کے اس بندے کے سپردکرنے کی خاطر جسے اللہ تعالیٰ نے آخری طور پر چننا تھا یعنی حضرت اقدس محمد مصطفی سل های یمن کو لیکن یہ مضمون بہت ہی وسیع ہے اور اس پر میں پہلے بھی کئی دفعہ بات کر چکا ہوں.آج کے خطبہ کے لئے میں نے اس مضمون کا صرف ایک حصہ چنا ہے اور اس حصہ کی ضرورت اس
خطبات طاہر جلد 17 594 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء لئے پیش آتی ہے کہ امانت کے تعلق میں ابھی جماعت کو بہت کچھ سمجھانے اور بار بار یاد دہانی کی ضرورت پڑتی ہے.بار بار ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ امانت کے معاملہ میں یا پیچھے ہٹ جاتے ہیں یا امانت کی باریکیوں کو سمجھتے نہیں اور نفس ان کو اس معاملہ میں دھوکا دے دیتا ہے.پس خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے مطابق فَذَكَرْ اِن نَفَعَتِ الذِكرى ( الاعلى: 10) مجھے بھی ان امور کی بار بار نصیحت کرنی پڑتی ہے.اس مضمون کو میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ا یتیم کی بہت سی احادیث سے سجایا ہے کیونکہ حضور اکرم صلی ایم نے امانت کے باریک ترین پہلوؤں پر بھی مختصر الفاظ میں روشنی ڈالی ہے.پہلی حدیث جو میں نے اس مضمون کے لئے چینی ہے وہ مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی السلام نے ہمیں خطاب کرتے ہوئے فرمایا یا خطاب کرتے ہوئے ہمیشہ یہ فرمایا: "لَا إِيمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَةَ لَهُ وَلَا دِينَ لِمَنْ لَا عَهْدَ لَهُ " (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند انس بن مالك ، مسند نمبر : 12383) یعنی ”جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا ایمان کوئی ایمان نہیں اور جو عہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں.“ تو یہ معاملہ جو امانت کا معاملہ ہے بہت گہری اہمیت رکھتا ہے.ان دو لفظوں میں اس سے بہتر امانت کی اہمیت نہیں سمجھائی جا سکتی تھی کہ امانت کے نتیجے میں ہی انسان عہد پورا کیا کرتا ہے اور عہد پورا کرنے والا ہو تو وہ ضرور امین ہوگا.یہ دو باتیں لازم و ملزوم ہیں اور دین کا خلاصہ ہیں.یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے امانت کو حضرت اقدس محمد مصطفی لی ایم کے سپر دفرمایا کیونکہ یہ دونوں باتیں آپ سلیم میں بدرجہ اتم موجود تھیں امانت کا سب سے زیادہ حق ادا کرنے والے اور اپنے عہد کوسب سے زیادہ پورا کرنے والے.پس یہ دو باتیں اگر جماعت میں رائج ہو جائیں تو جوزندگی کا مقصد ہے وہ پورا ہو جائے گا اور اگر یہ باتیں رائج نہ ہوں تو زندگی بے کار ہے ، اس کا کوئی مقصد نہیں رہتا.یہ جو بنیادی نکتہ ہے اس کی تفصیل میں حضرت اقدس محمد مصطفی سال یا تم نے بہت سی نصیحتیں کی ہیں تا کہ بات کو مختلف پہلوؤں سے کھولا جائے.چنانچہ مسند احمد بن حنبل ہی سے ایک اور حدیث لی گئی ہے جس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی نا یہ تم نے فرمایا کہ:
خطبات طاہر جلد 17 595 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء کسی شخص کے دل میں ایمان اور کفر اور صدق اور کذب اکٹھے نہیں ہو سکتے.لا يجتمعُ الصدقُ وَالْكَذِبُ جَمِيعًا، وَلَا تَجْتَمِعُ الْخِيَانَةُ وَالْأَمَانَةُ جَمِيعًا کہ کسی شخص کے دل میں نہ امانت اور خیانت اکٹھی ہو سکتی ہیں، نہ جھوٹ اور سچائی اکٹھے ہو سکتے ہیں.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند أبى هريرة ،مسند نمبر : 8593) سوال یہ ہے کہ جھوٹ اور سچائی اکٹھے نہیں ہو سکتے کا مطلب کیا ہے.یہ تو ظاہر بات ہے کہ ایک شخص جب سچ بول رہا ہے تو سچ ہی بول رہا ہے اس وقت اس کے دل میں جھوٹ نہیں ہوسکتا اور ایک شخص جو جھوٹ بول رہا ہے جب وہ جھوٹ بول رہا ہے تو جھوٹ ہی بول رہا ہے تو آنحضور صلی ہیم کا یہ فرمانا کہ ایک شخص کے دل میں جھوٹ اور سچ اکٹھے نہیں ہو سکتے اس کا کچھ اور ہی مطلب ہے اور کوئی بہت گہرا مطلب ہے.گہرا مطلب یہ ہے کہ وہ شخص جو سچا ہو اس کے دل میں کبھی بھی جھوٹ نہیں رہتا اور وہ شخص جو امانت دار ہو وہ کبھی بھی خائن نہیں ہوتا.اس لئے بعض لوگوں کو یہ غلط نہی ہے کہ ہم جھوٹ بھی بولتے ہیں اور سچ بھی بولتے ہیں.جب سچ بول رہے ہوں تو بچے ہوتے ہیں اور جب جھوٹ بول رہے ہوں تو جھوٹے ہوتے ہیں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایتم نے اس مضمون کو گہرائی سے یوں بیان فرمایا کہ جو سچ بولنے والا ہے اس کے دل میں جھوٹ جھانک بھی نہیں سکتا، ناممکن ہے کہ اس کے دل میں جھوٹ اور سچ اس طرح ہوں کہ گویا ایک ہی گھر میں دونوں سمائے ہوئے ہوں اور یہی امانت دار کا حال ہے.تو اس پہلو سے اپنے آپ کو پرکھ کر دیکھیں کہ کیا آپ ہمیشہ سچ ہی بولتے ہیں اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے سوائے اس کے کہ غیر ارادی طور پر بولا جائے ، وہ ایک الگ مسئلہ ہے.اس کے متعلق بھی آنحضرت صلی یتیم کی کئی نصائح ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ غیر ارادی طور پر اگر جھوٹ بولا جائے تو وہ ایک سرسری سی چیز ہے جسے اللہ نظر انداز فرما دیتا ہے.مثلاً باتوں باتوں میں زیب داستاں کے لئے بعض لوگ ایک چیز کو بڑھاتے رہتے ہیں.اگر عادتاً جھوٹ نہ بولا جائے اور عادتاً بات کو نہ بڑھایا جائے تو کبھی کبھارا اتفاق سے ایسا ہو جانا یہ خدا تعالیٰ کے نزدیک جھوٹ میں نہیں لکھا جاتا.پس بعض دفعہ سچے آدمیوں سے بھی یہ غلطی ہو جاتی ہے کہ بات کرتے کرتے ، کہانی کو سجانے کی خاطر کبھی ایسی بات بھی کہہ دیتے ہیں جو اس کہانی کا حقیقی حصہ نہیں ہوتا تو اس کے نتیجہ میں اس شخص کو جھوٹا نہیں کہا جا سکتا مگر جو عادتا سچا ہو اس سے ایسا واقعہ شاذ کے طور پر سرزد ہوتا ہے اور وہ بھی عمد ا نہیں.
خطبات طاہر جلد 17 596 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء عادتا سچے کے اندر مستقلاً جھوٹ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہوتی اور یہ وہ پہلو ہے جس سے اگر ہم اپنے آپ کو پرکھیں تو معلوم ہوگا کہ ہم میں بہت کم ایسے ہیں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ سیال یمن کی اس تشریح کے مطابق بچے کہلا سکتے ہیں.پس سچا بنے کی کوشش کرو اور یہ بہت مشکل کام ہے اس کے لئے بہت محنت کی ضرورت ہے اور بہت نفس کے تجزیہ کی ضرورت ہے.انسان اکثر غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرتا ہے اور تجزیہ سے کام نہیں لیتا حالانکہ کوئی حقیقت بھی دراصل حقیقت نہیں ہوتی.اکثر حقیقتیں خیال ہوتی ہیں انسان سمجھتا ہے کہ وہ حقیقت ہے مگر وہ حقیقت نہیں ہوتی.اس کا اگر پوری طرح احساس ہو جائے کہ بسا اوقات انسان ساری زندگی دھوکے کی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے اور وہم میں مبتلا ہوتا ہے کہ میری زندگی ایک حقیقی زندگی ہے اگر اس کا پوری طرح احساس ہو جائے تو ہرلمحہ انسان باشعور ہو جائے گا، ہر لمحہ انسان بیداری کے ساتھ اپنی باتوں کو پر کھتا رہے گا اور جائزہ لیتا رہے گا یہی ایک طریق ہے جس کے ذریعے انسان کو اپنی پہچان ہو سکتی ہے اور اسی کا نام عرفان ہے.کوئی شخص بھی اگر اپنا عرفان نہیں رکھتا یا درکھیں کہ اسے اللہ کا عرفان بھی نصیب نہیں ہو سکتا.پس یہ تمام مضمون ایک دوسرے سے متعلق ہیں اور ایک کو چھوڑ کر دوسرے کو حاصل نہیں کیا جا سکتا.تو پہلی نصیحت تو آج کے خطبہ میں یہی ہے کہ اپنے نفس کا عرفان حاصل کرنے کی کوشش کرو اور یہ عرفان رفتہ رفتہ حاصل ہوتا ہے.یہ ایک دن یا دو دن کا کام نہیں ، مہینوں اور سالوں کا کام بھی نہیں ہے.آپ اپنے اوپر یہ تجربہ کر کے تو دیکھیں جب بھی آپ روزانہ اپنی باتوں کا جائزہ لینے کی عادت ڈالیں گے تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان میں سے بہت سی باتیں خیالی تھیں اور فرضی تھیں.پس سارا دن یہ محاسبہ ہونا چاہئے ، سارا دن انسان کو اپنی باتیں الٹ پلٹ کر دیکھتے رہنا چاہئے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی یا سیستم کی اس نصیحت کے مطابق اپنے اوپر بارہا تجربہ کیا ہے اور روز اسی تجربے میں زندگی گزرتی ہے اور بسا اوقات با وجود پوری کوشش کے میں دن کی باتوں کا جائزہ لیتا ہوں تو پتا چلتا ہے کہ ان میں بھی بعض بے حقیقت باتیں تھیں، خالی باتیں تھیں جو میں سمجھ رہا تھا کہ ٹھیک ہیں مگر گہرے تجزیہ سے وہ درست نہیں نکلتیں.پس اس میں آپ کا اور میرا کوئی فرق نہیں.آپ بھی اسی راہ کے سالک ہیں جس راہ کا میں سالک ہوں اور ہدایت کی تلاش میں جس طرح آپ رواں دواں ہیں ویسے ہی میں بھی ہوں اور
خطبات طاہر جلد 17 597 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء آنحضرت صلی اہیم نے جو ہدایت بخشی ہے اس میں ہم سب مخاطب ہیں.یہ نہیں کہہ سکتے کہ آپ ہیں اور میں نہیں، میں ہوں تو آپ نہیں لیکن فرق یہ ہے کہ کوئی چلتے چلتے زیادہ آگے نکل گیا ہے، کوئی ابھی پیچھے ہے اور اسے بہت سفر طے کرنا ہے مگر سفر طے کرنا شروع کر دیں تو پھر ہی طے ہو گا.اگر طے کریں گے ہی نہیں تو کیسے سفر طے ہوگا.پس تھوڑا یا زیادہ ، کچھ آہستہ کچھ تیز ، کوشش کریں کہ یہ سفر جس کی طرف رسول اللہ لیا کہ تم نے راہنمائی فرمائی ہے اسے ہم روزانہ کچھ نہ کچھ طے کریں.کوئی دن ہم پر ایسا نہ گزرے جب ہم یقین نہ کر لیں کہ آج ہم نے ایک دو قدم اور بڑھالئے ہیں.اگر یہ شروع کر دیں تو پھر یہ جماعت ایک جماعت بن جائے گی اور اس کے بغیر یہ افراد میں بٹی ہوئی ہوگی، جماعت نہیں بن سکتی کیونکہ جماعتیں اکٹھی چلتی ہیں اور اکٹھی چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ ایک ہی شخص کے وجود کی طرح ایک ہی جسم میں سمٹ جاتی ہیں.جماعتیں جب چلتی ہیں تو اکٹھی اس طرح چلتی ہیں کہ ایک امام کے پیچھے چلتی ہیں وہ آگے ہوتا ہے اور ان کا جلوس بعض دفعہ بہت لمبا پیچھے چل رہا ہوتا ہے لیکن چلتی اسی سمت میں ہیں اس کو اکٹھا چلنا کہتے ہیں.اکٹھا چلنے کا یہ مطلب نہیں کہ سمٹ کے ایک دوسرے سے جڑ جڑ کے تو اتنا سمٹ جاتے ہیں کہ گویا ایک ہی وجود بن جاتے ہیں یہ درست نہیں ہے، اکٹھے کا یہ بھی مفہوم ہوتا ہے اور یہ بھی مفہوم ہے جو میں بیان کر رہا ہوں کہ ایک ہی سمت پر چلیں اور کوشش کریں کہ ایک دوسرے سے آگے بڑھیں.اس کوشش میں کچھ کمزور ہیں جو پیچھے رہ جائیں گے.کچھ ایسے بھی ہیں جن کو صلاحیتیں ہی نہیں ہیں کہ وہ زیادہ آگے بڑھ سکیں مگر کوشش ضروری ہے.پس اس پہلو سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم کا یہ فرمان پیش نظر رکھیں کہ اگر دل میں سچ ہے تو جھوٹ ساتھ نہیں رہ سکتا.اگر انسان امانت دار ہے تو ناممکن ہے کہ خیانت بھی کرے.یہ آخری منزل ہے جس کی طرف ہمیں سفر کرنا ہے.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ا یہی تم نے امانت کی اہمیت پر اتنا زور دیا ہے کہ فرمایا نبوت کی صفات میں سے بنیادی صفت امانت ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر نبی امانت سے پہچانا جاتا ہے اور امانت ہی کے نتیجے میں اسے نبوت عطا ہوتی ہے.پس کسی نبی کو جانچنے کی یہ پہچان دائگی ہے.اس میں ضروری نہیں کہ سب سے افضل نبی کی یہ پہچان ہو.یہ ایک ایسی پہچان ہے جو ہر نبی میں لازم ہے اور اسی پہچان سے ھر قل نے آنحضرت صلی یا ستم کی پہچان کی تھی.یہ بخاری کتاب الشهادات سے حدیث لی گئی ہے.جس کے الفاظ یہ ہیں :
خطبات طاہر جلد 17 598 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء ع من عُبَيْدِ اللهِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، أَنَّ عَبْدَ اللهِ بن عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَخْبَرَهُ قَالَ أَخْبَرَنِي أَبُو سُفْيَانَ، أَنَّ هِرَ قُلَ قَالَ لَهُ: سَأَلْتُكَ مَاذَا يَأْمُرُكُمْ فَزَعَمْتَ أَنَّهُ يَأْمُرُ بِالصَّلاةِ، وَالصِّدْقِ، وَالعَفَافِ وَالوَفَاءِ بِالْعَهْدِ، وَأَدَاءِ الْأَمَانَةِ، قَالَ: وَهَذِهِ صفة تي" (صحیح البخاري، كتاب الشهادات، باب من أمر بأنجاز الوعد ،حدیث نمبر :2681) میں نے اصل عبارت اس کی اس لئے پڑھی ہے کہ میری نظر پڑی ہے تو ہمارے کہا بیر سے آئے ہوئے بہت سے عرب دوست ہیں جن کو غالباً تر جمہ سننے میں دقت ہوگی تو اصل الفاظ عربی کے بھی اگر بیان کر دوں تو وہ خوش ہونگے اور اب میں نے دیکھا ہے تو واقعی ان کے چہرے کھلکھلا اٹھے ہیں کہ حدیث کے اصل عربی الفاظ ان کے سامنے رکھ رہا ہوں.اب اس کا ترجمہ یہ ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ مجھے ابوسفیان نے بتایا تھا.ابوسفیان اس وفد میں شامل تھا جو عربوں نے ہر قل کی طرف بھیجوایا تھا.وہ کہتے ہیں مجھے ابوسفیان نے بتایا تھا کہ ھرقل نے انہیں کہا کہ میں نے تجھے یہ پوچھا تھا کہ محم تم کو کس چیز کا حکم دیتے ہیں.دراصل ہر قل نے آنحضرت صلی لا یہ ستم کے متعلق پوچھا اور اس کا مقصد یہ تھا مگر ابوسفیان نے بات کو ٹالا.اس نے کہا ہمارا اور ان کا معاملہ تو ایسا ہی ہے کبھی وہ اوپر آگئے کبھی ہم اوپر آگئے.یہ اونچ نیچ آپس میں ہوتی رہتی ہے.ھرقل نے کہا میں نے یہ نہیں پوچھا، میں نے یہ پوچھا تھا کہ تمہیں حکم کس بات کا دیتا ہے.اس پر مجبور ہو کر اس نے یہ جواب دیا کہ وہ نماز کا حکم دیتا ہے ، وہ سچائی کا حکم دیتا ہے، وہ پاکدامنی کا حکم دیتا ہے،عہد پورا کرنے کا حکم دیتا ہے اور امانتیں ادا کرنے کا حکم دیتا ہے.اب یہ ایک ایسی بات ہے جو بالکل واضح اور قطعی ہے.آنحضرت سیلیا کی تم نے تمام عمر ان چیزوں کے سوا حکم ہی کوئی نہیں دیا اور ابو سفیان یہ بتانے پر مجبور ہو گیا.اس پر ھرقل نے یہ پتے کی بات کہی کہ یہی تو ایک نبی کی صفت ہے.یعنی دنیا میں ہر نبی انہی چیزوں کا حکم دیتا ہے اور جھوٹے کو یہ نصیب نہیں ہوا کرتا.اب اس بات کو اگر آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی شناخت بنا کر دیکھیں تو دُنیا جہان کے علماء ایک طرف ہو کر حضرت مسیح موعود کی تکذیب کریں ، ہر احمدی گواہی دے گا کہ تم جھوٹے ہو کیونکہ نبیوں کی بنیادی صفات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام میں موجود ہیں اور انہوں
خطبات طاہر جلد 17 599 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء نے ہمیں اس کے سوا کوئی حکم نہیں دیا.کب کہا ہے مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام نے کہ تم جھوٹ بولو.کب کہا ہے کہ امانتوں میں خیانت کرو، کب کہا ہے کہ دوسروں کے حق مارو.پس با تیں ہمیشہ سچی کہیں اور وہی کہیں جو نبی کہتے ہیں، اور ہوں جھوٹے! یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مقصد کیا ہے ایک دعوی کرنے کا جب نیک لوگ بنائے جار ہے ہوں اور بدی کے خلاف جہاد شروع ہو گیا ہو ایسا شخص جو اتنا عظیم کام ہاتھ میں لیتا ہے وہ خدا کی طرف جھوٹ کیسے گھڑ سکتا ہے.اس لئے ہر قل کی بات بہت گہری ہے اور حیرت کی بات ہے کہ ہر قل کو خدا تعالیٰ نے اتنی سمجھ عطا فرمائی تھی اور یہی وجہ تھی کہ اس نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی للہ ایم کی سچائی کو پہچان لیا.ایک حدیث ام سلمہ کی روایت ہے جو سنن الترمذی سے لی گئی ہے عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، قَالَتْ : قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: المُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن “ (سنن الترمذي، أبواب الأدب عن رسول الله باب أن المستشار مؤتمن ،حدیث نمبر :2823) ام سلمہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی یا یہ تم نے فرمایا: "المُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن یعنی جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے.اب یہ چھوٹی سی حدیث ہے لیکن بہت گہری باتیں اس میں بیان ہوگئی ہیں.آپ لوگ روز مرہ کسی مسئلہ میں ایک دوسرے سے مشورہ کرتے ہیں لیکن جس سے مشورہ کیا جائے وہ ضروری نہیں کہ آپ کو سچا مشورہ ہی دے اور بسا اوقات مشورہ کے دوران وہ اپنے چھپے ہوئے مقاصد کو پیش نظر رکھ کر مشورہ دیتا ہے حالانکہ جس سے مشورہ مانگا جائے وہ امین ہونا چاہئے اس کے اوپر اعتماد کیا گیا ہے، مؤتمن ہے وہ ، اور جس پر اعتماد کیا جائے اس کو مشورہ ہمیشہ درست دینا چاہئے.چنانچہ روز مرہ کی زندگی میں آپ دیکھیں کہ یہ انسانی زندگی کی اصلاح کے لئے کتنی ضروری نصیحت ہے.جماعت احمدیہ کا نظام بھی مشورہ پر مبنی ہے اور روزمرہ ہر انسان مشورہ کا محتاج ہے لیکن بسا اوقات جب مشورہ کیا جاتا ہے تو مشورہ دینے والا انسان غور نہیں کرتا کہ اس مشورہ میں کچھ میری نیت بھی داخل ہے اور خواہ وہ نیت اچھی ہی ہو مگر جب مشورہ مانگا جائے تو اس اچھی بات کو مشورہ میں شامل کرنا بد دیانتی ہوتی ہے.اب یہ بات بظاہر عجیب ہے اور متضاد ہے لیکن میں آپ کے سامنے اپنے تجربہ سے کھول دیتا ہوں.بعض دفعہ میں پوچھتا ہوں کہ فلاں جگہ جانے کے لئے کتنا وقت درکار ہے، کون سا راسته مناسب ہے؟ کوئی شخص جو یہ چاہتا ہو کہ میں اس کے گھر بھی آؤں وہ اپنے گھر والا رستہ
خطبات طاہر جلد 17 600 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء بتا دیتا ہے.کہتا ہے فلاں طرف سے فلاں جگہ جائیں اور آخر پر ہمارا گھر بھی اسی رستہ پر پڑتا ہے تو اگر ایک دو منٹ کے لئے وہاں بھی جائیں تو بہت اچھی بات ہے.اب آپ دیکھیں بظاہر اچھی بات ہے لیکن جھوٹ بھی شامل ہے اس میں.مُستشار نہیں رہا وہ ، مؤتمن نہیں رہا.اس کا فرض ہے وہ یہ بتائے کہ اگر آپ جلدی پہنچنا چاہتے ہیں تو یہ رستہ ہے اور یہ اچھا رستہ ہے.اگر آپ گھنٹہ اور لگانا چاہیں تو آدھے گھنٹے کے رستہ پر ہمارا گھر حاضر ہے.چند منٹ کے لئے وہاں بھی آجائیں.اور جب وہ چند منٹ کے لئے کہے گا تو نیت ہوگی کہ کم سے کم آدھا گھنٹہ اور لگ جائے.اب یہ خفی باتیں ہیں یعنی سچا آدمی جان کے جھوٹ نہیں بول رہا.جب وہ چند منٹ کہتا ہے تو یہ اثر ڈالنا چاہتا ہے کہ تھوڑی دیر میں کام ہو جائے گا لیکن اگر میں ہاں کہہ دوں تو فوراً اپنی بیوی کو فون کرے گا کہ جتنے رشتہ دار ہیں اکٹھے کرلو اور ہر قسم کے کھانے پکا لو، جو پھل ملتا ہے وہ مہیا کر لو تا کہ آج موقع ہے اس موقع سے فائدہ اٹھالیں اور وہ جو نصف گھنٹہ ہے وہ بھی میں احتیاط سے بتارہا ہوں.یہ سارا معاملہ ایک گھنٹہ کا بن جاتا ہے اور یہ مجھے تجربے ہیں.تو آنحضرت صلی لا یتیم کی نصیحتوں میں بہت گہرے راز ہیں.اگر احتیاط سے ان نصیحتوں پر عمل کریں تو جب آپ سے مشورہ مانگا جائے اس وقت اپنی نیتوں کو نکال کر باہر پھینک دیں، اپنے مفادات کو نکال کر باہر پھینک دیں اور خالصہ وہ مشورہ دیں جو آپ کو امین ظاہر کر رہا ہو ، وہ ثابت کرے کہ آپ امانت کا حق ادا کرنا جانتے ہیں.یه روز مرہ کی زندگی کی باتیں ہیں جو روزانہ آپ کو دیکھنی پڑیں گی.اب شادی بیاہ کے معامالات ہیں ان میں مشورے ہوتے ہیں اور اکثر ان مشوروں میں دھوکا ہو جاتا ہے.بعض لوگ تو عمداً دھوکا دیتے ہیں یعنی جو بات کسی لڑکی میں نہیں ہے وہ بتائیں گے.جو عیب کسی لڑکے میں پایا جاتا ہے وہ نہیں بتا ئیں گے وغیرہ وغیرہ اور قول سدید سے ہٹ کر بات کرنے کے نتیجہ میں بہت سے دھو کے ہوتے ہیں اور اکثر ایسی شادیاں یا ٹوٹ جاتی ہیں یا ساری زندگی کے دکھوں پر منتج ہو جاتی ہیں.اب یہ سمجھانے کی اس لئے ضرورت ہے کہ میں ملاقاتیں کرتا ہوں اللہ کے فضل کے ساتھ اور ان ملاقاتوں میں آئے دن یہ واسطہ پڑتا ہے.اگر چہ میں اس وقت اُن بچیوں کو یا لڑکوں کو سمجھاتا ہوں کہ یہ ملاقاتیں اس غرض سے نہیں ہیں کہ میں تفصیل سے آپ کی یک طرفہ باتیں سنوں اور پھر کوئی فیصلہ کروں.
خطبات طاہر جلد 17 601 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء جو کچھ لکھنا ہے بہتر ہے کہ نظام جماعت کی معرفت لکھیں اور امیر کی رائے بھی ساتھ شامل ہو، وہ تحقیق کر کے بتائے کہ کیا کس حد تک کس فریق کا قصور ہے لیکن اس صورت میں بھی میں آخری فیصلہ نہیں کروں گا کیونکہ معاملات بالآخر ، جو بھی قضائی معاملات ہیں بالآخر، مجھ تک پہنچتے ہی اور مجھے فیصلہ دینا ہوتا ہے.اگر میں پہلے ہی فیصلہ دے بیٹھوں تو پھر آخری صورت میں قاضی کیسے بن سکتا ہوں.اس لئے میں انہیں سمجھا تا ہوں کہ اس ملاقات میں آپ نے خواہ مخواہ اپنا وقت ضائع کیا کیونکہ آپ ویسے ملتے، کوئی دعا کے لئے کہہ دیتے ، کوئی اچھی بات مجھے سنا دیتے تو یہ وقت ضائع نہ ہوتا لیکن میں اس سے یہ اندازہ ضرور کر لیتا ہوں کہ ابھی بہت سے جماعت میں خائن لوگ موجود ہیں.اگر لڑ کی قصور وار نہیں تو لڑ کا قصور وار ہوگا ، اگر لڑ کا قصور وار نہیں تو لڑ کی قصور وار ہوگی مگر ہوتا ہے خیانت کے نتیجہ میں.پس آنحضور صلی یا تم نے جو امانت اور خیانت کا مضمون بیان فرمایا اور اس پر زور دیا اس پر اتنا زور دینے کی ضرورت ہے یعنی اتنی اہمیت دینے کی ضرورت ہے کہ اگر ہم اس کو اہمیت دیں تو ساری جماعت کا تمام معاشرہ سنور جائے اور اس کے علاوہ جو دنیا سنورتی ہے تو پھر دین بھی سنورتا ہے.جب دنیا سنورتی ہے تو آخرت بھی سنورتی ہے.تو باتیں بظاہر چھوٹی چھوٹی ہیں لیکن نتائج ان کے بہت بڑے بڑے نکلنے والے ہیں.پھر وہ لوگ بھی ہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا وہ بعض دفعہ جان کے دھوکا نہیں دیتے لیکن عادت ہوتی ہے اپنی بات کو سجا کے پیش کرنے کی اور اس عادت کے نتیجہ میں وہ بعض دفعہ غلط فہمیاں پیدا کرنے کا موجب بن جاتے ہیں.پھر ایسے بھی لوگ ہیں جنہوں نے بعد میں مجھے بتایا کہ ہم نے عمداً اس شخص کو دھوکا نہیں دیا تھا یہ بات ذہن سے اتر گئی.اب اگر میں تسلیم کرلوں کہ وہ بات ذہن سے اتر گئی تو یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ عمد ادھوکا نہیں دیا مگر دھوکا ہو گیا.اگر باشعور طور پر یہ عادت ہو کہ جو باتیں ذہن سے نہیں اترنی چاہئیں وہ نہ اتریں اور کھول کر بات بیان کی جائے تو پھر یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک شادی دکھوں پر منتج ہومگر ایسا ہو چکا ہے، میرے سامنے ایسے معاملات آتے رہتے ہیں.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ اس بات کو یا درکھیں گے المُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن، یہی وہ نظام ہے جو ہماری جماعت میں رائج ہے.جب بھی ہم انتخاب کرواتے ہیں تو جس شخص کو انتخاب کے لئے کہا جاتا ہے اس پر اعتماد کیا جاتا ہے کہ جو امانت کا حق دار ہے اس کو وہ امانت دے گا.اگر وہ امانت
خطبات طاہر جلد 17 602 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء کے حق دار کو حق دینے کی بجائے اپنے عزیز، اپنے رشتہ دار، اپنے دوست کو وہ حق دے دے تو یہ بے ایمانی ہے اور اس کو علم ہی نہیں کہ وہ کتنی بڑی بددیانتی میں مبتلا ہورہا ہے.اگر بنیادی طور پر جس کو Grass Root کہا جاتا ہے، اس بات کی احتیاط کی جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتی نظام آخر تک سنور تا چلا جائے گا اور کسی موقع پر بھی کسی غلطی کا احتمال نہیں رہتا.ابھی پچھلے دنوں ایک مجلس میں لارڈ میئر کے نمائندہ آئے ہوئے تھے وہ بڑے ذہین آدمی تھے.انہوں نے باریکی سے مجھ سے جماعت کے متعلق سوال کئے تو اس بات سے ان کے دل پر بہت گہرا اثر پڑا کہ اگر آپ بنیادی طور پر دیانت سکھا رہے ہیں اور دیانت سے ووٹ دینا سکھا رہے ہیں تو پھر ساری دُنیا کو چاہئے کہ آپ سے ڈیما کریسی سیکھے کیونکہ جوڈیما کریسی کی روح ہے وہ سوائے جماعت احمدیہ کے اور کہیں نظر ہی نہیں آتی.تو آنحضرت مسیله ای ستم چودہ سو سال پہلے وہ بات کر رہے ہیں جو آج تک بڑے بڑے دانشوروں کو بھی نصیب نہیں ہو سکی.جب تک دیانت سے مشورہ دینے کی عادت نہ ہو ڈیما کریسی کا خیال ہی عنقا ہے، اس کا کوئی وہم و گمان بھی نہیں کرنا چاہئے.پس اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ہم وہ جماعت ہیں جن میں یہ امکانات روشن ہو چکے ہیں کہ ہم تمام دنیا کو ڈیما کریسی سکھا ئیں یعنی آنحضرت صلی للہ یہ تم کے فرمودات کے مطابق ایسا نظام بنانا سکھا ئیں جس پر اعتماد کیا جا سکتا ہو.اگر شروع میں اعتماد نہیں کیا جاسکتا تو آخر تک پھر یہ اعتماد اٹھتا چلا جاتا ہے.یہ مضمون بہت وسیع ہے اور میں نے بہت غور کر کے دیکھا ہے اس پر بہت لمبی تقریریں بھی ہوسکتی ہیں محض لفاظی کے لئے نہیں بلکہ مضمون کے باریک پہلو سمجھانے کی خاطر لیکن اس خطبہ میں جو مضمون سمیٹنا چاہتا ہوں وہ پھر میرے ہاتھ سے نکل جائے گا.اس لئے میں اس چیز کو اس وقت چھوڑتا ہوں.ایک اور حدیث ترمذی سے لی گئی ہے.عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ : أَذِ الأَمَانَةَ إِلَى مَنِ اثْتَمَنَكَ، وَلَا تَخَنْ مَنْ خانك (سنن الترمذي، أبواب البيوع عن رسول الله ﷺ باب ماجاء في النهى للمسلم...، حدیث نمبر :1264) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمایا کہ آنحضرت صلی یا پی ایم نے فرمایا: ”اس شخص کو امانت لوٹا دو جس نے تمہارے پاس امانت رکھی تھی اور اس شخص سے بھی خیانت نہ کرو جو تجھ سے خیانت کرتا ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 66 603 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء وَلَا تَحن من خَانَكَ “ یہ ہے بنیادی بات جو پہلی بات کے علاوہ ہے.عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ ہم تو امانت دار ہیں.کوئی شخص اگر ہماری امانت رکھتا ہے تو ہم اس کی امانت رکھیں گے اور کوئی ہماری امانت واپس کرتا ہے تو ہم اس کی امانت واپس کریں گے مگر اگر کسی نے ہم سے خیانت کی تو پھر ہمارا حق ہے کہ ہم اس سے بھی خیانت کریں.یہ جھوٹ ہے.یہ مضمون کا ایک لطیف حصہ ہے جو حضرت اقدس محمد رسول الله ملال کی ایم نے ہم پر روشن فرمایا کہ امانت دار خیانت کر ہی نہیں سکتا.یہ وہ مضمون ہے کہ امانت اور خیانت اکٹھے ایک دل میں نہیں رہ سکتے.اس لئے کوئی اس سے خیانت کرے بھی تو وہ خیانت نہیں کر سکتا.اگر یہ بات ہو تو پھر بہت سے دھو کے جو روزمزہ کی اقتصادی زندگی میں انسان کو ہوتے ہیں ان کا ہونا بھی ممکن نہیں رہتا.اقتصادی زندگی میں لوگ ایک دوسرے کو دھوکا دیتے ہیں تو یہ سمجھ کر کہ اس نے دیا ہے تو ہم بھی دے سکتے ہیں.یہ جھوٹ ہے.دھو کے کے نتیجہ میں دھوکا دینا جائز نہیں اور خیانت کے نتیجہ میں خیانت کرنا جائز نہیں.حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی شمالی تم نے کسی ایسے فریق سے جس سے معاہدہ کیا ہو اس سے اس وجہ سے بھی خیانت نہیں کی کہ اس نے خیانت کی تھی.جب یہ علم ہوا کہ خیانت کی ہے تو اس پر حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یا کہ تم نے وہ عہد توڑ دیا جو دونوں کو کسی خاص معاہدہ کے لئے پابند کرتا تھا.فرمایا تم ایسے فریق نہیں ہو کہ تم سے عہد جاری رکھا جا سکے.خائن کا یہ بدلہ ہے.اگر کوئی خیانت کرتا ہے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ میرے اور تمہارے درمیان جو معاملہ تھا، جو ہم نے عہد باندھا ہوا تھا، یہ عہد ٹوٹ گیا.اب تم اپنا معاملہ کرو جس سے چاہو مگر اس کے باوجود اس سے خیانت کا حق نہیں رکھتا.کبھی بھی حضور اکرم سنا تم نے کسی سے ادنیٰ بھی خیانت نہیں کی یعنی اپنے دشمن سے بھی جو خائن تھا اس سے بھی خیانت سے پیش نہیں آئے.اب امانت کے جو باریک پہلو ہیں ان پر روشنی ڈالتے ہوئے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ا یہ تم فرماتے ہیں، یہ سنن ابی داؤد کی حدیث ہے.عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ إِذَا حَدَّكَ الرَّجُلُ بِالْحَدِيثِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ (سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب فى نقل الحديث، حدیث نمبر : 4868) حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی السلام نے فرمایا: ” جب بھی کوئی شخص بات کر کے پلٹ جائے تو وہ بات امانت ہے.اب یہ بات چھوٹی سی ہے لیکن بہت گہری
خطبات طاہر جلد 17 604 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء ہے اور اسے سمجھانا پڑے گا کیونکہ میں نے بھی کچھ دیر غور کے بعد بات سمجھی کہ آنحضور صلی ایام کیا فرمانا چاہتے ہیں.بات یہ ہے کہ جب آپ ایک دوسرے سے بات کر رہے ہوں تو اگر کوئی درستی کرنے والی تھی تو آپ کا فرض ہے کہ اس وقت درستی کر دیں کیونکہ جب آپ اس بات کو چھوڑ دیں گے تو وہ بات پھر آپ کی بات بنے گی ، جو اس کے دماغ میں باقی رہ جائے گی وہ اس کے پاس امانت ہے.وہ اس بات کا دین دار ہے کہ وہ بات اتنی ہی بیان کرے جتنی آپ نے بیان کی تھی لیکن باتوں کے دوران بعض دفعہ انسان کو یاد آ جاتا ہے کہ یہ بات اس طرح نہیں اس طرح ہے، اس وقت لازم ہے کہ آپ وضاحت کر دیں کیونکہ جب مجلس ختم ہوئی یعنی جب ایک انسان نے وقتی طور پر یا مستقل طور پر اس شخص سے جدائی کر لی تو جو بات آخری اس کو کہی گئی ہے وہ اس بات کا حق دار ہے کہ اسی بات کو آپ کی طرف منسوب کرے.کئی دفعہ ایسے دولوگ ہوتے ہیں جو بات کہہ دیتے ہیں اور الگ ہو جاتے ہیں اور پھر اس بات کے اندر کچھ خرابیاں نکلتی ہیں.چنانچہ وہ شخص جب بات بیان کرتا ہے تو کہتے ہیں غلط کہہ رہا ہے میں نے یہ بات نہیں کہی تھی حالانکہ وہ خود غلط کہہ رہے ہوتے ہیں.چونکہ انہوں نے وضاحت نہیں کی تھی اس لئے جس نے جو بات جیسی کبھی ، جیسی اسے سمجھائی گئی اتنی بات تو آپ کی طرف منسوب کرنے کا حق رکھتا ہے.نہ اس سے زیادہ نہ کم.اس ضمن میں بعض مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں اور وہ مسائل بھی ایسے ہیں جن میں آنحضرت صلی الی یوم نے نصیحت فرمائی ہے.مثلاً جب آپ بات کر رہے ہیں تو بات کرنے کے وقت کون سا حق قائم ہوتا ہے، کس پر حق قائم ہوتا ہے.؟ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی ا یہ وہ فرماتے ہیں مجالس کا قیام امانت سے ہے سوائے تین مجالس کے.اب یہ ایک بہت ہی اہم بات ہے.جس پر عمل کرنے کی بے انتہا ضرورت ہے.جب آپ ایک بات کہہ دیں وہ امانت ہوگئی تو اس کا یہ بھی تو مطلب ہے کہ ایک مجلس میں جو بات، جو منصوبہ بنایا جائے وہ بھی امانت ہو گئی یہ اس کا ایک طبعی نتیجہ نکلتا ہے.اگر یہ درست ہے تو پھر کوئی کسی قسم کا منصوبہ بنارہا ہو جس نے وہ بات سنی ہو وہ امین ہو جائے گا اور وہ اسے آگے ظاہر کر ہی نہیں سکتا.یہ خطرہ ہے.آنحضرت صلہ تم دیکھیں کتنی باریکیوں سے ان خطرات پر آگاہ ہیں اور ہمیں نصیحت فرماتے ہیں کہ ان خطرات میں مبتلا نہیں ہونا.سنن ابی داؤد کی روایت ہے:
خطبات طاہر جلد 17 605 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: الْمَجَالِسُ بِالْأَمَانَةِ إِلَّا ثَلَاثَةَ فَجَالِسَ : سَفْكُ دَمٍ حَرَامٍ، أَوْ فَرْجُ حَرَامٌ، أَوْ اقْتِطَاعُ مَالٍ بِغَيْرِ حَقٍ “ (سنن أبی داؤد، کتاب الأدب، باب في نقل الحديث ،حدیث نمبر : 4869) اس کا ترجمہ یہ ہے کہ مجالس امانت ہیں جو باتیں اس میں کہی جائیں گی وہ آخری بات جس شکل میں بھی کی گئی ہے آپ اس کے امین بن گئے ہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بات اتنی ہی کہیں جو آگے کہنی ہے لیکن اس کے ساتھ بعض مجالس میں یہ شرط ہوتی ہے کہ یہ راز کی بات ہے اور جب یہ شرط ہو جائے تو خواہ وہ بات اتنی ہی ہو جو آپ سے کی گئی ہے آپ آگے کہنے کے مجاز نہیں رہتے.یہ بھی امانت کا ایک پہلو ہے.بعض دفعہ امانتیں رکھوائی جاتی ہیں اس شرط کے ساتھ کہ کسی کو بتا نہیں.چنانچہ کئی لوگ ہیں وہ اس طرح امانت رکھ جاتے ہیں کہ کسی کو پتا نہ چلے ، بعض امانتیں میرے پاس بھی ایسی رکھوائی گئیں جس میں بیویوں نے کہا ہمارے خاوند کو نہ پتا چلے کہ یہ ہم نے امانت رکھوائی ہے کیونکہ اس سے خاوندوں کے دل میں بدظنی پیدا ہو سکتی تھی.بعض دفعہ عورتوں نے بے چاریوں نے اپنی محنت کر کے کوئی مال کمایا ہوتا ہے اور مجھے علم ہوتا ہے کہ دیانت دار عورتیں ہیں.اگر وہ خاوند کو پتا چل جائے کہ انہوں نے کما کے رکھا تھا اور مجھ سے چھپا کے رکھا ہے تو بعض خاوند دوسروں کے مال پر بڑے شیر ہوتے ہیں.وہ پھر غصہ کرتے ہیں کہ تم نے یہ بات یہ چیز کیوں مجھ سے چھپائی اور اکثر عورتیں ہیں جو رکھنا چاہتی ہیں تا کہ آئندہ کسی نیک موقع پر خرچ کر سکیں.تو میں بھی پوری تحقیق کے بعد پھر امانت رکھ لیتا ہوں اور کبھی ان کے خاوندوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی کہ ان کی بیوی نے یہ امانت رکھوائی ہے.پس امانت کے یہ سارے مضامین ہیں جو حضرت رسول اللہ صلی للہ سلیم نے بیان فرما دئے ہیں کوئی پہلو بھی باقی نہیں چھوڑا.فرمایا ایسی صورت میں امین ہو جاؤ گے تم ، تم نے وہ بات آگے نہیں کرنی، کسی صورت میں نہیں کرنی سوائے تین قسم کی مجالس کے.ان میں تم امین نہیں رہے بلکہ امانت کا مضمون ہی بدل گیا.اگر ان باتوں کو بیان نہیں کرو گے تو پھر امین نہیں ہو گے.اگر بیان کرو گے اور متعلقہ آدمیوں تک بیان کرو گے تو امین نہیں کرو گے تو غیر امین ، یعنی خائن سمجھے جاؤ گے.یہ وہ مضمون ہے جس میں فرمایا کہ سوائے تین مجالس کے ناحق خون بہانے پر مشورہ ہو ، اب بے شمار ایسے واقعات بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان ہی میں ہو رہے ہیں جہاں خونِ ناحق بہانے کے مشورے کئے
خطبات طاہر جلد 17 606 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء 66 جاتے ہیں اور اگر کوئی شخص بتا دے تو اس کو بھی قتل کر دیا جاتا ہے یعنی کوشش کی جاتی ہے کہ اس کو بھی قتل کر دیں.کراچی میں جو حقیقی غیر حقیقی کے قصے چل رہے ہیں ان کی تفصیل میں تو میں نہیں جاسکتا لیکن اتنا پتا ہے کہ وہ لوگ جو منصوبہ بناتے ہیں کسی کو قتل کرنے کا خواہ وہ مہاجرین کی طرف سے ہو یا حکومت کی ایجنسیوں کی طرف سے ہو یا ہندوستان یا غیر ملکوں کی طرف سے ہو اس تفصیل میں میں نہیں جانا چاہتا مگر اتنا مجھے علم ہے کہ جب اس منصوبے کا انکشاف کر دیا جائے حکومت کے اوپر یا انصاف قائم رکھنے والے اداروں پر تو اکثر ان کا بدلہ اتارا جاتا ہے اور ان کو قتل کی دھمکی دی جاتی ہے یا قتل کر دیا جاتا ہے.تو یہ وہ ایک معاملہ ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی شما یہ تم نے چودہ سو سال پہلے متنبہ فرما دیا تھا کہ اگر خون ناحق کا منصوبہ ہے تو یا درکھنا تمہاری امانت کا تقاضا یہ ہے کہ متعلقہ عہد یداروں تک ضرور بات کو پہنچاؤ.وہاں امانت کا مفہوم بدل گیا.اگر یہ بات نہیں پہنچاؤ گے تو تم امین نہیں ہو گے، پھر تم نے خیانت کی جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اگر ایسی مجلس ہو تو پیشتر اس کے کہ بات آگے بڑھے فوراً انسان اٹھ کر آ جائے.اگر ڈرپوک ہے یا سمجھتا ہے کہ میرے حالات اجازت نہیں دیتے کہ میں یہ خطرہ مول لوں تو بہتر یہ ہے کہ اس مجلس سے یہ کہہ کر جدا ہو جائے کہ مجھ پر اعتبار نہ کرو کیونکہ اگر ایسی بات تم نے کی اور مجھے اس منصوبہ کا علم ہو گیا تو مجھ سے بات نکل جائے گی.یہ کہہ کر وہ اپنی جان بچا سکتا ہے اور اپنی امانت بھی بچا سکتا ہے.تو وہ لوگ جو روز مرہ آج کل پاکستان میں ان مسائل کا شکار ہیں ان کے لئے یہ نصیحت ہے کہ بہتر یہ ہے کہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنی جان بچائیں اور اپنا ایمان بچا ئیں لیکن اگر آپ اس منصوبہ میں بیٹھے رہے تو پھر خواہ کوئی بھی قیمت دینی پڑے خواہ جان کی قیمت دینی پڑے امانت کا مضمون یہ ہے کہ امانت ادا کرو اور بے ایمان کے راز کو راز نہ سمجھو، وہ دوسروں تک پہنچاؤ یعنی حکومت یا ان ذمہ دار آدمیوں تک پہنچاؤ جو اس کا ازالہ کر سکتے ہیں.دوسری چیز ہے بدکاری کا منصوبہ.اب یہ منصوبے بھی بہت بن رہے ہیں.ہر ملک میں بنتے ہوں گے لیکن بعض ممالک میں باقیوں سے زیادہ بنتے ہیں یہاں تک کہ بعض دفعہ پولیس بھی ان منصوبوں میں شامل ہوتی ہے.مل کر کئی لوگوں کے ساتھ بدکاری کا منصوبہ بنایا جاتا ہے اور آئے دن پکڑے بھی جاتے ہیں اور بہت ہیں جو نہیں بھی پکڑے جاتے.رسول اللہ صلی ایتم نے فرمایا کہ اس منصوبہ کا اگر علم ہو جائے تو لازم ہے کہ متعلقہ عہد یداروں تک اس بات کو پہنچا دو ورنہ تم خائن ہو گے.تو بات کر دینا امانت کی علامت ہے اور بات کو روک لینا خیانت کی علامت ہے.
خطبات طاہر جلد 17 607 خطبہ جمعہ 28 اگست 1998ء پھر فرمایا جس میں کسی کا مال ناحق دبانے کا منصوبہ ہو.اور یہ منصوبے بھی اس کثرت سے بنتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.پاکستان کے حالات کا تو ہمیں علم ہوتا رہتا ہے، اخبارات میں آتے رہتے ہیں اور لوگ بھی لکھتے رہتے ہیں.وہاں تو ایک دوسرے کا مال دبانے کا منصوبہ ایک روزمرہ کا دستور بن چکا ہے.اس منصوبہ میں جو انصاف کرنے والے ادارے ہیں ان کو بھی شامل کیا جاتا ہے اور مجھے تو آئے دن ایسی احمدیوں کی چٹھیاں ملتی رہتی ہیں کہ ہم اس میں بالکل بے قصور پکڑے گئے ہیں.جو کا غذات بنائے گئے ہیں سارے جعلی ہیں اور جب شکایت کرو تو جن کے پاس شکایت کی جاتی ہے انہوں نے بھی اپنا حصہ بیچ میں ڈالا ہوتا ہے.اب کس کے پاس شکایت کریں، کسے منصف بنا ئیں، یہ ہوہی نہیں سکتا کیونکہ سارا معاشرہ بگڑ چکا ہے.اور اگر یہ بات ہو کہ جب بھی ، جہاں بھی ایسا منصوبہ بنے وہ ایسے لوگوں تک پہنچایا جائے جو اس کا ازالہ کر سکتے ہوں تو شروع میں ضرور کچھ نہ کچھ منصف تو ہوتے ہی ہیں معاشرہ میں.آج کل جو معاملہ ہے حد سے زیادہ بگڑ چکا ہے میں اس کی بات نہیں کر رہا.مگر اگر آغاز ہی سے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یا یتیم کی اس نصیحت کو پیش نظر رکھا جاتا تو ممکن ہی نہیں تھا کہ یہ معاملہ آگے بڑھ جاتا.پس یہ ایک ہی حدیث جو چودہ سو سال پہلے کی نصیحت ہے تمام ملکوں کے معاشرہ کو درست کرنے کے لئے کافی ہے.حیرت انگیز نصیحت ہے لیکن چونکہ ابھی وقت ختم ہورہا ہے اور اس مضمون میں اور بھی بہت سی باتیں کرنے والی ہیں جو انشاء اللہ میں اگلے خطبہ تک اٹھا رکھتا ہوں اور اب اسی پر آپ سے اجازت چاہوں گا.انشاء اللہ اگلا خطبہ انگلستان میں ہوگا.وہاں جا کر اسی مضمون کے بعض دوسرے پہلو آپ کے سامنے پیش کروں گا.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ جرمنی سے اب مجھے مزید خیانت کی وہ شکایتیں نہیں ملیں گی جن کی تفصیل میں نے آپ پر کھول دی ہے.امیر صاحب جرمنی کی ایک اور ذمہ داری ہے اس پہلو سے نظر رکھیں.
خطبات طاہر جلد 17 609 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء امانت کا مضمون بہت ہی اہم ہے سچے مومن وہ ہیں جو ہمہ وقت اپنی امانتوں اور عہدوں پر نگاہ رکھتے ہیں ( خطبه جمعه فرموده 4 ستمبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کیں : وَ الَّذِينَ هُمْ لِاَمُنْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ بِشَهدَتِهِمْ قَامُونَ وَ الَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ أُولَبِكَ فِي جَنَّتِ مکرمون پھر فرمایا: (المعارج: 33تا36) یہ وہی مضمون ہے جو میں نے جرمنی کے گزشتہ خطبہ میں ہمبرگ کے خطبہ میں شروع کیا تھا اور وقت کی کمی کی وجہ سے میں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ انشاء اللہ اگلے جمعہ پر جو لندن میں ہوگا میں اسی مضمون کو جاری رکھوں گا.امانات کا مضمون بہت ہی اہم ہے اور انسان کی روحانی زندگی کی جان اس میں ہے اور اس پہلو سے میں نے حضرت اقدس محمد مصطفی صلی ا یتیم کی ایسی احادیث کا انتخاب کیا ہے جو پیچھے بیان نہیں ہوئیں اور ان احادیث میں کچھ نئے پہلو امانتوں کی ادائیگی کے متعلق بیان ہوئے ہیں لیکن سب سے پہلے جن آیات کی میں نے تلاوت کی ہے ان کی مختصر تشریح کرتا ہوں.وَالَّذِينَ هُمْ لِاِمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ - رُعُونَ سے مراد نگہداشت کرنے والے جیسے گڈریا اپنی بھیڑ بکری کی نگہداشت کرتا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ لِمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ وہ لوگ یعنی سچے
خطبات طاہر جلد 17 610 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء مومن وہ ہوتے ہیں جو اپنی امانتوں اور عہدوں پر ہر وقت کڑی نظر رکھتے ہیں.گڈریے کی نظر اگر غافل رہے تو جو اس سرزمین کی حدود ہیں جہاں بکریوں نے چرنا ہے اس سے وہ نکل کر باہر قدم رکھ دیتی ہیں اور خطرے میں مبتلا ہو جاتی ہیں.تو بہت ہی خوبصورت بیان ہے کہ سچے مومن تو وہ ہیں جو ہمہ وقت اپنی امانتوں اور عہدوں پر نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں یہ بدک نہ جائیں، کہیں اپنے مقام کو چھوڑ کر کسی اور طرف نہ چلے جائیں.وَ الَّذِينَ هُمْ بِشَهدُ تِهِمْ قَامُونَ : اور وہ جو اپنی گواہیوں پر قائم رہتے ہیں.اب گواہیوں پر قائم رہنے کا کیا مطلب ہو سکتا ہے.اس کے دو تین معانی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اول تو گواہیوں پر مضبوطی سے قائم وہی ہوتا ہے جس کی گواہی حقیقت میں سچی ہو.جس کی گواہی سچی نہ ہو وہ بیان بدلتا رہتا ہے.تو وَ الَّذِينَ هُمْ بِشَهدُ تِهِمْ قَابِمُونَ میں یہ ایک صفت ان کی بیان فرمائی گئی ہے کہ وہ گواہی صرف اسی چیز کی دیتے ہیں جس پر پھر وہ ہمیشہ قائم رہ سکتے ہوں.جب بھی پوچھو گے وہی بات کہیں گے جس بات کے وہ گواہ ہیں اور پشھد تھم قایمون کا یہ بھی مطلب بنتا ہے کہ وہ جو آنکھوں دیکھا ہو وہ بیان کیا کرتے ہیں، جس پر نفس پورے اطمینان کے ساتھ گواہی دے سکتا ہو.سنی سنائی باتوں کو بیان کرنے والا کبھی بھی اس پر قائم نہیں رہ سکتا.پھر جب وہ ایک بیان دیتے ہیں تو اس کو لوگوں کے ڈر سے بدلتے نہیں.بعض دفعہ لوگ بچے بیان کو بھی لوگوں کے ڈر سے بدل دیتے ہیں جب ایک دفعہ بیان بدلا جائے تو اس کی کوئی بھی قیمت نہیں رہتی.اب امریکہ میں جو پریذیڈنٹ کلنٹن کے ساتھ واقعات ہو رہے ہیں وہ یہی واقعات ہیں، بیان بدلنے والے.جب بیان بدل دیا جائے تو پہلے بیان کا بھی کوئی اعتبار نہیں اور دوسرے بیان کا بھی کوئی اعتبار نہ رہا اور امریکہ کی عدلیہ اب اسی مخمصہ میں پھنس گئی ہے کہ جن سے بیان بدلوایا گیا تھا ان کا پہلا بیان سچا تھا یا دوسرا اسچا تھا اور وہ عورتیں حلفیہ گواہی دیتی ہیں کہ ہمارا پہلا بیان جھوٹا تھا یہ بیان سچا ہے.تو خواہ جو مرضی حلف اٹھا ئیں.جب حلف اٹھا کر کہہ دیا کہ پہلا بیان جھوٹا تھا تو پھر اگلے کا بھی اعتبار نہ رہا اور یہی حال پریذیڈنٹ کلنٹن کا بھی ہے.وہ بھی حلف اٹھا کر کہہ رہے ہیں کہ جو میں نے پہلے بات کی تھی اس میں کچھ چھپایا تھا اور کھولتے نہیں کہ کیا چھپا یا تھا.تو عجیب وغریب حال میں انسان مبتلا ہو جاتا ہے اگر قرآنی آیات کی بنیادی نصائح کو نظر انداز کر دے جو ہر کس و ناکس کے لئے برابر ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 611 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء یہاں مومنوں کی جو صفت بیان فرمائی گئی ہے یہ مطلب نہیں کہ غیر مومنوں کے لئے یہ طریق کار مفید نہیں ہوگا.مومنوں کو بنی نوع انسان کے لئے نمونے کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے.اگر تم نمونہ پکڑنا چاہتے ہو، اگر امانتوں کا حق ادا کرنا چاہتے ہو، اگر اپنے عہدوں پر نگر ان رہنا چاہتے ہو تو پھر مومنوں سے سیکھو.حضرت اقدس محمد مصطفی صل للہ اسلام کے غلاموں کو یہاں بطور نمونہ بنی نوع انسان کے لئے پیش فرمایا گیا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَاتِهِمْ يُحَافِظُونَ : وہ نمازوں کی حفاظت کیوں کرتے ہیں، عہد کا اس سے کیا تعلق ہوا؟ دراصل سب سے پہلا عہد ان کا خدا سے ہوا کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے کی خاطر اور اس کی امانت اس کو واپس کرنے کے لئے وہ نمازوں کی حفاظت اس طرح کرتے ہیں کہ نمازیں ان کی حفاظت کر رہی ہوتی ہیں.یہاں جو يُحافظ کا صیغہ استعمال فرمایا گیا ہے یہ دوطرفہ عمل کرنے والا صیغہ ہے.وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور نمازیں ان کی حفاظت کرتی ہیں اور یہ امر واقعہ ہے کہ جتنا کوئی اپنی نمازوں کی حفاظت کرے گا اسی قدر نمازیں اس کی حفیظ بن جائیں گی، اس کی حفاظت کرنے والی ہو جائیں گی.- أوليك في جَنْتِ مُكَرَمُونَ : یہی وہ لوگ ہیں جو اعزاز والی جنتوں میں داخل کئے جائیں گے.اب قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا ایک یہ بھی نشان ہے کہ اوليك په حصر کرنے کے باوجو د صرف یہ نہیں فرمایا کہ یہی وہ لوگ ہیں جو جنت میں داخل کئے جائیں گے جبکہ قرآن کریم کی دوسری آیات بہت سے کمز ور لوگوں کے متعلق بھی خبر دیتی ہیں کہ بہت سی کمزوریوں کے باوجود وہ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے مگر جنتوں کے ساتھ یہ شرط رکھ دی تمکرمون وہ اعزاز کے ساتھ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے یعنی جنتیں مکرم نہیں مگر ان کی وجہ سے جنتیں بھی مکرم بن جاتی ہیں.جس جگہ داخل ہونے والے معز زلوگ ہوں وہ جگہ بھی عزت والی بن جاتی ہے.مکان کومکین سے شرف حاصل ہوا کرتا ہے.پس اس پہلو سے میں اس کے دونوں معنے جائز سمجھتا ہوں کہ وہ اعزاز کے ساتھ ، بڑی عزت اور احترام کے ساتھ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے.ہر کس و ناکس جس کو جنت کا انعام ملے گا اس پر یہ مضمون صادق نہیں آتا لیکن جن کی صفات او پر بیان کی گئی ہیں ان پر یہ ضمون بعینہ صادق آتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 612 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء یہ وہ آیات تھیں جن کے تعلق میں میں نے اپنے خطبہ کو تشکیل دیا تھا.اسی تعلق میں ایک اور آیت بھی ہے یا چند اور آیات بھی ہیں سورۃ المومنون کی آیات 9 تا 12 ، ان میں بھی یہی مضمون ہے مگر کسی قدر فرق کے ساتھ.وَ الَّذِينَ هُمْ لِانْتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ : وہ لوگ جو اپنی امانتوں اور عہدوں پر ہمہ وقت نگران رہتے ہیں.وَالَّذِينَ هُمْ عَلَى صَلَواتِهِمْ يُحَافِظُونَ : اور جولوگ اپنی نمازوں کی حفاظت اس طرح کرتے ہیں کہ وہ ان کی حفاظت کر رہی ہوتی ہیں.آگے جو ایک آیت ہے یہ پیچھے جو مضمون ہے اس میں اضافہ کر رہی ہے.أُولبِكَ هُمُ الْوارِثُونَ یہ جنت کو ورثے میں پائیں گے.الَّذِينَ يَرِثُونَ الْفِردَوسَ - هُمْ فِيهَا خَلِدُونَ : یہاں فردوس کا ذکر ہے مكرمون کا ذکر نہیں ہے یعنی مُكْرَمُونَ کی جنت کا ذکر نہیں بلکہ فردوس کا ذکر ہے.اس لئے سرسری نظر سے پڑھنے والا دونوں کو ایک ہی مضمون سمجھ لیتا ہے حالانکہ ان دونوں میں فرق ہے.ط در فردوس بھی ایک بہت اعلیٰ درجہ کی جنت کا نام ہے مگر وار تُون کہہ کر یہ فرمایا کہ گویا وہ جنت کو ورثے میں پائیں گے.جیسے ورثے کا حق رکھنے والا لا ز ما سب سے زیادہ حق دار ہوتا ہے اس کا جو ورثہ چھوڑا گیا ہو.تو اوليكَ هُمُ الورثُونَ یہ جنت کو ورثے میں پائیں گے.الَّذِيْنَ يَرِثُونَ الْفِردوس جس کو فردوس ورثے میں ملے گی.فردوس بھی ایک بہت اعلیٰ درجہ کی جنت کا نام ہے مگر مکرمُونَ میں جس جنت کا ذکر ہے اس کا اور اس کا فرق ہے.مكرمون والی جنت تو فردوس سے بھی بہت اعلیٰ درجہ کی ہے هُمْ فِيهَا خُلِدُونَ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے یا ہمیشہ رہنے والے ہونگے.اب ان آیات کے تعلق میں جو میں نے چند احادیث حضرت اقدس محمد مصطفی سلیم ایم کی اختیار کی ہیں ان میں پہلی حدیث مسلم، کتاب الزكوة ، باب أجر الخازن الأمين سے لی گئی ہے.یہ روایت حضرت ابو موسی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی سلیم نے فرمایا کہ: ”وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران مقرر ہوا اگر دیانت دار ہے اور جو اسے حکم دیا جاتا ہے اسے صحیح صحیح نافذ کرتا ہے اور جسے کچھ دینے کا حکم دیا جاتا ہے اسے پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے تو ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والوں کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا.“ (صحیح مسلم، کتاب الزكوة باب اجر الخازن الامین، حدیث نمبر : 2363)
خطبات طاہر جلد 17 613 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء اب یہ ایک بہت ہی لطیف نصیحت ہے جسے بہت سے لوگ نظر انداز کر دیتے ہیں اور میرے تجربہ میں ایسے لوگ آئے ہیں جنہوں نے جب اس بات کو نظر انداز کیا تو ان کی خساست خود ان کے نفس کے خلاف غالب آگئی.اور بہت سے مراتب سے وہ محروم رہ گئے.پس حضرت رسول اللہ صلی لے لی ہم جس بار یک نظر سے چیزوں کا مطالعہ فرماتے ہیں اور ہمارے سامنے کھول کھول کر رکھتے ہیں انہیں سمجھنے کے بعد غور کرنا چاہئے کہ کیا فرمانا چاہتے ہیں حالانکہ لوگوں کا عام خیال ہے کہ جس کو حکم دیا جاتا ہے وہ کرتا ہے وہ اس کے لئے صدقہ جاریہ کیسے ہو گیا.ایک آدمی کو آپ جو حکم دیتے ہیں وہ کرتا ہی ہے لیکن پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ ایسا کرے یہ ایک زائد شرط ہے.بعض لوگ جب یہ سنتے ہیں کہ فلاں شخص کو کچھ رقم دلوا دو تو ان کے نزدیک وہ شخص حق دار نہیں ہوتا اور میرے نزدیک حق دار ہوتا ہے.میرے نزدیک حق کے پیمانے مختلف ہیں.بعض لوگ محض دلجوئی کی خاطر مدد دئے جاتے ہیں ، بعض لوگ اس مدد کے نتیجہ میں دین کے زیادہ قریب آجاتے ہیں.مؤلفۃ القلوب کا بھی تو ایک مضمون ہے مگر جو لوگ باریکی سے ان باتوں کو نہیں دیکھتے وہ سمجھتے ہیں کہ میرا فیصلہ ہی غلط تھا یہ آدمی کس طرح لائق ہو گیا کہ اس کو جماعت کی طرف سے مدد دی جائے.اور پھر ان کو یہ بھی نہیں پتا ہوتا کہ وہ مدد جماعت کی طرف سے دی جارہی ہے یا میری ذاتی طرف سے دی جارہی ہے یا کسی ایسے فنڈ سے دی جارہی ہے جس کا جماعت کے حساب میں کوئی ذکر بھی نہیں.ان سارے امور سے لا تعلقی کے نتیجہ میں وہ اپنی جگہ معاملہ فہم بن کر فیصلہ کر دیتے ہیں.چنانچہ ایسے ہی ایک شخص کے متعلق مجھے بہت افسوس ہوا کہ میں نے اس کو کہا کہ فلاں شخص کو یہ رقم دے دو.اس نے اپنی جیب سے نہیں دینی تھی ، رقم اسے مہیا کر دی گئی تھی لیکن مدتوں ٹالتا رہا نہیں دی.آخر جب کمیشن بیٹھا اور جواب طلبی کی گئی تو یہ جواب دیا کہ یہ تو حق دار ہی نہیں ہے.کمیشن نے کہا تم زیادہ جانتے ہو یا خلیفہ وقت جانتا ہے جس نے رقم مہیا کی.اگر اس نے بے وقوفی کی ہے تو وہ خدا کو جوابدہ ہے تم نے تو حکم مانا تھا.پس رسول اللہ صلی ا یہ تم نے یہ شرط لگائی پوری بشاشت اور خوش دلی کے ساتھ اس کا حق سمجھتے ہوئے دیتا ہے.جس کا حق آنحضرت صلی ا یہ ہم نے قائم فرما دیا یا بالا عہد یدار، امیر نے مثلاً قائم کر دیا تو نچلے عہدیداروں کا ہر گز یہ کام نہیں ہے کہ اس میں روک بن جائیں اور اپنی خساست اس صدقہ کی راہ میں حائل کر دیں، اپنی کنجوسی کو صدقہ کا رستہ روک دینے والا بنا دیں.اگر ایسا کریں گے تو وہ بھٹکتے بھٹکتے کہیں اور پہنچ سکتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 614 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء فرمایا ایسا شخص بھی عملاً صدقہ دینے والے کی طرح صدقہ دینے والا شمار ہوگا.اس سے زیادہ اور کیا تحریص ہو سکتی ہے.اپنے پلے سے کچھ بھی نہیں دینا پڑا اور جس کو صدقہ دیا صرف یہ شرط ہے بشاشت سے دو اور تم ویسے ہی ہو جاؤ گے جیسے صدقہ دینے والے نے صدقہ دیا.اسی طرح تم بھی اس صدقہ کے ثواب میں شریک ہو جاؤ گے.اب بشاشت سے دینے کا مضمون بھی خاص طور پر پیش نظر رہنا چاہئے.اگر کسی کو کچھ دیا جائے اور منہ بسور کر دیا جائے ، ماتھے پر بل پڑے ہوئے ہوں تو اگر وہ سخت مجبوری کی وجہ سے لینے پر مجبور بھی ہو تو اس کا دل بہت دُکھی ہو جائے گا.وہ کہے گا میرے حالات کی مجبوری ہے میں لے تو رہا ہوں مگر اس شخص نے جس طریقہ پر دیا ہے لینے کو دل نہیں چاہتا.چنانچہ ایسے بھی میرے علم میں ہیں جن کو جب اس طرح دیا گیا تو انہوں نے واپس کر دیا اور یہ نہیں سوچا کہ یہ جو ان کو رقم مہیا کی جارہی تھی اس کی طرف سے نہیں تھی بلکہ میری طرف سے تھی لیکن یہ ان کی نفسیاتی مجبوری ہے.دینے والا ہاتھ نظر آرہا ہے، دینے والے چہرے کو وہ دیکھ رہے ہوتے ہیں اگر وہ پوری بشاشت سے نہ دے رہا ہو تو لازماً دل پر برا اثر پڑتا ہے.تو حضور اکرم صلی ا ہم نے یہ شرط لگا دی کہ پوری بشاشت کے ساتھ دو تا کہ لینے والے کا دل بھی راضی ہو ، وہ خوش ہو کہ مجھے خوش خوش ایک چیز دی جارہی ہے.پس یہ بہت ہی باریک رستے ہیں تقویٰ کے جن کا مضمون حضرت اقدس محمد مصطفی صلی شما ایستم ہمیں سمجھاتے ہیں اور آپ صلی للہ یہ ستم کے سوا اور کوئی اس طرح نہیں سمجھا سکتا.ایک روایت عبادہ بن صامت سے لی گئی ہے.عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ، أَنَّ النَّبِيِّ ﷺ قال “ حضرت عبادہ بن صامت کی یہ روایت مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت عبادہ بن صامت سے روایت ہے کہ حضرت رسول کریم صلی ہی تم نے فرمایا: تم مجھے اپنے نفس سے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں.“ بہت ہی عمدہ سودا ہے، عظیم الشان سودا ہے.رسول اللہ صلی ہم جس کو جنت کی ضمانت دیں ممکن ہی نہیں کہ اسے جنت نصیب نہ ہو اور یہ بات آنحضرت صلی الہی تم اللہ کی منشاء کے بغیر بیان نہیں کر سکتے کیونکہ آپ صلی کا یہ تم تو جنتیں تقسیم کرنے والے نہیں تھے.اللہ نے آپ ملا یہ کہ ہم کو جس چیز میں جتنا مختار بنایا تھا آپ صلی ا کہ تم اسی کی امانت کا حق ادا کرتے تھے.تو امانتوں کی گفتگو ہو رہی ہو اور ان
خطبات طاہر جلد 17 615 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء جنتوں کی ضمانت دے رہے ہوں جن کی ضمانت دینا آپ صلی للہ ایم کے اختیار میں نہ ہو ، یہ ہو ہی نہیں سکتا.پس لازماً یہ حدیث قدسی ہے ان معنوں میں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی یا یہ ہم کو اجازت دی کہ یہ باتیں کہو اور ضامن ہو جاؤ.پس رسول اللہ اللہ یہ تم کی ضمانت کے بعد اب غور سے سنیں کہ وہ کیا چھ باتیں ہیں.جس وقت بات کرو سچ بولو.“ اب یہ بات جو ہے یہ کتنی آسان اور کتنی مشکل ہے.جس وقت بات کرو سچ بولو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں ہمیشہ بات کرنے سے پہلے رک کر سوچنا چاہئے کیونکہ انسان کا نفس بہت سی جھوٹ کی ملونی کر دیا کرتا ہے ، وہ ملاوٹ شامل ہوتی چلی جاتی ہے اور وہ سچ نہیں رہتا.تو پہلی بات ہی کتنی آسان اور کتنی مشکل ہے.رسول اللہ من سلیم نے فرمایا یہ کرو تو میں جنت کی ضمانت دیتا ہوں.مگر پانچ اور باتیں بھی ہیں لیکن حضرت اقدس محمد مصطفی سلینا ہی تم نے ایک شخص کو صرف سچ کی ہدایت کی تھی اور اس سے وعدہ لیا تھا کہ سچ بولو گے اور اس کا انجام یہ ہوا کہ اس کی ساری بدیاں دور ہوگئیں اور ساری نیکیاں اور حسنات اس کو عطا ہو گئیں.تو ان میں سے ایک ایک آپ مالی پریتم کا فقرہ اس کا ایک ایک لفظ تو لنے کے لائق ہے یعنی دل میں اس کو تو لیں اور پھر دیکھیں اس کا کتنا وزن ہے.” جب تم وعدہ کرتے ہو تو اسے پورا کرو.“ اب دراصل یہ سچ بولنے ہی کے آگے شاخسانے ہیں.بنیادی چیز حق ہے.اگر کوئی انسان سچ بولنے والا ہو تو اس پر لازم ہے کہ جب وہ وعدہ کرے گا تو اسے پورا کرے گا.وو ” جب تمہارے پاس امانت رکھی جائے تو ادا کرو“ اب یہ ساری باتیں سچ ہی کے بطن سے پھوٹ رہی ہیں.سچ بنیادی چیز ہے.وہ شجرہ طیبہ ہے جس کو پھل لگ رہے ہیں اور آنحضرت سی تھا کہ تم ان پھلدار شاخوں کا ذکر فرما رہے ہیں.اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرو.“ یہ بھی امانت ہے اور اللہ تعالیٰ نے کسی مقصد کے لئے عطا کی ہیں.اس لئے امانت کا مضمون یہاں بھی اسی طرح چل رہا ہے.پھر فرمایا: غض بصر کرو.“
خطبات طاہر جلد 17 616 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء اب غض بصر کا جوعموماً ترجمہ سنتے ہیں یا کرتے ہیں یہ ہے کہ ہر وقت آنکھیں نیچی رکھ حالانکہ ہرگز یہ ترجمہ نہیں ہے.غض بصر سے مراد یہ ہے کہ جب نظر اچٹتی ہوئی کسی ایسی جگہ پڑے جہاں وہ نفس میں غلط جذبات پیدا کر رہی ہو تو وہاں سے نظریں پھیر لیا کرو اور کسی چہرہ پر اس طرح نظر ڈال کے نہ دیکھو گویا اس کے حسن کی تلاش میں ہو، اس کے بدن کو اس طرح نظر ڈال کے نہ دیکھو کہ گویا اس کی مخفی زینت کے ابھار کو دیکھ رہے ہو اور اس سے اپنے دل کو ایک قسم کی شہوت کی تسکین دے رہے ہو.اس کا نام ہے غض بصر اور شرمگاہوں کی حفاظت کے ساتھ اس کا گہرا تعلق ہے.پھر چھٹی بات یہ فرمائی: اور اپنے ہاتھوں کو روک کر رکھا کرو.“ (مسند احمد بن حنبل، باقی مسند الانصار حديث عبادة بن الصامت، مسند نمبر : 22757.اب ہاتھوں کو روک کر رکھنے کا کیا مطلب ہے؟ پہلی پانچ باتیں تو بالکل صاف سمجھ آرہی ہیں اب ہاتھوں کو کیوں روکو.دراصل جن لوگوں کو عادت ہو کہ وہ مغضوب الغضب ہوں اور بات سوچتے نہیں اور تولتے نہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ کسی حد تک ان کا حق ہے کسی کو بدنی سزا دینے کا ، کس حد تک نہیں ہے، ان کا ہاتھ از خود چلتا ہے.اور بار بار نصیحت کے باوجود جن کو عادت ہو وہ عادت بدل نہیں سکتے.وہ مائیں جن کو عادت ہے کوئی بچہ ذراسی حرکت کر رہا ہے تو ایک دم اس پر ہاتھ مار کے اس کو پہنچتی ہیں یا تھپڑ مار دیتی ہیں اور اس وقت ان کو یہ بھی احساس نہیں ہوتا کہ ملاقات میں بیٹھے ہوئے ہیں، کیا بداثر پڑ رہا ہے.ایک بدتمیزی ہے کہ ملاقات کر رہے ہوں اور اپنے بچوں سے ایسی بدسلوکی کر رہے ہوں اور دماغ میں ان کے یہ ہوتا ہے کہ میرے سامنے یہ حرکت کر رہا ہے اور مجھ پر بداثر پڑے گا حالانکہ یہ بھی ایک دکھاوا ہے.ایسے لوگوں کے متعلق جب میں گہری نظر سے دیکھتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ گھروں میں ان کو چھٹی دی ہوئی ہے ورنہ وہ باہر بھی ایسی حرکتیں نہ کریں.گھروں میں یہ عادت ہے جو مرضی کرتے پھریں اور جب ان کی یہ عادت پختہ ہو چکی ہو، راسخ بن گئی جب وہ ملاقات کے وقت ظاہر ہوتی ہے تو اپنے نفس سے شرمندگی مٹانے کے لئے، اپنی بدی پر پردہ ڈالنے کے لئے اس پر سختی کرتے ہیں.اور بعض دفعہ بچہ اس قدر گھور کے واپس دیکھتا ہے کہ تم وہی چیز ہو جو گھروں میں تو مجھے چھٹی دی ہوئی تھی کہ جو مرضی کرتا پھروں اور اب تم یہاں مجھ سے یہ سلوک کر رہے ہو.ان کی آنکھوں میں اتنا قہر آتا ہے کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ کس طرح کوئی پلیٹ کے اپنی ماں کو اس قدر غصہ اور قہر سے دیکھ
خطبات طاہر جلد 17 617 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء سکتا ہے مگر وہ بے چارے بولتے تو نہیں مگر آنکھیں بتا دیتی ہیں، چہرہ بتا دیتا ہے کہ ان سے کیا ہوا ہے.تو چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں جن میں رسول اللہ صلی شیتم کی اس نصیحت پر غور کرنے سے ان تک رسائی ہو جاتی ہے.فر ما یا ہاتھ روک کر رکھو.، جب ہاتھ چلنے لگے اسی وقت روک لو پھر غور کرو پھر فکر کرو کہ کیا معاملہ ایسا تھا کہ اس میں تم ہاتھ اٹھاتے یا نہ اٹھاتے.یہ چھ باتیں فرمائیں، ان کا تم مجھ سے وعدہ کرو تو میں جنت کی ضمانت دیتا ہوں.اب بتا ئیں جنت کی ضمانت کے سوا اور کیا ضمانت ہوسکتی ہے ایسے شخص کو لیکن مرکزی نکتہ وہی ہے جو میں نے عرض کیا ہے کہ جڑیں سچائی میں ہیں اور بعض احادیث میں رسول اللہ صلی اش اس ام اس مضمون کو بھی کھولتے ہیں.اب ایک اور بہت ہی دلچسپ اور بہت اہمیت رکھنے والا معاملہ ہے جس کو بسا اوقات سوسائٹی میں نظر انداز کر دیا جاتا ہے.حضرت عبدالرحمن بن سعد سے روایت ہے ہسنن ابی داؤد سے لی گئی ہے، کہ رسول اللہ صلی للہ یہ تم نے فرمایا: قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت یہ شمار ہوگی.“ اب بڑی امانت کا لفظ سنتے ہی ذہن میں بہت سی بڑی بڑی امانات کا خیال گزرتا ہے لیکن آگے بات سنیں کیا ہورہی ہے.قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑی امانت یہ شمار ہوگی کہ ایک آدمی اپنی بیوی سے اور بیوی اس سے تعلقات قائم کر چکے ہوں پھر وہ بیوی کے راز لوگوں میں بیان کرتا پھرے.“ (سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب في نقل الحديث ،حدیث نمبر : 4870) اب یہ بڑی امانت کیوں ہے.اس لئے کہ اللہ کے حکم پر اسے یہ اجازت دی گئی تھی کہ ایک عورت سے خلا ملا کرے، اپنے فروج کی حفاظت والا مضمون پیش نظر رکھیں تو پھر اس کی سمجھ آئے گی.یہاں ایک عورت نے اپنے بدن کو ایک غیر شخص کے لئے محض اس لئے کھولا کہ اللہ نے اجازت دی تھی اور اللہ کی امانت کا حق ادا کرنے والی تھی.اس کے اندرونی حسن تک کسی غیر کی رسائی نہیں تھی.پس یہ اس معنی میں بہت بڑی امانت بن جاتی ہے اس کے باوجود اگر کوئی شخص اپنی بیوی کے راز مردوں کی مجالس میں یا کسی خاص دوست سے بیان کرتا پھرے کہ میری بیوی ایسی ہے اور ایسی ہے تو رسول اللہ صلی یا سیستم فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن وہ ایک بہت بڑی امانت کا خائن شمار کیا جائے گا.اور جس کا نتیجہ جہنم ہے.
خطبات طاہر جلد 17 618 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء یہ معاملہ ایسا ہے جو معاشرہ میں نظر آتا ہے.لوگ اس کو بہت معمولی سمجھتے ہیں اور دو طرح سے یہ باتیں ہیں جن کو نظر انداز کر کے معاشرہ میں گسن گھول دیا جاتا ہے.اوّل تو بعض لوگ محض شوقیہ بتاتے ہیں، اپنے دوست کو بتا ئیں گے کہ مجھے کیسی اچھی بیوی مل گئی ہے یا بعض دفعہ اس کی کمزوریاں ظاہر کر دیتے ہیں کہ میری بیوی تو ایسی نکلی ہے.دونوں صورتیں بہت گندی اور معاشرہ کو خراب کرنے والی ہیں لیکن ایک تیسری صورت بھی ہے وہ یہ ہے کہ جب تک آپس میں اکھٹار ہیں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے، کسی کو کچھ نہیں بتاتے ، جب الگ ہو جا ئیں ، طلاق ہو جائے یا ضلع ہو جائے کسی صورت میں الگ ہو جائیں تو پھر ان کو یاد آتا ہے کہ اس میں یہ اندرونی نقص بھی تھے.چنانچہ میں ان باتوں کا ذکر نہیں کر رہا جس میں وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے ہم سے بدسلوکی کی یا حقوق ادا نہیں کئے.اندرونی نقائص اس میں کیا تھے.مرد میں اندرونی نقص کیا تھا، عورت میں اندرونی نقص کیا تھا یہ باتیں وہ بیان کرتے ہیں پھر.اور جب یہ باتیں میرے علم میں آتی ہیں تو میں ان کو کہتا ہوں کہ آپ کو کوئی حق نہیں ایسی باتیں مجھ تک پہنچانے کا جواللہ کی امانت ہیں.آپ خیانت میں مجھے بھی شریک کر رہے ہیں.اگر میں آپ کی باتیں سن لوں اور اس معاملہ میں ان کو ر ڈ کر کے آپ کو بھی ساتھ رڈ نہ کروں تو میں بھی خائن بن جاؤں گا.اس لئے شادی چاہے قائم ہو یا ٹوٹ چکی ہو یہ وہ امانتیں ہیں جنہیں بہر حال ادا کرنا ہے.کوئی بیوی اپنے خاوند کے اندرونی عیوب ظاہر نہ کرے، کوئی خاوند اپنی بیوی کے اندرونی عیوب ظاہر نہ کرے کیونکہ اللہ کی امانت ہے جس امانت کے وہ ذمہ دار ہیں اور جواب دہ ہوں گے.پس ان باتوں کو چھوٹا نہ سمجھیں اور بہت اہمیت دیں جیسا کہ رسول اللہ صلی شمالی تم نے فرمایا کہ پھر وہ بیوی کے اسرار لوگوں میں بیان کرتا پھرے یہ قیامت کے دن سب سے بڑی خیانت سمجھی جائے گی.یہاں مرد کا ذکر نہیں ہے مگر قرآن کریم کی بعض آیات سے دوسرا مضمون بھی ثابت ہے کہ جب تم ایک دوسرے سے مل چکے ہو تو پھر تم لوگوں کو شرم کرنی چاہئے کہ ان باتوں کو کیوں لوگوں پر کھولتے ہو شاید یہ بھی وجہ ہو کہ عورتوں میں نسبتا یہ کم بیماری ہو ، مردوں میں زیادہ ہو.ایسی بے شرمی کی باتیں عورتوں کی طبعی حیا کے خلاف ہوں اس لئے یہ ایک قسم کا Compliment بھی ہے عورتوں کو، ان کی ایک تعریف بھی ہے کہ تم سے زیادہ مردوں میں یہ نقص پایا جاتا ہے.بسا اوقات یہ ہوتا ہے کہ عورتیں کہتی ہیں آپ ہمارے نقص ہی بتاتے رہتے ہیں مردوں کے نہیں بتاتے مگر اگر وہ غور سے خطبہ سنا
خطبات طاہر جلد 17 619 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء کریں تو ان کو معلوم ہوگا کہ مردوں کے بھی بتا تا ہوں اور کیوں نہ بتاؤں کیونکہ رسول اللہ لا ہم عدل کے نہایت اعلیٰ مقام پر تھے جس سے اوپر عدل کا مقام ممکن نہیں ہے.آپ مسی ہی ہم ہمیشہ دونوں کی باتیں بتایا کرتے تھے اور میں تو وہی باتیں کہتا ہوں جو آنحضرت صل اللہ الیکم عمر بھر فرماتے رہے.اب بخاری کتاب الرقاق سے ایک حدیث لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت مسلہ یہ تم نے فرمایا: ” جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا.سائل نے عرض کیا یا رسول الله صل ا تم ان کے ضائع ہونے سے کیا مراد ہے.فرمایا جب نااہل لوگوں کو حکمران بنایا جائے تو قیامت کا انتظار کرنا.“ (صحیح البخاري، كتاب الرقاق، باب رفع الأمانة - حديث نمبر : 6496) اس کا ایک پہلو تو میں پہلے جرمنی میں بیان کر چکا ہوں کہ اس میں جماعتی عہد یداروں کو بھی یہی نصیحت ہے کہ جو امانتیں ان کے سپرد ہیں اس کے مطابق اچھے عہدیدار چنیں.اگر انہوں نے یہ ذمہ داری ادا کرنی چھوڑ دی تو ساعت ان معنوں میں آئے گی کہ نظام جماعت یکسر پلٹ جائے گا اور گویا قیامت آگئی.لیکن جو دوسرا معنی ہے اس میں إِذَا أُسئِدَ الأَمْرُ إِلَى غَيْرِ أَهْلِهِ فَانْتَظِرِ السَّاعَةَ - جب کوئی امر لوٹایا جائے کسی کو یعنی حکومت عطا کی جائے عوام الناس کے مشورے اور ان کے ووٹوں سے اور وہ اس کا اہل نہ ہو تو پھر ساعت کا انتظار کرنا.اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پھر اس کے بعد قیامت آجائے گی.ساعت سے مراد بہت سی باتیں ہیں جن کا اہل لغت ذکر کرتے ہیں.ایک ساعت سے مراد یہ ہے کہ معاشرہ پر گویا قیامت ٹوٹ پڑے گی.اگر تم نے غلط عہدیداروں کو چن لیا تو پھر ہمیشہ نظام بگڑتا چلا جائے گا اور ان معنوں میں ساعت کا یہ مطلب ہوگا کہ چونکہ ساعت شریر لوگوں پر آنی ہے اور اس کے متعلق رسول اللہ صل علیم نے واضح خبر دی ہوئی ہے تو تمہارا معاشرہ ذلیل سے ذلیل تر اور شریر سے شریر تر ہوتا چلا جائے گا.یہ دوسرا معنی بھی بعینہ درست بنتا ہے یہاں تک کہ ان کی پکڑ کا وقت آجائے گا.اب اس مضمون کو آپ اپنے ذہن میں دہرا کر ایسے معاشروں کا تصور کر سکتے ہیں جہاں یہی قیامت ٹوٹ پڑی ہے.دن بدن بد سے بدتر حالات صرف اس لئے ہو رہے ہیں کہ عوام الناس نے اپنے عہدیداروں کا انتخاب کرتے وقت امانت کا حق ادا نہیں کیا.جب امانت کا حق ادا نہیں کیا تو پھر اللہ تعالیٰ بھی ان سے خائن والا معاملہ کرتا ہے جس کی تفصیل اس حدیث میں بیان ہوئی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 620 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء اب ایک اور روایت ہے جو عبد اللہ بن عمرو سے مروی ہے: قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللهِ ﷺ : " كَيْفَ أَنْتَ إِذَا بَقِيتَ فِي حُقَالَةٍ مِنَ النَّاسِ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ كَيْفَ ذَلِكَ - حضرت حسن سے مروی ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی یا تم نے مجھ سے فرمایا کہ جب تو رزیل اور کمینے لوگوں میں ہو گا تو اس وقت تیرا کیا حال ہو گا.میں نے عرض کی یا رسول اللہ کیسے ہو گا کہ میں رذیل اور کمینے لوگوں میں ہوں گا.“ اب اس میں ایک اور بھی خبر تھی جس کی طرف عموماً لوگوں کی نظر نہیں جاتی.یہ جس کو مخاطب فرمایا اس کی لمبی عمر کی خوشخبری بھی تھی اور یہ بد خبر بھی تھی کہ اس لمبی عمر کے نتیجہ میں تو اچھے لوگوں سے نکل کر ایک ایسے دور میں داخل ہو جائے گا جس میں اکثریت کمینوں کی ہوگی.تو یہ واقعہ بہت لمبی عمر پانے کے نتیجہ میں ہوسکتا تھا.پس یہ حدیث رسول اللہ صل للہ ایلم کی سچائی اور مخبر صادق ہونے کی بھی ایک دلیل ہے.کیسے ہوگا؟ " آپ صلی ہی تم نے فرمایا جب ان کے عہد فاسد ہو جائیں گے، امانتیں اٹھ جائیں گی اور وہ باہم اس طرح ہو جائیں گے.“ انگلیاں انگلیوں میں ڈال دیں یہ انگلیاں مل نہیں سکتیں جتنا مرضی زور لگالیں، تو ان کے درمیان اتنے فاصلے بڑھ جائیں گے ، ایسی روکیں حائل ہو جائیں گی کہ ان کو ملانے کی کوشش بھی کی جائے تو نہیں ملا سکو گے اور ایسے لوگ جو پھٹ جایا کرتے ہیں ان کو ملانے کی ہر کوشش ناکام ہو جایا کرتی ہے.اب دیکھ لیں کیسی عمدہ تمثیل کے ساتھ رسول اللہ صلی یا پریتم نے ایسی بدقوموں کا حال بیان فرمایا ہے جن کی امانتیں اٹھ چکی ہوں ، جن کے عہد فاسد ہو چکے ہوں ، ان کے دل لا ز ما پھٹتے ہیں ناممکن ہے کہ پھر ان کو اکٹھا رکھا جا سکے اور اس طرح پھٹتے ہیں کہ لوگ بڑے بڑے دعوے کریں گے ، کوشش کریں گے، بورڈ تشکیل دئے جائیں گے کہ قوم کو دوبارہ اکٹھا کرنے کے لئے کوئی ذرائع تجویز کرو اور بعض جگہ شریعت بل بھی لائے جائیں گے جو اکٹھا کرنے کی بجائے اور بھی زیادہ پھاڑ دیں گے قوم کو.تو یہ حال ہے.آنحضرت صلی شاری ستم کی ہر پیشگوئی سو فیصد سچی نکلتی ہے.اپنی ساری تفصیلات کے ساتھ سچی نکلتی ہے.یوں فرمایا یہ حال ہو گا.
خطبات طاہر جلد 17 621 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء اس وقت راوی نے کہا یا رسول اللہ صل للہ ایام اس وقت مجھے کیا کرنا چاہئے.“ یعنی میں بھی تو ان لوگوں میں ہوں گا.آپ صلی سیستم فرما رہے ہیں تیرا کیا حال ہوگا جب تو کمینے لوگوں میں جائے گا؟ تو سارا معاشرہ اگر اس قدر گندا ہو چکا ہوگا تو اس وقت میرا کیا حال ہوگا مجھے کیا کرنا چاہئے.آپ صلہ ایم نے فرمایا اللہ کا تقویٰ اختیار کرنا اور جس بات کے بارے میں تجھے اچھی طرح معلوم ہوا سے اختیار کر لینا اور جس چیز کے بارے میں علم نہ ہوا سے چھوڑ دینا.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة مسند عبد الله بن عمر ، مسند نمبر : 6508) اب ایسے معاشرے میں غلط خبریں پھیلا کرتی ہیں اور اکثر غلط خبروں کے نتیجے میں معاشرہ اور بھی بگڑتا چلا جاتا ہے.تو دیکھیں کتنی برمحل نصیحت فرمائی کہ بہت تم باتیں سنو گے،قسم قسم کی باتیں بیان کی جائیں گی.جن کا تمہیں اچھی طرح علم ہو کہ یہ بات درست ہے صرف اس کو قبول کرنا اور باقی ساری باتیں رد کر دینا اور اپنے خاص تعلق رکھنے والوں سے چھٹے رہنا.اب یہ نصیحت دیکھیں جماعت احمدیہ پر آج کل کس طرح صادق آ رہی ہے.کتنی لطافت کے ساتھ اور کس قدر تفصیل کے ساتھ صادق آ رہی ہے.اگر ایسے دور میں لوگ یعنی احمدی آپس میں ایک دوسرے کو چھٹے نہ رہیں ، ایک دوسرے سے تعلقات کو گہرا نہ کریں اور کسی قیمت پہ بھی ان تعلقات کو نہ ٹوٹنے دیں تو ان کی تربیت کی اس سے بہتر ضمانت نہیں ہوسکتی اور اگر وہ ایک دوسرے کو نہیں چمٹیں گے تو اس معاشرہ کا لازماً حصہ بن جائیں گے، اس کی طرف سر کتے چلے جائیں گے.میں نے اپنے دوروں میں ہمیشہ دیکھا ہے کہ وہی خاندان اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچے رہتے ہیں جن کو اپنے تعلقات کے قیام کے لئے دوسرے احمدیوں کی ضرورت پڑتی ہے.بعض اپنے اعلیٰ عہدے چھوڑ کر ایک شہر سے دوسرے شہر میں اس لئے منتقل ہو جاتے ہیں اور مجھے لکھتے بھی ہیں کہ مالی نقصان ہوا ہے لیکن ہمیں کوئی پرواہ نہیں کیونکہ جس جگہ ہم تھے وہاں اکیلے تھے اور بچوں کو توفیق نہیں تھی کہ وہ ہر وقت گھر میں جڑے رہیں.یہ کیسے ہوسکتا تھا ان کی بھی خواہشات ہیں.پس ان کی خاطر ہم نے دُنیا پر لات ماری اور ایسی جگہ چلے گئے ہیں جہاں احمدی خاندان ملتے ہیں.تو جڑنے کی خواہش اتنی زیادہ اور یہی نصیحت ہے کہ جب خال خال معاشرے میں اچھے لوگ نظر آئیں گے تو تم اپنے لوگوں کے
خطبات طاہر جلد 17 622 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء ساتھ مجڑ کر بیٹھنا ، ان کے قریب رہنا.تم ایک دوسرے کا سہارا بنو گے ، ایک دوسرے کو غلط اور بداثرات سے بچاؤ گے اور ان کے عوام کو چھوڑ دینا، ان سے دور رہنا.آپس میں چمٹ کر پھر دوسروں سے بھی میل جول میں بے تکلفی یا اندرونی طور پر دلوں کا باہم ملا دینا یہ بیک وقت نہیں چل سکتا.فرمایا جب تم نیک لوگوں میں آپس میں اکٹھے بیٹھو گے تو غیروں سے سرسری سلام علیک ہوگی.ان کے ساتھ تمہارے دل مل بھی نہیں سکتے پھر ، ناممکن ہے.ان سے دور رہنا.دور رہنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عوام میں نکلنا ہی نہیں.دلوں کو بچا کے رکھنا یہ مراد ہے.ان کے اثرات سے دور رہنا.اب وقت ابھی ہے تو ایک اور حدیث کو لیتا ہوں جو میں نے تین حصوں میں تقسیم کی ہے.حَدَّثَنَا حُذَيْفَةُ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللهِ ﷺ حَدِيثَيْن.حذیفہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی لی تم نے ہمارے سامنے دو حدیثیں بیان کیں.“ ایک ہی حدیث کے تسلسل میں یعنی ایک ہی روایت میں، ایک ہی کتاب میں چونکہ ان دونوں کا ذکر الگ الگ موجود ہے اور اس میں تھوڑا سا ابہام پیدا ہوتا ہے سننے والے کے لئے ، اس لئے اس روایت کو میں نے تین حصوں میں تقسیم کر دیا ہے.پہلا وہ جو آنحضور صلی یہ تم نے پہلی بات بیان فرمائی تھی.دوسراوہ جو رسول اللہ لا لا لی تم نے دوسری بات بیان فرمائی تھی.تیسرا وہ جس میں حضرت حذیفہ کا اپنا تبصرہ ہے کہ پھر میں نے کیا کچھ دیکھا اور کس طرح میں نے ان باتوں کو پورا ہوتے دیکھا.وہ حدیث نہیں ہے وہ اثر ہے.ایک صحابی کی باتیں ہیں جنہوں نے حدیث پر تبصرہ کیا ہوا ہے.اس پہلو سے اب آپ کے لئے یہ بات سمجھنا آسان ہو جائے گا.حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی الی تم نے ہم سے دو حدیثیں بیان فرما ئیں ان میں سے ایک تو میں دیکھ چکا ہوں اور دوسری کا منتظر ہوں.آپ نے ہم سے بیان فرمایا ( یہ اب حدیث شروع ہو جاتی ہے ) کہ امانت لوگوں کے دل کی جڑ یا تہہ میں اتری ہے.“ اب اس کا کیا مطلب ہے؟ وہ جو میں نے پہلے ایک حدیث میں اشارہ کیا تھا وہ اسی طرف اشارہ تھا کہ امانت ایک ایسی چیز ہے جو انسانی فطرت میں ودیعت ہوئی ہے جس کے درخت کی جڑیں فطرت انسانی میں پیوست ہیں.تو دل کی گہرائی میں اتری ہے.اگر یہ امانت دل کی گہرائی میں نہ اتری ہوتی
خطبات طاہر جلد 17 623 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء تو وہ امانت جس کے ذریعہ اس امانت کے نقوش سمجھنے میں مددملنی تھی وہ بیرونی نمونے ایسا انسان سمجھ ہی نہیں سکتا تھا جس کے دل میں امانت موجود نہ ہو.پس فطرت کی امانت ایک امانت ہے.اور دوسری امانت وہ ہے جو آنحضرت صلی ہم پر قرآن کی صورت پر نازل ہوئی اور تیسری امانت وہ ہے جو آنحضرت صلی ال ایتم نے خدا تعالیٰ کی امانت کا حق ادا کرتے ہوئے قرآن پر عمل کر کے دکھا دیا.یہ دو باتیں ایسی ہیں جو اسی کو سمجھ آسکتی ہیں جس کے دل میں امانت کی جڑ ہو.اگر دل سے امانت مٹ چکی ہو تو اسے بیرونی اثرات سے کچھ فائدہ نہیں ہو گا.چنانچہ اس تفصیل کے ساتھ اب یہ دیکھیں.فرمایا : امانت لوگوں کے دل کی جڑیا تہہ میں اتری ہے پھر انہوں نے اسے قرآن وسنت کے مطابق پایا.“ پہچان لیا قرآن اور سنت کے ذریعہ، ورنہ محض اپنے دل میں ڈوب کراس امانت کے نقوش کو اچھی طرح پہچانا ہر کس و ناکس کے لئے ممکن ہی نہیں تھا.جو لوگ اپنے خیال میں دلوں میں ڈوبتے ہیں اور حقائق تک پہنچتے ہیں ان کے آپسی اختلاف بتاتے ہیں کہ کوئی ایک بھی حقیقت پر قائم نہیں تھا.ایک نے کچھ اور حقیقت سمجھی ، دوسرے نے کچھ اور حقیقت سمجھی.پس اصل وہ ہے کہ اگر قرآن اور سنت کے مطابق تمہارے دل کی آواز ہو جائے یا دل کی آواز کے مطابق تم قرآن وسنت کی باتیں سنو تو یہ حقیقت ہے، اس میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی.فرمایا: پھر انہوں نے اسے قرآن وسنت کے مطابق پایا.اور آپ صلی پریتم نے ہم سے اس کے رفع ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا.“ یعنی دوسری حدیث جس میں رسول اللہ صلی شمالی تم نے امانت کے رفع ہونے کا ذکر فرمایا ہے.پہلی حدیث میں امانت کی کنہہ بتائی ہے، امانت ہوتی کیا ہے.دوسری حدیث میں ہے وہ رفع کیسے ہوگی یہ ذکر چھیڑا ہے.انسان غفلت کی حالت میں زندگی بسر کرے گا یہاں تک کہ امانت اس کے دل سے 66 اٹھالی جائے گی.“ اس میں لفظ نومۃ استعمال ہوا ہے اور بعض لوگ سمجھتے ہیں یعنی ترجمہ کرنے والے بھی یہ سمجھتے ہیں کہ ایک رات سوئے گا اور اٹھے گا تو امانت اٹھ چکی ہوگی.یہ نہیں ہوا کرتا.یہ اللہ کی سنت کے خلاف ہے.
خطبات طاہر جلد 17 624 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء نیند سے مراد غفلت کی نیند ہے.ایک انسان جب اپنے حقوق سے غافل رہتا ہے اور غافل رہتا چلا جاتا ہے تو رفتہ رفتہ اس کے دل سے وہ امانت اٹھتی چلی جاتی ہے جو فطرت میں ودیعت ہوئی تھی.اور اس کا معمولی سا اثر باقی رہ جائے گا.(یعنی خدا نے جو چیز ودیعت کی ہے وہ اٹھ جائے گی لیکن معمولی سانشان سا ایک اثر باقی رہ جائے گا ) پھر وہ غفلت میں پڑا رہے گا.“ ایک اور چیز ظاہر ہوگی جو بڑی دلچسپ ہے اور راز دان فطرت کے سوا کوئی اس بات کو بیان نہیں کر سکتا.بظاہر مضمون ختم ہو گیا لیکن رسول اللہ صلی لالی تم نے اس مضمون کو جاری رکھا ہے.” یہاں تک کہ جس طرح پاؤں پر چنگاری گرنے سے آبلہ سا بن جاتا ہے اور اس میں کچھ بھی نہیں ہوتا، معمولی سا پانی سا ہوتا ہے.ویسا اثر امانت کا باقی رہ جائیگا.“ اب اگر امانت مٹ گئی اور کچھ بھی نہ رہی تو یہ آبلہ چنگاری سے پڑنا اور اس کا اثر ، اس سے کیا مراد ہے؟ اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے لوگ جب مزید غفلت کی حالت میں زندگی بسر کریں گے تو اپنے دل میں وہ امانت کو اس طرح پائیں گے جیسے آبلہ ہوتا ہے اور آبلے کے اندر گندے پانی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا.گویا یہ لوگ امین بنتے پھریں گے اپنے دلوں میں سمجھیں گے کہ ہم تو امین ہیں ہمارے دل میں امانت کا مواد موجود ہے اور اکثر لوگ جب غفلت کی انتہا کو پہنچتے ہیں تو بالکل یہی حال ان کا ہو جاتا ہے.وہ دُنیا کو دکھانے کی خاطر یا اپنے مفادات کی خاطر ان کے سامنے امین بنتے ہیں جب کہ امانت کا مرکز ان کے دل کا وہ چھالا ہے جس میں گندے پانی کے سوا اور کچھ بھی نہیں.لوگ آپس میں ایک دوسرے سے لین دین کریں گے لیکن کوئی ایسا نہیں ہوگا جو امانت ادا کرے.“ (صحيح البخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الأمانة - حديث نمبر : 6497) اب جب لین دین کریں گے تو دکھانے کے لئے یہ بھی تو ضروری ہے کہ دوسروں پر اعتماد قائم کیا جائے اور ان کو دکھا یا جائے کہ ہم بڑے امین ہیں تب ہی تو لین دین کرتے ہیں اور جب یہ گندہ زمانہ آئے گا تو دل کے چھالے ہوں گے ، امانت ہوگی نہیں اور دل کے چھالے دکھانے کی خاطر ہوں گے.جس طرح چھالا ابھر کر پھول جاتا ہے اس طرح یہ اپنے دل میں ایک امانت کا ابھرا ہوا مبالغہ آمیز تصور قائم کر لیں گے.اور اس کو ظاہر کریں گے کہ گویا ہم امین ہیں.لوگ آپس میں ایک دوسرے سے
خطبات طاہر جلد 17 625 خطبہ جمعہ 4 ستمبر 1998ء لین دین کریں گے لیکن کوئی ایسا نہیں ہو گا جو امانت کا حق ادا کرے جب معاشرہ پہچان لے گا ان کو اور بار بار کے دھوکوں میں مبتلا ہو کر اچھی طرح جان لے گا کہ یہ معاشرہ سارا ہی گندہ ہو چکا ہے کوئی بھی لین دین کا حق ادا کرنے والا نہیں تو پھر وہ کیا باتیں کریں گے.کہا جائے گا کہ فلاں قوم میں ایک امین شخص موجود ہے ڈھونڈو اس کو امین ہے کہاں اور جو پہلی حدیث میں نے بیان کی ہے اس کی رو سے امانت ان کو سوائے جماعت احمدیہ کے اور کہیں نہیں مل سکتی.پس وہ لوگ جو امین نہیں ہیں اور محض جماعت کے رعب کی وجہ سے بنی نوع انسان کو دھوکا دیتے ہیں ان کو میں چن چن کر جماعت سے نکال رہا ہوں اور بعض لوگ کہتے ہیں بڑی سختی کر رہا ہے.بالکل سختی نہیں کر رہا.مجھے پتا ہے کہ ایک جماعت ہی تو ہے جو امین ہے اور اگر اس امین جماعت میں گندے لوگ اسی طرح گھسے رہیں تو پھر لوگوں کا کیا حال ہوگا جو اس لئے جماعت کی طرف رجوع کریں کہ ان کی امانت پر ان کو اعتماد ہو اور ان کا رہا سہا ، ان کی ساری پونجیاں پھر بھی ضائع ہوتی چلی جائیں.پس یہ امتیاز ہے جماعت کا جس کو قائم رکھنے کی خاطر میں مجبور ہوں کہ جہاں دھوکا دینے والے بددیانتوں کا علم ہوتا ہے میں انہیں جماعت سے الگ کر دیتا ہوں اور اس معاملہ میں کوئی رعایت نہیں کرتا خواہ اپنا عزیز ہو یا غیر ہو.کبھی زندگی بھر میں نے اس معاملہ میں رعایت نہیں کی ، نہ آئندہ انشاء اللہ کروں گا.اب باقی جو امور ہیں وہ انشاء اللہ اگلے خطبہ میں بیان کئے جائیں گے.
خطبات طاہر جلد 17 627 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء جو اللہ اور رسول کی امانت کا حق ادا نہیں کرتے وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کی امانت کا کبھی حق ادا نہیں کر سکتے (خطبه جمعه فرموده 11 ستمبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کیں : ياَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آمَنَتِكُمْ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ وَاعْلَمُوا أَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَ أَنَّ اللَّهَ عِنْدَةٌ 691 اجر پھر فرمایا: (الانفال:29،28) ان آیات کا تعلق بھی امانت سے ہے اور امانت ہی کے موضوع پر میں گزشتہ دو تین خطبات دے چکا ہوں اور اس دفعہ بھی انشاء اللہ اسی مضمون کو جاری رکھوں گا.اگر یہ وقت سے پہلے ختم ہو گیا تو پھر انشاء اللہ دوسرا مضمون شروع ہوگا.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُوا آملتِكُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ.اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو.وَ تَخُونُوا امنتِكُمْ وَانْتُمْ تَعْلَمُونَ : اس حالت میں کہ تم جانتے ہو کہ کیا کر رہے ہو.یہ ترجمہ میں نے تفسیر صغیر سے پڑھا ہے اور اب میں اس کے متعلق عمومی گفتگو کر نے لگا ہوں کہ اس آیت میں کیا کیا معنی مراد ہو سکتے ہیں.ایک معنی تو یہ ہے کہ يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَخُونُوا اللَّهَ و الرسول یعنی عمومی خطاب ہے کہ اللہ اور رسول کی خیانت نہ کرو.وَ تَخُونُوا آمَنتِكُمُ کا ایک مطلب
خطبات طاہر جلد 17 628 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء یہ ہے تو نتیجہ یہ نکلے گا کہ تم اپنی آپس کی امانتوں میں بھی خیانت کرو گے.وَ تَخُونُوا ، واؤ حالیہ بن جاتی ہے اس حال میں، گویا اس کا یہ نتیجہ نکلے گا کہ تخونوا امنتِكُمْ کہ تم اپنی امانتوں کی بھی خیانت کر رہے ہو اور یہ دونوں مضمون آپس میں گہرے طور پر متعلق ہیں.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اللہ اور رسول کی خیانت کی جائے اور اپنی امانتوں کی خیانت نہ کی جائے.جو اللہ اور رسول کی خیانت کرتا ہے اس کے لئے ممکن کیسے ہے کہ وہ آپس میں اپنی امانتوں میں دیانتداری سے کام لے رہا ہو.پس ساری سوسائٹی کو اس اصول کو پیش نظر رکھنا چاہئے کہ بات اللہ اور رسول کی امانت سے شروع ہوگی.جو اللہ اور رسول کی امانت کا حق ادا نہیں کرتے وہ آپس میں بھی ایک دوسرے کی امانت کا کبھی حق ادا نہیں کر سکتے اور ان لوگوں کی یہ پہچان بڑی آسان ہے.اپنے معاشرہ میں وہ لوگ جو کہتے ہیں ہم بہت امین ہیں، ہم ہر گز خیانت سے کام نہیں لیتے ، ہم وعدوں کے پتے ہیں، ہم سے معاملہ کرو.اگر وہ یہ کہتے ہوں اور اللہ اور رسول کی خیانت کرتے ہوں، اس سے کیا مراد ہے؟ ایک نماز با قاعدہ نہ پڑھتے ہوں اور قرآن کریم نے جو تعلیمات دی ہیں ان پر کوئی عمل نہ ہو.تو ایسا شخص جو نمازوں کے قریب نہ جائے ، اور خدا کی راہ میں مالی قربانی نہ کر سکتا ہو، جو صدقہ و خیرات میں امانت کا حق ادا نہ کر رہا ہو کہ جس نے اسے دیا اس کی راہ میں اسے واپس لوٹا دے.تو یہ لوگ پہچانے جاسکتے ہیں.بہت ہی ایسا دھوکا دیتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے اُن عقل والوں پر کہ ان کا دھوکا کھا جاتے ہیں.جو اللہ اور رسول کی امانت کا حق ادا نہیں کرتے وہ سوسائٹی میں بالکل ظاہر و باہر ہیں.ناممکن ہے کہ وہ اپنے چہرے چھپاسکیں.جب اُن سے معاملہ کرتے ہو تو پھر لازماً خائن سے معاملہ کرتے ہو.جو اللہ اور رسول کی امانت کا حق ادا نہیں کر رہا وہ آپس میں ایک دوسرے کی امانت کا حق کیسے ادا کر سکتا ہے اور ہمیشہ جماعت کے وہ دوست جو سادہ ہیں، یعنی حماقت کی حد تک سادہ ، وہ ایسے لوگوں کے ڈسے ہوئے ہوتے ہیں.بعد میں شکایتیں بھیجتے رہتے ہیں کہ ہمیں فلاں نے مار دیا.بہت پکا وعدہ کیا تھا کہ اس میں بہت امین ہوں تمہاری امانت کا خیال رکھوں گا لیکن ہم اس دھو کے میں آگئے.مضمون میں ایک اور بات بھی ہے جو میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں اب پھر اس کو دہرانا چاہتا ہوں.وہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جب سودا کرتے ہیں تو وہ خود بھی خائن ہوتے ہیں.یہ خیال بالکل جھوٹ ہے کہ وہ خود تو بڑے دیانتدار ہیں مگر خائن کے دھوکے میں آگئے.اگر دیانتدار ہوتے تو ایسے
خطبات طاہر جلد 17 629 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء سے سودا کرتے ہی نہ.ان کے اپنے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اس سودے سے جو ناجائز ہوتا ہے.مثلاً ایسی شرطوں پر ایسے خائن لوگ رقمیں مہیا کرتے ہیں یا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں کہ اس کے ساتھ دراصل سودی شرائط ہوتی ہیں اور دئے ہوئے پیسے کے بدلے بہت پیسے کی توقع رکھتے ہیں.تو بعد میں جب وہ شکوہ کرتے ہیں تو بھول جاتے ہیں کہ خود بھی خائن ہی تھے.اگر وہ خائن نہ ہوتے تو خائنوں سے سودے کرتے ہی نہ اور وہ شخص جو خائن نہ ہو وہ پوری احتیاط کیا کرتا ہے.وہ ایسے لوگوں سے سودا کرتا ہے جو اللہ اور رسول کی امانت ادا کرنے والے ہوں اور پھر اگر ان کے سوا کسی سے سودا کرنا پڑے تو وہ ان سے پورے کا روباری تحفظات حاصل کرتا ہے.پھر کسی شکایت کا سوال نہیں پھر دُنیا کی عدالتیں اس کو آپ پکڑیں گی اگر تحفظات کا خیال رکھا جائے.تو اس پہلو پر غور کرنے سے ثابت ہوتا ہے کہ جماعت میں سے ایسے خائنوں کو علیحدہ کرنا ممکن ہے اور واضح ہے یعنی وہ جو خیانت کے نام پر سودا کرتے ہیں یا خائن سے سودا کرتے ہیں دونوں ہی خائن ہیں.جب ان کی شرائط دیکھی جائیں تو صاف پتا چل جاتا ہے کہ سودا کرنے والا بھی خائن ہے.چنانچہ میں نے بارہا تجربہ کیا ہے.ایک شخص نے یہ شکایت کی کہ میرے ساتھ ظلم ہو گیا، دھوکا ہو گیا، جو ر تم کہی گئی تھی وہ ادا نہیں کی گئی.جب میں نے شرائط منگوائیں تو پتا چلا کہ وہ شرائط ہی سود کی تھیں.تو جو شخص خود اتنا خائن ہو کہ سودی شرائط پر اپنا روپیہ لگانے پر محض اس لئے آمادگی ظاہر کرے کہ اسے زیادہ پیسے مل رہے ہیں جود نیا کے بینک کے دوسرے سودی کاروبار کرنے والے کبھی کبھی نہیں دے سکتے تو یہ لوگ ہیں جن پر کڑی نظر رکھنی ضروری ہے.میری پوری کوشش ہے کہ ہمارا معاشرہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے پاک اور صاف ہو جائے اور اندرونی جھگڑے اور ایک دوسرے پرشکوے شکایات ختم ہوں کیونکہ اندرونی جھگڑے اور شکوے شکایات وحدت کے رستے میں روک پیدا کرتے ہیں.وَ تَخُونُوا آمَنتِكُم وَاَنْتُمْ تَعْلَمُونَ ایسی صورت میں تم اپنی امانتوں میں خیانت کرو گے.وَ انْتُمْ تَعْلَمُونَ.اس تعلمون کا ایک بہت لطیف معنی یہ ہے کہ خائن کو پتا ہوتا ہے کہ میں خیانت کر رہا ہوں.یہ ہو نہیں سکتا کہ خائن خیانت کرے اور بعد میں لاعلمی کا اظہار کرے.خیانت ایک ایسی چیز ہے جو انسانی فطرت میں ودیعت ہی نہیں کی گئی اور یہی بات ہے جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی لہ کی ہم نے ہم پر خوب کھولی ہے کہ خیانت انسانی فطرت میں ودیعت
خطبات طاہر جلد 17 630 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء نہیں کی گئی اور ہر چیز ودیعت کر دی گئی ہے.تو اس پہلو سے وَ انْتُمْ تَعْلَمُونَ کا مطلب ہے کہ یہ ہوہی نہیں سکتا کہ کوئی خائن ہو اور اسے علم نہ ہو کہ میں خائن ہوں.بعد میں اللہ کی جتنی قسمیں چاہے کھائے جب آپ اس کے سودوں پر غور کریں گے تو صاف دکھائی دے دے گا کہ بغیر علم کے اس نے سودا کیا 609 ہی نہیں تھا، اچھا بھلا جانتا تھا کہ میں بھی خائن ہوں اور جس سے سودا کر رہا ہوں وہ بھی خائن ہے.وَاعْلَمُوا أَنَّمَا اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ اب خیانت کی وجہیں دو ہو سکتی ہیں، دونوں بیان فرما دی گئیں.اول یہ کہ تمہارے اموال فتنہ ہیں.تم جب اموال کو بڑھانے کی کوشش کرو گے اور ناجائز طریق پر بڑھانے کی کوشش کرو گے تو یہ فتنہ ہے.وَ اَوْلَادُكُم فِتْنَةٌ اور بعض دفعہ اولاد کی خاطر محض اپنی ذات کی خاطر نہیں بلکہ اولاد کی خاطر بد دیانتیاں کی جاتی ہیں، عہد توڑے جاتے ہیں.تو دونوں کا ذکر فرما دیا.وَ اَنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِیم اور اگر تم اجر چاہتے ہو جو تمہیں بھی ملے اور تمہاری اولا د کو بھی ملے اور اس عارضی فائدہ سے بہت زیادہ ہو جو تم دھوکا بازی سے حاصل کرتے ہو تو اللہ کے پاس بہت بڑا اجر ہے.اس دُنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی ہے.تعجب ہے کہ ان واضح کلمات کے باوجود پھر لوگ اللہ پر توکل کیوں نہیں کرتے.جب اللہ خیانت کے خلاف تعلیم دے رہا ہے تو خود کیسے خائن ہو سکتا ہے.وہ عہد شکنی کے خلاف تعلیم دے رہا ہے تو خود عہد شکن کیسے ہو سکتا ہے.اس میں تو اللہ نے عہد کر لیا ہے کہ تم میری خاطر خیانت چھوڑ دو، میری خاطر دھوکا بازی سے پر ہیز کرو.اگر واقعۂ تم نے میری خاطر ایسا کیا ہوگا تو جو تم اجر چاہتے ہو ان کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں.اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ تمہیں بہت وسیع اجر دے گا اور یہ امر واقعہ ہے کہ دیانتدار لوگوں کو اللہ تعالیٰ ہی اجر عطا فرماتا ہے اور اتنا عطا کرتا ہے کہ محاورہ میں کہتے ہیں چھپتر پھاڑ کے عطا کرتا ہے.اس کی کثرت سے مثالیں پرانے زمانہ میں بھی ہیں اس نئے زمانہ میں بھی ہیں یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور کی بھی.حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب راجہ کشمیر کے دربار میں طبابت کرتے تھے اور ملازمت کر رہے تھے اس زمانہ میں آپ نے وقتی ضروریات کے لئے ، وہ ضروریات کیا تھیں لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ، بہت قرض اٹھائے اور نیت یہ تھی کہ میں لاز ما قرض ادا کروں گا.اب اس زمانہ کے لحاظ سے اندازہ کریں کہ ایک لاکھ پچانوے ہزار قرض ہو گیا اور اس زمانہ میں یہ رقم
خطبات طاہر جلد 17 631 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء تو آج کل کے کروڑوں ہوگی.اور آپ کی سادہ زندگی ، اپنی ذات پہ بالکل معمولی خرچ.تو یہ بات اس سے قطعی طور پر ظاہر ہوتی ہے کہ آپ نے لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے کی خاطر محض اللہ کی رضا کے لئے قرض اٹھائے اور چونکہ نیت تھی کہ میں نے لازماً قرض ادا کرنا ہے اس لئے تو کل بھی ساتھ تھا.اب یہ اجر عظیم کا قصہ سنئے.جب راجہ نے آپ کو فارغ کر دیا اور آپ ریاست سے روانہ ہونے لگے تو آپ کے پاس اس وقت پانچ روپے تھے یا کتنے تھے ، بہت معمولی رقم تھی.وہ آپ نے جو ایک لاکھ پچانوے ہزار کا قرض خواہ تھا اس کو ادا کر دئے.مجھے یاد نہیں بعینہ پانچ سورتم تھی یا جتنی بھی تھی یا پانچ ہزار تھی وہ اس کو بھیجی تو اس نے کہلا کے بھیجا کہ تم یہ کیا کر رہے ہو اس طرح قرض ادا ہو گا ایک لاکھ پچانوے ہزار !؟ آپ نے فرمایا اس وقت میرے پاس یہ تھا اور دیانت داری کا تقاضا تھا کہ جو ہے میں تمہیں دے دوں باقی تمہارا قرض ضرور ادا ہوگا یہ میرا وعدہ ہے.چنانچہ جب آپ روانہ ہوئے تو اس وقت جو پاس تھا وہ اس کو دے دیا لیکن روانگی سے پہلے ایک ہندو بنیا آپ کو سمجھا رہا تھا کہ آپ کیا خدا والی باتیں کر رہے ہیں دُنیا میں خدا والوں کا گزارا نہیں ہوا کرتا ، یہ محض وہم ہے آپ کا ، کس مصیبت میں مبتلا ہو گئے ہیں لوگوں کو دے دے کر قرضے چڑھالئے ، برے حال اور اب حال یہ ہے کہ وہ جو بنیا اس وقت تھا جس نے بغیر سود کے پیسہ دیا مگر ویسے وہ سود خور بنیا تھا مگر حضرت خلیفۃ امسیح الاول کے احترام میں اس نے یہ رقم بغیر سود کے دی تھی وہ تو اب مطالبہ میں سختی کرے گا.اس کے بیٹھے بیٹھے اس بنئے کا پیغام آیا جس نے اعتراض کیا تھا کہ آپ یہ کیا رقم بھیج رہے ہیں، کہ آپ جا رہے ہیں اگر کچھ اور ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں.امین کی نیکی کا اتنا گہرا اثر ہوتا ہے کہ جس نے قرضہ لینا ہے وہ بھی احترام کرتا ہے.اس پر وہ بنیا بولنے لگا دیکھو پاگل ہو گیا ہے.میرا خیال تھا کہ یہ پکڑائے گا، جیل بھیجے گا وہ الٹا جانے سے پہلے کہہ رہا ہے کہ کچھ اور بھی لے لو مجھ سے اور بیٹھے بیٹھے ایک اور آدمی آگیا اس نے اپنی خدمات آپ کے سامنے پیش کر دیں لیکن حضرت خلیفہ اسیح الاول نے کسی سے استفادہ نہیں کیا.مگر دیکھیں اللہ نے کیا انتظام کیا.جب آپ چلے گئے تو ایک بہت بڑے لکڑی کے کاروبار کا جنگل کا ٹھیکہ تھا اس ٹھیکہ میں بہت بڑھ بڑھ کر بولیاں دینے والے موجود تھے.راجہ نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اس شخص کو یہ ٹھیکہ دوں گا جو نصف حصہ حکیم نورالدین کو دے گا.وہ جانتا تھا کہ جتنی دیر رہے ہیں نہایت امانت سے اور دیانتداری سے رہے ہیں اس لئے اس غریب
خطبات طاہر جلد 17 632 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء کے پاس کچھ بھی نہیں ہوگا.یہ اس نے ٹھیکہ کی شرط کر لی.اب یہ اللہ کے سوا کون اس کے دل میں ڈال سکتا تھا اور ٹھیکہ کی جو نصف رقم حضرت خلیفہ اسیح الاول کے ہاتھ آئی ایک لاکھ پچانوے ہزار تھی، کم نہ زیادہ.یہ اللہ تعالیٰ کے بتانے کے طریقے ہیں.اے میرے بندے ! تو نے مجھ پر توکل کیا تھا میں تمہیں دکھا رہا ہوں کہ اس طرح تو کل کرنے والوں کو میں جزاء دیا کرتا ہوں اور اس کو کہتے ہیں اجر عظیم.اب دیکھیں دوبارہ پھر اگلے سال اس کو ہی ٹھیکہ ملا اور اس شرط کے ساتھ.جب اس نے وہ رقم جو تقریباً اتنی ہی یا اس سے زیادہ تھی حضرت خلیفہ اسی الاول کو بھجوانے کے لئے ان کو لکھا تو آپ نے کہا یہ تو میری نہیں ہے.میری جتنی تھی وہ مجھے مل گئی اور مجھے کوئی غرض نہیں یہ بقیہ منافع اپنے پاس ہی رکھیں.( مرقات الیقین فی حیات نور الدین مرتبه اکبر شاہ خان نجیب آبادی صفحه :186،185) یہ سودے ہیں جو امانت کے سودے ہیں، دیانت کے سودے ہیں ، اللہ کے عہدوں کے پاس رکھنے والوں کے سودے ہیں.اس پر اللہ کیسے اپنے وعدوں میں خیانت کر سکتا ہے، اپنے وعدوں سے پھر سکتا ہے.فرمایا وَ اَنَّ اللهَ عِنْدَةٌ أَجْرٌ عَظِيمٌ تو یہ لوگ سن لیں اور یا درکھیں کہ اگر اولا د اور ا موال کی پرواہ نہیں کریں گے اور خالصہ اللہ کے لئے دیانت اور امانت پر قائم رہیں گے تو اللہ بہت بڑے اجر والا ہے اور وہ اجر جو آخرت میں ملنا ہے وہ اس کے علاوہ ہے، اس کا حساب کتاب ہی کوئی نہیں.یہ دنیا کے اجر کی باتیں کر رہا ہوں لیکن بہت سے لوگوں سے یہ سلوک دکھائی نہیں دیتا.اس کا یہ مطلب نہیں کہ غلط بات ہے.جن لوگوں کے ساتھ یہ سلوک نہ ہورہا ہو وہ اپنے دل کی چھان بین کریں، اپنی نیتوں کو کھنگالیں کیونکہ لازماً اللہ کی بات درست ہے اور ان کا جائزہ غلط ہے.میرے علم میں ایسے احمدی دوست ہیں جو بعینہ اس نصیحت پر عمل کرتے ہیں اور ان کے ساتھ اللہ کا بالکل یہی معاملہ ہے کبھی بھی ضرورت کے وقت اللہ تعالیٰ نے ان سے بے اعتنائی نہیں کی ، ہمیشہ ان کی ضرورتیں پوری ہوئی ہیں اور ہمیشہ غیب سے پوری ہوئی ہیں اور اسی رنگ میں پوری ہوئی ہیں کہ بعینہ جتنی ضرورت تھی اتنی ہی عطا کی گئی تا کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ اللہ کی طرف سے عطا ہے.تو یہی امانت کا مضمون ہے جس کو میں حضرت حذیفہ کی ایک روایت کے حوالہ سے بیان کر رہا تھا اور اس کا آخری حصہ رہ گیا تھا یعنی اس پر تبصرہ ، اب میں وہیں سے اس مضمون کو اٹھاتا ہوں.حضرت حذیفہ یہ بیان کرتے ہیں ،
خطبات طاہر جلد 17 633 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء یہ صحیح بخاری کتاب الرقاق سے روایت لی گئی ہے، آخر پر کہتے ہیں کہ : مجھ پر ایک زمانہ ایسا آیا کہ میں تم میں سے کسی کے ساتھ بھی لین دین کے معاملہ میں پروا نہیں کرتا تھا.“ یعنی رسول اللہ صلی للہ یہ تم کا زمانہ خلفائے راشدین کا وہ زمانہ جس میں اسلامی نظام فی الحقیقت جاری تھا.فرماتے ہیں: مجھ پر ایک ایسا زمانہ آیا کہ میں تم میں سے کسی کے ساتھ بھی لین دین کے معاملہ میں پروا نہیں کیا کرتا تھا ، مجھے چھان بین کی ضرورت ہی کوئی نہیں تھی.اگر وہ مسلمان ہوتا تو اسلام اس سے میرا حق دلوا دیتا.“ یعنی جو اسلام نافذ تھا اُس وقت وہ حقیقی اسلام تھا، رسول اللہ سلیم کا اسلام تھا جس میں خائن کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے.تو اگر وہ مسلمان ہوتا تو اسلام اس سے میرا حق دلوادیتا.اگر وہ عیسائی ہوتا یا کوئی اور تو حکمران اس سے میرا حق دلوا دیتے.کیونکہ حکمران مسلمان تھے.کہتے ہیں پرواہی نہیں ہوئی، کبھی کوئی پیسہ ضائع نہیں گیا.جب بھی سودا کیا کامل یقین کے ساتھ کہ ایک ایسے معاشرہ میں سودے کر رہا ہوں جہاں حاکم مسلمان ہیں اور اسلام کی رو سے فیصلے کرتے ہیں.مگر آج تو میں صرف فلاں شخص سے لین دین کر سکتا ہوں اور فلاں شخص سے.“ 66 (صحیح البخاری، کتاب الرقاق، باب رفع الامانة ،حدیث نمبر :6497) اشارے کر کے بتایا کہ بہت دور دور پھیلے پڑے ہیں یہ لوگ کیونکہ اب حکومت بھی وہ نہیں رہی جو اسلام کے تقاضے پورے کرنے والی ہو اور مجھے بہت احتیاط کرنی پڑتی ہے ،سودے کے لئے ڈھونڈنا پڑتا ہے، شاذ شاذ کے طور پر ایسے آدمی ملتے ہیں.تو جماعت احمدیہ میں تو یہ نہیں ہونا چاہئے.ہم تو دعویٰ کرتے ہیں وَاخَرِينَ مِنْهُمُ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِم ( الجمعة : 4 ) کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اخَرِينَ میں سے ہیں لیکن ان سے وعدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو رسول اللہ سی ایم کے صحابہ سے ملا دے گا.تو حذیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیان تو یہ ہے کہ اس وقت کہیں شاذ شاذ آدمی کی تلاش نہیں رہا کرتی تھی ، جس
خطبات طاہر جلد 17 634 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء سے سودا کر و ٹھیک ہوتا تھا.تو حقیقی احمدی معاشرہ تو وہ ہے اس کے بنے میں دیر لگے یا بنانے میں دیر لگے جہاں تک نظام جماعت کا تعلق ہے وہ جو اس کو چلانے کے ذمہ دار ہیں ان کا فرض ہے کہ مسلسل کوشش کرتے رہیں.یہ آخری نقطہ ہے جس تک ہم نے لازماً پہنچنا ہے کیونکہ اگر : صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا الحکم جلد 5 نمبر 45 صفحہ:4 مؤرخہ 10 دسمبر 1901ء) پر عمل کرنا ہے ، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس اعتماد کو اپنی ذات میں پورا کرنا ہے کہ جب مجھے پالیا تو صحابہ سے مل گیا تو پھر اس معاشرہ کی تخلیق کرنی ہے اس معاشرہ کی تعمیر کرنی ہے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ محنت تو بہت کرنی پڑے گی مگر ہو جائے گا انشاء اللہ.اگر ہم یہ کرسکیں تو ساری دنیا کے لئے نمونہ بن جائیں گے.آج یہ نمونہ کہیں ہے ہی نہیں.تلاش کر کے دیکھ لیں سب دھو کے، سب جھوٹ ہیں.میں نے ایک مثال شاید پاکستان کی پہلے بھی بیان کی تھی جب یہ ایٹم بم کا دھما کہ ہوا تو اتنا جوش تھا پاکستانیوں کے دل میں اپنے وطن کی محبت کا کہ جب ایک آواز دی وطن سے کسی نے یعنی وزیر مال نے یا خود وزیر اعظم نے کہ اپنا روپیہ یہاں بھجواؤ ہمیں ڈالرز کی ضرورت ہے، ہمیں پونڈوں کی ضرورت ہے اور ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جو روپیہ تم پونڈوں میں یا ڈالرز میں بھجواؤ گے تم جب چاہو گے تمہیں پونڈوں اور ڈالرز میں مل جائے گا اور جب وعدہ کیا تو خیانت کی اور اب کل ایک بینک والے مجھے ملنے آئے تھے وہ کہہ رہے تھے بینک خالی پڑے ہیں ، کچھ بھی نہیں رہا.میں افسر ہوں.ایک زمانہ میں جب ریل پیل تھی بیرونی روپے کی تو اتنا کاروبار تھا کہ رات کو بھی ختم نہیں ہوتا تھا اور مجھے مجبوراًلمبا وقت بینک میں لگانا پڑتا تھا.کہتے ہیں اب خالی کرسیاں ہیں کوئی آنے والا نہیں، اکیلے بیٹھ کے بمشکل بینک کا وقت گزارتا ہوں کیونکہ اس وقت میں حاضری دینی ضروری ہے مگر خالی خولی ، خالی لفافہ کچھ بھی باقی نہیں رہا.یہ جزا ہے خائن کی اور یہ لوگ سمجھتے نہیں.اگر یہ امانت کا حق ادا کرتے تو اتنی کثرت سے پاکستانی قوم نے جو باہر پھیلی پڑی ہے اتنارو پیہ بھیجنا تھا کہ کسی قسم کی کوئی کمی آرہی نہیں سکتی تھی ، ناممکن تھا.اب اس کا بداثر یہ ہے کہ اندرونی تجارتیں تباہ ہوگئی ہیں ساری، مہنگائی کا جو دور شروع ہوا ہے روپے کی قیمت گرتی چلی جارہی ہے بیرونی کرنسی کی بڑھتی چلی جارہی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 635 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء یہ سارے آپس میں متعلق امور ہیں اور یہ پھل ہے بددیانتی کا اور عہد شکنی کا.تو عہد شکنی بہت خطرناک چیز ہے.ایک آدمی سمجھتا ہے کہ میں نے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لیا ہے عہد شکنی کر کے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کی ساری برکتیں اٹھ جاتی ہیں اور اس کی اولاد سے بھی برکت اٹھ جاتی ہے.خائن لوگوں کی اولادیں دین سے سرکنے لگتی ہیں اور رفتہ رفتہ ایسے بد انجام کو پہنچتی ہیں کہ پھر وہ روتے پھرتے ہیں کہ ہماری اولا د تباہ ہو گئی حالانکہ یہ سارے خیانت کے اثرات ہیں.پس اس مضمون کو معمولی نہ سمجھیں.میں جتنا اس پر زور دے رہا ہوں وہ زیادہ نہیں بلکہ کم ہے.یہ تو ایسا سلسلہ ہے جس پر کئی سال لگ سکتے ہیں اسی مضمون پر مگر میں نے سوچا ہے کہ وقتاً فوقتاً کچھ وقفہ دے دے کر پھر دوبارہ اسی مضمون کی طرف لوٹوں گا.سنن ابی داؤد سے ایک روایت لی گئی ہے.حضرت سفیان بن اسید حضرمی سے روایت ہے وو کہ میں نے رسول اللہ صلی ال ایلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ : یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی کو ایک بات سنائے جس میں وہ تجھے سچا سمجھے مگر تو اس میں جھوٹا ہو.“ (سنن ابی داؤد، کتاب الأدب، باب فی المعاريض ،حدیث نمبر :4971) یہ بہت احتیاط کی ضرورت ہے، غالباً میں پہلے بھی اس مضمون کو بیان کر چکا ہوں ایک دوسری حدیث کے حوالہ سے کہ بات کریں تو دیکھیں کہ آپ کو وہ سچا سمجھ رہا ہے کہ نہیں.اگر سچا سمجھ رہا ہے اور آپ سچے نہ ہوں تو اس جھوٹ کا سارا وبال آپ کی جان پہ آجائے گا.بعض لوگ غلطی سے یا عاد تا مبالغہ آمیزی کرتے ہیں اور اپنی طرف سے زیب داستاں کے لئے بڑھا بھی دیتے ہیں لیکن جو ان میں سے تقویٰ شعار ہیں ان کے منہ سے ایسی باتیں نکل تو جاتی ہیں مگر وہ مجلس برخواست کرنے سے پہلے بتا دیا کرتے ہیں کہ مجھے لگتا ہے تم اس کے ظاہر پر ایمان لے آئے ہو میں تو لطیفہ کے رنگ میں یہ بات کر رہا تھا مگر اگر تم مان گئے ہو تو یہ غلط ہے.یہ ایک کہانی سی ہے اس سے زیادہ اس کی کوئی حیثیت نہیں.اگر اس طرح وضاحت کر دیں تو پھر جھوٹ نہیں ہوگا کیونکہ اس حدیث میں یہ ہے ”جس میں وہ تجھے سچا سمجھے.اگر بھائی سچا سمجھ رہا ہے اور وہ بات نہ ہو تب یہ جھوٹا بنتا ہے اور اگر بھائی جھوٹا ہی سمجھ رہا ہے تو یہ مسئلہ ہی اور ہے.دنیا میں اکثر سچوں کو جھوٹا ہی کہا گیا ہے اور ان کو جھوٹا ہی سمجھا جاتا ہے اس لئے یہ مسئلہ بالکل اور ہے اس لئے سچا سمجھنے والی بحث ہے صرف.
خطبات طاہر جلد 17 636 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء مسند احمد بن حنبل جلد نمبر 7 صفحہ 252 مطبوعہ بیروت میں یہ روایت درج ہے: " عَنْ أَبِي أُمَامَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ ، حضرت ابوامامہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا : مومن ہر قسم کی عادتوں اور خصلتوں پر پیدا کیا جاتا ہے سوائے خیانت اور کذب کے.“ (مسنداحمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسندابی امامۃ ،مسند نمبر :22170) اب یہ بات بالکل واضح ہے کہ جو بچہ فطرت پر پیدا کیا جاتا ہے تو اس کی فطرت میں کذب اور خیانت ہو ہی نہیں سکتے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر بہت ہی گہرائی سے اور لطیف روشنی ڈالی ہے.بچوں کے اپنی ماؤں کے دودھ سے وابستہ ہونے اور غیر ماؤں کو قبول نہ کرنے کا مسئلہ آپ نے اسی حوالہ سے چھیڑا ہے.جب ایک ماں اپنا دودھ چھڑا کر جو صحت والا دودھ ہو دوسری دائی کو دینے کی کوشش کرتی ہے تو بچہ اکثر اس سے منہ پھیر لیتا ہے، طرح طرح کے اس کو حیلے کرنے پڑتے ہیں تا کہ بچہ وہ دوسرا دودھ پی لے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی امر کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بھی وابستہ کر دیا.فرمایا دیکھو بچپن سے ہی امین تھا اس کی فطرت میں امانت تھی.اس نے دوسری ہر دائی کا دودھ پینے سے انکار کر دیا حالانکہ عام طور پر جب بچوں کو ضرورت پڑتی ہے بھوک سے بلبلا میں تو آخر مجبور ہو کر کچھ نہ کچھ دوسری دائیوں کے دودھ پر بھی منہ مارنا پڑتا ہے مگر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کے حوالہ سے بیان کیا امانت کے مضمون کے لحاظ سے، یعنی روایت تو بیان نہیں کی جو میں پڑھ رہا ہوں لیکن اسی مضمون کو قرآنی آیات کے حوالہ سے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ امانت فطرت میں ہے اور اس کو بچوں سے بھی سیکھو اور خصوصاً موسیٰ علیہ السلام سے سیکھو، بچپن سے وہ امین تھا تو خدا نے اس پر امانت کا بوجھ ڈالا.پس یہ دیکھیں کتنی لطیف بات ہے کسی عام انسان کے ذہن میں آہی نہیں سکتی.ایک عارف باللہ ہے جو اس گہرائی تک اترتا ہے اور پہنچتا ہے اور پھر لوگوں کو دکھاتا ہے.اس سے پہلے کسی تفسیر کی کتاب میں یہ حوالہ آپ کو نہیں ملے گا کہ بچے جو ماں کا دودھ پیتے ہیں ان سے امانت سیکھو.پس رسول اللہ صل للہ ایسی تم نے فرمایا مومن ہر قسم کی عادتوں اور خصلتوں پر پیدا کیا جاتا ہے سوائے خیانت
خطبات طاہر جلد 17 637 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء اور کذب کے لیکن اس روایت میں ایک اور چیز بھی غور طلب ہے.اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ بچہ خدا کی صفات پر پیدا کیا جاتا ہے تو ہر قسم کی صفات سے کیا مراد ہوئی پھر.؟ دراصل خدا کی صفات میں بھی مختلف اقسام داخل ہیں كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (الرحمن :30) ہر دن اس کی ایک الگ شان ظاہر ہوتی ہے.اب بنیادی صفات تو نہیں بدلتیں لیکن ان کے تابع نئی نئی شانیں انہیں صفات کی ظاہر ہوتی رہتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ انسان کو بھی جو صحیح فطرت پر پیدا کیا گیا ہے خدا تعالیٰ یہی کچھ ودیعت فرماتا ہے.پس یہ جو فرمایا گیا کہ ہر قسم کی عادتوں پر پیدا کیا گیا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ حدیث غلط ہے یا قرآن کریم کی وہ آیت غلط ہے جس میں بچے کے مولود علی فطرت کا ذکر ہے.ہر قسم کی عادتوں میں یہ بھی مضمون داخل ہے کہ اگر سب فطرت پر ہوتے اور ایک جیسی عادتیں ہوتیں تو ساری انسانی سوسائٹی Monotonous ہو جاتی.اس میں ایک ایسی یگانگت پیدا ہوتی کہ اس سے طبیعتیں اُکتا جاتیں لیکن میں بگڑے ہوؤں کی بات نہیں کر رہا وہ تو بگڑ ہی جاتے ہیں.وہ فطرت کو چھوڑ کر ان کے ماں باپ ان کو غلط بناتے ہیں میں ان کی بات نہیں کر رہا، ان کی کر رہا ہوں جو فطرت پر قائم رہتے ہیں اس کے باوجود ان کے الگ الگ مزاج ہیں.پس یہ مراد ہے کہ الگ الگ عادتوں پر پیدا کیا گیا ہے.ہم نے بچپن میں وہ دور دیکھا جب قادیان صحابہ سے بھرا پڑا تھا اور ہر صحابی کا الگ مزاج تھا، اس کی الگ الگ عادتیں تھیں اور تھے سارے فطرت پر.تو یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لیں کہ فطرت پر ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ سوسائٹی بعینہ ایک دوسرے سے مشابہ ہو جائے ، ایک دوسرے سے مشابہ تو ہوتی ہے بنیا دوں میں لیکن بعینہ نہیں ہوتی ان کے اندر مزاج مزاج کا فرق ہے.چنانچہ اب میں غور کرتا ہوں اور پرانے زمانہ کی باتیں یاد کرتا ہوں تو مجھے ایک مثال بھی نظر نہیں آتی کہ دو صحابہ بعینہ ایک جیسے تھے اور لطف کی بات یہ ہے کہ ان کے الگ الگ ہونے میں بھی خدا ہی جھلکتا تھا اور خدا کی مختلف شانیں ان سے عیاں ہوتی تھیں اور عجیب دل کشی تھی سوسائٹی میں کہ اللہ تعالیٰ کی بے انتہا مختلف شانیں آپ مالی ایم کے طفیل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام میں بھی یکجا ہوگئی تھیں.تو اس شمع سے ہم نے نور حاصل کرنا ہے جس میں خدا کے یہ سارے رنگ پائے جاتے ہیں اور رنگ جدا جدا ہونے کی بجائے شمع ایک ہی رہتی ہے.پس اس چھوٹی سی حدیث میں حضرت اقدس محمد
خطبات طاہر جلد 17 638 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء رسول اللہ صلی ای ایم نے بہت گہرے مضمون بیان فرما دئے ہیں کہ مومن ہر قسم کی عادتوں اور خصلتوں پر پیدا کیا جاتا ہے.یہ نہ سمجھنا کہ مومن بعینہ ایک دوسرے جیسے ہوتے ہیں.اور صحابہ" پر بھی غور کر کے دیکھیں کوئی صحابی دوسرے سے نہیں ملتا.ہر ایک الگ الگ ہے، ہر ایک کا الگ الگ مزاج اور الگ الگ شان ہے مگر وہ ساری شانیں آنحضرت ملائیشیا کی تم سے اخذ کر کے پھر انہوں نے اپنے برتنوں میں سجائیں.ایک حدیث سنن الترمذی کتاب البر سے لی گئی ہے.اس میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم صلی ایتم نے فرمایا: ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے ،وہ نہ اس کی خیانت کرے، نہ اسے جھٹلائے اور نہ اس کو رسوا کرے.“ (سنن الترمذی، ابواب البر والصلة باب ماجاء فى شفقة المسلم على المسلم ، حدیث نمبر : 1927) اب یہ بات بہت عجیب ہے کہ اسے جھٹلائے نہیں اگر کوئی جھوٹ بولے گا تو اسے جھٹلا نا بھی پڑے گا لیکن اس میں صحابہ کی شان بیان فرمائی گئی ہے.فرمایا سچے مومن جو میرے خلق پر ، مجھ سے خلق سیکھ کر مختلف رنگ اختیار کر گئے ہیں ان میں جھوٹ تم نہیں دیکھو گے.پس ایک نیک انسان دوسرے نیک انسان کو اس لئے جھٹلا دے کہ اس کو تعجب ہو اس بات پر یہ درست نہیں ہے.تو رسول اللہ صلی ا یستم نے یہ فرمایا نہ اس کی خیانت کرے، نہ اسے جھٹلائے.یہ بہت گہری اور عظیم تعلیم ہے یعنی جھٹلانے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.ہو نہیں سکتا کہ کوئی صحابی جو سچا مومن ہو اور یہاں تو چونکہ عمومی بات ہے ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے یہ آج بھی اطلاق پا رہی ہے مگر میں صحابہ کی بات اس لئے کہہ رہا ہوں کہ حضرت محمد رسول اللہ صل للہ کریم نے صحابہ کو دیکھ کر ان سے یہ نتیجہ اخذ فرمایا ہے اور تمام وقتوں سے ، تمام دنیا کے مسلمانوں سے وہی توقع رکھی ہے جو سچی مسلمانی کی نشانیاں تھیں کہ خیانت نہ کرے اور اسے جھٹلائے نہیں اور نہ اسے رسوا کرے.اب یہ بات میرے تجربہ میں ہے کہ بعض دفعہ ایک شخص بات بیان کر رہا ہوتا ہے وہ ویسے سچا ہوتا ہے لیکن بات غلط بیان کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ بات کو بعض دفعہ سمجھ نہیں سکتا.اب وہ لاعلمی میں کم نہی کے نتیجہ میں اگر بات نہ سمجھ سکے تو اس کو آپ جھٹلا نہیں سکتے.آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں تمہاری بات کو مانتا ہوں مگر تم بات سمجھے نہیں.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کے متعلق یہ روایت ہے
خطبات طاہر جلد 17 639 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء کہ مدینہ کی گلیوں میں آواز دینے لگ گئے کہ مَنْ قَالَ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ - جس نے بھی کہا لا إلهَ إِلَّا الله وہ جنت میں داخل ہو گیا.حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کو گریبان سے پکڑ لیا کہ یہ تم کیا کہتے پھر رہے ہو.انہوں نے کہا رسول اللہ صلی ایتم نے اسی طرح فرمایا ہے.اب اس کو وہاں جھٹلایا نہیں مگر سمجھ گئے کہ یہ بات سمجھا نہیں اسی طرح گریبان سے پکڑے گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ لیا الی یم کے پاس لے گئے.آپ صلی ا یہ تم سے پوچھا یا رسول اللہ لا یہ ہم آپ نے فرمایا تھا؟ آپ صلی یا یہ ستم نے فرمایا ہاں میں نے کہا تھا.نہ یہ سمجھا ہے نہ اس سے لوگ ٹھیک سمجھیں گے کچھ کا کچھ مضمون بنالیں گے ہر ایک یہ کہے گا لا اله الا الله اور اس کے بعد وہ سمجھے گا کہ جنت میں داخل ہو گیا ہے.رسول اللہ صلی شما یہ ستم نے ان کی بات قبول فرمائی.ٹھیک کہتے ہو.اگر محض یہی آواز دی جائے تو جس طرح ابو ہریرہ کو بات کی سمجھ نہیں آئی کثرت سے لوگ اس مضمون کی حقیقت کو نہ سمجھ سکتے.(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب من لقى الله بالايمان وهو غير شاك فيه دخل الجنة ، حدیث نمبر : 147) چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی پہلو سے حضرت ابوہریرہ کے متعلق فرمایا ہے کہ سادہ دماغ کے تھے اور روایتوں کو سمجھنے میں غلطی کر جایا کرتے تھے.(حقیقۃ الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ : 36) بہت سے غیر احمدی علماء نے اس پر مسیح موعود کے متعلق اعتراض کیا ہے کہ یہ دیکھو، یہ کون ہوتا ہے صحابہ کو اور ان میں سے ابو ہریرہ کو موٹے دماغ کا کہنے والا.حالانکہ اس حدیث سے جو میں نے پڑھی ہے بالکل یہی بات ثابت ہوتی ہے.رسول اللہ لی ایم کے سامنے حضرت عمر نے جو بات بیان کی آپ ملی شما لی ہم نے تسلیم فرمائی اور کئی ایسی روایات ہیں جو بے چارے سمجھ نہیں سکے.بیان میں سچے تھے یہ وہ بات ہے جس کے متعلق رسول اللہ صلی پیام فرماتے ہیں جھٹلاؤ نہیں.ایک روایت بھی حضرت ابو ہریرہ کی جھوٹی نہیں ہے مگر ہر روایت قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ اگر آپ کی ساری روایتوں کو ان کی درایت کے لحاظ سے ان کے مضمون کے لحاظ سے درست تسلیم کیا جائے تو حدیث کی دنیا میں ایک فساد برپا ہو جائے گا.پس دیکھیں حضور اکرم صلی اینم کی چھوٹی چھوٹی نصیحتوں میں کتنے گہرے اسرار ہیں.”اسے جھٹلائے نہیں اور نہ اس کو رسوا کرے.“ کیونکہ جب اسے جھٹلاؤ گے تو لوگوں کے سامنے لازم ہے کہ وہ رسوا ہوگا اور رسوا نہ کرنے کا مضمون ویسے بھی ہے.کوئی سچا مومن اپنے بھائی کو رسوا نہیں کیا کرتا.ایسی باتیں اس کے متعلق نہیں کہتا جس کی وجہ سے
خطبات طاہر جلد 17 640 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء سوسائٹی میں اس کی عزت اور وقار کم ہو جائیں.اگر اس کی سادگی کی بات کرتا ہے تو پیار اور محبت سے اس رنگ میں کرتا ہے کہ اس شخص پر اس کی سادگی پر بھی پیار آتا ہے مگر رسوائی نہیں ہوتی اس میں، تو رسوا نہ کرنے سے اس مضمون کو پوری طرح کھول دیا گیا.چنانچہ اس کے برعکس یہ بھی فرمایا: ”ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت فرض ہے ، مال اور خون حرام ہے ، تقویٰ یہاں پر ہے.جب حضور اکرم صلی ا یہ تم نے فرما یا تقویٰ یہاں پر ہے تو اپنے دل پر ہاتھ لگایا ( یعنی دل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انگلی چھاتی پر لگائی ) تقویٰ یہاں پر ہے.“ اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ تین دفعہ آپ صلی ایلیم نے بار بار دہرایا کہ تقویٰ یہاں پر ہے، تقویٰ یہاں پر ہے.مطلب ہے کہ تقویٰ کے گر سیکھنے ہیں تو مجھ سے سیکھو.(صحیح مسلم ، کتاب البر تو والصلة والاداب، باب تحریم ظلم المسلم، حدیث نمبر :6541) 66 کسی انسان کے لئے اتنا شر ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے.“ (سنن الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ماجاء فى شفقة المسلم على المسلم ، حدیث نمبر : 1927) اب اس کو بھی امانت کے تعلق میں بیان فرمایا گیا ہے.یہ ساری امانتیں ہیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کے مومن بندوں پر اور ان کا فرض ہے کہ ان تمام امانتوں کے حق ادا کریں.اپنے مسلمان بھائی کو حقیر نہ سمجھے.اب اس میں مسلمان بھائی ہونا بھی تو لازم ہے.بعض لوگ حرکتیں ایسی کرتے ہیں جو ذلیل اور کمینی حرکتیں ہیں اگر انہیں کہا جائے یہ تو کمینی بات ہے تم ذلیل حرکت کر رہے ہو تو یہ اعتراض نہیں کیا جا سکتا کہ تم اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھ رہے ہو کیونکہ جو مسلمان بھائی ہو وہ ایسی بات کر سکتا ہی نہیں.یہ پہلو بھی تو ہے جس پر غور کی ضرورت ہے.رسول اللہ صلی ہم نے یہ نہیں فرمایا کہ کسی کو حقیر نہ سمجھے.حقیر کو تو حقیر ہی سمجھنا پڑے گا.گندی فطرت والا انسان ہے کیسے آپ کہہ سکتے ہیں کہ وہ گندی فطرت کا نہیں ہے مگر مسلمان بھائی، اس سے رسول اللہ صلی الی تم ہرگز یہ توقع نہیں رکھتے کہ وہ کسی قسم کی کوئی گھٹیا بات کرے.پس مسلمان بھائی کو حقیر نہ سمجھو، جو مسلمان بھائی کی تعریف ہی میں نہیں آتا اس کا مضمون الگ ہے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے نتیجہ میں تو معاشرے میں بہت سا فساد پھیل سکتا ہے یعنی آپ کسی کے متعلق کہیں کہ وہ گھٹیا نظر آتا ہے اور دوسرا کہے کہ تم نے اپنے مسلمان بھائی کو حقیر سمجھا ہے.اب وہ یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ میرا فتویٰ درست ہے اور
خطبات طاہر جلد 17 641 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء وہ واقعۂ گھٹیا ہے.ان امور کا فیصلہ کرنا ان لوگوں کا کام ہے جن تک کسی معاملہ کی تفصیل پہنچی ہو.جہاں تک سوسائٹی کا تعلق ہے اس میں احتیاط لازم ہے ورنہ ہر شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ مسلمان رہا ہی نہیں اس لئے میں اس کو حقیر سمجھتا ہوں تو ہر شخص کے اسلام کے فتوے جاری ہو جائیں گے اور عملاً ساری سوسائٹی غیر مسلم ہو جائے گی.پس اس بات کو خاص طور پر ذہن نشین رکھ لیں کہ حقیر سمجھنا سوسائٹی میں عام عادت کے طور پر اپنا نا ظلم ہے.اگر آپ اس کو عادت کے طور پر اپنا ئیں گے تو آپ کے اندر بھی تکبر پیدا ہوگا اور جس شخص کو آپ ذلیل سمجھ رہے ہیں ہو سکتا ہے وہ اللہ کی نظر میں ذلیل نہ ہو اور اس طرح آپ خود اللہ کی نظر میں ذلیل ہو جائیں گے.تو یہ ساری باریک راہیں ہیں تقویٰ کی.جب رسول اللہ صلی یہ تم فرماتے ہیں تقویٰ یہاں پر ہے تو واضح ہے کہ یہ ساری تقویٰ کی باریک راہیں ہیں جن کو ہم نے حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ہی ہم سے سیکھنا ہے اور ان کو باریکی سے نہیں سیکھیں گے تو تقویٰ یہاں پر ہے کے مضمون کا حق ادا ہی نہیں ہوسکتا کیونکہ آنحضرت صلیم تقومی کی باریک ترین راہوں پر سے گزرے ہیں.جب آپ سی ایم سے تقوی سیکھنا ہے تو تقویٰ کی لطافتیں سیکھنا لا زم ہے اس کے بغیر ہرگز یہ تقویٰ جو آپ سیکھ رہے ہیں وہ کاملہ رسول اللہ صلی سلیم کی غلامی میں سیکھا ہوا تقویٰ نہیں ہوگا بلکہ باریک رستے ہیں جن پر چلنا پڑتا ہے اور میں تو یقین رکھتا ہوں کہ پل صراط دراصل اسی بات کا مظہر ہے ایک اتنا باریک تارکہ جس کے اوپر چلنا ناممکن دکھائی دیتا ہے ایک طرف جنت ہے ایک طرف جہنم کے شعلے ہیں.اور وہ لوگ جو خدا کے نزدیک تقویٰ کی باریک راہوں پر چلتے ہیں ان کو کوئی خوف نہیں تو بار یک تار سے مراد یہ نہیں ہے کہ سچ سچ کا کوئی تار کھینچا جائے گا، اس پر چلنے کا حکم ہوگا.مراد یہ ہے کہ اس زندگی میں ہی آپ نے اپنا پل صراط بنانا ہے.اگر آپ تقویٰ کی باریک راہوں کو سیکھیں گے، غور کریں گے تو رفتہ رفتہ آپ کو احتیاط سے چلنے کی عادت پڑ جائے گی.جو قدم اٹھا ئیں گے پھونک کر اٹھا ئیں گے اور اس صورت میں اگر گرے بھی تو جنت کی طرف گریں گے ، جہنم کی طرف نہیں گریں گے.پس حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ای ایم نے جو تقویٰ کی باریک را ہیں ہمیں سکھائی ہیں ان پر عمل کئے بغیر ہماری سوسائٹی سدھر سکتی ہی نہیں.
خطبات طاہر جلد 17 642 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس مضمون پر جو روشنی ڈالی ہے میں ایک دو اقتباس اس کے پڑھ کر سناتا ہوں باقی یہ مضمون ابھی ختم نہیں ہو سکا اس لئے وہ اگلی آیات کا مضمون شروع نہیں ہوسکتا.فرمایا: پھر چہارم درجہ کے بعد پانچواں درجہ وجود روحانی کا وہ ہے جس کو خدا تعالیٰ نے اس آیت کریمہ میں ذکر فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رُعُونَ (المومنون : 9) ” وہ لوگ یعنی ترجمہ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں ” یعنی پانچویں درجہ کے مومن جو چوتھے درجہ سے بڑھ گئے یہ یعنی کے تابع ہیں تشریحی اور تفسیری ترجمہ ہے الفاظ نہیں ہیں ترجمہ کے یعنی پانچویں درجہ کے مومن جو چوتھے درجہ سے بڑھ گئے ہیں وہ ہیں جو صرف اپنے نفس میں یہی کمال نہیں رکھتے جو نفس اتارہ کی شہوات پر غالب آگئے ہیں اور اس کے جذبات پر ان کو فتح عظیم حاصل ہو گئی ہے بلکہ وہ حتی الوسع خدا اور اس کی مخلوق کی تمام امانتوں اور تمام عہدوں کے ہر ایک پہلو کا لحاظ رکھ کر تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کی کوشش کرتے ہیں.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ: 207) اب یہ تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنے کا ایک نیا مضمون ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام بیان فرما رہے ہیں.عام طور پر لوگ یہی سمجھتے ہیں کہ شہوات نفسانی سے بچنے کا نام ہی تقویٰ ہے حالانکہ شہوات نفسانی سے بچنے کے بعد انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ تقویٰ کا مضمون سیکھے یعنی اس کی باریک راہوں پر چلنا یہ شہوات سے بچنے کے بعد کی بات ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ جو اپنے غصوں ، اپنی شہوات کے مغلوب رہتے ہیں وہ تقویٰ سیکھ ہی نہیں سکتے.سردست میں اسی بات پر اکتفا کرتا ہوں باقی مضمون کو انشاء اللہ بعد میں بیان کروں گا کہ اپنے نفسانی جذبات پر غالب آنا یہ تقویٰ نہیں ہے، یہ تقویٰ کی تیاری ہے کیونکہ وہ لوگ جو نفسانی جذبات پر غالب نہیں آ سکتے مثلاً غصہ ان پر غلبہ پالیتا ہے، منہ سے بے ہودہ باتیں نکل پڑتی ہیں یا دوسروں کے ساتھ معاملہ میں بھی جلد بازی سے کام لیتے ہیں ان چیزوں سے بچنے کا نام حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک تقویٰ نہیں ہے ان سے بچنے کے بعد تقویٰ کا سفر شروع ہوگا.
خطبات طاہر جلد 17 643 خطبہ جمعہ 11 ستمبر 1998ء پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اپنے آپ کو تقویٰ کی باریک راہوں پر چلنے کے لئے اس حد تک تیار کرلے گی کہ ابتدائی شرط ضرور پوری ہو جائے.وہ ان جذبات اور کئی قسم کی باتیں ہیں جن کی تفصیل میں مجھے جانے کی ضرورت نہیں ہے مگر آئے دن انسان کا امتحان ہوتا رہتا ہے، آئے دن انسان کو یہ مراحل در پیش ہیں کہ وہ اپنے نفس کے غلبہ کے تابع ہی زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے.جب فیصلہ کرتا ہے نفس کے جوش کے نتیجہ میں فیصلہ کرتا ہے تو اس جوش کو ٹھنڈا کرو، اس جوش کو جو ایک آگ ہے اس کو بجھاؤ.اس آگ کو بجھانے کا نام تقویٰ نہیں ہے.یہ آگ بجھے گی تو پھر آپ کو وہ جنت نصیب ہوگی جو حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کو نصیب ہوئی تھی یعنی آگ گلزار اس طرح بنائی جاتی ہے پہلے اس کے شعلوں کو ٹھنڈا کر دو پھر ان میں سے اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہ گلزار پھوٹے گا جس کا نام تقویٰ ہے.وہ ایک باغ ہے جنت کا جو تقویٰ کے نتیجہ میں نصیب ہوتا ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 645 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء مومن اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کے ساتھ ساتھ تقویٰ کی دور بین سے اس کی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں (خطبه جمعه فرمودہ 18 ستمبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کیں : قد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ پھر فرمایا: (المومنون: 2 تا 4) ان آیات پر خطبہ دینے سے پہلے میں گزشتہ خطبہ کے تسلسل میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے چند حوالے پیش کر رہا ہوں جو وقت ختم ہونے کی وجہ سے پہلے پیش نہیں کئے جاسکے تھے.دس پندرہ منٹ کے اندر امید ہے یا اس سے بھی پہلے یہ مضمون ختم ہو جائے گا یعنی مضمون تو ختم نہیں ہوسکتا مگر اس خطبہ میں میں اس کو ختم کروں گا اور آئندہ پھر جب توفیق ملے گی دوبارہ چھیڑوں گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: خلاصہ مطلب یہ کہ وہ مومن جو وجود روحانی میں پنجم درجہ پر ہیں وہ اپنے معاملات میں خواہ خدا کے ساتھ ہیں خواہ مخلوق کے ساتھ بے قید اور خلیع الرسن نہیں ہوتے.“ گھوڑے کی رٹی کو اگر چھوڑ دیا جائے تو گھوڑا جہاں چاہے چلا جاتا ہے اس کو کہتے ہیں خلیع الرسن، تو ایسا انسان جس پہ کوئی پابندی نہ ہو وہ جدھر منہ اٹھے اس طرف بھاگ پڑے اس کو خلیع الرسن
خطبات طاہر جلد 17 646 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء 66 کہتے ہیں تو فرمایا خواہ خدا تعالیٰ سے معاملات ہوں خواہ مخلوق کے ساتھ ان دونوں میں اس کی رسی کھلی نہیں چھوڑی جاتی وہ بعض پابندیوں کی حدود میں رہتا ہے اور جدھر چاہے ادھر منہ کر کے بے تحاشا دوڑ نہیں سکتا.کیوں؟ اس لئے کہ: اس خوف سے کہ خدا تعالیٰ کے نزدیک کسی اعتراض کے نیچے نہ آجاویں.( یہ ڈر ہے جو اسے مختلف امور میں زیادتیوں سے بچائے رکھتا ہے ) اپنی امانتوں اور عہدوں میں دور دور کا خیال رکھ لیتے ہیں.اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں.( یہ ایک بہت ہی اہم حصہ ہے اس عبارت کا جس کی تشریح ابھی اس کے بعد آئے گی) اور ہمیشہ اپنی امانتوں اور عہدوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں اور تقویٰ کی دور بین سے اس کی اندرونی کیفیت کو دیکھتے رہتے ہیں.“ اب اگر سرسری نظر سے آپ مطالعہ کریں تو اپنے اندر ہی دور بین کے استعمال کی ضرورت نہیں پیش آسکتی.خوردبین کے استعمال کی ضرورت پیش آنی چاہئے کیونکہ خوردبین نزدیک کی چیز کو بڑا کر کے دکھاتی ہے لیکن جو پہلی عبارت کا حصہ ہے اس سے اس دوسری عبارت کی تشریح ہو رہی ہے.اپنی امانتوں اور عہدوں میں دور دور کا خیال رکھ لیتے ہیں اور امر واقعہ یہ ہے کہ انسان کے اندر اس کی مخفی حالتیں اس سے بہت دور ہوتی ہیں اور معنوی لحاظ سے بعض دفعہ اتنا دور ہوتی ہیں کہ وہ دور بین کے سوا نہیں دیکھ ہی نہیں سکتا.تو یہاں دور بین کے لفظ کا استعمال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے عرفان پر ایک گہری دلالت کرتا ہے یعنی بہت ہی گہر ا عرفان ہے اور ہر لفظ بہت احتیاط سے اور چن کے لکھتے ہیں.تا ایسا نہ ہو کہ در پردہ ان کی امانتوں اور عہدوں میں کچھ فتور ہو.“ یعنی پردے کے پیچھے چھپی ہوئی چیز جیسے دکھائی نہیں دیتی اس طرح ان کو اپنی اندرونی حالتوں کو غور سے دیکھنے کے لئے اور دور دور تک ان پر نظر کرنے کی خاطر گہری نظر سے دیکھنا پڑتا ہے.”جو امانتیں خدا تعالیٰ کی ان کے پاس ہیں جیسے تمام قومی اور تمام اعضاء اور جان اور مال اور عزت وغیرہ ان کو حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں.66 (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ : 208)
خطبات طاہر جلد 17 647 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء اب اس عبارت میں تو زندگی کا ہر مشغلہ شامل ہو جاتا ہے کیونکہ تمام قوی ، تمام اعضاء، جان، مال ، عزت ان سب کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس جملہ میں سمیٹ لیا ہے.تو ساری زندگی کے مشاغل اسی احتیاط کے پابند ہو جاتے ہیں.حتی الوسع اپنی بپابندی تقویٰ بہت احتیاط سے اپنے اپنے محل پر استعمال کرتے رہتے ہیں.اب ہر ایک کے تقویٰ کا معیار الگ الگ ہے تو حتی الوسع اپنی بپابندی تقوی، جتنا تقویٰ خدا تعالیٰ نے کسی کو عطا فرمایا ہے یا وہ اپنے تقویٰ کو خدا تعالیٰ کی نظر میں ہمیشہ سامنے رکھتا ہے اور اس تقویٰ میں وسعت ہوتی چلی جاتی ہے اس وسعت کی انتہا تک جس حد تک بھی ممکن ہے وہ تمام قومی کو اس پابندی پر مجبور کرتے ہیں.”انسان کی تمام روحانی خوبصورتی تقویٰ کی تمام باریک راہوں پر قدم مارنا ہے.“ یہ مضمون گزشتہ خطبہ میں بھی میں نے بیان کیا تھا.تقویٰ کی باریک راہوں سے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام نے مختلف انداز مختلف سمتوں سے ہمیں توجہ دلائی ہے تا کہ یہ مضمون اپنی گہرائی کے ساتھ سمجھ آسکے.تقویٰ کی باریک راہیں روحانی خوبصورتی کے لطیف نقوش اور خوشنما خط و خال ہیں.“ اب باریک راہیں اور لطیف نقوش ان دونوں کا باہمی جوڑ ہے.جتنازیادہ آپ تقویٰ کی باریک راہوں پر نظر رکھیں گے اتنا ہی زیادہ آپ کے روحانی خط و خال حسین اور حسین تر ہوتے چلے جائیں گے.جیسے ایک بہت ہی خوبصورت وجود کے چہرہ کے باریک ترین اعضاء بھی ، باریک ترین جلد کا ابھار اور جلد کا جھکنا اور ان کے خم ، یہ ساری چیزیں اگر آپ کسی خوبصورت چہرہ کو دیکھیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ بہت ہی لطافت کے ساتھ تشکیل دئے گئے ہیں اور جتنا تقویٰ لطیف ہوگا اتنا ہی روحانی خط و خال اسی طرح لطافت کے ساتھ تشکیل دئے جائیں گے.یہ مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں.پھر فرماتے ہیں : اور ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ کی امانتوں اور ایمانی عہدوں کی حتی الوسع رعایت کرنا اور سر سے پیر تک جتنے قومی اور اعضاء ہیں جن میں ظاہری طور پر آنکھیں اور کان اور ہاتھ اور پیر اور دوسرے اعضاء ہیں اور باطنی طور پر دل اور دوسری قوتیں اور اخلاق ہیں ان کو جہاں تک طاقت ہو ٹھیک ٹھیک محل ضرورت پر استعمال کرنا اور نا جائز مواضع سے روکنا
خطبات طاہر جلد 17 648 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء اور ان کے پوشیدہ حملوں سے متنبہ رہنا اور اسی کے مقابل پر حقوق العباد کا بھی لحاظ رکھنا یہ وہ طریق ہے کہ انسان کی تمام روحانی خوبصورتی اس سے وابستہ ہے.“ 66 (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ: 210,209) اب یہ عبارت ایک ایسی عبارت ہے اگر اس کے ایک ایک لفظ کو ٹھہر ٹھہر کر غور سے پڑھا جائے اور اسے کھولا جائے تو جہاں یہ دکھائی دیتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کی باریک راہوں کا کوئی بھی پہلو باقی نہیں رہنے دیا اس کو کلیۂ گھیر لیا ہے، ہر امکان کو پیش نظر رکھا ہے اور ہر احتمال کو پیش نظر رکھا ہے وہاں مضمون مشکل بھی بہت ہو گیا ہے یعنی جتنا آپ اس کو سمجھتے جائیں گے اتنا ہی تقویٰ کی باریک راہوں پر قدم مارنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جائے گا.پس جماعت احمدیہ کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس بنیادی تعلیم کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، جو بنیادی بھی ہے اور تفصیلی بھی ہے، اپنے خط و خال کو درست کرتے رہنا چاہئے اور جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے پہلے بھی میں بیان کر چکا ہوں کہ حقیقت میں یہ کام دعا کی مدد کے بغیر ممکن ہی نہیں اور جو شخص خدا کی خاطر ایک کام شروع کرتا ہے وہ بار بار اسی کی طرف دیکھتا ہے اور اسی سے ہر قدم پر ، ہر لمحہ مدد چاہتا ہے.پس جتنا بھی مشکل مضمون ہوا گر آپ سفر شروع کر دیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف التجاء کی نظروں سے راہنمائی چاہتے ہوئے دیکھتے رہیں تو آپ کا رستہ آسان ہو جائے گا.اگر بچے ماں باپ کے آگے آگے بھاگ رہے ہوں تو بعض بچے اس طرح بھاگتے ہیں کہ وہ مڑ کے دیکھتے بھی نہیں کہ ماں باپ ان کو کسی خاص سمت سے روکنا چاہتے ہیں یا خاص طرز پہ چلانا چاہتے ہیں، وہ ٹھو کر کھا جاتے ہیں مگر بعض بچے بڑے محتاط ہوتے ہیں اور مڑ مڑ کے ماں باپ کی نظریں دیکھتے رہتے ہیں.اگر وہ بولیں نہ بھی تب بھی ان کی نظریں بتادیتی ہیں کہ اتنا تیز نہ دوڑو.اگر وہ سمجھائیں نہ بھی تب بھی ان کو ماں باپ کا عندیہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس طرز پر قدم رکھو، اس طرز پر نہ رکھو اور ایسے بچے پھر ٹھوکروں سے محفوظ رہتے ہیں.اب اللہ تعالیٰ کا ہر موقع پر کلام کرنا تو خاص بندوں کے لئے ہے جیسا کہ بعض انبیاء کے حالات میں معلوم ہوتا ہے جیسا کہ حضرت نوح کی کشتی خدا کی نظروں کے سامنے چل رہی تھی اور ہر لمحہ اس کی نگرانی میں تھی تو انبیاء علیھم السلام کو چھوڑ کر وہ عامتہ الناس جو تقویٰ کا سفر شروع کرتے ہیں ان کا یہ
خطبات طاہر جلد 17 649 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء توقع رکھنا کہ خدا ہر قدم پر ان کو بتائے گا، بول کر بتائے گا کہ یہ کام نہیں کرنا، یہ کام نہیں کرنا ، یہ توقع ایک لحاظ سے پوری بھی ہو چکی ہے اور غلط بھی ہے.پوری اس لئے ہو چکی کہ آنحضرت سی پیہم کو بول کر بتا دیا اور سارا قرآن، سارا کلام الہی اس بات پر گواہ ہے کہ ہمارے سامنے ہر چیز کھول کر باتوں میں رکھ دی ہے کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں جس میں محض اشاروں پر احتیاج ہومگر فرد واحد کے لئے وہ کلام نہیں اترتا.پس ان معنوں میں خاموشی بھی خدا تعالیٰ کی ایک شان ہے.جہاں بولتا ہے وہاں خاموش بھی رہتا ہے اور اس خاموشی میں اپنے بندوں سے توقع رکھتا ہے کہ وہ مڑ مڑ کے دیکھتے رہیں جیسے بچے دیکھتے ہیں اور وہ اگر خدا کی نگاہ پر اپنی نظریں رکھیں تو ان کے لئے رستہ تشکیل دینا کوئی مشکل کام نہیں رہتا، رستے کی ٹھوکروں سے بچنا کوئی مشکل کام نہیں رہتا.تو اس طرح جماعت احمدیہ کو اللہ پر نظر رکھتے ہوئے اپنے قدم آگے بڑھانے چاہئیں اور جب وہ نظر رکھیں گے تو جیسا کہ میں نے مثال بیان کی ہے وہ لازماً احتیاط کریں گے اور جب نظر رکھیں گے تو ان کی پریشانی خدا بھی دیکھ رہا ہوگا.ان کی تکلیف کا احساس خدا تعالیٰ کو بھی دکھائی دے رہا ہوگا.تو بعض دفعہ خاموشی دونوں طرف رہتی ہے اور دونوں طرف وہ کلام بن جایا کرتی ہے.خدا کے بندے بھی اونچی زبان میں دعا کریں نہ کریں جب وہ اپنے رب کی طرف خوف کی حالت میں دیکھتے ہیں اور طمع کی حالت میں دیکھتے ہیں تو ان کی خوف اور طمع کی حالت دعائیں بن جاتی ہیں.پس اس طرح اگر آپ کو یاد نہ بھی رہا ہو کہ ہمیں ہمیشہ اپنے لئے دعا کرنی چاہئے اور ہر انسان کو یہ یاد بھی نہیں رہتا لیکن اگر اسلوب یہ ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو پھر منہ سے بولنے کی بھی ضرورت نہیں اللہ ہر حال میں نگاہ رکھتا ہے اور اپنے پیارے بندوں کے ساتھ پیار کا سلوک فرماتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام امانت ہی کے مضمون میں ڈاکٹر جگن ناتھ صاحب جموں کے نام اپنے ایک خط میں لکھتے ہیں : ”ہم اسی وقت کچے بندے ٹھہر سکتے ہیں کہ جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہے ہم اس کو واپس دیں یا واپس دینے کے لئے تیار ہو جا ئیں.“ 66 آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ :338 حاشیہ)
خطبات طاہر جلد 17 650 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء اب یہ دو حالتیں ہیں جو عموماً انسان بھول جاتا ہے.اگر انسان خدا کی امانت کو واپس کرنا چاہے تو اس وقت جب وہ خدا واپس لے لیتا ہے اس وقت اس کی آزمائش ہوتی ہے.کہنے کو تو سب کہہ سکتے ہیں کہ اللہ کی امانت ہے.جان دی دی ہوئی اسی کی تھی حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا (میرزا اسد اللہ خاں غالب) کہہ تو دیتے ہیں مگر جب وہ جان طلب کرتا ہے اس وقت جان پیش کرنا یہ ہے امانت کولوٹانا.اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دیکھیں کتنی احتیاط سے دونوں پہلو بیک وقت بیان فرما دئے.” جو خداوند منعم نے ہمیں دیا ہے ہم اس کو واپس دیں یاوا پس دینے کے لئے تیار ہو جائیں ہماری جان اس کی امانت ہے.“ پس وہی بات ہے کہ جان اسی کی دی ہوئی ہے اسی کی امانت ہے مگر جب وہ واپس مانگے تو پھر دے بھی دو اس کو محض زبانی جمع خرچ کہ ہم ہر وقت جان فدا کرنے پر تیار بیٹھے ہیں کوئی بھی حقیقت نہیں رکھتا.اگر طلب کرنے پر وہ دی نہ جائے.یہ اللہ تعالیٰ کا احسان ہے کہ اکثر جوامانتیں ہیں ان کو طلب نہیں کرتا اور جتنا بھی کسی کو توفیق ہے جس حد تک وہ واپسی شروع کر دیتا ہے اسی حد تک اللہ تعالیٰ بھی راضی رہتا ہے لیکن بعض وقت ایسے آتے ہیں جب طلب کرتا ہے اور جب طلب کرتا ہے تو اپنی جانیں لازماً خدا کے حضور پیش کرنی ہیں.ایسے اوقات مثلاً خدا کی خاطر جہاد میں جب قتال کا وقت آئے اس وقت بھی پیش آیا کرتے ہیں.جب خدا طلب کر لیتا ہے تو پھر کسی مومن کا یہ حق نہیں رہتا کہ طلب کے بعد پھر اسے اپنی چیز سمجھے پھر اسے لازماً لوٹانا پڑتا ہے اور اس لوٹانے کے وقت بھی لوٹانے کے لئے تیاری، ذہنی تیاری اور قلبی تیاری ہوتی ہے.لوٹانے کا یہ مطلب نہیں کہ جان کو خطرہ میں ڈال کر خود ہی پھینک دے.یہ امانت لوٹانا نہیں ہے خدا تعالیٰ نے امانت کو جب طلب کیا ہے تو کسی مقصد کے لئے طلب کرتا ہے.اگر وہ مقصد پورا نہ ہو تو بغیر مقصد پورا کئے امانت واپس کرنا مدعا نہیں ہے ورنہ تو پھر خودکشی ایک بہت بڑا نیک عمل بن جاتی ہے.کوئی انسان کہتا کہ یہ اللہ کی امانت ہے آج میں نے فیصلہ کر لیا ہے کہ یہ امانت واپس کر دوں گا مگر نیک عمل چھوڑ کے بدترین گناہ بن جاتی ہے کیونکہ امانت کی واپسی بعض شرائط کے ساتھ مشروط ہے یعنی امانت خدا تعالیٰ نے بے سبب نہیں دی بعض عظیم مقاصد
خطبات طاہر جلد 17 651 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء کو پورا کرنے کی خاطر دی ہے اس طرح واپس کرو کہ وہ عظیم مقاصد ساتھ ساتھ پورے ہوں.پس جب اللہ تعالیٰ جہاد میں بھی جان طلب کرتا ہے تو مقاصد کو پورا کرتے ہوئے جان دینی پڑتی ہے ورنہ اپنی جان کو ہلاکت میں ڈالنا ایک بڑا گناہ بن جاتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی مضمون کے پیش نظر فرمایا: ”ہماری جان اس کی امانت ہے اور وہ فرماتا ہے کہ تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أَهْلِهَا.(النساء: 59) آسمانی فیصلہ، روحانی خزائن جلد 4 صفحہ : 338 حاشیہ) اب تُؤَدُّوا الآمنتِ إِلَى أَهْلِهَا کا ایک مضمون تو وہ ہے جو عام طور پر حکام کی نسبت سے سمجھ آتا ہے اور سمجھایا جاتا ہے جو کسی کا اہل ہے اس کو امانت دو مگر سب سے زیادہ اہل تو اللہ ہے کیونکہ اللہ ہی نے امانت عطا فرمائی تھی.پس جو سب سے زیادہ اہل ہے اس کے حضور پیش کرو اور جب مانگتا ہے تو پھر طوعی طور پر پیش کرو.اس طرح پیش نہ کرو جس طرح حکام پھر ز بر دستی تمہاری جانیں لے لیتے ہیں.بعض دفعہ جنگی ضرورتوں کے وقت حکام جن کو آپ نے امانت سپرد کی ہے یعنی حکومت کی طاقت آپ کی طرف سے ان کو ملی ہے اس امانت میں بعض دفعہ قومی مفادات کے پیش نظر جانیں طلب کی جاتی ہیں اور آپ یہ امانت دے بیٹھے ہیں حکام کو ، پھر جب وہ طلب کرتے ہیں تو پھر زبردستی لیتے ہیں.اللہ کی یہ شان ہے کہ وہ ایسے موقع پر زبردستی نہیں لیتا بلکہ آزمائش کرتا ہے.انہی کی جانیں قبول کرتا ہے جو از خود خوشی سے اس کے حضور پیش کرنے پر حاضر ہوں.بلکہ اتنی لذت محسوس کریں کہ اگر جانیں قبول نہ کی جائیں تو غمزدہ ہو جائیں، ان کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگیں.یہ امانت کی واپسی ہے جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام بلا رہے ہیں کہ اصل اہل تو اب آیا ہے یعنی اللہ.جب وہ مانگتا ہے تو دوڑ دوڑ کر خوشی کے ساتھ اس کے حضور پیش کرو اور اس کے نتیجہ میں انسان پر بوجھ نہیں پڑتا بلکہ بوجھ ہلکا ہوتا ہے.آپ نے دیکھا ہوگا کہ جب بھی کوئی شخص آپ کے پاس امانت رکھواتا ہے اس کی حفاظت پر آپ کو ضرور کچھ محنت کرنی پڑتی ہے، خیال رکھنا پڑتا ہے.جب تک وہ امانت واپس نہ لے آپ کے دل پر اس امانت کا بوجھ رہتا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے جب امانت واپس مانگتا ہے تو شکر کریں کہ اس بوجھ کو ہم لئے پھرتے ہیں اور اس کے حقوق ادا نہیں کر رہے تھے اب اکٹھی ہم امانت جب سپرد کر دیں گے تو پھر وہی حقوق کا مالک ہے جیسے کہتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 652 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء سپردم به تو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را ( حکیم نظام گنجوی ) اس لئے شہداء کے متعلق فرمایا ہے کہ وہ بخشے گئے.ان کے پہلے اگر گناہ بھی تھے اگر غفلتیں تھیں کو تا ہیاں تھیں تو زندگی کے دوران ایسی چیزیں ہو جاتی ہیں کہ انسان امانت کا حق پورا ادا نہیں کر سکتا مگر جب خدا نے مانگ لی تو پھر اس کے سپرد کرنے کے نتیجہ میں پہلی ساری غفلتیں معاف ہو جاتی ہیں اور یہ بوجھ سر سے اترتا ہے.گلے سے تو نہیں کیوں کہ اس میں دوسرا مفہوم آجاتا ہے، اپنے سر اور سینے پر جو بوجھ لئے پھرتے ہیں امانت کا یہ اتار کر فارغ البال ہو جاتے ہیں یعنی پھر اللہ تعالیٰ کا معاملہ ان کے ساتھ ایسا ہے کہ ان کو سنبھالنا ، ان کی حفاظت کرنا ، ان کو ہمیشہ کی زندگی عطا کرنا پھر اللہ کا کام ہے.چنانچہ آخر پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ اقتباس رکھ رہا ہوں جس سے پتا چلتا ہے که در اصل تو امانت دار صرف ایک ہی انسان تھا جس نے امانت کے تمام باریک تر حقوق ادا کئے اور الامانۃ اسی کے سپرد کی گئی باقی سب اس کے ذیل میں آنے والے لوگ ہیں.فرمایا: امانت سے مراد انسان کامل کے وہ تمام قومی اور عقل اور علم اور دل اور جان اور حواس اور خوف اور محبت اور عزت اور وجاہت اور جمیع نعماء روحانی و جسمانی ہیں جو خدا تعالیٰ انسانِ کامل کو عطا کرتا ہے.“ اب دیکھیں کتنی لطیف تحریر ہے کہ روح وجد میں آجاتی ہے اسے پڑھ کر.امانت سے مراد ایک تو وہ امانت ہے جو ہر کس و ناکس ، ہر چھوٹے بڑے کو عطا ہوتی ہے لیکن وہ امانت گلی امانت نہیں ہے.وہ امانت جس میں ساری کائنات کے حقوق ادا کرنے ہوں وہ اصل امانت ہے اور جتنی بڑی امانت ہو اتنے بڑے اعضاء بھی دینے چاہئیں.اتنے بڑے دل اور دماغ اور اعصاب کی قوتیں بھی عطا ہونی چاہئیں.تو ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں کہ امانت حقیقت میں اگر دیکھی جائے تو صرف ایک ہی شخص کو دی گئی یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی ہی تم کو اور اس شخص کو دی گئی جس کے ساتھ اس امانت کو اٹھانے کے قومی بھی دئے گئے.اب یہ مضمون قرآن کریم میں ہر طرف مختلف صورتوں میں پھیلا پڑا ہے.مثلاً فرمایا: لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (البقرة: 287) کسی پر اس کی حیثیت سے بڑھ کر بوجھ نہیں ڈالتا.تو امانت بھی ایک ہی طرح کی ہر ایک کو نہیں دی گئی.
خطبات طاہر جلد 17 653 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء ہر ایک کے قومی اس کے حواس اس کی فطری طاقتوں کو پیش نظر رکھ کر ٹکڑا ٹکڑا امانتیں دی گئی ہیں.پس اس طرح آپ دیکھیں تو ایسے لوگ جو سلوک کا سفر شروع کرتے ہیں ابھی ان کی امانت اس حد تک چھوٹی ہوتی ہے اور جو اس سلسلہ میں آگے بڑھ جاتے ہیں اسی قدر ان کی امانت بڑھتی چلی جاتی ہے اور اسی قدر اللہ تعالیٰ ان کے قومی اور حواس کو بھی وسعت عطا فرماتا ہے.پس اس پہلو سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام آنحضرت صلی ا یتیم کی مثال پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اس سے مراد انسان کامل کے تمام قویٰ ہیں جو خدا تعالیٰ انسان کامل کو عطا کرتا ہے.اور پھر انسان کامل بر طبق آیت إِنَّ اللهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تُؤَدُّوا الْآمَنَتِ إِلَى أَهْلِهَا (النساء:59) اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے.“ اب حضرت محمد رسول اللہ صلی شما یتیم کے سوا ایک بھی وجود ایسا نہیں، نہ انبیاء میں ملتا ہے ، نہ انبیاء سے باہر جس نے تمام تر امانت سو فیصدی لوٹا دی ہو اور وہ امانت جس کی تعریف میں زمین و آسمان کی ذمہ داریاں آجاتی ہیں.پہلے انبیاء نے جو امانت لوٹائی وہ محدود امانت تھی وہ کلیۂ ساری کائنات پر حاوی اور پھیلی ہوئی امانت نہیں تھی ایک شخص ہے جس کو خدا تعالیٰ نے امین بنایاعالمین کے لئے اور وہی شخص ہے جس کو وہ قومی عطا فرمائے جو اس ساری امانت کا بوجھ اٹھالے اور پھر اسے خدا کے حضور پیش کر دیا.فرماتے ہیں: اس ساری امانت کو جناب الہی کو واپس دے دیتا ہے یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.“ اب یہ وہی پہلو ہے جس کے متعلق پہلے میں بتا چکا ہوں.امانت واپس کرنے کا یہ مطلب نہیں کہ امانت یعنی جان سب قولی کو کو بیٹھے ، جو اس سے جاتا رہے ہرگز یہ مراد نہیں.بلکہ مراد یہ ہے ” اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.یعنی جتنی بھی انسانی صفات ہیں آنحضرت سلیہ ایام میں یہ سبق سکھاتے ہیں کہ امانت واپس کرنے سے مراد یہ ہے کہ ان کی حفاظت کرو اور صرف خدا کی راہ میں خرچ کرو اس طرح خدا کو امانت واپس کی جاتی ہے.اس کا مطلب ہے کہ اپنے حواس کی بھی حفاظت کرنی ضروری ہے اور جو شخص اپنے حواس کی حفاظت سے غافل رہتا ہے وہ بھی امانت کا حق ادا نہیں کرتا.جو شخص اپنے دل اور دلی جذبات کی حفاظت سے محروم رہتا ہے وہ بھی امانت کا حق ادا
خطبات طاہر جلد 17 654 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء نہیں کر سکتا.جو شخص اپنے اعضاء کو بے محل استعمال کرتا ہے اور ان کو ضائع ہونے سے بچانے کی ہر ممکن کوشش نہیں کرتا وہ بھی امانت کا حق ادا نہیں کرتا.پس ہمہ وقت اس کوشش میں لگے رہنا کہ ہمارے اعضاء اور قویٰ اس حالت میں خدا کی طرف لوٹیں کہ جس حال میں اس نے دئے تھے اس سے جہاں تک ممکن ہو کم درجہ نہ ہوں ورنہ امانت کیسے واپس ہوگی.اگر کسی کی امانت میں سے آپ کچھ کھا چکے ہوں اور پھر وہ واپس کریں تو وہ ٹوٹی پھوٹی دے تو دی امانت کی واپسی کا حق ادا نہیں کیا.آنحضرت صلی اینم کی یہ خاص شان ہے کہ آپ صلی لی ایم نے اپنے تمام قومی کی بہت گہری نظر سے حفاظت فرمائی ہے.اپنے دماغ ، دل ، اپنے اعضاء کی اور اس غرض سے حفاظت فرمائی ہے کہ جب میں اسے خدا کی راہ میں خرچ کروں گا تو جو کچھ مجھے دیا تھا اس سے کم خرچ نہ کروں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کی آخری تعریف یہ فرماتے ہیں: ”اس میں فانی ہوکر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.“ پس آپ کی امانتیں بھی خدا کو تب واپس لوٹیں گی جب آپ اپنے دائرہ میں رہتے ہوئے جو بھی امانتیں آپ کے سپرد کی گئی ہیں پہلے ان کی حفاظت کریں، ان کا خیال رکھیں اور ہر وقت واپسی کے لئے اس پہلو سے تازہ دم رہیں کہ جہاں جہاں بھی اسے واپس کرنے کا حکم آئے اسے اسی طرح واپس کرتے چلے جائیں اور یہ حکم بنی نوع انسان کے تعلق میں بھی آتا ہے.ہمہ وقت بنی نوع انسان پر جو آپ کے حقوق ہیں آپ کے ماحول کے آپ پر حقوق ہیں، آپ کے خاندان کے، آپ کے عزیزوں اور اقرباء کے آپ پر حقوق ہیں ان سب کے حقوق کی ادائیگی امانت کی ادائیگی ہے.پس امانت اس طرح ادا ہوتی ہے کہ پورا رستے میں کام کرتی چلی جاتی ہے، خرچ ہو رہی ہے اور اگر امانت اس طرح ادا نہ ہوتو وہ فائدے کی بجائے نقصان پہنچائے گی.اس کی مثال بجلی کی سی ہے.بجلی کو اگر اس طرح لوٹایا جائے کہ اس کی واپسی کے وقت اس کی طاقت کسی نیک مصرف میں کام آئے تو یہ امانت کا حق ادا کرنے کی ایک بہت اعلیٰ مثال ہے.اب بلب میں سے ہو کر اگر بجلی کی قوت ، بجلی کی رودوسری طرف مائل ہوتی ہے تو رستے میں روشنی پیدا کرتی چلی جارہی ہے اور اگر صحیح رستہ اختیار نہیں کرے گی تو آگ لگ جائے گی اور قوت بھی ضائع ہو جائے گی اور ارد گرد ماحول کو بھی وہ آگ لگا دے گی اور ماحول کو بھی بھسم کر سکتی ہے.پس یہ باریک راہیں ہیں تقویٰ کی جن کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام
خطبات طاہر جلد 17 655 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء نے ہمیں بلایا ہے اور متوجہ فرمایا ہے کہ اپنی امانتوں کو جہاں جہاں بھی خرچ کرتے ہو ، جس مصرف میں بھی لاتے ہو دیکھو کہ ان رستوں کی پیروی کرتی ہوئی گزرتی ہے جن رستوں کی پیروی آنحضرت صلی ا یستم نے فرمائی.چنانچہ آپ صل للہ یہ ستم کا ہرلمحہ بنی نوع انسان کے لئے وقف تھا اور بنی نوع انسان کی ہمدردی میں ایسی ایسی آپ سی نا ہی تم نے نصیحتیں فرما ئیں اور ایسا کردار دکھایا کہ عمر بھر آپ اس پر غور کرتے چلے جائیں اور یہ سرمایہ ختم نہیں ہو سکتا.چودہ سو سال سے زائد عرصہ ہو گیا آنحضرت صلی لا کہ ہم نے نہ صرف خود امانتوں کا حق ادا کیا بلکہ ہمیں بھی بتایا کہ تمہارے بدن کی بھی تم پر یہ یہ امانتیں ہیں اور ان کا اس طرح خیال رکھو.صفائی کی تلقین فرمائی اور ہر قسم کی صفائی کی تلقین فرمائی یہاں تک کہ آپ کے بدن پر ایک میل کا ذرہ بھی باقی نہ رہے.یہ امانت کا حق ادا کرنے میں داخل بات ہے.ایسا بدن ہو تو بیماریوں سے پاک ہوگا.ایسے بدن کو بہت کم خطرہ ہوتا ہے بیماریوں کا لیکن جیسا کہ ایک دفعہ پہلے میں بیان کر چکا ہوں سر کے بالوں سے لے کر پاؤں کے ناخنوں تک جتنے اعضاء اور ان کے بار یک حصے ہیں ہر ایک کے متعلق رسول اللہ لی ایم کی تعلیم موجود ہے.پس دیکھیں امانت کا حق کیسے ادا فرمایا.جو کچھ اپنے پر طاری فرما یا اپنی امت کو ہدایت دی اور قیامت تک کے لئے امت کو اس کا اہل بنا دیا کہ وہ امانت کا حق ادا کر سکے.پھر دل کی حفاظت ، زبان کی حفاظت، دوسرے اعضاء کی اور خواہشات اور تمناؤں کی حفاظت اور پھر اس حفاظت میں دعا ئیں سکھائیں اور دعاؤں کا مضمون بھی زندگی کے ہر شعبہ پر حاوی ہے.اسی طرح اگر آپ امانت کے مضمون کو سمجھیں، آپ کی زندگی ہرلمحہ سنورتی چلی جائے گی، ناممکن ہے کہ ایک مقام پر ٹھہری رہے اور رسول اللہ لال ایام کے حوالہ کے بغیر یہ ہو ہی نہیں سکتا.یعنی اس میں فانی ہو کر اس کی راہ میں وقف کر دیتا ہے.....اور یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتم طور پر ہمارے سید ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی اُمّی صادق مصدوق 66 محمد مصطفی سلیشیا کی تم میں پائی جاتی تھی.“ آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ : 161 تا162) اس میں ایک ایک لفظ قابل توجہ ہے یعنی ایک تعریف کا کلمہ ہے مگر ان تعریف کے کلمات میں ہر ایک میں ہمارے لئے سبق ہے.ہمارے سید اگر ہم آپ صلی ا یہ تم کے پیچھے نہیں چلیں گے تو آپ سنی میں ہی یتم
خطبات طاہر جلد 17 656 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء کو ہمارے سیڈ کیسے کہہ سکتے ہیں.سید تو وہ ہوتا ہے جو قوم کے آگے آگے چلتا ہے.سید وہ ہے جس کی خاطر قوم اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتی ہے.تو اگر چہ سید دوسرے معنوں میں بھی ہیں کہ : سَيِّدُ الْقَوْمِ خَادِمُهُمْ 66 (كنز العمال، الفصل الثاني في آداب السفر.آداب متفرقة، رقم الحديث : 2937) اور ان معنوں میں بھی ایسے سید ہیں کہ کسی سید نے اپنی قوم کی اتنی خدمت نہیں کی ہوگی جتنی رسول اللہ مان لیا ایلیم نے اپنے وقت میں لوگوں کی اور بعد میں آنے والے زمانہ کے سب لوگوں کی خدمت کی ہے.اس سے پہلے جو میں اشارے کر چکا ہوں خدمتوں کے ان کی تفصیل میں جانے کا تو وقت ہی نہیں مگر اکثر لوگ سمجھ چکے ہیں کہ ہر باریک سے بار یک ضرورت پر اس ضرورت کو مہیا کرنا یہ بہترین خادم کا کام ہے اور جیسا اچھا سید ہو گا ویسا ہی اچھا خادم بھی ہوگا اور اس کی جب سردار خدمت کر رہا ہو تو جواباً اپنا سب کچھ اس پر نثار کرنے کو دل چاہتا ہے.جب ماں باپ بچوں کی خدمت کرتے ہیں تو ان کے دل میں یہی جذ بے پیدا ہوتے ہیں تو آنحضرت صلی ایم کے متعلق یہ جو فرما دیا سید تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جب سید کہا تو ان سب بار یک باتوں پر نظر رکھتے ہوئے کہا ہے آپ کا ایک جملہ، ایک فقرہ ، ایک لفظ بھی مغز سے خالی نہیں ہوا کرتا تھا.”ہمارے مولیٰ.مولیٰ ایک تو اس کو کہتے ہیں جو دوست ہو یعنی آنحضرت صلی ایام کا دوست بنے کی کوشش کرو.دوسرے مولیٰ اس کو کہتے ہیں جو مصیبت کے وقت کام آنے والا ہو، جس پر انحصار کیا جاتا ہے اور بھی مولیٰ کے بہت سے معنی ہیں اور مولیٰ کا ایک معنی خادم بھی ہے تو سید کے مضمون میں جو خادم کے معنی ہیں وہ بھی اس لفظ مولیٰ میں آجاتے ہیں مگر مولیٰ وہ ہے حقیقت میں، جس کے سپرد انسان اپنی جان کر دے یعنی جو آقا ہو اور اس کی ہدایت کے بغیر انسان اپنے اعضاء کا کوئی حصہ کسی پہلو پہ بھی خرچ نہ کرے جیسے غلام کو اپنے مالک سے نسبت ہوتی ہے ویسے ہی ایک بندہ کو اپنے مولیٰ سے نسبت ہوتی ہے لیکن لفظ مولیٰ بہت وسیع لفظ ہے.اس کی باریکیوں میں جائیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی سنی ایم سے تعلق کے ہر پہلو کو اس لفظ مولیٰ نے گھیر لیا ہے.خادم والا حصہ تو میں بیان کر چکا ہوں.مولی کیسا کہ ہر وقت خدمت پر مامور اور وہ مولیٰ جو خدمت پر مامور ہو ہمہ وقت انسان کا فرض ہے کہ وہ اس کی خدمت پر مامور رہے پھر جب ضرورت پڑے تو وہ
خطبات طاہر جلد 17 657 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء مدد کو آتا ہے.یہ مدد جو ہے اس دُنیا میں بھی ہے اور آخرت میں بھی ہے کیونکہ اس دُنیا میں جب بھی مصیبت پڑتی ہے اگر آپ آنحضرت مصلی یہ ایہ اہم کا حوالہ دے کر آپ مالی یہ تم پر درود بھیجتے ہوئے دعا کریں تو وہ دعا ئیں زیادہ مقبول ہوتی ہیں.پس یہ محض خیال نہیں ہے کہ اس دُنیا میں اب چودہ سو سال بعد ہماری مدد کیسے کر سکتے ہیں.عملاً مدد کرتے ہیں اور اس مدد کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ایک طریق کار بھی سمجھایا گیا.الہاما آپ کو بتایا گیا کہ یہ دعا کیا کرو: سبحان اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، سُبْحَانَ اللهِ العَظِيمِ.اللّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ 66 (نزول المسیح ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ :586) اگر یہ دعا کرو گے تو تمہاری دعائیں لازما قبول ہوں گی کیونکہ اس دعا اور التجا کوسن کر پھر اللہ اپنی نظر تم سے پھیر نہیں سکتا.یہی طریق حضرت اقدس محمد مصطفی صلی یا پی ایم نے ابن عباس کو سمجھایا ، دوسرے بچوں کو بھی سمجھاتے رہے کہ تمہیں چاہئے کہ تم سب سے پہلے اللہ کی حمد بیان کرو کیونکہ جو کچھ مجھے ملا ہے اسی سے ملا ہے، اس کی تسبیح کے گیت گا ؤ اور اس کے بعد کیونکہ اس کا تعارف میں نے کروایا ہے، جس شان سے وہ مجھ پر جلوہ گر ہوا ہے اور جس شان سے میں نے اسے تم لوگوں سے آشنا کروایا اس کی اور کوئی مثال کہیں دکھائی نہیں دیتی پس فرمایا یہ دو باتیں اکٹھی رکھو تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھی شدید ضرورت کے وقت خدا تعالیٰ نے الہاماً یہ دعا سکھائی کہ خدا کی تسبیح کے گیت گاؤ، اس کی حمد کے گیت گا ؤ اور اس کی عظمت کے گیت گاؤ.یہ دو کلمے ہیں جو زبان پر ہلکے ہونے کے باوجود بہت بھاری ہیں ان پر اگر آپ غور کریں تو جتنا بھی غور کریں گے.آپ کو حیرت ہوتی چلی جائے گی کہ ان میں وسعت کتنی ہے.سُبحان اللہ و بحمدہ اللہ پاک ہے مگر اپنی حمد کے ساتھ پاک ہے.کوئی بھی ایسا منفی پہلو نہیں جو اس میں موجود ہو اور ہر منفی پہلو کے نکل جانے کے نتیجہ میں ایک تعریف کی جگہ خالی ہو جاتی ہے تو سبحان اللہ العظیم کا اصل مفہوم یہ ہے کہ اللہ پاک ہے ان معنوں میں کہ اس میں حمد کے سوا کچھ بھی بھرا ہوا نہیں رہا.تمام تر حمد ہو گیا ہے اور عظمتیں اس کے نتیجہ میں ملتی ہیں.سُبحان اللہ العظیم تو ایک سوچنے والا سوچ سکتا ہے کہ اگر وہ عظیم بنا چاہتا ہے تو اس کی پیروی کرے جو عظیم بنا ہے ان دوخو بیوں کی بناء پر زبردستی عظیم نہیں بنا.
خطبات طاہر جلد 17 658 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء جیسے بعض بادشاہ اپنے آپ کو عظیم کہنے لگ جاتے ہیں.بعض ڈکٹیٹر عظیم بن جاتے ہیں لیکن اپنی صفات کی وجہ سے کوئی تعظیم بن کے دکھائے یہ عظمت ہے.فرمایا وہ دیکھو سُبحان الله وبحمده پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ اور سُبحان الله العظیم وہ عظیم ہے اس سے بڑا ہو ہی نہیں سکتا.میں نے غالباً پہلے بھی بیان کیا تھا کہ یہاں اعظم نہیں فرما یا عظیم فرمایا ہے اور تمام اہل لغت جانتے ہیں کہ عظیم زیادہ بڑا لفظ ہے اعظم کے مقابل پر کیونکہ عظیم کا مطلب ہے کوئی اور ہے ہی نہیں تو اس سے مناسبت کیا ہوگی پھر.ایک ہی ہے جو عظیم ہے اس سے اوپر کا تصور تب ہوا گر کوئی اور بھی عظیم ہو.تو ان معنوں میں اگر آپ لفظ عظیم کی گہرائیوں میں اتریں اور اس کی وسعتوں پر واقعۂ نظر رکھیں تو عظیم سے بڑھ کر عظمت کا کوئی تصور قائم نہیں ہوسکتا.پس آنحضرت صلی ا یہ تم نے جب یہ دعا ہمیں سکھا دی تو لازم تھا کہ آنحضرت صلی ایلام کے او پر درود بھیجا جائے جس نے اتنا بڑا خزانہ ہمیں عطا کر دیا اور چھوٹے سے ایک جملہ میں اتنی وسعتیں بھر دیں کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.پس آنحضرت ملا کہ تم پر درود و سلام بھیجتے ہوئے آپ کو امانت کا حق ادا کرنا آسان ہو جائے گا.اور جب کسی امانت کی ادائیگی میں مشکل پیش آئے گی یا اور بھی دُنیا میں سو قسم کے ہول ہوتے ہیں ، سو قسم کی وحشتیں آپ کو گھیر لیتی ہیں اس وقت رسول اله ساینا یہ تم عملاً ان معنوں میں آپ کی مدد کریں گے کہ اس وقت آپ کی دعائیں قبول ہوں گی اگر آپ نے امن کے حال میں اس دعا کو یا درکھا ہو.پس اس بات کو بھی آپ کو یاد رکھنا چاہئے کہ امانتیں امن کے حال میں واپس کی جاتی ہیں اور امن اور امانت کا ایک گہرا تعلق ہے اور اس کا مقبولیت دعا سے بھی ایک گہرا تعلق ہے.یہ دونوں ایک ہی لفظ ، ایک ہی مادہ سے بنے ہوئے ہیں.جب انسان امن کی حالت میں کوئی چیز واپس کرے تو اس کا مطلب ہے اس نے دل کی گہرائی سے ، محبت کے نتیجہ میں پیش کر دی، جب امن نہ رہے اور پھر وہ واپس کرے تو یہ مجبوری کی واپسی ہے.پس اللہ کی امانت کا حق اسوقت ادا کرو جب کہ تمہیں کوئی حالات کی مجبوری اور حالات کے خوف در پیش نہ ہوں.کوئی خطرہ تمہیں نہ گھیرے ہوئے ہو اس وقت بھی اللہ کی امانت ادا کر رہے ہو تو پھر جب تم خطرہ میں مبتلا ہو گے تو لازماً اللہ تعالیٰ تمہاری حفاظت فرمائے گا.یہ مضمون ہے جو آنحضرت سی یہ یمن کی شان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام تھوڑے لفظوں میں بیان فرماتے ہیں لیکن ان کو سمجھنا ضروری ہے.
خطبات طاہر جلد 17 659 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء پھر فرمایا : ”ہمارے ہادی.ہمارے ہادی میں مولیٰ کا مضمون تو آہی جاتا ہے پھر اس کے علاوہ کیا بات ہے کیونکہ میں نے غور کیا ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارتوں میں کوئی لفظ کلیۃ زائد نہیں ہے.بعض مضامین اس میں ہوتے ہیں، بعض علاوہ مضمون بھی ہوتے ہیں.آنحضرت صل للہ الہ سلم ہر اس شخص کے لئے بادی ہیں خواہ وہ ہدایت پائے یا نہ پائے.پہلا مضمون کامل غلاموں کے حق میں اطلاق پار ہا تھا اور بادی کا مضمون تمام بنی نوع انسان کے حق میں یکساں اطلاق پاتا ہے.آپ سلا می ایستیم نے صحیح رستہ ہی دکھانا ہے اور دو معنے بنتے ہیں اس کے.ایک یہ کہ آپ صل للہ یہ تم صحیح راستے کے سوا کوئی رستہ دکھا ہی نہیں سکتے جب بھی رستہ دکھا ئیں گے صحیح رستہ دکھا ئیں گے اور اس کو بھی دکھائیں گے جو اعراض کرنے والا ہو اور اس کو بھی دکھا ئیں گے جو غلامانہ آ مسالہ ایم کی اطاعت کرنے والا ہو.پس بادی کا لفظ حاوی ہے اور تمام بنی نوع انسان پر حاوی ہے اور ان کی تمام ضرورتوں پر حاوی ہے.چنانچہ جتنے بھی مشرکین ہیں یا خدا کی ہستی کا انکار کرنے والے ہیں یا دوسرے متکبر لوگ ان تمام لوگوں کے لئے ان کی ضرورتوں سے متعلق آنحضرت صلی ہم نے آگاہ فرما دیا ہے، ان کو ہدایت دے دی ہے، یہ کرو گے تو فائدہ اٹھاؤ گے اگر نہیں کرو گے تو تمہارا اپنا نقصان ہے.پس ہمارے ہادی فرما کر آنحضرت مصلای یتیم کی ایک اور شان بیان فرمائی گئی ہے.اور نبی جو سب جانتے ہیں کہ نبی ہیں مگر نبی بمعنی غیب کی خبریں دینے والا.پس آئندہ خطرات سے ہمیں کیسے آگاہ فرمایا اگر آئندہ کے خطرات کی خبریں نہ دی ہوتیں.تو ہر لفظ میں اتنی گہرائی ہے کہ جب میں ڈوب کر دیکھتا ہوں تو میں حیران رہ جاتا ہوں کہ کچھ بھی باقی نہیں چھوڑا.کیا ہے یہ کتاب نہ چھوٹا چھوڑتی ہے نہ بڑا چھوڑتی ہے.قیامت تک کے لئے جتنے بھی خطرات بنی نوع انسان کو در پیش ہو سکتے تھے اس نبی نے ان کی خبریں دی ہیں لیکن یہ نبی کیا ہے ”نبی اُمی“ کلیہ بظاہر تعلیم سے بے بہرہ لیکن امی صادق و مصدوق ایسا اُمتی ہے جس نے خدا کے حق میں ہمیشہ سچ بولا اور پوری سچائی کے ساتھ خدا کی صفات بیان فرما ئیں جو مضمون پہلے گزر چکا ہے اس کے نتیجہ میں مصدوق ہو گیا یعنی خدا تعالیٰ نے اس کی ہر بات کی تائید فرمائی اور ہر بات میں اس کی صداقت کی گواہی دی.اب یہ نبی اقی کے ساتھ صادق و مصدوق ہونا ضروری تھا ورنہ ایک ایسا خبریں دینے والا جس کو ظاہری علم بھی کوئی نہ ہو اس پر جب خبریں پوری ہونگی اس وقت تو اعتماد کیا جا سکے گا مگر اس زمانہ
خطبات طاہر جلد 17 660 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء کے لوگ کیسے اعتماد کر سکتے تھے جو آنحضرت صلی ایام کے زمانہ کے رہنے والے تھے ، اولین مخاطب تو وہی تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نبی اُمّی صادق مصدوق کہہ کر یہ فرما دیا کہ وہ جانتے تھے ان کے سامنے کلام الہی نازل ہورہا تھا کہ ایک اُمتی پر ایک ایسا کلام نازل ہو رہا ہے جو اپنی طرف سے بنا نہیں سکتا اور جو خبریں دیتا ہے وہ صرف دور کی خبریں نہیں نزدیک کی خبریں بھی دیتا ہے اور صادق ہے کیونکہ اس کی گواہی پر ایک خدا کھڑا ہے جو کامل قدرتوں کا مالک ہے.پس آنحضرت صلی یتیم کی خبروں کی شان بڑھانے کے لئے امی کہنا ضروری ہے.ایک شخص جو اپنی طرف سے کچھ بنا سکتا ہی نہیں اور پھر اس کی ہر بات پوری ہو، اس شان سے پوری ہو کہ جس وقت کلام شروع کیا ہے اس وقت سے یہ خبروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے اور جب وفات ہوئی تو یہ خبروں کا سلسلہ بند نہ ہوا اور قیامت تک بند نہیں ہوگا.بے شمار خبریں ہیں جو ہماری زندگیوں میں ہماری نسلوں نے پوری ہوتی دیکھ لی ہیں مگر بے شمار ایسی ہیں اور کوئی علم نہیں کہ وہ اس سے بہت زیادہ ہوں جو ہم نے پوری ہوتی دیکھ لی ہیں.میں یہ اندازہ کرتا ہوں کہ بعد میں آنے والی خبریں ان خبروں سے بہت زیادہ ہیں جن کو ہم نے پورا ہوتا دیکھا ہے کیونکہ ہر دور کا انسان یہی سمجھا کرتا ہے کہ میں نے سب کچھ دیکھ لیا ہے.آنحضرت صلی ا یتیم کے زمانے میں جیسا کہ بعض حدیثوں سے پتا چلتا ہے کہ میں نے اب سب کچھ دیکھ لیا اب میرے ہوتے ہوئے ساری باتیں پوری ہو گئی ہیں حالانکہ بعض باتوں کا معمولی ساحصہ پورا ہوا تھا بہت کچھ پورا ہونے والا باقی تھا.پس آنحضرت سلی ایام قیامت تک صادق و مصدوق بنے رہیں گے اس وجہ سے میرا یہ استنباط ہے کہ ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم نے سب کچھ دیکھ لیا مگر بعض صحابہ بھی تو یہی سمجھا کرتے تھے لیکن بعد کے آنے والے وقت نے بتایا کہ غلط ہے.رسول اللہ صلی سیستم کا احاطہ نہیں ہوسکتا.جس طرح اللہ کے علم کا احاطہ نہیں ہو سکتا اسی طرح جس کو خدا نے اپنا کامل علم بخشا ہے اس کا بھی احاطہ نہیں ہوسکتا.پس قیامت تک آنحضرت صلی ا تم ہمارے سید ، ہمارے مولی، ہمارے ہادی ، نبی امی ،صادق مصدوق بنے رہیں گے.اور آخری بات یہ کہ محمد مصطفی سالیایی ، سب سے زیادہ تعریف کیا گیا خدا کی طرف سے اگر کوئی تھا تو محمل الا السلام تھا اور مصطفی سنی سنا ہی تم تھا.اللہ نے اسے ہر چیز سے نتھار کے اپنے لئے چن لیا.جب اپنے لئے چن لیا تو لازم تھا کہ ہر قسم کے عیوب نقص، معمولی معمولی گردو غبار کے نقش بھی اس
خطبات طاہر جلد 17 661 خطبہ جمعہ 18 ستمبر 1998ء سے دور کر دئے جائیں یہ ہے مصطفی اور آخری بات یہ کہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اسی پر سارا مضمون ختم ہو جاتا ہے امانتوں کا.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت اسی تفصیل کے ساتھ غور کرتے ہوئے اپنی امانتوں کے حق ادا کرنے کی کوشش کرے گی اور باقی جو قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ والا مضمون ہے وہ انشاء اللہ اگلے خطبہ سے شروع کریں گے.
خطبات طاہر جلد 17 663 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یاد الہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں (خطبه جمعه فرموده 25 ستمبر 1998ء بمقام مسجد فضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: قد أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَشِعُونَ وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ.پھر فرمایا: (المومنون: 2 تا4) ان آیات سے متعلق میں نے گزشتہ خطبہ میں بیان کیا تھا کہ شاید گزشتہ خطبہ ہی میں ان کی تفصیل کا بھی موقع مل جائے لیکن جو پہلا مضمون تھا وہ آخر تک جاری رہا.پس آج میں ان آیات کے متعلق احباب جماعت کو ان آیات میں مضمر وہ پیغامات دیتا ہوں جو حضرت اقدس محمد رسول اللہ صل لها المسلم نے بیان فرمائے اور جن کی روشنی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے پھر بہت کچھ لکھا ہے لیکن اس میں سے چند باتیں میں نے چینی ہیں.ان کا وہ ترجمہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے براہین احمدیہ میں تحریر فرما یادہ یہ ہے.یعنی وہ مومن نجات پاگئے جو اپنی نماز اور یاد الہی میں خشوع اور فروتنی اختیار کرتے ہیں اور رقت اور گدازش سے ذکر الہی میں مشغول ہوتے ہیں.“ (براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحه : 187)
خطبات طاہر جلد 17 664 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء اس ترجمہ میں ان آیات کے مرکزی بنیادی امور بیان فرما دئے گئے ہیں اور ان کی تفصیل اب میں آنحضرت صلی یا پی ایم کے الفاظ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت عبد اللہ بن عمر ورضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صل للہ ایم یوں دعا کیا کرتے تھے کہ : ”اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع سے نا آشنا ہو، ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی ، ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا اور ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں.میں ان چاروں چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں.“ ،، (جامع الترمذی، کتاب الدعوات عن رسول الله ﷺ، باب دعاء اللهم انی اعوذبك..- حدیث نمبر : 3482) اب یہ روایت تو اس لحاظ سے بہت قابل غور ہے کہ آنحضرت صلی سیستم جن کی ساری زندگی خشوع و خضوع میں صرف ہوئی آپ صلی ا یہ تم یہ دعا کیوں مانگا کرتے تھے، اللہ کی پناہ کیوں چاہتے تھے؟ اس میں ایک سبق تو یہ ہے کہ ساری عمر پناہ چاہی اسی لئے ساری عمر آپ سالی تا پریتم کی خشوع و خضوع ہی میں صرف ہوئی یعنی خشوع و خضوع کی توفیق ہر لمحہ اللہ کی طرف سے ملتی ہے اس لئے ہر لمحہ اللہ ہی سے پناہ چاہنی چاہئے.پس ایک تو اس حدیث میں یہ نمایاں بات مجھے محسوس ہوئی ہے لیکن دوسری بات جو قابل توجہ ہے وہ یہ ہے کہ ایسے دل سے جو خشوع سے نا آشنا ہو، وہ دل جس کو خشوع کا علم ہی نہیں اس سے پناہ چاہتا ہوں.تو آنحضرت مسی یہ کہ ہم تو اپنے لئے ایسے دل کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے.جو خشوع سے نا آشنا ہو.خشوع تو قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بہت سے ایسے لوگوں کو جن کو کبھی بھی خدا کی خشیت میں رونا نہیں آتا ان کو بھی کبھی کبھی نصیب ہو جاتا ہے تو ایسے دلوں سے جو خشوع سے نا آشنا ہوں ان سے پناہ کیوں مانگی گئی ہے.فی الحقیقت اس میں آئندہ زمانہ میں آنے والے ایسے مادہ پرست دلوں کا ذکر ہے جن کے اوپر کبھی بھی خدا تعالیٰ کی خشیت سے، اس کے خشوع سے رقت طاری نہیں ہوتی اور آج یہ مضمون ہمیں تمام دنیا میں پھیلا ہوا دکھائی دے رہا ہے.بھاری اکثریت انسانوں کی ہے جو اور باتوں پر تو رو پڑتے ہیں مگر اللہ کے خشوع سے کبھی نہیں روتے.امریکہ ہو یا چین یا جاپان یا یورپ کی بڑی بڑی طاقتیں ان کے سربراہ، ان کے سیاستدانوں سب پر یہ آیت چسپاں ہوتی ہے.آپ نے کبھی بھی ان کو اللہ کے ذکر سے روتے نہیں دیکھا ہوگا.آنحضور صلی ا یلتم فرمارہے ہیں وہ اس سے نا آشنا ہیں ان
خطبات طاہر جلد 17 665 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء کو علم ہی کوئی نہیں کہ ذکر الہی کیا ہوتا ہے اور یہ بناء ہے کہ اس ذکر کی وجہ سے تم کبھی بھی ان کی آنکھیں ڈبڈبائی ہوئی نہیں دیکھو گے.ان سے پناہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنی امت کو یہ نصیحت فرمائی گئی ہے کہ ان کے اثرات سے خدا کی پناہ مانگنا.اگر تم ایسا نہیں کرو گے تو ہر گز بعید نہیں کہ تم بھی رفتہ رفتہ انہی کے رنگ میں ڈھلتے چلے جاؤ گے اور ویسے ہی دل تمہارے دل بھی ہو جائیں گے.یہ امر واقعہ ہے کہ وہ بھاری تعداد مسلمانوں کی جو ان لوگوں سے متاثر ہیں اور دُنیا طلبی میں ان کی ساری زندگی خرچ ہو رہی ہے وہ ذکر الہی میں خشوع سے نا آشنا ہیں.کبھی کبھی یہ معلوم ہوتا ہے کہ شایدان کے دل میں بھی خشوع ہے یعنی اس وقت جبکہ وہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ میں حاضر ہوتے ہیں تو ان میں سے بھی بہت سے لوگوں کی آپ چنیں نکلتے دیکھیں گے لیکن اس خشوع میں اور ان دلوں میں جو خشوع سے عاری ہیں بہت بڑا فرق ہے.وجہ یہ ہے کہ اس وقت وہ خدا کی محبت میں نہیں روتے ، اپنی ضرورت کے لئے روتے ہیں اور سارے سال کے جو اپنے گناہ یاد آ جاتے ہیں ان پر روتے ہیں مگر خشوع میں رونا محبت الہی کی وجہ سے ہے.یہ بنیاد ہے اس رونے کی اور آنحضرت سلی یہ تم محبت الہی کی وجہ سے رویا کرتے تھے اور یہ ایک ایسا رونا ہے جو بے اختیار ہے جب ذکر چل پڑے تو آنکھیں ڈبڈبا جاتی ہیں.ایسے آخر زمانہ سے آنحضرت ملا ہی ہم نے پناہ مانگی ہے جس زمانہ میں ایسے دل ہوں گے اور میں سمجھتا ہوں کہ امت محمدیہ صل للہ الی یتیم کے لئے ایک بہت بڑی تنبیہ ہے.چنانچہ پھر فرمایا: ”ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی.اب میں نے ذکر کیا تھا کہ وہ دعا ئیں بہت مانگتے ہیں اپنی ضرورت کے وقت مصیبت میں مبتلا ہو کر بظاہر روتے اور چلاتے ہیں مگر جن کے دل اللہ کی محبت کی وجہ سے رونا نہ جانتے ہوں ان کی دعائیں سنی نہیں جاتیں.پس فرمایا ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی.اب آپ دیکھ لیں کہ آنحضرت صلی اللہ یتیم لازما اپنے متعلق بات نہیں کر رہے کیونکہ آپ سائی یتم کی دعا تو ہمیشہ ہرلمحہ سنی جاتی ہے.دعا دل میں پیدا ہونے سے پہلے بھی سنی جاتی تھی.کیا آنحضرت مال لا الہ اتم پر وہ آیات نازل نہیں ہوئیں جن میں حضرت ذکریا کا ذکر تھا اور فرمایا گیا کہ وَلَمْ أَكُن بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (مریم :5) اے میرے رب میں نے کبھی بھی اپنی دعا کی قبولیت کے بارے میں جو تیرے حضور کی گئی ہو اپنے آپ کو بدنصیب نہیں پایا.ہر دعا جو کی وہ ہر دعا تو نے سنی.پس آنحضرت صلی الا یہ تم خود اپنے لئے ایسے دل سے کیسے پناہ مانگ سکتے ہیں.تو یہ مضمون متعلق ہے یہ سارا سلسلہ اسی آخری
خطبات طاہر جلد 17 666 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء دور کا چل رہا ہے جس میں لوگ اللہ کی خشیت کی وجہ سے اور خشیت اور خشوع و خضوع ان دونوں کو عرب اہل لغات نے ہم معنی قرار دیا ہے.اس پہلو سے کہ خشوع کے اندر خشیت یعنی اللہ کا خوف شامل ہے اور اس کی محبت بھی شامل ہے لیکن خشیت میں صرف محبت شامل نہیں تو خشوع ایک حاوی لفظ ہے جو بہت وسیع معنوں پر اطلاق پاتا ہے.اس پہلو سے ایسی دعا سے جو سنی نہیں جاتی آنحضرت ملا لیا نیستم یقیناً ان لوگوں کی باتیں فرما رہے ہیں جو آئندہ زمانہ میں کبھی کبھی نمازوں میں گریہ وزاری کرتے ہوئے دکھائی دیں گے مگر چونکہ محبت الہی کی وجہ سے ان کی گریہ وزاری نہیں اس لئے ان کی ایک نمایاں علامت ہوگی کہ ان کی دعائیں سنی نہیں جاتیں اور سنی نہیں جائیں گی اور بڑی بھاری تعداد ایسے لوگوں کی ملتی ہے وہ دعائیں کرتے ہیں، روتے پیٹتے ہیں، مگرسنی نہیں جاتیں.پھر شکوہ کر کے اور بھی خدا سے دور ہٹ جاتے ہیں وہ کہتے ہیں کیا فائدہ اس رونے پیٹنے کا.جب وہ ہماری سنتا ہی نہیں اور بعض احمق نوجوان احمدیوں میں بھی ایسے نظر آ جاتے ہیں کہیں کہیں جنہوں نے اپنے امتحان کے لئے دعائیں مانگیں اور روئے پیٹے اور آخر یہ نمازیں بھی چھوڑ بیٹھے کہ ہم نے تو دعا مانگی تھی وہ قبول نہیں ہوئی اس لئے نمازوں کا فائدہ ہی کوئی نہیں.تو یہ انہی سب کا ذکر ہے، انہی کو متنبہ کیا جارہا ہے کہ جب امن کی حالت میں تمہیں اللہ کی محبت میں رونا نہیں آیا کرتا تھا تو اب اپنے مقصد کے لئے جو اس کے پاس جا کے چلاتے ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں.ایسی دعا ئیں نہیں سنی جائیں گی.یہ قطعیت کے ساتھ پیشگوئی ہے اس لئے کوئی اس تقدیر الہی کو تبدیل نہیں کر سکتا.پھر فرمایا: ”ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا.“ تو آنحضرت سی ایم کی سیری تو ایسی سیری تھی کہ دنیا ومافیہا کا سب کچھ آپ صلی شما یہ تم کو عطا کیا گیا مگر آپ صلی ہیں یہ تم نے اس سے استغناء فرمایا.آپ صلی یم کی ساری زندگی سیری کی ایسی مثال پیش کرتی ہے کہ کبھی دُنیا کے کسی نبی نے ایسی مثال پیش نہیں کی.تو آپ صلی ا سلم فرمارہے ہیں ایسے نفس سے جو سیر نہیں ہوتا.لازم ہے کہ اپنا نفس مراد نہیں ہے.وہی دُنیا مراد ہے جس دُنیا کی باتیں فرما رہے ہیں یعنی آئندہ آنے والی دُنیا اور وہ دُنیا سیر نہیں ہوگی.مادہ پرست سیر ہوتا ہی نہیں وہ جتنا زیادہ مانگے اگر وہ مانگا ہوا بھی سارا اُس کو دے دیا جائے تو وہ سیر نہیں ہوگا ، مزید چاہے گا کیونکہ اس کی مثال جہنم کی سی ہے جس کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے وہ کہے گی هَلْ مِنْ مَزِيدٍ (3: 31) جب بھی خدا ایندھن جھونکے گا تو وہ پوچھے گی کہ
خطبات طاہر جلد 17 667 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء اے خدا اور بھی کچھ ہے تو وہ بھی ڈال دے.پس یہ متقیوں کے نفس کی بات ہر گز نہیں ہو رہی ، اولیاء کے نفس کی بات ہر گز نہیں ہورہی، ان کے نفس کی بات بھی نہیں ہو رہی جو کچھ نہ کچھ ایمان رکھتے ہوں.کلیۂ ایمان سے نابلد لوگوں کی باتیں ہو رہی ہیں.فرمایا کہ ان کا نفس سیر نہیں ہوسکتا.پس ان کی دعا سنی بھی جائے تو هَلْ مِن مزید کی آوازیں اٹھتی رہیں گی.اور پھر : "ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں ہوتا.میں ایسے علم سے پناہ مانگتا ہوں جس کا فائدہ دوسروں کو نہ پہنچے حالانکہ حضرت رسول اللہ لایا کہ تم کو جوبھی علم تھا دین کا یا دُنیا کا آپ صلی ہیں کہ ہم نے کلینڈ بنی نوع انسان کے لئے وقف کر دیا تھا اور اپنی امت کو بھی یہی نصیحت فرماتے رہے کہ جتنا علم ہے وہ سارا بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے خرچ کرو اور قرآن کریم ان آیات سے بھرا پڑا ہے جن کا مضمون یہ ہے کہ وَمِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (البقرة:4) جو کچھ بھی ہم ان کو دیتے ہیں وہ اس میں سے خرچ کرتے چلے جاتے ہیں.تو دیکھیں یہ کیسے ممکن ہے کہ آنحضور صلی ہم نے اولیاء تو در کنار اپنی امت کے عام لوگوں کے متعلق بھی یہ خطرہ محسوس کیا ہو مگر اس زمانہ کے لوگ جو دُنیا پرست ہو چکے ہوں گے وہ اپنے آپ کو امت سمجھیں گے مگر وہ امت ہوں گے نہیں ان کی باتیں ہو رہی ہیں اور جو دُنیا میں اپنے آپ کو اپنی تمناؤں ، اپنی خواہشات کو جھونک دے، اس کا علم لوگوں کے لئے نفع رساں نہیں ہوتا.اب اس میں بظاہر ان حالات سے جو آج کل ہیں ایک تضا د سا دکھائی دے رہا ہے.دُنیا پرست ہی ہیں جنہوں نے اتنے علوم ایجاد بھی کئے اور اتنے علوم میں غیر معمولی ترقی بھی کی اور اس کے نتیجہ میں جو کثرت سے ایجادات کی ہیں وہ ساری نفع رساں ہیں.آج کوئی بھی ایسی ایجاد نہیں جس کا آغاز اہل مغرب سے نہ ہوا ہو.اس سے بہت پہلے آپ مسلمان دانشوروں کی باتیں تاریخ میں تو پڑھتے ہیں لیکن فی زمانہ جو علم پھیلا ہوا ہے جس کے بے شمار فوائد ہیں آپ اس علم میں اہل مغرب ہی کے محتاج ہیں جو دہریت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں جنہوں نے دُنیا کو مادہ پرستی سکھائی.تو یہ ایک مسئلہ حل ہونے والا باقی ہے کہ ایسے علم سے جو نفع رساں نہیں کیا ان تینوں سے یہ الگ لوگ ہیں حالانکہ ایک ہی مضمون بیان ہو رہا ہے.درحقیقت ان کا علم نفع پہنچانے کی خاطر نہیں بلکہ نفع حاصل کرنے کی خاطر ہے.یہ چھوٹا سا بل دے دیں بات کو تو اصل حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی.جتنے علوم دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں، جتنی بڑی بڑی یونیورسٹیاں ہیں، جتنی بڑی بڑی لمبی تحقیقات ہو رہی
خطبات طاہر جلد 17 668 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء ہیں ان سب کا آخر مقصد یہ ہے کہ ہم نفع اٹھائیں ، نہ یہ کہ دنیا کو نفع پہنچا ئیں.کون سا علم ہے، کونسی سائنس ہے جو دنیا کو نفع پہنچانے کی خاطر ایجاد ہوئی ہے.نفع حاصل کرنے کی خاطر ہے اسی وجہ سے پیٹینٹ (Patent) چلتے ہیں اور نئی دوائیں ایجاد ہوتی ہیں جو بے انتہا مہنگی مگر چونکہ ایجاد کرنے میں خرچ اسی لئے کیا گیا تھا کہ ہم اس سے فائدہ اٹھا ئیں اس لئے وہ اپنا حق سمجھتے ہیں کہ بنی نوع انسان کو تب فائدہ پہنچے جب ان کا منافع ہماری جیبوں میں داخل ہو جائے.چند دن ہوئے اس قسم کی بخشیں یہاں انگلستان کے دانشوروں میں اٹھائی گئیں تو بعض دانشوروں نے اصل حقیقت کو پکڑ لیا اور اتنی جرات دکھائی کہ کھل کر بات کر سکیں.انہوں نے کہا اصل خرابی یہ ہے کہ ہم سب خود غرضی میں کرتے ہیں.آج ہمیں ایک ایسے نئے دور کی ضرورت ہے اور انہوں نے انگلستان کو دعوت دی کہ یہ دور انگلستان سے شروع ہو تو اس انقلابی دور کا سہرا انگلستان کے ہاتھ میں آجائے گا کہ وہ اپنے دل ٹول کر ایسی باتیں کریں، ایسی حکمت عملی بنا ئیں جس سے واقعہ بنی نوع انسان کا فائدہ پیش نظر ہو اور اس کی پہچان یہ ہوگی کہ اس فائدہ کے دوران اپنا نقصان بھی ہو تو اس کو برداشت کریں.یہ وہ مرکزی حکمت کی بات ہے جو قرآن وحدیث کے حوالہ سے میں بڑی دیر سے ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہا ہوں اور مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اب یہاں سے بھی وہ آواز اٹھنے لگی ہے.اس دُنیا کے حالات تبدیل ہو ہی نہیں سکتے جب تک اس مرکزی نکتہ کو آپ نہ سمجھ جائیں کہ ایسی کوششوں ، ایسی مساعی سے پناہ مانگیں کہ جو بنی نوع انسان کے فائدہ کے لئے نہیں بلکہ اپنے فائدہ کے لئے ہوں.پھر فرمایا: "أَعُوذُ بِكَ مِنْ هَؤُلاءِ الأَرْبَع " میں ان چار چیزوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں.اگر ان چاروں چیزوں سے اللہ کی پناہ مل جائے تو پھر باقی کچھ بھی نہیں رہتا.ایسے ہی لوگ ہیں جو فلاح پانے والے ہیں.جن کی دنیا ہی نہیں بلکہ آخرت بھی سنور جاتی ہے.پس جماعت احمدیہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے کیا ہم بھی جو جو کوششیں کرتے ہیں اس کا آخری مقصد محض اپنے آپ کو فائدہ پہنچانا تو نہیں، کیا ہماری جستجو ، ہماری تحقیقات ، ہماری کوششیں اس لئے وقف ہیں کہ لوگوں کو فائدہ پہنچا کر اللہ کی رضا حاصل کریں تو یہ خشیت ہے، یہ خشوع ہے.ہر چیز میں اللہ کی رضا حاصل کرنے کی خاطر بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاتے چلے جائیں کیونکہ اللہ ان بندوں سے محبت کرتا ہے جو اس کی خاطر اس کے بندوں سے محبت کرتے ہیں اور جو اس کی خاطر اس کے بندوں کے لئے مختلف نفع بخش تدبیریں
خطبات طاہر جلد 17 669 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء سوچتے رہتے ہیں.پس آپ کا ہر علم اس کام کے لئے وقف ہو جانا چاہئے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت احمد یہ اس نصیحت کو بڑے غور سے سمجھے گی اور اپنے پلے باندھ لے گی.جہاں تک خشوع کا تعلق ہے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ راتوں کوچھپ کر ہی خدا کے حضور رونا خشوع ہے اور دن کو خدا کے حضور رونا خشوع نہیں ہے، یہ بات درست نہیں ہے.اللہ کی یاد جب دل پر قبضہ کر جائے اور انسان اس کے لئے اپنے آپ کو دنیا سے الگ کر لے تو اس وقت خشوع پیدا ہونا ایک لازمی حصہ ہے.آنحضور صلی اما اینم کے متعلق بھی ایسی روایات کثرت سے ملتی ہیں جن میں رات کی خشوع کا ذکر ہے یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی یا دوسری امہات المومنین کی کہ رات کو چھپ کر آپ صلی ای یتیم خدا کے حضور رویا کرتے تھے مگر ان روایات کی طرف لوگوں کی توجہ نہیں جہاں دن کے وقت آپ صلی له ای نیم کے خشوع کا ذکر بھی ملتا ہے.چنانچہ انہی روایات میں سے ایک روایت مسند احمد بن حنبل سے میں نے اخذ کی ہے.باب ما جاء فی بکاء رسول اللہ ﷺ.وہ باب جو آنحضرت صلی ال ایتم کی آہ و بکا کے متعلق ہے کس طرح آپ گریہ وزاری کیا کرتے تھے.حضرت مطرف رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ : میں آنحضرت صلی للہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ صلی لا الہ الم نماز پڑھ رہے تھے.“ اب دو باتیں اس میں قابل توجہ ہیں.آدھی رات کو اٹھ کے تو نہیں لوگ سیدھا رسول اللہ صلی یتیم کے خلوت خانوں میں چلے جایا کرتے تھے.یہ تو ناممکن ہے.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.پھر دوسری بات یہ کہ وہ پبلک جگہ تھی غالباً مسجد تھی جہاں ہر کس و ناکس جا سکتا تھا.تو حضرت مطرف روایت کرتے ہیں اپنے باپ سے کہ: میں آنحضرت صلی شما اینم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ سال یا آیتم نماز پڑھ رہے تھے.آپ صلی ایم کے سینہ مبارک سے اللہ تعالیٰ کے حضور رونے کی وجہ سے ہنڈیا کے ابلنے کی جیسی آواز آرہی تھی.“ : (مسند احمد بن حنبل، حدیث مطرف بن عبد اللہ عن ابیہ ،مندنمبر :16326) پس یہ جس طرح ہنڈیا ابلتی ہے یہ نقشہ حضرت عائشہ صدیقہ نے بھی آنحضور سی ال ایام کے رونے کے متعلق بیان فرمایا ہوا ہے جو رات کے وقت تھا.دن کو بھی آپ صلی یہ تم کے سینہ مبارک کا یہی حال ہوتا
خطبات طاہر جلد 17 670 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء تھا اور بعینہ وہی لفظ ایک اور راوی جس نے دن کو آپ صلی یا ایہام کو دیکھا استعمال کر رہا ہے.اس سے پتا چلتا ہے کہ اس سے بہتر آنحضور صل للہ ایم کے قلب کی حالت کے بیان کے لئے اور کوئی محاورہ نظر نہیں آتا.جو محاورہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کو سوجھا بعینہ وہی محاورہ حضرت مطرف کے والد نے استعمال فرمایا.چنانچہ کہتے ہیں کہ آپ صلی ای ایم کے سینہ مبارک سے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز جیسی آواز آرہی تھی.پس نمازوں میں اس قسم کا رونا اختیار کرنا چاہئے مگر جب میں کہتا ہوں اختیار کرنا چاہئے تو اس کے نتیجہ میں مجھے ایک خوف بھی پیدا ہوتا ہے.آنحضور صلی لایم جس حالت میں بھی گریہ وزاری کر رہے تھے دکھانا مقصود نہیں تھا اور سنانا مقصود نہیں تھا لیکن بعض دفعہ لوگوں کے رونے کی اور چلانے کی آواز اس طرح آتی ہے کہ گویا وہ خدا کی طرف توجہ کرنے سے زیادہ اپنی توجہ مبذول کروا ر ہے ہیں.ایسی حالت میں آوازوں کو دبانا چاہئے.یہ مثال ہے اصل میں اس کے اندر یہ مضمون داخل ہے.ہنڈیا کے اہلنے کی آواز جب قریب جاؤ تو آیا کرتی ہے.دوسرے ہنڈیا کی چیخوں کی آواز آپ نہیں سنا کرتے.پس وہ چیخ و چہاڑ جو بعض لوگ نمازوں میں مچاتے ہیں وہ تو سب نماز پڑھنے والوں کی نمازیں خراب کر دیتی ہیں.جب نمازوں کے علاوہ کوئی دعا ہو اور اس میں بے اختیار چیخ نکل جائے تو اس پر کوئی حرف نہیں لیکن خصوصیت سے نماز کے وقت چیخوں سے اجتناب لازم ہے کیونکہ اس سے دوسرے تمام نمازیوں کی نماز خراب ہو جاتی ہے اور یوں لگتا ہے کہ صرف چند ہی ہیں جو رونے پیٹنے والے ہیں باقی سب کو خشوع کا علم ہی کچھ نہیں.یہ غلط ہے.اس لئے ہنڈیا کے اُبلنے کے مضمون کو پیش نظر رکھیں اور یا درکھیں جب دل میں گڑ گڑاہٹ اٹھتی ہے تو قریب کے لوگوں کو اس کی آواز بھی آجائے گی مگر اس وقت اپنے اوپر ضبط کرنا اور چیخیں نہ مارنا بتا رہا ہے کہ جو گڑ گڑاہٹ کی آواز ہے وہ بے اختیاری کی حالت ہے اس کو دبایا جاہی نہیں سکتا.جس طرح وہ آنسو جو بے اختیار نکل آئیں ان کو لوگ آخر دیکھ ہی لیتے ہیں مگر جن پہ کوئی اختیار نہ رہے وہ آنسو ہیں جو خدا کی محبت میں بہنے والے آنسو ہیں از خود پھوٹتے ہیں اور پھر دیکھنے والے دیکھتے بھی ہیں.ایک اور روایت حضرت ابو امامہ سے اخذ کی گئی ہے یعنی ان کی یہ روایت ہے.ابوامامہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اینم نے فرمایا کہ: اللہ کے نزدیک دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسندیدہ نہیں.“
خطبات طاہر جلد 17 671 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء اب دو قطرے اور دونشان کتنی چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں مگر اللہ کی پسند کیا ہے.دو قطرے اور دونشان.یہ قطرے جس کو نصیب ہو جا ئیں وہ فلاح پا جائے گا.اور یہ نشان جس کے بدن پر لگ جائیں وہ یاد رکھے کہ ہمیشہ اللہ ان نشانات کو پیار اور محبت سے دیکھتا ہے.اس لئے کہ اللہ کو تو ہم سے کچھ بھی نہیں چاہئے سوائے سچے عشق اور سچی محبتوں کی علامتوں کے.ہمیں اس سے سب کچھ چاہئے.پس جب وہ ان چھوٹی چھوٹی چیزوں کی بھی اتنی قدر فرماتا ہے آنحضور صلی ایام فرماتے ہیں کہ اس سے زیادہ اللہ کو کوئی چیز بھی پیاری نہیں.اس سے اندازہ کریں کہ ہم اپنی زندگی کو اس طرح ڈھال سکتے ہیں کہ ہر حال میں زندگی کے ہر لمحہ میں اللہ کی نظر ہم پر پڑتی رہے.قطرے تو ضروری نہیں ہمیشہ جاری رہیں مگر ساتھ ہی آنحضور سیا ہم نے ان نشانوں کا ذکر فرما دیا جو ہمیشہ رہتے ہیں تو اللہ کبھی بھی آپ سے غافل نہیں رہتا حالانکہ آپ بسا اوقات اللہ سے غافل ہو جایا کرتے ہیں.یہ اس پہلو سے بہت ہی دلچسپ حدیث ہے اب میں اس کی تفصیل پڑھ کے سناتا ہوں.اللہ تعالیٰ کے نزدیک دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسند یدہ نہیں.ایک خدا تعالیٰ کی خشیت کی وجہ سے آنسوؤں کا قطرہ.(ایک قطرہ جو زندگی میں کبھی کبھی بھی بہایا جا سکتا ہے فرما یا اللہ کو وہ قطرہ عزیز ہے ) دوسرا خدا تعالیٰ کی راہ میں بہایا جانے والا خون کا قطرہ.“ (جامع الترمذی، کتاب فضائل الجهاد عن رسول الله ﷺ باب ماجاء في فضل المرابط ، حدیث نمبر : 1669) یعنی جو شہید ہو جاتے ہیں ان کے تو سارے خون بہہ جاتے ہیں مگر اللہ کی راہ میں اگر خون کا ایک قطرہ بھی ہے تو وہ قطرہ بھی اللہ کو عزیز ہے.اس سے آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ شہداء کا خون جو بہتا ہے وہ خدا کو کیسا عزیز ہوگا.پس یہ خون کا قطرہ تو ہر ایک کو نصیب نہیں ہے جو خدا کی راہ میں بہایا جائے.آنسوؤں کا قطرہ نصیب ہوتا ہے مگر وہ بھی ہمیشہ نہیں اور یہ خون کا قطرہ تو کچھ خوش نصیبوں ہی کو ملا کرتا ہے.چنانچہ جماعت احمدیہ پاکستان پر اللہ تعالیٰ کا یہ بڑا احسان اور بڑا فضل ہے کہ وہاں ہزار ہا ایسے احمدی ہیں جن کو خدا کی راہ میں کچھ خون بہانے یا کم سے کم خون کا ایک قطرہ بہانے کا موقع ضرور عطا ہو گیا ہے.اس پہلو سے یہ ایک عظیم سعادت ہے جس کی کوئی مثال آپ کو دُنیا میں دکھائی نہیں دے گی کہ اس کثرت سے ایک قوم ہو جس میں ہزارہا لوگوں کو اللہ کی خاطر اپنا خون بہانے کی
خطبات طاہر جلد 17 672 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء سعادت نصیب ہوگئی.اس کے برعکس آپ کو دُنیا میں اور بھی بہت سے فوج کش مسلمان دکھائی دیتے ہیں جو آپس میں بھی لڑتے ہیں اور بعض دفعہ دوسروں کے خلاف بھی فوج کشی کرتے ہیں یا فوج کشی نہیں بھی کرتے تو فساد برپا کرنے کے لئے بم کے دھماکے ضرور کر دیتے ہیں.جو ظلم کرنے والے یا فوج کشی کرنے والے ہیں ان کے خون کے قطروں کا یہ ذکر نہیں ہے، نہ ان خون کے قطروں کا ذکر ہے جن کو بعض ظالموں نے اڑا دیا کیونکہ خدا کی خاطر ایسا نہیں کیا گیا.یادرکھیں یہاں خدا کی خاطر قطرہ بہانے والوں کا ذکر ہے.پس اس پہلو سے اگر آپ طالبان کی بات کریں تو طالبان جو خون بہاتے ہیں وہ خدا کے منشاء کے خلاف بہاتے ہیں.اس لئے ان کا اپنا بہنے والا خون کیسے خدا کی رضا جوئی کا موجب بن سکتا ہے جن کی زندگیاں وقف ہوں لوگوں پر ظلم کرنے کے لئے اور ناحق خون بہانے کے لئے.اگر اس سلسلہ میں ان کا خون بہتا ہے تو ضائع ہو رہا ہے.وہ زمین کو گندہ کر رہا ہے کیونکہ ہر وہ خون کا قطرہ جو خدا کی منشاء کے خلاف بہایا جائے وہ اس کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے اس کی رضا جوئی کا موجب نہیں ہوتا.پس ایسی مثالوں سے آپ معاملہ کو مشتبہ نہ ہونے دیں.ایسے لاکھوں ہیں جو اس طرح بظاہر خدا کی خاطر جہاد کرنے کے لئے نکلتے ہیں لیکن ان کے جہاد کے مقصد فتوحات ہیں جو سیاسی فتوحات ہیں، ان کے جہاد کے مقاصد میں اگر دینی فتوحات ہیں تو ایسی فتوحات ہیں جو آنحضرت سائینی پیہم کے علم میں بھی نہیں تھیں کہ ایسی فتوحات کو اسلامی کہا جا سکتا ہے.ٹیریٹوریل (Territorial ) یعنی جغرافیائی فتوحات ہیں اور جہاں یہ کہتے ہیں کہ ہم اسلام کی خاطر لڑ رہے ہیں وہاں اسلام کو جبراً نافذ کرنے کی کوشش میں لڑتے ہیں.اب یہ جبراً اسلام کا نفاذ جو ہے یہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ سلیم کی سنت سے اس طرح ٹکرا رہا ہے کہ آپس میں کوئی دور کا بھی تعلق نہیں.لا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة: 257) کی آیت سے ٹکرا رہا ہے لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ (الكفرون: 7) کی آیت سے ٹکرا رہا ہے.پس یہ اچھی طرح پیش نظر رکھ لیں کہ خدا کی خاطر دین کو جبراً نافذ کرنا خدمت دین نہیں ہے.یہ دین سے شدید دشمنی ہے کیونکہ جن لوگوں پر جبر ادین نافذ کیا جائے ان کے دل میں دین سے سخت تنفر پیدا ہوتا ہے اور وہ ایسے ملکوں سے بھاگتے ہیں جہاں یہ ہو رہا ہے.بہت سے پناہ گزین آپ کو جو لاکھوں کی تعداد میں ہیں افغانستان سے بھاگے ہوئے جرمنی یا دوسرے ملکوں میں ملتے ہیں ان سے آپ پوچھ کے
خطبات طاہر جلد 17 673 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء دیکھ لیں وہ خدا کے نام پر جبر سے بھاگے ہیں اور ان کو اس جبر نے دینی پہلو سے ذرہ بھی فائدہ نہ دیا.اگر وہ تلوار سے ڈر کر کوئی عبادات بظاہر خدا کی خاطر بجالا رہے ہوں وہ تو تلوار کی عبادات ہیں، ان کا خدا سے کوئی بھی تعلق نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ جب بھاگتے ہیں تو ایسی قوموں کی طرف بھاگتے ہیں جن کا واقعہ خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا یعنی خدا کے نام پر جبر تو نہیں کرتے مگر ایسے لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں جو خدا سے ڈر کے بھاگے ہوئے ہوں یا خدا والوں سے ڈر کر بھاگے ہوئے ہوں اور اس کے نتیجہ میں کلیہ مادہ پرست بنادیتے ہیں.پس ایسی قوموں کا میں نے مطالعہ کیا ہے، خصوصاً جرمنی میں بکثرت آباد ہیں، وہ اکثر پھر مادہ پرست ہو جاتی ہیں اور اگر دین نام کی کوئی چیز ان کے اوپر مسلط بھی ہو تو وہ بھی جبری دین ہے.پس یہ چیزیں دین کا حلیہ بگاڑنے والی چیزیں ہیں.آنحضرت صلی سیستم جس قطرہ خون کی باتیں کر رہے ہیں ان کا آج کی دُنیا میں مسلمانوں میں بھی نشان دکھائی نہیں دیتا.اگر ہے تو ان احمدیوں پر اطلاق ہونے والا یہ فرمان نبوی ہے جن کا روزانہ دین کے رستہ میں خدا کی خاطر خون بہایا جاتا ہے.کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پاکستان میں کسی نہ کسی طرح احمدیوں کا خون نہ بہایا جا رہا ہو.عوام ان کو مارتے ہیں ، مولوی اٹھاتے ہیں ان عوام کو کہ ان کو مارو، ان پر پتھراؤ کیا جاتا ہے، ان کو گلیوں میں گھسیٹا جاتا ہے، ان پر چاقوؤں سے حملے کئے جاتے ہیں.یہ سب کچھ ہو رہا ہے لیکن اس سے بہت زیادہ چیز میں اس قوم کو خدا تعالیٰ سبق کے طور پر دکھلا بھی رہا ہے اور احمدیوں کو یہ فرق پیش نظر رکھنا چاہئے کہ ان کے قطرے تو خدا کے ہاں مقبول ہیں لیکن جن کے خون شنوں کے حساب سے بہائے جا رہے ہیں ان کا ایک بھی قطرہ خدا کو مقبول نہیں.کتنے خوش نصیب ہیں کہ وہ ان میں نہیں بلکہ ان میں شامل ہیں جو خدا کی خاطر خون بہاتے ہیں.پس آنحضور صلی نام کی اس حدیث کو میں دوبارہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرمایا: ” دوسرا خدا تعالیٰ کی راہ میں بہایا جانے والا خون کا قطرہ “ اور خون کا ایک قطرہ محاورہ اس بات کی طرف بھی اشارہ کر رہا ہے کہ بہت کم خون بہانے والے ہوں گے.وہ آئندہ زمانہ جس کی باتیں ہو رہی ہیں ان میں شاذ ہی خدا کی خاطر خون کے قطرے آنکھوں سے بہیں گے یا جسموں سے بہیں گے تو جب ایک چیز کم ہو جائے تو اس کی قدر بڑھ جایا کرتی ہے.پس اس پہلو سے اس حدیث کا یہ معنی ہوگا کہ جس دور میں اللہ کے نزدیک اللہ کی خاطر خون بہانے والے بہت کم رہ جائیں گے تو اللہ قطرے قطرے پر پیار
خطبات طاہر جلد 17 674 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء کی نظر ر کھے گا.اگر پیاسا ہوتو وہ بعض دفعہ شبنم کا ایک قطرہ بھی چاہتا ہے خواہ اس سے پیاس بجھے نہ بجھے مگر اللہ نے تو محبت سے اس کو چنا ہے پیاس بجھانے کی خاطر تو نہیں.اس لئے قطرہ قطرہ پر نظر رکھے گا.اس خون کے قطرہ پر جو خدا کی خاطر بہایا جا رہا ہے لیکن جو دوسری بات میں نے کہی تھی وہ نشان، وہ نشان کیا ہے؟ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ پیشانی پر جو نشان پڑتا ہے یہ وہ نشان ہے جوخدا کی خاطر لگایا جاتا ہے.بعض لوگ نہ بھی کوشش کریں تو کبھی ان کے نشان پڑ بھی جاتا ہے مگر ایک نشان ہے جو خالصہ اللہ کی عبادت کرنے والوں کے جسم پر بھی پڑتا ہے اور عام عبادت کرنے والوں کے جسم پر بھی پڑتا ہے اس سے کوئی مستقی نہیں ہے اس لئے نہیں کہا جا سکتا کہ فلاں نے دکھاوے کی خاطر یہ نشان ڈالا اور فلاں شخص نے للہی محبت کی وجہ سے یہ نشان پڑنے دیا اور یہ نشان ہے جو پاؤں پر ہے، ماتھے پر نہیں.جتنے نماز پڑھنے والے ہیں کوئی بھی ہوں دکھاوے کی پڑھتے ہوں یا کچی پڑھتے ہوں ان کے پاؤں کے او پر ایڑی کے نیچے ایک گلا سا ضرور پڑتا ہے اور یہ کتا جو ہے یہ اگر پہچان کے دیکھیں غور سے تو آپ کو اپنے پاؤں پہ بھی ضرور دکھائی دے گا اور باقی سب لوگوں کے پاؤں پر بھی دکھائی دے گا.تو اب آنحضرت صلی یا ستم کا یہ فرمان سنیں.خدا تعالیٰ کے عائد کردہ فرائض کی ادائیگی کے نتیجہ میں پڑنے والا نشان.اب فرائض کی ادائیگی میں یہاں ایک تو آنحضرت سالی تم نے عبادت کا ذکر نہیں فرما یا اس لئے وہ مضمون بھی جو میں نے بیان کیا ہے درست ہے اس پہلو سے کہ خدا کی طرف سے عائد کردہ فرائض کے سلسلہ میں پڑتا ہے لیکن اور بھی بہت سے فرائض ہیں.اب دنیا میں جتنے بھی محنت کرنے والے ہیں ان کے ہاتھوں پر نشان پڑ جاتے ہیں مگر جو اللہ کے لئے وقار عمل کرتے ہیں ان کے ہاتھوں پر نشان پڑتے ہیں.تو دونوں نشانوں میں ایک فرق ہے.اللہ فرماتا ہے جو میری خاطر کام کرتا ہے اس کے بدن پہ جہاں بھی نشان پڑے گا وہ لازم نہیں کہ پاؤں پر ہی پڑے جہاں بھی پڑے گا اللہ اس کو پیار سے دیکھے گا.تو آپ میں سے لاکھوں احمدی ہیں جن کو خدا کی خاطر وقار عمل کی توفیق ملی ہے.انگلستان میں بھی بڑی بڑی عمارتیں جماعت احمدیہ نے وقار عمل کے ذریعے تعمیر کی ہیں اور ہر سال خدام کا اجتماع ہو یا انصار کا یا لجنات کا دیکھیں کتنی محنت کرنی پڑتی ہے.جلسہ سالانہ پر بھی بعض لوگوں کو اتنی محنت کرنی پڑتی ہے کہ سارا سال وہ کام کرتے ہیں اور اگر وہ غور کر کے دیکھیں تو اس محنت کے نتیجہ میں لازماً ان کے جسم پر کوئی نشان پڑ جاتے ہیں.ایسے نشان جب
خطبات طاہر جلد 17 675 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء پڑ جاتے ہیں جن کی طرف ان کو جب تک توجہ نہیں دلائی گئی تو جہ ہوئی ہی نہیں ہوگی لیکن اللہ کی ان کی طرف توجہ ہے.کتنا مہربان ہے، کس قدر اپنے بندوں پر پیار اور محبت کی نظر ڈالنے والا.آنحضور ملی نیا کی تم فرماتے ہیں اللہ ان نشانوں کو دیکھتا ہے اور محبت کرتا ہے ان سے اور ایسے نشانوں سے زیادہ اس کو کوئی نشان عزیز نہیں جو خدا کی خاطر پڑ گئے ہوں.اس 'خدا کی خاطر لفظ نے پاؤں کے نشانوں کو بھی دوسرے لوگوں کی عبادت سے ممتاز کر دیا کیونکہ جن کی عبادت خالصہ اللہ نہیں ان کے نشان بھی اللہ نہیں اور ایک ایسا امتیاز کر دیا جو کھلم کھلا ہر ایک کو دکھائی دے سکتا ہے.خدا تعالیٰ کی خاطر وقار عمل کرنے والوں کی دنیا میں ایک ہی جماعت ہے جو جماعت احمد یہ ہے.دوسرے لوگ جو کام کرتے ہیں بعض دفعہ جہاد کے نام پر بھی ان کو بڑی محنت کرنی پڑتی ہے لیکن جو جہاد ہی اللہ کے ہاں مقبول نہ ہو اس کو جہاد کا نام تو دیا گیا ہو مگر وہ محض دُنیا میں ایک فساد پھیلانے کا ذریعہ بنا ہوا ہو اس سلسلہ میں جتنے نشان پڑتے ہیں وہ الگ ہیں.میں جن نشانوں کی بات کر رہا ہوں وہ بالکل الگ نشان ہیں اور کسی ہنگامی خطرہ کے وقت کے وہ نشان نہیں ہوتے.اب خدا کو کون سا خطرہ ہے، کونسی مصیبت پڑی ہوئی ہے کہ وہ دوڑے جائیں اور اللہ کی خاطر کرالیں اٹھا لیں.یہ جو دوسرے نشان ہیں یہ ہمیشہ خطروں کی علامتیں ہیں.جب بڑے بڑے بند لگانے پڑتے ہیں سیلابوں کے خطرے سے، جب فوجوں کو خطرہ در پیش ہو وہ کھدائی کرتی ہیں اپنے مورچوں کی تو یہ اور مضمون ہے.ہر جگہ اپنے نفس کا بچاؤ شامل ہے اس میں لیکن جن خدام کو بلایا جاتا ہے یا جن انصار کو وقار عمل کے لئے بلایا جاتا ہے، لجنات کو بلایا جاتا ہے، ان کو دُنیا سے کون سا خطرہ ہے جس سے پناہ ڈھونڈتے ہوئے وہ ان خدمتوں کے لئے حاضر ہوتے ہیں.نہ آئیں تو امن سے گھر میں بیٹھیں گے کوئی دباؤ نہیں ، کوئی قانون نہیں جوان کو مجبور کر رہا ہو اور جماعت کی طرف سے تحریص ہے صرف، دعوت ہے کہ آجاؤ ، نہ آؤ تو کوئی گناہ نہیں.جماعتی کاموں ، جماعتی خدمتوں سے ان کو ہر گز محروم نہیں کیا جاتا اس جرم میں کہ وہ وقار عمل میں شامل نہیں ہوئے.پس یہ باریک فرق ہیں جن کو آپ پیش نظر رکھیں تو میرا یہ دعویٰ بالکل درست ثابت ہوگا کہ اللہ کی خاطر جن نشانوں کا اس حدیث میں ذکر ہے وہ نشان آج احمدیوں کے لئے مخصوص ہو چکے ہیں اور بڑی بھاری سعادت ہے.پس آپ بھی کبھی کبھی ان نشانوں کو پیار سے دیکھا کریں جن کو خدا پیار سے دیکھتا ہے اور اس دیکھنے کا لطف ہی کچھ اور ہوگا.
خطبات طاہر جلد 17 676 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء اب آنحضور صلی ایم کی ایک اور حدیث مسلم کتاب الزکوۃ باب فضل اخفاء الصدقة سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی ہی ہم نے فرمایا: ر جس دن اللہ تعالیٰ کے سایہ کے سوا کوئی سایہ نہیں ہو گا اس دن اللہ تعالیٰ سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا.“ (صحیح مسلم کتاب الزكوة باب فضل اخفاء الصدقة ، حدیث نمبر : 2380) یہ حدیث بظاہر قیامت سے تعلق رکھتی ہے یعنی اخروی زندگی میں جو حشر برپا ہو گا لیکن اس دُنیا میں بھی ایسے مواقع آتے ہیں قومی سطح پر اور بعض دفعہ عالمی سطح پر جبکہ کوئی سایہ خدا کے سائے کے سوا پناہ نہیں دے سکتا بلکہ قرآن کریم سے ثابت ہے کہ بعض سائے مضر ہوں گے ، بعض سائے ایسے ہونگے جو ہلاکت کی طرف لے جارہے ہوں گے.اب یہ سائے کا مضمون جو ہلاکت کی طرف لے جانے والا ہے وہ دو معنی رکھتا ہے.ایک ان قوموں کا سایہ جن کے سائے تلے آپ دنیاوی منفعت کی خاطر آگئے ہوں.ان کا سایہ عالمی خطرات کے وقت آپ کو ہمیشہ جہنم میں جھونکے گا.جب جنگ عظیم ثانی ہو رہی تھی تو برطانیہ کے سائے میں جتنے ممالک تھے وہ سارے اپنے باشندوں کو آگ کی جہنم میں جھونک رہے تھے تو وہ سایۂ امن دینے والا سایہ تو نہیں تھا.وہ تو خطرات پیدا کرنے والا سا یہ تھا اور اس کے علاوہ بھی بظاہر وہ سایہ جو اقتصادی سایہ ہو، اقتصادی خطروں سے پناہ دیتا ہے مگر اگر آپ غور سے دیکھیں تو اس سائے میں آپ کی رہی سہی دولت بھی ہاتھ سے جاتی رہے گی.جس قوم نے بھی اس سائے کو قبول کیا ہے اس سائے نے ان کو کبھی امن نہیں دیا.وہ ہمیشہ ایک بدحالی سے دوسری بدحالی کی طرف منتقل ہوتے رہے ہیں ان کا سارا مال وزرلوٹ لیا جاتا ہے بظاہر اقتصادی چھتری کے نتیجہ میں تو قرآن کریم نے جس سائے سے ڈرایا ہے اس میں یہ ڈرا وا بھی شامل ہے کہ اللہ تمہیں اس سائے سے ڈراتا ہے جس کے نیچے کوئی امن نہیں ہوگا وہ تباہ و برباد کرنے والا سایہ ہوگا.دوسرا وہ سایہ جو دھوئیں کی طرح اٹامک وار فیئر کے وقت اٹھتا ہے وہ بھی بعینہ اس وقت کا سایہ ہے جس میں سوائے اللہ کے سائے کے کوئی سایہ امن نہیں دے سکتا اور ایسے خطرات اب دن بدن قریب آرہے ہیں.عالمی لحاظ سے بھی قریب آرہے ہیں اور بعض ممالک کے لحاظ سے بھی قریب آرہے ہیں.یہ سارا جو ریجن ہے یعنی وہ خطہ جس میں ایران،
خطبات طاہر جلد 17 677 خطبہ جمعہ 25 ستمبر 1998ء افغانستان، پاکستان ، ہندوستان، کشمیر وغیرہ یہ سب شامل ہیں ان سب خطہ ہائے ارض پر وہ سایہ منڈلا رہا ہے اور بعید نہیں کہ کسی وقت یہ سایہ اپنا ظلم ان پر برسانے لگے.فرمایا، جو ایسے سائے سے بھی پناہ مانگتا ہو اس کو اللہ تعالیٰ امن دے دے گا کیونکہ جو یہ سات صفات اپنے اندر رکھتا ہے اس کو ایسے ہر سائے سے بچا کر اللہ اپنے سائے تلے لے آئے گا.یہ خوش خبری ہے جو خاص طور پر ملحوظ رکھنے والی ہے.اس لئے اب میں ان سات صفات کا ذکر کرتا ہوں جن کو اپنانے کے نتیجہ میں دنیا کے خطر ناک سایوں سے اللہ کا سایہ انسان کو پناہ دے گا.فرمایا: اول ” امام عادل.“ اب بتائیں کہیں ہے امام عادل جو آپ کو دکھائی دیتا ہو، وہ قوم کا سربراہ جو عادل ہو میں نے تو دُنیا میں ہر طرف نظر دوڑا کے دیکھا ہے، مجھے تو کہیں عادل سر براہ دکھائی نہیں دیتا.تو مطلب یہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی وہ مقام وہ خطہ واقع نہیں جس کو اللہ کا سایہ بچائے کیونکہ پہلی شرط امام عادل کی ہے اور دراصل امام عادل کا سایہ ہی اللہ کا سایہ ہوا کرتا ہے.اُردو محاورہ تھا بادشاہ کو ظل اللہ کہا کرتے تھے اللہ کا سایہ ،مگر اس وقت بادشاہت کی تعریف اور ہوتی تھی.بادشاہت کی تعریف میں عدل داخل سمجھا جاتا تھا، اس کا ایک لازمی جزو سمجھا جاتا تھا اس وقت اسے ظل اللہ کہتے تھے.اب تو ان دُنیاوی عادلوں کو امیر المومنین یا ظل اللہ کہنا خدا تعالیٰ کی سب سے بڑی گستاخی ہے.ایسی بھیانک تصویر اُبھرتی ہے ان کے عدل کی کہ اس کے بعد ایسے لوگوں کو امیر المومنین قرار دینا تو حیرت انگیز بات ہے.کہتے ہیں جیسی روح ویسے فرشتے جیسا امیرالمومنین ویسے ہی مومنین ہو نگے اور واقعۂ ہیں.تو عدل سے عاری امیر ہوں جہاں وہاں اللہ کے سایہ کے پڑنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.ان کا سایہ بھی مہلک اور جس نام پر وہ سایہ ڈال رہے ہیں اس نام کی شمولیت کی وجہ سے وہ اور بھی زیادہ مہلک ہو جاتے ہیں کیونکہ جو اللہ کا سایہ نہ ہو اور مہلک ہوا سے اللہ کا سایہ قرار دیا جائے تو یہ خدا کے غضب کو بھڑ کانے کے لئے ایک اور وسیلہ بن جاتا ہے.اس لئے بجائے اس کے کہ اللہ کے پیار کی نظر پڑے اور وہ اپنا سا یہ پھیلا دے، برعکس مضمون ہوگا.اب آگے چونکہ چھ اور باقی رہتے ہیں اس لئے انشاء اللہ ان کا ذکر اگلے خطبہ میں شروع کروں گا.کچھ اور بھی احادیث ابھی باقی ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 679 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کئے بغیر یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا آنحضرت صلی ا یکم اور صحابہ کی عظیم الشان قربانیوں کا تذکرہ (خطبه جمعه فرمودہ 12اکتوبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: اَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَ لَا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أوتُوا الْكِتَبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ الْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فَسِقُونَ پھر فرمایا: (الحديد:17) اس آیت کریمہ کا جو سورۃ الحدید کی 17 ویں آیت ہے آزاد ترجمہ یوں بنے گا ، اس میں آزاد ترجمہ اس لئے کہا گیا ہے کہ بعینہ لفظوں کی متابعت نہیں کی گئی مگر لفظوں کا ترجمہ بعینہ درست ہے ترتیب کے لحاظ سے اس کو تبدیل کر دیا گیا ہے کیونکہ اُردو تر تیب اور تقاضا کرتی ہے ، کیا وہ لوگ جو ایمان لائے ان پر ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر کے رعب سے اور اس کے اثر سے جو ہم نے حق سے اتارا ہے عاجزانہ گر پڑیں گویا زمین بوس ہو جا ئیں اور مومنوں کو چاہئے کہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوں جن کو پہلے کتاب دی گئی تھی.پس ان پر مدت لمبی ہوگئی اور ان کے دل سخت ہو گئے اور اب حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر فاسق ہو چکے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 680 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء چونکہ خشوع کا مضمون چل رہا ہے اسی لئے میں نے ایک خشوع سے تعلق رکھنے والی یہ آیت آج تلاوت کی ہے.اس ضمن میں مجھے پہلے مضمون کی طرف واپس لوٹنا ہوگا جہاں قطرات خون کے بہنے کا ذکر تھا، جہاں یہ ذکر تھا کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا کہ اللہ ایک ایک قطرہ کو پیار کی نظر سے دیکھے گا اور اس میں میں نے یہ عرض کیا تھا کہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ ایسے زمانے کی باتیں ہیں جہاں نسبتا کم لوگوں کو خون کی قربانی دینے کی توفیق ملے گی اور ایسی صورت میں جہاں قربانی کم ہو جائے اس وقت قیمت بھی بڑھ جایا کرتی ہے.ان معنوں میں کہ تھوڑی چیز کی بھی قیمت بڑھ جاتی ہے تو اس پہلو سے یعنی بڑھتی تو نہیں مگر تھوڑی چیز کی بھی قیمت بڑھ جاتی ہے.تو اس زمانہ کے لوگوں کا ذکر میں نے کیا اس زمانہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت کو واقعہ خون بہانے کا بھی موقع ملا ہے خدا کی راہ میں اس طرح بعض احمدی شہید ہوئے ہیں کہ وہ سارا رستہ خون سے بھر گیا.پس بکثرت تو نہیں مگر ایسے واقعات ضرور ملتے ہیں کہ جہاں جماعت احمدیہ کے فدائیوں کو اپنا خون اس طرح بہانے کا موقع ملا جیسے بکریاں ذبح کر دی گئی ہوں لیکن جو پہلے لوگ تھے ان میں یہ بہت زیادہ تھے یعنی آنحضرت صلی یتیم کے زمانہ میں یہ خدا کی راہ میں خون بہانا جو ہے وہ اس سے بہت زیادہ ملتا ہے جتنا اب ملتا ہے.اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا : تلَةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ - وَقَلِيلٌ مِنَ الْآخِرينَ (الواقعة : 15،14) یعنی کچھ قربانیاں ایسی ہیں جن میں پہلے تعداد کے لحاظ سے بہت بڑھ گئے.ایک بھاری جماعت ہے ان میں سے جو پہلوں میں سے ہیں لیکن بعد والوں کو بھی ضرور ان قربانیوں کی توفیق ملے گی لیکن نسبتا کم.وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ اور بعد میں، آخر میں آنے والے لوگوں میں سے نسبتاً تھوڑے ہوں گے.پس بعد میں آنے والوں کا تو ذکر میں نے کیا لیکن فلةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ کا ذکر نہیں کیا تھا.اس مضمون کو اس لئے میں اب دوبارہ اٹھا رہا ہوں کہ آنحضرت صلی للہ یہ یتیم کے زمانہ میں جو خدا کی راہ میں خون بہایا گیا اس کا کیا عالم تھا.سب سے پہلے یہ یادرکھنے کے لائق بات ہے کہ اول خون بہانے والے آنحضرت صلی ا یہ ہم تھے.آپ صلی شا یہ ہیم کا خون بارہا اس طرح بہا ہے جیسے قربانیاں ذبح کر دی گئی ہوں.ایک دفعہ نہیں متعدد دفعہ ایسا ہوا ہے اور آپ صلی ا یت ہی ان معنوں میں اول الشہداء ہیں اور آپ علیہ السلام کے بڑھنے سے پھر باقی قوم نے قدم آگے بڑھایا.اگر آنحضرت صلیہ الی یتیم کا خون اس راہ میں نہ بہایا جاتا تو صحابہ کو توفیق نہ مل سکتی تھی کہ اس شان کے ساتھ خدا کے حضور اپنے خون کی
خطبات طاہر جلد 17 681 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء قربانیاں پیش کریں اور آج بھی اُسی دور کا فیض ہے، آنحضور ملی ایم کے غزوات میں اقدام کا فیض ہے کہ ہمیں بھی یہ توفیق مل رہی ہے.قرآن کریم ہمارا ذکر قلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ کے طور کرتا ہے.اسی سنت پر پیدا ہونے والے آخرین میں سے بھی کچھ ہوں گے مگر تعداد میں تھوڑے ہوں گے اگر چہ اول درجہ کی قربانیاں پیش کرنے والے ہوں گے.اب اللہ مجھے ضبط کی تو فیق دے کیونکہ یہ بہت ہی اہم مضمون ہے لیکن بہت دردناک ہے.ابو حازم بیان کرتے ہیں اور یہ حدیث بخاری کتاب المغازی سے لی گئی ہے کہ : در سہل بن سعد سے رسول اللہ صلی لا یتیم کے زخموں کی بابت پوچھا گیا.وہ کہنے لگے خدا کی قسم میں نے رسول اللہ صلی یا یتیم کے زخموں کو دھونے والے اور پانی ڈالنے والے دونوں کو دیکھا ہے، میں دونوں کو جانتا ہوں.نیز جس چیز سے علاج کیا گیا تھا وہ بھی میرے علم میں ہے.چنانچہ انہوں نے کہا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بنت رسول صلیلا سیستم زخموں کو دھوتی تھیں اور حضرت علی بن ابی طالب ڈھال سے پانی ڈالتے تھے.جب انہوں نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون زیادہ بہتا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا اور راکھ زخم پر لگا دی اس طرح خون رک گیا.“ یہ آج کے زمانہ کے لئے بھی ایک سبق ہے جب اور کوئی فوری چیز مہیا نہ ہوتو راکھ جلا کر ڈالنے کا طریق عربوں میں رائج تھا اور یہ بہت عمدہ طریق ہے اس پہلو سے کہ اس میں تمام جراثیم جلنے سے مرجاتے ہیں اور راکھ میں خدا تعالیٰ نے یہ مادہ رکھا ہے کہ خون جذب کر کے وہ اس مقام پر جہاں سے خون بہہ رہا ہو، بیٹھ جاتی ہے اور خون بند ہو جاتا ہے.یہ ضمناً میں عرض کر رہا ہوں کیونکہ ایسے واقعات جماعت میں ہوتے رہتے ہیں ان کو پیش نظر رکھنا چاہئے.اس روز حضور کے سامنے والے دندان مبارک ٹوٹ گئے تھے ، آپ صلی لا یہ ان کا چہرہ مبارک زخمی تھا اور خو دٹوٹ چکا تھا اور ٹوٹا ہوا خود آپ صلی یتیم کے سر میں دھنس گیا تھا یہاں تک کہ جب نکالنے والے نے دانتوں سے کھینچ کر نکالا تو اپنے دانت بھی ٹوٹ گئے.اس قدر شدت کے ساتھ وہ اندر دھنسا ہوا تھا) (صحيح البخاری، کتاب المغازی، باب ما أصاب النبي الا من الجراح يوم احد ، حدیث نمبر : 4075)
خطبات طاہر جلد 17 682 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء كتاب الجِهَادِ وَالسّيرِ ، بخاری ہی سے ایک حدیث لی گئی ہے.حضرت جندب بن سفیان بیان فرماتے ہیں کہ : د آنحضور صل الا ایم کسی جنگ میں تھے کہ آپ صلی اینم کی انگلی زخمی ہوگئی ( یعنی سارا بدن زخموں سے چور رہا ہے مختلف وقتوں میں لیکن ایک جنگ میں انگلی کو زخم آیا تو آپ ملا تھا یہ ستم نے اسے مخاطب کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا) تو تو صرف انگلی ہی ہے اور نصیب دیکھ اپنا کہ خدا کی راہ میں خون بہا رہی ہے.“.(صحيح البخارى، كتاب الجهاد و السير ، باب من ينكب أو يطعن في سبيل الله ، حدیث نمبر : 2802) پس وہ جو مختلف مواقع پر خدا کے پیار کی نظریں پڑا کرتی تھیں سب سے زیادہ وہ مواقع آنحضرت صلی سیستم کو نظر آئے ہیں اور خدا نے ان مواقع کو اس پیار سے دیکھا کہ جس پیار سے آنحضور صلی سیستم انگلی کو دیکھ رہے تھے وہ اللہ کی نظریں پڑ رہی تھیں جیسا کہ قرآن کریم فرماتا ہے مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلكِنَّ اللهَ رَى (الانفال:18) تو نے تیر نہیں چلا یا بلکہ اللہ نے تیر چلایا تو گویا خدا کے الفاظ میں آپ اس انگلی کو مخاطب تھے کہ بڑی خوش نصیب ہے تو ، اللہ کی راہ میں تجھے خون بہانے کی توفیق مل گئی.بخاری کتابُ الجِهَادِ بَاب قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ اس میں حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک روایت مروی ہے.انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : ”میرے چا انس بن نضر جنگ بدر میں شامل نہیں ہو سکے تھے اور اس کا ان کو بڑا افسوس ہوا تھا.آپ نے ایک دفعہ کہا اے اللہ کے رسول صلی یا کہ تم پہلی جنگ جو آپ صلی اللہ یہ تم نے مشرکین سے لڑی اس میں میں شامل نہیں ہو سکا، آئندہ کبھی مشرکین سے جنگ کرنے کا اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو میں اللہ کو دکھاؤں گا کہ میں کیا کرتا ہوں.“ چنانچہ وہ آیت کریمہ جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے فَمِنْهُم مَنْ قَضَى نَحْبَهُ (الاحزاب: 24) ان قربانی دینے والوں میں ان خدا کی راہ میں خون بہانے والوں میں سے وہ بھی تھے کہ جنہوں نے اپنی منتوں کو پورا کر دیا.بڑا دعویٰ کیا کہ میں خدا کو دکھاؤں گا اور واقعۂ دکھا دیا.ان کے متعلق جو واقعہ درج ہے وہ یہ ہے.
خطبات طاہر جلد 17 683 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء ” جب اُحد کی لڑائی ہوئی تو ایک موقع ایسا آیا کہ مسلمان بکھر گئے.“ اس کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں ہے آپ لوگ بار ہاسن چکے ہیں جب جنگ نے پانسا پلٹا اور تھوڑی دیر کے لئے مسلمان بکھر گئے اس وقت کی بات ہے.اس پر انس نے کہا، یہ انس بن مالک کی روایت ہے مگر ان کے چچا کا نام بھی انس تھا، تو اس نے کہا سے مراد ہے کہ انس بن نضر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جن کی قربانی کا واقعہ ہے انہوں نے کہا: ”اے میرے اللہ ! میں تیرے حضور ان لوگوں کے لئے معذرت چاہتا ہوں.“ عجیب پیارا کلام ہے.وہ صحابہ جو بکھر گئے تھے آپ جانتے تھے کہ جان کے نہیں بکھرے مجبور و بے اختیار ہو گئے ہیں.تو اللہ کے حضور کہتے ہیں میں معذرت چاہتا ہوں اور معذرت پیش کرنے والے کے اوپر سب سے بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی بہادری اور اپنی قربانی کے ذریعے ثابت کر دے کہ جو مجبور نہ ہوئے ہوں جن کو یہ اختیار ہو اپنے اوپر کہ میدان جنگ میں اپنی جان جھونک دیں وہ یہ کیا کرتے ہیں تو گویا آپ نے صحابہ کو اپنی قربانی میں شامل کر لیا.میں اس معذرت کے کلام کو یوں سمجھتا ہوں کہ اس معذرت کے ساتھ پھر آپ نے جو جانی قربانی پیش کی ہے وہ اس معذرت کے قبول کرنے میں مددگار ہوگی اور ساتھ یہ کہا کہ : میں دشمنوں کے ظالمانہ سلوک سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں.پھر وہ آگے بڑھے تو ان کو سعد بن معاذ ملے.انس بن نضر نے ان سے کہا اے سعد! دیکھو جنت قریب ہے.رب کعبہ کی قسم! مجھے احد کے اُدھر سے اس کی خوشبو آ رہی ہے.“ سعد نے اسی جنگ اُحد کے دوران جب شہداء بکھرے پڑے تھے اور ان کی تلاش ہو رہی تھی.یہ واقعہ آنحضرت صلی سیستم کی خدمت میں پیش کیا کہ اس طرح میرے چا مجھے ملے تھے پھر وہ دشمن پر حملہ کرتے ہوئے اسی ریلے میں کہیں غائب ہو گئے ، پھر ان کا پتا نہیں چلا.”حضرت انس (جو اس واقعہ کے راوی ہیں) کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے چانس کو ایسی حالت میں شہید پایا کہ اسی سے کچھ اوپر تلوار، نیزے یا تیر کے زخم آئے تھے.مشرکین 66 نے ان کی شکل بگاڑ دی تھی.“ کوئی اس نعش کو پہچان نہیں سکتا جسے اتنے زخم آئے ہوں اندازہ کریں کہ وہ آخر وقت تک جب تک دم میں دم تھا لڑتے رہے اور ان کی بہادری کی وجہ سے، ان کے غیر معمولی جرات کے ساتھ حملے کے
خطبات طاہر جلد 17 684 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء نتیجہ میں بہت سے دشمنوں کو زک اٹھانی پڑی ہے اور اس غصہ میں جیسا کہ عربوں میں دستور تھا وہ چہرہ بگاڑ دیا کرتے تھے یعنی نعش کا چہرہ بگاڑ دیا کرتے تھے تو وہ پہچانے نہیں جاسکتے تھے.پھر ایسے حال میں جبکہ رسول اللہ صلی ایم نے حضرت انس کو بھیجا کہ جاؤ تلاش کرو وہ کہاں ہیں.ان کی بہن ساتھ تھیں انہوں نے پہچانا اور انگلیوں کے پورے سے پہچانا.ان کی اُنگلی پر کوئی نشان تھا جو کٹی ہوئی ، زخمی اُنگلی ، جو نشان دکھائی دے رہا تھا.چنانچہ روایت کرنے والے بیان کرتے ہیں کہ : ”ہم سمجھتے ہیں یہ آیت اسی قسم کے لوگوں کے حق میں نازل ہوئی کہ مومنوں میں سے کچھ ایسے ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا اسے پورا کر دکھایا.(مِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ ) اور وہ اپنے اس عہد میں سچے نکلے.“ (صحیح البخاري، كتاب الجهاد و السير باب قول الله عز وجل من المومنين رجال ، حدیث نمبر : 2805) حضرت قیس بن ابوحازم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ: میں نے طلحہ کا وہ ہاتھ دیکھا ہے جس سے آپ نبی کریم صلی یا پریتم کا چہرہ تیروں سے بچارہے تھے ، اپنے ہاتھ پر تیر لے رہے تھے.“ (صحیح البخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی ﷺ، باب ذکر طلحة بن عبید اللہ ،حدیث نمبر : 3724) ہاتھ پر معمولی سا بھی کانٹا چبھ جائے تو انسان کا ہاتھ پیچھے ہٹ جاتا ہے، سوئی چبھوئی جائے تو اور بھی زیادہ خنجر لگے تو اندازہ کریں کہ کتنی بے اختیاری میں انسان کا ہاتھ از خود پیچھے ہٹ جاتا ہے.ناممکن ہے کہ ایک غیر معمولی عزم کے سوا انسان کو توفیق ہو کہ وہ ہاتھ اسی طرح سامنے رکھے.حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے رسول اللہ صلی شمالی یتیم کے چہرے کے سامنے یوں ہاتھ رکھا.جو بھی تیر اس طرف آتا تھا اپنے ہاتھ سے روکتے تھے.اس وقت تو آپ کو تو فیق مل گئی کہ اس کو کھڑارکھا پھر اس کے بعد ہمیشہ کے لئے وہ ہاتھ گنجا ہو گیا، ساتھ لٹکائے پھرتے تھے.اب وہ خدا جو چھوٹے چھوٹے زخموں کے نشان پر بھی پیار کی نظر ڈالتا ہے ، جو اپنی عبادت کے وقت پڑنے والے گھوں پر بھی پیار کی نظر ڈالتا ہے، اندازہ کریں کہ حضرت طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس ہاتھ کو کس پیار سے دیکھتا ہوگا.خدا کی قسم ! دُنیا میں کوئی لنجا ایسا نہیں جس کے ہاتھ پر خدا کے پیار کی نظریں اس طرح پڑتی ہوں جس طرح طلحہ کے ہاتھ پر پڑتی رہیں.
خطبات طاہر جلد 17 685 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے جس میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قربانی کا ذکر ہے.یہ مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ : حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس حالت میں پایا گیا کہ آپ کا پیٹ چاک تھا، ہند نے آپ کا کلیجہ نکال کر چبا لیا تھا مگر اسے نگل نہیں سکی تھی." معلوم ہوتا ہے کلیجہ نکال کے چبانے کی کوشش کی ہے تو پھر وہ الٹ گئی ، اس کو الٹی آگئی جس کی وجہ سے جس طرح وہیل مچھلی نے حضرت یونس کو باہر پھینک دیا تھا اسی طرح یہ کلیجہ اس کے پیٹ میں جانا مقدر نہیں تھا، یہ کلیجہ معز ز تھا.اس کے چبانے کے متعلق لوگ کہتے ہیں یعنی عام طور پر روایات میں آتا ہے کہ کلیجہ چبا کے کھا گئی یہ غلط ہے.کلیجہ چبانے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے ناپاک پیٹ کو اللہ نے توفیق نہیں دی کہ وہ اس نا پاک پیٹ میں حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کلیجہ ڈال سکے.چنانچہ اس روایت میں یہ تفصیل ہے کہ الٹ دیا اس نے اور کلیجہ نہ کھا سکی.”رسول اللہ صلی تم نے دریافت فرمایا کہ کیا اس نے حمزہ کے کلیجہ کا کچھ حصہ نگلا ہے؟ ( اب اس سے آنحضور صلی اینم کی باریک نظر کو دیکھیں.آپ صلی ا ہ ہم کو یقین تھا کہ ناممکن ہے کہ وہ نگل گئی ہو ) عرض کی گئی نہیں کچھ حصہ بھی نہیں نگل سکی.آپ صلی یا اینم نے فرما یا: اللہ نے حمزہ کا کوئی حصہ آگ میں ڈالنا پسند نہیں کیا.“ پس یہ استنباط محض میرا ذوقی استنباط نہیں.میرا بھی یہی استنباط تھا مگر مجھے بے انتہا خوشی ہوئی جب میں نے آنحضرت صلی ای یتیم کے لفظوں میں یہ بات سن لی کہ اس لئے خدا نے پسند نہیں کیا.اس روایت میں آتا ہے کہ: آنحضرت ملائیشیا کی تم نے حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ستر بار نماز جنازہ پڑھائی.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد اللہ بن مسعود،حدیث نمبر :4414) کس طرح ایسا ہوا کہ ایک ہی نماز جنازہ ستر بار پڑھائی گئی ہو.وجہ یہ تھی کہ جب بھی کسی شہید کا جنازہ پڑھتے تھے یعنی اُحد میں اور ستر شہداء تھے تو ہر ایک کے ساتھ حضرت حمزہ کو شامل کر لیتے تھے اس لئے اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ آنحضور صلی اینم نے ستر بار حضرت حمزہ کی نماز جنازہ پڑھائی.
خطبات طاہر جلد 17 686 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے انہی قربانیوں کا ذکر اپنے اشعار میں بھی بکثرت فرمایا ہے اور ان اشعار کے علاوہ تحریرات میں بھی آنحضور صلی یتیم کی خاطر آپ سی ایم کے ساتھیوں کے جو خون بہائے گئے ہیں ان کا ذکر بھی ملتا ہے.چونکہ جو تراجم تھے ، بہت سی عربی زبان کی تحریریں ہیں وہ شعر بھی اور نثر بھی اس لئے چونکہ تراجم جو تھے ان پر مجھے تسلی نہیں تھی جب تک میں خود تفصیل سے نظر نہ ڈالتا اور اچھا ہوا کہ وہ نظر ڈالی گئی کیونکہ بہت جگہ تر جموں میں سقم رہ گئے تھے معلوم ہوتا ہے ترجمے بعد میں کئے گئے ہیں کسی اور نے کئے لیکن جو ترجمے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود کئے وہ تو بہر حال درست ہیں اور اگر چہ وہ معنوی رنگ رکھتے ہیں بعض دفعہ بامحاورہ ہیں لیکن یقیناً سو فیصدی درست ہیں.تو اس لئے اس بحث میں پڑنے کی بجائے کہ کون سا لفظ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریر، اپنے ہاتھ کا ترجمہ تھا اس کا وقت نہیں تھا کیونکہ اب ربوہ کو بھیجتا تو وہاں سے وہ تحقیق کرتے ، بتاتے کہ اس کتاب کا ترجمہ کب ہوا.اس ترجمہ میں جو پہلی اشاعت تھی مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے خود اپنے ہاتھ سے ترجمہ کیا تھا کہ نہیں اس لئے اس تحقیق و جستجو کا وقت نہ ہونے کی وجہ سے میں نے از خود جو ترجمہ کیا ہے وہ میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں اور سر دست چند اشعار میں لے سکا ہوں کیونکہ اتنا وقت نہیں تھا کہ تمام اشعار اور عربی تحریروں کا بذات خود ترجمہ کرسکوں.فرماتے ہیں: قَامُوا بِأَقْدَامِ الرَّسُولِ بِغَزُوهِمُ كَالْعَاشِقِ الْمَشْخُوفِ فِي الْمَيْدَانِ فَدَمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِهِمْ فِي حُبّهِم تحت السُّيُوفِ أُرِيقَ كَالْقُرْبَانِ آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ:591) صحابہ رضوان اللہ علیہم آنحضرت سلیم کے میدان جنگ میں اقدام کی وجہ سے اپنے غزوات کے دوران ایک عشق میں مبتلا عاشق کی طرح ڈٹ جایا کرتے تھے یعنی اقدام آنحضرت صلی یا پریتم کا تھا.غزوات میں آپ صلی لا یہ تم سب سے آگے چلتے تھے اور آپ ملا لیا الیہ ہم کے پیچھے پیچھے آپ صلی کا یہ تم کے اقدام کو دیکھتے ہوئے صحابہ بھی بڑھا کرتے تھے تو غزوات میں وہ بڑھتے تو تھے مگر ایسے بڑھتے تھے جیسے ایک عاشق مشغوف ہو، جس کو عشق نے پاگل کر دیا ہو.
خطبات طاہر جلد 17 687 خطبہ جمعہ 2 اکتوبر 1998ء قدمُ الرِّجَالِ لِصِدْقِهِمْ فِي حُبّهِمْ تَحْتَ السُّيُوفِ أُرِيقَ كَالْقُرْبَانِ پس ان جوانمردوں کا خون اپنی محبت میں ، اپنی سچائی کی وجہ سے تلواروں کے نیچے قربانیوں کی طرح بہادیا گیا.اب قربانیوں کا خون بہتا ہوا تو سب نے دیکھا ہے.اگر کسی کو کوئی نماز روزے کی توفیق نہ بھی ملے تو آج کل رواج ہے کہ قربانی پیش کرنے میں ضرور کوشش کی جاتی ہے تو حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں جس طرح قربانی کا خون یہ سب جانتے ہیں کہ کیسے بہتا ہے ، کس طرح اچھل اچھل کر نکلتا ہے اس طرح آنحضرت صلی للہ ایم کا خون اللہ کی محبت میں بہا ہے اور رسول اللہ صلی ایم کے اقدام کے نتیجہ میں بہا ہے اور اللہ کی محبت محمد رسول اللہ صلی ایام کی محبت کی بناء پر نصیب ہوئی.ایک ایسا عاشق جو پاگل ہو رہا ہو عشق میں، ایسے عاشق کی طرح محمد رسول اللہ لا الہ السلام کے پیچھے پیچھے چلا کرتے تھے.ایک دوسری جگہ میٹر الخلافة، روحانی خزائن جلد 8 میں صفحہ 397 پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ شعر ہے: ذُبِحُوا وَمَا خَافُوا الوَرَى مِنْ صِدْقِهِمْ بَلْ أَثَرُوا الرَّحْمَن عِنْدَ بَلَاءِ تحت السُّيُوفِ تَشَهَدُوا لِخَلُوصِهِمْ شَهِدُوا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْأَمْلَاءِ وہ اپنے صدق کی وجہ سے ذبح کئے گئے اور لوگوں سے خوف نہ کھایا بلکہ ہر سخت ابتلاء کے دوران رحمن کو ترجیح دی.انہوں نے اپنے خلوص کی وجہ سے تلواروں کے سایہ تلے حق کی گواہی دی.تحت السُّيُوفِ تَشَهدُوا.اب تشہد میں آپ بیٹھتے ہیں تو لا إلهَ إِلَّا اللهُ مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللہ پڑھتے ہیں تو انہوں نے تلواروں کے سائے تلے یہ گواہیاں دی ہیں.یہ نہیں کہ آرام سے بیٹھے ہوئے تھے تو وہ درود پڑھ رہے تھے اور تشہد پڑھ رہے تھے، تلواریں چل رہی تھیں اس کے نیچے نیچے یہ آواز میں بلند ہو رہی تھیں.شَهِدُوا بِصِدْقِ الْقَلْبِ فِي الْأَمْلاءِ - املاء کا ایک ترجمہ مجالس بھی ہے لیکن یہاں تو مجالس کی بات نہیں ہو رہی یہاں تو جنگوں کی بات ہو رہی ہے.پس املاء کا ایک مطلب ہے زندگی بھر ، ساری زندگی.تو اس ترجمہ کو بھی میں نے اخذ کیا ہے.جس کا مطلب یہ بنے گا شَهِدُوا بِصِدْقِ.شَهِدُوا کے لفظ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دونوں معنی داخل فرما لئے ہیں کیونکہ اس
خطبات طاہر جلد 17 688 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء کے دونوں ہی معنے ہیں.شهِدُوا کا ایک مطلب ہے گواہی دی اور ایک مطلب ہے شہید ہو گئے تو دراصل ان کا شہید ہونا ہی گواہی تھی.پس تشھد وا کا جو پہلا مضمون ہے وہی اس لفظ کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے کہ تلواروں کے سائے تلے محض زبانی گواہیاں نہیں دیں.یہ گواہیاں دیتے دیتے شہید ہو گئے اور ان کی شہادت یعنی خدا کی راہ میں جان دینا ہی دراصل وہ شہادت تھی جو ہمیشہ ہمیش کے لئے زندہ رہے گی.فی الاملاء کا مطلب ہے عمر بھر ایسا ہی کرتے رہے جب تک ان کو تو فیق ملی یہ دونوں باتیں ان کی فطرت ثانیہ بنی رہیں بلکہ فطرت اولی کہنا چاہئے.یہی ان کی اول فطرت تھی یعنی اللہ کے ہو کر محمد رسول اللہ مال شما ستم کے عشق میں مبتلا اور اس عشق کے نتیجہ میں پھر اللہ کے عشق کا وہ مقام حاصل کرنا جو رسول اللہ صلی شام کے عشق کے بغیر حاصل کرنا ممکن نہیں تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں میں سے جو نثر میں ہیں یہ ایک تحریر میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو اُردو میں ہے اس لئے اس کے ترجمہ کی ضرورت نہیں پڑی.فرماتے ہیں : وہ سب آنحضرت صلان ستم کی عکسی تصویریں تھے.“ اب اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خاتم النبیین کا جوسب سے اعلیٰ مفہوم ہے وہ بیان فرمارہے ہیں.خاتم اس انگوٹھی کو کہتے ہیں جس کے نقوش جس جگہ لگائی جائے وہاں چسپاں ہو جائیں.پس آنحضرت سلی ریتم خاتم الانبیاء کن معنوں میں تھے.ایک معنی تو یہ ہے کہ نبیوں کے خاتم اور دوسرا ہے کہ سب نبیوں کی صفات آپ مسایل ایام میں جمع تھیں جس پر آپ سال اینم کی مہرلگتی تھی گویا سب نبیوں کی مہر لگ گئی.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو اگر بار یک نظر سے پڑھیں تو ان کے اندر عظیم معانی مخفی دکھائی دیتے ہیں جب ان پر نظر پڑتی ہے تو انسان کی روح وجد میں آجاتی ہے.صحابہ عکسی تصویریں تھے لیکن وہ تصویر ہر کاغذ پر ایک ہی طرح نہیں بنا کرتی.کہیں ہلکی بنتی ہے کہیں تیز بنتی ہے، دباؤ کی بات ہے وہ کاغذ کتنا باؤ قبول کرتا ہے اور کتناد باؤ ڈالا گیا ہے.پس سارے صحابہ کا رنگ تو ایک ہی تھا اس پہلو سے کہ جو بھی تصویر آپ کی بنی آنحضرت صلی لا رہی تم ہی کی تصویر تھی اور سب کے متعلق ایک ہی بات کہہ کر ان کے مدارج کے فرق کو بھی ملحوظ رکھ لیا.اپنا اپنا عشق تھا، اپنا اپنا رنگ تھا مگر جو بھی پیاری تصویر ابھری ہے وہ محمدرسول اللہ صلی ہی یہ ہی کی تصویر تھی.
خطبات طاہر جلد 17 689 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء وو سو یہ بھاری معجزہ اندرونی تبدیلی کا جس کے ذریعہ سے فحش بت پرستی کرنے والے کامل خدا پرستی تک پہنچ گئے اور ہر دم دُنیا میں غرق رہنے والے محبوب حقیقی سے ایسا تعلق پکڑ گئے کہ اس کی راہ میں پانی کی طرح اپنے خونوں کو بہا دیا.“ ا اب عکسی تصویران معنوں میں بھی تھے کہ رسول اللہ سی لیا کہ تم نے چونکہ خون بہا یا تھا اسی طرح آپ ملائیشیا کی تم کے نقش قدم پر چلتے چلتے انہوں نے بھی خون بہایا اور جو الہی رنگ پکڑے وہ سارے آنحضرت مسی یا یہ تم کی مہر کے نتیجہ میں پکڑے ہیں.پھر فرماتے ہیں : دراصل ایک صادق اور کامل نبی کی صحبت میں مخلصانہ قدم سے عمر بسر کرنے کا نتیجہ تھا.“ وہ املاء دی والا لفظ ، عمر بھر ، یہ وہی مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرے لفظوں میں بیان فرمایا ہے.کسی صادق کی صحبت میں عارضی صحبت اختیار کرنے سے وہ نقش دائمی نصیب نہیں ہوا کرتا جس کا مسیح موعود علیہ السلام ذکر فرمارہے ہیں.صحابہ کے اندر جو پاک تبدیلی تھی وہ عمر بھر کی صحبت تھی.ایک دفعہ جب اس صحبت میں آگئے تو پھر اس صحبت کو چھوڑنے کا نام نہیں لیا یہاں تک کہ یا ذبح کر دئے گئے خدا کی راہ میں یا طبعی موت مر گئے مگر دونوں صورتوں میں آنحضرت صلی شا یستم کا دامن نہیں چھوڑا.یہ وہ طریق ہے جس کے نتیجہ میں یہ سب کچھ نصیب ہوتا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمارہے ہیں.ایک صادق اور کامل نبی کی صحبت میں مخلصانہ قدم سے عمر بسر کرنے کا نتیجہ تھا سو اسی بناء پر یہ عاجز اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے.“ پس اب خدا کی راہ میں قربانی دینے والے خواہ وہ پاکستان میں ہوں یا دوسری جگہوں پر ہوں یہ بھی پڑھیں ، ان باتوں پر بھی نگاہ کریں تو ان کی قربانیاں تو ایک ایسا اعزاز ہیں کہ قیامت تک ان کی نسلیں اس پر فخر کریں گی.ان کے آباؤ اجداد کی روحیں ان پر فخر کریں گی.ان کا قرآن میں ذکر فرمایا گیا.قَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ - اول درجہ کے تھے گو تھوڑے تھے مگر آخرین میں بھی تھے تو اس کے بعد جو دلوں میں رنج رہ جاتے ہیں اور شکایتیں پیدا ہوتی ہیں اور بعض لوگ یہ لکھتے ہیں کہ ہمارے فلاں نے قربانی دے دی اب ہمیں اس طرح باہر بھجوادیا جائے یا فلاں ہم سے رعایت کی جائے.وہ اگر نہ بھی کہیں تو جو بھی جماعت کے لئے ممکن ہے وہ ضرور کرے گی اور ضرور کرتی ہے مگر جہاں مطالبہ ہونٹوں
خطبات طاہر جلد 17 690 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء پر آیا وہاں وہ بات ختم ہو جاتی ہے.تو یہ صحابہ جنہوں نے قربانیاں دی ہیں ان کے ہونٹوں پر تو کوئی مطالبہ نہیں آیا، کبھی اپنی قربانی کے نتیجہ میں کچھ طلب نہیں کیا بلکہ ایسی قربانیاں تھیں کہ جان دی تو جان دینے تک وفا کی اور اس کے بعد طلب کس سے کرنی تھی یعنی انسانوں اور بندوں سے کسی قسم کی طلب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں یہ جو صورت حال ہے اسی بناء پر یہ عاجز اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے.اب دیکھیں ” قائم کرنے کے لئے“ کا لفظ نہیں ہے ” قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے.اب غور کر کے دیکھیں قائم کرنا زبان پر سب سے پہلے آتا ہے، از خود زبان پر یہ جاری ہوتا ہے کہ سلسلہ قائم کیا گیا مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر وقتی نظر نہیں ” قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور اس سلسلہ کا قائم رکھنا قربانیوں کے ساتھ وابستہ ہے.قائم کرناوابستہ نہیں، قائم رکھنا وابستہ ہے.یہ سلسلہ قائم نہیں رہ سکتا جب تک خدا کی راہ میں وہ قربانیاں پیش نہ کی جائیں جو قربانی دینے والوں کو بھی ازلی زندگی عطا کر دیتی ہیں اور اس جماعت کو بھی ازلی زندگی عطا کر دیتی ہیں جس جماعت کے وہ رکن ہوں.تو یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریروں کو غور سے پڑھنا اور ان کے مطالب کو اخذ کرنا انتہائی ضروری ہے.اس سلسلہ کے قائم رکھنے کے لئے مامور کیا گیا ہے اور چاہتا ہے کہ صحبت میں رہنے 66 والوں کا سلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے.“ اب لفظ صحبت میں میں نے پہلے بھی بیان کیا تھا کہ اس صحبت سے مراد یہ نہیں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام وفات پاگئے تو آپ کی صحبت نصیب نہ رہی.آنحضور صلی ال ایام کو وفات پائے چودہ سوسال سے زیادہ عرصہ گزر گیا لیکن صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا“ کا اعلان حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کیسے کر دیا.تو ایک صحبت جاریہ ہے، ایسی صحبت ہے جو ہمیشہ رہے گی.وہ اخلاق اور اعمال اور ایمان اور اقدار کی صحبت ہے.آنحضرت ملا یہ تم کی مہر بند نہیں ہوئی ، وہ قیامت تک جاری ہے اور ان معنوں میں جاری ہے کہ جس شخص نے بھی اپنے دل پر وہ نقوش لئے جو رسول اللہ صلی لای یتم کی مہر سے لگتے ہیں تو گویا وہ آپ صلی ایتم کی صحبت میں داخل ہو گیا.
خطبات طاہر جلد 17 691 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ صحبت کا سلسلہ میں بڑھانا چاہتا ہوں اور اب جماعت احمد یہ ایسے دور میں داخل ہے کہ یہ محبت کا سلسلہ پھیل رہا ہے اور پھیلتا چلا جائے گا اور ان مطالب پر غور کے نتیجہ میں تمام جماعت پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ جہاں بھی جماعت احمدیہ کی تعداد بڑھتی ہے وہاں مصاحبین کی تعداد بڑھے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ارادہ تعداد بڑھانے کا نہیں تھا بلکہ ایسی تعداد بڑھانے کا تھا جس کے ساتھ صحبت کا سلسلہ پھیلتا چلا جائے.پس یہی وجہ ہے کہ میں تمام نو مبایعین کے متعلق ان ملکوں کے سر براہوں کو بار بار نصیحت کرتا ہوں، بار بار سمجھا رہا ہوں کہ اگر تعداد بڑھی اور صحبت نہ پھیلی تو پھر یہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آنے کے مقاصد میں سے نہیں ہے.تھوڑی بہت شروع میں لگتی ہے لیکن جتنا دباؤ بڑھتا چلا جائے گا اس مہر کے نقوش زیادہ نمایاں ہوتے چلے جائیں گے.پس آپ لوگ بھی اپنی بڑھتی ہوئی جماعتوں پر اس پہلو سے نظر رکھیں اور اپنی پھیلتی ہوئی اولاد پر بھی اس پہلو سے نظر رکھیں کہ کیا وہ یہ نقوش قبول کر رہے ہیں یا نہیں اور نقش بننے شروع ہو گئے ہیں کہ نہیں اگر یہ بن رہے ہیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی عبارت اپنے مقصد کو پالیتی ہے.اور چاہتا ہے یعنی خاکسار اپنے متعلق فرماتے ہیں عاجزیہ چاہتا ہے: کہ صحبت میں رہنے والوں کا سلسلہ اور بھی زیادہ وسعت سے بڑھا دیا جائے اور ایسے لوگ دن رات صحبت میں رہیں کہ جو ایمان اور محبت اور یقین کے بڑھانے کے لئے شوق رکھتے ہوں.“ اب دن رات صحبت میں رہیں کا ایک ظاہری معنی بھی ہے یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قادیان میں آ کر وہاں ٹھہرنے کی بھی بہت تلقین فرمایا کرتے تھے مگر یہ ناممکن تھا کہ یہ پھیلتی ہوئی جماعت جو لاکھوں کی تعداد میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی پھیل چکی تھی وہ ساری قادیان میں اکٹھی ہو جاتی.کسی طرح یہ ممکن نہیں تھا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایسی بات کیسے کہہ سکتے ہیں جو ناممکن ہو.تو لفظی طور پر کچھ یہ مضمون ان لوگوں پر بھی اطلاق پا تا تھا جو قادیان آئے اور قادیان ہی کے ہورہے.وہ اولین تھے صحبت پانے والے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں ہی آخرین بھی تھے اور یہ مضمون بیک وقت چل رہا تھا.آخرین وہ تھے جو کثرت سے
خطبات طاہر جلد 17 692 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء احمدی ہورہے تھے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام چاہتے تھے کہ یہ محبت کا سلسلہ ان کے ذریعہ پھیل جائے تا کہ وہ لوگ جو اپنا ایمان اور محبت اور یقین بڑھانے کے لئے شوق رکھتے ہوں : ان پر وہ انوار ظاہر ہوں کہ جو اس عاجز پر ظاہر کئے گئے ہیں.“ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر جو انوار ظاہر فرمائے گئے وہ مٹ تو نہیں گئے.ان کا نور آپ کی زندگی کے ساتھ ختم تو نہیں ہوا بلکہ آپ کے وصال کے بعد پہلا خلیفہ ہی نور کے طور پر اُبھرا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے آپ کے نور کی بڑی تعریف فرمائی ہے.تو یہ استدلال ہے میرا، یہ اتفاقی حادثہ نہیں ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جوانوار عطا ہوئے تھے جو آپ بڑھانا چاہتے تھے وہ آپ کے وصال کے بعد بھی جاری رہے ہیں اور حضرت خلیفہ اسیح الاول کی صورت میں اس نئے دور کی بنیاد ڈالی گئی جس میں نوروں کا انتشار ہونا تھا اور یہ انتشار حضرت خلیفۃ البیع الاول کی زندگی تک محدود نہیں تھا ورنہ بالکل بے معنی ہو جاتا.اگر آپ کی زندگی تک محد و در بنا تھا تو پھر تو بہتر تھا کہ مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں ہی یہ سلسلہ ختم ہو جاتا کیونکہ انوار کا اصل منبع تو آپ ہی تھے اس لئے وہ ایک خوشخبری تھی جماعت کے لئے کہ تمہارے لئے انوار کا سلسلہ ختم نہیں کیا جائے گا.پس وہ انوار کا سلسلہ اب بھی جاری ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات اس نور کو سمیٹے ہوئے ہیں.ان تحریرات کا جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے گہری نظر سے مطالعہ ضروری ہے ورنہ بعض دفعہ خدا تعالیٰ کے جس کلام سے لوگ نور پاتے ہیں اسی کلام سے لوگ اندھیرے میں بھی چلے جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے نفس کے اندھیرے ساتھ رکھتے ہیں ایسے ہی لوگ ہیں جن کو اندھا کہا گیا ہے ان کی نگاہ کلام کی گہرائیوں تک جاتی ہی نہیں.اب اسی کلام کو پڑھ پڑھ کر دیکھیں دُنیا میں کتنے مخالف اور معاند مولوی ہیں جن کی گستاخیاں ختم ہونے میں نہیں آرہیں.وہ عبارت کے کچھ حصہ کو لیتے ہیں، کچھ حصہ کو چھوڑ دیتے ہیں.جس حصہ کو لیتے ہیں اس کے معانی کو بھی صحیح بیان نہیں کر رہے ہوتے.اس لئے جماعت کا فرض ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات کو پڑھے بھی اور گہرے غور سے ان کا مطالعہ کرے.فرمایا: ” ان پر وہ انوار ظاہر ہوں جو اس عاجز پر ظاہر کئے گئے ہیں، یعنی یہ انوار پھر آپ پر بھی نازل ہوں گے.اس کے دو معنی ہیں.ایک معنی تو یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں مضمر امور کو آپ سمجھ لیں اور
خطبات طاہر جلد 17 693 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء اختیار کرلیں اور یہ نور اگر آپ کو نصیب ہو جائے تو پھر انوار نازل بھی ہوں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر نازل کئے گئے.اس کا مطلب یہ ہے کہ نو ر نور سے ملتا ہے جن کا دل نورانی ہو چکا ہو، جس کا آغاز حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے نو را خذ کرنے کے نتیجہ میں ہوا، ان کا دل پھر مہبطِ انوار الہی بن جایا کرتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے بہت سے دیگر انوار بھی ان پر نازل ہونے شروع ہو جاتے ہیں.پھر فرماتے ہیں: ” اور وہ ذوق ان کو عطا ہو جو اس عاجز کو عطا کیا گیا ہے تا اسلام کی روشنی عام طور پر دُنیا میں پھیل جائے“.(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ: 22،21) وہ ذوق ان کو عطا ہو جب نور ملتا ہے تو نور کی اہمیت بھی ساتھ ساتھ واضح ہوتی چلی جاتی ہے.چنانچہ فرمایا میں اس لئے چاہتا ہوں کہ ان پر بھی نور اترے تا کہ وہ ان کو نور کا مضمون صرف معنا معنی کے لحاظ سے سمجھ نہ آئے بلکہ ان کے دل میں جاری ہو اور اس کا لطف اٹھانے لگیں.جب یہ ہو گا تو پھر یہ ہوگا تا اسلام کی روشنی عام طور پر دُنیا میں پھیل جائے.“ اب دیکھیں ہم دعا ئیں تو بہت کرتے ہیں کہ اسلام کی روشنی تمام دنیا میں پھیل جائے مگر یہ کیسے پھیلے گی یہ طریق اکثر لوگوں کو معلوم نہیں.ہاتھ اٹھاتے ہیں کہ اے اللہ! اسلام کی روشنی پھیلا دے مگر یہ نہیں جانتے کہ انہوں نے ہی وہ شمعیں بنا ہے جن شمعوں کے ذریعہ روشنی پھیلنی ہے.تو ایسی دعا کیوں کرتے ہیں جس دعا کو اپنے نفوس میں جاری نہ کرنا چاہیں.کسی کو اس دعا کا حق نہیں کہ اے اللہ ! اسلام کا نور ساری دُنیا میں پھیلا دے جب تک وہ اپنے دل کو پہلے نورانی نہ بنائے کیونکہ از خود نہیں پھیلے گا ورنہ تو ساری دنیا پر از خود آسمان سے نور اتر سکتا تھا.کیوں نہیں اترتا؟ اس لئے کہ نورانی وجودوں کی معرفت ان کو نہیں مل رہا.آنحضرت صلی شا ہی تم سے جو سلسلہ شروع ہوا وہی سلسلہ ہے جواب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دور میں تلةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ کے بعد قَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ (الواقعة:15،14) کے ذریعہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر اس سلسلہ نے پھیل جانا ہے.اس کثرت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو اولین تو نہیں ہوں گے لیکن پھر بھی دوسرے درجہ میں نیکیوں پر قدم بڑھانے والے ہوں گے.ان کے متعلق قرآن کریم فرماتا ہے : وَثُلَةٌ مِّنَ الْآخِرِينَ.وہ پہلوں تک
خطبات طاہر جلد 17 694 خطبہ جمعہ 2اکتوبر 1998ء محدود نہیں رہیں گے یہ بکثرت نیکیوں میں آگے قدم بڑھانے والے آخرین میں بھی پیدا ہوں گے گو ان کی نیکیوں کا درجہ وہ نہیں ہوگا جو اولین کا درجہ ہے مگر جس درجہ تک وہ پہنچیں گے وہ بھی بہت بڑے درجات ہیں.تو دو جنتیں جن کے وعدے کئے گئے ہیں قرآن کریم میں ، اس کی تفصیل میں اس وقت جانے کا وقت نہیں مگر ایک جنت وہ ہے جو بہترین عمل کرنے والوں کو، بہترین قربانی کرنے والوں کو اس دُنیا میں بھی نصیب ہوتی ہے اور اُس دُنیا میں بھی ہوتی ہے.یہ وہ لوگ ہیں جن کے متعلق فرمایا گیا ہے: ثُمَّةٌ مِنَ الْأَوَّلِينَ - وَقَلِيلٌ مِّنَ الْآخِرِينَ.پھر وہ جنت بھی ہے جو سب مومنوں پر جھکی ہوئی ہے جس کا عام ذکر سورۃ رحمن میں ملتا ہے اس کے متعلق فرمایا ہے: ثُمَّةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ.وَثُلَةٌ مِّنَ الْأُخِرِينَ - (الواقعة: 41،40) بکثرت بعد میں آنے والوں میں ایسے لوگ پیدا ہوں گے.پس میں اُمید رکھتا ہوں کہ آپ ان مضامین کی گہرائی تک اتر کے جو خون کی قربانیاں ہیں اس مضمون کو بھی زیادہ گہرائی سے سمجھیں گے اور اس کے نتیجہ میں جونور اترا کرتا ہے اس نور کو حاصل کرنے کی کوشش کریں گے.اللہ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.انشاء اللہ باقی مضمون اسی طرح جاری رہے گا.انشاء اللہ اگلے خطبہ میں میں بیان کروں گا.
خطبات طاہر جلد 17 695 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کیلئے پہلی حرکت ہے خدا کی خشیت سے رونے والا شخص جہنم میں داخل نہیں ہوسکتا (خطبه جمعه فرموده 9 اکتوبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی : اِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ مُشْفِقُونَ وَالَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ وَالَّذِيْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ وَالَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوا وَقُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رَجِعُونَ أُولَبِكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَهُمْ لَهَا سَبِقُونَ پھر فرمایا: (المومنون:58 تا62) ان آیات میں بھی خشوع و خضوع اور خشیت کا مضمون ہی چل رہا ہے جو اس سلسلہ خطبات کی ایک کڑی ہے اور آج کے خطبہ کے لئے بھی میں نے اسی مضمون کو جاری رکھا ہے جب تک اللہ کی مرضی ہے یہی چلتا رہے گا.جن آیات کی تلاوت کی گئی ہے ان کا با محاورہ ترجمہ پہلے میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.یقینا وہ لوگ ایسے ہیں کہ اپنے رب کے خوف سے وہ کانپتے ہیں یعنی رب کا خوف طاری ہو تو ان کے بدن پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے.وَالَّذِينَ هُمْ بِأَيْتِ رَبِّهِمْ يُؤْمِنُونَ: اور وہ لوگ جو اپنے ربّ کے نشانات پر ایمان لاتے ہیں.آیات پر تو ایمان لاتے ہی ہیں لیکن آیات کا ایک معنی نشانات ہیں
خطبات طاہر جلد 17 696 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء اور مضمون یہ ہے کہ اپنے رب کی خشیت سے، اس کے نشانات دیکھ کر ان کے بدن پر لرزہ طاری ہوتا ہے.جب بھی وہ کوئی نشانات دیکھتے ہیں جو ان کے گرد و پیش اللہ تعالیٰ کے فضل سے ظاہر ہوتے رہتے ہیں تو اس کے نتیجہ میں ان کے بدن لرز اٹھتے ہیں.وَالَّذِينَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا يُشْرِكُونَ : یہ انہی نشانات کا فیض ہے کہ وہ شرک کر ہی نہیں سکتے.ان کے لئے ناممکن ہے کہ خدا کے سوا کسی اور کی طرف ان نشانات کو منسوب کر دیں.وَ الَّذِينَ يُؤْتُونَ مَا أَتَوْا وَ قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلَى رَبِّهِمْ رجِعُونَ : یہاں اس آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ وہ دیتے ہیں جو ان کو عطا کیا جاتا ہے اور نہ کسی مال کا ذکر ہے بلکہ یہ عجیب ایک دلکش طرز بیان ہے کہ فرمایا وہ لوگ يُؤْتُونَ مَا اتواوہ دیتے ہیں جو وہ دیتے ہیں یعنی خدا کی خشیت سے جو بھی وقت کی ضرورت ہو وہ اس میں سے خرچ کر دیتے ہیں یعنی دماغ ، دل، تمام وہ قوتیں جو ان کو عطا کی گئیں ، وہ علوم جو ان کو بخشے گئے.جو بھی اس وقت ضرورت کے مطابق مناسب حال ہو وہ دے دیتے ہیں.وَ قُلُوبُهُمْ وَجِلَةٌ أَنَّهُمْ إِلى رَبِّهِمْ رُجِعُونَ : اور اس حال میں دیتے ہیں کہ ان کے دل خوف سے کانپ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے رب کے حضور لوٹ کے جانے والے ہیں.اوليكَ يُسْرِعُونَ فِي الْخَيْراتِ : یہی وہ لوگ ہیں جو خیرات میں تیزی سے آگے بڑھتے ہیں، نیک کاموں میں بہت تیزی سے آگے بڑھنے والے ہیں.وَهُمْ لَهَا سَبِقُونَ : اور وہ اس میں سبقت لے جانے والے لوگ ہیں یعنی نیکیوں میں سبقت لے جانے والے.اسی تعلق میں یعنی خشیت اور خضوع کے مضمون میں میں نے ایک حدیث شروع کی تھی جو مسلم كِتَابُ الزَّكَاةِ بَابُ فَضْلِ إِخْفَاءِ الصَّدَقَةِ سے لی گئی ہے.اس حدیث میں جو باتیں بیان ہوئی تھیں ان میں سے کچھ باتیں بیان ہوگئی تھیں اور کچھ باقی رہتی تھیں تو ایک بات تو بیان ہو چکی تھی باقی پانچ باتیں ایسی ہیں جن کے متعلق میں تفصیل سے روشنی نہیں ڈال سکا وہ یہ ہیں.پوری حدیث یہ ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی یا تم نے فرمایا : جس دن اللہ کے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں ہوگا اس دن اللہ سات آدمیوں کو اپنے سایہ رحمت میں جگہ دے گا.اوّل امام عادل.“ یہ امام عادل تک میں نے پچھلے ایک خطبہ میں مضمون بیان کر دیا تھا اس کے بعد جو چھ دوسرے ایسے خوش نصیب ہیں جن کو جب کوئی سایہ نہیں ہوگا تو اللہ کا سایہ نصیب ہوگا ، وہ یہ ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 وو 697 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء دوسرے وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت کرتے ہوئے جوانی بسر کی.“ وہ نوجوان جس نے اللہ کی عبادت کرتے ہوئے جوانی بسر کی، عموماً بڑھاپے میں تو عبادت کی توفیق اکثر لوگوں کو یا کئی لوگوں کو مل ہی جاتی ہے جوانی میں اگر عبادت کی توفیق ملے تو یہ اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک امتیاز ہے.پس وہ شخص جس کی جوانی عبادت میں کئی ہو اللہ اس پر محبت کی نگاہیں ڈالتا ہے اور جس دن کوئی اور سایہ نہ ہو اس کی یہی نیکی اللہ کے سائے کے طور پر اس کے سر پر تان دی جائے گی یعنی نیکی سایہ بن جائے گی.تیسرے وہ آدمی جس کا دل مسجدوں کے ساتھ لگا ہوا ہے.“ خواہ وہ بچہ ہے جو ان ہے یا بوڑھا ہے اس کا دل ہر وقت مسجد میں اٹکا رہتا ہے کہ کب نماز کا وقت ہوگا اور میں وہاں پہنچوں گا اور کوئی دُنیا کا خیال اسے مسجدوں سے غافل نہیں رکھتا یا دُنیا کے کاموں کی مشغولیت اسے مسجد سے الگ نہیں کرتی یعنی مجبوراً الگ ہو بھی جائے تو دل اٹکا رہتا ہے.اس لئے یہ نہیں فرمایا کہ پانچوں نمازیں مسجد میں پڑھتا ہے یہ فرمایا کہ دل اس کا وہیں اٹکا رہتا ہے.نہ بھی پڑھ سکے تو یہ خیال گزرے گا کہ اب فلاں وقت ہو گیا ہے نماز کا اگر مجھے توفیق ہوتی تو میں مسجد میں جا کر نماز پڑھتا.وو ” چوتھے وہ دو آدمی جو اللہ کی خاطر ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اسی پر وہ متحد ہوئے اور اسی کی خاطر وہ ایک دوسرے سے الگ ہوئے.“ یعنی جن کے آپس میں ملنے جلنے کا مقصد سوائے اللہ کی محبت کے اور کوئی مقصد نہیں ہے.ان کی دوستی کا صرف اللہ ہی مرکز ہے.اللہ کی خاطر وہ ایک دوسرے کے دوست ہیں.جب ملتے ہیں تو اللہ ہی کی باتیں کرتے ہیں ، جب جدا ہوتے ہیں تو اللہ ہی کی باتیں کرتے ہوئے جدا ہوتے ہیں.یہاں یہ خاص قابل توجہ بات ہے کہ ایک دوسرے سے اسی محبت کی بناء پر جدا بھی ہوتے ہیں یعنی اللہ کی محبت کا تقاضا جہاں یہ ہو کہ اب تم الگ الگ ہو جاؤ تو پھر وہ الگ الگ ہو جاتے ہیں.بعض صوفی منش لوگ بعض دفعه ساری ساری رات آپس میں مجلس لگائے رکھتے ہیں اور گھر میں بیوی کا خیال ہی نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت بڑی عبادت ہے.تو آنحضور صلی ا یہی ہم نے ان تمام باتوں کی باریکیوں سے ہمیں آگاہ فرمایا ہے.اللہ کی خاطر ملنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ جب اللہ کی محبت تقاضا کرے کہ جدا ہو جاؤ
خطبات طاہر جلد 17 698 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء تو جدا نہ ہوں.اگر جدائی کے وقت جدا نہ ہو تو ملنے کا جو عذر تھا کہ اللہ کی خاطر ملے ہیں وہ بھی جھوٹا ہے.جو اللہ کی خاطر ملتا ہے وہ اللہ کی خاطر جدا بھی ہو جاتا ہے.پانچویں وہ پاکباز مرد جس کو خوبصورت اور با افتد ار عورت نے بدی کے لئے بلا یا لیکن اس نے کہا میں اللہ سے ڈرتا ہوں.“ یہاں حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے جن کی ساری زندگی ایک پاک بازی کا نمونہ تھی اور بالخصوص وقت کی ایک بہت خوبصورت عورت کے ذریعہ آپ آزمائے گئے تھے اور اس سے بچنے کی وجہ سوائے اللہ کے خوف کے اور کوئی نہ تھی اور اسی لئے ساتھ با اقتدار بھی فرمایا.با اقتدار فرمانے میں ایک تو حضرت یوسف کے واقعہ کی طرف اشارہ واضح ہو جاتا ہے کیونکہ وہ عزیز مصر کی بیوی تھی اور اسے اقتدار نصیب تھا.پس اقتدار کہنے میں ایک اور حکمت یہ ہے کہ ویسے کوئی خوبصورت عورت ہو اس سے انسان عام حالات میں خدا کی خاطر بیچ سکتا ہے مگر اگر اسے اقتدار بھی ہو اور یہ ڈر ہو کہ وہ بچنے کے نتیجے میں سزا بھی دلوا سکتی ہے جیسا کہ حضرت یوسف کے معاملہ میں ہوا کہ اس با اقتدار عورت نے آخر ان کو سزا دلوا کے چھوڑی اور یہ واقعہ جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے عام اس بات کا بھی اشارہ کر رہا ہے کہ اگر کوئی شخص کسی صاحب اقتدار سے بھی بچ کے رہے تو یہ حقیقی پاکیزگی ہے.چھٹے وہ شخص ، وہ سخی انسان جس نے پوشیدہ طور پر اللہ کی راہ میں صدقہ دیا کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا.“ اب یہ محاورہ ہے ورنہ یہ توممکن نہیں ہے کہ ایک انسان اپنے دائیں ہاتھ سے کچھ دے رہا ہو اور بائیں کو پتا نہ ہو.بائیں کو تو پتا لگتا ہی ہے.یہ تو ایک اندرونی ایسا مواصلاتی نظام اللہ نے قائم فرمایا ہوا ہے کہ پاؤں کی انگلی بھی ہلے تو سارے بدن کو علم ہوتا ہے کہ پاؤں کی انگلی بلی ہے.یہ مواصلاتی نظام جو اندرونی مواصلاتی نظام ہے یہ نا کام ہو جائے یا بیمار ہو جائے تو پھر نہیں پتا چلتا.تو یہاں تو کسی بیماری کا ذکر نہیں ہے ایک تعریف کا کلمہ ہے.دائیں ہاتھ سے خرچ کرے تو بائیں ہاتھ کو علم نہ ہو اس میں محاورہ کے علاوہ بھی کچھ معنی مخفی ہیں.دایاں ہاتھ اگر آنکھیں رکھتا تو بائیں ہاتھ کو دیکھ نہیں سکتا، بایاں ہاتھ اگر آنکھیں رکھتا تو دائیں ہاتھ کو دیکھ نہیں سکتا.تو یہ نہ دیکھ سکتے کا مضمون اندھیرے کی طرف اشارہ کر رہا
خطبات طاہر جلد 17 699 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء ہے اور واقعہ آنحضورصلی یا ایم کے صحابہ کا یہ حال تھا جس حال کے متعلق احادیث بوضاحت روشنی ڈال رہی ہیں کہ بعض دفعہ وہ رات کو صدقہ و خیرات کے لئے نکلتے تھے اور اس اندھیرے کے نتیجہ میں وہ لوگوں سے چھپتے تھے تو بائیں ہاتھ سے مراد یہاں دوسرے لوگ بھی ہو سکتے ہیں جن سے وہ چھپ کر صدقہ و خیرات کیا کرتے تھے، اور اندھیرا ایسا ہوتا تھا کہ یہ بھی نہیں پتا چلتا تھا کہ کس کو دے رہے ہیں.چنانچہ صبح کے وقت لطیفہ کے طور پر یہ بات مشہور ہو جاتی تھی کہ ایک شخص نے ایک امیر آدمی کو رات کو کچھ پکڑا دیا.اب لطف کی بات یہ ہے کہ اگر اُس کو پکڑایا تھا تو اس کو چاہئے تھا کہ انکار کر دیتا کہ میں تو امیر آدمی ہوں، کھاتا پیتا ہوں اور میں یہ قبول نہیں کروں گا لیکن اس میں دوسری خوبی یہ بیان ہوئی ہے کہ وہ شکریہ لینے کی خاطر ٹھہرتے نہیں تھے اور تیزی سے نکل جایا کرتے تھے اور چونکہ اندھیرا ہوتا تھا اس لئے ان کا پیچھا کرنا بھی ممکن نہیں ہوا کرتا تھا اور اندھیرے میں پتا بھی نہیں چلتا کہ کیا پکڑایا گیا ہے.وہ دیکھنے والا جب تک دیکھتا کہ یہ کیا چیز مجھے دے دی گئی ہے اس وقت تک وہ نظروں سے غائب ہو جایا کرتا تھا.تو یہ مضمون ہے جو آنحضرت صلی للہ ایسی تم نے اس پہلو سے بیان فرمایا ہے کہ اس کے بائیں ہاتھ کو بھی خبر نہ ہوئی کہ اس کے دائیں ہاتھ نے کیا خرچ کیا.ساتویں وہ مخلص جس نے خلوت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کی محبت کی بناء پر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے.“ (صحیح مسلم ، کتاب الزكاة، باب فضل اخفاء الصدقة،حدیث نمبر : 2380) لوگوں کے سامنے تو آنسو جاری ہو بھی جایا کرتے ہیں مگر جب انسان بالکل تنہا ہو، کوئی بھی نہ ہواس وقت اگر خدا کی محبت میں آنسو بہیں تو وہ آنسو سب سے زیادہ پیارے آنسو ہیں کیونکہ خدا کے سوا انہیں کوئی دیکھنے والا نہیں.ایک اور حدیث نبوی سی ایم میں مذکور ہے جو ترمذی كِتَابُ فَضَائِلِ الْجِهَادِ سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی یہ تم نے فرمایا: ” خدا کی خشیت سے رونے والا شخص جہنم میں داخل نہیں ہوسکتا یہاں تک کہ دودھ واپس تھنوں میں لوٹ جائے.“
خطبات طاہر جلد 17 700 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء اب اس مثال میں کیا تصویر کشی فرمائی گئی ہے.دودھ جو ماں کا دودھ بچے کی چیخ و پکار پر اس کی خاطر تھنوں سے نکل جاتا ہے اس کی واپسی ممکن نہیں ہوا کرتی.تو اللہ کی رحمت کا دودھ ہے وہ جب اترتا ہے تو واپس نہیں ہوا کرتا اور چونکہ بچہ کے رونے اور چلانے پر دودھ اترا کرتا ہے اس لئے اس انسان کے آنسوؤں پر جو محض اللہ کی خاطر رویا ہے اللہ کی رحمت کا دودھ اترتا ہے.پس مثال دی کہ اگر تم نے کبھی دیکھا ہو کہ ماؤں کے تھنوں میں دودھ واپس چلا گیا ہے تو پھر یہ وہم کر سکتے ہو کہ اللہ کی رحمت جو اتر چکی ہو اپنے پیارے پر وہ اس کی طرف واپس لوٹ جائے، یہ نہیں ہوسکتا.پھر فرمایا: 66 اسی طرح خدا تعالیٰ کی راہ میں اڑایا جانے والا غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے.“ (سنن الترمذی کتاب فضائل الجهاد، باب ماجاء في فضل الغبار في سبيل الله ، حدیث نمبر : 1633) وہ غزوہ میں شامل جیالوں کے دستے جو آنحضرت صلی ایم کے پیچھے پیچھے دشمن پر جھپٹا کرتے تھے تو ان کے گھوڑوں کے سموں سے غبار اڑا کرتی تھی اس غبار میں چھپتے تھے یعنی الگ چھپنے کی جگہ نہیں تھی مگر اس تیزی سے جھپٹتے تھے کہ غبار بھی ساتھ ساتھ اڑتی چلی جاتی تھی اور دشمن کو صرف ایک غبار دکھائی دیتی تھی یہاں تک کہ وہ اس کے دستوں میں داخل ہو جایا کرتے تھے.یہ قرآن کریم میں بھی ایک سورۃ میں بڑی وضاحت سے بیان ہوا ہے فرمایا وہ غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے.جہنم کا دھواں بھی ایک غبار ہی تو ہے جس میں ایک چیز چھپ جاتی ہے تو فرمایا یہ دو اکٹھے نہیں ہو سکتے.پس اس غبار کا ایک منظر تو ہم نے بھی گزشتہ زمانوں میں ربوہ میں دیکھا ہوا ہے.بعض دفعہ اتنی خشک سردی پڑا کرتی تھی کہ غبار ایک معمولی سی پاؤں کی دھمک سے بھی اڑتی تھی اور جلسے کے دنوں میں مجھے یاد ہے نزلہ، زکام، کھانسی تو اس غبار سے ہو ہی جایا کرتا تھا مگر کپڑے گندے ہو گئے اور چہرے پہ غبار پڑ گئی.کسی نے حضرت مصلح موعودؓ سے شکایت کی کہ گردوغبار کی وجہ سے یہ حال ہو جاتا ہے تو حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا مبارک ہو.یہ غبار جو تمہارے چہروں پر پڑتی ہے اور کپڑوں کو میلا کرتی ہے یہ تمہیں جہنم سے بچنے کی خوشخبری دے رہی ہے.یہ بھی وہ غبار ہے جس غبار کے ساتھ جہنم کا دھواں اکٹھا نہیں ہوگا.تو اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ یہ غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہ ہو سکنے کا مضمون ایک رنگ میں ہمارے زمانہ میں بھی دو ہرایا گیا ہے اور ہم دیکھتے رہے ہیں اس کو.
خطبات طاہر جلد 17 701 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء ایک اور حدیث اسی تعلق میں مسلم كِتَابُ الإِيمَانَ بَابُ الْإِسْلَامِ مَا هُوَ وَبَيَانُ خِصَالِهِ سے لی گئی ہے.مطلب یہ ہے کہ ایک ایسا باب ہے جس میں الاسلام اور اس کا بیان اور اس کی خصلتوں کا بیان ہے.ایک سوال کرنے والے نے عرض کیا یا رسول اللہ سلیم احسان کیا ہے؟ فرمایا یہ ہے کہ تو اللہ کی خشیت اختیار کرے گویا کہ تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے ضرور دیکھ رہا ہے.“ (مسلم كِتَابُ الْإِيمَانَ بَابُ الْإِسْلَامِ مَا هُوَ وَبَيَانُ خِصَالِهِ ، حدیث نمبر :99) یہ مضمون احسان کا قرآن کریم میں بھی بکثرت بیان ہوا ہے اور آنحضرت صلی ہی ایم نے اسے مختلف پہلوؤں سے بیان فرمایا ہے.یہاں خشیت کے تعلق میں یہ بیان ہے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے.انسان اگر اپنے آپ کو بھی دیکھ رہا ہو اور پھر یہ محسوس کرے کہ خدا کو دیکھ رہا ہے تو اس سے خشیت پیدا ہوتی ہے ورنہ اپنا سب کچھ چھپائے پھرتا ہے اور اگر وہ یہ سمجھے کہ خدا دیکھ رہا ہے تو بعض دفعہ دعوی بھی کرتا ہے کہ اللہ گواہ ہے میں تو ٹھیک ٹھاک ہوں.اللہ دیکھتا ہے کہ مجھ میں تو کوئی بھی خرابی نہیں.تو ایسے شخص کے دل میں خشیت کیسے پیدا ہو سکتی ہے.چنانچہ بارہا مجھے اس کا تجربہ ہوا ہے جب میں کسی سے پوچھتا ہوں کہ دیکھو تم نے یہ حرکت کی ہے تو کہتے ہیں آپ کو کیسے پتا خدا گواہ ہے، اللہ جانتا ہے میرے دل میں تو یہ بات نہیں اور قرآن کریم ایسے لوگوں کی بکثرت مثالیں بیان فرماتا ہے کہ جب آنحضرت صلی ا یہ تم اور صحابہ ان کی غلطیوں کی طرف اشارہ کرتے تھے تو قسمیں کھایا کرتے تھے اللہ کی قسمیں کھا کر یہ کہتے تھے کہ ہر گز یہ بات نہیں تھی ہم تو بڑے نیک ارادے رکھتے تھے اور آپ لوگوں نے غلط سمجھ لیا ہے.پس اللہ کے حلف اٹھانے سے، اللہ کی قسمیں کھانے سے یہ یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص خدا کو دیکھ رہا ہے اس حال میں کہ اس کے دل پر خشیت طاری ہو.ایک ہی شرط ہے جو میں نے بیان کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو بھی دیکھ رہا ہو اور جو اپنے آپ کو دیکھ رہا ہو اس کے دماغ میں تکبر کا کیڑا بھی نہیں پڑسکتا.اگر کوئی بری حرکت کرتے ہوئے یا چوری کرتے ہوئے دیکھ لے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے تو اس شخص کے رعب سے جتنا بھی وہ رعب ہے اس کے دل میں خشیت طاری ہوگی لیکن کوئی دیکھ رہا ہو اور پتانہ لگے کہ کوئی کیا کر رہا ہے مجال ہے جو کسی قسم کی خشیت اس پر طاری ہو.
خطبات طاہر جلد 17 702 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء پس یہ مضمون اس پہلو سے غور سے سمجھنے کے لائق ہے کہ احسان کی ایک تعریف یہ فرمائی گئی ہے کہ ایک شخص اللہ کو دیکھ رہا ہو، گویا دیکھ رہا ہو کہ وہ اپنے نفس کو بھی دیکھ رہا ہو اور جانتا ہو کہ اس حالت میں جب بھی اللہ کی نظر پڑی میں پکڑا گیا اس کے نتیجہ میں جسم پر لرزہ طاری ہو جائے گا.پس لرزه طاری کرنے کا مضمون کوئی اتفاقی نہیں ہے اس کی جڑیں گہرے مطالب میں ہیں.چنانچہ فرمایا اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا.بسا اوقات ایک انسان کسی کو نہیں دیکھ رہا ہوتا مگر کوئی غیب میں اسے دیکھ رہا ہوتا ہے اس سے بھی ڈرتا ہے.آج کل انگلستان میں مختلف جو سٹور ہیں، بڑی بڑی دکانیں ہیں ان پر ایسے کیمرے لگ گئے ہیں کہ ایک انسان دیکھ نہیں سکتا کہ کون اسے دیکھ رہا ہے مگر غائب آنکھیں اسے دیکھ رہی ہوتی ہیں.پس اگر دکاندار کو آنکھوں کے سامنے دیکھے تو اس کے سامنے تو چوری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن اس وجہ سے بھی وہ بچتا ہے کہ دیکھ رہا ہے کہ کوئی اسے دیکھ رہا ہے.کون ہے؟ وہ نہیں جانتا ، غائب میں ہے.پس یہ مفہوم ہے، دوسرا احسان کا کہ یہ خیال رکھے کہ اللہ کی نظر اس پر ہر حال میں رہتی ہے.وہ ظاہری طور پر یا باطنی طور پر اسے دکھائی نہ بھی دے تو یہ احساس ضرور ہے کہ وہ اسے ضرور دیکھ رہا ہے اور اس دیکھنے پر صرف کامل اور بچے متقی کو ہی جرأت ہو سکتی ہے کہ وہ کہے سُبحان من تیرانی پاک ہے وہ جو ہر حال میں مجھے دیکھ رہا ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ بالا رادہ اس نے کبھی کوئی بھی خدا کی نافرمانی کا قدم نہیں اٹھایا، نہ خدا کی نافرمانی کی باتیں سوچیں اور اس کامل یقین کے ساتھ وہ کہہ رہا ہے سُبْحَانَ مَن يَرَانی پاک ہے میرا اللہ، پاک ہے وہ ذات جو ہر حال میں مجھے دیکھ رہی ہے.اور دیکھنے کا مفہوم جیسا کہ میں پہلے بھی بیان کر چکا ہوں یہاں محبت اور پیار اور حفاظت کی نظر ڈالنا بھی ہے.تو پاک ہے وہ ذات جو ہر حال میں مجھ پر حفاظت کی نظر ڈالتی ہے، مجھے کمزوریوں سے بچاتی ہے، مجھے دشمنوں سے نجات دیتی ہے اور دشمنوں سے میری حفاظت فرماتی ہے.تو فرمایا اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے ضرور دیکھ رہا ہے یہ وہ شخص ہے جو احسان کرنے والا ہے.عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارہ میں ایک لمبی روایت ہے جس میں انہوں نے ایک دعا کا ذکر کیا ہے جس کا تعلق اس مضمون سے ہے.یہ مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے وہ آنحضرت صل للہ یہ تم کی اس دعا کا اس حدیث میں ذکر کرتے ہیں جو ی تھی : "اللهم...أَسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ “ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة حديث عمار بن یاسر ، حدیث نمبر : 18325)
خطبات طاہر جلد 17 703 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء اے میرے اللہ ! میں تیری خشیت طلب کرتا ہوں غیب میں بھی اور شہادۃ میں بھی.اس نے اُس مضمون کو بہت وضاحت سے بیان فرما دیا جو میں نے ابھی آپ کے سامنے رکھا ہے اور یہ حدیث اسی مضمون کو قوت بخش رہی ہے.اور ایک زائد بات اس میں یہ ہے کہ اس بات کی دعا بھی تو کیا کرو ورنہ بغیر دعا کے از خود تمہیں یہ برکت نصیب نہیں ہو سکتی ، یہ سعادت نصیب نہیں ہو سکتی کہ تم جب دیکھو خشیت محسوس کرو.تو اللہ سے یہ دعا کیا کرو کہ جب تو دکھائی نہیں بھی دے رہا ہوتا میں جانتا ہوں کہ تو غیب میں ہے اور ہر حال میں انسان خدا تعالیٰ کو شعوری طور پر محسوس نہیں کرتا کہ وہ موجود ہے.اگر ایسا ہو تو اس کی زندگی سوائے ان اولیاء کے جو خدا کے ساتھ رہنے اور ہمہ وقت رہنے کے عادی ہوتے ہیں، عام انسان کی زندگی کٹھن ہو جائے.بعض بچے جب بڑے ہوتے ہیں تو ماؤں سے کہتے ہیں ہمارے ساتھ نہ پھرو، باپوں سے کہتے ہیں ہر وقت نہ ہمارے ساتھ رہا کرو کچھ تو ہمیں آزادی کے سانس لینے دو، ہم الگ ہو کے بھی جی کے دیکھیں.تو پیاروں کے ساتھ رہنا بھی ایک حد تک اچھا لگتا ہے پھر برا لگنے لگ جاتا ہے تو اس لئے خدا کے ساتھ رہنے کا جو مضمون ہے اس پر یہ حدیث روشنی ڈال رہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کیا کرو کہ اپنا غیب میں بھی ساتھ عطا فرمائے تو ایسا ساتھ عطا فرمائے کہ اس کے نتیجہ میں خشیت پیدا ہو یعنی بے حیائی نہ ہو.چنانچہ قرآن کریم کی ایک اور آیت ایسے گناہ کا ذکر کرتی ہے جو جنب اللہ میں کیا گیا.ہر وقت اللہ ساتھ رہتا ہے مگر جسارت ہے اس کے باوجود بھی گویا اس کے پہلو میں چل رہا ہے اور گناہوں کی جسارت کر رہا ہے.تو فرمایا کہ غیب میں بھی خشیت عطا فرما اور شهادة میں بھی.جب ہم سمجھیں کہ تو پاس نہیں ہے اس وقت تیری خشیت ضرور نصیب ہو اور جب جانتے ہوں کہ تو ہمیشہ ہمارے ساتھ رہتا ہے تب بھی تیری خشیت نصیب ہو.تو اس دعا پر اس حدیث کے مضمون کی تان ٹوٹتی ہے یعنی اس سے اوپر پھر اور کوئی مضمون بیان نہیں ہو سکتا کہ انسان اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالتے ہوئے اللہ ہی سے التجا کرے کہ وہ اسے یہ توفیق عطا فرمائے.اگر اللہ کی توفیق عطا نہ ہو تو کچھ بھی حاصل نہیں ہو سکتا.اب ایک مضمون خشیت کا علم کے ساتھ تعلق رکھتا ہے اور اس مضمون پر ابی الدرداء کی ایک روایت ہے جو تر مذی كِتَابُ الْعِلْمِ ، بَاب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ العِلْمِ میں دی گئی ہے.حضرت ابی الدرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ:
خطبات طاہر جلد 17 704 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء ہم رسول اللہ صلیال الیتیم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی للہ یہی تم نے اپنی نگاہ آسمان کی طرف اٹھاتے ہوئے فرمایا ، ایسی گھڑی بھی آنے والی ہے جس میں علم لوگوں سے چھین لیا جائے گا.“ ایک ایسی گھڑی آئے گی کہ لوگوں سے علم چھین لیا جائے گا.اب اگر اللہ علم چھین لے تو پھر کیا باقی رہ جاتا ہے.کسی انسان کا اختیار کیا ہے کہ وہ اس علم کو زبردستی چھٹے رہے.تو جب آنحضرت صلی لا یہ تم نے یہ فرمایا تو ساتھ فرمایا: وہ اس میں سے کسی بات پر بھی قدرت نہیں رکھیں گے.“ یعنی علم کے کسی پہلو پر بھی ان کو مقدرت نہیں ہوگی.یہ ایک بڑی تعجب والی بات تھی کہ ایسی گھڑی کیسے آسکتی ہے کہ اللہ علم کو چھین لے جب کہ لوگ علم کو چمٹنا چاہیں اور علم کی حفاظت کرنا چاہیں.یہ ایک خیال زیاد بن لبید انصاری کے دل میں گزرا تو انہوں نے عرض کی : " ہم سے علم کیسے چھین لیا جائے گا جب کہ ہم نے قرآن پڑھا ہے اور ہم ضرور اسے پڑھتے رہیں گے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی ضرور پڑھا ئیں گے.اس پر آپ مسلی یہ تم نے فرمایا : اے زیاد! تیری ماں تجھے گم کر دے.میں تو تجھے مدینہ کے فقہاء میں سے سمجھا کرتا تھا.“ زیاد کے متعلق یہ بیان ان کی علمی شان اور تفقہ کو بھی ظاہر فرما رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ تم اس بات کو نہیں پا سکے جو میں نے بیان کی ہے.کتنے تعجب کی بات ہے اگر تم بھی نہیں سمجھو گے تو پھر باقی لوگ کیسے سمجھیں گے.ایک آدمی جو بہت فقیہہ ہو اور بہت سمجھ دار ہو وہ نہ سمجھے تو کہتے ہیں لوجی تم بھی نہیں سمجھتے تو پھر اور کیا سمجھیں گے.تو اس رنگ میں آپ صلی ای تم نے فرمایا اور ماں گم کر دے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کوئی بددعا ہے.یہ عرب محاورہ تھا کہ تیری ماں تجھے کھودے یعنی ماں جب کھودے تو اسے بہت تکلیف پہنچتی ہے تو شاید اس محاورہ کا یہ مطلب ہو کہ تم ایسی بات کر رہے ہو کہ تمہارے پیاروں کو اس سے تکلیف ہورہی ہے تو ایسی باتیں نہ کیا کرو کہ تم سے محبت کرنے والے محسوس کریں گویا انہوں نے تمہیں گم کر دیا ہے.بہر حال اس پر آپ صلی الہیم نے فرمایا: ”اے زیاد! تیری ماں تجھے کھو دے میں تو تجھے مدینہ کے فقہاء میں شمار کرتا تھا.(اور آگے مثال کیسی عمدہ دی ہے) دیکھو یہ تو رات اور انجیل یہودونصاری کے پاس ہیں.“
خطبات طاہر جلد 17 705 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء وہ اس کا درس بھی دیتے ہیں ، وہ پڑھتے بھی ہیں.بڑے بڑے مدارس جاری ہیں ، بڑے بڑے فقہا ءان مدارس میں تقریریں کرتے ہیں.66 مگر ان کو کیا فائدہ دیتی ہیں، کچھ بھی نہیں.“ تو آنحضور صلی للہ ایسی تم نے جو دوسری احادیث میں مثال بیان فرمائی ہے کہ میری اُمت پر بھی وہ وقت آجائے گا جیسا یہود کی اُمت پر اور نصاریٰ کی امت پر مجھ سے پہلے آیا تھا اسی کا اشارہ فرمارہے ہیں.کیا چیز تھی جو ان کے دل میں نہیں رہی تھی خوف خدا.جب خوف اٹھ جائے گا، خشیت جاتی رہے گی تو علم کی بھر مار ہو ، طومار لگے ہوں وہ کچھ بھی اس قوم کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جن کے دلوں سے خوف خدا اُٹھ چکا ہو.جبیر کہتے ہیں: میں عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ملا اور کہا کہ تم نے سنا ہے کہ تیرا بھائی ابوالدرداء کیا کہہ رہا ہے.پھر میں نے ابوالدرداء کی یہ ساری روایت عبادہ بن صامت کو بتائی.عبادہ نے کہا ابوالدرداء نے سچ کہا ہے اگر تو پسند کرے تو میں تجھے وہ پہلا علم بتا دیتا ہوں جو لوگوں سے چھین لیا گیا یا چھین لیا جائے گا.(اگر تم چاہتے ہو کہ معلوم کر لو وہ علم کیا ہے جو چھین لیا جائے گا.فرمایا: ) وہ خشوع ہے.“ اللہ کے حضور خشیت کے ساتھ جھک جانا، اس کے آگے خاک پہ بچھ جانا یہ وہ علم ہے جو قرآن کریم کی رو سے علم کہلاتا ہے.پھر کہتے ہیں: وو وہ وقت آتا ہے کہ تو ایک جماعت کی مسجد میں داخل ہوگا تو اس میں ایک شخص بھی خشوع کرنے والا نہ پائے گا.“ (ترمذی كِتَابُ الْعِلْمِ بَاب مَا جَاءَ فِي ذَهَابِ العِلْمِ ،حدیث نمبر : 2653) یہ وہ مضمون ہے جس کا قرآن کریم کی اس آیت میں ذکر ہے اِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ العلموا (الفاطر: 29) کہ اللہ سے تو صرف اور صرف اس کے بندوں میں سے علماء ڈرتے ہیں.تو جو ڈرتے نہیں ہیں وہ علماء نہیں ہیں.علم نہیں چھینا گیا وہ خوف چھینا گیا جو علم کی روح ہے.کیسے لطیف انداز میں آنحضور صلی ایم نے قرآن کریم کی اس آیت کی تفسیر فرمائی.ورنہ اب غیر علماء بھی ڈرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں مگر فر مایا علم ہے ہی خشوع کا دوسرا نام.جسے علم ہو اس کے دونوں پہلو ہونے
خطبات طاہر جلد 17 706 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء لازم ہیں.اللہ کا بھی علم ہو اور اپنی ذات کا بھی علم ہو.یہ دنیاوی علماء مراد نہیں ہیں جنہوں نے عربی گرامر میں پڑھی ہوں یا قرآن کریم کو مجلسوں میں پڑھا ہوا ہو، ان سے یہ علم عطا نہیں ہوا کرتا.اللہ کے نزدیک علماء وہ ہیں جو ظاہری علوم نہ رکھنے کے باوجود باطنی طور پر سب سے بڑے عالم ہوں.اس پہلو سے آنحضرت سا مال تم پر غور کر لو.آنحضور صلی ہم نے کن مجلسوں میں تعلیم پائی تھی ، کہاں مختلف زبانوں کے علوم حاصل کئے تھے ، کہاں سائنس پڑھی تھی ، کہاں دُنیا کے عجائبات پر غور کیا ، ان کو دیکھا، کچھ بھی نہیں.اُقی تھے اور دُنیا کے سب علماء سے بڑھ کر عالم اس لئے کہ اللہ کی خشیت تھی دل میں اور خشیت کے نتیجہ میں صرف خدا کا خوف اور اپنے نفس کی معرفت ہی حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کے نتیجہ میں پھر اللہ تعالیٰ وہ علوم عطا فرما یا کرتا ہے جو ہر زنگ اور بدی سے پاک ہوتے ہیں.اس لئے واقعہ آنحضرت مصلی تم سب عالموں سے بڑھ کر عالم تھے.نہ آپ صلی ہی تم سے پہلے کوئی ایسا عالم گزرا ، نہ آئندہ کبھی قیامت تک ایسا عالم پیدا ہوسکتا ہے.چنانچہ قرآن کریم کو پڑھ کر غور سے دیکھ لیں اس کثرت سے علوم کا بیان ہے جو پہلے گزر گئے تھے ، جو بعد میں آنے والے تھے قیامت تک آنے والے علوم کا اور قیامت کے بعد ظاہر ہونے والے علوم کا، ازل کا علم ہے جو قرآن کریم میں ہے اور یہ کتاب آنحضرت سلیم پر اتاری گئی کیونکہ اس آیت کا صحیح، کامل اطلاق آپ مالی ایم کی ذات پر ہوتا تھا کہ إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا لہ اللہ سے تو صرف وہی ڈرتے ہیں جو اللہ کے نزدیک علماء ہوں اور علم کا دوسرا نام خشیت الہی ہے.اب میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کے حوالے سے اس مضمون کو آگے بڑھاتا ہوں.پہلے اقتباس میں افلح کے وہ معنی بیان ہوئے ہیں جن کی طرف عام طور پر لوگوں کا دھیان نہیں جاتا کیونکہ افلح کا مطلب یہ نظر آتا ہے جس نے نجات حاصل کر لی.یہ لازم ہے اور اگر متعدی کے معنوں میں لیا جائے تو جس نے نجات دے دی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو معنی لغت کے حوالہ سے بیان فرمائے ہیں وہ اس سے کچھ مختلف ہیں.فرمایا: افلح کے لغت میں یہ معنے ہیں کہ اُصِير إلى الفلاح.( کہ وہ فلاح کی طرف پھیر دیا گیا
خطبات طاہر جلد 17 707 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء اب یہ معنی بالعموم علماء کے ذہن میں آتے ہی نہیں.کہ یہ تو ایک لازم کا صیغہ ہے متعدی کا بھی ہوسکتا ہے مگر مجہول نہیں مگر افلح کے معنی مجہولیت کے لحاظ سے بھی لئے گئے ہیں اور اہل لغت اس کی تصدیق کرتے ہیں.پس افلح کا مطلب ہے ایسے مومن نجات پاگئے جن کے دل اللہ نے پھیر دئے ، جن کے دلوں کو اللہ نے نجات کی خاطر تبدیل فرما دیا.تو اللہ ہی ہے جو دلوں میں خوف خدا پیدا فرماتا ہے اور اللہ ہی دلوں کو نجات کی خاطر نجات کے لئے پھیرتا ہے.یہ ایک نیا مضمون ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ضمیمہ براہین احمدیہ میں بیان فرمایا.فرماتے ہیں: أصِيرَ الى الفلاح یعنی فوز مرام کی طرف پھیرا گیا.( فلاح بھی وہ کہ اس سے بڑھ کر، اس سے اعلیٰ نجات کا تصور ممکن نہیں ) پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا.“ اب کیسا خوبصورت کلام ہے.صرف پھیرا ہی نہیں گیا اس کی طرف بڑھنے کے لئے تحریک بھی کر دی گئی ورنہ ایک انسان ایک اچھی چیز کو دیکھتا ہے بعض دفعہ پسند بھی کرتا ہے مگر اس کی طرف جاتا نہیں اور بندھن ہیں جو اس کو روک دیتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ بہت ہی لطیف، عارفانہ کلام پر مشتمل ہوتے ہیں.آپ فرماتے ہیں: ”فوز مرام کی طرف پھیرا گیا اور حرکت دیا گیا.یہ حرکت اللہ کے فیض کے سوا انسان کو مل ہی نہیں سکتی.پس ان معنوں کی رو سے مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کے لئے پہلی حرکت ہے.“ اب حرکت کی خشوع کے ذریعہ تعریف فرما دی کیونکہ خشوع کے وقت انسان کا دل لرز رہا ہوتا ہے.وہ دل ساکت اور جامد نہیں رہتا اس میں ایک ہنگامہ سا بر پا ہو جاتا ہے اور جتنے بھی عوامل ہیں دُنیا میں وہ حرکت کے بغیر ممکن نہیں.فزکس کی اصطلاح میں اسے کہتے ہیں ایٹم یا مالیکیول کی ایکسائیٹڈ سٹیٹ.جب تک ایکسائٹمنٹ نہ ہو ان کے اندر جو شعوری طور پر محسوس نہیں کرتے مگر اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک قسم کا شعور بھی عطا کیا ہوا ہے جو اندرونی ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے.وہ ایکسائیٹ ہو جاتے ہیں.جب ایکسائیٹ ہوتے ہیں تو پھر وہ دوسرے مادوں کے ساتھ ری ایکٹ کرتے ہیں ، ان کے ساتھ مل کر تیسری چیز بناتے ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے محاوروں میں اگر چہ بظاہر سائنٹیفک اصطلاحیں استعمال نہیں ہوئیں مگر بعینہ سائنٹیفک اصطلاحیں استعمال ہو رہی ہیں جس کا علم
خطبات طاہر جلد 17 708 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء نہ ہو وہ سوچ نہیں سکتا کہ یہاں حرکت سے کیا مراد ہے.پس ان معنوں کی رو سے مومن کا نماز میں خشوع اختیار کرنا فوز مرام کے لئے پہلی حرکت ہے.فوز مرام کی خواہش تو سب کے دل میں ہے مگر خشوع کے بغیر اس کی طرف حرکت نہیں پیدا ہوتی.پس یہ پہلی حرکت ہے.جس کے ساتھ تکبر اور جب وغیرہ چھوڑنا پڑتا ہے.“ اب یہ جو حرکت ہے اسے روکنے کے لئے مجب : اپنے نفس کی ، اپنی ذات پسند، اپنی نگاہوں میں اپنی ذات کو اچھا سمجھنا اور تکبر : دوسروں کے مقابل پر اپنے آپ کو اچھا سمجھنا.تو دونوں پہلو جو ہیں ان کو چھوڑے بغیر یہ حرکت اس کو اجازت نہیں دے گی کہ اللہ کی طرف بڑھے.گویاز نجیریں ہیں پاؤں میں، رسیوں سے باندھی ہوئی چیز ہے وہ جانا چاہے بھی تو جا نہیں سکتی.تو فرمایا، یا درکوفوز مرام کی طرف جب حرکت نصیب ہو تو ان بندھنوں کو توڑ دیا کرو.اس کے بعد اگر عجب اور تکبر باقی رہا تو م واپس اپنے پہلے حال کی طرف چلے جاؤ گے اور یہ حرکت تمہیں کچھ بھی فائدہ نہیں دے گی.فرمایا یہ وہ چیز ہے کہ : انسان کا نفس خشوع کی سیرت اختیار کر کے خدائے تعالیٰ سے تعلق پکڑنے کے لئے مستعد اور تیار ہو جاتا ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ:230) اب خشوع عارضی بھی ہوا کرتا ہے ، حرکت بھی پیدا ہوتی ہے مگر اگر وہ سیرت نہ بن جائے ، انسان کی فطرت میں خشوع نہ پیدا ہو جائے تو وہ اس کا ساتھ چھوڑ دیا کرتا ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض دوسری مثالوں سے تفصیل کے ساتھ اس مضمون کو بیان فرمایا ہے کہ خشوع سے خوش نہ ہو جاؤ کہ کوئی لمحہ تمہیں خشوع کا نصیب ہوا بعید نہیں کہ تم نے اگر تکبر اور عجب سے خلاصی نہ پائی تو یہ دونوں چیزیں تمہیں واپس کھینچ کے اس جمود کی حالت کی طرف لے جائیں گی کہ پھر خدا کی طرف تمہیں حرکت نصیب نہیں ہوگی.مستعد اور تیار ہو جاتا ہے.ایسے حال میں کہ وہ اس کی فطرت کا حصہ بن جاتا ہے ہر وقت تیار رہتا ہے کہ کوئی بھی بہانہ ملے تو اللہ کی طرف حرکت کر جائے.ملفوظات جلد اوّل میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان درج ہے: ” خدا تعالیٰ سے مدد مانگو اور اپنی پوری طاقت اور ہمت سے اپنی کمزوریوں کو دور کرنے کی کوشش کرو.جہاں عاجز آ جاؤ، وہاں صدق اور یقین سے ہاتھ اُٹھاؤ.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ : 93/رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 مرتبہ شیخ یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ :164)
خطبات طاہر جلد 17 709 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء 66 اب دیکھیں صرف دعا سے کمزوریاں دور کرنے کی کوشش کرنا بے معنی اور لغو ہے.جب تک انسان پوری کوشش سے ، اپنی محنت سے خود برائیاں دور کرنے کے لئے جد و جہد نہ کرے.پس وہی لوگ سعی کرنے والے ہیں جو جہاں تک ان میں طاقت ہے وہ اپنی برائیاں دور کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں.فرمایا: ” جہاں عاجز آجاؤ.اب ہر انسان جانتا ہے کہ کئی برائیاں ہیں جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں وہ بہت کوشش کرتا ہے، بہت محنت کرتا ہے کہ ان سے نجات پائے مگر ایک موقع پر جا کے عاجز آجاتا ہے.کچھ پیش نہیں جاتی وہ برائی ہے کہ چھوڑتی ہی نہیں، چمٹ جاتی ہے.فرمایا اس وقت صدق اور یقین سے ہاتھ اٹھاؤ.یہ جانتے ہوئے کہ تم عاجز آگئے ہواللہ عاجز نہیں آسکتا.یہ کامل یقین ہو کہ اللہ کسی چیز سے عاجز نہیں آسکتا.اُس وقت انسان جب یہ سمجھے کہ میں عاجز آ گیا تو اس کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں کہ اس کے دل میں خشوع پیدا ہوگا اور واقعہ ایک انسان پورے خلوص نیت سے ایک چیز سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کر رہا ہو اور وہ پیچھاہی نہ چھوڑ رہی ہو تو عاجز آ جاتا ہے.اس وقت اس کے دل سے ایک بے قراری کی دعا اٹھتی ہے اسی بے قراری کا نام خشوع ہے.اب ایک شخص کا ایک کتا پیچھا کر رہا ہے اور چھوڑتا ہی نہیں.کوئی اور بلا پیچھے لگی ہوئی ہے جو اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی، وہ مڑمڑ کے دیکھتا بھی ہے.کبھی چھپ جاتی ہے کبھی پھر پیچھے تو جب کچھ پیش نہ جائے پھر اس کے دل میں خشوع پیدا ہو گا، خوف بھی پیدا ہوگا اور انکساری اور عاجزی بھی پیدا ہوگی کہ کیا مصیبت میرے گلے پڑ گئی ہے.بیماریوں کا بھی یہی حال ہے.بعض لوگ اپنی بیماریوں سے واقف نہیں ہوتے اس لئے ان کے دل میں خشوع نہیں پیدا ہوتا مگر بیماری اندر اندر ان کا پیچھا کرتی چلی جاتی ہے.چنانچہ جب وہ بیماری کو پیچھا کرتے ہوئے دیکھ لیتے ہیں اکثر اس وقت بیماری ان پر غالب آچکی ہوتی ہے وہ وقت ہے خشوع کا، وہی وقت ہے جب وہ دعاؤں کے لئے بھی لکھتے ہیں.مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو مضمون بیان فرمایا ہے اس میں بیماری سے پہلے، پہلے اس کے کہ وہ بڑھ چکی ہوا اپنی طرف سے کوشش کر کے اس سے پیچھا چھڑانا بھی شامل ہے اور اگر وہ غالب آ ہی چکی ہو جب کچھ پیش نہ جائے اس وقت جو درد دل سے اٹھی ہوئی دعا ہے وہ قبول ہوگی اگر صدق اور ایمان ہو.اب ایسے بہت سے بیمار مجھے بھی خط لکھتے ہیں کہ بہت درد دل سے دعائیں کی
خطبات طاہر جلد 17 710 خطبہ جمعہ 9اکتوبر 1998ء ہیں بیماری پیچھا نہیں چھوڑ رہی، کچھ پیش نہیں جارہی مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سچے ہیں.واقعہ یہ ہے کہ اس وقت ان کو کامل یقین نہیں ہوتا وہ ہاتھ تو اٹھاتے ہیں اس خیال سے کہ اور چارہ ہی کوئی نہیں، اللہ کے سوا کوئی چارہ دکھائی ہی نہیں دے رہا ہوتا اس لئے ہاتھ تو اٹھا دیتے ہیں مگر وہ صدق اور ایمان جو دل کو یقین سے بھر دیتا ہے اور کامل یقین کے ساتھ وہ اللہ کے حضور حاضر ہوں اس کی توفیق نہیں ملتی اور یہ وجہ اچانک پیدا نہیں ہوا کرتی.میں نے دیکھا ہے کہ بعض لوگوں کو بغیر کسی علاج کے ایسے موقع پر اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز شفا بخشی جس کو ڈاکٹر بھی بطور مثال بیان کرتے ہیں اور بعض بے چارے گریہ وزاری کرتے ہوئے ہاتھوں سے نکل گئے اور ان کو کوئی شفا نصیب نہیں ہوئی دراصل ان کے پہلے مسلک پر اللہ کی نظر ہوتی ہے مگر اب چونکہ وقت ہو چکا ہے باقی اسی مضمون سے میں انشاء اللہ آئندہ باقی باتیں بیان کروں گا.
خطبات طاہر جلد 17 711 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء کچی روح کے ساتھ خدا کے حضور عرق ندامت کا گرایا ہوا ایک قطرہ رحمتوں کی موسلا دھار بارشوں میں بدل جاتا ہے (خطبه جمعه فرموده 16 اکتوبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ کی تلاوت کی: ا تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الخشِعِينَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَجِعُونَ.پھر فرمایا: (البقرة:45 تا 47) سورة البقرة آیات 45 تا 47 ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.ان آیات میں سے پہلی آیت خصوصیت کے ساتھ یہود علماء کو مخاطب ہے.اتأمرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَب میں یہود عامتہ الناس پیش نظر نہیں یعنی بطور خاص پیش نظر نہیں مگر یہود علماء پیش نظر ہیں کیونکہ تتلون الكتب جملہ بتا رہا ہے کہ وہ یہودی جو کتاب پڑھا کرتے تھے اور عموماً یہود عوام الناس ان کتاب پڑھنے والوں ہی سے ہدایت مانگا کرتے تھے اس لئے خصوصیت سے اہل کتاب کے علماء مراد ہیں مگر جو ان کی صفات بیان کی گئی ہیں وہ صفات جب بھی جس قوم کے علماء پر اطلاق پائیں گی وہ سارے مراد ہوں گے.قرآن کریم تاریخ سے سبق لینے کے لئے یہ طریق اختیار
خطبات طاہر جلد 17 712 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء کرتا ہے کہ پرانے علماء یا پرانی قوموں کے حالات بیان کرتے ہوئے ان کی مشابہتیں پیش نظر رکھتا ہے.جب بھی ، جس قوم کو بھی ان سے مشابہت ہوگی وہی قرآن کے مخاطب ہوں گے.تو اس تمہید کے ساتھ میں اب ان آیات کا ترجمہ اور کچھ ان کی تفسیر بیان کرتا ہوں.اتا مُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنْفُسَكُمْ : يهود علماء اپنے اس دور میں جس میں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ والسلام ان کی اصلاح کے لئے نازل ہوئے ، اس دور میں کثرت کے ساتھ ان بیماریوں کا شکار ہو گئے تھے.تلاوت تو کتاب کی کرتے تھے مگر اپنے نفوس کو بھول جاتے تھے یعنی تلاوت کرتے تھے اور اس تلاوت سے جو کچھ بھی لوگوں کے سامنے بیان کرتے تھے وہ اچھا تھا یا برا، بعض دفعہ وہ تبدیل بھی کر دیا کرتے تھے مگر یہاں وہ تبدیلی مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ وہ تلاوت کتاب سے یہ معاملہ جان لیتے تھے کہ اللہ تعالیٰ تقویٰ کی تعلیم دے رہا ہے نیکیوں کو پورے خلوص کے ساتھ اختیار کرنے اور بدیوں کو پورے عزم کے ساتھ رڈ کرنے کا حکم دے رہا ہے.یہ بات بیان کرتے وقت وہ اپنے نفوس کو بھول جایا کرتے تھے.یہ اپنے نفوس کو بھولنے کے دو معانی ہیں.ایک تو یہ کہ خود اپنے اوپر ان نیکیوں کا ، ان نصیحتوں کا عمل نہیں ہوا کرتا تھا.بدکردار لوگ تھے لوگوں کے سامنے تو نیکیاں بیان کرتے تھے مگر خود اپنے حال پر کبھی نظر نہیں ڈالتے تھے کہ ہم خود بھی ان نیکیوں کو اختیار کر رہے ہیں یا نہیں.انفسكم کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اپنے عزیز واقارب، اپنے قریبی، اپنی جانوں کو جو ان سے تعلق رکھتی ہیں ان کے معاملہ میں آکر تو آنکھیں موند لیا کرتے تھے، آنکھیں بند کر لیا کرتے تھے وہ جس حال میں تھے جو کچھ کرتے رہے تھے وہی ان کو اچھا لگتا تھا اور ان کو خاص طور پر نیکیوں کا حکم اور بدیوں سے روکتے نہیں تھے.تو یہ سارے معانی اسی آیت کریمہ کے اس محاورہ میں شامل ہیں.آتَامُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ : عوام الناس کو تو تم نیکیوں کا حکم دیتے ہو وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ : مگر اپنی جانوں کو اور اپنے عزیز واقارب کو بھول جاتے ہو.وَ اَنْتُمْ تَتْلُونَ الكتب اور یہاں تَتْلُونَ الكتب کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ خبر دار تمہیں پتا ہے کہ جس عادت میں تم مبتلا ہو اس کو کتاب رڈ کر رہی ہے، جانتے بوجھتے ہوئے ایسا کرتے ہو.اَفَلَا تَعْقِلُونَ : پس کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے یا عقل سے کام نہیں لو گے.اب جو اگلی آیت کریمہ ہے یہ تمام بنی نوع انسان کو لیکن خصوصیت سے مسلمانوں کو مخاطب ہے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة : اور مدد مانگو صبر کے ساتھ اور صلوۃ کے ساتھ.اب بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة
خطبات طاہر جلد 17 713 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء کے دو معانی ہیں جو بیک وقت موجود ہیں.ب کا مطلب ایک تو یہ بنتا ہے کہ صبر کی ہی دعا مانگو اور نماز کی دعا مانگو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ صبر کے ساتھ دعا مانگو اور نماز کے ساتھ دعا مانگو.عموماً مترجمین یہ دوسرا معنی اختیار کر لیتے ہیں حالانکہ یہ دونوں بیک وقت مراد ہیں اور ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہوتے ہیں.صبر کے لئے دعا مانگنا اور صبر کے ساتھ دعا مانگنا یہ دونوں چیزیں لازم و ملزوم ہیں.اگر صبر کے لئے دعا مانگی جائے تو جب تک صبر کے ساتھ دعا نہ مانگی جائے اس دعا کے مقبول ہونے کے امکانات دور کے ہو جاتے ہیں یعنی بعض دفعہ جلدی بھی دعا قبول ہو جاتی ہے مگر بسا اقات انسان آزمایا جاتا ہے اور اگر اس کی واقعہ نیت ہے کہ وہ ایک چیز کو اللہ سے چاہتا ہے تو پھر اسے پکڑ بیٹھے اور یہ مضمون ہے بالصبر صبر کرو اور جو نیکی کی دعا تم مانگ رہے ہو اگر تم اس میں واقعہ سچے ہو ، اسی کو پسند کرتے ہو اس نیکی کی دعا ہمیشہ مانگتے رہو کیونکہ وہ تو کسی حال میں بھی بے ضرورت نہیں رہتی.نیکی کی تو ہر وقت ضرورت رہتی ہے.پس نیکی پر صبر کرنا اور نیکی پر صبر کرنے کے لئے دعا پر صبر کرنا کہ اللہ ہمیں نیکی عطا فرمائے یہ ایک ہی چیز کے دو معنی ہیں.ایک معنی کے دو الفاظ ہیں.والصلوۃ اور نماز پر یہی صبر والا حکم عائد ہوتا ہے.پس اس کو پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہم جو نمازیں پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نیکیوں کو مضبوطی سے اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہ ممکن نہیں ہے جب تک پورے خلوص نیت کے ساتھ ہم اس کے لئے دعا نہ کرتے رہیں اور دعا کی وجہ یہ بیان فرمائی وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الخشعِينَ : کہ یہ نیکی اور نماز پر صبر کرنا اور صبر کے ساتھ نماز پڑھنا اور نماز کی دعا کرنا یہ بذات خود وَإِنَّهَا لكَبِيرَة : بہت بڑی بات ہے، بہت مشکل کام ہے الا عَلَى الْخَشِعِينَ : سوائے ان لوگوں کے جو خشوع کرتے ہیں.تو قرآن کریم کی آیات کا پہلا حصہ دوسرے کی تشریح کر رہا ہوتا ہے اور دوسرا حصہ پہلے کی تشریح کر رہا ہوتا ہے اور ان دونوں کے درمیان ایک اٹوٹ جوڑ ہوا کرتا ہے ، نہ ٹوٹنے والا ایک رشتہ ہے.وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الْخَشِعِينَ اور خشوع کی وجہ پھر اگلی آیت میں بیان فرما دی گئی.خَاشِعِین پر نہ صبر بھاری ہے، نہ نماز بھاری ہے.مگر خاشعین ہوتے کون ہیں؟ الَّذِيْنَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا دهم : جو یہ گمان کرتے ہیں کہ وہ اپنے رب سے ضرور ملنے والے ہیں وَ أَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ: اور یقیناً وہ اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے.یہاں یظنون کا ترجمہ میں نے یہ گمان کرتے ہیں کیا ہے
خطبات طاہر جلد 17 714 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء حالانکہ لغات کی کتب قرآن کریم کی اسی آیت کے حوالہ سے یقین رکھتے ہیں“ کا ترجمہ پیش کرتی ہیں.(المنجد فی اللغۃ زیر لفظ ظن) یہ اس معروف مسلمہ ترجمہ سے جس کو مسلمان اہل لغت پیش کرتے ہیں میں نے کن معنوں میں احتراز کیا ہے.یہ میں آپ کو سمجھانا چاہتا ہوں.قرآن کریم کے نزول سے پہلے عربوں میں بعض محاورے رائج تھے اور ظن کا محاورہ اُمید یا توقع کے معنوں میں استعمال ہوا کرتا تھا یقین کے معنوں میں نہیں مگر جو اہل اللہ جانتے ہیں کہ انہوں نے لازماً پیش ہونا ہے اس لئے وہ اللہ کے سامنے پیش ہونے پر یقین رکھتے ہیں.اس پہلو سے اس کا ترجمہ یقین ، قطعی اور لازمی ہے لیکن پیش ہونے پر یقین رکھنا اور ہے اور لقاء پر یقین رکھنا اور ہے.لقاء کا ایک معنی ہے اس کے دربار میں ہمیں رسائی ہوگی ، ہم اس سے ملاقات کریں گے یعنی ایک مجرم کے طور پر نہیں بلکہ یہ توقع رکھتے ہوئے کہ وہ ہم پر پیار کی نگاہ ڈالے گا اور ہمیں لقاء باری تعالیٰ ایسے نصیب ہوگی جیسے بعض دفعہ بادشاہ کسی کو اجازت دے دیتے ہیں کہ ان کے دربار تک پہنچے.تو لقاء کے دو معنی ہیں جسے یاد رکھنا چاہئے بعض لوگوں کو پیشی کے لئے بلایا جاتا ہے تا کہ ان کی جواب طلبی ہو اس کو لقاء ان معنوں میں نہیں کہہ سکتے جس میں محبت اور چاہت اور اعزاز کا مضمون ہے.اور ایک لقاء ہے جسے دیدار کرانا مقصود ہوا کرتا ہے یعنی لقاء سے مراد ہے اللہ ا پنا دیدار کرواتا ہے اور ان کا دیدار کرتا ہے.تو یہ وجہ ہے کہ یظنون کا لفظ یہاں میرے نزدیک اول معنی وہی رکھتا ہے جو ظن کے معنی ہیں اور اس میں ایک حکمت ہے.مومن اپنے اعمال کے اعتبار سے کبھی بھی یقین نہیں کرتے کہ وہ ضرور بخشے جائیں گے.وہ اپنے نفس کو جانتے ہیں، اپنی کمزوریوں کو بھی جانتے ہیں مگر جتنا زیادہ بڑا اہل اللہ ہوگا اتنا ہی زیادہ اس میں انکساری پائی جائے گی.اس لئے وہ لقاء کی امید تو بہت رکھتے ہیں لیکن یہ گمان ہے کہ اللہ ہمیں اپنے لقاء کا موقع عطا فرمائے گا.یقین میں ایک قسم کا استکبار بھی پیدا ہو جاتا ہے، ایک قسم کا تکبر بھی ہوتا ہے کہ ہم ! ہم تو اتنے اعلیٰ لوگ ہیں یہ ہو کیسے سکتا ہے کہ اللہ ہمیں لقاء نہ بخشے اور ان معنوں میں کہ وہ یقین رکھتے ہیں کہ خدا سے ضرور ملیں گے یہ ہو ہی نہیں سکتا.حضرت اقدس محمد مصطفی صلی للہ یتیم سے بڑھ کر عارف باللہ کوئی نہیں تھا مگر اپنی بخشش کے متعلق فرماتے ہیں کہ اللہ کے فضل ہی سے بخشا جاؤں گا تو یہ انکسار کی انتہاء ہے جس کے نتیجے میں لفظ یقین یہاں اطلاق نہیں پاتا.اُمید تو بہت رکھتے ہیں، خواہش بہت ہے، حرص ہے دل کو ، ان معنوں میں ظن
خطبات طاہر جلد 17 715 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء ہے مگر یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ مرنے کے بعد ضرور خدا ہمیں بلائے گا.وہ ہوتے کون ہیں جو یہ یقین کر سکیں کہ اللہ ہمیں ضرور بلائے گا.پس الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَجِعُوْنَ - اب اس بات کا تو یقین ہے کہ اس کی طرف لوٹ جائیں گے مگر یہ ضروری نہیں کہ لقاء کے لحاظ سے لوٹیں گے یعنی پیار و محبت کی ملاقات کے لحاظ سے ، وہ تو اس کی مرضی ہے مگر لوٹنے کا یقین ضرور رکھتے ہیں اور اس یقین کی وجہ سے خشیت پیدا ہوتی ہے.لقاء کے اعلیٰ درجہ کے معنوں کے لحاظ سے نہیں مگر پیشی کے لحاظ سے کہ مجھے پیش ضرور ہونا ہے.ان کے دل میں بہت خشیت پیدا ہوتی ہے اور وہ ڈرتے رہتے ہیں اور عاجزانہ اس کی راہوں پہ بچھتے چلے جاتے ہیں کہ ہمارا حساب آسان ہو جائے.یہ آیات کریمہ ہیں جن کی براہ راست یا اشارہ تشریح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مختلف اقتباسات میں فرمائی ہے یعنی مختلف تحریروں میں یا ملفوظات میں فرمائی ہے جن میں سے اقتباس لئے گئے ہیں.پہلا اقتباس ضمیمہ براہین احمد یہ روحانی خزائن جلد 21 مطبوعہ لندن صفحہ 189 سے لیا ہے.خشوع کی حالت اس وقت تک خطرہ سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے.“ اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں جیسا کہ میں بارہا توجہ دلا چکا ہوں بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے.رحمن سے تعلق تو ذہن میں از خود اُبھرتا ہے اور ایک عام انسان یہی خیال کرے گا کہ لفظ رحمن ہونا چاہئے نہ کہ رحیم خشوع کی حالت اس وقت تک خطرے سے خالی نہیں جب تک کہ رحیم خدا سے تعلق نہ پکڑ لے.رحمن کو چھوڑ کر جو اول صفت ہے جس میں سب سے زیادہ مخلوقات سے تعلق کا اظہار ہے اس کو چھوڑ کر جو رحیم کو اخذ فرمایا گیا اس میں گہری حکمت ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کھول رہے ہیں.رحیم عمل کی جزاء دیا کرتا ہے اور بدعمل کی بد جزاء بھی دیا کرتا ہے تو اگر چہ رحیم میں چونکہ رحم کا مضمون ہے اس لئے یہ تو ہو سکتا ہے کہ نیک عمل کی بہت زیادہ جزاء دے مگر رحیم میں چونکہ عمل کی جزاء کا عمومی مفہوم داخل ہے اس لئے بد عمل کی اتنی جزاء ضرور دے گا جتنا بدعمل ہو.تو بدیاں اتنی ہی سزا کی مستحق ٹھہریں گی، اتنی ہی سزا کی سزاوار ٹھہریں گی جتنی سی بدی ہے اور یہ رحیمیت کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے.جزاء سزا کا سارا عمل جو ہم اس دُنیا میں دیکھتے ہیں یہ تمام نظام رحیمیت کے نتیجہ سے تعلق رکھتا ہے.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 " 716 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء یادر ہے کہ جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے 66 ہوتا ہے." رحمانیت میں عمل کا توسط کوئی نہیں ہے.جب انسان تھا ہی نہیں اس وقت رحمن نے اس کو پیدا فرمایا، تمام انعامات اس پر کئے جبکہ کوئی مانگنے والا نہیں تھا لیکن ایک دفعہ جو انعام فرما دئے ان کا حساب بھی ہوگا اور پھر اگر اس رحمانیت کے تعلق کو کوئی برقرار رکھنا چاہے تو رحیمیت کی صفت کو ملحوظ رکھے بغیر ایسا ممکن ہی نہیں ہے.” جب خدا تعالیٰ کا فیضان بغیر توسط کسی عمل کے ہو تو وہ رحمانیت کی صفت سے ہوتا ہے جیسا کہ جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیض رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے.“ جس خدا سے آئے ہیں اس کی طرف واپسی کا سفر شروع ہو گیا ہے، بہت دور نکل جاتے ہیں اس سے، رحمانیت کے تعلق کو بھول جاتے ہیں اور اس دُنیا میں بہت دور تک بھٹک جاتے ہیں پھر اس کی طرف جو واپسی شروع ہوتی ہے یہ ایسے ہی ہے جیسے پہاڑ سے اترنے کے بعد پھر چڑھائی شروع ہو جائے.پہلے جو پہاڑ کی چوٹیاں نصیب تھیں وہ فضل کے طور پر تھیں ہر کس و ناکس میں یہ طاقت نہیں تھی کہ اس بلند پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ سکے جو رحمانیت کے ساتھ انسان کو متعارف کراتا ہے.مسلسل نزول ہے انسان کا، رحمانیت سے چلتے ہوئے وہ آخر اس کھڈ تک پہنچ جاتا ہے جس سے آگے پھر نیچے جا ناممکن نہیں ہوا کرتا پھر وہ جن کو بلند چوٹیاں دکھائی دیں اور اچھی اور پیاری لگیں ان کے دل میں ایک بے تاب تمنا بیدار ہوگی کہ واپس ان چوٹیوں کی طرف سفر شروع کریں.یہ مشکل سفر ہے، یہ محنت طلب سفر ہے اس میں صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگنا ضروری ہے ورنہ جن لوگوں کو یہ تجربہ ہے وہ جانتے ہیں کہ کوئی کہیں کھڑا ہو جاتا ہے، کوئی کہیں کھڑا ہو جاتا ہے، چڑھتے چڑھتے انتظار کرتا رہتا ہے کہ اب یہ چوٹی سر ہو گئی لیکن اس کے اوپر اور بھی چوٹیاں ہوتی ہیں وہ سر کرتے کرتے پھر انسان سمجھتا ہے کہ اب میں اس مقام پر پہنچ گیا ہوں جو سب سے بلند و بالا ہے او پر پھر ایک اور چوٹی دکھائی دیتی ہے.یہ چوٹیاں جو دنیاوی پہاڑوں کی چوٹیاں ہیں یہ تو بعض دفعہ پہاڑوں میں ایک مقام تک
خطبات طاہر جلد 17 717 خطبہ جمعہ 16 اکتوبر 1998ء پہنچ کر ختم ہو جایا کرتی ہیں مثلاً ہمالہ ہے تو ہمالیہ پہاڑ کی آخری چوٹی ہے وہاں پہنچ کر انسان کہہ سکتا ہے کہ میں نے سب کچھ پالیا لیکن جو اللہ تعالیٰ کی رحمانیت کی طرف رخ ہے اس کا تو تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ وہ کتنی بڑی بلندی ہے جس کی طرف ہم نے چڑھنا ہے.تو اگر ہمالہ کی چوٹی تک جاتے جاتے انسان جان جوکھوں میں ڈالتا ہے، طرح طرح کی مصیبتوں میں مبتلا ہوتا ہے اور کئی قسم کے خطرات مول لیتا ہے.قدم پھسل جائے تو وہ ترقی کی بجائے تنزل کا گڑھا اس کا مقدر بن جاتا ہے جس سے پھر کبھی نکل نہیں سکتا، یعنی موت واقع ہو جاتی ہے.یہ سارے مضامین ہیں جو رحیمیت اور رحمانیت کے موازنہ کو آپ پر کھولتے ہیں اور یہی موازنہ ہے جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس تحریر میں فرما رہے ہیں.جو کچھ خدا نے زمین و آسمان وغیرہ انسان کے لئے بنائے یا خود انسان کو بنایا یہ سب فیض رحمانیت سے ظہور میں آیا لیکن جب کوئی فیض کسی عمل اور عبادت اور مجاہدہ اور ریاضت کے عوض میں ہو وہ رحیمیت کا فیض کہلاتا ہے.یہی سنت اللہ بنی آدم کے لئے جاری ہے.( یعنی کوئی بنی آدم اس سے مستثنی نہیں ہے ) پس جبکہ انسان نماز اور یاد الہی میں خشوع کی حالت اختیار کرتا ہے تب اپنے تئیں رحیمیت کے فیضان کے لئے مستعد بناتا ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ: 189) یہ جو خشوع ہے اس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بعض تنبیہات بھی فرمائی ہیں یہ میں ابھی آپ کے سامنے پیش کروں گا کیونکہ خشوع کے مضمون کو سمجھنے میں بعض دفعہ رقت ایک دقت پیدا کر دیتی ہے.اب واقعات خواہ دینی ہوں یا دنیاوی ہوں اللہ کا ذکر جب آپ کریں اور اس رنگ میں ذکر ہو اس کے بندوں سے سلوک کا کہ وہ رنگ اپنی ذات میں درد ناک رنگ ہو یا حضرت اقدس محمد مصطفی اسلام کا ذکر کریں اور وہ ذکر ایسا ہو کہ اس کو پڑھتے ہوئے بے اختیار انسان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جا ئیں اور بیان کرتے وقت اور بھی مشکل ہو جاتی ہے پڑھتے وقت تو انسان کچھ ضبط کر سکتا ہے مگر وہی دردناک واقعہ اگر بیان کرے تو بڑی مشکل پیش آتی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 718 خطبہ جمعہ 16 اکتوبر 1998ء اب سوال یہ ہے کہ وہ آنسو جو ایک دردناک واقعہ کے نتیجہ میں پھوٹتے ہیں کیا وہ خشیت کا نشان ہیں، کیا اس کو خشوع و خضوع کی علامت سمجھا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یہ مضمون بہت باریک اور بڑی محنت سے نتھار نے والا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ معرکہ فرمایا کہ اس مضمون کے مختلف پہلو کھول کھول کر بیان کر کے واعظین کے لئے بھی اور ہر کس و ناکس کے لئے اس مضمون کو ایسا کھول دیا ہے کہ پھر اس میں کسی قسم کے اشتباہ کا کوئی سوال باقی نہیں رہتا.اب دیکھیں کئی لوگ جانتے ہیں کہ قصہ پڑھ رہے ہیں اور وہ قصہ دردناک ہوتا ہے.اس قصے پر بعض دفعہ لوگ بلک بلک کر روتے ہیں، بعض بچے جب کوئی درد ناک کہانی پڑھتے ہیں تو اتنا روتے ہیں کہ ان کی کتاب ہاتھ سے گر جاتی ہے اور روتے روتے سو بھی جاتے ہیں.اب اس کو خشوع و خضوع تو نہیں کہہ سکتے.اگر چہ خشوع و خضوع کے مشابہ معنی ضرور ہیں مگر یہ خشوع و خضوع نہیں ہے اس کے نتیجے میں ان کو کوئی جزاء نہیں دی جائے گی ، کوئی سزا نہیں دی جائے گی.یہ دراصل نفس کی ایک حالت ہے جس سے لطف محسوس ہوتا ہے.جو دل کا درد ہے جب وہ آنکھوں سے ابل پڑے تو ایک سکون ملتا ہے اور آنسو بھی اس لحاظ سے رحمت ہیں اور آنحضرت سی ایسی تم نے انہیں رحمت ہی قرار دیا اور وہ بدنصیب بد و جو سمجھتے تھے کہ آنکھ کی سختی یہ مردانگی کی علامت ہے اور رونا ایک زنانہ نشان ہے.آنحضرت صل للہ ایک لیم جب خود رو پڑتے تھے تو اگر چہ رونا ان معنوں میں تھا جن معنوں میں میں خشوع و خضوع کی اب بات کر رہا ہوں بہت گہرا اور حقیقی عرفان پر مبنی ہوا کرتا تھا مگر آنسوؤں کو آپ سی ایم نے بہر حال رحمت قرار دیا ہے سمجھانے کی خاطر کہ جس کو اللہ کی رحمت ہی نصیب نہیں ہوئی اس کی آنکھیں خشک ہیں اس کے لئے میں کیا کرسکتا ہوں.پس یہ رونے کی صلاحیت کے اعتبار سے دردناک واقعات کو پڑھ کر آپ یہ تو معلوم کر سکتے ہیں کہ آپ کے اندر صلاحیت ہے کہ نہیں مگر اس سے زیادہ نتیجہ نہیں نکال سکتے.کچھ ایسے بدنصیب ہوتے ہیں جیسے عرب کے بدو جن کے متعلق میں نے بیان کیا ہے کہ اُن کی آنکھیں پتھر کی طرح ہوا کرتی تھیں جتنا مرضی دردناک واقعہ ہو جائے ، پڑھیں یا سنا ئیں اُن کی آنکھوں میں کوئی آنسو نہیں آئے گا.اس لئے کہ وہ ان چیزوں سے بالکل بے تعلق ہوتے ہیں اور رونے کا ایک تعلق کے ساتھ تعلق ہے.جب آپ قصہ پڑھتے ہیں تو فرضی کردار ہی صحیح لیکن وقتی طور پر انسان ایک make-belief کے طور پر یعنی بغیر شعور کے از خود اس پر یقین کرنے لگ جاتا ہے.اور ایک دفعہ ایک بچے کو میں نے
خطبات طاہر جلد 17 719 خطبہ جمعہ 16 اکتوبر 1998ء دیکھا جب اس کو رونا آ رہا ہوتا تھا کتاب پڑھتے وقت تو ایک دم ہاتھ ہٹا کے کہتا تھا: ”نہیں نہیں یونہی واقعہ ہے کچھ بھی نہیں ہے.یہ ہمارے گھر کے بچوں میں سے ایک تھا تو مجھے ہنسی بھی بہت آئی لیکن اس کی ذہانت کا بھی میں قائل ہوا اُس کو یہ پتا تھا کہ مجھے رونا اس لئے آ رہا ہے کہ میں ان باتوں پر یقین کر رہا ہوں اس لئے وہ بار بار کہتا نہیں نہیں کوئی نہیں ہر گز نہیں، یہ ایسا کوئی نہیں ہوا، خیالی باتیں ہیں اور اس طرح اپنے آنسوؤں کو روک رہا تھا مگر یہ تو اس کو پتا چل سکتا تھا اور چل گیا کہ میرا دل نرم ہے اور دردناک باتوں پہ رونا آتا ہے مگر تعلق کی وجہ سے آتا ہے یہ بھی اس کو پتا تھا جب تعلق کاٹ دو تو پھر کوئی رونا نہیں آتا.تو خشوع و خضوع دو طریق پر ہوا کرتا ہے.ایک فرضی تعلق پر اور ایک حقیقی تعلق پر.اب ماں جب بچے کے لئے روتی ہے تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دکھاوا ہے.وہ ایک گہرا تعلق ہے اور وہی ماں جب فرضی قصوں پر روتی ہے تو دکھاوا نہ سہی مگر حقیقت نہیں ہے.یہ ہے مضمون جو بہت بار یک تجزیہ کو چاہتا ہے ورنہ ہمیں کیا پتا کہ ہم اللہ کی خشیت سے رور ہے ہیں ، رسول اللہ صلی یا یہ تم کی محبت سے رور ہے ہیں یا ویسے ہی واقعات ہی درد ناک ہیں ان کی وجہ سے ہمیں رونا آرہا ہے.یہ تمہید ہے ان اقتباسات کے لئے جو میں نے بیان کی جو میں ابھی آپ کے سامنے پڑھ کے سناتا ہوں اور ایک اور پہلو بھی اس کا یہ ہے کہ بعض اوقات خشوع و خضوع وقتی طور پر آتا ہے اور بعض دفعہ مستقل اثر پیچھے چھوڑ جاتا ہے.یہ ساری باتیں ایسی ہیں جوان اقتباسات میں جو میں بیان کروں گا، پڑھ کے سناؤں گا، ان میں موجود ہیں.ملفوظات جلد اوّل، صفحہ 100 ، 101 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے انسان کی قضاء و قدر کو مشروط کر رکھا ہے.“ قضاء و قدر بھی مشروط ہے یعنی یہ خیال کر لینا کہ قضاء ہے جولا زماً جاری ہوگی اور اس کو ٹالا نہیں جاسکتا، یہ درست نہیں کیونکہ قضاء کو کیسے ٹالا جاسکتا ہے یہ بھی قضاء ہے اور قضائے الہی کا ایک حصہ ہے.اگر آپ کو علم ہو کہ قضاء کتنے وسیع مضمون پر اطلاق پاتی ہے اور قضاء کے اندر قضاء چلتی ہے تو پھر یہ مشکلات آسانی سے حل ہو جاتی ہیں.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” خدا تعالیٰ نے انسان کی قضاء وقدر کو مشروط کر رکھا ہے جو تو بہ، خشوع، خضوع سے ٹل سکتی ہے.جب کسی قسم کی تکلیف اور مصیبت انسان کو پہنچتی ہے تو فطرتا اور طبعاً اعمال حسنہ کی طرف رجوع کرتا ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 720 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء ہر تکلیف کے وقت انسان خدا کی طرف لوٹتا ہے اور انا للہ وانا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ کا ایک یہ بھی معنی ہے یعنی کہیں کسی مقام پر اسے ایسا دھکا لگتا ہے کہ خدا سے دوری کا سفر اس کے قرب کے سفر میں تبدیل ہو جاتا ہے.جیسے پتھر دیوار پر ماریں تو وہ لوٹ کر آتا ہے اس طرح بعض دیواروں سے سر ٹکرانے کے بعد انسان کو خدا یاد آتا ہے اور وہ پتھر کی طرح واپس لوٹتا ہے لیکن ان دونوں میں پھر فرق ہے.بعض پتھر واپس لوٹتے ہیں مگر کچھ دیر کے بعد زمین پر گر جاتے ہیں لیکن جو شعائیں ہیں جو روحانیت کی مثال ہیں کیونکہ اللہ نے روحانیت کو نور سے تشبیہہ دی ہے وہ جب کسی جگہ سے ٹکرا کر واپس لوٹتی ہیں تو رستے میں نہیں گر جایا کرتیں.ان کا سفر مستقل ہوتا ہے، کسی وقت، کسی جگہ وہ ختم نہیں ہوتا.تو اس طرح یہ نہ سمجھیں کہ ہر شخص کے ساتھ ایک ہی سلوک ہوتا ہے.وہ لوگ جو دُنیا دار ہوں ان کے پتھر دُنیا کی طرف لوٹ جایا کرتے ہیں.کچھ دیر کے لئے خدا کی طرف حرکت کی اور پھر وہ پتھر بیچ میں معلق ہوئے اور گر گئے اور وہ جو خدا تعالیٰ کی شعاعیں اپنے دل میں رکھتے ہیں جن کو جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے نور کہا جاتا ہے وہ جب بھی کسی ایسی حالت سے ٹکراتے ہیں جو صدمے کا موجب بنتی ہے تو بعینہ اسی شدت اور اسی رفتار کے ساتھ خدا کی طرف واپس مڑنے لگتے ہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: وہ فطرتاً اور طبعاً اعمال حسنہ کی طرف رجوع کرتا ہے اور اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسوس کرتا ہے.جو اسے بیدار کرتا ہے اور نیکیوں کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے.یہ بیداری ہے جو مستقل بیداری ہے عارضی بیداری نہیں ) اور گناہ سے ہٹاتا ہے جس طرح پر ہم ادویات کے اثر کو تجربہ کے ذریعہ سے پالیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطرب الحال انسان جب خدا تعالیٰ کے آستانے پر نہایت تذلل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور رتی رہی کہہ کر اس کو پکارتا ہے اور دعا میں مانگتا ہے، تو وہ رویائے صالحہ یا الہام صالحہ کے ذریعہ سے ایک بشارت اور تسلی پالیتا ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحہ 100 101 الحکم جلد 3 نمبر 13 صفحہ: 3 مؤرخہ 12 اپریل 1899ء) یہ مضطرب الحال جو آستانہ الوہیت پر گرتے ہیں یہ وہی ہیں جن کا میں ذکر پہلے کر چکا ہوں جو دل میں ایک روحانیت کا مرتبہ رکھتے ہیں اور وہی روحانیت کا مرتبہ ہے جو انہیں پھر ہمیشہ خدا کی طرف مائل رکھتا ہے ورنہ یہ اس کی ہمیشگی کی تو فیق ممکن نہیں.
خطبات طاہر جلد 17 721 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء ملفوظات جلد اوّل صفحہ: 273 میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: جگری گریہ و بکا آستانہ الوہیت پر ہر ایک قسم کی نفسانی گندگیوں اور مفسد مواد کو لے کر نکل جاتا ہے.“ گریہ و بکا نہیں فرمایا.جگری گریہ و بکا آستانہ الوہیت پر ہر ایک قسم کی نفسانی گندگیوں اور مفسد مواد کو لے کر نکل جاتا ہے یعنی محض رونے کے نتیجہ میں دل کے فساد آنکھوں کی راہ سے باہر نہیں نکلا کرتے اور دل پاک و صاف نہیں ہوا کرتا بلکہ لفظ جگری کی شرط آپ نے رکھ دی ہے.جگری کا معنی ہے جو فی الحقیقت سچا ہو، بہت گہرائی اپنے اندر رکھتا ہو.تو ان معنوں میں جگری فرما یا کہ ” جگری آہ و بکاء آستانہ الوہیت پر ہر ایک قسم کی نفسانی گندگیوں اور مفسد مواد کو لے کر نکل جاتا ہے“.جب انسان اس گریہ وزاری سے ایک دفعہ صاف کر دیتا ہے تو دوبارہ وہ مواد پھر واپس نہیں جایا کرتا.یہ نشانی ہے جو ہر ایک کے لئے کھلی ہے.کوئی نہیں کہہ سکتا کہ بہت مشکل مضمون جسے ہم سمجھ ہی نہیں سکتے جسے پہچاننا ہمارے بس کی بات نہیں.اس کو پہچاننا وتی تو بہ کے بعد پھر جو مستقل عمل باقی رہ جاتا ہے اس کو پہچاننے کے ساتھ یہ بات بھی پہچانی جاسکتی ہے.اگر وقتی گریہ وزاری ہو تو وقتی طور پر انسان اپنے دل کو ہلکا محسوس کرتا ہے، ہر رونے کے بعد ہلکا محسوس کرتا ہے تب ہی اکثر رونے کے بعد لوگوں کو نیند آ جاتی ہے، دل خالی ہو جاتا ہے، ہر بوجھ اتر گیا لیکن اگر وہ جگری نہ ہو تو جو مواد دل سے نکلا ہے پھر دل اس سے بھر جائے گا اور کوئی گند نہیں ہے جو صاف ہوا ہے وہ خود گریہ کا بوجھ ہے جو صاف ہوا ہے اور اس کو پاک وصاف بنا دیتا ہے ان معنوں میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اہل اللہ کا ایک آنسو جو توبتہ النصوح کے وقت نکلتا ہے ہوا و ہوس کے بندے اور ریا کار اور ظلمتوں کے گرفتار کے ایک دریا بہا دینے سے افضل واعلیٰ ہے.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ: 273/ الحکم جلد 5 نمبر 10 صفحہ:2 مؤرخہ 17 مارچ 1901ء) وہ ایک قطرہ کیا ہے جو انسانی زندگی پر گویا رحمتوں کی بارش برسا دیتا ہے، ہے ایک قطرہ.وہ قطرہ جب خدا قبول فرمالے تو پھر وہ آسمانی زندگی پر گویا رحمتوں کی بارش بن جاتا ہے کیونکہ اللہ سچی روح کو کبھی ضائع نہیں ہونے دیتا، سچی روح کے ساتھ اس کے حضور اگر آنسو کا ایک قطرہ بھی بہایا جائے تو پھر وہی رحمتوں کی مسلسل موسلا دھار بارشیں بن جاتا ہے.تو توبتہ النصوح جو فر ما یا اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسی
خطبات طاہر جلد 17 722 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء تو بہ کہ اس کے بعد ان اعمال کا کوئی دھیان ہی دل میں نہ آئے جن اعمال سے تو بہ کی ہے، خیال بھی نہ گزرے اور یہ تو بہ تب ہی ممکن ہے اگر ان اعمال کی کراہیت ، ان کی بدی، ان کی نحوست کا انسان کو سچا علم ہو.اب یہ جو مضمون ہے تو بہ النصوح کا اسے پانا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ درست ہے کہ اللہ کے مومن بندے اپنے بعض اعمال کی بدی سے آگاہ ہو جاتے ہیں لیکن جزوی طور پر ، اور جزوی طور پر جن سے آگاہ ہو جاتے ہیں ان کو واقعہ چھوڑ بھی دیتے ہیں مگر جیسا کہ میں بارہا عرض کر چکا ہوں یہ ایک جاری سفر ہے.ہر اہل اللہ کے اپنے اپنے درجے اور مراتب ہیں، ان کے مطابق یہ سفر ہمیشہ باقی رہتا ہے لیکن تو بتہ النصوح ایک اور چیز کا نام ہے.تو بتہ النصوح کا مطلب ہے کہ کلیہ تمام اعمال سیئہ ، تمام بدیاں اس طرح بھیانک طور پر انسان کے سامنے ننگی ہو کر آجاتی ہیں کہ ان میں سے ایک کے ساتھ بھی پھر رغبت باقی نہیں رہتی.یہ بدی کی طرف رغبت کا نہ ہونا، آگے ایک بہت مشکل مضمون کا تقاضا کر رہا ہے جو مشکل بھی ہے اور آسان بھی.آسان ان معنوں میں ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اگر اللہ سے تعلق سچا ہو جائے تو پھر ایک توبتہ النصوح کی کیفیت طاری ہو جاتی ہے.ہر وہ چیز جو اللہ کے تعلق کی راہ میں حائل ہوتی ہے وہ مکروہ اور نہایت گندی دکھائی دیتی ہے.جو بھی اس تعلق کو توڑنے والی چیز ہو انسان اس سے تعلق توڑ لیتا ہے اور دوسرا دعاؤں کے نتیجہ میں اور محنت کے نتیجہ میں.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ والصلوة یہ مضمون چل رہا ہے اس کا یعنی تو بۃ النصوح تک پہنچنے کے لئے ایک لمبے سفر کی منازل ہیں جو وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة ہر قدم پر صبر اور صلوٰۃ کا محتاج کرتی چلی جاتی ہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک نسبتا لمبا اقتباس پڑھتا ہوں.میں نہیں جانتا کہ اس بقیہ وقت میں یہ ختم ہو سکے گا کہ نہیں مگر جتنا بھی ہے اسی پر آج خطبہ کا اختتام ہوگا.فرماتے ہیں: ” یادر ہے کہ خشوع اور معجز و نیاز کی حالت کو یہ بات ہر گز لازم نہیں ہے کہ خدا سے سچا تعلق ہو جائے.(اب متنبہ فرما رہے ہیں سب کو ) یادر ہے کہ خشوع اور عجز و نیاز کی حالت کو یہ بات ہرگز لازم نہیں ہے کہ خدا سے سچا تعلق ہو جائے بلکہ بسا اوقات شریر لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہر الہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے.“ وہی پتھر والی بات کہ وہ رستے میں گر جاتا ہے پھر.یہاں سے مضمون شروع ہوتا ہے اور پھر آگے اس مضمون کے باریک در باریک پہلوؤں پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام روشنی ڈالتے چلے جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 723 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء بسا اوقات شریر لوگوں کو بھی نمونہ قہر الہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے اور خدا تعالیٰ سے ان کو کچھ بھی تعلق نہیں ہوتا اور نہ لغو کاموں سے ابھی رہائی ہوتی ہے مثلاً وہ زلزلہ جو 4 اپریل 1905 ء کو آیا تھا.“ یہ کانگڑے کا زلزلہ مشہور ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی پیشگوئی کے عین مطابق وہ نہایت ہولناک زلزلہ آیا جس نے ایک وسیع علاقے پر تباہی مچادی تو فرمایا: ”اس کے آنے کے وقت لاکھوں دلوں میں ایسا خشوع اور سوز و گداز ( پیدا) ہوا تھا کہ بجز خدا کے نام لینے اور رونے کے اور کوئی کام نہ تھا.“ وہ جھٹکے جو تھے وہ بہت دنوں تک بار بار آتے رہے اس لئے اس سارے عرصہ میں ، جس عرصہ میں زمین دہلتی رہی ان کے دل بھی دہلتے رہے اور خدا کے خوف سے بار بار رونا آتا تھا اور اس کی طرف بظاہر متوجہ ہوتے تھے.یہاں تک کہ دہریوں کو بھی اپنا د ہر یہ پن بھول گیا تھا.“ اس قسم کے اور بہت سے واقعات ہماری تواریخ میں بھی محفوظ ہیں.کوئٹہ کے زلزلے کے وقت بھی کیا ہوا تھا.کس طرح بعض دہر یہ اس وقت خدا کے قائل دکھائی دینے لگے تھے لیکن جب وقت گزر گیا تو پھر اسی طرح پرانی زندگی کی طرف لوٹ گئے.اور پھر جب وہ وقت جاتارہا اور زمین ٹھہر گئی تو حالت خشوع نابود ہوگئی.“ زمین ٹھہر گئی.اس وقت خشوع کی حالت جو اس قسم کا اضطراب دکھاتی ہے وہ دل کے اضطراب کی کیفیت بھی ٹھہر گئی وہ زمین سے وابستہ تھی نہ کہ تعلق باللہ.پس جب زمین ٹھہر گئی تو دل کا اضطراب بھی ٹھہر گیا.فرماتے ہیں : وو سنا ہے کہ بعض دہریوں نے جو اس وقت خدا کے قائل ہو گئے تھے بڑی بے حیائی اور دلیری سے کہا کہ ہمیں غلطی لگ گئی تھی کہ ہم زلزلے کے رعب میں آگئے ورنہ خدا نہیں ہے.غرض جیسا کہ ہم بار بار لکھ چکے ہیں خشوع کی حالت کے ساتھ بہت گند جمع ہو سکتے ہیں.“ اس لئے ہر انسان اپنی خشوع کی حالت کا تجزیہ کر سکتا ہے جب تک گند ساتھ جمع ہیں.اس حالت خشوع کا نام ایک افسانوی خشوع ہے فرضی اور خیالی اور کہانیوں کا خشوع، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.
خطبات طاہر جلد 17 724 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء البتہ وہ تمام آئندہ کمالات کے لئے تخم کی طرح ہے.“ فرمایا ایک بیج کی طرح ضرور ہے.وہ وقت جب انسان کا دل متزلزل ہو چکا ہو اور وقتی طور پر ہی سہی، خشیت طاری ہو وہ آئندہ انسان میں نفس کی تبدیلی کے لئے ایک بیج کا کام دے سکتا ہے اور اس کے نتیجہ میں جو سفر شروع ہو وہ ایک دائمی سفر بن سکتا ہے.مگر اسی حالت کو کمال سمجھنا اپنے نفس کو دھوکا دینا ہے بلکہ بعد اس کے ایک اور مرتبہ ہے جس کی تلاش مومن کو کرنی چاہئے اور کبھی ( بھی ) آرام نہیں لینا چاہئے اورست نہیں ہونا چاہئے.استعین میں یہ تلاش کا معنی کبھی آرام نہ کرنا اور کبھی ست نہ ہونا ، وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة یہ سارا مضمون اسی آیت سے تعلق رکھتا ہے.جب تک وہ رتبہ حاصل نہ ہو جائے اور وہ وہی مرتبہ ہے جس کو کلام الہی نے ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ.(المومنون:4) یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک اور پہچان ہمیں دکھا دی ہے ایک اور جانچ کا طریقہ سمجھا دیا.ان الفاظ سے بیان فرمایا ہے ) کہ ) وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ یعنی مومن صرف وہی لوگ نہیں ہیں جو نماز میں خشوع اختیار کرتے ( ہیں ) اور سوز و گداز ظاہر کرتے ہیں بلکہ ان سے بڑھ کر وہ مومن ہیں کہ باوجود خشوع اور سوز و گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں.“ باوجود کا یہاں معنی با وجود کے ان معنوں میں نہیں کہ خشوع نہ بھی ہوتو ایسا ہوفر مایا کہ خشوع کی وجہ سے، خشوع کے وجود کی وجہ سے، باوجود یہاں یہ معنی رکھتا ہے.با وجود خشوع اور سوز و گداز کے تمام لغو باتوں اور لغو کاموں اور لغو تعلقوں سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں اور اپنی خشوع کی حالت کو بیہودہ کاموں اور لغو باتوں کے ساتھ ملا کر ضائع اور برباد ہونے نہیں دیتے اور طبعاً تمام لغویات سے علیحدگی اختیار کرتے ہیں.(هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ) اور بیہودہ باتوں اور بیہودہ کاموں سے ایک کراہت ان کے دلوں
خطبات طاہر جلد 17 725 خطبہ جمعہ 16اکتوبر 1998ء میں پیدا ہو جاتی ہے اور یہ اس بات پر دلیل ہوتی ہے کہ ان کو خدا تعالیٰ سے کچھ تعلق ہو گیا ہے کیونکہ ایک طرف سے انسان تب ہی منہ پھیرتا ہے جب دوسری طرف اس کا تعلق ہو جاتا ہے.“ پس لغویات سے اعراض کا طریقہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تعلق باللہ ہی بتایا ہے.لغویات سے اچانک تعلق نہیں ٹوٹا کرتا.وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوۃ والا جو تعلق ہے وہ اچانک نہیں ٹوٹا کرتا اس میں لازماً صبر کے ساتھ اللہ سے مدد مانگتے ہوئے سب سے پہلی چیز جو مانگنی چاہئے اور سب سے آخری چیز جو مانگنی چاہئے وہ اللہ کا سچا پیار ہے کیونکہ لغویات سے منہ موڑنے کے لئے اس میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی.پیار کے نتیجہ میں اگر منہ موڑتے ہیں تو یہ منہ موڑ نا بہت آسان ہے.ایک طرف کشش زیادہ ہے دوسری طرف کم ہے طبعی بات ہے جس طرف کشش زیادہ ہوگی چیز اسی کی طرف اُٹھ جائے گی.وقت محسوس نہیں کرتی.کشش ثقل میں بھی یہی مضمون ہے اور مقناطیس جب وزنی چیزوں کو زمین سے اٹھا لیتا ہے تو کشش ثقل ختم تو نہیں ہو جاتی مگر ایک زیادہ بڑی طاقتور کشش نے اس چیز کو اپنی طرف کھینچ لیا.پس یہ مضمون ہے جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ زمینی تعلقات تمہیں ہمہ وقت اپنی طرف کھینچتے چلے جائیں گے اور اگر تم ان سے اس طرح چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہو کہ وہ طبعی ہو جائے اس میں تمہیں محنت نہ کرنی پڑے یعنی ایک دفعہ اگر تمہیں اللہ سے تعلق قائم ہو جائے تو وہ تعلق تمہیں کھینچ لے گا اور زمینی تعلق کمزور پڑ جائے گا اگر یہ نہ ہو تعلق نہ کھینچے تو پھر ز مینی تعلق لازماً ہمیشہ بالآخر آپ کو اپنی طرف کھینچتا چلا جائے گا.وو ” جب دل کا خدائے رحیم سے تعلق ہو جائے اور دل پر اس کی عظمت اور ہیبت غالب آجائے.“ ( ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 201 202) یہ آخری فقرہ ہے اس اقتباس کا.باقی انشاءاللہ بقیہ اقتباسات آئندہ خطبہ میں بیان کروں گا.
خطبات طاہر جلد 17 727 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء محض خشوع و خضوع نیک بندوں کی مخصوص علامت نہیں قرآن وحدیث سے حیا کے مضمون کی تفاصیل کا بیان (خطبہ جمعہ فرمودہ 23 اکتوبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کی: ا تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَأَنْتُمْ تَتْدُونَ الْكِتَبَ أَفَلَا تَعْقِلُونَ وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَ إِنَّهَا لَكَبِيرَةُ إِلَّا عَلَى الخشِعِينَ ) الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُمْ مُلْقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ) پھر فرمایا: (البقرة:45 تا 47) ان آیات سے تعلق رکھنے والی احادیث کا بیان بھی گزر چکا ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات بھی اکثر میں پڑھ چکا ہوں.جو چند اقتباسات باقی ہیں آج انہی سے خطبہ شروع ہوگا.اس میں پہلا حصہ تو ایسا ہے جو پہلے بھی پڑھا جا چکا ہے مگر آخر پر جو مضمون بیان ہوا ہے وہ اس سے مختلف ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: بہت سے ایسے فقیر میں نے بچشم خود دیکھے ہیں اور ایسا ہی بعض دوسرے لوگ بھی دیکھنے میں آئے ہیں کہ کسی دردناک شعر کے پڑھنے یا دردناک نظارہ دیکھنے یا دردناک قصہ کے سننے سے اس جلدی سے ان کے آنسو گرنے شروع ہو جاتے ہیں جیسا کہ بعض بادل
خطبات طاہر جلد 17 728 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء اس قدر جلدی سے اپنے موٹے موٹے قطرے برساتے ہیں کہ باہر سونے والوں کورات کے وقت فرصت نہیں دیتے کہ اپنا بستر بغیر تر ہونے کے اندر لے جاسکیں.“ یہ جو تشریح فرمائی ہے بہت ہی دلچسپ ہے اور راتوں کو باہر سونے والے، جیسا کہ ربوہ میں ہم گرمیوں میں باہر ہی سویا کرتے تھے، ان کو اس بات کا تجربہ ہے کہ بعض دفعہ بارش اتنازور سے، اتنا اچانک برستی ہے کہ ناممکن ہو جاتا ہے کہ اپنے بستر کے کپڑے سنبھال لے،سنبھالتے سنبھالتے وہ گیلے نہ ہو چکے ہوں تو اندرا اکثر بھیگے ہوئے بستر ہی پہنچا کرتے تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان چھوٹی چھوٹی باتوں کو بھی بڑے غور سے دیکھتے اور موقع اور محل پر اس یاد کو استعمال فرمایا کرتے تھے چنانچہ اس موقع پر بھی آپ نے فقیروں کی آنکھوں سے گرنے والے قطروں کی بہت ہی پیاری مثال دی ہے یعنی ان کے قطرے تو پیارے نہیں ہیں جو گرتے ہیں مگر مثال بہت عمدہ ہے اور یہ عجیب بات ہے کہ واقعہ بعض لوگ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرما رہے ہیں آپ نے خود دیکھے ہیں کہ اچانک ان کی آنکھوں سے موٹے موٹے آنسو گرنے شروع ہو جاتے ہیں.کہاں سے آئے ، کب پیدا ہوئے کچھ مجھ نہیں آتی.آگے جا کر فرماتے ہیں: میں اپنی ذاتی شہادت سے گواہی دیتا ہوں کہ اکثر ایسے شخص میں نے بڑے مکار بلکہ دُنیا داروں سے آگے بڑھے ہوئے پائے ہیں اور بعض کو میں نے ایسے خبیث طبع اور بددیانت اور ہر پہلو سے بدمعاش پایا ہے کہ مجھے ان کی گریہ وزاری کی عادت اور خشوع و خضوع کی خصلت دیکھ کر اس بات سے کراہت آتی ہے کہ کسی مجلس میں ایسی رفت اور سوز وگداز ظاہر کروں.“ یعنی سوز و گداز پیدا بھی ہو تو بمشکل ضبط کرتا ہوں اور ضبط کرنے کی کوشش کرتا ہوں کیونکہ ایسے بدبختوں کا نظارہ کیا ہوا ہے اور ان کی یاد حائل ہو جاتی ہے اس بات میں کہ میں بے اختیار اپنے دل سے اٹھنے والے سوز و گداز کو اجازت دوں کہ وہ آنکھوں سے برسے.ہاں کسی زمانہ میں خصوصیت کے ساتھ یہ نیک بندوں کی علامت تھی.“ اب تو بدوں سے دنیا بھر گئی ہے کسی زمانہ میں نیک لوگ یہ کیا کرتے تھے اور ان پر کوئی اعتراض نہیں تھا.
خطبات طاہر جلد 17 729 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء مگر اب تو اکثر یہ پیرایہ مکاروں اور فریب دہ لوگوں کا ہو گیا ہے.سبز کپڑے ، بال سر کے لمبے، ہاتھ میں تسبیح ، آنکھوں سے دمبدم آنسو جاری.“ یہ نظارہ پاکستان کے فقیروں کو جس نے دیکھا ہو یا بنگلہ دیش کے فقیروں کو دیکھا ہو وہ گواہی دے گا کہ بعینہ یہی کیفیت ہوتی ہے لوگوں کی.لبوں میں کچھ حرکت گویا ہر وقت ذکر الہی زبان پر جاری ہے اور ساتھ اُس کے بدعت کی پابندی.یہ علامتیں اپنے فقر کی ظاہر کرتے ہیں مگر دل مجذوم، محبت الہی سے محروم.“ مجزوم وہ جسے کوڑھ ہوا ہو.محبت الہی کی علامتیں ظاہر کرتے ہیں مگر کوڑھی دل سے محبت الہی کیسے اٹھ سکتی ہے.دل مجذوم مگر محبت الہی سے محروم.الاماشاء اللہ.راست باز لوگ میری اس تحریر سے مستثنی ہیں.جن کی ہر ایک بات بطور جوش اور حال کے ہوتی ہے.“ وہ لوگ جو دل کے طبعی جوش سے بغیر کسی بناوٹ سے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں فرمایا وہ لوگ مستثنی ہیں جو : بطور جوش اور حال کے ہوتی ہے نہ بطور تکلف اور قال کے.“ تکلف کا مطلب تو یہ ہے کہ وہ دکھاوا ہے بناوٹ ہے اور حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور قال سے مراد ہوتی ہے کہنا، صرف کہنے کی باتیں ہیں حقیقت کی باتیں نہیں ہیں.بہر حال یہ تو ثابت ہے کہ گریہ وزاری اور خشوع اور خضوع نیک بندوں کے لئے کوئی 66 مخصوص علامت نہیں.“ یعنی ان باتوں کو دیکھنے کے بعد ایک بات تو قطعیت سے ثابت ہو جاتی ہے کہ محض خشوع وخضوع اور آنکھوں سے آنسو جاری ہونے کو نیک بندوں کی علامت قرار نہیں دیا جاسکتا.بلکہ یہ بھی انسان کے اندر ایک قوت ہے جومحل اور بے محل دونوں صورتوں میں حرکت کرتی ہے.“ (ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ 195,194)
خطبات طاہر جلد 17 730 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء پس یہ قوت طبعیہ جس کے نتیجہ میں دل حرکت میں آتے ہیں اور آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں.یہ دونوں صورتوں میں ہمیں جلوہ گر دکھائی دیتی ہیں.بدوں کی صورتوں میں بھی اور نیکوں کی صورتوں میں بھی لیکن ان کی پہچان الگ الگ ہے اور سب سے زیادہ وہ شخص خود جانتا ہے جس کے دل سے ذکر الہی کے وقت محبت جوش مارتی ہے اور آنکھوں سے برستی ہے یانہ بھی برسے تو زور اتنا مارتی ہے کہ گویا برس ہی جائے گی.تو اس پہلو سے اپنے دلوں کو ٹولتے رہنا چاہئے کہ کیا ہمارے دل واقعہ ایسے ہی ہیں جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ گو یا اللہ کی رضا کی نگاہیں ہر وقت ان پر پڑتی ہوں.ایک اور اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا میں نے ملفوظات جلد 5 صفحہ 59 سے لیا ہے یعنی جدید ایڈیشن میں یہ صفحہ درج ہے.آپ فرماتے ہیں: 66 ابتدائے اسلام میں بھی جو کچھ ہوا وہ آنحضرت صلی یا پی ایم کی دعاؤں کا نتیجہ تھا جو کہ مکہ کی گلیوں میں خدا تعالیٰ کے آگے رورو کر آپ نے مانگیں.“ اب گلیوں میں رو رو کر مانگیں.ایک تو اس سے آپ صلی ال ایتم کی دردناک کیفیت کا اظہار ہوتا ہے، ایسی دردناک کیفیت کہ اسے اللہ تعالیٰ اپنے پیارے بندے کے تعلق میں نظر انداز کر ہی نہیں سکتا تھا.دوسرے گلیوں میں رونا تو بظاہر دکھاوے کی علامت ہوتی ہے مگر کچھ لوگ دکھاوے بھی کرتے ہیں اور کچھ بے اختیار ہو کے روتے ہیں.پس آنحضرت صلی یتیم کی یہ دوسری قسم کی مثال ہے کہ پ صلی الہی تم بے اختیار ہو کر روتے تھے اور اس کا نتیجہ کیا ہوا خدا تعالیٰ کے آگے رو رو کر دعائیں جو آپ مسی یہ کہ تم نے مانگیں.ر جس قدر عظیم الشان فتوحات ہوئیں کہ تمام دُنیا کے رنگ ڈھنگ کو بدل دیا وہ سب آنحضرت صلی یتیم کی دعاؤں کا اثر تھا.ورنہ صحابہ کی قوت کا تو یہ حال تھا کہ جنگ بدر میں صحابہ رضوان اللہ علیہم کے پاس صرف تین تلواریں تھیں اور وہ بھی لکڑی کی بنی ہوئی تھیں.“ ( ملفوظات جلد پنجم صفحہ :59 / بدر جلد : 2 نمبر :37 صفحہ :4 مؤرخہ 13 ستمبر 1906ء)
خطبات طاہر جلد 17 731 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء یہ کیفیت تھی ان کی کمزوری کی.تو جو کچھ بھی انقلاب برپا ہوا وہ صحابہ کی قوت سے نہیں بلکہ حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی یتیم کی دعاؤں ہی سے ہوا.پس اس میں ایک سبق ہم سب کے لئے یہ ہے کہ جب بھی دل میں اسلام اور بنی نوع انسان کا درد اٹھے تو اس کے نتیجہ میں جو دعا ئیں پیدا ہوتی ہیں وہ بہت طاقتور ہوتی ہیں اور اگر درد نہ اٹھے یا بناوٹ سے اٹھے تو کوئی دعا بھی نہیں بنتی.اس کے نتیجہ میں کبھی دنیا میں انقلاب بر پا نہیں ہوا.تو جب تک بنی نوع انسان کے لئے گداختہ دل انسان پیدانہ کرے، ایسا دل جس میں سچی ہمدردی ہو، کسی کا غم کسی دوسرے زمین کے کنارہ پر ہو اور اس کے دل کو ستائے اگر ایسا دل ہے تو ایسے دل سے اٹھنے والی دعا ئیں خواہ آنسو نہ بھی نکل رہے ہوں پھر بھی مقبول ہوتی ہیں.پس اس کیفیت کو مضبوطی سے پکڑ لیں، حرز جان بنالیں ، اس سے کبھی الگ نہ ہوں کیونکہ ہم نے دُنیا میں بڑے بڑے انقلابات پیدا کرنے کا اعادہ کر رکھا ہے، ارادہ کر رکھا ہے اور اعادہ غلطی سے کہا مگر اصل میں اعادہ ہی کہنا چاہئے تھا کیونکہ پہلے انقلابات تو رسول اللہ لی لی ایم کے زمانے میں بر پا ہو گئے تو اب انہی انقلابات کے اعادہ کرنے کا ہم نے ارادہ کر رکھا ہے.ایک اور اقتباس آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد 5 صفحہ 185 سے لیا گیا ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”اللہ جل شانہ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت اور احسان اور حسن اور جمال پر علم کامل رکھتے ہیں.خشیت اور اسلام در حقیقت اپنے مفہوم کی رو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے.پس اس آیت کریمہ کے معنوں کا مال اور ماحصل یہی ہوا کہ اسلام کے حصول کا وسیلہ کاملہ یہی علم عظمت ذات وصفات باری ہے.“ اب یہ عبارت عام لوگوں کے لئے جو اردو اور دین کا گہرا علم نہ رکھتے ہوں ان کے لئےسمجھنا مشکل ہے اس لئے خطبہ تو تمام احمدیوں کے لئے ہوتا ہے اس لئے میں اس کو ذرا تشریح سے سمجھانا چاہتا ہوں.اللہ جل شانہ.“ جب ہم کہتے ہیں اللہ جل شانہ تو مراد ہے وہ اللہ جس کی شان بہت بلند ہے.اللہ جل شانہ سے وہ لوگ ڈرتے ہیں جو اس کی عظمت اور قدرت یعنی اللہ تعالیٰ کی عظمت جو ساری کائنات پر اور اس سے پرے وسیع ہے اور قدرت یعنی جس کے اندر یہ طاقت ہے
خطبات طاہر جلد 17 732 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء ہر وقت اور ہرلمحہ کہ وہ اپنی قدرت کے کاروبار دکھا تار ہے اور قدرت کی رونمائی اس طرح کرتا رہے کہ ہمیں نہ بھی علم ہو تو ہم سے بے نیاز وہ اپنی قدرت کے جلوے دکھا رہا ہے.جتنی کائنات میں وسعت ہے اس کی طرف عظمت نے اشارہ فرما دیا یعنی عظیم کائنات ہے یا اس کی مخلوقات عظیم ہیں اور ان سب میں اس کی قدرت کی جلوہ نمائی ہے خواہ ہمیں اس جلوہ نمائی کا علم ہو یا نہ ہو.اور احسان اور حسن دو باتیں اس کائنات پر نظر ڈالنے سے یقینی طور پر علم میں آتی ہیں.ایک تو یہ کہ جو بھی قدرت نمائی اس نے فرمائی ہے، جو بھی تخلیق کی ہے اس میں احسان سے کام لیا ہے.”احسان کسی غریب پر، کسی بے بس پر رحم کرنے کے نتیجہ میں جو سلوک آپ اس سے کرتے ہیں اس کو کہتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بھی کیا ہم سب کے لئے وہ بطور احسان کے کیا ہے نہ کہ ہمارا اُس پر حق تھا اور یہ احسان کائنات کے ذرہ ذرہ میں دکھائی دیتا ہے.اس مادہ میں بھی دکھائی دیتا ہے جس مادہ میں ہم سمجھتے ہیں کہ احساس کی طاقت نہیں ہے.وہ نہیں سمجھتا کہ میں کیسے اس احسان کا شکر یہ ادا کروں مگر قرآن کریم کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مادہ میں بھی ایک احساس کا مادہ ضرور ہے.وہ ایسا مادہ ہے جسے ہم سمجھ نہیں سکتے مگر اللہ تعالیٰ سمجھتا ہے اور کوئی احسان بھی اس کا ایسا نہیں کہ جس پر ہو اس کو اس کا احساس نہ ہو.یہ بھی ایک عجیب قدرت نمائی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشاد کے مطابق احسان اور حسن، احسان تو ہے اُس مادہ پر، اُس شخص پر ، اُس ذات پر جس کو اُس نے عظیم قدرت سے پیدا فرمایا اور اُس احسان کو دیکھنے کے لئے ہمیں اُس میں ایک حسن بھی دکھائی دیتا ہے.پس وہ جو صرف دیکھ رہے ہیں ، دوسروں کو دیکھ رہے ہیں وہ غور کریں تو اللہ تعالیٰ کی ہر صنعت میں ایک حسن ہے اور وہ حسن نظروں کو چندھیا دینے والا حسن ہے اور جمال بھی ہے، حسن اور جمال.حسن در اصل فطرت کے اندر جو گوندھی ہوئی خصلتوں کی خوبصورتی ہے زیادہ تر اس کو حسن کہتے ہیں لیکن حسن ظاہر میں بھی ، نقوش میں بھی دکھائی دیتا ہے مگر اگر زیادہ احتیاط سے لفظ بولے جائیں تو جو ظاہری خوبصورتی رکھتا ہے اس کو جمال کہتے ہیں.تو جب آپ کسی شخص کی تعریف کریں کہ اُس کے حسن و جمال سے ہم بہت متاثر ہیں تو مراد یہ ہے کہ صرف ظاہری دکھائی دینے والے حسن سے نہیں بلکہ اُس کی فطرت کے حسن سے، اُس کی عادات کے حسن سے ، اُس کی بول چال سے، اُس کے ذہن اور دل کی قوتوں سے.ان سب پر لفظ حسن چھایا ہوا ہے ، ان سب سے ہم متاثر ہیں جب ہم یہ کہنا
خطبات طاہر جلد 17 733 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء چاہیں تو کہیں گے اس کے حسن سے ہم متاثر ہیں.اور اس کے ساتھ جب جمال کا لفظ بولتے ہیں تو ظاہری حسن جو اُس میں ہوتا ہے اُس کے لئے جمال کا لفظ استعمال کر کے اسے حسن سے زرا الگ کر دیتے ہیں کہ ظاہر میں بھی خوبصورت، باطن میں بھی خوبصورت ، اس کا اندر باہر خوبصورت ہے، اس کا ظاہر بھی ، اس کا چھپا ہوا بھی سب خوبصورت ہے.تو فرمایا : ”اور احسان اور حسن و جمال پر علم کامل رکھتے ہیں.علم کامل کون رکھتے ہیں جو ڈرتے ہیں اور جو ڈرتے ہیں وہ تب ہی ڈرتے ہیں کہ علم کامل رکھتے ہیں ورنہ علم کامل نہ ہونے کے نتیجہ میں خوف بھی کم ہوتا چلا جاتا ہے.جتناعلم ناقص ہوا تنا خوف کم ہوتا جاتا ہے.اب آپ دیکھ لیں کسی چیز کے گزند سے آپ پوری طرح واقف نہ ہوں، یہ پتا ہو کہ یہ کھانے میں ذرا بدمزہ ہے لیکن یہ علم نہ ہو کہ یہ بدمزہ زہر ہے جو آپ کو ہلاک بھی کر سکتا ہے تو بعض دفعہ یونہی چکھنے کے لئے آپ منہ مار بھی دیتے ہیں.تو فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ خشیت کا تعلق، اس کے ساتھ خوف کا تعلق علم کو چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے پکڑ کے اتنے رستے ہیں، ایسے ایسے رستوں سے وہ آتا ہے اور گھیر لیتا ہے کہ انسان کا تصور بھی ان تک نہیں پہنچ سکتا.تو وہ خدا کے کامل بندے جن کو علم ہو کہ اللہ کی شان کیا ہے، جو اس کی قدر پہچانتے ہوں اور اس کی قدر پہچاننے کے لئے قرآن کریم نے اتنا کثرت سے اس مضمون کو کھول کھول کر بیان فرما دیا ہے کہ کوئی بھی عذر انسان کے پاس باقی نہیں رہا.تو فرماتے ہیں : ” اور حسن و جمال پر علم کامل رکھتے ہیں.“ کامل کا لفظ جو فرمایا ہے یہ اس لئے فرمایا ہے کیونکہ ان ڈرنے والوں کا ذکر ہے جو کامل ڈرنے والے ہیں.جب ڈرنے والے کامل ہوں توحسن و جمال بھی کامل ہونا چاہئے.اگر ڈرنے والے ناقص ہوں تو حسن و جمال کا علم بھی ناقص ہوگا.یہ لازم ملزوم ہیں.” خشیت اور اسلام در حقیقت اپنے مفہوم کی رو سے ایک ہی چیز ہے کیونکہ کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے.“ جو لازم ملزوم کا میں نے محاورہ بولا تھا یہی وہ لفظ ہے مستلزم جو اس کو ظاہر فرما رہا ہے.اسلام بھی خشیت ہی کا دوسرا نام ہے.اسلام ہی علم کامل کا دوسرا نام ہے.اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ اسلام علم کامل کا دوسرا نام کیسے ہو گیا یہ مفہوم غور کرنے اور سمجھنے کے لائق ہے.اسلام کا عام معنی تو یہی ہے کہ ہم نے تسلیم کر لیا، اس کے سامنے اپنا سرخم کرد یا اور اسلام کا دوسرا معنی یہ ہے کہ کسی کو سلامتی کا پیغام دیا کہ ہماری طرف سے تمہیں سلامتی پہنچے گی اور جہاں تک اللہ تعالیٰ کی رضا سے راضی
خطبات طاہر جلد 17 734 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء ہو جانے کا تعلق ہے اسلام کا یہ مفہوم بالکل ظاہر وباہر ہے اور اللہ کو ہم سے سلامتی کیسے پہنچ سکتی ہے، وہ تو خودسلام ہے.اس کا مطلب یہ ہے کہ ہماری طرف سے اللہ کو ہمیشہ سلامتی کی خبر پہنچے گی.ہم اس کی خاطر جب دُنیا کے لئے سلامتی کے ضامن ہو جائیں گے تو اللہ کے حضور اسلام اسی کی دوسری صورت ہے اور دنیا کو خدا تعالیٰ کی طرف سے سلامتی کا پیغام پہنچا ہی نہیں سکتے جب تک کہ اس کے سلام ہونے پر غور نہ کریں اور یہی معنی ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں بیان فرمانا چاہتے ہیں اور فرمارہے ہیں کہ اللہ چونکہ سلام ہے اس لئے اس سلام کے حضور اپنی تسلیم کی گردن خم کرنے کا نام اسلام بھی ہے اور خشیت بھی کیونکہ اللہ کی سلامتی کا تصور جب آپ کرتے ہیں کن معنوں میں وہ سلام ہے تو اس میں وہ تمام خوبیاں پیش نظر رکھنی پڑتی ہیں جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی کو کوئی ضرر نہ پہنچ سکے اور جہاں جہاں ضرر پہنچ سکے گا وہاں ظاہر ہے کہ انسان کے لئے خوف کا مقام ہوگا.تو اللہ اگر کسی کو ضرر پہنچائے گا باوجود سلام ہونے کے تو لازماً اس کے اندر کوئی کمزوری اور کوئی خرابی پائی جاتی ہے جس کے نتیجہ میں مجسم سلام ہونے کے باوجود وہ اسے کوئی ضرر پہنچاتا ہے.یہ اگر چہ باریک اور پیچ دار مضمون دکھائی دیتا ہے مگر ہے بالکل درست اور اسی طرح.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ ظاہر فرمانا چاہتے ہیں کہ جب تم اللہ کو سلام جانتے ہوئے ، اس کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہوئے پھر بھی دیکھتے ہو کہ اس کی طرف سے بعض چیزوں کو ضرر پہنچتا ہے تو اتنا ہی زیادہ خوف کا مقام پیدا ہو جاتا ہے یعنی سلام سمجھنے کے نتیجہ میں بے خوفی آتی ہے اور جہاں جہاں وہ سلام نہ پہنچ رہا ہو اس کے نتیجہ میں ایک خوف پیدا ہونا چاہئے کہ خدا نہ کرے ہم بھی تو ایسے نہیں کہ جنہیں خدا اپنے سلام سے محروم کر دے.یہ مضمون جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے اگر چہ پیچدار ہے مگر بالکل واضح اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جیسے عارف باللہ پر تو یہ ایک ہی مضمون کے دو نام ہیں.فرمایا: ” کمال خشیت کا مفہوم اسلام کے مفہوم کو مستلزم ہے.پس اس آیت کریمہ کے معنوں کا مال اور ماحصل یہی ہوا کہ اسلام کے حصول کا وسیلہ کا ملہ یہی علیم عظمت ذات وصفات باری ہے.“ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی یہ کتاب آئینہ کمالات اسلام بہت لوگوں نے پڑھی ہوگی کبھی ایک دفعہ بھی دو کبھی تین دفعہ.مگر یہ نمونہ میں نے آپ کے سامنے رکھا ہے اس سے آپ
خطبات طاہر جلد 17 735 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء اندازہ کر لیں کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جہاں کمالات اسلام کی بات کرتے ہیں اس کے لئے آئینہ دکھاتے ہیں تو ان کمالات کو سمجھنے کے لئے انسان کو کچھ نہ کچھ صاحب کمال بننے کی کوشش کرنی چاہئے.جتنا وہ صاحب کمال بننے میں کوتاہی کرے گا اتنا ہی اس آئینہ میں کم جلوہ دیکھے گا.آئینہ تو گندہ نہیں ہے مگر نظر دھندلائی ہوئی ہے.پس بعض دفعہ تو آئینہ دیکھنے میں اس لئے شکل خراب آتی ہے کہ آئینہ دھندلا یا ہوا ہوتا ہے مگر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو آئینہ دکھایا ہے کمالات اسلام کا اس میں کوئی بھی کسی قسم کا عیب نہیں ، کوئی دھندلاہٹ نہیں مگر دیکھنے والے نظریں مختلف رکھتے ہیں.بعض لوگ بے چارے جو کسی آنکھ کی بیماری کا شکار ہوں بعض دفعہ بالکل آئینہ قریب کر کے دیکھتے ہیں اور بمشکل ان کو دکھائی دیتا ہے کہ نقص کیا ہیں یا جمال ہے تو کیا ہے.تو آپ کو بھی آئینہ کمالات اسلام کا مطالعہ کرتے وقت اسی طرح گہرائی سے اس کا مطالعہ کرنا چاہئے.اب یہ آخری اقتباس جو میں نے اس مضمون میں چنا ہے وہ ملفوظات جلد اول جدید ایڈیشن سے لیا گیا ہے.آنسو کا ایک قطرہ بھی دوزخ کو حرام کر دیتا ہے.“ اب اس سے پہلے آپ نے ان موٹے موٹے قطروں کی باتیں سنی ہیں جو ہر وقت موسلا دھار بارش کی طرح برس رہے ہوتے ہیں اور ایک قطرہ وہ بھی ہے جو اکیلا ہی اس بات کے لئے کافی ہے کہ اس قطرہ ٹپکانے والے پر جہنم حرام ہو جائے.وہ کیا قطرہ ہے ، کیسی صورت میں وہ قطرہ گرتا ہے.آپ علیہ السلام فرماتے ہیں: ”ہاں اگر اللہ کی عظمت و جبروت اور اس کی خشیت کا غلبہ دل پر ہو.(اور یہ ساری پہلی با تیں اسی تعلق میں بیان ہو چکی ہیں یہ غلبہ کیسے ہوتا ہے ) اس کی خشیت کا غلبہ دل پر ہو اور اس میں ایک رقت اور گدازش پیدا ہو کر خدا کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے تو وہ یقیناً دوزخ حرام کر دیتا ہے.پس انسان اس سے دھوکا نہ کھائے کہ میں بہت روتا ہوں.اس کا فائدہ بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ آنکھ دیکھنے آجائے گی اور یوں امراض چشم میں مبتلا ہو جائے گا.“
خطبات طاہر جلد 17 736 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء اب یہ دو باتیں بظاہر تضا د رکھتی ہیں ایک جگہ فرمایا کہ ایک قطرہ بھی جہنم کو حرام کرنے کے لئے کافی ہے اور ساتھ ہی فرمایا: ”پس انسان اس سے دھوکا نہ کھائے کہ میں بہت روتا ہوں.“ فرمایا جس قطرہ کی میں بات کر رہا ہوں وہ محض آنکھ سے گرنے والا آنسوؤں کا قطرہ نہیں اس کی کچھ اور صفات ہیں جو دل سے تعلق رکھتی ہیں اور کیوں اٹھا دل سے؟ اس مضمون کو سمجھنے کی ضرورت ہے ورنہ آنسوؤں سے گرنے والے قطروں کی تو بہت باتیں ہو چکی ہیں.وہ آنسوؤں سے گرنے والے قطرے جہنم سے نجات دینے کے لئے کافی نہیں ہیں حالانکہ ان میں بہت سے آنسو ایسے بھی ہو سکتے ہیں جو تکلف کے بغیر دل سے اٹھے ہوئے ہوں.ان آنسوؤں میں اور اس آنسو کے قطرے میں کیا فرق ہے؟ وہ فرق یہ ہے: اس کی خشیت کا غلبہ دل پر ہو اور اس میں ایک رفت اور گدازش پیدا ہو کر خدا کے لئے ایک قطرہ بھی آنکھ سے نکلے.‘ جب خشیت کا غلبہ دل میں ہو تو اس سے مراد دائمی غلبہ ہے.ایک ایسا وقت آ جائے کہ اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ کی خشیت دل پر غالب آچکی ہو اور جب ایک دفعہ وہ خشیت غالب آجائے تو پھر اس کی واپسی ممکن نہیں ہوا کرتی اور ایسی زندگی انسان کو خود بتاتی ہے کہ اس میں بعض اوقات ایک قطرہ وہ تبدیلی پیدا کر دیتا ہے جو اس کے دل سے اٹھنے والی موسلا دھار بارشیں نہ کر سکیں.تو اس قطرہ کی تلاش رکھنی چاہئے جو ایسی خشیت کے نتیجہ میں ہو جو آ کر ٹھہر جایا کرتی ہے.پھر دل کا یہ موسم بدلا نہیں کرتا کیونکہ اللہ کا خوف اس کی عظمت کو پہچاننے کے نتیجے میں دل پر طاری ہوتا ہے.فرماتے ہیں اگر ایسا نہیں کرو گے تو روتے روتے آنکھیں دکھا لو گے اس سے زیادہ تو کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا.میں تمہیں نصیحت کرتا ہوں کہ خدا کے حضور اس کی خشیت سے متاثر ہوکر رونا دوزخ کو حرام کر دیتا ہے لیکن یہ گریہ و بکا نصیب نہیں ہوتا جب تک کہ خدا کو خدا اور اُس کے رسول کو رسول نہ سمجھے اور اس کی سچی کتاب پر اطلاع نہ ہو.“ ( ملفوظات جلد اوّل صفحہ: 272، 1273 الحکم جلد 5 نمبر 10 صفحہ:2 مؤرخہ 17 مارچ 1901ء) تو یہ جو ساری باتیں ہیں آخری فقرہ کی وہ میں پہلے خطبات میں بیان کر چکا ہوں اس لئے اس آیت کریمہ سے متعلق جو میں نے آپ کو نصیحتیں کرنی تھیں وہ اس آخری فقرہ پر مکمل کرتا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 737 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء اب یہ دوسری آیت کریمہ ہے جس کا حیا سے تعلق ہے.اس مضمون کو بھی تفصیل سے سمجھانے کی ضرورت ہے کہ حیا کیا ہوتی ہے؟ اور کبھی اللہ حیا کرتا ہے یعنی اللہ بھی حیا کرتا ہے اور کبھی اللہ حیا نہیں کرتا.کبھی رسول بھی دیا کرتا ہے اور کبھی رسول حیا نہیں کرتا.تو حیا کے کون سے مواقع ہیں اور حیا نہ کرنے کے کون سے مواقع ہیں.اس ضمن میں جو حیا والی آیت اس وقت میرے سامنے ہے وہ میں پڑھوں گا تو سہی مگر اس کی تفصیل سے تشریح کی ضرورت نہیں کیونکہ اس آیت کریمہ سے متعلق میں نے اپنی کتاب Revelation میں بہت تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ایک پور المباChapter ،ایک باب اس پر وقف ہے.پس وہ لوگ جن کو انگریزی آتی ہے وہ وہاں سے اس کا مطالعہ کر لیں.تو اس آیت کے معنی کہ خدا کیوں نہیں شرماتا، جبکہ دوسرے مقامات پر اللہ تعالیٰ کے شرمانے کا بکثرت ذکر ملتا ہے.تو انسان کو بھی وہاں نہیں شرمانا چاہئے جہاں خدا کی شان ہے کہ نہیں شرمانا اور جہاں شرمانے کا حق ہے وہاں ضرور شرمانا چاہئے.یہ شرمانے کا مضمون کہاں آپ پر لازم ہے اور کہاں لازم ہے کہ نہ شرما ئیں.یہ آئندہ ایک دو خطبات کا موضوع ہوگا.وہ آیت کریمہ یہ ہے.انَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا مَا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَا فَأَمَّا الَّذِينَ آمَنُوا فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْ وَ اَمَّا الَّذِينَ كَفَرُوا فَيَقُولُونَ مَا ذَا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا يُضِلُّ بِهِ كَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيرًا ۖ وَمَا يُضِلُّ بِهَ إِلَّا (البقرة: 27) الْفُسِقِينَ - یقینا اللہ نہیں شرماتا کہ ایک مچھر کی مثال بیان فرمائے فَمَا فَوْقَهَا اور اس کی جو اس پر ہے.فَوْقَهَا کا ایک معنی تو اکثر آپ تراجم میں پڑھتے ہوں گے یہ وہ معنی ہیں جو اس آیت کی گہرائی میں اترنے کے لئے سمجھنے ضروری ہیں ورنہ اس کے فوق پہ ہی رہیں گے اور اس کے اندر نہیں اتر سکیں گے.ما بَعُوضَةً فما فوقها مچھر کے اوپر کیا ہے؟ اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے کہ مچھر کے علاوہ اس سے کم تر مثال.حالانکہ فوقها کا یہ مطلب نہیں ہے.میں نے مختلف اہل لغت جو بڑے ائمہ لغت ہیں ان کا مطالعہ کر کے دیکھا ہے حضرت امام راغب اس مضمون پر خوب کھل کے روشنی ڈالتے ہیں کہ فوقھا کا معنی ہے جو اس پر چڑھا ہوا ہے، اور زمین کی مثال، پہاڑوں کی مثالیں یہ ساری مثالیں دے کر واضح فرماتے ہیں کہ فوقها کا اصل مطلب یہ ہے کہ جو مچھر پر ہے.(مفردات الفاظ القرآن از العلامة الراغب الأصفهاني، زير لفظ فوق)
خطبات طاہر جلد 17 738 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء اور مچھر پر کیا ہوتا ہے.مچھر پر اس بیماری کے جراثیم چڑھے ہوئے ہوتے ہیں جو دُنیا میں سب سے زیادہ مہلک بیماری ہے.دُنیا میں جتنی اموات ہوتی ہیں براہ راست یا بالواسطہ اس بیماری سے تعلق رکھتی ہیں یعنی ان کی بھاری اکثریت نہ کبھی جنگوں سے ایسی تباہی آئی نہ کسی وبا سے اتنی مو تا موتی ہوئی جتنا ملیریا کے نتیجہ میں ہوتی ہے.ملیریا سے براہ راست مرنے والوں کی تعداد بھی کروڑ ہا تک پہنچ جاتی ہے اور ملیر یا جو اثرات پیچھے چھوڑ جاتا ہے اس سے بھی کروڑ ہا اموات ہوتی رہتی ہیں اور بیماریاں لگی رہتی ہیں.اب سندھ کے علاقہ میں لوگ جانتے ہیں کہ ان کو پھیپھڑوں کی بیماریاں لگ جاتی ہیں، گنٹھیا ہوجاتا ہے، سل ہو جاتی ہے اور یا نمونیہ سے مرجاتے ہیں.یہ ساری خرابی دراصل مچھر نے کی ہوئی ہے.مچھر نے کاٹ کاٹ کے ان کو ایسا بخار چڑھایا جس میں انسان چادر اوڑھ لیتا ہے اور جب بخار ٹوٹتا ہے تو انسان چادر اتار دیتا ہے اور اس قدر سردی ماحول میں ہوتی ہے کہ وہ اس فرق کی وجہ سے بڑا سخت بیمار ہو جاتا ہے.تو یہ تو بہر حال تفصیلی بحثیں ہیں ان میں میں اب یہاں نہیں جانا چاہتا مگر میں سمجھا رہا ہوں کہ جن علاقوں میں ملیریا ہے وہ جانتے ہیں کہ مچھر کی کیسی بڑی تباہی ہے اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس سے شرما تا نہیں.جس کا مطلب یہ ہے کہ مچھر پیدا کرنے میں کچھ گہرے راز ہیں.ان بیماریوں کے نتیجہ میں انسانی ارتقاء میں مددملی ہے اور انہی بیماریوں کے نتیجہ میں جو مچھر نے پھیلائی ہیں جانوروں میں بھی آغاز سے بہت زیادہ ارتقاء کی طرف قدم اٹھا ہے اور انسان کے اندر جو مدافعاتی نظام ہے وہ سارا مچھر کی بیماری کے نتیجہ میں مقابلہ کی کوشش میں پیدا ہوا ہے.اب یہ مضمون ایسا ہے جو ایک علم کا جہان اپنے اندر رکھتا ہے اور اسی طرف اصل میں اشارہ ہے.اللہ کا یہ مطلب نہیں کہ میں بیماریاں پیدا کرنے سے نہیں شرماتا.فرمایا تم جس کو سمجھتے ہو کہ قابل شرم بات ہے تم سوچتے نہیں کہ وہ قابل شرم بات نہیں وہ قابل افتخار بات ہے.اگر یہ نہ ہوتا تو تم آج اتنی ترقی نہ کر سکتے اور اس ترقی میں اس چھوٹے سے کیڑے نے دخل دیا ہے اور اس چیز نے فَما فوقها جس کو یہ اٹھائے پھرتا ہے.تو یہ بہت ہی گہرا اور دلچسپ مضمون ہے اور یہاں سے حیا کرنا اور حیا نہ کرنا ہم پر واضح ہو جاتا ہے.اگر دیا کریں تو بظاہر لوگ سمجھیں کہ حیا کرنے میں ہماری سبکی ہے لیکن اگر آخری صورت میں ہماری حیا کا مقصد اصلاح ہے اور وہ اصلاح بنی نوع انسان کو فائدہ پہنچاتی ہے تو اپنی حیا سے شرما نانہیں چاہئے.
خطبات طاہر جلد 17 739 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء اس آیت کا مفہوم پھر یہی بنے گا کہ اللہ اپنی حیا سے نہیں شرما تا کیونکہ وہ حیا فائدہ مند ہے.اس حیا کے نتیجہ میں تمہارے لا متناہی فوائد منسلک ہیں ، اس سے وابستہ ہو چکے ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ وہ لوگ جنہوں نے انکار کر دیا کہتے ہیں یا کہیں گے ماذا أَرَادَ اللهُ بِهَذَا مَثَلًا: کہ اللہ نے اس مثل سے کیا ارادہ کیا ہے.وہ کہتے ہیں کیسی فضول سی مثال ہے مچھر سے نہیں شرماتا.يُضِلُّ بِهِ كَثِيرا وَيَهْدِي بِهِ كَثِيراً : وہ اس مثال کے ذریعہ بہتوں کو گمراہ بھی ٹھہرا دیتا ہے یا گمراہ کر دیتا ہے اور بہتوں کی ہدایت کا موجب بھی بنتا ہے.یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جواب ہے، کفار نہیں کہہ رہے.کفار تو کہتے ہیں ماذا اراد اللهُ بِهَذَا مَثَلًا : خدا نے یہ کیسی فضول سی مثال دے دی ہے.اللہ فرماتا ہے یہ مثال فضول نہیں اسی مثال کے نتیجہ میں بہت سے ایسے ہیں جو گمراہ ہو جائیں گے اور صرف نقصانات اٹھائیں گے جیسے ملیر یا بعضوں کو تو مار کے ہی چلا جاتا ہے ان کو کوئی فائدہ نہیں دیتا اور بعض ایسے ہیں جن کو فائدہ پہنچتا ہے.تو فرمایا اسی مثال پر غور کرنے کے نتیجہ میں بہت سے لوگ ہیں جو اللہ کی عظمتوں کے مزید قائل ہوتے چلے جائیں گے اور کثرت سے ایسے اللہ کے بندے ہیں جن کے لئے یہ مثال اس پہلو سے فائدہ مند ہوگی.اور يُضِلُّ بہ کے متعلق جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے وہ لوگ مراد ہیں جو اس کے ظواہر کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں نہایت فضول ، بے معنی مثال ہے جس کے نتیجہ میں وہ اور بھی زیادہ گمراہ ہو جاتے ہیں لیکن وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفُسِقِین اس سے اللہ تعالیٰ سوائے فاسقوں کے، سوائے بدکرداروں کے اور نافرمانوں کے کسی کو گمراہی میں نہیں بڑھاتا.تو یہ آیت کریمہ ہے جس کا مضمون اب احادیث نبویہ کے حوالہ سے میں شروع کرتا ہوں.یہی کیفیت آنحضرت سلام کے طرز عمل میں بھی دکھائی دیتی ہے کہیں شرماتے ہیں، کہیں نہیں شرماتے.کہیں اتنا شر ماتے ہیں کہ دیکھنے والے کہتے ہیں کنواری عورت سے بھی زیادہ شرم ہے.کہیں ایسی باتیں کہتے ہیں کہ جس سے عام لوگ شرما جائیں مگر آپ قطعا نہیں شرماتے.تو یہ مضمون کیا ہے جب تک ہم سمجھیں گے نہیں ہمیں علم نہیں ہو سکے گا کہ ہمیں کہاں شر ما نا چاہئے اور کہاں نہیں شرمانا چاہئے.پہلی حدیث سنن ابن ماجه كِتَابُ الدُّعَاءِ بَاب رَفْعِ الْيَدَيْنِ سے لی گئی ہے.حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ ایسی تم نے فرمایا :
خطبات طاہر جلد 17 740 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء تمہارا رب بہت ہی باحیا اور کریم ہے.جب بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر دعا کرتا ہے تو اسے اس بات سے شرم آتی ہے کہ وہ ان ہاتھوں کو خالی لوٹا دے.“ (سنن ابن ماجه کتاب الدعاء باب رفع یدین فی الدعاء ،حدیث نمبر : 3865) اب حیا کا یہ مضمون بھی ہے اللہ کا.ورنہ اللہ تو انسانی صفات سے بہت بالا ہے تو جس طرح بعض دفعہ کسی التجاء کرنے والے کے ہاتھ کو دھتکارتے ہوئے ، خالی لوٹاتے ہوئے انسان شرماتا ہے.بعض کیفیات ایسی ہوتی ہیں کہ وہ واپس لوٹا ہی نہیں سکتا اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے سلوک فرماتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بندہ مراد نہیں بلکہ وہ بندے مراد ہیں جو خود بھی حیادار ہوں اور یہ مضمون اس میں داخل ہے اس کو سمجھے بغیر آپ اس مضمون کو سمجھ ہی نہیں سکتے.اگر آپ ہاتھ اٹھا ئیں اور ہر دفعہ ہاتھ اٹھانے پہ دعا قبول ہو جائے تو آپ نے اخباروں میں مولویوں کی تصویریں نہیں دیکھیں کس طرح ہاتھ اُٹھا اُٹھا کے دکھاتے ہیں اور تصویریں کھنچواتے ہیں اور ایک ذرہ بھی اُن کی دعا قبول نہیں ہوتی.ساری دعائیں رڈ ہو جاتی ہیں.مجھے یاد ہے ایک دفعہ کوئی شخص بہت تکلیف کی حالت میں تھا، اس نے مجھے کہا کہ میرے لئے دعا کریں کہ میں مرجاؤں.تو میں نے کہا تمہارے لئے یہ دعا ہو ہی نہیں سکتی ، ناممکن ہے کیونکہ مجھ سے اگر یہ توقع ہو کہ میں کسی احمدی کے لئے دعا کروں کہ مرجائے تو یہ محض جھوٹ ہے.یہ توقع تمہاری کبھی پوری نہیں ہوگی اور مولوی جو بد دعا میں تم پر کریں گے وہ تمہیں ماں کے دودھ سے زیادہ لگیں گی تو ان کی بددعائیں بھی تمہارے کام نہیں آسکتیں ، وہ دعا بن کر لگیں گی پھر.یہ جو ہاتھ اٹھاتے ہیں اور آپ ان کے چہرے دیکھتے ہیں جب بھی احمدیت کے خلاف بد دعا کرتے ہیں ان کی قبول نہیں ہوتیں.اس لئے اس بات سے نہ ڈریں کہ اللہ تعالیٰ شرماتا ہے اٹھے ہوئے ہاتھوں سے کہ انہیں خالی لوٹا دے.جن کے دل خالی ہوں ،حیا سے خالی ہوں ان کے ہاتھ خدا ضر ور لوٹاتا ہے.اسی طرح خالی ہاتھ لوٹا دیا کرتا ہے.تو اس مفہوم کو سمجھنا چاہئے.جن کے دلوں میں حیا ہو وہ دوسروں کے ہاتھ خالی لوٹا نا نہیں چاہتے ، اللہ ان کے ہاتھ کیسے لوٹا دے گا.پس اگر چہ یہ مضمون کھلے لفظوں میں ظاہر نہیں فرمایا گیا مگر لازم ما اس میں داخل ہے.اللہ ان کے خالی ہاتھ لوٹانے سے شرماتا ہے جو اس کے بندوں کے خالی ہاتھ لوٹانے سے شرماتے ہیں اور جتنا وہ شرماتے ہیں اسی نسبت سے اللہ ان سے شرماتا ہے.دوسرا لفظ شرمانے کے علاوہ راوی
خطبات طاہر جلد 17 741 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء نے احتیاطاً یہ بیان کیا ہے کہ شاید یہ کہا ہو کہ نامراد ٹھہرا دے.تو شرماتا ہے کہ نامراد ٹھہرا دے یا شرماتا ہے کہ خالی ہاتھ لوٹا دے ایک ہی چیز ہے.ایک اور حدیث قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت بیان کی ہے کہ: آنحضرت صل للہ یہ تم کنواری عورت سے بھی زیادہ حیادار تھے.ایک کنواری جس طرح حیا کرتی ہے اس طرح آپ حیادار تھے ) جب آپ کسی چیز کو نا پسند کرتے تو اس کا اثر ہم آپ کے چہرہ مبارک سے محسوس کرتے.“ (صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب صفة النبی ﷺ ، حدیث نمبر :3562) یعنی آپ صلی ایم کے چہرہ کو دیکھ کر پتا چل جاتا تھا کہ یہ بات آپ مسی یہ تم کو پسند نہیں آئی.بالعموم آپ صلی اہم اس کا اظہار زبان سے نہ فرماتے.یہ لفظ ترجمہ کرنے والے نے اپنی طرف سے بڑھا دئے ہیں.صرف راوی نے یہ بیان کیا ہے کہ آنحضور صلی لا اسلام جب کسی چیز کو نا پسند فرماتے تو ہم ہمیشہ چہرہ سے اندازہ کیا کرتے تھے کہ ناپسند کیا ہوگا.یہ حدیث ایک طرف اور دوسری طرف وہ احادیث جہاں کسی چیز کو نا پسند کیا تو اس قدر جوش سے اس کے خلاف تقریر فرمائی ہے کہ بعض دفعہ صحابہؓ یہ دعا کرتے تھے کہ کاش اب رسول اللہ سی لیا کہ تم خاموش ہو جا ئیں اور اتنا زیادہ اپنے آپ کو تکلیف میں نہ ڈالیں کہ اس مکروہ بات کے خلاف کہتے چلے جارہے ہیں.تو اب یہ دو باتیں سمجھنے کے لائق ہیں.اگر آپ نہیں سمجھیں گے تو آنحضرت سی ایم کی ذات کی طرف گو یا تضاد منسوب کریں گے جو ناممکن ہے.نہ خدا کے قول میں تضاد ہے نہ خدا کی تخلیق کامل یعنی حضرت محمد مصطفی سالی ایم کی ذات میں کسی قسم کا تضاد ہے.اب میں باقی احادیث کی روشنی میں اس مضمون کو آپ کے سامنے کھولتا ہوں.اب ایک طرف تو حیا کا یہ عالم کہ منہ سے بولتے ہی نہیں اور صرف چہرہ بتا تا ہے، دوسری طرف عورتیں اپنی ذاتی باتیں کر رہی ہیں جن کا ان کے حیض وغیرہ سے تعلق ہے اور ایسی باتیں ہیں جو آپ کسی مجلس میں بیان کریں تو کچھ شرم محسوس کریں گے مگر اللہ کا رسول صلی ہی تم نہ صرف یہ کہ شرما تا نہیں بلکہ ان خواتین کی تعریف فرما رہا ہے کہ انہوں نے کوئی پرواہ نہیں کی کہ دوسرے سن رہے ہیں اور تعریف اس لئے کہ دوسرے نہ سنتے تو ان کی تعلیم و تربیت نہ ہوتی.تو ایسی باتیں جو بظاہر شرمانے والی ہیں ان سے ایک
خطبات طاہر جلد 17 742 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء عورت ہے جو شر ما نہیں رہی اور کھل کر باتیں کرتی ہے اور رسول اللہ لیا کہ تم فرماتے ہیں یہ کیسی عمدہ عورت ہے اس نے ان باتوں کو کھول کر بیان کیا کیونکہ اگر وہ تنہائی میں چھپ کر کرتی تو پھر یہ خطرہ تھا کہ باقی لوگوں کی تربیت اس معاملہ میں نہ ہو سکتی.یہ حدیث یہ ہے، ایک لمبی حدیث سے ایک ٹکڑا لیا گیا ہے ، ایک انصاری خاتون کے متعلق ہے کہ اس نے رسول اللہ صلی ا یہ تم سے میاں بیوی کے تعلقات کے بعد نہانے کے متعلق سوال کئے.اس روایت کے آخر پر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فرمایا وہ فرماتی ہیں کہ : وو رسول اللہ صلی یہ تم نے انصاری خواتین کی تعریف فرمائی.یہ انصاری خواتین کتنی اچھی ہیں.( فرمایا : ) انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں حیادین سیکھنے سے نہیں روکتی.“ (سنن ابی داؤد، كتاب الطهارة، باب الاغتسال من المحيض، حدیث نمبر : 316) اور حیا اچھی بھی ہے اور بڑی بھی ہے.حیا اگر دین سیکھنے کے بارے میں آئے تو یہ حیا نہیں، بے حیائی ہے اور دین سکھانے کے متعلق آئے تو یہ بھی حیا نہیں بے حیائی ہے.تو یہ دونوں سبق اسی حدیث سے مل گئے کہ بعض موقع پر رسول اللہ صلی یا ایتم کنواری سے بڑھ کر حیادار اور بعض موقع پر جہاں اعلیٰ مقصد پیش نظر ہو بے حد کھل کر بات کرنے والے.جہاں عام آدمی اپنے مزاج کی کمزوری کی وجہ سے شرما جاتے ہیں، رسول اللہ مایا تم نہیں شرماتے.ترمذی باب النکاح سے یہ حدیث لی گئی ہے اور مسند احمد بن حنبل میں بھی یہی حدیث ہے.حضرت ایوب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت رسول کریم صلی له اسلام نے فرمایا: وو چار باتیں انبیاء کی سنت میں سے ہیں.“ سُنَنِ الْمُرْسَلِينَ یعنی پیغمبروں کی سنت میں سے ہیں.یہاں انبیاء کا لفظ ترجمہ میں غلط ہو گیا ہے.میں نے اس لئے دوبارہ دیکھا ہے کیونکہ یہاں جس پیغام کے ساتھ آتے ہیں اس پیغام کا ذکر ہونے کے لحاظ سے مُرسلین ہونا چاہئے تھا اور لفظ مرسلین ہی ہے جو آنحضرت سلی لا یہ تم نے فرمایا.”مُرسَلین کی سنت میں سے ہے : التَّعَظُرُ وَالنِّكَاحُ، وَالسّوَاكُ، وَالْحَيَاءُ“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند أبي أيوب الأنصاري، مسند نمبر :23581/ جامع الترمذی، ابواب النکاح، باب ماجاء في فضل التزويج والحق عليه، حدیث نمبر : 1080)
خطبات طاہر جلد 17 743 خطبہ جمعہ 23اکتوبر 1998ء یہ بھی یا درکھیں کہ خوشبو لگا کر پھرنا یہ اسلام کا حصہ ہے کیونکہ اگر کسی کے بدن سے بد بو آتی ہے تو وہ لوگوں کو کچھ تکلیف ضرور پہنچاتا ہے.بعض دفعہ گندے پاؤں کے ساتھ ، گندی جرابوں کے ساتھ بچے نماز پڑھتے ہیں یا بڑے بھی، جو پچھلے پڑھنے والے ہیں ان کی نمازیں تو بالکل تباہ ہو جاتی ہیں.وہ دعا کرتے ہیں کہ سجدہ جلدی ختم ہو.بجائے اس کے کہ سجدہ میں اور دعائیں کریں وہ سجدہ ختم کرنے کی دعا کرتے ہیں تو یہ نقصان ہے.فرمایا مومن اور مسلمان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس کے بدن سے بد بو آئے.اس کا برعکس زیب دیتا ہے، اس کے بدن سے خوشبو اٹھنی چاہئے.شادی کرنا : مراد یہ ہے کہ جس طرح یہود کے بعد عیسائیوں نے رہبانیت اختیار کر لی تھی اور اس کو نیکی سمجھتے تھے فرمایا یہ نیکی نہیں ہے، انبیاء کی سنت کے خلاف ہے اور خاص طور پر رسول اللہ صلی علی ہستم کی سنت کے خلاف ہے.جو طبعی جذبات انسان کے اندر خدا نے پیدا فرمائے ہیں ان کے برمحل استعمال سے شرمانا نہیں چاہئے اور یہ دونوں مضمون دراصل اس لحاظ سے حیا سے ہی تعلق رکھتے ہیں.اس بات سے شرماؤ کہ کسی کو تکلیف پہنچاؤ.اس بات سے نہ شرماؤ کہ جہاں اللہ نے بعض چیزوں کی اجازت دی ہے جو ویسے تم دنیا سے چھپاتے پھرتے ہو یعنی وہ تعلقات جہاں اجازت نہ ہو ان کو چھپانے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ان تعلقات کو چھپاؤ بھی مگر علم ہوسب کو کہ وہ تعلقات ہیں.یہ ہے ہے مضمون جس کے متعلق فرمایا کہ یہ مرسلین کی سنت میں سے ہے.مسواک کرنا: یہ دراصل اپنے منہ سے اٹھنے والی بد بو کوروکنے کے لئے اور لوگوں کو اپنی بد بوسے بچانے کے لئے دونوں طرح ہے اور پھر چونکہ منہ سے اللہ کا ذکر ہوتا ہے فرمایا کہ ایسے منہ سے خدا کا ذکر نہ کرو جس سے بد بو اٹھتی ہو.اور آخر پر فرمایا حیا: حیا بھی تمام پیغمبروں کی سنت تھی.اب اس مضمون کے جو باقی حصے ہیں وہ انشاء اللہ آئندہ خطبات میں میں بیان کروں گا.اب وقت ختم ہو گیا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 745 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء حیا تمام نیکیوں کی جان اور تمام بداخلاقیوں کی دشمن ہے مسجد مبارک دی ہیگ (ہالینڈ) کی توسیع اور مسجد فرانس کا ذکر ( خطبه جمعه فرموده 30 اکتوبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد و تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا: اس جمعہ میں انشاء اللہ وہ مضمون جاری رہے گا جس کا تعلق حیا سے ہے اور اگر وقت پھر بھی بچ گیا تو اس کے بعد اگلا مضمون شروع کیا جائے گا لیکن سب سے پہلے میں آج جماعت احمدیہ ہالینڈ کی مسجد کے افتتاح کا ذکر کرنا چاہتا ہوں اور اس کے علاوہ فرانس کی جماعت کی مسجد کے افتتاح کا ذکر کروں گا.مسجد مبارک دی ہیگ (The Hague): ہالینڈ کی یہ پہلی مسجد ہے جو دراصل لجنہ اماء اللہ کی مالی قربانیوں سے تعمیر ہوئی تھی اور اس کی مختصر تاریخ یہ ہے کہ 20 مئی 1955ء کو حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس کا سنگ بنیاد رکھا تھا اور اسی سال 8 دسمبر کو یہ مسجد مکمل ہو گئی.اس کی تعمیر اور اس کا افتتاح بھی حضرت چوہدری صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی فرمایا.یہ مسجد چھوٹی سی تھی لیکن دیکھنے میں بہت خوبصورت اور باہر سے بڑی دکھائی دیتی تھی مگر اندر سے بہت چھوٹی مسجد تھی.اس زمانہ میں نماز پڑھنے والوں کے لئے تو کافی ہوگی.اب جو خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت کی ترقی کا دور ہے اس میں تو اس کی کوئی حیثیت نہیں رہی تھی اگر میں وہاں جاؤں تو پھر اس کثرت سے نمازی آجاتے تھے کہ مسجد اور ارد گرد کے سارے علاقے میں باہر ان کو نمازیں پڑھنی پڑتی تھیں.اسی وجہ سے ہم نے پھر ن سپیٹ (Nunspeet) میں مرکز بنالیا جہاں اللہ تعالیٰ کے
خطبات طاہر جلد 17 746 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء فضل سے گنجائش بہت تھی وہاں بھی اگر چہ جو مسجد کے لئے جگہ مخصوص ہے وہ اتنی وسیع نہیں ہے کہ سب نمازی آسکیں مگر اردگرد کے دوسرے عمارتی علاقے ایسے ہیں جہاں چھتوں کے نیچے نماز پڑھی جاسکتی ہے.باہر خیموں کی ضرورت نہیں پڑتی.بہر حال یہ تو اس مسجد کا آغاز ہے جو اس کا ذکر کیا.کیسے ہوا اس کا آغاز لجنہ اماءاللہ کی خاص غیر معمولی خدمت کے نتیجہ میں اس کی تعمیر ہوئی تھی لیکن اس مسجد کو آگ لگانے کا واقعہ اب میں بیان کرتا ہوں.1987ء کو اس مسجد کو آگ لگا دی گئی اور آگ لگانے والے کا کچھ پتا نہ چلا.پولیس نے اپنی طرف سے کوشش کی ہوگی مگر اللہ بہتر جانتا ہے کہ کیا وجوہات تھیں جو ہم سے مخفی رکھی گئیں ،مگر ہوا یہ ہے کہ اس دور میں یہ سلسلہ مختلف جگہوں میں مجھے دکھائی دیا کہ جب بھی جلسہ سالانہ پر جماعتوں کے نمائندے آئے ہوتے تھے اور مسجدیں یا مراکز خالی رہ جاتے تھے اسی زمانہ میں ایک شریروں کا گروہ تھا اور آپ بطور احمدی تو جانتے ہی ہیں کہ وہ کس قسم کے لوگ ہیں جن کا پیشہ ہی مسجدوں کو جلانا اور اسی میں ان کی نجات ہے تو وہ لوگ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہماری مساجد اور مراکز جو تبلیغی مراکز تھے ان میں آگ لگایا کرتے تھے اور یہ تمام دُنیا میں پھیلے ہوئے واقعات ہیں.چنانچہ اسی وجہ سے پھر میں نے خصوصی ہدایت دی اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے اب جماعت وہاں با قاعدہ ہر جگہ مستعد رہتی ہے اور نگرانی کرتی ہے تا کہ پیچھے کسی شریر کو موقع نہ ملے.تو یہ آگ لگانے کا واقعہ ان دنوں کا آغاز کا واقعہ ہے جب یہ حرکتیں شروع ہوئی تھیں.کسی نے کھڑکی کے شیشے توڑے اور اندر جا کر مسجد کو آگ لگا کر اپنی جنت کمالی اور وہ آگ اصل میں اپنے لئے جلائی تھی.ایسے لوگ دُنیا میں بھی خدا تعالیٰ کی تقدیر کے تابع آگ ہی میں جلتے رہتے ہیں اور آگ جلاتے ہی تب ہیں جب حسد کی آگ بھڑک رہی ہوتی ہے.تو آگ سے حسد کا گہرا تعلق ہے اور حسد کے نتیجے میں یہ سارے واقعات رونما ہوتے ہیں.اور آئندہ کے لئے بھی جو آگ بھڑکائی جائے گی وہ ان کی اپنی بھڑکائی ہوئی آگ ہے مگر اللہ ان لوگوں کے لئے اس آگ کو جنت بنا دیتا ہے جن کے اوپر خدا کی رضا کی قبولیت کے نتیجے میں آگ بھڑکائی جاتی ہے جیسے حضرت ابراہیم علیہ الصلواۃ والسلام کی آگ کو جنت بنادیا.تو اسی قسم کے واقعات ہم روز مرہ جماعت کی زندگی میں دیکھ رہے ہیں.چنانچہ جب یہ آگ لگائی گئی تو جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے صرف زیادہ سے زیادہ پچاس نمازی اس مسجد میں نماز پڑھ سکتے تھے تو بعد کے ایک
خطبات طاہر جلد 17 747 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء خطبہ میں میں نے جماعت ہالینڈ کو تسلی دی کہ ہم تو ہمیشہ سے خدا کا ایک سلوک دیکھ رہے ہیں.آپ کو گھبرانے کی کیا ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ آپ کو اس سے دس گنا زیادہ مسجد بنانے کی توفیق بخشے گا اور پچاس نمازی کی بجائے پانچ سو نمازی اس مسجد میں نماز پڑھ سکیں گے.اب یہ بات تو آئی گئی ہوگئی.میں بھی بھول گیا اور امیر صاحب اور جماعت کے کارندے اور وہ آرکیٹیکٹ عبدالرشید صاحب جنہوں نے اس مسجد میں بہت نمایاں کردار ادا کیا ہے وہ بھی بات کو بھول چکے تھے اور جس وقت وہ مسجد کو اور ساری عمارت کو ڈیزائن کر رہے تھے اس وقت ان کے ذہن کے کسی گوشے میں بھی نہیں تھا کہ دس گنا مسجد کا اللہ تعالیٰ نے گویا عملاً وعدہ فرما لیا ہے.بعض دفعہ اس کے عاجز بندوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات پوری بھی فرما دیتا ہے تو ارادہ اللہ ہی کا ہوتا ہے اسی لئے وہ بات منہ سے نکل جاتی ہے.چنانچہ ان کے کسی خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ اس وجہ سے ڈیزائن کروں کیونکہ کل رقبہ جو اس تعمیر کا تھا وہ دس گنا نہیں بلکہ اڑھائی گنا تھا.اس وجہ سے طبعی طور پر ان کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا لیکن جب اللہ تعالیٰ کے فضل سے بالآخر بہت لمبی محنت کے بعد یہ مسجد مکمل ہوگئی تو آرکیٹیکٹ صاحب نے جاکے پیمائش شروع کی تو حیران رہ گئے دیکھ کے کہ اس بلڈنگ میں جو عمومی رقبہ کے لحاظ سے اڑھائی گنا ہے مسجد کا حصہ دس گنا ہے اور بعینہ وہی بات پوری ہوئی ہے کہ پچاس کی بجائے پانچ سونمازی وہاں نماز پڑھ سکتے ہیں.تو یہ اللہ کے کاروبار ہیں.یہ میں آپ کو محض اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ جس حد تک بھی ممکن ہو خدا کی حمد اور شکر بجالائیں.وہ جماعت سے بے انتہا احسان کا سلوک فرماتا ہے.تو اس مسجد کے افتتاح کے لئے اب مجھے بھی جانا تھا اور خاص طور پر جب انہوں نے یہ بتایا کہ یہ واقعہ اس طرح ہوا ہے تو میں بھی طبعی جوش رکھتا تھا کہ اس مسجد میں جاؤں لیکن یہ بھی اللہ کے کاروبار ہیں کہ ہالینڈ کی مسجد کا آغاز بھی خلیفہ وقت نے نہیں کیا تھا کسی اور نے کیا تھا.اس کی جب توسیع ہوئی ہے تب بھی خلیفہ وقت کو توفیق نہیں ملی بلکہ اس کی نمائندگی میں کسی اور ہی کو موقع ملا ہے.اللہ اپنے راز بہتر سمجھتا ہے بہر حال ہم راضی برضا ہیں اور جو التواء کی وجہ ہے ، وہاں جانے میں التواء ہوا ہے وہ وجہ موسم کی ایسی اچانک خرابی ہے جس پر ہمارا کوئی بھی اختیار نہیں تھا.ہر طرح سے ہم نے کوشش کر دیکھی وہ جہاز پکڑنے کی جوایک ہی جہاز چل رہا تھا، وہ پکڑنے کی کوشش بھی کی اگر چہ موسم بہت خراب تھا لیکن ہمیں جہاز والوں نے بتایا کہ اس جہاز
خطبات طاہر جلد 17 748 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء پراتناد باؤ ہے ٹریفک کا، کیونکہ ایک ہی چل رہا ہے صرف ، کہ ناممکن ہے آپ کو اس میں جگہ دینا.پھر ہم نے سوچا کہ ٹنل Tunnel میں کیوں نہ سفر کریں.وہ گاڑی جس کا باہر کے طوفانوں سے کوئی بھی تعلق نہیں وہ اس وقت خیال نہیں آیا کہ سب کو یہی خیال آیا ہوگا اور ان منتظمین نے ہمیں کہا کہ یہ وہم ہی دل سے نکال دو، اتنی بڑی ٹریفک ہے یہاں ہمارے پاس اس وقت کہ اسے سنبھالنا ناممکن ہو چکا ہے.اگر آپ ریز رو بھی کروالیں تو ریز رو کروانے کے باوجود ہوسکتا ہے بارہ گھنٹے Queue میں کھڑا ہونا پڑے.تو جو صورت تھی ویسی تھی کہ ناممکن تھا.پھر بھی Queue میں کھڑے بھی رہتے بارہ گھنٹے تو ہوسکتا ہے کہ آگے کسی اور کی باری آتی اور ہم پیچھے سے انتظار ہی میں رہ جاتے.تو یہ مجبوریاں تھیں جن کی وجہ سے میں وہاں خود شامل نہیں ہو سکا لیکن امیر صاحب سے میں نے درخواست کی کہ وہ اس مسجد کا افتتاح کروائیں اور اُمید ہے کہ اس وقت وہاں افتتاح ہو رہا ہوگا یا ہو چکا ہوگا.اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے کہ اس مسجد کی تعمیر میں وقار عمل کے ذریعہ اور چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ کے عمدہ نقشہ بنانے کے نتیجہ میں اور پھر سارے کام کی نگرانی کے نتیجہ میں اس مسجد پر جتنا تعمیر نو پر خرچ آنا تھا اس سے بہت کم خرچ اٹھا ہے.اب دعا کی خاطر جو کارندے ہیں جنہوں نے کام کیا ہے ان کا ذکر کرتا ہوں.سب سے پہلے تو امیر صاحب ہالینڈ خود ہیں اور ان کے ساتھ حمید صاحب نے بھی جس حد تک ان کے وقت نے اجازت دی انہوں نے اس مسجد کے معاملات میں گہری دلچسپی لی.اب امیر صاحب ہالینڈ تو بہر حال چندہ اکٹھا کرنے منتیں کروانے ، وقار عمل کے انتظام کروانے میں مسلسل بہترین کارکردگی دکھاتے رہے.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ بھی خاص طور پر دعا کے مستحق ہیں.ان کا سب سے پہلے تو جو نقشے بنانے اور ان کی کونسل سے منظوریاں لینے ، اس میں بہت وقت صرف ہوا ہے ہمارا.بہت پہلے یہ مسجد بن سکتی تھی مگر کونسل سے نئے نقشے بنا کر ان کی منظور یاں لینا یہ دو مسائل پیش کر رہا تھا.ایک تو یہ کہ وہاں کے آرکیٹیکٹ سے اگر ہم یہ کرواتے تو اس آرکیٹیکٹ کی فیس ہی بہت زیادہ تھی اور پھر اس کے ذریعہ جن کمپنیوں کو ٹھیکہ دیتے ان کے اخراجات بے انتہا تھے.اس لئے چوہدری عبدالرشید صاحب کو میں نے مشورہ دیا کہ آپ بطور آرکیٹیکٹ وہاں درج ہو جائیں اور جو نئے قوانین بنے ہیں یورپ کے اکٹھے ہونے کے نتیجہ میں ان میں ان کو موقع مل گیا.چنانچہ بحیثیت آرکیٹیکٹ ان کا وہاں
خطبات طاہر جلد 17 749 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء کونسل میں درج ہونا بہت سا وقت تو اس میں لگ گیا.پھر جو نقشے انہوں نے پیش کئے ان کو بار بار کونسل کبھی ایک عذر کبھی دوسرا عذر رکھ کر رڈ کرتی رہی ، ترمیموں کے مطالبہ کرتی رہی.تو یہ عرصہ ہے جو 1987ء سے لے کر اب تک جو تاخیر ہوئی ہے اس تاخیر کے ذمہ دار عرصہ میں یہ عوامل ہیں لیکن جب کام شروع ہوا ہے تو اس کام شروع ہونے کے بعد بھی اس کو دو سال پانچ مہینے لگے ہیں مکمل ہونے پر کیونکہ کئی دفعہ وہ پیسے کی کمی کی وجہ سے رک جاتے تھے اور اس خیال سے کہ بار بار مرکز پہ بوجھ نہ ڈالا جائے خاموشی بھی اختیار کر جاتے تھے.بعض دفعہ مہینوں کے بعد مجھے پتا چلا کہ کام رکا ہوا ہے کیونکہ پیسے ختم ہیں حالانکہ مسجد کے کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے بے حد پیسے دے رکھے ہیں کوئی ضرورت نہیں تھی کہ کام کو ختم کیا جاتا مگر جو بھی ہوا ہوتا رہا، رک رک کر چلتارہا مگر چلتا رہا اور اس عرصہ میں چوہدری عبدالرشید صاحب آرکیٹیکٹ نے وہاں قریباً سولہ سترہ دفعہ موقع پر جا کر کام کی نگرانی کی ہے.اور جو مختلف لوگوں نے اس میں خاص طور پر حصہ لیا ہے ان کا میں ذکر خیر کرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ کو ان سب کے لئے دعا کی تحریک ہو.امیر صاحب اور عبدالحمید صاحب کا تو عمومی ذکر کر چکا ہوں.اب میں وقار عمل کرنے والوں کا ذکر کرتا ہوں جنہوں نے اس سارے عرصہ میں مسلسل وقار عمل کیا ہے یا اس کے مختلف حصوں میں، چھ چھ مہینے کے لئے ، دو دو تین تین مہینے کے لئے وہ وقار عمل کے لئے آتے رہے.تو جو خاص طور پر نام میں نے چنے ہیں دعائیہ تحریک کے لئے وہ حسب ذیل ہیں.حنیف Handrick صاحب یہ ڈچ احمدی ہیں اور مسلسل اس عرصہ میں یہ وہاں رہے اور بڑی محنت سے کام کیا.ان کی اہلیہ نے بھی چھ ماہ تک Hague میں رہ کر وقار عمل میں حصہ لیا یعنی اس طرح کہ وقار عمل میں آنے والوں کے لئے جو کھانا پکانا ہوتا تھا وہ احمدی خواتین تیار کرتی تھیں تو حنیف Handrick صاحب کی بیگم صاحبہ اس غرض سے وہاں پہنچی رہیں.ان کے علاوہ بھی اور خواتین نے اس میں حصہ لیا.محمد یا مین صاحب.یہ ہمارے معمار بھی ہیں اور بڑھئی بھی ہیں.بہت سے کام جانتے ہیں.انہوں نے مسلسل وقار عمل کر کے اس مسجد کی تعمیر میں شروع سے آخر تک ثواب کمایا.ظفر اللہ صاحب جرمنی سے چھ ماہ کے لئے تشریف لائے.منور جمیل صاحب سپین سے چھ ماہ کے لئے تشریف لائے.عبد الحق محمود ، عثمان بید اللہ ، خواجہ مبشر احمد ان سب کو خدا تعالیٰ کے فضل سے حسب توفیق اس نیک کام میں حصہ لیا.اللہ تعالیٰ ان کو جزائے خیر عطا فرمائے.انشاء اللہ جب بھی آئندہ
خطبات طاہر جلد 17 750 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء توفیق ہوگی میں ضرور خود یہ مسجد د یکھنے جاؤں گا کیونکہ مجھے بھی بہت شوق ہے.اس درمیانی عرصہ میں جا کر دیکھتا رہا ہوں اور موقع پر ہدایات بھی دیتا رہا ہوں کس چیز کو کس طرح کیا جائے.کلھم جو بھی خرچ اٹھنا تھا اس کا اندازہ تھا میں لاکھ گلڈرز (Guilders) اور عملاً جو کام ہوا ہے یہ سات لاکھ گلڈرز (Guilders) میں ہوا ہے.تو ساٹھ فیصد جو بچت ہے یہ بچت حسب سابق جماعت نے خدمت خلق اور وقار عمل کے ذریعہ کی ہے.یہ وہ حساب کے کھاتے ہیں جو خدا کے حضور تو ہمیشہ محفوظ رہیں گے لیکن دُنیا کے حساب میں یہ لکھے نہیں جاتے تو عملاً یہ میں لاکھ گلڈرز (Guilders) کی تعمیر ہے جس کو خدا تعالیٰ نے توفیق عطا فرمائی کہ ہم نے سات لاکھ تک مکمل کر لیا.اب جماعت احمدیہ فرانس: جماعت احمدیہ فرانس کا یہ تبلیغی مرکز ، وہ عمارت جو خریدی گئی ہے یہ پہلے ایک کارخانہ ہوا کرتا تھا.اس کو مختلف تبدیلیوں کے بعد مرکز کے طور پر چنا گیا کیونکہ اس کے ساتھ جو عمارت تھی وہ کافی وسیع تھی اور اس میں گنجائش تھی کہ خدا تعالیٰ کے فضل کے ساتھ وہاں جب تک با قاعدہ الگ مسجد بنانے کی توفیق نہ ملے وہیں مسجد کی ساری ضرورتیں پوری ہو جائیں.چنانچہ اس کے ہال کے اندر قبلہ رخ مسجد کا انتظام کیا گیا.نیچے خواتین کے لئے بھی مسجد کا انتظام کیا گیا.ساتھ ملحقہ عمارتوں میں نمائش وغیرہ ، بہت سی چیزیں ایسی تھیں سٹوڈیو بنا تھا، لائبریری بنی تھی وہ وقتی ضرورتیں پوری کی جاتی رہیں لیکن مشکل یہ تھی کہ کونسل کے ہاں بطور مسجد اس کا اندراج نہیں تھا اور چونکہ نمازی عام دنوں میں بھی اور خصوصاً جمعہ پہ بکثرت آتے تھے اس لئے یہ تلوارسر پر لٹکی رہتی تھی کہ اگر کونسل چاہتی تو اعتراض کرتی کہ جگہ کسی اور مقصد کے لئے تھی.لی آپ نے کسی اور مقصد کی خاطر تھی یعنی تھی بھی اور مقصد کی جگہ، لی بھی آپ نے اور مقصد کے لئے تھی.اس میں آپ نے مستقل نمازوں کا مرکز بنالیا ہے.چونکہ فرانس میں بہت سی ایسی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں جو بنیاد پرست مسلمانوں کی طرف سے ، آگ لگانے کے، دہشت گردی کے واقعات اس لئے اس طرف بھی نظر رہی ہے ان اداروں کی کہ کہیں یہ بھی اسی قسم کے لوگ تو نہیں.پھر ہمیں یہ بھی مشکل پیش آتی رہی کہ بعض دفعہ تبلیغ کی خاطر مختلف لوگوں کو دعوتیں دی جاتیں.کوئی الجیریا کا کوئی مرا کو کا، غرض یہ کہ مختلف وہ باشندے جن کا زیادہ تر فرانس سے تعلق ہے اور وہ فرانس میں زیادہ تر رہائش پذیر ہیں.ہمیں تو اس سے غرض نہیں تھی کہ ان کا پس منظر کیا ہے.وہ دہشت گرد تھے یا ہیں.ہم تو ان کو تبلیغ کی دعوت دیا کرتے تھے
خطبات طاہر جلد 17 751 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء اور ان کے آنے جانے سے بھی شبہات پیدا ہوتے رہے اور معلوم ہوتا ہے کہ مسلسل ان کی انٹیلی جنس نے ہماری نگرانی کی ہے.آٹھ دس سال تک مسلسل نگرانی کرتے رہے ہیں.یہاں تک کہ بالآخر پوری طرح مطمئن ہو گئے کہ جماعت احمدیہ کا دہشت گردی سے کوئی دُور کا بھی تعلق نہیں.چونکہ نگرانی کے دوران کوئی بھی واقعہ ایسا ان کو دکھائی نہیں دیا کہ جس سے ہماری دلچسپیوں کو روک سکتے ، اس لئے روکا تو نہیں مگر منظوری بھی نہ دی.چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جونئی انتظامیہ ہے اس میں ملک اشفاق ربانی صاحب نئے امیر مقرر ہوئے ہیں وہ معاملہ جو دیر سے لٹکا ہوا تھا اس پر انہوں نے فوری توجہ دی اور کونسل سے مل ملا کر ان کو بتایا کہ دیکھو تم جانتے ہو کہ ہم صاف ستھرے لوگ ہیں اور یہ بھی جانتے ہو کہ یہ جگہ مسجد کے طور پر استعمال ہو رہی ہے تو ہمارا حق کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ جو مسجد کے لئے جگہ استعمال ہو اس کو مسجد ہی کہیں.چنانچہ احمد للہ کہ اشفاق ربانی صاحب نے کچھ دن پہلے مجھے یہ اطلاع دی کہ کونسل نے باقاعدہ اسے مسجد کے طور پر منظور درج کر لیا ہے.منظوری تو وہ نہیں دے سکتے وہ تو اللہ ہی دیتا ہے مگر درج کر سکتے ہیں.چنانچہ اب یہ بطور مسجد درج ہو چکی ہے.یہ وجہ تھی کہ ان کی خواہش تھی کہ اس موقع پر میں جا کر اس نئی صورت حال میں از سر نو افتتاح کرتا.پہلے جو افتتاح تھا وہ ایک مسجد کی عارضی جگہ کا ہوا تھا.اب بحیثیت مسجد اس کا افتتاح ہونا تھا.وہی وجوہات مانع ہوئیں جو میں پہلے ذکر کر چکا ہوں اور میں وہاں خود حاضر نہیں ہو سکا لیکن ان کی یہ خواہش ہے کہ میں ان کا بھی تذکرہ کر دوں، ان کی جماعت کا بھی ، ان کی کوششوں کا بھی تا کہ سب دُنیا کی جماعتوں میں دعا کی تحریک ہو.جو جماعت کی نئی انتظامیہ ہے انہوں نے جو غیر معمولی کوشش شروع کی ہے اس کے نتیجہ میں بہت سے مستقل مفید کاموں کا اجراء ہو چکا ہے اور میں مثال کے طور پر آپ کے سامنے ذکر کر رہا ہوں کہ فرانس MTA کے سٹوڈیو کا بھی آج ہی افتتاح ہورہا ہے.جماعت فرانس میں ایک بیداری کی جواہر ہے اس سے تبلیغ اور مالی قربانی کے میدان میں بہت آگے بڑھے ہیں.بچوں کی تعلیمی تربیتی اور قرآن کلاسز کے علاوہ نومبائین کی کلاس اور داعیان الی اللہ کے اجلاسات کا سلسلہ بھی جاری ہو چکا ہے.نیز لائبریریوں میں جماعتی کتب اور قرآن کریم کے نسخے رکھوانے کی کارروائی بھی ہو رہی ہے.اس جلسہ میں جو فرانس کے باشندے ہیں ان میں سے وہ لوگ جن کی مختلف قومیتیں ہیں اور مجھے تعجب ہوا یہ معلوم کر کے کہ فرانس میں مختلف قومیتوں کے جولوگ
خطبات طاہر جلد 17 752 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء آباد ہو چکے ہیں ان کی تعداد پچاس سے زائد ہے.بہت سے پرانی فرانسیسی نوآبادیات سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں اور بہت سے دوسری وجوہات سے یہاں آکر بس جانے والے البانیہ وغیرہ کے لوگ ہیں ، بوسنیا کے بھی ہیں.غرض یہ کہ مختلف یورپ کی اور افریقہ کی نمائندہ قومیں یہاں آباد ہیں.چنانچہ اس موقع پر چونکہ میری شمولیت کی توقع تھی انہوں نے پچاس سے زائد قوموں سے تعلق رکھنے والے غیر از جماعت مہمانوں کو شرکت کی دعوت دی تھی اور ان کی توقع ہے کہ وہ سارے شامل ہو گئے ہونگے تو جتنے بھی شامل ہو سکے ہیں یہ ان کے نصیب.بہر حال ان سب کے لئے ہم دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہدایت کے سامان فرمائے آج جو مہمان کے طور پر شامل ہو رہے ہیں کل وہ میز بان کے طور پر بھی شامل ہوں.اب میں اسی مضمون کا آغاز کرتا ہوں جسے نامکمل چھوڑ دیا گیا تھا.حیا کا مضمون چل رہا ہے.سب سے پہلی حدیث جو اس ضمن میں میں نے اختیار کی ہے وہ مؤطا امام مالك ، كتاب حسن الخلق سے لی گئی ہے.اس میں حضرت زید بن طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آنحضرت سائی یتیم کی طرف منسوب کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہر دین کا ایک خاص خُلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے.“ (مؤطا امام مالك، كتاب حسن الخلق، باب ماجاء في الحياء ، حدیث نمبر :9) اب یہ بات بھی یادرکھنے کے لائق ہے کہ جب کہا جائے ہر دین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیا ہے تو ثابت ہو رہا ہے کہ اور کسی دین میں حیا کو بطور خلق کے استعمال نہیں کیا گیا.یہ بہت ہی اہم نکتہ ہے جو سمجھنے کے لائق ہے اور غیر دینوں سے تبادلہ کھیالات کے وقت تبلیغ کرنے والوں کو یہ نکتہ یا درکھنا چاہئے ، ان کے بہت کام کا نکتہ ہے کیونکہ حیا تمام نیکیوں کی جان ہے اور تمام بداخلاقیوں کی دشمن ہے.اگر حیا عیسائیت کی بھی جان ہوتی اور یہی اس کا مرکزی نکتہ ہوتا تو آج عیسائی ملکوں میں جو فسادات پھیلے ہوئے ہیں جو خرابیاں برپا ہیں وہ کبھی دکھائی نہ دیتیں.مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے مگر اس لئے ہو رہا ہے کہ حیا چھوڑنے کی وجہ سے ہوا ہے.حیا دین کا حصہ ہے اگر دین والوں کو حیا نہ رہے تو ان کے اخلاق اور ایمان کی حفاظت تو حیا نہیں کر سکتی.پس تمام مسلمان کہلانے والے ملکوں میں جو بے حیائی کا دور دورہ دکھائی دے رہا ہے، بدخلقیوں کا
خطبات طاہر جلد 17 753 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء دور دورہ دکھائی دے رہا ہے یہ قطعی طور پر ثابت کرتا ہے کہ آنحضرت صلی اینم کی تعریف کی رو سے یہ یہ مسلمان کہلانے کے مستحق نہیں کیونکہ دین اسلام کا خلاصہ حیا ہے.جہاں حیا اٹھ جائے اور بے حیائی کا عام دور دورہ ہو اس ملک کے بسنے والے اسلام کی طرف لاکھ منسوب ہوں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایلم کی تعریف کی رو سے وہ مسلمان نہیں کہلا سکتے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت سنن الترمذی سے لی گئی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی یا ہی تم نے فرمایا: ”حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان جنت میں ہے.“ اب وہاں سے کا لفظ بھی نہیں ایمان جنت میں ہے.ترجمہ کرنے والے اس کا ترجمہ کرتے وقت اس کے معانی کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنی طرف سے یہ لگا لیتے ہیں کہ ایمان والا جنت میں جائے گا.حالانکہ آنحضرت صلی ایم کے فصیح وبلیغ کلام میں یہ ذکر نہیں ہے ورنہ کہہ سکتے تھے کہ ہر مومن جنت میں جائے گا اور یہ بات تو عام پھیلی پڑی ہے ہر جگہ.بہت ہی لطیف کلام ہے اور اس کے ساتھ ہی فرمایا: وَ البَذَاء مِنَ الجَفَاءِ، وَالجَفَاء فِي النَّارِ (سنن الترمذی، کتاب البر والصلة عن رسول الله ﷺ باب ما جاء فی الحیاء،حدیث نمبر :2009) که بناء یعنی نخش گوئی یہ بد خلقی میں سے ہے اور بدخلقی دوزخ میں پلتی ہے.یہ نہیں فرمایا بد خلقی کرنے والا.وَالجَفَاء فِي النَّارِ : اور بدخلقی دوزخ میں پلتی ہے.بہت ہی فصیح و بلیغ کلام ہے جس سے بہت مطالب پھوٹتے ہیں.تو بار بار اسی حدیث کے حوالے سے اس کے مطالب کی بحث اگر شروع کی تو بعض لوگوں کے لئے شاید سمجھنے میں دقت پیدا ہو.میں نے اس کا ترجمہ، جو بعینہ ترجمہ بنتا ہے وہ آپ کے سامنے رکھ دیا ہے.ایمان جنت میں ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ در اصل ایمان کا ایک مرکزی معنی یہ ہے.ظمانِينَةُ النَّفْسِ وَزَوَالُ الْخَوْفِ “ 66 (المفردات فی غریب القرآن، کتاب الألف زير لفظ أمن ) طمانیت نفس اور زوال خوف اور یہی معنی حضرت امام راغب نے اور بعض اور کتب میں بیان کئے ہیں جو عربی لغت کی کتابوں میں بہت نمایاں حیثیت رکھتی ہیں.حضرت امام راغب اور ان دونوں لغات کا اتفاق اس بات پر یہ بتا رہا ہے کہ یہ معنی اصل ہے یعنی مرکزی معنی یہی ہے باقی سارے معانی اس
خطبات طاہر جلد 17 754 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء سے پھوٹتے ہیں.تو اس لئے آنحضرت صلی ا یتیم کے اس ارشاد کو غور سے سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حیا ایمان ہے اور ایمان جنت میں ہے.کن معنوں میں جنت میں ہے؟ اس لئے کہ پوری طمانیت ہی حیا سے ملتی ہے اور پوری طمانیت ہی ایمان سے ملتی ہے اور اصل طمانیت جس میں زَوَالُ الخوف بھی شامل ہو کوئی خوف کا شائبہ تک باقی نہ رہے وہ امن کی حالت ، وہ طمانیت کی حالت حیا سے ملتی ہے اور جیسا کہ میں آگے تفصیل بیان کروں گا حیا ہی کے سارے شعبے ہیں جو ساری زندگی پر چھائے ہوئے ہیں اور سچی طمانیت حیا سے نصیب ہوتی ہے.اور ایمان کا یہ معنی کہ ایمان جنت میں ہے طمانیت نصیب کرتا ہے اور زوال الخوف ہے.یہ معنی حضرت ابراہیمؑ کے پیش نظر تھے جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ سوال کیا کہ مجھے بتا کہ مردے کیسے زندہ کئے جاتے ہیں؟ جو اب دیکھیں اللہ نے یہی فرمایا: اَوَلَمْ تُؤْمِن تو ایمان نہیں لایا.اللہ جانتا تھا کہ حضرت ابراہیم ایمان لے آئے ہیں مگر حضرت ابراہیمؑ کی فراست کا ایک گویا امتحان تھا کہ دیکھیں کن معنوں میں یہ کہ رہا ہے تو حضرت ابراہیم نے عرض کیا : بَلَى وَلَكِن ليَطْمن قلبى (البقرة: 261) ایمان تو لایا ہوں مگر ایمان کا یہ پہلو بھی تو پیش نظر ہے کہ وہ طمانیت بخشتا ہے.تو میں ایمان کے گہرے معانی پر نظر رکھتے ہوئے یہ عرض کر رہا ہوں تا کہ تو یہ خیال نہ کرے میرے متعلق اے خدا! یہ گمان نہ کرے کہ میں ایمان نہیں لاتا اس لئے پوچھ رہا ہوں اس لئے کہ ایمان کے تمام شعبوں پر حاوی ہو جاؤں.اس کی جان طمانیت ہے، کوئی بھی خلش دل میں باقی ندر ہے.یہ بہت وسیع مضمون ہے حضرت ابراہیم کا یہ جواب ہی بہت عظیم الشان ہے مگر جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا میں حدیثوں کے ذکر کے بعد پھر ان حدیثوں کے خلاصہ کے طور پر اس حیا کے مضمون کو اس خطبہ میں مکمل کرنے کی کوشش کروں گا.ایک اور حدیث بخاری کتاب الادب سے لی گئی ہے.حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : آنحضرت صلی ایم ایک شخص کے پاس سے گزرے وہ اپنے بھائی کو حیا کے بارے میں سرزنش کر رہا تھا.تم حیادار ہو بہت زیادہ ، ہر کام سے پیچھے رہ جاتے ہو.“ اس قسم کی کچھ باتیں ہونگی مگر یہ حیا کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ پیچھے رہ جائے کوئی شخص مگر چونکہ وہ حیا کے خلاف سرزنش کر رہا تھا.
خطبات طاہر جلد 17 وو 755 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء رسول اللہ صلی شما یہ تم نے فرمایا اسے چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان میں سے ہے.“ (صحیح البخاری، کتاب الادب، باب الحياء ،حدیث نمبر : 6118) اگر تم حیا کے خلاف کوئی بات کرو گے تو ہو سکتا ہے اس کا ذہن بدک جائے اور پھر رفتہ رفتہ بے حیائی کی طرف مائل ہو یعنی اس کا ایمان جاتا رہے.پھر ایک روایت ہے اور اسی روایت کے مختلف پہلوؤں کو میں اب باقی خطبہ میں کھول کر بیان کروں گا.حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضور صلی شما کی تم نے فرمایا: فحش جس چیز میں بھی ہو اس کو بدصورت کر دیتا ہے.“ اب بخش کے متعلق پہلے میں بیان کر چکا ہوں کہ بے حیائی کی تعریف ہی رسول اللہ یا تم نے خش فرمائی ہے.فحش کلامی بخش سے نہ شرمانا، یہ بے حیائی کی جان ہے اور اسی سے سارے معاشرے تباہ ہوتے ہیں.تو فرمایا کہ: نخش جس چیز میں بھی ہو اس کو بدصورت کر دیتا ہے اور حیا جس چیز میں ہو اس کو مزین اور خوبصورت بنا دیتی ہے.“ (جامع الترمذی، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فى الفحش والتفحش،حدیث نمبر : 1974) یہ وہ مرکزی پہلو ہے حیا کی خوبیوں کا جس کے متعلق میں چند نکات آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.حیا اور زینت کا جہاں تک گہرا تعلق ہے یہ سب دُنیا کے ادب میں ملتا ہے جہاں تک میں نے مختلف دنیا کی بڑی بڑی زبانوں کے ادب کا مطالعہ کیا ہے ان کی شاعری پر نظر ڈالی ہے اگر چہ تھوڑی نظر ڈال سکا ہوں لازماً اتنا وقت تو مل ہی نہیں سکتا، مگر یہ بات میں نے دیکھی ہے کہ سب دُنیا کی قوموں نے حیا کی تعریف حسن کے ساتھ ملاکے کی ہے.اپنے محبوبوں کو سارے ہی حیادار بتاتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ حیا سے ان کا حسن بڑھتا ہے.کبھی دُنیا کے کسی ادب میں کسی شاعری میں آپ بے حیائی کی تعریف نہیں سنیں گے.یہ نہیں سنیں گے کہ بے حیائی سے میر محبوب زیادہ خوبصورت ہو گیا.یہ مضمون ہے جو رسول الله صل علیم نے بنیادی طور پر بیان فرمایا ہے حیا زینت بخشتی ہے اور بے حیائی زینت لے جاتی ہے، دور کر دیتی ہے.اس سلسلہ میں دیکھیں غالب بھی تو یہی کہتا ہے کہ جب حیا بھی اس کو آئے ہے تو شرما جائے ہے.
خطبات طاہر جلد 17 756 غیر کو یا رب ! وہ کیونکر منع گستاخی کرے؟ خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے (مرزا اسد اللہ خاں غالب) بعض دفعہ اپنی حیا سے بھی آدمی شرما جاتا ہے اور یہ اپنی حیا سے شرما جانا یہ وہ مضمون ہے جو اس حدیث ,, کے بنیادی مضمون میں داخل ہے.الْحَيَاء خَيْرُ كُلُهُ " (صحیح مسلم ، کتاب الایمان ،باب شعب الایمان،حدیث نمبر : 157) تمام تر بہتر ہے.اور جو حیا سے شرماتا ہے اس کے اندر ایک نیا حسن پیدا ہو جاتا ہے.اب دیکھیں حیا نہ ہو تو چہرے کے نقوش کیسے بھی خوبصورت ہوں ان میں حسن باقی نہیں رہتا.اس کی مثالیں آپ دیکھ سکتے ہیں کئی طریقے سے.سب سے پہلے تو رشوت خور کا چہرہ آپ نے دیکھا ہوگا بددیانتی سے مال کمانے والے کا چہرہ دیکھا ہوگا، ظلم کرنے والے کا چہرہ دیکھا ہوگا ، لوگوں کے حقوق غصب کرنے والے کا چہرہ دیکھا ہو گا، اس کے نقوش بظاہر کیسے ہی متوازن کیوں نہ ہوں ان میں کوئی حسن باقی نہیں رہتا وہ بظاہر متوازن نقوش بھیانک ہو جاتے ہیں.اس پر نظر ڈالنے سے طبیعت میں کراہت محسوس ہوتی ہے.اب سوال یہ ہے کہ اس کو میں حیا کیوں کہہ رہا ہوں؟ اس لئے کہ آنحضرت صلی یہ تم نے جو حیا کی تعریف کا مرکزی نکتہ بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ انسان خدا سے شرمائے اور خدا سے ان کاموں میں شرمائے جن کاموں میں وہ پسند نہیں کرتا کہ اللہ دیکھ رہا ہو کہ میں یہ کر رہا ہوں ساری دیانت داری اور نیکو کاری کا راز اس بات میں ہے.اب دیکھیں بچے بعض حرکتیں کر رہے ہوتے ہیں ، ماں باپ آجا ئیں تو کیسے ٹھیک ٹھاک ہو کے بیٹھ جاتے ہیں.یہ حیا ہے.وہ جانتے ہیں کہ ماں باپ ان حرکتوں کو پسند نہیں کریں گے اور وہ ماں باپ کی شرم رکھتے ہیں.تو ایک مومن جو جانتا ہے کہ خدا کی ہمیشہ اس پر نظر ہے وہ کیوں نہ حیا سے کام لے اور جب وہ اللہ کی حیا نہیں رکھتا تو پھر دُنیا کی بھی حیا اٹھ جاتی ہے، کسی چیز کی حیا باقی نہیں رہتی.جن مغربی قوموں کا میں نے ذکر کیا تھا ان کی یہی مصیبت ہے، یہی وبال ہے ان کا کہ اللہ کی حیا اٹھ گئی ہے تو پھر رفتہ رفتہ دنیا کی حیا اٹھتی چلی جارہی ہے ان کا جو نقاب اٹھ رہا ہے اس کی کوئی انتہا نہیں سوائے اس کے کہ اپنا سب کچھ گند باہر کر دیں اور پھر خود اس سے متنفر ہو کے بھا گیں.اور یہ دوسرا دور بھی کسی حد تک شروع ہو چکا ہے لیکن یہ یاد رکھیں کہ حیا کا بدی فسق و فجور سے تعلق ہے کہ جب حیا نہ ہو تو بدی اور فسق و فجور نے لازماً ایسے دل پر قبضہ کر لینا ہے جو حیا سے خالی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 757 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء اب جیسا کہ میں نے بیان کیا ہے کہ رشوت خور کا چہرہ آپ نے دیکھا ہے اور ایسا ہی بدکاروں کا ، ظالموں کا چہرہ دیکھا ہوا ہے کتنا بھیانک چہرہ ہو جاتا ہے.کبھی بھی آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ اس کے نقوش بڑے اچھے ہیں، اس کی آنکھیں خوبصورت ہیں، اس کا ناک متوازن ہے ، اس کے ہونٹ ، اس کے گال ، اس کی گردن ، اس کا جسم جتنا وہ بظاہر خوبصورت ہوگا اتنا ہی بھیا نک اور بدصورت دکھائی دے گا.یہی حال فاحشہ عورتوں کا ہوا کرتا ہے.فاحشہ عورتوں کا جو ظاہری حسن ہے اس کے ظاہر کو جتنا چاہیں آپ متوازن قرار دے لیں ان کے چہرے سے جو ہولناک ایک کراہت پیدا ہوتی ہے ان کے چہرے پر نظر ڈالنے سے کوئی ظاہری حسن اس کراہت کو تبدیل نہیں کر سکتا.ان کی آنکھیں حیا سے خالی ، ان کے چہرے کے آثار حیا سے خالی اور اس کے نتیجہ میں حسن کو بے حیائی ایسا بگاڑ دیتی ہے کہ وہ بد زیب، بدصورتی بن جاتا ہے بعینہ یہی مرکزی تعریف آنحضرت مسلم نے فرمائی ہے حیا زینت بخشتی ہے اور بے حیائی حسن کو اجاڑ دیتی ہے.اس پہلو کو مدنظر رکھ کے ایک ایسے شریف النفس انسان کا بھی تصور کریں خواہ وہ کوئی بھی ہوا گر وہ نیکو کار ہے اور ان معاملات میں جس میں اس پر اعتماد کیا گیا ہے دیانتداری سے کام لیتا ہے تو ضروری نہیں کہ وہ مومن ہی ہو کسی بھی دین سے تعلق رکھتا ہو یا بظاہر بے دین بھی ہو اس کو حیا اس تصور سے نہیں آتی کہ میں کیوں برا کام کروں.اس کے اندر سے ایک دیکھنے والا پیدا ہو جاتا ہے اور جس طرح مومن کو خدا دیکھ رہا ہوتا ہے اور اس سے حیا کرتا ہے ایسا شخص خود اپنے ضمیر سے حیا کرتا ہے اور حیا ضرور کرتا ہے اور دیکھیں اس کا چہرہ کیسا صاف ستھرا دکھائی دیتا ہے.ایسے افسروں سے آپ کو کئی دفعہ ملنے کا اتفاق ہوتا ہوگا ان کے چہرہ پر شرافت لکھی جاتی ہے ان کے چہرے میں ایک حسن دکھائی دیتا ہے جس کو آپ بیان نہ بھی کر سکیں بظاہر، بدصورت بھی ہوں تو وہ کشش والے چہرے ہیں جو آپ کو اپنی طرف کھینچتے ہیں.تو حیا بد زیبی ، بدصورتی کو بھی خوبصورت بنا دیتی ہے اور بے حیائی خوبصورتی کو بھی بدزیب بنادیتی ہے، مکر وہ بنا دیتی ہے.یہ ہیں آنحضرت صلی ای ایم کے پر معارف کلمات ، ایک چھوٹے سے کلمہ میں دیکھیں کتنے مضامین کو اکٹھا ایک مالا کی طرح پرو دیا ہے.اب یہ جو حیا کا مضمون ہے اس کو جماعت احمدیہ کو خصوصیت سے پیش نظر رکھنا ضروری ہے.ہمارے ہاں جس ماحول میں بچیاں پل رہی ہیں ان کو اگر ماں باپ صرف حیا پر قائم کر دیں تو سب کچھ
خطبات طاہر جلد 17 758 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء کمالیا، کامیاب ہو گئے وہ کیونکہ جہاں بھی مجھے شکایت ملتی ہے دینی اصولوں کو نظر انداز کر کے بعض جرائم کا ارتکاب کرنے والی بچیاں ساری وہ ہیں جن کی آنکھیں حیا سے خالی ہوتی ہیں، جن کے دلوں میں حیا نے جھانکا نہیں ہوتا.حیا کرتی ہیں ماں باپ کی آنکھ سے کچھ عرصہ تک اور جب سوسائٹی میں باہر جاتی ہیں تو پھر کوئی آنکھ ان کو نہیں دیکھ رہی ان کے نزدیک گویا خدا ہے ہی نہیں لیکن ماں باپ نے اگر بچپن ہی سے سچی حیا ان کے دل میں پیدا کی ہوتی اور اللہ کے حوالے سے حیا پیدا کی ہوتی تو ایسی بچیاں کبھی ضائع نہیں ہو سکتیں ، ناممکن ہے.جہاں بھی جاتی ہیں اللہ ان کے ساتھ ساتھ جاتا ہے اور خدا کے حاضر اور غائب ہونے کا ایک یہ بھی مضمون ہے جسے آپ کو ہمیشہ پیش نظر رکھنا چاہئے.آنحضرت صال السلام نے فرمایا : ایک مومن بعض دفعہ ایک بدی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے اور بڑی سخت بدی ہوتی ہے اس وقت وہ مومن نہیں رہتا.(صحیح البخاری، کتاب المظالم ، باب النهی بغیر اذن..، حدیث نمبر: 2475) یہ کیا مطلب ہے کہ اس وقت نہیں رہا پھر ہو گیا؟ اصل میں مومن کی جو تعریف قرآن کریم نے فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ وہ غیب پر ایمان لاتے ہیں.يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ (البقرة : 4) اس لئے مومن نہیں رہتے کہ غیب یعنی اللہ کی ذات جو دکھائی نہیں دے رہی اس پر ایمان نہیں لاتے پورا.اس لئے فرما یا اس لمحہ جب وہ بدی کا ارتکاب کر رہے ہوں وہ مومن نہیں رہتے.اللہ تعالیٰ غیب تو ہے لیکن ایک ایسا غیب ہے جو دکھائی نہ دینے کے باوجود ساتھ ساتھ رہتا ہے.جو بھی انسان بدی کرتا ہے جنب الله (الزمر : 57) میں کرتا ہے، اللہ کے پہلو میں کرتا ہے.اگر وہ غیب پر ایمان سچا رکھتا ہو تو سچے غیب پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ دکھائی نہ دینے کے باوجود وہ ہمیشہ ساتھ رہتا ہے اور اگر اس پہلو سے مومن غیب پر ایمان لائیں تو کسی بدی کا ارتکاب کر ہی نہیں سکتے.اس کے باوجود آنحضور صلی یا یہ ستم سے بہتر اور کون جانتا تھا کہ بہت بڑے بڑے نیک اور متقیوں سے بھی بعض دفعہ غلطیاں ہو جاتی ہیں اور توبہ کے بعد پھر بھی غلطیاں ہو جاتی ہیں کیا وہ مومن نہیں ہوتے؟ فرمایا اس وقت مومن نہیں ہوتے کیونکہ اس وقت وہ خدا سے غائب ہو جاتے ہیں.یہ بھی ایک غیب ہی کا مضمون ہے جیسے کبوتر آنکھیں بند کر لیتا ہے اسی طرح وہ گویا خطرے سے آنکھیں بند کرتے ہیں اور جب خدا یاد آتا ہے یعنی آتا ہوگا بعضوں کو تو اس وقت لازم ہے کہ ان کے گناہ کی لذت میں خلل واقع ہو.ان کے گناہ کی لذت ہی خدا کو اپنے سے دور رکھنے سے پیدا ہوتی ہے اور جب خدا قریب آجائے اور وہ لذت جاتی رہے تو صاف
خطبات طاہر جلد 17 759 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء ظاہر ہوا کہ یہ لذت ایک شیطانی فعل تھا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں تھا ورنہ اللہ قریب آتا، وہ دکھائی دے رہا ہوتا محسوس ہوتا کہ خدا ہمارے قریب آ گیا ہے تو اس لذت میں اضافہ ہونا چاہئے تھا.اب وہ لوگ جو نیک کام کرتے ہیں اگر ان کا دماغ اس طرف چلا جائے کہ اللہ دیکھ رہا ہے دیکھو کتنے مزے اڑاتے ہیں.ان کو اس سے تو کوئی غرض نہیں کہ دنیا دیکھ رہی ہے مگر جب یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اللہ دیکھ رہا ہے تو موجیں لینے لگتے ہیں کہ ہمارا دیکھنے والا موجود ہے.تو اللہ قریب آئے تو لطف دُور نہیں جانا چاہئے ، اللہ قریب آئے تو جو مزہ خدا کا پیارا مزہ ہے اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو جاتا ہے.اس مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بار ہا کھولا ہے یہ احساس کہ اللہ مجھے اس وقت دیکھ رہا ہے جب میں نیکی کر رہا ہوں اور دُنیا سے چھپ کے کر رہا ہوں ، اس احساس سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کے مطابق اتنی لذت پیدا ہو جاتی ہے کہ اس کو سنبھالا نہیں جاسکتا.یہی لذت ہے جو مزید عشق دل میں پیدا کرتی ہے.تو آنحضرت صلیم کی تعریفیں، جو چھوٹی چھوٹی تعریفیں آپ مسی نا ہی تم نے فرمائی ہوئی ہیں ان کو بنظر غائر دیکھیں غور سے ڈوب کر ان کو دیکھیں تو آپ حیران ہو جائیں گے کہ ایک ایک جملہ میں ایک معانی کا سمندر اکٹھا کیا گیا ہے.اب پاکباز مرد، صرف عورتوں کا سوال نہیں، پاکباز مرد کا چہرہ اور بد کار مرد کا چہرہ بالکل مختلف ہوتے ہیں.ایک پاکباز مرد کے چہرہ پر ایک ایسا معصومیت کا حسن ہوتا ہے کہ اس کو ایک بد کار آدمی کے تعلق میں آپ تصور بھی نہیں کر سکتے.بدکار چہرہ پہ خواہ وہ عورت کا نہیں مرد کا ہی ہو، اس کے چہرے پر ایسی خوست طاری ہوتی ہے، اس کی آنکھیں حیا سے خالی ، اس کا چہرہ ایسا جیسے اس کے حسن کی چمک چھین لی گئی ہو پیچھے ایک بھیانک ساوجود باقی رہ جاتا ہے.تو احمدی بچیوں کا ہی کام نہیں احمدی مردوں کا بھی تو کام ہے.ماں باپ کا یہ بھی تو فرض ہے کہ اپنے لڑکوں کے دل میں حیا پیدا کریں اور لڑکوں کے دل میں اگر حیا پیدا ہوگی تو یہ جو مسئلہ ہے آپ کا کہ وہ ٹیلی ویژن میں چھپ کر ایسی چیزیں دیکھ رہے ہیں جو ان کی مخرب الاخلاق ہیں یہ خطرہ خود بخود مل جائے گا.جتنا حیا بڑھتی رہے اللہ کے تصور سے، اتنا ہی مخرب الاخلاق تصویریں دیکھنے سے طبیعت متنفر ہوتی چلی جاتی ہے، گھبرا جاتی ہے.ایسی بے حیائیوں کو آپ دیکھتے ہیں تو بجائے اس کے کہ ان میں لذت آئے آپ کو دکھائی دیتا ہے کہ بھیا نک بے نور چہرے ہیں ان کی لذتیں بھی شیطانی لذتیں ہیں ان میں کچھ بھی مزہ نہیں ہے اور یہ جو
خطبات طاہر جلد 17 760 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء تربیت کا سلسلہ ہے یہ اسی طرح رفتہ رفتہ آگے بڑھتا چلا جاتا ہے.پس جب ہم خواتین کی بات کرتے ہیں تو جو میرا مقصد ہے اس کو وہیں تک محدود نہ رکھیں.میرے نزدیک احمدی خواتین ہوں یا احمدی مرد ہوں دونوں کا زیور حیا ہے اور یہی ہے جو آنحضرت صلی شما یہ تم نے بیان فرمایا ہے.بعض مرد سمجھتے ہیں کہ صرف عورت کو ہی حیا کھنی چاہئے.جو بے حیا مرد ہوں ان کی عورتوں کی بھی حیا پھر زیادہ دیر تک مخفی نہیں رہا کرتی.رفتہ رفتہ وہ حیا ئمیں بھی اٹھ جاتی ہیں.تو اگر آپ نے اپنے گھروں کو جنت بنانا ہے تو یا درکھیں اگر مرد حیادار ہوگا تو بیوی حیادار رہے گی اور اگر وہ حیادار ہے اور مرد بے حیا ہے تو بعید نہیں کہ وہ علیحدگی کر کے بھاگ جائے وہاں سے ، وہ برداشت ہی نہ کر سکے کہ اس کے حیا پر روز حملے ہوتے ہوں اور رفتہ رفتہ اس کا دین تباہ ہورہا ہو.تو ایسی عورتیں ہیں جنہوں نے محض حیا داری کی وجہ سے طلاقیں لی ہیں اور یہ طلاق بالکل جائز ہے، بالکل درست ہے کافی وجہ ہے یہ کہ اس کی بناء پر قاضی طلاق کے حق میں فیصلہ دے.تو مومن اگر حیادار ہے تو اس کی بیوی بھی حیادار رہے گی.ہمارے لڑکے حیادار ہوں تو پھر لڑکیاں بھی حیادار ہوتی ہیں.جس گھر میں لڑکیاں دیکھتی ہیں کہ لڑکوں کو تو بے حیائی کی کھلی چھٹی ہے اور لڑکیوں پر ہی پابندی ہے تو بچیاں دل میں اس بات کو دبا لیتی ہیں ، جب تک ان کو قانون اجازت نہ دے کہ بے شک ماں باپ کے سامنے آنکھیں اٹھاؤ اور بے حیائی کے ساتھ ان سے باتیں کرو اس وقت تک جب تک قانون ان کی بے حیائی کی حفاظت نہیں کرتا وہ بظاہر حیا دار دکھائی دے رہی ہوتی ہیں لیکن عجیب ماں باپ ہیں کہ ان کو پتا ہے کہ بچے بے حیائی کی طرف مائل رہتے ہیں ان کا وہ بالکل خیال نہیں کرتے اور ان سے بے اعتنائی ہے، ان کی بے حیائیوں سے بے اعتنائی ہے جو آگے بچیوں کو بھی بے حیا بنا دیتی ہے.پس ہر احمدی گھر سے اس مضمون کے آخر پر میں اس توقع کا ذکر کرتا ہوں کہ اگر آپ غیب میں اللہ کی حیا رکھ لیں اور اس کے غیب ہوتے ہوئے بھی اس طرح نظر ڈالیں جیسے وہ ہمیشہ آپ کو دیکھ رہا ہے تو یہ ایک رستہ ہے خدا سے حیا کا جو آپ کو لازماً اس جنت میں داخل کر دے گا جس کے متعلق رسول اللہ صلی ایم نے فرمایا کہ ایمان جنت ہے، ایمان جنت میں بستا ہے.تمام طمانیت اسی سے ہے.ہر دکھ کا ازالہ اس بات میں ہے.تمام خطرات سے آپ کو یہ چیز بچائے گی آپ کا گھر وہ جنت بن جائے گا جس کے متعلق وعدہ کیا گیا ہے کہ ایمان جنت میں ہے.اس گھر میں جن کو وہ جنت دکھائی
خطبات طاہر جلد 17 761 خطبہ جمعہ 30اکتوبر 1998ء دے گی جس کا رسول اللہ صل ال ایتم نے وعدہ فرمایا ہے.یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ دُنیا میں تو یہ وعدہ پورا ہو جائے اور آخرت میں پورا نہ ہو.قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ.(المومنون:2) کامیاب ہو گئے وہ مومن جن کے گھر محمد رسول اللہ صلی یتیم کی اطاعت میں جنت بن گئے.اور لازماً ان کو یقین رکھنا چاہئے ایک ذرہ بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ اگلی دُنیا میں جو جنتیں نصیب ہوں گی اسی ایمان کے نتیجہ میں وہ اس سے بہت زیادہ ہے جو ان کے تصور میں آسکتی ہے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.تو آئندہ انشاء اللہ پھر دوسرے مضامین پر خطبوں کا آغاز ہوگا.
خطبات طاہر جلد 17 763 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ہر کمزور بھائی کو چندے سے باخبر کرو اور انہیں شامل کرو تحریک جدید کے 65 ویں سال کے آغاز کا اعلان (خطبه جمعه فرموده 6 نومبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَابِ اَلِيْم تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَ تُجَاهِدُونَ فِي سَبِيلِ اللهِ بِاَموَالِكُمْ وَ اَنْفُسِكُم ذلِكُمْ خَيْرٌ لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ.پھر فرمایا: (الصف:12،11) یہ سورۃ الصفت کی آیات گیارہ اور بارہ ہیں جن کی میں نے تلاوت کی ہے.یہ سورۃ الصفت وہی ہے جس میں مسیح کی آمد ثانی کی خوشخبری دی گئی ہے اور بڑی وضاحت سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی خبر دی گئی ہے اور جماعت احمدیہ پر جو حالات آئندہ گزرنے تھے ان کے متعلق بھی واضح اشارے موجود ہیں اور کس طرح ایک ایسی جماعت نے تیار ہونا تھا جو مالی اور جانی قربانی میں بہت آگے بڑھ جانے والی تھی اور اس کے مقدر میں یہ بات تھی کہ وہ خدا کی راہ میں اپنے مال بھی نچھاور کرے اور اپنی جانیں بھی.اس آیت کریمہ میں مال کا ذکر پہلے آیا ہے اور جانوں کا ذکر بعد میں.جب ہم سورۃ صفت کہتے ہیں تو اُردو میں یہی کہہ کر اشارے کرتے ہیں سورۃ صفت کی طرف لیکن جو زیادہ عربی علم کی وضاحت کرنا چاہتے ہیں وہ ہمیشہ الطقت ہی کہیں گے مگر میں نے
خطبات طاہر جلد 17 764 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء اُردو طریق اختیار کیا ہے.اُردو میں سورۃ صفت ہی کہا جاتا ہے اور مراد یہی ہے کہ الطقت جو قرآن کریم کی ایک سورۃ ہے بہر حال یہ بہتر ہوا کہ ابھی مجھے اس طرف توجہ دلا دی گئی ورنہ بعد میں کئی علماء نے لکھنا تھا کہ آپ صفت پڑھتے رہے حالانکہ الصفقت ہے.(چونکہ حضور انور اس سورۃ کا نام اب تک سہواً الصنفت پڑھتے رہے تھے تو حضور کی خدمت میں عرض کی گئی کہ یہ الطقت نہیں بلکہ سورۃ الصف کی آیات ہیں جس پر حضور نے فرمایا : یہ جو توجہ دلائی ہے بالکل درست ہے.میں الصف سمجھ رہا تھا یعنی میرے ذہن میں تو سورۃ الصف ہی ہے شروع سے لے کر آخر تک لیکن اس قسم کے زبان کے غوطے کھا جایا کرتا ہوں اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں یہ سب کے سامنے ظاہر ہے کہ ذہن میں ایک لفظ ہوتا ہے اور بعض دفعہ مضمون میں ڈوبا ہوا ایک دوسرا لفظ بیان کر رہا ہوتا ہوں تو یہاں بھی غلطی تھی جس کی طرف پرائیویٹ سیکرٹری کا ممنون ہوں کہ انہوں نے فوری توجہ دلا دی.سورۃ الصف کی بات ہورہی ہے الطقت کی نہیں اور لکھا ہوا بھی سامنے سورۃ الصف ہی ہے مگر خدا جانے کیوں زبان پر الطقت ہی جاری رہا.ویسے صف اور الصفت میں ایک گہرا تعلق بھی ہے.الصفت میں ان لوگوں کا بیان ہے جو صف باندھ کے خدا کی راہ میں لڑتے ہیں اور سورۃ الصف میں بھی انہیں لوگوں کا بیان ہے جو صف باندھ کے ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح دشمن سے لڑتے ہیں.تو مضمون کے ایک ہونے کی وجہ سے غالباً کیونکہ دونوں میں ایک ہی مضمون بیان ہوا ہے اس لئے شاید میرے ذہن میں یہ لفظ الصنفت رہا نہ کہ الصف.اب درستی کر لی ہے اب اس بارہ میں دوبارہ کسی کو لکھنے کی ضرورت نہیں.جمعہ میں جو اس قسم کی غلطیاں ہو جاتی ہیں ان کو درست کرنے کی ضرورت نہیں ہے اسی جمعہ کے دوران ہی میں درست کر دیا کرتا ہوں اس لئے بغیر کسی ترمیم کے یہ خطبہ اسی طرح جاری ہونا چاہئے.اب میں پھر مضمون کی طرف واپس آتا ہوں.فرمایا گیا ہے : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُتُكُمْ عَلى تِجَارَةٍ تُنْجِيكُم مِّنْ عَذَاب الیم - اے مومنو! کیا میں تمہیں ایک ایسی تجارت پر اطلاع دوں جو تمہیں درد ناک عذاب سے بچالے گی.تُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَرَسُولِہ وہ تجارت یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کے رستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں سے جہاد کرو.یہ تمہارے لئے بہتر ہے کاش کہ تم جان سکتے.یہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے سورۃ الصف وہی سورۃ ہے جس
خطبات طاہر جلد 17 765 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء میں جماعت احمدیہ کی خوش خبریاں دی گئی ہیں اور اس پہلو سے یہ صفات خصوصیت کے ساتھ جماعت احمدیہ پر اطلاق پارہی ہیں جو اس سورۃ میں بیان ہو رہی ہیں.اس میں بہت سے مضامین مخفی ہیں یعنی بالکل مخفی تو نہیں مگر ان کے اندر مضمر اس طرح چلے آرہے ہیں کہ اگر ذرا سا بھی غور کرو تو ظاہر ہو جاتے ہیں.پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسی تجارت ہے جو درد ناک عذاب سے نجات دے گی.مضمر بات یہ ہے کہ بہت سی دوسری تجارتیں ہیں جو درد ناک عذاب سے نجات نہیں دیتیں.یہاں تجارت سے مراد محض کا رروبار کی تجارت نہیں بلکہ صنعتوں کی تجارت بھی اس میں شامل ہے ہر قسم کے معاملات جن سے انسان کو منافع نصیب ہوتا ہے وہ تمام وسیع اقتصادی عوامل اس آیت کے پیش نظر ہیں جن کے ذریعہ قوم کی معاشیات چلتی ہیں.پس پہلی بات تو قابل غور یہ ہے کہ کیا سب دوسری تجارتیں دردناک عذاب کی طرف لے جانے والی ہیں؟ کیا تجارتوں سے کلیۂ روکا جا رہا ہے؟ اور ایک ایسی تجارت کا ذکر کیا جا رہا ہے جو باقی تجارتوں سے الگ ہوتے ہوئے دردناک عذاب سے نجات دے گی.ہرگز نہیں! کیونکہ جو تجارت بیان فرمائی جا رہی ہے اس کی بنا ہی دوسری تجارتوں پر ہے.اگلی آیت میں یہ بات خوب کھول دی گئی ہے کہ تجارت سے جو تمہاری آمد نیں ہوں گی ان آمدنوں کے خرچ کے معاملہ میں ہم تمہیں متنبہ کرتے ہیں کہ وہ خرچ درست ہو ورنہ وہ تجارتیں تمہیں درد ناک عذاب کی طرف لے جائیں گی.تو تجارتوں سے نہیں روکا جارہا، اقتصادی جد و جہد سے نہیں روکا جارہا بلکہ اس کے نتیجے میں جو کچھ بھی حاصل ہوگا اس کو کس طرح خرچ کرنا ہے، یہ بیان فرمایا جارہا ہے اور ضمناً اس میں یہ بات داخل ہے کہ وہ مال جس کو خدا تعالیٰ اپنی راہ میں خرچ کرنے کی ہدایت دیتا ہے لازماً پاک وصاف ہوگا.یہ ہوہی نہیں سکتا کہ خدا مومنوں سے گندے اموال طلب کرے.تو کیسا خوبصورت ضمنی اشارہ موجود ہے کہ مومن تو وہی ہیں جن کی تجارتیں پاک اور صاف ہوا کرتی ہیں.ان میں کوئی گند کی ملونی نہیں ہوتی اور جو پاک وصاف تجارتوں کے نتیجہ میں ان کو حاصل ہوتا ہے وہ پھر اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر کے اس کو مزید پاک کرتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں وہ ان کی عقبی سنوار دیتا ہے اور یہ بھی مضمر ہے کہ دُنیا بھی سنوار دیتا ہے.ان لوگوں کو درد ناک عذاب سے نجات دی جائے گی.دردناک عذاب سے مراد لا ز م وہ عذاب نہیں جو آخرت کا عذاب ہے بلکہ اس دُنیا میں بھی ایک دردناک عذاب ہے جو انسان اپنی
خطبات طاہر جلد 17 766 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء زندگی ہی میں دیکھ لیتا ہے اور بسا اوقات انجام کے وقت اس کو وہ دردناک عذاب دکھائی دیتا ہے.چنانچہ بہت سے لوگ جنہوں نے روپے جوڑے اور عمر بھر اپنے خزانے بھرے جب موت کے قریب پہنچتے ہیں تو اس درد سے تڑپتے ہیں کہ ان کا انجام نیک نہیں ہوا.کچھ بھی انہوں نے اپنے لئے آگے نہیں بھیجا.بسا اوقات ان کی اولادیں جن کو وہ پیچھے چھوڑ کے جار ہے ہوتے ہیں ان کی زندگی ہی میں ایک درد ناک عذاب کے لئے ان کو تیار کر رہی ہوتی ہیں، زندگی میں اس طرح تیار کرتی ہیں کہ زندگی بھر وہ ان کا رخ دیکھتے ہیں کہ ان کا رخ دُنیا کی طرف ہو چکا ہے اور اپنے اموال کو خرچ کرنے میں وہ گندے مصارف اختیار کر چکے ہیں، ایسے مصارف جن سے نظر آ رہا ہے کہ جو کمائی انہوں نے محنت سے کی تھی ان کی اولادوں نے آگے ضائع کر دینی ہے.بہت سے لوگ ہیں جن کو یہ خطرہ درپیش ہوتا ہے اور نظر آ رہا ہوتا ہے کہ اب یہ اولا دیں ہاتھ سے نکلی جارہی ہیں.جو کچھ ہم نے کما یا سب کچھ ضائع کر دیں گی.یہ دردناک عذاب کی تیاری ہے جو زندگی بھر ہوتی رہتی ہے ، موت کے وقت اس کا آخری انجام دکھائی دیتا ہے ہم نے تو اپنی اولادوں پر جو کچھ بھی خرچ کیا ضائع کر دیا، جو کچھ ان کے لئے پیچھے چھوڑیں گے وہ ان کو اور بھی زیادہ برباد کرے گا.تو درد ناک عذاب سے مراد صرف یہی نہیں کہ آخرت میں ان کو درد ناک عذاب ہوگا.وہ تو ہوگا ہی لیکن اس دُنیا میں بھی وہ درد ناک عذاب کا مزہ چکھ لیں گے لیکن وہ مستقلی ہیں ، کون مستقلی ہیں؟ جو پاک طریقوں پر خدا کے سکھائے ہوئے اسلوب تجارت کو اختیار کرتے ہوئے ایسی تجارتیں کرتے ہیں جن میں کوئی گند کی ملونی نہیں ہوتی.جو کچھ ان کو ملتا ہے پھر وہ اللہ ہی کی راہ میں خرچ کر دیتے ہیں یعنی جس حد تک توفیق ہے وہ خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں.آنفُس کا خرچ بھی خدا کی راہ میں کرنا ضروری ہے یعنی جانوں کے خرچ سے مراد یہ ہے کہ خدا تعالیٰ نے انسانی جانوں کو جو کچھ بھی عطا کیا ہے وہ اسی کی راہ میں خرچ کرنا چاہئے مگر یہاں اموال کو پہلے مذکور فرمایا گیا اس لئے کہ وہ دور ایسا ہے جس میں مالی قربانی بھی نفسوں کی پاکیزگی کا موجب بنے والی تھی اور ایک قسم کی ایک پیشگوئی ہے کہ وہ لوگ جو مالی قربانیاں کریں گے ان کے نفوس ان کی مالی قربانیوں کے نتیجہ میں پاک ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ دن بدن وہ پاک سے پاک تر ہوتے چلے جائیں گے اور اس کے نتیجے میں پھر وہ اپنے نفس بھی یعنی وہ تمام طاقتیں جو خدا نے ان کو بخشی ہیں وہ بھی خدا کی راہ میں خرچ کریں گے یعنی
خطبات طاہر جلد 17 767 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ان کے پاک ہونے کی علامت ان کے مزید خرچ ہوں گے.یہ بظاہر ایک عجیب سی بات دکھائی دیتی ہے مگر روز مرہ کے تجر بہ میں بالکل صاف دکھائی دینے والی چیز ہے.اللہ کی راہ میں جو شخص ایک بظاہر کڑوا گھونٹ بھر کے کچھ خرچ کرتا ہے، وہ جانتا ہے کہ اس خرچ سے مجھے کچھ تکلیف پہنچی ہے لیکن رضائے باری تعالیٰ کی خاطر، نہ کہ دکھاوے کے لئے وہ کچھ خرچ کر لیتا ہے، اس کی توفیق ہمیشہ بڑھائی جاتی ہے.خرچ کرنے کی توفیق مال ہی تک محدود نہیں رہتی بلکہ ایسا شخص پھر کچھ اپنا وقت بھی دین کے لئے خرچ کرنے لگتا ہے اور اپنے علم کو بھی دین کے لئے خرچ کرتا ہے.جو کچھ بھی اللہ نے اسے عطا کیا ہے جذبات، کیفیات، ہر چیز خرچ کرنے کا ایک ڈھنگ ہے اور رفتہ رفتہ اللہ سے یہ ڈھنگ سکھاتا ہے کہ کس طرح اللہ کی راہ میں وہ سب کچھ دو جواللہ نے تمہیں عطا فرمایا ہے.یہ مضمون ہے جس کا جماعت احمدیہ سے بہت گہرا تعلق ہے اور آج چونکہ تحریک جدید کا، نئے سال کا اعلان ہونے والا ہے اس لئے میں نے اسی مضمون کو آج کے لئے اختیار کیا ہے.اب اس مضمون کی مزید وضاحت میں بعض احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات کی روشنی میں کرتا ہوں.پہلی حدیث تو مسلم كِتَابُ الزُّهْدِ وَالرَّقَائِقِ سے لی گئی ہے.یہ حضرت مطرف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث ہے جو اپنے والد سے بیان کرتے ہیں.ان کے والد نے مطرف سے بیان کیا کہ میں آنحضرت صلی شمالی یتیم کی خدمت میں حاضر ہوا.آپ صلی شمالی تیم سورۃ الھکم التکاثر پڑھ رہے تھے.( آپ صلی شیا کی تم نے اس کی تلاوت کے بعد فرمایا : ) ابن آدم کہتا ہے میرا مال، ہائے میرا مال.اے ابن آدم! کیا کوئی تیرا مال ہے بھی.“ ایک بہت ہی لطیف انداز ہے انسان کو اس مال کے متعلق متنبہ کرنے کا جسے وہ اپنا سمجھ رہا ہے.ہر شخص جو دنیا میں اللہ کی طرف سے عارضی طور پر مالک بنایا جاتا ہے وہ اسے اپنا ہی مال سمجھتا ہے مگر ایک یہ بھی کہنے کا انداز ہے کہ اے ابن آدم کیا تیرا کوئی مال ہے بھی سوائے اس مال کے جو تو نے کھایا اور ختم کر دیا.“ وہ تیرا کہاں رہا.جو انسان نے کھایا اور خرچ کر کے ختم کر دیا وہ تو اب اپنا مال نہیں ہے.جو پہن لی وہ پہن لیا.جو بوسیدہ ہو گیاوہ ختم ہو گیا اور تیرے کام کا نہیں ہاں جو تو نے صدقہ دیاوہ تیرے لئے اگلے جہان میں فائدے کا موجب ہوسکتا ہے لیکن وہ تو اگلے جہان کے لئے بھیج چکا ہے اب وہ تیرا مال نہیں رہا.(صحیح مسلم، کتاب الزهد والرقائق ، حدیث نمبر : 2958)
خطبات طاہر جلد 17 768 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء تو نے اللہ کی راہ میں قربان کر دیا اسے آگے بھیج دیا اب آگے جاکے دیکھے گا کہ اس کا کیا بنا تھا.تو جو بچوں کے لئے پیچھے چھوڑ دیا وہ تو مرتے وقت اپنا رہتا ہی نہیں کسی اور کا ہو جاتا ہے.تو کتنا لطیف انداز ہے یہ سمجھانے کا کہ ابن آدم خواہ مخواہ شور مچاتا ہے میر امال ، میرا مال ، اس کا مال تو کچھ نہیں ، وہم ہے صرف.جو خرچ کیا وہ جیسا کہ میں نے عرض کیا وہ تو اس کا رہتا ہی نہیں ، ہاں خرچ کرنے سے پہلے کوئی مال اس کا ضرور ہوتا ہے اور یہ اس میں مضمر ہے.یہ مراد نہیں کہ بالکل ہے ہی کچھ نہیں.مراد یہ ہے کہ کچھ ہے تو سہی مگر اس کا وہ تب بنے گا اگر اس کا خرچ اچھا ہوگا اور یہ وہی مضمون ہے جو قرآن کریم کی ان آیات میں بیان ہوا ہے جو میں نے پہلے بیان کر دیا تھا.اپنا مال اگر بنانا ہے تو اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ تمہارا ر ہے گا.جو اس دُنیا میں خرچ کرو گے وہ بھی تمہارا ہوگا ، جو اُس دُنیا کے لئے آگے بھیجو گے وہ بھی تمہارا ہی ہوگا باقی سب کچھ خرچ تو کرو گے مگر خرچ کے ساتھ ساتھ ہی تمہارے ہاتھ سے جاتا رہے گا اور تمہارا نہیں رہے گا.یہ مضمون وہ ہے جس کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ملفوظات میں یا اپنی کتب میں مختلف رنگ میں ان آیات کے مضمون کو کھولا ہے.سب سے جو پیارا اقتباس اس پہلو سے کہ جماعت احمدیہ کو اتنے پیار اور محبت سے مخاطب فرمایا ہے کہ شاید ہی کسی اور تحریر میں اس طرح بے ساختہ پیار پھوٹ رہا ہو جس طرح اس عبارت میں ہے جو فتح اسلام صفحہ 34 سے لی گئی ہے.”اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو!“ اتنا عظیم محبت کا اظہار ہے کہ انسان حیران رہ جاتا ہے.اے میرے عزیز و! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک درخت وجود تھا اور اس میں وہی شاخیں آپ کی تھیں جو سر سبز تھیں اور جو خشک ٹہنیاں ہر سرسبز درخت سے لٹکی ہی رہتی ہیں وہ سرسبز درخت کی نہیں رہتیں.تو یہ عرفان کی شان ہے کہ آپ نے وہی مضمون جو ان آیات میں بیان ہوا ہے جس کی مزید وضاحت حدیث نے کی ہے اسی مضمون کو ایک نئے انداز میں پیش فرما رہے ہیں.فرمایا بظاہر میری جماعت میں تمہیں خشک ٹہنیاں بھی دکھائی دیں گی وہ تو ہر درخت کا حصہ ہوا کرتی ہیں.ہر درخت ان خشک ٹہنیوں کی پہلے آبیاری خود کیا کرتا ہے، ان کو اٹھاتا ہے، ان پر خرچ کرتا ہے یعنی درخت بھی اگر زندہ ہو اور باشعور ہو ، زندہ تو ہے مگر اس طرح باشعور نہیں جیسے ہم سمجھتے
خطبات طاہر جلد 17 769 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ہیں مگر وہ درخت اس صورت میں جانتا ہوگا کہ جو کچھ بھی میں نے ٹہنیوں پر خرچ کیا ہے جو بعد میں خشک ہو گئیں وہ میرے وجود کا حصہ تھا میری محنت کی کمائی تھی اور وہ ٹہنیاں جو خشک ہو گئیں وہ ہاتھ سے جاتی رہیں ، وہ اپنی نہ رہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی اپنے درخت وجود میں ان شاخوں کا ذکر فرما دیا جو جماعت سے تو وابستہ ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے درخت وجود کی طرف منسوب ہوتی ہیں مگر خشک ہو چکی ہیں ان میں کوئی تر و تازگی نہیں ، ان کے ساتھ خدا تعالیٰ کا کیا سلوک ہوگا یہ اللہ بہتر جانتا ہے.بعض دفعہ خشک ٹہنیاں بھی ہری ہو جایا کرتی ہیں اور بعض دفعہ ہری نہ ہوں تو جلانے کے کام آتی ہیں اور اسی لئے قرآن کریم نے جہنم میں جلنے والے لوگوں کا ایندھن کے طور پر ذکر فرمایا ہے وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (البقرة: 25) جہنم میں انسان گویا اس طرح جلیں گے جیسے لکڑیاں جلتی ہیں.تو یہ خشک ٹہنیاں وہ ہیں جن کے متعلق دو امکانات ہیں، ایک احتمال ہے اور ایک امکان ہے.احتمال یہ ہے کہ یہ خشک رہیں اور اسی حال میں انگلی دُنیا کے لئے روانہ ہو جائیں کہ وہ جہنم کا ایندھن بننے کے سوا اور کوئی کسی کام میں استعمال نہیں کی جاسکتیں اور دوسرا جو امکان ہے وہ یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان انتباہات پر غور کر کے ، ان کی گہرائی میں اتر کے ہر خشک ٹہنی جس کا ایک زندہ درخت سے تعلق ہے اس زندہ درخت سے مزید تعلق قائم کر کے اپنی رگوں میں صحت مند، وہ خون تو نہیں ہوا کرتا مگر خون ہی کی ایک قسم ہے ، صحت مند مادہ، صحت مند مائع.رفتہ رفتہ خشک ٹہنیاں بھی پھولنے اور پھلنے لگتی ہیں اور یہ ایک عام مضمون ہے جس کا سب دُنیا کو علم ہے کہ خشک ٹہنیاں جب تک وابستہ رہیں ان کی زندگی کے امکانات ہوا کرتے ہیں اگر وابستہ نہیں رہیں گی تو پھر کوئی اُمید بہار نہیں ہوتی.اسی کے متعلق کہا گیا ہے: پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ (علامہ اقبال) یعنی خزاں میں بھی تو وہ ٹہنیاں جو درخت سے لگی ہوئی ہوتی ہیں ساری کی ساری خشک دکھائی دیتی ہیں یعنی بعض درختوں میں تو ایک بھی سرسبز ٹہنی دکھائی نہیں دیتی ان کو خدا پھر زندہ کرتا ہے نا، اس لئے کہ بہار آجاتی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی تو خشک ٹہنیوں کو زندہ کیا.فرماتے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 770 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں لگے ہیں پھول میرے بوستاں میں الحکم جلد 5 نمبر 45 صفحہ :3 مؤرخہ 10 دسمبر 1901ء) تو اس خزاں میں جو بہار آ گئی ہے اس بہار سے جو درخت پھوٹتے ہیں ان میں سے بھی پھر بہت سے خزاں کی طرف مائل ہو جاتے ہیں یعنی چاروں طرف بہار ہی بہار کا منظر ہوتا ہے لیکن بدنصیبی کہ کچھ ٹہنیاں پھر خشک ہونے لگتی ہیں جو خزاں میں سوکھتی ہیں ان کا قصور نہیں مگر جو بہار میں سوکھ جائیں وہ بہت قصور وار ہوا کرتی ہیں.خزاں کے سوکھے ہوؤں کو آگ میں ڈالنا تو بسا اوقات بے وقوفی ہوگی کیونکہ زمیندار کو پتا ہے کہ یہی درخت ہرا بھی ہو سکتا ہے اور اکثر خزاں کا خشک دکھائی دینے والا درخت بہار میں ہرا ہو جایا کرتا ہے تو جو جلد بازی سے کام لے اور اس کو کاٹ کے ایندھن کے طور پر استعمال کرے وہ انتہائی بے وقوفی کر رہا ہو گا اور اپنے آپ کو خود نقصان پہنچارہا ہو گا اس لئے خزاں کا سوکھا ہوا جہنم میں نہیں ڈالا جاتا لیکن بہار کا سوکھا ہوا اس بات کا سزاوار ہے کہ اسے جہنم میں جھونک دیا جائے سوائے اس کے کہ وابستہ رہے اس اُمید پر کہ شاید مجھ پر بہار آ جائے.تو احمدی بھی دو قسم کے ہیں.ایک وہ ہیں جو وابستہ رہتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو اتنے مرجاتے ہیں، ایسے بے روح ہو جاتے ہیں کہ پھر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا تو اس جماعت میں رہنے کا فائدہ ہی کوئی نہیں.بہتر ہے کہ ہم دُنیا کے فوائد حاصل کرنے کی کوشش کریں اور اس جماعت سے کلیۂ تعلق کاٹ لیں پھر جوسرسبزی ان کو دکھائی دیتی ہے وہ محض دھوکا ہے.اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں.وہ ایک دُنیا کی سرسبزی ہے جو جتنا ان کو بڑھائے گی اتنا ہی بڑا وہ ایندھن بنیں گے.یہ مضمون قرآن کریم نے بہت سی اور آیات میں بڑے لطیف انداز میں بیان فرمایا ہے کہ دُنیا کی روئیدگی ، دُنیا کی سرسبزی کوئی بھی فائدہ نہیں دیتی.تو دیکھنے میں بعض دفعہ لگتا ہے.پس وہ لوگ جو اُمید بہار رکھتے ہوئے درخت کے ساتھ اپنا تعلق نہیں توڑتے وہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر شاید اللہ کا رحم ہو اور ہم پھر زندہ ہو جائیں ، وہ خوش نصیب لوگ ہیں.جو تعلق توڑ لیتے ہیں وہ پھر ہمیشہ کے لئے اپنی دُنیا اور اپنی عاقبت کو ، انجام کو اپنے ہاتھوں سے برباد کر دیتے ہیں.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس کلام کو غور سے سنو اور جس حد تک ہو سکے اس سے استفادہ کرو.
خطبات طاہر جلد 17 771 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ”اے میرے عزیزو! میرے پیارو! میرے درخت وجود کی سرسبز شاخو! جو خدا تعالیٰ کی رحمت سے جو تم پر ہے میرے سلسلہ کبیعت میں داخل ہو اور اپنی زندگی ، اپنا آرام، اپنا مال اس راہ میں فدا کر رہے ہوا گر چہ میں جانتا ہوں کہ میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے.“ یہاں چونکہ سرسبز شاخیں مخاطب ہیں اس لئے وہ ابھی تک یہی رد عمل دکھاتی ہیں.جب بھی ان کو کوئی تحریک کی جائے وہ آگے بڑھ کر اس تحریک پر لبیک کہنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں اور ہمیشہ ہر مالی قربانی میں ایک دوسرے سے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں.تو یادرکھیں یہاں اولین طور پر سرسبز شاخیں مراد ہیں.میں جو کچھ کہوں تم اسے قبول کرنا اپنی سعادت سمجھو گے اور جہاں تک تمہاری طاقت ہے دریغ نہیں کرو گے لیکن میں اس خدمت کے لئے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.“ یہاں لازمی چندے مراد نہیں ہیں طوعی چندے مراد ہیں جیسا کہ تحریک جدید ہے، جیسا کہ وقف جدید ہے.لازمی چندے وہی ہیں جن کو جماعت نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ارشادات کی روشنی میں اپنے اوپر بحیثیت جماعت اور افراد پر ذمہ داریاں ڈالتے ہوئے بحیثیت جماعت اختیار کر لیا ہے اس جماعت کے فیصلہ میں ساری جماعت داخل ہے.پس جو اپنے اوپر خود لازم کر چکے ہیں یہاں وہ بحث نہیں ہو رہی.اس میں تمام قسم کی وہ تنظیمات جو فیصلہ کر کے ایک چندے کو اپنے اوپر لازم کر لیتے ہیں وہ بھی شامل ہیں یعنی خدام الاحمدیہ، انصار اللہ، لجنہ اماءاللہ جتنی بھی جماعتی تنظیمات ہیں ان میں چندوں کے لازم ہونے کی آگے قسمیں بنائی گئی ہیں.مرکزی چندہ عام کہلاتا ہے.طوعی لازمی چندہ وصیت کا چندہ ہے.پھر اس کے علاوہ خدام الاحمدیہ کا چندہ، انصار اللہ ، لجنہ اماء اللہ وغیرہ.ان سب کے چندے، اطفال کے چندے، یہ لازم تو ہیں مگرمل کر جماعت نے خود لازم کئے ہیں.جو تحریک جدید کا یا وقف جدید کا چندہ ہے یہ ان معنوں میں لازم نہیں ہے.اگر کوئی بنیادی چندے ادا کر رہا ہو اور یہ چندے نہ دے تو جماعت کی طرف سے اس پر کوئی حرف نہیں رکھا جاتا.یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ جماعت کا حصہ ہے لیکن وہ اولین اور سابقین میں شمار نہیں ہوسکتا.جو آگے بڑھنے
خطبات طاہر جلد 17 772 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء والے سبقت لے جانے والے ہیں ان میں تو شمار نہیں ہو گا مگر جماعتی نظام کے لحاظ سے عہدے ہر قسم کے اس کو ملیں گے ووٹ دینے کا حق ہو گا نظام جماعت کی دوسری دلچسپیوں میں پوری طرح حصہ لینے کا حق ہو گا ان حقوق سے اسے نہیں روکا جا سکتا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس بات کو جانتے تھے کہ ان سب لازمی چندوں کے علاوہ بھی اگر زائد طور پر میں کچھ طلب کروں تو یہی وہ لوگ ہیں جو اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہیں گے، اس لئے فرما رہے ہیں کہ میں تم پر فرض نہیں کرتا.اب تم اپنے حالات دیکھو اور ہر ایک کے حالات مختلف ہیں ، اپنی توفیق کا جائزہ لو اور اس کے مطابق جتنا دل چاہتا ہے خدا کی راہ میں بڑھ بڑھ کر خرچ کرو.یہ اب ایسی نیکی ہے جس کا فیصلہ تم نے خود کرنا ہے اور بعینہ یہی طریق تحریک جدید میں اور وقف جدید میں جاری ہے.پہلے ایک سلسلہ شروع ہو گیا تھا جس کو کہتے تھے بارہ روپے کم سے کم ضرور دو، چھ روپے ضرور دو.میں نے اس سارے سلسلہ کو ختم کر دیا ہے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ان فیصلوں کی روشنی میں کھلی چھٹی دینا زیادہ بابرکت ہے اور جب میں نے منع کیا تھا تحریک جدید وغیرہ کو کہ اب تم نے لا ز مایہ نہیں کہنا کہ چھ سے کم نہیں لینا، چھ ضرور دو یا بارہ ضرور دو یا پچاس ضرور دو بلکہ کھلا چھوڑ دو تو مجھے بعض احتجاجی خطوط ملے ان تنظیموں کی طرف سے کہ اس طرح تو ہمارے چندے کم ہو جا ئیں گے.میں نے کہا کم نہیں ہونگے ، بہت بڑھ جائیں گے کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جو اپنی جماعت پر ایک حسن ظن کی توقع رکھ رہے ہیں یہ ہو نہیں سکتا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے درخت وجود کی سرسبز شاخیں ہوں اور پھل دینے میں کنجوسی دکھا ئیں.وہ ایک دوسرے سے بڑھ کر پھل دیں گی اور بعینہ یہی ہوا ہے.پچھلی تاریخ جو تحریک جدید کے چندوں کی آپ کے سامنے پیش کی جائے اس پر غور کر کے یہ موازنہ کر کے دیکھیں آپ حیران رہ جائیں گے اس فیصلہ کے بعد ہر اگلا سال پہلے سے زیادہ اموال لے کر جماعت کی خدمت میں حاضر ہوا ہے.لوگوں نے پہلے سے بڑھ بڑھ کر اموال جماعت پر نچھاور کئے ہیں یہاں تک کہ بعض جگہ مجھے روکنا پڑا کیونکہ میں جانتا تھا کہ وہ اس دوڑ میں اپنی طاقت سے بھی کچھ آگے بڑھ رہے ہیں.ایک دوڑ تو وہ ہے الھكُمُ التَّكَاثُرُ (التكاثر : 2) تمہیں دُنیا کے اموال کی کثرت حاصل کرنے نے غافل کر دیا اپنے مال سے، اپنے انجام سے غافل کر دیا ہے.ایک
خطبات طاہر جلد 17 773 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء وہ دوڑ ہے جس میں اپنے مال خرچ کرنے کی دوڑ ہے اور جس طرح دوڑوں میں بعض دفعہ یہ ہوا کرتا ہے کہ آگے بڑھنے کے شوق میں لوگ طاقت سے بھی بڑھ جاتے ہیں اس کا پھر بُرا اثر ان کے دلوں پر پڑتا ہے، ان کے عضلات پر پڑتا ہے فوراً ظاہر نہ بھی ہو تو بعد میں ظاہر ہو جاتا ہے.تو بعض دفعہ روکنا پڑتا ہے اور میرا یہی تجربہ ہے کہ بہت جگہ میرے روکنے پر لوگ رکے ہیں ور نہ اس سے پہلے بے دریغ خرچ کر کے ایک دوسرے سے خرچ کرنے کا اچھا مقابلہ کیا کرتے تھے.جب یہ تاکید میں نے کی ہے تو امریکہ کے تحریک جدید کے چندوں پر وقتی طور پر برا اثر پڑا لیکن درحقیقت وہ برا اثر نہیں ہے کیونکہ میں نے ان سے کہا تھا کہ طوعی چندوں میں اتنا نہ زیادہ خرچ کریں کہ آپ کے روز مرہ کے چندوں پر بھی اس کا اثر پڑنا شروع ہو جائے اور آپ کی تجارتوں پر اس کا ایسا اکثر پڑے کہ پھر آئندہ نسبتا کم کمائیں اور خدا کی راہ میں خرچ کرنے کے لئے کم ہاتھ میں پائیں.یہ جب سمجھایا گیا تو بہت سے لوگ جو بے حد خرچ کر رہے تھے انہوں نے نسبتاً توازن اختیار کیا اور اپنے ہاتھ کچھ رو کے لیکن میرے جائزہ کے مطابق ان کے عمومی چندوں میں کمی نہیں آئی لیکن اس تنبیہ کے بعد تحریک جدید کے چندے میں کمی آئی ہے اور امریکہ جیسی جماعت جو بہت آگے تھی انہوں نے محسوس کیا، امیر صاحب کا درددل کا اظہار مجھے پہنچا ہے کہ ہم اس بارے میں مجبور ہیں آپ کی جو ہدایتیں تھیں ان پر عمل کیا ہے اور اب اس میں کچھ کمی دکھائی دے رہی ہے ، شرمندگی ہے.ان کو میں نے تسلی دلائی اور اب بھی میں تسلی دلا رہا ہوں کہ ہرگز شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں.میری ہدایات کے نتیجہ میں اگر وقتی طور پر چندوں میں کمی بھی آئے تو یادرکھیں اس کے بعد وہ بہت بڑی بڑی برکتوں پر منتج ہوگی.ہمیشہ سے میرا یہی تجربہ ہے وقتی طور پر کچھ کی محسوس ہو بھی تو آئندہ اللہ کے فضل سے وہ کمی بہت زیادہ اضافوں میں تبدیل ہو جایا کرتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ معاملہ یوں بیان فرمایا: د معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا.“ کر سکتا کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کر نہیں سکتے تھے.مطلب تھا کروں گا تو تمہیں مشکل پڑ جائے گی اس لئے نہیں کرسکتا، یہ مجبوری ہے.تا کہ تمہاری خدمتیں نہ میرے کہنے کی مجبوری سے بلکہ اپنی خوشی سے ہوں.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟“
خطبات طاہر جلد 17 774 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ”اے میرے عزیزو! اے میرے پیارو.“ اسی طرف اشارہ ہے.میرا دوست کون ہے؟ اور میرا عزیز کون ہے؟ وہی جو مجھے پہچانتا ہے.اب اس میں بہت گہری حکمت کا راز کھول دیا گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت اور دین حق کی راہ میں خرچ کرنا اس بات کو لازم کر دیتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو پہچانیں توسہی.اگر کوئی شخص پہچان جائے کہ یہ ایک اتنی عظیم نعمت ہے جس کی تیرہ صدیاں انتظار کر رہی تھیں اب ہمیں نصیب ہوئی ہے ہم کیوں اس پیارے وقت کو ہاتھ سے ضائع ہونے دیں تو وہ تو ہمہ وقت اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اس وجود سے اور گہرا تعلق رکھیں اور جو تعلق رکھتا ہے وہی ” میرے عزیزو، میرے پیار کی ذیل میں آیا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”جو مجھے پہچانتا ہے مجھے کون پہچانتا ہے؟ صرف وہی جو مجھ پر یقین رکھتا ہے کہ میں بھیجا گیا ہوں اور مجھے اس طرح قبول کرتا ہے جس طرح وہ لوگ قبول کئے جاتے ہیں جو بھیجے گئے ہوں.“ اللہ کی طرف سے آئے ہوئے ہوں.ان کو جو جانتے ہیں کہ اللہ نے بھیجا ہے ان کی بہت آؤ بھگت کرتے ہیں.دُنیا کے بھیجے ہوؤں کی بھی لوگ کرتے ہیں مگر جو یہ جان لے کہ اللہ کی طرف سے ایک نمائندہ بن کے آیا ہے کس طرح وہ اس پر اپنی جان اور اپنے اموال نچھاور کریں گے یہ تصور بھیجے ہوئے کے ساتھ بندھا ہوا تصور ہے.جتنا زیادہ یقین ہو کہ اس وجود کو اللہ نے بھیجا ہے اور ہماری خاطر بھیجا ہے اتنا ہی زیادہ اس سے محبت بڑھے گی اور اتناہی اس کے کہنے پر خرچ کی استطاعت بڑھے گی اور پھر ساتھ یہ بھی فرمایا: نیا مجھے قبول نہیں کر سکتی کیونکہ میں دُنیا میں سے نہیں ہوں مگر جن کی فطرت کو اُس عالم کا حصہ دیا گیا ہے.( یعنی اخروی دُنیا کا ) وہ مجھے قبول کرتے ہیں اور کریں گے.( یہ سلسلہ وہ ہے جو جاری رہے گا) جو مجھے چھوڑتا ہے وہ اس کو چھوڑتا ہے جس نے مجھے بھیجا ہے اور جو مجھ سے پیوند کرتا ہے وہ اس سے کرتا ہے جس کی طرف سے میں آیا ہوں.“ یہاں درخت وجود کی شاخوں کی تمام تفصیلات بیان ہو گئی ہیں.پیوند کر کے جڑ جانا، جوخون اس کی رگوں میں دوڑ رہا ہے وہ آپ کی رگوں میں دوڑنے لگے اس کو کہتے ہیں پیوند.پھر فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 775 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ”میرے ہاتھ میں ایک چراغ ہے جو شخص میرے پاس آتا ہے ضرور وہ اس روشنی سے حصہ لے گا.“ میں نو رہوں ، نور لے کر آیا ہوں.ایک چراغ میرے ہاتھوں میں روشن ہے جس کو میں اٹھائے ہوئے ہوں جو بھی آئے گالا ز م وہ اس روشنی سے حصہ لے گا.اب حصہ دینے کا ارادہ ہو یا نہ ہو جس نے چراغ تھاما ہوا ہو جو بھی اس کے پاس آئے گا اس سے استفادہ کرے گا.یہ ایک ایسی طبعی بات ہے جس کو ہٹایا جاہی نہیں سکتا یہ ہو کر رہے گی.پس فرمایا میں صاحب چراغ ہوں جو بھی میرے پاس آئے گا اسے ضرور روشنی ملے گی ، اسے ضرور فائدہ پہنچے گا.مگر جو شخص و ہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.“ (فتح اسلام ، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ :34) اب دور بھاگتا ہے کا مضمون اچھی طرح سمجھ لیں تو پھر میں اقتباس کو ختم کرتا ہوں.یہ مراد نہیں ہے کہ چراغ کے گرد نہیں رہ رہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے گرد لالہ ملا وامل بھی تو بستے تھے اور بڑے بڑے دشمن بھی بستے تھے لیکن وہ چراغ کے پاس رہتے ہوئے بھی روشنی سے حصہ نہیں لے رہے تھے.دور بھا گنا جسمانی طور پر دور بھا گنا نہیں، وہ بھی اس دور ہونے کا ایک نتیجہ ضرور ہے.بعض لوگ جسمانی طور پر بھی دور بھاگ جاتے ہیں مگر یہاں مراد یہ ہے کہ چراغ کی روشنی دیکھنے سے جس حد تک کوئی محروم ہوتا چلا جائے اس کو بصیرت ہی نصیب نہ ہو، اس کو بینائی ہی نہ ملے وہ اسی حد تک حضرت مسیح موعود سے دور ہٹتا چلا جائے گا اور وہ اس چراغ کی روشنی کے بظاہر اس کے قریب رہنے کے پھر بھی حصہ نہیں پائے گا.پس فرمایا: "جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے.اب دور بھاگنے کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں.ایک بد گمانی بھی ہوا کرتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں بے انتہا نشانات دکھائے گئے لیکن بعض نشانات میں بعض دفعہ ایک ایسا ابہام کا پہلو ہوا کرتا تھا کہ جن کے دلوں میں مرض ہوتا تھا وہ تو بدگمانی میں مبتلا ہو جاتے تھے.جن کے دل صدق اور یقین پر قائم ہوا کرتے تھے، جنہوں نے اس نور کو خود دیکھا ہوا ہو وہ سایوں سے دور نہیں بھاگتے.نور کے سائے بھی ہوا کرتے ہیں یعنی کچھ ایسے امور ہوتے ہیں جو بیچ میں اس طرح کھڑے ہو جاتے ہیں کہ اس نور کی روشنی بظاہر ایک جگہ نہیں پڑ رہی اور ایک سایہ سا دکھائی دیتا ہے.پس جو
خطبات طاہر جلد 17 776 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ہمیشہ نور کو دیکھتے رہیں وہ سایوں کی وجہ سے نور سے کیسے بھاگ سکتے ہیں.بدظنی کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بعض امور میں سایہ دیکھیں تو نو ر ہی کو چھوڑ دیں اور اس سے پیچھے ہٹ کر دور بھاگ جائیں وہ لوگ ہیں جو پھر ہمیشہ ظلمت میں ڈال دئے جائیں گے.یہ آخری تنبیہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوة والسلام نے فرمائی ہے.”جو شخص وہم اور بدگمانی سے دور بھاگتا ہے وہ ظلمت میں ڈال دیا جائے گا.پھر ایسی ظلمت سے نکلنا اس کے بس میں نہیں.چونکہ اب وقت تھوڑا ہے اور اگر میں اقتباسات کو پڑھتا ہوں تو تحریک جدید کی جور پورٹ پیش کرنی ہے وہ رپورٹ شاید پوری پیش نہ ہو سکے اس لئے بہتر ہے کہ اب میں رپورٹ پڑھنی شروع کر دوں.ایک اقتباس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا آخر پر میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.ایک اقتباس الحکم جلد 7 نمبر 25 صفحہ 8 پر درج ہے وہ میں آپ کے سامنے ضرور رکھنا چاہتا ہوں.فرمایا: وپس میں تم میں سے ہر ایک کو جو حاضر یا غا ئب ہے تاکید کرتا ہوں.“ اس زمانہ میں حاضر کو تاکید تو ممکن تھی غائب کو تاکید کیسے ہوئی.وہ غائب تک بات پہنچاتے ہونگے تو پہنچتی ہوگی مگر یہ زمانہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ آگیا ہے کہ ہر حاضر بھی میرے مخاطب ہے اور ہر غائب جو میری نظروں سے تو غائب ہے مگر دور بیٹھے مجھے دیکھ رہا ہے، مجھے سن رہا ہے میں اس سے غائب نہیں ہوں.تو وہ غائب جو میری باتیں سن رہا ہے جو مجھے دیکھ رہا ہے ان باتوں کو بیان کرتے ہوئے وہ سب مخاطب ہیں.فرمایا: میں تم میں سے ہر ایک کو جو حاضر یا غائب ہے تاکید کرتا ہوں کہ اپنے بھائیوں کو چندہ سے باخبر کرو.“ یہ ایک عظیم تحریک ہے جسے ہمیں ہمیشہ جاری کرنا چاہئے جس کے متعلق ہم بسا اوقات غفلت کر جاتے ہیں.لوگ خود چندہ دے دیتے ہیں اور چندوں سے آگاہ کرنے کا کام سیکرٹری مال یا سیکرٹری تحریک جدید وغیرہ پر چھوڑ دیتے ہیں.یہ ایک روز مرہ کی عادت بنانی چاہئے.اپنی بیوی بچوں کو ہی نہیں بلکہ اپنے دوستوں وغیرہ کو بتاتے رہا کریں کہ دیکھو یہ تحریک چلی ہے کیا تم شامل ہو اور اپنے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے ان کو سکھایا کریں کہ ہمارا بھی تو ایک یہ حال تھا ہم کسی وقت میں چندوں کے
خطبات طاہر جلد 17 777 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء معاملہ میں کنجوس ہوتے تھے.اب اللہ تعالیٰ نے ہمارے دن پھیر دئے ہیں اور اب ہم پر سچائی کا روشن سورج طلوع ہو چکا ہے.اب ہم نے دیکھا ہے کہ ہم جو خرچ کرتے ہیں اللہ بڑھا چڑھا کر ہمیں دیتا ہے.ہمارے اموال میں برکت ڈالتا ہے ہماری مصیبتیں دور فرماتا ہے.ہمارے کئی قسم کے دُکھ جن میں مبتلا ہو سکتے تھے ابتلا سے پہلے ہی دور فرما دیتا ہے.تو چندوں کی برکت سے اس طرح آگاہ کرنا جیسے عمو نا سیکرٹری مال آگاہ نہیں کیا کرتے.وہ تو صرف یہ بتاتے ہیں کہ آپ کا رجسٹر میں نام نہیں لکھا ہوا مگر صاحب تجربہ لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس نصیحت کو پہلے باندھ لیں.اپنے بھائیوں کو چندہ سے باخبر کرو.ہر ایک کمزور بھائی کو بھی چندہ میں شامل کرو.( یہ ساری جماعت کا کام ہے ) یہ موقع ہاتھ آنے کا نہیں.( آئندہ ہاتھ سے چلا جائے گا ) کیسا یہ زمانہ برکت کا ہے کہ کسی سے جانیں مانگی نہیں جاتیں اور یہ زمانہ جانوں کے دینے کا نہیں بلکہ فقط مالوں کے بقدر استطاعت خرچ کرنے کا ہے.“ الحکم جلد 7 نمبر 25 صفحہ : 8 مؤرخہ 10 جولائی 1903ء) یہ جو آخری اقتباس کا حصہ ہے یہ بھی کچھ وضاحت طلب ہے.میں نے کہا تھا نا کہ اس آیت کریمہ میں پہلے مالوں کا ذکر ہے تو مال تو مانگے جا رہے ہیں مگر بعد میں آنفس کا بھی ذکر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کیوں فرما رہے ہیں کہ آنفس نہیں مانگے جارہے؟ دراصل حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے دوسرے اقتباسات میں یہ وضاحت فرما دی ہے کہ مال خرچ کرو اور مال صرف وہی نہیں جو تمہارا صندوقوں میں بند ہو یا بینکوں میں جمع ہو.مال کے وسیع تر مضمون میں تمہاری جان تمہاری صلاحیتیں، دماغی ہوں یا روحانی قلبی ہوں وہ ساری مراد ہیں لیکن جو فرمارہے ہیں جانیں نہیں مانگی جارہیں، اس سے مراد یہ ہے کہ اسلام کے ابتدائی زمانہ میں جب کہ واضح طور پر جانوں کے جہاد کے لئے بلایا جاتا تھا اس سے فرق ہے.اب جانیں قربان تو کرتے ہو مگر اس لئے نہیں کہ تم جانی جہاد کی طرف بلائے جا رہے ہو.دُنیا کے کسی بھی ملک میں جماعت احمدیہ کو یہ ہدایت نہیں دی جارہی کہ تلواریں اٹھاؤ اور لڑنا شروع کر دو.اگر اس راہ میں اس طرح قربان ہوتے تو اس کو آنفُس کی وہ قربانی کہتے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے پیش نظر ہے مگر دینی جہاد کر رہے ہوں جہاں تلوار نہیں اٹھار ہے لیکن جانیں پھر بھی جارہی ہیں ان کی نفی مراد نہیں ہے.ایسی اطلاعیں تو آئے دن
خطبات طاہر جلد 17 778 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء ملتی رہتی ہیں کہ احمدیوں کی جانیں ان سے چھین لی گئیں بظاہر، اور دراصل تو وہ خدا کے سپرد ہوئیں، مگر دشمن نے بظاہر ان سے چھین لیں.یہ جانیں اس لئے نہیں چھینی گئیں کہ انہوں نے تلوار کا جہاد کیا تھا.اس لئے چھینی گئیں کہ خدا کی راہ میں وہ اپنے مال اور اپنی ساری صلاحیتیں خرچ کر رہے تھے اور موت سے زندگی کی طرف بلا رہے تھے.اس کا بدلہ ظالم نے یہ دیا کہ ان کو بظا ہر موت کی طرف بلا یا لیکن فی الحقیقت سوائے اس کے کامیاب نہیں ہو سکا کہ ان کو ہمیشہ کے لئے زندہ کر گیا.تو یہ کچھ اشتباہات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پر پورا غور نہ کرنے کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں.میں اپنی طرف سے تو ایک چھوٹی سی عبارت پڑھتا ہوں مگر جب ان اشتباہات کو دور کرنے کی طرف توجہ کرتا ہوں تو وقت زیادہ لگ جاتا ہے.تو اب صرف اتنا سا وقت رہ گیا ہے کہ جور پورٹ شعبہ مال نے بڑی محنت سے تیار کی ہے اس کا خلاصہ میں آپ کے سامنے پیش کر دوں.جو بنیادی کہنے والی باتیں تھیں وہ یہی ہیں جو میں نے کہہ دی ہیں.اب جماعتوں کا شوق بھی ہوتا ہے کہ ہمارا ذکر آئے اور اس ذکر کے نتیجہ میں دعا ہو اس لئے میں اب مختصر ان کا ذکر کرتا ہوں.پہلے تاریخ تحریک جدید کا آغاز 1934ء میں ہوا.31اکتوبر 1998ء کو پورے 64 سال گزر چکے ہوئے ہیں.اس تحریک میں بعد میں دفاتر کے اضافے ہوتے رہے ہیں.دفاتر سے مراد یہ ہے کہ ایک رجسٹر ان لوگوں کا تیار ہو گیا جنہوں نے شروع میں حصہ لیا پھر وہ رجسٹر بند ہو گیا اور ضرورت ہوئی کہ ایک اور دفتر قائم کیا جائے جو نئے آنے والوں کے رجسٹر کا حساب رکھے تو اس طرح تحریک جدید کے کام بانٹے گئے.مختلف دفاتر قائم ہوئے یعنی ایک دفتر کے اندر ہی جنہوں نے اپنا اپنا نئی پود کا حساب سنبھال لیا تو اس پہلو سے دفاتر بہت ہیں جن کا اضافہ ہوا اور اب پانچویں دفتر کے اضافہ کا وقت قریب آرہا ہے.آج میں تحریک جدید کے جس نئے سال کا اعلان کر رہا ہوں، یہ مختصر تاریخ میں نے آپ کو بتادی ہے اس کی ، اس رپورٹ کی وصولی کے وقت 82 ممالک کی رپورٹیں مل چکی تھیں.150 سے زائد ممالک ہیں جہاں جماعت قائم ہو چکی ہے ان میں سے 82 ممالک کی رپورٹیں ملنا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعتیں بڑی سنجیدگی سے قائم ہو رہی ہیں.جہاں چھوٹی چھوٹی جماعتیں یانی جماعتیں ہیں اور بڑی ہیں وہاں تک پہنچنے میں ہم سے ابھی غفلت ہے، ابھی ہماری
خطبات طاہر جلد 17 779 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء طرف سے پوری طرح ان کے ہاں نظام کو رائج نہیں کیا گیا.اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ نظام تو رائج کیا گیا مگر مرکزی بنیادی نظام اور ابھی طوعی چندوں کی طرف ان کو واضح طور پر نہیں بلایا جارہا کیونکہ اس سے خطرہ پیدا ہوسکتا تھا کہ ان کو شروع میں جو استطاعت ہے اس سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جائے.پس یہ وجہ ہے کہ اگر چہ ممالک زیادہ ہیں مگر تحریک جدید کے نظام میں نسبتا کم ممالک شامل ہیں اور وہ بھی بڑی تعداد ہے.82 ممالک کی رپورٹیں مل چکی ہیں.ان رپورٹوں کی رو سے وصولی 16,86000 پاؤنڈ ہوتی ہے، تحریک جدید کی وصولی.جو اس زمانہ میں جو آپ کہا کرتے تھے کہ کم سے کم اتنا فرض ہے، اس کا عشر عشیر بھی وصولی نہیں ہوئی تھی سو واں حصہ شاید ہزارواں حصہ بھی وصولی نہ ہو.16,86000 پاؤنڈ وصول ہوئے ہیں جو گزشتہ سال سے 65000 پاؤنڈ زائد ہیں.اب گزشتہ سال سے زائد ہیں باوجود اس کے کہ امریکہ کے متعلق میں بیان کر چکا ہوں کہ وہاں کافی کمی آئی ہے.اسی طرح پاکستان کی جو کرنسی کی حالت ہے آپ کو علم ہی ہے انڈونیشیا کی کرنسی کی جو حالت ہے وہ آپ جانتے ہیں تو اس طرح بہت سے ممالک ہیں جن پر کرنسی کی خرابی کی وجہ سے اگر چہ چندے ان کے کم نہیں ہوئے مگر جب پاؤنڈوں میں ان کو ڈھالا گیا تو کمی دکھائی دی ہے.اس لئے ان باتوں کے باوجود خدا تعالیٰ نے جب اتنی بڑی عظمت عطا فرمائی ہے تو یہ اللہ کا خاص احسان ہے جس کا جتنا بھی ہم شکر ادا کریں کم ہوگا.اس سال جرمنی کی جماعت کو مبارک ہو کہ وہ اول نمبر پر آئی ہے باوجود اس کے کہ امیر صاحب مجھے ڈراتے رہے سارا سال کہ یہاں بھی حالات میں ابتری پیدا ہو رہی ہے بہت سے مہاجر واپس بھیج دئے گئے ، چندوں میں کمی آگئی ہے مگر اللہ کے فضل سے تحریک جدید کے چندے میں سب دُنیا سے اس دفعہ جرمنی کی جماعت آگے بڑھ گئی ہے.اس سے پہلے امریکہ اوّل نمبر پر ہوا کرتا تھا اب جرمنی کو تو فیق ملی ہے اور ان کی جو وصولی ہے وہ گزشتہ سال سے معمولی زیادہ نہیں، گزشتہ سال سے انہوں نے اس سال 1,35000 پاؤنڈ زیادہ دیا ہے.اس کا مطلب ہے بہت محنت سے دوڑ میں حصہ لیا ہے.ایک خاص جماعت جو قابل ذکر ہے وہ برما کی جماعت ہے ،حیرت انگیز ہے.بظاہر ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور اتنے زیادہ.بظاہر تو ان کی مالی حالت بھی اتنی اچھی دکھائی نہیں دیتی ، بر ما کے حالات آپ لوگ جانتے ہیں مگر تحریک جدید کی طرف انہوں نے اس دفعہ بہت زور مارا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 780 خطبہ جمعہ 6 نومبر 1998ء پچھلے سال کے مقابل پر تین گنا زیادہ انہوں نے چندہ وصول کیا ہے.اور چھوٹی سی جماعت ہونے کے باوجود 45000 پاؤنڈ تحریک جدید کا چندہ ادا کیا ہے.جس کے نتیجہ میں جو ٹیبلز ہیں وہ بدل گئے ہیں اور اچانک برما کا نام وہاں آ گیا ہے جہاں کبھی کسی شمار میں وہ تھا ہی نہیں.اول جرمنی، دوم پاکستان، تین امریکہ اور برطانیہ زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد“ اس نے اپنی چوتھی پوزیشن کو نہیں چھوڑنا ہاتھ سے.اس دفعہ بھی اسی کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے.چوتھی پوزیشن نہیں ہاتھ سے جانے دیتے.پانچویں پر کینیڈا اور چھٹی پر برما.کہاں جس کا نہ تین میں شمار تھا نہ تیرہ میں وہ چھٹی پوزیشن میں آ گیا ہے اور انڈونیشیا ساتویں پر چلا گیا ہے.ہندوستان برما کے مقابل پر اندازہ کریں کتنی بڑی جماعت ہے.ہندوستان آٹھویں نمبر پر ہے.اب کرنسی کی قیمت کم ہونا بھی ان کے لئے کوئی جواز نہیں رکھتا.برما کی جماعت سے مارکھا جانایہ تو حد ہی ہو گئی.زندہ باد بر ما اور زندہ باد ہندوستان آئندہ کے لئے.سوئٹزر لینڈ نویں پوزیشن پہ جاچکا ہے اور دسویں پہ پیجیئم اور جاپان ہیں.بیجیم نے بھی ماشاء اللہ بہت ترقی کی ہے.چھوٹی سی جماعت ہونے کے باوجو داب وہ جاپان کے ساتھ برابر ہوگئی ہے.پس اس مختصر ذکر کے ساتھ اور اس آخری ذکر کے ساتھ کہ پاکستان میں جو نمایاں طور پر پہلی جماعتیں ہیں جو اول آئی ہیں اسی ترتیب سے جس ترتیب سے میں نام پڑھ رہا ہوں.لاہور اول، ربوہ دوم، کراچی سوم، اسلام آباد چہارم، راولپنڈی پنجم اور باقی بہت سی جماعتیں ہیں جنہوں نے تھوڑے چھوٹے کام کئے ہیں ان سب کے لئے دعا کی تحریک کے طور پر انہوں نے لکھا ہے اس میں گوجرانوالہ، سرگودها، جھنگ، گوجر خان، حافظ آباد، فیصل آباد، خوشاب، حیدرآباد، میر پور، کنری، یہ ترتیب نہیں بلکہ ایسی بہت سی جماعتیں ہیں جن کے متعلق انہوں نے کہا ہے کہ پہلے کی نسبت زیادہ توجہ دی ہے.اس لئے دعا کے مستحق ہیں.اس کے ساتھ ہی میں خطبہ کے اختتام کا اور نئے سال کے آغاز کا اعلان کرتا ہوں.اللہ تعالیٰ یہ سال ہمارے لئے ہر پہلو سے بہت مبارک کرے اور اس دلچسپ دوڑ میں ہم ہمیشہ ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے ہوئے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے اور ایک دوسرے کو نیکیوں میں پیچھے چھوڑنے کی کوشش کرتے رہیں.
خطبات طاہر جلد 17 781 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء قربت الہی آنحضرت سلی یا پریتم کی پیروی سے وابستہ ہے عادت اللہ ہے جو کچھ بننے کی آرزو کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں اور جو چھپنا چاہتے ہیں انہیں باہر نکال کر سب کچھ بنا دیتا ہے (خطبہ جمعہ فرموده 13 نومبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج آیت کریمہ تلاوت کی : واذكر اسم رَبَّكَ وَتَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًاه پھر فرمایا: (المزمل: 9) یہ آیت جس کی میں نے آج تلاوت کی ہے جیسا کہ اس کے مضمون سے صاف ظاہر ہے یہ اللہ کی یاد میں دُنیا سے اپنے کو جدا کرنے کی تلقین ہے.متبتل کا مطلب یہ ہے کہ ایسے جدا ہو جائے کہ گویا دُنیا سے کٹ گیا ہے اور خالصہ اللہ ہی کے لئے ہو گیا ہے.یہاں تبتل کا یہ معنی نہیں کہ دُنیا سے ہر قسم کے تعلقات کاٹ لے مگر ایسے تعلقات رکھے کہ تعلقات کے رہتے ہوئے بھی بظاہر یعنی تعلقات ظاہری طور پر رہیں لیکن دل ہمیشہ مائل بحد ا ر ہے.یہ معنی ہے تبتل کا جو دراصل نبوت کے آغاز سے پہلے شروع ہوجاتا ہے اور اس مضمون کو میں بعض احادیث نبویہ کی روشنی میں آغاز ہی میں کھولوں گا.یہ خیال کہ نبی ، نبی بننے کے بعد قتل کرتا ہے یہ درست نہیں.تبتل کے نتیجہ میں نبی بنتا ہے.یہ ایک نمایاں فرق ہے جو پیش نظر رہنا چاہئے اور ہر بڑا درجہ خواہ نبوت کا نہ بھی ہو صالحیت کا ہی ہو وہ
خطبات طاہر جلد 17 782 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء تبتل ہی کی ایک سیڑھی ہے اور تبتل ہی کے ذریعہ سے یہ سارے درجے عطا ہوتے ہیں.پس اس مضمون سے متعلق میں کچھ احادیث، کچھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات آج آپ کے سامنے رکھوں گا.الحکم جلد 5.10 اکتوبر 1901ء صفحہ 3 پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اس آیت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے: خلاصہ کلام یہ ہے کہ خدا ہی کی رضا کو مقدم کرنا تو تبتل ہے.اور پھر تبتل اور توکل توام ہیں.تبتل کا راز ہے تو کل اور توکل کی شرط ہے تبتل.یہی ہمارا مذ ہب اس امر میں ہے.“ الحکم جلد 5 نمبر 37 صفحہ 3 مؤرخہ 10اکتوبر 1901ء) توام جڑواں کو کہتے ہیں جیسے جڑواں بھائی جو ایک دوسرے کے ہم شکل ہوں یا جڑواں بچے جو کلیۂ ایک دوسرے سے مشابہ ہوں اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے نزدیک مبتل اور تو کل ہیں.جتنا تبتل دنیا سے کرو گے اتنا ہی لازماً توکل اللہ پر ہونا چاہئے اور جتنا توکل اللہ پر ہواتنا ہی تبتل کرو گے تو گویا ایک ہی مضمون کے دو نام ہیں تبتل اور توکل.اس سلسلہ میں پہلی حدیث جو میں نے چینی ہے یہ ترمذی کتابُ الْمَنَاقِبِ سے لی گئی ہے.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا روایت کرتی ہیں : وو " أَوَّلُ مَا ابْتُدِى بِهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِنَ النُّبُوَّةِ حِينَ أَرَادَ اللهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةً العِبَادِبِهِ أَنْ لَا يَرَى شَيْئًا إِلَّا جَاءَتْ كَفَلَقِ الصُّبْحِ فَمَكَتَ عَلَى ذُلِكَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَمْكُتَ، وَحُبَّبَ إِلَيْهِ الخَلْوَةُ فَلَمْ يَكُنْ شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَخْلُو“ (جامع الترمذی، کتاب المناقب عن رسول الله ﷺ، باب فی ذکر الرؤيا الصادقة...حدیث نمبر :3632) اس کا ترجمہ میرے سامنے رکھا گیا ہے وہ چونکہ درست نہیں تھا اس لئے میں نے وہ ترجمہ نہیں پڑھا.اس ترجمہ سے یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا نبوت کے حصول کے بعد خلوت نشینی شروع ہوتی ہے، بالکل برعکس مضمون ہے.خلوت نشینی کے نتیجہ میں نبوت ملتی ہے اور پھر یہ خلوت نشینی ٹوٹتی کیوں ہے؟ اس لئے کہ حکماً وہ شخص مجبور کر دیا جاتا ہے کہ اب تمہیں باہر نکلنا پڑے گا.پس اس کا ترجمہ یوں بنتا ہے.أَولُ مَا ابْتَدِى بِهِ رَسُولُ اللهِ ﷺ مِن النُّبُوَّةِ : نبوت کا آغاز جس چیز سے ہوا ہے یہ مراد نہیں ہے کہ
خطبات طاہر جلد 17 783 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء نبوت کے بعد شروع ہوا ہے.آغاز ہی میں ، بچپن ہی میں جس بنا پر نبوت عطا ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ آنحضرت صلی سلیم خدا کی طرف تبتل فرما رہے تھے اور اس تبتل کے بغیر آپ سی ای تم کو نبوت عطا نہیں ہوئی تھی کیونکہ تبتل نبوت کی پہلی شرط ہے اس کے بعد نبوت عطا ہوا کرتی ہے.حِينَ أَرَادَ اللهُ كَرَامَتَهُ وَرَحْمَةَ العِبَادِ بِهِ : کہتے ہیں اس کا آغاز اس طرح ہوتا ہے کہ شروع میں رسول اللہ صلی یہ تم جب تبتل فرما رہے تھے تو کوئی رویا بھی ایسی نہیں ہوتی تھی جو صبح روز روشن کی طرح پوری نہ ہو جاتی ہو.تو رؤیا کا آغاز یہ بھی نبوت کی پہلی سیڑھی تھی.بعد میں جو الہامات اور مکاشفات کا واضح سلسلہ شروع ہوا ہے اس سے پہلے ایک مزہ چکھانے کے لئے خدا تعالیٰ نے رویائے صالحہ کا سلسلہ جاری فرمایا اور حضرت عائشہ خود تو اس وقت نہیں تھیں مگر لاز ما آنحضرت صلی یا سیستم سے یا دیگر صحابہ سے سنا ہو گا کہ حالت یہ تھی کہ رات کو جو دیکھتے تھے صبح جس طرح صبح طلوع ہوتی ہے اسی طرح وہ رو یا طلوع ہو جایا کرتی تھی.بعینہ وہی باتیں صبح ظاہر ہوتی تھیں گویا کہ آنحضرت صلی لا نیستم کا دل مزید یقین پر قائم ہو جاتا تھا کہ جس راستہ پر میں چلا ہوں وہی درست رستہ ہے اور اللہ اسی رستہ پر ملے گا.فَمَكَتَ عَلَى ذلِكَ مَا شَاءَ اللهُ أَنْ يَمَكُت : اس حالت پر جتنا اللہ نے چاہا آپ صلی الہی تم کو ٹھہرائے رکھا.وَحُبّبَ إِلَيْهِ الخَلوةُ : اور یہ وہ دور ہے جب آپ مسی ایم کو خلوت بہت پیاری تھی اور خلوت پیاری کر دی گئی آپ سالی یا یتیم کے لئے.فَلَمْ يَكُنْ شَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَنْ يَخْلُوَ : کوئی چیز بھی آپ سلیم کو اس سے زیادہ پیاری نہیں تھی کہ آپ مینی سیتم علیحدہ رہیں اور دُنیا سے قطع تعلق کرلیں.غارِ حرا میں جا کر رہنے کا جو سلسلہ ہے وہ اسی خلوت کی علامت ہے.پس غار حرا میں جانے سے پہلے نبوت عطا نہیں ہوئی بلکہ نبوت کی ابتدائی سیڑھیاں تھیں جو چڑھنے کے بعد پھر بعد میں غارِحرا آتی ہے اور غارِ حرا میں جانے کے بعد کچھ عرصہ تک، جب تک اللہ نے چاہا آپ سلتی ریتم کو علیحدہ رکھا پھر حکماً آپ مالی اسلم کو باہر نکالا گیا ہے.یہ مضمون تمام سالکوں کے لئے برابر ہے.ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ کا قرب چاہتا ہے وہ آنحضرت صلی اینم کے اس نمونہ کی پیروی کرے اور اس کو مدنظر رکھ کے پھر اپنا جائزہ لے کہ کس حد تک وہ اللہ تعالیٰ کے قرب میں بڑھتا ہے یا بڑھنے کی کوشش کرتا ہے.ایک دوسری حدیث جو مسلم کتاب الزُّهْدِ وَالرِّقَائِقِ سے لی گئی ہے.حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی ا یہ ہم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
خطبات طاہر جلد 17 784 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء اللہ تعالیٰ اس انسان سے محبت کرتا ہے جو پرہیز گار ہو، بے نیاز ہو، گمنامی اور گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والا ہو.“ (صحیح مسلم کتاب الزهد والرقائق،حدیث نمبر : 2965) آنحضرت صلیا کی تم نے تو نبوت کے بعد گوشہ نشینی ترک کر دی تھی اس لئے یہ مراد نہیں کہ اس وقت اللہ تعالیٰ کی محبت بھی ختم ہو گئی.گوشہ نشینی ترک کی تھی محبت کی خاطر اور حکما ، پھر مجبور کر دئے گئے ہیں کہ گوشہ نشینی ترک کرو، اُس وقت آنحضرت صلی ال ایتم نے گوشہ نشینی ترک کی لیکن اس میں جو باتیں بیان ہوئی ہیں وہ بھی سیڑھیاں سی ہیں جو درجہ بدرجہ معاملہ کو آگے بڑھا رہی ہیں.اللہ تعالیٰ اس سے محبت فرماتا ہے جو پر ہیز گار ہو یعنی بدیوں سے رکنے والا ، طبعاً عادتاً نیک مزاج ہو اور گنا ہوں سے اجتناب کرتا ہو، بے نیاز ہو.اس لئے اجتناب نہیں کرتا کہ لوگ دیکھیں اور اس کی تعریف کریں، اس سے اجتناب ذاتی ہے اور لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ کس کس چیز سے اجتناب کر رہا ہے.اس کے اجتناب کی حالت ہی مخفی رہتی ہے اور وہ اس بات سے بے نیاز ہوتا ہے ، کوڑی کی بھی پرواہ نہیں ہوتی کہ دُنیا کو پتا لگ رہا ہے کہ نہیں کہ میں کس چیز سے بچ رہا ہوں، خدا کی خاطر کیا کیا تکلیف اٹھا رہا ہوں.جب بے نیاز ہوتا ہے تو پھر گمنامی اور گوشہ نشینی اختیار کرنا اس کا طبعی نتیجہ ہے.گوشہ نشینی اس کو دوہرا فائدہ دیتی ہے.ایک تو اس کی بے نیازی کی یہ شان ہے کہ وہ گوشہ نشین ہو جاتا ہے اور اس کو کوئی پرواہ نہیں کہ دنیا کو اس کا کچھ پتا بھی ہے کہ نہیں.دوسرے گوشہ نشینی کے نتیجہ میں جس بنا پر وہ دُنیا سے الگ ہوا یعنی اللہ کی محبت ، اس کو اس کا حق ادا کر نے کا زیادہ موقع مل جاتا ہے.اس کے بعد اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات جو اس مضمون سے تعلق رکھتے ہیں اور اسی مضمون کو آگے بڑھاتے چلے جا رہے ہیں وہ میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ملفوظات جلد 4 صفحہ 317 طبع جدید میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ اقوال درج ہیں جو ملفوظات کہلاتے ہیں یعنی آپ نے زبانی مجالس میں یہ باتیں کی تھیں جنہیں بعد میں کتابی صورت میں شائع کر دیا گیا.ضروری نہیں کہ بعد میں شائع کیا گیا ہو بہت سے ملفوظات ایسے ہیں جو ساتھ ساتھ الحکم وغیرہ میں مختلف جماعتی رسالوں میں شائع ہو رہے تھے اور اس وجہ سے ان پر یہ سند ہو گئی کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ کہا تھا وہی بات لکھی گئی ہے.جو لکھی گئی ہے
خطبات طاہر جلد 17 785 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء وہی تھی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمائی تھی.اس کے بعد بھی بہت سے ملفوظات شائع ہوئے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں شائع نہیں ہوئے تھے مگر ان کو مختلف راویوں کی سچائی تقویت دیتی ہے اور مختلف راویوں کا آپس میں ان امور پر اتفاق کرنا بتا تا ہے کہ وہ اگر چہ الگ الگ ہیں، مختلف جگہوں کے رہنے والے ہیں مگر ملفوظات کے وقت چونکہ وہ بھی حاضر تھے انہوں نے وہی بات بیان کی ہے جو دوسرے راویوں نے بیان کی ہے.اب ملفوظات کا جو حصہ میں آپ کے سامنے پڑھنے لگا ہوں وہ یہ ہے.اصل بات یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس اور ذوق پیدا ہو جاتا ہے تو پھر دنیا 66 اور اہل دنیا سے ایک نفرت اور کراہت پیدا ہو جاتی ہے.“ اب یہ بات تو آپ کو بڑی عجیب سی لگے گی.اگر ظاہری نظر سے دیکھیں کہ اللہ سے محبت کے نتیجہ میں دُنیا سے نفرت ہو جاتی ہے اور کراہت ہو جاتی ہے.اللہ سے محبت ہی کے نتیجہ میں دُنیا سے سچی رحمت اور شفقت اور محبت کا سلوک انسان کو عطا ہوتا ہے.تو یہاں دُنیا دار اور مادہ پرستوں کا ذکر ہے.وہ جو خدا کو چھوڑ کر مٹی چاٹنے والے لوگ ہیں ان سے کراہت پیدا ہوتی ہے اور وہ کراہت بھی ایک نفرت کا رنگ رکھنے کے باوجود ان لوگوں کو مجبور کر دیا کرتی ہے کہ ان کی اصلاح کے لئے ہر قربانی کریں.تو اصلاح کے لئے کوشش کرنا اس نفرت کے نتیجہ میں مدھم نہیں پڑتا بلکہ جتنی زیادہ کراہت ہوتی ہے اتنی زیادہ انسان جد و جہد کرتا ہے کہ ان کو اس گندگی سے پاک وصاف کر دے اور اس گند چاٹنے سے ان کو روک دے.یہ وضاحتیں ضروری ہیں ورنہ عام طور پر جو ہمارے اردو دان بھی ہیں وہ بھی سرسری نظر سے پڑھیں تو ان کو ان باریک باتوں کی غالباً سمجھ نہیں آئے گی لیکن جو زیادہ عالم نہیں ہیں سادہ مزاج احمدی ہیں ان کے لئے تو یہ وضاحتیں ضروری ہیں بہر حال.بالطبع تنہائی اور خلوت پسند آتی ہے.آنحضرتمالی سیستم کی بھی یہی حالت تھی.اللہ تعالیٰ کی محبت میں آپ اس قد رفتا ہو چکے تھے کہ آپ اس تنہائی میں ہی پوری لذت اور ذوق پاتے تھے اور ایسی جگہ میں جہاں کوئی آرام کا اور راحت کا سامان نہ تھا اور جہاں جاتے ہوئے بھی ڈر لگتا ہو آپ وہاں کئی کئی راتیں تنہا گزارتے تھے.اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی للہ الی یوم کیسے بہادر اور شجاع تھے.جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر
خطبات طاہر جلد 17 786 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء شجاعت بھی آجاتی ہے اس لئے مومن کبھی بزدل نہیں ہوتا.اہلِ دُنیا بزدل ہوتے ہیں ان میں حقیقی شجاعت نہیں ہوتی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 317 / الحکم جلد 9 نمبر 28 صفحہ:2 مؤرخہ 10اگست 1905ء) اب یہ مضمون اسی تعبیل سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نکالا ہے اور عام طور پر اس تبتل کے تعلق میں آپ کو یہ مضمون کہیں اور سنائی نہیں دے گا، کہیں اور آپ اس کو نہیں پڑھیں گے.صرف یہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ہیں جنہوں نے ایسا شاندار طبعی نتیجہ نکالا ہے تبتل کا.غار حرا میں اب بھی جو جانے والے جاتے ہیں اور جھانک کے دیکھتے ہیں ان کو ڈرلگتا ہے.وہ ایسی جگہ ہے اول تو اس کا چڑھنا مصیبت اور پھرا کیلے سفر کرنا اور غار میں جا کے بیٹھے رہنا آج کل بھی جو کمزور دل والے ہیں ان کو ڈر لگتا ہے.آنحضرت سلیم کا کئی کئی دن وہاں جا کر ٹھہر جانا یہ آپ کی شجاعت کی علامت ہے.آپ مصلی یہ تم بہت بہادر تھے.پس وہ لوگ جو اندھیروں سے ڈرتے ہیں اور جنوں بھوتوں کا خوف کھاتے ہیں ان کے لئے یہ اسوہ رسول ایک بہت بڑی علامت ہے اس بات کی کہ خدا والے خوفزدہ نہیں ہوا کرتے.جب غیر اللہ کا تصور ہی اٹھ گیا ہو تو نقصان کس نے پہنچانا ہے.یہ مضمون ہے جو شجاعت اور توکل کے ساتھ جڑواں بھائیوں کی طرح ہے.دیکھیں جتنا خدا پر اعتماد بڑھے گا جتنا یقین ہوگا اتنا ہی زیادہ غیر اللہ کا خوف اٹھتا جائے گا اور اگر نہیں اٹھے گا تو مومن کا کام ہے کہ ضرور اس کو توڑے اور اس کو رڈ کرے.یہ میں نے اپنا تجربہ بھی ایک دفعہ بیان کیا تھا، شاید بھول گئے ہوں کچھ لوگ کسی ضمن میں میں نے بیان کیا تھا ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت ابا جان اور سارے پہاڑ پر گئے ہوئے تھے اور میں اپنے گھر کے صحن میں اکیلا سویا کرتا تھا اور بعض دفعہ سوتے ہوئے ڈر لگتا تھا کیونکہ کہانیاں بھی عجیب و غریب مشہور تھیں کہ ایک جن آیا کرتا ہے کوئی نالے پر اندے بیلنے والی عورت ہے جو چھت پر سے چھلانگ لگا کے آیا کرتی ہے.اس قسم کی کہانیاں پرانے زمانے سے چلی آ رہی تھیں اس گھر کے متعلق.تو ایک دفعہ اچانک مجھے خیال آیا کہ یہ تو شرک ہے.اگر کوئی بلا ، کوئی جن نقصان پہنچا سکتا ہے اللہ کے اذن کے بغیر تو یہ بھی تو ایک شرک کی قسم ہے.تو میں کیوں ڈر رہا ہوں، مجھے کیوں نیند نہیں آرہی اس لئے میں نے مقابلہ کرنا ہے اب اس کا اور اپنے آپ پر سختی کر کے بھی مقابلہ کرنا ہے تا کہ اللہ تعالیٰ کی رضا
خطبات طاہر جلد 17 787 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء کی خاطر مجھے بہادری عطا ہو.یہ فیصلہ کرنے کے بعد پھر میں نے خوب نظر دوڑائی کہ کون سی جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ ڈرنے والی جگہ ہے.ہمارے ہاں ایک چھوٹا سا کمرہ ہوا کرتا تھا اس کمرے کے متعلق بڑی روایتیں تھیں کہ بڑی بلائیں وہاں ہوتی ہیں اور خاص طور پر وہ چمنی کی جگہ جہاں ہوتی تھی جہاں وہ آگ جلائی جاتی ہے اس کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ یہ بڑی خطرناک جگہ ہے.تو میں رات کو اٹھا اور دروازہ کھول کے اس کمرے کی چمنی میں جا کر بیٹھ گیا.میں نے کہا اب جو بلا آنی ہے آجائے اور میں اللہ پر توکل کرتا ہوں مجھے پتا ہے کہ کوئی بلا مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی جب تک اللہ نہ چا ہے.کچھ دیر بیٹھنے کے بعد اتنا سکون ملا ہے آرام سے چلا گیا بستر پر پڑتے ہی نیند آ گئی ، کوڑی کی بھی پرواہ نہیں رہی.تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی اس عبارت کو پڑھتے ہوئے مجھے یہ اپنا ذاتی واقعہ یاد آ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام شناسا تھے ان باتوں کے.باوجود اس کے کہ خود آپ پر ایسا کوئی وقت نہیں گزرا لیکن صاحب عرفان تھے، انسانی نفسیات کو سمجھتے تھے.تو ہم نے جو چیزیں تلخ تجربوں سے سیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر ایک عرفان کی صورت میں روشن تھیں اور یہی وہ مضمون ہے جو آپ غار حرا کے تعلق میں بیان فرما رہے ہیں.بے انتہا بہادر تھے اور اللہ پر کامل ایمان اور اللہ پر توکل کرنا اور اس کے نتیجہ میں تبتل جو شروع کی عبارت میں نے پڑھی تھی دیکھیں کس طرح مضمون آپس میں جڑواں ہیں.تبتل اس لئے کیا تھا کہ اللہ پر توکل تھا اور اللہ سے محبت تھی اور اس کی خاطر تنہائی سے بالکل بے خوفی ہوگئی تھی ، کوئی ذرا سا بھی ڈر باقی نہیں رہا.”جب خدا تعالیٰ سے تعلق شدید ہو تو پھر شجاعت آہی جاتی ہے.یہ تولازمہ ہے اس کا.اس لئے مومن کبھی بز دل نہیں ہوتا.اب یا درکھو آپ میں سے کون کون بزدل ہے وہ اپنے نفس پر غور کر کے دیکھ لے.مومن صرف جنات سے ہی بے خوف نہیں ہوتا بلکہ ہر دُنیا کی بلا سے بے خوف ہو جاتا ہے اور بے خوفی کا نسخہ یہ ہے.آپ کو طرح طرح کے خوف گھیر لیتے ہیں لوگ مجھے لکھتے رہتے ہیں خطوں میں کہ ہم اس بات سے ڈرتے ہیں یہ نہ ہو جائے ، وہ نہ ہو جائے.ان کو میں لکھتا ہوں کہ وہ دعا کیا کرو کہ : 66 " اللهم استر عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا “ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند أبي سعيد الخدری ، مسند نمبر: 10996
خطبات طاہر جلد 17 788 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء اے اللہ ہماری اندرونی کمزوریوں پر پردہ ڈال دے، جو ہمارے چھپانے کی جگہیں ہیں جن کو ہم چھپانا چاہتے ہیں ان پر اپنا ستاری کا پردہ رکھ لے.وآمن روعاتنا اور ہمارے خوفوں کو امن میں تبدیل فرما دے.یہ ایک بہت اچھی دعا ہے جس کو میں نے بار ہا آزما کے دیکھا ہے.جب بھی اس قسم کے خطرات درپیش ہوں تو دراصل یہ خطرے دو ہی طرح کے ہوا کرتے ہیں.کچھ کمزور انسان اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہمیشہ خطرہ رہتا ہے کہ یہ پردہ پھٹ نہ جائے اگر پردہ پھٹ گیا تو دُنیا دیکھے گی.تو ایک بڑا خوف اس بات کا رہتا ہے اور ا کثر لوگوں کو اس قسم کا خوف لاحق ہوتا ہی ہے کیونکہ انسان کمزوریوں کا پتلا ہے اور دوسرا خوف وہ ان دیکھے خطرات ہیں جو باہر سے ان پر حملہ آور ہوتے ہیں کبھی حکومت کی طرف سے، کبھی پولیس کی طرف سے کبھی بد معاشوں کی طرف سے کبھی ڈاکوؤں کی طرف سے، ہر قسم کے خطرات اس کو گھیرے ہوئے ہوتے ہیں اور بعض ملکوں میں یہ روز مرہ کی زندگی کا دستور بن گیا ہے.اب پاکستان سے اکثر جو خط آتے ہیں وہ انہی خطرات کا ذکر کرتے ہوئے ان سے بچنے کے لئے دعا کے لئے خط آتے ہیں.ان کو میں جو ابا یہی لکھتا ہوں کہ اس دعا پر غور بھی کرو اور یہ دعا مانگا کرو تو پھر خطرات سے تم بے خوف ہو جاؤ گے اور یہ بے خوفی دو طرح سے نصیب ہوتی ہے.ایک یہ کہ اللہ واقعہ ان خطرات کو ٹال دیتا ہے.آپ کو پتا بھی نہیں لگتا کہ کس کس موقع پر اللہ کی کسی تقدیر نے کیسے کام کیا.ابھی کچھ عرصہ پہلے مجھے ایک خط آیا اور وہ عجیب ساخط تھا.وہ لکھنے والا کہتا ہے اس کے اپنے عزیز دوست کا واقعہ ہے کہ اسے ڈاکو پکڑ کر لے گئے اور بہت سختی اس پر کی اور دھکیلتے ہوئے بندوق کی وک پر اس کو لے گئے تا کہ اس کو وہاں لوٹ کر وہ قتل بھی کر سکتے تھے، جو بھی کرنا تھا انہوں نے کرنا تھا.کہتے ہیں جب وہ لے گئے تو مجھے سے انہوں نے ایک سوال کیا اور وہ سوال یہ تھا کہ تم کون ہو، کس مذہب سے تمہارا تعلق ہے؟ اس شخص کو یہ توکل نصیب تھا اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ احمدی کہلانے پر اسے کیا ہوتا ہے.اس نے بڑی جرات سے کہا کہ میں احمدی ہوں اللہ کے فضل سے اور جو تم نے کرنا ہے کرو، احمدیت سے میں پھر نہیں سکتا نہ احمدیت کو چھپا سکتا ہوں.کہتے ہیں یہ بات سنتے ہی انہوں نے کہا کہ اچھا! تم احمدی ہو، تو لو اپنا سامان پکڑو اور چلے جاؤ یعنی چلے جاؤ ان معنوں میں کہ اس کو دوبارہ آنکھوں پر پٹی باندھی تا کہ پتا نہ چلے کہ کہاں آیا تھا اور کہاں سے لے جایا جا رہا ہے
خطبات طاہر جلد 17 789 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء اور اسے اسی جگہ واپس چھوڑ گئے جہاں سے انہوں نے اس کو اٹھایا تھا.اب اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ تو کل کا یہ بھی نتیجہ ہوسکتا ہے.دوسری طرف تو کل والے کو اگر نقصان پہنچ بھی جائے تو وہ سمجھتا ہے کہ اللہ نے مجھے دیا تھا اور اسی نے واپس لے لیا، اس نے امتحان لیا تو میں اس امتحان میں کیوں ناکام ہوں اور پھر اللہ اس کو بہت دیتا ہے.تو یہ دو طرح سے تو کل ہیں جو اللہ پر یقین کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں اور تبتل کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں.اب ایک اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام کا اقتباس ہے، ملفوظات جلد 4 صفحہ 664 طبع جدید سے لیا گیا ہے.عنوان اس کا یہ ہے انبیاء اور رسل کی خلوت پسندی“ فرماتے ہیں: یہ مت سمجھو کہ انبیاء ورسل اپنے مبعوث ہونے کے لئے درخواست کرتے ہیں.ہر گز نہیں.“ مبعوث ہونے کے لئے درخواست کیسے کر سکتے ہیں وہ تو بھاگتے ہیں دُنیا سے اور پتا ہوتا ہے کہ جہاں مبعوث ہوئے وہاں بے شمار کام اور ذمہ داریاں پڑ جائیں گی.ان کو کیسے نبھا ئیں گے ، ان کو نبھانے کی خاطر لوگوں سے ملنا ہے، ہر وقت کی آمد و رفت یہ ساری چیزیں اس بعثت کا طبعی نتیجہ ہیں.فرماتے ہیں: ہر گز نہیں.وہ تو ایسی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں کہ بالکل گمنام رہیں اور کوئی ان کو نہ جانے مگر اللہ تعالیٰ زور سے ان کو حجروں سے باہر نکالتا ہے.“ اب دیکھیں کیسا جبر کرتا ہے اللہ ان کے اوپر کیونکہ اللہ کو ایسے ہی آدمی چاہئیں.جس قسم کا ملازم انسان نے رکھنا ہوا گر وہ صفات مل جائیں تو انسان اس کے انکار کے باوجود بھی کوشش یہی کرے گا کہ میں اسے رکھ لوں.ایسی بہت سی مثالیں تاریخ میں ملتی ہیں کہ لوگوں نے ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کیا اور حاکم وقت نے زبر دستی وہ ذمہ داری ان کے سپرد کی.تو فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ زور سے ان کو حجروں سے باہر نکالتا ہے.ہر ایک نبی کی زندگی ایسی ہی تھی.آنحضرت سلیم تو دنیا سے پوشیدہ رہنا چاہتے تھے.“ اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تقویٰ اور صدق کہ آنحضرت صلی یتیم کی غیر معمولی محبت کے باوجود باقی نبیوں کا جو حق تھا وہ بھی ادا کرنے سے پیچھے نہیں رہے.یہ ہر نبوت کا خاصہ ہے مگر ان کے درجے ہیں، الگ الگ مقامات ہیں.آنحضرت سائی یا اینم کی خلوت نشینی کا درجہ سارے
خطبات طاہر جلد 17 790 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء نبیوں سے بڑھ کر تھا اور جو عناصر ذمہ دار تھے خلوت نشینی کے وہ آنحضرت صل للہ یتیم کی صورت میں بہت زیادہ شدید تھے.پس گو تمام نبیوں میں یہ قدر مشترک ہے لیکن آنحضرت صیلی تم میں سب سے زیادہ پائی جاتی تھی.ہر ایک نبی کی زندگی ایسی ہی تھی.آنحضرت صل للہ ہم تو دنیا سے پوشیدہ رہنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی جو غار حرا میں چھپ کر رہتے اور عبادت کرتے رہتے.ان کو کبھی و ہم بھی نہ آتا تھا کہ وہ وہاں سے نکل کر کہیں.یا یهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف:159).‘ وہ یہ وہم بھی نہیں کر سکتے تھے کہ وہ غار حرا سے نکلیں اور سارے بنی نوع انسان کو مخاطب ہو کر کہیں، اے انسانو! اے وہ تمام انسانو! اے تمام بنی نوع انسان! اِنِّی رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا میں تم سب کی طرف رسول بنا کے بھیجا گیا ہوں.کوئی ایک انسان بھی اس سے مستثنی نہیں ہے.آپ کا منشاء یہی تھا کہ پوشیدہ زندگی بسر کریں مگر اللہ تعالیٰ نے یہ نہ چاہا اور آپ کو مبعوث فرما کر باہر نکالا اور یہ عادت اللہ ہے کہ جو کچھ بننے کی آرزو کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں.اب ایک اور بات بھی پیش نظر رکھ لیں اچھی طرح.جو بننے کی آرزو کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں.اب اس میں گہری حکمت ہے.وہ آرزوان کی نیت کو گندہ کر دیتی ہے اور اپنی بڑائی کی آروز ان کو ان ذمہ داریوں سے غافل کر دیتی ہے جولوگوں کی خاطر انہوں نے قبول کرنی ہوتی ہیں.پس جماعت میں یہی حکمت کا نظام رائج ہے.دُنیا میں اور کوئی ایسی جماعت نہیں جہاں یہ سلسلہ رائج ہو کہ جو شخص بھی اپنے لئے عہدہ کی خواہش کرے اس کو ہمیشہ کے لئے عہدوں سے ہٹا دیا جاتا ہے.جو شخص اپنے عہدہ کے لئے کسی کو کہے کہ مجھے چن لو اور ثابت ہو جائے اس کو آئندہ سے عہدوں کا نا اہل قرار دے دیا جاتا ہے.اب یہ بات عجیب سی ہے کیونکہ دنیا کی کسی ڈیما کریسی میں یہ نہیں ہے.ہر ڈیما کریسی میں عہدہ کی خواہش اس شخص کے دل سے اٹھتی ہے جو کچھ بننا چاہتا ہے اور جب وہ خواہش کرتا ہے تو پھر پروپیگنڈے کی بھی اجازت ہے.پھر وہ پارٹیاں بنتی ہیں جو پھر اس کو منتخب کرتی ہیں اس کے ہم خیال لوگ اکٹھے کئے جاتے ہیں تو اس کو ڈیما کریسی کہا جاتا ہے مگر اس ڈیما کریسی ہی میں برق خرمن
خطبات طاہر جلد 17 791 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء موجود ہے، وہ آگ موجود ہے جو خرمن کو جلا دیا کرتی ہے.اس لئے دُنیا میں کہیں بھی کوئی ڈیما کریسی نہیں سوائے جماعت احمدیہ کے، جس کو سچی ڈیما کریسی کہتے ہیں.وہ جماعت احمدیہ کےسوا دُنیا کی کسی جماعت کو نصیب نہیں خواہ وہ سیاسی جماعت ہو خواہ مذہبی جماعت ہو.سوال ہی نہیں پیدا ہوتا اس ڈیما کریسی کا جو جماعت احمدیہ کو اللہ نے عطا فرمائی ہے جو بھی عہدہ کی خواہش کرے گا وہ اس عہدہ کا نا اہل.اب افغانستان پر نظر ڈال لیں یا پاکستان پر ، دیکھیں عہدوں کی خواہشوں نے لوگوں کو ہلاک کر دیا ہے.ساری تباہی پاکستان پر خصوصیت کے ساتھ عہدوں کی خواہش کی وجہ سے ہے اور یہی دوڑ ہے.ہر شخص چاہتا ہے کہ مجھے کچھ نصیب ہو اور اس دوڑ نے سارے ملک کو گندہ کر رکھا ہے.تو اللہ تعالیٰ نے جو انبیاء کا سلسلہ چنا ہے اس میں ہم سب کے لئے ہمیشہ کے لئے سبق ہے.انبیاء کو چننے کے طریق نے ہی دُنیا کی عظیم الشان را ہنمائی فرمائی ہے جو کوئی دُنیا کا فلسفی راہنمائی نہیں کر سکتا تھا ، نہ کر سکا ہے.آپ کو مبعوث فرما کر باہر نکالا.یہ عادت اللہ ہے کہ جو کچھ بننے کی آرزو کرتے ہیں وہ محروم رہتے ہیں اور جو چھپنا چاہتے ہیں ان کو باہر نکالتا ہے ) اور سب کچھ بنا دیتا ہے.پس یقیناً سمجھو کہ میں بھی تنہائی کی زندگی کو پسند کرتا ہوں.“ اب جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر سارے بوجھ ڈال دئے گئے تھے اس وقت بھی آپ کے دل کا عالم یہ تھا کہ سب کے اندر رہتے ہوئے بھی تنہائی کو پسند کر رہے تھے.66 وہ زمانہ جو مجھ پر گزرا ہے اس کا خیال کر کے مجھے اب بھی لذت آتی ہے.“ کتنے مزے تھے کہ جب میں اکیلا رہا کرتا تھا.کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کسی کی ذمہ داری ادا نہیں کرنی تھی.اب دیکھو کیسا ہجوم خلائق ہو گیا ہے مگر اب سوچتا ہوں پرانی باتیں تو بہت مزہ آتا ہے.کیسی پیاری زندگی بسر کر رہا تھا.میں طبعاً خلوت پسند تھا مگر خدا تعالیٰ نے مجھے باہر نکالا اور پھر اس حکم کو میں کیونکر رڈ کر سکتا تھا ؟ میں اس نمود و نمائش کا ہمیشہ دشمن رہا لیکن کیا کروں جب اللہ تعالیٰ نے یہی پسند کیا تو میں اس میں راضی ہوں اور اس کے حکم سے منحرف ہونا بھی پسند نہیں کرسکتا.اس پر دنیا کے جو جی میں آئے کہے میں اس کی پروا نہیں کرتا.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ : 664 / الحکم جلد 10 نمبر 25 صفحہ : 3 ، مؤرخہ 17 جولائی 1906ء)
خطبات طاہر جلد 17 792 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء پس وہ جو بے نیازی پہلے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمائی ہے توکل کے نتیجہ میں عطا ہوتی ہے.یہ پھر اسی کا ذکر فرمایا ہے کہ جو چاہے دُنیا کہتی پھرے مجھے تو کوئی پرواہ نہیں مگر میرے دل کی وہی حالت ہے جو میں بیان کر رہا ہوں.ایک اور عبارت ملفوظات جلد 4 صفحہ 7 طبع جدید سے لی گئی ہے.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: یہ بات بھی یادرکھنی چاہئے کہ جو لوگ خدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہو کر آتے ہیں وہ اس بات کے حریص اور آرزو مند نہیں ہوتے کہ لوگ ان کے گرد جمع ہوں اور اس کی تعریفیں کریں.“ ہرگز ان کو کوئی حرص نہیں ہوتی لوگ جمع ہوں اور تعریفیں ہو رہی ہیں، ایک جمگھٹا بن گیا ہے.یہ دیکھو یہ بہت بزرگ آدمی ہے، بہت نیک انسان ہے.وہ دُنیا سے الگ رہنے میں راحت سمجھتے ہیں.حضرت موسیٰ علیہ السلام جب مامور ہونے لگے تو انہوں نے بھی عذر کیا.“ کہ اللہ مجھ پر قتل بھی ہے، میرا بھائی مجھ سے بولنے میں بہتر ہے.حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمار ہے ہیں یہ عذر تھا اصل میں.چاہتے نہیں تھے کہ ان پر ذمہ داری ڈالی جائے ، ان کو دُنیا میں بھیجا جائے تو انہوں نے عذر کیا.اسی طرح آنحضرت صلی ا تم غار میں رہا کرتے تھے.وہ اس کو پسند کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ خودان کو باہر نکالتا ہے اور مخلوق کے سامنے لاتا ہے.ان میں ایک حیا ہوتی ہے.“ یہ حیا کا مضمون پہلے بھی بیان ہو چکا ہے اس مضمون کے تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام فرماتے ہیں: اور ایک انقطاع ان میں پایا جاتا ہے چونکہ وہ انقطاع تعلقات صافی کو چاہتا ہے اس 66 لئے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک لذت اور سرور پاتے ہیں.“ حیا کیسی ہوتی ہے؟ حیا اس بات کی کہ ایسے لوگوں کی جب تعریف کی جائے تو وہ اندر ہی اندر دل میں بے حد شرم محسوس کرتے ہیں خواہ وہ سچی تعریف ہو خواہ جھوٹی.جھوٹی تعریف کو تو وہ کراہت سے
خطبات طاہر جلد 17 793 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء دیکھتے ہیں.ایسی بات جو ان میں موجود نہ ہو وہ صاف کہیں گے غلط کہہ رہا ہے مجھ میں نہیں ہے کیونکہ بعض لوگ قابل تعریف باتوں میں ایسی باتیں بھی بعض دفعہ بیان کرتے ہیں جو انبیاء کے نزدیک قابل تعریف نہیں اور وہ نہیں ہوتیں ان میں لیکن لوگ کہتے ہیں تو کہتے ہیں غلط ہے، بالکل یہ بات نہیں مگرا اپنی تعریف سے شرما جاتے ہیں اور یہ وہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں کہ مخلوق کے سامنے خدا لاتا ہے حالانکہ وہ مخلوق سے شرما رہے ہوتے ہیں اور یہاں شرمانا بدیوں کی وجہ سے نہیں ، نیکیوں کی وجہ سے ہے.اب دیکھیں کتنا فرق ہے ان دو شرمانے کے انداز میں.ایک شخص کو اگر وہ بدیوں سے پر ہو اور اسے باہر ننگا کیا جائے دیکھیں کتنا شر مائے گا.انبیاء کا حال بالکل جدا گانہ ہے وہ جب خدا کے حکم پر باہر نکلتے ہیں تو بے حد شرماتے ہیں، کنواری دلہن سے بھی بڑھ کر شرماتے ہیں کہ اب تو میری خوبیاں ظاہر کی جائیں گی مجھے لوگوں کے سامنے ان معنوں میں نگا کیا جائے گا کہ میرے سارے چھپے ہوئے ہنر اور خوبیاں اور حسن یہ ان پر ظاہر کر دئے جائیں گے اور ایسا ہی اللہ کرتا ہے.اور ایک انقطاع ان میں پایا جاتا ہے.چونکہ وہ انقطاع تعلقات صافی کو چاہتا ہے اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک لذت اور سرور پاتے ہیں.تعلقاتِ صافی کیا ہوئے ؟ ایسے تعلقات جن پر دُنیا کی نظر ہی نہیں.انسان جس سے محبت رکھتا ہے اور حقیقی محبت رکھتا ہے اس سے تعلق اور اس سے تنہائی اور خلوت کے دوران ہرگز پسند نہیں کرتا کہ کوئی اور بھی اسے دیکھ رہا ہو.صرف وہ ہو، اس کا محبوب ہو بس یہی اس کی زندگی ہو جاتی ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو بیان فرما رہے ہیں.تعلقات صافی کو چاہتا ہے جس میں کسی غیر کی آمیزش نہ ہو.وو وہ انقطاع تعلقات صافی کو چاہتا ہے اس لئے وہ خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک لذت اور سرور پاتے ہیں لیکن وہی انقطاع اور صفائی قلب اللہ تعالیٰ کی نظر میں ان کو پسندیدہ بنادیتی ہے.“ اب جتنا وہ زیادہ علیحدگی میں محبت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں اللہ کو اتنے ہی پیارے لگتے ہیں.تو دُنیا سے بے نیاز ، قطع نظر اس کے کہ کوئی ان کے حسن کو جانتا ہے یا نہیں مجھ پر ہی اپنا حسن کھول رہے ہیں اور میری خاطر فدا ہیں میرے ہی لئے وقف ہیں.چنانچہ یہ انقطاع ان کو اور بھی زیادہ اللہ کی نظر میں پسندیدہ بنا دیتا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 794 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء 66 اور وہ ان کو اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ کر لیتا ہے.“ اس انقطاع کے باعث یہ جانتے ہوئے کہ اپنے نفس کی ان کو ادنیٰ بھی حاجت نہیں ہے کسی نفسانی خواہش کی خاطر یہ کچھ بھی نہیں چاہتے ، صرف میرے لئے ہیں جب میرے لئے چاہتے ہیں تو پھر لازماً اللہ جانتا ہے کہ میری مخلوق کا سب سے زیادہ حق یہی ادا کرسکیں گے.یہ ہے ان کو نبی بنانے کی مصلحت.وہ ان کو اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ کر لیتا ہے.“ برگزیدہ کا ایک عام مفہوم یہ ہے کہ بزرگ انسان ، وہ بڑا برگزیدہ آدمی ہے مگر یہاں اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ بنے رہتے ہیں ان معنوں میں وہ برگزیدہ ہو جاتے ہیں یعنی اصلاح خلق کے دوران یہ بھی تو ممکن ہے کہ رفتہ رفتہ تعلق اللہ سے ٹوٹ کر یا کچھ مدھم ہو کر بنی نوع انسان کی طرف منتقل ہوتار ہے لیکن اللہ جانتا ہے کہ ان کا تعلق مجھ سے بنی نوع انسان کی تربیت کے دوران کم نہیں ہوگا بڑھتا ہی چلا جائے گا کیونکہ وہ جو تکلیف ہورہی ہے ان کو وہ اور زیادہ میری طرف کھینچے گی.اس لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ جملے بہت ہی گہرے مضمون کے حامل ہیں.وو وہ ان کو اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ کر لیتا ہے جیسے حاکم چاہتا ہے.( یعنی کوئی حاکم دنیا کا ) جیسے حاکم چاہتا ہے کہ اسے کارکن آدمی مل جاوے اور جب وہ کسی کا رکن کو پالیتا ہے تو خواہ وہ انکار بھی کر دے مگر وہ اُسے منتخب کر ہی لیتا ہے.“ دنیا میں بھی اگر کسی حاکم کو ایسا آدمی مل جائے کہ اس کو عہدہ سے کوئی لگن نہ ہو اور عہدہ سے بھاگنے کی کوشش کر رہا ہو تو اس کو پکڑے گا کہ تو ہی تو مجھے چاہئے اس لئے اب میں تمہیں جانے نہیں دوں گا، تمہیں مجبور کروں گا کہ تم یہ عہدہ سنبھالو.اسی طرح اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو مامور کرتا ہے وہ ان کے تعلقات صافیہ اور صدق وصفا کی وجہ سے انہیں اس قابل پاتا ہے کہ انہیں اپنی رسالت کا منصب سپر دکرے.یہ بالکل سچی بات ہے کہ انبیاء پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے.(اب اللہ جبر بھی کرتا ہے تو اپنے پیارے بندوں پر مگر ایک قسم کا جبر جو ہے اس نے اس مضمون کو نرم کر دیا ہے ) انبیاء علیہم السلام پر ایک قسم کا جبر کیا جاتا ہے.وہ کوٹھریوں میں بیٹھ کر عبادت کرتے ہیں اور اسی میں لذت پاتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی کو ان کے حال پر اطلاع نہ ہو، مگر اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 17 795 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء جبراً ان کو کوٹھڑی سے باہر نکالتا ہے پھر ان میں ایک جذب رکھتا ہے اور ہزار ہا مخلوق طبعاً ان کی طرف چلی آتی ہے.“ ( ملفوظات جلد چہارم صفحہ: 7/الحکم جلد 8 نمبر 19 صفحہ:2 مؤرخہ 10 جون 1904ء) یہی واقعات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی میں ہمیں ملتے ہیں.آپ کے صحابہ کی روایات میں ملتے ہیں.ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ریتی چھلہ میں جارہے تھے جو قادیان میں ایک کھلی ریت کی جگہ تھی.ایک صحابی بیان کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ اس وقت عشاق کا ایک جمگھٹا تھا آگے پیچھے دوڑے پھرتے تھے اور ایک عجیب منظر تھا ان کے عشق کا ، ان کی فدائیت کا.تو ایک سکھ نکل آیا وہاں سے اس نے کہا: ”غلام احمد اتو اوہی اے نا جنہوں تیرا پیو میرے نال چھوٹے ہوندے گھلن واسطے ڈاہ دیا کر داسی.یعنی بلے بلے کیا زمانہ آ گیا ہے.ایک وہ زمانہ تھا کہ تمہارا باپ مجھے تجھ سے کشتی کروایا کرتا تھا اور یہ اس نے نہیں بتایا کہ کون گرا یا کرتا تھا.اس سے صاف پتا چلتا ہے کہ مسیح موعود علیہ السلام ہی گراتے ہوں گے.ورنہ وہ کہتا میں تینوں ڈھالیا کر داسی.بالکل نہیں کہا.” تے ہن دیکھو جی اے لوگ سارے تیرے نال نٹھے پھر دے نے.ان کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو کوئی بھی پرواہ نہیں تھی کون نٹھے پھر دا اے، کیوں نٹھے پھر دا اے.آپ کو تو تنہائی چاہئے تھی مگر یہی واقعہ ہر نبی کی زندگی میں اللہ تعالیٰ دوہرا تار ہتا ہے.(رجسٹر روایات ( غیر مطبوعہ ) صحابہ نمبر 1 ، روای حکیم اللہ د تا صاحب ولد نظام الدین صاحب شاہ پور امر گڑھ، صفحہ: 92) اگر خدا تعالیٰ مجھے یہ اختیار دے.“ یہ اقتباس ملفوظات جلد نمبر 1 صفحہ 310-311 طبع جدید سے لیا گیا ہے.اگر خدا تعالیٰ مجھے اختیار دے کہ خلوت اور جلوت میں سے تو کس کو پسند کرتا ہے، تو اس پاک ذات کی قسم ہے کہ میں خلوت کو اختیار کروں.(اس سارے کاروبار کے باوجود جہاں تک میرے دل کی تمنا ہے میں خلوت ہی کو اختیار کروں) مجھے تو کشاں کشاں میدانِ عالم میں اُسی نے نکالا ہے.( کشاں کشاں جیسے کھینچ کھینچ کے نکالا جاتا ہے) جولذت مجھے خلوت میں آتی ہے اس سے بجز خدا تعالیٰ کے کون واقف ہے.میں قریب 25 سال تک خلوت میں بیٹھا رہا ہوں اور کبھی ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں چاہا کہ در بار
خطبات طاہر جلد 17 796 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء شہرت میں کرسی پر بیٹھوں.مجھے طبعاً اس سے کراہت ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں مگر امر آمر سے مجبور ہوں.“ اب آپ کو جتنی بھی روایتیں ملتی ہیں کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام مل کر بیٹھا کرتے تھے یہاں تک کہ کھانا بھی باہر کھاتے رہے اس سے اندازہ کریں کہ کتنی مشکل تھی یہ بات لیکن رضائے باری تعالی ، اللہ کا حکم ہے اس وقت بھی آپ کی ایک تکلیف کی حالت ہوتی تھی اور ہنسی خوشی برداشت کرتے تھے ، یہاں تک کہ روایت کرنے والے کہتے ہیں کہ جب مل کے بیٹھتے تھے تو ہمیشہ ہنستے کھیلتے خوشیوں کے ساتھ ،مجال ہے جوکسی کو ذرا بھی احساس ہو کہ اندر سے یہ شخص کتنی کوفت قبول کر رہا ہے اپنے لئے.کتنی مشکل میں سے گزر کر یہ ہمارے دل رکھ رہا ہے مگر رضائے باری تعالیٰ ، اللہ نے حکم دیا تھا.آپ نے کہا ٹھیک ہے میں حاضر ہوں.” مجھے طبعاً اس سے کراہت ہے کہ لوگوں میں مل کر بیٹھوں مگر امر آمر سے مجبور ہوں.فرمایا: میں جو باہر بیٹھتا ہوں یا سیر کرنے جاتا ہوں اور لوگوں سے بات چیت کرتا ہوں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے امر کی تعمیل کی بنا پر ہے.“ ( ملفوظات جلد اول صفحات : 310-311 / احکم جلد 4 نمبر 3 صفحہ 4 مؤرخہ 24 جنوری 1900ء) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو اپنے نشانات براہین احمدیہ میں لکھے تھے ان میں سے سوواں نشان جو براہین احمدیہ کی ایک پیش گوئی ہے اس کے صفحہ 241 میں درج ہے اس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود فرما رہے ہیں کہ تمہیں میرے ماضی کے حالات کا پتا نہیں کیا حالات تھے اور انہی دنوں میں اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرما لیا تھا کہ تمہیں میں ضرور باہر نکالوں گا لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس وقت اس کا مضمون سمجھ نہیں آرہا تھا تنہا پسند ، علیحدگی میں بیٹھے ہوئے اور یہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہم و گمان بھی نہیں آ سکتا تھا کہ دُنیا میں اللہ تعالیٰ اتنی شہرت دے گا مگر خدا تعالیٰ کی شان دیکھیں کہ اس شہرت کے لئے پہلے سے ہی تیاری کی ہوئی تھی.ساری تنبیہات موجود تھیں جب وہ وقت آنا تھا اس وقت یاد آتا کہ اللہ تو 25 سال پہلے مجھے یہ سب کچھ بتا چکا تھا.اس مضمون کو آپ یوں بیان فرمارہے ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 وو 797 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء ” براہین احمدیہ کی وہ پیشگوئی ہے جو اس کے صفحہ 241 پر درج ہے اور پیشگوئی کی عبارت یہ ہے: لَا تَيْنَسُ مِنْ زَوْحِ اللهِ أَلَا إِنَّ رَوحَ اللهِ قَرِيبٌ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللهِ قَرِيبٌ.يَأْتِيَكَ مِنْ كُلِّ فَجَ عَمِيقٍ - يَأْتُونَ مِنْ كُلِّ فِي عَمِيْقٍ - يَنْصُرُكَ اللَّهُ مِنْ عِنْدِهِ يَنْصُرُكَ رِجَالُ نُوحِي إِلَيْهِمْ مِنَ السَّمَاءِ.وَلَا تُصَعِرُ لِخَلْقِ اللَّهِ وَلَا تَسْتَمْ مِّنَ الناس.دیکھو صفحہ 241 براہین احمدیہ مطبوعہ 1881ء.“ 1882ء میں پہلا ماموریت کا الہام ہوا ہے آپ کو اور مسیح اور مہدی کے منصب پر فائز ہونا بہت بعد کا واقعہ ہے.1889ء میں آپ کو اللہ تعالیٰ نے بطور مہدی بیعت لینے کی اجازت فرمائی ہے تو یہ اس سے بہت پہلے کے واقعات ہیں.براہین احمدیہ جو چھپی تھی اس میں گویا ان سب باتوں کی پہلے سے پیش گوئی موجود تھی.فرماتے ہیں: براہین احمدیہ مطبوعہ 1881ء و1882ء مطبع سفیر ہند پریس امرتسر.ترجمہ ( یہ ترجمہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا اپنا ہے) خدا کے فضل سے نومید مت ہو اور یہ بات سن رکھ کہ خدا کا فضل قریب ہے.خبر دار ہو.“ خبر دار ہو کا مطلب ہے کہ اس بات پر گواہ بن جاؤ اس کو اچھی طرح پہلے باندھ رکھو.اس کے لئے لفظ خبر دار استعمال ہوسکتا ہے.خبر دار بعض دفعہ خطرناک چیزوں سے بچنے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے اور بعض دفعہ اچھی چیزوں کو توجہ سے ، غور سے دیکھنے کے لئے بھی استعمال ہو سکتا ہے تو یہاں اس کا یہ موقع ہے.فرمایا: خبر دار ہو کہ خدا کی مدد قریب ہے.وہ مدد ہر ایک راہ سے تجھے پہنچے گی اور ہر ایک راہ سے لوگ تیرے پاس آئیں گے اور اس کثرت سے آئیں گے کہ وہ راہیں جن پر وہ چلیں گے عمیق ہو جائیں گی.(ان پر گڑھے پڑ جائیں گے ) خدا اپنے پاس سے تیری مدد کرے گا.تیری مدد وہ لوگ کریں گے جن کے دلوں میں ہم آپ القاء کریں گے مگر چاہئے کہ تو خدا کے بندوں سے جو تیرے پاس آئیں گے بد خلقی نہ کرے اور چاہئے کہ تو ان کی کثرت دیکھ کر ملاقاتوں سے تھک نہ جائے.اس پیشگوئی کو آج پچیس برس گزر گئے جب یہ براہین احمدیہ میں شائع ہوئی تھی.“ 66 (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 261)
خطبات طاہر جلد 17 798 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء مجھے یہ پڑھتے ہوئے ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق اللہ تعالیٰ کی تنبیہ کہ تھک نہ جائے یہ ملاقاتوں کے دوران یاد آتی ہے خصوصاً جلسہ کے بعد جو ملاقاتیں ہوتی ہیں.اس میں لازم ہے کہ ہر ملاقاتی سے بشاشت سے ملا جائے اور ان کی توقعات کو بھی پورا کیا جائے اور جتنا ملاقاتیں تھکاتی ہیں اتنا سارا جلسہ نہیں تھکا تا.کوئی تصنیف کا کام نہیں تھکا تا.میں اپنے بچوں کو بعد میں کہا کرتا ہوں کہ اب میں آرام سے بیٹھا ہوں اب مجھے کھانا دو، مجھے پتا لگے کہ سکون کیا ہوتا ہے اور جن سے مل رہا ہوتا ہوں ان کی جدائی کا غم بھی ہو رہا ہوتا ہے، یہ بھی افسوس ہو رہا ہوتا ہے کہ جلدی ملاقات ختم کر رہا ہوں، یہ بھی کہیں بدخلقی ہی نہ ہو.ان کو تسلی دیتا ہوں، ان کو بتا تا ہوں کہ بہت مجبوریاں ہیں، وقت تھوڑا ہے اس لئے آپ کو رخصت کرنا بھی میری ایک مجبوری ہے اور یہ بھی سچ ہے.ایک عجیب سلسلہ ہے اللہ تعالیٰ کا کہ اس کی خاطر جو آپ کام کرتے ہیں ان میں بعینہ وہی مضمون جو پیاروں سے ملنے کا ہے آپ کے دل پر جاری بھی ہو جاتا ہے.ان سے ملنے کی محبت، اس کی خوشی ، ان کی جدائی کا غم لیکن وہ بوجھ جو دل پر ساتھ ساتھ پڑ رہا ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ نے پہلے سے مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اس کی خبر دے دی تھی اور بعینہ یہی حال حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تھا.بے انتہا بوجھ اٹھائے ہیں، اتنا کہ ہم آج ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے.کھانا ان کے لئے خود لے کے آنا، آنے والے سے پوچھنا، اس کو عزت سے بٹھانا اور پھر بہت لمبا عرصہ تک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام گھر سے کھا نالا کر ان کو پیش کرتے رہے.اب یہ بتائیں کہ ایک نبی سے کم کس کا حوصلہ ہو سکتا ہے.جواللہ انقطاع اختیار کر چکا ہوصرف اس کو یہ توفیق مل سکتی ہے.اب جو لوگ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کے نشان ڈھونڈتے پھرتے ہیں یہ گدھے مولوی، ان کو کیا پتا کہ انقطاع ہوتا کیا ہے.ان کو کیا پتا کہ رضائے باری تعالیٰ کے نتیجہ میں کیسے کیسے متضاد حالات سے انسان کو گزرنا پڑتا ہے اور دونوں متضاد حالات بیک وقت سچے بھی ہوتے ہیں.یہ کیفیتیں انبیاء کی کیفیات ہیں اور دنیا کے جہلاء ان کا تصور بھی نہیں کر سکتے مگر ذرا بھی آنکھیں کھول کر دیکھیں تو ان کو یقین ہو جائے کہ یہ شخص جس کے یہ حالات ہیں یہ لازماً اللہ کا برگزیدہ نبی ہے اس کے سوا ہو ہی نہیں سکتا.غرض کچھ بھی تو نہیں تھا اور میں صرف ایک احد من الناس تھا اور محض گمنام تھا.“ (حقیقة الوحی ، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 262)
خطبات طاہر جلد 17 799 خطبہ جمعہ 13 نومبر 1998ء اتنا اقتباس پڑھ کر میں اس مضمون کو ختم کرتا ہوں.خطبہ ثانیہ کے بعد حضور نے فرمایا: میں نے ایک گزشتہ خطبہ میں اعلان کیا تھا کہ جب مغرب کی نماز کا وقت ساڑھے چار ہو جائے گا اس وقت جمعہ کے اختتام کے وقت عصر کا وقت شروع ہو چکا ہوگا.اس لئے جب تک ساڑھے چار سے واپس وقت او پر نہیں جاتا اس وقت تک آئندہ عام نمازیں نہیں مگر جمعہ کی نماز کے بعد عصر کی نماز ساتھ پڑھی جایا کرے گی.آج بھی ایسا ہی ہو گا لیکن یا درکھیں کہ جمعہ کی دو سنتیں فرض ہیں، کم از کم دوسنتیں.اس لئے امید ہے کہ آپ ویسے ہی سنتیں پڑھ چکے ہوں گے مگر اگر کسی نے نہ پڑھی ہوں تو وہ تکبیر کے دوران ہی جلدی جلدی سنتیں ادا کر لے تاکہ جو پہلی دوسنتوں کا فریضہ ہے وہ پورا ہو جائے.ورنہ عصر جمع ہو جائے تو پھر مغرب تک سنتیں ادا کرنے کا وقت ہی کوئی نہیں رہتا کیونکہ عصر کی نماز کے بعد مغرب تک پھر کوئی نماز بھی نہیں ہونی چاہئے.
خطبات طاہر جلد 17 801 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ السلام کے اقتباسات کی روشنی میں تبتل الی اللہ کا بیان (خطبہ جمعہ فرموده 20 نومبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: واذكر اسْمَ رَبّكَ وَتَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلاً پھر فرمایا: (المزمل:9) یہ وہ مضمون ہے جو گزشتہ جمعہ سے جاری ہے اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس میں پڑھ رہا تھا جب کہ وقت ختم ہو گیا تو آج اس کے بقیہ حصہ ہی سے میں خطبہ کا آغاز کرتا ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اور محض گمنام تھا اور ایک فرد بھی میرے ساتھ تعلق نہیں رکھتا تھا مگر شاذ و نادر ایسے چند آدمی جو میرے خاندان سے پہلے ہی سے تعارف رکھتے تھے.اور یہ وہ واقعہ ہے کہ قادیان کے رہنے والوں میں سے کوئی بھی اس کے برخلاف شہادت نہیں دے سکتا.بعد اس کے خدا تعالیٰ نے اس پیشگوئی کے پورا کرنے کے لئے اپنے بندوں کو میری طرف رجوع دلا یا اور فوج در فوج لوگ قادیان میں آئے اور آ رہے ہیں اور نقد اور جنس اور ہر ایک قسم کے تحائف اس کثرت سے لوگوں نے دئے اور دے رہے ہیں جن کا میں شمار نہیں کر سکتا.“ (حقیقة الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحه : 262)
خطبات طاہر جلد 17 66 802 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء یہ آغاز نبوت کا حال ہے اور ہر نبوت اسی طرح آغاز فرماتی ہے اس میں کوئی استثنا آپ نہیں دیکھیں گے.جتنے بھی انبیاء علیہم السلام گزرے ہیں ان کا بچپن میں اپنا یہی حال ہوا کرتا تھا اور گوشئہ گمنامی سے خدا اُن کو کھینچ کر نکالتا ہے.نبوت کے بعد بھی ایک قسم کا گوشئہ گمنامی پیدا ہو جاتا ہے ان لوگوں کے لئے جو نبی کے گرد اکٹھے ہوتے ہیں مگر اُس گوشتہ گمنامی میں اور اس میں ایک فرق ہے.یہاں خدا کی نظر انتخاب پڑنے سے پہلے جو لوگ نبی بنائے جاتے ہیں ان کا حال ہے لیکن نبوت کے بعد پھر یہی سلسلہ دوبارہ خلافت میں بھی شروع ہو جایا کرتا ہے.اس کی چند مثالیں میں آپ کے سامنے رکھوں گا مگر اس کو نبوت سے تشبیہ دینا جائز نہیں، نہ نبوت سے اس کی تعبیر کی جاسکتی ہے کیونکہ دونوں چیزوں میں بہت فرق ہے.بہر حال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے یہ اقتباس پڑھتے ہوئے میں جماعت کو یہ متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ فرمایا : ” فوج در فوج لوگ قادیان میں آئے اور آرہے ہیں.یہ جو سلسلہ ہے فوج در فوج آنے کا یہ سلسلہ جاری وساری ہے.آج جو جماعت احمد یہ مشاہدہ کر رہی ہے کہ واقعہ فوجوں کی طرح لاکھوں کی تعداد میں بعض ممالک میں احمدی بن رہے ہیں ، جماعت میں داخل ہو رہے ہیں یہ کوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وقت سے الگ سلسلہ نہیں ہے.وہی سلسلہ ہے جو مسلسل جاری ہے اور بڑھتا چلا جا رہا ہے.اس لئے کوئی غلط نہی یہ نہیں ہونی چاہئے کہ ہمارے زمانہ میں تو معاملہ اور بڑھ گیا ہے.یہ ایک ہی زمانہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا زمانہ اور آپ کے زمانہ میں جو پیشگوئیاں شروع میں ظاہر ہونی شروع ہوئی ہیں وہ تدریجاً اور نسبتا زیادہ تیز رفتار سے آگے بڑھتی رہی ہیں اور یہ رفتار آئندہ زمانوں میں اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنی قوت اور شدت اختیار کر لے گی مگر جو کچھ بھی ہوا ہے یہ اللہ کا احسان ہے اور اس احسان کے تابع ہماری گردنیں جھکی رہنی چاہئیں کیونکہ تقریباً ایک سوسال کے بعد اللہ تعالیٰ نے دوبارہ ان چیزوں میں اسی طرح تیزی پیدا کر دی جس طرح پہلے زمانہ میں پیدا فرمائی تھی اور جو ہم نے دیکھا ہے فوجوں کا نظارہ ، یہ قسمت سے قوموں کو دکھایا جاتا ہے.پس جماعت احمدیہ کا تکبر کا تو کوئی مقام ہی نہیں ، نعوذ باللہ من ذلك، وہ تو شیطان کا کام ہے مگر فخر و مباہات بغیر تکبر کے بھی کسی طرح بھی درست نہیں.سر جھکنا چاہئے ان کامیابیوں پر.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا بھی سر جھکتا ہی رہا.آنحضرت مصلی یتیم کا سر ہر بڑی کامیابی پہ اور بھی
خطبات طاہر جلد 17 803 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء زیادہ جھک جایا کرتا تھا یہاں تک کہ جب فتح مکہ کے وقت حضور اکرم صلی یتیم مکہ میں داخل ہوئے تو کجاوے سے سر لگ گیا تھا، جھکتے جھکتے وہیں سجدہ کیا ہوا تھا.تو یہ ایک مومن کی غیر مومن سے ایک امتیازی شان ہے.مومن کو جب اللہ تعالیٰ کا میابیاں عطا فرماتا ہے تو اس کا سر اور بھی جھک جاتا ہے.کا فر کو جب کامیابیاں عطا کرتا ہے یا کافر سمجھتا ہے کہ مجھے خود اپنے زور بازو سے کامیابیاں نصیب ہو رہی ہیں تو اس کا سر اور اکڑنے لگتا ہے.مومن کا سر اٹھتا ہے تو خدا کے حضور نہیں، بعض دفعہ رسول اللہ صلی سلیم بھی سر اونچا کر کے خود چلے اور لوگوں کو چلنے کی تلقین فرمائی وہ غیروں پر اس اظہار کے لئے کہ خدا نے دیکھو ہمیں کیسا اعزاز بخشا ہے ورنہ نفس بہر حال بچھا ہی رہتا ہے اور ہمیشہ کامیابیوں کے بعد اور بھی زیادہ بچھتا ہی چلا جاتا ہے.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو یہ فرمایا: ” آرہے ہیں اور نقد اور جنس اور ہر ایک قسم کے تحائف اس کثرت سے لوگوں نے دئے اور دے رہے ہیں جن کا میں شمار نہیں کر سکتا.اب جو یہ سلسلہ بڑھ گیا ہے اس میں تو واقعی آدمی حیران رہ جاتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی برکتیں کس طرح جاری ہیں.اور یہ سلسلہ جو ہے مختلف ملکوں سے، مختلف دنیا سے تحائف کے آنے کا سلسلہ یہ کسی شمار میں نہیں آسکتا اور یہ سب اللہ تعالیٰ کی وہ شان ہے جو نبیوں پر اور نبیوں کے غلاموں پر ظاہر کیا کرتا ہے.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ” میں ایک زاویہ گمنامی میں مستور و مجوب تھا اور میرے ساتھ ایک بھی انسان نہ تھا اور نہ کسی کو تو قع تھی کہ مجھے یہ مرتبہ ملے گا.“ زاویہ جو دو خطوط ، دو لکیریں ایک دوسرے سے الگ ہوتی ہیں ، ایک مرکز سے تو یہ کونہ جو ہے اس کو زاویہ کہتے ہیں اور سارے اس عرصے میں جب کہ دو خطوط ایک دوسرے سے جدا ہوتے چلے جاتے ہیں سب سے تنگ زاویہ ہوا کرتا ہے تو اس لئے اُردو میں زاویہ کا محاورہ ایک الگ سی جگہ بالکل خاموش سی جگہ شمار کی جاتی ہے ویسے زاویہ تو Angle کو کہتے ہیں مگر یہاں زاویہ سے مراد گوشیہ تنہائی ہے.ایک انسان اگر چھپنا چاہے تو چھپتے چھپتے زاویے سے آگے تو نہیں نکل سکتا.تو مراد یہ ہے کہ ایسا عزلت نشین تھا، ایسا تنہائی پسند تھا کہ جس حد تک مجھے توفیق تھی میں ایک کونے میں چھپا رہتا تھا.اور میرے ساتھ ایک بھی انسان نہ تھا اور نہ کسی کو توقع تھی.یہ بھی ایک یا در کھنے والی بات ہے کہ
خطبات طاہر جلد 17 804 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء بعض لوگ جب کسی شخص سے توقع رکھتے ہیں کہ یہ بڑا بن جائے گا یا بڑا اُن کی نظر میں ہو گیا ہو تو اس کے گرد ہجوم اکٹھا ہو جایا کرتا ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کوئی ایسا کمال ظاہر کر کے منتشر نہیں کیا جس کے نتیجے میں لوگوں کو یہ توقع ہو کہ یہ بڑا آدمی بنے والا ہے، اس لئے ابھی سے اس کے گردا کٹھے ہو جاؤ.اور جو بڑا آدمی بنتے ہوئے دیکھ کر اس کے گرد اکٹھے ہوا کرتے ہیں ان میں خلوص ہوتا ہی نہیں وہ دراصل اس کی بڑائی نہیں بلکہ اپنے نفس کی بڑائی کے لئے اکٹھے ہوا کرتے ہیں.اس لئے یہ بھی اللہ کی شان ہے کہ سلسلہ نبوت کو اس طرح جاری فرماتا ہے کہ صرف مخلصین اکٹھے ہوں.اور جن کو اپنے نفوس کی پرواہ ہے اور بنی نوع انسان یا اللہ کی پرواہ نہیں وہ اکٹھے ہوتے ہی نہیں ان کو اپنے کام سے کام ہے اس شخص کو تنہا الگ پڑا رہنے دیتے ہیں.تو فرمایا: نہ کسی کو توقع تھی کہ مجھے یہ رتبہ ملے گا بلکہ میں خود اس آئندہ شان و شوکت سے محض بے خبر تھا.( وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ ایک شان وشوکت میرے لئے خدا تعالیٰ کی طرف سے بنائی جائے گی ) اور سچ تو یہ ہے کہ میں کچھ بھی نہ تھا.“ یعنی ، شان وشوکت ، کہتے ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جذبۂ انکساری نے اس بات کو کھول دیا کہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ کوئی ایسی شان و شوکت ہے جو مجھے اپنی طاقتوں ، اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے ملی ہے.فرمایا: میں کچھ بھی نہیں تھا بعد میں خدا نے محض اپنے فضل سے نہ میرے کسی ہنر سے مجھے چن لیا.میں گمنام تھا مجھے شہرت دی اور اس قدر جلد شہرت دی کہ جیسا کہ بجلی ایک طرف سے دوسری طرف اپنی چمکا ر ظاہر کر دیتی ہے.“ (حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحه : 347) اب دیکھ لیجئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ نہ میرے کسی ہنر سے مجھے چن لیا.یہ بہنر تو تھا مگر ان معنوں میں بھر نہیں جن معنوں میں دُنیا بھر سمجھتی ہے.آپ کا ہنر تقویٰ تھا لیکن دنیاوی علوم آپ کو کیا حاصل تھے ؟ ایک معمولی استاد سے جو دیہات کا استاد ہوتا ہے! آپ نے چند اسباق کچھ عرصہ تک پڑھے تھے اور اس کے نتیجہ میں جو وجود نکلا ہے وہ تمام دنیا میں عربی کا چیلنج دینے والا اور فصاحت و بلاغت میں ایک حیرت انگیز کمال دکھانے والا انسان نکلا ہے.عربی آپ کا کلام
خطبات طاہر جلد 17 805 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء دیکھ لیں پھر فارسی کلام دیکھ لیں ، پھر اُردو کلام دیکھ لیں.پنجاب کے دیہات کا ایک بچہ اس شان کا زبان دان بن جاتا ہے کہ بہت بڑے بڑے اُس زمانہ کے اُردو لکھنے والوں نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال پر لکھا کہ آپ کے قلم میں تو جادو تھا، آپ کی مٹھیاں جیسے بیٹری کی تاروں کی مٹھیاں ہوں ان کے ہاتھوں میں طاقتیں تھمائی گئی تھیں اور جب لکھتے تھے تو ایک لکھنے والے نے لکھا که بلندی ہند میں کوئی ایسا لکھنے والا نہیں.اب آپ سوچ لیں کہ جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”مجھ میں کوئی ہنر نہیں تھا تو بالکل سچ فرما رہے ہیں.ایسے بچے کو جو ایک دیہاتی ماحول میں پلا ہو اس قدر زبان دانی، ایسا حیرت انگیز کمال ہو کہ آپ کے بعض اشعار ایسے ہیں بلکہ اکثر اشعار اگر آپ غور کریں تو ایسے ملیں گے کہ وہ آج بھی پڑھیں تو لگتا ہے ابھی زندہ ہیں ، دھڑک رہے ہیں.جتنا آپ غور کریں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کلام پر اتنا ہی آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ اور کسی کلام میں یہ بات نہیں ہے.نثر کا ہو یا نظم کا اس کلام کی زندگی الگ ہے.وہ دھڑکتا ہوا زندہ وجود ہے ایسا کلام جس پہ بھی موت نہیں آیا کرتی.تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ کہتے ہیں خدا کے حضور کہ میرے پاس کوئی ہنر نہیں تھا مجھے چن لیا تو بالکل درست ہے واقعہ کوئی ہنر نہیں تھا مگر ایک ہنر تھا جو تقویٰ تھا.اللہ کا خوف ،اللہ سے محبت اور یہ بہت بڑا بہنر ہے.تو تمام وہ احمدی جو چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں بہنر عطا کرے، ان کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ تقویٰ کے بغیر کبھی کوئی ہنر نہیں مل سکتا.خصوصاً ایسے لوگوں کو جن کی تمنائیں اور اُمنگیں سب دین سے وابستہ ہوں، اللہ کی ذات سے تعلق رکھتی ہوں.تو آپ میں سے سب کو تقویٰ کی تلاش کرنی چاہئے ، تقویٰ ہی پر زور دینا چاہئے اور تقویٰ نصیب ہو جائے تو سب کچھ نصیب ہو گیا کیونکہ تقویٰ مل جائے تو پھر اللہ مل جاتا ہے اور اللہ مل جائے تو پھر اور کیا باقی رہ جاتا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ” جے توں میرا ہور ہیں سب جگ تیرا ہو.“ ( البدر جلد 2 نمبر 16 صفحہ:123 مؤرخہ 8 مئی 1903ء) کہ اگر تو میرا ہو جائے تو سارا جگ تیرا ہے.تیرے پاس اور کیا رہ جائے گا جو تیرا نہیں ہے، ساری دُنیا تیری ہو جائے گی.تو یہ گر ہے خدا تعالیٰ کے ہو جانے کا مگر یہ خاص بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ جو خدا
خطبات طاہر جلد 17 806 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء کے ہوتے ہیں ان کو دنیا کی پرواہ بھی نہیں ہوتی.دنیا ملتی ہے اس طرح کہ ٹھونسی جاتی ہے ان پر.دنیا کی خواہش کی وجہ سے وہ خدا سے نہیں ملا کرتے.خدا کی خواہش کی وجہ سے دنیا ان سے ملتی ہے.یہ دو چیزوں میں بہت بڑا فرق ہے.بعض لوگ اس لئے ملتے ہیں کہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے ملنے سے خدا ملے گا اور اس کے ساتھ ان کا جو کچھ ہے وہ سب حاضر کر دیتے ہیں.تو یہ دو رخ ہیں ان کو سمجھنا چاہئے.ایک خدا کی طرف رُخ ہے ایک دنیا کی طرف رُخ ہے.جس کا دنیا کی طرف رُخ ہوگا اگر وہ چاہے کہ خدامل جائے اور پھر مجھے دنیا ملے تو ہمیشہ نامرادر ہے گا ، ناکام رہے گا.نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم منشی گھنشیام لال عاصی دہلوی) ان کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوگا اور جو واقعۂ خدا چاہتا ہے اور دُنیا کی ادنی بھی لگن نہیں رکھتا یا نیت نہیں رکھتا کہ مجھے دُنیا ملے اسے اللہ تعالیٰ ضرور دنیا عطا کیا کرتا ہے مگر اس طرح کہ دُنیا سے اس کا تعلق ایک سرسری سا تعلق ہے کبھی بھی وہ اس کا مقصود نہیں بنتی.یہ امور ہیں جنہیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اسی مضمون میں مزید واضح فرماتے چلے جارہے ہیں.” میں گمنام تھا مجھے شہرت دی اور اس قدر جلد شہرت دی کہ جیسا کہ بجلی ایک طرف سے دوسری طرف اپنی چمکار ظاہر کر دیتی ہے.“ اس اقتباس کو پڑھ کے مجھے ہمیشہ MTA یاد آتا ہے کہ کس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تصویر اور آپ کا ذکر واقعہ بجلی کی چہکار کی طرح گل عالم میں پھیل رہا ہے اور ایک لمحے سے بھی کم عرصے میں آپ کی آواز ، آپ کا کلام، آپ کا ذکر ، آپ کے صحابہ کا ذکر یہ ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے اور الفاظ خدا تعالیٰ نے آپ کی زبان سے ایسے نکال دئے جنہوں نے لازماً پورا ہونا تھا ورنہ اس زمانے میں ”جیسا کہ بجلی ایک طرف سے دوسری طرف اپنی چمکا ر ظاہر کر دیتی ہے.ظاہری طور پر اس طرح نہیں تھا.شہرت بہت نصیب ہوئی لیکن بجلی کی چمکار والی بات میرے نزدیک خدا نے آپ کے منہ سے کہلوائی اور جو مستقبل میں لازماً پوری ہوئی تھی.” اور میں نادان تھا مجھے اپنی طرف سے علم دیا.(اس میں کوئی شک نہیں سارا علم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اللہ ہی کی طرف سے عطا ہوا ہے ) اور میں کوئی مالی وسعت نہیں رکھتا تھا اس نے کئی لاکھ روپے کی میرے پر فتوحات کیں.“
خطبات طاہر جلد 17 807 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء اب اُس زمانہ کے کئی لاکھ روپے اب ارب روپے بن چکے ہیں، وہی سلسلہ ہے.ویسے تو جو روپے دُنیا میں لگائے جائیں وہ بچے نہیں دیتے.یہی تعریف آنحضرت سی ایم نے روپے کی کی کہ روپے بچے تو نہیں دیا کرتے اس لئے سود کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا.اگر بینک میں پڑے رہیں گے تو بیکار بیٹھے بیٹھے بچے کیسے دیدیں گے.کم تو ہو جایا کرتے ہیں Inflation وغیرہ کی وجہ سے مگر بڑھا نہیں کرتے لیکن یہ ایک مضمون ہے جو سود کی مناہی کی حکمت سمجھانے کے لئے تھا مگر آنحضرت صلی شیا کی ستم کے دوسرے کلام سے اور قرآن کریم کے اسی مضمون سے جوسود سے تعلق رکھتا ہے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ جوخدا کو دیا جائے اور وہ سود پر نہ لگایا جائے وہ ضرور بچے دیتا ہے اور بعض دفعہ اتنا بڑھتا ہے کہ سنبھالا نہیں جاتا.پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے جو وہ چند روپے، لاکھ روپے تھے جو خدا کی خاطر آپ کو دئے گئے وہ ضرور پھلے اور پھولے ہیں.انہوں نے بے انتہا بچے دئے ہیں اور آج جو ہم ریل پیل دیکھ رہے ہیں جماعت میں دولتوں کی، انبار لگے ہوئے ہیں یہ سب اسی کی برکت ہے.میں نے کئی دفعہ ذکر کیا ہے شکر یاد دلانے کی خاطر پھر کرتا ہوں کہ اتنے بڑے بڑے کام جماعت کو توفیق مل رہی ہے کرنے کی مگر ایک کام بھی روپے کی کمی کی وجہ سے نہیں رُکا.حیرت انگیز سلوک ہے اللہ کا کہ کام ذہن میں آتا ہے کہ یہ کام ہونا چاہئے اور روپوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے.بہت سی ایسی تحریکات ہیں جن کا جماعت کو پتا بھی نہیں ان کی ضرورت ہی نہیں پڑی.کاموں کا سلسلہ خدا پھیلا رہا ہے اور ساتھ ضروریات خود بخود پوری کرتا چلا جا رہا ہے تو جو روپوؤں کی فتوحات ہیں یہ ہے مراد اس سے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا کلام بہت فصیح و بلیغ ہے ورنہ ایک انسان کہہ سکتا ہے کہ مجھے کئی لاکھ روپے دئے.دیکھیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ نہیں فرمایا.فرمایا ہے : ”اس نے کئی لاکھ روپے کی میرے پر فتوحات کیں.“ بہت گہرا جملہ ہے.” میرے پر فتوحات کیں.مراد یہ ہے کہ دل فتح ہوئے ہیں تو یہ روپے آئے ہیں.جو فتوحات مجھے دنیا میں نصیب ہوئی ہیں لوگوں کے دل جیتے گئے ، لوگوں کے دل اس طرف پھیرے گئے ، کثرت سے لوگ سلسلہ میں داخل ہوئے یہ فتوحات ہیں جن کے نتیجہ میں روپے آئے ہیں اور جتنی فتوحات بڑھتی چلی جائیں گی اتناہی اسی قسم کا پاکیزہ روپیہ آتا چلا جائے گا.
خطبات طاہر جلد 17 808 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء اور میں اکیلا تھا اور اس نے کئی لاکھ انسانوں کو میرے تابع کر دیا.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی روح اب جماعت کو دیکھ کر کتنا خوش ہوگی کہ کئی کروڑ کا دعویٰ کر سکتے ہیں آپ اور آئندہ مجھے دکھائی دے رہا ہے کہ وہ زمانہ دور نہیں کہ کئی ارب کا دعوی کرسکیں گے اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ یہ صدی اختتام تک نہیں پہنچے گی جب تک جماعت کو اللہ تعالیٰ کروڑوں سے اربوں میں داخل نہ کر دے.یہ مولوی کیا چیز ہیں ان کی تو حیثیت ہی کچھ نہیں بے چاروں کی.صرف جلن ، صرف حسد.کچھ بھی ان کے حصہ میں نہیں.اور جماعت کو اللہ تعالیٰ فتوحات پر فتوحات عطا فرماتا چلا جا رہا ہے.اور زمین و آسمان دونوں میں سے میرے لئے نشان ظاہر فرمائے.“ اب یہ نشانوں کا سلسلہ ہے جو ان فتوحات کو آگے بڑھایا کرتا ہے اور یہ نشانات ایسے ہیں جن کا تعلق ہراحمدی کی ذات سے ہے.جو بھی سچا احمدی ہے وہ اپنے دل کو ٹول کر دیکھ لے اس کو خدا نے ضرور کوئی نشان دکھائے ہیں یا اس کی دعاؤں کے طفیل یا اس کے حق میں قبول ہونے والی دعاؤں کے طفیل.کئی طرح سے خدا تعالیٰ نشان دکھاتا ہے اور لکھوکھا ایسے احمدی ہیں جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے وجود کا ثبوت اپنے نشانات کے ذریعہ دیا اور اس ثبوت سے بڑھ کر ، اس سے بہتر اور کوئی ثبوت نہیں ہوا کرتا.میں نہیں جانتا کہ اس نے میرے لئے یہ کیوں کیا.(سب کے بعد آخر یہ فرما رہے ہیں ) میں نہیں جانتا کہ اس نے میرے لئے یہ کیوں کیا کیونکہ میں اپنے نفس میں کوئی خوبی نہیں پاتا.“ (حقیقۃ الوحی ،روحانی خزائن جلد 22 صفحہ:347) اس کا مطلب بظاہر تو یہ بات ایسی لگتی ہے جو درست نہیں، میں نہیں جانتا کہ کیوں کیا.آپ جانتے تھے کہ اللہ سے مجھے محبت سہی، ہمیشہ سے محبت تھی ، ہمیشہ رہے گی محمد رسول اللہ صلی یا ہی تم سے محبت تھی اور رہے گی.یہی وجہ ہے کہ آپ کو کشوف میں دکھا بھی دی گئی یہ وجہ کہ یہ وجہ ہے جو تجھے چن لیا ہے.تو جس بات کا انکار ہے وہ یہ ہے کہ میں اپنے نفس میں کوئی خوبی نہیں پاتا.اپنے نفس کی وہ خوبی جو دنیاوی فتوحات کا موجب بنا کرتی ہے اس کا انکار ہے دراصل، اپنے آپ کو نہ عالم سمجھتے تھے ، نہ زبان دان سمجھتے تھے ، نہ کسی قسم کی سیاست سے آپ کا کوئی تعلق تھا تو دُنیا میں تو یہی چیزیں ہوا کرتی ہیں جن
خطبات طاہر جلد 17 809 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء کے نتیجہ میں فتوحات نصیب ہوا کرتی ہیں.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہاں کہ رہے ہیں میں نہیں جانتا تو محض یہ مراد ہے ورنہ خدا کی محبت اور رسول صلی ال ایتم کی محبت جس کے نتیجہ میں یہ سب کچھ عطا ہوا اس کا تو آپ کو علم تھا بہر حال.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار (براہین احمدیہ حصہ پنجم ، روحانی خزائن جلد 21 صفحہ:141) مجھے ملکوں سے کیا غرض ہے، مجھے کوئی دلچسپی نہیں ، میرا ملک ہے سب سے جدا‘ اب اس کے باوجود جماعت احمدیہ کو ملکوں سے کیوں غرض ہے؟ یہ میں آپ کو سمجھا دینا چاہتا ہوں.ہمیں ان ملکوں سے دلچسپی ہے جن میں احمدیت پھیلے تو ایک جدا ملک بن جائے.وہ ملک نہ رہیں جن کو دُنیا ملک کہا کرتی ہے.جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کہتے ہیں: ”میرا ملک ہے سب سے جُدا.“ تو جتنے ملکوں میں بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے والے بنتے چلے جارہے تھے ان کا ملک بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرح ایک جدا ملک بنتا چلا جارہا تھا.تو بعض لوگ شاید تعجب کریں کہ ہم جو باتیں کرتے ہیں ایک سو ساٹھ ملکوں میں پھیل گئے ، اتنے ملکوں میں پھیل گئے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اس ارشاد کی مخالفت تو نہیں ہورہی کہیں ، نعوذ باللہ من ذلك ، ہر گز نہیں.اس لئے کر رہے ہیں تا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جدا ملک ساری دنیا پہ چھا جائے.مشرق کے ایک کنارے سے مغرب کے دوسرے کنارے تک اور پھر مشرق تک ایک ہی ملک ہو جو سب سے جدا ہو جو اللہ کا ملک ہے اور وہی تاج مانگتے ہیں جو رضوانِ یار کا تاج ہے.مجھ کو کیا تاجوں سے میرا تاج ہے رضوانِ یار.اگر ہم اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ توفیق حاصل کر لیں یعنی جماعت احمدیہ کوشش کے ذریعہ محنت کے ذریعہ ، خلوص کے ذریعہ مسلسل قربانی کے ذریعہ، ان تھک محنتوں سے اور صبر کے ساتھ یہ مقام حاصل کر لے کہ سب دنیا پر رسول اللہ صلی اینم کی بادشاہی ہو جائے یا دوسرے لفظوں میں اسی کا دوسرا نام ہے اللہ کی بادشاہی ہو جائے کیونکہ محمد رسول اللہ صلی شما یہ تم کا تاج وہ تاج ہے جو رضوانِ یار کا تاج آپ کے سر پر رکھا گیا ہے.جب ہم کہتے ہیں محمد رسول اللہ صلی ا یہ ستم
خطبات طاہر جلد 17 810 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء کی بادشاہی ہو تو ہرگز مراد نہیں کہ وہیں رک جاتے ہیں سوائے اس کے کوئی معنی ذہن میں آہی نہیں سکتا کہ اللہ کی بادشاہی ہو.پس اس پہلو سے جب رضوانِ یار کا تاج مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے سر پر رکھا جائے گا تو یہی وہ تاج ہے جو محمد رسول اللہ صلی ا یتیم کے سر پر خدا تعالیٰ نے رکھا تھا اور وہی تاج ورثے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کو نصیب ہوا مگر ورثے میں کہ تو سکتے ہیں مگر نہیں بھی کہہ سکتے ، کیونکہ عملاً رسول اللہ صلی له اسلم کا ہی تاج ہے جس نے آگے بڑھنا ہے، جس کی فرمانروائی نے پھیلتے چلے جانا ہے.اب یہی سلسلہ خدا تعالیٰ ، جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، آگے خلفاء میں بھی جاری فرماتا ہے لیکن ایک فرق کے ساتھ.اس فرق کی وضاحت میں پہلے کر چکا ہوں.اب میں حضرت خلیفتہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ذکر کرتا ہوں.حضرت خلیفہ اسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ جو اس سے پہلے عادتیں تھیں یعنی احمدیت سے پہلے کی اور بچپن سے ان میں کوئی فرق نہیں آیا اور آپ کا علم اور حکمت کا در بار جاری تھا.لوگوں کو اپنی طرف کھینچنے کے لئے نہیں بلکہ لوگوں کو افادہ پہنچانے کے لئے ، فائدہ پہنچانے کی غرض سے.جس نے چاہا آیا آ کے بیٹھ گیا.آپ نے کبھی کوئی روک نہیں ڈالی اور دن رات آپ کا یہی کام تھا خدمت قرآن اور بنی نوع انسان کی خدمت علم شفاء کے ذریعہ اور بسا اوقات یہ دونوں کام ساتھ ساتھ بھی جاری رہتے تھے.قرآن کریم کا درس ہورہا ہے اور ساتھ ہی مریضوں کا بھی دور دورہ ہے.وہ بھی آتے چلے جارہے ہیں تو جہاں درس ختم ہوا وہاں مریضوں کو دیکھنے لگ گئے.تو یہ جو سلسلہ ہے یہ اس غرض سے نہیں تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانہ میں جب یہ دور جاری رہا ہے اس زمانہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دربار کے علاوہ آپ نے کوئی دربار لگایا ہو.ہرگز ایسا کبھی نہیں ہوا.آپ کے ہاں جو لوگوں کا جم غفیر ہوتا تھا وہ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ملنے والے آیا کرتے تھے ان میں سے ایک طبقہ آپ کے پاس بھی پہنچا کرتا تھا اور آپ کے پاس بیٹھ کر ان کا رخ پہلے سے زیادہ شدت اور زور کے ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی طرف پھرا کرتا تھا.ایک بھی واقعہ آپ کو آپ کی زندگی میں نہیں ملے گا کہ آپ نے بازاروں میں یا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے خطبات کے بعد یا آپ کے جلسوں کے بعد بازاروں میں کھڑے ہو کر اپنا در بارلگا یا ہو.کبھی بھی ایک واقعہ آپ کی ساری زندگی میں آپ کو نہیں
خطبات طاہر جلد 17 811 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء ملے گا اور جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے انتظار میں کھڑے ہوتے تھے تو حضرت خلیفۃ امسیح الاول اس وقت اس طرح نہیں کھڑے ہوتے تھے جیسے بعد میں خلیفہ اسیح الاول بن کر کھڑے ہوئے ہیں بلکہ عام لوگوں میں سے ایک آپ بھی ہوا کرتے تھے.سب کا رخ اس طرف ہوا کرتا تھا جدھر سے مسیح موعود علیہ السلام نے نکلنا ہے اور جہاں تک آپ کے بیٹھنے کا انداز تھا ، آپ حتی المقدور جوتیوں میں بیٹھا کرتے تھے اور بہت سے لوگ جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے قرب میں تھے وہ بہت نمایاں دکھائی دیا کرتے تھے اسی لئے کہ آپ کو کوئی غیر معمولی شہرت نہ حاصل ہو جائے.آپ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صحبت سے الگ نہیں رہ سکتے تھے مگر اکثر جوتیوں میں بیٹھا کرتے تھے اور یہ واقعہ آپ نے سنا ہوگا کئی دفعہ کہ ایک پٹھان جنہوں نے اس حالت میں حضرت خلیفہ مسیح الاول کو دیکھا ہوا تھا جب وہ قادیان پہنچے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال کے بعد تو باغ میں جہاں حضرت خلیفہ امسیح الاول بیعت لے رہے تھے اس نے دیکھا تو حیران رہ گیا.اس کے منہ سے ایک بہت پیارا کلمہ نکلا جو ہمیشہ جماعت کی تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھا جائے گا.اس نے کہا کہ میں نے دیکھا، میں نے کہا اوہو یہ تو جو تیوں سے خلافت لے گیا یعنی مسیح موعود کی جوتیوں سے اس نے خلافت اٹھالی مگر نیت نہیں تھی اس لئے جو تیوں میں نہیں بیٹھتے تھے کہ خلافت اٹھا لیں وہاں سے.جو تیوں میں بیٹھتے تھے تو مسیح موعود کے مقابل پر اپنا مقام یہ سمجھتے تھے اور اسی وقت آگے گئے ہیں جب مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود بلا یا کرتے تھے.بسا اوقات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بعض علماء کی ضرورت پڑتی تھی اور حضرت خلیفة امسیح الاول رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت بلند پایہ، بہت چوٹی کے عالم تھے تو اس وقت آپ بلا لیا کرتے تھے اور اپنے پاس بٹھا لیا کرتے تھے مگر آپ کا خود دستور نہیں تھا.(انوار العلوم جلد 25 صفحہ 507،506) یہ جو سلسلہ ہے یہ میں نے عرض کیا تھا یہ ہمیشہ جاری رہتا ہے اور لوگ یا درکھیں اگر انہوں نے کچھ حاصل کرنا ہے تو حاصل کرنے کی نیت سے ان کو کچھ نہیں ملے گا.اگر خلوت پسند کریں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے آغاز میں دکھائی دیتی ہے، یعنی وہ نبوت والی خلوت تو ان کو نصیب ہو ہی نہیں سکتی مگر اس سے مشابہ، اس کی غلامی میں ایک خلوت کا جذبہ ان کے دل میں ہونا
خطبات طاہر جلد 17 812 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء چاہئے اور لوگوں کے جمگھٹے سے طبعاً طبیعت کو گھبرانا چاہئے.اب یہ باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لیں.میں جب اپنی بات بیان کرنے لگا ہوں تو یہ محض اس بات کو مزید کھولنے کیلئے مجھے یاد ہے ربوہ میں ہمیشہ جب بھی حضرت خلیفتہ اسیح الثالث رحمہ اللہ کا خطبہ ہوا کرتا تھا تو میری کوشش ہوتی تھی کہ کسی ایسی جگہ کونے میں بیٹھوں ، دیوار کے ساتھ ، کہ نماز ختم ہوتے ہی میں نکل سکوں اور سنتیں گھر میں ادا کیا کرتا تھا.اس کا مجھے یہ فائدہ پہنچا کرتا تھا کہ لوگوں کا میری طرف کسی قسم کا بھی خیال نہیں منتقل ہوتا تھا.کوئی ہجوم نہیں لگا، کوئی لائن نہیں لگی ورنہ جاننے والے جو میری طب سے فائدہ اٹھایا کرتے تھے، دوسری ہاتوں سے بعید نہیں تھا کہ وہ اکٹھے ہو جاتے.توطبیعت میں ایسی نفرت تھی اس بات سے کہ وہاں خلیفتہ اسیج کی موجودگی میں میری کوئی الگ مجلس لگ رہی ہو کہ میں ہمیشہ نکل جایا کرتا تھا اور جب یہ مشکل ہوتی تھی تو باہر ہمیشہ جو تیوں میں نماز پڑھا کرتا تھا، پاس ہی سائیکل رکھی ہوتی تھی، نماز پڑھتے ہی بہت تیزی سے اپنے گھر واپس چلا جایا کرتا تھا.وہاں پہنچ کر پھرسنتیں ادا کرنے کی توفیق ملا کرتی تھی.تو یہ بات کہ باہر کھڑے ہو کر یا کسی مجلس میں اس کے بعد ایک جمگھٹالگایا جائے اور انتظار کیا جائے کہ اب لوگ مصافحہ کر کر کے گزر رہے ہوں یہ مناسب نہیں ہے، یہ ایک ناپسندیدہ حرکت ہے اور اس کو اللہ تعالیٰ قبول نہیں کیا کرتا اور ایسے لوگوں کو کوئی رتبہ بھی نہیں ملا کرتا.یہ ایک تقدیر الہی ہے جس سے اگر کسی نے ٹکرانا ہے تو ٹکرا کے دیکھ لے اس کا سر ٹوٹے گا مگر اس تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھو گے.بعض دفعہ آپ دیکھتے ہوں گے جلسوں کے بعد لوگ مجلسیں لگاتے ہیں ارد گرد کھڑے ہوتے ہیں مگر ان میں اور جو میں بات کر رہا ہوں ایک بڑا فرق ہے.ان مجلسوں میں ہر دوست ایک دوسرے کو دیکھتا ہے اور ہر ایک، ایک دوسرے کا مرکز ہوا کرتا ہے یہ تو منع نہیں ہے.ہر اجتماع کے بعد خواہ وہ جمعہ ہو یا دنیا کا کوئی اور اجتماع ہو جلسہ جلوس ہو یہ آپ دیکھتے ہیں کہ لوگوں کی یہ عادت ہے کہ اکٹھے ہو کر دوست دوست سے ملتے ہیں، ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں پھر ا کٹھے ہو جاتے ہیں وہاں گویا کہ مجمع بعض دفعہ بڑھنا شروع ہو جاتا ہے مگر ایک وجود کے گرد نہیں بڑھتا، وہ ایک دوسرے کے گرد بڑھتا ہے اور یہ بالکل بڑی بات نہیں ہے لیکن ایک شخص ارادۂ کھڑا ہو کہ اب لائنیں لگیں اور لوگوں کی توجہ میری طرف ہو اور میں اپنے آپ کو حاضر کر رہا ہوں یہ جائز نہیں ہے.ہو سکتا ہے کسی کی نیت نیک ہو اللہ بہتر جانتا ہے، نیت نیک ہو کہ چلو کوئی کہاں ڈھونڈے گا میں
خطبات طاہر جلد 17 813 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء یہیں کھڑا ہو جا تا ہوں لیکن یہ تو اللہ کوعلم ہے.اگر نیت میں یہ فتور ہو کہ اس کو مزہ آ رہا ہو اس بات میں کہ جمگھٹا لگ رہا ہے تو یہ پھر خطر ناک بات ہے.ورنہ مزہ نہ ہو بلکہ تکلیف کے باوجود انسان لگائے ان دو چیزوں میں بھی فرق ہے.یہ تقویٰ کی باریک راہیں ہیں جو میں آپ پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ورنہ کئی دفعہ آپ یہ بھی دیکھتے ہونگے کوئی دوست کھڑے ہیں ہوسکتا ہے وہ اس نیت سے کھڑے ہوں کہ یہ میرے ملنے والے مجھے کہاں ڈھونڈیں گے اب اگر چہ مجھے جلدی ہے واپس جانے کی مگر میں مشکل برداشت کرتے ہوئے ان کی خاطر یہاں کھڑا ہو جاتا ہوں.اب یہ بات تو سوائے اللہ کے اور کوئی نہیں جانتا مگر ایسے احباب کو کھڑا ہونے سے لوگوں کے اکٹھا ہونے سے مزہ نہیں آتا.اب یہ بات بھی اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا.وہ مزہ نہیں لے رہے ہوتے وہ تکلیف محسوس کر رہے ہوتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ جلد ان کو چھٹی ملے تو واپس آئیں اور بعض دفعہ سو کام ہوتے ہیں کسی شخص سے وہ اتفاق سے قابو آ جائے تو لوگ گھیر لیا کرتے ہیں.اب ہمارے ہاں بھی جو مہمان ٹھہرتے ہیں بعض باہر سے آنے والے مثلاً ڈاکٹر حامد اللہ آیا کرتے ہیں کئی دفعہ تو میں ہمیشہ ان کو کہا کرتا ہوں آپ کہاں غائب ہو جاتے ہیں کہ ہم کھانے پہ انتظار کرتے رہتے ہیں اور آپ واپس آنے کا نام ہی نہیں لیتے تو وہ مسکرا کر جیسا کہ ان کی عادت ہے کہا کرتے ہیں کہ قضاء کا معاملہ میرے سپرد ہے فلاں معاملہ میرے سپرد ہے لوگوں کو موقع مل جاتا ہے کہ اب مجھ سے جو کچھ کروانا ہے کروالیں تو اس نیت سے کھڑے ہوتے ہیں لیکن دل او پر اٹکا ہوتا ہے کہ جلد فارغ ہوں تو میں اوپر جاؤں.پس یہ باتیں تو اللہ کے سوا کوئی جان ہی نہیں سکتا کہ کسی نے کیوں جمگھٹا لگوایا ہے.اگر رضائے باری تعالیٰ کی خاطر کوئی کھڑا ہوا ہے، بنی نوع انسان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنے کی خاطر کھڑا ہوا ہے، ان کے کام کرنے کی خاطر کھڑا ہوا ہے تو اس کو اس مجمع سے لطف نہیں آئے گا.خدمت کا لطف ایک الگ چیز ہے مگر جتنا بڑا مجمع دیکھے گا اس کو اور گھبراہٹ ہوگی کہ لوجی میں تو پھنس گیا اب مجھے نکلنے میں اور دیر لگ جائے گی تو یہ چیزیں بہت باریک ہیں اس لئے آپ بیرونی طور پر دیکھ کے فتویٰ نہیں لگا سکتے اللہ بہتر جانتا ہے.اور اگر نیت میں یہ فتور ہو کہ میں بڑا بن جاؤں تو اللہ اس بات کو پورا نہیں ہونے دے گا یہ قطعی بات ہے.نہ پہلے کبھی اس نے پورا ہونے دیا نہ آئندہ کبھی پورا ہونے دے گا.اور جماعت کو جو یہ تحفظ حاصل ہے یہ دُنیا میں کسی اور
خطبات طاہر جلد 17 814 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء جماعت کو حاصل نہیں ہے کہ اللہ اوپر سے نگرانی کر رہا ہے، دیکھ رہا ہے.کسی کو غلط رستے سے اوپر نہیں آنے دے گا کیونکہ اگر غلط رستوں سے اوپر آ گیا تو ساری جماعت کو نقصان پہنچے گا.تو بہت ہی عظیم الشان اللہ کا احسان ہے، اتنا بڑا فضل ہے کہ اس کو کبھی جماعت کو بھلا نا نہیں چاہئے.ہم میں فتور ہوں گے ہماری نیتیں بھی خراب ہو سکتی ہیں مگر ایک دیکھنے والے کی نظر سے باہر نہیں رہیں گے.وہ بصیر ہے ، وہ دلوں کے گہرے رازوں کو سمجھتا ہے اور دیکھ رہا ہے کہ اس جماعت میں کون سے لوگ کیا کرنا چاہتے ہیں اور بالآخر ان کو کسی وقت تھوڑی دیر چڑھ لینے کے بعد پھر نیچے پھینک دیتا ہے اور دُنیا حیران رہ جاتی ہے کہ ایک شخص نے اتنی ترقی کی اتنا قریب ہو گیا پھر اتار کے خدا نے نیچے پھینک دیا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے میں بھی ایسے لوگ تھے جنہوں نے قرب میں بڑی ترقی کی یعنی اس حد تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے حسن ظن کرتے ہوئے ان کے متعلق بہت کچھ تعریفی کلمات لکھے اور بہت ان کو خطوط لکھے اور وہ خطوط پڑھ کے یوں لگتا ہے جیسے یہ شخص تو بہت پہنچا ہوا، بہت بزرگ اور بلند انسان ہے لیکن ایسا انجام ہوا کہ وہ مرتے وقت احمدی نہ رہے بلکہ بعض ان میں سے مخالف ہو گئے.یہ اس لئے کہ خدا نگران ہے جیسا کہ اس وقت وہ نگران تھا ویسے اب بھی نگران ہے اور ان اونچے ہوئے لوگوں کو جب آپ گرتا ہواد یکھتے ہیں تو بالکل تعجب نہ کریں.اللہ تعالیٰ ہی ہے جو گراتا ہے تا کہ غلط مقامات پر وہ لوگ نہ پہنچیں جنہوں نے جماعت کی ذمہ داریاں سنبھالنی ہیں.حضرت خلیفتہ اسیح الاول " کا سیر کا دستور تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سیر کے لئے ساتھ لے جاتے تھے تو جایا کرتے تھے.اور ہر ایک کا اپنا اپنا رنگ ہے بعض لوگ دوڑا کرتے تھے ساتھ کہ سیر کے لئے چلے جائیں مگر حضرت خلیفہ اسیح الاول کا ایک الگ مزاج تھا اپنا درویشانہ، وہ یہ بھی پسند نہیں کرتے تھے کہ سیر میں جائیں تو لوگوں کی آپ کی طرف توجہ ہو کیونکہ بہت سے ہوسکتا ہے ایسے مریض ہوں یا ضرورت مند ہوں جو اس موقع سے فائدہ اٹھا کے آپ سے پوچھنے لگ جائیں.ایک ادنی سی خواہش نہیں تھی کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی موجودگی میں آپ توجہ کا مرکز بنیں.اب میں سوچتا ہوں کہ وقف جدید کے زمانے میں، میں نے بھی بڑی بڑی لمبی مجلسیں لگائی ہیں، بعض دفعہ صبح سے لے کر رات تک میں مریضوں کا انتظار کرتا تھا کیونکہ دفتر کے وقت میں وقت نہیں ملا
خطبات طاہر جلد 17 815 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء کرتا تھا، شروع میں وقت نکال لیا کرتا تھا آخر پر پھر بالکل ممکن نہیں رہا تو لوگ تو شام کو سیروں پر چلے جایا کرتے تھے، ادھر اُدھر کھیلوں میں مصروف ہو جایا کرتے تھے اور میں وہاں دفتر میں مریضوں کا انتظار کیا کرتا تھا اور آتے بھی بہت کثرت سے تھے اور اس لئے میں نے اپنی کھیلوں کا وقت عشاء کے بعد رکھ لیا تھا.چنانچہ خدام الاحمدیہ کا ہال ساتھ ہی تھا وہاں بیڈ منٹن وغیرہ کھیلنے کے لئے میں عشاء کی نماز کے بعد جایا کرتا تھا حالانکہ لوگ تو شام کے وقت کھیلیں کھیلتے ہیں اور بعض دفعہ چونکہ مجھے بعد میں ضرورت پڑتی تھی احمد نگر جانے کی بھی اپنے کام دیکھنے کے لئے تو مریضوں کو بہر حال میں کچھ نہ کچھ وقت ایسا ضرور دے دیا کرتا تھا مثلاً جب میں احمد نگر با قاعدگی سے جاتا رہا تو مغرب کے معا بعد اپنے گھر میں مریضوں کا مجمع لگا لیا کرتا تھا لیکن ایک ادنیٰ بھی شوق نہیں تھا کہ مریض میرے گردا کٹھے ہوں.ایک خدا نے دل میں جذبہ پیدا کیا تھا کہ غریب لوگ باہر سے علاج نہیں کروا سکتے ، ہسپتالوں یا ڈاکٹر کے پاس جانا ان کے لئے مشکل ہے اس لئے وہ بے تکلفی سے آجایا کریں.پس اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک قسم کی نگرانی کی جاتی ہے جو میں سمجھتا ہوں ابھی بھی جاری ہے.آپ سب لوگوں کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہئے کہ اگر خدا کی خاطر یا بنی نوع انسان کی خاطر کام کر رہے ہیں تو وہاں جمگھٹا کا لطف نہ اٹھائیں جمگھٹوں کی تکلیف کے باوجود یہ کام کرتے چلے جائیں.آج بھی بہت سارے احمدی ہو میو پیتھ تیار ہو گئے ہیں جن کے ارد گرد بے شمار لوگ اکٹھے ہونے لگ گئے ہیں ماشاء اللہ اور خدا تعالیٰ نے ان کو ملکہ بھی بہت بڑا بخشا ہے.بہت ہیں مگر میں اُمید رکھتا ہوں کہ ان کا بھی یہی حال ہوگا.وہ چاہتے تو ہیں زیادہ سے زیادہ خدمت کریں مگر لوگوں کے اکٹھا ہونے سے کوفت بھی ہوتی ہے، گھر جانا پڑتا ہے.آخر کبھی کسی نے گھر جانا تو ہوتا ہے ان کی ضروریات کو بھی پورا کرنا ہوتا ہے تو جتنی دیر وہ بنی نوع انسان کی خدمت میں رہتا ہے اپنے بعض آراموں سے اس کو قطع تعلق کرنا پڑتا ہے اور یہ قطع تعلق بھی تبتل ہی کا ایک دوسرا نام ہے.اس کو آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ تبتل الی اللہ کا ایک یہ بھی معنی ہے.بعض لوگ اپنے خاندان سے، اپنے عزیز و اقرباء سے اس لئے جدا رہتے ہیں کہ ان کو باہر کی مجلسوں میں لطف آتا ہے اور ایسے بہت سے ہیں اڈے لگانے والے جن کے بیوی بچے ہمیشہ شا کی رہتے ہیں.بعض لوگ روتے ہوئے مجھے بھی خط لکھتے ہیں کہ ہمارے فلاں کو تو عادت ہے کہ باہر چلا جائے اور لوگ اس کے گردا کٹھے ہوں یا وہ لوگوں کے گرد اکٹھا ہو جائے اور
خطبات طاہر جلد 17 816 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء اس طرح مجلسوں کا لطف آتا ہے.بعض مجلسیں لگانے والے ایسے ہیں جو ساری زندگی اپنی عمر ضائع اسی طرح کرتے رہے، اٹھے اور جا کے مجلس لگالی اور رات بارہ بارہ بجے ، ایک ایک بجے واپس آئے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے مجھے یہ بھی توفیق بخشی ہے کہ میں نے کبھی ایسی مجلسیں نہیں لگائیں.مجلسیں لگی ہوئی ہوں ان میں بیٹھ کر مجلس کا حق ادا کرنا بالکل اور بات ہے لیکن روزانہ سارا کام ختم کر کے مجلس لگانے کوئی چلا جائے مجھے تو تعجب ہوتا ہے کہ آج کل بھی جو لوگ یہ کرتے ہیں کیسے کر سکتے ہیں ان کو مزہ کیا آتا ہے.آتا تو ہو گا ضرور لیکن اپنے بیوی بچوں سے تبتل کر لیتے ہیں، ان کے حقوق قربان کرتے ہیں.تبتل الی اللہ کا اور مطلب ہے.تبتل الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی خاطر تبتل کرنا اور اللہ کی خاطر جب انسان اپنے بیوی بچوں سے جدا ہو تو وہ گنہگار نہیں ہے، مجبور ہے.اور پھر جب وہ واپس لوٹتا ہے پھر اس کا مزہ ہی اور ہے بالآخر اپنے گھر جب انسان پہنچتا ہے تبتل کے بعد تو ایک اور طرح کا سکون اس کو نصیب ہوا کرتا ہے.تو ساری جماعت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تبتل کا مضمون بیان فرمایا ہے اس کو سمجھنا چاہئے.اپنی زندگی میں آپ نے جو نمونے دئے ہیں ان پر غور کرنا چاہئے اور یا درکھنا چاہئے کہ جو تبتل اللہ کی خاطر ہو اس میں ایک ہی لطف ہے اور جو دُنیا کی خاطر ہو اس میں بھی ایک اور ہی لطف ہے اس کا لطف ایسا ہے جو اپنے اہل و عیال کی قربانی چاہتا ہے.قربانی نہیں کہنا چاہئے اہل وعیال کو ہلاک کرنے پر منتج ہوا کرتا ہے.نہ انسان ان کی تربیت کر سکتا ہے نہ ان کی ذمہ داریاں ادا کر سکتا ہے نہ انہیں لطف نصیب ہو سکتا ہے اکٹھے ہونے کا اور مجلسوں میں اپنی زندگیاں ضائع کر دی جاتی ہیں.تومبیل ہمبتل ہی ہے مگر الگ الگ نیتوں کے ساتھ سمبل ہوا کرتا ہے.جس کی نیت میں اللہ کی طرف تبتل ہو وہ سب سے الگ ہو کر پھر بھی اپنوں کا رہتا ہے اور اللہ ان کے ملاپ کو پھر ایک غیر معمولی لذت بخشا کرتا ہے.آنحضرت مصلی سلیم کو یہی لذت ملا کرتی تھی جب سب کاموں سے فارغ ہو کر آپ صلی ہم جدا ہو کر آخر بستر استراحت پر لیٹا کرتے تھے تو وہ لذت ہی اور ہے جو اللہ کی خاطر جدائی اور پھر اللہ کی خاطر ملنے میں آیا کرتی ہے.تو آپ یعنی جماعت احمدیہ کو چاہئے کہ ان سارے امور میں خاص طور پر متوجہ ہوں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے باقی اقتباسات کا میرا خیال ہے اب پڑھنے کا وقت نہیں رہا اس لئے میں اب خطبہ کو یہیں ختم کرتا ہوں.ایک صرف چھوٹا اقتباس ہے جو میں اس باقی وقت میں پڑھ سکتا ہوں.فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 817 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے ایک محویت کی ضرورت ہے.ہم بار بار اپنی جماعت کو اس پر قائم ہونے کے لئے کہتے ہیں کیونکہ جب تک دُنیا کی طرف سے انقطاع اور اس کی محبت دلوں سے ٹھنڈی ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے فطرتوں میں طبعی جوش اور محویت پیدا نہیں ہوتی اس وقت تک ثبات میسر نہیں آسکتا.“ (البدر جلد 3 نمبر 32، صفحہ:24،3اگست 1904ء) یہاں جو لفظ ثبات ہے جس کی ہمیں تلاش ہے، جس کی ہمیں ضرورت ہے وہ ثبات حاصل کر نے کا گر بیان فرما دیا ہے.خدا کی خاطر جو دُنیا سے انسان الگ ہوتا ہے اگر دُنیا کا پیار ساتھ جاری رہے اور محنت اور کوشش سے وہ علیحدگی برداشت کرے تو یہ خدا خوفی تو ہے بہر حال ، اس کا ایک ثواب تو ہے لیکن اس کے نتیجہ میں ثبات نہیں مل سکتا.اگر دل اللہ کی طرف انکار ہے اور دُنیا سے تعلق محض اس لئے ہو کہ اللہ چاہتا ہے کہ بنی نوع انسان سے بھی تعلق رکھا جائے تو جہاں دل انکار ہتا ہے وہاں ثبات ملتا ہے.ثبات کہتے ہیں مضبوط قدم جن کے پھسلنے کی پھر کوئی گنجائش باقی نہ رہے تو ثبات کا راز ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بیان فرمایا ہے کہ آخر جب آپ خدا کی طرف لوٹیں گے، محویت ہوگی تو اصل مزہ وہاں آئے گا.اگر اصل مزہ باہر تھا تو وہ مزہ توڑ کر خدا کی خاطر آئیں گے تو نیکی تو ہے مگر ثبات نہیں کیونکہ خطرہ رہے گا عمر بھر کہ دنیا کی لذتیں کسی وقت کھینچ ہی لیں آپ کو اور پھر آپ ان میں گم ہو جائیں.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ثبات قدم کے لئے محویت کا عالم طاری کرنے کی کوشش کرے گی محویت اپنانے کی کوشش کرے گی اور یہ بھی ایسا معاملہ ہے جو دعاؤں کے ساتھ ہوتا ہے.اس سلسلہ میں جو دعا اللہ تعالیٰ نے ہمیں سکھائی ہے وہ یہ ہے رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَ شَيْتُ أَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَفِرِينَ.(البقرة: 251) رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا - أَفْرِعُ کا معنی قرآن کریم کے ترجمے کے سلسلے میں غور کر کے دیکھ رہے تھے مختلف لغات اٹھا کے دیکھیں تو افرغ کا اصل معنی ہے انڈیلنا، جیسے بالٹیاں بھر بھر کے ڈالی جائیں کسی چیز پر.تو رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صبرًا کیسی عظیم دعا ہے کہ اے اللہ! صبر بالٹیاں بھر بھر کے ہمارے اندر انڈیل کیوں کہ صبر ایک دقت طلب چیز ہے.صبر میں ایک وقت بھی ہے جب تک خدا کی طرف سے انڈیلا نہ جائے اس وقت
خطبات طاہر جلد 17 818 خطبہ جمعہ 20 نومبر 1998ء تک انسان کو صبر نصیب نہیں ہوسکتا اور جب خدا صبر انڈیل دے تو پھر اس کا طبعی نتیجہ یہ ہے کہ وَثَبِّتُ اقدامنا اس کے نتیجہ میں ہمارے پاؤں کو ثبات عطا فرما، دائی مضبوطی دے کہ ہم اپنے موقف سے کبھی بھی نہ ہٹیں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 819 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء تبتل الی اللہ سے مراد کارخانہ قدرت سے مستغنی ہونا نہیں ہے سچا صبر عبادت ہی کے ذریعہ سے نصیب ہو سکتا ہے (خطبہ جمعہ فرموده 27 نومبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت تلاوت کی.يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمُ ايَّاهُ تَعْبُدُونَ پھر فرمایا: (البقرة: 173) يسورۃ البقرۃ آیت 173 ہے جس کی میں نے تلاوت کی ہے.اس کا سادہ ترجمہ یہ ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو.كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُم : جو اللہ نے تمہیں رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے طیبات کھایا کرو.وَاشْكُرُوالله : اور اللہ کا شکر ادا کرو.إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ : اگر واقع تم اسی کی عبادت کرتے ہو.یہاں گلُوا مِنْ طَيِّبتِ مَا رَزَقْنَكُمْ کے دو ایسے واضح معانی ہیں جو پیش نظر رہنے ضروری ہیں.اول یہ کہ جو بھی اللہ تعالیٰ نے رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے بہترین کھایا کرو.رزق میں ہر قسم کے رزق شامل ہیں، اور اچھا بھی ، اور اور بھی اچھا، اس سے بھی اچھا.تو یہ بات یہاں بہترین کے معنوں میں ہے جو پاکیزہ ہو ، جو تازہ ہو، جس میں سے خوشبو آ رہی ہو ،صحت کے لئے مفید ہو.یہ ساری باتیں لفظ طیبت کے تابع ادا ہوتی ہیں.تو اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں رزق عطا فرمایا ہے اس میں سے ہر قسم کا رزق کھانے کی بجائے مومن کی شان یہ ہے کہ اس میں سے بہترین حصہ کھائے.
خطبات طاہر جلد 17 820 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء دوسری بات یہ ہے كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ کہ مومنوں کو تو اللہ تعالیٰ طیب رزق ہی عطا فرماتا ہے اور یہاں طیب سے مراد ہے اس میں غیر اللہ کی کوئی ملونی نہیں، کسی غیر کا کوئی احسان شامل نہیں، ایسا پاکیزہ رزق ہے کہ جسے خالصہ اللہ تعالیٰ نے مومن کو عطا فرمایا ہے اور اس کی کمائی کے پاکیزہ ہونے کی طرف از خود اس میں اشارہ موجود ہے.اگر مومن کی کمائی پاکیزہ نہیں تو رزق کیسے پاکیزہ ہو جائے گا.گندی کمائی کا خریدا ہو رزق خواہ بظاہر پاکیزہ ہو، دنیا کا بہترین رزق بھی ہومگر اگر گندی کمائی سے خریدا ہے تو اس کا اثر گندہ ہو جاتا ہے اور اس میں کوئی برکت باقی نہیں رہتی.تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُم جو ہم نے تمہیں رزق عطا فرمایا ہے وہ طبیب ہے اور طبیب ہی رہنا چاہئے کیونکہ جو ہم عطا کرتے ہیں اس میں ناجائز کی ملونی نہیں ہوا کرتی.پس جو رزق تم کماؤ لیکن بظاہر تم کمار ہے ہو اور پاک بھی ہوا گر رزق گندی کمائی سے کمایا گیا ہے تو وہ ہمارا رزق نہیں ہے پھر.یعنی اول پیدا تو خدا ہی کرتا ہے مگر وہ رزق نہیں جو بندوں کو دینا چاہتا ہے اس لئے بندوں کی نیتوں کی یا ان کے اعمال کی ملونی سے رزق گندہ ہو جایا کرتا ہے.وَاشْكُرُوا لِلهِ اِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ : اور اللہ ہی کا شکر ادا کر وا گر تم اسی کی عبادت کرتے ہو.اللہ کا ہی شکر ادا کرو میں مضمون واضح ہے اور پہلی بات سے متعلق ہے کہ جب اللہ ہی عطا کرتا ہے اور سچا اور پاک رزق اللہ ہی دینے والا ہے تو پھر غیر اللہ کے شکر کی حاجت کوئی نہیں رہتی.کسی محسن کے حقیقی شکر کی حاجت نہیں رہتی.اگر کسی محسن کا شکر ادا کرنا ہے تو اللہ کے فرمان کے مطابق ادا کرنا ہے یعنی دنیا کے تقاضے بھی پورے کرنے ہیں تو محض اس لئے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ تقاضے پورے کئے جائیں مگر دلوں کا رجحان خدا ہی کی طرف رہنا چاہئے اور حقیقی شکر اسی کا ادا ہونا چاہئے کیونکہ سب کچھ عطا کرنے والا اور سب پاکیزہ چیزیں عطا کرنے والا وہی ہے.اِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ: اگر واقعہ تم اسی کی عبادت کرتے ہو.مراد یہ ہے کہ غیر اللہ کی نفی کرتے ہو اور محض خدا کی خاطر اپنی زندگیوں کو ڈھالتے ہو، اپنی ساری طاقتیں اس کے حضور سر بسجود کر دیتے ہو تو اس صورت میں پھر غیر اللہ سے ایک قسم کا انقطاع ہو جائے گا.تبتل کے ایک معنی یہ بھی ہیں یا تبتل کے زیادہ تفصیلی معنی اور گہرے معنی یہ بھی ہیں یعنی بیک وقت دُنیا سے علیحد گی مگر اس کے باوجود دنیا سے تعلقات اور جس رزق کا ذکر فرمایا جارہا ہے انسان کما کیسے
خطبات طاہر جلد 17 821 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء سکتا ہے اگر وہ دنیا میں پڑ کے اس کے کام نہ ادا کرے تو بہت ہی دلچسپ تعلقات ہیں یہ اس آیت میں شکر کے اور پچھلی آیت جو میں نے بیان کی تھی ، پڑھی تھی تبتل الی اللہ کی.اگر تبتل الی اللہ کا یہ مطلب ہوتا کہ تمام دنیا کے کاروبار سے ہٹ کر، بے نیاز ہو کر تم خدا ہی کی طرف کلیۃ ہو جاؤ ، جھک جاؤ تو وہ رزق کہاں سے آئے گا جو تم نے خدا کی راہ میں خرچ کرنا ہے.اگر دُنیا سے تعلقات ٹوٹنے کا مطلب ہے زندگی کے کاروبار سے الگ ہو جاؤ تو پھر تو انسان اس قابل ہی نہیں رہتا کہ خود کچھ کھا سکے یا اپنی بیوی بچوں کو کچھ کھلائے.تو کون سی طیبات ہیں جو اسے حاصل ہونگی آسمان سے تو نہیں اتریں گی وہ اس طرح کہ چھپڑ پھاڑ کے اس کو کھانے مل رہے ہوں مگر یہ طیبات آسمان ہی سے اترتی ہیں.ایک عارف باللہ کو دکھائی دیتا ہے کہ خداہی نے سب کچھ اتارا ہے ان معنوں میں آسمان سے اترتی ہیں مگر دُنیا سے منہ موڑ کر الگ بیٹھنے والے کے لئے آسمان سے کچھ نہیں اترا کرتا اور دُنیا سے ان معنوں میں منہ موڑ نا تبتل نہیں بلکہ تکبر ہے کیونکہ تکبر ان معنوں میں کہ انسان سمجھتا ہے کہ میں نے جب دُنیا سے تعلق قطع کر لیا ہے تو اب اللہ کا فرض ہے کہ وہ مجھ پر اتارے اور جس طرح بھی ہے میرا رزق چلائے، اللہ کا فرض نہیں ہے.متبتل خدا کی خاطر کرنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ خدا نے جو کارخانہ قدرت جاری فرمایا ہے اس سے انسان مستغنی ہو جائے.اگر اللہ تعالیٰ کے جاری کردہ کارخانہ قدرت سے انسان بے نیاز ہو تو یہ تکبر ہے.اس لئے اللہ کے سارے پاک بندے دُنیا کے کاروبار ضرور کرتے رہے اور کرتے ہیں اور اس کے نتیجے میں دنیا سے ایک تعلق تو رہتا ہے جو کاٹا جاہی نہیں سکتا.اگر کاٹو گے تو یہ تکبر ہے تبتل نہیں ہے.یہ مضامین ہیں جن کو یہ دونوں آیات کلیۂ گھیر رہی ہیں یعنی وہ آیت جس کی میں نے پہلے تلاوت کی تھی وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا.اور یہ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيْبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِنْ كُنْتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ - اب اس تعلق میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا ایک اقتباس پڑھتا ہوں جو حضرت اقدس محمد مصطفی ملی لی ایم کے کمال تبتل پر دلالت کر رہا ہے.آپ صلی ہی ہم نے کیا تبتل کیا، کس طرح دنیا سے کاٹے گئے ، کس طرح خدا کی طرف الگ ہوئے ، اس اقتباس کو پڑھ کر یہ شبہ پیدا ہوتا ہے کہ دنیا کو ہر طرح سے کلیۂ چھوڑ دینے کا نام تبتل ہے اور اس شبہ کے ازالے کی خاطر حضرت اقدس مسیح موعود کے ہی بعض دوسرے اقتباسات میں نے اس کے بعد ر کھے ہیں تا کہ وہ پڑھ کر اس تبتل
خطبات طاہر جلد 17 822 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء کے تصور سے جو غلط فہمی پیدا ہوتی ہے وہ دور ہو جائے.ریویو آف ریلیجنز جلد اوّل صفحہ 183 پر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا یہ فرمان درج ہے.آنحضرت ملا تم اس قدر خدا میں گم اور محو ہو گئے تھے کہ...آپ کے وجود میں نفس اور مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا.“ ریویو آف ریلیجنز جلد 1 نمبر 5 صفحہ : 183 مئی 1902ء) اگر نفس کا اور اسباب کا ، جن اسباب کو اختیار کرنے کے ذریعے انسان کو رزق ملتا ہے اور اس کے مطالب حل ہوتے ہیں ان کا اور مخلوق کا ، خدا تعالیٰ کی مخلوق کا بھی کوئی حصہ نہیں رہا.اگر یہ ظاہری لفظوں پر محمول مطلب لیا جائے تو تبتل کا وہ مضمون جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود دوسری جگہ بیان فرما رہے ہیں بالکل باطل ٹھہرے گا اور اللہ اور اس کے بندوں کے کلام میں کبھی نقضاد نہیں ہوا کرتا.اس لئے میں نے اسی مضمون کی وضاحت کی خاطر یعنی مزید وضاحت کی خاطر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات آج کے خطبہ میں سنانے کے لئے رکھے ہیں.حضور علیہ السلام فرماتے ہیں: ”انسان کا کمال بھی یہی ہے.“ اور جب لفظ کمال کہا جائے تو سب سے اول نام رسول اللہ صلی الیہ کا ذہن میں اُبھرتا ہے کہ انسان کامل بھی وہی تھے اور کمال بھی انسان کامل ہی نے دکھایا تھا.”انسان کا کمال بھی یہی ہے کہ دنیوی کا روبار میں بھی مصروفیت رکھے.“ یعنی یہ مضمون عام بھی ہے تمام انسانوں پر یکساں چسپاں ہو رہا ہے اس کی نفی نہیں مگر اس میں جو مرکزی اشارہ رسول اللہ صلی ایام کی طرف سے موجود ہے وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے دوسرے اقتباسات میں زیادہ واضح ہو جاتا ہے.د نیوی کا روبار میں بھی مصروفیت رکھے اور پھر خدا کو بھی نہ بھولے.وہ ٹوکس کام کا ہے 66 جو بروقت بوجھ لادنے کے بیٹھ جاتا ہے.“ جب بھی اس پر بوجھ ڈالا جائے اس وقت بیٹھ جاتا ہے.جب بوجھ اتار دیا جائے تو خوب دوڑتا پھرتا ہے.اور جب خالی ہو تو خوب چلتا ہے.وہ قابل تعریف نہیں.“
خطبات طاہر جلد 17 823 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء یہاں کون سا بوجھ ہے جس کا ذکر فرما رہے ہیں؟ فرمایا کہ خدا کے ذکر کی خاطر ان معنوں میں ہلکا ہو جانا کہ وہ دُنیا کی ذمہ داریاں جو اللہ ہی نے اس پر ڈالی ہیں وہ اتار پھینکے اور پھر گویا ہلکا پھلکا ہو کے اللہ کی طرف دوڑے یہ ہرگز تبتل نہیں.یہ اس ٹو والی بات ہے جس پر جب بوجھ ڈالو بیٹھ جائے گا جب اتار دو گے تو چل پڑے گا.پھر فرمایا: وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے.(اب دیکھیں کتنی بات واضح ہوگئی ہے ) وہ فقیر جو دنیوی کاموں سے گھبرا کر گوشہ نشین بن جاتا ہے وہ ایک کمزوری دکھلاتا ہے.اسلام میں رہبانیت نہیں.ہم کبھی نہیں کہتے کہ عورتوں کو اور بال بچوں کو ترک کر دو اور دنیوی کاروبار کو چھوڑ دو.نہیں.بلکہ ملازم کو چاہئے کہ وہ اپنی ملازمت کے فرائض ادا کرے اور تاجرا اپنی تجارت کے کاروبار کو پورا کرے لیکن دین کو مقدم رکھے.“ یہ ہے تبتل.ساری ذمہ داریاں دُنیا کی سرانجام دے اپنے اہل وعیال کی ذمہ داریاں بھی پوری طرح ادا کرے لیکن جہاں ان کا اللہ کی محبت سے ٹکراؤ پیدا ہو وہاں ان ذمہ داریوں کو اتار پھینکے اور اللہ کی محبت کو اختیار کر لے.اس مضمون کو مزید واضح فرماتے ہوئے آپ فرماتے ہیں: اس کی مثال خود دنیا میں موجود ہے کہ تاجر اور ملازم لوگ باوجود اس کے کہ وہ اپنی تجارت اور ملازمت کو بہت عمدگی سے پورا کرتے ہیں پھر بھی بیوی بچے رکھتے ہیں اور 66 ان کے حقوق برابر ادا کرتے ہیں.“ یہاں مراد یہ ہے کہ دُنیا کے شریف لوگ یہ کام کیا کرتے ہیں مگر جو شریف نہ ہوں وہ تو یہ کام نہیں کرتے اور آج کل ان کی اکثریت ہے.وہ دُنیا کمانے میں اتنا محو ہوتے ہیں کہ وہ دُنیا کی خاطر دُنیا کماتے ہیں نہ کہ بیوی بچوں کے حالات سدھارنے کی خاطر.اور نتیجہ جس حد تک ان سے ممکن ہو بیوی بچوں سے الگ ہی رہتے ہیں.تو اس میں یہ مفہوم داخل ہے کہ دُنیا میں وہ لوگ جو ذمہ دار ہوں وہ یہ کرتے ہیں اس لئے دین میں وہ لوگ جو ذمہ دار ہیں ان کو یہ کرنا چاہئے کہ دُنیا کے لئے جو محنت کریں مقصد اعلیٰ ہی ہو کہ اللہ کی رضا کی خاطر وہ دُنیا کے کاروبار میں پڑے ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس طرح کماؤں اس لئے میں اسے کماتا ہوں ورنہ اگر میں ہاتھ تو ڑ کر بیٹھ جاؤں گا تو اللہ تعالیٰ
خطبات طاہر جلد 17 824 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء میرے لئے آسمان سے کوئی رزق نہیں اتارے گا.یہ مضمون ہے جس کو خوب اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے ورنہ ہمارے وہ مخلص احمدی جو یہ مضمون سنیں گے تو خطرہ ہوتا ہے بعض دفعہ کہ وہ سارا کاروبار چھوڑ کے گھر نہ بیٹھ جائیں.اگر وہ چھوڑ کے بیٹھ جائیں گے تو دین کے کام کون چلائے گا.’ایسا ہی ایک انسان ان تمام مشاغل کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حقوق کو ادا کر سکتا ہے اور دین کو دنیا پر مقدم رکھ کر بڑی عمدگی سے اپنی زندگی گزار سکتا ہے.“ اس کے بعد فرمایا: ( بدر قادیان جلد 6 نمبر 11 صفحہ: 6 مؤرخہ 14 مارچ 1907ء) ہم یہ نہیں کہتے کہ زراعت والا زراعت کو اور تجارت والا تجارت کو ، ملازمت والا ملازمت کو اور صنعت و حرفت والا اپنے کاروبار کو ترک کر دے اور ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ جائے بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ لَا تُلْهِيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعَ عَنْ ذِكْرِ اللهِ (النور : 38) کہ ان کو نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی سود ایا دنیا کا کارو بار اللہ کے ذکر سے غافل کر سکتا ہے.فرمایا، یہ والا معاملہ ہو.دست با کار دل با یار والی بات ہو.“ کہ کام تو ہاتھ پر ہے اور دل یار کی طرف ہے.یہ جو صورت حال ہے اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ احمدی تاجر اور کاروبار کرنے والے کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور دُنیا میں بھی احمدی کی مانگ بڑھ جاتی ہے.اگر انسان دفتر میں بیٹھا کام ترک کر دے.کوئی پوچھے اس سے کیا کر رہے ہو؟ کہے کہ جی میں تو اللہ کو یاد کر رہا ہوں.وہ کہے گا پاگل میں نے تمہیں روٹی دی ہے رزق دیتا ہوں اس واسطے کہ تو نے میرا کام کرنا ہے اگر اس طرح اللہ کو یاد کرنا ہے تو گھر جاؤ، چھٹی کرو.تو یہ تو انتہائی بے وقوفی ہوگی.اگر یہ طریق کار جماعت اختیار کرناشروع کرے تو ساری جماعت حکمی ہو کے گھر بیٹھ جائے گی.اس کے بالکل برعکس مضمون ہے.دست با کار دل بایار یہ ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ہمیں بہترین نسخہ عطا فرمایا ہے اور جو دست با کار رکھتا ہے اور دل بایار رکھتا ہے اس کا دست با کار ہونے میں جو مرتبہ اور مقام ہے وہ دنیا میں دست با کار ہونے والے سے بہت اونچا ہو جاتا ہے.وہ جب ہر لمحہ اللہ کو یاد کر رہا ہوتا ہے تو اللہ کا حکم ہے کہ جو کام کسی کا کرو امانت سے کرو، جو تمہیں دیا جائے اس کا پورا بدلہ اتارو،
خطبات طاہر جلد 17 825 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء اس کی پوری قیمت ادا کرو.اگر یہ کر رہا ہے تو جوں جوں اللہ کی طرف خیال جاتا ہے ساتھ ہی اس کے کام کی ذمہ داری کی طرف بھی خیال بڑھے گا ، وہ کم نہیں ہوگا.اس کے نتیجہ میں احمدی ملازمین اور کاروبار کرنے والوں کی قیمت اور قدر دُنیا کی نگاہ میں بڑھتی ہے، کم نہیں ہوتی اور ایسے معاملات اکثر میرے سامنے آتے رہتے ہیں.بعض نوجوانوں نے بتایا کہ جب ہم شروع میں انٹرویو دے رہے تھے تو انٹرویو لینے والے نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی مگر چونکہ کامیاب ہو گئے تھے اس لئے ہمیں ملا زمت دے دی لیکن جب ملازمت کے بعد مالکوں نے دیکھا ، کہ بے حد ذمہ داری سے کام کرتا ہے یہ شخص ایسی ذمہ داری سے اور کوئی ایسا نہیں کرتا.تو دن بدن ہماری قدر بڑھتی رہی اور اس کے نتیجے میں ہمیں ترقیات بھی جلد جلد ملنی شروع ہو گئیں.یہ جو مضمون ہے بہت پھیلا ہوا ہے جماعت احمدیہ عالمگیر پر برابر اطلاق پا رہا ہے.پس اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ تبتل کے نتیجہ میں آپ کے رزق کم نہیں ہوئے بلکہ بہت بڑھ گئے ہیں.یہ تبتل ہے جس کو اختیار کئے رکھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے اموال میں بہت برکت پڑے گی اور جو اس طرح اللہ کے ذکر سے اموال بڑھیں وہ تو ویسے ہی بابرکت ہوتے ہیں.ان کا تھوڑا بہت ہوتا ہے لیکن وہ تھوڑا رہتا نہیں.اللہ اس تھوڑے کو بڑھاتا چلا جاتا ہے.پس یہ خدا کی راہ میں برکت کا مضمون ہے.فرمایا: تاجر اپنے کاروبار تجارت میں اور زمیندار اپنے امور زراعت میں اور بادشاہ اپنے تخت حکومت پر بیٹھ کر غرض جو جس کام میں ہے اپنے کاموں میں خدا کو نصب العین رکھے اور اس کی عظمت اور جبروت کو پیش نظر رکھ کر اس کے احکام اور اوامر اور نواہی کا 66 لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے.(محاورہ ہے ) اللہ سے ڈر اور سب کچھ کر “ (الحکم جلد 12 نمبر 50،49 صفحہ: 4،3 مؤرخہ 26، 30 اگست 1908ء) تو یہ محاورہ آپ نے استعمال فرما کر اس محاورہ کے صحیح معنی بھی ہمیں سمجھا دئے.بعض جہلاء اس کا یہ مطلب لیتے ہیں کہ اللہ سے ڈرتارہ اور پھر جو مرضی کرتا چلا جا، ہر قسم کی بے حیائیاں، ہر قسم کے فسق و فجور میں مبتلا ہو جا مگر یا درکھنا اللہ سے ضرور ڈرنا.اللہ سے ڈرنا کیسا ہوا.اگر خدا کے احکامات کی نافرمانی واضح طور پر ہورہی ہے اور انسان اس کے نتیجہ میں حیا کی بجائے بے حیائی میں بڑھ رہا ہے تو اسے اللہ سے ڈرنا نہیں کہتے مگر بعض صوفیاء نے یہ بھی معنی لیا ہوا ہے اور اس کے نتیجہ میں دُنیا کو بہکا دیا ہے.اللہ سے ڈر
خطبات طاہر جلد 17 826 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء کا مطلب ہے اللہ کا حقیقی خوف رکھ اور اس کے فرمان کے مطابق عمل کر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ”اس کے احکام اور او امر اور نواہی کا لحاظ رکھتے ہوئے جو چاہے کرے.“ اس دائرہ کار کے اندر تمہیں کھلی چھٹی ہے مگر اوامر و نواہی کے دائرہ کار کے اندر چھٹی ہے اس سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں ہے.اس کے اندر رہتے ہوئے کشادگی اختیار کرو،لذتیں دُنیا کی جس حد تک خدا جائز قرار دیتا ہے وہ حاصل کرو تو سب اللہ کی طرف سے عطا کردہ رزق ہوگا.اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ و السلام دو شعروں میں یوں بیان کرتے ہیں : سب خیر ہے اس میں کہ اُس سے لگاؤ دل ڈھونڈو اُسی کو یارو ، بتوں میں وفا نہیں دل اللہ سے لگا و تبتل اس کی طرف کامل ہو اور ڈھونڈو اسی کو یارو اسی کو ڈھونڈو.اس میں ایک پیغام ہے جس کو ہمیں اچھی طرح پیش نظر رکھ کر اپنی زندگیاں ڈھالنی چاہئیں.”ڈھونڈو اسی کو یارو بتوں میں وفا نہیں، اگر اس سے دل لگایا ہے تو اس کو پھر ڈھونڈنے کا کیا مطلب ہے؟ اس کے کئی مطالب ہیں جو آج کل جماعت احمدیہ کے حالات پر بھی چسپاں ہورہے ہیں.اگر اللہ تعالیٰ سے دل نہ لگایا ہوتو دنیا کی مصیبتیں جماعت کیسے برداشت کر سکتی ہے تو یہ دل لگانا ایک اعتقادی دل لگانا ہے یعنی عقیدہ میں یہ بات داخل ہے اور اس عقیدہ سے یقینا دل مطمئن ہیں کہ اللہ ہی ہے اور اللہ کی خاطر اگر تکلیفیں اٹھانی پڑتی ہیں تو اٹھانی پڑیں گی.اس سے دل تو اسی کی طرف تھا اگر دل اس سے نہ لگا ہوا ہوتا تو انسان دنیا سے تبتل کیسے کرتا.پھر ڈھونڈو اسی کو یا رو اسی کو ڈھونڈو ، مطلب یہ ہے کہ تمہارے عقیدہ نے تمہارے دماغ نے اس کو قبول کر لیا ہے لیکن اس کو اپناؤ بھی تو سہی ، اس کو اپنا بنا کر رہو، اپنے قریب لانے کی کوشش کرو اور اس کے لئے جیسے ایک عشق میں دیوانہ اپنے محبوب کو ڈھونڈتا ہے اس طرح دیوانہ وار اس کی تلاش کرو اور اس تلاش میں مجنوں کا سمندر ہے جو سامنے آتا ہے، صحراؤں ، جنگلوں کو چھانتا پھرتا تھا لیلیٰ کی تلاش میں، اس تلاش میں وہ تو کامیاب نہ ہو سکا اور اسی حال میں بھٹکتے ہوئے اس نے جان دے دی مگر جس لیلی کی تلاش حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام خود کرتے تھے اور اسے حاصل کر لیا اسی لیلی کی تلاش کی طرف آپ کو بھی تو بلا رہے ہیں.ڈھونڈو کا معنی ہے کہ وہ لیلیٰ ہے جس کو تم ڈھونڈو گے تو وہ تمہاری طرف تمہاری تلاش کے مقابل پر زیادہ تیزی
خطبات طاہر جلد 17 827 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء سے آئے گی.یہ وہ محبوب ہے جو اپنے ڈھونڈنے والے کی طرف اس کی رفتار سے بہت زیادہ تیزی سے بڑھتا ہے.پس اسے ان معنوں میں ڈھونڈو، اس سنجیدگی کے ساتھ ڈھونڈو، اس کامل یقین کے ساتھ ڈھونڈو کہ اگر میں اس کی طرف گیا تو وہ میری طرف زیادہ تیزی سے آئے گا اور بعینہ یہی مضمون ہے جو آنحضرت صلی ای ایم نے بارہا مختلف طریق پر ہم پر کھولا ہے.ساتھ ہی یہ تنبیہ کر دی: ” بتوں میں وفانہیں اس کو ڈھونڈ وور نہ دنیا میں جو دل لگانے والے ساتھ لگے رہتے ہیں وہ تم سے بیوفائی کریں گے اور جب وہ چھوڑ کر چلے جائیں گے تو پھر نہتے اور خالی اور حسرت زدہ رہ جاؤ گے اور اسی بتوں سے دل لگانے کے مضمون کو اب ایک ڈرانے کے لحاظ سے بھی کھول دیا ہے، یہ جو فر ما یا تھا کہ اللہ سے ڈرو اور پھر جو مرضی کرو یہ ڈرکن معنوں میں ہے.اس جائے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو یہ دنیا تو حقیقت میں عذاب کی جاہے.دیکھنے میں خوبصورت ، دلکش مگر وہ بہت ہے جو وفا نہیں کیا کرتے.دوزخ ہے یہ مقام یہ بستاں سرا نہیں ( رسالة تشحید الا ذبان قادیان جلد 3 نمبر 13 صفحہ:485،ماہ دسمبر 1908ء) یہ دنیا تو ایک دوزخ ہے اس کے پیچھے جتنا بھا گو گے، جتنا اس کی طلب کرتے چلے جاؤ گے ایک آگ سی دل میں بھڑکتی رہے گی اور وہ آگ بڑھتی چلی جائے گی.پس آج دنیا کا حال دیکھ لیں جتنے بھی افراد ہوں یا جتنی بھی قو میں ہوں دُنیا طلبی میں ان کے اندر ایک بھڑ کن لگی ہوئی ہوتی ہے اور جو کبھی بھی کم نہیں ہوتی جتنا مرضی کر لیں یعنی دُنیا کی خاطر جو چاہیں کر گزریں، جتنا ان کو حاصل ہو جائے وہ آگ نہیں کم ہوگی.هَلْ مِن مزید (ق:31) کی جو جہنم کی آواز ہے وہ ان کے دل سے ہمیشہ اٹھتی رہے گی.پس زیادہ سے زیادہ اپنانے کی خواہش افراد میں بھی ہوا کرتی ہے اور قوموں میں بھی ہوا کرتی ہے اور مغرب کی ایک مثال ہمارے سامنے ہے ان کی مزید طلب کرنے کی آگ مزید سے کم نہیں ہوتی ، بجھتی نہیں ، بڑھتی چلی جاتی ہے اور جو غریب ممالک ہیں ان کو ملتا تو نہیں مگر آگ ضرور ہے، وہ بیچارے مزید حاصل کرنے کے شوق میں ٹکریں تو بہت مارتے ہیں مگر صرف آگ ہی بھڑکتی ہے مزید حاصل کرنے کی تمنا پوری نہیں ہوتی لیکن یہ تمنا پوری ہو سکتی ہے اگر اللہ سے مزید طلب کیا جائے اور اس کا طریق یہ ہے کہ اس کا شکر ادا کرو وہ تمہیں زیادہ دے گا.
خطبات طاہر جلد 17 828 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء جو کچھ عطا کیا ہے اس پر قانع رہو، اسی پر راضی رہو اور اس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ تمہیں برکت دے گا، اموال میں برکت دے گا، تھوڑے میں بھی مزہ رکھ دے گا.زیادہ کا مزہ تو اور بھی زیادہ ہو گا مگر اس میں وہ آگ نہیں جلے گی کہ اگر اور نہ ملا تو ہم کیا کریں گے.کیا ہم اسی طرح مزید کی طلب کی آگ میں جلتے رہیں گے.یہ مومنوں والا معاملہ نہیں ہے اور اس کا راز اس بات میں ہے کہ جو تھوڑے پر راضی ہو جائے وہ زیادہ پر راضی کیوں نہیں ہوگا.جو تھوڑے پر بھی خوش ہو جائے اسے زیادہ دو گے تو اور بھی خوش ہوگا.پس تھوڑے پر راضی ہونا اس بات کا راز ہے کہ آپ کو تسکین قلب نصیب ہو جائے.اللہ کی طرف سے جو بھی ملتا ہے اس پر راضی ہو جائیں اور مزید کے لئے کوشش کریں کیونکہ اللہ کہتا ہے کہ کوشش کرو مگر رضا کی طلب کے لئے کوشش نہیں کرنی ، اپنے دل کی رضا کی خاطر نہیں، اللہ کی رضا کی خاطر.ان دونوں چیزوں میں بہت بڑا فرق ہے.جب آپ اللہ کی عطا میں تھوڑے سے راضی ہو جاتے ہیں تو پھر مزید کی کوشش کی کیا ضرورت ہے.اس لئے ضرورت ہے کہ اللہ چاہتا ہے کہ تم اور بھی طلب کرو، اور بھی محنت کرو کیونکہ یہ دنیا میں جتنا کاروبار رحیمیت کا ہے اللہ نے در حقیقت مومن بندوں کے لئے پیدا فرمایا ہے.جب وہ طلب کرتے ہیں تو اپنی رضا چاہتے ہوئے نہیں، اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور ان معنوں میں اللہ کی رضا ہی ان کی رضا بن جاتی ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے یہ جو مضمون بیان فرمایا ہے شکر کا اور تبتل کا اس تعلق میں میں نے اب بعض احادیث بھی چنی ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں ان میں یہی مضمون، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا مضمون اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمیں دکھائی دینے لگتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہاں سے لیا تھا.اب یہ بڑی دلچسپ بات ہے کہ جب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات پر میں غور کرتا ہوں تو اس سے ملتی جلتی حدیثیں یاد آتی ہیں اور جب حدیثوں کو غور سے پڑھوں تو صاف سمجھ آجاتی ہے کہ یہ منبع تھا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی حکمت کا اور وہ حدیثیں پڑھیں تو قرآن ان کا منبع نظر آتا ہے غرض یہ کہ سلسلہ وار بندوں سے بات شروع ہو کے خدا تک جا پہنچتی ہے.اب اس میں دیکھیں الزهد والرقائق کے باب میں جو مسلم نے روایت پیش کی ہے اس میں حضرت رسول کریم صلی ا یہ تم نے کیا فرمایا ہے.حضرت عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے کہ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان کیا کہ آنحضرت صلی اللہ اکہ تم نے فرمایا :
خطبات طاہر جلد 17 829 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اس کا معاملہ سارے کا سارا ہی خیر پر مبنی ہے.“ عجیب ہے مومن اس میں شر کا کوئی بھی پہلو نہیں یا اس کی زندگی میں کسی تکلیف کا کوئی پہلو نظر ہی نہیں آتا.اور یہ خصوصیت مومن کے سوا کسی اور کو حاصل نہیں.جب اسے آزمائش پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے.“ اب دیکھ لیں شکر تو ہوتا ہی دل کے اطمینان پر ہے لیکن جب کسی کو ابتلا میں ڈالا جائے تو وہ شکر کرتا ہے.کیسے شکر کر سکتا ہے اس وقت ، اس لئے کہ وہ جانتا ہے کہ میرے اللہ نے مجھے اس قابل سمجھا ہے کہ میری محبت کا امتحان لے.اور اس کے شکر کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف زبان سے ہی شکر نہیں کرتا بلکہ عملاً اس امتحان میں پورا اتر کر شکر ادا کرتا ہے.تو تکلیفیں اور مصیبتیں اور دُنیا کے کئی قسم کے ابتلا کسی مومن کو کوئی گہرا دکھ ان معنوں میں نہیں پہنچا سکتے کہ اس کی زندگی عذاب بن جائے اور محض ایک اضطراب ہو جائے.جب بھی توجہ اس طرف رہے گی کہ خدا نے یہ سب کچھ دیا تھا، اسی کی چیز ہے اسی نے آزمایا ہے اور مجھے آزمائش کے قابل سمجھا ہے.اب یہ مضمون بھی شکر کا مضمون خصوصاً طلبہ کو سمجھ آ سکتا ہے.بعض طلبہ کو جو نکمے ہوں امتحان میں بیٹھنے ہی نہیں دیا جاتا اور جب بیٹھنے کے لئے فہرست میں نام آجائے طالب علم کا تو خوشی سے اچھلتا کودتا ہے کہ بلا لیا ہے ہمیں.یہی مضمون نوکریاں تلاش کرنے والوں پر بھی اطلاق پاتا ہے جب وہ انٹرویو کے لئے جگہ جگہ دھکے کھاتے اور درخواستیں دیتے پھرتے ہیں تو ان کو جب ٹیسٹ کے لئے بلایا جاتا ہے یہ ابتلا ہے، امتحان کے لئے بلایا جاتا ہے تو خوشی سے اچھلتے ہیں کہ دیکھو جی ہمارے نام چٹھی آگئی ہے کہ آ کے امتحان دو.کامیابی کی بات ہی کوئی نہیں ہور ہی صرف امتحان کی بات ہے لیکن اُمید ہے کہ اس امتحان کے نتیجہ میں کامیاب ہو جائیں گے.تو جو دل میں ایک طمع لگی ہوئی ہے اور ایک اُمید پر بھروسہ ہے کہ ہم شاید کامیاب ہو جائیں.اس کی خوشی ہے جس میں وہ اچھلتا ہے.تو جب مومن کو اللہ تعالیٰ کسی امتحان میں مبتلا کرتا ہے تو یہ خوشی ہے جو امتحان کا دور اس پر آسان کر دیتی ہے.اور دوسرے یہ بھی بات یادرکھیں کہ امتحان کے لئے بلانے والا یہ ضرور دیکھتا ہے کہ امتحان میں شامل ہونے کے قابل ضرور ہے اگر قابل نہ ہو تو اسے نہیں بلایا جاتا.تو مومن یہ سمجھتا ہے کہ میرے مولیٰ نے مجھے قابل سمجھا ہے اور جب خدا قابل سمجھتا ہے تو کتنا ہی تلخ امتحان ہو اس پر پورا اترنا چاہئے.اگر اللہ قابل سمجھے اور آپ امتحان کا واویلا
خطبات طاہر جلد 17 830 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء شروع کر دیں تو خدا نے جو آپ پر اعتماد کیا تھا اس کو ٹھکرادیا، اس کو رڈ کر دیا.تو یہ نا کامی ہے جو مومن کے حصہ میں نہیں آتی.آنحضرت صلی للہ یہ تم اس مضمون کو بیان فرما رہے ہیں کہ یہ مومن کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہو سکتی کہ اس کا ابتلا بھی اس کے لئے خیر ہو جائے.” جب اسے آزمائش پہنچتی ہے تو وہ شکر ادا کرتا ہے تو یہ شکر اس کے لئے خیر کا موجب بن جاتا ہے اور اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو وہ صبر کرتا ہے اور یہ صبر اس کے لئے اچھا ہوجاتا ہے.“ (صحیح مسلم، کتاب الزهد والرقائق، باب المؤمن امره کله خیر ،حدیث نمبر :7500) اب یہ جو شکر کا پہلا معنی تھا اس پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ آزمائش میں کامیابی پر تو شکر ہونا ہی ہے مگر آزمائش ایسی ہو جائے کہ ایک مستقل روگ دل میں لگ جائے مثلاً بعض ماؤں کے نو جوان بیٹے گزر جاتے ہیں ، بعض ماں باپ کے اکلوتے بیٹے نکل جاتے ہیں ہاتھ سے ، کئی قسم کے حادثات در پیش ہوتے ہیں.ان پر پہلے معنوں میں شکر کرنا بہت مشکل کام ہے.کبھی آپ کسی ایسے ماں باپ کو نہیں دیکھیں گے الحمد للہ، اللہ نے ہمیں اس آزمائش کے قابل سمجھا.یہ اگر کوئی کہے تو جھوٹ ہے.ایسے لوگ دُنیا میں دکھائی نہیں دے سکتے ، مومن بھی ہوں تو نہیں دکھائی دیتے مگر اس مضمون پر رسول اللہ سلیم نے شکر کے ساتھ صبر کا پلو باندھ دیا ہے مومن شاکر بھی ہے اس لئے وہ آزمائشیں جن میں اللہ تعالیٰ ان کو کامیاب کرتا رہتا ہے اس پر وہ شکر ادا کرتا ہے چھلانگیں مارتا ہے لیکن جن آزمائشوں کی تلخی اس کی طاقت سے بڑھی ہوئی معلوم ہوتی ہے ان میں وہ صبر کرتا ہے اور صبر میں ایک قسم کی طمانیت و ثبات داخل ہے.جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جانتا ہے کہ خدا نے مجھ پر یہ آزمائش ڈالی تھی اور مجھ سے یہ توقع ہے کہ میں اُس کی رضا کی خاطر اسے برداشت کرلوں اور جب وہ صبر کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں دعا بھی لازم ہے.یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ صبر جس کا ذکر رسول اللہ صلی ایتم مومن کے حوالے سے کر رہے ہیں وہ بغیر دعا کے نصیب ہو سکے.چنانچہ قرآن کریم نے اسی مضمون کو وَاسْتَعِينُوا بالصبر والصلوة (البقرة: 46) کہہ کر بیان فرمایا ہے.صبر خدا سے مانگے بغیر نصیب ہو ہی نہیں سکتا.کہنے میں تو ہو جاتا ہے مگر کرنے میں بہت مشکل ہے.وَ اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة.پس ان آزمائشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اس دُنیا میں ہی ان کے لئے آزمائشوں سے پہلے تیاری شروع کردو.
خطبات طاہر جلد 17 831 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء اسْتَعِينُوا صبر سے پہلے ہے.پیشتر اس کے کہ انسان پر کچھ ابتلا آئیں خواہ وہ انفرادی ہوں یا جماعتی ہوں انسان کا فرض ہے کہ اللہ تعالیٰ سے یہ استدعا کرتا چلا جائے کہ اے اللہ ! جب بھی آزمائش ہو ہمیں صبر ضرور دینا اور یہ صبر صلوۃ کے بغیر حقیقت میں پوری طرح ممکن نہیں ہوسکتا کیونکہ صبر کے ساتھ صلوۃ اس صبر کو تقویت دینے والی ہے.اور یہی وجہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی تحریرات میں یہ ذکر ملتا ہے کہ جب کوئی گہرا غم پڑا تو فورا میں عبادت کے لئے کھڑا ہو گیا.یہ وہی مضمون ہے کیونکہ سچا صبر عبادت کے ذریعہ نصیب ہو سکتا ہے.عبادت میں انسان اللہ کے قریب آجاتا ہے اور جتنا اللہ سے قریب آجائے دُنیا کی بے ثباتی اس پر ظاہر ہوتی چلی جاتی ہے.نماز میں انسان محسوس کرتا ہے کہ میرا اعلیٰ مقصد تو پیدائش کا یہی تھا کہ میں اللہ کے پاس رہوں ، اس کی دی ہوئی چیزیں اگر ہاتھ سے چلی گئیں تو اسی سے میں صبر مانگتا ہوں ،اسی سے استعانت طلب کرتا ہوں.پس اس پہلو سے وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلوة کا مضمون ہے جو آنحضرت صلی یا تم نے اس حدیث میں اس کا ذکر کئے بغیر بیان فرما دیا ہے لیکن مضمون سے ظاہر ہے کہ مومن کو کسی طرح کا بھی شر نہیں پہنچتا ، خیر ہی خیر ہے جو کچھ اس پر گزر جائے ہر حال میں اس پر خیر ہے اور کافر پر جو بھی گزر جائے ہر حال میں اس کا نقصان ہے.مل جائے تو تب نقصان ، نہ ملے تو تب نقصان ، ایک مستقل جہنم میں وہ زندگی بسر کر رہا ہوتا ہے.ایک اور حدیث اسی تعلق میں یعنی شکر کے مفہوم کو زیادہ واضح کرنے کی خاطر اختیار کی ہے.سنن ابی داؤد كِتَاب الْأَدَبِ بَابُ مَا يَقُولُ إِذَا أَصْبَحَ.یاد رکھیں کہ احادیث میں جو اس قسم کی احادیث ہیں جن میں عرفان باری تعالیٰ کا ذکر ہے ان احادیث میں راوی کمزور بھی ہوں تو نیچے ہوتے ہیں کیونکہ کمزور راوی ایسی اعلیٰ عارفانہ احادیث بنا ہی نہیں سکتا.اپنے مطلب کی حدیثیں، اپنے عقائد کی تائید میں احادیث تو کثرت کے ساتھ مختلف فرقوں نے گھڑ رکھی ہیں یا گھڑی نہیں تو ان کے معنی اپنی مرضی کے کرتے ہیں اور انہیں مضبوطی سے پکڑ لیتے ہیں مگر جو عرفان باللہ کی باتیں ہیں یہ احادیث جھوٹے راوی بیان نہیں کر سکتے اس لئے بہت زیادہ اِس میں اُس تر ڈر کی بھی ضرورت نہیں ہوتی.میں ہمیشہ چھان بین اس وقت کیا کرتا ہوں جہاں مضمون کسی کے مطلب کا ہو اور خطرہ ہو کہ اس نے اپنے مطلب کی خاطر حدیث کو اختیار کیا ہے یا حدیث وضع کر لی ہے لیکن جہاں عرفان باللہ کی باتیں
خطبات طاہر جلد 17 832 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء 66 ہوں وہاں کسی تردد کی ضرورت نہیں.اگر راوی جھوٹا بھی ہو ، فرض کریں وہ حدیث نہ بھی ہو ، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ وہ نہ ہومگر فرض کریں نہ بھی ہو، مضمون اچھا ہے تو پھر تکلیف کیا ہے، نقصان کیا ہے ہمیں.کسی کی طرفداری مقصود نہیں ہے مضمون ایسا ہے جس میں اللہ سے ملنے کی باتیں ہیں تو الحِكْمَةُ ضَالَّهُ الْمُؤْمِنِ “ (سنن الترمذي ، كتاب العلم عن رسول الله ،باب ماجاء في فضل الفقه..،حدیث نمبر : 2687) یہ حکمت کی بات جہاں سے ملے گی اس کو اخذ کر لیں تو پھر رسول اللہ صلی لہ الیتیم سے کیوں نہ لیں.غیر اللہ کے پاس کیوں جائیں.رسول اللہ صلی یتیم کے منہ کی باتیں مان جائیں کہ آپ صلی لا کہ ہم ہی نے فرمائی ہونگی اور یہی حکمت کی بات ہے جسے آپ جہاں بھی ملے اس کو مضبوطی سے پکڑ لیں.پس اس ضمنی بیان کے بعد میں حدیث کے الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت عبداللہ بن غنام البیاضی بیان کرتے ہیں آنحضرت صلی ہی تم نے فرمایا: "جو شخص صبح کے وقت یہ کہے کہ اے اللہ ! جو نعمتیں مجھے صبح کے وقت حاصل ہیں یہ محض تیری ہی طرف سے ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں.“ جو صبح کے وقت حاصل ہیں“ کا ترجمہ شاید پوری طرح بات کو واضح نہیں کرتا میں عربی الفاظ آپ کے سامنے پڑھتا ہوں.مَنْ قَالَ حِينَ يُصبح جس وقت انسان صبح کر رہا ہو.“ یعنی رات کے بعد جب باشعور طور پر صبح اٹھ کر سوچتا ہے اور جانتا ہے کہ رات کو خدا تعالیٰ نے مجھے ایک عارضی موت میں سے گزارا ہے مگر دوبارہ زندگی دی جب یہ سوچتے ہوئے اٹھتا ہے تو پچھلی رات کا شکر ادا کر رہا ہے.بظاہر یہی ہے نا کہ پچھلی رات کا شکر کر رہا ہے آنے والے دن کا شکر ادا نہیں کر رہا لیکن حضرت رسول اللہ صلی الہ السلام فرماتے ہیں اس نے دن کا شکر ادا کیا.اس لئے یہ ایک ایسا پہلو ہے جسے اصل الفاظ پر غور کر کے آپ کو سمجھ آئے گی یعنی ظاہری طور پر تو انسان یہی سمجھتا ہے صبح اٹھ کر اس نے شکر کیا کہ اچھا میں جاگ گیا، رات مر نہیں گیا تو یہ رات کا شکر ہے نا مگر رسول اللہ صلی یم فرمار ہے ہیں کہ ایسا شخص جو اس حال میں صبح کرتا ہے وہ آنے والے دن کا ، وہ دن جو چڑھ گیا ہے اس کا گویا پیشگی شکر ادا کر رہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ جب پیشگی شکر ادا کرے گا تو سارا دن اس شکر کا حق ادا کرے گا.الفاظ اب یہ ہیں:
خطبات طاہر جلد 17 833 اللهُمَّ مَا أَصْبَحَ بِي مِنْ نِعْمَةٍ فَمِنْكَ “ خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء وہ اپنے سرمائے پر غور کرتا ہے سارا دن جو اس نے سفر کرنا ہے کوئی زادراہ بھی تو چاہئے.وہ کہتا ہے اللَّهُمَّ مَا أَصْبَحَ بي مِنْ نِعْمَةٍ : جو عمت بھی مجھے عطا ہوئی ہے جس نعمت کے ساتھ میں صبح کر رہا ہوں فمنك وہ تیری طرف سے ہے.وَحْدَكَ : اور کسی کی طرف سے نہیں.لا شريك لك: تیرا کوئی شریک نہیں.فَلَكَ الحَمْدُ، وَلكَ الشكر : پس کامل حمد اور سچی حمد سب تعریف تیرے ہی لئے ہے.وَلَكَ الشكر : اور شکر بھی تیرے ہی لئے ہے.جب وہ یہ کہتا ہے.فرمایا: فَقَدْ أَذَى شُكْرَ یو مہ جب وہ کہتا ہے تو وہ دن جو چڑھا ہے جو اس کے سامنے پڑا ہوا ہے اس سارے دن کے شکر کا حق ادا کر دیا.“ وہ یہ سوچتے ہوئے جب آگے بڑھتا ہے تو اس دن جو کچھ بھی اس کو نصیب ہوگا وہ شکر اور حمد ہی میں تو گزرے گا.کوئی ایسا ابتلا اس کو پیش آہی نہیں سکتا جس پر شکر اور حمد سے اس کا ہاتھ الگ ہو جائے.شکر وحمد کا دامن اس کے ہاتھ سے چھوٹ جائے یہ نہیں ہو سکتا.تو دراصل پہلی ہی حدیث جو پہلے پڑھ کے سنائی گئی تھی اس کے مفہوم کو ایک اور بیان سے واضح فرمایا جا رہا ہے اور یہ باتیں ہیں جو ایسی عارف باللہ کی باتیں ہیں جس کو کوئی جھوٹا را وی گھڑ سکتا ہی نہیں ورنہ جو پہلی بات میں نے کہی تھی اسی لئے کہی تھی کہ آپ کو سمجھ آجائے کہ عام انسان جو بنانے والا ہے وہ صبح کے وقت یہی کہے گا کہ میں نے رات کا شکر ادا کر دیا ہے رسول اللہ صلی یا کہ تم نے یہ نہیں فرمایا.آپ سلیم نے فرما یا آنے والے دن کا شکر ادا کر رہا ہے.وَمَنْ قَالَ مِثْلَ ذَلِكَ حِينَ يُمْسِي فَقَدْ أَذَى شُكْرَ لَيْلَتِهِ “ (سنن أبی داؤد، کتاب الادب، باب ما يقول أذا اصبح ، حدیث نمبر : 5073) اور جو شخص بھی اسی قسم کی بات کہے اس وقت جب وہ شام کر رہا ہو ، جب دن گزر جائے اور رات سامنے پڑی ہو اس وقت وہ یہی باتیں اپنی آنے والی رات کے متعلق کہے.وہ کہے اے اللہ ! میں رات کر رہا ہوں تیری نعمت کے ساتھ صرف تیری نعمت کے ساتھ اور کسی نعمت کے ساتھ میں رات نہیں کر رہا.لا شريك لك : تیرا کوئی شریک نہیں.فَلَكَ الْحَمدُ : تمام حمد تیرے لئے ہے وَلَكَ الشكر:
خطبات طاہر جلد 17 834 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء اور تیرے ہی لئے شکر ہے فَقَدْ أَذَى شُكْرَ لَيْلَتِهِ - اب لیلۃ کا شکر ادا کرنا، اس رات کا شکر ادا کرنا تہجد کو چاہتا ہے، نمازوں کو چاہتا ہے، خدا کے حضور کھڑے ہونے کو چاہتا ہے ورنہ اس کی یہ بات ہی جھوٹی نکلے گی.کہ تو رہا ہے کہ اے خدا ! میں رات کرنے لگاہوں اور جانتے ہوئے کہ اس ساری رات میں مجھے تیرا شکر اور حمد کرنی ہے کیونکہ جو کچھ بھی رات کو تو مجھے عطا کرتا ہے وہ باعث شکر ہے اور باعث حد ہے اور آنحضرت صلی ایام کے تعلق میں رات کو جو رسول اللہ صلی نیا کی تم سے وعدے دئے گئے اور جو ادا کیا گیا وہ مقام محمود ہے.ایسا مقام جو ہمیشہ تعریف کیا جائے گا اور تعریف کے قابل رہے گا جس مقام پہ بھی رسول اللہ صلی ا ہی ہم ترقی کر جائیں وہ محمود ہی رہے گا.کوئی ایسا مقام نہیں آئے گا جس میں بندوں کی تعریف کی ضرورت ہو.جب اللہ ہر مقام کی تعریف کر رہا ہے تو انسان بندوں سے بالاتر ہوتا چلا جاتا ہے اور جتنا بھی اونچا جائے گا وہ مقام محمود ہی ہو گا.یہ وہ مقام محمود تھا جس کا آنحضرت سلایا کہ ہستم شکر ادا کیا کرتے تھے.اتنا اس احساس سے آپ ملی تا کہ ہم کا دل جھک جایا کرتا تھا کہ بعض دفعہ ساری ساری رات شکر ادا کرتے گزر جاتی اور حمد کے گیت گاتے ہوئے.اب ایسا مومن جو رسول اللہ صلی سیستم کے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرتا ہے اور اس طرح جس حد تک اس کو توفیق ہے رات کو اٹھ کر شکر الہی کرے اور اس کا ذکر کرے.اس کو ساری دُنیا کا کوئی غم چاٹ کیسے سکتا ہے.ناممکن ہے.تو یہ وہ مومن ہیں جن کے متعلق آنحضرت سی لیا کہ تم نے فرمایا کہ مومن کی تو موجیں ہی موجیں ہیں ، خیر ہی خیر ہے، جو بھی وہ کرے گا اس کی بھلائی اسی میں ہوگی.پس جماعت احمد یہ عالمگیر کو اس بات کو پیش نظر رکھنا چاہئے ہمارے لئے طرح طرح کی آزمائشیں بھی ہیں اور بعض دفعہ وہ آزمائشیں لوگوں کے دلوں پر بڑی بھاری گزرتی ہیں اور بلا اٹھتے ہیں خواہ مخواہ.اب مثلاً ربوہ کا نام بدلنے کا واقعہ آپ کے سامنے آیا ہے.میرے دل میں ذرا بھی اضطراب نہیں ہوا.وہ گھبرا گھبرا کے جو مجھے وہاں سے لوگ لکھتے ہیں ہمارے بزرگ، ذمہ دارا فرا داور بڑے بڑے وکلاء وغیرہ کہ اب کیا کریں، اب کیا ہو جائے گا.میں حیران ہوتا ہوں کہ ان کو ہوا کیا ہے.جب انہوں نے آپ کا اپنا نام بدلا دیا تھا تو کیا ہو گیا تھا؟ اس سے زیادہ کسی اور نام کی تبدیلی میں کیا اہمیت ہے.آپ کو تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے کہ ان کے دلوں میں آگ لگی ہوئی ہے.یہ کوشش کہ نام بدلا کے دل کی آگ ٹھنڈا کریں، یہ کوشش ظاہر کر رہی ہے کہ بھڑ کن کم نہیں ہو رہی جو مرضی
خطبات طاہر جلد 17 835 خطبہ جمعہ 27 نومبر 1998ء کرلیں آگ بھڑکتی چلی جا رہی ہے اور یہ جھوٹا دھوکا دے رہے ہیں دنیا کو کہ الحمد للہ بہت بڑا واقعہ ہو گیا.آج ہم نے فتح حاصل کی ہے احمدیت پر کہ ربوہ کے شہر کا نام بدل دیا ہے.یہ بھی کوئی فتح ہے.جب ان کا نام بدل دیا تھا تمہیں کیا نصیب ہوا تھا.یہی کہ پچھلے سال تم نے سنا تھا کہ ایک سال میں پچاس لاکھ سے زائد احمدی ہو گئے.نام بدلنے کا یہ نتیجہ نکلا تھا یا کچھ اور تھا.اب بھی نام بدل کر دیکھ لو پچاس کو اللہ چاہے تو کروڑ کر دے گا پھر تم کیا کرو گے، پھر کہاں جاؤ گے.تو جماعت احمد یہ تو مٹنے والی جماعت ہی نہیں ، تمہارے بس کی بات نہیں ہے پاؤں تلے تم ہی روندے جاؤ گے اور تمہاری اُمیدیں ہی روندی جائیں گی.ہر گھڑی اللہ تعالیٰ جماعت کو کامیاب سے کامیاب تر کرتا چلا جائے گا اور ایک مقام محمود سے دوسرے مقام محمود کی طرف بڑھاتا چلا جائے گا مگر یا درکھیں کہ اس کی عبودیت کا، اس کے شکر کا حق ادا کریں.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 837 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء عبادت کی جان تقویٰ میں ہے، تقویٰ کے بغیر عبادت نہیں ہو سکتی قناعت کے مضمون کو سمجھتے ہوئے شکر ادا کرنے کی کوشش کریں (خطبه جمعه فرموده 4 دسمبر 1998ء بمقام بيت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ مَا رَزَقْنَكُمْ وَاشْكُرُوا لِلَّهِ إِن كُنتُم وووور ايَّاهُ تَعْبُدُونَ پھر فرمایا: (البقرة:173) گزشتہ جمعہ پہ میں نے اس آیت کے علاوہ ایک دوسری آیت سورۃ النحل کی آیات 114، 115 بھی تلاوت کی تھیں مگر چونکہ ایک دفعہ اس مضمون کی آیات کی تلاوت ہو چکی ہے اس لئے پہلی آیت پر ہی میں اکتفا کر رہا ہوں.ابھی یہ مضمون جاری تھا کہ وقت ختم ہو گیا اس لئے بقیہ احادیث انشاء اللہ آج آپ کے سامنے بیان کروں گا لیکن اس سے پہلے میں یہ اعلان کرنا چاہتا ہوں کہ آج اللہ تعالیٰ کے فضل و رحم کے ساتھ قادیان دار الامان کا ایک سو ساتواں جلسہ سالانہ شروع ہورہا ہے، آج نہیں بلکہ کل سے شروع ہوگا اور انشاء اللہ اس موقع پر میں افتتاحی خطاب بھی کروں گا اور اختتامی بھی لیکن کچھ ایسی نصیحتیں ہیں جو روز مرہ کے انتظامات سے تعلق رکھتی ہیں اور جن کو آج ہی بیان کر دینا ضروری ہے.باقی جو جلسے کے تعلق میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے نصائح فرمائی ہیں ان کا خلاصہ میں انشاء اللہ اپنے افتتاحی خطاب میں پیش کروں گا لیکن انتظامی معاملات میں جو
خطبات طاہر جلد 17 838 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء نصیحتیں ہیں ان میں سب سے پہلے تو باہمی اخوت اور محبت کا ماحول ہے.بہت ضروری ہے کہ ایک دوسرے سے اگر کچھ شکوے تھے بھی تو ان کو بالکل بھلا ڈالیں اور قادیان کے جلسے میں ایک ایسی گہری اخوت اور جمعیت کا احساس پیدا ہو کہ ہر آنے والا زائر محسوس کرے کہ ہم اس جماعت کے رکن ہیں جس جماعت کی تعمیر آنحضرت صلی للہ یہ تم نے فرمائی تھی.سب مومن اخوۃ ہو جائیں.کوئی بھی اختلافی بات نہ مجالس میں نہ ایک دوسرے کے طرز عمل میں دکھائی دے اور چونکہ اس دفعہ غیر معمولی طور پر نومبائعین اس جلسہ میں شامل ہو رہے ہیں، اتنے نو مبائعین کہ اس سے پہلے کبھی کسی قادیان کے جلسہ میں اتنے نو مبائعین شامل نہیں ہوئے ، تو چونکہ انہوں نے بھی احمدیت کا سفیر بن کر قادیان سے واپس اپنے ممالک کو ، اپنی جگہوں پر واپس جانا ہے اور وہاں جا کر جو قادیان میں دیکھا وہ آنکھوں دیکھی کہانی بیان کرنی ہے اور اپنے دل کے تاثرات تو بہر حال وہ ساتھ لے کے جائیں گے ہی اس لئے جو کہانی بیان کریں گے اس میں ایک دلی جذبات کی ملونی سے غیر معمولی طاقت پیدا ہو جائے گی.یہ طاقت کا پیدا ہونا آپ کی روحانی طاقت پر منحصر ہے جو اس وقت قادیان کے باشندے ہیں اگر آپ نے دل کی گہرائی سے ان مہمانوں کی خدمت کی اور جمعیت کا احساس اور اخوت کا احساس بیدار کیا تو لازماً جو باتیں بھی وہ جا کے بیان کریں گے ان میں ایک طاقت پیدا ہو جائے گی ورنہ پھر ایک سرسری باتیں ہوں گی.اس لئے بہت اہمیت رکھتی ہے یہ بات کہ آپ غیر معمولی مومنانہ اخوت اور محبت کے رشتہ میں منسلک ہوں اور ہر دیکھنے والا اس کو دیکھے اور محسوس کرے.اس ضمن میں مناسب ضرورتوں کا خیال رکھنا بھی آپ کا فرض ہے.آنے والوں کی سب ضرورتیں پوری ہوئی اس لحاظ سے تو ممکن نہیں کہ ہر ایک کی ضرورتیں الگ الگ ہوا کرتی ہیں.حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو یہ دستور تھا کہ کوشش کر کے ہر ایک کی انفرادی ضرورت کو بھی معلوم کیا کرتے تھے یہاں تک کہ اگر کسی کو حقہ کی بھی عادت ہو ، عادت کو چھڑانا تو بعد کی بات تھی وہ تو ایک لمبی نصیحت سے تعلق رکھنے والا مضمون تھا لیکن اس ضرورت کو اس وقت ضرور پوری فرما دیا کرتے تھے.کسی کو پان کھانے کی عادت ہے تو اس کے لئے بعض دفعہ دوسرے شہروں میں آدمی بھگانا پڑا کہ وہاں سے پان لے کر آئیں.تو اب چونکہ مہمانوں کی کثرت ہے، دس ہزار سے زیادہ نو مبائعین انشاء اللہ اس جلسہ میں شامل ہوں گے تو اس پہلو سے یہ تو میں آپ سے توقع نہیں رکھتا
خطبات طاہر جلد 17 839 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء کہ ہر ایک کی ذاتی ضرورت پر نظر رکھیں لیکن ان کی اجتماعی ضرورت کا تو بہر حال خیال رکھنا ضروری ہے اور ذاتی ضرورت کا اس پہلو سے خیال رکھنا ضروری ہے کہ کوئی ان میں سے ایسا بھی ہوسکتا ہے جو غریب ٹھٹھرتا ہوا ایسی جگہ سے آیا ہو جس کو گرم کپڑوں کی ضرورت ہوا اور گرم کپڑے میسر نہیں آسکے.بعض ٹھنڈے علاقوں سے آنے والے تو اپنے کپڑے لے بھی آتے ہیں مگر گرم علاقوں والوں کی ضرورت باوجود اس کے کہ ہم نے پوری کوشش کی تھی کہ ان کو تمام ضرورتیں وہیں چلنے سے پہلے مہیا کر دی جائیں لیکن لوگ رہ بھی جاتے ہیں نظر سے ، تو اگر ایسا چلتا پھرتا کوئی غریب نظر آئے جس کے پاؤں میں جوتی پوری نہیں ، جرابیں نہیں ، سردی کے ماحول کے لئے پوری طرح دفاع موجود نہیں ہے تو یہ وہ ضرورت ہے جو ذاتی ضرورت ہے اس کی ، انفرادی ضرورت ہے اور اس پر نگاہ رکھنی لازم ہے.تمام شر کا ء جلسہ اس پر نظر رکھیں خواہ وہ باہر سے آئے ہوں، خواہ وہ قادیان کے باشندے ہوں.دوسرے کمی بیشی پر درگزر کرنا.آنے والوں سے بھی بعض دفعہ کوئی زیادتی ہو جایا کرتی ہے، بعض دفعہ جو ساتھ منتظمین آئے ہوئے ہوتے ہیں وہ جب اپنے قافلے کی شکایت دیکھتے ہیں تو ان کو اتنی تکلیف پہنچتی ہے کہ وہ قادیان کے منتظمین پر برس پڑتے ہیں اور یہ طبیعتیں الگ الگ ہیں.یہ بارہا ہمارا تجربہ ہے جلسہ کے دنوں میں کہ بعض گرم مزاج کے لوگ اپنی خاطر نہ سہی اپنے مہمانوں کی خاطر آ کے ہم سے خوب لڑا کرتے تھے اور بلند آواز میں بہت زور وشور سے لڑا کرتے تھے اور ان میں بعض کشمیر سے آنے والے خاص طور پر نمایاں حیثیت رکھتے تھے.تو اس دفعہ بھی وہاں جلسہ پر ایک ہزار سے زائد کشمیر سے مہمان آرہے ہیں یہ بھی ایک نیا ریکارڈ ہے.یعنی گزشتہ سالوں میں تو کبھی ایسا تجربہ نہیں ہوا.تو بہر حال کوشش کریں کہ ان منتظمین کی زیادتی کو بھی برداشت کریں جو مہمانوں کے ساتھ آئے ہیں اور ان کو بھی چاہئے حوصلہ دکھا ئیں، تکلیفیں ہو جایا کرتی ہیں اتنے بڑے مجمعوں میں ضرورتیں نظر انداز ہو جاتی ہیں تو دونوں طرف کمی بیشی پر درگز رضروری ہے.صفائی کا خیال بہت ضروری ہے.یہ نصیحت ایسی ہے جس پر ابھی سے عمل درآمد ضروری ہے اس کے انتظامات کرنے لازم ہیں.یہ نمونہ پسماندہ ممالک میں قائم نہیں کیا جاتا اور صفائی کا کوئی خیال رکھے بغیر ہر چیز کو ہر طرف پھینک دیا جاتا ہے.یہاں جلسہ سالانہ پر جو ہم نے نمونہ پیش کیا تھا میں چاہتا ہوں کہ اسی نمونے کا جلسہ قادیان میں بھی ہو اور کوئی گند، کوئی چیز ایسی جو پھینکی جارہی ہو سڑکوں پر
خطبات طاہر جلد 17 840 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء نہ پھینکی جائے ،سڑکیں بالکل صاف ستھری دکھائی دیں اور اگر ممکن ہو سکے وہاں، یہاں توممکن ہے بہت ستے ایسے تھیلے مل جاتے ہیں جن میں اپنی مستعملہ چیزیں پھینکی جاسکتی ہیں ، محفوظ کی جاسکتی ہیں.چونکہ اکثر آنے والے غربا ہیں اس لئے ان کو یہ تھیلے بھی بہت اچھے لگیں گے.آپ تو یہاں یہ تھیلے بھی اٹھا کے Dust Bins میں پھینک دیا کرتے ہیں.انہوں نے اس گند کو خالی کرنا ہے یا جو بھی فضول چیزیں اس میں پڑی ہوئی ہیں اور پھر صاف صوف کر کے اپنے ساتھ بھی لے کے جانا ہے انہوں نے ، تو اس پہلو سے اگر دس ہزار تھیلے یا اس کے لگ بھگ خرید لئے جائیں تو کوئی مضائقہ نہیں.میرے خیال میں تو ایک اچھا خیال ہو گا اگر وہاں ملتے ہوں تو ، یہ تو آپ کی استطاعت کی بات ہے.نماز با جماعت کا اہتمام.میں ہر جلسہ پر تاکید کیا کرتا ہوں نمازیں ہی تو ان کو سکھانی ہیں جو نئے آنے والے ہیں.اگر نماز سے غفلت ہوئی تو پھر ان کے ہاتھ تو کچھ بھی نہ آیا.اس لئے نماز ہی نہیں نماز با جماعت کے قیام کی تربیت دیں اور نماز با جماعت کے وقت تمام مساجد اور ساتھ کی گلیاں بھری ہوں کیونکہ مساجد میں تو اتنی گنجائش نہیں ہے کہ ان میں سب نمازی آسکیں.تو یوں لگتا ہے کہ اگر سب نے نمازیں باجماعت پڑھیں تو قادیان کی ساری گلیاں جائے نماز بن جائیں گی کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں لوگ مسجد اقصیٰ میں تو کسی صورت میں بھی نہیں آسکتے ، اگر آگئے تو غالباً دو ہزار سے زیادہ نہیں آئیں گے.تو آٹھ ہزار صرف نو مبائعین ہیں اس کے علاوہ جو مبائعین باہر سے آرہے ہیں اس سے اندازہ کر لیں کہ سارا قادیان ایک بڑی مسجد بن جائے گا اور یہی ہونا چاہئے.اپنے اپنے کپڑے بچھائیں گلیوں میں اور صفائی کا اس سے بھی بہت تعلق ہے.خدا تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بہت تاکید سے نصیحت کی تھی کہ میرے گھر کی صفائی کا خیال رکھنا.پس جبکہ سارا قادیان ہی اللہ کا گھر بننے والا ہے تو اس لئے صفائی کے بعد میں نے اس حصہ کو رکھا ہے.صفائی بہت ضروری ہے جہاں کپڑا بچھا کر کوئی اٹھائے ، کپڑا گندہ نہ ہو اور اس کے لئے گلیوں کے خاکروبوں کے ذریعے ، چھڑکاؤ کے ذریعے ، اور کئی طریقوں سے صفائی کروانے کا خاص انتظام بھی کروایا جائے.پھر جلسہ کے پروگراموں سے پوری طرح استفادہ کرنا یہ بھی بہت ضروری ہے.وہاں یہ دوست جو تشریف لائیں گے، بڑی دور دور کا سفر کر کے آئے ہیں، بعض تین تین دن مسلسل گاڑی میں رہنے والے ہیں جواب پہنچ چکے ہیں یا پہنچ رہے ہوں گے.تو ان سب کو جلسے پر پہنچانے کی عادت ڈالنی
خطبات طاہر جلد 17 841 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء چاہئے.پہلی تقریر سے لے کر آخری تقریر تک ضرور بیٹھے رہیں اور آخری بات جو اول بھی ہے اور آخر بھی ہے دعاؤں اور ذکر الہی پر زور ہے.عادت ڈالیں چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھتے دعائیں کریں اور ذکر الہی کریں.قادیان کی فضا ذکر الہی سے گونج اٹھے.نعرہ ہائے تکبیر تو بلند آواز سے بیان کئے جاتے ہیں مگر جوذ کر آسمان کے کنگرے چھوتا ہے وہ دل سے اٹھا ہوا ذکر ہے خواہ خاموشی سے کیا جائے.تو ذکر الہی قادیان کے باشندے خود بھی کرتے رہیں اور آنے والوں کو بھی اس کی نصیحت کریں.اور اس کے ساتھ جہاں دعا ئیں ہیں وہاں بعض دفعہ دواؤں کی بھی ضرورت پڑتی ہے کیونکہ جو گرم علاقوں سے آنے والے ہیں اور اکثریت ان کی ہے ان کو یہاں نزلہ زکام اور کئی قسم کی ایسی بیماریاں لاحق ہو سکتی ہیں، آج کل انفلوئنزا بھی پھیلا ہوا ہے، کہ ان کی روک تھام کے لئے میرا تجربہ ہے کہ جو ہومیو پیتھک دوا انفلوئنزیم یا نزلے کی دوا بنائی ہوئی ہے وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بہت ہی مفید ہے اور نزلے کی یا نزلاتی بیماریوں کی پیش بندی کے لئے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اسے میں نے بہت مؤثر پایا ہے.تو غالباً پہلے میں نے یہ ہدایت ان کو بھجوا دی تھی لیکن اب پھر تاکید کر رہا ہوں کہ بکثرت یہ دوائیں بن کر سب جگہ مہیا ہو جانی چاہئیں تا کہ خدا کے فضل کے ساتھ کوئی بیمار ہی نہ پڑے، ایک دفعہ بیمار پڑ جائے تو پھر بڑی مشکل پڑ جاتی ہے، بیماری لاحق ہی نہ ہو تو پھر بہت آرام ہے.یہ اس لئے بھی بہت ضروری ہے کہ ہندوستان میں سل کی بیماری بہت کثرت سے پائی جارہی ہے غربت کی وجہ سے، مچھروں کی وجہ سے اور بہت سی ایسی وجوہات ہیں جن کے نتیجے میں جب رات کو بخار ٹوٹتے ہیں تو ٹھنڈ لگ جاتی ہے اور اکثر پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں اور پھیپھڑوں کی بیماری والے کے لئے نزلہ زکام ایک زہر قاتل بن جایا کرتا ہے.پھر اسی کے نتیجے میں دمہ والوں کو بھی تکلیفیں ہوتی ہیں.پس میرے نزدیک یہ بھی بہت اہم بات ہے کہ دعاؤں کے ساتھ دواؤں اور خاص طور پر ان دواؤں پر زور دیں جو پیش بندی کے لئے استعمال کی جاتی ہیں.اللہ آپ سب کا حامی و ناصر ہو.باقی انشاء اللہ کل افتتاح ہوگا ہندوستان کے وقت کے لحاظ سے ساڑھے تین اور ہمارے وقت کے لحاظ سے یہاں دس بجے انشاء اللہ افتتاح ہوگا اور چونکہ یہاں بھی جگہ تھوڑی ہے اور سب لوگ شامل نہیں ہو سکیں گے لیکن ٹیلی ویژن پر چونکہ یہ منظر دکھایا جائے گا اس لئے آپ سب اپنے گھر بیٹھے بھی اس جلسہ میں شریک ہو سکتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 842 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء شکر کے تعلق میں جو احادیث میں نے آج کے لئے چنی ہیں ان میں پہلی حدیث سنن النسائی کتاب الشھو سے لی گئی ہے.عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ كَانَ يَقُولُ فِي صَلَاتِهِ.( اس کا ترجمہ یہ ہے کہ ) حضرت شداد بن اوس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی سیستم اپنی نماز میں یہ دعا کیا کرتے تھے ، اے اللہ میں ہر معاملہ میں تجھ سے ثابت قدمی کی توفیق مانگتا ہوں.“ میرے خیال میں ہر معاملہ ترجمہ کرنے والے نے یہ ترجمہ کیا ہے.اصل عبارت میں دیکھتے ہیں کیا ہے.إِنِّي أَسْأَلُكَ القَبَاتَ فِي الْأَمر - امرکا ایک ترجمہ ” ہر معاملہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے ترجمہ غلط نہ ہونے کے باوجود اس محل پر یہ ترجمہ درست نہیں ہے.یہاں الأَمرِ سے مراد امرالہی ہے اور الأمر سے مراد شریعت کا ملہ ہے.پس آنحضرت مصلی اسلام کی دعا کبھی گہری حکمت سے خالی نہیں ہوا کرتی تھی اس لئے آپ مال لا یہ تم یہ دعامانگتے تھے کہ اے اللہ ! میں تیرے امر میں ثبات دکھاؤں، جوا مر بھی تو مجھے دے اور جو امر شریعت میں دیا گیا ہے اس پر مجھے ثبات قدم عطا فرما.پھر ہے: وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ 66 اور ہدایت کی بات پر عزیمت عطا کر ، عزم عطا فرما.جو امور شریعت ہیں ان کے علاوہ بھی رُشد کی باتیں ہوا کرتی ہیں اور ہر قسم کی ہدایت کی بات خواہ شریعت میں واضح طور پر مذکور ہو یا نہ ہو اس میں مجھے صرف کرنے کی توفیق نہیں بلکہ عزم صمیم عطا کر کہ میں نیکی کی بات کو ایسے پکڑ لوں کہ پھر اسے کبھی نہ چھوڑوں اور میں تجھ سے تیری نعمتوں کے شکر اور احسن رنگ میں تیری عبادت بجالانے کی توفیق مانگتا ہوں.66 وَأَسْأَلُكَ شُكُرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ “ تیری نعمت کا شکر ادا کرنے کی توفیق مانگتا ہوں.جس کے ساتھ ہی حُسن عِبَادَتِكَ فرما دیا یعنی نعمت کا اصل شکر تو عبادت کے ذریعہ ہوا کرتا ہے.ساری زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو بھی احسانات انسان پر فرمائے ہیں اس کا خلاصہ یوں نکالا اِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ (الفاتحة : 5) کہ ان احسانات کے بدلے میں آخری شکر کا درجہ یہ ہے کہ ہم تیری عبادت کریں اور شکر کا پہلا درجہ بھی یہی ہے
خطبات طاہر جلد 17 843 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء اور آخری درجہ بھی یہی ہے تیری عبادت کریں گے تو شکر گزار ہوں گے، عبادت نہیں کریں گے تو شکر گزار نہیں ہوں گے.پس رسول اللہ صلی یتیم کی دعاؤں میں جس طرح مالا میں موتی پروئے جائیں اس طرح یہ دعائیں ایک دوسرے سے منسلک ہوتی ہیں.فرمایا تجھ سے تیری نعمتوں کے شکر اور احسن رنگ میں تیری عبادت بجالانے کی توفیق مانگتا ہوں.پھر فرمایا یعنی خدا کے حضور یہ عرض کیا: ” اور میں تجھ سے قلب سلیم اور سچی زبان مانگتا ہوں.“ (سنن النسائی، کتاب السهو، باب الدعاء بعد الذكر ،حدیث نمبر : 1305) حضور اکرم ایلیا ای ایم کا کلام بہت ہی گہرا اور عارفانہ کلام ہے.قلب سلیم اور سچی زبان.قلب سلیم تو وہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری میں کامل ہو چکا ہو، ایسا جھک چکا ہو کہ اللہ کی فرمانبرداری کے سوا کوئی خیال تک نہ آئے اور اگر اس پر سچی زبان نصیب ہو تو یہ مضمون مکمل ہو جاتا ہے کیونکہ بعض لوگ ایسے بھی دیکھے گئے ہیں جنہیں قلب سلیم بعض دفعہ کچھ مدت کے بعد نصیب ہوا کرتا ہے بعض لوگ اپنی عمر، بعض دفعہ ایک لمبا حصہ ضائع کر چکے ہوتے ہیں تو پھر ان کو قلب سلیم عطا ہوتا ہے.اس عرصہ میں زبان بعض دفعہ مبالغہ بعض دفعہ غلط بیانی کی ایسی عادی ہو چکی ہوتی ہے کہ ارادہ نہ بھی ہو تو زبان ٹھوکر کھاتی رہتی ہے.یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کی حفاظت کرنے والی ہیں.قلب سلیم ایسا ہو کہ زبان بھی اس سے مطابقت کرے، ایک لفظ بھی ایسا نہ ہو جو قلب سلیم کے تقاضے پورے کرنے والا نہ ہو یعنی غلطی سے بھی زبان سے کوئی غلط بات نہ نکلے.یہ دعا ہے جو ایک نہایت ہی کامل دعا ہے اور میں جانتا ہوں کہ آپ سب کے لئے عربی میں اسے یاد کرنا مشکل ہے مگر اس کے مضمون کو میں دوہراتا ہوں اس کو ذہن نشین کرلیں اور جس حد تک توفیق ملے اب رمضان بھی آنے والا ہے اس میں اپنے لئے اور ساری جماعت کے لئے یہ دعا مانگا کریں.”اے اللہ ! میں امور دینیہ میں جو تو نے حکم فرمائے ہیں ان میں ثبات قدم کی توفیق مانگتا ہوں ، ایسا قائم ہو جاؤں کہ کبھی میرے قدم متزلزل نہ ہوں.وہ امور دینیہ جو تو نے بیان فرمائے ہیں شریعت کے، کر اور نہ کر وغیرہ وغیرہ سب اس میں شامل ہیں ان میں میں ثبات قدم کی توفیق مانگتا ہوں اور ہدایت کی ہر بات پر قائم رہنے کا عزم صمیم مانگتا ہوں.مجھے عزم عطا فرما کہ جو بھی ہدایت کی بات مجھے ملے میں اس پہ ضرور قائم ہو جاؤں اور پھر قائم رہوں.پھر تیری نعمتوں کے شکر اور نہایت خوبصورت اور حسین رنگ میں تیری عبادت کی توفیق یہ بھی عطا فرما اور قلب سلیم دے اور سچی زبان دے.“
خطبات طاہر جلد 17 844 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء یہ دعا اگر جماعت احمدیہ کی قبول ہوگئی تو سارا عائم فتح ہو جائے گا.زندگی کے ہر پہلو پر حاوی دعا ہے اور جماعت احمدیہ کے جو آئندہ دنیا میں روحانی انقلاب برپا کرنے کے پروگرام ہیں ان میں اس دعا سے مسلح ہو کر چلیں تو آپ کو اور کسی چیز کی ضرورت باقی نہیں رہتی.تمام امور کا خلاصہ ہے میں نے بار بار پڑھا ہے اس کو ، بہت غور کیا ہے حیران ہو جاتا ہوں کہ رسول اللہ صلی ایتم نے ایک ادنی سی بات بھی اس میں نظر انداز نہیں کی.آپ کی ضرورت کی ساری چیز میں بیان فرما دیں.ایک دوسری حدیث سنن النسائی کتاب الشھو سے لی گئی ہے: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ : أَخَذَ بِيَدِى رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: إِنِّي لَأُحِبُّكَ يَا مُعَاذُ فَقُلْتُ: وَأَنَا أُحِبُّكَ يَا رَسُولَ اللهِ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ : فَلَا تَدَعْ أَنْ تَقُولَ فِي كُلِّ صَلَاةٍ : رَبِّ أَعِلَى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ “ (سنن النسائی، کتاب السهو، باب الدعاء بعد الذكر ،حدیث نمبر : 1304) یہ عربی میں میں نے پڑھی ہے کیونکہ یہ دعا ایسی ہے جو آسانی سے یاد ہوسکتی ہے اور بہت سے نمازیوں کو میں نے دیکھا ہے مسجد مبارک میں یا مسجد اقصیٰ میں ربوہ کے زمانے میں کہ وہ بعض دفعہ اونچی آواز میں یہ دعا ئیں کیا کرتے تھے رَبِّ أَعِلِی عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكُرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ چنانچه اس کا ترجمہ میں اب آپ کے سامنے رکھتا ہوں.معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ا یہ تم نے ایک دفعہ میرا ہاتھ پکڑا اور فرمایا میں تم سے محبت کرتا ہوں.بڑے نصیب تھے معاذ بن جبل کے.رسول اللہ صلی له ای تم نے خود ہاتھ پکڑا اور فرمایا میں تم سے محبت کرتا ہوں.معاذ کہتے ہیں میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی الی تم میں بھی آپ سے محبت کرتا ہوں یعنی عموماً تو جو کم درجہ کا آدمی ہے وہ یہ کہا کرتا ہے کسی بڑے کو کہ میں تجھ سے محبت کرتا ہوں.پھر جوا باوہ کہتا ہے کہ میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں لیکن بعض دفعہ بچوں کو پیار سے بڑے پہلے کہا کرتے ہیں، بچے پھر جواب دیا کرتے ہیں.ہمارے جو امیر ہیں ہالینڈ کے انہوں نے مجھے ایک دفعہ سنایا، یہ لطیفہ بھی ہے اور بڑی دلچسپ بات ہے.انہوں نے کہا کہ ایک دفعہ میرے بچے نے مجھ سے کہا I love you تو عام طور پر بچہ بڑے سے بات کرتا ہے لیکن بعض دفعہ باپ بچے سے بھی کہہ دیا کرتا ہے.تو بچے نے کہا I love you تو میں نے کہاI love you too.تو اس کو
خطبات طاہر جلد 17 845 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء زیادہ انگریزی نہیں آتی تھی وہ 100 کا مطلب two سمجھا تو اس نے کہا I love you three.انگریزی میں Two کا مطلب دو اور 100 کا مطلب ہے بھی.تو ابا نے تو یہ کہا تھا کہ میں بھی تم سے محبت کرتا ہوں.وہ سمجھا یہ کہہ رہے ہیں میں تم سے دو محبتیں کرتا ہوں.تو اس نے کہا پھر میں تم سے تین محبتیں کرتا ہوں.تو عام طور پر بچے کہتے ہیں مگر باپ کہہ رہا ہے یہاں جس سے بڑھ کر کسی انسان کا تصور نہیں ہوسکتا وہ معاذ کا ہاتھ پکڑ کے کہتا ہے میں تم سے محبت کرتا ہوں.انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ سایہ تم میں بھی محبت کرتا ہوں.تب آپ نے محبت کا مفہوم اسے سکھایا اور غالباً یہی وجہ تھی جو اس کو محبت کے اظہار میں پہل کر کے اس کے دل میں یہ تمنا بیدار کی کہ پوچھے تو سہی محبت ہوتی کیا ہے.آنحضور صلی ہی تم نے فرمایا اچھا تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو پھر کسی نماز میں یہ دعانہ چھوڑنا.رَبِّ أَعِلَى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ: کہ اے میرے اللہ ! أَعِنِّى عَلَى ذكرك میں تیرے ذکر پر تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور تیرے شکر پر تجھ سے مدد چاہتا ہوں اور تیری عبادت کے حُسن پر تجھ سے مدد چاہتا ہوں.اب اس کا کیا تعلق ہوا محبت سے.اصل بات یہ ہے کہ جس سے محبت کی جائے ویسا انسان کو ہونا چاہئے.یہ تو نہیں ہوسکتا کہ کسی سے محبت ہو اور انسان اس کے عادات واخلاق سے دور بھاگے اور عادات و اطوار سے کوئی اس کا تعلق نہ ہو.جب انسان انسان سے محبت کرتا ہے تو ویسا بننے کی کوشش کیا کرتا ہے تو اس طرح رسول اللہ سلیم نے معاذ بن جبل کو محبت کی گہرائی کا راز سمجھا دیا.اور ہم سب کو بھی ان کے حوالے سے یہ نصیحت ملی کہ اگر تم مجھ سے ، یعنی رسول اللہ صلی یا یہ تم گویا یہ فرما رہے ہیں، اگر تم مجھ سے محبت کرتے ہو تو اپنے لئے یہ دعا ئیں نہ بھولنا کبھی.رَبِّ أَعِنِي عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ.اے میرے رب ! اپنے ذکر پر میری مدد فرما اور اپنے شکر پر میری مدد فرماور نہ میں نہ ذکر کا حق ادا کر سکوں گا نہ شکر کا حق ادا کر سکوں گا.وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ اور یہ اس شکر کا معراج ہے یعنی عبادت اور اپنی عبادت میں حسن پیدا کرنے پر میری مدد فرما.حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ایک روایت ہے.مسند احمد بن حنبل سے لی گئی ہے.حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ لی ایم نے فرمایا عَلَى الْمِنْبَرِ جب کہ آپ صل للہ الہ سلم منبر پر کھڑے تھے :
خطبات طاہر جلد 17 846 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء 66 مَنْ لَمْ يَشْكُرِ الْقَلِيلَ لَمْ يَشْكُرِ الْكَثِيرَ “ کہ جس نے تھوڑے کا شکر نہیں کیا اس نے کثیر کا بھی شکر نہیں کیا.اب یہ ایک کلمہ میں دیکھیں انسانی فطرت کی کیسی گہرائی بیان فرما دی ہے.کسی پر کوئی تھوڑا سا احسان کر دے اگر وہ اس کا بھی شکر نہیں کرتا تو پھر وہ بڑے احسانات کا بھی شکریہ نہیں کر سکتا.احسان تو احسان ہوا کرتا ہے جو احسان مند انسان ہو احسان کو قبول کرنے والا انسان ہو ا سکو تو رستہ بھی دکھا دو گے تو وہ شکر ادا کرے گا اور اگر کچھ دے دو گے اپنی طرف سے جو اس نے مانگا ہو تو اس پر تو وہ بہت ہی شکر ادا کرے گا خواہ تھوڑا ہی ہو اور اگر مانگنے پر دو گے تو اس پر بھی شکر ادا کرے گا اور تھوڑا بھی ہو تب بھی شکر ادا کرے گا.اس مضمون کا تعلق امارت یا غربت سے نہیں ہے.ہر انسان سے یہ مضمون برابر کا تعلق رکھتا ہے.جن لوگوں کی فطرت میں شکر نہ ہو ان کو بعض دفعہ زیادہ دے دیں تو شکر کرتے ہیں بظا ہر لیکن ان کی پہچان یہ ہے کہ شکر ہے کہ نہیں کہ تھوڑا دے کے دیکھو پھر وہ شکر کرتے ہیں کہ نہیں.میں نے بسا اوقات بعض فقیروں کو بھی دیکھا ہے ان کو تھوڑا دو تو وہ پھینک دیا کرتے ہیں.آج اگر پاکستان میں کسی فقیر کو پیسہ دو تو اسے یوں لگے گا جیسے میرے منہ پر جوتی ماری ہے کسی نے.وہ پیسہ اٹھا کے دور پھینک دے گا کہ جاؤ جاؤ یہاں سے آج کل تو روپے کی قیمت بھی کوئی نہیں رہی ، ایک روپیہ بھی دو تب بھی فقیر نخرے کرتے ہیں اور اٹھا کے پھینک دیتے ہیں.تو شکر کی پہچان تھوڑے سے ہے اس لئے حضور اکرم سی پیہم نے دیکھو کتنی گہری بات بیان فرمائی ہے.شکر کا مضمون جب بیان ہو رہا ہے تو آنحضور صلی یہ ہی سے تو ہم نے سیکھنا ہے کہ شکر کیا ہوتا ہے.فرمایا جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر شکر نہیں کرے گا کیونکہ شکر کی پہچان تھوڑے پر ہے.اس ضمن میں مجھے یہ خیال آیا ہے اگر چہ ذرا مضمون سے کچھ ہٹنا پڑے گا مگر چونکہ بعض لوگ ایسی باتیں لکھتے رہتے ہیں اس لئے ان کو سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ تھوڑے پر شکر اور قناعت اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں، یا ملتے جلتے مضمون کے دو نام ہیں.کسی کے دل میں قناعت نہ ہو تو وہ تھوڑے پر شکر کر ہی نہیں سکتا اور اگر دل میں قناعت ہو تو پھر اللہ تعالیٰ تھوڑے پر بھی شکر ڈال دیتا ہے.ایک روٹی بھی ملتی ہے تو شکر کر کے کھاتا ہے سوکھا بھی ملے تو پھر بھی وہ اللہ کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہے اور قناعت ہو تو پھر امیروں کے زیادہ پر دل جلتا بھی نہیں ہے.شکر کا ایک یہ بھی عجیب لطف ہے کہ جو
خطبات طاہر جلد 17 847 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء شکر گزار بندہ ہو وہ اگر دوسروں کے اوپر خدا کے زیادہ فضل دیکھے تو اس سے اس کا دل گھبرا تا نہیں ، وہ جانتا ہے کہ مالک خالق وہی ہے اُس نے جس کو چاہا زیادہ دے دیا جس کو چاہا کم دیا اور وہ اپنے تھوڑے پر بھی اسی طرح راضی ہوتا ہے مگر جماعت کی طرف سے بعض خطوط مجھے ایسے ملتے ہیں جن سے مجھے یہ توجہ پیدا ہوئی اسی حدیث کے دوران ہی کہ میں ان کا جواب بھی اسی خطبہ میں دے دوں.بظاہر بات بہت اچھی لکھی ہوتی ہے کہ جماعت کو نصیحت کریں کہ شادیوں پر فضول خرچیاں نہ کیا کریں.بالکل ٹھیک ہے شادیوں پر فضول خرچی نہیں کرنی چاہئے مگر وہ یہ چاہتے ہیں کہ جس کو خدا نے توفیق دی ہو زیادہ خرچ کی وہ اتنا ہی کرے جیسے خدا نے کسی کو توفیق دی ہی نہ ہو.وہ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ جیسے کوئی غریب آدمی جس کے پاس خرچ کرنے کے لئے کچھ بھی نہ ہوا تناہی امیر خرچ کریں تا کہ غریبوں کے دل میں جلن پیدا نہ ہو.اب یہ جلن کہہ کر انہوں نے اپنی بیماری کے اوپر انگلی رکھ دی.ان کے دل میں قناعت نہیں ہے اور اس بات پر ان کو اتنا غصہ آتا ہے کہ امیر خرچ کر رہے ہیں، میں اتنا خرچ نہیں کر سکتا کہ اس کے نتیجہ میں اس بات پہ ہر وقت دل میں معلوم ہوتا ہے کڑھتے ہی رہتے ہیں اور میرے ذریعہ ساری جماعت کو یہ نصیحت چاہتے ہیں کہ تمہیں خدا نے زیادہ بھی دیا ہو تو چھپا کے رکھنا، غریبوں پر خرچ نہ کرنا اور نہ خوشی کے موقع پر کھلا خرچ کرنا.اس سلسلہ میں میں آپ کو ایک نصیحت کرتا ہوں کہ مسلمان کی خوشی میں غریب شامل ہوتے ہیں اور آنحضرت مصلایا کہ تم نے ایسی دعوتوں پر لعنت ڈالی ہے جن دعوتوں میں غریب شامل نہ ہوں.تو ہمارے امیر اگر شادی کے موقع پر ایسے خرچ نہ کریں جس میں کثرت سے غریبوں کو بلا یا ہو تو نقصان کس کا ہے؟ یہ تو غریبوں کا نقصان ہے.اس لئے کسی کی جلن کا نقصان کسی اور کو پہنچ جائے یہ تو نہیں میں کہوں گا.اگر یہ شرط ہو کہ نسبتاً سادگی ہو جیسا کہ جماعت احمدیہ کا طریق ہے اور اس کے ساتھ کثرت سے غرباء بلائے گئے ہوں تو یہ خرچ تو بہت مبارک خرچ ہے یہ شکر کا حق ادا کرنا ہے کیونکہ جب شکر کا حق ادا کرنا ہے تو اس کو لوگوں کے سامنے بیان بھی تو کرنا ہے.اور یہ مضمون قرآن کریم میں بھی بیان ہے.رسول اللہ صلہ ہی ہم نے بھی آگے جو احادیث آئیں گی ان میں بیان فرمایا ہے تو شکر تھوڑے پر شکر ہو تو جلن پیدا نہیں ہوتی.یہ ہے بنیادی بات جس کو میں اب سمجھانا چاہتا ہوں.قناعت اختیار کریں ، آپ کی بلا سے کسی اور کے پاس کیا ہو اللہ نے آپ کو جو دیا ہے اس پر راضی ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 848 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سیرت کا یہ ایک خاصہ تھا آپ کو کبھی بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی کسی اور کے پاس کتنا ہے.جتنا خدا نے دیاوہ بھی خدا کی راہ میں قربان کر دیا کرتے تھے اور یہ بھی ایک شکر کی علامت ہے کہ جو کچھ دیا اس کو واپس لوٹانے کی کوشش کی.سب تو واپس نہیں لوٹایا جاسکتا مگر اس کی راہ میں خرچ کیا اور اپنے اوپر قناعت کی لیکن یہ لازم نہیں ہے کہ اپنے اوپر اس رنگ میں ہ شخص قناعت کر سکے ، مزاج الگ الگ ہیں اور یہ جو قناعت کا مضمون ہے خدا تعالیٰ کی خاطر اس کا دیا ہوا کم خرچ کرنا اس میں تصنع نہیں ہونا چاہئے.اگر دل کی منشاء اور مرضی کے مطابق اس کے خدا کی راہ میں ملائم ہونے کے نتیجے میں آپ اپنے اوپر کم خرچ کرنے کی عادت ڈالیں تو یہ بہت اچھی بات ہے مگر اگر خدا آپ کو توفیق دے اور اللہ چاہے کہ آپ اس کے مطابق زیادہ بھی خرچ کریں تو یہ بھی اللہ کے منشاء کے مطابق ہے اور اس کے متعلق ایک آنحضرت صلی یہ یمن کی تصدیق موجود ہے جس کا میں اگلی احادیث جو چنی ہیں ان میں ذکر کروں گا.سورسول صلی اینم نے پہلے تو یہ فرمایا کہ: جو تھوڑے پر شکر نہیں کرتا وہ زیادہ پر بھی شکر نہیں کرے گا.(اور ساتھ ہی اس کا یہ نتیجہ نکالا : ) جولوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکر ادا نہیں کرتا.“ اس مضمون کا کیا تعلق ہوا؟ اس لئے کہ لوگوں سے تھوڑا ہی ملا کرتا ہے اور اللہ سے بے انتہا ملتا ہے تو جو لوگوں کے تھوڑے پر راضی نہ ہو وہ خدا کے بے انتہا پر بھی راضی نہیں ہوتا.اس کے پیٹ کا جہنم کوئی دنیا کی دولت نہیں بھر سکتی.تو کتنی چھوٹی سی بات سے کتنی بڑی بات بنادی، کتنی بڑی بات تک رسول اللہ سلیم نے پہنچا دیا.تھوڑے پر شکر کی عادت ڈالو کیونکہ اس کا تعلق اللہ کے شکر کا حق ادا کرنے سے ہے.تم تھوڑے کا شکر ادا کرو گے تو اللہ کی نعمتوں کا بھی حق ادا کرو گے.پھر فرمایا: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرنا بھی تو شکر ہے.التَّحَدُّثُ بِنِعْمَةِ اللهِ شُكُرُ، وَتَرْكُهَا كفر اور جو اللہ کی نعمتیں اس پر اتری ہیں ان کا کثرت سے ذکر خیر کرتا ہے کہ خدا نے مجھے یہ نعمتیں بھی دی ہیں.یہ بھی اس کا شکر ہے.اب اس میں بھی بہت احتیاط لازم ہے.بعض لوگ یہ ذکر کرتے ہیں کہ اللہ نے مجھے یہ بھی دیا اوروہ بھی دیا غریبوں میں بیٹھ کر ذکر کر رہے ہوتے ہیں اور ان کو اس میں سے کچھ بھی نہیں دے رہے ہوتے.سب آپ سنبھالا ہوا ہوتا ہے.تو جو اللہ کی نعمتوں کو روک کر بیٹھ جائے وہ شکر
خطبات طاہر جلد 17 849 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء ادا نہیں کر سکتا.اس کا تحدیث نعمت شکر نہیں ہے بلکہ منہ چڑانے والی بات ہے.اللہ نے تو اس پر احسان کیا اس کو بے انتہا دیا یا جتنا بھی دیاوہ اس کو آگے جاری کرے گا تو یہ شکر ہوگا.تو تحدیث نعمت سے مراد یہ نہیں ہے کہ نعمت کو زبانی بیان کرے.تحدیث نعمت سے اصل مراد یہ ہے کہ نعمت کو زبان سے بھی بیان کرے اور اسے آگے لوگوں میں جاری کر کے ان کو دکھا تو دے کہ مجھے کیا ملا ہے،صرف زبانی قصہ نہ کرے.تو ایسے جو زبانی قصہ کرنے والے ہیں وہ تو تعلی والے لوگ ہیں وہ لوگوں میں بیٹھ کر اپنی دولتوں کی فخریہ باتیں بیان کرتے ہیں اور غربا کو اور بھی زیادہ متنفر کر دیتے ہیں.پس حضور اکرم سنی یا یہ تم جوفر ماتے ہیں کہ نعمتوں کا شکر ادا کرو تو یہ مراد ہے اور ان کا ذکر چھوڑ دینا کفرانِ نعمت ہے.اب ذکر چھوڑ دینا یہ بھی بہت اہم بات ہے.بعض لوگ غریبوں سے بچنے کی خاطر ذکر چھوڑتے ہیں.یہ مراد ہے رسول اللہ صلی ایم کی.مطالبوں سے بچنے کی خاطر ذکر چھوڑتے ہیں جماعت کے چندہ لینے والوں سے بچنے کی خاطر ذکر چھوڑتے ہیں.ان کے پاس جاؤ کہ جی ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں.نظر آ ہی رہا ہے آپ لوگوں کو کہ بہت کچھ ہے، ہے کچھ بھی نہیں بیچ میں سے اور واقعہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ اللہ کی نظر میں ان کے پاس واقعہ کچھ نہیں ہوتا ، وہ ننگے فاقہ کش فقیر ہی رہتے ہیں اسی حال میں دُنیا میں رہتے ہیں اسی حال میں انہوں نے اگلی دُنیا میں پہنچ جانا ہے تو فرمایا اس ذکر کا چھوڑ دینا کفرانِ نعمت ہے.اس پہلو سے ذکر کرو کہ اس ذکر کے ساتھ ساتھ اس نعمت کا لطف بھی دُنیا میں بانٹو اور اس خوف سے ذکر کرنا بند نہ کرو کہ خدا کی راہ میں مطالبہ کرنے والے خواہ وہ فقیر ہوں ، غریب ہوں یا جماعت ہو یعنی خدا کی جماعت ہو، ان سے اپنی نعمتوں کو چھپاؤ نہیں کہ کہیں وہ اس کی نسبت سے تم سے زیادہ مانگنا نہ شروع کر دیں.یہ اگر کسی کو نصیب ہو جائے تو یہ ایک رحمت ہے جس کے نتیجے میں ساری جماعت بجڑ جائے گی کیونکہ جوامیر غریبوں کو دے رہے ہوں ، ذکر خیر کر رہے ہوں اللہ کا ، اس کے نتیجے میں اس ذکر خیر کے ساتھ ساتھ اپنی نعمتوں میں غیروں کو شامل کر رہے ہوں اور اپنی جماعت کو جو خدا کی جماعت ہے اللہ کی خاطر یہ بیان کر کے کہ خدا نے ہمیں یہ بھی دیا ہے ہم یہ بھی پیش کرتے ہیں، وہ بھی دیا ہے ہم وہ بھی پیش کرتے ہیں ایسا کریں تو یہ شکر جو ہے رحمت ہے اور اس کے نتیجے میں رسول اللہ صل للہ سلم نے فرمایا کہ : 66 جماعت رحمت ہے.“
خطبات طاہر جلد 17 850 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء اب یہ جو فرمایا کہ ” جماعت رحمت ہے اس کا مضمون یہی ہے دراصل کہ ایسا شکر کرو گے تو جماعت بنو گے اگر ایسا شکر نہیں کرو گے تو جماعت نہیں بن سکتے ، اکٹھے نہیں رہ سکو گے، بکھر جاؤ گے اور آگے پھر بیان فرمایا: اور تفرقہ عذاب ہے.66 (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، حدیث نعمان بن بشیر ، حدیث نمبر : 18449) پس تم اگر جماعت نہیں بنو گے تو ایک خدا کے قہر اور عذاب کا مورد بن جاؤ گے اور یہ سارا مضمون شکر سے تعلق رکھتا ہے تو شکر سے تعلق میں جو بھی گہرے مضامین رسول اللہ صلی یا تم نے بیان فرمائے ہیں میں نے پسند کیا ہے کہ آپ کے سامنے ان کو میں کھول کھول کر بیان کروں تا کہ ہماری جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ ایک شکر گزاروں کی جماعت بن جائے.ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اخذ کی گئی ہے.انہوں نے آنحضور صلی اہیم سے سنا کہ : ایک شخص رستہ میں جا رہا تھا.( رسول اللہ لالہ ایم نے ایک مسافر کا واقعہ سنایا کہ ) ایک مسافر رستہ پر جارہا تھا کہ اس نے ایک کانٹے دار ٹہنی پڑی دیکھی تو اسے ہٹا دیا.اللہ نے اس کی قدر دانی فرمائی اور اسے بخش دیا.“ (جامع الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ما جاء فى اماطة الأذى عن الطريق ،حدیث نمبر : 1958) اب اس کے پاس اور کچھ بھی نہ ہو خرچ کرنے کے لئے تو تکلیفیں دور کر دے.یہ مراد نہیں ہے کہ آپ کبھی ایک ٹہنی ہٹا دیں تو آپ ساری عمر کی نیکیاں کما گئے.مضمون کی گہرائی میں اتر کے سمجھنا چاہئے.رسول اللہ سلیم کا بیان ہے کسی عام انسان کا بیان نہیں ہے.یہ اس میں مضمر ہے کہ وہ ایک غریب شخص ہوگا.ایسا غریب شخص جو بنی نوع انسان کی خدمت کرنا چاہتا ہے لیکن کر نہیں سکتا.ایسا شخص بعض دفعہ دکھ دور کر کے خدمت کر دیا کرتا ہے رستے سے کانٹا ہٹا دیتا ہے.تو ایک خدمت کر دیتا ہے.تو اس نے اس خیال سے جھاڑی ہٹائی کہ کسی ننگے پاؤں چلنے والے کے پاؤں کو نقصان نہ پہنچ جائے یہ بھی میرا ایک صدقہ ہے.تو فرمایا اس کی قدر دانی اللہ تعالیٰ نے فرمائی.چونکہ اس کے مزاج میں یہ بات داخل تھی وہ بنی نوع انسان کی بھلائی چاہتا تھا کہ اسے بخش دیا.تو آپ میں سے وہ جو مثلاً وقف ہیں بنی نوع انسان کی خدمت پر جیسا کہ اب ہومیو پیتھک کا جماعت میں ایک جوش پھیلا ہوا ہے،
خطبات طاہر جلد 17 851 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء مفت دوائیں تقسیم کرتے ہیں، بیمار گھروں میں جا کر بھی ان کو پوچھتے ہیں تو اس کو معمولی کام نہ سمجھیں، یہ بخشش کا ایک بہانہ ہے اور جواللہ کی رضا کی خاطر اس کے بندوں کی تکلیفیں دور کرنے کے لئے محنت کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو کبھی بھلاتا نہیں کیونکہ اس کی تعلیم یہ ہے کہ تھوڑے پر شکر کروتو اللہ کے مقابل پر تو بندے کی ہر خدمت ہی تھوڑی ہے تو کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ بندوں سے تو کہے کہ تھوڑے پر شکر کرو اور آپ تھوڑے پر شکر نہ کرے.آپ بھی شکر کرتا ہے اور بندے کی ہر خدمت تھوڑی ہے اس کے مقابل پر کوئی بھی حیثیت نہیں رکھتی.تو گویا کہ ہر خدمت پر شکر کرتا ہے اور یہ بھی اسی شکر کی مثال ہے ایک کانٹا ہٹانے پر بھی خدا شکر کرتا ہے اور اللہ کا شکر ادا کرنا یہ ہے.ایک اور حدیث حضرت ابو ہریرہ ہی کی لی گئی ہے ابن ماجه كِتَابُ الزُّهْدِ بَابُ الْوَرَعِ وَالتَّقْوَى - ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ : آنحضرت صلی شما یہ تم نے ایک بار ان کو مخاطب کر کے فرمایا : اے ابو ہریرہ ! تقویٰ اور پر ہیز گاری اختیار کر.تو سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا.“ یعنی تقویٰ اور پر ہیز گاری ہو تو پھر عبادت نصیب ہوا کرتی ہے.اگر تقویٰ نہ ہو تو عبادت کیسی.عبادت کی جان تقویٰ ہے، تقویٰ نہ ہو تو عبادت ہو ہی نہیں سکتی.ناممکن ہے.جتنا تقویٰ انسان کا بڑھے گا اتنا اس کی عبادت کا معیار بڑھے گا.فرمایا تقویٰ اور پرہیز گاری اختیار کر تو سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے گا.اب حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سب سے بڑے عبادت گزار کیسے بن سکتے تھے ؟ سب سے بڑے عبادت گزار تو رسول اللہ صل لا کی تم تھے مگر آپ صلی ہی ہم عبادت گزار سب سے بڑے بنے اس لئے تھے کہ آپ مالی شما یہ تم تقوی میں سب سے بڑے تھے.تو تو کا محاورہ ایک محاورہ ہے، مراد ہے جو بھی تقویٰ میں سب سے آگے ہوگا وہ عبادت گزاری میں بھی سب سے زیادہ ہو جائے گا اور یہ بات اپنے نفس کو جانتے ہوئے آپ صلی یا یہ تم کر رہے تھے یہ خیالی فرضی بات نہیں ہے.تو حضور اکرم صلی یہ تم بسا اوقات اپنی خوبیوں کو چھپانے کی خاطر اس رنگ میں کلام فرماتے تھے کہ عامۃ الناس کو پیغام بھی پہنچ جائے اور پتا بھی نہ چلے کہ رسول اللہ صلی ہی تم اپنی ہی بات کر رہے ہیں.اب یہ دیکھ لیں لازماً رسول اللہ صلی ا یہ تم اپنی مثال دے رہے ہیں ورنہ ابو ہریرہ بے چارے میں کیا مجال تھی کہ وہ تقویٰ میں سب دُنیا سے آگے بڑھ جائے جبکہ تقویٰ میں سب سے بڑھا ہوا اور عبادت میں سب سے بڑھا ہوا سامنے موجود تھا، وہی بات کر رہا تھا.پھر فرمایا:
خطبات طاہر جلد 17 852 قناعت اختیار کر تو سب سے بڑا شکر گزار شمار ہو گا.“ خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء اب وہی مضمون جو میں پہلے آپ کے سامنے عرض کر چکا ہوں قناعت کا شکر سے بہت گہرا تعلق ہے.قناعت کا مطلب ہے تھوڑے پر بھی راضی ہو جانا اور قناعت ایسی کہ دُنیا کا سب سے زیادہ شکر گزار بن جائے.یہ رسول اللہ سی شما یتم کی قناعت کے سوا کسی اور قناعت کا ذکر ہو ہی نہیں سکتا.ناممکن ہے کہ آنحضور سلام کے سوا اس وقت اور آج یا آئندہ یا اس سے پہلے کبھی کوئی ایسا پیدا ہوا ہو جس نے قناعت ایسی اختیار کی ہو کہ خدا کا سب سے زیادہ شکر گزار بندہ بن گیا ہو.تو ابو ہریرہ کو مخاطب کر کے وہ باتیں کہہ رہے ہیں جو اپنی سیرت کے نمونے ہیں.قناعت کے مضمون میں رسول اللہ صلی لا یہ تم کی زندگی پر اگر آپ غور کریں تو یہ مضمون بھی داخل ہے کہ آپ صلی یہ یمن کوخدا تعالیٰ نے بے انتہا د یا مگر آپ سی ایم میں یہ حوصلہ تھا کوئی بناوٹ نہیں تھی کہ وہ خدا تعالیٰ کے شکر ادا کرنے کی خاطر اس کے بندوں میں تقسیم کر دیا اور بعینہ یہی سیرت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے آقا سے سیکھی تھی.اب اس پر اگر آپ تصنع سے کوشش کریں گے تو آپ ہار جائیں گے اور ہوسکتا ہے ٹوٹ کر رہ جائیں مگر اگر قناعت کے مضمون کو سمجھتے ہوئے شکر ادا کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے تو رفتہ رفتہ آپ کا حوصلہ بڑھنے لگے گا اور جو نعمت اللہ تعالیٰ آپ کو عطا کرتا چلا جائے گا آپ اس میں دوسروں کو شریک کرتے رہیں گے.پھر فرمایا: جو اپنے لئے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو.“ (سنن ابن ماجه، ابواب الزهد، باب الورع والتقوى ،حدیث نمبر : 4217) یہ تو نہیں ہوسکتا کہ تم قناعت بھی کر رہے ہو، شکر بھی ادا کر رہے ہو اللہ کا لیکن اپنے لئے کچھ اور پسند کرو، دوسروں کے لئے کچھ اور پسند کرو.اس میں صدقات کی حکمت سکھا دی گئی ہے اور اس حکمت پر غور بہت ضروری ہے.پھٹے پرانے کپڑے غریبوں میں تقسیم کرنا ہرگز صدقہ نہیں ہے.ایسا کھانا غریبوں میں تقسیم کرنا جس میں کچھ بد بو پیدا ہو چکی ہو یہ ہرگز صدقہ نہیں ہے.رسول اللہ صلی یا پیام فرماتے ہیں جو اپنے لئے پسند کرو وہ دوسروں کے لئے پسند کرو.تو جب بھی آپ خدا کی خاطر صدقہ دینا چاہیں تو اپنے کپڑوں میں سے بھی اچھے چنا کریں.اور ایسے حال میں چن لیا کریں جب آپ ان کو خود پہنیں تو آپ کو شرم نہ آئے.وہ اگر پرانا بھی ہو تو وہ رضائے باری تعالیٰ کی خاطر ہوگا کیونکہ اس پرانے میں
خطبات طاہر جلد 17 853 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء ابھی اتنی بوسیدگی نہیں آئی کہ آپ اسے پھینک دیں یا اسے پہنتے وقت شرم محسوس کریں.پہنا ہوا کپڑا آپ استعمال کریں تو کوئی حرج نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی ایک دفعہ حضرت نواب صاحب کا پہنا ہوا کوٹ خود استعمال کر لیا تھا کیونکہ آپ نے اس نیت سے بھیجا تھا کہ کسی ضرورت مند کو جو اس کو پہن کر شرم محسوس نہ کرے یا ضرورت مند کو دے دیا جائے.چونکہ خود وہ سمجھتے تھے کہ میرے پہنے کے لائق نہیں رہا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک عظیم سبق سکھایا کہ وہ کوٹ اپنے لئے لے لیا اور خود پہنا جس کا مطلب یہ تھا کہ مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کا بھی پردہ رکھ لیا، یہ کوٹ ابھی ایسا رڈی نہیں ہوا کہ کوئی بہن نہ سکے ، میں پہن رہا ہوں اور پھر مجھے اب یاد نہیں وہ کوٹ کسی کو دیا تو پہنے کے بعد دیا ہوگا تا کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ایک رڈی اور بریکار چیز دی گئی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا تو پھٹا پرانا بھی ایک نعمت عظمیٰ ہوا کرتا تھا.(سیرت المہدی جلد اول از حضرت مرزا بشیر احمد ایم.اے، روایت نمبر :333) تو یہ مضمون ہے جو اس کو سمجھ لیں اپنے کپڑے اس وقت لوگوں کو دیا کریں جب وہ ابھی آپ کے کام کے ہوں اور نیا دے سکیں تو نیا بھی دیں اور نیا خرید کر بھی دے سکتے ہوں تو نیا خرید کے بھی تحفے دیں.تو اپنے تحفوں میں اپنی پسند کوملحوظ رکھیں جو چیز پسند ہو وہ دیا کریں.کھانا پسند ہو جو پسند کھانا ہے وہ دیا کریں، جو کپڑا پسند ہے وہ پسند والا کپڑا دیا کریں.فرمایا یہ کیوں ضروری ہے: مومن ہونے کے لئے ضروری ہے.“ اگر تم سچے مومن ہو، ایمان لاتے ہو اللہ پر اور ایمان کا ایک معنی ہے اس پر توکل اور انحصار کرنا ، اس کی حفاظت میں آجانا تو پھر یہ طریق اختیار کرو اور سچے مومن بن کر لوگوں کو اپنی پسند کی چیزیں دیا کرو.پھر فرمایا: ” جو تیرے پڑوس میں بستا ہے اس سے اچھے پڑوسیوں والا سلوک کرو تو سچے اور حقیقی مسلم کہلا سکو گے.“ یعنی پڑوسیوں کوکسی قسم کا دکھ نہ دوا نہیں تمہاری طرف سے کوئی تکلیف نہ پہنچے بلکہ امن میں ہوں.مسلم کا معنی ہے جس سے ایک انسان امن میں ہو.تو پڑوسی تم سے امن میں ہوں تو پھر سب دُنیا تم سے امن میں ہے اگر پڑوسی ہی امن میں نہیں تو دنیا میں کوئی بھی تم سے امن میں نہیں ہوگا اور آخر پہ یہ کہ :
خطبات طاہر جلد 17 854 خطبہ جمعہ 4 دسمبر 1998ء د کم ہنسا کرو اور بہت زیادہ قہقہے لگانا اور ہنسنا.“ قہقہے تو ترجمے والوں نے لکھ دیا ہے رسول اللہ صلی یا یہ تم نے فرمایا ہے کثرت سے ہنستے ہی چلے جانا اور یہی عادت ثانیہ، فطرت ثانیہ بنا لینا کہ ہر وقت مخول اور ٹھٹھے کا شغل ہے اور کبھی بھی آنکھیں خدا ترسی میں آنسو نہیں بہاتیں ،سنجیدہ باتوں میں دل بالکل نہیں لگتا صرف تمسخر، صرف مذاق.اگر یہ کرو گے تو پھر تمہارا دل مردہ ہو جائے گا.( کچھ بھی اس میں جان باقی نہیں رہے گی ) (سنن ابن ماجہ، ابواب الزهد، باب الورع والتقویٰ ،حدیث نمبر :4217) پس جماعت احمدیہ زندہ دلوں کی جماعت ہے ان کے دل اس طرح زندہ ہوں گے جیسے رسول اللہ صلی تم نے ان کو زندہ کرنے کے سبق ہمیں سکھا دئے ہیں اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق عطا فرمائے اور قادیان کے جو باشندے اس خطبہ کو سن رہے ہوں وہ یہ یادرکھیں کہ بہت سے غریب ان میں سے ہیں ان کو قانع بنائیں ان کو شکر گزار بنا ئیں اور ان کے سینوں میں زندہ دل پیدا کریں.تو انشاء اللہ یہی دس ہزار جو ہیں یہ لکھوکھا بلکہ کروڑوں میں تبدیل ہو جائیں گے.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے.آمین.
خطبات طاہر جلد 17 855 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء شکر کے متعلق احادیث اور ہندوستان کے نومبائعین کا طرز عمل جلسہ سالانہ قادیان کے کامیاب انعقاد پر خدا تعالی کا شکر (خطبه جمعه فرموده 11 دسمبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیات کریمہ تلاوت کیں : إِنَّ ابْراهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتَا لِلهِ حَنِيفًا ۖ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ) شاكرًا لِانْعِيهِ اجْتَبَهُ وَهَدْتَهُ إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ (النحل: 122،121) 991 ط پھر فرمایا: یہ آیات سورة النحل کی 121 ویں اور 122 ویں آیات ہیں.ان کا تشریحی ترجمہ یہ ہے کہ ابراہیم یقیناً ایک امت تھا، ایسی امت جو ہمیشہ تذلل اختیار کرنے والا.امت کا لفظ تو کثرت سے لوگوں کے گروہ کے متعلق استعمال ہوا کرتا ہے مگر حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام ایک بڑی امت تھے.ان معنوں میں یہ ایک خوشخبری بھی تھی اور ایسی خوشخبری تھی جو کبھی کسی اور نبی کو اس رنگ میں عطا نہیں ہوئی کیونکہ آنحضرت سلیم کی امت بھی ابراہیم ہی کی امت ہے اور اس پہلو سے ابراہیم کی اپنی امت کا جو پھیلاؤ ہے دُنیا میں وہ بھی بے شمار ہے.تو ان امور کو پیش نظر رکھیں تو امت کا ایک بیج تھا اس کا یہ معنی بنے گا.ابراہیم کے اندر ایک ایسی امت کا بیچ تھا جس نے سب دُنیا پر چھا جانا تھا اور اس پیج نے سب سے زیادہ اعلیٰ درجہ کی نشو ونما حضرت رسول اللہ صلی شما ایلم کے ظہور کے ذریعہ سے حاصل کرنی تھی.قانتا : ہمیشہ تذلل اختیار کرنے والا اللہ کی خاطر، اللہ کے حضور ہمیشہ بچھا رہنے والا.
خطبات طاہر جلد 17 856 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء حنيفا : اس حد تک اللہ کی طرف جھکاؤ کہ اگر ایسے جھکاؤ والے کے قدم ڈگمگا میں بھی تو خدا ہی کی طرف گرے گا یعنی خدا سے ہٹ کر دوسری طرف گرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.تو قدم ڈگمگانے کا محاورہ ہے مراد یہ ہے کہ اس جھکاؤ کے ساتھ ہمیشہ رہا کہ جب بھی پناہ کی ضرورت پڑی، جب بھی سہارا ڈھونڈ نا ہوا اللہ ہی کی پناہ لی، اللہ ہی کا سہارا ڈھونڈا.وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ : اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھا.اب مشرک کی نفی اس سے بہتر الفاظ میں نہیں ہوسکتی.جو الفاظ اس سے پہلے ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام کے متعلق استعمال ہوئے ہیں اس میں ہر قسم کے شرک کی نفی ہے.اس پر اگر آپ غور کریں تو حیران ہوں گے کہ وَلَمْ يَكُ مِنَ الْمُشْرِكِينَ میں ہر طرح کے شرک کی نفی شامل ہوگئی ہے اور ابراہیم کو ایک موحد بندے کے طور پر پیش کیا.اس کے نتیجے میں اس پر شکر واجب تھا اور یہی اس سے اگلی آیت بیان فرما رہی ہے.شاکراً لا نعمہ نعمتیں تو اس پر بے شمار تھیں اللہ کی، وہ ان سب نعمتوں کا شکر ادا کرنے والا تھا.اب جتنی بڑی نعمتوں کا ذکر گزرا ہے اس کا شکر بھی سوچیں کہ کتنا وسیع شکر ہو گا.کسی گہرائی سے شکر ادا کیا گیا ہو گا اور کس وسعت کے ساتھ ہر نعمت کا تصور کر کے اس کا شکر ادا کرنا گویا کہ ساری زندگی اسی میں صرف ہو گئی.اجتبه : اللہ نے اسے چن لیا.شکر نعمت کا حق ادا کئے بغیر چننے کا سوال نہیں اور چنے بغیر شکر نعمت کا حق ادا نہیں ہو سکتا.یہ دونوں باتیں لازم وملزوم ہیں.اللہ تعالیٰ چنا ہی ان بندوں کو ہے جو نعمت کا شکر ادا کرنے کا حق ادا کرتے ہیں اور جو حق ادا کرتے ہیں ان کو مزید چن لیتا ہے تو گویا ایک لامتناہی سلسلہ اجتبی کا ہے جو چلتا چلا جاتا ہے اور وہ راستہ کبھی ختم نہیں ہوسکتا.جتنا اللہ کا احسان بڑھتا چلا جائے اتنا شکر بڑھتا چلا جائے اسی قدر اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کا اجتبی کا فعل صادر ہوتا چلا جائے گا اُس بندے کو مزید نیک ترقیوں اور بلندیوں کے لئے چن لے گا.چنانچہ اسی آیت کے آخر پر ہے وَهَديه إلى صِرَاطٍ مُسْتَقِيمٍ : اس کو ایک سیدھی راہ کی طرف ہدایت دی ہے.حضرت ابراہیم یہ السلام تو صراط مستقیم پر تھے ہی.یہاں اس مضمون کے سیاق وسباق سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ سلسلہ ایک جاری صراط مستقیم کا سلسلہ تھا جو بھی ختم نہیں ہو سکتا کیونکہ صِراطِ مستقیم اس رستہ کو کہتے ہیں جو بالکل سیدھا ہو اور سیدھا رستہ کبھی بھی کہیں ختم نہیں ہوسکتا.ہر چیز جو ختم ہوتی ہے اس کے لئے ایک دائرہ کی ضرورت ہے، خم کی ضرورت ہے اگر کسی چیز میں خم نہ ہو تو وہ لامتناہی ہوگی تو الی صِرَاط
خطبات طاہر جلد 17 857 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء مُسْتَقِيمٍ میں یہ معنی اس سیاق و سباق کے ساتھ نکلتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو ایک ایسے رستہ پر چلا دیا نعمتوں اور شکر نعمتوں اور شکر نعمتوں اور شکر اور اس کے نتیجہ میں اللہ کا اجتبی کرتے چلے جانا کہ یہ راہ جو تھی یہ صراط مستقیم تھی اس راہ پر کبھی بھی کوئی آخر نہیں آیا کرتا، مسلسل آگے بڑھنے والی مسلسل آگے چلنے والی راہ ہے.اور دوسری آیت میں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے متعلق وَ إِنَّه في الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّلِحِينَ (البقرة:131) کا ذکر آتا ہے اس میں بھی دراصل اسی طرف اشارہ ہے کہ اس کی ہر آخرت صلاح کی آخرت تھی.اس کا ہر بعد میں آنے والا فعل نیکی کا فعل تھا.تو صرف دُنیا ہی میں اس نے حسنات سر انجام نہ دیں ، دُنیا ہی میں نیکیوں پر نہیں چلا بلکہ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کی نیکیاں بھی اس کو عطا کیں اور ایسی صلاحیت عطا فرمائی ، ایسی پاکیزگی عطافرمائی جو دن بدن بڑھتی چلی جا رہی تھی اس دُنیا میں بھی اور اُس دُنیا میں بھی اس کے صالح ہونے کا اثر ان معنوں میں ظاہر ہوتا ہے جن معنوں میں یہ آیات بیان کر رہی ہیں کہ لا متناہی سلسلہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوگا.یہ آیات شکر کی آیات ہیں اور آج بھی میں شکر ہی کے مضمون پر کچھ امور بیان کرنا چاہتا ہوں اور ان کا سب سے اول تعلق تو جلسہ سالانہ قادیان سے ہے جو حال ہی میں گزرا ہے.اس جلسہ کے متعلق میں نے یہ بیان کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ کا بے انتہا احسان ہے کہ اس کثرت سے نو مبائعین جو ہندوستان کے رہنے والے نو مبائعین تھے تشریف لائے اور دوسرے ہندوستانی اس کثرت سے تشریف لائے کہ ان کی تعداد ہر دوسرے جلسہ سے بڑھ گئی سوائے اس جلسہ کے جس میں میں شامل ہوا تھا لیکن مجھے بعد میں توجہ دلائی گئی اور گھر میں ہی ہماری ایک بچی نے کہا کہ آپ کی بات اعداد و شمار کے لحاظ سے درست نہیں ہے کیونکہ ہندوستان کی جماعتیں آپ کے وہاں دورے کے وقت بھی اس کثرت سے شامل نہیں ہوئی تھیں اس لئے نیار یکارڈ ہے یہ.یہ ایک نئی منزل ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے ہمیں لے جا کر کھڑا کیا اور آگے بڑھنے کے لئے کھڑا کیا ہے ہر منزل پر انسان تھوڑا سا دم لیتا ہے پھر آگے چل پڑتا ہے.تو واقعی یہ بہت گہری بات ہے.اللہ تعالیٰ نے قادیان کے جلسہ میں اس کثرت سے ہندوستانیوں کو شامل ہونے کی توفیق بخشی ہے جن میں بھاری اکثریت نو مسلموں کی تھی کہ ایسی کثرت سے ہندوستانیوں کا کسی قادیان کے جلسہ میں شریک ہونا اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا.جس جلسہ میں میں شامل ہوا تھا، مجھے اللہ نے تو فیق عطا فرمائی تھی اس وقت پاکستان سے بڑی بھاری
خطبات طاہر جلد 17 858 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء تعدا داحمدیوں کی اس میں شامل ہوئی تھی.اب کوئی بھی پاکستان سے وہاں نہیں جاسکا.وہ غالباً چھ سات ہزار تھے جو پاکستان ہی سے وہاں پہنچے ہوئے تھے اس کے علاوہ سب دُنیا سے کئی ہزار، دوتین ہزار مہمان تشریف لائے ہوئے تھے جواب چند سو تھے صرف ، تو اگر ان کا حساب نکال لیں تو بلا شبہ یہ جلسہ ایک ریکارڈ جلسہ ہے.ایسا ریکارڈ کہ میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ اس شان کے ساتھ اللہ تعالیٰ اب ہمارے لئے نئے معیار مقرر فرمائے گا اور اس کے ساتھ میری توجہ اس طرف بھی منتقل ہوئی کہ پاکستان میں کبھی کوئی جلسہ ایسا نہیں ہوا جس میں دس ہزار نو مبائعین شامل ہوئے ہوں.دس ہزار تو کیا ہزار ڈیڑھ ہزار سے زیادہ کا مجھے یاد نہیں کہ کبھی بھی پاکستان کے کسی جلسے میں اس کثرت سے نو مبائعین شامل ہوئے ہوں اور غیر احمدیوں کی تعداد بھی نسبتا معمولی ہوا کرتی تھی.غیر مبائعین اور نو مبائعین کو ملا بھی لیں تو ربوہ کے جلسہ میں دو اڑھائی ہزار سے زیادہ ان کی تعداد نہیں ہوا کرتی تھی ، زیادہ سے زیادہ اتنی تھی.تو اب قادیان کا جلسہ دیکھیں تو کتنا آگے بڑھ گیا ہے اللہ کے فضل کے ساتھ ربوہ کے مقابل پر اس کا بڑھنا ایک خوش خبری ہے کہ جس ربوہ کے یہ پیچھے پڑے ہوئے ہیں اللہ ایسے ہزارر بوے اور پیدا کر دے گا اور ربوہ کی تمہیں باتیں یاد ہیں اس وقت تم تو کچھ بھی نہیں تھے جب ربوہ پہ تمہیں قبضہ تھا اس وقت تو تمہاری کوئی حیثیت ابھی نہیں تھی.اب دیکھو کہ اللہ تعالیٰ ہندوستان میں کس کثرت کے ساتھ تمہارے لئے نئے انصار پیدا کر رہا ہے جو قانتا اللہ نیکی کی راہوں پہ آگے بڑھیں گے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ جو خدا کا وعدہ تھا اور جو سلوک فرمایا گیا وہی سلوک ہے اب جو انشاء اللہ تعالیٰ ہمارے مقدر میں آچکا ہے اور دنیا کا کوئی دشمن بھی اسے ہم سے کھینچ کے چھین نہیں سکتا.اب ان لوگوں کی پھبتیاں اور تعلیاں کیا حیثیت رکھتی ہیں.ابھی تک بعضوں کے خط آتے ہیں کہ بڑا افسوس ہو رہا ہے کہ پتا نہیں کیا ہو گا وہاں.ان کو یہ نہیں پتا کہ خدا کیا کر رہا ہے، وہ تو دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کس طرح مقابلے کر رہی ہے ان کے اور کس طرح ان کو نامراد کر رہی ہے کوئی بھی ان کی حیثیت باقی نہیں رہی.آگ ہے جو سینوں میں لگی ہوئی ہے اس کے سوا اُن کے پاس اور کچھ نہیں رہا.اب شکر کے تعلق میں ہی میں بعض احادیث آپ کے سامنے رکھتا ہوں.اور انہی احادیث سے سبق لیتے ہوئے اب ہندوستان کے نواحمدیوں کے شکر کا طریقہ آپ کو بتا تا ہوں.سب سے پہلی حدیث تو بندوں کے احسان سے تعلق رکھنے والی ہے.
خطبات طاہر جلد 17 859 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ (رضی اللہ تعالیٰ عنہما ).حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ آنحضرت صل السلام نے فرمایا : جس پر کوئی احسان کیا گیا ہو اور وہ احسان کرنے والے کو کہے کہ اللہ تجھے اس کی جزائے خیر اور اس کا بہترین بدلہ دے تو اس نے ثنا کا حق ادا کر دیا.“ (جامع الترمذی، ابواب البر والصلة، باب ماجاء في الثناء بالمعروف،حدیث نمبر : 2035) اب یہ وہ حدیث ہے جس کا تعلق محض بندوں کے احسان سے ہے کیونکہ خدا کو تو نہیں انسان کہا کرتا کہ جزاك الله احسن الجزاء.اے اللہ تجھے اللہ جزا دے اس لئے اس حدیث کا کوئی اور معنی ممکن ہی نہیں ہے سوائے اس کے کہ بندوں کا معاملہ بندوں کے ساتھ ہو.قَد أَبْلَغَ فِي القنَاءِ اس کا مطلب یہ ہے کہ حق ہی ادا نہیں کیا بلکہ بہت مبالغہ کیا شامیں.مبالغہ ان معنوں میں کہ جہاں تک شنا ممکن تھی وہ اس نے کر دی اس لئے جب آپ کہتے ہیں جزاک اللہ خیراً کہ اللہ تجھے بہترین جزا دے، تو یہ کوئی معمولی بات نہیں.بعض لوگ اپنی حماقت سے یہ سمجھتے ہیں کہ مقابل پہ دیا تو ہمیں کچھ بھی نہیں اور جزاك الله کہہ کے، بعض لوگ کہتے ہیں ٹرخا دیا.بہت ہی بے وقوف ہیں یہ خیال کر لینے والے کیونکہ بندہ کیا دے سکتا ہے آخر.آپ جتنا بھی اس کے لئے کچھ کریں وہ زیادہ سے زیادہ جو دے گا پھر بھی اپنے بندے کے احتیاج کے مطابق دے گا.وہ خود محتاج ہے اس کا ایک محدود دائرہ ہے اس سے بڑھ کر وہ آپ کو کچھ عطا کر ہی نہیں سکتا.تو وہ لوگ جو عطا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ایک پہلو سے بدلہ اتار بھی دیتے ہیں مگر جب بدلہ اتار دیا جائے تو دونوں کے درمیان جو محبت اور مودت کا رشتہ ہے وہ عملاً منقطع ہو جاتا ہے.ایک انسان سمجھتا ہے میں نے اس کے لئے کچھ کیا تھا دوسرا کہتا ہے میں نے اس کے لئے کر دیا اور جب بھی کوئی وقت پڑے تو کہہ دیتے ہیں دیکھو میں نے تمہارا بدلہ اتار دیا تھا اور جتنا تم نے کیا تھا اس سے زیادہ دیا تھا تو بات وہیں ختم ہو گئی لیکن جزَاكَ اللهُ خَيْرًا کے اوپر رسول اللہ صلی شمالی ستم فرماتے ہیں: قد أبلغ في القناء اس سے بڑھ کر وہ اس کی ثنا اور کیا کر سکتا تھا کہ اپنے احسان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیا.جس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ جزا کی دعا دی جائے تو دل کی گہرائی سے دینی چاہئے اور اگر دل کی گہرائی سے یہ دعا اٹھے تو اس سے بہتر کسی احسان کا بدلہ نہیں اتارا جاسکتا.کیوں؟ اس دعا کو پھر اللہ تعالیٰ قبول کرتا ہے اور دل کی گہرائی سے تب ہی اُٹھ سکتی ہے اگر انسان کے اندراحسان
خطبات طاہر جلد 17 860 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء مندی کا جذبہ ہو، اگر انسان کے اندر احسان کو قبول کرنے اور اس پر خوش ہونے اور تھوڑے سے کو بہت زیادہ سمجھنے کا جذبہ ہو تب ہی دل کی گہرائی سے دعا اُٹھ سکتی ہے.تو تمام دُنیا کے احمدیوں کے لئے اس میں بڑا گہر اسبق ہے.اپنے روزمرہ کے معاملات کو آپس میں درست کریں اور احسان کا جو بدلہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ آپ بہترین رنگ میں ادا کریں وہ دعا کے ذریعہ ہے اور ایسی دعا کے ذریعہ جس سے بڑھ کر پھر دعا ممکن نہیں ہے لیکن ایک شرط ہے اس کے ساتھ وہ یہ ہے کہ اگر آپ اپنی طرف سے کچھ دے سکتے ہوں تو وہ دینے کے علاوہ یہ دعا دیں.دو باتیں ہیں، دے کر انسان سمجھے کہ یہ کچھ بھی نہیں ہے اور پھر اللہ کی طرف معاملہ لوٹا دے کہ اے اللہ ! اس کو اتنا دے کہ جو میرے تصور میں بھی نہیں آسکتا یا اس کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تو یہ ایک لامتناہی شکر کا سلسلہ ہے جو چلتا چلا جاتا ہے.یہ وہ صراط مستقیم ہے شکر کی جس کا ذکر حضرت ابراہیم کے سلسلہ میں بیان فرمایا گیا ہے.اگلی حدیث وہ ہے جو بہت گہری ہے اور مختلف معانی رکھتی ہے.بندوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور اللہ کے احسانات پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے.جتنا میں نے اس پر غور کیا ہے اتنا ہی زیادہ میں اس کے مختلف معانی میں کھویا گیا ہوں اور مشکل محسوس کرتا ہوں کہ ان سب معانی کی طرف آپ کو متوجہ کر سکوں کیونکہ رسول اللہ الا السلام کے تھوڑے سے کلام میں بے انتہا معانی مضمر ہوا کرتے ہیں اور یہ وہ حدیث ہے جس کا تعلق بیک وقت انسانوں کے احسان سے بھی ہے اور اللہ کے احسانات سے بھی ہے.حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی ا یہ تم نے فرمایا: جسے کوئی چیز عطا کی جائے.(اب دیکھیں مجہول رکھا ہے اس کو ) مَنْ أُعْطِيَ عَطاء “ صاف پتا چل رہا ہے کہ اس میں دونوں امکانات کو مد نظر رکھا گیا ہے.چیز بندے کی طرف سے عطا کی جائے یا اللہ کی طرف سے عطا کی جائے.تو یہی چابی ہے اس بات کی کہ آگے جتنے مضامین چل رہے ہیں وہ بندوں اور خدا دونوں کی طرف منسوب ہوں گے.جب اللہ کی طرف منسوب ہوں گے تو پھر اس کے معنی بہت زیادہ وسیع اور گہرے ہوتے چلے جائیں گے." جسے کوئی چیز عطا کی جائے تو اسے چاہئے کہ وہ اس کا بدلہ دے.( ان معنوں میں ) أُعْطِيَ عَطَاءٍ فَوَجَدَ فَلْيَجْزِبِهِ “ اب یہاں ترجمہ کرنے والے نے یہ غلطی کی ہے کہ وجد کے مضمون کو آخر پہ رکھا ہے حالانکہ یہ فرمایا گیا: فَوَجَدَ فَلْيَجْزِ یہ اگر اسے توفیق ہو.وجد کا یہ معنی ہے یہاں، اگر توفیق ہو تو اس کا بدلہ دے.اب اللہ
خطبات طاہر جلد 17 861 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء کے بدلہ اتارنے کی توفیق ہی نہیں تو بندوں کے معاملہ میں توفیق کچھ نہ کچھ تو ہوتی ہے مگر اللہ کے معاملہ میں تو کوئی توفیق ہی نہیں ہے آپ کیسے توفیق پائیں گے کہ اللہ کا بدلہ اتاریں.تو یہ دوشاخہ معنی چلتا چلا جا رہا ہے آگے.فَإِنْ لَمْ يَجِدُ فَلْيُثْنِ بِهِ، فَمَنْ أَثْنَى بِهِ فَقَدْ شَكَرَهُ 66 اب یہاں ایک محاورہ حضور اکرم صلی ا یہ تم نے استعمال فرمایا ہے جو عربی لغت میں اس طرح نہیں ملتا کہیں بھی.تکی عَلَیہ کا مضمون تو ملتا ہے لیکن تکی بِهِ.آفتی بو کا جو صلہ ہے ”ب“ کے ساتھ یہ آپ کو کسی لغت میں کہیں نظر نہیں آئے گا اور یہ بات واضح کر رہی ہے کہ حضرت اقدس رسول اللہ صلی یتیم کے ذہن میں عام معنوں سے ہٹ کر کچھ معانی ہیں اور یہی وہ پہلو ہے جو آج میں آپ کے سامنے خوب کھولنا چاہتا ہوں.فَلْيَجْزِ بِهِ - جَزَى په کا مضمون تو ہر لغت میں آپ کو مل جائے گا.کسی کو کسی چیز کی جزا دی جائے تو کہیں گے جزی پہ یہ عام مضمون ہے.مگریشن پہ کہیں نظر نہیں آئے گا اور یہی وہ تکی یہ ہے جس کا معنی بہت وسیع ہے جس کے متعلق میں آج آپ کے سامنے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں.اگر اس کے پاس کچھ نہ ہو یا تو فیق نہ ہو توی فن پہ اگر میں بندوں کی بات پہلے شروع کرتا ہوں تو یہ نہیں فرمایا کہ اس کی تعریف کرو، اس کا کوئی ذکر نہیں ہے اس چیز کے ذریعہ اس کا شکر ادا کرو جو تمہیں عطا کی گئی ہے.یہ مضمون عام مضمون سے بہت گہرا ہے.یقنِ بِہ کا صرف یہ مطلب بنے گا اس چیز کے ذریعہ شکر عطا کرو جو تمہیں عطا کی گئی ہے.اس چیز کے ذریعہ کیسے شکر ہوتا ہے اس کے بہت سے طریق ہیں جو اس حدیث میں اللہ کے تعلق میں تو سمجھ آ جاتے ہیں، بندے کے تعلق میں فوری طور پر سمجھ نہیں آ سکتے مگر غور کریں تو سمجھ آ جائے گی.جو چیز تمہیں دی گئی ہے اس کو اگر لوگوں میں آگے بیان کروا گر چہ دینے والا شکریہ کا محتاج نہیں ہے اور دینے والے کا شکریہ کا احتیاج اس کو اس قابل ہی نہیں رہنے دیتا کہ اس کا احسان کرنے والوں میں شمار ہو سکے.تو یہاں یہ نہیں فرمایا کہ اس کی ثنا کرو کیونکہ یہ تواللہ تعالیٰ نے ناپسند فرمایا ہے.فرمایا اس چیز کو جو دیتا ہے اس کو آگے چلاؤ.اب کسی بندہ کو کسی کی طرف سے کچھ ملتا ہے اگر وہ اس کو روک کے بیٹھ جائے تو یہ ثنا کا حق ادا نہیں کر رہا.پا کے معنی میں ادا نہیں کر رہا.اس چیز کو استعمال کر کے اس کا حق ادا کرو.اب یہ استعمال بھی کئی طریق سے ہے.ایک تو یہ کہ خود اپنے او پر استعمال کرو، اپنے گھر والوں پر استعمال کرو، اپنے عزیزوں پر استعمال کرو جو ثابت کر دے گا کہ
خطبات طاہر جلد 17 862 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء تمہیں وہ چیز پسند تھی.اگر استعمال ہی نہ کرو اور چھپا لو یا الگ پھینک دو تو یہ شکر کا حق ادا کرنے والی بات نہیں ہے.دوسرے لوگوں تک پہنچاؤ.اس چیز کا فیض اسی طرح لوگوں تک پہنچاؤ جیسے تم تک کسی نے اس چیز کا فیض پہنچایا تھا تو یہ سارے معنی پہ سے نکلتے ہیں اور علی سے نہیں نکلتے جو عام طور پر شنا کا صلہ ہے کیونکہ یہ دونوں مضمون بیک وقت چل رہے ہیں.اب میں صرف خدا کے تعلق میں صرف یہ مضمون بیان کرتا ہوں.فَمَنْ أَثْنَى بِهِ فَقَدْ شَكَرَهُ جس نے خدا کی عطا کردہ چیزوں کے ذریعہ اللہ کا شکر ادا کیا یعنی ان سب چیزوں کو اس طرح بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے استعمال کیا جس طرح اللہ نے اس کو عطا کی تھیں ان کو نہ چھپایا، نہ یہ ظاہر کیا کہ خدا نے خاص فضل مجھ پہ فرمایا ہے کیونکہ جب بھی اس بات کو چھپائے گا کوئی شخص تو ثنا کا حق جاتا رہے گا.تو مراد یہ ہے کہ جو بھی تمہیں عطا ہوا ہے اسے بیان بھی کرو اور اس کے ذریعہ سے لوگوں کو دکھا دو کہ اس طرح شکر ہوا کرتا ہے.یہ وہ مضمون ہے جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اس کی بہت سی شاخیں ہیں مگر اتنا یاد رکھیں کہ شکر کی بحث چل رہی تھی یہاں آکر شکر کی تان ٹوٹی ہے.فَقَد شَكَرَهُ یہ شنا کرے گا تو پھر شکر ادا ہوگا ورنہ شکر ادا نہیں ہوگا.وَمَنْ كَتَبَهُ فَقَدْ كَفَرَهُ " (سنن ابی داؤد، كتاب الأدب، باب فى شكر المعروف ، حدیث نمبر : 4813) اور جوان احسانات کو چھپائے گا.فَقَدْ كَفَرَہ اس نے ناشکری کی.تو اللہ تعالیٰ کے احسانات کو بکثرت بیان کرنا، اللہ تعالیٰ کے احسانات کو استعمال کرنا، دوسرے بنی نوع انسان کے لئے احسان کے طور پر استعمال کر کے، یہ شکر ہے اور ان نعمتوں کو چھپا لینا کسی خوف سے، دُنیا کے ڈر سے یا اور کسی بنا پر تاکہ ان کے پاس یہ چیزیں اکٹھی ہونی شروع ہو جائیں یہ ساری ناشکری کی قسمیں ہیں.پس اس مضمون سے یہ راہنمائی حاصل کرتے ہوئے میں اب قادیان کے جلسہ کے تعلق میں ان نومبائعین کے متعلق یہ بیان کرنا چاہتا ہوں کہ میں نے جو یہ کہا تھا کہ ان سب نو مبائعین کو ہم دوبارہ جھونک رہے ہیں اسی راہ میں جس راہ سے ہمیں یہ عطا ہوئے تھے، یہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کئے تھے بہت سی باتوں کے پیش نظر جن کا ذکر میں ابھی کر چکا ہوں.ہم پر جو مظالم ہوئے ظلم وستم ہوئے، ہماری جو ناشکری کی گئی ، ہم نے احسان پر احسان کئے اور اس کے مقابل پر ظلم پر ظلم دیکھے ان ساری
خطبات طاہر جلد 17 863 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء باتوں کو اللہ تعالیٰ تو نہیں بھولتا، بندہ تو بھلا دیتا ہے اور شکر ادا کرنے والوں میں سب سے زیادہ شکر اللہ ادا کیا کرتا ہے اور اس کے شکر ادا کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ وہ جتنا احسان کرتا ہے اس کو اور بھی بڑھا دیتا ہے اور اس دوڑ میں کوئی اللہ کو شکست نہیں دے سکتا.جتنا مرضی آپ کوشش کر کے دیکھ لیں کوئی چیز تو اللہ کو دے نہیں سکتے سب کچھ اسی کا دیا ہوا ہے.اس کا شکر ادا کر سکتے ہیں مگر جتنا شکر ادا کریں گے وہ اور دیتا چلا جائے گا.اب آنحضرت صلی شما کہ تم سے زیادہ تو شکر ادا کرنے والا کوئی دُنیا میں پیدا نہ ہوا، نہ ہو سکتا ہے.آپ صلی ا ہی تم نے اللہ کے شکر ادا کرنے کے لئے ساری زندگی وقف کر دی اور اللہ تعالیٰ آپ کے مقام بڑھاتا چلا گیا ناممکن تھا کہ اللہ کا شکر ادا کر کے اللہ کو آپ ساینا یہ ہم تھکا دیتے اور ناممکن تھا کہ خود بھی تھک جاتے کیونکہ زندگی بھر آپ صلی نا ہی ہم تھکے نہیں شکر ادا کرتے کرتے اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ جزا جو اس دنیا میں عطا ہوئی تھی، جس حد تک ہونی تھی اس کے علاوہ اللہ نے اس کو لا متنا ہی کر دیا اگلی دُنیا کے لئے.تو آئندہ دُنیا میں جو خدا تعالیٰ آنحضرت صلی یہ تم کو بلند سے بلند تر درجات عطا فرماتا چلا جائے گا یہ اس شکر کا ہی نتیجہ ہیں جو زندگی بھر آپ صلی شمالی تم نے ادا کیا.اب وہاں اللہ تعالیٰ کا شکر رسول اللہ صل للہ یہ تم کیسے ادا فرما ئیں گے یہ اللہ بہتر جانتا ہے.یہ وہ ایسی دوڑ ہے جس میں شکر ادا کرنے والے نے ہارنا ہی ہارنا ہے اور اللہ نے جیتنا ہی جیتنا ہے.تو اس پہلو سے میں نے یہ گزارش کی تھی کہ اب ہمارا شکر یہ ہے کہ ان سب نو بائعین کو دوبارہ اسی راہ میں جھونک دیں اور استعمال کریں.اس احسان کا بدلہ اتارا تو نہیں جاسکتا مگر شکر ادا کرنے کے طور پر کہ اللہ تو نے یہ نعمت ہمیں دی تھی اب یہ نعمت ہم تیری راہ میں خرچ کر رہے ہیں.خوشی کی بات یہ ہے کہ قادیان سے جتنی اطلاعیں ملی ہیں ان کی رو سے یہ نو مبائعین جو سیدھے سادے بندے ہیں زیادہ تعلیم یافتہ نہیں ہیں بلکہ کثرت ایسی ہے جو تعلیم یافتہ ہے ہی نہیں ، وہ اس پیغام کو سمجھ گئے ہیں.میں حیران رہ گیا کہ دیکھو اللہ نے کیسی ان کو فراست عطا فرمائی ہے کہ قادیان سے جتنی بھی رپورٹیں مل رہی ہیں اس میں اس بات کو نمایاں طور پر پیش کیا گیا ہے کہ سارے باتیں کرتے ہیں آپس میں ، ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ ہم اس بات کو خوب سمجھ گئے ہیں، ہم شکر گزار بنتے ہیں اور بنیں گے اور جماعت نے جو ہم سے توقع کی ہے اس توقع کے مطابق ایسا شکر ادا کریں گے کہ ہندوستان کے کنارے گونج اٹھیں گے چنانچہ اب وہ یہ ارادے لے کر واپس گئے ہیں.تو ہم سے تو یہ وعدہ ابھی سے پورا ہو گیا.
خطبات طاہر جلد 17 864 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ - (ابراهیم : 8) أَزِيدَنَّكُمْ میں ان کے معیار کے بڑھنے کا بھی ذکر ہے کہ زنا کے معنی زیادہ کرنا ہے اور جب خدا شکر کے نتیجے میں زیادہ کرتا ہے تو اچھی باتیں زائد کیا کرتا ہے بُری باتیں زائد نہیں کیا کرتا.تو جس حال میں یہ لوگ آئے تھے اس سے بہت بہتر حال میں لوٹے ہیں یہ بھی آزیدن کا وہ وعدہ ہے جو پورا ہو ہی گیا اور اس کے بعد جو انہوں نے بڑھنا ہے اور ہندوستان میں پھیلنا ہے یہ اس کے بعد کی باتیں ہیں.تو وہی بات جو بارہا آپ کے سامنے بیان کی گئی ہے اور بیان کرتے ہوئے میں کبھی جھکتا نہیں وہ ز8 والی بات ہے.ناممکن ہے کہ آپ اللہ کو ہرا سکیں اس معاملہ میں جب کہ انسان تو انسان کو بھی نہیں ہراسکتا اس معاملہ میں.وہ بادشاہ کا قصہ آپ نے بار ہا سنا ہو گا لیکن نئی نسلیں بھی آتی رہتی ہیں اور یہ نو مبائعین بھی ضرور سن رہے ہونگے.ان سب کے لئے سارے ہندوستان میں انٹیناز لگے ہوئے ہیں اور یہ بات کو سنتے ہیں اور بڑی توجہ سے دیکھتے ہیں تو ان کے علم میں اضافہ کے لئے یا ان کے لطف میں اضافہ کے لئے میں دوبارہ پھر یہ بیان کر دیتا ہوں.ایک بادشاہ نے اپنے وزیر کو یہ ہدایت کر رکھی تھی کہ جب بھی چلو اپنے ساتھ اشرفیوں کی تھیلیاں لے کے چلا کرو کیونکہ جب کوئی چیز مجھے بہت پسند آئے اور میرے منہ سے زہ نکل جائے کہ واہ واہ کیا بات ہے تم فوراً ایک تفصیلی اس کو دے دینا جس کے متعلق میں زنا کہوں.اسی طرح وہ بادشاہ بھیس بدل کر سفر کیا کرتا تھا کیونکہ وہ چاہتا نہیں تھا کہ لوگوں کو پتا لگے کہ یہ بادشاہ ہے یا اسے مجھ سے کوئی توقع ہے عام سادہ باتوں میں کوئی اچھی بات کر دیں تو پھر میں زِن کہوں.ایک بوڑھا کسان درخت لگا رہا تھا، اور درخت لگا رہا تھا کھجور کے، اور تھا اتنا بوڑھا کہ بظاہر حالات اس کا اپنے لگائے ہوئے کھجوروں کا پھل کھانا ممکن نہیں تھا کیونکہ کھجور آٹھ نو سال میں عام طور پر پھل دیتی ہے اب جلدی پھل دینے والی بھی ایجاد ہو گئی ہیں مگر عموماً آٹھ نو سال کے بعد پھل دیا کرتی ہے.تو اگر وہ نوے سال کا ہو جس طرح کہ بیان کیا جاتا ہے کہ بہت ہی بوڑھا تھا تو لازماً بادشاہ کو یہ خیال گزرا ہوگا کہ یہ کیا فضول کام کر رہا ہے ، پھل تو کھا نہیں سکے گا اپنی محنت کا.تو اس نے اس بڑھے سے کہا کہ دیکھو تم یہ کام کر رہے ہو جس کا پھل تم کھا نہیں سکو گے، کیا فائدہ؟ اس نے کہا ہمارے باپ دادے بڑھے ہوا کرتے تھے انہوں نے جو کھجور میں لگائی تھیں ان کا پھل میں کھا نہیں رہا؟ کیا میں ایسا ناشکرا ہو جاؤں کہ ان کے احسان کا بدلہ اتارنے کی کوشش نہ کروں.یہ احسان کا بدلہ ان تک تو
خطبات طاہر جلد 17 865 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء نہیں پہنچ سکتا مگر آنے والی نسلوں کو پہنچے گا پھر وہ کھجور میں لگایا کریں گے ، اس سے اگلی نسلیں فائدہ اٹھایا کریں گی تو احسانات کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جو جاری ہو جائے گا.یہ اتنی پیاری بات لگی بادشاہ کو کہ اس نے کہاز 8 - سُبحان اللہ، کیا بات ہے.اسی وقت وزیر نے ایک تھیلی اشرفیوں کی نکال کر اس کو پکڑا دی.اس نے کہا بادشاہ سلامت! آپ تو کہتے تھے کہ کھجور میں نو سال کے بعد پھل لاتی ہیں میری کھجور نے تو ابھی پھل دے دیا ہے.آپ گواہ رہیں اس کے.بادشاہ سلامت تو نہیں اس نے کہا.ابھی تو چھپایا ہوا تھا ، بیچ میں سے جانتا ہو گا ضرور کیونکہ بڑا ذہین بڑھا تھا.اس نے کہا میری کھجوریں تو ابھی دیکھیں دوبارہ پھل دے دیا ہے.یہ بات سن کر بادشاہ کے منہ سے پھر زہ نکل گیا.اسی وقت وزیر نے ایک اور تھیلی نکالی اور اسے پکڑا دی.اس نے کہا واہ واہ کھجور میں ایک سال میں پھل نہیں دیتیں یہاں تو ایک سال میں دو پھل دے دئے ہیں، کیسی رہی.پھر اس کے منہ سے زنا نکلا اور وزیر نے ایک تھیلی اور پکڑا دی.اور اس نے کہا بھا گو یہاں سے یہ بڑھا تو ہمارے خزانے لوٹ لے گا ایسا عقل والا بڑھا ہے کہ کچھ نہیں چھوڑے گا.اب اللہ تو ایسا بادشاہ نہیں ہے جس کے خزانے لوٹے جاسکیں.یہ ہے مضمون جس کے تعلق میں مجھے یہ روایت ہمیشہ یاد آ جاتی ہے اللہ کے خزانے تو کوئی بھی نہیں لوٹ سکتا، ختم کر ہی نہیں سکتا.رسول اللہ صلی ہم نہیں لوٹ سکے تو اب دنیا میں اور کون لوٹ سکے گا، لوٹے مگر ختم نہیں کر سکے.تو اس لئے میں ہندوستان والوں کو خصوصیت سے یہ پیغام دیتا ہوں اور پاکستان کے احمدیوں کو بھی یہی پیغام ہے جوشکوے شکایات ہیں تکلیفوں کے ان پر صبر کریں اور صبر کے ساتھ شکر کا مضمون یوں باندھا گیا ہے جیسے چولی دامن کا ساتھ ہو.آپ صبر کریں، آپ کے صبر کا پھل خدا ضرور دے گا وہاں بھی دے گا اور باہر تو بے شمار پھل لگ رہا ہے اور ہم کبھی بھی نہیں بھولے اس بات کو کہ یہ خصوصیت کے ساتھ پاکستان کے مظلوموں کی قربانیاں ہیں جن کا پھل ساری دُنیا کھا رہی ہے اور اس پھل کا اب ہم فیصلہ کر چکے ہیں کہ ضرور شکر ادا کریں گے اور اس کثرت سے ادا کریں گے کہ خدا کی تقدیرلمحہ لمحہ ہمارے لئے زہ کا لفظ استعمال کرتی چلی جائے گی.اور ہر دفعہ جب خدا کا کلام ان معنوں میں ظاہر ہو گا کہ تم نے خوب کیا میں راضی ہو گیا تو اس کی بے شمار نعمتیں بھی ہم پر اتریں گی جن کا کوئی شما ممکن نہیں ہے اور ہر نعمت کا شکر ہم پر واجب ہوتا چلا جائے گا.جیسا کہ حضرت ابراہیم کے متعلق اللہ نے فرمایا کہ وہ تمام نعمتوں کا شکر
خطبات طاہر جلد 17 866 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء ادا کر نے والا تھا.یہاں آنعیم میں اگر چہ تمام کا لفظ استعمال نہیں ہوا مگر مضمون میں انعیہ سے مراد ہر نعمت کا اور نعمت کے اندر اس کے بڑے ہونے کا بھی ذکر موجود ہے.یہ عربی محاورہ ہے کیونکہ اللہ کی نعمتیں تو ابراہیم پر تھیں ہی بے شمار.اجتبہ جب فرما دیا تو اس سے بڑی نعمت اور کیا ہوسکتی ہے.تو یہ ساری باتیں اس مضمون میں داخل ہیں.نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہم پر فرض ہے اور ان شکروں کو ادا کرتے کرتے تھکنا نہیں ہے.اس سلسلہ میں جیسا کہ میں نے گزشتہ دفعہ بھی ہندوستان کو نصیحت کی تھی ایک بات یاد رکھیں کہ ان کو مالی قربانی کی عادت ڈال دیں.جتنے نئے آنے والے ہیں ان کو لا ز ما مالی قربانی کی عادت ڈال دینی چاہئے اور یہ پیغام تو سب دُنیا کے لئے ہے.ہر ایک شخص جس کی اولا دکو خدا تعالیٰ کوئی نوکری دیتا ہے یا تجارت میں کامیابی عطا فرماتا ہے ان سب کا فرض ہے کہ وہ خدا کی راہ میں اس کو اور خرچ ریں کیونکہ اس سے ان کا مال بڑھے گا، کم نہیں ہوگا.ابھی کل ہی کی ملاقاتوں میں ایک خاتون تشریف لائی تھیں اپنی بیٹی کو ساتھ لے کے اور ان کی طرف سے لفافہ مجھے دیا کہ تمام چندے ادا کرنے کے بعد پیچھے جتنی تنخواہ اس بچی کی بنتی تھی ، پہلی تنخواہ وہ ساری کی ساری یہ پیش کر رہی ہے اس کو خدا کی راہ میں استعمال کر لیں اور میں نے یہ دستور بنا رکھا ہے کہ جو بھی پہلی تنخواہ دیتا ہے اس طرح اس کو مسجد کے لئے یا مساجد کی تعمیر میں استعمال کیا جائے.چنانچہ یہ بھی ایک بڑی مڈ ہے جو بنتی چلی جارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں ہم ایسے علاقوں میں مسجدیں بناتے ہیں جہاں غربت کی وجہ سے وہ لوگ توفیق نہیں پاتے کہ مسجدیں بنا سکیں.تو یہ بھی ایک شکر کا طریقہ ہے اور جو مساجد احمدی بنائیں گے.اب دیکھیں نا! شکر کتنالا متناہی چیز ہے.ان ساری مساجد میں اللہ کا شکر ادا کیا جائے گا اور غریب علاقوں میں اگر مسجد بنے تو اور بھی زیادہ ممنون ہوتے ہیں.امیر تو یہ سوچ لیتے ہیں کہ ہمیں توفیق ملی تھی ہم نے مسجد بنالی ، بعضوں کو بے وقوفی سے یہ بھی شاید خیال آتا ہو کہ ہم نے بڑا کمال کر دیا ہے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ اللہ پہ احسان کیا ہے مگر فخر سے پھولے پھرتے ہیں کہ ہم نے کمال کر دیا ہے مسجد بنادی مگر غریب نہیں یہ بات کرتا، سوچتا نہیں یہ بات، اس کو تو پتا ہے کہ مجھ میں تو فیق ہی نہیں تھی.پس ایسے لوگ جو اپنی آمد خواہ کسی قسم کی آمد شروع ہوئی ہو، تجارت کی ہو، انڈسٹری کی ہو یا تنخواہوں وغیرہ کی ہو وہ خدا کے حصہ کے چندے نکالنے کے بعد بقیہ رقم جو بچتی ہے وہ پہلی رقم پہلے مہینہ کی پوری کی پوری ادا
خطبات طاہر جلد 17 867 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء کر دیں یہ ایک بہت بڑا نیکی کا فعل ہے جو بڑھتا چلا جائے گا اور چونکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے اسے ہم غریب علاقوں میں مساجد کے لئے استعمال کرتے ہیں تو وہاں وہ سارے شکر گزار ہوں گے اور جو بھی وہ شکر گزاری کریں گے اس کی جزا اُن کو ملتی چلی جائے گی.تو میں اُمید رکھتا ہوں کہ بیرونی جماعتیں بھی اس سے نصیحت پکڑیں گی اور ہندوستان کی جماعتیں بھی خصوصیت کے ساتھ اس طرف بھی توجہ کریں گی کہ غریبوں کے چندے سے بچت کر کے وہاں مسجدیں بنانے کے لئے استعمال کریں اور کچھ زائد رقم ہم انشاء اللہ تعالیٰ مہیا کریں گے.میں سمجھتا ہوں مسجد میں تو جتنی بنائی جا سکتی ہوں بناتے چلے جانا چاہئے کیونکہ مسجد میں مومن کی روح ہے ، مومن کی جان ہے، مسجد جماعت کا قائم مقام ہے اور مسجد کے نتیجہ میں ہی جماعت کو تقویت ملتی ہے.اس سلسلہ میں افریقہ والوں کو بھی میں نے ہدایت کی تھی.بعض دفعہ تھوڑی دیر کام کرنے کے بعد وہ لوگ تھک بھی جایا کرتے ہیں تو ان کو بھی میں دوبارہ بتا رہا ہوں مسجدوں کی تعمیر سے رکنا نہیں ہے.یہ نہ سمجھیں کہ میں بنادیں ہم نے یا تیں بنادیں، بناتے چلے جائیں.کوئی جماعت ایسی نہ ہو جس کی اپنی مسجد نہ ہو اور جہاں مسجدیں ہو جائیں گی وہاں جماعتیں مستحکم ہو جائیں گی پھر نا ممکن ہے کہ ان کو ہٹایا جا سکے کیونکہ جماعتیں مسجد سے وابستہ ہوتی ہیں اور مسجد ہی میں تمام انسانوں کے اجتماع کا مضمون داخل ہے.اِنَّ اَوَلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (آل عمران: 97) میں یہی مضمون ہے جو بیان فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سارے بنی نوع انسان کو جو باندھنے کا فیصلہ کیا تھا کہ ایک ہاتھ پر ا کٹھے ہو جائیں تو اللہ نے دیکھیں کیسی ترکیب کی اپنا گھر بنایا تا کہ اس کا فائدہ سارے بنی نوع انسان کو پہنچے اور سارے بنی نوع انسان اس گھر کے ذریعہ ایک ہاتھ پر اکٹھے ہو جا ئیں.اب دیکھ لیں تمام بنی نوع انسان کو اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی للہ یہ تم کو وہاں مبعوث فرما کر خانہ کعبہ کے گردا کٹھا کر دیا ہے تو حج ہر دفعہ یہی تو پیغام لے کے آتا ہے کہ مسجدوں میں تمہاری زندگی ہے، مسجدوں میں تمہاری جماعت ہے.پس مسجدوں کی تعمیر کی طرف دُنیا کے تمام ممالک متوجہ ہوں اور پاکستان میں جو ہمارے دشمنوں کو دشمنی ہے مسجدوں سے اس کے باوجود جہاں جہاں جس طرح توفیق ملے مسجد میں ضرور بنائیں.اس کی سزائیں بھی ملتی ہیں، مسجدیں بنانے کے نتیجہ میں شہید بھی کئے جاتے ہیں مگر اللہ کا گھر بنانے سے احمدی باز نہیں آسکتا.اگر ایسے حالات پیدا ہوں کہ اس کے نتیجہ میں نقصان کا ایسا خطرہ ہو کہ
خطبات طاہر جلد 17 868 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء جماعت کی تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہو تو ایسی صورت میں مخفی طور پر مسجدیں بنانا یہ ممکن ہے اور بنانی چاہئیں.اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ اللہ اس طریق پر انشاء اللہ تعالیٰ پاکستان کی مشکلات بھی دور فرمادے گا اور فرمانے لگا ہے، فرما رہا ہے.ایسے آثار نظر آرہے ہیں جن سے لگتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ اب دشمنوں کے اوپر تلوار کی طرح لٹک رہی ہے اور یہ تلوار میں جگہ جگہ گر بھی رہی ہیں مگر ہوش نہیں آرہی.اگر قوم کو ہوش نہ آئے ، خدا کی طرف سے کھٹکھٹانے والی چیزیں بار بار دلوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہوں، آفات دلوں کے دروازے کھٹکھٹا رہی ہوں اور ان کو ہوش نہ آئے تو پھر آخری تقدیر جو ہے وہ پھر کلیۃ منہدم کر دیا کرتی ہے، اُن کی ساری تدبیروں کو منہدم کر دیا کرتی ہے، ان کی ساری تعمیر وں کو منہدم کر دیتی ہے.جو خدا کا گھر منہدم کرنے میں فخر کریں ان کے گھر باقی کیسے رہ سکتے ہیں.اللہ پکڑ میں دھیما ضرور ہے مگر أَمْلِي لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِین.(الاعراف : 184) میں مہلت تو ان کو دیتا ہوں مگر میری پکڑ بہت سخت ہے.جب بھی ان کے پیمانے بھریں گے اور مجھے تو اب بھرے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں تو پھر وہ جو خدا کے گھر کے دشمن تھے ، خدا کے گھر مٹانے کے درپے تھے ان کے گھر ضرور مٹائے جائیں گے اور مٹائے جا بھی رہے ہیں اور ان کو سمجھ نہیں آرہی.تو اس وجہ سے میں ہمیشہ پاکستان کے لئے خود بھی دعا کرتا ہوں اور آپ کو بھی یہ مضمون چل پڑا ہے تو دعا کی طرف متوجہ کر رہا ہوں کہ آنحضرت سلیم کی پیروی میں جب کہ دشمن نے ظلم کی حد کر دی تھی یا حدیں پھلانگ چکا تھا حضور اکرم صلی ا یہ تم نے یہ دعا کی: اللَّهُمَّ اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ (الجامع لشعب الايمان، حدیث نمبر : 1375) اے میرے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ یہ جانتے نہیں.یہ جو شرط ہے نہیں جانتے یہ شرط قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے.جس طرح قوم نے ظلم کئے تھے ان کے لئے رسول اللہ صلی ایت اللہ سے ہدایت مانگ کیسے سکتے تھے، سوائے اس عذر کے کہ إِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ کہ وہ جانتے نہیں مگر جب بھی میں یہ دعا کرتا ہوں میرے دل پہ یہ بوجھ پڑتا ہے کہ یہ لوگ تو جانتے ہیں اور جان بوجھ کے ایسا کر رہے ہیں.اچھا بھلا پتا ہے کہ یہ مظلوم ہیں ان پر ظلم کرنا جائز نہیں ہے اس کے باوجود ظلم کرتے چلے جاتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 869 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء اب ہمارے مربی قدیر صاحب ( عبد القدیر قمر صاحب.مرتب ) اس وقت پچیس سال عمر قید کاٹ رہے ہیں.ان کے حج نے واضح کر دیا تھا بار بار کہ میرے نزدیک تم بالکل معصوم ہو اور بری الذمہ ہو.اس کے بعد فیصلہ یہ دیا کہ عمر قید سے کم اس کی سزا نہیں.تو اب وہ بظاہر اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا ہوا ہے، کیسے ممکن ہے کہ اللہ اسے چین سے رہنے دے.اس نے ہمیشہ کے لئے اپنی بربادی کے فیصلے پر دستخط کئے ہیں، اس پر مہر لگائی ہے.یا تو ایسا شخص خدا کی ہستی کا قائل ہی نہیں.وہ سمجھتا ہے کوئی بھی نہیں جائے گا وہاں، کچھ نہیں ہوگا تو اللہ کو قائل کروانا آتا ہے.اور اگر قائل ہے تو حد سے بڑھ کر جاہل ہے.جانتا ہے کہ ایک خدا ہے حساب لینے والا ، جانتا ہے کہ عدالت کی کرسی پر جب کوئی بیٹھے تو اللہ تعالیٰ اس کی لازماً جو ابد ہی کرتا ہے خواہ وہ مومن ہو، غیر مومن ہو، جب بھی عدالت کی کرسی پر کوئی بیٹھے گا تو انصاف کا تقاضا پورا کرنا اس کا فرض ہے کیونکہ دُنیا میں قاضی ہی اللہ کے نمائندے ہوا کرتے ہیں اور یہ قضا کی نمائندگی دنیا میں ہر جگہ چل رہی ہے.تمام دُنیا کی عدالتوں میں جو شخص بیٹھے گا اس پر یہ خدا تعالیٰ کا حکم صادر ہوگا خواہ وہ مومن ہو یا غیر مومن کہ فیصلہ انصاف سے کرنا ہے کیونکہ اللہ ہمیشہ انصاف سے کام لیتا ہے.پس اس کے باوجود اس نے انصاف سے کام نہیں لیا بلکہ ایک مظلوم اس کے ساتھ اور بھی بہت سے ، وہ اس وقت جیلوں میں سڑ رہے ہیں جن کی سب سے بڑھ کر تکلیف یہ ہے کہ خدمت سے محروم ہو گئے ہیں.بڑی محنتیں کیں ، بڑا علم سیکھا اور زندگیاں وقف کر دیں کہ خدا ہم سے کام لے گا خدا کی راہ میں قربانیاں پیش کریں گے اور اب بریکار بیٹھے ہوئے ہیں.تو ان کو تو میں یہ پیغام دیتا ہوں کہ آپ بے کار نہیں ہیں.یہ کہنا تو آسان ہے کہ اللہ آپ کو جزا دے گا مگر جو صبر کی حالت میں سے گزررہا ہو وہی جانتا ہے کہ کتنا مشکل کام ہے.کوئی شخص زندگی بھر کے لئے جیل کی کال کوٹھڑیوں میں ٹھونس دیا جائے اور اس کو پتا ہو کہ کوئی مصرف نہیں ہے یہاں اور میری ساری عمر کی کمائیاں گویا ہاتھ سے چھینی گئیں اور ضائع ہو گئیں اور وہ کمائیاں کیا تھیں، اللہ کی راہ میں خدمت کرنے کا شوق.تو اس کی تکلیف کا تصور کر کے دیکھیں کہ کتنی زیادہ اس کی تکلیف ہے.ضمناً آپ سے گزارش ہے کہ اب رمضان آنے والا ہے، اپنی راتوں کو ایسے اسیرانِ راہِ مولا کے لئے گریہ وزاری کے ساتھ ایک واویلے میں تبدیل کر دیں، شور مچادیں، ایسا شور آپ کے دل سے اٹھے کہ اس شور سے ناممکن ہے کہ خدا کی تقدیر حرکت میں نہ آئے.میں امید تو یہ رکھتا ہوں کہ وہ تقدیر
خطبات طاہر جلد 17 870 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء حرکت میں آرہی ہے، آچکی ہے مگر جس نہج پہ چل رہی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان بد بختوں کی پکڑ کا وقت آ گیا ہے.جنہوں نے اس طرح معصوموں کے گھر برباد کئے ہیں، ان کی زندگیاں برباد کرنے کی کوشش کی ہے، ان کی زندگیاں لاز م بر باد کی جائیں گی.یہ ہو نہیں سکتا کہ وہ چین کے ساتھ اس دُنیا سے رخصت ہوں اور جتنا ان کی موت کا وقت قریب آئے گا اتنا ہی زیادہ ان کے دل میں آگ لگتی چلی جائے گی اور بھر کی لگتی چلی جائے گی.اب وہ فیصلہ دے بیٹھے ہیں جس کو واپس لینا ان کے بس میں ہی کوئی نہیں ، اب توبہ استغفار کیسے ہو سکتی ہے.اس لئے ظلم کرتے وقت انسان کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کبھی میں ظلم سے ہاتھ کھینچ بھی تو سکوں.اس وقت پھر اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی تقدیر کام کر دیا کرتی ہے مگر جب ظلم سے ہاتھ کھیچنے کا انسان کو بس ہی نہ ہو، طاقت ہی نہ ہو تو وہ ظلم جو ہے وہ سوائے اس کے لئے ہمیشہ کی لعنت کے اور کچھ نہیں ہے.تو ایسی قوم سے ہمیں واسطہ پڑ رہا ہے جو صلہ سے ہاتھ کھینچنے کی اب طاقت نہیں رکھتی اور بہت سے دانشور یہی بات لکھ رہے ہیں کہ احمدیوں کے متعلق جو انہوں نے قدم اٹھالئے ہیں اب ان میں توفیق ہی نہیں کہ وہ واپس کر سکیں.بے نظیر ہوں یا نواز شریف صاحب ہوں دونوں جب بھی آئے ایسے اقدامات کئے جس سے احمدیوں کے سلاسل اور زیادہ تنگ ہوتے چلے گئے اور زیر پا اُن کے آگ کو اور بھی زیادہ روشن کیا تو ایسی زنجیروں میں باندھا گیا ہے جس کے نیچے ، قدموں کے نیچے آگ لگائی گئی ہے.یہ آگ جو ان کے قدموں کے نیچے ہے اُن کے دلوں میں لازماً بھڑ کائی جائے گی.یہ بے وقوف ہیں ان کو پتا ہی نہیں کہ دُنیا تو عارضی سی چیز ہے آج نہیں تو کل مرنا ہے اور ہمیشگی کی جہنم ان کے مقدر میں لکھی جا چکی ہے کوئی اس کو روک نہیں سکتا کیونکہ یہ تو بہ کے دروازے بند کر چکے ہیں.اگر تو بہ کے دروازے کھلے رکھے ہوتے تو پھر ہماری دعا ئیں بھی ان کے کام آسکتی تھیں مگر تو بہ کے دروازے تو بند کر بیٹھے ہیں.پس یادرکھیں کہ اللہ کی ثنا میں اس کے شکر کا حق ادا کریں اور شکر کے حق ادا کرنے میں ایک یہ بات بھی ضمنا داخل ہے اور لازما داخل ہے کہ ہر قسم کے ظلم سے ہاتھ کھینچ لیں.اللہ احسان کر رہا ہو اور آپ اس کے شکر کا حق ادا کرتے ہوئے لوگوں پر ظلم کر رہے ہوں یہ ہوہی نہیں سکتا.یہ تضادات ہیں.اسی کو حضور اکرم صلی یا تم نے کفر فرمایا ہے.کفر کا مطلب ناشکری بھی ہے اور اللہ کا انکار بھی ہے تو اپنی عادت بنائیں کہ کبھی ظلم نہیں کرنا کسی پہ گھر میں ہو یا گھر سے باہر ہو.بیوی بچے ہوں یا اعزاء اور
خطبات طاہر جلد 17 871 خطبہ جمعہ 11 دسمبر 1998ء اقرباء ہوں یا غیر ہوں ظلم کا تصور بھی احمدی کے ذہن میں داخل نہیں ہونا چاہئے.کیوں کہ اگر اس کے ذہن میں ظلم کا تصور آ جائے اور جگہ بنالے خواہ وہ کسی پر بھی ظلم ہو تو اسی حد تک اللہ اپنی نعمتوں سے ہاتھ اٹھا لے گا اور یہ کہنا کہ ہم شکر بھی ادا کر رہے ہیں، بہت قربانیاں دے رہے ہیں اور ساتھ ظلم بھی چل رہا ہو یہ دو چیزیں اکٹھی چل نہیں سکتیں، یہ ہونہیں سکتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اسکی بھی توفیق عطا فرمائے.ایک جو آخری حدیث اس ضمن میں میں نے رکھی ہوئی ہے جس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلواۃ والسلام کے شکر ، تقوی ، طہارت کے متعلق بعض اقتباسات ہیں جو پیش کرنے ہیں مگر چونکہ وقت ختم ہو گیا ہے اس لئے اگلے خطبہ میں اس باقی حدیث سے بات شروع کر کے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے اقتباسات پھر آپ کے سامنے رکھوں گا.
خطبات طاہر جلد 17 873 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء اصل شکر تقویٰ ہے، ہمیشہ تقویٰ کی راہیں اختیار کریں اللہ تعالیٰ آپ کی سرحدوں کی حفاظت فرمائے گا (خطبه جمعه فرمودہ 18 دسمبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ تلاوت کی : شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَةٍ مِنَ الهُدى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ ۖ وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ ُأخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَلِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدَيكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ.پھر فرمایا: (البقرة: 186) اس آیت کا آزاد ترجمہ یہ ہے کہ : رمضان کا مہینہ جس کے دوران یا جس کے بارے میں قرآن نازل فرما یا گیا.کہا جاتا ہے کہ رمضان کے مہینہ ہی میں قرآن کے نزول کا آغاز ہوا تھا لیکن فِیهِ کا اصل معنی یا زیادہ گہرا معنی یہ ہے کہ رمضان کے بارہ میں قرآن اتارا گیا ہے.یہ سارا قرآن جتنے بھی مضامین رکھتا ہے وہ سارے رمضان کے مبارک مہینہ میں گو یاد ہرائے جاتے ہیں.ھدی للناس: ہدایت ہے لوگوں کے لئے.وَبَيِّنَةٍ مِّنَ الهُدی : صرف عام ہدایت ہی نہیں بلکہ ایسی ہدایت ہے جس میں بہت کھلی کھلی روشن کر دینے والی ہدایتیں شامل ہیں یعنی اس میں قرآن کریم کی
خطبات طاہر جلد 17 874 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء اس عظمت کا بیان ہے جو اس سے پہلے کسی کتاب کو نصیب نہیں ہوئی.بَيِّنَتٍ مِّنَ الْهُدی بھی اس میں ہے.وَ الْفُرْقَانِ : اور ایسے دلائل ہیں جو غلبے کی طاقت رکھتے ہیں کھلی کھلی ، ظاہر و باہر ، شان وشوکت اپنے اندر رکھتے ہیں اور یہ ساری باتیں رمضان کے مہینہ میں گو یا اکٹھی کر دی گئی ہیں.رمضان کے مہینہ میں اگر تم اس قرآن پر عمل کرو جس کی یہ شان ہے تو تمہارا رمضان کا مہینہ بھی اسی شان کے ساتھ چمکے گا.فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ : پس نتیجہ یہ نکالا گیا ، پس تم میں سے جو بھی اس مہینہ کو پائے تو اس مہینہ کے روزے رکھے.يَصُبُهُ اس کو روزوں کی حالت میں گزارے.وَمَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ اُخَرَ : لیکن لوگ مستثنیٰ بھی ہوا کرتے ہیں.ہر معاملہ میں استثنا بھی ہوتے ہیں.فرمایا جو تم میں سے مریض ہو اؤ عَلى سَفَرِ یا سفر پر ہو.فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أَخَرَ : تو پھر عدت پوری کرنی ہے دوسرے مہینوں میں، رمضان کے علاوہ دوسرے مہینوں میں وہ روزے پورے کر لئے جائیں.يُرِيدُ اللهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ : یاد رکھو کہ اللہ نے تمہارے لئے آسانی پیدا فرمائی ہے.تمہیں مشکل میں ڈالنا اس کو پسند نہیں ہے.پس رمضان کے مہینہ میں اگر سفر پر ہو تو روزے نہ رکھو.اپنے آپ کو اگر تم دقت میں مبتلا کرو گے، زورلگا کر خدا کو خوش کرنا چاہو گے تو وہ خدا جس نے تمہارے لئے آسانی پیدا فرمائی اس کی ناشکری ہوگی.چنانچہ اس آیت کا آخری کلام شکر سے تعلق رکھتا ہے.یہ سارا رمضان ہی اس بارے میں ہے کہ تم اس کا شکر ادا کر لیکن جو اپنے پیار اور محبت سے تمہارے لئے آسانی کرتا ہے اور تم اس آسانی کو قبول نہیں کرتے تو یہ ایک ناشکری کی قسم ہے.يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ العسر اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے تنگی تو نہیں چاہتا.وَ لِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ : اور اس عدت کو تم اپنی آسانی کے مطابق بعد میں پوری کر لینا.وَلِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَدكُمْ : یہ رمضان کا مہینہ اتنی عظیم ہدایت لے کر آیا ہے کہ اس پر بے اختیار دل سے تکبیر بلند ہونی چاہئے ، سارا مہینہ اللہ تعالیٰ کی تکبیر میں صرف ہو اس بنا پر جو اس نے تمہیں ہدایت دی اور یہ وہ ہدایت ہے جو اس سے پہلے کبھی کسی قوم کو اس شان کے ساتھ ، اس تکمیل کے ساتھ نصیب نہیں ہوئی.وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ : اور تاکہ تم شکر کرنے والے بنو.آخری بات شکر ہی کی ہے اور شکر کرنے والا بندہ سب کچھ پالیتا ہے.جو خدا کا شکر کرنے والا ہو اس کے ساتھ اور بھی بہت سی صفات ملحق ہو جاتی ہیں.خدا کا شکر کرنے والا خدا کے بندوں کا
خطبات طاہر جلد 17 875 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء بھی شکر ادا کرتا ہے.خدا کا شکر کرنے والا پھر اور کسی طرف نہیں دیکھتا سوائے اپنے رب کی طرف کیونکہ جس کا وہ شکر ادا کرتا ہے اس کا وعدہ ہے کہ میں اور بھی بڑھاتا چلا جاؤں گا.تو بہت وسیع معانی ہیں جو اس آیت میں مضمر ہیں اور معمولی غور سے بھی وہ بات کھلتی چلی جاتی ہے.چونکہ میں نے پچھلے خطبہ میں یہ وعدہ کیا تھا کہ اگلا خطبہ شکر ہی کے تعلق میں بیان کروں گا وہی مضمون جو ابھی نامکمل تھا ، جاری تھا وہی آگے بیان کروں گا تو یہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ اس کے نتیجے میں رمضان والے مہینہ کو نظر انداز کرنے کی بجائے اس کا براہ راست تعلق رمضان سے ہی ہوتا ہے.رمضان کا مہینہ بھی شکر سکھانے کے لئے ہے.اب رمضان کا مہینہ بھی اس لئے ہے تا کہ تم اس میں وہ کچھ حاصل کرو کہ اس کے نتیجے میں تم شکر گزار بنتے چلے جاؤ.پس اس لحاظ سے وہ پچھلا میرا وعدہ بھی پورا ہوا اور رمضان کے مہینہ کے تعلق میں بھی مجھے اس مضمون کو آگے بڑھانے کا موقع مل گیا، کوئی نیا مضمون تلاش کرنے کی ضرورت نہ رہی.شکر ہی کے تعلق میں سورۃ ابراھیم آیات 8 اور 9 میں اس مضمون کو اور طرح سے کھولا گیا ہے.فرمایا: وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكُمْ لَبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ وَ لَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ : اور جب تیرے رب نے یہ حکم دیا، یا یہ اعلان عام کیا.لين شكرتم لازيد تكُم : یا درکھوا گر تم نے شکر ادا کیا ، لرزید تکم میں ضرور تمہارے شکر کو اس طرح بڑھاؤں گا کہ تم پر بے انتہا احسانات کروں گا.ازِيدَنَّكُمْ ہے یعنی تمہیں بڑھاؤں گا اور انسان سے جب یہ وعدہ کیا جائے کہ تمہیں بڑھاؤں گا تو یہ قرآن کریم کی فصاحت و بلاغت کا کمال ہے کہ شکر کے نتیجہ میں تمہیں بڑھاؤں گا اور وعدہ کرتا ہوں کہ تم شکر کرو گے تو پھر اور بھی تمہیں قابل شکر چیزیں عطا کروں گا.تو یہ ایک لامتناہی سلسلہ ہے ، ایک سلسبیل ہے ، ایک کوثر ہے جو کبھی ختم ہی نہیں ہو سکتی.لہننْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَ تَكُم اس کو جتنی بار پڑھیں آپ حیرت کے سمندر میں ڈوبتے چلے جائیں گے کہ کتنا عظیم الشان وعدہ ہے تم شکر کرو میں بڑھاؤں گا اور جب میں بڑھاؤں گا تو کیا اس کا شکر ادا نہیں کرو گے.جب شکر ادا کرو گے تو پھر میں بڑھاؤں گا اور جب میں بڑھاؤں گا تو اس لحاظ سے میں سمجھتا ہوں یہ ایک کوثر ہے جو اس آیت میں ہمیں عطا فرمائی گئی لیکن ساتھ یہ بھی تنبیہ ہے وَلَبِنْ كَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِي لَشَدِيدُ : اور اگر تم نے ناشکری کی تو یا درکھنا میرا عذاب بہت سخت ہوا کرتا ہے.وَقَالَ مُوسَى اِنْ تَكْفُرُوا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا :
خطبات طاہر جلد 17 876 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء اور جب موسیٰ نے کہا کہ اگر تم ناشکری کرو یا انکار کر دو، دونوں باتیں اس میں شامل ہیں اس کفر کے اندر، اللہ کا انکار کر دو یا اس کی نعمتوں کی ناشکری کرو.اَنْتُم وَمَنْ فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا : تم اور وہ سب کے سب جو زمین میں بستے ہیں سارے ہی ناشکرے ہو جاؤ.فَإِنَّ اللهَ لَغَنِيٌّ حَمِيدٌ: تو یا د رکھو کہ اللہ بہت بے نیاز اور صاحب حمد ہے.تمام حمد اسی کو ہے اور جس کی سب حمد ہو اسی کا غنی ہونا قدرتی بات ہے اسے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اس کی طرف بڑی بات منسوب کرے یا حمد کا اس کا حق ادا نہ کرے، وہ اپنی ذات میں ہی حمید ہے.ان آیات کے تعلق میں میں نے چند حدیثیں آپ کو سنانے کے لئے رکھی ہیں اور اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے کچھ اقتباسات ہیں اور پھر آخر پہ بعض الہامات ہیں جن کا شکر ہی سے تعلق ہے تو اسی ترتیب سے اب میں یہ امور آپ کے سامنے رکھتا ہوں.ترمذی كِتَابُ الأَدَبِ بَابُ إِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ.ترمذی كِتَابُ الأدب کی یہ روایت ہے اس باب سے کہ: اللہ تعالیٰ بہت پسند کرتا ہے اس بات کو کہ اپنی نعمت کا اثر اپنے بندوں پر دیکھے.“ اس کا ترجمہ یہ ہے، اس پوری روایت کا جو حضرت عمرو بن شعیب سے مروی ہے رضی اللہ تعالیٰ حضرت عمر و بن شعیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں اپنے باپ سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی ایم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند ہے کہ وہ اپنے فضل اور اپنی نعمت کا اثر اپنے بندے پر دیکھے.“ (جامع الترمذي، أبواب الأدب، باب أن الله تعالى يحب أن يرى أثر نعمته على عبده، حدیث نمبر :2819) اب اس کے کئی معانی ہو سکتے ہیں.ان سارے معانی میں یہ حدیث اطلاق پاتی ہے.ایک تو یہ کہ آپ مثلاً اپنے بچوں کو جب عید پر اچھے کپڑے دیں گے اگر وہ پھینک دیں اور نہ پہنیں یا اگلے سال کے لئے بچا رکھیں تو آپ کو یہ اچھا لگے گا یا جب وہ پہنیں اور سچ کر نکلیں ، وہ اچھا لگے گا !!.ایک سادہ سی انسانی فطرت کی بات ہے انسان جو نعمت کسی کو دیتا ہے چاہتا ہے کہ اسے پھر اس پر دیکھے اور پھر پیار اور محبت کے ساتھ اس کی تعریف کرے کہ اچھے لگ رہے ہو اس نعمت کے ساتھ.تو اللہ تعالیٰ بھی
خطبات طاہر جلد 17 877 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء رض پسند فرماتا ہے کہ جو نعمت اپنے بندوں کو دے وہ ان بندوں کو اس نعمت سے سجا ہوا دیکھے لیکن یہ جو مضمون ہے یہ مختلف لوگوں کے ساتھ تعلق رکھتا ہے جن کی طبیعتوں میں اختلاف ہوا کرتا ہے اور مختلف درجات سے تعلق رکھتا ہے اولیاء سے بھی تعلق رکھتا ہے اور انبیاء سے بھی تعلق رکھتا ہے.اور یہاں نعمت کے اثر کو دیکھنا مختلف مضامین آپ کے سامنے کھولتا چلا جائے گا یعنی ایک بندے میں نعمت کا اثر اور طرح سے دیکھا جائے گا، ایک بندے میں اور طرح سے دیکھا جائے گا.بعض ایسے بزرگ اور اولیاء گزرے ہیں جنہوں نے ظاہر پر بھی اس کو محمول کیا اور بہت سج دھج کے رہتے تھے بہترین کپڑے پہنتے تھے.ان کے مزاج میں یہ بات داخل تھی اور یہ کہا کرتے تھے کہ جب تک میرا خدا نہیں کہتا یہ میری نعمت ہے اس کو استعمال کرو اس وقت تک میں استعمال نہیں کرتا یعنی اللہ دیتا ہے اور چونکہ میرے مزاج میں شوق ہے کہ اچھا پہنوں اس لئے میں اچھا ہی پہنتا ہوں اور یہ بھی نعمت کا شکر ادا کرنا ہے.اللہ کی نظر اس بندے پر اس وجہ سے پیار سے پڑتی ہے کہ اس بنا پر پہن رہا ہے کہ میں نے اسے عطا کیا ہے.اور آنحضرت صلی شام کے صحابہ میں بھی مختلف قسم کے صحابہ تھے.بعض صحابہ خوش پوش تھے.ان کو آنحضرت صلی لا یہ تم نے کبھی نہیں فرمایا کہ خوش پوشی چھوڑ دو اور ٹاٹ کے کپڑے پہن لولیکن جنہوں نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے وہ بھی اچھے لگتے تھے کیونکہ ان کا طر ز شکر مختلف ہوا کرتا تھا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ کا بھی یہی حال تھا.حضرت مولوی عبد الکریم صاحب کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خوش پوش تھے اور بڑے احتیاط سے خوبصورت کپڑے پہنا کرتے تھے لیکن کبھی ایک دفعہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے آپ کوٹو کا نہیں اور بعض صحابہ تھے جو بالکل درویشانہ عام سی زندگی کچھ غربت کی وجہ سے، کچھ غربت کے اختیار کرنے کی وجہ سے، حضرت خلیفہ امسیح الاوّل رضی اللہ تعالیٰ عنہ غریب تو نہیں تھے خدا تعالیٰ نے بہت عطا کیا تھا مگر پہنتے سادہ سے کپڑے تھے اور بعض ایسے صحابہ تھے جو غریب تھے اور جو کچھ ان کو خدا تعالیٰ نے دیا وہی پہنتے تھے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے بھی پیار کیا، تینوں سے اپنے اپنے مقام اور مرتبہ کے مطابق ان سے پیار کیا اور جو بالکل سادہ غریب پھٹے ہوئے کپڑوں والے ہوا کرتے تھے بعض دفعہ خود ان کے ساتھ جاکے بیٹھ جایا کرتے تھے تا کہ کسی کو یہ خیال نہ ہو کہ میں خدا کی نعمت کے اس اظہار کو پوری وقعت نہیں دیتا.خدا کی نعمت کا یہ بھی اظہار ہے، یہ بھی شکر کا طریقہ ہے جو دیا وہ پہن
خطبات طاہر جلد 17 878 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء لیا اور شرما یا نہیں.اگر خدا کی عطا کردہ نعمت سے شرمایا جائے تو یہ ناشکری ہے کیونکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اس نعمت کی قدر نہیں کی اور سمجھتا تھا کہ مجھے بڑا ملنا چاہئے تھا، زیادہ ملنا چاہئے تھے، یہ پہن کے لوگوں کے سامنے جاؤں گا تو وہ کیا کہیں گے.تو گو یا اللہ تعالیٰ نے جو عطا کیا وہ اس سے شرما گیا.تو ان امور کو بڑے غور سے دیکھیں اور سمجھیں اور پھر دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ان تینوں قسم کے شکر ادا کرنے والوں کو محبت اور پیار سے دیکھا ہے اور ایسے غریبوں اور فقیروں کو جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوا کرتا تھا ان کو عزت کے ساتھ اپنے پاس بلایا ، اپنے پاس بٹھایا.ابتداء میں وہ کچھ گھبراتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ ہمیں جو اتنا آگے بلایا جا رہا ہے ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں.مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ جو کچھ ان کے پاس تھا وہ انہوں نے پہنا ہے اور یہی پسند ہے اللہ تعالیٰ کو، یہ ناشکری کرنے والے بندے نہیں ہیں.پھر کچھ اور لوگ بھی ہیں جن پر نعمت کا اثر اللہ تعالیٰ اور طرح سے دیکھتا ہے.آنحضرت صلی یا یہ تم پر نعمت کا اثر اس طرح ظاہر ہوتا تھا کہ اللہ جو کرتا تھا بالکل ویسے ہی آپ صلی ایتم کرنے لگتے تھے.یہ بھی ایک شکر کا طریق ہے جو آقا کرے بعینہ وہی کرنے کی کوشش کرو.اللہ نے آپ ملالہ کی تین کو ہر قسم کی نعمت عطا کی جبکہ آپ صلی می ایستم سمجھتے تھے کہ میرے پاس کچھ بھی نہیں تھا اور واقعہ کچھ بھی نہیں تھا.جب خدا نے یہ سب کچھ دیا تو پھر اس ساری نعمت کو شکر کے ساتھ ان بندوں کی طرف بہا دیا جن کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا یا نسبتا کم ہوا کرتا تھا.تو دیکھیں پہنا تو نہیں وہ لیکن پہنا یا ضرور اور شوق اور محبت کے ساتھ پہنایا.ہاں بعض دفعہ دُنیا کو یہ سمجھانے کے لئے کہ اللہ نے جو دیا ہے ویسا ہی پہن بھی لینا چاہئے اور اس میں کوئی عار نہیں ہے یہ کوئی خدا تعالیٰ کے منشاء کے خلاف بات نہیں ہے.آنحضور صلی یاتم نے بعض دفعہ بہت ہی خوبصورت قبائیں پہنیں، کوٹ پہنے جو باہر سے تحفہ آئے ہوئے تھے اور صحابہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اتنے خوبصورت لگ رہے تھے اس میں، ان کپڑوں میں کہ ہم چاند کو دیکھتے تھے کبھی رسول اللہ ہی ہے کہ ان کو دیکھتے تھے مگر خدا گواہ ہے کہ محمد رسول اللہ صلی والی تم کا حسن بہت زیادہ تھا.تو اب دیکھیں اس وقت بھی اللہ کی پیار کی نظر آپ سا یہ کہ تم پر پڑ رہی تھی جب آپ صلی یا تم خدا کی دی ہوئی نعمتوں کو پہن رہے تھے اور دکھارہے تھے کہ دیکھو اللہ نے مجھے یہ نعمت
خطبات طاہر جلد 17 879 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء عطا کی ہے اور اس وقت بھی پیار کے ساتھ نظر پڑتی تھی جب بندوں کو وہ نعمت آگے عطا فرما دیتے تھے.تو یہ مختلف رنگ ہوا کرتے ہیں یہ سارے شکر ادا کرنے ہی کے رنگ ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی نعمتوں کا اثر دیکھتا تھا ہر بندے کے مزاج کے مطابق وہ اثر ظاہر ہوتا ہے.مگر یادرکھنا چاہئے کہ یہ اثر اللہ کی نعمت کے تصور کے ساتھ پیدا ہونا چاہئے.جب اسے اس خدا کے ہاتھ سے ہٹا کر دُنیا میں ایک دکھاوے کے طور پر استعمال کریں گے تو یہی لعنت بن جائے گی.نعمت نہیں رہے گی، یہ ناشکری ہو جائے گی.ہمیشہ ذہن میں رہنا چاہئے کہ اللہ نے عطا فرمایا ہے اور اللہ نے عطا فرمایا ہے تو اس کے بے تکلف اظہار تشکر کے ساتھ اس کو وابستہ کر دینا چاہئے.یہ شکر کی جتنی قسمیں میں نے بیان کی ہیں ان میں بے تکلفی ضروری ہے.جہاں تکلف آیا وہاں اللہ سے رشتہ ٹوٹ گیا.پس اپنی طبیعتوں اور مزاج کو سمجھیں، ان پر غور کریں اور اپنے مزاج کے مطابق اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو استعمال کریں اور پھر آگے بندوں کو ان کے فائدے پہنچائیں.یہ شکر کی مختلف قسمیں ہیں جو آنحضرت مصلی تم نے اس مختصر سی حدیث میں بیان فرما ئیں."إِنَّ اللهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ عَلَى عَبْدِهِ کہ اللہ تعالیٰ بہت پیار سے، بہت محبت سے دیکھتا ہے ان آثار کو جو اس کی نعمت کے اس کے بندوں پر ظاہر ہوتے ہیں.اب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات جن میں اسی مضمون کو مختلف طریق پر بیان فرمایا گیا ہے اس حدیث نبوی کے بعد میں آپ کے سامنے رکھتا ہوں.آنحضور صلی الی یوم کی ہدایات ہی ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے منہ سے جاری ہو رہی ہیں.ایک بھی ایسی بات آپ نہیں کرتے جو قرآن اور قرآن کی تشریح میں حدیث میں موجود نہ ہو.اس لئے جب میں مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں تو قرآن اور حدیث کے علاوہ نہیں بلکہ قرآن اور حدیث پر مشتمل الفاظ آپ کے سامنے رکھتا ہوں.فرمایا: تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.“ دیکھیں جو آیت آپ کے سامنے تلاوت کی تھی اس میں تقویٰ کا ذکر نہیں ہے، حدیث میں ہے ذکر اور دوسری آیات میں ہے.بہر حال جو اس وقت تلاوت کی ہے اس میں نہیں مگر دوسری آیات میں ہے کہ رمضان شریف کا مہینہ اس لئے تم پر فرض کیا گیا ہے لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرة: 184) تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی نظر غالباً اسی لفظ تقویٰ پہ ہے اور شکر کا تقویٰ
خطبات طاہر جلد 17 880 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء کے ساتھ اور طہارت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے کیونکہ شکر کی آخری شان تقوی سے ظاہر ہوتی ہے.چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں : تمہارا اصل شکر تقویٰ اور طہارت ہی ہے.مسلمان ( کا) پوچھنے پر الحمد للہ کہہ دینا سچاسپاس اور شکر نہیں ہے.“ بعض لوگ کہہ دیتے ہیں تم مسلمان ہو؟ کہ الحمد للہ مسلمان ہیں مگر یہ صرف منہ کا ایک کلمہ ہے جب تک ساری زندگی الحمد نہ بن جائے اور جب تک خدا کا سچا تقویٰ نصیب نہ ہو منہ سے نکلے ہوئے الحمد کے الفاظ کچھ بھی معنی نہیں رکھتے.فرمایا: اگر تم نے حقیقی سپاس گزاری یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو“ اگر تم نے خدا تعالیٰ کی حمد وثنا کا سچا حق ادا کیا یعنی طہارت اور تقویٰ کی راہیں اختیار کر لیں تو میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو.اب سرحد پر کھڑے ہونا کئی مفاہیم رکھتا ہے.یہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام سرحد پر کھڑے ہونے کی بشارت کیوں دیتے ہیں؟ جو اپنے ملک اپنے وطن کا مرکز چھوڑ کر سرحدوں پر جا بیٹھے یہ تو کوئی نعمت نہیں ہے، بظاہر کوئی شکر کی بات نہیں ہے لیکن جو مفہوم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان کر رہے ہیں وہاں مرکز کو جسمانی طور پر چھوڑنے کا مفہوم نہیں ہے بلکہ جیسے سرحد پر گھوڑے باندھے جاتے ہیں تا کہ دشمن اندر داخل ہی نہ ہو سکے اسی طرح مومن جو تقویٰ اختیار کرتا ہے گویا اس نے اپنی سرحدیں مضبوط کر لیں یعنی جسمانی طور پر انتقال جسم کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، مرکز میں رہا اور سرحدیں مضبوط کرنے میں حضرت اقدس محمد صلی شمار ہو تم کا مقام سب سے عالیشان تھا.تو جسمانی طور پر تو آپ صلی ای این مرکز میں ہی رہے مگر شیطان کی طرف سے ہر طرف سے سرحد میں مضبوط رکھیں یعنی ادنی سا بھی حملہ غیر اللہ کا آپ صلی یہ تم کی ذات پر ممکن نہیں تھا کیونکہ جیسے سرحدوں پر گھوڑے باندھے جائیں تو دشمن کے سرحد میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کو دبوچ لیا جاتا ہے یا ہلاک کر دیا جاتا ہے.اسی طرح مومن کی شان ہے کہ حضرت اقدس محمد رسول الله صل اسلام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے.یہ معانی ہیں جو مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرمارہے ہیں میں تمہیں بشارت دیتا ہوں کہ تم سرحد پر کھڑے ہو کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا، یہ مراد ہے.اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ایک بہت ہی
خطبات طاہر جلد 17 881 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء دلچسپ واقعہ بیان فرماتے ہیں اور ایک ہندو کا واقعہ ہے مگر وہ دل سے چونکہ مسلمان ہو چکا تھا اور حمد و ثنا میں وقت گزارتا تھا اس لئے اللہ تعالیٰ نے اس کو بھی ایک شان عطا فرمائی جو اسی مضمون سے تعلق رکھتی ہے.فرماتے ہیں: ” مجھے یاد ہے کہ ایک ہندو سر رشتہ دار نے جس کا نام جگن ناتھ تھا اور جو ایک متعصب ہندو تھا بتلایا.اس متعصب ہندو نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بتایا کہ یہ باتیں میں آپ کو بتا رہا ہوں جو میری آنکھوں دیکھی ہیں ورنہ آپ کو پتا نہیں لگنا تھا ان باتوں کا.کیا بتلایا: کہ امرتسر یا کسی جگہ میں وہ سررشتہ دار تھا اور ایک ہندو اہل کار در پردہ نماز پڑھا کرتا تھا اور بظاہر ہندو تھا.میں اور دیگر سارے ہندو اسے بہت برا جانتے تھے اور ہم سب اہل کاروں نے مل کر ارادہ کر لیا کہ اس کو (ضرور) موقوف کرائیں.اور سب سے زیادہ شرارت میرے دل میں تھی.( یہ شریروں کا سر براہ بنا ہوا تھا ) میں نے کئی بار شکایت کی کہ اس نے یہ غلطی کی ہے اور یہ خلاف ورزی کی ہے مگر اس پر کوئی التفات نہ ہوتی پر تھی.(جو افسر تھا وہ پوری توجہ نہیں دیتا تھا اس کی شکایتوں پر.کہتے ہیں : ) لیکن ہم نے (بھی) ارادہ کر لیا ہوا تھا کہ اسے ضرور موقوف کرائیں گے.اور اپنے اس ارادہ میں کامیاب ہونے کے لئے بہت سی نکتہ چینیاں بھی جمع کر لی تھیں.(وہ صاحب بہادر جو انگریز تھا وہ معلوم ہوتا ہے صاحب فراست تھا.کہتے ہیں:) اور میں وقتاً فوقتاً ان نکتہ چینیوں کو صاحب بہادر کے ہاں پیش کر دیا کرتا تھا.صاحب اگر بہت ہی غصہ ہو کر اس کو بلا بھی لیتا تھا تو جب وہ سامنے آجا تا ( تو ) گویا آگ پر پانی پڑ جاتا.معمولی طور پر نہایت نرمی سے (اسے) فہمائش کر دیتا گویا اس سے کوئی قصور سرزد ہی نہیں ہوا.(اس پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں : ) اصل بات یہ ہے کہ تقویٰ کا رُعب دوسروں پر بھی پڑتا ہے.“ تو سرحدوں پر گھوڑے باندھنے سے ایک رعب ہے جو دشمنوں پر طاری ہوجاتا ہے اور دشمن پھر اس سرحد کا رخ ہی نہیں کرتے اور یہ رعب ایسا عظیم الشان رعب ہے تقویٰ کا کہ دُنیا کی نظر سے چھپا ہوا دل میں وہ تقویٰ موجود ہے مگر اس کا ایک رعب ہے جو بظا ہر دکھائی بھی دیتا ہے لوگوں کو اور نتیجہ یہ
خطبات طاہر جلد 17 882 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء اور خدا تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا.“ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ نمبر :81) تو آج جماعت احمدیہ کے لئے دیکھیں اس میں کتنا بڑا سبق ہے.ہمیشہ تقویٰ کی راہیں اختیار کریں تو اللہ آپ کی سرحدوں کی حفاظت فرمائے گا اور دشمن کئی قسم کے منصوبے بناتا رہے گا مگر وہ سارے منصوبے ناکام ہوں گے.آپ کو علم بھی نہیں ہوگا کہ دشمن منصوبے بنا رہا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سر راہ پر کھڑا ان منصوبوں کے ضرر سے آپ کو بچاتا رہے گا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام قرآن کریم کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں: اگر تم میرا شکر کرو گے تو میں اپنی دی ہوئی نعمت کو زیادہ کروں گا اور بصورت کفر عذاب میرا سخت ہے.یاد رکھو کہ جب امت کو امت مرحومہ قرار دیا ہے اور علوم لدنیہ سے اسے سرفرازی بخشی ہے تو عملی طور پر شکر واجب ہے.“ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897 صفحہ :148) اب اس عبارت میں بھی بہت سے مضامین حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مجتمع کر دئے ہیں.” جب امت کو امت مرحومہ قرار دیا ہے.اب عام اُردو دان تو شاید سمجھ جائیں مگر سادہ لوگ جن کی زبان نسبتاً کم ہے یا جن کو اُردو نہیں آتی وہ نہیں سمجھیں گے کہ امت مرحومہ سے کیا مراد ہے؟ مرحومہ یا مرحوم عموماً فوت شدہ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور اکثر کہتے ہیں وہ تو مرحوم ہے، وہ تو مرحومہ ہے.مراد اصل میں مرحوم سے فوت شدہ ہونا نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ ایسی امت ہے جس پر رحم فرما دیا گیا ہے یعنی اللہ نے بطور خاص اس پر رحم فرمایا ہے ، رسول اللہ صلی ایتم کی امت پر اور رحم کے نتیجہ میں ان کی حفاظت فرماتا ہے.اور رحم کا نتیجہ پھر کیا کچھ ہے.” علوم لدنیہ سے اسے سرفرازی بخشی ہے.“ ایسے علوم عطا فرمائے ہیں جو اس کے دل اور اس کی فطرت سے پھوٹ رہے ہیں اور اللہ کی جناب سے ہیں.پس یہ علوم جو اللہ کی جناب سے ہوں یہ اللہ کے رحم کی ایک علامت کے طور پر ہیں اور یہ علامت کئی طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے.بعض دفعہ جو اللہ کے حضور سے علم ملتے ہیں وہ ظاہری طور پر بھی بہت عظیم الشان ہو کر لوگوں کو دکھائی دیتے ہیں اور بعض دفعہ ایک سادہ سے آدمی کو ، ظاہری تعلیم کچھ نہیں ہوتی مگر علوم لدنیہ کی شان، اس کی سوچ، اس کی فکر، اس کے ہر حصول علم کے ساتھ وابستہ ہو جاتی
خطبات طاہر جلد 17 883 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء ہے یعنی حصول علم جو خدا کی طرف سے عطا کردہ علم کے نتیجہ میں ہوا کرتا ہے اس کو اتنے علوم مل جاتے ہیں کہ دُنیا کے بڑے بڑے عالم بھی اس کے سامنے بیچ ہو جاتے ہیں.آنحضرت سلایا کہ تم اس مثال میں سب سے اوپر ہیں.آپ سایا ہی تم کو خدا کی جناب سے وہ علم عطا کئے گئے جنہوں نے واقعہ عظیم الشان علوم کی صورت اختیار کر لی.صرف یہ نہیں کہ اللہ نے جو کچھ دیا اپنی طرف سے دیا بلکہ قرآن کریم کا مطالعہ کر کے دیکھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ کوئی دُنیا کا علم نہیں ہے جس کا ذکر قرآن کریم میں موجود نہ ہو اور آج تک مختلف علماء قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے جو کوشش کرتے رہتے ہیں وہ اس کا عشر عشیر بھی نہیں پاسکے جو رسول اللہ صلی یہ تم کو اس قرآن کا مفہوم خدا کی طرف سے سکھا بھی دیا گیا.ایسی عظیم الشان باتیں ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.آج کی دُنیا کو جن باتوں کا اب علم ہوا ہے اس زمانے میں رسول اللہ سلیم کوخدا تعالیٰ وہ علم عطا فر ما تا تھا اورصحابہ کے سامنے اس کو بیان بھی کر دیتے تھے اور صحابہ کو بعض دفعہ سمجھ بھی نہیں آتی تھی یہ کیا بات ہورہی ہے مگر رسول اللہ الی یم فرماتے تھے تو مان جاتے تھے.اب پتا لگا کہ رسول اللہ صلی یہ تم اس زمانے کی باتیں کرتے تھے جس زمانے نے بہت بعد میں ظہور پذیر ہونا تھا تو علوم لدنیہ سے یہ مراد ہیں.اور فرمایا اس امت کو سرفرازی بخشی ہے جس کا مطلب ہے آج بھی جو شخص تقومی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے گا تو اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ اس کو اسی طرح علم لدنی عطا فرمائے گا.پھر فرمایا: ” جب یہ سرفرازی بخشی گئی ہے تو عملی طور پر شکر واجب ہے شکر کے نتیجہ میں سرفرازی بخشی گئی اور جو سرفرازی بخشی گئی اس کے نتیجہ میں عملی طور پر شکر واجب ہے اور عملاً شکر وہی ہے کہ اس نعمت کو آگے لوگوں میں تقسیم کیا جائے ، جو علم ہے اسے تقسیم کیا جائے، جو ظاہری نعمتیں ہیں انہیں تقسیم کیا جائے اور اس طرح یہ اظہارِ شکر مزید نعمتوں پر منتج ہو.یہ جو پہلا اقتباس ہے یہ رپورٹ جلسہ سالانہ 1897ء سے لیا گیا.پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: اگر تم میراشکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اور بھی زیادہ کرتا ہوں.“ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جو عبارتیں ہیں قرآن کریم کی بعض آیات کے ترجمے اور تشریح کے طور پر ہیں.یہ نہ سمجھے کوئی کہ مسیح موعود علیہ السلام اپنے متعلق فرمارہے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 884 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء اگر تم میرا شکر ادا کرو تو میں اپنے احسانات کو اور بھی زیادہ کرتا ہوں اور اگر تم کفر کرو تو پھر میرا عذاب بھی بڑا سخت ہے.یعنی انسان پر جب خدا تعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور انسانوں کی بہتری کا خیال رکھے.“ اب وہی مضمون جو پہلے میں نے کھولا ہے اسی مضمون کی تائید میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں: ”جب خدا تعالیٰ کے احسانات ہوں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے اور انسانوں کی بہتری کا خیال رکھے اور اگر کوئی ایسا نہ کرے اور الٹاظلم شروع کر دے تو پھر خدا تعالیٰ اس سے وہ نعمتیں چھین لیتا (ہے) اور عذاب کرتا ہے.“ اور یہ 66 (رساله تشخیذ الاذہان ماہ اپریل 1908 جلد 3 نمبر 4 صفحہ : 164) ی نعمتیں چھینے کا مضمون بھی ایک بڑی تنبیہ ہے لیکن ضروری نہیں کہ ایک انسان اپنی زندگی میں یہ واقعہ دیکھ لے یا ایک قوم کو فوراً سمجھ بھی آجائے کہ کیوں یہ نعمتیں چھینی جارہی ہیں.بسا اوقات خدا تعالیٰ قوموں پر احسان کرتا ہے مگر وہ اپنی طاقت کو ظلم کے طور پر استعمال کرتے ہیں جیسے امریکہ کے تکبر کا حال ہے.ساری دُنیا جانتی ہے کہ محض یہ تکبر کا اظہار ہے، ایسا ظلم کیا جارہا ہے مسلمانوں پر ہر جگہ یا دنیا پر ہر جگہ کہ انسان حیران ہو جاتا ہے کہ آخر ان کی پکڑ کیوں نہیں آتی لیکن اللہ تعالی پکڑ میں دھیما ہے یہ قطعی بات ہے کہ ایسی قو میں پھر عروج سے گرا دی جاتی ہیں اور یہ واقعہ بعض دفعہ ایک ایک ہزار سال کا عرصہ لیتا ہے.اور وہ دن خدا کا جس میں ایک ہزار سال لگتے ہیں عروج کے اور پھر واپس آنے کے اس سے ظاہری طور پر بھی مراد لی جاسکتی ہے کہ قوموں کے عروج و زوال بعض دفعہ ایک ایک ہزار سال پر منتج ہوتے ہیں لیکن بعد والے دیکھ لیتے ہیں کہ کیا ہوا ان کے ساتھ اور جب خدا کی پکڑ آتی ہے تو ایسی پکڑ آتی ہے کہ ان کو کلیہ ملیا میٹ کر کے رکھ دیتا ہے، نام ونشان بھی نہیں رہتا، تاریخ کے ورقوں میں وہ لوگ بکھر جاتے ہیں لیکن یا درکھیں کہ جو اللہ کے اپنے پیاروں پر ظلم کرتے ہیں ان کے انجام کے لئے ہزار سال کا انتظار نہیں کیا جاتا ، وہ بہت جلد ظاہر کر دیا جاتا ہے.اور بسا اوقات وہ لوگ جن پر ظلم کیا گیا ہو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ بھی لیتے ہیں کہ اس طرح خدا نے ان سے سلوک کیا مگر بعض دفعہ دیکھتے بھی ہیں مگر پتا نہیں لگتا ان کو یا جن کے ساتھ خدا کا سلوک ہو رہا ہے وہ نہیں سمجھتے
خطبات طاہر جلد 17 885 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء کہ ہم سے یہ سلوک کیوں ہورہا ہے حالانکہ اپنی بے حیائیاں، اپنی ناشکریاں ان پر خوب روشن ہو جانی چاہئے تھیں.وہ دیکھتے ہیں اور پھر آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ظلموں میں.جس طرح شکر کرنے والوں کے ساتھ آزیدن کا وعدہ ہے، جو کفر کرنے والے ہیں ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک وعدہ ہے کہ پھر کفر کرتے چلے جاؤ کہاں تک کر لو گے، ہر کفر کا بد نتیجہ دیکھو گے یہاں تک کہ تم خاک کی طرح بکھر جاؤ گے، تمہاری کوئی بھی حیثیت باقی نہیں رہے گی.یہ واقعات بھی ہم دنیا میں ہوتے دیکھ رہے ہیں اور اللہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو اپنا شکر گزار بندہ بنائے اور ناشکری کے بدنتائج دیکھنے نہ نصیب کرے.لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا - (الدهر : 10) اب اس مضمون میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بہت ہی عظیم الشان بات بیان فرمائی ہے کہ خدا کے یہ بندے جو شکر گزار ہوں اور لوگوں پر بے انتہا رحم کرنے والے اور خرچ کرنے والے ہوں وہ اس کے جواب میں شکر نہیں چاہتے.لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَ لَا شُكُورًا نہ وہ جزا چاہتے ہیں کہ اس کا بدلہ ہمیں دو، نہ وہ اپنا شکر یہ پسند کرتے ہیں.اس کی نیکی خالصا للہ ہوتی ہے اور اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے.“ اب یہ دیکھیں اس مضمون کو آپ نے کہاں تک پہنچا دیا ہے.بسا اوقات لوگ احسان کے بدلے میں دعا کرتے ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ میرا حق ہے میں نے احسان کیا ہے اس نے مجھے دعا دی ہے لیکن یہ مضمون دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کس بلندی تک پہنچا دیا ہے.فرماتے ہیں: اس کے دل میں یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ اس کے واسطے دعا کی جاوے.‘اس وجہ سے کہ نظر خدا پر ہوتی ہے اس کا وعدہ ہے لازید لکم تو اس کا یہ وعدہ کسی کی دعاؤں کا محتاج نہیں ہوا کرتا.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے بھی بے انتہا احسان کئے ہیں بنی نوع انسان پر ، اپنے گردو پیش پر اور اس دُنیا پر بھی جو ابھی آپ کے حلقہ ارادت میں نہیں آئی تھی مگر یہ خیال“ جب آپ فرماتے ہیں تو آپ کے دل میں بھی خیال تک نہیں گزرا کہ میرے لئے دعا کی جائے.جانتے تھے کہ اللہ دیکھ رہا ہے اور دعا اٹھنے سے پہلے لوگوں کی دعا سے پہلے، خود میری دعا سے پہلے اس کے پیار کی نظر مجھ پہ پڑتی ہے اور میرے شکر کے نتیجہ میں مجھے بڑھاتا چلا جارہا ہے.
خطبات طاہر جلد 17 886 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء و نیکی محض اس جوش کے تقاضے سے کرتا ہے جو ہمدردی بنی نوع کے واسطے اس کے دل میں رکھا گیا ہے.“ لوگوں کی ہمدردی اس کے دل میں ہے وہ بے اختیار ہے اس وجہ سے، ایک پھول کے دل میں خوشبو رکھی گئی ہے وہ خود بخود پھیلتی ہے اس میں پھول کی ایک بے اختیاری ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ دل میں بنی نوع انسان کی ہمدردی اتنی بے اختیار ہے کہ ناممکن ہے کہ وہ ہمدردی دل سے ظاہر نہ ہو.ایسی پاک تعلیم نہ ہم نے توریت میں دیکھی اور نہ انجیل میں.ورق ورق کر کے ہم نے پڑھا ہے مگر ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام ونشان نہیں (ہے).“ ( الحکم جلد 12 نمبر 41 صفحہ : 11 مؤرخہ 14 جولائی 1908ء) یہ تمام دنیا میں احمدیوں کے لئے ان کے ہاتھ میں عیسائیوں سے مقابلے کا ایک نسخہ آ گیا ہے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام جب فرمارہے ہیں لفظاً لفظاً درست ہے کہ ورق ورق پڑھا ہے آپ نے اور ساری تو رات اور ساری انجیل میں یہ تعلیم دکھائی نہیں دی جو قرآن کریم کی ہے.ایسی پاک اور مکمل تعلیم کا نام ونشان تک نہیں ہے.تو آپ چیلنج کر کے لوگوں کو بتا ئیں ان سے پوچھیں، لا ؤ دکھاؤ کہاں ہے یہ تعلیم ؟.آپ حیران ہونگے کہ کہیں یہ تعلیم دکھائی نہیں دے گی کہ نیکی دل کے ایسے طبعی جوش سے اٹھ رہی ہو، بنی نوع انسان کی ہمدردی جس میں نہ جزا کا سوال ہو اور نہ اس کی پرواہ ہو کہ کوئی دعائیں دے بلکہ بے تعلق ہو انسان اس چیز سے.یہ تعریف نیکی کی آپ کو کسی اور کتاب میں نہیں ملے گی.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس مضمون کو بڑھا کر ایتاتِي ذِي الْقُرْبى (النحل: 91) کے مضمون میں داخل فرماتے ہیں کیونکہ یہ احسان کا مضمون تھا جو بیان ہوا ہے اس سے اگلا مقام ایت آئی ذی القربی کا ہے کہ اپنے قریبیوں کو عطا کرنا.اس میں تو یہ مضمون اور بھی زیادہ رفعت اختیار کر جاتا ہے لیکن حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ میں اس کو پڑھیں تو آپ حیران رہ جائیں گے کہ اس مضمون کی کیسی بلندی بیان فرمائی ہے جہاں انسان کا تصور بھی نہیں جاسکتا ، عام انسان کا جو اللہ سے نور یافتہ نہ ہو اس کا تصور بھی نہیں جاسکتا.اس طرح بات شروع کرتے ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 887 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء اکثر دفعہ ماں باپ بوڑھے ہوتے ہیں اور ان کو اولاد ہوتی ہے تو ان کی کوئی امید بظاہر اولا د سے فائدہ اٹھانے کی نہیں ہوتی لیکن باوجود اس کے پھر بھی وہ اس سے محبت اور پرورش کرتے ہیں.یہ ایک طبعی امر ہوتا ہے.جو محبت اس درجہ تک پہنچ جاوے اسی کا اشاره ایتاآئی ذی القربی میں کیا گیا ہے.(اب یہ مضمون تو بسا اوقات کھولا گیا ہے اس طرح لوگ اس کو سمجھتے بھی ہیں مگر اب اگلی بات سنئے : ) اس قسم کی محبت خدا (تعالی) کے ساتھ ہونی چاہئے.نہ مراتب کی خواہش نہ ذلت کا ڈر.“ (البدر جلد 2 نمبر 43 صفحہ : 335 مؤرخہ 16 نومبر 1903ء) یعنی ايتاي ذي القرنی کی محبت خدا تعالیٰ سے ہونی چاہئے کیونکہ خدا سب سے زیادہ قریب ہے اور بوڑھے ماں باپ بچہ پیدا کر دیتے ہیں اور جب تک ان کو توفیق ملے اس کا خیال رکھتے ہیں، کسی بدلے کی خاطر نہیں مگر اللہ تعالیٰ نے تو ہمیں اس وقت پیدا کیا جب کہ ماں باپ کا ہی کوئی وجود نہیں تھا، کائنات کا بھی کوئی وجود نہیں تھا.اتنے احسانات فرمائے اور فرماتا چلا جا رہا ہے کہ ہر ضرورت کے وقت ایک نئی شان کا احسان نازل فرما دیتا ہے اور وہ خزانے اتارنے لگتا ہے جو اس سے پہلے دکھائی نہیں دیا کرتے تھے.یہ وہ مضمون ہے جس کی کوئی اتھاہ نہیں ہے.جتنا آپ غور کریں اس سے زیادہ اس مضمون کے پیچھے اور معرفت کی باتیں دکھائی دینے لگیں گی.اب دیکھیں دُنیا کی ترقی کتنی ہو گئی ہے لیکن اس ترقی کے نتیجہ میں کچھ اور مٹیریل کی ضرورت پیش آئی ہے.جتنی علمی ترقی ہوئی ہے اس کے نتیجہ میں جو مشینیں ایجاد ہو رہی ہیں یا نئی سے نئی چیزیں بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے بنائی جارہی ہیں خواہ ان سے نقصان ہی اٹھایا جا رہا ہو مگر نیت یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ چیزیں بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے بنائی جائیں.اس ضمن میں جو خدا تعالیٰ نے مادہ بنایا ہے اگر وہ اتنا ہی رہتا، اس میں آگے بڑھنے کی گنجائش نہ ہوتی تو انسان ترقی کے ایک مقام پر آکر رک جاتا.اب سائنس کا جو نیا رجحان ہے وہ مٹیریل پیدا کرنے کی طرف ہے اور جتنے مادے بنے ہوئے تھے وہ بڑھتے چلے گئے انسان کو اور زیادہ معلوم ہونے شروع ہو گئے.وہ مادے اگر انسان کو معلوم نہ ہوتے تو وہ سائنسی ترقی جو اسے علمی طور پر نصیب ہوئی تھی عملاً نصیب نہیں ہو سکتی تھی.اب دیکھیں 109 تک انہوں نے وہ
خطبات طاہر جلد 17 888 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء مادے دریافت کر لئے جو بنیادی مادے ہوا کرتے ہیں، ہائیڈ روجن سے شروع کریں یا ہیلیئم سے شروع کریں تو ترقی کرتے کرتے مالیکیول زیادہ وزنی ہوتے چلے جائیں تو ایک اور مادہ بن جاتا ہے اور وزنی ہو جائیں تو ایک اور مادہ بن جاتا ہے لیکن مسلسل ارتقا ہے، مسلسل ان کے درمیان آپس میں ربط ہے ایک ایٹم کے زیادہ ہونے سے یا ایک الیکٹرون کے زیادہ ہونے سے، ایک پروٹون کے زیادہ ہونے سے، ایک معمولی سے معمولی چیز کے اضافہ سے جو بنیادی مادہ ہے وہ اگلے درجہ میں پہنچ جاتا ہے.اس کی ہیئت ، اس کی شکل، اس کی صفات سب بدل جاتی ہیں.تو یہ اللہ کی عجیب شان ہے کہ اس طرح خدا تعالیٰ نے مادے کو ترقی دی اور اس سے کچھ ایک دو سال پہلے تک یا چند سال پہلے تک انسان کو صرف ننانوے بنیادی مادے معلوم تھے ، پھر 100 ہوئے ، پھر 101 ، پھر 102 ، پھر 103، 109 تک پہنچ گئے اور خیال پیدا ہوا کہ اب اس کے بعد کوئی نیا مادہ نہیں مل سکتا.اب 110، 111 112 بھی بن گئے ہیں اور 113 114 115 کے امکانات کھل گئے ہیں اور ان کو معلوم ہو چکا ہے کہ یہ یہ طریق اختیار کریں تو یہ مادہ ایک اور روز نی مادہ میں تبدیل ہو سکتا ہے اور یہ وہ ساری چیزیں ہیں جن کی ضرورت ہے.اس لئے اب ایک نئی سائنس کی برانچ ، ایک شاخ بنی ہے جس کو سائنس آف مٹیریل کہتے ہیں یعنی وہ میٹیریل جس کو ہم نے استعمال کرنا ہے نئی نئی چیزوں میں وہ مٹیریل بھی اگر اس قابل نہ ہو کہ وہ ان چیزوں میں استعمال ہو سکتا ہو تو وہ چیزیں بن ہی نہیں سکتیں.کپڑا بودا ہوگا تو اس سے مضبوط قمیص کیسے سل سکتی ہے یا مضبوط شلوار کیسے سل سکتی ہے.جتنا زیادہ سختی کا تقاضا ہو کسی کپڑے کے لئے اتنا ہی زیادہ کپڑے کو مضبوط ہونا چاہئے ، اتنا ہی زیادہ اس کے جوڑ مضبوطی سے سلنے چاہئیں.تو یہ وہ چیزیں ہیں جن کو آج کل سائنس آف مٹیریل میں استعمال کیا جا رہا ہے اور کبھی بھی دُنیا میں اتنی عظیم الشان ترقی نہ ہو سکتی تھی اگر مٹیریل موجود نہ ہوتا یا اس مٹیریل کے بنائے جانے کے امکانات نہ پیدا ہوئے ہوتے.تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام ان باتوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو ايتاى ذى القربی کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے یعنی اگر چہ ان الفاظ میں جن الفاظ میں میں نے بیان کیا ہے یہ سب کچھ مسیح موعود علیہ السلام نے نہیں فرمایا مگر جو اشارہ ہے وہ اسی طرف ہے.اگر اس پر غور کرو تو پتا چلے گا کہ جس نے تمہارے لئے بہت زیادہ ایسی چیزیں پیدا کر دیں جو کبھی
خطبات طاہر جلد 17 889 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء تمہارے کام آ سکتی ہیں.بوڑھے ماں باپ تو مر بھی جاتے ہیں اور آئندہ تمہاری ضرورتیں پھر کون پوری کرے گا لیکن اللہ کوتو ہمیشہ کی زندگی ہے اور اس نے تمہارے لئے وہ ضرورتیں پیدا بھی کر دی ہیں اور تمہیں پھر وہ دکھاتا بھی چلا جاتا ہے، نشان دہی کرتا چلا جاتا ہے.اچھا اب اور آگے قدم بڑھاؤ تو یہ لے لو.اس سے آگے قدم بڑھاؤ تو یہ بھی موجود ہے.تو مٹیریل کبھی بھی انسان کی ضرورت سے پیچھے نہیں رہ سکتا، مسلسل خدا کی تقدیر اسے آگے بڑھاتی چلی جاتی ہے.تو فرمایا پھر ايتاى ذى القربی تو اس سے ہونی چاہئے یعنی جو قریب ترین ہے وہ یہ ہے.قریبیوں کے لئے جو خرچ کیا جاتا ہے اس طرح اللہ کے لئے خرچ کرو.اب مضمون کو دیکھیں کیسا پلٹا دیا ہے آپ نے.وہ تمہارے لئے یہ کرتا ہے تو تم بھی جواباً ویسا ہی معاملہ اللہ سے کرو.” نہ مراتب کی خواہش، نہ ذلت کا ڈر.اللہ سے ایسی محبت کرنی ہے اب کہ ذلت کا بھی کوئی خوف نہیں.اس راہ میں ذلت بھی آئے تو پیاری لگے اور مراتب نصیب ہوں تو وہ بھی بہت پیارے لگیں.اب دیکھیں انسان خدا کا کامل عاجز بندہ خدا کو مخاطب کر کے یہ کہہ رہا ہے.اب یہ ہے مضمون جو پلٹا دیا ہے آپ نے لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَ لَا شُكُورًا کہ اے اللہ ! ہم تجھ سے جزا بھی نہیں مانگتے نہ اظہار تشکر ہمیں تو تجھ سے ایسا عشق ہے ایسی محبت میں مبتلا ہو گئے ہیں تیرے احسانات پر نظر کرتے ہوئے کہ اب ہمارا بنیادی فرض ہے کہ تجھ سے ایسی محبت کریں.ہماری فطرت میں داخل ہو چکی ہے یہ محبت اور یہ محبت کسی آزمائش کے نتیجہ میں ملنے والی نہیں ہے.اسی قسم کی آزمائش حضرت ایوب کی بھی کی گئی تھی.حضرت ایوب کے متعلق یہ بیان ہوا ہے کہ شیطان نے اللہ تعالیٰ سے یہ کہا کہ اس کو تو نے اتنی نعمتیں عطا کی ہیں یہ شکر کیوں نہ کرے.اگر واقعہ ایوب کو تجھ سے محبت ہے تو بلاؤں اور مصیبتوں میں گرفتار کر کے دیکھ.اتنا دردناک واقعہ ہے حضرت ایوب کا اور اسی شان کے ساتھ قرآن کریم نے آپ کو بیان فرمایا ہے.بے انتہا صبر کرنے والا بندہ تھا، ہر طرح کی مصیبتیں آپ پر نازل ہوئیں ، جسم میں کیڑے پڑ گئے ، شہر سے باہر گندگی کے ڈھیر پر آپ کو پھینک دیا گیا لیکن شکر کا حق ادا کرنے سے باز نہیں آئے یہاں تک کہ بعض روایتوں میں یہ بھی آتا ہے، کہانیاں بھی بیان کی جاتی ہیں کہ شیطان نے اللہ سے کہا اے خدا! اس کو اور نہ آزما کیونکہ جتنا تو آزماتا ہے یہ تیرے اور بھی قریب ہوتا جا رہا ہے.میں تو خدا سے بندوں کو دور کرنے کے لئے آیا ہوں قریب کرنے تو نہیں
خطبات طاہر جلد 17 890 خطبہ جمعہ 18 دسمبر 1998ء آیا ہوا.تو یہ مضمون ہے جس کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بیان فرما رہے ہیں.لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَلَا شُكُورًا سے ظاہر ہے کہ پھر انسان نہ مراتب کی خواہش رکھتا ہے نہ ذلت سے ڈرتا ہے.جو کچھ بھی ہے ہر چہ بادا باد، ہوتا چلا جائے ، مگر اللہ کی محبت کے اظہار سے ، اللہ سے محبت کرنے سے وہ باز آ ہی نہیں سکتے.میں اُمید رکھتا ہوں کہ اس رمضان میں اللہ تعالیٰ ہمیں اس قسم کا شکر سکھائے اور اس قسم کے شکر کا حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے.آمین
خطبات طاہر جلد 17 891 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء قرآن وحدیث کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت اور اس کے مسائل کا بیان (خطبہ جمعہ فرمودہ 25 دسمبر 1998ء بمقام بیت الفضل لندن ) تشہد وتعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے درج ذیل آیت کریمہ کی تلاوت کی: شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِى اُنْزِلَ فِيهِ الْقُرْآنُ هُدًى لِلنَّاسِ وَ بَيِّنَةٍ مِنَ الهُدى وَالْفُرْقَانِ ۚ فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُهُ ۖ وَ مَنْ كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ ُأخَرَ يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ وَ لِتَكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلَى مَا هَديكُمْ وَلَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ پھر فرمایا: (البقرة:186) یہ سورۃ البقرۃ کی ایک سو چھیا سویں آیت ہے.چونکہ رمضان کا مہینہ شروع ہو چکا ہے اور یہ رمضان کا پہلا جمعہ ہے اس لئے جیسا کہ ہمیشہ میرا دستور رہا ہے رمضان کی فضیلت سے متعلق کچھ احادیث اور رمضان کے مسائل سے متعلق احادیث پیش کیا کرتا ہوں اور اسی طرح حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے بعض اقتباسات بھی جو انہی باتوں سے متعلق ہیں.پہلے اس کا ترجمہ آپ کے سامنے رکھتا ہوں جو آیت پڑھی گئی ہے.رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا.اس کے ترجمے کچھ معمولی فرق کے ساتھ مختلف ہو سکتے ہیں
خطبات طاہر جلد 17 892 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء کیونکہ جو چوٹی کے اہل لغت ہیں انہوں نے مبتدا اور خبر وغیرہ کی اور متعلق خبر وغیرہ کی بحثیں اٹھائی ہوئی ہیں کہ ان کی وجہ سے جو اردو میں ترجمہ کیا جائے اس میں کچھ معمولی فرق پڑے گا اور یہ فرق دکھائی بھی دیتے ہیں لیکن جہاں تک مضمون کا تعلق ہے مضمون وہی رہتا ہے.تو اس تمہید کے ساتھ یعنی اس اعتذار کے ساتھ کہ اس مجبوری کی وجہ سے بعض احباب کو ترجمے میں تھوڑا سا فرق دکھائی دے گا میں اب دوبارہ پھر ترجمہ پڑھنا شروع کرتا ہوں : " رمضان کا مہینہ جس میں قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت کے طور پر اتارا گیا اور ایسی ہدایت کے طور پر جو بینات پر مشتمل اور حق و باطل میں تمیز کر دینے والی ہے.پس جو بھی تم میں سے اس مہینہ کو دیکھے تو اس کے روزے رکھے اور جو مریض ہو یا سفر پر ہوتو گنتی پورا کرنا دوسرے ایام میں ہوگا.اللہ تمہارے لئے آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لئے تنگی نہیں چاہتا اور چاہتا ہے کہ تم (سہولت سے) گنتی کو پورا کرو اور اس ہدایت کی بنا پر اللہ کی بڑائی بیان کرو جو اس نے تمہیں عطا کی اور تاکہ تم شکر کرو “ اس ضمن میں حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی ایتم کی جو احادیث میں نے چینی ہیں ان میں سے چند آپ کے سامنے رکھتا ہوں.مسند احمد بن حنبل بحوالہ فتح ربانی سے یہ روایت لی گئی ہے.حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرت صلی للہ یہ تم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا اور اس کے دوران ان تمام باتوں سے محفوظ رہا جن سے محفوظ رہنا چاہئے تھا تو ایسے روزہ دار کے لئے اس کے روزے اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں.“ الفتح الرباني لترتيب مسند امام احمد بن حنبل، کتاب الصيام، باب فضل صیام رمضان و قیامه / مسند امام احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسند ابي سعيد الخدری ،حدیث نمبر : 11524) بالکل واضح حدیث ہے اس کے سمجھنے میں کوئی ایسی مشکل نہیں جو عام سادہ اُردو جاننے والے کے لئے مشکل پیش ہو.رمضان کے مہینے کو اس کے تقاضے پورے کرتے ہوئے اگر ادا کیا جائے اور روزے رکھے جائیں تو یہ اس کے پہلے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں یعنی رمضان کے مہینہ میں پھر وہ روحانی لحاظ سے دھل کر نکلتا ہے اور کوئی پرانا داغ اس کے روحانی بدن کو میلا کرنے والا باقی نہیں رہتا.
خطبات طاہر جلد 17 893 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء دوسری حدیث سنن النسائی کتاب الصیام سے لی گئی ہے.النَّضْرُ بْنُ شَيْبَانَ قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ.(اس کا ترجمہ میں وو آپ کے سامنے رکھتا ہوں ) نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابوسلمہ بن عبد الرحمن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارہ میں آنحضرت مصلی یہ تم سے براہ راست سنی ہو.( بیچ میں کوئی اور واسطہ نہ آیا ہو ) ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی السلام نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان کے روزے رکھنا تم پر فرض کئے اور میں نے اپنی سنت کے ذریعہ تم پر کھول دیا ہے کہ اس کا قیام کیسے کیا جاتا ہے.“ جیسے نماز کو قائم کیا جاتا ہے اور اگر کوشش اور محنت اور توجہ سے نماز کو قائم نہ رکھا جائے تو بار بار اس میں گرنے کا رجحان پایا جاتا ہے یعنی اس کے تقاضے پورے نہیں کئے جاتے تو جس حد تک تقاضے پورے نہ ہوں اس حد تک کہ سکتے ہیں کہ اتنی نماز گر گئی.رمضان کا بھی یہی حال ہے.رمضان کے روزے رکھنا قیام نماز کی طرح ہے.جہاں جہاں بھی کوئی انسان اس کے تقاضے پورے کرنے میں ناکام رہے گا اس حد تک رمضان کھڑا نہیں رہے گا.پس رسول اللہ صلی ا یہ تم نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنی سنت کے ذریعہ تم پر کھول دیا ہے یعنی سنت جاری کر کے بتادیا ہے اس طرح رمضان کے حقوق ادا کئے جاتے ہیں.اسی طرح جس طرح میں نے رمضان گزارے ہیں تم بھی رمضان گزارو تو تم نماز کی طرح رمضان کو بھی قائم کرنے والے کہلاؤگے.اس کے بعد فرمایا: پس جو اس کے روزے رکھے اور اسے قائم کرے.( کس حالت میں قائم کرے؟ ) ایمان کی حالت میں اور نفس کا محاسبہ کرتے ہوئے.(تمام وقت ایمان کی حالت میں رہے اور ہمیشہ نفس کا محاسبہ کرتا رہے ) وہ اس دن کی طرح اپنے گناہوں سے باہر نکل آئے گا جس دن اس کی ماں نے اس کو جنم دیا تھا.“ (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب ذکر اختلاف یحی بن ابی کثیر..حدیث نمبر : 2210 ) یعنی پاک وصاف فطرت لے کر بچہ پیدا ہوتا ہے اور جس طرح ماں کے پیٹ سے باہر نکلا تھا اسی طرح اس رمضان سے باہر نکلے گا، اگر یہ شرائط پوری کرے گا.
خطبات طاہر جلد 17 894 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء ایک اور حدیث ہے جو اکثر آپ سنتے رہتے ہیں اس کی کچھ تشریح کی ضرورت ہے.وہ ہے رمضان میں شیاطین کا جکڑا جانا اور ابواب جنت کا کھلنا.الترمذی کتاب الصوم سے یہ حدیث لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ لی لی تم نے فرمایا: ” جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور آگ کے دروازے بند کر دئے جاتے ہیں اور اس کا ایک بھی دروازہ کھلا نہیں رکھا جاتا اور جنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں اور ایک بھی دروازہ بند نہیں رکھا جاتا اور منادی اعلان کرتا ہے کہ اے خیر کے طالب ! آگے بڑھ اور اے شر کے خواہاں !ارک جا اور آگ سے بچائے جانے والے اللہ ہی کی خاطر آگ سے بچائے جاتے ہیں اور ایسا 66 ہر رات ہوتا ہے." (جامع الترمذی، کتاب الصوم عن رسول الله ﷺ ، باب ماجاء في فضل شهر رمضان،حدیث نمبر : 682) یہ جو اللہ ہی کی خاطر آگ سے بچائے جاتے ہیں یہ ترجمہ ہے اس کا.وَلِلهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ اور یله کا ترجمہ میں نے یہ کیا ہے اور اللہ ہی کی خاطر عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ آگ سے جو لوگ بچنے کی توفیق دئے جاتے ہیں ، جن کو آگ سے بچایا جاتا ہے وہ اللہ ہی کی خاطر آگ سے بچائے جاتے ہیں.جس میں یہ مفہوم مضمر ہے کہ اگر ان کا رمضان اللہ کی خاطر بسر ہوگا تو اللہ کی خاطر ہی پھر ان کو آگ سے بھی بچایا جائے گا.بعض لوگوں نے اس کا ترجمہ کیا ہے اللہ کے بندے اس دن آگ سے بچائے جاتے ہیں، مجھے تو اس سے اختلاف ہے.یہاں اللہ کے بندے مراد نہیں ، بندے تو ہیں لیکن لِلهِ عُتَقاء اللہ کی خاطر جنہوں نے رمضان بسر کیا وہ اللہ ہی کی خاطر آگ سے بچائے جائیں گے یعنی اللہ اس بات کا لحاظ رکھے گا.وذلِكَ كُلّ لَيْلَةٍ - تو یہ ہوتا ہے ہر رمضان کی رات کو یہ ظرف بن جائے گا اس لئے گل ليلة ہو جائے گا پس ایسا رمضان کی ہر رات کو ہوتا ہے.میں نے یہ عرض کیا تھا کہ یہ تشریح طلب حدیث ہے کیونکہ امر واقعہ یہ ہے کہ رمضان کی راتوں کو یا رمضان کے آغاز پر بھی جہنم کے سارے دروازے بند نہیں کئے جاتے اور جنت کے سارے دروازے کھولے نہیں جاتے یعنی عام بنی نوع انسان کے لئے جو اللہ کی خاطر رمضان بسر نہ کرتے ہوں ، اور ایسا ساری دُنیا میں ہو رہا ہے.خدا کے نام پر تہوار منائے جاتے ہیں اور ان تہواروں میں
خطبات طاہر جلد 17 895 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء.حرکتیں وہ ہوتی ہیں جو اللہ کی خاطر نہیں ہوتیں.اب رمضان کے مہینہ میں بھی جہاں تک ہمارا علم ہے جو مسلمان ممالک سے خبریں آتی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اکثر راتیں وہ جشن کی طرح مناتے ہیں اور عیش و عشرت میں صرف کرتے ہیں.بعض لوگ جو شراب کے عادی ہوں وہ آخر وقت تک ، اذان تک شراب خوری کرتے چلے جاتے ہیں کہتے ہیں کہ اب شیطان نے بند ہونا ہے.جب روزہ شروع ہوگا تو شیطان بند ہو گا.حالانکہ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا.رسول اللہ صلی یا یہ تم تو یہ فرما رہے ہیں رمضان کے وقت شیطان بند ہو جاتا ہے تو اگر مسلمان ممالک کا یہ حال ہے کہ وہاں شیطان بند نہیں ہوتا تو باقی ممالک کا اندازہ کریں کہ کیا حال ہوگا.آج کل اب یہ کرسمس کے دن ہیں اور حضرت عیسی علیہ السلام کی کیسی گستاخی ہے کہ حضرت عیسیٰ کے نام پر کرسمس منائی جارہی ہے اور شیطان کو ایسی کھلی چھٹی ملی ہے کہ کم ہی دوسرے وقتوں میں ملتی ہوگی.ہر قسم کے ظلم و ستم ، بے حیائیاں یہاں جاری ہیں مگر ایک خوبی بھی ہے جس کا ذکر کرنا ضروری ہے وہ ان کے لئے جنت کا ایک دروازہ ضرور کھولتی ہے.وہ یہ کہ اپنے غریب عیسائی ممالک کے بچوں کے لئے خصوصیت سے اہل انگلستان بہت محنت کر کے خوبصورت عیدیوں کے ڈبے تیار کرتے ہیں.جس طرح ہماری عیدی ہوتی ہے اس طرح کرسمس کی بھی عیدی ہوا کرتی ہے اور یہ وہ دروازہ ہے جو ان میں سے کئیوں کے لئے اللہ فضل کرنا چاہے تو جنت کا دروازہ ہے جو کھل جائے گا.یہ بکثرت مثلاً رومانیہ میں جو عیسائی ملک ہے، غریب ملک ہے عیسائی بچے بہت سے ایسے ہیں جو محتاج ہیں کہ ان کو کوئی تحفہ دیا جائے اور کثرت سے ان میں ایڈز کے مریض بھی ہیں اور یہ لوگ اس پہلو سے اتنا خیال رکھتے ہیں کہ تمام عیسائی ممالک میں جہاں جہاں گہرے ایڈز کے مریض ہیں ان کے بچوں کو بھی خوش کرنے کے لئے وہ خوبصورت تحفے بناتے ہیں اور پیکٹس میں ڈالتے ہیں اور اس کے لئے لاکھوں انگریز مرد عورتیں اور بچے ہیں جو محنت کر کے یہ تیار کرتے ہیں.تو انہوں نے تو اپنے لئے ایک ایسا دروازہ کھولا جسے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جنت کی ایک کھڑکی تو ضرور ہے یہ لیکن افسوس ہے کہ مسلمان ممالک کو یہ بھی توفیق نہیں ملتی.اب سعودی عرب اور کویت وغیرہ جن سونے کے پہاڑوں پر بیٹھے ہوئے ہیں اگر ان کی ایک چٹان ہی کو استعمال کر لیں اور جتنے مسلمان غریب ممالک میں بسنے والے بچے ہیں ان کی عید بنا دیں یا رمضان کے مہینہ میں ان کے لئے رمضان کے پورا کرنے کے سامان
خطبات طاہر جلد 17 896 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء مہیا کر دیں اور آنے والی عید پر ان کے لئے تحفے مہیا کریں تو بہت بڑی خدمت ہے.کل عالم اسلام میں چونکہ غربت زیادہ ہے اس لئے یہاں تو اس خدمت کی بہت زیادہ ضرورت ہے.تو ان سے، غیروں سے ہی سبق سیکھیں اور وہ دروازے جن کا رسول اللہ صل اللہ تم نے ذکر فرمایا ہے ان دروازوں کو اپنے اوپر کھولیں اور مسلمانوں کے لئے کھول دیں مگر اللہ تو کھولتا ہے مگر ان کو یہ دروازے کھولنے کی توفیق نہیں ملتی.یہ تبصرہ تنقیدی نہیں بلکہ ناصحانہ ہے.یہ خبر یں جن مسلمان ممالک تک پہنچتی ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جن کی ایجینس ان کو میرے خطبات کے متعلقہ حصہ پیش کرتی ہیں تو اس لئے میں اُمید رکھتا ہوں کہ چونکہ یہ اس بات پر گہری نظر رکھ رہے ہیں کہ احمدیت کی دُنیا میں کیا ہو رہا ہے اس لئے یہ خبریں ضرور ان میں سے ان لوگوں کو پہنچیں گی جو فیصلہ کرنے کے مجاز ہوا کرتے ہیں.تو اللہ تعالیٰ توفیق دے کہ اسی رمضان میں نہ سہی تو اگلے رمضان میں ہی ایک مستقل نظام جاری کر دیں جس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ مسلمان ممالک پر یہ جنت کے دروازے کھلنے لگیں.ایک حدیث ہے جو کتاب الطھارۃ صحیح مسلم سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت مصلایا کہ تم فرمایا کرتے تھے کہ : کبائر سے بچنے کے لئے پانچ نمازیں، ایک جمعہ اگلے جمعہ تک اور ایک رمضان اگلے رمضان تک کفارہ ہوتا ہے." 66 (صحیح مسلم ، کتاب الطهارة، باب الصلوات الخمس والجمعة...،حدیث نمبر : 233) یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کے لئے دیکھو اللہ تعالیٰ نے کیسا زبردست انتظام کیا ہوا ہے کہ محافظین کا سلسلہ مسلسل جاری ہے.ایک دن بھی سال کا ایسا نہیں بچتا جس میں شیطان حملہ آور ہو اور اس کو رڈ کرنے کے سامان نہ ہوں تو فرمایا کبائر یعنی بڑے گناہوں سے بچنے کے لئے.یہاں کبائر کا لفظ اس لئے استعمال فرمایا ہے کہ انسان غلطی کا پتلا ہے ، کبائر سے بچنے والے، بڑے گناہوں سے بچنے والے بھی بہت سے ہیں جو روز مرہ چھوٹی چھوٹی غلطیوں میں مبتلا ہوتے رہتے ہیں.حضور اکرم سی تھا کہ تم نے ان کو نظر انداز فرما دیا ہے.فرمایا کبائر سے بچنے والے کے لئے پانچ نمازیں ہیں.ہر نماز پر اقرار کرتا ہے کہ اے خدا! مجھے سچی عبادت کی توفیق عطا فرما، مجھے منعم علیہ گروہ کے رستہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما، مجھے مغضوبوں کے رستہ سے بچا ، ضالین کے رستہ سے بچا.اب یہ ساری باتیں
خطبات طاہر جلد 17 897 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء کبائر سے بچانے والی نہیں تو اور کیا ہیں؟ اور ہر روز پانچ مرتبہ ایسا ہوتا ہے.پھر ایک جمعہ اگلے جمعہ تک یہ روز کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور جمعہ کو خصوصیت کے ساتھ ان امور کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے جن کی روزانہ پانچ وقت توجہ دلائی جاتی ہے اور ایک رمضان اگلے رمضان تک کفارہ ہو جاتا ہے یعنی رمضان سے رمضان تک کا سلسلہ اسی طرح روز بروز کی پانچ نمازوں اور جمعوں کے ذریعہ ملتا چلا جاتا ہے.یہاں تک کہ پورا سال انسان کبائر سے بچنے کی اہلیت حاصل کر لیتا ہے اور اگر بچنا چا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کو بچانے کے لئے بہت عظیم الشان انتظام جاری فرمار کھے ہیں.ایک بات رمضان المبارک میں بہت زیادہ خرچ کرنے کی تلقین ہے، اتنازیادہ کہ آنحضرت سل ای یانم کے متعلق آتا ہے کہ آپ مسی یا پریتم کی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی رفتار تو تیز ہواؤں کی طرح تھی لیکن رمضان میں یوں لگتا تھا جیسے جھگڑا آ گیا ہو.ان ہواؤں کی رفتار اور بھی زیادہ تیز ہو جایا کرتی تھی اور بہت تیزی کے ساتھ آنحضرت صلی ا یہ تم انفاق فی سبیل اللہ کرتے تھے.(صحيح البخارى، كتاب الصوم، باب أجود ما كان النبي يكون في رمضان ، حدیث نمبر : 1902) سوال یہ ہے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے کیا فائدہ ہوتا ہے؟ کیا صرف مال نکلتاہی ہے یا اللہ تعالیٰ اموال میں برکت کا بھی اسی کو ذریعہ بناتا ہے.تو اس حدیث میں یہ نسخہ درج ہے اگر چہ آنحضرت صلی نیا کی تم کی یہ ذاتی خواہش نہیں تھی کہ میں خدا کی راہ میں خرچ کروں اور جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے وہ مال کو بڑھائے یعنی اپنی ذات کے لئے نہیں بلکہ قومی اموال کو بڑھانے کے لئے رسول اللہ صلی ستم کا یہ نسخہ تھا.اور یہ حقیقت ہے، ایک ثابت شدہ حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی کیا یہ تم کے اتفاق ہی کی وجہ سے مسلمانوں کے قومی خرانے اتنے بھر دئے گئے کہ پھر وہ ملک در ملک خدا کا یہ مالی فیض بھی بنی نوع انسان کو پہنچاتے رہے، غریبوں کو پہنچاتے رہے اور وہ خزانے ختم ہونے میں نہیں آتے تھے.تو یہ وہ نسخہ ہے جو مال بڑھانے کا نسخہ ہے جو انفرادی لحاظ سے بھی اطلاق پاتا ہے.اس لئے وہ لوگ جو رمضان کے مہینہ میں خرچ کرتے ہیں ان کو یا درکھنا چاہئے کہ اس خرچ سے ان کے مال میں کمی نہیں آئے گی اور بہت سے جماعت کے غرباء اس سے استفادہ کریں گے.خدا کی خاطر خرچ کریں، اللہ کی خاطر خرچ کرنے کی نیت سے خرچ کرنا لازم ہے.ایسا کریں گے تو اللہ تعالیٰ جو بہت زیادہ بندے کے شکر کا شکر ادا کرنے والا ہے وہ ایسے بندوں کے اموال میں برکت دے گا.حدیث کے الفاظ یہ ہیں.
خطبات طاہر جلد 17 898 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء سهل بن معاذ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی یہ تم نے فرمایا : نماز روزہ اور ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کے رستہ میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے.“ (سنن أبی داؤد، کتاب الجهاد باب فى تضعيف الذکر فی سبیل اللہ تعالی ، حدیث نمبر : 2498) اب دیکھیں اس کے ساتھ شرط ہے، نماز اور روزہ اور ذکر کرنا بڑھاتا ہے.یہ شرط پوری ہونی ضروری ہے.نماز کا حق ادا کیا جائے ، روزے کا حق ادا کیا جائے، ذکر الہی کا حق ادا کیا جائے ، اس کے ساتھ اگر خدا کی راہ میں خرچ کرو گے تو پھر اللہ تعالیٰ اسے سات سو گنا بڑھا دیتا ہے.قرآن کریم میں جہاں سات سو گنا بڑھانے کا ذکر ملتا ہے وہ بالیوں کی تعداد کے اشارے سے ایک دانے سے اتنی بالیاں نکلتی ہیں اس سے استنباط ہوتا ہے کہ سات سو گنا بڑھاتا ہے مگر ساتھ ہی یہ وعدہ ہے جس کے لئے چاہے اس سے بہت زیادہ بڑھاتا ہے.تو تعداد جب بیان کی جاتی ہے، جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعداد بیان کی جاتی ہے تو صرف بندوں کو ایک ترغیب کی خاطر سمجھانے کے لئے اور دوسرے لفظوں میں کم سے کم یہ تو ہو گا ضرور اور اس سے بہت زیادہ بھی ہوگا.اب دیکھیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے جو کچھ پاس تھا خدا کی راہ میں خرچ کیا اور اب جماعت کا بجٹ دیکھیں اربوں تک پہنچ گیا ہے اور ساری دُنیا میں فیض پہنچ رہا ہے.تو رسول اللہ صلی ال ایام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے آپ نے جو خرچ کیا، انفاق فی سبیل اللہ اس کو خدا نے دیکھو کیسے رنگ دلائے ، کیسی برکت دی اور انفرادی طور پر بھی یہ ممکن ہے کہ ساری جماعت کے اموال میں بہت برکت پڑے مگر شرط وہی ہے جو حدیث کے حوالہ سے میں نے بیان کی ہے.نماز ، روزہ اور ذکر الہی کا حق ادا کرو اور اس کے ساتھ ذکر الہی سے معمور ہوکر پھر اللہ کی راہ میں خرچ کرو پھر دیکھو کہ کس طرح اللہ تعالیٰ تمہارے اموال میں برکت دیتا ہے.مطرف سے روایت ہے، سنن النسائی کتاب الصیام سے یہ روایت لی گئی ہے، کہ : میں عثمان بن ابی العاص کے پاس گیا انہوں نے دودھ منگوایا.میں نے کہا میں روزہ سے ہوں.(اس کا مطلب یہ ہے کہ رمضان کا مہینہ نہیں تھا ، ویسے روزہ رکھا ہوا تھا) عثمان کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ علی تاکہ تم کو یہ کہتے سنا ہے کہ روزہ آگ سے بچانے 66 والی ڈھال ہے.جس طرح جنگ سے بچنے کے لئے تم میں سے کسی کی ڈھال ہو.“ (سنن النسائی، کتاب الصیام، باب ذکر الاختلاف علی محمد ، حدیث نمبر : 2231)
خطبات طاہر جلد 17 899 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء جسے آگے آگے سپاہی لے کے چلتا ہے تا کہ تیروں اور نیزوں کی بوچھاڑ ڈھال پر رک جائے اور اسے گزند نہ پہنچے اسی طرح روزہ انسان کے لئے ڈھال بن جاتا ہے.پھر حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ روایت ہے کہ نبی اکرم صلی ہیم نے فرمایا کہ: 66 روزہ ایک ڈھال اور آگ سے بچانے والا ایک حصن حصین ہے.“ (مسند احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة، مسندابى هريرة ،حدیث نمبر :9225) ایک ایسا قلعہ ہے جسے مضبوط کر دیا گیا اس میں شیاطین کو داخل ہونے کی اجازت ہی نہ ہو.تو رمضان میں روزے رکھنا ایک حصن حصین تعمیر کرنے کے مترادف ہے.اپنے لئے یہ قلعے تعمیر کر لو جن کو ہر طرح سے برجوں سے محفوظ کر دیا گیا ہو اور شیطان کو ان قلعوں میں داخل ہونے کی اجازت نہ ہو.ایک حدیث جو ہمیشہ آپ کے سامنے میں رکھتا ہوں اور یہ وہ حدیثیں ہیں جن میں سے اکثر آپ کے سامنے ہر رمضان میں رکھی جاتی ہیں لیکن ہر رمضان میں لازم ہے کہ ان کو دہرایا جائے تا کہ اگر سال پہلے کی بات کچھ لوگ بھول چکے ہوں تو ان کو یاد آ جائے اور نئے بچے جو جوان ہو کے اب شامل ہورہے ہیں اور نئے ہونے والے احمدی جواب ان خطبات سے پہلے سے بڑھ کر استفادہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں وہ سب آنحضور سالی تا پریتم کی اس نصیحت سے استفادہ کر سکیں.حضور اکرم صلی ا یہ تم نے ایک موقع پر یہ ہدایت دی تھی کہ جو میری باتیں سنتا ہے، جو حاضر ہے میری مجلس میں وہ غائب کو یہ پہنچا دے.(مسند احمد بن حنبل، مسند اہل بیت ، مسند عبد اللہ بن العباس ، حدیث نمبر : 2036) تو اللہ کی شان ہے کہ جماعت احمدیہ کو اب ٹیلی ویژن کے ذریعہ یہ توفیق ملی ہے جو دُنیا میں کسی مسلمان بڑی سے بڑی حکومت کو بھی توفیق نہیں ملی کہ دُنیا کے کناروں تک حضرت اقدس محمد رسول اللہ صلی اینم کا پیغام پہنچانے کی توفیق نصیب ہو رہی ہے اور کثرت سے اس کی خاطر خدا کے بندے اکٹھے ہوتے ہیں اور غور سے ان سب باتوں کو سنتے ہیں اور میں اُمید رکھتا ہوں کہ بڑی بھاری تعداد اُن میں سے ان نصیحتوں پر عمل پیرا ہوگی.یہ جو مرکزی بات ہے یہ بتانی ضروری ہے سب کے لئے.حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت سایا ہی تم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں سوائے روزہ کے، یقیناً وہ میرے لئے ہے اور میں اس کی جزا ہوں.“
خطبات طاہر جلد 17 900 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء اب انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں روزہ بھی تو اس کے اپنے ہی لئے ہوتا ہے، روزے کے فوائد بھی تو اسی کو حاصل ہوتے ہیں پھر یہ کیوں فرمایا کہ میں اس کی جزا ہوں یعنی روزے کی جزا ؟ مطلب یہ ہے کہ روزے کے دنوں میں، روزے کے اوقات میں انسان ان حلال چیزوں کو بھی اپنے او پر حرام کر لیتا ہے جو دیگر ایام میں حلال ہیں اور رمضان کی بہت سی راتیں ایسی بھی آتی ہیں جن میں وہ راتوں کو حلال چیزوں کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیتا ہے تو یہ ایسا معاملہ ہے جو دوسرے دنوں میں روزے کے سوا د یکھنے میں نہیں آتا.پس فرمایا کہ چونکہ میری خاطر وہ ایسا کرتا ہے، میرے جاری کردہ حلال کو میری خاطر وقتی طور پر اپنے اوپر حرام کرتا ہے تو میں اس کی جزا بن جاتا ہوں اور اس سے بڑی جزا روزے کی اور کیا ہوسکتی ہے کہ اللہ خود اس کی جزا بن جائے.اور اسی حدیث کے تسلسل میں میں اس کی جزا ہوں کا نتیجہ یہ نکالا گیا ہے یعنی جزا کیوں بنتا ہوں کیا کیا اعمال کرو گے تو میں جزا بنوں گا یہ اس کی تشریح ہے آگے.روزہ ڈھال ہے.(ابھی یہ بات گزر چکی ہے ) پس تم میں سے جب کسی کا روزہ ہو تو نہ وہ بیہودہ باتیں کرے، نہ شور شرابہ.اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑے تو چاہئے 66 کہ وہ کہے کہ میں تو روزہ دار ہوں.“ اتنا سا کہہ دے.مطلب یہ ہے کہ لڑنا مجھے بھی آتا ہے، میں بھی ناجائز حملے کا جواب دے سکتا ہوں.مگر اللہ کی خاطر رک گیا ہوں.تو میں اس کی جزا ہوں اس طرح بنتی ہے بات.جب خدا کی خاطر انسان عام جائز باتوں سے بھی رک جاتا ہے اس لئے اس کی جزا بنتا چلا جاتا ہے."قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں محمد لی لی ایم کی جان ہے.روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے.“ اب یہ بات بھی سمجھنے والی ہے.اللہ تعالیٰ کو بو یا بد بو سے کوئی فرق نہیں پڑتا.بد بو آئے یا خوشبو آئے خدا کی ذات ان چیزوں سے بالا ہے.تو کستوری سے زیادہ پیاری ہے، اس سے یہ بھی لوگ سمجھ سکتے ہیں یعنی لوگوں کو یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ اللہ کو کستوری کی خوشبو بہت پسند ہے.یہ ہرگز مراد نہیں ہے.مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بات کو زیادہ پسند کرتا ہے کہ روزے دار روزہ کی بنا پر کھانے پینے سے محروم رہتے ہوئے اس حال کو پہنچ جائے کہ اس کے منہ سے روزے کی بو آنے لگ جائے.اس کے برعکس وہ شخص
خطبات طاہر جلد 17 901 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء جو روزہ نہ رکھتا ہو اور کستوریاں کھا کھا کر اس کے منہ سے خوشبو میں اٹھ رہی ہوں، اللہ فرماتا ہے اس کی میرے نزدیک کوئی حیثیت نہیں یعنی روزہ رکھو خواہ منہ سے بدبو آئے اور چونکہ اللہ کی خاطر تم اس بد بوکو برداشت کرتے ہو جو خود مومن کو پسند ہی نہیں.یہ نہ کوئی کہے کہ اللہ کو پسند ہے مجھے بھی بد بو پسند ہوگئی، ہرگز یہ مراد نہیں.رسول اللہ لا یتیم سے زیادہ بو کے معاملہ میں زُود حس اور کوئی نہیں ہوسکتا.اس لئے باوجود اس کے محض خدا کی خاطر منہ بند رکھنے کے نتیجہ میں منہ سے جو بو اٹھتی ہے اسے رسول اللہ صلی ا یہ تم برداشت کر لیتے تھے.یہ وہ بات ہے جو اللہ کو بہت پسند ہے.اس کی خاطر ایک ایسا بندہ جو بو سے گویا الرجک ہو، تصور بھی نہ کر سکے کہ اس کے پاس سے ، اس کے بدن سے، اس کے منہ سے بواٹھے اور وہ برداشت کر رہا ہے تو یہ بات خدا کو بہت پسند ہے بہ نسبت ایسے بے روزہ دار کے جو خوشبو میں لگائے پھرے اور اس کے منہ میں ہر وقت کچھ کھانے پینے کی خوشبودار چیزیں ہوں ، اس کے منہ سے کستوری کی خوشبو میں اٹھتی ہوں خدا کو ایسے بندے کی خوشبوؤں کی کوئی بھی پرواہ نہیں.روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ فرحت محسوس کرتا ہے اوّل جب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے.“ (صحیح مسلم، کتاب الصيام، باب فضل الصيام ، حدیث نمبر : 2706) جب بھی افطار کرتا ہے ایک خاص خوشی پہنچتی ہے اور اس خوشی کے نتیجے میں بعض لوگ اتنا افطار کر جاتے ہیں کہ رمضان کے مہینے میں پہلے ہونے کی بجائے موٹے ہونے لگتے ہیں اور یہ خوشی کا تو اظہار بہر حال ہے.سارا دن کے رکے ہوئے بھی جب کھاتے ہیں تو پھر بے تحاشا کھانے لگ جاتے ہیں، تو یہ مراد نہیں ہے.رسول اللہ لا لا لی یہ بھی تو روزہ کھولا کرتے تھے.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی روزہ کھولتے رہے ہیں ہمارے سامنے یعنی انہی دنوں کی بات ہے، اس زمانے کی.روزہ کھولتے وقت خوشی تو ہوتی ہے مگر اس خوشی میں کھانا بے تحاشا نہیں کھایا جاتا.ہاتھ روک کر کھانا چاہئے.رسول اللہ صلی یا ہی ہم اور آپ صلی یا پیام کی غلامی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ہاتھ روکنے کی توفیق زیادہ تھی.جن کو کم ہے ان کو کم ہوگی مگر کوشش یہ کریں کہ اپنے آپ کو کھلی چھٹی نہ دیں تا کہ رمضان کے ساتھ جو برائیاں اتریں گی ان برائیوں کے علاوہ کچھ چربی بھی اتر جائے اور انسان ہلکا پھلکا جسمانی بدن لے کر رمضان سے باہر آئے.تو ایک وہ خوشی ہے جب وہ روزہ کھولتا ہے.دوسری اپنے رب سے
خطبات طاہر جلد 17 902 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء ملے گا تو اپنے روزے کے باعث خوش ہوگا.یہاں رب سے ملے گا کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ مرنے کا انتظار کرے کہ مرنے کے بعد رب سے ملے گا.جس نے روزہ رکھا خدا کی خاطر اس کو افطار کی طرح نقد و نقد خوشی پہنچتی ہے، اللہ اسے ملتا ہے اور اس کی راتیں اور بھی پہلے سے زیادہ روحانیت سے شاداب ہو جاتی ہیں اور اللہ کے آنے سے اس کی راتیں خوشبوؤں سے بھر جاتی ہیں.تو اللہ سے ملنے کی خوشی روز بروز ہوتی ہے، نقد و نقد سودا ہے اس کے لئے موت کے انتظار کی ضرورت نہیں.کیوں؟ جن کو اس دُنیا میں خدا سے ملاقات میسر نہ ہو ان کو قرآن کریم کی رو سے قیامت کے دن بھی ملاقات میسر نہیں ہوگی.جو اس دُنیا میں اندھے ہیں وہ قیامت کے دن بھی اندھے ہی اٹھائے جائیں گے.ایک اور حدیث ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جو صحیح البخاری کتاب الصَّوْمِ بَابُ فَضْلِ الصَّوْمِ سے لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی للہ کہ تم نے فرمایا : روزے ڈھال ہیں.سو کوئی شخص فحش بات نہ کرے اور نہ جہالت کی بات اور اگر کوئی 66 آدمی اس سے لڑے یا گالی دے تو چاہئے کہ اسے دو بار کہے کہ میں روزہ دار ہوں.“ یہاں دو بار کہنا باقی پچھلی روایت سے کچھ مختلف ہے.مطلب یہ ہے کہ سرسری طور پر منہ سے نہ نکلے.کہے پھر غور سے سمجھ لے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے ، پھر کہے کہ میں روزہ دار ہوں.اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کو مشک ،، سے زیادہ پسندیدہ ہے." (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب فضل الصوم ،حدیث نمبر : 1894) یہ ساری باقی حدیث وہی ہے جو اس سے پہلے میں بیان کر چکا ہوں.روزے کے متعلق ایک حدیث جو مسند احمد سے لی گئی ہے.ابونصر نے اپنے والد ابوامامہ سے یہ روایت سن کر بیان کی ہے کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ کی شادی تم مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے.آپ ملیشیا یہ تم نے فرمایا تیرے لئے روزہ ہے.پس روزہ کا کوئی بدل نہیں یا یہ فرمایا کہ اس جیسی کوئی چیز نہیں.“ (مسند امام احمد بن حنبل، مسند المكثرين من الصحابة.حديث ابي امامة الباهلی - - حدیث نمبر : 22276)
خطبات طاہر جلد 17 903 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء تو اگر روزے کے حقوق ادا کرے گا تو ساری عبادتیں اس میں شامل ہو جاتی ہیں اسلام کے تمام احکامات روزے میں داخل ہو جاتے ہیں تو اُنْزِلَ فِیهِ القُرآن کا یہ بھی ایک مطلب ہے کہ رمضان کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا ہے یعنی قرآن کو سمجھنا ہو تو قرآن کریم کے تمام مصالح اور مفادات تمہارے روزوں سے یا رمضان سے وابستہ ہو چکے ہیں.رمضان کے حقوق ادا کرو گے تو قرآن کے حقوق ادا کرو گے اور وہ حقوق ایسے ادا کرو جیسے رسول اللہ صلی یا ہی تم نے فرمایا کہ میں نے اپنی سنت کے ذریعہ یہ باتیں تم پر کھول دی ہیں.اس لئے کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہیں رہا.ایک حدیث ہے حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی الی اتم نے فرمایا: سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے.“ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب بركة السحور من غير ايجاب...حدیث نمبر : 1923) یہ جوسحری کی برکت ہے یہ تو ہم نے روز مرہ گھروں میں اس طرح بھی مشاہدہ کی ہے کہ وہ بچے جو روزہ نہیں بھی رکھ سکتے وہ بھی سحری کے شوق میں اٹھ جاتے ہیں یعنی تہجد کے وقت اٹھتے ہیں حالانکہ روز مرہ ان کے لئے نماز بھی فرض نہیں اور نماز کے لئے اٹھنا فرض نہیں ہے مگر سحری میں ایک ایسی برکت ہے کہ اس کا شوق پھیل جاتا ہے اور چھوٹے چھوٹے معصوم بچے بھی کہتے ہیں ہمیں سحری کے وقت ضرور جگانا اور ساتھ اگر کوئی سوتیاں وغیرہ بھی ہوں کوئی میٹھی چیز ہو تو اور بھی خوش ہوتے ہیں.تو ان بچوں کی خاطر اپنی سحری میں کچھ اچھی میٹھی چیزیں بھی شامل کر لیا کریں تا کہ بچوں کو بچپن ہی سے عادت پڑ جائے اور رسول اللہ صلی شمالی تم نے جو یہ فرمایا کہ سحری کھایا کرو کہ سحری میں برکت ہے اس ہدایت کے بھی ہر پہلو پر عملدرآمد ہو.صحیح بخاری کتاب الصوم میں سے یہ حدیث لی گئی ہے.حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی یا یہ تم نے فرمایا: اگر کوئی بھول کے کھائے پئے تو چاہئے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اللہ نے ہی اسے کھلایا اور پلایا ہے.“ (صحيح البخاری، کتاب الصوم، باب الصائم اذا اكل او شرب ناسيا ، حدیث نمبر : 1933)
خطبات طاہر جلد 17 904 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان جب بھول کر کھاتا ہے تو روزہ ٹوٹتا نہیں ہے اس لئے اس وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے.روزہ پورا کرئے وہ روزہ ہر گز نہیں ٹوٹا کیونکہ یہ بھول چوک بھی اللہ تعالیٰ نے بندے کے ساتھ لگائی ہوئی ہے اور روز مرہ چونکہ کھانے کی عادت ہوتی ہے اس لئے بعض لوگ بھول جاتے ہیں تو کسی تردد کی ضرورت نہیں، خدا نے آسانی پیدا فرمائی ہے،مشکل نہیں پیدا فرمائی لیکن اس میں ایک احتیاط ضروری ہے.اگر کوئی انسان گلی وغیرہ کرنے میں بے احتیاطی سے کام لے، نہاتے وقت بھی انسان بار بار منہ میں پانی ڈالتا ہے تو ایسی صورت میں اس کی بے احتیاطی کے نتیجہ میں بعض دفعہ پانی گلے سے نیچے اتر جاتا ہے.اس صورت میں روزہ برقرار رکھنا ہوگا مگر روزہ ٹوٹ بھی جاتا ہے یعنی یہ روزہ ایک فاقہ کے طور پر روزہ کھلنے کے وقت تک برقرار رکھنا ضروری ہے مگر روزوں میں شمار نہیں ہوگا ، اس روزہ کی عدت پھر پوری کرنی ہے.جو مدت مقرر فرمائی گئی ہے کہ تیس روزے رکھو یا انتیس کارمضان ہو تو انتیس رکھو یہ مدت بعد میں پوری کرنی ہوگی.تو یہ دو الگ الگ مسئلے ہیں.بھول کر کھانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور مدت کو پورا کرنے کی ضرورت نہیں مگر بے احتیاطیاں کرنے کے نتیجہ میں جب پانی پیٹ میں چلا جائے یا کچھ کھانے کی چیز چلی جائے تو ایسی صورت میں وہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے.چکھنے کا مسئلہ اس کے علاوہ ہے.چکھنے کے نتیجہ میں روزہ نہیں ٹوٹتا جب تک انسان وہ نگل نہ لے.تو روزہ نگلنے سے ٹوٹتا ہے جو باہر سے چیز آئے اور نگل لے.یہ اللہ تعالیٰ نے منہ کو ایک قسم کی ڈیوڑھی بنایا ہے وہ چیز جو اندر سے اوپر نکلتی ہے اور ساتھ ہی واپس چلی جائے وہ اگر چہ گلے کے مقام سے کچھ آگے بڑھ گئی تھی لیکن پھر واپس چلی گئی اس سے روزہ نہیں ٹوٹے گا.تھوک جو اندر سے ہی پیدا ہوتا ہے یہ ہر وقت انسان نگلتا ہی رہتا ہے تو اگر چہ تھوک منہ میں پیدا ہوا لیکن اس ڈیوڑھی سے ،حلق کے اس مقام سے گزر کر نیچے اتر گیا جس سے نیچے اتر نا منع فرمایا گیا ہے یعنی کھانے کا نیچے اتار نا منع فرمایا گیا ہے تو یہ بھی ایک کھانے پینے کی چیز ہے جو انسانی لعاب میں بھی تو بہت سی چیزیں موجود ہیں اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا.پانی سے زیادہ قوی ہے لعاب.پانی کے قطرہ سے تو روزہ ٹوٹ جائے گا اگر اسے انسان نگل لے لیکن لعاب سے نہیں ٹوٹتا.تو یہ چیزیں احتیاط کے تقاضے ہیں جو آپ کو پیش نظر رکھنے چاہئیں اور ہر وقت تھوکتے نہ رہیں.بعض لوگ علماء کی بعض جاہلانہ تعلیمات کے نتیجہ میں ایسا تھوکنے کے عادی بنتے ہیں کہ آدمی حیران رہ جاتا ہے.صوبہ سرحد میں ایسے لوگ آپ کو کثرت سے ملیں
خطبات طاہر جلد 17 905 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء گے جو ہر وقت تھوکتے رہتے ہیں اس لئے کہ کہیں وہ تھوک اندر جائے اور روزہ نہ ٹوٹ جائے حالانکہ آنحضرت سلیم کی سنت سے کہیں بھی ثابت نہیں کہ اس بنا پر آپ صلی ای ام بکثرت تھوکتے تھے.تھوک کا نگلنا ہی سنت ہے اور پانی کا نہ نگلنا سنت ہے.حضرت سہل بن سعد سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی ہی تم نے فرمایا کہ: لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک وہ روزہ کھولنے میں ( یعنی غروب آفتاب کے بعد ) جلدی کریں گے.“ (صحیح البخاری، کتاب الصوم، باب تعجيل اللفطار ، حدیث نمبر : 1957) یہ بھی ایک مسئلہ آپ کو سمجھانے والا ہے کہ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ سورج ڈوب بھی جائے تو جب تک سورج کے بعد میں رہنے والی سرخی مکمل طور پر زائل نہ ہو جائے ، اور بعض لوگ کہتے ہیں جب تک وہ سفیدی میں تبدیل نہ ہو جائے ، اس وقت تک روزہ نہیں کھولنا چاہئے.یہ شیعہ مسلک ہے اور ہوسکتا ہے بعض سنی بھی اس مسلک پر عمل پیرا ہوتے ہوں مگر پوری حد تک نہیں کچھ نہ کچھ ضرور ہوتے ہیں.رسول اللہ صلی ہم نے قرآنی ارشادات کی روشنی میں روزے کو بنتی نہیں فرمایا سہولت فرمایا ہے.پس جب سورج غروب ہو جائے تو جس وقت اس کا رم ، اس کا کنارہ نظر سے نیچے اتر جائے وہ ڈوب چکا ہو اسی وقت روزہ کھول لینا چاہئے ، ایک منٹ کی تاخیر بھی مناسب نہیں کیونکہ اللہ نے جو سہولت کا وقت مقرر فرمایا تھا اس سے انکار کرنا گویا کہ زبردستی اللہ تعالیٰ پر اپنی نیکی ٹھونسنے والی بات ہے.اللہ سے اس معاملہ میں کوئی مقابلہ نہیں ہو سکتا.جہاں اللہ نے سہولت دی ، سہولت کو اختیار کر لو ، جہاں خدا نے سہولت سے ہاتھ کھینچا وہیں اپنا ہاتھ بھی اس سہولت سے کھینچ لو.اب چند منٹ باقی ہیں تراویح سے متعلق اور کتنی رکعتیں ہونی چاہئیں اس مسئلہ کو اب میں آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں.آج کل یہاں اس مسجد میں بھی تراویح ہو رہی ہیں اور دوسری مساجد میں بھی ہو رہی ہیں.تراویح کے متعلق یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاری کی تھی ان کسانوں اور مزدوروں کی خاطر جو صبح نہیں اٹھ سکتے تھے تاکہ رات ہی کو وہ کچھ تراویح پڑھ کر اور تہجد میں شامل ہو جائیں لیکن یہ بات درست نہیں.خود آنحضرت صلی یا یہ تم سے بھی تراویح کی کچھ صورتیں مروی ہیں اور ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی ہم ہی نے اس سنت کا آغاز کیا پھر اس کو روک لیا.یہ وہ چند حدیثیں ہیں جو میں آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں.
خطبات طاہر جلد 17 906 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے کہ انہوں نے حضرت عائشہ سے آنحضور صلی لا السلام کی عبادت کے بارے میں پوچھا.فرمانے لگیں حضور صلی ہی ہم رمضان یا دوسرے مہینوں میں گیارہ سے زائد رکعات نہ پڑھتے تھے.“ (صحیح البخاری، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان ، حدیث نمبر : 2013) یہ رکعتوں کی بات بھی ہو گئی اور تراویح کی بات بھی بیچ میں آجائے گی.گیارہ رکعتیں ہم پر فرض ہیں ان معنوں میں کہ رسول اللہ لالہ یہ تم با قاعدگی سے گیارہ ہی رکعتیں پڑھا کرتے تھے اور مولویوں نے جو بعض نے ہیں اور بعض نے پچاس یا سو یا پانچ سورکعتیں بنادی ہیں اور عجیب وغریب روایتیں مشہور کر رکھی ہیں یہ سب جاہلانہ باتیں ہیں ان کا رسول اللہ لا یہی تم سے کوئی بھی تعلق نہیں.حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام بھی گیارہ کی پابندی فرمایا کرتے تھے.اس کی تفصیل کیا ہے میں آگے جا کر آپ کے سامنے رکھتا ہوں.حضرت عائشہ نے اس حدیث میں فرمایا ہے کہ پہلے چار رکعت ادا کرتے تھے اور پھر چار رکعت پھر تین وتر والی.اس سے شبہ پڑتا ہے کہ چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے تھے اور پھر چار رکعتیں اکٹھی پڑھتے تھے یہ محض شبہ ہے یہ درست نہیں کیونکہ دوسری روایت سے قطعی طور پر ثابت ہے کہ دو دو کر کے نوافل پڑھا کرتے تھے.اس چار سے میں یہ مفہوم سمجھتا ہوں کہ ممکن ہے کہ پہلے دو دو کر کے چارنفل پڑھ کے تھوڑا سا وقفہ فرما لیتے ہوں پھر کھڑے ہو کر دو دو پڑھ کر چار نوافل پورے کرتے ہوں پھر تھوڑ اسا وقفہ پھر دورکعتیں پڑھ کر ایک رکعت زائد کر کے ساری نماز کووتر بنادیتے تھے.مسلم کتابُ الصَّلَاةِ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ روایت ہے کہ : " آنحضرت صلی لا یہ تم رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے.(اس لئے وہ چار کا وہی مفہوم ہے جو میں نے پیش کیا ہے ) اور پھر آخر میں ایک رکعت پڑھ کر ان کو وتر بنالیتے تھے.“ (صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين وقصرها، باب صلاة الليل مثنی..حدیث نمبر :1748) صبح کی نماز سے قبل دو رکعتیں پڑھتے تھے اور اتنی ہلکی پڑھتے گویا اقامت شروع ہو چکی ہو.“ (صحیح مسلم، کتاب صلاة المسافرين و قصرها ، باب استجاب ركعتى سنة الفجر - - حدیث نمبر : 1676)
خطبات طاہر جلد 17 907 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء یعنی اقامت شروع ہو چکی ہو اور جتنی دیر اقامت لیتی ہے، صبح کی نماز کی سنتیں رسول اللہ صلی ہی تم ہمیشہ ہلکی پڑھا کرتے تھے یعنی بعینہ اس کا کوئی پیمانہ اقامت نہیں ہے.بعض لوگ اقامت بھی جلدی پڑھتے ہیں بعض ٹھہر ٹھہر کر اقامت ادا کرتے ہیں تو یہ پیمانے چھوٹے بھی ہو سکتے ہیں ، بڑے بھی ہو سکتے ہیں مگر اتنے چھوٹے نہیں ہو سکتے کہ نمازی کو سمجھ ہی کچھ نہ آئے اور تیزی سے فرفر ٹکریں مارتی ہوئی نماز ہو جائے.تو کسی چھوٹی اقامت کو اپنا راہنما نہ بنائیں ، بڑی اقامت کو اپنا راہنما بنالیں تو پھر مسئلہ حل ہو جائے گا.جو روایت میں نے بیان کی تھی تراویح کا آغاز کیسے ہوا ہے.میرے نزدیک یہ ایک امکان ہے کہ رسول اللہ صلی یتم ہی کی طرف سے تراویح کا آغاز ان معنوں میں ہوا ہو.حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا سے روایت ہے کہ : رسول کریم صلی شمالی نام نصف شب کے قریب گھر سے مسجد تشریف لے گئے اور نوافل ادا کئے.کچھ اور لوگوں نے بھی آپ صلی ایلم کے ساتھ نماز پڑھی.صبح ہوئی تو لوگوں کو اس کا علم ہوا.اگلی رات پہلے سے زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے.“ یعنی تراویح کا یہ پہلو کہ امام تہجد پڑھائے یہ پہلو ہے جو میں سمجھتا ہوں رسول اللہ صلی لہ الہی تم سے ہی شروع ہوا ہے یعنی با جماعت تہجد پڑھنے کا رواج.سہولت کی خاطر حضرت عمر نے مزدوروں وغیرہ کے لئے اس سے پہلے کر دیا، یہ الگ مسئلہ ہے لیکن با جماعت تہجد کا جہاں تک تعلق ہے اس کی سنت رسول اللہ صلی الی تم سے ہی آغاز پائی.فرماتی ہیں نوافل ادا کئے یعنی رسول اللہ صلی یا تم نے بغیر بتائے اور بغیر تشہیر کے نماز مسجد میں جا کر ادا کرنی پسند فرمائی.ہو سکتا ہے اس خیال سے کہ گھر والوں کو اتنی جلدی نماز کے لئے اٹھنے کی حاجت نہیں جتنی آپ صلی یا یہ ہم کو اٹھنے کی حاجت محسوس ہوتی تھی.کچھ لوگوں نے آپ صلی یتیم کے ساتھ نماز پڑھی ، وہ شامل ہو گئے اس میں.صبح ہوئی تو لوگوں کو اس کا علم ہوا.اگلی رات پہلے سے زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے اور حضور صلی یا یہ تم کے ساتھ نوافل ادا کئے.“ وو 66 یعنی حضور سی ایم کو گویا امام بنالیا اور باوجود اس کے کہ کوئی تکبیر نہیں تھی مگر عملاً رسول اللہ لا پیام امام تھے اور آپ کے پیچھے پیچھے ساتھ ساتھ وہ نوافل پڑھ رہے تھے.چرچا ہونے پر تیسری رات مسجد میں بہت زیادہ لوگ اکٹھے ہو گئے.حضور صلی سیستم تشریف لائے اور نماز پڑھائی.(واقعۂ اب امام بن کر ، بکثرت لوگ اکٹھے ہو چکے تھے
خطبات طاہر جلد 17 908 خطبہ جمعہ 25 دسمبر 1998ء ان کو نماز پڑھائی) چوتھی رات اتنے نمازی ہو گئے کہ مسجد میں ساہی نہیں رہے تھے (اور بہت بڑی مسجد تھی رسول اللہ صلی شما سیم کی گلیاں بھی بھر رہی تھیں نمازیوں سے ) حضور میل شما ای یتم باہر ہی نہیں نکلے.فجر پہ تشریف لائے.وہ لوگ ساری رات انتظار کرتے رہے یا اپنی عبادت کرتے رہے مگر رسول اللہ لی لی تم نہیں نکلے اور نماز ادا کرنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور تشہد کے بعد فرمایا مجھ پر آج رات تمہاری حالت مخفی نہ تھی.میں جانتا تھا کہ کس محبت اور شوق سے تم میرے پیچھے باجماعت نوافل ادا کرنے کے لئے اکھٹے ہوئے ہولیکن میں ڈرتا تھا کہ یہ نماز تم پر فرض نہ ہو جائے.اگر میں نے تواتر سے اس طرح نفلی نمازوں میں تمہاری امامت کروائی تو بعید نہیں تھا کہ پھر اللہ تعالیٰ اسی صورت کو فرض فرما دیتا اور جب یہ فرض ہو جاتی تو تم اس سے عاجز آجاتے.“ پھر سمجھ آتی کہ دُور دُور سے اس طرح مسجد میں آنا اور باقاعدہ با جماعت تہجد پڑھنا یہ تم نبھا نہیں سکتے تھے.تو میری اس بات پر نظر تھی کہ تمہیں ایسی عادتیں ڈالوں جن کو تم عمر بھر نبھا سکو اور وقتی طور پر تھوڑی سی محنت کر کے پھر تھک نہ جاؤ.کہتے ہیں: 66 پھر یہی طریق جاری رہا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی الہ الیتیم کا وصال ہو گیا.“ (صحیح البخاری، کتاب صلاة التراويح، باب فضل من قام رمضان ، حدیث نمبر :2012) یہ ہیں رمضان کے مسائل سے تعلق رکھنے والی بعض احادیث جو میں نے آج مناسب سمجھا کہ آپ کے سامنے رکھ دوں اور میرے نزدیک اس میں تقریباً سارے متعلقہ مسائل جو اہم مسائل ہیں وہ بیان ہو گئے ہیں.تو ان مسائل کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنا رمضان گزاریں اور ایسا رمضان گزاریں کہ پھر یہ نماز سے نماز اور جمعہ سے جمعہ اور رمضان سے رمضان ملتا چلا جائے یہاں تک کہ اگلا سال طلوع ہو.اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی تو فیق عطا فرمائے.آمین
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17
262 253 857 265 819,837 879 38,56 44,873,891 19,55 325 11 817 672 754 348 237,422 244,652 535 439 867 201 111 417 173 1 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 آ آدم علیہ السلام، حضرت آدم سے لے کر قیامت تک کی کہانی اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 مَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَبِ (106) وَذَ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَبِ (110) وَإِنَّهُ فِي الْآخِرَةِ لَمِنَ الصَّالِحِينَ ( 131 ) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَجِعُونَ (157) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّبَتِ (173) لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (184) ايَّامًا مَّعْدُودَتِ (185) شَهُرُ رَمَضَانَ الَّذِي أُنْزِلَ فِيْهِ الْقُرْآنُ (186) وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي (187) 81 472 649,651 آریہ ( قوم) آسمانی فیصلہ آگ آگ سے دور کیا جانا بھی ایمان کو چاہتا ہے آئینہ کمالات اسلام آزاد کشمیر (دیکھئے کشمیر) ہندوستان آزاد کشمیر پر حملہ کرے گا آیات قرآنیہ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ (6) الفاتحة 115 278,394,655 وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْرِئُ نَفْسَهُ (208 210) 686,731,734 | مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ (246) 367 76 رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا (251) لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (257) بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْبِنَ قَلْبِي (261) يُضْعِفُ لِمَنْ يَشَاءُ (262) لِلهِ مَا فِي السَّمَوتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ( 285 ) لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا (287) آل عمران إنَّ اللَّهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ (10) لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا (93) إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ (97) فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ (160) كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ (186) النساء حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهُتُكُمْ (24) 342 321,429 332,667,758 429 769 737 570 صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (7) البقرة ذلِكَ الْكِتَبُ لَا رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِلْمُتَّقِينَ (42) مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ (4) يُخْدِعُونَ اللهَ وَالَّذِينَ آمَنُوا ( 10 تا 11) وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ (25) إنَّ اللهَ لَا يَسْتَحْيَ أَنْ يَضْرِبَ مَثَلًا (27) اقِيمُوا الصَّلوةَ (44) ا تَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُم (4745) 537,555 الرّجالُ قَوْمُونَ عَلَى النِّسَاءِ (35) 711,727,830
2 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ (59) الَّذِينَ يَبْخَلُونَ وَيَأْمُرُونَ النَّاسَ (4038 ) 483 رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيْنِي صَغِيرًا ( 25 ) 361,593,651,653 وَلَا تَقْتُلُوا (32) 145 وَقُلْ لِعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ (54) فَوْزًا عَظِيمًا (74) وَقَد نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتب (141) المائدة قُلْ يَاهْلَ الْكِتَبِ هَلْ تَنْقِمُونَ مِنَّا (60) قُلْ هَلْ أُنَبِّئُكُمْ بِشَرٌ مِّن ذَلِكَ (61) وَإِذَا جَاءُوكُمْ قَالُوا آمَنَّا (62) وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ (68) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا عَلَيْكُمْ أَنْفُسَكُمْ (106) الانعام قل تعالوا اتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ (152) الاعراف دور قَالَ انظري إلى يَوْمِ يُبْعَثُونَ (15 تا 24) رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا (24) يَايُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا (159) أملى لَهُمْ إِنَّ كَيْدِى مَتِينَ (184) الانفال مَا رَمَيْتَ إِذْ رَمَيْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ رَى (18) يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَكُولُوا اللَّهَ (28،29) التوبة يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللهَ ( 119 ) إِنَّ اللهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (120) الرعد إِنَّ اللهَ لَا يُغَيَّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا (12) 271,272,273 | مَنْ كَانَ فِي هَذِةٍ أعلى (73) 264,265 266 267 51 93 460 75,76 152 790 868 682 627 291,298,301,304 305,307,309,313 286 197 وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ (82) 455 453 84 227 566,569 538 665 الكهف مالِ هُذَا الْكِتَبِ لَا يُغَادِرُ (50) مریم ولم اكنُ بِدُعَابِكَ رَبِّ شَقِيًّا (5) المومنون قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ (42) وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَتِهِمْ (129) وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ (9) إِنَّ الَّذِينَ هُمْ مِّنْ خَشْيَةِ رَبِّهِمْ (6258) النور 645,663,724,761 612 642 695 مَثَلُ نُورِهِ (36) لا تلهيهِمْ تِجَارَةٌ وَلَا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ (38) الفرقان وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا (75) الشعراء لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ (4) القصص رَبِّ إِنِّي لِمَا انْزَلْتَ إِلَى مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ (25) العنكبوت وَالَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصّلِحَتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمُ (8) 322 824 456 49 141,160 521 285,286 414,415 682 555 وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا (70) الروم ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (42) الاحزاب فَمِنْهُم مَّنْ قَضَى نَحْبَهُ (24) قُولُوا قَوْلًا سَدِيدً افَوْزًا عَظِيمًا ( 72،71) 864,875 ابراهيم لبِنْ شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (8) إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ (91) النحل إِنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ أُمَّةً قَانِتَا ( 121 122 ) بنی اسرائیل 886,411,373,372 855 129,165 وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَةَ وَسَعَى لَهَا ( 20 تا 22)
564 763 314 73 452,453 534 الصف يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ (3) يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَى تِجَارَةٍ (12،11) الجمعة وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَب وَالْحِكْمَةَ (3) ހ ވހނވވވ يايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ (11،10) المنافقون يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُلْهِكُمْ أَمْوَالُكُمْ (10) الطلاق مَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَل لَّهُ مَخْرَجًا (43) التحريم يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (87) 194,377,452,465-467 186 609 3 الحاقة وَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتْبَهُ بِشِمَالِهِ (26) 28) المعارج وَالَّذِينَ هُمْ لِأَمَنتِهِمْ وَعَهْدِهِمْ رَعُونَ (3633) المزمل وَاذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَتَبَتَّلُ إِلَيْهِ تَبْتِيلًا (9) القيمة وَلَوْ الْقَى مَعَاذِيرَة (16) الدهر لا نُرِيدُ مِنْكُمْ جَزَاء وَ لَا شُكُورًا (10) النبا 781,801,821 448 885,889 184,185 507 183 25 25 705 195 235 219 758 507 147 343,346 265 573 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 فاطر إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَموا (29) فَمِنْهُمْ ظَالِمُ لِنَفْسِهِ (33) الزمر مُخْلِصًا لَهُ الدِّينَ (3) وَإِذَا مَسَّ الْإِنْسَانَ ضُرُّ (109) جنْبِ اللهِ (57) الزخرف سُبْحَنَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هُذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِينَ (14) الجاثية هذا بَصَابِرُ لِلنَّاسِ ( 21 تا 23) محمد هانتُم هؤلاءِ تُدْعَونَ لِتُنْفِقُوا (39) الفتح مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَةً (30) الحجرات 229,432,666,827 501 637 680,693,694 لا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغُوا وَلَا كِتابًا ( 36 38) التكوير إِذَا الْعِشَارُ عُطِلَتْ (5) الانشقاق يَأَيُّهَا الْإِنْسَانُ إِنَّكَ كَادِحٌ (97) الطارق إنَّهُم يَكِيدُونَ كَيْدًا (16 تا 18) 1 679 414 447 494,583 يَايُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُقَدِّمُوا (32) ق هَلْ مِنْ مَّزِيدٍ ( 31 ) الذريت هَلْ أَتَنكَ حَدِيثُ ضَيْفِ إِبْرَاهِيمَ (25 تا 27) الرحمن كُلَّ يَوْمٍ هُوَ فِي شَأْنٍ (30) الواقعة ثلةٌ مِّنَ الْأَوَّلِينَ (14 تا 15) الحديد له مُلْكُ السَّبُوتِ وَالْأَرْضِ (86) أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا (17) اعْلَمُوا أَنَّ اللهَ يُحْيِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا (18) اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَوةُ الدُّنْيَا (21) الحشر وَالَّذِينَ تَبَوَّةُ الدَّارَ (10)
681 295,703,705 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 الاعلى سبح اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (2) 525 ابو حازم ابودرداء ، حضرت فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ الذكرى (10) 30,178,516,594 | ابوذر ، حضرت ابوزید انصاری ، حضرت ابوسعید خدری ، حضرت ابوسفیان 504 526 38,741,892 598 ابو سلمہ بن عبد الرحمن، حضرت 39,40,893,906 ابوطالب ابو عبدالرحمن ، حضرت ابوقتادة ، حضرت ابوموسی ، حضرت ابوہریرة ، حضرت 89 523 524 275,522,612 41,215,268 276,292,299,329,433,435,468,531 532,487,594,619,638,639,676,696 699,753,850,851,852,896,899,902 299 329 902 350 523 185 525 388 286 672 الغاشية إنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمُ (26، 27 ) الشمس وَالشَّمُسِ وَضُحَهَا (2) التين أَسْفَلَ سَفِلِينَ (6) الزلزال فَمَنْ يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهُ (8) الكافرون لَكُمْ دِينَكُمْ وَلِيَ دِينِ (7) ابتلا ابتلا میں بھی اللہ کا شکر 250 79 سب سے زیادہ روایات بیان کرنا ابراہیم علیہ السلام، حضرت ابراہیمی قربانی در اصل نفس کی قربانی ہے حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا واقعہ 643,746,754 دن رات حضور سی ال اسلام کی صحبت میں رہتے تھے 840,856,858,860,865,866 | ابونصر 114 502 ابی مسعود الانصاری ، حضرت انی وائل ابن شماسہ اٹھری ، حضرت 575,576 | احتساب ابن عباس ، حضرت ابن عمر ، حضرت ابن مسعود ، حضرت ابوامامه ابوبکر صدیق ، حضرت گھر کا سارا مال لے کر آنا 293,657 خود احتسابی 62,63,66,507 | احد ابو جہل آنحضور سی انم کی ظاہری صحبت میں بیٹھنا 685 670,902 389,578 349 558 303 احسان عدل و احسان کی تشریح 288 683,685 373 جب بھی اللہ بندے پر جھکتا ہے احسان سے جھکتا ہے 588 احسان کا مضمون قرآن کریم میں بکثرت بیان ہوا ہے 701 اللہ تعالیٰ نے جو کچھ بنایا ہمارے لیے بطور احسان ہے 732 جتنا اللہ کا احسان بڑھتا چلا جائے اتنا شکر بڑھتا چلا جائے 856 کا اتناشکر بر بندوں کا احسان 859
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 احکام قرآن میں بچپن سے لے کر لڑکپن کے زمانہ کے احکامات ہیں 244 قرآن کریم کا ہر حکم ماننا ضروری ہے احمد نگر احمدی، احمدیت، (دیکھئے جماعت احمدیہ ) 246 815 545,591,692 5 ارتقا ارتقا مسلسل ہے اردو اُردو میں حضرت مسیح موعود کا مقام اردو کلاس 888 688 108 180 حضور انور کی اردو کلاس میں بچیوں کو پردہ کی نصیحت 515 جماعت میں کروڑ سے زیادہ احمدی نئے شامل ہو چکے ہیں 12 ارسطو حقیقی احمدی کی صفات احمدیت کا کام قرآن اور رسول کی تعلیم کو پھیلانا 170 255 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کی تعریف فرمائی 191 ارسطو میں سچائی کی شرافت تھی 192 192 پاکستان کے احمدیوں کا معاملہ خارق عادت ایمان والا ہے 257 سقراط ارسطو کا بھی جد امجد تھا نیوکلیئر کمیشن پاکستان میں بڑی تعد اد احمدیوں کی ہے 400 نیوکلیئر افزائش کے حوالے سے احمدیوں کا کردار ازالہ اوہام 224,235,243,251,261,412 کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پاکستان میں کسی نہ کسی طرح احمدیوں کا خون نہ بہایا جار ہا ہو 402 673 اسامہ بن زید ، حضرت مخالفین کی احمدیت کے خلاف بد دعا قبول نہیں ہوتی 740 اسامہ بن شریک دو قسم کے احمدی ہیں پاکستان میں احمدیوں کے حالات اخبارات 770 استخلاف 788 اخبارات کے مالکان سے بار بار ملاقات کی نصیحت 406 اخراج از نظام جماعت جماعت سے اس لئے الگ کرنا پڑتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر کوئی غلط لکس نہ پڑے اخلاص 193 423,490,493,494 859 577 استخلاف کا مضمون پہلی قوموں کے ورثہ کے ساتھ تعلق رکھتا ہے 5 استغفار نرمی کا لازمی نتیجہ استغفار کرنا ہے 206 گناہوں کا استغفار کے سوا کوئی اور کفارہ ممکن نہیں ہے 207 دکھ پہنچنے پر استغفار استقامت 256 اسلام کا دوسرا نام قرآن شریف میں استقامت ہے 341 انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اخوت، بھائی چارہ اپنے آرام پر اپنے بھائی کے آرام کو ترجیح دو 234 149 اسد اللہ خاں غالب، میرزا اسرائیل عالمی طاقتیں ہمیشہ اسرائیل کو استعمال کرتی ہیں بھائی چارے کا یہ مطلب ہے کہ کسی کے اندر اچھی چیز اسرائیل کے گوریلے کشمیر میں دیکھو تو خوش ہو جاؤ با ہمی اخوت اور محبت کا ماحول ارتداد 269 838 اسلام اسلام کا تیسرا رکن روزہ ہے 580,756 370,398 363 366 46,378,472,672 43 338 خدا کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں کو وقف کر دے ارتداد کے نتیجہ میں دل کی خباثتیں بڑھتی ہیں 211
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 6 اسلام کا دوسرا نام قرآن کریم میں استقامت ہے 341 اکبر شاہ نجیب آبادی اسلام میں رہبانیت نہیں اسلام آباد، پاکستان 823 الادب المفرد للبخارى 16,780 | البانيه اسلام آباد، ٹیلفورڈ 73,521,538 | الجيريا 632 454,575 752 750 اطاعت نظام جماعت کا احترام اور اطاعت 379 الحاج ابیولا 550 ابیولا صاحب سے جماعت کے گہرے تعلقات 547 جماعت میں ملائکہ جیسی اطاعت میں دیکھنا چاہتا ہوں 383 نائیجیر بین راہنما اطاعت سچے دل سے اختیار کی جائے اطاعت مجاہدات سے افضل ہے اطاعت کے بغیر وحدت قائم نہیں ہوسکتی صحابہ کی اطاعت میں گمشدگی کا عالم 385 386 389 390 اطاعت کرو گے تو نیکی میں ترقی کرتے چلے جاؤ گے 556 اعتدال سب لوگ اپنی عادتوں میں اعتدال پیدا کریں 578 اعتکاف 549 الحكم،اخبار 43,45,109,112,123,124,125 127,138,140,145,149,152,159,169 170,174,176,192,198,232,252,258 262,269,301,310,313,317,320,338 358,380,381,393,427,457,460,488 497,535,561,570,721,770,776,777 782,784,791,795,796,886 470 اعتکاف کا طریق معتکفین اپنے دوسرے ساتھیوں کا خیال رکھیں اعمال صالحہ ایمان بغیر اعمال صالحہ کے اُدھورا ایمان ہے انسان ثواب کمانے کے لئے اعمال صالحہ کا محتاج ہے اغر ابو مسلم افتخار احمد ، صاحبزادہ پیر افریقہ افریقہ کے سپر دسرخ کتاب ہونی چاہئے افغانستان 67 68 533 534 587 292 الدر المنثور الروح القدس الروح القدس روح قدس نہیں ہے السيرة الحلبية الفتح الربانى الفضل، اخبار 491,492 الكفرملة واحدة اللہ تعالیٰ 415,752,867 540 672,677,791 اللہ تعالیٰ کا قرض مانگنا 322 278 892 398 398 9 اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اگر تم جلدی میری باتوں کو قبول کرو گے تو میں قریب کھڑا ہوں فوری جواب ملے گا 38 اقتصادیات اقتصادی بحرانوں کی وجہ اقصیٰ مسجد اقوام متحدہ 98 844 إِنِّي قَرِيبٌ اور بعید ہونے سے مراد اللہ تعالیٰ کی صفات کا نیا شعور رزق کے قوانین بتانے والا وہی ہے جو شخص خدا کا تصور کامل بادشاہ کی صورت میں رکھتا ہے حضرت سر ظفر اللہ خان صاحب کی اقوام متحدہ میں تقاریر 398 ممکن نہیں کے کسی لمحہ غصہ سے مغلوب ہو جائے 58 62 64 99 99
اللہ تعالی آنحضور صلی ا لی ایم کے وسیلہ سے نظر آسکتا ہے 297 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 اللہ تعالیٰ کی ناراضگی تباہی کا موجب ہے 102 خدا کی طرف آجاؤ اور ہر مخالفت اس کی چھوڑ دو 103 اگر کسی کو میری محبتوں کے باوجود پرواہ نہیں تو مجھے بھی اس کی کوڑی کی بھی پرواہ نہیں 135 7 اللہ جل شانہ سے کون لوگ ڈرتے ہیں اللہ تعالیٰ سے خوف کا تعلق علم کو چاہتا ہے اللہ سلام ہے تمہارا رب بہت ہی باحیا اور کریم ہے اللہ تعالیٰ کسی کی پرواہ نہیں کرتا مگر صالح بندوں کی 142 اللہ کے قرب کا مزا اللہ تعالیٰ دل کا حال جانتا ہے انسان کا مصیبت کے وقت خدا کی طرف جھکنا اگر سچی جستجو ہوگی تو اللہ تعالیٰ ضرور مل جاتا ہے مگر ملتا اس طرح ہے کہ وہ دلوں کو منور کرتا ہے جن کو نور میسر نہ ہو ان کو اللہ نظر آ ہی نہیں سکتا ایک ہی عظیم ہے جو اللہ ہے اللہ تعالیٰ کی صفت ملکیت جھوٹی مسکینی اللہ کے سامنے نہیں ہو سکتی 213 220 227 228 229 238 248 جو اللہ کی خاطر دُکھ اٹھاتا ہے اللہ اُس کے دُکھ اٹھاتا ہے 258 اللہ تعالیٰ ذرا سے عمل کو بھی ضائع نہیں کرتا 287 731 733 734 740 759 وہ بصیر ہے ، وہ دلوں کے گہرے رازوں کو سمجھتا ہے 814 تبتل الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی خاطر مبتل کرنا 816 مومنوں کو اللہ تعالیٰ طیب رزق عطا کرتا ہے 820 823 824 826 876 436 273,753 721 اللہ اور اس کے بندوں کے کلام میں تضاد نہیں ہوتا 822 اللہ کی محبت کو اختیار کرو اللہ کے حقوق اللہ کو ڈھونڈنے سے مراد اللہ تعالیٰ ننی ہے المستدرك المفردات فی غریب القرآن الوہیت اللہ تعالیٰ کی محبت کی نشانیاں 333 346 348 الہام 417 473 534 588 596 637 671 اللہ تعالیٰ کی صفت عنی اللہ تعالیٰ ثواب کا اجر لا محدود بھی دیتا ہے کوئی قوم بھی خدا کی ہستی کی قائل نہیں رہ سکتی اگر وہ سوال و جواب کی قائل نہ رہے اللہ تعالیٰ کی صفت غفور اللہ تعالیٰ کی شفقت کے رنگ اللہ تعالیٰ ترقیوں کا منبع ہے کوئی شخص بھی اگر اپنا عرفان نہیں رکھتا یا درکھیں کہ اسے اللہ کا عرفان بھی نصیب نہیں ہوسکتا خدا کی صفات میں بھی مختلف اقسام داخل ہیں اللہ تعالیٰ کو ہم سے سچا عشق چاہئے اللہ کی خاطر کام کرنے کے نتیجہ میں نشان کا پڑنا 674 اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اللہ تعالیٰ نے انسان کی قضاء وقدر کو مشروط کر رکھا ہے 719 717 امانت امانت کے پیش نظر نہ ہندوستان میں حکومتیں قائم کی جارہی ہیں، نہ پاکستان میں قائم کی جارہی ہیں 371 جو شخص امانت کا لحاظ نہیں رکھتا اس کا کوئی ایمان نہیں 593 أَلَيْسَ اللهُ بِكَافٍ عبده الْخَيْرُ كُلُهُ فِي الْقُرْآنِ لَا تَسْلَمُ مِّنَ النَّاسِ 311 424 461 حضرت مسیح موعود کو 1882ء میں پہلا ماموریت کا الہام ہوا ہے ام سلمہ ، حضرت امام راغب اعلیٰ درجہ کی لغت 797 529,599 272.737.753 61 امام عادل 696
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 8 نبوت کی صفات میں سے بنیادی صفت امانت ہے 597 امیر جماعت امانت کے مضمون پر زور دینے کی ضرورت ہے مجالس کا قیام امانت سے ہے 601 604 امیر صاحب جرمنی کو مالیات پر غور کرنے کی نصیحت 291 امراء ایک لحاظ سے معتمد ہیں 382 امانت کا تقاضا ہے کہ متعلقہ عہدیداروں تک بات پہنچاؤ 606 مبلغین جو سر براہ ہیں ملکی واقعات پر کتاب بنائیں 545 رعون سے مراد نگہداشت کرنے والے حضور سی ای ایلام امانت کا حق ادا کرتے تھے امانت انسانی فطرت میں ودیعت ہوتی ہے 609 614 622 خائن لوگوں کی اولادیں دین سے سرکنے لگتی ہیں 635 امانت فطرت میں ہے ہر عطا خدا تعالیٰ کی امانت ہے جو شخص اعضاء کو بے محل استعمال کرتا ہے وہ امانت کا حق ادا نہیں کرتا آپ سلی لی پی ایم نے امت کو امانت کا اہل بنا دیا 636 652 654 655 امیر صاحب ہالینڈ 748 امین جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے ایک جماعت ہی تو ہے جو امین ہے جس کو خدا تعالیٰ نے امین بنا یا عالمین کے لئے 599 625 653 انبیاء انبیاء تازہ معرفت اترتی دیکھتے ہیں 127 پہلے انبیاء نے جو امانت لوٹائی وہ محدود امانت تھی 653 امت مرحومہ سے مراد امرتسر 882 513,797,881 اپنے مبعوث ہونے کے لئے درخواست نہیں کرتے 789 اللہ نے انبیاء کے سلسلہ میں سبق رکھا ہے کنواری دلہن سے بھی بڑھ کر شرماتے ہیں 791 793 اللہ ان کو اصلاح خلق کے لئے برگزیدہ کر لیتا ہے 794 امریکہ 14,15,30,101,136,137,364,368 گوشتہ گمنامی سے خدا اُن کو کھینچ کر نکالتا ہے 369,398,401,414,415,403,408-411 انجیل 425,429,432,434,435,439,443,445 انڈونیشیا 802 704.886 14.779.780 448-450,460,463-467,499,610,664 انس بن مالک،حضرت 329,454,594,682 امریکہ کا دجل امریکہ میں بے حیائی کا کثرت سے پھیلنا امریکہ چندہ میں اپنا معاملہ صاف رکھے ہوئے ہے 773,779,780,884 398 414 448 انس بن نضر ، حضرت انس،حضرت 683,903 683 470,682,755 امریکہ کی جماعت کی مالی قربانی میں عظیم خدمات 449 انسان امریکہ میں بعض بچیوں کی نظر میں دین کی پرواہ نہیں 456 انسان اصل میں انسان ہے یعنی دو محبتوں کا مجموعہ 319 امریکہ میں اولاد کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت 460 انسان گناہ کر سکتا ہے لیکن نیکی میں ترقی بھی کر سکتا ہے 471 انسان سے بوجہ اپنی کمزوری کے گناہ ہو جاتا ہے 472 463 امریکہ میں تالاب بنانے کے متعلق نصیحت تحریک جدید کے چندوں پر وقتی طور پر برا اثر پڑا 773 انصار (مدینہ کے انصار) امہات المؤمنین 669 انعامات خداوند کریم از پیرافتخار احمد خداوند افتخاراحمد 586 491
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 انفاق فی سبیل اللہ روحانی طور پر اپنی تمام طاقتیں اللہ کی راہ میں خرچ کرنا 5 اپنی طاقتیں اور اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا 6 9 انور حسین، چوہدری انکسار اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے اس سے مراد قرضہ حسنہ اللہ کی راہ میں پیش کرنے کی خواہش انفاق فی سبیل اللہ کی حقیقی مصداق جرمنی کی مالی قربانی کی تعریف 9 10 344 344 17 انکساری کے نتیجہ میں نور نازل ہوتا ہے انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو 585 233 234 اولاد اولاد کے حصول کا مقصد کہ میں متقیوں کا امام بنوں 456 خادم دین اولا د مقصود ہو نہ کہ وارث کے لئے 457 اللہ تعالی مالی قربانی کرنے والوں کو کبھی تنگ نہیں رکھتا 345 حضرت مسیح موعود اپنے پیچھے نیک اور خادم دین اولاد مالی قربانی کرنے والوں کو مالی فراخی کی خوشخبری 347 حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا مالی قربانی کا واقعہ 349 انفاق فی سبیل اللہ کا حقیقی وقت ہر ماہ بقدر وسعت بلا ناغہ مدددینی چاہئے اپنی قربانی کو احسان نہ سمجھا کریں سب کچھ سبیل اللہ میں فدا کرنا صحابہ حضرت مسیح موعود کی انفاق کی مثالیں سورۃ النساء کی آیات 38 تا 40 کی روشنی میں انفاق فی سبیل اللہ کا مضمون مکمل ہو جاتا ہے 354 355 358 436 483 486 میاں عبد الحق صاحب کا مالی قربانی میں نمایاں وصف 494 مِمَّا رَزَقْنَهُمْ يُنْفِقُونَ کی تشریح 498 انفس کا خرچ بھی خدا کی راہ میں خرچ کرنا ضروری ہے 766 کڑوا گھونٹ بھر کے خرچ کرنے والا اپنا مال اگر بنانا ہے تو اللہ کی راہ میں خرچ کرو مال میں جان ، صلاحیتیں سب مراد ہیں انقطاع انقطاع تعلقات صافی کو چاہتا ہے 767 768 777 792 چھوڑ کر گئے 459 اولاد کے حصول کا مقصد صرف اعلائے کلمہ اسلام ہو تو خدا قادر ہے کہ ذکریا کی طرح اولاد دے دے 459 حصول اولا د کا مقصد صرف جائیداد کا وارث نہ ہو 460 وہ اولا دیں جو ہاتھ سے نکلی جارہی ہیں 766 اولوالامر مامور اور اولوالامر کی حقیقت اولوالامر کی اطاعت ضروری ہے 378 383 اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے اولوالامر کی نافرمانی کب جائز ہے 384 385 اہل کتاب اہل کتاب یہ تمنا کرتے ہیں ان کا دل چاہتا ہے کہ کاش تم ایمان کے بعد پھر کفر میں لوٹ جاؤ 253 اہل کتاب کے نمائندہ آج کل کے مسلمان ہیں ایتائی ذی القربی 254 ایتاء ذی القربی کی محبت خدا تعالیٰ سے ہونی چاہئے 887 اللہ تعالیٰ تو اس کا سب سے زیادہ حق رکھتا ہے 888 707 انگلستان 288,368,464,516,538,540 573,607,668,702 وقار عمل کے ذریعے بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی ہیں 674 پاکستان اور ہندوستان کے ایٹم بمز انگلستان والے عید پر تحفے تیار کرتے ہیں انوار العلوم 895 397,579,811 پاکستان کے پاس ایسا میزائل سسٹم ہو جو کہ اسرائیل تک رسائی رکھتا ہو 361-369 362 369
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 پاکستان میں ایٹمی دھما کا 10 395 نیوکلیئر کمیشن پاکستان میں بڑی تعدا واحمدیوں کی ہے 400 نیوکلیئر افزائش کے حوالے سے احمدیوں کا کردار 402 اٹامک وار فیئر 676 ایم ٹی اے پر ہر اعتراض کے ہر پہلو کا جواب موجود ہے 315 ایم ٹی اے سرخ کتاب اپنے لئے تیار کرے فرانس کے ایم ٹی اے سٹوڈیو کا افتتاح ایم ٹی اے کے بارے میں الہام بجلی کی چمکار ایٹمی تابکاری کی دواء (carcinosin) 365 ایوب بن موسی ، حضرت ایثار ایثار کا نتیجہ ایوب بیگ، مرزا ، حضرت ایوب علیہ السلام، حضرت آپ پر ابتلاؤں کی مثال آپ کی آزمائش کا واقعہ ایوب خان 539 751 806 455 580 742 اپنے وقت کو قربان کرنا ایثار ہے اپنے گھر والوں سے بھی ایثار ہونا چاہئے ایثار تو بندے میں تب زیب دیتا ہے کہ وہ خدا کے قریب کر رہا ہو 573 584 586 590 اٹامک انرجی کے انسٹی ٹیوشن کا آغاز کیا 79 889 400 ایثار لازم ہے اور اس کے بغیر آپ کو مزید ترقیات پاکستان کی نیوکلیئر افزائش میں اول کردار ادا کیا 402 نصیب نہیں ہو سکتیں ایجاد آج کوئی بھی ایسی ایجاد نہیں جس کا آغاز 591 بائیکاٹ جو گندے لوگ ہیں ان سے کنارہ کشی اختیار کرو 119 اہل مغرب سے نہ ہوا ہو 667 ایران ایلو پیتھی 676 با دکر وٹس ناخ (جرمنی) دکروئس بت حضرت مصلح موعودؓ کا کھانسی میں ایلو پیتھی دوائی کا استعمال 511 جماعت میں افتراق ہے تو قطعی علامت ہے لا ز مابت ایمان ایمان کے نشانات گناہوں پر جرات کا علاج ایمان سے ممکن ہے خاص ایمان والوں کو خدا بچا لیتا ہے ایمان کی نشانیاں 109 113 257 293 304 ایمان مومن کے اندر ایک ارتقا پیدا کر رہا ہوتا ہے ایمان کا مرکزی معنی طمانیت نفس اور زوال خوف 753 ایم.ٹی.اے 126,425,450,526 ایم ٹی اے کے ذریعہ گھر گھر ہماری آواز پہنچنے لگی 204 ایم ٹی اے آنحضور سی ای ایم کی دعاؤں کی قبولیت کا ثبوت 205 ایم ٹی اے کی برکت 311 325 513 344,346,412,483-491 موجود ہیں 388 بٹالہ بخل سے بچنا جماعت کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہم نے خدا کے پیغام کو اگلی نسلوں میں جاری کرنا ہے 487 صحابہ مسیح موعود علیہ السلام بخل سے پاک تھے بدر، اخبار بدو 491 46,47,51,52,53,120 151,152,170,172,173,302,439,509, 512,526,564,565,730,805,817,887 بد وسمجھتے تھے کہ آنکھ کی سختی مردانگی کی علامت ہے 718
بیاضی بیاضہ بن عامر ، حضرت ان کا اصل نام عبد اللہ بن جابر بیت الرحمن بیت الرشيد بیت السلام 67 411,429 593 289 بيت الفضل لندن 37,55,75,93,111,129 147,165,183,201,219,237,253,271 307,377,395,465,483,501,537,555 609,627,645,663,679,695,711,727 745,763,781,801,819,837,855,873,891 526,636 124 212 320 351 11 564 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 بدی جو اپنی بدیوں کی تلاش شروع کر دیتا ہے دوسروں کی بدی کی تلاش سے باز آ جاتا ہے 340,663,725,797,809 289 براہین احمدیہ برسلز برصغیر کے مسائل کا حل صرف دعاؤں میں پوشیدہ ہے 361 برطانیہ 14.521.676.780 779 236 14,278,279 280,284 برما بریڈ فورڈ بشیر احمد ، ایم اے، حضرت بشیر الدین محمود احمد ، حضرت مرزا خلیفہ مسیح الثانی 291,377,441,448,561,581-584,700 397 بیروت بیعت محض بیعت کافی نہیں صحبت صالحین بھی ضروری ہے بعض ایسی بیعتیں ہوئیں جن میں بیعت کنندہ نے آپ نے کشمیر موومنٹ کا آغا ز کیا قیام پاکستان کے بعد دوبارہ پھر اگر کشمیریوں کی حمایت تقویٰ سے پورا کام نہیں لیا کے آغاز کا موقع ملا تو حضرت مصلح موعودؓ کو ملا ہے 405 بیعت کی اصل غرض 15,289,543,780 414 415 265,870 اپنی بیعت کو پر کھنے کا طریق بے حیائی دنیا میں بے حیائی کا کثرت سے پھیلنا ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ 511 258 351 136,610 84.552.729 30 375,752 564 400 پاکستان 52,119,263,265,315,361,370 416,479,503,513,516,552,553,605 606,607,634,677,689,779,780,788 791,846,857,858,865,867,868 کھانسی میں ایلو پیتھی دوائی کا استعمال بلائے ناگہانی بلائے ناگہانی کی قسمیں بلال ابن رباح، حضرت بل کلنٹن بنگلہ دیش رمضان کے دوران بھی ظلم جاری رہتے ہیں بوسنیا بہادرشاہ ظفر بھٹو بہشت خدا کی اعلیٰ لذات کی محبت ہی بہشت ہے 334,335
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 پاکستان کی وقف جدید میں دوسری پوزیشن پاکستان میں نمایاں وصولی کرنے والی جماعتوں کا رپورٹ وقف جدید میں ذکر پاکستان کی عوام کے خلاف بددعا نہیں دے سکتا رمضان کے دوران بھی ظلم جاری رہتے ہیں 14 16 22 30 12 410 قیام پاکستان کے بعد دوبارہ پھر اگر کشمیریوں کی حمایت کے آغاز کا موقع ملا تو حضرت مصلح موعود کو ملا ہے 405 پاکستان اور ہندوستان مشترکہ مفادات سوچیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پاکستان میں کسی نہ کسی طرح احمدیوں کا خون نہ بہایا جا رہا ہو پاکستان کے فقیروں کی کیفیت 673 729 پاکستان کے مذہبی رہنما نفسانیت کی پیروی کرتے ہیں 84 مجلس شوری پاکستان کا ذکر 201 پاکستان کے باشندوں نے شرح صدر سے احمدیت قبول کی 203 پاکستان میں بہت زیادہ زیادتی کی جارہی ہے پانی چلتا پانی ہمیشہ عمدہ ، ستھرا اور مزے دار ہوتا ہے پاؤنڈ یہ وہ کرنسی ہے جو سال ہا سال سے مستحکم ہے ف اس وجہ سے کہ احمدیت پھیل رہی ہے 215-211 197 13 پاکستان کے احمدیوں کا خارق عادت ایمان مخبری کی خاطر جماعت میں داخل ہونے والے 257 پرائیویٹ سیکرٹری 267 پرتگال 166,182,216,764 پاکستان میں غیر احمدیوں کی بدزبانی 280 پرتگال میں مولویوں کا نازیبا زبان کا استعمال 281 پرده احمدیوں کے خلاف نازیبا زبان کے استعمال پر صبر 281 294 پاکستان میں حد سے زیادہ ظلم کا ہونا پاکستان میں لوگ اللہ سے زیادہ گھسن سے ڈرتے ہیں 320 خواتین ہمیشہ پردے کا لحاظ رکھیں احمدی بچیوں کا حضور کے سامنے پہلی مرتبہ پردہ کرنا 456 پاکستان اور ہندوستان کے ایٹم بمز مالی پابندیوں کا اصل شکار تو غریب عوام ہے 362 364 پرہیز گار پشاور پر ہیز گاری درازی عمر کا زریعہ کسی زمانہ میں آدم خوروں کے لئے مشہور تھی پاکستانی حکمرانوں کے پیسے باہر پڑے ہوئے ہیں 368 پاکستان کے پاس ایسا میزائل سسٹم ہو جو کہ اسرائیل پورٹ بلیر تک رسائی رکھتا ہو 369 عدل اور امانت کے پیش نظر نہ ہندوستان میں حکومتیں قائم پیر پرستی کی جارہی ہیں ، نہ پاکستان میں قائم کی جارہی ہیں 371 ایسے لوگ جو پیر پرستی کا رجحان رکھتے ہیں وہ صادق پاکستان میں ایٹمی دھما کا پاکستان کی تعمیر میں ہی سب سے اہم کردار جماعت احمدیہ نے ادا کیا ہے آئندہ آنے والی تاریخ ان تاریخ دانوں کو جو آج کل پاکستان پر مسلط ہیں ان کو لازماً جھوٹا اور بدکردار ثابت کرے گی 395 396 399 کی صحبت اختیار کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے پیغمبر الوہیت کے مظہر اور خدا نما ہوتے ہیں ت ،ٹ ،ت تاریخ آئندہ آنے والی تاریخ ان تاریخ دانوں کو جو آج پاکستان کے سکولوں میں غلط تاریخ کا پڑھایا جانا 404 کل پاکستان پر مسلط ہیں ان کو لازماً جھوٹا اور بدکردار پاکستان کی تاریخ میں جماعت احمدیہ کا کردار 404 ثابت کرے گی 515 98 226 413 320 104 399
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 13 پاکستان کے سکولوں میں غلط تاریخ کا پڑھایا جانا 404 تحریک جدید کا آغاز 1934 ء میں ہوا تاریخ احمدیت تبتل 582 رپورٹ تحریک جدید خدا کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تمبتل حاصل ہو 45 رمضان میں الْحَمدُ للهِ الْحَمدُ للہ کا ورد تبتل کا مطلب یہ ہے کہ ایسے جدا ہو جائے کہ گویا دُنیا تدبیر 778 779 64 سے کٹ گیا ہے تبتل اور توکل تو ام ہیں تبتل کے بغیر آپ کو نبوت عطا نہیں ہوئی تھی 781 782 783 دعا کے ساتھ دوا بھی لازمی ہے 841 تراویح حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جاری کی تھی 905 تبتل الی اللہ کا مطلب ہے اللہ کی خاطر تبتل کرنا 816 تربیت اولاد تبتل اور تکبر میں فرق اللہ کی محبت کو اختیار کرو سیل کے متعلق احادیث 821 823 828 بچے کو کا کولا پیتے اور اپنی صحت برباد کر دیتے ہیں 441 بچے کی تربیت والدین کا فرض ہے 454 آنحضور صلی ایہام کا انداز تبلیغ قتل اولا د سے چینی اقتصادیات کو کوئی فائدہ نہیں ہوا 454 بچوں کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرو نہ کہ جانشین 89 کوئی شخص اس لئے تبلیغ نہ کرے کہ مجھے دکھا سکے 213 کامیاب تبلیغ اپنے عمل کے ساتھ وابستہ ہے 214 تبلیغ میں تعداد نہ بڑھا ئیں جماعت کے قریب لائیں 296 حضور اکرم سا لی ایم کی ذمہ داری تھی بلاغ کرنا حضرت عبد الرحمن مہر سنگھ کا طریق تبلیغ تبلیغ کا کام فسادات کی وجہ سے رُکے گا نہیں کا کام تبلیغ رسالت تجارت لوگ سچے منافع میں سے روپیہ نکالنے میں سمجھتے ہیں 448 490 550 198 بنانے کے واسطے اولاد کے حصول کا مقصد کہ میں متقیوں کا امام بنوں 456 دعا کے ساتھ اپنا عمل بھی ضروری ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دین کے معاملہ میں اپنے بچوں سے نرمی نہیں کی 455 457 458 امریکہ میں اولاد کی طرف زیادہ توجہ کی ضرورت 460 گھر کی سرخ کتاب میں بچوں کے حادثات کی وجوہات درج ہوں 543 حضرت مسیح موعود کی تربیت اولاد کا طریقہ 565-558 جو بچوں سے وعدہ خلافی کریگا وہ باہر بھی کریگا بڑا نقصان پہنچے گا حالانکہ نہ نکالنے کا نقصان ہے 468 وہ اولادیں جو ہاتھ سے نکلی جارہی ہیں بهترین تجارت دردناک عذاب سے نجات دے گی 765 تزکیہ تحدیث نعمت تحدیث نعمت سے مراد شکر کے ساتھ آگے لوگوں میں بھی اس نعمت کو جاری کرنا ہے تحریک جدید نئے سال کا آغاز امریکہ کے چندوں پر وقتی طور پر برا اثر پڑا 849 767 773 558 766 تزکیہ نہیں ہوسکتا جب تک مزگی کی صحبت میں نہ رہے 565 رسول اللہ صلی الہام کے فیض سے تزکیہ نماز کے بعد تسبیح کی تلقین تشحید الا ذبان 566 493 827,884
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 تصوف ایک فلسفی کا حضرت مسیح موعود سے سلوک کی منازل کے دوران مناظر کے بارہ میں سوال 226 صوفی کو یاد کرنے سے لوگوں نے اللہ کی یاد کو بھلادیا 298 عبد اور رب کا تعلق ہو جائے اس کیفیت کو تصوف والے لوگ روح قدس بھی کہتے ہیں تعلق باللہ 322 14 ہزل تمسخر اور مزاح میں فرق 162 163 143 تمسخر انسان کے دل کو صداقت سے دور کر دیتا ہے 145 توبه زاد راہ والی اونٹنی گم ہونے کا واقعہ از روئے حدیث 132 نمازیں پڑھو اور تو بہ کرتے رہو.جب یہ حالت ہوگی تو اللہ تعالیٰ حفاظت کرے گا چاہئے کہ تم خدا کے عزیزوں میں شامل ہو جاؤ تا کہ کسی اللہ تعالیٰ بطور تواب وبا کو یا آفت کو تم پر ہاتھ ڈالنے کی جرات نہ ہو سکے 159 گناہ سے سچی توبہ کرنے والا پیوند کر کے جڑ جانا اللہ تعالیٰ کے ساتھ انس اور ذوق 774 785 252 469 470 گناہ ایک زہر ہے مگر تو بہ اس کو تریاق بنا دیتی ہے 473 خدا تو بہ سے ستر برس کے گناہ بخش سکتا ہے اللہ تعالیٰ سے تعلق کے لئے محویت کی ضرورت ہے 817 توبۃ النصوح کا مطلب 474 722 تعوذ اعوذ باللہ پڑھنے کی حکمت تفسیر صغیر تقرب الی اللہ 340 377,378,448,561,627 ایذاء رسانی کے بدلہ اللہ تعالیٰ کا بندہ کا درجہ بڑھانا 282 تقوی تقویٰ کے نام پر مشورے دینے والے تقوی سے بے خبری کی وجہ سے تبلیغ میں مسائل 210 214 توحید اپنے وجود کو خدا کی عظمت میں محو کرو اللہ تعالیٰ سے توحید کا تعلق مانگو توحید کے دعوی کرنے والے تورات توکل جماعت سے کامل تو گل کی توقع اللہ تعالیٰ کے نزدیک متوکلین نقصان سے بیچ کر خدا کی طرف قدم اٹھانا تقویٰ ہے 232 توکل کا نتیجہ جدوجہد اور کوشش تقویٰ کی ابتدائی حالت کا نام ہے 321 خدا تعالیٰ سے تعلق ہو تو شجاعت آجاتی ہے خدا تعالیٰ متقی کو کبھی ضائع نہیں کرتا تقویٰ کے باریک رستے تقویٰ کی باریک راہیں تقویٰ کے بغیر کبھی کوئی ہنر نہیں مل سکتا تمہارا اصل شکر تقویٰ ہے خدا تعالیٰ متقیوں کو ضائع نہیں کرتا تلاوت تلاوت کاطریق 535 614 647,654,813 805 879 882 72 140 141 386 561,704,886 4 214 551 787 ہلاکت سے بچنے کے انتظام کرنے کو تکبر نہیں کہتے 118 کسی طرح بھی کسی احمدی کو تحقیر سے نہ دیکھیں ہنرل اور تمسخر تکبر سے پیدا ہوتے ہیں تکبر اور انا اندھیرے پیدا کرتی ہیں غریب تواضع کے ساتھ حق کو قبول کرتے ہیں رمضان میں ذکر الہی الله اکبر، الله اكبر 134 143 233 493 64
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 15 جماعت جرمنی کے ایجنڈے کو درست کرنا با جماعت تہجد کا آغاز محمدصلی لا الہ الم کے زمانہ میں ہوا 907 جماعت احمد یہ جرمنی کو نصیحت تہلیل تہلیل سے مراد لا إله إلا الله تیرا کی 64 مغربی ممالک میں بھی مولوی کا ظلم کرنا 290 291 294 مغرب میں جرمنی تبلیغ کے لحاظ سے سر فہرست ہے 296 اللہ تعالیٰ نے جماعت جرمنی کو مقام عطا فرمایا ہے 337 344 حضرت خلیفہ امسیح الرابع" کا پچوں کے لئے گھر میں تالاب بنانا اور تیرا کی سکھانا ٹورانٹو ثبات قدم ثبات قدم کے حوالے سے حدیث يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتُ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ثبات حاصل کرنے کا گر چ چ جابر بن عبد اللہ ، حضرت جاپان رپورٹ وقف جدید میں ذکر جاپان میں نا کامی پر خودکشی کر لیتا جبرائیل علیہ السلام، حضرت انسانی شکل میں متمثل ہوا کرتے تھے 463 403 530 817 جرمنی کی مالی قربانی کی تعریف جماعت احمد یہ جرمنی کا اعزاز ان کو سرخ کتاب بنانی چاہیے جماعت جرمنی میں ایثار جرمن قوم جز اسرا امیر غریب سب کا حساب ہوگا جنت اور جہنم برحق ہیں 359 541 584 591 99 115 ملکیت کے ساتھ جزا سزا کا مضمون داخل ہوا کرتا ہے 238 525,603 جگن ناتھ 780، 410,664 جلال الدین سیوطی 15 287 61 29 30 60 1228 جلسه سالانه 649,881 470 498,537,585,882,883 288,350 501 507 512 رپورٹ جلسہ سالانہ جلسہ کے میزبانوں اور مہمانوں کو اہم نصائح دوران سفر مسنون دعاؤں کی تحریک جلسہ کے سب مہمانوں کو واجب الاحترام جانو انتظامیہ کو پاکستان اور انڈو نیشیا والوں کی بیرکس میں ہیٹر لگانے کی ہدایت جلسہ کے حوالہ سے عمومی نصائح آپ کا دین سکھانے کا طریق رمضان میں ہر رات اترتے جتھا بندی جتھا بنانے والوں کو تنبیہ 93 513 514 جرمنی 325,330,347,362,540,544,573 عمومی نصائح کے نتیجے میں حفاظت کرنے کا احساس 540 590,593,607,609,619,672,749,779 جرمنی کی وقف جدید میں تیسری پوزیشن جرمنی میں جتھا بندیوں کا خاتمہ جرمنی کی 17 ویں مجلس شوری 14 95 289 جلسه سالانه قادیان جلسہ سالانہ کے بارہ میں آپ کی نصائح جلسہ سے پوری طرح استفادہ ضروری ہے جلسہ سالانہ قادیان میں تعداد کا نیا ریکارڈ امیر صاحب جرمنی کو مالیات پر غور کرنے کی نصیحت 291 جماعت احمدیہ 837 837 840 857 93,94,175,584,621
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 آج کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود کے اقتباسات کو پڑھ کر سنانے سے بہتر اور کوئی طریق تربیت نہیں ہے 96 16 جماعت کو بھی صحابہ کی مانند اطاعت اور وحدت کے نمونے دکھانے کی ضرورت ہے 393 جماعت احمدیہ میں داخل ہونے کی تمنا پیدا کریں 162 جماعتی مشوروں کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں نقصان 396 اخراج از نظام جماعت تم وہ جماعت ہو جن کو اللہ نے نیکی کا نمونہ دکھانے کے لئے چنا ہے 169 177 جماعت کے افراد کے برے نمونہ کا اثر ہم پر پڑتا ہے 193 پاکستان کی تاریخ میں جماعت احمدیہ کا کردار بخل سے بچنا جماعت کے لئے ضروری ہے کیونکہ ہم 404 487 523 نے خدا کے پیغام کو اگلی نسلوں میں جاری کرنا ہے جماعت احمدیہ کو اعمال پر مداومت کی تعلیم جماعت کے لئے سرخ کتاب کا رواج ضروری ہے 543 پاکستان کی جماعتیں تقویٰ کے لحاظ سے حضرت مسیح موعود جماعت احمدیہ کا ایک نگران ہے اس کو اللہ تعالیٰ توفیق کی توقعات پر پوری اترنی چاہئیں حضرت مسیح موعود فر ماتے ہیں کہ خدا تعالیٰ نے مجھے ایک مخلص اور وفادار جماعت دی ہے دشمن جماعت کی ترقی کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتے 210 261 263 عطا فرماتا ہے کہ وہ بار یک باتوں پر بھی نظر رکھے حالات کا آخری نتیجہ جماعت کے حق میں ہوگا جماعتیں اکٹھی ایک امام کے پیچھے چلتی ہیں جماعت احمدیہ کا نظام مشورہ پر مبنی ہے 546 552 597 599 احمدیت دنیا کے ایک سو ساٹھ سے زائد ممالک میں پھیلی ہوئی ہے 266 امانت سوائے جماعت احمدیہ کے اور کہیں نہیں مل سکتی 625 حضرت مسیح موعود کی جماعت احمدیہ کو صبر اور نرمی کی تلقین 279 قدم آگے بڑھانے چاہئیں جماعت احمدیہ کو اللہ پر نظر رکھتے ہوئے اپنے 649 ہر پہلو سے نیک ہونے کی نصیحت احباب جماعت کی بے مثال محبت جماعت کا نظام شوری حب اللہ میں بڑھنے کی تلقین دین کو دنیا پر مقدم کریں تکمیل عملی بدوں تکمیل علمی کے محال ہے انفاق فی سبیل اللہ کی حقیقی مصداق سنت نبوی سال سی پی ایم کو صرف آج جماعت احمدیہ نے ہی زندہ رکھا ہوا ہے 289 296 302 311 312 313 344 351 ہر ایک بیعت کنندہ کو بقدر وسعت مدد دینی چاہئے 354 10 رمضان مبارک ہے تو Friday the 10th کیا ہم بھی جو جو کوششیں کرتے ہیں اس کا آخری مقصد محض اپنے آپ کو فائدہ پہنچا نا ت نہیں جماعت احمدیہ کی قربانیاں 668 680 جماعت کے لئے ایک خوشخبری کہ تمہارے لئے انوار کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا 692 دُنیا میں سوائے جماعت کے کہیں ڈیما کریسی نہیں 791 جماعت احمدیہ کو مبل کی نصیحت عالمگیر جماعت 816 825 جمعه حضرت مسیح موعود کا جماعت سے محبت کا اظہار جماعت اپنی خوشی سے مالی قربانی کرے جماعت کا اعزاز کہ صحابہ کی صحبت نصیب ہوئی 356 357 359 جماعت احمد یہ تو وہ ہو جس کو دجال کا دھواں نہ پہنچے 376 جماعت میں افتراق ہے تو لاز مابت موجود ہیں 388 بھی دونوں طرح سے پورا اُتر رہا ہے جمعة الاستقبال جمعۃ الوداع جمعہ کی دو سنتیں فرض ہیں جن مراد بڑے لوگ جو بہر کا دیتے ہیں 799 20 20 54 54 31
کیا نئے احمدی چندوں کے نظام میں شامل ہیں 212 356 431 485 771 772 776 363,664 لازمی چندہ جات ماہ بماہ ادا کیے جائیں چندوں کے معاملات میں اللہ کو دھوکا دینا چندہ کے حوالہ سے حضور کی ہدایت چندہ جات کی تفصیل لازمی چندوں کے علاوہ زائد خرچ چندہ تحریک جدید کی تلقین چین پاکستان چائنہ سے ایسا میزائل سسٹم لے سکتا ہے جو کہ اسرائیل تک رسائی رکھتا ہو 369 قتل اولاد سے چینی اقتصادیات کو کوئی فائدہ نہیں ہوا 454 حافظ آباد حامد اللہ ، ڈاکٹر 780 813 حبیب اللہ ، سید 509 17 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 28-30,98,111,373,400,528,529 532,639,641,683,694,746,753,754 760,761,894,896,902 34 184 335 611 614 682 682 676 780 26 جنت کے سات دروازے ہیں لَا يَسْمَعُونَ فِيهَا لَغُوا وَلَا كِتبًا وہ بہشت جو آئندہ ملے گاوہ در حقیقت اسی کی اخلال و آثار ہے کمزوریوں کے باوجود اعزاز کے ساتھ جنتوں میں داخل کئے جائیں گے رسول اللہ صل اشیا کی تم سے جنت کی ضمانت جندب بن سفیان، حضرت جنگ بدر جنگ عظیم ثانی جھنگ جھوٹ جب بھی جھوٹ اپنی مجبوری کے پیش نظر بولا جائے وہ اصل جھوٹ ہے جو شرک کی طرف مائل کرتا ہے انسان لاشعوری طور پر جھوٹ میں ملوث ہو جاتا ہے 27 حج کے بعد پہلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں مولوی کا جھوٹ کے بغیر گزارہ نہیں جھوٹ کو خدا تعالیٰ نے رجس قراد دیا ہے جہاد 265 426 27,28,138,210,300,528,599 اسلام تلوار کے زور پر نہیں پھیلا حدیث 576 حضرت ابو ہریرۃ کا سب سے زیادہ روایات بیان کرنا 299 احادیث کو سمجھنے کی کنجی 300 672,764,777,778 آپ کا حدیث کے بارہ میں تحقیق کی عادت کا بیان کہ کوئی جہاد محض دُنیا میں فساد پھیلانے کا ذریعہ بنا ہوا جہنمی لوگوں کی نشانی سرکش جہنم میں گرایا جائے گا چشمه معرفت چنده اعمال صالحہ کے ساتھ چندے بھی شامل ہیں 392 675 641 220 249 474 11 کمزور راوی اعلی عارفانه احادیث بنا ہی نہیں سکتا 831 احادیث أَدِ الْأَمَانَةَ إِلَى مَن القَمَلَكَ، وَلا تَكُنْ مَنْ خَانَكَ 602 إِذَا حَدَّثَ الرَّجُلُ بِالْحَدِيثِ ثُمَّ الْتَفَتَ فَهِيَ أَمَانَةٌ 603 أَذْكُرُوا مَحَاسِنَ مَوتَاكُمْ أسْأَلُكَ خَشْيَتَكَ فِي الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أُعْطِي عَطَاءٍ فَوَجَدَ فَلْيَجْزِبِهِ أَفَشُوا السلام 139 702 860 515
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 أَفَلَا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا الله الله في أصحابي الحِكْمَةُ ضَالَةُ الْمُؤْمِنِ الْحَيَاءُ حَيْرُكُلُهُ اللَّهُمَّ اسْتُرْ عَوْرَاتِنَا وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا اللَّهُم إِنِّي أَسْأَلُكَ حُبَّكَ اللَّهُم اهْدِ قَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ اللَّهُم حَاسِبْنِي حِسَابًا نَّسِيرًا المجالسُ بِالأمانة المُسْتَشَارُ مُؤْتَمَن إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ أَنْ يَرَى أَثَرَ نِعْمَتِهِ 531 297 832 756 787 295,440 868 187 605 599 876 18 يَا مُقَلِّبَ القُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ ييرا ولا تعبيرا 529 522 حدیث بالمعنى 351 آپ مسلہ یہ یمن کا خطبہ عید میں صدقہ کی ترغیب دینا اور عورتوں کا بالیاں اور انگوٹھیاں پھینکتے جانا آپ سا لہ الہی تم نے فرمایا جب امانتیں اٹھ جائیں گی 620 آپ صل اللہ الیہ امام نے فرما یا جس بات کے بارے میں تجھے اچھی طرح معلوم ہوا سے اختیار کر لینا 621 62 آخری سات دنوں میں لیلۃ القدر کی تلاش کرو آسانی پیدا کرو سختی نہ کرو اور خوشی کی بات سناؤ اور نفرت نہ دلاؤ إِنَّ مُعَاذًا صَلَّى بِنَا البَارِحَةَ، فَقَرَأَ البَقَرَةً فَتَجَوزُتُ 524 آنحضرت سی ای اس ام اس امر کو نا پسند فرماتے تھے کہ إِنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَشْقَى جَلِيسُهُمْ إِنِّي أَسْأَلُكَ القَبَاتَ فِي الْأَمْرِ أَوَّلُ مَا ابْتُدِ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ مِنَ النُّبُوَّةِ إِيَّاكُمْ وَالْحَسَدَ حَاسِبُوا أَنْفُسَكُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوا شَرُّ مَنْ تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاء فَأَبَواهُ يُهَوْدَانِه فُزْتُ بِرَبِّ الْكَعْبَةِ كَانَ النَّبِيُّ ﷺ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ كَانَ خُلُقُهُ القُرْآنَ كَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَجْتَهِدُ فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ كيف أنتَ إِذَا بَقِيْتَ فِي حُقَالَةٍ مِنَ النَّاسِ لَعَلَّكَ تُرْزَقُ بِه لَوْ يَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ مَا عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعُقُوبَةِ مَن صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَاناً وَ احْتِسَاباً مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبِحُ وَلِلَّهِ عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ وَهَذِهِ صِفَةٌ نَبِيِّ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنِي بِعَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ 309 842 782 268 239 83 245 342 60 110 59 620 329 531 40 832 894 598 527 کوئی اپنے بھائی کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھتا رہے آنحضرت سی یہ نیم کے پاس صحابہ یوں ساکت بیٹھے تھے گویا ان کے سروں پر پرندے ہوں آنحضرت صلی این موقع اور وقت کی رعایت سے ہمیں نصیحت فرمایا کرتے تھے آنحضرت صلی شما پیام صبح کی نماز سے قبل دو رکعتیں پڑھتے تھے آنحضر ملا نہ ہی ہم کسی جنگ میں تھے کہ آپ کی اُنگلی زخمی ہوگئی آنحضور صلی شما پیام کی مہمان نوازی اپنے بچوں سے عزت کے ساتھ پیش آؤ اور ان کی اچھی تربیت کرو اچھی تربیت سے بڑھ کر کوئی بہترین تحفہ نہیں احسان کیا ہے؟...فرمایا اللہ تعالیٰ کی خشیت اختیار کرے کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اگر میں فرض نماز میں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں اگر کوئی بھول کے کھائے لیے تو چاہئے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے 522 575 577 523 906 682 505 455 455 701 28 903
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 الشمع یعنی بخل سے بچو.یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا امانت لوگوں کے دل کی جڑیا تہہ میں اتری ہے یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی کو بات انس بن نضر کی شہادت کا واقعہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے انسان کے سب کام اس کے اپنے لئے ہیں مگر روزہ میرے لئے ہے انصار کی عورتیں کتنی اچھی ہیں انہیں حیادین سیکھنے سے نہیں روکتی انفاق فی سبیل اللہ کے متعلق حدیث اے ابن آدم ! کیا کوئی تیرا مال ہے بھی اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں ایسے دل سے جو خشوع سے نا آشنا ہو ایسی گھڑی بھی آنے والی ہے جس میں علم لوگوں سے چھین لیا جائے گا ایسے شخص کے پاس بیٹھنا مفید ہے جس کو دیکھنے کی وجہ سے تمہیں خدا یاد آوے 486 622 682 276 32 32 742 348 767 664 704 293 19 جب امانتیں ضائع ہونے لگیں تو قیامت کا انتظار کرنا 619 جب تمہارے پاس کسی قوم کا سردار معزز آدمی آئے تو اس کی حیثیت کے مطابق عزت و تکریم کرو جب رسول اللہ صلی ا سلم آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ہمت کس لیتے جس دن اللہ کے سایہ کے سوا سایہ نہیں ہوگا اس دن 504 63 اللہ سات آدمیوں کو اپنے سایہ میں جگہ دے گا 676,696 جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے اور جس نے رمضان کے تقاضوں کو پہچانا جس طرح والد کا حق ہے اسی طرح تم پر تمہارے بچے کا بھی حق ہے جس کے محاسبہ میں سختی کی گئی وہ ہلاک ہو گیا جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت کے دن روزہ دار اس سے داخل ہوں گے 892 454 187 34 852 جو پسند ہو وہی دوسروں کے لئے پسند کرو جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ مہمان کی عزت کرے 502 جو شخص اللہ کا فضل چاہتے ہوئے روزہ رکھتا ہے خدا...ستر خریف کا فاصلہ کر دیتا ہے 38 ایک آدمی کا بھائی کو حیا کے بارے میں سرزنش کرنا 755 جو شخص جھوٹ بولے اس کا روزہ رکھنا بے کار ہے ایک مومن بعض دفعہ بدی کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے 758 چار باتیں انبیاء کی سنت میں سے ہیں ایمان کی نشانیاں 294 بچہ کے رونے پر حضور صلی ایوان نماز مختصر فرما دیتے 524 بخیل اور سخی کی مثال ان دو آدمیوں کی سی ہے حدیث میں شہد کی فضیلت حضرت حمزہ کی شہادت حضرت طلحہ کا حضور ا کرم منی یا پریتم کی طرف آنے 26 742 110 685 684 906 681 293 753 468 والے تیروں کو اپنے ہاتھ سے روکنا حضور صلی اللہ الیہ الم رمضان یا دوسرے مہینوں میں گیارہ سے زائد رکعات ( تراویح) نہ پڑھتے تھے حضو صلی لیم کے دندان مبارک کا ٹوٹنا حلاوت ایمان کے متعلق حدیث حیا ایمان میں سے ہے اور ایمان جنت میں ہے 487 851 614 41 435 جنہوں نے سینے تک لوہے کی قمیص پہنی ہے تقویٰ اور پر ہیز گاری اختیار کر تم مجھے اپنے نفس سے چھ چیزوں کی ضمانت دو تو میں تمہیں جنت کی ضمانت دیتا ہوں تمہارا یہ مہینہ تمہارے لئے سایہ فگن ہو ثواب کے لحاظ سے سب سے بڑا صدقہ جب آیت صدقہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام بازاروں خدا تعالیٰ بندے سے اس حسن ظن کے مطابق سلوک کرتا ہے جو وہ خدا کے متعلق رکھتا ہے میں جاتے اور جمالی کرتے جو مانتا اس کو صدقہ کر دیتے 350
903 508 507 506 358 سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے سفر کی دعا سواری پر بیٹھنے کی دعا سونے کے درست طریق کے حوالہ سے حدیث صحابہ کے عشق رسول صلی الی السلام کے متعلق حدیث غزوہ تبوک کے موقع پر مالی قربانی کے متعلق حدیث 349 20 20 غصہ آئے تو پانی پی لو 167 فحش جس چیز میں بھی ہو اس کو بدصورت کر دیتا ہے 755 فقر دل کا فقر ہوا کرتا ہے کبائر سے بچنے کے لئے پانچ نمازیں کثرت سے بننے سے دل مردہ ہو جاتا ہے 436 896 854 گناہ سے کچی تو بہ کرنے والا ایسا ہی ہے جیسے اس نے کوئی گناہ ہی نہیں کیا لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے مالی قربانی کے متعلق حدیث 470 905 350 ماں کا بچے کو لالچ دے کر بلا نا اگر نہ دے تو جھوٹ ہوگا 556 699 700 522 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 خدا تعالیٰ کی خشیت سے رونے والا شخص جہنم میں داخل نہیں ہو سکتا خدا تعالیٰ کی راہ میں اڑایا جانے والا غبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے خدا تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ اعمال وہ ہیں جو اگر چہ تھوڑے ہوں لیکن ان میں دوام ہو خدا تعالیٰ کے نزدیک دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسندیدہ نہیں دو شخصوں کے سوا کسی پر رشک نہیں کرنا چاہئے ذکر الہی کے متعلق حدیث راکھ زخم پر لگا دی اس طرح خون رک گیا رحمت سے مایوس نہ ہونے کے حوالہ سے ذکر رسول اکرم صلی شی ای ام رات کی نماز دو دو رکعت کر کے پڑھتے تھے رسول اللہ سینتی کیانی کا طویل تقاریر کرنا رسول کریم ملی سونم کا نصف شب گھر سے مسجد میں 670 7 292 681 532 906 526 تشریف لے جانا رسول سنتی فنی ایام کنواری عورت سے زیادہ حیادار رمضان کے روزے تم پر فرض کئے رمضان میں شیاطین کا جکڑ ا جانا رہائش اختیار کرنے کی دعا روزہ ایک ڈھال اور آگ سے بچانے والا ایک حصن حصین ہے روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ فرحت محسوس کرتا ہے روزے دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے روزہ گناہوں کو یکسر مٹادیتا ہے روزے ڈھال ہیں 907 741 893 30 509 899 901 900 39 902 زاد راہ والی گمشدہ اونٹنی کے گم ہونے کا واقعہ 132,469 سب سے بہتر چیز شہادت دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد الیم اللہ کے رسول ہے 576 مجھ پر ایک زمانہ ایک ایسا آیا کہ میں تم میں سے کسی کے ساتھ بھی لین دین کے معاملہ میں پروا نہیں کرتا تھا 633 معمولی نیکی کو بھی حقیر نہ سمجھو.اپنے بھائی سے خندہ پیشانی سے پیش آنا بھی نیکی ہے 504 منافق جب وعدہ کرتا ہے تو وعدہ خلافی کرتا ہے 558 مومن کو جب آزمائش پہنچتی ہے تو وہ شکر کرتا ہے 829 مومن کی نماز ایسی ہے جیسے خدا اُسے دیکھ رہا ہو مومن ہر قسم کی عادتوں اور خصلتوں پر پیدا کیا 430 636 جاتا ہے سوائے خیانت اور کذب کے میاں بیوی کو آپس کی رازداری کا خیال رکھنا چاہئے 617 نماز ، روزہ اور ذکر کرنا خدا کے رستہ میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے نماز کے بعد تسبیح کی تلقین 35,898 493
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 نماز میں آپ ملی یا پی ایم کے سینہ مبارک سے ہنڈیا کے ابلنے کی جیسی آواز آرہی تھی نیک اور برے ہم نشین کی مثال کستوری رکھنے والے اور دھونکنی چلانے والے کی ہے ہر دین کا ایک خاص خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خُلق حیا ہے 669 275 752 21 حسد اہل کتاب کی تمنا کہ تم ایمان کے بعد پھر کفر میں لوٹ جاؤ حسد کی وجہ سے ہے شریک بڑھنے پر لازماً حسد پیدا ہوتا ہے حسد کی وجہ صرف مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِهِمْ ہے دشمن کے حسد کی وجہ سے ترقی سے نہیں رکنا ہر صبح دوفرشتے اترتے ہیں.کنجوس کا مال و متاع بر با دکر 5,433 جماعت احمدیہ میں دینی حسد تو نہیں لیکن آپس کے ہرنماز سے پہلے اچھی طرح مسواک کرو 567 ہر وہ مصیبت جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ تعالی اس کی وجہ سے مومن کی کوئی غلطی معاف کر دیتا ہے 188 وقت آتا ہے کہ تو مسجد میں داخل ہو گا تو اس میں کسی کو بھی خشوع کرنے والا نہ پائے گا وہ مسلمان جو مسلمانوں کے اموال کا نگران ہو یہ بہت بڑی خیانت ہے کہ تو اپنے بھائی کو بات سنائے جس میں وہ تجھے سچا سمجھے مگر تو اس میں جھوٹا ہو رض حذیفہ ، حضرت حد سے بچیں حسد نیکیوں کو مجسم کر دیتا ہے حسد کی جگہ رشک پیدا کریں حسن ،حضرت 705 حسن ظن حسن علی مولوی 612 635 622,632,633 حفاظت اگر گھر میں ایک شخص بھی ایسا ہوگا تو اللہ تعالیٰ اس کے باعث دوسروں کی بھی حفاظت کرے گا حفاظت الى وَاللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ حرام غیر حلال کی ملونی سے بچنا بہت بڑا دعوی ہے عربوں کا خاص حلوہ حساب اللہ تعالیٰ جب حساب کرتا ہے تو اس میں کسی ضد و تعصب کا سوال نہیں کوئی حساب سے خالی نہیں جائے گا جس کے محاسبہ میں سختی کی گئی وہ ہلاک ہو گیا حِسَابًا يَسِيرًا کا ایک معنی معاف کرنا جو انسان حساب یسیر کے لئے تیار کیا جاتا ہے اسے اس دُنیا میں پاک زندگی ملتی ہے جس نے ساری صلاحیتیں عطا کیں اس نے ہر ایک کا حساب لینا ہے 253 254 255 263 268 269 270 620 468 513 252 29 حقوق العباد دوسروں سے محبت کرنا یعنی ان کے حقوق تلف نہ کرنا 51 99,648 175 505,506 حقیقة الوحی 226,317,797,798,801,804,808 184 185 187 188 خدا کی طرف سے جو بھی حکم آئے گا وہ اچھا ہو گا حکومت (دیکھئے ڈیماکریسی) 249 189 246 دُنیا کی بڑی بڑی حکومتوں کے سر براہ اور امیر ترین آدمی بھی دل کے اندر بے چینی محسوس کرتے ہیں 136 اب حکومت وہ نہیں رہی جو اسلام کے تقاضے پورے کرنے والی ہو حلال کھانا حلال ہی نہ ہو پاک بھی ہو 633 28,29,100,900 568
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 حمزہ ،حضرت حمید نظامی ان کے بیٹے نوائے وقت پر قابض ہیں حنیف Handrick خویسہ 685 406 749 22 خاندان نبوت کسی قدر روزے انوار سماوی کی پیشوائی کے لئے رکھنا سنت خاندان نبوت ہے خدا تعالیٰ 71 427,457,459,465 جو شخص خدا سے دوری کی زندگی بسر کرتا ہے اس عرب کھانا حیا 505 کے دماغ کو آپ روشن نہیں دیکھیں گے خدا تک پہنچنے کے لئے دو راستے پوری طمانیت ہی حیا سے ملتی ہے حیاز بینت بخشتی ہے کوئی با حیا انسان والدین کے خلاف بولنے والے کے پاس نہیں جائے گا جس میں حیا نہ ہو وہ بدی سے بھی حیا نہیں کرتا حیا کیا ہوتی ہے 274 489 737 اللہ حیا سے نہیں شرما تا کیونکہ وہ حیا فائدہ مند ہے 739 حیا بھی تمام پیغمبروں کی سنت تھی حیادین کا حصہ ہے دین اسلام کا خلاصہ حیا ہے 743 752 753 754 755,757 خدا کی طرف سے جو بھی حکم آئے گا وہ اچھا ہو گا خدا تعالیٰ کا حضرت مسیح موعود کی تائید کا وعدہ خدا تعالیٰ اپنی طرف آنے والے کی سعی اور کوشش کو ضائع نہیں کرتا خدا کے پیار کی نظر 122 183 249 260 285 327 خدا کی پناہ میں آکر شیطان کے حملہ سے بچ سکتے ہیں 328 خدا کا شکر ادا کر ناخدا کے فضل کے بغیر ممکن نہیں 530 أفلا أُحِبُّ أَنْ أَكُونَ عَبْدًا شَكُورًا خدا تعالی کی ہستی پر کامل ایمان کا نتیجہ 531 571 اگر خدا کی محبت میں آنسو بہیں تو وہ آنسو سب جب اللہ کی حیا نہیں رکھتا تو پھر دنیا کی حیا اٹھ جاتی ہے 756 سے زیادہ پیارے ہیں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کی آنکھیں حیا سے خالی ہوتی ہیں 758 احمدی خواتین اور احمدی مرد دونوں کا زیور حیا ہے 760 699 ہر حال میں انسان خدا کو شعوری طور پر محسوس نہیں کرتا 703 ہر تکلیف کے وقت انسان خدا کی طرف لوٹتا ہے 720 خدمت دین حیات نور حیدرآباد، پاکستان حیدر آباد دکن 579 780 عبد الکریم کی نسل حیدر آباد دکن میں موجود ہے 317 نتين خ دین کی حمایت میں ساقی ہو جاؤ گے تو خدا تمام رکاوٹوں کو دور کر دے گا دین سے محبت دین کی خدمت کو اہمیت دینا خدمت دین عمر بڑھانے کا ذریعہ قربانی کو اللہ تعالیٰ کی رافت کا حصہ سمجھیں دولت مند دین کی خدمت اچھی طرح کر سکتے ہیں سب نبیوں کی صفات آپ سات یا ایہ پتہ میں جمع تھیں 688 خاتم " پہنم خالق پرستش ایک حق خالق کا تم پر ہے 250 153 155 158 162 337 497 347 خریم بن فاتتک ،حضرت خشوع و خضوع 663,665,668,669,695,715
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 خشوع کے مضمون کو سمجھنے میں بعض دفعہ رفت ایک دقت پیدا کر دیتی ہے شریر لوگوں کو بھی کوئی نمونہ قہر الہی دیکھ کر خشوع پیدا ہو جاتا ہے کسی زمانہ میں یہ نیک بندوں کی علامت تھی خدا کی خشیت سے رونے والا شخص جہنم میں داخل نہیں ہوسکتا اللہ کی قسمیں کھانے سے یہ یقین نہیں ہو سکتا کہ وہ شخص خدا کو دیکھ رہا ہے غیب میں بھی خشیت اور شہادۃ میں بھی آنسو کا ایک قطرہ بھی دوزخ کو حرام کر دیتا ہے خشیت کے غلبہ سے مراد اللہ کا خوف خطابات موقع محل کے مطابق رسول اللہ صلی اا اینم کا خطابات کو طویل یا مختصر کرنا خطبات طاہر خطوط 717 723 728 695 701 703 735 736 826 525 21,22 23 و، ڈ، ز داؤد علیہ السلام، حضرت حضرت داؤد علیہ السلام کی دعا میں نے کبھی کسی منتقی کو بھیک مانگتے نہ دیکھا 440 295 535 دجال دجال کا لفظ عالمی طاقتوں پر بعینہ پورا اتر رہا ہے 362 درگزر کمی بیشی پر درگزر کرنا 839 درود شریف صَلِّ عَلَى نَبِيِّنَا، صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ درود شریف پڑھ کر دعا کرنا 1 657 دعا اگر میری دعا سے آپ خدا کے قریب نہیں آئے تو یہ تعریف میرے لئے مذمت ہے دعا ہر گناہ گار کے لئے انتہائی ضروری ہے دعا یہ ہونی چاہئے کہ خدا ہمیں اپنا بنادے آنحضرت سلی لا الہ سلم کی دعائیں دعا کے ذریعہ مدد مانگنی چاہئے 128 152 160 202 249 295 حضور انور کی ڈاک میں افراد جماعت کے مسائل کا ذکر 138 واحد کے صیغہ میں دعا کرنے کی حکمت خلافت خواتین 13,579,581,582,802,811 احمدی خواتین مالی قربانی کی سنت کو زندہ رکھے ہوئی ہیں 351 دعا کے ساتھ اپنا عمل بھی ضروری ہے دعا میں اقربا اور دوستوں کو شامل کرنے کی نصیحت 296 حضور سی امینم کی دعاؤں نے انقلاب برپا کیا تھا 374 خوشاب خوشبو خوشبولگانا اسلام کا حصہ ہے خیانت خیانت کے نتیجہ میں خیانت کرنا جائز نہیں اللہ اور اس کے رسول کی خیانت نہ کرو خیانت انسانی فطرت میں ودیعت نہیں کی گئی 780 حضرت مسیح موعود کی اولاد کے حق میں دعائیں 457 458 حضرت مسیح موعود کا اپنے پیچھے نیک اور خادم اولاد کے نیک ہونے کے لئے دعا کرنا 743 درود شریف پڑھ کر دعا کرنا اگر در دنہ اٹھے تو کوئی دعا بھی نہیں بنتی 459 657 731 603 627 629 جن کے دل حیا سے خالی ہوں ان کے ہاتھ خداضر ورلوٹاتا ہے اللهم اسْتُرُ عَوْرَاتِنَا، وَآمِنْ رَوْعَاتِنَا 740 787
602,791 602 74 292 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 صبر کے نتیجے میں دعا بھی لازم ہے دعاؤں اور ذکر الہی پرزور جماعت کے لیے دعا 830 841 843 24 24 ڈیما کریسی کی روح سوائے جماعت احمدیہ کے اور کہیں نظر نہیں آتی جب دیانت سے مشورہ دینے کی عادت نہ ہو ذکر الہی رَبِّ أَعِلِى عَلَى ذِكْرِكَ وَشُكْرِكَ وَحُسْنِ عِبَادَتِكَ 845 ڈیما کریسی کا خیال ہی عنقا ہے احسان کا بہترین بدلہ دعا کے ذریعہ ہے دل 860 وَاذْكُرُوا اللهَ گھیرا کو ضرور یا درکھیں دلوں میں صفائی پیدا کرو اور گند کے منبع تکبر کو نکالو 234 ملائکہ کا ذکر الہی کی مجالس میں نزول دنیا دنیا ہمیشہ کی جگہ نہیں ایسے لوگ جو دُنیا کے سہارے جیتے ہیں دنیا کو چھوڑ دینے سے مراد دنیا کا خالی فلسفہ ایک اہلیس ہے دنیا سنورتی ہے تو آخرت بھی سنورتی ہے 96 102 177 223 601 ذیلی تنظیم، ذیلی مجالس ذیلی تنظیموں کے دائرہ کار کی وضاحت پر تذکرہ نظام جماعت کے حوالہ سے معتمد اور ڈوالامر کا فرق ذیلی مجالس بھی سرخ کتاب کا جائزہ لیں روز دنیادار کے پتھر دنیا کی طرف لوٹ جایا کرتے ہیں 720 رابطہ عالم اسلامی (تنظیم) دنیا تو حقیقت میں عذاب کی جا ہے دہریت فاسدانہ خیالات دہریت کا باعث بنتے ہیں 827 723 222 تمام دہریوں میں تکبر اور نفس کی بڑائی پائی جاتی ہے 233 دیانت جب دیانت سے مشورہ دینے کی عادت نہ ہو 602 630 284 378 379 540 24 630 راجہ جہ کشمیر خلیفہ اول اس کے دربار میں طبابت کرتے راز بڑی کمپنیاں کئی سال راز کی باتیں قفل بند رکھتی ہیں راز حقیقت راولپنڈی رائے ونڈ 8 179 16,516,780 284 رب 185,190,695,696 ڈیما کریسی کا خیال ہی عنقا ہے دیانتدار لوگوں کو اللہ تعالیٰ اجر عطا فرماتا ہے دیانند پنڈت دین عبودیت کاربوبیت کے ساتھ تعلق 11 دنیا سنورتی ہے تو پھر دین بھی سنورتا ہے ربوه 1,16,125,201,395,519,686,700 دین کو دنیا پر مقدم کرنا ڈکسن ، مسٹر ڈیرہ غازی خان ڈیماکریسی 601 824 189 790 ربوہ کا نام بدلنے کا واقعہ رتن باغ 728,780,812,844,858 834 335 ڈیما کرسی کو ہدایت ہے کہ امانت دار حکام چنا کرو 402,507 رپورٹ جلسہ اعظم مذاہب پارٹیشن کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ لیکن یہ تصور نہ ہندوستان میں ہے نہ پاکستان میں 370 نے رتن باغ سے آزادی کشمیر کی تحریک کا آغاز کیا 405
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 نیکی کرو اور خدا کے رحم کے امیدوار ہو جاؤ 199 نیکی کا پھل اللہ کے رحم کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا 200 رحمانیت لفظ رحمانیت نے بتادیا کہ بہت آسان حساب ہونے والا ہے رحمانیت کی تعریف رحمۃ للعالمین 185 716 آنحضرت صلی للہ یہ تم کواللہ تعالیٰ نے رحمتہ للعالمین قرار دیا 202 رحیمیت جزاء سزا کا سارا عمل رحیمیت سے تعلق رکھتا ہے رحیمیت کی تعریف رزق رزق کے دو معنی رضائے الہی اللہ خوش تو فَيَغْفِرُ لِمَنْ يَشَاءُ کا مضمون رفیق حیات رکھا نوالہ 715 716 819 251 541 284 26,29,31,35,37,41-48 25 34 جنت میں ایک دروازہ ہے جس کو ریان کہتے ہیں قیامت کے دن روزہ دار اس سے داخل ہوں گے نماز ، روزہ اور ذکر کرنا اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے 35 جورمضان میں قرب کا مضمون ملتا ہے ویسا اور کسی مہینہ میں دکھائی نہیں دیتا روزہ کے بارہ میں حدیث روزہ گناہوں کو یکسر مٹا دیتا ہے مَن صَامَهُ وَقَامَهُ إِيمَاناً وَاحْتِسَاباً تمہارا یہ مہینہ تمہارے لئے سایہ فگن ہو رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں تیسرا اسلام کا رکن روزہ ہے 38 38 39 40 41 42 43 لة و نه نه نه خو ن ه ته مه نی 8 46 47 48 57 60 روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا 43 رمضان کو جو دیکھے وہ اس میں روزہ رکھے روزے کا زور جسم پر ہے 44 45 روزہ میں نمازیں نہ سنوریں تو روزہ بے کار ہے دائمی روزے منع ہیں بوجہ بیماری روزہ نہ رکھنا اخلاص ہو تو رمضان میں بیماری بھی رحمت ہوتی ہے 53 رمضان ، روزه 55,665,687,890,895,899 رمضان اور سال نو کی مبارکباد رمضان مبارک میں خرچ کرنا 3 5 اس رمضان کو بہتر سے بہتر حالت میں آگے بڑھائیں 9 جو شخص جھوٹ بولے اس کا روزہ رکھنا بے کار ہے روزہ میں جھوٹ سے اجتناب 26 28 آخری عشره رمضان میں صدقہ و خیرات جب رسول اللہ صلی اینم آخری عشرہ میں داخل ہوتے تو کمر ہمت کس لیتے رمضان کے دنوں میں مسجد کی capacity حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت والد صاحب اگر میں فرض نمازیں ادا کروں اور رمضان کے روزے رکھوں...تو کیا میں جنت میں داخل ہو جاؤں گا رمضان میں شیاطین کا جکڑ ا جانا روزہ دار کی منہ کی بوکستوری سے زیادہ پاکیزہ 28 30 32 63 66 88 کے زمانہ میں روزے رکھنا رمضان کے بارہ میں قرآن اتارا گیا ہے رمضان کا مہینہ بھی شکر سکھانے کے لئے ہے رمضان کی فضیلت سے متعلق احادیث 70 873 875 891 رمضان کو اس کے تقاضے کے ساتھ ادا کیا جائے 892 رمضان کے روزے رکھنا قیام نماز کی طرح ہے 893
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 رمضان میں شیاطین کا جکڑ ا جانا نماز ، روزہ اور ذکر کرنا خدا کے رستہ میں خرچ کئے گئے مال کو سات سو گنا بڑھا دیتا ہے روزہ ایک ڈھال روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ فرحت محسوس کرتا ہے حضرت مسیح موعود کے روزہ کھولنے کا ذکر جس نے روزہ رکھا اللہ اسے ملتا ہے سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے بھول کر کھانے کی وجہ سے روزہ نہیں ٹوٹتا اگر کوئی بھول کے کھائے پیئے تو چاہئے کہ وہ اپنا روزہ پورا کرے لوگ اس وقت تک بھلائی میں رہیں گے جب تک 894 898 26 ریا کاری دنیا کی خاطر لوگوں کا عمل کرنا ریا کار کی نشانیاں 899 ریویو آف ریلیجنز 901 901 902 ریان جنت کا دروازہ جس سے روزہ دار داخل ہوں گے زبور 903 زکریا علیہ السلام، حضرت 904 458 485 822 34 =4 535 665 اولاد کے حصول کا مقصد صرف اعلائے کلمہ اسلام ہو تو خدا قادر ہے کہ زکریا کی طرح اولاد دے دے 459 903 زندگی زندگی مختصر ہے موت ایک یقینی حقیقت ہے زندگی نہیں 905 روزہ کھولنے میں جلدی کریں گے روزہ میں تھوک کا نکلنا اور پانی کا نہ لگانا سنت ہے 905 زیاد بن لبید انصاری، حضرت افطار کرنے کے متعلق مسلمانوں میں اختلاف روح 905 یا درکھو کہ عقل روح کی صفائی سے پیدا ہوتی ہے 121 تصوف میں روح القدس سے مراد روحانی خزائن حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی اہمیت تعصبات سے پاک ہو کر حضرت مسیح موعود کے کلام کا مطالعہ آپ کی صداقت کا ثبوت ہے 322 103 زید بن طلحہ ، حضرت س ،ش ساعت ساعت سے مراد سانپ سان ہوزے.USA 260 سائنس حضرت مسیح موعود کی تحریروں کو باریک نظر سے پڑھیں 688 سائنسدان وجوہات بیان نہیں کر سکتے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے رہبانیت اسلام میں رہبانیت نہیں رویائے صالحہ رئیس احمد جعفری 715 823 720 404 چ سائنس آف مٹیریل 100 288 704 752 619 231 447 381 888 سچائی ایسی صفت ہے جو شرافت پیدا کر دے گی 192 سچائی اختیار کرنے کی تلقین عادتا نیچے کے اندر جھوٹ کی گنجائش ہی نہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صدق 222 596 789
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 سخاوت سخی جب کچھ خرچ کرتا ہے تو اس کی آہنی قمیص کا حلقہ کھل جاتا ہے سخت گوئی سخت گوئی پر جماعت احمدیہ کا رد عمل 487 168 27 سقراط سقراط ارسطو کا بھی جد امجد تھا سلام کے متعلق ایک اہم نصیحت سلام أَفَقُوا السَّلَام سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب 342 سلمان ، حضرت سر الخلافہ سرحد صوبہ 687 579,904 سلوک وہ راستہ جو خدا کی راہ میں اختیار کیا جاتا ہے مصائب میں اپنی فکر نہ کرنا سنت نبوی ہے آنحضور صل السلام کا نرم اند از نصیحت صوبہ سرحد میں رائے عامہ کو کشمیر کے حق میں اُبھارنا 405 سنت سرخ کتاب انتظامی امور میں اصلاح ایم ٹی اے سرخ کتاب اپنے لئے تیار کرے دنیا میں جہاں احمدی جلسے ہوتے ہیں ہر ایک کے لئے سرخ کتاب رکھنی ضروری ہے مرکز اس بات کی نگرانی رکھے کہ سرخ کتاب رکھی جارہی ہے جماعت جرمنی کو سرخ کتاب بنانی چاہیے اللہ تعالیٰ کی سرخ کتاب مبلغین کو سرخ کتاب بنانے کی ہدایت سرگودھا رپورٹ وقف جدید میں ذکر سرمه چشمه آرید سعد بن ابی وقاص سعد بن معاذ سعودی عرب رض یہاں سونے کے پہاڑ ہیں سعید الخدری سعيد بن ابي بردة سفیان بن اسید حضرمی 537 539 540 540 541 542 545 780 17 164 783 683 23 895 292 522 635 480 192 285 515 739 245 52 90 سنن ابن ماجہ 268,454,455,504,515,739 740,851,852,854 سنن ابی داؤد 35,268,350,351,577,603 605,617,633,742,831,833,862,898 سنن الترمذی 30,31,139,215,239,276 292,295,329,348,440,455,527,529 599,602,638,640,664,671,699,700 703,705,742,753,755,782,832,850 859,876,894 38 سنن الدارمی سنن النسائی 844,893,898-32,40,395,842 سوانح خدا کے پاس انسان کے سوانح بچے ہیں 139 سور سود نقصان میں جاتا ہے 9 سورج رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں 42 زندگی کی تمام ضرورتیں سورج کے نور سے لی گئی ہیں 225
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 سوئٹزرلینڈ رپورٹ وقف جدید سویڈن جماعت احمد یہ سویڈن کی تو بہ اور اصلاح سویڈن جماعت کو نصائح جماعت سویڈن کے متعلق اہم فیصلے جماعت احمد یہ سویڈن کے انتخابات جماعت احمد یہ سویڈن کو نصائح 368,780 14,15 131 134 135 135,136 145 28 جماعت میں افتراق ہے تو قطعی علامت ہے لاز مابت موجود ہیں شریح شریعت شریعت کی کتابیں معارف کا ذخیرہ ہوتی ہیں شریف اشرف صاحب شعب الايمان للبيهقى 388 502 570 303 6 41,83 جماعت احمد یہ سویڈن کی تعریف اور حوصلہ افزائی 289 سہل بن معاذ ،حضرت سہل بن سعد، حضرت سیالکوٹ 35,898 681,905 16,315 106 جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی سپردم بتو مایه خویش را تو دانی حساب کم و بیش را 154,652 اگر تیرا بھی کچھ دیں ہے بدل دے جو میں کہتا ہوں 226 کہ عزت مجھ کو اور تجھ پر ملامت آنے والی ہے سید تو وہ ہوتا ہے جو قوم کے آگے آگے چلتا ہے سیرالیون سیرت المہدی 656 545,546,552 284,239,853 ہراک نیکی کی جڑ یہ انتقا ہے اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے ہم خدا خواہی و ہم دنیائے دوں این خیال است و محال است و جنوں سیرت حضرت مسیح موعود ( از حضرت عبدالکریم سیالکوٹی) جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی سیرت طیبہ سینیگال شادی شادی بیاہ کے موقع پر تقوی کا خیال نہ رکھا جانا شادی کے وقت شرط تقوی ہو یہ مرسلین کی سنت میں سے ہے شادیوں پر فضول خرچیاں نہ کریں شجر طیبه جوخدا کا ہواوہ گو یا شجر طیبہ بن گیا صوفیا کی تحریکات کا بالآخر نتیجہ شرک 559,560 278,280 23,546 215 294 743 847 615 154 386,456 298 حق تو یوں ہے کہ حق ادا نہ ہوا یہ ہو میں دیکھ لوں تقویٰ بھی کا جب آوے وقت میری واپسی کا بی تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا نظارہ نے بھی کام کیا واں نقاب کا مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی غیر کو یا رب !وہ کیونکر منع گستاخی کرے؟ پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ بہار آئی ہے اس وقت خزاں میں نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم 232 312 441,650 458 564 580 756 769 770 806
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 مجھ کو کیا ملکوں سے میرا ملک ہے سب سے جدا سب خیر ہے اس میں کہ اُس سے لگاؤ دل اس جائے پر عذاب سے کیوں دل لگاتے ہو شفاعت شفاعت کے حقیقی معنی 809 826 827 29 29 جماعت کا نظام شوری 289 جماعت جرمنی اور سویڈن کی مجلس شوری کا تذکرہ 289 شوری کے نظام کو روایات کے مطابق قائم کرنا اور حضور کا جرمنی کے ایجنڈے کو درست کرنا 290 599 شکر کا حق ادا کرو ساری کائنات کا مطالعہ آپ پر اتنا ہی زیادہ شکر کو لازم کرے گا اللہ ہی کا شکر ادا کرو شکر کے متعلق احادیث کا بیان مومن کا مصائب کے وقت شکر کا مطلب 198 195 427 820 828 829 جس سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امین ہوتا ہے جب دیانت سے مشورہ دینے کی عادت نہ ہو ڈیما کریسی کا خیال ہی عنقا ہے شہادت شہادت کے پیچھے قربانی کی روح کہ میں اپنے سے اعلیٰ کی ہتک برداشت نہیں کروں گا شهر ابن حوشب ، حضرت شیخو پوره جو تھوڑے پر شکر کرتا ہے وہ زیادہ پر بھی کرتا ہے 846 رپورٹ وقف جدید میں ذکر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا ذکر کرنا شکر ہے 848 جتنی بڑی نعمتوں کا ذکر گزرا ہے اس کا شکر بھی سوچیں 856 شیطان 602 278 529 17 581,582,583 بندوں کے تعلق میں شکر خدا کے تعلق میں شکر سب سے زیادہ شکر اللہ ادا کیا کرتا ہے شکر کرنے والے کی صفات جہاں تکلف آیا وہاں اللہ سے رشتہ ٹوٹ گیا جب خدا کے احسانات ہوں تو اس کو چاہئے کہ وہ اس کا شکر ادا کرے شکر کرنے والوں کے ساتھ آزیدن کا وعدہ شمالی چین شوری مجلس مشاورت ،مشورہ آج ربوہ میں جماعت ہائے احمد یہ پاکستان کی مجلس شوری منعقد ہو رہی ہے وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرُهُمْ فِي الْأَمْرِ مشوره تقویٰ کی روح کے ساتھ دینا ہے 861 862 863 874 879 884 885 589 201 207 209 شیر علی ، مولوی ،حضرت شیطان کا خدا تعالی کو چیلنج سب نے شیطان سے دھو کہ کھایا ہے شیطان سے بچنے کا راز شیطان حسین نظارے دکھا کر بہکاتا ہے شیطان کا حزب دین کا لبادہ اوڑھ کر حملہ کرتا ہے شیطان جھوٹ کی طرف بلاتا ہے ایمان والے کے شیطان قریب بھی نہیں آتا دنیا کی مجرد منطق ایک شیطان ہے شیطان کی دو خصلتیں شیطان کا لغو مجلس میں لے کر جانا شیطان کے متعلق فرمایا إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ شیطان سے مراد وہ جو بدی کی تعلیم دیتے ہیں رمضان میں شیاطین کا جکڑ ا جانا 40,41,85 76 78 80 81 83 107 151 223 234 273 327 340 894 آنحضرت ملیشیا کی تم کا اپنے اصحاب سے مشورہ لینا 215 شیعہ، سنیوں کے جھگڑوں کو چکا دینے کے لئے دلیل 391
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 ص ،ض صادق صادق آنحضرت سلی یا پی ایم کے تعلق سے بنتا ہے صادق کی تعریف 305 316 318 30 30 آنحضور سی سی اینم کا چہرہ دیکھ کر صحابہ پہچانتے تھے کہ یہ جھوٹے کا چہرہ نہیں صحابہ کے ہونٹوں پر کوئی مطالبہ نہیں آیا صحبت صالحین خوارق کا ظہور صادق بننے کے ساتھ وابستہ ہے تقویٰ کو طبیعت میں داخل کرنے کے لئے صادقین کی توجہ ضروری ہوا کرتی ہے 321 صحابہ کے مختلف مزاج صادق کے ساتھ رہو فضل اور برکت صحبت میں رہنے سے ملتی ہے نیک صحبت اختیار کرنے کی تلقین 578 690 877 123 297 301 صادق کی صحبت میں اخلاص اور صدق ضروری ہے 303 حضرت ایوب کا صبر صدمات میں صبر 79 171 نیک کی صحبت کا اختیار کرنا اور بدوں کا چھوڑنا نیکوں کی مجلس میں بے غرض بیٹھنا حضرت مسیح موعود کی جماعت احمدیہ کو صبر اور نرمی کی تلقین 279 ایم ٹی اے پر خطبہ سننا نیک صحبت کا ذریعہ ہے صبر کے نتیجہ میں روحانی انقلاب آسکتا ہے اللہ سے صبر اور صلوٰۃ کے ذریعہ سے مدد مانگو صبر کے معنی 283 562 713 308 310 312 314 320 نیک کی صحبت اختیار کرو تو بغیر گفتگو کے بھی تمہارے دل میں نیکی سرایت کر جائے گی کامل انسان کی صحبت 569 26,60,62,68,110,186,187 صحیح بخاری 245,293,350,358,430,433,434,435 442,521,522,523,524,531,558,619 624,633,681,741,754,755,758,902 903,905,906,908 28,59,132,468,469 صحیح مسلم 494,504,508,509,531,577,612,639 640,676,696,699,701,756,767,783 830 صبر میں ایک قسم کی طمانیت و ثبات داخل ہے صر پاک صحبت صحابه ایسے پاک صاف ہو جاؤ جیسے صحابہ نے اپنی تبدیلی کی 176 صحابہ کرام کا آنحضور صلی شما اینم سے عشق و محبت الله الله فی افتابی صحابہ کے حق میں فرمایا 278 297 ابو ہریرۃ کا سب سے زیادہ روایات بیان کرنا 299 صحابہ کرام کی قوت قدسیہ کا اثر صحابہ کا ولولہ عشق دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے ان کی اطاعت میں گمشدگی کا یہ عالم تھا کہ آپ کے وضو کے بقیہ پانی میں برکت ڈھونڈتے تھے 308 326 382 390 صحابہ کرام میں کسی قسم کی پھوٹ اور عداوت نہ تھی 391 صدقہ صحابہ کی اطاعت اور اتحاد کا نتیجہ تھا جماعت بھی صحابہ کے نمونے دکھائے صحابہ حضرت مسیح موعود کی انفاق کی مثالیں صحابہ مسیح موعود علیہ السلام بخل سے پاک تھے 392 393 483 491 784,828,830,896,901,906 صدقات بشاشت سے دو صدقات کی حکمت صدیق انسان صدیق نہیں کہلا سکتا جب تک جھوٹ کے صحابہ آپ سال اسلام کے سامنے آوازیں نیچی رکھتے 568 تمام شعبوں سے پرہیز نہ کرے 699 614 852 427
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 شیطان صراط مستقیم پر ہر بھیس میں آتا ہے مراد وہ راستہ جو بالکل سیدھا ہو صفائی انکسار اور صفائی اور اخلاص پیدا کرو اندر کی گہری صفائی بہت ضروری ہے جسم کو پاک صاف رکھنا صفائی کا خیال بہت ضروری ہے صوفی احمد جان لدھیانوی تم مسیحا بنوخدا کے لیے ย مہیب صیهون ضرورة الامام 77 856 234 236 568 839 491 828 398 384 31 آپ کا جن کے متعلق واقعہ آپ کی خلوت پسندی آپ کی خلافت سے پہلے کی زندگی 786 812 815 آپ کا حدیث کے بارے میں تحقیق کی عادت کا بیان 831 طلحہ ، حضرت طوبی ، صاحبزادی ظفر الحق ، راجہ ظفر اللہ ، جرمنی 684 476.480 213 749 ظلم رمضان کے دوران بھی ظلم جاری رہتے ہیں 30 ظلم اور تیزی ایک دوسرے سے تعلق رکھتے ہیں 117 انسان اپنے نفس پر ظلم کرتا ہے ضمیمہ براہین احمدیہ 642,646,648,707,708 پاکستان میں بہت زیادہ زیادتی کی جارہی ہے 195 محض اس وجہ سے کہ احمدیت پھیل رہی ہے 215-211 ضیاء الحق طالبان bcb 715,717,725,729 401 پاکستان میں حد سے زیادہ ظلم ہونا ع عاجزی زمین پر بیٹھنا ایک عاجزی کی علامت ہے جرائم میں عادات کا دخل طالبان خدا کے منشاء کے خلاف خون بہاتے ہیں 672 عادات طاہر احمد، حضرت مرزا خلیفہ اسیح الرابع 294 563 97 10 جنوری کو جمعہ کے دن جو میں نے چیلنج دیا تھا آج عائشہ صدیقہ ، حضرت 59,63,110,186,187 20 10 رمضان مبارک میں وہ سال پورا ہو رہا ہے آپ کا اپنے بچوں کو لغو مجلس سے بچنے کی نصیحت 275 188,505,506,522,531,669,670,742 جماعت احمد یہ جرمنی کو نصیحت آپ کا فرمانا کہ میرے پاس لوگ بار بار آئیں تو اللہ تعالیٰ ان کو نکتہ سمجھا دیتا ہے آپ کا اپنی زمین پر ایک تجربہ آپ کی جماعت کے لیے فکر آپ کا دنیا کے مختلف براعظموں میں سفر کرنا 290 301 348 352 415 783,906,907 85 عائلی معاملات عبادت عبادت اور تلاوت ایک ہی چیز کے دونام خوشحالی کی شرطوں سے خدا کی عبادت مت کرو جتنی عبادتیں، جتنی خدمتیں مشقت کا رنگ رکھتی بچیوں کے لئے گھر میں تالاب بنانا اور تیرا کی سکھانا 463 ہیں وہ لذت سے محروم ہیں رسول صلی یہ یمن کی عبادت کا طریق 67 249 334 531
523 489 898 749 370 371 373 593 32 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 عبادہ بن صامت ، حضرت 614,616,705 عبد اللہ بن مسعودؓ ، حضرت عبدالحق خلف عبدالسمیع میاں 493,494 | عبدالہادی ، سید عبد الحق محمود 749 عبدالحمید صاحب (ہالینڈ) 748,749 عثمان بید اللہ عبدالرحمن بن ابی لیلی ، حضرت عبدالرحمن بن سعد، حضرت عبدالرحمن مہر سنگھ، حضرت عبدالرشید، آرکیٹیکٹ عبدالسلام، ڈاکٹر ایوب خان کا آپ پر کامل اعتماد اٹامک انرجی کمیشن میں اہم کردار عبد القادر سابق سود اگر مل عبد القدیر خان 828 617 490 747,748,749 160,401 400 402 579 عثمان بن ابی العاص ، حضرت عدل قرآن کریم عدل کو ایک ایسی قدر کے طور پر پیش کرتا ہے جو عالمی ہے عدل اور امانت کے پیش نظر نہ ہندوستان میں اور نہ پاکستان میں حکومتیں قائم کی جارہی ہیں إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو عذاب جس کو شبہات سے نجات نہیں اس کو عذاب سے بھی نجات نہیں عراق عراق جنگ کی وجوہات عرب آپ کی رحمت صرف عربوں کے لئے نہیں تھی آنحضور کے وقت عرب قوم کی حالت کا نقشہ 227 375,397 137 399,415 202 416 عرب اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہیں کرتے تھے 453 718 319 686 596 698 403 869 ایٹمی توانائی کے حوالہ سے کردار...پروپیگنڈا کے سپیشلسٹ ہیں عبدالقدير قمر پچیس سال عمر قید کاٹ رہے ہیں عبدالکریم 317 Nothing can be done for Abdul Karim عبدالکریم ، سیالکوٹی، حضرت 559,560,579,877 عرب سخت دل تھے عبد الله بابا فلاسفر (محمد عبد اللہ پروفیسر ) 280 عربی عبد اللہ بن جابر ، حضرت (دیکھئے: بیاضی بن عامر ) 67 عربی کا قاعدہ کہ کثرت استعمال کے ساتھ مشکل حرکات آسان حرکات میں بدلتی رہتی ہیں حضرت مسیح موعود نے اپنی بعض عربی تحریر کا خود معنوی اور با محاروہ ترجمہ کیا ہے 505,506 556,557 598 عبداللہ بن طحفہ ، حضرت عبد اللہ بن عامر،حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عرفان الہی عبد اللہ بن عمر و بن العاص ،حضرت 486,620 کوئی شخص بھی اگر اپنا عرفان نہیں رکھتا یا درکھیں عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن غنام البیاضی ،حضرت 504,664,754 832 کہ اسے اللہ کا عرفان بھی نصیب نہیں ہوسکتا عزیز مصر
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 حضور سیلی می ایستم اگر اپنی عصمت کی فکر میں خود لگتے تو آیت وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ نازل نہ ہوتی عطاء اللہ شاہ بخاری 51 396 33 33 بڑا سعید وہ ہے جو اوّل اپنے عیوب کو دیکھے 565 بیوی اپنے خاوند کے اندرونی عیوب ظاہر نہ کرے 618 عید انگلستان والے عید پر تحفے تیار کرتے ہیں عید پر تھے مہیا کر یں علم کو بنی نوع انسان کے حق میں استعمال کرنا چاہئے 7 عیسانی ایسے بندہ کے پاس بیٹھنا چاہیے جس کی وجہ سے تمہارے علم میں اضافہ ہو سچا علم اور عمل لازم و ملزوم ہے 293 314 کون سا علم جود نیا کو نفع پہنچانے کی خاطر ایجاد ہوا 668 قرآن کریم کی رو سے علم کی ایک تعریف 705 عیسائی مشنریوں نے رسول صللہ الی یتیم کے خلاف بے شمار بہتان گھڑے ہیں عیسائیوں کی طرف سے پچاس ہزار رسالے اور مذہبی پرچے نکلتے ہیں عیسائی علاقوں کو بیرونی دنیا کی فوجی اور سیاسی 895 896 254,633 277 353 733 391,681 702 389,639,907 علم کامل وہ رکھتے ہیں جو ڈرتے ہیں علی بن ابی طالب ،حضرت عمار بن یاسر عمر بن خطاب"،حضرت غزوہ تبوک پر اپنے گھر کا آدھا مال لے آنا حضرت عمر ایک عظیم سیاستدان تھے حضرت عمرؓ کے دور میں تراویح کا آغاز عمر و بن شعیب ،حضرت عمر و بن العاص ، حضرت عمرکوٹ عہد جوعہد کا پاس نہیں کرتا اس کا کوئی دین نہیں کا کا عہد یدار یہ ایک اچھا طریقہ ہے کہ جماعت کے نمائندے ہی 349 390 905 876 575 17 593 93 آئندہ امارت اور مجلس عاملہ کا انتخاب کرتے ہیں 135 عیاشی حمایت حاصل ہے اگر حیا عیسائیت کی جان ہوتی تو عیسائی ملکوں میں جو فسادات پھیلے ہوئے ہیں وہ نہ ہوتے غریب عیسائی ممالک کے بچوں کے لئے اہل انگلستان کا عید کا تحفہ بھیجنا عیسیٰ علیہ السلام، حضرت غ غذا اپنی صحت کے حوالے سے حضور کا ارشاد غرور ور غرور (شیطان کا نام ) غزوات صحابہ کا غزوات میں بہادری کا مظاہرہ غصہ جب بھی غصہ پیدا ہو تو فوری قدم سے باز رہیں 550 752 895 712,895 510 85 59 82 686,700 166 167 غصہ کرنے والے کو آنحضور ما ای یام کی نصیحت زندگی حد سے زیادہ عیاشی میں بسر کرنا لعنتی زندگی ہے 98 عیب نفس کو فراموش کر کے دوسرے کے عیوب نہ دیکھیں 563 غض بصر غض بصر سے مراد 616
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 34 =4 غلام احمد قادیانی، مرزا ( حضرت مسیح موعود علیہ السلام) ایک فلسفی کا حضرت مسیح موعود سے سلوک کی منازل اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے سے مراد آپ کے زمانہ میں سیالکوٹ کی جماعت نے جو جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے واپس گھروں میں رکھ دئے اور یہ ضلع عملاً دشمنوں کے ہاتھ چلا گیا آپ کی چلہ کشی اور کشف آپ کا زمانہ بھی جمعہ کا زمانہ ہے 9 16 72 73 آپ بعینہ آنحضرت سلی لا نیلام کے نقش قدم پر تھے 91 جماعت کی تربیت کے لئے آپ کا کلام حضرت مسیح موعود کی تحریرات کی اہمیت حضرت مسیح موعود کی مثال مصور کی طرح تھی حضرت مسیح موعود نے رسول صلی یہ ایم کی پیروی کی تب ہی امام بنائے گئے اُردو میں حضرت مسیح موعود کا مقام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صحبت حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام باتیں قرآن کریم کی آیات کی تفسیر خدمت دین کے بارے میں نصیحت مرلی دھر کے مناظرہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ مثال حضرت مسیح موعود نے بعض لوگوں کو رسماً جماعت 96 103 106 107 108 125 142 157 163 کے دوران مناظر کے بارہ میں سوال حضرت مسیح موعود کی انکساری سلوک کی منازل آپ پر بھی بعض دفعہ عام بلائے ناگہانی آئی آپ کی تعلیمات خدا کی تائیدات سے تھیں آنحضرت سلی لا الہ یتیم کے لیے غیرت کا نمونہ جماعت کو صبر اور نرمی کی تلقین حضرت مسیح موعود کی آنحضور صلی ای ایم سے محبت حضرت مسیح موعود اور پنڈت لیکھر ام والا واقعہ كُونُوا مَعَ الصَّدِقِينَ کی تفسیر احادیث کو سمجھنے کی کنجی آپ کا تفسیر کے نئے نکات بیان فرمانا 226 آنحضرت صیفی نیا اینم کا فیض آپ میں جاری ہوا آپ کی قبولیت دعا کا ایک معجزہ آپ کی قوت قدسیہ کا اثر آپ کی بے مثل تحریر آپ کی مالی تحریک کرنا امراء اسلام کو مالی قربانی کی نصیحت حضرت مسیح موعود کا جماعت سے محبت کا اظہار 233 243 259 260 277 279 280 283 299 300 303 314 317 318 334-342 352 354 356 احباب جماعت کو خوشی سے مالی قربانی کرنے پر زور 357 آپ کی جماعت کے اعلیٰ ممبران سے جو توقعات تھیں وہ آج بڑی شان سے پوری ہو رہی ہیں 358 حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی سے خارج نہیں کیا 169 مسیح موعود علیہ السلام کی آسٹریلوی سیاہ سے گفتگو 179 تحریرات میں تکرار نہیں ، اصرار ہوا کرتا ہے آپ علیہ السلام کی ماموریت کارنگ آپ نے فرمایا کہ اپنے ذاتی تجربوں کی بنا پر کہتا ہوں کہ خدا ہے آپ کی پیروی سے یقین نصیب ہوگا آپ کے ہر لفظ پر ٹھہر کر غور ضروری ہے 190 192 193 197 مسلم لیگ کی بنیا د حضرت مسیح موعود نے ڈالی اوامر و نواہی کی تفصیل 380 404 411 آپ کے نزدیک قرآن کے حکموں کی معین تعداد 415 آپ کا فرمان کہ قرآن کریم کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جوز بر دستی ماننی پڑے 419 حضرت مسیح موعود کی بنی نوع انسان سے ہمدردی 224 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی ایک بھی آپ کا حقیقی نور کی تشریح کرنا 225 عبارت ایسی نہیں جو گہری حکمتوں سے عاری ہو 421
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 35 بچوں کی پرورش محض رحم کے لحاظ سے کرو نہ کہ جانشین مجھے کون پہچانتا ہے؟ بنانے کے واسطے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دین کے معاملہ میں اپنے بچوں سے نرمی نہیں کی 455 الهام لا تَسْتَمْ مِّنَ النَّاسِ اسلام کے دشمنوں کے لیے تلوار آپ اپنے غلاموں کے دل کے حال پر بڑی باریک نظر رکھا کرتے تھے غریب صحابہ سے انس حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مہمان کے لیے 458 461 473 میں نور ہوں ، نور لے کر آیا ہوں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا صدق آپ کی خلوت نشینی آپ کو 1882ء میں پہلا ماموریت کا الہام ہوا ہے 774 775 789 791 489 493 509 آپ علیہ السلام کی مہمان نوازی گمنامی سے شہرت میں ایک زاویہ گمنامی میں مستور و محجوب تھا سچ تو یہ ہے کہ میں کچھ بھی نہ تھا آپ کے قلم میں جادو تھا گورداسپور سے پان منگوا یا 513 سارا علم اللہ کی طرف سے عطا ہوا حضرت مسیح موعود کی تربیت اولا د کا طریقہ 565-558 آپ کا کلام بہت فصیح وبلیغ ہے آپ نے آنحضور کی نیابت کا حق ادا کیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شناخت صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا 574 598 634 کئی لاکھ انسانوں کو میرے تابع کر دیا دست با کار دل بایار آپ علیہ السلام کا متبتل 797 798 801 803 804 805 806 807 808 824 826 حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقویٰ کی باریک غم پہنچنے پر آپ عبادت کے لیے کھڑے ہو جاتے 831 837 848 853 878 898 901 70 346 430 760 جلسہ سالانہ کے بارہ میں آپ کی نصائح آپ کی قناعت کا نمونہ 647 687 راہوں کا کوئی بھی پہلو باقی نہیں رہنے دیا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے تراجم حضرت مسیح موعود کی تحریروں کو باریک نظر سے پڑھیں 688 آپ نے پرانا کوٹ استعمال فرمایا آپ کے آنے کا مقصد تعداد بڑھانے کا نہیں تھا 691 شکر کے متعلق آپ کا طریق جو کچھ پاس تھا خدا کی راہ میں خرچ کیا آپ چاہتے تھے کہ لوگوں پر وہ انوار ظاہر ہوں جو آپ پر ہوئے 692 حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے الفاظ غلام مرتضیٰ ، مرز ا حضرت بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے خشوع و خضوع کے مضمون کا لطیف بیان 715 718 حضرت مسیح موعود کے روزہ کھولنے کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حضرت والد صاحب کے زمانہ میں روزے رکھنا غنی غنی کے دو معانی غیب آپ نے جو آئینہ دکھایا ہے کمالات اسلام کا اس میں کوئی عیب نہیں سورة الصف میں مسیح کی آمد ثانی کی خوشخبری آپ کا جماعت سے محبت کا اظہار 735 763 768 آپ سے وابستہ ہو کر خشک ٹہنیاں ہری ہو سکتی ہیں 769 اللہ کی ذات ایک حیثیت سے غیب ہے معین طور پر اپنی زبان سے تم پر کچھ فرض نہیں کر سکتا 773 غیب میں اللہ کی حیار کھنا
707 87 35 44 323 561 فساد فساد سے رکنے سے مراد نہی عن المنکر سے رک جانا نہیں ہے فطرت انسان کی فطرت کہ اس کا مال بڑھے انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھا تا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے فطرت کی پاکیزگی کا مطلب فطرت میں دورنگی نہیں ہونی چاہئے فلسطین اپنی زمینیں یہودیوں کے ہاتھوں بیچنے سے باز آجاؤ 397 حضرت مصلح موعود کا اہم کردار فلسفی فنا 398 ایک فلسفی کا سلوک کی منازل کے بارہ میں سوال 226 اپنے سب ارادوں اور خواہشات کو چھوڑ کر محض اللہ کے ارادوں اور احکام کا پابند ہو جانا چاہئے مٹی میں مل جاؤ پیشتر اس کے کہ وہ وقت آجائے کہ تم مٹی میں ملا دیئے جاؤ 194 570 36 36 42 277 221 681 382 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 غیبت لوگوں کے عیوب تلاش نہ کریں غیرت حضرت مسیح موعود کی آنحضرت کے لیے غیرت فاجر ف متقی اور فاجر برابر نہیں ہو سکتے فاطمہ بنت محمد صلی الی السلام ، حضرت حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں تمام دنیا اپنی سچائی کے تحت اقدام دیکھتا ہوں فتح اسلام 259 437,499,693,768,775 حضور کا جماعت کو فتح اسلام کے پیغامات کی طرف 358 630 745,750,751 توجہ دلانا فتنه اموال و اولا دفتنہ ہیں فرانس فردوس فر دوس ایک اعلیٰ درجہ کی جنت کا نام ہے فرشته فرشتوں کی مدد کیسے آیا کرتی ہے يَفْعَلُونَ مَا يُؤْمَرُونَ ملائکہ کا ذکر الہی کی مجالس میں پھرنا 612 122 194,378 292 دست با کار دل بایار فیروز پور فیصل آباد فیملی پلاننگ 824 283,284 17,780 مفلسی کے ڈر سے قبل آئندہ زمانہ کے لئے پیشگوئی تھی 453 فیملی پلانگ میں خَشْيَةٌ اِمْلَاقٍ ضروری پہلو ہے 454 ملائکہ کا دنیا میں آنا اور واپس خدا کے حضور حاضر ہونا 309 380 ق جتنے خدا کے فرشتے ہیں وہ معتمد ہی ہیں دس ہزار صحابہ کو پہلی کتابوں میں ملائکہ لکھا ہے قادیان 241,279,283,312,513,538,637 381 ملائکہ جیسی اطاعت میں جماعت میں دیکھنا چاہتا ہوں 383 فرشتے محض اطاعت کے لیے پیدا کئے گئے ہیں 470 691,795,801,802,811,838-841,858 862,863
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 جلسه سالانه قادیان قادیان کے باشندوں کو نصیحت جلسہ سالانہ میں تعداد کا نیا ریکارڈ قانون قانون کی دو اقسام.ایک فرشتوں کے متعلق دوسرا انسانوں کے متعلق قتادہ ، حضرت 837 854 857 470 741 37 قرآن نے انسانی فطرت کے ہر پہلو کو اجاگر کیا تنظیم کی اعلی شان قرآن کریم نے ہمیں سکھائی ہے 545 453 قرآن حکمت کا منبع ہے قرآن کریم میں ہر علم موجود ہے قرآن سب سے افضل ہے قرآن انسانوں کے لئے ایک عظیم ہدایت سات سو گنا بڑھانے کا ذکر 828 883 886 892 898 قرآن رمضان کے بارے میں قرآن کریم نازل کیا گیا 903 عام طور پر اچھی بات قرآن میں پہلے بیان کی جاتی ہے 4 قرب الہی پر قرآن کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم بھی نہیں نکال قرب الہی پانے کا طریق 224 قربانی سکتے جو بنی نوع انسان کے فائدہ میں نہ ہو 230 قربانی کو اللہ تعالیٰ کی رافت کا حصہ سمجھیں کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب پاکستان میں کسی 340 337 قرآن حضرت محمد صلاا اینم کے دل پہ نازل ہوا ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا قرآن کریم میں پانچ سو کے قریب حکم ہیں قرآن کریم کا جو اپنی گردن پر اٹھاؤ قرآن کریم کی تعلیم پر عمل کرنے کی تلقین قرآن کی معرفت حضرت محمد رسول اللہ صلی اا اینم 231 243 248 281 کے کردار کے حوالے کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی 305 احکامات اور نواہی کتنے ہیں قرآن کے دو بڑے حکم 411 412 نہ کسی طرح احمدیوں کا خون نہ بہایا جا رہا ہو جماعت احمدیہ کی قربانیاں قرضہ حسنہ اللہ تعالیٰ جو قرض مانگتا ہے اس سے مراد قرضہ حسنہ 673 680 9 قرضہ حسنہ کا اکثر حصہ اپنے اعمال سے تعلق رکھتا ہے 10 رمضان میں خرچ کرنے سے اموال میں بہت برکت پڑے گی قناعت 36 قرآن شریف کا کام در اصل مردوں کو زندہ کرنا تھا 414 قناعت ہو تو دل نہیں جاتا قرآن کے حکموں کی معین تعداد قرآن کی فضیلت کسی حکم کو معمولی نہ سمجھا جائے جو شخص قرآن کے سات سو حکم قرآن کریم کو سمجھا کر پڑھایا جائے تو اس سے محبت ہونا ایک لازمی بات ہے حضرت خلیفہ مسیح الرابح کی قرآن کلاس کا ذکر 415 418 419 423 424 425 قناعت سب سے بڑی شکر گزاری قوت ارادی شیطان سے بچنا بہت قوت ارادی چاہتا ہے قول سدید قول سدید نہیں ہوگا تو اصلاح نہیں ہوگی 846 852 80 555 ذلك الكتب سے قرآن کی عظمت کی طرف اشارہ 429 قول سدید کا تجر بہ گھروں سے شروع ہونا چاہئے 557 جب سچی بات کرنی ہی پڑے تو خواہ کسی کو کڑوی لگے وہ ضرور کرنی ہے 559
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 قول سدید سے ہٹ کر بات کرنے کے نتیجہ میں بہت سے دھو کے ہوتے ہیں قوم نوح 600 38 کفاره کفارہ گناہوں کا استغفار کے سوا ممکن نہیں ہے 207 کلکتہ نوح کی قوم باغیانہ حالت کی وجہ سے ہلاک ہوئی 252 کنجوس قیامت 34,79,81,83,111,112,115,116 کنجوس کی ہلاکت کی دعا ہے 122,184,188,192,227,266,422,617-619 655,659,660,676,689,690,706,902 قیس بن ابوحازم،حضرت حضرتی کنگ 684 خدا کی راہ میں کنجوسی چھوڑنا کنری کوثر 226 6 7 780 340 17,723 895 14,128,403,780 17 235 93 اللہ کے قرب کا سر چشمہ کویت یہاں سونے کے پہاڑ ہیں کینیڈا لحجرات 723 598 438 کانگڑہ کانگڑے کا زلزلہ کیا بیر کپورتھلہ کتاب البرية 72,169,225,231,461,589 رپورٹ وقف جدید کراچی کرسمس 499,516,606,780 حضرت عیسی کے نام پر کرسمس منائی جارہی ہے 895 گلاسکو گمراہی ایک دوسرے کی گمراہی کی فکر نہیں کرنی کشتی نوح 103,113,166,354,424,570 ہرگز یہ مراد نہیں ہے کشف گناه حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے تمام مضمون بتا تا ہے کہ وہ کشف حقیقی خدا تعالیٰ کی طرف سے تھا یا دل کا وہم تھا 44 371,405,406,407,677 گناہوں پر جرات کا فلسفہ بیان فرما دیا 113 اپنے گناہوں کا اظہار دوسروں کے سامنے نہ کریں 140 کشمیر پر بے انتہا مظالم کا ایک دور آنے والا ہے 366 خدا کی پناہ میں آنا چاہتے ہو تو اپنے گنا ہوں سے ہندوستان آزاد کشمیر پر حملہ کرے گا کشمیر کے ساتھ عدل ہونا چاہئے تھا اس کے جو 367 370 حقوق ہیں وہ ادا ہونے چاہئے تھے حضرت مصلح موعودؓ نے کشمیر موومنٹ کا آغاز کیا 397 تو بہ کر کے اس کے حضور حاضر ہو جاؤ بدی تھوڑی سی پیدا ہوتو اسکو روک دو دعا ہر گناہ گار کے لئے انتہائی ضروری ہے قیام پاکستان کے بعد دوبارہ پھر اگر کشمیریوں کی حمایت بدیوں کی پرواہ کرنا ضروری ہے گناہ سے بچنے کا سچا طریق کے آغاز کا موقع ملا تو حضرت مصلح موعود کو ملا ہے 405 150 151 152 156 181
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 39 ہر گناہ سے بچنے کے لئے کوئی مشقت پیش آتی ہے 190 کفارہ گناہوں کا استغفار کے سوا ممکن نہیں ہے 207 گناہوں کی بنیادی وجہ معاد کا منکر ہونا لغو اپنے مقاصد کی خاطر جھوٹ لغویات میں نہیں گنگا گنی بساؤ 417 590 546 546 بلکہ کبائر میں ہے 27 لغو مجلس میں بیٹھنے والا بھی انہی میں سے شمار ہوگا 273 لغو مجلس میں جانے والے میں غیرت اور حمیت کا فقدان ہوتا ہے گئی کوناکری گواہی گواہیوں پر مضبوطی سے قائم وہی ہوتا ہے جس کی گواہی حقیقت میں سچی ہو گوجرانوالہ رپورٹ وقف جدید میں ذکر گوجرخان گوٹن برگ ( سویڈن) گورداسپور گوہر ایوب گیمبیا لالہ ملا وامل لاہور رپورٹ وقف جدید میں ذکر لدھیانہ لطائف لطافت اور تمسخر میں فرق لطیف شیخ یورینیم کی افزائش میں کلیدی کردار ادا کیا 610 780 17 780 136 513 363,400 23 775 284,516,780 16 438 180 144 401 274 725 لغویات سے اعراض کا طریق 30,55,75,183,219,236 لندن 237,253,271,307,353,395,465,537 555,573,609,627,645,663,679,695 711.715 لنگر خانہ لنگر خانہ کے متعلق مالی قربانی کی تحریک 353 لیکھرام مولوی بدزبانی میں لیکھرام سے بھی بڑھا ہوا ہے 281 حضرت مسیح موعود کو سلام کرنا لیلة القدر یہ زمانہ لیلۃ القدر ہے صحابہ کولیلتہ القدر رویا میں دکھائی گئی ماده پرست مادہ پرست سیر ہوتا ہی نہیں جرمنی میں بکثرت ایسی قومیں آباد ہیں یسی قومیں آباد ؟ ماریشس 284 57 62 666 673 آپ کی اٹامک کمیشن میں غیر معمولی خدمات 404-402 رپورٹ وقف جدید میں ذکر لعنت مال 14 بندوں کی ہمدردی سے لا پروا ہونا لعنتی زندگی ہے 99 ہ شخص کو مال و اولاد کے بڑھنے کا جنون ہوتا ہے 451 لعنت کی تعریف قرآن کے مطابق احمدیت کے مخالفین پر خدا کی لعنت 266 267 مال اور اولاد سے محبت غافل کرنے کا موجب بنتی ہیں 453 مال کی محبت اولادوں کی تباہی کا سبب 465
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 مالی قربانی (دیکھئے انفاق فی سبیل اللہ ) رمضان میں خصوصیت کے ساتھ مالی قربانی کا حکم جرمنی کی مالی قربانی کی تعریف 42 344 40 متقی اور فاجر برابر نہیں ہو سکتے متقی کی شان مجاہدات اللہ تعالی مالی قربانی کرنے والوں کو کبھی تنگ نہیں رکھتا 345 دین اسلام میں پانچ مجاہدات مقررفرمائے ہیں 347 مالی قربانی کرنے والوں کو مالی فراخی کی خوشخبری حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا مالی قربانی کا واقعہ 349 مجلس 353 اطاعت مجاہدات سے افضل ہے لغو مجلس میں بیٹھنے والا بھی انہی میں سے شمار ہوگا مالی قربانی کی مختلف تحریکات امریکہ کی جماعت کی مالی قربانی میں عظیم خدمات 449 لغو مجلس میں جانے والے میں غیرت اور حمیت کا لوگ سچے منافع میں سے روپیہ نکالنے میں سمجھتے ہیں بڑا نقصان پہنچے گا حالانکہ نہ نکالنے کا نقصان ہے 468 492 فقدان ہوتا ہے اچھا انسان اچھے لوگوں کی مجلس پسند کرتا ہے شریروں کی مجلس اختیار کرنے والے کو تنبیہ صوفی احمد جان صاحب کا مالی قربانی کا واقعہ میاں عبد الحق صاحب کا مالی قربانی میں نمایاں وصف 494 نیکی کی مجلس کو اختیار کریں آنے والوں کو مالی قربانی کی عادت ڈالنی چاہئے 866 مجلس انصار الله انفرادی اور قومی اموال بڑھانے کا نسخہ مامور من الله مامور من اللہ کے پاس بیٹھنا بہت ضروری ہے مبارک ظفر مالیات کا نظام 897 مجلس خدام الاحمدیہ 190 300 13 6 221 498 46 386 273 274 277 285 292 325,674 674,675 گلاسگو میں جماعتی عمارت پر خدام کی خدمت کا تذکرہ 236 مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے 19 ویں اجتماع کا ذکر 343 ذیلی تنظیموں کے دائرہ کار کی وضاحت پر تذکرہ 378 مبارک مسجد دی ہیگ مبارک مسجد دی ہیگ 1987ء کو اس مسجد کو آگ لگا دی گئی مسجد مبارک دی ہیگ کا قیام مباہلہ مولوی شور مچارہے ہیں کہ ہم مباہلہ جیت گئے مباہلہ کی دعا مبشر احمد ، خواجہ مبشر باجوہ سفی (دیکھئے تقوی) اگر تم خدا کی آنکھوں کے آگے متقی ٹھہر جاؤ تو تمہیں کوئی بھی تباہ نہیں کر سکتا 745 746 748 2 21 749 544 102 مجموعه آمین مجموعہ اشتہارات 458 199,497 فَمَا فَوْقَهَا کے معنی مچھر پیدا کرنے میں گہرے راز ہیں 737 738 محاسبه نفس رمضان میں محاسبہ نفس کرنا ہوگا 32 اپنے گناہوں کا اظہار دوسروں کے سامنے نہ کریں 140 نفس کو بے قید نہ کرو کہ تم پر عذاب نہ آجائے اگر بندہ نے پہلے ہی اپنا سچا محاسبہ کیا ہو گا تو خدا بخشش کا سلوک کرے گا لوگ اپنے محاسبہ میں جھوٹ سے کام لیتے ہیں اپنے دلوں کے مخفی خیالات کو اپنی نظر کے سامنے پھیرتے رہو 172 238 239 241
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 41 اپنی تمام طاقتوں پر نظر رکھو 242 | محمد علی خان ، نواب ، حضرت ہر عمر میں محاسبے کے تقاضے بدلتے جاتے ہیں 244 محمد مصطفی صاله السلام ، حضرت محاوره أَكَلْتُ السَّبْكَةَ حَتَّى رَأْسَهَا خدا نیڑے کہ گھٹن دودھ دارا کھا بلا تیری ماں تجھے کھودے یعنی ماں جب کھو دے تو اسے بہت تکلیف پہنچتی ہے محبت فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنْتَ لَهُمْ آنحضرت کی دعا ئیں ہماری محمد ہیں جب اللہ کی محبت عطا ہو تو پھر سب مسائل حل ہو گئے آنحضرت محبت الہی کی وجہ سے رویا کرتے محمد احمد شیخ محمد اسماعیل ہلال پوری، مولوی محمد افضل ، ڈاکٹر سنٹر فار نیوکلیئر سٹڈیز میں لیکچراررہے ہیں محمد اقبال ، علامہ آپ نے کشمیر کمیٹی کے صدر کے لیے حضرت مصلح موعود کا نام پیش کیا 273 319 549 704 202 203 441 665 438 579 404 405,769 397 حضور صلی یہ ان کو مخاطب کرنے میں گہری حکمت 853 3 آپ سیتی شما اینم کا کلام با ہمی ربط سے پہچانا جاتا ہے 33 36 رمضان میں خدا کی راہ میں خرچ کرنا لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَك میں رسول ﷺ کا ذکر 49 وَاللهُ يَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ آپ نے کبھی اپنے آپ کو ہلاکت میں نہیں ڈالا آپ صلی اینم کی چند دن کی پیروی سے ساری Saw w w 51 52 57 زندگی سنور سکتی ہے آپ صلی یہ اہم اللہ تعالی کی دو صفات قریب اور بعید کے مظہر ہیں آپ سی یہ ہنم کی آخری عشرہ میں عبادات رمضان میں آپ سالی یا دیپلم کا انفاق فی سبیل اللہ آپ سلی یا یہ ہم بطورا جود 58 59 60 61 آپ رمضان کے آخری عشرہ میں گھر والوں کو جگاتے 63 رسول اللہ صلی ا یہ اہم راتوں کو زندہ کیا کرتے تھے آنحضرت صلی یا اسلام کے اعتکاف کا طریق 64 66 آپ آخری وقت میں فی الرفيعي الأغلى کہا کرتے 68 محمد ظفر اللہ خان، چوہدری حضرت آپ کا خدا سے راز و نیاز محمد مصطفی سایتی ایام کے عالم کی روحانی سیر 71 72 آپ کی کشمیر و فلسطین کے لیے غیر معمولی خدمات 398 آپ سل یا یہ نام کے وقت سے شروع ہونے والا دور 77 اسلام کا سب سے بڑا حمایتی یواین میں کشمیر پرز بردست تقریر نوائے وقت میں آپ کی کوششوں کا اعتراف 399 406 408 آپ نے مسجد مبارک دی ہیگ کا سنگ بنیا د رکھا 745 محمد عبد اللہ پروفیسر (عبداللہ بابا فلاسفر ) نبوت کا اعلان آنحضور صلی شما پیام کا انداز تبلیغ محمد صلی اشیا کی تم جیسے بنو گے تو ہی بچو گے حضور صلی له اسلام دعا کیا کرتے تھے کہ میرا حساب آسان کر دے آنحضرت سیل اینم کا آسان حساب کے لئے دعا تمام انبیاء میں سب سے زیادہ تکلیفیں حضور صلی می ایستیم کو پہنچیں گزارہ کے لیے تصویروں والی سلائیڈ ز دکھانا 279,280 کرنا انکسار کی وجہ سے تھا محمد علی جناح ( قائد اعظم) محمد علی، چوہدری (سابق وزیر اعظم) 407 398 88 89 107 186 187 189
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 فيما رحمة من الله لنت لهُمْ میں آنحضرت سال یا اینم فَبِمَا کو مخاطب کیا گیا ہے الله مخالفت کی وجہ محض اس لئے کہ ان لوگوں نے اللہ اور محمد مصطفی اسی طی ایام کا پیغام قبول کر لیا ہے ایم.ٹی.اے آنحضور صلی ہیم کی دعاؤں کی مقبولیت کا ثبوت سب دُنیا کے گناہوں کے لئے آپ صلی الیہ امام نے استغفار کیا ہے.42 202 حضور اکرم سالی یمن کی ذمہ داری تھی بلاغ کرنا رسول صلی یہ یمن کا غریب صحابہ سے انس آپ عموماً خطابات میں اختصار سے کام لیتے 204 رسول سی ایم کی اطاعت محمد مصطفی صل للہ الیہ نام کے غلام 205 آنحضور سی ایم اینم کی صحبت آپ صلی الی یوم کی عظمت آپ سی ای لیمن کا عزم کسی انا کے نتیجہ میں نہیں تھا آپ کا مشورہ رضائے باری تعالیٰ پر مبنی ہوتا احمدیت اس کے سوا اور کیا پیغام دیتی ہے جو حضرت اقدس محمد مصطفی سلی شد اینم نے دیا ہے سورۃ جمعہ میں آنحضرت کی بعثت ثانیہ کا ذکر 207 209 216 رسول سی شما اینم کا احترام آنحضور صلی شما یہ تم کی انکساری آپ صلی اا اینم کی امانت 448 493 525 556 562 566 567-571 573-578 585 593-607 حضور سی لیا سونم کے مخبر صادق ہونے کی ایک دلیل 620 255 263 آپ سی یہ نام کی امانت حضور سی ای ایس ایم ایک ہی سوال کے مختلف جواب حسب موقع دیتے تھے آپ سنی لیا کہ نیم کی قوت قدسیہ کا اثر آپ کا خدا کی طرف لا متناہی سفر کا اختیار فرمانا قرآن کی معرفت حضور صل للہ السلام کے کردار کے حوالے کے بغیر نصیب نہیں ہوسکتی آنحضرت سی تی اسلام کا مقام اور مرتبہ یہ تھا کہ بغیر علم عطا کئے بھی تزکیہ نفس فرماتے تھے رسول اللہ سنی لیا ایلیم کا فیض آج تک جاری ہے حضور صلی شما اینم و د نور ہیں جس کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ یہ ایک مشکوۃ کی طرح ہے جس میں اللہ کا نور چمک رہا ہے آپ نے اپنے تمام قومی کی حفاظت فرمائی 300 302 304 آپ کا ہر لحہ بنی نوع انسان کے لئے وقف تھا 627-643 654 655 کسی سید نے اپنی قوم کی اتنی خدمت نہیں کی ہوگی 656 لازم ہے کہ آپ مسایل الیہ نام کے اوپر درود بھیجا جائے 658 آپ صلی ای یتیم ہر شخص کے لئے ہادی ہیں 305 دنیا ومافیہا کا سب کچھ آپ کو عطا کیا گیا سینہ مبارک سے ہنڈیا کے ابلنے کی آواز 313 314 آپ سنی یا اینم کی قربانیاں 659 666 670 679-694 آپ سی اینم سے بڑھ کر عارف باللہ کوئی نہیں تھا 714 آنحضرت سیل سی ای ایم کا خشوع و خضوع آپ کی دعاوں سے ہی انقلاب بر پا ہوا آپ کے بعد مسیح موعود کی تحریر کا بے نظیر ہونا آپ سی تی ایام کا کوئی فعل بھی ایسا نہیں کہ اگر اس کو اپنانے کی کوشش کی جائے تو وہ بے فائدہ ہو آپ سیل میں پی ایم نے فسق و فجور کی ہر راہ کو بند کر دیا کل انبیاء پر فضیلت 322 335 آپ صلی ال ای یتیم کی حیا متبتل کے بغیر آپ کو نبوت عطا نہیں ہونی تھی گوشه نشینی ترک کرنا 390 414 418 آپ صلی اما پسینہ بہت بہادر تھے آپ سنی یا اینم کی خلوت نشینی آپ سی شما اینم کا معتل آپ کی کوئی تعلیم ایسی نہیں جسے نظر انداز کیا جاسکے 419 آنحضرت صلی اینم بطور انسان کامل رسول اللہ صلی لا الہ الم کا مقام 442-444 آپ سی ٹی ایم سے حکمت لینا 718 731 739-742 783 784 785 790 821 822 832
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 مقام محمود آپ سے محبت کرتے ہو تو یہ دعا ئیں نہ بھولنا آپ تقوی میں سب سے بڑے تھے شکر کے متعلق آپ کی سیرت حضور سی ال اسلام کا علم لدنیہ آپ کی خدا کی راہ میں خرچ کرنے کی رفتار رسول اللہ لی شی کی تم سے زیادہ بو کے معاملہ میں زود حس اور کوئی نہیں ہو سکتا محمد یا مین صاحب محمود احمد شاد محمود اللہ شاہ ،سید حضرت مخالفت مخالفت کا وبال مومنوں پر بھی آجاتا ہے جماعت کا مخالفت کے باوجود ترقی کرنا اللہ پر ایمان لانے کی وجہ سے مخالفت مد بینہ مذہب مذہب کا آغاز 43 834 845 851 878 883 897 901 749 403 581 256 261 264 397,639,704 78 سچا مذ ہب اُس کا ہے جس کو اسی دنیا میں نو رماتا ہے 165 از روئے حدیث دین میں کوئی جبر نہیں مرند انسانوں سے ڈرتے ہیں مرقات الیقین فی حیات نورالدین مرلی دھر 522 750 257 632 163 مزاح مسیح موعود علیہ السلام کے مزاح کا انداز مساوات توحید تفریق نہیں ہونے دیتی 164 116 مساجد کی تعمیر مسجد میں مومن کی روح ہے مسجد اقصیٰ 866 867 840 مسلم لیگ مسلم لیگ کی بنیاد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے ڈالی 404 مسلمان 104 سچا مسلمان وہ ہے جو پیغمبروں کا مظہر بنے اہل کتاب کے نمائندہ آج کل کے مسلمان ہیں 254 مُحَمَّدٌ رَّسُولُ اللهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ یہ آیت آج کے نام نہاد مسلمانوں پر صادق نہیں آتی 265 ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی عزت فرض ہے 640 مسند احمد بن حنبل 63,64,66,67,110,187 188,486-488,502,505,506,526,527 556,557,594,595,614,616,621,636 669,685,702,742,787,845,850,892 899,902 مسواک ایسے منہ سے ذکر الہی ذکر نہ کرو جس سے بد بو اٹھتی ہو 743 مسکینی دل کی غربت اور مسکینی جھوٹی مسکینی اللہ کے سامنے نہیں ہو سکتی مشرق بعید 223 248 415 275 مشكوة المصابيح مصور دو مصوروں کا واقعہ مطرف مظفر احمد ، صاحبزادہ مرزا 105 669,670,767,898 ہر بات بڑے گہرے منصوبہ سے کرتے 15
844 اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 معاذ بن جبل 522,525,527,845 آپ سے محمد صل للہ یہ وہم کا محبت کا اظہار معتمد معتمد کے فرائض معتمد ہو یا معتمد کو حکم دینے والا ہو دونوں صورتوں میں فرمانبرداری دونوں پر لازم ہے معجزه ایسے نشانات جو روز مرہ کے قانون سے ہٹ کر دکھائی دیتے ہیں معراج معراج میں دنیا کا بڑھیا کی شکل میں دکھایا جانا معرفت معرفت کے ذرائع 379 387 317 82 126 44 ملاں نے پاکستان کو مٹانے کی ہر ممکن تد بیر کر دی ہے 396 ملاں اپنی فتح کے تصور کے ساتھ اگلی صدی کا منہ نہیں دیکھے گا ملفوظات 552 134,169,455,708,715 719-721,730,735,736,784,786,789 791,792,795,796 ملفوظات کی ایک ہی جلد ساری زندگی کو پاک صاف کرنے کے لئے کافی ہے ملک الموت 119 532 جب ملک الموت وار کرتا ہے تو اچانک کرتا ہے 533 ملیریا کسی وبا سے اتنی مو تا موتی نہ ہوئی جتنا ملیریا سے 738 مناظرہ مرلی دھر کے مناظرہ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام انبیاء بھی جب تازہ معرفت اترتی دیکھتے ہیں تو اپنے کی بیان کردہ مثال دل میں نیکی کا ایک نیا رنگ اُبھرتا ہوا دیکھتے ہیں 127 منافق مغربی قوموں کی ظاہری بڑائی سے ہرگز متاثر نہ ہوں 121 حضور ملی یا اسلام کے دین کے لیے غیرت نہ رکھنا مغفرت (دیکھئے استغفار ) رسول اللہ ان کی تم جانتے تھے کہ آپ بھی فضل الہی کے سوا بخشے نہیں جاسکتے مفردات الفاظ القرآن مفلسی 187 737 اور والدین کے لئے رکھنا منافقت ہے منافق وعدہ خلافی کرتا ہے خدا کی نظر میں تم منافق نہ ٹھہرو منشی اروڑا ، حضرت منشی ظفر احمد ، حضرت 163 41 275 558 562 438 438 806 582 عرب اولا دکو مفلسی کے ڈر سے قتل نہیں کیا کرتے تھے 453 مکه مکرمه ملاں شیطان کا حزب ہیں 397,417,803 83 تمام ملانوں میں تکبر اور نفس کی بڑائی پائی جاتی ہے 233 مولوی کی دو صفات مولوی کی فطرت میں ظلم کا پایا جانا 234 294 منشی گھنشیام لال عاصی دہلوی منصب خلافت منصور احمد، مرزا صا حبزادہ آپ کی وفات منور احمد ، مرزا منور جمیل صاحب منیر احمد خان 2 403 749 403
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 45 اٹامک انرجی کمیشن میں بڑا کام سر انجام دیا ہے ڈاکٹر عبد السلام کی خدمات کی تعریف سب سے بڑی غفلت موت کے دن کو بھلانا 401 402 69 ناروے ناصر نواب، میر فیروز پور میں تعیناتی اور وہاں گھر کا مانا موت اتنی یقینی حقیقت ہے کہ زندگی اتنی یقینی نہیں 288 ناصر احمد، حضرت مرزا خلیفہ اسح الثالث 106 636,792,876 656 موجی رام موجی موسیٰ علیہ السلام، حضرت مولی مولی کے معنی ہر وہ مصیبت جو مومن کو پہنچتی ہے اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے مومن کی کوئی غلطی معاف کر دیتا ہے مومن کو چاہئے کہ لغو مذاق کی مجلس کو بھی پسند نہ کریں 275 مومن مومنوں کو بنی نوع انسان کے لئے نمونے کے طور پر پیش فرمایا گیا ہے سچا مومن اپنے بھائی کو رسوا نہیں کرتا مومن اپنی امانتوں کی پڑتال کرتے رہتے ہیں مومن صرف اللہ سے ڈرتا ہے سچے مومن بند مہمان نوازی حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی حضرت ابراہیم کی مہمان نوازی کا واقعہ مہمان نوازی کے حوالہ سے حدیث حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مہمان نوازی جلسہ کے سب مہمانوں کو واجب الاحترام جانو 188 611 نائجیریا تیل کی فروخت پر پابندیاں 14 283 812 547 549 نائجیریا کی جماعت کو تبلیغ کا تفصیلی منصوبہ بنانا چاہئے 551 نبوت نبیوں کی بنیادی صفات نی غیب کی خبریں دینے والا خلافت کو نبوت سے تشبیہ دینا جائز نہیں نجات خدا کی طرف آنے میں ہی راہ نجات ہے اگر نجات چاہتے ہو تو دین العجائز اختیار کرو 639 نجم الدین ، میاں 645 786 853 461 501 503 509 512 513 زبان اللہ تعالیٰ جس سے نرمی کا سلوک فرمائے گا اس کی زبان کو دیکھے گا 598 659 802 331 103 247 512 239 حضرت مسیح موعود کی جماعت کو صبر اور نرمی کی تلقین 279 512 528 سب وشتم کرنے والا حضور علیہ السلام کا مرید نہیں 511 جلسہ کے مہمانوں سے نرم زبان کی توقع سارے دین کا خلاصہ زبانوں کی حفاظت نہ کرنا جنت سے دور کر دیتا ہے 529 نزول المسیح مہمان کے لیے گورداسپور سے پان منگوانا رسول اللہ صل شما پیام کی نصیحت حضرت مسیح موعود کی مہمان نوازی مؤطا امام مالک میرپور 541 نسیم دعوت 838 752 780 نش 210,657 162 نشہ کے عادی کو دنیا اور آخرت دونوں میں سزا ملتی ہے 97 ڈرگ ایڈ کیشن آہستہ آہستہ طلب بڑھا دیتی ہے 151
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 نصیحت بعض وقت نصیحت کرنے میں بھی ایک پوشیدہ بغض اور کبر ملا ہوا ہوتا ہے نضر بن شیبان نظام جماعت بہت سے احمدی ایسے نظر آتے ہیں جن کا پہلے 46 نماز جنازہ 564 حضور کا حضرت حمزہ کی ستر بار نماز جنازہ پڑھانا 285 نن سپیٹ 39,40,893 نومبائع 745 نواحمدیوں پر پہلے سے زیادہ توجہ دینے کا موقع 214 نظام جماعت کو علم ہی کوئی نہیں ہوتا نظام جماعت ایک تقدس رکھتا ہے نظام جماعت میں معتمد اور ذوالامر میں فرق نظام گنجوی ، حکیم نعمان بن بشیر ، حضرت 56 134 378 154,652 845 نوائے وقت اس اخبار کا کردار مکروہ ہے نواز شریف نوافل فرائض کی حفاظت کرتے ہیں نوح علیہ السلام، حضرت جسم کی فربہی در اصل نفس کی فربہی بھی ہو سکتی ہے 44 نفس انسانی میں حسین چیزوں کی پیروی رکھ دی گئی ہے 81 نور نفس کی تین اقسام 196 اپنے نفس کی سچی شناخت سے نور اترا کرتا ہے 228 نفسانی جذبات کو سانپ سے تشبیہ 231 406 265,374,401,870 28 نوح کی قوم باغیانہ حالت کی وجہ سے ہلاک ہوئی 252 نوح کی کشتی خدا کی نظروں کے سامنے چل رہی تھی 648 حقیقی نور آسمان سے اترتا اور اطمینان بخشتا ہے محمد سلی بنی اسلام کے نور کو جسمانی ظاہر کرنے والے نفس مطمئنہ نفس لوامہ اور نفس امارہ نفس کی اقسام 310 نورالدین ،حضرت خلیفہ المسیح الاوّل امارہ ، لوامہ اور مطمعنہ نفس اماره نماز فرض نمازوں کا ادا کرنا بہت بڑا دھومی ہے نماز کا زور روح پر ہے روزہ میں نمازیں نہ سنوریں تو روزہ بے کار ہے نمازیں پڑھو اور تو بہ کرتے رہو نماز کے بعد تسبیح کی تلقین بچہ کے رونے کی آواز پر نماز مختصر کرنا نمازیں ادا کر کے اپنی آنکھوں کا پانی پہنچاؤ نماز کیا ہے نماز با جماعت کا اہتمام نماز کو قائم کیا جاتا ہے 412 642 29 24 45 46 252 493 524 533 570 840 893 225 392 241,436,437,438,578,579,581,582 584,632,692,877 آپ کا ایک نو جون کو بری مجلس چھوڑنے کا حکم 308 حضور کی مجلس میں سب سے آخر میں بیٹھ جایا کرتے 579 راجہ کشمیر کے دربار میں طبابت بنئے نے خلیفہ اول کو بغیر سود کے قرض دیا آپ کا علم اور حکمت آپ کی سیرت آپ کا مزاج درویشانہ تھا نو مبالغ نئے احمدی چندوں کے نظام میں شامل ہوں 630 631 810 811 814 212 نومبائعین کو پیغام پھیلانے کے لیے استعمال کریں 863
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 47 نہی عن المنکر حصول اولا دصرف جائیداد کے وارث کی خاطر نہ ہو 460 فساد سے رکنے سے مراد نہی عن المنکر سے رکنا نہیں 87 مومن کی شان سے بعید ہے کہ امرحق کے اظہار وطن وطن سے محبت 372 میں رکے 88 وعدہ خلافی نیت دل میں نیتیں پلتی ہیں نیند نیند سے مراد غفلت کی نیند ہے جو بچوں سے وعدہ خلافی کریگا وہ باہر بھی کریگا 558 240 وفات نیوکلئیر افزائش 624 ہر جان موت کا مزہ چکھے گی وقار عمل گلاسگو میں خدام کا وقار عمل کرنا 111 236 پاکستان کی نیوکلیئر افزائش میں اول کردار ایوب خان وقار عمل کے ذریعہ بڑی بڑی عمارتیں تعمیر کی ہیں 674 اور سائنسی کردار ڈاکٹر عبد السلام نے ادا کیا نیکی حق کے ساتھ باطل نہیں رہ سکتا 402 148 نیکی میں ترقی کرنی چاہئے ورنہ خدامد نہیں کرتا 197 نیکی کرو اور خدا کے رحم کے امیدوار ہو جاؤ 198 وقف جدید خدا تعالیٰ کی خاطر وقار عمل کرنے والی جماعت وقف جدید کے سالِ نو کا آغاز وقف جدید کی برکتوں میں رمضان کی برکتیں بھی 675 1 نیکی کا پھل اللہ کے رحم کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتا 199 ایک ذرہ نیکی کا بھی پہاڑ کے برابر ہو جاتا ہے نیکیاں ایک ہی نسل تک محدود نہیں رہتیں 286 491 نیکی اور بدی سے پردہ اٹھانے کے خدائی رنگ 492 نیکی پر صبر کرنا نیو یارک واجپائی واشنگٹن واقعات 713 406 374 411,429,448 شامل ہوں رپورٹ وقف جدید وقف زندگی رزق میں وقف زندگی کی وجہ سے برکت تمام دکھوں سے وہ شخص نجات پاتا ہے جو میری راہ میں اور میری رضا کی راہ میں جان کو بیچ دیتا ہے واقفین زندگی کی نشانیاں 5 13-16 330 331 خدا کا پیارا بندہ اپنی جان خدا کی راہ میں دیتا ہے 336 سچا اسلام یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں اپنی ساری طاقتوں اور قوتوں کو مادام الحیات وقف کر دے 338 واقف زندگی کی نشانیاں اونٹ اور بدوی کے خیمہ کا واقعہ بادشاہ کا نہ کہنے والا واقعہ ایک ہندو جو نماز پڑھتا تھا 151 864 881 خدا کی راہ اپنی زندگی وقف کر دیں وہیل مچھلی هی وراثت چھوٹے چھوٹے وراثت کے جھگڑے متقیوں میں بارٹلے پول نہیں ہو سکتے ہیں 211 339 359 685 236
اشاریہ خطبات طاہر جلد 17 ہالینڈ 48 294,543,745,747,844 | يعقوب علی عرفانی ، شیخ حضرت امیر صاحب ہالینڈ ہجرت 748 ہجرت کے بعد پہلے تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں 576 یمن یوپی یورپ 283,708 522 529 30,415,664,752 ہر قل ہر قل نے محمد مصطفی سال لا الہ سلم کی سچائی کو پہچان لیا ہدیہ 597 599 ہند ہند و فلسفه ہندوستان 444 یہود یہود علماء 717 289,593,609 حضور کا ہدیہ کے حوالہ سے اصولی فیصلہ ہمالیہ پہاڑ ہمبرگ Carcinosin ایٹمی تابکاری کی دواء 685 CNN 590 میڈیا کے ذریعہ گمراہی پھیلانا 14,552,606,677,780,857 یوسف علیہ السلام، حضرت یونائیٹڈ نیشنز (UN) یونس علیہ السلام، حضرت 698 399,406,549 685 561,704,705,711 712 پاکستان اور ہندوستان کے ایٹم بمز ہندوستان آزاد کشمیر پر حملہ کرے گا 362 367 Dakar | 858,863,864 Friday the 10th 365 374 375 24 20 20 Guinea-Bissau 546 عدل اور امانت کے پیش نظر حکومتیں نہ ہندوستان میں نہ پاکستان میں قائم کی جارہی ہیں پاکستان اور ہندوستان مشترکہ مفادات سوچیں 410-400 371 749 Hague بیگ 548 Islamic Fundamentalism ہندوستان میں بسمل کی بیماری 841 23 407 Jammeh گیمبیا کے صدر Lake state Radium Bromide 365 پاکستان اور ہندوستان کے احمدیوں کے نام پیغام 865 ہوائے نفس ہوائے نفس موحدوں کے قلب میں بت بن سکتی ہے 387 ایٹمی تابکاری کی دواء 94 Scandinavia State Weekly of Pakistan 850 407 سر ظفر اللہ خان صاحب کے لئے تعریفی کلمات 459 397 ہومیو پیتھک ہو میو پیتھک کا جماعت میں جوش یحیی علیہ السلام، حضرت حضرت زکریا کی نیک دعاؤں کا نشان یروشلم